Maktaba Wahhabi

آیت نمبرترجمہسورہ نام
1 سورہ الفاتحہ قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت ہے جس کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے فاتحہ کے معنی آغاز اور ابتدا کے ہیں۔ اس لئے اسے الفاتحہ یعنی فاتحۃ الکتاب کہا جاتا ہے۔ اس کے اور بھی متعدد نام احادیث سے ثابت ہیں مثلاً ام القرآن، السبع المثانی، القرآن العظیم، الشفاء، الرقیہ (دم) وغیرھا من الاسماء اس کا ایک اہم نام الصلوۃ بھی ہے جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا قسمت الصلوۃ بینی وبین عبدی۔ الحدیث صحیح مسلم کتاب الصلوۃ میں نے صلوۃ ( نماز) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے مراد سورۃ فاتحہ ہے جس کا نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور اس کی رحمت و ربوبیت اور عدل و بادشاہت کے بیان میں ہے اور نصف حصے میں دعا و مناجات ہے جو بندہ اللہ کی بارگاہ میں کرتا ہے۔ اس حدیث میں سورۃ فاتحہ کو نماز سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں اس کا پڑھنا بہت ضروری ہے۔ چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات میں اس کی خوب وضاحت کردی گئی ہے فرمایا۔ لاصلوۃ لمن لم یقرا بفاتحہ الکتاب (صحیح بخاری و مسلم) اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی۔ اس حدیث میں (من) کا لفظ عام ہے جو ہر نمازی کو شامل ہے منفرد ہو یا امام کے پیچھے مقتدی۔ سری نماز ہو یا جہری فرض نماز ہو یا نفل ہر نمازی کے لئے سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ اس عموم کی مزید تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نماز فجر میں بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ قرآن کریم پڑھتے رہے جس کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرات بوجھل ہوگئی، نماز ختم ہونے کے بعد جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ تم بھی ساتھ پڑھتے رہے ہو؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لاتفعلوا الابام القرآن فانہ لاصلوۃ لمن لم یقرابھا تم ایسا مت کرو (یعنی ساتھ ساتھ مت پڑھا کرو) البتہ سورۃ فاتحہ ضرور پڑھا کرو کیونکہ اس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی (ابوداؤد، ترمذی، نسائی) اسی طرح حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من صلی صلوۃ لم یقرا فیھا بام القرآن فھی خداج۔ ثلاثا غیر تمام جس نے بغیر فاتحہ کے نماز پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے تین مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ابوہریرہ (رض) سے عرض کیا گیا (انانکون وراء الامام (امام کے پیچھے بھی ہم نماز پڑھتے ہیں اس وقت کیا کریں؟) حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا (اقرا بھا فی نفسک (امام کے پیچھے تم سورۃ فاتحہ اپنے جی میں پڑھو ( صحیح مسلم۔ مذکورہ دونوں حدیثوں سے واضح ہوا کہ قرآن مجید میں جو آتا ہے (وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ) 007:204۔ جب قرآن پڑھا جائے تو سنو اور خاموش رہو، یا حدیث (واذا قرا فانصتوا (بشرط صحت) جب امام قرات کرے تو خاموش رہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ جہری نمازوں میں مقتدی سورۃ فاتحہ کے علاوہ باقی قرات خاموشی سے سنیں۔ امام کے ساتھ قرآن نہ پڑھیں۔ یا امام سورۃ فاتحہ کی فاتحۃ کی آیات وقفوں کے ساتھ پڑھے تاکہ مقتدی بھی احادیث صحیحہ کے مطابق سورۃ فاتحہ پڑھ سکیں یا امام سورۃ فاتحہ کے بعد اتنا سکتہ کرے کہ مقتدی سورۃ فاتحہ پڑھ لیں۔ اس طرح آیت قرآنی اور احادیث صحیحہ میں الحمد للہ کوئی تعارض نہیں رہتا۔ دونوں پر عمل ہوجاتا ہے۔ جب کہ سورۃ فاتحہ کی ممانعت سے یہ بات ثابت ہوتی کہ خاکم بدہن قرآن کریم اور احادیث ٹکراؤ ہے اور دونوں میں سے کسی ایک پر ہی عمل ہوسکتا ہے۔ بیک وقت دونوں پر عمل ممکن نہیں۔ فتعوذ باللہ من ھذا۔ دیکھئے سورۃ اعراف آیت ٢٠٤ کا حاشیہ (اس مسئلے کی تحقیق کے لئے ملاحظہ ہو کتاب تحقیق الکلام از مولانا عبدالرحمن مبارک پوری و توضیح الکلام مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ وغیرہ )۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ کے نزدیک سلف کی اکثریت کا قول یہ ہے کہ اگر مقتدی امام کی قرات سن رہا ہو تو نہ پڑھے اور اگر نہ سن رہا ہو تو پڑھے (مجموع فتاوی ابن تیمیہ ٢٣/٢٦٥ ) ١ یہ سورۃ مکی ہے۔ مکی یا مدنی کا مطلب یہ ہے کہ جو سورتیں ہجرت (٣ ١ نبوت) سے قبل نازل ہوئیں وہ مکی ہیں خواہ ان کا نزول مکہ مکرمہ میں ہوا ہو یا اس کے آس پاس اور مدنی وہ سورتیں ہیں جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں خواہ وہ مدینہ یا اس کے آس پاس میں نازل ہوئیں یا اس سے دور حتیٰ کہ مکہ اور اس کے اطراف ہی میں کیوں نہ نازل ہوئی ہوں۔ بِسْمِ اللّٰہِ کی بابت اختلاف کہ آیا یہ ہر سورت کی مستقل آیت ہے یا ہر سورت کی آیت کا حصہ ہے یا یہ صرف سورۃ فاتحہ کی ایک آیت ہے یا کسی بھی سورت کی مستقل آیت نہیں ہے اسے صرف دوسری سورت سے ممتاز کرنے کیلئے ہر سورت کے آغاز میں لکھا جاتا ہے علماء مکہ و کوفہ نے اسے سورۃ فاتحہ سمیت ہر سورت کی آیت قرار دیا ہے جبکہ علماء مدینہ بصرہ اور شام نے اسے کسی بھی سورت کی آیت تسلیم نہیں کیا۔ سوائے سورۃ نمل کی آیت نمبر ٣٠ کے کہ اس میں بالاتفاق بِسْمِ اللّٰہِ اس کا جزو ہے۔ اس طرح (جہری) نمازوں میں اس کے اونچی آواز سے پڑھنے پر بھی اختلاف ہے۔ بعض اونچی آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں اور بعض سری (دھیمی) آواز سے اکثر علماء نے سری آواز سے پڑھنے کو بہتر قرار دیا ہے۔ بِسْمِ اللّٰہِ کو آغاز میں ہی الگ کیا گیا ہے یعنی اللہ کے نام سے پڑھتا یا شروع کرتا یا تلاوت کرتا ہوں ہر اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ چنانچہ حکم دیا گیا ہے کہ کھانے، ذبح، وضو اور جماع سے پہلے بِسْمِ اللّٰہِ پڑھو۔ تاہم قرآن کریم کی تلاوت کے وقت، بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، سے پہلے ( اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ) پڑھنا بھی ضروری ہے جب تم قرآن کریم پڑھنے لگو تو اللہ کی جناب میں شیطان رجیم سے پناہ مانگو۔ الفاتحة
2 ف ١ اَلْحَمْدُ میں ' ال ' مخصوص کے لئے ہے یعنی تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں یا اس کے لئے خاص ہیں کیونکہ تعریف کا اصل مستحق اور سزاوار صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ کسی کے اندر کوئی خوبی، حسن یا کمال ہے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے اس لئے حمد (تعریف) کا مستحق بھی وہی ہے۔ اللہ یہ اللہ کا ذاتی نام ہے اس کا استعمال کسی اور کے لئے جائز نہیں لَا اِلٰہَ افضل الذکر اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کو افضل دعا کہا گیا ہے۔ (ترمذی، نسائی وغیرہ) صحیح مسلم اور نسائی کی روایت میں ہے اَلْحَمْدُ لِلّہِ میزان کو بھر دیتا ہے اسی لئے ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ اللہ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ ہر کھانے پر اور پینے پر بندہ اللہ کی حمد کرے۔ (صحیح مسلم) ف ٢ (رَبْ) اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے، جس کا معنی ہر چیز کو پیدا کر کے ضروریات کو مہیا کرنے اور اس کو تکمیل تک پہنچانے والا۔ اس کے استعمال بغیر اضافت کے کسی اور کے لئے جائز نہیں (الْعَالَمِیْنَ) عَالَمْ (جہان) جہان کی جمع ہے۔ ویسے تو تمام خلائق کے مجموعہ کو عالم کہا جاتا ہے، اس لئے اس کی جمع نہیں لائی جاتی۔ لیکن یہاں اس کی ربوبیت کاملہ کے اظہار کے لئے عالم کی بھی جمع لائی گئی ہے، جس سے مراد مخلوق کی الگ الگ جنسیں ہیں۔ مثلاً عالم جن، عالم انس، عالم ملائکہ اور عالم وحوش و طیور وغیرہ۔ ان تمام مخلوقات کی ضرورتیں ایک دوسرے سے قطعاً مختلف ہیں لیکن رَبِّ الْعَالَمِیْنَ سب کی ضروریات، ان کے احوال و ظروف اور طباع و اجسام کے مطابق مہیا فرماتا ہے۔ الفاتحة
3 ف ١ رحمن بروز فعلان اور رحیم بر وزن فعیل ہے۔ دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔ جن میں کثرت اور دوام کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ بہت رحم کرنے والا ہے اور اس کی یہ صفت دیگر صفات کی طرح دائمی ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں رحمٰن میں رحیم کی نسبت زیادہ مبالغہ ہے اسی لیے رحمٰن الدنیا والآخرہ کہا جاتا ہے۔ دنیا میں اس کی رحمت جس میں بلا تخصیص کافر و مومن سب فیض یاب ہو رہے ہیں اور آخرت میں وہ صرف رحیم ہوگا۔ یعنی اس کی رحمت صرف مومنین کے لئے خاص ہوگی۔ اللھم اجعلنا منھم۔ آمین الفاتحة
4 ف ١ دنیا میں بھی اگرچہ کیئے کی سزا کا سلسلہ ایک حد تک جاری رہتا ہے تاہم اس کا مکمل ظہور آخرت میں ہوگا اور اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے اچھے یا برے اعمال کے مطابق مکمل جزا یا سزا دے گا۔ اور صرف اللہ تعالیٰ ہی ہوگا اللہ تعالیٰ اس روز فرمائے گا آج کس کی بادشاہی ہے؟ پھر وہی جواب دے گا صرف ایک اللہ غالب کے لیے اس دن کوئی ہستی کسی کے لئے اختیار نہیں رکھے گی سارا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہوگا، یہ ہوگا جزا کا دن۔ الفاتحة
5 ف ١ عبادت کے معنی ہیں کسی کی رضا کے لیے انتہائی عاجزی اور کمال خشوع کا اظہار اور بقول ابن کثیر شریعت میں کمال محبت خضوع اور خوف کے مجموعے کا نام ہے، یعنی جس ذات کے ساتھ محبت بھی ہو اس کی ما فوق الاسباب ذرائع سے اس کی گرفت کا خوف بھی ہو۔ سیدھی عبارت ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے مدد چاہتے ہیں۔ نہ عبادت اللہ کے سوا کسی اور کی جائز ہے اور نہ مدد مانگنا کسی اور سے جائز ہے۔ ان الفاظ سے شرک کا سدباب کردیا گیا لیکن جن کے دلوں میں شرک کا روگ راہ پا گیا ہے وہ ما فوق الاسباب اور ما تحت الاسباب استعانت میں فرق کو نظر انداز کر کے عوام کو مغالطے میں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو ہم بیمار ہوجاتے ہیں تو ڈاکٹر سے مدد حاصل کرتے ہیں بیوی سے مدد چاہتے ہیں ڈرائیور اور دیگر انسانوں سے مدد کے طالب ہوتے ہیں اس طرح وہ یہ باور کراتے ہیں کہ اللہ کے سوا اوروں سے مدد مانگنا بھی جائز ہے۔ حالانکہ اسباب کے ما تحت ایک دوسرے سے مدد چاہنا اور مدد کرنا یہ شرک نہیں ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا نظام ہے۔ جس میں سارے کام ظاہر اسباب کے مطابق ہی ہوتے ہیں حتی کہ انبیاء بھی انسانوں کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا (من انصاری الی اللہ) اللہ کے دین کیلئے کون میرا مددگار ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو فرمایا (ۘوَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی) 005:002 نیکی اور تقوی کے کاموں پر ایک دوسرے کی مدد کرو ظاہر بات ہے کہ یہ تعاون ممنوع ہے نہ شرک بلکہ مطلوب و محمود ہے۔ اسکا اصطلاحی شرک سے کیا تعلق؟ شرک تو یہ ہے کہ ایسے شخص سے مدد طلب کی جائے جو ظاہری اسباب کے لحاظ سے مدد نہ کرسکتا ہو جیسے کسی فوت شدہ شحص کو مدد کے لیے پکارنا اس کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنا اسکو نافع وضار باور کرنا اور دور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے کی صلاحیت سے بہرہ ور تسلیم کرنا۔ اسکا نام ہے ما فوق الاسباب طریقے سے مدد طلب کرنا اور اسے خدائی صفات سے متصف ماننا اسی کا نام شرک ہے جو بدقسمتی سے محبت اولیاء کے نام پر مسلمان ملکوں میں عام ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔ توحید کی تین قسمیں۔ اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی تین اہم قسمیں بھی مختصرا بیان کردی جائیں۔ یہ قسمیں ہیں۔ توحید ربوبیت۔ توحید الوہیت۔ اور توحید صفات۔ ١۔ توحید ربوبیت کا مطلب کہ اس کائنات کا مالک رازق اور مدبر صرف اللہ تعالیٰ ہے اور اس توحید کو تمام لوگ مانتے ہیں، حتیٰ کہ مشرکین بھی اس کے قائل رہے ہیں اور ہیں، جیسا کہ قرآن کریم نے مشرکین مکہ کا اعتراف نقل کیا۔ مثلا فرمایا۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھیں کہ آسمان و زمین میں رزق کون دیتا ہے، یا (تمہارے) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بے جان سے جاندار اور جاندار سے بے جان کو کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے؟ جھٹ کہہ دیں گے کہ (اللہ) (یعنی سب کام کرنے والا اللہ ہے) (قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْـحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ ۭ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰہُ ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ) 010:031 دوسرے مقام پر فرمایا اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھیں کہ زمین اور زمین میں جو کچھ ہے یہ سب کس کا مال ہے؟ ساتواں آسمان اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟ ہر چیز کی بادشاہی کس کے ہاتھ میں ہے؟ اور وہ سب کو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابل کوئی پناہ دینے والا نہیں ان سب کے جواب میں یہ یہی کہیں گے کہ اللہ یعنی یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں۔ (قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہَآ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 84؀ سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ ۭ قُلْ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ 85؀ قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ 86؀ سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ ۭ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ 87؀ قُلْ مَنْۢ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْءٍ وَّہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ 88؀ سَیَقُوْلُوْنَ لِلّٰہِ ۭ قُلْ فَاَنّٰی تُسْحَرُوْنَ 89؀) 023:084,089 وغیرھا من الآیات۔ ٢۔ توحید الوہیت کا مطلب ہے کہ عبادت کی تمام اقسام کا مستحق اللہ تعالیٰ ہے اور عبادت ہر وہ کام ہے جو کسی مخصوص ہستی کی رضا کیلئے یا اس کی ناراضی کے خوف سے کیا جائے اس لئے نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ صرف یہی عبادات نہیں ہیں بلکہ کسی مخصوص ہستی سے دعا والتجاء کرنا، اسکے نام کی نذر نیاز دینا اس کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونا اس کا طواف کرنا اس سے طمع اور خوف رکھنا وغیرہ بھی عبادات ہیں۔ توحید الوہیت یہ کہ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور مذکورہ عبادات کی بہت سی قسمیں وہ قبروں میں مدفون افراد اور فوت شدہ بزرگوں کے لئے بھی کرتے ہیں جو سراسر شرک ہے۔ ٣۔ توحید صفات کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں انکو بغیر کسی تاویل اور تحریف کے تسلیم کریں اور وہ صفات اس انداز میں کسی اور کے اندر نہ مانیں۔ مثلا جس طرح اس کی صفت علم غیب ہے، یا دور اور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے پر وہ قادر ہے، کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے کا اسے اختیار حاصل ہے، یا اس قسم کی اور صفات الہیہ ان میں سے کوئی صفت بھی اللہ کے سوا کسی نبی ولی یا کسی بھی شخص کے اندر تسلیم نہ کی جائیں۔ اگر تسلیم کی جائیں گی تو یہ شرک ہوگا۔ افسوس ہے کہ قبر پرستوں میں شرک کی یہ قسم بھی عام ہے اور انہوں نے اللہ کی مذکورہ صفات میں بہت سے بندوں کو بھی شریک کر رکھا ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔ توحید کی تین قسمیں۔ اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی تین اہم قسمیں مختصرا بیان کردی جائیں۔ یہ قسمیں ہیں۔ توحید ربوبیت، توحید الوہیت، اور توحید صفات ١۔ توحید ربوبیت کا مطلب ہے کہ اس کائنات کا خالق، مالک، رازق، اور مدبر صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس توحید کو ملاحدہ و زنادقہ کے علاوہ تمام لوگ مانتے ہیں حتی کہ مشرکین بھی اس کے قائل رہے ہیں اور ہیں جیسا کہ قرآن کریم نے مشرکیں مکہ اعتراف نقل کا ہے۔ مثلا فرمایا اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھیں کہ تم آسمان و زمین میں رزق کون دیتا ہے یا (تمہارے) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بے جان سے جاندار اور جاندار سے بے جان کو کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے ؟ جھٹ کہہ دیں گے کے اللہ (یعنی یہ سب کام کرنے والا اللہ ہے) (قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْـحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ ۭ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰہُ ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ 31) 010:031۔ دوسرے مقام پر فرمایا (وَلَیِٕنْ سَاَلْــتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ) 39۔ الزمر :38) اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھیں گے کہ آسمان و زمین کا خالق کون ہے ؟ تو یقینا یہی کہیں گے کہ اللہ۔ ایک اور مقام پر فرمایا اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پوچھیں کہ زمین اور زمین میں جو کچھ ہے یہ سب کس کا مال ہے ؟ ساتوں آسمان اور عرش عظیم کا مالک کون ہے ؟ ہر چیز کی بادشاہی کس کے ہاتھ میں ہے ؟ اور وہ سب کو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابل کوئی پناہ دینے والا نہیں۔ ان سب کے جواب میں یہ یہی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ یعنی یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں۔ وغیرھا من الایات۔ ٢۔ توحید الوہیت کا مطلب ہے کہ عبادت کی تمام اقسام کی مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے اور عبادت ہر وہ کام ہے جو کسی مخصوص ہستی کی رضا کے لئے، یا اس کی ناراضی کے خوف سے کیا جائے، اس لئے نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ صرف یہی عبادات نہیں بلکہ کسی مخصوص ہستی سے دعا و التجاء کرنا۔ اس کے نام کی نذر ونیاز دینا اس کے سامنے دست بستہ کھڑا ہونا اس کا طواف کرنا اس سے طمع اور خوف رکھنا وغیرہ بھی عبادات ہیں۔ توحید الوہیت میں شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور مذکورہ عبادات کی بہت سی قسمیں وہ قبروں میں مدفون افراد اور فوت شدہ بزرگوں کے لئے بھی کرتے ہیں جو سراسر شرک ہے۔ ٣۔ توحید صفات کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں ان کو بغیر کسی تاویل اور تحریف کے تسلیم کریں اور وہ صفات اس انداز میں کسی اور کے اندر نہ مانیں، مثلا جس طرح اس کی صفت علم غیب ہے یا دور اور نزدیک سے ہر ایک کی فریاد سننے پر وہ قادر ہے کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے کا اسے اختیار حاصل ہے یہ یا اس قسم کی اور صفات الٰہیہ ان میں سے کوئی صفت بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نبی، ولی یا کسی بھی شخص کے اندر تسلیم نہ کی جائیں۔ اگر تسلیم کی جائیں گی تو یہ شرک ہوگا۔ افسوس ہے کہ قبر پرستوں میں شرک کی یہ قسم بھی عام ہے اور انہوں نے اللہ کی مذکورہ صفات میں بہت سے بندوں کو بھی شریک کر رکھا ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔ الفاتحة
6 ف ١ ہدایت کے کئی مفہوم ہیں، راستے کی طرف رہنمائی کرنا، راستے پر چلا دینا، منزل مقصود تک پہنچا دینا۔ اسے عربی میں ارشاد توفیق، الہام اور دلالت سے تعبیر کیا جاتا ہے، یعنی ہماری صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرما، اس پر چلنے کی توفیق اور اس پر استقامت نصیب فرما، تاکہ ہمیں تیری رضا (منزل مقصود) حاصل ہوجائے۔ یہ صراط مستقیم محض عقل اور ذہانت سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ صراط مستقیم وہی ‏‏، الاسلام، ہے، جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن و احادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔ الفاتحة
7 ف ١ یہ صراط مستقیم یہ وہ اسلام ہے جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور جو اب قرآن و احادیث صحیحہ میں محفوظ ہے۔ ف ٢ صراط مستقیم کی وضاحت ہے کہ یہ سیدھا راستہ وہ ہے جس پر لوگ چلے، جن پر تیرا انعام ہوا۔ ( وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗیِٕکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِیْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗیِٕکَ رَفِیْقًا) 004:069 اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ بہترین رفیق ہیں۔ اس آیت میں یہ بھی وضاحت کردی گئی ہے کہ انعام یافتہ لوگوں کا یہ راستہ اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا راستہ ہے نہ کہ کوئی اور راستہ۔ بعض روایات سے ثابت ہے کہ مَغْضُوْبُ عَلَیْھِمْ (جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا) سے مراد یہودی اور ( وَلا الضَّآلِیْن) گمراہوں سے مراد نصاریٰ (عیسائی) ہیں ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان اسمیں کوئی اختلاف نہیں مستقیم پر چلنے والوں کی خواہش رکھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہود و نصاریٰ دونوں کے گمراہیوں سے بچ کر رہیں۔ یہود کی بڑی گمراہی تھی وہ جانتے بوجھتے صحیح راستے پر نہیں چلتے تھے آیات الٰہی میں تحریف اور حیلہ کرنے میں گریز نہیں کرتے تھے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو ابن اللہ کہتے اپنے احبار و رھبان کو حرام و حلال کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصاریٰ کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ابن اللہ کہا حرام و حلال کا مجاز سمجھتے تھے۔ نصارٰی کی بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شان میں غلو کیا اور انہیں (اللہ کا بیٹا) اور تین خدا میں سے ایک قرار دیا۔ افسوس ہے کہ امت محمدیہ میں بھی یہ گمراہیاں عام ہیں اور اسی وجہ سے وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہیں اللہ تعالیٰ اسے ضلالت کے گڑھے سے نکالے۔ تاکہ ادبار و نکبت کے برھتے ہوئے سائے سے وہ محفوظ رہ سکے۔ سورۃ کے آخر میں آمِیْن کہنے کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تاکید فرمائی اسلیے امام اور مقتدی ہر ایک کو آمین کہنی چاہئے۔ اے اللہ ہماری دعا قبول فرما۔ الفاتحة
0 ف ١ اس سورت میں آگے چل کر گائے کا واقعہ بیان ہوا ہے اس لیے اس کو بقرہ (گائے کے واقعہ والی سورت کہا جاتا ہے) حدیث میں اس کی ایک خاص فضیلت بھی بیان کی گئی ہے کہ جس گھر میں یہ پڑھی جائے اس گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ نزول کے اعتبار سے یہ مدنی دور کی ابتدائی سورتوں میں سے ہے البتہ اس کی بعض آیات جمعۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئیں۔ بعض علماء کے نزدیک اس میں ایک ہزار خبر ایک ہزار احکام اور ایک ہزار منہیات۔ (ابن کثیر) البقرة
1 ف ١ الف لام میم انہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے، یعنی علیحدہ علیحدہ پڑھے جانے والے حروف ان کے معنی کے بارے میں کوئی مستند روایت نہیں ہے (وَاللّہ العالِمُ بمرادہ) البتہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ضرور فرمایا ہے میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، میم ایک حرف اور لام ایک حرف ہر حرف پر ایک نیکی اور ایک نیکی کا اجر دس گنا ہے۔ البقرة
2 ف ١ اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں جیسے کہ دوسرے مقام پر ہے (تَنْزِیْلُ الْکِتٰبِ لَا رَیْبَ فِیْہِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ) 032:002 علاوہ ازیں اس میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں ان کی صداقت میں جو احکام و مسائل بیان کئے گئے ہیں ان کے برحق ہونے میں کوئی شک نہیں۔ ف ٢ ویسے تو یہ کتاب الٰہی تمام انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے نازل ہوئی ہے لیکن اس چشمہ فیض سے سراب صرف وہی لوگ ہونگے جو آب حیات کے متلاشی اور خوف الٰہی سے سرشار ہوں گے۔ جن کے دل میں مرنے کے بعد اللہ کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر جواب دہی کا احساس اور اس کی فکر ہی نہیں اس کے اندر ہدایت کی طلب یا گمراہی سے بچنے کا جذبہ ہی نہیں ہوگا تو اسے ہدایت کہاں سے اور کیوں کر حاصل ہو سکتی ہے۔ البقرة
3 ف ١ اَمُوْر غَیْبُۃ سے مراد وہ چیزیں ہیں جنکا ادراک عقل و حواس سے ممکن نہیں۔ جیسے ذات باری تعالیٰ، وحی، جنت دوزخ، ملائکہ، عذاب قبر اور حشر وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بتلائی ہوئی ماورائے عقل و احساس باتوں پر یقین رکھنا، جزو ایمان ہے اور ان کا انکار کفر و ضلالت ہے۔ ف ٢ اقامت صلٰوۃ سے مراد پابندی سے اور سنت نبوی کے مطابق نماز کا اہتمام کرنا، ورنہ نماز تو منافقین بھی پڑھتے تھے۔ ف ٣ اَنْفَاقْ کا لفظ عام ہے جو صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں کو شامل ہے۔ اہل ایمان حسب اطاعت دونوں میں کوتاہی نہیں کرتے بلکہ ماں باپ اور اہل و عیال پر صحیح طریقے سے خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے اور باعث اجر و ثواب ہے۔ البقرة
4 ف ١ پچھلی کتابوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ کتابیں انبیاء علیہم السلام پر نازل ہوئیں وہ سب سچی ہیں وہ اب اپنی اصل شکل میں دنیا میں نہیں پائی جاتیں نیز ان پر عمل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اب عمل صرف قرآن اور اس کی تشریح نبوی۔ حدیث۔ پر ہی کیا جائے گا۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ وحی و رسالت کا سلسلہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم کردیا گیا ہے، ورنہ اس پر بھی ایمان کا ذکر اللہ تعالیٰ ضرور فرماتا۔ البقرة
5 ف ١ یہ ان اہل ایمان کا انجام بیان کیا گیا ہے جو ایمان لانے کے بعد تقویٰ و عمل اور عقیدہ صحیحہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ محض زبان سے اظہار ایمان کو کافی نہیں سمجھتے۔ کامیابی سے مراد آخرت میں رضائے الٰہی اور اس کی رحمت و مغفرت کا حصول ہے۔ اس کے ساتھ دنیا میں بھی خوش حالی اور سعادت و کامرانی مل جائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ دوسرے گروہ کا تذکرہ فرما رہا ہے جو صرف کافر ہی نہیں بلکہ اس کا کفر و عناد اس انتہا تک پہنچا ہوا ہے جس کے بعد اس سے خیر اور قبول اسلام کی توقع ہی نہیں۔ البقرة
6 ف ١ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ شدید خواہش تھی کہ سب مسلمان ہوجائیں اور اسی حساب سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوشش فرماتے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایمان ان کے نصیب میں ہی نہیں ہے۔ یہ وہ چند مخصوص لوگ ہیں جن کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی (جیسے ابو جہل اور ابو لہب وغیرہ) ورنہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت و تبلیغ سے بیشمار لوگ مسلمان ہوئے حتٰی کہ پھر پورا جزیرہ عرب اسلام کے سایہ عاطفت میں آ گیا۔ البقرة
7 ف ١ یہ ان کے عدم ایمان کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ کفر و معصیت کے مسلسل ارتکاب کی وجہ سے ان کے دلوں سے قبول حق کی استعداد ختم ہوچکی ہے اور ان کے کان حق کی بات سننے کے لئے آمادہ نہیں اور ان کی نگاہیں کائنات میں پھیلی ہوئی رب کی نشانیاں دیکھنے سے محروم ہیں تو اب وہ ایمان کس طرح سے لا سکتے ہیں؟ ایمان تو ان ہی لوگوں کے حصے آیا ہے اور آتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرتے اور ان سے مغفرت حاصل کرتے ہیں۔ اس کے برعکس لوگ تو اس حدیث کا مصداق ہیں جس میں بیان کیا گیا ہے کہ مومن جب گناہ کر بیٹھتا ہے تو اس کے دل میں سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے اگر وہ توبہ کر کے گناہ سے باز آ جاتا ہے تو اس کا دل پہلے کی طرح صاف اور شفاف ہوجاتا ہے اگر وہ توبہ کی بجائے گناہ پر گناہ کرتا جاتا ہے تو وہ نقطہ سیاہ پھیل کر اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ وہ زنگ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے (کَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ 14؀) 083:014 یعنی ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے جو ان کی مسلسل بداعمالیوں کا منطقی نتیجہ ہے۔ البقرة
8 ف ١ یہاں سے تیسرے گروہ یعنی منافقین کا تذکرہ شروع ہوتا ہے جن کے دل تو ایمان سے محروم تھے مگر وہ اہل ایمان کو فریب دینے کے لئے زبان سے ایمان کا اظہار کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ نہ اللہ کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ تو سب کچھ جانتا ہے اور اہل ایمان کو مستقل فریب میں رکھ سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے مسلمانوں کو ان کی فریب کاریوں سے آگاہ فرما دیتا تھا یوں اس فریب کا سارا نقصان خود انہی کو پہنچتا ہے کہ انہوں نے اپنی عاقبت برباد کرلی اور دنیا میں بھی رسوا ہوئے۔ البقرة
9 البقرة
10 ف ١ بیماری سے مراد وہی کفر و نفاق کی بیماری ہے جس کی اصلاح کی فکر نہ کی جائے تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ اسی طرح جھوٹ بولنا منافقین کی علامات میں سے ہے، جس سے اجتناب ضروری ہے۔ البقرة
11 البقرة
12 ف ١ فساد، اصلاح کی ضد ہے۔ کفر و معصیت سے زمین میں فساد پھیلاتا ہے اور اطاعت الٰہی سے امن و سکون ملتا ہے۔ ہر دور کے منافقین کا کردار یہی رہا ہے کہ پھیلاتے وہ فساد ہیں اشاعت وہ منکرات کی کرتے ہیں اور پامال حدود الٰہی کو کرتے ہیں اور سمجھتے اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ اصلاح اور ترقی کے لئے کوشاں ہیں۔ البقرة
13 ف ١ ان منافقین نے ان صحابہ کو بیوقوف کہا جنہوں نے اللہ کی راہ میں جان و مال کی کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور آج کے منافقین یہ باور کراتے ہیں کہ نعوذ باللہ صحابہ کرام دولت ایمان سے محروم تھے اللہ تعالیٰ نے جدید و قدیم دونوں منافقین کی تردید فرمائی۔ فرمایا کسی اعلے ٰ تر مقصد کے لئے دینوی مفادات کو قربان کردینا بے وقوفی نہیں، عین عقلمندی اور سعادت ہے۔ صحابہ کرام نے اسی سعادت مندی کا ثبوت مہیا کیا۔ اس لئے وہ پکے مومن ہی نہیں بلکہ ایمان کے لئے ایک معیار اور کسوٹی ہیں، اب ایمان انہی کا معتبر ہوگا جو صحابہ کرام کی طرح ایمان لائیں گے (فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا) 002:137 ف ٢ ظاہر بات ہے کہ (فوری فائدے) کے لئے (دیر سے ملنے والے فائدے) کو نظر انداز کردینا اور آخرت کی پائیدار اور دائمی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی فانی زندگی کو ترجیح دینا اور اللہ کی بجائے لوگوں سے ڈرنا پرلے درجے کی سفاہت ہے جس کا ارتکاب ان منافقین نے کیا۔ یوں ایک مسلمہ حقیقت سے بے علم رہے۔ البقرة
14 ف ١ شیٰطین سے مراد سرداران قریش و یہود ہیں۔ جن کی ایماء پر وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے تھے یا منافقین کے اپنے سردار۔ البقرة
15 ف ١ اللہ تعالیٰ بھی ان سے مذاق کرتا ہے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جس طرح مسمانوں کے ساتھ استہزاء استخفاف کا معاملہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی ان سے ایسا ہی معاملہ کرتے ہوئے انہیں ذلت میں مبتلا کرتا ہے۔ اس کو استہزاء سے تعبیر کرنا، زبان کا اسلوب ہے، ورنہ حقیقتا یہ مذاق نہیں ہے، ان کے فعل کی سزا ہے جیسے برائی کا بدلہ، اسی کی مثل برائی، میں برائی کے بدلے کو برائی کہا گیا حالانکہ وہ برائی نہیں ہے ایک جائز فعل ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ بھی ان سے فرمائے گا۔ جیسا کہ سورۃ حدید کی آیت ( یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ) 057:013 میں وضاحت ہے۔ البقرة
16 ف ١ تجارت سے مراد ہدایت چھوڑ کر گمراہی اختیار کرنا ہے۔ جو سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ منافقین نے نفاق کا جامہ پہن کر ہی گھاٹے والی تجارت کی۔ لیکن یہ گھاٹا آخرت کا گھاٹا ہے ضروری نہیں کہ دنیا ہی میں اس گھاٹے کا انہیں علم ہوجائے۔ بلکہ دنیا میں تو اس نفاق کے ذریعے سے انہیں جو فوری فائدے حاصل ہوتے تھے، اس پر وہ بڑے خوش ہوتے اور اس کی بنیاد پر اپنے آپ کو بہت دانا اور مسلمانوں کو عقل فہم سے عاری سمجھتے تھے۔ البقرة
17 ف ١ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) اور دیگر صحابہ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ تشریف لائے تو کچھ لوگ مسلمان ہوگئے لیکن پھر جلدی منافق ہوگئے۔ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اندھیرے میں تھا اس نے روشنی جلائی جس سے اس کا ماحول روشن ہوگیا اور مفید اور نقصان دہ چیزیں اس پر واضح ہوگئیں دفعتا وہ روشنی بجھ گئی اور حسب سابق تاریکیوں میں گھر گئے۔ یہ حال منافقین کا تھا پہلے وہ شرک کی تاریکی میں تھے مسلمان ہوئے تو روشنی میں آ گئے۔ حلال و حرام کو پہچان گئے پھر وہ دوبارہ کفر و نفاق کی طرف لوٹ گئے تو ساری روشنی جاتی رہی (فتح القدیر) البقرة
18 البقرة
19 البقرة
20 ف ١ یہ منافقین کے ایک دوسرے گروہ کا ذکر ہے۔ جس پر کبھی حق واضح ہوتا ہے اور کبھی اس کی بابت وہ شبہ و شک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ پس ان کے دل میں شک و شبہ اس بارش کی طرح ہے جو اندھیروں شکوک کفر اور نفاق میں اترتی ہے گرج چمک سے ان کے دل ڈر ڈر جاتے ہیں حتٰی کے خوف کے مارے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں۔ لیکن یہ تدبیریں اور یہ خوف و دہشت انہیں اللہ کی گرفت سے نہیں بچا سکے گا کیونکہ وہ اللہ کے گھیرے سے نہیں نکل سکتے۔ کبھی حق کی کرنیں ان پر پڑتی ہیں تو حق کی طرف جھک پڑتے ہیں لیکن پھر جب اسلام یا مسلمان پر مشکلات کا دور آتا ہے تو پھر حیران و سرگردان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ (ابن کثیر) منافقین کا یہ گروہ آخر وقت تک تذبذب اور گومگو کا شکار اور قبول حق (اسلام) سے محروم رہتا ہے۔ ف ٢ اس میں اس امر کی تنبیہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ اپنی دی ہوئی صلاحیتوں کو سلب کرلے۔ اس لیے انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے گریزاں اور اس کے عذاب اور مواخذے سے کبھی بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔ البقرة
21 البقرة
22 ف ١ ہدایت اور ضلالت کے اعتبار سے انسانوں کے تین گروہوں کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی عبادت کی دعوت تمام انسانوں کو دی جا رہی ہے۔ فرمایا جب تمہارا اور کائنات کا خالق اللہ ہے تمہاری تمام ضروریات کا مہیا کرنے والا وہی ہے پھر تم اسے چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہو؟ دوسروں کو اس کا شریک کیوں ٹھہراتے ہو اگر تم عذاب خداوندی سے بچنا چاہتے ہو تو اس کا صرف ایک طریقہ ہے کہ اللہ کو ایک مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو جانتے بوجھتے شرک کا ارتکاب مت کرو۔ البقرة
23 ٢٣۔ ١ توحید کے بعد اب رسالت کا اثبات فرمایا جا رہا ہے ہم نے بندے پر کتاب نازل فرمائی ہے اس کے منزل من اللہ ہونے میں اگر تمہیں شک ہے تو اپنے تمام حمایتیوں کو ساتھ ملا کر اس جیسی ایک ہی سورت بنا کر دکھا دو اور اگر ایسا نہیں کرسکتے تو سمجھ لینا چاہیے کہ واقع یہ کلام کسی انسان کی کاوش نہیں ہے کلام الہی ہی ہے اور ہم پر اور رسالت مآب پر ایمان لا کر جہنم کی آگ سے بچنے کی سعی کرنی چاہیے جو کافروں کے لئے ہی تیار کی گئی ہے۔ البقرة
24 ف ١ یہ قرآن کریم کی صداقت کی ایک اور واضح دلیل ہے کہ عرب و عجم کے تمام کافروں کو چیلنج دیا گیا لیکن وہ آج تک اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں اور یقینا قیامت تک قاصر رہیں گے۔ ف ٢ پتھر سے مراد بقول ابن عباس گندگی کے پتھروں اور بعض حضرات کے نزدیک پتھر کے وہ اصنام (بت) بھی جہنم کا ایندھن ہوں گے جن کی لوگ دنیا میں پرستش کرتے رہے ہوں گے جیسا کہ قرآن مجید میں بھی ہے۔ (اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ ۭ اَنْتُمْ لَہَا وٰرِدُوْنَ) 021:098 تم اور جن کی تم عبادت کرتے ہو جہنم کا ایندھن ہونگے۔ ف ٣ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ جہنم اصل میں کافروں اور مشرکوں کے لیے تیار کی گئ ہے اور دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جنت اور دوزخ کا وجود ہے جو اس وقت بھی ثابت ہے یہی سلف امت کا عقیدہ ہے۔ یہ تمثیلی چیزیں نہیں ہیں جیسا کہ بعض متجدد دین اور منکرین حدیث باور کراتے ہیں۔ البقرة
25 ٢٥۔ ١ قرآن کریم نے ہر جگہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کا تذکرہ فرما کر اس بات کو واضح کردیا کہ ایمان اور عمل صالح ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ عمل صالح کے بغیر ایمان کا ثمر اور نہیں مل سکتا اور ایمان کے بغیر اعمال خیر کی عند اللہ کی کوئی اہمیت نہیں۔ اور عمل صالح کیا، جو سنت کے مطابق ہو اور خالص رضائے الٰہی کی نیت سے کیا جائے۔ خلاف سنت عمل بھی نامقبول اور نمود و نمائش اور ریاکاری کے لئے کئے گئے عمل بھی مردود و مطرود ہیں۔ ٢٥۔ ٢ مُتشَابِھَا کا مطلب یا تو جنت کے تمام میووں کا آپس میں ہم شکل ہونا ہے یا دنیا کے میووں کے ہم شکل ہونا ہے۔ تاہم یہ مشابہت صرف شکل یا نام کی حد تک ہی ہوگی ورنہ جنت کے میووں کے مزے اور ذائقے سے دنیا کے میووں کی کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ جنت کی نعمتوں کی بابت حدیث میں ہے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا (دیکھنا اور سننا تو کجا) کسی انسان کے دل میں ان کا گمان بھی نہیں گزرا۔ ٢٥۔ ٣ یعنی حیض و نفاس اور دیگر آلائشوں سے پاک ہوں گی۔ ٢٥۔ ٤ خُلُودُ کے معنی ہمیشگی کے ہیں۔ اہل جنت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت میں رہیں گے اور خوش رہیں گے اور اہل دوزخ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے اور مبتلائے عذاب رہیں گے۔ حدیث میں ہے جنت اور جہنم میں جانے کے بعد ایک فرشتہ اعلان کرے گا اے جہنمیو! اب موت نہیں ہے اے جنتیو اب موت نہیں ہے۔ جو فریق جس حالت میں ہے اسی حالت میں ہمیشہ رہے گا (صحیح مسلم) البقرة
26 ٢٦۔ ١ جب اللہ تعالیٰ نے دلائل سے قرآن کا معجزہ ہونا ثابت کردیا تو کفار نے ایک دوسرے طریقے سے معارضہ کردیا اور وہ یہ کہ اگر یہ کلام الہٰی ہوتا تو اتنی عظیم ذات کے نازل کردہ کلام میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کی مثالیں نہ ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ بات کی توضیح اور جسے حکمت بالغہ کے پیش نظر تمثیلات کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں اس لئے اس میں حیا و حجاب بھی نہیں۔ فَوْقَھَا کے معنی اس سے بڑھ کر بھی ہو سکتے ہیں۔ اس صورت میں معنی مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز کے ہونگے۔ لفظ فَوْقَھَا میں دونوں مفہوم کی گنجائش ہے۔ ٢٦۔ ٢ اللہ کی بیان کردہ مثالوں سے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ اور اہل کفر کے کفر میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ سب اللہ کے قانون قدرت و مشیت کے تحت ہی ہوتا ہے۔ جسے قرآن نے ( نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی) 004:115 جس طرف کوئی پھرتا ہے ہم اس طرف اس کو پھیر دیتے ہیں فسق، اطاعت الٰہی سے خروج کو کہتے ہیں جس کا ارتکاب عارضی اور وقتی طور پر ایک مومن سے بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن اس آیت سے فسق سے مراد اطاعت سے کلی خروج یعنی کفر ہے۔ جیسا کہ اگلی آیت سے واضح ہے کہ اس میں مومن بننے کے مقابلے میں کافروں والی صفات کا تذکرہ ہے۔ البقرة
27 ٢٧۔ ١ مفسرین نے عَھْدَ کے مختلف مفہوم بیان کئے ہیں۔ مثلا اللہ تعالیٰ کی وہ وصیت جو اس نے اپنے اوامر بجا لانے اور نواہی باز رکھنے کے لئے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے مخلوق کو کی۔ ٢۔ وہ عہد جو اہل کتاب سے تورات میں لیا گیا کہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آجانے کے بعد تمہارے لئے ان کی تصدیق کرنا اور ان کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہوگا جو اولاد آدم کے بعد تمام ذریت آدم سے لیا گیا۔ جس کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔ (وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْۢ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ) 007:172 نقض عہد کا مطلب عہد کی پرواہ نہ کرنا (ابن کثیر) ٢٧۔ ٢ ظاہر بات ہے کہ نقصان اللہ کی نافرمانی کرنے والوں کو ہی ہوگا اللہ کا یا اس کے پیغمبروں اور دعوت دینے والوں کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ البقرة
28 ٢٨۔ ١ آیت میں دو موتوں اور دو زندگیوں کا تذکرہ۔ پہلی موت سے مراد عدم (نیست یعنی نہ ہونا) ہے اور پہلی زندگی ماں کے پیٹ سے نکل کر موت سے ہمکنار ہونے تک ہے۔ پھر موت آجائے گی پھر آخرت کی زندگی دوسری زندگی ہوگی جس کا انکار کفار اور منکرین قیامت کرتے ہیں بعض علماء کی رائے ہے کہ قبر کی زندگی (کَمَا ھِیَ) دنیوی زندگی میں ہی شامل ہوگی (فتح القدیر) صحیح یہ ہے کہ برزخ کی زندگی حیات آخرت کا پیش خیمہ اور اس کا سرنامہ ہے اس لئے اس کا تعلق آخرت کی زندگی سے ہے۔ البقرة
29 ٢٩۔ ١ اس سے استدلال کیا ہے کہ زمین کی اشیاء مخلوقہ کے لئے اصل حلت ہے الا یہ کہ کسی چیز کی حرمت قرآن پاک کے واضح احکام سے ثابت ہو (فتح القدیر) (٢) بعض سلف امت نے اس کا ترجمہ پھر آسمان کی طرف چڑھ گیا کیا ہے (صحیح بخاری) اللہ تعالیٰ کا آسمانوں کے اوپر عرش پر چڑھنا اور خاص خاص مواقع پر آسمان دنیا پر نزول اللہ کی صفات میں سے ہے جن پر اسی طرح بغیر دلیل کے ایمان رکھنا ضروری ہے جس طرح قرآن یا احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔ ٢٩۔ ٣ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ آسمان ایک حسی وجود اور حقیقت ہے۔ محض بلندی کو آسمان سے تعبیر نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ان کی تعداد سات ہے۔ اور حدیث کے مطابق دو آسمانوں کے درمیان ٥٠٠ سال کی مسافت ہے۔ اور زمین کی بابت قرآن کریم میں ہے (وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ) 065:012 اور زمین بھی آسمان کی مثل ہیں اس سے زمین کی تعداد بھی سات ہی معلوم ہوتی ہے جس کی مزید تائید حدیث نبوی سے ہوجاتی ہے۔ جس نے ظلماً کسی کی ایک بالشت زمین لے لی تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ساتوں زمینوں کا طوق پہنائے گا اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے پہلے زمین کی تخلیق ہوئی ہے لیکن سورۃ نازعات میں آسمان کے ذکر کے بعد فرمایا گیا۔ (وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحٰیہَا) 079:030 (زمین کو اس کے بعد بچھایا) اس کی تجزی کی گئی ہے کہ تخلیق پہلے زمین کی ہی ہوئی ہے اور دَحْوَ (صاف اور ہموار کر کے بچھانا) تخلیق سے مختلف چیز ہے جو آسمان کی تخلیق کے بعد عمل میں آیا۔ (فتح القدیر) البقرة
30 ٣٠۔ ١ مَلاَئِکَۃُ (فرشتے) فرشتے اللہ کی نوری مخلوق ہیں جن کا مسکن آسمان ہے جو احکامات کے بجا لانے اور اس کی تحمید و تقدیس میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرتے۔ ٣٠۔ ٢ خَلِیْفَۃُ سے مراد ایسی قوم ہے جو ایک دوسرے کے بعد آئے گی اور یہ کہنا کہ انسان اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ اور نائب ہے غلط ہے۔ ٣٠۔ ٣ فرشتوں کا یہ کہنا حسد یا اعتراض کے طور پر نہ تھا بلکہ اس کی حقیقت اور حکمت معلوم کرنے کی غرض سے تھا کہ اے رب اس مخلوق کے پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے جب کہ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہونگے جو فساد پھیلائیں گے اور خون ریزی کریں گے؟ اگر مقصود یہ ہے کہ تیری عبادت ہو تو اس کام کے لئے ہم تو موجود ہیں ہم سے وہ خطرات بھی نہیں جو نئی مخلوق سے متوقع ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں وہ مصلحت بہتر جانتا ہوں جس کی بنا پر ان ذکر کردہ برائیوں کے باوجود میں اسے پیدا کر رہا ہوں جو تم نہیں جانتے کیونکہ ان میں انبیا، شہدا و صالحین بھی ہونگے۔ (ابن کثیر) البقرة
31 البقرة
32 البقرة
33 ٣٣۔ ١ اسماء سے مراد مسمیات (اشخاص و اشیاء) کے نام اور ان کے خواص و فوائد کا علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعے حضرت آدم علیہ کو سکھلا دیا۔ پھر جب ان سے کہا گیا کہ آدم (علیہ السلام) ان کے نام بتلاؤ تو انہوں نے فورا سب کچھ بیان کردیا جو فرشتے بیان نہ کرسکے۔ اسطرح اللہ تعالیٰ نے ایک تو فرشتوں پر حکمت تخلیق آدم واضح کردی۔ دوسرے دنیا کا نظام چلانے کے لئے علم کی اہمیت و فضیلت بیان فرما دی جب یہ حکمت و اہمیت فرشتوں پر واضح ہوئی تو انہوں نے اپنے قصور علم و فہم کا اعتراف کرلیا۔ فرشتوں کے اس اعتراف سے یہ بھی واضح ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے اللہ کے برگزیدہ بندوں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرماتا ہے۔ البقرة
34 ٣٤۔ ١ علمی فضیلت کے بعد حضرت آدم (علیہ السلام) کی یہ دوسری عزت ہوئی۔ سجدہ کے معنی ہیں عاجزی اور گڑگڑانے کے اس کی انتہا ہے زمین پر پیشانی کا ٹکا دینا (قرطبی) یہ سجدہ شریعت اسلامیہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لئے جائز نہیں ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مشہور فرمان ہے کہ اگر سجدہ کسی اور کے لئے جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ (سنن ترندی) تاہم فرشتوں نے اللہ کے حکم پر حضرت آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کیا جس سے ان کی تکریم و فضیلت فرشتوں پر واضح کردی گئی۔ کیونکہ یہ سجدہ و اکرام و تعظیم کے طور پر یہ تھا نہ کہ عبادت کے طور پر۔ اب تعظیماً بھی کسی کو سجدہ نہیں کیا جا سکتا ٣٤۔ ٢ ابلیس نے سجدے سے انکار کیا اور راندہ درگاہ ہوگیا۔ ابلیس حسب وضاحت قرآن جنات میں سے تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اعزازا فرشتوں میں شامل کر رکھا تھا اس لئے بحکم الٰہی اس کے لئے بھی سجدہ کرنا ضروری تھا۔ لیکن اس نے حسد اور تکبر کی بنا پر سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ گویا حسد اور تکبر وہ گناہ ہیں جن کا ارتکاب دنیائے انسانیت میں سب سے پہلے کیا گیا اور اس کا مرتکب ابلیس ہے۔ ٣٤۔ ٣ یعنی اللہ تعالیٰ کے علم و تقدیر میں۔ البقرة
35 ٣٥۔ ١ یہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی تیسری فضیلت ہے جو جنت کو ان کا مسکن بنا کر عطا کی گئی۔ ٣٥۔ ٢ یہ درخت کس چیز کا تھا ؟ اس کی بابت قرآن و حدیث میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔ اس کو گندم کا درخت مشہور کردیا گیا ہے جو بے اصل بات ہے ہمیں اس کا نام معلوم کرنے کی ضرورت ہے نہ اس کا کوئی فائدہ ہی ہے۔ البقرة
36 ٣٦۔ ١ شیطان نے جنت میں داخل ہو کر روبرو انہیں بہکایا یا وسوسہ اندازی کے ذریعے سے اس کی بابت کوئی وضاحت نہیں۔ تاہم یہ واضح ہے جس طرح سجدے کے حکم کے وقت اس نے حکم الٰہی کے مقابلے میں قیاس سے کام لے کر سجدے سے انکار کیا اسی طرح اس موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم (وَلَا تَقْرَبَا) کی تاویل کر کے حضرت آدم (علیہ السلام) کو پھسلانے میں کامیاب ہوگیا جس کی تفصیل سورۃ اعراف میں آئے گی۔ گویا حکم الٰہی کے مقابلے میں قیاس اور نص کا ارتکاب بھی سب سے پہلے شیطان نے کیا۔ ٣٦۔ ٢ مراد آدم (علیہ السلام) اور شیطان ہیں جو ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ البقرة
37 ٣٧۔ ١ حضرت آدم (علیہ السلام) جب پشیمانی میں ڈوبے دنیا میں تشریف لائے تو توبہ و استغفار میں مصروف ہوگئے۔ اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی و دست گیری فرمائی اور وہ کلمات معافی سکھا دیئے جو الاعراف میں بیان کئے گئے ہیں (رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ) 007:023 بعض حضرات یہاں ایک موضوع روایت کا سہارا لیئے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم نے عرش الہی پر لَا اِلٰہ اِلَا اللّٰہ مَحَمَد رَّسُوْلُ اللّٰہ لکھا ہوا دیکھا اور محمد رسول اللہ کے وسیلے سے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا۔ یہ روایت بے سند ہے اور قرآن کے بھی معارض ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقے کے بھی خلاف ہے۔ تمام انبیاء علیھم السلام نے ہمیشہ براہ راست اللہ سے دعائیں کی ہیں کسی نبی، ولی، بزرگ کا واسطہ اور وسیلہ نہیں پکڑا اس لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سمیت تمام انبیاء کا طریقہ دعایہی رہا ہے کہ بغیر کسی واسطے اور وسیلے کے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی جائے۔ البقرة
38 البقرة
39 ٣٩۔ ١ قبولیت دعا کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ جنت میں آباد کرنے کے بجائے دنیا ہی میں رہ کر جنت کے حصول کی تلقین فرمائی اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے واسطے تمام بنو آدم کو جنت کا یہ راستہ بتلایا جا رہا ہے۔ کہ انبیاء علیہم کے ذریعے سے میری ہدایت ( زندگی گزارنے کے احکام وضابطے) تم تک پہنچے گی جو اس کو قبول کرے گا وہ جنت کا مستحق اور بصورت دیگر عذاب الٰہی کا سزاوار ہوگا۔ ان پر خوف نہیں ہوگا۔ کا تعلق آخرت سے ہے۔ ای فیما یستقبلونہ من امر الاخرۃ اور حزن نہیں ہوگا کا تعلق دنیا سے۔ علی ما فاتھم من امورالدنیا (جو فوت ہوگیا امور دنیا سے یا اپنے پیچھے دنیا میں چھوڑ آئے) جس طرح دوسرے مقام پر ہے آیت (فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی) 020:259۔ جس نے میری ہدایت کی پیروی کی پس وہ (دنیا میں) گمراہ ہوگا اور نہ ( آخرت میں) بدبخت۔ ابن کثیر۔ گویا آیت ( لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ) 010:062 کا مقام ہر مومن صادق کو حاصل ہے یہ کوئی ایسا مقام نہیں جو صرف بعض اولیاء اللہ ہی کو حاصل ہے اور پھر مقام کا مفہوم بھی کچھ بیان کیا جاتا ہے۔ حالانکہ تمام مومنین و متقین بھی اولیاء اللہ ہیں۔ اولیاء اللہ کوئی الگ مخلوق نہیں۔ ہاں البتہ اولیاء کے درجات میں فرق آسکتا ہے۔ البقرة
40 ٤٠۔ ١ اسرا ئِیْلُ (بمنعی عبداللہ) حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب تھا۔ یہود کو بنو اسرائِیْل کہا جاتا تھا یعنی یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد۔ کیونکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹے تھے جس میں یہود کے بارہ قبیلے بنے اور ان میں بکثرت انبیاء اور رسل تھے۔ یہود کو عرب میں اس کی گزشتہ تاریخ اور علم و مذہب سے وابستگی کی وجہ سے ایک خاص مقام حاصل تھا اس لئے انہیں گزشتہ انعامات الٰہی یاد کرا کے کہا جا رہا ہے کہ تم میرا وہ عہد پورا کرو جو تم سے نبی آخر زمان کی نبوت اور ان پر ایمان لانے کی بابت لیا گیا تھا۔ اگر تم اس عہد کو پورا کرو گے تو میں اپنا عہد پورا کروں گا کہ تم سے وہ بوجھ اتار دئیے جائیں گے اور جو تمہاری غلطیاں اور کوتاہیوں کی وجہ سے بطور سزا پر لادھ دیئے گئے تھے اور تمہیں دوبارہ عروج عطا کیا جائے گا۔ اور مجھ سے ڈرو کہ میں تمہیں مسلسل اس ذلت و ادبار میں مبتلا رکھ سکتا ہوں جس میں تم بھی مبتلا ہو اور تمہارے آبا و اجداد بھی مبتلا رہے۔ البقرة
41 ٤١۔ ١ بِہِ کی ضمیر قرآن کی طرف یا حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہے۔ دونوں ہی قول صیح ہیں کیونکہ دونوں آپس میں لازم اور ملزوم ہیں، جس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا اس نے محمد رسول اللہ کے ساتھ کفر کیا، جس نے قرآن کے ساتھ کفر کیا، اس نے محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساتھ کفر کیا (ابن کثیر) پہلے کافر نہ بنو کا مطلب ہے ایک تو تمہیں جو علم ہے دوسرے اس سے محروم ہیں، اس لئے تمہاری ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ دوسرے مدینہ میں یہود کو سب سے پہلے دعوت ایمان دی گئی، ورنہ ہجرت سے پہلے بہت سے لوگ قبول اسلام کرچکے ہوتے، اس لئے انہیں تنبیہ کی جا رہی ہے کہ یہودیوں میں تم اولین کافر مت بنو۔ اگر ایسا کرو گے تو تمام یہودیوں کے کفر کا وبال تم پر ہوگا۔ ٤١۔ ٢ تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو : کا یہ مطلب نہیں کہ زیادہ معاوضہ مل جائے تو احکام الٰہی کا سودا کرلو۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی کے مقابلے میں دنیاوی مفادات کو اہمیت نہ دو۔ احکام الٰہی تو اتنے قیمتی ہیں کہ ساری دنیا کا مال و متاع بھی ان کے مقابلے میں ہیچ اور قلیل ہے۔ آیت میں اصل مخاطب اگرچہ بنی اسرائیل ہیں، لیکن یہ حکم قیامت تک آنے والوں کے لئے ہے، جو بھی محض طلب دنیا کے لئے گریز کرے گا وہ اس وعید میں شامل ہوگا۔ (فتح القدیر) البقرة
42 البقرة
43 البقرة
44 البقرة
45 ٤٥۔ ١ صبر اور نماز ہر اللہ والے کے لئے دو بڑے ہتھیار ہیں۔ نماز کے ذریعے سے ایک مومن کا رابطہ و تعلق اللہ تعالیٰ سے استوار ہوتا ہے۔ جس سے اسے اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت حاصل ہوتی ہے۔ صبر کے ذریعے سے کردار کی پختگی اور دین میں استقامت حاصل ہوتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب بھی کوئی اہم معاملہ پیش آتا آپ فورا نماز کا اہتمام فرماتے (فتح القدیر)۔ ٤٥۔ ٢ نماز کی پابندی عام لوگوں کے لئے گراں ہے، لیکن خشوع و خضوع کرنے والوں کے لئے یہ آسان بلکہ اطمینان اور راحت کا باعث ہے۔ یہ کون لوگ ہیں؟ وہ جو قیامت پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ گویا قیامت پر یقین اعمال خیر کو کردیتا اور آخرت سے بے فکری انسان کو بے عمل بلکہ بد عمل بنا دیتی ہے۔ البقرة
46 البقرة
47 ٤٧۔ ١ یہاں سے دوبارہ اسرائیل کو وہ انعامات یاد کرائے جا رہے ہیں جو ان پر کئے گئے اور ان کو قیامت کے دن سے ڈرایا جا رہا ہے جس دن نہ کوئی کسی کے کام آئے گا نہ سفارش قبول ہوگی نہ معاوضہ دے کر چھٹکارہ ہو سکے گا، اور نہ کوئی مددگار آگے آئے گا۔ ایک انعام یہ بیان فرمایا کہ ان کو تمام جہانوں پر فضیلت دی گئی یعنی امت محمدیہ سے پہلے افضل العالمین ہونے کی یہ فضیلت بنواسرائیل کو حاصل تھی جو انہوں نے معصیت الٰہی کا ارتکاب کرکے گنوالی اور امت محمدیہ کو خیرامۃ کے لقب سے نوازا گیا۔ اس میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ انعامات الٰہی کسی خاص نسل کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں بلکہ یہ ایمان اور عمل کی بنیاد پر ملتے ہیں اور ایمان وعمل سے محرومی پر سلب کرلئے جاتے ہیں، جس طرح امت محمدیہ کی اکثریت بھی اس وقت اپنی بدعملیوں اور شرک و بدعات کے ارتکاب کی وجہ سے خیرامۃ کے بجائے شرامۃ بنی ہوئی ہے۔ ھداھا اللہ تعالی یہود کو یہ دھوکا بھی تھا کہ ہم اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں۔ اس لئے مواخذہ آخرت سے محفوظ رہیں گے اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ وہاں اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کو کوئی سہارا نہیں دے سکے گا۔ اسی فریب میں امت محمدیہ بھی مبتلا ہے اور مسئلہ شفاعت کو (جواہل سنت کے یہاں مسلمہ ہے) اپنی بدعملی کا جواز بنا رکھا ہے۔ البقرة
48 البقرة
49 آل فرعون سے مراد صرف فرعون اور اس کے اہل خانہ ہی نہیں بلکہ فرعون کے تمام پیروکار ہیں۔ جیسا کہ آگے ( وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ) 008:054 ہے (ہم نے ال فرعون کو غرق کردیا) یہ غرق ہونے والے فرعون کے گھر کے ہی نہیں تھے اس کے فوجی اور دیگر پیروکار بھی تھے۔ اس کی مزید تفصیل الاحزاب میں انشاء اللہ آئے گی۔ البقرة
50 ٥٠۔ ١ سمندر کا یہ پھاڑنا اور اس میں سے راستہ بنا دینا ایک معجزہ تھا جس کی تفصیل سورۃ شعراء میں بیان کی گئی ہے۔ یہ سمندر کا مدوجزر نہیں تھا جیسا کہ سر سید احمد خان اور دیگر منکرین معجزات کا خیال ہے۔ البقرة
51 ٥١۔ ١ یہ گؤ سالہ پرستی کا واقعہ اس وقت ہوا جب فرعونیوں سے نجات پانے کے بعد بنو اسرائیل جزیرہ نماء سینا پہنچے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات دینے کے لئے چالیس راتوں کے لئے کوہ طور پر بلایا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جانے کے بعد بنی اسرائیل نے سامری کے پیچھے لگ کر بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔ انسان کتنا ظاہر پرست ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں دیکھنے کے باوجود اور نبیوں (حضرت ہارون و موسیٰ علیہ السلام) کی موجودگی کے باوجود بچھڑے کو اپنا معبود سمجھ لیا۔ آج کا مسلمان بھی شرکیہ عقائد واعمال میں بری طرح مبتلا ہے لیکن وہ سمجھتا ہے کہ مسلمان مشرک کس طرح ہوسکتا ہے ؟ ان مشرک مسلمانوں نے شرک کو پتھر کی مورتیوں کے بچاریوں کے لئے خاص کردیا ہے کہ صرف وہی مشرک ہیں۔ جب کہ یہ نام نہاد مسلمان بھی قبروں پر قبوں کے ساتھ وہی کچھ کرتے جو پتھر کے پچاری اپنی مورتیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اعاذنا اللہ منہ البقرة
52 البقرة
53 ٥٣۔ ١ یہ بھی بحرہ قلزم پار کرنے کے بعد کا واقعہ ہے (ابن کثیر) ممکن ہے کتاب یعنی تورات کو فرقان سے بھی تعبیر کیا گیا ہو کیونکہ ہر آسمانی کتاب حق و باطل کو واضح کرنے والی ہوتی ہے یا معجزات کو فرقان کہا گیا ہے کہ معجزات بھی حق و باطل کی پہچان میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ البقرة
54 ٥٤۔ ١ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے شرک پر متنبہ فرمایا تو پھر انہیں توبہ کا احساس ہوا توبہ کا طریقہ قتل تجویز کیا گیا (فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ) 002:054 (اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو) کی تفسیریں کی گئی ہیں ایک یہ کہ سب کو دو صفوں میں کردیا گیا اور انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا دوسری یہ کہ ارتکاب شرک کرنے والوں کو کھڑا کردیا گیا جو اس سے محفوظ رہے تھے انہیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ انہوں نے قتل کیا۔ مقتولین کی تعداد ستر ہزار بیان کی گئی ہے (ابن کثیر و فتح القدیر) البقرة
55 ٥٥۔ ١ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ستر (٧٠) آدمیوں کو کوہ طور پر تورات لینے کے لئے ساتھ لے گئے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واپس آنے لگے تو انہوں نے کہا جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں ہم تیری بات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جس پر بطور عتاب ان پر بجلی گری اور مر گئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سخت پریشان ہوئے اور ان کی زندگی کی دعا کی جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندہ کردیا۔ دیکھتے ہوئے بجلی گرنے کا مطلب یہ ہے کہ ابتداء میں جن پر بجلی گری آخر والے اسے دیکھ رہے تھے حتٰی کہ سب موت کی آغوش میں چلے گئے۔ البقرة
56 البقرة
57 ٥٧۔ ١ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ مصر اور شام کے درمیان میدان تیہ کا واقعہ ہے۔ جب انہوں نے حکم الٰہی عمالقہ کی بستی میں داخل ہونے سے انکار کردیا اور بطور سزا بنو اسرائیل چالیس سال تک تیہ کے میدان میں پڑے رہے۔ بعض کے نزدیک یہ تخصیص صحیح نہیں۔ یہ صحرائے سینا میں اترنے کے بعد جب سب سے پہلے پانی اور کھانے کا مسئلہ درپیش آیا تو اسی وقت یہ انتظام کیا گیا۔ ٥٨۔ ١ بعض کے نزدیک اوس جو درخت اور پتھر پر گرتی شہد کی طرح میٹھی ہوتی اور خشک ہو کر گوند کی طرح ہوجاتی۔ بعض کے نزدیک شہد یا میٹھا پانی ہے۔ بخاری و مسلم وغیرہ میں حدیث ہے کھمبی مَن کی اس قسم سے ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی، اس کا مطلب یہ ہے جس طرح بنی اسرائیل کو وہ کھانا بلادقت پہنچ جاتا تھا اسی طرح کھمبی بغیر کسی کے بوئے کے پیدا ہوجاتی ہے۔ سلوا بٹیر یا چڑیا کی طرح کا ایک پرندہ تھا جسے ذبح کر کے کھا لیتے تھے۔ (فتح القدیر) البقرة
58 ف ١ اس بستی سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک بیت المقدس ہے۔ ف ٢ سجدہ سے بعض حضرات نے یہ مطلب لیا ہے کہ جھکتے ہوئے داخل ہو اور بعض نے سجدہ شکر ہی مراد لیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بارگاہ الٰہی میں عجز اور انکسار کا اظہار اور اعتراف شکر کرتے ہوئے داخل ہو۔ ف ٣ حِطَّۃٌ اس کے معنی ہیں ہمارے گناہ معاف فرما دے۔ البقرة
59 ٥٩۔ ١ اس کی وضاحت ایک حدیث میں آتی ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ میں ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان کو حکم دیا گیا کہ سجدہ کئے ہوئے داخل ہوں، لیکن وہ سروں کو زمین میں گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے اور حکم بجا لانے کی بجائے ان سے ان کی سرتابی و سرکشی کا جو ان کے اندر پیدا ہوگئی تھی اور احکام الہی سے تمسخر اور مذاق جس کا ارتکاب انہوں نے کیا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ واقع یہ ہے جب کوئی قوم کردار کے لحاظ سے زوال پذیر ہوجائے تو اس کا معاملہ پھر احکام الٰہی کے ساتھ اسے طرح کا ہوجاتا ہے ٥٩۔ ٢ یہ آسمانی عذاب کیا تھا ؟ بعض نے کہا غضب الٰہی، سخت پالا، طاعون۔ اس کی آخری معنی کی تائید حدیث سے ہوتی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ طاعون اسی رجز اور عذاب کا حصہ ہے جو تم سے پہلے بعض لوگوں پر نازل ہوا۔ تمہاری موجودگی میں کسی جگہ یہ طاعون پھیل جائے تو وہاں سے مت نکلو اور اگر کسی اور علاقے کی بابت تمہیں معلوم ہو کہ وہاں طاعون ہے تو وہاں مت جاؤ۔ البقرة
60 (١) یہ واقعہ بعض کے نزدیک تیہ کا اور بعض کے نزدیک صحرائے سینا کا ہے وہاں پانی کی طلب ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مار۔ چنانچہ پتھر سے بارہ چشمے جاری ہوگئے قبیلے بھی بارہ تھے۔ ہر قبیلہ اپنے اپنے چشمے سے سیراب ہوتا۔ یہ بھی ایک معجزہ تھا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا۔ البقرة
61 ٦١۔ ١ یہ قصہ اسی میدان تیہ کا ہے۔ مصر سے مراد یہاں مصر نہیں بلکہ کوئی ایک شہر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہاں سے کسی بھی شہر میں چلے جاؤ اور وہاں کھیتی باڑی کرو اپنی پسند کی سبزیاں، دالیں اگاؤ اور کھاؤ انکا یہ مطالبہ چونکہ کفران نعمت تھا۔ ان سے کہا گیا تمہارے لئے وہاں پر مطلوبہ چیزیں ہیں۔ ٦١۔ ٢ کہاں وہ انعامات و احسانات، جس کی تفصیل گزری؟ اور کہاں وہ ذلت و مسکنت جو بعد میں ان پر مسلط کردی گئی اور وہ غضب الٰہی کے مصداق بن گئے، غضب بھی رحمت کی طرح اللہ کی صفت ہے جس کی تاویل ارادہ عقوبیت یا نفس عقوبیت سے کرنا صحیح نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر غضب ناک ہوا۔ ٦١۔ ٣ یہ ذلت اور غضب الٰہی کی وجہ بیان کی جا رہی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار اور اللہ کی طرف بلانے والے انبیاء (علیہ السلام) اور ان کی تذلیل واہانت، یہ غضب الٰہی کا باعث ہے۔ کل یہودی اس کا ارتکاب کرکے مغضوب اور ذلیل و رسوا ہوئے تو آج اس کا ارتکاب کرنے والے کس طرح معزز اور سرخرو ہو سکتے ہیں۔ وہ کوئی بھی ہوں کہیں بھی ہوں؟ ٦١۔ ٤ یہ ذلت و مسکنت کی دوسری وجہ ہے۔ عَصَوْ (نافرمانی کی) کا مطلب جن کاموں سے انہیں روکا گیا تھا ان کا ارتکاب کیا۔ اطاعت اور فرمانبرداری یہ ہے جسطرح حکم دیا گیا ہو۔ اپنی طرف سے کمی بیشی یہ زیادتی (اعتداء) ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ البقرة
62 ٦٢۔ ١ یھود ھوادۃ (بمعنی محبت) سے یا تھود (بمعنی توبہ) سے بنا ہے گویا ان کا یہ نام اصل میں توبہ کرنے یا ایک دوسرے کے ساتھ محبت رکھنے کی وجہ سے پڑا۔ تاہم موسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والوں کو یہود کہا جاتا ہے ٦٢۔ ٢ نصاری۔ نصران کی جمع ہے جیسے سکاری سکران کی جمع ہے اس کا مادہ نصرت ہے آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی وجہ سے ان کا یہ نام پڑا، ان کو انصار بھی کہا جاتا ہے جیسا کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کہا تھا آیت ( نَحْنُ اَنْصَار اللّٰہِ) 061:14 حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکاروں کا نصاری کہا جاتا ہے جن کو عیسائی بھی کہتے ہیں۔ ٦٢۔ ٣ صابئین۔ صابی کی جمع ہے۔ یہ لوگ وہ ہیں جو یقینا ابتداء کسی دین حق کے پیرو رہے ہوں گے ( اسی لئے قرآن میں یہودیت وعیسائیت کے ساتھ ان کا ذکر کیا گیا ہے) لیکن بعد میں ان کے اندر فرشتہ پرستی اور ستارہ پرستی آگئی یا یہ کسی بھی دین کے پیرو نہ رہے۔ اسی لئے لامذہب لوگوں کو صابی کہا جانے لگا۔ ٦٢۔ ٤ بعض مفسرین کو اس آیت کے مفہوم سمجھنے میں غلطی لگی یعنی رسالت محمدیہ پر لانا ضروری نہیں ہے، بلکہ جو بھی جس دن کو مانتا ہے اور اس کے مطابق ایمان رکھتا ہے اور اچھے عمل کرتا ہے اس کی نجات ہوجائے گی۔ یہ فلسفہ سخت گناہ ہے آیت کی صحیح تفسیر یہ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے سابقہ آیات میں یہود کی بدعملیوں اور سرکشیوں اور اس کی بنا پر ان کے مستحق عذاب ہونے کا تذکرہ فرمایا تو ذہن میں اشکال پیدا ہوسکتا تھا کہ ان یہود میں جو لوگ صحیح کتاب الٰہی کے پیروکار اور اپنے پیغمبر کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے والے تھے ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا معاملہ فرمایا یا کیا معاملہ فرمائے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرما دی صرف یہودی نہیں نصاری اور صابی بھی اپنے اپنے وقت میں جنہوں نے اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھا اور عمل صالح کرتے رہے وہ سب نجات آخروی سے ہمکنار ہونگے اور اسی طرح رسالت محمدیہ پر ایمان لانے والے مسلمان بھی اگر صحیح طریقے سے ایمان باللہ والیوم الآخر اور عمل صالح کا اہتمام کریں تو یہ بھی یقینا آخرت کی ابدی نعمتوں کے مستحق قرار پائیں گے۔ نجات اخروی میں کسی کے ساتھ امتیاز نہیں کیا جائے گا وہاں بے لاگ فیصلہ ہوگا۔ چاہے مسلمان ہوں یا رسول آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے گزر جانے والے یہودی، عیسائی اور صابی وغیرہ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری اس امت میں جو شخص بھی میری بات سن لے، وہ یہودی ہو یا عیسائی، پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لائے تو وہ جہنم میں جائے گا، جہاں دیگر آیات قرآنی کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے، وہاں احادیث کے بغیر قرآن کو سمجھنے کی مذموم سعی کا بھی اس میں بہت عمل دخل ہے۔ اس لئے یہ کہنا بلکل صحیح ہے کہ احادیث صحیحہ کے بغیر قرآن کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ البقرة
63 ٦٣۔ ١ جب تورات کے احکام کے متعلق یہود نے ازراہ شرارت کہا ہم سے تو احکام پر عمل نہیں ہو سکے گا تو اللہ تعالیٰ نے طور پہاڑ کو سائبان کی طرح ان کے اوپر کردیا جس سے ڈر کر انہوں نے عمل کرنے کا وعدہ کیا۔ البقرة
64 البقرة
65 ٦٥۔ ١ سبت (ہفتہ) کے دن یہودیوں کو مچھلی کا شکار بلکہ کوئی بھی دنیاوی کام کرنے سے منع کیا گیا تھا لیکن انہوں نے ایک حیلہ اختیار کر کے حکم الٰہی سے تجاوز کیا۔ ہفتے کے دن (بطور امتحان) مچھلیاں زیادہ آتیں انہوں نے گڑھے کھود لئے، تاکہ مچھلیاں اس میں پھنسی رہیں اور پھر اتوار کے دن ان کو پکڑ لیتے۔ البقرة
66 البقرة
67 ٦٧۔ ١ بنی اسرائیل میں ایک لا ولد مالدار آدمی تھا جسکا وارث صرف ایک بھتیجا تھا ایک رات اس بھتیجے نے اپنے چچا کو قتل کر کے لاش کسی آدمی کے دروازے پر ڈال دی، صبح قاتل کی تلاش میں ایک دوسرے کو قاتل ٹھہرانے لگے بالآخر بات موسیٰ علیہ تک پہنچی تو انہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا گائے کا ٹکڑا مقتول کو مارا گیا جس سے وہ زندہ ہوگیا اور قاتل کی نشان دہی کر کے مر گیا (فتح القدیر) البقرة
68 البقرة
69 البقرة
70 البقرة
71 ٧١۔ ١ انہیں حکم تو یہ دیا گیا تھا ایک گائے ذبح کرو۔ وہ کوئی سی بھی ایک گائے ذبح کردیتے تو حکم الٰہی پر عمل ہوجاتا لیکن انہوں نے حکم الٰہی پر سیدھے طریقے سے عمل کرنے کی بجائے میخ نکالنا شروع کردی اور طرح طرح کے سوال کرنے شروع کردیئے، جس پر اللہ تعالیٰ بھی ان پر سختی کرتا چلا گیا۔ اس لئے دین میں سختی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ البقرة
72 ٧٢۔ ١ یہ قتل کا وہی واقعہ ہے جن کی بنا پر بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس قتل کا راز فاش کردیا حالانکہ وہ قتل رات کی تاریکی میں لوگوں سے چھپ کر کیا گیا تھا مطلب یہ نیکی یا بدی تم کتنی بھی چھپ کر کرو اللہ کے علم میں ہے اور اللہ تعالیٰ اسے لوگوں پر ظاہر کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس لئے خلوت یا جلوت ہر وقت اور ہر جگہ اچھے کام ہی کرو تاکہ وہ کسی وقت ظاہر ہوجائیں اور لوگوں کے علم میں بھی آجائیں تو شرمندگی نہ ہو بلکہ اس کے احترام و وقار میں اضافہ ہی ہو اور بدی کتنی بھی چھپ کر کیوں نہ کی جائے اس کے فاش ہونے کا امکان ہے جس سے انسان کی بدنامی اور ذلت اور رسوائی ہوتی ہے۔ البقرة
73 ٧٣۔ ١ مقتول کے دوبارہ جی اٹھنے سے ثابت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ روز قیامت تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت کا اعلان فرما رہا ہے۔ قیامت والے دن دوبارہ مردوں کو زندہ ہونا منکرین قیامت کے لئے ہمیشہ حیرت کا باعث رہا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مسئلے کو بھی قرآن کریم میں جگہ جگہ مختلف پیرائے میں بیان فرمایا ہے۔ سورۃ بقرہ میں ہی اللہ تعالیٰ نے اس کی پانچ مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک مثال (ثُمَّ بَعَثْنٰکُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ) 002:064 البقرہ ٥٦ میں گزر چکی ہے۔ دوسری مثال یہی قصہ ہے۔ تیسری مثال دوسرے پارے کی آیت نمبر ٢٤٣ آیت (مُوْتُوْا ۣ ثُمَّ اَحْیَاھُمْ) 002:243 چوتھی آیت نمبر ٢٥٩ آیت (فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَـۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ) 002:259 اور پانچویں مثال اس کے بعد والی آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طیور اربعہ ( چار چڑیوں) کی ہے۔ البقرة
74 ٧٤۔ ١ یعنی گزشتہ معجزات اور یہ تازہ واقعہ کہ مقتول دوبارہ زندہ ہوگیا دیکھ کر بھی تمہارے دلوں کے اندر توبہ اور استغفار کا جذبہ۔ بلکہ اس کے برعکس تمہارے دل پتھر کی طرح سخت بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگئے اس کے بعد اس کی اصلاح کی توقع کم اور مکمل تباہی کا اندیشہ زیادہ ہوجاتا ہے اس لئے اہل ایمان کو خاص طور پر تاکید کی گئی ہے کہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو ان سے قبل کتاب دی گئی لیکن مدت گزرنے پر ان کے دل سخت ہوگئے۔ ٧٤۔ ٢ پتھروں کی سنگینی کے باوجود ان سے جو فوائد حاصل ہوتے ہیں اور جو کیفیت ان پر گزرتی ہے اس کا بیان ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پتھروں کے اندر بھی ایک قسم کا ادراک اور احساس موجود ہے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ آیت ( تُـسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّایُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ اِنَّہٗ کَانَ حَلِــیْمًا غَفُوْرًا) 017:044 البقرة
75 ٧٥۔ ١ اہل ایمان کو خطاب کر کے یہودیوں کے بارے کہا جا رہا ہے کیا تمہیں ان کے ایمان لانے کی امید ہے حالانکہ ان کے پچھلے لوگوں میں ایک فرق ایسا بھی تھا جو کلام الٰہی جانتے بوجھتے تحریف کرتا تھا۔ یہ استفہام انکاری ہے یعنی ایسے لوگوں کے ایمان لانے کی قطعا امید نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ دنیوی مفادات یا حزبی تعصبات کی وجہ سے کلام الٰہی میں تحریف تک کرنے سے گریز نہیں کرتے وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں کہ اس سے نکل نہیں پاتے۔ امت محمدیہ کے بہت سے علماء و مشائخ بھی بد قسمتی سے قرآن اور حدیث میں تحریف کے مرتکب ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس جرم سے محفوظ رکھے۔ البقرة
76 ٧٦۔ ١ یہ بعض یہودیوں کے منافقانہ کردار کی نقاب کشائی ہو رہی ہے کہ وہ مسلمانوں میں تو اپنے ایمان کا اظہار کرتے لیکن جب آپس میں ملتے تو ایک دوسرے کو اس بات پر ملامت کرتے کہ تم مسلمانوں کو اپنی کتاب کی ایسی باتیں کیوں بتاتے ہو جس سے رسول عربی کی صداقت واضح ہوتی ہے۔ اس طرح تم خود ہی ایک ایسی حجت ان کے ہاتھ میں دے رہے ہو جو وہ تمہارے خلاف بارگاہ الٰہی میں پیش کرینگے۔ البقرة
77 ٧٧۔ ١ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بتلاؤ کہ اللہ کو تو ہر بات کا علم ہے اور سب باتوں کو تمہارے بتلائے بغیر بھی مسلمانوں پر ظاہر فرما سکتا ہے۔ البقرة
78 ٧٨۔ ١ یہ ان کے اہل علم کی باتیں تھیں رہے ان کے ان پڑھ لوگ، وہ کتاب (تورات) سے بے خبر ہیں لیکن وہ آرزوئیں ضرور رکھتے ہیں اور گمانوں پر ان کا گزارہ ہے جس میں انہیں ان کے علماء نے مبتلا کیا ہوا ہے مثلا ہم تو اللہ کے چہتے ہیں۔ ہم جہنم میں اگر گئے بھی تو صرف چند دن کے لئے اور ہمیں ہمارے بزرگ بخشوا لیں گے وغیرہ وغیرہ۔ جیسے آج کے جاہل مسلمانوں کو بھی علماء سوء و مشائخ سوء نے ایسے ہی حسین جالوں اور پرفریب وعدوں پر پھنسا رکھا ہے۔ البقرة
79 ٧٩۔ ٢ یہ یہود کے علماء کی جسارت اور خوف الہی سے بے نیازی کی وضاحت ہے کہ اپنے ہاتھوں سے مسئلے گھڑتے ہیں اور بہ بانگ دہل یہ باور کراتے ہیں کہ یہ اللہ کی کی طرف سے ہیں۔ حدیث کی رو سے ویل جہنم کی ایک وادی بھی ہے جس کی گہرائی اتنی ہے کہ ایک کافر کو اس کی تہ تک گرنے میں چالیس سال لگیں گے۔ (احمد، ترمذی، ابن حبان والحاکم بحوالہ فتح القدیر) بعض علماء نے اس آیت سے قرآن مجید کی فروخت کو ناجائز قرار دیا ہے لیکن یہ استدلال صحیح نہیں۔ آیت کا مصداق صرف وہی لوگ ہیں جو دنیا کمانے کے لئے کلام الٰہی میں تحریف کرتے اور لوگوں کو مذہب کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں۔ البقرة
80 ٨٠۔ ١ یہود کہتے تھے کہ دنیا کی کل عمر سات ہزار سال ہے اور ہزار سال کے بدلے ایک دن جہنم میں رہیں گے اس حساب سے صرف سات دن جہنم میں رہیں گے۔ کچھ کہتے تھے کہ ہم نے چالیس دن بچھڑے کی عبادت کی تھی، چالیس دن جہنم میں رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم نے اللہ سے عہد لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کیساتھ اس طرح کا کوئی عہد نہیں ہے۔ ٨٠۔ ٢ یعنی تمہارا یہ دعویٰ ہے ہم اگر جہنم گئے بھی تو صرف چند دن ہی کے لئے جائیں گے، تمہاری اپنی طرف سے ہے اور اس طرح تم اللہ کے ذمے ایسی باتیں لگاتے ہو، جن کا تمہیں خود بھی علم نہیں ہے۔ آگے اللہ تعالیٰ اپنا وہ اصول بیان فرما رہا ہے۔ جس کی رو سے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ نیک و بد کو ان کی نیکی اور بدی کی جزا دے گا۔ البقرة
81 البقرة
82 ٨٢۔ ١ یہ یہود کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے جنت یا جہنم کا اصول بیان کیا جا رہا ہے، جس کے نامہء اعمال میں برائیاں ہی برائیاں ہونگی، یعنی کفر اور شرک، اور جو مومن گنہگار ہونگے ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا وہ چاہے گا تو اپنے فضل و کرم سے ان کے گناہ معاف فرما کر بطور سزا کچھ عرصہ جہنم میں رکھنے کے بعد یا نبی کی شفاعت سے ان کو جنت میں داخل فرما دے گا جیسا کہ یہ باتیں صحیح احادیث سے ثابت ہیں اور اہل سنت کا عقیدہ ہے۔ البقرة
83 البقرة
84 ٢۔ ان آیات میں پھر وہ عہد بیان کیا جارہا ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا، لیکن اس سے بھی انہوں نے اعراض ہی کیا۔ اس عہد میں اولا صرف ایک اللہ کی عبادت کی تاکید ہے جو ہر نبی کی بنیادی اور اولین دعوت رہی ہے ( جیسا کہ سورۃ الانبیاء آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ) 021:025 اور دیگر آیات سے واضح ہے) اس کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے اللہ کی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کی اطاعت و فرمانبرداری اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید سے واضح کردیا گیا کہ جس طرح اللہ کی عبادت بہت ضروری ہے اسی طرح اس کے بعد والدین کی اطاعت بھی بہت ضروری ہے اور اس میں کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کی اطاعت کا ذکر کرکے اس کی اہمیت کو واضح کردیا ہے اس کے بعد رشتے دارون، یتیموں اور مساکین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید اور حسن گفتار کا حکم ہے۔ اسلام میں بھی ان باتوں کی بڑی تاکید ہے، جیسا کہ احادیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے واضح ہے۔ اس عہد میں اقامت صلوۃ اور ایتائے زکوٰۃ کا بھی حکم ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں عبادتیں پچھلی شریعتوں میں بھی موجود رہی ہیں۔ جن سے ان کی اہمیت واضح ہے۔ اسلام میں بھی یہ دونوں عبادتیں نہایت اہم ہیں حتی کہ ان میں سے کسی ایک کے انکار یا اس سے اعراض کو کفر کے مترادف سمجھا گیا ہے۔ جیسا کہ ابو بکر صدیق (رض) کے عہد خلافت میں مانعین زکوٰۃ کے خلاف جہاد کرنے سے واضح ہے۔ البقرة
85 ٨٥۔ ١ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں انصار (جو اسلام سے قبل مشرک تھے) کے دو قبیلے تھے اوس اور خزرج، ان کی آپس میں آئے دن جنگ رہتی تھی۔ اس طرح یہود مدینہ کے تین قبیلہ تھے، بنو قینقاع، بنو نفیر اور بنو قریظ۔ یہ بھی آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ بنو قریظہ اوس کے حلیف (ساتھی) اور بنو قینقاع اور بنو نفیر، بنو خزرج کے حلیف تھے۔ جنگ میں یہ اپنے اپنے حلیفوں (ساتھیوں کی مدد کرتے اور اپنے ہی مذہب یہودیوں کو قتل کرتے، ان کے گھروں کو لوٹتے اور انہیں جلا وطن کردیتے حالانکہ تورات کے مطابق ایسا کرنا ان کے لئے حرام تھا۔ لیکن پھر انہی یہودیوں کو جب وہ مغلوب ہونے کی وجہ سے قیدی بن جاتے تو فدیہ دے کر چھڑاتے کہتے کہ ہمیں تورات میں یہی حکم دیا گیا ہے۔ ان آیات میں یہودیوں کے اسی کردار کو بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے شریعت کو موم کی ناک بنا لیا تھا۔ بعض چیزوں پر ایمان لاتے اور بعض کو ترک کردیتے، کسی حکم پر عمل کرلیتے اور کسی وقت شریعت کے حکم کو کوئی اہمیت ہی نہ دیتے۔ قتل، اخراج اور ایک دوسرے کے خلاف مدد کرنا ان کی شریعت میں بھی حرام تھا، ان امور کا توا نہوں نے بے محابا ارتکاب کیا اور فدیہ دے کر چھڑالینے کا جو حکم تھا، اس پر عمل کرلیا، حالانکہ اگر پہلے تین امور کا وہ لحاظ رکھتے تو فدیہ دے کر چھڑانے کی نوبت ہی نہ آتی۔ البقرة
86 ٨٦۔ ١ یہ شریعت کے کسی حکم کے مان لینے اور کسی کو نظر انداز کردینے کی سزا بیان کی جا رہی ہے۔ اس کی سزا دنیا میں عزت اور سرفرازی کی جگہ (جو مکمل شریعت پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے) ذلت اور رسوائی اور آخرت میں ابدی نعمتوں کی بجائے سخت عذاب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں وہ اطاعت قبول ہے جو مکمل ہو بعض باتوں کا مان لینا، یا ان پر عمل کرلینا اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہ آیت ہم مسلمانوں کو بھی دعوت و فکر دے رہی ہے کہ کہیں مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کی وجہ بھی مسلمانوں کا وہی کردار تو نہیں جو مزکورہ آیات میں یہودیوں کا بیان کیا گیا ہے۔ البقرة
87 ٨٧۔ ١ آیت ( وَقَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِہٖ بالرُّسُلِ) 2۔ بقرہ :87) کے معنی ہیں موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد مسلسل پیغمبر آتے رہے حتٰی کہ بنی اسرائیل میں انبیاء کا سلسلہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ختم ہوگیا (بَیِّنَاتِ) سے معجزات مراد ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دئیے گئے تھے جیسے مردوں کو زندہ کرنا، کوڑھی اور اندھے کو صحت یاب کرنا وغیرہ جن کا ذکر ( وَرَسُوْلًا اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ ڏ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ ۙ اَنِّیْٓ اَخْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ کَہَیْــــَٔــۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰہِ ۚ وَاُبْرِیُٔ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ ۚ وَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا تَاْکُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ ۙفِیْ بُیُوْتِکُمْ ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ 49؀ۚ) 003:049 میں ہے۔ ایک اور آیت میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو (رُوحُ لْآمین) فرمایا گیا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسان کے متعلق فرمایا (اے اللہ روح القدس سے اس کی تائید فرما) ایک دوسری حدیث میں ہے (جبرائیل (علیہ السلام) تمہارے ساتھ ہیں) معلوم ہوا کہ روح القدوس سے مراد حضرت جبرائیل ہی ہیں (فتح البیان ابن کثیر بحوالہ الحواشی)۔ ٨٧۔ ٢ جیسے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور حضرت زکریا و یحیٰی علیہما السلام کو قتل کیا۔ البقرة
88 ٨٨۔ ١ یعنی ہم پر اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیری باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا جس طرح دوسرے مقام پر ہے۔ آیت (وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْٓ اَکِنَّۃٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَیْہِ) 041:005 ہمارے دل اس دعوت سے پردے میں ہیں جس کی طرف تو ہمیں بلاتا ہے۔ ٨٨۔ ٢ دلوں پر حق بات کا اثر نہ کرنا، کوئی فخر کی بات نہیں۔ بلکہ یہ تو ملعون ہونے کی علامت ہے، پس ان کا ایمان بھی تھوڑا ہے ( جو عنداللہ نامقبول ہے) یا ان میں ایمان لانے والے کم ہی لوگ ہوں گے۔ البقرة
89 ٨٩۔ ١ (یَسْتَفْتِحُوْنَ) کے ایک معنی یہ ہیں غلبہ اور نصرت کی دعا کرتے تھے، یعنی جب یہود مشرکین سے شکست کھا جاتے تو اللہ سے دعا کرتے کہ آخری نبی جلد مبعوث فرما تاکہ اس سے مل کر ہم ان مشرکین پر غلبہ حاصل کریں۔ یعنی استفتاح بمعنی استنصار ہے۔ دوسرے معنی خبر دینے کے ہیں۔ ای یخبرونھم بانہ سیبعث یعنی یہودی کافروں کو خبر دیتے کہ عنقریب نبی کی بعثت ہوگی۔ (فتح القدیر) لیکن بعثت کے بعد علم رکھنے کے باوجود نبوت محمدی پر محض حسد کی وجہ سے ایمان نہیں لائے جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔ البقرة
90 ٩٠۔ ١ غضب پر غضب کا مطلب ہے بہت زیادہ غضب کیونکہ بار بار وہ غضب والا کام کرتے رہے جیسا کہ تفصیل گزری اور اب محض حسد کی وجہ سے قرآن اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کیا۔ البقرة
91 ٩١۔ ١ یعنی تورات پر ہم ایمان رکھتے ہیں یعنی اس کے بعد ہمیں قرآن پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٩١۔ ٢ یعنی تمہارا تورات پر دعویٰ ایمان بھی صحیح نہیں ہے۔ اگر تورات پر تمہارا ایمان ہوتا تو انبیاء علیہم السلام کو تم قتل نہ کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اب بھی تمہارا انکار محض حسد اور عناد پر مبنی ہے۔ البقرة
92 ٩٢۔ ١ یہ ان کے انکار اور عناد کی ایک اور دلیل ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آیات کی وضاحت اور دلیل کی بات لے کر آئے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور یہ کہ معبود اللہ تعالیٰ ہی ہے، لیکن تم نے اسکے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی تنگ کیا اور اللہ واحد کو چھوڑ کر بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ البقرة
93 ٩٣۔ ١ یہ کفر اور انکار کی انتہا ہے کہ زبان سے تو اقرار کر کے سن لیا یعنی اطاعت کریں گے اور دل میں یہ کہتے کہ ہم نے کونسا عمل کرنا ہے۔ ٩٣۔ ٢ ایک تو محبت خود ایسی چیز ہوتی ہے کہ انسان کو اندھا اور بہرہ بنا دیتی ہے دوسرے اس کو اشرِبُوا (پلا دی گئی) سے تعبیر کیا گیا کیونکہ پانی انسان کے رگ و ریشہ میں خوب دوڑتا ہے جب کہ کھانے کا گزر اس طرح نہیں ہوتا (فتح القدیر) ٩٣۔ ٣ یعنی بچھڑے کی محبت و عبادت کی وجہ وہ کفر تھا جو ان کے دلوں پر گھر کرچکا تھا۔ البقرة
94 البقرة
95 ٩٥۔ ١ حضرت ابن عباس نے یہودیوں کو کہا اگر تم نبوت محمدیہ کے انکار اور اللہ سے محبوبیت کے دعوے میں سچے ہو تو مباہلہ کرلو یعنی اللہ کی بارگاہ میں مسلمان اور یہودی دونوں ملکر یہ عرض کریں یا اللہ دونوں میں سے جو جھوٹا ہے اسے موت سے ہمکنار کر دے یہی دعوت انہیں سورت جمعہ میں بھی دی گئی ہے۔ نجران کے عیسائیوں کو بھی دعوت مباہلہ دی گئی تھی جیسا کہ ال عمران میں ہے۔ لیکن چونکہ یہودی بھی عیسائیوں کی طرح جھوٹے تھے اس لئے عیسائیوں ہی کی طرح یہودیوں کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ہرگز موت کی آرزو (یعنی مباہلہ) نہیں کریں گے۔ حافظ ابن کثیر نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے (تفسیر ابن کثیر) البقرة
96 ٩٦۔ ١ موت کی آرزو تو کجا یہ تو دنیوی زندگی کے تمام لوگوں حتٰی کہ مشرکین سے بھی زیادہ حریص ہیں لیکن عمر کی یہ درازی انہیں عذاب الٰہی سے نہیں بچا سکے گی، ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ یہودی اپنے ان دعووں میں یکسر جھوٹے تھے کہ وہ اللہ کے محبوب اور چہیتے ہیں، یا جنت کے مستحق وہی ہیں اور دوسرے جہنمی، کیونکہ فی الواقع اگر ایسا ہوتا، یا کم از کم انہیں اپنے دعووں کی صداقت پر پورا یقین ہوتا، تو یقینا وہ مباہلہ کرنے پر آمادہ ہوجاتے، تاکہ ان کی سچائی واضح اور مسلمانوں کی غلطیاں ظاہر ہوجاتیں۔ مباہلے سے پہلے یہودیوں کا گریز اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ گو وہ زبان سے اپنے بارے میں خوش کن باتیں کرلیتے تھے، لیکن ان کے دل اصل حقیقت سے آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ اللہ کی بارگاہ میں جانے کے بعد ان کا حشر وہی ہوگا جو اللہ نے اپنے نافرمانوں کے لئے طے کر رکھا ہے۔ البقرة
97 ٩٧۔ ١ احادیث میں ہے کہ چند یہودی علماء نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا صحیح جواب دے دیا تو ہم ایمان لے آئیں گے، کیونکہ نبی کے علاوہ کوئی ان کا جواب نہیں دے سکتا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سوالوں کا صحیح جواب دے دیا تو انہوں نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کون لاتا ہے؟ آپ نے فرمایا، جبرائیل۔ یہود کہنے لگے جبرائیل تو ہمارا دشمن ہے، وہی تو عذاب لے کر اترتا ہے۔ اور اس بہانے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت ماننے سے انکار کردیا (ابن کثیر و فتح القدیر) البقرة
98 ٩٨۔ ١ یہود کہتے تھے کہ میکائیل ہمارا دوست ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ سب میرے مقبول بندے ہیں جو ان کا یا ان میں سے کسی ایک کا بھی دشمن ہے، وہ اللہ کا بھی دشمن ہے حدیث میں ہے، جس نے میرے کسی دوست سے دشمنی رکھی، اس نے میرے ساتھ اعلان جنگ کیا، گویا کہ اللہ کے کسی ایک ولی سے دشمنی سارے اولیاء اللہ سے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے بھی دشمنی ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ اولیاء اللہ کی محبت اور ان کی تعظیم نہایت ضروری اور ان سے بغض و عناد اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے خلاف اعلان جنگ فرماتا ہے۔ اولیاء اللہ کون ہیں؟ اس کے لئے ملاحظہ ہو (اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَاۗءَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ 62 ۝ښ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ 63؀ۭ) 010:062،063 لیکن محبت اور تعظیم کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی نام کی نذر ونیاز اور قبروں کو غسل دیا جائے اور ان پر چادریں چڑھائی جائیں اور انہیں حاجت روا، مشکل کشا، نافع وضار سمجھا جائے، ان کی قبروں پر دست بستہ قیام اور ان کی چوکھٹوں پر سجدہ کیا جائے وغیرہ جیسا کہ بدقسمتی سے اولیاء اللہ کی محبت کے نام پر یہ کاروبار لات ومنات فروغ پذیر ہے حالانکہ یہ محبت نہیں ہے ان کی عبادت ہے جو شرک اور ظلم عظیم ہے اللہ تعالیٰ اس فتنہ عبادت قبور سے محفوظ رکھے۔ البقرة
99 البقرة
100 البقرة
101 ١٠١۔ ١ اللہ تعالیٰ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت سی آیات بیّنات عطا کی ہیں، جن کو دیکھ کر یہود کو بھی ایمان لے آنا چاہیے تھا۔ علاوہ ازیں خود ان کی کتاب تورات میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف کا ذکر اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا عہد موجود ہے، لیکن انہوں نے پہلے بھی کسی عہد کی کب پرواہ کی ہے جو اس عہد کی وہ کریں گے؟ عہد شکنی ان کے گروہ کی ہمیشہ عادت رہی ہے۔ حتٰی کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو بھی اس طرح پس پشت ڈال دیا، جیسے وہ اسے جانتے ہی نہیں۔ البقرة
102 ١٠٢۔ ١ یعنی ان یہودیوں نے اللہ کی کتاب اور اس کے عہد کی کوئی پرواہ نہیں کی، البتہ شیطان کے پیچھے لگ کر نہ صرف جادو ٹونے پر عمل کرتے رہے، بلکہ یہ دعوی کیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) (نعوذ باللہ) اللہ کے پیغمبر نہیں تھے بلکہ ایک جادوگر تھے اور جادو کے زور سے ہی حکومت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا حضرت سلیمان (علیہ السلام) جادو کا عمل نہیں کرتے تھے، کیونکہ جادو سحر تو کفر ہے، اس کفر کا ارتکاب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کیوں کر کرسکتے تھے؟ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں جادو گری کا سلسلہ بہت عام ہوگیا تھا، حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کے سد باب کے لئے جادو کی کتابیں لے کر اپنی کرسی یا تخت کے نیچے دفن کردیں۔ حضرت سلیمان کی وفات کے بعد ان شیاطین اور جادو گروں نے ان کتابوں کو نکال کر نہ صرف لوگوں کو دکھایا، بلکہ لوگوں کو یہ باور کرایا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی قوت و اقتدار کا راز یہی جادو کا عمل تھا اور اسی بنا پر ان ظالموں نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بھی کافر قرار دیا، جس کی تردید اللہ تعالیٰ نے فرمائی (ابن کثیر وغیرہ) واللہ عالم۔ البقرة
103 البقرة
104 ١٠٤۔ ١ رَاعِنَا کے معنی ہیں، ہمارا لحاظ اور خیال کیجئے۔ بات سمجھ میں نہ آئے تو سامع اس لفظ کا استعمال کر کے متکلم کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا، لیکن یہودی اپنے بغض و عناد کی وجہ سے اس لفظ کو تھوڑا سا بگاڑ کر استعمال کرتے تھے جس سے اس کے معنی میں تبدیلی اور ان کے جذبہ عناد کی تسلی ہوجاتی، مثلا وہ کہتے رَعِینَا (اَحمْق) وغیرہ جیسے وہ السلام علیکم کی بجائے السام علیکم (تم پر موت آئے) کہا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم ـ ' انْظُرْنَا ' کہا کرو۔ اس سے ایک تو یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ ایسے الفاظ جن میں تنقیص و اہانت کا شائبہ ہو، ادب و احترام کے پیش نظر کے طور پر ان کا استعمال صحیح نہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ کفار کے ساتھ افعال اور اقوال میں مشابہت کرنے سے بچا جائے تاکہ مسلمان (حدیث من تشبہ بقوم فھو منھم، ابوداؤد ( جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا) کی وعید میں داخل نہ ہوں۔ البقرة
105 البقرة
106 ١٠٧۔ ١ نسخ کے لغوی معنی تو منسوخ کرنے کے ہیں، لیکن شرعی اصطلاح میں ایک حکم بدل کر دوسرا حکم نازل کرنے کے ہیں یہ نسخ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا جیسے آدم (علیہ السلام) کے زمانے میں سگے بہن بھائی کا آپس میں نکاح جائز تھا بعد میں اسے حرام کردیا گیا وغیرہ، اسی طرح قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے بعض احکام منسوخ فرمائے اور ان کی جگہ نیا حکم نازل فرمایا۔ یہودی تورات کو ناقابل نسخ قرار دیتے تھے اور قرآن پر بھی انہوں نے بعض احکام کے منسوخ ہونے کی وجہ سے اعتراض کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی کہا کہ زمین اور آسمان کی بادشاہی اسی کے ہاتھ میں ہے، وہ جو مناسب سمجھے کرے، جس وقت جو حکم اس کی مصلحت و حکمت کے مطابق ہو، اسے نافذ کرے اور جسے چاہے منسوخ کر دے، یہ اس کی قدرت ہی کا مظاہرہ ہے۔ بعض قدیم گمراہوں (مثلا ابو مسلم اصفہانی معتزلی) اور آجکل کے بھی بعض متجددین نے یہودیوں کی طرح قرآن میں نسخ ماننے سے انکار کیا۔ لیکن صحیح بات وہی ہے جو مزکورہ سطروں میں بیان کی گئی ہے، سابقہ صالحین کا عقیدہ بھی اثبات نسخ ہی رہا ہے۔ البقرة
107 البقرة
108 ١٠٨۔ ١ مسلمانوں (صحابہ (رض) کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم یہودیوں کی طرح اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ازراہ سرکشی غیر ضروری سوالات مت کیا کرو۔ اس میں اندیشہ کفر ہے۔ البقرة
109 البقرة
110 یہودیوں کو اسلام اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو حسد اور عناد تھا اس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کو دین اسلام سے پھیرنے کی مذموم سعی کرتے رہتے تھے۔ مسلمانوں کو کہا جا رہا ہے کہ تم صبر اور درگزر سے کام لیتے ہوئے ان احکام و فرائض اسلام کو بجا لاتے رہو۔ جن کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ البقرة
111 ١١١۔ ١ یہاں اہل کتاب کے اس غرور اور فریب نفس کو پھر بیان کیا جا رہا ہے جس میں وہ مبتلا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں جن کے لئے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ البقرة
112 ١١٢۔ ١ (اَسْلَمَ وَ جْھَہ لِلّٰہِ) 002:112 کا مطلب ہے محض اللہ کی رضا کے لئے کام کرے اور (وَ ھُوَ مُحْسِنُ) کا مطلب ہے اخلاص کے ساتھ پیغمبر آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے مطابق۔ قبولیت عمل کے لئے یہ دو بنیادی اصول ہیں اور نجات اخروی انہی اصولوں کے مطابق کئے گئے اعمال صالحہ پر مبنی ہے نہ کہ محض آرزووں پر۔ البقرة
113 ١١٣۔ ١ یہودی تورات پڑھتے ہیں جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق موجود ہے، لیکن اس کے باوجود یہودی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکفیر کرتے تھے۔ عیسائیوں کے پاس انجیل موجود ہے جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور تورات کے مِنْ عِنْد اللہ ہونے کی تصدیق ہے اس کے باوجود یہ یہودیوں کی تکفیر کرتے ہیں، یہ گویا اہل کتاب کے دونوں فرقوں کے کفر و عناد اور اپنے اپنے بارے میں خوش فہمیوں میں مبتلا ہونے کو ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ١١٣۔ ٢ اہل کتاب کے مقابلے میں عرب کے مشرکین ان پڑھ تھے، اس لئے انہیں بے علم کہا گیا، لیکن وہ بھی مشرک ہونے کے باوجود یہود اور نصاریٰ کی طرح، اس باطل میں مبتلا تھے کہ وہ یہ حق پر ہیں۔ اسی لئے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صابی یعنی بےدین کہا کرتے تھے۔ البقرة
114 ١١٤۔ ١ جن لوگوں نے مسجدوں میں اللہ کا ذکر کرنے سے روکا، یہ کون ہیں؟ ان کے بارے میں مفسرین کی دو رائے ہیں، ایک رائے یہ ہے کہ اس سے مراد عیسائی ہیں، جنہوں نے بادشاہ روم کے ساتھ ملکر بیت المقدس میں یہودیوں کو نماز پڑھنے سے روکا اور اس کی تخریب میں حصہ لیا، لیکن حافظ ابن کثیر نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے اس کا مصداق مشرکین مکہ کو قرار دیا، جنہوں نے ایک تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کردیا اور یوں خانہ کعبہ میں مسلمانوں کو عبادت سے روکا۔ پھر صلح حدیبیہ کے موقعے پر بھی یہی کردار دہرایا اور کہا کہ ہم اپنے آباو اجداد کے قاتلوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے، حالانکہ خانہ کعبہ میں کسی کو عبادت سے روکنے کی اجازت اور روایت نہیں تھی۔ ١١٤۔ ٢ تخریب اور بربادی صرف یہی نہیں ہے اسے گرا دیا جائے اور عمارت کو نقصان پہنچایا جائے، بلکہ ان میں اللہ کی عبادت اور ذکر سے روکنا، اقامت شریعت اور مظاہر شرک سے پاک کرنے سے منع کرنا بھی تخریب اور اللہ کے گھروں کو برباد کرنا ہے۔ ١١٤۔ ٣ یہ الفاظ خبر کے ہیں، لیکن مراد اس سے یہ خواہش ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں ہمت اور غلبہ عطا فرمائے تو تم ان مشرکین کو اس میں صلح اور جزیے کے بغیر رہنے کی اجازت نہ دینا۔ چنانچہ جب ٨ ہجری میں مکہ فتح ہوا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان فرمایا آئندہ سال کعبہ میں کسی مشرک کو حج کرنے کی اور ننگا طواف کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور جس سے جو معاہدہ ہے، معاہدہ کی مدت تک اسے یہاں رہنے کی اجازت ہے، بعض نے کہا کہ یہ خوشخبری ہے اور پیش گوئی ہے کہ عنقریب مسلمانوں کو غلبہ ہوجائے گا اور یہ مشرکین خانہ کعبہ میں ڈرتے ہوئے داخل ہونگے کہ ہم نے جو مسلمانوں پر زیادتیاں کی ہیں انکے بدلے میں ہمیں سزا سے دو چار یا قتل کردیا جائے۔ چنانچہ جلد ہی یہ خوشخبری پوری ہوگئی۔ البقرة
115 ١١٥۔ ہجرت کے بعد جب مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے تو مسلمانوں کو اس کا رنج تھا، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جب بیت المقدس سے پھر خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہوا تو یہودیوں نے طرح طرح کی باتیں بنائیں، بعض کے نزدیک اس کے نزول کا سبب سفر میں سواری پر نفل نماز پڑھنے کی اجازت ہے کہ سواری کا منہ کدھر بھی ہو، نماز پڑھ سکتے ہو۔ کبھی چند اسباب جمع ہوجاتے ہیں اور ان سب کے حکم کے لئے ایک ہی آیت نازل ہوجاتی ہے۔ ایسی آیتوں کی شان نزول میں متعدد روایات مروی ہوتی ہیں، کسی روایت میں ایک سبب نزول کا بیان ہوتا ہے اور کسی میں دوسرے کا۔ یہ آیت بھی اسی قسم کی ہے۔ البقرة
116 البقرة
117 ١١٧۔ ١ یعنی وہ اللہ تو ہے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز کا مالک ہے، ہر چیز اس کی فرمانبردار ہے، بلکہ آسمان کا بغیر کسی نمونے کے بنانے والا بھی وہی ہے۔ علاوہ ازیں وہ جو کام کرنا چاہے اس کے لئے اسے صرف لفظ کن کافی ہے۔ ایسی ذات کو بھلا اولاد کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے۔ البقرة
118 ١١٨۔ ١ اس سے مراد مشرکین عرب ہیں جنہوں نے یہودیوں کی طرح مطالبہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے براہ راست گفتگو کیوں نہیں کرتا، یا کوئی بڑی نشانی نہیں دکھا دیتا ؟ جسے دیکھ کر ہم مسلمان ہوجائیں جس طرح کہ (وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ یَنْۢبُوْعًا 90 ۝ ۙ اَوْ تَکُوْنَ لَکَ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْہٰرَ خِلٰلَہَا تَفْجِیْرًا 91 ۝ ۙ اَوْ تُسْقِطَ السَّمَاۗءَ کَمَا زَعَمْتَ عَلَیْنَا کِسَفًا اَوْ تَاْتِیَ باللّٰہِ وَالْمَلٰۗیِٕکَۃِ قَبِیْلًا 92 ۝ ۙ اَوْ یَکُوْنَ لَکَ بَیْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰی فِی السَّمَاۗءِ ۭ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتّٰی تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتٰبًا نَّقْرَؤُہٗ ۭ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ہَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا 93؀ۧ )،093 017:090، میں اور دیگر مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے۔ البقرة
119 البقرة
120 ١٢٠۔ ١ یعنی یہودیت یا نصرانیت اختیار کرلے۔ ١٢٠۔ ٢ جو اب اسلام کی صورت میں ہے، جس کی طرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت دے رہے ہیں، نہ کہ تحریف شدہ یہودیت و نصرانیت۔ ١٢٠۔ ٣ یہ اس بات پر وعید ہے کہ علم آجانے کے بعد بھی اگر محض ان پر خود غلط لوگوں کو خوش کرنے کے لئے ان کی پیروی کی تو تیرا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ یہ دراصل امت محمدیہ کو تعلیم دی جا رہی ہے کہ اہل بدعت اور گمراہوں کی خوشنودی کے لئے وہ بھی ایسا کام نہ کریں، نہ دین میں مداخلت اور بے جا دخل کا ارتکاب کریں۔ البقرة
121 ١٢١۔ ١ اہل کتاب کے لوگوں کے اخلاق و کردار کی ضروری تفصیل کے بعد ان میں جو کچھ لوگ صالح اور اچھے کردار کے تھے، اس آیت میں ان کی خوبیاں، اور ان کے مومن ہونے کی خبر دی جا رہی ہے۔ ان میں عبد اللہ بن سلام اور ان جیسے دیگر افراد ہیں، جن کو یہودیوں میں سے قبول اسلام کی توفیق حاصل ہوئی۔ ١٢١۔ ٢ وہ اس طرح پڑھتے ہیں جس طرح پڑھنے کا حق ہے کہ کئی مطلب بیان کئے گئے مثلا (١) خوب توجہ اور غور سے پڑھتے ہیں۔ جنت کا ذکر آتا ہے تو جنت کا سوال کرتے ہیں اور جہنم کا ذکر آتا ہے تو اس سے پناہ مانگتے ہیں۔ (٢) اس کے حلال کو حلال، حرام کو حرام سمجھتے اور کلام الٰہی میں تحریف نہیں کرتے (جیسے دوسرے یہودی کرتے تھے (٣) اس میں جو کچھ تحریر ہے، لوگوں کو بتلاتے ہیں اس کی کوئی بات چھپاتے نہیں (٤) اس کی محکم باتوں پر عمل کرتے اور متشابہات پر ایمان رکھتے اور جو باتیں سمجھ میں نہیں آتیں انہیں علماء سے حل کراتے ہیں (٥) اس کی ایک ایک بات کی پیروی کرتے ہیں (فتح القدیر) واقعہ یہ ہے کہ حق کی تلاوت میں سارے ہی مفہوم داخل ہیں اور ہدایت ایسے لوگوں کے حصے میں آتی ہے جو مزکورہ باتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ ١٢١۔ ٣ اہل کتاب میں سے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان نہیں لائے گا وہ جہنم جائے گا (ابن کثیر) البقرة
122 البقرة
123 البقرة
124 ١٢٤۔ ١ کلمات سے مراد احکام شریعت، مناسک حج، ذبح پسر، ہجرت نار نمرود وغیرہ وہ تمام آزمائشیں ہیں، جن سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) گزارے گئے اور ہر آزمائش میں کامیاب اور کامران رہے، جس کے صلے میں امام الناس کے منصب پر فائز کئے گئے، چنانچہ مسلمان ہی نہیں، یہودی، عیسائی حتٰی کہ مشرکین عرب سب ہی میں ان کی شخصیت محترم اور پیشوا مانی جاتی ہے۔ ٢٤۔ ٢ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس خواہش کو پورا فرمایا، جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے، ہم نے نبوت اور کتاب کو اس کی اولاد میں کردیا، پس ہر نبی جسے اللہ نے مبعوث کیا اور ہر کتاب جو ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد نازل فرمائی، اولاد ابراہیم ہی میں یہ سلسلہ رہا (ابن کثیر) اس کے ساتھ ہی یہ فرما کر کہ میرا وعدہ ظالموں سے نہیں اس امر کی وضاحت فرمادی کہ ابراہیم کی اتنی اونچی شان اور عنداللہ منزلت کے باوجود اولاد ابراہیم میں سے جو ناخلف اور ظالم و مشرک ہوں گے۔ ان کی شقاوت و محرومی کو دور کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں پیمبر زادگی کی جڑ کاٹ دی گئی۔ اگر ایمان و عمل صالح نہیں، تو پیرزادگی اور صاحبزادگی کی بارگاہ الٰہی میں کیا حیثیت ہوگی؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے ( من بطا بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ) صحیح مسلم۔ (جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکے گا۔ البقرة
125 ١٢٥۔ ١ حضرت ابراہیم کی نسبت سے جو اس کے بانی اول ہیں، بیت اللہ کی دو خصوصیتیں اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمائی ایک (لوگوں کے لئے ثواب کی جگہ) دوسرے کے معنی ہیں لوٹ لوٹ کر آنے کی جگہ جو ایک مرتبہ بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہوجاتا ہے، دوبارہ سہ بارہ آنے کے لئے بیقرار رہتا ہے یہ ایسا شوق ہے جس کی کبھی تسکین نہیں ہوتی بلکہ روز افزوں رہتا ہے دوسری خصوصیت امن کی جگہ یعنی یہاں کسی دشمن کا خوف بھی نہیں رہتا چنانچہ زمانہء جاہلیت میں بھی لوگ حدود حرم میں کسی دشمن جان سے بدلہ نہیں لیتے تھے۔ اسلام نے اس کے احترام کو باقی رکھا، بلکہ اس کی مزید تاکید اور توسیع کی۔ ٢٥۔ ٢ مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے، جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تعمیر کعبہ کرتے رہے اس پتھر پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قدم کے نشانات ہیں اب اس پتھر کو ایک شیشے میں محفوظ کردیا گیا ہے، جسے ہر حاجی طواف کے دوران باآسانی دیکھتا ہے۔ اس مقام پر طواف مکمل کرنے کے بعد دو رکعت پڑھنے کا حکم ہے۔ آیت (وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی) 002:125 البقرة
126 ٢٦۔ ١ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعائیں قبول فرمائیں، یہ شہر امن کا گہوارہ بھی ہے اور وادی (غیر کھیتی والی) ہونے کے باوجود اس میں دنیا بھر کے پھل فروٹ اور ہر قسم کے غلے کی وہ فراوانی ہے جسے دیکھ کر انسان حیرت و تعجب میں ڈوب جاتا ہے۔ البقرة
127 البقرة
128 البقرة
129 ١٢٩۔ ١ یہ حضرت ابراہیم و اسماعیل (علیہ السلام) کی آخری دعا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے حضرت محمد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا۔ اسی لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور اپنی والدہ کا خواب ہوں (الفتح الربانی ج ٢٠، ص ١٨١، ١٨٩) ١٢٩۔ ٢ کتاب سے مراد قرآن مجید اور حکمت سے مراد حدیث ہے۔ تلاوت آیات کی تعلیم کتاب و حکمت کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی نفس تلاوت بھی مقصود اور باعث اجر و ثواب ہے۔ تاہم اگر ان کا مفہوم و مطلب بھی سمجھ میں آجاتا ہے تو سبحان اللہ، سونے پر سہاگہ ہے۔ لیکن اگر قرآن کا ترجمہ و مطلب نہیں آتا، تب بھی اس کی تلاوت میں کوتاہی جائز نہیں ہے۔ تلاوت بجائے خود ایک الگ اور نیک عمل ہے۔ تاہم اس کے مفہوم اور مطالب سمجھنے کی بھی حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے۔ ١٢٩۔ ٣ تلاوت و تعلیم کتاب اور تعلیم حکمت کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعث کا یہ چوتھا مقصد ہے کہ انہیں شرک و توہمات کی آلائشوں سے اور اخلاق و کردار کی کوتاہیوں سے پاک کریں۔ البقرة
130 ١٣٠۔ ١ عربی زبان میں رَغِبَ کا صلہ عَنْ تو اس کے معنی بے رغبتی ہوتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وہ عظمت و فضیلت بیان فرما رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا اور آخرت میں عطا فرمائی ہے یہ بھی وضاحت فرما دی کہ ملت ابراہیم سے اعراض اور بے رغبتی بے وقوفوں کا کام ہے، کسی عقلمند سے اس کا تصور نہیں ہو سکتا۔ البقرة
131 ١٣١۔ ١ یہ فضیلت و برگزیدگی انہیں اس لئے حاصل ہوئی کہ انہوں نے اطاعت و فرماں برداری کا بے مثال نمونہ پیش کیا۔ البقرة
132 ١٣٢۔ ١ حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب علیہما السلام نے وصیت اپنی اولاد کو بھی کی جو یہودیت نہیں اسلام ہی ہے، جیسا کہ یہاں بھی اس کی صراحت موجود ہے اور قرآن کریم میں دیگر متعدد مقامات پر بھی اس کی تفصیل آئے گی جیسے (ھٰٓاَنْتُمْ اُولَاۗءِ تُحِبُّوْنَھُمْ وَلَا یُحِبُّوْنَکُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بالْکِتٰبِ کُلِّھٖ ۚوَاِذَا لَقُوْکُمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا ۑ وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ ۭ قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌۢ بِذَات الصُّدُوْرِ) 003:119 اللہ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔ البقرة
133 ١٣٣۔ ١ یہود کو زجرو توبیخ کی جا رہی ہے تم یہ دعویٰ کرتے ہو کہ ابراہیم، یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو یہودیت پر قائم رہنے کی وصیت فرمائی تھی، تو کیا تم وصیت کے وقت موجود تھے؟ اگر وہ یہ کہیں کہ موجود تھے تو یہ جھوٹ اور بہتان ہوا اور اگر کہیں کہ حاضر نہیں تھے تو ان کا مزکورہ دعویٰ غلط ثابت ہوگیا کیونکہ انہوں نے جو وصیت کی وہ تو اسلام کی تھی نہ کہ یہودیت کی، یا عسائیت کی۔ تمام انبیاء کا دین اسلام ہی تھا اگرچہ شریعت اور طریقہ کار میں کچھ اختلاف رہا ہے، اس کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان الفاظ میں بیان فرمایا انبیاء کی جماعت اولاد علامات ہیں، ان کی مائیں مختلف (اور باپ ایک) ہے اور ان کا دین ایک ہی ہے۔ البقرة
134 ١٣٤۔ ١ یہ بھی یہود کو کہا جا رہا ہے کہ تمہارے آباواجداد جو انبیاء و صالحین ہو گزرے ہیں، ان کی طرف نسبت کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہوں نے جو کچھ کیا ہے، اس کا صلہ انہیں ہی ملے گا، تمہیں نہیں، تمہیں تو وہی کچھ ملے گا جو تم کماؤ گے۔ اصل چیز ایمان اور عمل صالح ہی ہے جو پچھلے صالحین کا بھی سرمایا تھا اور قیامت تک آنے والے انسانوں کی نجات کا بھی واحد ذریعہ ہے۔ البقرة
135 ١٣٥۔ ١ یہودی، مسلمانوں کو یہودیت کی اور عیسائی، عیسایت کی دعوت دیتے اور کہتے کہ ہدایت اسی میں ہے۔ اللہ تعلیٰ نے فرمایا، ان سے کہو ہدایت ملت ابراہیم کی پیروی میں ہے جو حنیف تھا (اللہ واحد کا پرستار اور سب سے کٹ کر اسی کی عبادت کرنے والا) وہ مشرک نہیں تھا۔ جب کہ یہودیت اور عیسائیت دونوں میں شرک کی امیزش موجود ہے۔ اور اب بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی شرک کے مظاہر عام ہیں اسلام کی تعلیمات اگرچہ بحمداللہ قرآن و حدیث میں محفوظ ہیں جن میں توحید کا تصور بالکل بے غبار اور نہایت واضح ہے جس سے یہودیت اور ثنویت (دو خداؤں کے قائل مذاہب) سے اسلام کا امتیاز نمایاں ہے۔ لیکن مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کے اعمال عقائد میں جو مشرکانہ اقدار وتصورات در آئے ہیں اس نے اسلام کے امتیاز کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کردیا ہے۔ کیونکہ غیر مذاہب والوں کی دسترس براہ راست قرآن و حدیث تک تو نہیں ہوسکتی، وہ تو مسلمانوں کے عمل کو دیکھ کر ہی یہ اندازہ کریں گے کہ اسلام میں اور دیگر مشرکانہ تصورات سے آلودہ مذاہب کے مابین تو کوئی امتیاز ہی نظر نہیں آتا۔ اگلی آیت میں ایمان کا معیار بتلایا جارہا ہے۔ البقرة
136 ١٣٦۔ ١ یعنی ایمان یہ ہے کہ تمام انبیاء علیھم السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بھی ملا یا نازل ہوا سب پر ایمان لایا جائے، کسی بھی کتاب یا رسول کا انکار نہ کیا جائے۔ کسی ایک کتاب یا نبی کو ماننا، کسی کو نہ ماننا، یہ انبیاء کے درمیان تفریق ہے جس کو جائز نہیں رکھا۔ البتہ عمل اب صرف قرآن کریم کے ہی احکام پر ہوگا۔ پچھلی کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں پر نہیں کیونکہ ایک تو وہ اصلی حالت میں نہیں رہیں، تحریف شدہ ہیں، دوسرے قرآن نے ان سب کو منسوخ کردیا ہے البقرة
137 ١٣٧۔ ١ صحابہ کرام بھی اسی مزکورہ طریقے پر ایمان لائے تھے، اس لئے صحابہ کرام کی مثال دیتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ اسی طرح ایمان لائیں جس طرح سے صحابہ کرام ! تم ایمان لائے ہو تو پھر یقینا وہ ہدایت یافتہ ہوجائیں گے۔ اگر وہ ضد اور اختلاف میں منہ موڑیں گے، تو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ان کی سازشیں آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ کی کفایت کرنے والا ہے۔ چنانچہ چند سالوں میں ہی یہ وعدہ پورا ہوا اور بنو قینقاع اور بنو نضیر کو جلا وطن کردیا گیا اور بنو قریظہ قتل کئے گئے۔ تاریخی روایات میں ہے کہ حضرت عثمان کی شہادت کے وقت ایک مصحف عثمان ان کی اپنی گود میں تھا اور اس آیت کے جملہ ( فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہُ) 002:137 پر ان کے خون کے چھینٹے گرے بلکہ دھار بھی۔ کہا جاتا ہے یہ مصحف آج بھی ترکی میں موجود ہے۔ البقرة
138 ١٣٨۔ ١ عیسائیوں نے ایک زرد رنگ کا پانی مقرر کر رکھا ہے جو ہر عیسائی بچے کو بھی اور ہر اس شخص کو بھی دیا جاتا ہے جسکو عیسائی بنانا مقصود ہوتا ہے اس رسم کا نام ان کے ہاں پبتسمہ ہے۔ یہ ان کے نزدیک بہت ضروری ہے، اس کے بغیر وہ کسی کو پاک تصور نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی اور کہا اصل رنگ تو اللہ کا رنگ ہے۔ اس سے بہتر کوئی رنگ نہیں اور اللہ کے رنگ سے مراد وہ دین فطرت یعنی دین اسلام ہے۔ جس کی طرف ہر نبی نے اپنے اپنے دور میں اپنی اپنی امتوں کو دعوت دی۔ یعنی دعوت توحید۔ البقرة
139 ١٣٩۔ ١ کیا تم ہم سے اس بارے میں جھگڑتے ہو کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اسی کے لئے اخلاص و نیاز مندی کے جذبات رکھتے ہیں اور اسی کے احکامات کی پیروی کرنے سے اجتناب کرتے ہیں حالانکہ ہمارا ہی نہیں تمہارا بھی ہے اور تمہیں بھی اس کے ساتھ یہی معاملہ کرنا چاہیے جو ہم کرتے ہیں اور اگر تم ایسا نہیں کرتے تو تمہارا عمل تمہارے ساتھ، ہمارا عمل ہمارے ساتھ۔ ہم تو اسی کے لئے خاص عمل کا اہتمام کرنے والے ہیں۔ البقرة
140 ١٤٠۔ ١ تم کہتے ہو کہ یہ اور ان کی اولاد یہودی یا عیسائی تھی، جب کہ اللہ تعالیٰ اس کی نفی فرماتا ہے۔ اب تم ہی بتلاؤ کہ زیادہ علم اللہ کو ہے یا تمہیں۔ ١٤٠۔ ٢ تمہیں معلوم ہے کہ یہ انبیاء یہودی یا عیسائی نہیں تھے، اسی طرح تمہاری کتابوں میں آنحضرت کی نشانیاں بھی موجود ہیں، لیکن تم ان شہادتوں کو لوگوں سے چھپا کر ایک بڑے ظلم کا ارتکاب کر رہے ہو جو اللہ تعالیٰ سے خفیہ نہیں۔ البقرة
141 ١٤١۔ ١ اس آیت میں پھر کسب و عمل کی اہمیت بیان فرما کر بزرگوں کی طرف سے لگاؤ یا ان پر اعتماد کو بے فائدہ قرار دیا گیا۔ جس کو اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا اس کا سلسلہ اسے اگے نہیں بڑھائے گا۔ مطلب ہے کہ تمہارے خاندان کی نیکیوں سے تمہیں کوئی فائدہ اور ان کے گناہوں پر تم سے پوچھ گیچھ نہیں ہوگی بلکہ ان کے عملوں کی بابت تم سے یا تمہارے عملوں کی بابت ان سے نہیں پوچھا جائے گا آیت (وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی) 035:018۔ آیت (وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی) 053:039 کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ البقرة
142 ١٤٢۔ ١ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکے سے ہجرت کرکے مدینہ میں تشریف لے گئے ١٦/١٧ مہینے تک بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے حالانکہ آپ کی خواہش تھی کہ خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی جائے جو قبلہ ابراہیمی ہے اس کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا بھی فرماتے اور بار بار آسمان کی طرف نظر بھی اٹھاتے۔ بلآخر اللہ تعالیٰ نے تحویل کعبہ کا حکم دے دیا جس پر یہودیوں اور منافقین نے شور مچایا حالانکہ نماز اللہ کی ایک عبادت ہے اور عبادت میں عابد کو جس طرح حکم ہوتا ہے اسی طرح کرنے کا پابند ہوتا ہے اس لئے جس طرف اللہ نے رخ پھیر دیا اسی طرف پھر جانا ضروری تھا علاوہ ازیں جس اللہ کی عبادت کرنی ہے مشرق اور مغرب ساری سمتیں اسی کی ہیں اس لئے سمتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہر سمت میں اللہ کی عبادت ہو سکتی ہے بشرطیکہ اس سمت کو اختیار کرنے کا حکم اللہ نے دیا ہو۔ تحویل کعبہ کا یہ حکم نماز عصر کے وقت آیا اور عصر کی نماز خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے پڑھی گئی۔ البقرة
143 ١٤٣۔ ١ وسط کے لغوی معنی تو درمیان کے ہیں لیکن یہ بہتر اور افضل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہاں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی جس طرح تمہیں بہتر قبلہ عطا کیا گیا اسی طرح تمہیں سب سے افضل امت بھی بنایا گیا اور مقصد اس کا یہ ہے کہ تم لوگوں پر گواہی دو۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے (لِیَکُون الرَّسُولُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْ اشُھَدَآ ءَ عَلَی النَّاسِ) 022:028 رسول تم پر اور تم لوگوں پر گواہ ہو اس کی وضاحت بعض احادیث میں اس طرح آتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ پیغمبروں سے قیامت والے دن پوچھے گا کہ تم نے میرا پیغام لوگوں تک پہنچایا تھا وہ ہاں میں جواب دیں گے ٫اللہ تعالیٰ فرمائے گا تمہارا کوئی گواہ ہے؟ کہیں گے ہاں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت، چنانچہ یہ امت گواہی دے گی۔ ١٤٣۔ ٢ یہ تحویل قبلہ کی ایک غرض بیان کی گئی ہے، کہ مومنین صادقین تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اشارات کے منتظر رہا کرتے تھے اس لئے ان کے لئے ادھر سے ادھر پھر جانا کوئی مشکل معاملہ نہ تھا بلکہ ایک مقام پر تو عین نماز کی حالت میں جب کہ وہ رکوع میں تھے یہ حکم پہنچا تو انہوں نے رکوع میں ہی اپنا رخ خانہ کعبہ کی طرف پھیر لیا یہ مسجد قبلٰتین (یعنی وہ مسجد جس میں ایک نماز دو قبلوں کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی) کہلاتی ہے اور ایسا ہی واقعہ مسجد قبا میں بھی ہوا (لِنَعْلَمْ) ( تاکہ ہم جان لیں) اللہ کو تو پہلے بھی علم تھا اس کا مطلب ہے تاکہ ہم اہل یقین کو اہل شک سے علیحدہ کردیں تاکہ لوگوں کے سامنے بھی دونوں قسم کے لوگ واضح ہوجائیں (فتح القدیر) ١٤٣۔ ٣ بعض صحابہ (رض) اجمعین کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوا کہ جو صحابہ (رض) اجمعین بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کے زمانے میں فوت ہوچکے تھے یا ہم جتنا عرصہ اس طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے ہیں یہ ضائع ہوگئیں یا شاید ان کا ثواب نہیں ملے گا اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نمازیں ضائع نہیں ہونگی اور ان کا پورا پورا ثواب ملے گا۔ یہاں نماز کو ایمان سے تعبیر کرکے یہ واضح کردیا کہ نماز کے بغیر ایمان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایمان تب ہی معتبر ہے جب نماز اور دیگر احکام الٰہی کی پابندی ہوگی۔ البقرة
144 ١٤٤۔ ١ اہل کتاب کے مختلف مقدس کتابوں میں خانہ کعبہ کے قبلہ آخر الانبیاء ہونے کے واضح اشارات موجود ہیں۔ اس لئے اس کا برحق ہونا انہیں یقینی طور پر معلوم تھا، مگر ان کا نسلی غرور و حسد قبول حق میں رکاوٹ بن گیا۔ البقرة
145 ١٤٥۔ ١ کیونکہ یہود کی مخالفت تو حسد و عناد کی بنا پر ہے، اس لئے دلائل کا ان پر کوئی اثر نہ ہوگا۔ گویا اثر پزیری کے لئے ضروری ہے کہ انسان کا دل صاف ہو۔ ١٤٥۔ ٢ کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی الٰہی کے پابند ہیں جب تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی طرف سے ایسا حکم نہ ملے آپ ان کے قبلے کو کیونکر اختیار کرسکتے ہیں۔ ١٤٥۔ ٣ یہود کا قبلہ بیت المقدس اور عیسائیوں کا بیت المقدس کی مشرقی جانب ہے۔ جب اہل کتاب کے یہ دو گروہ بھی ایک قبلے پر متفق نہیں تو مسلمانوں سے کیوں یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں ان کی موافقت کریں گے۔ ١٤٥۔ ٤ یہ وعید پہلے بھی گزر چکی ہے، مقصد امت کو متنبہ کرنا ہے کہ قرآن و حدیث کے علم کے باوجود اہل بدعت کے پیچھے لگنا، ظلم اور گمراہی ہے۔ البقرة
146 ١٤٦۔ ١ یہاں اہل کتاب کے ایک فریق کو حق کے چھپانے کا مجرم قرار دیا گیا ہے کیونکہ ان کے ایک فریق عبد اللہ بن سلام (رض) جیسے لوگوں کا بھی جو اپنے صدق و صفائے باطنی کی وجہ سے مشرف بہ اسلام ہوا۔ البقرة
147 ١٤٧۔ ١ پیغمبر پر اللہ کی طرف سے جو بھی حکم اترتا ہے، وہ یقینا حق ہے اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ البقرة
148 ١٤٨۔ ١ یعنی ہر مذہب والے نے اپنا پسندیدہ قبلہ بنا رکھا ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے۔ ایک دوسرا مفہوم یہ کہ ہر ایک مذہب نے اپنا ایک راستہ اور طریقہ بنا رکھا ہے، جیسے قرآن مجید کے دوسرے مقام پر ہے۔ آیت ( لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا ۭوَلَوْ شَاۗءَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰیکُمْ) 005:048 یعنی اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور ضلالت دونوں کی وضاحت کے بعد انسان کو ان دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کرنے کی جو آزادی دی ہے، اس کی وجہ سے مختلف طریقے اور دستور لوگوں نے بنا لئے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب کو ایک ہی راستے یعنی ہدایت کے راستے پر چلا سکتا تھا، لیکن یہ سب اختیارات دینے سے مقصود ان کا امتحان ہے۔ اس لئے اے مسلمانوں تم تو خیر کی طرف سبقت کرو، یعنی نیکی اور بھلائی ہی کے راستے پر گامزن رہو یہ وحی الٰہی اور اتباع رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کا راستہ ہے جس سے دیگر محروم ہیں۔ البقرة
149 البقرة
150 ١٥٠۔ ١ قبلہ کی طرف منہ پھیرنے کا حکم تین مرتبہ دوہرایا گیا یا تو اس کی تاکید اور اہمیت واضح کرنے کے لئے یا چونکہ نسخ کا حکم پہلا تجربہ تھا اس لئے ذہنی خلجان دور کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اسے بار بار دھرا کر دلوں میں راسخ کردیا جائے۔ ایک علت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مرضی اور خواہش تھی وہاں اسے بیان کیا گیا ہے۔ دوسری علت، ہر اہل ملت اور صاحب دعوت کے لئے ایک مستقل مرکز کا وجود ہے وہاں اسے دہرایا۔ تیسری، علت مخالفین کے اعتراضات کا ازالہ ہے وہاں اسے بیان کیا گیا ہے (فتح القدیر) ١٥٠۔ ٢ یعنی اہل کتاب یہ نہ کہہ سکیں کہ ہماری کتابوں میں تو ان کا قبلہ خانہ کعبہ ہے اور نماز یہ بیت المقدس کی طرف پڑھتے ہیں۔ ١٥٠۔ ٣ یہاں ظَلَمُوْا سے مراد عناد رکھنے والے ہیں یعنی اہل کتب میں سے جو عناد رکھنے والے ہیں، وہ جاننے کے باوجود کہ پیغمبر آخری الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قبلہ خانہ کعبہ ہی ہوگا، وہ بطور عناد کہیں گے کہ بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کو اپنا قبلہ بنا کر یہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بلآخر اپنے آبائی دین ہی کی طرف مائل ہوگیا ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد مشرکین مکہ ہیں۔ ١٥٠۔ ٤ ظالموں سے نہ ڈرو۔ یعنی مشرکوں کی باتوں کی پروا مت کرو۔ انہوں نے کہا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارا قبلہ تو اختیار کرلیا، عنقریب ہمارا دین بھی اپنا لیں گے مجھ سے ڈرتے رہو، جو حکم میں دیتا ہوں اس کا بلا خوف عمل کرتے رہو۔ تحویل قبلہ کو اتمام نعمت اور ہدایت یافتگی سے تعبیر فرمایا کہ حکم الہی پر عمل کرنا یقینا انسان کو انعام و اکرام کا مستحق بھی بناتا ہے اور ہدایت کی کی توفیق بھی اسے نصیب ہوتی ہے۔ البقرة
151 ١٥١۔ ١ کما (جس طرح) کا تعلق ما قبل کلام سے ہے یعنی یہ تمام نعمت اور توفیق ہدایت اس طرح ملی جس طرح اس سے پہلے تمہارے میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہارا تزکیہ کرتا، کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا اور جن کا تمہیں علم نہیں وہ سکھاتا۔ البقرة
152 ١٥٢۔ ١ پس ان نعمتوں پر تم میرا ذکر کرو اور شکر کرو۔ کفران نعمت مت کرو۔ ذکر کا مطلب ہر وقت اللہ کو یاد کرنا ہے، یعنی اس کی تسبیح اور تکبیر بلند کرو اور شکر کا مطلب اللہ کی دی ہوئی قوتوں اور توانائیوں کو اس کی اطاعت میں صرف کرنا ہے۔ خداداد قوتوں کو اللہ کی نافرمانی میں صرف کرنا، یہ اللہ کی ناشکر گزاری (کفران نعمت) ہے شکر کرنے پر مزید احسانات کی نوید اور ناشکری پر عذاب شدید کی وعید ہے۔ جیسے (لَئِنْ شَکَرْ تُمْ لَاَزَیْدَنَّکُمْ ْ وَلَئِنَ کَفَرْ تُمْ اِنَّ عذَابِیْ لَشَدِیْد) 014:007 البقرة
153 ١٥٣۔ ١ انسان کی دو ہی حالتیں ہوتی ہیں آرام اور راحت (نعمت) یا تکلیف و پریشانی۔ نعمت میں شکر الہی کی تلقین اور تکلیف میں صبر اور اللہ سے مدد کی تاکید ہے۔ حدیث میں ہے ـ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اسے خوشی پہنچتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے۔ دونوں ہی حالتیں اس کے لئے خیر ہیں۔ (صحیح مسلم) صبر کی دو قسمیں ہیں، برے کام کے ترک اور اس سے بچنے پر صبر اور لذتوں کے قربان اور عارضی فائدوں کے نقصان پر صبر۔ دوسرا احکام الٰہی کے بجا لانے میں جو مشکلیں اور تکلیفیں آئیں، انہیں صبر اور ضبط سے برداشت کرنا۔ بعض لوگوں نے اس کو اس طرح تعبیر کیا ہے۔ اللہ کی پسندیدہ باتوں پر عمل کرنا چاہے وہ نفس اور بدن پر کتنی ہی گراں ہوں اور اللہ کی ناپسندیدگی سے بچنا چاہیے اگرچہ خواہشات و لذات اس کو اس کی طرف کتنا ہی کھنچیں۔ (ابن کثیر) البقرة
154 ١٥٤۔ ١ شہدا کو مردہ نہ کہنا ان کے اعزاز اور تکریم کے لئے ہے، یہ زندگی برزخ کی زندگی ہے جس کو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں یہ زندگی اعلٰے قدر مراتب انبیاء و مومنین، حتیٰ کہ کفار کو بھی حاصل ہے۔ شہید کی روح اور بعض روایات میں مومن کی روح بھی ایک پرندے کی طرح جنت میں جہاں چاہتی ہیں پھرتی ہیں دیکھیے (ھٰٓاَنْتُمْ اُولَاۗءِ تُحِبُّوْنَھُمْ وَلَا یُحِبُّوْنَکُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بالْکِتٰبِ کُلِّھٖ ۚوَاِذَا لَقُوْکُمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا ۑ وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ ۭ قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌۢ بِذَات الصُّدُوْرِ ١١٩؁) 003:119 (ابن کثیر) البقرة
155 البقرة
156 البقرة
157 ١٥٧۔ ١ ان آیات میں صبر کرنے والوں کے لئے خوشخبریاں ہیں۔ حدیث میں نقصان کے وقت (اِناَّ لِلّٰہِ وَ اناَّاِ لَیْہِ رَجِعُوْنَ) 002:156 اور اللَّھُمْ اَجَرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ پڑھنے کی بھی فضیلت اور تاکید آئی ہے۔ البقرة
158 ١٥٨۔ ١ شَعْآئِرُ جس کے معنیٰ علامتیں ہیں یہاں حج کے وہ مناسک (مثلا سعی اور قربانی کو اشعار کرنا وغیرہ) مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں۔ ١٥٨۔ ٢ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا حج کا ایک رکن ہے۔ لیکن قرآن کے الفاظ (فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ) 002:158 سے بعض صحابہ کو یہ شبہ ہوا کہ شاید ضروری نہیں ہے۔ حضرت عائشہ (رض) کے علم میں جب یہ بات آئی تو انہوں نے فرمایا ( فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا) 002:158۔ جب لوگ مسلمان ہوئے تو ان کے ذہین میں آیا کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی تو شاید گناہ ہو، کیونکہ اسلام سے قبل دو بتوں کی وجہ سے سعی کرتے رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کے اس وہم کو اور خلش کو دور فرما دیا۔ اب یہ سعی ضروری ہے جس کا آغاز صفا سے اور خاتمہ مروہ پر ہوتا ہے۔ (ایسرالتفاسیر) البقرة
159 ١٥٩۔ ١ اللہ تعالیٰ نے جو باتیں اپنی کتاب میں نازل فرمائی ہیں انہیں چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ کے علاوہ دیگر لعنت کرنے والے بھی اس پر لعنت کرتے ہیں۔ حدیث میں ہے جس سے کوئی ایسی بات پوچھی گئی جس کا اس کو علم تھا اور اس نے اسے چھپایا تو قیامت والے دن آگ کی لگام اس کے منہ میں دی جائے گی۔ البقرة
160 البقرة
161 ١٦١۔ ١ اس سے معلوم ہوا کہ جن کی بابت یقینی علم ہے کہ ان کا خاتمہ کفر پر ہوا ہے ان پر لعنت جائز ہے لیکن اس کے علاوہ کسی بھی بڑے سے بڑے گنہگار مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ ممکن ہے مرنے سے پہلے اس نے توبہ کرلی ہو یا اللہ نے اس کے دیگر نیک اعمال کی وجہ سے اس کی غلطیوں پر قلم عفو پھیر دیا ہو۔ جس کا علم ہمیں نہیں ہوسکتا البتہ جن بعض معاصی پر لعنت کا لفظ آیا ہے ان کے مرتکبین کی بابت کہا جا سکتا ہے کہ یہ لعنت والے کام کر رہے ہیں ان سے اگر انہوں نے توبہ نہ کی تو یہ بارگاہ الٰہی میں ملعون قرار پا سکتے ہیں۔ البقرة
162 البقرة
163 ١٦٣۔ ١ اس آیت میں پھر دعوت توحید دی گئی ہے۔ یہ دعوت توحید مشرکین مکہ کے لئے ناقابل فہم تھی، انہوں نے کہا (کیا اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا دیا یہ تو بڑی عجیب بات ہے) اس لئے اگلی آیت میں اس توحید کے دلائل بیان کیے جا رہے ہیں۔ البقرة
164 ١٦٤۔ ١ یہ آیت اس لحاظ سے بڑی جامع ہے کہ کائنات کی تخلیق اور اس کے نظم و تدبیر کے متعلق سات اہم امور کا اس میں یکجا تذکرہ ہے، جو کسی آیت میں نہیں ١۔ آسمان اور زمین کی پیدائش، جن کی وسعت و عظمت محتاج بیان نہیں۔ ٢۔ رات اور دن کا یکے بعد دیگرے آنا، دن کو روشنی اور رات کو اندھیرا کردینا تاکہ کاروبار معاش بھی ہو سکے اور آرام بھی۔ پھر رات کا لمبا اور دن کا چھوٹا ہونا اور پھر اس کے برعکس دن کا لمبا اور رات کا چھوٹا ہونا۔ ٣۔ سمندر میں کشتیوں اور جہازوں کا چلنا، جن کے ذریعے سے تجارتی سفر بھی ہوتے ہیں اور ٹنوں کے حساب سے سامان رزق و آسائش ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔ ٤۔ بارش جو زمین کی شادابی و روئیدگی کے لئے نہایت ضروری ہے۔ ٥۔ ہر قسم کے جانوروں کی پیدائش، جو نقل و حمل، کھیتی باڑی اور جنگ میں بھی کام آتے ہیں اور انسانی خوراک کی بھی ایک بڑی مقدار ان سے پوری ہوتی ہے۔ ٦۔ ہر قسم کی ہوائیں ٹھنڈی بھی گرم بھی، بارآور بھی اور غیر بارآور بھی، مشرقی مغربی بھی اور شمالی جنوبی بھی۔ انسانی زندگی اور ان کی ضروریات کے مطابق۔ ٧۔ بادل جنہیں اللہ تعالیٰ جہاں چاہتا ہے، برساتا ہے۔ یہ سارے امور کیا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی وحدانیت پر دلالت نہیں کرتے، یقینا کرتے ہیں۔ کیا اس تخلیق میں اور اس نظم و تدبیر میں اس کا کوئی شریک ہے؟ نہیں۔ یقینا نہیں۔ تو پھر اس کو چھوڑ کر دوسروں کو معبود اور حاجت روا سمجھنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ البقرة
165 ١٦٥۔ ١ مذکورہ دلائل کے باوجود ایسے لوگ ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو شریک بنا لیتے ہیں اور ان سے اسی طرح کی محبت کرتے ہیں جس طرح اللہ سے کرنی چاہیے، بعثت محمدی کے وقت ہی ایسا نہیں تھا بلکہ شرک کے یہ مظاہر آج بھی عام ہیں، بلکہ اسلام کے نام لیواؤں کے اندر بھی یہ بیماری گھر کرگئی ہے۔ انہوں نے نہ صرف غیر اللہ اور پیروں فقیروں اور سجادہ نشینوں کو اپنا ماوی وملجا اور قبلہ حاجات بنارکھا ہے بلکہ ان سے ان کی محبت، اللہ سے بھی زیادہ ہے اور توحید کا وعظ ان کو بھی اسی طرح کھلتا جس طرح مشرکین مکہ کو اس سے تکلیف ہوتی تھی جس کا نقشہ اللہ نے اس آیت میں کھینچا ہے آیت ( وَاِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحْدَہُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَۃِ ۚ وَاِذَا ذُکِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ) 039:045 تاہم اہل ایمان کو مشرکین کے برعکس اللہ تعالیٰ ہی سے سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔ کیونکہ مشرکین جب سمندر میں پھنس جاتے ہیں تو وہاں انہیں اپنے معبود بھول جاتے ہیں اور وہاں صرف اللہ ہی کو پکارتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین سخت مصیبت میں مدد کے لئے صرف ایک اللہ کو پکارتے ہیں۔ البقرة
166 البقرة
167 ف ١ آخرت میں پیروں اور گدی نشینوں کی بے بسی اور بے وفائی پر مشرکین حسرت کریں گے لیکن ان کو وہاں اس حسرت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا وہ کہیں گے کاش دنیا میں ہی وہ شرک سے توبہ کرلیں البقرة
168 ١٦٨۔ ١ یعنی شیطان کے پیچھے لگ کر اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام مت کرو۔ جس طرح مشرکین نے کیا اپنے بتوں کے نام وقف کردہ جانوروں کو وہ حرام کرلیتے تھے، جس کی تفصیل سورۃ الا نعام میں آئے گی۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو حنیف پیدا کیا پس شیطان نے ان کو دین سے گمراہ کردیا اور جو چیزیں میں نے ان کے لئے حلال کی تھیں وہ اس نے ان پر حرام کردیں۔ (صحیح مسلم کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا باب الصفات التی یعرف بھافی الدنیا اھل الجنۃ واھل النار البقرة
169 البقرة
170 ١٧٠۔ ١ آج بھی اہل بدعت کو سمجھایا جائے کہ ان بدعات کی دین میں کوئی اصل نہیں تو وہ بھی جواب دیتے ہیں کہ یہ رسمیں تو ہمارے آباؤ اجداد سے چلی آرہی ہیں۔ حالانکہ آباؤ جداد بھی دینی بصیرت سے بے بہرہ اور ہدایت سے محروم رہ سکتے ہیں اس لئے دلائل شریعت کے مقابلے میں آباء پرستی کی پیروی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس دلدل سے نکالے۔ البقرة
171 ١٧١۔ ١ ان کافروں کی مثال جنہوں نے تقلید آباء میں اپنی عقل و فہم کو معطل کر رکھا ہے ان جانوروں کی طرح ہے جن کو چرواہا بلاتا اور پکارتا ہے وہ جانور آواز تو سنتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ انہیں کیوں بلایا اور پکارا جا رہا ہے؟ اسی طرح یہ آباؤ اجداد کی تقلید کرنے والے بھی بہرے ہیں کہ حق کی آواز نہیں سنتے، گونگے ہیں کہ ان کی زبان سے حق نہیں نکلتا، اندھے ہیں کہ حق کو دیکھنے سے عاجز ہیں اور بے عقل ہیں کہ دعوت حق اور دعوت توحید و سنت کے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہاں دعا سے قریب کی آواز اور ندا سے دور کی آواز مراد ہے البقرة
172 ١٧٢۔ ١ اس میں اہل ایمان کو ان تمام چیزوں کے کھانے کا حکم ہے جو اللہ نے حلال کی ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی تاکید ہے۔ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ اللہ کی حلال کردہ چیزیں ہی پاک ہیں حرام کردہ اشیاء پاک نہیں ہیں چاہے وہ اپنے نفس کو کتنی ہی اچھی کیوں نہ لگیں (جیسے اہل یورپ کو سور کا گوشت بڑا پسند ہے) دوسرا یہ کہ بتوں کے نام پر منسوب جانوروں اور اشیا کو مشرکین اپنے اوپر جو حرام کرلیتے تھے (جس کی تفصیل سورۃ الا نعام میں ہے) مشرکین کا یہ عمل غلط ہے اور اس طرح ایک حلال چیز حرام نہیں ہوتی تم ان کی طرح ان کو حرام مت کرو (حرام صرف وہی ہیں جس کی تفصیل اس کے بعد والی آیت میں ہے) تیسرا یہ کہ اگر تم صرف ایک اللہ کے عبادت گزار ہو تو ادائے شکر کا اہتمام کرو۔ البقرة
173 ١٧٣۔ ١ اس آیت میں چار حرام کردہ چیزوں کا ذکر ہے لیکن اسے کلمہ حصر (انما) کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس سے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حرام صرف یہی چار چیزیں ہیں جبکہ ان کے علاوہ بھی کئی چیزیں ہیں جو حرام ہیں۔ اس لئے اول تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حصر ایک خاص سیاق میں آیا ہے یعنی مشرکین کے اس فعل کے ضمن میں کہ وہ حلال جانوروں کو بھی حرام قرار دے لیتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ حرام نہیں حرام تو صرف یہ ہیں۔ اس لئے یہ حصر اضافی ہے یعنی اس کے علاوہ بھی دیگر محرمات ہیں جو یہاں مذکور نہیں۔ دوسرا حدیث میں دو اصول جانوروں کی حلت وحرمت کے لئے بیان کر دئیے گئے ہیں وہ آیت کی صحیح تفسیر کے طور پر سامنے رہنے چاہئیں۔ درندوں میں ذوناب (وہ درندہ جو دانتوں سے شکار کرے) اور پرندوں میں ذومخلب (جو پنجے سے شکار کرے) حرام ہیں تیسرے جن جانوروں کی حرمت حدیث سے ثابت ہے مثلا گدھا کتا وغیرہ وہ بھی حرام ہیں جس سے اس بات کی طرف اشارہ نکلتا ہے کہ حدیث بھی قرآن کریم کی طرح دین کا ماخذ اور دین میں حجت ہے اور دین دونوں کے ماننے سے مکمل ہوتا ہے نہ کہ حدیث کو نظر انداز کر کے صرف قرآن سے۔ مردہ سے مراد وہ حلال جانور ہے جو بغیر ذبح کیے طبعی طور پر یا کسی حادثے سے (جس کی تفصیل المائدہ میں ہے) مر گیا ہو یا شرعی طریقے کے خلاف اسے ذبح کیا گیا ہو مثلا گلا گھونٹ دیا جائے یا پتھر اور لکڑی وغیرہ سے مارا جائے یا جس طرح آجکل مشینی ذبح کا طریقہ ہے اس میں جھٹکے سے مارا جاتا ہے البتہ حدیث میں دو مردار جانور حلال قرار دیئے گئے ہیں ایک مچھلی دوسری ٹڈی وہ اس حکم میتہ سے مستثنی ہیں خون سے مراد دم مسفوح ہے یعنی ذبح کے وقت جو خون نکلتا اور بہتا ہے گوشت کے ساتھ جو خون لگا رہ جاتا ہے وہ حلال ہے یہاں بھی دو خون حدیث کی رو سے حلال ہیں کلیجی اور تلی۔ خنزیر یعنی سور کا گوشت۔ سور بے غیرتی میں بدترین جانور ہے اللہ نے اسے حرام قرار دیا ہے (وما اھل) وہ جانور یا کوئی اور چیز جسے غیر اللہ کے نام پر پکارا جائے اس سے مراد وہ جانور ہیں جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے جائیں جیسے مشرکین عرب لات وعزی وغیرہ کے ناموں پر ذبح کرتے تھے یا آگ کے نام پر جیسے مجوسی کرتے تھے۔ اور اسی میں وہ جانور بھی آجاتے ہیں جو جاہل مسلمان فوت شدہ بزرگوں کی عقیدت ومحبت ان کی خوشنودی وتقرب حاصل کرنے کے لئے یا ان سے ڈرتے اور امید رکھتے ہوئے قبروں اور آستانوں پر ذبح کرتے ہیں یا مجاورین کو بزرگوں کی نیاز کے نام پر دے آتے ہیں (جیسے بہت سے بزرگوں کی قبروں پر بورڈ لگے ہوئے ہیں مثلا داتا صاحب کی نیاز کے لئے بکرے یہاں جمع کرائے جائیں ان جانوروں کو چاہے ذبح کے وقت اللہ ہی کا نام لے کر ذبح کیا جائے یہ حرام ہی ہونگے کیونکہ اس سے مقصود رضائے الہی نہیں رضائے اہل قبور اور تعظیم لغیر اللہ یا خوف یا رجاء میں غیر اللہ (غیر اللہ سے مافوق الاسباب طریقے سے ڈر یا امید) ہے جو شرک ہے اسی طریقے سے جانوروں کے علاوہ جو اشیاء بھی غیر اللہ کے نام پر نذر و نیاز کے اور چڑھاوے کی ہوں گی حرام ہوں گی جیسے قبروں پر لے جا کر یا وہاں سے خرید کر قبور کے اردگرد فقراء ومساکین پر دیگوں اور لنگروں کی یا مٹھائی اور پیسوں پر کی تقسیم یا وہاں صندوقچی میں نذر نیاز کے پیسے ڈالنا ہے یا عرس کے موقع پر وہاں دودھ پہنچانا یہ سب کام حرام اور ناجائز ہیں کیونکہ یہ سب غیر اللہ کی نذر و نیاز کی صورتیں ہیں اور نذر بھی نماز روزہ وغیرہ عبادات کی طرح ایک عبادت ہے اور عبادات کی ہر قسم صرف ایک اللہ کے لئے مخصوص ہے اسی لئے حدیث میں ہے (ملعون من ذبح لغیراللہ) صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ البانی ج ٢ ص ١٠٢٤) جس نے غیر اللہ کے نام جانور ذبح کیا وہ ملعون ہے۔ تفسیر عزیزی میں بحوالہ تفسیر نیشابوری ہے اجمع العلماء لوان مسلما ذبح ذبیحۃ یرید بذبحھا التقرب الی غیر اللہ صار مرتدا وذبیحتہ ذبیحۃ مرتد (تفسیر عزیزی ص ٦١١ بحوالہ اشرف الحواشی علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کسی مسلمان نے کوئی جانور غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کیا تو وہ مرتد ہوجائے گا اور اس کا ذبیحہ ایک مرتد کا ذبیحہ ہوگا۔ البقرة
174 البقرة
175 البقرة
176 البقرة
177 ١٧٧۔ ١ یہ آیت قبلے کے ضمن میں ہی نازل ہوئی۔ ایک تو یہودی اپنے قبلے کو (جو بیت المقدس کا مغربی حصہ ہے) اور نصاری اپنے قبلے کو ( جو بیت المقدس کا مشرقی حصہ ہے) بڑی اہمیت دے رہے تھے اور اس پر فخر کر رہے تھے۔ دوسری طرف مسلمان تحویل قبلہ پر چہ مگوئیاں کر رہے تھے جس سے بعض دفعہ رنجیدہ دل ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرلینا بذات خود کوئی نیکی نہیں ہے بلکہ یہ تو صرف مرکزیت اور اجتماعیت کے حصول کا ایک طریقہ ہے، اصل نیکی تو ان عقائد پر ایمان رکھنا ہے جو اللہ نے بیان فرمائے اور ان اعمال و اخلاق کو اپنانا ہے جس کی تاکید اس نے فرمائی ہے۔ پھر آگے ان عقائد و اعمال کا بیان ہے۔ اللہ پر ایمان یہ ہے کہ اسے اپنی ذات و صفات میں یکتا اور تمام عیوب سے پاک قرآن و حدیث میں بیان کردہ تمام صفات باری تعالیٰ کو بغیر کسی تاویل کے تسلیم کیا جائے۔ آخرت کے روز جزا ہونے حشر نشر اور جنت اور دوزخ پر یقین رکھا جائے۔ الباساء سے تنگ دستی اور شدت فقر۔ الضراء سے نقصان یا بیماری اَلْبَاس سے لڑائی اور اس کی شدت مراد ہے۔ ان تینوں حالتوں میں صبر کرنا، یعنی احکامات الٰہی سے انحراف نہ کرنا نہایت کٹھن ہوتا ہے اس لئے ان حالتوں کو خاص طور پر بیان فرمایا ہے۔ البقرة
178 ١٧٨۔ ١ زمانہ جاہلیت میں کوئی نظم اور قانون تو تھا نہیں اس لیے زورآور قبیلے کمزور قبیلوں پر جس طرح چاہتے ظلم کا ارتکاب کرلیتے۔ ایک ظلم کی شکل یہ تھی کہ کسی طاقتور قبیلے کا کوئی مرد قتل ہوجاتا وہ صرف قاتل کو قتل کرنے کے بجائے قاتل کے قبیلے کے کئی مردوں کو بلکہ بسا اوقات پورے قبیلے ہی کو تہس نہس کرنے کی کوشش کرتے اور عورت کے بدلے مرد کو اور غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فرق و امتیاز کو ختم کرتے ہوئے کہ جو قاتل ہوگا قصاص (بدلے) میں اسی کو قتل کیا جائے گا۔ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ قصاص میں قاتل ہی کو قتل کیا جائے۔ (فتح القدیر) مزید دیکھیے سورۃ مائدہ آیت۔ ٤٥۔ ١٧٨۔ ٢ معافی کی دو سورتیں ہیں ایک بغیر معاوضہ یعنی دیت لئے بغیر محض رضائی الٰہی کے لئے معاف کردینا دوسری صورت میں قصاص کے بجائے دیت قبول کرلینا اگر یہ دوسری صورت اختیار کی جائے تو کہا جا رہا ہے کہ طالب دیت بھلائی کی پیروی کرے بغیر تنگ کئے اچھے طریقے سے دیت کی ادائیگی کرے۔ اولیائے مقتول نے اس کی جان بخشی کر کے اس پر جو احسان کیا ہے اس کا بدلہ احسان ہی کے ساتھ دے۔ ١٧٨۔ ٣ یہ تخفیف اور رحمت (یعنی قصاص) معافی یا دیت تین صورتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص تم پر ہوئی ہیں ورنہ اس سے قبل اہل تورات کے لئے قصاص یا معافی تھی دیت نہیں تھی اور اہل انجیل (عیسائیوں) میں صرف معافی ہی تھی قصاص تھا نہ دیت (ابن کثیر) ١٧٨۔ ٤ قبول دیت یا اخذ دیت کے بعد قتل بھی کر دے تو یہ سرکشی اور زیادتی ہے جس کی سزا اسے دنیا اور آخرت میں بھگتنی ہوگی۔ البقرة
179 ١٧٩۔ ١ جب قاتل کو یہ خوف ہوگا کہ میں بھی قصاص میں قتل کردیا جاؤں گا تو پھر اسے کسی کو قتل کرنے کی جرأت نہ ہوگی اور جس معاشرے میں یہ قانون قصاص نافذ ہوجاتا ہے وہاں یہ خوف معاشرے کو قتل اور خونریزی سے محفوظ رکھتا ہے جس سے معاشرے میں نہایت امن اور سکون رہتا ہے اس کا مشاہدہ آج بھی سعودی معاشرے میں کیا جا سکتا ہے جہاں اسلامی حدود کے نفاذ کی یہ برکات الحمد للہ موجود ہیں۔ کاش دوسرے ممالک بھی اسلامی حدود کا نفاذ کر کے اپنے عوام کو یہ پر سکون زندگی مہیا کرسکیں۔ البقرة
180 ١٨٠۔ ١ وصیت کرنے کا یہ حکم آیت مواریث کے نزول سے پہلے دیا گیا تھا اب یہ منسوخ ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے (یعنی ورثہ کے حصے مقر کر دئیے ہیں) پس اب کسی وارث کے لئے وصیت کرنا جائز نہیں البتہ اب ایسے رشتہ داروں کے لئے وصیت کی جا سکتی ہے جو وارث نہ ہوں یا راہ خیر میں خرچ کرنے کے لئے کی جا سکتی ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ حد ایک تہائی مال ہے اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کی جا سکتی۔ البقرة
181 البقرة
182 ١٨٢۔ ١ جَنَفًا (مائل ہونا) کا مطلب ہے غلطی یا بھول سے کسی ایک رشتہ دار کی طرف زیادہ مائل ہو کر دوسروں کی حق تلفی کرے اور اثمًا سے مراد ہے جان بوجھ کر ایسا کرے تو مراد گناہ کی وصیت ہے جس کا بدلنا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وصیت میں عدل و انصاف کا اہتمام ضروری ہے ورنہ دنیا سے جاتے جاتے بھی ظلم کا ارتکاب اس کے اخروی نجات کے نقط نظر سے سخت خطرناک ہے۔ البقرة
183 ١٨٣۔ ١ صیامُ، صومُ (روزہ) کا مصدر ہے جس کے شرعی معنی ہیں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور بیوی سے ہم بستری کرنے سے اللہ کی رضا کے لئے رکے رہنا یہ عبادت چونکہ نفس کی طہارت اور تزکیہ کے لئے بہت اہم ہے اس لئے اسے تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کیا گیا تھا۔ اس کا سب سے بڑا مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ اور تقویٰ انسان کے اخلاق وکردار کے سنوارنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ البقرة
184 ١٨٤۔ ١ یہ بیمار اور مسافر کو رخصت دے دی گئی ہے کہ بیماری یا سفر کی وجہ سے رمضان المبارک میں جتنے روزے نہ رکھ سکے ہوں وہ بعد میں رکھ کر گنتی پوری کرلیں۔ ١٨٤۔ ٢ یُطِیقُونَہُ کا ترجمہ یتجشمونہ (نہایت مشقت سے روزہ رکھ سکیں) کیا گیا ہے۔ یعنی جو شخص بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے جسے شفایابی کی امید نہ ہو روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرے وہ ایک مسکین کو کھانا بطور فدیہ دے دے لیکن زیادہ تر مفسرین نے اس کا ترجمہ طاقت ہی کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدا اسلام میں روزے کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے طاقت رکھنے والوں کو بھی رخصت دے دی گئی تھی کہ اگر وہ روزہ نہ رکھیں تو اس کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا دیا کریں۔ لیکن بعد میں (فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ) 002:185 کے ذریعے سے منسوخ کر کے ہر صاحب طاقت کے لئے روزہ فرض کردیا گیا تاہم زیادہ بوڑھے دائمی مریض کے لئے اب بھی یہ حکم ہے کہ وہ فدیہ دے دیں، دودھ پلانے والی عورتیں اگر مشقت محسوس کریں تو وہ مریض کے حکم میں ہونگی یعنی وہ روزہ نہ رکھیں بعد میں روزے کی قضا دیں۔ ١٨٤۔ ٣ جو خوشی سے ایک مسکین کے بجائے دو یا تین مسکینوں کو کھانا کھلا دے تو اس کے لئے زیادہ بہتر ہے۔ البقرة
185 ١٨٥۔ ١ رمضان میں نزول قرآن کا یہ مطلب نہیں کہ مکمل قرآن کسی ایک رمضان میں نازل ہوگیا بلکہ یہ ہے کہ رمضان کی شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اتار دیا گیا اور وہاں سے حسب حالات ٢ سالوں تک اترتا رہا (ابن کثیر)۔ اس لئے یہ کہنا قرآن رمضان میں یا لیلۃ القدر مبارکہ میں اترا یہ سب صیح ہے۔ کیونکہ لوح محفوظ سے تو رمضان میں ہی اترا ہے اور لیلۃ القدر اور لیلۃ المبارکہ یہ ایک ہی رات ہے یعنی قدر کی رات جو رمضان میں ہی آتی ہے۔ بعض کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ رمضان میں نزول قرآن کا آغاز ہوا اور وحی جو غار حرا میں آئی وہ رمضان میں آئی۔ اس اعتبار سے قرآن مجید اور رمضاں المبارک کا آپس میں نہایت گہرا تعلق ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس ماہ مبارک میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے اور جس سال آپ کا وصال ہوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمضان میں جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ دو مرتبہ دور کیا رمضان کی تین راتوں (٢٣۔ ٢٥۔ اور ٢٧) میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ (رض) کو باجماعت قیام اللیل بھی کرایا جس کو اب تراویح کہا جاتا ہے (صحیح ترمذی وسنن ابن ماجہ البانی)۔ البقرة
186 ١٨٦۔ ١ رمضان المبارک کے احکام و مسائل کے درمیان دعا کا مسئلہ بیان کر کے یہ واضح کردیا کہ رمضان المبارک میں دعا کی بڑی فضیلت ہے جس کا خوب اہتمام کرنا چاہیے خصوصا افطاری کے وقت کو قبولیت دعا کا خاص وقت بتلایا گیا ہے۔ تاہم قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے ان آداب شرائط کو ملحوظ رکھا جائے جو قرآن و حدیث میں بیان ہوئے ہیں۔ اسی طرح احادیث میں حرام خوراک سے بچنے اور خشوع و خضوع کا اہتمام کرنے کی تاکید بھی کی گئی ہے۔ البقرة
187 ١٨٧۔ ١ ابتدا اسلام میں ایک حکم یہ تھا کہ روزہ افطار کرنے کے بعد عشاء کی نماز یا سونے تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت تھی سونے کے بعد ان میں سے کوئی کام نہیں کیا جا سکتا تھا ظاہر بات ہے یہ پابندی سخت تھی اور اس پر عمل مشکل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ دونوں پابندیاں اٹھا لیں اور افطار سے لے کر صبح صادق تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت فرما دی۔ ١٨٧۔ ٢ یعنی رات ہوتے ہی (سورج غروب کے فورا بعد) روزہ افطار کرلو تاخیر مت کرو جیسا کہ حدیث میں بھی روزہ جلد افطار کرنے کی تاکید اور فضیلت آئی ہے دوسرا یہ کہ ایک روزہ افطار کئے بغیر دوسرا روزہ رکھ لینا اس سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہایت سختی سے منع فرمایا ہے۔ (کتب حدیث) ١٨٧۔ ٣ اعتکاف کی حالت میں بیوی سے مباشرت اور بوس و کنار کی اجازت نہیں ہے البتہ ملاقات اور بات چیت جائز ہے۔ اعتکاف کے لئے مسجد ضروری ہے چاہے مرد ہو چاہے عورت۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں نے بھی مسجد میں اعتکاف کیا اس لئے عورتوں کا اپنے گھروں میں اعتکاف میں بیٹھنا صحیح نہیں ہے البتہ مسجد میں ان کے لئے ہر چیز کا مردوں سے الگ انتظام کرنا ضروری ہے تاکہ مردوں سے کسی طرح اختلاط نہ ہو جب تک مسجد میں معقول محفوظ اور مردوں سے بالکل الگ انتظام نہ ہو عورتوں کو مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے یہ ایک نفلی عبادت ہے جب تک پوری طرح تحفظ نہ ہو اس نفلی عبادت سے گریز بہتر ہے فقہ کا اصول ہے۔ (درء المفاسد یقدم علی جلب المصالح) (مصالح کے اصول کے مقابلے میں مفاسد سے بچنا اور ان کو ٹالنا زیادہ ضروری ہے) البقرة
188 ١٨٨۔ ١ ایسے شخص کے بارے میں ہے جس کے پاس کسی کا حق ہو لیکن حق والے کے پاس ثبوت نہ ہو اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر وہ عدالت یا حاکم مجاز سے اپنے حق میں فیصلہ کروا لے اس طرح دوسرے کا حق غصب کرلے یہ ظلم ہے اور حرام ہے۔ عدالت کا فیصلہ ظلم اور حرام کو جائز اور حلال نہیں کرسکتا۔ یہ ظالم عند اللہ مجرم ہوگا (ابن کثیر) البقرة
189 ١٨٩۔ ١ انصار جاہلیت میں جب حج یا عمرہ کا احرام باندھ لیتے اور پھر کسی خاص ضرورت کے لئے گھر آنے کی ضرورت پڑجاتی تو دروازے سے آنے کے بجائے پیچھے سے دیوار پھلانگ کر اندر آتے، اس کو نیکی سمجھتے اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نیکی نہیں ہے۔ البقرة
190 ١٩٠۔ ١ اس آیت میں پہلی مرتبہ ان لوگوں سے لڑنے کی اجازت دی گئی جو مسلمانوں سے آمادہ قتل رکھتے تھے۔ تاہم زیادتی سے منع فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرو جن کا جنگ میں حصہ نہ ہو اسی طرح درخت وغیرہ جلا دینا یا جانوروں کو بغیر مصلحت کے مار ڈالنا بھی زیادتی ہے جس سے بچا جائے (ابن کثیر)۔ البقرة
191 ١٩١۔ ١ مکہ میں مسلمان چونکہ کمزور اور منتشر تھے اس لئے کفار سے قتال ممنوع تھا ہجرت کے بعد مسلمانوں کی ساری قوت مدینہ میں جمع ہوگئی تو پھر ان کو جہاد کی اجازت دے دی گئی۔ ابتداء میں آپ صرف انہی سے لڑتے جو مسلمانوں سے لڑنے میں پہل کرتے اس کے بعد اس میں مزید توسیع کردی گئی اور مسلمانوں نے حسب ضرورت کفار کے علاقوں میں بھی جا کر جہاد کیا قرآن کریم نے (اَعْندَا) زیادتی کرنے سے منع فرمایا اس لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے لشکر کو تاکید فرماتے کہ خیانت، بد عہدی اور مثلہ نہ کرنا نہ بچوں اور عورتوں اور گرجوں میں مصروف عبادت کرنے والوں کو قتل کرنا۔ اسی طرح درختوں کو جلانے اور حیوانات کو بغیر کسی مصلحت کے مارنے سے بھی منع فرمایا (ابن کثیر)۔ جس طرح کفار نے تمہیں مکہ سے نکالا تھا اسی طرح تم بھی ان کو مکہ سے نکال باہر کرو۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد جو لوگ مسلمان نہیں ہوئے انہیں مدت معاہدہ ختم ہونے کے بعد وہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا۔ فتنہ سے مراد کفر و شرک ہے یہ قتل سے بھی زیادہ سخت ہے اس لیے اس کو ختم کرنے کے لیے جہاد سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ ١٩١۔ ٢ حدود حرم میں قتال منع ہے لیکن اگر کفار اس کی حرمت کو ملحوظ نہ رکھیں اور تم سے لڑیں تو تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔ البقرة
192 البقرة
193 البقرة
194 ١٩٤۔ ١۔ ٦ ہجری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چودہ سو صحابہ (رض) اجمعین کو ساتھ لے کر عمرہ کے لئے گئے تھے لیکن کفار مکہ نے انہیں مکہ میں نہیں جانے دیا اور یہ طے پایا کہ آئندہ سال مسلمان تین دن کے لئے عمرہ کرنے کی غرض سے مکہ آ سکیں گے یہ مہینہ تھا جو حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جب دوسرے سال حسب معاہدہ اسی مہینے میں عمرہ کرنے کے لئے جانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں مطلب یہ ہے کہ اس دفعہ بھی اگر کفار مکہ اس مہینے کی حرمت پامال کر کے (گزشتہ سال کی طرح) تمہیں مکہ جانے سے روکیں تو تم بھی اس کی حرمت کو نظر انداز کر کے ان سے بھرپور مقابلہ کرو۔ حرمتوں کو ملحوظ رکھنے میں بدلہ ہے یعنی وہ حرمت کا خیال رکھیں تو تم بھی رکھو بصورت دیگر تم بھی حرمت کو نظر انداز کر کے کفار کو عبرت ناک سبق سکھاؤ (ابن کثیر)۔ البقرة
195 ١٩٥۔ ١ اس سے بعض نے ترک جہاد اور بعض نے گناہ پر گناہ کئے جانا مراد لیا ہے اور یہ ساری صورتیں ہلاکت کی ہیں جہاد چھوڑ دو گے یا جہاد میں اپنا مال صرف کرنے سے گریز کرو گے تو یقینا دشمن قوی ہوگا اور تم کمزور نتیجہ تباہی ہے۔ البقرة
196 ١٩٦۔ ١ یعنی حج اور عمرے کا احرام باندھ لو تو پھر اسکا پورا کرنا ضروری ہے چاہے نفلی حج و عمرہ ہو (امیر التفسیر) ١٩٦۔ ٢ اگر راستے میں دشمن یا شدید بیماری کی وجہ سے رکاوٹ ہوجائے تو ایک جانور بکری گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ جو بھی میسر ہو وہیں ذبح کر کے سر منڈوا لو اور حلال ہوجاؤ جیسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ نے وہیں حدیبیہ میں قربانیاں ذبح کیں تھیں اور حدیبیہ حرم سے باہر ہے (فتح القدیر) اور آئندہ سال اس کی قضا دو جیسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٦ ہجری والے عمرے کی قضا ٧ ہجری میں دی۔ ١٩٦۔ ٣ یعنی اس کو ایسی تکلیف ہوجائے کہ سر کے بال منڈوانے پڑجائیں تو اس کا فدیہ ضروری ہے حدیث کی رو سے ایسا شخص ٦ مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا ایک بکری ذبح کر دے یا تین روزے رکھے۔ ١٩٦۔ ٤ حج کی تین قسمیں ہیں۔ صرف حج کی نیت سے احرام باندھنا حج اور عمرہ کی ایک ساتھ نیت کر کے احرام باندھنا۔ ان دونوں صورتوں میں تمام مناسک حج کی ادائیگی سے پہلے احرام کھولنا جائز نہیں۔ ١٩٦۔ ٥ یعنی تمتع اور اس کی وجہ سے ہدیہ یا روزے رکھے اور یہ ان لوگوں کے لئے ہیں جو مسجد احرام کے رہنے والے نہ ہوں مراد اس سے حدود حرم میں یا اتنی مسافت پر رہنے والے ہیں کہ ان کے سفر پر قصر کا اطلاق نہ ہوسکتا ہو۔ (ابن کثیر بحوالہ ابن جریر) البقرة
197 ١٩٧۔ ١ اور یہ ہیں شوال، ذیقعدہ اور ذوا لحجہ کے پہلے دس دن۔ مطلب یہ ہے کہ عمرہ تو سال میں ہر وقت جائز ہے لیکن حج صرف مخصوص دنوں میں ہی ہوتا ہے اس لئے اسکا احرام حج کے مہینوں کے علاوہ باندھنا جائز نہیں۔ (ابن کثیر) ١٩٧۔ ٢ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث ہے جس نے حج کیا اور شہوانی باتوں اور فسقْ و فجور سے بچا وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے اس دن پاک تھا جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔ ١٩٧۔ ٣ تقویٰ سے مراد یہاں سوال سے بچنا ہے بعض لوگ بغیر زاد راہ لئے حج کے لئے گھر سے نکل پڑتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمارا اللہ پر توکل ہے اللہ نے توکل کے اس مفہوم کو غلط قرار دیا اور زاد راہ لینے کی تاکید کی۔ البقرة
198 ١٩٨۔ ١ فضل سے مراد تجارت اور کاروبار ہے یعنی سفر حج میں تجارت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ٢۔ ١٩٨ ذی الحجہ کو زوال آفتاب سے غروب شمس تک میدان عرفات میں وقوف حج کا سب سے اہم رکن ہے جس کی بابت حدیث میں کہا گیا ہے (الحج عرفۃ) (عرفات میں وقوف ہی حج ہے) یہاں مغرب کی نماز نہیں پڑھنی ہے بلکہ مزدلفہ پہنچ کر مغرب کی تین رکعات اور عشاء کی دو رکعات (قصر) جمع کر کے ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ پڑھی جائے گی مزدلفہ ہی کو مشعر حرام کہا گیا ہے کیونکہ یہ حرم کے اندر ہے یہاں ذکر الہی کی تاکید ہے یہاں رات گذارنی ہے فجر کی نماز غلس (اندھیرے) میں یعنی اول وقت میں پڑھ کر طلوع آفتاب تک ذکر میں مشغول رہا جائے طلوع آفتاب کے بعد منی جایا جائے۔ البقرة
199 ١٩٩۔ ١ مذکورہ بالا ترتیب کے مطابق عرفات جانا اور وہاں پر وقوف کر کے واپس آنا ضروری ہے لیکن عرفات چونکہ حرم سے باہر ہے اس لئے قریش مکہ عرفات تک نہیں جاتے تھے بلکہ مزدلفہ سے ہی لوٹ آتے تھے چنانچہ حکم دیا جا رہا ہے جہاں سے سب لوگ لوٹ کر آتے ہیں وہیں سے لوٹ کر آؤ یعنی عرفات سے۔ البقرة
200 ٢٠٠۔ ١ عرب کے لوگ فراغت کے بعد منٰی میں میلا لگاتے اور اپنے آباوجداد کے کارناموں کا ذکر کرتے مسلمانوں کو کہا جا رہا ہے جب تم ١٠ ذوی الحجہ کو کنکریاں مارنے قربانی کرنے، سر منڈانے، طواف کعبہ اور سعی صفا مروہ سے فارغ ہوجاؤ تو اس کے بعد جو تین دن منٰی میں قیام کرنا ہے وہاں خوب اللہ کا ذکر کرو کیونکہ جاہلیت میں تم اپنے آباوجداد کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ البقرة
201 ٢٠١۔ ١ یعنی اعمال خیر کی توفیق، اہل ایمان دنیا میں بھی دنیا طلب نہیں کرتے بلکہ نیکی کی ہی توفیق طلب کرتے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کثرت سے یہ پڑھتے تھے۔ طواف کے دوران ہر چکر کی الگ الگ دعا پڑھتے ہیں جو خود ساختہ ہیں ان کے بجائے طواف کے وقت یہی دعا پڑھی جائے۔ (رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً) 002:201 رکن یمانی اور حجراسود کے درمیان پڑھنا مسنون عمل ہے۔ البقرة
202 البقرة
203 ٢٠٣۔ ١ مراد ایام تشریق ہیں یعنی ١١، ١٢ اور ١٣ ذوالحجہ۔ ان میں ذکر الہی یعنی باآواز بلند تکبیرات مسنون ہیں صرف فرض نمازوں کے بعد ہی نہیں (جیسے کہ ایک کمزور حدیث کی بنیاد پر مشہور ہے) بلکہ ہر وقت یہ تکبیرات پڑھی جائیں۔ کنکریاں مارتے وقت ہر کنکری کے ساتھ تکبیر پڑھنی مسنون ہے۔ (اَ للّٰہُ اَکبَرْ، اللّٰہُ اَکبَر،ْ لَا اِلٰہَ اِلَّا، واللّٰہُ اَکبَر، اللّٰہُ اَکبَر وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُہ) ٢٠٣۔ ٢ رمی جماد (جمرات کو کنکریاں مارنا) ٣ دن افضل ہیں لیکن اگر کوئی دو دن (١١ اور ١٢ ذوالحجہ) کنکریاں مار کر واپس آجائے تو اس کی بھی اجازت ہے۔ البقرة
204 (١)۔ ٢٠٤۔ ١ بعض ضعیف روایات کے مطابق یہ آیت ایک منافق اخنس بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد سارے ہی منافقین اور منکرین ہیں جن میں یہ مذموم اوصاف پائے جائیں جو کہ اس کے ضمن میں بیان فرمائے ہیں۔ البقرة
205 البقرة
206 ٢٠٦۔ ١ تکبر اور غرور اسے گناہ پر ابھارتا ہے۔ عزت کے معنی غرور و انانیت ہیں۔ البقرة
207 ٢٠٧۔ ١ یہ آیت کہتے ہیں حضرت صہیب (رض) رومی کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جب وہ ہجرت کرنے لگے تو کافروں نے کہا یہ مال سب یہاں کا کمایا ہوا ہے اسے ہم ساتھ نہیں لے جانے دیں گے حضرت صہیب (رض) نے یہ سارا مال ان کے حوالے کردیا اور دین لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سن کر فرمایا صہیب نے نفع بخش تجارت کی دو مرتبہ فرمایا (فتح القدیر) لیکن یہ آیت بھی عام ہے جو تمام مومنین متقین اور دنیا کے مقابلے دین کو اور آخرت کو ترجیح دینے والوں کو شامل ہے کیونکہ اس قسم کی تمام آیات کے بارے میں لفظ عموم کا اعتبار ہوگا سبب نزول کے خصوص کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ پس اخنس بن شریق (جس کا ذکر پچھلی آیت میں ہوا) برے کردار کا ایک نمونہ ہے جو ہر اس شخص پر صادق آئے گا جو اس جیسے برے کردار کا حامل ہوگا اور صہیب (رض) خیر اور کمال ایمان کی ایک مثال ہیں ہر اس شخص کے لیے جو ان صفات خیر و کمال سے متصف ہوگا۔ البقرة
208 ٢٠٨ ا۔ ١ اہل ایمان کو کہا جا رہا ہے کہ اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اس طرح نہ کرو جو باتیں تمہاری مصلحتوں اور خواہشات کے مطابق ہوں ان پر تو عمل کرلو دوسرے حکموں کو نظر انداز کر دو اس طرح جو دین تم چھوڑ آئے ہو اس کی باتیں اسلام میں شامل کرنے کی کوشش مت کرو بلکہ صرف اسلام کو مکمل طور پر اپناؤ اس سے دین میں بدعات کی بھی نفی کردی گئی اور آجکل کے سیکولر ذہن کی تردید بھی جو اسلام کو مکمل طور پر اپنانے کے لئے تیار نہیں بلکہ دین کو عبادت یعنی مساجد تک محدود کرنا اور سیاست اور ایوان حکومت سے دین کو نکال دینا چاہتے ہیں۔ اس طرح عوام کو بھی سمجھایا جا رہا ہے جو رسوم و رواج اور علاقائی ثقافت و روایات کو پسند کرتے ہیں اور انہیں چھوڑنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے جیسے مرگ اور شادی بیاہ کی کی مسرفانہ اور ہندوانہ رسوم اور دیگر رواج وغیرہ اور یہ کہا جارہا ہے کہ شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو جو تمہیں مذکورہ خلاف اسلام باتوں کے لیے حسین فلسفے تراش کر پیش کرتا ہے برائیوں پر خوش نما غلاف چڑھاتا اور بدعات کو بھی نیکی باور کراتا ہے تاکہ اس کے دام ہم رنگ زمین میں پھنسے رہو۔ البقرة
209 البقرة
210 ٢١٠۔ ١ یہ تو قیامت کا منظر ہے (جیسا کہ بعض تفسیری روایات میں ہے (ابن کثیر) یعنی کیا یہ قیامت برپا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں؟ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے جلوے اور بادلوں کے سایہ میں ان کے سامنے آئیں اور فیصلہ چکائیں تب وہ ایمان لائیں گے۔ لیکن ایسا اسلام قابل قبول نہیں اس لئے قبول اسلام میں تاخیر مت کرو اور فوراً اسلام قبول کر کے اپنی آخرت سنوار لو۔ البقرة
211 ٢١١۔ ١ مثلاً عصائے موسیٰ جس کے ذریعے سے ہم نے جادوگروں کا توڑ کیا سمندر سے راستہ بنایا پتھر سے بارہ چشمے جاری کیے، بادلوں کا سایہ، من و سلوا کا نزول وغیرہ جو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی دلیل تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے احکام الٰہی سے انکار کیا۔ ٢١١۔ ٢ نعمت کے بدلنے کا مطلب یہی ہے کہ ایمان کے بدلے انہوں نے کفر کا راستہ اپنایا۔ البقرة
212 ٢١٢۔ ١ چونکہ مسلمان کی اکثریت غربا پر مشتمل تھی جو دینوی آسائشوں اور سہولتوں سے محروم ھے اس لئے کافر یعنی قریش مکہ ان کا مذاق اڑاتے تھے، جیسا کہ اہل ثروت کا ہر دور شیوا رہا ہے۔ ٢١٢۔ ٢ اہل ایمان کے فقر اور سادگی کا کفار مذاق اڑاتے، اس کا ذکر فرما کر کہا جا رہا ہے کہ قیامت والے دن یہی فقراء اپنے تقویٰ کی بدولت بلند بالا ہونگیں بے حساب روزی کا تعلق آخرت کے علاوہ دنیا سے بھی ہوسکتا ہے کہ چند سالوں کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے فقراء پر بھی فتوحات کے دروازے کھول دیئے۔ جن سے سامان دنیا اور رزق کی فروانی ہوگئی۔ البقرة
213 ٢١٣۔ ١ یعنی توحید پر۔ یہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے حضرت نوح (علیہ السلام)، یعنی دس صدیوں تک لوگ توحید پر، جس کی تعلیم انبیاء دیتے رہے قائم رہے۔ آیت مفسرین صحابہ نے فاختَلَفُوْا منسوخ مانا ہے یعنی اس کے بعد شیطان کی وسوسہ اندازی سے ان کے اندر اختلاف پیدا ہوگیا اور شرک و ظاہر پرستی عام ہوگئی۔ پس اللہ تعالیٰ نے نبیوں کو کتابوں کے ساتھ بھیج دیا تاکہ وہ لوگوں کے درمیان اختلاف کا فیصلہ اور حق اور توحید قائم اور واضح کریں (ابن کثیر) ٢١٣۔ ٢ اختلاف ہمیشہ راہ حق سے انحراف کی وجہ سے ہوتا ہے اور انحراف کا منبع بغض اور عناد بنتا ہے امت مسلمہ میں بھی جب تک یہ انحراف نہیں آیا یہ امت اپنی اصل پر قائم اور اختلاف کی شدت سے محفوظ رہی لیکن اندھی تقلید اور بدعات نے حق سے گریز کا جو راستہ کھولا اس سے اختلاف کا دائرہ پھیلتا اور بڑھتا ہی چلا گیا، تاآنکہ اتحاد امت ایک ناممکن چیزیں بن کر رہ گیا ہے۔ ٢١٣۔ ٣ مثلاً اہل کتاب نے جمعہ میں اختلاف کیا یہود نے ہفتہ کو اور نصاریٰ نے اتوار کو اپنا مقدس دن قرار دیا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جمعہ کا دن اختیار کرنے کی ہدایت دے دی۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف کیا یہود نے ان کو جھٹلایا اور ان کی والدہ حضرت مریم پر بہتان باندھا اس کے برعکس عیسائیوں نے ان کو اللہ کا بیٹا اور اللہ بنا دیا اللہ نے مسلمانوں کو ان کے بارے میں صحیح موقف اپنانے کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ اللہ کے پیغمبر اور اس کے فرمانروا بندے تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں بھی انہوں نے اختلاف کیا ایک نے یہودی اور دوسرے نے نصرانی کہا مسلمانوں کو اللہ نے صحیح بات بتلائی کہ وہ (حنیفاً مُسْلِماً) تھے اور اس طرح کے کئی دیگر مسائل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مسلمانوں کو صراط مستقیم دکھائی۔ البقرة
214 ٢١٤۔ ١ ہجرت مدینہ کے بعد جب مسلمانوں کو یہودیوں، منافقوں اور مشرکین عرب سے مختلف قسم کی ایذائیں اور تکلیفیں پہنچیں تو بعض مسلمانوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شکایت کی جس پر مسلمانوں کی تسلی کے لئے یہ آیت بھی نازل ہوئی اور خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا تم سے پہلے لوگوں کو ان کے سر سے لے کر پیروں تک آرے سے چیرا گیا اور لوہے کی کنگھی سے ان کے گوشت پوست کو نوچا گیا لیکن یہ ظلم اور تشدد ان کو ان کے دین سے نہیں پھیر سکا پھر فرمایا اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ اس معاملے کو مکمل (یعنی) اسلام کو غا لب فرمائے گا۔ ٢١٤۔ ٢ اس لیے (ہر آنے والی چیز قریب ہے) اور اہل ایمان کے لئے اللہ کی مدد یقینی ہے اس لئے وہ قریب ہی ہے۔ البقرة
215 ٢١٥۔ ١ بعض صحابہ کرام کے استفسار پر مال خرچ کرنے کے اولین مصارف بیان کئے جا رہے ہیں یعنی یہ سب سے زیادہ تمہارے مالی تعاون کے مستحق ہیں۔ اس لئے معلوم ہوا کہ نفاق کا یہ حکم صدقات نافلہ سے متعلق ہے زکوٰۃ سے متعلق نہیں کیونکہ ماں باپ پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنی جائز نہیں ہے حضرت میمون بن مہران نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا مال خرچ کرنے کی ان جگہوں میں نہ طبلہ سارنگی کا ذکر ہے اور نہ چوبی تصویروں اور دیواروں پر لٹکائے جانے والے آرائشی پردوں کا مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں پر مال خرچ کرنا ناپسندیدہ اور اسراف ہے افسوس ہے کہ آج یہ مسرفانہ اور ناپسندیدہ اخراجات ہماری زندگی کا اس طرح لازمی حصہ بن گئے کہ اس میں کراہت کا کوئی پہلو ہی ہماری نظروں میں نہیں رہا۔ البقرة
216 ٢١٦۔ ١ جہاد کے حکم کی ایک مثال دے کر اہل ایمان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ اللہ کے ہر حکم پر عمل کرو چاہے تمہیں وہ گراں اور ناگوار ہی لگے اس لئے کہ اس کے انجام اور نتیجے کو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے تم نہیں جانتے ہوسکتا ہے اس میں تمہارے لئے بہتری ہو جیسے جہاد کے نتیجے میں تمہیں فتح اور غلبہ، عزت اور سر بلندی اور مال و اسباب مل سکتا ہے اسی طرح تم جس کو پسند کرو (یعنی جہاد کے بجائے گھر میں بیٹھے رہنا) اس کا نتیجہ تمہارے لئے خطرناک ہوسکتا ہے یعنی دشمن تم پر غالب آجائے اور تمہیں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے۔ البقرة
217 ٢١٧۔ ١ رجب، ذیقعد، ذوالحجہ اور محرم۔ یہ چار مہینے زمانہ جاہلیت میں بھی حرمت والے سمجھے جاتے تھے جن میں قتال اور جدال ناپسندیدہ تھا اسلام نے بھی ان کی حرمت کو برقرار رکھا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک مسلمان فوجی دستے کے ہاتھوں رجب کے مہینے میں ایک کافر قتل ہوگیا اور بعض کافر قیدی بنا لئے گئے۔ مسلمانوں کے علم میں یہ نہیں تھا کہ رجب شروع ہوگیا ہے کفار نے مسلمانوں کو طعنہ دیا کہ دیکھو یہ حرمت والے مہینے کی حرمت کا بھی خیال نہیں رکھتے جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور کہا گیا کہ یقینا حرمت والے مہینے میں قتال بڑا گناہ ہے لیکن حرمت کی دہائی دینے والوں کو اپنا عمل نظر نہیں آتا یہ خود اس سے بھی بڑے جرائم کے مرتکب ہیں یہ اللہ کے راستے سے اور مسجد حرام سے لوگوں کو روکتے ہیں اور وہاں سے مسلمانوں کو نکلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں کفر و شرک خود قتل سے بھی بڑا گناہ ہے اس لئے اگر مسلمانوں سے ایک آدھ قتل حرمت والے مہینے میں ہوگیا تو کیا ہوا ؟ اس پر واویلہ کرنے کے بجائے ان کو اپنا سیاہ نامہ بھی تو دیکھ لینا چاہیئے۔ ٢١٧۔ ٢ جب یہ لوگ اپنی شرارتوں، سازشوں اور تمہیں مرتد کی کوشش سے باز آنے والے نہیں تو پھر تم ان سے مقاتلہ کرنے میں شہر حرام کی وجہ سے کیوں رکے رہو۔ ٢١٧۔ ٣ جو دین اسلام سے پھرجائے یعنی مرتد ہوجائے (اگر وہ توبہ نہ کرے) تو اس کی دنیاوی سزا قتل ہے جیسا کہ حدیث میں ہے اور اس آیت میں اسکی اخروی سزا بیان کی جا رہی ہے جس سے معلوم ہوا کہ ایمان کی حالت میں کئے گئے اعمال صالحہ بھی کفر کی وجہ سے کالعدم ہوجائیں گے اور جس طرح ایمان قبول کرنے سے انسان کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اسی طرح کفر سے تمام نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں۔ تاہم قرآن کے الفاظ سے واضح ہے کہ حبط اعمال اسی وقت ہوگا جب خاتمہ کفر پر ہوگا اگر موت سے پہلے تائب ہوجائے گا تو ایسا نہیں ہوگا یعنی مرتد کی توبہ قبول ہے۔ البقرة
218 البقرة
