Maktaba Wahhabi

68 - 224
میں نے دیکھا کہ محراب کے اندر اپنی داڑھی پکڑے ہوئے اس بے چینی سے تڑپ رہے ہیں جیسے انہیں بچھو نے ڈنک مار دیا ہو اور کسی غم زدہ و ستم رسیدہ شخص کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہے ہیں ۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس وقت بھی ان کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ اے میرے پروردگار! اے میرے پالن ہار! اس کے حضور وہ گریہ و زاری کر رہے ہیں اور دنیا سے مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں تم میرے پاس آرہی ہو، تم مجھ پر نظریں جما رہی ہو۔ افسوس! افسوس! جاؤ کسی دوسرے کو دھوکہ دو ، میں نے تمہیں تین طلاق دے دی ہے۔ تمہاری عمر مختصر ، تمہاری محفل ذلیل و حقیر اور تمہارا فائدہ بہت کم ہے۔ آہ ! آہ! توشۂ راہ کتنا قلیل، سفر کتنا طویل اور راستہ کتنا وحشت ناک ہے۔‘‘ یہ سن کر امیر معاویہ اپنے آنسو ضبط نہ کر سکے اور ان کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی جسے وہ اپنی آستیں سے پونچھتے رہے اور حاضرین کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔ امیر معاویہ نے کہا: ابو الحسن (علی رضی اللہ عنہ ) ایسے ہی تھے۔ اللہ ان پر رحم فرمائے۔ پھر انہوں نے پوچھا: ضرار ! تمہیں ان کا کتنا غم ہے؟ ضرار نے جواب دیا: اتنا ہے جیسے کسی کا کوئی اپنا آدمی خود اسی کی گود میں ذبح کر دیا جائے جس سے اس کا آنسو نہ تھمے اور نہ اس کا غم سکون پائے۔ یہ کہہ کر اُٹھے اور واپس چلے گئے۔ [1] خلافتِ راشدہ میں آدابِ اختلاف کے چند نقوش: اختلافی مسائل کا جائزہ لیتے وقت یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح نظر آتی ہے کہ کسی بھی صحابیٔ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے اندر نفسانیت نہ تھی اور جن اختلافات سے یہ اُصول و آداب سامنے آئے ہیں ان کا داعی بھی صرف حق و صواب کی تلاش و جستجو میں ہے۔ عہد رسالت اور انقطاعِ وحی کے بعد آدابِ اختلاف کے یہ نقوش مُشتینمونہ از خروارے ہیں ۔
Flag Counter