Maktaba Wahhabi

215 - 250
(5) امام ابن تیمیہ کی توجیہہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’فأما تفسير القرآن بمجود الرأي فحرام۔۔۔ (وذكر أقوال السلف ثم قال) ۔۔۔ فهذه الآثار الصحيحة وما شاكلها عن أئمة السلف محمولة على تحرجهم عن الكلام في التفسير بما لا علم لهم به, فأما من تكلم بما يعلم من ذلك لغة وشرعا فلا حرج عليه، ولهذا رويت عن هؤلاء وغيرهم أقوال في التفسير, ولا منافاة لأنهم تكلموا فيما علموه وسكتوا عما جهلوه, وهذا هو الواجب على كل أحد‘‘ [1] ’’جہاں تک محض رائے اور خیال کی بنیاد پر تفسیر کا معاملہ ہے سو یہ تو حرام ہے۔ اس کے بعد امام صاحب نے تفسیر بالرأی کی مذمت پر سلف کے اقوال نقل کیے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں: یہ صحیح آثار اور اس طرح ائمہ سلف کے دیگر اقوال کا مفہوم یہ ہے کہ وہ لوگ بغیر علم کے تفسیر میں کلام کرنے میں گناہ محسوس کرتے تھے اور بچتے تھے، لیکن جو شخص تفسیر میں لغت اور شرعی علم کی بنیاد پر گفتگو کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں اسلاف اور دیگر بزرگوں سے تفسیری اقوال منقول ہیں، اور اس میں کوئی تعارض والی بات نہیں، کیونکہ جہاں انہیں علم تھا انہوں نے گفتگو کی اور جس چیز کا علم نہیں تھا اس میں سکوت اختیار کیا اور یہی ہر ایک کا فرض بنتا ہے۔‘‘ ائمہ سلف کے نزدیک علم سے کیا مراد ہے؟ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ’’اسلاف کو جہاں علم تھا وہاں انہوں نے کلام کیا اور جہاں علم نہیں تھا وہاں خاموشی اختیار کی۔‘‘ لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ہمارے
Flag Counter