219 ٢١٩۔ ١ یہ گناہ تو دین کے اعتبار سے ہے۔ ٢١٩۔ ٢ فائدوں کا تعلق دنیا سے ہے مثلاً شراب سے وقتی طور پر بدن میں چستی اور مستعدی اور بعض ذہنوں میں تیزی آجاتی ہے جنسی قوت میں اضافہ ہوجاتا ہے جس کے لئے اس کا استعمال عام ہوتا ہے اس طرح اس کی خرید و فروخت نفع بخش کاروبار ہے۔ جوا میں بھی بعض دفعہ آدمی جیت جاتا ہے تو اس کو کچھ مال مل جاتا ہے لیکن یہ فائدے ان نقصانات کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے جو انسان کی عقل اور اس کے دین کو ان سے پہنچتے ہیں۔ اس لیے فرمایا کہ ان کا گناہ ان کے فائدوں سے بہت بڑا ہے اس طرح اس آیت میں شراب اور جوا کو حرام تو قرار نہیں دیا گیا تاہم اس کے لیے تمہبند باندھ دی گئی ہے اس آیت سے ایک بہت اہم نقطہ یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر چیز چاہے وہ کتنی ہی بری ہو کچھ نہ کچھ فائدے بھی ہوتے ہیں۔ اور لوگ بعض فوائد بیان کر کے اپنے نفس کو دھوکہ دے لیتے ہیں دیکھنا یہ چاہیے کہ فوائد اور نقصانات کا تقابل کیا ہے خاص طور پر دین و ایمان اور اخلاق وکردار کے لحاظ سے اگر دینی نقطہ نظر سے نقصانات ومفاسد زیادہ ہیں تو تھوڑے سے دنیاوی فائدوں کی خاطر اسے جائز قرار نہیں دیا جائے گا۔ ٢١٩۔ ٣ اس معنی کے اعتبار سے یہ اخلاقی ہدایت ہے یا پھر یہ حکم ابتدائے اسلام میں دیا گیا جس پر فریضہ زکاۃ کے بعد عمل ضروری نہیں رہا تاہم افضل ضرور ہے (فتح القدیر) جو آسان اور سہولت سے ہو اور دل پر شاق (گراں) نہ گزرے۔ اسلام نے یقینا انفاق کی بڑی ترغیب دی ہے لیکن یہ اعتدال ملحوظ رکھا ہے کہ ایک تو اپنے زیر کفالت افراد کی خبر گیری اور ان کی ضرویات کو مقدم رکھنے کا حکم دیا ہے دوسرے اس طرح خرچ کرنے سے بھی منع کیا ہے کہ کل کو تمہیں یا تمہارے اہم خاندان کو دوسروں کے آگے دست سوال دراز کرنا پڑجائے۔ البقرة
220 ٢٢٠۔ ١ جب یتیموں کا مال ظلماً کھانے والوں کے لئے سزا کی دھمکی نازل ہوئی تو صحابہ کرام (رض) ڈر گئے اور یتیموں کی ہر چیز الگ کردی حتیٰ کہ کھانے پینے کی کوئی چیز بچ جاتی تو اسے بھی استعمال نہ کرتے اور وہ خراب ہوجاتی اس ڈر سے کہ کہیں ہم بھی اس سزا کے مستحق نہ قرار پا جائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) ٢٢٠۔ ٢ یعنی تمہیں بغرض اصلاح و بہتری بھی ان کا مال اپنے مال میں ملانے کی اجازت نہ دیتا۔ البقرة
221 ٢٢١۔ ١ مشرکہ عورتوں سے مراد بتوں کی پجاری عورتیں ہیں اہل کتاب (یہودی یا عیسائی) عورتوں سے نکاح کی اجازت قرآن نے دی ہے۔ البتہ کسی مسلمان عورت کا نکاح کسی اہل کتاب مرد سے نہیں ہو سکتا۔ تاہم حضرت عمر (رض) نے مصلحتاً اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کو ناپسند کیا (ابن کثیر) آیت میں اہل ایمان کو ایمان دار مردوں اور عورتوں سے نکاح کی تاکید کی گئی ہے اور دین کو نظر انداز کر کے محض حسن وجمال کی بنیاد پر نکاح کرنے کو آخرت کی بربادی قرار دیا گیا جس طرح حدیث میں بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عورت سے چار وجہوں سے نکاح کیا جاتا ہے مال، حسب نسب، حسن وجمال یا دین کی وجہ سے۔ تم دین دار عورت کا انتخاب کرو (صحیح بخاری) اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نیک عورت کو دنیا کی سب سے بہتر متاع قرار دیا ہے فرمایا خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ (صحیح مسلم)۔ البقرة
222 ٢٢٢۔ ١ بلوغت کے بعد ہر عورت کو ایام ماہواری میں جو خون آتا ہے اسے حیض کہا جاتا ہے اور بعض دفعہ عادت کے خلاف بیماری کی وجہ سے خون آتا ہے اسے استحاضہ کہتے ہیں جس کا حکم حیض سے مختلف ہے حیض کے ایام میں عورت کو نماز معاف ہے اور روزے رکھنے ممنوع ہیں، تاہم روزوں کی قضا بعد میں ضروری ہے۔ مردوں کے لئے صرف ہم بستری سے منع کیا ہے البتہ بوس و کنار جائز ہے اسی طرح عورت ان دنوں میں کھانا پکانا اور دیگر کام کرسکتی ہے۔ ٢٢٢۔ ٢ جہاں سے اجازت ہے یعنی شرم گاہ سے۔ کیونکہ حالت حیض میں بھی اسی سے روکا گیا تھا اور اب پاک ہونے کے بعد جو اجازت دی جا رہی ہے تو اس کا مطلب (فرج، شرم گاہ) کی اجازت ہے نہ کہ کسی اور حصے کی۔ اس سے یہ استدلال کیا گیا عورت کی دبر کا استعمال حرام ہے جیسا کہ احادیث میں اس کی مزید وضاحت کردی گئی ہے۔ البقرة
223 ٢٢٣۔ ١ یہودیوں کا خیال تھا کہ اگر عورت کو پیٹ کے بل لٹا کر مباشرت کی جائے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔ اس کی تردید میں کہا جا رہا ہے کہ مباشرت آگے سے کرو (چت لٹا کر) یا پیچھے سے (پیٹ کے بل) یا کروٹ پر، جس طرح چاہو، جائز ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہر صورت میں عورت کی فرج ہی استعمال ہو۔ بعض لوگ اس سے یہ دلیل کرتے ہیں (جس طرح چاہو) میں تو دبر بھی آجاتی ہے، لہذا دبر کا استعمال بھی جائز ہے۔ لیکن یہ بالکل غلط ہے۔ جب قرآن نے عورت کو کھیتی قرار دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف کھیتی کے استعمال کے لئے کہا جا رہا ہے کہ اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ اور یہ کھیتی صرف فرج ہے نہ کہ دبر۔ بہرحال یہ غیر فطری فعل ہے۔ ایسے شخص کو جو اپنی عورت کی دبر استعمال کرتا ہے ملعون قرار دیا گیا ہے (بحوالہ ابن کثیر و فتح القدیر) البقرة
224 ٢٢٤۔ ١ یعنی غصے میں اس طرح کی قسم مت کھاؤ کہ فلاں کے ساتھ نیکی نہیں کروں گا فلاں سے نہیں بولوں گا فلاں کے درمیان صلح نہیں کراؤں گا۔ اس قسم کی قسموں کے لئے حدیث میں کہا گیا ہے اگر کھالو تو انہیں توڑ دو اور قسم کا کفارہ ادا کرو (کفارہ قسم کے لئے دیکھئے (لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ باللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَلٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ ۚ فَکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ ۭ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ۭذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ۭ وَاحْفَظُوْٓا اَیْمَانَکُمْ ۭ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ 89؀) 005:089 البقرة
225 ٢٢٥۔ ١ یعنی جو غیر ارادے اور عادت کے طور پر ہوں البتہ عملاً جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ ہے۔ البقرة
226 ٢٢٦۔ ١ یعنی کوئی شوہر اگر قسم کھا لے کہ اپنی بیوی سے ایک مہینہ یا دو مہینے تعلق نہیں رکھوں گا پھر قسم کی مدت پوری کر کے تعلق قائم کرلیتا ہے تو کوئی کفارہ نہیں ہاں اگر مدت پوری ہونے سے قبل تعلق قائم کرے گا کفارہ قسم ادا کرنا پڑے گا اور اگر چار مہینے سے زیادہ مدت کے لئے یا مدت مقرر کئے بغیر قسم کھاتا ہے تو اس آیت میں ایسے لوگوں کے لئے مدت کا تعین کردیا گیا ہے کہ وہ چار مہینے گزرنے کے بعد یا تو بیوی سے تعلق قائم کرلیں یا پھر اسے طلاق دے دیں پہلی صورت میں اسے کفارہ قسم ادا کرنا ہوگا اگر دونوں میں سے کوئی صورت اختیار نہیں کرے گا تو عدالت اسکو دونوں میں سے کسی ایک بات کے اختیار کرنے پر مجبور کرے گی کہ وہ اس سے تعلق قائم کرے یا طلاق دے تاکہ عورت پر ظلم نہ ہو۔ (ابن کثیر) البقرة
227 ٢٢٧۔ ١ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ چار مہینے گزرتے ہی از خود طلاق واقع نہیں ہوگی (جیسا کہ بعض علماء کا مسلک ہے۔ بلکہ خاوند کے طلاق دینے سے طلاق ہوگی جس پر عدالت بھی اسے مجبور کرے گی جیسا کہ جمہور علماء کا مسلک ہے۔ البقرة
228 ٢٢٨۔ ١ اس سے وہ متعلقہ عورت مراد ہے جو حاملہ بھی نہ ہو (کیونکہ حمل والی عورت کی مدت وضع حمل تک ہے) جسے دخول سے قبل طلاق مل گئی ہو وہ بھی نہ ہو (کیونکہ اس کی کوئی عدت ہی نہیں) جس کو حیض آنا بند ہوگیا ہو کیونکہ ان کی عدت تین مہینے ہے گویا مذکورہ عورتوں کے علاوہ صرف مدخولہ عورت کی عدت بیان کی جا رہی ہے۔ یعنی تین طہر یا تین حیض عدت گزار کے وہ دوسری شادی کرنے کی مجاز ہے سلف نے قروء کے دونوں ہی معنی صحیح قرار دئیے ہیں اس لئے دونوں کی گنجائش ہے (ابن کثیر فتح القدیر) ٢٢٨۔ ٢ اس سے حیض اور حمل دونوں ہی مراد ہیں حیض نہ چھپائیں مثلاً کہے کہ طلاق کے بعد مجھے ایک دو حیض آئے ہیں مقصد پہلے خاوند کی طرف رجوع کرنا ہو (اگر وہ رجوع کرنا چاہتا ہو)۔ اسی طرح حمل نہ چھپائیں کیونکہ نطفہ وہ پہلے خاوند کا ہوگا اور منسوب دوسرے خاوند کی طرف ہوجائے گا اور یہ سخت کبیرہ گناہ ہے۔ ٢٢٨۔ ٣ رجوع کرنے سے خاوند کا مقصد اگر تنگ کرنا نہ ہو تو عدت کے اندر خاوند کو رجوع کرنے کا پورا حق حاصل ہے عورت کے ولی کو اس میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔ ٢٢٨۔ ٤ دونوں کے حقوق ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں جن کو پورا کرنے کے دونوں شرعاً پابند ہیں تاہم مرد کو عورت پر فضیلت یا درجہ حاصل ہے مثلا فطری قوتوں میں جہاد کی اجازت ہے میراث کے دوگنا ہونے میں قوامیت اور حاکمیت میں اور اختیار طلاق و رجوع (وغیرہ) میں۔ البقرة
229 ٢٢٩۔ ١ یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو (عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہے وہ دو مرتبہ ہے پہلی مرتبہ طلاق کے بعد بھی اور دوسری مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع ہوسکتا ہے تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجع کی اجازت نہیں زمانہ جاہلیت میں یہ حق طلاق و رجوع غیر محدود تھا جس سے عورتوں پر بڑا بوجھ تھا۔ نیز معلوم ہونا چاہیے کہ بہت سے علماء ایک مجلس کی تین طلاقوں کے واقع ہونے ہی کا فتویٰ دیتے ہیں۔ ٢٢٩۔ ٢ یعنی رجوع کر کے اچھے طریقے سے بسانا۔ ٢٢٩۔ ٣ یعنی تیسری مرتبہ طلاق دے کر۔ ٢٢٩۔ ٤ اس میں خلع کا بیان ہے یعنی عورت خاوند سے علیحدگی حاصل کرنا چاہے تو اس صورت میں خاوند عورت سے اپنا دیا ہوا مہر واپس لے سکتا ہے خاوند اگر علیحدگی قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو تو عدالت خاوند کو طلاق دینے کا حکم دے گی اور اگر وہ اسے نہ مانے تو علت نکاح فسخ کر دے گی گویا خلع بزریعہ طلاق بھی ہوسکتا ہے اور بذریعہ فسخ بھی دونوں صورتوں میں عدت ایک حیض ہے (ابو داؤد، ترمذی، نسائی والحاکم [۔ فتح القدیر) عورت کو یہ حق دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی سخت تاکید کی گئی ہے کہ عورت بغیر کسی معقول عذر کے خاوند سے علیحدگی یعنی طلاق کا مطالبہ نہ کرے اگر ایسا کرے گی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی عورتوں کے لئے یہ سخت وعید بیان فرمائی کہ وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائیں گیں۔ (ابن کثیر وغیرہ) البقرة
230 اس طلاق سے تیسری طلاق مراد ہے یعنی تیسری طلاق کے بعد خاوند اب نہ رجوع کرسکتا ہے اور نہ نکاح البتہ عورت کسی اور جگہ نکاح کرلے اور دوسرا خاوند اپنی مرضی سے اسے طلاق دے دے یا فوت ہوجائے تو اس کے بعد اس سے نکاح جائز ہے لیکن اس کے لئے جو حلالہ کا طریقہ رائج ہے یہ لعنتی فعل ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلالہ کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے حلالہ کی غرض سے کیا گیا نکاح نکاح نہیں ہے زناکاری ہے۔ اس نکاح سے عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی۔ البقرة
231 ٢٣١۔ ١ (الطلاق مرتن) میں بتلایا گیا تھا کہ دو طلاق تک رجوع کرنے کا اختیار ہے اس آیت میں کہا جا رہا ہے کہ رجوع عدت کے اندر اندر ہوسکتا ہے عدت گزرنے کے بعد نہیں اس لئے یہ تکرار نہیں ہے جس طرح کے بظاہر ہے۔ ١٣٢۔ ٢ بعض لوگ مذاق میں طلاق دے دیتے یا نکاح کرلیتے یا آزاد کردیتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں میں نے تو مذاق کیا تھا اللہ نے اسے آیات الٰہی سے استہزاء قرار دیا جس سے مقصود اس سے روکنا ہے اس لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مذاق سے بھی اگر کوئی مذکورہ کام کرے گا تو وہ حقیقت ہی سمجھا جائے گا اور مذاق کی طلاق یا نکاح یا آزادی نافذ ہوجائے گی (تفسیر ابن کثیر) البقرة
232 ٢٣٢۔ ١ اس میں مطلقہ عورت کی بابت ایک تیسرا حکم دیا جا رہا ہے وہ یہ کہ عدت گزرنے کے بعد (پہلی یا دوسری طلاق کے بعد) اگر سابقہ خاوند بیوی باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو ان کو مت روکو۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک ایسا واقعہ ہوا تو عورت کے بھائی نے انکار کردیا جس پر یہ آیت اتری، اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ عورت اپنا نکاح نہیں کرسکتی، بلکہ اس کے نکاح کے لئے ولی کی اجازت اور رضامندی ضروری ہے۔ تب ہی تو اللہ تعالیٰ نے ولیوں کو اپنا حق ولایت غلط طریقے سے استعمال کرنے سے روکا ہے۔ اس کی مزید تائید حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہوتی ہے، جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا، پس اس کا نکاح باطل ہے، اسکا نکاح باطل ہے، اسکا نکاح باطل ہے۔ (حوالہ مذکور) ان احادیث کو علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی دیگر محدثین کی طرح صحیح اور احسن تسلیم کیا ہے۔ فیض الباری ج ٤ کتاب النکاح) دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ عورت کے ولیوں کو بھی عورت پر جبر کرنے کی اجازت نہیں بلکہ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ عورت کی رضامندی کو بھی ملحوظ رکھیں اگر ولی عورت کی رضامندی کو نظر انداز کر کے زبردستی نکاح کر دے تو شریعت نے عورت کو بذریعہ عدالت نکاح فسخ کرانے کا اختیار دیا ہے اس لئے ضروری ہے کہ نکاح میں دونوں کی رضامندی حاصل کی جائے کوئی ایک فریق بھی من مانی نہ کرے گا اور لڑکی کے مفادات کے مقابلے میں اپنے مفادات کو ترجیح دے گا تو عدالت ایسے ولی کو حق ولایت سے محروم کر کے ولی ابعد کے ذریعے سے یا خود ولی بن کر اس عورت کے نکاح کا فریضہ انجام دے گی۔ البقرة
233 ٢٣٣۔ ١ اس آیت میں مسئلہ رضاعت کا بیان ہے۔ اس میں پہلی بات یہ ہے جو مدت رضاعت پوری کرنی چاہے تو وہ دو سال پورے دودھ پلائے ان الفاظ سے کم مدت دودھ پلانے کی بھی گنجائش نکلتی ہے دوسری بات یہ معلوم ہوئی مدت رضاعت زیادہ سے زیادہ دو سال ہے، جیسا کہ ترمذی میں حضرت ام سلمہ (رض) سے مرفوعًا روایت ہے۔ ٢٣٣۔ ٢ طلاق ہوجانے کی صورت میں شیرخوار بچے اور اس کی ماں کی کفالت کا مسئلہ ہمارے معاشرے میں بڑا پچیدہ بن جاتا ہے اور اس کی وجہ سے شریعت سے انحراف ہے۔ اگر حکم الٰہی کے مطابق خاوند اپنی طاقت کے مطابق عورت کے روٹی کپڑے کا ذمہ دار ہو جس طرح کہ اس آیت میں کہا جا رہا ہے تو نہایت آسانی سے مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ ٢٣٣۔ ٣ ماں کو تکلیف پہنچانا یہ ہے کہ مثلًا ماں بچے کو اپنے پاس رکھنا چاہے، مگر مامتا کے جذبے کو نظر انداز کر کے بچہ زبردستی اس سے چھین لیا جائے یا یہ کہ بغیر خرچ کے ذمہ داری اٹھائے اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے۔ باپ کو تکلیف پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ ماں دودھ پلانے سے انکار کر دے یا اس کی حیثیت سے زیادہ کا اس سے مالی مطالبہ کرے۔ ٢٣٣۔ ٤ باپ کے فوت ہوجانے کی صورت میں یہی ذمہ داری وارثوں کی ہے کہ وہ بچے کی ماں کے حقوق صحیح طریقے سے ادا کریں تاکہ نہ عورت کو تکلیف ہو نہ بچے کی پرورش اور نگہداشت متاثر ہو۔ ٢٣٣۔ ٥ یہ ماں کے علاوہ کسی اور عورت سے دودھ پلوانے کی اجازت ہے بشرطیکہ اس کا معاوضہ دستور کے مطابق ادا کردیا جائے۔ البقرة
234 ٢٣٤۔ ١ یہ عدت وفات ہر عورت کے لئے ہے چاہے گھر میں رہے یا گھر کے باہر جوان ہو یا بوڑھی۔ البتہ اس سے حاملہ عورت متشنٰی ہے کیونکہ اسکی مدت عدت وضع حمل ہے اس عدت وفات میں عورت کو زیب و زینت کی (حتٰی کہ سرمہ لگانے کی بھی) اور خاوند کے مکان سے کسی اور جگہ منتقل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ وہ مطلقہ جو دوبارہ نکاح کرنا چاہے اس کے لئے عدت کے اندر زیب و زینت ممنوع نہیں ہے وہ مطلقہ جس سے رجوع نہ ہو سکے اس میں اختلاف ہے بعض جواز کے اور بعض ممانعت کے قائل ہیں۔ ٢٣٤۔ ٢ یعنی عدت گزرنے کے بعد وہ زیب و زینت اختیار کریں اولیاء اس کی اجازت و مشاورت سے کسی اور جگہ نکاح کا بندوبست کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں اس لئے تم پر بھی (اے عورت کے والیوں) کوئی گناہ نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بیوہ کے عقد ثانی کو برا سمجھنا چاہئے نہ اس میں رکاوٹ ڈالنی چاہئے۔ جیسا کہ ہندؤں کے اثرات سے ہمارے معاشرے میں یہ چیز پائی جاتی ہے۔ البقرة
235 ٢٣٥۔ ١ یہ بیوہ یا وہ عورت جس کو تین طلاق مل چکی ہوں ان کی بابت کہا جا رہا ہے کہ عدت کے دوران ان سے اشارے میں تو تم نکاح کا پیغام دے سکتے ہو (مثلاً میرا ارادہ شادی کرنے کا ہے یا میں نیک عورت کی تلاش میں ہوں وغیرہ) لیکن ان سے کوئی خفیہ وعدہ مت لو اور نہ مدت گزرنے سے قبل عقد نکاح پختہ کرو لیکن وہ عورت جس کو خاوند نے ایک یا دو طلاقیں دی ہیں اس کو عدت کے اندر اشارے میں بھی نکاح کا پیغام دینا جائز نہیں ممکن ہے خاوند رجوع ہی کرلے۔ ٢٣٥۔ ٢ اس سے مراد وہی تعریض و کنایہ ہے جس کا حکم پہلے دیا گیا ہے مثلاً میں تیرے معاملے میں رغبت رکھتا ہوں یا ولی سے کہے کہ اس کے نکاح کی بابت فیصلہ کرنے سے قبل مجھے اطلاع ضرور کرنا وغیرہ (ابن کثیر) البقرة
236 ٢٣٦۔ ١ یہ اس عورت کی بابت حکم ہے کہ نکاح کے وقت مہر مقرر نہیں ہوا تھا اور خاوند نے ہم بستری کے بغیر طلاق دے دی تو انہیں کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرو یہ فائدہ ہر شخص کی طاقت کے مطابق ہونا چاہیے خوش حال اپنی حیثیت اور تنگ دست اپنی طاقت کے مطابق دے تاہم محسنین کے لیے ہے یہ ضروری نہیں۔ اس متعہ کی تعیین بھی کی گئی ہے کسی نے کہا خادم کسی نے کہا ٥٠٠ درہم کسی نے کہا ایک یا چند سوٹ وغیرہ بہرحال یہ تعیین شریعت کی طرف سے نہیں ہے ہر شخص کو اپنی طاقت کے مطابق دینے کا اختیار اور حکم ہے اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ متعہ طلاق ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کو دینا ضروری ہے یا خاص اسی عورت کی بابت حکم ہے جو اس آیت میں مذکور ہے قرآن کریم کی بعض اور آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہر قسم کی طلاق یافتہ عورت کے لیے ہے واللہ اعلم۔ اس حکم متعہ میں جو حکمت اور فوائد ہیں وہ محتاج وضاحت نہیں تلخی کشیدگی اور اختلاف کے موقع پر جو طلاق کا سبب ہوتا ہے احسان کرنا اور عورت کی دلجوئی ودلداری کا اہتمام کرنا مستقبل کی متوقع خصومتوں کے سد باب کا نہایت اہم ذریعہ ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اس احسان وسلوک کے بجائے مطلقہ کو ایسے برے طریقے سے رخصت کیا جاتا ہے کہ دونوں ٰخاندانوں کے آپس کے تعلقات ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتے ہیں۔ البقرة
237 ٢٣٧۔ ١ یہ دوسری صورت ہے کہ خلوت صحیحہ سے قبل ہی طلاق دے دی اور حق مہر بھی مقرر تھا اس صورت میں خاوند کے لئے ضروری ہے کہ نصف مہر ادا کرے اور اگر عورت اپنا حق معاف کر دے اس صورت میں خاوند کو کچھ نہیں دینا پڑے گا۔ ٢٣٧۔ ٢ اس سے مراد خاوند ہے کیونکہ نکاح کی گرہ (اس کا توڑنا اور باقی رکھنا) اس کے ہاتھ میں ہے۔ یہ نصف حق مہر معاف کر دے یعنی ادا شدہ حق مہر میں سے نصف مہر واپس لینے کی بجائے اپنا یہ حق (نصف مہر) معاف کر دے اور پورے کا پورا مہر عورت کو دے دے۔ اس سے آگے آپس میں فضل اور احسان کو نہ بھلا نے کی تاکید کر کے حق مہر میں بھی اسی فضل اور احسان کو اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ البقرة
238 ٢٣٨۔ ١ درمیان والی نماز سے مراد عصر کی نماز جس کو حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعین کردیا ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خندق والے دن عصر کی نماز کو صلوٰۃ وُسْطٰی قرار دیا۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد) البقرة
239 ٢٣٩۔ ١ یعنی دشمن سے خوف کے وقت جس طرح بھی ممکن ہو پیادہ چلتے ہوئے، سواری پر بیٹھے ہوئے نماز پڑھ لو۔ تاہم جب خوف کی حالت ختم ہوجائے تو اسی طرح نماز پڑھو جس طرح سکھلایا گیا۔ البقرة
240 ٢٤٠۔ ١ یہ آیت گو ترتیب میں موخر ہے مگر منسوخ ہے ناسخ آیت پہلے گزر چکی ہے جس میں عدت وفات چار مہینے دس دن بتلائی گئی ہے۔ علاوہ ازیں آیت مواریث نے بیویوں کا حصہ بھی مقرر کردیا ہے اس لئے اب خاوند کو عورت کے لئے کسی بھی قسم کی وصیت کرنے کی ضرورت نہیں رہی نہ رہائش کی نہ نان و نفقہ کی۔ البقرة
241 ٢٤١۔ ١ یہ حکم عام ہے جو ہر متعلقہ عورت کو شامل ہے اس میں تفریق کے وقت جس حسن سلوک کا اہتمام کرنے کی تاکید کی گئی ہے اس کے بیشمار معاشی فوائد ہیں کاش مسلمان اس نہایت ہی اہم نصیحت پر عمل کریں۔ البقرة
242 البقرة
243 ٢٤٣۔ ١ یہ واقعہ سابقہ کسی امت کا ہے جس کی تفصیل کسی حدیث میں بیان نہیں کی گئی تفسیری روایات اسے بنی اسرائیل کے زمانے کا واقعہ اور اس پغمبر کا نام جس کی دعا سے انہیں اللہ تعالیٰ نے دوبارہ زندہ کیا یہ جہاد میں قتل کے ڈر سے یا وبائی بیماری طاعون کے خوف سے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے تھے تاکہ موت کے منہ میں جانے سے بچ جائیں اللہ تعالیٰ نے انہیں مار کر ایک تو یہ بتلا دیا کہ اللہ کی تقدیر سے تم بچ کر نہیں جا سکتے دوسرا یہ کہ انسانوں کی آخری جائے پناہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے اور وہ تمام انسانوں کو اسی طرح زندہ فرمائے گا جس طرح اللہ نے ان کو مار کر زندہ کردیا۔ اگلی آیت میں مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیا جا رہا ہے اس سے پہلے اس واقعہ کے بیان میں یہی حکمت ہے کہ جہاد سے جی مت چراؤ موت وحیات تو اللہ کے قبضے میں ہے اور اس موت کا وقت بھی متعین ہے جسے جہاد سے گریز وفرار کر کے تم ٹال نہیں سکتے۔ البقرة
244 البقرة
245 ٢٤٥۔ ١ قرض حسنہ سے مراد اللہ کی راہ میں اور جہاد میں مال خرچ کرنا یعنی جان کی طرح مالی قربانی میں بھی تامل مت کرو۔ رزق کی کشادگی اور کمی بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ دونوں طریقوں سے تمہاری آزمائش کرتا ہے کبھی رزق میں کمی کر کے اور کبھی اس میں فراوانی کر کے۔ پھر اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے تو کمی بھی نہیں ہوتی اللہ تعالیٰ اس میں کئی کئی گنا اضافہ فرماتا ہے کبھی ظاہری طور پر کبھی معنوی و روحانی طور پر اس میں برکت ڈال کر اور آخرت میں تو یقینا اس میں اضافہ حیران کن ہوگا۔ البقرة
246 ٢٤٦۔ ١ ملاء کسی قوم کے ان اشراف سردار اور اہل حل و عقد کو کہا جاتا ہے جو خاص مشیر اور قائد ہوتے ہیں جن کے دیکھنے سے آنکھیں اور دل رعب سے بھر جاتے ہیں ملا کے لغوی معنی (بھرنے کے ہیں) (ایسرالتفسیر) جس پیغمبر کا یہاں ذکر ہے اس کا نام شمویل بتلایا جاتا ہے۔ ابن کثیر وغیرہ مفسرین نے جو واقعہ بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنو اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد کچھ عرصے تک تو ٹھیک رہے، پھر ان میں انحراف آگیا دین میں بدعات ایجاد کرلیں حتیٰ کہ بتوں کی پوجا بھی شروع کردی انبیاء ان کو روکتے رہے لیکن یہ معصیت اور شرک سے بعض نہ آئے اس کے نتیجے میں اللہ نے ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کردیا جنہوں نے ان کے علاقے بھی چھین لئے اور ان کی ایک بڑی تعداد کو قیدی بھی بنا لیا ان میں نبوت وغیرہ کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا بلآخر بعض لوگوں کی دعاؤں سے شمویل نبی پیدا ہوئے جنہوں نے دعوت اور تبلیغ کا کام شروع کیا۔ انہوں نے پیغمبر سے یہ مطالبہ کیا کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کردیں جس کی قیادت میں ہم دشمنوں سے لڑیں پیغمبر نے ان کے سابقہ کردار کے پیش نظر کہا کہ تم مطالبہ تو کر رہے ہو لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ تم اپنی بات پر قائم نہیں رہو گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا جیسا قرآن نے بیان کیا ہے۔ ٢٤٦۔ ٢ نبی کی موجودگی میں بادشاہ کا مطالبہ بادشاہت کے جواز کی دلیل ہے کیونکہ اگر بادشاہت جائز نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اس مطالبے کو رد فرما دیتا لیکن اللہ نے اس معاملے کو رد نہیں فرمایا بلکہ طالوت کو ان کے لئے بادشاہ مقرر کردیا جیسے کہ آگے آرہا ہے اس سے معلوم ہوا کہ بادشاہ اگر مطلق العنان نہیں ہے اور وہ احکام الٰہی کا پابند اور عدل و انصاف کرنے والا ہے تو اس کی بادشاہت جائز ہی نہیں بلکہ مطلوب و محبوب بھی ہے مزید دیکھئے سورۃ المائدہ آیت۔ ٢٠ کا حاشیہ۔ البقرة
247 ٢٤٧۔ ١ حضرت طالوت اس نسل سے نہیں تھے جس سے بنی اسرائیل کے باشاہوں کا سلسلہ چلا آرہا تھا یہ غریب اور ایک عام فوجی تھے جس پر انہوں نے اعتراض کیا پیغمبر نے کہا یہ میرا انتخاب نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں مقرر کیا ہے علاوہ ازیں قیادت کے لئے مال سے زیادہ عقل وعلم اور جسمانی قوت و طاقت کی ضرورت ہے اور طالوت اس میں تم سب میں ممتاز ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں اس منصب کے لئے چن لیا ہے چنانچہ اگلی آیت میں ایک اور نشانی کا بیان ہے۔ البقرة
248 ٢٤٨۔ ١ صندوق یعنی تابوت جو توب سے ہے جس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں کیونکہ بنی اسرائیل تبرک کے لئے اس کی طرف رجوع کرتے تھے (فتح القدیر) اس تابوت میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے تبرکات تھے یہ تابوت بھی ان کے دشمن چھین کرلے گئے تھے اللہ تعالیٰ نے نشانی کے طور پر فرشتوں کے ذریعے سے حضرت طالوت کے دروازے پر پہنچا دیا جسے دیکھ کر بنو اسرائیل خوش بھی ہوئے اور اسے طالوت کی بادشاہی کے لئے منجانب اللہ نشانی بھی سمجھا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اسے ان کے لئے ایک اعجاز (آیت) اور فتح و سکینت کا سبب قرار دیا سکینت کا مطلب اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص نصرت کا ایسا نزول ہے جو وہ اپنے خاص بندوں پر نازل فرماتا ہے اور جس کی وجہ سے جنگ کی خون ریز معرکہ آرائیوں میں جس سے بڑے بڑے شیر دل بھی کانپ کانپ اٹھتے ہیں وہاں اہل ایمان کے دل دشمن کے خوف اور ہیبت سے خالی اور فتح و کامرانی کی امید سے لبریز ہوتے ہیں۔ البقرة
249 ٢٤٩۔ ١ یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان ہے (ابن کثیر) ٢٤٩۔ ٢ اطاعت امیر ہر حال میں ضروری ہے تاہم دشمن سے معرکہ آرائی کے وقت تو اس کی اہمیت دو چند بلکہ صد چند ہوجاتی ہے دوسرے جنگ میں کامیابی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ فوجی اس دوران بھوک پیاس اور دیگر تکلیفات کو نہایت حوصلے سے برداشت کرے۔ چنانچہ ان دونوں باتوں کی تربیت اور امتحان کے لئے طالوت نے کہا کہ نہر پر تمہاری پہلی آزمائش ہوگی لیکن تنبیہ کے باوجود اکثریت نے پانی پی لیا۔ اس طرح نہ پینے والوں کی تعداد ٣١٣ بتائی گئی ہے جو اصحاب بدر کی تعداد ہے۔ واللہ عالم۔ ٢٤٩۔ ٣ ان اہل ایمان نے بھی ابتداء جب دشمن کی بڑی تعداد دیکھی تو اپنی قلیل تعداد کے پیش نظر اس رائے کا اظہار کیا جس پر ان کے علماء جو ان سے زیادہ پختہ یقین رکھنے والے تھے انہوں نے کہا کہ کامیابی تعداد کی کثرت اور اسلحہ کی فروانی پر منحصر نہیں بلکہ اللہ کی مشعیت اور اس کے اذن پر موقوف ہے اور اللہ کی تائید کے لئے صبر کا اہتمام ضروری ہے۔ البقرة
250 ٢٥٠۔ ١ جالوت اس دشمن فوج کا کمانڈر اور سربراہ تھا جس سے طالوت اور ان کے رفقاء کا مقابلہ تھا یہ قوم عمالقہ تھی جو اپنے وقت کی بڑی جنگجو اور بہادر فوج سمجھی جاتی تھی ان کی اس شہرت کے پیش نظر عین معرکہ آرائی کے وقت اہل ایمان نے بارگاہ الٰہی میں صبرو اثبات اور کفر کے مقابلے میں ایمان کی فتح و کامیابی کی دعا مانگی۔ گویا مادی اسباب کے ساتھ ساتھ اہل ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ نصرت الٰہی کے لئے ایسے موقعوں پر بطور خاص طلبگار رہیں جیسے جنگ بدر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہایت آہو زاری سے فتح اور نصرت کی دعائیں مانگیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے منظور فرمایا اور مسلمانوں کی ایک نہایت قلیل تعداد کافروں کی بڑی تعداد پر غالب آئی۔ البقرة
251 ٢٥١۔ ١ حضرت داؤد (علیہ السلام) جو ابھی پیغمبر نہ بادشاہ تھے اس لشکر طالوت میں ایک سپاہی کے طور پر شامل تھے ان کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے جالوت کا خاتمہ کیا اور تھوڑے سے اہل ایمان کے ذریعے ایک بڑی قوم کو شکست فاش دلوائی۔ ٢٥١۔ ٢ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو بادشاہت بھی عطا فرمائی اور نبوت بھی لفظ حکمت سے بعض نے نبوت بعض نے صنعت آہن گری اور بعض نے ان امور کی سمجھ مراد لی جو اس موقع جنگ پر اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادے سے فیصلہ کن ثابت ہوئے۔ البقرة
252 ٢٥٢۔ ١ یہ گزشتہ واقعات جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کردہ کتاب کے ذریعے سے دنیا کو معلوم ہو رہے ہیں اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقینا آپ کی رسالت و صداقت کی دلیل ہیں کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ نہ کسی کتاب میں پڑھے ہیں نہ کسی سے سنے ہیں جس سے یہ واضح ہے کہ یہ غیب کی وہ خبریں جو بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ آپ پر نازل فرما رہا ہے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر گزشتہ امتوں کے واقعات کو بیان کرکے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ البقرة
253 ٢٥٣۔ ١ قرآن نے ایک دوسرے مقام پر بھی اسے بیان کیا ہے ( وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖنَ عَلٰی بَعْضٍ) 017:055 "ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے اس لئے اس حقیقت میں تو کوئی شک نہیں۔ البتہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (لا تخیرونی من بین الأنبیآء (صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ الاعراف، باب ١٣٥۔ مسلم کتاب الفضائل موسی) تم مجھے انبیاء کے درمیان فضیلت مت دو تو اس سے ایک کی دوسرے پر فضیلت کا انکار لازم نہیں آتا بلکہ یہ امت کو انبیاء (علیہ السلام) کی بابت ادب اور احترام سکھایا گیا ہے کہ تمہیں چونکہ تمام باتوں اور ان امتیازات کا جن کی بنا پر انہیں ایک دوسرے پر فضیلت حاصل ہے پوار علم نہیں ہے اس لیے تم میری فضیلت بھی اس طرح بیان نہ کرنا اس سے دوسرے انبیاء کی کسر شان ہو۔ ورنہ بعض نبیوں پر فضیلت اور اور تمام پیغمبروں پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت و اشرفیت مسلمہ اور اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے جو کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے (فتح القدیر) ٢٥٣۔ ٢ مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دئیے گئے تھے مثلاً احیائے موتیٰ (مُردوں کو زندہ کرنا) وغیرہ جس کی تفصیل سورۃ آل عمران میں آئے گی۔ روح القدوس سے مراد حضرت جبرائیل ہیں جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔ ٢٥٣۔ ٣ اس مضموں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہ بیان فرمایا۔ مطلب اس کا یہ نہیں ہے کہ اللہ کے نازل کردہ دین میں اختلاف پسندیدہ ہے یا اللہ کو ناپسند ہے اس کی پسند (رضا) تو یہ ہے کہ تمام انسان اس کی نازل کردہ شریعت کو اپنا کر جہنم سے بچ جائیں اس لئے اس نے کتابیں اتاریں انبیاء (علیہ السلام) کا سلسلہ قائم کیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رسالت کا خاتمہ فرما دیا۔ تاہم اس کے بعد بھی خلفاء اور علماء دعوت کے ذریعے سے دعوت حق اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا سلسلہ جاری رکھا گیا اور اس کی سخت اہمیت وتاکید بیان فرمائی گئی کس لیے اسی لیے تاکہ لوگ اللہ کے پسندیدہ راستے کو اختیار کریں لیکن چونکہ اس نے ہدایت اور گمراہی دونوں راستوں کی نشان دہی کر کے انسانوں کو کوئی ایک راستہ اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا ہے بلکہ بطور امتحان اسے اختیار اور ارادہ کی آزادی سے نوازا ہے اس لیے کوئی اس اختیار کا صحیح استعمال کر کے مومن بن جاتا ہے اور کوئی اس اختیار وآزادی کا غلط استعمال کر کے کافر یہ گویا اس کی حکمت ومشیت ہے جو اس کی رضا سے مختلف چیز ہے۔ البقرة
254 ٢٥٤۔ ١ یہود و نصاریٰ اور کفار مشرکین اپنے اپنے پیشواؤں، نبیوں، ولیوں، بزرگوں اور مرشدوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ پر ان کا اتنا اثر ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے دباؤ سے اپنے پیروکاروں کے بارے میں جو بات چاہیں اللہ سے منوا سکتے ہیں اور منوا لیتے ہیں اسی کو وہ شفاعت کہتے ہیں یعنی ان کا عقیدہ تقریباً وہی تھا جو آجکل کے جاہلوں کا ہے کہ ہمارے بزرگ اللہ کے پاس آ کر بیٹھ جائیں گے اور بخشوا کر اٹھیں گے اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے یہاں ایسی کسی شفاعت کا کوئی وجود نہیں پھر اس کے بعد آیت الکرسی میں اور دوسری متعدد آیات و احادیث میں بتایا گیا کہ اللہ کے یہاں ایک دوسری قسم کی شفاعت بیشک ہوگی مگر یہ شفاعت وہی لوگ کرسکیں گے جنہیں اللہ اجازت دے گا اور صرف اہل توحید کے بارے میں اجازت دے گا یہ شفاعت فرشتے بھی کریں گے انبیاء و رسل بھی اور شہدا و صالحین بھی مگر اللہ پر ان میں سے کسی بھی شخصیت کا کوئی دباو نہ ہوگا بلکہ اس کے برعکس یہ لوگ خود اللہ کے خوف سے اس قدر لرزاں وترساں ہوں گے کہ ان کے چہروں کا رنگ اڑ رہا ہوگا۔ ( وَلَا یَشْفَعُوْنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَہُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ) 021:028 البقرة
255 ٢٥٥۔ ١ یہ آیت الکرسی ہے جس کی بڑی فضیلت صحیح احادیث سے ثابت ہے مثلاً یہ آیت قرآن کی اعظم آیت ہے۔ اس کے پڑھنے سے رات کو شیطان سے تحفظ رہتا ہے ہر فرض کے بعد پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے (ابن کثیر) یہ اللہ تعالیٰ کی صفات جلال اس کی علو شان اور اس کی قدرت وعظمت پر مبنی نہایت جامع آیت ہے۔ ٢٥٥۔ ٢ کرسی سے بعض نے موضع قدمین (قدم رکھنے کی جگہ) بعض نے علم بعض نے قدرت وعظمت بعض نے بادشاہی اور بعض نے عرش مراد لیا ہے لیکن صفات باری تعالیٰ کے بارے میں محدثین اور سلف کا یہ مسلک ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جو صفات جس طرح قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں ان کی بغیر تاویل اور کیفیت بیان کیے ان پر ایمان رکھا جائے اس لیے یہی ایمان رکھنا چاہیے کہ یہ فی الواقع کرسی ہے جو عرش سے الگ ہے اس کی کیفیت کیا ہے اس پر وہ کس طرح بیٹھتا ہے اس کو ہم بیان نہیں کرسکتے کیونکہ اس کی حقیقت سے ہم بے خبر ہیں۔ البقرة
256 ٢٥٦۔ ١ اس کے شان نزول میں بتایا گیا ہے کہ انصار کے کچھ نوجوان یہودی اور عیسائی ہوگئے تھے پھر جب یہ انصار مسلمان ہوگئے تو انہوں نے اپنی نوجوان اولاد کو بھی جو عیسائی ہوگئے تھے زبردستی مسلمان بنانا چاہا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ شان نزول اس عتبار سے بعض مفسرین نے اس کو اہل کتاب کے لئے خاص مانا ہے یعنی مسلمان مملکت میں رہنے والے اہل کتاب اگر وہ جزیہ ادا کرتے ہوں تو انہیں قبول اسلام پر مجبور نہیں کیا جائے گا لیکن یہ آیت حکم کے اعتبار سے عام ہے یعنی کسی پر بھی قبول اسلام کے لیے جبر نہیں کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور گمراہی دونوں کو واضح کردیا ہے تاہم کفر و شرک کے خاتمے اور باطل کا زور توڑنے کے لئے جہاد ایک الگ جبر و اکراہ سے مختلف چیز ہے۔ مقصد معاشرے سے اس قوت کا زور اور دباو ختم کرتا ہے جو اللہ کے دین پر عمل اور اس کی تبلیغ کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہو تاکہ ہر شخص اپنی مرضی سے چاہے تو اپنے کفر پر قائم رہے اور چاہے تو اسلام میں داخل ہوجائے چونکہ رکاوٹ بننے والی طاقتیں رہ رہ کر ابھرتی رہیں گی اس لیے جہاد کا حکم اور اس کی ضرورت بھی قیامت تک رہے گی جیسا کہ حدیث میں ہے الجہاد ماض الی یوم القیمۃ جہاد قیامت تک جاری رہے گا خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کافروں اور مشرکوں سے جہاد کیا ہے اور فرمایا ہے امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا۔ الحدیث۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان باب فان تابوا واقاموا الصلوۃ۔) مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کا اقرار نہ کرلیں اسی طرح سزائے ارتداد قتل سے بھی اس آیت کا کوئی ٹکروا نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ ایسا باور کراتے ہیں کیونکہ ارتداد کی سزا قتل سے مقصود جبر و اکراہ نہیں ہے بلکہ اسلامی ریاست کی نظریاتی حیثیت کا تحفظ ہے ایک اسلامی مملکت میں ایک کافر کو اپنے کفر پر قائم رہ جانے کی اجازت تو بیشک دی جاسکتی ہے لیکن ایک بار جب وہ اسلام میں داخل ہوجائے تو پھر اس سے بغاوت وانحراف کی اجازت نہیں دی جاسکتی لہذا وہ خوب سوچ سمجھ کر اسلام لائے کیونکہ اگر یہ اجازت دے دی جاتی تو نظریاتی اساس منہدم ہو سکتی تھی جس سے نظریاتی انتشار اور فکری انارکی پھیلتی جو اسلامی معاشرے کے امن کو اور ملک کے استحکام کو خطرے میں ڈال سکتی تھی اس لیے جس طرح انسانی حقوق کے نام پر قتل چوری زنا ڈاکہ اور حرابہ وغیرہ جرائم کی اجازت نہیں دی جا سکتی اسی طرح آزادی رائے کے نام پر ایک اسلامی مملکت میں نظریاتی بغاوت (ارتداد) کی اجازت بھی نہیں دی جاسکتی یہ جبرو اکراہ نہیں ہے بلکہ مرتد کا قتل اسی طرح عین انصاف ہے جس طرح قتل وغارت گری اور اخلاقی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزائیں دینا عین انصاف ہے ایک کا مقصد ملک کا نظریانی تحفظ ہے اور دوسرے کا مقصد ملک کو شر و فساد سے بچانا ہے اور دونوں ہی مقصد ایک مملکت کے لیے ناگزیر ہیں آج اکثر اسلامی ممالک ان دونوں ہی مقاصد کو نظر انداز کر کے جن الجھنوں دشواریوں اور پریشانیوں سے دو چار ہیں محتاج وضاحت نہیں۔ البقرة
257 البقرة
258 البقرة
259 ٢٥٩۔ ١ او کالذی کا عطف پہلے واقعہ پر ہے اور مطلب یہ ہے کہ آپ نے پہلے واقعہ کی طرح اس شخص کے قصے پر نظر نہیں ڈالی جو ایک بستی سے گزرا یہ شخص کون تھا اس کی بابت بہت سے اقوال نقل کیے جا چکے ہیں زیادہ مشہور حضرت عزیر (علیہ السلام) کا نام ہے جس کے بعض صحابہ و تابعین قائل ہیں۔ واللہ اعلم۔ اس سے پہلے واقعہ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) و نمرود) میں صانع یعنی باری تعالیٰ کا اثبات تھا اور اس دوسرے واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت احیائے موتی کا اثبات ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو اور اس کے گدھے کو سو سال کے بعد زندہ کردیا حتی کہ اس کے کھانے پینے کی چیزوں کو بھی خراب نہیں ہونے دیا۔ وہی اللہ تعالیٰ قیامت والے دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا جب وہ سو سال کے بعد زندہ کرسکتا ہے تو ہزاروں سال کے بعد بھی زندہ کرنا اس کے لئے مشکل نہیں۔ ٢٥٩۔ ٢ کہا جاتا ہے کہ جب وہ مذکورہ شخص مرا اس وقت کچھ دن چڑھا ہوا تھا جب زندہ ہوا تو ابھی شام نہیں ہوئی تھی اس سے اس نے اندازہ لگایا کہ اگر میں یہاں کل آیا تھا تو ایک دن گزر گیا ہے اگر یہ آج ہی کا واقعہ ہے تو دن کا کچھ حصہ ہی گزرا ہے۔ جب کہ واقعہ یہ تھا کی اس کی موت پر سو سال گزر چکے تھے۔ ٢٥٩۔ ٣ یعنی یقین تو مجھے پہلے ہی تھا لیکن اب عینی مشاہدے کے بعد میرے یقین اور علم میں مزید پختگی اور اضافہ ہوگیا ہے۔ البقرة
260 ٢٦٠۔ ١ یہ احیائے موتی کا دوسرا واقعہ ہے جو ایک نہایت جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خواہش اور ان کے اطمینان قلب کے لئے دکھایا گیا یہ چار پرندے کون کون سے تھے؟ مفسرین نے مختلف نام ذکر کئے ہیں لیکن ناموں کی تعین کا کوئی فائدہ نہیں اس لئے اللہ نے بھی ان کے نام ذکر نہیں کیے بس یہ چار مختلف پرندے تھے بس ان کو مانوس کرلے اور پہچان لے تاکہ پکارنے پر وہ دوبارہ زندہ ہو کر آپ کے پاس آ جائیں اور پہچان سکے کہ یہ وہی پرندے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) نے احیائے موتیٰ کے مسئلے میں شک نہیں کیا اگر انہوں نے شک کا اظہار کیا ہوتا تو ہم یقینا شک کرنے میں ان سے زیادہ حقدار ہوتے (مزید وضاحت کے لئے دیکھئے (فتح القدیر)۔ البقرة
261 ٢٦١۔ ١ یہ نفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت ہے اس سے مراد اگر جہاد ہے تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ جہاد میں خرچ کی گئی رقم کا یہ ثواب ہوگا اور اگر اس سے مراد تمام مصارف خیر ہیں تو یہ فضیلت نفقات و صدقات نافلہ کی ہوگی اور دیگر نیکیوں کی۔ اور ایک نیکی کا اجر دس گنا کی ذیل میں آئے گا۔ (فتح القدیر) گویا نفقات و صدقات کا عام اجر و ثواب دیگر امور خیر سے زیادہ ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ کی اس اہمیت وفضیلت کی وجہ بھی واضح ہے کہ جب تک سامان و اسلحہ جنگ کا انتظام نہیں ہوگا فوج کی کارکردگی بھی صفر ہوگی اور سامان اور اسلحہ رقم کے بغیر مہیا نہیں کیے جا سکتے۔ البقرة
262 ٢٦٢۔ ١ انفاق فی سبیل اللہ کی مذکورہ فضیلت صرف اس شخص کو حاصل ہوگی جو مال خرچ کر کے احسان نہیں جتلاتا نہ زبان سے ایسا کلمہ تحقیر ادا کرتا ہے جس سے کسی غریب، محتاج کی عزت نفس مجروح ہو اور وہ تکلیف محسوس کرے کیونکہ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے۔ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تین آدمیوں سے کلام نہیں فرمائے گا، ان میں سے ایک احسان جتلانے والا ہے۔ (مسلم، کتاب الایمان باب غلظ تحریم اسبال الازاروالمن بالعطیۃ) البقرة
263 ٢٦٣۔ ١ سائل سے نرمی اور شفقت سے بولنا یا دعائیہ کلمات (اللہ تعالیٰ تجھے بھی اور ہمیں بھی اپنے فضل و کرم سے نوازے وغیرہ) سے اس کو جواب دینا قول معروف ہے اور مغَفِرَتْ کا مطلب سائل کے فقر اور اس کی حاجت کا لوگوں کے سامنے عدم اظہار اور اس کی پردہ پوشی ہے اور اگر سائل کے منہ سے کوئی نازیبا بات نکل جائے تو یہ چشم پوشی بھی اس میں شامل ہے یعنی سائل سے نرم اور شفقت اور چشم پوشی، پردہ پوشی، اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد اس کو لوگوں میں ذلیل اور رسوا کر کے اسے تکلیف پہنچائی جائے۔ اس لئے حدیث میں کہا گیا ہے۔ الکلمۃ الطیبۃ صدقۃ (پاکیزہ کلمہ بھی صدقہ ہے) نیز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم کسی بھی معروف (نیکی) کو حقیر مت سمجھو، اگرچہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے ملنا ہی ہو۔ لا تحقرن من المعروف شیئا ولو ان تلقی اخاک بوجہ طلق۔ (مسلم کتاب البر) البقرة
264 ٢٦٤۔ ١ اس میں ایک تو یہ کہا گیا ہے صدقہ اور خیرات کر کے احسان جتلانا اور تکلیف دہ باتیں کرنا اہل ایمان کا شیوا نہیں بلکہ ان لوگوں کا وطیرہ ہے جو منافق ہیں اور ریاکاری کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ دوسرے ایسے خرچ کی مثال صاف پتھر چٹان کی طرح ہے جس پر مٹی ہو کوئی شخص پیداوار حاصل کرنے کے لئے اس میں بیج بو دے لیکن بارش کا ایک جھٹکا پڑتے ہی وہ ساری مٹی اس سے اتر جائے اور وہ پتھر مٹی سے بالکل صاف ہوجائے۔ یعنی جس طرح بارش اس پتھر کے لئے نفع بخش ثابت نہیں ہوئی اس طرح ریا کار کو بھی اس کے صدقے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا البقرة
265 ٢٦٥۔ ١ یہ ان اہل ایمان کی مثال ہے جو اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتے ہیں ان کا خرچ کیا ہوا مال اس باغ کی مانند ہے جو پر فضا اور بلند چوٹی پر ہو کہ اگر زوردار بارش ہو تو اپنا پھل دوگنا دے ورنہ ہلکی سی پھوار اور شبنم بھی اسکو کافی ہوجاتی ہے اس طرح ان کے نفقات بھی چاہے کم ہو یا زیادہ عند اللہ کئی کئی گنا اجر و ثواب کے باعث ہونگے۔ جَنْۃُ اس زمین کو کہتے ہیں جس میں اتنی کثرت سے درخت ہوں جو زمین کو ڈھانک لیں یا وہ باغ جس کے چاروں طرف باڑ ہو اور باڑ کی وجہ سے باغ نظروں سے پوشیدہ ہو۔ یہ جن سے ماخوذ ہے جن اس مخلوق کا نام ہے جو نظر نہیں آتی پیٹ کے بچے کو جنین کہا جاتا ہے کہ وہ بھی نظر نہیں آتا دیوانگی کو جنون سے تعبیر کرتے ہیں کہ اس میں بھی عقل پر پردہ پڑجاتا ہے اور جنت کو اس لئے جنت کہتے ہیں کہ وہ نظروں سے مستور ہے۔ رَبْوَۃَ اونچی زمین کو کہتے ہیں۔ وَابِلُ تیز بارش۔ البقرة
266 ٢٦٦۔ ١ اسی ریاکاری کے نقصانات کو واضح کرنے اور اس سے بچنے کے لیے مزید مثال دی جا رہی ہے جس طرح ایک شخص کا باغ ہو جس میں ہر طرح کے پھل ہوں (یعنی بھرپور آمدنی کی امید ہو) وہ شخص بوڑھا ہوجائے اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں ضعیفی کی وجہ سے محنت اور مشقت سے عاجز ہوچکا ہو اور اولاد بھی اسکے بڑھاپے کا بوجھ اٹھانے کی بجائے خود اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل بھی نہ ہو اس حالت میں تیز اور تند ہوائیں چلیں اور سارا باغ جل جائے اب نہ وہ خود دوبارہ اس باغ کو آباد کرنے کے قابل رہا اور نہ اس کی اولاد یہی حال ان ریاکار خرچ کرنے والوں کا قیامت کے دن ہوگا کہ نفاق و ریاکاری کی وجہ سے ان کے سارے اعمال اکارت چلے جائیں گے۔ جب کہ وہاں نیکیوں کی شدید ضرورت ہوگی اور دوبارہ اعمال خیر کرنے کی مہلت وفرصت نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارا یہی حال ہو؟ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت عمر (رض) نے اس مثال کا مصداق ان لوگوں کو بھی قرار دیا ہے جو ساری عمر نیکیاں کرتے ہیں اور آخر عمر میں شیطان کے جال میں پھنس کر اللہ کے نافرمان ہوجاتے ہیں جس سے عمر بھر کی نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، فتح القدیر للشوکانی تفسیر ابن جریر طبری)۔ البقرة
267 ٢٦٧۔ ١ صدقے کی قبولیت کے لئے جس طرح ضروری ہے کہ ریاکاری سے پاک ہو جیسا کہ گزشتہ آیات میں بتایا گیا ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ کمائی سے ہو چاہے وہ کاروبار (تجارت و صنعت) کے ذریعے سے ہو یا فصل اور باغات کی پیداوار سے اور یہ فرمایا کہ خبیث چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا قصد مت کرو خبیث سے ایک تو وہ چیزیں مراد ہیں جو غلط کمائی سے ہوں اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں فرماتا حدیث میں ہے ان اللہ طیب لا یقبل الا طیبا (اللہ تعالیٰ پاک ہے پاک حلال چیز ہی قبول فرماتا ہے) دوسرے خبیث کے معنی ردی اور نکمی چیز کے ہیں ردی چیزیں بھی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کی جائیں جیسا کہ آیت (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ) 003:092 کا بھی مفاد ہے۔ اس کے شان نزول کی روایت میں بتلایا گیا ہے کہ بعض انصار مدینہ کی خراب اور نکمی کھجوریں بطور صدقہ مسجد میں دے جاتے جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر۔ بحوالہ ترمذی وابن ماجہ وغیرہ)۔ ٢٦٧۔ ٢ یعنی جس طرح تم خود ردی چیزیں لینا پسند نہیں کرتے اسی طرح اللہ کی راہ میں بھی ردی چیزیں خرچ نہ کرو بلکہ اچھی چیزیں خرچ کرو۔ البقرة
268 ٢٦٨۔ ١ یعنی بھلے کام میں مال خرچ کرنا ہو تو شیطان ڈراتا ہے کہ مفلس اور قلاش ہوجاؤ گے لیکن برے کام پر خرچ کرنا ہو تو ایسے اندیشوں کو نزدیک نہیں پھٹکنے دیتا بلکہ ان برے کاموں کو اس طرح سجا اور سنوار کر پیش کرتا ہے جس پر انسان بڑی سے بڑی رقم بےدھڑک خرچ کر ڈالتا ہے دیکھا گیا ہے کہ مسجد، مدرسے یا اور کسی کار خیر کے لئے کوئی چندہ لینے پہنچ جائے تو صاحب مال سو دو سو کے لئے بار بار اپنے حساب کی جانچ پڑتال کرتا ہے مانگنے والے کو بسا اوقات کئی کئی بار دوڑاتا اور پلٹاتا ہے لیکن یہی شخص سینما شراب، بدکاری اور مقدمے بازی وغیرہ کے جال میں پھنستا ہے تو اپنا مال بے تحاشہ خرچ کرتا ہے اور اسے کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور تردد کا ظہور نہیں ہوتا۔ البقرة
269 ٢٦٩۔ ١ حکمۃ سے بعض کے نزدیک عقل وفہم، علم اور بعض کے نزدیک اصابت رائے، قرآن کے ناسخ ومنسوخ کا علم وفہم، قوت فیصلہ اور بعض کے نزدیک صرف سنت یا کتاب وسنت کا علم وفہم ہے یا سارے ہی مفہوم اس کے مصداق میں شامل ہو سکتے ہیں صحیحین وغیرہ کی ایک حدیث میں ہے کہ دو شخصوں پر رشک کرنا جائز ہے ایک وہ شخص جس کو اللہ نے مال دیا اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہے دوسرا وہ جسے اللہ نے حکمت دی جس سے وہ فیصلہ کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے" (صحیح بخاری، کتاب العلم، باب الاغتباط فی العلم والحکمۃ۔ مسلم کتاب صلاۃ المسافرین، باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ۔۔) البقرة
270 ٢٧٠۔ ١ نَذَرِ کا مطلب ہے میرا فلاں کام ہوگیا یا فلاں مشکل سے نجات مل گئی تو میں اللہ کی راہ میں اتنا صدقہ کرونگا۔ اس نذر کا پورا کرنا ضروری ہے اگر کسی نافرمانی یا ناجائز کام کی نذر مانی ہے تو اس کا پورا کرنا ضروری نہیں نذر بھی نماز روزہ کی طرح عبادت ہے اس لئے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی نذر ماننا اس کی عبادت کرنا شرک ہے۔ جیسا کہ آج کل مشہور قبروں پر نذر ونیاز کا یہ سلسلہ عام ہے اللہ تعالیٰ اس شرک سے بچائے۔ البقرة
271 ٢٧١۔ ١ اس سے معلوم ہوا کہ عام حالات میں خفیہ طور پر صدقہ کرنا افضل ہے سوائے کسی ایسی صورت کے کہ اعلانیہ صدقہ دینے میں لوگوں کے لئے ترغیب کا پہلو ہو۔ اگر ریاکاری کا جذبہ شامل نہ ہو تو ایسے موقعوں پر پہل کرنے والے جو خاص فضلیت حاصل کرسکتے ہیں وہ احادیث سے واضح ہے۔ تاہم اس قسم کی مخصوص صورتوں کے علاوہ دیگر مواقع پر خاموشی سے صدقہ و خیرات کرنا ہی بہتر ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جن لوگوں کو قیامت کے دن عرش الٰہی کا سایہ نصیب ہوگا ان میں وہ شخص بھی شامل ہوگا جس نے اتنے خفیہ طریقے سے صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی یہ پتہ نہیں چلا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ صدقے میں اخفا کی افضلیت کو بعض علماء نے صرف نفلی صدقات تک محدود رکھا ہے اور زکاۃ کی ادائیگی میں اظہار کو بہتر سمجھا ہے۔ لیکن قرآن کا عموم صدقات نافلہ اور واجبہ دونوں کو شامل ہے (ابن کثیر) اور حدیث کا عموم بھی اسی کی تائید کرتا ہے۔ البقرة
272 ٢٧٢۔ ١ تفسیری روایات میں اس کا شان نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان اپنے مشرک رشتے داروں کی مدد کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ مسلمان ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہدایت کے راستے پر لگا دینا یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے دوسری بات یہ ارشاد فرمائی تم جو بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اس کا پورا اجر ملے گا جس سے یہ معلوم ہوا کہ غیر مسلم رشتے دار کے ساتھ بھی صلہ رحمی کرنا باعث اجر ہے تاہم زکاۃ صرف مسلمان کا حق ہے کسی غیر مسلم کو نہیں دی جا سکتی۔ البقرة
273 ٢٧٣۔ ١ اس سے مراد مہاجرین ہیں جو مکہ سے مدینہ آئے اور اللہ کے راستے میں ہر چیز سے کٹ گئے دینی علوم حاصل کرنے والے طلباء اور علماء بھی اس کی ذیل میں آ سکتے ہیں۔ ٢٧٣۔ ٢ گویا اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ فقرو غربت کے باوجود (سوال سے بچنا) اختیار کرتے اور چمٹ کر سوال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ بعض نے الحاف کے معنی کئے ہیں بلکل سوال نہ کرنا کیونکہ ان کی پہلی صفت عفت بیان کی گئی ہے۔ (فتح القدیر) اور بعض نے کہا کہ وہ سوال میں آہو زاری نہیں کرتے اور جس چیز کی انہیں ضرورت نہیں ہے اسے لوگوں سے طلب نہیں کرتے۔ اس لئے الحاف یہ ہے کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود (بطور پیشہ) لوگوں سے مانگے اس لئے پیشہ ور گداگروں کے بجائے، مہاجرین، دین کے طلباء اور سفید پوش ضرورت مندوں کا پتہ لگا کر ان کی امداد کرنی چاہیے جو سوال کرنے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا انسان کی عزت نفس اور خوداری کے خلاف ہے۔ اور بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ ہمیشہ لوگوں سے سوال کرنے والے کے چہرے پر قیامت کے دن گوشت نہیں ہوگا۔ (بحوالہ مشکوۃ کتاب الزکاۃ باب من لا تحل لہ المسئلۃ ومن تحل لہ) البقرة
274 البقرة
275 ٢٧٥۔ ١ رِبَوا کے لغوی معنی زیادتی اور اضافے کے ہیں اور شریعت میں اس کا اطلاق رِبَا الفَضْلِ اور ربا النسیئۃ پر ہوتا ہے۔ ربا الفضل اس سود کو کہتے ہیں جو چھ اشیا میں کمی بیشی یا نقد و ادھار کی وجہ سے ہوتا ہے (جس کی تفصیل حدیث میں ہے) مثلا گندم کا تبادلہ گندم سے کرنا ہے تو فرمایا گیا ہے کہ ایک تو برابر برابر ہو۔ دوسرے ہاتھوں ہاتھ ہو۔ اس میں کمی بیشی ہوگی تب بھی اور ہاتھوں ہاتھ ہونے کے بجائے ایک نقد اور دوسرا ادھار یا دونوں ہی ادھار ہوں تب بھی سود ہے) ربا النسیئۃ کا مطلب ہے کسی کو (مثلا) چھ مہینے کے لیے اس شرط پر سو روپے دینا کہ واپسی ١٢٥ روپے ہوگی۔ ٢٥ روپے چھ مہینے کی مہلت کے لیے دیے جائیں۔ حضرت علی (رض) کی طرف منسوب قول میں اسے اس طرح بیان کیا گیا ہے "کل قرض جر منفعۃ فھو ربا "(فیض القدیر شرح الجامع الصغیر ج ٥، ص ٢٨) (قرض پر لیا گیا نفع سود ہے)۔ یہ قرضہ ذاتی ضرورت کے لیے لیا گیا ہو یا کاروبار کے لئے دونوں قسم کے قرضوں پر سود حرام ہے۔ اور زمانہ جاہلیت میں بھی دونوں قسم کے قرضوں کا رواج تھا شریعت نے بغیر کسی قسم کی تفریق کے دونوں کو مطلقا حرام قرار دیا ہے اس لیے بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ تجارتی قرضہ جو عام طور پر بنک سے لیا جاتا ہے اس پر اضافہ سود نہیں ہے اس لیے کہ قرض لینے والا اس سے فائدہ اٹھاتا ہے جس کا کچھ حصہ وہ بنک کو یا قرض دہندہ کو لوٹا دیتا ہے تو اس میں قباحت کیا ہے؟ اس کی قباحت ان متجددین کو نظر نہیں آتی جو اس کو جائز قرار دیتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں تو اس میں بڑی قباحتیں ہیں۔ مثلا قرض لے کر کاروبار کرنے والے کا منافع تو یقینی نہیں ہے بلکہ منافع تو کجا اصل رقم کی حفاظت کی بھی ضمانت نہیں ہے بعض دفعہ کاروبار میں ساری رقم ہی ڈوب جاتی ہے جب کہ اس کے برعکس قرض دہندہ (چا ہے وہ بنک ہو یا کوئی ساہوکار ہو) کا منافع متعین ہے جس کی ادائیگی ہر صورت میں لازمی ہے یہ ظلم کی ایک واضح صورت ہے جسے شریعت اسلامیہ کس طرح جائز قرار دے سکتی ہے؟ علاوہ ازیں شریعت تو اہل ایمان کو معاشرے کے ضرورت مندوں پر بغیر کسی دنیاوی غرض و منفعت کے خرچ کرنے کی ترغیب دیتی ہے جس سے معاشرے میں اخوت بھائی چارے، ہمدردی، تعاون اور شفقت ومحبت کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔ اس کے برعکس سودی نظام سے سنگ دلی اور خود غرضی کو فروغ ملتا ہے۔ ایک سرمائے دار کو اپنے سرمائے کے نفع سے غرض ہوتی ہے چاہے معاشرے میں ضرورت مند، بیماری، بھوک، افلاس سے کراہ رہے ہوں یا بے روزگار اپنی زندگی سے بیزار ہوں۔ شریعت اس شقاوت وسنگدلی کو کس طرح پسند کرسکتی ہے؟ اس کے اور بہت سے نقصانات ہیں تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ بہرحال سود مطلقاً حرام ہے چاہے ذاتی ضرورت کے لیے لیے گئے قرضے کا سود ہو یا تجارتی قرضے پر۔ ٢٧٥۔ ٢ سود خور کی یہ کیفیت قبر سے اٹھتے وقت یا میدان محشر میں ہوگی۔ ٢٧٥۔ ٣ حالانکہ تجارت میں تو نقد رقم اور کسی چیز کا آپس میں تبادلہ ہوتا ہے دوسرے اس میں نفع نقصان کا امکان رہتا ہے جب کہ سود میں دونوں چیزیں نہیں ہیں علاوہ ازیں بیع کو اللہ نے حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے پھر یہ دونوں ایک کس طرح ہو سکتے ہیں۔ ٢٧٥۔ ٤ قبول ایمان یا توبہ کے بعد پچھلے سود پر گرفت نہیں ہوگی۔ ٢٧٥۔ ٥ کہ وہ توبہ پر ثابت قدم رہتا ہے یا سوء عمل اور فسادات کی وجہ سے اسے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔ اس لئے اس کے بعد دوبارہ سود لینے والے کے لئے سزا کی دھمکی ہے۔ البقرة
276 ٢٧٦۔ ١ یہ سود کے معنوی اور روحانی نقصان اور صدقے کی برکتوں کا بیان ہے۔ سود میں بظاہر بڑھوتری نظر آتی ہے لیکن معنوی حساب سے یا مال (انجام) کے اعتبار سے سودی رقم ہلاکت و بربادی ہی کا باعث بنتی ہے۔ البقرة
277 البقرة
278 البقرة
279 ٢٧٩۔ ١ یہ ایسی سخت سزا ہے جو اور کسی معصیت کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ اس لئے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے کہا کہ اسلامی مملکت میں جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑا دے (ابن کثیر) ٢٧٩۔ ٢ تم اگر اصل زر سے زیادہ وصول کرو گے تو یہ تمہاری طرف سے ظلم ہوگا اور اگر تمہیں اصل زر بھی نہ دیا جائے تو یہ تم پر ظلم ہوگا۔ البقرة
280 ٢٨٠۔ ١ زمانہ جاہلیت میں قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں سود در سود اصل رقم میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا تھا جس سے تھوڑی سی رقم ایک پہاڑ بن جاتی تھی اور اس کی ادائیگی ناممکن ہوجاتی تھی اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ کوئی تنگ دست ہو تو (سود لینا تو درکنار اصل مال لینے میں بھی) آسانی تک اسے مہلت دے دو اور اگر قرض بالکل ہی معاف کر دو تو زیادہ بہتر ہے حدیث میں اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے کتنا فرق ہے ان دونوں نظاموں میں ایک سراسر ظلم، سنگدلی اور خود غرضی پر مبنی نظام اور دوسرا ہمدردی، تعاون اور ایک دوسرے کو سہارا دینے والا نظام۔ مسلمان خود ہی اس بابرکت اور پر رحمت نظام الٰہی کو نہ اپنائیں تو اس میں اسلام کا کیا قصور اور اللہ پر کیا الزام؟ کاش مسلمان اپنے دین کی اہمیت وافادیت کو سمجھ سکیں اور اس پر اپنے نظام زندگی کو استوار کرسکیں۔ البقرة
281 ١٨١۔ ١ بعض آثار میں ہے کہ یہ قرآن کریم کی آخری آیت ہے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی، اس کے چند دن بعد ہی آپ دنیا سے رحلت فرما گئے۔ (ابن کثیر) البقرة
282 ٢٨٢۔ ١ جب سودی نظام کی سختی سے ممانعت اور صدقات و خیرات کی تاکید بیان کی گئی تو پھر ایسے معاشرے میں (قرضوں) کی بہت ضرورت پڑتی ہے کیونکہ سود تو ویسے ہی حرام ہے اور ہر شخص صدقہ و خیرات کی استطاعت نہیں رکھتا اسی طرح ہر شخص صدقہ لینا پسند بھی نہیں کرتا پھر اپنی ضروریات و حاجات پوری کرنے کے لئے قرض ہی باقی رہ جاتا ہے۔ اسی لئے احادیث میں قرض دینے کا بڑا ثواب بیان کیا گیا ہے تاہم قرض جس طرح ایک ناگزیر ضرورت ہے اور جھگڑوں کا باعث بھی ہے اس لئے اس آیت میں جسے آیتہ الدین کہا جاتا ہے اور جو قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے اللہ تعالیٰ نے قرض کے سلسلے میں ضروری ہدایات دی ہیں تاکہ یہ ناگزیر ضرورت لڑائی جھگڑے کا باعث نہ بنیں اس کے لئے ایک حکم یہ دیا گیا ہے کہ مدت کا تعین کرلو دوسرا یہ کہ اسے لکھ لو تیسرا یہ کہ اس پر دو مسلمان مرد کو یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لو۔ ٢٨٢۔ ٢ اس سے مراد ہے یعنی وہ اللہ سے ڈرتا ہوا رقم کی صحیح تعداد لکھوائے اس میں کمی نہ کرے آگے کہا جا رہا ہے کہ یہ مقروض اگر کم عقل یا کمزور بچہ یا مجنون ہے تو اس کے ولی کو چاہیے کہ انصاف کے ساتھ لکھوالے تاکہ صاحب حق (قرض دینے والے) کو نقصان نہ ہو۔ ٢٨٢۔ ٣ یعنی جن کی دیانتداری اور عدالت پر مطمئن ہو۔ علاوہ ازیں قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے نیز مرد کے بغیر صرف اکیلی عورت کی گواہی بھی جائز نہیں سوائے ان معاملات کے جن پر عورت کے علاوہ کوئی اور مطلع نہیں ہوسکتا اس امر میں اختلاف ہے کہ مدعی کی ایک قسم کے ساتھ دو عورتوں کی گواہی پر فیصلہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جس طرح ایک مرد گواہ کے ساتھ فیصلہ کرنا جائز ہے جب کہ دوسرے گواہ کی جگہ مدعی قسم کھا لے۔ فقہائے احناف کے نزدیک ایسا کرنا جائز نہیں جب کہ محدثین اس کے قائل ہیں کیونکہ حدیث سے ایک گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلہ کرنا ثابت ہے اور دو عورتیں جب ایک مرد گواہ کے برابر ہیں تو دو عورتوں اور قسم کے ساتھ فیصلہ کرنا بھی جائز ہوگا (فتح القدیر) ٢٨٢۔ ٤ یہ ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کو مقرر کرنے کی علت و حکمت ہے۔ یعنی عورت عقل اور یادداشت میں مرد سے کمزور ہے (جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں بھی عورت کو ناقص العقل کہا گیا ہے) اس میں عورت کی شرم ساری اور فروتری کا اظہار نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض لوگ باور کراتے ہیں بلکہ ایک فطرتی کمزوری کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت ومشیت پر مبنی ہے۔ مکابرۃً کوئی اس کو تسلیم نہ کرے تو اور بات ہے۔ لیکن حقائق و واقعات کے اعتبار سے یہ ناقابل تردید ہے۔ ٢٨٢۔ ٥ یہ لکھنے کے فوائد ہیں کہ اس سے انصاف کے تقاضے پورے ہونگے، گواہی بھی درست رہے گی (کہ گواہ اگر فوت ہوجائے) یا غائب ہوجائے تو اس صورت میں تحریر کام آئے گی، اور شک وشبہ سے بھی فریقین محفوظ رہیں گے۔ شک پڑنے کی صورت میں تحریر دیکھ کر شک دور کیا جا سکتا ہے۔ ٢٨٢۔ ٦ یہ وہ خریدو فروخت ہے جس میں ادھار ہو یا سودا طے ہوجانے کے بعد بھی انحراف کا خطرہ ہو ورنہ اس سے پہلے نقد سودے کو لکھنے سے مستشنٰی کردیا گیا ہے بعض نے بیع سے مکان دکان، باغ یا حیوانات کی بیع مراد لی ہے۔ ٢٨٢۔ ٧ ان کو نقصان پہنچانا یہ ہے کہ دور دراز کے علاقے میں ان کو بلایا جائے کہ جس سے ان کی مصروفیات میں حرج یا کاروبار میں نقصان ہو یا ان کو جھوٹی بات لکھنے یا اس کی گواہی دینے پر مجبور کیا جائے۔ ٢٨۔ ٨ یعنی جن باتوں کی تاکید کی گئی ہے ان پر عمل کرو اور جن چیزوں سے روکا گیا ہے ان سے اجتناب کرو۔ البقرة
283 ٢٨٣۔ ١ اگر سفر میں قرض کا معاملہ کرنے کی ضرورت پیش آئے وہاں لکھنے والا یا کاغذ پنسل نہ ملے تو اس کی متبادل صورت بتلائی جارہی ہے کہ قرض لینے والا کوئی چیز قرض دینے والے کے پاس گروی رکھ دے اس سے گروی کی مشروعیت اور اس کا جواز ثابت ہوتا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس گروی رکھی تھی اگر گروی رکھی ہوئی چیز ایسی ہے جس سے نفع موصول ہوتا ہے تو اس نفع کا حقدار مالک ہوگا اور گروی رکھی ہوئی چیز پر کچھ خرچ ہوتا ہے تو اس سے وہ اپنا خرچ وصول کرسکتا ہے باقی نفع مالک کو ادا کرنا ضروری ہے۔ ٢٨٣۔ ٢ یعنی اگر ایک دوسرے پر اعتماد ہو تو بغیر گروی رکھے بھی ادھار کا معاملہ کرسکتے ہو امانت سے مراد یہاں قرض ہے اللہ سے ڈرتے ہوئے اسے صحیح طریقے سے ادا کرے۔ ٢٨٣۔ ٣ گواہی کا چھپانا کبیرہ گناہ ہے اس لئے اس پر سخت (وعید) سزا یہاں قرآن اور احادیث میں بیان کی گئی ہے اسی لئے گواہی دینے کی فضیلت بھی بڑی ہے صحیح مسلم کی حدیث ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ سب سے بہتر گواہ ہے جو گواہی طلب کرنے سے قبل ہی از خود گواہی کے لئے پیش ہوجائے۔ الا اخبرکم بخیر الشھداء؟ الذی یاتی بشھادتہ قبل ان یسئالھا (صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ، باب بیان خیر الشھود) ایک دوسری روایت میں بدترین گواہ کی نشان دہی بھی فرما دی گئی ہے۔ "الا اخبرکم بشر الشھداء؟ الذین عشھون قبل ان یستشھدوا"(صحیح بخاری، کتاب الرقاق۔ مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ) "کیا میں تمہیں وہ گواہ نہ بتلاؤں جو بدترین گواہ ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو گواہی طلب کرنے سے قبل ہی گواہی دیتے ہیں"مطلب ہے یعنی جھوٹی گواہی دے کر گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہں۔ نیز آیت میں دل کا خاص ذکر کیا گیا ہے اس لیے کہ کتمان دل کا فعل ہے علاوہ ازیں دل تمام اعضا کا سردار ہے اور یہ ایسا مضغہ گوشت ہے کہ اگر یہ صحیح رہے تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر اس میں فساد آجائے تو سارا جسم فساد کا شکار ہوجاتا ہے۔ "الا وان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ، واذا فسدت فسد الجسد کلہ، الا! وھی القلب" (صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب فضل من استبرأالدینہ)۔ البقرة
284 ٢٨٤۔ ١ احایث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام بڑے پریشان ہوئے انہوں نے دربار رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا یارسول اللہ نماز، روزہ، زکوٰۃ وجہاد وغیرہ یہ سارے اعمال جن کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ہم بجا لاتے ہیں کیونکہ یہ ہماری طاقت سے بالا نہیں ہیں لیکن دل میں پیدا ہونے والے خیالات اور وسوسوں پر تو ہمارا اختیار ہی نہیں وہ تو انسانی طاقت سے باہر ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی محاسبہ کا اعلان فرمایا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کے جذبہ سمع و طاعت کو دیکھتے ہوئے کہا اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو منسوخ فرما دیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت سے جی میں آنے والی باتوں کو معاف کردیا ہے۔ البتہ ان پر گرفت ہوگی جن پر عمل کیا جائے یا جن کا اظہار زبان سے کردیا جائے اس سے معلوم ہوا کہ دل میں گزرنے والے خیالات پر محاسبہ نہیں ہوگا۔ صرف ان پر محاسبہ ہوگا جو پختہ عزم و ارادہ میں ڈھل جائیں یا عمل کا قالب اختیار کرلیں۔ البقرة
285 ٢٨٥۔ ١ اس آیت میں پھر ان ایمانیات کا ذکر ہے جن پر اہل ایمان کو ایمان رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس اگلی آیت (لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا) 002:286 میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شفقت اور اس کے فضل و کرم کا تذکرہ ہے کہ اس نے انسانوں کو کسی ایسی بات کا مکلف نہیں کیا جو ان کی طاقت سے بالا ہو۔ ان دونوں آیات کی حدیث میں بڑی فضیلت آئی ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص سورۃ بقرہ کی آخری دو آیتیں رات کو پڑھ لیتا ہے تو یہ اس کو کافی ہوجاتی ہیں (صحیح بخاری) دوسری حدیث میں ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج کی رات جو تین چیزیں ملیں ان میں سے ایک سورۃ بقرہ کی یہ دو آخری آیات بھی ہیں (صحیح مسلم) کئی روایات میں یہ وارد ہے کہ اس سورۃ کی آخری آیات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک خزانے سے عطا کی گئیں جو عرش الٰہی کے نیچے ہے۔ اور یہ آیات آپ کے سوا کسی اور نبی کو نہیں دی گئیں حضرت معاذ (رض) اس صورت کے خاتمے پر آمین کہا کرتے تھے۔ البقرة
286 البقرة
0 یہ سورت مدنی ہے اس کی تمام آیتیں مختلف اوقات میں ہجرت کے بعد اتری ہیں اور اس کا ابتدائی حصہ یعنی ٨٣ آیات تک عیسائیوں کے وفد نجران کے بارے میں نازل ہوا ہے جو ٩ ہجری میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تھا عیسائیوں نے آ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے عیسائی عقائد اور اسلام کے بارے میں مذاکرہ و مباحثہ کیا جس کو رد کرتے ہوئے انہیں دعوت مباہلہ بھی دی گئی جس کی تفصیل آگے آئے گی۔ آل عمران
1 آل عمران
2 ٢۔ ١ حَیُّ اور قَیُوم اللہ تعالیٰ کی خاص صفات ہیں جن کا مطلب وہ ازل سے ابد تک رہے گا اسے موت اور فنا نہیں قیوم کا مطلب سارے کائنات کا قائم رکھنے والا، محافظ اور نگران، ساری کائنات اس کی محتاج وہ کسی کا محتاج نہیں۔ عیسائی حضرت عیسیٰ کو اللہ یا ابن اللہ یا تین میں سے ایک مانتے تھے گویا ان کو کہا جا رہا ہے جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اللہ کی مخلوق ہیں، وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے اور ان کا زمانہ ولادت بھی تخلیق کائنات سے بہت عرصہ بعد کا ہے تو پھر وہ اللہ یا اللہ کا بیٹا کس طرح ہو سکتے ہیں نیز ان پر موت بھی نہیں آنی چاہیے تھی لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ موت سے بھی ہمکنار ہوں گے اور عیسائیوں کے بقول ہمکنار ہوچکے۔ احادیث میں آتا ہے کہ تین آیتوں میں اللہ کا اسم اعظم ہے جس کے ذریعے سے دعا کی جائے تو رد نہیں ہوتی۔ ایک یہ آل عمران کی آیت۔ دوسری آیت الکرسی اور تیسری سورۃ طہٰ (ابن کثیر تفسیر آیت الکرسی) آل عمران
3 ٣۔ ١ یعنی اس کی منزل من اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں کتاب سے مراد قرآن مجید ہے۔ آل عمران
4 ٤۔ ١ اس سے پہلے انبیاء پر جو کتابیں نازل ہوئیں یہ کتاب اس کی تصدیق کرتی ہے یعنی جو باتیں ان میں درج تھیں ان کی صداقت اور ان میں بیان کردہ پیشن گوئیوں کا اعتراف کرتی ہے جس کے صاف معنی یہ ہیں یہ قرآن کریم بھی اسی ذات کا نازل کردہ ہے جس نے پہلے بہت سی کتابیں نازل فرمائیں۔ اگر یہ کسی اور کی طرف سے یا انسانی کاوشوں کا نتیجہ ہوتا ان میں باہم مطابقت کی بجائے مخالفت ہوتی۔ ٤۔ ٢ یعنی اپنے وقت میں تورات اور انجیل بھی یقینا لوگوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ تھیں اسلئے کہ ان کے اتارنے کا مقصد ہی یہی تھا۔ تاہم اس کے بعد دوبارہ کہہ کر وضاحت فرما دی کہ اب تورات و انجیل کا دور ختم ہوگیا اب قرآن نازل ہوچکا ہے وہ فرقان ہے اور اب صرف وہی حق و باطل کی پہچان ہے اس کو سچا مانے بغیر عند اللہ کوئی مسلمان اور مومن نہیں۔ آل عمران
5 آل عمران
6 ٦۔ ١ خوب صورت یا بد صورت، مذکر یا مونث نیک بخت یا بد بخت، ناقص الخلقت یا تام الخلقت جب رحم مادر میں یہ سارے تصرفات صرف اللہ تعالیٰ ہی کرنے والا ہے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کس طرح ہو سکتے ہیں جو خود بھی اسی مرحلہ تخلیق سے گزر کر دنیا میں آئے ہیں جس کا سلسلہ اللہ نے رحم مادر میں قائم فرمایا۔ آل عمران
7 ٧۔ ١ محکمات سے مراد وہ آیات ہیں جن میں اوامر ونواہی، احکام و مسائل اور قصص وحکایات ہیں جن کا مفہوم واضح اور اٹل ہے اور ان کے سمجھنے میں کسی کو اشکال پیش نہیں آتا اس کے برعکس آیات متشابھات ہیں مثلا اللہ کی ہستی قضا و قدر کے مسائل، جنت و دوزخ، ملائکہ وغیرہ یعنی ماوراء عقل حقائق جن کی حقیقت سمجھنے سے عقل انسانی قاصر ہو یا ان میں ایسی تاویل کی گنجائش ہو یا کم از کم ایسا ابہام ہو جس سے عوام کو گمراہی میں ڈالنا ممکن ہو۔ اس لئے آگے کہا جا رہا ہے کہ جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے وہ آیات متشابہ کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کے ذریعے سے فتنے برپا کرتے ہیں جیسے عیسائی ہیں۔ قرآن نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو عبد اللہ اور نبی کہا یہ واضح اور محکم بات ہے لیکن عیسائی اسے چھوڑ کر قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ کو روح اللہ اور کلمۃ اللہ جو کہا گیا اس سے اپنے گمراہ کن عقائد پر غلط استدال کرتے ہیں یہی حال اہل بدعت کا ہے قرآن کے واضح عقائد کے برعکس اہل بدعت نے جو غلط عقائد گھڑ رکھے ہیں وہ انہیں متشابہات کو بنیاد بناتے ہیں۔ اور بسا اوقات محکمات کو بھی اپنے فلسفیانہ استدلال کے گورکھ دھندے سے متشابھات بنا دیتے ہیں اعاذنا اللہ منہ۔ ان کے برعکس صحیح العقیدہ مسلمان محکمات پر عمل کرتا ہے اور متشابھات کے مفہوم کو بھی اگر اس میں اشتباہ ہو محکمت کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ قرآن نے انہی اصل کتاب قرار دیا ہے۔ جس سے وہ فتنے سے بھی محفوظ رہتا ہے اور عقائد گمراہی سے بھی جعلنا اللہ منہم ٧۔ ٢ تاویل کے ایک معنی تو ہیں کسی چیز کی اصل حقیقت اس معنی کے اعتبار سے الْا اللّٰہُ پر وقف ضروری ہے۔ کیونکہ ہر چیز کی اصل حقیقت واضح طور پر صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے تاویل کے دوسرے معنی ہیں کسی چیز کی تفسیر و تعبیر اور بیان، اس اعتبار سے الْا اللّہ پر وقف کے بجائے (وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ) 3۔ آل عمران :7) پر بھی وقف کیا جا سکتا ہے کیونکہ مضبوط علم والے بھی صحیح تفسیر کا علم رکھتے ہیں تاویل کے یہ دونوں معنی قرآن کریم کے استعمال سے ثابت ہیں (ملخص از ابن کثیر) آل عمران
8 آل عمران
9 آل عمران
10 آل عمران
11 آل عمران
12 ١٢۔ ١ یہاں کافروں سے مراد یہودی ہیں۔ اور یہ پیش گوئی جلدی پوری ہوگئی۔ چنانچہ بنو قینقاع اور بنو نفیر جلا وطن کئے گئے بنو قریظہ قتل کئے گئے پھر خیبر فتح ہوگیا اور تمام یہودیوں پر جزیہ عائد کردیا گیا (فتح القدیر) آل عمران
13 ١٣۔ ١ یعنی ہر فریق دوسرے فریق کو اپنے سے دوگنا دیکھتا ہے کافروں کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی انہیں مسلمان دو ہزار کے قریب دکھائی دیتے تھے مقصد اس سے ان کے دلوں میں مسلمانوں کی دھاک بٹھانا تھا اور مسلمانوں کی تعداد تین سو سے کچھ اوپر (یا ٣١٣) تھی انہیں کافر ٦٠٠ اور ٧٠٠ کے درمیان نظر آتے تھے۔ دراں حالانکہ ان کی اصل تعداد ہزار کے قریب (٣ گنا) تھی مقصد اس سے مسلمانوں کا عزم و حوصلہ میں اضافہ کرنا تھا۔ اپنے سے تین گنا دیکھ کر ممکن تھا مسلمان مرغوب ہوجاتے جب وہ تین گنا کی بجائے دو گنا نظر آئے تو ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا لیکن یہ دوگنا دیکھنے کی کیفیت ابتدا میں تھی پھر جب دونوں گروہ آمنے سامنے صف آرا ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے برعکس دونوں کو ایک دوسرے کی نظروں میں کم کر کے دکھایا تاکہ کوئی بھی فریق لڑائی سے گریز نہ کرے بلکہ ہر ایک پیش قدمی کی کوشش کرے (ابن کثیر) یہ تفصیل (وَاِذْ یُرِیْکُمُوْہُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْٓ اَعْیُنِکُمْ قَلِیْلًا وَّ یُقَلِّلُکُمْ فِیْٓ اَعْیُنِہِمْ لِیَقْضِیَ اللّٰہُ اَمْرًا کَانَ مَفْعُوْلًا ۭوَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ 44؀ۧ) 008:044 میں بیان کی گئی ہے۔ یہ جنگ بدر کا واقعہ ہے جو ہجرت کے بعد دوسرے سال مسلمانوں اور کافروں کے درمیان پیش آیا یہ کئی لحاظ سے نہایت اہم جنگ تھی ایک تو اس لئے کہ یہ پہلی جنگ تھی دوسرے یہ جنگی منصوبہ بندی کے بغیر ہوئی مسلمان ابو سفیان کے قافلے کے لئے نکلے تھے جو شام سے سامان تجارت لے کر مکہ جارہا تھا مگر اطلاع مل جانے کی وجہ سے وہ اپنا قافلہ بچا کرلے گیا لیکن کفار مکہ اپنی طاقت و کثرت کے گھمنڈ میں مسلمانوں پر چڑھ دوڑے اور مقام بدر پر یہ پہلا معرکہ برپا ہوا تیسرے اس میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد حاصل ہوئی چوتھے اس میں کافروں کو عبرت ناک شکست ہوئی جس سے آئندہ کے لئے کافروں کے حوصلے پست ہوگئے۔ آل عمران
14 ١٤۔ ١ شَھَوَات سے مراد یہاں مشتبھات ہیں یعنی وہ چیزیں جو طبعی طور پر انسان کو مرغوب اور پسندیدہ ہیں اس لئے ان میں رغبت اور ان کی محبت ناپسندیدہ نہیں ہے بشرطیکہ اعتدال کے اندر اور شریعت کے دائرے میں رہے۔ ان کی تزیین بھی اللہ کی طرف سے آزمائش ہے سب سے پہلے عورت کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ ہر بالغ انسان کی سب سے بڑی ضرورت بھی ہے اور سب سے زیادہ مرغوب بھی۔ خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے عورت اور خوشبو مجھے محبوب ہے اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نیک عورت کو دنیا کی سب سے بہتر متاع قرار دیا ہے اس لئے اس کی محبت شریعت کے دائرے سے تجاوز نہ کرے تو یہ بہترین رفیق زندگی بھی ہے اور زاد آخرت بھی ورنہ یہی عورت مرد کے لئے سب سے بڑا فتنہ ہے فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے میرے بعد جو فتنے رونما ہونگے ان میں مردوں کے لئے سب سے بڑا فتنہ عورتوں کا ہے۔ اسی طرح بیٹوں کی محبت ہے اگر اس مقصد کے لئے مسلمانوں کی قوت میں اضافہ اور بقا و تکثیر نسل ہے تو محمود ہے ورنہ مزموم۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان (بہت محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو اس لئے کہ میں قیامت والے دن دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا) اس آیت سے رھبانیت کی تردید اور تحریک خاندانی منصوبہ بندی کی تردید بھی ثابت ہوتی ہے مال ودولت سے بھی مقصود قیام معیشت صلہ رحمی صدقہ و خیرات اور امور پر خرچ کرنا اور سوال سے بچنا ہے تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو تو اس کی محبت بھی عین مطلوب ہے ورنہ مذموم۔ گھوڑوں سے مقصد جہاد کی تیاری دیگر جانوروں سے کھیتی باڑی اور بار برداری کا کام لینا اور زمین سے اس کی پیداوار حاصل کرنا ہو تو یہ سب پسندیدہ ہیں اور اگر مقصود محض دنیا کمانا اور پھر اس پر فخر اور غرور کا اظہار کرنا اور یاد الٰہی سے غافل ہو کر عیش و عشرت سے زندگی گزارنا ہے تو سب مفید چیزیں اس کے لئے وبال جان ثابت ہونگی۔ خزانے یعنی سونے چاندی اور مال و دولت کی فروانی اور کثرت اور وہ گھوڑے جو چراگاہ میں چرنے کے لئے چھوڑے گئے ہوں یا جہاد کے لئے تیار کئے گئے ہوں یا نشان زدہ، جن پر امتیاز کے لئے نشان یا نمبر لگا دیا جائے (فتح القدیر و ابن کثیر) آل عمران
15 ١٥۔ ١ اس آیت میں اہل ایمان کو بتلایا جا رہا ہے کہ دنیا کی مذکورہ چیزوں میں ہی مت کھو جانا بلکہ ان سے بہتر وہ زندگی اور نعمتیں ہیں جو رب کے پاس ہیں جن کے مستحق اہل تقویٰ ہی ہونگے اس لئے تم تقویٰ اختیار کرو اگر یہ تمہارے اندر پیدا ہوگیا تو یقینا تم دین دنیا کی بھلائیاں اپنے دامن میں سمیٹ لو گے۔ ١٥۔ ٢ پاکیزہ یعنی وہ دنیاوی میل کچیل حیض و نفاس اور دیگر آلودگیوں سے پاک ہوں گی اور پاک دامن ہونگی۔ اس سے اگلی دو آیات میں اہل تقویٰ کی صفات کا تذکرہ ہے۔ آل عمران
16 آل عمران
17 آل عمران
18 ١٨۔ ١ شہادت کے معنی بیان کرنے اور آگاہ کرنے کے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا اور بیان کیا اس کے ذریعے سے اس نے اپنی وحدانیت کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی۔ (فتح القدیر) فرشتے اور اہل علم بھی اس کی توحید کی گواہی دیتے ہیں۔ اس میں اہل علم کی بڑی فضیلت اور عظمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے ناموں کے ساتھ ان کا ذکر فرمایا ہے تاہم اس سے مراد صرف وہ اہل علم ہیں جو کتاب اور سنت کے علم سے بہرہ ور ہیں۔ (فتح القدیر) آل عمران
19 ١٩۔ ١ اسلام وہی دین ہے جس کی دعوت و تعلیم ہر پیغمبر اپنے اپنے دور میں دیتے رہے ہیں اور اس کی کامل ترین شکل وہ ہے جسے نبی آخرزماں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا کے سامنے پیش کیا جس میں توحید و رسالت اور آخرت پر اس طرح یقین و ایمان رکھنا ہے جس طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتلایا ہے محض یہ عقیدہ رکھ لینا کہ اللہ ایک ہے یا کچھ اچھے عمل کرلینا یہ اسلام نہیں نہ اس سے نجات آخرت ملے گی۔ ایمان و اسلام اور دین عند اللہ قبول نہیں ہوگا۔ (الفرقان) برکتوں والی ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ جہانوں کا ڈرانے والا ہو اور حدیث میں ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو یہودی یا نصرانی مجھ پر ایمان لائے بغیر فوت ہوگیا وہ جہنمی ہے۔ (صحیح مسلم) اسی لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے وقت کے تمام سلاطین اور بادشاہوں کو خطوط تحریر فرمائے جن میں انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی (بحوالہ ابن کثیر) ١٩۔ ٢ ْ ان کے اس باہمی اختلاف سے مراد وہ اختلاف ہے جو ایک ہی دین کے ماننے والوں نے آپس میں برپا کر رکھا تھا مثلاً یہودیوں کے باہمی اختلافات اور فرقہ بندیاں اسی طرح عیسائیوں کے باہمی اختلا فات اور فرقہ بندیاں پھر وہ اختلافات بھی مراد ہے جو اہل کتاب کے درمیان آپس میں تھا جس کی بنا پر یہودی نصرانیوں کو اور نصرانی یہودیوں کو کہا کرتے تھے تم کسی چیز پر نہیں ہو نبوت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور نبوت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اختلاف بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ سارے اختلافات دلائل کی بنیاد پر نہیں تھے محض حسد اور بغض و عناد کی وجہ سے تھے یعنی وہ لوگ حق کو جاننے اور پہچاننے کے باوجود محض اپنے خیالی دنیاوی مفاد کے چکر میں غلط بات پر جمے رہتے۔ افسوس آج مسلمان علماء کی ایک بڑی تعداد ٹھیک ان ہی کے غلط مقاصد کے لئے غلط ڈگر پر چل رہی ہے۔ ١٩۔ ٣ یہاں آیتوں سے مراد وہ آیات ہیں جو اسلام کے دین الہی ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ آل عمران
20 ٢٠۔ ١ ان پڑھ لوگوں سے مراد مشرکین عرب ہیں جو اہل کتاب کے مقابلے میں بلعموم ان پڑھ تھے۔ آل عمران
21 ٢١۔ ١ یعنی ان کی سرکشی و بغاوت اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ صرف نبیوں کو ہی انہوں نے ناحق قتل نہیں کیا بلکہ ان تک کو بھی قتل کر ڈالا جو عدل و انصاف کی بات کرتے تھے۔ یعنی وہ مومنین مخلصین اور داعیان حق جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ نبیوں کے ساتھ ان کا تذکرہ فرما کر اللہ تعالیٰ نے ان کی عظمت و فضیلت بھی واضح کردی۔ آل عمران
22 آل عمران
23 ٢٣۔ ١ ان اہل کتاب سے مراد مدینے کے یہودی ہیں جن کی اکثریت قبول اسلام سے محروم رہی اور وہ اسلام مسلمانوں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف مکر و سازشوں میں مصروف رہے تاآنکہ ان کے دو قبیلے جلا وطن اور ایک قبیلہ قتل کردیا گیا۔ آل عمران
24 ٢٤۔ ١ یعنی کتاب اللہ کے ماننے سے گریز و اعتراض کی وجہ کا یہ زعم باطل ہے کہ اول تو وہ جہنم میں جائیں گے ہی نہیں اور گئے بھی تو صرف چند دن ہی کے لئے جائیں گے اور انہی من گھڑت باتوں نے انہی دھوکے اور فریب میں ڈال رکھا ہے۔ آل عمران
25 ٢٥۔ ١ قیامت والے دن ان کے یہ دعوے اور غلط عقائد کچھ کام نہ آئیں گے اور اللہ تعالیٰ بے لاگ انصاف کے ذریعے سے ہر نفس کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دے گا کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ آل عمران
26 ٢٦۔ ١ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی بے پناہ قوت وطاقت کا اظہار ہے شاہ کو گدا بنا دے، گدا کو شاہ بنا دے، تمام اختیارات کا مالک ہے یعنی تمام بھلائیاں صرف تیرے ہی ہاتھ میں ہیں تیرے سوا کوئی بھلائی دینے والا نہیں شرکاء خالق بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ لیکن ذکر صرف خیر کا کیا گیا ہے شر کا نہیں اس لئے کہ خیر اللہ کا فضل محض ہے بخلاف شر کے یہ انسان کے اپنے عمل کا بدلہ ہے جو اسے پہنچتا ہے یا اسلئے کہ شر بھی اس کے قضا وقدر کا حصہ ہے جو خیر کو متضمن ہے اس اعتبار سے اس کے تمام افعال خیر ہیں (فتح القدیر) آل عمران
27 ٢٧۔ ١ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرنے کا مطلب موسمی تغیرات ہیں رات لمبی ہوتی ہے تو دن چھوٹا ہوجاتا ہے اور دوسرے موسم میں اس کے برعکس دن لمبا اور رات چھوٹی ہوجاتی ہے یعنی کبھی رات کا حصہ دن میں اور کبھی دن کا حصہ رات میں داخل کردیتا ہے جس سے رات اور دن چھوٹے بڑے ہوجاتے ہیں۔ ٢٧۔ ٢ جیسے نطفہ (مردہ) پہلے زندہ انسان سے نکلتا ہے۔ پھر اس مردہ (نطفہ) سے انسان اسی طرح مردہ انڈے سے پہلے مرغی پھر زندہ مرغی سے انڈہ (مردہ) یا کافر سے مومن اور مومن سے سے کافر پیدا فرماتا ہے بعض روایات میں ہے کہ معاذ (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے اوپر قرض کی شکایت کی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم آیت (قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭبِیَدِکَ الْخَیْرُ ۭ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) 003:026 پڑھا کرو یہ دعا کرو (رَحْمَان الدُنْیَا وَلْاآخِرَۃِو رحیمھما تعطی من تشاء منھما رتمنع من تشاء ارحمنی رحمۃ تغنینی بھا عن رحمۃ من سواک اللھم اغننی من الفقر واقض عنی الدین)۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ یہ ایسی دعا ہے کہ تم پر احد پہاڑ جتنا قرض بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی ادائیگی کا تمہارے لئے انتظام فرما دے گا۔ (مجمع الزوائد) آل عمران
28 ٢٨۔ ١ اولیاء ولی کی جمع ہے ولی ایسے دوست کو کہتے ہیں جس سے دلی محبت اور خصوصی تعلق ہو جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو اہل ایمان کا ولی قرار دیا ہے۔ (اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۙیُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ) 002:257 یعنی اللہ اہل ایمان کا ولی ہے مطلب یہ ہوا کہ اہل ایمان کو ایک دوسرے سے محبت اور ایک دوسرے کیساتھ خصوصی تعلق ہے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے ولی (دوست) ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اہل ایمان کو اس بات سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے کہ وہ کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں کیونکہ کافر اللہ کے بھی دشمن ہیں اور اہل ایمان کے بھی دشمن ہیں۔ تو پھر ان کو دوست بنانے کا جواز کس طرح ہوسکتا ہے؟ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو قرآن کریم میں کئی جگہ وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ تاکہ اہل ایمان کافروں کی موالات (دوستی) اور ان سے خصوصی تعلق قائم کرنے سے گریز کریں۔ البتہ حسب ضرورت ومصلحت ان سے صلح ومعاہدہ بھی ہوسکتا ہے اور تجارتی لین دین بھی۔ اسی طرح جو کافر مسلمانوں کے دشمن نہ ہوں ان سے حسن سلوک اور مدارات کا معاملہ بھی جائز ہے (جس کی تفصیل سورۃ ممتحنہ میں ہے) کیونکہ یہ سارے معاملات، موالات (دوستی ومحبت) سے مختلف ہے۔ ٢٨۔ ٢ یہ اجازت ان مسلمانوں کے لئے ہے جو کسی کافر کی حکومت میں رہتے ہوں کہ ان کے لئے اگر کسی وقت اظہار دوستی کے بغیر ان کے شر سے بچنا ممکن نہ ہو تو وہ زبان سے ظاہری طور پر دوستی کا اظہار کرسکتے ہیں۔ آل عمران
29 آل عمران
30 آل عمران
31 ٣١۔ ١ یہود اور نصاری دونوں کا دعویٰ تھا کہ ہمیں اللہ سے اور اللہ تعالیٰ کو ہم سے محبت ہے بالخصوص عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ و مریم علہما السلام کی تعظیم و محبت میں اتنا غلو کیا کہ انہیں درجہ الوہیت پر فائز کردیا اس کی بابت بھی ان کا خیال تھا کہ ہم اس طرح اللہ کا قرب اور اس کی رضا و محبت چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے دعووں اور خود ساختہ طریقوں سے اللہ کی محبت اور اس کی رضا حاصل نہیں ہو سکتی اس کا تو صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ میرے آخری پیغمبر پر ایمان لاؤ اور اس کی پیروی کرو۔ اس آیت نے تمام دعوے داران محبت کے لئے ایک کسوٹی اور معیار مہیا کردیا ہے کہ محبت الہٰی کا طالب اگر اتباع محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے سے یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے تو پھر تو یقینا وہ کامیاب ہے اور اپنے دعوی میں سچا ہے ورنہ وہ جھوٹا بھی ہے اور اس مقصد کے حصول میں ناکام بھی رہے گا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی فرمان "جس نے ایسا کام کیا جس پر ہمارا معاملہ نہیں ہے یعنی ہمارے بتلائے ہوئے طریقے سے مختلف ہے تو وہ مسترد ہے"۔ ٣١۔ ٢ یعنی پیروی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے تمہارے گناہ ہی معاف نہیں ہونگے بلکہ تم محب سے محبوب بن جاؤ گے۔ اور یہ کتنا اونچا مقام ہے کہ بارگاہ الٰہی میں ایک انسان کو محبوبیت کا مقام مل جائے۔ آل عمران
32 ٣٢۔ ١ اس آیت میں اللہ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھر تاکید کر کے واضح کردیا کہ اب نجات اگر ہے تو صرف اطاعت محمدی میں ہے اور اس سے انحراف کفر ہے اور ایسے کافروں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا چاہے وہ اللہ کی محبت اور قرب کے کتنے ہی دعوے دار ہوں۔ اس آیت میں پیروی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گریز کرنے والوں کے لئے سخت وعید ہے کیونکہ دونوں ہی اپنے اپنے انداز سے ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جسے یہاں کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آل عمران
33 ٣٣۔ ١ انبیاء (علیہ السلام) کے خاندانوں میں دو عمران ہوئے ہیں ایک حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کے والد اور دوسرے حضرت مریم (علیہ السلام) کے والد۔ اس آیت میں اکثر مفسرین کے نزدیک یہی دوسرے عمران مراد ہیں اور اس خاندان کو بلند درجہ حضرت مریم (علیہ السلام) اور ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی وجہ سے حاصل ہوا اور حضرت مریم (علیہ السلام) کی والدہ کا نام مفسرین نے حنّہ بنت فاقوذ لکھا ہے (تفسیر قرظبی و ابن کثیر) اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آل عمران کے علاوہ مزید تین خاندانوں کا تذکرہ فرمایا جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے وقت میں جہانوں پر فضیلت عطا فرمائی ان میں پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی۔ دوسرے حضرت نوح (علیہ السلام) ہیں انہیں اس وقت کا رسول بنا کر بھیجا گیا جب لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو معبود بنا لیا انہیں عمر طویل عطا کی گئی انہوں نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی لیکن چند افراد کے سوا کوئی آپ پر ایمان نہیں لایا۔ بالآخر آپ کی بددعا سے اہل ایمان کے سوا دوسرے تمام لوگوں کو غرق کردیا گیا آل ابراہیم کو یہ فضیلت عطا کی گئی کہ ان میں انبیاء و سلاطین کا سلسلہ قائم کیا اور بیشتر پیغمبر آپ ہی کی نسل سے ہوئے حتیٰ کہ کائنات میں سب سے افضل حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل سے ہوئے۔ آل عمران
34 ٣٤۔ ١ یا دوسرے معنی ہیں دین میں ایک دوسرے کے معاون اور مددگار۔ آل عمران
35 ٣٥۔ ١ مُحَرّرَا (تیرے نام آزاد) کا مطلب تیری عبادت گاہ کی خدمت کے لئے وقف۔ آل عمران
36 ٣٦۔ ١ اس جملے میں حسرت کا اظہار بھی ہے اور عذر کا بھی۔ حسرت اس طرح کہ میری امید کے برعکس لڑکی ہوئی ہے اور عذر اس طرح کہ نذر سے مقصود تو تیری رضا کے لئے ایک خدمت گار وقف کرنا تھا اور یہ کام ایک مرد ہی زیادہ بہتر طریقے سے کرسکتا تھا۔ اب جو کچھ بھی ہے تو اسے جانتا ہے (فتح القدیر) ٣٦۔ ٢ حافظ ابن کثیر نے اس سے اور حدیث نبوی سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے بچے کا نام ولادت کے پہلے روز رکھنا چاہیے اور ساتویں دن نام رکھنے والی حدیث کو ضعیف قرار دے دیا۔ لیکن حافظ ابن القیم نے تمام احادیث پر بحث کر کے آخر میں لکھا ہے کہ پہلے روز، تیسرے روز یا ساتویں روز نام رکھا جا سکتا ہے، اس مسئلے میں گنجائش ہے۔ ٣٦۔ ٣ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی چنانچہ حدیث صحیح میں ہے کہ جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس کو مس کرتا ہے (چھوتا) ہے۔ جس سے وہ چیختا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس مس شیطان سے حضرت مریم علیہا السلام کو اور ان کے بیٹے (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کو محفوظ رکھا (صحیح بخاری، کتاب التفسیر) آل عمران
37 ٣٧۔ ١ حضرت زکریا (علیہ السلام) حضرت مریم علیہا السلام کے خالو بھی تھے علاوہ ازیں اپنے وقت کے پیغمبر ہونے کے لحاظ سے بھی وہی سب سے بہتر کفیل بن سکتے تھے جو حضرت مریم علیہا السلام کی مادی ضروریات اور علمی و اخلاقی تربیت کے تقاضوں کا صحیح اہتمام کرسکتے تھے۔ ٣٧۔ ٢ محرابُ سے مراد حجرہ ہے جس میں حضرت مریم علیہا السلام رہائش پذیر تھیں رزق سے مراد پھل یہ پھل ایک تو غیر موسمی ہوتے گرمی کے پھل سردی کے موسم میں اور سردی کے گرمی کے موسم میں ان کے کمرے میں موجود ہوتے، دوسرے حضرت زکریا (علیہ السلام) یا اور کوئی شخص لا کردینے والا نہیں تھا اس لئے حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ازراہ تعجب و حیرت سے پوچھا یہ کہاں سے آئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اللہ کی طرف سے۔ گویا یہ حضرت مریم علیہا السلام کی کرامت تھی۔ معجزہ اور کرامت خرق عادت امور کو کہا جاتا ہے یعنی جو ظاہر اسباب کے خلاف ہو۔ یہ کسی نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو اسے معجزہ اور کسی ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو اسے کرامت کہا جاتا ہے یہ دونوں برحق ہیں۔ تاہم ان کا صدور اللہ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہوتا ہے نبی یا ولی کے اختیار میں یہ بات نہیں کہ وہ معجزہ اور کرامت جب چاہے صادر کر دے۔ اس لیے معجزہ اور کرامت اس بات کی تو دلیل ہوتی ہے کہ یہ حضرات اللہ کی بارگاہ میں خاص مقام رکھتے ہیں لیکن اس سے یہ امر ثابت نہیں ہوتا کہ ان مقبولین بارگاہ کے پاس کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار ہے جیسا کہ اہل بدعت اولیاء کی کرامتوں سے عوام کو یہی کچھ باور کرا کے انہیں شرکیہ عقیدوں میں مبتلا کردیتے ہیں اس کی مزید وضاحت بعض معجزات کے ضمن میں آئے گی۔ آل عمران
38 آل عمران
39 ٣٩۔ ١ بے موسمی پھل دیکھ کر حضرت زکریا (علیہ السلام) کے دل میں بھی (بڑھاپے اور بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود) یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش اللہ تعالیٰ انہیں بھی اسی طرح اولاد سے نواز دے۔ چنانچہ بے اختیار دعا کے لئے ہاتھ بارگاہ الٰہی میں اٹھ گئے جسے اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت سے نوازا۔ ٣٩۔ ٢ اللہ کے کلمے کی تصدیق سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق ہے گویا حضرت یحییٰ (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے بڑے ہوئے دونوں آپس میں خالہ زاد تھے دونوں نے ایک دوسرے کی تائید کی۔ حصوراً کے معنی ہیں گناہوں سے پاک یعنی گناہوں کے قریب نہیں پھٹکے بعض نے اس کے معنی نامرد کے کئے ہیں لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ یہ ایک عیب ہے جب کہ یہاں ان کا ذکر مدح اور فضیلت کے طور پر کیا گیا ہے۔ آل عمران
40 آل عمران
41 ٤١۔ ١ بڑھاپے میں معجزانہ طور پر اولاد کی خوشخبری سن کر اشتیاق میں اضافہ ہوا اور نشانی معلوم کرنی چاہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تین دن تیری زبان بند ہو جائیگی۔ جو ہماری طرف سے بطور نشانی ہوگی لیکن تو اس خاموشی میں کثرت سے صبح شام اللہ کی تسبیح بیان کیا کر تاکہ اس نعمت الٰہی کا جو تجھے ملنے والی ہے شکر ادا ہو یہ گویا سبق دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری طلب کے مطابق تمہیں مزید نعمتوں سے نوازے تو اسی حساب سے اس کا شکر بھی زیادہ سے زیادہ کرو۔ آل عمران
42 ٤٢۔ ١ حضرت مریم علیہا السلام کا یہ شرف و فضل اپنے زمانے کے اعتبار سے ہے کیونکہ صحیح حدیث میں حضرت مریم علیہا السلام کے ساتھ حضرت خدیجہ کو بھی سب عورتوں میں بہتر کہا گیا ہے اور بعض احادیث میں چار عورتوں کو کامل قرار دیا گیا ہے حضرت مریم، حضرت آسیہ (فر عون کی بیوی) حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ (رض) کی بابت کہا گیا ہے کہ ان کی فضیلت دیگر عورتوں پر ایسے ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر فوقیت حاصل ہے۔ (ابن کثیر) اور ترمذی کی روایت میں حضرت فاطمہ (رض) بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی فضیلت والی عورتوں میں شامل کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر) اس کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ مذکورہ خواتین ان چند عورتوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے دیگر عورتوں پر فضیلت اور بزرگی عطا فرمائی یا یہ کہ اپنے اپنے زمانے میں فضیلت رکھتی ہیں۔ واللہ اعلم۔ آل عمران
43 آل عمران
44 ٤٤۔ ١ آجکل کے اہل بدعت نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں غلو عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرح عالم الغیب اور ہر جگہ حاضر اور ناظر ہونے کا عقیدہ گھڑ رکھا ہے۔ اس آیت سے ان دونوں عقیدوں کی واضح تردید ہوتی ہے۔ اگر آپ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عالم الغیب ہوتے تو اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ ہم غیب کی خبریں آپ کو بیان کر رہے ہیں کیونکہ جس کو پہلے ہی علم ہو اس کو اس طرح نہیں کہا جاتا اور اس طرح اور ناظر کو یہ نہیں کہا جاتا کہ آپ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے جب لوگ قرعہ اندازی کے لئے قلم ڈال رہے تھے۔ قرعہ اندازی کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت کے اور بھی کئی خواہش مند تھے۔ (ذٰلِکَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ) 003:044 سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت اور آپ کی صداقت کا اثبات بھی ہے جس میں یہودی اور عیسائی شک کرتے تھے کیونکہ وحی شریعت پیغمبر پر ہی آتی ہے غیر پیغمبر پر نہیں۔ آل عمران
45 ٤٥۔ ١ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کلمہ یعنی کلمۃ اللہ اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ ان کی ولادت اعجازی شان کی مظہر اور عام انسانی اصول کے برعکس باپ کے بغیر ہوئی اور اللہ کی خاص قدرت اس کے کلمہ کن کی تخلیق ہے۔ ٤٥۔ ٢ مسیح مسح سے ہے یعنی کثرت سے زمین کی سیاحت کرنے والا یا اس کے معنی ہاتھ پھیرنے والا ہے کیونکہ آپ ہاتھ پھیر کر مریضوں کو باذن اللہ شفایاب فرماتے تھے ان دونوں معنوں کے اعتبار سے فعیلْ بمعنی فاعل ہے اور قیامت کے قریب ظاہر ہونے والے دجال کو جو مسیح کہا جاتا ہے یا تو بمعنی مفعول (یعنی اس کی ایک آنکھ کانی ہوگی) کے اعتبار سے ہے یا وہ بھی چونکہ کثرت سے دنیا میں پھرے گا اور مکہ اور مدینہ کے سوا ہر جگہ پہنچے گا (بخاری مسلم) اور بعض روایات میں بیت المقدس کا بھی ذکر ہے اس لیے اسے بھی المسیح الدجال کہا جاتا ہے۔ عام اہل تفسیر نے عموماً یہی بات درج کی ہے۔ کچھ اور محققین کہتے ہیں کہ مسیح یہود ونصاری کی اصطلاح میں بڑے مامور من اللہ پیغمبر کو کہتے ہیں یعنی ان کی یہ اصطلاح تقریبا اولوالعزم پیغمبر کے ہم معنی ہے دجال کو مسیح اس لیے کہا گیا ہے کہ یہود کو جس انقلاب آفریں مسیح کی بشارت دی گئی ہے اور جس کے وہ غلط طور پر اب بھی منتظر ہیں دجال اسی مسیح کے نام پر آئے گا یعنی اپنے آپ کو وہی مسیح قرار دے گا مگر وہ اپنے اس دعوی سمیت تمام دعووں میں دجل وفریب کا اتنا بڑا پیکر ہوگا کہ اولین و آخرین میں اس کی کوئی مثال نہ ہوگی اس لیے وہ الدجال کہلائے گا۔ اور عیسیٰ عجمی زبان کا لفظ ہے۔ بعض کے نزدیک یہ عربی ہے اور عاس یعوس سے مشتق ہے جس کے معنی سیاست و قیادت کے ہیں۔ (قرطبی و فتح القدیر) آل عمران
46 ٤٦۔ ١ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے (گہوارے) میں گفتگو کرنے کا ذکر خود قرآن کریم کی سورۃ مریم میں موجود ہے اس کے علاوہ صحیح حدیث میں دو بچوں کا ذکر اور ہے ایک صاحب جریج اور ایک اسرائیلی عورت کا بچہ (صحیح بخاری) ادھیڑ عمر میں کلام کرنے کا مطلب بعض نے یہ بیان کیا ہے کہ جب وہ بڑے ہو کر وحی اور رسالت سے سرفراز کئے جائیں گے اور بعض نے کہا ہے کہ آپ کا قیامت کے قریب جب آسمان سے نزول جیسا کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے جو صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے تو اس وقت جو وہ اسلام کی تبلیغ کریں گے وہ کلام مراد ہے۔ (تفسیر ابن کثیر و قرطبی) آل عمران
47 ٤٧۔ ١ تیرا تعجب بجا لیکن قدرت الٰہی کے لئے یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے وہ تو جب چاہے اسباب عادیہ و ظاہریہ کا سلسلہ ختم کر کے حکم کن سے پلک جھپکتے میں جو چاہے کر دے۔ آل عمران
48 ٤٨۔ ١ کتاب سے مراد کتابت ہے جیسا کہ ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے یا انجیل و تورات کے علاوہ کوئی اور کتاب ہے جس کا علم اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا (قرطبی) یا تورات و انجیل (الکتاب وحکمۃ) کی تفسیر ہے۔ آل عمران
49 ٤٩۔ ١ اخلق لکم۔ یعنی خلق یہاں پیدائش کے معنی میں نہیں ہے، اس پر تو صرف اللہ تعالیٰ ہی قادر ہے کیونکہ وہی خالق ہے یہاں اس کے معنی ظاہر شکل و صورت گھڑنے اور بنانے کے ہیں۔ ٤٩۔ ٢ دوبارہ باذن اللہ (اللہ کے حکم سے) کہنے سے مقصد یہی ہے کہ کوئی شخص اس غلط فہمی کا شکار نہ ہو کہ میں خدائی صفات یا اختیارات کا حامل ہوں نہیں میں تو اس کا عاجز بندہ ہوں اور رسول ہی ہوں یہ جو کچھ میرے ہاتھ پر ظاہر ہو رہا ہے معجزہ ہے جو محض اللہ کے حکم سے صادر ہو رہا ہے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو اس کے زمانے کے حالات کے مطابق معجزے عطا فرمائے تاکہ اس کی صداقت ہو اور بالاتری نمایاں ہو سکے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں جادوگری کا زور تھا انہیں ایسا معجزہ عطا فرمایا کہ جس کے سامنے بڑے بڑے جادوگر اپنا کرتب دکھانے میں ناکام رہے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں طب کا بڑا چرچہ تھا چنانچہ انہوں نے ٰمردہ کو زندہ کردینے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کردینے کا ایسا معجزہ عطا فرمایا گیا کہ کوئی بھی بڑے سے بڑا طبیب اپنے فن کے ذریعے سے کرنے پر قادر نہیں تھا۔ ہمارے پیغمبر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دور شعر وادب اور فصاحت اور بلاغت کا دور تھا چنانچہ انہیں قرآن جیسا فصیح و بلیغ اور پر اعجاز کلام عطا فرمایا گیا جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا بھر کے بلغا اور شعرا عاجز رہے اور چلینج کے باوجود آج تک عاجز ہیں اور قیامت تک عاجز رہیں گے (ابن کثیر) آل عمران
50 ٥٠۔ ١ اس سے مراد یا تو وہ بعض چیزیں ہیں جو بطور سزا اللہ تعالیٰ نے ان پر حرام کردی تھیں یا پھر وہ چیزیں جو ان کے علماء نے اجتہاد کے ذریعے سے حرام کیں تھیں اور اجتہاد میں ان سے غلطی کا ارتکاب ہوا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس غلطی کا ازالہ کر کے انہیں حلال قرار دیا۔ (ابن کثیر) آل عمران
51 ٥١۔ ١ یعنی اللہ کی عبادت کرنے میں اور اس کے سامنے ذلت و عاجزی کے اظہار میں میں اور تم دونوں برابر ہیں۔ اس لئے سیدھا راستہ صرف یہ ہے کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کی واحدانیت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ آل عمران
52 ٥٢۔ ١ یعنی ایسی گہری سازش اور مشکوک حرکتیں جو کفر یعنی حضرت مسیح کی رسالت کے انکار پر مبنی تھیں۔ ٥٢۔ ٢ بہت سے نبیوں نے اپنی قوم کے ہاتھوں تنگ آ کر ظاہری اسباب کے مطابق اپنی قوم کے با شعور لوگوں سے مدد طلب کی ہے۔ جس طرح خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ابتداء میں جب قریش آپ کی دعوت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے تو آپ موسم حج میں لوگوں کو اپنا ساتھی اور مددگار بننے پر آمادہ کرتے تھے تاکہ آپ رب کا کلام لوگوں تک پہنچا سکیں جس پر انصار نے لبیک کہا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انہوں نے قبل ہجرت مدد کی۔ اس طرح یہاں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے مدد طلب فرمائی یہ وہ مدد نہیں ہے جو مافوق الاسباب طریقے سے طلب کی جاتی ہے کیونکہ وہ تو شرک ہے اور ہر نبی شرک کے سدباب ہی کے لئے آتا رہا ہے پھر وہ خود شرک کا ارتکاب کس طرح کرسکتے تھے۔ لیکن قبر پرستوں کی غلط روش قابل ماتم ہے کہ وہ فوت شدہ اشخاص سے مدد مانگنے کے جواز کے لیے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قول مَن انصاری الی اللہ سے استدلال کرتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب فرمائے (آمین) ٥٢۔ ٣ حواریوں حواری کی جمع ہے بمعنی انصار (مددگار) جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ ہر نبی کا کوئی مددگار خاص ہوتا ہے اور میرا مددگار زبیر ہے۔ آل عمران
53 آل عمران
54 ٥٤۔ ١ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں شام کا علاقہ رومیوں کے زیرنگین تھا یہاں ان کا جو حکمران مقرر تھا وہ کافر تھا یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف اس حکمران کے کان بھرے کہ یہ نعوذ باللہ بے باپ کے اور فسادی ہے وغیرہ وغیرہ حکمران نے ان کے مطالبے پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی دینے کا فیصلہ کرلیا لیکن اللہ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بحفاظت آسمان پر اٹھا لیا اور ان کی جگہ ان کے ہمشکل ایک آدمی کو سولی دے دی (مکر) عربی زبان میں لطیف اور خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں اور اس معنی میں یہاں اللہ تعالیٰ (خیرُ الْماکِرِیْنَ) کہا گیا گویا یہ مکر (برا) بھی ہوسکتا ہے اگر غلط مقصد کے لئے ہو اور خیر (اچھا) بھی ہوسکتا ہے اگر اچھے مقصد کے لئے ہو۔ آل عمران
55 ٥٥۔ ١ انسان کی موت پر جو وفات کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس لئے کہ اس کے جسمانی اختیارات مکمل طور پر سلب کر لئے جاتے ہیں اس اعتبار سے موت اس کے معنی کی مختلف صورتوں میں سے محض ایک صورت ہے۔ نیند میں بھی چونکہ انسانی اختیارات عارضی طور پر معطل کردیئے جاتے ہیں اس لئے نیند پر بھی قرآن نے وفات کے لفظ کا اطلاق کیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ اس کے حقیقی اور اصل معنی پورا پورا لینے کے ہی ہیں۔ یعنی اے عیسیٰ تجھے میں یہودیوں کی سازش سے بچا کر پورا پورا اپنی طرف آسمانوں پر اٹھا لونگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور پھر جب دوبارہ دنیا میں نزول ہوگا تو اس وقت موت سے ہمکنار کروں گا۔ یعنی یہودیوں کے ہاتھوں تیرا قتل نہیں ہوگا بلکہ تجھے طبعی موت ہی آئے گی۔ (فتح القدیر) ٥٥۔ ٢ اس سے مراد ان الزامات سے پاکیزگی ہے جن سے یہودی آپ کو متہم کرتے تھے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے سے آپ کی صفائی دنیا میں پیش کردی جائے گی۔ ٥٥۔ ٣ اس سے مراد یا تو نصاریٰ کا دنیاوی غلبہ ہے جو یہودیوں پر قیامت تک رہے گا گو وہ اپنے غلط عقائد کی وجہ سے نجات اخروی سے محروم ہی رہیں گے یا امت محمدیہ کے افراد کا غلبہ ہے جو درحقیقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر تمام انبیاء کی تصدیق کرتے اور ان کے صحیح دین کی پیروی کرتے ہیں۔ آل عمران
56 آل عمران
57 آل عمران
58 آل عمران
59 آل عمران
60 آل عمران
61 ٦١۔ ١ یہ آیت مباہلہ کہلاتی ہے۔ مباہلہ کے معنی ہیں دو فریق کا ایک دوسرے پر لعنت یعنی بدعا کرنا مطلب یہ ہے کہ جب دو فریقین میں کسی معاملے کے حق یا باطل ہونے میں اختلاف ہو اور دلائل سے وہ ختم ہوتا نظر نہ آتا ہو تو دونوں بارگاہ الہٰی میں یہ دعا کریں کہ یا اللہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے اس پر لعنت فرما اس کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ ٩ ہجری میں نجران سے عیسائیوں کا ایک وفد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں جو وہ غلو آمیز عقائد رکھتے تھے اس پر مناظرہ کرنے لگا۔ بالآخر یہ آیت نازل ہوئی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں مباہلہ کی دعوت دی حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمہ (رض) اور حضرت حسن، حسین (رض) کو بھی ساتھ لیا اور عیسائیوں سے کہا کہ تم بھی اپنے اہل و عیال کو بلا لو اور پھر مل کر جھو ٹے پر لعنت کی بددعا کریں۔ عیسائیوں نے باہم مشورے کے بعد مباہلہ کرنے سے گریز کیا اور پیش کش کی کہ آپ ہم سے جو چاہتے ہیں ہم دینے کے لئے تیار ہیں۔ چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر جزیہ مقرر فرمایا جس کی وصولی کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح (رض) کو جنہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امین امت کا خطاب عنایت فرمایا تھا ان کے ساتھ بھیجا (تفسیر ابن کثیر و فتح القدیر وغیرہ) اس سے اگلی آیت میں اہل کتاب کو دعوت توحید دی جا رہی ہے۔ آل عمران
62 آل عمران
63 آل عمران
64 ٦٤۔ ١ کسی بت نہ صلیب کو نہ آگ اور نہ کسی چیز کو بلکہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں جیسا کہ تمام انبیاء کی دعوت رہی ہے۔ ٦٤۔ ٢ یہ ایک تو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تم نے حضرت مسیح اور حضرت عزیر (علیہ السلام) کی ربوبیت (رب ہونے) کا جو عقیدہ کھڑا کر رکھا ہے یہ غلط ہے وہ رب نہیں ہیں انسان ہیں دوسرا اس بات کی طرف اشارہ ہے تم نے اپنے احبار و رہبان کو حلال یا حرام کرنے کا جو اختیار دے رکھا ہے یہ بھی ان کو رب بنانا ہے حلال اور حرام کا اختیار صرف اللہ ہی کو ہے (ابن کثیر و فتح القدیر) ٦٤۔ ٣ صحیح بخاری میں ہے کہ قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہرقل شاہ روم کو مکتوب تحریر فرمایا اور اس میں اسے اس آیت کے حوالے سے قبول اسلام کی دعوت دی اسے کہا تو مسلمان ہوجائے گا تو تجھے دوہرا اجر ملے گا ورنہ ساری رعایا کا گناہ تجھ پر ہوگا اسلام قبول کرلے سلامتی میں رہے گا کیونکہ رعایا کا عدم قبول اسلام کا سبب تو ہی ہوگا۔ اس آیت مذکورہ میں تین نکات ١۔ صرف اللہ کی عبادت کرنا۔ ٢ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ ٣ اور کسی کو شریعت سازی کا خدائی مقام نہ دینا۔ لہذا اس امت کے شیرازہ کو جمع کرنے کے لئے بھی ان تینوں نکات اور اس کلمہ سواء کو بدرجہ اولیٰ اساس و بنیاد بنانا چاہیے۔ آل عمران
65 ٦٥۔ ١ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں جھگڑنے کا مطلب یہ ہے کہ یہودی اور عیسائی دونوں دعویٰ کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کے دین پر تھے حالانکہ تورات جس پر یہودی ایمان رکھتے تھے اور انجیل جسے عیسائی مانتے تھے دونوں حضرت ابراہیم اور موسیٰ (علیہ السلام) کے سینکڑوں برس بعد نازل ہوئیں پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہودی یا عیسائی کس طرح ہو سکتے ہیں حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان ایک ہزار سال کا حضرت ابراہیم و عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان دو ہزار سال کا فاصلہ تھا (قرطبی) آل عمران
66 ٦٦۔ ١ تمہارے علم اور دیانت کا تو یہ حال ہے کہ جن چیزوں کا تمہیں علم ہے۔ یعنی اپنے دین اور اپنی کتاب کا اس کی بابت تمہارے جھگڑے بے اصل بھی ہیں اور بے عقلی کا مظہر بھی تو پھر تم اس بات پر کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں سرے سے علم ہی نہیں یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شان اور ان کی ملت حنفیہ کے بارے میں جس کی اساس توحید و اخلاص پر ہے۔ آل عمران
67 ٦٧۔ ١ خالص مسلمان۔ یعنی شرک سے بیزار اور صرف خدائے واحد کے پرستار۔ آل عمران
68 ٦٨۔ ١ اسی لئے قرآن کریم میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملت ابراہیمی کا اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ہے علاوہ ازیں حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ہر نبی کے نبیوں میں سے دوست ہوتے ہیں، میرے ولی (دوست) ان میں سے میرے باپ اور میرے رب کے خلیل (ابراہیم علیہ السلام) ہیں۔ آل عمران
69 ٦٩۔ ١ یہ یہودیوں کے اس حسد و بغض کی وضاحت ہے جو اہل ایمان سے رکھتے تھے اور اسی عناد کی وجہ سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس طرح یہ خود ہی بے شعوری میں اپنے آپ کو گمراہ کر رہے ہیں۔ آل عمران
70 ٧٠۔ ١ قائل ہونے کا مطلب ہے کہ تمہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت و حقانیت کا علم ہے۔ آل عمران
71 ٧١۔ ١ اس میں یہودیوں کے دو بڑے جرائم کی نشان دہی کر کے انہیں ان سے باز رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے پہلا جرم حق وباطل اور سچ اور جھوٹ کو خلط ملط کرنا تاکہ لوگوں پر حق اور باطل واضح نہ ہو سکے دوسرا حق چھپانا۔ یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو اوصاف تورات میں لکھے ہوئے تھے انہیں لوگوں سے چھپانا تاکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کم از کم اس اعتبار سے نمایاں نہ ہو سکے اور یہ دونوں جرم جان بوجھ کر کرتے تھے۔ جس سے ان کی بدبختی دو چند ہوگئی تھی۔ ان کے جرائم کی نشان دہی سورۃ بقرہ میں بھی کی گئی ہے۔ اہل کتاب کے لفظ کو بعض مفسرین نے عام رکھا ہے جس میں یہود و نصاری دونوں شامل ہیں۔ یعنی دونوں کو ان جرائم مذکورہ سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد صرف وہ قبائل یہود ہیں جو مدینے میں رہائش پذیر تھے۔ بنو قریظہ، بنونضیر اور بنو قینقاع۔ زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ مسلمانوں کا براہ راست انہی سے معاملہ تھا اور یہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مکالفت میں پیش پیش تھے۔ آل عمران
72 ٧٢۔ ١ یہ یہودیوں کے ایک اور مکر کا ذکر ہے۔ جس سے وہ مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتے تھے کہ انہوں نے باہم طے کیا کہ صبح کو مسلمان ہوجائیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں میں بھی اپنے اسلام کے بارے میں شک پیدا ہو کہ یہ لوگ قبول اسلام کے بعد دوبارہ اپنے دین میں چلے گئے ہیں تو ممکن ہے کہ اسلام میں ایسے عیوب اور خامیاں ہوں جو ان کے علم میں آئی ہوں۔ آل عمران
73 ٧٣۔ ١ یہ آپس میں انہوں نے ایک دوسرے کو کہا کہ تم ظاہری طور پر تو اسلام کا اظہار ضرور کرو لیکن اپنے ہم مذہب (یہود) کے سوا کسی اور کی بات پر یقین مت رکھنا۔ ٧٣۔ ٢ یہ ایک جملہ معترضہ ہے جس کا ما قبل اور ما بعد سے تعلق نہیں ہے صرف ان کے مکر و حیلہ کی اصل حقیقت اس سے واضح کرنا مقصود ہے کہ ان کے جملوں سے کچھ نہ ہوگا کیونکہ ہدایت تو اللہ کے اختیار میں ہے وہ جس کو ہدایت دے یا دینا چاہے، تمہارے حیلے اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ ٧٣۔ ٣ یہ بھی یہودیوں کا قول ہے یعنی یہ بھی تسلیم مت کرو کہ جس طرح تمہارے اندر نبوت وغیرہ رہی ہے یہ کسی اور کو بھی مل سکتی ہے اور اس طرح یہودیت کے سوا کوئی اور دین بھی حق ہوسکتا ہے۔ آل عمران
74 ٧٤۔ ١ اس آیت کے دو معنی بیان کئے جاتے ہیں ایک یہ یہود کے بڑے بڑے علماء جب اپنے شاگردوں کو یہ سکھاتے کہ دن چڑھتے ایمان لاؤ اور دن اترتے کفر کرو تاکہ جو لوگ فی الواقع مسلمان ہیں وہ بھی متذبذب ہو کر مرتد ہوجائیں تو ان شاگردوں کو مزید یہ تاکید کرتے تھے کہ دیکھو صرف ظاہرا مسلمان ہونا حقیقتاً اور واقعتًا مسلمان نہ ہوجانا بلکہ یہودی ہی رہنا اور یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ جیسا دین جیسی وحی وشریعت اور جیسا علم وفضل تمہیں دیا گیا ہے ویسا ہی کسی اور کو بھی دیا جاسکتا ہے یا تمہارے بجائے کوئی اور حق پر ہے جو تمہارے خلاف اللہ کے نزدیک حجت قائم کرسکتا ہے اور تمہیں غلط ٹھہرا سکتا ہے اس معنی کی رو سے جملہ معترضہ کو چھوڑ کر عند ربکم تک کل یہود کا قول ہوگا دوسرے معنی یہ ہیں کہ اے یہودیو! تم حق کو دبانے اور مٹانے کی یہ ساری حرکتیں اور سازشیں اس لیے کر رہے ہو کہ ایک تمہیں اس بات کا غم اور جلن ہے کہ جیسا علم وفضل وحی وشریعت اور دین تمہیں دیا گیا تھا اب ویسا ہی علم وفضل اور دین کسی اور کو کیوں دے دیا گیا۔ دوسرا تمہیں یہ اندیشہ اور خطرہ بھی ہے کہ اگر حق کی یہ دعوت پنپ گئی اور اس نے اپنی جڑیں مضبوط کرلیں تو نہ صرف یہ کہ تمہیں دنیا میں جو جاہ و وقار حاصل ہے وہ جاتا رہے گا بلکہ تم نے جو حق چھپا رکھا ہے اس کا پردہ بھی فاش ہوجائے گا اور اس بنا پر یہ لوگ اللہ کے نزدیک بھی تمہارے خلاف حجت قائم کر بیٹھیں گے۔ حالانکہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دین وشریعت اللہ کا فضل ہے اور یہ کسی کی میراث نہیں بلکہ وہ اپنا فضل جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ اور اسے معلوم ہے کہ یہ فضل کس کو دینا چاہیے۔ آل عمران
75 ٧٥۔ ١ (ان پڑھ۔ جاہل) سے مراد مشرکین عرب ہیں یہود کے بددیانت لوگ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ چونکہ مشرک ہیں اس لئے ان کا مال ہڑپ کرلینا جائز ہے اس میں کوئی گناہ نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ اللہ پر جھوٹ بولتے ہیں اللہ تعالیٰ کس طرح کسی کا مال ہڑپ کر جانے کی اجازت دے سکتا ہے اور بعض تفسیری روایات میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی یہ سن کر فرمایا کہ ' اللہ کے دشمنوں نے جھوٹ کہا زمانہ جاہلیت کی تمام چیزیں میرے قدموں تلے ہیں سوائے امانت کے کہ وہ ہر صورت میں ادا کی جائے گی چاہے وہ کسی نیکوکار کی ہو یا بدکار کی۔ (ابن کثیر وفتح القدیر) افسوس ہے کہ یہود کی طرح آج بعض مسلمان بھی مشرکین کا مال ہڑپ کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ دارالحرب کا سود ناجائز ہے اور حربی کے مال کے لیے کوئی عصمت نہیں۔ آل عمران
76 ٧٦۔ ١ قرار پورا کرے کا مطلب وہ عہد پورا کرے جو اہل کتاب سے یا ہر نبی کے واسطے سے ان کی امتوں سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی بابت لیا گیا ہے اور پرہیزگاری کرے یعنی اللہ تعالیٰ کے محارم سے بچے اور ان باتوں پر عمل کرے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائیں۔ ایسے لوگ یقینا مواخذہ الٰہی سے نہ صرف محفوظ رہیں گے بلکہ محبوب باری تعالیٰ ہونگے۔ آل عمران
77 ٧٧۔ ١ مذکورہ افراد کے برعکس دوسرے لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے اور یہ دو طرح کے لوگ شامل ہیں ایک تو وہ جو عہد الٰہی اور اپنی قسموں کو پس پشت ڈال کر تھوڑے سے دینی مفادات کے لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے دوسرے وہ لوگ ہیں جو جھوٹی قسمیں کھا کر اپنا سودا بیچتے ہیں یا کسی کا مال ہڑپ کر جاتے ہیں جیسا کہ احادیث میں وارد ہے۔ مثلاً نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص کسی کا مال ہتھیانے کے لئے جھوٹی قسم کھائے وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر غضب ناک ہوگا نیز فرمایا تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ نہ کلام کرے گا اور نہ ہی ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا ان میں ایک وہ شخص ہے جو جھوٹی قسم کے ذریعے سے اپنا سودا بیچتا ہے۔ متعدد احادیث میں یہ باتیں بیان کی گئی ہیں۔ (ابن کثیرو فتح القدیر) آل عمران
78 ٧٨۔ ١ یہ یہود کے ان لوگوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے کتاب الٰہی (تورات) میں نہ صرف بددیانتی و تبدیلی کی بلکہ دو جرم بھی کئے ایک تو زبان کو مروڑ کر کتاب کے الفاظ پڑھتے جس سے عوام کو خلاف واقعہ تاثر دینے میں وہ کامیاب رہتے دوسرا وہ اپنی خود ساختہ باتوں میں عند اللہ باور کراتے بد قسمتی امت محمدیہ کے مذہبی پیشواؤں میں بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیشن گوئی (تم اپنے سے پہلی امتوں کی قدم بقدم پیروی کرو گے) کے مطابق بکثرت ایسے لوگ ہیں جو دینوی اغراض یا جماعتی تعصب یا فقہی جمود کی وجہ سے قرآن کریم کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرتے ہیں پڑھتے قرآن کی آیت ہیں اور مسئلہ اپناخود ساختہ بیان کرتے ہیں عوام سمجھتے ہیں کہ مولوی صاحب نے مسئلہ قرآن سے بیان کیا ہے حالانکہ اس مسئلے کا قرآن سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یا پھر آیات میں معنوی تبدیلی و طمع سازی سے کام لیا جاتا ہے تاکہ باور یہی کرایا جائے کہ یہ من عند اللہ ہے۔ آل عمران
79 ٧٩۔ ١ یہ عیسائیوں کے ضمن میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا بنایا ہوا ہے حالانکہ وہ ایک انسان تھے جنہیں کتاب و حکمت اور نبوت سے سرفراز کیا گیا تھا۔ ایسا کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اللہ کو چھوڑ کر میرے پجاری اور بندے بن جاؤ بلکہ وہ تو یہی کہتا ہے کہ رب والے بن جاؤ رَبَّانِیُّ رب کی طرف منسوب ہے، الف اور نون کا اضافہ مبالغہ کے لئے ہے۔ (فتح القدیر) ٧٩۔ ٢ یعنی کتاب اللہ کی تعلیم و تدریس کے نتیجے میں رب کی شناخت اور رب سے خصوصی ربط و تعلق قائم ہونا چاہئے، اسی طرح کتاب اللہ کا علم رکھنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کو بھی قرآن کی تعلیم دے۔ اس آیت سے واضح ہے کہ جب اللہ کے پیغمبروں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی عبادت کرنے کا حکم دیں، تو کسی اور کو یہ کیونکر حاصل ہوسکتا ہے۔ (ابن کثیر) آل عمران
80 ٨٠۔ ١ یعنی نبیوں اور فرشتوں (یا کسی اور کو) رب والی صفات کا حامل باور کرانا یہ کفر ہے۔ تمہارے مسلمان ہوجانے کے بعد ایک نبی یہ کام بھلا کس طرح کرسکتا ہے؟ کیونکہ نبی کا کام تو ایمان کی دعوت دینا ہے جو اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کا نام ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اللہ کی پناہ اس بات سے ہے کہ ہم اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کریں یا کسی کو اس کا حکم دیں اللہ نے مجھے نہ اس لئے بھیجا ہے نہ اس کا حکم ہی دیا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (ابن کثیر۔ بحوالہ سیرۃ ابن ہشام) آل عمران
81 ٨١۔ ١ یعنی ہر نبی سے یہ وعدہ لیا گیا کہ اس کی زندگی اور دور نبوت میں اگر دوسرا نبی آئے گا تو اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہوگا جب نبی کی موجودگی میں آنے والے نئے نبی پر خود اس نبی کو ایمان لانا ضروری ہے تو ان کی امتوں کے لئے تو اس نئے نبی پر ایمان لانا بطریق اولیٰ ضروری ہے بعض مفسرین نے اس کا یہی مفہوم مراد لیا ہے۔ یعنی حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت تمام نبیوں سے عہد لیا گیا کہ اگر ان کے دور میں وہ آجائیں تو اپنی نبوت ختم کر کے ان پر ایمان لانا ہوگا لیکن یہ واقعہ ہے پہلے معنی میں ہی یہ دوسرا مفہوم از خود آجاتا ہے اس لئے الفاظ قرآن کے اعتبار سے پہلا مفہوم ہی زیادہ صحیح ہے اس مفہوم کے لحاظ سے بھی یہ بات واضح ہے کہ نبوت محمدی کے سراج منیر کے بعد کسی بھی نبی کا چراغ نہیں جل سکتا جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر (رض) تورات کے اوراق پڑھ رہے تھے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دیکھ کر غضب ناک ہوئے اور فرمایا کہ "قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) بھی زندہ ہو کر آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کے پیچھے لگ جاؤ تو گمراہ ہوجاؤ گے۔ (مسند احمد بحوالہ ابن کثیر) بہرحال اب قیامت تک واجب الاتباع صرف محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور نجات انہی کی اطاعت میں منحصر ہے نہ کہ کسی امام کی اندھی تقلید یا کسی بزرگ کی بیعت میں۔ جب کسی پیغمبر کا سکہ اب نہیں چل سکتا تو کسی اور کی ذات غیر مشروط اطاعت کی مستحق کیوں کر ہو سکتی ہے؟ اصر بمعنی عہد اور ذمہ ہے۔ آل عمران
82 ٨٢۔ ١ یہ اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) اور دیگر اہل مذہب کو تنبہہ ہے کہ بعثت محمدی کے بعد بھی ان پر ایمان لانے کے بجائے اپنے اپنے مذہب پر قائم رہنا اس عہد کے خلاف ہے جو اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے واسطے سے ہر امت سے لیا اور اس عہد سے انحراف کفر ہے۔ فسق یہاں کفر کے معنی میں ہے کیونکہ نبوت محمدی سے انکار صرف فسق نہیں سراسر کفر ہے۔ آل عمران
83 ٨٣۔ ١ جب آسمان اور زمین کی کوئی چیز اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے باہر نہیں چاہے خوشی سے چاہے ناخوشی سے۔ تو پھر تم اس کے سامنے قبول اسلام سے کیوں گریز کرتے ہو؟ اگلی آیت میں ایمان لانے کا طریقہ بتلا کر (کہ ہر نبی اور ہر مُنَزل کتاب پر بغیر تفریق کے ایمان لانا ضروری ہے) پھر کہا جا رہا ہے کہ اسلام کے سوا کوئی اور دین قبول نہیں ہوگا کسی اور دین کے پیروکاروں کے حصے میں سوائے کھانے کے اور کچھ نہیں آئے گا۔ آل عمران
84 ٨٤۔ ١ یعنی تمام سچے نبیوں پر ایمان لانا کہ وہ اپنے اپنے وقت میں اللہ کی طرف سے مبعوث تھے نیز ان پر جو الہامی کتابیں نازل ہوئیں ان کی بابت بھی عقیدہ رکھنا کہ وہ آسمانی کتابیں تھیں اور واقعۃً اللہ کی طرف سے نازل ہوئی تھیں ضروری ہے۔ گو اب عمل صرف قرآن کریم پر ہی ہوگا کیونکہ قرآن نے پچھلی کتابوں کو منسوخ کردیا۔ آل عمران
85 آل عمران
86 آل عمران
87 آل عمران
88 آل عمران
89 ٨٩۔ ١ انصار میں سے ایک مسلمان مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جا ملا لیکن جلدی ہی اسے ندامت ہوئی اور اس نے لوگوں کے ذریعے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پیغام بھجوایا کہ میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئیں ان آیات سے معلوم ہوا کہ مرتد کی سزا اگرچہ بہت سخت ہے کیونکہ اس نے حق پہچاننے کے بعد بغض اور عناد اور سرکشی سے حق سے انکار کیا تاہم اگر کوئی خلوص دل سے توبہ اور اپنی اصلاح کرلے تو اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے اس کی توبہ قابل قبول ہے۔ آل عمران
90 ٩٠۔ ١ اس آیت میں ان کی سزا بیان کی جا رہی ہے جو مرتد ہونے کے بعد توبہ کی توفیق سے محروم رہیں اور کفر پر انتقال ہو۔ ٩٠۔ ٢ اس سے وہ توبہ مراد ہے جو موت کے وقت ہو۔ ورنہ توبہ کا دروازہ تو ہر ایک کے لئے ہر وقت کھلا ہے۔ اس سے پہلی آیت میں بھی قبولیت توبہ کا اثبات ہے۔ علاوہ ازیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بار بار توبہ کی اہمیت اور قبولیت کو بیان فرمایا ہے۔ (وہو الذی یقبل التوبۃ عن عبادہ۔) "الشوری۔ ٢٥"کیا انہوں نے نہیں جانا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور احادیث میں بھی یہ مضمون بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے اس لیے اس آیت سے مراد آخری سانس کی توبہ ہے جو نامقبول ہے جیسا کہ قرآن کریم کے ایک اور مقام پر ہے (وَلَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّـیِّاٰتِ ۚ حَتّٰی اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْــٰٔنَ) 004:018 ان کی توبہ قبول نہیں ہے جو برائی کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے ایک کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے میری توبہ۔ حدیث میں بھی ہے ان اللہ یقبل توبۃ العبد مالم یغرغر۔ مسند احمد، ترمذی۔ بحوالہ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر۔ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک اسے موت کا اچھو نہ لگے یعنی جان کنی کے وقت کی توبہ قبول نہیں۔ آل عمران
91 ١۔ ١٩ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ایک جہنمی سے کہے گا کہ اگر تیرے پاس دنیا بھر کا سامان ہو تو کیا تو اس عذاب نار کے بدلے اسے دینا پسند کرے گا ؟ وہ کہے گا"ہاں" اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے دنیا میں تجھ سے اس سے کہیں زیادہ آسان بات کا مطالبہ کیا تھا کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا مگر تو شرک سے باز نہیں آیا (مسند احمد وھکذا اخرجہ البخاری ومسلم۔ ابن کثیر) اس سے معلوم ہوا کہ کافر کے لیے جہنم کا دائمی عذاب ہے اس نے اگر دنیا میں کچھ اچھے کام بھی کیے ہوں گے تو کفر کی وجہ سے وہ بھی ضائع ہی جائیں گے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ عبد اللہ بن جدعان کی بابت پوچھا گیا کہ وہ مہمان نواز، غریب پرور تھا اور غلاموں کو آزاد کرنے والا تھا کیا یہ اعمال سے نفع دیں گے؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا"نہیں" کیونکہ اس نے ایک دن بھی اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی نہیں مانگی (صحیح مسلم۔ کتاب الایمان) اسی طرح اگر کوئی شخص وہاں زمین بھر سونا بطور فدیہ دے کر یہ چاہے کہ وہ عذاب جہنم سے بچ جائے تو یہ ممکن نہیں ہوگا۔ اول تو وہاں کسی کے پاس ہوگا ہی کیا ؟ اور اگر بالفرض اس کے پاس دنیا بھر کے خزانے ہوں اور انہیں دے کر عذاب سے چھوٹ جانا چاہے تو یہ بھی نہیں ہوگا، کیونکہ اس سے وہ معاوضہ یا فدیہ قبول ہی نہیں کیا جائے گا۔ جس طرح دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا (وَّلَا یُقْبَلُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا تَنْفَعُہَا شَفَاعَۃٌ) 002:123 اس سے کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ کوئی سفارش اسے فائدہ دے گی۔ (لابیع فیہ ولا خلال) اس دن میں کوئی خرید وفروخت ہوگی نہ کوئی دوستی کام آئے گی۔ آل عمران
92 ٩٢۔ ١ بر (نیکی بھلائی) سے مراد عمل صالح یا جنت ہے (فتح القدیر) حدیث میں آتا ہے جب یہ آیت نازل ہوئی حضرت ابو طلحہ انصاری (رض) جو مدینہ کے اصحاب حیثیت میں سے تھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! بیرحا کا باغ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، میں اسے اللہ کی رضا کے لئے صدقہ کرتا ہوں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' وہ تو بہت نفع بخش مال ہے، میری رائے یہ ہے کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دو ' چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشورے سے انہوں نے اسے اپنے اقارب اور عم زادوں میں تقسیم کردیا، اچھی چیز صدقہ کی جائے، یہ افضل اور اکمل درجہ حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔ جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کمتر چیز یا اپنی ضرورت سے زائد فالتو چیز یا استعمال شدہ پرانی چیز کا صدقہ نہیں کیا جا سکتا یا اس کا اجر نہیں ملے گا۔ اس قسم کی چیزوں کا صدقہ کرنا بھی یقینا جائز اور باعث اجر ہے گو کمال و افضلیت محبوب چیز کے خرچ کرنے میں ہے۔ ٩٢۔ ٢ تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے اچھی یا بری چیز، اللہ اسے جانتا ہے، اس کے مطابق جزا سے نوازے گا۔ آل عمران
93 ٩٣۔ ١ یہ اور ما بعد دو آیتیں یہود کے اس اعتراض پر نازل ہوئیں کہ انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دین ابراہیمی کے پیروکار ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور اونٹ کا گوشت بھی کھاتے ہیں جب کہ اونٹ کا گوشت اور اس کا دودھ دین ابراہیمی میں حرام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہود کا دعوی غلط ہے حضرت ابراہیم کے دین میں یہ چیزیں حرام نہیں تھیں۔ ہاں البتہ بعض چیزیں اسرائیل (حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے خود اپنے اوپر حرام کرلی تھیں اور وہ یہی اونٹ کا گوشت اور دودھ تھا (اس کی ایک وجہ نذر یا بیماری تھی اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا یہ فعل بھی نزول تورات سے پہلے کا ہے۔ اس لیے کہ تورات تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) و حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بہت بعد نازل ہوئی ہے۔ پھر تم کس طرح مزکورہ دعویٰ کرسکتے ہو؟ علاوہ ازیں تورات میں بعض چیزیں تم (یہودیوں) پر تمہارے ظلم اور سرکشی کی وجہ سے حرام کی گئی تھیں۔ (سورۃ الانعام ٤٦۔ النساء۔ ١٦٠) اگر تمہیں یقین نہیں ہے تو تورات لاؤ اور اسے پڑھ کر سناؤ جس سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے میں یہ چیزیں حرام نہیں تھیں اور تم پر بھی بعض چیزیں حرام کی گئیں تو اس کی وجہ تمہاری ظلم و زیادتی تھی یعنی ان کی حرمت بطور سزا تھی۔ (ایسرالتفاسیر) آل عمران
94 آل عمران
95 آل عمران
96 ٩٦۔ ا یہ یہود کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے، وہ کہتے تھے کہ بیت المقدس سب سے پہلا عبادت خانہ ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھیوں نے اپنا قبلہ کیوں بدل لیا ؟ اس کے جواب میں اور اس کے جواب میں کہا گیا تمہارا یہ دعویٰ بھی غلط ہے۔ پہلا گھر جو اللہ کی عبادت کے لیے تعمیر کی گیا ہے وہ ہے جو مکہ میں ہے۔ آل عمران
97 ٩٧۔ ١ اس میں قتال، خون ریزی، شکار حتٰی کہ درخت تک کاٹنا ممنوع ہے۔ ٩٧۔ ٢ راہ پا سکتے ہوں کا مطلب زاد راہ کی استطاعت اور فراہمی ہے۔ یعنی اتنا خرچ کہ سفر کے اخراجات پورے ہوجائیں۔ علاوہ ازیں استطاعت کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ راستہ پر امن ہو اور جان و مال محفوظ رہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ صحت اور تندرستی کے لحاظ سے سفر کے قابل ہو نیز عورت کے لئے محرم بھی ضروری ہے۔ یہ آیت ہر صاحب استطاعت کے لئے وجوب حج کی دلیل ہے اور احادیث سے امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ یہ عمر میں صرف ایک دفعہ فرض ہے۔ ٩٧۔ ٣ استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے کو قرآن نے کفر سے تعبیر کیا ہے جس سے حج کی فرضیت میں اور اس کی تاکید میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔ احادیث میں بھی ایسے شخص کے لئے وعید آئی ہے۔ آل عمران
98 آل عمران
99 ٩٩۔ ١ یعنی تم جانتے ہو کہ یہ دین اسلام حق ہے، اس کے داعی اللہ کے سچے پیغمبر ہیں کیونکہ یہ باتیں ان کتابوں میں درج ہیں جو تمہارے انبیاء پر اتریں اور جنہیں تم پڑھتے ہو۔ آل عمران
100 ١٠٠۔ ١ یہودیوں کے مکرو فریب اور ان کی طرف سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی مذموم کوششوں کا ذکر کرنے کے بعد مسلمانوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم بھی ان کی سازشوں سے ہوشیار رہو اور قرآن کی تلاوت کرنے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے موجود ہونے کے باوجود کہیں یہود کے جال میں نہ پھنس جانا۔ اس کا پس منظر تفسیری روایات میں اسطرح بیان کیا گیا ہے۔ کہ انصار کے دو قبیلے اوس اور خزرج ایک مجلس میں اکھٹے بیٹھے باہم گفتگو کر رہے تھے کہ شاس بن قیس یہودی ان کے پاس سے گزرا اور ان کا باہمی پیار دیکھ کر جل بھن گیا پہلے یہ ایک دوسرے کے سخت دشمن تھے اب اسلام کی برکت سے باہم شیرو شکر ہوگئے ہیں۔ اس نے ایک نوجوان کے ذمے یہ کام لگایا کہ وہ ان کے درمیان جنگ بعاث کا تذکرہ کرے جو ہجرت سے ذرا پہلے ان کے درمیان ہوئی تھی انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف رزمیہ اشعار کہے تھے وہ ان کو سنائے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا، جس سے ان دونوں قبیلوں کے درمیان جذبات بھڑک اٹھے اور ایک دوسرے کو گالی گلوچ دینے لگے یہاں تک کے ہتھیار اٹھانے کے لئے للکار اور پکار شروع ہوگئی اور قریب تھا کہ ان کا باہم قتال بھی شروع ہوجائے کہ اتنے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے اور انہیں سمجھایا اور وہ باز آگئے اس پر یہ آیت بھی اور جو آگے آرہی ہیں وہ بھی نازل ہوئیں (ابن کثیر) آل عمران
101 ١٠١۔ ١ اعتصام باللہ۔ اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھام لینا اور اس کی اطاعت میں کوتاہی نہ کرنا۔ آل عمران
102 ١٠٢۔ ١ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے احکام و فرائض پورے طور پر بجا لائے جائیں اور منہیات کے قریب نہ جایا جائے بعض کہتے ہیں کہ اس آیت سے صحابہ کرام پریشان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت نازل فرما دی اللہ سے اپنی طاقت کے مطابق ڈرو جس طرح اپنی طاقت سے ڈرنے کا حق ہے (فتح القدیر) آل عمران
103 ١٠٣۔ ١ تقوٰی کے بعد سب ملکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینے کا درس دے کر واضح کردیا کہ نجات بھی انہی دو اصولوں میں ہے اور اتحاد بھی انہیں پر قائم ہوسکتا اور رہ سکتا ہے۔ ١٠٣۔ ٢ 'ولا تفرقوا اور پھوٹ نہ ڈالو ' کے ذریعے فرقہ بندی سے روک دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مزکورہ دو اصولوں سے انحراف کرو گے تو تمہارے درمیان پھوٹ پڑجائے گی اور تم الگ الگ فرقوں میں بٹ جاؤ گے۔ اور یہیں سے امت مسلمہ کے افتراق کے المیہ کا آغاز ہوا جو دن بدن بڑھتا ہی چلا گیا اور نہایت مستحکم ہوگیا۔ آل عمران
104 آل عمران
105 ١٠٥۔ ١ روشن دلیلیں آ جانے کے بعد تفرقہ ڈالا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہود و نصاریٰ کے باہم اختلاف و تفرقہ کی وجہ یہ نہ تھی کہ انہیں حق کا پتہ نہ تھا اور وہ اس کے دلائل سے بے خبر تھے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں سب کچھ جانتے ہوئے محض دنیاوی مفاد اور نفسانی اغراض کے لئے اختلاف و تفرقہ کی راہ پکڑی تھی اور اس پر جمے ہوئے تھے۔ قرآن مجید نے مختلف اسلوب اور پیرائے سے بار بار اس حقیقت کی نشان دہی کی ہے اور اس سے دور رہنے کی تاکید فرمائی۔ مگر افسوس کہ اس امت کے تفرقہ بازوں نے بھی ٹھیک یہی روش اختیار کی کہ حق اور اس کی روشن دلیلیں خوب اچھی طرح معلوم ہیں۔ لیکن وہ اپنی فرقہ بندیوں پر جمے ہوئے ہیں اور اپنی عقل و ذہانت کا سارا جوہر سابقہ امتوں کی طرح تاویل اور تحریف کے مکروہ شغل میں ضائع کر رہے ہیں۔ آل عمران
106 ١٠٦۔ ١ حضرت ابن عباس (رض) نے اس سے اہل سنت والجماعت اور اہل بدعت وافتراق مراد لئے ہیں (ابن کثیر و فتح القدیر) جس سے معلوم ہوا اسلام وہی ہے جس پر اہل سنت والجماعت عمل پیرا ہیں اور اہل بدعت و اہل افتراق اس نعمت اسلام سے محروم ہیں جو ذریعہ نجات ہے۔ آل عمران
107 آل عمران
108 آل عمران
109 آل عمران
110 ١١٠۔ ١ اس آیت میں امت مسلمہ کو ' خیر امت ' قرار دیا گیا ہے اور اس کی علت بھی بیان کردی گئی ہے جو امر بالمعروف نہی عن المنکر اور ایمان باللہ ہے۔ گویا یہ امت اگر ان امتیازی خصوصیات سے متصف رہے گی تو خیر امت ہے بصورت دیگر اس امتیاز سے محروم قرار پا سکتی ہے۔ اس کے بعد اہل کتاب کی مذمت سے بھی اسی نکتے کی وضاحت مقصود و معلوم ہوتی ہے کہ جو امر بالمعروف و نہی المنکر نہیں کرے گا، وہ بھی اہل کتاب کے مشابہ قرار پائے گا۔ ان کی صفت بیان کی گئی ہے۔ وہ ایک دوسرے کو برائی سے نہیں روکتے اور یہاں اسی آیت میں ان کی اکثریت کو فاسق کہا گیا ہے۔ امر بالمعروف یہ فرض عین ہے یا فرض کفایہ؟ اکثر علماء کے خیال میں یہ فرض کفایہ ہے۔ یعنی علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس فرض کو ادا کرتے رہیں کیونکہ معروف اور منکر شرعی کا صحیح علم وہی رکھتے ہیں ان کے فریضہ تبلیغ و دعوت کی ادائیگی سے دیگر افراد کی طرف سے یہ فرض ساقط ہوجائے گا۔ جیسے جہاد بھی عام حالات میں فرض کفایہ ہے یعنی ایک گروہ کی طرف سے ادائیگی سے اس فرض کی ادائیگی ہوجائے گی۔ ١١٠۔ ٢ جیسے عبد اللہ بن سلام (رض) وغیرہ جو مسلمان ہوگئے تھے۔ تاہم ان کی تعداد نہایت قلیل تھی۔ اس لئے مِنْہمْ میں مِنْ، تَبْعِیْضُ کے لئے ہے۔ آل عمران
111 ١١١۔ ١ اس سے مراد زبانی بہتان تراشی ہے جس سے دل کو وقتی طور پر ضرور تکلیف پہنچتی ہے تاہم میدان حرب و ضرب میں یہ تمہیں شکست نہیں دے سکیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا، مدینہ سے بھی یہودیوں کو نکلنا پڑا پھر خیبر فتح ہوگیا اور وہاں سے بھی نکلے، اسی طرح شام کے علاقوں میں عیسائیوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے شکست سے دو چار ہونا پڑا تاآنکہ حروب صلیبیہ میں عیسائیوں نے اس کا بدلہ لینے کی کوشش کی اور بیت المقدس پر بھی قابض ہوگئے مگر اسے صلاح الدین ایوبی نے ٩٠ سال کے بعد واگزار کرا لیا۔ لیکن اب مسلمانوں کی ایمانی کمزوری کے نتیجہ میں یہود و نصاریٰ کی مشترکہ سازشوں اور کوششوں سے بیت المقدس پھر مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے۔ تاہم ایک وقت آئے گا کہ یہ صورت حال تبدیل ہوجائے گی بالخصوص حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کے بعد عیسائیت کا خاتمہ اور اسلام کا غلبہ یقینی ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔ (ابن کثیر) آل عمران
112 ١١٢۔ ١ یہودیوں پر جو ذلت و مسکنت، غضب الٰہی کے نتیجے میں مسلط کی گئی ہے، اس سے وقتی طور پر بچاؤ کی دو صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کی پناہ میں آجائیں۔ یعنی اسلام قبول کرلیں یا اسلامی مملکت میں جزیہ دے کر ذمی کی حیثیت سے رہنا قبول کرلیں، دوسری صورت یہ ہے کہ لوگوں کی پناہ ان کو حاصل ہو ١١٢۔ ٢ یہ ان کے کرتوت ہیں جنکی پادش میں ان پر ذلت مسلط کی گئی ہے۔ آل عمران
113 آل عمران
114 آل عمران
115 ١١٥۔ ١ یعنی سارے اہل کتاب ایسے نہیں جن کی مذمت پچھلی آیات میں بیان کی گئی ہے، بلکہ ان میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے شرف اسلام سے نوازا اور ان میں اہل ایمان و تقویٰ والی خوبیاں پائی جاتی ہیں، (رض) ورضو عنہ۔ قائمۃ کے معنی ہیں، شریعت کی اطاعت اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اتباع کرنے والی، یسجدون کا مطلب رات کو قیام کرتے یعنی تہجد پڑھتے اور نمازوں میں تلاوت کرتے ہیں۔ اس مقام پر امر بالمعروف کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا حکم دیتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرنے سے روکتے ہیں۔ اسی گروہ کا ذکر آگے بھی کیا گیا ہے (وَاِنَّ مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ باللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ خٰشِعِیْنَ لِلّٰہِ) 003:199 آل عمران
116 آل عمران
117 ١١٧۔ ١ قیامت والے دن کافروں کے نہ مال کچھ کام آئیں گے نہ اولاد، حتیٰ کے رفاہی اور بظاہر بھلائی کے کاموں پر جو بھی خرچ کرتے ہیں وہ بیکار جائیں گے اور ان کی مثال اس سخت پالے کی سی ہے جو ہری بھری کھیتی کو جلا کر خاکستر کردیتا ہے ظالم اسی کھیتی کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہوتے اور اس سے نفع کی امید رکھے ہوتے ہیں کہ اچانک ان کی امیدیں خاک میں مل جاتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا جب تک ایمان نہیں ہوگا، رفاہی کاموں پر رقم خرچ کرنے والوں کی چاہے دنیا میں کتنی ہی شہرت ہوجائے آخرت میں انہیں ان کا کوئی صلہ نہیں ملے گا، وہاں تو ان کے لئے جہنم کا دائمی عذاب ہے۔ آل عمران
118 ١١٨۔ ١ یہ مضمون پہلے بھی گزر چکا ہے۔ یہاں اس کی اہمیت کے پیش نظر پھر دہرایا جا رہا ہے۔ بطانتہ، دلی دوست اور رازدار کو کہا جاتا ہے۔ کافر اور مشرک مسلمانوں کے بارے میں جو جذبات و عزائم رکھتے ہیں، ان میں سے جن کا وہ اظہار کرتے اور جنہیں اپنے سینوں میں مخفی رکھتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان سب کی نشاندہی فرما دی ہے یہ اور اس قسم کی دیگر آیات کے پیش نظر ہی علماء و فقہا نے تحریر کیا ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کو کلیدی مناصب پر فائز کرنا جائز نہیں ہے۔ مروی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ نے ایک (غیر مسلم) کو کاتب (سیکرٹری) رکھ لیا، حضرت عمر رضی اللہ کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے انہیں سختی سے ڈانٹا اور فرمایا کہ ' تم انہیں اپنے قریب نہ کرو جب کہ اللہ نے انہیں دور کردیا ہے ان کو عزت نہ بخشو جب کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ذلیل کردیا ہے اور انہیں راز دار مت بناؤ جب کہ اللہ نے انہیں بد دیانت قرار دیا ہے ـ' حضرت عمر رضی اللہ نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا۔ امام قرطبی فرماتے ہیں اس زمانے میں اہل کتاب کو سیکرٹری اور امین بنانے کی وجہ سے احوال بدل گئے ہیں اور اس وجہ سے غبی لوگ سردار اور امرا بن گئے (تفسیر قرطبی)۔ بد قسمتی سے آج کے اسلامی ممالک میں بھی قرآن کریم کے اس نہایت اہم حکم کو اہمیت نہیں دی جا رہی ہے اور اس کے برعکس غیر مسلم بڑے بڑے اہم عہدوں اور کلیدی مناصب پر فائز ہیں جن کے نقصانات واضح ہیں۔ اگر اسلامی ممالک اپنی داخلی اور خارجی دونوں پالیسیوں میں اس حکم کی رعایت کریں تو یقینا بہت سے مفاسد اور نقصانات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ١١٨۔ ٢ لایألون، کوتاہی اور کمی نہیں کریں گے خبالا کے معنی فساد اور ہلاکت کے ہیں ماعنتم (جس سے تم مشقت اور تکلیف میں پڑو) عنت بمعنی مَشَقَّۃ آل عمران
119 ١١٩۔ ١ تم ان منافقین کی نماز اور ایمان کیوجہ سے ان کی بابت دھوکے کا شکار ہوجاتے ہو اور ان سے محبت رکھتے ہو۔ ١١٩۔ ٢ یہ ان کے غیظ و غضب کی شدت کا بیان ہے جیسا کہ اگلی آیت میں بھی ان کی اسی کیفیت کا اظہار ہے۔ آل عمران
120 ١٢٠۔ ١ اس میں منافقین کی شدید عداوت کا ذکر ہے جو انہیں مومنوں کے ساتھ تھی اور وہ یہ کہ جب مسلمانوں کو خوش حالی میسر آتی، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو تائید و نصرت ملتی اور مسلمانوں کی تعداد و قوت میں اضافہ ہوتا تو منافقین کو بہت برا لگتا اور اگر مسلمان قحط سالی یا تنگدستی میں مبتلا ہوتے یا اللہ کی مشیت و مصلحت سے دشمن وقتی طور پر مسلمانوں پر غالب آجاتے (جیسے جنگ احد میں ہوا) تو بڑے خوش ہوتے۔ مقصد بتلانے سے یہ ہے جن لوگوں کا یہ حال ہو، کیا وہ اس لائق ہو سکتے ہیں کہ مسلمان ان سے محبت کی پینگیں بڑھائیں اور انہیں اپنا راز دار اور دوست بنائیں؟ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ سے بھی دوستی رکھنے سے منع فرمایا (جیسا کہ قرآن کریم کے دوسرے مقامات پر ہے)۔ اس لیے کہ وہ بھی مسلمانوں سے نفرت وعداوت رکھتے ان کی کامیابیوں سے ناخوش اور ان کی ناکامیوں سے خوش ہوتے ہیں۔ ١٢٠۔ ٢ یہ ان کے مکر و فریب سے بچنے کا طریقہ اور علاج ہے۔ گویا منافقین اور دیگر دشمنان اسلام و مسلمین کی سازشوں سے بچنے کے لئے صبر اور تقویٰ نہایت ضروری ہے۔ اس صبر اور تقویٰ کے فقدان نے غیر مسلموں کی سازشوں کو کامیاب بنا رکھا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ کافروں کی یہ کامیابی مادی اسباب اور وسائل کی فروانی اور سائنس و ٹیکنالوجی میں ان کی ترقی کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی پستی اور زوال کا اصل سبب یہی ہے کہ وہ اپنے دین پر استقامت (صبر کے دامن) سے محروم اور تقوے سے عاری ہوگئے جو مسلمانوں کی کامیابی کی کلید اور تائید الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ آل عمران
121 ١٢١۔ ١ جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے مراد جنگ احد کا واقعہ ہے جو شوال ٣ ہجری میں پیش آیا۔ اس کا پس منظر مختصراً یہ ہے کہ جب جنگ بدر ٢ ہجری میں کفار کو عبرت ناک شکست ہوئی، ان کے سترّ آدمی مارے گئے اور ستّر قید ہوئے تو کفار کے لئے یہ بدنامی کا باعث اور مرنے کا مقام تھا، چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک زبردست انتقامی جنگ کی تیاری کی جس میں عورتیں بھی شریک ہوئیں۔ ادھر مسلمانوں کو جب اس کا علم ہوا کہ کافر تین ہزار کی تعداد میں احد پہاڑ کے نزدیک خیمہ زن ہوگئے ہیں تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اندر رہ کر ہی مقابلہ کا مشورہ دیا اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا۔ لیکن اس کے برعکس بعض پر جوش صحابہ کرام نے جنہیں جنگ بدر میں حصہ لینے کی سعادت حاصل نہیں ہوئی تھی، مدینہ کے باہر جاکر لڑنے کی حمایت کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اندر حجرے میں تشریف فرما تھے ہتھیار پہن کر باہر آئے، دوسری رائے والوں کو ندامت ہوئی کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کی خواہش کے برعکس باہر نکلنے پر مجبور کرکے ٹھیک نہیں کیا چنانچہ انہوں نے کہا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ اگر اندر رہ کر مقابلہ کرنا پسند فرمائیں تو اندر ہی رہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ لباس حرب پہن لینے کے بعد کسی نبی کے لائق نہیں کہ وہ اللہ کے فیصلے کے بغیر واپس ہو اور لباس اتارے۔ چنانچہ مسلمان ایک ہزار کی تعداد میں روانہ ہوگئے مگر صبح دم جب مقام شوط پر پہنچے تو عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں سمیت یہ کہہ کر واپس آگیا کہ اس کی رائے نہیں مانی گئی۔ خواہ مخواہ جان دینے کا کیا فائدہ؟ اس کے اس فیصلے سے وقتی طور پر بعض مسلمان بھی متاثر ہوگئے اور انہوں نے بھی کمزوری کا مظاہرہ کیا (ابن کثیر) آل عمران
122 ١٢٢۔ ١ یہ اوس اور خزرج کے دو قبیلے (بنو حارث اور بنو سلمہ) تھے ١٢٢۔ ٢ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ نے ان کی مدد کی اور ان کی کمزوری کو دور فرما کر ان کی ہمت باندھ دی۔ آل عمران
123 ١٢٣۔ ١ بہ اعتبار قلت تعداد اور قلت سامان کے، کیونکہ جنگ بدر میں مسلمان ٣١٣ تھے اور یہ بھی بے سرو سامان۔ صرف دو گھوڑے اور ستّر اونٹ تھے باقی سب پیدل تھے (ابن کثیر) آل عمران
124 آل عمران
125 ١٢٥۔ ١ مسلمان بدر کی جانب قافلہ قریش پر جو تقریبًا نہتا تھا چھاپہ مارنے نکلے تھے۔ مگر بدر پہنچتے پہنچتے معلوم ہوا کہ مکہ سے مشرکین کا ایک لشکر جرار غیظ و غضب اور جوش و خروش کے ساتھ چلا آرہا ہے۔ یہ سن کر مسلمانوں کی صف میں گھبراہٹ، تشویش اور جوش قتال کا ملا جلا اور عمل ہوا اور انہوں نے رب تعالیٰ سے دعا و فریاد کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے پہلے ایک ہزار پھر تین ہزار فرشتے اتارنے کی بشارت دی اور مزید وعدہ کیا کہ اگر تم صبرو تقویٰ پر قائم رہے اور مشرکین کا جوش وخروش و غضب برقرار نہ رہ سکا۔ (بدر پہنچنے سے پہلے ہی ان میں پھوٹ پڑگئی۔ ایک گروہ مکہ پلٹ گیا اور باقی جو بدر میں آئے ان میں سے اکثر سرداروں کی رائے تھی کہ لڑائی نہ کی جائے) اس لیے حسب بشارت تین ہزار فرشتے اتارے گئے اور پانچ ہزار کی تعداد پوری کرنے کی ضرورت پیش نہ آسکی اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ تعداد پوری کی گئی۔ ١٢٥۔ ٢ یعنی پہچان کے لئے ان کی مخصوص علامت ہوگی۔ آل عمران
126 آل عمران
127 ١٢٧۔ ١ یہ اللہ غالب و کار فرما کی مدد کا نتیجہ بتلایا جا رہا ہے سورۃ انفال میں فرشتوں کی تعداد ایک ہزار بتلائی گئی ہے، "اذتستغیثون ربکم فاستجاب لکم انی ممدکم بالف من الملٰئکۃ" جب تم اپنے رب سے مدد طلب کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہاری فریاد سنتے ہوئے کہا کہ میں ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرونگا۔ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے واقعتًا تو ایک ہزار ہی نازل ہوئے اور مسلمانوں کے حوصلے اور تسلی کے لئے تین ہزار کا اور پھر پانچ ہزار کا مزید مشروط وعدہ کیا گیا۔ پھر حسب حالات مسلمانوں کی تسلی کے نقطہ نظر سے بھی ان کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ اس لئے بعض مفسرین کے نزدیک یہ تین ہزار پانچ ہزار فرشتوں کا نزول نہیں ہوا کیونکہ مقصد تو مسلمانوں کے حوصلے بلند کرنا تھا، ورنہ اصل مددگار تو اللہ تعالیٰ ہی تھا اور اللہ اپنی مدد کے لیے فرشتوں کا یا کسی اور کا محتاج ہی نہیں ہے۔ چنانچہ اس نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور جنگ بدر میں مسلمانوں کو تاریخی کامیابی حاصل ہوئی، کفر کی طاقت کمزور ہوئی اور کافروں کا گھمنڈ خاک میں مل گیا۔ (ایسرالتفاسیر) آل عمران
128 ١٢٨۔ ١ یعنی ان کافروں کو ہدایت دینا یا ان کے معاملے میں کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنا سب اللہ کے اختیار میں ہی ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ جنگ احد میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دندان مبارک بھی شہید ہوگئے اور چہرا مبارک بھی زخمی ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' وہ قوم کس طرح فلاح یاب ہوگی جس نے اپنے نبی کو زخمی کردیا ' گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی ہدایت سے ناآمیدی ظاہر فرمائی۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اسی طرح بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض کفار کے لئے قنوت نازلہ کا بھی اہتمام فرمایا جس میں ان کے لئے بد دعا فرمائی جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بد دعا کا سلسلہ بند فرما دیا (ابن کثیر فتح القدیر) اس آیت سے ان لوگوں کو عبرت پکڑنی چاہئیے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مختار کل قرار دیتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو اتنا اختیار بھی نہ تھا کہ کسی کو راہ راست پر لگا دیں حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی راستے کی طرف بلانے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ ١٢٨۔ ٢ یہ قبیلے جن کے لئے بددعا فرماتے رہے اللہ کی توفیق سے سب مسلمان ہوگئے۔ جن سے معلوم ہوا مختار کل اور عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ آل عمران
129 آل عمران
130 ١٣٠۔ ١ چونکہ غزوہ احد میں ناکامی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی اور مال دنیا کے لا لچ کے سبب ہوئی تھی اس لئے اب طمع دنیا کی سب سے زیادہ بھیانک اور مستقل شکل سود سے منع کیا جا رہا ہے اور اطاعت کی تاکید کی جا رہی ہے اور بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ کا یہ مطلب نہیں کہ بڑھا چڑھا کر نہ ہو تو مطلق سود جائز ہے بلکہ سود کم ہو یا زیادہ مفرد ہو یا مرکب مطلقًا حرام ہے جیسے کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اس آگ سے ڈرو جو کافروں کیلئے تیار کی گئی ہے جس سے تنبیہ بھی مقصود ہے کہ سود خوری سے باز نہ آئے تو یہ فعل تمہیں کفر تک پہنچا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ اللہ و رسول سے محاربہ ہے۔ آل عمران
131 آل عمران
132 آل عمران
133 ١٣٣۔ ١ مال و دولت دنیا کے پیچھے لگ کر آخرت تباہ کرنے کی بجائے، اللہ اور رسول کی اطاعت اور اللہ کی مغفرت اور اس کی جنت کا راستہ اختیار کرو۔ جو متقین کے لئے اللہ نے تیار کیا ہے۔ چنانچہ آگے متقین کی چند خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔ آل عمران
134 ١٣٤۔ ١ محض خوش حالی میں ہی نہیں، تنگ دستی کے موقع پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہی کہ ہر حال اور ہر موقع پر اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ ١٣٤۔ ٢ یعنی جب غصہ انہیں بھڑکاتا ہے تو اسے پی جاتے ہیں یعنی اس پر عمل نہیں کرتے اور ان کو معاف کردیتے ہیں جو ان کے ساتھ برائی کرتے ہیں۔ آل عمران
135 ١٣٥۔ ١ یعنی جب ان سے بتقاضائے بشریت کسی غلطی یا گناہ کا ارتکاب ہوجاتا ہے تو فوراً توبہ استغفار کا اہتمام کرتے ہیں۔ آل عمران
136 آل عمران
137 ١٣٧۔ ١ جنگ احد میں مسلمانوں کا لشکر سات سو افراد پر مشتمل تھا جس میں ٥٠ تیر اندازوں کا ایک دستہ آپ نے عبد اللہ بن جبیر (رض) کی قیادت میں ایک پہاڑی پر مقرر فرما دیا اور انہیں تاکید کردی کہ چاہے ہمیں فتح ہو یا شکست تم یہاں سے نہ ہلنا اور تمہارا کام یہ ہے کہ جو گھڑ سوار تمہاری طرف آئے تیروں سے اسے پیچھے دھکیل دینا لیکن مسلمان فتح یاب ہوگئے اور مال اسباب سمیٹنے لگے تو اس دستے میں اختلاف ہوگیا کچھ کہنے لگے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کا مقصد تو یہ تھا جب تک جنگ جاری رہے یہیں جمے رہنا لیکن جب یہ جنگ ختم ہوگئی ہے اور کفار بھاگ رہے ہیں تو یہاں رہنا ضروری نہیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی وہاں سے ہٹ کر مال و اسباب جمع کرنا شروع کردیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق وہاں صرف دس آدمی رہ گئے جس سے کافروں نے فائدہ اٹھایا ان کے گھڑ سوار پلٹ کر وہیں سے مسلمانوں کے عقب میں جا پہنچے اور اچانک حملہ کردیا جس میں مسلمانوں میں افراتفری مچ گئی۔ جس سے مسلمانوں کو قدرتی طور پر بہت تکلیف ہوئی۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تسلی دے رہا ہے کہ تمہارے ساتھ جو کچھ ہوا ہے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔ تاہم بالآخر تباہی و بربادی اللہ و رسول کی تکذیب کرنے والوں کا ہی مقدر ہے۔ آل عمران
138 آل عمران
139 ١٣٩۔ ١ گذشتہ جنگ میں تمہیں جو نقصان پہنچا ہے، اس سے نہ سست ہو اور نہ اس پر غم کھاؤ کیونکہ اگر تمہارے اندر ایمانی قوت موجود رہی تو غالب اور کامران تم ہی رہو گے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی قوت کا اصل راز اور ان کی کامیابی کی ایک بنیاد واضح کردی ہے۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ اس کے بعد مسلمان ہر معرکے میں سرخرو ہی رہے۔ آل عمران
140 ١٤٠۔ ١ ایک اور انداز سے مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ اگر جنگ احد میں تمہارے کچھ لوگ زخمی ہوئے تو کیا ہوا ؟ تمہارے مخالف بھی تو (جنگ بدر میں) اور احد کی ابتداء میں اسی طرح زخمی ہوچکے ہیں اور اللہ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ فتح و شکست کے ایام کو ادلتا بدلتا رہتا ہے۔ کبھی غالب کو مغلوب اور کبھی مغلوب کو غالب کردیتا ہے۔ آل عمران
141 ١٤١۔ ١ احد میں مسلمانوں کو جو عارضی شکست ان کی اپنی کوتاہی کی وجہ سے ہوئی اس میں بھی مستقبل کے لئے کئی حکمتیں پنہاں ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ آگے بیان فرما رہا ہے۔ ایک یہ کہ ایمان والوں کو ظاہر کر دے (کیونکہ صبر اور استقامت ایمان کا تقاضا ہے) جنگ کی شدتوں اور مصیبتوں میں جنہوں نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا، یقینا وہ سب مومن ہیں۔ دوسری یہ کہ کچھ لوگوں کو شہادت کے مرتبہ پر فائز کر دے۔ آخری دونوں کا مطلب گناہوں سے پاکی اور خلاصی ہے (فتح الْقدیر) مرحوم مترجم نے پہلے معنی کو اختیار کیا ہے چوتھی، یہ کہ کافروں کو ہٹا دے۔ وہ اس طرح کہ وقتی فتح یابی سے ان کی سرکشی اور تکبر میں اضافہ ہوگا اور یہی چیز ان کی تباہی و ہلاکت کا سبب بنے گی۔ آل عمران
142 ١٤٢۔ ١ بغیر قتال کی آزمائش کے تم جنت میں چلے جاؤ گے؟ نہیں! بلکہ جنت ان لوگوں کو ملے گی جو آزمائش میں پورا اتریں گے، ابھی تم پر وہ حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے لوگوں پر آئی تھی، انہیں تنگ دستی اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ خوب بلائے گئے مذید فرمایا، کیا لوگ گمان کرتے ہیں کہ انہیں صرف یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی۔ ١٤٢۔ ٢ یہ مضمون اس سے پہلے سورۃ بقرہ میں گزر چکا ہے، یہاں موقع کی مناسبت سے پھر بیان کیا جا رہا ہے کہ جنت یوں ہی نہیں مل جائے گی اس کے لئے پہلے تمہیں آزمائش کی بھٹی سے گزارا اور میدان جہاد میں آزمایا جائے گا وہاں نرغہ اعداء میں تم سرفروشی اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہو یا نہیں؟۔ آل عمران
143 ١٤٣۔ ١ یہ اشارہ ان صحابہ کی طرف ہے جو جنگ بدر میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے ایک احساس محرومی رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ میدان کارزار گرم ہو تو کافروں کی سرکوبی کر کے جہاد کی فضیلت حاصل کریں۔ انہی صحابہ نے جنگ احد میں جوش و جہاد سے کام لیتے ہوئے مدینہ سے باہر نکلنے کا مشورہ دیا لیکن جب مسلمانوں کی فتح کافروں کے اچانک حملے سے شکست میں تبدیل ہوگئی (جس کی تفصیل پہلے گزر چکی) تو یہ پرجوش مجاھدین بھی سراسیمگی کا شکار ہوگئے اور بعض نے راہ فرار اختیار کی۔ (جیسا کہ آگے تفصیل آئے گی) اور بہت تھوڑے لوگ ہی ثابت قدم رہے (فتح القدیر)۔ اس لئے حدیث میں آتا ہے ' تم دشمن سے مڈھ بھیڑ کی آرزو مت کرو اور اللہ سے عافیت طلب کیا کرو ' اور یہ بات جان لو کہ جنت تلواروں کے سایہ تلے ہے (بحوالہ ابن کثیر) ١٤٣۔ ٢ رایتموہ اور تنظرون۔ دونوں کے ایک ہی معنی یعنی دیکھنے کے ہیں۔ تاکید اور مبالغے کے لیے دو لفظ لائے گئے ہیں۔ یعنی تلواروں کی چمک، نیزوں کی تیزی، تیروں کی یلغار اور جاں بازوں کی صف آرائی میں تم نے موت کا خوب مشاہدہ کرلیا۔ (ابن کثیر وفتح القدیر) آل عمران
144 ١٤٤۔ ١ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف رسول ہی ہیں ' یعنی ان کا امتیاز بھی وصف رسالت ہی ہے۔ یہ نہیں کہ وہ بشری خصائص سے بالاتر اور خدائی صفات سے متصف ہوں کہ انہیں موت سے دو چار نہ ہونا پڑے ١٤٤۔ ٢ جنگ احد میں شکست کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کافروں نے یہ افواہ اڑا دی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قتل کردیئے گئے۔ مسلمانوں میں جب یہ خبر پھیلی تو اس سے بعض مسلمانوں کے حوصلے پست ہوگئے اور لڑائی سے پیچھے ہٹ گئے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کافروں کے ہاتھوں قتل ہوجانا یا ان پر موت کا وارد ہوجانا، کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ پچھلے انبیاء علیہم السلام بھی قتل اور موت سے ہمکنار ہوچکے ہیں۔ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی (بالفرض) اس سے دو چار ہوجائیں تو کیا تم اس دین سے ہی پھر جاؤ گے۔ یاد رکھو جو پھرجائے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا، اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سانحہ وفات کے وقت جب حضرت عمر (رض) شدت جذبات میں وفات نبوی کا انکار کر رہے تھے، حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے نہایت حکمت سے کام لیتے ہوئے منبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلو میں کھڑے ہو کر انہی آیات کی تلاوت کی جس سے حضرت عمر (رض) بھی متاثر ہوئے اور انہیں محسوس ہوا کہ یہ آیات ابھی ابھی اتری ہیں۔ ١٤٤۔ ٣ یعنی ثابت قدم رہنے والوں کو جنہوں نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کر کے اللہ کی نعمتوں کا عملی شکر ادا کیا۔ آل عمران
145 ١٤٥۔ ١ یہ کمزوری اور بذدلی مظاہرہ کرنے والوں کے حوصلوں میں اضافہ کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے کہ موت تو اپنے وقت پر آکر رہے گی، پھر بھاگنے یا بذدلی دکھانے کا کیا فائدہ؟ اسی طرح محض دنیا طلب کرنے سے کچھ دنیا تو مل جاتی ہے لیکن آخرت میں کچھ نہیں ملے گا، اس کے برعکس آخرت کے طالبوں کو آخرت میں اخروی نعمتیں تو ملیں ہی گی، دنیا بھی اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرماتا ہے۔ آگے مذید حوصلہ افزائی اور تسلی کے لئے پچھلے انبیاء علیہم السلام اور ان کے پیروں کاروں کے صبر اور ثابت قدمی کی مثالیں دی جا رہی ہیں۔ آل عمران
146 ١٤٦۔ ١ یعنی ان کو جو جنگ کی شدتوں میں پست ہمت نہیں ہوتے اور ضعف اور کمزوری نہیں دکھاتے۔ آل عمران
147 آل عمران
148 آل عمران
149 آل عمران
150 ١٥٠۔ ١ یہ مضمون پہلے بھی گزر چکا ہے، یہاں پھر دہرایا جا رہا ہے کیونکہ احد کی شکست سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض کفار یا منافقین مسلمانوں کو یہ مشورہ دے رہے تھے کہ تم اپنے آبائی دین کی طرف لوٹ آؤ۔ ایسے میں مسلمانوں کو کہا گیا کہ کافروں کی اطاعت ہلاکت و خسران کا باعث ہے۔ کامیابی اللہ کی اطاعت میں ہی ہے اور اس سے بہتر کوئی مددگار نہیں۔ آل عمران
151 ١٥١۔ ١ مسلمانوں کی شکست دیکھتے ہوئے بعض کافروں کے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ موقع مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے بڑا اچھا ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے کافروں کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا پھر انہیں اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کا حوصلہ نہ ہوا (فتح القدیر)۔ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے قبل کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ ان میں ایک یہ ہے کہ "نصرت بالرعب مسیرۃ شھر "دشمن کے دل میں ایک مہینے کی مسافت پر میرا رعب ڈال کر میری مدد کی گئی ہے۔"اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رعب مستقل طور پر دشمن کے دل میں ڈال دیا گیا تھا۔ اور اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت یعنی مسلمانوں کا رعب بھی مشرکوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ اور اس کی وجہ ان کا شرک ہے۔ گویا شرک کرنے والوں کا دل دوسروں کی ہیبت سے لرزاں و ترساں رہتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ جب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مشرکانہ عقائد و اعمال میں مبتلا ہوئی ہے، دشمن ان سے مرعوب ہونے کی بجائے، وہ دشمنوں سے مرعوب ہیں۔ آل عمران
152 ١٥٢۔ ١ اس وعدے پر بعض مفسرین نے تین ہزار اور پانچ ہزار فرشتوں کا نزول مراد لیا ہے۔ لیکن یہ رائے سرے سے صحیح نہیں بلکہ صحیح یہ ہے کہ فرشتوں کا نزول صرف جنگ بدر کے ساتھ مخصوص تھا۔ باقی رہا وہ وعدہ جو اس آیت میں مذکور ہے تو اس سے مراد فتح و نصرت کا وہ عام وعدہ ہے جو اہل اسلام کے لئے اور اس کے رسول کی طرف سے بہت پہلے سے کیا جا چکا حتٰی کہ بعض آیتیں مکہ میں نازل ہوچکی تھیں۔ اور اس کے مطابق ابتدائے جنگ میں مسلمان غالب و فاتح رہے جس کی طرف (اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِھٖ) 003:152 سے اشارہ کیا گیا ہے۔ ١٥٢۔ ٢ اس تنازع اور عصیان سے مراد ٥٠ تیر اندازوں کا وہ اختلاف ہے جو فتح و غلبہ دیکھ کر ان کے اندر واقع ہوا اور جس کی وجہ سے کافروں کو پلٹ کر دوبارہ حملہ آور ہونے کا موقع ملا۔ ١٥٢۔ ٣ اس سے مراد وہ فتح ہے جو ابتدا میں مسلمانوں کو حاصل ہوئی تھی۔ ١٥٢۔ ٤ یعنی مال غنیمت، جس کے لئے انہوں نے وہ پہاڑی چھوڑ دی جس کے نہ چھوڑنے کی انہیں تاکید کی گئی تھی۔ ١٥٢۔ ٥ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مورچہ چھوڑنے سے منع کیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق اسی جگہ ڈٹے رہنے کا عزم ظاہر کیا۔ ١٥٢۔ ٦ یعنی غلبہ عطا کرنے کے بعد پھر تمہیں شکست دے کر ان کافروں سے پھیر دیا تاکہ تمہیں آزمائے۔ ١٥٢۔ ٧ اس میں صحابہ کرام (رض) کے اس شرف اور فضل کا اظہار ہے جو ان کی کوتاہیوں کے باوجود اللہ نے ان پر فرمایا۔ یعنی ان کی غلطیوں کی وضاحت کر کے آئندہ اس کا اعادہ نہ کریں، اللہ نے ان کے لئے معافی کا اعلان کردیا تاکہ کوئی بد باطن ان پر زبان طعن دراز نہ کرے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہی قرآن کریم میں ان کے لئے عفو عام کا اعلان فرما دیا تو اب کسی کے لئے طعن وتشنیع کی گنجائش کہاں رہ گئی صحیح بخاری میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک حج کے موقع پر ایک شخص نے حضرت عثمان (رض) پر بعض اعتراضات کیے کہ وہ جنگ بدر میں بیعت رضوان میں شریک نہیں ہوئے۔ نیز یوم احد میں فرار ہوگئے تھے۔ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا کہ جنگ بدر میں تو انکی اہلیہ (بنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار تھیں، بیعت رضوان کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفیر بن کر مکہ گئے ہوئے تھے اور یوم احد کے فرار کو اللہ نے معاف فرمادیا ہے۔ (ملخصا۔ صحیح بخاری، غزوہ احد) آل عمران
153 ١٥٣۔ ١ کفار کے یکبارگی اچانک حملے سے مسلمانوں میں جو بھگدڑ مچی اور مسلمانوں کی اکثریت نے راہ فرار اختیار کی یہ اس کا نقشہ بیان کیا جا رہا ہے۔ ١٥٣۔ ٢ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں سمیت پیچھے رہ گئے اور مسلمانوں کو پکارتے رہے، اللہ کے بندو! میرے طرف لوٹ کر آؤ، اللہ کے بندو! میری طرف لوٹ کے آؤ۔ لیکن سراسیمگی کے عالم میں یہ پکار کون سنتا۔ ١٥٣۔ ٣ فَاَثاَبَکُمْ تمہاری کوتاہی کے بدلے میں تمہیں غم پر غم دیا، غما بغم بمعنی غما علی غم ابن جریر اور ابن کثیر کے اختیار کردہ راجح قول کے مطابق پہلے غم سے مراد، مال غنیمت اور کفار پر فتح و ظفر سے محرومی کا غم اور دوسرے غم سے مراد ہے مسلمانوں کی شہادت، ان کے زخمی ہونے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی خلاف ورزی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبر شہادت سے پہنچنے والا غم۔ ١٥٣۔ ٤ یعنی یہ غم پہ غم اس لئے دیا تاکہ تمہارے اندر شدائد برداشت کرنے کی قوت اور عزم و حوصلہ پیدا ہو۔ جب یہ قوت اور حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے تو پھر انسان کو فوت شدہ چیز پر غم اور پہنچنے والے شدائد پر ملال نہیں ہوتا۔ آل عمران
154 ١٥٤۔ ١ مذکورہ سراسیمگی کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر مسلمانوں پر اپنا فضل فرمایا اور میدان جنگ میں باقی رہ جانے والے مسلمانوں پر اونگھ مسلط کردی۔ یہ اونگھ اللہ کی طرف سے نصرت کی دلیل تھی۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ فرماتے ہیں کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن پر احد کے دن اونگھ چھائی جا رہی تھی حتیٰ کہ میری تلوار کئی مرتبہ میرے ہاتھ سے گری میں اسے پکڑتا وہ پھر گر جاتی، پھر پکڑتا پھر گر جاتی (صحیح بخاری) نعاسا امنۃ سے بدل ہے۔ طائفہ واحد اور جمع دونوں کے لیے مستعمل ہے (فتح القدیر) ١٥٤۔ ٢ اس سے مراد منافقین ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں ان کو اپنی جانوں کی فکر تھی۔ ١٥٤۔ ٣ وہ یہ تھیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معاملہ باطل ہے، یہ جس دین کی دعوت دیتے ہیں، اس کا مستقبل مخدوش ہے، انہیں اللہ کی مدد ہی حاصل نہیں وغیرہ وغیرہ۔ ١٥٤۔ ٤ یعنی کیا اب ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی فتح و نصرت کا امکان ہے؟ یا یہ کہ ہماری بھی کوئی بات چل سکتی ہے اور مانی جاسکتی ہے۔ ١٥٤۔ ٥ تمہارے یا دشمن کے اختیار میں نہیں ہے، مدد بھی اسی کی طرف سے آئے گی اور کامیابی بھی اسی کے حکم سے ہوگی اور امر و نہی بھی اسی کا ہے۔ ١٥٤۔ ٦ اپنے دلوں میں نفاق چھپائے ہوئے ہیں، ظاہر یہ کرتے ہیں، کہ رہنمائی کے طالب ہیں۔ ١٥٤۔ ٧ یہ وہ آپس میں کہتے یا اپنے دل میں کہتے تھے۔ ١٥٤۔ ٨ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس قسم کی باتوں کا کیا فائدہ؟ موت تو ہر صورت میں آنی ہے اور اسی جگہ پر آنی ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لکھ دی گئی۔ اگر تم گھروں میں بیٹھے ہوتے اور تمہاری موت کسی مقتل میں لکھی ہوتی تو تمہیں قضا ضرور وہاں کھینچ لے جاتی۔ ١٥٤۔ ٩ یہ جو کچھ ہوا اس سے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ تمہارے سینوں کے اندر جو کچھ ہے یعنی ایمان اسے آزمائے (تاکہ منافق الگ ہوجائیں) اور پھر تمہارے دلوں کو شیطانی وساوس سے پاک کر دے۔ ١٥٤۔ ١٠ یعنی اس کو تو علم ہے کہ مخلص مسلمان کون ہے اور نفاق کا لبادہ کس نے اوڑھ رکھا ہے؟ جہاد کی متعدد حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ اس سے مومن اور منافق کھل کر سامنے آجاتے ہیں، جنہیں عام لوگ دیکھ اور پہچان لیتے ہیں۔ آل عمران
