Maktaba Wahhabi

199 - 250
تیسری قسم: وہ اسرائیلی روایات ہیں جن کی قرآن و سنت میں نہ تصدیق کی گئی ہے اور نہ تکذیب، اس قسم کی روایات میں توقف ہی بہتر ہے، بطور حکایت نقل کرنا جائز ہے۔ کسی خارجی دلیل کی بنیاد پر ایسی روایات کی تصدیق یا تکذیب کی جا سکتی ہے۔ [1] اسرائیلیات کے بارے دو اہم قاعدے (1) صحابہ کرام سے منقول اسرائیلی روایات کی بھی درج بالا تینوں اقسام اور احکام ہیں۔ صحابہ کرام چونکہ اسرائیلیات کو نقل کرنا مباح سمجھتے تھے، اس لیے صحابی کے نقل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ اس کے نزدیک حجت بھی ہے۔[2] (2) مسکوت عنہ (ایسی روایات جن کی تصدیق و تکذیب کے بارے قرآن و سنت خاموش ہیں) اسرائیلی روایات کو بیان کرنا اور بات ہے اور ان کی روشنی میں تفسیر قرآن پیش کرنا بالکل الگ چیز ہے۔ علامہ احمد شاکر رحمہ اللہ اس فرق پر توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’إن إباحة التحدث عنهم -فيما ليس عندنا دليل على صدقه ولا كذبه- شَيء، وَذِكْرُ ذلك في تفسير القراَن -وَجَعْلُهُ قَوْلًا أو رواية في معنى الآيات، أو في تعيين ما لم يُعَيَّن فيها، أو في تفصيلِ ما أُجْمِل فيها- شيءٌ آخر!! لأن في إثبات مثل ذلك بجوار كلام اللّٰه ما يُوهم أن هذا الذي لا نعرف صدقه ولا كذبه مُبَيِّن لمعنى قول اللّٰه -سبحانه- ومُفَصِّل لما أُجْمِلَ فيه، وحاشا للّٰه وكتابه من ذلك. وإن رسول اللّٰه -صلى اللّٰه عليه وسلم- -إذ أذن بالتحدث عنهم- أَمَرَنَا أن لا
Flag Counter