Maktaba Wahhabi

111 - 194
غور وفکر کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ ۳۔ اس طریقے سے طلباء میں غوروفکر کی وہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے جو اسے دوسرے اسباق میں بھی فائدہ دیتی ہے۔ ۴۔ اس طریقے سے طلباء کے ذہن میں علمی مباحث اچھی طرح راسخ ہو جاتے ہیں۔ ۵۔ اس طریقے سے طلباء میں مشاہدے، تنقیح اور تنظیم کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ استقرائی طریقہ کار کے نقصانات: ۱۔ اس طریقہ کار سے تعلیم کی رفتار بہت آہستہ ہو جاتی ہے۔ ۲۔ ابتدائی کلاسز کے طلباء کے لیے یہ طریق کار مفید نہیں ہے۔ ۳۔ ہر قسم کے مضمون کی تعلیم کے لیے بھی یہ طریق کار مفید نہیں ہے جیسا کہ تلاوت اور حفظ قرآن۔ جہاں تک پہلے نقطے کی بات ہے تو علم ِتجوید کی تدریس میں استقرائی طریقے کو اختیار کرنے میں اسے رکاوٹ نہیں بننا چاہیے کیونکہ پانچویں اور چھٹے سال میں جو نصاب مقرر کیا جاتا ہے اس میں پہلے ہی سے اس کا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ تدریس کا عمل اطمینان سے ہو تا کہ طلباء کے لیے تجوید کے احکام کا مکمل احاطہ ممکن ہو سکے اور وہ تلاوت میں ان کی تطبیق کے اہل ہو سکیں۔ استقرائی طریقہ کار کے مراحل: (۱) مقدمہ (۲) عرض (۳) استنباط (۴) تطبیق پہلا مرحلہ: مقدمہ سے مراد سبق سے پہلے طلباء کے ذہنوں کو سبق کے لیے تیار اور انہیں موضوع کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ استاذاس کے ذریعے اپنے طلباء کی پرانی معلومات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے نئی معلومات کے ساتھ جوڑ دیتا ہے تا کہ طلباء کے لیے اسے یاد رکھنا آسان ہو۔
Flag Counter