155 ١٥٥۔ ١ یعنی احد میں مسلمانوں سے جو لغزش اور کوتاہی ہوئی اس کی وجہ ان کی پچھلی کمزوریاں تھیں جس کی وجہ سے شیطان بھی انہیں پھسلانے میں کامیاب ہوگیا۔ جس طرح بعض سلف کا قول ہے کہ "نیکی کا بدلہ یہ بھی ہے کہ اس کے بعد مذید نیکی کی تو فیق ملتی ہے اور برائی کا بدلہ یہ ہے کہ اس بعد مذید برائی کا راستہ کھلتا اور ہموار ہوتا ہے۔ ١٥٥۔ ٢ اللہ تعالیٰ صحابہ کرام کی لغزشوں، ان کے نتائج اور حکمتوں کے بیان کے بعد پھر بھی اپنی طرف سے ان کی معافی کا اعلان فرما رہا ہے۔ جس سے ایک تو ان کا محبوب بارگاہ الٰہی میں ہونا واضح ہے اور دوسرے، عام مومنین کو تنبیہ ہے کہ ان کے مومنین صادقین کو جب اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا تو اب کسی کے لئے جائز نہیں کہ ہدف ملامت یا نشانہ تنقید بنائے۔ آل عمران
156 ١٥٦۔ ١ اہل ایمان کو اس فساد عقیدہ سے روکا جا رہا ہے جس کے حامل کفار اور منافقین تھے کیونکہ یہ عقیدہ بذدلی کی بنیاد ہے اس کے برعکس جب یہ عقیدہ ہو کہ موت وحیات اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ نیز یہ کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے تو اس سے انسان کے اندر عزم اور حوصلہ اور اللہ کی راہ میں لڑنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ١٥٦۔ ٢ مذکورہ فساد عقیدہ دلی حسرت کا ہی سبب بنتا ہے کہ اگر وہ سفر میں یا میدان جنگ میں نہ جاتے بلکہ گھر میں ہی رہتے تو موت کی آغوش میں جانے سے بچ جاتے۔ درآنحالیکہ موت تو مضبوط قلعوں کے اندر بھی آجاتی ہے۔ اس لئے اس حسرت سے مسلمان ہی بچ سکتے ہیں جن کے عقیدے صحیح ہیں۔ آل عمران
157 ١٥٧۔ ١ موت تو ہر صورت آنی ہے لیکن اگر موت ایسی آئے کہ جس کے بعد انسان اللہ کی مغفرت و رحمت کا مستحق قرار پائے تو یہ دنیا کے مال اسباب سے بہت بہتر ہے جس کے جمع کرنے میں انسان عمر کھپا دیتا ہے اس لئے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے گریز نہیں، اس میں رغبت اور شوق ہونا چاہیے کہ اس طرح رحمت و مغفرت الٰہی یقینی ہوجاتی ہے بشرطیکہ اخلاص کے ساتھ ہو۔ آل عمران
158 آل عمران
159 ١٥٩۔ ١ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو صاحب خلق عظیم تھے، اللہ تعالیٰ اپنے اس پیغمبر پر ایک احسان کا ذکر فرما رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر جو نرمی اور ملائمت ہے یہ اللہ کی خاص مہربانی کا نتیجہ ہے اور یہ نرمی دعوت و تبلیغ کے لئے نہایت ضروری ہے اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر یہ نہ ہوتی بلکہ اس کے برعکس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تندخو اور سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے قریب ہونے کی بجائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دور بھاگتے۔ اس لئے آپ درگزر سے ہی کام لیتے رہئیے۔ ١٥٩۔ ٢ یعنی مسلمانوں کی طیب خاطر کے لئے مشورہ کرلیا کریں۔ اس آیت سے مشاورت کی اہمیت، افادیت اور اس کی ضرورت و مشروعیت ثابت ہوتی ہے۔ مشاورت کا یہ حکم بعض کے نزدیک وجوب کے لئے اور بعض کے نزدیک استحباب کے لئے ہے (ابن کثیر) امام شوکانی لکھتے ہیں ' حکمرانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ علماء سے ایسے معاملات میں مشورہ کریں جن کا انہیں علم نہیں ہے۔ یا ان کے بارے میں انہیں اشکال ہیں۔ فوج کے سربراہوں سے فوجی معاملات میں، سربرآوردہ لوگوں سے عوام کے مصالح کے بارے میں اور ماتحت حکام و والیان سے ان کے علاقوں کی ضروریات و ترجیحات کے سلسلے میں مشورہ کریں "۔ ابن عطیہ کہتے ہیں کہ ایسے حکمران کے وجوب عزل پر کوئی اختلاف نہیں ہے جو اہل علم و اہل دین سے مشورہ نہیں کرتا"۔ یہ مشورہ صرف ان معاملات تک محدود ہوگا جن کی بابت شریعت خاموش ہے یا جن کا تعلق انتظامی امور سے ہے۔ (فتح القدیر) ١٥٩۔ ٣ یعنی مشاورت کے بعد جس پر آپ کی رائے پختہ ہوجائے، پھر اللہ پر توکل کرکے اسے کر گزریئے۔ اس سے ایک تو یہ بات معلوم ہوئی کہ مشاورت کے بعد بھی آخری فیصلہ حکمران کا ہی ہوگا نہ کہ ارباب مشاورت یا ان کی اکثریت کا جیسا کہ جمہوریت میں ہے۔ دوسری یہ کہ سارا اعتماد و توکل اللہ کی ذات پر ہو نہ کہ مشورہ دینے والوں کی عقل و فہم پر۔ اگلی آیت میں بھی توکل علی اللہ کی مذید تاکید ہے۔ آل عمران
160 آل عمران
161 ١٦١۔ ١ جنگ احد کے دوران جو لوگ مورچہ چھوڑ کر مال غنیمت سمیٹنے دوڑ پڑے تھے ان کا خیال تھا کہ اگر ہم نہ پہنچے تو سارا مال دوسرے لپیٹ کرلے جائیں گے اس پر تنبیہ کی جا رہی ہے کہ آخر تم نے یہ تصور کیسے کرلیا کہ اس مال میں سے تمہارا حصہ تم کو نہیں دیا جائے گا کیا تمہیں قائد غزوہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امانت پر اطمینان نہیں۔ یاد رکھو کہ ایک پیغمبر سے کسی قسم کی خیانت کا صدور ممکن ہی نہیں کیونکہ خیانت، نبوت کے منافی ہے۔ اگر نبی ہی خائن ہو تو پھر اس کی نبوت پر یقین کیونکر کیا جاسکتا ہے؟ خیانت بہت بڑا گناہ ہے احادیث میں اس کی سخت مذمت آئی ہے۔ آل عمران
162 آل عمران
163 آل عمران
164 ١٦٤۔ ١ نبی کے بشر اور انسانوں میں سے ہی ہونے کو اللہ تعالیٰ ایک احسان کے طور پر بیان کر رہا ہے اور فی الواقع یہ احسان عظیم ہے کہ اس طرح ایک تو وہ اپنی قوم کی زبان اور لہجے میں ہی اللہ کا پیغام پہنچائے گا جسے سمجھنا ہر شخص کے لئے آسان ہوگا دوسرے لوگ ہم جنس ہونے کی وجہ سے اس سے مانوس اور قریب ہونگے۔ تیسرے انسان کے لئے انسان یعنی بشر کی پیروی تو ممکن ہے لیکن فرشتوں کی پیروی اس کے بس کی بات نہیں اور نہ فرشتہ انسان کے وجدان و شعور کی گہرائیوں اور باریکیوں کا ادراک کرسکتا ہے۔ اس لئے اگر پیغمبر فرشتوں میں سے ہوتے تو وہ ان ساری خوبیوں سے محروم ہوتے جو تبلیغ و دعوت کے لئے نہایت ضروری ہے۔ اس لئے جتنے بھی انبیاء آئے ہیں سب کے سب بشر ہی تھے۔ قرآن نے ان کی بشریت کو خوب کھول کر بیان کیا ہے۔ (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ مِّنْ اَہْلِ الْقُرٰی) 012:109 ' ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے وہ مرد تھے جن پر ہم وحی کرتے تھے۔ (وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّہُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُوْنَ فِی الْاَسْوَاقِ) (025:020"ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے سب کھانا کھاتے اور بازاروں میں چلتے تھے"۔ اور خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے کہلوایا گیا (قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰــہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ) (حٰم السجدۃ:6) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے میں بھی تو تمہاری طرح ٖصرف بشر ہی ہوں البتہ مجھ پر وحی کا نزول ہوتا ہے "۔ آج بہت سے افراد اس چیز کو نہیں سمجھتے اور انحراف کا شکار ہیں۔ ١٦٤۔ ٢ اس آیت میں نبوت کے تین اہم مقاصد بیان کئے گئے ہیں ١۔ تلاوت ٢۔ تزکیہ ٣۔ تعلیم کتاب و حکمت تعلیم کتاب میں تلاوت از خود آجاتی ہے، تلاوت کی ساتھ ہی تعلیم ممکن ہے، تلاوت کے بغیر تعلیم کا تصور ہی نہیں، اس کے باوجود تلاوت کو الگ ایک مقصد کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ جس سے اس نقطے کی وضاحت مقصود ہے کہ تلاوت بجائے خود ایک مقدس اور اور نیک عمل ہے، چاہے پڑھنے والا اس کا مفہوم سمجھے نہ سمجھے۔ قرآن کے معنی و مطالب کو سمجھنے کی کوشش کرنا یقینا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے۔ لیکن جب تک یہ مقصد حاصل نہ ہو یا اتنی فہم استعداد بہم نہ پہنچ جائے، تلاوت قرآن سے اعراض یا غفلت جائز نہیں۔ تزکیے سے مراد عقائد اور اعمال و اخلاق کی اصلاح ہے۔ جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں شرک سے ہٹا کر توحید پر لگایا اسی طرح نہایت بد اخلاق اور بد اطوار قوم کو اخلاق اور کردار کی رفعتوں سے ہمکنار کردیا، حکمت سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک حدیث ہے۔ ١٦٤۔ ٢ یہ ان مخففۃ من المثقلۃ ہے یعنی (انّ) (تحقیق، یقینا بلاشبہ) کے معنی ہیں۔ آل عمران
165 ١٦٥۔ ١ یعنی احد میں تمہارے ستّر آدمی شہید ہوئے تو بدر میں تم نے ستّر کافر قتل کئے تھے اور ستّر قیدی بنائے تھے۔ ١٦٥۔ ٢ یعنی تمہاری اس غلطی کی وجہ سے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تاکیدی حکم کے باوجود پہاڑی مورچہ چھوڑ کر تم نے کی تھی۔ جیسا کہ تفصیل پہلے گزر چکی ہے کہ اس غلطی کی وجہ سے کافروں کے ایک دستے کو اس درے سے دوبارہ حملہ کرنے کا موقع مل گیا۔ آل عمران
166 آل عمران
167 ١٦٧۔ ١ یعنی احد میں جو تمہیں نقصان پہنچا، وہ اللہ کے حکم سے ہی پہنچا (تاکہ آئندہ تم اطاعت رسول کا کماحقہ اہتمام کرو) علاوہ ازیں اس کا ایک مقصد مومنین اور منافقین کو ایک دوسرے سے الگ اور ممتاز کرنا بھی تھا۔ ١٦٧۔ ٢ لڑائی جاننے کا مطلب یہ ہے کہ واقع آپ لوگ لڑائی لڑنے چل رہے ہوتے تو ہم بھی ساتھ دیتے مگر آپ تو لڑائی کی بجائے اپنے آپ کو تباہی کے دہانے میں جھونکنے جا رہے ہو۔ ایسے غلط کام میں ہم کیوں آپ کا ساتھ دیں۔ یہ عبد اللہ بن ابی اور ان کے ساتھیوں نے اس لئے کہا کہ ان کی بات نہیں مانی گئی تھی اور اس وقت کہا جب وہ مقام شوط پر پہنچ کر واپس ہو رہے تھے اور عبد اللہ بن حرام انصاری رضی اللہ انہیں سمجھا بجھا کر شریک جنگ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ (قدرے تفصیل گزرچکی ہے) ١٦٧۔ ٣ اپنے نفاق اور ان باتوں کی وجہ سے جو انہوں نے کیں۔ ١٦٧۔ ٤ یعنی زبان سے تو ظاہر کیا جو مذکور ہوا لیکن دل میں تھا کہ ہماری علٰیحدگی سے ایک تو مسلمانوں کے اندر بھی ضعف پیدا ہوگا۔ دوسرے کافروں کو فائدہ ہوگا۔ مقصد اسلام، مسلمانوں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نقصان پہنچانا تھا۔ آل عمران
168 ١٦٨۔ ١ یہ منافقین کا قول ہے ' اگر ہماری بات مان لیتے تو قتل نہ کئے جاتے ' اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' اگر تم سچے ہو تو اپنے سے موت ٹال کر دکھاؤ ' مطلب یہ کہ تقدیر سے کسی کو مفر نہیں۔ موت بھی جہاں اور جیسے اور جس جگہ آنا ہے ہر صورت میں آکر رہے گی۔ اس لئے جہاد اور اللہ کی راہ میں لڑنے سے گریز و فرار یہ کسی کو موت کے شکنجے سے نہیں بچا سکتا۔ آل عمران
169 ١٦٩۔ ١ شہداء کی زندگی حقیقی ہے یا مجازی، یقینا حقیقی ہے لیکن اس کا شعور اہل دنیا کو نہیں، جیسا کہ قرآن نے وضاحت کردی ہے۔ ملاحظہ ہو (سورۃ بقرہ آیت نمبر ١٥٤) پھر اس زندگی کا مطلب کیا ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ قبروں میں ان کی روحیں لوٹا دی جاتی ہیں اور وہاں اللہ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ جنت کے پھلوں کی خوشبوئیں انہیں آتی ہیں جن سے ان کے مشام جان معطر رہتے ہیں۔ لیکن حدیث سے ایک تیسری شکل معلوم ہوتی ہے اس لئے وہی صحیح، وہ یہ کہ ان کی روحیں سبز پرندوں کے جوف یا سینوں میں داخل کردی جاتی ہیں اور وہ جنت میں کھاتی پھرتی اور اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتی ہیں (فتح القدیر بحوالہ صحیح مسلم) آل عمران
170 ١٧٠۔ ١ یعنی وہ اہل اسلام جو ان کے پیچھے دنیا میں زندہ ہیں یا مصروف جہاد ہیں، ان کی بابت وہ خواہش کرتے ہیں کہ کاش وہ بھی شہادت سے ہمکنار ہو کر یہاں ہم جیسی پر لطف زندگی اختیار کریں۔ شہدائے احد نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ ہمارے وہ مسلمان بھائی جو دنیا میں زندہ ہیں، انہیں ہمارے حالات اور پر مسرت زندگی سے کوئی مطلع کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تمہاری یہ بات ان تک پہنچا دیتا ہوں ' اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائیں (سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد) علاوہ ازیں متعدد احادیث سے شہادت کی فضیلت ثابت ہے۔ مثلا ایک حدیث میں فرمایا (مامن نفس تموت، لھا عند اللہ حیر، یسرہ ان ترجع الی الدنیا الا الشہید، فانہ یسرہ ان یرجع الی الدنیا فیقتل مرۃ اخریٰ لما یریٰ من فضل الشہادۃ) ( مسند احمد، صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الشہادۃ) کوئی مرنے والی جان، جس کو اللہ کے ہاں اچھا مقام حاصل ہے دنیا میں لوٹنا پسند نہیں کرتی۔ البتہ شہید دنیا میں دوبارہ آنا پسند کرتا ہے تاکہ وہ دوبارہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے یہ آرزو وہ اس لیے کرتا ہے کہ شہادت کی فضیلت کا وہ مشاہدہ کرلیتا ہے۔ حضرت جابر (رض) کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تجھے معلوم ہے کہ اللہ نے تیرے باپ کو زندہ کیا اور اس سے کہا کہ مجھ سے اپنی کسی آرزو کا اظہار کر (تاکہ میں اسے پورا کر دوں) تیرے باپ نے جواب دیا کہ میری تو صرف یہی آرزو ہے کہ مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ دوبارہ تیری راہ میں مارا جاؤں اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ تو ممکن نہیں ہے اس لیے کہ میرا فیصلہ ہے کہ یہاں آنے کے بعد کوئی دنیا میں واپس نہیں جاسکتا۔ آل عمران
171 ١٧١۔ ١ یہ استبشار پہلے استبشار کی تاکید اور اس بات کا بیان ہے کہ ان کی خوشی محض خوف و حزن کے فقدان کی ہی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ کی نعمتوں اور اس کے بے پایاں فضل و کرم کی وجہ سے بھی ہے اور بعض مفسرین نے کہا ہے پہلی خوشی کا تعلق دنیا میں رہ جانے والے بھائیوں کی وجہ سے اور یہ دوسری خوشی اس انعام و اکرام کی ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے خود ان پر ہوا (فتح القدیر) آل عمران
172 ١٧٢۔ ١ جب مشرکین جنگ احد سے واپس ہوئے تو راستے میں انہیں خیال آیا کہ ہم نے تو ایک سنہری موقع ضائع کردیا۔ مسلمان شکست خوردنی کی وجہ سے خوف زدہ اور بے حوصلہ تھے ہمیں اس سے فائدہ اٹھا کر مدینہ پر بھرپور حملہ کردینا چاہیے تھا تاکہ اسلام کا یہ پودا اپنی سر زمین (مدینہ) سے ہی نیست و نابود ہوجاتا۔ ادھر مدینہ پہنچ کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اندیشہ ہوا کہ شاید وہ پلٹ کر آئیں لہذا آپ نے صحابہ کرام کو لڑنے کے لئے آمادہ کیا اور صحابہ کرام تیار ہوگئے۔ مسلمانوں کا یہ قافلہ جب مدینہ سے ٨ میل واقع 'حمراء الاسد ' پر پہنچا تو مشرکین کو خوف محسوس ہوا چنانچہ ان کا ارادہ بدل گیا اور وہ مدینہ پر حملہ آور ہونے کی بجائے مکہ واپس چلے گئے، اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے رفقاء بھی مدینہ واپس آگئے۔ آیت میں مسلمانوں کے اسی جذبہ اطاعت اللہ و رسول کی تعریف کی گئی ہے۔ بعض نے اس کا سبب نزول حضرت ابو سفیان کی اس دھمکی کو بتلایا ہے کہ آئندہ سال بدر صغریٰ میں ہمارا تمہارا مقابلہ ہوگا۔ (ابوسفیان ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) جس پر مسلمانوں نے بھی اللہ و رسول کی اطاعت کے جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاد میں بھرپور حصہ لینے کا عزم کرلیا۔ (ملخص از فتح القدیر و ابن کثیر مگر یہ آخری قول سیاق سے میل نہیں کھاتا) آل عمران
173 ١٧٣۔ ١ کہا جاتا ہے کہ ابو سفیان نے بعض لوگوں کو معاوضہ دے کر یہ افواہ پھیلائی کہ مشرکین مکہ لڑائی کے لئے بھرپور تیاری کر رہے ہیں تاکہ یہ سن کر مسلمانوں کے حوصلے پست ہوجائیں، لیکن مسلمان اس قسم کی افواہیں سن کر خوف زدہ ہونے کی بجائے مذید عزم اور ولولہ سے سرشار ہوگئے۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان جامد قسم کی چیز نہیں بلکہ اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے۔ اسی لئے حدیث میں حسبُنا اللّٰہ و نَعْم الْوکِیْل پڑھنے کی فضیلت وارد ہے۔ نیز صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جب آگ میں ڈالا گیا تو آپ کی زبان پر یہی الفاظ تھے (فتح القدیر)۔ آل عمران
174 ١٧٤۔ ١ نِعْمَۃ، سے مراد سلامتی ہے اور فضل سے مراد نفع ہے جو بدر صغریٰ تجارت کے ذریعے حاصل ہوا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر صغریٰ میں ایک گزرنے والے قافلے سے سامان تجارت خرید کر فروخت کیا جس سے نفع حاصل ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں میں تقسیم کردیا (ابن کثیر) آل عمران
175 ١٧٥۔ ١ یعنی تمہیں اس وسوسے اور وہم میں ڈالتا ہے کہ وہ بڑے مضبوط اور طاقتور ہیں۔ ١٧٥۔ ٢ یعنی جب وہ تمہیں اس وہم میں مبتلا کرے تو تم صرف مجھ پر ہی بھروسہ رکھو اور میری ہی طرف رجوع کرو میں تمہیں کافی ہوجاؤں گا اور تمہارا ناصر ہوں گا، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ ۭ) 039:036 کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ہے۔ آل عمران
176 ١٧٦۔ ١ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر اس بات کی شدید خواہش تھی کہ سب لوگ مسلمان ہوجائیں، اسی لئے ان کے انکار اور تکذیب سے آپ کو سخت تکلیف پہنچی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غمگین نہ ہوں، یہ اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اپنی ہی آخرت برباد کر رہے ہیں۔ آل عمران
177 آل عمران
178 ١٧٨۔ ١ اس میں اللہ کے قانون امہال (مہلت دینے) کا بیان ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنی حکمت و مشیت کے مطابق کافروں کو مہلت عطا فرماتا ہے، وقتی طور پر انہیں دنیا کی فراغت و خوش حالی سے، فتوحات سے، مال اولاد سے نوازتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں ان پر اللہ کا فضل ہو رہا ہے لیکن اگر اللہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہونے والے نیکی اور اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار نہیں کرتے تو یہ دنیاوی نعمتیں، فضل الٰہی نہیں، مہلت الٰہی ہے۔ جس سے ان کے کفر و فسوق میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ بالآخر وہ جہنم کے دائمی عذاب کے مستحق قرار پاجاتے ہیں۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے اور بھی کئی مقامات پر بیان کیا ہے۔ مثلاً (اَیَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّہُمْ بِہٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِیْنَ 55؀ۙ نُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْخَــیْرٰتِ ۭ بَلْ لَّا یَشْعُرُوْنَ 56؀) 023:055،056 "کیا وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم ان کے مال و اولاد میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ ہم ان کے لیے بھلائیوں میں جلدی کر رہے ہیں؟ نہیں بلکہ وہ سمجھتے نہیں ہیں۔" آل عمران
179 ١٧٩۔ ١ اس لئے اللہ تعالیٰ ابتلا کی بھٹی سے ضرور گزارتا ہے تاکہ اس کے دوست واضح اور دشمن ذلیل ہوجائیں۔ مومن صابر، منافق سے الگ ہوجائے، جس طرح احد میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو آزمایا جس سے ان کے ایمان، صبر و ثبات اور اطاعت کا اظہار ہوا اور منافقین نے اپنے اوپر جو نفاق کا پردہ ڈال رکھا تھا وہ بے نقاب ہوگیا۔ ١٧٩۔ ٢ یعنی اللہ تعالیٰ اس طرح ابتلا کے ذریعہ سے لوگوں کے حالات اس طرح ابتلا کے ذریعہ سے ظاہر اور باطن نمایاں نہ کرے تو تمہارے پاس کوئی غیب کا علم تو ہے نہیں کہ جس سے تم پر یہ چیزیں منکشف ہوجائیں اور تم جان سکو کہ کون منافق ہے اور کون مومن خالص۔ ١٧٩۔ ٣ ہاں البتہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے، غیب کا علم عطا فرماتا ہے جس سے بعض دفعہ ان پر منافقین کا اور ان کے حالات اور ان کی سازشوں کا راز فاش ہوجاتا ہے۔ یعنی یہ بھی کسی کسی وقت اور کسی کسی نبی پر ہی ظاہر کیا جاتا ہے۔ ورنہ عام طور پر نبی بھی (جب تک اللہ نہ چاہے) منافقین کے اندرونی نفاق اور ان کے مکرو فریب سے بے خبر ہی رہتا ہے (جس طرح کہ سورۃ توبہ کی آیت نمبر ١٠١ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اعراب اور اہل مدینہ جو منافق ہیں، اے پیغمبر! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو نہیں جانتے) اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ غیب کا علم ہم صرف اپنے رسولوں کو ہی عطا کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کی منصبی ضرورت ہے۔ اس وحی الٰہی اور امور غیبیہ کے ذریعے سے ہی وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں اور اپنے کو اللہ کا رسول ثابت کرتے ہیں؟ اس مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان کیا گیا ہے (عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا 26؀ۙ اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ) 072:026،027 "عالم الغیب (اللہ تعالیٰ ہے) اور وہ اپنے غیب سے پنسدیدہ رسولوں کو ہی خبردار کرتا ہے "ظاہر بات ہے یہ امور غیبیہ وہی ہوتے ہیں جن کا تعلق منصب وفرائض رسالت کی ادائیگی سے ہوتا ہے نہ کہ ماکان ومایکون (جو کچھ ہوچکا اور آئندہ قیامت تک جو ہونے والا ہے) 'کا علم۔ جیسا کہ بعض اہل باطل اس طرح کا علم غیب انبیاء علیہم السلام کے لیے اور کچھ اپنے "آئمہ معصومین کے لیے باور کراتے ہیں۔ آل عمران
180 ١٨٠۔ ١ اس میں اس بخیل کا بیان کیا گیا ہے جو اللہ کے دیئے ہوئے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا حتی کہ اس میں سے فرض زکوٰۃ بھی نہیں نکالتا، صحیح بخاری کی حدیث میں آتا ہے کہ قیامت والے دن اس کے مالک کو ایک زہریلا اور نہایت خوف ناک سانپ بنا کر طوق کی طرح اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا، وہ سانپ اس کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ ہوں۔ آل عمران
181 ١٨١۔ ١ جب اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا (مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا) 057:011 کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے! تو یہود نے کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرا رب فقیر ہوگیا ہے کہ اپنے بندوں سے قرض مانگ رہا ہے؟ جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ١٨١۔ ٢ یعنی مذکورہ قول جس میں اللہ کی شان میں گستاخی ہے اور اسی طرح ان کے (اسلاف) کا انبیاء علیہم السلام کو ناحق قتل کرنا، ان کے سارے جرائم اللہ کی بارگاہ میں درج ہیں، جن پر وہ جہنم کی آگ میں داخل ہونگے۔ آل عمران
182 آل عمران
183 ١٨٣۔ ١ اس میں یہود کی ایک اور بات کی تکذیب کی جا رہی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ عہد لیا ہے کہ تم صرف اس رسول کو ماننا جس کی دعا پر آسمان سے آگ آئے اور قربانی اور صدقات کو جلا ڈالے۔ مطلب یہ تھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے ذریعے سے اس معجزے کا چونکہ صدور نہیں ہوا۔ اس لئے حکم الٰہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لانا ہمارے لئے ضروری نہیں حالانکہ پہلے نبیوں میں ایسے نبی بھی آئے ہیں جن کی دعا سے آسمان سے آگ آتی اور اہل ایمان کے صدقات اور قربانیوں کو کھا جاتی۔ جو ایک طرف اس بات کی دلیل ہوتی کہ اللہ کی راہ میں پیش کردہ صدقہ یا قربانی بارگاہ الٰہی میں قبول ہوگئی۔ دوسری طرف اس بات کی دلیل ہوتی کہ یہ نبی برحق ہے۔ لیکن ان یہودیوں نے ان نبیوں اور رسولوں کی بھی تکذیب ہی کی تھی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو پھر تم نے ایسے پیغمبروں کو کیوں جھٹلایا اور انہیں قتل کیا جو تمہاری طلب کردہ نشانی ہی لے کر آئے تھے۔ آل عمران
184 ١٨٤۔ ١ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہودیوں کی ان کٹ حجتیوں سے بد دل نہ ہوں، ایسا معاملہ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہیں کیا جا رہا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے آنے والے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوچکا ہے۔ آل عمران
185 ١٨٥۔ ١ اس آیت میں ایک تو اس اٹل حقیقت کا بیان ہے کہ موت سے مفر نہیں۔ دوسرا یہ کہ دنیا میں جس نے اچھا یا برا جو کچھ کیا اس کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، تیسرا کامیابی کا معیار بتایا گیا کہ کامیاب اصل میں وہ ہے جس نے دنیا میں رہ کر اپنے رب کو راضی کرلیا جس کے نتیجے میں جہنم سے دور اور جنت میں داخل کردیا گیا، چوتھا یہ کہ دنیا کی زندگی سامان فریب ہے، جو اس سے دامن بچا کر نکل گیا، وہ خوش نصیب ہے اور جو اس کے فریب میں پھنس گیا وہ ناکام اور نامراد ہے۔ آل عمران
186 ١٨٦۔ ١ اہل ایمان کو ان کے ایمان کے مطابق آزمانے کا بیان ہے، جیسا کہ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٥٥ میں گزر چکا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک واقعہ بھی آتا ہے کہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے ابھی اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا اور جنگ بدر بھی نہیں ہوئی تھی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت سعد بن عباد رضی اللہ کی عیادت کے لئے بنی حارث بن خزرج میں تشریف لے گئے۔ راستے میں ایک مجلس میں مشرکین، یہود اور عبد اللہ بن ابی وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سواری کی جو گرد اٹھی، اس نے اس پر بھی ناگواری کا اظہار کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ٹھہر کر قبول اسلام کی دعوت بھی دی جس پر عبد اللہ بن ابی نے گستاخانہ کلمات بھی کہے۔ وہاں بعض مسلمان بھی تھے، انہوں نے اس کے برعکس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تحسین فرمائی، قریب تھا کہ ان کے مابین جھگڑا ہوجائے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب کو خاموش کرایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت سعد رضی اللہ کے پاس پہنچے تو انہیں بھی یہ واقعہ سنایا، جس پر انہوں نے فرمایا کہ عبد اللہ بن ابی یہ باتیں اس لئے کرتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ آنے سے قبل، یہاں کے باشندوں کو اس کی تاج پوشی کرنی تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے سے اس کی سرداری کا یہ حسین خواب ادھورا رہ گیا، جس کا اسے سخت صدمہ ہے اور اس کی یہ باتیں اس کے اس بغض و عناد کا مظہر ہیں، اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) در گزر ہی سے کام لیں (صحیح بخاری) ١٨٦۔ ٢ اہل کتاب سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مختلف انداز سے طعن و تشنیع کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح مشرکین عرب کا حال تھا۔ علاوہ ازیں مدینہ میں آنے کے بعد منافقین بالخصوص ان کا رئیس عبد اللہ بن ابی بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں استخفاف کرتا رہتا تھا۔ آپ کے مدینہ آنے سے قبل اہل مدینہ اسے اپنا سردار بنانے لگے تھے اور اس کے سر پر تاج سیادت رکھنے کی تیاری مکمل ہوچکی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے سے اس کا یہ سارا خواب بکھر کر رہ گیا، جس کا اسے شدید صدمہ تھا چنانچہ انتقام کے طور پر بھی یہ شخص آپ کے خلاف کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا (جیسا کہ صحیح بخاری کے حوالے سے اس کی ضروری تفصیل گزشتہ حاشیہ میں ہی بیان کی گئی ہے) ان حالات میں مسلمانوں کو عفو و درگزر اور صبر اور تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی جارہی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ داعیانِ حق کا اذیتوں اور مشکلات سے دو چار ہونا اس راہ حق کے ناگزیر مرحلوں میں سے ہے اور اس کا علاج صبر فی اللہ، استعانت باللہ اور رجوع الی اللہ کے سوا کچھ نہیں (ابن کثیر) آل عمران
187 ١٨٧۔ ١ اس میں اہل کتاب کو بتایا جا رہا ہے کہ ان سے اللہ نے یہ عہد لیا تھا کہ کتاب الٰہی (تورات اور انجیل) میں جو باتیں درج ہیں اور آخری نبی کی جو صفات ہیں، انہیں لوگوں کے سامنے بیان کریں گے اور انہیں چھپائیں گے نہیں، لیکن انہوں نے دنیا کے تھوڑے سے مفادات کے لئے اللہ کے اس عہد کو پس پشت ڈال دیا، یہ گویا اہل علم کو تلقین و تنبیہ ہے کہ ان کے ہاں جو علم نافع ہے، جس سے لوگوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح ہو سکتی ہو، وہ لوگوں تک ضرورپہنچانا چاہیے اور دنیاوی اغراض و مفادات کی خاطر ان کو چھپانا بہت بڑا جرم ہے، قیامت والے دن ایسے لوگوں کو آگ کی لگام پہنائی جائیگی (کما فی الحدیث) آل عمران
188 ١٨٨۔ ١ ایسے لوگوں کے لئے سخت وعید ہے جو صرف اپنے واقعی کارناموں پر ہی خوش نہیں ہوتے بلکہ چاہتے ہیں کہ ان کے کھاتے میں وہ کارنامے بھی درج یا ظاہر کئے جائیں جو انہوں نے نہیں کئے ہوتے۔ یہ بیماری جس طرح عہد رسالت کے بعض لوگوں میں تھی جن کے پیش نظر آیات کا نزول ہوا۔ اسی طرح آج بھی جاہ پسند قسم کے لوگوں اور پراپیگنڈے اور دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعے سے بننے والے لیڈروں میں یہ بیماری عام ہے، آیت کے سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی کتاب الٰہی میں تحریف کے مجرم تھے مگر وہ اپنے ان کرتوتوں پر خوش ہوتے تھے، یہی حال باطل گروہوں کا بھی ہے وہ بھی لوگوں کو گمراہ کر کے، غلط رہنمائی کرکے اور آیات الٰہی میں معنوی تحریف و تبدیل کر کے بڑے خوش ہوتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ وہ اہل حق ہیں اور یہ کہ انکی فریب کاری کی انہیں داد دی جائے۔ ( قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ 30؀) 009:030 آل عمران
189 آل عمران
190 ١٩٠۔ ١ یعنی جو لوگ زمین و آسمان کی تخلیق اور کائنات کے دیگر اسرار و رموز پر غور کرتے ہیں، انہیں کائنات کے خالق اور اس کے اصل فرمانروا کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اتنی طویل و عریض کائنات کا یہ لگا بندھا نظام، جس میں ذرہ برابر خلل واقع نہیں ہوتا، یقینا اس کے پیچھے ایک ذات ہے جو اسے چلا رہی ہے اور اس کی تدبیر کر رہی ہے اور وہ ہے اللہ کی ذات۔ آگے انہی اہل دانش کی صفات کا تذکرہ ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے اور کروٹوں پر لیٹے ہوئے اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ اِنَّ فِیْ خَلَقِ السَّماوَاتِ سے لے کر آخر سورت تک آیات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو جب تہجد کے لئے اٹھتے تو پڑھتے اور اس کے بعد وضو کرتے (صحیح بخاری، کتاب التفسیر۔ صحیح مسلم۔ کتاب صلوٰۃ المسا فرین)۔ آل عمران
191 ١٩١۔ ١ ان دس آیات میں سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت و طاقت کی چند نشانیاں بیان فرمائی ہیں اور فرمایا کہ یہ نشانیاں ضرور ہیں لیکن کن کے لئے؟ اہل عقل و دانش کے لئے، اس کا مظلب یہ ہوا کہ ان عجائبات تخلیق اور قدرت الٰہی کو دیکھ کر بھی جس شخص کو باری تعالیٰ کا عرفان حاصل نہ ہو وہ اہل دانش ہی نہیں۔ لیکن یہ المیہ بھی بڑا عجیب ہے کہ عالم اسلام میں ' دانشور ' سمجھا ہی اس کو جاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں شک کا شکار ہو، دوسری آیت میں اہل دانش کے ذوق ذکر الٰہی اور ان کا آسمان اور زمین کی تخلیق میں غورو فکر کرنے کا بیان ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' کھڑے ہو کر نماز پڑھو۔ اگر کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کر پڑھو، بیٹھ کر بھی نہیں پڑھ سکتے تو کروٹ کے بل لیٹے لیٹے ہی نماز پڑھ لو۔ (صحیح بخاری کتاب الصلٰوۃ) اس کے بعد والی تین آیات میں بھی مغفرت اور قیامت کے دن کی رسوائی سے بچنے کی دعائیں ہیں۔ آل عمران
192 آل عمران
193 آل عمران
194 آل عمران
195 ١٩٥۔ ١ فَا سْتَجَاب یہاں اَجَابَ ' قبول فرما لی ' کے معنی میں ہے (فتح القدیر) ١٩٥۔ ٢ مرد ہو یا عورت کی وضاحت اس لئے کردی کہ اسلام نے بعض معاملات میں مرد اور عورت کے درمیان ان کے ایک دوسرے سے مختلف فطری اوصاف کی بنا پر جو فرق کیا ہے۔ مثلا قومیت اور حاکمیت میں، کسب معاش کی ذمہ داری میں، جہاد میں حصہ لینے میں اور وراثت میں نصف حصہ ملنے میں۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے، کہ نیک اعمال کی جزا میں بھی شاید مرد عورت کے درمیان کچھ فرق کیا جائے گا، نہیں! ایسا نہیں ہوگا، نیکی کا جو اجر مرد کو ملے گا وہی عورت کو بھی ملے گا۔ ١٩٥۔ ٣ یہ جملہ معترضہ ہے اس کا مقصد پچھلے نکتے ہی کی وضاحت ہے یعنی اجر و اطاعت میں تم مرد اور عورت ایک جیسے ہی ہو۔ بعض روایت میں ہے کہ حضرت ام سلمہ (رض) نے ایک مرتبہ عرض کیا یارسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے سلسلے میں عورتوں کا نام نہیں لیا۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی (تفسیر طبری، ابن کثیر و فتح القدیر) آل عمران
196 ١٩٦۔ ١ خطاب اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن مخاطب پوری امت ہے، شہروں میں چلنے پھرنے سے مراد تجارت اور کاروبار کے لئے ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک ملک سے دوسرے ملک جانا ہے، یہ تجارتی سفر و سائل دنیا کی فراوانی اور کاروبار کے وسعت و فروغ کی دلیل ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، یہ سب کچھ عارضی اور چند روزہ فائدہ ہے، اس سے اہل ایمان کو دھوکا میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ اصل انجام پر نظر رکھنی چاہئے، جو ایمان میں محرومی کی صورت میں جہنم کا دائمی عذاب ہے جس میں دولت دنیا سے مالا مال یہ کافر مبتلا ہونگے۔ یہ مضمون بھی متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ مثلا (مَا یُجَادِلُ فِیْٓ اٰیٰتِ اللّٰہِ اِلَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَا یَغْرُرْکَ تَــقَلُّبُہُمْ فِی الْبِلَادِ) 040:004 اللہ کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں جو کافر ہیں، پس ان کا شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے۔"(قُلْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ 69؀ مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ نُذِیْقُھُمُ الْعَذَاب الشَّدِیْدَ بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ 70؀ۧ) 010:069،070 (نُمَـتِّعُہُمْ قَلِیْلًا ثُمَّ نَضْطَرُّہُمْ اِلٰی عَذَابٍ غَلِیْظٍ 24؀) 031:024 آل عمران
197 ١٩٧۔ ١ یعنی دنیا کے وسائل، آسائش اور سہولتیں بظاہر کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں، درحقیقت متاع قلیل ہی ہیں کیونکہ بالاخر انہیں فنا ہونا ہے اور ان کے بھی فنا ہونے سے پہلے وہ حضرات خود فنا ہوجائیں گے، جو ان کے حصول کی کوششوں میں اللہ کو بھی فراموش کئے رکھتے ہیں اور ہر قسم کے اخلاقی ضابطوں اور اللہ کی حدوں کو بھی پامال کرتے ہیں۔ آل عمران
198 ١٩٨۔ ١ ان کے برعکس جو تقویٰ اور خداوندی کی زندگی گزار کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونگے۔ گو دنیا میں ان کے پاس خدا فراموشوں کی طرح دولت کے انبار اور رزق کی فروانی نہ رہی ہوگی، مگر وہ اللہ کے مہمان ہونگے جو تمام کائنات کا خالق اور مالک ہے اور وہاں ان ابرار (نیک لوگوں) کو جو اجر و صلہ ملے گا، وہ اس سے بہتر ہوگا جو دنیا میں کافروں کو عارضی طور پر ملتا ہے۔ آل عمران
199 ١٩٩۔ ١ اس آیت میں اہل کتاب کے اس گروہ کا ذکر ہے جسے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے ایمان اور ایمانی صفات کا تذکرہ فرما کر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوسرے اہل کتاب سے ممتاز کردیا، جن کا مشن ہی اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنا، آیات الٰہی میں تحریف و تبدیل کرنا اور دنیا کے عارضی اور فانی مفادات کے لئے کرنا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ مومنین اہل کتاب ایسے نہیں ہیں، بلکہ یہ اللہ سے ڈرنے والے ہیں اور اللہ کی آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر بیچنے والے نہیں۔ حافظ ابن کثیرنے لکھا ہے کہ آیت میں جن مومنین اہل کتاب کا ذکر ہے، یہودیوں کی تعداد دس تک بھی نہیں پہنچی البتہ عیسائی بڑی تعداد میں مسلمان ہوئے اور انہوں نے دین حق کو اپنایا۔ (تفسیر ابن کثیر) آل عمران
200 ٢٠٠۔ ١ صبر کرو یعنی طاعت کے اختیار کرنے اور شہوات اور لذات ترک کرنے میں اپنے نفس کو مضبوط اور ثابت قدم رکھو، جنگ کی شدت میں دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہنا، یہ صبر کی سخت ترین صورت ہے اس لئے اسے علٰیحدہ بیان فرمایا محاذ جنگ میں مورچہ بند ہو کر ہمہ وقت چوکنا اور جہاد کے لئے تیار رہنا مرابطہ ہے۔ یہ بھی بڑے عزم ولولہ کا کام ہے، اسی لئے حدیث میں اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے (رباط یوم فی سبیل اللہ خیر من الدنیا وما علیھا) (صحیح بخاری، باب فضل رباط یوم فی سبیل اللہ) اللہ کے راستے (جہاد) میں ایک سن پڑاؤ ڈالنا۔ (یعنی مورچہ بند ہونا) دنیا ومافیہا سے بہتر ہے "علاوہ ازیں حدیث میں مکارہ (یعنی ناگواری کے حالات میں) مکمل وضو کرنے، مسجدوں میں زیادہ دور سے چل کر جانے اور نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار کرنے کو بھی رباط کہا گیا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الطہارۃ) آل عمران
0 النسآء
1 ١۔ ١ ' ایک جان ' سے مراد ابو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں اور خَلَقَ مِنْہَا وَ زَوْجَھَا میں مِنْھَا سے وہی ' جان ' یعنی آدم (علیہ السلام) مراد ہیں اور آدم (علیہ السلام) سے ان کی زوجہ (بیوی) حضرت حوا کو پیدا کیا۔ حضرت حوا حضرت آدم (علیہ السلام) سے کس طرح پیدا ہوئیں؟ اس میں اختلاف ہے حضرت ابن عباس (رض) سے قول مروی ہے کہ حضرت حوا مرد ( یعنی آدم (علیہ السلام) سے پیدا ہوئیں۔ یعنی ان کی بائیں پسلی سے۔ ایک حدیث میں کہا گیا ہے، عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ، اس کا بالائی حصہ ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنا چاہے تو توڑ بیٹھے گا اگر تو اس سے فائدہ آٹھانا چاہے تو کجی کے ساتھ ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بعض علماء نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے حضرت ابن عباس رضی اللہ سے منقول رائے کی تائید کی۔ قرآن کے الفاظ خلق منھا سے اسی مؤقف کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت حوا کی تخلیق اسی نفس واحدہ سے ہوئی ہے جسے آدم کہا جاتا ہے۔ ١۔ ٢ والارحام کا عطف اللہ پر ہے یعنی رحموں (رشتوں ناطوں) کو توڑنے سے بھی بچو۔ ارحام، رحم کی جمع ہے۔ مراد رشتہ داریاں ہیں جو رحم مادر کی بنیاد پر ہی قائم ہوتی ہیں اس سے محرم اور غیر محرم دونوں رشتے مراد ہیں رشتوں ناتوں کا توڑنا سخت کبیرہ گناہ ہے جسے قطع رحمی کہتے ہیں۔ احادیث میں قرابت داریوں کو ہر صورت میں قائم رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی بڑی تاکید اور فضیلت بیان کی گئی ہے جسے صلہ رحمی کہا جاتا ہے۔ النسآء
2 ٢۔ ١ یتیم جب بالغ اور باشعور ہوجائیں تو ان کا مال ان کے سپرد کر دو، خبیث سے گھٹیا چیزیں اور طیب سے عمدہ چیزیں مراد ہیں یعنی ایسا نہ کرو کہ ان کے مال سے اچھی چیزیں لے لو اور محض گنتی پوری کرنے کے لئے گھٹیا چیزیں ان کے بدلے میں رکھ دو، بدلایا گیا مال جو اگرچہ اصل میں طیب (پاک اور حلال) ہے لیکن تمہاری اس بد دیانتی نے اس میں خباثت داخل کردی اور وہ اب طیب نہیں رہا، بلکہ تمہارے حق میں وہ خبیث (ناپاک اور حرام) ہوگیا۔ اسی طرح بد دیانتی سے ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھانا بھی ممنوع ہے ورنہ اگر مقصد خیر خواہی ہو تو ان کے مال کو اپنے مال میں ملانا جائز ہے۔ النسآء
3 ٣۔ ١ اس کی تفسیر حضرت عائشہ (رض) سے اس طرح مروی ہے کہ صاحب حیثیت اور صاحب جمال یتیم لڑکی کسی ولی کے زیر پرورش ہوتی تو اس کے مال اور حسن و جمال کی وجہ سے اس سے شادی تو کرلیتا لیکن اس کو دوسری عورتوں کی طرح پورا حق مہر نہ دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس ظلم سے روکا، کہ اگر تم گھر کی یتیم بچیوں کے ساتھ انصاف نہیں کرسکتے تو ان سے نکاح ہی مت کرو، تمہارے لئے دوسری عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کا راستہ کھلا ہے (صحیح بخاری) ایک کی بجائے دو سے، تین سے حتیٰ کے چار عورتوں تک سے تم نکاح کرسکتے ہو بشرطیکہ ان کے درمیان انصاف کے تقاضے پورے کرسکو ورنہ ایک ہی نکاح کرو یا اس کے بجائے لونڈی پر گزارا کرو۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمان مرد (اگر وہ ضرورت مند ہے) تو چار عورتیں بیک وقت اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہے لیکن اس سے زیادہ نہیں جیسا کہ صحیح احادیث میں اس کی مذید صراحت اور تحدید کردی گئی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو چار سے زائد شادیاں کیں وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خصائص میں سے ہے جس پر کسی امتی کے لیے عمل کرنا جائز نہیں۔ (ابن کثیر) ٣۔ ٢ یعنی ایک ہی عورت سے شادی کرنا کافی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی صورت میں انصاف کا اہتمام بہت مشکل ہے جس کی طرف قلبی میلان زیادہ ہوگا، ضروریات زندگی کی فراہمی میں زیادہ توجہ بھی اسی کی طرف ہوگی۔ یوں بیویوں کے درمیان وہ انصاف کرنے میں ناکام رہے گا اور اللہ کے ہاں مجرم قرار پائے گا۔ قرآن نے اس کی حقیقت کو دوسرے مقام پر نہایت اچھے انداز میں اس طرح بیان فرمایا ہے۔ (تم ہرگز اس بات کی طاقت نہ رکھو گے) کہ بیویوں کے درمیان انصاف کرسکو، اگرچہ تم اس کا اہتمام کرو۔ (اس لئے اتنا کرو) کہ ایک ہی طرف نہ جھک جاؤ کہ دوسری بیویوں کو بیچ ادھڑ میں لٹکا رکھو، اس سے معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ شادی کرنا اور بیویوں کے ساتھ انصاف نہ کرنا نامناسب اور نہایت خطرناک ہے۔ النسآء
4 النسآء
5 النسآء
6 ٦۔ ١ یتیموں کے مال کے بارے میں ضروری ہدایات دینے کے بعد یہ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تمہارے پاس رہا، تم اس کی کس طرح حفاظت کی اور جب مال ان کے سپرد کیا تو اس میں کوئی کمی بیشی یا کسی قسم کی تبدیلی کی یا نہیں، عام لوگوں کو تو تمہاری امانت داری یا خیانت کا شاید پتہ نہ چلے۔ لیکن اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز چھپی نہیں۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے، کہ یہ بہت ذمہ داری کا کام ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوذر (رض) سے فرمایا "ابوذر! میں تمہیں ضعیف دیکھتا ہوں اور تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں، جو اپنے لئے پسند کرتا ہوں، تم دو آدمیوں پر بھی امیر نہ بننا، نہ کسی یتیم کے مال کا والی اور سر پرست "(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ) النسآء
7 ٧۔ ١ اسلام سے قبل ایک یہ ظلم بھی روا رکھا جاتا تھا کہ عورتوں اور چھوٹے بچوں کو وراثت سے حصہ نہیں دیا جاتا تھا اور صرف بڑے لڑکے جو لڑنے کے قابل ہوتے، سارے مال کے وارث قرار پاتے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مردوں کی طرح عورتوں اور بچے بچیاں اپنے والدین اور اقارب کے مال میں حصہ دار ہونگے انہیں محروم نہیں کیا جائے گا۔ تاہم یہ الگ بات ہے کہ لڑکی کا حصہ لڑکے کے حصے سے نصف ہے (جیساکہ ٣ آیات کے بعد مذکورہے) یہ عورت پر ظلم نہیں ہے، نہ اس کا استخفاف ہے بلکہ اسلام کا یہ قانون میراث عدل وانصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ عورت کو اسلام نے معاش کی ذمہ داری سے فارغ رکھا ہے اور مرد کو اس کا کفیل بنایا ہے۔ علاوہ ازیں عورت کے پاس مہر کی صورت میں مال آتا ہے جو ایک مرد ہی اسے ادا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے عورت کے مقابلے میں مرد پر کئی گنا زیادہ مالی ذمہ داریاں ہیں۔ اس لئے اگر عورت کا حصہ نصف کے بجائے مرد کے برابر ہوتا تو یہ مرد پر ظلم ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی پر بھی ظلم نہیں کیا ہے کیونکہ وہ عادل بھی ہے اور حکیم بھی۔ النسآء
8 ٨۔ ١ اسے بعض علماء نے آیت میراث سے منسوخ قرار دیا ہے لیکن صیح تر بات یہ ہے یہ منسوخ نہیں، بلکہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہے۔ کہ امداد کے مستحق رشتے داروں میں سے جو لوگ وراثت میں حصے دار نہ ہوں، انہیں بھی تقسیم کے وقت کچھ دے دو۔ نیز ان سے بات بھی پیار اور محبت سے کرو۔ دولت کو آتے ہوئے دیکھ کر قارون اور فرعون نہ بنو۔ النسآء
9 ٩۔ ١ بعض کے نزدیک اس کے مخطب اوصیاء ہیں (جن کو وصیت کی جاتی ہے) ان کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ ان کے زیر کفالت جو یتیم ہیں انکے ساتھ وہ ایسا سلوک کریں جو اپنے بچوں کے ساتھ اپنے مرنے کے بعد کیا جانا پسند کرتے ہیں۔ بعض کے نزدیک اس کے مخاطب عام لوگ ہیں کہ وہ یتیموں اور دیگر چھوٹے بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرنے والے کو اچھی باتیں سمجھائیں تاکہ وہ نہ حقوق اللہ میں کوتاہی کرسکے نہ حقوق بنی آدم میں، اور وصیت میں وہ ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھے۔ اگر وہ خوب صاحب حیثیت ہے تو ایک تہائی مال کی وصیت ایسے لوگوں کے حق میں ضرور کرے جو اس کے قریبی رشتہ داروں میں غریب اور مستحق امداد ہیں یا پھر کسی دینی مقصد اور ادارے پر خرچ کرنے کی وصیت کرے تاکہ یہ مال اس کے لیے زاد آخرت بن جائے اور اگر وہ صاحب حیثیت نہیں ہے تو اسے تہائی مال میں وصیت کرنے سے روکا جائے تاکہ اس کے اہل خانہ بعد میں مفلسی اور احتیاج سے دو چار نہ ہوں۔ اسی طرح کوئی اپنے ورثا کو محروم کرنا چاہے تو اس سے اس کو منع کیا جائے اور یہ خیال کیا جائے کہ اگر ان کے بچے فقر و فاقہ سے دو چار ہوجائیں تو اس کے تصور سے ان پر کیا گزرے گی۔ اس تفصیل سے مذکورہ سارے ہی مخاطبین اس کا مصداق ہیں۔ (تفسیر قرطبی وفتح القدیر) النسآء
10 النسآء
11 ١١۔ ١ ورثا میں لڑکی اور لڑکے دونوں ہوں تو پھر اس اصول کے مطابق تقسیم ہوگی۔ لڑکے چھوٹے ہوں یا بڑے اسی طرح لڑکیاں چھوٹی ہوں یا بڑی سب وارث ہونگی۔ حتٰی کہ (ماں کے پیٹ میں زیر پرورش بچہ) بھی وارث ہوگا۔ البتہ کافر کی اولاد وارث نہ ہوگی۔ ١١۔ ٢ یعنی بیٹا کوئی نہ ہو تو مال کا دو تہائی دو سے زائد لڑکیوں کو دیئے جائیں گے اور اگر صرف دو ہی لڑکیاں ہوں، تب بھی انہیں دو تہائی حصہ ہی دیا جائے گا۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔ کہ سعد بن ربیع (رض) احد میں شہید ہوگئے اور ان کی ٢ لڑکیاں تھیں۔ مگر سعد کے سارے مال پر ان کے بھائی نے قبضہ کرلیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں لڑکیوں کو ان کے چچا سے دو تہائی مال دلوایا (ترمذی، ابو داؤد ابن ماجہ، کتاب الفرائض) علاوہ ازیں سورۃ نساء کے آخر میں بتلایا گیا ہے کہ اگر کسی مرنے والے کی وارث صرف دو بہنیں ہوں تو ان کے لیے بھی دو تہائی حصہ ہے لہذا جب دو بہنیں دو تہائی مال کی وارث ہوں گی تو دو بیٹیاں بطریق اولیٰ دو تہائی مال کی وارث ہوں گی جس طرح دو بہنوں سے زیادہ ہونے کی صورت میں انہیں دو سے زیادہ بیٹیوں کے حکم میں رکھا گیا ہے (فتح القدیر) خلاصہ مطلب یہ ہوا کہ دویا دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو دونوں صورتوں میں مال متروکہ سے دو تہائی لڑکیوں کا حصہ ہوگا۔ باقی مال عصبہ میں تقسیم ہوگا۔ ١١۔ ٣ ماں باپ کے حصے کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ پہلی صورت کہ مرنے والے کی اولاد بھی ہو تو مرنے والے کے ماں باپ میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور باقی دو تہائی مال اولاد پر تقسیم ہوجائے گا مرنے والے کی اگر صرف ایک بیٹی ہو تو نصف مال (یعنی چھ حصوں میں سے تین حصے بیٹی کے ہونگے اور ایک چھٹا حصہ ماں کو اور ایک چھٹا حصہ باپ کو دینے کے بعد مذید ایک چھٹا حصہ باقی بچ جائے گا اس لئے بچنے والا یہ چھٹا حصہ بطور سربراہ باپ کے حصہ میں جائے گا۔ یعنی اس صورت میں باپ کو دو چھٹے حصے ملیں گے۔ ایک باپ کی حیثیت سے اور دوسرے، سربراہ ہونے کی حیثیت سے۔ ١١۔ ٤ یہ دوسری صورت ہے کہ مرنے والے کی اولاد نہیں ہے (یاد رہے کہ پوتا پوتی بھی اولاد میں شامل ہیں) اس صورت میں ماں کے لئے تیسرا حصہ اور باقی دو حصے (جو ماں کے حصے میں دو گنا ہیں) باپ کو بطور عصبہ ملیں گے اور اگر ماں باپ کے ساتھ مرنے والے مرد کی بیوی یا مرنے والی عورت کا شوہر بھی زندہ ہے تو راجح قول کے مطابق بیوی یا شوہر کا حصہ (جس کی تفصیل آرہی ہے) نکال کر باقی ماندہ مال میں سے ماں کے لئے تیسرا حصہ اور باقی باپ کے لئے ہوگا۔ ١١۔ ٥ تیسری صورت یہ ہے کہ ماں باپ کے ساتھ مرنے والے کے بھائی بہن زندہ ہیں۔ وہ بھائی چاہے سگے یعنی ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوں اور اگر اولاد بیٹا یا بیٹی اگر الگ باپ سے ہوں تو وراثت کے حقدار نہیں ہونگے۔ لیکن ماں کے لئے حجب (نقصان کا سبب) بن جائیں گے یعنی جب ایک سے زیادہ ہونگے تو مال کے (تیسرے حصے) کو چھ حصوں میں تبدیل کردیں گے۔ باقی سارا مال (٥/٦) باپ کے حصے میں چلا جائے گا بشرطیکہ کوئی اور وارث نہ ہو۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک دو بھائیوں کا بھی وہی حکم ہے جو دو سے زیادہ بھائیوں کا مذکور ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ایک بھائی یا بہن ہو تو اس صورت میں مال میں ماں کا حصہ ثلث برقرار رہے گا وہ سدس میں تبدہل نہیں ہوگا۔ (تفسی ابن کثیر) ١١۔ ٦ اس لئے تم اپنی سمجھ کے مطابق وراثت تقسیم مت کرو، بلکہ اللہ کے حکم کے مظابق جس کا جتنا حصہ مقرر کردیا گیا ہے، وہ ان کو دے دو۔ النسآء
12 ١٢۔ ١ اولاد کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد یعنی پوتے بھی اولاد کے حکم میں ہیں، اس پر امت کے علماء کا اجماع ہے (فتح القدیر، ابن کثیر) اس طرح مرنے والے شوہر کی اولاد خواہ اس کی وارث ہونے والی موجودہ بیوی سے ہو یا کسی اور بیوی سے۔ اسی طرح مرنے والی عورت کی اولاد اس کے وارث ہونے والے موجودہ خاوند سے یا پہلے کسی خاوند سے۔ ١٢۔ ٢ بیوی اگر ایک ہوگی تب بھی اسے چوتھا یا آٹھواں حصہ ملے گا اگر زیادہ ہونگی تب بھی یہی حصہ ان کے درمیان تقسیم ہوگا، ایک ایک کو چوتھائی یا آٹھواں حصہ نہیں ملے گا یہ بھی ایک اجماعی مسئلہ ہے (فتح القدیر) ١٢۔ ٣ کلالہ سے مراد وہ میت ہے، جس کا نہ باپ ہو نہ بیٹا۔ یہ اکلیل سے مشتق ہے اکلیل ایسی چیز کو کہتے ہی جو کہ سر کو اس کے اطراف وجوانب سے وارث قرار پایا جائے (فتح القدیر و ابن کثیر) اور کہا جاتا ہے کہ کلالہ کلل سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں تھک جانا۔ گویا اس شخص تک پہنچتے پہنچتے سلسلہ نسل ونسب تھک گیا اور آگے نہ چل سکا۔ ١٢۔ ٤ اس سے مراد اخیافی بہن بھائی ہیں جن کی ماں ایک اور باپ الگ الگ کیونکہ عینی بھائی بہن یا علاتی بہن بھائی کا حصہ میراث میں اس طرح نہیں ہے اور اس کا بیان اس سورت کے آخر میں آرہا ہے یہ مسئلہ بھی اجماعی ہے (فتح القدیر) اور دراصل نسل کے لئے مرد و زن ( ۤ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ) 004:011 کا قانون چلتا ہے یہی وجہ ہے کہ بیٹے بیٹیوں کے لئے اس جگہ اور بہن بھائیوں کے لئے آخری آیت نساء میں ہر دو جگہ یہی قانون ہے البتہ صرف ماں کی اولاد میں چونکہ نسل کا حصہ نہیں ہوتا اس لئے وہاں ہر ایک کو برابر کا حصہ دیا جاتا ہے بہرحال ایک بھائی یا ایک بہن کی صورت میں ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ ١٢۔ ٥ ایک سے زیادہ ہونے کی صورت میں یہ سب ایک تہائی حصے میں شریک ہونگے، نیز ان میں مذکر اور مؤنث کے اعتبار سے بھی فرق نہیں کیا جائے گا۔ بلا تفریق سب کو مساوی حصہ ملے گا، مراد مرد ہو یا عورت۔ ١٢۔ ٦ میراث کے احکام بیان کرنے کے ساتھ تیسری مرتبہ کہا جا رہا ہے کہ ورثے کی تقسیم، وصیت پر عمل کرنے اور قرض کی ادائیگی کے بعد کی جائے جس سے معلوم ہوتا ہے ان دونوں باتوں پر عمل کرنا کتنا ضروری ہے۔ پھر اس پر بھی اتفاق ہے کہ سب سے پہلے قرضوں کی ادائیگی کی جائے گا اور وصیت پر عمل اس کے بعد کیا جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے تینوں جگہ وصیت کا ذکر دین (قرض) سے پہلے کیا حالانکہ ترتیب کے اعتبار سے دین کا ذکر پہلے ہونا چاہیے تھا۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ قرض کی ادائیگی کو تو لوگ اہمت نہیں دیتے ہیں نہ بھی دیں تو لینے والے زبردستی بھی وصول کرلیتے ہیں لیکن وصیت پر عمل کرنے کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے اور اکثر لوگ اس معاملے میں تساہل یا تغافل سے کام لیتے ہیں اس لئے وصیت کا پہلے ذکر فرما کر اس کی اہمیت واضح کردی گئی (روح المعانی) ١٢۔ ٧ بایں طور پر وصیت کے ذریعے سے کسی وارث کو محروم کردیا جائے یا کسی کا حصہ گھٹا دیا جائے یا کسی کا حصہ بڑھا دیا جائے یا یوں ہی وارثوں کو نقصان پہنچانے کے لئے کہہ دے کہ فلاں شخص سے میں نے اتنا قرض لیا ہے درآں حالیکہ کچھ بھی نہیں لیا ہو، گویا اقرار کا تعلق وصیت اور دین دونوں سے ہے اور دونوں کے ذریعے سے نقصان پہنچانا ممنوع اور کبیرہ گناہ ہے۔ نیز ایسی وصیت بھی باطل ہے۔ النسآء
13 النسآء
14 النسآء
15 ١٥۔ ١ یہ بدکار عورتوں کی بدکاری کی سزا ہے جو ابتدائے اسلام میں، جب کہ زنا کی سزا متعین نہیں ہوئی تھی، عارضی طور پر مقرر کی گئی تھی ہاں یہ بھی یاد رہے کہ عربی زبان میں ایک سے دس تک کی گنتی میں یہ مسلمہ اصول ہے کہ عدد مذکر ہوگا تو معدود مؤنث اور عدد مؤنث ہوگا تو معدود مذکر۔ یہاں اربعہ (یعنی چار عدد) مؤنث ہے، اس لئے معدود جو یہاں ذکر نہیں کیا گیا اور محذوف ہے یقینا مذکر آئے گا اور وہ ہے رجال یعنی اربعۃ رجال جس سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ اثبات زنا کے لئے چار مرد گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔ گویا جس طرح زنا کی سزا سخت مقرر کی گئی ہے اسکے اثبات کے لئے گواہوں کی کڑی شرط عائد کردی گئی ہے یعنی چار مسلمان مرد عینی گواہ، اس کے بغیر شرعی سزا کا اثبات ممکن نہیں ہوگا۔ ١٥۔ ٢ اس راست سے مراد زنا کی وہ سزا ہے جو بعد میں مقرر کی گئی یعنی شادی شدہ زناکار مرد و عورت کے لئے رجم اور غیر شادی شدہ بدکار مرد عورت کے لئے سو سو کوڑے کی سزا (جس کی تفصیل سورۃ نور اور احادیث صحیحہ میں موجود ہے۔ النسآء
16 ١٦۔ ١ بعض نے اس میں اغلام بازی مراد لی ہے یعنی عمل لواطت۔ دو مردوں کا ہی آپس میں بد فعلی کرنا اور بعض نے اسے باکرہ مرد و عورت مراد لیئے ہیں اور اس سے قبل کی آیت کو انہوں نے محصنات یعنی شادی کے ساتھ کیا ہے اور بعض نے اس تثنیہ کے صیغے سے مراد لیا ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ وہ باکرہ ہوں یا شادی شدہ (ابن جریر طبری) نے دوسرے مفہوم یعنی باکرہ (مرد و عورت) کو ترجیح دی ہے اور پہلی آیت میں بیان کردہ سزا کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بتلائی ہوئی سزا سزائے رجم سے اور اس آیت میں بیان کردہ سزا کو سورۃ نور میں بیان کردہ سو کوڑے کی سزا سے منسوخ قرار دی ہے۔ (تفسیر طبری) ١٦۔ ٢ یعنی زبان سے زجر و توبیخ اور ملامت یا ہاتھ سے کچھ زدوکوب کرلینا۔ اب یہ منسوخ ہے، جیسا کہ گزرا۔ النسآء
17 النسآء
18 ١٨۔ ١ اس سے واضح ہے کہ موت کے وقت کی گئی توبہ غیر مقبول ہے، جس طرح کہ حدیث میں بھی آتا ہے اس کی ضروری تفصیل آل عمران کی ٩٠ آیت میں گزر چکی ہے۔ النسآء
19 ١٩۔ ١ اسلام سے قبل عورت پر ایک ظلم بھی ہوتا تھا کہ شوہر کے مر جانے کے بعد اس کے گھر کے لوگ اس کے مال کی طرح اس کی عورت کے بھی زبردستی وارث بن بیٹھتے تھے اور خود اپنی مرضی سے، اس کی رضامندی کے بغیر اس سے نکاح کرلیتے یا اپنے بھائی بھتیجے سے اس کا نکاح کردیتے، حتی کہ سوتیلا بیٹا تک بھی مرنے والے باپ کی عورت سے نکاح کرلیتا اور اگر چاہتے تو کسی اور جگہ نکاح نہ کرنے دیتے تھے۔ اور ساری عمر یونہی رہنے پر مجبور ہوتی اسلام نے ظلم کے ان تمام طریقوں سے منع فرمایا۔ ١٩۔ ٢ ایک ظلم یہ بھی کیا جاتا تھا کہ اگر خاوند کو پسند نہ ہوتی اور وہ اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتا تو از خود اس کو طلاق نہ دیتا بلکہ اسے خوب تنگ کرتا تاکہ وہ مجبور ہو کر حق مہر جو خاوند نے اسے دیا ہوتا، از خود واپس کر کے اس سے خلاصی پانے کو ترجیح دیتی، اسلام نے اس حرکت کو بھی ظلم قرار دیا۔ ١٩۔ ٣ کھلی برائی سے مراد بدکاری یا بدزبانی اور نافرمانی ہے ان دونوں صورتوں میں اجازت دی گئی ہے کہ خاوند اس کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرے کہ وہ اس کا دیا ہوا حق مہر واپس کرکے خلع کرانے پر مجبور ہوجائے، جیسا کہ خلع کی صورت میں حق مہر واپس لینے کا حق دیا گیا ہے (ملاحظہ ہو سورۃ بقرہ آیت نمبر ٢٢٩) ١٩۔ ٤ یہ بیوی کے ساتھ حسن معاشرت کا وہ حکم ہے، جس کی قرآن نے بڑی تاکید کی ہے اور احادیث میں بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی بڑی وضاحت کی ہے کہ مومن مرد (شوہر (مومنہ عورت (بیوی) سے بغض نہ رکھے۔ اگر اس کی ایک عادت اسے پسند ہے تو اسکی دوسری عادت بھی پسندیدہ ہوگی، عورتوں پر ظلم کرنے اور بچوں کی زندگیاں خراب کرنے کے لئے۔ علاوہ ازیں اس طرح یہ اسلام کی بدنامی کا بھی باعث بنتے ہیں کہ اسلام نے مرد کو طلاق کا حق دے کر عورت پر ظلم کرنے کا اختیار اسے دے دیا۔ یوں یہ اسلام کی ایک بہت بڑی خوبی کو خرابی اور ظلم باور کرایا جاتا ہے۔ النسآء
20 ٢٠۔ ١ خود طلاق دینے کی صورت میں حق مہر واپس لینے سے نہایت سختی سے روک دیا گیا ہے، یعنی کتنا بھی حق مہر دیا ہو واپس نہیں لے سکتے۔ اگر ایسا کرو گے تو یہ ظلم (بہتان) اور کھلا گناہ ہے۔ النسآء
21 ٢١۔ ١ ' ایک دوسرے سے مل چکے ہو ' کا مطلب ہم بستری ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے کنایۃً بیان فرمایا ہے ٢١۔ ٢ مضبوط عہد پیماں سے مراد وہ عہد مراد ہے جو نکاح کے وقت مرد سے لیا جاتا ہے کہ تم اسے اچھے طریقے سے آباد کرنا یا احسان کے ساتھ چھوڑ دینا۔ النسآء
22 ٢٢۔ ١ زمانہ جاہلیت میں سوتیلے بیٹے اپنے باپ کی بیوی سے (یعنی سوتیلی ماں سے) نکاح کرلیتے تھے، اس سے روکا جا رہا ہے، کہ یہ بہت بے حیائی کا کام ہے اسلام ایسی عورت سے نکاح کو ممنوع قرار دیتا ہے جس سے اس کے باپ نے نکاح کیا لیکن دخول سے قبل ہی طلاق دے دی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ سے بھی یہ بات مروی ہے اور علماء اسی کے قائل ہیں (تفسیر طبری) النسآء
23 ٢٣۔ ١ جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے ان کی تفصیل بیان کی جارہی ہے۔ ان میں سات محرمات نسبی، اور سات رضاعی اور چار سسرالی بھی ہیں۔ ان کے علاوہ حدیث رسول سے ثابت ہے کہ بھتیجی اور پھوپھی اور بھانجی اور خالہ کو ایک نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ سات نسبی محرمات میں مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں بھتیجی اور بھانجی ہیں اور سات رضاعی محرمات میں رضاعی مائیں، رضاعی بیٹیاں، رضاعی بہنیں، رضاعی پھوپھیاں، رضاعی خالائیں رضاعی بھتیجیاں اور رضاعی بھانجیاں اور سسرالی محرمات میں ساس، (مدخولہ بیوی کے پہلے خاوند کی لڑکیاں)، بہو اور دو سگی بہنوں کا جمع کرنا ہے ان کے علاوہ باب کی منکوحہ (جس کا ذکر اس سے پہلی آیات میں ہے) اور حدیث کے مطابق بیوی جب تک عقد نکاح میں ہے اس کی پھوپھی اور اس کی خالہ اور اس کی بھتیجی اور اس کی بھانجی سے بھی نکاح حرام ہے محرمات نسبی کی تفصیل امھات (مائیں) میں ماؤں کی مائیں (نانیاں) ان کی دادیاں اور باپ کی مائیں (دادیاں، پردادیاں اور ان سے آگے تک) شامل ہیں بنات (بیٹیاں) میں پوتیاں نواسیاں اور پوتیوں، نواسیوں کی بیٹیاں (نیچے تک) شامل ہیں زنا سے پیدا ہونے والی لڑکی بیٹی میں شامل ہے یا نہیں اس میں اختلاف ہے ائمہ ثلاثہ اسے بیٹی میں شامل کرتے ہیں اور اس سے نکاح کو حرام سمجھتے ہیں البتہ امام شافعی کہتے ہیں کہ وہ بنت شرعی نہیں ہے پس جس طرح (یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ) 004:011 (اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد میں مال متروکہ تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے) میں داخل نہیں اور بالاجماع وہ وارث نہیں اسی طرح وہ اس آیت میں بھی داخل نہیں۔ واللہ اعلم (ابن کثیر) اخوات (بہنیں) عینی ہوں یا اخیافی و علاتی، عمات (پھوپھیاں) اس میں باپ کی سب مذکر اصول یعنی نانا، دادا کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔ خالات (خلائیں) اس میں ماں کی سب مؤنث اصول (یعنی نانی دادی) کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔ بھتیجیاں، اس میں تینوں قسم کے بھائیوں کی اولاد بواسطہ اور بلاواسطہ (یا صلبی و فرعی) شامل ہیں۔ بھانجیاں اس میں تینوں قسم کی بہنوں کی اولاد بواسطہ و بلاواسطہ یاصلبی و فرعی) شامل ہیں۔ قسم دوم، محرمات رضاعیہ : رضاعی ماں، جس کا دودھ تم نے مدت رضاعت (یعنی ڈھائی سال) کے اندر پیا ہو۔ رضاعی بہن، وہ عورت جسے تمہاری حقیقی یا رضاعی ماں نے دودھ پلایا، تمہارے ساتھ پلایا یا تم سے پہلے یا بعد میں تمہارے اور بہن بھائیوں کے ساتھ پلایا۔ یا جس عورت کی حقیقی ماں نے تمہیں دودھ پلایا، چاہے مختلف اوقات میں پلایا ہو۔ رضاعت سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہوجائیں گے جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ رضاعی ماں بننے والی عورت کی نسبی و رضاعی اولاد دودھ پینے والے بچے کی بہن بھائی، اس عورت کا شوہر اس کا باپ اور اس مرد کی بہنیں اس کی پھوپھیاں اس عورت کی بہنیں خالائیں اور اس عورت کے جیٹھ، دیور اس کے رضاعی چچا، تایا بن جائیں گے اور اس دودھ پینے والے بچے کی نسبی بہن بھائی وغیرہ اس گھرانہ پر رضاعت کی بنا پر حرام نہ ہونگے۔ قسم سوم سسرالی محرمات : بیوی کی ماں یعنی ساس (اس میں بیوی کی نانی دادی بھی داخل ہے)، اگر کسی عورت سے نکاح کر کے بغیر ہم بستری کے ہی طلاق دے دی ہو تب بھی اس کی ماں (ساس) سے نکاح حرام ہوگا۔ التبہ کسی عورت سے نکاح کر کے اسے بغیر مباشرت کے طلاق دے دی ہو تو اس کی لڑکی سے اس کا نکاح جائز ہوگا۔ (فتح القدیر) ربیبۃ: بیوی کے پہلے خاوند سے لڑکی۔ اسکی حرمت مشروط ہے۔ یعنی اس کی ماں سے اگر مباشرت کرلی گئی ہوگی تو ربیبہ سے نکاح حرام بصورت دیگر حلال ہوگا۔ فی حجورکم (وہ ربیبہ جو تمہاری گود میں پرورش پائیں) یہ قید غالب احوال کے اعتبار سے ہے بطور شرط کے نہیں ہے اگر یہ لڑکی کسی اور جگہ بھی زیر پرورش یا مقیم ہوگی۔ تب بھی اس سے نکاح حرام ہوگا۔ حلائل یہ حلیلۃ کی جمع ہے یہ حل یحل (اترنا) ہے فعیلۃ کے وزن پر بمعنی فاعلۃ ہے۔ بیوی کو حلیلہ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کا محل (جائے قیام) خاوند کے ساتھ ہی ہوتا ہے یعنی جہاں خاوند اترتا یا قیام کرتا ہے یہ بھی وہیں اترتی یا قیام کرتی ہے، بیٹوں میں پوتے نواسے بھی داخل ہیں یعنی انکی بیویوں سے بھی نکاح حرام ہوگا، اسی طرح رضاعی اولاد کے جوڑے بھی حرام ہوں گے، من اصلابکم (تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویوں) کی قید سے یہ واضح ہوگیا کہ لے پالک بیٹوں کی بیویوں سے نکاح حرام نہیں ہے، دو بہنیں (رضاعی ہوں یا نسبی) ان سے بیک وقت نکاح حرام ہے البتہ ایک کی وفات کے بعد یا طلاق کی صورت میں عدت گزرنے کے بعد دوسری بہن سے نکاح جائز ہے۔ اسی طرح چاربیویوں میں سے ایک کو طلاق دینے سے پانچویں نکاح کی اجازت نہیں جب تک طلاق یافتہ عورت عدت سے فارغ نہ ہوجائے۔ ملحوظہ : زنا سے حرمت ثابت ہوگی یا نہیں؟ اس میں اہل علم کا ختلاف ہے اکثر اہل علم کا قول ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے بدکاری کی تو اس بدکاری کی وجہ سے وہ عورت اس پر حرام نہیں ہوگی اسی طرح اگر اپنی بیوی کی ماں (ساس) سے یا اسکی بیٹی سے (جو دوسرے خاوند سے ہو) زنا کرلے گا تو اسکی بیوی اس پر حرام نہیں ہوگی (دلائل کے لئے دیکھئے، فتح القدیر) احناف اور دیگر بعض علماء کی رائے میں زنا کاری سے بھی حرمت ثابت ہوجائے گی۔ النسآء
24 ٢٤۔ ١ قرآن کریم میں احصان چار معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ ١۔ شادی' ٢۔ آزادی' ٣۔ پاکدامنی۔ ٤۔ اسلام' اس اعتبار سے محصنات کے چار مطلب ہیں ١۔ شادی شدہ عورتیں ٢۔ پاکدامن عورتیں ٣۔ آزاد عورتیں اور ٤۔ مسلمان عورتیں۔ یہاں پہلا معنی مراد ہے اس کے شان نزول میں آتا ہے جب بعض جنگوں میں کافروں کی عورتیں بھی مسلمانوں کی قید میں آگئیں تو مسلمانوں نے ان سے ہم بستری کرنے میں کراہت محسوس کی کیونکہ وہ شادی شدہ تھیں صحابہ کرام نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا جس میں یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) جس سے یہ معلوم ہوا کہ جنگ میں حاصل ہونے والی کافر عورتیں جب مسلمانوں کی لونڈیاں بن جائیں شادی شدہ ہونے کے باوجود ان سے مباشرت کرنا جائز ہے البتہ استبرائے رحم ضروری ہے۔ یعنی ایک حیض آنے کے بعد یا حاملہ ہیں تو وضع حمل کے بعد ان سے جنسی تعلق قائم کیا جائے۔ لونڈی کا مسئلہ : نزول قرآن کریم کے وقت غلام اور لونڈیاں کا سلسلہ عام تھا جسے قرآن نے بند نہیں کیا البتہ ان کے بارے میں ایسی حکمت عملی اختیار کی گئی کہ جس سے غلاموں اور لونڈیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں حاصل ہوں تاکہ غلامی کی حوصلہ شکنی ہو اس کے دو ذریعے تھے ایک تو بعض خاندان صدیوں سے ایسے چلے آرہے تھے کہ ان کے مرد اور عورت فروخت کردییے جاتے تھے یہی خریدے ہوئے مرد اور عورت غلام اور لونڈی کہلاتے تھے مالک کو ان سے ہر طرح کے استمتاع (فائدہ اٹھانے) کا حق حاصل ہوتا تھا دوسرا ذریعہ جنگ میں قیدیوں والا تھا کہ کافروں کے قیدی عورتوں کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا اور وہ ان کی لونڈیاں بن کر ان کے پاس رہتی تھیں قیدیوں کے لیے یہ بہترین حل تھا کیونکہ اگر انہیں معاشرے میں یونہی آزاد چھوڑ دیا جاتا تو معاشرے میں ان کے ذریعے سے فساد پیدا ہوتا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب الرق فی الاسلام، اسلام میں غلامی کی حقیقت از مولانا سعید احمد اکبر آبادی) بہرحال مسلمان شادی شدہ عورتیں تو ویسے ہی حرام ہیں تاہم کافر عورتیں بھی حرام ہی ہیں الا یہ کہ وہ مسلمانوں کی ملکیت میں آجائیں اس صورت میں استبراء رحم کے بعد وہ ان کے لیے حلال ہیں۔ ٢٤۔ ٢ یعنی مذکورہ محرکات قرآنی اور حدیثی کے علاوہ دیگر عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے بشرطیکہ چار چیزیں اس میں ہوں اول یہ کہ طلب کرو یعنی دونوں طرف سے ایجاب و قبول ہو دوسری یہ مہر ادا کرنا قبول کرو۔ تیسری ان کی شادی کی قید (دایمی قبضے) میں لانا مقصود ہو صرف شہوت رانی غرض نہ ہو (جیسے زنا میں یا اس متعہ میں ہوتا ہے جو شیعہ میں رائج ہے یعنی جنسی خواہش کی تسکیں کے لئے چند روز یا چند گھنٹوں کا نکاح چوتھی یہ کہ چھپی یاری نہ ہو بلکہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہو یہ چاروں شرطیں اس آیت سے مستفاد ہیں اس سے جہاں شیعوں کے متعہ کا بطلان ہوتا ہے وہیں مروجہ حلالہ کا بھی ناجائز ہونا ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کا مقصد بھی عورت کو نکاح کر کے دائمی قید میں لانا نہیں ہوتا، بلکہ عرفایہ صرف ایک رات کے لئے مقرر اور معمود ذہنی ہے۔ ٢٤۔ ٣ یہ اس امر کی تاکید ہے کہ جن عورتوں سے تم نکاح شرعی احکام کے ذریعے سے کرو تو انہیں ان کا مقرر کردہ مہر ضرور ادا کرو۔ ٢٤۔ ٤ اس میں آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرنے کا اختیار ہے۔ ملحوظہ : "استمتاع" کے لفظ سے شیعہ حضرات نکاح متعہ کا اثبات کرتے ہیں حالانکہ اس سے مراد نکاح کے بعد صحبت ومباشرت کا استمتاع ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ البتہ متعہ ابتدائے اسلام میں جائز رہا ہے اور اس کا جواز اس آیت کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ اس رواج کی بنیاد پر تھا جو اسلام سے قبل چلا آرہا تھا۔ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہایت واضح الفاظ میں اسے قیامت تک حرام کردیا۔ النسآء
25 ٢٥۔ ١ اس سے معلوم ہوا کہ لونڈیوں کا مالک ہی لونڈیوں کا ولی ہے لونڈی کا کسی جگہ نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح غلام بھی اپنے مالک کی اجازت کے بغیر کسی جگہ نکاح نہیں کرسکتا۔ ٢٥۔ ٢ یعنی لونڈیوں کو (١٠٠) کے بجائے نصف یعنی (٥٠) کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ گویا ان کے لئے سزائے رجم نہیں ہے، کیونکہ وہ نصف نہیں ہو سکتی اور غیرشادی شدہ کو تعزیری سزا ہوگی۔ ٢٥۔ ٣ یعنی لونڈیوں سے شادی کی اجازت ایسے لوگوں کے لئے ہے جو جوانی کے جذبات پر کنٹرول' رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں اور بدکاری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو اگر ایسا اندیشہ نہ ہو تو اس وقت تک صبر کرنا بہتر ہے جب تک کسی آزاد خاندانی عورت سے شادی کے قابل نہ ہو جائے النسآء
26 النسآء
27 ٢٧۔ ١ اَنْ تمیلوا یعنی حق سے باطل کی طرف جھک جاؤ۔ النسآء
28 ٢٨۔ ١ اس کمزوری کی وجہ سے اس کے گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ممکن آسانیاں اسے لئے فراہم کی ہیں انہیں میں سے لونڈیوں سے شادی کی اجازت ہے بعض نے اس ضعف کا تعلق عورتوں سے بتلایا ہے یعنی عورت کے بارے میں کمزور ہے اسی لئے عورتیں بھی باوجود نقصان عقل کے اس کو آسانی سے اپنے دام میں پھنسا لیتی ہیں۔ النسآء
29 ٢٩۔ ١ بالْبَاطِلِ میں دھوکا، فریب، جعل سازی، ملاوٹ کے علاوہ تمام کاروبار بھی شامل ہیں جن سے شریعت نے منع کیا ہے اسی طرح ممنوع اور حرام چیزوں کا کاروبار کرنا بھی باطل میں شامل ہے مثلاً بلا ضرورت فوٹو گرافی، ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ویڈیو، فلموں کا بنانا اور بیچنا وغیرہ مرمت کرنا سب ناجائز ہے۔ ٢٩۔ ٢ اس کے لئے بھی شرط ہے کہ یہ لین دین حلال اشیاء کا ہو حرام اشیاء کا کاروبار باہمی رضامندی کے باوجود ناجائز ہی رہے گا۔ علاوہ ازیں رضامندی میں خیار مجلس کا مسئلہ بھی آجاتا ہے کہ جب تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں سودا فسخ کرنے کا اختیار رہے گا۔ ٢٩۔ ٣ اس سے مراد خود کشی بھی ہو سکتی ہے جو کبیرہ گناہ ہے اور ارتکاب معصیت بھی جو ہلاکت کا باعث ہے اور کسی مسلمان کو قتل کرنا بھی کیونکہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہے۔ اس لئے اس کا قتل بھی ایسا ہی ہے جیسے اپنے آپ کو قتل کیا۔ النسآء
30 ٣٠۔ ١ یعنی منہیات کا ارتکاب، جانتے بوجھتے، ظلم وتعدی سے کرے گا۔ النسآء
31 ٣١۔ ١ کبیرہ گناہ کی تعریف میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک وہ گناہ ہیں جن پر حد مقرر ہے، بعض کے نزدیک وہ گناہ جس پر قرآن میں یا حدیث میں سخت وعید یا لعنت آئی ہے، بعض کہتے ہیں ہر وہ کام جس سے اللہ نے یا اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور تحریم کے روکا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بات بھی کسی گناہ میں پائی جائے تو کبیرہ ہے۔ یہاں یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ جو مسلمان کبیرہ گناہوں مثلاً شرک، حقوق والدین، جھوٹ وغیرہ سے اجتناب کرے گا، تو ہم اس کے صغیرہ گناہ معاف کردیں گے۔ سورۃ نجم میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے البتہ وہاں کبائر کے ساتھ فواحش (بے حیائی کے کاموں) سے اجتناب کو بھی صغیرہ گناہوں کی معافی کے لئے ضروی قرار دیا گیا ہے علاوہ ازیں صغیرہ گناہوں پر اصرار ومداومت بھی صغیرہ گناہوں کو کبائر بنا دیتی ہے اسی طرح اجتناب کبائر کے ساتھ احکام و فرائض اسلام کی پابندی اور اعمال صالحہ کا اہتمام بھی نہایت ضروری ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے شریعت کے مزاج کو سمجھ لیا تھا اس لئے انہوں نے صرف وعدہ مغفرت پر ہی تکیہ نہیں کیا بلکہ مغفرت و رحمت الہی کے یقینی حصول کے لئے مزکورہ تمام ہی باتوں کا اہتمام کیا جب کہ ہمارا دامن عمل سے تو خالی ہے لیکن ہمارے قلب امیدوں اور آرزووں سے معمور ہیں النسآء
32 ٣٢۔ ١ اس کی شان نزول میں بتلایا گیا ہے کہ حضرت ام سلمہ (رض) نے عرض کیا مرد جہاد میں حصہ لیتے ہیں اور شہادت پاتے ہیں۔ ہم عورتیں ان فضیلت والے کاموں سے محروم ہیں۔ ہماری میراث بھی مردوں سے نصف ہے، اس پر آیت نازل ہوئی، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جو جسمانی قوت و طاقت اپنی حکمت اور ارادہ کے مطابق عطا کی ہے اور جس کی بنیاد پر وہ جہاد بھی کرتے ہیں اور دیگر بیرونی کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ یہ ان کے لئے خاص عطیہ ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے عورتوں کو مردانہ صلاحیتوں کے کام کرنے کی آرزو نہیں کرنی چاہئے۔ البتہ اللہ کی اطاعت اور نیکی کے کاموں میں خوب حصہ لینا چاہیے اور اس میدان میں وہ جو کچھ کمائیں گی، مردوں کی طرح ان کا پورا پورا صلہ انہیں ملے گا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرنا چاہیے کیونکہ مرد اور عورت کے درمیان استعداد، صلاحیت اور قوت کا جو فرق ہے وہ تو قدرت کا ایک اٹل فیصلہ ہے جو محض آرزو سے تبدیل نہیں ہو سکتا۔ البتہ اس کے فضل سے کسب و محنت میں رہ جانے والی کمی کا ازالہ ہوسکتا ہے۔ النسآء
33 ٣٣۔ ١ مَوَالِیْ، مولیٰ کی جمع ہے مولیٰ کے کئی معنی ہیں دوست، آزاد کردہ غلام، چچازاد، پڑوسی، لیکن یہاں اس سے مراد ورثاء ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر مرد اور عورت جو کچھ چھوڑ جائیں گے، اس کے وارث ان کے ماں باپ اور دیگر قریبی رشتہ دار ہونگے۔ ٣٣۔ ٢ اس آیت کے محکم یا منسوخ ہونے کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ ابن جریر طبری وغیرہ اسے غیر منسوخ (محکم) مانتے ہیں اور اَیْمَانُکُمْ (معاہدہ) سے مراد وہ حلف اور معاہدہ لیتے ہیں جو ایک دوسرے کی مدد کے لئے اسلام سے قبل دو اشخاص یا دو قبیلوں کے درمیان ہوا اور اسلام کے بعد بھی وہ چلا آرہا تھا۔ نصیبھم (حصہ) سے مراد اسی حلف اور معاہدے کی پابندی کے مطابق تعاون و تناصر کا حصہ ہے اور ابن کثیر اور دیگر مفسرین کے نزدیک یہ آیت منسوخ ہے۔ کیونکہ اَیْمَانُکُمْ سے ان کے نزدیک وہ معاہدہ ہے جو ہجرت کے بعد ایک انصاری اور مہاجر کے درمیان اخوت کی صورت میں ہوا تھا۔ اس میں ایک مہاجر، انصاری کے مال کا اس کے رشتہ داروں کی بجائے، وارث ہوتا تھا، لیکن یہ چونکہ ایک عارضی انتظام تھا، اس لیے پھر (وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ) 033:006 رشتے دار اللہ کے حکم کی رو سے ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں، نازل فرما کر اسے منسوخ کردیا گیا ہے۔ اب "فاتوھم نصیبھم" سے مراد دوستی و محبت اور ایک دوسرے کی مدد ہے اور بطور وصیت کچھ دے دینا بھی اس میں شامل ہے۔ موالات عقد، موالات حلف یا موالات اخوت میں اب وراثت کا تصور نہیں ہوگا اہل علم کے ایک گروہ نے اس سے مراد ایسے شخصوں کو لیا جن میں سے کم از کم ایک لاوارث ہے۔ اور ایک دوسرے شخص سے یہ طے کرتا ہے کہ میں تمہارا مولی ہوں۔ اگر کوئی جنایت کروں تو میری مدد کرنا اور اگر مارا جاؤں تو میری دیت لے لینا۔ اس لاوارث کی وفات کے بعد اس کا مال مزکورہ شخص لے گا۔ بشرطیکہ واقعتا اس کا کوئی وارث نہ ہو۔ بعض دوسرے اہل علم نے اس آیت کا ایک اور معنی بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "ۭوَالَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ "004:033 سے مراد بیوی اور شوہر ہیں اور اس کا عطف الاقربون پر ہے۔ معنی یہ ہیں کہ ماں باپ نے قرابت داروں نے اور جن کو تمہارا عہد و پیمان آپس میں باندھ چکا ہے یعنی شوہر یا بیوی انہوں نے جو کچھ میراث میں چھوڑا اس کے حقدار یعنی حصے دار ہم نے مقرر کردیئے ہیں۔ لہذا ان حقداروں کو ان کے حصے دے دو گویا پیچھے آیات میراث میں تفصیلا جو حصے بیان کیے گئے تھے یہاں اجمالا ان کی ادائیگی کی مزید تاکید کی گئی ہے۔ النسآء
34 ٣٤۔ ١ اس میں مرد کی حاکمیت و قوامیت کی دو وجہیں بیان کی گئی ہیں، ایک مردانہ قوت و دماغی صلاحیت ہے جس میں مرد عورت سے خلقی طور پر ممتاز ہے۔ دوسری وجہ کسبی ہے جس کا مکلف شریعت نے مرد کو بنایا ہے اور عورت کو اس کی فطری کمزوری اور مخصوص تعلیمات کی وجہ سے جنہیں اسلام نے عورت کی عفت و حیا اور اس کے تقدس کے تحفظ کے لئے ضروری قرار دیا، عورت کو معاشی جھمیلوں سے دور رکھا۔ عورت کی سربراہی کے خلاف قرآن کریم کی یہ نص قطعی بلکل واضح ہے جس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے ہوتی ہے۔ جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' وہ قوم ہرگز فلاح یاب نہیں ہو سکتی جس نے اپنے امور ایک عورت کے سپرد کردیئے۔ ٣٤۔ ٢ نافرمانی کی صورت میں عورت کو سمجھانے کے لئے سب سے پہلے وعظ و نصیحت کا نمبر ہے دوسرے نمبر پر ان سے وقتی اور عارضی علیحدگی ہے جو سمجھدار عورت کے لئے بہت بڑی تنبہ ہے۔ اس سے بھی نہ سمجھے تو ہلکی سی مار کی اجازت ہے۔ لیکن یہ مار وحشیانہ اور ظالمانہ نہ ہو جیسا کہ جاہل لوگوں کا وطیرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ظلم کی اجازت کسی مرد کو نہیں دی۔ اگر وہ اصلاح کرلے تو پھر راستہ تلاش نہ کرو یعنی مار پیٹ نہ کرو تنگ نہ کرو، یا طلاق نہ دو، گویا طلاق بلکل آخری مرحلہ ہے جب کوئی اور چارہ کار باقی نہ رہے۔ لیکن مرد اس حق کو بھی بہت ناجائز طریقے سے استعمال کرتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات میں فوراً طلاق دے ڈالتے ہیں اور اپنی زندگی بھی برباد کرتے ہیں، عورت کی بھی اور بچے ہوں تو ان کی بھی۔ النسآء
35 ٣٥۔ ١ گھر کے اندر مزکورہ تینوں طریقے کارگر ثابت نہ ہوں تو یہ چوتھا طریقہ ہے اور اس کی بابت کہا کہ حکمین (فیصلہ کرنے والے) اگر مخلص ہوں گے تو یقینا ان کی سعی اصلاح کامیاب ہوگی۔ تاہم ناکامی کی صورت میں حکمین کو تفریق بین الزوجین یعنی طلاق کا اختیار ہے یا نہیں؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض اس کو حاکم مجاز کے حکم یا زوجین کے توکیل بالفرقہ (جدائی کے لیے وکیل بنانا) کے ساتھ مشروط کرتے ہیں اور جمہور علماء اس کے بغیر اس کے قائل ہیں (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر طبری، فتح القدیر، تفسیر ابن کثیر) النسآء
36 ٣٦۔ ١ الجار، الجنب، قرابت دار پڑوسی کے مقابلے میں استعمال ہوا ہے۔ جس کے معنی ایسا پڑوسی جس سے قرابت داری نہ ہو۔ مطلب یہ ہے کہ پڑوسی سے بہ حیثیت پڑوسی کے حسن و سلوک کیا جائے رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار، جس طرح کہ حدیث میں بھی اس کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔ ٣٦۔ ٢ اس سے مراد رفیق سفر، شریک کار، بیوی اور وہ شخص ہے جو فائدے کی امید پر کسی کی قربت و ہم نشینی اختیار کرے بلکہ اسکی تعریف میں وہ لوگ بھی آسکتے ہیں جنہیں تحصیل علم، تعلم صناعت (کوئی کام سیکھنے) کے لئے یا کسی کاروباری سلسلہ میں آپ کے پاس بیٹھنے کا موقع ملے (فتح القدیر) ٣٦۔ ٣ اس میں گھر، دکان اور کارخانوں، ملوں کے ملازم اور نوکر چاکر بھی آجاتے ہیں۔ غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید حدیث میں آئی ہے۔ ٣٦۔ ٤ فخر و غرور اور تکبر اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے بلکہ ایک حدیث میں یہاں تک آتا ہے کہ "وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہوگا۔ " (صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر وبیانہ حدیث نمبر۔ ٩١) یہاں کبر کی بطور خاص مذمت سے یہ مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور جن جن لوگوں سے حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ اس پر عمل وہی شخص کرسکتا ہے جس کا دل کبر سے خالی ہوگا۔ متکبر اور مغرور شخص صحیح معنوں میں نہ حق عبادت ادا کرسکتا ہے اور نہ اپنوں اور بیگانوں کے ساتھ حسن سلوک کا اہتمام۔ النسآء
37 النسآء
38 ٣٨۔ ١ بخل (یعنی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا) یا خرچ کرنا لیکن ریاکاری یعنی نمود و نمائش کے لئے کرنا۔ یہ دونوں باتیں اللہ کو سخت ناپسند ہیں اور ان کی ندامت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ یہاں قرآن کریم میں ان دونوں باتوں کو کافروں کا شیوا اور ان لوگوں کا وطیرہ بتایا ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور شیطان ان کا ساتھی ہے۔ النسآء
39 النسآء
40 النسآء
41 ٤١۔ ١ ہر امت میں سے اس کا پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں گواہی دے گا کہ یا اللہ! ہم نے تو تیرا پیغام اپنی قوم کو پہنچا دیا تھا، اب انہوں نے نہیں مانا تو ہمارا کیا قصور؟ پھر ان سب پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گواہی دیں گے کہ یا اللہ سچے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ گواہی اس قرآن کی وجہ سے دیں گے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا اور جس میں گزشتہ انبیاء اور ان کی قوموں کی سرگزشت بھی حسب ضرورت بیان کی گئی ہے۔ یہ ایک سخت مقام ہوگا، اس کا تصور ہی لرزہ براندام کردینے والا ہے، حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے قرآن سننے کی خواہش ظاہر فرمائی وہ سناتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بس اب کافی ہے، حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ میں دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دونوں آنکھوں سے آنسو رواں تھے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ گواہی وہی دے سکتا ہے، جو سب کچھ آنکوں سے دیکھے۔ اس لئے وہ ' شہید ' (گواہ) کے معنی ' حاضر ناظر ' کے کرتے ہیں اور یوں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ' حاضر ناظر ' باور کراتے ہیں۔ لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاضر ناظر سمجھنا، یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی صفت میں شریک کرنا ہے، جو شرک ہے، کیونکہ حاضر ناظر صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ شہید کے لفظ سے ان کا استدلال اپنے اندر کوئی قوت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ شہادت یقینی علم کی بنیاد پر بھی ہوتی ہے اور قرآن میں بیان کردہ حقائق و واقعات سے زیادہ یقینی علم کس کا ہوسکتا ہے؟ اسی یقینی علم کی بنیاد پر خود امت محمدیہ کو بھی قرآن نے (شہدآء علی الناس) (تمام کائنات کے لوگوں پر گواہ) کہا ہے۔ اگر گواہی کے لیے حاضر و ناظر ہونا ضروری ہے تو پھر امت محمدیہ کے ہر فرد کو حاضر و ناظر ماننا پڑیگا۔ بہرحال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ عقیدہ مشرکانہ اور بے بنیاد ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔ النسآء
42 النسآء
43 ٤٣۔ ١ یہ حکم اس وقت دیا گیا کہ ابھی شراب کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی۔ چنانچہ ایک دعوت میں شراب نوشی کے بعد جب نماز لئے کھڑے ہوئے تو نشے میں قرآن کے الفاظ بھی امام صاحب غلط پڑھ گئے (تفصیل کے لئے دیکھئے ترمذی، تفسیر سورۃ النساء) جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نشے کی حالت میں نماز مت پڑھا کرو۔ گویا اسوقت صرف نماز کے وقت کے قریب شراب نوشی سے منع کیا گیا۔ بالکل ممانعت اور حرمت کا حکم اس کے بعد نازل ہوا۔ (یہ شراب کی بابت دوسرا حکم ہے جو مشروطہ ہے) ٤٣۔ ٢ یعنی ناپاکی کی حالت میں بھی نماز مت پڑھو۔ کیونکہ نماز کے لئے طہارت بہت ضروری ہے۔ ٤٣۔ ٣ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسافری کی حالت میں اگر پانی نہ ملے تو جنابت کی حالت میں ہی نماز پڑھ لو (جیسا کہ بعض نے کہا ہے) بلکہ جمہور علماء کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ جنابت کی حالت میں تم مسجد کے اندر مت بیٹھو، البتہ مسجد کے اندر سے گزرنے کی ضرورت پڑے تو گزر سکتے ہو بعض صحابہ کے مکان اس طرح تھے کہ انہیں ہر صورت میں مسجد نبوی کے اندر سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔ یہ رخصت ان ہی کے پیش نظر دی گئی ہے (ابن کثیر) ورنہ مسافر کا حکم آگے آرہا ہے۔ ٤٣۔ ٤ (١) بیمار سے مراد وہ بیمار جسے وضو کرنے سے نقصان یا بیماری میں اضافے کا اندیشہ ہو، (٢) مسافر عام ہے لمبا سفر کیا ہو یا مختصر۔ اگر پانی دستیاب نہ ہو تو تیمم کرنے کی اجازت ہے۔ پانی نہ ملنے کی صورت میں یہ اجازت مقیم کو بھی حاصل ہے۔ لیکن بیمار اور مسافر کو چونکہ اس قسم کی ضرورت عام طرر پر پیش آتی تھی اس لیے بطور خاص ان کے لیے اجازت بیان کردی گئی ہے (٣) قضائے حاجت سے آنے والا (٤) اور بیوی سے مباشرت کرنے والا ان کو بھی پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرکے نماز پڑھنے کی اجازت ہے تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ہی مرتبہ ہاتھ زمین پر مار کر کلائی تک دونوں ہاتھ ایک دوسرے پر پھیرلے۔ (کہنیوں تک ضروری نہیں) اور منہ پر بھی پھیر لے قال فی التیمم : (ضربۃ للوجہ والکفین) (مسند احمد۔ عمار (رض) جلد ٤ حفحہ ٢٦٣) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیمم کے بارے میں فرمایا کہ یہ دونوں ہتھیلیوں اور چہرے کے لیے ایک ہی مرتبہ مارنا ہے (صعیدا طیبا) سے مراد پاک مٹی ہے۔ زمین سے نکلنے والی ہر چیز نہیں جیسا کہ بعض کا خیال ہے حدیث میں اس کی مذید وضاحت کردی گئی ہے (جعلت تربتھا لنا طھورا اذا لم نجد الماء) (صحیح مسلم۔ کتاب المساجد) جب ہمیں پانی نہ ملے تو زمین کی مٹی ہمارے لیے پاکیزگی کا ذریعہ بنا دی گئی ہے۔ النسآء
44 النسآء
45 النسآء
46 ٤٦۔ ١ یہودیوں کی خباثتوں اور شرارتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ' ہم نے سنا ' کے ساتھ ہی کہہ دیتے لیکن ہم نافرمانی کریں گے یعنی اطاعت نہیں کریں گے۔ یہ دل میں کہتے یا اپنے ساتھیوں سے کہتے یا شوخ جسارت کا ارتکاب کرتے ہوئے منہ پر کہتے اسی طرح غیرَ مُسْمَعٍ (تیری بات نہ سنی جائے) یہ بد دعا کے طور پر کہتے۔ یعنی تیری بات قبول نہ ہو۔ راعنا۔ کی بابت دیکھئے سورۃ البقرہ آیت ١٠٤۔ کا حاشیہ۔ ٤٦۔ ٢ یعنی ایمان لانے والے بہت ہی قلیل ہیں پہلے گزر چکا ہے کہ یہود میں سے ایمان لانے والوں کی تعداد دس تک بھی نہیں پہنچی۔ یا یہ معنی ہیں کہ بہت ہی کم باتوں پر ایمان لاتے۔ جب کہ ایمان نافع یہ ہے کہ سب باتوں پر ایمان لایا جائے۔ النسآء
47 ٤٧۔ ١ یعنی اگر اللہ چاہے تو تمہیں تمہارے کرتوتوں کی پاداش میں یہ سزا دے سکتا ہے۔ ٤٧۔ ٢ یہ قصہ سورۃ اعراف میں آئے گا، کچھ اشارہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔ یعنی تم بھی ان کی طرح ملعون قرار پا سکتے ہو۔ ٤٧۔ ٣ یعنی جب وہ کسی بات کا حکم کر دے تو نہ کوئی اس کی مخالفت کرسکتا ہے اور نہ اسے روک ہی سکتا ہے۔ النسآء
48 ٤٨۔ ١ یعنی ایسے گناہ جن سے مومن توبہ کئے بغیر مر جائیں، اللہ تعالیٰ اگر کسی کے لئے چاہے گا، تو بغیر کسی قسم کی سزا دیئے معاف فرما دے گا اور بہت سوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت پر معاف فرما دے گا۔ لیکن شرک کسی صورت میں معاف نہیں ہوگا کیونکہ مشرک پر اللہ نے جنت حرام کردی ہے۔ (٢) دوسرے مقام پر فرمایا (اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ) 031:013"شرک ظلم عظیم ہے"حدیث میں اسے سب سے بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔ اکبر الکبائر الشرک باللہ۔ النسآء
49 ٤٩۔ ١ یہود اپنے منہ میاں میٹھو بنتے تھے مثلًا ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں وغیرہ، اللہ نے فرمایا تزکیہ کا اختیار بھی اللہ کو ہے اور اس کا علم بھی اسی کو ہے،"فتیل" کھجور کی گٹھلی کے کٹاؤ پر جو دھاگے یا سوت کی طرح نکلتا یا دکھائی دیتا ہے اس کو کہا جاتا ہے۔ یعنی اتنا سا ظلم بھی نہیں کیا جائے گا۔ النسآء
50 ٥٠۔ ١ یعنی مذکورہ دعوائے تزکیہ کرکے۔ ٥٠۔ ٢ یعنی ان کی یہ حرکت اپنی پاکیزگی کا ادعا ان کے جھوٹ افزا کے لئے کافی ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت اور اس کے شان نزول کی روایات سے معلوم ہوا کہ ایک دوسرے کی مدح و توصیف بالخصوص تزکیہ نفوس کا دعویٰ کرنا صحیح اور جائز نہیں۔ اسی بات کو قرآن کریم کے دوسرے مقام پر اسی طرح فرمایا، (فَلَا تُزَکُّوْٓا اَنْفُسَکُمْ ۭ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی) 053:032 اپنے نفسوں کی پاکیزگی اور ستائش مت کرو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے تم میں متقی کون ہے؟ حدیث میں ہے حضرت مقداد (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حکم دیا کہ ہم تعریف کرنے والوں کے چہروں پر مٹی ڈال دیں "ان نحثو فی وجوہ المداحین التراب (صحیح مسلم، کتاب الزھد) ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو ایک دوسرے آدمی کی تعریف کرتے ہوئے سنا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (ویحک قطیت عنق صاحبک) افسوس ہے تجھ پر تو نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی پھر فرمایا کہ اگر تم میں سے کسی کو کسی کی لا محالہ تعریف کرنی ہے تو اس طرح کہا کرے، میں اسے اس طرح گمان کرتا ہوں۔ اللہ پر کسی کا تزکیہ بیان نہ کرے (صحیح بخاری) النسآء
51 ٥١۔ ١ اس آیت میں یہودیوں کے ایک اور فعل پر تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اہل کتاب ہونے کے باوجود یہ (جبت) بت، کاہن یا ساحر (جھوٹے معبودوں) پر ایمان رکھتے اور کفار مکہ کو مسلمانوں سے زیادہ ہدایت یافتہ سمجھتے ہیں جبت کے یہ سارے مزکورہ معنی کیے گئے ہیں ایک حدیث میں آتا ہے "ان العیافۃ والطرق والطیرۃ من الجبت"' پرندے اڑا کر، خط کھینچ کر، بدفالی اور بد شگونی لینا ' یعنی یہ سب شیطانی کام ہیں اور یہود میں یہ چیزیں عام تھیں طاغوت کے ایک معنی شیطان بھی کئے گئے ہیں'، دراصل معبودان باطل کی پرستش، شیطان ہی کی پیروی ہے۔ اس لئے شیطان بھی یقینا طاغوت میں شامل ہے۔ النسآء
52 النسآء
53 ٥٣۔ ١ یہ انکاری ہے یعنی بادشاہی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے اگر اس میں ان کا کچھ حصہ ہوتا تو یہ یہود اتنے بخیل ہیں کہ لوگوں کو بالخصوص حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنا بھی نہ دیتے جس سے کھجور کی گٹھلی کا شگاف ہی پر ہوجاتا نَقَیْرًا اس نقطے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی کے اوپر ہوتا ہے۔ النسآء
54 ٥٤۔ ١ ام یا بل کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی بلکہ یہ اس بات پر حسد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو چھوڑ کر دوسروں میں نبی (یعنی آخری نبی) کیوں بنایا ؟ نبوت اللہ کا سب سے بڑا فضل ہے۔ النسآء
55 ٥٥۔ ١ یعنی بنو اسرائیل کو، جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ذریت اور آل میں سے ہیں، ہم نے نبوت بھی دی اور بڑی سلطنت و بادشاہی بھی۔ پھر بھی یہود کے سارے لوگ ان پر ایمان نہیں لائے۔ کچھ ایمان لائے اور کچھ نے اعراض کیا۔ مطلب یہ ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر یہ آپ کی نبوت پر ایمان نہیں لا رہے تو کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ ان کی تو تاریخ ہی نبیوں کی تکذیب سے بھری پڑی ہے حتّیٰ کہ اپنی نسل کے نبیوں پر بھی ایمان نہیں لائے۔ ان یہود میں سے کچھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے اور کچھ نے انکار کیا۔ ان منکرین نبوت کا انجام جہنم ہے۔ النسآء
56 ٥٦۔ ١ یعنی جہنم میں اہل کتاب کے منکرین ہی نہیں جائیں گے بلکہ دیگر تمام کفار کا ٹھکانہ بھی جہنم ہی ہے۔ ٥٦۔ ٢ یہ جہنم کے عذاب کی سختی، تسلسل اور دوام کا بیان ہے۔ صحابہ کرام سے منقول بعض آثار میں بتلایا گیا ہے۔ کھالوں کی تبدیلی دن میں بیسیوں بلکہ سینکڑوں مرتبہ عمل میں آئے گی اور مسند احمد کی روایت کی رو سے جہنمی جہنم میں اتنے فربہ ہوجائیں گے کہ ان کے کانوں کی لو سے پیچھے گردن تک کا فاصلہ سات سو سال کی مسافت جتنا ہوگا، ان کی کھال کی موٹائی ستر بالشت اور ڈاڑھ احد پہاڑ جتنی ہوگی۔ النسآء
57 ٥٧۔ ١ یہ کفار کے مقابلے میں اہل ایمان کے لئے جو ابدی نعمتیں ہیں، ان کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن اہل ایمان جو اعمال صالح کی دولت سے مالا مال ہوں گے۔ جَعَلنا اللّہ مِنْھُمْ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہر جگہ ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کا ذکر کرکے واضح کردیا کہ ان کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے ایمان، عمل صالح کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے پھول مگر خوشبو کے بغیر، درخت ہو لیکن بغیر ثمر۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور خیرالقرون کے دوسرے مسلمانوں نے اس نکتے کو سمجھ لیا تھا۔ چنانچہ ان کی زندگیاں ایمان کے پھل۔ اعمال صالحہ سے مالا مال تھیں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ایسے عمل کرتا ہے جو اعمال صالحہ کی ذیل میں آتے ہیں۔ مثلاً راست بازی، امانت و دیانت، ہمدردی و غم گساری اور دیگر اخلاقی خوبیاں۔ لیکن ایمان کی دولت سے محروم ہے تو اس کے یہ اعمال، دنیا میں تو اس کی شہرت و نیک نامی کا ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں، لیکن اللہ کی بارگاہ میں ان کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوگی اس لئے کہ ان کا سرچشمہ ایمان نہیں ہے جو اچھے اعمال کو عند اللہ بار آور بناتا ہے بلکہ صرف اور صرف دنیاوی مفادات یا قومی اخلاق و عادات ان کی بنیاد ہے۔ ٥٧۔ ٢ گھنی گہری، عمدہ اور پاکیزہ چھاؤں جس کا ترجمہ میں ' پوری راحت ' سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے، جنت میں ایک درخت ہے جس کا سایہ ایک سوار سو سال میں بھی اسے طے نہیں کرسکے گا یہ شجرۃ الخلد ہے النسآء
58 ٥٨۔ ١ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ کی شان میں، جو خاندانی طور پر خانہ کعبہ کے دربان و کلید برادر چلے آرہے تھے، نازل ہوئی ہے مکہ فتح ہونے کے بعد جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خانہ کعبہ میں تشریف لائے تو طواف کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان بن طلحہ (رض) کو جو صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہوچکے تھے طلب فرمایا اور انہیں خانہ کعبہ کی چابیاں دے کر فرمایا ' یہ تمہاری چابیاں ہیں آج کا دن وفا اور نیکی کا دن ہے۔ آیت کا یہ سبب نزول اگرچہ خاص ہے لیکن اس کا حکم عام ہے اور اس کے مخاطب عوام اور حکام دونوں ہیں۔ دونوں کو تاکید ہے کہ امانتیں انہیں پہنچاؤ جو امانتوں کے اہل ہیں۔ اس میں ایک تو وہ امانتیں شامل ہیں جو کسی نہ کسی کے پاس رکھوائی ہوں۔ ان میں خیانت نہ کی جائے بلکہ باحفاظت عندالطلب لوٹا دی جائیں۔ دوسرے عہدے اور مناسب منصب اہل لوگوں کو دیئے جائیں، محض سیاسی بنیاد یا نسلی و وطنی بنیاد یا قرابت و خاندان کی بنیاد پر عہدہ منصب دینا اس آیت کے خلاف ہے۔ ٥٨۔ ٢ اس میں احکام کو بطور خاص عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے۔ حاکم جب تک ظلم نہ کرے اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جب وہ ظلم کا ارتکاب شروع کردیتا ہے تو اللہ اسے اس کے اپنے نفس کے حوالے کردیتا ہے (سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام) ٥٨۔ ٣ یعنی امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرنا اور عدل اور انصاف مہیا کرنا۔ النسآء
59 ٥٩۔ ١ مطلب یہ ہے کہ اصل اطاعت تو اللہ تعالیٰ کی ہے کیونکہ حکم صرف اللہ ہی کا ہے ' لیکن چونکہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خالص منشاء الٰہی ہی کا مظہر ہے اور اس کی مرضیات کا نمائندہ ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کو بھی مستقل طور پر واجب الاطاعت قرار دیا اور فرمایا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے۔ (مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاع اللّٰہَ) 004:080 "جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی "جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حدیث بھی اسی طرح دین کا مأخذ ہے جس طرح قرآن کریم۔ تاہم امر و احکام کی اطاعت بھی ضروری ہے کیونکہ وہ یا تو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کا نفاذ کرتے ہیں۔ یا امت کے اجتماعی مصالح کا انتظام اور نگہداشت کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ امر و حکام کی اطاعت اگرچہ ضروری ہے لیکن وہ علی الاطلاق نہیں بلکہ مشروط ہے اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کے ساتھ۔ اسی لیے اطیعوا اللہ کے بعد اطیعوا الرسول تو کہا کیونکہ یہ دونوں اطاعتیں مستقل اور واجب ہیں لیکن اطیعوا اولی الامر نہیں کہا کیونکہ اولی الامر کی اطاعت مستقل نہیں اور حدیث میں بھی کہا گیا ہے۔ (لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق) (وقال الالبانی حدیث صحیح۔ مشکٰوۃ نمبر ٦٩٦ فی لفظ لمسلم لا طاعۃ فیی معصیۃ اللہ کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فر غیر معصیۃ حدیث نمبر ١٨٤٠ اور (انما الطاعۃ فی المعروف) (صحیح بخاری کتاب الاحکام باب نمبر ٤) (السمع والطاعۃ للامام مالم رکن معصیۃ) "معصیت میں اطاعت نہیں، اطاعت صرف معروف میں ہے۔"یہی حال علما و فقہا کا بھی ہے۔ (اگر اولوا لامر میں ان کو بھی شامل کیا جائے) یعنی ان کی اطاعت اس لیے کرنی ہوگی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام و فرمودات بیان کرتے ہیں اور اس کے دین کی طرف ارشاد و ہدایت اور راہمنائی کا کام کرتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ علماء و فقہا بھی دینی امور و معاملات میں حکام کی طرح یقینا مرجع عوام ہیں لیکن ان کی اطاعت بھی صرف اس وقت تک کی جائے گی جب تک کہ عوام کو صرف اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات بتلائیں لیکن اگر وہ اس سے انحراف کریں تو عوام کے لیے ان کی اطاعت بھی ضروری نہیں بلکہ انحراف کی صورت میں جانتے بوجھتے ان کی اطاعت کرنا سخت معصیت اور گناہ ہے۔ ٥٩۔ ٢ اللہ کی طرف لوٹانے سے مراد قرآن کریم اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مراد اب حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے یہ تنازعات کے ختم کرنے کے کیے ایک بہترین اصول بتلا دیا گیا ہے اس اصول سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی تیسری شخصیت کی اطاعت واجب نہیں جس طرح تقلید شخصی یا تقلید معین کے قائلین نے ایک تیسری اطاعت کو واجب قرار دے رکھا ہے اور اسی تیسری اطاعت نے جو قرآن کی اس آیت کے صریح مخالف ہے مسلمانوں کو امت متحدہ کی بجائے امت منتشرہ بنا رکھا ہے اور ان کے اتحاد کو تقریبا ناممکن بنا دیا ہے۔ النسآء
60 النسآء
61 ٦١۔ ١ یہ آیات ایسے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئیں جو اپنا فیصلہ عدالت میں لے جانے کی بجائے سرداران یہود یا سرداران قریش کی طرف لے جانا چاہتے تھے تاہم اس کا حکم عام ہے اس میں تمام وہ لوگ شامل ہیں جو کتاب و سنت سے اعراض کرتے ہیں اور اپنے فیصلوں کے لئے ان دونوں کو چھوڑ کر کسی اور کی طرف جاتے ہیں۔ ورنہ مسلمانوں کا تو یہ حال ہوتا ہے (اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا) 024:051 کہ جب انہیں اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں تو وہ کہتے ہیں کہ سَمِنَا وَ اَطَعْنَا ایسے لوگوں کے بارے میں آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وَ اوْلَئِکَ ھُمُ المُفْلِحُوْنَ) 024:051 یہی لوگ کامیاب ہیں۔ النسآء
62 ٦٢۔ ١ یعنی جب اپنے اس کرتوت کی وجہ سے عتاب الٰہی کا شکار ہو کر مصیبتوں میں پھنستے ہیں تو پھر آکر کہتے ہیں کہ کسی دوسری جگہ جانے سے مقصد یہ نہیں تھا کہ وہاں سے ہم فیصلہ کروائیں یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ ہمیں انصاف ملے گا بلکہ مقصد صلح اور ملاپ کرانا تھا۔ النسآء
63 ٦٣۔ ١ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگرچہ ہم نے ان کے دلوں کے تمام بھیدوں سے واقف ہیں (جس پر ہم انہیں جزا دیں گے) لیکن اے پیغمبر! آپ ان کے ظاہر کو سامنے رکھتے ہوئے درگزر ہی فرمائیے اور نصیحت اور قول بلیغ کے ذریعے سے ان کے اندر کی اصلاح کی کوشش جاری رکھئے! جس سے یہ معلوم ہوا کہ دشمنوں کی سازش کو عفو و درگزر، وعظ، نصیحت اور قول کے ذریعے سے ہی ناکام بنانے کی سعی کی جانی چاہئے۔ النسآء
64 ٦٤۔ ١ مغفرت کے لئے بارگاہ الٰہی میں ہی توبہ استغفار ضروری اور کافی ہے۔ لیکن یہاں ان کو کہا گیا اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! وہ تیرے پاس آتے اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور تو بھی ان کے لئے مغفرت کرتا۔ یہ اس لئے کہ چونکہ انہوں نے فصل خصومات (جھگڑوں کے فیصلے) کے لئے دوسروں کی طرف رجوع کرکے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا استخفاف کیا تھا۔ اس لئے اس کے ازالے کے لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آنے کی تاکید کی۔ النسآء
65 ٦٥۔ ١ اس آیت کا شان نزول ایک یہودی اور مسلمان کا واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے جو بارگاہ رسالت سے فیصلے کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ سے فیصلہ کروانے گیا جس پر حضرت عمر (رض) نے اس مسلمان کا سر قلم کردیا۔ لیکن سنداً یہ واقعہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر نے بھی وضاحت کی، صحیح واقعہ یہ ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ کا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پھوپھی زاد تھے۔ اور ایک آدمی کا کھیت کو سیراب کرنے والے (نالے) کے پانی پر جھگڑا ہوگیا۔ معاملہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا آپ نے صورت حال کا جائزہ لے کر جو فیصلہ دیا تو وہ اتفاق سے حضرت زبیر رضی اللہ کے حق میں تھا، جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پھوپھی زاد ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ آیت کا مطلب یہ ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کسی بات یا فیصلے سے اختلاف تو کجا دل میں انقباض بھی محسوس کرنا ایمان کے منافی ہے۔ یہ آیت منکریں حدیث کے لئے لمحہ فکریہ ہے النسآء
66 ٦٦۔ ١ آیت میں انہی نافرمان قسم کے لوگوں کی طرف اشارہ کرکے کہا جا رہا ہے کہ اگر انہیں حکم دیا جاتا کہ ایک دوسرے کو قتل کرو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو، جب یہ آسان باتوں پر عمل نہیں کرسکے تو اس پر عمل کس طرح کرسکتے تھے؟ یا اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق ان کے بابت فرمایا جو یقینا واقعات کے مطابق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سخت حکموں پر تو یقینا مشکل ہے لیکن اللہ تعالیٰ بہت شفیق اور مہربان ہے اور اس کے احکامات بھی آسان ہیں۔ اس لیے اگر وہ ان حکموں پر چلیں جن کی ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو یہ ان کے لیے بہتر اور ثابت قدمی کا باعث ہو۔ کیونکہ ایمان اطاعت سے زیادہ اور معصیت سے کم ہوتا ہے نیکی سے نیکی کا راستہ کھلتا اور بدی سے بدی متولد ہوتی ہے یعنی اس کا راستہ کشادہ اور آسان ہوتا ہے۔ النسآء
67 النسآء
68 النسآء
69 ٦٩۔ ١ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کا صلہ بتلایا جا رہا ہے اس لئے حدیث میں آتا ہے۔ آدمی انہیں کے ساتھ ہوگا جن سے اس کو محبت ہوگی ' حضرت انس رضی اللہ فرماتے ہیں ' صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو جتنی خوشی اس فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سن کر ہوتی اتنی خوشی کبھی نہیں ہوئی، کیونکہ وہ جنت میں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت پسند کرتے تھے۔ اس کی شان نزول کی روایات میں بتایا گیا ہے کہ بعض صحابہ کرام نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے گا اور ہمیں اس سے فروتر مقام ہی ملے گا اور یوں ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت و رفاقت اور دیدار سے محروم رہیں گے۔ جو ہمیں دنیا میں حاصل ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار کر ان کی تسلی کا سامان فرمایا (ابن کثیر) بعض صحابہ (رض) نے بطور خاص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنت میں رفاقت کی درخواست کی (اسالک مرافقتک فی الجنۃ) جس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں کثرت سے نفلی نماز پڑھنے کی تاکید فرمائی (فأعنی علی نفسک بکثرۃ السجود) پس تم کثرت سجود کے ساتھ میری مدد کرو۔ علاوہ ازیں ایک اور حدیث ہے (التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشہداء) (ترمذی۔ کتاب البیوع باب ماجاء فی التجار وتسمیۃ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایاھم) راست باز، امانت دار، تاجر انبیا، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا۔ صدیقیت، کمال ایمان وکمال اطاعت کا نام ہے، نبوت کے بعد اس کا مقام ہے امت محمدیہ میں اس مقام میں حضرت ابو بکر صدیق (رض) سب سے ممتاز ہیں۔ اور اسی لیے بالاتفاق غیر انبیاء میں وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد افضل ہیں، صالح وہ ہے جو اللہ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کامل طور پر ادا کرے اور ان میں کوتاہی نہ کرے۔ النسآء
70 النسآء
71 ٧١۔ ١ حِذْرَکُمْ (اپنا بچاؤ اختیار کرو) اسلحہ اور سامان جنگ اور دیگر ذرائع سے۔ النسآء
72 ٧٢۔ ١ یہ منافقین کا ذکر ہے۔ پس و پیش کا مطلب، جہاد میں جانے سے گریز کرتے اور پیچھے رہ جاتے۔ النسآء
73 ٧٣۔ ١ یعنی جنگ میں فتح و غلبہ اور غنیمت۔ ٧٣۔ ٢ یعنی گویا وہ تمہارے اہل دین میں سے ہی نہیں بلکہ اجنبی ہیں۔ ٧٣۔ ٣ یعنی مال غنیمت سے حصہ حاصل کرنا جو اہل دنیا کا سب سے اہم مقصد ہوتا ہے۔ النسآء
74 ٧٤۔ ١ شَرَیٰ یشٰریٰ، کے معنی بیچنے کے بھی آتے ہیں اور خریدنے کے بھی۔ متن میں پہلا ترجمہ اختیار کیا گیا ہے اس اعتبار سے (فلیقاتل) کا فاعل (الَّذِیْنَ یَشْرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا) 004:074 اگر اس کے معنی خریدنے کے کئے جائیں تو اس صورت میں الذین مفعول بنے گا اور فلیقاتل کا فاعل المومن النافر (راہ جہاد میں کوچ کرنے والے مومن) محذوف ہوگا۔ مومن ان لوگوں سے لڑیں جنہوں نے آخرت بیچ کر دنیا خرید لی۔ یعنی جنہوں نے دنیا کے تھوڑے سے مال کی خاطر اپنے دین کو فروخت کردیا۔ مراد منافقین اور کافرین ہونگے (ابن کثیر نے یہی مفہوم بیان کیا ہے) النسآء
75 ٧٥۔ ١ ظالموں کی بستی سے مراد (نزول کے اعتبار سے) مکہ ہے۔ ہجرت کے بعد وہاں باقی رہ جانے والے مسلمان خاص طور پر بوڑھے مرد، عورتیں اور بچے، کافروں کے ظلم ستم سے تنگ آکر اللہ کی بارگاہ میں مدد کی دعا کرتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو متنبہ فرمایا کہ تم ان مستضعفین کو کفار سے نجات دلانے کے لئے جہاد کیوں نہیں کرتے؟ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے علماء نے کہا کہ جس علاقے میں مسلمان اس طرح ظلم و ستم کا شکار اور نرغا کفار میں گھرے ہوئے ہوں تو دوسرے مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ان کافروں سے ظلم و ستم سے بچانے کے لئے جہاد کریں، یہ جہاد دوسری قسم کا ہے یعنی دین کی نشرو اشاعت اور کلمۃ اللہ کے غلبے کے لئے لڑنا جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں اور مابعد کی آیت میں ہے۔ النسآء
76 ٧٦۔ ١ مومن اور کافر، دونوں کو جنگوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لیکن دونوں کے مقاصد جنگ میں عظیم فرق ہے، مومن اللہ کے لئے لڑتا ہے، محض طلب دنیا یا ہوس ملک گیری کی خاطر نہیں۔ جب کہ کافر کا مقصد یہی دنیا اور اس کے مفادات ہوتے ہیں۔ ٧٦۔ ٢ مومنوں کو ترغیب دی جا رہی ہے کہ طاغوتی مقاصد کے لئے حیلے اور مکر کمزور ہوتے ہیں، ان کے ظاہری اسباب کی فروانی اور کثرت تعداد سے مت ڈرو تمہاری ایمانی قوت اور عزم جہاد کے مقابلے میں شیطان کے یہ حیلے نہیں ٹھہر سکتے۔ النسآء
77 ٧٧۔ ١ مکے میں مسلمان چونکہ تعداد اور وسائل کے اعتبار سے لڑنے کے قابل نہیں تھے اس لئے مسلمانوں کی خواہش کے باوجود انہیں قتال سے روکے رکھا گیا اور دو باتوں کی تاکید کی جاتی رہی، ایک یہ کہ کافروں کے ظالمانہ رویے کو صبر اور حوصلے سے برداشت کریں اور عفو و درگزر سے کام لیں۔ دوسرے یہ کہ نماز، زکوٰۃ اور دیگر عبادات و تعلیمات پر عمل کا اہتمام کریں تاکہ اللہ تعالیٰ سے ربط و تعلق مضبوط بنیادوں پر استوار ہوجائے۔ لیکن ہجرت کے بعد جب مدینہ میں مسمانوں کی طاقت مجتمع ہوگئی تو پھر انہیں قتال کی اجازت دے دی گئی اور جب اجازت دے دی گئی تو بعض لوگوں نے کمزوری اور پست ہمتی کا اظہار کیا۔ اس پر آیت میں مکی دور کی ان کی آرزو یاد دلا کر کہا جا رہا ہے کہ اب یہ مسلمان حکم جہاد سن کر خوف زدہ کیوں ہو رہے ہیں جب کہ یہ حکم جہاد خود ان کی اپنی خوہش کے مطاپق ہے۔ آیات قرآن میں تحریف : آیت کا پہلا حصہ جس میں کف ایدی (لڑائی سے ہاتھ روکے رکھنے) کا حکم ہے۔ ٧٧۔ ٢ اس کا دوسرا ترجمہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ اس حکم کو کچھ اور مدت کے لئے مؤخر کیوں نہ کردیا یعنی اجلٍ قَریبٍ سے مراد موت یا فرض جہاد کی مدت ہے (ابن کثیر)۔ النسآء
78 ٧٨۔ ١ ایسے کمزور مسلمانوں کو سمجھانے کے لئے کہا جا رہا ہے کہ ایک تو یہ دنیا فانی ہے اور اس کا فائدہ عارضی ہے جس کے لئے تم کچھ مہلت طلب کر رہے ہو۔ اس کے مقابلے میں آخرت بہت بہتر اور پائیدار ہے جس کے اطاعت الٰہی کے صلے میں تم سزاوار ہوگے۔ دوسرے یہ جہاد کرو یا نہ کرو، موت تو اپنے وقت پر آکر رہے گی چاہے تم مضبوط قلعوں میں بند ہو کر بیٹھ جاؤ پھر جہاد سے گریز کا کیا فائدہ؟ مضبوط برجوں سے مراد مضبوط اور بلند و بالا فصیلوں والے قلعے ہیں۔ ٧٨۔ ٢ یہاں سے پھر منافقین کی باتوں کا ذکر ہو رہا ہے۔ سابقہ امت کے منکرین کی طرح انہوں نے بھی کہا کہ بھلائی (خوش حالی، غلے کی پیداوار، مال اولاد کی فروانی وغیرہ) اللہ کی طرف سے ہے اور برائی (قحط سالی، مال و دولت میں کمی وغیرہ) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیری طرف سے ہے یعنی تیرے دین اختیار کرنے کے نتیجے میں آئی ہے۔ جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور قوم فرعون کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' جب انہیں بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں، یہ ہمارے لئے ہے، یعنی ہم اس کے مستحق ہیں اور جب کوئی برائی پہنچتی ہے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے پیروکاروں سے بدشگوفی پکڑتے ہیں یعنی نعوز باللہ ان کی نحوست کا نتیجہ بتلاتے ہیں۔ (الاعراف۔ ١٣١) ٧٨۔ ٣ یعنی بھلائی اور برائی دونوں اللہ کی طرف سے ہی ہے لیکن یہ لوگ قلت فہم و علم اور کثرت جہل اور ظلم کی وجہ سے اس بات کو سمجھ نہیں پاتے۔ النسآء
79 ٧٩۔ ١ یعنی اس کے فضل و کرم سے ہے یعنی کسی نیکی یا اطاعت کا صلہ نہیں ہے، کیونکہ نیکی کی توفیق بھی دینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ علاوہ ازیں اس کی نعمتیں اتنی بے پایاں ہیں کہ ایک انسان کی عبادت و اطاعت اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس لئے ایک حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں جو بھی جائے گا، محض اللہ کی رحمت سے جائے گا اپنے عمل کی وجہ سے نہیں صحابہ اکرام رضوان اللہ علھیم اجمعین نے عرض کیا یارسول اللہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اللہ کی رحمت کے بغیر جنت میں نہیں جائیں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ' ہاں جب تک اللہ مجھے بھی اپنے، دامان رحمت میں نہیں ڈھانک لے گا جنت میں نہیں جاؤں گا ' (صحیح بخاری) ٧٩۔ ٢۔ یہ برائی بھی اگرچہ اللہ کی مشیت سے ہی آتی ہے۔ جیسا کہ "کل من عند اللہ" سے واضح ہے لیکن یہ برائی کسی گناہ کی عقبیت یا اس کا صلہ ہوتی ہے۔ اس لئے فرمایا یہ تمہارے نفس سے ہے یعنی تمہاری غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں کا نتیجہ ہے۔ جس طرح فرمایا تمہیں جو مصیبت پہنچتی ہے، وہ تمہارے اپنے عملوں کا نتیجہ ہے اور بہت سے گناہ تو معاف ہی فرما دیتا ہے۔ النسآء
80 النسآء
81 ٨١۔ ١ یعنی یہ منافقین آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں جو باتیں ظاہر کرتے۔ راتوں کو ان کے برعکس باتیں کرتے اور سازشوں کے جال بنتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے اعراض کریں اور اللہ پر توکل کریں ان کی باتیں اور سازشیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گی کیونکہ آپ کا ولی اور کارساز اللہ ہے۔ النسآء
82 ٨٢۔ ١ قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے اس میں غور و تدبر کی تاکید کی جا رہی ہے اور اس کی صداقت جانچنے کے لئے ایک معیار بھی بتلایا گیا کہ اگر یہ کسی انسان کا بنایا ہوا کلام ہوتا (جیسا کہ کفار کا خیال ہے) اس کے مضامین اور بیان کردہ واقعات میں تعارض و تناقص ہوتا۔ کیونکہ ایک تو یہ کوئی چھوٹی سی کتاب نہیں ہے۔ ایک ضخیم اور مفصل کتاب ہے، جس کا ہر حصہ اعجاز و بلاغت میں ممتاز ہے۔ حالانکہ انسان کی بنائی ہوئی بڑی تصنیف میں زبان کا معیار اور اس کی فصاحت و بلاغت قائم ہی نہیں رہتی، دوسرے، اس میں پچھلی قوموں کے واقعات بھی بیان کئے گئے ہیں۔ جنہیں اللہ علام الغیوب کے سواء کوئی اور بیان نہیں کرسکتا۔ تیسرے ان حکایات و قصص میں نہ باہمی تعارض و تضاد ہے اور نہ ان کا چھوٹے سے چھوٹا کوئی جزئیہ قرآن کی کسی اصل سے ٹکراتا ہے۔ حالانکہ ایک انسان گزشتہ واقعات بیان کرے تو تسلسل کی کڑیاں ٹوٹ جاتی ہیں اور ان کی تفصیلات میں تعارض و تضاد واقع ہوتا ہے۔ قرآن کریم کے ان تمام انسانی کوتاہیوں سے مبراء ہونے کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ یقینا کلام الٰہی ہے اس نے فرشتے کے ذریعے سے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا ہے۔ النسآء
83 ٨٣۔ ١ یہ بعض کمزور اور جلدباز مسلمانوں کا رویہ، ان کی اصلاح کی غرض سے بیان کیا جا رہا ہے۔ امن کی خبر سے مراد مسلمانوں کی کامیابی اور دشمن کی ہلاکت و شکست کی خبر ہے۔ (جس کو سن کر امن اور اطمینان کی لہر دوڑ جاتی ہے اور جس کے نتیجے میں بعض دفعہ ضرورت سے زیادہ پر اعتمادی پیدا ہوتی ہے جو نقصان کا باعث بن سکتی ہے) اور خوف کی خبر سے مراد مسلمانوں کی شکست اور ان کے قتل و ہلاکت کی خبر ہے (جس سے مسلمانوں میں افسردگی پھیلنے اور ان کے حوصلے پست ہونے کا امکان ہوتا ہے) اس لئے انہیں کہا جا رہا ہے کہ اس قسم کی خبریں، چاہے امن کی ہوں یا خوف کی انہیں سن کر عام لوگوں میں پھیلانے کے بجائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچا دو یا اہل علم و تحقیق میں انہیں پہنچا دو تاکہ وہ دیکھیں کہ یہ خبر صحیح ہے یا غلط؟ اگر صحیح ہے تو اس وقت اس سے مسلمانوں کا باخبر ہونا مفید ہے یا بے خبر رہنا یہ اصول ویسے تو عام حالات میں بھی بڑا اہم ہے لیکن حالت جنگ میں تو اس کی اہمیت و افادیت بہت ہی زیادہ ہے۔ استنباط کا مادہ نبط ہے نبط اس پانی کو کہتے ہیں جو کنواں کھودتے وقت سب سے پہلے نکلتا ہے۔ اسی لیے استنباط تحقیق اور بات کی تہہ تک پہنچنے کو کہا جاتا ہے۔ (فتح القدیر) النسآء
84 النسآء
85 النسآء
86 ٨٦۔ ١ تحیۃ اصل میں تحیۃ (تفعلۃ) ہے یا کے یا میں ادغام کے بعد تحیۃ ہوگیا۔ اس کے معنی ہیں۔ درازی عمر کی دعا (الدعاء بالحیاۃ) یہاں یہ سالم کرنے کے معنی میں ہے۔ (فتح القدیر) زیادہ اچھا جواب دینے کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ السلام علیکم کے جواب میں و رحمتہ اللہ کا اضافہ اور السلام علیکم و رحمتہ اللہ کے جواب میں و برکاتہ کا اضافہ کردیا جائے۔ لیکن کوئی السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ کہے تو پھر اضافے کے بغیر انہی الفاظ میں جواب دیا جائے، ایک اور حدیث میں ہے کہ صرف السلام علیکم کہنے سے دس نیکیاں اور اس کے ساتھ و رحمتہ اللہ کہنے سے بیس نیکیاں اور برکاتہ کہنے سے تیس نیکیاں ملتی ہیں۔ (مسند احمد، جلد ٤ ص ٤٣٩، ٤٤٠) یاد رہے کہ یہ حکم مسلمانوں کے لیے ہے، یعنی ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کو سلام کرے۔ لیکن اہل ذمہ یعنی یہود و نصاریٰ کو سلام کرنا ہو تو ایک تو ان کو سلام کرنے میں پہل نہ کی جائے۔ دوسرے اضافہ نہ کیا جائے بلکہ صرف و علیکم کے ساتھ جواب دیا جائے (صحیح بخاری کتاب الاستیذان۔ مسلم، کتاب السلام) النسآء
87 النسآء
88 ٨٨۔ ١ یہ استفہام انکار کے لئے ہے یعنی تمہارے درمیان ان منافقین کے بارے میں اختلاف نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ان منافقین سے مراد وہ ہیں جو احد کی جنگ میں مدینہ سے کچھ دور جا کر واپس آگئے تھے، ہماری بات نہیں مانی گئی (صحیح بخاری سورہ، نساء صحیح مسلم، کتاب المنافقین) جیسا کہ تفصیل میں پہلے گزر چکی ہے۔ ان منافقین کے بارے میں اس وقت مسلمانوں کے دو گروہ بن گئے، ایک گروہ کا کہنا ہے کہ ہمیں ان منافقین سے (بھی) لڑنا چاہئے، دوسرا گروہ اسے مصلحت کے خلاف سمجھتا تھا۔ ٨٨۔ ٢ کَسَبُوا (اعمال) سے مراد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور جہاد سے اعراض ہے۔ ارکَسھُمْ۔ اوندھا کردیا یعنی جس کفر و ضلالت سے نکلے تھے، اسی میں مبتلا کردیا، یا اس کے سبب ہلاک کردیا۔ ٨٨۔ ٣ جس کو اللہ گمراہ کر دے یعنی مسلسل کفر و عناد کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دے، انہیں کوئی راہ یاب نہیں کرسکتا۔ النسآء
89 ٨٩۔ ١ ہجرت (ترک وطن) اس بات کی دلیل ہوگی کہ اب یہ مخلص مسلمان ہوگئے ہیں۔ اس صورت میں ان سے دوستی اور محبت جائز ہوگی۔ ٨٩۔ ٢ یعنی جب تمہیں ان پر قدرت و طاقت حاصل ہوجائے۔ ٩٨۔ ٣ حلال ہو یا حرام۔ النسآء
90 ٩٠۔ ١ یعنی جن سے لڑنے کا علم دیا جا رہا ہے۔ اس سے دو قسم کے لوگ مستثنٰی ہیں۔ ایک وہ لوگ جو ایسی قوم سے ربط و تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی ایسی قوم کے فرد ہیں یا اس کی پناہ میں ہیں جس قوم سے تمہارا معاہدہ ہے۔ دوسرے وہ جو تمہارے پاس اس حال میں آتے ہیں کہ ان کے سینے اس بات سے تنگ ہیں کہ وہ اپنی قوم سے مل کر تم سے یا تم سے مل کر اپنی قوم سے جنگ کریں یعنی تمہاری حمایت میں لڑنا پسند کرتے ہیں نہ تمہاری مخالفت میں۔ ٩٠۔ ٢ یعنی یہ اللہ کا احسان ہے کہ ان کو لڑائی سے الگ کردیا ورنہ اگر اللہ تعالیٰ ان کے دل میں بھی اپنی قوم کی حمایت میں لڑنے کا خیال پیدا کردیتا تو یقینا وہ بھی تم سے لڑتے۔ اس لئے اگر واقعی یہ لوگ جنگ سے کنارہ کش رہیں تو تم بھی ان کے خلاف کوئی اقدام مت کرو۔ ٩٠۔ ٣ کنارہ کش رہیں، نہ لڑیں، تمہاری جانب صلح کا پیغام ڈالیں، سب کا مفہوم ایک ہی ہے۔ تاکید اور وضاحت کے لئے تین الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ تاکہ مسلمان ان کے بارے میں محتاط رہیں کیونکہ جو جنگ و قتال سے پہلے ہی علیحدہ ہیں اور ان کی یہ علیحدگی مسلمانوں کے مفاد میں بھی ہے، اسی لئے اس کو اللہ تعالیٰ نے بطور احسان کے ذکر کیا ہے۔ اس لئے جب وہ مزکورہ حال پر قائم رہیں ان سے مت لڑو! اس کی مثال وہ جماعت بھی ہے جس کا تعلق بنی ہاشم سے تھا، یہ جنگ بدر والے دن مشریکین مکہ کے ساتھ میدان جنگ میں تو آئے تھے، لیکن یہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑنا پسند نہیں کرتے تھے، جیسے حضرت عباس (رض) عم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وغیرہ جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، اسی لیے ظاہر طور پر کافروں کے کیمپ میں تھے۔ اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عباس رضی اللہ کو قتل کرنے سے روک دیا اور انہیں صرف قیدی بنانے پر اکتفا کیا۔ سلم یہاں مسالمۃ یعنی صلح کے معنی میں ہے النسآء
91 ٩١۔ ١ یہ ایک تیسرے گروہ کا ذکر ہے جو منافقین کا تھا یہ مسلمانوں کے پاس آتے تو اسلام کا اظہار کرتے تاکہ مسلمانوں سے محفوظ رہیں، اپنی قوم میں جاتے شرک بت پرستی کرتے تاکہ وہ انہیں اپنا ہی مذہب سمجھیں اور یوں دونوں سے مفادات حاصل کرتے۔ ٩١۔ ٢ الفِتْنۃ سے مراد شرک بھی ہوسکتا ہے اسی شرک میں لوٹا دیئے جاتے۔ یا الفتنۃُ سے مراد قتال ہے کہ جب انہیں مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کی طرف بلایا یعنی لوٹایا جاتا ہے تو وہ اس پر آمادہ ہوجاتے ہیں، ٩١۔ ٣ اس بات پر کہ واقعی ان کے دلوں میں نفاق اور ان کے سینوں میں تمہارے خلاف بغض و عناد ہے، تب ہی وہ یہ ادنیٰ کوشش دوبارہ فتنے (شرک) یا تمہارے خلاف آمادہ قتال ہونے میں مبتلا ہوگئے۔ النسآء
92 ٩٢۔ ١ یہ نفی۔ نہی کے معنی میں ہے جو حرمت کی متقاضی ہے یعنی ایک مومن کو قتل کرنا ممنوع اور حرام ہے تمہارے یہ لائق نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچاؤ ' یعنی حرام ہے۔ ٩٢۔ ٢ غلطی کے اسباب و وجوہ متعدد ہو سکتے ہیں مقصد ہے کہ نیت اور ارادہ قتل کا نہ ہو۔ مگر بوجوہ قتل ہوجائے۔ ٩٢۔ ٣ یہ قتل خطا کا جرمانہ بیان کیا جا رہا ہے جو دو چزیں ہیں۔ ایک بطور کفارہ و استغفار ہے یعنی مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور دوسری چیز بطور حق العباد کے ہے اور وہ ہے مقتول کے خون کے بدلے میں جو چیز مقتول کے وارثوں کو دی جائے، وہ دیت کی مقدار حدیث کی روح سے سو اونٹ یا اسکے مساوی قیمت سونے چاندی یا کرنسی کی شکل میں ہوگی۔ ٩٢۔ ٤ معاف کردینے کو صدقہ سے تعبیر کرنے سے مقصد معافی کی ترغیب دینا ہے۔ ٩٢۔ ٥ یعنی اس صورت میں دیت نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ بعض نے یہ بیان کی ہے کہ کیونکہ اس کے وارث حربی کافر ہیں، اس لئے وہ مسلمان کی دیت لینے کے حقدار نہیں اس کی وجہ سے اس کے خون کی حرمت کم ہے (فتح القدیر) ٩٢۔ ٦ یہ ایک تیسری صورت ہے اس میں بھی وہی کفارہ اور دیت ہے جو پہلی صورت میں ہے بعض نے کہا ہے کہ اگر مقتول معاہد (ذمی) ہو تو اس کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف ہوگی، کیونکہ حدیث میں کافر کی دیت مسلمان کی دیت سے نصف بیان کی گئی ہے۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس تیسری صورت میں بھی مقتول مسلمان ہی کا حکم بیان کیا جا رہا ہے۔ ٩٢۔ ٧ یعنی اگر گردن آزاد کرنے کی استطاعت نہ ہو تو پہلی صورت اور اس آخری صورت میں دیت کے ساتھ مسلسل لگاتار (بغیر ناغہ کے) دو مہینے کے روزے ہیں۔ اگر درمیان میں ناغہ ہوگیا تو نئے سرے سے روزے رکھنے ضروری ہونگے۔ جیسے حیض، نفاس یا شدید بیماری، جو روزہ رکھنے میں مانع ہو۔ سفر کے عذر شرعی ہونے میں اختلاف ہے۔ (ابن کثیر) النسآء
93 ٩٣۔ ١ یہ قتل عمد کی سزا ہے۔ قتل کی تین قسمیں ہیں۔ (١) قتل خطا (جس کا ذکر ماقبل کی آیت میں ہے) (٢) قتل شبہ عمد جو حدیث سے ثابت ہے۔ (٣) قتل عمد جس کا مطلب ہے ارادہ اور نیت سے کسی کو قتل کرنا اور اس کے لیے وہ آلہ استعمال کرنا جس سے فی الواقع عادتاً قتل کیا جا رہا ہے جیسے تلوار، خنجر وغیرہ۔ آیت میں مومن کے قتل پر نہایت سخت وعید بیان کی گئی ہے مثلا اس کی سزا جہنم ہے جس میں ہمیشہ رہنا ہوگا نیز اللہ کا غضب اور اس کی لعنت اور عذاب عظیم بھی ہوگا۔ اتنی سخت سزائیں بیک وقت کسی بھی گناہ کی بیان نہیں کی گئیں۔ جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ایک مومن کو قتل کرنا اللہ کے ہاں کتنا بڑا جرم ہے احادیث میں بھی اس کی سخت مذمت اور اس پر سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ (٣) مومن کے قاتل کی توبہ قبول ہے یا نہیں؟ بعض علما مزکورہ سخت وعیدوں کے پیش نظر قبول توبہ کے قائل نہیں۔ لیکن قرآن و حدیث کی نصوص سے واضح ہے کہ خالص توبہ سے ہر گناہ معاف ہوسکتا ہے (الا من تاب واٰمن وعمل عملا صالحا) (الفرقان۔ ٧٠) اور دیگر آیات توبہ عام ہیں۔ ہر گناہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا یا بہت بڑا توبۃ النصوح سے اس کی معافی ممکن ہے یہاں اس کی سزا جہنم جو بیان کی گئی ہے اس کا مطلب ہے کہ اگر اس نے توبہ نہیں کی تو اس کی یہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ اس جرم پر اسے دے سکتا ہے اسی طرح توبہ نہ کرنے کی صورت میں خلود (ہمیشہ جہنم میں رہنے) کا مطلب بھی مکث طویل (لمبی مدت) ہے۔ کیونکہ جہنم میں خلود کافروں اور مشرکوں کے لیے ہی ہے علاوہ ازیں قتل کا تعلق اگرچہ حقوق العباد سے ہے جو توبہ سے بھی ساقط نہیں ہوتے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے بھی اس کی تلافی اور ازالہ فرما سکتا ہے اس طرح مقتول کو بھی بدلہ مل جائے گا اور قاتل کی بھی معافی ہوجائے گی۔ (فتح القدیر و ابن کثیر) النسآء
94 ٩٤۔ ١ احادیث میں آتا ہے کہ بعض صحابہ کسی علاقے سے گزر رہے تھے جہاں ایک چرواہا بکریاں چرا رہا تھا، مسلمان کو دیکھ کر چروا ہے نے سلام کیا۔ بعض صحابہ نے سمجھا کہ شاید وہ جان بچانے کے لئے اپنے کو مسلمان ظاہر کر رہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے بغیر تحقیق کئے اسے قتل کر ڈالا اور بکریاں (بطور مال غنیمت) لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی، بعض روایات میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا کہ مکہ میں پہلے تم بھی چرواہے کی طرح ایمان چھپانے پر مجبور تھے، مطلب یہ تھا کہ قتل کا کوئی جواز نہیں تھا۔ ٩٤۔ ٢ یعنی تمہیں چند بکریاں اس مقتول سے حاصل ہوگیئں، یہ کچھ بھی نہیں، اللہ کے پاس اس سے کہیں زیادہ بہتر نعمتیں ہیں جو اللہ رسول کی اطاعت کی وجہ سے تمہیں دنیا میں مل سکتی ہیں اور آخرت میں تو ان کا ملنا یقینی ہے۔ النسآء
95 ٩٥۔ ١ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور گھروں میں بیٹھ رہنے والے برابر نہیں تو حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم (نابینا صحابی) وغیرہ نے عرض کیا کہ ہم تو معذور ہیں جس کی وجہ سے ہم جہاد میں حصہ لینے سے مجبور ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ گھر میں بیٹھ رہنے کی وجہ سے جہاد میں حصہ لینے والوں کے برابر ہم اجر و ثواب حاصل نہیں کرسکیں گے، اس پر اللہ تعالیٰ نے (غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ )"004:095 بغیر عذر کے" کا استثناء نازل فرما دیا یعنی عذر کے ساتھ بیٹھ رہنے والے، مجاھدین کے ساتھ اجر میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ انہیں عذر نے روکا ہوا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الجہاد) ٩٥۔ ٢ یعنی جان و مال سے جہاد کرنے والوں کو جو فضیلت حاصل ہوگی، جہاد میں حصہ نہ لینے والے اگرچہ اس سے محروم رہیں گے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے دونوں کے ساتھ ہی بھلائی کا وعدہ کیا ہوا ہے اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ عام حالات میں جہاد فرض عین نہیں، فرض کفایہ ہے یعنی اگر بقدر ضرورت آدمی جہاد میں حصہ لے لیں تو اس علاقے کے دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی یہ فرض ادا شدہ سمجھا جائے گا۔ النسآء
96 النسآء
97 ٩٧۔ ١ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو مکہ اور اس کے قرب و جوار میں مسلمان تو ہوچکے تھے لیکن انہوں نے اپنے آبائی علاقے اور خاندان چھوڑ کر ہجرت کرنے سے گریز کیا۔ جب کہ مسلمانوں کی قوت کو ایک جگہ مجتمع کرنے کے لئے ہجرت کا نہایت تاکیدی حکم مسلمانوں کو دیا جا چکا تھا اس لئے جن لوگوں نے ہجرت کے حکم پر عمل نہیں کیا۔ ان کو یہاں ظالم قرار دیا گیا ہے۔ اور ان کا ٹھکانا جہنم بتلایا گیا جس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حالات و ظروف کے اعتبار سے اسلام کے بعض احکام کفر یا اسلام کے مترادف بن جاتے ہیں جیسے اس موقع پر ہجرت اسلام اور اس سے گریز کفر کے مترادف قرار پایا۔ دوسرے یہ معلوم ہوا کہ ایسے دارالکفر سے ہجرت کرنا فرض ہے جہاں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا مشکل اور وہاں رہنا کفر اور اہل کفر کی حوصلہ افزائی کا باعث ہو۔ ٩٧۔ ٢ یہاں ارض (جگہ) سے مراد شان نزول کے اعتبار سے مکہ اور اس کا قرب و جوار ہے اور آگے ارض اللہ سے مراد مدینہ ہے لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے یعنی پہلی جگہ سے مراد ارض کفار ہوگی۔ جہاں اسلام پر عمل مشکل ہو اور ارض اللہ سے مراد ہر وہ جگہ ہوگی جہاں انسان اللہ کے دین پر عمل کرنے کی غرض سے ہجرت کرکے جائے۔ النسآء
98 ٩٨۔ ١ یہ ان مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہجرت سے مستثنیٰ کرنے کا حکم ہے جو اس کے وسائل سے محروم اور راست سے بھی بے خبر تھے۔ بچے اگرچہ شرعی حکام کے مکلف نہیں ہوتے لیکن یہاں ان کا ذکر ہجرت کی اہمیت کو واضح کرنے کے لئے کہا گیا ہے بچے تک بھی ہجرت کریں یا پھر یہاں بچوں سے مراد قریب البلوغت بچے ہونگے۔ النسآء
99 النسآء
100 ١٠٠۔ ١ اس میں ہجرت کی ترغیب اور مشرکین سے دوری اختیار کرنے کی تلقین ہے مُرَاغَمَا کے معنی جگہ، جائے قیام یا جائے پناہ اور سَعَۃَ سے رزق یا جگہوں اور ملکوں کی کشادگی و فراخی ہے۔ ١٠٠۔ ٢ اس میں نیت کے مطابق اجر و ثواب ملنے کی یقین دہانی ہے چاہے موت کی وجہ سے وہ اس عمل کے مکمل کرنے سے قاصر رہا ہو۔ جیسا کہ گزشتہ آیتوں میں سے ایک سو افراد کے قاتل کا واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ جو توبہ کے لئے نیکوں کی ایک بستی میں جا رہا تھا کہ راستے میں موت آگئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے نیکوں کی بستی کو نسبت دوسری بستی کے قریب تر کردیا جس کی وجہ سے اسے ملائکہ رحمت اپنے ساتھ لے گئے، اسی طرح جو شخص ہجرت کی نیت سے گھر سے نکلے لیکن راستے میں اسے موت آجائے تو اسے اللہ کی طرف سے ہجرت کا ثواب ملے گا، گو ابھی وہ ہجرت کے عمل کو پایہ تکمیل تک بھی نہ پہنچ سکا ہو جیسے حدیث میں بھی آیا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (انما الاعمال بالنیات) عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے "وانمالکل امریء مانویٰ) آدمی کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی "جس نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہجرت کی پس، اس کی ہجرت ان ہی کے لئے ہے اور جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کی نیت سے ہجرت کی پس اس کی ہجرت اسی کے لئے ہے جس نیت سے اس نے ہجرت کی"(صحیح بخاری، باب بدء الوحی ومسلم، کتاب الامارۃ) یہ حکم عام ہے جو دین کے ہر کام کو شامل ہے۔ یعنی اس کو کرتے وقت اللہ کی رضا پیش نظر ہوگی تو وہ مقبول، ورنہ مردود ہوگا) النسآء
101 ١٠١۔ ١ اس حالت میں سفر میں نماز قصر کرنے (دوگانہ ادا کرنے) کی اجازت دی جا رہی ہے، ان خفتم۔ "اگر تمہیں ڈر ہو۔ " غالب احوال کے اعتبار سے ہے۔ کیونکہ اس وقت پورا عرب دارالحرب بنا ہوا تھا۔ کسی طرف بھی خطرات سے خالی نہیں تھا۔ یعنی یہ شرط نہیں ہے کہ سفر میں خوف ہو تو قصر کی اجازت ہے جیسے قرآن مجید میں اور بھی مقامات پر اس قسم کی قیدیں بیان کی گئی ہیں جو اتفاقی یعنی غالب احوال کے اعتبار سے ( یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْ کُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً) 003:130 (وَلَا تُکْرِہُوْا فَتَیٰتِکُمْ عَلَی الْبِغَاۗءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا) 024:033 تم اپنی لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور نہ کرو اگر وہ اس سے بچنا چاہیں۔"چونکہ بچنا چاہتی تھیں، اس لئے اللہ نے اسے بیان فرما دیا۔ یہ نہیں کہ اگر وہ بدکاری پر آمادہ ہوں تو پھر تمہارے لئے یہ جائز ہے کہ تم ان سے بدکاری کروا لیا کرو ( وَرَبَاۗیِٕبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَاۗیِٕکُمُ) 004:023 بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم کے ذہن میں بھی یہ اشکال آیا کہ اب تو امن ہے ہمیں سفر میں نماز قصر نہیں کرنی چاہئے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا"یہ اللہ کی طرف سے تمہارے لئے صدقہ ہے اس کے صدقے کو قبول کرو۔ "(مسند أحمد جلد ١، ص ٢٥، ٣٦ وصحیح مسلم، کتاب المسافرین اور دیگر کتب حدیث) النسآء
102 ١٠٢۔ ١ اس آیت میں صلوٰۃ الخوف کی اجازت بلکہ حکم دیا جا رہا ہے۔ صلوٰۃ الخوف کے معنی، خوف کی نماز یہ اس وقت مشروع ہے جب مسلمان اور کافروں کی فوجیں ایک دوسرے کے مقابل جنگ کے لئے تیار کھڑی ہوں تو ایک لمحے کی غفلت مسلمانوں کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے ایسے حالات میں اگر نماز کا وقت ہوجائے تو صلوٰۃ الخوف پڑھنے کا حکم ہے، جس کی مختلف صورتیں حدیث میں بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً فوج دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ایک حصہ دشمن کے بالمقابل کھڑا رہا تاکہ کافروں کو حملہ کرنے کی جسارت نہ ہو اور ایک حصے نے آکر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھی، جب یہ حصہ نماز سے فارغ ہوگیا تو یہ پہلے کی جگہ مورچہ زن ہوگیا اور مورچہ زن پہلے والا نماز کے لئے آگیا۔ بعض روایت میں آتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں حصوں کو ایک ایک رکعت پڑھائی، اس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دو رکعت اور باقی فوجیوں کی ایک ایک رکعت ہوئی۔ بعض میں آتا ہے کہ دو دو رکعات پڑھائیں اس طرح آپ کی چار رکعت اور فوجیوں کی دو دو رکعت ہوئیں اور بعض میں آتا ہے کہ ایک رکعت پڑھ کر التحیات کی طرح بیٹھے رہے فوجیوں نے کھڑے ہو کر اپنے طور پر ایک رکعت اور پڑھ کر دو رکعات پوری کیں اور دشمن کے سامنے جا کر ڈٹ گئے۔ دوسرے حصے نے آکر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بھی ایک رکعت پڑھائی اور التحیات میں بیٹھ گئے اور اس وقت تک بیٹھے رہے جب تک فوجیوں نے دوسری رکعت پوری نہیں کرلی۔ پھر ان کے ساتھ آپ نے سلام پھیر دیا اس طرح آپ کی بھی دو رکعت اور فوج کے دونوں حصوں کی بھی دو رکعات ہوئیں۔ (دیکھئے کتب حدیث) النسآء
103 ١٠٣۔ ١ مراد یہی خوف کی نماز ہے اس میں چونکہ تخفیف کردی گئی ہے، اس لئے اس کی تلافی کے لئے کہا جا رہا کہ کھڑے بیٹھے لیٹے اللہ کا ذکر کرتے رہو۔ ١٠٣۔ ٢ اس سے مراد ہے کہ جب خوف اور جنگ کی حالت ختم ہوجائے تو پھر نماز اس طریقے کے مطابق پڑھنا ہے جو عام حالات میں پڑھی جاتی ہے۔ ١٠٣۔ ٣ اس میں نماز کو مقررہ وقت میں پڑھنے کی تاکید ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر شرعی عذر کے دو نمازوں کو جمع کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس طرح کم از کم ایک نماز غیر وقت میں پڑھی جائے گی جو اس آیت کے خلاف ہے۔ النسآء
104 ١٠٤۔ ١ یعنی اپنے دشمن کے تعاقب کرنے میں کمزوری مت دکھاؤ بلکہ ان کے خلاف بھرپور جہدوجہد کرو اور گھات لگا کر بیٹھو۔ ١٠٤۔ ٢ یعنی زخم تو تمہیں بھی اور انہیں بھی دونوں کو پہنچے ہیں لیکن ان زخموں پر تمہیں تو اللہ سے اجر کی امید ہے۔ لیکن وہ اس کی امید نہیں رکھتے۔ اس لئے اجر آخرت کے حصول کے لئے جو محنت و کاوش تم کرسکتے ہو وہ کافر نہیں کرسکتے۔ النسآء
105 ١٠٥۔ ١ ان آیات (١٠٤ سے ١١٣ تک) کے شان نزول میں بتلایا گیا ہے کہ انصار کے قبیلہ بنی ظفر میں ایک شخص طعمہ یا بشیر بن ابیرق نے ایک انصاری کی زرہ چرالی، جب اس کا چرچہ ہوا اور اسے بے نقاب ہونے کا خطرہ محسوس ہوا تو اس نے وہ زرہ ایک یہودی کے گھر پھینک دی اور بنی ظفر کے کچھ آدمیوں کو ساتھ لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پہنچ گئے، ان سب نے کہا زرہ چوری کرنے والا فلاں یہودی ہے، یہودی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا بنی ابیرق نے زرہ چوری کرکے میرے گھر پھینک دی ہے۔ بنی ظفر اور بنی ایبرق (طمعہ بشیر وغیرہ) ہوشیار تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باور کراتے رہے کہ چور یہودی ہے اور طعمہ پر الزام لگانے میں جھوٹا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی انکی چکنی چپڑی باتوں سے متاثر ہوگئے اور قریب تھا کہ اس انصاری کو چوری کے الزام سے بری کرکے یہودی پر چوری کی فرد جرم عائد فرما دیتے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی، جس سے ایک بات یہ معلوم ہوئی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی بحیثیت ایک انسان غلط فہمی میں پڑ سکتے ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ عالم الغیب نہیں تھے ورنہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فوراً صورتحال واضح ہوجاتی تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت فرماتا ہے اور اگر کبھی حق کے پوشیدہ رہ جانے اور اس سے ادھر ادھر ہوجانے کا مرحلہ آجائے تو فورا اللہ تعالیٰ اسے متنبہ فرما دیتا اور اس کی اصلاح فرما دیتا ہے جیسا کہ عصمت انبیا کا تقاضا ہے یہ وہ مقام عصمت ہے جو انبیاء کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہیں۔ ١٠٥۔ ٢ اس سے مراد وہی بنی ابیرق ہیں۔ جنہوں نے چوری خود کی لیکن اپنی چرب زبانی سے یہودی کو چور باور کرانے پر تلے ہوئے تھے۔ اگلی آیت میں بھی ان کے اور ان کے حماتیوں کے غلط کردار کو نمایاں کرکے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبردار کیا جا رہا ہے۔ النسآء
106 ١٠٦۔ ١ یعنی بغیر تحقیق کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیانت کرنے والوں کی حمایت کی ہے، اس پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ فریقین میں سے جب تک کسی کی بابت پورا یقین نہ ہو کہ وہ حق پر ہے اس کی حمایت اور وکالت کرنا جائز نہیں۔ علاوہ ازیں اگر کوئی فریق دھوکے اور فریب اور اپنی چرب زبانی سے عدالت یا حاکم مجاز سے اپنے حق میں فیصلہ کرا لے گا درآں حالیکہ وہ صاحب حق نہ ہو تو ایسے فیصلے کی عند اللہ کوئی اہمیت نہیں۔ اس بات کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث میں اس طرح بیان فرمایا خبردار! میں ایک انسان ہی ہوں اور جس طرح میں سنتا ہوں اسی کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہوں ممکن ہے ایک شخص اپنی دلیل و حجت پیش کرنے میں تیز طرار اور ہوشیار ہو اور میں اس کی گفتگو سے متاثر ہو کر اس کے حق میں فیصلہ کر دوں درآنحالیکہ وہ حق پر نہ ہو اور اس طرح میں دوسرے مسلمان کا حق اسے دے دوں اسے یاد رکھنا چاہیے کہ یہ آگ کا ٹکڑا ہے۔ یہ اس کی مرضی ہے کہ اسے لے لے یا چھوڑ دے۔ (صحیح بخاری) النسآء
107 النسآء
108 النسآء
109 ١٠٩۔ ١ یعنی جب اس گناہ کی وجہ سے اس کا مواخذہ ہوگا تو اللہ کی گرفت سے اسے بچا سکے گا۔ النسآء
110 النسآء
111 ١١١۔ ١ اس مضمون کی ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، یعنی کوئی کسی کا ذمہ دار نہیں ہوگا، ہر نفس کو وہی کچھ ملے گا جو کما کر ساتھ لے گیا ہوگا، النسآء
112 ١١٢۔ ١ جس طرح بنو ابیرق نے کیا کہ چوری خود کی اور تہمت کسی اور پر دھری، جو ان کی سی بدخصلتوں کے حامل اور ان جیسے برے کاموں کے مرتکب ہونگے۔ النسآء
113 ١١٣۔ ١ یہ اللہ تعالیٰ کی اس خاص حفاظت و نگرانی کا ذکر ہے جس کا اہتمام انبیاء علیہم السلام کے لئے فرمایا ہے جو انبیاء پر اللہ کے فضل خاص اور اس کی رحمت خاصہ کا مظہر ہے طائفہ (جماعت) سے مراد وہ لوگ ہیں جو بنو ابیرق کی حمایت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ان کی صفائی پیش کر رہے تھے جس سے یہ اندیشہ پیدا ہو چلا تھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شخص کو چوری کے الزام سے بری کردیں گے، جو فی الواقع چور تھا۔ ١١٣۔ ٢ یہ دوسرے فضل واحسان کا تذکرہ ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کتاب وحکمت (سنت) نازل فرما کر اور ضروری باتوں کا حکم دے کر فرمایا گیا جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ۭ مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ) 042:052 اور اسی طرح بھیجا ہم نے تیری طرف (قرآن لے کر) ایک فرشتہ اپنے حکم سے تو نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے؟" (وَمَا کُنْتَ تَرْجُوْٓا اَنْ یُّلْقٰٓی اِلَیْکَ الْکِتٰبُ اِلَّا رَحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ) 028:086"اور تجھے یہ توقع نہیں تھی کہ تجھ پر کتاب اتاری جائے گی، مکر تیرے رب کی رحمت سے (یہ کتاب اتاری گئی) ان تمام آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فضل واحسان فرمایا اور کتاب وحکمت بھی عطا فرمائی ان کے علاوہ دیگر بہت سی باتوں کا آپ کو علم دیا گیا جن سے آپ بے خبر تھے یہ بھی گویا آپ کے عالم الغیب ہونے کی نفی ہے کیونکہ جو خود عالم الغیب ہو اسے تو کسی اور سے علم حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اور جسے دوسرے سے معلومات حاصل ہوں وحی کے ذریعے سے یا کسی اور طریقے سے وہ عالم الغیب نہیں ہوتا۔ النسآء
114 ١١٤۔ ١ نَجْوَیٰ (سرگوشی) سے مراد وہ باتیں ہیں جو منافقین آپس میں مسلمانوں کے خلاف یا ایک دوسرے کے خلاف کرتے تھے۔ ١١٤۔ ٢ یعنی صدقہ خیرات معروف (جو ہر قسم کی نیکی میں شامل ہے) اور اصلاح بین الناس کے بارے میں مشورے، خیر پر مبنی ہیں جیسا کہ احادیث میں بھی ان امور کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے۔ ١١٤۔ ٣ کیونکہ اگر اخلاص (یعنی رضائے الٰہی کا مقصد) نہیں ہوگا تو بڑے سے بڑا عمل بھی نہ صرف ضائع ہوجائے گا بلکہ وبال جان بن جائے گا۔ ١١٤۔ ٤ احادیث میں اعمال مزکورہ کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اللہ کی راہ میں حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ بھی احد پہاڑ جتنا ہوجائے گا، نیک بات کی اشاعت بھی بڑی فضیلت ہے۔ اسی رشتہ داروں دوستوں اور باہم ناراض دیگر لوگوں کے درمیان صلح کرا دینا بہت بڑا عمل ہے۔ ایک حدیث میں اسے نفلی روزوں نمازوں اور نفلی صدقات و خیرات سے بھی افضل بتلایا گیا ہے۔ فرمایا (الا اخبرکم بأفضل من درجۃ الصیام والصلاۃ والصدقۃ؟ قالوابلیٰ (اصلاح ذات البین،۔ قال۔: وفسادذات البین ھی الحالقۃ) (ابوداود کتاب الأدب۔ ترمذی، کتاب البرومسند أحمد ٦/٤٤٥، ٤٤٤) حتیٰ کہ صلح کرانے والے کو جھوٹ تک بولنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ اسے ایک دوسرے کو قریب لانے کے لئے دروغ مصلحت آمیز کی ضرورت پڑے تو وہ اس میں بھی تامل نہ کرے (لیس الکذاب الذی یصلح بین الناس، فینمی خیرا اور یقول خیرا) (بخاری) وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے اچھی بات پھیلاتا اچھی بات کرتا ہے۔، النسآء
115 ١١٥۔ ١ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے کی پیروی، دین اسلام سے خروج ہے جس پر یہاں جہنم کی وعید بیان فرمائی ہے۔ مومنین سے مراد صحابہ کرام ہیں جو دین اسلام کے اولین پیرو اور اس کی تعلیمات کا کامل نمونہ تھے، اور ان آیات کے نزول کے وقت جن کے سوا کوئی گروہ مومنین موجود نہ تھا کہ وہ مراد ہو۔ اس لئے صحابہ کرام (رض) کی مخالفت اور غیر سبیل المومنین کا اتباع دونوں حقیقت میں ایک ہی چیز کا نام ہے۔ اس لئے صحابہ کرام (رض) کے راستے اور منہاج سے انحراف بھی کفر و ضلال ہی ہے۔ بعض علماء نے سبیل المومنین سے مراد اجماع امت لیا یعنی اجماع امت سے انحراف بھی کفر ہے۔ اجماع امت کا مطلب ہے کسی مسئلے میں امت کے تمام علماء وفقہا کا اتفاق۔ یا کسی مسئلے پر صحابہ کرام (رض) کا اتفاق یہ دونوں صورتیں اجماع امت کی ہیں اور دونوں کا انکار یا ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے۔ تاہم صحابہ کرام (رض) کا اتفاق تو بہت سے مسائل میں ملتا ہے یعنی اجماع کی یہ صورت تو ملتی ہے۔ لیکن اجماع صحابہ (رض) کے بعد کسی مسئلے میں پوری امت کے اجماع و اتفاق کے دعوے تو بہت سے مسائل میں کئے گئے ہیں لیکن فی الحقیقت ایسے اجماعی مسائل بہت ہی کم ہیں۔ جن میں فی الواقع امت کے تمام علما و فقہا کا اتفاق ہو۔ تاہم ایسے جو مسائل بھی ہیں، ان کا انکار بھی صحابہ (رض) کے اجماع کے انکار کی طرح کفر ہے اس لئے کہ صحیح حدیث میں ہے ' کہ اللہ تعالیٰ میری امت کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کرے گا اور جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے "۔ (صحیح ترمذی) النسآء
116 النسآء
117 ١١٧۔ ١ اِنّاثً (عورتیں) سے مراد یا تو وہ بت ہیں جن کے نام مؤنث تھے جیسے لات، عزیٰ، مناۃ، نائلہ وغیرہ۔ یا مراد فرشتے ہیں۔ کیونکہ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں سمجھتے اور ان کی عبادت کرتے تھے۔ ١١٧۔ ٢ بتوں، فرشتوں اور دیگر ہستیوں کی عبادت دراصل شیطان کی عبادت ہے۔ کیونکہ شیطان ہی انسان کو اللہ کے در سے چھڑا کر دوسروں کے آستانوں اور چوکھٹوں پر جھکاتا ہے جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔ النسآء
118 ١١٨۔ ١ مقرر شدہ حصہ سے مراد وہ نذر نیاز بھی ہو سکتی ہے جو مشرکین اپنے بتوں اور قبروں میں مدفون اشخاص کے نام نکالتے ہیں اور جہنمیوں کا وہ کوٹہ بھی ہوسکتا ہے جنہیں شیطان گمراہ کر کے اپنے ساتھ جہنم لے جائے گا۔ النسآء
119 ١١٩۔ ١ یہ وہ باطل امیدیں ہیں جو شیطان کے وسوسوں اور دخل اندازی سے پیدا ہوتی اور انسانوں کی گمراہی کا سبب بنتی ہیں۔ ١١٩۔ ٢ یہ بحیرہ اور سائبہ جانوروں کی علامتیں اور صورتیں ہیں۔ مشرکین ان کو بتوں کے نام وقف کرتے تو شناخت کے لئے ان کا کان وغیرہ چیر دیا کرتے تھے۔ ١١٩۔ ٣ تغیْرُ خَلق اللہ (اللہ کی تخلیق کو بدلنا) کی کئی صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک تو یہی جس کا ابھی ذکر ہوا یعنی کان وغیرہ کاٹنا چیرنا سوراخ کرنا، ان کے علاوہ اور کئی صورتیں ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ نے چاند، سورج، پتھر اور آگ وغیرہ اشیاء مختلف مقاصد کے لئے بنائی ہیں، لیکن مشرکین نے ان کے مقصد تخلیق کو بدل کر ان کو معبود بنا لیا۔ یا تغییر کا مطلب تغییر فطرت ہے یا حلت وحرمت میں تبدیلی ہے وغیرہ اسی تغییر میں مردوں کی نس بند کر کے اور اسی طرح عورتوں کے آپریشن کر کے انہیں اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم کردینا۔ میک آپ کے نام پر ابروؤں کے بال وغیرہ اکھاڑ کر اپنی صورتوں کو مسخ کرنا اور وشم (یعنی گودنا گدوانا (وغیرہ بھی شامل ہے یہ سب شیطانی کام ہیں جن سے بچنا ضروری ہے۔ البتہ جانوروں کو اس لئے خصی کرنا کہ ان سے زیادہ انتفاع ہو سکے یا ان کا گوشت زیادہ بہتر ہو سکے یا اسی قسم کا کوئی اور صحیح مقصد ہو تو جائز ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خصی جانور قربانی میں ذبح فرمائے ہیں۔ اگر جانور کو خصی کرنے کا جواز نہ ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی قربانی نہ کرتے۔ النسآء
120 النسآء
121 النسآء
122 ١٢٢۔ ١ شیطانی وعدے تو سراسر دھوکا اور فریب ہیں لیکن اس کے مقابلے میں اللہ کے وعدے جو اس نے اہل ایمان سے کئے ہیں سچے اور برحق ہیں اور اللہ سے زیادہ سچا کون ہوسکتا ہے۔ لیکن انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ یہ سچوں کی بات کو کم مانتا ہے اور جھوٹوں کے پیچھے زیادہ چلتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لیجئے کہ شیطانی چیزوں کا چلن عام ہے اور ربانی کاموں کو اختیار کرنے والے ہر دور میں اور ہر جگہ کم ہی رہے ہیں اور کم ہی ہیں۔ النسآء
123 النسآء
124 ١٢٤۔ ١ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ اہل کتاب اپنے متعلق بڑی خوش فہمیوں میں مبتلا تھے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے پھر ان کی خوش فہمیوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ آخرت کی کامیابی محض امیدوں پر اور آرزؤں سے نہیں ملے گی اس کے لئے تو ایمان اور عمل صالح کی پونجی ضروری ہے۔ اگر اس کے برعکس نامہ اعمال میں برائیاں ہوں گی تو اسے ہر صورت میں اس کی سزا بھگتنی ہوگی، وہاں کوئی ایسا دوست یا مددگار نہیں ہوگا جو برائی کی سزا سے بچا سکے۔ آیت میں اہل کتاب کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بھی خطاب فرمایا ہے تاکہ وہ بھی یہود و نصاریٰ کی سی غلط فہمیوں، خوش فہمیوں اور عمل سے خالی آرزؤں اور تمناؤں سے اپنا دامن بچاکر رکھیں۔ لیکن افسوس مسلمان اس تنبیہ کے باوجود انہی خام خیالیوں میں مبتلا ہوگئے جن میں سابقہ امتیں گرفتار ہوئیں۔ اور آج بے عملی اور بدعملی مسلمان کا بھی شعار بنی ہوئی ہے اور اس کے باوجود وہ امت مرحومہ کہلانے پر مصر ہے النسآء
125 ١٢٥۔ ١ یہاں کامیابی کا ایک معیار اور اس کا ایک نمونہ بیان کیا جا رہا ہے۔ معیار یہ ہے کہ اپنے کو اللہ کے سپرد کر دے محسن بن جائے اور ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کرے اور نمونہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنایا۔ خلیل کے معنی ہیں کہ جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اس طرح راسخ ہوجائے کہ کسی اور کے لئے اس میں جگہ نہ رہے۔ خلیل (بروزن فعیل) بمعنی فاعل ہے جیسے علیم بمعنی عالم اور بعض کہتے ہیں کہ بمعنی مفعول ہے۔ جیسے حبیب بمعنی محبوب اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یقینا اللہ کے محب بھی تھے اور محبوب بھی (علیہ السلام) (فتح القدیر) اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے، اللہ نے مجھے بھی خلیل بنایا ہے جس طرح اس نے ابراہیم (علیہ السلام) کو خلیل بنایا"۔ (صحیح مسلم کتاب المساجد) النسآء
126 النسآء
127 ١٢٧۔ ١ عورتوں کے بارے میں جو سوالات ہوتے رہتے ہیں، یہاں سے ان کے جوابات دیئے جا رہے ہیں۔ ١٢٧۔ ٢ وَمَا یُتلَیٰ عَلَیْکُمْ اس کا عطف اللہ یفتیکُمْ پر ہے یعنی اللہ تعالیٰ ان کی بابت وضاحت فرماتا ہے اور کتاب اللہ کی وہ آیات وضاحت کرتی ہیں جو اس سے قبل یتیم لڑکیوں کے بارے میں نازل ہوچکی ہیں۔ مراد سورۃ نساء کی آیت ٣ جس میں ان لوگوں کو اس بے انصافی سے روکا گیا کہ یتیم لڑکی سے ان کے حسن و جمال کی وجہ سے شادی تو کرلیتے تھے لیکن مہر دینے سے گریز کرتے تھے۔ ١٢٧۔ ٢ اس کے دو ترجمے کئے گئے ہیں، ایک تو یہی جو مرحوم مترجم نے کیا ہے اس میں فی کا لفظ محذوف ہے اس کا دوسرا ترجمہ عن کا لفظ محذوف مان کر کیا گیا ہے یعنی ترغبون عن ان تنکحوھن، "تمہیں ان سے نکاح کرنے کی رغبت نہ ہو"رغبت کا صلہ عن آئے تو معنی اعراض اور بے رغبتی کے ہوتے ہیں۔ جیسے (وَمَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ اِبْرٰھٖمَ) 002:130 میں ہے یہ گویا دوسری صورت بیان کی گئی ہے کہ یتیم لڑکی بعض دفعہ بدصورت ہوتی تو اس کے ولی یا اس کے ساتھ وراثت میں شریک دوسرے ورثاء خود بھی اس کے ساتھ نکاح کرنا پسند نہ کرتے اور کسی دوسری جگہ بھی اس کا نکاح نہ کرتے، تاکہ کوئی اور شخص اس کے حصہ جائیداد میں شریک نہ بنے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی صورت کی طرح ظلم کی اس دوسری صورت سے بھی منع فرمایا۔ ١٢٧۔ ٣ اس کا عطف۔ یتامی النساء۔ پر ہے۔ یعنی وما یتلی علیکم فی یتامی النساء وفی المستضعفین من الولدان۔ یتیم لڑکیوں کے بارے میں تم پر جو پڑھا جاتا ہے۔ (سورۃ النساء کی آیت نمبر ٣) اور کمزور بچوں کی بابت جو پڑھا جاتا ہے اس سے مراد قرآن کا حکم (یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ) 004:011 ہے جس میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کو بھی وراثت میں حصہ دار بنایا گیا ہے۔ جب کہ زمانہ جاہلیت میں صرف بڑے لڑکوں کو ہی وارث سمجھا جاتا تھا چھوٹے کمزور بچے اور عورتیں وراثت سے محروم ہوتی تھیں۔ شریعت نے سب کو وارث قرار دے دیا۔ ١٢٧۔ ٤ اس کا عطف بھی یَتَامَی النِّسآءِ پر ہے۔ یعنی کتاب اللہ کا حکم بھی تم پر پڑھا جاتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرو۔ یتیم بچی صاحب جمال ہو تب بھی اور بدصورت ہو تب بھی۔ دونوں صورتوں میں انصاف کرو (جیساکہ تفصیل گزری) النسآء
128 ١٢٨۔ ١ خاوند اگر کسی وجہ سے اپنی بیوی کو ناپسند کرے اور اس سے دور رہنا اور اعراض کرنا معمول بنا لے یا ایک سے زیادہ بیویاں ہونے کی صورت میں کسی کو کم ترخوب صورت بیوی سے اعراض کرے تو عورت اپنا کچھ حق چھوڑ کر (مہر سے یا نان و نفقہ سے یا باری سے) خاوند سے مصالحت کرلے تو اس مصالحت میں خاوند یا بیوی پر کوئی گناہ نہیں کیونکہ صلح بہرحال بہتر ہے۔ حضرت ام المومنیں سودۃ (رض) نے بھی بڑھاپے میں اپنی باری حضرت عائشہ (رض) کے لئے ہبہ کردی تھی جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبول فرما لیا۔ (صحیح بخاری) ١٢٨۔ ٢ شُحّ بخل اور طمع کو کہتے ہیں۔ یہاں مراد اپنا اپنا مفاد ہے جو ہر نفس کو عزیز ہوتا ہے یعنی ہر نفس اپنے مفاد میں بخل اور طمع سے کام لیتا ہے۔ النسآء
129 ١٢٩۔ ١ یہ ایک دوسری صورت ہے کہ ایک شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو دلی تعلق اور محبت میں وہ سب کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کرسکتا۔ کیونکہ محبت، فعل قلب ہے جس پر کسی کو اختیار نہیں خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اپنی بیویوں میں سے زیادہ محبت حضرت عائشہ سے تھی۔ خواہش کے باوجود انصاف نہ کرنے سے مطلب یہی قلبی میلان اور محبت میں عدم مساوات ہے اگر یہ قلبی محبت ظاہری حقوق کی مساوات میں مانع نہ بنے تو عند اللہ قابل مؤاخذہ نہیں۔ جس طرح کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا نہایت عمدہ نمونہ پیش فرمایا۔ لیکن اکثر لوگ اس قلبی محبت کی وجہ سے دوسری بیویوں کے حقوق کی ادائیگی میں بہت کوتاہی کرتے ہیں اور ظاہری طور پر بھی محبوب بیوی کی طرح دوسری بیویوں کے حقوق ادا نہیں کرتے اور انہیں معلقہ (درمیان میں لٹکی ہوئی) بناکر رکھ چھوڑتے ہیں، نہ انہیں طلاق دیتے ہیں نہ حقوق زوجیت ادا کرتے ہیں۔ یہ انتہائی ظلم ہے جس سے یہاں روکا گیا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا ہے"جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک کی طرف ہی مائل ہو (یعنی دوسری کو نظر انداز کئے رکھے) تو قیامت کے دن وہ اس طرح آئے گا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ (یعنی نصف) ساقط ہوگا۔ (ترمذی، کتاب النکاح) النسآء
130 ١٣٠۔ ١ یہ تیسری صورت ہے کہ کوشش کے باوجود اگر نباہ کی صورت نہ بنے پھر طلاق کے ذریعے علیحدگی اختیار کرلی جائے۔ ممکن ہے علیحدگی کے بعد مرد کو مطلوبہ صفات والی بیوی اور عورت کو مطلوبہ صفات والا مرد مل جائے۔ اسلام میں طلاق کو اگرچہ سخت ناپسند کیا گیا ہے، طلاق حلال تو ہے لیکن یہ ایسا حلال ہے جو اللہ کو سخت ناپسند ہے"اس کے باوجود اللہ نے اس کی اجازت دی ہے اس لئے کہ بعض دفعہ حالات ایسے موڑ پر پہنچ جاتے ہیں کہ اس کے بغیر چارہ نہیں ہوتا اور فریقین کی بہتری اسی میں ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرلیں۔ مزکورہ حدیث میں صحت اسناد کے اعتبار سے اگرچہ ضعف ہے تاہم قرآن وسنت کی نصوص سے یہ واضح ہے کہ یہ حق اسی وقت استعمال کرنا چاہیے جب نباہ کی کوئی صورت کسی طرح بھی نہ بن سکے۔ النسآء
131 النسآء
132 النسآء
133 ١٣٣۔ ١ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ و کاملہ کا اظہار ہے جب کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا ( وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ۙ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ) 047:038 اگر تم پھرو گے تو وہ تمہاری جگہ اوروں کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح کے نہیں ہونگے۔ النسآء
134 ١٣٤۔ ١ جیسے کوئی شخص جہاد صرف مال غنیمت کے حصول کے لئے کرے تو کتنی نادانی کی بات ہے۔ جب اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت دونوں کا ثواب عطا فرمانے پر قادر ہے تو پھر اس سے ایک ہی چیز کیوں طلب کی جائے۔؟ انسان دونوں ہی کا طالب کیوں نہ بنے۔ النسآء
135 ١٣٥۔ ١ اس میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو عدل و انصاف قائم کرنے اور حق کے مطابق گواہی دینے کی تاکید فرما رہا ہے چاہے اس کی وجہ سے انہیں یا ان کے والدین اور رشتہ داروں کو نقصان ہی اٹھانا پڑے۔ اس لئے کہ حق سب پر حاکم ہے اور سب پر مقدم ہے۔ ١٣٥۔ ٢ یعنی کسی مالدار کی وجہ سے رعایت نہ کی جائے نہ کسی فقیر کے فقر کا اندیشہ تمہیں سچی بات کہنے سے روکے بلکہ اللہ ان دونوں سے تمہارے زیادہ قریب اور مقدم ہے۔ ١٣٥۔ ٣ یعنی خواہش نفس، عصبیت یا بغض تمہیں انصاف کرنے سے نہ روک دے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا) 005:008 ' تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ ١٣٥۔ ٤ تلووا، لیی سے ماخوذ ہے جو تحریف اور جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کو کہا جاتا ہے۔ مطلب شہادت میں تحریف و تغیر ہے اور اعراض سے مراد شہادت کا چھپانا اور اس کا ترک کرنا ہے۔ ان دونوں باتوں سے بھی روکا گیا ہے۔ اس آیت میں عدل و انصاف کی تاکید اور اس کے لئے جن باتوں کی ضرورت ہے۔ ان کا اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مثلاً : ہر حال میں عدل کرو اس سے انحراف نہ کرو، کسی ملامت گر کی ملامت اور کوئی اور محرک اس میں رکاوٹ نہ بنے بلکہ اس کے قیام میں تم ایک دوسرے کے معاون اور دست بازو بنو۔ صرف اللہ کی رضا تمہارے پیش نظر ہو، کیونکہ اس صورت میں تم تحریف، تبدیل اور کتمان سے گریز کرو گے اور تمہارا فیصلہ عدل کی میزان میں پورا اترے گا۔ عدل و انصاف کی زد اگر تم پر یا تمہارے والدین پر یا دیگر قریبی رشتے داروں پر بھی پڑے، تب بھی تم پروا مت کرو اور اپنی اور ان کی رعایت کے مقابلے میں عدل کے تقاضوں کو اہمیت دو۔ کسی مال دار کو اس کی تونگری کی وجہ سے رعایت نہ کرو اور کسی تنگ دست کے فقر سے خوف مت کھاؤ کیونکہ وہی جانتا ہے کہ ان دونوں کی بہتری کس میں ہے؟ فیصلے میں خواہش نفس، عصبیت اور دشمنی آڑے نہیں آنی چاہئے۔ بلکہ ان کو نظر انداز کر کے بے لاگ عدل کرو۔ عدل کا یہ اہتمام جس معاشرے میں ہوگا، وہاں امن و سکون اور اللہ کی طرف سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوگا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم نے اس نکتے کو بھی خوب سمجھ لیا تھا، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ (رض) کی بابت آتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں خیبر کے یہودیوں کے پاس بھیجا کہ وہ وہاں کے پھلوں اور فصلوں کا تخمینہ لگا کر آئیں۔ یہودیوں نے انہیں رشوت کی پیشکش کی تاکہ وہ کچھ نرمی سے کام لیں۔ انہوں نے فرمایا"اللہ کی قسم میں اس کی طرف سے نمائندہ بن کر آیا ہوں جو دنیا میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اور تم میرے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہو۔ لیکن اپنے محبوب کی محبت اور تمہاری دشمنی مجھے اس بات پر آمادہ نہیں کرسکتی کہ میں تمہارے معاملے میں انصاف نہ کروں۔"یہ سن کر انہوں نے کہا"اسی عدل کیوجہ سے آسمان و زمین کا یہ نظام قائم ہے"(تفسیر ابن کثیر) النسآء
136 (١) ایمان والوں کو ایمان لانے کی تاکید، تحصیل حاصل والی بات نہیں بلکہ کمال ایمان اور اس پر استقرار و اثبات کا حکم ہے۔ جیسے (اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِیْمَ) 001:005 کا مفہوم ہے۔ النسآء
137 (٢) بعض مفسرین نے اس سے مراد یہود لیے ہیں۔ یہود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے لیکن حضرت عزیر (علیہ السلام) کا انکار کیا، پھر حضرت عزیر (علیہ السلام) پر ایمان لائے تو حضرت عیسیٰ کا انکار کیا۔ پھر کفر میں پڑھتے چلے گئے۔ حتی کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا بھی انکار کیا اور بعض نے اس سے مراد منافقین لئے ہیں، چونکہ مقصد ان کا مسلمانوں کو نقصان پہنچانا تھا، اس لئے وہ بار بار اپنی مسلمانی کا ڈھونگ رچاتے تھے بالآخر کفر وضلالت میں اتنے بڑھ گئے کہ ان کی ہدایت کی امید منقطع ہوگئی۔ النسآء
138 النسآء
139 ١٣٩۔ ١ جس طرح سورۃ بقرہ کے آغاز میں گزر چکا ہے کہ منافقین کافروں کے پاس جا کر یہی کہتے تھے کہ ہم تو حقیقت میں تمہارے ہی ساتھ ہیں، مسلمانوں سے تو ہم یونہی استہزاء کرتے ہیں۔ ١٣٩۔ ٢ یعنی عزت کافروں کے ساتھ موالات و محبت سے نہیں ملے گی، کیونکہ یہ تو اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ عزت اپنے ماننے والوں کو ہی عطا فرماتا ہے، دوسرے مقام پر پھر فرمایا، جو عزت کا طالب ہے تو اسے سمجھ لینا چاہئیے کہ عزت سب کی سب اللہ کے لئے ہے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہے اور مومنین کے لئے ہے، لیکن منافق نہیں جانتے۔"یعنی وہ نفاق کے ذریعے سے اور کافروں سے دوستی کے ذریعے سے عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ درآنحالیکہ یہ طریقہ ذلت وخواری کا ہے عزت کا نہیں۔ النسآء
140 ١٤٠۔ ١ یعنی منع کرنے کے باوجود اگر تم ایسی مجلسوں میں جہاں آیات الٰہی کا استہزاء کیا جاتا ہو بیٹھو گے اور اس پر نکیر نہیں کرو گے تو پھر تم بھی گناہ میں ان کے برابر ہوگئے۔ جیسے ایک حدیث میں آتا ہے ' جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ اس دعوت میں شریک نہ ہو جس میں شراب کا دور چلے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسی مجلسوں اور اجتماعات میں شریک ہونا، جن میں اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کا قولاً یا عملاً مذاق اڑایا جاتا ہو جیسے آجکل کے امراء، فیشن ایبل اور مغرب زدہ حلقوں میں بالعموم ایسا ہوتا ہے، سخت گناہ ہے (اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ ۭ) 004:140 کی وعید قرآنی اہل ایمان کے اندر کپکپی طاری کردینے کے لئے کافی ہے بشرطیکہ دل کے اندر ایمان ہو۔ النسآء
141 ١٤١۔ ١ یعنی ہم تم پر غالب آنے لگے تھے لیکن تمہیں اپنا ساتھی سمجھ کر چھوڑ دیا اور مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر ہم نے تمہیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے بچایا۔ مطلب یہ کہ تمہیں غلبہ ہماری اس دوغلی پولیسی کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے۔ جو ہم نے مسلمانوں کو ظاہری طور پر شامل ہو کر اپنائے رکھی۔ لیکن درپردہ ان کو نقصان پہنچانے میں ہم نے کوئی کوتاہی اور کمی نہیں کی تاآنکہ تم ان پر غالب آگئے۔ یہ منافقین کا قول ہے جو انہوں نے کافروں سے کہا۔ ١٤١۔ ١ یعنی دنیا میں تم نے دھوکے اور فریب سے وقتی طور پر کچھ کامیابی حاصل کرلی۔ لیکن قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ان باطنی جذبات وکیفیات کی روشنی میں ہوگا جنہیں تم سینوں میں چھپائے ہوئے تھے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ تو سینوں کے رازوں کو بھی خوب جانتا ہے اور پھر اس پر جو وہ سزا دے گا تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں منافقت اختیار کر کے نہایت خسارے کا سودا کیا تھا جس پر جہنم کا دائمی عذاب بھگتنا ہوگا۔ ١٤١۔ ٢ یعنی غلبہ نہ دے گا۔ اس کے مختلف مفہوم بیان کئے گئے ہیں (١) اہل اسلام کا غلبہ قیامت والے دن ہوگا (٢) حجت اور دلائل کے اعتبار سے کافر مسلمانوں پر غالب نہیں آسکتے (٣) کافروں کا ایسا غلبہ نہیں ہوگا کہ مسلمانوں کی دولت و شوکت کا بالکل ہی خاتمہ ہوجائے گا اور حرف غلط کی طرح دنیا کے نقشے سے ہی محو ہوجائیں گے۔ ایک حدیث صحیحہ سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے (٤) جب تک مسلمان اپنے دین کے عامل، باطل سے غیر راضی اور منکرات سے روکنے والے رہیں گے، کافر ان پر غالب نہ آسکیں گے۔ امام ابن العربی فرماتے ہیں ' یہ سب سے عمدہ معنی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (وَمَا اَصَابَکُمْ مُّصِیبَۃٍ فَبَمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ) 042:030 جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے تمہارے اپنے فعلوں کی وجہ سے (فتح القدیر) گویا مسلمانوں کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ النسآء
142 ١٤٢۔ ١ اس کی مختصر تشریح سورۃ بقرہ میں ہوچکی ہے۔ ١٤٢۔ ٢ نماز اسلام کا اہم ترین رکن ہے اور اشرف ترین فرض ہے اور اس میں بھی کاہلی اور سستی کا مظاہرہ کرتے تھے، کیونکہ ان کا قلب ایمان، خشیت الٰہی اور خلوص سے محروم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عشاء اور فجر کی نماز بطور خاص ان پر بہت بھاری تھی جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے، منافق پر عشاء اور فجر کی نماز سب سے بھاری ہے۔ ١٤٢۔ ٣ یہ نماز بھی وہ صرف ریاکاری اور دکھلاوے کے لئے پڑھتے تھے تاکہ مسلمانوں کو فریب دے سکیں۔ ١٤٢۔ ٤ اللہ کا ذکر تو برائے نام کرتے ہیں یا نماز مختصر سی پڑھتے ہیں، جب نماز اخلاص، خشیت الٰہی اور خشوع سے خالی ہو تو اطمینان سے نماز کی ادائیگی نہایت گراں ہوتی ہے۔ جیسا کہ (البقرہ۔ ٤٥) سے واضح ہے۔ حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے، یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان (طلوع کے قریب) ہوجاتا ہے تو اٹھتا ہے اور چار ٹھونگیں مار لیتا ہے (صحیح مسلم) النسآء
143 ١٤٣۔ ١ کافروں کے پاس جاتے ہیں تو ان کے ساتھ اور مومنوں کے پاس آتے ہیں تو ان کے ساتھ دوستی اور تعلق کا اظہار کرتے ہیں۔ ظاہر اور باطن وہ مسلمانوں کے ساتھ ہیں نہ کافروں کے ساتھ اور بعض منافق تو کفر و ایمان کے درمیان متحیر اور تذبذب کا ہی شکار رہتے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے ' ' منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے جو جفتی کے لئے دو ریوڑوں کے درمیان متردد رہتی ہے (بکرے کی تلاش میں) کبھی ایک ریوڑ کی طرف جاتی ہے کبھی دوسرے کی طرف (صحیح مسلم) النسآء
144 ١٤٤۔ ١ یعنی اللہ نے تمہیں کافروں کی دوستی سے منع فرمایا ہے۔ اب اگر تم دوستی کرو گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اللہ کو یہ دلیل مہیا کر رہے ہو کہ تمہیں بھی سزا دے سکے (یعنی معیصت الٰہی اور حکم عدولی کی وجہ سے۔ النسآء
145 ١٤٥۔ ١ جہنم کا سب سے نچلا طبقہ ھاوِیْۃَ کہلاتا ہے۔ اَ عَاذَنَا اللّٰہ مِنْھَا۔ منافقین کی مزکورہ عادات و صفات سے ہم سب مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ بچائے۔ النسآء
146 ١٤٦۔ ١ یعنی منافقین میں سے جو ان چار چیزوں کا خلوص دل سے اہتمام کرے گا، وہ جہنم میں جانے کی بجائے جنت میں اہل ایمان کے ساتھ ہوگا۔ النسآء
147 ١٤٧۔ ١ شکر گزاری کا مطلب ہے کہ اللہ کے حکم کے مطابق برائیوں سے اجتناب اور عمل صالح کا اہتمام کرنا۔ یہ گویا اللہ کی نعمتوں کا عملی شکر ہے اور ایمان سے مراد اللہ کی توحید و ربوبیت پر اور نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان ہے۔ ١٤٧۔ ٢ یعنی جو اس کا شکر کرے گا، وہ قدر کرے گا، جو دل سے ایمان لائے گا، وہ اس کو جان لے گا اور اس کے مطابق وہ بہترین جزا دے گا۔ النسآء
148 ١٤٨۔ ١ شریعت نے تاکید کی ہے کہ کسی کے اندر برائی دیکھو تو اس کا چرچا نہ کرو بلکہ تنہائی میں اس کو سمجھاؤ۔ اسی طرح کھلے عام اور علی الاعلان برائی کرنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے۔ ایک تو برائی کا ارتکاب ویسے ہی ممنوع ہے، چاہے پردے کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا اسے سرعام کیا جائے یہ مزید ایک جرم ہے البتہ اس سے الگ ہے کہ ظالم کے ظلم کو تم لوگوں کے سامنے بیان کرسکتے ہو۔ جس سے ایک فائدہ یہ متوقع ہے کہ شائد وہ ظلم سے باز آ جائے اور اس کی تلافی کی سعی کرے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے لوگ اس سے بچ کر رہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور کہا کہ مجھے میرا پڑوسی ایذا دیتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا تم اپنا سامان نکال کر باہر راستے میں رکھ دو، اس نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ جو بھی گزرتا اس سے پوچھتا، وہ پڑوسی کے ظالمانہ رویے کی وضاحت کرتا تو سن کر ہر راہ گیر اس پر لعنت ملامت کرتا۔ پڑوسی نے یہ صورتحال دیکھ کر معذرت کرلی اور آئندہ کے لیے ایذاء نہ پہنچانے کا فیصلہ کرلیا اور اس سے اپنا سامان اندر رکھنے کی التجا کی۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب) النسآء
149 ١٤٩۔ ١ کوئی شخص کسی کے ساتھ ظلم یا برائی کا ارتکاب کرے تو شریعت نے اس حد تک بدلہ لینے کی اجازت دی ہے۔ جس حد تک اس پر ظلم ہوا ہے۔ آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دو شخص جو کچھ کہیں اس کا گناہ پہل کرنے والے پر ہے (بشرطیکہ) مظلوم (جسے گالی دی گئی اس نے جواب میں گالی دی) زیادتی نہ کرے بدلہ لینے کے ساتھ ساتھ معافی اور درگزر کو زیادہ پسند فرمایا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود باوجود قدرت کاملہ کے عفو درگزر سے کام لینے والا ہے۔ اس لیے فرمایا " جَزَاۗءُ سَـیِّئَۃٍۢ بِمِثْلِہَا" 010:027 (برائی کا بدلہ اسی کی مثل برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور اصلاح کرلے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے) اور حدیث میں بھی ہے کہ معاف کردینے سے اللہ تعالی عزت میں اضافہ فرماتا ہے۔ صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب استحباب العفو والتواضع۔ النسآء
150 النسآء
151 ١٥١۔ ١ اہل کتاب کے متعلق پہلے گزر چکا ہے کہ وہ بعض نبیوں کو مانتے تھے اور بعض کو نہیں۔ جیسے یہود نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) و حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عیسایؤں نے حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انبیاء علیہم السلام کے درمیان تفریق کرنے والے یہ پکے کافر ہیں۔ النسآء
152 ١٥٢۔ ١ یہ ایمانداروں کا شیوا بتایا گیا ہے کہ سب انبیاء علیہم السلام پر ایمان رکھتے ہیں۔ جس طرح مسلمان ہیں وہ کسی بھی نبی کا انکار نہیں کرتے۔ اس آیت سے بھی ایک مذہب کی نفی ہوتی ہے جس کے نزدیک رسالت محمدیہ پر ایمان لانا ضروری نہیں۔ اور وہ ان غیر مسلموں کو بھی نجات یافتہ سمجھتے ہیں جو اپنے تصورات کے مطابق ایمان باللہ رکھتے ہیں۔ لیکن قرآن کی اس آیت نے واضح کردیا کہ ایمان باللہ کے ساتھ رسالت محمدیہ پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ اگر اس آخری رسالت کا انکار ہوگا تو اس انکار کے ساتھ ایمان باللہ غیر معتبر اور نامقبول ہے (مزید دیکھئے سورۃ بقرہ کی (آیت نمبر ١٢ کا حاشیہ) النسآء
