Maktaba Wahhabi

213 - 250
من پسند نظریہ مراد ہے، یعنی قرآن کی ایسی تفسیر جو اپنی خواہش نفس اور نظریہ کے مطابق ہو، ائمہ سلف سے مأخوذ نہ ہو، اگر وہ صحیح ہو تو بھی خطا ہے، کیونکہ اس نے اصل بنیاد کو پہنچانے بغیر قرآن مجید میں رائے زنی کی ہے اور اس نے اس بارے میں منقولات و مأثورات سے واقفیت حاصل نہیں کی۔‘‘ امام قرطبی کی توجیہہ امام قرطبی نے تفسیر بالرائے کی مذمت کو درج ذیل دو صورتوں میں سے ایک پر محمول کیا ہے: [1] (1) پہلی صورت یہ ہے کہ کسی معاملے میں آدمی کی خود اپنی ایک رائے ہو، خواہشِ نفس کی بناء پر اس کی طرف طبعی میلان بھی رکھتا ہو، پھر وہ اپنی خواہش اور رائے کے مطابق قرآن مجید کی تفسیر کرے تاکہ وہ اپنی غرض کے جواز کے لیے حجت پکڑ سکے، اگر اس کا طبعی میلان اور خواہشِ نفس نہ ہوتی تو خود اس کے سامنے بھی قرآن کا وہ معنی نہ آ سکتا۔ (2) دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص ظاہری عبارت کو دیکھ کر تفسیر قرآن میں جلد بازی سے کام لے، غرائب قرآن سے متعلق منقول و مسموع روایات کو بالائے طاق رکھ دے ۔۔ سو جو شخص بھی ظاہر تفسیر میں پختگی حاصل کیے بغیر محض عربی لغت کی بنیاد پر معانی کا استنباط کرے، وہ کثرت سے غلطیوں کا مرتکب ہو گا اور تفسیر بالرأی کی مذمت میں داخل ہو گا، کیونکہ ظاہری تفسیر میں بنیادی طور پر منقول و مسموع روایات پر تکیہ ضروری ہے تاکہ اغلاط سے بچا جا سکے، اس کے بعد فہم و استنباط میں بڑی وسعت ہے۔ (3) امام راغب اصفہانی کی توجیہہ امام راغب اصفہانی نے افراط و تفریط پر مبنی دو آراء ذکر کی ہیں: [2] (1) کچھ لوگ صرف مأثور پر اکتفاء کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور کتاب اللہ میں اپنی طرف سے کچھ بھی کہنے سے منع کرتے ہیں۔
Flag Counter