٭ فقیہ راوی کا اپنی روایت کے خلاف عمل ہو تو روایت نہیں بلکہ اس کی رائے پر عمل ہو گا۔
٭ خبر واحد اور قیاس جلی سے تعارض ہو تو قیاس جلی مقدم ہو گا۔
٭ بوقت ضرورت قیاس کو چھوڑ کر استحسان[1] قبول کر لیا جائے گا۔
ابو ابو حنیفہ سے منقول ہے … ہمارے علم نے ہمیں یہی راہ دکھائی جو ہمارے غورو فکر و اندازے کے مطابق سب سے بہتر ہے۔ اور اگر کوئی اس سے بھی بہتر چیز لائے تو ہم اسے قبول کر لیں گے۔
۲۔ مسلک امام مالک:
امام مالک کا اپنا ایک الگ طرزِ فکر ہے ۔ وہ کہتے ہیں :
’’کیا جب جب کوئی شخص ہمارے پاس آئے تو اس کے بحث و جدل کی وجہ سے ہم وہ چیزچھوڑ دیں جسے جبریل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔‘‘ [2]
اس کا ذکر پہلے ہی گذر چکا ہے کہ آپ دبستانِ سعید بن مسیب کے حجازی مسلک سے وابستہ ہیں ۔ آپ کے مسلک کے اُصول و ضوابط کا خلاصہ اور ان کی ترتیب درج ذیل ہے:
٭ نص کتاب اللہ
٭ ظاہر نص۔ یعنی عموم
٭ دلیل نص۔ یعنی مفہوم مخالف
٭ مفہوم نص۔ یعنی مفہوم موافق
٭ تنبیہ نص ۔ یعنی علت پر تنبیہ جیسے اس آیت میں ہے: ﴿فَإِنَّہُ رِجْسٌ اَوْفِسْقًا﴾
قرآنِ حکیم سے اخذ کردہ یہ پانچ اُصول ہیں اور حدیث و سنت سے بھی دس (۱۰) اُصول ماخوذ ہیں :
|