153 ١٥٣۔ ١ یعنی جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر گئے اور تختیوں پر لکھی ہوئی تورات لے کر آئے، اسی طرح آپ بھی آسمان پر جا کر لکھا ہوا قرآن مجید لے کر آئیں۔ یہ مطالبہ محض عناد، حجود اور تعنت کی بنا پر تھا۔ النسآء
154 النسآء
155 ١۔ ١٥٥ تقدیری عبارت یوں ہوگی فبنقضھم میثاقھم لعناھم۔ یعنی ہم نے ان کے نقض میثاق، کفربآیات اللہ اور قتل انبیاء وغیرہ کی وجہ سے ان پر لعنت کی یا سزا دی۔ النسآء
156 ١٥٦۔ ١ اس سے مراد یوسف نجار کے ساتھ حضرت مریم (علیہ السلام) پر بدکاری کی تہمت ہے۔ آج بھی بعض نام نہاد محققین اس بہتان عظیم کو ایک ' حقیقت ثابتہ ' باور کرانے پر تلے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ یوسف نجار (نعوذ باللہ) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا باپ تھا یوں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بن باپ کے معجزانہ ولادت کا بھی انکار کرتے ہیں۔ النسآء
157 ١٥٧۔ ١ اس سے واضح ہوگیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہودی قتل کرنے میں کامیاب ہو سکے نہ سولی چڑھانے میں۔ جیسا کہ ان کا منصوبہ تھا۔ جیسا کہ) سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ٥٥ کے حاشیہ) مختصر تفصیل گزر چکی ہے۔ ١٥٧۔ ٢ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہودیوں کی سازش کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنے حواریوں کو جن کی تعداد ١٢ یا ١٧ تھی جمع کیا اور فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص میری جگہ قتل ہونے کے لئے تیار ہے؟ تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی شکل و صورت میری جیسی بنا دی جائے ۔ ایک نوجوان اس کے لئے تیار ہوگیا۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو وہاں سے آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ بعد میں یہودی آئے اور انہوں نے اس نوجوان کو لے جا کر سولی چڑھا دیا۔ جسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہم شکل بنا دیا گیا تھا۔ یہودی یہی سمجھتے رہے کہ ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی دی ہے درآنحالیکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اس وقت وہاں موجود ہی نہ تھے وہ زندہ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر اٹھائے جاچکے تھے (ابن کثیر و فتح القدیر) ١٥٧۔ ٣ عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہم شکل شخص کو قتل کرنے کے بعد ایک گروہ تو یہی کہتا رہا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کردیا گیا جب کہ دوسرا گروہ جسے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ مصلوب شخص عیسیٰ (علیہ السلام) نہیں کوئی اور ہے، بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر جاتے ہوئے بھی دیکھا تھا بعض کہتے ہیں کہ اس اختلاف سے مراد وہ اختلاف ہے جو خود عیسائیوں کے ایک فرقے نے کہا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) جسم کے لحاظ تو سولی دے دیے گئے لیکن لاہوت (خداوندی) کے اعتبار سے نہیں۔ ملکانیہ فرقے نے کہا یہ قتل و صلب ناسوت اور لاہوت دونوں اعتبار سے مکمل طور پر ہوا ہے (فتح القدیر) بہرحال وہ اختلاف اور تردد اور شک کا شکار رہے۔ النسآء
158 ١٥٨۔ ١ یہ نص صریح ہے اس بات پر کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور متواتر صحیح احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے۔ یہ حدیث کی تمام کتابوں کے علاوہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں بھی وارد ہیں۔ ان احادیث میں آسمان پر اٹھائے جانے کے علاوہ قیامت کے قریب ان کے نزول کا اور دیگر بہت سی باتوں کا تذکرہ ہے۔ امام ابن کثیر یہ تمام روایات کا ذکر کر کے آخر میں تحریر فرماتے ہیں پس یہ احادیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متواتر ہیں۔ ان کے راویوں میں حضرت ابوہریرہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود، عثمان بن ابی العاص، ابو امامہ، نواس بن سمعان، عبد اللہ بن عمرو بن العاص، مجمع بن جاریہ، ابی سریحہ اور حذیفہ بن اسیر (رض) ہیں۔ ان احادیث میں آپ کے نزول کی صفت اور جگہ کا بیان ہے، آپ (علیہ السلام) دمشق میں منارہ شرقیہ کے پاس اس وقت اتریں گے جب فجر کی نماز کے لیے اقامت ہو رہی ہوگی۔ آپ خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب توڑ دیں گے، جزیہ معاف کردیں گے، ان کے دور میں سب مسلمان ہوجائیں، دجال کا قتل بھی آپ کے ہاتھوں سے ہوگا اور یاجوج و ماجوج کا ظہور و فساد بھی آپ کی موجودگی میں ہوگا، بالآخر آپ ہی کی بددعا سے ان کی ہلاکت واقع ہوگی۔ ٢۔ ١٥٨ وہ زبردست اور غالب ہے، اس کے ارادہ اور مشیت کو کوئی ٹال نہیں سکتا اور جو اس کی پناہ میں آ جائے، اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور وہ حکیم بھی ہے، وہ جو فیصلہ کرتا ہے، حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ النسآء
159 ١٥٩۔ ١ قبل موتہ میں ہ ضمیر کا مرجع بعض مفسرین کے نزدیک اہل کتاب (نصاریٰ) ہیں اور مطلب یہ کہ ہر عیسائی موت کے وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آتا ہے۔ گو موت کے وقت ایمان نافع نہیں۔ لیکن سالف اور اکثر مفسرین کے نزدیک اس کا مرجع حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور مطلب یہ ہے کہ جب ان کا دوبارہ دنیا میں نزول ہوگا اور وہ دجال کو قتل کر کے اسلام کا بول بالا کریں گے تو اس وقت جتنے یہودی اور عیسائی ہونگے ان کو بھی قتل کر ڈالیں گے اور روئے زمین پر مسلمان کے سوا کوئی اور باقی نہ بچے گا اس طرح دنیا میں جتنے بھی اہل کتاب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے ہیں وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موت سے پہلے پہلے ان پر ایمان لا کر اس دنیا سے گزر چکے ہونگے۔ خواہ ان کا ایمان کسی بھی دھنگ کا ہو۔ صحیح احادیث سے بھی یہی ثابت ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ اسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ضرور ایک وقت آئے گا کہ تم میں ابن مریم حاکم و عادل بن کر نازل ہوں گے، وہ صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کردیں گے، جزیہ اٹھا دیں گے اور مال کی اتنی بہتات ہوجائے گی کہ کوئی اسے قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔ یعنی صدقہ خیرات لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔ حتی کہ ایک سجدہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا۔ پھر حضرت ابو ہریرۃ (رض) فرماتے اگر تم چاہو تو قرآن کی یہ آیت پڑھ لو"وان من اھل الکتب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ"(صحیح بخاری۔ کتاب الانبیاء) یہ احادیث اتنی کثرت سے آئی ہیں کہ انہیں تواتر کا درجہ حاصل ہے اور انہی متواتر صحیح روایات کی بنیاد پر اہلسنت کے تمام مکاتب کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان پر زندہ ہیں اور قیامت کے قریب دنیا میں ان کا نزول ہوگا اور دجال کا اور تمام ادیان کا خاتمہ فرما کر اسلام کو غالب فرمائیں گے۔ یاجوج ماجوج کا خروج بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی کی موجودگی میں ہوگا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کی برکت سے ہی اس فتنے کا بھی خاتمہ ہوگا جیسا کہ احادیث سے واضح ہے۔ ١٥٩۔ ٢ یہ گواہی اپنی پہلی زندگی کے حالات سے متعلق ہوگی جیسا کہ سورۃ مائدہ کے آخر میں وضاحت ہے ( وَکُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْہِمْ) 5۔ المائدہ :117) ' میں جب تک ان میں موجود رہا، ان کے حالات سے باخبر رہا ـ ' النسآء
160 ١٦٠۔ ١ یعنی ان کے ان جرائم و معاصی کی وجہ سے بطور سزا بہت سی حلال چیزیں ہم نے ان پر حرام کردی تھیں (جن کی تفصیل سورۃ الآنعام۔ ١٤٦ میں ہے) النسآء
161 النسآء
162 ١٦٢۔ ١ ان سے مراد عبد اللہ بن سلام وغیرہ ہیں جو یہودیوں میں سے مسلمان ہوگئے۔ ١٦٢۔ ٢ ان سے مراد بھی وہ اہل ایمان ہیں جو اہل کتاب میں سے مسلمان ہوئے یا پھر مہاجرین و انصار مراد ہیں۔ یعنی شریعت کا پختہ علم رکھنے والے اور کمال ایمان سے متصف لوگ ان معاصی کے ارتکاب سے بچتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ناپسند فرماتا ہے۔ ١٦٢۔ ٣ اس سے مراد زکوٰۃ اموال ہے یا زکوٰہ نفوس یعنی اپنے اخلاق و کردار کی تطہر اور ان کا تزکیہ کرنا یا دونوں ہی مراد ہیں۔ ١٦٢۔ ٤ یعنی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ نیز بعث بعد الموت اور عملوں پر جزا اور سزا پر یقین رکھتے ہیں۔ النسآء
163 ١٦٣۔ ١ حضرت ابن عباس (رض) ما سے مروی ہے کہ بعض لوگوں نے کہا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بغیر کسی انسان پر اللہ تعالیٰ نے کچھ نازل نہیں کیا اور یوں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وحی و رسالت سے بھی انکار کیا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) جس میں مذکورہ قول رد کرتے ہوئے رسالت محمدیہ کا اثبات کیا گیا۔ النسآء
164 ١٦٤۔ ١ جن نبیوں اور رسولوں کے اسمائے گرامی اور ان کے واقعات قرآن کریم میں بیان کیے گئے ہیں ان کی تعداد ٢٤ یا ٢٥ ہے (١) آدم (٢) ادریس (٣) نوح (٤) ہود (٥) صالح (٦) ابراہیم (٧) لوط (٨) اسماعیل (٩) اسحاق (١٠) یعقوب (١١) یوسف (١٢) ایوب (١٣) شعیب (١٤) موسیٰ (١٥) ہارون (١٦) یونس (١٧) داؤد (١٨) سلیمان (١٩) الیاس (٢٠) الیسع (٢١) زکریا (٢٢) یحییٰ (٢٣) عیسیٰ (٢٤) ذوالکفل۔ (اکثر مفسرین کے نزدیک (٢٥) حضرت محمد صلوٰت اللہ و سلامہ وعلیہم اجمعین۔ ١٦٤۔ ٢ جن انبیاء رسل کے نام اور واقعات قرآن میں بیان نہیں کئے گئے، ان کی تعداد کتنی ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ایک حدیث میں جو بہت مشہور ہے ایک لاکھ ٢٤ ہزار اور ایک حدیث میں ٨ ہزار تعداد بتلائی گئی ہے۔ قرآن و حدیث سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ادوار وحالات میں مبشرین ومنذرین انبیاء آتے رہے ہیں۔ بالآخر یہ سلسلہ نبوت حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم فرما دیا گیا آپ سے پہلے کتنے نبی آئے؟ ان کی صحیح تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا تاہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد جتنے بھی دعویداران نبوت ہو کر گزرے یا ہوں گے، سب کے سب دجال اور کذاب ہیں اور ان کی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے والے دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور امت محمدیہ سے الگ ایک متوازی امت ہیں۔ جیسے امت بابیہ، بہائیہ اور امت مرزائیہ وغیرہ اسی طرح مرزا قادیانی کو مسیح موعود ماننے والے لاہوری مرزائی بھی۔ ١٦٤۔ ٣ یہ موسیٰ (علیہ السلام) کی خاص صفت ہے جس میں وہ دوسرے انبیاء سے ممتاز ہیں۔ صحیح ابن حبان کی ایک روایت کی روح سے امام ابن کثیر نے اس صفت ہم کلامی میں حضرت آدم (علیہ السلام) و حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی شریک مانا ہے (تفسیر ابن کثیر زیر آیت (تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ) 003:253۔ النسآء
165 ١٦٥۔ ١ ایمان والوں کو جنت اور اس کی نعمتوں کی خوشخبری دینا اور کافروں کو اللہ کے عذاب اور بھڑکتی ہوئی جہنم سے ڈرانا۔ ١٦٥۔ ٢ یعنی نبوت کا یہ سلسلہ ہم نے اس لئے قائم فرمایا کہ کسی کے پاس یہ عذر باقی نہ رہے کہ ہمیں تو تیرا پیغام پہنچا ہی نہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔ اگر ہم ان کو پیغمبر (کے بھیجنے سے) پہلے ہی ہلاک کردیتے تو وہ کہتے اے ہمارے پروردگار تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہیں بھیجا کہ ہم ذلیل و رسوا ہونے سے پیشتر تیری آیات کی پیروی کر لیتے النسآء
166 النسآء
167 النسآء
168 ١٦٨۔ ١ کیونکہ مسلسل کفر اور ظلم کا ارتکاب کر کے، انہوں نے اپنے دلوں کو سیاہ کرلیا جس سے اب ان کی ہدایت و مغفرت کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ النسآء
169 النسآء
170 ١٧٠۔ ١ یعنی تمہارے کفر سے اللہ کا کیا بگڑے گا جیسے حضرت موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا ( اِنْ تَکْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ) 0014:008 (ابراہیم۔ ٨) اگر تم اور روئے زمین پر بسنے والے سب کے سب کفر کا راستہ اختیار کرلیں تو وہ اللہ کا کیا بگاڑیں گے؟ یقیناً اللہ تعالیٰ تو بے پروا تعریف کیا گیا ہے، اور حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ' اے میرے بندو! اگر تمہارے اوّل وآخر تمام انسان اور جن اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں جو تم میں سب میں متقی ہے تو اس سے میری بادشاہی میں اضافہ نہیں ہوگا اور اگر تمہارے اول و اخر انس و جن اس کے ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں جو تم میں سب میں بڑا نافرمان ہے تو اس سے میری اس سے میری بادشاہی میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اے میرے بندو! اگر تم سب ایک میدان میں جمع ہوجاؤ اور مجھ سے سوال کرو اور میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کروں تو اس سے میرے خزانے میں اتنی ہی کمی ہوگی جتنی سوئی کے سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے (صحیح مسلم کتاب البر، باب تحریم، الظلم) النسآء
171 ١٧١۔ ٢ غلو کا مطلب ہے کسی چیز کو اس کی حد سے بڑھا دینا۔ جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا کہ انہیں رسالت وبندگی کے مقام سے اٹھا کر الوہیت کے مقام پر فائز کردیا اور ان کی اللہ کی طرح عبادت کرنے لگے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکاروں کو بھی غلو کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم بنا ڈالا اور ان کو حرام وحلال کے اختیار وسے نواز دیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے "اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ" 009:031 (انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا) یہ رب بنانا حدیث کے مطابق ان کے حلال کیے کو حلال اور حرام کیے کو حرام سمجھنا تھا۔ درآنحالیکہ یہ اختیار صرف اللہ کو حاصل ہے لیکن اہل کتاب نے یہ حق بھی اپنے علماء وغیرہ کو دے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہل کتاب کو دین میں اسی غلو سے منع فرمایا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی عیسائیوں کے اس غلو کے پیش نظر اپنے بارے میں اپنی امت کو متنبہ فرمایا۔ (لاتطرونی کما اطرت النصاری عیسیٰ ابن مریم! فانما انا عبدہ، فقولوا : عبد اللہ و رسولہ"(صحیح بخاری۔ کتاب الانبیاء مسند احمد جلد ١ صفحہ ٢٣ نیز دیکھئے مسند احمد جلد ١ صفحہ ١٥٣) تم مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھانا جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) کو بڑھایا، میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، پس تم مجھے اس کا بندہ اور رسول ہی کہنا۔ لیکن افسوس امت محمدیہ اس کے باوجود بھی اس غلو سے محفوظ نہ رہ سکی جس میں عیسائی مبتلا ہوئے اور امت محمدیہ نے بھی اپنے پیغمبر کو بلکہ نیک بندوں تک کو خدائی صفات سے متصف ٹھرا دیا جو دراصل عیسائیوں کا وطیرہ تھا۔ اسی طرح علماء وفقہا کو بھی دین کا شارح اور مفسر ماننے کے بجائے ان کو شارع (شریعت سازی کا اختیار رکھنے والے) بنا دیا ہے۔ سچ فرمایا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے "جس طرح ایک جوتا دوسرے جوتے کے برابر ہوتا ہے، بالکل اسی طرح تم پچھلی امتوں کی پیروی کرو گے" یعنی ان کے قدم بہ قدم چلو گے۔ ١٧١۔ ١ کلمۃ اللہ کا مطلب ہے کہ لفظ کن سے باپ کے بغیر ان کی تخلیق ہوئی اور یہ لفظ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعے سے حضرت مریم (علیہ السلام) تک پہنچایا گیا۔ روح اللہ کا مطلب وہ (پھونک) ہے جو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے حضرت مریم علیہا السلام کے گریبان میں پھونکا، جسے اللہ تعالیٰ نے باپ کے نطفہ کے قائم مقام کردیا۔ یوں عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کا کلمہ بھی ہیں جو فرشتے نے حضرت مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا اور اس کی وہ روح ہیں جسے لے کر جبرائیل (علیہ السلام) مریم علیہا السلام کی طرف بھیجے گئے۔ (تفسیر ابن کثیر) ١٧١۔ ٢ عیسائیوں کے کئی فرقے ہیں۔ بعض حضرت عیسیٰ کو اللہ اور بعض اللہ کا شریک اور بعض اللہ کا بیٹا مانتے ہیں۔ پھر جو اللہ مانتے ہیں وہ (تین خداؤں) کے اور حضرت عیسیٰ کے ثالث ثلاثہ (تین سے ایک) ہونے کے قائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ تین خدا کہنے سے باز آ جاؤ اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے۔ النسآء
172 ١٧٢۔ ١ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح بعض لوگوں نے فرشتوں کو بھی خدائی میں شریک ٹھہرا رکھا تھا، اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ یہ تو سب کے سب اللہ کے بندے ہیں اور اس سے انہیں قطعاً کوئی انکار نہیں ہے۔ تم انہیں اللہ یا اس کی خدائی میں شریک کس بنیاد پر بناتے ہو۔ النسآء
173 ١٧٣۔ ١ بعض نے اس (زیادہ) سے مراد یہ لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو شفاعت کا حق عطا فرمائے گا، یہ اذن شفاعت پا کر جن کی بابت اللہ چاہے گا شفاعت کریں گے۔ ١٧٣۔ ٢ یعنی اللہ کی عبادت و اطاعت سے رکے رہے اور اس سے انکار و تکبر کرتے رہے۔ ١٧٣۔ ٣ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ' بیشک جو لوگ میری عبادت سے استکبار (انکار و تکبر) کرتے ہیں، یقیناً ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہونگے۔ النسآء
174 ١٧٤۔ ١ برہان ایسی دلیل قاطع جس کے بعد کسی کو عذر کی گنجائش نہ رہے اور ایسی حجت جس سے ان کے شبہات زائل ہوجائیں، اسی لئے آگے اسے نور سے تعبیر فرمایا۔ ١٧٤۔ ٢ اس سے مراد قرآن کریم ہے جو کفر اور شرک کی تاریکیوں میں ہدایت کا نور ہے۔ ضلالت کی پگڈنڈیوں میں صراط مستقیم اور حبل اللہ المتین ہے۔ پس اس کے مطابق ایمان لانے والے اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے مستحق ہیں۔ النسآء
175 النسآء
176 ١٧٦۔ ١ کلالہ کے بارے میں پہلے گزر چکا ہے کہ اس مرنے والے کو کہا جاتا ہے۔ جس کا باپ ہو نہ بیٹا یہاں پھر اس کی میراث کا ذکر ہو رہا ہے۔ بعض لوگوں نے کلالہ اس شخص کو قرار دی ہے جس کا صرف بیٹا نہ ہو۔ یعنی باپ موجود ہو۔ لیکن یہ صحیح نہیں۔ کلالہ کی پہلی تعریف ہی صحیح ہے کیونکہ باپ کی موجودگی میں بہن سرے سے وارث ہی نہیں ہوتی۔ باپ اس کے حق میں حاجب بن جاتا ہے۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اگر اس کی بہن ہو تو وہ اس کے نصف مال کی وارث ہوگی۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کلالہ وہ ہے کہ بیٹے کے ساتھ جس کا باپ بھی نہ ہو۔ یعنی بیٹے کی نفی تو نص سے ثابت ہے اور باپ کی نفی اشارۃ النص سے ثابت ہوجاتی ہے۔ ١٧٦۔ ٢ اسی طرح باپ بھی نہ ہو۔ اس لئے باپ بھائی کے قریب ہے، باپ کی موجودگی میں بھائی وارث ہی نہیں ہوتا اگر اس کا کلالہ عورت کا خاوند یا کوئی ماں جایا بھائی ہوگا تو ان کا حصہ نکالنے کے بعد باقی مال کا وارث بھائی قرار پائے گا۔ (ابن کثیر) ١٧٦۔ ٣ یہی حکم دو سے زائد بہنوں کی صورت میں بھی ہوگا۔ گویا مطلب یہ ہوا کہ کلالہ شخص کی دو یا دوسے زائد بہنیں ہوں تو انہیں کل مال کا دو تہائی حصۃ ملے گا ١٧٦۔ ٤ یعنی کلالہ کے وارث مخلوط (مرد اور عورت دونوں) ہوں تو پھر ' ایک مرد دو عورت کے برابر کے اصول پر ورثے کی تقسیم ہوگی۔ النسآء
0 المآئدہ
1 ١۔ ١ عقود عقد کی جمع ہے جس کے معنی گرہ لگانے کے ہیں اس کا استعمال کسی چیز میں گرہ لگانے کے لیے بھی ہوتا ہے اور پختہ عہدوپیمان کرنے پر بھی۔ یہاں اس سے مراد احکام الٰہی جن کا اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو عاقل و بالغ ٹھہرایا ہے اور عہد و پیماں کرنے پر معاملات بھی ہیں جو انسان آپس میں کرتے ہیں۔ دونوں کا ایفا ضروری ہے۔ ١۔ ٢ بھیمہ چوپائے (چار ٹانگوں والے) جانور کو کہا جاتا ہے۔ اس کا مادہ بہم، ابہام ہے بعض کا کہنا ہے کہ ان کی گفتگو اور عقل وفہم میں چونکہ ابہام ہے اس لیے ان کو بہیمہ کہا کہا جاتا ہے انعام اونٹ، گائے بکری بھیڑ کو کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی چال میں نرمی ہوتی ہے یہ بھیمتہ الانعام نر اور مادہ مل کر آٹھ قسمیں ہیں جن کی تفصیل (سورہ الانعام آیت نمبر ١٤٣ میں آئے گی علاوہ ازیں جو جانور وحشی کہلاتے ہیں مثلًا ہرن نیل گائے وغیرہ جن کا عمومًا شکار کیا جاتا ہے یہ بھی حلال ہیں۔ حالت احرام میں ان کا دیگر پرندوں کا شکار ممنوع ہے۔ سنت میں بیان کردہ اصول کی رو سے جو جانور ذوناب اور جو پرندے ذومخلب نہیں ہیں وہ سب حلال ہیں جیسا کہ بقرہ آیت نمبر ١٧٣ کے حاشیے میں تفصیل گزر چکی ہے۔ ذوناب کا مطلب ہے وہ جانور جو اپنی کچلی کے دانت سے اپنا شکار پکڑتا ہے اور چیرتا ہو مثلا شیر چیتا کتا بھیڑیا وغیرہ اور وہ پرندے جو اپنے پنجے سے اپنا شکار جھپٹتا پکڑتا ہو مثلًا شکرہ، باز، شاہیں، عقاب وغیرہ حرام ہیں۔ ١۔ ٣ ان کی تفصیل آیت نمبر ٣ میں آرہی ہے۔ المآئدہ
2 ٢۔ ١ شعائر شعیرۃ کی جمع ہے اس سے مراد حرمات اللہ ہیں (جن کی تعظیم و حرمت اللہ نے مقرر فرمائی ہے) بعض نے اسے عام رکھا ہے اور بعض کے نزدیک یہاں حج و عمرے کے مناسک مراد ہیں یعنی ان کی بے حرمتی اور بے توقیری نہ کرو۔ اسی طرح حج عمرے کی ادائیگی میں کسی کے درمیان رکاوٹ مت بنو، کہ یہ بے حرمتی ہے۔ ٢۔ ٢ (اشھر الحرام) مراد حرمت والے چاروں مہینے (رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم) کی حرمت برقرار رکھو اور ان میں قتال مت کرو بعض نے اس سے صرف ایک مہینہ مراد یعنی ماہ ذوالحجہ (حج کا مہینہ) مراد لیا ہے۔ بعض نے اس حکم کو فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم سے منسوخ مانا ہے مگر اس کی ضرورت نہیں دونوں احکام اپنے اپنے دائرے میں ہیں جن میں تعارض نہیں۔ ٢۔ ٣ ھَدی' ایسے جانور کو کہا جاتا ہے جو حاجی حرم میں قربان کرنے کے لئے ساتھ لے جاتے تھے اور گلے میں پٹہ باندھتے تھے جو کے نشانی کے طور پر ہوتا تھا، مزید تاکید ہے کہ ان جانوروں کسی سے چھینا جائے نہ ان کے حرم تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کی جائے۔ ٢۔ ٤ یعی حج عمرے کی نیت سے یا تجارت و کاروبار کی غرض سے حرم جانے والوں کو مت روکو اور نہ انہیں تنگ کرو، بعض مفسرین کے نزدیک یہ احکام اس وقت کے ہیں جب مسلمان اور مشرک اکھٹے حج عمرہ کرتے تھے۔ لیکن جب یہ آیت انما المشرکون نجس الخ نازل ہوئی تو مشرکین کی حد تک یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ بعض کے نزدیک یہ آیت محکم یعنی غیر منسوخ ہے اور یہ حکم مسلمانوں کے بارے میں ہے۔ ٢۔ ٥ یہاں مراد اباحت یعنی جواز بتلانے کے لئے ہے۔ یعنی جب تم احرام کھول دو تو شکار کرنا تمہارے لئے جائز ہے۔ ٢۔ ٦ یعنی گو تمہیں ان مشرکین نے ٦ ہجری میں مسجد حرام میں جانے سے روک دیا تھا لیکن تم ان کے روکنے کی وجہ سے ان کے ساتھ زیادتی والا رویہ اختیار مت کرنا۔ دشمن کے ساتھ بھی حلم اور عفو کا سبق دیا جا رہا ہے۔ ٢۔ ٧ یہ ایک نہایت اہم اصول بیان کردیا گیا ہے جو ایک مسلمان کے لئے قدم قدم پر رہنمائی مہیا کرسکتا ہے، کاش مسلمان اس اصول کو اپنا لیں۔ المآئدہ
3 ٣۔ ١ یہاں سے ان محرمات کا ذکر شروع ہو رہا ہے جن کا حوالہ سورت کے آغاز میں دیا گیا ہے۔ آیت کا اتنا حصہ سورۃ بقرہ میں گزر چکا ہے۔ دیکھیے آیت نمبر ١٧٣۔ ٣۔ ٢ گلا کوئی شخص گھونٹ دے یا کسی چیز میں پھنس کر خود گلا گھٹ جائے۔ دونوں صورتوں میں مردہ جانور حرام ہے۔ ٣۔ ٣ کسی نے پتھر، لاٹھی یا کوئی اور چیز ماری جس سے وہ بغیر ذبح کیے مر گیا۔ زمانہ جاہلیت میں ایسے جانوروں کو کھالیا جاتا تھا۔ شریعت نے منع کردیا۔ بندوق کا شکار کیے ہوئے جانور کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام شوکانی نے ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بندوق کے شکار کو حلال قرار دیا ہے۔ (فتح القدیر) یعنی اگر کوئی بسم اللہ پڑھ کر گولی چلائے اور شکار ذبح سے پہلے ہی مر گیا تو اس کا کھانا اس قول کے مطابق حلال ہے۔ ٣۔ ٤ چاہے خود گرا ہو یا کسی نے پہاڑ وغیرہ سے دھکا دے کر گرایا ہو۔ ٣۔ ٥ نظیحۃ منطوحۃ کے معنی میں ہے۔ یعنی کسی نے اسے ٹکر مار دی اور بغیر ذبح کیے وہ مر گیا۔ ٣۔ ٦ یعنی شیر چیتا اور بھیڑیا وغیرہ جیسے ذوناب کچلیوں سے شکار کرنے والے درندوں میں سے کسی نے اسے کھایا ہو اور وہ مر گیا ہو۔ زمانہ جاہلیت میں مر جانے کے باوجود ایسے جانور کو کھالیا جاتا تھا۔ ٣۔ ٧ جمہور مفسرین کے نزدیک یہ استثنا تمام مذکورہ جانوروں کے لیے ہے یعنی منخنقۃ، موقوذۃ، متردیۃ، نطیحۃ اور درندوں کا کھایا ہوا، اگر تم انہیں اس حال میں پالو کہ ان میں زندگی کے آثار موجود ہوں اور پھر تم انہییں شرعی طریقے سے ذبح کرلو تو تمہارے لیے ان کا کھانا حلال ہوگا۔ زندگی کی علامت یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت جانور پھڑکے اور ٹانگیں مارے۔ اگر چھری پھیرتے وقت یہ اضطراب وحرکت نہ ہو تو سمجھ لو یہ مردہ ہے۔ ذبح کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر تیز دھار آلے سے اس کا گلا اس طرح کاٹا جائے کہ رگیں کٹ جائیں۔ ذبح کے علاوہ نحر بھی مشروع ہے۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ کھڑے جانور کے لبے پر چھری ماری جائے (اونٹ کو نحر کیا جاتا ہے) جس سے نرخرہ اور خون کی خاص رگیں کٹ جاتی ہے اور سارا خون بہہ جاتا ہے۔ ٣۔ ٨ مشرکین اپنے بتوں کے قریب پتھر یا کوئی چیز نصب کر کے ایک خاص جگہ بناتے تھے۔ جسے نصب تھان یا آستانہ کہتے تھے۔ اسی پر وہ بتوں کے نام نذر کیے گئے جانوروں کو ذبح کرتے تھے یعنی یہ وما اھل بہ لغیر اللہ ہی کی ایک شکل تھی اس سے معلوم ہوا کہ آستانوں، مقبروں اور درگاہوں پر جہاں لوگ طلب حاجات کے لیے جاتے ہیں اور وہاں مدفون افراد کی خوشنودی کے لیے جانور ذبح کرتے ہیں یا پکی ہوئی دیگیں تقسیم کرتے ہیں، ان کا کھانا حرام ہے یہ وماذبح علی النصب میں داخل ہیں۔ ٣۔ ٩ وان تستقسموا بالازلام کے دو معنی کیے گئے ہیں ایک تیروں کے ذریعے تقسیم کرنا دوسرے تیروں کے ذریعہ قسمت معلوم کرنا پہلے معنی کی بنا پر کہا جاتا ہے کہ جوئے وغیرہ میں ذبح شدہ جانور کی تقسیم کے لیے یہ تیر ہوتے تھے جس میں کسی کو کچھ مل جاتا، کوئی محروم رہ جاتا۔ دوسرے معنی کی رو سے کہا گیا ہے کہ ازلام سے تیر مراد ہیں جن سے وہ کسی کام کا آغاز کرتے وقت فال لیا کرتے تھے۔ انہوں نے تین قسم کے تیر بنا رکھتے تھے۔ ایک افعل (کر) دوسرے میں لاتفعل (نہ کر) اور تیسرے میں کچھ نہیں ہوتا تھا۔ افعل والا تیر نکل آتا تو وہ کام کرلیا جاتا، لاتفعل والا نکلتا تو نہ کرتے اور تیسرا تیر نکل آتا تو پھر دوبارہ فال نکالتے۔ یہ بھی گویا کہانت اور استمداد بغیر اللہ کی شکل ہے، اس لیے اسے بھی حرام کردیا گیا استقسام کے معنی طلب قسم تہیں یعنی تیروں سے قسمت طلب کرتے تھے۔ ٣۔ ١٠ یہ بھوک کی اضطراری کیفیت میں مذکورہ محرمات کے کھانے کی اجازت ہے بشرطیکہ مقصد اللہ کی نافرمانی اور حد تجاوز کرنا نہ ہو، صرف جان بچانا مطلوب ہو۔ المآئدہ
4 ٤۔ ١ اس سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جو حلال ہیں۔ ہر حلال طیب ہے اور ہر حرام خبیث۔ ٤۔ ٢ جوارح جارح کی جمع ہے جو کا سب کے معنی میں ہے۔ مراد شکار کتا، باز، چیتا، شکرا اور دیگر شکاری پرندے اور درندے ہیں۔ مکلبین کا مطلب ہے شکار پر چھوڑنے سے پہلے ان کو شکار کے لیے سدھایا گیا ہو۔ سکھانے کا مطلب ہے جب اسے شکار پر چھوڑا جائے۔ تو دوڑتا ہوا جائے۔ جب روک دیا جائے تو رک جائے اور بلایا جائے تو واپس آ جائے۔ ٤۔ ٣ ایسے سدھارے ہوئے جانوروں کا شکار کیا ہوا جانور دو شرطوں کے ساتھ حلال ہے۔ ایک یہ کہ اسے شکار کے لئے چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لی گئی ہو۔ دوسری یہ کہ شکاری جانور شکار کر کے اپنے مالک کے لئے رکھ چھوڑے اور اسی کا انتظار کرے، خود نہ کھائے۔ حتیٰ کے اگر اس نے مار بھی ڈالا ہو، تب بھی مقتول شکار شدہ جانور حلال ہوگا بشرطیکہ اس کے شکار میں سدھائے اور چھوڑے ہوئے جانور کے علاوہ کسی اور جانور کی شرکت نہ ہو (صحیح بخاری کتاب الذبائح والصید مسلم، کتاب الصید) المآئدہ
5 ٥۔ ١ اہل کتاب کا وہی ذبیحہ حلال ہوگا جس میں خون بہہ گیا ہو۔ یعنی ان کا مشینی ذبیحہ حلال نہیں ہی کیونکہ اس میں خون بہنے کی ایک بنیادی شرط مفقود ہے۔ ٥۔ ٢ اہل کتاب کی عورتوں کے ساتھ نکاح کی اجازت کے ساتھ ایک تو پاکدامن کی قید ہے، جو آج کل اکثر عورتوں میں عام ہے۔ دوسرے اس کے بعد فرمایا گیا جو ایمان کے ساتھ کفر کرے، اس کے عمل برباد ہوگئے اس سے یہ تنبیہ مقصود ہے کہ اگر ایسی عورت سے نکاح کرنے میں ایمان کی ضیاع کا اندیشہ ہو تو بہت ہی خسارے کا سودا ہوگا اور آج کل اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح میں ایمان کو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں محتاج وضاحت نہیں۔ درآنحالانکہ ایمان کو بچانا فرض ہے، ایک جائز کے لئے فرض کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ اس لیے اس کا جواز بھی اس وقت تک ناقابل عمل رہے گا، جب تک دونوں مذکورہ چیزیں مفقود نہ ہوجائیں۔ علاوہ ازیں آج کل کے اہل کتاب ویسے بھی اپنے دین سے بالکل ہی بیگانہ بلکہ بیزار اور باغی ہیں۔ اس حالت میں کیا وہ واقعی اہل کتاب میں شمار بھی ہو سکتے ہیں؟ واللہ اعلم۔ المآئدہ
6 ٦۔ ١ منہ دھوؤ، یعنی ایک ایک دو دو یا تین تین مرتبہ دونوں ہتھیلیاں دھونے، کلی کرنے، ناک میں پانی ڈال کر جھاڑنے کے بعد۔ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے۔ منہ دھونے کے بعد ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھویا جائے۔ ٦۔ ٢ مسح پورے سر کا کیا جائے۔ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے اپنے ہاتھ آگے سے پیچھے گدی تک لے جائے اور پھر وہاں سے آگے کو لائے جہاں سے شروع کیا تھا۔ اسی کے ساتھ کانوں کا مسح کرلے۔ ٦۔ ٣ ارجلکم کا عطف وجوھکم پر ہے یعنی اپنے پیر ٹخنوں تک دھوؤ! ٦۔ ٤ جنابت سے مراد وہ ناپاکی ہے جو احتلام یا بیوی سے ہم بستری کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے اور اسی حکم میں حیض اور نفاس بھی داخل ہے۔ جب حیض اور نفاس کا خون بند ہوجائے تو پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے طہارت یعنی غسل ضروری ہے۔ البتہ پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی اجازت ہے جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے (فتح القدیر) ٦۔ ٥ اس کی مختصر تشریح اور تیمم کا طریقہ سورۃ نساء کی آیت نمبر ٢٣ میں گزر چکا ہے۔ صحیح بخاری میں اس کی شان نزول کی بابت آتا ہے کہ ایک سفر میں بیداء کے مقام پر حضرت عائشہ (رض) کا ہار گم ہوگیا جس کی وجہ سے وہاں پر رکنا یا رہنا پڑا۔ صبح کی نماز کے لئے لوگوں کے پاس پانی نہ تھا اور تلاش ہوئی تو پانی دستیاب بھی نہیں ہوا اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ حضرت اسید بن حضیر (رض) نے آیت سن کر کہا اے آل ابی بکر! تمہاری وجہ سے اللہ نے لوگوں کے لئے برکتیں نازل فرمائی ہیں یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔ (تم لوگوں کے لئے سراپا برکت ہو) (صحیح بخاری) ٦۔ ٦ اس لئے تیمم کی اجازت فرما دی ہے۔ ٦۔ ٧ اسی لئے حدیث میں وضو کرنے کے بعد دعا کرنے کی ترغیب ہے۔ دعاؤں کی کتابوں سے دعا یاد کرلی جائے المآئدہ
7 المآئدہ
8 ٨۔ ١، ٢ پہلے جملے کی تشریح سورۃ نساء آیت نمبر ١٣٥ میں دوسرے جملے کی سورۃ المائدۃ کے آغاز میں گزر چکی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک عادلانہ گواہی کی اہمیت ہے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے جو حدیث میں آتا ہے حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں میرے باپ نے مجھے عطیہ دیا تو میری والدہ نے کہا، اس عطیے پر آپ جب تک اللہ کے رسول کو گواہ نہیں بنائیں گے میں راضی نہیں ہوں گی۔ چنانچہ میرے والد انکی خدمت میں آئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو اس طرح کا عطیہ دیا ہے؟ انہوں نے نفی میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا ' اللہ سے ڈرو اور اولاد کے درمیان انصاف کرو ' اور فرمایا کہ میں ' ظلم پر گواہ نہیں بنوں گا ' (صحیح بخاری) المآئدہ
9 المآئدہ
10 المآئدہ
11 ١١۔ ١ اس کی شان نزول میں مفسرین نے متعدد واقعات بیان کئے ہیں۔ مثلًا اس اعرابی کا واقعہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سفر سے واپسی پر ایک درخت کے سائے میں آرام فرما تھے، تلوار درخت سے لٹکی ہوئی تھی اس اعرابی نے تلوار پکڑ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سونت لی اور کہنے لگا۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو مجھ سے کون بچائے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلا تامل فرمایا اللہ (یعنی اللہ بچائے گا) یہ کہنا تھا کہ تلوار ہاتھ سے گر گئی۔ بعض کہتے ہیں کعب بن اشرف اور اس کے ساتھیوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کے خلاف جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں تشریف فرما تھے، دھوکا اور فریب سے نقصان پہنچانے کی سازش تیار کی تھی۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچایا۔ بعض کہتے ہیں کہ ایک مسلمان کے ہاتھوں غلط فہمی سے جو دو عامری شخص قتل ہوگئے تھے، ان کی دیت کی ادائیگی میں یہودیوں کے قبیلے بنو نفیر سے حسب وعدہ جو تعاون لینا تھا، اس کے لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رفقا سمیت تشریف لے گئے اور ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے یہ سازش تیار کی تھی کہ اوپر سے چکی کا پتھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر گرا دیا جائے، جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی مطلع فرما دیا۔ ممکن ہے سارے ہی واقعات کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کیونکہ ایک آیت کے نزول کے کئی اسباب و عوامل ہو سکتے ہیں (تفسیر ابن کثیر و فتح القدیر) المآئدہ
12 ١۔ ١٢ جب اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو وہ عہد اور میثاق پورا کرنے کی تاکید کی جو اس نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے سے لیا اور انہیں قیام حق اور شہادت عدل کا حکم دیا اور انہیں وہ انعامات یاد کرائے جو ان پر ظاہرا وباطنا ہوئے اور بالخصوص یہ بات کہ انہیں حق و ثواب کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی تو اب اس مقام پر اس عہد کا ذکر فرمایا جا رہا ہے جو بنی اسرائیل سے لیا گیا اور جس میں وہ ناکام رہے۔ یہ گویا بالواسطہ مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ تم بھی کہیں بنو اسرائیل کی طرح عہد ومیثاق کو پامال کرنا شروع نہ کردینا۔ ٢۔ ١٢ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جبابرہ سے قتال کے لیے تیار ہوئے تو انہوں نے اپنی قوم کے بارہ قبیلوں بارہ نقیب مقرر فرما دیے تاکہ وہ انہیں جنگ کے لیے تیار بھی کریں، ان کی قیادت و راہنمائی بھی کریں اور دیگر معاملات کا انتظام بھی کریں۔ المآئدہ
13 ١٣۔ ١ یعنی اتنے انتظامات عہد موعید کے باوجود بنو اسرائیل نے عہد شکنی کی کہ جس کی بنا پر کہ وہ لعنت الٰہی کے موجب بنے، اس لعنت کے دینوی نتائج یہ سامنے آئے کہ ایک، ان کے دل سخت کردیئے گئے جس سے ان کے دل اثر پزیری سے محروم ہوگئے اور انبیاء کے وعظ و نصیحت ان کے لیے بے کار ہوگئے، دوسرے یہ کہ وہ کلمات الٰہی میں تحریف کرنے لگ گئے۔ اسی طرح اپنی بدعلت، خود ساختہ مزعومات اور اپنے تاویلات باطلہ کے اثبات کے لیے کلام الٰہی میں تحریف کر ڈالتے ہیں۔ ١٣۔ ٢ یہ تیسرا نتیجہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ احکام الٰہی پر عمل کرنے میں انہیں کوئی رغبت اور دلچسپی نہیں رہی بلکہ بے عملی اور بدعملی ان کا شعار بن گئی اور وہ پستی کے اس مقام پر پہنچ گئے کہ ان کے دل ٹھیک رہے اور نہ ان کی فطرت مستقیم۔ ١٣۔ ٣ یعنی شذر خیانت اور مکر ان کے کردار جزو بن گیا ہے جس کے نمونے ہر وقت آپ کے سامنے آتے رہیں گے۔ ١٣۔ ٤ یہ تھوڑے سے لوگ وہی ہیں جو یہودیوں میں سے مسلمان ہوگئے تھے اور ان کی تعداد دس سے بھی کم تھی۔ ١٣۔ ٥ عفو و درگزر کا یہ حکم اس وقت دیا گیا جب لڑنے کی اجازت نہیں تھی۔ بعد میں اس کی جگہ حکم دیا گیا (قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ وَلَا بالْیَوْمِ الْاٰخِرِ) 009:029 ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ پر اور یوم آخر پر ایمان نہیں رکھتے ' بعض کے نزدیک عفو و درگزر کا یہ حکم منسوخ نہیں ہے۔ 'یہ بجائے خود ایک اہم حکم ہے، حالات کے مطابق اسے بھی اختیار کیا جاسکتا ہے اور اس کے بھی بعض دفعہ وہ نتائج حاصل ہوجاتے ہیں جن کے لئے قتال کا حکم ہے۔ المآئدہ
14 ١٤۔ ١ نصاری نصرۃ مدد سے ہے یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے سوال من انصاری الی اللہ) اللہ کے دین میں کون میرا مددگار ہے؟ کے جواب میں ان کے چند مخلص پیروکاروں نے جواب دیا تھا (نحن انصار اللہ) ہم اللہ کے مددگار ہیں اسی سے ماخوذ ہے۔ یہ بھی یہود کی طرح اہل کتاب ہیں۔ ان سے بھی اللہ تعالیٰ نے عہد لیا، لیکن انہوں نے بھی اس کی پرواہ نہیں کی، اس کے نتیجے میں ان کے دل بھی اثر پزیری سے خالی اور ان کے کردار کھوکھلے ہوگئے۔ ١٤۔ ٢ یہ عہد الٰہی سے انحراف اور بے عملی کی وہ سزا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر قیامت تک کے لئے مسلط کردی گئی۔ چنانچہ عیسائیوں کے کئی فرقے ہیں جو ایک دوسرے سے شدید نفرت و عناد رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی تکفیر (کافر سمجھتے) کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی عبادت گاہ میں عبادت نہیں کرتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ پر بھی یہ سزا مسلط کردی گئی ہے۔ یہ امت بھی کئی فرقوں میں بٹ گئی ہے، جن کے درمیان شدید اختلافات اور نفرت و عناد کی دیواریں حائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ المآئدہ
15 ١٥۔ ١ یعنی انہوں نے تورات و انجیل میں جو تبدیلیاں اور تحریفات کیں، انہیں طشت ازبام کیا اور جن کو وہ چھپاتے تھے، ظاہر کیا، جیسے سزائے رجم۔ جیسا کہ احادیث میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ ١٥۔ ٢ نور اور کِتَابُ مُّیْن دونوں سے مراد قرآن کریم ہے، ان کے درمیان واو مغایرت مصداق نہیں مغایرت معنی کے لیے ہے اور یہ عطف تفسیری ہے جس کی واضح دلیل قرآن کریم کی اگلی آیت ہے جس میں کہا جا رہا ہے اس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے اگر نور اور کتاب یہ الگ الگ چیزیں ہوتیں تو الفاظ (یَّھدِیبِھِمَا اللّٰہَ) ہوتے، یعنی اللہ تعالیٰ ان دونوں کے ذریعے سے ہدایت فرماتا ہے، قرآن کریم کی اس خاص آیات سے واضح ہوگیا کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد ایک یہ چیز یعنی قرآن کریم ہے۔ یہ نہیں ہے کہ نور سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کتاب سے مراد قرآن مجید ہے۔ جیسا کہ وہ اہل بدعت باور کراتے ہیں جنہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت نور من نور اللہ کا عقیدہ گھڑ رکھا ہے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت کا انکار کرتے ہیں۔ اسی طرح اس خانہ ساز عقیدے کے اثبات کے لیے ایک حدیث بھی بیان کرتے ہیں کہ اللہ نے سب سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نور پیدا کیا اور پھر اس نور سے ساری کائنات پیدا کی۔ حالانکہ یہ حدیث، حدیث کے کسی بھی مستند مجموعے میں موجود نہیں ہے علاوہ ازیں یہ اس صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا محدث البانی لکھتے ہیں "فالحدیث صحیح بلا ریب، وھو من الادلۃ الظاھرۃ علی بطلان الحدیث المشھور "اول ماخلق اللہ نور نبیک یا جابر" مشہور حدیث جابر کہ اللہ نے سب سے پہلے تیرے نبی کا نور پیدا کیا باطل ہے۔ المآئدہ
16 المآئدہ
17 ١٧۔ ١ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور ملکیت تامہ کا بیان فرمایا ہے۔ مقصد عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت مسیح کا رد وابطال ہے۔ حضرت عیسیٰ کے عین اللہ ہونے کے قائل پہلے تو کچھ ہی لوگ تھے یعنی ایک ہی فرقہ۔ یعقوبیہ کا یہ عقیدہ تھا لیکن اب تمام عیسائی الوہیت مسیح کے کسی نہ کسی انداز سے قائل ہیں۔ اس لئے مسیحیت میں اب عقیدہ تثلیث یا اقانیم ثلاثہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ بہرحال قرآن نے اس مقام پر تصریح کردی کہ کسی پیغمبر اور رسول کو الٰہی صفات سے متصف قرار دینا کفر صریح ہے۔ اس کفر کا ارتکاب عیسائیوں نے، حضرت مسیح کو اللہ قرار دے کر کیا، اگر کوئی اور گروہ یا فرقہ کسی اور پیغمبر کو بشریت و رسالت کے مقام سے اٹھا کر الوہیت کے مقام پر فائز کرے گا تو وہ بھی اسی کفر کا ارتکاب کرے گا، المآئدہ
18 ١٨۔ ١ یہودیوں نے حضرت عزیر کو اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ابن اللہ کہا اور اپنے آپ کو بھی ابناء اللہ (اللہ کے بیٹے) اور اس کا محبوب قرار دے لیا۔ بعض کہتے ہیں یہاں ایک لفظ محذوف ہے یعنی اتباع ابناء اللہ ہم اللہ کے بیٹوں (عزیر و مسیح) کے پیروکار ہیں (دونوں مفہوموں میں سے کوئی سا بھی مفہوم مراد لیا جائے۔ اس سے ان کے تفاخر اور اللہ کے بارے میں بے جا اعتماد اظہار ہوتا ہے۔ جس کی اللہ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں۔ ١٨۔ ٢ اس میں ان کے مذکورہ تفاخر کا بے بنیاد ہونا واضح کردیا گیا ہے کہ اگر تم واقعی اللہ کے محبوب اور چہیتے ہوتے یا محبوب ہونے کا مطلب یہ ہے تم جو چاہو کرو اللہ تم سے باز پرس نہیں کرے گا تو پھر اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے گناہوں کی پادش میں سزا کیوں دیتا رہا ہے؟ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ اللہ کی بارگاہ میں دعووں کی بنیاد پر نہیں ہوتا نہ قیامت والے دن ہوگا بلکہ وہ تو ایمان و تقویٰ اور عمل دیکھتا ہے اور دنیا میں بھی اسی کی روشنی میں فیصلہ فرماتا ہے اور قیامت والے دن بھی اسی اصول پر فیصلہ ہوگا۔ ١٨۔ ٣ تاہم یہ عذاب یا مغفرت کا فیصلہ اسی سنت اللہ کے مطابق ہوگا، جس کی اس نے وضاحت فرما دی ہے کہ اہل ایمان کے لئے مغفرت اور اہل کفر و فسق کے لئے عذاب، تمام انسانوں کا فیصلہ اسی کے مطابق ہوگا۔ اے اہل کتاب! تم بھی اسی کی پیدا کردہ مخلوق یعنی انسان ہو۔ تمہاری بابت فیصلہ دیگر انسانی مخلوق سے مختلف کیونکر ہوگا۔ المآئدہ
19 ١٩۔ ١ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد رسول اللہ کے درمیان جو تقریباً ٥٧٠ یا ٦٠٠ سال کا فاصلہ ہے یہ زمانہ فترت کہلاتا ہے۔ اہل کتاب کو کہا جا رہا ہے کہ اس فترت کے بعد ہم نے اپنا آخری رسول بھیج دیا ہے اب تم یہ بھی نہ کہہ سکو گے کہ ہمارے پاس تو کوئی بشیر و نذیر پیغمبر ہی نہیں آیا۔ المآئدہ
20 ٢٠۔ ١ بیشتر انبیاء بنی اسرائیل میں سے ہی ہوئے ہیں جن کا سلسلہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر ختم کردیا گیا اور آخری پیغمبر بنو اسماعیل سے ہوئے۔ اسی طرح متعدد بادشاہ بھی بنی اسرائیل میں ہوئے اور بعض نبیوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے ملوکیت (بادشاہت) سے نوازا، جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نبوت کی طرح ملوکیت (بادشاہت) بھی اللہ کا انعام ہے، جسے علی الاطلاق برا سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے۔ اگر ملوکیت بری چیز ہوتی تو اللہ تعالیٰ کسی نبی کو بادشاہ بناتا نہ اس کا ذکر انعام کے طور پر فرماتا، جیسا کہ یہاں ہے آج کل مغربی جمہوریت کا کا بوس اس طرح ذہنوں پر مسلط ہے اور شاطران، مغرب نے اس کا افسوں اس طرح پھونکا ہے کہ مغربی افکار کے اسیر اہل سیاست ہی نہیں بلکہ اصحاب جبہ و دستار بھی ہیں۔ بہرحال ملوکیت یا شخصی حکومت، اگر بادشاہ اور حکمران عادل ومتقی ہو تو جمہوریت سے ہزار درجے بہتر ہے۔ ٢٠۔ ٢ یہ اشارہ ہے ان انعامات اور معجزات کی طرف، جن سے بنی اسرائیل نوازے گئے، جیسے من و سلویٰ کا نزول، بادلوں کا سایہ، فرعون سے نجات کے لئے دریا سے راستہ بنا دیا وغیرہ۔ اس لحاظ سے یہ قوم اپنے زمانے میں فضیلت اور اونچے مقام کی حامل تھی لیکن پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد کی رسالت و بعث کے بعد اب یہ مقام فضیلت امت محمدیہ کو حاصل ہوگیا ہے (کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ) 003:110 تم بہترین امت ہو جسے نوع انسانی کے لئے بنایا گیا ہے لیکن یہ بھی مشروط ہے اس مقصد کی تکمیل کے ساتھ جو اسی آیت میں بیان کردیا گیا ہے کہ تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے، برائی سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو، اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو اس مقصد کے لئے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ اپنے خیر امت ہونے کا اعزاز برقرار رکھ سکے۔ المآئدہ
21 ٢١۔ ١ بنو اسرائیل کے مورث اعلیٰ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا مسکن بیت المقدس تھا۔ لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) کے امارات مصر کے زمانے میں یہ لوگ مصر جا کر آباد ہوگئے تھے اور پھر تب سے اس وقت مصر میں ہی رہے، جب تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) انہیں راتوں رات (فرعون سے چھپ کر) مصر سے نکال نہیں لے گئے۔ اس وقت بیت المقدس پر عمالقہ کی حکمرانی تھی جو ایک بہادر قوم تھی۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر بیت المقدس جا کر آباد ہونے کا عزم کیا تو اس کے لئے وہاں قابض عمالقہ سے جہاد ضروری تھا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اس ارض مقدسہ میں داخل ہونے کا حکم دیا اور نصرت الٰہی کی بشارت بھی سنائی۔ لیکن اس کے باوجود بنو اسرائیل عمالقہ سے لڑنے پر تیار نہ ہوئے (ابن کثیر) ٢١۔ ٢ اس سے مراد وہی فتح و نصرت ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کی صورت میں ان سے کر رکھا تھا۔ ٢١۔ ٣ یعنی جہاد سے اعراض مت کرو۔ المآئدہ
22 ٢٢۔ ١ بنو اسرائیل عمالقہ کی بہادری کی شہرت سے مرعوب ہوگئے تھے اور پہلے مرحلے پر ہی ہمت ہار بیٹھے۔ اور جہاد سے دست بردار ہوگئے۔ اللہ کے رسول حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم کی کوئی پروا کی اور نہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ نصرت پر یقین کیا وہاں جانے سے صاف انکار کردیا۔ المآئدہ
23 ٢٣۔ ١ قوم موسیٰ (علیہ السلام) میں صرف یہ دو شخص صحیح معنوں میں ایماندار نکلے، جنہیں نصرت الٰہی پر یقین تھا انہوں نے قوم کو سمجھایا کہ تم ہمت تو کرو، پھر دیکھو کس طرح اللہ تمہیں غلبہ عطا فرماتا ہے۔ المآئدہ
24 ٢٤۔ ١ لیکن اس کے باوجود بنی اسرائیل نے بدترین بزدلی، سوء ادبی اور سرکشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تو اور تیرا رب جا کر لڑے۔ اس کے برعکس جب جنگ بدر کے موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو انہوں نے قلت تعداد و قلت وسائل کے باوجود جہاد میں حصہ لینے کے لئے بھرپور عزم کا اظہار کیا اور پھر یہ کہا کہ ' یارسول اللہ! ہم آپ کو اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح قوم موسیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کہا تھا ' (صحیح بخاری) المآئدہ
25 ٢٥۔ ١ اس میں نافرمان قوم کے مقابلے میں اپنی بے بسی کا اظہار بھی ہے اور برات کا اعلان بھی۔ المآئدہ
26 ٢٦۔ ١ یہ میدان تیہ کہلاتا ہے جس میں چالیس سال یہ قوم اپنی نافرمانی اور جہاد سے اعراض کی وجہ سے سرگرداں رہی۔ اس میدان میں اس کے باوجود ان پر من و سلویٰ کا نزول ہوا جس سے اکتا کر انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ روز روز ایک ہی کھانا کھا کر ہمارا جی بھر گیا ہے۔ اپنے رب سے دعا کر کہ وہ مختلف قسم کی سبزیاں اور دالیں ہمارے لئے پیدا فرمائے۔ یہیں ان پر بادلوں کا سایہ ہوا، پتھر پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی مارنے سے بارہ قبیلوں کے لئے بارہ چشمے جاری ہوئے اور اس طرح کے دیگر انعامات ہوتے رہے۔ چالیس سال بعد پھر ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ یہ بیت المقدس کے اندر داخل ہوئے۔ ٢٦۔ ٢ پیغمبر جب دیکھتا ہے دعوت و تبلیغ کے باوجود میری قوم سیدھا راستہ اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ جس میں اس کے لئے دین و دنیا کی سعادتیں اور بھلائیاں ہیں تو فطری طور پر اس کو سخت افسوس اور دلی صدمہ ہوتا ہے۔ یہی نبی کا بھی حال ہوتا تھا، جس کا ذکر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہ فرمایا لیکن آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ جب تو نے فریضہ تبلیغ ادا کردیا اور پیغام الہی لوگوں تک پہنچا دیا اور اپنی قوم کو ایک عظیم الشان کامیابی کے نقطہ آغاز پر لاکھڑا کیا۔ لیکن اب وہ اپنی دون ہمتی اور بد دماغی کے سبب تیری بات ماننے کو تیار نہیں تو تو اپنے فرض سے سبک دوش ہوگیا اور اب تجھے ان کے بارے میں غمگین ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسے موقع پر غمگینی تو ایک فطری چیز ہے۔ لیکن مراد اس تسلی سے یہ ہے کہ تبلیغ و دعوت کے بعد اب تم عند اللہ بری الذمہ ہو۔ المآئدہ
27 ٢٧۔ ١ آدم (علیہ السلام) کے ان دو بیٹوں کے نام ہابیل اور قابیل تھے۔ ٢٧۔ ٢ یہ نذرانہ یا قربانی کس لئے پیش کی گئی؟ اس کے بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں۔ البتہ مشہور یہ ہے کہ ابتداء میں حضرت آدم وحوا کے ملاپ سے بیک وقت لڑکا اور لڑکی پیدا ہوتی۔ دوسرے حمل سے پھر لڑکا اور لڑکی ہوتی، ایک حمل کے بہن بھائی کا نکاح دوسرے حمل کے بھائی بہن سے کردیا جاتا۔ ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن بدصورت تھی، جب کہ قابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی بہن خوبصورت تھی۔ اس وقت کے اصول کے مطابق ہابیل کا نکاح قابیل کی بہن کے ساتھ اور قابیل کا نکاح ہابیل کی بہن کے ساتھ ہونا تھا۔ لیکن قابیل چاہتا تھا کہ وہ ہابیل کی بہن کی بجائے اپنی ہی بہن کے ساتھ جو خوبصورت تھی نکاح کرے۔ آدم (علیہ السلام) نے اسے سمجھایا، لیکن وہ نہ سمجھا بالا خر حضرت آدم (علیہ السلام) نے دونوں کو بارگاہ الٰہی میں قربانیاں پیش کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ جس کی قربانی قبول ہوجائے گی قابیل کی بہن کا نکاح اس کے ساتھ کردیا جائے گا، ہابیل کی قربانی قبول ہوگئی، یعنی آسمان سے آگ آئی اور اسے کھا گئی جو اس کے قبول ہونے کی دلیل تھی۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ ویسے ہی دونوں بھائیوں نے اپنے اپنے طور پر اللہ کی بارگاہ میں نذر پیش کی، ہابیل نے ایک عمدہ دنبہ کی قربانی اور قابیل نے گندم کی بالی قربانی میں پیش کی ہابیل کی قربانی قبول ہونے پر قابیل حسد کا شکار ہوگیا۔ المآئدہ
28 المآئدہ
29 ٢٩۔ ١ میرے گناہ کا مطلب قتل کا وہ گناہ جو مجھے اس وقت ہوتا جب میں تجھے قتل کرتا۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے، قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ کرام نے پوچھا قاتل کا جہنم میں جانا تو سمجھ میں آتا ہے، مقتول جہنم میں کیوں جائے گا ؟ آپ نے فرمایا کہ وہ بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا حریص تھا (صحیح بخاری و مسلم کتاب الفتن) المآئدہ
30 ٣٠۔ ١ چنانچہ حدیث میں آتا ہے (لَا تَقْتُلُ نَفْسً ظُلُمًَا اِلَّا کَانَ عَلٰی اِبْنِ آدَمْ کفل من دمہا، لانہ کان اول من سن القتل) (الصحیح بخاری) جو قتل بھی ظلمًا ہوتا ہے (قاتل کے ساتھ) اس کے خون ناحق کا بوجھ آدم کے اس پہلے بیٹے پر ہوتا ہے کیونکہ یہ پہلا شخص ہے جس نے قتل کا کام کیا امام ابن کثیر فرماتے ہیں ' کہ ظاہر بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ قابیل کو ہابیل کے قتل ناحق کی سزا دنیا میں ہی فوری طور پر دے دی گئی تھی۔ حدیث میں آتا ہے نبی نے فرمایا (ظلم و زیادتی) اور قطع رحمی یہ دونوں گناہ اس بات کے زیادہ لائق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے کرنے والوں کو دنیا میں ہی جلد سزا دے دے، تاہم آخرت کی سزا اس کے علاوہ اس کے لئے الگ ہوگی جو انہیں وہاں بھگتنی ہوگی۔ قابیل میں یہ دونوں گناہ جمع ہوگئے تھے ' اِنْا للہِ وَ اِنِّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ) 002:156 (ابن کثیر) المآئدہ
31 المآئدہ
32 ٣٢۔ ١ اس قتل ناحق کے بعد اللہ تعالیٰ نے انسانی جان کی قدر وقیمت کو واضح کرنے کے لئے بنو اسرائیل پر یہ حکم نازل فرمایا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کے ہاں انسانی خون کی کتنی اہمیت اور تکریم ہے اور یہ اصول صرف بنی اسرائیل ہی کے لئے نہیں تھا، اسلام کی تعلیمات کے مطابق بھی یہ اصول ہمیشہ کے لئے ہے۔ سلیمان بن ربعی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت حسن (بصری) سے پوچھا یہ آیت ہمارے لئے بھی ہے جس طرح بنو اسرائیل کے لئے تھی، انہوں نے فرمایا، ہاں۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ بنو اسرائیل کے خون اللہ کے ہاں ہمارے خونوں سے زیادہ قابل احترام نہیں تھے (تفسیر ابن کثیر) ٣٢۔ ٢ اس میں یہود کو تنبیہ اور ملامت ہے کہ ان کے پاس انبیاء دلائل لے کر آتے رہے۔ لیکن ان کا رویہ ہمیشہ حد سے تجاوز کرنے والا ہی رہا اس میں گویا نبی کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ آپ کو قتل کرنے اور نقصان پہنچانے کی جو سازش کرتے رہتے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں، ان کی ساری تاریخ ہی مکرو وفساد سے بھری ہوئی ہے۔ آپ بہرحال اللہ پر بھروسہ رکھیں جو خیرالماکرین ہے۔ تمام سازشوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ المآئدہ
33 ٣٣۔ ١ اس کی شان نزول کی بابت آتا ہے کہ عکل اور عرینہ قبیلے کے کچھ لوگ مسلمان ہو کر مدینہ آئے، انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں مدینہ سے باہر، جہاں صدقے کے اونٹ تھے، بھیج دیا کہ ان کا دودھ اور پیشاب پیؤ، اللہ تعالیٰ شفا عطا فرمائے گا۔ چنانچہ چند روز میں وہ ٹھیک ہوگئے لیکن اس کے بعد انہوں نے اونٹوں کے رکھوالے اور چروا ہے کو قتل کردیا اور اونٹ ہنکا کرلے گئے۔ جب نبی کو اس امر کی اطلاع ملی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے جو انہیں اونٹوں سمیت پکڑ لائے۔ نبی نے ان کے ہاتھ پیر مخالف جانب سے کاٹ ڈالے ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروائیں، (کیونکہ انہوں نے بھی چروا ہے کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا) پھر انہیں دھوپ میں ڈال دیا گیا حتّٰی کہ وہیں مر گئے۔ صحیح بخاری میں یہ بھی آتا ہے انہوں نے چوری بھی کی اور قتل بھی کیا، ایمان لانے کے بعد کفر بھی کیا اور اللہ و رسول کے ساتھ محاربہ بھی (صحیح بخاری) یہ آیت محاربہ کہلاتی ہے۔ اس کا حکم عام ہے یعنی مسلمانوں اور کافروں دونوں کو شامل ہے۔ محاربہ کا مطلب ہے۔ کسی منظم اور مسلح جتھے کا اسلامی حکومت کے دائرے میں یا اس کے قریب صحرا وغیرہ میں راہ چلتے قافلوں اور افراد اور گروہوں پر حملے کرنا، قتل وغارت گری کرنا، سلب ونہب، اغوا اور آبرو ریزی کرنا وغیرہ اس کی جو سزائیں بیان کی گئی ہیں۔ امام خلیفہ وقت کو اختیار ہے کہ ان میں سے جو سزا مناسب سمجھے دے۔ بعض لوگ کہتے ہیں اگر محاربین نے قتل وسلب کیا اور دہشت گردی کی تو انہیں قتل اور سولی کی سزا دی جائے گی اور جس نے صرف قتل کیا، مال نہیں لیا اسے قتل کیا جائے گا اور جس نے قتل کیا اور مال بھی چھینا اس کا ایک دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ اور دایاں پاؤں کاٹ دیا جائے گا۔ اور جس نے نہ قتل کیا نہ مال لیا، صرف دہشت گردی کی اسے جلا وطن کردیا جائے گا لیکن امام شوکانی فرماتے ہیں پہلی بات صحیح ہے کہ سزا دینے میں امام کو اختیار حاصل ہے۔ (فتح القدیر) المآئدہ
34 ٣٤۔ ١ یعنی گرفتار ہونے سے پہلے اسلامی حکومت کی اطاعت کا اعلان کردیں تو پھر انہیں معاف کردیا جائے، مذکورہ سزائیں نہیں دی جائیں گی۔ لیکن پھر اس امر میں اختلاف ہے کہ سزاؤں کی معافی کے ساتھ انہوں نے قتل کر کے یا مال لوٹ کر یا ابرو ریزی کر کے بندوں پر جو دست درازی کی یہ جرائم بھی معاف ہوجائیں گے یا ان کا بدلہ لیا جائے گا، بعض علماء کے نزدیک معاف نہیں ہوں گے بلکہ ان کا قصاص لیا جائے گا۔ (امام شوکانی اور امام ابن کثیر کا رجحان اس طرف ہے کہ مطلقاً انہیں معاف کردیا جائے گا اور اسی کو ظاہر آیت کا مقتضی بتلایا ہے۔ البتہ گرفتاری کے بعد توبہ سے جرائم معاف نہیں ہوں گے۔ وہ مستحق سزا ہوں گے۔ المآئدہ
35 ٣٥۔ ١ وسیلہ کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو کسی مقصود کے حصول یا اس کے قرب کا ذریعہ ہو۔ ' اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرو ' کا مطلب ہوگا ایسے اعمال اختیار کرو جس سے تمہیں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہوجائے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں ' و سیلہ جو قربت کے معنی میں ہے تقویٰ اور دیگر خصال خیر پر صادق آتا ہے جن کے ذریعے سے بندے اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ہیں، اسی طرح جن باتوں سے روکا گیا ہو ان کا ترک بھی قرب الٰہی کا وسیلہ ہے۔ البتہ حدیث میں اس مقام محمود کو بھی وسیلہ کہا گیا ہے جو جنت میں نبی کو عطا فرمایا جائے گا۔ اسی لئے آپ نے فرمایا جو اذان کے بعد میرے لئے یہ دعائے وسیلہ کرے گا وہ میری شفاعت کا مستحق ہوگا۔ (صحیح بخاری) المآئدہ
36 ٣٦۔ ١ حدیث میں آتا ہے کہ ایک جہنمی کو جہنم سے نکال کر اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا ' تو نے اپنی آرام گاہ کیسے پائی '؟ وہ کہے گا ' بدترین آرام گاہ ' اللہ تعالیٰ فرمائے گا"کیا تو زمین بھر سونا فدیہ دے کر اس سے چھٹکارا حاصل کرن پسند کرے گا ؟"وہ اثبات میں جواب دے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تو دنیا میں اس سے بھی بہت کم کا تجھ سے مطالبہ کیا تھا تو نے وہاں کی پروا نہیں کی اور اسے دوبارہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا (صحیح مسلم) المآئدہ
37 ٣٧۔ ١ یہ آیت کافروں کے حق میں ہے، کیونکہ مومنوں کو بالاخر سزا کے بعد جہنم سے نکال لیا جائے گا جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے۔ المآئدہ
38 ٣٨۔ ١ بعض فقہا ظاہری کے نزدیک سرقہ کا یہ حکم عام ہے چوری تھوڑی سی چیز کی ہو یا زیادہ کی۔ اسی طرح محفوظ جگہ میں رکھی ہو یا غیر محفوظ۔ ہر صورت میں چوری کی سزا دی جائے گی۔ جب کہ دوسرے فقہا اس کے لئے حرز اور نصاب کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ پھر نصاب کے تعین میں ان کے مابین اختلاف ہے۔ محدثین کے نزدیک نصاب رابع دینار یا تین درہم (یا ان کے مساوی قیمت کی چیز) ہے اس سے کم چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ اسی طرح ہاتھ رسغ (پہنچوں) سے کاٹے جائیں گے۔ کہنی یا کندھے سے نہیں۔ جیسا کہ بعض کا خیال ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے کتب حدیث و فقہ اور تفاسیر کا مطالعہ کیا جائے)۔ المآئدہ
39 ٣٩۔ ١ اس توبہ سے مراد عند اللہ قبول توبہ ہے۔ یہ نہیں کہ توبہ چوری یا کسی اور قابل حد جرم کی سزا معاف ہوجائے گی حدود، توبہ سے معاف نہیں ہوں گی۔ المآئدہ
40 المآئدہ
41 ٤١۔ ١ نبی کریم کو اہل کفر و شرک کے ایمان نہ لانے اور ہدایت کا راستہ نہ اپنانے پر جو قلق اور افسوس ہوتا تھا اس پر اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو زیادہ غم نہ کرنے کی ہدایت فرما رہے ہیں تاکہ اس اعتبار سے آپ کو تسلی رہے کہ ایسے لوگوں کی بابت عند اللہ مجھ سے باز پرس نہیں ہوگی۔ ٤١۔ ٢ آیت نمر ٤١ تا ٤٤ کی شان نزول میں دو واقعات بیان کئے جاتے ہیں۔ ایک تو دو شادی شدہ یہودی زانیوں (مرد عورت) کا۔ انہوں نے اپنی کتاب تورات میں تو رد وبدل کر ڈالا تھا، علاوہ ازیں اس کی کئی باتوں پر عمل بھی نہیں کرتے تھے۔ انہیں میں سے ایک حکم رجم بھی تھا جو ان کی کتاب میں شادی شدہ زانیوں کے لئے تھا اور اب بھی وہ موجود ہے لیکن وہ چونکہ اس سزا سے بچنا چاہتے تھے اس لئے آپس میں فیصلہ کیا کہ محمد کے پاس چلتے ہیں اگر انہوں نے ہمارے ایجاد کردہ طریقہ کے مطابق کوڑے مارنے اور منہ کالا کرنے کی سزا کا کہا تو مان لیں گے اور اگر رجم کا فیصلہ دیا تو نہیں مانیں گے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ یہودی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا کہ تورات میں رجم کی بابت کیا ہے؟ انہوں نے تورات میں زنا کی سزا کوڑے مارنا اور رسوا کرنا ہے عبد اللہ بن سلام رضی اللہ نے کہا تم جھوٹ کہتے ہو، تورات میں رجم کا حکم موجود ہے، جاؤ تورات لاؤ تورات لا کر وہ پڑھنے لگے تو آیت رجم پر ہاتھ رکھ کر آگے پیچھے سے پڑھنے لگ گئے حضرت عبد اللہ بن السلام نے کہا یہاں سے ہاتھ ہٹاؤ تو وہ آیت وہاں موجود تھی۔ بالاخر انہیں اعتراف کرنا پڑا۔ چنانچہ دونوں زانیوں کو سنگسار کردیا (ابن کثیر)۔ ایک دوسرا واقعہ اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ یہود کا ایک قبیلہ اپنے آپ کو دوسرے یہودی قبیلے سے زیادہ معزز اور محترم سمجھتا تھا اور اسی کے مطابق اپنے مقتول کی دیت سو وسق اور دوسرے قبیلے کے مقتول کی پچاس وسق مقرر کر رکھی۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو یہود کے دوسرے قبیلے کو کچھ حوصلہ ہوا جس کے مقتول کی دیت نصف تھی اور اس نے دیت سو وسق دینے سے انکار کردیا۔ قریب تھا کہ ان کے درمیان اس مسئلے پر لڑائی چھڑ جاتی، لیکن ان کے سمجھدار لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فیصلہ کرانے پر رضامند ہوگئے اس موقعے پر یہ آیات نازل ہوئیں جن میں سے ایک آیت میں قصاص میں برابری کا حکم دیا گیا ہے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں ممکن ہے دونوں سبب ایک ہی وقت میں جمع ہوگئے ہوں اور ان سب کے لیے ان آیات کا نزول ہوا ہو۔ (ابن کثیر) المآئدہ
42 ٤٢۔ ١ سَمَّاعُوْن کے معنی ہیں بہت سننے والا اس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں، جاسوسی کرنے کے لئے زیادہ باتیں سننا یا دوسروں کی باتیں ماننے اور قبول کرنے کے لئے سننا، بعض مفسرینن نے پہلے معنی مراد لئے ہیں اور بعض نے دوسرے۔ المآئدہ
43 المآئدہ
44 ٤٤۔ ١ (لِلَّذیْنَ ھَادوْ ا) اس کا تعلق یَحُکْمُ سے ہے۔ یعنی یہودیوں سے متعلق فیصلے کرتے تھے۔ ٤٤۔ ٢ اَ سْلَمُوْا یہ نبِیِّنّّ کی صفت بیان کی گئی ہے کہ سارے انبیاء دین اسلام ہی کے پیروکار تھے جس کی طرف محمد دعوت دے رہے ہیں۔ یعنی تمام پغمبروں کا دین ایک ہی رہا ہے۔ اسلام جس کی بنیادی دعوت یہ تھی کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ ہر نبی نے سب سے پہلے اپنی قوم کو یہی دعوت توحید و اخلاص پیش کی۔ (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ) 021:025 ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے، سب کو یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، پس تم سب میری ہی عبادت کرو"۔ اسی کو قرآن میں الدین بھی کہا گیا ہے۔ جیسا کہ سورۃ شوریٰ کی آیت (شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا) 042:013 میں کہا گیا ہے جس میں اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے لیے ہم نے وہی دین مقرر کیا ہے جو آپ سے قبل دیگر انبیا کے لیے کیا تھا۔ ٤٤۔ ٣ چنانچہ انہوں نے تورات میں کوئی تغیر و تبدل نہیں کیا، جس طرح بعد میں لوگوں نے کیا۔ ٤٤۔ ٤ کہ یہ کتاب کمی بیشی سے محفوظ ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ ٤٤۔ ٥ یعنی لوگوں سے ڈر کر تورات کے اصل احکام پر پردہ مت ڈالو نہ دنیا کے تھوڑے سے مفادات کے لئے ان میں رد وبدل کرو۔ ٤٤۔ ٦ پھر تم کیسے ایمان کے بدلے کفر پر راضی ہوگئے ہو؟ المآئدہ
45 ٤٥۔ ١ جب تورات میں جان کے بدلے جان اور زخموں میں قصاص کا حکم دیا گیا تو پھر یہودیوں کے ایک قبیلے (بنو نفیر) کا دوسرے قبیلے (بنو قرظہ) کے ساتھ اس کے برعکس معاملہ کرنا اور اپنے مقتول کی دیت دوسرے قبیلے کے مقتول کی بنسبت دوگنا رکھنے کا کیا جواز ہے؟ جیسا کہ اس کی تفصیل پچھلے صفحات میں گزری۔ ٤٥۔ ٢ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جس قبیلے میں مذکورہ فیصلہ کیا تھا، یہ اللہ کے نازل کردہ حکم کے خلاف تھا اور اس طرح انہوں نے ظلم کا ارتکاب کیا۔ گویا انسان اس بات کا مکلف ہے کہ وہ احکامات الہی کو اپنائے اسی کے مطابق فیصلے کرے اور زندگی کے تمام معاملات میں اس سے رہنمائی حاصل کرے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو بارگاہ الہی میں ظالم متصور ہوگا فاسق متصور ہوگا اور کافر متصور ہوگا۔ ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے تینوں لفظ استعمال کر کے اپنے غضب اور ناراضگی کا بھرپور اظہار فرما دیا۔ اس کے بعد بھی انسان اپنے ہی خود ساختہ قوانین یا اپنی خواہشات ہی کو اہمیت دے تو اس سے زیادہ بد قسمتی کیا ہوگی؟ المآئدہ
46 ٤٦۔ ١ یعنی انبیائے سابقین کے فوراً بعد، متصل ہی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا جو اپنے سے پہلے نازل شدہ کتاب تورات کی تصدیق کرنے والے تھے، نہ کہ اس کو جھٹلانے والے تھے، جو اس بات کی دلیل تھی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اللہ کے سچے رسول ہیں اور اسی اللہ کے فرستادہ ہیں جس نے تورات حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل فرمائی تھی، تو اس کے باوجود یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب (جھٹلایا) کی بلکہ ان کی تکفیر اور تنقیص و اہانت کی (کفر کا فتویٰ دے کر رسوا کیا) ٤٦۔ ٢ یعنی جس طرح تورات اپنے وقت میں لوگوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ تھی۔ اسی طرح انجیل کے نزول کے بعد اب یہی حیثیت انجیل کو حاصل ہوگئی اور پھر قرآن کریم کے نزول کے بعد تورات و انجیل اور دیگر کتب آسمانی پر عمل منسوخ ہوگیا اور ہدایت و نجات کا ذریعہ قرآن کریم رہ گیا اور اسی پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابوں کا سلسلہ ختم فرما دیا، یہ گویا اس بات کا اعلان ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی فلاح اور کامیابی اسی قرآن سے وابستہ ہے۔ جو اس سے جڑ گیا سرخرو رہے گا جو کٹ گیا ناکامی ونامرادی اس کا مقدر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ "وحدت ادیان" کا فلسفہ یکسر غلط ہے، حق ہر دور میں ایک ہی رہا ہے، متعدد نہیں۔ حق کے سوا دوسری چیزیں باطل ہیں۔ تورات اپنے دور کا حق تھی۔ اس کے بعد انجیل اپنے دور کا حق تھی انجیل کے نزول کے بعد تورات پر عمل کرنا جائز نہیں تھا۔ اور جب قرآن نازل ہوگیا تو انجیل منسوخ ہوگئی۔ انجیل پر عمل کرنا بالکل جائز نہیں رہا اور صرف قرآن ہی واحد نظام عمل اور نجات کے لیے قابل عمل رہ گیا۔ اس پر ایمان لائے بغیر یعنی نبوت محمد علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کو تسلیم کئے بغیر نجات ممکن نہیں۔ مزید ملاحظہ ہو سورۃ بقرہ آیت ٢٦ کا حاشیہ۔ المآئدہ
47 ٤٧۔ ١ اہل انجیل کو یہ حکم اس وقت تھا جب تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا زمانہ تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا دور نبوت بھی ختم ہوگیا۔ اور انجیل کی پیروی کا حکم بھی۔ اب ایماندار وہی سمجھا جائے گا جو رسالت محمدیہ پر ایمان لائے گا اور قرآن کریم کی پیروی کرے گا۔ المآئدہ
48 ٤٨۔ ١ ہر آسمانی کتاب اپنے سے ما قبل کتاب کی مصدق رہی ہے جس طرح قرآن پچھلی تمام کتابوں کا مصدق ہے اور تصدیق کا مطلب یہ ہے کہ یہ ساری کتابیں فی الواقع اللہ کی نازل کردہ ہیں۔ لیکن قرآن مصدق ہونے کے ساتھ ساتھ مُھَیْمِنْ (محافظ، امین، شاہد اور حاکم) بھی ہے۔ یعنی پچھلی کتابوں میں چونکہ تحریف اور تغیر (یعنی کاٹ چھانٹ اور تبدیلی) بھی ہوئی ہے اس لئے قرآن کا فیصلہ ناطق ہوگا، جس کو صحیح قرار دے گا وہی صحیح ہے۔ باقی باطل ہے۔ ٤٨۔ ٢ اس سے پہلے آیت نمبر ٤٢ میں نبی کو اختیار دیا گیا تھا کہ آپ ان کے معاملات کے فیصلے کریں یا نہ کریں۔ آپ کی مرضی ہے۔ لیکن اب اس کی جگہ یہ حکم دیا جا رہا ہے، کہ ان کے آپس کے معاملات میں بھی قرآن کریم کے مطابق فیصلے فرمائیں۔ ٤٨۔ ٣ یہ دراصل امت کو تعلیم دی جا رہی ہے کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب سے ہٹ کر لوگوں کی خواہشات اور آرا یا ان کی خود ساختہ مزعومات و افکار کے مطابق فیصلے کرنا گمراہی ہے، جس کی اجازت جب پیغمبر کو نہیں ہے تو کسی اور کو کس طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ ٤٨۔ ٤ اس سے مراد پچھلی شریعتیں ہیں جن کے بعض احکامات ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ایک شریعت میں بعض چیزیں حرام تو دوسری میں حلال تھیں، بعض میں کسی مسئلے میں تشدید تھی اور دوسرے میں تخفیف، لیکن دین سب کا ایک یعنی توحید پر مبنی تھا۔ اس لئے سب کی دعوت ایک ہی تھی۔ اس مضمون کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے "نحن معاشر الانبیاء اخوۃ لعلات، دیننا واحد"ہم انبیاء کی جماعت علاتی بھائی ہیں۔ ہمارا دین ایک ہے" علاتی بھائی وہ ہوتے ہیں جن کی مائیں تو مختلف ہوں باپ ایک ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ان کا دین ایک ہی تھا اور شریعتیں مختلف تھیں۔ لیکن شریعت محمدیہ کے بعد اب ساری شریعتیں بھی منسوخ ہوگئیں ہیں اور اب دین بھی ایک ہے اور شریعت بھی ایک۔ ٤٨۔ ٥ یعنی نزول قرآن کے بعد اب نجات تو اگرچہ اسی سے وابستہ ہے۔ لیکن اس راہ نجات کو اختیار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر جبر نہیں کیا ہے۔ ورنہ وہ چاہتا تو ایسا کرسکتا تھا، لیکن اس طرح تمہاری آزمائش ممکن نہ ہوتی، جب کہ وہ تمہیں آزمانا چاہتا ہے۔ المآئدہ
49 المآئدہ
50 ٥٠۔ ١ اب قرآن اور اسلام کے سوا، سب جاہلیت ہے، کیا یہ اب بھی روشنی اور ہدایت (اسلام) کو چھوڑ کر جاہلیت ہی کے متلاشی اور اور طالب ہیں؟ یہ استفہام، انکار اور توبیخ کے لئے ہے اور ' فا ' لفظ مقدر پر عطف ہے اور معنی ہیں ( یعرضون من حکمک بما انزل اللہ علیک ویتولون عنہ، یبتغون حکم الجاہلیۃ) تیرے اس فیصلے سے جو اللہ نے تجھ پر نازل کیا ہے یہ اعراض کرتے اور پیٹھ پھیرتے ہیں اور جاہلیت کے طریقوں کے متلاشی ہیں (فتح القدیر) ٥٠۔ ٢ حدیث میں آتا ہے نبی نے فرمایا 'اللہ کہ سب سے زیادہ ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو اسلام میں جاہلیت کے طریقے کا متلاشی ہو اور ناحق کسی کا خون بہانے کا طالب ہو۔ المآئدہ
51 ٥١۔ ١ اس میں یہود اور نصاریٰ سے موالات و محبت کا رشتہ قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے جو اسلام کے اور مسلمانوں کے دشمن ہیں اور اس پر اتنی سخت وعید بیان فرمائی گئی جو ان سے دوستی رکھے گا وہ انہیں میں سے سمجھا جائے گا۔ (مزید دیکھئے سورۃ آل عمران آیت ٢٨ اور آیت ١١٨ کا حاشیہ) ٥١۔ ٢ قرآن کی اس بیان کردہ حقیقت کا مشاہدہ ہر شخص کرسکتا ہے کہ یہود اور نصاریٰ اگرچہ آپس میں عقائد کے لحاظ سے شدید اختلاف اور باہمی بغض و عناد ہے، لیکن اس کے باوجود یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک دوسرے کے معاون بازو اور محافظ ہیں۔ ٥١۔ ٣ ان آیات کی شان نزول میں بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت انصاری (رض) اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی دونوں ہی عہد جاہلیت سے یہود کے حلیف چلے آ رہے تھے۔ جب بدر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی تو عبد اللہ بن ابی نے بھی اسلام کا اظہار کیا۔ ادھر بنو قینقاع کے یہودیوں نے تھوڑے ہی دنوں بعد فتنہ برپا کیا اور وہ کس لئے گئے، جس پر حضرت عبادہ (رض) نے تو اپنے یہودی حلیفوں سے اعلان براءت کردیا۔ لیکن عبد اللہ بن ابی نے اس کے برعکس یہودیوں کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ جس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ المآئدہ
52 ٥٢۔ ١ اس سے مراد نفاق ہے۔ یعنی منافقین یہودیوں سے محبت اور دوستی میں جلدی کر رہے ہیں۔ ٥٢۔ ٢ یعنی مسلمانوں کو شکست ہوجائے اور اس کی وجہ سے ہمیں بھی کچھ نقصان اٹھانا پڑے۔ یہودیوں میں دوستی ہوگی تو ایسے موقع پر ہمارے بڑے کام آئے گی۔ ٥٢۔ ٣ یعنی مسلمانوں کو۔ ٥٢۔ ٤ یہود ونصاریٰ پر جزیہ عائد کر دے یہ اشارہ ہے جو بنو قریظ کے قتل اور ان کی اولاد کے قیدی بنانے اور بنو نضیر کی جلا وطنی وغیرہ کی طرف، جس کا وقوع مستقبل قریب میں ہی ہوا۔ المآئدہ
53 المآئدہ
54 ٥٤۔ ١ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق فرمایا، جس کا واقعہ نبی کریم کی وفات کے فوراً بعد ہوا۔ اس فتنہ مرتد کے خاتمے کا شرف حضرت ابو بکر صدیق (رض) اور ان کے رفقاء کو حاصل ہوا۔ ٥٤۔ ٢ مرتدین کے مقابلے میں جس قوم کو اللہ تعالیٰ کھڑا کرے گا ان کی چار نمایاں صفات بیان کی جا رہی ہیں، ١۔ اللہ سے محبت کرنا اور اس کا محبوب ہونا ٢۔ اہل ایمان کے لئے نرم اور کفار پر سخت ہونا ٣۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، ٤۔ اور اللہ کے بارے میں کسی کی ملامت سے نہ ڈرنا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان صفات اور خوبیوں کا مظہر اتم تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا وآخرت کی سعادتوں سے مشرف فرمایا اور دنیا میں ہی اپنی رضامندی کی سند سے نواز دیا۔ ٥٤۔ ٣ یہ ان اہل ایمان کی چوتھی صفت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں داری میں انہیں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ ہوگی۔ یہ بڑی اہم صفت ہے۔ معاشرے میں جن برائیوں کا چلن عام ہوجائے ان کے خلاف نیکی پر استقامت اور اللہ کے حکموں کی اطاعت اس صفت کے بغیر ممکن نہیں۔ ورنہ کتنے ہی لوگ ہیں جو برائی، معصیت الٰہی اور معاشرتی خرابیوں سے اپنا دامن بچانا چاہتے ہیں لیکن ملامت گروں کا مقابلہ کرنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتے۔ اسی لئے آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن کو مذکورہ صفات حاصل ہوجائیں تو یہ اللہ کا ان پر خاص فضل ہے۔ المآئدہ
55 ٥٥۔ ١ جب یہود و نصاریٰ کی دوستی سے منع فرمایا گیا تو اب سوال کا جواب دیا جا رہا ہے کہ پھر وہ دوستی کن سے کریں؟ فرمایا کہ اہل ایمان کے دوست سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول ہیں اور پھر ان کے ماننے والے اہل ایمان ہیں۔ آگے ان کی مزید صفات بیان کی جا رہی ہیں۔ المآئدہ
56 ٥٦۔ ١ یہ حزب اللہ ہے (اللہ کی جماعت) کی نشاندہی اور اس کے غلبے کی نوید سنائی جا رہی ہیں۔ حزب اللہ وہی ہے جس کا تعلق صرف اللہ، رسول اور مومنین سے ہو اور کافروں، مشرکوں اور یہود ونصاریٰ سے چاہے وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہوں، وہ محبت و معاملات کا تعلق نہ رکھیں۔ جیسا کہ سورۃ مجادلہ کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ "تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والوں کو ایسا نہیں پاؤ گے کہ وہ ایسے لوگوں سے محبت رکھیں جو اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہوں، چاہے وہ ان کے باپ ہوں، ان کے بیٹے ہوں، ان کے بھائی ہوں یا ان کے خاندان اور قبیلے کے لوگ ہوں، پھر خوشخبری دی گئی کہ "یہ وہ لوگ ہیں، جن کے دلوں میں ایمان ہے اور جنہیں اللہ کی مدد حاصل ہے، انہیں ہی اللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرمائے گا۔۔ اور یہی حزب اللہ ہے، کامیابی جس کا مقدر ہے المآئدہ
57 ٥٧۔ ١ اہل کتاب سے یہود و نصاریٰ اور کفار سے مشرکین مراد ہیں۔ یہاں پھر یہی تاکید کی گئی ہے کہ دین کو کھیل مذاق بنانے والے چونکہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں اس لئے ان کے ساتھ اہل ایمان کی دوستی نہیں ہونی چاہئے۔ المآئدہ
58 ٥٨۔ ١ حدیث میں آتا ہے کہ جب شیطان اذان کی آواز سنتا ہے تو پاد مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے، جب اذان ختم ہوجاتی ہے تو پھر آ جاتا ہے، تکبیر کے وقت پھر پیٹھ پھیر کر چل دیتا ہے، جب تکبیر ختم ہوتی ہے تو پھر آ کر نمازیوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرتا ہے، شیطان ہی کی طرح شیطان کے پیروکاروں کو اذان کی آواز اچھی نہیں لگتی، اس لئے وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث رسول بھی قرآن کی دین کا ماخذ اور اسی طرح حجت ہے۔ کیونکہ قرآن نے نماز کے لئے ' ندا ' کا تو ذکر کیا ہے لیکن یہ ' ندا 'کس طرح دی جائے گی؟ اس کے الفاظ کیا ہوں گے؟ یہ قرآن کریم میں کہیں نہیں ہے۔ یہ چیزیں حدیث سے ثابت ہیں، جو اس کی حجیت اور ماخذ دین ہونے پر دلیل ہیں۔ حجت حدیث کا مطلب : حدیث کے ماخذ دین اور حجت شرعیہ ہونے کا مطلب ہے، کہ جس طرح قرآن سے ثابت ہونے والے احکام و فرائض پر عمل کرنا ضروری ہے اور ان کا انکار کفر ہے۔ اس طرح حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہونے والے احکام کا ماننا بھی فرض ہے، ان پر عمل کرنا ضروری اور ان کا انکار کفر ہے۔ صحیح حدیث چاہے متواتر ہو یا آحاد، قولی ہو، فعلی ہو یا تقریری۔ یہ سب قابل عمل ہیں۔ حدیث کا خبر واحد کی بنیاد پر یا قرآن سے زائد ہونے کی بنیاد پر یا ائمہ کے قیاس واجتہاد کی بنیاد پر یا راوی کی عدم فقاہت کے دعویٰ کی بنیاد پر یا عقلی استحالے کی بنیاد پر یا اسی قسم کے دیگر دعوؤں کی بنیاد پر، رد کرنا صحیح نہیں ہے۔ یہ سب حدیث سے اعراض کی مختلف صورتیں ہیں۔ المآئدہ
59 المآئدہ
60 ٦٠۔ ١ یعنی تم تو (اے اہل کتاب!) ہم سے یوں ناراض ہو جب کہ ہمارا قصور اس کے سوا کوئی نہیں کہ ہم اللہ پر اور قرآن کریم اور اس سے قبل اتاری گئی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں، کیا یہ بھی کوئی قصور یا عیب ہے؟ یعنی یہ عیب اور مذمت والی بات نہیں جیسا کہ تم نے سمجھ لیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ استشناء منقطع ہے۔ البتہ ہم تمہیں بتلاتے ہیں کہ یہ بدترین لوگ ہیں اور گمراہ ترین لوگ، جو نفرت اور مذمت کے قابل ہیں، کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی لعنت اور اس کا غضب ہوا جن میں سے بعض اللہ تعالیٰ نے بندر اور سور بنا دیا اور جنہوں نے طاغوت کی پوجا کی۔ اور اس آئینے میں تم اپنا چہرا اور کردار دیکھ لو! کہ یہ کن کی تاریخ ہے اور کون لوگ ہیں؟ کیا یہ تم ہی نہیں ہو؟ المآئدہ
61 ٦١۔ ١ یہ منافقین کا ذکر ہے جو نبی کی خدمت میں کفر کے ساتھ ہی آتے ہیں اور اسی کفر کے ساتھ واپس چلے جاتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت اور آپ کے واعظ و نصیحت کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوتا۔ کیونکہ دل میں تو کفر چھپا ہوتا ہے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضری سے مقصد ہدایت کا حصول نہیں، بلکہ دھوکہ اور فریب دینا ہوتا ہے، تو پھر ایسی حاضری سے فائدہ بھی کیا ہوسکتا ہے؟ المآئدہ
62 المآئدہ
63 ٦٣۔ ١ یہ علماء و مشائخ دین اور عباد و زہاد پر نکیر ہے کہ عوام کی اکثریت تمہارے سامنے بدکاری اور حرام خوری کا ارتکاب کرتی ہے لیکن تم انہیں منع نہیں کرتے ایسے حالات میں تمہاری یہ خاموشی بہت بڑا جرم ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی کتنی اہمیت ہے اور اس کے ترک پر کتنی سخت وعید (سزا) کی گئی ہے۔ احادیث میں بھی یہ مضمون وضاحت اور کثرت سے بیان کیا گیا ہے۔ المآئدہ
64 ٦٤۔ ١ یہ وہی بات ہے جو سورۃ آل عمران کی آیت ١٨١ میں کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب اپنی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب اور اسے اللہ کو قرض حسن دینے سے تعبیر کیا تو ان یہودیوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تو فقیر ہے ' لوگوں سے قرض مانگ رہا ہے اور وہ تعبیر کے اس حسن کو نہ سمجھ سکے جو اس میں پنہاں تھا۔ یعنی سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے۔ اور اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کردینا، کوئی قرض نہیں ہے۔ لیکن یہ اس کی کمال مہربانی ہے کہ وہ اس پر بھی خوب اجر عطا فرماتا ہے حتٰی کہ ایک ایک دانے کو سات سات سو دانے تک بڑاھا دیتا ہے۔ اور اسے قرض حسن سے اسی لیے تعبیر فرمایا کہ جتنا تم خرچ کرو گے، اللہ تعالیٰ اس سے کئی گنا تمہیں واپس لوٹائے گا۔ مغلولۃ کے معنی بخیلۃ (بخل والے کیے گئے۔ یعنی یہود کا مقصد یہ نہیں تھا کہ اللہ کے ہاتھ واقعتاً بندھے ہوئے ہیں۔ بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس نے اپنے ہاتھ خرچ کرنے سے روکے ہوئے ہیں۔ (ابن کثیر) اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ہاتھ تو انہی کے بندھے ہوئے ہیں یعنی بخیلی انہی کا شیوہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوتے ہیں، وہ جس طرح چاہتا ہے۔ خرچ کرتا ہے۔ وہ واسع الفضل اور جزیل العطاء ہے، تمام خزانے اسی کے پاس ہیں۔ نیز اس نے اپنی مخلوقات کے لیے تمام حاجات وضروریات کا انتظام کیا ہوا ہے، ہمیں رات یا دن کو، سفر میں اور حضر میں اور دیگر تمام احوال میں جن جن چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے یا پڑ سکتی ہے، سب وہی مہیا کرتا ہے۔ (وَاٰتٰیکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَا ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ) 014:034"تم نے جو کچھ اس سے مانگا وہ اس نے تمہیں دیا۔ اللہ کی نعمتیں اتنی ہیں کہ تم گن نہیں سکتے انسان ہی نادان اور نہایت نہ شکرا ہے، حدیث میں بھی ہے نبی نے فرمایا کہ اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، رات دن خرچ کرتا ہے لیکن کوئی کمی نہیں آتی، ذرا دیکھو تو، جب سے آسمان و زمین اس نے پیدا کئے ہیں وہ خرچ کر رہا ہے لیکن اس کے ہاتھ کے خزانے میں کمی نہیں آئی۔ ٦٤۔ ٢ یعنی یہ جب بھی آپ کے خلاف کوئی سازش کرتے ہیں یا لڑائی کے اسباب مہیا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو باطل کردیتا ہے اور ان کی سازش کو انہی پر الٹا دیتا ہے۔ اور ان کو "چاہ کن را چاہ درپیش" کی سی صورت حال سے دوچار کردیتا ہے" ٦٤۔ ٣ ان کی عادت ثانیہ ہے کہ ہمیشہ زمین میں فساد پھیلانے کی مذموم کوشش کرتے ہیں دراں حالیکہ اللہ تعالیٰ مفسدین کو پسند نہیں فرماتا المآئدہ
65 ٦٥۔ ١ یعنی وہ ایمان، جس کا مطالبہ اللہ تعالیٰ کرتا ہے، ان میں سب سے اہم محمد رسول اللہ کی رسالت پر ایمان لانا ہے، جیسا کہ ان پر نازل شدہ کتابوں میں بھی ان کو اس کا حکم دیا گیا ہے۔ واتقوا اور اللہ کی معاصی سے بچتے جن میں سب سے اہم وہ شرک ہے جس میں وہ مبتلا ہیں اور وہ جحود ہے جو آخری رسول کے ساتھ وہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ المآئدہ
66 ٦٦۔ ١ تورات اور انجیل کے پابند رہنے کا مطلب، ان کے ان حکام کی پابندی ہے جو ان میں انہیں دئے گئے، اور انہی میں ایک حکم آخری نبی پر ایمان لانا بھی تھا۔ اور وَمَا اُنزِ لَ سے مراد تمام آسمانی کتب پر ایمان لانا ہے جن میں قرآن کریم بھی شامل ہے۔ مطلب یہ ہے یہ اسلام قبول کرلیتے۔ ٦٦۔ ٢ اوپر نیچے کا ذکر یا بطور مبالغہ ہے، یعنی کثرت سے اور انواع واقسام کے رزق اللہ تعالیٰ مہیا فرماتا ہے۔ یا اوپر سے مراد آسمان ہے یعنی حسب ضرورت خوب بارش برساتا ہے اور ' نیچے سے مراد ' زمین ہے۔ یعنی زمین اس بارش کو اپنے اندر جذب کر کے خوب پیداوار دیتی۔ نتیجتًا شادابی اور خوش حالی کا دور دورہ ہوجاتا اور فصلوں سے پیدوار حاصل ہوتی۔ جس طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا "اگر بستیوں والے ایمان لائے ہوتے اور انہوں نے تقوی اختیار کیا ہوتا تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے۔ ٦٦۔ ٣ لیکن ان کی اکثریت نے ایمان کا یہ راستہ اختیار نہیں کیا اور وہ اپنے کفر پر مصر اور رسالت محمدی سے انکار پر اڑے ہوئے ہیں۔ اسی اصرار اور انکار کو یہاں برے اعمال سے تعبیر کیا گیا ہے۔ درمیانہ روش کی ایک جماعت سے مراد عبد اللہ بن سلام جیسے ٨۔ ٩ افراد ہیں جو یہود مدینہ میں سے مسلمان ہوئے۔ المآئدہ
67 ٦٧۔ ١ اس حکم کا مفاد یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ہے، بلا کم و کاست اور بلا خوف ملامت۔ اور حجۃ الوداع کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کے ایک لاکھ یا ایک لاکھ چالیس ہزار کے جم غفیر میں فرمایا ـ' تم میرے بارے میں کیا کہو گے؟ انہوں نے کہا (ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کا پیغام دیا اور ادا کردیا اور خیر خواہی فرما دی۔ آپ نے آسمان کی طرف انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اللّھُمّ ھَلْ بَلّغتُ (تین مرتبہ) یا اللّھُم ّفَاشْھَدُ (تین مرتبہ) صحیح مسلم کتاب حج ' یعنی اے اللہ! میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا، تو گواہ رہ، تو گواہ رہ، تو گواہ رہ۔ ' ٦٧۔ ٢ یہ حفاظت اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طریقہ پر بھی فرمائی اور دنیاوی اسباب کے تحت بھی دنیاوی اسباب کے تحت اس آیت کے نزول سے بہت قبل اللہ تعالیٰ نے پہلے آپ کے چچا ابو طالب کے دل میں آپ کی طبعی محبت ڈال دی اور وہ آپ کی حفاظت کرتے رہے، ان کا کفر پر قائم رہنا بھی شاید انہی اسباب کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر وہ مسلمان ہوجاتے تو شاید سرداران قریش کے دل میں ان کی ہیبت و عظمت نہ رہتی جو ان کے ہم مذہب ہونے کی صورت میں آخر وقت تک رہی۔ پھر ان کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے بعض سرداران قریش کے ذریعے سے اللہ نے وقتًا فوقتًا یہودیوں کے مکر و کید سے مطلع فرما کر خاص خطرے کے مواقع پر بچایا اور گھمسان کی جنگوں میں کفار کے انتہائی پر خطرناک حملوں سے بھی آپ کو محفوظ رکھا۔ المآئدہ
68 ٦٨۔ ١ یہ ہدایت اور گمراہی اس اصول کے مطابق ہے جو سنت اللہ رہی ہے۔ یعنی جس طرح بعض اعمال و اشیاء سے اہل ایمان کے ایمان و تصدیق، عمل صالح اور علم نافع میں اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح معاصی اور تمرد سے کفر و طغیان میں زیادتی ہوتی ہے۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان فرمایا ہے ــ' فرما دیجئے یہ قرآن ایمان والوں کے لئے ہدایت اور شفا ہے اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں (بہرا پن) ہے اور یہ ان پر اندھا پن ہے۔ گرانی کے سبب ان کو (گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے '"اور ہم قرآن کے ذریعے سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے اور ظالموں کے حق میں اس سے نقصان ہی بڑھتا ہے"(القرآن)۔ المآئدہ
69 ٦٩۔ ١ یہ وہی مضمون ہے جو سورۃ بقرہ کی آیت ٦٢ میں بیان ہوا ہے، اسے دیکھ لیا جائے۔ المآئدہ
70 المآئدہ
71 ٧١۔ ١ یعنی سمجھے تھے کہ کوئی سزا نہ ہوگی۔ لیکن مذکورہ اصول الٰہی کے مطابق یہ سزا ہوئی کہ یہ حق کے دیکھنے سے مزید اندھے اور حق کے سننے سے مزید بہرے ہوگئے اور توبہ کے بعد پھر یہی عمل انہوں نے دہرایا ہے تو اس کی وہی سزا بھی دوبارہ مرتب ہوئی۔ المآئدہ
72 ٧٢۔ ١ یہی مضمون آیت نمبر ١٧ میں بھی گزر چکا ہے۔ یہاں اہل کتاب کی گمراہیوں کے ذکر میں اس کا پھر ذکر فرمایا۔ اس میں ان کے اس فرقے کے کفر کا اظہار ہے جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے عین اللہ ہونے کے قائل ہیں۔ ٧٢۔ ٢ چنانچہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یعنی مسیح ابن مریم نے عالم شیر خوارگی میں سب سے پہلے اپنی زبان سے اپنی عبودیت ہی کا اظہار فرمایا، "انی عبد اللہ اٰتنی الکتاب وجعلنی نبیا" (میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں مجھے اس نے کتاب بھی عطا کی ہے) حضرت مسیح (علیہ السلام) نے یہ نہیں کہا میں اللہ ہوں یا اللہ کا بیٹا ہوں۔ صرف یہ کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور عمر کہولت میں بھی انہوں نے یہی دعوت دی "ان اللہ ربی وربکم فاعبدوہ ھذا صراط مستقیم" یہ وہی الفاظ ہیں جو ماں کی گود میں بھی کہے تھے (ملاحظہ ہو سورۃ مریم، آیت ٣٦) اور جب قیامت کے قریب ان کا آسمان سے نزول ہوگا، جس کی خبر صحیح احادیث میں دی گئی ہے اور جس پر اہل سنت کا اجماع ہے، تب بھی وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات کے مطابق لوگوں کو اللہ کی توحید اور اس کی اطاعت کی طرف ہی بلائیں گے، نہ کہ اپنی عبادت کی طرف۔ ٧٢۔ ٣ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے اپنی بندگی اور رسالت کا اظہار اللہ کے حکم اور مشیت سے اس وقت بھی فرمایا تھا جب وہ ماں کی گود میں یعنی شیر خوارگی کی حالت میں تھے۔ پھر سن کہولت میں یہ اعلان فرمایا۔ اور ساتھ ہی شرک کی شناعت وقباحت بھی بیان فرما دی کہ مشرک پر جنت حرام ہے اور اس کا کوئی مددگار بھی نہیں ہوگا جو اسے جہنم سے نکال لائے جیسا کہ مشرکین سمجھتے ہیں۔ المآئدہ
73 ٧٣۔ ١ یہ عیسائیوں کے دوسرے فرقے کا ذکر ہے جو تین خداؤں کا قائل ہے، جن کو وہ اقانیم ثلاثہ کہتے ہیں۔ ان کی تعبیر وتشریح میں اگرچہ خود ان کے مابین اختلاف ہے۔ تاہم صحیح بات یہی ہے کہ اللہ کے ساتھ، انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کو بھی اللہ قرار دے لیا، جیسا کہ قرآن نے صراحت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھے گا۔ "ءانت قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اللہ" (کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو، اللہ کے سوا، معبود بنا لینا ؟) (المائدۃ١١٢) اس سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ اور مریم علیہما السلام ان دونوں کو عیسائیوں نے اللہ بنایا، اور اللہ تیسرا اللہ ہوا، جو ثالث ثلاثہ (تین میں کا تیسرا) کہلایا پہلے عقیدے کی طرح اللہ تعالیٰ نے اسے بھی کفر سے تعبیر فرمایا۔ المآئدہ
74 المآئدہ
75 ٧٥۔ ١ صِدِّ یْقَۃُ کے معنی مومنہ اور ولیہ کے ہیں یعنی وہ بھی حضرت مسیح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں اور ان کی تصدیق کرنے والوں میں سے تھیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ (پیغمبر) نہیں تھیں۔ جیسا کہ بعض لوگوں کو وہم ہوا ہے اور انہوں نے حضرت مریم علیہا السلام سمیت، حضرت سارہ (ام اسحاق علیہ السلام) اور موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو بھی پیغمبر قرار دیا ہے، قرآن نے صراحت کی ہے کہ ہم نے جتنے رسول بھیجے وہ مرد تھے (سورہ یوسف۔ ١٠٩)۔ ٧٥۔ ٢ یہ حضرت مسیح (علیہ السلام) اور حضرت مریم علیہا السلام دونوں کی الوہیت کی نفی اور بشریت کی دلیل ہے۔ کیونکہ کھانا پینا، یہ انسانی حوائج وضروریات میں سے ہے۔ جو الٰہ ہو، وہ تو ان چیزوں سے ماوراء بلکہ وراء الوراء ہوتا ہے۔ المآئدہ
76 ٧٦۔ ١ یہ مشرکوں کی کم عقلی کی وضاحت کی جا رہی ہے کہ ایسوں کو انہوں نے معبود بنا رکھا ہے جو کسی کو نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان، بلکہ نقصان پہنچانا تو کجا، وہ تو کسی کی بات سننے اور کسی کا حال جاننے کی ہی قدرت نہیں رکھتے۔ یہ قدرت صرف اللہ ہی کے اندر ہے۔ اس لئے حاجت روا مشکل کشا بھی صرف وہی ہے۔ المآئدہ
77 ٧٧۔ ١ یعنی اتباع حق میں حد سے تجاور نہ کرو اور جن کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے، اس میں مبالغہ کر کے انہیں منصب نبوت سے اٹھا کر مقام الویت پر فائز مت کرو، جیسے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے معاملے میں تم نے کیا۔ غلو ہر دور میں شرک اور گمرہی کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے۔ انسان کو جس سے عقیدت اور محبت ہوتی ہے، وہ اس کی شان میں خوب مبالغہ کرتا ہے۔ وہ امام اور دینی قائد ہے تو اس کو پیغمبر کی طرح معصوم سمجھنا اور پیغمبر کو خدائی صفات سے متصف ماننا عام بات ہے، بد قسمتی سے مسلمان بھی اس غلو سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ انہوں نے بعض ائمہ کی شان میں بھی غلو کیا اور ان کی رائے اور قول، حتٰی کہ ان کی طرف منسوب فتویٰ اور فقہ کو بھی حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں ترجیح دے دی۔ ٧٧۔ ٢ یعنی اپنے سے پہلے لوگوں کے پیچھے مت لگو جو ایک نبی کو اللہ بنا کر خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ المآئدہ
78 ٧٨۔ ١ یعنی زبور میں جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر اور انجیل میں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی اور اب یہی لعنت قرآن کریم کے ذریعے سے ان پر کی جا رہی ہے جو حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا۔ لعنت کا مطلب اللہ کی رحمت اور خیر سے دوری ہے۔ ٧٨۔ ٢ یہ لعنت کے اسباب ہیں۔ ١۔ عصیان۔ یعنی واجبات کا ترک اور محرمات کا ارتکاب کر کے۔ انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی۔ ٢۔ اور اعتداء، یعنی دین میں غلو اور بدعات ایجاد کر کے انہوں نے حد سے تجاوز کیا۔ المآئدہ
79 ٧٩۔ ١ وہ ایک دوسرے کو برائی سے روکتے نہیں تھے جو بجائے خود ایک بہت بڑا جرم ہے۔ بعض مفسرین نے اسی ترک نہی کو عصیان اور اعتدا قرار دیا ہے جو لعنت کا سبب بنا۔ بہرحال دونوں صورتوں میں برائی کو دیکھتے ہوئے برائی سے نہ روکنا، بہت بڑا جرم اور لعنت غضب الہی کا سبب ہے۔ حدیث میں بھی اس جرم پر بڑی سخت وعیدیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ایک حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا"سب سے پہلا نقص جو بنی اسرائیل میں داخل ہوا یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو برائی کرتے ہوئے دیکھتا تو کہتا، اللہ سے ڈر اور یہ برائی چھوڑ دے، یہ تیرے لیے جائز نہیں۔ لیکن دوسرے روز پھر اسی کے ساتھ اسے کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے میں کوئی عار یا شرم محسوس نہ ہوتی، (یعنی اس کا ہم نوالہ وہ ہم پیالہ وہم نشین بن جاتا) درآں حالیکہ ایمان کا تقاضا اس سے نفرت اور ترک تعلق تھا۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان آپس میں عداوت ڈال دی اور وہ لعنت الہی کے مستحق قرار پائے۔ پھر فرمایا کہ "اللہ کی قسم! تم ضرور لوگوں کو نیکی کا حکم دیا کرو اور برائی سے روکا کرو" ظالم کا ہاتھ پکڑ لیا کرو"(ورنہ تمہارا بھی یہی حال ہوگا۔ ایک دوسری روایت میں اس فریضے کے ترک پر یہ وعید سنائی گئی ہے کہ تم عذاب الہی کے مستحق بن جاؤ گے۔ پھر تم اللہ سے دعائیں بھی مانگو گے تو قبول نہیں ہوں گی۔ (مسند احمد جلد ٥۔ ص ٣٨٨) المآئدہ
80 ٨٠۔ ١ یہ اہل کفر سے دوستانہ تعلق کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر ناراض ہوا اور اسی نارضگی کا نتیجہ جہنم کا دائمی عذاب ہے۔ المآئدہ
81 ٨١۔ ١ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے اندر صحیح معنوں میں ایمان ہوگا، وہ کافروں سے کبھی دوستی نہیں کرے گا۔ المآئدہ
82 ٨٢۔ ١ اس لئے کہ یہودیوں کے اندر عناد و جحود، حق سے اعراض و استکبار اور اہل علم و ایمان کی تنقیص کا جذبہ بہت پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نبیوں کا قتل اور ان کی تکذیب ان کا شعار رہا ہے۔ حتیٰ کہ انہوں نے رسول اللہ کے قتل کی بھی کئی مرتبہ سازش کی، آپ پر جادو بھی کیا اور ہر طرح نقصان پہنچانے کی مذموم سعی کی۔ اور اس معاملہ میں مشرکین کا حال بھی یہی ہے۔ ٨٢۔ ٢ رُھْبَانُ سے مراد نیک، عبادت گزار اور گوشہ نشین لوگ قَسِّیْسِیْنَ سے مراد علما وخطبا ہیں، یعنی ان عیسائیوں میں علم وتواضع ہے، اس لئے ان میں یہودیوں کی طرح حجود و استکبار نہیں ہے۔ علاوہ ازیں دین مسیح میں نرمی اور عفو و درگزر کی تعلیم کو امتیازی حیثیت حاصل ہے، حتیٰ کہ ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ کوئی تمہارے دائیں رخسار پر مارے تو بایاں رخسار بھی ان کو پیش کر دو۔ یعنی لڑو مت۔ ان وجوہ سے یہ مسلمان کے، بہ نسبت یہودیوں کے زیادہ قریب ہیں۔ عیسائیوں کا وصف یہودیوں کے مقابلے میں ہے، تاہم جہاں تک اسلام دشمنی کا تعلق ہے، کم و بیش کے کچھ فرق کے ساتھ، اسلام کے خلاف یہ عناد عیسائیوں میں بھی موجود ہے، جیسا کہ صلیب و ہلال کی صدیوں پر محیط معرکہ آرائی سے واضح ہے اور جس کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اور اب تو اسلام کے خلاف یہودی اور عیسائی دونوں ہی مل کر سرگرم عمل ہیں۔ اسی لئے قرآن نے دونوں سے دوستی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ المآئدہ
83 المآئدہ
84 ٨٤۔ ١ حبشے میں، جہاں مسلمان مکی زندگی میں دو مرتبہ ہجرت کر کے گئے۔ اصحمۃ نجاشی کی حکوت تھی، یہ عیسائی مملکت تھی، یہ آیات حبشے میں رہنے والے عیسائیوں کے بارے میں ہی نازل ہوئیں ہیں تاہم روایات کی رو سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ علیہ کو اپنا مکتوب دیکر نجاشی کے پاس بھیجا تھا، جو انہوں نے جاکر سنایا، نجاشی نے وہ مکتوب سن کر حبشے میں موجود مہاجرین اور حضرت جعفر بن ابی طالب کو اپنے پاس بلایا اور اپنے علماء اور عباد و زباد کو بھی جمع کرلیا پھر حضرت جعفر کو قرآن پڑھنے کا حکم دیا۔ حضرت جعفر نے سورۃ مریم پڑھی جس پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اعجازی ولادت اور ان کی عبدیت و رسالت کا ذکر ہے جسے سن کر وہ بڑے متاثر ہوئے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور ایمان لے آئے۔ بعض کہتے ہیں کہ نجاشی نے اپنے کچھ علماء نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجے تھے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا تو بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور ایمان لے آئے (فتح القدیر) آیات میں قرآن سن کر ان پر جو اثر ہوا اس کا نقشہ کھیینچا گیا ہے اور ان کے ایمان لانے کا تذکرہ ہے قرآن کریم میں بعض اور مقامات پر اس قسم کے عیسائیوں کا ذکر کیا گیا ہے مثلا (وان من اھل الکتاب لمن یومن باللہ وما انزل الیکم وما انزل الیھم خاشعین للہ (سورہ آل عمران) یقینا اہل کتاب میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ پر اور اس کتاب پر جو تم پر نازل ہوئی اور اس پر جو ان پر نازل ہوئی ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کے آگے عاجزی کرتے ہیں وغیرھا من الآیات اور حدیث میں آتا ہے کہ جب نجاشی کی موت کی خبر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچی تو آپ نے صحابہ (رض) سے فرمایا کہ حبشہ میں تمہارے بھائی کا انتقال ہوگیا ہے اس کی نماز جنازہ پڑھو چنانچہ ایک صحرا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی نماز جنازہ غائبانہ ادا فرائی (صحیح بخاری مناقب الانصار کتاب الجنائز۔ صحیح مسلم، کتاب الجنائز) ایک اور حدیث میں ایسے اہل کتاب کی بابت جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایمان لائے بتلایا گیا ہے کہ انہیں دو گنا اجر ملے گا بخاری۔ کتاب العلم و کتاب النکاح) المآئدہ
85 المآئدہ
86 المآئدہ
87 ٨٧۔ ١ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نبی کی خدمت میں حاضر ہوا اور آکر کہا کہ یارسول اللہ! جب میں گوشت کھاتا ہوں تو نفسانی شہوت کا غلبہ ہوجاتا ہے، اس لئے میں نے اپنے اوپر گوشت حرام کرلیا ہے، جس پر آیت نازل ہوئی، اس طرح سبب نزول کے علاوہ دیگر روایات سے ثابت ہے کہ بعض صحابہ زہد و عبادت کی غرض سے بعض حلال چیزوں سے (مثلًا عورت سے نکاح کرنے، رات کے وقت سونے، دن کے وقت کھانے پینے سے) اجتناب کرنا چاہتے تھے۔ نبی کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے انہیں منع فرمایا۔ حضرت عثمان بن مظعون نے بھی اپنی بیوی سے کنارہ کشی اختیار کی ہوئی تھی، ان کی بیوی کی شکایت پر آپ نے انہیں بھی روکا (کتب حدیث) بہرحال اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ کسی بھی چیز کو حرام کرلینا یا اس سے ویسے ہی پرہیز کرنا جائز نہیں ہے چاہے اس کا تعلق کھانے پینے یا مشروبات سے ہو یا لباس سے ہو یا مرغوبات و جائز خواہشات سے۔ مسئلہ :۔ اس طرح اگر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے گا تو وہ حرام نہیں ہوگی سوائے عورت کے البتہ اس صورت میں بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اسے قسم کا کفارہ ادا کرنا ہوگا اور بعض کے نزدیک کفارہ ضروری نہیں امام شوکانی کہتے ہیں کہ احادیث صحیحہ سے اسی بات کی تائید ہوتی ہے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کو بھی کفارہ یمین ادا کرنے کا حکم نہیں دیا امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس آیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے قسم کا کفارہ بیان فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی حلال چیز کو حرام کرلینا یہ قسم کھانے کے مرتبے میں ہے جو تکفیر یعنی کفارہ ادا کرنے کا متقاضی ہے لیکن یہ استدلال احادیث صحیحہ کی موجودگی میں محل نظر ہے۔ فالصحیح ما قالہ الشوکانی المآئدہ
88 المآئدہ
89 ٨٩۔ ١ قَسَمٌ جس کو عربی میں حَلْفٌ یا یَمِیْنٌ کہتے ہیں جن کی جمع اَحْلَافٌ اور ایمان ہے۔ تین قسم کی ہیں۔ ١۔ لَغْوٌ ٢۔ غَمُوْسٌ، ٣۔ مُعَقَّدَۃٌ . لَغْوٌ: وہ قسم ہے جو انسان بات بات میں عادتًا بغیر ارادے اور نیت کے کھاتا رہتا ہے۔ اس پر کوئی مواخذہ نہیں.غَمُوْسٌ: وہ جھوٹی قسم ہے جو انسان دھوکہ اور فریب دینے کے لئے کھائے۔ یہ کبیرہ گناہ بلکہ اکبر الکبائر ہے۔ لیکن اس پر کفارہ نہیں. مُعَقَّدَۃٌ: وہ قسم ہے جو انسان اپنی بات میں تاکید اور پختگی کے لئے اراداۃً نیۃً کھائے، ایسی قسم اگر توڑے گا تو اس کا وہ کفارہ ہے جو آگے آیت میں بیان کیا جا رہا ہے۔ ٨٩۔ ٢ اس کھانے کی مقدار میں کوئی صحیح روایت نہیں اس لئے اختلاف ہے۔ البتہ امام شافعی نے اس حدیث سے استدال کرتے ہوئے، جس میں رمضان میں روزے کی حالت میں بیوی سے ہمبستری کرنے والے کے کفارہ کا ذکر ہے، ایک مد (تقریبًا ٠ ١ چھٹانک) فی مسکین خوراک قرار دی ہے۔ کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو کفارہ جماع ادا کرنے کے لئے ١٥ صاع کھجوریں دی تھیں، جنہیں ساٹھ مسکینوں میں تقسیم کرنا تھا، ایک صاع میں ٤ من ہوتے ہیں، اس اعتبار سے بغیر سالن کے دس مسکینوں کے لئے دس مد (یعنی سوا سیر یا چھ کلو) خوراک کفارہ ہوگی۔ (ابن کثیر) ٨٩۔ ٣ لباس کے بارے میں اختلاف ہے۔ بظاہر مراد جوڑا ہے جس میں انسان نماز پڑھ سکے۔ بعض علماء خوراک اور لباس دونوں کے لئے عرف کو معتبر قرار دیتے ہیں (حاشیہ ابن کثیر، تحت آیت زیر بحث ) ٨٩۔ ٤ بعض علماء قتل خطا کی دیت پر قیاس کرتے ہوئے لونڈی، غلام کے لئے ایمان کی شرط عائد کرتے ہیں۔ امام شوکانی کہتے ہیں، آیت میں عموم ہے مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے۔ ٨٩۔ ٥ یعنی جس کو مذکورہ تینوں چیزوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو وہ تین روزے رکھے، یہ روزے اس کی قسم کا کفارہ ہوجائیں گے۔ بعض علماء پے درپے روزے رکھنے کے قائل ہیں۔ اور بعض کے نزدیک دونوں طرح جائز ہیں۔ المآئدہ
90 ٩٠۔ ١ یہ شراب کے بارے میں تیسرا حکم ہے۔ پہلے اور دوسرے حکم میں صاف طور پر ممانعت نہیں فرمائی گئی۔ لیکن یہاں اسے اور اس کے ساتھ جوا پرستش گاہوں یا تھانوں اور فال کے تیروں کو رجس (پلید) اور شیطانی کام قرار دے کر صاف لفظوں میں ان سے اجتناب کا حکم دے دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس آیت میں شراب اور جوا کے مزید نقصانات بیان کرکے سوال کیا گیا ہے کہ اب بھی باز آجاؤ گے یا نہیں؟ جس مقصود اہل ایمان کی آزمائش ہے۔ چنانچہ، جو اہل ایمان تھے وہ تو منشائے الٰہی سمجھ گئے اور اس کی قطعی حرمت کے قائل ہوگئے اور کہا اُنْتَھَیْنَا رَبَّنَا! اے رب ہم باز آگئے، لیکن آجکل کے بعض "دانشور" کہتے ہیں کہ اللہ نے شراب کو حرام کہاں قرار دیا ہے؟ (برین عقل و دانش بباید گریست)۔ یعنی شراب کو رجس (پلیدی) اور شیطانی عمل قرار دے کر اس سے اجتناب کا حکم دینا نیز اس اجتناب کو باعث فلاح قرار دینا ان مجتہدین کے نزدیک حرمت کے لئے کافی نہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کے نزدیک پلید کام بھی جائز ہے شیطانی کام بھی جائز ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ اجتناب کا حکم دے وہ بھی جائز ہے اور جس کی بابت کہے کہ اس کا ارتکاب عدم فلاح اور اس کا ترک فلاح کا باعث ہے وہ بھی جائز ہے (اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ١٥٦؁ۭ) 002:156 المآئدہ
91 ٩١۔ ١ یہ شراب اور جوا کے مزید معاشرتی اور دینی نقصانات ہیں، جو محتاج وضاحت نہیں ہیں۔ اس لئے شراب کو ام الخبائث کہا جاتا ہے اور جوا بھی ایسی بری لت ہے کہ یہ انسان کو کسی کام کا نہیں چھوڑتی اور بسا اوقات رئیس زادوں اور خاندانی جاگیر داروں کو مفلس و قلاش بنا دیتی ہے اَ عَا ذَنَا اللّٰہُ مِنْھُمَا۔ المآئدہ
92 المآئدہ
93 ٩٣۔ ١ حرمت شراب کے بعد بعض صحابہ (رض) کے ذہن میں یہ بات آئی کہ ہمارے کئی ساتھی جنگوں میں شہید یا ویسے ہی فوت ہوگئے۔ جب کہ وہ شراب پیتے رہے ہیں۔ تو اس آیت میں اس شبہ کا ازالہ کردیا گیا کہ ان کا خاتمہ ایمان و تقویٰ پر ہی ہوا ہے کیونکہ شراب اس وقت تک حرام نہیں ہوئی تھی۔ المآئدہ
94 ٩٤۔ ١ شکار عربوں کی معاش کا ایک اہم عنصر تھا، اس لئے حالت احرام میں اس کی ممانعت کر کے ان کا امتحان لیا گیا۔ خاص طور پر حدیبیہ میں قیام کے دوران کثرت سے شکار صحابہ کے قریب آتے، لیکن انہی ایام میں ٤ آیات کا نزول ہوا جن کے متعلقہ احکام بیان فرمائے گئے۔ ٩٤۔ ٢ قریب کا شکار یا چھوٹے جانور عام طور پر ہاتھ ہی سے پکڑ لئے جاتے تھے دور کے یا بڑے جانوروں کے لئے تیر اور نیزے استعمال ہوتے تھے۔ اس لئے صرف ان دونوں کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن مراد یہ ہے کہ جس طرح بھی اور جس چیز سے بھی شکار کیا جائے، احرام کی حالت میں ممنوع ہے۔ المآئدہ
95 ٩٥۔ ١ امام شافعی نے اس سے مراد، صرف ان جانوروں کا قتل لیا ہے جو ماکول اللحم ہیں یعنی جو کھانے کے کام آتے ہیں۔ دوسرے برے جانوروں کا قتل وہ جائز قرار دیتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر علماء کے نزدیک اس میں کوئی تفریق نہیں۔ البتہ ان موذی جانوروں کا قتل جائز ہے جن کا ذکر احادیث میں آیا ہے اور وہ پانچ ہیں کوا، چیل، بچھو، چوہا اور باؤلا کتا (صحیح مسلم) حضرت نافع سے سانپ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا اس کے قتل میں تو کوئی اختلاف ہی نہیں ہے۔ (ابن کثیر) اور امام احمد اور امام مالک اور دیگر علماء نے بھیڑیئے، درندے، چیتے اور شیر کو کلب عقور میں شامل کر کے حالت احرام میں ان کے قتل کی بھی اجازت دی ہے۔ (ابن کثیر ) ٩٥۔ ٢. "جان بوجھ کر" کے الفاظ سے بعض علماء نے استدلال کیا ہے کہ بغیر ارادہ کے معنی بھول کر قتل کر دے تو اس کے لئے فدیہ نہیں ہے۔ لیکن زیادہ علماء کے نزدیک بھول کر، یا غلطی سے بھی قتل ہوجائے تو فدیہ واجب ہوگا۔ مُتَعَمِّدًا کی قید غالب احوال کے اعتبار سے ہے بطور شرط نہیں ہے۔ ٩٥۔ ٣ مساوی جانور (یا اس جیسے جانور) سے مراد خلقت قدو قامت میں مساوی ہونا ہے۔ قیمت میں مساوی ہونا نہیں ہے۔ مثلًا اگر ہرن کو قتل کیا گیا تو اس کی شکل (مساوی) بکری ہے، گائے کی مثل نیل گائے ہے وغیرہ۔ البتہ جس جانور کا مثل نہ مل سکتا ہو، وہاں اس کی قیمت بطور فدیہ لے کر مکہ پہنچا دی جائے۔ ٩٥۔ ٤ کہ مقتول جانور کی مثل (مساوی) فلاں جانور ہے اور اگر وہ غیر مثلی ہے یا مثل دستیاب نہیں ہے تو اس کی اتنی قیمت ہے۔ اس قیمت سے غلہ خرید کر مکہ کے مساکین میں فی مسکین ایک مد کے حساب سے تقسیم کردیا جائے گا۔ احناف کے نزدیک فی مسکین دو مد ہیں۔ ٩٥۔ ٥ یہ فدیہ، جانور یا اس کی قیمت، کعبہ پہنچائی جائے گی اور کعبہ سے مراد حرم ہے۔ (فتح القدیر) یعنی ان کی تقسیم حرم مکہ کی حدود میں رہنے والے مساکین پر ہوگی۔ ٩٥۔ ٦ اور یا تخییر کے لئے ہے۔ یعنی کفارہ، اطعام مساکین ہو یا اس کے برابر روزے۔ دونوں میں سے کسی ایک پر عمل کرنا جائز ہے۔ مقتول جانور کے حساب سے طعام میں جس طرح کی کمی بیشی ہوگی، روزوں میں بھی کمی بیشی ہوگی مثلًا محرم (احرام والے) نے ہرن قتل کیا ہے تو اس کی مسل بکری ہے، یہ فدیہ حرم مکہ میں ذبح کیا جائے گا، اگر یہ نہ ملے تو ابن عباس کے ایک قول کے مطابق چھ مساکین کو کھانا یا تین دن کے روزے رکھنے ہونگے، اگر بارہ سنگھا ہے یا اس جیسا کوئی جانور قتل کیا ہے تو اس کی مثل گائے ہے، اگر یہ دستیاب نہ ہو یا اس کی طاقت نہ ہو تو تیس مساکین کو کھانا یا تیس روزے رکھنے ہونگے (ابن کثیر) المآئدہ
96 ٩٦۔ ١ صَیْدُ، سے مراد زندہ جانور اور۔ طعَامُہُ سے مراد وہ مردہ (مچھلی وغیرہ) جسے سمندر یا دریا باہر پھینک دے یا پانی کے اوپر آجائے۔ جس طرح کے حدیث میں وضاحت ہے کہ سمندر کا مردار حلال ہے۔ (تفصیل ملاحظہ ہو ابن کثیر) المآئدہ
97 ٩٧۔ ١ کعبہ کو البیت الحرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی حدود میں شکار کرنا، درخت کاٹنا وغیرہ حرام ہیں۔ اسی طرح اس میں اگر باپ کے قاتل سے بھی سامنا ہوجاتا تو اس سے بھی تعرض نہیں کیا جاتا تھا۔ اسے قیاما للناس (لوگوں کے قیام اور گزران کا باعث) قرار دیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کے ذریعے سے اہل مکہ کا نظم و انصرام بھی صحیح ہے اور ان کی ضروریات کی فراہمی کا ذریعہ بھی۔ اسی طرح حرمت والے مہینے (رجب، ذوالحجہ اور محرم) اور حرم میں جانے والے جانور ہیں کہ تمام چیزوں سے بھی اہل مکہ مزکورہ فوائد حاصل ہوتے تھے۔ المآئدہ
98 المآئدہ
99 المآئدہ
100 ١٠٠۔ ١ خَبِیْثُ (ناپاک) سے مراد حرام، یا کافر یا گناہ گار یا ردی۔ طیب (پاک) سے مراد حلال، یا مومن یا فرماں بردار اور عمدہ چیز ہے یا یہ سارے ہی مراد ہو سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے جس چیز میں خبث (ناپاکی) ہوگی وہ کفر ہو، فسق و فجور ہو، اشیا و اقوال ہوں، کثرت کے باوجود وہ ان چیزوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے جن میں پاکیزگی ہو۔ یہ دونوں کسی صورت میں برابر نہیں ہو سکتے۔ اس لئے پلیدی کی وجہ سے اس چیز کی قیمت اور برکت ختم ہوجاتی ہے جب کہ جس چیز میں پاکیزگی ہوگی اس سے اس کی منفعت اور برکت میں اضافہ ہوگا۔ المآئدہ
101 ١٠١۔ ١ یہ ممانعت نزول قرآن کے وقت تھی۔ خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی صحابہ (رض) کو زیادہ سوالات کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ ایک حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' مسلمانوں میں وہ سب سے بڑا مجرم ہے جس کے سوال کرنے کی وجہ سے کوئی چیز حرام کردی گئی درآں حالیکہ اس سے قبل وہ حلال تھی۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) المآئدہ
102 ١٠٢۔ ١ کہیں اس کوتاہی کے مرتکب تم بھی ہوجاؤ۔ جس طرح ایک مرتبہ نبی نے فرمایا اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے ایک شخص نے سوال کیا ' کیا ہر سال ـ' آپ خاموش رہے، اس نے تین مرتبہ سوال دہرایا پھر آپ نے فرمایا ' اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال فرض ہوجاتا اور اگر ایسا ہوجاتا تو ہر سال حج کرنا تمہارے لئے ممکن نہ ہوتا ' تمہیں جن چیزوں کی بابت نہیں بتایا گیا، تم مجھ سے ان کی بابت سوال مت کرو، اس لئے کہ تم سے پہلی امتوں کی ہلاکت کا سبب ان کا کثرت سوال اور اپنے انبیاء سے اختلاف بھی تھا '۔ المآئدہ
103 ١٠٣۔ ١ یہ ان جانوروں کی قسمیں ہیں جو اہل عرب اپنے بتوں کی نذر کردیا کرتے تھے۔ ان کی مختلف تفسریں کی گئی ہیں۔ حضرت سعید بن مسیب (رض) سے صحیح بخاری میں اس کی تفسیر حسب ذیل نقل کی گئی ہے وہ جانور جس کا دودھ دوہنا چھوڑ دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ بتوں کے لئے ہے۔ چنانچہ کوئی شخص اس کے تھنوں کو ہاتھ نہ لگاتا، وہ جانور، جسے بتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتے تھے اسے نہ سواری کے لئے استعمال کرتے اور نہ بار برداری کے لئے، جس سے پہلی دفعہ مادہ پیدا ہوتی اور اس کے بعد دوبارہ بھی مادہ ہی پیدا ہوتی یعنی ایک مادہ کے بعد دوسری مادہ مل گئی، ان کے درمیان کسی نر سے تفریق نہیں ہوئی، ایسی اونٹنی کو بھی بتوں کے لئے آزاد چھوڑ دیتے تھے، بتوں کے لئے یہ نذر نیاز پیش کرنے کا سلسلہ آج بھی مشرکوں میں بلکہ بہت سے نام نہاد مسلمانوں میں بھی قائم و جاری ہے۔ المآئدہ
104 المآئدہ
105 ١٠٥۔ ١ بعض لوگوں کے ذہن میں ظاہری الفاظ سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ اپنی اصلاح اگر کرلی جائے تو کافی ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ضروری نہیں ہے۔ لیکن یہ مطلب صحیح نہیں ہے کیونکہ امر بالمعروف کا فریضہ بھی نہایت اہم ہے۔ اگر ایک مسلمان یہ فریضہ ہی ترک کر دے گا تو اسکا تارک ہدایت پر قائم رہنے والا کب رہے گا ؟ جب کہ قرآن نے (جب تم خود ہی ہدایت پر چل رہے ہو) کی شرط عائد کی ہے۔ اس لئے جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے فرمایا ' لوگو! تم آیت کو غلط جگہ استعمال کر رہے ہو، میں نے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ، جب لوگ برائی ہوتے ہوئے دیکھ لیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عذاب کی گرفت میں لے لے۔ اس لئے آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تمہارے سمجھانے کے باوجود اگر لوگ نیکی کا راستہ اختیار نہ کریں یا برائی سے باز نہ آئیں تو تمہارے لئے یہ نقصان دہ نہیں ہے جب کہ تم خود نیکی پر قائم اور برائی سے مجتنب ہو۔ البتہ ایک صورت میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ترک جائز ہے کہ جب کوئی شخص اپنے اندر اس کی طاقت نہ پائے اور اس سے اس کی جان کو خطرہ ہے اس صورت میں فان لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان کے تحت اس کی گنجائش ہے آیت بھی اس صورت کی متحمل ہے۔ المآئدہ
106 ١٠٦۔ ١ تم میں سے ہوں کا مطلب بعض نے یہ بیان کیا ہے کہ مسلمانوں میں سے ہوں اور بعض نے کہا ہے (وصیت کرنے والے) کے قبیلے سے ہوں، اسی طرح (آخران من غیرکم) میں دو مفہوم ہونگے۔ یعنی من غیرکم سے مراد یا غیر مسلم اہل کتاب ہوں گے یا موصی کے قبیلے کے علاوہ کسی اور قبیلے سے۔ ١٠٦۔ ٢ یعنی سفر میں کوئی ایسا شدید بیمار ہوجائے کہ جسے زندہ بچنے کی امید نہ ہو تو وہ سفر میں دو عادل گواہ بنا کر جو وصیت کرنا چاہے، کر دے۔ ١٠٦۔ ٣ یعنی مرنے والے موصی کے ورثا کو شک پڑجائے کہ ان اوصیا نے مال میں خیانت یا تبدیلی کی ہے تو نماز کے بعد یعنی لوگوں کی موجودگی میں ان سے قسم لیں اور وہ قسم کھا کے کہیں ہم اپنی قسم کے عوض دنیا کا کوئی فائدہ حاصل نہیں کر رہے ہیں۔ یعنی جھوٹی قسم نہیں کھا رہے۔ المآئدہ
107 ١٠٧۔ ١ یعنی جھوٹی قسمیں کھائیں ہیں۔ ١٠٧۔ ٢ اولیان، اولی کا تثنیہ ہے، مراد ہے میت یعنی موصی (وصیت کرنے والا) کے قریب ترین دو رشتے دار من الذین استحق علیہم کا مطلب یہ ہے جن کے مقابلے پر گناہ کا ارتکاب ہوا تھا یعنی جھوٹی قسم کا ارتکاب کر کے ان کو ملنے والا مال ہڑپ کرلیا تھا، الاولیان یہ یا تو ھما مبتدا محذوف کی خبر ہے یا یقومان یا آخران کی ضمیر سے بدل ہے۔ یعنی یہ دو قریبی رشتہ دار، ان کی جھوٹی قسموں کے مقابلے میں اپنی قسم دیں گے۔ المآئدہ
108 ١٠٨۔ ١ یہ اس فائدے کا ذکر ہے جو اس حکم میں پنہاں ہے، جس کا ذکر یہاں کیا گیا وہ یہ کہ یہ طریقہ اختیار کرنے میں اوصیا صحیح صحیح گواہی دیں گے کیونکہ انہیں خطرہ ہوگا کہ اگر ہم نے خیانت یا دروغ گوئی یا تبدیلی کا ارتکاب کیا تو یہ کاروائیاں خود ہم پر الٹ سکتی ہیں۔ اس واقعہ کی شان نزول میں بدیل بن ابی مریم کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ شام تجارت کی غرض سے گئے، وہاں بیمار اور قریب المرگ ہوگئے، ان کے پاس سامان ایک چاندی کا پیالہ تھا جو انہوں نے دو عیسائیوں کے سپرد کر کے اپنے رشتہ داروں تک پہنچانے کی وصیت کردی اور فوت ہوگئے، یہ دونوں وصی جب واپس آئے تو پیالہ تو انہوں نے بیچ کر پیسے آپس میں تقسیم کرلئے اور باقی سامان ورثا کو پہنچا دیا۔ سامان میں ایک رقعہ بھی تھا جس میں سامان کی فہرست تھی جس کی رو سے چاندی کا پیالہ گم تھا، ان سے کہا گیا تو انہوں نے جھوٹی قسم کھالی لیکن بعد میں پتہ چل گیا کہ وہ پیالہ انہوں نے فلاں صراف کو بیچا ہے۔ چنانچہ انہوں نے ان غیر مسلموں کے مقابلے میں قسمیں کھا کر ان سے پیالے کی رقم وصول کی۔ یہ روایت تو سندا ضعیف ہے۔ (ترمذی 3059 بہ تحقیق أحمد شاکر) تاہم ایک دوسری سند سے حضرت ابن عباس سے بھی مختصراً یہ مروی ہے، جسے علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے (صحیح ترندی) المآئدہ
109 ١٠٩۔ ١ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ان کی قوموں نے اچھا یا برا جو بھی معاملہ کیا، اس کا علم یقینا انہیں ہوگا لیکن وہ اپنے علم کی نفی یا تو محشر کی کی ہولناکی اور اللہ جل جلالہ کی ہیبت و عظمت کی وجہ سے کریں گے یا اس کا تعلق ان کی وفات کے بعد کے حالات سے ہوگا۔ علاوہ ازیں باطنی امور کا علم تو صرف اللہ ہی کو ہے۔ اس لئے وہ کہیں گے علام الغیوب تو ہی ہے نہ کہ ہم۔ اس سے معلوم ہوا انبیاء و رسل عالم الغیب نہیں ہوتے، عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے۔ انبیاء کو جتنا کچھ علم ہوتا ہے اولاً تو اس کا تعلق ان امور سے ہوتا ہے جو فرائض رسالت کی ادائیگی کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ ثانیا ان سے بھی ان کو بذریعہ وحی آگاہ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ علام الغیب وہ ہوتا ہے۔ جس کو ہر چیز کا علم ذاتی طور پر ہو، نہ کہ کسی کے بتلانے پر اور جس کو بتلانے پر کسی چیز کا علم حاصل ہو اسے عالم الغیب نہیں کہا جاتا۔ نہ وہ عالم الغیب ہوتا ہی ہے۔ فافھم وتدبر ولا تکن من الغافلین المآئدہ
110 ١١٠۔ ١ اس سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں جیسا کہ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٨٧ میں گزرا۔ ١١٠۔ ٢ گود میں اسوقت کلام کیا، جب حضرت مریم علیہا السلام اپنے اس نومولود (بچے) کو لے کر اپنی قوم میں آئیں اور انہوں نے اس بچے کو دیکھ کر تعجب کا اظہار کیا اور اس کی بابت استفسار کیا تو اللہ کے حکم سے حضرت عیسیٰ نے شیر خوارگی کے عالم میں کلام کیا اور بڑی عمر میں کلام سے مراد، نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد دعوت تبلیغ ہے۔ ١١٠۔ ٣ اس کی وضاحت سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ٤٨ میں گزر چکی ہے۔ ١١٠۔ ٤ ان معجزات کا ذکر بھی مذکورہ سورت کی آیت نمبر ٤٩ میں گزر چکا ہے۔ ١١٠۔ ٥ یہ اشارہ ہے اس سازش کی طرف جو یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کرنے اور سولی دینے کے لئے تیار کی تھی۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے بچا کر انہیں آسمان پر اٹھا لیا تھا۔ ملاحظہ ہو سورۃ ء آل عمران آیت ٥٤۔ ١١٠۔ ٦ ہر نبی کے مخالفین، آیات الٰہی اور معجزات دیکھ کر انہیں جادو ہی قرار دیتے رہے ہیں، حالانکہ جادو تو شعبدہ بازی کا ایک فن ہے، جس سے انبیاء (علیہ السلام) کو کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ علاوہ ازیں انبیاء کے ہاتھوں ظاہر ہونے والے معجزات قادر مطلق اللہ تبارک وتعالی کی قدرت و طاقت کا مظہر ہوتے تھے کیونکہ وہ اللہ ہی کے حکم سے اور اس کی مشیت و قدرت سے ہوتے تھے کسی نبی کے اختیار میں یہ نہیں تھا کہ وہ جب چاہتا اللہ کے حکم اور مشیت کے بغیر کوئی معجزہ صادر کر کے دکھا دیتا اسی لئے یہاں بھی دیکھ لیجئے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہر معجزے کے ساتھ اللہ نے چار مرتبہ یہ فرمایا باذنی کہ ہر معجزہ میرے حکم سے ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مشرکین مکہ نے مختلف معجزات کے دکھانے کا مطالبہ کیا جس کی تفصیل سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر ٩١۔ ٩٣ میں ذکر کی گئی ہے تو اس کے جواب میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی فرمایا (سبحان ربی ھل کنت الا بشرا رسولا) میرا رب پاک ہے یعنی وہ تو اس کمزوری سے پاک ہے کہ وہ یہ چیزیں نہ دکھا سکے وہ تو دکھا سکتا ہے لیکن اس کی حکمت اس کی مقتضی ہے یا نہیں؟ یا کب مقتضی ہوگی؟ اس کا علم اسی کو ہے اور اسی کے مطابق وہ فیصلہ کرتا ہے لیکن میں تو صرف بشر اور رسول ہوں یعنی میرے اندر یہ معجزات دکھانے کی اپنے طور پر طاقت نہیں ہے بہرحال انبیاء کے معجزات کا جادو سے کو‏ئی تعلق نہیں ہوتا اگر ایسا ہوتا تو جادوگر اس کا توڑ مہیا کرلیتے لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعے سے ثابت ہے کہ دنیا بھر کے جمع شدہ بڑے بڑے جادوگر بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے کا توڑ نہ کرسکے اور جب ان کو معجزہ اور جادو کا فرق واضح طور پر معلوم ہوگیا تو وہ مسلمان ہوگئے۔ المآئدہ
111 ١١١۔ ١ حَوَارِیِّیْنَ سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکار ہیں جو ان پر ایمان لائے ان کے ساتھی اور مددگار بنے۔ ان کی تعداد ٢١ بیان کی جاتی ہے۔ وحی سے مراد وہ وحی نہیں ہے جو بذریعہ فرشتہ انبیاء (علیہ السلام) پر نازل ہوتی تھیں بلکہ یہ وحی الہام ہے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض لوگوں کے دلوں میں کردی جاتی تھی، جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ حضرت مریم (علیہ السلام) کو اسی قسم کا الہام ہوا جسے قرآن نے وحی سے ہی تعبیر کیا۔ المآئدہ
112 ١١٢۔ ١ مَائِدَۃً ایسے برتن (سینی پلیٹ یا ٹرے وغیرہ) کو کہتے ہیں جس میں کھانا ہو۔ اسی لئے دسترخواں بھی اس کا ترجمہ کرلیا جاتا ہے کیونکہ اس پر بھی کھانا چنا ہوتا ہے۔ سورت کا نام بھی اسی مناسبت سے ہے کہ اس میں اس کا ذکر ہے۔ حواریین نے مزید اطمینان قلب کے لیے یہ مطالبہ کیا جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے احیائے موتی کے مشاہدے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی۔ ٢١٢۔ ٢ یعنی یہ سوال مت کرو، ممکن ہے یہ تمہاری آزمائش کا سبب بن جائے کیونکہ حسب طلب معجزہ دکھائے جانے کے بعد اس قوم کی طرف سے ایمان میں کمزوری عذاب کا بن سکتی ہے۔ اس لئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں اس مطالبے سے روکا اور انہیں اللہ سے ڈرایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے وحی کے لفظ سے یہ استدلال کیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ اور حضرت مریم نبی تھیں اس لئے کہ ان پر بھی اللہ کی طرف سے وحی آ‏ئی تھی صحیح نہیں۔ اس لئے کہ یہ وحی، وحی الہام ہی تھی جیسے یہاں اوحیت الی الحوارین میں ہے یہ وحی رسالت نہیں ہے۔ المآئدہ
113 المآئدہ
114 ١١٤۔ ١ اسلامی شریعتوں میں عید کا مطلب یہ نہیں رہا کہ قومی تہوار کا ایک دن ہو جس میں تمام اخلاقی قیود اور شریعت کے ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے بے ہنگم طریقے سے طرب و مسرت کا اظہار کیا جائے، چراغاں کیا جائے اور جشن منایا جائے، جیسا کہ آجکل اس کا یہی مفہوم سمجھ لیا گیا ہے اور اسی کے مطابق تہوار منائے جاتے ہیں۔ یہاں بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس دن عید منانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اس سے ان کا مطلب یہی ہے کہ ہم تعریف و تمجید اور تکبیر و تحمید کریں۔ بعض اہل بدعت اس عید مائدہ سے عید میلاد کا جواز ثابت کرتے ہیں حالانکہ اول تو یہ ہماری شریعت سے پہلے کی شریعت کا واقعہ ہے جسے اگر اسلام برقرار رکھنا چاہتا تو وضاحت کردی جاتی دوسرے یہ پیغمبر کی زبان سے عید بتانے کی خواہش کا اظہار ہوا تھا اور پیغمبر بھی اللہ کے حکم سے شرعی احکام بیان کرنے کا مجاز ہوتا ہے تیسرے عید کا مفہوم و مطلب بھی وہ ہوتا ہے جو مذکورہ بالا سطروں میں بیان کیا گیا ہے جب کہ عید میلاد میں ان میں سے کو‏‏ئی بات بھی نہیں ہے لہذا عید میلاد کے بدعت ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ اسلام میں صرف دو ہی عیدیں ہیں جو اسلام نے مقرر کی ہیں، عید الفطر اور عید الاضحٰی۔ ان کے علاوہ کوئی تیسری عید نہیں۔ المآئدہ
115 ١١٥۔ ١ یہ مَائِدَ ۃً (خوان طعام) آسمان سے اترا یا نہیں؟ اس کی بابت کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں۔ اکثر علماء (امام شوکانی اور امام ابن ضریر طبری سمیت) اس کے نزول کے قائل ہیں اور ان کا استدلال قرآن کے الفاظ (اَنَّ مُنَزِّلُھَا عَلَیْکُمْ) سے ہے کہ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو یقینا سچا ہے لیکن اس اللہ کی طرف سے یقینی وعدہ قرار دینا اس لئے صحیح نہیں معلوم ہوتا کہ اگلے الفاظ فَمَنْ یَّکْفُرْ اس وعدے کو مشروط ظاہر کرتے ہیں۔ اس لئے دوسرے علماء کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ شرط سن کر کہ انہوں نے کہا کہ پھر ہمیں اس کی ضرورت نہیں۔ جس کے بعد اس کا نزول نہیں ہوا۔ امام ابن کثیر نے ان آثار کی اسانید کو جو امام مجاہد اور حضرت حسن بن بصری سے منقول ہیں صحیح قرار دیا ہے نیز کہا ہے کہ ان آثار کی تائید اس بات سے بھی ہوئی ہے کہ نزول مائدہ کی کوئی شہرت عیسائیوں میں ہے نہ اس کی کتابوں میں درج ہے۔ حالانکہ اگر یہ نازل ہوا ہوتا تو اسے ان کے ہاں مشہور بھی ہونا چاہیے تھا اور کتابوں میں بھی تواتراً ہوتا یا کم از کم آحاد سے نقل ہونا چاہیے تھا۔ المآئدہ
116 ١١٦۔ ١ یہ سوال قیامت والے دن ہوگا اور مقصد اس سے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنالینے والوں کی زجر و توبیخ ہے کہ جن کو تم معبود اور حاجت روا سمجھتے تھے، وہ تو اللہ کی بارگاہ میں جواب دہ ہیں۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ عیسائیوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ حضرت مریم علیہا السلام کو بھی اللہ (معبود) بنالیا ہے۔ تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ من دون اللہ اللہ کے سوا معبود وہی نہیں ہیں جنہیں مشرکین نے پتھر یا لکڑی کی مورتیوں کی شکل میں بنا کر ان کی پوجا کی جس طرح کہ آج کل کے قبر پرست علماء اپنے عوام کو یہ باور کرا کے مغالطہ دیتے ہیں بلکہ وہ اللہ کے نزدیک بندے بھی من دون اللہ میں شامل ہیں جن کی لوگوں نے کسی بھی انداز سے عبادت کی جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور مریم کی عیسائیوں نے کی۔ ١١٦۔ ٢ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کتنے واضح الفاظ میں اپنی بابت علم غیب کی نفی فرما رہے ہیں۔ المآئدہ
117 ١١٧۔ ١ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے توحید و عبادت رب کی یہ دعوت عالم شیر خوارگی میں بھی دی، جیسا کہ سورۃ مریم میں ہے اور عمر جوانی و کہولت میں بھی۔ ١١٧۔ ٢ توفیتنی کا مطلب ہے جب تو نے مچھے دنیا سے اٹھالیا جیسا کہ اس کی تفصیل سورۃ آل عمران کی آیت ٥٥ میں گزر چکی ہے اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ پیغمبروں کو اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ کی طرف سے انہیں عطا کیا جاتا ہے یا جن کا مشاہدہ وہ اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ ان کو کسی بات کا علم نہیں ہوتا۔ جب کہ عالم الغیب وہ ہوتا ہے جسے بغیر کسی کے بتلائے ہر چیز کا علم ہوتا ہے اور اس کا علم ازل سے ابد تک پر محیط ہوتا ہے۔ یہ صفت علم اللہ کے سوا کسی اور کے اندر نہیں اس لئے عالم الغیب صرف ایک اللہ ہی کی ذات ہے اس کے علاوہ کوئی عالم الغیب نہیں حدیث میں آتا ہے کہ میدان محشر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آپ کے کچھ امتی آنے لگیں گے تو فرشتے ان کو پکڑ کر دوسری طرف لے جائیں گے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں گے ان کو آنے دو یہ تو میرے امتی ہیں فرشتے آ کر بتلائیں گے انک لاتدری ما احدثوا بعدک اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نہیں جانتے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد انہوں نے دین میں کیا کیا بدعتیں ایجاد کیں جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سنیں گے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں بھی اس وقت یہی کہوں گا جو العبد الصالح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا (وکنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم (صحیح بخاری، صحیح مسلم) المآئدہ
118 ١١٨۔ ١ یعنی مطلب یہ کہ یا اللہ! ان کا معاملہ تیری مشیت کے سپرد ہے اس لئے کہ تو فعال لما یرید بھی ہے جو چاہے کرسکتا ہے اور تجھ سے کوئی باز پرس کرنے والا بھی نہیں ہے (لَا یُسْــَٔـلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَہُمْ یُسْــَٔــلُوْنَ 23؀) 021:023 اللہ جو کچھ کرتا ہے اس سے باز پرس نہیں ہوگی لوگوں سے ان کے کاموں کی باز پرس ہوگی۔ گویا آیت میں اللہ کے سامنے بندوں کی عاجزی وبے بسی کا اظہار بھی ہے اور اللہ کی عظمت و جلالت اور اس کے قادر مطلق اور مختار کل ہونے کا بیان بھی اور پھر ان دونوں باتوں کے حوالے سے عفو و مغفرت کی التجا بھی سبحان اللہ! کیسی عجیب و بلیغ آیت ہے اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ ایک رات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نوافل میں اس آیت کو پڑھتے ہوئے ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ بار بار ہر رکعت میں اسے ہی پڑھتے رہے حتی کہ صبح ہوگئی۔ (مسند احمد جلد ٥ ص ١١٩) المآئدہ
119 ١١٩۔ ١ حضرت ابن عباس (رض) نے اس کے معنی یہ بیان فرمائے ہیں، وہ دن ایسا ہوگا کہ صرف توحید ہی موحدین کو نفع پہنچائے گی، یعنی مشرکین کی معافی اور مغفرت کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ المآئدہ
120 المآئدہ
0 الانعام
1 ١۔ ١ ظلمات سے رات کی تاریکی اور نور سے دن کی روشنی یا کفر کی تاریکی اور ایمان کی روشنی مراد ہے۔ نور کے مقابلے میں ظلمات کو جمع ذکر کیا گیا ہے، اس لئے کہ ظلمات کے اسباب بھی بہت سے ہیں اور اس کی قسمیں بھی متعدد ہیں اور نور کا ذکر بطور جنس ہے جو اپنی قسموں میں شامل ہے (فتح القدیر) یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چونکہ ہدایت اور ایمان کا راستہ ایک ہی ہے چار یا پانچ یا متعدد نہیں ہیں اس لئے نور کو واحد ذکر کیا گیا ہے۔ ١۔ ٢ یعنی اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ الانعام
2 ٢۔ ١ یعنی تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو، جو تمہاری اصل ہیں اور جن سے تم سب نکلے ہو۔ اس کا ایک دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے تم جو خوراک اور غذائیں کھاتے ہو، سب زمین سے پیدا ہوتی ہیں اور انہیں غذاؤں سے نطفہ بنتا ہے جو رحم مادر میں جا کر تخلیق انسانی کا باعث بنتا ہے۔ اس لحاظ سے گویا تمہاری پیدائش مٹی سے ہوئی۔ ٢۔ ٢ ٰ یعنی موت کا وقت۔ ٢۔ ٣ یعنی آخرت کا وقت، اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ گویا پہلی اجل سے مراد پیدائش سے لے کر موت تک انسان کی عمر ہے اور دوسری اجل مسمٰی ہے۔ مراد انسان کی موت سے لے کر وقوع قیامت تک دنیا کی کل عمر ہے، جس کے بعد وہ زوال و فنا سے دوچار ہوجائے گی اور ایک دوسری دنیا یعنی آخرت کی زندگی کا آغاز ہوجائے گا۔ ٢۔ ٤ یعنی قیامت کے وقوع میں جیسا کہ کفار و مشرکین کہا کرتے تھے کہ جب ہم مر کر مٹی میں مل جائیں گے تو کس طرح سے دوبارہ زندہ کیا جاسکے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا دوبارہ بھی وہی اللہ تمہیں زندہ کرے گا۔ ( سورۃ یسین) الانعام
3 ٣۔ ١ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود تو عرش پر ہے، جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ لیکن اپنے علم کے لحاظ سے ہر جگہ ہے۔ یعنی اس کے علم و خبر سے کوئی چیز باہر نہیں۔ البتہ بعض گمراہ فرقے اللہ تعالیٰ کو عرش پر نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اور اس آیت سے اپنے اس عقیدے کا اثبات کرتے ہیں۔ لیکن یہ عقیدہ جس طرح غلط ہے یہ دلیل بھی صحیح نہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات جس کو آسمانوں میں اور زمین میں اللہ کہہ کر پکارا جاتا ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس کی حکمرانی ہے اور آسمانوں اور زمین میں جس کو معبود برحق سمجھا اور مانا جاتا ہے وہ اللہ تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو سب کو جانتا ہے (فتح القدیر) اس کی اور بھی بعض توجیہات کی گئی ہیں جنہیں اہل علم تفسیروں میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ مثلا تفسیر طبری و ابن کثیر وغیرہ۔ الانعام
4 الانعام
5 ٥۔ ١ یعنی اس نکتہ چینی اور تکذیب کا وبال انہیں پہنچے گا اس وقت انہیں احساس ہوگا کہ کاش! ہم اس کتاب برحق کی تکذیب اور اس کا استھزا نہ کرتے۔ الانعام
6 ٦۔ ١ یعنی جب گناہوں کی پاداش میں تم سے پہلی امتوں کو ہم ہلاک کرچکے ہیں درآں حالیکہ وہ طاقتور و قوت میں بھی تم سے کہیں زیادہ تھیں اور خوش حالی اور وسائل رزق کی فروانی میں بھی تم سے بڑھ کر تھیں، تو تمہیں ہلاک کرنا ہمارے لئے کیا مشکل ہے؟ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی قوم کی محض مادی ترقی اور خوش حالی سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بہت کامیاب و کامران ہے۔ یہ استدارج وامہال کی وہ صورتیں ہیں جو بطور امتحان اللہ تعالیٰ قوموں کو عطا فرماتا ہے۔ لیکن جب یہ مہلت عمل ختم ہوجاتی ہے تو پھر یہ ساری ترقیاں اور خوش حالیاں انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے میں کامیاب نہیں ہوتیں۔ ٦۔ ٢ تاکہ انہیں بھی پچھلی قوموں کی طرح آزمائیں۔ الانعام
7 ٧۔ ١ یہ ان کے عناد جحود اور مکابرہ کا اظہار ہے کہ اتنے واضح نوشتہ الہٰی کے باوجود وہ اسے ماننے کے لئے تیار نہ ہونگے اور اسے ایک سحرانہ کرتب قرار دیں گے۔ جیسے قرآن مجید کے دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے۔ ولو فتحنا علیہم بابا من السماء فظلو فیہ یعرجون لقالوا انما سکرت ابصارنا بل نحن قوم مسحورون (الحجر) اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور یہ اس پر چڑھنے بھی لگ جائیں تب بھی کہیں گے آنکھیں متوالی ہوگئی ہیں بلکہ ہم پر جادو کردیا گیا ہے۔ (وَاِنْ یَّرَوْا کِسْفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ سَاقِـطًا یَّقُوْلُوْا سَحَابٌ مَّرْکُوْمٌ) 052:044 اور اگر وہ آسمان سے گرتا ہوا ٹکڑا بھی دیکھ لیں تو کہیں گے کہ تہ بہ تہ بادل ہیں۔ یعنی عذاب الہی کی کو‏ئی نہ کوئی توجیہ کرلیں گے کہ جس میں مشیت الہی کا کو‏ئی دخل انھیں تسلیم کرنا نہ پڑے حالانکہ کا‏ئنات میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کی مشیت سے ہوتا ہے۔ الانعام
8 ٨۔ ١ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے جتنے بھی انبیاء و رسل بھیجے وہ انسانوں میں سے ہی تھے اور ہر قوم میں اسی کے ایک فرد کو وحی و رسالت سے نواز دیا جاتا تھا۔ یہ اس لئے کہ اس کے بغیر کوئی رسول فریضہ تبلیغ و دعوت ادا ہی نہیں کرسکتا تھا، مثلاً اگر فرشتوں کو اللہ تعالیٰ رسول بنا کر بھیجتا تو ایک تو وہ انسانی زبان میں گفتگو ہی نہ کر پاتے اور دوسرے وہ انسانی جذبات سے عاری ہونے کی وجہ سے انسان کے مختلف حالات میں مختلف کیفیات و جذبات کے سمجھنے سے بھی قاصر رہتے۔ ایسی صورت میں ہدایت اور رہنمائی کا فریضہ کس طرح انجام دے سکتے تھے۔؟ اس لئے اللہ تعالیٰ کا انسانوں پر ایک بڑا احسان ہے کہ اس نے انسانوں کو ہی نبی اور رسول بنایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی اسے بطور احسان ہی قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے (لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ) 003:164 اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر احسان فرمایا جب کہ انہی کی جانوں میں سے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا لیکن پیغمبروں کی بشریت کافروں کے لیے حیرت و استعجاب کا باعث رہی وہ سمجھتے تھے کہ رسول انسانوں میں سے نہیں فرشتوں میں سے ہونا چاہیے گویا ان کے نزدیک بشریت رسالت کے شایان شان نہیں تھی جیسا کہ آج کل کے اہل بدعت بھی یہی سمجھتے ہیں۔ تشابھت قلوبھم اہل کفر و شرک رسولوں کی بشریت کا تو انکار کر نہیں سکتے تھے کیونکہ وہ ان کے خاندان حسب نسب ہر چیز سے واقف ہوتے تھے لیکن رسالت کا وہ انکار کرتے رہے جبکہ آج کل کے اہل بدعت رسالت کا انکار تو نہیں کرتے لیکن بشریت کو رسالت کے منافی سمجھنے کی وجہ سے رسولوں کی بشریت کا انکار کرتے ہیں بہرحال اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرما رہا ہے کہ اگر ہم کافروں کے مطالبے پر کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے یا اس رسول کی تصدیق کے لئے ہم کوئی فرشتہ نازل کردیتے جیسا کہ یہاں یہی بات بیان کی گئی ہے اور پھر وہ اس پر ایمان نہ لاتے تو انھیں مہلت دیئے بغیر ہلاک کردیا جاتا۔ الانعام
9 ٩۔ ١ یعنی اگر ہم فرشتے ہی کو رسول بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کرتے تو ظاہر بات ہے کہ وہ فرشتے کی اصل شکل میں تو انھیں نہیں بھیج سکتا تھا، کیونکہ اس طرح انسان اس سے خوف زدہ ہونے اور قریب و مانوس ہونے کی بجائے، دور بھاگتے اس لئے ناگزیر تھا کہ اسے انسانی شکل میں بھیجا جاتا۔ لیکن تمہارے لیڈر پھر یہی اعتراض اور شبہ پیش کرتے کہ یہ تو انسان ہی ہے، جو اس وقت بھی وہ رسول کی بشریت کے حوالے پیش کر رہے ہیں تو پھر فرشتے کے بھیجنے کا کیا فائدہ۔ الانعام
10 الانعام
11 الانعام
12 ١٢۔ ١ جس طرح حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو عرش پر لکھ دیا اِنَّ رَحمَتِی تَغْلِبُ غَضَبِیْ ـ "یقینا میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے" لیکن یہ رحمت قیامت والے دن صرف اہل ایمان کے لئے ہوگی، کافروں کے لئے رب سخت غضب ناک ہوگا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو اس کی رحمت یقینا عام ہے، جس سے مومن اور کافر نیک اور بد فرماں دار اور نافرمان سب ہی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی شخص کی بھی روزی نافرمانی کی وجہ سے بند نہیں کرتا، لیکن اس کی رحمت کا یہ اہتمام صرف دنیا کی حد تک ہے۔ آخرت میں جو کہ دار الجزا ہے وہاں اللہ کی صفت عدل کا کامل ظہور ہوگا، جس کے نتیجے میں اہل ایمان و امان رحمت میں جگہ پائیں گے اور اہل کفر و فسق جہنم کے دائمی عذاب کے مستحق ٹھہریں گے۔ اسی لئے قرآن میں فرمایا گیا ہے۔ (وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ ۭ فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ) 007:156 اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔ الانعام
13 الانعام
14 ١٤۔ ١ ولی سے مراد یہاں معبود ہے جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے ورنہ دوست بنانا تو جائز ہے۔ الانعام
15 ١٥۔ ١ یعنی اگر میں نے بھی رب کی نافرمانی کرتے ہوئے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو معبود بنا لیا تو میں بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکوں گا۔ الانعام
16 ١٦۔ ١ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ' جو آگ سے دور اور جنت میں داخل کردیا گیا، وہ کامیاب ہوگیا اس لئے کامیابی، خسارے سے بچ جانے اور نفع حاصل کرلینے کا نام ہے۔ جنت سے بڑھ کر نفع کیا ہوگا ؟ الانعام
17 ١٧۔ ١ یعنی نفع و ضرر کا مالک، کائنات میں ہر طرح کا تصرف کرنے والا صرف اللہ ہے اور اس کے حکم و قضا کو کوئی رد کرنے والا نہیں ہے۔ ایک حدیث میں اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے اللھم لا مانع لما اعطیت ولا معطی لما منعت ولا ینفع ذا الجد منک الجد (صحیح بخاری، مسلم) جس کو تو دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں اور جس سے تو روک لے تو اس کو کوئی دینے والا نہیں اور کسی صاحب حیثیت کو اس کی حیثیت تیرے مقابلے میں نفع نہیں پہنچا سکتی ' نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ الانعام
18 ١٨۔ ١ یعنی تمام گردنیں اس کے سامنے جھکی ہوئی ہیں، بڑے بڑے جابر لوگ اس کے سامنے بے بس ہیں، وہ ہر چیز پر غالب ہے اور تمام کائنات اس کی مطیع ہے وہ اپنے ہر کام میں حکیم ہے اور ہر چیز سے باخبر ہے، پس اسے معلوم ہے کہ اس کے احسان و عطا کا کون مستحق ہے اور کون غیر مستحق۔ الانعام
19 ١٩۔ ١ یعنی اللہ ہی اپنی واحدنیت اور ربوبیت کا سب سے بڑا گواہ ہے اس سے بڑھ کر کوئی گواہ نہیں۔ ١٩۔ ٢ ربیع بن انس کہتے ہیں اب جس کے پاس بھی قرآن پہنچ جائے اگر وہ سچا مطیع رسول ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی لوگوں کو اللہ کی طرف اسی طرح بلائے جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو دعوت دی اور اسطرح ڈرائے جس طرح آپ نے لوگوں کو ڈرایا (ابن کثیر) الانعام
20 ٢٠۔ ١ یعرفونہ میں ضمیر کا مرجع رسل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یعنی اہل کتاب آپ کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے ہیں کیونکہ آپ کی صفات ان کی کتابوں میں بیان کی گئیں تھیں اور ان صفات کی وجہ سے وہ آخری نبی کے منتظر بھی تھے۔ اس لئے اب ان میں سے ایمان نہ لانے والے سخت خسارے میں ہیں کیونکہ یہ علم رکھتے ہوئے بھی انکار کر رہے ہیں۔ فان کنت لا تدری فتلک مصیبۃ وان کنت تدری فالمصیبۃ اعظم اگر تجھے علم نہیں ہے تو یہ بھی اگرچہ مصیبت ہی ہے تاہم اگر علم ہے تو پھر زیادہ بڑی مصیبت ہے۔ الانعام
21 ٢١۔ ١ یعنی جس طرح اللہ پر جھوٹ گھڑنے والا (یعنی نبوت کا جھوٹا دعوا کرنے والا) سب سے بڑا ظالم ہے، اس طرح وہ بھی بڑا ظالم ہے جو اللہ کی آیات اور اس کے سچے رسول کی تکذیب کرے۔ جھوٹے دعوے نبوت پر اتنی سخت وعید کے باوجود یہ واقعہ ہے کہ متعدد لوگوں نے ہر دور میں نبوت کے جھوٹے دعوے کیئے ہیں اور یوں یقینا نبی کی پیش گوئی کی تیس جھوٹے دجال ہونگے۔ ہر ایک کا دعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے۔ گزستہ صدی میں بھی قادیاں کے ایک شخص نے نبوت کا دعوا کیا اور آج اس کے پیروکار اس لئے سچا نبی اور بعض مسیح معبود مانتے ہیں کہ اسے ایک قلیل تعداد نبی مانتی ہے۔ حالانکہ کچھ لوگوں کا کسی جھوٹے کو سچا مان لینا، اس کی سچائی کی دلیل نہیں بن سکتا۔ صداقت کے لئے تو قرآن و حدیث کے واضح دلائل کی ضرورت ہے۔ ٢١۔ ٢ جب یہ دونوں ہی ظالم ہیں تو نہ (جھوٹ گھڑنے والا) کامیاب ہوگا اور نہ ہی تکذیب (جھٹلانے والا) اس لئے ضروری ہے کہ ہر ایک اپنے انجام پر اچھی طرح غور کرلے۔ الانعام
22 الانعام
23 ٢٣۔ ١ فتنہ کے ایک معنی حجت اور ایک معنی معذرت کے کئے گئے ہیں، بالآخر یہ حجت یا معذرت پیش کر کے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہم تو مشرک ہی نہ تھے۔ اور امام ابن جریر نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں۔ ثم لم یکن قیلھم عند فتنتنا ایاھم اعتذارا مما سلف منھم من الشرک باللہ۔ (جب ہم انھیں سوال کی بھٹی میں جھونکیں گے تو دنیا میں جو انہوں نے شرک کیا، اس کی معذرت کے لئے یہ کہے بغیر ان کے لئے کوئی چارا نہ ہوگا کہ ہم تو مشرک ہی نہ تھے) یہاں یہ اشکال پیش نہ آئے کہ وہاں تو انسانوں کے ہاتھ پیر گواہی دیں گے اور زبانوں پر تو مہریں لگا دی جائیں گی پھر یہ انکار کس طرح کریں گے؟ اس کا جواب حضرت ابن عباس (رض) نے یہ دیا ہے کہ جب مشرکین دیکھیں گے کہ اہل توحید مسلمان جنت میں جا رہے ہیں تو یہ باہم مشورہ کر کے اپنے شرک کرنے سے انکار کردیں گے۔ تب اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگادے گا اور ان کے ہاتھ پاؤں جو کچھ انہوں نے کیا ہوگا اس کی گواہی دیں گے اور یہ اللہ سے کوئی بات چھپانے پر قادر نہ ہو سکیں گے (ابن کثیر) الانعام
24 ٢٤۔ ١ لیکن وہاں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، جس طرح بعض دفعہ دنیا میں انسان ایسا محسوس کرتا ہے اسی طرح ان کے معبودان باطل بھی، جن کو اللہ کا شریک اپنا حمائتی و مددگار اور سفارشی سمجھتے تھے، غائب ہونگے اور وہاں ان پر شرکا کی حقیقت واضح ہوگی، لیکن وہاں اس کے ازالے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ الانعام
25 ٢٥۔ ١ یعنی مشرکین آپ کے پاس آکر قرآن تو سنتے ہیں لیکن چونکہ مقصد طلب ہدایت نہیں، اس لئے بے فائدہ ہے۔ ٢٥۔ ٢ علاوہ ازیں مجازاۃ علی کفرھم ان کے کفر کے نتیجے میں ان کے دلوں پر بھی ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں اور ان کے کانوں میں ڈاٹ جس کی وجہ سے ان کے دل حق بات سمجھنے سے قاصر اور ان کے کان حق کو سننے سے عاجز ہیں۔ ٢٥۔ ٣ اب وہ گمراہی کی ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں کہ بڑے سے بڑا معجزہ بھی دیکھ لیں، تب بھی ایمان لانے کی توفیق سے محروم رہیں گے اور ان کا عناد و جحود اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ قرآن کریم کو پہلے لوگوں کی بے سند کہانیاں کہتے ہیں۔ الانعام
26 ٢٦۔ ١ یعنی عام لوگوں کو آپ سے اور قرآن سے روکتے ہیں تاکہ وہ ایمان نہ لائیں اور خود بھی دور دور رہتے ہیں۔ ٢٦۔ ٢ لیکن لوگوں کو روکنا اور خود بھی دور رہنا، اس سے ہمارا یا ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کیا بگڑے گا ؟ اس طرح کے کام کر کے وہ خود ہی بے شعوری میں اپنی ہلاکت کا سامان کر رہے ہیں۔ الانعام
27 ٢٧۔ ١ یہاں لَوْ کا جواب محذوف ہے تقدیری عبارت یوں ہوگی ' تو آپ کو ہولناک منظر نظر آئے گا۔ ٢٧۔ ٢ لیکن وہاں سے دوبارہ دنیا میں آنا ممکن ہی نہیں ہوگا کہ وہ اپنی اس آرزو کی تکمیل کرسکیں۔ کافروں کی اس آرزو کا قرآن نے متعدد مقامات پر ذکر کیا ہے۔ مثلاً ( رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْہَا فَاِنْ عُدْنَا فَاِنَّا ظٰلِمُوْنَ ١٠٧؁ قَالَ اخْسَـُٔـوْا فِیْہَا وَلَا تُکَلِّمُوْنِ ١٠٨؁) 023:107،108 اے ہمارے رب ہمیں اس جہنم سے نکال لے اگر ہم دوبارہ تیری نافرمانی کریں تو یقیناً ظالم ہیں اللہ تعالیٰ فرما‏ئے گا اسی میں ذلیل و خوار پڑے رہو مجھ سے بات نہ کرو (رَبَّنَآ اَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ) 032:012 اے ہمارے رب ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا پس ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج دے تاکہ ہم نیک عمل کریں اب ہمیں یقین آ گیا ہے۔ الانعام
28 ٢٨۔ ١ بَلْ جو إِضْرَاب (یعنی پہلی بات سے گریز کرنے) کے لیے آتا ہے۔ اس کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں (١) ان کے لئے وہ کفر اور عناد و تکذیب ظاہر ہوجائے گی، جو اس سے قبل وہ دنیا یا آخرت میں چھپاتے تھے۔ یعنی جس کا انکار کرتے تھے، جیسے وہاں بھی کہیں گے ما کنا مشرکین (ہم تو مشرک ہی نہ تھے (٢) یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کی صداقت کا علم جو ان کے دلوں میں تھا۔ لیکن پیروکاروں سے چھپاتے تھے۔ وہاں ظاہر ہوجائے گا (٣) یا منافقین کا نفاق وہاں ظاہر ہوجائے گا جسے وہ دنیا میں اہل ایمان سے چھپاتے تھے (تفسیر ابن کثیر)۔ ٢٨۔ ٢ یعنی دوبارہ دنیا میں آنے کی خواہش ایمان لانے کے لئے نہیں، صرف عذاب سے بچنے کے لئے ہے، جو ان پر قیامت کے دن ظاہر ہوجائے گا اور جس کا وہ معائنہ کرلیں گے ورنہ اگر یہ دنیا میں دوبارہ بھیج دیئے جائیں تب بھی یہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔ الانعام
29 ٢٩۔ ١ یہ بعث بعد الموت (مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے) کا انکار ہے جو ہر کافر کرتا ہے اور اس حقیقت سے انکار ہی دراصل ان کے کفر و عصیان کی سب سے بڑی وجہ ہے ورنہ اگر انسان کے دل میں صحیح معنوں میں اس عقیدہ آخرت کی صداقت راسخ ہوجائے تو کفر و جرم کے راستے سے فوراً تائب ہوجائے۔ الانعام
30 ٣٠۔ ١ یعنی آنکھوں سے مشاہدہ کرلینے کے بعد تو وہ اعتراف کرلیں گے کہ آخرت کی زندگی واقعی برحق ہے۔ لیکن وہاں اس اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ اب تو اپنے کفر کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو۔ الانعام
31 ٣١۔ ١ اللہ کی ملاقات کی تکذیب کرنے والے جس خسارے اور نامرادی سے دو چار ہوں گے اپنی کوتاہیوں پر جس طرح نادم ہوں گے اور برے اعمال کا جو بوجھ اپنے اوپر لادے ہوں گے آیت میں اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ فَرَّطْنَا فِیْھَا میں ضمیراَلسَّاعَۃُ کی طرف راجع ہے یعنی قیامت کی تیاری اور تصدیق کے معاملے میں جو کوتاہی ہم سے ہوئی یا الصَّفْقَۃُ (سودا) کی طرف راجع ہے جو اگرچہ عبارت میں موجود نہیں ہے لیکن سیاق اس پر دلالت کناں ہے اس لئے کہ نقصان سودے میں ہی ہوتا ہے اور مراد اس سودے سے وہ ہے جو ایمان کے بدلے کفر خرید کر انہوں نے کیا یعنی یہ سودا کر کے ہم نے سخت کوتاہی کی یا حیاۃ کی طرف راجع ہے یعنی ہم نے اپنی زندگی میں برائیوں اور کفر و شرک کا ارتکاب کرکے جو کو تاہیاں کیں۔ (فتح القدیر) الانعام
32 الانعام
33 ٣٣۔ ١ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کی طرف سے اپنی تکذیب کی وجہ سے جو غم و ملال پہنچتا اس کے ازالے اور آپ کی تسلی کے لئے فرمایا جا رہا ہے کی یہ تکذیب آپ کی نہیں۔ (آپ کو وہ صادق و امین مانتے ہیں) اصل یہ آیات الٰہی کی تکذیب ہے اور یہ ظلم ہے۔ جس کا وہ ارتکاب کر رہے ہیں۔ ترمذی وغیرہ کی ایک روایت میں ہے کہ ابو جہل نے ایک بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم تم کو نہیں بلکہ جو کچھ تم لے کر آئے ہو اس کو جھٹلاتے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ترمذی کی یہ روایت اگرچہ سندا ضعیف ہے لیکن دوسری صحیح روایات سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امانت و دیانت اور صداقت کے قائل تھے لیکن اس کے باوجود وہ آپ کی رسالت پر ایمان لانے سے گریزاں رہے آج بھی جو لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حسن اخلاق رفعت کردار اور امانت و صداقت کو تو خوب جھوم جھوم کر بیان کرتے ہیں اور اس موضوع پر فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتے ہیں لیکن اتباع رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں وہ انقباض محسوس کرتے آپ کی بات کے مقابلے میں فقہ وقیاس اور اقوال ائمہ کو ترجیح دیتے ہیں انھیں سوچنا چاہئیے کہ یہ کس کا کردار ہے جسے انہوں نے اپنایا ہوا ہے؟ الانعام
34 ٣٤۔ ١ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مزید تسلی کے لئے کہا جا رہا ہے کہ یہ پہلا واقع نہیں ہے کہ کافر اللہ کے پیغمبر کا انکار کر رہے ہیں بلکہ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں جن کی تکذیب کی جاتی رہی ہے پس آپ بھی ان کی اقتدا کرتے ہوئے اسی طرح صبر اور حوصلے سے کام لیں، حتٰی کہ آپ کے پاس بھی اسی طرح ہماری مدد آجائے، جس طرح پہلے رسولوں کی ہم نے مدد کی اور ہم اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتے۔ ہم نے وعدہ کیا ہوا ہے (اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) 040:051 یقینا ہم اپنے پیغمبروں اور اہل ایمان کی مدد کریں گے (کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ) 058:021 اللہ نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے وغیرہا من الایات (الصافات) ٣٤۔ ٢ بلکہ اس کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا کہ آپ کافروں پر غالب و منصور رہیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ٣٤۔ ٣ جن سے واضح ہے کہ ابتدا میں گو ان کی قوموں نے انھیں جھٹلایا، انھیں ایذائیں پہنچائیں اور ان کے لئے عرصہ حیات تنگ کردیا لیکن بالآخر اللہ کی نصرت سے کامیابی و کامرانی اور نجات ابدی انہی کا مقدر بنی۔ الانعام
35 ٣٥۔ ١ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معاندین و کافرین کی تکذیب (جھٹلانا) جو گرانی اور مشقت ہوتی تھی، اسی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تقدیر سے ہونا ہی تھا اور اللہ کے حکم کے بغیر آپ ان کو قبول اسلام پر آمادہ نہیں کرسکتے۔ حتٰی کہ اگر آپ کوئی سرنگ کھود کر یا آسمان پر سیڑھی لگا کر بھی کوئی نشانی ان کو لا کر دکھائیں، اول تو ایسا کرنا آپ کے لئے ایسا کرنا محال ہے اور اگر بالفرض آپ ایسا کر بھی دکھائیں تو بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ کیونکہ ان کا ایمان نہ لانا اللہ کی حکمت و مشیت کے تحت ہے جس کا مکمل احاطہ انسانی عقل و فہم نہیں کرسکتے البتہ جس کی ایک ظاہری حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اختیار و ارادے کی آزادی دے کر آزما رہا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کے لیے تمام انسانوں کو ہدایت کے ایک راستے پر لگا دینا مشکل کام نہ تھا اس کے لیے لفظ کن سے پلک جھپکتے میں یہ کام ہوسکتا ہے۔ ٣٥۔ ٢ یعنی آپ ان کے کفر پر زیادہ حسرت و افسوس نہ کریں کیونکہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت و تقدیر سے ہے اس لئے اسے اللہ ہی کے سپرد کردیں، وہی اس کی حکمت و مصلحت کو بہتر سمجھتا ہے۔ الانعام
36 ٣٦۔ ١ اور ان کافروں کی حیثیت تو ایسی ہے جیسے مردوں کی ہوتی ہے۔ جس طرح وہ سننے اور سمجھنے کی قدرت سے محروم ہیں یہ بھی چونکہ اپنی عقل فہم سے حق کو سمجھنے کا کام نہیں لیتے اس لئے یہ بھی مردہ ہیں۔ الانعام
37 ٣٧۔ ١ یعنی ایسا معجزہ، جو ان کو ایمان لانے پر مجبور کر دے، جیسے ان کی آنکھوں کے سامنے فرشتہ اترے، یا پہاڑ ان پر اٹھا کر بلند کردیا جائے، جس طرح بنی اسرئیل پر کیا گیا۔ فرمایا : اللہ تعالیٰ تو یقینا ایسا کرسکتا ہے لیکن اس نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ پھر انسانوں کے امتحان کا مسئلہ ختم ہوجاتا۔ علاوہ ازیں ان کے مطالبے پر اگر کوئی معجزہ دکھلایا جاتا اور پھر بھی وہ ایمان نہ لاتے تو پھر فورا انھیں اسی دنیا ہی میں سخت سزا دے دی جاتی یوں گویا اللہ کی اس حکمت میں بھی انہی کا دنیاوی فائدہ ہے۔ ٣٧۔ ٢ جو اللہ کے حکم و مشیت کی حکمت کا ادراک نہیں کرسکتے۔ الانعام
38 ٣٨۔ ١ یعنی انھیں بھی اللہ نے اسی طرح پیدا فرمایا جس طرح تمہیں پیدا کیا، اسی طرح انھیں روزی دیتا ہے جس طرح تمہیں دیتا ہے اور تمہاری ہی طرح وہ بھی اس کی قدرت و علم کے تحت داخل ہیں۔ ٣٨۔ ٢ کتاب دفتر سے مراد لوح محفوظ ہے۔ یعنی وہاں ہر چیز درج ہے یا مراد قرآن ہے جس میں اجمالاً یا تفصیلاً دین کے ہر معاملے پر روشنی ڈالی گئی ہے، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (ۭ ( وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ وَّہُدًی وَّرَحْمَۃً وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ) 016:089 (ہم نے آپ پر ایسی کتاب اتاری ہے جس میں ہر چیز کا بیان ہے)۔ یہاں پر سیاق کے لحاظ سے پہلا معنی اقرب ہے۔ ٣٨۔ ٣ یعنی تمام مذکورہ گروہ اکٹھے کئے جائیں گے۔ اس سے علماء کے ایک گروہ نے استدلال (ثبوت) کیا ہے، جس طرح تمام انسانوں کو زندہ کر کے ان کا حساب کتاب لیا جائے گا، جانوروں اور دیگر تمام مخلوقات کو بھی زندہ کرکے ان کا حساب کتاب بھی ہوگا، جس طرح ایک حدیث میں بھی نبی نے فرمایا، کسی سینگ والی بکری نے اگر بغیر سینگ والی بکری پر کوئی زیادتی کی ہوگی تو قیامت والے دن سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائے گا۔ (صحیح مسلم) بعض علماء نے حشر سے مراد صرف موت لی ہے یعنی سب کو موت آئے گی اور بعض علماء نے کہا ہے کہ یہاں حشر سے مراد کفار کا حشر ہے اور درمیان میں مزید جو باتیں آئی ہیں وہ جملہ معترضہ کے طور پر ہیں اور حدیث مذکور جس میں بکری سے بدلہ لیے جانے کا ذکر ہے بطور تمثیل ہے جس سے مقصد قیامت کے حساب و کتاب کی اہمیت و عظمت کو واضح کرنا ہے یا یہ کہ حیوانات میں سے صرف ظالم اور مظلوم کو زندہ کر کے ظالم سے مظلوم کو بدلہ دلا دیا جائے گا پھر دونوں معدوم کر دئیے جائیں گے۔ ( فتح القدیر) وغیرو اس کی تائید بعض احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ الانعام
39 ٣٩۔ ١ آیات الٰہی کو جھٹلانے والے چونکہ اپنے کانوں سے حق بات سنتے نہیں اور اپنی زبانوں سے حق بات بولتے نہیں، اس لئے وہ ایسے ہی ہیں جیسے گونگے اور بہرے ہوتے ہیں، علاوہ ازیں یہ کفر اور ضلالت کی تاریکیوں میں بھی گھرے ہوئے ہیں۔ اس لئے انھیں کوئی چیز نظر نہیں آتی جس سے ان کی اصلاح ہو سکے۔ پس ان کے حواس گویا مسلوب ہوگئے جن سے کسی حال میں وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے پھر فرمایا تمام اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ جسے چاہے گمراہ کردے اور جسے چاہے سیدھی راہ پر لگا دے لیکن اس کا یہ فیصلہ یوں ہی الل ٹپ نہیں ہوجاتا بلکہ عدل وانصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے گمراہ اسی کو کرتا ہے جو خود گمراہی میں پھنسا ہوتا ہے اس سے نکلنے کی وہ سعی کرتا ہے نہ نکلنے کو وہ پسند ہی کرتا ہے مزید دیکھئے سورۃ بقرہ آیت ٢٦ کا حاشیہ الانعام
40 الانعام
41 ٤١۔ ١ اَرَءَیْتَکُمْ میں کاف اور میم خطاب کے لیے ہے اس کے معنی اخبرونی (مجھے بتلاؤ یا خبر دو) کے ہیں۔ اس مضمون کو بھی قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے (دیکھئے سورۃ ء بقرہ آیت ٥٦١ کا حاشیہ) اس کا مطلب یہ ہوا کہ توحید انسانی فطرت کی آواز ہے۔ انسان ماحول، یا آباؤ اجداد کی مشرکانہ عقائد و اعمال میں مبتلا رہتا ہے اور غیر اللہ کو اپنا حاجت روا و مشکل کشا سمجھتا رہتا ہے۔ نذر نیاز بھی انھی کے نام نکالتا ہے لیکن جب کسی مصیبت سے دو چار ہوتا ہے تو پھر سب بھول جاتا ہے اور فطرت ان سب پر غالب آجاتی ہے اور بے اختیار پھر اسی ذات کو پکارتا ہے جس کو پکارنا چاہیئے۔ کاش لوگ اسی فطرت پر قائم رہیں کہ نجات اخروی تو مکمل طور پر اسی صدائے فطرت یعنی توحید کے اختیار کرنے میں ہی ہے۔ الانعام
42 الانعام
43 ٤٣۔ ١ قومیں جب اخلاق و کردار کی پستی میں مبتلا ہو کر اپنے دلوں کو زنگ آلود کرلیتی ہیں تو اس وقت اللہ کے عذاب انھیں خواب غفلت سے بیدار کرنے اور جھنجھوڑنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پھر ان کے ہاتھ طلب مغفرت کے لئے اللہ کے سامنے نہیں اٹھتے ہیں دل اس کی بارگاہ میں نہیں جھگتے اور ان کے رخ اصلاح کی طرف نہیں مڑتے بلکہ اپنی بد اعمالیوں پر تاویلات اور توجیہات کے حسین غلاف چڑھا کر اپنے دل کو مطمئن کرلیتی ہیں۔ اس آیت میں ایسی ہی قوموں کا وہ کردار بیان کیا گیا ہے جسے شیطان نے ان کے لئے خوبصورت بنا دیا ہے۔ الانعام
44 الانعام
45 ٤٥۔ ١ اس میں خدا فراموش قوموں کی بابت اللہ تعالیٰ یہی بیان فرماتا ہے کہ ہم بعض دفعہ وقتی طور پر ایسی قوموں پر دنیا کی آسائشوں اور فراوانیوں کے دروازے کھول دیتے ہیں، یہاں تک کہ جب اس میں خوب مگن ہوجاتی ہیں اور اپنی مادی خوش حالی و ترقی پر اترانے لگ جاتی ہیں تو پھر ہم اچانک انھیں اپنے مواخذے کی گرفت میں لے لیتے ہیں اور جڑ ہی کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ حدیث میں بھی آتا ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نافرمانیوں کے باوجود کسی کو اس کی خواہشات کے مطابق دنیا دے رہا ہے تو یہ استدراج (ڈھیل دینا) ہے۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی، قرآن کریم کی آیت اور حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معلوم ہوا کہ دنیاوی ترقی اور خوشحالی اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ جس فرد یا قوم کو یہ حاصل ہو تو وہ اللہ کی چہیتی اور اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے جیسا کہ بعض لوگ ایسا سمجھتے ہیں بلکہ بعض تو انھیں ( اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ) 021:105 (مصداق قرار دیکر انھیں اللہ کے نیک بندے تک قرار دیتے ہیں) ایسا سمجھنا اور کہنا غلط ہے۔ گمراہ قوموں یا افراد کی دنیاوی خوش حالی ابتلا اور مہلت کے طور پر ہے نہ کہ یہ ان کے کفر و معاصی کا صلہ ہے۔ الانعام
46 ٤٦۔ ١ آنکھیں کان اور دل، یہ انسان کے نہایت اہم اعضا ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اگر وہ چاہے تو ان کی وہ خصوصیات سلب کرلے، جو اللہ نے ان کے اندر رکھی ہیں یعنی سننے دیکھنے اور سمجھنے کی خصوصیات، جس طرح کافروں کے یہ اعضا ان خصوصیات سے محروم ہوتے ہیں۔ یا اگر وہ چاہے تو اعضا کو ویسے ہی ختم کر دے، وہ دونوں ہی باتوں پر قادر ہے، اس کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ مگر یہ کہ وہ خود کسی کو جچانا چاہے آیات کو مختلف پہلووں سے پیش کرنے کا مطلب ہے کبھی انذار وتبشیر اور ترغیب و ترہیب کے ذریعے سے اور کبھی کسی اور ذریعے سے۔ الانعام
47 ٤٧۔ ١ بغتۃ بے خبری سے مراد رات اور جھرۃ خبر داری سے دن مراد ہے جسے سورۃ یونس میں بَیَاتًا اَوْ نَہَارًا سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی دن کو عذاب آ جائے یا رات کو یا پھر بغتۃ وہ عذاب ہے جو اچانک بغیر تمہید اور مقدمات کے آ جائے اور جھرۃ وہ عذاب جو تمہید اور مقدمات کے بعد آئے۔ یہ عذاب جو قوموں کی ہلاکت کے لئے آتا ہے۔ ان ہی پر آتا ہے جو ظالم ہوتی ہیں یعنی کفر و طغیان اور معصیت الٰہی میں حد سے تجاور کر جاتی ہیں۔ الانعام
48 ٤٨۔ ١ وہ اطاعت گزاروں کو ان نعمتوں اور اجر جلیل کی خوشخبری دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے جنت کی صورت میں ان کے لئے تیار کر رکھی ہے اور نافرمانوں کو ان عذابوں سے ڈراتے ہیں جو اللہ نے ان کے لئے جہنم کی صورت میں تیار کئے ہوئے ہیں۔ ٤٨۔ ٢ مستقبل (یعنی آخرت) میں پیش آنے والے حالات کا انھیں اندیشہ نہیں اور اپنے پیچھے دنیا میں جو کچھ چھوڑ آئے یا دنیا کی جو آسودگیاں وہ حاصل نہ کرسکے، اس پر مغموم نہیں ہوں گے کیونکہ دونوں جہانوں میں ان کا ولی اور کارساز وہ رب ہے جو دونوں جہانوں کا رب ہے۔ الانعام
49 ٤٩۔ ١ یعنی عذاب اس لئے پہنچے گا کہ انہوں نے تکفیر اور تکذیب کا راستہ اختیار کیا، اللہ کی اطاعت اور اس کے اوامر کی پرواہ نہیں کی اور اس کی حرمتوں کو پامال کیا۔ الانعام
50 ٥٠۔ ١ میرے پاس اللہ کے خزانے بھی نہیں (جس سے مراد ہر طرح کی قدرت و طاقت ہے) کہ میں تمہیں اللہ کے اذن و مشیت کے بغیر کوئی ایسا معجزہ کر کے دکھا سکو، جیسا کہ تم چاہتے ہو، جسے دیکھ کر میری نبوت کا یقین ہوجائے، میرے پاس غیب کا علم بھی نہیں کہ مستقبل میں پیش آنے والے حالات سے تمہیں مطلع کردوں، مجھے فرشتہ ہونے کا بھی دعوٰی نہیں کہ تم مجھے ایسے امور پر مجبور کرو جو انسانی طاقت سے بالا ہوں۔ میں تو صرف اس وحی کا پیرو ہوں جو مجھ پر نازل ہوتی ہے اور اس میں حدیث بھی شامل ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا اوتیت القرآن و مثلہ معہ مجھے قرآن کے ساتھ اس کی مثل بھی دیا گیا یہ مثل حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہے۔ ٥٠۔ ٢ یہ استفہام انکار کے لئے ہے یعنی اندھا اور بینا گمراہ اور ہدایت یافتہ اور مومن اور کافر برابر نہیں ہو سکتے۔ الانعام
51 ٥١۔ ١ یعنی انذار کا فائدہ ایسے ہی لوگوں کو ہوسکتا ہے ورنہ جو بعث بعد الموت حشر نشر پر یقین ہی نہیں رکھتے وہ اپنے کفر و جحود پر ہی قائم رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں ان اہل کتاب اور کافروں اور مشرکوں کا عقیدہ رہے کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کے بتوں کو اپنا سفارشی سمجھتے تھے۔ نیز کارساز اور سفارشی نہیں ہوگا کا مطلب۔ یعنی ان کے لئے جو عذاب جہنم کے مستحق قرار پا چکے ہوں گے۔ ورنہ مومنوں کے لئے اللہ کے نیک بندے، اللہ کے حکم سے سفارش کریں گے۔ یعنی شفاعت کی نفی اہل کفر و شرک کے لئے ہے اور اس کا اثبات ان کے لئے جو گناہ گار مومن و موحد ہوں گے، اسی طرح دونوں قسم کی آیات میں کوئی تعارض بھی نہیں رہتا۔ الانعام
52 ٥٢۔ ١ یعنی یہ بے سہارا اور غریب مسلمان، جو بڑے اخلاص سے رات دن اپنے رب کو پکارتے ہیں یعنی اس کی عبادت کرتے ہیں، آپ مشرکیں کے اس طعن یا مطالبہ سے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے ارد گرد تو غربا و فقرا کا ہی ہجوم رہتا ہے ذرا انھیں ہٹاؤ تو ہم بھی تمہارے پاس بیٹھیں، ان غربا کو اپنے سے دور نہ کرنا، بالخصوص جب کہ آپ کا کوئی احسان ان کے متعلق نہیں اور اگر ایسا کریں گے تو یہ ظلم ہوگا جو آپ کی شایان شان نہیں۔ مقصد امت کو سمجھانا ہے کہ بے وسائل لوگوں کو حقیر سمجھنا یا ان کی صحبت سے گریز کرنا اور وابستگی نہ رکھنا، یہ نادانوں کا کام ہے۔ اہل ایمان کا نہیں۔ اہل ایمان تو اہل ایمان سے محبت رکھتے ہیں چاہے وہ غریب اور مسکین ہی کیوں نہ ہو۔ الانعام
53 ٥٣۔ ١١ ابتدا میں اکثر غریب، غلام قسم کے لوگ ہی مسلمان ہوئے تھے۔ اس لئے یہی چیز رؤسائے کفار کی آزمائش کا ذریعہ بن گئی اور وہ ان غریبوں کا مذاق بھی اڑاتے اور جن پر ان کا بس چلتا انھیں تعزیب و اذیت سے بھی دوچار کرتے اور کہتے کہ کیا یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعال نے احسان فرمایا ؟ مقصد ان کا یہ تھا کہ ایمان اور اسلام پر واقع اللہ کا احسان ہوتا تو سب سے پہلے ہم پر ہوتا جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ('لَوْ کَانَ خَیْرًا مَّا سَبَقُوْنَآ اِلَیْہِ) 046:011 اگر یہ بہتر چیز ہوتی تو اس کے قبول کرنے میں یہ ہم سے سبقت نہ کرتے ' یعنی ان غربا کے مقابلے میں ہم پہلے مسلمان ہوتے۔ ٥٣۔ ٢ یعنی اللہ تعالیٰ ظاہری چمک دمک ٹھاٹھ باٹھ اور رئیسانہ کروفر وغیرہ نہیں دیکھتا، وہ تو دلوں کی کیفیت کو دیکھتا ہے اور اس اعتبار سے وہ جانتا ہے اس کے شکرگزار بندے اور حق سناش کون ہیں؟ پس اس نے جن کے اندر شکر گزاری کی خوبی دیکھی، انھیں ایمان کی سعادت سے سرفراز کردیا جس طرح حدیث میں آتا ہے ' اللہ تعالیٰ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا وہ تو تمہارے دل اور تمہارے عمل دیکھتا ہے '۔ الانعام
54 ٥٤۔ ١ یعنی ان پر سلام کر کے یا ان کے سلام کا جواب دے کر ان کی تکریم اور قدر افزائی کریں۔ ٥٤۔ ٢ اور انھیں خوشخبری دیں کہ فضل و احسان کے طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنے شکر گزار بندوں پر اپنی رحمت کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے، کہ جب اللہ تعالیٰ تخلیق کائنات سے فارغ ہوگیا تو اس نے عرش پر لکھ دیا (انَّ رَحْمَتِیْ تَغْلِبُ (صحیح بخاریٰ و مسلم) میری رحمت، میرے غضب پر غالب ہے۔ ٥٤۔ ٣ اس میں بھی اہل ایمان کے لئے بشارت ہے کیونکہ ان ہی کی یہ صفت ہے اگر نادانی یا برضائے بشریت کسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے تو پھر فوراً توبہ کر کے اپنی صلاح کرلیتے ہیں۔ گناہ پر اصرار اور دوام اور توبہ انابت سے روگردانی نہیں کرتے۔ الانعام
55 الانعام
56 ٥٦۔ ١ یعنی اگر میں بھی تمہاری طرح اللہ کی عبادت کرنے کی بجائے، تمہاری خواہشات کے مطابق غیر اللہ کی عبادت شروع کردوں تو یقینا میں بھی گمراہ ہوجاؤں گا۔ مطلب یہ ہے کہ غیر اللہ کی عبادت و پرستش، سب سے بڑی گمراہی ہے لیکن بد قسمتی سے یہ گمراہی اتنی عام ہے۔ حتٰی کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس میں مبتلا ہے۔ ھداھم اللہ تعالی الانعام
57 ٥٧۔ ١ مراد وہ شریعت ہے جو وحی کے ذریعے سے آپ پر نازل کی گئی، جس میں توحید کو اولین حیثیت حاصل ہے۔ ان اللہ لا ینظر الی صورکم ولا الی اموالکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم (صحیح مسلم) ٥٧۔ ٢ تمام کائنات پر اللہ ہی کا حکم چلتا ہے اور تمام معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں۔ اس لئے تم جو چاہتے ہو کہ جلدی اللہ کا عذاب تم پر آجائے تاکہ تمہیں میری صداقت کا پتہ چل جائے، تو یہ بھی اللہ ہی کے اختیار میں ہے، وہ اگر چاہے تو تمہاری خواہش کے مطابق جلدی عذاب بھیج کر تمہیں متنبہ کر دے اور چاہے تو اس وقت تک مہلت دے دے جب تک اس کی حکمت اس کی متقضی ہو۔ ٥٧۔ ٣ یَقُصُّ قَصَصْ سے ہے یعنی یَقُصُّ قَصَصَ الْحَق حق باتیں بیان کرتا یا بتلاتا ہے یا قص اثرہ (کسی کے پیچھے پیروی کرنا) سے ہے یعنی یتبع الحق فیما یحکم بہ اپنے فیصلوں میں وہ حق کی پیروی کرتا ہے یعنی حق کے مطابق فیصلے کرتا ہے (فتح القدیر) الانعام
58 ٥٨۔ ١ یعنی اگر اللہ تعالیٰ میرے طلب کرنے پر فوراً عذاب بھیج دیتا یا اللہ میرے اختیار یہ چیز دے دیتا تو پھر تمہاری خواہش کے مطابق عذاب بھیج کر جلدی ہی یہ فیصلہ کردیا جاتا۔ لیکن یہ معاملہ چونکہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے اس لئے اس نے مجھے اس کا اختیار دیا ہے اور نہ ہی ممکن ہے کہ میری درخواست پر فوراً عذاب نازل ہو۔ ضروری وضاحت : حدیث میں جو آتا ہے کہ ایک موقع پر اللہ کے حکم سے پہاڑوں کا فرشتہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور اس نے کہا کہ اگر آپ حکم دیں تو میں ساری آبادی کو دونوں پہاڑوں کے درمیان کچل دوں آپ نے فرمایا ' نہیں، بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے اللہ کی عبادت کرنے والے پیدا فرمائے گا جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے (صحیح مسلم) یہ حدیث آیت زیر وضاحت کے خلاف نہیں ہے جیسا کہ بظاہر معلوم ہوتی ہے اس لیے کہ آیت میں عذاب طلب کرنے پر عذاب دینے کا اظہار ہے جبکہ اس حدیث میں مشرکین کے طلب کیے بغیر صرف ان کی ایذا دہی کی وجہ سے ان پر عذاب بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے جسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پسند نہیں فرمایا۔ الانعام
