Maktaba Wahhabi

40 - 250
﴿إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ ﴿٦٤﴾﴾ (الصافات: 64) ’’تحقیق وہ ایک درخت ہے جو دوزخ کی جڑ میں نکلتا ہے۔‘‘ 3۔ اس مادہ سے قرآن مجید میں ’’ أصيل‘‘ اور ’’ آصال‘‘[1]بھی مستعمل ہے، بمعنی: عصر سے مغرب تک کا وقت۔ تجزیہ 1۔ وہ بنیاد اور سب سے نچلا حصہ جس پر کوئی دوسری چیز قائم ہو اسے ’’ أصل‘‘ کہتے ہیں، اور اس کی جمع ’’ أصول‘‘ ہے۔ 2۔ اس میں پختگی اور استحکام کا معنی پایا جاتا ہے۔ 3۔ اس میں دوام و استمرار کا معنی بھی پایا جاتا ہے۔ 4۔ اس کے بعض لغوی استعمالات سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں توارث کا عنصر بھی شامل ہے۔ 5۔ اس لفظ میں ’’کلیت‘‘ کا مفہوم بھی ہے۔ یعنی کسی چیز کا مکمل، پورا اور اپنے تمام اجزاء پر محیط ہونا بھی اس کے بعض لغوی استعمالات میں پایا جاتا ہے، جیسا کہ سابق الذکر استعمالات میں پانچویں مثال سے واضح ہے۔ درج بالا چند استعمالات سے لفظ ’’ أصول‘‘ کے لغوی پس منظر پر بڑی واضح روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ لغوی لحاظ سے بھی اصول تفسیر سے مراد وہ بنیادیں ہیں جن پر تفسیر کی عمارت قائم ہے۔ ان بنیادوں میں کلیت، دوام و استمرار، توارث اور پختگی و استحکام کے اجزاء ترکیبی شامل ہونے چاہئیں۔ علماء کے عرف و استعمالات کے مطابق اصول کے معانی علماء کے استعمالات کے مطابق ’’ أصل و اصول‘‘[2]درج ذیل معانی میں مستعمل ہیں:
Flag Counter