Maktaba Wahhabi

52 - 103
۳:نماز میں کمی پر تنبیہ کی بنا پر نقصان کی تلافی: امام بخاری ؒ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ: ’’صَلَّی النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم اَلظُّہْرَ رَکْعَتَیْنِ، فَقِیْلَ:’’صَلَّیْتَ رَکْعَتَیْنِ۔‘‘ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَیْنِ۔‘‘ [1] ’’ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر دو رکعت پڑھائی تو آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا:’’آپ نے دو رکعت پڑھائی ہیں‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے [مزید] دو رکعت پڑھائیں، پھر سلام پھیرا، اور پھر دو سجدے کیے۔‘‘ اس حدیث شریف سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بھول گئے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے متعلق متنبہ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تنبیہ کے سبب بھولنے کی وجہ سے نماز میں ہونے والے نقصان کی تلافی کی۔ جب صورت ِ حال یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود سید الاولین والآخرین ہونے کے اس بات کی ترغیب دی کہ بھولنے کی حالت میں انہیں یاد دہانی کروائی جائے، قرأت میں شک اور تردد کے وقت ٹھیک قرأت سے آگاہ کیا جائے اور نماز میں کمی پر تنبیہ کی بنا پر نقصان کی تلافی فرمائی، تو پھر کسی اور کے بھولنے پر اس کو کیوں آگاہ نہ کیا جائے ؟ غلطی کا شکار ہونے کی حالت میں اس کو بلاتنبیہ کیسے چھوڑا جائے ؟ نیکی ترک کرنے پر اس کو نیکی کرنے کا حکم کیوں نہ دیا جائے ؟، برائی کا ارتکاب کرنے کی صورت میں اس کو منع کیوں نہ کیا جائے ؟، اور ایسا کرنے والا خواہ والد ہو یا والدہ یا ان کے علاوہ کوئی اور۔
Flag Counter