59 ٥٩۔ ١ 'کتاب مُبِین ' سے مراد لوح محفوظ ہے۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے غیب کے سارے خزانے اسی کے پاس ہیں اس لئے کفار و مشرکین اور معاندین کو کب عذاب دیا جائے؟ اس کا علم بھی صرف اسی کو ہے اور وہی اپنی حکمت کے مطابق فیصلہ کرنے والا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ مفاتح الغیب پانچ ہیں قیامت کا علم، بارش کا نزول، رحم مادر میں پلنے والا بچہ، آئندہ کل میں پیش آنے والے واقعات اور موت کہاں آئے گی۔ ان پانچوں کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں (صحیح بخاری) الانعام
60 ٦٠۔ ١ یہاں نیند کو وفات سے تعبیر کیا گیا ہے، اسی لئے اسے وفات اصغر اور موت کو وفات اکبر کہا جاتا ہے (وفات کی وضاحت کے لئے دیکھئے (آل عمران کی آیت ٥٥ کا حشیہ) ٦٠۔ ٢ یعنی دن کے وقت روح واپس لوٹا کر زندہ کردینا ہے۔ ٦٠۔ ٣ یعنی یہ سلسلہ شب و روز اور وفات اصغر سے ہمکنار ہو کر دن کو پھر اٹھ کر کھڑے ہونے کا معمول، انسان کی وفات اکبر تک جاری رہے گا ٦١۔ ٤ یعنی پھر قیامت والے دن زندہ ہو کر سب کو اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔ الانعام
61 ٦١۔ ١ یعنی اپنے اس مفوضہ کام میں اور روح کی حفاظت میں بلکہ وہ فرشتہ، مرنے والا اگر نیک ہوتا ہے تو اس کی روح عِلِّیِّیْنَ میں اور اگر بد ہے تو سِجِّیْنَ میں بھیج دیتا ہے۔ الانعام
62 ٦٢۔ ١ آیت میں ردوا (لوٹائے جائیں گے) کا مرجع بعض نے فرشتوں کو قرار دیا ہے۔ یعنی قبض روح کے بعد فرشتے اللہ کی بارگاہ لوٹ جاتے ہیں۔ اور بعض نے اس کا مرجع تمام لوگوں کو بنایا ہے۔ یعنی سب لوگ حشر کے بعد اللہ کی بارگاہ میں لوٹائے جائیں گے (پیش کئے جائیں گے) پھر وہ سب کا فیصلہ فرمائے گا۔ آیت میں روح قبض کرنے والے فرشتوں کو رسل (جمع کے صیغے کے ساتھ) بیان کیا ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ روح قبض کرنے والا فرشتہ ایک نہیں متعدد ہیں۔ اس کی تشریح بعض مفسرین نے اسطرح کی ہے کہ قرآن مجید میں روح قبض کرنے کی نسبت اللہ کی طرف بھی ہے۔ (اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا) 039:042 اللہ لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے " اور اس کی نسبت ایک فرشتے (ملک الموت) کی طرف بھی کی گئی ہے (ـ قُلْ یَتَوَفّٰیکُمْ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِّلَ بِکُمْ) 032:011 ' کہہ دو تمہاری روحیں وہ فرشتہ موت قبض کرتا ہے جو تمہارے لئے مقرر کیا گیا ہے ' اور اس کی نسبت متعدد فرشتوں کی طرف بھی کی گئی ہے، جیسا کہ اس مقام پر ہے اور اسی طرح سورۃ نساء آیت ٩٧ اور الانعام آیت ٩٣ میں بھی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت اس لحاظ سے ہے کہ وہی اصل امر (حکم دینے والا) بلکہ فاعل حقیقی ہے۔ متعدد فرشتوں کی طرف نسبت اس لحاظ سے ہے کہ وہ ملک الموت کے مددگار ہیں وہ رگوں شریانوں پٹھوں سے روح نکالنے اور اس کا تعلق ان تمام چیزوں سے کاٹنے کا کام کرتے ہیں اور ملک الموت کی طرف نسبت کے معنی یہ ہیں کہ پھر آخر میں وہ روح قبض کر کے آسمانوں کی طرف لے جاتا ہے (تفسیر روح المعانی جلد ٥) حافظ ابن کثیر امام شوکانی اور جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ ملک الموت ایک ہی ہے جیسا کہ سورۃ الم السجدہ کی آیت سے اور مسند احمد میں حضرت براء بن عازب (رض) کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے اور جہاں جمع کے صیغے میں ان کا ذکر ہے تو وہ اس کے اعوان و انصار ہیں اور بعض آثار میں ملک الموت کا نام عزرائیل بتلایا گیا ہے تفسیر ابن کثیر واللہ اعلم الانعام
63 الانعام
64 الانعام
65 ٦٥۔ ١ یعنی آسمان، جیسے بارش کی کثرت، یا ہوا، پتھر کے ذریعے سے عذاب یا امرا اور احکام کی طرف سے ظلم و ستم۔ ٦٥۔ ٢ جیسے دھنسا جانا، طوفانی سیلاب، جس میں سب کچھ غرق ہوجائے۔ یا مراد ہے ماتحتوں، غلاموں اور نوکروں چاکروں کی طرف سے عذاب کہ وہ بدیانت اور خائن ہوجائیں۔ ٦٥۔ ٣ یَلْبِسَکُمْ ای یخلط امرکم تمہارے معاملے کو خلط ملط یا مشتبہ کردے جس کی وجہ سے تم گروہوں اور جماعتوں میں بٹ جاؤ ویذیق ای یقتل بعضکم بعضا فتذیق کل طائفۃ الاخری اَلَمَ الْحَرْبِ تمہارا ایک دوسرے کو قتل کرنا اس طرح ہر گروہ دوسرے گروہ کی لڑائی کا مزہ چکھے۔ حدیث میں آتا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں ١۔ میری امت غرق کے ذریعے ہلاک نہ کی جائے ٢۔ قحط عام کے ذریعے اس کی تباہی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی دو دعائیں قبول فرمالیں اور تیسری دعا سے مجھے روک دیا گیا (صحیح مسلم، نمبر ٢٢١٦) یعنی اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ امت محمدیہ میں اختلاف و الشقاق واقع ہوگا اور اس کی وجہ اللہ کی نافرمانی اور قرآن پاک و حدیث سے اعراض (منہ پھیرنا) ہوگا جس کے نتیجے میں عذاب کی اس صورت سے امت محمدیہ بھی محفوظ نہ رہ سکے گی۔ گویا اس کا تعلق اس سنت اللہ سے ہے جو قوموں کے اخلاق و کردار کے بارے میں ہمیشہ رہی ہے جس میں تبدیلی ممکن نہیں۔ فلن تجد لسنت اللہ تبدیلا ولن تجد لسنت اللہ تحویلا (فاطر) الانعام
66 ٦  ٦ ۔ ١ بہ کا مرجع قرآن ہے یا عذاب فتح القدیر ٦٦۔ ١ یعنی مجھے اس امر کا مکلف نہیں کیا گیا ہے کہ میں تمہیں ہدایت کے راستے پر لگا کر ہی چھوڑوں۔ بلکہ میرا کام صرف دعوت و تبلیغ ہے۔ فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر (الکھف)۔ الانعام
67 الانعام
68 ٦٨۔ ١ آیت میں خطاب اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن مخاطب امت مسلمہ کا ہر فرد ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک تاکیدی حکم ہے جسے قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ سورۃ نساء آیت نمبر ١٤٠ میں بھی مضموں گزر چکا ہے۔ اس سے ہر وہ مجلس مراد ہے جہاں اللہ رسول کے احکام کا مذاق اڑایا جا رہا ہو۔ یا عملا ان کا استخفاف کیا جارہا ہو یا اہل بدعت و اہل زیغ اپنی تاویلات رکیکہ اور توجیہات نحیفہ کے ذریعے سے آیات الہی کو توڑ مروڑ رہے ہوں ایسی مجالس میں غلط باتوں پر تنقید کرنے اور کلمہ حق بلند کرنے کی نیت سے تو شرکت جائز ہے بصورت دیگر سخت گناہ اور غضب الہی کا باعث ہے۔ الانعام
69 ٦٩۔ ١ مِنْ حِسَابِھِمْ کا تعلق آیات الٰہی کا استہزاد (جھٹلانے) کرنے والوں سے ہے۔ یعنی وہ لوگ جو ایسی مجالس سے اجتناب کریں گے کہ اللہ کا جو گناہ استہزاد کرنے والوں کو ملے گا وہ اس گناہ سے محفوظ رہیں گے۔ ٦٩۔ ٢ یعنی اجتناب و علیحدگی کے باوجود وعظ و نصیحت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ حتی المقدر ادا کرتے رہیں۔ شاید وہ بھی اپنی اس حرکت سے باز آجائیں۔ الانعام
70 ٧٠۔ ١ تُبْسَلَ، ای : لئلا تبسل بسل کے اصل معنی تو منع کے ہیں اسی سے ہے شُجَاعٌ بَاسِلٌ لیکن یہاں اس کے مختلف معنی کیے گئے ہیں۔ ١: تُسَلَّمُ سونپ دیئے جائیں۔ ٢: تُفْضَحُ رسوا کردیا جا‏ئے۔ ٣: تُؤَاخَذُ مواخذہ کیا جائے۔ ٤: تُجَازی بدلہ دیا جائے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سب کے معنی قریب قریب ہیں۔ خلاصہ (امام ابن کثیر (فرماتے ہیں کہ انھیں اس قرآن کے ذریعے نصیحت کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نفس کو، جو اس نے کما یا، اس کے بدلے ہلاکت کے سپرد کردیا جائے۔ یا رسوائی اس کا مقدر بن جائے یا وہ مواخذہ اور مجازات کی گرفت میں آجائے۔ ان تمام مفہوم کو فاضل مترجم نے " پھنس نہ جائے "سے تعبیر کیا ہے۔ ٧٠۔ ٢ دنیا میں انسان عام طور پر کسی دوست کی مدد یا کسی کی سفارش سے مالی معاوضہ دے کر چھوٹ جاتا ہے۔ لیکن آخرت میں یہ تینوں ذریعے کام نہیں آئیں گے، وہاں کافروں کا کوئی دوست نہ ہوگا جو انھیں اللہ کی گرفت سے بچا لے نہ کوئی سفارشی ہوگا جو عذاب الٰہی سے نجات دلا دے اور نہ کسی کے پاس معاوضہ ہوگا اگر بالفرض محال ہو بھی تو قبول نہیں کیا جائے گا کہ وہ دے کر چھوٹ جائے، یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔ الانعام
71 ٧١۔ ١ یہ ان لوگوں کی مثال بیان فرمائی ہے جو ایمان کے بعد کفر اور توحید کے بعد شرک کی طرف لوٹ جائیں ان کی مثال ایسے ہی ہے کہ ایک شخص اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جائے جو سیدھے راہ پر جا رہے ہوں۔ اور بچھڑ جانے والا جنگلوں میں حیران و پریشان بھٹکتا پھر رہا ہو، ساتھی اسے بلا رہے ہوں لیکن حیرانی میں اسے کچھ سجھائی نہ دے رہا ہو یا جنات کے نرغے میں پھنس جانے کے باعث صحیح راستے کی طرف مراجع اس کے لئے ممکن نہ رہی ہو۔ ٧١۔ ٢ مطلب یہ کہ کفر اور شرک اختیار کر کے جو گمراہ ہوگیا، وہ بھٹک ہوئے راہی کی طرح ہدایت کی طرف نہیں آسکتا۔ ہاں البتہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ہدایت مقدر کردی ہے تو یقینا اللہ کی توفیق سے وہ راہ یاب ہوجائے گا۔ کیونکہ ہدایت پر چلا دینا اسی کا کام ہے۔ جیسے دوسرے مقامات پر فرمایا گیا۔ (فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِیْ مَنْ یُّضِلُّ وَمَا لَہُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ) 16۔ النحل :37) جس کو وہ گمراہ کر دے۔ اور ان کے لئے کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ لیکن یہ ہدایت اور گمراہی اسی اصول کے تحت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے بنایا ہوا ہے یہ نہیں ہے کہ یوں ہی جسے چاہے گمراہ اور جسے چاہے راہ یاب کرے جیسا کہ اس کی وضاحت متعدد جگہ کی جا چکی ہے۔ الانعام
72 ٧٢۔ ١ وَاَنْ اَقِیْمُوْا کا عطف لِنُسْلِمُ پر ہے۔ یعنی ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم رب العالمین کے مطیع ہوجائیں اور یہ کہ ہم نماز قائم کریں اور اس سے ڈریں تسلیم و انقیاد الٰہی کے بعد سب سے پہلا حکم اقامت صلات کا دیا گیا ہے جس سے نماز کی اہمیت واضح ہے اور اس کے بعد تقویٰ اور خشوع کے بغیر ممکن نہیں۔ وانھا لکبیرۃ الا علی الخشعین (البقرہ) الانعام
73 ٧٣۔ ١ حق کے ساتھ یا بافا‏ئدہ پیدا کیا یعنی ان کو عبث اور بے فائدہ کھیل کود کے طور پر پیدا نہیں کیا بلکہ ایک خاص مقصد کے لیے کائنات کی تخلیق فرمائی ہے اور وہ یہ کہ اس اللہ کو یاد رکھا اور اس کا شکر ادا کیا جائے جس نے یہ سب کچھ بنایا۔ ٧٣۔ ١ یوم فعل محذوف واذکر یا واتقوا کی وجہ سے منصوب ہے۔ یعنی اس دن کو یاد کرو یا اس دن سے ڈرو! کہ اس کے لفظ کُن (ہوجا) سے وہ جو چاہے گا، ہوجائے گا۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حساب کتاب کے کٹھن مراحل بھی بڑی سرعت کے ساتھ طے ہوجائیں گے، لیکن کن کے لئے؟ ایمانداروں کے لئے۔ دوسروں کو یہ دن ہزار سال یا پچاس ہزار سال کی طرح بھاری لگے گا۔ ٧٣۔ ٢ صور سے مراد نرسنگا یا بگل ہے جس کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ ' اسرافیل اسے منہ میں لئے اور اپنی پیشانی جھکائے، حکم الہی کے منتظر کھڑے ہیں کہ جب انھیں کہا جائے تو اس کے منہ میں پھونک مار دیں ' ابن کثیر ' ابو داؤد اور ترندی میں ہے۔ الصور قرن ینفخ فیہ (صور ایک قرن (نرسنگا) ہے جس میں پھونکا جائے گا بعض علماء کے نزدیک تین نفخے ہوں گے نفخۃ الصعق جس سے تمام لوگ بے ہوش ہوجائیں گے نفخۃ الفناء جس سے تمام لوگ فنا ہو جا‏ئیں گے نفخۃ الانشاء جس سے تمام انسان دوبارہ زندہ ہوجائیں گے بعض علماء آخری دو نفخوں کے ہی قائل ہیں۔ الانعام
74 ٧٤۔ ١ مورخین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کے دو نام ذکر کرتے ہیں، آزر اور تارخ۔ ممکن ہے دوسرا نام لقب ہو۔ بعض کہتے ہیں کہ آزر آپ کے چچا کا نام تھا، لیکن یہ صحیح نہیں، اس لئے کہ قرآن نے آزر کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کے طور پر ذکر کیا ہے، لہذا یہ صحیح ہے۔ الانعام
75 ٧٥۔ ١ ملکوت مبالغہ کا صیغہ ہے جیسے رغبۃ سے رغبوت اور رھبہ سے رھبوت اس سے مراد مخلوقات ہے، جیسا کہ ترجمہ میں یہی مفہوم اختیار کیا گیا ہے۔ یا ربوبیت ہے یعنی ہم نے اس کو یہ دکھلائی اور اس کی معرفت کی توفیق دی۔ یا یہ مطلب ہے کہ عرش سے لے کر اسفل ارض تک کا ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو امور غیبی کا مشاہدہ کرایا۔ (فتح القدیر) الانعام
76 ٧٦۔ ١ یعنی غروب ہونے والے معبودوں کو پسند نہیں کرتا، اس لئے غروب، تغیر حال پر دلالت کرتا ہے جو حادث ہونے کی دلیل ہے اور جو حادث ہو معبود نہیں ہو سکتا۔ الانعام
77 الانعام
78 ٧٨۔ ١ شمس سورج عربی میں مونث ہے لیکن اسم اشارہ مذکر ہے مراد الطالع ہے یعنی طلوع ہونے والا سورج، میرا رب ہے، کیونکہ یہ سب سے بڑا ہے۔ جس طرح کے سورج پرستوں کو مغالطہ لگا اور وہ اس کی پرستش کرتے ہیں (اجرام فلکی) میں سورج سب سے بڑا ہے اور سب سے زیادہ روشن اور انسانی زندگی کی بقا وجود کے لئے اس کی اہمیت و افادیت محتاج وضاحت نہیں اس لئے مظاہر پرستوں میں سورج کی پرستش عام رہی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نہایت لطیف پیرائے میں چاند سورج کے پجاریوں پر ان کے معبودوں کی بے حیثیتی کو واضح فرمایا۔ ٧٨۔ ٢ یعنی ان تمام چیزوں سے، جن کو تم اللہ کا شریک بناتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو، میں بیزار ہوں۔ اس لئے کہ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے، کبھی طلوع ہوتے ہیں، کبھی غروب ہوتے ہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ مخلوق ہیں اور ان کا خالق کوئی اور ہے جس کے حکم کے یہ تابع ہیں۔ جب یہ خود مخلوق اور کسی کے تابع ہیں تو کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر کس طرح قادر ہو سکتے ہیں؟ مشہور ہے کہ اس وقت کے بادشاہ نمرود نے اپنے ایک خواب اور کاہنوں کی تعبیر کی وجہ سے نومولود لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دے رکھا تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی انہی ایام میں پیدا ہوئے جس کی وجہ سے انھیں ایک غار میں رکھا گیا تاکہ نمرود اور اس کے کارندوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ جائیں وہیں غار میں جب کچھ شعور آیا اور چاند سورج دیکھے تو یہ تاثرات ظاہر فرمائے لیکن یہ غار والی بات مستند نہیں ہے قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم سے گفتگو اور مکالمے کے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ باتیں کی ہیں اسی لیے آخر میں قوم سے خطاب کر کے فرمایا کہ میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے بیزار ہوں اور مقصد اس مکالمے سے معبودان باطل کی اصل حقیقت کی وضاحت تھی۔ الانعام
79 ٧٩۔ ١ رخ یا چہرے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ چہرے سے ہی انسان کی اصل شناخت ہوتی ہے مراد اس سے شخص ہی ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میری عبادت اور توحید سے مقصود اللہ عزوجل ہے جو آسمان اور زمین کا خالق ہے۔ الانعام
80 ٨٠۔ ١ جب قوم نے توحید کا یہ وعظ سنا جس میں ان کے خود ساختہ معبودوں کی تردید بھی تھی تو انہوں نے بھی اپنے دلائل دینے شروع کیے جس سے معلوم ہوا کہ مشرکین نے بھی اپنے شرک کے لیے کچھ نہ کچھ دلائل تراش رکھے تھے جس کا مشاہدہ آج بھی کیا جا سکتا ہے جتنے بھی مشرکانہ عقائد رکھنے والے گروہ ہیں سب نے اپنے اپنے عوام کو مطمئن کرنے اور رکھنے کے لیے ایسے سہارے تلاش کر رکھے ہیں جن کو وہ دلائل سمجھتے ہیں یا جن سے کم از کم دام تزویر میں پھنسے ہوئے عوام کو جال میں پھنسائے رکھا جاسکتا ہے۔ الانعام
81 ٨١۔ ١ یعنی مومن اور مشرک میں سے؟ مومن کے پاس تو توحید کے بھرپور دلائل ہیں، جب کہ مشرک کے پاس اللہ کی اتاری ہوئی کوئی دلیل نہیں، صرف اوہام باطلہ ہیں یا دور ازکار تاویلات اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امن اور نجات کا مستحق کون ہوگا۔ الانعام
82 ٨٢۔ ١ آیت میں یہاں ظلم سے مراد شرک ہے جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے حدیث میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام ظلم کا عام مطلب (کوتاہی اور غلطی، گناہ اور زیادتی وغیرہ) سمجھا، جس سے وہ پریشان ہوگئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آکر کہنے لگے، ہم میں سے کون شخص ایسا ہے جس نے ظلم نہ کیا ہو، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' اس ظلم سے مراد وہ ظلم نہیں جو تم سمجھ رہے ہو بلکہ اس سے مراد شرک ہے جس طرح حضرت لقمان (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کو کہا ( اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ) 31۔ لقمان :13) یقینا شرک ظلم عظیم ہے (صحیح بخاری)۔ الانعام
83 ٨٣۔ ١ یعنی توحید الٰہی پر ایسی حجت اور دلیل، جس کا کوئی جواب ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم سے بن نہ پڑا۔ اور وہ بعض کے نزدیک یہ قول تھا (وکیف اخاف ما اشرکتم ولا تخافون انکم اشرکتم باللہ مالم ینزل بہ علیکم سلطنا فای الفریقین احق بالامن) اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس قول کی تصدیق فرمائی اور کہا (اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗیِٕکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ) 6۔ الانعام :82) الانعام
84 ٨٤۔ ١ یعنی بڑھاپے میں، جب کہ وہ اولاد سے ناامید ہوگئے تھے، جیسا کہ سورۃ ہود آیت ٧٢، ٧٣ میں ہے پھر بیٹے کے ساتھ ایسے پوتے کی بھی بشارت دی جو یعقوب (علیہ السلام) ہوگا، جس کے معنی یہ مفہوم شامل ہے کہ اس کے بعد ان کی اولاد کا سلسلہ چلے گا، اس لئے یہ عقب (پیچھے سے) مشتق ہے۔ ٨٤۔ ٢ ذریتہ میں ضمیر کا مرجع بعض مفسرین نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو قرار دیا ہے کیونکہ وہی اقرب ہیں یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان علیہما السلام کو قرار دیا ہے کیونکہ وہی اقرب ہیں یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان علیہما السلام کو اور بعض نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس لیے کہ ساری گفتگو انہی کے ضمن میں ہو رہی ہے لیکن اس صورت میں یہ اشکال پیش آتا ہے کہ پھر لوط (علیہ السلام) کا ذکر اس فہرست میں نہیں آنا چاہیے تھا کیونکہ وہ ذریت ابراہیم (علیہ السلام) میں سے نہیں ہیں وہ ان کے بھائی ہاران بن آزر کے بیٹے یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے ہیں اور ابراہیم (علیہ السلام) لوط (علیہ السلام) کے باپ نہیں چچا ہیں لیکن بطور تغلیب انھیں بھی ذریت ابراہیم (علیہ السلام) میں شمار کرلیا گیا ہے اس کی ایک اور مثال قرآن مجید میں ہے جہاں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو اولاد یعقوب (علیہ السلام) کے آباء میں شمار کیا گیا ہے جب کہ وہ ان کے چچا تھے دیکھیے سورۃ بقرہ آیت ١٣٣ الانعام
85 ٨٥۔ ١ عیسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر حضرت نوح (علیہ السلام) یا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں اس لئے کہا گیا (حالانکہ ان کا باپ نہیں تھا) کہ لڑکی کی اولاد بھی ذریت رجال میں ہی شامل ہوتی ہے۔ جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت حسن (اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کے صاحبزادے) کو اپنا بیٹا فرمایا ان ابنی ھذا سید و لعل اللہ ان یصلح بہ بین فئتین عظمتین من المسلمین (صحیح بخاری) ' (تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر)۔ الانعام
86 الانعام
87 ٨٧۔ ١ آبا سے اصول اور ذریات سے فروع مراد ہے۔ یعنی ان اصولوں و فروع اور اخوان میں سے بھی بہت سوں کو ہم نے مقام ہدائیت سے نوازا آجتِیْبِآءُ کے معنی چن لینا اور اپنے خاص بندوں میں شمار کرنا اور ان کے ساتھ ملا لینا۔ یہ جَبِبْتُ المَآ ءَ فِی الحَوضِ (میں نے حوض میں پانی بھر لیا) سے مشتق ہے۔ پس اپنے خاص بندوں میں ملا لینا۔ اصطفاء تخلیص اور اختیار بھی اسی معنی میں مستعمل ہے جب کا مفعول مصطفی مجتبی مخلص اور مختار ہے (فتح القدیر) الانعام
88 ٨٨۔ ١ اٹھارہ انبیاء کے اسمائے گرامی ذکر کر کے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے، اگر یہ حضرات بھی شرک کا ارتکاب کرلیتے تو ان کے سارے اعمال برباد ہوجاتے۔ جس طرح دوسرے مقام پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' اے پیغمبر! اگر تو نے بھی شرک کیا تو تیرے سارے عمل برباد ہوجائیں گے، حالانکہ پیغمبروں سے شرک کا صدور ممکن نہیں۔ مقصد امتوں کو شرک کی خطرناک اور ہلاکت خیزی سے آگاہ کرنا ہے۔ الانعام
89 ٨٩۔ ١ اس سے مراد رسول اللہ کے مخالفیں، مشرکین اور کفار ہیں۔ ٩٨۔ ٢ اس سے مراد مہاجرین و انصار اور قیامت تک آنے والے ایماندار ہیں۔ الانعام
90 ٩٠۔ ١ اس سے مراد انبیاء مذکورین ہیں۔ ان کی پیروی کا حکم مسئلہ توحید میں اور ان احکام و شرائع میں ہے جو منسوخ نہیں ہوئے (فتح القدیر) کیونکہ اصول دین تمام شریعتوں میں ایک ہی رہے ہیں گو شرائع اور مناہج میں کچھ کچھ اختلاف رہا جیسا کہ آیت شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا (الشوری) سے واضح ہے ٩٠۔ ٢ یعنی تبلیغی دعوت کا، کیونکہ مجھے اس کا صلہ ہی کافی ہے جو آخرت میں عند اللہ ملے گا۔ ٩٠۔ ٣ جہان والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ پس یہ قرآن انھیں کفر و شرک کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی عطا کرے گا اور ضلالت کی پگڈنڈیوں سے نکال کر ایمان کی صراط مسقیم پر گامزن کردے گا۔ بشرطیکہ کوئی اس سے نصیحت حاصل کرنا چاہے، ورنہ دیدہ کور کو کیا نظر آئے کیا دیکھنے والا معاملہ ہوگا۔ الانعام
91 ٩١۔ ١ قَدَر کے معنی اندازہ کرنے کے ہیں اور یہ کسی چیز کی اصل حقیقت جاننے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ مشرکین مکہ رسل اور انزال کتب کا انکار کرتے ہیں، جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ انھیں اللہ کی صحیح معرفت ہی حاصل نہیں ورنہ وہ ان چیزوں کا انکار نہ کرتے، علاوہ ازیں اسی عدم معرفت الٰہی کی وجہ سے وہ نبوت و رسالت کی معرفت سے بھی قاصر رہے کہ انسان پر اللہ تعالیٰ کا کلام کس طرح نازل ہوسکتا ہے؟ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اَکَان للنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَآ اِلٰی رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ) 10۔ یونس :2) کیا یہ بات لوگوں کے لیے باعث تعجب ہے کہ ہم نے ان ہی میں سے ایک آدمی پر وحی نازل کر کے اسے لوگوں کو ڈرانے پر مامور کردیا ہے؟ دوسرے مقام پر فرمایا (وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ یُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَہُمُ الْہُدٰٓی اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُوْلًا) 17۔ الاسراء :94) ہدایت آجانے کے بعد لوگ اسے قبول کرنے سے اس لیے رک گئے کہ انہوں نے کہا کہ کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیج دیا ہے؟ اس کی کچھ تفصیل اس سے قبل آیت نمبر ٨ کے حاشیے میں بھی گزر چکی ہے آیت زیر وضاحت میں بھی انہوں نے اپنے اس خیال کی بنیاد پر اس بات کی نفی کی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان پر کوئی کتاب نازل کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہ ہی بات ہے تو ان سے پوچھو! موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات کس نے نازل کی تھی (جس کو یہ مانتے ہیں) ٩١۔ ٢ آیت کی مذکورہ تفسیر کے مطابق اب یہود سے خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ تم اس کتاب کو متفرق اوراق میں رکھتے ہو جن میں سے جس کو چاہتے ہو ظاہر کردیتے ہو اور جنکو چاہتے ہو چھپا لیتے ہو۔ جیسے رجم کا مسئلہ یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کا مسئلہ ہے۔ حافظ ابن کثیر اور امام ابن جریر طبری وغیرہ نے دلیل یہ دی ہے کہ یہ مکی آیت ہے، اس میں یہود سے خطاب کس طرح ہوسکتا ہے؟ اور بعض مفسرین نے پوری آیت کو ہی یہود سے متعلق قرار دیا ہے اور اس میں سرے سے نبوت و رسالت کا جو انکار ہے اسے یہود کی ہٹ دھرمی، ضد اور عناد پر مبنی قول قرار دیا ہے۔ گویا اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کی تین رائے ہیں۔ ایک پوری آیت کو یہود سے، دوسرے پوری آیت کو مشرکین سے اور تیسرے آیت کی ابتدائی حصے کو مشرکین سے متعلق اور یہود سے متعلق قرار دیتے ہیں۔ واللّٰہ اَعْلَمُ ٩١۔ ٣ یہود سے متعلقْ ماننے کی صورت میں اس کی تفسیر ہوگی کہ تورات کے ذریعے سے تمہیں بتائی گئیں، بصورت دیگر قرآن کے ذریعے سے۔ ٩١۔ ٤ یہ مَنْ اَ نُزَ لَ (کس نے اتارا) کا جواب ہے الانعام
92 الانعام
93 ٩٣۔ ١ ظالم سے مراد ہر ظالم ہے اور اس میں کتاب الٰہی کا انکار کرنے والے اور جھوٹے مدعیان نبوت سب سے پہلے شامل ہیں۔ ' فرشتے ہاتھ بڑھا رہے ہونگے، یعنی جان نکالنے کے لئے (آج) سے مراد قبض روح کا دن اور یہی عذاب کے آغاز کا وقت بھی ہے جس کا مبداء قبر ہے۔ اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عذاب قبر برحق ہے۔ ورنہ ہاتھ پھیلانے اور جان نکالنے کا حکم دینے کے ساتھ اس بات کے کہنے کے کوئی معنی نہیں کہ آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔ خیال رہے قبر سے مراد برزخ کی زندگی ہے۔ یعنی دنیا کی زندگی کے بعد آخرت کی زندگی سے قبل، یہ ایک درمیان کی زندگی ہے جس کا عرصہ انسان کی موت سے قیامت کے وقوع تک ہے۔ یہ برزخی زندگی کہلاتی ہے۔ چاہے اسے کسی درندے نے کھایا ہو، اس کی لاش سمندر کی موجوں کی نذر ہوگئی ہو یا اسے جلا کر راکھ بنا دیا گیا یا قبر میں دفنا دیا گیا ہو۔ یہ برزخ کی زندگی ہے جس میں عذاب دینے پر اللہ تعالیٰ قادر ہے۔ ٩٣۔ ٢ اللہ کے ذمے جھوٹی باتیں لگانے میں انزال کتب اور ارسال رسل کا انکار بھی ہے اور جھوٹا دعوائے نبوت بھی ہے اسی طرح نبوت و رسالت کا انکار و استکبار ہے۔ ان دونوں وجوہ سے انھیں ذلت و رسوائی کا عذاب دیا جائے گا۔ الانعام
94 ٩٤۔ ١ فرادی فرد کی جمع ہے جس طرح سکاری سکران کی اور کسالی کسلان کی جمع ہے۔ مطلب ہے کہ تم علیحدہ علیحدہ ایک ایک کر کے میرے پاس آؤ گے، تمہارے ساتھ نہ مال ہوگا نہ اولاد اور نہ معبود، جن کو تم نے اللہ کا شریک اور اپنا مددگار سمجھ رکھا تھا، یعنی ان میں سے کوئی چیز بھی فائدہ پہنچانے پر قادر نہ ہوگی۔ اگلے جملوں میں انہی امور کی مزید وضاحت ہے۔ الانعام
95 ٩٥۔ ١ یہاں سے اللہ تعالیٰ کی بے مثال قدرت اور کاریگری کا بیان شروع ہو رہا ہے، فرمایا :۔ اللہ تعالیٰ دانے (حب) اور گھٹلی کو، جسے کاشتکار زمین کی طے میں دبا دیتا ہے، پھاڑ کر اس سے انواع و اقسام کے درخت پیدا فرماتا ہے۔ زمین ایک ہوتی ہے پانی بھی جس سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں، ایک ہی ہوتا ہے۔ لیکن جس جس چیز کے وہ دانے یا گٹھلیاں ہوتی ہیں، اس کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ مختلف قسم کے غلو اور پھلوں کے درخت ان سے پیدا فرماتا دیتا ہے۔ کیا اللہ کے سوا بھی کوئی ہے، جو یہ کام کرتا ہو یا کر سکتا ہو؟ ٩٥۔ ٢ یعنی دانے اور گٹھلیوں سے درخت اگا دیتا ہے جس میں زندگی ہوتی ہے اور وہ بڑھتا پھیلتا ہے اور پھل یا غلہ دیتا ہے یا وہ خوشبو دار رنگ برنگ کے پھول ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر یا سونگھ کر انسان فرحت و انبسات محسوس کرتا یا نطفے اور انڈے سے انسان اور حیوانات پیدا کرتا ہے۔ ٩٥۔ ٣ یعنی حیوانات سے انڈے، جو مردہ کے حکم میں ہیں۔ حی اور میت کی تعبیر مومن اور کافر سے بھی کی گئی ہے، یعنی مومن کے گھر میں کافر اور کافر کے گھر میں مومن پیدا کردیتا ہے۔ الانعام
96 ٩٦۔ ١ اندھیرے اور روشنی کا خالق بھی وہی ہے۔ وہ رات کی تاریکی سے صبح روشن پیدا کرتا ہے جس سے ہر چیز روشن ہوتی ہوجاتی ہے۔ ٩٦۔ ٢ یعنی رات کو تاریکیوں میں بدل دیتا ہے تاکہ لوگ روشنی کی تمام مصروفیات ترک کر کے آرام کرسکیں۔ ٩٦۔ ٣ یعنی دونوں کے لئے ایک حساب بھی مقدر ہے جس میں کوئی تغیر و اضطراب نہیں ہوتا، بلکہ دونوں کی اپنی اپنی منزلیں ہیں، جن پر وہ گرمی اور سردی میں رواں رہتے ہیں۔ جس کی بنیاد پر سردی میں دن چھوٹے اور راتیں لمبی اور گرمی میں اس سے برعکس دن لمبے اور راتیں چھوٹی ہوجاتی ہیں۔ جس کی تفصیل سورۃ یونس۔ ٥ سورۃ یٰسین ٤٠ اور سورۃ اعراف ٥٤ میں بھی بیان کی گئی ہے۔ الانعام
97 ٩٧۔ ١ ستاروں کا یہاں یہ ایک فائدہ اور مقصد بیان کیا گیا ہے، ان کے دو مقصد اور ہیں جو دوسرے مقام پر بیان کئے گئے ہیں۔ آسمانوں کی زینت اور شیطانوں کی مرمت۔ رجو ما للشیطین۔ یعنی شیطان آسمان پر جانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ان پر شعلہ بن کر گرتے ہی۔ بعض علماء کا قول ہے۔ من اعتقد فی ہذاہ النجوم غیر ثلاث فقد اخطاء وکذب علی اللہ ان تینوں باتوں کے علاوہ ان ستاروں کے بارے میں اگر کوئی شخص کوئی اور عقیدہ رکھتا ہے تو وہ غلطی پر ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے ملک میں جو علم نجوم کا چرچا ہے، جس میں ستاروں کے ذریعے سے مستقبل کے حالات اور انسانی زندگی یا کائنات میں ان کے اثرات بتانے کا دعوٰی کیا جاتا ہے وہ بے بنیاد ہے اور شریعت کے خلاف بھی۔ چنانچہ ایک حدیث میں اسے جادو ہی کا ایک شعبہ بتلایا گیا ہے۔ من اقتبس علماء من النجوم اقتبس شعبۃ من السحر زاد ما زاد ( حسنہ الالبانی صحیح ابی داؤد) الانعام
98 ٩٨۔ ١ اکثر مفسرین کے نزدیک مُسْتَقَر، سے رحم مادر اور مُسْتِوْدَع، سے صلب پدر مراد ہے (فتح القدیر) الانعام
99 ٩٩۔ ١ یہاں سے اس کی ایک اور عجیب صنعت (کاریگری) کا بیان ہو رہا ہے یعنی بارش کا پانی جس سے وہ ہر قسم کے درخت پیدا فرماتا ہے۔ ٩٩۔ ١ اس سے مراد سبز شاخیں اور کونپلیں ہیں جو زمین میں دبے ہوئے دانے سے اللہ تعالیٰ زمین کے اوپر ظاہر فرما رہا ہے، پھر وہ پودا یا درخت نشو نما پاتا ہے۔ ٩٩۔ ٢ یعنی ان سبز شاخوں سے ہم اوپر تلے دانے چڑھے ہوئے نکالتے ہیں۔ جس طرح گندم اور چاول کی بالیاں ہوتی ہیں۔ مراد یہ سب غلہ جات مثلاً جو، جوار، باجرہ، مکئی، گندم اور چاول وغیرہ۔ ٩٩۔ ٣ قنوان قنو کی جمع ہے جیسے صٓنو اور صنوان ہے مراد خوشے ہیں۔ طَلْع،ُ وہ گابھا یا گچھا ہے جو کھجور کی ابتدائی شکل ہے، یہی بڑھ کر خوشہ بنتا ہے اور پھر رطب کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ دنِیَۃُ، سے مراد وہ خوشے ہیں جو قریب ہوں۔ اور کچھ خوشے دور ہوتے ہیں جن تک ہاتھ نہیں پہنچتے بطور امتنان دانیۃ کا ذکر فرما دیا ہے مطلب ہے منھا دانیہ ومنھا بعیدۃ (کچھ خوشے قریب ہیں اور کچھ دور) بَعِیدۃُ، مخدوف ہے۔ (فتح الْقدیر)۔ ٩٩۔ ٤ جنات زیتون اور رمان یہ سب منصوب ہیں جن کا عطف نبات پر ہے یعنی فاخرجنا بہ جنات یعنی بارش کے پانی سے ہم نے انگوروں کے باغات اور زیتون اور انار پیدا کیے۔ ٩٩۔ ٤ یعنی بعض اوصاف میں یہ باہم ملتے جلتے ہیں اور بعض میں ملتے جلتے نہیں ہیں یا ان کے پتے ایک دوسرے سے ملتے ہیں پھل نہیں ملتے یا شکل میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں لیکن مزے اور ذائقے میں باہم مختلف ہیں۔ ٩٩۔ ٤ یعنی مذکورہ تمام چیزوں میں خالق کائنات کے کمال قدرت اور اس کی حکمت و رحمت کے دلائل ہیں۔ الانعام
100 الانعام
101 ١٠١۔ ١ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں کو پیدا کرنے میں واحد ہے، کوئی اس کا شریک نہیں اس طرح وہ اس لائق ہے اس اکیلے کی عبادت کی جائے، عبادت میں کسی اور کو شریک نہ بنایا جائے۔ لیکن لوگوں نے اس ذات واحد کو چھوڑ کر جنوں کو اس کا شریک بنا رکھا ہے، حالانکہ وہ خود اللہ کے پیدا کردہ ہیں مشرکین عبادت تو بتوں کی یا قبروں میں مدفون اشخاص کی کرتے ہیں لیکن یہاں کہا گیا ہے کہ انہوں نے جنات کو اللہ کا شریک بنایا ہوا ہے، بات دراصل یہ ہے کہ جنات سے مراد شیاطین کے کہنے سے ہی شرک کیا جاتا ہے اس لئے گویا شیطان ہی کی عبادت کی جاتی ہے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے مثلاً سورۃ نساء۔ ١١٧ سورۃ مریم۔ ٤٤ سورۃ یٰسین ٦٠، سورۃ سبا۔ ٤١۔ الانعام
102 الانعام
103 ١٠٣۔ ١ ابصار بصر نگاہ کی جمع ہے۔ یعنی انسان کی آنکھیں اللہ کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتیں۔ اور اگر اس سے مراد روئیت بصری ہو تو اس کا تعلق دنیا سے ہوگا۔ یعنی دنیا کی آنکھ سے کوئی اللہ کو نہیں دیکھ سکتا۔ تاہم یہ صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے کہ قیامت والے دن اہل ایمان اللہ تعالیٰ کو دیکھیں گے اور جنت میں بھی دیدار سے مشرف ہونگے۔ اس لئے مسلمانوں کا ایک فرقہ کا اس آیت سے ثبوت و دلیل کرتے ہوئے یہ کہنا کہ اللہ کو کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا، دنیا میں نہ آخرت میں، صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اس نفی کا تعلق صرف دنیا سے ہے۔ اسی لئے حضرت عائشہ بھی اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرماتی ہیں، جس شخص نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (شب معراج میں) اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے، اس نے قطعًا جھوت بولا (صحیح بخاری)، کیونکہ اس آیت کی روح سے پیغمبر سمیت کوئی بھی اللہ کو دیکھنے پر قادر نہیں ہے۔ البتہ آخرت کی زندگی میں دیدار ممکن ہوگا، جیسے دوسرے مقام پر قرآن نے اس کا اثبات فرمایا :۔ (وُجُوْہٌ یَّوْمَیِٕذٍ نَّاضِرَۃٌ 22؀ۙ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ 23؀ۚ) 75۔ القیامۃ:23-22) کئی چہرے اس دن ترو تازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہونگے۔ الانعام
104 ١٠٤۔ ١ بصائر بصیرۃ کی جمع ہے جو اصل میں دل کی روشنی کا نام ہے یہاں مراد وہ دلائل ہیں، جو قرآن نے جگہ جگہ اور بار بار بیان کئے ہیں اور جنہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی احادیث میں بیان فرمایا ہے جو ان دلائل کو دیکھ کر ہدایت کا راستہ اپنا لے گا اس میں اسی کا فائدہ ہے، نہیں اپنائے گا تو اسی کا نقصان ہے۔ جیسے فرمایا من اھتدی فانما یھتدی لنفسہ ومن ضل فانما یضل علیھا بنی اسرائیل اس کا مطلب بھی وہی ہے جو زیر وضاحت آیت کا ہے ١٠٤۔ ٢ بلکہ صرف مبلغ داعی اور بشیر و نذیر ہوں راہ دکھلانا میرا کام ہے راہ پر چلا دینا یہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ الانعام
105 ١٠٥۔ ١ یعنی ہم توحید اور اس کے دلائل کو اس طرح کھول کھول کر اور مختلف انداز سے بیان کرتے ہیں کہ مشرکین یہ کہنے لگتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیں سے پڑھ کر اور سیکھ کر آیا ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔ (وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اِفْکُۨ افْتَرٰیہُ وَاَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ ڔ فَقَدْ جَاۗءُوْ ظُلْمًا وَّزُوْرًا ۝ڔ وَقَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلٰی عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا ۝) 25۔ الفرقان :5-4) کافروں نے کہا، یہ قرآن تو اس کا اپنا گھڑا ہوا ہے، جس پر دوسروں نے بھی اس کی مدد کی ہے۔ یہ لوگ ایسا دعوٰی کر کے ظلم اور جھوٹ پر اتر آئے ہیں۔ نیز انہوں نے کہا کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں، جس کو اس نے لکھ کر رکھا ہے ' حالانکہ بات یہ نہیں ہے، جس طرح یہ سمجھتے یا دعوٰی کرتے ہیں بلکہ مقصد اس تفصیل سے سمجھ دار لوگوں کے لئے بیان و تشریح ہے تاکہ ان پر حجت بھی ہوجائے۔ الانعام
106 الانعام
107 ١٠٧۔ ١ اس نکتے کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے کہ اللہ کی مشیت اور چیز ہے اور اس کی رضا تو اسی میں ہے کہ اس کے ساتھ شرک نہ کیا جائے۔ تاہم اس نے اس پر انسانوں کو مجبور نہیں کیا کیونکہ جبر کی صورت میں انسان کی آزمائش نہ ہوتی، ورنہ اللہ تعالیٰ کے پاس تو ایسے اختیارات ہیں کہ وہ چاہے تو کوئی انسان شرک کرنے پر قادر ہی نہ ہو سکے (مزید دیکھئے سورۃ بقرہ آیت ٢٥٣ اور سورۃ الانعام آیت ٣٥ کا حاشیہ)۔ ١٠٧۔ ٢ یہ مضمون بھی قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے مقصد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داعیانہ اور مبلغانہ حیثیت کی وضاحت ہے جو منصب رسالت کا تقاضا ہے اور آپ صرف اسی حد تک مکلف تھے اس سے زیادہ آپ کے پاس اگر اختیارات ہوتے تو آپ اپنے محسن چچا ابو طالب کو ضرور مسلمان کرلیتے جن کے قبول اسلام کی آپ شدید خواہش رکھتے تھے الانعام
108 ١٠٨۔ ١ یہ سد ذریعہ کے اصول پر مبنی ہے کہ اگر ایک درست کام، اس سے بھی زیادہ بڑی خرابی کا سبب بنتا ہو تو وہاں اس درست کام کا ترک راجح اور بہتر ہے۔ اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم کسی کے ماں باپ کو گالی مت دو کہ اس طرح تم خود اپنے والدین کے لئے گالی کا سبب بن جاؤ گے (صحیح مسلم) الانعام
109 ١٠٩۔ ١ جھد ایمانہم، ای : حلفوا ایمانا مؤکدۃ بڑی تاکید سے قسمیں کھائیں۔ ١٠٩۔ ٢ یعنی کوئی بڑا معجزہ جو ان کی خواہش کے مطابق ہو، جیسے عصائے موسیٰ علیہ السلام۔ احیائے موتی اور ناقہء خمود وغیرہ جیسا۔ ١٠٩۔ ٣ ان کا یہ مطالبہ خرق عادت تعنت و عناد کے طور پر ہے، طلب ہدایت کی نیت سے نہیں ہے۔ تاہم ان نشانیوں کا ظہور تمام تر اللہ کے اختیار میں ہے، وہ چاہے تو ان کا مطالبہ پورا کردے۔ بعض مرسل روایات میں ہے کہ کفار نے مطالبہ کیا تھا کہ صفا پہاڑ سونے کا بنا دیا جائے تو وہ ایمان لے آئیں گے، جس پر جبرائیل (علیہ السلام) نے آکر کہا کہ اگر اس کے بعد بھی ایمان نہ لائے تو پھر انھیں ہلاک کردیا جائے گا جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پسند نہ فرمایا۔ (ابن کثیر) الانعام
110 ١١٠۔ ١ اس کا مطلب ہے کہ جب پہلی مرتبہ ایمان نہیں لائے تو اس کا وبال ان پر اس طرح پڑا کہ آئندہ بھی ان کے ایمان لانے کا امکان ختم ہوگیا۔ دلوں اور نگاہوں کو پھیر دینے کا یہی مفہوم ہے (ابن کثیر) الانعام
111 ١١١۔ ١ اور وہ حضرت محمد رسول اللہ کی رسالت کی تصدیق کردیتے۔ ١١١۔ ٢ دوسرا مفہوم اس کا بیان کیا گیا ہے کہ جو نشانیاں وہ طلب کرتے ہیں وہ سب ان کے روبرو پیش کردیتے۔ اور ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر چیز جمع ہو کر گروہ در گروہ یہ گواہی دے کہ پیغمبروں کا سلسلہ برحق ہے تو ان تمام نشانیوں اور مطالبوں کے پورا کردینے کے باوجود یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ مگر جس کو اللہ چاہے اسی مفہوم کی یہ آیت بھی ہے (سورۃ یونس ٩٦۔ ٩٧) جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوگئی ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے، اگرچہ ان کے پاس ہر قسم کی نشانی آجائے یہاں تک کہ وہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔ ١١١۔ ٣ اور یہ جہالت کی باتیں ہی ان کے اور حق قبول کرنے کے درمیان حائل ہیں۔ اگر جہالت کا پردہ اٹھ جائے تو شاید حق ان کی سمجھ میں آجائے اور اللہ کی مشیت سے حق کو اپنا لیں۔ الانعام
112 ١١٢۔ ١ یہ وہی بات ہے جو مختلف انداز میں رسول اللہ کی تسلی کے لئے فرمائی گئی ہے کہ آپ سے پہلے جتنے بھی انبیاء گزرے ان کو جھٹلایا گیا انھیں ایذائیں دی گئیں وغیرہ وغیرہ۔ مقصد یہ ہے کہ جس طرح انہوں نے صبر اور حوصلے سے کام لیا، آپ بھی ان دشمنان حق کے مقابلے میں صبر و استقامت کا مظاہرہ فرمائیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شیطان کے پیروکار جنوں میں سے بھی ہیں اور یہ وہ ہیں جو دونوں گروہوں میں سے، باغی اور متکبر قسم کے ہیں۔ ١١٢۔ ٢ وَ حْیُ، خفیہ بات کو کہتے ہیں یعنی انسانوں اور جنوں کو گمراہ کرنے کے لئے ایک دوسرے کو چالبازیاں اور حیلے سکھاتے ہیں تاکہ لوگوں کو دھوکے اور فریب میں مبتلا کرسکیں۔ یہ بات عام مشاہدے میں بھی آئی ہے کہ شیطانی کاموں میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ خوب بڑھ چڑھ کر تعاون کرتے ہیں جسکی وجہ سے برائی بہت جلدی فروغ پا جاتی ہے۔ ١١٢۔ ٣ یعنی اللہ تعالیٰ تو ان شیطانی ہتھکنڈوں کو ناکام بنانے پر قادر ہے۔ لیکن بالجبر ایسا نہیں کرے گا کیونکہ ایسا کرنا اس کے نظام اور اصول کے خلاف ہے جو اس نے اپنی مشیت کے تحت اختیار کیا، جس کی حکمتیں وہ بہتر جانتا ہے۔ الانعام
113 ١١٣۔ ١ یعنی شیطانی وسوسہ کا شکار وہی لوگ ہوتے ہیں اور وہی اس کو پسند کرتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرتے ہیں جو آخرت میں ایمان نہیں رکھتے۔ اور یہ حقیقت ہے کی جس حساب سے لوگوں کے اندر عقیدء آخرت کے بارے میں ضعف پیدا ہو رہا ہے، اسی حساب سے لوگ شیطانی جال میں پھنس رہے ہیں۔ الانعام
114 ١١٤۔ ١ آپ کو خطاب کرکے دراصل امت کو تعلیم دی جا رہی ہے۔ الانعام
115 ١١٥۔ ١ اخبار اور واقعات کے لحاظ سے سچا ہے اور احکام و مسائل کے اعتبار سے عادل ہے، یعنی اس کا ہر امر اور نہی عدل و انصاف پر مبنی ہے، کیونکہ اس نے انہی باتوں کا حکم دیا ہے جن میں انسانوں کا فائدہ ہے اور انہی چیزوں سے روکا ہے جس میں نقصان اور فساد ہے۔ گو انسان اپنی نادانی یا اغوائے شیطانی کی وجہ سے اس حقیقت کو نہ سمجھ سکیں۔ ١١٥۔ ٢ یعنی کوئی ایسا نہیں جو رب کے کسی حکم میں تبدیلی کردے، کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی طاقتور نہیں۔ ١١٥۔ ٣ یعنی بندوں کے اقوال سننے والا اور ان کی ایک ایک حرکت و ادا کو جاننے والا ہے اور اس کے مطابق ہر ایک کو جزا دے گا۔ الانعام
116 ١١٦۔ ١ قرآن کی اس بیان کردہ حقیقت کا بھی، واقعہ کے طور پر ہر دور میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (سورہ یوسف، ١٠٣) آپ کی خوہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان والے نہیں، اس سے معلوم ہوا، حق اور صداقت کے راستے پر چلنے والے لوگ ہمیشہ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ جس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ حق وباطل کا معیار، دلائل وبراہین ہیں، لوگوں کی اکثریت و اقلیت نہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ جس بات کو اکثریت نے اختیار کیا ہوا ہو، وہ حق ہو اور اقلیت میں رہنے والے باطل پر ہوں۔ بلکہ مذکورہ حقیقت قرآنی کی رو سے یہ زیادہ ممکن ہے کہ اہل حق تعداد کے لحاظ سے اقلیت میں ہوں اور اہل باطل اکثریت میں۔ جس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ میری امت ٧٣ فرقوں میں بٹ جائے گی، جن میں سے صرف ایک فرقہ جنتی ہوگا، باقی سب جہنمی۔ اور اس جنتی فرقے کی نشانی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بیان فرمائی کہ جو ما انا علیہ واصحابی میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلنے والا ہوگا۔ الانعام
117 الانعام
118 ١١٨۔ ١ یعنی جس جانور پر شکار کرتے وقت یا ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے۔ اسے کھالو بشرطیکہ وہ ان جانوروں میں سے ہو جن کا کھانا حلال ہے۔ اس کا مظلب یہ ہوا کہ جس جانور پر اللہ کا نام نہ لیا جائے وہ حلال و طیب نہیں البتہ اس سے ایسی صورت مستشنٰی ہے جس میں یہ التباس ہو کہ ذبح کے وقت ذبح کرنے والے نے اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں؟ اس میں حکم یہ ہے کہ اللہ کا نام لے کر اسے کھالو۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ نے رسول اللہ سے پوچھا کہ کچھ لوگ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں (اس سے مراد اعرابی تھے جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور اسلامی تعلیم و تربیت سے پوری طرح بہرہ ور نہیں تھے) ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے اللہ کا نام لیا یا نہیں؟ آپ نے فرمایا تم اللہ کا نام لے کر اسے کھالو ' البتہ شبہ کی صورت میں یہ رخصت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر قسم کے جانور کا گوشت بسم اللہ پڑھ لینے سے حلال ہوجائے گا۔ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی منڈیوں اور دکانوں پر ملنے والا گوشت حلال ہے۔ ہاں اگر کسی کو وہم اور التباس ہو تو وہ کھاتے وقت بسم اللہ پڑھ لے۔ الانعام
119 ١١٩۔ ١ جس کی تفصیل اسی سورت میں آگے آرہی ہے، اس کے علاوہ بھی اور سورتوں نیز احادیث میں محرمات کی تفصیل بیان کردی گئی ہے۔ ان کے علاوہ باقی حلال ہیں اور حرام جانور بھی عند الاضطرار سد رمق کی حد تک جائز ہیں۔ الانعام
120 الانعام
121 ١٢١۔ ١ یعنی عمداً اللہ کا نام جس جانور پر نہ لیا گیا، اس کا کھانا فسق اور ناجائز ہے، حضرت ابن عباس نے اس کے یہی معنی بیان کئے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ بھول جانے والے کو فاسق نہیں کہا جاتا اور امام بخاری کا رجحان بھی یہی ہے تاہم امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ دونوں صورتوں میں حلال ہے چاہے وہ اللہ کا نام لے یا چھوڑ دے اور وَ اِنَّہُ لَفِسْق،ُکو غیر اللہ کے نام ذبح کئے گئے جانور سے متعلق قرار دیتے ہیں ١٢١۔ ٢ شیطان نے اپنے ساتھیوں کے ذریعے سے یہ بات پھیلائی کہ یہ مسلمان اللہ کے ذبح کئے ہوئے جانور (یعنی مردہ) کو تو حرام اور اپنے ہاتھ سے ذبح شدہ کو حلال قرار دیتے ہیں اور دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کو ماننے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شیطان اور اس کے دوستوں کے وسوسوں کے پیچھے مت لگو، جو جانور مردہ ہے یعنی بغیر ذبح کئے مر گیا (سوائے سمندری مچھلی کے وہ حلال ہے) اس پر چونکہ اللہ کا نام نہیں لیا گیا، اس لئے اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔ الانعام
122 ١٢٢۔ ١ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کو میت (مردہ) مومن کو حی (زندہ) قرار دیا۔ اس لئے کہ کافر کفرو ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکتا پھرتا ہے اور اس سے نکل ہی نہیں پاتا جس کا نتیجہ ہلاکت و بربادی ہے۔ اور مومن کے دل کو اللہ تعالیٰ ایمان کے ذریعے سے زندہ فرماتا ہے جس سے زندگی کی راہیں اس کے لئے روشن ہوجاتی ہیں اور وہ ایمان اور ہدایت کے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے، جس کا نتیجہ کامیابی اور کامرانی ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جو حسب ذیل آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ سورۃ بقرہ ٢٥٧، سورۃ ھود ٢٤، سورۃ فاطر، ١٩، ٢٢، الانعام
123 ١٢٣۔ ١ اکابر اکبر کی جمع ہے مراد کافروں اور فاسقوں کے سرغنے اور کھڑپینچ ہیں کیونکہ یہی انبیاء اور داعیان حق کی مخالفت میں پیش پیش ہوتے ہیں اور عام لوگ تو صرف ان کے پیچھے لگنے والے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں ایسے لوگ عام طور پر دنیاوی دولت اور خاندانی وجاہت کے اعتبار سے بھی نمایاں ہوتے ہیں۔ اس لیے مخالفت حق میں بھی ممتاز ہوتے ہیں یہی مضمون سورۃ سبا کی آیات ٣١ تا ٣٣ سورۃ زخرف ٢٣ سورۃ نوح ٢٢ وغیرھا میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ ١٢٣۔ ٢ یعنی ان کی اپنی شرارت کا وبال اور اسی طرح ان کے پیچھے لگنے والے کا وبال، انہی پر پڑے گا (مزید دیکھے سورۃ عنکبوت ١٣ سورۃ نحل ٢٥) الانعام
124 ١٢٤۔ ١ یعنی ان کے پاس بھی فرشتے وحی لے کر آئیں ان کے سروں پر بھی نبوت اور رسالت کا تاج رکھا جائے۔ ١٢٤۔ ٢ یعنی یہ فیصلہ کرنا کہ کس کو نبی بنایا جائے؟ یہ تو اللہ ہی کام ہے کیونکہ وہی ہر بات کی حکمت و مصلحت کو جانتا ہے اور اسے ہی معلوم ہے کون اس منصب کا اہل ہے؟ مکہ کا کوئی چوہدری اور رئیس یا جناب عبد اللہ و حضرت آمنہ کا در یتیم۔ الانعام
125 ١٢٥۔ ١ یعنی جس طرح زور لگا کر آسمان پر چڑھنا ممکن نہیں۔ اسی طرح جس شخص کے سینے کو اللہ تعالیٰ تنگ کردے اس میں توحید اور ایمان کا داخلہ ممکن نہیں، الایہ کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کا سینہ اس کے لئے کھول دے۔ ١٢٥۔ ٢ یعنی جس طرح سینہ تنگ کردیتا ہے اسی طرح رجس میں مبتلا کردیتا ہے، رجس سے مراد پلیدی یا عذاب یا شیطان کا تسلط ہے۔ الانعام
126 الانعام
127 ١٢٧۔ ١ یعنی جس طرح دنیا میں اہل ایمان کفر و ضلالت کے کج راستوں سے بچ کر ایمان و ہدایت کی صراط مستقیم پر گامزن رہے، اب آخرت میں بھی ان کے لئے سلامتی کا گھر ہے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کا، ان کے نیک عملوں کی وجہ سے دوست اور کار ساز ہے۔ الانعام
128 ١٢٨۔ ١ یعنی انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد تم نے گمراہ کرکے اپنا پیروکار بنا لیا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے سورۃ یٰسین میں فرمایا ' اے بنی آدم کیا میں نے تمہیں خبردار نہیں کردیا تھا کہ تم شیطان کی پوجا مت کرنا، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ تم صرف میری عبادت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے اور شیطان نے تمہاری ایک بہت بڑی تعداد کو گمراہ کردیا ہے کیا پس تم نہیں سمجھتے (یٰسین۔ ٦٠، ٦٢)۔ ١٢٨۔ ٢ جنوں اور انسانوں نے ایک دوسر سے کیا فائدہ حاصل کیا ؟ اس کے دو مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ جنوں کا انسانوں سے فائدہ اٹھانا ان کو اپنا پیروکار بنا کر تلذذ حاصل کرنا اور انسانوں کا جنوں سے فائدہ اٹھانا یہ ہے کہ شیطان نے گناہوں کو ان کے لئے خوبصورت بنا دیا جسے انہوں نے قبول کیا اور گناہوں کی لذت میں پھنسے رہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کی انسان ان غیبی خبروں کی تصدیق کرتے رہے جو شیاطین و جنات کی طرف سے کہانت کے طور پر پھیلائی جاتی تھیں ا۔ یہ گویا جنات نے انسانوں کو بیوقوف بنا کر فائدہ اٹھایا یہ ہی انسان جنات کا بیان کردہ جھوٹی اٹکل پچو باتوں سے لطف اندوز ہوتے اور کاہن قسم کے لوگ ان سے دنیاوی مفادات حاصل کرتے۔ ١٢٨۔ ٣ یعنی قیامت واقع ہوگئی جسے ہم دنیا میں نہیں مانتے تھے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اب جہنم تمہارا دائمی ٹھکانا ہے۔ الانعام
129 ١٢٩۔ ١ یعنی جہنم میں جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ہم نے انسانوں اور جنوں کو ایک دوسرے کے ساتھی اور مددگار بنایا اسی طرح ہم نے ظالموں کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں ایک ظالم کو دوسرے ظالم پر ہم مسلط کردیتے ہیں اس ایک ظالم دوسرے ظالم کو ہلاک اور تباہ کرتا ہے اور ایک ظالم کا انتقام دوسرے ظالم سے لے لیتے ہیں۔ الانعام
130 ١٣٠۔ ١ رسالت و نبوت کے معاملے میں جنات انسانوں کے ہی تابع ہیں ورنہ جنات میں الگ نبی نہیں آئے البتہ رسولوں کا پیغام پہنچانے والے اور منذرین جنات میں ہوتے رہے ہیں جو اپنی قوم کے جنوں کو اللہ کی طرف دیتے رہے ہیں اور دیتے ہیں۔ لیکن ایک خیال یہ بھی ہے کہ چونکہ جنات کا وجود انسان کے وجود سے پہلے سے ہے تو ان کی ہدایت کے لئے انہیں میں سے کوئی نبی آیا ہوگا پھر آدم (علیہ السلام) کے وجود کے بعد ہوسکتا ہے وہ انسانی نبیوں کے تابع رہے ہوں، البتہ نبی کریم کی رسالت بہرحال تمام جن انس کے لئے ہے اس میں کوئی شبہ نہیں۔ ١٣٠۔ ٢ میدان حشر میں کافر مختلف پینترے بدلیں گے، کبھی اپنے مشرک ہونے کا انکار کریں گے (الا نعام، ١٢٣) اور کبھی اقرار کئے بغیر چارہ نہیں ہوگا، جیسے یہاں ان کا اقرار نقل کیا گیا ہے۔ الانعام
131 ١٣١۔ ١ یعنی رسولوں کے ذریعے سے جب تک اپنی حجت قائم نہیں کردیتا، ہلاک نہیں کرتا جیسا کہ یہی بات سورۃ فاطر آیت، ٤٢۔ سورۃ نحل ٦٢، سورۃ بنی اسرائیل ١٥ اور سورۃ ملک ٨، ٩ وغیرہ میں بیان کی گئی ہے۔ الانعام
132 ١٣٢۔ ١ یعنی ہر انسان اور جن کے، ان کے با ہمی درجات میں، عملوں کے مطابق، فرق، تفاوت ہوگا، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنات بھی انسانوں کی طرح جنتی اور جہنمی ہونگے۔ الانعام
133 ١٣٣۔ ١ وہ غنی بے نیاز ہے اپنی مخلوقات سے۔ ان کا محتاج ہے نہ ان کی عبادتوں کا ضرورت مند ہے، ان کا ایمان اس کے لیے نفع مند ہے نہ ان کا کفر اس کے لیے ضرر رساں لیکن اس شان غنا کے ساتھ وہ اپنی مخلوق کے لیے رحیم بھی ہے۔ اس کی بے نیازی اپنی مخلوق پر رحمت کرنے میں مانع نہیں ہے۔ ١٣٣۔ ٢ یہ اس کی بے پناہ قوت اور غیر محدود قدرت کا اظہار ہے جس طرح پچھلی کئی قوموں کو اس نے حرف غلط کی طرح مٹا دیا اور ان کی جگہ نئی قوموں کو اٹھا کھڑا کیا، وہ اب بھی اس بات پر قادر ہے کہ جب چاہے تمہیں نیست و نبود کردے اور تمہاری جگہ ایسی قوم پیدا کردے جو تم جیسی نہ ہو۔ مزید ملاحظہ ہو سورۃ نساء ١٣٣، سورۃ ابراہیم ٢٠، سورۃ فاطر ١٥، ١٧، سورۃ محمد ٣٨۔ الانعام
134 ١٣٤۔ ١ اس سے مراد قیامت ہے اور تم عاجز نہیں کرسکتے کا مطلب ہے کہ وہ تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے چاہے تم مٹی میں مل کر ریزہ ریزہ ہوچکے ہو۔ الانعام
135 ١٣٥۔ ١ یہ کفر اور معصیت پر قائم رہنے کی اجازت نہیں ہے بلکہ سخت وعید ہے جیسا کہ اگلے الفاظ سے واضح ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (جو ایمان نہیں لاتے ان سے کہہ دیجئے! کہ تم اپنی جگہ عمل کئے جاؤ ہم بھی عمل کرتے ہیں اور انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں) سورۃ ہود۔ ٢١۔ ٢٢١۔ ١٣٥۔ ٢ جیساکہ تھوڑے ہی عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ سچا کر دکھا یا۔ ٨ ہجری میں مکہ فتح ہوگیا اور اس کی فتح کے بعد عرب قبائل جوق در جوق مسلمان ہونا شروع ہوگئے اور پورا جزیرہ عرب مسلمانوں کے زیرنگیں آگیا۔ الانعام
136 ١٣٦۔ ١ اس آیت میں مشرکوں کے عقیدہ و عمل کا ایک نمونہ بتلایا گیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر گھڑ رکھا تھا اور وہ زمینی پیداوار اور مال مویشی میں سے کچھ حصہ اللہ کے لئے اور کچھ اپنے خود ساختہ معبودوں کے لئے مقرر کرلیتے اللہ کے حصے کو مہمانوں، فقرا اور صلہ رحمی پر خرچ کرتے اور بتوں کے حصے کو مجاورین اور ان کی ضروریات پر خرچ کرتے۔ پھر اگر بتوں کے مقرر حصے میں توقع کے مطابق پیداوار نہ ہوتی تو اللہ کے حصے میں سے نکال کر اس میں شامل کرلیتے اور اس کے برعکس معاملہ ہو تو بتوں کے حصے میں سے نہ نکالتے اور کہتے کہ اللہ تو غنی ہے۔ ١٣٦۔ ٢ یعنی اللہ کے حصہ کی کمی کی صورت میں بتوں کی مقررہ حصے میں سے صدقات و خیرات نہ کرتے۔ ١٣٦۔ ٣ ہاں اگر بتوں کے مقررہ حصے میں کمی ہوجاتی تو وہ اللہ کے مقررہ حصے سے لے کر بتوں کے مصالح اور ضروریات پر خرچ کرلیتے۔ یعنی اللہ کے مقابلے میں بتوں کی عظمت اور ان کا خوف ان کے دلوں میں زیادہ تھا جس کا مشاہدہ آج کے مشرکین کے رویے سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ الانعام
137 ١٣٧۔ ١ یہ اشارہ ہے ان کی بچیوں کے زندہ درگور کردینے یا بتوں کی بھینٹ چڑھانے کی طرف۔ ١٣٧۔ ٢ یعنی ان کے دین میں شرک کی آمیزش کردیں۔ ١٣٧۔ ٣ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے اختیارات اور قدرت سے ان کے ارادہ و اختیار کی آزادی کو سلب کرلیتا، تو پھر یقینا یہ وہ کام نہ کرتے جو مذکور ہوئے ہی لیکن ایسا کرنا چونکہ جبر ہوتا، جس میں انسان کی آزمائش نہیں ہوسکتی تھی، جب کہ اللہ انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر آزمانا چاہتا ہے، اس لئے اللہ نے جبر نہیں فرمایا۔ الانعام
138 ١٣٨۔ ١ اس میں ان کی جاہلی شریعت اور اباطیل کی تین صورتیں اور بیان فرمائی ہیں۔ حجرً (بمعنی منع) اگرچہ مصدر ہے لیکن مفعول یعنی مَحْجُوْر (ممنوع) کے معنی ہیں یہ پہلی صورت ہے کہ جانور یا فلاں کھیت کی پیداوار، ان کا استعمال ممنوع ہے۔ اسے صرف وہی کھائے گا جسے ہم اجازت دیں گے۔ یہ اجازت بتوں کے خادم اور مجاورین کے لئے ہوتی ہے۔ ١٣٨۔ ٢ یہ دوسری صورت ہے کہ مختلف قسم کے جانوروں کو اپنے بتوں کے نام آزاد چھوڑ دیتے ہیں جن سے وہ بار برداری یا سواری کا کام نہ لیتے جیسے تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ ١٣٨۔ ٣ یہ تیسری صورت ہے کہ وہ ذبح کرتے وقت صرف اپنے بتوں کا نام لیتے ہیں، اللہ کا نام نہ لیتے، بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ جانوروں پر بیٹھ کر وہ حج کے لئے نہ جاتے۔ بہرحال یہ ساری صورتیں گھڑی ہوئی تو ان کی اپنی تھیں لیکن اللہ پر افترا باندھتے یعنی یہ باور کراتے کہ اللہ کے حکم سے ہی سب کچھ کر رہے ہیں۔ الانعام
139 ١٣٩۔ ١ یہ ایک اور شکل ہے کہ جو جانور وہ اپنے بتوں کے نام وقف کرتے، ان میں سے بعض کے بارے میں کہتے کہ ان کا دودھ اور ان کے پیٹ سے پیدا ہونے زندہ بچہ صرف ہمارے مردوں کے لیے حلال ہے، عورتوں کے لیے حرام ہے ہاں اگر بچہ مردہ پیدا ہوتا تو پھر اس کے کھانے میں مرد و عورت برابر ہیں۔ ١٣٩۔ ٢ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ جو غلط بیانی کرتے ہیں اور اللہ پر افترا باندھتے ہیں، ان پر اللہ تعالیٰ انہیں سزا دے گا۔ وہ اپنے فیصلوں میں حکیم ہے اور اپنے بندوں کے بارے میں پوری طرح علم رکھنے والا ہے اور اپنے علم اور حکمت کے مطابق وہ جزا اور سزا کا اہتمام فرمائے گا۔ الانعام
140 الانعام
141 ١٤١۔ ١ معروشات کا مادہ عرش ہے جس کے معنی بلند کرنے اور اٹھانے کے ہیں۔ معروشات سے مراد بعض درختوں کی وہ بیلیں ہیں ٹٹیوں (چھپروں منڈیروں وغیرہ) پر چڑھائی جاتی ہیں، جیسے انگور اور بعض ترکاریوں کی بیلیں ہیں۔ اور غیر معروشات، وہ درخت ہیں جن کی بیلیں اوپر نہیں چڑھائی جاتیں بلکہ زمین پر ہی پھیلتی ہیں، جیسے خربوزہ اور تربوز کی بیلیں درخت اور کھجور کے درخت اور کھیتیاں، جن کے ذائقے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور زیتون اور انار، ان سب کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ ١٤١۔ ٢ اس کے لیے دیکھئے آیت ٩٩ کا حاشیہ۔ ١٤١۔ ٣ یعنی جب کھیتی سے غلہ کاٹ کر صاف کرلو اور پھل درختوں سے توڑ لو، تو اس کا حق ادا کرو۔ حق سے مراد علماء کے نزدیک نفلی صدقہ ہے اور بعض کے نزدیک صدقہ واجبہ یعنی عشر، دسواں حصہ اگر زمین بارانی ہو تو نصف عشر یعنی بیسواں حصہ (اگر زمین کنویں، ٹیوب ویل یا نہری پانی سے سیراب کی جاتی ہے)۔ ١٤١۔ ٤ یعنی صدقہ خیرات میں بھی حد سے تجاور نہ کرو، ایسا نہ ہو کل کو تم ضرورت مند ہوجاؤ۔ بعض کہتے ہیں اس کا تعلق حکام سے ہے یعنی صدقات اور زکوٰۃ کی وصولی میں حد سے تجاور نہ کرو اور امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سیاق آیت کی رو سے زیادہ صحیح لگتی ہے کہ کھانے میں اسراف مت کرو کیونکہ بسیار خوری عقل اور جسم کے لئے مضر ہے دوسرے مقامات پر بھی اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے میں اسراف سے منع فرمایا، جس سے واضح ہے کہ کھانے پینے میں بھی اعتدال بہت ضروری ہے اور اس سے تجاوز اللہ کی نافرمانی ہے۔ آج کل مسلمانوں نے اس اسراف کو اپنی امارت کے اظہار کی علامت بنا لیا ہے۔ ١٤١۔ ٥ اس لئے اسراف کسی چیز میں بھی پسندیدہ نہیں، صدقہ و خیرات دینے میں نہ کسی اور چیز میں، ہر چیز میں اعتدال اور میانہ روی مطلوب اور محبوب ہے اس کی تاکید کی گئی ہے۔ الانعام
142 ١٤٢۔ ١ حُمُولَۃً (بوجھ اٹھانے والے) مراد اونٹ، بیل، گدھا خچر وغیرہ ہیں، جو بار برداری کے کام آتے ہیں اور فَرْشًا سے مراد زمین سے لگے ہوئے جانور، جیسے بکری وغیرہ جس کا دودھ پیتے ہو گوشت کھاتے ہو۔ ١٤٢۔ ٢ یعنی پھلوں کھیتوں اور چوپایوں سے۔ ان سب کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور انکو تمہاری خوراک بنایا ہے۔ ١٤٢۔ ٣ جس طرح مشرکین اس کے پیچھے لگ گئے اور حلال جانوروں کو بھی اپنے اوپر حرام کرلیا گویا اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام یا حرام کو حلال کرلینا، یہ شیطان کی پیروی ہے۔ الانعام
143 ١٤٣۔ ١ یعنی انشأ ثمانیۃ ازواج (اسی اللہ تعالیٰ نے آٹھ زوج پیدا کیئے) ایک ہی جنس کے نر اور مادہ کو زوج (جوڑا) کہا جاتا ہے اور ان دونوں کے ایک فرد کو بھی زوج کہہ لیا جاتا ہے کیا ان کہ ہر ایک دوسرے کے لئے زوج ہوتا ہے۔ قرآن میں اس مقام پر بھی ازواج، افراد ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی ٨ افراد اللہ نے پیدا کیے۔ جو باہم ایک دوسرے کا جوڑا ہیں یہ نہیں کہ زوج کہ بمعنی جوڑے پیدا کیے کیونکہ اس طرح تعداد ٨ کے بجائے ١٦ ہوجائے گی جو آیت کے اگلے حصہ کے مطابق نہیں ہے۔ ١٤٣۔ ٢ یہ ثَمَا نِیَۃَ سے بدل ہے اور مراد دو قسم نر اور مادہ یعنی بھیڑ سے نر اور مادہ۔ اور بکری سے نر اور مادہ پیدا کیئے (بھیڑ میں ہی دنبہ چھترا شامل ہے)۔ ١٤٣۔ ٣ مشرکین بعض جانوروں کو اپنے طور پر ہی حرام کرلیتے تھے، اس کے حوالے سے اللہ تعالیٰ پوچھ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے نروں کو حرام کیا ہے یا ماداؤں کو یا اس بچے کو جو دونوں ماداؤں کے پیٹ میں ہیں؟ مطلب یہ کہ اللہ نے کسی کو حرام نہیں کیا۔ ١٤٣۔ ٤ تمہارے پاس حرام کردینے کی کوئی دلیل ہے تو پیش کرو کہ بَحِیْرَۃ، سَاَئِبَۃِ، وَصِیْلَۃِ اور حام وغیرہ اس دلیل کی بنیاد پر حرام ہیں۔ الانعام
144 ١٤٤۔ ١ یہ بھی ثَمَانِیْۃَ سے بدل ہے اور یہاں بھی دو دو قسم سے دونوں کے نر مادہ مراد ہیں اور یوں یہ آٹھ قسمیں پوری ہوگئیں۔ ١٤٤۔ ٢ یعنی تم جو بعض جانوروں کو حرام قرار دیتے ہو، کیا جب اللہ نے ان کی حرمت کا حکم دیا تو تم اس کے پاس موجود تھے، مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ان کی حرمت کا کوئی حکم ہی نہیں دیا۔ یہ سب تمہارا افترا ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھتے ہو۔ ١٤٤۔ ٣ یعنی یہ ہی سب سے بڑا ظالم ہے۔ حدیث میں آتا ہے نبی نے فرمایا کہ میں نے عمر بن لحی کو جہنم میں اپنی انتڑیاں کھنچتے ہوئے دیکھا، اس نے سب سے پہلے بتوں کے نام پر وصیلہ اور حام وغیرہ جانور چھوڑنے کا سلسلہ شروع کیا، امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ عمر بن لحی، خزعہ قبیلے کے سرداروں میں سے تھا جو جرہم قبیلے کے بعد خانہ کعبہ کا ولی بنایا تھا، اس نے سب سے پہلے دین ابراہیمی میں تبدیلی کی قائم کرکے لوگوں کو ان کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور مشرکانہ رسمیں جاری کیں (ابن کثیر) بہرحال مقصود آیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مزکورہ آٹھ قسم کے جانور پیدا کرکے بندوں پر احسان فرمایا ہے، ان میں سے بعض جانوروں کو اپنی طرف سے حرام کرلینا، اللہ کے احسان کو رد کرنا بھی ہے اور شرک کا ارتکاب بھی۔ الانعام
145 ١٤٥۔ ١ اس آیت میں جن چار محرمات کا ذکر ہے، اس کی ضروری تفصیل سورۃ بقرہ ١٧٣ کے حاشیہ میں گزر چکی ہے یہاں یہ نکتہ مزید قابل وضاحت ہے کہ ان چار محرمات کا ذکر کلمہ حصر سے کیا گیا ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان چار قسموں کے علاوہ اور جانور بھی شریعت میں حرام ہیں، پھر یہاں حصر کیوں کیا گیا ؟ بات دراصل یہ ہے کہ اس سے قبل مشرکین جاہلانہ طریقوں اور ان کے بیان چلا رہا ہے۔ ان ہی میں بعض جانوروں کا بھی ذکر آیا ہے جو انہوں نے اپنے طور پر حرام کر رکھے تھے۔ امام شوکانی نے اس کی توجیہ اس طرح کی ہے اگر یہ آیت مکی نہ ہوتی تو پھر یقینا محرمات کا حصر قابل تسلیم تھا لیکن چونکہ اس کے بعد خود قرآن نے المائدہ میں بعض محرمات کا ذکر کیا ہے اور نبی نے بھی کچھ محرمات بیان فرمائیں ہیں، تو اب وہ بھی ان میں شامل ہونگے۔ اس کے علاوہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پرندوں اور درندوں کے حلت وحرمت معلوم کرنے کے لیے دو اصول بیان فرمادئیے ہیں جن کی وضاحت بھی مذکورہ محولہ حاشیہ میں موجود ہے۔ او فسقا کا عطف لحم خنزیر پر ہے۔ اس لیے منصوب ہے، معنی ہی ای ذبح علی الاصنام، وہ جانور جو بتوں کے نام پر یا ان کے تھانوں پر ان کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کیے جائیں۔ یعنی ایسے جانوروں پر گو عند الذبح اللہ کا نام لیا جئے تب بھی حرام ہوں گے کیونکہ ان سے اللہ کا تقرب نہیں۔ غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنا مقصود ہے۔ فسق رب کی اطاعت سے خروج کا نام ہے۔ رب نے حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر جانور ذبح کیا جائے اور سارا اسی کے تقرب ونیاز کے لیے کیا جائے اگر ایسا نہیں کیا جائے گا تو یہی فسق اور شرک ہے۔ الانعام
146 ١٤٦۔ ١ ناخن والے جانوروں سے مراد وہ ہاتھ والے جانور جن کی انگلیاں پھٹی ہوئی یعنی جدا جدا نہ ہوں۔ جیسے اونٹ شتر مرغ، بطخ، قاز گائے اور بکری وغیرہ۔ ایسے سب چرند پرند حرام تھے۔ گویا صرف وہ جانور اور پرندے ان کے لئے حلال تھے جن کے پنجے کھلے ہوں۔ ١٤٦۔ ٢ یعنی جو چربی گائے یا بکری کی پشت پر ہو (دنبے کی چکی ہو) یا انتریوں (یا اوجھ) یا ہڈیوں کے ساتھ ملی ہو۔ چربی کی مقدار حلال تھی۔ ١٤٦۔ ٣ یہ چیزیں ہم نے بطور سزا ان پر حرام کی تھیں یعنی یہود کا یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ یہ چیزیں حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے اوپر حرام کی ہوئی تھیں اور ہم تو ان کو اتباع میں ان کو حرام سمجھتے ہیں۔ ١٤٦۔ ٤ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہود یقینا اپنے مذکورہ دعوے میں جھوٹے تھے۔ الانعام
147 ١٤٧۔ ١ اس لئے تکذیب کے باوجود عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا۔ ١٤٧۔ ٢ یعنی مہلت دینے کا مطلب ہمیشہ کے لئے عذاب الٰہی سے محفوظ ہونا نہیں ہے۔ وہ جب بھی عذاب دینے کا فیصلہ کرے گا تو پھر اسے کوئی ٹال نہیں سکے گا۔ الانعام
148 ١٤٨۔ ١ یہ وہی مغالطہ ہے جو مشیت الٰہی اور رضائے الٰہی کو ہم معنی سمجھ لینے کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جس کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے۔ ١٤٨۔ ٢ اللہ تعالیٰ نے اس مغالطے کا ازالہ اس طرح فرمایا اگر یہ شرک اللہ کی رضا کا مظہر تھا تو پھر ان پر عذاب کیوں آیا، عذاب الٰہی سے اس بات کی دلیل ہے کہ مشیت اور چیز ہے اور رضائے الٰہی اور چیز۔ ١٤٨۔ ٣ یعنی اپنے دعوے پر تمہارے پاس دلیل ہے تو پیش کرو لیکن ان کے پاس دلیل کہاں؟ وہاں تو صرف اوہام و ظنون ہی ہیں۔ الانعام
149 الانعام
150 ١٥٠۔ ١ یعنی وہ جانور، جن کو مشرکین حرام قرار دیے ہوئے تھے۔ ١٥٠۔ ٢ کیونکہ ان کے پاس سوائے کذب و افترا کے کچھ نہیں۔ ١٥٠۔ ٣ یعنی اس کا عدیل (برابر کا) ٹھہرا کر شرک کرتے ہیں۔ الانعام
151 ١٥١۔ ١ یعنی حرام وہ نہیں ہیں جن کو تم بلا دلیل، محض اپنے اوبام باطلہ اور ظنون فاسدہ کی بنیاد پر قرار دے رکھا ہے۔ بلکہ حرام تو وہ چیزیں ہیں جن کو تمہارے رب نے حرام کیا ہے، کیونکہ تمہارا پیدا کرنے والا اور تمہارا پالنہار وہی ہے ہر چیز کا علم بھی اسی کے پاس ہے اس لئے اسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس چیز چاہے حلال اور جس چیز کو چاہے حرام کرے۔ چنانچہ میں تم کو ان باتوں کی تفصیل بتلاتا ہوں جن کی تاکید تمہارے رب نے کی ہے۔ ١٥١۔ ٢ ان لا تشرکوا سے پہلے اوصاکم محذوف ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو تم شریک مت ٹھہراؤ شرک سب سے بڑا گناہ ہے، جس کے لئے معافی نہیں، مشرک پر جنت حرام اور دوزخ واجب ہے۔ قرآن مجید میں ساری چیزیں مختلف انداز سے بار بار بیان ہوئی ہیں۔ اور نبی کریم نے بھی حدیث میں ان کو تفصیل اور وضاحت بیان فرمایا ہے۔ اس کے باوجود یہ واقع ہے کہ لوگ شیطان کے بہکاوے میں آکر شرک کا عام ارتکاب کرتے ہیں۔ ١٥١۔ ٣ اللہ تعالیٰ کی توحید و اطاعت کے بعد یہاں بھی (اور قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی) والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے جس سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ اطاعت رب کے بعد اطاعت والدین کی بڑے اہمیت ہے، اگر کسی نے اس ربوبیت صغریٰ (والدین کی اطاعت اور ان سے حسن وَ لَوْ اَ نَّنَا ٨ الا نعام ٦ (سلوک) کے تقاضے پورے نہیں کیئے تو وہ ربوبیت کبریٰ کے تقاضے بھی پورے کرنے میں ناکام رہے گا۔ ١٥١۔ ٤ زمانہء جاہلیت کا یہ فعل قبیح آجکل ضبط ولادت یا خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے پوری دنیا میں زورو شور سے جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔ ١٥١۔ ٥ یعنی قصاص کے طور پر، نہ صرف جائز ہے بلکہ اگر مقتول کے وارث معاف نہ کریں تو یہ قتل نہایت ضروری ہے ولکم (وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ) 2۔ البقرۃ:179) ' قصاص میں تمہاری زندگی ہے۔ الانعام
152 ١٥٢۔ ١ جس یتیم کی کفالت تمہاری ذمہ داری قرار پائے، تو اس کی ہر طرح خیر خواہی کرنا تمہارا فرض ہے اس خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ اگر اس کے مال سے وارثت میں سے اس کو حصہ ملا ہے، چاہے وہ نقدی کی صورت میں ہو یا زمین اور جائداد کی صورت میں، تاہم ابھی وہ اس کی حفاظت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس کے مال کی اس وقت تک پورے خلوص سے حفاظت کی جائے جب تک وہ بلوغت اور شعور کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔ یہ نہ ہو کہ کفالت کے نام پر، اس کی عمر شعور سے پہلے ہی اس کے مال یا جایئداد کو ٹھکانے لگا دیا جائے۔ ١٥٢۔ ٢ ناپ تول میں کمی کرنا لیتے وقت تو پورا ناپ یا تول کرلینا، مگر دیتے وقت ایسا نہ کرنا بلکہ ڈنڈی مار کر دوسرے کو کم دینا، یہ نہایت پست اور اخلاق سے گری ہوئی بات ہے۔ قوم شعیب میں یہی اخلاقی بیماری تھی جو ان کی تباہی کے من جملہ اسباب میں تھی۔ ١٥٢۔ ٣ یہاں اس بات کے بیان سے یہ مقصد ہے کہ جن باتوں کی تاکید کر رہے ہیں، یہ ایسے نہیں ہیں کہ جن پر عمل کرنا مشکل ہو، اگر ایسا ہوتا تو ہم ان کا حکم ہی نہ دیتے اس لئے کہ طاقت سے بڑھ کر ہم کسی کو مکلف ہی نہیں ٹھہراتے۔ اس لئے اگر نجات اخروی اور دنیا میں عزت اور سرفرازی چاہتے ہو تو ان احکام الٰہی پر عمل کرو اور ان سے گریز مت کرو۔ الانعام
153 ١٥٣۔ ١ ھَذَا (یہ) سے مراد قرآن مجید یا دین اسلام یا وہ احکام ہیں جو بطور خاص اس سورت میں بیان کئے گئے ہیں اور وہ ہیں توحید، معاد اور رسالت اور یہی اسلام کے ثلاثہ ہیں جن کے گرد پورا دین گھومتا ہے، اس لئے جو مراد لیا جائے مفہوم سب کا ایک ہے۔ ١٥٣۔ ٢ صراط مستقیم کو واحد کے صیغے سے بیان فرمایا ہے کیونکہ اللہ کی، یا قرآن کی، یارسول اللہ کی راہ ایک ہے ایک سے زیادہ نہیں۔ اس لئے پیروی صرف اس ایک راہ کی کرنی ہے کسی اور کی نہیں، یہی ملت مسلمہ کی وحدت و اجماع کی بنیاد ہے جس سے بہت ہٹ کر یہ امت مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئی ہے، حالانکہ اس کی تاکید کی گئی ہے کہ دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا دین کو قائم رکھو اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو گویا اختلاف اور تفرقہ کی قطعا اجازت نہیں ہے۔ اسی بات کو حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح واضح فرمایا کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے ایک خط کھینچا اور فرمایا کہ یہ اللہ کا سیدھا راستہ ہے۔ اور چند خطوط اس کی دائیں اور بائیں طرف کھینچے اور فرمایا یہ راستے ہیں جن پر شیطان بیٹھا ہوا ہے اور وہ ان کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی آیت تلاوت فرمائی جو زیر وضاحت ہے۔ الانعام
154 ١٥٤۔ ١ قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے جو متعدد جگہ دہرایا کہ جہاں قرآن کا ذکر ہوتا ہے وہاں تورات کا اور جہاں تورات کا ذکر ہو وہاں قرآن کا بھی ذکر کردیا جاتا ہے۔ اس کی متعدد مثالیں حافظ ابن کثیر نے نقل کی ہیں۔ اسی اسلوب کے مطابق یہاں تورات کا اور اس کے وصف کا بیان ہے کہ وہ بھی اپنے دور کی ایک جامع کتاب تھی جس میں ان کی دینی ضروریات کی تمام باتیں تفصیل سے بیان کی گئی تھیں اور وہ ہدایت اور رحمت کا باعث تھی۔ الانعام
155 ١٥٥۔ ١ اس سے مراد قرآن مجید ہے جس میں دین و دنیا کی برکتیں اور بھلائیاں ہیں۔ الانعام
156 ١٥٦۔ ١ یعنی یہ قرآن اس لئے اتارا تاکہ تم یہ نہ کہو۔ دو فرقوں سے مراد یہود و انصاریٰ ہیں۔ ١٥٦۔ ٢ اس لئے کہ وہ ہماری زبان میں نہ تھی۔ چنانچہ اس عذر کو قرآن عربی میں اتار کر ختم کردیا۔ الانعام
157 ١٥٧۔ ١ گویا یہ عذر بھی تم نہیں کرسکتے۔ ١٥٧۔ ٢ یعنی کتاب ہدایت و رحمت کے نزول کے بعد اب جو شخص ہدایت (اسلام) کا راستہ اختیار کرکے رحمت الٰہی کا مستحق نہیں بنتا، بلکہ تکذیب و اعراض کا راستہ اپناتا ہے تو اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے؟ صَدَفَ کے معنی اعراض کرنے کے بھی کئے گئے ہیں اور دوسروں کو روکنے کے بھی۔ الانعام
158 ١٥٨۔ ١ قرآن مجید کے نزول اور حضرت محمد کی رسالت کے ذریعے سے ہم نے حجت قائم کردی ہے۔ اب بھی اگر یہ اپنی گمراہی سے باز نہ آئے تو کیا اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یعنی ان کی روحیں قبض کرنے کے لئے اس وقت یہ ایمان لائیں گے، یا آپ کا رب ان کے پاس آئے۔ یعنی قیامت برپا ہوجائے اور اللہ کے ربرو پیش کئے جائیں۔ اس وقت یہ ایمان لائیں گے؟ یا آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آئے، جیسے قیامت کے قریب سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوگا، تو اس قسم کی بڑی نشانی دیکھ کر یہ ایمان لائیں گے۔ اگلے جملے میں وضاحت کی جارہی ہے کہ اگر یہ اس انتظار میں ہیں تو بہت ہی نادانی کا مظاہر کر رہے ہیں۔ کیونکہ بڑی نشانی کے ظہور کے بعد کافر کا ایمان اور فاسق وفاجر شخص کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔ صحیح حدیث ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو پس جب ایسا ہوگا اور لوگ اسے مغرب سے طلوع ہوتے دیکھیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی لاینفع نفسا ایمانھا لم تکن اٰمنت من قبل۔ یعنی اس وقت ایمان لانا کسی کو نفع نہیں دے گا جو اس سے قبل ایمان نہ لایا ہوگا۔ ١٥٨۔ ٢ یعنی کافر کا ایمان فائدہ مند، یعنی قبول نہ ہوگا۔ ١٥٨۔ ٣ اس کا مطلب ہے کہ کوئی گناہ گار مومن گناہوں سے توبہ کرے گا تو اس وقت اس توبہ قبول نہیں ہوگی اور اس کے بعد عمل صالح غیر مقبول ہوگا۔ جیسا کہ احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے۔ الانعام
159 ١٥٩۔ ١ اس سے بعض لوگ یہود و نصاریٰ مراد لیتے ہیں جو مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ بعض مشرکین مراد لیتے ہیں کہ کچھ مشرک ملائکہ کی، کچھ ستاروں کی، کچھ مختلف بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ لیکن یہ آیت عام ہے کہ کفار و مشرکین سمیت وہ سب لوگ اس میں داخل ہیں۔ جو اللہ کے دین کو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے دین یا دوسرے طریقے کو اختیار کر کے تفرق وتخرب کا راستہ اپناتے ہیں۔ شیعا کے معنی فرقے اور گروہ اور یہ بات ہر اس قوم پر صادق آتی ہے جو دین کے معاملے میں مجتمع تھی لیکن پھر ان کے مختلف افراد نے اپنے کسی بڑے کی رائے کو ہی مستند اور حرف آخر قرار دے کر اپنا راستہ الگ کرلیا، چاہے وہ رائے حق وصواب کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ الانعام
160 ١٦٠۔ ١ یہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل و احسان کا بیان ہے کہ جو اہل ایمان کے ساتھ وہ کرے گا کہ ایک نیکی کا بدلہ دس نیکیوں کے برابر عطا فرمائے گا، یہ کم از کم اجر ہے۔ ورنہ قرآن اور حدیث دونوں سے ثابت ہے کی بعض نیکیوں کا اجر کئی سو گنا ہے بلکہ ہزار گنا تک ملے گا۔ ١٦٠۔ ٢ یعنی جن گناہوں پر سزا مقرر نہیں ہے اور اس کے ارتکاب کے بعد اس نے اس سے توبہ بھی نہیں کی یا اس کی نیکیاں اس کی برائیوں پر غالب نہ آئیں یا اللہ نے اپنے فضل خاص سے اسے معاف نہیں فرمادیا کیونکہ ان تمام صورتوں میں مجازات کا قانون بروئے عمل نہیں آئے گا تو پھر اللہ تعالیٰ ایسی برائی کی سزا دے اور اس کے برابر ہی دے گا۔ الانعام
161 الانعام
162 الانعام
163 ١٦٣۔ ١ توحید الوہیت کی یہ دعوت تمام انبیاء نے دی، جس طرح یہاں آخری پیغمبر کی زبان مبارک سے کہلوایا گیا کہ ' مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب ماننے والوں سے پہلا ہوں۔ ' دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی انبیاء بھیجے، سب کو یہ وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس تم میری ہی عبادت کرو ' (انبیا۔ ٢٥) چنانچہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بارے میں آتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے انہیں کہا کہ اسلم تو انہوں نے فرمایا اسلمت لرب العالمین۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) و یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو وصیت فرمائی کہ تمہیں موت اسلام پر آنی چاہیے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دعا فرمائی کہ مجھے اسلام کی حالت میں دنیا سے اٹھانا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا اگر تم ملسمان ہو تو اسی اللہ پر بھروسہ کرو۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے کہا واشھد باننا مسلمون اسی طرح اور بھی تمام انبیاء اور ان کے مخلص پیروکاروں نے اسی اسلام کو اپنایا جس میں توحید الوہیت کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ گو بعض بعض شرع احکام ایک دوسرے سے مختلف تھی۔ الانعام
164 ١٦٤۔ ١ یہاں رب سے مراد وہی اللہ ماننا ہے جس کا انکار مشرکین کرتے رہے ہیں اور جو اس کی ربوبیت کا تقاضا ہے۔ لیکن مشرکین اس کی ربوبیت کو تو مانتے تھے۔ اور اس میں کسی کو شریک نہیں گردانتے تھے لیکن اس کی الوہیت میں شریک ٹھہراتے تھے۔ ١٦٤۔ ٢ یعنی اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کا پورا اہتمام فرمائے گا اور جس نے اچھا، یا برا، جو کچھ کیا ہوگا اس کے مطابق جزا اور سزا دے گا، نیکی پر اچھی جزا اور بدی پر سزا دے گا اور ایک کا بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالے گا۔ ١٦٤۔ ٣ اس لئے اگر تم اس دعوت توحید کو نہیں مانتے جو تمام انبیاء کی مشترکہ دعوت رہی ہے تو تم اپنا کام کئے جاؤ، ہم اپنا کئے جاتے ہیں۔ قیامت والے دن اللہ کی بارگاہ میں ہی ہمارا تمہارا فیصلہ ہوگا۔ الانعام
165 ١٦٥۔ ١ یعنی حکمران بنا کر اختیارات سے نوازا۔ یا ایک کے بعد دوسرے کو اس کا وارث (خلیفہ) بنایا۔ ١٦٥۔ ٢ یعنی فقر و غنی، علم و جہل، صحت اور بیماری، جس کو جو دیا، اسی میں اس کی آزمائش ہے۔ الانعام
0 الاعراف
1 الاعراف
2 ٢۔ ١ یعنی اس کے بھیجنے سے آپ کا دل تنگ نہ ہو کہ کہیں کافر میری تکذیب (جھٹلائیں) نہ کریں اور مجھے ایذا نہ پہنچائیں اس لئے کہ اللہ سب کا حافظ و ناصر ہے یا حرج شک کے معنی میں ہے۔ یعنی اس کی منزل من اللہ ہونے کے بارے میں آپ اپنے سینے میں شک محسوس نہ کریں۔ یہ نہی بطور تعریف ہے اور اصل مخاطب امت ہے کہ وہ شک نہ کرے۔ الاعراف
3 ٣۔ ١ جو اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، یعنی قرآن، اور جو رسول اللہ نے فرمایا یعنی حدیث، کیونکہ آپ نے فرمایا کہ ' میں قرآن اور اس کی مثل اس کے ساتھ دیا گیا ہوں۔ ' ان دونوں کی پیروی ضروری ہے ان کے علاوہ کسے کا اتباع (پیروی) ضروری ٰ نہیں بلکہ ان کا انکار لازمی ہے۔ جیسے کہ اگلے فقرے میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں کی پیروی مت کرو۔ جس طرح زمانہء جاہلیت میں سرداروں اور نجومیوں کاہنوں کی بات کو ہی اہمیت دی جاتی تھی حتیٰ کہ حلال اور حرام میں بھی ان کو سند تسلیم کیا جاتا تھا۔ الاعراف
4 ٤۔ ١ فَائِلُوْنَ قَیْلُوْلَۃ،ُ سے ہے، جو دوپہر کے وقت استراحت (آرام کرنے) کو کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارا عذاب اچانک ایسے وقتوں میں آیا جب وہ آرام و راحت کے لئے بے خبر بستروں میں آسودہ خواب تھے۔ الاعراف
5 ٥۔ ١ لیکن عذاب آجانے کے بعد ایسے اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں۔ جیسا کہ پہلے وضاحت گزر چکی ہے (فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُہُمْ اِیْمَانُہُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا) 40۔ غافر :85) جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو اس وقت ان کا ایمان لانا، ان کے لئے نفع مند نہیں ہوا۔ الاعراف
6 ٦۔ ١ امتوں سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے پاس پیغمبر آئے تھے؟ انہوں نے تمہیں ہمارا پیغام پہنچایا تھا ؟ وہ جواب دیں گے کہ ہاں! یا اللہ تیرے پیغمبر یقینا ہمار پاس آئے تھے لیکن ہماری قسمت پھوٹی تھی کہ ہم نے ان کی پروا نہیں کی اور پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے ہمارا پیغام اپنی امتوں کو پہنچایا تھا ؟ اور انہوں نے اس کے مقابلے میں کیا رویہ اختیار کیا ؟ پیغمبر سوال کا جواب دیں گے۔ جس کی تفصیل قرآن مجید کے مختلف مقامات پر موجود ہے۔ الاعراف
7 ٧۔ ١ چونکہ ہر ظاہر اور پوشیدہ بات کا علم رکھتے ہیں اس لئے پھر ہم دونوں (امتیوں اور پیغمبروں) کے سامنے ساری باتیں بیان کریں گے اور جو جو کچھ انہوں نے کیا ہوگا، ان کے سامنے رکھ دیں گے۔ الاعراف
8 الاعراف
9 ٩۔ ١ ان آیات میں وزن اعمال کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے جو قیامت والے دن ہوگا جسے قرآن کریم میں بھی متعدد جگہ اور احادیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ترازو میں اعمال تولے جائیں گے۔ جس کا نیکیوں کا پلا بھاری ہوگا، وہ کامیاب ہوگا اور جس کا بدیوں والا پلڑا بھاری ہوگا، وہ ناکام ہوگا۔ یہ اعمال کس طرح تولے جائیں گے جب کہ یہ اعراض ہیں یعنی ان کا ظاہری وجود اور جسم نہیں ہے؟ اس بارے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ان کو اجسام میں تبدیل فرمادے گا اور ان کا وزن ہوگا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ وہ صحیفے اور رجسٹر تولے جائیں گے۔ جن میں انسان کے اعمال درج ہونگے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ خود صاحب عمل کو تولا جائے گا، تینوں مسلکوں والے کے پاس اپنے مسلک کی حمایت میں صحیح احادیث و آثار موجود ہیں، اس لئے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ تینوں ہی باتیں صحیح ہوسکتی ہیں ممکن ہے، کبھی اعمال، کبھی صحیفے اور کبھی صاحب عمل کو تولا جائے (دلائل کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر) بہرحال میزان اور وزن اعمال کا مسئلہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اس کا انکار اس کی تاویل گمراہی ہے۔ اور موجودہ دور میں تو اس کے انکار کی اب مزید کوئی گنجائش نہیں کہ بے وزن چیزیں بھی تولی جانے لگی ہیں۔ الاعراف
10 الاعراف
11 ١١۔ ١ خَلَقْنَاکُمْ میں ضمیر اگرچہ جمع کی ہے لیکن مراد ابو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں۔ الاعراف
12 ١٢۔ ١ ان لا تسجدوا میں لا زائد ہے یعنی ان تسجد تجھے سجدہ کرنے سے کس نے روکا ؟ یا عبارت محذوف ہے یعنی تجھے کس چیز نے اس بات پر مجبور کیا کہ تو سجدہ نہ کرے، شیطان فرشتوں میں سے نہیں تھا بلکہ خود قرآن کی صراحت کے بموجب وہ جنات میں سے تھا (الکہف۔ ٥٠) لیکن آسمان پر فرشتوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اس سجدہ حکم میں شامل تھا جو اللہ نے فرشتوں کو دیا تھا۔ اس لئے اس سے باز پرس بھی ہوئی اور اس پر عتاب بھی نازل ہوا۔ اگر وہ اس حکم میں شامل یہ نہ ہوتا تو اس سے باز پرس ہوتی نہ وہ راندہ درگاہ قرار پاتا۔ ١٢۔ ٢ شیطان کا یہ عذر ' عذر گناہ بدتر از گناہ ' جس کا آئینہ دار ہے۔ ایک تو اس کا سمجھنا کہ افضل کو مفعول کی تعظیم کا حکم نہیں دیا جاسکتا، غلط ہے۔ اس لئے کہ اصل چیز تو اللہ کا حکم ہے اس کے حکم کے مقابلے میں افضل وغیرہ افضل کی بحث اللہ سے سرتابی ہے۔ دوسرے، اس نے بہتر ہونے کی دلیل یہ دی کہ میں آگ سے پیدا ہوا ہوں اور یہ مٹی سے۔ لیکن اس نے اس شرف اور عظمت کو نظر انداز کردیا جو حضرت آدم (علیہ السلام) کو حاصل ہوا کہ اللہ نے انہیں اپنے ہاتھ سے بنایا اور اپنی طرف سے اس میں روح پھونکی۔ اس شرف کے مقابلے میں دنیا کی کوئی بھی چیز ہوسکتی ہے؟ تیسرا، نص کے مقابلے میں قیاس سے کام لیا، جو کسی بھی اللہ کو ماننے والے کا شیوا نہیں ہوسکتا اور یہ قیاس بھی فاسد تھا۔ آگ، مٹی سے کس طرح بہتر ہے؟ آگ میں سوائے تیزی، بھڑکنے اور جلانے کے کیا ہے؟ جب کہ مٹی میں سکون اور ثبات ہے، اس میں نبات و نمو، زیادتی اور اصلاح کی صلاحیت ہے۔ یہ صفات آگ سے بہرحال بہتر اور زیادہ مفید ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ شیطان کی تخلیق آگ سے ہوئی، جیسا کہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ ' فرشتے نور سے، ابلیس آگ کی لپیٹ سے اور آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں۔ الاعراف
13 ١٣۔ ١ مِنْھَا کی ضمیر کا مرجع اکثر مفسرین نے جنت قرار دیا اور بعض نے اس مرتبہ کو جو ملکوت اعلٰی میں اسے حاصل تھا۔ فاضل مترجم نے اسی دوسرے مفہوم کے مطابق آسان ترجمہ کیا ہے۔ نکل بیشک تو ذلیلوں میں سے ہے (٢) ١٣۔ ٢ اللہ کے حکم کے مقابلے میں تکبر کرنے والا احترام و تعظیم کا نہیں، ذلت اور خواری کا مستحق ہے۔ الاعراف
14 الاعراف
15 ١٥۔ ١ اللہ تعالیٰ نے اس کی خواہش کے مطابق اسے مہلت عطا فرما دی جو اس کی حکمت، ارادے اور مشیت کے مطابق تھی جس کا پورا علم اسی کو ہے۔ تاہم ایک حکمت یہ نظر آتی ہے کہ اس طرح اپنے بندوں کی آزمائش کرسکے گا کہ کون رحمان کا بندہ بنتا ہے اور کون شیطان کا پجاری۔ الاعراف
16 ١٦۔ ١ گمراہ تو اللہ کی تکوینی مشیت کے تحت ہوا۔ لیکن اس نے اسے بھی مشرکوں کی طرح الزام بنا لیا، جس طرح وہ کہتے تھے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے۔ الاعراف
17 ١٧۔ ١ مطلب یہ ہے کہ ہر خیر اور شر کے راستے پر بیٹھوں گا۔ خیر سے روکوں گا اور شر کو ان کی نظروں میں پسندیدہ بنا کر ان کو اختیار کرنے کی ترغیب دوں گا۔ ١٧۔ ٢ شاکرین کے دوسرے معنی موحدین کے کیے گئے ہیں۔ یعنی اکثر لوگوں کو میں شرک میں مبتلا کر دوں گا۔ شیطان نے اپنا یہ گمان فی الواقع سچا کر دکھایا، (وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَیْہِمْ اِبْلِیْسُ ظَنَّہٗ فَاتَّبَعُوْہُ اِلَّا فَرِیْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ) 34۔ سبأ:20) شیطان نے اپنا گمان سچا کر دکھایا، اور مومنوں کے ایک گروہ کو چھوڑ کر سب لوگ اس کے پیچھے لگ گئے۔ اسی لئے حدیث میں شیطان سے پناہ مانگنے اور قرآن میں اس کے مکر و کید سے بچنے کی بڑی تاکید آئی ہے۔ الاعراف
18 الاعراف
19 ١٩۔ ١ یعنی صرف اس درخت کو چھوڑ کر جہاں سے اور جتنا چاہو کھاؤ۔ ایک درخت کا پھل کھانے کی پابندی آزمائش کے طور عائد کی۔ الاعراف
20 ٢٠۔ ١ وسوسہ اور وسو اس زلزلہ اور زلزال کے وزن پر ہے شیطان دل میں جو بری باتیں ڈالتا ہے، اس کو وسوسہ کہا جاتا ہے۔ ٢٠۔ ١ یعنی شیطان کا مقصد اس بہکاوے سے حضرت آدم و حوا کو اس لباس جنت سے محروم کرکے انہیں شرمندہ کرنا تھا، جو انہیں جنت میں پہننے کے لئے دیا گیا تھا شرم گاہ کو سَوْءَۃ،ُ سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ اس کے ظاہر ہونے کو برا سمجھا جاتا ہے۔ الاعراف
21 ٢١۔ ١ جنت کی جو نعمتیں اور آسائشیں حضرت آدم (علیہ السلام) و حوا کو حاصل تھیں، اس کے حوالے سے شیطان نے دونوں کو بہلایا اور یہ جھوٹ بولا کہ اللہ تمہیں ہمیشہ جنت میں رکھنا نہیں چاہتا، اس لئے اس درخت کا پھل کھانے سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس کی تاثیر ہی یہ ہے جو اسے کھا لیتا ہے، وہ فرشتہ بن جاتا ہے یا دائمی زندگی اسے حاصل ہوجاتی ہے۔ پھر قسم کھا کر اپنا خیر خواہ ہونا بھی ظاہر کیا، جس سے حضرت آدم (علیہ السلام) و حوا متاثر ہوگئے اس لئے اللہ والے اللہ کے نام پر آسانی سے دھوکا کھا جاتے ہیں۔ الاعراف
22 ٢٢۔ ١ تدلیۃ اور ادلاء کے معنی ہیں کسی چیز کو اوپر سے نیچے چھوڑ دینا گویا شیطان ان کو مرتبہ علیا سے اتار کر ممنوعہ درخت کا پھل کھانے تک لے آیا ٢٢۔ ٢ یہ اس مصیت کا اثر ظاہر ہوا جو آدم (علیہ السلام) و حوا سے غیر شعوری اور غیر ارادی طور پر ہوئی اور پھر دونوں مارے شرم کے جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر اپنی شرم گاہ چھپانے لگے۔ اس سے قبل انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا نورانی لباس ملا ہوا تھا، جو اگرچہ غیر مرئی تھا لیکن ایک دوسرے کی شرم گاہ کے لئے ساتر (پردہ پوش) تھا۔ ابن کثیر ٢٢۔ ٣ یعنی اس تنبہ کے باوجود تم شیطان کے وسوسوں کا شکار ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیطان کے جال بڑے حسین اور دلفریب ہوتے ہیں اور جن سے بچنے کے لئے بڑی کاوش و محنت اور ہر وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ الاعراف
23 ٢٣۔ ١ توبہ استغفار کے یہ وہی کلمات ہیں جو حضرت آدم (علیہ السلام) نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے سیکھے، جیسا کہ سورۃ بقرہ، آیت ٣٧ میں صراحت ہے (دیکھئے آیت مذکورہ کا حاشیہ) گویا شیطان نے اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا تو اس کے بعد وہ اس پر نہ صرف اڑ گیا بلکہ جواز و اثبات میں عقلی قیاسی دلائل دینے لگا، جس کے نتیجہ میں وہ راندہ درگاہ اور ہمیشہ کے لئے ملعون قرار پایا اور حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنی غلطی پر ندامت و پشیمانی کا اظہار اور بارگاہ الٰہی میں توبہ و استفغار کا اہتمام کیا۔ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کے مستحق قرار پائے۔ یوں گویا دونوں راستوں کی نشان دہی ہوگئی، شیطانی راستے کی بھی اور اللہ والوں کے راستے کی بھی۔ گناہ کرکے اس پر اترانا، اصرار کرنا اور اسکو صحیح ثابت کرنے کے لئے دلائل ' کے انبار فراہم کرنا شیطانی راستہ ہے۔ اور گناہ کے بعد احساس ندمت سے مغلوب ہو کر بارگاہ الٰہی میں جھک جانا اور توبہ استغفار کا اہتمام کرنا بندگان الٰہی کا راستہ ہے۔ الاعراف
24 الاعراف
25 الاعراف
26 ٢٦۔ ١ سَوْآت،ُ ،ُ جسم کے وہ حصے جنہیں چھپانا ضروری ہے جیسے شرم گاہ اور وہ لباس جو حسن و رعنائی کے لئے پہنا جائے۔ گویا لباس کی پہلی قسم ضروریات سے اور دوسری قسم تتمہ اضافہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں قسموں کے لباس کے لئے سامان اور مواد پیدا فرمایا۔ ٢٦۔ ٢ اس سے مراد بعض کے نزدیک وہ لباس ہے جو متقین قیامت والے دن پہنیں گے۔ بعض کے نزدیک ایمان، بعض کے نزدیک عمل صالح مشیت الٰہی وغیرہ ہیں۔ مفہوم سب کا تقریبًا ایک ہے کہ ایسالباس، جسے پہن کر انسان تکبر کرنے کی بجائے، اللہ سے ڈرے اور ایمان و عمل صالح کے تقاضوں کا اہتمام کرے۔ ٢٦۔ ٣ اس سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ زیب و زینت اور آرائش کے لئے بھی اگرچہ لباس پہننا جائز ہے، تاہم لباس میں ایسی سادگی زیادہ پسندیدہ ہے جو انسان کے زہد اور تقوے ٰ کی مظہر ہو۔ علاوہ ازیں نیا لباس پہن کر یہ دعا بھی پڑھی جائے، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا پڑھا کرتے تھے : (واَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّزِیْ کَسَانِی مَائْو وَارِیْ بِہٖ عَوْرَبِّی وَاَتَجَمَّلْ بِہِ فِیْ حَیَاتِیْ) تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے ایسا لباس پہنایا جس میں اپنا ستر چھپالوں اور اپنی زندگی میں اس سے زینت حاصل کروں۔ الاعراف
27 ٢٧۔ ١ اس میں اہل ایمان کو شیطان اور اور اس کے قبیلے یعنی چیلے چانٹوں سے ڈرایا گیا ہے کہ کہیں وہ تمہاری غفلت اور سستی سے فائدہ اٹھا کر تمہیں بھی اس طرح فتنے اور گمراہی میں نہ ڈال دے جس طرح تمہارے ماں باپ (آدم حوا) کو اس نے جنت سے نکلوا دیا اور لباس جنت بھی اتروا دیا۔ بالخصوص جب کہ وہ نظر بھی نہیں آتے۔ تو اس سے بچنے کا اہتمام اور فکر بھی زیادہ ہونا چاہئے۔ ٢٧۔ ٢ یعنی بے ایمان قسم کے لوگ ہی اس کے دوست اور اس کے خاص شکار ہیں۔ تاہم اہل ایمان پر بھی وہ ڈورے ڈالتا رہتا ہے۔ کچھ اور نہیں تو شرک خفی (ریاکاری) اور شرک میں ہی ان کو مبتلا کردیتا ہے اور یوں ان کو بھی ایمان کے بعد ایمان صحیح کی پونجی سے محروم کردیتا ہے۔ الاعراف
28 ٢٨۔ ١ اسلام سے قبل مشرکین بیت اللہ کا ننگا طواف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اس حالت کو اختیار کرکے طواف کرتے ہیں جو اس وقت تھی جب ہماری ماؤں نے جنا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ اس کی یہ تاویل کرتے تھے کہ ہم جو لباس پہنے ہوتے ہیں اس میں ہم اللہ کی نافرمانی کرتے رہتے ہیں، اس لئے اس لباس میں طواف کرنا مناسب نہیں۔ چنانچہ وہ لباس اتار کر طواف کرتے اور عورتیں بھی ننگی طواف کرتیں، اس لئے، صرف اپنی شرم گاہ پر کوئی کپڑا یا چمڑے کا ٹکڑا رکھ لیتیں۔ اپنے اس شرم ناک فعل کے لئے دو عذر انہوں نے اور پیش کیے۔ ایک تو یہ کہ اللہ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے۔ اللہ نے اس کی تردید فرمائی کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بے حیائی کا حکم دے؟ یوں ہی تم اللہ کے ذمہ وہ بات لگاتے ہو جو اس نے نہیں کہی۔ جب انہیں حق کی بات بتائی جاتی ہے تو اس کے مقابلے میں یہی عذر پیش کرتے ہیں کہ ہمارے بڑے یہی کرتے آئے ہیں یا ہمارے امام اور پیر و شیخ کا یہی حکم ہے، یہی وہ خصلت ہے جس کی وجہ سے یہودی، یہودیت پر، نصرانی نصرانیت پر اور بدعتی بدعتوں پر قائم رہے (فتح القدیر) الاعراف
29 ٢٩۔ ١ انصاف سے مراد یہاں بعض کے نزدیک لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یعنی توحید ہے۔ ٢٩۔ ٢ امام شوکانی نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ' اپنی نمازوں اپنا رخ قبلے کی طرف کرلو، چاہے تم کسی بھی مسجد میں ہو ' اور امام ابن کثیر نے اس سے استقامت بمعنی متابعت رسول مراد لی ہے اور اگلے جملے سے اخلاص اللہ اور کہا ہے کہ ہر عمل کی مقبولیت کے لئے ضروری ہے کہ وہ شریعت کے مطابق ہو اور دوسرے خالص رضائے الٰہی کے لئے ہو آیت میں ان باتوں کی تاکید کی گئی ہے۔ الاعراف
30 الاعراف
31 ٣١۔ ١ آیت میں زینت سے مراد لباس ہے۔ اس کا سبب نزول بھی مشرکین کے ننگے طواف سے متعلق ہے۔ اس لئے انہیں کہا گیا ہے کہ لباس پہن کر اللہ کی عبادت کرو اور طواف کرو۔ ٣١۔ ٢ اِسْرَافُ، (حد سے نکل جانا) کسی چیز میں حتیٰ کے کھانے پینے میں بھی ناپسندیدہ ہے، ایک حدیث میں نبی نے فرمایا ' جو چاہو کھاؤ اور جو چاہے پیو جو چاہے پہنو البتہ دو باتوں سے گریز کرو۔ اسراف اور تکبر سے (صحیح مسلم، صحیح بخاری)، بعض سلف کا قول ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے (وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ۚ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ) 7۔ الاعراف :31) اس آدھی آیت میں ساری طب جمع فرما دی ہے (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں زینت سے وہ لباس مراد ہے جو آرائش کے لیے پہنا جائے۔ جس سے ان کے نزدیک نماز اور طواف کے وقت تزئین کا حکم نکلتا ہے۔ اس آیت سے نماز میں ستر عورت کے وجوب پر بھی استدلال کیا گیا ہے بلکہ احادیث کی رو سے ستر عورت گھٹنوں سے لے کر ناف تک کے حصے کو ڈھانپنا ہر حال میں ضروری ہے چاہے آدمی خلوت میں ہی ہو۔ (فتح القدیر) جمعہ اور عیدین کے دن خوشبو کا استعمال بھی مستحب ہے کہ یہ بھی زینت کا ایک حصہ ہے۔ (ابن کثیر) الاعراف
32 ٣٢۔ ١ مشرکین نے جس طرح طواف کے وقت لباس پہننے کو ناپسندیدہ قرار دے رکھا تھا، اسی طرح حلال چیزیں بھی بطور تقرب الٰہی اپنے اوپر حرام کرلی تھیں نیز بہت سی حلال چیزیں اپنے بتوں کے نام وقف کردینے کی وجہ سے حرام گردانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لوگوں کی زینت کے لئے (مثلاً لباس وغیرہ) اور کھانے کی عمدہ چیزیں بنائی ہیں۔ گو کفار بھی ان سے فیض یاب اور فائدہ اٹھا لیتے ہیں بلکہ بعض دفعہ دینوی چیزوں اور آسائشوں کے حصول میں وہ مسلمانوں سے زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں لیکن یہ بالتبع اور عارضی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی تکوینی مشیت اور حکمت ہے تاہم قیامت والے دن یہ نعمتیں صرف اہل ایمان کے لیے ہوں گی کیونکہ کافروں پر جس طرح جنت حرام ہوگی، اسی طرح ماکولات ومشروبات بھی حرام ہوں گے۔ الاعراف
33 ٣٣۔ ١ ١ اعلانیہ فحش باتوں سے مراد بعض کے نزدیک طوائفوں کے اڈوں پر جا کر بدکاری اور پوشیدہ سے مراد کسی ' گرل فرینڈ ' سے خصوصی تعلق قائم کرنا ہے، بعض کے نزدیک اول الذکر سے مراد محرموں سے نکاح کرنا ہے جو ممنوع ہے، اس میں ہر قسم کی ظاہری بے حیائی کو شامل ہے، جیسے فلمیں، ڈرامے، ٹی وی، وی سی آر فحش اخبارات و رسائل، رقص و سرور اور مجروں کی محفلیں، عورتوں کی بے پردگی اور مردوں سے ان کا بے باکانہ اختلاط، مہندی اور شادی کی رسموں میں بے حیائی کے کھلے عام مظاہرہ وغیرہ یہ سب فواحش ظاہرہ ہیں ٣٣۔ ٢ گناہ اللہ کی نافرمانی کا نام ہے اور ایک حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گناہ وہ ہے جو تیرے سینے میں کھٹکے اور لوگوں کے اس پر مطلع ہونے کو تو برا سمجھے، بعض کہتے ہیں گناہ وہ ہے جس کا اثر کرنے والے کی اپنی ذات تک محدود ہو اور بغی یہ ہے کہ اس کے اثرات دوسروں تک بھی پہنچیں یہاں بغی کے ساتھ بغیر الحق کا مطلب ناحق ظلم و زیادتی مثلا لوگوں کا حق غضب کرلینا، کسی کا مال ہتھیالینا ناجائز مارنا پیٹنا اور سب وشتم کر کے بے عزتی کرنا وغیرہ ہے۔ الاعراف
34 ٣٤۔ ١ میعاد معین سے مراد وہ مہلت عمل ہے جو اللہ وتبارک و تعالیٰ ہر گروہ کو آزمانے کے لئے عطا فرماتا ہے کہ وہ اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرتا ہے یا اس کی بغاوت و سرکشی میں مزید اضافہ ہوتا ہے یہ مہلت بعض دفعہ ان کی پوری زندگیوں تک محدود ہوتی ہے۔ یعنی دینوی زندگی میں وہ گرفت نہیں فرماتا بلکہ صرف آخرت میں ہی سزا دے گا ان کی اجل مسمی قیامت کا دن ہی ہے اور جن کو دنیا میں وہ عذاب سے دوچار کردیتا ہے، ان کی اجل مسمٰی وہ ہے۔ جب ان کا مواخذہ فرماتا ہے۔ الاعراف
35 ٣٥۔ ١ یہ ان اہل ایمان کا حسن انجام بیان کیا گیا ہے جو تقوے ٰ اور عمل صالح سے آراستہ ہوں گے۔ قرآن نے ایمان کے ساتھ، اکثر جگہ، عمل صالح کا ذکر ضرور کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عند اللہ ایمان وہی معتبر ہے جس کے ساتھ عمل بھی ہوگا۔ الاعراف
36 ٣٦۔ ١ اس میں اہل ایمان کے برعکس ان لوگوں کا برا انجام بیان کیا گیا ہے جو اللہ کے احکام کو جھٹلاتے اور ان کے مقابلے میں استکبار کرتے ہیں۔ اہل ایمان اور اہل کفر دونوں کا انجام بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ لوگ اس کردار کو اپنائیں جس کا انجام اچھا ہے اور اس کردار سے بچیں جس کا انجام برا ہے۔ الاعراف
37 ٣٧۔ ١ اسکے مختلف معنی کئے گئے ہیں۔ ایک معنی عمل، رزق اور عمر کے کئے گئے ہیں۔ یعنی ان کے مقدر میں جو عمر اور رزق ہے اسے پورا کرلینے اور جتنی عمر ہے، اس کو گزار لینے کے بعد بالآخر موت سے ہمکنار ہونگے۔ اسی کے ہم معنی یہ آیت ہے : (اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ 69؀ مَتَاعٌ فِی الدُّنْیَا ثُمَّ اِلَیْنَا مَرْجِعُھُمْ ثُمَّ نُذِیْقُھُمُ الْعَذَاب الشَّدِیْدَ بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ 70؀ۧ) 10۔ یونس :70-69) جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہونگے، دنیا کا چند روزہ فائدہ اٹھا کر، بالآخر ہمارے پاس ہی انہیں لوٹ کر آنا ہے۔ الاعراف
38 ٣٨۔ ١ امم امۃ کی جمع ہے مراد وہ فرقے اور گروہ ہیں جو کفر شقاق اور شرک وتکذیب میں ایک جیسے ہوں گے۔ فی بمعنی مع بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی تم سے پہلے انسانوں اور جنوں میں جو گروہ تم جیسے یہاں آچکے ہیں ان کے ساتھ جہنم میں داخل ہوجاؤ یا ان میں شامل ہوجاؤ۔ (لَّعْنَتُ اُخْتَھَا) اپنی دوسری جماعت کو لعنت کرے گی۔ اُخْت"بہن" کو کہتے ہیں۔ ایک جماعت (امت) کو دوسری جماعت (امت) کی بہن بہ اعتبار دین، یا گمراہی کے کہا گیا۔ یعنی دونوں ہی ایک غلط مذہب کے پیرو یا گمراہ تھے یا جہنم کے ساتھی ہونے کے اعتبار سے ان کو ایک دوسری کی بہن قرار دیا گیا ہے۔ ٣٨۔ ٢ اِدَّارَکُوْا کے معنی ہیں تَدَارَکُوْا۔ جب ایک دوسرے کو ملیں گے اور باہم اکٹھے ہونگے۔ ٣٨۔ ٣ اخری (پچھلے) سے مراد بعد میں داخل ہونے والے اور اولی (پہلے) سے مراد ان سے پہلے داخل ہونے والے ہیں۔ یا اخری سے مراد اتباع پیروکار اور اولی سے متبوع لیڈر اور سردار مراد ہیں۔ ان کا جرم چونکہ زیادہ شدید ہے کہ خود بھی راہ حق سے دور ہو رہے ہیں اور دوسروں کو بھی کوشش کرکے اس سے دور رکھا، اس لئے یہ اپنے پیرو کاروں سے پہلے جہنم میں جائیں گے۔ ٣٨۔ ٤ جس طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا گیا۔ جہنمی کہیں گے، اے ہمارے رب! ہم تو اپنے سرداروں اور بڑوں کے پیچھے لگے رہے، پس انہوں نے ہمیں سیدھے راستے سے گمراہ کیا، یا اللہ ان کو دوگنا عذاب دے اور ان کو بڑی لعنت کر۔ ٣٨۔ ٥ یعنی ایک دوسرے کو طعنے دینے، کو سنے اور ایک دوسرے پر الزام دھرنے سے کوئی فائدہ نہیں، تم سب ہی اپنی اپنی جگہ بڑے مجرم ہو اور تم سب ہی دوگنے عذاب کے مستحق ہو۔ ان کا یہ مکالمہ سورۃ سبا۔ ٣١، ٢٣ میں بیان کیا گیا ہے۔ الاعراف
39 الاعراف
40 ٤٠۔ ١ اس سے بعض نے اعمال، بعض نے ارواح اور بعض نے دعا مراد لی ہے، یعنی ان کے عملوں، یا روحوں یا دعا کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے، یعنی اعمال اور دعا قبول نہیں ہوسکتی اور روحیں واپس زمین میں لوٹا دی جاتی ہیں (جیساکہ مسند احمد، جلد ٢ صفحہ ٣٦٤، ٣٦٥ کی ایک حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے امام شوکانی فرماتے ہیں کہ تینوں ہی چیزیں مراد ہوسکتی ہیں۔ ٤٠۔ ٢ یہ تعلیق بالمحال ہے جس طرح اونٹ کا سوئی کے ناکے سے گزرنا ممکن نہیں، اسی طرح اہل کفر کا جنت میں داخلہ ممکن نہیں۔ اونٹ کی مثال بیان فرمائی ہے اس لئے کہ اونٹ عربوں میں متعارف تھا اور جسمانی اعتبار سے ایک بڑا جانور تھا اور سوئی کا ناکہ (سوراخ) یہ اپنے باریک تنگ ہونے کے اعتبار سے بے مثال ہے۔ ان دونوں کے ذکر کرنے اس تعلیق بالمحال کے مفہوم کا درجہ واضح کردیا ہے۔ تعلیق بالمحال کا مطلب ہے ایسی چیز کے ساتھ مشروط کردینا جو ناممکن ہو۔ جیسے اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اب کسی چیز کے وقوع کو، اونٹ کے سوئی کے ناکے میں داخل ہونے کے ساتھ مشروط کردینا تعلیق بالمحال ہے۔ الاعراف
41 ٤١۔ ١ غواش غاشیۃ کی جمع ہے ڈھانپ لینے والی۔ یعنی آگ ہی ان کا اوڑھنا ہوگا، یعنی اوپر سے بھی آگ نے ان کو ڈھانپا یعنی گھیرا ہوگا۔ الاعراف
42 ٤٢۔ ١ یہ جملہ معترضہ ہے جس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ ایمان اور عمل صالح، یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ جو انسانی طاقت سے زیادہ ہوں اور انسان ان پر عمل کرنے کی قدرت نہ رکھتے ہوں، بلکہ ہر انسان ان کو باآسانی اپنا سکتا ہے اور ان کے عمل کو بروئے کار لا سکتا ہے۔ الاعراف
43 ٤٣۔ ١ اللہ تعالیٰ اہل جنت پر انعام فرمائے گا کہ ان کے سینوں میں ایک دوسرے کے خلاف بغض و عداوت کے جذبات ہوں گے، وہ دور کردے گا، پھر ان کے دل ایک دوسرے کے بارے میں آئینے کی طرح صاف ہوجائیں گے، کسی کے بارے میں دل میں کوئی کدورت اور عداوت نہیں رہے گی۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اہل جنت کے درمیان درجات و منازل کا جو تفاوت ہوگا، اس پر وہ ایک دوسرے سے حسد نہیں کریں گے۔ پہلے مفہوم کی تائید ایک حدیث میں ہوتی ہے کہ جنتیوں کو، جنت اور دوزخ کے درمیان ایک پل پر روک لیا جائے گا اور ان کے درمیان آپس کی جو زیادتیاں ہونگی، ایک دوسرے کو ان کا بدلہ دلایا جائے گا، حتّی کہ جب وہ بالکل پاک صاف ہوجائیں گے تو پھر انہیں جنت میں داخلے کی اجازت دے دی جائے گی (صحیح بخاری) ٤٣۔ ٢ یعنی یہ ہدایت جس سے ہمیں ایمان اور عمل صالح کی زندگی نصیب ہوئی اور پھر بارگاہ الٰہی قبولیت کا درجہ بھی حاصل ہوا، یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے اور اس کا فضل ہے۔ اگر یہ رحمت اور فضل نہ ہوتا تو ہم یہاں تک نہ پہنچ سکتے، اسی مفہوم کی یہ حدیث ہے جس میں نبی نے فرمایا ' یہ بات اچھی طرح جان لو کہ تم میں سے کسی کو محض اس کا عمل جنت میں نہیں لے جائے گا، جب تک اللہ تعالیٰ کی رحمت نہ ہوگی۔ صحابہ نے پوچھا یارسول اللہ آپ بھی؟ فرمایا ہاں میں بھی اس وقت تک جنت میں نہیں جاؤں گا جب تک کہ رحمت الہی مجھے اپنے دامن میں نہیں سمیٹ لے گی۔ ٤٣۔ ٣ یہ تشریح پچھلی بات اور حدیث مذکورہ کے منافی نہیں، اس لئے کہ نیک عمل کی توفیق بھی بجائے خود اللہ کا فضل و احسان ہے۔ الاعراف
44 ٤٤۔ ١ یہی بات نبی نے جنگ بدر میں جو کافر مارے گئے تھے اور ان کی لاشیں ایک کنوئیں میں پھینک دی گئیں تھیں۔ انہیں خطاب کرتے ہوئے کہی تھی، جس پر حضرت عمر نے کہا تھا ' آپ ایسے لوگوں سے خطاب فرما رہے ہیں جو ہلاک ہوچکے ہیں ' آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کی قسم، میں انہیں جو کچھ کہ رہا ہوں، وہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں، لیکن اب وہ جواب دینے کی طاقت نہیں رکھتے (صحیح مسلم) الاعراف
45 الاعراف
46 ٤٦۔ ١ ' ان دونوں کے درمیان ' سے مراد جنت دوزخ کے درمیان یا کافروں اور مومنوں کے درمیان ہے۔ حِجَاب،ُ (آڑ) سے وہ فصیل (دیوار) مراد ہے جس کا ذکر سورۃ حدید میں ہے : (فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ بِسُوْرٍ لَّہٗ بَابٌ) 57۔ الحدید :13) پس ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی، جس میں ایک دروازہ ہوگا یہی اعراف کی دیوار ہے۔ ٤٦۔ ٢ یہ کون ہونگے؟ ان کی تعین میں مفسرین کے درمیان خاصا اختلاف ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ وہ لوگ ہونگے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی۔ ان کی نیکیاں جہنم میں جانے سے اور برائیاں جنت میں جانے سے مانع ہونگی اور یوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قطعی فیصلہ ہونے تک وہ درمیان میں معلق رہیں گے۔ ٤٦۔ ٣ سیماء کے معنی علامت کے ہیں جنتیوں کے چہرے روشن اور جہنمیوں کے چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلی ہونگی۔ اس طرح وہ دونوں قسم کے لوگوں کو پہچان لیں گے۔ ٤٦۔ ٤ یہاں یَطْمَعُوْنَ کے معنی بعض لوگوں نے یَعْلَمُوْن کے کئے ہیں یعنی ان کو علم ہوگا کہ وہ عنقریب جنت میں داخل کر دئے جائیں گے۔ الاعراف
47 الاعراف
48 ٤٨۔ ١ یہ اہل دوزخ ہونگے جن کو اصحاب الاعراف ان کی علامتوں سے پہچان لیں گے اور وہ اپنے جتھے اور دوسری چیزوں پر جو گھمنڈ کرتے تھے اس کے حال سے انہیں یاد دلائیں گے کہ یہ چیزیں تمہارے کچھ کام نہ آئیں۔ الاعراف
49 ٤٩۔ ١ اس سے مراد وہ اہل ایمان ہیں جو دنیا میں غریب و مسکین اور مفلس و نادار قسم کے تھے جن کا مذاق مذکورہ منکرین اڑایا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے اگر یہ اللہ کے محبوب ہوتے تو ان کا دنیا میں یہ حال نہ ہوتا ؟ پھر مزید جسارت کرتے ہوئے دعویٰ کرتے کہ قیامت والے دن بھی اللہ کی رحمت ہم پر ہوگی نہ کہ ان پر (ابن کثیر) بعض نے اس کا قائل اصحاب الاعراف کو بتلایا ہے اور بعض کہتے ہیں جب اصحاب الاعراف جہنمیوں کو یہ کہیں گے کہ تمہارا جتھہ اور تمہارا اپنے کو بڑا سمجھنا تمہارے کچھ کام نہ آیا۔ تو اس وقت اللہ کی طرف سے جنتیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جائے گا یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں تم قسمیں کھاتے تھے کہ ان پر اللہ کی رحمت نہیں ہوگی۔ الاعراف
50 ٥٠۔ ١ جس طرح پہلے گزر چکا ہے کہ کھانے پینے کی نعمتیں قیامت والے دن صرف اہل ایمان کے لئے ہونگی (خَالِصَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ) 7۔ الاعرف :32) یہاں اس کی مزید وضاحت جنتیوں کی زبان سے کردی گئی ہے۔ الاعراف
51 ٥١۔ ١ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اس قسم کے بندے سے پوچھے گا کیا میں نے تمہیں بیوی بچے نہیں دیئے تھے؟ تمہیں عزت اور اکرام سے نہیں نوازا تھا اور کیا اونٹ اور گھوڑے تیرے تابع نہیں کردیئے تھے؟ کیا تو سرداری کرتے ہوئے لوگوں سے چونگی وصول نہیں کرتا تھا ؟ وہ کہے گا کیوں نہیں؟ یا اللہ یہ سب باتیں صحیح ہیں، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا، کیا تو میری ملاقات کا یقین رکھتا تھا ؟ وہ کہے گا نہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا ' پس جس طرح تو مجھے بھولا رہا آج میں بھی تمہیں بھول جاتا ہوں (صحیح مسلم) قرآن کریم کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین کو لہو و لعب بنانے والے وہی ہوتے ہیں جو دنیا کے فریب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے دلوں سے چونکہ آخرت کی فکر اور اللہ کا خوف نکل جاتا ہے۔ اس لئے وہ دین میں بھی اپنی طرف سے جو چاہتے ہیں اضافہ کرلیتے ہیں احکام اور فرائض پر عمل کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔ الاعراف
52 ٥٢۔ ١ یہ اللہ تعالیٰ جہنمیوں کے ضمن میں ہی فرما رہا ہے کہ ہم نے تو اپنے علم کامل کے مطابق ایسی کتاب بھیج دی تھی جس میں ہر چیز کو کھول کر بیان کردیا تھا۔ ان لوگوں نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا، تو ان کی بد قسمتی، ورنہ جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئے، وہ ہدایت و رحمت الٰہی سے فیض یاب ہوئے گویا ہم نے تو (وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا) 17۔ الاسراء :15) جب تک ہم رسول بھیج کر اتمام حجت نہیں کردیتے، ہم عذاب نہیں دیتے 'کے مطابق اہتمام کردیا تھا۔ الاعراف
53 ٥٣۔ ١ تاویل کا مطلب ہے کسی چیز کی اصل حقیقت۔ یعنی کتاب الٰہی کے ذریعے سے وعدے، وعید اور جنت و دوزخ وغیرہ کا بیان تو کردیا تھا، لیکن یہ اس دنیا کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے منتظر تھے، سو اب وہ انجام ان کے سامنے آگیا۔ ٥٣۔ ٢ یعنی جس انجام کے منتظر تھے اس کے سامنے آجانے کے بعد اعتراف حق کرنے یا دوبارہ دنیا میں بھیجے جانے کی آرزو اور کسی سفارش کی تلاش، یہ سب بے فائدہ ہونگی۔ وہ معبود بھی ان سے گم ہوجائیں گے جن کی وہ اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے، وہ ان کی مدد کرسکیں گے نہ سفارش اور نہ عذاب جہنم سے چھڑا ہی سکیں گے۔ الاعراف
54 ٥٤۔ ١ یہ چھ دن اتوار، پیر، منگل، بدھ، جمعرات اور جمعہ ہیں۔ جمعہ کے دن ہی حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق ہوئی، ہفتے والے دن کہتے ہیں کوئی تخلیق نہیں ہوئی، اسی لئے اس کو یوم البست کہا جاتا ہے، کیونکہ سبت کے معنی ہیں قطع (کاٹنے) کے ہیں یعنی اس دن تخلیق کا کام قطع ہوگیا۔ پھر اس دن سے کیا مراد ہے؟ ہماری دنیا کا دن، جو طلوع شمس سے شروع ہوتا ہے اور غروب شمس پر ختم ہوجاتا ہے۔ یا یہ دن ہزار سال کے برابر ہے؟ جس طرح کہ اللہ کے یہاں کے دن کی گنتی ہے، یا جس طرح قیامت کے دن کے بارے میں آتا ہے۔ بظاہر یہ دوسری بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک تو اس وقت سورج چاند کا یہ نظام ہی نہیں تھا، آسمان اور زمین کی تخلیق کے بعد ہی یہ نظام قائم ہوا دوسرے یہ عالم بالا کا واقعہ ہے جس کو دنیا سے کوئی نسبت نہیں ہے، اس لئے اس دن کی اصل حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، ہم قطعیت کے ساتھ کوئی بات نہیں کہہ سکتے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ تو کُنْ سے سب کچھ پیدا کرسکتا تھا، اس کے باوجود اس نے ہر چیز کو الگ الگ درجہ بدرجہ سلسلہ وار بنایا اس کی بھی اصل حکمت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے تاہم بعض علماء نے اس کی ایک حکمت لوگوں کو آرام، وقار اور تدریج (سلسلہ وار) کے ساتھ کام کرنے کا سبق دینا بتلائی ہے۔ وَا للّٰہُ اَعْلَم ٥٤۔ ٢ یعنی اللہ تعالیٰ عرش پر مستقر ( ّٹھہرا) ہے۔ لیکن کس طرح، کس کیفیت کے ساتھ، اسے ہم بیان نہیں کرسکتے کسی کے ساتھ تشبیہ ہی دے سکتے ہیں۔ نعیم بن حماد کا قول ہے ' جو اللہ کی تخلیق کے ساتھ تشبیہ دے اس نے بھی کفر کیا اور جس نے اللہ کی اپنے بارے میں بیان کردہ کسی بات کا انکار کیا، اس نے بھی کفر کیا ' اور اللہ کے بارے میں اس کی یا اس کے رسول کی بیان بات کو بیان کرنا، تشبیہ نہیں ہے۔ اس لئے جو باتیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں نص (قطعی حکم) سے ثابت ہیں، ان پر بلا تاویل اور بلا کیف و تشبیہ پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ (ابن کثیر) ٥٤۔ ٣ حثیثا کے معنی ہیں نہایت تیزی سے اور مطلب ہے کہ ایک کے بعد دوسرا فورا آجاتا ہے یعنی دن کی روشنی آتی ہے تو رات کی تاریکی فوراً غائب ہوجاتی ہے اور رات آتی ہے تو دن کا اجالا ختم ہوجاتا ہے اور سب دور و نزدیک سیاہی چھا جاتی ہے۔ الاعراف
55 الاعراف
56 ٥٦۔ ١ ان آیات میں چار چیزوں کی تلقین کی گئی ہے ١۔ اللہ تعالیٰ سے آہ زاری اور خفیہ طریقے سے دعا کی جائے، جس طرح کہ حدیث میں آتا ہے ' لوگو! اپنے نفس کے ساتھ نرمی کرو (یعنی آواز پست رکھو) تم جس کو پکار رہے ہو، وہ بہرا نہ غائب، وہ تمہاری دعائیں سننے والا اور قریب ہے (صحیح بخاری) ٢۔ دعا میں زیادتی نہ کی جائے یعنی اپنی حیثیت اور مرتبے سے بڑھ کر دعا نہ کی جائے۔ ٣۔ اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلایا جائے یعنی اللہ کی نافرمانیاں کر کے فساد پھیلانے میں حصہ نہ لیا جائے۔ ٤۔ اس کے عذاب کا ڈر بھی دل میں ہو اور اس کی رحمت کی امید بھی ہو۔ اس طریقے سے دعا کرنے والے محسنین ہیں۔ یقینا اللہ کی رحمت ان کے قریب ہے۔ الاعراف
57 ٥٧۔ ١ اپنی الوہیت و ربوبیت کے اثبات میں اللہ تعالیٰ مزید دلائل بیان فرما کر پھر اس سے احیاء موتی کا اثبات فرما رہا ہے۔ بشرا بشیر کی جمع ہے، رحمۃ سے مراد یہاں مطر بارش ہے یعنی بارش سے پہلے وہ ٹھنڈی ہوائیں چلاتا ہے جو بارش کی نوید ہوتی ہیں۔ ١٥٧۔ ٢ بھاری بادل سے مراد پانی سے بھرے ہوئے بادل ہیں۔ ٥٧۔ ٣ ہر قسم کے پھل، جو رنگوں میں، ذائقوں میں، خوشبوؤں میں اور شکل و صورت میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ ٥٧۔ ٤ جس طرح ہم پانی کے ذریعے مردہ زمین روئیدگی پیدا کردیتے ہیں اور وہ انواع و اقسام کے غلہ اور پھل پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح قیامت والے دن تمام انسانوں کو، جو مٹی میں مل کر مٹی ہوچکے ہونگے ہم دوبارہ زندہ کریں گے اور پھر ان کا حساب لیں گے۔ الاعراف
58 ٥٨۔ ١ علاوہ ازیں یہ تمثیل بھی ہوسکتی ہے۔ اَلْبَلَدُ الطَّیِّبُ سے مراد سریع الفہم اور اَلْبَلَدُ الطَّیِّبُ سے کند ذہن، وعظ و نصیحت قبول کرنے والا دل اور اس کے برعکس دل۔ قلب مومن یا قلب منافق یا پاکیزہ انسان اور ناپاک انسان مومن، پاکیزہ انسان اور وعظ و نصحت قبول کرنے والا دل بارش کو قبول کرنے والی زمین کی طرح، آیات الٰہی کو سن کر ایمان و عمل صالح میں مزید پختہ ہوتا ہے اور دوسرا دل اس کے برعکس زمین شور کی طرح ہے جو بارش کا پانی قبول ہی نہیں کرتی یا کرتی ہے تو برائے نام جس سے پیداوار بھی نکمی اور برائے نام ہوتی ہے۔ اسی کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ رسول اللہ نے بیان فرمایا کہ ' مجھے اللہ تعالیٰ نے علم ہدایت دے کر بھیجا ہے، اس کی مثال اس موسلا دھار بارش کی طرح ہے جو زمین پر برسی۔ اس کے جو حصے زرخیز تھے انہوں نے پانی کو اپنے اندر جذب کرکے چارہ اور گھاس خوب اگایا (یعنی بھرپور پیداوار دی) اور اس کے بعض حصے سخت تھے جنہوں نے پانی کو روک لیا (اندر جذب نہیں ہوا ' تاہم اس سے بھی لوگوں نے فائدہ اٹھایا، خود بھی پیا۔ کھیتوں کو بھی سیراب کیا اور کاشتکاری کی اور زمین کا کچھ حصہ بالکل چٹیل تھا، جس نے پانی روکا اور نہ کچھ کیا۔ پس یہ اس شخص کی مثال ہے جس نے اللہ کی دین میں سمجھ حاصل کی اور اللہ نے مجھے جس چیز کے ساتھ بھیجا اس سے اس نے نفع اٹھایا، پس خود بھی علم حاصل کیا اور دوسروں کو بھی سکھلایا اور مثال اس شخص کی بھی ہے جس نے کچھ نہیں سیکھا اور نہ وہ ہدایت ہی قبول کی جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا (صحیح بخاری) الاعراف
59 الاعراف
60 ٦٠۔ ١ شرک اس طرح انسانی عقل کو ماؤف کردیتا ہے کہ انسان کو ہدایت، گمراہی اور گمراہی۔ ہدایت نظریاتی ہے۔ چنانچہ قوم نوح کی بھی یہی قلبی ماہیت ہوئی، ان کو حضرت نوح (علیہ السلام)، جو اللہ کی توحید کی طرف اپنی قوم کو دعوت دے رہے تھے، نعوذباللہ گمراہ نظر آتے تھے۔: تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا۔ کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر۔ الاعراف
61 الاعراف
62 الاعراف
63 ٦٣۔ ١ حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے درمیان دس قرنوں یا دس پشتوں کا فاصلہ ہے، حضرت نوح (علیہ السلام) کے کچھ پہلے تک تمام لوگ اسلام پر قائم چلے آرہے تھے پھر سب سے پہلے توحید سے انحراف اس طرح آیا کہ اس قوم کے صالحین فوت ہوگئے تو ان کے عقیدت مندوں نے ان پر سجدہ گاہیں (عبادت خانے) قائم کردیں اور ان کی تصویریں بھی وہاں لٹکا دیں، مقصد ان کا یہ تھا کہ اس طرح ان کی یاد سے وہ بھی اللہ کا ذکر کریں گے اور ذکر الٰہی میں ان کی مشابہت اختیار کریں گے۔ جب کچھ وقت گزرا تو انہوں نے تصویروں کے مجسمے بنا دیئے اور پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد یہ مجسمے بتوں کی شکل اختیار کر گئے اور ان کی پوجا پاٹ شروع ہوگئی اور قوم نوح کے یہ صالحین معبود بن گئے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان میں نبی بنا کر بھیجا جنہوں نے ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی۔ لیکن تھوڑے سے لوگوں کے سوا، کسی نے آپ کی تبلیغ کا اثر قبول نہیں کیا بالآخر اہل ایمان کے سوا سب کو غرق کردیا گیا۔ اس آیت میں بتلایا جارہا ہے کہ قوم نوح نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ ان ہی میں کا ایک آدمی نبی بن کر آگیا جو انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرا رہا ہے؟ یعنی ان کے خیال میں نبوت کے لئے انسان موزوں نہیں۔ الاعراف
64 ٦٤۔ ١ یعنی حق سے حق کو دیکھتے تھے نہ اس کو اپنانے کے لئے تیار تھے۔ الاعراف
65 ٦٥۔ ١ یہ قوم عاد، عاد اولیٰ ہے جن کی رہائش یمن میں ریتلے پہاڑوں پر تھی اور اپنی قوت و طاقت میں بے مثال تھی۔ ان کی طرف حضرت ہود علیہ السلام، جو اسی قوم کے ایک فرد تھے نبی بن کر آئے۔ الاعراف
66 ٦٦۔ ١ یہ کم عقلی ان کے نزدیک یہ تھی کہ بتوں کو چھوڑ کر، جن کی عبادت ان کے آباواجداد سے ہوتی آرہی تھی۔ اللہ واحد کی عبادت کی طرف دعوت دی جا رہی ہے۔ الاعراف
67 الاعراف
68 الاعراف
69 ٦٩۔ ١ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ان کی بابت فرمایا ' اس جیسی قوت والی قوم پیدا نہیں کی گئی ' اپنی اس قوت کے گھمنڈ میں مبتلا ہو کر اس نے کہا مَنْ اَ شَدُّ مِنَّا قُوَّۃً ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' جس نے انہیں پیدا کیا وہ ان سے زیادہ قوت والا ہے ' (حٰم سجدہ۔ ١٥) الاعراف
70 ٧٠۔ ١ آباؤ اجداد کی تقلیدِ ہر دور میں گمراہی کی بنیاد رہی ہے۔ قوم عاد نے بھی یہی ' دلیل ' پیش کی اور شرک کو چھوڑ کر، توحید کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی اپنے بڑوں کی تقلید کی یہ بیماری عام ہے۔ ٧٠۔ ٢ جس طرح قریش مکہ نے بھی رسول اللہ کی دعوت توحید کے جواب میں کہا تھا ' اے اللہ! اگر یہ حق ہے تیری طرف سے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا یا کوئی اور دردناک عذاب ہم پر بھیج دے '۔ یعنی شرک کرتے کرتے مشرک کی مت بھی ماری جاتی ہے۔ حالانکہ عقل مندی کا تقاضا یہ تھا کہ یہ کہا جاتا یا اللہ اگر یہ سچ ہے اور تیری ہی طرف سے ہے تو ہمیں اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرما۔ بہرحال قوم عاد نے اپنے پیغمبر حضرت ہود (علیہ السلام) سے کہہ دیا، کہ اگر تو سچا ہے تو اپنے اللہ سے کہہ جس عذاب سے وہ ڈراتا ہے، بھیج دے۔ الاعراف
71 ٧١۔ ١ ' رِجْس،ُ 'کے معنی پلیدی کے ہیں۔ لیکن یہاں یہ مقلوب (بدلا ہوا) ہے رِجْز،ُ سے جس کے معنی عذاب کے ہیں۔ یا پھر رِجْسُ،ُ یہاں نارضگی اور غضب کے معنی میں ہے (ابن کثیر) ٧١۔ ٢ اس سے مراد وہ نام ہیں جو انہوں نے اپنے معبودوں کے رکھے ہوئے تھے مثلًا صدا، صمود، ھبا۔ وغیرہ جیسے قوم نوح کے پانچ بت تھے جن کے نام اللہ نے قرآن میں ذکر کئے ہیں جیسے مشرکین عرب کے بتوں کے نام تھے۔ لا ت، عزَّیٰ، مَنَات ھُبَل وغیرہ۔ یا جیسے آج کل کے مشرکانہ عقائد واعمال میں ملوث لوگوں نے نام رکھے ہوئے ہیں۔ مثلا داتا گنج بخش، خواجہ غریب نواز، بابا فرید شکر گنج، مشکل کشا وغیرہ جن کے معبود یا مشکل کشا وگنج بخش وغیرہ ہونے کی کوئی دلیل ان لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ الاعراف
72 ٧٢۔ ١ اس قوم پر باد تند کا عذاب آیا جو سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل جاری رہا جس نے ہر چیز کو تہس نہس کر کے رکھ دیا اور یہ قوم عاد کے لوگ، جنہیں اپنی قوت پر بڑا ناز تھا، ان کے لاشے کھجور کے کٹے ہوئے تنوں کی طرح زمین پر پڑے نظر آتے تھے (دیکھئے سورۃ الحاقہ ٦۔ ٨ سورۃ ھود۔ ٥٣۔ ٥٦ سورۃ احقاف ٤٢۔ ٢٥ آیات) الاعراف
73 ٧٣۔ ١ یہ ثمود، حجاز اور شام کے درمیان وادی القریٰ میں رہائش پذیر تھے ٩ ہجری میں تبوک جاتے ہوئے رسول اللہ اور آپ کے صحابہ کا ان کے مساکن اور وادی سے گزر ہوا، جس پر آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ معذب قوموں کے علاقے سے گزرو تو روتے ہوئے، یعنی عذاب الٰہی سے پناہ مانگتے ہوئے گزرو (صحیح بخاری) ان کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) نبی بنا کر بھیجے گئے۔ یہ عاد کے بعد کا واقعہ ہے۔ انہوں نے اپنے پیغمبر سے مطالبہ کیا کہ پتھر کی چٹان سے ایک اونٹنی نکال کر دکھا، جسے ہم نکلتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے ان سے عہد لیا کہ اس کے بعد اگر ایمان نہ لائے تو وہ ہلاک کردیئے جائیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مطالبے پر اونٹنی ظاہر فرما دی۔ اس اونٹنی کے متعلق انہیں تاکید کردی گئی کہ اسے بری نیت سے کوئی ہاتھ نہ لگائے ورنہ عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاؤ گے۔ لیکن ان ظالموں نے اس اونٹنی کو بھی قتل کر ڈالا، جس کے تین دن بعد انہیں چنگھاڑ (صَیْحَۃ، سخت چیخ اور رَجْفَۃ، زلزلہ) کے عذاب سے ہلاک کردیا گیا، جس سے وہ اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے۔ الاعراف
74 ٧٤۔ ١ اس کا مطلب ہے کہ نرم زمین سے مٹی لے لے کر اینٹیں تیار کرتے ہو اور اینٹوں سے محل، جیسے آج بھی بھٹوں پر اسی طرح مٹی سے اینٹیں تیار کی جاتی ہیں۔ ٧٤۔ ٢ یہ ان کی قوت، صلاحیت اور مہارت فن کا اظہار ہے۔ ٧٤۔ ٣ یعنی ان نعمتوں پر اللہ کا شکر کرو اور اس کی اطاعت کا راستہ اختیار کرو، نہ کہ کفران نعمت اور معصیت کا ارتکاب کرکے فساد پھیلاؤ۔ الاعراف
75 ٧٥۔ ١ یعنی جو دعوت توحید وہ لے کر آئے ہیں، وہ چونکہ فطرت کی آواز ہے، ہم تو اس پر ایمان لے آئے ہیں، باقی رہی یہ بات کہ صالح واقعی اللہ کے رسول ہیں؟ جو ان کا سوال تھا اس سے ان اہل ایمان نے مزاحمت ہی نہیں کی کیونکہ ان کے رسول من اللہ ہونے کو وہ بحث کے قابل ہی نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک ان کی رسالت ایک مسلمہ حقیقت و صداقت تھی۔ جیسا کہ فی الواقع تھی۔ الاعراف
76 ٧٦۔ ١ اس معقول جواب کے باوجود وہ اپنے استکبار اور انکار پر اڑے رہے۔ الاعراف
77 الاعراف
78 ٧٨۔ ١ یہاں رَجْفَہ،ُ (زلزلے) کا ذکر ہے۔ دوسرے مقام پر صَیْحَۃ،ُ،ُ (چیخ) کا۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں قسم کا عذاب ان پر آیا۔ اوپر سے سخت چیخ اور نیچے سے زلزلہ۔ ان دونوں عذابوں نے انہیں تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ الاعراف
79 ٧٩۔ ١ یہ یا تو ہلاکت سے قبل کا خطاب ہے یا پھر ہلاکت کے بعد اسی طرح کا خطاب ہے، جس طرح رسول اللہ نے جنگ بدر ختم ہونے کے بعد جنگ بدر میں مشرکین کی لاشوں سے خطاب فرمایا تھا۔ الاعراف
80 ٨٠۔ ١ یہ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں میں سے تھے پھر ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک علاقے میں نبی بنا کر بھیجا۔ یہ علاقہ اردن اور بیت المقدس کے درمیان تھا جسے سدوم کہا جاتا ہے، یہ زمین سرسبز اور شاداب تھی اور یہاں ہر طرح کے غلے اور پھلوں کی کثرت تھی قرآن نے اس جگہ کو مُئْوتَفِکَۃ،ُ یا مؤْتَفِکَات،ُ کے الفاظ سے ذکر کیا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) نے غالبًا سب سے پہلے یا دعوت توحید کے ساتھ ہی، (جو ہر نبی کی بنیادی دعوت تھی اور سب سے پہلے وہ اس کی دعوت اپنی قوم کو دیتے تھے۔ جیسا کہ پچھلے نبیوں کے حوالے میں، جن کا ذکر ابھی گزرا ہے، دیکھا جاسکتا ہے۔) دوسری بڑی خرابی مردوں کے ساتھ بد فعلی، قوم لوط میں تھی، اس کی شناخت و قباحت بیان فرمائی۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جسے دنیا میں سب سے پہلے اسی قوم لوط نے کیا، اس گناہ کا نام ہی لواطت پڑگیا۔ اس لئے مناسب سمجھا گیا کہ پہلے قوم کو اس جرم کی خطرناکی سے آگاہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ذریعے دعوت توحید بھی یہاں پہنچ چکی ہوگی، لواطت کی سزا میں ائمہ کے درمیان اختلاف ہے، بعض ائمہ کے نزدیک اس کی وہی سزا ہے جو زنا کی ہے یعنی مجرم اگر شادی شدہ ہو تو رجم، غیر شادی شدہ ہو تو سو کوڑے۔ بعض کے نزدیک اس کی سزا ہی رجم ہے چاہے مجرم کیسا بھی ہو اور بعض کے نزدیک فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردینا چاہئے۔ البتہ امام ابو حنیفہ صرف تعزیری سزا کے قائل ہیں، حد کے نہیں۔ الاعراف
81 ٨١۔ ١ یعنی مردوں کے پاس تم اس بے حیائی کے کام کے لئے محض شہوت رانی کی غرض سے آتے ہو، اس کے علاوہ تمہاری اور کوئی غرض ایسی نہیں ہوتی جو موافق عقل ہو۔ اس لحاظ سے جاہلوں کی طرح تھے یا محض شہوت رانی کے لئے ایک دوسرے پر چڑھتے ہیں۔ ١٨١۔ ٢ جو قضائے شہوت کا اصل محل اور حصول لذت کی اصل جگہ ہے۔ یہ ان کی فطرت کے مسخ ہونے کی طرف اشارہ ہے، یعنی اللہ نے مرد کی جنسی لذت کی تسکین کے لئے عورت کی شرم گاہ کو اس کا محل اور موضع بنایا ہے اور ان ظالموں نے اس سے تجاوز کرکے مرد کی دبر کو اس کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا۔ ٨١۔ ٣ لیکن اب یہ فطرت صحیحہ سے انحراف اور حدود الٰہی سے تجاوز کو مغرب کی ' مہذب ' قوموں نے اختیار کرلیا ہے تو یہ انسان کا بنیادی حق قرار پا گیا ہے، جس سے روکنے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے۔ چنانچہ اب وہاں لواطت کو قانونی تحفظ حاصل ہوگیا ہے۔ اور یہ سرے سے جرم ہی نہیں رہا۔ الاعراف
82 ٨٢۔ ١ یہ حضرت لوط کو بستی سے نکالنے کی علت ہے۔ باقی ان کی پاکیزگی کا اظہار یا تو حقیقت کے طور پر ہے اور مقصد ان کا یہ ہوا کہ یہ لوگ اس برائی سے بچنا چاہتے ہیں، اس لیئے بہتر ہے کہ یہ ہمارے ساتھ ہماری بستی میں ہی نہ رہیں اور تمسخر کے طور پر انہوں نے ایسا کیا۔ الاعراف
83 ٨٣۔ ١ یعنی وہ ان لوگوں میں باقی رہ گئی۔ جن پر اللہ کا عذاب آیا۔ کیونکہ وہ بھی مسلمان نہیں تھی اور اس کی ہمدردیاں بھی مجرمین کے ساتھ تھیں بعض نے اس کا ترجمہ ' ہلاک ہونے والوں میں سے ' کیا ہے۔ لیکن یہ لازمی معنی ہیں، اصل معنی وہی ہیں۔ الاعراف
84 ٨٤۔ ١ یہ خاص طرح کا مینہ کیا تھا ؟ پتھروں کا مینہ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا، ہم نے ان پر تہ بہ تہ پتھروں کی بارش برسائی اس سے پہلے فرمایا ہم نے اس بستی کو الٹ کر نیچے اوپر کردیا۔ ٨٤۔ ٢ یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیکھئے تو سہی جو لوگ اعلانیہ اللہ کی معاصی کا ارتکاب اور پیغمبروں کی تکذیب کرتے ہیں، ان کا انجام کیا ہوتا ہے۔ الاعراف
85 ٨٥۔ ١ مدین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے یا پوتے کا نام تھا پھر انہیں کی نسل پر مبنی قبیلے کا نام مدین اور جس بستی میں یہ رہائش پذیر تھے اس کا نام بھی مدین پڑگیا۔ یوں اس کا اطلاق قبیلے اور بستی دونوں پر ہوتا ہے۔ یہ بستی حجاز کے راستے میں معان کے قریب انہی کو قرآن میں دوسرے مقام پر اَصْحَابُ الأیْکَۃِ (بن کے رہنے والے) بھی کہا گیا ہے۔ ان کی طرف حضرت شعیب (علیہ السلام) نبی بنا کر بھیجے گئے (دیکھئے الشعرا۔ ١٧٦ کا حاشیہ) ملحوظہ : ہر نبی کو اس قوم کا بھائی کہا گیا ہے، جس کا مطلب اسی قوم اور قبیلے کا فرد ہے جس کو بعض جگہ رسول منھم یا من انفسہم سے بھی تعبیر کی گیا ہے، اور مطلب ان سب کا یہ ہے کہ رسول اور نبی انسانوں میں سے ہی ایک انسان ہوتا ہے جسے اللہ تعالیٰ لوگوں کی ہدایت کے لیے چن لیتا ہے اور وحی کے ذریعے سے اس پر اپنی کتاب اور احکام نازل فرماتا ہے۔ ٨٥۔ ٢ دعوت توحید کے بعد اس قوم میں ناپ تول کی بڑی خرابی تھی، اس سے انہیں منع فرمایا اور پورا پورا ناپ اور تول کردینے کی تلقین کی۔ یہ کوتاہی بھی بڑی خطرناک ہے جس سے اس قوم کا اخلاق پستی اور گراوٹ کا پتہ چلتا ہے جس کے اندر یہ ہو۔ یہ بدترین خیانت ہے کہ پیسے پورے لئے جائیں اور چیز کم دی جائے۔ اس لئے سورۃ مُطَفِّفِیْن میں ایسے لوگوں کی ہلاکت کی خبر دی گئی ہے۔ الاعراف
86 ٨٦۔ ١ اللہ کے راستے سے روکنے کے لئے اللہ کے راستے میں کجیاں تلاش کرنا۔ یہ ہر دور کے نافرمانوں کا محبوب مشغلہ رہا ہے جس کے نمونے آجکل کے متجدین اور فرنگیت زدہ لوگوں میں نظر آتے ہیں۔ مثلاً لوگوں کو ستانے کے لئے بیٹھنا، جیسے عام طور پر اوباش قسم کے لوگوں کا شیوا ہے۔ یا حضرت شعیب (علیہ السلام) کی طرف جانے والے راستوں پر بیٹھنا اور اس راہ پر چلنے والوں کو روکنا۔ یوں لوٹ مار کی غرض سے ناکوں پر بیٹھنا تاکہ آنے جانے والوں کا مال سلب کرلیں، یا بعض کے نزدیک محصول اور چونگی وصول کرنے کے لئے ان کے راستوں پر بیٹھنا۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ سارے ہی مفہوم صحیح ہو سکتے ہیں کیونکہ ممکن ہے کہ وہ سب ہی کچھ کرتے ہوں۔ (فتح القدیر) الاعراف
87 ٨٧۔ ١ کفر پر صبر کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ اس کے لئے تہدید اور سخت وعید ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اہل حق کا اہل باطل پر فتح و غلبہ ہی ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (فَتَرَبَّصُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ مُّتَرَبِّصُوْنَ) 9۔ التوبہ :52) الاعراف
88 ٨٨۔ ١ ان سرداروں کے تکبر اور سرکشی کا اندازہ کیجئے کہ انہوں نے ایمان اور توحید کی دعوت کو ہی رد نہیں کیا بلکہ اس سے بھی تجاوز کرکے اللہ کے پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والوں کو دھمکی دی یا تو اپنے آبائی مذہب میں واپس آجاؤ نہیں تو ہم تمہیں یہاں سے نکال دیں گے۔ اہل ایمان کے لئے اپنے سابق مذہب کی طرف واپسی کی بات تو قابل فہم ہے کیونکہ انہوں نے کفر چھوڑ کر ایمان اختیار کیا تھا۔ لیکن حضرت شعیب (علیہ السلام) کو بھی ملت ابائی کی طرف لوٹنے کی دعوت اس لحاظ سے تھی کہ وہ انہیں بھی نبوت اور تبلیغ ودعوت سے پہلے اپنا مذہب ہی سمجھتے تھے کو حقیقتا ایسا نہ ہو۔ یا بطور تغلیب انہیں بھی شامل کرلیا ہو۔ (٢) یہ سوال مقدر کا جواب ہے اور ہمزہ انکار کے لئے اور واو حالیہ ہے۔ یعنی کیا تم ہمیں اپنے مذہب کی طرف لوٹاؤ گے یا ہمیں اپنی بستی سے نکال دوگے دراں حالیکہ ہم اس مذہب کی طرف لوٹنا اور اس بستی سے نکلنا پسند نہ کرتے ہوں؟ مطلب یہ ہے کہ تمہارے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ تم ہمیں ان میں سے کسی ایک بات کے اختیار کرنے پر مجبور کرو۔ الاعراف
89 ٨٩۔ ١ یعنی اگر ہم دوبارہ اس دین آبائی کی طرف لوٹ آئے، جس سے اللہ نے ہمیں نجات دی، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے ایمان و توحید کی دعوت دے کر اللہ پر جھوٹ باندھا تھا ؟ مطلب یہ تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہماری طرف سے ایسا ہو۔ ٩٨۔ ٢ اپنا عزم ظاہر کرنے کے بعد معاملہ اللہ کی مشیت کے سپرد کردیا۔ یعنی ہم نے اپنی رضامندی سے اب کفر کی طرف نہیں لوٹ سکتے۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو بات اور ہے۔ ٨٩۔ ٣ کہ وہ ہمیں ایمان پر ثابت رکھے گا اور ہمارے اور کفر و اہل کفر کے درمیان حائل رہے گا، ہم پر اپنی نعمت کا اتمام فرمائے گا اور اپنے عذاب سے محفوظ رکھے گا۔ الاعراف
90 ٩٠۔ ١ اپنے آبائی مذہب کو چھوڑنا اور ناپ تول میں کمی نہ کرنا، یہ ان کے نزدیک خسارے والی بات تھی درآنحالیکہ ان دونوں باتوں میں ان ہی کا فائدہ تھا، لیکن دنیا والوں کی نظر میں نفع عاجل (دنیا میں فوراً حاصل ہونے والا نفع) ہی سب کچھ ہوتا ہے، جو ناپ تول میں ڈنڈی مار کر انہیں حاصل ہو رہا تھا، وہ اہل ایمان کی طرح آخرت کے نفع آجل (دیر میں ملنے والا نفع) کے لئے اسے کیوں چھوڑتے۔ الاعراف
91 ٩١۔ ١ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ عذاب میں ساری ہی چیزوں کا اجتماع ہوا پہلے بادل نے ان پر سایہ کیا جس میں شعلے چنگاریاں اور آگ کے بھبھوکے تھے، پھر آسمان سے سخت چیخ آئی اور زمین سے بھونچال، جس سے ان کی روحیں پرواز کر گئیں اور بے جان لاشے ہو کر پرندوں کی طرح گھٹنوں میں منہ دے کر اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے الاعراف
92 ٩٢۔ ١ یعنی جس بستی سے یہ اللہ کے رسول اور ان کے پیروکاروں کو نکالنے پر تلے ہوئے تھے اللہ کی طرف سے عذاب نازل ہونے کے بعد ایسے ہوگئے جیسے وہ یہاں رہتے ہی نہ تھے۔ ٩٢۔ ٢ یعنی خسارے میں وہی لوگ رہے جنہوں نے پیغمبر کی تکذیب کی، نہ کہ پیغمبر اور ان پر ایمان لانے والے۔ اور خسارہ بھی دونوں جہانوں میں۔ دنیا میں بھی ذلت کا عذاب چکھا اور آخرت میں اس سے کہیں زیادہ عذاب شدید ان کے لئے تیار ہے۔ الاعراف
93 ٩٣۔ ١ عذاب و تباہی کے بعد جب وہ وہاں سے چلے، تو انہوں نے وفور جذبات میں باتیں کیں۔ اور ساتھ کہا کہ جب میں نے حق تبلیغ ادا کردیا اور اللہ کا پیغام ان تک پہنچا دیا، تو اب میں ایسے لوگوں پر افسوس کروں تو کیوں کروں؟ جو اس کے باوجود اپنے کفر اور شرک پر ڈٹے رہے۔ الاعراف
94 ٩٤۔ ١ مطلب یہ کہ جس کسی بستی میں بھی ہم نے رسول بھیجا انہوں اس کی تکذیب کی جس کی پاداش میں ہم نے ان کو بیماری اور محتاجی میں مبتلا کردیا جس سے مقصد یہ تھا کہ اللہ کی طرف رجوع کریں اور اس کی بارگا میں گڑگڑائیں۔ الاعراف
95 ٩٥۔ ١ یعنی فقر و بیماری کو صحت و عافیت سے بدل دیا جب کے ان کے اندر رجوع الی اللہ کا داعیہ پیدا نہیں ہوا تو ہم نے ان کو تنگ دستی کو خوش حالی سے اور بیماری کو صحت عافیت سے بدل دیا تاکہ وہ اس پر اللہ کا شکر کریں۔ لیکن اس انقلاب حال سے بھی ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی اور انہوں نے کہا یہ تو ہمیشہ سے ہوتا چلا آرہا ہے تو پھر ہم نے اچانک اپنے عذاب کی گرفت میں لے لیا۔ اسی لیے حدیث مومنوں کا معاملہ اس کے برعکس بیان فرمایا گیا ہے۔ کہ وہ ارام وراحت ملنے پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور تکلیف پہنچنے پر صبر سے کام لیتے ہیں یوں دونوں ہی حالتیں ان کے لیے خیر اور اجر کا باعث ہوتی ہیں۔ الاعراف
96 الاعراف
97 الاعراف
98 الاعراف
99 ٩٩۔ ١ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے پہلے یہ بیان فرمایا کہ ایمان و تقویٰ ایسی چیز ہے کہ جس بستی کے لوگ اسے اپنالیں تو ان پر اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے یعنی حسب ضرورت انہیں آسمان سے بارش مہیا فرماتا ہے اور زمین اس سے سیراب ہو کر خوب پیداوار دیتی جس سے خوش حالی و فروانی ان کا مقدر بن جاتی ہے لیکن اس کے برعکس تکذیب اور کفر کا راست اختیار کرنے پر قومیں اللہ کے عذاب کی مستحق ٹھہر جاتی ہیں، پھر پتہ نہیں ہوتا کہ شب و روز کی کس گھڑی میں عذاب آجائے اور ہنستی کھیلتی بستیوں کو آن واحد میں کھنڈرات بنا کر رکھ دیے اس لئے اللہ کی ان تدبیروں سے بے خوف نہیں ہونا چاہیئے۔ اس بے خوفی کا نتیجہ سوائے خسارے اور کچھ نیں۔ مَکْر،ُ کے مفہوم کی وضاحت کے لئے دیکھئے سورۃ آل عمران آیت، ٥٤ کا حاشیہ۔ الاعراف
100 ١٠٠۔ ١ یعنی گناہوں کے نتیجے میں عذاب ہی نہیں آتا، دلوں پر قفل لگ جاتے ہیں، پر بڑے بڑے عذاب بھی انہیں خواب غفلت سے بیدار نہیں کر پاتے، دیگر بعض مقامات کی طرح یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ایک تو یہ بیان فرمایا ہے کہ جس طرح گزشتہ قوموں کو ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں ہلاک کیا ہم چاہیں تو تمہیں بھی تمہارے کرتوتوں کی وجہ سے ہلاک کردیں اور دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ مسلسل گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کی حق کی آواز کے لئے ان کے کان بھی بند ہوجاتے ہیں پھر واعظ و نصیحت ان کے لئے بیکار ہوجاتے ہیں۔ آیت میں ہدایت تبیین (وضاحت) کے معنی میں ہے اسی لیے لام کے ساتھ متعدی ہے اَوَلَمْ یَہْدِ لِلَّذِینَ یعنی کیا ان پر یہ بات واضح نہیں ہوئی۔ الاعراف
101 (١) جس طرح گزشتہ صفحات میں چند انبیاء کا ذکر گزرا۔ بینات سے مراد دلائل و براہین اور معجزات دونوں ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ رسولوں کے ذریعے سے جب تک ہم نے حجت تمام نہیں کردی ہم نے انہیں ہلاک نہیں کیا۔ کیونکہ جب تک ہم رسول نہیں بھیجتے عذاب نازل نہیں کرتے۔ ١٠١۔ ١ اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ یوم میثاق کو جب عہد لیا گیا تھا تو یہ اللہ کے علم میں ایمان لانے والے نہ تھے اس لئے جب ان کے پاس رسول آئے تو اللہ کے علم کے مطابق ایمان نہیں لائے، کیونکہ ان کی تقدیر میں ہی ایمان نہیں تھا جسے اللہ نے اپنے علم کے مطابق لکھ دیا تھا۔ جس کو حدیث میں تعبیر کیا گیا ہے دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب پیغمبر ان کے پاس آئے تو اس وجہ سے ان پر ایمان نہیں لائے کہ وہ اس سے قبل حق کی تکذیب کرچکے تھے۔ گویا ابتدا میں جس چیز کی تکذیب کرچکے تھے، یہی گناہ ان کے عدم ایمان کا سبب بن گیا اور ایمان لانے کی توفیق ان سے سلب کرلی گئی، اسی کو اگلے جملے میں مہر لگانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ( وَمَا یُشْعِرُکُمْ ۙ اَنَّہَآ اِذَا جَاۗءَتْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ١٠٩۔ وَنُقَلِّبُ اَفْــــِٕدَتَہُمْ وَاَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِہٖٓ اَوَّلَ مَرَّۃٍ) 6۔ الانعام :109) اور تمہیں کیا معلوم ہے یہ تو ایسے (بدبخت) ہیں کہ ان کے پاس نشانیاں بھی اجائیں تب بھی ایمان نہ لائیں اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے (تو) جیسے یہ اس (قرآن) پر پہلی دفعہ ایمان نہیں لائے (ویسے پھر نہ لائیں گے)۔ الاعراف
102 ١٠٢۔ ١ اس سے بعض نے عہد الست جو عالم ارواح میں لیا گیا تھا، بعض نے عذاب ٹالنے کے لئے پیغمبروں سے جو عہد کرتے تھے، وہ عہد اور بعض نے عام عہد مراد لیا ہے جو آپس میں ایک دوسرے سے کرتے تھے۔ اور یہ عہد شکنی، چاہے وہ کسی بھی قسم کی ہو، فسق ہی ہے۔ الاعراف
103 ١٠٣۔ ١ یہاں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر شروع ہو رہا ہے جو مذکورہ انبیاء کے بعد آئے جو جلیل القدر پیغمبر تھے، جنہیں فرعون مصر اور اس کی قوم کی طرف دلائل و معجزات دے کر بھیجا تھا۔ ١٠٣۔ ٢ یعنی انہیں غرق کردیا گیا، جیسا کہ آگے آئے گا۔ الاعراف
104 الاعراف
105 ١٠٥۔ ١ جو اس بات کی دلیل ہے کہ میں واقعی اللہ کی طرف سے مقرر کردہ رسول ہوں۔ اس معجزے اور بڑی دلیل کی تفصیل بھی آگے آرہی ہے۔ ١٠٥۔ ٢ بنی اسرائیل جن کا اصل مسکن شام کا علاقہ تھا، حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں مصر چلے گئے تھے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ فرعون نے ان کو غلام بنا لیا تھا اور ان پر طرح طرح کے مظالم کرتا تھا، جس کی تفصیل پہلے سورہ، بقرہ میں گزر چکی ہے اور آئندہ بھی آئے گی۔ فرعون اور اس کے درباری امراء نے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو ٹھکرا دیا تو حضرت موسیٰ نے فرعون سے دوسرا مطالبہ کیا کہ بنی اسرائیل کو آزاد کردے تاکہ یہ اپنے آبائی مسکن میں جاکر عزت اور احترام کی زندگی گزاریں اور اللہ کی عبادت کریں۔ الاعراف
106 الاعراف
107 الاعراف
108 ١٠٨۔ ١ یعنی اللہ تعالیٰ نے نے جو دو معجزے انہیں عطا فرمائے تھے، اپنے صداقت کے لئے انہیں پیش کردیا۔ الاعراف
109 ١٠٩۔ ١ معجزے دیکھ کر، ایمان لانے کی بجائے، فرعون کے درباریوں نے اسے جادو قرار دیکر یہ کہہ دیا یہ تو بڑا ماہر جادوگر ہے جس سے اس کا مقصد تمہاری حکومت کو ختم کرنا ہے کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ کے زمانے میں جادو کا بڑا زور تھا اور اس کا عام چلن تھا، اس لئے انہوں نے معجزات کو بھی جادو سمجھا جس میں سرے سے انسان کا دخل ہی نہیں ہوتا۔ خالص اللہ کی معشیت سے ظہور میں آتے ہیں تاہم درباریوں کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں فرعون کو بہکانے کا موقع مل گیا۔ الاعراف
110 الاعراف
111 الاعراف
112 ١١٢۔ ١ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں جادوگری کو بڑا عروج حاصل تھا، اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیش کردہ معجزات کو بھی انہوں نے جادو سمجھا اور جادو کے ذریعے اس کا توڑ مہیا کرنے کا منصوبہ بنایا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا کہ فرعون اور اس کے درباریوں نے کہا اے موسیٰ کیا تو چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے ہمیں ہماری زمین سے نکال دے؟ پس ہم بھی اس جیسا جادو تیرے مقابلے میں لائیں گے، اس کے لئے کسی ہموار جگہ اور وقت کا ہم تعین کرلیں جس کی دونوں پابندی کریں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا نو روز کا دن اور چاشت کا وقت ہے اس حساب سے لوگ جمع ہوجائیں (سورہ طٰہ۔ ٥٧۔ ٥٩) الاعراف
113 الاعراف
114 ١١٤۔ ١ جادوگر، چونکہ طالب دنیا تھے، دنیا کمانے کے لئے ہی شعبدہ بازی کا فن سیکھتے تھے، اس لئے انہوں نے موقع غنیمت جانا کہ اس وقت تو بادشاہ کو ہماری ضرورت لاحق ہوئی ہے کیوں نہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر زیادہ سے زیادہ اجرت حاصل کی جائے۔ چنانچہ انہوں نے اپنا مطالبہ اجرت، کامیابی کی صورت میں پیش کردیا، جس پر فرعون نے کہا کہ اجرت ہی نہیں بلکہ تم میرے مقربین میں بھی شامل ہوجاؤ گے۔ الاعراف
115 ١١٥۔ ١ جادوگروں نے یہ اختیار اپنے آپ پر مکمل اعتماد کرنے کی وجہ سے دیا۔ انہیں پورا یقین تھا کہ ہمارے جادو کے مقابلے میں موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ جسے وہ ایک کرتب ہی سمجھتے تھے، کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور اگر موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلے اپنے کرتب دکھانے کا موقع دے بھی دیا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، ہم اس کے کرتب کا توڑ بہر صورت مہیا کرلیں گے۔ الاعراف
116 ١١٦۔ ١ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) چونکہ اللہ کے رسول تھے اور اللہ کی تائید انہیں حاصل تھی، اس لئے انہیں اپنے اللہ کی مدد کا یقین تھا، لہذا انہوں نے بغیر کسی خوف اور تامل کے جادوگروں سے کہا پہلے جو تم دکھانا چاہتے ہو، دکھاؤ! علاوہ ازیں اس میں حکمت بھی ہوسکتی ہے کہ جادوگروں کے پیش کردہ جادو کا توڑ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے معجزانہ انداز میں پیش ہوگا تو یہ لوگوں کے لئے زیادہ متاثر کن ہوگا، جس سے ان کی صداقت واضح تر ہوگی اور لوگوں کے لئے ایمان لانا سہل ہوجائے گا۔ ١١٦۔ ٢ بعض آثار میں بتایا گیا ہے کہ یہ جادوگر ٧٠ ہزار کی تعداد میں تھے۔ بظاہر یہ تعداد مبالغے سے خالی نہیں، جن میں سے ہر ایک نے ایک ایک رسی اور ایک ایک لاٹھی میدان میں پھینکی، جو دیکھنے والوں کو دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔ یہ گویا بزم خویش بہت بڑا جادو تھا جو انہوں نے پیش کیا۔ الاعراف
117 ١١٧۔ ١ لیکن یہ جو کچھ بھی تھا ایک تخیل شعبدہ بازی اور جادو تھا جو حقیقت کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) کے لاٹھی ڈالتے ہی سب کچھ ختم ہوگیا اور لاٹھی نے ایک خوفناک اژدھا کی شکل اختیار کرکے سب کچھ نگل لیا۔ الاعراف
118 الاعراف
119 الاعراف
120 الاعراف
121 ١٢١۔ ١ جادوگر جادو کے فن اور اس کی اصل حقیقت جانتے تھے یہ دیکھا تو سمجھ گئے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے جو کچھ یہاں پیش کیا، جادو نہیں ہے، یہ واقع ہی اللہ کا نمائندہ ہے اور اللہ کی مدد سے ہی اس نے یہ معجزہ پیش کیا ہے جس نے آن واحد میں ہم سب کے کرتبوں پر پانی پھیر دیا۔ چنانچہ انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے کا اعلان کردیا۔ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ باطل باطل ہے چاہے اس پر کتنے ہی حسین غلاف چڑھا لئے جائیں اور حق حق ہے چاہے اس پر کتنے ہی پردے ڈال دیئے جائیں تاہم حق کا ڈنکا بج کر رہتا ہے۔ الاعراف
122 ١٢٢۔ ١ سجدے میں گر کر انہوں نے رب العالمین پر ایمان لانے اعلان دیا جس سے فرعونیوں کو مغالطہ ہوسکتا تھا کہ یہ سجدہ فرعون کو کیا گیا ہے جس کی الوہیت کے وہ قائل تھے اس لئے انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کا رب کہہ کر واضح کردیا کہ یہ سجدہ ہم جہانوں کے رب کو ہی کر رہے ہیں۔ لوگوں کے خود ساختہ کسی رب کو نہیں۔ الاعراف
123 ١٢٣۔ ١ یہ جو کچھ ہوا فرعون کے لئے بڑا حیران کن اور تعجب خیز تھا اس لئے اسے اور تو کچھ نہیں سوجھا، اس نے یہی کہہ دیا کہ تم سب آپس میں ملے ہوئے ہو اور اس کا مقصد ہمارے اقتدار کا خاتمہ ہے۔ اچھا اس کا انجام عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا۔ الاعراف
124 ١٢٤۔ ١ یعنی دایاں پاؤں اور بایاں ہاتھ پھر یہی نہیں سولی پر چڑھا کر تمہیں نشان عبرت بھی بنا دونگا۔ الاعراف
125 ١٢٥۔ ١ اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ اگر ہمارے ساتھ ایسا معاملہ کرے گا تو تجھے بھی اس بات کے لئے تیار رہنا چاہیے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تجھے اس جرم کی سخت سزا دے گا اس لئے کہ ہم سب کو مر کر اس کے پاس جانا ہے اس کی سزا سے کون بچ سکتا ہے؟ گویا فرعون کے عذاب دنیا کے مقابلے میں اسے عذاب آخرت سے ڈرایا گیا ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ موت تو ہمیں آنی ہی آنی ہے اس سے کیا فرق پڑے گا کہ موت سولی پر بھی آئے یا کسی اور طریقے سے۔ الاعراف
126 ١٢٦۔ ١ یعنی تیرے نزدیک ہمارا یہ عیب ہے۔ جس پر تو ہم سے ناراض ہوگیا ہے اور ہمیں سزا دینے پر تل گیا ہے۔ درآنحالیکہ یہ سرے سے عیب ہی نہیں یہ تو خوبی ہے بہت بڑی خوبی کہ جب حقیقت ہمارے سامنے واضح ہو کر آگئی تو ہم نے اس کے مقابلے میں تمام دنیاوی مفادات ٹھکرا دیئے اور حقیقت کو اپنا لیا۔ پھر انہوں نے اپنا روئے سخن فرعون سے پھیر کر اللہ کی طرف کرلیا اور اس کی بارگاہ میں دست دعا ہوگئے۔ ١٢٦۔ ٢ تاکہ ہم تیرے اس دشمن کے عذاب کو برداشت کرلیں، اور حق اور ایمان پر ثابت قدم رہیں۔ ١٢٦۔ ٣ اس دنیاوی آزمائش سے ہمارے اندر ایمان سے انحراف آئے نہ کسی اور فتنے میں ہم مبتلا ہوں۔ الاعراف
127 ١٢٧۔ ١ یہ ہر دور کے مفسدین کا شیوا رہا ہے کہ وہ اللہ والوں کو فسادی اور ان کی دعوت ایمان و توحید کو فساد سے تعبیر کرتے ہیں فرعون نے بھی یہی کہا۔ ١٢٧۔ ٢ فرعون کو بھی اگرچہ دعویٰ ربوبیت تھا (اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی) 79۔ الزاریات :24) میں تمہارا بڑا رب ہوں وہ کہا کرتا تھا لیکن دوسرے چھوٹے چھوٹے معبود بھی تھے جن کے ذریعے سے لوگ فرعون کا تقرب حاصل کرتے تھے۔ ١٢٧۔ ٣ ہمارے اس انتظام میں یہ رکاوٹ نہیں ڈال سکتے قتل انبیاء کا یہ پروگرام فرعونیوں کے کہنے پر بنایا گیا اس سے قبل بھی جب موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت نہیں ہوئی تھی موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد از ولادت خاتمے کے لئے اس نے بنی اسرائیل کے نوملود بچوں کو قتل کرنا شروع کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے بعد ان کو بچانے کی یہ تدبیر کی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو خود فرعون کے محل میں پہنچوا کر اس کی گود میں ان کی پرورش کروائی۔ (فَلِلّٰہِ الْمَکْرُ جَمِیْعًا) 13۔ الرعد :42)۔ الاعراف
128 ١٢٨۔ ١ جب فرعون کی طرف سے دوبارہ اس ظلم کا آغاز ہوا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ سے مدد حاصل کرنے اور صبر کرنے کی تلقین کی اور تسلی دی کہ اگر تم صحیح رہے تو زمین کا اقتدار بالآخر تمہیں ہی ملے گا الاعراف
129 ١٢٩۔ ١ یہ اشارہ ہے ان مظالم کی طرف جو ولادت موسیٰ (علیہ السلام) سے قبل ان پر ہوتے رہے۔ ١٢٩۔ ٢ جادوگروں کے واقعہ کے بعد ظلم و ستم کا یہ نیا دور جو موسیٰ (علیہ السلام) کے آنے کے بعد شروع ہوا۔ ١٢٩۔ ٣ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں بہت جلد اللہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے گا، زمین میں تمہیں اقتدار عطا فرمائے گا پھر تمہاری آزمائش کا نیا دور شروع ہوگا۔ ابھی تو تکلیفوں کے ذریعے سے آزمائے جا رہے ہو، پھر انعام واکرام کی بارش کرکے اور اختیار اور اقتدار سے بہرہ مند کرکے تمہیں آزمایا جائے گا۔ الاعراف
130 ١٣٠۔ ١ آل فرعون سے مراد فرعون کی قوم ہے۔ اور سنین سے قحط سالی۔ یعنی بارش کے فقدان اور درختوں میں کیڑے وغیرہ لگ جانے سے پیداوار میں کمی۔ مقصد آزمائش سے یہ تھا کہ اس ظلم اور استکبار سے باز آجائیں جس میں وہ مبتلا تھے۔ الاعراف
131 ١٣١۔ ١ حَسَنَۃُ (بھلائی) سے مراد غلے اور پھلوں کی فروانی سَیِّئَۃٌ (برائی) سے اس کے برعکس اور قحط سالی اور پیداوار میں کمی۔ بھلائی کا سارا کریڈٹ خود لے لیتے کہ یہ ہماری محنت کا ثمر ہے اور بدحالی کا سبب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور اس پر ایمان لانے والوں کو قرار دیتے کہ یہ تم لوگوں کی نحوست کے اثرات ہمارے ملک پر پڑ رہے ہیں۔ ١٣١۔ ٢ طَائِرُ کی معنی اڑنے والا یعنی پرندہ۔ چونکہ پرندے کے بائیں یا دائیں اڑنے سے وہ لوگ نیک فالی یا بدفالی لیا کرتے تھے۔ اس لیے یہ لفظ مطلق فال کے لیے بھی استعمال ہونے لگ گیا اور اسی معنی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا خیر یا شر، جو خوش حالی یا قحط سالی کی وجہ سے انہیں پہنچتا ہے اس کے اسباب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے پیروکاروں اس کا سبب نہیں۔ ( ۭاَلَآ اِنَّمَا طٰۗیِٕرُہُمْ عِنْدَ اللّٰہِ) 7۔ الاعراف :131) کا مطلب ہوگا کہ ان کی بد شگونی کا سبب اللہ کے علم میں ہے اور وہ ان کا کفر و انکار ہے نہ کہ کچھ اور۔ یا اللہ کی طرف سے ہے اور اس کی وجہ ان کا کفر ہے۔ الاعراف
132 ١٣٢۔ ١ یہ کفر و جحود کا ظہار ہے جس میں وہ مبتلا تھے اور معجزت و آیات الٰہی کو اب بھی وہ جادوگری باور کرتے یا کراتے۔ الاعراف
133 ١٣٣۔ ١ طوفان سے سیلاب یا کثرت بارش، جس میں ہر چیز غرق ہوگئی، یا کثرت اموات، جس سے ہر گھر میں ماتم برپا ہوگیا، ٹڈی دل کا حملہ فصلوں کی ویرانی کے لئے مشہور ہے یہ ٹڈیاں ان کے غلوں اور پھلوں کی فصلوں کو کھا کر چٹ کر جاتیں، جو پانی جوہڑوں، چھپڑوں میں ہوتا ہے، یہ مینڈک ان کے کھانوں میں، بستروں میں۔ غلوں میں غرض ہر جگہ اور ہر طرف مینڈک ہی مینڈک ہوگئے جس سے ان کا کھانا پینا، سونا آرام کرنا حرام ہوگیا۔ دم (خون) سے مراد پانی کا خون بن جانا یوں پانی پینا ان کے لئے ناممکن ہوگیا، بعض نے خون سے مراد نکسیر کی بیماری لی ہے۔ یعنی ہر شخص کی ناک سے خون جاری ہوگیا، یہ کھلے کھلے اور جدا جدا معجزے تھے جو وقفے وقفے سے ان پر آئے۔ الاعراف
134 الاعراف
135 ١٣٥۔ ١ یعنی ایک عذاب آتا تو اس سے تنگ آکر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آتے تو ان کی دعا سے ٹل جاتا تو ایمان لانے کی بجائے پھر اس کفر اور شرک پر جمے رہتے پھر دوسرا عذاب آجاتا پھر اسی طرح کرتے یوں کچھ کچھ وقفوں سے پانچ عذاب ان پر آئے لیکن ان کے دلوں میں جو فرعونیت اور دماغوں میں جو تکبر تھا وہ حق کی راہ میں ان کے لئے زنجیر پا بنا رہا اتنی اتنی واضح نشانیاں دیکھنے کے باوجود ایمان کی دولت سے محروم ہی رہے۔ الاعراف
136 ١٣٦۔ ١ اتنی بڑی نشانیوں کے باوجود وہ ایمان نہ لانے کے لئے اور خواب غفلت سے بیدار ہونے کے لئے تیار نہیں ہوئے بالآخر انہیں دریا میں غرق کردیا، جس کی تفصیل قرآن مجید کے مختلف مقامات پر موجود ہے۔ الاعراف
137 ١٣٧۔ ١ یعنی بنی اسرائیل کو جن کو فرعون نے غلام بنا رکھا تھا اور ان پر ظلم روا رکھا تھا، اس بنا پر وہ فی الواقع مصر میں کمزور سمجھے جاتے تھے کیونکہ مغلوب اور غلام تھے۔ لیکن جب اللہ نے چاہا تو اسی مغلوب اور غلام قوم کو زمین کا وارث بنا دیا۔ (٢) زمین سے مراد شام کا علاقہ فلسطین ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے عمالقہ کے بعد بنی اسرائیل کو غلبہ عطا فرمایا شام میں بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون (علیہ السلام) کی وفات کے بعد اس وقت گئے جب یوشع بن نون نے عمالقہ کو شکست دے کر بنی اسرائیل کے لیے راستہ ہموار کردیا۔ اور زمین کے ان حصوں میں برکتیں رکھیں یعنی شام کے علاقے میں۔ جو بکثرت انبیاء کا مسکن ومدفن رہا اور ظاہری شادابی وخوش حالی میں بھی ممتاز ہے۔ یعنی ظاہری وباطنی دونوں قسم کی برکتوں سے یہ زمین مالا مال رہی ہے۔ مشارق مشرق کی جمع اور مغارب مغرب کی جمع ہے۔ حالانکہ مشرق اور مغرب ایک ایک ہی ہیں۔ جمع سے مراد اس ارض بابرکت کے مشرقی اور مغربی حصے ہیں یعنی جہات مشرق ومغرب۔ ١٣٧۔ ٢ یہ وہ وعدہ بھی ہے جو اس سے قبل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی آیت نبر ١٢٨، ١٢٩ میں فرمایا گیا ہے اور سورۃ قصص میں بھی ١٣٧۔ ٣ مصنوعات سے مراد کارخانے، عمارتیں اور ہتھیار وغیرہ ہیں (جو وہ بلند کرتے تھے) اس سے مراد اونچی اونچی عمارتیں بھی ہوسکتی ہیں، ہتھیار اور دیگر سامان بھی تباہ کردیا اور ان کے باغات بھی۔ الاعراف
138 ١٣٨۔ ١ اس سے بڑی جہالت اور نادانی کیا ہوگی کہ جس اللہ نے انہیں فرعون جیسے دشمن سے نہ صرف نجات دی، بلکہ ان کی آنکھوں کے سامنے اسے اس کے لشکر سمیت غرق کردیا اور معجزانہ طر یقہ سے دریا عبور کروا دیا۔ وہ دریا پار کرتے ہی اس اللہ کو بھول کر پتھر کے خود تراشیدہ معبود تلاش کرنے لگ گئے۔ کہتے ہیں کہ یہ بت گائے کی شکل کے تھے جو پتھر کی بنی ہوئی تھیں۔ الاعراف
139 ١٣٩۔ ١ یعنی مورتیوں کے پجاری جن کے حال نے تمہیں بھی دھوکے میں ڈال دیا، ان کا مقدر تباہی اور ان کا یہ فعل باطل اور خسارے کا باعث ہے۔ الاعراف
140 ١٤٠۔ ١ کیا جس اللہ نے تم پر اتنے احسانات اور تمہیں جہانوں پر فضیلت بھی عطا کی، اسے چھوڑ کر میں تمہارے لئے پتھر اور لکڑی کے تراشے ہوئے بت تلاش کروں، یعنی یہ ناشکری اور احسان ناشناسی میں کس طرح کرسکتا ہوں؟ اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ کے مزید احسا نات کا تذکرہ ہے۔ الاعراف
141 ١٤١۔ ١ یہ وہی آزمائشیں ہیں جن کا ذکر سورۃ بقرہ میں بھی گزرا ہے اور سورۃ ابراہیم میں بھی آئے گا۔ الاعراف
142 ١٤٢۔ ١ فرعون اس کے لشکر کے غرق کے بعد ضرورت لاحق ہوئی کہ بنی اسرائیل کی ہدایت و رہنمائی کے لئے کوئی کتاب انہیں دی جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تیس راتوں کے لئے کوہ طور پر بلایا، جس میں دس راتوں کا اضافہ کرکے اسے چالیس کردیا گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جاتے وقت حضرت ہارون (علیہ السلام) کو جو ان کے بھائی، بھی تھے اور نبی بھی، اپنا جانشین مقر کردیا تاکہ وہ بنی اسرائیل کی ہدایت و اصلاح کا کام کرتے رہیں اور انہیں ہر قسم کے فساد سے بچائیں۔ اس آیت میں یہی بیان کیا گیا ہے۔ ١٤٢۔ ٢ حضرت ہارون (علیہ السلام) خود نبی تھے اور اصلاح کا کام ان کے فرائض منصبی میں شامل تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں محض تذکرہ تنبیہ کے طور پر یہ نصیحتیں کیں، میقات سے یہاں مراد وقت معین ہے۔ الاعراف
143 ١٤٣۔ ١ جب موسیٰ (علیہ السلام) طور پر گئے اور وہاں اللہ نے ان سے براہ راست گفتگو کی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں اللہ کو دیکھنے کے شوق کا اظہار رَ بِ اَرِنِیْ کہہ کر کیا۔ جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لَنْ تَرٰنِیْ تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا اس سے استدلال کرتے ہوئے مسلمانوں کے کے ایک فرقہ نے کہا کہ لَنْ نَفْیُ نَاْبِیْدٍ (ہمیشہ کی نفی) کے لئے آتا ہے۔ اس لئے اللہ کا دیدار نہ دنیا میں ممکن ہے نہ آخرت میں۔ لیکن فرقہ کا یہ مسلک صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ متواتر صحیح اور قوی روایات سے ثابت ہے کہ قیامت والے دن اہل ایمان اللہ کو دیکھیں گے اور جنت میں بھی دیدار الٰہی سے مشرف ہونگے، تمام اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے۔ اس روایت کا تعلق صرف دنیا سے ہے، دنیا میں کوئی انسانی آنکھ اللہ کو دیکھنے پر قادر نہیں ہے۔ لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ ان آنکھوں میں اتنی قوت پیدا فرما دے گا کہ وہ اللہ کے جلوے کو برداشت کرسکے۔ ١٤٣۔ ٢ یعنی وہ پہاڑ بھی رب کی تجلی کو برداشت نہ کرسکا اور موسیٰ (علیہ السلام) بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت والے دن سب لوگ بے ہوش ہونگے، (یہ بے ہوشی امام ابن کثیر کے بقول میدان محشر میں اس وقت ہوگی جب اللہ تعالیٰ فیصلے کرنے کے لئے نزول اجلال فرمائے گا) اور جب ہوش میں آئیں گے تو میں (نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوش میں آنے والوں میں سب سے پہلا شخص ہوں گا، میں دیکھوں گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) عرش کا پایہ تھامے کھڑے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آئے یا انہیں کوہ طور کی بے ہوشی کے بدلے میں میدان محشر کی بے ہوشی سے مستثنٰی رکھا گیا۔ (صحیح بخاری) ١٤٣۔ ٣ تیری عظمت و جلالت کا اور اس بات کا کہ میں تیرا عاجز بندہ ہوں، دنیا میں تیرے دیدار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ الاعراف
144 ١٤٤۔ ١ یہ ہم کلامی کا دوسرا موقع تھا جس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مشرف کیا گیا۔ اس سے قبل جب آگ لینے گئے تھے تو اللہ نے ہم کلامی سے نوازا تھا اور پیغمبری عطا فرمائی تھی۔ الاعراف
145 ١٤٥۔ ١ گویا تورات تختیوں کی شکل میں عطا فرمائی گئی جس میں ان کے لئے دینی احکام، امر و نہی تر غیب و ترتیب کی پوری تفصیل تھی۔ ١٤٥۔ ٢ یعنی رخصتوں کی ہی تلاش میں نہ رہیں جیسا کہ سہولت پسندوں کا حال ہوتا ہے۔ ١٤٥۔ ٣ مقام (دار) سے مراد تو انجام یہی ہلاکت ہے یا اس کا مطلب ہے کہ فاسقوں کے ملک پر تمہیں حکمرانی عطا کروں گا اور اس سے مراد ملک شام ہے۔ جس پر اس وقت عمالقہ کی حکمرانی تھی۔ جو اللہ کے نافرمان تھے۔ (ابن کثیر) الاعراف
146 ١٤٦۔ ١ تکبر کا مطلب ہے اللہ کی آیات و احکام کے مقابلے میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور لوگوں کو حقیر گرداننا۔ یہ تکبر انسان کے لئے زیبا نہیں دیتا، کیونکہ اللہ خالق ہے اور وہ اس کی مخلوق۔ مخلوق ہو کر، خالق کا مقابلہ کرنا اور اس کے احکام و ہدایات سے اعراض و غفلت کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کو تکبر سخت ناپسند ہے۔ اس ایت میں تکبر کا نتیجہ بتلایا گیا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایات الہی سے دور ہی رکھتا ہے اور پھر وہ اتنے دور ہوجاتے ہیں کہ کسی طرح کی بھی نشانی انہیں حق کی طرف لانے میں کامیاب نہیں ہوتی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا (ترجمہ) جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہوگئ وہ ایمان نہیں لائیں گے چاہے ان کے پاس ہر طرح کی نشانی آجاوے حتی کہ وہ دردناک عذاب دیکھ لیں۔ ١٤٦۔ ٢ اس میں احکام الٰہی سے اعراض کرنے والوں کی ایک عادت یا نفسیات کا بیان ہے کہ ہدایت کی کوئی بات ان کے سامنے آئے تو اسے تو نہیں مانتے، البتہ گمراہی کی کوئی چیز دیکھتے ہیں تو اسے فوراً اپنا لیتے اور راہ عمل بنا لیتے ہیں قرآن کریم کی بیان کردہ اس حقیقت کا ہر دور میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ آج ہم بھی ہر جگہ اور ہر معاشرے میں حتٰی کہ مسلمان معاشروں میں بھی دیکھ رہے ہیں کہ نیکی منہ چھپائے پھر رہی ہے اور بدی انسان لپک لپک کر اختیار کر رہا ہے۔ ١٤٦۔ ٣ یہ اس بات کا سبب بتلایا جا رہا ہے کہ لوگ نیکی کے مقابلے میں بدی کو اور حق کے مقابلے میں باطل کو کیوں زیادہ اختیار کرتے ہیں؟ یہ سبب ہے آیات الٰہی کی تکذیب اور ان سے غفلت اور اعراض کا۔ یہ ہر معاشرے میں عام ہے۔ الاعراف
147 ١٤٧۔ ١ اس میں آیات الٰہی کی تکذیب اور احکام کا انکار کرنے والوں کا انجام بتلایا گیا ہے کہ چونکہ ان کے عمل کی اساس عدل و حق نہیں ظلم و باطل ہے۔ اس لئے ان کا نامہ اعمال میں شر ہی شر ہوگا جس کی کوئی قیمت اللہ کے ہاں نہ ہوگی۔ اور اس شر کا بدلہ ان کو وہاں ضرور دیا جائے گا۔ الاعراف
148 ١٤٨۔ ١ موسیٰ (علیہ السلام) جب چالیس راتوں کے لئے کوہ طور پر گئے تو پیچھے سے سامری نامی شخص نے سونے کے زیورات اکھٹے کرکے ایک بچھڑا تیار کیا جس میں اس نے جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے سموں کے نیچے کی مٹی بھی، جو اس نے سنبھال کر رکھی تھی شامل کردی، جس میں اللہ نے زندگی کی تاثیر رکھی تھی جس کی وجہ سے بچھڑا کچھ کچھ بیل کی آواز نکالتا تھا (گو واضح کلام کرنے اور راہنمائی کرنے سے عاجز تھا جیسا کہ قرآن کے الفاظ واضح کر رہے ہیں، اسمیں اختلاف ہے کہ فی الواقع گوشت پوست کا بچھڑا بن گیا تھا، یا تھا وہ سونے کا ہی، لیکن کسی طریقے سے اس میں ہوا داخل ہوتی تو گائے، بیل کی سی آواز اس میں سے نکلتی۔ (ابن کثیر) اس آواز سے سامری نے بنی اسرائیل کو گمراہ کیا کہ تمہارا معبود تو یہ ہے، موسیٰ (علیہ السلام) بھول گئے ہیں اور وہ معبود کی تلاش میں کوہ طور پر گئے ہیں۔ الاعراف
149 ١٤٩۔ ١ سقط فی أیدھم۔ محاورہ ہے جس کے معنی نادم ہونا ہیں۔ یہ ندامت موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی کے بعد ہوئی، جب انہوں نے آکر اس پر لعنت ملامت کی۔ جیسا کہ سورۃ طٰہ ٰمیں ہے۔ یہاں اسے مقدم اس لئے کردیا گیا ہے کہ ان کا فعل اور قول اکٹھا ہوجائے۔ (فتح القدیر) الاعراف
150 ١٥٠۔ ١ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے آکر دیکھا کہ وہ بچھڑے کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں تو سخت غضبناک ہوئے اور جلدی میں تختیاں بھی جو کوہ طور سے لائے تھے، ایسے طور پر رکھیں کہ دیکھنے والے کو محسوس ہو کہ انہوں نے نیچے پھینک دی ہیں جسے قرآن نے " ڈال دیں " سے تعبیر کیا ہے۔ تاہم اگر پھینک بھی دی ہوں تو اس میں سوء بے ادبی نہیں کیونکہ مقصد ان کا تختیوں کی بے ادبی نہیں تھا بلکہ دینی غیرت و اہمیت میں بے خود ہو کر غیر اختیاری طور پر ان سے یہ فعل سر زد ہوا۔ ١٥٠۔ ٢ حضرت ہارون (علیہ السلام) و موسیٰ (علیہ السلام) آپس میں سگے بھائی تھے، لیکن یہاں حضرت ہارون نے ماں جائے ' اس لئے کہا کہ اس لفظ میں پیار اور نرمی کا پہلو زیادہ ہے۔ ١٥٠۔ ٣ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے اپنا عذر پیش کیا جس کی وجہ سے وہ قوم کو شرک جیسے جرم عظیم سے روکنے میں ناکام رہے۔ ایک اپنی کمزوری اور دوسرا بنی اسرائیل کا عناد اور سرکشی کہ انہیں قتل تک کردینے پر آمادہ ہوگئے تھے اور انہیں اپنی جان بچانے کے لئے خاموش ہونا پڑا، جس کی اجازت ایسے موقعوں پر اللہ نے دی ہے۔ ١٥٠۔ ٤ میری ہی سرزنش کرنے سے دشمن خوش ہونگے، جب کہ یہ موقع تو دشمنوں کی سرکوبی اور ان سے اپنی قوم کو بچانے کا ہے۔ ١٥٠۔ ٥ اور ویسے بھی عقیدہ و عمل میں مجھے کس طرح ان کے ساتھ شمار کیا جاسکتا ہے، میں نے نہ شرک کا ارتکاب کیا، نہ اس کی اجازت دی، نہ اس پر خوش ہوا، صرف خاموش رہا اور اس کے لئے بھی میرے پاس معقول عذر موجود ہے، پھر میرا شمار ظالموں (مشرکوں) کے ساتھ کس طرح ہوسکتا ہے؟ چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کے لئے مغفرت و رحمت کی دعا مانگی۔ الاعراف
151 الاعراف
152 ١٥٢۔ ١ اللہ کا غضب یہ تھا کہ توبہ کے لئے قتل ضروری قرار پایا۔ اور اس سے قبل جب تک جیتے رہے، ذلت اور رسوائی کے مستحق قرار پائے۔ ١٥٢۔ ٢ اور یہ سزا ان ہی کے لئے خاص نہیں ہے، جو بھی اللہ پر افترا (بہتان) کرتا ہے، اس کو ہم یہی سزا دیتے ہیں۔ الاعراف
153 ١٥٣۔ ١ جنہوں نے توبہ کرلی ان کے لئے اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔ معلوم ہوا کہ توبہ سے ہر گناہ معاف ہوجاتا ہے بشرطیکہ خالص توبہ ہو۔ الاعراف
154 ١٥٤۔ ١ یہاں نسخہ سے مراد یا تو وہ اصل الواح ہیں جن پر تورات لکھی گئی تھی یا اس سے مراد وہ دوسرا نسخہ ہے جو تختیوں کو زور سے پھنکنے کی وجہ سے ٹوٹ جانے کے بعد اس سے نقل کر کے تیار کیا گیا تھا تاہم بات پہلی ہی لگتی ہے۔ کیونکہ آگے چل کر آتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان تختیوں کو اٹھا لیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تختیاں ٹوٹی نہیں تھیں۔ بہرحال اس کا مرادی مفہوم ' مضامین ' ہے جو ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے۔ ١٥٤۔ ٢ تورات کو بھی قرآن کریم کی طرح، انہیں لوگوں کے لئے ہدایت اور رحمت قرار دیا گیا ہے، جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں، کیونکہ اصل فائدہ آسمانی کتابوں سے ایسے ہی لوگوں کو ہوتا ہے۔ دوسرے لوگ تو چونکہ اپنے کانوں کو حق کے سننے سے، آنکھوں کو حق کے دیکھنے سے بند کئے ہوئے ہوتے ہیں، اس چشمہ فیض سے وہ بالعموم محروم ہی رہتے ہیں۔ الاعراف
155 ١٥٥۔ ١ ان ستر آدمیوں کی تفصیل اگلے حاشیے میں آرہی ہے۔ یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے ستر آدمی چنے اور انہیں کوہ طور پر لے گئے، جہاں بطور عذاب انہیں ہلاک کردیا گیا، جس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا۔ ١٥٥۔ ٢ بنی اسرائیل کے یہ ستر آدمی کون تھے؟ اس میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تورات کے احکام انہیں سنائے تو انہوں نے کہا کہ ہم کیسے یقین کرلیں کہ یہ کتاب واقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی نازل شدہ ہے؟ ہم تو جب تک خود اللہ تعالیٰ کو کلام کرتے ہوئے نہ سن لیں اسے نہیں مانیں گے۔ چنانچہ انہوں نے ستر برگزیدہ آدمیوں کا انتخاب کیا اور انہیں کوہ طور پر لے گئے۔ وہاں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوئے جسے ان لوگوں نے بھی سنا۔ لیکن وہاں انہوں نے ایک نیا مطالبہ کردیا کہ ہم جب تک اللہ کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ لیں گے، ایمان نہیں لائیں گے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ ستر آدمی وہ ہیں جو پوری قوم کی طرف سے بچھڑے کی عبادت کے جرم عظیم کی توبہ کی اور معذرت کے لئے کوہ طور پر لے جائے گئے تھے اور وہاں جاکر انہوں نے اللہ کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ تیسری رائے یہ ہے کہ یہ ستر آدمی وہ ہیں جنہوں نے اسرائیل کو بچھڑے کی عبادت کرتے ہوئے دیکھا لیکن انہیں منع نہیں کیا۔ ایک چوتھی رائے یہ ہے کہ یہ ستر آدمی وہ ہیں جنہیں اللہ کے حکم سے کوہ طور پر لے جانے کے لئے چنا گیا تھا، وہاں جاکر انہوں نے اللہ سے دعائیں کیں۔ جن میں ایک دعا یہ بھی تھی کہ ' یا اللہ ہمیں تو وہ کچھ عطا فرما، جو اس سے قبل تو نے کسی کو عطا نہ کیا اور نہ آئندہ کسی کو عطا کرنا ' اللہ تعالیٰ کو یہ دعا پسند نہ آئی، جس پر وہ زلزلے کے ذریعے سے ہلاک کردیئے گئے۔ زیادہ مفسرین دوسری رائے کے قائل ہیں اور انہوں نے وہی واقعہ قرار دیا جس کا ذکر سورۃ بقرہ آیت ٥٦ میں آیا ہے۔ جہاں ان پر صاعقہ (بجلی کی کڑک) سے موت وارد ہونے کا ذکر ہے۔ اور یہاں رجفہ (زلزلے) سے موت کا ذکر ہے۔ اس کی توجیہ میں کہا گیا ہے کہ ممکن ہے دونوں ہی عذاب آوے ہوں اوپر سے بجلی کی کڑک اور نیچے سے زلزلہ۔ بہرحال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس دعا والتجا کے بعد کہ اگر ان کو ہلاک ہی کرنا تھا تو اس سے قبل اس وقت ہلاک کرتا جب یہ بچھڑے کی عبادت میں مصروف تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ کردیا۔ الاعراف
156 ١٥٦۔ ١ یعنی توبہ کرتے ہیں۔ ١٥٦۔ ٢ یہ اس کی وسعت رحمت ہی ہے کہ دنیا میں صالح و فاسق اور مومن و کافر دونوں ہی اس کی رحمت سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ حدیث میں آتا ہے ' اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ١٠٠ حصے ہیں۔ یہ اس کی رحمت کا ایک حصہ ہے کہ جس سے مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے اور وحشی جانور اپنے بچوں پر شفقت کرتے ہیں اور اس نے اپنی رحمت کے ٩٩ حصے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ (صحیح مسلم) الاعراف
