Maktaba Wahhabi

203 - 250
’’متناقض علامات والی اشیاء میں صحیح نتیجہ تک پہنچنے کے لیے غوروفکر کرنے کے بعد دل میں جو بات آ جائے اسے ’’رائے‘‘ کہتے ہیں۔‘‘ عقل و اجتہاد اور غوروفکر کے ذریعے سے مطالبِ قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرنا اور انہیں واضح کرنا تفسیر بالرأی ہے۔ [1] تفسیر بالرأی کی اقسام ماہرین علوم القرآن اس بات پر تقریباً متفق نظر آتے ہیں کہ تفسیر بالرأی کی دو اقسام ہیں: (1) تفسیر بالرأی المحمود (2) تفسیر بالرأی المذموم اگر تفسیری آراء و اجتہادات کتاب و سنت، آثار سلف، کلام عرب کے اسالیب اور تفسیر بالرأی کے لیے طے کردہ شروط و آداب کے موافق ہوں تو یہ تفسیر بالرأی المحمود ہے اور اگر تفسیر قوانین لغت، کتاب و سنت، آثار سلف اور شروط و آداب کے منافی ہو تو یہ تفسیر بالرأی المذموم ہے۔ [2] اس کے منع و حرام ہونے پر فقہاء کا اجماع ہے۔ [3] فہم قرآن میں عقل و اجتہاد کی ضرورت و اہمیت (1) قرآن مجید غوروفکر کی دعوت پیش کرتا ہے قرآن مجید جہاں تمام انسانوں کے لیے صحیفہ رشدوہدایت اور دستورِ زندگی ہے، وہاں مضامین و معانی اور اسرار و حکم کا بحر زخار بھی ہے، جس طرح قدرت کی بنائی ہوئی تمام چیزوں میں غوروفکر کرنے سے جدید انکشافات اور نت نئے منافع و فوائد حاصل ہوتے رہتے ہیں اور ایک سے ایک پرت کھلتی رہتی ہے۔ اس طرح قرآن مجید میں غوروفکر کرنے سے بھی نئے نئے حقائق معلوم ہوتے رہیں گے، زمانہ علم و عقل کی خواہ کسی بھی معراج تک
Flag Counter