Maktaba Wahhabi

198 - 250
إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ)) [1]’’بنی اسرائیل سے (منقول روایات) بیان کر لیا کرو، کوئی حرج نہیں۔‘‘ عہدِ صحابہ کے بعد یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا رہا اور کتبِ تفسیر بالمأثور میں بالمخصوص اسرائیلیات کی بھرمار ہو گئی۔ جمہور علماء تفسیر بالمأثور کے نزدیک اسرائیلیات کی تحقیق و تنقیح کے بعد تین اقسام ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ اسرائیلیات کی اقسام پہلی قسم: وہ روایات ہیں، جن کے مضامین کی صحت اور سچائی قرآن و سنت سے ثابت ہو۔ جیسے توحید اور رسالت محمدی کی تصدیق کرنے والی روایات، ایسی روایات کو استشہاد کے لیے نقل کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ مفید ہے، لیکن یہ نقل کرنا بطور دلیل نہیں، بلکہ بطور تائید ہے، اس لیے کہ قرآن و سنت کی موجودگی میں کسی اور دلیل کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ [2] دوسری قسم: وہ روایات ہیں، جن کے مضامین کا بطلان اور کذب قرآن و سنت سے ثابت ہو اور وہ واضح طور پر قرآن و سنت کے معارض ہوں، جیسے شان الوہیت، شان رسالت، عصمت انبیاء اور عصمت ملائکہ کے خلاف اسرائیلی خرافات، اس قسم کی روایات کا نقل کرنا، تردید و تکذیب کے لیے تو جائز ہے۔ اس لیے کہ کفروشرک اور اباطیل و اکاذیب کی تردید و تکذیب ان کے نقل کے بغیر نہیں کی جا سکتی، اس بناء پر خود قرآن و حدیث میں کفریہ و شرکیہ عقائد نقل کیے گئے ہیں اور ساتھ ہی ان کی تردید کی گئی ہے۔ تردید کے بغیر ایسی خرافات کا نقل کرنا جائز نہیں، کیونکہ اس طرح جھوٹ کی اشاعت ہوتی ہے جو کہ بجائے خود ایک گناہ ہے۔ اگرچہ بعض مفسرین نے اس میں تساہل سے کام لیا ہے، لیکن محقق مفسرین یا تو ایسی خرافات نقل ہی نہیں کرتے یا پھر نقل کر کے ان کی تردید اور تکذیب کرتے ہیں۔ جیسے ابن عطیہ اور ابن کثیر، تاہم بعض مقامات پر ان سے بھی سہو و نسیان ہو گیا ہے۔
Flag Counter