157 ١٥٧۔ ١ یہ آیت بھی اس امر کی وضاحت کے لئے آیت قطعی کی حیثیت رکھتی ہے کہ رسالت محمدیہ پر ایمان لائے بغیر نجات اخروی ممکن نہیں اور ایمان وہی معتبر ہے جس کی تفصیل محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائی ہے۔ اس آیت سے بھی تصور 'دیگر مذاہب ' کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ ١٥٧۔ ٢ معروف وہ ہے جسے شریعت نے اچھا اور منکر، وہ ہے جسے شریعت نے برا قرار دیا۔ ١٥٧۔ ٣ یہ بوجھ اور طوق وہ ہیں جو پچھلی شریعت میں تھے، مثلاً نفس کے بدلے نفس کا قتل ضروری تھا، (دیت یا معافی نہیں تھی۔ یا جس کپڑے کو نجاست لگ جاتی، اسے قطع کرنا ضروری تھا، شریعت اسلامیہ نے اسے صرف دھونے کا حکم دیا ہے۔ جس طرح قصاص میں دیت اور معافی کی اجازت دی وغیرہ۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ' مجھے آسان دین حنیفی کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ ١٥٧۔ ٤ ان آخری الفاظ سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کامیاب وہی لوگ ہونگے جو حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والے اور ان کی پیروی کرنے والے ہوں گے۔ جو رسالت محمدیہ پر ایمان نہیں لائیں گے، وہ کامیاب نہیں نقصان اٹھانے والے اور ناکام ہونگے۔ علاوہ ازیں کامیابی سے مراد بھی آخرت کی کامیابی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی قوم رسالت محمدیہ پر ایمان نہ رکھتی ہو اور اسے دنیاوی خوش حالی و فروانی حاصل ہو۔ جس طرح اس وقت مغربی اور یورپی اور دیگر بعض قوموں کا حال ہے کہ وہ عیسائی یا یہودی یا کافر مشرک ہونے کے باوجود مادی ترقی اور خوش حالی میں ممتاز ہیں، لیکن ان کی یہ ترقی عارضی بطور امتحان و خلاف معمول ہے۔ یہ انکی اخروی کامیابی کی ضمانت یا علامت نہیں۔ اسی طرح (وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ) 7۔ الاعراف :157) سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ المائدہ کی آیت ١٥ میں نور سے مراد قرآن مجید ہی ہے۔ اس لیے اس ‏‏نور سے خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مراد نہیں ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ آپ کی صفات میں ایک صفت نور بھی ہے۔ جس سے کفرو شرک کی تاریکیاں دور ہوئیں۔ لیکن آپ کے نوری صفت ہونے سے آپ کا نور من نور اللہ ہونا ثابت نہیں ہوسکتا جس طرح اہل بدعت یہ ثابت کرتے ہیں۔ الاعراف
158 ١٥٨۔ ١ یہ آیت بھی رسالت محمدیہ کی عالمگیر رسالت کے اثبات میں بالکل واضح ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجئے کہ اے کائنات کے انسانو! میں سب کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ یوں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری بنی نوع انسانی کے نجات دہندہ اور رسول ہیں۔ اب نجات اور ہدایت نہ عیسائت میں ہے نہ یہودیت میں، نہ کسی اور مذ ہب میں، نجات اور ہدایت اگر ہے تو صرف اسلام کے اپنانے اور اسے ہی اختیار کرنے میں ہے اس آیت میں بھی اور اس سے پہلی آیت میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو النبی الأمی کہا گیا ہے۔ یہ آپ کی ایک خاص صفت ہے۔ امی کے معنی ہیں ان پڑھ۔ یعنی آپ نے کسی استاد کے سامنے زانو بطور شاگرد نہیں کئے کسی سے کسی قسم کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ لیکن اس کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کریم پیش کیا، اس کے اعجاز و بلاغت کے سامنے دنیا بھر کے خوش بیان عالم فاضل عاجز آگئے اور آپ نے جو تعلیمات پیش کیں، ان کی صداقت و حقانیت کی ایک دنیا اعتراف کرتی ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ واقع اللہ کے سچے رسول ہیں ورنہ ایک ان پڑھ نہ ایسا قرآن پیش کرسکتا ہے اور نہ ہی ایسی تعلیمات بیان کرسکتا ہے جو عدل و انصاف کا بہترین نمونہ اور انسانیت کی فلاح و کامرانی کے لئے ناگزیر ہیں، انہیں اپنائے بغیر دنیا حقیقی امن سکون اور راحت و عافیت سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔ الاعراف
159 ١٥٩۔ ١ اس سے مراد وہی چند لوگ ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے، عبد اللہ بن سلام وغیرہ۔ الاعراف
160 ١٦٠۔ ١ اَسْبَا ط، سِبْط،ُ کی جمع ہے۔ بمعنی پوتا یہاں اسباط قبائل کے معنی میں ہیں۔ یعنی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹوں سے بارہ قبیلے معرض وجود میں آئے ہر قبیلے میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایک نقیب (نگران) بھی مقرر فرمادیا یہاں پر اللہ تعالیٰ ان بارہ قبیلوں کی بعض بعض صفات میں ایک دوسرے سے ممتاز ہونے کی بنا پر ان کے الگ الگ گروہ ہونے کو بطور احسان کے ذکر فرما رہا ہے۔ الاعراف
161 الاعراف
162 ١٦٢۔ ١ ١٦٠ تا ١٦٢ آیات میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں، یہ وہ ہیں جو پارہ الم، سورۃ بقرہ کے آغاز میں بیان کی گئی ہیں۔ وہاں ان کی تفصیل ملاحظہ فرمائی جائے۔ الاعراف
163 ١٦٣۔ ١ وسئلہم میں (ھم) ضمیر سے مراد یہود ہیں۔ یعنی ان سے پوچھئے اس میں یہودیوں کو یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ اس واقعے کا علم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی دلیل ہے۔ کیونکہ اللہ کی طرف سے وحی کے بغیر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس واقعے کا علم نہیں ہوسکتا تھا۔ (٢) اس بستی کی تعیین میں اختلاف ہے کوئی اس کا نام ایلہ کوئی طبریہ کوئی ایلیا اور کوئی شام کی کوئی بستی جو سمندر کے قریب تھی۔ بتلاتا ہے۔ مفسرین کا زیادہ رجحان ایلہ کی طرف ہے جو مدین اور کوہ طور کے درمیان دریائے قلزم کے ساحل پر تھی۔ (٣) حیتان حوت (مچھلی کی جمع ہے۔ شرعا شارع کی جمع ہے۔ معنی ہیں پانی کے اوپر ابھر ابھر کر آنے والیاں۔ یہ یہودیوں کے اس واقعے کی طرف اشارہ ہیں جس میں انہیں ہفتے والے دن مچھلیوں کا شکار کرنے سے منع کردیا گیا تھا۔ لیکن بطور آزمائش ہفتے والے دن مچھلیاں کثرت سے آتیں اور پانی کے اوپر ظاہر ہو ہو کر انہیں دعوت شکار دیتیں۔ اور جب یہ دن گزر جاتا تو اس طرح نہ آتیں۔ بالآخر یہودیوں نے ایک حیلہ کر کے حکم الہی سے تجاوز کیا کہ گڑھے کھود لیے تاکہ مچھلیاں اس میں پھنسی رہیں اور جب ہفتے کا دن گزر جاتا تو پھر انہیں پکڑ لیتے۔ الاعراف
164 ١٦٤۔ ١ اس جماعت سے صالحین کی وہ جماعت مراد ہے جو اس حیلے کا ارتکاب بھی نہیں کرتی تھی اور حیلہ گروں کو سمجھا سمجھا کر ان کی اصلاح سے مایوس بھی ہوگئی تھی۔ تاہم کچھ اور لوگ بھی سمجھانے والے تھے جو انہیں واعظ و نصیحت کرتے تھے۔ صالحین کی یہ جماعت انہیں یہ کہتی کہ ایسے لوگوں کو واعظ و نصیحت کا کیا فائدہ جن کی قسمت میں ہلاکت و عذاب الٰہی ہے۔ یا اس جماعت سے وہی نافرمان اور تجاوز کرنے والے مراد ہیں۔ جب انکو وعظ کرنے والے نصیحت کرتے تو یہ کہتے کہ جب تمہارے خیال میں ہلاکت یا عذاب الہی ہمارا مقدر ہے تو پھر ہمیں کیوں وعظ کرتے ہو؟ تو وہ جواب دیتے کہ ایک تو اپنے رب کے سامنے معذرت پیش کرنے کے لیے تاکہ ہم تو اللہ کی گرفت سے محفوظ رہیں۔ کیونکہ معصیت الہی کا ارتکاب ہوتے ہوئے دیکھنا اور پھر اسے روکنے کی کوشش نہ کرنا بھی جرم ہے۔ جس پر اللہ تعالیٰ کی گرفت ہوسکتی ہے۔ اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ شاید یہ لوگ حکم الہی سے تجاوز کرنے سے باز ہی آجائیں۔ پہلی تفسیر کی رو سے یہ تین جماعتیں ہوئیں۔ ١) نافرمان اور شکار کرنے والی جماعت ( ٢) وہ جماعت جو بالکل کنارہ کش ہوگئی۔ نہ وہ نافرمانوں میں تھی نہ منع کرنے والوں میں (٣) وہ جماعت جو نافرمان بھی نہیں تھی اور بالکل کنارہ کش بھی نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ نافرمانوں کو منع کرتی تھی۔ دوسری تفسیر کی رو سے یہ دو جماعتیں ہوں گی۔ ایک نافرمانوں کی اور دوسری منع کرنے والوں کی۔ الاعراف
165 ١٦٥۔ ١ یعنی واعظ و نصیحت کی انہوں نے کوئی پرواہ نہیں کی اور نافرمانی پر اڑے رہے۔ ١٦٥۔ ٢ یعنی وہ ظالم بھی تھے، اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کا ارتکاب کرکے انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور انہیں جہنم کا ایندھن بنالیا اور فاسق بھی، کہ اللہ کے حکموں سے سرتابی کو انہوں نے اپنا شیوہ اور وطیرہ بنالیا الاعراف
166 ١٦٦۔ ١ عَتَوا کے معنی ہیں جنہوں نے اللہ کی نافرمانی میں حد سے تجاوز کیا۔ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ نجات پانے والے صرف وہی تھے، جو منع کرتے تھے اور باقی دونوں عذاب الٰہی کی زد میں آئے؟ یا زد میں آنے والے صرف معصیت کار تھے؟ باقی دو جماعتیں نجات پانے والی تھیں؟ امام ابن کثیر نے دوسری رائے کو ترجیح دی ہے۔ الاعراف
167 ١٦٧۔ ١ یعنی وہ وقت بھی یاد کرو! جب آپ کے رب نے ان یہودیوں کو اچھی طرح باخبر کردیا یا جتلایا تھا، یعنی قسم کھا کر نہایت تاکید کے ساتھ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ وہ ان پر قیامت تک ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو سخت عذاب میں مبتلا رکھیں گے، چنانچہ یہودیوں کی پوری تاریخ اس ذلت و مسکنت اور غلامی و محکومی کی تاریخ ہے جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دی ہے۔ اسرائیل کی موجودہ حکومت قرآن کی بیان کردہ اس حقیقت کے خلاف نہیں ہے اس لئے کہ وہ قرآن ہی کے بیان کردہ استثنا وَ حَبْلٍ مِنَا النَّاسِ کی مظہر ہے جو قرآنی حقیقت کے خلاف نہیں بلکہ اس کی موید ہے۔ (تفصیل دیکھئے آل عمران۔ ١١٢ کا حاشیہ) ١٦٧۔ ٢ یعنی اگر ان میں سے کوئی توبہ کرکے مسلمان ہوجائے تو وہ ذلت و رسوائی سے بچ جائے گا۔ الاعراف
168 ١٦٨۔ ١ اس میں یہود کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے ان میں سے بعض کے نیک ہونے کا ذکر ہے۔ اور ان دونوں طریقوں سے آزمائے جانے کا بیان ہے کہ شاید وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں اور اللہ کی طرف رجوع کریں۔ الاعراف
169 (١) خلف (لام پر فتح کیساتھ) اولاد صالح کو اور خلف (بسکون اللام) نالائق اولاد کو کہتے ہیں۔ اردو میں بھی ناخلف کی ترکیب نالائق اولاد کے معنی میں مستعمل ہے۔ ١٦٩۔ ١ أدنی دنو (قریب) سے ماخوذ ہے یعنی قریب کا مال حاصل کرتے ہیں جس سے دنیا مراد ہے یا یہ دَنَآءَۃ سے ماخوذ ہے جس سے مراد حقیر گرا پڑا مال ہے۔ مطلب دونوں سے اس دنیا کے مال متاع کے حرص کی وضاحت ہے۔ ١٦٩۔ ٢ یعنی طالب دنیا ہونے کے باوجود، مغفرت کی امید رکھتے ہیں، جیسے آجکل کے مسلمانوں کا بھی حال ہے۔ ١٦٩۔ ٣ اس کے باوجود وہ اللہ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرنے سے باز نہیں آتے، مثلاً وہی مغفرت کی بات، جو اوپر گزری۔ ١٦٩۔ ٤ اس کا ایک دوسرا مفہوم مٹانا بھی ہوسکتا ہے، جیسے دَرَسَتِ الرِّیْحُ الاَ ثَارَ (ہوا نے نشانات مٹا ڈالے) یعنی کتاب کی باتوں کو مٹا ڈالا، محو کردیا یعنی ان پر عمل ترک کردیا۔ الاعراف
170 ١٧٠۔ ١ ان لوگوں میں سے جو تقوٰی کا راستہ اختیار کرلیں، کتاب کو مضبوطی سے تھام لیں۔ جس سے مراد اصلی تورات ہے اور جس پر عمل کرتے ہوئے نبوت محمدی پر ایمان لے آئیں، نماز وغیرہ کی پابندی کریں، تو اللہ ایسے مصلحین کا اجر ضائع نہیں کرے گا۔ اس میں ان اہل کتاب (سیاق کلام سے یہاں بطور خاص یہود) کا ذکر ہے جو تقوٰی، تمسک یا کتاب اور اقامت صلٰوۃ کا اہتمام کریں اور ان کے لئے آخرت کی خوشخبری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمان ہوجائیں اور رسالت محمدیہ پر ایمان لے آئیں۔ کیونکہ اب پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے بغیر نجات اخروی ممکن نہیں۔ الاعراف
171 ١٧١۔ ١ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس تورات لائے اور اس کے احکام ان کو سنائے، تو انہوں نے پھر حسب عادت ان پر عمل کرنے سے انکار و اعراض کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر پہاڑ کو بلند کردیا کہ تم پر گرا کر تمہیں کچل دیا جائے گا، جس سے ڈرتے ہوئے انہوں تورات پر عمل کرنے کا عہد کیا۔ بعض کہتے ہیں کہ رفع جبل کا یہ واقعہ ان کے مطالبے پر پیش آیا، جب انہوں نے کہا کہ ہم تورات پر عمل اس وقت کریں گے جب اللہ تعالیٰ پہاڑ کو ہمارے اوپر بلند کرکے دکھائے، لیکن پہلی بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے واللہ اعلَم۔ یہاں مطلق پہاڑ کا ذکر ہے۔ لیکن اس سے قبل سورۃ بقرہ آیت ٦٣ اور آیت ٩٣ میں دو جگہ اس واقعہ کا ذکر آیا ہے۔ وہاں اس کا نام صراحت کے ساتھ کوہ طور بتلایا گیا۔ الاعراف
172 ١٧٢۔ ١ یہ عہد حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے بعد ان کی پشت سے ہونے والی تمام اولاد سے لیا گیا۔ اس کی تفصیل ایک حدیث میں اس طرح آتی ہے ' عرفہ والے دن نعمان جگہ میں اللہ تعالیٰ نے اصلاب آدم سے عہد (میثاق) لیا۔ پس آدم کی پشت سے ہونے والی تمام اولاد کو نکالا اور اس کو اپنے سامنے پھیلا دیا اور ان سے پوچھا، ' کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ ' سب نے کہا ' کیوں نہیں ' ہم سب رب ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ امام شوکانی اس حدیث کی بابت لکھتے ہیں واسنادہ لامطعن فیہ (فتح القدیر) اس کی سند میں کوئی طعن نہیں نیز امام شوکانی فرماتے ہیں۔ یہ عالم ذر کہلاتا ہے اس کی یہی تفسیر صحیح اور حق ہے جس سے عدول اور کسی اور مفہوم کی طرف جاناصحیح نہیں ہے کیونکہ یہ مرفوع حدیث اور آثار صحابہ سے ثابت ہے اور اسے مجاز پر بھی محمول کرناجائز نہیں ہے۔ بہرحال اللہ کی ربوبیت کی یہ گواہی ہر انسان کی فطرت میں ودیعت ہے۔ اسی مفہوم کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پس اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ جس طرح جانور کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے اس کا ناک کان کٹا نہیں ہوتا۔ اور صحیح مسلم کی روایت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو حنیف (اللہ کی طرف یکسوئی سے متوجہ ہونے والا) پیدا کیا ہے۔ پس شیطان ان کو ان کے دین (فطری) سے گمراہ کردیتا ہے۔ الحدیث۔ یہ فطرت یا دین فطرت یہی رب کی توحید اور اس کی نازل کردہ شریعت ہے جو اب اسلام کی صورت میں محفوظ اور موجود ہے۔ الاعراف
173 ١٧٣۔ ١ یعنی ہم نے یہ اخذ عہد اپنی ربوبیت کی گواہی اس لئے لی تاکہ تم یہ عذر پیش نہ کرسکو کہ ہم تو غافل تھے یا ہمارے باپ دادا شرک کرتے تھے، یہ عذر قیامت والے دن بارگاہ الٰہی میں قبول نہیں ہونگے۔ الاعراف
174 الاعراف
175 ١٧٥۔ ١ مفسرین نے اسے کسی ایک متعین شخص سے متعلق قرار دیا ہے جسے کتاب الٰہی کا علم حاصل تھا لیکن پھر وہ دنیا اور شیطان کے پیچھے لگ کر گمراہ ہوگیا۔ تاہم اس کے تعیین میں کوئی مسند بات مروی بھی نہیں۔ اس لئے اس تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ عام ہے اور ایسے افراد ہر امت اور ہر دور میں ہوتے رہے ہیں، جو بھی اس صفت کا حامل ہوگا وہ اس کا مصداق قرار پائے گا۔ الاعراف
176 ١٧٦۔ ١ لَھَت،ُ کہتے ہیں تھکاوٹ یا پیاس وغیرہ کی وجہ سے زبان باہر نکالنے کو، کتے کی یہ عادت ہے کہ تم اسے ڈانٹو ڈپٹو یا اسکے حال پر چھوڑ دو، دونوں حالتوں میں وہ بھونکنے سے باز نہیں آتا، اسی طرح اس کی یہ عادت بھی ہے کہ وہ شکم سیر ہو یا بھوکا، تندرست ہو یا بیمار، تھکا ماندہ ہو یا توانا، ہر حال میں زبان باہر نکالے ہانپتا رہتا ہے۔ یہی حال ایسے شخص کا ہے اسے وعظ کرو یا نہ کرو، اس کا حال ایک ہی رہے گا اور دنیا کے مال و متاع کے لئے اس کی رال ٹپکتی رہے گی۔ ١٧٦۔ ٢ اور اس قسم کے لوگوں سے عبرت حاصل کرکے، گمراہی سے بچیں اور حق کو اپنائیں۔ الاعراف
177 ١٧٧۔ ١ مثلاً تمییز ہے۔ اصل عبارت یوں ہوگی : ' سَاَءَ مَثَلاً ! ( مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا) 7۔ الاعراف :176) ' الاعراف
178 ١٧٨۔ ١ یہ اس کے قانون مشیت کا بیان ہے جس کی وضاحت پہلے دو تین مرتبہ کی جاچکی ہے۔ الاعراف
179 ١٧٩۔ ١ اس کا تعلق تقدیر سے ہے۔ یعنی ہر انسان اور جن کی بابت اللہ کو علم تھا کہ وہ دنیا میں جا کر اچھے یا برے کیا عمل کرے گا، اس کے مطابق اس نے لکھ رکھا ہے۔ یہ انہیں دوزخیوں کا ذکر ہے جنہیں اللہ کے علم کے مطابق دوزخ والے ہی کام کرنے تھے۔ آگے ان کی مزید صفات بیان کرکے بتا دیا گیا ہے کہ جن لوگوں کے اندر یہ چیزیں اس انداز میں ہوں جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے، تو سمجھ لو کہ اس کا انجام برا ہے۔ (٢) یعنی دل آنکھ کان یہ چیزیں اللہ نے اس لیے دی ہیں کہ انسان ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے پروردگار کو سمجھے اس کی آیات کا مشاہدہ کرے اور حق کی بات کو غور سے سنے۔ لیکن جو شحص ان مشاعر سے یہ کام نہیں لیتا وہ گویا ان سے عدم انتفاع (فائدہ نہ اٹھانے) میں چوپایوں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہے۔ اس لیے کہ چوپایے تو پھر بھی اپنے نفع نقصان کا کچھ شعور رکھتے ہیں اور نفع والی چیزوں سے نفع اٹھاتے اور نقصان دینے والی چیزوں سے بچ کر رہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے اعراض کرنی والے شخص کے اندر تو یہ تمیز کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہوجاتی ہے کہ اس کے لیے مفید چیز کون سی ہے اور مضر کون سی؟ اسی لیے اگلے جملے میں انہیں غافل بھی کہا گیا ہے۔ الاعراف
180 ١٨٠۔ ١ حسنی احسن کی تانیث ہے۔ اللہ کے اچھے ناموں سے مراد اللہ کے وہ نام ہیں جن سے اس کی مختلف صفات، اس کی عظمت و جلالت اور اس کی قدرت و طاقت کا اظہار ہوتا ہے، صحیحین کی حدیث میں انکی تعداد ٩٩ ایک کم ١٠٠ بتائی گئی ہے فرمایا ' جو ان کو شمار کرے گا، جنت میں داخل ہوگا اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق کو پسند فرماتا ہے۔ نیز علماء نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ اللہ کے ناموں کی تعداد ٩٩ میں منحصر نہیں ہے بلکہ اس سے زیادہ ہیں۔ (ابن کثیر) ١٨٠۔ ٢ الحاد کے معنی ہیں کسی ایک طرف مائل ہونا، اسی سے لحد ہے جو اس قبر کو کہا جاتا ہے جو ایک طرف بنائی جاتی ہے۔ دین میں الحاد اختیار کرنے کا مطلب کج روی اور گمراہی اختیار کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں (کج روی) الحاد کی تین صورتیں ہیں ١۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں تبدیلی کردی جائے جیسے مشرکین نے کہا۔ مثلا اللہ کی اسی نام سے اپنے ایک بت کا نام لات اور اس کے صفاتی ناموں عزیز سے عُزَّا بنا لیا ٢، یا اللہ کے ناموں میں اپنی طرف سے اضافہ کرلینا جس کا حکم اللہ نے نہیں دیا۔ ٣۔ یا اس کے ناموں میں کمی کردی جائے مثلاً اسے ایک ہی مخصوص نام سے پکارا جائے اور دوسرے صفاتی ناموں سے پکارنے کو برا سمجھا جائے (فتح القدیر) اللہ کے ناموں میں الحاد کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ان میں تاویل یا تعطیل یا تشبیہ سے کام لیا جائے (ایسر التفاسیر) جس طرح معتزلہ، معطلہ اور مشبہ وغیرہ گمراہ فرقوں کا طریقہ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان سب سے بچ کر رہو۔ الاعراف
181 الاعراف
182 الاعراف
183 ١٨٣۔ ١ یہ وہی استدراج و امہال ہے جو بطور امتحان اللہ تعالیٰ افراد اور قوموں کو دیتا ہے۔ پھر جب اس کی مشیت مواخذہ کرنے کی ہوتی ہے تو کوئی اسے بچانے پر قادر نہیں ہو سکتا، کیونکہ اس کی تدبیر بڑی مضبوط ہے۔ الاعراف
184 ١٨٤۔ ١ صَاحِب سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی ہے جن کی بابت مشرکین کبھی ساحر اور کبھی مجنون (نعوذ باللہ) کہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تمہارے عدم تفکر کا نتیجہ ہے وہ تو تمہارا پیغمبر ہے جو ہمارے احکام پہنچانے والا اور ان سے غفلت اور اعراض کرنے والوں کو ڈرانے والا ہے۔ الاعراف
185 مطلب یہ ہے کہ ان چیزوں پر بھی اگر یہ غور کریں تو یقینا یہ اللہ پر ایمان لے آئیں اس کے رسول کی تصدیق اور اس کی اطاعت اختیار کرلیں اور انہوں نے جو اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں۔ انہیں چھوڑ دیں اور اس بات سے ڈریں کہ انہیں موت اس حال میں آجائے کہ وہ کفر پر قائم ہوں۔ ١٨٥۔ ٢ حَدِ یْث، سے مراد یہاں قرآن کریم ہے۔ یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انداز و تہدید اور قرآن کریم کے بعد بھی اگر یہ ایمان نہ لائیں تو ان سے بڑھ کر انہیں ڈرانے والی چیز کیا ہوگی جو اللہ کی طرف سے نازل ہو اور پھر یہ اس پر ایمان نہ لائیں۔ الاعراف
186 الاعراف
187 ١٨٧۔ ١ سَاعَۃ،ُ کے معنی ہیں گھڑی (لمحہ یا پل) کے ہیں قیامت کو ساعۃ اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ اچانک اس طرح آجائے گی کہ پل بھر میں ساری کائنات درہم برہم ہوجائے گی یا سرعت حساب کے اعتبار سے قیامت کی گھڑی کو ساعۃ سے تعبیر کیا گیا۔ ١٨٧۔ ٢ اَرْسَیٰ یُرْسِیْ کے معنی اثبات و وقوع کے ہیں، یعنی کب یہ قیامت ثابت یا واقع ہوگی۔ ١٨٧۔ ٣ یعنی اس کا یقینی علم نہ کسی فرشتے کو ہے نہ کسی نبی کو، اللہ کے سوا اس کا علم کسی کے پاس نہیں، وہی اس کو اپنے وقت پر ظاہر فرمائے گا۔ ١٨٧۔ ٤ اس کے ایک دوسرے معنی ہیں۔ اس کا علم آسمان اور زمین والوں پر بھاری ہے، کیونکہ وہ پوشیدہ ہے اور پوشیدہ چیز لوگوں پر بھاری ہوتی ہے۔ ١٨٧۔ ٥ حَفِی،ُ کہتے ہیں پیچھے پڑ کر سوال کرنے اور تحقیق کرنے کو۔ یعنی یہ آپ سے قیامت کے بارے میں اس طرح سوال کرتے ہیں کہ گویا آپ نے رب کے پیچھے پڑ کر اس کی بابت ضروری علم حاصل کر رکھا ہے۔ الاعراف
188 ١٨٨۔ ١ یہ آیت اس بات میں کتنی واضح ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عالم غیب نہیں۔ عالم غیب صرف اللہ کی ذات ہے، لیکن ظلم اور جہالت کی انتہا ہے کہ اس کے باوجود اہل بدعت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عالم الغیب باور کراتے ہیں۔ حالانکہ بعض جنگوں میں آپ کے دندان مبارک بھی شہید ہوئے، آپ کا چہرہ بھی زخمی ہوا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ قوم کیسے فلاح یاب ہوگی جس نے اپنے نبی کے سر کو زخمی کردیا، کتب حدیث میں یہ واقعات بھی اور ذیل کے واقعات بھی درج ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگی تو پورا ایک مہینہ مضطرب اور نہایت پریشان رہے۔ ایک یہودی عورت نے آپ کی دعوت کی اور کھانے میں زہر ملادیا، جسے آپ نے تناول فرمایا اور صحابہ نے بھی، حتٰی کہ بعض صحابہ تو کھانے کے زہر سے ہلاک ہی ہوگئے اور خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمر بھر اس زہر کے اثرات محسوس فرماتے رہے۔ یہ اور اس قسم کے متعدد واقعات ہیں جن سے واضح ہے کہ آپ کو عدم علم کی وجہ سے یہ تکلیف پہنچی، نقصان اٹھانا پڑا، جس سے قرآن کی بیان کردہ حقیقت کا اثبات ہوتا ہے ' اگر میں غیب جانتا ہوتا تو مجھے کوئی مضرت نہ پہنچتی ' الاعراف
189 ١٨٩۔ ١ ابتدا یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) سے۔ اسی لئے انسان اول اور ابو البشر کہا جاتا ہے۔ ١٨٩۔ ٢ اس سے مراد حضرت حوا ہیں، جو حضرت آدم (علیہ السلام) کی زوج بنیں۔ ان کی تخلیق حضرت آدم (علیہ السلام) سے ہوئی، جس طرح کہ منھا کی ضمیر سے، جو نفس واحدۃ کی طرف راجع ہے اور واضح ہے (مزید دیکھئے سورت نساء کا حاشیہ) ١٨٩۔ ٣ یعنی اس سے اطمینان و سکون حاصل کرے۔ اس لئے کہ ایک جنس اپنے ہی ہم جنس سے صحیح معنوں میں مانوس اور قریب ہوسکتی ہے جو سکون حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔ قربت کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً) 30۔ الروم :21) اللہ کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تم ہی میں سے (یا تمہاری جنس ہی میں سے) جوڑے پیدا کئے، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے دل میں اس نے پیار محبت رکھ دی ' یعنی اللہ نے مرد اور عورت دونوں کے اندر ایک دوسرے کے جذبات اور کشش رکھی ہے، فطرت کے یہ تقاضے وہ جوڑا بن کر پورا کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے قرب و انس حاصل کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ جو باہمی پیار میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے وہ دنیا میں کسی اور کے ساتھ نہیں ہوتا۔ ١٨٩۔ ٤ یعنی یہ نسل انسانی اس طرح بڑھی اور آگے چل کر جب ان میں سے ایک زوج یعنی میاں بیوی نے ایک دوسرے سے قربت کی۔ تَغشَّاھَا کے معنی بیوی سے ہمبستری۔ یعنی وطی کرنے کے لئے ڈھانپا۔ ١٨٩۔ ٥ یعنی حمل کے ابتدائی ایام میں حتٰی کہ نطفے سے عَلَقَۃِاور عَلَقَۃ،ُ سے مُضَغَۃ،ُ بننے تک، حمل خفیف رہتا ہے محسوس نہیں ہوتا اور عورت کو زیادہ گرانی بھی نہیں ہوتی۔ ١٨٩۔ ٦ بوجھل ہوجانے سے مراد بچہ پیٹ میں بڑا ہوجاتا ہے تو جوں جوں ولادت کا وقت قریب آتا جاتا ہے، والدین کے دل میں خطرات اور توہمات پیدا ہوتے جاتے ہیں (بالخصوص جب عورت کو اٹھرا کی بیماری ہو تو انسانی فطرت ہے کہ خطرات میں وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے، چنانچہ وہ دونوں اللہ سے دعائیں کرتے ہیں اور شکر گزاری کا عہد کرتے ہیں۔ الاعراف
190 ١٩٠۔ ١ شریک قرار دینے سے مراد یا تو بچے کا نام ایسا رکھنا ہے، مثلاً امام بخش، پیراں دیتا، عبدالشمس، بندہ علی وغیرہ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بچہ فلاں بزرگ، فلاں پیر کی (نعوذ باللہ) نظر کرم کا نتیجہ ہے۔ یا پھر اس اپنے عقیدے کا اظہار کرکے کہ ہم فلاں بزرگ فلاں قبر پر گئے تھے جس کے نتیجہ میں بچہ پیدا ہوا ہے، جو بد قسمتی سے مسلمان عوام میں بھی عام ہیں۔ اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ شرک کی تردید فرما رہا ہے۔ الاعراف
191 الاعراف
192 الاعراف
193 ١٩٣۔ ١ یعنی تمہاری بتلائی ہوئی بات پر عمل نہیں کریں گے۔ ایک دوسرا مفہوم یہ ہے اگر تم ان سے رشدو ہدایت طلب کرو تو وہ تمہاری بات نہیں مانیں گے۔ نہ تمہیں کوئی جواب دیں گے (فتح القدیر) الاعراف
194 ١٩٤۔ ١ یعنی جب وہ زندہ تھے، بلکہ اب تو تم خود ان سے زیادہ کامل ہو، اب وہ دیکھ نہیں سکتے، تم دیکھتے ہو، وہ سن نہیں سکتے، تم سنتے ہو۔ وہ کسی بات کو سمجھ نہیں سکتے، تم سمجھتے ہو، وہ جواب نہیں دے سکتے، تم دیتے ہو اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین، جن کی مورتیاں بنا کر پوجتے تھے، وہ بھی پہلے اللہ کے بندے یعنی انسان ہی تھے جیسے حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم پانچ بتوں کی بابت عقیدہ رکھتی تھی جیسا کہ صحیح بخاری میں صراحتا موجود ہے کہ وہ اللہ کے نیک بندے تھے۔ الاعراف
195 ١٩٥۔ ١ یعنی اب ان میں سے کوئی چیز بھی ان کے پاس موجود نہیں۔ مرنے کے ساتھ ہی دیکھنے سننے، سمجھنے اور چلنے کی طاقت ختم ہوگئی۔ اب ان کی طرف منسوب یا تو پتھر یا لکڑی کی خود تراشیدہ مورتیاں ہیں۔ یا گنبد، قبے اور آستانے ہیں جو ان کی قبروں پر بنالیے گئے اور یوں استخواں فروشی کا کاروبار فروغ پذیر ہے۔ ١٩٥۔ ٢ یعنی اگر تم دعوے میں سچے ہو کہ یہ تمہارے مددگار ہیں تو ان سے کہو کہ میرے خلاف تدبیر کریں۔ الاعراف
196 الاعراف
197 ١٩٧۔ ١ جو اپنی مدد آپ کرنے پر قادر نہ ہو وہ بھلا دوسروں کی مدد کیا کریں گے۔ الاعراف
198 ١٩٨۔ ١ اس کا وہی مفہوم ہے جو آیت ١٩٣ کا ہے۔ الاعراف
199 ١٩٩۔ ١ بعض علماء نے اس کے معنی کئے ہیں ' ضرورت سے زائد مال ہو، وہ لے لو ' اور یہ زکوٰۃ کی فضیلت سے قبل کا حکم ہے، لیکن دوسرے مفسرین نے اس سے اخلاقی ہدایت یعنی عفو و درگزر مراد لیا ہے اور امام بن جری اور امام بخاری وغیرہ نے اس کو ترجیح دی ہے، چنانچہ امام بخاری نے اس کی تفسیر میں حضرت عمر کا واقعہ نقل کیا ہے کہ عیینہ بن حصن حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آ کر تنقید کرنے لگے کہ آپ زکوٰۃ میں نہ پوری عطاء دیتے ہیں اور نہ ہمارے درمیان انصاف کرتے ہیں جس پر حضرت عمر غضب ناک ہوئے یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عمر کے مشیر حر بن قیس نے (جو عیینہ کے بھتیجے تھے) حضرت عمر سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم فرمایا تھا (درگزر اختیار کیجئے اور نیکی کا حکم دیجئے اور جاہلوں سے پرہیز کیجئیے ' اور یہ بھی جاہلوں میں سے ہے۔ ' جس پر حضرت عمر نے درگزر فرمایا اس کی تائید ان احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں ظلم کے مقابلے میں معاف کردینے، قطع رحمی کے مقابلے میں صلہ رحمی اور برائی کے بدلے احسان کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ١٩٩۔ ٢ عُرْف،ُسے مراد معروف یعنی نیکی ہے۔ ١٩٩۔ ٣ یعنی جب آپ نیکی کا حکم دینے میں اتمام حجت کر چکیں اور پھر بھی وہ نہ مانیں تو ان سے اعراض فرمالیں اور ان کے جھگڑوں اور حماقتوں کا جواب نہ دیں۔ الاعراف
200 ٢٠٠۔ ١ اور اس موقع پر اگر آپ کو شیطان اشتعال میں لانے کی کوشش کرے تو آپ اللہ کی پناہ طلب فرمائیں۔ الاعراف
201 ٢٠١۔ ١ اس میں اہل تقویٰ کی بابت بتلایا گیا ہے کہ وہ شیطان سے چوکنا رہتے ہیں۔ طائف یا طیف، اس تخیل کو کہتے ہیں جو دل میں آئے یا خواب میں نظر آئے۔ یہاں اسے شیطانی وسوسے کے معنی میں استعمال کیا گیا، کیونکہ وسوسہ شیطانی بھی خیالی تصورات کے مشابہ ہے۔ (فتح القدیر) الاعراف
202 ٢٠٢۔ ١ یعنی شیطان کافروں کو گمراہی کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں، پھر وہ کافر (گمراہی کی طرف جانے میں) یا شیطان انکو لے جانے میں کوتاہی میں کمی نہیں کرتے۔ یعنی لَا یَقْصِرُوْنَ کا فاعل کافر بھی بن سکتے ہیں اور اِخْوَان الْکُفَّاِرِ شیاطین بھی۔ الاعراف
203 ٢٠٣۔ ١ مراد ایسا معجزہ جو ان کے کہنے پر ان کی خواہش کے مطابق دکھایا جائے۔ جیسے ان کے بعض مطا بات سورۃ بنی اسرائیل، آیت ٩٠۔ ٩٣ میں بیان کئے گئے ہیں۔ ٢٠٣۔ ٢ لَوْلَا اَجْتَبْیتَھَا کے معنی ہیں، تو اپنے پاس سے ہی کیوں نہیں بنا لاتا ؟ اس کے جواب میں بتایا گیا کہ آپ فرما دیں، معجزات پیش کرنا میرے اختیار میں نہیں ہے میں تو صرف وحی الٰہی کا پیروکار ہوں۔ ہاں البتہ یہ قرآن جو میرے پاس آیا ہے۔ یہ بجائے خود ایک بہت بڑا معجزہ ہے، اس میں تمہارے رب کی طرف سے بصائر (دلائل و براہین) اور ہدایت و رحمت ہے۔ بشرطیکہ کوئی ایمان لائے۔ الاعراف
204 ٢٠٤۔ ١ یہ ان کافروں کو کہا جارہا ہے، جو قرآن کی تلاوت کرتے وقت شور کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے کہتے تھے ( لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْـغَوْا فِیْہِ) 41۔ فصلت :26) یہ قرآن مت سنو اور شور کرو، ان سے کہا گیا کہ اس کی بجائے تم اگر غور سے سنو اور خاموش رہو تو شاید اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت سے نواز دے۔ اور یوں تم رحمت الٰہی کے مستحق بن جاؤ۔ الاعراف
205 الاعراف
206 الاعراف
0 الانفال
1 ١۔ ١ اَنْفَا ل، نَفَل،ُ کی جمع ہے جس کے معنی زیادہ کے ہیں، یہ مال و اسباب کو کہا جاتا ہے، جو کافروں کے ساتھ جنگ میں ہاتھ لگے، جسے غنیمت بھی کہا جاتا ہے اس کو (نفل) (زیادہ) اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جو پچھلی امتوں پر حرام تھیں۔ یہ گویا امت محمدیہ پر ایک زائد چیز حلال کی گئی ہے اس لئے کہ یہ جہاد کے اجر سے (جو آخرت میں ملے گا) ایک زائد چیز ہے جو بعض دفعہ دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔ ١۔ ٢ یعنی اس کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ اللہ کے رسول اللہ کے حکم سے اسے تقسیم فرمائے گا۔ نہ کہ تم آپس میں جس طرح چاہو تقسیم کرلو۔ ١۔ ٣ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذکورہ تینوں باتوں پر عمل بغیر ایمان مکمل نہیں۔ اس سے تقوٰ ی، اصلاح ذات البین اور اور اللہ اور رسول کی اطاعت کی اہمیت واضح ہے خاص طور پر مال غنیمت کی تقسیم میں ان تینوں امور پر عمل نہایت ضروری ہے کیونکہ مال کی تقسیم میں باہمی فساد کا بھی شدید اندیشہ رہتا ہے اس کے علاج کے لئے اصلاح ذات البین پر زور دیا۔ ہیرا پھیری اور خیانت کا بھی امکان رہتا ہے اس کے لیے تقوی کا حکم دیا۔ اس کے باوجود بھی کوئی کوتاہی ہوجائے تو اس کا حل اللہ اور رسول کی اطاعت میں مضمر ہے۔ الانفال
2 ٢۔ ١ ان آیات میں اہل ایمان کی ٤ صفات بیان کی گئی ہیں ١، اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتے ہیں نہ کہ صرف اللہ کی یعنی قرآن کی۔ ٢۔ اللہ کا ذکر سن کر، اللہ کی جلالت وعظمت سے ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ ٣۔ تلاوت قرآن سے ایمانوں میں اضافہ ہوتا ہے (جس سے معلوم ہوا کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے، جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے) ٤۔ اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔ توکل کا مطلب ہے ظاہری اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہیں۔ یعنی اسباب سے اعراض و گریز بھی نہیں کرتے کیونکہ انہیں اختیار کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہی دیا ہے، لیکن اسباب ظاہری کو ہی نہیں سب کچھ ہی نہیں سمجھ لیتے بلکہ ان کا یہ یقین ہوتا ہے کہ اصل کار فرما مشیت الٰہی ہی ہے، اس لئے جب تک اللہ کی مشیت بھی نہیں ہوگی، یہ ظاہری اسباب کچھ نہیں کرسکیں گے اور اس یقین اعتماد کی بنیاد پر پھر وہ اللہ کی مدد و اعانت حاصل کرنے سے ایک لمحے کے لئے بھی غافل نہیں ہوتے۔ آگے ان کی مزید صفات کا تذکرہ ہے اور ان صفات کے حاملین کے لئے اللہ کی طرف سے سچے مومن ہونے کا سرٹیفیکیٹ اور مغفرت و رحمت الٰہی اور رزق کریم کی نوید ہے جَعَلَنَا اللّٰہُ مِنْھُمْ (اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں شمار فرمالے) جنگ بدر کا پس منظر۔ جنگ بدر جو ٢ ہجری میں ہوئی کافروں کیساتھ مسلمانوں کی پہلی جنگ تھی۔ علاوہ ازیں یہ منصوبہ بندی اور تیاری کے بغیر اچانک ہوئی نیز بے سروسامانی کیوجہ سے بعض مسلمان ذہنی طور پر اس کے لیے تیار بھی نہیں تھے۔ مختصرا اس کا پس منظر اس طرح ہے کہ ابو سفیان کی (جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) سر کردگی میں ایک تجارتی قافلہ شام سے مکہ جارہا تھا چونکہ مسلمانوں کا بھی بہت سامال واسباب ہجرت کیوجہ سے مکہ رہ گیا تھا یا کافروں نے چھین لیا تھا نیز کافروں کی قوت وشوکت کو توڑنا بھی مقتضائے وقت تھا۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس تجارتی قافلے پر حملہ کرنے کا پروگرام بنایا اور مسلمان اس نیت سے مدینہ سے چل پڑے۔ ابو سفیان کو بھی اس امر کی اطلاع مل گئی۔ چنانچہ انہوں نے ایک تو اپنا راستہ تبدیل کرلیا۔ دوسرے مکہ اطلاع بھجوادی جس کی بنا پر ابو جہل ایک لشکر لے کر اپنے قافلے کی حفاظت کے لیے بدر کی جانب چل پڑا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس صورت حال کا علم ہوا تو صحابہ کرام کے سامنے معاملہ رکھ دیا اور اللہ کا وعدہ بھی بتلایا کہ ان دونوں (تجارتی قافلہ اور لشکر) میں سے ایک چیز تمہیں ضرور حاصل ہوگی۔ تاہم پھر بھی لڑائی میں بعض صحابہ نے تردد کا اظہار اور تجارتی قافلے کے تعاقب کا مشورہ دیا، جب کہ دوسرے تمام صحابہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لڑنے میں بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ اسی پس منظر میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ الانفال
3 الانفال
4 الانفال
5 ٥۔ ١ یعنی جس طرح مال غنیمت کی تقسیم کا معاملہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا باعث بنا ہوا تھا، پھر اسے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالہ کردیا گیا تو اسی میں مسلمان کی بہتری تھی، اسی طرح آپ کا مدینہ سے نکلنا اور پھر آگے چل کر تجارتی قافلے کے بجائے، لشکر قریش سے مڈ بھیڑ ہوجانا، بعض طبائع کے لئے ناگوار تھا لیکن اس میں بھی بلآخر فائدہ مسلمانوں ہی کا تھا۔ ٥۔ ٢ یہ ناگواری لشکر قریش سے لڑنے کے معاملے میں تھی، جس کا اظہار چند افراد کی طرف سے ہوا اور اس کی وجہ صرف بے سروسامانی تھی۔ اس کا تعلق مدینہ سے نکلنے سے نہیں ہے۔ الانفال
6 ٦۔ ١ یعنی یہ بات ظاہر ہوگئی تھی کہ قافلہ تو بچ کر نکل گیا ہے اور اب لشکر قریش ہی سامنے ہے جس سے لڑائی ناگزیر ہے۔ ٦۔ ٢ یہ بے سروسامانی کی حالت میں لڑنے کی وجہ سے بعض مسلمانوں کی جو کیفیت تھی اس کا اظہار ہے۔ الانفال
7 ٧۔ ١ یعنی یا تو تجارتی قافلہ تمہیں مل جائے گا، جس سے تمہیں بغیر لڑائی کے وافر مال و اسباب مل جائے گا، بصورت دیگر لشکر قریش سے تمہارا مقا لہ ہوگا اور تمہیں غلبہ ہوگا اور مال غنیمت ملے گا۔ ٧۔ ٢ یعنی تجارتی قافلہ سے بغیر لڑے مال ہاتھ آجائے۔ الانفال
8 ٨۔ ١ لیکن اللہ اس کے برعکس یہ چاہتا تھا کہ لشکر قریش سے تمہاری جنگ ہو تاکہ کفر کی قوت و شوکت ٹوٹ جائے گو یہ امر مجرموں (مشرکوں) کے لئے ناگوار ہی ہو۔ الانفال
9 ٩۔ ١ اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد ٣١٣ تھی جب کہ کافر اس سے تین گنا (یعنی ہزار کے قریب تھے پھر مسلمانوں نہتے اور بے سروسامان تھے جب کے کافروں کے پاس اسلحے کی بھی فروانی تھی ان حالات میں مسلمانوں کا سہارا صرف اللہ کی ذات ہی تھی جس سے وہ گڑ گڑا کر مدد کی فریادیں کر رہے تھے خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الگ ایک خیمے میں نہایت الحاح و زاری سے مصروف دعا تھے (صحیح بخاری) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے دعائیں قبول کیں اور ایک ہزار فرشتے ایک دوسرے کے پیچھے مسلسل لگاتار مسلمانوں کی مدد کے لئے آگئے۔ الانفال
10 ١٠۔ ١ یعنی فرشتوں کا نزول تو صرف خوشخبری اور تمہارے دلوں کے اطمینان کے لئے تھا ورنہ اصل مدد تو اللہ کی طرف سے تھی جو فرشتوں کے بغیر بھی تمہاری مدد کرسکتا تھا تاہم اس سے یہ سمجھنا بھی صحیح نہیں کہ فرشتوں نے عملاً جنگ میں حصہ نہیں لیا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ میں فرشتوں نے عملی حصہ لیا اور کئی کافروں کو انہوں نے تہ تیغ کیا (صحیح بخاری)۔ الانفال
11 ١١۔ ١ جنگ احد کی طرح جنگ بدر میں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اونگھ طاری کردی جس سے ان کے دلوں کے بوجھ ہلکے ہوگئے اور اطمینان و سکون کی ایک خاص کیفیت ان پر طاری ہوگئی۔ ١١۔ ٢ تیسرا انعام یہ کیا کہ بارش نازل فرمادی جس سے ایک تو ریتلی زمین میں نقل و حرکت آسان ہوگئی دوسرے وضو و طہارت میں آسانی ہوگئی، تیسرے اس سے شیطانی وسوسوں کا ازالہ فرما دیا جو اہل ایمان کے دلوں میں ڈال رہا تھا کہ تم اللہ کے نیک بندے ہوتے ہوئے بھی پانی سے دور ہو، دوسرے جنابت کی حالت میں تم لڑوگے تو کیسے اللہ کی رحمت و نصرت تمہیں حاصل ہوگی؟ تیسرے تم پیاسے ہو، جب کہ تمہارے دشمن سیراب ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ١١۔ ٣ یہ چوتھا انعام ہے جو دلوں اور قدموں کو مضبوط کرکے کیا گیا۔ الانفال
12 ١٢۔ ١ یہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے سے اور خاص اپنی طرف سے جس جس طریقے سے مسلمانوں کی بدر میں مدد فرمائی اس کا بیان ہے۔ ١٢۔ ١ بَنَانِ۔ ہاتھوں اور پیروں کے پور۔ یعنی ان کی انگلیوں کے اطراف (کنارے) یہ اطراف کاٹ دیئے جائیں تو ظاہر ہے کہ وہ معزور ہوجائیں گے۔ اسطرح وہ ہاتھوں سے تلوار چلانے کے اور پیروں سے بھاگنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ الانفال
13 الانفال
14 الانفال
15 ١٥۔ ١ زَ حْفًا کے معنی ہیں ایک دوسرے کے مقابل اور دوبدو ہونا۔ یعنی مسلمان اور کافر جب ایک دوسرے کے بالمقابل صف آرا ہوں تو پیٹھ پھیر کا بھاگنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایک حدیث میں ہے اَ جْتَنِبُوْا السَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ ' سات ہلاک کردینے والی چیزوں سے بچو ان سات میں ایک واتّوَلَیِ یَوم الزَّحْفِ (مقابلے والے دن پیٹھ پھیر جانا ہے) الانفال
16 ١٦۔ ١ گزشتہ آیت میں پیٹھ پھیرنے سے جو منع کیا گیا ہے، دو صورتیں اس سے مستشنٰی ہیں۔ ایک تحرف کی دوسری تحیز کی تَحَرُّفْ کے معنی ہیں ایک طرف پھر جانا، یعنی لڑائی میں جنگی چال کے طور پر یا دشمن کو دھوکے میں ڈالنے کی غرض سے لڑتا لڑتا ایک طرف پھر جائے، دشمن یہ سمجھے کہ شاید یہ شکت خوردہ ہو کر بھاگ رہا ہے لیکن وہ پھر ایک دم پینترا بدل کر اچانک دشمن پر حملہ کردے۔ یہ پیٹھ پھیرنا نہیں ہے بلکہ یہ جنگی چال ہے جو بعض دفعہ ضروری ہوتی ہے۔ تَحَیُّزُ کے معنی ملنے اور پناہ لینے کے ہیں، کوئی مجاہد لڑتا لڑتا تنہا رہ جائے تو یہ لطائف الحیل میدان جنگ سے ایک طرف ہوجائے، تاکہ وہ اپنی جماعت کی طرف پناہ حاصل کرسکے اور اس کی مدد سے دوبارہ حملہ کرے۔ یہ دونوں صورتیں جائز ہیں۔ ١٦۔ ٢ یعنی مذکورہ دو صورتوں کے علاوہ کوئی شخص میدان جنگ سے پیٹھ پھیرے گا، اس کے لئے سخت وعید ہے۔ الانفال
17 ١٧۔ ١ یعنی جنگ بدر کی ساری صورت حال تمہارے سامنے رکھ دی گئی ہے اور جس جس طرح اللہ نے تمہاری وہاں مدد فرمائی، اس کی وضاحت کے بعد تم یہ نہ سمجھ لینا کہ کافروں کا قتل، یہ تمہارا کارنامہ ہے۔ نہیں، بلکہ یہ اللہ کی اس مدد کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے تمہیں یہ فتح حاصل ہوئی اس لئے دراصل انہیں قتل کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ ١٧۔ ٢ جنگ بدر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کنکریوں کی ایک مٹھی بھر کر کافروں کی طرف پھینکی تھی، جسے ایک تو اللہ تعالیٰ نے کافروں کے مونہوں اور آنکھوں تک پہنچادیا اور دوسرے، اس میں یہ تاثیر پیدا فرمادی کہ اس سے ان کی آنکھیں چندھیا گئیں اور انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا تھا، یہ معجزہ بھی، جو اس وقت اللہ کی مدد سے ظاہر ہوا، مسلمانوں کی کامیابی میں بہت مددگار ثابت ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اے پیغمبر! کنکریاں بیشک آپ نے پھینکی تھیں، لیکن اس میں تاثیر ہم نے پیدا کی تھی، اگر ہم اس میں یہ تاثیر پیدا نہ کرتے تو یہ کنکریاں کیا کرسکتی تھیں؟ اس لئے یہ بھی دراصل ہمارا ہی کام تھا نہ کہ آپ کا۔ ١٧۔ ٣ بلاء یہاں نعمت کے معنی میں ہے۔ یعنی اللہ کی یہ تائید و نصرت، اللہ کا انعام ہے جو مومنوں پر ہوا۔ الانفال
18 ١٨۔ ١ دوسرا مقصد اس کا کافروں کی تدبیر کو کمزور کرنا اور ان کی قوت و شوکت کو توڑنا تھا۔ الانفال
19 ١٩۔ ١ ابو جہل وغیرہ روسائے قریش نے مکہ سے نکلتے وقت دعا کی تھی کہ ' اللہ ہم میں سے جو تیرا زیادہ نافرمان اور قاطع رحم ہے، کل کو تو اسے ہلاک کردے ' اپنے طور پر وہ مسلمانوں کو قاطع رحم اور نافرمان سمجھتے تھے، اس لئے اس قسم کی دعا کی۔ اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمادی تو اللہ تعالیٰ ان کافروں سے کہہ رہا ہے کہ فتح یعنی حق اور باطل کے درمیان فیصلہ طلب کر رہے تھے تو وہ فیصلہ تو سامنے آچکا ہے، اس لئے اب تم کفر سے باز آجاؤ، تو تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر پھر تم دوبارہ مسلمانوں کے مقابلے میں آؤ گے تو ہم بھی دوبارہ ان کی مدد کریں گے اور تمہاری جماعت کثرت کے باوجود تمہارے کچھ کام نہ آئے گی۔ الانفال
20 الانفال
21 ٢١۔ ١ یعنی سن لینے کے باوجود، عمل نہ کرنا، یہ کافروں کا طریقہ ہے، تم اس رویے سے بچو۔ اگلی آیت میں ایسے ہی لوگوں کو بہرہ، گونگا، غیر عاقل اور بدترین خلائق قرار دیا گیا ہے۔ دَوَبّ، دَا بَّۃ، کی جمع ہے، جو بھی زمین پر چلنے پھرنے والی چیز ہے وہ دابہ ہے۔ مراد مخلوقات ہے۔ یعنی یہ سب سے بدتر ہیں جو حق کے معاملے میں بہرے گونگے اور غیر عاقل ہیں۔ الانفال
22 ٢٢۔ ١ اس بات کو قرآن کریم میں دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا ہے۔ (لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا ۡ وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا ۡ وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا ۭاُولٰۗیِٕکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ اُولٰۗیِٕکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ) 7۔ الاعراف :179) ان کے دل ہیں، لیکن ان سے سمجھتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں، لیکن ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں یہ چوپائے کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ۔ یہ لوگ (اللہ سے) بے خبر ہیں۔ الانفال
23 ٢٣۔ ١ یعنی ان کے سماع کو نافع بناکر ان کو فہم صحیح عطا فرما دیتا، جس سے وہ حق کو قبول کرلیتے اور اسے اپنالیتے۔ لیکن چونکہ ان کے اندر خیر یعنی حق کی طلب ہی نہیں ہے، اس لئے وہ فہم صحیح سے محروم ہیں۔ ٢٣۔ ٢ پہلے سماع سے مراد سماع نافع ہے۔ اس دوسرے سماع سے مراد مطلق سماع ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ انہیں حق بات سنوا بھی دے تو چونکہ ان کے اندر حق کی طلب ہی نہیں ہے، اس لئے وہ بدستور اس سے اعراض کریں گے۔ الانفال
24 ٢٤۔ ١ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ایسی چیزوں کی طرف جس سے تمہیں زندگی ملے۔ بعض نے اس سے جہاد مراد لیا ہے کہ اس میں تمہاری زندگی کا سروسامان ہے۔ بعض نے قرآن کے اوامر و نواہی اور احکام شرعیہ مراد لئے ہیں، جن میں جہاد بھی آجاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ صرف اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات مانو، اور اس پر عمل کرو، اسی میں تمہاری زندگی ہے۔ ٢٤۔ ٢ یعنی موت وارد کرکے، جس کا مزہ ہر نفس کو چکھنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قبل اس کے کہ تمہیں موت آجائے، اللہ اور رسول کی بات مان لو اور اس پر عمل کرو۔ بعض نے کہا کہ اللہ تعالیٰ انسان کے دل کے جس طرح قریب ہے اس میں اسے بطور تمثیل بیان کیا گیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ دلوں کے بھیدوں کو جانتا ہے۔ اس سے کوئی چیز مخفی نہیں۔ امام ابن جریر نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اپنے بندوں کے دلوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور جب چاہتا ان کے اور انکے دلوں کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ حتی کہ انسان اسکی مشیت کے بغیر کسی چیز کو پا نہیں سکتا۔ بعض نے اسے جنگ بدر سے متعلق قراردیا ہے کہ مسلمان دشمن کی کثرت سے خوف زدہ تھے تو اللہ تعالیٰ نے دلوں کے درمیان حائل ہو کر مسلمانوں کے دلوں میں موجود خوف کو امن سے بدل دیا۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ آیت کے یہ سارے ہی مفہوم مراد ہوسکتے ہیں (فتح القدیر) امام ابن جریر کے بیان کردہ مفہوم کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں دین پر ثابت قدمی کی دعائیں کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ مثلا ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ بنی آدم کے دل ایک دل کی طرح رحمان کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں انہیں جس طرح چاہتا ہے پھیرتا رہتا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا پڑھی۔ اللہم مصرف القلوب صرف قلوبنا الی طاعتک۔ اے دلوں کے پھیرنے والے ! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیردے۔ بعض روایات میں ثبت قلبی علی دینک کے الفاظ ہیں۔ الانفال
25 ٢٥۔ ١ اس سے مراد یا تو بندوں کا ایک دوسرے پر تسلط ہے جو بلا تخصیص، عام و خاص پر ظلم کرتے ہیں، یا وہ عام عذاب ہیں جو کثرت بارش یا سیلاب وغیرہ اراضی و سماوی آفات کی صورت میں آتے ہیں اور نیک اور بد سب ہی ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ یا بعض احادیث میں امر بالمعروف و نہی ترک کی وجہ سے عذاب کی جو وعید بیان کی گئی ہے، مراد ہے۔ الانفال
26 ٢٦۔ ١ اس میں مکی زندگی کے شدائد و خطرات کا بیان اور اس کے بعد مدنی زندگی میں مسلمان جس آرام و راحت اور آسودگی سے بفضل الٰہی ہمکنار ہوئے، اس کا تذکرہ ہے۔ الانفال
27 ٢٧۔ ١ اللہ اور رسول کے حقوق میں خیانت یہ ہے کہ جلوت میں اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تابع دار بن کر رہے اور خلوت میں اس کے برعکس معصیت کار۔ اسی طرح یہ بھی خیانت ہے کہ فرائض میں سے کسی فرض کا ترک اور نواہی میں سے کسی بات کا ارتکاب کیا جائے اور ایک شخص دوسرے کے پاس جو امانت رکھواتا ہے اس میں خیانت نہ کرے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی امانت کی حفاظت کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔ حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اکثر خطبوں میں یہ ضرور ارشاد فرماتے تھے ' اس کا ایمان نہیں، جس کے اندر امانت کی پاسداری نہیں اور اس کا دین نہیں، جس کے اندر دین کی پابندی کا احساس نہیں۔ الانفال
28 ٢٨۔ ١ مال اور اولاد کی محبت ہی عام طور پر انسان کو خیانت پر اور اللہ اور رسول کی اطاعت سے گریز پر مجبور کرتی ہے اس لئے ان کو فتنہ (آزمائش) قرار دیا گیا ہے، یعنی اس کے ذریعے سے انسان کی آزمائش ہوتی ہے کہ ان کی محبت میں امانت اور اطاعت کے تقاضے پورے کرتا ہے یا نہیں؟ اگر پورے کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ اس آزمائش میں کامیاب ہے۔ بصورت دیگر ناکام۔ اس صورت میں یہی مال اور اولاد اس کے لئے عذاب الٰہی کا باعث بن جائیں گے۔ الانفال
29 ٢٩۔ ١ تقویٰ کا مطلب ہے، اوامر الٰہی کی مخالفت اور اس کی مناہی کے ارتکاب سے بچنا اور فرقان کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں مثلاً ایسی چیز جس سے حق و باطل کے درمیان فرق کیا جاسکے۔ مطلب یہ ہے کہ تقویٰ کی بدولت دل مضبوط، بصیرت تیزتر اور ہدایت کا راستہ واضح تر ہوجاتا ہے، جس سے انسان کو ہر ایسے موقعے پر، جب عام انسان شک و شبہ کی وادیوں میں بھٹک رہے ہوں، صراط مستقیم کی توفیق مل جاتی ہے۔ علاوہ ازیں فتح اور نصرت اور نجات و مخرج بھی اس کے معنی کئے گئے ہیں۔ اور سارے ہی مراد ہو سکتے ہیں، کیونکہ تقویٰ سے یقینا یہ سارے ہی فوائد حاصل ہوتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ کفر، مغفرت گناہ اور فضل عظیم بھی حاصل ہوتا ہے۔ الانفال
30 ٣٠۔ ١ یہ اس سازش کا تذکرہ جو روسائے مکہ نے ایک رات دار الندہ میں تیار کی تھی اور بالاخر یہ طے پایا تھا کہ مختلف قبیلوں کے نوجوانوں کو آپ کے قتل پر مامور کیا جائے تاکہ کسی ایک کو قتل کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے بلکہ دیت دیکر جان چھوٹ جائے۔ ٣٠۔ ٢ چنانچہ اس سازش کے تحت ایک رات یہ نوجوان آپ کے گھر کے باہر اس انتظار میں کھڑے رہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکلیں تو آپ کا کام تمام کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سازش سے آگاہ فرمادیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکلنے کا پتہ ہی نہیں لگا، حتیٰ کہ آپ غار ثور میں پہنچ گئے۔ یہ کافروں کے مقابلے میں اللہ کی تدبیر تھی۔ جس سے بہتر کوئی تدبیر نہیں کرسکتا۔ الانفال
31 الانفال
32 الانفال
33 ٣٣۔ ١ یعنی پیغمبر کی موجودگی میں قوم پر عذاب نہیں آتا، اس لحاظ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود گرامی ان کے حفظ و امان کا سبب تھا۔ ٣٣۔ ٢ اس سے مراد یہ ہے کہ آئندہ مسلمان ہو کر استغفار کریں گے، یا یہ کہ طواف کرتے وقت مشرکین غَفْرَانَکَ رَبَّنَا غْفُرَانَکَ کہا کرتے تھے۔ الانفال
34 ٣٤۔ ١ یعنی وہ مشرکین اپنے آپ کو مسجد حرام (خانہ کعبہ) کا متولی سمجھتے تھے اور اس اعتبار سے جس کو چاہتے طواف کی اجازت دیتے اور جس کو چاہتے نہ دیتے۔ چنانچہ مسلمانوں کو بھی وہ مسجد حرام میں آنے سے روکتے تھے حالانکہ وہ اس کے متولی ہی نہیں تھے، زبردستی بنے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس کے متولی تو متقی افراد ہی بن سکتے ہیں نہ کہ مشرک۔ علاوہ ازیں اس آیت میں جس عذاب کا ذکر ہے، اس سے مراد فتح مکہ ہے جو مشرکین کے لئے عذاب عظیم رکھتا ہے۔ اس سے قبل کی آیت میں جس عذاب کی نفی ہے، جو پیغمبر کی موجودگی یا استغفار کرتے رہنے کی وجہ سے نہیں آتا، اس سے مراد عذاب استیصال اور ہلاکت کلی ہے۔ عبرت وتبیہ کے طور پر چھوٹے موٹے عذاب اس کے منافی نہیں۔ الانفال
35 ٣٥۔ ١ مشرکین جس طرح بیت اللہ کا ننگا طواف کرتے تھے، اسی طرح طواف کے دوران وہ انگلیاں منہ میں ڈال کر سیٹیاں اور ہاتھوں سے تالیاں بجاتے۔ اس کو بھی وہ عبادت اور نیکی تصور کرتے تھے۔ جس طرح آج بھی جاہل صوفی مسجدوں اور آستانوں میں رقص کرتے، ڈھول پیٹتے اور دھمالیں ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں۔ یہی ہماری نماز اور عبادت ہے۔ ناچ ناچ کر ہم اپنے یار (اللہ) کو منالیں گے۔ نعوذ باللہ من ھذہ الخرافات۔ الانفال
36 ٣٦۔ ١ جب قریش مکہ کو بدر میں شکست ہوئی اور ان کے شکست خوردہ اصحاب مکہ واپس گئے۔ ادھر سے ابو سفیان بھی اپنا تجارتی قافلہ لے کر وہاں پہنچ چکے تھے تو کچھ لوگ، جن کے باپ، بیٹے یا بھائی اس جنگ میں مارے گئے تھے، ابو سفیان اور جن کا تجارت سامان میں حصہ تھا، ان کے پاس گئے اور ان سے استدعا کی وہ اس مال کو مسلمانوں سے بدلہ لینے کے لئے استعمال کریں۔ مسلمانوں نے ہمیں بڑا نقصان پہنچایا ہے اس لئے ان سے انتقامی جنگ ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں انہی لوگوں یا اسی قسم کا کردار اپنانے والوں کے بارے میں فرمایا کہ بیشک یہ لوگ اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنے کے لئے اپنا مال خرچ کرلیں لیکن ان کے حصے میں سوائے حسرت اور مغلوبیت کے کچھ نہیں آئے گا اور آخرت میں ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ الانفال
37 ٣٧۔ ١ یہ علیحدگی یا تو آخرت میں ہوگی کہ اہل سعادت کو اہل بد بخت سے الگ کردیا جائے گا، جیسا کہ فرمایا۔ (وَامْتَا زُوا الْیَوْ مَ اَتُہاَ الْمُجْرِمُوْنَ) (سورت یس۔ ٥٩) ' اے گناہ گارو! آج الگ ہوجاؤ ' یعنی نیک لوگوں سے اور مجرموں سے یعنی کافروں، مشرکوں اور نافرمانوں کو اکٹھا کرکے سب کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ یا پھر اس کا تعلق دنیا سے ہے۔ یعنی کافر اللہ کے راستے سے روکنے کے لئے جو مال خرچ کر رہے ہیں، ہم ان کو ایسا کرنے کا موقع دیں گے تاکہ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ خبیث کو طیب سے، کافر کو مومن سے اور منافق کو مخلص سے الگ کردے۔ اس اعتبار سے آیت کے معنی ہونگے، کفار کے ذریعے سے ہم تمہاری آزمائش کریں گے، وہ تم سے لڑیں گے اور ہم انہیں ان کے مال بھی لڑائی پر خرچ کرنے کی قدرت دیں گے تاکہ خبیث، طیب سے ممتاز ہوجائے۔ پھر وہ خبیث کو ایک دوسرے سے ملا دے گا یعنی سب کو جمع کردے گا (ابن کثیر) الانفال
38 ٣٨۔ ١ باز آجانے کا مطلب، مسلمان ہونا ہے۔ جس طرح حدیث میں بھی ہے ' جس نے اسلام قبول کرکے نیکی کا راستہ اپنالیا، اس سے اس کے ان گناہوں کی باز پرس نہیں ہوگی جو اس نے جا ہلیت میں کئے ہونگے اور جس نے اسلام لاکر بھی برائی نہ چھوڑی، اس سے اگلے پچھلے سب عملوں کا مواخذہ ہوگا ' (صحیح مسلم) ایک اور حدیث میں ہے۔ اسلام ماقبل کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ ٣٨۔ ٢ یعنی اگر وہ اپنے کفر و عناد پر قائم رہے تو جلد یا بدیر عذاب الہی کے مورد بن کر رہیں گے۔ الانفال
39 ٣٩۔ ١ فتنہ سے مراد شرک ہے۔ یعنی اس وقت تک جہاد جاری رکھو، جب تک شرک کا خاتمہ نہ ہوجائے۔ ٣٩۔ ٢ یعنی اللہ کی توحید کا پرچار تمام عالم میں لہرا جائے۔ ٣٩۔ ٣ یعنی تمہارے لئے ان کا ظاہری اسلام ہی کافی ہے، باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد کردو، کیونکہ اس کو ظاہر و باطن ہر چیز کا علم ہے۔ الانفال
40 ٤٠۔ ١ یعنی اسلام قبول نہ کریں اور اپنے کفر اور تمہاری مخالفت پر مصر رہیں۔ ٤٠۔ ٢ یعنی تمہارے دشمنوں پر تمہارا مددگار اور تمہارا حامی و محافظ ہے۔ ٤٠۔ ٣ پس کامیاب وہی ہوگا جس کا مولیٰ اللہ ہو، اور غالب بھی وہی ہوگا جس کا مددگار وہ ہوگا۔ الانفال
41 ٤١۔ ١ غنیمت سے مراد وہ مال ہے جو کافروں سے کافروں پر لڑائی میں فتح و غلبہ حاصل ہونے کے بعد حاصل ہو پہلی امتوں میں اس کے لئے یہ طریقہ تھا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد کافروں سے حاصل کردہ سارا مال ایک جگہ ڈھیر کردیا جاتا اور آسمان سے آگ آتی اور اسے جلا کر بھسم کر ڈالتی۔ لیکن امت مسلمہ کے لئے یہ مال غنیمت حلال کردیا گیا۔ اور جو مال بغیر لڑائی کے صلح کے ذریعہ یا جزیہ و خراج سے وصول ہو اسے فییٔ کہا جاتا ہے تھوڑا ہو یا زیادہ، قیمتی ہو یا معمولی سب کو جمع کر کے اس کی حسب ضابطہ تقسیم کی جائے گی۔ کسی سپاہی کو اس میں سے کوئی چیز تقسیم سے قبل اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں۔ ٤١۔ ٢ اللہ کا لفظ تو بطور تبرک کے ہے، نیز اس لئے ہے کہ ہر چیز کا اصل مالک وہی ہے اور حکم بھی اسی کا چلتا ہے، مراد اللہ اور اس کے رسول کے حصہ سے ایک ہی ہے، یعنی سارے مال غنیمت کے پانچ حصے کرکے چار حصے تو ان مجاہدین میں تقسیم کئے جائیں گے جنہوں نے جنگ میں حصہ لیا۔ ان میں پیادہ کو ایک حصہ اور سوار کو تین گنا حصہ ملے گا۔ پانچواں حصہ، جسے عربی میں خمس کہتے ہیں، کہا جاتا کہ اس کے پھر پانچ حصے کئے جائیں گے۔ ایک حصہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا (اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اسے مفاد عامہ میں خرچ کیا جائے گا) جیسا کہ خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی یہ حصہ مسلمانوں پر ہی خرچ فرماتے تھے بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بھی ہے ' میرا جو پانچواں حصہ ہے وہ بھی مسلمانوں کے مصالح پر ہی خرچ ہوتا ہے ' دوسرا حصہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں کا، پھر یتیموں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا کہا جاتا ہے کہ یہ خمس حسب ضرورت خرچ کیا جائے۔ ٤١۔ ٣ اس نزول سے مراد فرشتوں کا اور آیات الٰہی (معجزات وغیرہ) کا نزول ہے جو بدر میں ہوا۔ ٤١۔ ٤ بدر کی جنگ ٢ ہجری ١٧ رمضان المبارک کو ہوئی۔ اس دن کو یوم الفرقان اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ کافروں اور مسلمانوں کے درمیان پہلی جنگ تھی اور مسلمانوں کو فتح و غلبہ دے کر واضح کردیا گیا کہ اسلام حق ہے اور کفر شرک باطل ہے۔ ٤١۔ ٥ یعنی مسلمانوں اور کافروں کی فوجیں الانفال
42 ٤٢۔ ١ دُنْیَاسے مراد وہ کنارہ جو مدینہ شہر کے قریب تھا۔ قصویٰ کہتے ہیں دور کو۔ کافر اس کنارے پر تھے جو مدینہ سے دور تھا۔ ٤٢۔ ٢ اس سے مراد تجارتی قافلہ ہے جو حضرت ابو سفیان کی قیادت میں شام سے مکہ جا رہا تھا اور جسے حاصل کرنے کے لئے ہی دراصل مسلمان اس طرف آئے تھے۔ یہ پہاڑ سے بہت دور مغرب کی طرف نشیب میں تھا، جب کہ بدر کا مقام، جہاں جنگ ہوئی، بلندی پر تھا۔ ٤٢۔ ٣ یعنی اگر جنگ کے لئے باقاعدہ دن اور تاریخ کا ایک دوسرے کے ساتھ وعدہ یا اعلان ہوتا تو ممکن بلکہ یقین تھا کہ کوئی فریق لڑائی کئے بغیر ہی پسپائی اختیار کرلیتا لیکن چونکہ اس جنگ کا ہونا اللہ نے لکھ رکھا تھا اس لئے ایسے اسباب پیدا کردیئے گئے کہ دونوں فریق بدر کے مقام پر ایک دوسرے کے مقابل بغیر پیشگی وعدہ وعید کے، صف آرا ہوجائیں۔ ٤٢۔ ٤ یہ علت ہے اللہ کی اس تقدیری مشیت کی جس کے تحت بدر میں فریقین کا اجتماع ہوا، تاکہ جو ایمان پر زندہ رہے تو وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے اور اسے یقین ہو کہ اسلام حق ہے کیونکہ اس کی حقانیت کا مشاہدہ وہ بدر میں کرچکا ہے اور جو کفر کے ساتھ ہلاک ہو تو بھی دلیل کے ساتھ ہلاک ہو کیونکہ اس پر یہ واضح ہوچکا ہے کہ مشرکین کا راستہ گمراہی اور باطل کا راستہ ہے۔ الانفال
43 ٤٣۔ ١ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں کافروں کی تعداد تھوڑی دکھائی اور وہی تعداد آپ نے صحابہ کرام کے سامنے بیان فرمائی، جس سے ان کے حوصلے بڑھ گئے تھے، اگر اس کے برعکس کافروں کی تعداد زیادہ دکھائی جاتی تو صحابہ میں باہمی اختلاف کا اندیشہ تھا۔ لیکن اللہ نے ان دونوں باتوں سے بچا لیا۔ الانفال
44 ٤٤۔ ١ تاکہ وہ کافر بھی تم سے خوف کھا کر پیچھے نہ ہٹیں، پہلا واقعہ خواب کا تھا اور یہ دکھلانا عین قتال کے وقت تھا، جیسا کہ الفاظ قرآنی سے واضح ہے۔ تاہم یہ معاملہ ابتدا میں تھا، لیکن جب باقاعدہ لڑائی شروع ہوگئی تو پھر کافروں کو مسلمان اپنے سے دوگنا نظر آتے تھے، جیسا کہ سورہ، آل عمران کی آیت ١٣ سے معلوم ہوتا ہے۔ بعد میں زیادہ دکھانے کی حکمت یہ نظر آتی ہے کہ کثرت دیکھ کر ان کے اندر مسلمانوں کا خوف اور دہشت بیٹھ جائے، جس سے ان کے اندر بزدلی اور پست ہمتی پیدا ہو، اس کے برعکس پہلے کم دکھانے میں حکمت یہ تھی کہ وہ لڑنے سے گریز نہ کریں۔ ٤٤۔ ٢ اس سب کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ کیا ہوا تھا، وہ پورا ہوجائے۔ اس لئے اس نے اس کے اسباب پیدا فرما دے۔ الانفال
45 ٤٥۔ ١ اب مسلمانوں کو لڑائی کے وہ آداب بتائے جا رہے ہیں جن کو دشمن کے مقابلے کے وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ سب سے پہلی بات ثبات قدمی اور استقلال ہے، کیونکہ اس کے بغیر میدان جنگ میں ٹھہرنا ممکن ہی نہیں ہے تاہم اس سے تحرف اور تحیز کی وہ دونوں صورتیں مستشنٰی ہوں گی جن کی پہلے وضاحت کی جا چکی ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ ثبات قدمی کے لئے بھی تحرف یا تحیز ناگزیر ہوتا ہے۔ دوسری ہدایت یہ ہے یہ کہ اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو۔ تاکہ مسلمان اگر تھوڑے ہوں تو اللہ کی مدد کے طالب رہیں اور اللہ بھی کثرت ذکر کی وجہ سے ان کی طرف متوجہ رہے اور اگر مسلمان تعداد میں زیادہ ہوں تو کثرت کی وجہ سے ان کے اندر عجب اور غرور پیدا نہ ہو، بلکہ اصل توجہ اللہ کی امداد پر ہی رہے۔ الانفال
46 ٤٦۔ ١ تیسری ہدایت، اللہ اور رسول کی اطاعت، ظاہر بات ہے ان نازک حالات میں اللہ اور رسول کی نافرمانی کتنی سخت خطرناک ہوسکتی ہے۔ اس لئے ایک مسلمان کے لئے ویسے تو ہر حالت میں اللہ اور رسول کی اطاعت ضروری ہے۔ تاہم میدان جنگ میں اس کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے اور اس موقع پر تھوڑی سی بھی نافرمانی اللہ کی مدد سے محرومی کا باعث بن سکتی ہے۔ چوتھی ہدایت کہ آپس میں تنازع اور اختلاف نہ کرو، اس سے تم بزدل ہوجاؤ گے اور ہوا اکھڑ جائے گی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ایک حدیث میں فرمایا ' لوگو! دشمن سے مڈ بھیڑ کی آرزو مت کرو اور اللہ سے عافیت مانگا کرو' تاہم جب کبھی دشمن سے لڑائی کا موقع پیدا ہوجائے تو صبر کرو (یعنی جم کر لڑو) اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سایہ تلے ہے۔ (صحیح بخاری) الانفال
47 ٤٧۔ ١ مشرکین مکہ، جب اپنے قافلے کی حفاظت اور لڑائی کی نیت سے نکلے، تو بڑے اتراتے اور فخرو غرور کرتے ہوئے نکلے، مسلمانوں کو اس کافرانہ شیوے سے روکا گیا ہے۔ الانفال
48 ٤٨۔ ١ مشرکین جب مکہ سے روانہ ہوئے تو انہیں اپنے حریف قبیلے بنی بکر بن کنانہ سے اندیشہ تھا کہ وہ پیچھے سے انہیں نقصان نہ پہنچائے چنانچہ شیطان سراقہ بن مالک کی صورت بنا کر آیا، جو بنی بکر بن کنانہ کے ایک سردار تھے، اور انہیں نہ صرف فتح و غلبہ کی بشارت دی بلکہ اپنی حمایت کا بھی پورا یقین دلایا۔ لیکن جب ملائکہ کی صورت میں امداد الٰہی اسے نظر آئی تو ایڑیوں کے بل بھاگ کھڑا ہوا۔ ٤٨۔ ٢ اللہ کا خوف تو اس کے دل میں کیا ہونا تھا ؟ تاہم اسے یقین ہوگیا تھا کہ مسلمانوں کو اللہ کی خاص مدد حاصل ہے مشرکین ان کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکیں گے۔ ٤٨۔ ٣ ممکن ہے یہ شیطان کے کلام کا حصہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے جملہ مستانفہ ہو۔ الانفال
49 ٤٩۔ ١ اس سے مراد وہ مسلمان ہیں جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور مسلمانوں کی کامیابی کے بارے میں انہیں شک تھا، یا اس سے مراد مشرکین ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ مدینہ میں رہنے والے یہودی مراد ہوں۔ ٤٩۔ ٢ یعنی ان کی تعداد تو دیکھو اور سرو سامان جو حال ہے، وہ بھی ظاہر ہے۔ لیکن مقابلہ کرنے چلے ہیں مشرکین مکہ سے، جو تعداد میں بھی ان سے کہیں زیادہ ہیں اور ہر طرح کے سامان حرب اور وسائل سے مالا مال بھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دین نے ان کو دھوکے اور فریب میں ڈال دیا ہے۔ اور یہ موٹی سی بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آرہی۔ ٤٩۔ ٣ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان اہل دنیا کو اہل ایمان کے عزم و ثبات کا کیا اندازہ ہوسکتا ہے جن کا توکل اللہ کی ذات پر ہے جو غالب ہے یعنی اپنے پر بھروسہ کرنے والوں کو وہ بے سہارا نہیں چھوڑتا اور حکیم بھی ہے اس کے ہر فعل میں حکمت بالغہ ہے جس کے ادراک سے انسانی عقلیں قاصر ہیں۔ الانفال
50 ٥٠۔ ١ بعض مفسرین نے اسے جنگ بدر میں قتل ہونے والے مشرکین کی بابت قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب مشرکین مسلمانوں کی طرف آتے تو مسلمان ان کے چہروں پر تلواریں مارتے، جس سے بچنے کے لئے وہ پیٹھ پھیر کر بھاگتے تو فرشتے ان کی دبروں پر تلواریں مارتے، لیکن یہ آیت عام ہے جو ہر کافر و مشرک کو شامل ہے اور مطلب یہ ہے کہ موت کے وقت فرشتے ان کے مونہوں اور پشتوں (یا دبروں یعنی چوتڑوں) پر مارتے ہیں، جس طرح سورۃ انعام میں بھی فرمایا : ( وَالْمَلٰۗیِٕکَۃُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْہِمْ) 6۔ الانعام :93) فرشتے ان کو مارنے کے لئے ہاتھ دراز کرتے ہیں"اور بعض کے نزدیک فرشتوں کی یہ مار قیامت والے دن جہنم کی طرف لے جاتے ہوئے ہوگی اور داروغہ جہنم کہے گا"تم جلنے کا عذاب چکھو، الانفال
51 ٥١۔ ١ یہ ضرب و عذاب تمہارے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں، بلکہ وہ تو عادل ہے جو ہر قسم کے ظلم و جور سے پاک ہے، حدیث قدسی میں بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو! میں نے اپنے نفس پر ظلم حرام کیا ہے اور میں نے اسے تمہارے درمیان بھی حرام کیا ہے پس تم ایک دوسرے پر ظلم مت کرو۔ اے میرے بندو! یہ تمہارے ہی اعمال ہیں جو میں نے شمار کر کے رکھے ہوئے ہیں، پس جو اپنے اعمال میں بھلائی پائے۔ اس پر اللہ کی حمد کرے اور جو اس کے برعکس پائے تو وہ اپنے آپ کو ہی ملامت کرے (صحیح مسلم) الانفال
52 ٥٢۔ ١ دَأبً کے معنی ہیں عادت۔ کاف تشبیہ کے لئے ہے۔ یعنی ان مشرکین کی عادت یا حال، اللہ کے پیغمبروں کے جھٹلانے میں، اسی طرح ہے۔ جس طرح فرعون اور اس سے قبل دیگر منکرین کی عادت یا حال تھا۔ الانفال
53 ٥٣۔ ١ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کوئی قوم کفران نعمت کا راستہ اختیار کرکے اور اللہ تعالیٰ کے احکام سے اعراض کر کے اپنے احوال و اخلاق کو نہیں بدل لیتی، اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں کا دروازہ بند نہیں فرماتا۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ گناہوں کی وجہ سے اپنی نعمتیں سلب فرمالیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کا مستحق بننے کے لئے ضروری ہے کہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔ گویا تبدیلی کا مطلب یہی ہے کہ قوم گناہوں کو چھوڑ کر اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار کرے۔ الانفال
54 ٥٤۔ ١ یہ اس بات کی تاکید ہے جو پہلے گزری، البتہ اس میں ہلاکت کی صورت کا اضافہ ہے کہ انہیں غرق کردیا گیا۔ علاوہ ازیں یہ واضح کردیا کہ اللہ نے ان کو غرق کر کے ان پر ظلم نہیں کیا، بلکہ یہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے تھے۔ اللہ تو کسی پر ظلم نہیں کرتا (وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِیْدِ) 41۔ فصلت :46) الانفال
55 ٥٥۔ ١ شَرُّ النَّا سِ (لوگوں میں سب سے بدتر) کے بجائے انہیں شَرَّ الدَّ وَابِّ کہا گیا ہے۔ جو لغوی معنی کے لحاظ سے تو انسانوں اور چوپایوں وغیرہ سب پر بولا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر اس کا استعمال چوپایوں کے لئے ہوتا ہے۔ گویا کافروں کا تعلق انسانوں سے ہے ہی نہیں۔ کفر کا ارتکاب کرکے وہ جانور بلکہ جانوروں میں بھی سب سے بدتر جانور بن گئے ہیں۔ الانفال
56 ٥٦۔ ١ یہ کافروں ہی کی ایک عادت بیان کی گئی ہے کہ ہر بار نقص عہد کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس کے نتائج سے ذرا نہیں ڈرتے۔ بعض لوگوں نے اس سے یہودیوں کے قبیلے بنو قریظہ کو مراد لیا ہے، جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ معاہدہ تھا کہ وہ کافروں کی مدد نہیں کریں گے لیکن انہوں نے اس کی پاسداری نہیں کی۔ الانفال
57 ٥٧۔ ١ شَرِّدْبِھِمْ کا مطلب ہے کہ ان کو ایسی مار مار کہ جس سے ان کے پیچھے، ان کے حمایتوں اور ساتھیوں میں بھگدڑ مچ جائے، حتٰی کہ وہ آپ کی طرف اس اندیشے سے رخ ہی نہ کریں کہ کہیں ان کا بھی وہی حشر نہ ہو جو ان کے پیش رؤوں کا ہوا۔ الانفال
58 ٥٨۔ ١ خیانت سے مراد ہے معاہد قوم سے نقص عہد کا خطرہ، اور (برابری کی حالت میں) کا مطلب ہے کہ انہیں با قاعدہ مطلع کیا جائے کہ آئندہ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں۔ تاکہ دونوں فریق اپنے اپنے طور پر اپنی حفاظت کے ذمہ دار ہوں، کوئی ایک فریق لا علمی اور مغالطے میں نہ مارا جائے۔ ٥٨۔ ٢ یعنی یہ نقص عہد اگر مسلمانوں کی طرف سے بھی ہو تو یہ خیانت ہے جسے اللہ پسند نہیں فرماتا۔ حضرت معاویہ اور رومیوں کے درمیان معاہدہ تھا جب معاہدے کی مدت ختم ہونے کے قریب آئی تو حضرت معاویہ نے روم کی سرزمین کے قریب اپنی فوجیں جمع کرنی شروع کردیں۔ مقصد یہ تھا کہ معاہدے کی مدت ختم ہوتے ہی رومیوں پر حملہ کردیا جائے اور عمر بن عبسہ کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے ایک حدیث رسول بیان فرمائی اور اسے معاہدہ کی خلاف ورزی قرار دیا جس پر حضرت معاویہ نے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔ الانفال
59 الانفال
60 ٦٠۔ ١ فُوَّۃِ کی تفسیر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے یعنی تیر اندازی کیونکہ اس دور میں یہ بہت بڑا جنگی ہتھیار تھا اور نہایت اہم فن تھا جس طرح گھوڑے جنگ کے لئے ناگزیر ضرورت تھے، جیسا کہ آیت سے واضح ہے۔ لیکن اب تیر اندازی اور گھوڑوں کی جنگی اہمیت اور افادیت و ضرورت باقی نہیں رہی اس لئے (وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ) 8۔ الانفال :60) کے تحت آجکل کے جنگی ہتھیار (مثلًا میزائل، ٹینک، بم اور جنگی جہاز اور بحری جنگ کے لئے آبدوزیں وغیرہ) کی تیاری ضروری ہے۔ الانفال
61 ٦١۔ ١ اگر حالات جنگ کے بجائے صلح کے متقاضی ہوں اور دشمن بھی مائل بہ صلح ہو تو صلح کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر صلح سے دشمن کا مقصد دھوکا اور فریب ہو تب بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں اللہ پر بھروسہ رکھیں، یقینا اللہ دشمن کے فریب سے بھی محفوظ رکھے گا، اور وہ آپ کو کافی ہے۔ لیکن صلح کی یہ اجازت ایسے حالات میں ہے جب مسلمان کمزور ہوں اور صلح میں اسلام اور مسلمان کا مفاد ہو لیکن جب اس کے برعکس ہوں، مسلمان قوت و وسائل میں ممتاز ہوں اور کافر کمزور تو اس صورت میں صلح کے بجائے کافروں کی قوت کو توڑنا ضروری ہے۔ الانفال
62 الانفال
63 ٦٣۔ ١ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں پر جو احسانات فرمائے، ان میں سے ایک بڑے احسان کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ یہ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مومنین کے ذریعے سے مدد فرمائی، وہ آپ کے دست بازو اور محافظ و معاون بن گئے۔ مومنین پر یہ احسان فرمایا کہ ان کے درمیان پہلے جو عداوت تھی، اسے محبت و الفت میں تبدیل فرما دیا، پہلے وہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، اب ایک دوسرے کے جانثار بن گئے، پہلے ایک دوسرے کے دلی دشمن تھے اب آپس میں رحیم و شفیق ہوگئے صدیوں پرانی باہمی عداوتوں کو اس طرح ختم کر کے، باہم پیار اور محبت پیدا کردینا یہ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی اور اس کی قدرت و مشیت کی کارفرمائی تھی، ورنہ یہ ایساکام تھا کہ دنیا بھر کے خزانے بھی اس پر خرچ کردیئے جاتے تب بھی یہ گوہر مقصود حاصل نہ ہوتا اللہ تعالیٰ نے اپنے اس احسان کا ذکر اس آیت کریمہ میں فرمایا ہے : ( اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا) 3۔ آل عمران :103) میں بھی فرمایا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی غنائم حنین کے موقع پر انصار سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا"اے جماعت انصار! کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ تم گمراہ تھے اللہ نے میرے ذریعے سے تمہیں ہدایت نصیب فرمائی۔ تم محتاج تھے اللہ نے تمہیں میرے ذریعے سے خوش حال کردیا اور تم ایک دوسرے سے الگ الگ تھے اللہ نے میرے ذریعے سے تمہیں آپس میں جوڑ دیا "نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو بات کہتے انصار اس کے جواب میں یہی کہتے اللہ و رسولہ امن "۔ اللہ اور اس کے رسول کے احسانات اس سے کہیں زیادہ ہیں"(صحیح بخاری) الانفال
64 الانفال
65 ٦٥۔ ١ تحریض کے معنی ہیں ترغیب میں مبالغہ کرنا یعنی خوب رغبت دلانا اور شوق پیدا کرنا۔ چنانچہ اس کے مطابق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنگ سے قبل صحابہ کو جہاد کی ترغیب دیتے اور اس کی فضیلت بیان فرماتے۔ جیسا کہ بدر کے موقع پر، جب مشرکین اپنی بھاری تعداد اور بھرپور وسائل کے ساتھ میدان میں آموجود ہوئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' ایسی جنت میں داخل ہونے کے لئے کھڑے ہوجاؤ، جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے ' ایک صحابی عمیر بن حمام نے کہا ' اس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر؟ ' رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' ہاں ' اس پر بخ بخ کہا یعنی خوشی کا اظہار کیا اور یہ امید ظاہر کی کہ میں جنت میں جانے والوں میں سے ہونگا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' تم اس میں جانے والوں میں سے ہوگے، چنانچہ انہوں نے اپنی تلوار کی میان توڑ ڈالی اور کھجوریں نکال کر کھانے لگے، پھر جو بچیں ہاتھ سے پھینک دیں اور کہا ان کے کھانے تک میں زندہ رہا تو یہ طویل زندگی ہوگی، پھر آگے بڑھے اور داد شجاعت دینے لگے، حتٰی کہ عروس شہادت سے ہمکنار ہوگئے۔ (رض) (صحیح مسلم) ٦٥۔ ٢ یہ مسلمانوں کے لئے بشارت ہے کہ تمہارے ثابت قدمی سے لڑنے والے بیس مجاہد دو سو اور ایک ہزار پر غالب رہیں گے۔ الانفال
66 ٦٦۔ ١ پچھلا حکم صحابہ (رض) پر گراں گزرا، کیونکہ اس کا مطلب تھا ایک مسلمان دس کافروں کے لئے بیس دو سو کے لئے اور سو ایک ہزار کے لئے کافی ہیں اور کافروں کے مقابلے میں مسلمانوں کی اتنی تعداد ہو تو جہاد فرض اور اس سے گریز ناجائز ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس میں تخفیف فرما کر ایک اور دس کا تناسب کم کرکے ایک اور دو کا تناسب کردیا (صحیح بخاری)، تفسیر سورۃ الا نفال، اب اس تناسب پر جہاد ضروری اور اس سے کم پر غیر ضروری ہے۔ ٦٦۔ ٢ یہ کہہ کر صبر و ثبات قدمی کی اہمیت بیان فرما دی کہ اللہ کی مدد حاصل کرنے کے لئے اس کا اہتمام ضروری ہے۔ الانفال
67 ٦٧۔ ١ جنگ بدر میں ستر کافر مارے گئے اور ستر ہی قیدی بنا لئے گئے، یہ کفر و اسلام کا چونکہ پہلا معرکہ تھا۔ اس لئے قیدیوں کے بارے میں کیا طرز عمل اختیار کیا جائے؟ ان کی بابت احکام پوری طرح واضح نہیں تھے چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان ستر قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا کہ کیا کیا جائے؟ ان کو قتل کردیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے؟ جواز کی حد تک دونوں ہی باتوں کی گنجائش تھی۔ اس لئے دونوں ہی باتیں زیر غور آئیں۔ لیکن بعض دفعہ جواز اور عدم جواز سے قطع نظر حالات و ظروف کے اعتبار سے زیادہ بہتر صورت اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جواز کو سامنے رکھتے ہوئے کم تر صورت اختیار کرلی گئی، جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عتاب نازل ہوا۔ مشورے میں حضرت عمر وغیرہ نے مشورہ دیا کہ کفر کی قوت و شوکت توڑنے کے لئے ضروری ہے کہ ان قیدیوں کو قتل کردیا جائے، کیونکہ یہ کفر اور کافروں کے سرغنے ہیں، یہ آزاد ہو کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زیادہ سازشیں کریں گے۔ جبکہ حضرت ابو بکر کی رائے اس سے برعکس تھی کہ فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے اور اس مال سے آئندہ جنگ کی تیاری کی جائے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اسی رائے کو پسند فرمایا جس پر یہ اور اس کے بعد کی آیات نازل ہوئیں۔ جب کفر کا غلبہ ختم ہوگیا تو قیدیوں کے بارے میں امام وقت کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ چاہے تو قتل کردے، فدیہ لے کر چھوڑ دے یا مسلمان قیدیوں کے ساتھ تبادلہ کرلے اور چاہے تو ان کو غلام بنا لے، حالات کے مطابق کوئی بھی صورت اختیار کرنا جائز ہے۔ الانفال
68 ٦٨۔ ١ اس میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ یہ لکھی ہوئی بات کیا تھی ْ بعض نے کہا اس سے مال غنیمت کی حلت مراد ہے یعنی چونکہ یہ نوشتہ تقدیر تھا کہ مسلمانوں کے لئے مال غنیمت حلال ہوگا، اس لئے تم نے فدیہ لے کر ایک جائز کام کیا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو فدیہ لینے کی وجہ سے تمہیں عذاب عظیم پہنچتا۔ بعض نے اہل بدر کی مغفرت اس سے مراد لی ہے، بعض نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی کو عذاب میں مانع ہونا مراد لیا ہے وغیرہ۔ الانفال
69 ٦٩۔ ١ اس میں مال غنیمت کی حلت و پاکیزگی کو بیان کر کے فدیے کا جواز بیان فرما دیا گیا ہے۔ جس سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ ' لکھی ہوئی بات ' سے مراد شاید یہی حلت غنائم ہے الانفال
70 ٧٠۔ ١ یعنی ایمان و اسلام لانے کی نیت اور اسے قبول کرنے کا جذبہ۔ ٧٠۔ ٢ یعنی جو فدیہ تم سے لیا گیا، اس سے بہتر تمہیں اللہ تعالیٰ قبول اسلام کے بعد عطا فرما دے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، حضرت عباس وغیرہ جو ان قیدیوں میں تھے، مسلمان ہوگئے تو اس کے بعد اللہ نے انہیں دنیاوی مال و دولت سے بھی خوب نوازا۔ الانفال
71 ٧١۔ ١ یعنی زبان سے تو اظہار اسلام کردیں لیکن مقصد دھوکا دینا ہو، تو اس سے قبل انہوں نے کفر و شرک کا ارتکاب کر کے کیا حاصل کیا ؟ یہی کہ وہ مسلمانوں کے قیدی بن گئے، اس لئے آئندہ بھی اگر وہ شرک کے راستہ پر قائم رہے تو اس سے مزید ذلت و رسوائی کے سوا انہیں کچھ اور حاصل نہیں ہوگا۔ الانفال
72 ٧٢۔ ١ یہ صحابہ مہاجرین کہلاتے ہیں جو فضیلت میں صحابہ میں اول نمبر پر ہیں۔ ٧٢۔ ٢ یہ انصار کہلاتے ہیں۔ یہ فضیلت میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ ٧٢۔ ٣ یعنی ایک دوسرے کے حمایتی اور مددگار ہیں اور بعض نے کہا کہ ایک دوسرے کے وارث ہیں۔ جیسا کہ ہجرت کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصاری کے درمیان رشتہ اخوت قائم فرما دیا تھا حتٰی کہ وہ ایک دوسرے کے وارث بھی بنتے تھے (بعد میں وارثت کا حکم منسوخ ہوگیا) ٧٢۔ ٤ یہ صحابہ کی تیسری قسم ہے جو مہاجرین و انصار کے علاوہ ہیں۔ یہ مسلمان ہونے کے بعد اپنے ہی علاقوں اور قبیلوں میں مقیم رہے۔ اس لئے فرمایا کی تمہاری حمایت یا و راثت کے وہ مستحق نہیں۔ ٧٢۔ ٥ مشرکین کے خلاف اگر ان کو تمہاری مدد کی ضرورت پیش آجائے تو پھر ان کی مدد کرنا ضروری ہے۔ ٧٢۔ ٦ ہاں اگر وہ تم سے ایسی قوم کے خلاف مدد کے خواہش مند ہوں کہ تمہارے اور ان کے درمیان صلح اور جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہے تو پھر ان مسلمانوں کی حمایت کے مقابلے میں، معاہدے کی پاسداری زیادہ ضروری ہے۔ الانفال
73 ٧٣۔ ١ یعنی جس طرح کافر ایک دوسرے کے دوست اور حمایتی ہیں اس طرح اگر تم نے بھی ایمان کی بنیاد پر ایک دوسرے کی حمایت اور کافروں سے عدم موالات نہ کی، تو پھر بڑا فتنہ اور فساد ہوگا اور یہ کہ مومن اور کافر کے باہمی اختلاط اور محبت وموالات سے دین کے معاملے میں اشتباہ اور مداہنت پیدا ہوگی۔ بعض نے (بعضھم اولیآء بعض) سے وارث ہونا مراد لیا ہے یعنی کافر ایک دوسرے کے وارث ہیں اور مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان کسی کافر کا اور کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہے جیسا کہ احادیث میں اسے وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے اگر تم وراثت میں کفر و ایمان کو نظر انداز کرکے محض قرابت کو سامنے رکھو گے تو اس سے بڑافتنہ اور فساد پیدا ہوگا۔ الانفال
74 ٧٤۔ ١ یہ مہاجرین و انصار کے انہی دو گروہوں کا تذکرہ ہے، جو پہلے بھی گزرا ہے۔ یہاں دوبارہ ان کا ذکر ان کی فضیلت کے سلسلے میں ہے۔ جب کہ پہلے ان کا ذکر آپس میں ایک دوسرے کی حمایت و نصرت کی وجہ بیان کرنے کے لئے تھا۔ الانفال
75 ٧٥۔ ١ یہ ایک چوتھے گروہ کا ذکر ہے جو فضیلت میں پہلے دو گر و ہوں کے بعد اور تیسرے گروہ سے (جنہوں نے ہجرت نہیں کی تھی) پہلے ہے۔ ٧٥۔ ٢ اخوت یا حلف کی بنیاد پر وراثت میں جو حصہ دار بنتے تھے، اس آیت سے اس کو منسوخ کردیا گیا اب وارث صرف وہی ہونگے جو نسبی اور سسرالی رشتوں میں منسلک ہونگے۔ اللہ کے حکم کی مراد یہ ہے کہ لوح محفوظ میں اصل حکم یہی تھا۔ لیکن اخوت کی بنیاد پر عارضی طور پر ایک دوسرے کا وارث بنا دیا گیا تھا، جو اب ضرورت ختم ہونے پر غیر ضروری ہوگیا اور اصل حکم نافذ کردیا گیا۔ الانفال
1 وجہ تسمیہ : اس کے مفسرین نے متعدد نام ذکر کئے ہیں لیکن زیادہ مشہور دو ہیں۔ ایک توبہ اس لئے کہ اس میں بعض مومنین کی توبہ قبول ہونے کا ذکر ہے۔ دوسرا براءۃ اس میں مشرکوں سے برات کا اعلان عام ہے۔ یہ قرآن مجید کی واحد سورت ہے جس کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم درج نہیں ہے۔ اس کی بھی متعدد وجوہات کتب تفسیر میں درج ہیں۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سورۃ انفال اور سورۃ توبہ ان دونوں کے مضامین میں بڑی یکسانیت پائی جاتی ہے یہ سورت گویا سورۃ انفال کا تتمہ یا بقیہ ہے۔ یہ سات بڑی سورتوں میں ساتویں بڑی سورت ہے جنہیں سبع طوال کہا جاتا ہے۔ ١۔ ١ فتح مکہ کے بعد ٩ ہجری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو بکر صدیق، حضرت علی اور دیگر صحابہ کو قرآن کریم کی یہ آیت اور یہ احکام دے کر بھیجا تاکہ وہ مکے میں ان کا عام اعلان کردیں۔ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق اعلان کردیا کہ کوئی شخص بیت اللہ کا عریاں طواف نہیں کرے گا، بلکہ آئندہ سال سے کسی مشرک کو بیت اللہ کے حج کی اجازت نہیں ہوگی (صحیح بخاری) التوبہ
2 ٢۔ ١ یہ اعلان نجات ان مشرکین کے لئے تھا جن سے غیرموقت معاہدہ تھا یا چار مہینے سے کم تھا یا چار مہینوں سے زیادہ ایک خاص مدت تک تھا لیکن ان کی طرف سے عہد کی پاسداری کا اہتمام نہیں تھا۔ ان سب کو چار مہینے مکہ میں رہنے کی اجازت دی گئی۔ اس کا مطلب یہ تھا اس مدت کے اندر اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو انہیں یہاں رہنے کی اجازت ہوگی۔ بصورت دیگر ان کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ چار مہینے کے بعد جزیرہ، عرب سے نکل جائیں، اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی اختیار نہیں کریں گے تو حربی کافر شمار ہونگے، جن سے لڑنا مسلمانوں کے لئے ضروری ہوگا تاکہ جزیرہ عرب کفر و شرک کی تاریکیوں سے صاف ہوجائے۔ ٢۔ ٢ یعنی یہ مہلت اس لئے نہیں دی جا رہی ہے کہ فی الحال تمہارے خلاف کاروائی ممکن نہیں ہے بلکہ اس سے مقصد صرف تمہاری بھلائی اور خیر خواہی ہے تاکہ جو توبہ کر کے مسلمان ہونا چاہے، وہ مسلمان ہوجائے، ورنہ یاد رکھو کہ تمہاری بابت اللہ کی جو تقدیر و مشیت ہے، اسے ٹال نہیں سکتے اور اللہ کی طرف سے مسلط ذلت و رسوائی سے تم بچ نہیں سکتے۔ التوبہ
3 ٣۔ ١ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ یوم حج اکبر سے مراد (١٠ ذوالحجہ) کا دن ہے، اسی دن منیٰ میں اعلان نجات منایا گیا ١٠ ذوالحجہ کو حج اکبر کا دن اسی لئے کہا گیا کہ اس دن حج کے سب سے زیادہ اور اہم مناسک ادا کئے جاتے ہیں، اور عوام عمرے کو حج اصغر کہا کرتے تھے۔ اس لئے عمرے سے ممتاز کرنے کے لئے حج کو حج اکبر کہا گیا، عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ جو حج جمعہ والے دن آئے وہ حج اکبر ہے یہ بے اصل بات ہے۔ التوبہ
4 ٤۔ ١ یہ مشرکین کی چوتھی قسم ہے ان سے جتنی مدت کا معاہدہ تھا، اس مدت تک انہیں رہنے کی اجازت دی گئی، کیونکہ انہوں نے معاہدے کی پاسداری کی اور اس کے خلاف کوئی حرکت نہیں کی، اس لئے مسلمانوں کے لئے بھی اس کی پاسداری کو ضروری قرار دیا گیا۔ التوبہ
5 ٥۔ ١ ان حرمت والے مہینوں سے مراد کیا ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ ایک رائے تو یہ ہے اس سے مراد چار مہینے ہیں جو حرمت والے ہیں۔ رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور اعلان نجات ٠ ١ ذوالحجہ کو کیا گیا۔ اس اعتبار سے گویا یہ اعلان کے بعد پچاس دن کی مہلت انہیں دی گئی، لیکن امام ابن کثیر نے کہا کہ یہاں اَ شھَرُ حُرْم سے مراد حرمت والے مہینے نہیں بلکہ ١٠ ذوالحجہ سے لے کر ١٠ ربیع الثانی تک کے چار مہینے مراد ہیں۔ انہیں اشھر حرم اس لیے کہا گیا ہے کہ اعلان براءت کی روسے ان چارمہینوں میں ان مشرکین سے لڑنے اور انکے خلاف کسی اقدام کی اجازت نہیں تھی۔ اعلان برات کی رو سے یہ تاویل مناسب معلوم ہوتی ہے (واللہ اعلم)۔ ٥۔ ٢ بعض مفسرین نے اس حکم کو عام رکھا یعنی حل یا حرم میں، جہاں بھی پاؤ قتل کرو اور بعض مفسرین نے کہا مسجد حرام کے پاس مت لڑو! یہاں تک کہ وہ خود تم سے لڑیں، اگر وہ لڑیں تو پھر تمہیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔ ٥۔ ٣ یعنی انہیں قیدی بنا لویا قتل کر دو۔ ٥۔ ٤ یعنی اس بات پر اکتفا کرو کہ وہ تمہیں کہیں ملیں تو تم کاروائی کرو، بلکہ جہان جہاں ان کے حصار، قلعے اور پناہ گاہیں ہیں وہاں وہاں ان کی گھات میں رہو، حتٰی کہ تمہاری اجازت کے بغیر ان کے لئے نقل و حرکت ممکن نہ رہے۔ ٥۔ ٥ یعنی کوئی کاروائی ان کے خلاف نہ کی جائے، کیونکہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں۔ گویا قبول اسلام کے بعد اقامت صلٰوۃ اور ادائے زکوٰۃ کا اہتمام ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک کا بھی ترک کرتا ہے تو وہ مسلمان نہیں سمجھا جائے گا۔ جس طرح حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے مانعین زکوٰۃ کے خلاف اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے جہاد کیا : اور فرمایا واللہ لأقتلن من فرق بین الصلوٰ ۃ وال زکوٰۃ (متفق علیہ) اللہ کی قسم میں ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق کریں گے۔"یعنی نماز تو پڑھیں لیکن زکوٰۃ ادا کرنے سے گریز کریں۔ التوبہ
6 ٦۔ ١ اس آیت میں مذکورہ حربی کافروں کے بارے میں ایک رخصت دی گئی ہے کہ اگر کوئی کافر پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو، یعنی اسے اپنی حفظ و امان میں رکھو تاکہ کوئی مسلمان اسے قتل نہ کرسکے اور تاکہ اسے اللہ کی باتیں سننے اور اسلام کے سمجھنے کا موقعہ ملے، ممکن ہے اس طرح اسے توبہ اور قبول اسلام کی توفیق مل جائے۔ لیکن اگر وہ کلام اللہ سننے کے باوجود مسلمان نہیں ہوتا تو اسے اس کی جائے امن تک پہنچا دو، مطلب یہ ہے کہ اپنی امان کی پاسداری آخر تک کرنی ہے، جب تک وہ اپنے مستقر تک بخیریت واپس نہیں پہنچ جاتا، اس کی جان کی حفاظت تمہاری ذمہ داری ہے۔ ٦۔ ٢ یعنی پناہ کے طلبگاروں کو پناہ کی رخصت اس لئے دی گئی ہے کہ یہ بے علم لوگ ہیں، ممکن ہے اللہ اور رسول کی باتیں ان کے علم میں آئیں اور مسلمانوں کا اخلاق و کردار وہ دیکھیں تو اسلام کی حقانیت و صداقت کے وہ قائل ہوجائیں۔ اور اسلام قبول کر کے آخرت کے عذاب سے بچ جائیں۔ جس طرح صلح حدیبیہ کے بعد بہت سے کافر امان طلب کر کے مدینہ آتے جاتے رہے تو انہیں مسلمانوں کے اخلاق و کردار کے مشاہدے سے اسلام کے سمجھنے میں بڑی مدد ملی اور بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔ التوبہ
7 ٧۔ ١ یہ استہفام نفی کے لئے ہے، یعنی جن مشرکین سے تمہارا معاہدہ ہے، ان کے علاوہ اب کسی سے معاہدہ باقی نہیں رہا ہے۔ ٧۔ ٢ یعنی عہد کی پاسداری، اللہ کے ہاں بہت پسندیدہ امر ہے۔ اس لئے معاملے میں احتیاط ضروری ہے۔ التوبہ
8 ٨۔ ١ مشرکین کی زبانی باتوں کا کیا اعتبار، جب کہ ان کا یہ حال ہے کہ اگر تم پر غالب آجائیں تو کسی قرابت اور عہد کا پاس نہیں کریں گے۔ بعض مفسرین کے نزدیک پہلا کیف مشرکین کے لئے ہے اور دوسرے سے یہودی مراد ہیں، کیونکہ ان کی صفت بیان کی گئی ہے کہ اللہ کی آیتوں کو کم قیمت پر بیچ دیتے ہیں۔ اور یہ وطیرہ یہودیوں کا ہی رہا ہے۔ التوبہ
9 التوبہ
10 ١٠۔ ١ بار بار وضاحت سے مقصود مشرکین اور یہود کی اسلام دشمنی اور ان کے سینوں میں مخفی عداوت کے جذبات کو بے نقاب کرنا ہے۔ التوبہ
11 ١١۔ ١ نماز، توحید و رسالت کے اقرار کے بعد، اسلام کا سب سے اہم رکن ہے اللہ کا حق ہے، اس میں اللہ کی عبادت کے مختلف پہلو ہیں۔ اس میں دست بستہ قیام ہے، رکوع و سجود ہے، دعا و مناجات ہے، اللہ کی عظمت و جلالت کا اور اپنی عاجزی و بے کسی کا اظہار ہے۔ عبادت کی یہ ساری صورتیں اور قسمیں صرف اللہ کے لئے خاص ہیں، نماز کے بعد دوسرا اہم فریضہ زکٰوۃ ہے، جس میں عبادتی پہلو کے ساتھ ساتھ خقوق العباد بھی شامل ہیں، زکٰوۃ سے معاشرے کے اور زکٰوہ دینے والے کے قبیلے کے ضرورت مند، مفلس نادار اور معذور و محتاج لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی لئے حدیث میں بھی شہادت کے بعد ان ہی دو چیزوں کو نمایاں کر کے بیان کیا گیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ' فرمایا ' مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ اور نماز قائم کریں اور زکٰوۃ دیں (صحیح بخاری)۔۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) کا قول ہے ومن لم یزک فلا صلٰوۃ لہ (حوالہ مذکورہ) جس نے زکوٰۃ نہیں دی اس کی نماز بھی نہیں۔" التوبہ
12 ١٢۔ ١ ایمان، یمین کی جمع ہے جس کے معنی قسم کے ہیں۔ ائمہ امام کی جمع ہے۔ مراد پیشوا اور لیڈر ہیں مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ عہد توڑ دیں اور دین میں طعن کریں، تو ظاہری طور پر یہ قسمیں بھی کھائیں تو ان قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ کفر کے ان پیشواؤں سے لڑائی کرو، ممکن ہے اس طرح اپنے کفر سے باز آجائیں۔ اس سے احناف نے استدلال کیا ہے کہ ذمی (اسلامی مملکت میں رہائش پذیر غیر مسلم) اگر نقض عہد نہیں کرتا۔ البتہ دین اسلام میں طعن کرتا ہے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ قرآن نے اس سے قتال کے لیے دو چیزیں ذکر کی ہیں اس لیے جب تک دونوں چیزوں کا صدور نہیں ہوگا وہ قتال کا مستحق نہیں ہوگا۔ لیکن امام مالک، امام شافعی اور دیگر علماء طعن فی الدین کو نقض عہد بھی قرار دیتے ہیں اس لیے ان کے نزدیک اس میں دونوں ہی چیزیں آجاتی ہیں لہذا اس ذمی کا قتل جائز ہے اسی طرح نقض عہد کی صورت میں بھی قتل جائز ہے۔ (فتح القدیر) التوبہ
13 ١٣۔ ١ اَ لَا حرف تحضیض ہے، جس سے رغبت دلائی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دے رہا ہے۔ ١٣۔ ٢ اس سے مراد دارالندوہ کی مشاورت ہے جس میں رؤسائے مکہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جلا وطن کرنے، قید کرنے یا قتل کرنے کی تجویزوں پر غور کیا۔ ١٣۔ ٣ اس سے مراد یا تو بدر کی جنگ میں مشرکین مکہ کا رویہ ہے کہ وہ اپنے تجارتی قافلے کی حفاظت کے لئے گئے، لیکن اس کے باوجود کہ انہوں دیکھ لیا کہ وہ قافلہ بچ کر نکل گیا ہے وہ بدر کے مقام پر مسلمانوں سے لڑنے کی تیاری کرتے اور چھیڑ خانی کرتے رہے، جس کے نتیجے میں بالآخر جنگ ہو کر رہی۔ یا اس سے مراد قبیلہ بنی بکر کی وہ امداد ہے جو قریش نے ان کی کی، جب کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلیف قبیلے خزاعہ پر چڑھائی کی تھی دراں حالیکہ قریش کی یہ امداد معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ التوبہ
14 التوبہ
15 ١٥۔ ١ یعنی جب مسلمان کمزور تھے تو یہ مشرکین ان پر ظلم و ستم کرتے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے دل ان کی طرف سے بڑے دکھی اور مجروح تھے، جب تمہارے ہاتھوں وہ قتل ہونگے اور ذلت و رسوائی ان کے حصے میں آئے گی تو فطری بات ہے کہ اس سے مظلوم اور ستم رسیدہ مسلمانوں کے کلیجے ٹھنڈے اور دلوں کا غصہ فرو ہوگا۔ التوبہ
16 ١٦۔ ١ یعنی بغیر امتحان اور آزمائش کے۔ ١٦۔ ٢ گویا جہاد کے ذریعے امتحان لیا گیا۔ ١٦۔ ٣ وَ لِیْجَۃ،ُگہرے اور دلی دوست کو کہتے ہیں مسلمانوں کو چونکہ اللہ اور رسول کے دشمنوں سے محبت کرنے اور دوستانہ تعلقات رکھنے سے منع کیا گیا تھا لہذا یہ بھی آزمائش کا ایک ذریعہ تھا، جس سے مخلص مومنوں کو دوسروں سے ممتاز کیا گیا۔ ١٦۔ ٤ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو پہلے ہی ہر چیز کا علم ہے۔ لیکن جہاد کی حکمت یہ ہے کہ اس سے مخلص اور غیر مخلص، فرماں بردار اور نافرمان بندے نمایاں ہو کر سامنے آجاتے، جنہیں ہر شخص دیکھ اور پہچان لیتا ہے۔ التوبہ
17 ١٧۔ ١ مَسَا جِدَ اللّٰہِ سے مراد مسجد حرام ہے جمع کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا کہ یہ تمام مساجد کا قبلہ و مرکز ہے یا عربوں میں واحد کے لئے بھی جمع کا استعمال جائز ہے ١٧۔ ٢ یعنی ان کے وہ عمل جو بظاہر نیک لگتے ہیں، جیسے طواف و عمرہ اور حاجیوں کی خدمت وغیرہ۔ کیونکہ ایمان کے بغیر یہ اعمال ایسے درخت کی طرح ہیں جو بے ثمر ہیں یا ان پھولوں کی طرح ہیں جن میں خو شبو نہیں ہے۔ التوبہ
18 ١٨۔ ١ جس طرح حدیث میں بھی ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' جب تم دیکھو کہ ایک آدمی مسجد میں پابندی سے آتا ہے تو تم اس کے ایمان کی گواہی دو ' قرآن کریم میں یہاں بھی ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے بعد جن اعمال کا ذکر کیا گیا ہے، وہ نماز زکٰوۃ اور مشیت الٰہی ہے، جس سے نماز، زکٰوۃ اور تقویٰ کی اہمیت واضح ہے۔ التوبہ
19 ١٩۔ ١ مشرکین حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی دیکھ بھال کا کام جو کرتے تھے، اس پر انہیں بڑا فخر تھا اور اس کے مقابلے میں وہ ایمان و جہاد کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے جس کا اہتمام مسلمانوں کے اندر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تم سقایت حاج اور عمارت مسجد حرام کو ایمان باللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے برابر سمجھتے ہو؟ یاد رکھو اللہ کے نزدیک یہ برابر نہیں، بلکہ مشرک کا کوئی عمل بھی قبول نہیں، چاہے وہ صورۃً خیر ہی ہو۔ جیسا کہ پہلی آیت کے جملے (حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ) 2۔ البقرۃ:217) میں واضح کیا جا چکا ہے۔ بعض روایت میں اس کا سبب نزول مسلمانوں کی آپس میں ایک گفتگو کو بتلایا گیا ہے کہ ایک روز منبر نبوی کے قریب کچھ مسلمان جمع تھے اس میں سے ایک نے کہا کہ اسلام لانے کے بعد میرے نزدیک سب سے بڑا عمل حاجیوں کو پانی پلانا ہے دوسرے نے کہا مسجد حرام کو آباد کرنا ہے تیسرے نے کہا بلکہ جہادفی سبیل اللہ ان تمام عملوں سے بہتر ہے جو تم نے بیان کیے ہیں حضرت عمر (رض) نے جب انہیں اس طرح باہم تکرار کرتے ہوئے سنا تو انہیں ڈانٹا اور فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آوازیں اونچی مت کرو یہ جمعہ کا دن تھا راوی حدیث حضرت نعمان بن بشیر (رض) کہتے ہیں کہ جمعہ کے بعد نبی صلی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی آپس کی اس گفتگو کی بابت استفسار کیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (صحیح مسلم) جس میں گو یا یہ واضح کردیا گیا کہ ایمان باللہ ایمان بالآخرت اور جہاد فی سبیل اللہ سب سے زیادہ اہمیت وفضیلت والے عمل ہیں گفتگو کے حوالے سے اصل اہمیت وفضیلت تو جہاد کی بیان کرنی تھی لیکن ایمان باللہ کے بغیر چونکہ کوئی بھی عمل مقبول نہیں اس لیے پہلے اسے بیان کیا گیا بہرحال اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں۔ دوسرا یہ معلوم ہوا کہ اس کا سبب نزول مشرکین کے مزعومات فاسدہ کے علاوہ خود مسلمانوں کا بھی اپنے اپنے طور پر بعض عملوں کو بعض پر زیادہ اہمیت دینا تھا جب کہ یہ کام شارع کا ہے نہ کہ مومنوں کا مومنوں کا کام تو ہر اس بات پر عمل کرنا ہے جو اللہ اور رسول کی طرف سے انہیں بتلائی جائے۔ ١٩۔ ٢ یعنی یہ لوگ چاہے کیسے بھی دعوے کریں۔ حقیقت میں ظالم ہیں یعنی مشرک ہیں، اس لئے کہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ اس ظلم کی وجہ سے یہ ہدایت الٰہی سے محروم ہیں۔ اس لئے ان کا اور مسلمانوں کا، جو ہدایت الٰہی سے بہرہ ور ہیں، آپس میں کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ التوبہ
20 التوبہ
21 التوبہ
22 ٢٢۔ ١ ان آیات میں ان اہل ایمان کی فضیلت بیان کی گئی جنہوں نے ہجرت کی اور اپنی جان مال کے ساتھ جہاد میں حصہ لیا۔ فرمایا۔ اللہ کے ہاں انہی کا درجہ سب سے بلند ہے اور یہی کامیاب ہیں، یہی اللہ کی رحمت و رضامندی اور دائمی نعمتوں کے مستحق ہیں نہ کہ وہ جو خود اپنے منہ میاں مٹھو بنتے اور اپنے آبائی طور طریقوں کو ہی ایمان باللہ کے مقابلے میں عزیز رکھتے ہیں۔ التوبہ
23 ٢٣۔ ١ یہ وہی مضمون ہے جو قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے (چونکہ اس کی اہمیت واضح ہے اس لئے) اسے یہاں بھی بیان کیا گیا ہے یعنی جہاد و ہجرت میں تمہارے لئے تمہارے باپوں اور بھائیوں وغیرہ کی محبت آڑے نہ آئے، کیونکہ وہ ابھی تک کافر ہیں، تو پھر وہ تمہارے دوست ہو ہی نہیں سکتے، بلکہ وہ تمہارے دشمن ہیں اگر تم ان سے محبت کا تعلق رکھو گے تو یاد رکھو تم ظالم قرار پاؤ گے۔ التوبہ
24 ٢٤۔ ١ اس آیت میں بھی اس مضمون کو بڑے مؤکد انداز میں بیان کیا گیا ہے عشیرۃ اسم جمع ہے، وہ قریب ترین رشتہ دار جن کے ساتھ آدمی زندگی کے شب و روز گزارتا ہے، یعنی کنبہ قبیلہ، اقتراف، کسب (کمائی) کے معنی کے لئے آتا ہے، تجارت، سودے کی خرید و فروخت کو کہتے ہیں جس کا مقصد نفع کا حصول ہو، کساد، مندے کو کہتے ہیں یعنی سامان فروخت موجود ہو لیکن خریدار نہ ہو یا اس چیز کا وقت گز رچکا ہو، جس کی وجہ سے لوگوں کو ضرورت نہ رہے۔ دونوں صورتیں مندے کی ہیں۔ مساکن سے مراد وہ گھر ہیں جنہیں انسان موسم کے شدائد و حوادث سے بچنے آبرومندانہ طریقے سے رہنے سہنے اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کے لئے تعمیر کرتا ہے، یہ ساری چیزیں اپنی اپنی جگہ ضروری ہیں اور ان کی اہمیت و افادیت بھی ناگزیر اور قلوب انسانی میں ان سب کی محبت بھی طبعی ہے (جو مذموم نہیں) لیکن اگر ان کی محبت اللہ اور رسول کی محبت سے زیادہ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے میں مانع ہوجائے، تو یہ بات اللہ کو سخت ناپسندیدہ اور اس کی ناراضگی کا باعث ہے اور یہ وہ فسق (نافرمانی) ہے جس سے انسان اللہ کی ہدایت سے محروم ہوسکتا ہے۔ جس طرح کہ آخری الفاظ تہدید سے واضح ہے۔ احادیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس مضمون کو وضاحت سے بیان فرمایا ہے مثلا ایک موقع پر حضرت عمر (رض) نے کہا : یا رسول اللہ ! مجھے آُ اپنے نفس کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تک میں اس کے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں اس وقت تک وہ مومن نہیں حضرت عمر (رض) نے کہا پس واللہ ! اب آپ مجھے اپنے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں آپ صلی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا "اے عمر ! اب تم مومن ہو (صحیح بخاری) ایک دوسری روایت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا"قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں جب تک میں اس کو اس کے والد سے اس کی اولاد سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ جاؤں (صحیح بخاری کتاب ایمان) ایک اور حدیث میں جہاد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا جب تم بیع عینۃ (کسی کو مدت معینہ کے لییے چیز ادھاردے کر پھر اس سے کم قیمت پر خرید لینا) اختیار کرلو گے اور گایوں کی دمیں پکڑ کر کھیتی باڑی پر راضی وقانع ہوجاؤ گے اور جہاد چھوڑ بیٹھو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط فرمادے گا جس سے تمام وقت تک نہ نکل سکو گے جب تک اپنے دین کی طرف نہیں لوٹو گے (ابو داؤد) التوبہ
25 التوبہ
26 التوبہ
27 ٢٧۔ ١ حُنَیْن مکہ اور طائف کے درمیان ایک وادی ہے۔ یہاں ھَوَاذِن اور ثَقِیْف رہتے تھے، یہ دونوں قبیلے تیر اندازی میں مشہور تھے۔ یہ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی تیاری کر رہے تھے جس کا علم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہوا تو آپ ٢١ ہزار کا لشکر لے کر ان قبیلوں سے جنگ کے لئے حنین تشریف لے گئے، یہ فتح مکہ کے ١٨، ١٩ دن بعد، شوال کا واقعہ ہے۔ مذکورہ قبیلوں نے بھرپور تیاری کر رکھی تھی اور مختلف کمین گاہوں میں تیر اندازوں کو مقرر کردیا تھا۔ ادھر مسلمانوں میں یہ عجب پیدا ہوگیا کہ آج کم از کم قلت کی وجہ سے ہم مغلوب نہیں ہونگے۔ یعنی اللہ کی مدد کے بجائے اپنی کثرت تعداد پر اعتماد زیادہ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ عجب کا کلمہ پسند نہیں آیا جب ہوازن کے تیر اندازوں نے مختلف کمین گاہوں سے مسلمانوں کے لشکر پر یک بارگی تیر اندازی کی تو اس غیر متوقع اور اچانک تیروں کی بچھاڑ سے مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ میدان میں صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور سو کے قریب مسلمان رہ گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کو پکار رہے تھے ' اللہ کے بندو! میرے پاس آؤ میں اللہ کا رسول ہوں ' کبھی یہ رجزیہ کلمہ پڑھتے اَنَا النَّبِیّْ لَا کَذ ِبْ۔ اَنَا ابنُ عَبْدِ الْمُظَّلِبْ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عباس کو (جو نہایت بلند آواز تھے) حکم دیا کہ مسلمانوں کو جمع کرنے کے لئے آوازیں دیں۔ چنانچہ ان کی ندا سن کر مسلمان سخت پشیمان ہوئے اور دوبارہ میدان میں آگئے اور پھر اس طرح جم کر لڑے کہ اللہ نے فتح عطا فرمائی، اللہ تعالیٰ کی مدد بھی حاصل ہوئی، جس سے ان کے دلوں سے دشمن کا خوف دور ہوگیا، دوسرے فرشتوں کا نزول ہوا۔ اس جنگ میں مسلمانوں نے چھ ہزار کافروں کو قیدی بنایا (جنہیں بعد میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی درخواست پر چھوڑ دیا گیا اور بہت سا مال غنیمت حاصل ہوا، جنگ کے بعد ان کے بہت سے سردار بھی مسلمان ہوگئے یہاں ٣ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس واقعے کا مختصر ذکر فرمایا ہے۔ التوبہ
28 ٢٨۔ ١ مشرک کے (پلید، ناپاک) ہونے کا مطلب، عقائد و اعمال کے لحاظ سے ناپاک ہونا ہے۔ بعض کے نزدیک مشرک ظاہر و باطن دونوں اعتبار سے ناپاک ہے۔ کیونکہ وہ طہارت (صفائی و پاکیزگی) کا اس طرح اہتمام نہیں کرتا، جس کا حکم شریعت نے دیا ہے۔ ٢٨۔ ٢ یہ وہی حکم ہے جو سن ٩ ہجری میں اعلان برات کے ساتھ کیا گیا تھا، جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے ممانعت بعض کے نزدیک صرف مسجد حرام کے لئے ہے۔ ورنہ حسب ضرورت مشرکین دیگر مساجد میں داخل ہو سکتے ہیں جس طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثمامہ بن اثال کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھے رکھا تھا حتیٰ کہ اللہ نے ان کے دل میں اسلام کی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت ڈال دی اور وہ مسلمان ہوگئے۔ علاوہ ازیں اکثر علماء کے نزدیک یہاں مسجد حرام سے مراد پورا حرم ہے یعنی حدود حرم کے اندر مشرک کا داخلہ ممنوع ہے بعض آثار کی بنیاد پر اس حکم سے ذمی اور خدام کو مشثنیٰ کیا گیا ہے اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس سے استدلال کرتے ہوئے اپنے دور حکومت میں یہود و نصاریٰ کو بھی مسلمانوں کی مسجدوں میں داخلے سے ممانعت کا حکم جاری فرمایا تھا (ابن کثیر) ٢٨۔ ٢ مشرکین کی ممانعت سے بعض مسلمانوں کے دل میں یہ خیال آیا کہ حج کے موسم میں زیادہ اجتماع کی وجہ سے جو تجارت ہوتی ہے، یہ متاثر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس مفلسی (یعنی کاروبار کی کمی) سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ عنقریب اپنے فضل سے تمہیں غنی کر دے گا چنانچہ فتوحات کی وجہ سے کثرت سے مال غنیمت مسلمانوں کو حاصل ہوا۔ اور پھر بتدریج سارا عرب بھی مسلمان ہوگیا اور حج کے موسم میں حاجیوں کی ریل پیل پھر اسی طرح ہوگئی جس طرح پہلے تھی بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہوئی اور جو مسلسل روز افزوں ہی ہے۔ التوبہ
29 ٢٩۔ ١ مشرکین سے قتال عام کے حکم کے بعد اس آیت میں یہود و نصاریٰ سے قتال کا حکم دیا جا رہا ہے (اگر وہ اسلام نہ قبول کریں) یا پھر وہ جزیہ دے کر مسلمانوں کی ماتحتی میں رہنا قبول کرلیں جزیہ ایک متعین رقم ہے جو سالانہ ایسے غیر مسلموں سے لی جاتی ہے جو کسی اسلامی مملکت میں رہائش پذیر ہوں اس کے بدلے میں ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمے داری اسلامی مملکت کی ہوتی ہے۔ یہود و نصاریٰ باوجود اس بات کے وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے تھے، ان کی بابت کہا گیا کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے، اس سے واضح کردیا گیا کہ انسان جب تک اللہ پر اس طرح ایمان نہ رکھے جس طرح اللہ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے بتلایا ہے، اس وقت تک اس کا ایمان باللہ قابل اعتبار نہیں۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ ان کے ایمان باللہ کو غیر معتبر اس لئے قرار دیا گیا کہ یہود و نصاریٰ نے حضرت عزیز و حضرت مسیح علیہما السلام کی ابنیت (یعنی بیٹا ہونے کا) اور الوہیت کا عقیدہ گھڑ لیا تھا، جیسا کہ اگلی آیت میں ان کے عقیدے کا اظہار ہے۔ التوبہ
30 التوبہ
31 ٣١۔ ١ اس کی تفسیر حضرت عدی بن حاتم کی بیان کردہ حدیث سے بخوبی ہوجاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ آیت سن کر عرض کیا کہ یہود و نصاریٰ نے تو اپنے علماء کی کبھی عبادت نہیں کی، پھر یہ کیوں کہا گیا کہ انہوں نے ان کو رب بنا لیا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی لیکن یہ بات تو ہے نا، کہ ان کے علماء نے جس کو حلال قرار دے دیا، اس کو انہوں نے حلال اور جس چیز کو حرام کردیا اس کو حرام ہی سمجھا۔ یہی ان کی عبادت کرنا ہے ' (صحیح ترمذی) کیونکہ حرام وحلال کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے یہی حق اگر کوئی شخص کسی اور کے اندر تسلیم کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس کو اپنا رب بنا لیا ہے اس آیت میں ان لوگوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے جنہوں نے اپنے اپنے پیشواؤں کو تحلیل وتحریم کا منصب دے رکھا ہے اور ان کے اقوال کے مقابلے میں وہ نصوص قرآن و حدیث کو بھی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ التوبہ
32 ٣٢۔ ١ یعنی اللہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے، یہود و نصاریٰ اور مشرکین چاہتے ہیں کہ اپنے جدال و افترا سے اس کو مٹا دیں۔ ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص سورج کی شعاعوں کو یا چاند کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دے پس! جس طرح یہ ناممکن ہے اسی طرح جو دین حق اللہ نے اپنے رسول کو دے کر بھیجا ہے اس کا مٹانا بھی ناممکن ہے۔ وہ تمام دینوں پر غالب آ کر رہے گا، جیسا کہ اگلے جملے میں اللہ نے فرمایا، کافر کے لغوی معنی ہیں چھپانے والا اسی لئے رات کو بھی ' کافر ' کہا جاتا ہے کہ وہ تمام چیزوں کو اپنے اندھیروں میں چھپا لیتی ہے کاشت کار کو بھی ' کافر 'کہتے ہیں کیونکہ وہ غلے کے دانوں کو زمین میں چھپا دیتا ہے۔ گویا کافر بھی اللہ کے نور کو چھپانا چاہتے ہیں یا اپنے دلوں میں کفر و نفاق اور مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بغض و عناد چھپائے ہوئے ہیں۔ اس لئے انہیں کافر کہا جاتا ہے۔ التوبہ
33 ٣٣۔ ١ دلائل و براہین کے لحاظ سے تو یہ غلبہ ہر وقت حاصل ہے۔ تاہم مسلمانوں نے دین پر عمل کیا تو انہیں دنیاوی غلبہ بھی حاصل ہوا۔ اور اب بھی مسلمان اگر اپنے دین کے عامل بن جائیں تو ان کا غلبہ یقینی ہے، اس لئے کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ حزب اللہ غالب و فاتح ہوگا۔ شرط یہی ہے کہ مسلمان حزب اللہ بن جائیں۔ التوبہ
34 ٣٤۔ ١ احبار حبر کی جمع ہے یہ ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو بات کو خوبصورت طریقہ سے پیش کرنے کا طریقہ رکھتا ہو خوبصورت اور منقش کپڑے کو ثوب مُحَبُّر کہا جاتا ہے مراد علماء یہود ہیں، رہبان راہب کی جمع ہے جو رہبنہ سے مشتق ہے۔ اس سے مراد علماء نصاریٰ ہیں بعض کے نزدیک یہ صوفیائے نصاریٰ ہیں۔ یہ دونوں ایک تو کلام اللہ میں تحریف و تغیر کر کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق مسئلے بتاتے اور یوں لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمان باب کا عنوان ہے ' تم پچھلی امتوں کے طور طریقوں کی ضرور پیروی کرو گے '۔ ٣٤۔ ٢ حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ یہ زکٰوۃ کے حکم سے پہلے کا حکم ہے۔ زکٰوۃ کا حکم نازل ہونے کے بعد زکٰوۃ کو اللہ تعالیٰ نے مال کی طہارت کا ذریعہ بنا دیا ہے اس لئے علماء فرماتے ہیں کہ جس مال سے زکٰوۃ ادا کردی جائے وہ خزانہ نہیں ہے اور جس مال کی زکٰوۃ ادا نہ کی جائے، وہ کنز (خزانہ) ہے، جس پر یہ قرآنی وعید ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ ' جو شخص اپنے مال کی زکٰوۃ ادا نہیں کرتا قیامت والے دن اس کے مال کو آگ کی تختیاں بنا دیا جائے گا، جس سے اس کے دونوں پہلوؤں کو، پیشانی کو اور کمر کو داغا جائے گا۔ یہ دن پچاس ہزار سال کا ہوگا اور لوگوں کے فیصلے ہوجانے تک اس کا یہی حال رہے گا اس کے بعد جنت یا جہنم میں اسے لے جایا جائے گا (صحیح مسلم) یہ بگڑے ہوئے علماء اور صوفیا کے بعد بگڑے ہوئے اہل سرمایہ ہیں تینوں طبقے عوام کے بگاڑ میں سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ التوبہ
35 التوبہ
36 ٣٦۔ ١ فی کتاب اللہ سے مراد لوح محفوظ یعنی تقدیر الٰہی ہے۔ یعنی ابتداء آفرینش سے ہی اللہ تعالیٰ نے بارہ مہینے مقرر فرمائے ہیں، جن میں چار حرمت والے ہیں جن میں قتال و جدال کی بالخصوص ممانعت ہے۔ اسی بات کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے بیان فرمایا ہے کہ ' زمانہ گھوم گھما کر پھر اسی حالت پر آگیا ہے جس حالت پر اس وقت تھا جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی۔ سال بارہ مہینوں کا ہے، جن میں چار حرمت والے ہیں، تین پے درپے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا رجب جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان ہے۔ (صحیح بخاری) زمانہ اسی حالت پر آگیا ہے کا مطلب، مشرکین عرب مہینوں میں جو تاخیر و تقدیم کرتے تھے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے اس کا خاتمہ ہے۔ ٣٦۔ ٢ یعنی ان مہینوں کا اسی ترتیب سے ہونا جو اللہ نے رکھی ہے اور جن میں چار حرمت والے ہیں۔ اور یہی حساب صحیح اور عدد مکمل ہے۔ ٣٦۔ ٣ یعنی حرمت والے مہینوں میں قتال کر کے ان کی حرمت پامال کر کے اور اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کر کے۔ ٣٦۔ ٤ لیکن حرمت والے مہینے گزرنے کے بعد الا یہ کہ وہ لڑنے پر مجبور کردیں، پھر حرمت والے مہینوں میں بھی تمہارے لئے لڑنا جائز ہوگا۔ التوبہ
37 ٣٧۔ ١ نسییء کے معنی پیچھے کرنے کے ہیں۔ عربوں میں بھی حرمت والے مہینوں میں قتال و جدال اور لوٹ مار کو سخت ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن مسلسل تین مہینے، ان کی حرمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے، قتل و غارت سے اجتناب، ان کے لئے بہت مشکل تھا۔ اس لئے اس کا حل انہوں نے یہ نکال رکھا تھا جس حرمت والے مہینے میں قتل و غارت کرنا چاہتے اس میں وہ کرلیتے اور اعلان کردیتے کہ اس کی جگہ فلاں مہینہ حرمت والا ہوگا مثلًا محرم کے مہینے کی حرمت توڑ کر اس کی جگہ صفر کو حرمت والا مہینہ قرار دے دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت فرمایا کہ یہ کفر میں زیادتی ہے کیونکہ اس کا ادل بدل مقصود لڑائی اور دنیاوی مفادات کے حصول کے سوا کچھ نہیں۔ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کے خاتمے کا اعلان یہ کہہ کر فرمادیا کہ زمانہ گھوم گھما کر اپنی اصلی حالت میں آگیا ہے یعنی اب آئندہ مہینوں کی یہ ترتیب اسی طرح رہے گی جس طرح ابتدائے کائنات سے چلی آرہی ہے۔ ٣٧۔ ٢ یعنی ایک مہینے کی حرمت توڑ کر اس کی جگہ دوسرے مہینے کو حرمت والا قرار دینے سے ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے چار مہینے حرمت والے رکھے ہیں، ان کی گنتی پوری رہے۔ یعنی گنتی پوری کرنے میں اللہ کی موافقت کرتے تھے، لیکن اللہ نے قتال و جدال اور غارت گری سے جو منع کیا تھا، اس کی انہیں کوئی پرواہ نہ تھی، بلکہ انہیں ظالمانہ کاروائیوں کے لئے ہی وہ ادل بدل کرتے تھے۔ التوبہ
38 التوبہ
39 ٣٩۔ ١ شام کے عیسائی بادشاہ ہرقل کے بارے میں اطلاع ملی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف لڑائی کی تیاری کر رہا ہے چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کے لئے تیاری کا حکم دے دیا۔ یہ شوال سن ٩ / ہجری کا واقعہ ہے۔ موسم سخت گرمی کا تھا اور سفر بہت لمبا تھا۔ بعض مسلمانوں اور منافقین پر یہ حکم گراں گزرا، جس کا اظہار اس آیت میں کیا گیا ہے اور انہیں لعنت و ملامت کی گئی ہے۔ یہ جنگ تبوک کہلاتی ہے جو حقیقت میں ہوئی نہیں۔ ٢٠ روز مسلمان ملک شام کے قریب تبوک میں رہ کر واپس آگئے۔ اس کو جیش العسرۃ کہا جاتا ہے کیونکہ اس لمبے سفر میں اس لشکر کو کافی دقتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اثاقَلْتُمْ یعنی سستی کرتے اور پیچھے رہنا چاہتے ہو۔ اس کا مظاہرہ بعض لوگوں کی طرف سے ہوا لیکن اس کو منسوب سب کی طرف کردیا گیا (فتح القدیر) التوبہ
40 ٤٠۔ ١ جہاد سے پیچھے رہنے یا اس سے جان چھڑانے والوں سے کہا جا رہا ہے کہ اگر تم مدد نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کی مدد اس وقت بھی کی جب اس نے غار میں پناہ لی تھی اور اپنے ساتھی (یعنی حضرت ابو بکر صدیق سے کہا تھا ' غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے 'اس کی تفصیل حدیث میں آئی ہے۔ ابو بکر صدیق (رض) فرماتے ہیں کہ جب ہم غار میں تھے تو میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا اگر ان مشرکین نے (جو ہمارے تعاقب میں ہیں) ہمارے قدموں پر نظر ڈالی تو یقینا ہمیں دیکھ لیں گے حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، یا ابابکر ! ما ظنک باثنین اللہ ثالثھما (صحیح بخاری) اے ابو بکر! تمہارا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ کی مدد اور اس کی نصرت جن کو شامل حال ہے۔ ٤٠۔ ٢ یہ مدد کی وہ دو صورتیں بیان فرمائی ہیں جن سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد فرمائی گئی۔ ایک سکینت، دوسری فرشتوں کی تائید۔ ٤٠۔ ٣ کافروں کے کلمے سے شرک اور کلمۃ اللہ سے توحید مراد ہے۔ جس طرح ایک حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا۔ ایک شخص بہادری کے جوہر دکھانے کے لئے لڑتا ہے، ایک قبائلی عصبیت و حمیت میں لڑتا ہے، ایک اور ریاکاری کے لئے لڑتا ہے۔ ان میں سے فی سبیل اللہ لڑنے والا کون ہے، آپ نے فرمایا ' جو اس لئے لڑتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہوجائے، وہ فی سبیل اللہ ہے۔ التوبہ
41 ٤١۔ ١ اس کے مختلف مفہوم بیان کئے گئے ہیں مثلًا انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر خوشی سے یا ناخوشی سے غریب ہو یا امیر جوان ہو یا بوڑھا پیادہ ہو یا سوار عیال دار ہو یا اہل و عیال کے بغیر۔ وہ پیش قدمی کرنے والوں میں سے ہو یا پیچھے لشکر میں شامل۔ امام شوکانی فرماتے ہیں آیت کا حمل تمام معافی پر ہوسکتا ہے، اس لئے کہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ ' تم کوچ کرو، چاہے نقل و حرکت تم پر بھاری ہو یا ہلکی'۔ اور اس مفہوم میں مذکورہ تمام مفاہیم آجاتے ہیں۔ التوبہ
42 ٤٢۔ ١ یہاں سے ان لوگوں کا بیان شروع ہو رہا ہے جنہوں نے عذر اور معذرت کر کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لے لی تھی دراں حالانکہ ان کے پاس حقیقت میں کوئی عذر نہیں تھا۔ عرض سے مراد جو دنیاوی منافع سامنے آئیں مطلب ہے مال غنیمت۔ ٤٢۔ ٢ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ شریک جہاد ہوتے۔ لیکن سفر کی دوری نے انہیں حیلے تراشنے پر مجبور کر دیا ٤٢۔ ٣ یعنی جھوٹی قسمیں کھا کر۔ کیونکہ جھوٹی قسم کھانا گناہ ہے۔ التوبہ
43 ٤٣۔ ١ یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہا جا رہا ہے کہ جہاد میں عدم شرکت کی اجازت مانگنے والوں کو تو نے کیوں بغیر یہ تحقیق کئے کہ اس کے پاس معقول عذر بھی ہے یا نہیں؟ اجازت دے دی۔ اس لئے اس کوتاہی پر معافی کی وضاحت پہلے کردی گئی ہے۔ یاد رہے یہ تنبیہ اس لئے کی گئی ہے کہ اجازت دینے میں عجلت کی گئی اور پورے طور پر تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ التوبہ
44 ٤٤۔ ١ یہ مخلص ایمانداروں کا کردار بیان کیا گیا ہے بلکہ ان کی عادت یہ ہے کہ وہ نہایت ذوق شوق کے ساتھ اور بڑھ چڑھ کر جہاد میں حصہ لیتے ہیں۔ التوبہ
45 ٤٥۔ ١ یہ ان منافقین کا بیان ہے جنہوں نے جھو ٹے حیلے تراش کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جہاد میں نہ جانے کی اجازت طلب کرلی تھی۔ ان کی بابت کہا گیا ہے کہ یہ اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسی عدم ایمان نے انہیں جہاد سے گریز پر مجبور کیا۔ اگر ایمان ان کے دلوں میں راسخ ہوتا تو نہ جہاد سے یہ بھاگتے نہ شکوک و شبہات ان کے دلوں میں پیدا ہوتے۔ التوبہ
46 ٤٦۔ ١ یہ انہیں منافقوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے جنہوں نے جھوٹ بول کر اجازت حاصل کی تھی کہ اگر وہ جہاد میں جانے کا ارادہ رکھتے تو یقینا اس کے لئے تیاری کرتے۔ ٤٦۔ ٢ فثبطھم کے معنی ہیں انکو روک دیا، پیچھے رہنا ان کے لئے پسندیدہ بنا دیا گیا، پس وہ سست ہوگئے اور مسلمانوں کے ساتھ نہیں نکلے مطلب یہ ہے کہ اللہ کے علم میں ان کی شرارتیں اور سازشیں تھیں، اس لئے اللہ کی تقدیری مشیت یہی تھی کہ وہ نہ جائیں۔ (٢) یہ یا تو اسی مشیت الٰہی کی تعبیر ہے جو تقدیرا لکھی ہوئی تھی یا بطور ناراضگی اور غضب کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اچھا ٹھیک ہے تم عورتوں، بچوں، بیماروں اور بوڑھوں کی صف میں شامل ہو کر ان کی طرح گھروں میں بیٹھے رہو۔ التوبہ
47 ٤٧۔ ١ یہ منافقین اگر اسلامی لشکر کے ساتھ شریک ہوتے تو غلط رائے اور مشورے دے کر مسلمانوں میں انتشار ہی کا باعث بنتے۔ ٤٧۔ ٢ مطلب یہ کہ چغل خوری وغیرہ کے ذریعے سے تمہارے اندر فتنہ برپا کرنے میں وہ کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کرتے اور فتنے سے مطلب اتحاد کو پارہ پارہ کردینا اور ان کے مابین باہمی عداوت و نفرت پیدا کردینا ہے۔ ٤٧۔ ٣ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین کی جاسوسی کرنے والے کچھ لوگ مومنین کے ساتھ بھی لشکر میں موجود تھے جو منافقین کو مسلمانوں کی خبریں پہنچایا کرتے تھے۔ التوبہ
48 ٤٨۔ ١ اس لئے اس نے گزشتہ اور آئندہ امور کی تمہیں اطلاع دے دی ہے اور یہ بھی بتلا دیا ہے کہ یہ منافقین جو ساتھ نہیں گئے، تو تمہارے حق میں اچھا ہوا، اگر یہ جاتے تو یہ یہ خرابیاں ان کی وجہ سے پیدا ہوتیں۔ ٤٨۔ ٢ یعنی یہ منافقین تو، جب سے آپ مدینہ میں آئے ہیں، آپ کے خلاف فتنے تلاش کرنے اور معاملات کو بگاڑنے میں سرگرم رہے ہیں۔ حتیٰ کے بدر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو فتح و غلبہ عطا فرما دیا، جو ان کے لئے بہت ہی ناگوار تھا، اسی طرح جنگ احد کے موقعے پر بھی ان منافقین نے راستے سے ہی واپس ہو کر مشکلات پیدا کرنے کی اور اس کے بعد بھی ہر موقعے پر بگاڑ کی کوشش کرتے رہے۔ حتیٰ کہ مکہ فتح ہوگیا اور اکثر عرب مسلمان ہوگئے جس پر کف حسرت و افسوس مل رہے ہیں۔ التوبہ
49 ٤٩۔ ١ ' مجھے فتنے میں نہ ڈالیے ' کا ایک مطلب یہ ہے کہ اگر مجھے اجازت نہیں دیں گے تو مجھے بغیر اجازت رکنے پر سخت گناہ ہوگا، اس اعتبار سے فتنہ، گناہ کے معنی میں ہوگا۔ یعنی مجھے گناہ میں نہ ڈالیے، دوسرا مطلب فتنے کا، ہلاکت ہے یعنی مجھے ساتھ لیجاکر ہلاکت میں نہ ڈالیں کہا جاتا ہے کہ جد ابن قیس نے عرض کیا مجھے ساتھ نہ لے جائیں، روم کی عورتوں کو دیکھ کر میں صبر نہ کرسکوں گا۔ اس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رخ پھیر لیا اور اجازت دے دی۔ بعد میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' فتنے میں جو گزر چکے ہیں ' یعنی جہاد سے پیچھے رہنا اور اس سے گریز کرنا، بجائے خود ایک فتنہ اور سخت گناہ کا کام ہے جس میں یہ ملوث ہی ہیں۔ اور مرنے کے بعد جہنم ان کو گھیر لینے والی ہے، جس سے فرار کا کوئی راستہ ان کے لئے نہیں ہوگا۔ التوبہ
50 ٥٠۔ ١ سیاق کلام کے اعتبار سے حسنَۃ،ُ سے یہاں کامیابی اور غنیمت اور سَیَئَۃ سے ناکامی، شکست اور اسی قسم کے نقصانات جو جنگ میں متوقع ہوتے ہیں مراد ہیں۔ اس میں ان کے خبث باطنی کا اظہار ہے جو منافقین کے دلوں میں تھا اس لئے کہ مصیبت پر خوش ہونا اور بھلائی حاصل ہونے پر رنج اور تکلیف محسوس کرنا، غایت عداوت کی دلیل ہے۔ التوبہ
51 ٥١۔ ١ یہ منافقین کے جواب میں مسلمانوں کے صبر و ثبات اور حوصلے کے لئے فرمایا جا رہا ہے کیونکہ جب انسان کو یہ معلم ہو کہ اللہ کی طرف سے مقدر کا ہر صورت میں ہونا ہے اور جو بھی مصیبت یا بھلائی ہمیں پہنچتی ہے اسی تقدیر الٰہی کا حصہ ہے، تو انسان کے لئے مصیبت کا برداشت کرنا آسان اور اس کے حوصلے میں اضافے کا سبب ہوتا ہے۔ التوبہ
52 ٥٢۔ ١ یعنی کامیابی یا شہادت، ان دونوں میں سے جو چیز بھی ہمیں حاصل ہو، ہمارے لئے خیر (بھلائی) ہے۔ ٥٢۔ ٢ یعنی ہم تہارے بارے میں دو برائیوں میں سے ایک برائی کا انتظار کر رہے ہیں کہ یا تو آسمان سے اللہ تعالیٰ تم پر عذاب نازل فرمائے جس سے تم ہلاک ہوجاؤ یا ہمارے ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ تمہیں (قتل کرنے، یا قیدی بننے وغیرہ قسم کی) سزائیں دے۔ وہ دونوں باتوں پر قادر ہے۔ التوبہ
53 ٥٣۔ ١ انفقوا امر کا صیغہ۔ لیکن یہاں یہ تو شرط اور جزا کے معنی میں ہے۔ یعنی اگر تم خرچ کرو گے تو قبول نہیں کیا جائے گا یا یہ امر بمعنی خبر کے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دونوں باتیں برابر ہیں، خرچ کرو یا نہ کرو۔ اپنی مرضی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے، تب بھی نہ مقبول ہے۔ کیونکہ قبولیت کے لئے ایمان شرط اول ہے اور وہی تمہارے اندر مفقود ہے اور ناخوشی سے خرچ کیا ہوا مال، اللہ کے ہاں ویسے ہی مردود ہے، اس لئے کہ وہاں قصد صحیح موجود نہیں ہے جو قبولیت کے لئے ضروری ہے۔ یہ آیت بھی اسی طرح ہے جس طرح یہ ہے (اِسْتَغْفِرْ لَہُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ ۭاِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَہُمْ) 9۔ التوبہ :80) آپ ان کے لیے بخشش مانگیں یا نہ مانگیں (یعنی دونوں باتیں برابر ہیں)۔ التوبہ
54 ٥٤۔ ١ اس میں ان کے صدقات کے عدم قبول کی تین دلیلیں بیان کی گئی ہیں، ایک ان کا کفر مفسق۔ دوسرا، کاہلی سے نماز پڑھنا، اس لئے وہ نماز پر نہ ثواب کی امید رکھتے ہیں اور نہ ہی اس کے ترک کی سزا سے انہیں کوئی خوف ہے، کیونکہ رضا اور خوف، یہ بھی ایمان کی علامت ہے جس سے محروم ہیں۔ اور تیسرا کراہت سے خرچ کرنا اور جس کام میں دل کی رضا نہ ہو وہ قبول کس طرح ہوسکتا ہے؟ بہرحال یہ تینوں وجوہات ایسی ہیں کہ ان میں سے ایک وجہ بھی عمل کی نامقبولیت کے لئے کافی ہے۔ مذکورہ یہ کہ تینوں وجوہات جہاں جمع ہوجائیں تو اس عمل کے مردود بارگاہ الٰہی ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے۔ التوبہ
55 ٥٥۔ ١ اس لئے یہ بطور آزمائش ہے، جس طرح فرمایا ' اور کئی طرح کے لوگوں کو جو ہم نے دنیا زندگی میں آرائش کی چیزوں سے بہرہ مند کیا ہے، تاکہ ان کی آزمائش کریں کہ ہم دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں (تو اس سے) ان کی بھلائی میں ہم جلدی کر رہے ہیں؟ (نہیں) بلکہ یہ سمجھتے نہیں ' ٥٥۔ ٢ امام ابن کثیر اور امام ابن جریر طبری نے اس سے زکٰوۃ اور نفاق فی سبیل اللہ مراد لیا ہے۔ یعنی ان منافقین سے زکٰوۃ و صدقات تو (جو وہ مسلمان ظاہر کرنے کے لئے دیتے ہیں) دنیا میں قبول کر لئے جائیں تاکہ اسی طریقے سے ان کو مالی مار بھی دنیا میں دی جائے۔ ٥٥۔ ٣ تاہم ان کی موت کفر ہی کی حالت میں آئے گی۔ اس لئے کہ وہ اللہ کے پیغمبر کو صدق دل سے ماننے کے لئے تیار نہیں اور اپنے کفر و نفاق پر ہی بدستور قائم و مصر ہیں۔ التوبہ
56 ٥٦۔ ١ اس ڈر اور خوف کی وجہ سے جھوٹی قسمیں کھا کر یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہم بھی تم میں سے ہی ہیں۔ التوبہ
57 ٥٧۔ ١ یعنی نہایت تیزی سے دوڑ کر وہ پناہ گاہوں میں چلے جائیں، اس لئے کہ تم سے ان کا جتنا کچھ بھی تعلق ہے، وہ محبت و خلوص پر نہیں، عناد، نفرت اور کراہت پر ہے۔ التوبہ
58 ٥٨۔ ١ یہ ان کی ایک اور بہت بڑی کوتاہی کا بیان ہے کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اچھی صفات کو (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (نعوذ باللہ) صدقات و غنائم کی تقسیم میں غیر منصف باور کراتے، جس طرح ابن ذی الخویصرہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مرتبہ تقسیم فرما رہے تھے کہ اس نے کہا ' انصاف سے کام لیجئے ' آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، افسوس ہے تجھ پر، اگر میں ہی انصاف نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا ؟ (صحیح بخاری)۔ ٥٨۔ ٢ گویا اس الزام تراشی کا مقصد محض مالی مفادات کا حصول تھا کہ اس طرح ان سے ڈرتے ہوئے انہیں زیادہ حصہ دیا جائے، یا وہ مستحق ہوں یا نہ ہوں، انہیں حصہ ضرور دیا جائے۔ التوبہ
59 التوبہ
60 ٦٠۔ ١ اس آیت میں اس طعن کا دروازہ بند کرنے کے لئے صدقات کے مستحق لوگوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ صدقات سے مراد یہاں صدقات واجبہ یعنی زکٰوۃ ہے۔ آیت کا آغاز انما سے کیا گیا ہے جو قصر کے صیغوں میں سے ہے اور الصقات میں لام تعریف جنس کے لیے ہے یعنی صدقات کی یہ جنس (زکوٰۃ) ان آٹھ قمسوں میں مقصور ہے جن کا ذکر آیت میں ہے ان کے علاوہ کسی اور مصرف پر زکوٰۃ کی رقم کا استعمال صحیح نہیں۔ اہل علم کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ کیا ان آٹھوں مصارف پر تقسیم کرنا ضروری ہے؟ امام شافعی کی رائے کی رو سے زکٰوۃ کی رقم آٹھوں مصارف پر خرچ کرنا ضروری ہے۔ یا ان میں سے جس مصرف یا مصارف پر امام یا زکوٰۃ ادا کرنے والا مناسب سمجھے حسب ضرورت خرچ کرسکتا ہے امام شافعی وغیرہ پہلی رائے کے قائل ہیں اور امام مالک اور امام ابو حنیفہ وغیرہما دوسری رائے کے۔ اور یہ دوسری رائے ہی زیادہ صحیح ہے امام شافعی کی رائے کی رو سے زکوٰۃ کی رقم آٹھوں مصارف پر خرچ کرنا ضروری ہے یعنی اقتضائے ضرورت اور مصالح دیکھے بغیر رقم کے آٹھ حصے کر کے آٹھوں جگہ پر کچھ کھچ رقم خرچ کی جائے۔ جبکہ دوسری رائے کے مطابق ضرورت اور مصالح کا اعتبار ضروری ہے جس مصرف پر رقم خرچ کرنے کی زیادہ ضرورت یا مصالح کسی ایک مصرف پر خرچ کرنے کے متقتضی ہوں، تو وہاں ضرورت اور مصالح کے لحاظ سے زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جائے گی چاہے دوسرے مصارف پر خرچ کرنے کے لیے رقم نہ بچے اس رائے میں جو معقولیت ہے وہ پہلی رائے میں نہیں ہے۔ ٦٠۔ ٢ ان مصارف ثمانیہ کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے۔ ا۔ فقیر اور مسکین چونکہ قریب قریب ہیں اور ایک کا اطلاق دوسر پر بھی ہوتا ہے یعنی فقیر کو مسکین اور مسکین کو فقیر کہہ لیا جاتا ہے۔ اس لئے ان کی الگ الگ تعریف میں خاصا اختلاف ہے۔ تاہم دونوں کے مفہوم میں یہ بات تو قطعی ہے کہ جو حاجت مند ہوں اور اپنی حاجات وضروریات کو پورا کرنے کے لیے مطلوبہ رقم اور وسائل سے محروم ہوں ان کو فقیر اور مسکین کہا جاتا ہے مسکین کی تعریف میں ایک حدیث آتی ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا "مسکین وہ گھو منے پھر نے والا نہیں ہے جو ایک ایک یادو دو لقمے یا کھجور کے لیے گھر گھر پھرتا ہے بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال بھی نہ ہو جو اسے بے نیاز کر دے نہ وہ ایسی مسکنت اپنے اوپر طاری رکھے کہ لوگ غریب اور مستحق سمجھ کر اس پر صدقہ کریں اور نہ خود لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرے"(صحیح بخاری ومسلم کتاب الزکوٰۃ) حدیث میں گویا اصل مسکین شخص مذکور کو قرار دیا گیا ہے ورنہ حضرت ابن عباس (رض) وغیرہ سے مسکین کی تعریف یہ منقول ہے کہ جو گداگر ہو، گھوم پھر کر اور لوگوں کے پیچھے پڑ کر مانگتا ہو اور فقیر وہ ہے جو نادار ہونے کے باوجود سوال سے بچے اور لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرے (ابن کثیر) ٢۔ عاملین سے مراد حکومت کے وہ اہلکار جو زکٰو ۃ و صدقات کی وصولی و تقسیم اور اس کے حساب کتاب پر معمور ہوں۔ ٣۔ مولفۃ القلوب ایک تو وہ کافر ہے جو کچھ اسلام کی طرف مائل ہو اور اس کی امداد کرنے پر امید ہو کہ وہ مسلمان ہوجائے گا۔ دوسرے، وہ نو مسلم افراد ہیں جن کو اسلام پر مضبوطی سے قائم رکھنے کے لیے امداد دینے کی ضرورت ہو۔ تیسرے وہ افراد بھی ہیں جن کی امداد دینے کی صورت میں یہ امید ہو کہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے سے روکیں گے اور اس طرح وہ قریب کے کمزور مسلمانوں کا تحفظ کریں۔ یہ اور اس قسم کی دیگر صورتیں تالیف قلب کی ہیں جن پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے چاہے مذکورہ افراد مال دار ہی ہوں۔ احناف کے نزدیک یہ مصرف ختم ہوگیا ہے لیکن یہ بات صحیح نہیں حالات وظروف کے مطابق ہر دور میں اس مصرف پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنا جائز ہے۔ ٥۔ گردنیں آزاد کرانے میں۔ بعض علماء نے اس سے صرف مکاتب غلام مراد لئے ہیں اور علماء نے مکاتب وغیر مکاتب ہر قسم کے غلام مراد لئے ہیں۔ امام شوکانی نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ ٦۔ غارمین سے ایک تو وہ مقروض مراد ہیں جو اپنے اہل و عیال کے نان نفقہ اور ضروریات زندگی فراہم کرنے میں لوگوں کے زیر بار ہوگئے اور ان کے پاس نقد رقم بھی نہیں ہے اور ایسا سامان بھی نہیں ہے جسے بیچ کر وہ قرض ادا کریں سکیں۔ دوسرے وہ ذمہ داراصحاب ضمانت ہیں جنہوں نے کسی کی ضمانت دی اور پھر وہ اس کی ادائیگی کے ذمہ دار قرار پاگئے یا کسی فصل تباہ یا کاروبار خسارے کا شکار ہوگیا اور اس بنیاد پر وہ مقروض ہوگیا۔ ان سب افراد کی زکوٰۃ کی مد سے امداد کرنا جائز ہے۔ ٧۔ فی سبیل اللہ سے مراد جہاد ہے یعنی جنگی سامان و ضروریات اور مجاہد (چا ہے وہ مالدار ہی ہو) پر زکٰوۃ کی رقم خرچ کرنا جائز ہے۔ اور احادیث میں آتا ہے کہ حج اور عمرہ بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے اسی طرح بعض علماء کے نزدیک تبلیغ ودعوت بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے کیونکہ اس سے بھی مقصد جہاد کی طرح اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔ ٨۔ ابن السبیل سے مراد مسافرہے۔ یعنی اگر کوئی مسافر، سفر میں مستحق امداد ہوگیا ہے چاہے وہ اپنے گھر یا وطن میں صاحب حیثیت ہی ہو، اس کی امداد زکٰوۃ کی رقم سے کی جاسکتی ہے۔ التوبہ
61 ٦١۔ ١ یہاں سے پھر منافقین کا ذکر ہو رہا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ایک ہرزہ سرائی انہوں نے یہ کی کہ یہ کان کا کچا (ہلکا) ہے، مطلب ہے کہ یہ ہر ایک بات سن لیتا ہے (یہ گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلم و کرم اور عفو و صفع کی صفت سے ان کو دھوکہ ہوا) اللہ نے فرمایا کہ نہیں، ہمارا پیغمبر شر و فساد کی کوئی بات نہیں سنتا جو بھی سنتا ہے تمہارے لئے اس میں خیر اور بھلائی ہے۔ التوبہ
62 التوبہ
63 التوبہ
64 التوبہ
65 ٦٥۔ ١ منافقین آیات الٰہی کا مذاق اڑاتے، مومنین کا استہزا کرتے حتیٰ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخانہ کلمات کہنے سے گریز نہ کرتے جس کی اطلاع کسی نہ کسی طریقے سے بعض مسلمانوں کو اور پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہوجاتی۔ لیکن جب ان سے پوچھا جاتا تو صاف مکر جاتے اور کہتے کہ ہم تو یوں ہی ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہنسی مذاق کے لئے کیا تمہارے سامنے اللہ اور اس کی آیات و رسول ہی رہ گیا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ اگر مقصد تمہارا آپس میں ہنسی مذاق کا ہوتا تو اس میں اللہ، اس کی آیات و رسول درمیان میں کیوں آتے، یہ یقینا تمہارے اس خبث اور نفاق کا اظہار ہے جو آیات الٰہی اور ہمارے پیغمبر کے خلاف تمہارے دلوں میں موجود ہے۔ التوبہ
66 ٦٦۔ ١ یعنی تم جو ایمان ظاہر کرتے رہے ہو۔ اللہ اور رسول کے استہزا کے بعد، اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ گئی۔ اول تو وہ بھی نفاق پر ہی مبنی تھا۔ تاہم اس کی بدولت ظاہری طور پر مسلمانوں میں تمہارا شمار ہوتا تھا اب اس کی بھی گنجائش ختم ہوگئی ہے۔ ٦٦۔ ٢ اس سے مراد ایسے لوگ ہیں جنہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور انہوں نے توبہ کرلی اور مخلص مسلمان بن گئے۔ ٦٦۔ ٣ یہ وہ لوگ ہیں، جنہیں توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوئی اور کفر اور نفاق پر اڑے رہے اس لئے اس عذاب کی علت بھی بیان کردی گئی ہے کہ وہ مجرم تھے۔ التوبہ
67 ٦٧۔ ١ منافقین، جو حلف اٹھا کر مسلمان باور کراتے تھے کہ ' ہم تم ہی میں سے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید فرمائی، کہ ایمان والوں سے ان کا کیا تعلق؟ البتہ یہ سب منافق، چاہے مرد ہوں یا عورتیں، ایک ہی ہیں، یعنی کف و نفاق میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں۔ آگے ان کی صفات بیان کی جا رہی ہیں جو مومنین کی صفات کے بالکل الٹ اور برعکس ہیں۔ ٦٧۔ ٢ اس سے مراد بخل ہے۔ یعنی مومن کی صفت اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور منافق کی اس کے برعکس بخل، یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے گریز کرنا ہے۔ ٦٧۔ ٣ یعنی اللہ تعالیٰ بھی ان سے ایسا معاملہ کرے گا کہ گویا اس نے انہیں بھلا دیا۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ' آج ہم تمہیں اس طرح بھلا دیں گے جس طرح تم ہماری ملاقات کے اس دن کو بھولے ہوئے تھے ' مطلب یہ کہ جس طرح انہوں نے دنیا میں اللہ کے احکامات کو چھوڑے رکھا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل و کرم سے محروم رکھے گا گویا نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف علم بلاغت کے اصول مشاکلت کے اعتبار سے ہے ورنہ اللہ کی ذات نسیان سے پاک ہے (فتح القدیر) التوبہ
68 التوبہ
69 ٦٩۔ ١ یعنی تمہارا حال بھی اعمال اور انجام کے اعتبار سے امم ماضیہ کے کافروں جیسا ہی ہے۔ اب غائب کی بجائے، منافقین سے خطاب کیا جا رہا ہے۔ ٦٩۔ ٢ خلاق کا دوسرا ترجمہ دنیاوی حصہ بھی کیا گیا ہے۔ یعنی تمہاری تقدیر میں دنیا کا جتنا حصہ لکھ دیا گیا ہے، وہ برت لو، جس طرح تم سے پہلے لوگوں نے اپنا حصہ برتا اور پھر موت یا عذاب سے ہم کنار ہوگئے۔ ٦٩۔ ٣ یعنی آیات الٰہی اور اللہ کے پیغمبروں کی تکذیب کے لئے۔ یا دوسرا مفہوم ہے دنیا کے اسباب اور لہو و لعب میں جس طرح وہ مگن رہے، تمہارا بھی یہی حال ہے۔ آیت میں پہلے لوگوں سے مراد اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ ہیں۔ جیسے ایک حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کی ضرور متابعت کروگے۔ بالشت بہ بالشت، ذراع بہ ذراع اور ہاتھ بہ ہاتھ۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں گھسے ہوں تو تم بھی ضرور گھسو گے۔ لوگوں نے پوچھا، کیا اس سے آپ کی مراد اہل کتاب ہیں؟ آپ نے فرمایا، اور کون؟ (صحیح بخاری)۔ البتہ ہاتھ بہ ہاتھ (باعا بباع) کے الفاظ ان میں نہیں ہیں یہ تفسیر طبری میں منقول ایک اثر میں ہے۔ (٤) اولٰئک سے مراد وہ لوگ ہیں جو مذکورہ صفات وعادات کے حامل ہیں مشبہین بھی اور مشبہ بہم بھی یعنی جس طرح وہ خاسر ونامراد رہے تم بھی اسی طرح رہو گے حالانکہ وہ قوت میں تم سے زیادہ سخت اور مال واولاد میں بھی بہت زیادہ تھے اس کے باوجود وہ عذاب الہی سے نہ بچ سکے تو تم جو ان سے ہر لحاظ سے کم ہو کس طرح اللہ کی گرفت سے بچ سکتے ہو۔ التوبہ
70 ٧٠۔ ١ یہاں ان چھ قوموں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ جن کا مسکن ملک شام رہا ہے۔ یہ بلاد عرب کے قریب ہے اور ان کی کچھ باتیں انہوں نے شاید آباواجداد سے سنی بھی ہوں قوم، نوح، جو طوفان میں غرق کردی گئی۔ قوم عاد جو قوت اور طاقت میں ممتاز ہونے کے باوجود، باد تند سے ہلاک کردی گئی۔ قوم ثمود جسے آسمانی چیخ سے ہلاک کیا گیا قوم ابراہیم، جس کے بادشاہ نمرود بن کنعان بن کوش کو مچھر سے مروا دیا گیا۔ اصحاب مدین (حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم) جنہیں چیخ زلزلہ اور بادلوں کے سائے کے عذاب سے ہلاک کردیا گیا اور اہل مؤتفکات سے مراد قوم لوط ہے جن کی بستی کا نام 'سدوم' تھا اشفاک کے معنی ہیں انقلاب الٹ پلٹ دینا۔ ان پر آسمان سے پتھر برسائے گئے۔ دوسرے ان کی بستی کو اوپر اٹھا کر نیچے پھینکا گیا جس سے پوری بستی اوپر نیچے ہوگئی اس اعتبار سے انہیں اصحاب مؤتفکات کہا جاتا ہے۔ ٧٠۔ ٢ ان سب قوموں کے پاس، ان کے پیغمبر، جو ان ہی کی قوم ایک فرد ہوتا تھا آئے۔ لیکن انہوں نے ان کی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دی، بلکہ تکذیب اور عناد کا راستہ اختیار کیا، جس کا نتیجہ بالآخر عذاب الیم کی شکل میں نکلا۔ (٣) یعنی یہ عذاب ان کے ظلم پر استمرار اور دوام کا نتیجہ ہے یوں ہی بلا وجہ عذاب الٰہی کا شکار نہیں ہوئے۔ التوبہ
71 ٧١۔ منافقین کی صفات مذمومہ کے مقابلے مومنین کی صفات محمودہ کا ذکر ہو رہا ہے پہلی صفت وہ ایک دوسرے کے دوست، معاون و غم خوار ہیں جس طرح حدیث میں ہے (المؤمن للمؤمن کالبنیان، یشد بعضہ بعضا) (صحیح بخاری) مومن مومن کے لیے ایک دیوار کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کی مضبوطی کا ذریعہ ہے دوسری حدیث میں فرمایا : (مثل المؤمنین فی تو ادھم وتراحمھم کمثل الجسد الواحد اذا اشتکی منہ عضو تداعی لہ سائر الجسد بالحمی والسھر) (صحیح مسلم) مومنوں کی مثال، آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے اور رحم کرنے میں ایک جسم کی طرح ہے جب جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم تپ کا شکار ہوجاتا ہے اور بیدار رہتا ہے۔ ٧١۔ ٢ یہ ایل ایمان کی دوسری خاص صفت ہے معروف وہ ہے جسے شریعت نے معروف (یعنی نیکی اور بھلائی) اور منکر وہ ہے جسے شریعت نے منکر (یعنی برا) قرار دیا ہے۔ نہ کہ وہ جسے لوگ اچھا یا برا کہیں۔ ٧١۔ ٣ نماز، حقوق اللہ میں نمایاں ترین عبادت ہے اور زکٰو ۃ۔ حقوق العباد کے لحاظ سے، امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے ان دونوں کا بطور خاص تذکرہ کر کے فرما دیا گیا کہ وہ ہر معاملے میں اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ التوبہ
72 ٧٢۔ ١ جو موتی اور یاقوت تیار کئے گئے ہوں گے۔ عدن کے کئی معنی کئے گئے ہیں۔ ایک معنی ہمیشگی کے ہیں۔ ٧٢۔ ٢ حدیث میں بھی آتا ہے کہ جنت کی تمام نعمتوں کے بعد اہل جنت کو سب سے بڑی نعمت رضائے الٰہی کی صورت میں ملے گی (صحیح بخاری) التوبہ
73 ٧٣۔ ١ اس آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار اور منافقین سے جہاد اور ان پر سختی کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اس کے مخاطب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ہے، کافروں کے ساتھ منافقین سے بھی جہاد کرنے کا حکم ہے، اس کی بابت اختلاف ہے۔ ایک رائے تو یہی ہے کہ اگر منافقین کا نفاق اور ان کی سازشیں بے نقاب ہوجائیں تو ان سے بھی اس طرح جہاد کیا جائے، جس طرح کافروں سے کیا جاتا ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ منافقین سے جہاد یہ ہے کہ انہیں زبان سے وعظ و نصیحت کی جائے۔ یا وہ اخلاقی جرائم کارتکاب کریں تو ان پر حدود نافذ کی جائیں تیسری رائے یہ ہے کہ جہاد کا حکم کفار سے متعلق ہے اور سختی کرنے کا منافقین سے امام ابن کثیر فرماتے ہیں ان آراء میں آپس میں کوئی تضاد اور منافات نہیں اس لیے کہ حالات و ظروف کے مطابق ان میں سے کسی بھی رائے پر عمل کرناجائز ہے ٧٣۔ ٢ سختی اور قوت سے دشمنوں کے خلاف اقدام ہے۔ محض زبان کی سختی مراد نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق کریمانہ کے ہی خلاف ہے، اسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اختیار کرسکتے تھے نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا حکم آپ کو مل سکتا تھا۔ ٧٣۔ ٣ جہاد اور سختی کے حکم کا تعلق دنیا سے ہے۔ آخرت میں ان کے لئے جہنم ہے جو بدترین جگہ ہے۔ التوبہ
74 ٧٤۔ ١ مفسرین نے اس کی تفسیر میں متعدد واقعات نقل کئے ہیں، جن میں منافقین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخانہ کلمات کہے جسے بعض مسلمانوں نے سن لیا اور انہوں نے آکر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلایا، لیکن آپ کے استفسار پر مکر گئے بلکہ حلف تک اٹھا لیا کہ انہوں نے ایسی بات نہیں کی۔ جس پر یہ آیت اتری۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی کرنا کفر ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی کرنے والا مسلمان نہیں رہ سکتا۔ ٧٤۔ ٢ اس کی بابت بھی بعض واقعات نقل کئے گئے ہیں۔ مثلاً تبوک کی واپسی پر منافقین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ایک سازش کی جس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے کہ دس بارہ منافقین ایک گھاٹی میں آپ کے پیچھے لگ گئے جہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باقی لشکر سے الگ تقریباً تنہا گزر رہے تھے ان کا منصوبہ یہ تھا کہ آپ پر حملہ کر کے آپ کا کام تمام کردیں گے اس کی اطلاع وحی کے ذریعے سے آپ کو دے دی گئی جس سے آپ نے بچاؤ کرلیا۔ ٧٥۔ ٣ مسلمانوں کی ہجرت کے بعد، مدینہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے وہاں تجارت اور کاروبار کو بھی فروغ ملا، اور اہل مدینہ کی معاشی حالت بہت اچھی ہوگئی تھی۔ منافقین مدینہ کو بھی اس کا خوب فائدہ حاصل ہوا اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہی فرما رہا ہے کہ کیا ان کو اس بات کی ناراضگی ہے کہ اللہ نے ان کو اپنے فضل سے غنی بنا دیا ہے، بلکہ ان کو تو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے انہیں تنگ دستی سے نکال کر خوش حال بنا دیا۔ التوبہ
75 التوبہ
76 اس آیت کو بعض مفسرین نے ایک صحابی حضر ثعلبہ بن حاطب انصاری کے بارے میں قرار دیا ہے لیکن سندا یہ صحیح نہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس میں بھی منافقین کا ایک اور کردار بیان کیا گیا ہے۔ التوبہ
77 التوبہ
78 ٧٨۔ ١ اس میں منافقین کے لئے سخت وعید ہے جو اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرتے ہیں اور پھر اس کی پرواہ نہیں کرتے گویا یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مخفی باتوں اور بھیدوں کو نہیں جانتا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے، کیونکہ وہ تو علام الغیوب ہے۔ غیب کی تمام باتوں سے باخبر ہے۔ التوبہ
79 ٧٩۔ ١ مطّوعین کے معنی ہیں صدقات واجبہ کے علاوہ اپنی خوشی سے مزید اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے،"جہد"کے معنی محنت ومشقت کے ہیں یعنی وہ لوگ جو مال دار نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی محنت و مشقت سے کمائے ہوئے تھوڑے مال میں سے بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ آیت میں منافقین کی ایک اور نہایت قبیح حرکت کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنگ وغیرہ کے موقع پر مسلمانوں سے چندے کی اپیل فرماتے تو مسلمان آپ کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے حسب استطاعت اس میں حصہ لیتے کسی کے پاس زیادہ مال ہوتا وہ زیادہ صدقہ دیتا جس کے پاس تھوڑا ہوتا، وہ تھوڑا دیتا، یہ منافقین دونوں قسم کے مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے زیادہ دینے والوں کے بارے میں کہتے اس کا مقصد ریاکاری اور نمود و نمائش ہے اور تھوڑا دینے والوں کو کہتے کہ تیرے اس مال سے کیا بنے گا یا اللہ تعالیٰ تیرے اس صدقے سے بے نیاز ہے (صحیح بخاری) یوں وہ منافقین مسلمانوں کا استہزا کرتے اور مذاق اڑاتے۔ ٧٩۔ ٢ یعنی مومنین سے استہزا کا بدلہ انہیں اس طرح دیتا ہے کہ انہیں ذلیل و رسوا کرتا ہے۔ اس کا تعلق باب مشاکلت سے ہے جو علم بلاغت کا ایک اصول ہے یا یہ بددعا ہے اللہ تعالیٰ ان سے بھی استہزا کا معاملہ کرے جس طرح یہ مسلمانوں کے ساتھ استہزا کرتے ہیں۔ (فتح القدیر) التوبہ
80 ٨٠۔ ١ ستر کا عدد مبالغے اور تکثیر کے لئے ہے۔ یعنی تو کتنی ہی کثرت سے ان کے لئے استغفار کرلے اللہ تعالیٰ انہیں ہرگز معاف نہیں فرمائے گا۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ستر مرتبہ سے زائد استغفار کرنے پر ان کو معافی مل جائے گی۔ ٨٠۔ ٢ یہ عدم مغفرت کی علت بیان کردی گئی ہے تاکہ لوگ کسی کی سفارش کی امید پر نہ رہیں بلکہ ایمان اور عمل صالح کی پونجی لے کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔ اگر یہ زاد آخرت کسی کے پاس نہیں ہوگا تو ایسے کافروں اور نافرمانوں کی کوئی شفاعت ہی نہیں کرے گا، اس لئے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے لئے شفاعت کی اجازت ہی نہیں دے گا۔ ٨٠۔ ٣ اس ہدایت سے مراد وہ ہدایت ہے جو انسان کو مطلوب (ایمان) تک پہنچا دیتی ہے ورنہ ہدایت بمعنی رہنمائی یعنی راستے کی نشان دہی۔ اس کا اہتمام تو دنیا میں ہر مومن و کافر کے لیے کردیا گیا ہے (اِنَّا ہَدَیْنٰہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا) 76۔ الدہر :3) (وھدینہ النجدین) (البلد) اور ہم نے اس کو (خیروشر کے) کے دونوں راستے دکھا دیئے ہیں۔ التوبہ
81 ٨١۔ ١ یہ منافقین کا ذکر ہے جو تبوک میں نہیں گئے اور جھو ٹے عذر پیش کر کے اجازت حاصل کرلی۔ خلاف کے معنی ہیں پیچھے یا مخالفت۔ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانے کے بعد آپ کے پیچھے یا آپ کی مخالفت میں مدینہ میں بیٹھے رہے۔ ٨١۔ ٢ یعنی اگر ان کو یہ علم ہوتا کہ جہنم کی آگ کی گرمی کے مقابلے میں، دنیا کی گرمی کوئی حیثیت نہیں رکھتی، تو وہ کبھی پیچھے نہ رہتے۔ حدیث میں آتا ہے کہ دنیا کی یہ آگ جہنم کی آگ کا ٧٠ واں حصہ ہے۔ یعنی جہنم کی آگ کی شدت دنیا کی آگ سے ٦٩ حصے زیادہ ہے (صحیح بخاری) التوبہ
82 ٢٨۔ ١ قلیلا اور کثیرا یا تو مصدریت (یعنی ضحکا اور بکآءاکثیرا یا ظرفیت یعنی (زمانا قلیلا و زمانا کثیرا) کی بنیاد پر منصوب ہے اور امر کے دونوں صیغے بمعنی خبر ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہنسیں گے تو تھوڑا اور روئیں گے بہت زیادہ۔ التوبہ
83 ٨٣۔ ١ منافقین کی جماعت مراد ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح سلامت تبوک سے مدینہ واپس لے آئے جہاں یہ پیچھے رہ جانے والے منافقین بھی ہیں۔ ٨٣۔ ٢ یعنی کسی اور جنگ کے لئے، ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کریں۔ ٨٣۔ ٣ یہ آئندہ ساتھ نہ لے جانے کی علت ہے کہ تم پہلی مرتبہ ساتھ نہیں گئے۔ لہذا اب تم اس لائق نہیں کہ تمہیں کسی بھی جنگ میں ساتھ لے جایا جائے۔ ٨٣۔ ٤ یعنی اب تمہاری اوقات یہی ہے کہ تم عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ ہی بیٹھے رہو، جو جنگ میں شرکت کرنے کے بجائے گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت اس لئے دی گئی ہے تاکہ ان کے اس ہم و غم اور حسرت میں اور اضافہ ہو جو انہیں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے تھا۔ التوبہ
84 ٨٤۔ ١ یہ آیت اگرچہ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کے بارے میں نازل ہوئی۔ لیکن اس کا حکم عام ہے ہر شخص جس کی موت کفر و نفاق پر ہو وہ اس میں شامل ہے۔ اس کا شان نزول یہ ہے کہ جب عبد اللہ بن ابی کا انتقال ہوگیا تو اس کے بیٹے عبد اللہ (جو مسلمان اور باپ ہی کا ہم نام تھے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ (بطور تبرک) اپنی قمیض عنایت فرما دیں تاکہ میں اپنے باپ کو کفنا دوں۔ دوسرا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیں۔ آپ نے قمیض بھی عنایت فرما دی اور نماز جنازہ پڑھانے کے لئے تشریف لے گئے۔ حضرت عمر نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی نماز جنازہ پڑھانے سے روکا ہے، آپ کیوں اس کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے ' یعنی روکا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ' اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لئے استغفار کرے گا تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف نہیں فرمائے گا، تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ ان کے لئے استغفار کرلوں گا ' چنانچہ آپ نے نماز جنازہ پڑھا دی۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر آئندہ کے لئے منافقین کے حق میں دعائے مغفرت کی قطعی ممانعت فرما دی (صحیح بخاری) ٨٤۔ ٢ یہ نماز جنازہ اور دعائے مغفرت نہ کرنے کی علت ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے جن لوگوں کا خاتمہ کفر و فسق پر ہو، ان کی نہ نماز جنازہ پڑھنی چاہے اور نہ ان کے لئے مغفرت کی دعا کرنا جائز ہے۔ ایک حدیث میں تو یہاں تک آتا ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبرستان پہنچے تو معلوم ہوا کہ عبد اللہ بن ابی کو دفنایا جا چکا ہے، چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قبر سے نکلوایا اور اپنے گھٹنوں پر رکھ کر اپنا لعاب دہن تھوکا، اپنی قمیض اسے پہنائی (صحیح بخاری) جس سے معلوم ہوا کہ جو ایمان سے محروم ہوگا اسے دنیا کی بڑی سے بڑی شخصیت کی دعائے مغفرت اور کسی کی شفاعت بھی کوئی فائدہ نہ پہنچاسکے گی۔ التوبہ
85 التوبہ
86 ٨٦۔ ١ یہ انہیں منافقین کا ذکر ہے۔ جنہوں نے حیلے تراش کر پیچھے رہنا پسند کیا مراد ہے صاحب حیثیت، مال دار طبقہ۔ یعنی اس طبقے کو پیچھے نہیں رہنا چاہیے تھا، کیونکہ ان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ موجود تھا، جیسا کہ اگلی آیت میں ان کو خَوَالِفُ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے خالِفَۃ، کی جمع ہے۔ یعنی پیچھے رہنے والی عورتیں۔ التوبہ
87 ٨٧۔ ١ دلوں پر مہر لگ جانا یہ مسلسل گناہوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جس کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے، اس کے بعد انسان سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوجاتا ہے۔ التوبہ
88 التوبہ
89 ٨٩۔ ١ ان منافقین کے برعکس اہل ایمان کا رویہ یہ ہے کہ وہ اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، اللہ کی راہ میں انہیں اپنی جانوں کی پروا ہے نہ مالوں کی۔ ان کے نزدیک اللہ کا حکم سب پر بالا تر ہے، انہی کے لئے خیرات ہیں، یعنی آخرت کی بھلائیاں اور جنت کی نعمتیں اور بعض کے نزدیک دین و دنیا کے منافع اور یہی لوگ فلاح یاب اور فوز عظیم کے حامل ہونگے۔ التوبہ
90 ٩٠۔ ١ ان مُعَذرِیْن کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک یہ شہر سے دور رہنے والے وہ اعرابی ہیں جنہوں نے جھوٹے عذر پیش کر کے اجازت حاصل کی۔ دوسری قسم ان میں وہ تھی جنہوں نے آکر عذر پیش کرنے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی اور بیٹھے رہے۔ اس طرح گویا آیت میں منافقین کے دو گروہوں کا تذ کرہ ہے اور عذاب الیم کی وعید میں دونوں شامل ہیں۔ اور منھم سے جھوٹے عذرپیش کرنے والے اور بیٹھ رہنے والے دونوں مراد ہوں گے اور دوسرے مفسرین نے معذرون سے مراد ایسے بادیہ نشین مسلمان لیے ہیں جنہوں نے معقول عذر پیش کر کے اجازت لی تھی اور معذرون ان کے نزدیک اصل میں معتذرون ہے تا کو ذال میں مدغم کردیا گیا ہے اور معتذر کے معنی ہیں واقعی عذر رکھنے والا اس اعتبار سے آیت کے اگلے جملے میں منافقین کا تذکرہ ہے اور آیت میں دو گروہوں کا ذکر ہے پہلے جملے میں ان مسلمانوں کا جن کے پاس واقعی عذر تھے اور دوسرے منافقین جو بغیر عذر پیش کیے بیٹھے رہے اور آیت کے آخری حصے میں جو وعید ہے اسی دوسرے گروہ کے لیے ہے۔ التوبہ
91 ٩١۔ ١ اس آیت میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو واقعی معذور تھے اور ان کا عذر بھی واضح تھا مثلاً ١۔ ضعیف و ناتواں یعنی بوڑھے قسم کے لوگ، اور نابینا یا لنگڑے وغیرہ معذورین بھی اسی ذیل میں آجاتے ہیں، بعض نے انہیں بیماروں میں شامل کیا ہے، ٢۔ بیمار، ٣۔ جن کے پاس جہاد کے اخراجات نہیں تھے اور بیت المال بھی ان کے اخراجات کا متحمل نہیں تھا، اللہ اور رسول کی خیر خواہی سے مراد، جہاد کی ان کے دلوں میں تڑپ، مجاہدین سے محبت رکھتے ہیں اور اللہ اور رسول کے دشمنوں سے عداوت، اور حتی الا مکان اللہ اور رسول کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں، اگر جہاد میں شرکت کرنے سے معذور ہوں تو ان پر کوئی گناہ نہیں۔ التوبہ
92 ٩٢۔ ١ یہ مسلمانوں کے ایک دوسرے گروہ کا ذکر ہے جن کے پاس اپنی سواریاں بھی نہیں تھیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی انہیں سواریاں پیش کرنے سے معذرت کی جس پر انہیں اتنا صدمہ ہوا کہ بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے، گویا مخلص مسلمان جو کسی بھی لحاظ سے معقول عذر رکھتے تھے اللہ تعالیٰ نے جو ہر ظاہر باطن سے باخبر ہے ان کو جہاد میں شرکت سے مستثنٰی کردیا۔ بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان معذورین کے بارے میں جہاد میں شریک لوگوں سے فرمایا کہ ' تمہارے پیچھے مدینے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ تم جس وادی کو بھی طے کرتے ہو اور جس راستے پر چلتے ہو، تمہارے ساتھ وہ اجر میں برابر کے شریک ہیں ' صحابہ کرام نے پوچھا۔ یہ کیوں کر ہوسکتا ہے جب کہ وہ مدینے میں بیٹھے ہیں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حَبَسَھُمْ الْعُذرُ (صحیح بخاری) ' عذر نے ان کو وہاں روک دیا ہے ' التوبہ
93 ٩٣۔ ١ یہ منافقین ہیں جن کا تذکرہ آیت ٨٦، ٨٧ میں گزر ا۔ یہاں دوبارہ ان کا ذکر مخلص مسلمانوں کے مقابلے میں ہوا ہے کہ چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں۔ خَوَالِفُ، خَالِفَۃ،ُ (پیچھے رہنے والے) مرد عورتیں، بچے معذور اور شدید بیمار اور بوڑھے ہیں جو جنگ میں شرکت سے معذور ہیں۔ لا یَعْلَمُوْ نَ کا مطلب ہے وہ نہیں جانتے کہ پیچھے رہنا کتنا بڑا جرم ہے، ورنہ شاید وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پیچھے نہ رہتے۔ التوبہ
94 التوبہ
95 التوبہ
96 ٩٦۔ ١ ان تین آیات میں ان منافقین کا ذکر ہے جو تبوک کے سفر میں مسلمانوں کے ساتھ نہیں گئے تھے نبی اور مسلمانوں کو بخریت واپسی پر اپنے عذر پیش کرکے ان کی نظروں میں وفادار بننا چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جب ان کے پاس آؤ گے تو یہ عذر پیش کریں گے، تم ان سے کہہ دو، کہ ہمارے سامنے عذر پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اصل حالات سے ہمیں باخبر کردیا ہے۔ اب تمہارے جھوٹے عذروں کا ہم اعتبار کس طرح کرسکتے ہیں؟ البتہ ان عذروں کی حقیقت مستقبل قریب میں مذید واضح ہوجائے گی، تمہارا عمل، جسے اللہ تعالیٰ بھی دیکھ رہا ہے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر بھی اس پر ہے، تمہارے عذروں کی حقیقت کو خود بے نقاب کر دے گا۔ تیسری آیت میں فرمایا، یہ تمہیں راضی کرنے کے لئے قسمیں کھائیں گے۔ لیکن ان نادانوں کو یہ پتہ نہیں کہ اگر تم ان سے راضی ہو بھی جاؤ تو انہوں نے جس فسق یعنی اطاعت الٰہی سے گریز و فرار کا راستہ اختیار کیا ہے اس کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ ان سے راضی کیونکر ہوسکتا ہے۔ التوبہ
97 ٩٧۔ ١ مزکورہ آیات میں ان منافقین کا تذکرہ تھا جو مدینہ شہر میں رہائش پذیر تھے۔ اور کچھ منافقین وہ بھی تھے جو بادیہ نشین یعنی مدینہ کے باہر دیہاتوں میں رہتے تھے، دیہات کے ان باشندوں کو اعراب کہا جاتا ہے جو اعرابی کی جمع ہے شہریوں کے اخلاق و کردار میں درشتی اور کھردراپن زیادہ پایا جاتا ہے اس طرح ان میں جو کافر اور منافق تھے وہ کفر و نفاق میں بھی شہریوں سے زیادہ سخت اور احکام شریعت سے زیادہ بے خبر تھے اس آیت میں انہی کا تذکرہ اور انکے اسی کردار کی وضاحت ہے۔ بعض احادیث سے بھی ان کے کردار پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلًا ایک موقع پر کچھ اعرابی رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے پوچھا اَتُقَبْلُوْنَ صِبْیَانکُمْ ' کیا تم اپنے بچے کو بوسہ دیتے ہو صحابہ نے عرض کیا ہاں انہوں نے کہا واللہ! ہم تو بوسہ نہیں دیتے ' رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سن کر فرمایا ' اگر اللہ نے تمہارے دلوں میں سے رحم و شفقت کا جذبہ نکال دیا ہے تو میرا اس میں کیا اختیار ہے۔ (صحیح بخاری) ٩٧۔ ٢ اس کی وجہ یہ ہے کہ چوں کہ وہ شہر سے دور رہتے ہیں اور اللہ اور رسول کی باتیں سننے کا اتفاق ان کو نہیں ہوتا۔ التوبہ
98 ٩٨۔ ١ اب ان دیہاتیوں کی دو قسمیں بیان کی جا رہی ہیں یہ پہلی قسم ہے۔ ٩٨۔ ٢ غُرْم تاوان اور جرمانے کو کہتے ہیں۔ یعنی ایسا خرچ ہو جو انسان کو نہایت ناگواری سے ناچار کرنا پڑجاتا ہے۔ ٩٨۔ ٣ دَوَائِرُ۔ دَا ئِرَۃ کی جمع ہے، گردش زمانہ یعنی مصائب و آلام یعنی وہ منتظر رہتے ہیں کہ مسلمان زمانے کی گردشوں یعنی مصائب کا شکار ہوں۔ ٩٨۔ ٤ یہ بد دعا یا خبر ہے کہ زمانے کی گردش ان پر ہی پڑے۔ کیونکہ وہی اس کے مستحق ہیں۔ التوبہ
99 ٩٩۔ ١ یہ اعراب کی دوسری قسم ہے جن کو اللہ نے شہر سے دور رہنے کے باوجود، اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی۔ اور اس ایمان کی بدولت ان سے وہ جہالت بھی دور فرما دی جو بددینیت کی وجہ سے اہل بادیہ میں عام طور پر ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ اللہ کی راہ میں خرچ کردہ مال کو جرمانہ سمجھنے کی بجائے۔ اللہ کے قرب کا اور رسول کی دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ یہ اشارہ ہے رسول اللہ کے اس طرز عمل کی طرف، جو صدقہ دینے والوں کے بارے میں آپ تا یعنی آپ ان کے حق میں دعائے خیر فرماتے۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ ایک صدقہ لانے والے کے لئے آپ نے دعا فرمائی اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی آلِ اَبِیْ اَوْفٰی (صحیح بخاری نمبر ٤١٦٦ صحیح مسلم نمبر ٧٥٦) ' اے اللہ! ابو اوفی کی آل پر رحمت نازل فرما ـ' ٩٩۔ ٢ یہ خوشخبری ہے کہ اللہ کا قرب انہیں حاصل ہے اور اللہ کی رحمت کے وہ مستحق ہیں۔ التوبہ
100 ١٠٠۔ ١ اس میں تین گروہوں کا ذکر ہے ایک مہاجرین کا جنہوں نے دین کی خاطر، اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر مکہ اور دیگر علاقوں سے ہجرت کی اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مدینہ آگئے دوسرا انصار جو مدینہ میں رہائش پذیر تھے انہوں نے ہر موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد اور حفاظت فرمائی اور مدینہ آنے والے مہاجرین کی خوب پذیرائی اور تواضع کی۔ اور اپنا سب کچھ ان کی خدمت میں پیش کردیا۔ تیسری قسم وہ ہے جو ان مہاجرین و انصار کے خلوص اور احسان کے ساتھ پیروکار ہیں۔ اس گروہ سے مراد بعض کے نزدیک اصطلاحی تابعین ہیں جنہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہیں دیکھا لیکن صحابہ کرام کی صحبت سے مشرف ہوئے اور بعض نے اسے عام رکھا یعنی قیامت تک جتنے بھی انصار و مہاجرین سے محبت رکھنے والے اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے مسلمان ہیں، وہ اس میں شامل ہیں۔ ان میں اصطلاحی تابعین بھی آجاتے ہیں۔ ١٠٠۔ ٢ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا کا مطلب ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی نیکیاں قبول فرما لیں، ان کی بشری لغزشوں کو معاف فرما دیا اور وہ ان پر ناراض نہیں۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کے لئے جنت کی نعمتوں کی بشارت کیوں دی جاتی، جو اس آیت میں دی گئی ہے۔ التوبہ
101 ١٠١۔ ١ مرد اور تمرد کے معنی ہیں نرمی ملائمت (چکناہٹ) اور تجرد۔ چنانچہ اس شاخ کو جو بغیر پتے کے ہو، وہ گھوڑا جو بغیر بال کے ہو، وہ لڑکا جس کے چہرے پر بال نہ ہوں، ان سب کو اَ مْرَدُ کہا جاتا ہے اور شیشے کو صَرْح مُمَرَّد اَیْ مُجَرَّدً کہا جاتا ہے (مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ) گویا انہوں نے نفاق کے لئے اپنے آپ کو خالص اور تنہا کرلیا، یعنی اس پر ان کا اصرار ہمیشہ رہنے والا ہے ١٠١۔ ٢ کتنے واضح الفاظ میں نبی سے علم غیب کی نفی ہے۔ کاش اہل بدعت کو قرآن سمجھنے کی توفیق نصیب ہو۔ ١٠١۔ ٣ اس سے مراد بعض کے نزدیک دنیا کی ذلت و رسوائی اور پھر آخرت کا عذاب ہے اور بعض کے نزدیک دنیا میں ہی دوہری سزا ہے۔ التوبہ
102 ١٠٢۔ ١ یہ وہ مخلص مسلمان ہیں جو بغیر عذر کے محض سستی کی وجہ سے تبوک میں نبی کے ساتھ نہیں گئے بلکہ بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا، اور اعتراف گناہ کرلیا۔ ١٠٢۔ ٢ بھلے سے مراد وہ اعمال صالحہ ہیں جو جہاد میں پیچھے رہ جانے سے پہلے کرتے رہے ہیں جن میں مختلف جنگوں میں شرکت بھی کی اور ' کچھ برے ' سے مراد یہی تبوک کے موقع پر ان کا پیچھے رہنا۔ ١٠٢۔ ٣ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امید، یقین کا فائدہ دیتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ان کی طرف رجوع فرما کر ان کے اعتراف گناہ کو توبہ کے قائم مقام قرار دے کر انہیں معاف فرما دیا۔ التوبہ
103 ١٠٣۔ ١ یہ حکم عام ہے۔ صدقے سے مراد فرضی صدقہ یعنی زکٰوۃ بھی ہوسکتی ہے اور نفلی صدقہ بھی نبی کو کہا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعے سے آپ مسلمانوں کو تطہیر اور ان کا تزکیہ فرما دیں۔ جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ زکٰوۃ و صدقات انسان کے اخلاق و کردار کی طہارت و پاکیزگی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ علاوہ ازیں صدقے کو صدقہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ خرچ کرنے والا اپنے دعوائے ایمان میں صادق ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ صدقہ وصول کرنے والے کو صدقہ لینے والے کے حق میں دعائے خیر کرنی چاہیے۔ جس طرح یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو دعا کرنے کا حکم دیا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے مطابق دعا فرمایا کرتے تھے۔ اس حکم کے عموم سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ زکوٰۃ کی وصولی امام وقت کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی اس سے انکار کرے تو حضرت ابو بکر صدیق (رض) اور صحابہ کرام (رض) کے طرز عمل کی روش میں اس کے خلاف جہاد ضروری ہے۔ (ابن کثیر) التوبہ
104 ١٠٤۔ ١ صدقات قبول فرماتا ہے کا مطلب (بشرطیکہ وہ حلال کی کمائی سے ہو) اس میں اضافہ فرماتا ہے۔ جس طرح حدیث میں آیا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' اللہ تعالیٰ تمہارے صدقے کی اس طرح پرورش کرتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے گھوڑے کے بچے کی پرورش کرتا ہے، حتٰی کہ ایک کھجور کے برابر صدقہ (بڑھ بڑھ کر) احد پہاڑ کی مثل ہوجاتا ہے (صحیح بخاری) التوبہ
105 ١٠٥۔ ١ رؤیت کا مطلب دیکھنا اور جاننا ہے۔ یعنی تمہارے عملوں کو اللہ تعالیٰ ہی نہیں دیکھتا، بلکہ ان کا علم اللہ کے رسول اور مومنوں کو بھی (بذریعہ وحی) ہوجاتا ہے (یہ منافقینی کے ضمن میں کہا جا رہا ہے) اس مفہوم کی آیت پہلے بھی گزر چکی ہے۔ یہاں مومنین کا بھی اضافہ ہے جن کو اللہ کے رسول کے بتلانے سے علم ہوجاتا ہے۔ التوبہ
106 ١٠٦۔ ١ جنگ تبوک میں پیچھے رہنے والے ایک تو منافق تھے، دوسرے وہ جو بلا عذر پیچھے رہ گئے تھے۔ اور انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا تھا لیکن انہیں معافی عطا نہیں کی گئی تھی، اس آیت میں اس گروہ کا ذکر ہے جن کے معاملے کو مؤخر کردیا گیا تھا (یہ تین افراد تھے، جن کا ذکر آگے آرہا ہے۔) ١٠٦۔ ٢ اگر وہ اپنی غلطی پر مصر رہے۔ ١٠٦۔ ٣ اگر وہ خالص توبہ کرلیں گے۔ التوبہ
107 ١٠٧۔ ١ اس میں منافقین کی ایک اور نہایت قبیح حرکت کا بیان ہے کہ انہوں نے ایک مسجد بنائی۔ اور نبی کو باور کرایا کہ، بارش، سردی اور اس قسم کے موقع پر بیماروں اور کمزوروں کو زیادہ دور جانے میں دقت پیش آتی ہے ان کی سہولت کے لئے ہم نے یہ مسجد بنائی ہے۔ آپ وہیں چل کر نماز پڑھیں تاکہ ہمیں برکت حاصل ہو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تبوک کے لئے پایہ رکاب تھے، آپ نے واپسی پر نماز پڑھنے کا وعدہ فرمایا۔ لیکن واپسی پر وحی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے منافقین کے اصل مقاصد کو بے نقاب کردیا کہ اس سے وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا، کفر پھیلانا مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا اور اللہ اور اللہ کے رسول کے دشمنوں کے لئے کمین گاہ مہیا کرنا چاہتے ہیں۔ ١٠٧۔ ٢ یعنی جھوٹی قسمیں کھا کر وہ نبی کو فریب دینا چاہتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے مکرو فریب سے بچا لیا اور فرمایا کہ ان کی نیت صحیح نہیں اور یہ جو کچھ ظاہر کر رہے ہیں، اس میں جھوٹے ہیں۔ التوبہ
108 ١٠٨۔ ١ یعنی آپ نے وہاں جاکر نماز پڑھنے کا جو وعدہ فرمایا، اس کے مطابق وہاں جاکر نماز نہ پڑھیں چنانچہ آپ نہ صرف یہ کہ وہاں نماز نہیں پڑھی بلکہ اپنے چند ساتھیوں کو بھیج کر مسجد گرا دی اور اسے ختم کردیا اس سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ جو مسجد اللہ کی عبادت کی بجائے، مسلمانوں کے درمیان تفریق پیدا کرنے کی غرض سے بنائی جائے، وہ مسجد ضرار ہے، اس کو ڈھا دیا جائے تاکہ مسلمانوں میں تفریق و انتشار پیدا نہ ہو۔ ١٠٨۔ ٢ اس سے مراد کونسی مسجد ہے ا ؟ اس میں اختلاف بعض نے اسے مسجد قبا اور بعض نے مسجد نبوی قرار دیا ہے، سلف کی ایک جماعت دونوں کی قائل رہی ہے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ آیت سے اگر مسجد قبا مراد ہے تو بعض احادیث میں مسجد نبوی کو مصداق قرار دیا گیا ہے ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ اس لئے کہ اگر مسجد قبا کے اندر یہ صفت پائی جاتی ہے کہ اول یوم سے ہی اس کی بنیاد تقوٰی پر رکھی گئی ہے تو مسجد نبوی تو بطریق اولی اس صفت کی حال اور اس کی مصداق ہے۔ ١٠٨۔ ٣ حدیث میں آتا ہے کہ اس سے مراد اہل قبا ہیں۔ نبی نے ان سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری طہارت کی تعریف فرمائی ہے، تم کیا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ڈھیلے استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ پانی بھی استعمال کرتے ہیں۔ (بحوالہ ابن کثیر کہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ایسی قدیم مسجد میں نماز پڑھنا مستحب ہے جو اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کی غرض سے تعمیر کی گئی ہوں، نیز صالحین کی جماعت اور ایسے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنا مستحب ہے جو مکمل وضو کرنے اور طہارت و پاکیزگی کا صحیح صحیح اہتمام کرنے والے ہوں۔ التوبہ
109 ١٠٩۔ ١ اس میں مومن اور منافق کے عمل کی مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ مومن کا عمل اللہ کے تقوٰی پر اور اس کی رضامندی کے لئے ہوتا ہے۔ جب کہ منافق کا عمل ریاکاری اور فساد پر مبنی ہوتا ہے۔ جو اس حصہ زمین کی طرح جس کے نیچے سے وادی کا پانی گزرتا ہے اور مٹی کو ساتھ بہا لے جاتا ہے۔ وہ حصہ نیچے سے کھوکھلا رہ جاتا ہے۔ جس پر کوئی تعمیر کرلی جائے تو فوراً گر پڑے۔ ان منافقین کا مسجد بنانے کا عمل بھی ایسا ہی ہے جو انہیں جہنم میں ساتھ لے گرے گا۔ التوبہ
110 ١١٠۔ ١ دل پاش پاش ہوجائیں، کا مطلب موت سے ہمکنار ہونا ہے۔ یعنی موت تک یہ عمارت ان کے دلوں میں مذید شک و نفاق پیدا کرنے کا ذریعہ بنی رہے گی، جس طرح کہ بچھڑے کے پجاریوں میں بچھڑے کی محبت رچ بس گئی تھی۔ التوبہ
111 ١١١۔ ١ یہ اللہ کے ایک خاص فضل و کرم کا بیان ہے کہ اس نے مومنوں کو، ان کی جان و مال کے عوض، جو انہوں نے اللہ کی راہ میں خرچ کیے، جنت عطا فرما دی، جب کہ یہ جان و مال بھی اسی کا عطیہ ہے۔ پھر قیمت اور معاوضہ بھی جو عطا کیا یعنی جنت وہ نہایت ہی بیش قیمت ہے۔ ١١١۔ ٢ یہ اسی سودے کی تاکید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سچا وعدہ پچھلی کتابوں میں بھی اور قرآن میں بھی کیا ہے۔ اور اللہ سے زیادہ عہد کو پورا کرنے والا کون ہوسکتا ہے۔ ١١١۔ ٣ یہ مسلمانوں کو کہا جا رہا ہے لیکن یہ خوشی اسی وقت منائی جاسکتی ہے جب مسلمان کو بھی یہ سودا منظور ہو۔ یعنی اللہ کی راہ میں جان و مال کی قربانی سے انہیں دریغ نہ ہو۔ التوبہ
