Maktaba Wahhabi

85 - 224
چند مشہور ائمہ یہ ہیں : اسحاق بن راہویہ م ۲۳۸ھ ۔ ابو ثور ابراہیم بن خالد کلبی م ۲۴۰ھ ان کے علاوہ اور بہت سے ائمہ ہیں جن کا مسلک رائج نہیں ہوا نہ ان کے متبعین ہوئے۔ یا مشہور مسالک کے مقلدین ہی انہیں بھی سمجھا گیا۔ جن ائمہ مسالک کی جڑیں مضبوط رہیں اور جو آج تک باقی ہیں جن کے سارے مسلم ممالک میں بے شمار مقلدین ہیں جن کے فقہ و اُصولِ فقہ کو آج بھی جمہور مدار فقہ و افتاء مانتے ہیں ۔ ان کی تعداد صرف چار ہے: امام ابو حنیفہ … امام مالک … امام شافعی … امام احمد بن حنبل مشہور ائمہ کے مسالک: امام مالک، امام شافعی اور امام احمد کو فقہاء حدیث و سنت سمجھا جاتا ہے۔ انہوں اہل مدینہ سے فقہ سیکھی اور ان کے علوم حاصل کیے۔اپنی جلالت شان کے باوجود چونکہ فقہ حنفی پر فکر و قیاس کا غلبہ ہے اس لیے امام ابو حنیفہ کو بعض لوگ فقہ اہل الرائے کا وارث ان کی درس گاہ کے امام و مقتدا کی حیثیت سے جانتے ہیں ۔ دبستانِ سعید بن مسیب جو فقہ و آثارِ صحابہ کی بنیاد پر قائم ہے اور جس کے طریقہ و منہج کو مالکیہ ، شافعیہ اور حنابلہ نے اپنایا اور دبستانِ ابراہیم نخعی جو حدیث و سنت نہ ہونے کی صورت میں رائے پر عمل کرتا ہے۔ ان دونوں کا اختلاف فطری طور پر ان کے درمیان بھی سرایت کر گیا جنہوں نے ان میں سے کسی ایک دبستان کو بھی اپنایا اور اس سے بھی کسی کو اختلاف نہیں کہ اس کی حدت و تیزی کم ہوئی۔ بنو عباس میں جب خلافت منتقل ہوئی تو انہوں نے بعض جلیل القدر علماء حجاز کو سنت کی تعلیم و تبلیغ کے لیے عراق بلایا جن میں سے چند حضرات یہ ہیں : ۱۔ ربیعہ بن ابی عبدالرحمن ۲۔ یحییٰ بن سعید [1]
Flag Counter