Maktaba Wahhabi

140 - 280
کے عمل میں اضافہ ہوتا ہے۔ پھر اس کے مقابلہ میں انسان اجر بھی پاتا ہے اور اس کے حق میں شفاعت بھی واجب ہوجاتی ہے۔ جو انسان یہ دعا کرتا ہے، اس کے لیے شفاعت واجب ہوجاتی ہے۔ ‘‘ فوائدِحدیث : ٭ مؤذن کا جواب دینا اور اس کے کلمات کو دھرانے کا واجب ہونا باتفاق العلماء ہے۔ ٭ یہ کلمہ اس وقت دھرایا جائے جب مؤذن جملہ پورا کرچکے۔ ٭ اذان کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا وجوب۔ ٭ اللہ تعالیٰ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وسیلہ کا سوال۔ ٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا اثبات۔ اور منکرین پر رد۔ ٭ مقام وسیلہ کا بروز قیامت صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہونا۔ ٭ مؤذن کے کلمات کا ہر حال میں جواب دینا چاہیے۔إلا یہ کہ انسان بیت الخلاء میں یا اپنی حاجت میں مشغول ہو۔اس لیے کہ ہر ذکر کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے جس کو ترک کرنا مناسب نہیں ۔ تاکہ سبب چھوٹ جانے کی وجہ سے وہ ذکر بھی نہ چھوٹ جائے۔ ' حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ سننے والا ویسے ہی کلمات کہے جیسے مؤذن اذان کے ہرجملہ میں کہتا ہے۔ البتہ جمہور علماء کرام کے نزدیک’’جب مؤذن ’’حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ ‘‘ اور ’’حَیَّ عَلَی الْفَـلَاحِ ‘‘کہے تو سننے والے کو لَاحَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ کہنا چاہیے۔ اذان کے بعد کی دعا حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت : بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو کوئی اذان سننے کے بعد یہ دعا پڑھے : ((اللَّهُمَّ رَبَّ هذِه الدَّعْوَةِ التّامَّةِ، والصَّلاةِ القائِمَةِ آتِ
Flag Counter