112 ١١٢۔ ١ یہ انہیں مومنین کی مذید صفات بیان کی جا رہی ہیں جن کی جانوں اور مالوں کا سودا اللہ نے کرلیا ہے، وہ توبہ کرنے والے، یعنی گناہوں اور فواحش سے بچتے اور اپنے رب کی عبادت کرنے والے، زبان سے اللہ کی حمد اور ثنا بیان کرنے والے اور دیگر ان صفات کے حامل ہیں جو آیت میں مذکور ہیں۔ سیاحت سے مراد اکثر مفسرین نے روزے لیے ہیں اور اسی کو ابن کثیر نے صحیح ترین اور مشہور ترین قول قرار دیا ہے۔ اور بعض نے اس سے جہاد مراد لیا ہے۔ تاہم سیاحت سے زمین کی سیاحت مراد نہیں ہے جس طرح کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے۔ اسی طرح اللہ کی عبادت کے لیے پہاڑوں کی چوٹیوں غاروں اور سنسان بیابانوں میں جاکر ڈیرے لگا لینا بھی اس سے مراد نہیں ہے۔ کیونکہ یہ رہبانیت اور جوگی پن کا ایک حصہ ہے جو اسلام میں نہیں ہے۔ البتہ فتنوں کے ایام میں اپنے دین کو بچانے کے لیے شہروں اور آبادیوں کو چھوڑ کر جنگلوں اور بیابانوں میں جاکر رہنے کی اجازت حدیث میں دی گئی ہے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الایمان، باب من الدین الفرار من الفتن و کتاب الفتن باب التعرب۔ ای السکنی مع الاعراب۔ فی الفتنہ) ١١٢۔ ٢ مطلب یہ ہے کہ مومن کامل وہ ہے جو قول اور عمل اسلام کی تعلیمات کا عمدہ نمونہ ہو اور ان چیزوں سے بچنے والا ہو جن سے اللہ نے اسے روک دیا ہے اور یوں اللہ کی حدوں کو پامال نہیں، بلکہ ان کی حفاظت کرنے والا ہو۔ ایسے ہی کامل مومن خوشخبری کے مستحق ہیں یہ وہ بات ہے جسے قرآن میں (اٰ مَنُوْ ا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ) کے الفاظ میں بار بار بیان کیا گیا ہے۔ یہاں اعمال صالحہ کی قدرے تفصیل بیان کردی گئی ہے۔ التوبہ
113 ١١٣۔ ١ اس کی تفسیر صحیح بخاری میں اس طرح ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عم بزرگوار ابو طالب کا آخری وقت آیا تو آپ ان کے پاس گئے جبکہ ان کے پاس ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ بھی بیٹھے ہوئے تھے آپ نے فرمایا چچا جان لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ پڑھ لیں، تاکہ میں اللہ کے ہاں آپ کے لئے تکرار پیش کرسکوں، ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ نے کہا ' اے ابو طالب کیا عبدالمطلب کے مذہب سے انحراف کرو گے؟ (یعنی مرتے وقت یہ کیا کرنے لگے ہو؟ حتٰی کہ اسی حال میں ان کا انتقال ہوگیا) نبی نے فرمایا، جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے روک نہیں دیا جائے گا میں آپ کے لئے استغفار کرتا رہوں گا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا کرنے سے روک دیا گیا ہے (صحیح بخاری) سورۃ قصص کی آیت انک لا تھدی من احببت بھی اسی سلسلے میں نازل ہوئی۔ مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی والدہ کے لیے مغفرت کی دعا کرنے کی اجازت طلب فرمائی، جس پر یہ آیت نازل ہوئی (مسند احمد ج ٥، ص ٣٥٥) اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی مشرک قوم کے لیے جو دعا فرمائی تھی اللھم اغفر لقومی فانھم لایعلمون۔ یا اللہ میری قوم بے علم ہے اس کی مغفرت فرما دے، یہ آیت کے منافی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کا مطلب ان کے لیے ہدایت کی دعا ہے۔ یعنی وہ میرے مقام و مرتبہ سے ناآشنا ہے، اسے ہدایت سے نواز دے تاکہ وہ مغفرت کی اہل ہوجائے۔ اور زندہ کفار ومشرکین کے لیے ہدایت کی دعا کرنی جائز ہے۔ التوبہ
114 ١١٤۔ ١ یعنی ابراہیم (علیہ السلام) پر بھی جب یہ بات واضح ہوگئی کہ میرا باپ اللہ کا دشمن ہے اور جہنمی ہے تو انہوں نے اس سے اظہار نجات کردیا اور اس کے بعد مغفرت کی دعا نہیں کی۔ ١٤٤۔ ٢ اور ابتداء میں باپ کے لئے مغفرت کی دعا بھی اپنے اسی مزاج کی نرمی اور حلیمی کی وجہ سے کی تھی۔ التوبہ
115 ١١٥۔ ١ جب اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے حق میں مغفرت کی دعا کرنے سے روکا تو بعض صحابہ کو جنہوں نے ایسا کیا تھا یہ اندیشہ لا حق ہوا کہ ایسا کرکے انہوں نے گمراہی کا کام تو نہیں کیا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تک بچنے والے کاموں کی وضاحت نہیں فرما دیتا، اس وقت تک اس پر مؤاخذہ بھی نہیں فرماتا نہ اسے گمراہی قرار دیتا ہے البتہ جب ان کاموں سے، جن سے روکا جا چکا ہو تو پھر اللہ تعالیٰ اسے گمراہ کردیتا ہے۔ اس لئے جن لوگوں نے اس حکم سے قبل اپنے فوت شدہ مشرک رشتے داروں کے لئے مغفرت کی دعائیں کیں ہیں ان کا مؤاخذہ نہیں ہوگا کیونکہ انہیں مسئلے کا اس وقت علم ہی نہ تھا۔ التوبہ
116 التوبہ
117 ١١٧۔ ١ جنگ تبوک کے سفر کو ' تنگی کا وقت ' قرار دیا۔ اس لئے کہ ایک تو موسم سخت گرمی کا تھا دوسرے، فصلیں تیار تھیں، تیسرے، سفر خاصا لمبا تھا اور چوتھے وسائل کی بھی کمی تھی۔ اس لئے اسے (تنگی کا قافلہ یا لشکر) کہا جاتا ہے۔ توبہ کے لئے ضروری نہیں ہے کہ پہلے گناہ یا غلطی کا ارتکاب ہو۔ اس کے بغیر بھی رفع درجات اور غیر شعوری طور پر ہونے والی کوتاہیوں کے لئے توبہ ہوتی ہے۔ یہاں مہاجرین و انصار کے اس سے پہلے گروہ کی توبہ اس مفہوم میں ہے جنہوں نے بلا تأمل نبی کے حکم جہاد پر لبیک کہا۔ ١١٧۔ ٢ یہ اس دوسرے گروہ کا ذکر ہے جسے مزکورہ وجوہ سے ابتداءً تردد ہوا۔ لیکن پھر جلد ہی وہ اس کیفیت سے نکل آیا اور بخوشی جہاد میں شریک ہوا۔ دلوں میں تزلزل سے مراد دین کے بارے میں کوئی تزلزل یا شبہ نہیں ہے بلکہ مزکورہ دنیاوی اسباب کی وجہ سے شریک جہاد ہونے میں جو تذبذب اور تردد تھا وہ مراد ہے۔ التوبہ
118 ١١٨۔ ١ خلفو کا وہی مطلب ہے جو مرجون کا ہے یعنی جن کا معاملہ مؤخر اور ملتوی کردیا گیا تھا اور پچاس دن کے بعد ان کی توبہ قبول ہوئی۔ یہ تین صحابہ تھے۔ کعب بن مالک، مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ (رض) یہ تینوں نہایت مخلص مسلمان تھے۔ اس سے قبل ہر غزوے میں شریک ہوتے رہے۔ اس غزوہ تبوک میں صرف بوجہ غفلت شریک نہیں ہوئے بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا، تو سوچا کہ ایک غلطی (پیچھے رہنے کی) تو ہو ہی گئی ہے۔ لیکن اب منافقین کی طرح رسول اللہ کی خدمت میں جھوٹا عذر پیش کرنے کی غلطی نہیں کریں گے۔ چنانچہ حاضر خدمت ہو کر اپنی غلطی کا صاف اعتراف کرلیا اور اس کی سزا کے لئے اپنے آپ کو پیش کردیا۔ نبی نے انکے معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا کہ وہ ان کے بارے میں کوئی حکم نازل فرمائے گا تاہم اس دوران صحابہ کرام کو ان تینوں افراد سے تعلق قائم رکھنے حتٰی کے بات چیت تک کرنے سے روک دیا اور چالیس راتوں کے بعد انہیں حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیویوں سے بھی دور رہیں مذید دس دن گزرے تو توبہ قبول کرلی گئی اور مزکورہ آیت نازل ہوئی (اس واقعہ کی پوری تفصیل حضرت کعب بن مالک سے مروی حدیث میں موجود ہے۔ ملاحظہ ہو (صحیح بخاری) ١١٨۔ ٢ یہ ان ایام کی کیفیت کا بیان ہے۔ جس سے سوشل بائیکاٹ کی وجہ سے انہیں گزرنا پڑا۔ ١١٨۔ ٣ یعنی پچاس دن کے بعد اللہ نے ان کی آہ و زاری اور توبہ قبول فرمائی۔ التوبہ
119 ١١٩۔ ١ سچائی ہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان تینوں صحابہ کی غلطی نہ صرف معاف فرما دی بلکہ ان کی توبہ کو قرآن بنا کر نازل فرما دیا۔ (رض) و رضوا عنہ۔ اس لئے مومنین کو حکم دیا گیا کہ اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔ اس کا مطلب یہ ہی کہ جس کے اندر تقوٰی (یعنی اللہ کا خوف) ہوگا، وہ سچا بھی ہوگا اور جو جھوٹا ہوگا، سمجھ لو کہ اس کا دل تقویٰ سے خالی ہے۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ مومن سے کچھ اور کوتاہیوں کا صدور تو ہوسکتا ہے لیکن وہ جھوٹا نہیں ہوتا۔ التوبہ
120 ١٢٠۔ ١ جنگ تبوک میں شرکت کے لئے چونکہ عام منادی کردی گئی تھی، اس لئے معزورین، بوڑھے اور دیگر شرعی عذر رکھنے والوں کے علاوہ۔ سب کے لئے اس میں شرکت ضروری تھی لیکن پھر بھی جو مدینہ یا اطراف مدینہ میں اس جہاد میں شریک نہیں ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو لعنت ملامت کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ ان کو رسول اللہ سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے تھا۔ ١٢٠۔ ٢ یعنی یہ بھی ان کے لئے زیبا نہیں کہ خود اپنی جانوں کا تحفظ کرلیں اور رسول اللہ کی جان کے تحفظ کا انہیں خیال نہ ہو۔ بلکہ انہیں رسول کے ساتھ رہ کر اپنے سے زیادہ ان کی تحفظ کا اہتمام کرنا چاہئے۔ ١٢٠۔ ٣ ذٰ لِکَ سے پیچھے نہ رہنے کی علت بیان کی جا رہی ہے۔ یعنی انہیں اس لئے پیچھے نہیں رہنا چایئے کہ اللہ کی راہ میں انہیں جو پیاس، تھکاوٹ، بھوک پہنچے گی یا ایسے اقدام، جن سے کافروں کے غیظ و غضب میں اضافہ ہوگا، اسی طرح دشمنوں کے آدمیوں کو قتل یا ان کو قیدی بناؤ گے، یہ سب کے سب کام عمل صالح لکھے جائیں گے یعنی عمل صالح صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی مسجد میں یا کسی ایک گوشے میں بیٹھ کر نوافل، تلاوت، ذکر الٰہی وغیرہ کرے بلکہ جہاد میں پیش آنے والی ہر تکلیف اور پریشانی، حتیٰ کہ وہ کاروائیاں بھی جن سے دشمن کے دلوں میں خوف پیدا ہو یا غیظ بھڑکے، ان میں سے ہر ایک چیز اللہ کے ہاں عمل صالح لکھی جائے گی، اس لئے محض شوق عبادت میں بھی جہاد سے گریز صحیح نہیں، چہ جائے کہ بغیر عذر کے ہی آدمی جہاد سے جی چرائے؟ ١٢٠۔ ٤ اس سے مراد پیادہ، یا گھوڑوں وغیرہ پر سوار ہو کر ایسے علاقوں سے گزرنا ہے کہ ان کے قدموں کی چابوں اور گھوڑوں کی ٹاپوں سے دشمن کے دلوں پر لرزہ طاری ہوجائے اور ان کی آتش غیظ بھڑک اٹھے ١٢٠۔ ٥ دشمن سے 'کوئی چیز لیتے ہیں یا ان کی خبر لیتے ہیں ' سے مراد، ان کے آدمیوں کو قتل یا قیدی کرتے ہیں یا انہیں شکست سے دو چار کرتے اور مال غنیمت حاصل کرتے ہیں۔ التوبہ
121 ١٢١۔ ١ پہاڑوں کے میدان اور پانی کی گزرگاہ کو وادی کہتے ہیں۔ مراد یہاں مطلق وادیاں اور علاقے ہیں۔ یعنی اللہ کی راہ میں تھوڑا یا زیادہ جتنا بھی خرچ کرو گے اسی طرح جتنے بھی میدان طے کرو گے، (یعنی جہاد میں تھوڑا یا زیادہ سفر کرو گے) یہ سب نیکیاں تمہارے نامہ اعمال میں درج ہونگی جن پر اللہ تعالیٰ اچھا سے اچھا بدلہ عطا فرمائے گا۔ التوبہ
122 ١٢٢۔ ١ بعض مفسرین کے نزدیک اس کا تعلق بھی حکم جہاد سے ہے۔ اور مطلب یہ کہ پچھلی آیت میں جب پیچھے رہنے والوں کے لئے سخت وعید اور لعنت ملامت بیان کی گئی تو صحابہ کرام بڑے محتاط ہوگئے اور جب بھی جہاد کا مرحلہ آتا تو سب کے سب اس میں شریک ہونے کی کوشش کرتے۔ آیت میں انہیں حکم دیا گیا ہر جہاد اس نوعیت کا نہیں ہوتا کہ جس میں ہر شخص کی شرکت ضروری ہو (جیسا کہ تبوک میں ضروری تھا) بلکہ گروہ کی ہی شرکت کافی ہے۔ یعنی ایک گروہ جہاد پر چلا جائے اور ایک گروہ پیچھے رہے، جو دین کا علم حاصل کرے۔ اور جب مجاہدین واپس آئیں تو انہیں بھی احکام دین سے آگاہ کر کے انہیں ڈرائیں۔ دوسری تفسیر اس کی یہ ہے کہ اس آیت کا تعلق جہاد سے نہیں ہے بلکہ اس میں علم دین کا علم حاصل کرنے کے لیے اپنا گھربار چھوڑیں اور مدارس ومراکز علم میں جا کر اسے حاصل کریں اور پھر آکر اپنی قوم میں وعظ ونصیح کریں۔ دین میں تفقہ حاصل کرنے کا مطلب اوامرونواہی کا علم حاصل کرنا ہے تاکہ اوامر الہی کو بجا لاسکے اور نواہی سے دامن کشاں رہے اور اپنی قوم کے اندر بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دے۔ التوبہ
123 ١٢٣۔ ١ اس میں کافروں سے لڑنے کا ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے۔ کافروں سے جہاد کرنا ہے جیسا کہ رسول اللہ نے پہلے جزیرہ، عرب میں آباد مشرکین سے قتال کیا، جب ان سے فارغ ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے مکہ، طائف، یمن، یمامہ، ہجر، خیبر، حضرموت وغیرہ ممالک پر مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما دیا اور عرب کے سارے قبائل فوج در فوج اسلام میں داخل ہوگئے، تو پھر اہل کتاب سے قتال کا آغاز فرمایا اور ٩ ہجری میں رومیوں سے قتال کے لئے تبوک تشریف لے گئے جو جزیرہ، عرب سے قریب ہے اسی کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد خلفائے راشدین نے روم کے عیسائیوں سے قتال فرمایا، اور ایران کے مجوسیوں سے جنگ کی۔ ١٢٣۔ ٢ یعنی کافروں کے لئے، مسلمانوں کے دلوں میں نرمی نہیں سختی ہونی چاہیے جیسا کہ ( اَشِدَّاۗءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَیْنَہُمْ) 48۔ الفتح :29) صحابہ کی صفت بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح (اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ) 5۔ المائدہ :54) اہل ایمان کی صفت ہے۔ التوبہ
124 ١٢٤۔ ١ اس سورت میں منافقین کے کردار کی نقاب کشائی کی گئی ہے، یہ آیات اس کا بقیہ اور تتمہ ہیں۔ اس میں بتلایا جا رہا ہے جب ان کی غیر موجودگی میں کوئی سورت یا اس کا کوئی حصہ نازل ہوتا ہے اور ان کے علم میں بات آتی تو وہ ٹھٹھہ اور مذاق کے طور پر آپس میں ایک دوسرے سے کہتے کہ اس سے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ہے۔ ١٢٤۔ ٢ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو بھی سورت اترتی ہے اس سے اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اپنے ایمان کے اضافے پر خوش ہوتے ہیں۔ یہ آیت بھی اس بات پر دلیل ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے جس طرح کہ محدثین کا مسلک ہے۔ التوبہ
125 ١٢٥۔ ١ روگ سے مراد نفاق اور آیات الٰہی کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں۔ فرمایا : البتہ یہ سورت منافقین کو ان کے نفاق اور خبث میں اور بڑھاتی اور وہ اپنے کفر و نفاق میں اس طرح پختہ تر ہوجاتے ہیں کہ انہیں توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی اور کفر پر ہی ان کا خاتمہ ہوتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا ' ہم قرآن میں ایسی چیزیں نازل کرتے ہیں جو مومنین کے لئے شفا اور رحمت ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان ظالموں کے خسارے میں اضافہ ہی فرماتا ہے، یہ گویا ان کی بدبختی کی انتہا ہے کہ جس سے لوگوں کے دل ہدایت پاتے ہیں۔ وہی باتیں ان کی ضلالت و ہلاکت کا باعث ثابت ہوتی ہیں جس طرح کسی شخص کا مزاج اور معدہ بگڑ جائے، تو وہی غذائیں، جن سے لوگ قوت اور لذت حاصل کرتے ہیں، اس کی بیماری میں مذید بگاڑ اور خرابی کا باعث بنتی ہیں۔ التوبہ
126 ١٢٦۔ ١ یفتنون کے معنی ہیں آزمائے جاتے ہیں۔ آفت سے مراد یا تو آسمانی آفات ہیں مثلًا قحط سالی وغیرہ (مگر یہ بعید ہے) یا جسمانی بیماریاں اور تکالیف ہیں یا غزوات ہیں جن میں شرکت کے موقع پر ان کی آزمائش ہوتی تھی۔ سیاق کلام کے اعتبار سے یہ مفہوم زیادہ صحیح ہے۔ التوبہ
127 ١٢٧۔ ١ یعنی ان کی موجودگی میں سورت نازل ہوتی جس میں منافقین کی شرارتوں اور سازشوں کی طرف اشارہ ہوتا تو پھر یہ دیکھ کر کہ مسلمان انہیں دیکھ تو نہیں رہے، خاموشی سے کھسک جاتے۔ ١٢٧۔ ٢ یعنی آیات الٰہی میں غور و تدبر نہ کرنے کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں کو خیر اور ہدایت سے پھیر دیا ہے۔ التوبہ
128 ١٢٨۔ ١ سورت کے آخر میں مسلمانوں پر نبی کی صورت میں جو احسان عظیم فرمایا گیا، اس کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ آپ کی پہلی صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ تمہاری جنس سے یعنی جنس بشریت سے ہیں (وہ نور یا اور کچھ نہیں) جیسا کہ فساد عقیدہ کے شکار لوگ عوام کو اس قسم کے گورکھ دھندے میں پھنساتے ہیں۔ ١٢٨۔ ٢ عَنْت ایسی چیزیں جن سے انسان کو تکلیف ہو، اس میں دنیاوی مشقتیں اور آخروی عذاب دونوں آجاتے ہیں، اس پیغمبر پر، تمہاری ہر قسم کی تکلیف و مشقت گراں گزرتی ہے۔ اسی لئے آپ نے فرمایا اِنَّ ھٰذَا الدِّینَ یُسر بیشک یہ دین آسان ہے اور میں آسان دین حنیفی دے کر بھیجا گیا ہوں۔ ١٢٨۔ ٣ تمہاری ہدایت اور تمہاری دینوی آخروی کے فائدے کے خواہشمند ہیں اور تمہارا جہنم میں جانا پسند نہیں فرماتے۔ اسی لئے آپ نے فرمایا کہ ' میں تمہیں تمہاری پشتوں سے پکڑ پکڑ کر کھنچتا ہوں لیکن تم مجھ سے دامن چھڑا کر زبردستی نار جہنم میں داخل ہوتے ہو (صحیح بخاری) ١٢٨۔ ٤ یہ آپ کی چوتھی صفت بیان کی گئی ہے۔ یہ ساری خوبیاں آپ کے اعلٰی اخلاق اور کریمانہ صفات کی مظہر ہیں۔ یقینا آپ صاحب خلق عظیم ہیں۔ التوبہ
129 ١٢٩۔ ١ یعنی آپ کی لائی ہوئی شریعت اور دین رحمت سے۔ ١٢٩۔ ٢ جو کفر و اعراض کرنے والوں کے مکرو فریب سے مجھے بچا لے گا۔ ١٢٩۔ ٣ حضرت ابو الدردا فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ آیت حَسْبِیَ اللّٰہُ (الآ یۃَ) صبح اور شام سات سات مرتبہ پڑھ لے گا، اللہ تعالیٰ اس کے ہموم (فکر و مشکلات) کو کافی ہوجائے گا۔ التوبہ
0 یہ سورت مکی ہے البتہ اس کی دو آیات اور بعض نے تین کو مدنی قرار دیا ہے۔ یونس
1 ١۔ ١ اَلْحَکِیْمِ، کتاب یعنی قرآن مجید کی صفت ہے۔ اس کے ایک تو وہی معنی ہیں جو ترجمے میں اختیار کئے گئے ہیں۔ اس کے اور بھی کئی معنی کئے گئے ہیں مثلاً اَلْمُحْکَمْ، یعنی حلال و حرام اور حدود و احکام میں محکم (مضبوط) ہے۔ حکیم بمعنی حاکم۔ یعنی اختلافات میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے والی کتاب، یعنی اللہ تعالیٰ نے اس میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کئے ہیں۔ یونس
2 ٢۔ ١ استفہام انکار تعجب کے لئے ہے، جس میں توبیخ کا پہلو بھی شامل ہے یعنی اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سے ہی ایک آدمی کو وحی و رسالت کے لئے چن لیا، کیونکہ ان کے ہم جنس ہونے کی وجہ سے وہ صحیح معنوں میں انسان کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ اگر وہ کسی اور جنس سے ہوتا تو فرشتہ یا جن ہوتا اور وہ دونوں ہی صورتوں میں رسالت کا اصل مقصد فوت ہوجاتا، اس لئے کہ انسان اس سے مانوس ہونے کی بجائے وحشت محسوس کرتا دوسرے، ان کے لئے اس کو دیکھنا بھی ممکن نہ ہوتا اور اگر ہم کسی جن یا فرشتے کا انسانی قالب میں بھیجتے تو پھر وہی اعتراض آتا کہ یہ تو ہماری طرح کا ہی انسان ہے۔ اس لئے ان کے اس تعجب میں کوئی معقولیت نہیں ہے۔ ٢۔ ٢ (قَدَمَ صِدْقٍ) کا مطلب، بلند مرتبہ، اجر حسن اور وہ اعمال صالحہ ہیں جو ایک مومن آگے بھیجتا ہے۔ ٢۔ ٣ کافروں کو جب انکار کے لئے بات نہیں سوجھتی تو یہ کہہ کر چھٹکارہ حاصل کرلیتے ہیں کہ یہ تو جادوگر ہے۔ نعوذ با للہ۔ یونس
3 ٣۔ ١ اس کی وضاحت کے لئے دیکھئے سورۃ اعراف آیت ٥٤ کا حاشیہ۔ ٣۔ ٢ یعنی آسمان و زمین کی تخلیق کرکے اس نے ان کو یوں ہی نہیں چھوڑ دیا، بلکہ ساری کائنات کا نظم و تدبیر وہ اس طرح کر رہا ہے کہ کبھی کسی کا آپس میں تصادم نہیں ہوا، ہر چیز اس کے حکم پر اپنے اپنے کام میں مصروف ہے۔ ٣۔ ٣ مشرکین و کفار، جو اصل ' مخاطب تھے، ان کا عقیدہ تھا کہ یہ بت، جن کی وہ عبادت کرتے تھے اللہ کے ہاں ان کی شفاعت کریں گے اور ان کو اللہ کے عذاب سے چھڑوائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، وہاں اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کو سفارش کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اور یہ اجازت بھی صرف انہی لوگوں کے لئے ہوگی جن کے لئے اللہ تعالیٰ پسند فرمائے گا۔ ٣۔ ٤ یعنی ایسا اللہ، جو کائنات کا خالق بھی ہے اس کا مدبر و منتطم بھی علاوہ ازیں تمام اختیارات کا بھی کلی طرح پر وہی مالک ہے، وہی اس لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔ یونس
4 ٤۔ ١ اس آیت میں قیامت کے وقوع، بارگاہ الٰہی میں سب کی حاضری اور جزا سزا کا بیان ہے، یہ مضمون قرآن کریم میں مختلف اسلوب سے متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔ یونس
5 ٥۔ ١ ضیاء ضوء کے ہم معنی ہے۔ مضاف یہاں محذوف ہے ذات ضیاء والقمر ذانور، سورج کو چمکنے والا اور چاند کو نور والا بنایا۔ یا پھر انہیں مبالغے پر محمول کیا جائے گویا کہ یہ بذات خود ضیا اور نور ہیں۔ آسمان و زمین کی تخلیق اور ان کی تدبیر کے ذکر کے بعد بطور مثال کچھ اور چیزوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کا تعلق تدبیر کائنات سے ہے جس میں سورج اور چاند کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ سورج کی حرارت اور تپش اور اس کی روشنی، کس قدر ناگزیر ہے اس سے ہر با شعور آدمی واقف ہے۔ اسی طرح چاند کی نورانیت کا جو لطف اور اس کے فوائد ہیں، وہ بھی محتاج بیان نہیں۔ حکما کا خیال ہے کہ سورج کی روشنی بالذات ہے اور چاند کی نورانیت ہے جو سورج کی روشنی سے مستفاد ہے (فتح القدیر) ٥۔ ٢ یعنی ہم نے چاند کی چال کی منزلیں مقرر کردی ہیں ان منزلوں سے مراد مسافت ہے جو وہ ایک رات اور ایک دن میں اپنی مخصوص حرکت یا چال کے ساتھ طے کرتا ہے یہ ٢٨ منزلیں ہیں۔ ہر رات کو ایک منزل پر پہنچتا ہے جس میں کبھی خطا نہیں ہوتی۔ پہلی منزل میں وہ چھوٹا اور باریک نظر آتا ہے، پھر بتدریخ بڑا ہوتا جاتا ہے حتٰی کے چودھویں شب یا چودھویں منزل پر وہ مکمل (بدر کامل) ہوجاتا ہے اس کے بعد پھر وہ سکڑنا اور باریک ہونا شروع ہوجاتا ہے حتٰی کے آخر میں ایک یا دو راتیں چھپا رہتا ہے۔ اور پھر ہلال بن کر طلوع ہوجاتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرسکو۔ یعنی چاند کی ان منازل اور رفتار سے ہی مہینے اور سال بنتے ہیں۔ جن سے تمہیں ہر چیز کا حساب کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ یعنی سال ١٢ مہینے کا، مہینہ ٢٩، ٣٠ دن کا ایک دن ٢٤ گھنٹے یعنی رات اور دن کا۔ جو ایام استوا میں ١٢، ١٢ گھنٹے اور سردی گرمی میں کم و بیش ہوتے ہیں، علاوہ ازیں دینوی منافع اور کاروبار ہی ان منازل قمر سے وابستہ نہیں۔ دینی منافع بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس طلوع بلال سے حج، صیام رمضان، اشہر حرم اور دیگر عبادات کی تعین ہوتی ہے جن کا اہتمام ایک مومن کرتا ہے۔ یونس
6 یونس
7 یونس
8 یونس
9 ٩۔ ١ اس کے ایک دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ دنیا میں ایمان کے سبب قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ان کے لئے پل صراط سے گزرنا آسان فرما دے گا، بعض کے نزدیک یہ مدد مانگنے کے لئے ہے اور معنی یہ ہونگے کہ اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ان کے لئے ایک نور مہیا فرمائے گا جس کی روشنی میں وہ چلیں گے، جیسا کہ سورۃ حدید میں اس کا ذکر آتا ہے۔ یونس
10 ١٠۔ ١ یعنی اہل جنت اللہ کی حمد و تسبیح میں ہر وقت تعریف کرتے رہیں گے۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ ' اہل جنت کی زبانوں پر تسبیح و تحمید کا اس طرح الہام ہوگا جس طرح سانس کا الہام کیا جاتا ہے، یعنی جس طرح بے اختیار سانس کی آمدورفت رہتی ہی، اسی طرح اہل جنت کی زبانوں پر بغیر اہتمام کے حمدو تسبیح الٰہی کے ترانے رہیں گے۔ ١٠۔ ٢ یعنی ایک دوسرے کو اس طرح سلام کریں گے، نیز فرشتے بھی انہیں سلام عرض کریں گے۔ یونس
11 ١١۔ ١ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ جس طرح انسان خیر کے طلب کرنے میں جلدی کرتا ہے، اسی طرح وہ شر (عذاب) کے طلب کرنے میں بھی جلدی مچاتا ہے، اللہ کے پیغمبروں سے کہتا ہے اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے کر آؤ جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ان کے اس مطالبے کے مطابق ہم جلدی عذاب بھیج دیتے تو کبھی کے یہ موت اور ہلاکت سے دوچار ہوچکے ہوتے۔ لیکن ہم مہلت دے کر انہیں پورا موقع دیتے ہیں۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ جس طرح انسان اپنے لئے خیر اور بھلائی کی دعائیں مانگتا ہے جنہیں ہم قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح جب انسان غصے یا تنگی میں ہوتا ہے تو اپنے لئے اور اپنی اولاد وغیرہ کے لئے بد دعائیں کرتا ہے، جنہیں ہم اس لئے نظر انداز کردیتے ہیں کہ یہ زبان سے تو ہلاکت مانگ رہا ہے، مگر اس کے دل میں ایسا ارادہ نہیں ہے۔ لیکن اگر ہم انسانوں کی بد دعاؤں کے مطابق، انہیں فوراً ہلاکت سے دوچار کرنا شروع کردیں، تو پھر جلدی ہی لوگ موت اور تباہی سے ہمکنار ہوجایا کریں اس لئے حدیث میں آتا ہے کہ ' تم اپنے لئے، اپنی اولاد کے لئے اور اپنے مال و کاروبار کے لئے بد دعائیں مت کیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری بد دعائیں، اس گھڑی کو پا لیں، جس میں اللہ کی طرف سے دعائیں قبول کی جاتی ہیں، پس وہ تمہاری بد دعائیں قبول فرما لے '۔ یونس
12 ١٢۔ ١ یہ انسان کی اس حالت کا تذکرہ ہے جو انسانوں کی اکثریت کا شیوہ ہے۔ بلکہ بہت سے اللہ کے ماننے والے بھی اس کوتاہی کا عام ارتکاب کرتے ہیں کہ مصیبت کے وقت تو خوب اللہ اللہ ہو رہا ہے، دعائیں کی جا رہی ہیں توبہ استغفار کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ مصیبت کا وہ کڑا وقت نکال دیتا ہے تو پھر بارگاہ الٰہی میں دعا و گڑگڑانے سے غافل ہوجاتے ہیں اور اللہ نے ان کی دعائیں قبول کرکے جس امتحان اور مصیبت سے نجات دی، اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی بھی توفیق انہیں نصیب نہیں ہوتی۔ ١٢۔ ٢ بطور آزمائش اور مہلت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے، وسوسوں کے ذریعے سے شیطان کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے اور انسان اس نفس کی طرف سے بھی ہوسکتی ہے، جو انسان کی برائی پر امادہ کرتا ہے، تاہم اس کا شکار ہوتے وہی لوگ ہیں جو حد سے گزر جانے والے ہیں۔ یہاں معنی یہ ہوئے کہ ان کے لیے دعا سے اعراض، شکر الہی سے غفلت اور شہوات و خواہشات کے ساتھ اشتغال کو مزین کردیا گیا ہے۔ یونس
13 ١٣۔ ١ یہ کفار کو تنبیہ ہے کہ گزشتہ امتوں کی طرح تم بھی ہلاکت سے دو چار ہو سکتے ہو۔ یونس
14 ١٤۔ ١ خلائف، خلیفہ کی جمع ہے۔ اس کے معنی ہیں، گزشتہ امتوں کا جانشین۔ یا ایک دوسرے کا جانشین۔ یونس
15 ١٥۔ ١ یعنی اللہ تعالیٰ کی الوہیت و واحدیت پر دلالت کرتے ہیں۔ ١٥۔ ٢ مطلب یہ ہے کہ یا تو اس قرآن مجید کی جگہ قرآن ہی دوسرا لائیں یا پھر اس میں ہماری حسب خواہش تبدیلی کردیں۔ ١٥۔ ٣ یعنی مجھ سے دونوں باتیں ممکن نہیں میرے اختیار میں ہی نہیں۔ ١٥۔ ٤ یہ اس کی مذید تاکید ہے۔ میں تو صرف اس بات کا پیرو ہوں جو اللہ کی طرف سے مجھ پر نازل ہوتی ہے۔ اس میں کسی کمی بیشی کا ارتکاب کروں گا تو یوم عظیم کے عذاب سے میں محفوظ نہیں رہ سکتا۔ یونس
16 ١٦۔ ١ یعنی سارا معاملہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، وہ چاہتا تو میں نہ تمہیں پڑھ کر سناتا نہ تمہیں اس کی کوئی اطلاع دی جاتی، بعض نے ادراکم بہ کے معنی کیے ہیں اعلمکم بہ علی لسانی، کہ وہ تم کو میری زبانی اس قرآن کی بابت کچھ بھی نہ بتلاتا۔ ١٦۔ ٢ اور تم بھی جانتے ہو کہ دعوائے نبوت سے قبل چالیس سال میں نے تمہارے اندر گزارے کیا میں نے کسی استاذ سے کچھ سیکھا ہے؟ اسی طرح تم میری امانت وصداقت کے بھی قائل رہے ہو۔ کیا اب یہ ممکن ہے کہ میں اللہ پر افترا باندھنا شروع کردوں؟ مطلب ان دونوں باتوں کا یہ ہے کہ یہ قرآن اللہ ہی کا نازل کردہ ہے نہ میں نے کسی سے سن یا سیکھ کر اسے بیان کیا ہے اور نہ یوں ہی جھوٹ موٹ اسے اللہ کی طرف منسوب کردیا ہے۔ یونس
17 یونس
18 ١٨۔ ١ یعنی اللہ کی عبادت سے تجاوز کرکے نہ کہ اللہ کی عبادت ترک کرکے۔ کیونکہ مشرکین اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ اور غیر اللہ کی بھی۔ ١٨۔ ٢ جب کہ معبود کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے اطاعت گزاروں کو بدلہ اور اپنے نافرمانوں کو سزا دینے پر قادر ہے۔ ١٨۔ ٣ یعنی ان کی سفارش سے اللہ ہماری ضرورتیں پوری کردیتا ہے ہماری بگڑی بنا دیتا ہے یا ہمارے دشمن کی بنائی ہوئی بگاڑ دیتا ہے۔ یعنی مشرکین بھی اللہ کے سوا جن کی عبادت کرتے تھے ان کو نفع اور ضر میں مستقل نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنے اور اللہ کے درمیان واسطہ اور وسیلہ سمجھتے تھے۔ ١٨۔ ٤ یعنی اللہ کو تو اس بات کا علم نہیں کہ اس کا کوئی شریک بھی ہے یا اس کی بارگاہ میں سفارشی بھی ہونگے، گویا یہ مشرکین اللہ کو خبر دیتے ہیں کہ تجھے خبر نہیں۔ لیکن ہم تجھے بتلاتے ہیں کہ تیرے شریک بھی ہیں اور سفارشی بھی ہیں جو اپنے عقیدت مندوں کی سفارش کریں گے۔ ١٨۔ ٥ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرکین کی باتیں بے اصل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک اور برتر ہے۔ یونس
19 ١٩۔ ١ یعنی یہ شرک، لوگوں کی اپنی ایجاد ہے ورنہ پہلے پہل اس کا کوئی وجود نہ تھا۔ تمام لوگ ایک ہی دین اور ایک ہی طریقہ پر تھے اور وہ اسلام ہے جس میں توحید کی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) تک لوگ اسی توحید پر قائم رہے پھر ان میں اختلاف ہوگیا اور کچھ لوگوں نے اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی معبود، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا شروع کردیا۔ ١٩۔ ٢ یعنی اگر اللہ کا فیصلہ نہ ہوتا کہ، تمام حجت سے پہلے کسی کو عذاب نہیں دیتا، اس طرح اس نے مخلوق کے لئے ایک وقت کا تعین نہ کیا ہوتا تو یقینا وہ ان کے مابین اختلافات کا فیصلہ اور مومنوں کو سعادت مند اور کافروں کو عذاب میں مبتلا کرچکا ہوتا۔ یونس
20 ٢٠۔ ١ اس سے مراد کوئی بڑا اور واضح معجزہ، جیسے قوم ثمود کے لئے اونٹنی کا ظہور ہوا ان کے لئے صفا پہاڑی سونے کا یا مکے کے پہاڑوں کو ختم کرکے ان کی جگہ نہریں اور باغات بنانے کا یا اور اس قسم کا کوئی معجزہ صادر کرکے دکھلایا جائے۔ ٢٠۔ ٢ یعنی اگر اللہ چاہے تو ان کی خواہشات کے مطابق وہ معجزے تو ظاہر کرکے دکھا سکتا ہے۔ لیکن اس کے بعد بھی اگر وہ ایمان نہ لائے تو پھر اللہ کا قانون یہ ہے کہ ایسی قوم کو فوراً وہ ہلاک کردیتا ہے۔ اس لئے اس بات کا علم صرف اسی کو ہے کہ کسی قوم کے لئے اس کی خواہشات کے مطابق معجزے ظاہر کردیتا اس کے حق میں بہتر ہے یا نہیں؟ اور اس طرح اس بات کا علم بھی صرف اسی کو ہے کہ ان کے مطلوبہ معجزے اگر ان کو دکھائے گئے تو انہیں، کتنی مہلت دی جائے گی، اسی لئے آگے فرمایا، ' تم بھی انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ یونس
21 ٢١۔ ١ مصیبت کے بعد نعمت کا مطلب ہے۔ تنگی، قحط سالی اور آلام و مصائب کے بعد، رزق کی فروانی، اسباب معیشت کی ارزانی وغیرہ۔ ٢١۔ ٢ اس کا مطلب ہے کہ ہماری ان نعمتوں کی قدر اور ان پر اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے بلکہ کفر اور شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یعنی ان کی وہ بری تدبیر ہے جو اللہ کی نعمتوں کے مقابلے میں اختیار کرتے ہیں۔ ٢١۔ ٣ یعنی اللہ کی تدبیر ان سے کہیں زیادہ تیز ہے جو وہ اختیار کرتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ ان کا مواخذہ کرنے پر قادر ہے، وہ جب چاہے ان کی گرفت کرسکتا ہے، فوراً بھی اور اس کی حکمت تاخیر کا تقاضا کرنے والی ہو تو بعد میں بھی۔ مکر، عربی زبان میں خفیہ تدبیر اور حکمت عملی کو کہتے ہیں، جو اچھی بھی ہوسکتی ہے اور بری بھی۔ یہاں اللہ کی عقوبت اور گرفت مکر سے تعبیر ہے۔ یونس
22 ٢٢۔ ١ یسیرکم وہ تمہیں چلاتا یا چلنے پھرنے اور سیر کرنے کی توفیق دیتا ہے ' خشکی میں ' یعنی اس نے تمہیں قدم عطا کئے جن سے تم چلتے ہو، سواریاں مہیا کیں، جن پر سوار ہو کر دور دراز کے سفر کرتے ہو ' اور سمندر میں ' یعنی اللہ نے تمہیں کشتیاں اور جہاز بنانے کی عقل اور سمجھ دی، تم نے وہ بنائیں اور ان کے ذریعے سے سمندر کا سفر کرتے ہو۔ ٢٢۔ ٢ جس طرح دشمن کسی قوم یا شہر کا احاطہ یعنی محاصرہ کرلیتا ہے اور وہ دشمن کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں، اسی طرح وہ جب سخت ہواؤں کے تھپیڑوں اور تلاطم خیز موجوں میں گھر جاتے ہیں اور موت ان کو سامنے نظر آتی ہے۔ ٢٢۔ ٣ یعنی پھر وہ دعا میں غیر اللہ کی ملاوٹ نہیں کرتے جس طرح عام حالات میں کرتے ہیں۔ عام حالات میں تو کہتے ہیں کہ یہ بزرگ بھی اللہ کے بندے ہیں، انہیں بھی اللہ نے اختیارات سے نواز رکھا ہے اور انہی کے ذریعے سے ہم اللہ کا قرب تلاش کرتے ہیں۔ لیکن جب اس طرح شدائد میں گھر جاتے ہیں تو یہ سارے شیطانی فلسفے بھول جاتے ہیں اور صرف اللہ یاد رہ جاتا ہے اور پھر صرف اسی کو پکارتے ہیں۔ اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ انسان کی فطرت میں اللہ واحد کی طرف رجوع کا جذبہ ودیعت کیا گیا ہے۔ انسان ماحول سے متاثر ہو کر اس جذبے یا فطرت کو دبا دیتا ہے لیکن مصیبت میں یہ جذبہ ابھر آتا ہے اور یہ فطرت عود کر آتی ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ توحید، فطرت انسانی کی آواز اور اصل چیز ہے، جس سے انسان کو انحراف نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس سے انحراف فطرت سے انحراف جو سراسر گمراہی ہے، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مشرکین، جب اس طرح مصائب میں گھر جاتے تو وہ اپنے خود ساختہ معبودوں کے بجائے، صرف ایک اللہ کو پکارتے تھے چنانچہ حضرت عکرمہ بن ابی جہل (رض) کے بارے میں آتا ہے کہ جب مکہ فتح کیا تو یہ وہاں سے فرار ہوگئے۔ باہر کسی جگہ جانے کے لیے کشتی میں سوار ہوئے، تو کشتی طوفانی ہواؤں کی زد میں آگئی۔ جس پر ملاح نے کشتی میں سوار لوگوں سے کہا کہ آج اللہ واحد سے دعا کرو، تمہیں اس طوفان سے اس کے سوا کوئی نجات دینے والا نہیں ہے۔ حضرت عکرمہ (رض) کہتے ہیں، میں نے سوچا اگر سمندر میں نجات دینے والا صرف ایک اللہ ہے تو خشکی میں بھی یقینا نجات دینے والا وہی ہے۔ اور یہی بات محمد کہتے ہیں۔ چنانچہ انہوں فیصلہ کرلیا اگر یہاں سے میں زندہ بچ کر نکل گیا تو مکہ واپس جا کر اسلام قبول کرلوں گا۔ چنانچہ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسلمان ہوگئے، لیکن افسوس! امت محمدیہ کے عوام اس طرح شرک میں پھنسے ہوئے ہیں کہ شدائد و آلام میں بھی وہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کے بجائے فوت شدہ بزرگوں کو ہی مشکل کشا سمجھتے اور انہی کو مدد کے لیے پکارتے ہیں۔ یونس
23 ٢٣۔ ١ یہ انسان کی ناشکری کی عادت کا ذکر ہے جس کا تذکرہ ابھی آیت ١٢ میں بھی گزرا، اور قرآن میں اور بھی متعدد مقامات پر اللہ نے اس کا ذکر فرمایا ہے۔ ٢٣۔ ٢ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، تم یہ ناشکری اور سرکشی کرلو، چار روزہ متاع زندگی سے فائدہ اٹھا کر بالآخر تمہیں ہمارے ہی پاس آنا ہے، پھر تمہیں، جو کچھ تم کرتے رہے ہو گے، بتلائیں گے یعنی ان پر سزا دیں گے۔ یونس
24 ٢٤۔ ١ حصیدا فعیل بمعنی مفعول یعنی محصود دنیا کی زندگی اس طرح کھیتی سے تشبیہ دے کر اس کے عارضی پن اور ناپائیداری کو واضح کیا گیا ہے کہ کھیتی بھی بارش کے پانی سے نشمونما پاتی اور سر سبز و شداب ہوتی ہے لیکن اس کے بعد اسے کاٹ کر فنا کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ یونس
25 یونس
26 ٢٦۔ ١ اس زیادہ کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں لیکن حدیث میں اس کی تفسیر دیدار باری تعالیٰ سے کی گئی ہے جس سے اہل جنت کو جنت کی نعمتیں دینے کے بعد، مشرف کیا جائے گا (صحیح مسلم) یونس
27 ٢٧۔ ١ گزشتہ آیت میں اہل جنت کا تذکرہ تھا، اس میں بتلایا گیا تھا کہ انہیں ان کے نیک اعمال کی جزا کئی کئی گنا ملے گی اور پھر مزید دیدار الٰہی سے نوازے جائیں گے۔ اس آیت میں بتلایا جا رہا ہے کہ برائی کا بدلہ برائی کے مثل ہی ملے گا سَیِّئَاتِ سے مراد کفر اور شرک اور دیگر معاصی ہیں۔ ٢٧۔ ٢ جس طرح اہل ایمان کو بچانے والا اللہ تعالیٰ ہوگا اس طرح انہیں اس روز اپنے فضل خاص سے نوازے گا علاوہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے مخصوص بندوں کو شفاعت کی اجازت بھی دے گا، جن کی شفاعت بھی وہ قبول فرمائے گا۔ ٢٧۔ ٣ یہ مبالغہ ہے کہ ان کے چہرے اتنے سخت سیاہ ہونگے۔ اس کے برعکس اہل ایمان کے چہرے ترو تازہ اور روشن ہونگے جس طرح سورۃ ال عمران، آیت ١٠٦ اور سورۃ عبس ٣٨۔ ٤١ اور سورۃ قیامت میں ہے۔ یونس
28 ٢٨۔ ١ جَمَیْعًا سے مراد، ازل سے ابد تک کے تمام اہل زمین انسان اور جنات ہیں، سب کو اللہ تعالیٰ جمع فرمائے گا جس طرح کہ دوسرے مقام پر فرمایا ( ۙ وَّحَشَرْنٰہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ اَحَدًا) 18۔ الکہف :47) ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے، کسی ایک کو بھی نہ چھوڑیں گے۔ ٢٨۔ ٢ ان کے مقابلے میں اہل ایمان کو دوسری طرف کردیا جائے گا یعنی اہل ایمان اور اہل کفر و شرک کو الگ الگ ایک دوسرے سے ممتاز کردیا جائے گا جیسے فرمایا (وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّہَا الْمُجْرِمُوْنَ) 36۔ یس :59) اس دن لوگ گروہوں میں بٹ جائیں گے ' یعنی دو گروہوں میں (ابن کثیر) ٢٨۔ ٣ یعنی دنیا میں ان کے درمیان آپس میں جو خصوصی تعلق تھا وہ ختم کردیا جائے گا اور ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے اور ان کے معبود اس بات کا ہی انکار کریں گے کہ یہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے، ان کو مدد کے لئے پکارتے تھے، ان کے نام کی نذر نیاز دیتے تھے۔ یونس
29 ٢٩۔ ١ یہ انکار کی وجہ ہے کہ ہمیں تو کچھ پتہ ہی نہیں، تم کیا کچھ کرتے تھے اور ہم جھوٹ بول رہے ہوں تو ہمارے درمیان اللہ تعالیٰ گواہ ہے اور وہ کافی ہے، اس کی گواہی کے بعد کسی اور ثبوت کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی، یہ آیت اس بات پر صحیح ہے کہ مشرکین جن کو مدد کے لئے پکارتے تھے، بلکہ وہ عقل و شعور رکھنے والے افراد ہی ہوتے تھے جن کے مرنے کے بعد لوگ ان کے مجسمے اور بت بنا کر پوجنا شروع کردیتے تھے۔ جس طرح کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے طرز عمل سے ثابت ہے جس کی تصریح صحیح بخاری میں موجود ہے۔ دوسرا یہ بھی معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد، انسان کتنا بھی نیک ہو، حتیٰ کہ نبی و رسول ہو۔ اسے دنیا کے حالات کا علم نہیں ہوتا، اس کے ماننے والے اور عقیدت مند اسے مدد کے لئے پکارتے ہیں اس کے نام کی نذر نیاز دیتے ہیں، اس کی قبر پر میلے ٹھیلے کا انتظام کرتے ہیں، لیکن وہ بے خبر ہوتا ہے اور ان تمام چیزوں کا انکار ایسے لوگ قیامت والے دن کریں گے۔ یہی بات سورۃ احقاف آیت ٥، ٦ میں بھی بیان کی گئی ہے۔ یونس
30 ٣٠۔ ١ یعنی جان لے گا یا مزہ چکھ لے گا۔ ٣٠۔ ٢ یعنی کوئی معبود اور ' مشکل کشا ' وہاں کام نہیں آئے گا، کوئی کسی کی مشکل کشائی پر قادر نہیں ہوگا۔ یونس
31 ٣١۔ ١ اس آیت سے بھی واضح ہے کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کی مالکیت، خالقیت، ربویت اور اس کے مدبر الامور ہونے کو تسلیم کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود چونکہ وہ اس کی الوہیت میں دوسروں کو شریک ٹھہراتے تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ انہیں جہنم کا ایندھن قرار دیا۔ آج کل کے مدعیان ایمان بھی اسی توحید الوہیت کے منکر ہیں۔ یونس
32 ٣٢۔ ١ یعنی رب اور اللہ (معبود) تو یہی ہے جس کے بارے میں تمہیں خود اعتراف ہے کہ ہر چیز کا خالق و مالک اور مدبر وہی ہے، پھر اس معبود کو چھوڑ کر جو تم دوسرے معبود بنائے پھرتے ہو، وہ گمراہی کے سوا کچھ نہیں تمہاری سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی؟ تم کہاں پھرے جاتے ہو؟ یونس
33 ٣٣۔ ١ یعنی جس طرح مشرکین تمام تر اعتراف کے باوجود اپنے شرک پر قائم ہیں اور اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔ اسی طرح تیرے رب کی بات ثابت ہوگئی کہ ایمان والے نہیں ہیں، کیونکہ یہ غلط راستہ چھوڑ کر صحیح راستہ اختیار کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں تو ہدایت اور ایمان انہیں کس طرح نصیب ہوسکتا ہے؟ یہ وہی بات ہے جسے دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے (وَلٰکِنْ حَقَّتْ کَلِمَۃُ الْعَذَابِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ) 39۔ الزمر :71) لیکن عذاب کی بات کافروں پر ثابت ہوگئی۔ یونس
34 ٣٤۔ ١ مشرکین کے شرک کے کھوکھلے پن کو واضح کرنے کے لئے ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ بتلاؤ جنہیں تم اللہ کا شریک گردانتے ہو، کیا انہوں نے اس کائنات کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے؟ یا دوبارہ اسے پیدا کرنے پر قادر ہیں؟ نہیں یقیناً نہیں پہلی مرتبہ بھی پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے اور روز قیامت دوبارہ وہی سب کو زندہ کرے گا۔ تو پھر ہدایت کا راستہ چھوڑ کر، کہاں پھرے جا رہے ہو؟ یونس
35 ٣٥۔ ١ یعنی بھٹکے ہوئے مسافرین راہ کو راستہ بتانے والا اور دلوں کو گمراہی سے ہدایت کی طرف پھیرنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ ان کے شرکاء میں کوئی ایسا نہیں جو یہ کام کرسکے۔ ٣٥۔ ٢ یعنی پیروی کے لائق کون ہے؟ وہ شخص جو دیکھتا سنتا اور لوگوں کی حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے؟ یا وہ جو اندھے اور بہرے ہونے کی وجہ سے خود راستے پر چل بھی نہیں سکتا، جب تک دوسرے لوگ اسے راستے پر نہ ڈال دیں یا ہاتھ پکڑ کرلے نہ جائیں؟ ٣٥۔ ٣ یعنی تمہاری عقلوں کو کیا ہوگیا ہے؟ تم کس طرح اللہ کو اور اس کی مخلوق کو برابر ٹھہرائے جا رہے ہو؟ اللہ کے ساتھ تم دوسروں کو بھی شریک عبادت بنا رہے ہو؟ جب کہ ان دلائل کا تقاضا یہ ہے کہ صرف اسی ایک اللہ کو معبود مانا جائے اور عبادت کی تمام قسمیں صرف اسی کے لئے خاص مانی جائیں۔ یونس
36 ٣٦۔ ١ لیکن بات یہ ہے کہ لوگ محض اٹکل پچو باتوں پر چلنے والے ہیں حالانکہ جانتے ہیں کہ دلائل کے مقابلے میں اوہام و خیالات اور ظن و گمان کی کوئی حیثیت نہیں۔ قرآن میں ظن، یقین اور گمان دونوں معنی میں استعمال ہوا ہے، یہاں دوسرا معنی مراد ہے۔ ٣٦۔ ٢ یعنی اس ہٹ دھرمی کی وہ سزا دے گا، کہ دلائل نہ رکھنے کے باوجود، یہ محض غلط وہم اور دیوانہ پن کے پیچھے لگے رہے اور عقل فہم سے ذرا کام نہ لیا۔ یونس
37 ٣٧۔ ١ جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن گھڑا ہوا نہیں ہے، بلکہ اسی ذات کا نازل کردہ ہے جس نے پچھلی کتابیں نازل فرمائیں تھیں۔ ٣٧۔ ٢ یعنی حلال و حرام اور جائز ناجائز کی تفصیل بیان کرنے والا۔ ٣٧۔ ٣ اس کی تعلیمات میں، اس کے بیان کردہ قصص و واقعات میں اور مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں۔ ٣٧۔ ٤ یہ سب باتیں واضح کرتی ہیں کہ یہ رب العالمین ہی کی طرف سے نازل ہوا ہے، جو ماضی اور مستقبل کو جاننے والا ہے۔ یونس
38 ٣٨۔ ١ ان تمام حقائق اور دلائل کے بعد بھی، اگر تمہارا دعویٰ یہ ہے کہ یہ قرآن محمد کا گھڑا ہوا ہے تو بھی تمہاری طرح ایک انسان ہے، تمہاری زبان بھی اسی طرح عربی ہے وہ تو ایک ہے، تم اگر اپنے دعوے میں سچے ہو تو تم دنیا بھر کے ادیبوں، فصحاوں کو اور اہل علم و اہل قلم کو جمع کرلو اور اس قرآن کی ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت کے مثل بنا کر پیش کردو۔ قرآن مجید کا یہ چیلنج آج تک باقی ہے، اس کا جواب نہیں ملا۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ یہ قرآن۔ کسی انسانی کاوش کا نتیجہ نہیں، بلکہ فی الواقع کلام الٰہی ہے اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اترا ہے۔ یونس
39 ٣٩۔ ١ یعنی قرآن میں تدبر اور اس کے معنی پر غور کئے بغیر، اسکو جھٹلانے پر تل گئے۔ ٣٩۔ ٢ یعنی قرآن نے جو پچھلے واقعات اور مستقبل کے امکانات بیان کئے ہیں، اس کی پوری سچائی اور حقیقت بھی ان پر واضح نہیں ہوئی، اس کے بغیر جھٹلانا شروع کردیا، یا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انہوں نے قرآن پر کما حقہ تدبر کئے بغیر ہی اس کو جھٹلایا حالانکہ اگر وہ صحیح معنوں میں اس پر تدبر کرتے اور ان امور پر غور کرتے، جو اسکے کلام الٰہی ہونے پر دلالت کرتے ہیں تو یقیناً اس کے فہم اور معانی کے دروازے ان پر کھل جاتے۔ اس صورت میں تاویل کے معنی۔ قرآن کریم کے اسرار و معارف اور لطائف و معانی کے واضح ہوجانے کے ہونگے۔ ٣٩۔ ٣ یہ ان کفار و مشرکین کو تنبیہ و سرزنش ہے، کہ تمہاری طرح پچھلی قوموں نے بھی آیات الٰہی کو جھٹلایا تو دیکھ لو ان کا کیا انجام ہوا ؟ اگر تم اس کو جھٹلانے سے باز نہ آئے تو تمہارا انجام بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ یونس
40 ٤٠۔ ١ وہ خوب جانتا ہے کہ ہدایت کا مستحق کون ہے؟ اسے ہدایت سے نواز دیتا ہے اور گمراہی کا مستحق کون ہے اس کے لئے گمراہی کا راستہ چوپٹ کھول دیتا ہے۔ وہ عادل ہے، اس کے کسی کام میں شک نہیں۔ جو جس بات کا مستحق ہوتا ہے، اس کے مطابق وہ چیز اس کو عطا کردیتا ہے۔ یونس
41 ٤١۔ ١ یعنی تمام تر سمجھانے اور دلائل پیش کرنے کے بعد بھی اگر وہ جھٹلانے سے باز نہ آئیں تو پھر آپ یہ کہہ دیں، مطلب یہ ہے کہ میرا کام صرف دعوت و تبلیغ ہے، سو وہ میں کرچکا ہوں، نہ تم میرے عمل کے ذمہ دار ہو اور نہ میں تمہارے عمل کا سب کو اللہ کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے، وہاں ہر شخص سے اس کے اچھے یا برے عمل کی باز پرس ہوگی۔ یہ وہی بات ہے جو "قل یا ایھا الکافروں لا اعبد ماتعبدون" میں ہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان الفاظ میں کہی تھی "انا برآء منکم ومما تعبدون من دون اللہ کفرنا بکم" بیشک ہم تم سے اور جن جن کی تم الہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں، ہم تمہارے عقائد سے منکر ہیں۔ یونس
42 ٤٢۔ ١ یعنی ظاہری طور پر وہ قرآن سنتے ہیں، لیکن سننے کا مقصد طلب ہدایت نہیں، اس لئے انہیں، اسی طرح کوئی فائدہ نہیں ہوتا، جس طرح ایک بہرے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ بالخصوص جب بہرا غیر عاقل بھی ہو، کیونکہ عقلمند بہرہ پھر بھی اشاروں سے کچھ سمجھ لیتا ہے۔ لیکن ان کی مثال تو غیر عاقل بہرے کی طرح ہے بالکل ہی بے بہرہ رہتا ہے۔ یونس
43 ٤٣۔ ١ اسی طرح بعض لوگ آپ کی طرف دیکھتے ہیں لیکن مقصد ان کا بھی چونکہ کچھ اور ہوتا ہے اس لئے انہیں بھی اس طرح کوئی فائدہ نہیں ہوتا، جس طرح ایک اندھے کو نہیں ہوتا۔ بالخصوص وہ اندھا جو بصارت کے ساتھ بصیرت سے بھی محروم ہو۔ لیکن ان کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی اندھا جو دل کی بصیرت سے بھی محروم ہو مقصد ان باتوں سے نبی کی تسلی ہے۔ جس طرح ایک حکیم اور طبیب کو جب معلوم ہوجائے کہ مریض علاج کروانے میں سنجیدہ نہیں اور میری ہدایت اور علاج کی پرواہ نہیں کرتا، تو وہ اسے نظر انداز کردیتا ہے اور وہ اس پر اپنا وقت صرف کرنا پسند نہیں کرتا۔ یونس
44 ٤٤۔ ١ یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں ساری صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ آنکھیں بھی دی ہیں، جن سے وہ دیکھ سکتے ہیں، کان دیئے ہیں، جن سے سن سکتے ہیں، عقل و بصیرت دی ہے جن سے حق اور باطل اور جھوٹ اور سچ کے درمیان تمیز کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر ان کی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرکے وہ حق راستہ نہیں اپناتے، تو پھر یہ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے تو ان پر ظلم نہیں کیا ہے۔ یونس
45 ٤٥۔ ١ یعنی محشر کی سختیاں دیکھ کر انہیں دنیا کی ساری لذتیں بھول جائیں گی اور دنیا کی زندگی انہیں ایسے معلوم ہوگی گویا وہ دنیا میں ایک آدھ گھڑی ہی رہے ہیں۔ لم یلبثوا الا عشیۃ او ضحھا۔ ٤٥۔ ٢ محشر میں مختلف حالتیں ہونگی، جنہیں قرآن میں مختلف جگہوں پر بیان کیا گیا ہے۔ ایک وقت یہ بھی ہوگا، جب ایک دوسرے کو پہچانیں گے، بعض مواقع ایسے آئیں گے کہ آپس میں ایک دوسرے پر گمراہی کا الزام دھریں گے، اور بعض موقعوں پر ایسی دہشت طاری ہوگی کہ ' آپس میں ایک دوسرے کی رشتہ داریوں کا پتہ ہوگا اور نہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔ یونس
46 ٤٦۔ ١ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے ہم ان کفار کے بارے میں جو وعدہ کر رہے ہیں اگر انہوں نے کفر و شرک پر اصرار جاری رکھا تو ان پر بھی عذاب الٰہی آسکتا ہے، جس طرح پچھلی قوموں پر آیا، ان میں سے بعض اگر ہم آپ کی زندگی میں بھیج دیں تو یہ بھی ممکن ہے، جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہونگی۔ لیکن اگر آپ اس سے پہلے ہی دنیا سے اٹھا لئے گئے، تب بھی کوئی بات نہیں، ان کافروں کو بالآخر ہمارے پاس ہی آنا ہے۔ ان کے سارے اعمال و احوال کی ہمیں اطلاع ہے، وہاں یہ ہمارے عذاب سے کس طرح بچ سکیں گے، قیامت کے وقوع کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہاں اطاعت گزاروں کو ان کی اطاعت کا صلہ اور نافرمانوں کو ان کی نافرمانی کی سزا دی جائے۔ یونس
47 ٤٧ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ہر امت میں ہم رسول بھیجتے رہے۔ اور جب رسول اپنا فریضہ تبلیغ ادا کرچکتا تو پھر ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیتے۔ یعنی پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والوں کو بچا لیتے اور دوسروں کو ہلاک کردیتے۔ کیونکہ "وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا" اور ہماری عادت نہیں کہ رسول بھیجنے سے پہلے ہی عذاب بھیج دیا جاتا یا بغیر حجت تمام کیے، ان کا مواخذہ کرلیا جاتا۔ (فتح القدیر) اور دوسرا مفہوم اس کا یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس کا تعلق قیامت سے ہے یعنی قیامت والے دن ہر امت جب اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوگی، تو اس امت میں بھیجا گیا رسول بھی ساتھ ہوگا۔ سب کے اعمال نامے بھی ہوں گے اور فرشتے بھی بطور گواہ پیش ہوں گے۔ اور یوں ہر امت اور اس کے رسول کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا۔ اور حدیث میں آتا ہے کہ امت محمدیہ کا فیصلہ سب سے پہلے کیا جائے گا۔ جیسا کہ فرمایا"ہم اگرچہ سب کے بعد آنے والے ہیں لیکن قیامت کو سب سے آگے ہوں گے" اور تمام مخلوقات سے پہلے ہمارا فیصلہ کیا جائے گا۔ (صحیح مسلم۔ کتاب الجمعہ، باب ھدایہ ھذہ الامۃ لیوم الجمعہ) (تفسیر ابن کثیر) یونس
48 یونس
49 ٤٩۔ ١ یہ مشرکین کے عذاب الٰہی مانگنے پر کہا جا رہا ہے کہ میں تو اپنے نفس کے لئے بھی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔ چہ جائیکہ کہ میں کسی دوسرے کو نقصان یا نفع پہنچا سکوں، ہاں سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنی مشیت کے مطابق ہی کسی کو نفع یا نقصان پہنچانے کا فیصلہ کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ نے ہر امت کے لئے ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے، اس وقت تک مہلت دیتا ہے۔ لیکن جب وہ وقت آجاتا ہے تو پھر وہ ایک گھڑی پیچھے ہو سکتے ہیں نہ آگے سرک سکتے ہیں۔ تنبیہ : یہاں یہ بات نہایت اہم ہے کہ جب افضل الخلائق سید الرسل حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر نہیں، تو آپ کے بعد انسانوں میں اور کون سی ہستی ایسی ہوسکتی ہے جو کسی کی حاجت برآری اور مشکل کشائی پر قادر ہو؟ اسی طرح خود اللہ کے پیغمبر سے مدد مانگنا، ان سے فریاد کرنا "یا رسول اللہ مدد" اور اغثنی یارسول اللہ" وغیرہ الفاظ سے استغاثہ واستعانت کرنا، کسی طرح بھی جائز نہیں ہے کیونکہ یہ قرآن کی اس آیت اور اس قسم کی دیگر واضح تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ یہ شرک کے ذیل میں آتا ہے۔ یونس
50 ٥٠۔ ١ یعنی عذاب تو ایک نہایت ہی ناپسندیدہ چیز ہے جس سے دل نفرت کرتے ہیں اور طبیعتیں انکار کرتی ہیں، پھر یہ اس میں کیا خوبی دیکھتے ہیں اور اس کو جلدی طلب کرتے ہیں۔ یونس
51 ٥١۔ ١ لیکن عذاب آنے کے بعد ماننے کا کیا فائدہ؟ یونس
52 یونس
53 ٥٣۔ ١ یعنی وہ پوچھتے ہیں کہ یہ قیامت اور انسانوں کے مٹی ہوجانے کے بعد ان کا دوبارہ جی اٹھا ایک برحق ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اے پیغمبر! ان سے کہہ دیجئے کہ تمہارا مٹی ہو کر مٹی میں مل جانا، اللہ تعالیٰ کو دوبارہ زندہ کرنے سے عاجز نہیں کرسکتا۔ اس لئے یقینا یہ ہو کر رہے گا۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اس آیت کی نظیر قرآن میں مذید صرف دو آیتیں ہیں کہ جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ وہ قسم کھا کر قیامت کے وقوع کا اعلان کریں۔ ایک سورۃ سبا، آیت ١٣ اور دوسرا سورۃ تغابن آیت۔ ٧۔ یونس
54 ٥٤۔ ١ یعنی اگر دنیا بھر کا خزانہ دے کر وہ عذاب سے چھوٹ جائے تو دینے کے لئے آمادہ ہوگا۔ لیکن وہاں کسی کے پاس ہوگا ہی کیا ؟ مطلب یہ ہے کہ عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ یونس
55 یونس
56 ٥٦۔ ٣ ان آیات میں آسمان اور زمین کے درمیان ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ملکیت نامہ، وعدہ الٰہی کے برحق، زندگی اور موت پر اس کا اختیار ہے، جو ذات اتنے اختیار کی مالک ہے، اس کی گرفت سے بچ کر کوئی کہاں جاسکتا ہے۔ اور اس نے حساب کتاب کے لئے ایک دن مقرر کیا ہوا ہے۔ اسے کون ٹال سکتا ہے؟ یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے، وہ ایک دن ضرور آئے گا اور ہر نیک و بد کو اس کے عملوں کے مطابق جزا اور سزا دی جائے گی۔ یونس
57 ٥٧۔ ١ یعنی جو قرآن کو دل کی توجہ سے پڑھے اور اس کے معنی و مطالب پر غور کرے، اس کے لئے قرآن نصیحت ہے قرآن کریم ترغیب و ترہیب دونوں طریقوں سے واعظ و نصیحت کرتا ہے اور ان کے نتائج سے آگاہ کرتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی صورت میں دو چار ہونا پڑے گا اور ان کاموں سے روکتا ہے جن سے انسان کی اخروی زندگی برباد ہوسکتی ہے۔ ٥٧۔ ٢ یعنی دلوں میں توحید و رسالت اور عقائد حقہ کے بارے میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں ان کا ازالہ اور کفر و نفاق کی جو گندگی و پلیدی ہوتی ہے اسے صاف کرتا ہے۔ ٧٥۔ ٣ یہ قرآن مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے ویسے تو یہ قرآن سارے جہان والوں کے لئے ہدایت و رحمت کا ذریعہ ہے لیکن چونکہ اس سے فیض یاب صرف اہل ایمان ہی ہوتے ہیں، اس لئے یہاں صرف انہی کے لئے اسے ہدایت و رحمت قرار دیا گیا ہے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں سورۃ بنی اسرائیل آیت ٨٢ اور سورۃ الم سجدہ آیت ٤٤ میں بھی بیان کیا گیا ہے (نیز ھدی للمتقین کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں) یونس
58 ٥٨۔ ١ خوشی، اس کیفیت کا نام ہے جو کسی مطلوب چیز کے حصول پر انسان اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ اہل ایمان کو کہا جا رہا ہے کہ یہ قرآن اللہ کا خاص فضل اور اس کی رحمت ہے، اس پر اہل ایمان کو خوش ہونا چاہیے یعنی ان کے دلوں میں فرحت اور اطمینان کی کفییت ہونی چاہیے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خوشی کے اظہار کے لیے جلسے جلوسوں کا چراغاں کا اور اس قسم کے غلط کام اور اسراف بے جا کا اہتمام کرو۔ جیسا کہ آج کل اہل بدعت اس آیت سے "جشن عید میلاد"اور اس کی غلط رسوم کا جواز ثابت کرتے ہیں۔ یونس
59 ٥٩۔ ١ اس سے مراد وہی بعض جانوروں کا حرام کرنا جو مشرکین اپنے بتوں کے ناموں پر چھوڑ کر کیا کرتے ہیں تھے، جس کی تفصیل سورۃ انعام میں گزر چکی ہے۔ یونس
60 ٦٠۔ ١ یعنی قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ان سے کیا معاملہ فرمائے گا۔ ٦٠۔ ٢ کہ وہ انسانوں کا دنیا میں فوراً مواخذا نہیں کرتا، بلکہ اس کے لئے ایک دن مقرر کر رکھا ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا کی نعمتیں بلا تفریق مومن و کافر، سب کو دیتا ہے۔ یا یہ چیزیں انسانوں کے لئے مفید اور ضروری ہیں، انھیں حلال اور جائز قرار دیا ہے، انھیں حرام نہیں کیا۔ ٦٠۔ ٣ یعنی اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے، یا اس کی حلال کردہ چیزوں کو حرام کرلیتے ہیں۔ یونس
61 ٦١۔ ١ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی اور مومنین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ تمام مخلوقات کے احوال سے واقف ہے اور لحاظہ اور ہر گھڑی انسانوں پر اس کی نظر ہے۔ زمین آسمان کی کوئی بڑی چھوٹی چیز اس سے مخفی نہیں۔ یہ وہی مضمون ہے جو اس سے قبل سورۃ انعام، آیت ٥٩ میں گزر چکا ہے ' اسی کے پاس غیب کے خزانے ہیں، جنہیں وہ جانتا ہے، اسے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے، اور کوئی پتہ نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی ہری اور سوکھی چیز نہیں ہے مگر کتاب مبین میں (لکھی ہوئی) ہے ' وہ آسمان اور زمین میں موجود اشیاء کی حرکتوں کو جانتا ہے تو انسان اور جنوں کی حرکات و اعمال سے کیوں کر بے خبر رہ سکتا ہے جو اللہ کی عبادت کے مکلف اور مامور ہیں؟ یونس
62 ٦٢۔ ١ نافرمانوں کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے فرماں برداروں کا ذکر فرما رہا ہے اور وہ ہیں اولیاء اللہ۔ اولیاء ولی کی جمع ہے، جس کے معنی لغت میں قریب کے ہیں۔ اس اعتبار سے اولیاء اللہ کے معنی ہوں گے، وہ سچے اور مخلص مومن جنہوں نے اللہ کی اطاعت اور معاصی سے اجتناب کر کے اللہ کا قرب حاصل کرلیا۔ اسی لیے اگلی آیت میں خود اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی تعریف ان الفاظ سے بیان فرمائی، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقوی اختیار کیا۔ اور ایمان وتقوی ہی اللہ کے قرب کی بنیاد اور اہم ترین ذریعہ ہے، اس لغت سے ہر متقی مومن اللہ کا ولی ہے۔ لوگ ولایت کے لیے اظہار کرامت کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اور پھر وہ اپنے بنائے ہوئے ولیوں کے لیے جھوٹی سچی کرامتیں مشہور کرتے ہیں۔ یہ خیال بالکل غلط ہے۔ کرامت کا ولایت سے چولی دامن کا ساتھ ہے نہ اس کے لیے شرط۔ یہ ایک الگ چیز ہے کہ اگر کسی سے کرامت ظاہر ہوجائے تو اللہ کی مشیت ہے، اس میں اس بزرگ کی مشیت شامل نہیں ہے۔ لیکن کسی متقی مومن اور متبع سنت سے کرامت کا ظہور ہو یا نہ ہو، اس کی ولایت میں کوئی شک نہیں۔ خوف کا تعلق مستقبل سے ہے اور غم (حزن) کا ماضی سے، مطلب یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے زندگی خدا خوفی کے ساتھ گزاری ہوتی ہے۔ اس لیے قیامت کی ہولناکیوں کا اتنا خوف ان پر نہیں ہوگا، جس طرح دوسروں کو ہوگا۔ بلکہ وہ اپنے ایمان وتقوی کی وجہ سے اللہ کی رحمت وفضل خاص کے امیدوار اور اس کے ساتھ حسن ظن رکھنے والے ہوں گے۔ اسی طرح دنیا میں وہ جو کچھ چھوڑ گئے ہوں گے یا دنیا کی لذتیں انھیں حاصل نہ ہوسکی ہوں گی، ان پر انھیں کوئی حزن وملال نہیں ہوگا۔ ایک دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ دنیا میں جو مطلوبہ چیزیں انھیں نہ ملیں، اس پر وہ غم وحزن کا مظاہرہ نہیں کرتے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی قضا وتقدیر ہے۔ جس سے ان ان کے دلوں میں کوئی کدورت پیدا نہیں ہوتی، بلکہ ان کے دل قضائے الہی پر مسرور و مطمئن رہتے ہیں۔ یونس
63 یونس
64 ٦٤۔ ١ دنیا میں خوشخبری سے مراد، رؤیائے صادقہ ہیں یا وہ خوشخبری ہے جو موت کے فرشتے ایک مومن کو دیتے ہیں، جیسا کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ یونس
65 یونس
66 ٦٦۔ ١ یعنی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں، بلکہ محض ظن او تخمین اور رائے و قیاس کی کرشمہ سازی ہے۔ آج اگر انسان اپنے قوائے عقل و فہم کو صحیح طریقے سے استعمال میں لائے تو یقینا اس پر واضح ہوسکتا ہے کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے جس طرح وہ آسمان اور زمین کی تخلیق میں واحد ہے، کوئی اس کا شریک نہیں ہے تو پھر عبادت میں دوسرے کیوں کر اس کے شریک ہو سکتے ہیں۔ یونس
67 یونس
68 ٦٨۔ ١ اور جو کسی کا محتاج نہ ہو، اسے اولاد کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اولاد تو سہارے کے لئے ہوتی ہے اور جب وہ سہارے کا محتاج نہیں تو پھر اسے اولاد کی کیا ضرورت؟ ٦٨۔ ٢ جب آسمان اور زمین کی ہر چیز اسی کی ہے تو ہر چیز اسی کی مملوک اور غلام ہوئی۔ پھر اسے اولاد کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اولاد کی ضرورت تو اسے ہوتی ہے، جسے کچھ مدد اور سہارے کی ضرورت ہو، علاوہ ازیں اولاد کی ضرورت وہ شخص بھی محسوس کرتا ہے جو اپنے بعد مملوکات کا وارث دیکھنا یا پسند کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو تو فنا ہی نہیں اس لئے اللہ کے لئے اولاد قرار دینا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (تَکَاد السَّمٰوٰتُ یَــتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّا 90 ۝ ۙ اَنْ دَعَوْا للرَّحْمٰنِ وَلَدًا 91۝ۚ) 19۔ مریم :90) ' اس بات سے کہ وہ کہتے ہیں رحمٰن کی اولاد ہے، قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں۔ یونس
69 ٦٩۔ ١ افترا کے معنی جھوٹی بات کہنے کے ہیں۔ اس کے بعد مذید ' جھوٹ ' کا اضافہ تاکید کے لئے۔ ٦٩۔ ٢ اس سے واضح ہے کہ کامیابی سے مراد آخرت کی کامیابی یعنی اللہ کے غضب اور اس کے عذاب سے بچ جانا محض دنیا کی عارضی خوش حالی، کامیابی نہیں۔ جیسا کہ بہت سے لوگ کافروں کی عارضی خوشحالی سے مغالطے کا اور شکوک و شبہات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے اگلی آیت میں فرمایا : "یہ دنیا میں تھوڑا سا عیش کرلیں پھر ہمارے ہی پاس ان کو آنا ہے" یعنی یہ دنیا کا عیش، آخرت کے مقابلے میں نہایت قلیل اور تھوڑا سا ہے جو شمار میں نہیں۔ اس کے بعد انھیں عذاب شدید سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اس لیے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کافروں، مشرکوں اور اللہ کے نافرمانوں کی دنیاوی خوشحالی اور مادی ترقیاں، یہ اس بات کی دلیل نہیں ہیں کہ یہ قومیں کامیاب ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہے۔ یہ مادی کامیابیاں ان کی جہد مسلسل کا ثمرہ ہیں جو اسباب ظاہر کے مطابق ہر اس قوم کو حاصل ہوسکتی ہیں۔ جو اسباب کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کی طرح محنت کرے گی، چاہے وہ مومن ہو یا کافر۔ علاوہ ازیں یہ عارضی کامیابیاں اللہ کے قانون مہلت کا نتیجہ بھی ہوسکتی ہیں۔ جس کی وضاحت اس سے قبل بعض جگہ ہم پہلے بھی کرچکے ہیں۔ یونس
70 یونس
71 ٧١۔ ١ یعنی جن کو تم نے اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے ان کی مدد بھی حاصل کرلو (اگر وہ گمان کے مطابق تمہاری مدد کرسکتے ہیں) ٧١۔ ٢ غُمَّۃً کے دوسرے معنی ہیں، گول مول بات اور پوشیدگی۔ یعنی میرے خلاف تمہاری تدبیر واضح اور غیر مشکوک ہونی چاہئے۔ یونس
72 ٧٢۔ ١ کہ جس کی وجہ سے تم یہ تہمت لگا سکو کہ دعوائے نبوت سے اس کا مقصد تو مال و دولت کا اکٹھا کرنا ہے۔ ٧٢۔ ٢ حضرت نوح (علیہ السلام) کے اس قول سے بھی معلوم ہوا کہ تمام انبیاء کا دین اسلام ہی رہا گو شرائع مختلف اور مناہج متعدد رہے۔ جیسا کہ آیت لکل جعلنا منکم شرعۃ و منہاجا، سے واضح ہے۔ لیکن دین سب کا اسلام تھا۔ ملاحظہ ہو سورۃ النمل ٩١ (وَمَنْ جَاۗءَ بالسَّیِّئَۃِ فَکُبَّتْ وُجُوْہُہُمْ فِی النَّارِ ۭ ہَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ) سورۃ بقرہ ١٣١، ١٣٢ (اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ ۙ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ١٣١؁ وَوَصّٰی بِہَآ اِبْرٰھٖمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوْبُ ۭیٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ١٣٢؁) سورۃ یونس ٨٤ (وَقَالَ مُوْسٰی یٰقَوْمِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ باللّٰہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ 84؀) سورۃ اعراف ١٢٦ (وَمَا تَنْقِمُ مِنَّآ اِلَّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاٰیٰتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاۗءَتْنَا ۭرَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ ١٢٦؀ۧ) سورۃ نمل ٤٤ (قِیْلَ لَہَا ادْخُلِی الصَّرْحَ ۚ فَلَمَّا رَاَتْہُ حَسِبَتْہُ لُجَّۃً وَّکَشَفَتْ عَنْ سَاقَیْہَا ۭ قَالَ اِنَّہٗ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِیْرَ ڛ قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ 44؀ۧ) سورۃ مائدہ ١١، ٤٤ (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ ہَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْٓا اِلَیْکُمْ اَیْدِیَہُمْ فَکَفَّ اَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ۭ وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ 11۝ۧ) (اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰیۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌ ۚ یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ وَکَانُوْا عَلَیْہِ شُہَدَاۗءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَـمَنًا قَلِیْلًا ۭوَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰۗیِٕکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ 44؀) سورۃ انعام ١٦٢، ١٦٣ (قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ١٦٢؀ۙ لَا شَرِیْکَ لَہٗ ۚ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ١٦٣؁ )۔ یونس
73 ٧٣۔ ١ یعنی قوم نوح (علیہ السلام) نے تمام تر وعظ و نصیحت کے باوجود جھٹلانے کا راستہ نہیں چھوڑا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو ایک کشتی میں بٹھا کر بچا لیا اور باقی سب کو حتٰی کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کے ایک بیٹے کو بھی غرق کردیا۔ ٧٣۔ ٢ یعنی زمین میں ان سے بچنے والوں کو ان سے پہلے کے لوگوں کا جانشین بنایا۔ پھر انسانوں کی آئندہ نسل انہی لوگوں بالخصوص حضرت نوح (علیہ السلام) کے تین بیٹوں سے چلی، اسی لئے حضرت نوح (علیہ السلام) آدم ثانی کہا جاتا ہے۔ یونس
74 ٧٤۔ ١ یعنی ایسے دلائل و معجزات لے کر آئے جو اس بات پر دلالت کرتے تھے کہ واقعی یہ اللہ کے سچے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت و رہنمائی کے لئے مبعوث فرمایا ہے۔ ٧٤۔ ٢ لیکن یہ امتیں رسولوں کی دعوت پر ایمان نہیں لائے، محض اس لئے کہ جب اول اول یہ رسول ان کے پاس آئے تو فوراً بغیر غور و فکر کئے، ان کا انکار کردیا۔ اور یہ پہلی مرتبہ کا انکار ان کے لئے مستقل حجاب بن گیا۔ اور وہ یہی سوچتے رہے کہ ہم تو پہلے انکار کرچکے ہیں، اب اس کو کیا ماننا، لہذا ایمان سے محروم۔ ٧٤۔ ٣ یعنی جس طرح ان گذشتہ قوموں پر انکے کفر و تکذیب کی وجہ سے مہریں لگتی رہیں ہیں اسی طرح آئندہ بھی جو قوم رسولوں کو جھٹلائے گی اور اللہ کی آیتوں کا انکار کرے گی، ان کے دلوں پر مہر لگتی رہے گی اور ہدایت سے وہ، اسی طرح محروم رہے گی، جس طرح گذشتہ قومیں محروم رہیں۔ یونس
75 ٧٥۔ ١ رسولوں کے عمومی ذکر کے بعد، حضرت موسیٰ و ہارون علیہا اسلام کا ذکر کیا جا رہا ہے، درآنحالیکہ رسول کے تحت میں وہ بھی آجاتے ہیں۔ لیکن چونکہ ان کا شمار جلیل القدر رسولوں میں ہوتا ہے اس لئے خصوصی طور پر ان کا الگ ذکر فرما دیا۔ ٧٥۔ ٢ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات، بالخصوص نو آیات بینات، جن کا ذکر اللہ نے سورت نبی اسرائیل آیت ١٠١ میں کیا ہے۔ مشہور ہیں۔ ٧٥۔ ٣ لیکن چونکہ وہ بڑے بڑے جرائم اور گناہوں کے عادی تھے۔ اس لئے انہوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے رسول کے ساتھ بھی استکبار کا معاملہ کیا۔ کیونکہ ایک گناہ، دوسرے گناہ کا ذریعہ بنتا اور گناہوں پر اصرار بڑے بڑے گناہوں کے ارتکاب کی جرّات پیدا کرتا ہے۔ یونس
76 ٧٦۔ ١ جب انکار کے لئے کوئی معقول دلیل نہیں ہوتی تو اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے۔ یونس
77 ٧٧۔ ١ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہ ذرا سوچو تو سہی، حق کی دعوت اور صحیح بات کو تم جادو کہتے ہو، بھلا یہ جادو ہے جادوگر تو کامیاب ہی نہیں ہوتے۔ یعنی مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے اور ناپسندیدہ انجام سے بچنے میں وہ ناکام ہی رہتے ہیں اور میں تو اللہ کا رسول ہوں، مجھے اللہ کی مدد حاصل ہے اور اس کی طرف سے مجھے معجزات اور آیات بینات عطا کی گئی ہیں مجھے سحر و ساحری کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اور اللہ کے عطا کردہ معجزات کے مقابلے میں اس کی حیثیت ہی کیا ہے؟ یونس
78 ٧٨۔ ١ یہ منکرین کی دیگر حجتیں ہیں جو دلائل سے عاجز آکر، پیش کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ تم ہمارے آباء و اجداد کے راستے سے ہٹانا چاہتے ہو، دوسرے یہ کہ ہمیں جاہ و ریاست حاصل ہے، اسے ہم سے چھین کر خود اس پر قبضہ کرنا چاہتے ہو اسلیے ہم تو کبھی بھی تم پر ایمان نہ لائیں گے۔ یعنی تنقید آباء پر اصرار اور دنیاوی وجہ کی خواہش نے انھیں ایمان لانے سے روکے رکھا۔ اس کے بعد آگے وہی قصہ ہے کہ فرعون نے ماہر جادوگروں کو بلایا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور جادوں گروں کا مقابلہ ہوا، جیسا کہ سورت اعراف میں گزرا اور سورت طہ میں بھی اس کی کچھ تفصیل آئے گی۔ یونس
79 یونس
80 یونس
81 ٨١۔ ١ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بھلا جھوٹ بھی، سچ کے مقابلے میں کامیاب ہوسکتا ہے؟ جادوگروں نے، چاہے وہ اپنی فن میں کتنے ہی درجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے، جو کچھ پیش کیا، وہ جادو ہی تھا اور نظر کی شعبدہ بازی ہی تھی اور جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے اپنا عصا پھینکا تو اس نے ساری شعبدہ بازیوں کو آن واحد میں ختم کردیا۔ ٨١۔ ٢ اور یہ جادوگر بھی مفسدین تھے، جنہوں نے محض دنیا کمانے کے لئے جادوگری کا فن سیکھا ہوا تھا اور جادو کے کرتب دکھا کر لوگوں کو بیوقوف بناتے تھے، اللہ تعالیٰ ان کے اس عمل فساد کو کس طرح سنوار سکتا تھا۔ یونس
82 ٨٢۔ ١ یا کلمات سے مراد وہ دلائل و براہین ہیں، جو اللہ تعالیٰ اپنی کتابوں میں اتارتا رہا جو پیغمبروں کو وہ عطا فرماتا تھا۔ یا وہ معجزات ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے انبیاء کے ہاتھوں سے صادر ہوتے تھے، یا اللہ کا وہ حکم ہے جو لفظ کُنْ سے صادر فرماتا ہے۔ یونس
83 ٨٣۔ ١ قومہ کے "ہ" ضمیر کے مرجع میں مفسرین کا اختلاف ہے، بعض نے اس کا مرجع حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قرار دیا ہے۔ کیونکہ آیت میں ضمیر سے پہلے انہی کا ذکر ہے یعنی فرعون کی قوم میں سے تھوڑے سے لوگ ایمان لائے، ان کی دلیل یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے لوگ تو ایک رسول اور نجات دہندہ کے انتظار میں تھے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی صورت میں انھیں مل گئے اور اس اعتبار سے سارے بنی اسرائیل (سوائے قارون کے) ان پر ایمان رکھتے تھے۔ اس لئے صحیح بات یہی ہے کہ (ذُ رِیَّۃُ مِنْ قَوْمِہٖ) سے مراد، فرعون کی قوم سے تھوڑے سے لوگ ہیں، جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے۔ انھیں میں سے اس کی بیوی (حضرت آسیہ) بھی ہیں۔ ٨٣۔ ٢ قرآن کریم کی یہ صراحت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ ایمان لانے والے تھوڑے سے لوگ فرعون کی قوم میں سے تھے، کیونکہ انہی کو فرعون اس کے درباریوں اور حکام سے تکلیف پہنچانے کا ڈر تھا۔ بنی اسرئیل، ویسے تو فرعون کی غلامی و محکومی کی ذلت ایک عرصے سے برداشت کر رہے تھے۔ لیکن موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا، نہ انھیں اس وجہ سے مزید تکالیف کا اندیشہ تھا۔ ٨٣۔ ٣ اور ایمان لانے والے اس کے اسی ظلم و ستم کی عادت سے خوف زدہ تھے۔ یونس
84 ٨٤۔ ١ بنی اسرائیل، فرعون کی طرف سے جس ذلت اور رسوائی کا شکار تھے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے آنے کے بعد بھی اس میں کمی نہیں آئی، اس لئے وہ سخت پریشان تھے، بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے انہوں نے یہ تک کہہ دیا، اے موسٰی، جس طرح تیرے آنے سے پہلے ہم فرعون اور اس کی قوم کی طرف سے تکلیفوں میں مبتلا تھے، تیرے آنے کے بعد بھی ہمارا یہی حال ہے۔ جس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں کہا تھا کہ امید ہے کہ میرا رب جلدی تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ تم صرف ایک اللہ سے مدد چاہو اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو (ملاحظہ ہو سورت الا عراف آیات ١٢٨، ١٢٩) (قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہِ اسْتَعِیْنُوْا باللّٰہِ وَاصْبِرُوْا ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ ڐ یُوْرِثُہَا مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ ۭوَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ ١٢٨؁ قَالُوْٓا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ۭ قَالَ عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّہْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ ١٢٩؀ۧ) یہاں بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں تلقین کی کہ اگر تم اللہ کے سچے فرمانبردار ہو تو اسی پر توکل کرو۔ یونس
85 یونس
86 ٨٦۔ ١ اللہ پر توکل کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے بارگاہ الٰہی میں دعائیں بھی کیں۔ اور یقینا اہل ایمان کے لئے یہ ایک بہت بڑا ہتھیار بھی ہے اور سہارا بھی۔ یونس
87 ٨٧۔ ١ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے گھروں کو ہی مسجدیں بنا لو اور ان کا رخ اپنے قبلے (بیت المقدس) کی طرف کرلو تاکہ تمہیں عبادت کرنے کے لئے باہر عبادت خانوں غیرہ میں جانے کی ضرورت ہی نہ رہے، جہاں تمہیں فرعون کے کارندوں کے ظلم و ستم کا ڈر رہتا ہے۔ یونس
88 ٨٨۔ ١ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ فرعون اور اس کی قوم پر وعظ نصیحت کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا اور اس طرح معجزات دیکھ کر بھی ان کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تو پھر ان کے حق میں بد دعا فرمائی۔ جسے اللہ نے یہاں نقل فرمایا ہے۔ ٨٨۔ ٢ یعنی اگر یہ ایمان لائیں بھی تو عذاب دیکھنے کے بعد لائیں، جو ان کے لئے نفع بخش نہیں ہوگا۔ یہاں ذہن میں یہ اشکال نہیں آنا چاہیے کہ پیغمبر تو ہدایت کی دعا کرتے ہیں نہ کہ ہلاکت کی بد دعا۔ اس لئے کہ دعوت و تبلیغ اور ہر طرح سے تمام حجت کے بعد، جب یہ واضح ہوجائے کہ اب ایمان لانے کی کوئی امید باقی نہیں رہی، تو پھر آخری چارہ کار یہی رہ جاتا ہے کہ اس قوم کے معاملے کو اللہ کے سپرد کردیا جائے، یہ گو اللہ کی مشیت ہی ہوتی ہے جو بے اختیار پیغمبر کی زبان پر جاری ہوجاتی ہے جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) نے بھی ساڑھے نو سو سال تبلیغ کرنے کے بعد بالآخر اپنی قوم کے بارے بد دعا فرمائی۔"رب لاتذر علی الارض من الکافرین دیارا : اے رب زمین پر ایک کافر کو بھی بسا نہ رہنے دے۔ یونس
89 ٨٩۔ ١ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اپنی بد دعا پر قائم رہنا، چاہے اس کے ظہور میں تاخیر ہوجائے۔ کیونکہ تمہاری دعا تو یقینا قبول کرلی گئی لیکن ہم اسے عملی جامہ کب پہنائیں گے؟ یہ خالص ہماری مشیت و حکمت پر موقوف ہے۔ چنانچہ بعض مفسرین نے بیان کیا کہ اس بد دعا کے چالیس سال بعد فرعون اور اس کی قوم ہلاک کی گئی اور بد دعا کے مطابق فرعون جب ڈوبنے لگا تو اس وقت اس نے ایمان لانے کا اعلان کیا، جس کا اسے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ دوسرا مطلب یہ کہ تم اپنی تبلیغ و دعوت۔ بنی اسرائیل کی ہدایت و راہنمائی اور اس کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانے کی جد و جہد جاری رکھو۔ ٩٨۔ ٢ یعنی جو لوگ اللہ کی سنت، اس کے قانون، اور اس کی مصلحتوں اور حکمتوں کو نہیں جانتے، تم ان کی طرح مت ہونا بلکہ اب انتظار اور صبر کرو، اللہ تعالیٰ اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق جلد یا بہ دیر اپنا وعدہ یعتزرون ١١ یونس ١٠ ضرور پورا فرمائے گا۔ کیونکہ وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ یونس
90 ٩٠۔ ١ یعنی سمندر کو پھاڑ کر، اس میں خشک راستہ بنا دیا۔ (جس طرح کہ سورۃ بقرہ آیت ٥٠ میں گزرا اور مذید تفصیل سورۃ شعرا میں آئے گی) اور تمہیں ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر پہنچا دیا۔ ٩٠۔ ٢ یعنی اللہ کے حکم سے معجزانہ طریق پر بنے ہوئے خشک راستے پر، جس پر چل کر موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم نے سمندر پار کیا تھا، فرعون اور اس کا لشکر بھی سمندر پار کرنے کی غرض سے چلنا شروع ہوگیا۔ مقصد یہ تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو جو میری غلامی سے نجات دلانے کے لئے راتوں رات لے آیا تو اسے دوبارہ قید غلامی میں لایا جائے۔ جب فرعون اور اس کا لشکر، اس سمندری راستے میں داخل ہوگیا تو اللہ نے سمندر کو حسب سابق جاری ہوجانے کا حکم دے دیا۔ نتیجتاً فرعون سمیت سب کے سب غرق دریا ہوگئے۔ یونس
91 ٩١۔ ١ اللہ کی طرف سے جواب دیا گیا کہ اب ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ جب ایمان لانے کا وقت تھا، اس وقت تو نافرمانیوں اور فساد انگیزیوں میں مبتلا رہا۔ یونس
92 ٩٢۔ ١ جب فرعون غرق ہوگیا تو اس کی موت کا بہت سے لوگوں کو یقین نہ آتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا، کہ اس نے اس کی لاش کو باہر خشکی پر پھینک دیا، جس کا مشاہدہ پھر سب نے کیا۔ مشہور ہے کہ آج بھی یہ لاش مصر کے عجائب خانے میں محفوظ ہے۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بالصَّوَابِ۔ یونس
93 ٩٣۔ ١ یعنی ایک تو اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے، آپس میں اختلاف شروع کردیا، پھر یہ اختلاف بھی لا علمی اور جہالت کی وجہ سے نہیں کیا، بلکہ علم آجانے کے بعد کیا، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ اختلاف محض عناد اور تکبر کی بنیاد پر تھا۔ یونس
94 ٩٤۔ ١ یہ خطاب یا تو عام انسانوں کو ہے یا پھر نبی کے واسطے سے امت کو تعلیم دی جا رہی ہے۔ کیونکہ نبی کو تو وحی کے بارے میں کوئی شک ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ جو کتاب پڑھتے ہیں، ان سے پوچھ لیں ' کا مطلب ہے کہ قرآن مجید سے پہلے کی آسمانی کتابیں (تورات و انجیل وغیرہ) یعنی جن کے پاس یہ کتابیں موجود ہیں ان سے اس قرآن کی بابت معلوم کریں کیونکہ ان میں اس کی نشانیاں اور آخری پیغمبر کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ یونس
95 ٩٥۔ ١ یہ بھی دراصل مخاطب امت کو سمجھایا جا رہا ہے کہ تکذیب کا راستہ خسران اور تباہی کا راستہ ہے۔ یونس
96 یونس
97 ٩٧۔ ١ یہ وہی لوگ ہیں جو کفر و مصیت الٰہی میں اتنے غرق ہوچکے ہوتے ہیں کہ کوئی و عظ ان پر اثر نہیں کرتا اور کوئی دلیل ان کے کارگر نہیں ہوتی۔ اسلئے نافرمانیاں کرکے قبول حق کی فطری استعداد و صلاحیت کو وہ ختم کر لئے ہوتے ہیں، ان کی آنکھیں اگر کھلتی ہیں تو اس وقت، جب عذاب الٰہی ان کے سروں پر آجاتا ہے، تب وہ ایمان اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوتا (فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُہُمْ اِیْمَانُہُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَـنَا) (40۔ المومن۔85) ' جب وہ ہمارا عذاب دیکھ چکے (اس وقت) ان کے ایمان نے انھیں کوئی فائدہ نہیں دیا۔ یونس
98 ٩٨۔ ١ لولا یہاں تحضیض کے لیے ھلا کے معنی میں ہے یعنی جن بستیوں کو ہم نے ہلاک کیا، ان میں کوئی ایک بستی بھی ایسی کیوں نہ ہوئی جو ایسا ایمان لاتی جو اس کے لئے فائدہ مند ہوتا۔ ہاں صرف یونس (علیہ السلام) کی قوم ایسی ہوئی ہے کہ جب وہ ایمان لے آئی تو اللہ نے ان سے عذاب دور کردیا مختصر پس منظر یہ کہ یونس (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ ان کی تبلیغ و دعوت سے ان کی قوم متاثر نہیں ہو رہی تو انہوں نے قوم میں اعلان کیا کہ فلاں فلاں دن تم پر عذاب آجائے گا اور وہ خود وہاں سے نکل گئے۔ جب عذاب بادل کی طرح ان پر امڈ آیا تو وہ بچوں عورتوں سمیت ایک میدان میں جمع ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ و استفغار شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی اور ان سے عذاب ٹال دیا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) آنے جانے والے مسافروں سے اپنی قوم کا حال معلوم کرتے رہتے تھے، انھیں جب معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم سے عذاب ٹال دیا ہے، تو انہوں نے اپنی تکذیب کے بعد اس قوم میں جانا پسند نہیں کیا بلکہ ان سے ناراض ہو کر وہ کسی اور طرف روانہ ہوگئے، جس پر وہ کشتی کا واقعہ پیش آیا (جس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی) البتہ مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ قوم یونس ایمان کب لائی؟ عذاب دیکھ کر لائی جب کہ ایمان لانا نافع نہیں ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے اس قانون سے مستثنی کر کے اس کے ایمان کو قبول کرلیا۔ یا ابھی عذاب نہیں آیا تھا یعنی وہ مرحلہ نہیں آیا تھا کہ جب ایمان نافع نہیں ہوتا۔ لیکن قرآن کریم قوم یونس کا الا کے ساتھ جو استثنا کیا ہے وہ پہلی تفسیر کی تائید کرتا ہے۔ واللہ اعلم با الصواب۔ ٩٨۔ ٢ قرآن نے دنیاوی عذاب کے دور کرنے کی صراحت تو کی ہے، اخروی عذاب کی بابت صراحت نہیں کی، اس لیے بعض مفسرین کے خیال میں اخروی عذاب ان سے ختم نہیں کیا گیا۔ لیکن جب قرآن نے یہ وضاحت کردی کہ دنیاوی عذاب، ایمان لانے کی وجہ سے ٹالا گیا تھا، تو پھر اخروی عذاب کی بابت صراحت کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی ہے۔ کیونکہ اخروی عذاب کا فیصلہ تو ایمان اور عدم ایمان کی بنیاد پر ہی ہونا ہے۔ اگر ایمان لانے کے بعد قوم یونس اپنے ایمان پر قائم رہی ہوگی، تو یقینا وہ اخروی عذاب سے بھی محفوظ رہے گی۔ البتہ بصورت دیگر عذاب سے بچنا صرف دنیا ہی کی حد تک ہی ہوگا۔ یونس
99 ٩٩۔ ١ لیکن اللہ نے ایسا نہیں چاہا، کیونکہ یہ اس کی اس حکمت و مصلحت کے خلاف ہے، جسے مکمل طور پر وہی جانتا ہے۔ یہ اس لئے فرمایا کہ نبی کی شدید خواہش ہوتی تھی کہ سب مسلمان ہوجائیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ مشیت الٰہی جو حکمت بالغہ اور مصلحت راجحہ پر مبنی ہے، اس کا تقاضہ نہیں۔ اس لئے آگے فرمایا کہ آپ لوگوں کو زبردستی ایمان لانے پر کیسے مجبور کرسکتے ہیں؟ جب کہ آپ کے اندر اس کی طاقت ہے نہ اس کے آپ مکلف ہی ہیں۔ یونس
100 ١٠٠۔ ١ گندگی سے مراد عذاب یا کفر ہے۔ یعنی جو لوگ اللہ کی آیات پر غور نہیں کرتے، وہ کفر میں مبتلا رہتے ہیں اور یوں عذاب کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ یونس
101 یونس
102 ١٠٢۔ ١ یعنی یہ لوگ، جن پر کوئی دلیل اور دھمکی اثر انداز نہیں ہوتی، لہذا ایمان نہیں لاتے۔ کیا اس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے ساتھ بھی وہی تاریخ دہرائی جائے جن سے پچھلی امتیں گزر چکی ہیں۔ یعنی اہل ایمان کو بچا کر (جیسا کہ اگلی آیت میں وضاحت ہے) باقی سب کو ہلاک کردیا جاتا تھا۔ اگر اسی بات کا انتظار ہے تو ٹھیک ہے، تم بھی انتظار کرو، میں بھی انتظار کر رہا ہوں۔ یونس
103 یونس
104 ١٠٤۔ ١ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم فرما رہا ہے کہ آپ تمام لوگوں پر واضح کردیں کہ میرا طریقہ اور مشرکین کا طریقہ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ١٠٤۔ ٢ یعنی اگر تم میرے دین کے بارے میں شک کرتے ہو، جس میں صرف ایک اللہ کی عبادت ہے اور یہی دین حق ہے نہ کہ کوئی اور تو یاد رکھو میں ان معبودوں کی کبھی اور کسی حال میں عبادت نہیں کرونگا جن کی تم کرتے ہو۔ ١٠٤۔ ٣ یعنی موت و حیات اسی کے ہاتھ میں ہے، اسی لئے جب وہ چاہے تمہیں ہلاک کرسکتا ہے کیونکہ انسانوں کی جانیں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ یونس
105 ١٠٥۔ ١ حَنِیْف کے معنی ہیں۔ یک سو، یعنی ہر دین کو چھوڑ کر صرف دین اسلام کو اپنانا اور ہر طرف سے منہ موڑ کر صرف ایک اللہ کی طرف یکسوئی سے متوجہ ہونا۔ یونس
106 ١٠٦۔ ١ یعنی اگر اللہ کو چھوڑ کر ایسے معبودوں کو آپ پکاریں گے جو کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہیں تو یہ ظلم کا ارتکاب ہوگا، عبادت چونکہ صرف اللہ کا حق ہے جس نے تمام کائنات بنائی ہے اور تمام اسباب حیات بھی وہی پیدا کرتا ہے تو اس مستحق عبادت ذات کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا نہایت ہی غلط ہے اس لئے شرک کو ظلم عظیم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہاں بھی خطاب اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے لیکن اصل مخاطب افراد انسانی اور امت محمدیہ ہے۔ یونس
107 ١٠٧۔ ١ خیر کو یہاں فضل سے اس لئے تعبیر فرمایا کہ اللہ تعلیٰ اپنے بندوں کے ساتھ جو بھلائی کا معاملہ فرماتا ہے، اعمال کے اعتبار سے اگرچہ بندے اس کے مستحق نہیں۔ لیکن یہ محض اس کا فضل ہے کہ وہ اعمال سے قطع نظر کرتے ہوئے، انسانوں پر پھر بھی رحم و کرم فرماتا ہے یونس
108 ١٠٨۔ ١ حق سے مراد قرآن اور دین اسلام ہے، جس میں توحید الٰہی اور رسالت محمدیہ پر ایمان نہایت ضروری ہے۔ ١٠٨۔ ٢ یعنی اس کا فائدہ اسی کو ہوگا کہ قیامت والے دن اللہ کے عذاب سے بچ جائے گا۔ ١٠٨۔ ٣ یعنی اس کا نقصان اور وبال اسی پر پڑے گا کہ قیامت کو جہنم کی آگ میں جلے گا۔ گویا کوئی ہدایت کا راستہ اپنائے گا تو، تو اس سے کوئی اللہ کی طاقت میں اضافہ نہیں ہوجائے گا اور اگر کوئی کفر اور ضلالت کو اختیار کرے گا تو اس سے اللہ کی حکومت و طاقت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوجائے گا۔ گویا ایمان و ہدایت کی ترغیب اور کفر و ضلالت سے بچنے کی تاکید و ترتیب، دونوں سے مقصد انسانوں ہی کی بھلائی اور خیر خواہی ہے۔ اللہ کی اپنی کوئی غرض نہیں۔ ١٠٨۔ ٤ یعنی یہ ذمہ داری مجھے نہیں سونپی گئی ہے کہ میں ہر صورت میں تمہیں مسلمان بنا کر چھوڑوں بلکہ میں تو صرف بشیر اور نذیر اور مبلغ اور داعی ہوں۔ میرا کام صرف اہل ایمان کو خوشخبری دینا، نافرمانوں کو اللہ کے عذاب اور اس کے مواخذے سے ڈرانا اور اللہ کے پیغام کی دعوت وتبلیغ ہے۔ کوئی اس دعوت کو مان کر ایمان لاتا ہے تو ٹھیک ہے، کوئی نہیں مانتا تو میں اس بات کا مکلف نہیں ہوں کہ اس سے زبردستی منوا کر چھوڑوں۔ یونس
109 ١٠٩۔ ١ اللہ تعالیٰ جس چیز کی وحی کرے، اسے مضبوطی سے پکڑ لیں، جس کا امر کرے، اسے عمل میں لائیں، جس سے روکے رک جائیں اور کسی چیز میں کوتاہی نہ کریں۔ اور وحی کی اطاعت و پیروی میں جو تکلیفیں آئیں، مخالفین کی طرف سے جو ایذائیں پہنچیں اور تبلیغ و دعوت کی راہ میں جن دشواریوں سے گزرنا پڑے، ان پر صبر کریں اور ثابت قدمی سے سب کا مقابلہ کریں۔ ١٠٩۔ ٢ کیونکہ اس کا علم بھی کامل ہے، اس کی قدرت و طاقت بھی وسیع ہے اور اس کی رحمت بھی عام ہے اس لئے اس سے زیادہ بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہوسکتا ہے؟ یونس
0 اس سورت میں بھی ان قوموں کا تذکرہ ہے جو آیات الہی اور پیغمبروں کی تکذیب کر کے عذاب الہی کا نشانہ بنیں اور تاریخ کے صفحات سے یا تو حرف غلط کی طرح مٹ گئیں یا اوراق تاریخ پر عبرت کا نمونہ بنی موجود ہیں۔ اسی لیے حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ کیا بات ہے آپ بوڑھے سے نظر آتے ہیں؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے سورۃ ہود، واقعہ، عم یتسآءلون، اور اذالشمس کورت وغیرہ نے بوڑھا کردیا ہے۔ (ترمذی) ھود
1 ١۔ ١ یعنی الفاظ و نظم کے اعتبار سے اتنی محکم اور پختہ ہیں کہ ان کی ترکیب اور معنی میں کوئی خلل نہیں۔ ١۔ ٢ پھر اس میں احکام و شرائع، مواعظ و قصص، عقائد و ایمانیات اور آداب و اخلاق جس طرح وضاحت اور تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں، پچھلی کتابوں میں اس کی نظیر نہیں آئی۔ ١۔ ٣ یعنی اپنے اقوال میں حکیم ہے، اس لئے اس کی طرف سے نازل کردہ باتیں حکمت سے خالی نہیں اور وہ خبر رکھنے والا بھی ہے۔ یعنی تمام معاملات اور ان کے انجام سے باخبر ہے۔ اس لئے اس کی باتوں پر عمل کرنے سے ہی انسان برے انجام سے بچ سکتا ہے۔ ھود
2 ھود
3 ٣۔ ١ یہاں اس سامان دنیا کو جس کو قرآن نے عام طور پر ' متاع غرور ' دھوکے کا سامان کہا ہے، یہاں اسے ' متاع حسن ' قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو آخرت سے غافل ہو کر متاع دنیا سے استفادہ کرلے گا، اس کے لئے یہ متاع غرور ہے، کیونکہ اس کے بعد اسے برے انجام سے دو چار ہونا ہے اور جو آخرت کی تیاری کے ساتھ ساتھ اس سے فائدہ اٹھائے گا، اس کے لئے یہ چند روزہ سامان زندگی متاع حسن ہے، کیونکہ اس نے اللہ کے احکام کے مطابق برتا ہے۔ ٣۔ ٢ بڑے دن سے مراد قیامت کا دن ہے۔ ھود
4 ھود
5 ٥۔ ١ اس کی شان نزول میں مفسرین کا اختلاف ہے، اس لئے اس کے مفہوم میں بھی اختلاف ہے۔ تاہم صحیح بخاری (تفسیر سورت ہود) میں بیان کردہ شان نزول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو غلبہ حیا کی وجہ سے قضائے حاجت اور بیوی سے ہم بستری کے وقت برہنہ ہونا پسند نہیں کرتے تھے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے، اس لئے ایسے موقع پر وہ شرم گاہ کو چھپانے کے لئے اپنے سینوں کو دوہرا کرلیتے تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ رات کے اندھیرے میں جب وہ بستروں میں اپنے آپ کو کپڑوں میں ڈھانپ لیتے تھے، تو اس وقت بھی وہ ان کو دیکھتا اور ان کی چھپی اور اعلانیہ باتوں کو جانتا ہے۔ مطلب یہ کہ شرم و حیا کا جذبہ اپنی جگہ بہت اچھا ہے لیکن اس میں اتنا غلو اور افراط بھی صحیح نہیں، اس لئے کہ جس ذات کی خاطر وہ ایسا کرتے ہیں اس سے تو پھر بھی وہ نہیں چھپ سکتے، تو پھر اس طرح کے تکلف کا کیا فائدہ؟ ھود
6 ٦۔ ١ یعنی وہ کفیل اور ذمے دار ہے۔ زمین پر چلنے والی ہر مخلوق، انسان ہو یا جن، چرند ہو یا پرند، چھوٹی ہو یا بڑی، بحری ہو یا بری۔ ہر ایک کو اس کی ضروریات کے مطابق وہ خوراک مہیا کرتا ہے۔ ٦۔ ٢ مستقر اور مستودع کی تعریف میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک منتہائے سیر (یعنی زمین میں چل پھر کر جہاں رک جائے) مستقر ہے اور جس کو ٹھکانا بنائے وہ مستودع ہے۔ بعض کے نزدیک رحم مادر مستقر اور باپ کی صلب مستودع ہے اور بعض کے نزدیک زندگی میں انسان یا حیوان جہاں رہائش پذیر ہو وہ اس کا مستقر ہے اور جہاں مرنے کے بعد دفن ہو وہ مستودع ہے تفسیر ابن کثیر امام شوکانی کہتے ہیں مستقر سے مراد رحم مادر اور مستودع سے وہ حصہ زمین ہے جس میں دفن ہو اور امام حاکم کی ایک روایت کی بنیاد پر اسی کو ترجیح دی ہے بہرحال جو بھی مطلب لیا جائے آیت کا مفہوم واضح ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کو ہر ایک کے مستقر ومستودع کا علم ہے اس لیے وہ ہر ایک کو روزی پہنچانے پر قادر ہے اور ذمے دار ہے اور وہ اپنی ذمے داری پوری کرتا ہے۔ ھود
7 ٧۔ ١ یہی بات صحیح احادیث میں بھی بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ' اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل، مخلوقات کی تقدیر لکھی ' اس وقت اس کا عرش پانی پر تھا۔ صحیح مسلم ٧۔ ٢ یعنی یہ آسمان و زمین یوں ہی عبث اور بلا مقصد نہیں بنائے، بلکہ اس سے مقصود انسانوں (اور جنوں) کی آزمائش ہے کہ کون اچھے اعمال کرتا ہے۔ ملحوظہ : اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ کون زیادہ عمل کرتا ہے بلکہ فرمایا کون زیادہ اچھے عمل کرتا ہے۔ اس لیے کہ اچھا عمل وہ ہوتا ہے جو صرف رضائے الہی کی خاطر ہو اور دوسرا یہ کہ وہ سنت کے مطابق ہو۔ ان دو شرطوں میں سے ایک شرط بھی فوت ہوجائے گی تو وہ اچھا عمل نہیں رہے گا، پھر وہ چاہے کتنا بھی زیادہ ہو، اللہ کے ہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ھود
8 ٨۔ ١ یہاں استعجال (جلد طلب کرنے) کو استہزا سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ وہ استعجال، بطور اسہزا ہی ہوتا تھا بہرحال مقصود یہ سمجھانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تاخیر پر انسان کو غفلت نہیں کرنی چاہیے اس کی گرفت کسی بھی وقت ہو سکتی ہے ھود
9 ٩۔ ١ انسانوں میں عام طور پر جو مذموم صفات پائی جاتی ہیں اس میں اور اگلی آیت میں ان کا بیان ہے۔ ناامیدی کا تعلق مستقبل سے ہے اور ناشکری کا ماضی و حال سے۔ ھود
10 ١٠۔ ١ یعنی سمجھتا ہے کہ سختیوں کا دور گزر گیا، اب اسے کوئی تکلیف نہیں آئے گی۔ امۃ کے مختلف مفہوم : آیت نمبر ٨ میں امۃ کا لفظ آیا ہے۔ یہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ یہ ام سے مشتق ہے، جس کے معنی قصد کے ہیں۔ یہاں اس کے معنی اس وقت اور مدت کے ہیں جو نزول عذاب کے لیے مقصود ہے۔ (فتح القدیر) سورۃ یوسف کی آیت ٤٥ (واد کر بعد امۃ) میں یہی مفہوم ہے اس کے علاوہ جن معنوں میں اس کا استعمال ہوا ہے، ان میں ایک امام وپیشوا ہے۔ جیسے (ان ابراہیم کان امۃ) ملت اور دین ہے، جیسے انا وجدنا آباءنا علی امۃ) جماعت اور طائفہ ہے۔ جیسے (ولما ورد ماء امدین وجد علیہ امۃ من الناس) ومن قوم موسیٰ امۃ وغیرہا۔ وہ مخصوص گروہ یا قوم ہے جس کی طرف کوئی رسول مبعوث ہو۔ ولکل امۃ رسول اس کو امت دعوت بھی کہتے ہیں اور اسی طرح پیغمبر پر ایمان لانے والوں کو بھی امت یا امت اتباع یا امت اجابت کہا جاتا ہے۔ (ابن کثیر) ١٠۔ ٢ یعنی جو کچھ اس کے پاس ہے، اس پر اتراتا اور دوسروں پر فخر و غرور کا اظہار کرتا ہے۔ تاہم ان صفات مذمومہ سے اہل ایمان اور صاحب اعمال صالحہ مستشنٰی ہیں جیسا کہ اگلی آیت سے واضح ہے۔ ھود
11 ١١۔ ١ اہل ایمان، راحت و فراغت ہو یا تنگی اور مصیبت، دونوں حالتوں میں اللہ کے احکام کے مطابق طرز عمل اختیار کرتے ہیں جیسا کہ حدیث میں آتا ہے نبی نے قسم کھا کر فرمایا ' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ مومن کے لئے جو بھی فیصلہ فرماتا ہے، اس میں اس کے لئے بہتری کا پہلو ہوتا ہے۔ اگر اس کو کئی راحت پہنچتی ہے تو اس پر اللہ کا شکر کرتا ہے اور اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے، یہ بھی اس کے لئے بہتر (یعنی اجر و ثواب کا باعث) ہے۔ یہ امتیاز ایک مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ (صحیح مسلم، کتاب الزھد، باب امومن امرہ کلہ خیر) اور ایک اور حدیث میں فرمایا کہ "مومن کو جو بھی فکر و غم اور تکلیف پہنچتی ہے حتی کہ اسے کانٹا چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کی غلطیاں معاف فرما دیتا ہے"(مسند احمد جلد ٣، ص ٤) سورۃ معاج کی آیات ١٩، ٢٢ میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔ ھود
12 ١٢۔ ١ مشرکین نبی کی بابت کہتے رہتے تھے کہ اس کے ساتھ کوئی فرشتہ نازل کیوں نہیں ہوتا، یا اس کی طرف سے کوئی خزانہ کیوں نہیں اتار دیا جاتا، ایک دوسرے مقام پر فرمایا گیا ' ہمیں معلوم ہے کہ یہ لوگ آپ کی بابت جو باتیں کہتے ہیں ' ان سے آپ کا سینہ تنگ ہوتا ہے۔ سورۃ الحجر اس آیت میں انہی باتوں کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ شاید آپ کا سینہ تنگ ہو اور کچھ باتیں جو آپ کی طرف وحی کی جاتی ہیں اور وہ مشرکین پر گراں گزرتی ہیں ممکن ہے آپ وہ انھیں سنانا پسند نہ کریں آپ کا کام صرف انذار و تبلیغ ہے، وہ آپ ہر صورت میں کئے جائیں۔ ھود
13 ١٣۔ ١ امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے چلینج دیا کہ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بنایا ہوا قرآن ہے، تو اس کی نظیر پیش کر کے دکھا دو، اور تم جس کی چاہو، مدد حاصل کرلو، لیکن تم کبھی ایسا نہیں کرسکو گے۔ فرمایا "قُلْ لَّیِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا " 17۔ الاسراء :88) (اعلان کر دیجئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل لانا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا مشکل ہے، گو وہ آپس میں ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے چلنج دیا کہ پورا قرآن بنا کر پیش نہیں کرسکتے تو دس سورتیں ہی بنا کر پیش کر دو۔ جیسا کہ اس مقام پر ہے۔ پھر تیسرے نمبر پر چیلنچ دیا کہ چلو ایک سورت بنا کر پیش کرو جیسا کہ سورۃ یونس کی آیت نمبر ٣٩ اور سورۃ بقرہ کے آغاز میں فرمایا (تفسیر ابن کثیر، زیر بحث آیت سورۃ یونس) اور اس بنا پر آخری چیلنچ یہ ہوسکتا ہے کہ اس جیسی ایک بات ہی بنا کر پیش کر دو۔ "فَلْیَاْتُوْا بِحَدِیْثٍ مِّثْلِہٖٓ اِنْ کَانُوْا صٰدِقِیْنَ 34؀ۭ" 52۔ الطور :34) مگر ترتیب نزول سے چیلنج کی اس ترتیب کی تائید نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم با الصواب۔ ھود
14 ١٤۔ ١ یعنی کیا اس کے بعد بھی کہ تم اس چیلنج کا جواب دینے سے قاصر ہو، یہ ماننے کے لئے، کہ یہ قرآن اللہ ہی کا نازل کردہ ہے، آمادہ نہیں ہوا اور نہ مسلمان ہونے کو تیار ہو؟ ھود
15 ھود
16 ١٦۔ ١ ان دو آیات کے بارے میں بعض کا خیال ہے اس میں اہل ریا کار کا ذکر ہے، بعض کے نزدیک اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں اور بعض کے نزدیک طالبان دنیا کا ذکر ہے۔ کیونکہ دنیادار بھی بعض اچھے عمل کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی جزا انھیں دنیا میں دے دیتا ہے، آخرت میں ان کے لئے سوائے عذاب کے اور کچھ نہیں ہوگا۔ اسی مضمون کو قرآن مجید سورۃ بنی اسرائیل آیات ١٨، ٢١ (مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَۃَ عَجَّــلْنَا لَہٗ فِیْہَا مَا نَشَاۗءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہٗ جَہَنَّمَ ۚ یَصْلٰیہَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا 18؀ وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعٰی لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰۗیِٕکَ کَانَ سَعْیُہُمْ مَّشْکُوْرًا 19؀ کُلًّا نُّمِدُّ ہٰٓؤُلَاۗءِ وَہٰٓؤُلَاۗءِ مِنْ عَطَاۗءِ رَبِّکَ ۭ وَمَا کَانَ عَطَاۗءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا 20؀ اُنْظُرْ کَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ ۭ وَلَلْاٰخِرَۃُ اَکْبَرُ دَرَجٰتٍ وَّاَکْبَرُ تَفْضِیْلًا 21؀) 17۔ الاسراء :18 تا 21) اور سور، شوریٰ آیت ٢٠ (مَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَۃِ نَزِدْ لَہٗ فِیْ حَرْثِہٖ ۚ وَمَنْ کَانَ یُرِیْدُ حَرْثَ الدُّنْیَا نُؤْتِہٖ مِنْہَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ نَّصِیْبٍ 20؀) 42۔ الشوری :20) میں بیان کیا گیا ہے۔ ھود
17 ١٧۔ ١ منکرین اور کافرین کے مقابلے میں اہل فطرت اور اہل ایمان کا تذکرہ کیا جا رہا ہے ' اپنے رب کی طرف سے دلیل ' سے مراد وہ فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا فرمایا اور وہ اللہ واحد کا اعتراف اور اسی کی عبادت جس طرح کہ نبی کا فرمان ہے کہ ' ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پس اس کے بعد اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں (صحیح بخاری) یتلوہ کے معنی ہیں اس کے پیچھے یعنی اس کے ساتھ اللہ کی طرف سے ایک گواہ بھی ہو گواہ سے مراد قرآن، یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، جو اس فطرت صحیحہ کی طرف دعوت دیتے اور اس کی نشاندہی کرتے ہیں اور اس سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کتاب تورات بھی جو پیشوا بھی ہے اور رحمت کا سبب بھی یعنی کتاب موسیٰ (علیہ السلام) بھی قرآن پر ایمان لانے کی طرف رہنمائی کرنے والی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایک وہ شخص ہے جو منکر اور کافر ہے اور اس کے مقابلے میں ایک دوسرا شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دلیل پر قائم ہے، اس پر ایک گواہ (قرآن۔ یا پیغمبر اسلام بھی ہے، اسی طرح اس سے قبل نازل ہونے والی کتاب تورات، میں بھی اس کے لئے پیشوائی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اور وہ ایمان لے آتا ہے کیا یہ دونوں شخص برابر ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ایک مومن ہے اور دوسرا کافر۔ ہر طرح کے دلائل سے لیس ہے اور دوسرا بالکل خالی ہے۔ ١٧۔ ٢ یعنی جن کے اندر مذکورہ اوصاف پائے جائیں گے وہ قرآن کریم اور نبی پر ایمان لائیں گے۔ ١٧۔ ٣ تمام فرقوں سے مراد روئے زمین پر پائے جانے والے مذاہب ہیں، یہودی، عیسائی، زرتشی، بدھ مت، مجوسی اور مشرکین و کفار وغیرہ، جو بھی حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے گا، اس کا ٹھکانا جہنم ہے یہ وہی مضمون ہے جسے اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے" قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس امت کے جس یہودی، یا عیسائی نے بھی میری نبوت کی بابت سنا اور پھر مجھ پر ایمان نہیں لایا وہ جہنم میں جائے ہے"(صحیح مسلم کتاب الایمان، باب وجوب الایمان برسالۃ نبینا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الی جمیع الناس) یہ مضمون اس سے پہلے سورۃ بقرہ آیت ٦٢ (خٰلِدِیْنَ فِیْہَا ۚ لَا یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلَا ھُمْ یُنْظَرُوْنَ ١٦٢۔) اور سورۃ نساء آیت ١٥٠، ١٥٢ (اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ باللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍ ۙ وَّیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا ١٥٠؀ۙ اُولٰۗیِٕکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا ۚ وَاَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّہِیْنًا ١٥١؁ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا باللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَلَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْہُمْ اُولٰۗیِٕکَ سَوْفَ یُؤْتِیْہِمْ اُجُوْرَہُمْ ۭوَکَان اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ١٥٢؀ۧ) 4۔ النساء :150 تا 152) میں گزر چکا ہے۔ ١٧۔ ٤ یہ وہی مضمون ہے جو قرآن مجید کے مختلف مقامات پر بیان کیا گیا (وَمَآ اَکْثَرُالنَّاسِ وَلَوْ حَرَصَتْ بِمُؤ مِنِیْنَ) (سورۃ یوسف۔ ١٠٣) (وَمَآ اَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ ١٠٣۔) 12۔ یوسف :103) 'تیری خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے ' ابلیس نے اپنا گمان سچا کر دکھایا، مومنوں کے ایک گروہ کے سوا، سب اس کے پیروکار بن گئے '۔ ھود
18 ١٨۔ ١ یعنی جن کا اللہ نے کائنات میں تصرف کرنے کا یا آخرت میں شفاعت کا اختیار نہیں دیا ہے۔ ان کی بابت یہ کہا جائے کہ اللہ نے انھیں یہ اختیار دیا ہے۔ ١٨۔ ٢ حدیث میں اس کی تفسیر اس طرح آتی ہے کہ ' قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ایک مومن سے اس کے گناہوں کا اقرار و اعتراف کروائے گا کہ تجھے معلوم ہے کہ تو نے فلاں گناہ بھی کیا تھا، فلاں بھی کیا تھا، وہ مومن کہے گا ہاں ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ میں نے ان گناہوں پر دنیا میں بھی پردہ ڈالے رکھا تھا، جا آج بھی انھیں معاف کرتا ہوں، لیکن دوسرے لوگ یا کافروں کا معاملہ ایسا ہوگا کہ انھیں گواہوں کے سامنے پکارا جائے گا اور گواہ یہ گواہی دیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں، جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ باندھا تھا (صحیح بخاری)۔ ھود
19 ١٩۔ ١ یعنی لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کے لئے، اس میں کجیاں تلاش کرتے اور لوگوں کو متنفر کرتے ہیں۔ ھود
20 ٢٠۔ ١ یعنی ان کا حق سے اعراض اور بغض اس انتہا تک پہنچا ہوا تھا کہ یہ اسے سننے اور دیکھنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے تھے یا یہ مطلب ہے کہ اللہ نے ان کو کان اور آنکھیں تو دی تھیں لیکن انہوں نے ان سے کوئی بات نہ سنی اور نہ دیکھی۔ گویا ' ( فَمَآ اَغْنٰی عَنْہُمْ سَمْعُہُمْ وَلَآ اَبْصَارُہُمْ وَلَآ اَفْــِٕدَتُہُمْ مِّنْ شَیْءٍ) 46۔ الاحقاف :26) نہ ان کے کانوں نے انھیں کوئی فائدہ پہنچایا، نہ ان کی آنکھوں اور دلوں نے ' کیونکہ وہ حق سننے سے بہرے اور حق دیکھنے سے اندھے بنے رہے، جس طرح کہ وہ جہنم میں داخل ہوتے ہوئے کہیں گے ( لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِیْٓ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ 10 ؀) 67۔ الملک :10) ' اگر ہم سنتے اور عقل سے کام لیتے تو آج جنہم میں نہ جاتے۔ ھود
21 ھود
22 ھود
23 ھود
24 ٢٤۔ ١ پچھلی آیات میں مومنین اور کافرین اور سعادت مندوں اور بدبختوں، دونوں کا تذکرہ فرمایا۔ اب اس میں دونوں کی مثال بیان فرما کر دونوں کی حقیقت کو مزید واضح کیا جا رہا ہے۔ فرمایا، ایک کی مثال اندھے اور بہرے کی طرح ہے اور دوسرے کی دیکھنے اور سننے والے کی طرح۔ کافر دنیا میں حق کا روئے زیبا دیکھنے سے محروم اور آخرت میں نجات کے راستہ سے بے بہرہ، اسی طرح حق کے دلائل سننے سے بے بہرہ ہوتا ہے، اسی لئے ایسی باتوں سے محروم رہتا ہے جو اس کے لئے مفید ہوں۔ اس کے برعکس مومن سمجھ دار، حق کو دیکھنے والا اور حق اور باطل کے درمیان تمیز کرنے والا ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ حق اور خیر کی پیروی کتا ہے، دلائل کو سنتا اور ان کے ذریعے سے شبہات کا ازالہ کرتا اور باطل سے اجتناب کرتا ہے، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ استفہام نفی کے لیے ہے۔ یعنی دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔"لَا یَسْتَوِیْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ہُمُ الْفَاۗیِٕزُوْنَ " 59۔ الحشر :20) (جنتی دوزخی برابر نہیں ہو سکتے جنتی تو کامیاب ہونے والے ہیں) ایک اور مقام پر اسے اس طرح بیان فرمایا " اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں۔ اندھیرے اور روشنی، سایہ اور دھوپ برابر نہیں، زندے اور مردے برابر نہیں۔ (سورہ فاطر۔ ١٩، ٢٠) (وَمَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَالْبَصِیْرُ 19؀ۙ وَلَا الظُّلُمٰتُ وَلَا النُّوْرُ 20 ؀ۙ) 35۔ فاطر :20-19) ھود
25 ھود
26 ٢٦۔ ١ یہ وہی دعوت توحید ہے جو ہر نبی نے آ کر اپنی اپنی قوم کو دی۔ جس طرح فرمایا (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ 25؀) 21۔ الانبیاء :25) جو پیغمبر ہم نے آپ سے پہلے بھیجے، ان کی طرف یہی وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری ہی عبادت کرو۔ ٢٦۔ ٢ یعنی اگر مجھ پر ایمان نہیں لائے اور اس دعوت توحید کو نہیں اپنایا تو عذاب الٰہی سے نہیں بچ سکو گے، ھود
27 ٢٧۔ ١ یہ وہی شبہ ہے، جس کی پہلے کئی جگہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ کافروں کے نزدیک بشریت کے ساتھ نبوت و رسالت کا اجتماع بڑا عجیب تھا، جس طرح آج کے اہل بدعت کو بھی عجیب لگتا ہے اور وہ بشریت رسول کا انکار کرتے ہیں۔ ٢٧۔ ٢ حق کی تاریخ میں یہ بات بھی ہر دور میں سامنے آتی رہی ہے کہ ابتداء میں اس کو اپنانے والے ہمیشہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں معاشرے میں بے نوا کم تر سمجھا جاتا تھا اور صاحب حیثیت اور خوش حال طبقہ اس سے محروم رہتا۔ حتی کہ پیغمبروں کے پیروکاروں کی علامت بن گئی۔ چنانچہ شاہ روم ہرقل نے حضرت ابو سفیان سے نبی کی بابت پوچھا تو اس میں ان سے ایک بات یہ بھی پوچھی کہ ' اس کے پیروکار معاشرے کے معزز سمجھے جانے والے لوگ ہیں یا کمزور لوگ ' حضرت ابو سفیان نے جواب میں کہا ' کمزور لوگ ' جس پر ہرقل نے کہا ' رسولوں کے پیروکار یہی لوگ ہوتے ہیں (صحیح بخاری)۔ قرآن کریم میں بھی وضاحت کی گئی ہے کہ خوش حال طبقہ ہی سب سے پہلے پیغمبروں کی تکذیب کرتا رہا ہے۔ (سورہ زخرف۔ ٢٣) (وَکَذٰلِکَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّذِیْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْہَآ ۙاِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓی اُمَّۃٍ وَّاِنَّا عَلٰٓی اٰثٰرِہِمْ مُّقْتَدُوْنَ 23؀) 43۔ الزخرف :23) اور یہ اہل ایمان کی دنیاوی حیثیت تھی اور جس کے اعتبار سے اہل کفر انھیں حقیر اور کم تر سمجھتے تھے، ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ حق کے پیروکار معزز اور اشراف ہیں چاہے وہ مال و دولت کے اعتبار سے فروتر ہی ہوں اور حق کا انکار کرنے والے حقیر اور بے حیثیت ہیں چاہے وہ دنیوں اعتبار سے مال دار ہی ہوں۔ ٢٧۔ ٣ اہل ایمان چونکہ، اللہ اور رسول کے احکام کے مقابلے میں اپنی عقل و دانش اور رائے کا استعمال نہیں کرتے، اس لئے اہل باطل یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بے سوچ سمجھ والے ہیں کہ اللہ کا رسول انھیں جس طرف موڑ دیتا ہے، یہ مڑ جاتے ہیں جس چیز سے روک دیتا ہے، رک جاتے ہیں۔ یہ بھی اہل ایمان کی ایک بڑی بلکہ ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ لیکن اہل کفر و باطل کے نزدیک یہ خوبی بھی "عیب" ہے۔ ھود
28 ٢٨ ١ بینۃ سے مراد ایمان و یقین ہے اور رحمت سے مراد نبوت۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو سرفراز کیا تھا۔ ٢٨۔ ٢ یعنی تم اس کے دیکھنے سے اندھے ہوگئے۔ چنانچہ تم نے اس کی قدر پہچانی اور نہ اسے اپنانے پر آمادہ ہوئے، بلکہ اس کو جھٹلایا اور رد کے درپے ہوگئے۔ ٢٨۔ ٣ جب یہ بات ہے تو ہدایت و رحمت تمہارے حصے میں کس طرح آ سکتی ہے؟ ھود
29 ٢٩۔ ١ تاکہ تمہارے دماغوں میں یہ شبہ نہ آ جائے کہ اس دعوائے نبوت سے اس کا مقصد تو دولت دنیا اکٹھا کرنا ہے۔ میں تو یہ کام صرف اللہ کے حکم پر اسی کی رضا کے لئے کر رہا ہوں، وہی مجھے اجر دے گا۔ ٢٩۔ ٢ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوح (علیہ السلام) کے سرداروں نے بھی معاشرے میں کمزور سمجھے جانے والے اہل ایمان کو حضرت نوح (علیہ السلام) سے اپنی مجلس یا اپنے قرب سے دور رکھنے کا مطالبہ کیا ہوگا، جس طرح روسائے مکہ نے رسول اللہ سے اس قسم کا مطالبہ کیا تھا، جس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی آیت نازل فرمائیں تھیں ' اے پیغمبر ان لوگوں کو اپنے سے دور مت کرنا جو صبح شام اپنے رب کو پکارتے ہیں (سورہ، الا نعام ٥٢) (وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ ۭ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْہِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ 52؀) 6۔ الانعام :52) ' اپنے نفسوں کو ان لوگوں کے ساتھ جوڑے رکھئے! جو اپنے رب کو صبح شام پکارتے ہیں، اپنے رب کی رضا چاہتے ہیں، آپ کی آنکھیں ان سے گزر کر کسی اور کی طرف تجاوز نہ کریں (سورۃ الکہف۔ ٢٨) (وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْہُمْ ۚ تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ۚ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰیہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا) 18۔ الکہف :28) ٢٩۔ ٣ یعنی اللہ اور رسول کے پیروکار کو حقیر سمجھنا اور پھر انھیں قرب نبوت سے دور کرنے کا مطالبہ کرنا، یہ تمہاری جہالت ہے۔ یہ لوگ تو اس لائق ہیں کہ انھیں سر آنکھوں پر بٹھایا جائے نہ کہ دور دھتکارا جائے۔ ھود
30 ٣٠۔ ١ گویا ایسے لوگوں کو اپنے سے دور کرنا، اللہ کے غضب اور ناراضگی کا باعث ہے۔ ھود
31 ٣١۔ ١ بلکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایمان کی صورت میں خیر عظیم عطا کر رکھا ہے جس کی بنیاد پر وہ آخرت میں بھی جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے اور دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ چاہے گا، تو بلند مرتبے سے ہمکنار ہوں گے۔ گویا تمہارا ان کو حقیر سمجھنا ان کے لئے نقصان کا باعث نہیں، البتہ تم ہی عند اللہ مجرم ٹھہرو گے کہ اللہ کے نیک بندوں کو، جن کا اللہ کے ہاں بڑا مقام ہے، تم حقیر اور فرومایہ سمجھتے ہو۔ ٣١۔ ٢ کیونکہ میں ان کی بابت ایسی بات کہوں جس کا مجھے علم نہیں، صرف اللہ جانتا ہے، تو یہ ظلم ہے۔ ھود
32 ٣٢۔ ١ لیکن اس کے باوجود ہم ایمان نہیں لائے۔ ٣٢۔ ٢ یہ وہی حماقت ہے جس کا ارتکاب گمراہ قومیں کرتی آئی ہیں کہ وہ اپنے پیغمبر سے کہتی رہی ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر عذاب نازل کروا کر ہمیں تباہ کروا دے۔ حالانکہ ان میں عقل ہوتی، تو وہ کہتیں کہ اگر سچا ہے اور واقعی اللہ کا رسول ہے، تو ہمارے لئے دعا کر کہ اللہ تعالیٰ ہمارا سینہ بھی کھول دے تاکہ ہم اسے اپنا لیں۔ ھود
33 ٣٣۔ ١ یعنی عذاب کا آنا خالص اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، یہ نہیں ہے کہ جب میں چاہوں، تم پر عذاب آ جائے۔ تاہم جب اللہ عذاب کا فیصلہ کرلے گا یا بھیج دے گا، تو پھر اس کو کوئی عاجز کرنے والا نہیں ہے۔ ھود
34 ٣٤۔ ١ اغواء بمعنی اضلال (گمراہ کرنا ہے)۔ یعنی تمہارا کفر وجحود اگر اس مقام پر پہنچ چکا ہے، جہاں سے کسی انسان کو پلٹ کر آنا اور ہدایت کو اپنا لینا ناممکن ہے، تو اسی کیفیت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہر لگا دینا کہا جاتا ہے، جس کے بعد ہدایت کی کوئی امید باقی نہیں رہ جاتی۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم بھی اسی خطرناک موڑ تک پہنچ چکے ہو تو پھر میں تمہاری خیر خواہی بھی کرنی چاہوں یعنی ہدایت پر لانے کی اور زیادہ کوشش کروں، تو یہ کوشش اور خیر خواہی تمہارے لئے مفید نہیں، کیونکہ تم گمراہی کے آخری مقام پر پہنچ چکے ہو۔ ٣٤۔ ٢ ہدایت اور گمراہی بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اور اسی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے، جہاں وہ تمہیں تمہارے عملوں کی جزا دے گا۔ نیکوں کو انکے نیک عمل کی جزا اور بروں کو ان کی برائی کی سزا دے گا۔ ھود
35 ٣٥۔ ١ بعض مفسرین کے نزدیک یہ مکالمہ قوم نوح (علیہ السلام) اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے درمیان ہوا اور بعض کا خیال ہے کہ یہ جملہ معترضہ کے طور پر نبی اکرم اور مشرکین مکہ کے درمیان ہونے والی گفتگو ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر یہ قرآن میرا گھڑا ہوا ہے اور میں اللہ کی طرف سے منسوب کرنے میں جھوٹا ہوں تو میرا جرم ہے، اس کی سزا میں ہی بھگتوں گا۔ لیکن تم جو کچھ کر رہے ہو، جس سے میں بری ہوں، اس کا بھی تمہیں پتہ ہے؟ اس کا وبال تو مجھ پر نہیں، تم پر ہی پڑے گا کیا اس کی بھی تمہیں کچھ فکر ہے؟ ھود
36 ٣٦۔ ١ یہ اس وقت کہا گیا کہ جب قوم نوح (علیہ السلام) نے عذاب کا مطالبہ کیا اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے بارگاہ الٰہی میں دعا کی کہ یا رب! زمین پر ایک کافر بھی بسنے والا نہ رہنے دے۔ اللہ نے فرمایا، اب مزید کوئی ایمان نہیں لائے گا، تو ان پر غم نہ کھا۔ ھود
37 ٣٧۔ ١ یعنی ہماری آنکھوں کے سامنے ' اور ' ہماری دیکھ بھال میں ' اس آیت میں اللہ رب العزت کے لئے صفت ' عین ' کا اثبات ہے جس پر ایمان رکھنا ضروری ہے اور ' ہماری وحی سے ' کا مطلب، اس کے طول و عرض وغیرہ کی جو کیفیات ہم نے بتلائی ہیں، اس طرح اسے بنا۔ اس مقام پر بعض مفسرین نے کشتی کے طول و عرض، اس کی منزلوں اور کس قسم کی لکڑی اور دیگر سامان اس میں استعمال کیا گیا، اس کی تفصیل بیان کی ہے، جو ظاہر بات ہے کہ کسی مستند ماخذ پر مبنی نہیں ہے۔ اس کی پوری تفصیل کا صحیح علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ ٣٧۔ ٢ بعض نے اس سے مراد حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے اور اہلیہ کو لیا ہے جو مومن نہیں تھے اور غرق ہونے والوں میں سے تھے۔ بعض نے اس سے غرق ہونے والی پوری قوم مراد لی ہے اور مطلب یہ ہے کہ ان کے لئے کوئی مہلت طلب مت کرنا کیونکہ اب ان کے ہلاک ہونے کا وقت آ گیا ہے یا یہ مطلب ہے کہ ان کی ہلاکت کے لئے جلدی نہ کریں، وقت مقرر میں یہ سب غرق ہوجائیں گے، (فتح القدیر)۔ ھود
38 ٣٨۔ ١ مثلا کہتے، نوح! نبی بنتے بنتے اب بڑھئی بن گئے ہو؟ یا اے نوح! خشکی میں کشتی کس لئے تیار کر رہے ہو؟ ھود
39 ٣٩۔ ١ اس سے مراد جہنم کا دائمی عذاب ہے، جو اس دنیوی عذاب کے بعد ان کے لئے تیار ہے۔ ھود
40 ٤٠۔ ١ اس سے بعض نے روٹی پکانے والے تنور، بعض نے مخصوص جگہیں مثلا عین الوردہ اور بعض نے سطح زمین مراد لی ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اسی آخری مفہوم کو ترجیح دی ہے یعنی ساری زمین ہی چشموں کی طرح ابل پڑی، اوپر سے آسمان کی بارش نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ ٤٠۔ ٢ اس سے مراد مذکر اور مؤنث یعنی نر مادہ ہے اس طرح ہر ذی روح مخلوق کا جوڑا کشتی میں رکھ لیا گیا اور بعض کہتے ہیں کہ نباتات بھی رکھے گئے تھے۔ وللہ اعلم۔ ٤٠۔ ٣ یعنی جن کا غرق ہونا تقدیر الٰہی میں ثبت ہے اس سے مراد عام کفار ہیں، یا یہ استشناء اَھْلَکَ سے ہے یعنی اپنے گھر والوں کو بھی کشتی میں سوار کرا لے، سوائے ان کے جن پر اللہ کی بات سبقت کرگئی ہے یعنی ایک بیٹا (کنعان یا۔ یام) اور حضرت نوح (علیہ السلام) کی اہلیہ (وَ عِلَۃ) یہ دونوں کافر تھے، ان کو کشتی میں بیٹھنے والوں سے مستشنٰی کردیا گیا۔ ٤٠۔ ٤ یعنی سب اہل ایمان کو کشتی میں سوار کرا لے۔ ٤٠۔ ٥ بعض نے ان کی کل تعداد (مرد اور عورت ملا کر) ٨٠ اور بعض نے اس سے بھی کم بتلائی ہے۔ ان میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے تین بیٹے، جو ایمان والوں میں شامل تھے، سام، حام، یافت اور ان کی بیویاں اور چوتھی بیوی، یام کی تھی، جو کافر تھا، لیکن اس کی بیوی مسلمان ہونے کی وجہ سے کشتی میں سوار تھی۔ (ابن کثیر) ھود
41 ٤١۔ ١ یعنی اللہ ہی کے نام سے اس کا پانی کی سطح پر چلنا اور اسی کے نام پر اس کا ٹھہرنا ہے۔ اس سے ایک مقصد اہل ایمان کو تسلی اور حوصلہ دینا بھی تھا کہ بلا خوف و خطر کشتی میں سوار ہوجاؤ، اللہ تعالیٰ ہی اس کشتی کا محافظ اور نگران ہے اسی کے حکم سے چلے گی اور اسی کے حکم سے ٹھہرے گی۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا کہ ' اے نوح! جب تو اور تیرے ساتھی کشتی میں آرام سے بیٹھ جائیں تو کہو (اَلْحَمْدُ لللّٰہِ الَّذِیْ نَجّٰنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ہ وَ قُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُّبٰرَکَا وَّ اَنْتَ خَیْرُالْمُنْزِلِیْنَ) (المومنون ٢٨، ٢٩) ' سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے، جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات عطا فرمائی اور کہہ کہ اے میرے رب! مجھے بابرکت اتارنا اتار اور تو ہی بہتر اتارنے والا ہے '۔ بعض علماء نے کشتی یا سواری پر بیٹھتے وقت (بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرٖھا ومُرْسٰھِا) کا پڑھنا مستحب قرار دیا ہے، مگر حدیث سے (وَتَـقُوْلُوْاسُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ) 43۔ الزخرف :13) پڑھنا ثابت ہے۔ ھود
42 ٤٢۔ ١ یعنی جب زمین پر پانی تھا، حتٰی کے پہاڑ بھی پانی میں ڈوبے ہوئے تھے، یہ کشتی حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو دامن میں سمیٹے، اللہ کے حکم سے اور اس کی حفاظت میں پہاڑ کی طرح رواں دواں تھی۔ ورنہ اتنے طوفانی پانی میں کشتی کی حیثیت ہی کیا ہوتی ہے؟ اسی لئے دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے اسے بطور احسان ذکر فرمایا۔ (اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاۗءُ حَمَلْنٰکُمْ فِی الْجَارِیَۃِ 11 ۝ ۙ لِنَجْعَلَہَا لَکُمْ تَذْکِرَۃً وَّتَعِیَہَآ اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ 12۝) 59۔ الحاقہ :12-11) جب پانی میں طغیانی آ گئی تو اس وقت ہم نے تمہیں کشتی میں چڑھا لیا تاکہ اسے تمہارے لئے نصیحت اور یادگار بنا دیں اور تاکہ یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں (وحملنہ علی ذات الواح ودسر* تجری باعیننا جزاء لمن کان کفر) (القمر) اور ہم نے اسے تخنوں اور کیلوں والی کشتی میں سوار کرلیا جو ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی بدلہ اسکی طرف سے جس کا کفر کیا گیا تھا۔ ٤٢۔ ٢ یہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا چوتھا بیٹا تھا جس کا لقب کنعان اور نام ' یام ' تھا، اسے حضرت نوح (علیہ السلام) نے دعوت دی کہ مسلمان ہوجا اور کافروں کے ساتھ شامل رہ کر غرق ہونے والوں میں سے مت ہو۔ ھود
43 ٤٣۔ ١ اس کا خیال تھا کہ کسی بڑے پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر میں پناہ حاصل کرلوں گا، وہاں پانی کیونکر پہنچ سکے گا۔ ٤٣۔ ٢ باپ بیٹے کے درمیان یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ ایک طوفانی موج نے اسے اپنی طغیانی کی زد میں لے لیا۔ ھود
44 ٤٤۔ ١ نگلنا، کا استعمال جانور کے لئے ہوتا ہے کہ وہ اپنے منہ کی خوراک کو نگل جاتا ہے۔ یہاں پانی کے خشک ہونے کو نگل جانے سے تعبیر کرنے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ پانی بتدریخ خشک نہیں ہوا تھا بلکہ اللہ کے حکم سے زمین نے سارا پانی دفعتا اس طرح اپنے اندر نگل لیا جس طرح جانور لقمہ نگل جاتا ہے۔ ٤٤۔ ٢ یعنی تمام کافروں کو غرق آب کردیا گیا۔ ٤٤۔ ٣ جودی، پہاڑ کا نام ہے جو بقول بعض موصل کے قریب ہے، حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم بھی اسی کے قریب آباد تھی۔ ٤٤۔ ٤ بُعْدً، یہ ہلاکت اور لعنت الٰہی کے معنی میں ہے اور قرآن کریم بطور خاص غضب الٰہی کی مستحق بننے والی قوموں کے لئے اسے کئی جگہ استعمال کیا گیا ہے۔ ھود
45 ٤٥۔ ١ حضرت نوح (علیہ السلام) نے غالبا شفقت پدری کے جذبے سے مغلوب ہو کر بارگاہ الٰہی میں یہ دعا کی اور بعض کہتے ہیں کہ انھیں یہ خیال تھا کہ شاید یہ مسلمان ہوجائے گا، اس لئے اس کے بارے میں یہ استدعا کی۔ ھود
46 ٤٦۔ ١ حضرت نوح (علیہ السلام) نے قرابت نسبی کا لحاظ کرتے ہوئے اسے اپنا بیٹا قرار دیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کی بنیاد پر قرابت دین کے اعتبار سے اس بات کی نفی فرمائی کہ وہ تیرے گھرانے سے ہے۔ اس لئے کہ ایک نبی کا اصل گھرانہ تو وہی ہے جو اس پر ایمان لائے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ اور اگر کوئی ایمان نہ لائے تو چاہے وہ نبی کا باپ ہو، بیٹا ہو یا بیوی، وہ نبی کے گھرانے کا فرد نہیں۔ ٤٦۔ ٢ یہ اللہ تعالیٰ نے اس کی علت بیان فرما دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس کے پاس ایمان اور عمل صا لح نہیں ہوگا، اسے اللہ کے عذاب سے اللہ کا پیغمبر بھی بچانے پر قادر نہیں۔ آج کل لوگ پیروں، فقیروں اور سجادہ نشینوں سے وابستگی کو ہی نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں اور عمل صالح کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے حالانکہ جب عمل صالح کے بغیر نبی سے نسبی قرابت بھی کام نہیں آتی، تو یہ وابستگیاں کیا کام آ سکتی ہیں۔ ٤٦۔ ٣ اس سے معلوم ہوا کہ نبی عالم الغیب نہیں ہوتا، اس کو اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا وحی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اسے عطا فرما دیتا ہے۔ اگر حضرت نوح (علیہ السلام) کو پہلے سے علم ہوتا کہ ان کی درخواست قبول نہیں ہوگی تو یقینا وہ اس سے پرہیز فرماتے۔ ٤٦۔ ٤ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت نوح (علیہ السلام) کو نصیحت ہے، جس کا مقصد ان کو اس مقام بلند پر فائز کرنا ہے جو علمائے عالمین کے لئے اللہ کی بارگاہ میں ہے۔ ھود
47 ٤٧۔ ١ جب حضرت نوح (علیہ السلام) یہ بات جان گئے کہ ان کا سوال واقعہ کے مطابق نہیں تھا، تو فورا اس سے رجوع فرما لیا اور اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت و مغفرت کے طالب ہوئے۔ ھود
48 ٤٨۔ ١ یہ اترنا کشتی سے یا اس پہاڑ سے ہے جس پر کشتی جا کر ٹھہر گئی تھی۔ ٤٨۔ ٢ اس سے مراد یا تو وہ گروہ ہیں جو حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار تھے، یا آئندہ ہونے والے وہ گروہ ہیں جو ان کی نسل سے ہونے والے تھے، اگلے فقرے کے پیش نظر یہی دوسرا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔ ٤٨۔ ٣ یہ وہ گروہ ہیں جو کشتی میں بچ جانے والوں کی نسل سے قیامت تک ہوں گے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کافروں کو دنیا کی چند روزہ زندگی گزارنے کے لئے ہم دنیا کا سازو سامان ضرور دیں گے لیکن بالآخر عذاب الیم سے دو چار ہوں گے۔ ھود
49 ٤٩۔ ١ یہ نبی سے خطاب ہے اور آپ سے علم غیب کی نفی کی جا رہی ہے کہ یہ غیب کی خبریں ہیں جن سے ہم آپ کو خبردار کر رہے ہیں ورنہ آپ اور آپ کی قوم ان سے لا علم تھی۔ ٤٩۔ ٢ یعنی آپکی قوم آپ کی جو تکذیب کر رہی ہے اور آپ کو ایذائیں پہنچا رہی ہے، اس پر صبر سے کام لیجئے اس لئے کہ آپ کے مددگار ہیں اور حسن انجام آپ کے اور آپ کے پیرو کاروں کے لئے ہی ہے، جو تقویٰ کی صفت سے متصف ہیں۔ عاقبت، دنیا و آخرت کے اچھے انجام کو کہتے ہیں۔ اس میں متقین کی بڑی بشارت ہے کہ ابتدا میں چاہے انھیں کتنا بھی مشکلات سے دوچار ہونا پڑے، تاہم بالآخر اللہ کی مدد و نصرت اور حسن انجام کے وہی مستحق ہیں جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ) 40۔ المو من۔51) ' ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والو کی مدد، دنیا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے۔ (وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ ١٧١؀ښ اِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ ١٧٢؀۠ وَاِنَّ جُنْدَنَا لَہُمُ الْغٰلِبُوْنَ ١٧٣؁) 37۔ الصافات :171 تا 172) اور البتہ وعدہ پہلے ہی اپنے رسولوں کے لیے صدر ہوچکا ہے کہ وہ مظفر منصور ہوں گے اور ہمارا ہی لشکر غالب اور برتر رہے گا۔ ھود
50 ٥٠۔ ١ بھائی سے مراد انہی کی قوم کا ایک فرد۔ ٥٠۔ ٢ یعنی اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرا کر تم اللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہو۔ ھود
51 ٥١۔ ١ اور یہ نہیں سمجھتے کہ جو بغیر اجرت کے اور لالچ کے تمہیں اللہ کی طرف بلا رہا ہے وہ تمہارا خیر خواہ ہے، آیت میں یَا قَوْمِ ! سے دعوت ایک طریقہ کار معلوم ہوتا ہے یعنی بجائے یہ کہنے کے ' اے کافرو ' اے مشرکو ' اے میری قوم سے مخاطب کیا گیا ہے۔' ھود
52 ٥٢۔ ١ حضرت ہود (علیہ السلام) نے توبہ و استغفار کی تلقین اپنی امت یعنی اپنی قوم کو کی اور اس کے دو فوائد بیان فرمائے جو توبہ اور استغفار کرنے والی قوم کو حاصل ہوتے ہیں۔ جس طرح قرآن کریم اور بھی بعض مقامات پر یہ فوائد بیان کئے گئے ہیں (ملاحظہ سورت نوح ا۔ ١١) اور نبی کا بھی فرمان ہے من لزم الاستغفار جعل اللہ لہ من کل ھم فرجا، ومن کل ضیق مخرجا ورزقہ من حیث لا یحتسب (ابوداود)' جو پابندی سے استغفار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر فکر سے کشادگی، اور ہر تنگی سے راستہ بنا دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔ ٥٢۔ ٢ یعنی میں تمہیں جو دعوت دے رہا ہوں، اس سے اعراض اور اپنے کفر پر اصرار مت کرو۔ ایسا کرو گے تو اللہ کی بارگاہ میں مجرم اور گناہ گار بن کر پیش ہو گے۔ ھود
53 ٥٣۔ ١ ایک نبی دلائل و براہین کی پوری قوت اپنے ساتھ رکھتا ہے لیکن شپرہ چشموں کو وہ نظر نہیں آتے قوم ہود (علیہ السلام) نے بھی اسی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم بغیر دلیل کے محض تیرے کہنے سے اپنے معبودوں کو کس طرح چھوڑیں؟ ھود
54 ٥٤۔ ١ یعنی تو جو ہمارے معبودوں کی توہین اور گستاخی کرتا ہے کہ یہ کچھ نہیں کرسکتے، معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے معبودوں نے تیری اس گستاخی پر تجھے کچھ کہہ دیا ہے اور تیرا دماغ ماؤف ہوگیا ہے۔ جیسے آج کل کے نام نہاد مسلمان بھی اس قسم کے توہمات کا شکار ہیں جب انھیں کہا جاتا ہے کہ یہ فوت شدہ اشخاص اور بزرگ کچھ نہیں کرسکتے، تو کہتے ہیں کہ ان کی شان میں گستاخی ہے اور خطرہ ہے کہ اس طرح کی گستاخی کرنے والوں کا وہ بیڑا غرق کردیں۔ نعوذ باللہ من الخرافات والاکاذیب۔ ٤٥۔ ٢ یعنی ان تمام بتوں اور معبودوں سے بیزار ہوں اور تمہارا یہ عقیدہ کہ انہوں نے مجھے کچھ کردیا ہے، بالکل غلط ہے، ان کے اندر یہ قدرت ہی نہیں کہ کسی کا مافوق الا سباب طریقے سے نفع یا نقصان پہنچا سکیں۔ ھود
55 ٥٥۔ ١ اور اگر تمہیں میری بات پر یقین نہیں ہے بلکہ تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو کہ یہ بت کچھ کرسکتے ہیں تو لو میں حاضر ہوں، تم اور تمہارے معبود سب ملکر میرے خلاف کچھ کر کے دکھاؤ۔ مزید اس سے نبی کے انداز کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اس قدر بصیر پر ہوتا ہے کہ اسے اپنے حق پر ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ ھود
56 ٥٦۔ ١ یعنی جس ذات کے ہاتھ میں ہر چیز کا قبضہ و تصرف ہے، وہی ذات ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے میرا توکل اسی پر ہے۔ مقصد ان الفاظ سے حضرت ہود (علیہ السلام) کا یہ ہے کہ جن کو تم نے اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے ان پر بھی اللہ ہی کا قبضہ و تصرف ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ جو چاہے کرسکتا ہے، وہ کسی کا کچھ نہیں کرسکتے۔ ٥٦۔ ٢ یعنی وہ جو توحید کی دعوت دے رہا ہے یقیناً یہ دعوت ہی صراط مستقیم ہے اس پر چل کر نجات اور کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہو اور اس صراط مستقیم سے اعراض انحراف تباہی و بربادی کا باعث ہے۔ ھود
57 ٥٧۔ ١ یعنی اس کے بعد میری ذمہ داری ختم اور تم پر حجت تمام ہوگی۔ ٥٧۔ ٢ یعنی تمہیں تباہ کر کے تمہاری زمینوں اور املاک کا وہ دوسروں کو مالک بنا دے، تو وہ ایسا کرنے پر قادر ہے اور تم اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے بلکہ وہ اپنی مشیت و حکمت کے مطابق ایسا کرتا رہتا ہے۔ ٥٧۔ ٣ یقیناً وہ مجھے تمہارے مکرو فریب اور سازشوں سے بھی محفوظ رکھے گا اور شیطانی چالوں سے بھی بچائے گا، علاوہ ازیں ہر نیک بد کو ان کے اعمال کے مطابق اچھی اور بری جزا دے گا۔ ھود
58 ٥٨۔ ١ سخت عذاب سے مراد وہی الرِّ یْحَ الْعَقِیْمَ تیز آندھی کا عذاب ہے جس کے ذریعے سے حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم عاد کو ہلاک کیا گیا جس سے حضرت ہود (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو بچا لیا گیا۔ ھود
59 ٥٩۔ ١ عاد کی طرف صرف ایک نبی حضرت ہود (علیہ السلام) ہی بھیجے گئے تھے، یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے اللہ کے رسولوں کی نافرمانی کی۔ اس سے یا تو یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ ایک رسول کی تکذیب، یہ گویا تمام رسولوں کی تکذیب ہے۔ کیونکہ تمام رسولوں پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ یہ قوم اپنے کفر اور انکار میں اتنی آگے بڑھ چکی تھی کہ حضرت ہود (علیہ السلام) کے بعد اگر ہم اس قوم میں متعدد رسول بھی بھیجتے، تو یہ قوم ان سب کی تکذیب ہی کرتی۔ اور اس سے قطعاً یہ امید نہ تھی کہ وہ کسی بھی رسول پر ایمان لے آتی۔ یا ہوسکتا ہے کہ اور بھی انبیاء بھیجے گئے ہوں اور اس قوم نے ہر ایک کی تکذیب کی۔ ٥٩۔ ٢ یعنی اللہ کے پیغمبروں کی تکذیب کی لیکن جو لوگ اللہ کے حکموں سے سرکشی کرنے والے اور نافرمان تھے، ان کی اس قوم نے پیروی کی۔ ھود
60 ٦٠۔ ١ لَعْنَہ کا مطلب اللہ کی رحمت سے دوری، امور خیر سے محرومی اور لوگوں کی طرف سے ملامت و بیزاری۔ دنیا میں یہ لعنت اس طرح کہ اہل ایمان میں ان کا ذکر ہمیشہ ملامت اور بیزاری کے انداز میں ہوگا اور قیامت میں اس طرح کہ وہاں علٰی رؤوس الشہاد ذلت اور رسوائی سے دو چار اور عذاب الٰہی میں مبتلا ہوں گے۔ ٦٠۔ ٢ بُعْد کا یہ لفظ رحمت سے دوری اور لعنت اور ہلاکت کے معنی کے لئے ہے، جیسا کہ اس سے قبل بھی وضاحت کی جا چکی ہے۔ ھود
61 ٦١۔ ١ وَ اِلَیٰ ثَمُوْدَ عطف ہے ما قبل پر۔ یعنی وَ اَرْسَلنَا اِلَیٰ ثُمُوْدَ ہم نے ثمود کی طرف بھیجا۔ یہ قوم تبوک اور مدینہ کے درمیان مدائن (حجر) میں رہائش پذیر تھی اور یہ قوم عاد کے بعد ہوئی۔ حضرت صالح (علیہ السلام) کو یہاں بھی ثمود کا بھائی کہا۔ جس سے مراد انہی کے خاندان اور قبیلے کا ایک فرد ہے۔ ٦١۔ ٢ حضرت صالح (علیہ السلام) نے بھی سب سے پہلے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی، جس طرح کہ انبیاء کا طریق رہا ہے۔ ٦١۔ ٣ یعنی ابتدا میں تمہیں زمین سے پیدا کیا اس طرح کہ تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کی تخلیق مٹی سے ہوئی اور تمام انسان صلب آدم (علیہ السلام) سے پیدا ہوئے یوں گویا تمام انسانوں کی پیدائش زمین سے ہوئی۔ یا یہ مطلب ہے کہ تم جو کچھ کھاتے ہو، سب زمین ہی سے پیدا ہوتا ہے اور اسی خوراک سے وہ نطفہ بنتا ہے۔ جو رحم مادر میں جا کر وجود انسانی کا باعث ہوتا ہے۔ ٦١۔ ٤ یعنی تمہارے اندر زمین کو بسانے اور آباد کرنے کی استعداد اور صلاحیت پیدا کی، جس سے تم رہائش کے لئے مکان تعمیر کرتے، خوراک کے لئے کاشت کاری کرتے اور دیگر ضروریات زندگی مہیا کرنے کے لئے صنعت و حرفت سے کام لیتے ہو۔ ھود
62 ٦٢۔ ١ یعنی پیغمبر اپنی قوم میں چونکہ اخلاق و کردار اور امانت و دیانت میں ممتاز ہوتا ہے اس لئے قوم کی اس سے اچھی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ اسی اعتبار سے حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم نے بھی ان سے یہ کہا۔ لیکن دعوت توحید دیتے ہی ان کی امیدوں کا یہ مرکز، ان کی آنکھوں کا کانٹا بن گیا اور اس دین میں شک کا اظہار کیا جس طرف حضرت صالح (علیہ السلام) انھیں بلا رہے تھے یعنی دین توحید ھود
63 ٦٣۔ ١ بِیْنَۃٍ سے مراد وہ ایمان و یقین ہے، جو اللہ تعالیٰ پیغمبر کو عطا فرماتا ہے اور رحمت سے نبوت، جیسا کہ پہلے وضاحت گزر چکی ہے۔ ٦٣۔ ٢ نافرمانی سے مراد یہ ہے کہ اگر میں تمہیں حق کی طرف اور اللہ واحد کی عبادت کی طرف بلانا چھوڑ دوں، جیسا کہ تم چاہتے ہو۔ ٦٣۔ ٣ یعنی اگر میں ایسا کروں تو مجھے کوئی فائدہ تو نہیں پہنچا سکتے، البتہ اس طرح تم میرے نقصان و خسارے میں ہی اضافہ کرو گے۔ ھود
64 ٦٤۔ ١ یہ وہی اونٹنی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے کہنے پر ان کی آنکھوں کے سامنے ایک پہاڑ یا ایک چٹان سے برآمد فرمائی اس لئے اسے (اللہ کی اونٹنی) کہا گیا ہے کیونکہ یہ خالص اللہ کے حکم سے معجزانہ طور پر مذکورہ خلاف عادت طریقے سے ظاہر ہوئی تھی۔ اس کی بابت انھیں تاکید کردی گئی تھی کہ اسے ایذا نہ پہنچانا ورنہ تم عذاب الٰہی کی گرفت میں آ جاؤ گے۔ ھود
65 ٦٥۔ ١ لیکن ان ظالموں نے اس زبردست معجزے کے باوجود نہ صرف ایمان لانے سے گریز کیا بلکہ حکم الٰہی سے صریح سرتابی کرتے ہوئے اسے مار ڈالا، جس کے بعد انھیں تین دن کی مہلت دے دی گئی کہ تین دن کے بعد تمہیں عذاب کے ذریعے سے ہلاک کردیا جائے گا۔ ھود
66 ٦٦۔ ا ١ س سے مراد وہی عذاب ہے جو وعدے کے مطابق چوتھے دن آیا اور حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کے سوا، سب کو ہلاک کردیا گیا۔ ھود
67 ٦٧۔ ١ یہ عذاب صَیْحَۃً (چیخ زور کی کڑک) کی صورت میں آیا، بعض کے نزدیک یہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی چیخ تھی اور بعض کے نزدیک آسمان سے آئی تھی۔ جس سے ان کے دل پارہ پارہ ہوگئے اور ان کی موت واقعہ ہوگئی، اس کے بعد یا اس کے ساتھ ہی بھونچال رجفہ بھی آیا، جس نے سب کچھ تہ بالا کردیا۔ جیسا کہ سورۃ اعراف ٧٨ (فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِہِمْ جٰثِمِیْنَ) میں فاخذتھم الرجفہ کے الفاظ ہیں ٦٧۔ ٢ جس طرح پرندہ مرنے کے بعد زمین پر مٹی کے ساتھ پڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ موت سے ہم کنار ہو کر منہ کے بل زمین پر پڑے رہے۔ ھود
68 ٦٨۔ ١ ان کی بستی یا خود یہ لوگ یا دونوں ہی، اس طرح حرف غلط کی طرح مٹا دیئے گئے، گویا وہ کبھی وہاں آباد ہی نہ تھے۔ ھود
69 ٦٩۔ ١ یہ دراصل حضرت لوط اور ان کی قوم کے قصے کا ایک حصہ ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے چچا زاد بھائی تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستی بحرہ، میت کے جنوب مشرق میں تھی، جبکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فلسطین میں مقیم تھے۔ جب حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ تو ان کی طرف سے فرشتے بھیجے گئے۔ یہ فرشتے قوم لوط (علیہ السلام) کی طرف جاتے ہوئے راستے میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس ٹھہرے اور انھیں بیٹے کی بشارت دی۔ ٦٩۔ ٢ یعنی سلمنا سلاما علیک ہم آپ کو سلام عرض کرتے ہیں۔ ٦٩۔ ٣ جس طرح پہلا سلام ایک فعل مقدر کے ساتھ منصوب تھا۔ اس طرح یہ سالم مبتدا یا خبر ہونے کی بنا پر مرفوع ہے عبادت ہوگی : اَمْرُکُمْ سَلَا م،ُ یا عَلَیْکُمْ سَلَام،ُ۔ ٦٩۔ ٤ حضرت ابرا ہیم (علیہ السلام) بڑے مہمان نواز تھے وہ یہ نہیں سمجھ پائے کہ یہ فرشتے ہیں جو انسانی صورت میں آئے ہیں اور کھانے پینے سے معزور ہیں، بلکہ انہوں نے انھیں مہمان سمجھا اور فورا مہمانوں کی خاطر تواضع کے لئے بھنا ہوا بچھڑا لا کر ان کی خدمت میں پیش کردیا۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مہمان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں بلکہ جو موجود ہو حاضر خدمت کردیا جائے۔ ھود
70 ٧٠۔ ١ حضرت ابرا ہیم (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے تو انہوں کو خوف محسوس ہوا۔ کہتے ہیں کہ ان کے ہاں یہ چیز معروف تھی کہ آئے ہوئے مہمان اگر ضیافت سے فائدہ نہ اٹھاتے تو سمجھا جاتا تھا کی آنے والے مہمان کسی اچھی نیت سے نہیں آئے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے پیغمبروں کو غیب کا علم نہیں ہوتا۔ اگر ابراہیم (علیہ السلام) غیب دان ہوتے تو بھنا ہوا بچھڑا بھی نہ لاتے اور ان سے خوف بھی محسوس نہ کرتے۔ ٧٠۔ ٢ اس خوف کو فرشتوں نے محسوس کیا، یا ان کے آثار سے جو ایسے موقع پر انسان کے چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں یا اپنی گفتگو میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اظہار فرمایا، جیسا کہ دوسرے مقام پر وضاحت ہے ' ہمیں تو تم سے ڈر لگتا ہے ' چنانچہ فرشتوں نے کہا ڈرو نہیں، آپ جو سمجھ رہے ہیں، ہم وہ نہیں ہیں بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں اور ہم قوم لوط (علیہ السلام) کی طرف جا رہے ہیں۔ ھود
71 ٧١۔ ١ حضرت ابراہیم کی اہلیہ کیوں ہنسیں؟ بعض کہتے ہیں کہ قوم لوط (علیہ السلام) کی فساد انگیزیوں سے وہ بھی آگاہ تھیں، ان کی ہلاکت کی خبر سے انہوں نے مسرت کی۔ بعض کہتے ہیں اس لئے ہنسی آئی کہ دیکھو آسمانوں سے ان کی ہلاکت کا فیصلہ ہوچکا ہے اور یہ قوم غفلت کا شکار ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ تقدیم و تاخیر ہے۔ اور اس ہنسنے کا تعلق اس بشارت سے ہے جو فرشتوں نے بوڑھے جوڑے کو دی۔ واللہ اعلم۔ ھود
72 ٧٢۔ ١ یہ اہلیہ حضرت سارہ تھیں، جو خود بھی بوڑھی تھیں اور ان کا شوہر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی بوڑھے تھے۔ اس لئے تعجب ایک فطری امر تھا، جس کا اظہار ان سے ہوا۔ ھود
73 ٧٣۔ ١ یہ استفہام انکار کے لئے ہے۔ یعنی تو اللہ تعالیٰ کے قضا و قدر پر کس طرح تعجب کا اظہار کرتی ہے جبکہ اس کے لئے کوئی چیز مشکل نہیں۔ اور نہ وہ اسباب عادیہ ہی کا محتاج ہے، وہ تو جو چاہے، اس کے لفظ کُنْ (ہو جا) سے معرض وجود میں آ جاتا ہے۔ ٧٣۔ ٢ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اہلیہ محترمہ کو یہاں فرشتوں نے ' اہل بیت ' سے یاد کیا اور دوسرے ان کے لئے جمع مذکر مخاطب (عَلَیْکُمْ) کا صیغہ استعمال کیا۔ جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ' اہل بیت ' کے لئے جمع مذکر کے صیغے کا استعمال بھی جائز ہے۔ جیسا کہ سورۃ احزاب، ٣٣ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کی ازواج مطہرات کو بھی اہل بیت کہا ہے اور انھیں جمع مذکر کے صیغے سے مخاطب بھی کیا ہے۔ ھود
74 ٧٤۔ ١ اس مجادلہ سے مراد یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرشتوں سے کہا کہ جس بستی کو تم ہلاک کرنے جا رہے ہو، اسی میں حضرت لوط (علیہ السلام) بھی موجود ہیں۔ جس پر فرشتوں نے کہا ہم جانتے ہیں کہ لوط (علیہ السلام) بھی وہاں رہتے ہیں۔ لیکن ہم ان کو اور ان کے گھر والوں کو سوائے ان کی بیوی کے بچا لیں گے۔ ھود
75 ھود
76 ٧٦۔ ١ یہ فرشتوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا کہ اب اس بحث و تکرار کا کوئی فائدہ نہیں، اسے چھوڑیئے اللہ کا وہ حکم (ہلاکت کا) آ چکا ہے، جو اللہ کے ہاں مقدر تھا۔ اور اب یہ عذاب نہ کسی کے مجادلے سے روکے گا نہ کسی کی دعا سے ٹلے گا۔ ھود
77 ٧٧۔ ١ حضرت لوط (علیہ السلام) کی اس سخت پریشانی کی وجہ مفسرین نے لکھی ہے کہ یہ فرشتے نوجوانوں کی شکل میں آئے تھے، جو بے ریش تھے، جس سے حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی عادت قبیحہ کے پیش نظر سخت خطرہ محسوس کیا۔ کیونکہ ان کو یہ پتہ نہیں تھا کہ آنے والے یہ نوجوان، مہمان نہیں ہیں، بلکہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں جو اس قوم کو ہلاک کرنے کے لئے آئے ہیں۔ ھود
78 ٧٨۔ ١ جب اغلام بازی کے ان مریضوں کو پتہ چلا کہ چند خوبرو نوجوان لوط (علیہ السلام) کے گھر آئے ہیں تو دوڑے ہوئے آئے اور انھیں اپنے ساتھ لے جانے پر اصرار کیا، تاکہ ان سے اپنی غلط خواہشات پوری کریں۔ ٧٨۔ ٢ یعنی تمہیں اگر جنسی خواہش ہی کی تسکین مقصود ہے تو اس کے لئے میری اپنی بیٹیاں موجود ہیں، جن سے تم نکاح کرلو اور اپنا مقصد پورا کرلو۔ یہ تمہارے لئے ہر طرح سے بہتر ہے۔ بعض نے کہا کہ بنات سے مراد عام عورتیں ہیں اور انھیں اپنی لڑکیاں اس لئے کہا کہ پیغمبر اپنی امت کے لئے ایک طرح کا باپ ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کام کے لئے عورتیں موجود ہیں، ان سے نکاح کرلو اور اپنا مقصد پورا کرو (ابن کثیر) ٧٨۔ ٣ یعنی میرے گھر آئے مہمانوں کے ساتھ زیادتی اور زبردستی کر کے مجھے رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں ایک آدمی بھی ایسا سمجھدار نہیں ہے، جو میزبانی کے تقاضوں اور اس کی نزاکت کو سمجھ سکے، اور تمہیں اپنے برے ارادوں سے روک سکے، حضرت لوط (علیہ السلام) نے یہ ساری باتیں اس بنیاد پر کہیں کہ وہ ان فرشتوں کو فی الواقع نو وارد مسافر اور مہمان ہی سمجھتے رہے۔ اس لئے بجا طور پر ان کی مخالفت کو اپنی عزت و وقار کے لئے ضروری سمجھتے رہے۔ اگر ان کو پتہ چل جاتا یا وہ عالم الغیب ہوتے تو ظاہر بات ہے کہ انھیں یہ پریشانی ہرگز لاحق نہ ہوتی، جو انھیں ہوئی اور جس کا نقشہ یہاں قرآن مجید نے کھینچا ہے۔ ھود
79 ٧٩۔ ١ یعنی ایک جائز اور فطری طریقے کو انہوں نے بالکل رد کردیا اور غیر فطری کام اور بے حیائی پر اصرار کیا، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ قوم اپنی اس بے حیائی کی عادت خبیثہ میں کتنی آگے جا چکی تھی اور کس قدر اندھی ہوگئی تھی۔ ھود
80 ٨٠۔ ١ قوت سے اپنے دست بازو اور اپنے وسائل کی قوت یا اولاد کی قوت مراد ہے اور شدید (مضبوط اسرا) سے خاندان، قبیلہ یا اسی قسم کا کوئی مضبوط سہارا۔ یعنی نہایت بے بسی کے عالم میں آرزو کر رہے ہیں کہ کاش! میرے اپنے پاس کوئی قوت ہوتی یا کسی خاندان اور قبیلے کی پناہ اور مدد مجھے حاصل ہوتی تو آج مجھے مہمانوں کی وجہ سے یہ ذلت و رسوائی نہ ہوتی، میں ان بد قماشوں سے نمٹ لیتا اور مہمانوں کی حفاظت کرلیتا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی یہ آرزو اللہ تعالیٰ پر توکل کے منافی نہیں ہے۔ بلکہ ظاہری اسباب کے مطابق ہے۔ اور توکل علی اللہ کا صحیح مفہوم و مطلب بھی یہی ہے۔ کہ پہلے تمام ظاہر اسباب و وسائل بروئے کار لائے جائیں اور پھر اللہ پر توکل کیا جائے۔ یہ توکل کا نہایت غلط مفہوم ہے کہ ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ جاؤ اور کہو کہ ہمارا بھروسہ اللہ پر ہے۔ اس لیے حضرت لوط (علیہ السلام) نے جو کچھ کہا، ظاہر اسباب کے اعتبار سے بالکل بجا کہا۔ جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اللہ کا پیغمبر جس طرح عالم الغیب نہیں ہوتا اسی طرح مختار کل بھی نہیں ہوتا، جیسا کہ آج کل لوگوں نے یہ عقیدہ گھڑ لیا ہے اگر نبی دنیا میں اختیارات سے بہرہ ور ہوتے تو یقییناً حضرت لوط (علیہ السلام) اپنی بے بسی کا اور اس آرزو کا اظہار نہ کرتے جو انہوں نے مذکورہ الفاظ میں کیا۔ ھود
81 ٨١۔ ١ جب فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی بے بسی اور ان کی قوم کی سرکشی کا مشاہدہ کرلیا تو بولے، اے لوط! گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہم تک تو کیا، اب یہ تجھ تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ اب رات کے ایک حصے میں، سوائے بیوی کے، اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکل جا! صبح ہوتے ہی اس بستی کو ہلاک کردیا جائے گا۔ ھود
82 ھود
83 ٨٣۔ ١ اس آیت میں ھی کا مرجع بعض مفسرین کے نزدیک وہ نشان زدہ کنکریلے پتھر ہیں جو ان پر برسائے گئے اور بعض کے نزدیک اس کا مرجع وہ بستیاں ہیں جو ہلاک کی گئیں اور جو شام اور مدینہ کے درمیان تھیں اور ظالمین سے مراد مشرکین مکہ اور دیگر منکرین ہیں۔ مقصد ان کو ڈرانا ہے کہ تمہارا حشر بھی ویسا ہہی ہوسکتا ہے جس سے گزشتہ قومیں دو چار ہوئیں۔ ھود
84 ٨٤۔ ١ مدین کی تحقیق کے لئے دیکھئے سورۃ الا عراف، آیت ٨٥ کا حاشیہ۔ ٨٤۔ ٢ توحید کی دعوت دینے کے بعد اس قوم میں جو نمایاں اخلاقی خرابی۔ ناپ تول میں کمی کی تھی اس سے انھیں منع فرمایا۔ ان کا معمول بن چکا تھا جب ان کے پاس فروخت کندہ (بائع) اپنی چیز لے کر آتا تو اس سے ناپ اور تول میں زائد چیز لیتے اور جب خریدار (مشتری) کو کوئی چیز فروخت کرتے تو ناپ میں بھی کمی کر کے دیتے اور تول میں ڈنڈی مار لیتے۔ ٨٤۔ ٣ یہ اس منع کرنے کی علت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تم پر اپنا فضل کر رہا ہے اور اس نے تمہیں آسودگی اور مال و دولت سے نوازا ہے تو پھر تم یہ قبیح حرکت کیوں کرتے ہو۔ ٨٤۔ ٤ یہ دوسری علت ہے کہ اگر تم اپنی اس حرکت سے باز نہ آئے تو پھر اندیشہ ہے کہ قیامت والے دن کے عذاب سے تم نہ بچ سکو۔ گھیرنے والے دن سے مراد قیامت کا دن ہے کہا اس دن کوئی گناہ گار مواخذہ الہی سے بچ سکے گا نہ بھاگ کر کہیں چھپ سکے گا۔ ھود
85 ٨٥۔ ١ انبیاء علیہم السلام کی دعوت دو اہم بنیادوں پر مشتمل ہوتی ہے ١۔ حقوق اللہ کی ادائیگی ٢، حقوق العباد کی ادائیگی۔ اول الذکر کی طرف لفظ (اَعْبُدُو اللّٰہَ) اور آخر الذکر کی جانب ( وَلَا تَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ) 11۔ ہود :84) سے اشارہ کیا گیا اور اب تاکید کے طور پر انھیں انصاف کے ساتھ پورا پورا ناپ تول کا حکم دیا جا رہا ہے اور لوگوں کو چیزیں کم کر کے دینے سے منع کیا جا رہا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بھی ایک بہت بڑا جرم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک پوری سورت میں اس جرم کی شناعت و قباحت اور اس کی اخروی سزا بیان فرمائی ہے۔ (وَیْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِیْنَ ۝ ۙ الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ ۝ڮ وَاِذَا کَالُوْہُمْ اَوْ وَّزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ ۝ۭ) 83۔ الطففین :1 تا 3) مطففین کے لیے ہلاکت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب لوگوں سے ناپ کرلیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں اور جب دوسروں کو ناپ کر یا تول کردیتے ہیں، تو کم کر کے دیتے ہیں ٨٥۔ ٢ اللہ کی نافرمانی سے، بالخصوص جن کا تعلق حقوق العباد سے ہو، جیسے یہاں ناپ تول کی کمی بیشی میں ہے، زمین میں یقیناً فساد اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے جس سے انھیں منع کیا گیا۔ ھود
86 ٨٦۔ ١ (بَقِیَّتُ اللّٰہِ) سے مراد جو ناپ تول میں کسی قسم کی کمی کئے بغیر، دیانتداری کے ساتھ سودا دینے کے بعد حاصل ہو۔ یہ چونکہ حلال و طیب ہے اور خیرو برکت بھی اسی میں ہے، اس لئے اللہ کا بقیہ قرار دیا گیا ہے۔ ٨٦۔ ٢ یعنی میں تمہیں صرف تبلیغ کرسکتا ہوں اور اللہ کے حکم سے کر رہا ہوں۔ لیکن برائیوں سے میں تمہیں روک دوں یا اس پر سزا دوں، یہ میرے اختیار میں نہیں ہے، ان دونوں باتوں کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے۔ ھود
87 ٨٧۔ ١ صَلَوٰۃً سے مراد عبادت دین یا تلاوت ہے۔ ٨٧۔ ٢ اس سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک زکوٰۃ و صدقات ہیں، جس کا حکم ہر آسمانی مذہب میں دیا گیا ہے اللہ کے حکم سے زکوٰ ۃ و صدقات کا اخراج، اللہ کے نافرمانوں پر نہایت شاق گزرتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جب ہم اپنی محنت و لیاقت سے مال کماتے ہیں تو اس کے خرچ کرنے یا نہ کرنے میں ہم پر پابندی کیوں ہو۔ اور اس کا کچھ حصہ ایک مخصوص مد کے لیے نکالنے پر ہمیں مجبور کیوں کیا جائے؟ اسی طریقے سے کمائی اور تجارت میں حلال و حرام اور جائز وناجائز کی پابندی بھی ایسے لوگوں پر نہایت گراں گزرتی ہے، ممکن ہے ناپ تول میں کمی سے روکنے کو بھی انہوں نے اپنے مالی تصرفات میں دخل درمعقولات سمجھا ہو۔ اور ان الفاظ میں اس سے انکار کیا ہو۔ دونوں ہی مفہوم اس کے صحیح ہیں۔ ٨٧۔ ٣ حضرت شعیب (علیہ السلام) کے لئے یہ الفاظ انہوں نے بطور استہزا کہے۔ ھود
88 ٨٨۔ ١ رزق حسن کا دوسرا مفہوم نبوت بھی بیان کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر) ٨٨۔ ٢ یعنی جس کام سے میں تجھے روکوں، تم سے خلاف ہو کر وہ میں خود کروں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ ٨٨۔ ٣ میں تمہیں جس کام کے کرنے یا جس سے روکنے کا حکم دیتا ہوں، اس سے مقصد اپنی مقدور بھر، تمہاری اصلاح ہی ہے۔ ٨٨۔ ٤ یعنی حق تک پہنچنے کا جو میرا ارادہ ہے، وہ اللہ کی توفیق سے ہی ممکن ہے، اس لئے تمام معاملات میں میرا بھروسہ اسی پر ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔ ھود
89 ٨٩۔ ١ یعنی ان کی جگہ تم سے دور نہیں، یا اس سبب میں تم سے دور نہیں جو ان کے عذاب کا موجب بنا۔ ھود
90 ھود
91 ٩١۔ ١ یہ یا تو انہوں نے بطور مذاق تحقیر کہا درانحالیکہ ان کی باتیں ان کے لئے ناقابل فہم نہیں تھیں۔ اس صورت میں یہاں فہم کی نفی مجازا ہوگی۔ یا ان کا مقصد ان باتوں کے سمجھنے سے معذوری کا اظہار ہے جن کا تعلق غیب سے ہے۔ مثلا بعث بعدالموت، حشر نشر، جنت و دوزخ وغیرہ اس لحاظ سے، فہم کی فنی حقیقتا ہوگی۔ ٩١۔ ٢ یہ کمزوری جسمانی لحاظ سے تھی، جیسا کہ بعض کا خیال ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بینائی کمزور تھی یا وہ نحیف و لاغر جسم کے تھے یا اس اعتبار سے انھیں کمزور کہا کہ وہ خود بھی مخالفین سے تنہا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ ٩١۔ ٣ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا قبیلہ کہا جاتا ہے کہ ان کا مددگار نہیں تھا، لیکن وہ قبیلہ چونکہ کفر و شرک میں اپنی ہی قوم کے ساتھ تھا، اس لئے اپنے ہم مذہب ہونے کی وجہ سے اس قبیلے کا لحاظ، بہرحال حضرت شعیب (علیہ السلام) کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے اور انھیں نقصان پہنچانے میں مانع تھا۔ ٩١۔ ٤ لیکن چونکہ تیرے قبیلے کی حیثیت بہرحال ہمارے دلوں میں موجود ہے، اس لئے ہم درگزر سے کام لے رہے ہیں۔ ھود
92 ٩٢۔ ١ کہ تم مجھے تو میرے قبیلے کی وجہ سے نظر انداز کر رہے ہو۔ لیکن جس اللہ نے مجھے منصب نبوت سے نوازا ہے اس کی کوئی عظمت نہیں اور اس منصب کا کوئی احترام تمہارے دلوں میں نہیں ہے اور اسے تم نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ یہاں حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اعز علیکم منی (مجھ سے زیادہ ذی عزت) کی بجائے اعز علیکم من اللہ اللہ سے زیادہ ذی عزت کہا جس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ نبی کی توہین یہ دراصل اللہ کی توہین ہے۔ اس لیے کہ نبی اللہ کا مبعوث ہوتا ہے۔ اور اسی اعتبار سے اب علمائے حق کی توہین اور ان کو حقیر سمجھنا یہ اللہ کے دین کی توہین اور اس کا استخفاف ہے، اس لیے کہ وہ اللہ کے دین کے نمائندے ہیں۔ واتخذتموہ میں ھا کا مرجع اللہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ کے اس معاملے کو، جسے لے کر اس نے مجھے بھیجا ہے، اسے تم نے پس پشت ڈال دیا ہے اور اس کی کوئی پروا تم نے نہیں کی۔ ھود
93 ٩٣۔ ١ جب انہوں نے دیکھا کہ یہ قوم اپنے کفر و شرک پر مصر ہے اور وعظ و نصیحت کا بھی کوئی اثر ان پر نہیں ہو رہا، تو کہا اچھا تم اپنی ڈگر پر چلتے رہو، عنقریب تمہیں جھوٹے سچے کا اور اس بات کا کہ رسوا کن عذاب کا مستحق کون ہے؟ علم ہوجائے گا۔ ھود
94 ٩٤۔ ١ اس چیخ سے ان کے دل پارہ پارہ ہوگئے اور ان کی موت واقع ہوگئی اور اس کے معا بعد ہی بھو نچال بھی آیا، جیسا کہ سورۃ اعراف۔ ٩١ (فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِہِمْ جٰثِمِیْنَ) اور سورۃ عنکبوت (فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِہِمْ جٰثِمِیْنَ) 29۔ العنکبوب :37) میں ہے۔ ھود
95 ٩٥۔ ١ یعنی لعنت، پھٹکار، اللہ کی رحمت سے محرومی اور دوری۔ ھود
96 ٩٦۔ ١ آیات سے بعض کے نزدیک تورات اور سلطان مبین سے معجزات مراد ہیں، اور بعض کہتے ہیں کہ آیات سے، آیات تسعہ اور سلطان مبین (روشن دلیل) سے عصا مراد ہے۔ عصا، اگرچہ آیات تسعہ میں شامل ہے لیکن معجزہ چونکہ نہایت ہی عظیم الشان تھا، اس لئے اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ ھود
97 ٩٧۔ ١ مَلَاء قوم کے اشراف اور ممتاز قسم کے لوگوں کو کہا جاتا ہے۔ (اس کی تشریح پہلے گزر چکی ہے) فرعون کے ساتھ، اس کے دربار کے ممتاز لوگوں کا نام اس لئے لیا گیا ہے کہ اشراف قوم ہی ہر معاملے کے ذمہ دار ہوتے تھے اور قوم ان ہی کے پیچھے چلتی تھی۔ اگرچہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آتے تو یقیناً فرعون کی ساری قوم ایمان لے آتی۔ ٩٧۔ ٢ رَ شِیْدٍ ذی رشد کے معنی میں ہے۔ یعنی بات تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رشد وہدایت والی تھی، لیکن اسے ان لوگوں نے رد کردیا اور فرعون کی بات، رشدو ہدایت سے دور تھی، اس کی انہوں نے پیروی کی۔ ھود
98 ٩٨۔ ١ یعنی فرعون، جس طرح دنیا میں ان کا رہبر اور پیش رو تھا، قیامت والے دن بھی یہ آگے آگے ہی ہوگا اور اپنی قوم کو اپنی قیادت میں جہنم میں لے کر جائے گا۔ ٩٨۔ ٢ وِرْد پانی کے گھاٹ کو کہتے ہیں، جہاں پیاسے جا کر اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ لیکن یہاں جہنم کو ورد کہا گیا ہے گھاٹ یعنی جہنم جس میں لوگ لے جائے جائیں گے یعنی جگہ بھی بری اور جانے والے بھی برے۔ اعاذنا اللہ منہ ھود
99 ٩٩۔ ١ لَعْنَۃ سے پھٹکار اور رحمت الٰہی سے دوری و محرومی ہے، گویا دنیا میں بھی وہ رحمت الٰہی سے محروم اور آخرت میں میں بھی اس سے محروم ہی رہیں گے، اگر ایمان نہ لائے۔ ٩٩۔ ٢ رِفْدً انعام اور عطیے کو کہا جاتا ہے۔ یہاں لعنت کو رفد کہا گیا ہے۔ اسی لئے اسے برا انعام قرار دیا گیا مَرْفُوْد وہ انعام جو کسی کو دیا جائے۔ یہ الرفد کی تاکید ہے۔ ھود
100 ١٠٠۔ ١ قائم سے مراد وہ بستیاں، جو اپنی چھتوں پر قائم ہیں اور حَصِیْد بمعنی محصود سے مراد وہ بستیاں جو کٹے ہوئے کھیتوں کی طرح نابود ہوگئیں۔ یعنی جن گزشتہ بستیوں کے واقعات ہم بیان کر رہے ہیں، ان میں سے بعض تو اب بھی موجود ہیں، جن کے آثار و کھنڈرات نشان عبرت ہیں اور بعض بالکل ہی صفہ ہستی سے معدوم ہوگئیں اور ان کا وجود صرف تاریخ کے صفحات پر باقی رہ گیا ہے۔ ھود
101 ١٠١۔ ١ ان کو عذاب اور ہلاکت سے دو چار کر کے۔ ١٠١۔ ٢ کفر ومعاصی کا ارتکاب کر کے۔ ١٠١۔ ٣ جب کہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ انھیں نقصان سے بچائیں گے اور فائدہ پہنچائیں گے۔ لیکن جب اللہ کا عذاب آیا تو واضح ہوگیا کہ ان کا یہ عقیدہ فاسد تھا، اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ کے سوا کوئی کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر نہیں۔ ھود
102 ١٠٢۔ ١ یعنی جس طرح گزشتہ بستیوں کو اللہ تعالیٰ نے تباہ اور برباد کیا، آئندہ بھی وہ ظالموں کی اسی طرح گرفت کرنے پر قادر ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان اللہ لیملی للظالم حتی اذا اخذہ لم یفلتہ اللہ تعالیٰ یقیناً ظالم کو مہلت دیتا ہے لیکن جب اس کی گرفت کرنے پر آتا ہے تو پھر اس طرح اچانک گرتا ہے کہ پھر مہلت نہیں دیتا۔ ھود
103 ١٠٣۔ ١ یعنی مواخذہ الٰہی میں یا ان واقعات میں جو عبرت و موعظبت کے لئے بیان کئے گئے ہیں۔ ١٠٣۔ ٢ یعنی حساب اور بدلے کے لئے۔ ھود
104 ١٠٤۔ ١ یعنی قیامت کے دن میں تاخیر کی وجہ صرف یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے لئے ایک وقت معین کیا ہوا ہے۔ جب وہ وقت مقرر آ جائے گا، تو ایک لمحے کی تاخیر نہیں ہوگی۔ ھود
105 ١٠٥۔ ٤ گفتگو نہ کرنے سے مراد، کسی کو اللہ تعالیٰ سے کسی طرح کی بات یا شفاعت کرنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ الا یہ کہ وہ اجازت دے دے۔ طویل حدیث شفاعت میں ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " اس دن انبیاء کے علاوہ کسی کو گفتگو کی ہمت نہ ہوگی اور انبیاء کی زبان پر بھی اس دن صرف یہی ہوگا کہ یا اللہ! ہمیں بچا لے، ہمیں بچا لے '۔ ھود
106 ھود
107 ١٠٧۔ ١ ان الفاظ سے بعض لوگوں کو یہ مغالطہ لگا ہے کہ کافروں کے لئے جہنم کا عذاب دائمی نہیں ہے بلکہ موقت ہے یعنی اس وقت تک رہے گا جب تک آسمان و زمین رہیں گے۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں۔ کیونکہ یہاں (مَا دَ امَتِ السِّمٰوٰ تُ وَالْاَرْضُ) اہل عرب کے روز مرہ کی گفتگو اور محاورے کے مطابق نازل ہوا ہے۔ عربوں کی عادت تھی کہ جب کسی چیز کا دوام ثابت کرنا مقصود ہوتا تو وہ کہتے تھے (یہ چیز اسی طرح ہمیشہ رہے گی۔ جس طرح آسمان و زمین کا دوام ہے) اسی محاورے کو قرآن کریم میں استعمال کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اہل کفر و شرک جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ جس کو قرآن نے متعدد جگہ خالدین فیھا کے الفاظ سے ذکر کیا ہے۔ ایک دوسرا مفہوم اس کا یہ بھی بیان کی گیا ہے کہ آسمان و زمین سے مراد جنس ہے۔ یعنی دنیا کے آسمان و زمین اور ہیں جو فنا ہوجائیں گے لیکن آخرت کے آسمان و زمین ان کے علاوہ اور ہوں گے، جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے، (یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ 48۔) 14۔ ابراہیم :48)، اس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی بدل دئیے جائیں گے۔ اور آخرت کے یہ آسمان وزمین، جنت اور دوزخ کی طرح ہمیشہ رہیں گے۔ اس آیت میں یہی آسمان و زمین مراد ہے نہ کہ دنیا کے آسمان و زمین جو فنا ہوجائیں گے۔ (ابن کثیر) ان دونوں مفہوموں میں سے کوئی بھی مفہوم مراد لے لیا جائے، آیت کا مفہوم واضح ہوجاتا ہے اور وہ اشکال پیدا نہیں ہوتا جو مذکور ہوا۔ امام شوکانی نے اس کے اور بھی کئی مفہوم بیان کیے ہیں جنہیں اہل علم ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ ١٠٧۔ ٢ اس استثناء کے بھی کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ صحیح مفہوم یہی ہے کہ یہ استثناء ان گناہ گاروں کے لئے ہے جو اہل توحید و اہل ایمان ہوں گے۔ اس اعتبار سے اس سے ما قبل آیت میں شَقِی کا لفظ عام یعنی کافر اور عاصی دونوں کو شامل ہوگا اور (اِ لَّا مَا شَآءَ رَبُّکَ) سے عاصی مومنوں کا استثناء ہوجائے گا اور مَا شَآء میں مَا، مَنْ کے معنی میں ہے۔ ھود
108 ١٠٨۔ ١ یہ استثناء بھی عصاۃ اہل ایمان کے لئے ہے۔ یعنی دیگر جنتیوں کی طرح یہ نافرمان مومن ہمیشہ سے جنت میں نہیں رہیں ہوں گے، بلکہ ابتدا میں ان کا کچھ عرصہ جہنم میں گزرے گا اور پھر انبیاء اور اہل ایمان کی سفارش سے ان کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا، جیسا کہ احادیث صحیحہ سے یہ باتیں ثابت ہیں۔ ١٠٨۔ ٢ غیر مجذوذ کے معنی ہیں غیر مقطوع۔ یعنی نہ ختم ہونے والی عطاء۔ اس جملے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جن گناہ گاروں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا، یہ دخول عارضی نہیں، ہمیشہ کے لئے ہوگا اور تمام جنتی ہمیشہ اللہ کی عطاء اور اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے، اور یہ ہمیشہ کیلئے جاری رہے گا۔ اس میں کبھی انقطاع نہیں ہوگا۔ ھود
109 ١٠٩۔ ١ اس سے مراد وہ عذاب ہے جس کے وہ مستحق ہوں گے، اس میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ ھود
110 ١١٠۔ ١ یعنی کسی نے اس کتاب کو مانا اور کسی نے نہیں مانا۔ یہ نبی کو تسلی دی جا رہی ہے کہ پچھلے انبیاء کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوتا آیا ہے، کچھ لوگ ان پر ایمان لانے والے ہوتے اور دوسرے تکذیب کرنے والے۔ اس لئے آپ اپنی تکذیب سے نہ گھبرائیں۔ ١١٠۔ ٢ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے ان کے لئے عذاب کا ایک وقت مقرر کیا ہوا نہ ہوتا تو وہ انھیں فورا ہلاک کر ڈالتا۔ ھود
111 ھود
112 ١١٢۔ ١ اس آیت میں نبی اور اہل ایمان کو ایک تو استقامت کی تلقین کی جا رہی ہے، جو دشمن کے مقابلے کے لئے ایک بہت بڑا ہتھیار ہے۔ دوسرے حد سے بڑھ جانے سے روکا گیا ہے، جو اہل ایمان کی اخلاقی قوت اور رفعت کردار کے لئے بہت ضروری ہے۔ حتٰی کہ یہ تجاوز، دشمن کے ساتھ معاملہ کرتے وقت بھی جائز نہیں ہے۔ ھود
113 ١١٣۔ ١ اس کا مطلب یہ ہے کہ ظالموں کے ساتھ نرمی کرتے ہوئے ان سے مدد حاصل مت کرنا۔ اس سے ان کو یہ تأثر ملے گا کہ گویا تم ان کی دوسری باتوں کو بھی پسند کرتے ہو۔ اس طرح یہ تمہارا ایک بہت بڑا جرم بن جائے گا جو تمہیں بھی ان کے ساتھ، نار جہنم کا مستحق بنا سکتا ہے۔ اس سے ظالم حکمرانوں کے ساتھ ربط و تعلق کی بھی ممانعت نکلتی ہے، اگر مصلحت عامہ یا دینی منافع متقاضی ہوں۔ ایسی صورت میں دل سے نفرت رکھتے ہوئے ان سے ربط و تعلق کی اجازت ہوگی۔ جیسا کہ بعض احادیث سے واضح ہے۔ ھود
114 ١١٤۔ ١ دونوں سروں سے مراد بعض نے صبح اور مغرب، اور بعض نے عشاء اور مغرب دونوں کا وقت مراد لیا ہے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ یہ آیت معراج سے قبل نازل ہوئی ہو، جس میں پانچ نمازیں فرض کی گئیں۔ کیونکہ اس سے قبل صرف دو ہی نمازیں ضروری تھیں، ایک طلوع شمس سے قبل اور ایک غروب سے قبل اور رات کے پچھلے پہر میں نماز تہجد۔ پھر نماز تہجد امت سے معاف کردی گئی، پھر اس کا وجوب بقول بعض آپ سے بھی ساقط کردیا گیا۔ (ابن کثیر) واللہ اعلم۔ ١١٤۔ ٢ جس طرح کہ احادیث میں بھی اسے صراحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلا پانچ نمازیں، جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک، ان کے مابین ہونے والے گناہوں کو دور کرنے والے ہیں، بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے، ایک اور حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' بتلاؤ! اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر بڑی نہر ہو، وہ روزانہ اس میں پانچ مرتبہ نہاتا ہو، کیا اس کے بعد اس کے جسم پر میل کچیل باقی رہے گا ؟ صحابہ نے عرض کیا ' نہیں' آپ نے فرمایا ' اسی طرح پانچ نمازیں ہیں، ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ گناہوں اور خطاؤں کو مٹا دیتا ہے '۔ (مسلم بخاری) ھود
115 ھود
116 ١١٦۔ ١ یعنی گزشتہ امتوں میں ایسے نیک لوگ کیوں نہ ہوئے جو اہل شر اور اہل منکر کو شر، منکرات اور فساد سے روکتے؟ پھر فرمایا، ایسے لوگ تھے تو سہی، لیکن بہت تھوڑے۔ جنہیں ہم نے اس وقت نجات دے دی، جب دوسروں کو عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا گیا۔ ١١٦۔ ٢ یعنی یہ ظالم۔ اپنے ظلم پر قائم اور اپنی مد ہوشیوں میں مست رہے حتٰی کہ عذاب نے انھیں آ لیا۔ ھود
117 ھود
118 ھود
119 ١١٩۔ ١ ' اسی لئے ' کا مطلب بعض نے اختلاف اور بعض نے رحمت لیا ہے۔ دونوں صورتوں میں مفہوم یہ ہوگا کہ ہم نے انسانوں کو آزمائش کے لئے پیدا کیا ہے۔ جو دین حق سے اختلاف کا راستہ اختیار کرے گا، وہ آزمائش میں ناکام اور جو اسے اپنا لے گا، وہ کامیاب اور رحمت الٰہی کا مستحق ہوگا۔ ١١٩۔ ٢ یعنی اللہ کی تقدیر اور قضاء میں یہ بات ثبت ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہونگے جو جنت کے اور کچھ ایسے ہونگے جو جہنم کے مستحق ہوں گے اور جنت و جہنم کو انسانوں اور جنوں سے بھر دیا جائے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، نبی نے فرمایا ' جنت اور دوزخ آپس میں جھگڑ پڑیں، جنت نے کہا، کیا بات ہے کہ میرے اندر وہی لوگ آئیں گے جو کمزور اور معاشرے کے گرے پڑے لوگ ہوں گے؟ ' جہنم نے کہا میرے اندر تو بڑے بڑے جبار اور متکبر قسم کے لوگ ہوں گے اللہ تعالیٰ نے، جنت سے فرمایا ' تو میری رحمت کی مظہر ہے، تیرے ذریعے سے میں جس پر چاہوں اپنا رحم کروں۔ اور جہنم سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو میرے عذاب کی مظہر ہے تیرے ذریعے سے میں جس کو چاہوں سزا دوں۔ اللہ تعالیٰ جنت اور دوزخ دونوں کو بھر دے گا۔ جنت میں ہمیشہ اس کا فضل ہوگا، حتٰی کہ اللہ تعالیٰ ایسی مخلوق پیدا فرمائے گا جو جنت کے باقی ماندہ رقبے میں رہے گی اور جہنم، جہنمیوں کی کثرت کے باوجود نعرہ بلند کرے گی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھے گا جس پر جہنم پکار اٹھے گی قط قط وعزتک، بس، بس، تیری عزت و جلال کی قسم ' (صحیح بخاری) ھود
120 ھود
121 ھود
122 ١٢٢۔ ١ یعنی عنقریب تمہیں پتہ چل جائے گا کہ حسن انجام کس کے حصے میں آتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ ظالم لوگ کامیاب نہیں ہونگے۔ چنانچہ یہ وعدہ جلد ہی پورا ہوا اور اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو غلبہ عطا فرمایا اور پورہ جزیرہ عرب اسلام کے زیر نگین آ گیا۔ ھود
123 ھود
0 یوسف
1 یوسف
2 ٢۔ ١ آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد، لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی ہے اور یہ مقصد اس وقت حاصل ہوسکتا ہے جب وہ کتاب اس زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ سکیں، اس لئے ہر آسمانی کتاب اس قومی زبان میں نازل ہوئی، جس قوم کی ہدایت کے لئے اتاری گئی تھی۔ قرآن کریم کے مخاطب اول چونکہ عرب تھے، اس لئے قرآن بھی عربی زبان میں نازل ہوا علاوہ ازیں عربی زبان اپنی فصاحت و بلاغت اور ادائے معانی کے لحاظ سے دنیا کی بہترین زبان ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس اشرف الکتاب (قرآن مجید) کو اشرف اللغات (عربی) میں اشرف الرسل (حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اشرف الملائکہ (جبرائیل) کے ذریعے سے نازل فرمایا اور مکہ، جہاں اس کا آغاز ہوا، دنیا کا اشرف ترین مقام ہے اور جس مہینے میں نزول کی ابتدا ہوئی وہ بھی اشرف ترین مہینہ۔ رمضان ہے۔ یوسف
3 ٣۔ ١ قصص، یہ مصدر ہے معنی ہیں کسی چیز کے پیچھے لگنا مطلب دلچسپ واقعہ ہے قصہ، محض کہانی یا طبع زاد افسانے کو نہیں کہا جاتا بلکہ ماضی میں گزر جانے والے واقعے کے بیان کو قصہ کہا جاتا ہے۔ یہ گویا ماضی کا واقعی اور حقیقی بیان ہے اور اس واقع میں حسد و عناد کا انجام، تائید الٰہی کی کرشمہ سازیاں، نفس امارہ کی شورشیں اور سرکشیوں کا نتیجہ اور دیگر انسانی عوارض و حوارث کا نہایت دلچسپ بیان اور عبرت انگیز پہلو ہیں، اس لئے اس قرآن نے احسن القصص (بہترین بیان) سے تعبیر کیا ہے۔ ٣۔ ٢ قرآن کریم کے ان الفاظ سے بھی واضح ہے نبی کریم عالم الغیب نہیں تھے، ورنہ اللہ تعالیٰ آپ کو بے خبر قرار نہ دیتا، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آپ اللہ کے سچے نبی ہیں کیونکہ آپ پر وحی کے ذریعے سے ہی سچا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ آپ نہ کسی کے شاگرد تھے، کہ کسی استاد سے سیکھ کر بیان فرما دیتے، نہ کسی اور سے ہی ایسا تعلق تھا کہ جس سے سن کر تاریخ کا یہ واقعہ اپنے اہم جزئیات کے ساتھ آپ نشر کردیتے۔ یہ یقیناً اللہ تعالیٰ ہی نے وحی کے ذریعے سے آپ پر نازل فرمایا ہے جیسا کہ اس مقام پر صراحت کی گئی ہے۔ یوسف
4 ٤۔ ١ یعنی اے محمد! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قوم کے سامنے یوسف (علیہ السلام) کا قصہ بیان کرو، جب اس نے اپنے باپ کو کہا باپ حضرت یعقوب (علیہ السلام) تھے، جیسا کہ دوسرے مقام پر صراحت ہے اور حدیث میں بھی یہ نسب بیان کیا گیا ہے۔ (یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم)۔ اور حدیث میں نسب بیان کیا گیا ہے۔ الکریم ابن الکریم ابن الکریم ابن الکریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (مسند احمد جلد ٢، ص ٩٦) ٤۔ ٢ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ گیارہ ستاروں سے مراد حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی ہیں جو گیارہ تھے چاند سورج سے مراد ماں اور باپ ہیں اور خواب کی تعبیر چالیس یا اسی سال کے بعد اس وقت سامنے آئی جب یہ سارے بھائی اپنے والدین سمیت مصر گئے اور وہاں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے، جیسا کہ یہ تفصیل سورت کے آخر میں آئے گی۔ یوسف
5 ٥۔ ١ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے خواب سے اندازہ لگا لیا کہ ان کا یہ بیٹا عظمت شان کا حامل ہوگا، اس لئے انھیں اندیشہ ہوا کہ یہ خواب سن کر اس کے دوسرے بھائی بھی اس کی عظمت کا اندازہ کر کے کہیں اسے نقصان نہ پہنچائیں، بنا بریں انہوں نے یہ خواب بیان کرنے سے منع فرمایا۔ ٥۔ ٢ یہ بھائیوں کے مکروفریب کی وجہ بیان فرما دی کہ شیطان چونکہ انسان کا ازلی دشمن ہے اس لئے وہ انسانوں کو بہکانے، گمراہ کرنے اور انھیں حسد و بغض میں مبتلا کرنے میں ہر وقت کوشاں اور تاک میں رہتا ہے۔ چنانچہ یہ شیطان کے لئے بڑا اچھا موقع تھا کہ وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خلاف بھائیوں کے دلوں میں حسد اور بغض کی آگ بھڑکا دے۔ جیسا کہ فی الواقع بعد میں اس نے ایسا ہی کیا اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا اندیشہ درست ثابت ہوا۔ یوسف
