Maktaba Wahhabi

46 - 194
موجود تھا جبکہ اس روایت سے عمومی جواز نکالنا درست نہیں ہے۔ راجح قول: دراصل قرآن مجید کی تعلیم کی اجرت لینے کا مختلف صورتوں اور متنوع حالات میں ایک جیسا حکم نہیں ہے۔ بعض اوقات مدرس غنی ہوتا ہے اور بعض اوقات محتاج۔ بعض حالات میں اس کے علاوہ بھی مدرسین کثرت سے ہوتے ہیں اور بعض اوقات کم اور بعض اوقات تو بالکل نہیں ہوتے۔ اجرت ادا کرنے والا بعض اوقات تو طالب علم ہوتا ہے اور بعض اوقات کچھ اصحاب خیر اجرت ادا کرتے ہیں۔ اگر طالب علم ہو تو وہ بھی بعض اوقات غنی ہوتا ہے اور بعض اوقات محتاج۔ بعض اوقات یہ اجرت بیت المال یا سرکار کی طرف سے بھی ادا کی جاتی ہے۔ بعض اوقات یہ تعلیم اجرت کے ساتھ مشروط ہوتی ہے اور بعض اوقات اس کے ساتھ کسی قسم کی شرط نہیں ہوتی۔ اور بعض اوقات مذکورہ بالا حالات کے علاوہ کچھ اور حالات ہوتے ہیں۔ اس میں اختلاف نہیں ہے کہ قرآن مجید کی تعلیم کی اجرت وصول نہ کرنا بہترین عمل اور اللہ کا تقرب حاصل کرنے کا مفید ذریعہ ہے۔اس کے بعد دوسرا درجہ یہ ہے کہ اجرت کی شرط لگائے بغیر تعلیم دے۔ اگر کچھ دے دیا جائے تو اس کو قبول کر لے اور اگر کچھ نہ دیا جائے تو مطالبہ بھی نہ کرے۔ اگر ہم اپنے زمانے پر غور کریں کہ جس میں انسان کے فرائض، ذمہ داریاں اور مصروفیات بہت بڑھ گئی ہیں اور قرآن مجید کی فی سبیل اللہ یا اجر وثواب کی نیت سے تعلیم دینے والے نہ ہونے کے برابر ہیں تو اس تناظر میں: ۱۔ اگر کچھ لوگ اپنے آپ کو تعلیم قرآن کے لیے فارغ نہیں کریں گے اور انہیں اس کی اجرت نہ دی جائے گی تو ان کا اکثر وقت اپنے معاشی مسائل کو سلجھانے میں صرف ہو جائے گااور قرآن مجید کی فی سبیل اللہ تعلیم کے لیے ان کے پاس بہت کم وقت بچ جائے گا۔ اور اس زائد وقت میں تدریس قرآن کے لیے محنت اور کوشش کے باوجود وہ اس کے مقام ومرتبے کے اعتبار سے اس کا حق ادا نہیں کر پائیں گے۔ ۲۔ قرآن مجید کی تعلیم سے مراد جمیع مراحل کی تعلیم ہے جن میں نرسری، پرائمری، مڈل، کالج
Flag Counter