Maktaba Wahhabi

94 - 250
من گھڑت روایات کی ایک کثیر تعداد، جسے وہ بعض آیات کی تفسیر میں لے آتے ہیں، اس طرز کی تفسیری روایات واقعتاً بے اصل ہیں۔ امام صاحب اس طرح کی روایات اور ان تینوں علوم میں مدوّن بعض رطب و یابس مواد کی طرف اشارہ کر کے کہہ رہے ہیں کہ ان تینوں علوم کے متعلق اس نوعیت کی تفصیلات بےسند ہیں۔ امام احمد کے صرف اس قول کو پکڑ لینا، اس کی بے سروپا توجیہات پیش کرنا اور دیگر علمی حقائق چھپانا یقیناً بہت بڑی جسارت اور خیانت ہے۔ تفسیر بالمأثور اور تفسیر بالرأئے کی اصطلاح پر اعتراض تفسیر بالمأثور اور تفسیر بالرأئے کی اصطلاحات میں بعض دفعہ ایک ابہام اس حوالے سے پیدا ہوتا ہے کہ تفسیر بالمأثور میں بھی تو رائے کا استعمال ہوتا ہے اور اسی طرح تفسیر بالرأی میں آیات و احادیث اور آثار صحابہ سے بھی کام لیا جاتا ہے، پھر ان دونوں اصطلاحوں میں حدّ فاصل کس بنیاد پر قائم کی جائے گی؟ اس اشکال کی درج ذیل وجوہات ہیں: (1) تفسیر مأثور جسے تفسیر منقول بھی کہا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر ایک تغیر پذیر اصطلاح ہے۔ کیونکہ اس کا انحصار سلف سے نقل پر ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ایک تفسیری قول عہد صحابہ میں اجتہاد پر مبنی ہو تو اس عہد میں وہ تفسیر بالرأی ہے، لیکن وہی قول عہد تابعین میں تفسیر بالمأثور ہو جائے گا۔ اسی طرح تابعین کے تفسیری اجتہادات ان کے عہد میں ’’تفسیر بالرأی‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں، لیکن وہی اقوال تبع تابعین کے لیے ’’تفسیر بالمأثور‘‘ قرار پائیں گے۔ اس لحاظ سے جیسے جیسے فاصلے بڑھتے جائیں گے، منقول تفسیر کا حجم وسعت اختیار کرتا جائے گا، اور جیسے جیسے عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف فاصلے کم پڑتے جائیں گے، منقول تفسیر کی کمیت محدود ہوتی جائے گی۔ (2) اشکال کی ایک اور جہت یہ بھی ہے کہ عہد تدوین سے لے کر اب تک کے تفسیری
Flag Counter