Maktaba Wahhabi

75 - 103
دعوت نہ تو باپ کو بہت بڑا جاہل قرار دیا، اور نہ ہی اپنے بہت بڑا عالم ہونے کا دعویٰ کیا، بلکہ اس کو یہ بتلایا کہ:’’میرے پاس کچھ ایسا علم ہے جن میں سے آپ کے پاس کچھ بھی نہیں، اور وہ علم صراط مستقیم کی طرف راہ نمائی کرنے والا ہے، اس لیے آپ تکبر واعراض نہ کیجیے، میرے ساتھ چلیے۔آپ کی بجائے میرے پاس راہ نمائی کی خبر ہے۔میری اتباع کیجیے، میں آپ کو گم راہی اور بھٹکنے سے نجات دلواؤں گا۔‘‘ پھر انہوں نے باپ کو شرک سے روکنے کے لیے بیان کیا کہ:شیطان نے آپ کے رب رحمن کی نافرمانی کی، وہی رب جو آپ کے پاس موجود سب نعمتوں کا عطا کرنے والا ہے، اور شیطان کو تو آپ کی تباہی، بربادی، ذلت اور رسوائی کے سوا کسی اور بات سے کچھ غرض نہیں۔وہ آپ کے والد آدم - علیہ السلام - اور ساری بنی نوع انسان کا دشمن ہے، اسی نے آپ کو اس غلطی میں پھنسایا ہے، اس کے ارتکاب کا حکم دیا ہے، اور اس کو آپ کے لیے مزین کیا ہے۔ پھر انہوں نے باپ کو شرک کے برے انجام سے ڈرایا۔اس مرحلہ پر بھی انہوں نے ادب واحترام کا دامن نہ چھوڑا۔انہوں نے اپنے باپ سے یہ نہ کہا کہ اس پر عنقریب عذاب الٰہی نازل ہونے والا ہے، بلکہ یہ کہا:’’مجھے خدشہ ہے کہ آپ کو عذاب چھوئے۔‘‘ علاوہ ازیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نصیحت کے چاروں جملوں کی ابتدا میں [یٰٓأَبَتِ] کے خطاب کو استعمال کر کے باپ کی مودّت ومحبت کے جذبات کو انگیخت کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ۳:چچاؤں کے احتسابِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ادب واحترام: ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دو چچاؤں ابو طالب اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا
Flag Counter