Maktaba Wahhabi

87 - 103
لِمُوْسٰی وَہَارُوْنَ -عَلَیْہِمَا السَّلاَم- أنْ یَقُوْلاَ لِفِرْعَوْنَ قَوْلاً لَیِّناً۔وَأَجَابَ عَنْہُ أَنَّہُ حَسَنٌ لِلْمَصْلِحَۃِ کَالشِّدَّۃِ فِي تَرْبِیَۃِ الأَوْلاَدِ أَحْیَاناً۔ فَالصَّوَابُ أَنَّ التَّعْبِیْرَ بِالضَّلاَلِ الْبَیِِّن ہُنَا بَیَانٌ لِلْوَاقِعِ بِاللَّفْظِ الَّذِي یَدُلُّ عَلَیْہِ لُغَۃً کَقَوْلِہِ تَعَالٰی:{وَوَجَدَکَ ضَآلاًّ فَہَدٰی} وَکَقَوْلِکَ عَمَّنْ تَرَاہُ مُنْحَرِفاً عَنِ الطَّرِیْقِ الْحِسِّيّ:’’ إِنَّ الطَّرِیْقَ مِنْ ہُنَا، فَأَنْتَ حَائِدٌ أَوْ ضَالٌ عَنْہَ‘‘۔[1] ابراہیم علیہ السلام کا یہ کہنا کہ ’’میں آپ کو اور آپ کی قوم کو واضح گمراہی میں دیکھتا ہوں‘‘ اس میں نہ تو گالی ہے، نہ زیادتی، اور نہ ہی درشتی، بعض لوگوں نے ایسے ہی سمجھ کر یہ اشکال پیدا کیا ہے کہ بیٹے [حضرت ابراہیم علیہ السلام ] نے باپ کے لیے ایسا طرزِ عمل کیسے اختیار کیا جب کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو فرعون کو بھی نرم بات کہنے کا حکم دیا۔انہوں نے اس اشکال کا جواب یہ دیا ہے کہ مصلحت کی غرض سے ایسا رویہ اختیار کرنا اچھا ہے جیسا کہ بسا اوقات تربیت اولاد میں سختی استعمال کی جاتی ہے۔ انہوں نے ان الفاظ کے ساتھ ان کی صورتِ حال کی تصویر کشی کی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{وَوَجَدَکَ ضَآلاًّ فَہَدَٰی} [2] [ترجمہ:اور اس نے آپ کو راہ بھولا پایا، اور راہ نمائی کی] اور جیسے کہ آپ کسی کو سیدھی راہ سے ہٹا ہوا پائیں تو اس سے کہتے ہیں:’’راستہ تو اس طرف ہے، اور آپ اس سے ہٹے ہوئے ہیں، یا راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں۔‘‘ احتسابِ والدین میں سخت روی کے عدمِ جواز کے دلائل: احتسابِ والدین کے دوران سخت روی کے ناجائز ہونے کے دلائل کا خلاصہ
Flag Counter