Maktaba Wahhabi

73 - 250
(10) منہج تفسیر بالمأثور کی لغوی اہمیت لغت ان علوم میں سے ہے جن کی بنیاد صرف اور صرف اہل لغت سے سماع پر موقوف ہوتی ہے۔ عربی زبان کی ساری قوامیس و معاجم دراصل وہ نتائج ہیں، جو علمائے لغت نے اپنے اجتہاد سے اخذ کیے ہیں۔ جس بنیاد پر انہوں نے نتائج و معانی مستنبط کیے، وہ عربِ اوّل کے استعمالات ہیں۔ اگر کوئی شخص کلمات قرآنیہ کی تفسیر و تشریح میں علمائے لغت کے نتائج پر تو اعتبار کرے، لیکن خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو کہ اصحاب لغت ہیں اور خالص عرب، اس لفظ کا معنی متعین کریں، تو اسے تسلیم نہ کرے! یقیناً یہ طرز عمل شرع و عقل اور لغت کے بالکل مخالف ہے۔ [1] صحابہ کا فہم نہ صرف شرعی نقطہ نظر سے بلکہ لغوی لحاظ سے بھی بالاولیٰ حجت ہے۔ خالص عرب ہونے کے ناطے ان کی زبان سے صادر ہونے والا ایک ایک لفظ اس قابل ہے کہ ساری دنیا کے لغت دان اسے نوٹ کریں، وہ کسی لفظ کی تشریح فرمائیں تو ان کی تشریح یہ حق رکھتی ہے کہ ساری عجمی دنیا کے شارحین اس کی روشنی میں اپنی تشریحات کی تصحیح کریں اور اصحاب قوامیس قلم پکڑے اپنی لغات پر نظرثانی کریں، کیونکہ خود اہل زبان سے بہتر عربی کو کون سمجھ سکتا ہے؟ مزید برآں قرآن مجید کی عربی مبین محض ’’ٹکسالی عربی‘‘ ہی نہیں ہے، یہ شرعی و ایمانی حقائق پر مشتمل وہ عربی ہے جس نے ایمان و اسلام، صلاۃ و زکوٰۃ، صدقہ و صیام، قذف و لعان، قطع و رجم اور اس طرح کے کئی لغوی کلمات کے قوالب کو نئے شرعی معانی پہنائے، قرآن مجید کی عربی شرعی لباس زیب تن کیے ہوئے ہے، اسے صحیح مفہوم میں امرؤالقیس اور نابغہ ذیبانی کے دواوین کا مطالعہ کرنے والے تو کیا، خود امرؤالقیس اور نابغہ ذیبانی بھی سمجھنا چاہیں تو صحابہ کرام کے حلقہ درس میں آئے بغیر نہیں سمجھ سکتے۔
Flag Counter