Maktaba Wahhabi

45 - 58
٭ تسلسلِ غسل ِاعضاء کے شرط ہونے کی دلیل ’’صاحبُ ا للمعہ ‘‘ والی حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے پاؤں پر ایک درہم کے برا بر خشکی کی سفیدی دیکھی جسے پانی نہیں پہنچا تھا تو اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ وضوء کرنے کا حکم دیا ۔ (٭اس حدیثِ مذکور کے اصل الفاظ جوحضرت ابوبکر و عمر سے ابن عمر رضی اللہ عنہم اور ان سے سالمؒ نے نقل کیے ہیں، یہ ہیں : ((جَائَ رَجُلٌ وَ قَدْ تَوَضَّأَ وَبَقِیَ عَلیٰ ظَہْرِ قَدَمَیْہِ مِثْلَ ظُفُرِ اِبْھَا مِہٖ فَقَالَ لَہٗ النَّبِیُّ (صلی اللّٰه علیہ وسلم ) اِرْجِعْ فَاَتِمَّ وُضُوْئَکَ فَفَعَلَ )) (دار قطنی ) ’’ایک آدمی آیا جو وضوء کرچکا تھا مگر اس کے پاؤ ں پر انگوٹھے کے ناخن کے برا بر جگہ خشک رہ گئی تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو حکم دیا کہ واپس جاکر اپنا وضوء مکمل کرو تو اس نے ایسا ہی کیا ۔ ‘‘ اس آدمی کو پورا وضوء دہرانے کا حکم دینے سے معلوم ہوا کہ تسلسلِ غسلِ اعضاء لازمی شرط ہے ورنہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم صرف یہی کہہ دیتے کہ جاؤ اور جاکر پاؤں دوبارہ دھو لو تا کہ خشکی والی جگہ بھی تر ہوجائے ۔ مگر اس طرح تسلسل حاصل نہیں ہوتا تھا لہذا پورے وضو کا حکم فرمایا۔٭) واجب ِ وضوء وضوء کا واجب، یا دہونے کی صورت میں صرف تسمیہ ( بِسْمِ اللّٰہ ) کہناہے۔ (٭وضوء کے شروع میں بِسْمِ اللّٰہ کے وجوب کی دلیل یہ حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے : ((لَا صَلوٰۃَ لِمَنْ لَا وُضُوْئَ لَہٗ وَلَا وُضُوْئَ لِمَنْ لَّمْ یَذْکُرِ اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ )) [1] ’’اس آدمی کی نماز نہیں جس کا وضوء نہیں اور اس کا وضوء نہیں جس نے اُس کے شروع میں بِسْمِ اللّٰہ نہ کہی ہو ۔‘‘
Flag Counter