Maktaba Wahhabi

219 - 250
بہرحال اس بارے میں صحابہ و تابعین کا طرز عمل بہت معروف ہے۔ جس سے صریحاً معلوم ہوتا ہے کہ یہ عظیم لوگ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضیاب، قریب ترین اور لغت عرب سے خوب آشنا ہونے کے باوجود تفسیر قرآن میں کس درجہ پھونک پھونک کر قدم رکھتے تھے۔ [1] اسی بناء پر علمائے سلف نے تفسیر بالرأی کے لیے کچھ حدود و قیود، اصول و ضوابط اور شروط لازمی قرار دی ہیں۔ جو شخص بھی مطلوبہ اہلیت اور اوصاف کے بغیر یا تفسیر بالرأی کے لیے طے کردہ حدود و قیود کو پیش نظر رکھے بغیر تفسیر قرآن کی جسارت کرے، اسے علمائے سلف نے درج ذیل حدیث کا مصداق قرار دیا ہے: ’’مَنْ قالَ في القُرآنِ بغيْرِ علمٍ فليتبوّأْ مقعدَهُ مِنَ النّارِ‘‘ [2] ’’جو قرآن میں رائے زنی کرے، اسے چاہیے اپنا ٹھکانہ آگ میں تلاش کرے۔‘‘ ذیل میں ماہرین علوم القرآن کے بیانات کی روشنی میں ان شروط کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ تفسیر بالرأی المحمود کے لیے ضروری شروط امام سیوطی نے الاتقان میں ان شروط کو مفصل ذکر کیا ہے، بعد میں آنے والے ماہرین علوم القرآن نے بھی ان شروط کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ ان گرامئ قدر ہستیوں کی بیان کردہ شروط کا خلاصہ یہ ہے۔ [3]
Flag Counter