Maktaba Wahhabi

66 - 250
سامنے لایا جائے اور اس باب میں کوئی حتمی اور طے شدہ فہم قرآن کبھی پایا ہی نہ جائے۔ امام مالک رحمہ اللہ سے کسی مبتدع نے کہا: ’’آؤ! بات کر کے دیکھتے ہیں۔ اس شرط پر کہ میں جیتوں تو تم میرے ہم خیال ہو جاؤ گے اور تم جیتو تو میں تمہارا ہم خیال ہو جاؤں۔‘‘ بظاہر خاصی اصولی پیشکش ہے۔ مگر امام مالک رحمہ اللہ نے جو جواب دیا، انہی کا خاصہ تھا، فرمایا: اور اگر کوئی تیسرا شخص ہم دونوں کو خاموش کرا دے؟ تو کیا جب بھی کوئی نیا شخص میدان میں آئے اور پہلے والے سے بڑھ کر دلیل اپنا لینے کی مہارت دکھائے تو ہم اپنا دین اور راستہ تبدیل کر لیا کریں؟ سنو! میں اپنا دین یقینی طور پر معلوم کر چکا ہوں کہ وہ کیا ہے؟ تمہیں اپنا دین معلوم نہیں تو جہاں چاہو تلاش کرتے پھرو! [1] (6) منہج تفسیر بالمأثور کی عملی اہمیت تفسیر بالمأثور سے منحرف مناہج کی یہی کوشش رہی ہے کہ تفسیر قرآن کو ذہانت و فطانت کا کمال ٹھہرا دیا جائے۔ جس کی رو سے فلسفی افکار ہی کی طرح ہر نیا ذہن پرانوں کی بہت سی ’’مدلل باتوں‘‘ کو اپنی ’’دلیل‘‘ کے زور پر غلط ثابت کر دے اور پھر کوئی تیسرا ذہن اٹھے جو اس کی دلیل کو بے اثر کر دے، یوں کسی امر کا فیصلہ قیامت تک نہ ہونے پائے!! نزول قرآن کا اصلی مقصود علمی موشگافیاں نہیں بلکہ عمل ہے اور عمل کے لیے ایک متعین اور طے شدہ مفہوم ضروری ہے۔ یہ طے شدہ اور متعین مفہوم بہرصورت احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے قرآنی معاشرے سے باہر کہیں نہیں مل سکتا۔ (7) روحانی اہمیت یہاں ہر ہر آیت کی تفسیر میں ترغیب و ترہیب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا سلسلہ انسان کے اندر عجب روحانی انقلاب برپا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام مناہج اس خوبصورت اور دل آویز اسلامی ورثے سے محروم ہیں۔ دو مثالیں ملاحظہ ہوں:
Flag Counter