Maktaba Wahhabi

201 - 250
فصل: 9 تفسیر القرآن بالرأی انسان کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی ظاہری و باطنی نعمتیں عطا فرمائیں ہیں، ان بےشمار نعمتوں میں سے عقل ایک بڑی اور اہم نعمت ہے۔ بلکہ یہی وہ بنیادی جوہر اور عظیم عطیہ ربّانی ہے، جس کی بدولت انسان دیگر حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے۔ قرآن مجید اپنی آیات مبارکہ میں غوروفکر اور عقل و اجتہاد کو نہ صرف جائز قرار دیتا ہے، بلکہ اس کی بھرپور ترغیب دیتا ہے۔ جس طرح آیات کونیہ میں غوروفکر اور تحقیق سے اسرار فطرت آشکارا ہوتے ہیں، اسی طرح آیات قرآنیہ میں تدبر و تفکر سے شریعت اسلامیہ اور کلامِ الٰہی کے معارف و دقائق منکشف ہوتے ہیں۔ اس باب میں تفسیر بالرأی المحمود کا معنی و مفہوم، شروط و آداب پر بحث کی گئی ہے۔ اس کی جائز و ناجائز حدود کا تعین کیا گیا ہے، رائے محمود اور رائے مذموم کے درمیان حد فاصل واضح کی گئی ہے، نیز یہ بیان کیا گیا ہے کہ تفسیر قرآن میں عقل و اجتہاد کے لیے کیا شروط و آداب ہیں؟ ثانیاً: تفسیر بالرأی المذموم پر تحقیق پیش کی گئی ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ تفسیر قرآن میں رائے کا غلط استعمال کیوں کیا جاتا ہے؟ اس کے اسباب و عوامل کیا ہوتے ہیں؟ اور ایسی تفسیر کو پہچاننے کی علامات کیا ہیں؟ رائے کا لغوی مفہوم لغوی طور پر ’’الرأي‘‘ باب رأي يري سے مصدر اور حاصلِ مصدر ہے۔ اس باب سے چھے مصادر عربی زبان میں مستعمل ہیں: [1]
Flag Counter