Maktaba Wahhabi

90 - 112
[اے ابو ذر! اگر لوگ اس کو پکڑلیں، تو یہ ان کے لیے کافی ہوجائے۔] ۲: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ قرآن میں نجات والی سب سے بڑی آیت {وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا} ہے۔ ‘‘[1] ب: ارشادِ ربّ العالمین ہے: {وَلَوْ أَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْأَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا فَأخَذْنٰھُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ}[2] [ اور اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے، تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں ضرور کھول دیتے، لیکن انہوں نے تکذیب کی، تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے انہیں پکڑلیا۔] اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے، کہ اگر بستیوں والوں میں ایمان و تقویٰ آجائے، تو وہ(یعنی اللہ تعالیٰ) ان کے لیے خیر کو عام فرمادیں گے اور وہ انہیں ہر جانب سے میسر ہوگی۔ ارشادِ ربانی {لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْأَرْضِ} کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا: ’’ ہم ان پر خیر کی برکھا برسادیں گے اور ہر جانب سے ان کے لیے اس کو آسان فرمادیں گے۔ ‘‘[3] آیت شریفہ کے حوالے سے تین باتیں: اس آیت کریمہ کے حوالے سے درج ذیل تین باتیںخصوصی طور پر قابلِ توجہ ہیں: ۱: اللہ تعالیٰ نے ایمان اور تقویٰ والوں کے لیے [برکات] کے کھولنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ اور [بَرَکَاتٌ] [بَرَکَۃٌ] کی جمع ہے۔ اور اس سے مراد، جیسا کہ علامہ راغب اصفہانی نے بیان کیا
Flag Counter