Maktaba Wahhabi

70 - 224
ہوتے جن میں آپس میں ضمنی طور پر اتفاق بھی رہتا تھا۔ ۷۔ کوئی صحابی کسی کی لغزش پر تنبیہ اور اس کی نشان دہی کرتا تو عیب جوئی یا بے جا تنقید نہیں بلکہ اسے ایک فقہی تعاون سمجھتے اور اس کے شکر گذار ہوتے۔ عہد تابعین میں آدابِ اختلاف: امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تدبیر اور ان کا طریقۂ کار یہ تھا کہ وہ سارے صحابۂ کرام کو مدینہ طیبہ ہی میں رہنے کی تاکید فرماتے اور کسی صحابی کو باہر جانے کی اجازت نہ دیتے۔ جہاد، تعلیم ، امارت قضاء جیسے اہم اُمور کی انجام دہی کے لیے کبھی کبھی سفر ہوتا اور پھر مدینہ ہی ان کا مستقل مقام و مستقر ہوتا۔ جسے خلافت کے پایۂ تخت اور حکومت کے دار السلطنت کی حیثیت حاصل تھی۔ صحابۂ کرام اسلام کے داعی اور اس کے ہراول دستہ تھے۔ اس لیے انہیں خلیفہ کے قریب رہنا ضروری تھا جو بارِ خلافت اُٹھانے میں ان کے معاون اور مسائل اُمت حل کرنے میں ہمیشہ ان کے شریک کا ررہیں ۔ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ ، جب خلیفہ ہوئے تو دوسرے بلادِ اسلام میں بھی اقامت کی اجازت دے دی اور اس میں انہوں نے کوئی حرج نہ سمجھا جس کے بعد قراء و فقہاء کرام مفتوحہ علاقوں اور آباد کردہ شہروں میں منتقل ہونے لگے۔ صرف کوفہ و بصرہ میں تین سو (۳۰۰) سے زیادہ صحابۂ کرام نے رہائش اختیار کر لی اور مصر و شام میں بھی کئی ایک صحابی اقامت پذیر ہوئے۔ غزوۂ حنین سے واپسی کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ ہزار صحابی مدینہ منورہ میں چھوڑے۔ جن میں سے آپ کے انتقال کے وقت صرف دس ہزار باقی رہ گئے۔ اور دو ہزار دوسرے شہروں میں جا چکے تھے۔[1] فقہاء و قراء صحابۂ کرام کے تربیت یافتہ اور ان کے علم و فقہ کے حامل تابعین مثلاً سعید بن مسیب مدینہ منورہ۔[2] عطاء بن ابی رباح مکہ مکرمہ۔ طاؤس یمن۔ یحییٰ بن ابی کثیر یمامہ۔
Flag Counter