Maktaba Wahhabi

53 - 250
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وقوله تعاليٰ﴿ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ﴾ أي تحريف عليٰ ما يريدون‘‘ فرمان باری تعالیٰ ﴿وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ﴾ سے مراد ہے، اپنی مرضی اور پسند کے مطابق تحریف۔ [1] ثابت ہوا کہ درج بالا آیت مبارکہ میں لفظ ’’ تأويل‘‘ بمعنی تحریف ہے۔ (2) تأویل بمعنی حقیقی مفہوم درج بالا آیت مبارکہ میں لفظ ’’ تأويل‘‘ دو دفعہ الگ الگ معنی میں مستعمل ہے، پہلی مرتبہ تحریف کے معنی میں ہے اور دوسری دفعہ حقیقی مفہوم اور تفسیر کے معنی میں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللّٰه ۗ﴾ اس مقام پر تأویل سے حقیقی تفسیر مراد ہے، یعنی متشابہ آیات کا اصلی معنی اور حقیقی مفہوم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ [2] (3) تأویل بمعنی انجام و نتیجہ ارشاد ربانی ہے: ﴿فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّٰه وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰه وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴿٥٩﴾﴾ (النساء:59) ’’اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے۔‘‘ امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ﴿وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًاواحسن عاقبة و بآلاً نتیجہ و انجام کے لحاظ سے بہترین۔ یعنی اختلافی معاملات میں کتاب اللہ اور سنت رسول کی طرف
Flag Counter