Maktaba Wahhabi

235 - 250
مسلم کی متفق علیہ احادیث سے ثابت ہے۔ [1] معتزلہ کے نامور امام، زمخشری نے نہ صرف ان احادیث کا انکار کرتے ہیں بلکہ ان کے مرکزی راوی صحابی جلیل، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ ناروا تبصرہ کرتے ہیں: ’’وان زعم من يدعي رؤيتهم زور و مخرقة‘‘ [2] ’’جنات کی رؤیت کا دعویٰ یقیناً جھوٹ اور من گھڑت خیال ہے۔‘‘ اردو زبان میں سرسید احمد خان کی ’’تفسیر القرآن‘‘ کا بھی یہی طرز تفسیر ہے۔ ایک اور حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے زمخشری صاحب، سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کے بارے میں یہ نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں: ’’ما كان لابن عمرو في سيفيه و مقاتلته بهما علي بن ابي طالب رضي اللّٰه عنه ما يشغله عن تسيير هذا الحديث‘‘ [3] ’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے برسرپیکار، اپنی تلواروں میں مصروفیت کے باوجود عبداللہ بن عمرو کو یہ حدیث مشہور کرنے کا موقع کہاں سے مل گیا۔‘‘ اس کے بالکل برعکس اگر کسی ضعیف، موضوع اور من گھڑت حدیث سے ان کے کسی عقیدہ و نظریات کی تائید ہو رہی ہو تو اس سے استدلال کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے۔ چوتھا اصول: تفسیر اسلاف کی تحقیر قدیم مفسرین، اگرچہ وہ صحابہ یا تابعین اور تبع تابعین ہی کیوں نہ ہوں، معتزلہ کے نزدیک ان کے تفسیری اقوال کی کوئی اہمیت نہیں۔ معروف معتزلی نظام کہتا ہے:
Flag Counter