6 ٦۔ ١ یعنی جس طرح تجھے تیرے رب نے نہایت عظمت والا خواب دکھانے کے لئے چن لیا، اسی طرح تیرا رب تجھے برگزیدگی بھی عطا کرے گا اور خوابوں کی تعبیر سکھائے گا۔ تاویل الاحادیث کے اصل معنی باتوں کی تہہ تک پہنچنا ہے۔ یہاں خواب کی تعبیر مراد ہے۔ ٦۔ ٢ اس سے مراد نبوت ہے جو یوسف (علیہ السلام) کو عطا کی گئی۔ یا وہ انعامات ہیں جن سے مصر میں یوسف (علیہ السلام) نوازے گئے۔ ٦۔ ٣ اس سے مراد حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی، ان کی اولاد وغیرہ ہیں، جو بعد میں انعامات الٰہی کے مستحق بنے۔ یوسف
7 ٧۔ ١ یعنی اس قصے میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت اور نبی کریم کی نبوت کی صداقت کی بڑی نشانیاں ہیں۔ بعض مفسرین نے یہاں ان بھائیوں کے نام اور ان کی تفصیل بھی بیان کی ہے۔ یوسف
8 ٨۔ ١ ' اس کا بھائی ' سے مراد بنیامین ہے۔ ٨۔ ٢ یعنی ہم دس بھائی طاقتور جماعت اور اکثریت میں ہیں، جب کہ یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین (جن کی ماں الگ تھی) صرف دو ہیں، اس کے باوجود باپ کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہیں۔ ٨۔ ٣ یہاں ضلال سے مراد غلطی ہے جو ان کے زعم کے مطابق باپ سے یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین سے زیادہ محبت کی صورت میں صادر ہوئی۔ یوسف
9 ٩۔ ١ اس سے مراد تائب ہوجانا ہے یعنی کنوئیں میں ڈال کر یا قتل کر کے اللہ سے اس گناہ کے لئے توبہ کرلیں گے۔ یوسف
10 ١٠۔ ١ جب کنویں کو اور غَیَابَۃ اس کی تہ اور گہرائی کو کہتے ہیں، کنواں ویسے بھی گہرا ہی ہوتا ہے اور اس میں گری ہوئی چیز کسی کو نظر نہیں آتی۔ جب اس کے ساتھ کنویں کی گہرائی کا بھی ذکر کیا تو گویا مبالغے کا اظہار کیا۔ ١٠۔ ٢ یعنی آنے جانے والے نو وارد مسافر، جب پانی کی تلاش میں کنوئیں پر آئیں گے تو ممکن ہے کسی کے علم میں آ جائے کہ کنوئیں میں کوئی انسان گرا ہوا ہے اور وہ اسے نکال کر اپنے ساتھ لے جائیں۔ یہ تجویز ایک بھائی نے ازراہ شفقت پیش کی تھی۔ قتل کے مقابلے میں یہ تجویز واقعتا ہمدردی کے جذبات ہی کی حامل ہے۔ بھائیوں کی آتش حسد اتنی بھڑکی ہوئی تھی کہ یہ تجویز بھی اس نے ڈرتے ڈرتے ہی پیش کی کہ اگر تمہیں کچھ کرنا ہی ہے تو یہ کام اس طرح کرلو۔ یوسف
11 ١١۔ ١ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس سے قبل بھی برداران یوسف (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کو اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی ہوگی اور باپ نے انکار کردیا ہوگا۔ یوسف
12 ١٢۔ ١ کھیل اور تفریح کا رجحان، انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ اسی لئے جائز کھیل اور تفریح پر اللہ تعالیٰ نے کسی دور میں بھی پابندی عائد نہیں کی۔ اسلام میں بھی اجازت ہے لیکن مشروط۔ یعنی ایسے کھیل اور تفریح جائز جن میں شرع قباحت نہ ہو یا محرمات تک پہنچنے کا ذریعہ بنیں۔ چنانچہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بھی کھیل کود کی حد تک کوئی اعتراض نہیں کیا۔ البتہ یہ خدشہ ظاہر کیا کہ تم کھیل کود میں مدہوش ہوجاؤ اور اسے بھڑیا کھا جائے، کیونکہ کھلے میدانوں اور صحراؤں میں وہاں بھیڑیئے عام تھے۔ یوسف
13 یوسف
14 ١٤۔ ١ یہ باپ کو یقین دلایا جا رہا ہے کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ہم اتنے بھائیوں کی موجودگی میں بھیڑیا یوسف (علیہ السلام) کو کھا جائے۔ یوسف
15 ١٥۔ ١ قرآن کریم نہایت اختصار کے ساتھ واقعہ بیان کر رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق انہوں نے یوسف (علیہ السلام) کو کنویں میں پھینک دیا، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تسلی اور حوصلے کے لئے وحی کی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہم تیری حفاظت ہی نہیں کریں گے بلکہ ایسے بلند مقام پر تجھے فائز کریں گے کہ یہ بھائی بھیک مانگتے ہوئے تیری خدمت میں حاضر ہونگے اور پھر تو انھیں بتائے گا کہ تم نے اپنے ایک بھائی کے ساتھ اس طرح سنگ دلانہ معاملہ کیا تھا، جسے سن کر وہ حیران اور پشیمان ہوجائیں گے۔ حضرت یوسف علیہ الاسلام اس وقت اگرچہ بچے تھے، لیکن جو بچے، نبوت پر سرفراز ہونے والے ہوں، ان پر بچپن میں بھی وحی آ جاتی ہے جیسے حضرت عیسیٰ و یحیٰی وغیرہ علیہم السلام پر آئی۔ یوسف
16 یوسف
17 ١٧۔ ١ یعنی اگر ہم آپ کے نزدیک معتبر اور اہل صدق ہوتے، تب بھی یوسف (علیہ السلام) کے معاملے میں آپ ہماری بات کی تصدیق نہ کرتے، اب تو ویسے ہماری حیثیت متہم افراد کی سی ہے، اب آپ کس طرح ہماری بات کی تصدیق کریں گے؟ یوسف
18 ١٨۔ ١ کہتے ہیں کہ ایک بکری کا بچہ ذبح کر کے یوسف (علیہ السلام) کی قمیص خون میں لت پت کرلی اور یہ بھول گئے کہ بھیڑیا اگر یوسف (علیہ السلام) کو کھاتا تو قمیص کو بھی پھٹنا تھا، قمیص ثابت کی ثابت ہی تھی جس کو دیکھ کر، علاوہ ازیں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خواب اور فراست نبوت سے اندازہ لگا کر حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ واقعہ اس طرح پیش نہیں آیا جو تم بیان کر رہے ہو، بلکہ تم نے اپنے دلوں سے ہی یہ بات بنا لی ہے، حضرت یعقوب اس کی تفصیل سے بے خبر تھے، اس لئے سوائے صبر کے کوئی چارہ اور اللہ کی مدد کے علاوہ کوئی سہارا نہ تھا۔ ١٨۔ ١ منافقین نے جب حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگائی تو انہوں نے بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے افہام وارشاد کے جواب میں فرمایا تھا۔ واللہ لا اجدلی ولالکم مثلا الا ابا یوسف (فصبر جمیل واللہ المستعان علی ماتصفون) اللہ کی قسم میں اپنے اور آپ لوگوں کے لیے وہی مثال پاتی ہوں جس سے یوسف (علیہ السلام) کے باپ یعقوب (علیہ السلام) کو سابقہ پیش آیا تھا اور انہوں نے فصبر جمعیل کہہ کر صبر کا راستہ اختیار کیا تھا، یعنی میرے لیے بھی سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں۔ یوسف
19 ١٩۔ ١ وارد اس شخص کو کہتے ہیں جو قافلے کے لئے پانی وغیرہ انتظام کرنے کی غرض سے قافلے کے آگے آگے چلتا ہے تاکہ مناسب جگہ دیکھ کر قافلے کو ٹھیرایا جا سکے یہ وراد (جب کنویں پر آیا اور اپنا ڈول نیچے لٹکایا تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اس کی رسی پکڑ لی، وارد نے ایک خوش شکل بچہ دیکھا تو اسے اوپر کھنچ لیا اور بڑا خوش ہوا۔ ١٩۔ ٢ بضاعۃ سامان تجارت کو کہتے ہیں اسروہ کا فاعل کون ہے؟ یعنی یوسف کو سامان تجارت سمجھ کر چھپانے والا کون ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ حافظ ابن کثیر نے برادران یوسف (علیہ السلام) کو فاعل قرار دیا ہے مطلب یہ ہے کہ جب ڈول کے ساتھ یوسف (علیہ السلام) بھی کنویں سے باہر نکل آئے تو وہاں یہ بھائی بھی موجود تھے، تاہم انہوں نے اصل حقیقت کو چھپائے رکھا، یہ نہیں کہا کہ یہ ہمارا بھائی ہے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھی قتل کے اندیشے سے اپنا بھائی ہونا ظاہر نہیں کیا بلکہ بھائیوں نے انھیں فروختنی قرار دیا تو خاموش رہے اور اپنا فروخت ہونا پسند کر لایا۔ چنانچہ اس وارد نے اہل قافلہ کو یہ خوشخبری سنائی کہ ایک بچہ فروخت ہو رہا ہے۔ مگر یہ بات سیاق سے میل کھاتی نظر نہیں آتی۔ ان کے برخلاف امام شوکانی نے اسروہ کا فاعل وارد اور اس کے ساتھیوں کو قرار دیا ہے کہ انہوں نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ یہ بچہ کنویں سے نکلا ہے کیونکہ اس طرح تمام اہل قافلہ اس سامان تجارت میں شریک ہوجاتے بلکہ اہل قافلہ کو انہوں نے جا کر یہ بتلایا کہ کنویں کے مالکوں نے یہ بچہ ان کے سپرد کیا ہے تاکہ اسے وہ مصر جا کر بیچ دیں۔ مگر اقرب ترین بات یہ ہے کہ اہل قافلہ نے بچے کو سامان تجارت قرار دے کر چھپا لیا کہ کہیں اس کے عزیز واقارب اس کی تلاش میں نہ آ پہنچیں۔ اور یوں لینے کے دینے پڑجائیں کیونکہ بچہ ہونا اور کنویں میں پایا جانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ کہیں قریب ہی کا رہنے والا ہے اور کھیلتے کودتے آ گرا ہے۔ ١٩۔ ٣ یعنی یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ یہ جو کچھ ہو رہا تھا، اللہ کو اس کا علم تھا۔ لیکن اللہ نے یہ سب کچھ اس لیے ہونے دیا کہ تقدیر الہی بروئے کار آئے۔ علاوہ ازیں اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اشارہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو بتلا رہا ہے کہ آپ کی قوم کے لوگ یقیناً ایذا پہنچا رہے ہیں اور میں انھیں اس سے روکنے پر قادر بھی ہوں۔ لیکن میں اسی طرح انھیں مہلت دے رہا ہوں جس طرح برادران یوسف (علیہ السلام) کو مہت دی تھی۔ اور پھر بالآخر میں نے یوسف (علیہ السلام) کو مصر کے تخت پر جا بٹھایا اور اس کے بھائیوں کو عاجز ولاچار کر کے اس کے دربار میں کھڑا کردیا اے پیغمبر ایک وقت آئے گا کہ آپ بھی اسی طرح سرخرو ہوں گے اور سرداران قریش آپ کے اشارہ ابرو اور جنبش لب کے منتظر ہوں گے۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر یہ وقت جلد ہی آ پہنچا۔ یوسف
20 ٢٠۔ ١ بھائیوں یا دوسری تفسیر کی رو سے اہل قافلہ نے بیچا۔ ٢٠۔ ٢ کیونکہ گری پڑی چیز انسان کو یوں ہی کسی محنت کے بغیر مل جاتی ہے، اس لئے چاہے وہ کتنی بھی قیمتی ہو، اس کی صحیح قدر وقیمت انسان پر واضح نہیں ہوتی۔ یوسف
21 ٢١۔ ١ کہا جاتا ہے کہ مصر پر اس وقت ریان بن ولید حکمران تھا اور یہ عزیز مصر، جس نے یوسف (علیہ السلام) کو خریدا اس کا وزیر خزانہ تھا، اس کی بیوی کا نام بعض نے راعیل اور بعض نے زلیخا بتلایا ہے واللہ اعلم۔ ٢١۔ ٢ یعنی جس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو کنویں سے ظالم بھائیوں سے نجات دی، اسی طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو سرزمین مصر میں ایک معقول اچھا ٹھکانا عطا کیا۔ یوسف
22 ٢٢۔ ١ یعنی نبوت یا نبوت سے قبل کی دانائی اور قوت فیصلہ۔ یوسف
23 ٢٣۔ ١ یہاں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا نیا امتحان شروع ہوا عزیز مصر کی بیوی، جس کو اس کے خاوند نے تاکید کی تھی کہ یوسف (علیہ السلام) کو اکرام و احترام کے ساتھ رکھے، وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے حسن و جمال پر فریفتہ ہوگئی اور انھیں دعوت گناہ دینے لگی، جسے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ٹھکرا دیا۔ یوسف
24 ٢٤۔ ١ بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ( لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْہَانَ رَبِّہٖ) 12۔ یوسف :24) کا تعلق ماقبل یعنی وھم بھا سے نہیں بلکہ اس کا جواب محذوف ہے یعنی لولا ان راٰ برھان ربہ لفعل ماھم بہ اگر یوسف (علیہ السلام) اللہ کی دلیل نہ دیکھتے تو جس چیز کا قصد کیا تھا وہ کر گزرتے۔ یہ ترجمہ اکثر مفسرین کی تفسیر کے مطابق ہے اور جن لوگوں نے اسے لَوْ لَا کے ساتھ جوڑ کر یہ معنی بیان کئے ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) نے قصد ہی نہیں کیا، ان مفسرین نے اسے عربی اسلوب کے خلاف قرار دیا ہے۔ اور یہ معنی بیان کئے ہیں کہ قصد تو یوسف (علیہ السلام) نے بھی کرلیا تھا لیکن ایک تو یہ اختیاری نہیں تھا بلکہ عزیز مصر کی بیوی کی ترغیب اور دباؤ اس میں شامل تھا۔ دوسرے یہ کہ گناہ کا قصد کرلینا عصمت کے خلاف نہیں ہے، اس پر عمل کرنا عصمت کے خلاف ہے (فتح القدیر، ابن کثیر) مگر محققین اہل تفسیر نے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) بھی اس کا قصد کرلیتے۔ اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھے ہوتے۔ یعنی انہوں نے اپنے رب کی برہان دیکھ رکھی تھی۔ اس لیے عزیز مصر کی بیوی کا قصد ہی نہیں کیا۔ بلکہ دعوت گناہ ملتے ہی پکار اٹھے معاذ اللہ۔ البتہ قصد نہ کرنے کے یہ معنی نہیں کہ نفس میں ہیجان اور تحریک ہی پیدا نہیں ہوئی۔ ہیجان اور تحریک پیدا ہوجانا الگ بات ہے۔ اور قصد کرلینا الگ بات ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر سرے سے ہیجان اور تحریک ہی پیدا نہ ہو تو ایسے شخص کا گناہ سے بچ جانا کوئی کمال نہیں۔ کمال تو تب ہی ہے کہ نفس کے اندر داعیہ اور تحریک پیدا ہو اور پھر انسان اس پر کنٹرول کرے اور گناہ سے بچ جائے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اسی کمال صبر و ضبط کا بے مثال نمونہ پیش فرمایا۔ ٢٤۔ ٢ یہاں پہلی تفسیر کے مطابق لولاء کا جواب محذوف ہے لفعل ماھم بہ یعنی اگر یوسف (علیہ السلام) رب کی برہان دیکھتے تو جو قصد کیا تھا کر گزرتے۔ یہ برہان کیا تھی؟ اس میں مختلف اقوال ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ رب کی طرف سے کوئی ایسی چیز آپ کو دکھائی گئی کہ اسے دیکھ کر آپ نفس کے داعیئے کے دبانے اور رد کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کی اسی طرح حفاظت فرماتا ہے۔ ٢٤۔ ٣ یعنی جس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو برہان دکھا کر برائی یا اس کے ارادے سے بچا لیا، اسی طرح ہم نے اسے ہر معاملے میں برائی اور بے حیائی کی باتوں سے دور رکھنے کا اہتمام کیا۔ کیونکہ وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔ یوسف
25 ٢٥۔ ١ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دیکھا کہ وہ عورت برائی کے ارتکاب پر مصر ہے، تو وہ باہر نکلنے کے لئے دروازے کی طرف دوڑے، یوسف (علیہ السلام) کے پیچھے انھیں پکڑنے کے لئے عورت بھی دوڑی۔ یوں دونوں دروازے کی طرف لپکے اور دوڑے۔ ٢٥۔ ٢ یعنی خاوند کو دیکھتے ہی خود معصوم بن گئی اور مجرم تمام تر یوسف (علیہ السلام) کو قرار دے کر ان کے لئے سزا بھی تجویز کردی۔ حالانکہ صورت حال اس کے برعکس تھی، مجرم خود تھی جب کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) بالکل بے گناہ اور برائی سے بچنے کے خواہش مند اور اس کے لئے کوشاں تھے۔ یوسف
26 ٢٦۔ ١ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ وہ عورت تمام الزام ان پر ہی دھر رہی ہے صورت حال واضح کردی اور کہا کہ مجھے برائی پر مجبور کرنے والی یہی ہے۔ میں اس سے بچنے کے لئے باہر دروازے کی طرف بھاگتا ہوا آیا ہوں۔ ٢٦۔ ٢ یہ انہی کے خاندان کا کوئی سمجھدار آدمی تھا جس نے یہ فیصلہ کیا۔ فیصلے کو یہاں شہادت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا، کیونکہ معاملہ ابھی تحقیق طلب تھا۔ شیر خوار بچے کی شہادت والی بات مستند روایات سے ثابت نہیں۔ صحیحین میں تین شیر خوار بچوں کے بات کرنے کی حدیث ہے جن میں یہ چوتھا نہیں ہے جس کا ذکر اس مقام پر کیا جاتا ہے۔ یوسف
27 یوسف
28 ٢٨۔ ١ یہ عزیز مصر کا قول ہے جو اس نے اپنی بیوی کی حرکت قبیحہ دیکھ کر عورتوں کی بابت کہا، یہ نہ اللہ کا قول ہے نہ ہر عورت کے بارے میں صحیح، اس لئے اسے ہر عورت پر چسپاں کرنا اور اس بنیاد پر عورت کو مکر وفریب کا پتلا باور کرانا، قرآن کا ہرگز منشا نہیں ہے۔ جیسا کہ بعض لوگ اس جملے سے عورت کے بارے میں یہ تاثر دیتے ہیں۔ یوسف
29 ٢٩۔ ١ یعنی اس کا چرچا مت کرو۔ ٢٩۔ ٢ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عزیز مصر پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی پاک دامنی واضح ہوگئی تھی۔ یوسف
30 ٣٠۔ ١ جس طرح خوشبو کو پردوں سے چھپا یا نہیں جا سکتا، عشق و محبت کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ گو عزیز مصر نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اسے نظر انداز کرنے کی تلقین کی اور یقیناً آپ کی زبان مبارک پر اس کا کبھی ذکر بھی نہیں آیا ہوگا اس کے باوجود یہ واقعہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا اور زنان مصر میں اس کا چرچا عام ہوگیا، عورتیں تعجب کرنے لگیں کی عشق کرنا تھا تو کسی پیکر حسن و جمال سے کیا جاتا، یہ کیا اپنے ہی غلام پر زلیخا فریفتہ ہوگئی، یہ تو اس کی ہی نادانی ہے۔ یوسف
31 ٣١۔ ١ زنان مصر کی غائبانہ باتوں اور طعن و ملامت کو مکر سے تعبیر کیا گیا، جس کی وجہ سے بعض مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ ان عورتوں کو بھی یوسف کے بے مثال حسن و جمال کی اطلاعات پہنچ چکی تھیں۔ چنانچہ وہ اس پیکر حسن کو دیکھنا چاہتی تھیں چنانچہ وہ اپنے اس مکر خفیہ تدبیر میں کامیاب ہوگئیں اور امرأۃ العزیز نے یہ بتلانے کے لیے کہ میں جس پر فریفتہ ہوئی ہوں، محض ایک غلام یا عام آدمی نہیں ہے بلکہ ظاہر و باطن کے ایسے حسن سے آراستہ ہے کہ اسے دیکھ کر نقد دل و جان ہار جانا کوئی انہونی بات نہیں، لہذا ان عورتوں کی ضیافت کا اہتمام کیا اور انھیں دعوت طعام دی۔ ٣١۔ ٢ یعنی ایسی نشست گاہیں بنائیں جن میں تکئے لگے ہوئے تھے، جیسا کہ آج کل بھی عربوں میں ایسی فرشی نشست گاہیں عام ہیں۔ حتی کہ ہوٹلوں اور ریستورانوں میں بھی ان کا اہتمام ہے۔ ٣١۔ ٣ یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) کو پہلے چھپائے رکھا، جب سب عورتوں نے ہاتھوں میں چھریاں پکڑ لیں تو امراۃ العزیز (زلیخا) نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو مجلس میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ ٣١۔ ٤ یعنی حسن یوسف (علیہ السلام) کی جلوہ آرائی دیکھ کر ایک تو ان کے عظمت و جلال شان کا اعتراف کیا اور دوسرے، ان پر بے خودی کی ایسی کیفیت طاری ہوئی کہ چھریاں اپنے ہاتھوں پر چلا لیں۔ جس سے ان کے ہاتھ زخمی اور خون آلودہ ہوگئے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو نصف حسن دیا گیا ہے (صحیح مسلم) ٣١۔ ٥ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ فرشتے شکل وصورت میں انسان سے بہتر یا افضل ہیں۔ کیونکہ فرشتوں کو تو انسانوں نے دیکھا ہی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں انسان کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں صراحت کی ہے کہ ہم نے اسے احسن تقویم بہترین انداز میں پیدا کیا ہے۔ ان عورتوں نے بشریت کی نفی محض اس لیے کی کہ انہوں نے حسن وجمال کا ایک ایسا پیکر دیکھا تھا جو انسانی شکل میں کبھی ان کی نظروں سے نہیں گزرا تھا اور انہوں نے فرشتہ اس لیے قرار دیا کہ عام انسان یہی سمجھتا ہے فرشتے ذات وصفات کے لحاظ سے ایسی شکل رکھتے ہیں جو انسانی شکل سے بالاتر ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ انبیاء کی غیر معمولی خصوصیات و امتیازات کی بناء پر انھیں انسانیت سے نکال کر نورانی مخلوق قرار دینا، ہر دور کے ایسے لوگوں کا شیوہ رہا ہے جو نبوت اور اس کے مقام سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ یوسف
32 ٣٢۔ ١ جب زلیخا نے دیکھا اس کی چال کامیاب رہی ہے اور عورتیں یوسف (علیہ السلام) کے جلوہ حسن آراء سے مد ہوش ہوگئیں تو کہنے لگی، کہ اس کی ایک جھلک سے تمہارا یہ حال ہوگیا ہے تو کیا تم اب بھی مجھے اس کی محبت میں گرفتار ہونے پر طعنہ زنی کروگی؟ یہی وہ غلام ہے جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی ہو۔ ٣٢۔ ٢ عورتوں کی مد ہوشی دیکھ کر اس کو مزید حوصلہ ہوگیا اور شرم و حیا کے سارے حجاب دور کر کے اس نے اپنے برے ارادے کا ایک مرتبہ پھر اظہار کیا۔ یوسف
33 ٣٣۔ ١ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے یہ دعا اپنے دل میں کی۔ اس لئے کہ ایک مومن کے لئے دعا بھی ایک ہتھیار ہے۔ حدیث میں آتا ہے، سات آدمیوں کو قیامت والے دن عرش کا سایہ عطا فرمائے گا، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جسے ایک ایسی عورت دعوت گناہ دے جو حسن و جمال سے بھی آراستہ ہو اور جاہ و منصب کی حامل ہو۔ لیکن وہ اس کے جواب میں کہہ دے کہ میں تو ' اللہ ' سے ڈرتا ہوں (صحیح بخاری) یوسف
34 یوسف
35 ٣٥۔ ١ عفت و پاک دامنی واضح ہوجانے کے باوجود یوسف (علیہ السلام) کو حوالہ زنداں کرنے میں یہی مصلحت ان کے پیش نظر ہو سکتی تھی کہ عزیز مصر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اپنی بیوی سے دور رکھنا چاہتا ہوگا تاکہ وہ دوبارہ یوسف (علیہ السلام) کو اپنے دام میں پھنسانے کی کوشش نہ کرے جیسا کہ وہ ایسا ارادہ رکھتی تھی۔ یوسف
36 ٣٦۔ ١ یہ دونوں نوجوان شاہی دربار سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک شراب پلانے پر معمور تھا اور دوسرا نان بھائی تھا، کسی حرکت پر دونوں کو قید میں ڈال دیا تھا۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اللہ کے پیغمبر تھے، دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ عبادت و ریاضت تقویٰ و راست بازی اور اخلاق و کردار کے لحاظ سے جیل میں دیگر تمام قیدیوں سے ممتاز تھے علاوہ ازیں خوابوں کی تعبیر کا خصوصی علم اور ملکہ اللہ نے ان کو عطا فرمایا تھا۔ ان دونوں نے خواب دیکھا تو قدرتی طور پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف انہوں نے رجوع کیا اور کہا ہمیں آپ محسنین میں سے نظر آتے ہیں، ہمیں ہمارے خوابوں کی تعبیر بتائیں۔ محسن کے ایک معنی بعض نے یہ بھی کئے ہیں کہ خواب کی تعبیر آپ اچھی کرلیتے ہیں۔ یوسف
37 ٣٧۔ ١ یعنی میں جو تعبیر بتلاؤں گا، وہ کاہنوں اور نجومیوں کی طرح ظن و تخمین پر مبنی نہیں ہوگی، جس میں خطا اور نیکی دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ بلکہ میری تعبیر یقینی علم پر مبنی ہوگی جو اللہ کی طرف سے مجھے عطا کیا گیا ہے، جس میں غلطی کا امکان ہی نہیں۔ ٣٧۔ ٢ یہ الہام اور علم الٰہی (جن سے آپ کو نوازا گیا) کی وجہ بیان کی جا رہی ہے کہ میں نے ان لوگوں کا مذہب چھوڑ دیا جو اللہ اور آخرت پر یقین نہیں رکھتے، اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ کے یہ انعامات مجھ پر ہوئے۔ یوسف
38 ٣٨۔ ١ اجداد کو بھی آباء کہا، اس لئے کہ وہ بھی آباء ہی ہیں۔ پھر ترتیب میں جد اعلٰی (ابراہیم علیہ السلام) پھر جد اقرب (اسحاق علیہ السلام) اور پھر باپ (یعقوب علیہ السلام) کا ذکر کیا، یعنی پہلے۔ پہلی اصل، پھر دوسری اصل اور پھر تیسری اصل بیان کی۔ ٣٨۔ ٢ وہی توحید کی دعوت اور شرک کی تردید ہے جو ہر نبی کی بنیادی اور اولین تعلیم اور دعوت ہوتی ہے۔ یوسف
39 ٣٩۔ ١ قید خانے کے ساتھی۔ اسلئے قرار دیا کہ یہ سب ایک عرصے سے جیل میں محبوس چلے آ رہے تھے۔ ٣٩۔ ٢ تفریق ذات، صفات اور عدد کے لحاظ سے ہے۔ یعنی وہ رب، جو ذات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے متفرق، صفات میں ایک دوسرے سے مختلف اور تعداد میں باہم متنافی ہیں، وہ بہتر ہیں یا اللہ، جو اپنی ذات و صفات میں متفرد ہے، جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور وہ سب پر غالب اور حکمران ہے۔ یوسف
40 ٤٠۔ ١ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ان کا نام معبود تم نے خود ہی رکھ لیا ہے، دراں حالیکہ وہ معبود ہیں نہ ان کی بابت کوئی دلیل اللہ نے اتاری ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان معبودوں کے جو مختلف نام تم نے تجویز کر رکھے ہیں۔ مثلا خواجہ غریب نواز، گنج بخش کرنی والا، کرماں والا وغیرہ یہ سب تمہارے خود ساختہ ہیں۔ ان کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں اتاری۔ ٤٠۔ ٢ یہی دین، جس کی طرف میں تمہیں بلا رہا ہوں، جس میں صرف ایک اللہ کی عبادت ہے، درست اور رقیم ہے جس کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ ٤٠۔ ٣ جس کی وجہ سے اکثر لوگ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں (وَمَاوَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ باللّٰہِ اِلَّا وَہُمْ مُّشْرِکُوْنَ) 12۔ یوسف :106) ' ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں ' اور فرمایا (وَمَآ اَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ) 12۔ یوسف :103) اے پیغمبر تیری خواہش کے باوجود اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ یوسف
41 ٤١۔ ١ توحید کا وعظ کرنے کے بعد اب حضرت یوسف (علیہ السلام) ان کے بیان کردہ خوابوں کی تعبیر بیان فرما رہے ہیں۔ ٤١۔ ٢ یہ وہی شخص ہے جس نے خواب میں اپنے کو انگور کا شیرہ کرتے ہوئے دیکھا تھا تاہم آپ نے دونوں میں سے کسی ایک کی تعبین نہیں کی تاکہ مرنے والا پہلے ہی غم و حزن میں مبتلا نہ ہوجائے۔ ٤١۔ ٣ یہ وہ شخص ہے جس نے اپنے سر پر خواب میں روٹیاں اٹھائے دیکھا تھا۔ ٤١۔ ٤ یعنی تقدیر الٰہی میں پہلے سے یہ بات ثبت ہے اور جو تعبیر میں بتلائی ہے۔ لا محالہ واقع ہو کر رہے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ ' خواب، جب تک اس کی تعبیر نہ کی جائے، پرندے کے پاؤں پر ہے۔ جب اس کی تعبیر کردی جائے تو واقع ہوجاتا ہے ' (مسند احم بحوالہ ابن کثیر) یوسف
42 ٤٢۔ ١ بضع کا لفظ تین سے لے کر نو تک عدد کے لیے بولا جاتا ہے، وہب بن منبہ کا قول ہے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) آزمائش میں اور یوسف (علیہ السلام) قید خانے میں سات سال رہے اور بخت نصر کا عذاب بھی سات سال رہا اور بعض کے نزدیک بارہ سال اور بعض کے نزدیک چودہ سال قید خانے میں رہے۔ واللہ اعلم۔ یوسف
43 یوسف
44 ٤٤۔ ١ یہ خواب اس بادشاہ کو آیا، عزیز مصر جس کا وزیر تھا۔ اللہ تعالیٰ کو اس خواب کے ذریعے سے یوسف (علیہ السلام) کی رہائی عمل میں لانی تھی۔ چنانچہ بادشاہ کے درباریوں، کاہنوں اور نجومیوں نے اس خواب پریشان کی تعبیر بتلانے سے عجز کا اظہار کردیا، بعض کہتے ہیں کہ نجومیوں کے اس قول کا مطلب مطلقا علم تعبیر کی نفی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ علم تعبیر سے وہ بے خبر نہیں تھے نہ اس کی انہوں نے نفی کی، انہوں نے صرف خواب کی تعبیر بتلانے سے لا علمی کا اظہار کیا۔ یوسف
45 ٤٥۔ ١ یہ قید کے دو ساتھیوں میں سے ایک نجات پانے والا تھا، جسے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہا تھا کہ اپنے آقا سے میرا ذکر کرنا، تاکہ میری رہائی کی صورت بن سکے۔ اسے اچانک یاد آیا اور اس نے کہا کہ مجھے مہلت دو میں تمہیں آ کر اس کی تعبیر بتلاتا ہوں، چنانچہ وہ نکل کر سیدھا یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچا اور خواب کی تفصیل بتا کر اس کی تعبیر کی بابت پوچھا۔ یوسف
46 یوسف
47 یوسف
48 ٤٨۔ ١ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے علم تعبیر سے بھی نوازی تھا، اس لئے وہ اس خواب کی تہ تک فورا پہنچ گئے انہوں نے موٹی تازہ سات گایوں سے سات سال مراد لئے جن میں خوب پیداوار ہوگی، اور سات دبلی پتلی گایوں سے اس کے برعکس سات سال خشک سالی کے۔ اسی طرح سات سبز خوشوں سے مراد لیا کہ زمین خوب پیداوار دے گی اور سات خشک خوشوں کا مطلب یہ ہے کہ ان سات سالوں میں زمین کی پیداوار نہیں ہوگی۔ اور پھر اس کے لئے تدبیر بھی بتلائی کہ سات سال تم متواتر کاشتکاری کرو اور جو غلہ تیار ہو، اسے کاٹ کر بالیوں سمیت ہی سنبھال کر رکھو تاکہ ان میں غلہ زیادہ محفوظ رہے، پھر جب سات سال قحط کے آئیں گے تو یہ غلہ تمہارے کام آئے گا جس کا ذخیرہ تم اب کرو گے۔ ٤٨۔ ٢ مِمَّا تُحصنُوْنَ سے مراد وہ دانے ہیں جو دوبارہ کاشت کے لئے محفوظ کر لئے جاتے ہیں۔ یوسف
49 ٤٩۔ ١ یعنی قحط کے سال گزرنے کے بعد پھر خوب بارش ہوگی، جس کے نتیجے میں کثرت پیداوار ہوگی اور تم انگوروں سے شیرہ نچوڑو گے، زیتوں سے تیل نکالو گے اور جانوروں سے دودھ دوہو گے۔ خواب کی اس تعبیر کو خواب سے کیسی لطیف مناسبت حاصل ہے، جسے صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ ایسا صحیح وجدان، ذوق سلیم اور ملکہ راسخ عطا فرما دے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو عطا فرمایا۔ یوسف
50 ٥٠۔ ١ مطلب یہ ہے کہ جب وہ شخص تعبیر دریافت کر کے بادشاہ کے پاس گیا اور اسے تعبیر بتائی تو وہ اس تعبیر سے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کی بتلائی ہوئی تدبیر سے بڑا متاثر ہوا اور اس نے اندازہ لگا لیا کہ یہ شخص، جسے ایک عرصے سے حوالہ زنداں کیا ہوا ہے، غیر معمولی علم و فضل اور اعلٰی صلاحیتوں کا حامل ہے۔ چنانچہ بادشاہ نے انھیں دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ ٥٠۔ ٢ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ بادشاہ اب مائل بہ کرم ہے، تو انہوں نے اس طرح محض عنایت خسوانہ سے جیل سے نکلنے کو پسند نہیں فرمایا، بلکہ اپنے کردار کی رفعت اور پاک دامنی کے اثبات کو ترجیح دی تاکہ دنیا کے سامنے آپ کا کردار اور اس کی بلندی واضح ہوجائے۔ کیونکہ داعی الی اللہ کے لئے یہ عفت و پاک بازی اور رفعت کردار بہت ضروری ہے۔ یوسف
51 ٥١۔ ١ بادشاہ کے استفسار پر تمام عورتوں نے یوسف (علیہ السلام) کی پاک دامنی کا اعتراف کیا۔ ٥١۔ ٢ اب زلیخا کے لئے بھی یہ اعتراف کئے بغیر چارہ نہیں رہا کہ یوسف (علیہ السلام) بے قصور ہے اور یہ پیش دستی میری ہی طرف سے ہوئی تھی، اس فرشتہ صفت انسان کا اس لغزش سے کوئی تعلق نہیں۔ یوسف
52 ٥٢۔ ١ جب جیل میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ساری تفصیل بتلائی گئی تو اسے سن کر یوسف (علیہ السلام) نے کہا اور بعض کہتے ہیں کہ بادشاہ کے پاس جا کر انہوں نے یہ کہا اور بعض مفسرین کے نزدیک زلیخا کا قول ہے اور مطلب یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی غیر موجودگی میں بھی اس غلط طور پر خیانت کا ارتکاب نہیں کرتی بلکہ امانت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی غلطی کا اعتراف کرتی ہوں۔ یا یہ مطلب ہے کہ میں نے اپنے خاوند کی خیانت نہیں کی اور کسی بڑے گناہ میں واقعہ نہیں ہوئی۔ امام ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ ٥٢۔ ٢ کہ وہ اپنے مکر وفریب میں ہمیشہ کامیاب ہی رہیں، بلکہ ان کا اثر محدود اور عارضی ہوتا ہے۔ بالآخر جیت حق اور اہل حق ہی کی ہوتی ہے، گو عارضی طور پر اہل حق کو آزمائشوں سے گزرنا پڑے۔ یوسف
53 ٥٣۔ ١ اسے اگر حضرت یوسف (علیہ السلام) کا تسلیم کیا جائے تو بطور کسر نفسی کے ہے، ورنہ صاف ظاہر ہے کہ ان کی پاک دامنی ہر طرح سے ثابت ہوچکی تھی۔ اور اگر یہ عزیز مصر کا قول ہے (جیسا کہ امام ابن کثیر کا خیال ہے) تو یہ حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ اپنے گناہ کا اور یوسف (علیہ السلام) کو بہلانے اور پھسلانے کا اعتراف کرلیا۔ ٥٣۔ ٢ یہ اس نے اپنی غلطی کی یا اس کی علت بیان کی کہ انسان کا نفس ہی ایسا ہے کہ برائی پر ابھارتا ہے اور اس پر آمادہ کرتا ہے۔ ٥٣۔ ٣ یعنی نفس کی شرارتوں سے وہی بچتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، جیسا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے بچا لیا۔ یوسف
54 ٥٤۔ ١ جب بادشاہ ریان بن ولید یوسف (علیہ السلام) کے علم و فضل کے ساتھ ان کے کردار کی رفعت اور پاک دامنی بھی واضح ہوگئی، تو اسے حکم دیا کہ انھیں میرے سامنے پیش کرو، میں انھیں اپنے لئے منتخب کرنا یعنی اپنا مصاحب اور مشیر خاص بنانا چاہتا ہوں۔ ٥٤۔ ٢ مَکِیْنُ مرتبہ والا، آمِین رموز مملکت کا راز دان۔ یوسف
55 ٥٥۔ ١ خزائن خزانۃ کی جمع ہے خزانہ ایسی جگہ کو کہتے ہیں جس میں چیزیں محفوظ کی جاتی ہیں زمین کے خزانوں سے مراد وہ گودام ہیں جہاں غلہ جمع کیا جاتا ہے۔ اس کا انتظام ہاتھ میں لینے کی خواہش اس لئے ظاہر کی کہ مستقبل قریب میں (خواب کی تعبیر کی رو سے) جو قحط سالی کے ایام آنے والے ہیں، اس سے نمٹنے کے لئے مناسب انتطامات کئے جاسکیں اور غلے کی معقول مقدار بچا کر رکھی جاسکے، عام حالات میں اگرچہ عہدہ و منصب کی طلب جائز نہیں ہے، لیکن حضرت یوسف (علیہ السلام) کے اس اقدام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خاص حالات میں اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ قوم اور ملک کو جو خطرات درپیش ہیں اور ان سے نمٹنے کی اچھی صلاحیت میرے اندر موجود ہیں جو دوسروں میں نہیں ہیں، تو وہ اپنی اہلیت کے مطابق اس مخصوص عہدے اور منصب کی طلب کرسکتا ہے علاوہ ازیں حضرت یوسف (علیہ السلام) نے تو سرے سے عہدا و منصب طلب ہی نہیں کیا، البتہ جب بادشاہ مصر نے انھیں پیشکش کی تو پھر ایسے عہدے کی خواہش کی جس میں انہوں نے ملک اور قوم کی خدمت کا پہلو نمایاں دیکھا۔ ٥٥۔ ٢ حَفِیْظ میں اس کی اس طرح حفاظت کروں گا کہ اسے کسی بھی غیر ضروری مصرف میں خرچ نہیں کروں گا عَلِیْم اس کو جمع کرنے اور خرچ کرنے اور اس کے رکھنے اور نکالنے کا بخوبی علم رکھتا ہے۔ یوسف
56 ٥٦۔ ١ یعنی ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو زمین میں ایسی قدرت و طاقت عطا کی کہ بادشاہ وہی کچھ کرتا جس کا حکم حضرت یوسف (علیہ السلام) کرتے، اور سرزمین مصر میں اس طرح تصرف کرتے جس طرح انسان اپنے گھر میں کرتا ہے اور جہاں چاہتے، وہ رہتے، پورا مصر ان کے زیرنگین تھا۔ ٥٦۔ ٢ یہ گویا اجر تھا ان کے صبر کا جو بھائیوں کے ظلم و ستم پر انہوں نے کیا اور ثابت قدمی کا زلیخا کی دعوت گناہ کے مقابلے میں اختیار کی اور اس کی اولو العزمی کا جو قید خانے کی زندگی میں اپنا رکھی۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو ورغلانے کی مذموم سعی کی تھی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ بادشاہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی دعوت و تبلیغ سے مسلمان ہوگیا تھا بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ عزیز مصر، جس کا نام اطفیر تھا، فوت ہوگیا تو اس کے بعد زلیخا کا نکاح حضرت یوسف (علیہ السلام) سے ہوگیا اور دو بچے بھی ہوئے، ایک نام افرأیم اور دوسرے کا نام میشا تھا، افرأیم ہی یوشع بن نون اور حضرت ایوب (علیہ السلام) کے والد تھے (تفسیر ابن کثیر) لیکن یہ بات مستند روایت سے ثابت نہیں اس لئے نکاح والی بات صحیح معلوم نہیں ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں اس عورت سے جس کردار کا مظاہرہ ہوا، اس کے ہوتے ہوئے ایک نبی کے حرم سے اس کی وابستگی، نہایت نامناسب بات لگتی ہے۔ یوسف
57 یوسف
58 ٥٨۔ ١ یہ اس وقت کا وقع ہے جب خوش حالی کے سات سال گزرنے کے بعد قحط سالی شروع ہوگئی جس نے ملک مصر کے تمام علاقوں اور شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، حتیٰ کہ کنعان تک بھی اس کے اثرات جا پہنچے جہاں حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی رہائش پذیر تھے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے حسن تدبیر سے اس قحط سالی سے نمٹنے کے لئے جو انتظامات کئے تھے وہ کام آئے اور ہر طرف سے لوگ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس غلہ لینے کے لئے آرہے تھے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی یہ شہرت کنعان تک بھی جا پہنچی کہ مصر کا بادشاہ اس طرح غلہ فروخت کر رہا ہے۔ چنانچہ باپ کے حکم پر یہ بردران یوسف (علیہ السلام) بھی گھر کی پونجی لے کر غلے کے حصول کے لئے دربار شاہی میں پہنچ گئے جہاں حضرت یوسف (علیہ السلام) تشریف فرما تھے، جنہیں یہ بھائی تو نہ پہچان سکے لیکن یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا۔ یوسف
59 ٥٩۔ ١ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے انجان بن کر جب اپنے بھائیوں سے باتیں پوچھیں تو انہوں نے جہاں اور سب کچھ بتایا، یہ بھی بتا دیا کہ ہم دس بھائی اس وقت یہاں موجود ہیں۔ لیکن ہمارے دو بھائی (یعنی دوسری ماں سے) اور بھی ہیں۔ ان میں سے ایک تو جنگل میں ہلاک ہوگیا اور اس کے دوسرے بھائی کو والد نے اپنی تسلی کے لئے اپنے پاس رکھا ہے، اسے ہمارے ساتھ نہیں بھیجا۔ جس پر حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہا کہ آئندہ اسے بھی ساتھ لے کر آنا، دیکھتے نہیں کہ میں ناپ بھی پورا دیتا ہوں اور مہمان نوازی اور خاطر مدارت بھی خوب کرتا ہوں۔ یوسف
60 ٦٠۔ ١ ترغیب کے ساتھ یہ دھمکی ہے کہ اگر گیا رہویں بھائی کو ساتھ نہ لائے تو نہ تمہیں غلہ ملے گا نہ میری طرف سے اس خاطر مدارت کا اہتمام ہوگا۔ یوسف
61 ٦١۔ ١ یعنی ہم اپنے باپ کو اس بھائی کو لانے کے لئے پھسلائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ ہم اس میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یوسف
62 ٦٢۔ ١ فِتْیَان (نوجوانوں) سے مراد یہاں وہ نوکر چاکر اور خادم و غلام ہیں جو دربار شاہی میں مامور تھے۔ ٦٢۔ ٢ اس سے مراد وہ پونجی ہے جو غلہ خریدنے کے لئے برادران یوسف (علیہ السلام) ساتھ لائے تھے، پونجی چپکے سے ان کے سامانوں میں اس لئے رکھوا دی کہ ممکن ہے دوبارہ آنے کے لئے ان کے پاس مذید پونجی نہ ہو تو یہی پونجی لے کر آجائیں۔ یوسف
63 ٦٣۔ ١ مطلب یہ ہے کہ آئندہ کے لئے غلہ بنیامین کے بھیجنے کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر یہ ساتھ نہیں جائے گا تو غلہ نہیں ملے گا۔ اس لئے اسے ضرور ساتھ بھجیں تاکہ ہم دوبارہ بھی اسی طرح غلہ مل سکے، جس طرح اس دفعہ ملا ہے، اور اس طرح کا اندیشہ نہ کریں جو یوسف (علیہ السلام) کو بھیجتے ہوئے کیا تھا، ہم اس کی حفاظت کریں گے۔ یوسف
64 ٦٤۔ ١ یعنی تم نے یوسف (علیہ السلام) کو بھی ساتھ لے جاتے وقت اسی طرح حفاظت کا وعدہ کیا تھا لیکن جو کچھ ہوا وہ سامنے ہے، اب میں تمہارا کس طرح اعتبار کروں۔ ٦٤۔ ٢ تاہم چونکہ غلے کی شدید ضرورت تھی۔ اس لئے اندیشے کے باوجود بنیامین کو ساتھ بھیجنے سے انکار مناسب نہیں سمجھا اور اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اسے بھیجنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ یوسف
65 ٦٥۔ ١ یعنی بادشاہ کے اس حسن سلوک کے بعد، کہ اس نے ہماری خاطر تواضع بھی خوب کی اور ہماری پونجی بھی واپس کردی، اور ہمیں کیا چاہیئے۔ ٦٥۔ ٢ کیونکہ فی کس ایک اونٹ جتنا بوجھ اٹھا سکتا تھا، غلہ دیا جاتا تھا، بنیامین کی وجہ سے ایک اونٹ کے بوجھ بھر غلہ مذید ملتا۔ ٦٥۔ ٣ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ بادشاہ کے لئے ایک بار شتر غلہ کوئی مشکل بات نہیں ہے، آسان ہے، دوسرا مطلب یہ ہے کہ ذٰ لِکَ کا اشارہ اس غلے کی طرف ہے جو ساتھ لائے تھے۔ اور یسیر بمعنی قلیل ہے یعنی جو غلہ ہم ساتھ لائے ہیں قلیل ہے بنیامین کے ساتھ جانے سے ہمیں کچھ غلہ اور مل جائے گا تو اچھی ہی بات ہے ہماری ضرورت زیادہ بہتر طریقے سے پوری ہو سکے گی۔ یوسف
66 ٦٦۔ ١ یعنی تمہیں اجتماعی مصیبت پیش آجائے یا تم سب ہلاک یا گرفتار ہوجاؤ، جس سے خلاصی پر تم قادر نہ ہو، تو اور بات ہے۔ اس صورت میں تم معذور ہو گے۔ یوسف
67 ٦٧۔ ١ جب بنیامین سمیت، گیارہ بھائی مصر جانے لگے، تو یہ ہدایت دی، کیونکہ ایک ہی باپ کے گیارہ بیٹے، جو قد و قامت اور شکل و صورت میں بھی ممتاز ہوں، جب اکٹھے ایک ہی جگہ یا ایک ساتھ کہیں سے گزریں گے تو عموماً انھیں لوگ تعجب یا حسد کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہی چیز نظر لگنے کا باعث بنتی ہے۔ چنانچہ انھیں نظر بد سے بچانے کے لئے بطور تدبیر یہ حکم دیا ' نظر لگ جانا حق ہے 'جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے مثلاً ' اَ لْعَیْنُ حَق' نظر کا لگ جانا حق ہے '۔ صحیح بخاری صحیح مسلم اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نظر بد سے بچنے کے لیے دعائیہ کلمات بھی اپنی امت کو بتالئے ہیں مثلا فرمایا کہ جب تمہیں کوئی چیز اچھی لگے تو بارک اللہ کہو۔ مؤطا امام مالک جس کی نظر لگے اس کو کہا جائے کہ غسل کرے اور اس کے غسل کا یہ پانی اس شخص کے سر اور جسم پر ڈالا جائے جس کو نظر لگی ہو حوالہ مذکورہ اسی طرح ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ پڑھنا قرآن سے ثابت ہے سورۃ کہف قل اغوذ برب الفلق اور قل اغوذ برب الناس نظر کے لیے بطور دم پڑھنا چاہیے جامع ترمذی ٦٧۔ ٢ یعنی یہ تاکید بطور ظاہری اسباب، احتیاط اور تدبیر کے ہے جسے اختیار کرنے کا انسانوں کو حکم دیا گیا ہے، تاہم اس سے اللہ تعالیٰ کی تقدیر و قضا میں تبدیلی نہیں آسکتی۔ ہوگا وہی، جو اس کی قضا کے مطابق اس کا حکم ہوگا۔ یوسف
68 ٦٨۔ ١ یعنی اس تدبیر سے اللہ کی تقدیر کو ٹالا نہیں جاسکتا تھا، تاہم حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے جی میں جو (نظر بد لگ جانے کا اندیشہ تھا، اس کے پیش نظر انہوں نے ایسا کہا۔ ٦٨۔ ٢ یعنی یہ تدبیر وحی الٰہی کی روشنی میں تھی اور یہ عقیدہ بھی حذر (احتیا طی تدبیر) قدر کو نہیں بدل سکتی، اللہ تعالیٰ کے سکھلائے ہوئے علم پر مبنی تھا، جس سے اکثر لوگ بے بہرہ ہیں۔ یوسف
69 ٦٩۔ ١ بعض مفسرین کہتے ہیں دو دو آدمیوں کو ایک ایک کمرے میں ٹھرایا گیا، یوں بنیامین جو اکیلے رہ گئے تو یوسف (علیہ السلام) نے انھیں تنہا الگ ایک کمرے میں رکھا اور پھر خلوت میں ان سے باتیں کیں اور انھیں پچھلی باتیں بتلا کر کہا کہ ان بھائیوں نے میرے ساتھ جو کچھ کیا، اس پر رنج نہ کر اور بعض کہتے ہیں کہ بنیامین کو روکنے کے لئے جو حیلہ اختیار کرنا تھا، اس سے بھی انھیں آگاہ کردیا تھا تاکہ وہ پریشان نہ ہو۔ (ابن کثیر) یوسف
70 ٧٠۔ ١ مفسرین نے بیان کیا ہے کہ یہ سقایہ (پانی پینے کا برتن) سونے یا چاندی کا تھا، پانی پینے کے علاوہ غلہ ناپنے کا کام بھی اس سے لیا جاتا تھا، اسے چپکے سے بنیامین کے سامان میں رکھ دیا گیا۔ ٧٠۔ ٢ الْعیر اصلاً ان اونٹوں، گدھوں یا خچر کو کہا جاتا ہے جن پر غلہ لاد کرلے جایا جاتا ہے۔ یہاں مراد اصحاب العیر یعنی قافلے والے۔ ٧٠۔ ٣ چوری کی یہ نسبت اپنی جگہ صحیح تھی کیونکہ منادی حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سوچے سمجھے منصوبے سے آگاہ نہیں تھا یا اس کے معنی ہیں کہ تمہارا حال چوروں کا سا ہے کہ بادشاہ کا پیالہ، بادشاہ کی رضامندی کے بغیر تمہارے سامان کے اندر ہے۔ یوسف
71 یوسف
72 ٧٢۔ ١ یعنی میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کی تفتیش سے قبل ہی جو شخص یہ جام شاہی ہمارے حوالے کر دے گا تو اسے انعام یا اجرت کے طور پر اتنا غلہ دیا جائے گا جو ایک اونٹ اٹھا سکے۔ یوسف
73 ٧٣۔ ١ برداران یوسف (علیہ السلام) چونکہ اس منصوبے سے بے خبر تھے جو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے تیار کیا تھا، اس لئے قسم کھا کر انہوں نے اپنے چور ہونے کی اور زمین میں فساد برپا کرنے کی نفی کی۔ یوسف
74 ٧٤۔ ١ یعنی اگر تمہارے سامان میں وہ شاہی پیالہ مل گیا تو پھر اس کی کیا سزا ہوگی۔ یوسف
75 ٧٥۔ ١ یعنی چور کو کچھ عرصے کے لئے اس شخص کے سپرد کردیا جاتا ہے جس کی اس نے چوری کی ہوتی تھی۔ یہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی شریعت میں سزا تھی، جس کے مطابق یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے یہ سزا تجویز کی۔ ٧٥۔ ٢ یہ قول بھی برادران یوسف (علیہ السلام) ہی کا ہے، بعض کے نزدیک یہ یوسف (علیہ السلام) کے مصاحبین کا قول ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم بھی ظالموں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔ لیکن آیت کا اگلا ٹکڑا کہ ' بادشاہ کے دین میں وہ اپنے بھائی کو پکڑ نہ سکتے تھے ' اس قول کی نفی کرتا ہے۔ یوسف
76 ٧٦۔ ١ پہلے بھائیوں کے سامان کی تلاشی لی۔ آخر میں بنیامین کا سامان دیکھا تاکہ انھیں شبہ نہ ہو کہ یہ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ ٧٦۔ ٢ یعنی ہم نے وحی کے ذریعے سے یوسف (علیہ السلام) کو یہ تدبیر سمجھائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی صحیح غرض کے لئے ایسا طریقہ اختیار کرنا جس کی ظاہری صورت حیلہ کی ہو، جائز ہے بشرطیکہ وہ طریقہ کسی نص شرعی کے خلاف نہ ہو (فتح القدیر) ٧٦۔ ٣ یعنی بادشاہ مصر میں جو قانون اور دستور رائج تھا، اس کی روح سے بنیامین کو اس طرح روکنا ممکن نہیں تھا اس لئے انہوں نے اہل قافلہ سے پوچھا کہ بتلاؤ اس جرم کی سزا کیا ہو۔ ٧٦۔ ٤ جس طرح یوسف (علیہ السلام) کو اپنی عنایات اور مہربانیوں سے بلند مرتبہ عطا کیا۔ ٧٦۔ ٥ یعنی ہر عالم سے بڑھ کر کوئی نہ کوئی عالم ہوتا ہے اس لئے کوئی صاحب علم اس دھوکے میں مبتلا نہ ہو کہ میں ہی اپنے وقت کا سب سے بڑا عالم ہوں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر صاحب علم کے اوپر ایک علیم یعنی اللہ تعالیٰ ہے۔ یوسف
77 ٧٧۔ ١ یہ انہوں نے اپنی پاکیزگی و شرافت کے اظہار کے لئے کہا۔ کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین، ان کے سگے اور حقیقی بھائی نہیں تھے، علاتی بھائی تھے، بعض مفسرین نے یوسف (علیہ السلام) کی چوری کے لئے دو راز کار باتیں نقل کی ہیں جو کسی مستند ماخذ پر مبنی نہیں ہیں۔ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے کو تو نہایت با اخلاق اور باکردار باور کرایا اور یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین کو کمزور کردار کا اور دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے انھیں چور اور بے ایمان ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ٧٧۔ ٢ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے اس قول سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی طرف چوری کے انتساب میں صریح کذب بیانی کا ارتکاب کیا۔ یوسف
78 ٧٨۔ ١ حضرت یوسف کو عزیز مصر اس لئے کہا کہ اس وقت اصل اختیارات حضرت یوسف (علیہ السلام) کے ہی پاس تھے، بادشاہ صرف برائے نام فرمانروائے مصر تھا۔ ٧٨۔ ٢ باپ تو یقینا بوڑھے ہی تھے، لیکن یہاں ان کا اصل مقصد بنیامین کو چھڑانا تھا۔ ان کے ذہن میں وہی یوسف (علیہ السلام) والی بات تھی کہ کہیں ہمیں پھر دوبارہ بنیامین کے بغیر باپ کے پاس جانا پڑے اور باپ ہم سے کہیں کہ تم نے میرے بنیامین کو بھی یوسف (علیہ السلام) کی طرح کہیں گم کردیا۔ اس لئے یوسف (علیہ السلام) کے احسانات کے حوالے سے یہ بات کی کہ شاید وہ یہ احسان بھی کردیں کہ بنیامین کو چھوڑ دیں اور اس کی جگہ کسی اور بھائی کو رکھ لیں۔ یوسف
79 ٧٩۔ ١ یہ جواب اس لئے دیا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا اصل مقصد تو بنیامین کو روکنا تھا۔ یوسف
80 ٨٠۔ ١ کیونکہ بنیامین کو چھوڑ کر جانا ان کے لئے کٹھن مرحلا تھا، وہ باپ کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے تھے۔ اس لئے باہم مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے؟ ٨٠۔ ٢ اس کے بڑے بھائی اس صورت حال میں باپ کا سامنے کرنے کی اپنے اندر سکت اور ہمت نہیں پائی، تو صاف کہہ دیا کہ میں تو یہاں سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک خود والد صاحب تفتیش کر کے میری بے گناہی کا یقین نہ کرلیں اور مجھے آنے کی اجازت نہ دیں۔ یوسف
81 ٨٠۔ ١ یعنی ہم نے جو عہد کیا تھا کہ ہم بنیامین کو باحفاظت واپس لے آئیں گے، تو یہ ہم نے اپنے علم کے مطابق عہد کیا تھا، بعد میں جو واقعہ پیش آگیا اور جس کی وجہ سے بنیامین کو ہمیں چھوڑنا پڑا، یہ تو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ دوسرا مطلب یہ ہے ہم نے چوری کی جو سزا بیان کی تھی چور کو ہی چوری کے بدلے میں رکھ لیا جائے، تو یہ سزا ہم نے اپنے علم کے مطابق ہی تجویز کی تھی۔ اس میں کسی قسم کی بدنیتی شامل نہیں تھی۔ لیکن یہ اتفاق کی بات تھی کہ جب سامان کی تلاشی لی گئی تو مسروقہ کٹورا بنیامین کے سامان سے نکل آیا۔ ٨١۔ ٢ یعنی مستقبل میں پیش آنے والے واقعات سے ہم بے خبر تھے۔ یوسف
82 ٨٢۔ ١ اَلْقَرْیَۃَ مراد مصر ہے جہاں وہ غلہ لینے گئے تھے۔ مطلب اہل مصر ہیں۔ اسی طرح والْعِیرَ سے مراد اصحاب العیر یعنی اہل قافلہ ہیں۔ آپ مصر جا کر اہل مصر سے اور اس قافلے والوں سے، جو ہمارے ساتھ آیا ہے، پوچھ لیں کہ ہم جو کچھ بیان کر رہے ہیں، وہ سچ ہے، اس میں جھوٹ کی کوئی آمیزش نہیں ہے۔ یوسف
83 ٨٣۔ ١ حضرت یعقوب (علیہ السلام) چونکہ حقیقت حال سے بے خبر تھے اور اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے انھیں حقیقت واقعہ سے آگاہ نہیں فرمایا۔ اس لئے وہ یہی سمجھے کہ میرے ان بیٹوں نے اپنی طرف سے بات بنا لی ہے۔ بنیامین کے ساتھ انہوں نے کیا معاملہ کیا ؟ اس کا یقینی علم تو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے پاس نہیں تھا، تاہم یوسف (علیہ السلام) کے واقعے پر قیاس کرتے ہوئے ان کی طرف سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے دل میں بجا طور پر شکوک شبہات تھے۔ ٨٣۔ ٢ اب پھر سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں تھا، تاہم صبر کے ساتھ امید کا دامن بھی نہیں چھوڑا یوسف علیہ السلام، بنیامین اور وہ بڑا بیٹا ہے جو مارے شرم کے وہیں مصر میں رک گیا تھا کہ یا تو والد صاحب مجھے اسی طرح آنے کی اجازت دے دیں یا پھر میں کسی طریقے سے بنیامین کو ساتھ لے کر آؤں گا۔ یوسف
84 ٨٤۔ ١ یعنی اس تازہ صدمے نے یوسف (علیہ السلام) کی جدائی کے قدیم صدمے کو بھی تازہ کردیا۔ ٨٤۔ ٢ یعنی آنکھوں کی سیاہی، مارے غم کے، سفیدی میں بدل گئی تھی۔ یوسف
85 ٨٥۔ ١ حَرَض اس جسمانی عارضے یا ضعف عقل کو کہتے ہیں جو بڑھاپے، عشق یا پے درپے صدمات کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوتا ہے، یوسف (علیہ السلام) کے ذکر سے بھائیوں کی آتش حسد پھر بھڑک اٹھی اور اپنے باپ کو یہ کہا۔ یوسف
86 ٨٦۔ ١ اس سے مراد یا تو خواب ہے جس کی بابت انھیں یقین تھا کہ اس کی تعبیر ضرور سامنے آئے گی اور وہ یوسف (علیہ السلام) کو سجدہ کریں گے یا ان کا یقین تھا کہ یوسف (علیہ السلام) زندہ موجود ہیں، اور اس سے زندگی میں ضرور ملاقات ہوگی۔ یوسف
87 ٨٧۔ ١ چنانچہ اس یقین سے سرشار ہو کر انہوں نے اپنے بیٹوں کو یہ حکم دیا۔ ٨٧۔ ٢ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (قَالَ وَمَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّاۗلُّوْنَ) 15۔ الحجر :56) ' گمراہ لوگ ہی اللہ کی رحمت سے ناامید ہوتے ہیں ' اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کو سخت حالات میں بھی صبر و رضا کا اور اللہ کی رحمت واسعہ کی امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیئے۔ یوسف
88 ٨٨۔ ١ یہ تیسری مرتبہ ان کا مصر جانا ہے۔ ٨٨۔ ٢ یعنی غلہ لینے کے لئے ہم جو ثمن (قیمت) لے کر آئے ہیں، وہ نہایت قلیل اور حقیر ہے۔ ٨٨۔ ٣ یعنی ہماری حقیر پونجی کو نہ دیکھیں، ہمیں اس کے بدلے میں پورا ناپ دیں۔ ٨٨۔ ٤ یعنی ہماری حقیر پونجی قبول کر کے ہم پر احسان اور خیرات کریں۔ اور بعض مفسرین نے اس کے معنی کیے ہیں کہ ہمارے بھائی بنیامین کو آزاد کر کے ہم پر احسان فرمائیں۔ یوسف
89 ٨٩۔ ١ جب انہوں نے نہایت عاجزی کے انداز میں صدقہ و خیرات یا بھائی کی رہائی کی اپیل کی تو ساتھ ہی باپ کے بڑھاپے، ضعف اور بیٹے کی جدائی کے صدمے کا بھی ذکر کیا، جس سے یوسف (علیہ السلام) کا دل بھر آیا، آنکھیں نمناک ہوگئیں اور انکشاف حال پر مجبور ہوگئے۔ تاہم بھائیوں کی زیادتیوں کا ذکر کر کے ساتھ ہی اخلاق کریمانہ کا بھی اظہار فرما دیا کہ یہ کام تم نے ایسی حالت میں کیا جب تم جاہل اور نادان تھے۔ یوسف
90 ٩٠۔ ١ بھائیوں نے جب عزیز مصر کی زبان سے اس یوسف (علیہ السلام) کا تذکرہ سنا، جسے انہوں نے بچپن میں کنعان کے ایک تاریک کنویں میں پھینک دیا تھا، تو وہ حیران بھی ہوئے اور غور سے دیکھنے پر مجبور بھی کہ کہیں ہم سے ہم کلام بادشاہ، یوسف (علیہ السلام) ہی تو نہیں؟ ورنہ یوسف (علیہ السلام) کے قصے کا اسے کس طرح علم ہوسکتا ہے؟ چنانچہ انہوں نے سوال کیا کہ کیا تو یوسف (علیہ السلام) ہی تو نہیں؟ ٩٠۔ ٢ سوال کے جواب میں اقرار و اعتراف کے ساتھ، اللہ کا احسان کا ذکر اور صبر و تقویٰ کے نتائج حسنہ بھی بیان کر کے بتلا دیا کہ تم نے مجھے ہلاک کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ کنوئیں سے نجات عطا فرمائی، بلکہ مصر کی فرمانروائی بھی عطا فرما دی اور یہ نتیجہ ہے اس صبر اور تقویٰ کا جس کی توفیق اللہ تعالیٰ نے مجھے دی۔ یوسف
91 ٩١۔ ١ بھائیوں نے جب یوسف (علیہ السلام) کی شان دیکھی تو اپنی غلطی اور کوتاہی کا اعتراف کرلیا۔ یوسف
92 ٩٢۔ ١ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے بھی پیغمبرانہ عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے فرمایا کہ جو ہوا سو ہوا۔ آج تمہیں کوئی سرزنش اور ملامت نہیں کی جائے گی۔ فتح مکہ والے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی مکہ کے ان کفار اور سردران قریش کو، جو آپ کے خون کے پیاسے تھے اور آپ کو طرح طرح کی ایذائیں پہنچائی تھیں، یہی الفاظ ارشاد فرما کر انھیں معاف فرما دیا تھا۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔ یوسف
93 ٩٣۔ ١ قمیص کے چہرے پر پڑنے سے آنکھوں کی بینائی کا بحال ہونا، ایک اعجاز اور کرامت کے طور پر تھا۔ ٩٣۔ ٢ یہ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے پورے خاندان کو مصر آنے کی دعوت دی۔ یوسف
94 ٩٤۔ ١ ادھر یہ قمیص لے کر قافلہ مصر سے اور ادھر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعجاز کے طور پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی خوشبو آنے لگ گئی یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اللہ کے پیغمبر کو بھی، جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اطلاع نہ پہنچے، پیغمبر بے خبر ہوتا ہے، چاہے بیٹا اپنے شہر کے کسی کنوئیں ہی میں کیوں نہ ہو، اور جب اللہ تعالیٰ انتظام فرما دے تو پھر مصر جیسے دور دراز کے علاقے سے بھی بیٹے کی خوشبو آجاتی ہے۔ یوسف
95 ٩٥۔ ١ ضَلَال سے مراد والہانہ محبت کی وہ وارفتگی ہے جو حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اپنے بیٹے یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ تھی۔ بیٹے کہنے لگے، ابھی تک آپ اسی پرانی غلطی یعنی یوسف (علیہ السلام) کی محبت میں گرفتار ہیں۔ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود یوسف (علیہ السلام) کی محبت دل سے نہیں گئی۔ یوسف
96 ٩٦۔ ١ یعنی جب وہ خوشخبری دینے والا آگیا اور آکر وہ قمیص حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے چہرے پر ڈال دی تو اس سے معجزانہ طور پر ان کی بینائی بحال ہوگئی۔ ٩٦۔ ٢ کیونکہ میرے پاس ایک ذریعہ علم وحی بھی ہے، جو تم میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس وحی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کو حالات سے مشیت و مصلحت آگاہ کرتا رہتا ہے۔ یوسف
97 یوسف
98 ٩٨۔ ١ فی الفور مغفرت کی دعا کرنے کی بجائے دعا کرنے کا وعدہ فرمایا، مقصد یہ تھا کہ رات کے پچھلے پہر میں، جو اللہ کے خاص بندوں کا اللہ کی عبادت کرنے کا خاص وقت ہوتا ہے، اللہ سے ان کی مغفرت کی دعا کروں گا، دوسری بات یہ کہ بھائیوں کی زیادتی یوسف (علیہ السلام) پر تھی، ان سے مشورہ لینا ضروری تھا اس لئے انہوں نے تاخیر کی اور فوراً مغفرت کی دعا نہیں کی۔ یوسف
99 ٩٩۔ ١ یعنی عزت و احترام کے ساتھ انھیں اپنے پاس جگہ دی اور ان کا خوب اکرام کیا۔ یوسف
100 ١٠٠۔ ١ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ سوتیلی ماں اور سگی خالہ تھیں کیونکہ یوسف (علیہ السلام) کی حقیقی ماں بنیامین کی ولادت کے بعد فوت ہوگئی تھیں۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اس کی وفات کے بعد اس کی ہمشیرہ سے نکاح کرلیا تھا یہی خالہ اب حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے ساتھ مصر میں گئی تھیں (فتح القدیر) لیکن امام ابن طبری نے اس کے برعکس یہ کہا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی والدہ فوت نہیں ہوئی تھیں اور وہی حقیقی والدہ تھیں۔ (ابن کثیر) ١٠٠۔ ٢ بعض نے اس کا ترجمہ کیا ہے کہ ادب و تعظیم کے طور پر یوسف (علیہ السلام) کے سامنے جھک گئے۔ لیکن ( وَخَرُّوْا لَہٗ سُجَّدًا) 12۔ یوسف :100) کے الفاظ بتلاتے ہیں کہ وہ زمین پر یوسف (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ ریز ہوئے، یعنی یہ سجدہ، سجدہ ہی کے معنی میں ہے۔ تاہم یہ سجدہ، سجدہ تعظیمی ہے سجدہ عبادت نہیں اور سجدہ تعظیمی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی شریعت میں جائز تھا۔ اسلام شرک کے سد باب کے لئے سجدہ تعظیمی کو بھی حرام کردیا گیا ہے، اور اب سجدہ تعظیمی بھی کسی کے لئے جائز نہیں۔ ١٠٠۔ ٣ یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جو خواب میں دیکھا تھا اتنی آزمائشوں سے گزرنے کے بعد بالآخر اس کی تعبیر سامنے آئی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو تخت شاہی پر بٹھایا اور والدین سمیت تمام بھائیوں نے اسے سجدہ کیا۔ ١٠٠۔ ٤ اللہ کے احسنات میں کنویں سے نکلنے کا ذکر نہیں کیا تاکہ بھائی شرمندہ نہ ہوں۔ یہ اخلاق نبوی ہے۔ ١٠٠۔ ٥ مصر جیسے متمدن علاقے کے مقابلے میں کنعان کی حیثیت ایک صحرا کی تھی، اس لئے اسے بَدُوْ سے تعبیر کیا۔ ١٠٠۔ ٦ یہ بھی اخلاق کریمانہ کا ایک نمونہ کہ بھائیوں کو ذرا مورد الزام نہیں ٹھہرایا اور شیطان کو اس کارستانی کا باعث قرار دیا۔ یوسف
101 ١٠١۔ ١ یعنی ملک مصر کی فرمانروائی عطا فرمائی، جیسا کہ تفصیل گزری۔ ١٠١۔ ٢ حضرت یوسف (علیہ السلام) اللہ کے پیغمبر تھے، جن پر اللہ کی طرف سے وحی کا نزول ہوتا اور خاص خاص باتوں کا علم انھیں عطا کیا جاتا۔ چنانچہ اس علم نبوت کی روشنی میں پیغمبر خوابوں کی تعبیر بھی صحیح طور پر کرلیتے۔ تھے تاہم معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اس فن تعبیر میں خصوصی ملکہ حاصل تھا جیسا کہ قید کے ساتھیوں کے خواب کی اور سات موٹی گایوں کے خواب کی تعبیر پہلے گزری۔ ١٠١۔ ٣ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) پر جو احسانات کیے، انھیں یاد کرکے اور اللہ تعالیٰ کی دیگر صفات کا تذکرہ کرکے دعا فرما رہے ہیں کہ جب مجھے موت آئے تو اسلام کی حالت میں آئے اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔ اس سے مراد حضرت یوسف (علیہ السلام) کے آباواجداد، حضرت ابراہیم و اسحاق علیہا السلام وغیرہ مراد ہیں۔ بعض لوگوں کو اس دعا سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے موت کی دعا مانگی حالانکہ یہ موت کی دعا نہیں ہے آخر وقت تک اسلام پر استقامت کی دعا ہے۔ یوسف
102 ١٠٢۔ ١ یعنی یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ، جب کہ انھیں کنوئیں میں پھینک آئے یا مراد حضرت یعقوب (علیہ السلام) ہیں یعنی ان کو یہ کہہ کر کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا ہے اور یہ اس کی قمیص ہے، جو خون میں لت پت ہے ان کے ساتھ فریب کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر بھی اس بات کی نفی فرمائی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غیب کا علم تھا لیکن یہ نفی مطلق علم کی نہیں ہے کیونکہ اللہ نے وحی کے ذریعے سے آپ کو آگاہ فرمایا دیا۔ یہ نفی مشاہد کی ہے کہ اس وقت آپ وہاں موجود نہیں تھے۔ اسی طرح ایسے لوگوں سے بھی آپ کا رابطہ و تعلق نہیں رہا ہے جن سے آپ نے سنا ہو۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے آپ کو اس واقعہ کی خبر دی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے سچے نبی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو وحی نازل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اور بھی کئی مقامات پر اسی طرح غیب اور مشاہدے کی نفی فرمائی ہے۔ مثلاً ملاحظہ ہو، سورۃ آل عمران (ذٰلِکَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ ۭ وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَیُّھُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ ۠وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ) 3۔ آل عمران :44) (وَلٰکِنَّآ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَیْہِمُ الْعُمُرُ ۚ وَمَا کُنْتَ ثَاوِیًا فِیْٓ اَہْلِ مَدْیَنَ تَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِنَا ۙ وَلٰکِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ 45؀ وَمَا کُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَیْنَا وَلٰکِنْ رَّحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰیہُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِکَ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ 46؀) 28۔ القصص :46-45) (مَا کَانَ لِیَ مِنْ عِلْمٍۢ بِالْمَلَاِ الْاَعْلٰٓی اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ 69؀ اِنْ یُّوْحٰٓی اِلَیَّ اِلَّآ اَنَّمَآ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ 70؀) 38۔ ص :70۔69)۔ یوسف
103 ١٠٣۔ ١ یعنی اللہ تعالیٰ آپ کو پچھلے واقعات سے آگاہ فرما رہا ہے تاکہ لوگ ان سے عبرت پکڑیں اور اللہ کے پیغمبروں کا راستہ اختیار کر کے نجات ابدی کے مستحق بن جائیں۔ لیکن اس کے باوجود لوگوں کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں ہے کیونکہ وہ گذشتہ قوموں کے واقعات سنتے ہیں لیکن عبرت پذیری کے لئے نہیں، صرف دلچسپی اور لذت کے لئے، اس لئے وہ ایمان سے، محروم ہی رہتے ہیں۔ یوسف
104 ١٠٤۔ ١ کہ جس سے ان کو یہ شبہ ہو کہ یہ دعوائے نبوت تو صرف پیسے جمع کرنے کا بہانہ ہے۔ ١٠٤۔ ٢ تاکہ لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں اور اپنی دنیا و آخرت سنوار لیں۔ اب دنیا کے لوگ اگر اس سے آنکھیں پھیر رکھیں اور اس سے ہدایت حاصل نہ کریں تو لوگوں کا قصور اور ان کی بد قسمتی ہے، قرآن تو فی الواقع اہل دنیا کی ہدایت اور نصیحت ہی کے لئے آیا ہے۔ گر نہ بیند بروز شپرہ چشم چشمہ آفتاب را چہ گناہ یوسف
105 ١٠٥۔ ١ آسمان اور زمین کی پیدائش اور ان میں بیشمار چیزوں کا وجود، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایک خالق و صانع ہے جس نے ان چیزوں کو وجود بخشا ہے اور ایک مدبر ہے جو ان کا ایسا انتظام کر رہا ہے کہ صدیوں سے یہ نظام چل رہا ہے اور ان میں کبھی آپس میں ٹکراؤ اور تصادم نہیں ہوا لیکن لوگ ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے یوں ہی گزر جاتے ہیں ان پر غو و فکر کرتے ہیں اور نہ ان سے ان کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔ یوسف
106 ١٠٦۔ ١ یہ وہ حقیقت ہے جسے قرآن نے بڑی وضاحت کے ساتھ متعدد جگہ بیان فرمایا ہے کہ یہ مشرک یہ تو مانتے ہیں کہ آسمان اور زمین کا خالق، مالک، رازق اور مدبر صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود عبادت میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک ٹھرا لیتے ہیں۔ اور یوں اکثر لوگ مشرک ہیں یعنی ہر دور میں لوگ توحید ربوبیت کے تو قائل رہے ہیں لیکن توحید الوہیت ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے آج کے قبر پرستوں کا شرک بھی یہی ہے کہ وہ قبروں میں مدفون بزرگوں کو صفات الوہیت کا حامل سمجھ کر انھیں مدد کے لیے پکارتے بھی ہیں اور عبادت کے کئی مراسم بھی ان کے لیے بجا لاتے ہیں اعاذنا اللہ منہ یوسف
107 یوسف
108 ١٠٨۔ ١ یعنی توحید کی راہ ہی میری راہ ہے بلکہ ہر پیغمبر کی راہ رہی ہے اسی کی طرف میں اور میرے پیروکار پورے یقین اور دلائل شرعی کے ساتھ لوگوں کو بلاتے ہیں۔ ١٠٨۔ ٢ یعنی میں اس کی تنزیہ و تقدیس بیان کرتا ہوں اس بات سے کہ اس کا کوئی شریک، نظیر، مثیل یا وزیر ومشیر یا اولاد اور بیوی ہو وہ ان تمام چیزوں سے پاک ہے۔ یوسف
109 ١٠٩۔ ١ یہ آیت اس بات پر قطعی حکم ہے کہ تمام نبی مرد ہی ہوئے ہیں، عورتوں میں سے کسی کو نبوت کا مقام نہیں ملا، اسی طرح ان کا تعلق قریہ سے تھا، جو قصبہ دیہات اور شہر سب شامل ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی اہل بادیہ (صحرا نشینوں) میں سے نہیں تھا کیونکہ اہل بادیہ نسبتاً طبعیت کے سخت اور اخلاق کے کھردرے ہوتے ہیں اور شہری ان کی نسبت نرم، دھیمے اور با اخلاق ہوتے ہیں اور یہ خوبیاں نبوت کے لئے ضروری ہیں۔ یوسف
110 ١١٠۔ ١ یہ مایوسی اپنی قوم کے ایمان لانے سے ہوئی۔ ١١٠۔ ٢ قرأت کے اعتبار سے اس آیت کے کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ لیکن سب سے مناسب مفہوم یہ ہے کہ ظَنُّوا کا فاعل قوم کفار کو قرار دیا جائے یعنی کفار عذاب کی دھمکی پر پہلے تو ڈرے لیکن جب زیادہ تاخیر ہوئی تو خیال کیا کہ عذاب تو آتا نہیں ہے، (جیسا کہ پیغمبر کی طرف سے دعویٰ ہو رہا ہے) اور نہ آتا نظر ہی آتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ نبیوں سے بھی یوں ہی جھوٹا وعدہ کیا گیا ہے۔ مطلب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے کہ آپ کی قوم پر عذاب میں جو تاخیر ہو رہی ہے، اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پچھلی قوموں پر بھی عذاب میں بڑی بڑی تاخیر روا رکھی گئی ہے اور اللہ کی مشیت و حکمت کے مطابق انھیں خوب خوب مہلت دی گئی حتیٰ کہ رسول اپنی قوم کے ایمان سے مایوس ہوگئے اور لوگ یہ خیال کرنے لگے کہ شاید انھیں عذاب کا یوں ہی جھوٹ موٹ کہہ دیا گیا ہے۔ ١١٠۔ ٣ اس میں دراصل اللہ تعالیٰ کے اس قانون مہلت کا بیان ہے، جو وہ نافرمانوں کو دیتا ہے، حتیٰ کہ اس بارے میں وہ اپنے پیغمبروں کی خواہش کے برعکس بھی زیادہ سے زیادہ مہلت عطا کرتا ہے، جلدی نہیں کرتا، یہاں تک کہ بعض دفعہ پیغمبر کے ماننے والے بھی عذاب سے مایوس ہو کر یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ ان سی یوں ہی جھوٹ موٹ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ محض ایسے وسوسے کا پیدا ہوجانا ایمان کے منافی نہیں ہے۔ ١١٠۔ ٤ یہ نجات پانے والے اہل ایمان ہی ہوتے تھے۔ یوسف
111 ١١١۔ ١ یعنی قرآن، جس میں قصہ یوسف (علیہ السلام) اور دیگر قوموں کے واقعات بیان کئے گئے ہیں کوئی گھڑا ہوا نہیں ہے۔ بلکہ یہ پچھلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور اس میں دین کے بارے میں ساری ضروری باتوں کی تفصیل ہے اور ایمان داروں کے لئے ہدایت و رحمت۔ یوسف
0 الرعد
1 الرعد
2 ٢۔ ١ استوا علی العرش کا مفہوم اس سے قبل بیان ہوچکا ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا عرش پر قرار پکڑنا ہے۔ محدثین کا یہی مسلک ہے وہ اس کی تاویل نہیں کرتے، جیسے بعض دوسرے گروہ اس میں اور دیگر صفات الٰہی میں تاویل کرتے ہیں۔ تاہم محدثین کہتے ہیں کہ اس کی کیفیت نہ بیان کی جاسکتی ہے اور نہ اسے کسی چیز سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ (لیس کمثلہ شیء وہو السمیع البصیر) الشوری ٢۔ ٢ اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ ایک وقت مقرر تک یعنی قیامت تک اللہ کے حکم سے چلتے رہیں گے جیسا کہ فرمایا (والشمس تجری لمستقرلھا ذلک تقدیر العزیز العلیم) یسین۔ اور سورج اپنے ٹھہرنے کے وقت تک چل رہا ہے دوسرے معنی یہ ہیں کہ چاند اور سورج دونوں اپنی اپنی منزلوں پر رواں دواں رہتے ہیں سورج اپنا دورہ ایک سال میں اور چاند ایک ماہ میں مکمل کرلیتا ہے جس طرح فرمایا (والقمر قدرنہ منازل) یسین۔ ہم نے چاند کی منزلیں مقرر کردی ہیں سات بڑے بڑے سیارے ہیں جن میں سے دو چاند اور سورج ہیں یہاں صرف ان دو کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہی دو سب سے زیادہ بڑے اور اہم ہیں جب یہ دونوں بھی اللہ کے حکم کے تابع ہیں تو دوسرے سیارے تو بطریق اولی اس کے تابع ہونگے اور جب یہ اللہ کے حکم کے تابع ہیں تو یہ معبود نہیں ہو سکتے معبود تو وہی ہے جس نے ان کو مسخر کیا ہوا ہے اس لیے فرمایا (لَا تَسْجُدُوْا للشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَہُنَّ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ) 41۔ فصلت :37) حم السجدہ سورج اور چاند کو سجدہ نہ کرو اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انھیں پیدا کیا اگر تم صرف اس کی عبادت کرنا چاہتے ہو۔ ( ۙ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌۢ بِاَمْرِہٖ) 16۔ النحل :12) الاعراف سورج چاند اور تارے سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ الرعد
3 ٣۔ ١ زمین میں طول و عرض کا اندازہ بھی عام لوگوں کے لئے مشکل ہے اور بلند و بالا پہاڑوں کے ذریعے سے زمین میں گویا میخیں گاڑی ہیں، نہروں دریاؤں اور چشموں کا ایسا سلسلہ قائم کیا کہ جس سے انسان خود بھی سیراب ہوتے ہیں اور اپنے کھیتوں کو بھی سیراب کرتے ہیں جن سے انواع و اقسام کے غلے اور پھل پیدا ہوتے ہیں، جن کی شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف اور ذائقے بھی جداگانہ ہوتے ہیں۔ ٣۔ ٢ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ نر مادہ دونوں بنائے، جیسا کہ موجودہ تحقیقات نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے۔ دوسرا مطلب (جوڑے جوڑے کا) یہ ہے میٹھا اور کھٹا، سرد اور گرم، سیاہ اور سفید اور ذائقہ، اس طرح ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد قسمیں پیدا کیں۔ الرعد
4 ٤۔ ١ متجورات۔ ایک دوسرے کے قریب اور متصل یعنی زمین کا ایک حصہ شاداب اور زرخیز ہے۔ خوب پیداوار دیتا ہے اس کے ساتھ ہی زمین شور ہے، جس میں کسی قسم کی بھی پیدا نہیں ہوتی۔ ٤۔ ٢ صنوان۔ کے ایک معنی ملے ہوئے اور غیر صنوان۔ کے جداجدا کیے گئے ہیں دوسرا معنی صنوان، ایک درخت، جس کی کئی شاخیں اور تنے ہوں، جیسے انار، انجیر اور بعض کھجوریں۔ ٤۔ ٣ یعنی زمین بھی ایک، پانی، ہوا بھی ایک۔ لیکن پھل اور غلہ مختلف قسم اور ان کے ذائقے اور شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف۔ الرعد
5 ٥۔ ١ یعنی جس ذات نے پہلی مرتبہ پیدا کیا، اس کے لئے دوبارہ اس چیز کا بنانا کوئی مشکل کام نہیں۔ لیکن کفار یہ عجیب بات کہتے ہیں کہ دوبارہ ہم کیسے پیدا کئے جائیں گے۔ الرعد
6 ٦۔ ١ یعنی عذاب الٰہی سے قوموں اور بستیوں کی تباہی کی کئی مثالیں پہلے گزر چکی ہیں، اس کے باوجود یہ عذاب جلدی مانگتے ہیں؟ یہ کفار کے جواب میں کہا گیا جو کہتے تھے کہ اے پیغمبر! اگر تو سچا ہے تو عذاب ہم پر لے آ۔ جس سے تو ہمیں ڈراتا رہتا ہے۔ ٦۔ ٣ یعنی لوگوں کے ظلم و معصیت کے باوجود وہ عذاب میں جلدی نہیں کرتا بلکہ مہلت دیتا ہے اور بعض دفعہ تو اتنی تاخیر کرتا ہے کہ معاملہ قیامت پر چھوڑ دیتا ہے، یہ اس کے حلم و کرم اور عفو و درگزر کا نتیجہ ہے ورنہ وہ فوراً مواخذہ کرنے اور عذاب دینے پر آجائے تو روئے زمین پر کوئی انسان ہی باقی نہ رہے (وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوْا مَا تَرَکَ عَلٰی ظَہْرِہَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ وَّلٰکِنْ یُّؤَخِّرُہُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ۚ فَاِذَا جَاۗءَ اَجَلُہُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِعِبَادِہٖ بَصِیْرًا 45؀ۧ) 35۔ فاطر :45) اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر ان کے اعمال کے سبب پکڑ دھکڑ فرمانے لگتا تو روئے زمین پر ایک تنفس کو نہ چھوڑتا ' ٦۔ ٣ یہ اللہ کی دوسری صفت کا بیان ہے تاکہ انسان صرف ایک ہی پہلو پر نظر نہ رکھے اس کے دوسرے پہلو کو بھی دیکھتا رہے کیونکہ ایک ہی رخ اور ایک ہی پہلو کو مسلسل دیکھنے رہنے سے بہت سی چیزیں اوجھل رہ جاتی ہیں اسی لیے قرآن کریم میں جہاں اللہ کی صفت رحیمی وغفوری کا بیان ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس کی دوسری صفت قہاری و جباری کا بیان بھی ملتا ہے جیسا کہ یہاں بھی ہے تاکہ رجاء امید اور خوف دونوں پہلو سامنے رہیں کیونکہ اگر امید ہی امید سامنے رہے تو انسان معصیت الہی پر دلیر ہوجاتا ہے اور اگر خوف ہی خوف ہر وقت دل ودماغ پر مسلط رہے تو اللہ کی رحمت سے مایوسی ہوجاتی ہے اور دونوں ہی باتیں غلط اور انسان کے لیے تباہ کن ہیں اسی لیے کہا جاتا ہے الایمان بین الخوف والرجاء ایمان خوف اور مبید کے درمیان ہے یعنی دونوں باتوں کے درمیان اعتدال وتوازن کا نام ایمان ہے انسان اللہ کے عذاب کے خوف سے بے پروا ہو اور نہ اس کی رحمت سے مایوس۔ اس مضمون کے ملاحظہ کے لیے دیکھئے سورۃ الانعام۔ سورۃ الاعراف۔ سورۃ الحجر الرعد
7 ٧۔ ١ ہر نبی کو اللہ نے حالات و ضروریات اور اپنی مشیت و مصلحت کے مطابق کچھ نشانیاں اور معجزات عطا فرمائے لیکن کافر اپنے حسب منشا معجزات کے طالب ہوتے رہے ہیں۔ جیسے کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے کہ کوہ صفا کو سونے کا بنا دیا جائے یا پہاڑوں کی جگہ نہریں اور چشمے جاری ہوجائیں، وغیرہ وغیرہ جب ان کی خواہش کے مطابق معجزہ صادر کر کے نہ دکھایا جاتا تو کہتے کہ اس پر کوئی نشان (معجزہ) نازل کیوں نہیں کیا گیا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اے پیغمبر! تیرا کام صرف تبلیغ ہے۔ وہ تو کرتا رہ کوئی مانے نہ مانے، اس سے تجھے کوئی غرض نہیں، اس لئے کہ ہدایت دینا یہ ہمارا کام ہے۔ تیرا کام راستہ دکھانا ہے، اس راستے پر چلا دینا، یہ تیرا کام نہیں، ہمارا کام ہے۔ ٧۔ ٢ یعنی ہر قوم کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہادی ضرور بھیجا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قوموں نے ہدایت کا راستہ اپنایا یا نہیں اپنایا۔ لیکن سیدھے راستے کی نشان دہی کرنے کے لئے پیغمبر ہر قوم کے اندر ضرور آیا۔ (وان من امۃ الا خلا فیھا نذیر) فاطر۔ ہر امت میں ایک نذیر ضرور آیا ہے۔ الرعد
8 ٨۔ ١ رحم مادر میں کیا ہے، نر یا مادہ، خوبصورت یا بد صورت، نیک ہے یا بد، طویل العمر ہے یا قصیر العمر؟ یہ سب باتیں صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ ٨۔ ٢ اس سے مراد حمل مدت ہے جو عام طور پر ٩ مہینے ہوتی ہے لیکن گھٹتی بڑھتی بھی ہے، کسی وقت یہ مدت ١٠ مہینے اور کسی وقت ٧، ٨ مہینے ہوجاتی ہے، اس کا علم بھی اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ ٨۔ ٣ یعنی کسی کی زندگی کتنی ہے؟ اسے رزق سے کتنا حصہ ملے گا ؟ اس کا پورا اندازہ اللہ کو ہے۔ الرعد
9 الرعد
10 الرعد
11 ١١۔ ١ معقبات،، معقبۃ۔ کی جمع ہے ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے، مراد فرشتے ہیں جو باری باری ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں۔ دن کے فرشتے جاتے ہیں تو شام کے آجاتے ہیں شام کے جاتے ہیں تو دن کے آجاتے ہیں۔ ١١۔ ٢ اس کی تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ انفال آیت ٥٣ کا حاشیہ۔ الرعد
12 ١٢۔ ١ جس سے راہ گیر مسافر ڈرتے ہیں اور گھروں میں مقیم کسان اور کاشت کار اس کی برکت و منفعت کی امید رکھتے ہیں۔ ١٢۔ ٢ بھاری بادلوں سے مراد، وہ بادل ہیں جس میں بارش کا پانی ہوتا ہے۔ الرعد
13 ١٣۔ ١ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّاُ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ) (بنی اسریئیل۔ ٤٤) ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے۔ ١٣۔ ٢ یعنی اس کے ذریعے جس کو چاہتا ہے، ہلاک کر ڈالتا ہے۔ ١٣۔ ٣ محال۔ کے معنی قوت مواخذہ اور تدبیر وغیرہ کے کیے گئے ہیں یعنی وہ بڑی قوت والا، نہایت مواخذہ کرنے والا اور تدبیر کرنے والا ہے۔ الرعد
14 ١٤۔ ١ یعنی خوف اور امید کے وقت اسی ایک اللہ کو پکارنا صحیح ہے کیونکہ وہی ہر ایک کی پکار سنتا ہے اور قبول فرماتا ہے یا دعوت۔ عبادت کے معنی میں ہے یعنی، اسی کی عبادت حق اور صحیح ہے اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، کیونکہ کائنات کا خالق، مالک اور مدبر صرف وہی ہے اس لئے عبادت صرف اسی کا حق ہے۔ ١٤۔ ٢ یعنی جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو مدد کے لئے پکارتا ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص دور سے پانی کی طرف اپنی دونوں ہتھلیاں پھیلا کر پانی سے کہے کہ میرے منہ تک آجا، ظاہر بات ہے کہ پانی جامد چیز ہے، اسے پتہ ہی نہیں کہ ہتھیلیاں پھیلانے والے کی حاجت کیا ہے، اور نہ اسے پتہ ہے کہ وہ مجھ سے اپنے منہ تک پہنچنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اور نہ اس میں یہ قدرت ہے کہ اپنی جگہ سے حرکت کر کے اس کے ہاتھ یا منہ تک پہنچ جائے اسی طرح یہ مشرک اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انھیں نہ یہ پتہ ہے کہ کوئی انھیں پکار رہا ہے اور اس کی فلاں حاجت ہے اور نہ اس حاجت روائی کی ان میں قدرت ہی ہے۔ ١٤۔ ٣ اور بے فائدہ بھی ہے، کیونکہ اس سے ان کو کئی نفع نہیں ہوگا۔ الرعد
15 ١٥۔ ١ اس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت کا بیان ہے کہ ہر چیز پر اس کا غلبہ ہے اور ہر چیز اس کے ما تحت اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہے، چاہے مومنوں کی طرح خوشی سے کریں یا مشرکوں کی طرح ناخوشی سے۔ اور ان کے سائے بھی صبح و شام سجدہ کرتے ہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ (اَوَلَمْ یَرَوْا اِلٰی مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنْ شَیْءٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُہٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَالشَّمَاۗیِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰہِ وَہُمْ دٰخِرُوْنَ) 16۔ النحل :48) سورۃ النحل کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے جو چیز بھی پیدا کی ہے ان کے سائے داہنے اور بائیں سے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے ڈھلتے ہیں اور وہ عاجزی کرتے ہیں اس سجدے کی کیفیت کیا ہے؟ یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے یا دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ کافر سمیت تمام مخلوق اللہ کے حکم کے تابع ہے کسی میں اسی سے سرتابی کی مجال نہیں اللہ تعالیٰ کسی کو صحت دے بیمار کرے غنی کر دے یا فقیر بنا دے زندگی دے یا موت سے ہمکنار کرے ان تکوینی احکام میں کسی کافر کو بھی مجال انکار نہیں۔ الرعد
16 ١٦۔ ١ یہاں تو پیغمبر کی زبان سے اقرار ہے۔ لیکن قرآن کے دوسرے مقامات سے واضح ہے کہ مشرکین کا جواب بھی یہی ہوتا تھا۔ ١٦۔ ٢ یعنی جب تمہیں اقرار و اعتراف ہے کہ آسمان و زمین کا رب اللہ ہے جو تمام اختیارات کا بلا شرکت غیر مالک ہے پھر تم اسے چھوڑ کر ایسوں کو کیوں دوست اور حمائتی سمجھتے ہو جو اپنی بابت بھی نفع نقصان کا اختیار نہیں رکھتے۔ ١٦۔ ٣ یعنی جس طرح اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے اسی طرح موحد اور مشرک برابر نہیں ہو سکتے اس لئے کہ موحد توحید کی بصیرت سے معمور ہے جب کہ مشرک اس سے محروم ہے۔ موحد کی آنکھیں ہیں، وہ توحید کا نور دیکھتا ہے اور مشرک کو یہ نور توحید نظر نہیں آتا، اس لئے وہ اندھا ہے۔ اسی طرح، جس طرح اندھیریاں اور روشنی برابر نہیں ہو سکتی۔ ایک اللہ کا پجاری، جس کا دل نورانیت سے بھرا ہوا ہے، اور ایک مشرک، جو جہالت و توہمات کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے، برابر نہیں ہو سکتے۔ ١٦۔ ٤ یعنی ایسی بات نہیں ہے کہ یہ کسی شبے کا شکار ہوگئے ہوں بلکہ یہ مانتے ہیں کہ ہر چیز کا خالق صرف اور صرف اللہ ہی ہے۔ الرعد
17 ١٧۔ ١ بقدرھا وسعت کے مطابق کا مطلب ہے نالے یعنی وادی دو پہاڑوں کے درمیان کی جگہ تنگ ہو تو کم پانی کشادہ ہو تو زیادہ پانی اٹھاتی ہے یعنی نزول قرآن کو جو ہدایت اور بیان کا جاع ہے بارش کے نزول سے تشبیہ دی ہے اس لیے کہ قرآن کا نفع بھی بارش کے نفع کی طرح عام ہے اور وادیوں کو تشبیہ دی ہے دلوں کے ساتھ اس لیے کہ وادیوں نالوں میں پانی جا کر ٹھرتا ہے جس طرح قرآن کا اور ایمان مومنوں کے دلوں میں قرار پکڑتا ہے۔ ١٧۔ ١ اس جھاگ سے جب پانی اوپر آجاتا ہے اور جو ناکارہ ہو ختم ہوجاتا ہے اور ہوائیں جسے اڑا لے جاتی ہیں کفر مراد ہے، جو جھاگ ہی کی طرح اڑ جانے والا اور ختم ہوجانے والا ہے۔ ١٧۔ ٢ یہ دوسری شکل ہے کہ تانبے پیتل، سیسے یا سونے چاندی کو زیور یا سامان وغیرہ بنانے کے لئے آگ میں تپایا جاتا ہے تو اس پر بھی جھاگ کی شکل میں اوپر آجاتا ہے۔ پھر یہ جھاگ دیکھتے دیکھتے ختم ہوجاتا ہے اور دھات اصلی شکل میں باقی رہ جاتا ہے۔ ١٧۔ ٣ یعی جب حق اور باطل کا آپس میں اجتماع اور ٹکراؤ ہوتا ہے تو باطل کو اسی طرح اثبات اور دوام نہیں ہوتا، جس طرح سیلابی ریلے کا جھاگ پانی کے ساتھ، دھاتوں کا جھاگ، جن کو آگ میں تپایا جاتا ہے دھاتوں کے ساتھ باقی نہیں رہتا بلکہ ناکارہ اور ختم ہوجاتا ہے۔ ١٧۔ ٤ یعنی اس سے کوئی نفع نہیں ہوتا، کیونکہ جھاگ پانی یا دھات کے باقی رہتا ہی نہیں بلکہ آہستہ آہستہ بیٹھ جاتا ہے یا ہوائیں اسے اڑا لے جاتی ہیں۔ باطل کی مثال بھی جھاگ ہی کی طرح ہے۔ ١٧۔ ٥ یعنی پانی اور سونا، چاندی، تانبا، پیتل وغیرۃ یہ چیزیں باقی رہتی ہیں جن سے لوگ فائدہ اٹھاتے اور فیض یاب ہوتے ہیں، اسی طرح حق باقی رہتا ہے جس کے وجود کو بھی زوال نہیں اور جس کا نفع بھی دائمی ہے۔ ١٧۔ ٦  یعنی بات کو سمجھانے اور ذہن نشین کرانے کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے، جیسے یہیں دو مثالیں بیان فرمائیں اور اسی طرح سورۃ بقرہ کے آغاز میں منافقین کے لئے مثالیں بیان فرمائیں۔ اسی طرح سورۃ نور، آیات ٣٩، ٤٠ میں کافروں کے لئے دو مثالیں بیان فرمائیں۔ اور احادیث میں بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مثالوں کے ذریعے سے لوگوں کو بہت سی باتیں سمجھائیں۔ تفصیل کے لیے دیکھئے تفسیر ابن کثیر الرعد
18 ١٨۔ ١ یہ مضمون اس سے قبل بھی دو تین جگہ گزر چکا ہے۔ ١٨۔ ٢ کیونکہ ان سے ہر چھوٹے بڑے عمل کا حساب لیا جائے گا اور ان کا معاملہ (جس سے حساب میں جرح کی گئی اس کا بچنا مشکل ہوگا، وہ عذاب سے دو چار ہو کر ہی رہے گا) آئینہ دار ہوگا۔ اسی لئے آگے فرمایا اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ الرعد
19 ١٩۔ ١ یعنی ایک وہ شخص جو قرآن کی حقانیت و صداقت پر یقین رکھتا ہو اور دوسرا اندھا ہو یعنی اسے قرآن کی صداقت میں شک ہوگیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ استفہام انکار کے لیے ہے یعنی یہ دونوں اسی طرح برابر نہیں ہو سکتے جس طرح جھاگ اور پانی یا سونا تانبا اور اس کی میل کچیل برابر نہیں ہو سکتے ١٩۔ ٢ یعنی جن کے پاس قلب سلیم اور عقل صحیح نہ ہو اور جنہوں نے اپنے دلوں کو گناہوں کے زنگ سے آلودہ اور اپنی عقلوں کو خراب کرلیا ہو، وہ اس قرآن سے نصیحت حاصل نہیں کرسکتے۔ الرعد
20 ٢٠۔ ١ یہ اہل دانش کی صفات بیان کی جا رہی ہیں، اللہ کے عہد سے مراد، اس کے احکام (اوامر و نواہی) ہیں جنہیں بجا لاتے ہیں۔ یا وہ عہد ہے، جو عَھْدِ الَسْت کہلاتا ہے، جس کی تفصیل سورۃ اعراف میں گزر چکی ہے۔ ٢٠۔ ٢ اس سے مراد وہ باہمی معاہدے اور وعدے ہیں جو وہ آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں یا وہ جو ان کے اور ان کے رب کے درمیان ہیں۔ الرعد
21 ٢١۔ ١ یعنی رشتوں اور قرابتوں کو توڑتے نہیں ہیں، بلکہ ان کو جوڑتے اور صلہ رحمی کرتے ہیں۔ الرعد
22 ٢٢۔ ١ اللہ کی نافرمانی اور گناہوں سے بچتے ہیں۔ یہ صبر کی ایک قسم ہے۔ تکلیفوں اور آزمائشوں پر صبر کرتے ہیں، یہ دوسری قسم ہے۔ اہل دانش دونوں قسم کا صبر کرتے ہیں۔ ٢٢۔ ٢ ان کی حدود و مواقیت، خشوع و خضوع اور اعتدال ارکان کے ساتھ۔ نہ کہ اپنے من مانے طریقے سے۔ ٢٢۔ ٣ یعنی جہاں جہاں اور جب بھی، خرچ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے، اپنوں اور بیگانوں میں اور خفیہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں۔ ٢٢۔ ٤ یعنی ان کے ساتھ کوئی برائی سے پیش آتا ہے تو وہ اس کا جواب اچھائی سے دیتے ہیں، یا عفو و درگزر اور صبر جمیل سے کام لیتے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' (اِدْفَعْ بالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ) 41۔ حم السجدۃ:34۔ برائی کا جواب ایسے طریقے سے دو جو اچھا ہو (اگر تم ایسا کرو گے) تو وہ شخص جو تمہارا دشمن ہے، ایسا ہوجائے گا گویا وہ تمہارا گہرا دوست ہے '۔ ٢٢۔ ٥ یعنی جو اعلٰی اخلاق کے حامل اور مزکورہ خوبیوں سے متصف ہوں گے، ان کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔ الرعد
23 ٢٣۔ ١ عدن کے معنی ہیں اقامت۔ یعنی ہمیشہ رہنے والے باغات۔ ٢٣۔ ٢ یعنی اس طرح نیک قرابت داروں کو آپس میں جمع کر دے گا تاکہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں حتٰی کہ ادنٰی درجے کے جنتی کو اعلٰی درجہ عطا فرما دے گا تاکہ وہ اپنے قرابت دار کے ساتھ جمع ہوجائے۔ فرمایا (وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّــتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَمَآ اَلَتْنٰہُمْ مِّنْ عَمَلِہِمْ مِّنْ شَیْءٍ ۭ کُلُّ امْرِی بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌ 21؀) 52۔ الطور :21) اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی تو ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ان کی اولاد کو اور ان کے عملوں سے ہم کچھ گھٹائیں گے نہیں، اس سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ نیک رشتے داروں کو اللہ تعالیٰ جنت میں جمع فرما دے گا، وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی کے پاس ایمان اور عمل صالح کی پونجی نہیں ہوگی، تو وہ جنت میں نہیں جائے گا، چاہے اس کے دوسرے نہایت قریبی رشتے دار جنت میں چلے گئے ہوں۔ کیونکہ جنت میں داخلہ حسب نسب کی بنیاد پر نہیں، ایمان و عمل کی بنیاد پر ہوگا۔ (من بطاء بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ) صحیح مسلم۔ جسے اس کا عمل پیچھے چھوڑ گیا اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھائے گا۔ الرعد
24 الرعد
25 ٢٥۔ ١ یہ نیکوں کے ساتھ بروں کا حشر بیان فرما دیا تاکہ انسان اس حشر سے بچنے کی کوشش کرے۔ الرعد
26 ٢٦۔ ١ جب کافروں اور مشرکوں کے لئے یہ کہا کہ ان کے لئے برا گھر ہے، تو ذہن میں یہ اشکال آ سکتا ہے کہ دنیا میں تو انھیں ہر طرح کی آسائشیں اور سہولتیں مہیا ہیں۔ اس کے ازالے کے لئے فرمایا کہ دنیاوی اسباب اور رزق کی کمی بیشی یہ اللہ کے اختیار میں ہے وہ اپنی حکمت و مشیت، جس کو صرف وہی جانتا ہے، کے مطابق کسی کو زیادہ دیتا ہے کسی کو کم رزق کی فروانی، اس بات کی دلیل ؛ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے اور کمی کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہے۔ ٢٦۔ ٢ کسی کو اگر دنیا کا مال زیادہ مل رہا ہے، باوجودیکہ وہ اللہ کا نافرمان ہے تو یہ مقام فرحت و مسرت نہیں، کیونکہ یہ استدراج ہے، مہلت ہے پتہ نہیں کب یہ مہلت ختم ہوجائے اور اللہ کی پکڑ کے شکنجے میں آجائے۔ ٢٦۔ ٣ حدیث میں آتا ہے کہ دنیا کی حیثیت، آخرت کے مقابلے میں اس طرح ہے جیسے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈال کر نکالے، تو دیکھے سمندر کے پانی کے مقابلے میں اس کی انگلی میں کتنا پانی آیا ہے؟ (صحیح بخاری) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گزر بکری کے ایک مردہ بچے کے پاس سے ہوا، تو اسے دیکھ کر آپ نے فرمایا، اللہ کی قسم دنیا، اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ حقیر ہے جتنا یہ مردہ، اپنے مالکوں کے نزدیک اس وقت حقیر تھا جب انہوں نے اسے پھینکا (صحیح مسلم) الرعد
27 الرعد
28 ٢٨۔ ١ اللہ کا ذکر سے مراد، اس کی توحید کا بیان ہے، جس سے مشرکوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا ہوجاتا ہے، یا اس کی عبادت، تلاوت قرآن، نوافل اور دعا و مناجات ہے جو اہل ایمان کے دلوں کی خوراک ہے یا اس کے احکام و فرامین کی اطاعت و بجا آوری ہے، جس کے بغیر اہل ایمان و تقویٰ بے قرار رہتے ہیں۔ الرعد
29 ٢٩۔ ١ طُوْبٰی کے مختلف معانی بیان کئے گئے ہیں مثلاً خیر، حسنٰی، کرامت، رشک، جنت میں مخصوص درخت یا مخصوص مقام وغیرہ مفہوم سب کا ایک ہی ہے یعنی جنت میں اچھا مقام اور اس کی نعمتیں اور لذتیں۔ الرعد
30 ٣٠۔ ١ جس طرح ہم نے آپ کو تبلیغ رسالت کے لئے بھیجا ہے، اسی طرح آپ سے پہلی امتوں میں بھی رسول بھیجے تھے، ان کی بھی اسی طرح تکذیب کی گئی جس طرح آپ کی کی گئی اور جس طرح تکذیب کے نتیجے میں وہ قومیں عذاب الٰہی سے دو چار ہوئیں، انھیں بھی اس انجام سے بے فکر نہیں رہنا چاہیے۔ ٣٠۔ ٢ مشرکین مکہ رحمٰن کے لفظ سے بڑا بدکتے تھے، صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی جب بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے الفاظ لکھے گئے تو انہوں نے کہا یہ رحمٰن رحیم کیا ہے؟ ہم نہیں جانتے۔ (ابن کثیر) ٣٠۔ ٣ یعنی رحمٰن، میرا وہ رب ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ الرعد
31 ٣١۔ ١ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ہر آسمانی کتاب کو قرآن کہا جاتا ہے، جس طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام)، جانور کو تیار کرنے کا حکم دیتے اور اتنی دیر میں ایک مرتبہ قرآن کا ورد کرلیتے ' (صحیح بخاری) یہاں ظاہر بات ہے قرآن سے مراد زبور ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ اگر پہلے کوئی آسمانی کتاب ایسی نازل ہوئی ہوتی کہ جسے سن کر پہاڑ رواں دواں ہوجاتے یا زمین کی مسافت طے ہوجاتی یا مردے بول اٹھتے تو قرآن کریم کے اندر یہ خصوصیت بدرجہ اولیٰ موجود ہوتی، کیونکہ یہ اعجاز و بلاغت میں پچھلی کتابوں سے فائق ہے۔ اور بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اگر اس قرآن کے ذریعے سے معجزات ظاہر ہوتے، تب بھی کفار ایمان نہ لاتے، کیونکہ ایمان لانا نہ لانا یہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، معجزوں پر نہیں۔ اسی لئے فرمایا، سب کام اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ ٣١۔ ٢ جو ان کے مشاہدے یا علم میں ضرور آئے گا تاکہ وہ عبرت پکڑ سکیں۔ ٣١۔ ٣ یعنی قیامت واقعہ ہوجائے، یا اہل اسلام کو قطعی فتح و غلبہ حاصل ہوجائے۔ الرعد
32 ٣٢۔ ١ حدیث میں آتا ہے '(ان اللہ لیملی للظالم حتی اذا اخذہ لم یفلتہ) اللہ ظالم کو مہلت دیئے جاتا ہے حتٰی کہ جب اسے پکڑتا ہے تو پھر چھوڑتا نہیں ' اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وَکَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ ۭ اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ) (11۔ ہود :102) اسی طرح تیرے رب کی پکڑ ہے جب وہ ظلم کی مرتکب بستیوں کو پکڑتا ہے۔ یقینا اس کی پکڑ بہت ہی الم ناک اور سخت ہے۔ (صحیح بخاری)۔ الرعد
33 ٣٣۔ ١ یہاں اس کا جواب محذوف ہے یعنی کیا رب العزت اور وہ معبودان باطل برابر ہو سکتے ہیں جن کی عبادت کرتے ہیں، جو کسی کو نفع پہنچانے پر، نہ دیکھتے ہیں اور نہ عقل وشعور سے بہرہ ور ہیں۔ ٣٣۔ ٢ یعنی ہمیں بھی تو بتاؤ تاکہ انھیں پہچان سکیں اس لئے کہ ان کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔ اس لئے آگے فرمایا، کیا تم اللہ کو وہ باتیں بتاتے ہو جو وہ زمین میں جانتا ہی نہیں، یعنی ان کا وجود ہی نہیں۔ اس لئے کہ اگر زمین میں ان کا وجود ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے علم میں ضرور ہوتا، اس پر تو کوئی چیز مخفی نہیں ہے۔ ٣٣۔ ٣ یہاں ظاہر ظن کے معنی میں ہے یعنی یا یہ صرف ان کی ظنی باتیں ہیں، مطلب یہ ہے کہ تم ان بتوں کی عبادت اس گمان پر کرتے ہو کہ یہ نفع نقصان پہنچا سکتے ہیں اور تم ان کے نام بھی معبود رکھے ہوئے ہیں، حالانکہ، یہ تمہارے اور تمہارے باپوں کے رکھے ہوئے نام ہیں، جن کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں اتاری۔ یہ صرف گمان اور خواہش نفس کی پیروی کرتے ہیں (النجم۔ ٢٣) ٣٣۔ ٤ مکر سے مراد، ان کے وہ غلط عقائد و اعمال ہیں جن میں شیطان نے ان کو پھنسا رکھا ہے، شیطان نے گمراہیوں پر بھی حسین غلاف چڑھا رکھے ہیں۔ ٣٣۔ ٥ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا، (وَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ شَـیْـــــًٔـا) 5۔ المائدہ :41)۔ جس کو اللہ گمراہ کرنے کا ارادہ کرلے تو اللہ اس کے لئے کچھ اختیار نہیں رکھتا، اور فرمایا۔ (اِنْ تَحْرِصْ عَلٰی ہُدٰیہُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِیْ مَنْ یُّضِلُّ وَمَا لَہُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ) 16۔ النحل :37)۔ اگر تم ان کی ہدایت کی خواہش رکھتے ہو تو (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نہیں دیتا جسے وہ گمراہ کرتا ہے اور ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ الرعد
34 ٣٤۔ ١ اس سے مراد قتل اور اسیری ہے جو مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں ان کافروں کے حصے آتی ہے۔ ٣٤۔ ٢ جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی لعنت ملامت کرنے والے جوڑے سے فرمایا تھا '(ان عذاب الدنیا اھون من عذاب الاخرۃ) صحیح مسلم دنیا کا عذاب، آخرت سے بہت ہلکا ہے ' علاوہ ازیں دنیا کا عذاب (جیسا کچھ اور جتنا کچھ بھی ہو) عارضی اور فانی ہے اور آخرت کا عذاب دائمی ہے، اسے زوال و فنا نہیں، مذید برآں جہنم کی آگ، دنیا کی آگ کی نسبت ٦٩ گنا تیز ہے، اور اس طرح دوسری چیزیں ہیں۔ اس لئے عذاب کے سخت ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے۔ الرعد
35 ٣٥۔ ١ اہل کفار کے انجام بد کے ساتھ اہل ایمان کا حسن انجام بیان فرما دیا تاکہ جنت کے حصول میں رغبت اور شوق پیدا ہو، اس مقام پر امام ابن کثیر نے جنت کی نعمتوں، لذتوں اور ان کی خصوصی کیفیات پر مشتمل احادیث بیان فرمائی ہیں۔ جنہیں وہاں ملاحظہ کرلیا جائے۔ الرعد
36 ٣٦۔ ١ اس سے مراد مسلمان ہیں اور مطلب ہے جو قرآن کے احکام پر عمل کرتے ہیں۔ ٣٦۔ ٢ یعنی قرآن کے صدق کے دلائل و شواہد دیکھ کر مذید خوش ہوتے ہیں۔ ٣٦۔ ٣ اس سے مراد یہود و نصاریٰ اور کفار و مشرکین ہیں۔ بعض کے نزدیک کتاب سے مراد تورات وانجیل ہے، ان میں سے جو مسلمان ہوئے، وہ خوش ہوتے ہیں اور انکار کرنے والے وہ یہود و انصاریٰ ہیں جو مسلمان نہیں ہوئے۔ الرعد
37 ٣٧۔ ١ یعنی جس طرح آپ سے پہلے رسولوں پر کتابیں مقامی زبانوں میں نازل کیں، اسی طرح آپ پر قرآن ہم نے عربی زبان میں اتارا، اس لئے کہ آپ کے مخاطب اولین اہل عرب ہیں، جو صرف عربی زبان ہی جانتے ہیں۔ اگر قرآن کسی اور زبان میں نازل ہوتا تو ان کی سمجھ سے بالا ہوتا اور قبول ہدایت میں ان کے لئے عذر بن جاتا۔ ہم نے قرآن کو عربی میں اتار کر یہ عذر بھی دور کردیا۔ ٣٧۔ ٢ اس سے مراد اہل کتاب کی بعض وہ خواہشیں ہیں جو وہ چاہتے تھے کہ پیغمبر آخر الزماں انھیں اختیار کریں۔ مثلاً بیت المقدس کو ہمیشہ کے لئے قبلہ بنائے رکھنا اور ان کے معتقدات کی مخالفت نہ کرنا وغیرہ۔ ٣٧۔ ٣ اس سے مراد علم ہے جو وحی کے ذریعے سے آپ کو عطا کیا گیا، جس میں اہل کتاب کے معتقدات کی حقیقت بھی آپ پر واضح کردی گئی۔ ٣٧۔ ٤ یہ دراصل امت کے اہل علم کو تنبیہ ہے کہ وہ دنیا کے عارضی مفادات کی خاطر قرآن و حدیث کے واضح احکام کے مقابلے میں لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ لگیں، اگر وہ ایسا کریں گے تو انھیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ الرعد
38 ٣٨۔ ١ یعنی آپ سمیت جتنے بھی رسول اور نبی آئے، سب بشر ہی تھے، جن کا اپنا خاندان اور قبیلہ تھا اور بیوی بچے تھے وہ فرشتے تھے نہ انسانی شکل میں کوئی نوری مخلوق بلکہ جنس بشر ہی میں سے تھے کیونکہ اگر وہ فرشتے ہوتے تو انسانوں کے لیے ان سے مانوس ہونا اور ان کے قریب ہونا ناممکن تھا جس سے ان کو بھیجنے کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا اور اگر وہ فرشتے بشری جامے میں آتے تو دنیا میں نہ ان کا خاندان اور قبیلہ ہوتا اور نہ ان کے بیوی بچے ہوتے جس سے یہ معلوم ہوا کہ تمام انبیاء بحثییت جنس کے بشر ہی تھے بشری شکل میں فرشتے یا کوئی نوری مخلوق نہیں تھے مزکورہ آیت میں ازواجا سے رہبانیت کی تردید اور ذریۃ سے خاندانی منصوبہ بندی کی تردید بھی ہوتی ہے کیونکہ ذریۃ جمع ہے کم از کم تین ہوں گے ٣٨۔ ٢ یعنی معجزات کا صدور، رسولوں کے اختیار میں نہیں کہ جب ان سے مطالبہ کیا جائے تو وہ صادر کر کے دکھا دیں بلکہ یہ اللہ کے اختیار میں ہے وہ اپنی حکمت و مشیت کے مطابق فیصلہ کرتا ہے کہ معجزے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کس طرح اور کب دکھایا جائے۔ ٣٨۔ ٣ یعنی اللہ نے جس چیز کا وعدہ کیا، اس کا ایک وقت مقرر ہے، اس وقت پر یہ واقع ہو کر رہے گا اس لئے اللہ کا وعدہ خلاف نہیں ہوتا۔ ہر وہ امر، جسے اللہ نے لکھ رکھا ہے، اس کا ایک وقت مقرر ہے، یعنی معاملہ، کفار کے ارادے اور منشاء پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ کی مشیت پر موقوف ہے۔ الرعد
39 ٣٩۔ ١ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں وہ جس حکم کو چاہے منسوخ کردے اور جسے چاہے باقی رکھے۔ دوسرے معنی یہ ہیں اس نے جو تقدیر لکھ رکھی ہے، اس میں محو و اثبات کرتا رہتا ہے، اس کے پاس لوح محفوط ہے۔ اس کی تائید بعض احادیث و آثار سے ہوتی ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں آتا ہے کہ ' آدمی گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم کردیا جاتا ہے، دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے اور صلہ رحمی سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے (مسند احمد جلد۔ ٥ ص۔ ٢٧٧) بعض صحابہ سے یہ دعا منقول ہے (اللَّھُمَّ اِنْ کُنْتَ کَتَبْتَّنَا اٰشْقِیَاءَ فَامْحُنَا وَاَکْتُبْنَا سُعَدَاءَ وَاِنَّ کُنْتَ کَتَبْتَنَا سُعَدَاءَ فَائُبِسْتُنَا فَاِنَّکَ تَمْحُوْ مَا تَشَآءُ وَ تُثْبْتُ وَ عِنْدَکَ اُ مُّ الْکِتَابِ) حضرت عمر (رض) سے منقول ہے کہ وہ دوران طواف روتے ہوئے یہ دعا پڑھتے ـ'اللھم ان کنت کتبت علی شقوۃ او ذنبا فامحہ فانک تمحو ما تشاء وتثبت وعندک ام الکتاب فاجعلہ سعادۃ ومغفرۃ۔ ابن کثیر۔ اے اللہ اگر تو نے مجھ پر بدبختی اور گناہ لکھا ہے تو اسے مٹا دے، اس لئے کہ تو جو چاہے مٹائے اور جو چاہے باقی رکھے، تیرے پاس ہی لوح محفوظ ہے، پس تو بدبختی کو سعادت اور مغفرت سے بدل دے (ابن کثیر) اس مفہم پر یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ حدیث میں تو آتا ہے جف القلم بما ہو کائن۔ صحیح بخاری۔ جو کچھ ہونے والا ہے قلم اسے لکھ کر خشک ہوچکا ہے اس کا جواب یہ دیا گیا کہ یہ محو واثبات بھی منجملہ قضاء وتقدیر ہی کے ہے۔ فتح القدیر۔ الرعد
40 الرعد
41 ٤١۔ ١ یعنی عرب کی سرزمین مشرکین پر بتدریج تنگ ہو رہی ہے اور اسلام کو غلبہ عروج حاصل ہو رہا ہے۔ ٤١۔ ٢ یعنی کوئی اللہ کے حکموں کو رد نہیں کرسکتا۔ الرعد
42 ٤٢۔ ١ یعنی مشرکین مکہ سے قبل بھی لوگ رسولوں کے مقابلے میں مکر کرتے رہے ہیں، لیکن اللہ کی تدبیر کے مقابلے میں ان کی کوئی تدبیر اور حیلہ کارگر نہیں ہوا، اسی طرح آئندہ بھی ان کا کوئی مکر اللہ کی مشیت کے سامنے نہیں ٹھر سکے گا۔ ٤٢۔ ٢ وہ اس کے مطابق جزا اور سزا دے گا، نیک کو اس کی نیکی کی جزا دیتا ہے اور بد کو اس کی بد کی سزا دیتا ہے۔ الرعد
43 ٤٣۔ ١ پس وہ جانتا ہے کہ میں اس کا سچا رسول اور اس کے پیغام کا داعی ہوں اور تم جھوٹے ہو۔ ٤٣۔ ٢ کتاب سے مراد جنس کتاب ہے اور مراد تورات اور انجیل کا علم ہے۔ یعنی اہل کتاب میں سے وہ لوگ جو مسلمان ہوگئے ہیں، جیسے عبد اللہ بن اسلام، سلمان فارسی اور تمیم داری وغیرہم (رض) یعنی یہ بھی جانتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ عرب کے مشرکین اہم معاملات میں اہل کتاب کی طرف رجوع کرتے اور ان سے پوچھتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی رہنمائی فرمائی کہ اہل کتاب جانتے ہیں، ان سے تم پوچھ لو۔ بعض کہتے ہیں کہ کتاب سے مراد قرآن ہے اور حاملین علم کتاب، مسلمان ہیں۔ اور بعض نے کتاب سے مراد لوح محفوظ لی ہے۔ یعنی جس کے پاس لوح محفوظ کا علم ہے یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ، مگر پہلا مفہوم زیادہ درست ہے۔ الرعد
0 ابراھیم
1 ١۔ ١ جس طرح دوسرے مقام پر بھی اللہ نے فرمایا '(ہُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِہٖٓ اٰیٰتٍۢ بَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ) 57۔ الحدید :9) سورۃ الحدید۔ وہی ذات ہے جو اپنے بندے پر واضح آیات نازل فرماتی ہے تاکہ وہ تمہیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائے '(اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۙیُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ) 2۔ البقرۃ:257)۔ اللہ ایمان داروں کا دوست ہے، وہ انھیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے۔ ١۔ ٢ یعنی پیغمبر کا کام ہدایت کا راستہ دکھانا ہے۔ لیکن اگر کوئی اس راستے کو اختیار کرلیتا ہے تو یہ صرف اللہ کے حکم اور مشیت سے ہوتا ہے کیونکہ اصل ہادی وہی ہے۔ اس کی مشیت اگر نہ ہو، تو پیغمبر کتنا بھی واعظ و نصیحت کرلے، لوگ ہدایت کا راستہ اپنانے کے لئے تیار نہیں ہوتے، جس کی متعدد مثالیں انبیائے سابقین میں موجود ہیں اور خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجود شدید خواہش کے اپنے مہربان چچا ابو طالب کو مسلمان نہ کرسکے۔ ابراھیم
2 ابراھیم
3 ٣۔ ١ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات میں لوگوں کو بدظن کرنے کے لئے میں میکھ نکالتے اور انھیں مسخ کر کے پیش کرتے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنی اغراض و خواہشات کے مطابق اس میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں۔ ٣۔ ٢ اس لئے کہ ان میں مزکورہ متعدد خرابیاں جمع ہوگئی ہیں۔ مثلاً آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینا، اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکنا اور اسلام میں کجی تلاش کرنا۔ ابراھیم
4 ٤۔ ١ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اہل دنیا پر یہ احسان فرمایا کہ ان کی ہدایت کے لئے کتابیں نازل کیں اور رسول بھیجے، تو اس احسان کی تکمیل اس طرح فرمائی کہ ہر رسول کو قومی زبان میں بھیجا تاکہ کسی کو ہدایت کا راستہ سمجھنے میں دقت نہ ہو۔ ٤۔ ٢ لیکن اس بیان و تشریح کے باوجود ہدایت اسے ملے گی جسے اللہ چاہے گا۔ ابراھیم
5 ٥۔ ١ یعنی جس طرح اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو اپنی قوم کی طرف بھیجا اور کتاب نازل کی تاکہ آپ اپنی قوم کو کفر اور شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی کی طرف لائیں۔ اسی طرح ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو معجزات و دلائل دے کر ان کی قوم کی طرف بھیجا۔ تاکہ وہ انھیں کفر کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی عطا کریں۔ آیات سے مراد وہ معجزات ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کئے گئے تھے، یا وہ نو معجزات ہیں جن کا ذکر سورۃ بنی اسرائیل میں کیا گیا ہے۔ ٥۔ ٢ اَ یَّام اللّٰہِ سے مراد اللہ کے وہ احسنات ہیں جو بنی اسرائیل پر کئے گئے جن کی تفصیل پہلے کئی مرتبہ گزر چکی ہے۔ یا ایام وقائع کے معنی میں ہے، یعنی وہ واقعات ان کو یاد دلا جن سے وہ گزر چکے ہیں جن میں ان پر اللہ تعالیٰ کے خصوصی انعامات ہوئے۔ جن میں سے بعض کا تذکرہ یہاں بھی آرہا ہے۔ ٥۔ ٣ صبر اور شکر یہ دو بڑی خوبیاں ہیں اور ایمان کا مدار ان پر ہے، اس لئے یہاں صرف ان دو کا تذکرہ کیا گیا ہے دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔ صبار، بہت صبر کرنے والا، شکور، بہت شکر کرنے والا اور صبر کو شکر پر مقدم کیا ہے اس لئے کہ شکر، صبر کا نتیجہ ہے۔ حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لئے جس امر کا بھی فیصلہ کرے، وہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، اگر اسے تکلیف پہنچے اور وہ صبر کرے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے اور اگر اسے کوئی خوشی پہنچے، وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے '(صحیح مسلم) ابراھیم
6 ٦۔ ١ یعنی جس طرح یہ ایک بہت بڑی آزمائش تھی اسی طرح اس سے نجات اللہ کا بہت بڑا احسان تھا، اسی لئے بعض مترجمین نے بَلَاَء کا ترجمہ آزمائش اور بعض نے احسان کیا ہے۔ ابراھیم
7 ٧۔ ١ اس نے تمہیں اپنے وعدے سے تمہیں آگاہ اور خبردار کردیا ہے۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ یہ قسم کے معنی میں ہو یعنی جب تمہارے رب نے اپنی عزت و جلال اور کبریائی کی قسم کھا کر کہا (ابن کثیر) ٧۔ ٢ نعمت پر شکر کرنے پر مذید انعامات سے نوازوں گا، ٧۔ ٣ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کفران نعمت (ناشکری) اللہ کو ناپسند ہے، جس پر اس نے سخت عذاب کی وعید بیان فرمائی ہے، اس لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا کہ عورتوں کی اکثریت اپنے خاوندوں کی ناشکری کرنے کی وجہ سے جہنم میں جائے گی (صحیح مسلم) ابراھیم
8 ٨۔ ١ مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ کی شکر گزاری کرے گا تو اس میں اسی کا فائدہ ہے۔ ناشکری کرے گا تو اللہ کا اس میں کیا نقصان ہے؟ وہ تو بے نیاز ہے سارا جہان ناشکرگزار ہوجائے تو اس کا کیا بگڑے گا جس طرح حدیث قدسی میں آتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یا عبادی ! لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم کانوا علی اتقی قلب رجل واحد منکم مازاد ذلک فی ملکی شیئا، یا عبادی! لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم کانوا علی افجر قلب رجل واحد منکم ما نقصٓ ذلک فی ملکی شیئا یا عبادی لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم قاموا فی صٓعید واحد فسالونی فاعطیت کل انسان مسالتہ مانقصٓ ذلک من ملکی شیئا الا کما ینقض المخیط اذا ادخل فی البحر۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اوّل اور آخر اور اسی طرح تمام انسان اور جن، اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں، جو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پر ہزگار ہو، (یعنی کوئی بھی نافرمان نہ رہے) تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں اضافہ نہیں ہوگا اے میرے بندو! اگر تمہارے اول و آخر اور تمام انسان اور جن ایک آدمی کے دل کی طرح ہوجائیں، جو تم میں سب سے بڑا نافرمان اور فاجر ہو تو اس سے میری حکومت اور بادشاہی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اول اور آخر اور انسان و جن، سب ایک میدان میں جمع ہوجائیں اور مجھ سے سوال کریں، پس میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کر دوں تو اس سے میرے خزانے اور بادشاہی میں اتنی ہی کمی ہوگی جتنی سوئی کے سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے ' فَسُبْحَانَہُ وَ تَعَالَی الْغَنِیُّ الْحمِیْدُ '۔ ابراھیم
9 ٩۔ ١ مفسرین نے اس کے مختلف معانی بیان کئے ہیں مثلاً انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے منہوں میں رکھ لئے اور کہا ہمارا تو صرف ایک ہی جواب ہے کہ ہم تمہاری رسالت کے منکر ہیں، ٢۔ انہوں نے اپنی انگلیوں سے اپنے مونہوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ خاموش رہو اور یہ جو پیغام لے کر آئے ہیں ان کی طرف توجہ مت کرو، ٣۔ انہوں نے اپنے ہاتھ رسولوں کے مونہوں پر استہزاءً اور تعجب کے طور پر رکھ لیے جس طرح کوئی شخص ہنسی ضبط کرنے کے لیے ایسا کرتا ہے۔ ٤۔ انہوں نے اپنے ہاتھ اپنے رسولوں کے مونہوں پر رکھ کر کہا خاموش رہو،۔ ٥۔ بطور غیظ وغضب کے اپنے ہاتھ اپنے مونہوں میں لے لیے جس طرح منافقین کی بابت دوسرے مقام پر آتا ہے عضوا علیکم الانامل من الغیظ۔ ال عمران۔ وہ تم پر اپنی انگلیاں غیظ وغضب سے کاٹتے ہیں۔ امام شوکانی اور امام طبری نے اسی آخری معنی کو ترجیح دی ہے۔ ٩۔ ٢ مریب یعنی ایسا شک، کہ جس سے نفس سخت قلق اور اضطراب میں مبتلا ہے۔ ابراھیم
10 ١٠۔ ١ یعنی تمہیں اللہ کے بارے میں شک ہے، جو آسمان و زمین کا خالق ہے۔ علاوہ ازیں وہ ایمان و توحید کی دعوت بھی صرف اس لئے دے رہا ہے کہ تمہیں گناہوں سے پاک کر دے۔ اس کے باوجود تم اس خالق ارض و سماء کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور اس کی دعوت سے تمہیں انکار ہے؟ ١٠۔ ٢ یہ وہی اشکال ہے جو کافروں کو پیش آتا رہا کہ انسان ہو کر کس طرح کوئی وحی الٰہی اور نبوت و رسالت کا مستحق ہوسکتا ہے؟ ١٠۔ ٣ یہ دوسری رکاوٹ ہے کہ ہم ان معبودوں کی عبادت کس طرح چھوڑ دیں جن کی عبادت ہمارے آباء و اجداد کرتے رہے ہیں؟ جب کہ تمہارا مقصد ہمیں ان کی عبادت سے ہٹا کر اللہ واحد کی عبادت پر لگانا ہے۔ ١٠۔ ٤ دلائل و معجزات تو ہر نبی کے ساتھ ہوتے تھے، اس سے مراد ایسی دلیل یا معجزہ ہے جس سے دیکھنے کے وہ آرزومند ہوتے تھے جیسے مشرکین مکہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مختلف قسم کے معجزات طلب کئے تھے، جس کا تذکرہ بنی اسرائیل میں آئے گا۔ ابراھیم
11 ١١۔ ١ رسولوں نے پہلے اشکال کا جواب دیا کہ یقینا ہم تمہارے جیسے بشر ہیں۔ لیکن تمہارا یہ سمجھنا غلط ہے کہ بشر رسول نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ انسانوں کی ہدایت کے لئے انسانوں میں سے ہی بعض انسانوں کو وحی و رسالت کے لئے چن لیتا ہے اور تم سب میں سے یہ احسان اللہ نے ہم پر فرمایا ہے۔ ١١۔ ٢ ان کے حسب منشاء معجزے کے سلسلے میں رسولوں نے جواب دیا کہ معجزے کا صدور ہمارے اختیار میں نہیں، یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ ١١۔ ٣ یہاں مومنیں سے مراد اولا خود انبیاء ہیں یعنی ہمیں سارا بھروسہ اللہ پر ہی رکھنا چاہیے جیسا کہ آگے فرمایا آخر کیا وجہ ہے کہ ہم اللہ پر بھروسہ نہ رکھیں۔ ابراھیم
12 ١٢۔ ١ کہ وہی کفار کی شرارتوں اور سفاہتوں سے بچانے والا ہے۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ہم سے معجزات طلب نہ کریں، اللہ پر توکل کریں، اس کی مشیت ہوگی تو معجزہ ظاہر فرما دے گا ورنہ نہیں۔ ابراھیم
13 ١٣۔ ١ جیسے اور بھی کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا '(وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ ١٧١؀ښ اِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ ١٧٢؀۠ وَاِنَّ جُنْدَنَا لَہُمُ الْغٰلِبُوْنَ ١٧٣؁ )۔ 37۔ الصافات :171)۔ پہلے ہوچکا ہمارا حکم اپنے ان بندوں کے حق میں جو رسول ہیں کہ بیشک وہ فتح مند اور کامیاب ہونگے اور ہمارا لشکر بھی غالب ہوگا '(کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ )۔ 58۔ المجادلہ :21)۔ اور اللہ نے یہ بات لکھ دی ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب ہونگے۔ ابراھیم
14 ١٤۔ ١ یہ مضمون بھی اللہ نے کئی مقامات پر بیان فرمایا ہے مثلاً، (ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصٓلحون)۔ الانبیا۔ ہم نے لکھ دیا زبور میں، نصیحت کے پیچھے کہ آخر زمین کے وارث ہوں گے میرے نیک بندے ' چنانچہ اس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد فرمائی، آپ کو با دل نخواستہ مکے سے نکلنا پڑا لیکن چند سالوں بعد ہی آپ فاتحانہ مکے میں داخل ہوئے اور آپ کو نکلنے پر مجبور کرنے والے ظالم مشرکین سر جھکائے، کھڑے آپ کے اشارہ ابرو کے منتظر تھے لیکن آپ نے خلق عظیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے (لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ) 12۔ یوسف :92) کہہ کر سب کو معاف فرما دیا۔ صٓلوات اللہ وسلامہ علیہ ١٤۔ ٢ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔ (وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰی 40؀ۙ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی 41؀ۭ) 79۔ النازعات :40)۔ النازعات۔ جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکے رکھا یقینا جنت اس کا ٹھکانہ ہے۔۔ (ولمن خاف مقام ربہ جنتن)۔ الرحمن۔ جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔ ابراھیم
15 ١٥۔ ١ اس کا فاعل ظالم مشرک بھی ہو سکتے ہیں کہ انہوں نے بالآخر اللہ سے فیصلہ طلب کیا۔ یعنی اگر یہ رسول سچے ہیں تو یا اللہ ہم کو اپنے عذاب کے ذریعے سے ہلاک کر دے جیسے مشرکین مکہ نے کہا ( اللّٰہُمَّ اِنْ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ) 8۔ الانفال :32) ' اور جب کہ ان لوگوں نے کہا، اے اللہ! اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کر دے '۔ جس طرح جنگ بدر کے موقع پر مشرکین مکہ نے اس قسم کی آرزو کی تھی جس کا ذکر اللہ نے (انفال۔ ١٩) میں کیا ہے یا اس کا فاعل رسول ہوں کہ انہوں نے اللہ سے فتح و نصرت کی دعائیں کیں، جنہیں اللہ نے قبول کیا۔ ابراھیم
16 ١٦۔ ١ صَدِیْد، پیپ اور خون جو جہنمیوں کے گوشت اور ان کی کھالوں سے بہا ہوگا۔ بعض احادیث میں اسے (جہنمیوں کے جسم سے نچوڑا ہوا) اور بعض احادیث میں ہے یہ صدید اتنا گرم اور کھولتا ہوا ہوگا کہ ان کے منہ کے قریب پہنچتے ہی ان کے چہرے کی کھال جھلس کر گر پڑے گی اور اس کا ایک گھونٹ پیتے ہی ان کے پیٹ کی آنتیں پاخانے کے راستے باہر نکل پڑیں گی۔ ابراھیم
17 ١٧۔ ١ یعنی انواع و اقسام کے عذاب چکھ چکھ کر وہ موت کی آرزو کرے گا۔ لیکن، موت وہاں کہاں؟ وہاں تو اسی طرح دائمی عذاب ہوگا۔ ابراھیم
18 ١٨۔ ١ قیامت والے دن کافروں کے عملوں کا بھی یہی حال ہوگا کہ اس کا کوئی اجر و ثواب انھیں نہیں ملے گا۔ ابراھیم
19 ابراھیم
20 ٢٠۔ ١ یعنی اگر تم نافرمانیوں سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ تمہیں ہلاک کر کے، تمہاری جگہ نئی مخلوق پیدا کر دے۔ ابراھیم
21 ٢١۔ ١ یعنی سب میدان محشر میں اللہ کے ربرو ہوں گے، کوئی کہیں چھپ نہ سکے گا۔ ٢١۔ ٢ بعض کہتے ہیں کہ جہنمی آپس میں کہیں گے کہ جنتیوں کو جنت اس لئے ملی کہ وہ اللہ کے سامنے روتے اور گڑگڑاتے تھے، آؤ ہم بھی اللہ کی بارگاہ میں آہو زاری کریں چنانچہ وہ روئیں گے اور خوب آہو زاری کریں گے۔ لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، پھر کہیں گے کہ جنتیوں کو جنت ان کے صبر کرنے کی وجہ سے ملی، چلو ہم بھی صبر کرتے ہیں، وہ صبر کا بھرپور مظاہرہ کریں گے، لیکن اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا، پس اس وقت کہیں گے ہم صبر کریں یا بے صبری، اب چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں۔ یہ ان کی باہمی گفتگو جہنم کے اندر ہوگی۔ قرآن کریم میں اس کو اور بھی کئی جگہ بیان کیا گیا ہے مثلاً سورۃ مومن (وَاِذْ یَتَـحَاۗجُّوْنَ فِی النَّارِ فَیَقُوْلُ الضُّعَفٰۗؤُا لِلَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْٓا اِنَّا کُنَّا لَکُمْ تَبَعًا فَہَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا نَصِیْبًا مِّنَ النَّارِ 47؀ قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْٓا اِنَّا کُلٌّ فِیْہَآ ۙ اِنَّ اللّٰہَ قَدْ حَکَمَ بَیْنَ الْعِبَادِ 48؀) 40۔ المومن :48-47) سورۃ اعراف (قَالَ ادْخُلُوْا فِیْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ فِی النَّارِ ۭکُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّۃٌ لَّعَنَتْ اُخْتَہَا ۭ حَتّٰی اِذَا ادَّارَکُوْا فِیْہَا جَمِیْعًا ۙ قَالَتْ اُخْرٰیہُمْ لِاُوْلٰیہُمْ رَبَّنَا ہٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِہِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ڛ قَالَ لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ 38؀ وَقَالَتْ اُوْلٰیہُمْ لِاُخْرٰیہُمْ فَمَا کَانَ لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْسِبُوْنَ 39؀ۧ) 7۔ الاعراف :39-38) ( یَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْہُہُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَآ اَطَعْنَا اللّٰہَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا 66؀ وَقَالُوْا رَبَّنَآ اِنَّآ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَکُبَرَاۗءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِیْلَا 67؀) 33۔ الاحزاب :67-66) اس کے علاوہ آپس میں جھگڑیں گے بھی اور ایک دوسرے پر گمراہ کرنے کا الزام دھریں گے۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ جھگڑا میدان محشر میں ہوگا۔ اس کی مذید تفصیل اللہ تعالیٰ نے سورۃ سبا (وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَلَا بالَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ ۭ وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ ښ یَرْجِــعُ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضِۨ الْقَوْلَ ۚ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْـتَکْبَرُوْا لَوْلَآ اَنْتُمْ لَکُنَّا مُؤْمِنِیْنَ 31؀ قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوْا لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْٓا اَنَحْنُ صَدَدْنٰکُمْ عَنِ الْہُدٰی بَعْدَ اِذْ جَاۗءَکُمْ بَلْ کُنْتُمْ مُّجْرِمِیْنَ 32؀ وَقَالَ الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِیْنَ اسْـتَکْبَرُوْا بَلْ مَکْرُ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ اِذْ تَاْمُرُوْنَــنَآ اَنْ نَّکْفُرَ باللّٰہِ وَنَجْعَلَ لَہٗٓ اَنْدَادًا ۭ وَاَسَرُّوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ ۭ وَجَعَلْنَا الْاَغْلٰلَ فِیْٓ اَعْنَاقِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ۭ ہَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ 33؀) 34۔ سباء :31 تا 33) میں بیان فرمائی ہے۔ ابراھیم
22 ٢٢۔ ١ یعنی اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر و شرک جہنم میں چلے جائیں گے تو شیطان جہنمیوں سے کہے گا ٢٢۔ ٢ اللہ نے جو وعدے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے کئے تھے کہ نجات میرے پیغمبروں پر ایمان لانے میں ہے۔ وہ حق پر تھے ان کے مقابلے میں میرے وعدے تو سراسر دھوکا اور فریب تھے۔ جس طرح اللہ نے فرمایا ' شیطان ان سے وعدے کرتا ہے اور آرزوئیں دلاتا ہے لیکن شیطان کے یہ وعدے محض دھوکا ہیں ' (النساء۔ ٢٠) ٢٢۔ ٣ دوسرا یہ کہ میری باتوں میں کوئی دلیل و حجت نہیں ہوتی تھی، نہ میرا کوئی دباؤ ہی تم پر تھا۔ ٢٢۔ ٤ ہاں میری دعوت اور پکار تھی، تم نے میری بےدلیل پکار کو مان لیا اور پیغمبروں کی دلیل و حجت سے بھرپور باتوں کو رد کردیا۔ ٢٢۔ ٥ اس لئے قصور سارا تمہارا اپنا ہی ہے تم نے عقل و شعور سے ذرا کام نہ لیا، دلائل واضحہ کو تم نے نظر انداز کردیا، اور مجرد دعوے کے پیچھے لگ رہے، جس کی پشت پر کوئی دلیل نہیں۔ ٢٢۔ ٦ یعنی نہ میں تمہیں عذاب سے نکلوا سکتا ہوں جس میں تم مبتلا ہو اور نہ تم اس قہر و غضب سے مجھے بچا سکتے ہو جو اللہ کی طرف سے مجھ پر ہے۔ ٢٢۔ ٧ مجھے اس بات سے بھی انکار ہے کہ میں اللہ کا شریک ہوں، اگر تم مجھے یا کسے اور کو اللہ کا شریک گردانتے رہے تو تمہاری اپنی غلطی اور نادانی تھی، جس اللہ نے ساری کائنات بنائی تھی اور اس کی تدبیر بھی وہی کرتا رہا، بھلا اس کا کوئی شریک کیونکر ہوسکتا تھا۔ ٢٢۔ ٨ بعض کہتے ہیں کہ یہ جملہ بھی شیطان ہی کا ہے اور یہ اس کے مذکورہ خطبے کا تتمہ ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ شیطان کا کلام مِنْ قَبْلُ پر ختم ہوگیا، یہ اللہ کا کلام ہے۔ ابراھیم
23 ٢٣۔ ١ یہ اہل شقاوت و اہل کفر کے مقابلے میں اہل سعادت اور اہل ایمان کا تذکرہ ہے۔ ان کا ذکر ان کے ساتھ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کے اندر اہل ایمان والا کردار اپنانے کا شوق و رغبت پیدا ہو۔ ٢٣۔ ٢ یعنی آپس میں ان کا تحفہ ایک دوسرے کو سلام کرنا ہوگا۔ علاوہ ازیں فرشتے بھی ہر ہر دروازے سے داخل ہو ہو کر انھیں سلام عرض کریں گے۔ ابراھیم
24 ابراھیم
25 ٢٥۔ ١ اس کا مطلب ہے کہ مومن کی مثال اس درخت کی طرح ہے، جو گرمی ہو یا سردی ہر وقت پھل دیتا ہے۔ اسی طرح مومن کے اعمال صالحہ شب و روز کے لمحات میں ہر آن اور ہر گھڑی آسمان کی طرف لے جائے جاتے ہیں، کَلِمَۃ طَیِّبَۃ سے اسلام، یا لا اِلٰہ الا اللہ اور شجرہ طیبہ سے کھجور کا درخت مراد ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے (صحیح بخاری) ابراھیم
26 ٢٦۔ ١ کلمئہ خبیثہ سے مراد کفر اور شجرہ خبیثہ سے حنظل (اندرائن) کا درخت مراد ہے۔ جس کی جڑ زمین کے اوپر ہی ہوتی ہے اور ذرا سے اشارے سے اکھڑ جاتی ہے۔ یعنی کافر کے اعمال بالکل بے حیثیت۔ نہ وہ آسمان پر چڑھتے ہیں، نہ اللہ کی بارگاہ میں وہ قبولیت کا درجہ پاتے ہیں۔ ابراھیم
27 ٢٧۔ ١ اس کی تفسیر حدیث میں اس طرح آتی ہے کہ ' موت کے بعد قبر میں جب مسلمان سے سوال کیا جاتا ہے، تو وہ جواب میں اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں پس یہی مطلب ہے اللہ کے فرمان، (یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) 14۔ ابراہیم :27) کا (صحیح بخاری) ایک اور حدیث میں ہے کہ ' جب بندے کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی چلے جاتے ہیں اور وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے۔ پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے اٹھا کر اس سے پوچھتے ہیں کہ اس شخص کے بارے میں تیری کیا رائے ہے، وہ مومن ہوتا ہے تو جواب دیتا ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ فرشتے اسے جہنم کا ٹھکانا دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ نے اس کی جگہ تیرے لئے جنت میں ٹھکانا بنا دیا ہے۔ پس وہ دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے اور اس کی قبر ستر ہاتھ کشادہ کردی جاتی ہے اور اس کی قبر کو قیامت تک نعمتوں سے بھر دیا جاتا ہے ' (صحیح مسلم، باب مذکور) ایک اثر میں ہے، اس سے پوچھا جاتا ہے مَنْ رَبُّکَ ؟ دِیْنُکَ ؟ مَنْ نَّبِّکَ ؟ تیرا رب کون ہے، تیرا دین کیا ہے اور تیرا پیغمبر کون ہے؟ پس اللہ تعالیٰ اسے ثابت قدمی عطا فرماتا ہے اور وہ جواب دیتا ہے رَبِّی اللّٰہُ (میرا رب اللہ ہے)، وَ دِیْنِیَ الاِ سْلَامُ (میرا دین اسلام ہے) وَ نَبِیِّی مُحَمَّد (اور میرے پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں) (تفسیر ابن کثیر) ابراھیم
28 ٢٨۔ ١ اس کی تفسیر صحیح بخاری میں ہے کہ اس سے مراد کفار مکہ ہیں، جنہوں نت رسالت محمدیہ کا انکار کر کے اور جنگ بدر میں مسلمانوں سے لڑ کر اپنے لوگوں کو ہلاک کروایا، تاہم اپنے مفہوم کے اعتبار سے یہ عام ہے اور مطلب یہ ہوگا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے رحمتہ للعالمین اور لوگوں کے لئے نعمت الٰہیہ بنا کر بھیجا، پس جس نے اس نعمت کی قدر کی، اسے قبول کیا، اس نے شکر ادا کیا، وہ جنتی ہوگیا اور جس نے اس نعمت کو رد کردیا اور کفر اختیار کیے رکھا، وہ جہنمی قرار پایا۔ ابراھیم
29 ابراھیم
30 ٣٠۔ ١ یہ تہدید و توبیخ ہے کہ دنیا میں تم جو کچھ چاہو کرلو، مگر کب تک؟ بالآخر تمہارا ٹھکانا جہنم ہے۔ ابراھیم
31 ٣١۔ ١ نماز کو قائم کرنے کا مطلب ہے کہ اسے اپنے وقت پر اور نماز کو ٹھیک طریقہ کے ساتھ اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا جائے، جس طرح کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔ انفاق کا مطلب ہے زکوٰۃ ادا کی جائے، اقارب کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے اور دیگر ضرورت مندوں پر احسان کیا جائے یہ نہیں کہ صرف اپنی ذات اور اپنی ضروریات پر تو بلا دریغ خوب خرچ کیا جائے۔ اور اللہ تعالیٰ کی بتلائی ہوئی جگہوں پر خرچ کرنے سے گریز کیا جائے۔ قیامت کا دن ایسا ہوگا کہ جہاں نہ خرید و فروخت ممکن ہوگی نہ کوئی دوستی ہی کسی کام آئے گی۔ ابراھیم
32 ٣٢۔ ١ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات پر جو انعامات کئے ہیں، ان میں بعض کا تذکرہ یہاں کیا جا رہا ہے۔ فرمایا آسمان کو چھت اور زمین کو بچھونا بنایا۔ آسمان سے بارش نازل فرما کر مختلف قسم کے درخت اور فصلیں اگائیں جن میں ذائقہ اور قوت کے لئے میوے اور فروٹ بھی ہیں اور انواع و اقسام کے غلے بھی جن کے رنگ اور شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ذائقے اور خوشبو اور فوائد بھی مختلف ہیں۔ کشتیوں اور جہازوں کو خدمت میں لگا دیا کہ وہ تلاطم خیز موجوں پر چلتے ہیں انسانوں کو بھی ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچاتے ہیں اور سامان تجارت بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں زمینوں اور پہاڑوں سے چشمے اور نہریں جاری کردیں تاکہ تم بھی سیراب ہو اور اپنے کھیتوں کو بھی سیراب کرو۔ ابراھیم
33 ٣٣۔ ١ یعنی مسلسل چلتے رہتے ہیں، کبھی ٹھرتے نہیں رات کو، نہ دن کو۔ علاوہ ازیں ایک دوسرے کے پیچھے چلتے ہیں لیکن کبھی ان کا باہمی تصادم اور ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ ٣٣۔ ٢ رات اور دن، ان کا باہمی تفاوت جاری رہتا ہے، کبھی رات، دن کا کچھ حصہ لے کر لمبی ہوجاتی ہے اور کبھی دن، رات کا کچھ حصہ لے کر لمبا ہوجاتا ہے۔ اور یہ سلسلہ ابتدائے کائنات سے چل رہا ہے، اس میں ایک رائی فرق نہیں آیا۔ ابراھیم
34 ٣٤۔ ١ یعنی اس نے تمہاری ضرورت کی تمام چیزیں مہیا کیں جو تم اس سے طلب کرتے ہو، وہ بھی دیتا ہے اور جسے نہیں مانگتے، لیکن اسے پتہ ہے کہ وہ تمہاری ضرورت ہے، وہ بھی دے دیتا ہے۔ غرض تمہیں زندگی گزارنے کی تمام سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ ٣٤۔ ٢ یعنی اللہ کی نعمتیں ان گنت ہیں انھیں کوئی شمار میں نہیں لا سکتا۔ چہجائیکہ کوئی ان نعمتوں کے شکر کا حق ادا کرسکے۔ ایک اثر میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کا قول نقل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ' اے رب! میں تیرا شکر کس طرح ادا کروں؟ جب کہ شکر بجائے خود تیری طرف سے مجھ پر ایک نعمت ہے ' اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' اے داؤد اب تو نے میرا شکر ادا کردیا جب کہ تو نے اعتراف کرلیا کہ یا اللہ میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہوں ' (تفسیر ابن کثیر) ٣٤۔ ٣ اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے سے غفلت کی وجہ سے انسان اپنے نفس کے ساتھ ظلم اور بے انصافی کرتا ہے۔ بالخصوص کافر، جو بالکل ہی اللہ سے غافل ہے۔ ابراھیم
35 ٣٥۔ ١ ' اس شہر 'سے مراد مکہ ہے۔ دیگر دعاؤں سے قبل یہ دعا کی کہ اسے امن والا بنا دے، اس لئے کہ امن ہوگا تو لوگ دوسری نعمتوں سے بھی صحیح معنوں میں فائدہ اٹھا سکیں گے، ورنہ امن و سکون کے بغیر تمام آسائشوں اور سہولتوں کے باوجود، خوف اور دہشت کے سائے انسان کو مضطرب اور پریشان رکھتے ہیں۔ جیسے آجکل کے عام معاشروں کا حال ہے۔ سوائے سعودی عرب کے۔ وہاں اس دعا کی برکت سے اور اسلامی حدود کے نفاذ سے آج بھی ایک مثالی امن قائم ہے۔ صانھا اللہ عن الشرور والفتن۔ یہاں انعامات الہیہ کے ضمن میں اسے بیان فرما کر اشارہ کردیا کہ قریش جہاں اللہ کے دیگر انعامات سے غافل ہیں اس خصوصی انعام سے بھی غافل ہیں کہ اس نے انھیں مکہ جیسے امن والے شہر کا باشندہ بنایا۔ ابراھیم
36 ٣٦۔ ١ گمراہ کرنے کی نسبت ان پتھروں کی مورتیوں کی طرف جن کی مشرکین عبادت کرتے تھے، باوجود اس بات کے کہ وہ غیر عاقل ہیں، کیونکہ گمراہی کا باعث تھیں اور ہیں۔ ابراھیم
37 ٣٧۔ ١ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ میں مِن اولاد کے لئے ہے۔ یعنی بعض کہتے ہیں حضرت ابراہم (علیہ السلام) کے آٹھ صلبی بیٹے تھے، جن میں سے صرف حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو یہاں بسایا (فتح القدیر) ٣٧۔ ٢ عبادت میں صرف نماز کا ذکر کیا، جس سے نماز کی اہمیت واضح ہے۔ ٣٧۔ ٣ یہاں بھی اولاد کے لئے ہے۔ کہ کچھ لوگ، مراد اس سے مسلمان ہیں۔ چنانچہ دیکھ لیجئے کہ کس طرح دنیا بھر کے مسلمان مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں اور حج کے علاوہ بھی سارا سال یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اَفْئِدَۃَ النَّاسِ (لوگوں کے دلوں) کہتے تو عیسائی، یہودی، مجوسی اور دیگر تمام لوگ مکہ پہنچتے۔ مِنَ النَّاسِ کے مِنْ نے اس دعا کو مسلمانوں تک محدود کردیا (ابن کثیر) ٣٧۔ ٤ اس دعا کی تاثیر بھی دکھ لی جائے کہ مکہ جیسی بے آب و گیاہ سرزمین میں جہاں کوئی پھلدار درخت نہیں، دنیا بھر کے پھل اور میوے نہایت فراوانی کے ساتھ مہیا ہیں حج کے موقع پر بھی، جب لاکھوں افراد مذید وہاں پہنچ جاتے ہیں، پھلوں کی فراوانی میں کوئی کمی نہیں آتی، کہا جاتا ہے کہ یہ دعا خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد مانگی۔ جب کہ پہلی دعا اس وقت مانگی، جب اپنی اہلیہ اور شیر خوار بچے اسماعیل کو اللہ تعالیٰ کے حکم پر وہاں چھوڑ کر چلے گئے (ابن کثیر) ابراھیم
38 ٣٨۔ ١ مطلب یہ ہے کہ میری دعا کے مقصد کو تو بخوبی جانتا ہے، اس شہر کے لئے دعا سے اصل مقصد تیری رضا ہے تو تو ہر چیز کی حقیقت کو خوب جانتا ہے، آسمان و زمین کی کوئی چیز تجھ سے پوشیدہ نہیں۔ ابراھیم
39 ابراھیم
40 ٤٠۔ ١ اپنے ساتھ اپنی اولاد کے لئے بھی دعا مانگی، جیسے اس سے قبل بھی اپنے ساتھ اپنی اولاد کے لئے بھی دعا مانگی کہ انھیں پتھر کی مورتیوں کو پوجنے سے بچا رکھنا۔ جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے دین کے داعیوں کو اپنے گھر والوں کی ہدایت اور ان کی دینی تعلیم و تربیت سے غافل نہیں رہنا چاہیے تبلیغ و دعوت میں انھیں اولیت دینی چاہیے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی حکم دیا (وَ اَنْذِرُ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ) 26۔ الشعراء :214)' اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائے ' ابراھیم
41 ٤١۔ ١ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دعا اس وقت کی جب کہ ابھی ان پر اپنے ماں باپ کا عَدُوُّاللّٰہِ ہونا واضح نہیں ہوا تھا، جب یہ واضح ہوگیا کہ میرا باپ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے اظہار سبکدوشی کردیا۔ اس لئے کہ مشرکین کے لئے دعا کرنا جائز نہیں چاہے وہ قرابت قریبہ ہی کیوں نہ رکھتے ہوں۔ ابراھیم
42 ٤٢۔ ١ یعنی قیامت کی ہولناکیوں کی وجہ سے۔ اگر دنیا میں اگر اللہ نے کسی کو زیادہ مہلت دے دی اور اس کے مرنے تک اس کا مواخذہ نہیں کیا تو قیامت کے دن تو وہ مواخذہ الٰہی سے نہیں بچ سکے گا، جو کافروں کے لئے اتنا ہولناک دن ہوگا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ ابراھیم
43 ٤٣۔ ١ مھطعین۔ تیزی سے دوڑ رہے ہونگے۔ دوسرے مقام پر فرمایا، مھطعین الی الداع۔ القمر بلانے والے کی طرف دوڑیں گے اور حیرت سے ان کے سر اٹھے ہوئے ہونگے۔ ٤٣۔ ٢ جو ہولناکیاں وہ دیکھیں گے اور جو فکر اور خوف اپنے بارے میں انھیں ہوگا، ان کے پیش نظر ان کی آنکھیں ایک لمحہ کے لئے بھی پست نہیں ہونگی اور کثرت خوف سے ان کے دل گرے ہوئے اور خالی ہونگے۔ ابراھیم
44 ٤٤۔ ١ یعنی دنیا میں تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ کوئی حساب کتاب اور جنت دوزخ نہیں، دوبارہ کسے زندہ ہونا ہے۔ ابراھیم
45 ٤٥۔ ١ یعنی عبرت کے لئے ہم نے تو ان کی پچھلی قوموں کے واقعات بیان کردیئے ہیں، جن کے گھروں میں تم آباد ہو اور ان کے کھنڈرات بھی تمہیں دعوت غور و فکر دے رہے ہیں۔ اگر تم نے ان سے عبرت حاصل نہیں کی اور ان کے انجام سے بچنے کی فکر نہ کرو تو تمہاری مرضی۔ پھر تم بھی اسی انجام کے لئے تیار رہو ابراھیم
46 ٤٦۔ ١ یہ جملہ حالیہ ہے کہ ہم نے ان کے ساتھ جو کیا وہ کیا، درآنحالیکہ انہوں نے باطل کے اثبات اور حق کے رد کرنے کے لئے مقدور بھر حیلے اور مکر کیے اور اللہ کو ان تمام چالوں کا علم ہے یعنی اس کے پاس درج ہے جس کی وہ ان کو سزا دے گا۔ ٤٦۔ ٢ کیونکہ اگر پہاڑ ٹل گئے ہوتے تو اپنی جگہ برقرار نہ ہوتے، جب کہ سب پہاڑ اپنی اپنی جگہ ثابت اور برقرار ہیں۔ یہ ان نافیہ کی صورت میں ہے دوسرے معین ان مخففۃ من المثقلۃ کے لیے گئے ہیں یعنی یقینا ان کے مکر تو اتنے بڑے تھے کہ پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل جاتے یہ تو اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے ان کے مکروں کو کامیاب نہیں ہوتے دیا جیسے مشریکن کے شرک کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ تکاد السموات یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخرالجبال ھدا۔ ان دعوا للرحمن ولدا۔ سورۃ مریم۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں اس بات پر کہ انہوں نے کہا اللہ رحمان کی اولاد ہے۔ ابراھیم
47 ٤٧۔ ١ یعنی اللہ نے اپنے رسولوں سے دنیا اور آخرت میں مدد کرنے کا جو وعدہ کیا ہے، وہ یقینا ایسا ہے، اس سے وعدہ خلافی ممکن نہیں۔ ٤٧۔ ٢ یعنی اپنے دوستوں کے لئے اپنے دشمنوں سے بدلہ لینے والا ہے۔ ابراھیم
48 ٤٨۔ ١ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ آیت میں دونوں احتمال ہیں کہ یہ تبدیلی صفات کے لحاظ سے ہو یا ذات کے لحاظ سے۔ یعنی یہ آسمان و زمین اپنے صفات کے اعتبار سے بدل جائیں گے یا ویسے ہی ذاتی طور پر یہ تبدیلی آئے گی، نہ زمین رہے گی اور نہ یہ آسمان۔ زمین بھی کوئی اور ہوگی اور آسمان بھی کوئی اور حدیث میں آتا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا '۔ یحشر الناس یوم القیامۃ علی الارض بیضاء عفراء کقرصہ النقی لیس فیھا علم لا حد۔ صحیح مسلم قیامت والے دن لوگ سفید بھوری زمین پر اکھٹے ہونگے جو میدہ کی روٹی کی طرح ہوگی۔ اس میں کسی کا کوئی جھنڈا (یا علامتی نشان) نہیں ہوگا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ نے پوچھا کہ جب یہ آسمان و زمین بدل دئیے جائیں گے تو پھر لوگ اس دن کہاں ہونگے؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' صراط پر ' یعنی پل صراط پر (حوالہ مزکور) ایک یہودی کے پوچھنے پر آپ نے فرمایا کہ ' لوگ اس دن پل کے قریب اندھیرے میں ہونگے (صحیح مسلم) ابراھیم
49 ابراھیم
50 ٥٠۔ ١ جو آگ سے فوراً بھڑک اٹھتی ہے۔ علاوہ ازیں آگ نے ان کے چہروں کو بھی ڈھانپا ہوگا۔ ابراھیم
51 ابراھیم
52 ٥٢۔ ١ یہ اشارہ قرآن کی طرف ہے، یا پچھلی تفصیلات کی طرف جو ( وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰہَ غَافِلًا) 14۔ ابراہیم :42) بیان کی گئی ہیں۔ ابراھیم
0 الحجر
1 ١۔ ١ کتاب اور قرآن مبین سے مراد قرآن کریم ہی ہے، جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا۔ جس طرح (ڛ قَدْ جَاۗءَکُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ) 5۔ المائدہ :15) میں نور اور کتاب دونوں سے مراد قرآن کریم کی تکریم اور شان کے لئے ہے۔ یعنی قرآن کامل اور نہایت عظمت وشان والا ہے۔ الحجر
2 ٢۔ ١ یہ آرزو کب کریں گے؟ موت کے وقت، جب فرشتے انھیں جہنم کی آگ دکھاتے ہیں یا جب جہنم میں چلے جائیں گے یا اس وقت جب گنہگار ایمانداروں کو کچھ عرصہ بطور سزا، جہنم میں رکھنے کے بعد جہنم سے نکالا جائے گا یا میدان محشر میں، جہاں حساب کتاب ہو رہا ہوگا اور کافر دیکھیں گے کہ مسلمان جنت میں جا رہے ہیں تو آرزو کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے۔ رُبَمَا اصل میں تو تکثیر کے لئے ہے لیکن کبھی کمی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کی طرف سے یہ آرزو ہر موقعے پر ہوتی رہے گی لیکن اس کا انھیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ الحجر
3 ٣۔ ١ یہ تہدید و تو یخ ہے کہ کافر و مشرک اپنے کفر و شرک سے باز نہیں آ رہے ہیں تو انھیں چھوڑ دیجئے یہ دنیاوی لذتوں سے محفوظ ہولیں اور اپنی امیدیں برلائیں۔ عنقریب انھیں اپنے کفر و شرک کا انجام معلوم ہوجائے گا۔ الحجر
4 الحجر
5 ٥۔ ١ جس بستی کو بھی نافرمانی کی وجہ سے ہلاک کرتے ہیں، تو فوراً ہلاک نہیں کر ڈالتے، بلکہ ہم ایک وقت مقرر کئے ہوئے ہیں، اس وقت تک اس بستی والوں کو مہلت دی جاتی ہے لیکن جب وہ مقررہ وقت آ جاتا ہے تو انھیں ہلاک کردیا جاتا ہے پھر وہ اس سے آگے یا پیچھے نہیں ہوتے۔ الحجر
6 الحجر
7 ٧۔ ١ یہ کافروں کے کفر و عناد کا بیان ہے کہ وہ نبی کو دیوانہ کہتے اور کہتے کہ اگر تو (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچا ہے تو اپنے اللہ سے کہہ کہ وہ فرشتے ہمارے پاس بھیجے تاکہ وہ تیری رسالت کی تصدیق کریں یا ہمیں ہلاک کردیں۔ الحجر
8 ٨۔ ١ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فرشتے ہم حق کے ساتھ بھیجتے ہیں یعنی جب ہماری حکمت و مشیت عذاب بھیجنے کا تقاضا کرتی ہے تو پھر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور پھر وہ مہلت نہیں دیئے جاتے، فوراً ہلاک کردیئے جاتے ہیں۔ الحجر
9 ٩۔ ١ یعنی اس کو دست برد زمانہ سے اور تغیر وتبدل سے بچانا ہمارا کام ہے۔ چنانچہ قرآن آج تک اسی طرح محفوظ ہے جس طرح یہ اترا تھا، گمراہ فرقے اپنے اپنے گمراہانہ عقائد کے اثبات کے لئے اس کی آیات میں معنوی تحریف تو کرتے رہتے ہیں اور آج بھی کرتے ہیں لیکن پچھلی کتابوں کی طرح یہ لفظی تحریف اور تغیر سے محفوظ ہے۔ علاوہ ازیں اہل حق کی ایک جماعت بھی تحریفات معنوی کا پردہ چاک کرنے کے لئے ہر دور میں موجود رہی ہے، جو ان کے گمراہانہ عقائد اور غلط دلائل اور ثبوت بکھیرتی رہی ہے اور آج بھی وہ اس محاذ پر سرگرم عمل ہے۔ علاوہ ازیں قرآن کو یہاں 'ذکر '(نصیحت) کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے اہل جہاں کے لئے ' ذکر ' (یاد دہانی اور نصیحت ہونے) کے پہلو، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کے تابندہ نقوش اور آپ کے فرمودات کو بھی محفوظ کر کے قیامت تک کے لئے باقی رکھا گیا ہے۔ گویا قرآن کریم اور سیرت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے سے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا راستہ ہمیشہ کے لئے کھلا ہوا ہے۔ یہ شرف اور محفوظیت کا مقام پچھلی کسی بھی کتاب اور رسول کو حاصل نہیں ہوا۔ الحجر
10 الحجر
11 ١١۔ ١ یہ گویا نبی کو تسلی دی جا رہی ہے کہ صرف آپ ہی کی تکذیب نہیں کی گئی، ہر رسول کے ساتھ اس کی قوم نے یہی معاملہ کیا۔ الحجر
12 ١٢۔ ١ یعنی کفر اور رسولوں کا استہزاء ہم مجرموں کے دلوں میں دیتے ہیں یا رچا دیتے ہیں، یہ نسبت نے اپنی طرف اس لئے کی کہ ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے گو ان کا فعل ان کی مسلسل معصیت کے نتیجے میں اللہ کی مشیت سے رونما ہوا۔ الحجر
13 ١٣۔ ١ یعنی ان کے ہلاک کرنے کا وہی طریقہ ہے جو اللہ نے پہلے مقرر کر رکھا ہے کہ تکذیب و استہزاء کے بعد وہ قوموں کو ہلاک کرتا ہے۔ الحجر
14 الحجر
15 ١٥۔ ١ یعنی ان کا کفر و عناد اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ فرشتوں کا نزول تو رہا ایک طرف، اگر خود ان کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے جائیں اور یہ ان دروازوں سے آسمان پر آ جائیں، تب بھی انھیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آئے اور رسولوں کی تصدیق نہ کریں بلکہ یہ کہیں کہ ہماری نظر بندی کردی گئی ہے یا ہم پر جادو کردیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ہم ایسا محسوس کر رہے ہیں کہ ہم آسمان پر آ جا رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں۔ الحجر
16 ١٦۔ ١ بروج برج کی جمع ہے جس کے معنی ظہور کے ہیں۔ اسی سے تبرج ہے جو عورت کے اظہار زینت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں آسمان کے ستاروں کو بُرُوْج،ُ کہا گیا ہے کیونکہ وہ بلند اور ظاہر ہوتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں بُرُوْج سے مراد شمس و قمر اور دیگر سیاروں کی منزلیں ہیں، جو ان کے لئے مقرر ہیں اور یہ ١٢ ہیں۔ حمل، ثور، جوزاء، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو، حوت۔ عرب ان سیاروں کی منزلوں اور ان کے ذریعے سے موسم کا حال معلوم کرتے تھے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں البتہ ان سے تغیر پذیر ہونے والے واقعات وحوادث جاننے کا دعوی کرنا، جیسے آج کل بھی جاہلوں میں اس کا خاصا چرچہ۔ اور لوگوں کی قسمتوں کو ان کے ذریعے سے دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ ان کا کوئی تعلق دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات وحوادث سے نہیں ہوتا، جو کچھ بھی ہوتا ہے، صرف مشیت الہی ہی سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان برجوں یا ستاروں کا ذکر اپنی قدرت اور بے مثال صنعت کے طور پر کیا ہے۔ علاوہ ازیں یہ واضح کیا ہے کہ یہ آسمان کی زینت بھی ہیں۔ الحجر
17 ١٧۔ ١ رجیم مرجوم کے معنی میں ہے رَجْم کے معنی ہیں سنگسار کرنا یعنی پتھر مارنے کے ہیں۔ شیطان کو رجیم اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ سب آسمان کی طرف جانے کی کوشش کرتا ہے تو آسمان سے شہاب ثاقب اس پر ٹوٹ کر گرتے ہیں، پھر رجیم ملعون و مردود کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، کیونکہ جسے سنگسار کیا جاتا ہے اسے ہر طرف سے لعنت ملامت بھی کی جاتی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ ہم نے آسمانوں کی حفاظت فرمائی ہر شیطان رجیم سے۔ یعنی ان ستاروں کے ذریعے سے، کیونکہ یہ شیطان کو مار بھاگنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ الحجر
18 ١٨۔ ١ اس کا مطلب یہ ہے کہ شیاطین آسمانوں پر باتیں سننے کے لئے جاتے ہیں، جن پر شہاب ثاقب ٹوٹ کر گرتے ہیں، جن سے کچھ تو مر جاتے ہیں اور کچھ بچ جاتے ہیں اور بعض سن آتے ہیں۔ حدیث میں اس کی تفسیر اس طرح آتی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں ' جب اللہ تعالیٰ آسمان پر کوئی فیصلہ فرماتا ہے، تو فرشتے اسے سن کر اپنے پر یا بازو پھڑ پھڑاتے ہیں گویا وہ کسی چٹان پر زنجیر کی آواز ہے۔ پھر جب فرشتوں کے دلوں سے اللہ کا خوف دور ہوجاتا ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، تمہارے رب نے کیا کہا ؟ وہ کہتے ہیں، اس نے کہا حق اور اور وہ بلند اور بڑا ہے (اس کے بعد اللہ کا وہ فیصلہ اوپر سے نیچے تک یکے بعد دیگرے سنایا جاتا ہے) اس موقع پر شیطان چوری چھپے بات سنتے ہیں۔ اور یہ چوری چھپے بات سننے والے شیطان، تھوڑے تھوڑے فاصلے سے ایک دوسرے کے اوپر ہوتے ہیں اور ایک آدھا حکم سن کر اپنے دوست نجومی یا کاہن کے کان پھونک دیتے ہیں، اور اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں کو بیان کرتا ہے (ملخصا۔ صحیح بخاری تفسیر سورۃ حجر) الحجر
19 الحجر
20 ٢٠۔ ١ معایش معیشۃ کی جمع ہے یعنی زمین میں تمہاری معیشت اور گزران کے لئے بیشمار اسباب و وسائل پیدا کردیئے۔ ٢٠۔ ٢ اس سے مراد نوکر چاکر، غلام اور جانور ہیں۔ یعنی جانوروں کو تمہارے تابع کردیا، جن پر تم سواری بھی کرتے ہو، سامان بھی لاد کرلے جاتے ہو اور انھیں ذبح کر کے کھا بھی لیتے ہو۔ غلام لونڈیاں ہیں، جن سے تم خدمت گزاری کا کام لیتے ہو۔ یہ اگرچہ سب تمہارے ماتحت ہیں اور تم ان کے چارے اور خوراک وغیرہ کا انتظام بھی کرتے ہو لیکن حقیقت میں ان کا رازق اللہ تعالیٰ ہے، تم نہیں ہو۔ تم یہ نہ سمجھنا کہ تم ان کے رازق ہو، اگر تم انھیں کھانا نہیں دو گے تو بھوکے مر جائیں گے۔ الحجر
21 ٢١۔ ١ بعض نے خزائن سے مراد بارش لی ہے کیونکہ بارش ہی پیداوار کا ذریعہ ہے لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے اس سے مراد تمام کائنات کے خزانے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ حسب مشیت و ارادہ عدم سے وجود میں لاتا رہتا ہے۔ الحجر
22 ٢٢۔ ١ ہواؤں کو بوجھل، اس لئے کہا گیا کہ یہ ان بادلوں کو اٹھاتی ہیں جن میں پانی ہوتا ہے۔ جس طرح حاملہ اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو پیٹ میں بچہ اٹھائے ہوتی ہے۔ ٢٢۔ ٢ یعنی یہ پانی جو ہم اتارتے ہیں، اسے تم ذخیرہ رکھنے پر بھی قادر نہیں ہو۔ یہ ہماری ہی قدرت و رحمت ہے کہ ہم اس پانی کو چشموں، کنوؤں اور نہروں کے ذریعے سے محفوظ رکھتے ہیں، ورنہ اگر ہم چاہیں تو پانی کی سطح اتنی نیچی کردیں کہ چشموں اور کنوؤں سے پانی لینا تمہارے لئے ممکن نہ رہے، جس طرح بعض علاقوں میں اللہ تعالیٰ بعض دفعہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھاتا ہے الَّھُمَّ اَحفظْنَا مِنْہُ۔ الحجر
23 الحجر
24 الحجر
25 الحجر
26 ٢٦۔ ١ مٹی کی مختلف حالتوں کے اعتبار سے اس کے مختلف نام ہیں، خشک مٹی، بھیگی ہوئی، گوندھی ہوئی بدبودار خشک ہو کر کھن کھن بولنے لگے تو اور جب آگ سے پکا لیا جائے تو (ٹھیکری) کہلاتی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا جس طرح تذکرہ فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم خاکی کا پتلا مٹی سے بنایا گیا، جب وہ سوکھ کر کھن کھن کرنے لگا (صلصال) ہوگیا۔ تو اس میں روح پھونکی گئی، اسی طرح صلصَالِ کو قرآن میں دوسری جگہ (فخار کی ماند کہا گیا ہے (خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ) 55۔ الرحمن :14) ' پیدا کیا انسان کو کھنکھناتی مٹی سے جیسے ٹھیکرا ' الحجر
27 ٢٧۔ ١ جِنّ کو جن اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آنکھوں سے نظر نہیں آتا۔ سورۃ رحمٰن میں جنات کی تخلیق ( مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ) 55۔ الرحمن :15) سے بتلائی گئی ہے اور صحیح مسلم کی ایک حدیث میں یہ کہا گیا اس اعتبار سے لو والی آگ یا آگ کے شعلے کا ایک ہی مطلب ہوگا۔ الحجر
28 الحجر
29 ٢٩۔ ١ سجدے کا یہ حکم بطور تعظیم کے تھا، عبادت کے طور پر نہیں، اور یہ چونکہ اللہ کا حکم تھا، اس لئے اس کے وجوب میں کوئی شک نہیں۔ تاہم شریعت محمدیہ میں بطور تعظیم بھی کسی کے لئے سجدہ کرنا جائز نہیں۔ الحجر
30 الحجر
31 الحجر
32 الحجر
33 ٣٣۔ ١ شیطان نے انکار کی وجہ حضرت آدم (علیہ السلام) کا خاکی اور بشر ہونا بتلایا، جس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان اور بشر کو اس کی بشریت کی بنا پر حقیر اور کم تر سمجھنا یہ شیطان کا فلسفہ ہے، جو اہل حق انبیاء علیہم السلام کی بشریت کے منکر نہیں، اس لئے کہ ان کی بشریت کو خود قرآن کریم نے وضاحت سے بیان کیا ہے۔ علاوہ ازیں بشریت ان کی عظمت اور شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ الحجر
34 الحجر
35 الحجر
36 الحجر
37 الحجر
38 الحجر
39 الحجر
40 الحجر
41 ٤١۔ ١ یعنی تم سب کو بالآخر میرے پاس ہی لوٹ آنا ہے، جنہوں نے میرا اور میرے رسولوں کا اتباع کیا ہوگا، میں انھیں اچھی جزا دوں گا اور جو شیطان کے پیچھے لگ کر گمراہی کے راستے پر چلتا رہا ہوگا اسے سخت سزا دوں گا جو جہنم کی صورت میں تیار ہے۔ الحجر
42 ٤٢۔ ١ یعنی میرے نیک بندوں پر تیرا داؤ نہیں چلے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے کوئی گناہ ہی سرزد نہیں ہوگا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ ایسا گناہ نہیں ہوگا کہ جس کے بعد نادم اور تائب نہ ہو کیونکہ وہی گناہ انسان کی ہلاکت کا باعث ہے کہ جس کے بعد انسان کے اندر ندامت کا احساس اور توبہ و انابت الی اللہ کا داعیہ پیدا نہ ہو۔ ایسے گناہ کے بعد ہی انسان گناہ پر گناہ کرتا چلا جاتا ہے۔ اور بالآخر دائمی تباہی و ہلاکت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اور اہل ایمان کی صفت یہ ہے کہ گناہ پر اصرار نہیں کرتے بلکہ فوراً توبہ کر کے آئندہ کے لئے اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ الحجر
43 ٤٣۔ ١ یعنی جتنے بھی تیرے پیروکار ہوں گے، سب جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ الحجر
44 ٤٤۔ ١ یعنی ہر دروازہ مخصوص قسم کے لوگوں کے لئے خاص ہوگا۔ مثلاً ایک دروازہ مشرکوں کے لئے، ایک دروازہ دھریوں کے لئے۔ ایک زندیقوں، ایک زانیوں کے لئے۔ سود خوروں، چوروں اور ڈاکوؤں کے لئے وغیرہ وغیرہ۔ یا سات دروازوں سے مراد سات طبق اور درجے ہیں۔ پہلا طبق یا درجہ جہنم ہے، دوسرا نطی۔ پھر حطمہ، پھر سعیر۔ پھر سقر، پھر حجیم، پھر ہاویہ، سب سے اوپر والا درجہ موحدین کے لئے ہوگا، جنہیں کچھ عرصہ سزا دینے کے بعد یا سفارش پر نکال لیا جائے گا، دوسرے میں یہودی، تیسرے میں عیسائی، چوتھے میں صابی، پانچویں میں مجوسی۔ چھٹے میں مشرکین اور ساتویں میں منافقین ہونگے، سب سے اوپر والے درجے کا نام جہنم ہے اس کے بعد اس ترتیب سے نام ہیں۔ (فتح القدیر) الحجر
45 ٤٥۔ ١ جہنم اور اہل جہنم کے بعد جنت اور اہل جنت کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تاکہ جنت میں جانے کی ترغیب ہو۔ متقین سے مراد شرک سے بچنے والے موحدین ہیں اور بعض کے نزدیک وہ اہل ایمان جو معاصی سے بچتے رہے۔ جَنَّاتٍ سے مراد باغات اور عُیُونِ سے نہریں مراد ہیں۔ یہ باغات اور نہریں یا تو متقین کے لئے مشترکہ ہونگی، یا ہر ایک کے لئے الگ الگ باغات اور نہریں یا ایک ایک باغ اور نہر ہوگی۔ الحجر
46 ٤٦۔ ١ سلامتی ہر قسم کی آفات سے اور امن ہر قسم کے خوف سے۔ یا یہ مطلب ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو یا فرشتے اہل جنت کو سلامتی کی دعا دیں گے۔ یا اللہ کی طرف سے ان کی سلامتی اور امن کا اعلان ہوگا۔ الحجر
47 ٤٧۔ ١ دنیا میں ان کے درمیان جو آپس میں حسد اور بغض و عداوت کے جذبات رہے ہوں گے، وہ ان کے سینوں سے نکال دیئے جائیں گے اور ایک دوسرے کے بارے میں ان کے آئینے کی طرح صاف اور شفاف ہوں گے۔ الحجر
48 الحجر
49 الحجر
50 الحجر
51 الحجر
52 ٥٢۔ ١ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان فرشتوں سے ڈر اس لئے محسوس ہوا کہ انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تیار کردہ بھنا ہوا بچھڑا نہیں کھایا، جیسا کہ سورۃ ہود میں تفصیل گزری۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر کو بھی غیب کا علم نہیں ہوتا، اگر پیغمبر عالم الغیب ہوتے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سمجھ جاتے کہ آنے والے مہمان فرشتے ہیں اور ان کے لئے کھانا تیار کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ فرشتے انسانوں کی طرح کھانے پینے کے محتاج نہیں۔ الحجر
53 الحجر
54 الحجر
55 ٥٥۔ ١ کیونکہ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو خلاف نہیں ہو سکتا۔ علاوہ ازیں وہ ہر بات پر قادر ہے، کوئی بات اس کے لئے ناممکن نہیں۔ الحجر
56 ٥٦۔ ١ یعنی اولاد کے ہونے پر میں تعجب اور حیرت کا اظہار کر رہا ہوں تو صرف اپنے بڑھاپے کی وجہ سے کر رہا ہوں یہ بات نہیں ہے کہ میں اپنے رب کی رحمت سے ناامید ہوں۔ رب کی رحمت سے ناامید تو گمراہ لوگ ہی ہوتے ہیں۔ الحجر
57 ٥٧۔ ١ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان فرشتوں کی گفتگو سے اندازہ لگا لیا کہ یہ صرف اولاد کی بشارت دینے ہی نہیں آئے ہیں بلکہ ان کی آمد کا اصل مقصد کوئی اور ہے۔ چنانچہ انہوں نے پوچھا۔ الحجر
58 الحجر
59 الحجر
60 الحجر
61 الحجر
62 ٦٢۔ ١ یہ فرشتے حسین نوجوانوں کی شکل میں آئے تھے اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے لئے بالکل انجان تھے، اس لئے انہوں نے ان سے اجنبیت اور بیگانگی کا اظہار کیا۔ الحجر
63 ٦٣۔ ١ یعنی عذاب الٰہی، جس میں تیری قوم کو شک ہے کہ وہ آ بھی سکتا ہے؟ الحجر
64 ٦٤۔ ١ اس صریح حق سے عذاب مراد ہے جس کے لئے وہ بھیجے گئے تھے، اس لئے انہوں نے کہا ہم ہیں بھی بالکل سچے۔ یعنی عذاب کی جو بات ہم کر رہے ہیں۔ اس میں سچے ہیں۔ اب اس قوم کی تباہی کا وقت بالکل قریب آ پہنچا ہے۔ الحجر
65 ٦٥۔ ١ تاکہ کوئی مومن پیچھے نہ رہے، تو ان کو آگے کرتا رہے۔ الحجر
66 ٦٦۔ ١ یعنی لوط (علیہ السلام) کو وحی کے ذریعے سے اس فیصلے سے آگاہ کردیا کہ صبح ہونے تک ان لوگوں کی جڑیں کاٹ دی جائیں گی، یا دابِرَ سے مراد وہ آخری آدمی ہے جو باقی رہ جائے گا، فرمایا، وہ بھی صبح ہونے تک ہلاک کردیا جائے گا۔ الحجر
67 ٦٧۔ ١ ادھر تو حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر میں قوم کی ہلاکت کا یہ فیصلہ ہو رہا تھا۔ ادھر قوم لوط کو پتہ چلا کہ لوط (علیہ السلام) کے گھر میں خوش شکل نوجوان مہمان آئے ہیں تو اپنی امرد پرستی کی وجہ سے بڑے خوش ہوئے اور خوشی خوشی حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے اور مطالبہ کیا کہ ان نوجوانوں کو ان کے سپرد کیا جائے تاکہ وہ ان سے بے حیائی کا ارتکاب کر کے اپنی تسکین کرسکیں۔ الحجر
68 ٦٨۔ ١ حضرت لوط (علیہ السلام) نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ مہمان ہیں انھیں میں کس طرح تمہارے سپرد کرسکتا ہوں، اس میں میری رسوائی ہے۔ الحجر
69 الحجر
70 ٧٠۔ ١ انہوں نے بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا اے لوط! تو ان اجنبیوں کا کیا لگتا ہے؟ اور کیوں ان کی حمایت کرتا ہے؟ کیا ہم نے تجھے منع نہیں کیا ہے کہ اجنبیوں کی حمایت نہ کیا کر، یا ان کو اپنا مہمان نہ بنایا کر! یہ ساری گفتگو اس وقت ہوئی جب کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کو یہ علم نہیں تھا کہ یہ اجنبی مہمان اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اور وہ اسی قوم کو تباہ کرنے کے لئے آئے ہیں جو ان فرشتوں کے ساتھ بد فعلی کے لئے مصر تھی، جیسا کہ سورۃ ہود میں یہ تفصیل گزر چکی ہے۔ یہاں ان کے فرشتے ہونے کا ذکر پہلے آ گیا ہے۔ الحجر
71 ٧١۔ ١ یعنی ان سے تم نکاح کرلو یا پھر اپنی قوم کی عورتوں کو اپنی بیٹیاں کہا، تم عورتوں سے نکاح کرلو یا جن کے حبالہ عقد میں عورتیں ہیں، وہ ان سے اپنی خواہش پوری کریں۔ الحجر
72 ٧٢۔ ١ اللہ نبی سے خطاب فرما کر، ان کی زندگی کی قسم کھا رہا ہے، جس سے آپ کا شرف و فضل واضح ہے۔ تاہم کسی اور کے لئے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی قسم کھانا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ تو حاکم مطلق ہے، وہ جس کی چاہے قسم کھائے، اس سے کون پوچھنے والا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح شراب کے نشے میں دھت انسان کی عقل ماؤف ہوجاتی ہے، اسی طرح یہ اپنی بد مستی اور گمراہی میں اتنے سرگرداں تھے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی اتنی معقول بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آ پائی۔ الحجر
73 ٧٣۔ ١ ایک چنگھاڑ نے، جب کہ سورج طلوع ہوچکا تھا، ان کا خاتمہ کردیا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ زوردار آواز حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی تھی۔ الحجر
74 ٧٤۔ ١ کہا جاتا ہے کہ ان کی بستیوں کو زمین سے اٹھا کر اوپر آسمان پر لے جایا گیا اور وہاں سے ان کو الٹا کر کے زمین پر پھینک دیا گیا۔ یوں اوپر حصہ نیچے اور نچلا حصہ اوپر کر کے تہ و بالا کردیا گیا، اور کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد محض اس بستی کا چھتوں سمیت زمین بوس ہوجانا ہے۔ ٧٤۔ ٢ اس کے بعد کھنگر قسم کے مخصوص پتھر برسائے گئے۔ اس طرح گویا تین قسم کے عذابوں سے انھیں دوچار کر کے نشان عبرت بنا دیا گیا۔ الحجر
75 ٧٥۔ ١ گہری نظر سے جائزہ لینے اور غور وفکر کرنے والوں کو مُتَوَسِّمِیْنَ کہا جاتا ہے۔ مُتَوَسِّمِیْنَ کے لئے اس واقعے میں عبرت کے پہلو اور نشانیاں ہیں۔ الحجر
76 ٧٦۔ ١ مراد شاہراہ ہے، یعنی قوم لوط کی بستیاں مدینے سے شام کو جاتے ہوئے راستے میں پڑتی ہیں۔ ہر آنے جانے والے کو انہی بستیوں سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔ کہتے ہیں یہ پانچ بستیاں تھیں، کہا جاتا ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنے بازو پر انھیں اٹھایا اور آسمان پر چڑھ گئے حتٰی کہ آسمان والوں نے ان کے کتوں کے بھونکنے اور مرغوں کے بولنے کی آوازیں سنیں اور پھر ان کو زمین پر دے مارا (ابن کثیر) مگر اس بات کی کوئی سند نہیں۔ الحجر
77 الحجر
78 ٧٨۔ ١ أیکَہ گھنے درخت کو کہتے ہیں۔ اس بستی میں گھنے درخت ہونگے۔ اس لئے انھیں ( اَصْحٰبُ الْاَیْکَۃِ) 15۔ الحجر :78) (بن یا جنگل والے) کہا گیا۔ مراد اس سے قوم شعیب ہے اور ان کا زمانہ حضرت لوط علیہ السلام کے بعد ہے اور ان کا علاقہ حجاز اور شام کے درمیان قوم لوط کی بستیوں کے قریب ہی تھا۔ اسے مدین کہا جاتا ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے یا پوتے کا نام تھا اور اسی کے نام پر بستی کا نام پڑگیا تھا۔ ان کا ظلم یہ تھا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرتے تھے، رہزنی ان کا شیوہ اور کم تولنا اور کم ناپنا ان کا وطیرہ تھا، ان پر جب عذاب آیا ایک بادل ان پر سایہ فگن ہوگیا پھر چنگھاڑ اور بھو نچال نے مل کر ان کو ہلاک کردیا۔ الحجر
79 ٧٩۔ ١ امام مُبِیْنٍ کے معنی بھی شاہراہ عام کے ہیں، جہاں سے شب و روز لوگ گزرتے ہیں۔ دونوں شہر سے مراد قوم لوط کا شہر اور قوم شعیب کا مسکن۔ مدین۔ مراد ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہی تھے۔ الحجر
80 ٨٠۔ ١ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم ثمود کی بستیوں کا نام تھا۔ انھیں ( اَصْحٰبُ الْحِـجْرِ) 15۔ الحجر :80) (حجر والے) کہا گیا ہے۔ یہ بستی مدینہ اور تبوک کے درمیان تھی۔ انہوں نے اپنے پیغمبر حضرت صالح (علیہ السلام) کو جھٹلایا۔ لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ' انہوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا، یہ اس لئے کہ ایک پیغمبر کی تکذیب ایسے ہی ہے جیسے سارے پیغمبروں کی تکذیب۔ الحجر
81 ٨١۔ ١ ان نشانیوں میں وہ اونٹنی بھی تھی جو ان کے کہنے پر ایک چٹان سے بطور معجزہ ظاہر کی گئی تھی، لیکن ظالموں نے اسے قتل کر ڈالا۔ الحجر
82 ٨٢۔ ١ یعنی بغیر کسی خوف کے پہاڑ تراش لیا کرتے تھے۔ ٩ ہجری میں تبوک جاتے ہوئے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بستی سے گزرے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سر پر کپڑا لپیٹ لیا اور اپنی سواری کو تیز کرلیا اور صحابہ سے فرمایا کہ روتے ہوئے اور اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اس بستی سے گزرو (ابن کثیر) صحیح بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے۔ الحجر
83 ٨٣۔ ١ حضرت صالح (علیہ السلام) نے انھیں کہا کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آ جائے گا، چنانچہ چوتھے روز ان پر یہ عذاب آ گیا۔ الحجر
84 الحجر
85 ٨٥۔ ١ حق سے مراد وہ فوائد و صالح ہیں جو آسمان و زمین کی پیدائش سے مقصود ہیں۔ یا حق سے مراد محسن (نیکوکار) کو اس کی نیکی کا اور بدکار کو اس کی برائی کا بدلہ دینا ہے۔ جس طرح ایک دوسرے مقام پر فرمایا ' اللہ ہی کے لئے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے تاکہ بروں کو ان کی برائیوں کا اور نیکوں کو ان کی نیکی کا بدلہ دے (النجم۔ ٣١) الحجر
86 الحجر
87 ٨٧۔ ١ سبع مثانی سے مراد کیا ہے اس میں مفسرین کا اختلاف ہے صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد سورۃ فاتحہ ہے۔ یہ سات آیتیں ہیں اور جو ہر نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہیں (مثانی کے معنی بار بار دہرانے کے کیئے گئے ہیں (حدیث میں بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں رسول اللہ نے فرمایا (اَ لْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ) یہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو میں دیا گیا ہوں (صحیح بخاری) ایک اور حدیث میں فرمایا (ام القرآن ھی السبع المثانی والقرآن العظیم) سورۃ فاتحہ قرآن کا ایک جزء ہے اس لیے قرآن عظیم کا ذکر بھی ساتھ ہی کیا گیا ہے۔ الحجر
88 ٨٨۔ ١ یعنی ہم نے سورت فاتحہ اور قرآن عظیم جیسی نعمتیں آپ کو عطا کی ہیں، اس لئے دنیا اور اس کی زینتیں اور ان مختلف قسم کے اہل دنیا کی طرف نہ نظر دوڑائیں جن کو دنیا فانی کی عارضی چیزیں ہم نے دی ہیں اور وہ جو آپ کی تکذیب کرتے ہیں، اس پر غم نہ کھائیں اور مومنوں کے لئے اپنے بازو جھکائے رہیں، یعنی ان کے لئے نرمی اور محبت کا رویہ اپنائیں۔ اس محاورہ کی اصل یہ ہے کہ جب پرندہ اپنے بچوں کو اپنے سایہ شفقت میں لیتا ہے تو ان کو اپنے بازوؤں یعنی پروں میں لے لیتا ہے۔ یوں یہ ترکیب نرمی، پیار و محبت کا رویہ اپنانے کے مفہوم میں استعمال ہوتی ہے۔ الحجر
89 الحجر
90 ٩٠۔ ١ بعض مفسرین کے نزدیک انزلنا کا مفعول العذاب محذوف ہے۔ معنی یہ ہیں کہ میں تمہیں کھل کر ڈرانے والا ہوں عذاب سے، مثل اس عذاب کے، جنہوں نے کتاب الٰہی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے، بعض کہتے ہیں کہ اس سے قریش قوم مراد ہے، جنہوں نے اللہ کی کتاب کو تقسیم کردیا، اس کے بعض حصے کے شعر، بعض کو سحر (جادو) بعض کو کہانت اور بعض کو اساطیرالأولین (پہلوں کی کہانیاں (قرار دیا، بعض کہتے ہیں کہ یہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم ہے جنہوں نے آپس میں قسم کھائی تھی کہ صالح (علیہ السلام) اور ان کے گھر والوں کو رات کے اندھیرے میں قتل کردیں گے (تَقَاسَمُوْا باللّٰہِ لَـنُبَیِّتَـنَّہٗ وَاَہْلَہٗ) 27۔ النمل :49) اور آسمانی کتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ عضین کے ایک معنی یہ بھی کیے گئے ہیں کہ اس کی بعض باتوں پر ایمان رکھنا اور بعض کے ساتھ کفر کرنا۔ الحجر
91 الحجر
92 الحجر
93 الحجر
94 ٩٤۔ ١ اَ صْدَعْ کے معنی ہیں کھول کر بیان کرنا، اس آیت کے نزول سے قبل آپ چھپ کر تبلیغ فرماتے تھے، اس کے بعد آپ نے کھلم کھلا تبلیغ شروع کردی۔ (فتح القدیر) الحجر
95 الحجر
96 الحجر
97 الحجر
98 الحجر
99 ٩٩۔ ١ مشرکین آپ کو ساحر، مجنون، کاہن وغیرہ کہتے جس سے بشری جبلت کی وجہ سے آپ کبیدہ خاطر ہوتے، اللہ تعالیٰ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ حمد وثنا کریں، نماز پڑھیں اور اپنے رب کی عبادت کریں، اس سے آپ کو قلبی سکون بھی ملے گا اور اللہ کی مدد بھی حاصل ہوگی، سجدے سے یہاں نماز اور یقین سے مراد موت ہے۔ الحجر
0 النحل
1 ١۔ ١ اس سے مراد قیامت ہے، یعنی وہ قیامت قریب آ گئی ہے جسے تم دور سمجھتے تھے، پس جلدی نہ مچاؤ، یا وہ عذاب مراد ہے جسے مشرکین طلب کرتے تھے۔ اسے مستقبل کے بجائے ماضی کے صیغے سے بیان کیا، کیونکہ کہ اس کا وقوع یقینی ہے۔ النحل
2 ٢۔ ١ رُوْح سے مراد وحی ہے جیسا کہ قرآن مجید کے دوسرے مقام پر ہے۔ (وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ۭ مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ) (42۔ الشوری :52) ' اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے وحی کی، اس سے پہلے آپ کو علم نہیں تھا کہ کتاب کیا ہے، اور ایمان کیا ' ٢۔ ٢ مراد انبیاء علیہم السلام ہیں جن پر وحی ٰ نازل ہوتی ہے۔ جس طرح اللہ نے فرمایا (اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ) 6۔ الأنعام :124) ' اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں رکھے اور وہ اپنے حکم سے اپنے بندوں میں جس پر چاہتا ہے وحی ڈالتا یعنی نازل فرماتا ہے تاکہ وہ ملاقات والے (قیامت کے) دن سے لوگوں کو ڈرائے ـ'۔ النحل
3 ٣۔ ١ یعنی محض تماشے اور کھیل کود کے طور پر نہیں پیدا کیا بلکہ ایک مقصد پیش نظر ہے اور وہ ہے جزا و سزا، جیسا کہ ابھی تفصیل گزری ہے۔ النحل
4 ٤۔ ١ یعنی ایک جامد چیز سے جو ایک جاندار کے اندر سے نکلتی ہے۔ جسے منی کہا جاتا ہے۔ اسے مختلف اطوار سے گزار کر ایک مکمل صورت دی جاتی ہے، پھر اس میں اللہ تعالیٰ روح پھونکتا ہے اور ماں کے پیٹ سے نکال کر اس دنیا میں لاتا ہے جس میں وہ زندگی گزارتا ہے لیکن جب اسے شعور آتا ہے تو اسی رب کے معاملے میں جھگڑتا، اس کا انکار کرتا یا اس کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے۔ النحل
5 ٥۔ ١ اسی احسان کے ساتھ دوسرے احسان کا ذکر فرمایا کہ چوپائے (اونٹ، گائے اور بکریاں) بھی اسی نے پیدا کئے، جن کے بالوں اور اون سے تم گرم کپڑے تیار کر کے گرمی حاصل کرتے ہو۔ اسی طرح ان سے دیگر منافع حاصل کرتے ہو، مثلاً ان سے دودھ حاصل کرتے ہو، ان پر سواری کرتے ہو اور سامان لادتے ہو، ان کے ذریعے ہل چلاتے اور کھیتوں کو سیراب کرتے ہو، وغیرہ وغیرہ۔ النحل
6 ٦۔ ١ تریحون جب شام کو چرا کر گھر لاؤ، جب صبح چرانے کے لئے لے جاؤ، ان دونوں وقتوں میں یہ لوگوں کی نظروں میں آتے ہیں، جس سے تمہارے حسن و جمال میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان دونوں اوقات کے علاوہ وہ نظروں سے اوجھل رہتے یا باڑوں میں بند رہتے ہیں۔ النحل
7 النحل
8 ٨۔ ١ یعنی ان کی پیدائش کا اصل مقصد اور فائدہ تو ان پر سواری کرنا ہے تاہم زینت کا بھی باعث ہیں، گھوڑے خچر، اور گدھوں کے الگ ذکر کرنے سے بعض فقہاء نے استدلال کیا ہے کہ گھوڑا بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح گدھا اور خچر۔ علاوہ ازیں کھانے والے چوپاؤں کا پہلے ذکر آ چکا ہے۔ اس لئے اس آیت میں جن تین جانوروں کا ذکر ہے، یہ صرف (سواری) کے لئے ہے۔ ٨۔ ٢ زمین کے زیریں حصے میں، اسی طرح سمندر میں، اور بے آب وگیاہ صحراؤں اور جنگلوں میں اللہ تعالیٰ مخلوق پیدا فرماتا رہتا ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں اور اسی میں انسان کی بنائی ہوئی وہ چیزیں بھی آ جاتی ہیں جو اللہ کے دیئے ہوئے دماغ اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اسی کی پیدا کردہ چیزوں کو مختلف انداز میں جوڑ کر تیار کرتا ہے، مثلاً بس، کار، ریل گاڑی، جہاز اور ہوائی جہاز اور اس طرح کی بیشمار چیزیں اور جو مستقبل میں متوقع ہیں۔ النحل
9 ٩۔ ١ اس کے ایک دوسرے معنی ہیں ' اور اللہ ہی پر ہے سیدھی راہ ' یعنی اس کا بیان کرنا۔ چنانچہ اس نے اسے بیان فرما دیا اور ہدایت اور ضلالت دونوں کو واضح کردیا، اسی لئے آگے فرمایا کہ بعض راہیں ٹیڑھی ہیں یعنی گمراہی کی ہیں۔ ٩۔ ٢ لیکن اس میں چوں کہ جبر ہوتا اور انسان کی آزمائش نہ ہوتی، اس لئے اللہ نے اپنی مشیت سے سب کو مجبور نہیں کیا، بلکہ دونوں راستوں کی نشاندہی کر کے، انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے۔ النحل
10 النحل
11 ١١۔ ١ اس میں بارش کے وہ فوائد بیان کئے گئے ہیں، جو ہر مشاہدے اور تجربے کا حصہ ہیں وہ محتاج وضاحت نہیں۔ نیز ان کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ النحل
12 ١٢۔ ١ کس طرح رات اور دن چھوٹے بڑے ہوتے ہیں، چاند اور سورج کس طرح اپنی اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں رہتے ہیں اور ان میں کبھی فرق واقع نہیں ہوتا، ستارے کس طرح آسمان کی زینت اور رات کے اندھیروں میں بھٹکے ہوئے مسافروں کے لئے دلیل راہ ہیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور سلطنت عظیمہ پر دلالت کرتے ہیں۔ النحل
13 ١٣۔ ١ یعنی زمین میں اللہ نے جو معدنیات، نباتات، جمادات اور حیوانات اور ان کے منا فع اور خواص پیدا کئے ہیں، ان میں بھی نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ النحل
14 ١٤۔ ١ اس میں سمندری تلاطم خیز موجوں کو انسان کے تابع کردینے کے بیان کے ساتھ، اس کے تین فوائد بھی ذکر کئے ہیں۔ ایک یہ کہ تم اس سے مچھلی کی شکل میں تازہ گوشت کھاتے ہو (مچھلی مردہ بھی ہو تب بھی حلال ہے)۔ علاوہ ازیں حالت احرام میں بھی اس کو شکار کرنا حلال ہے۔ دوسرے، اس سے تم موتی، سیپیاں اور جواہر نکالتے ہو، جن سے تم زیور بناتے ہو۔ تیسرے، اس میں تم کشتیاں اور جہاز چلاتے ہو، جن کے ذریعے سے تم ایک ملک سے دوسرے ملک میں جاتے ہو، تجارتی سامان بھی لاتے ہو، لے جاتے ہو، جس سے تمہیں اللہ کا فضل حاصل ہوتا ہے جس پر تمہیں اللہ کا شکر گزار ہونا چاہیئے۔ النحل
15 ١٥۔ ١ یہ پہاڑوں کا فائدہ بیان کیا جا رہا ہے اور اللہ کا ایک احسان عظیم بھی ہے، کیونکہ اگر زمین ہلتی رہتی تو اس میں سکونت ممکن ہی نہ رہتی۔ اس کا اندازہ ان زلزلوں سے کیا جا سکتا ہے جو چند سکینڈوں اور لمحوں کے لئے آتے ہیں، لیکن کس طرح بڑی بڑی مضبوط عمارتوں کو پیوند زمین اور شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیتے ہیں۔ ١٥۔ ٢ نہروں کا سلسلہ بھی عجیب ہے، کہاں سے وہ شروع ہوتی ہیں اور کہاں کہاں، دائیں بائیں، شمال، جنوب، مشرق و مغرب ہر جہت کو سہراب کرتی ہیں۔ اس طرح راستے بنائے، جن کے ذریعے تم منزل مقصود پر پہنچتے ہو۔ النحل
16 النحل
17 ١٧۔ ١ ان تمام نعمتوں سے توحید کی اہمیت کو اجاگر فرمایا کی اللہ تو ان چیزوں کا خالق ہے، لیکن اس کو چھوڑ کر جن کی تم عبادت کرتے ہو، انہوں نے بھی کچھ پیدا کیا ہے؟ نہیں، بلکہ وہ تو خود اللہ کی مخلوق ہیں۔ پھر بھلا خالق اور مخلوق کس طرح برابر ہو سکتے ہیں؟ جبکہ تم انھیں معبود بنا کر اللہ کا برابر ٹھہرا رکھا ہے۔ کیا تم ذرا نہیں سوچتے؟ النحل
18 النحل
19 ١٩۔ ١ اور اس کے مطابق وہ قیامت والے دن جزا اور سزا دے گا۔ نیک کو نیکی کی جزا اور بد کو بدی کی سزا۔ النحل
20 ٢٠۔ ١ اس میں ایک چیز کا اضافہ ہے یعنی صفت (خالقیت) کی نفی کے ساتھ نقصان یعنی کمی (عدم خالقیت) کا اثبات (فتح القدیر) ُ النحل
21 ٢١۔ ١ مردہ سے مراد، وہ جماد (پتھر) بھی ہیں جو بے جان اور بے شعور ہیں۔ اور فوت شدہ صالحین بھی ہیں۔ کیونکہ مرنے کے بعد اٹھایا جانا (جس کا انھیں شعور نہیں وہ تو جماد کی بجائے صالحین ہی پر صادق آ سکتا ہے۔ ان کو صرف مردہ ہی نہیں کہا بلکہ مزید وضاحت فرما دی کہ ' وہ زندہ نہیں ہیں ' اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ موت وارد ہونے کے بعد، دنیاوی زندگی کسی کو نصیب نہیں ہو سکتی نہ دنیا سے کوئی تعلق ہی باقی رہتا ہے۔ ٢١۔ ٢ پھر ان سے نفع کی اور ثواب و جزا کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ النحل
22 ٢٢۔ ١ یعنی ایک اللہ کا ماننا منکرین اور مشرکین کے لئے بہت مشکل ہے وہ کہتے ہیں ' اس نے تمام معبودوں کو ایک ہی معبود کردیا یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے ' دوسرے مقام پر فرمایا جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو منکرین آخرت کے دل تنگ ہوجاتے ہیں اور جب اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کا ذکر آ جاتا ہے تو خوش ہوتے ہیں۔ النحل
23 ٢٣۔ ١ اَ سْتِکْبَار کا مطلب ہوتا ہے اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوئے صحیح اور حق بات کا انکار کردینا اور دوسروں کو حقیر و کمتر سمجھنا۔ کبر کی یہی تعریف حدیث میں بیان کی گئی ـ' یہ کبر وغرور اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ حدیث میں ہے کہ، وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی کبر ہوگا۔ النحل
24 ٢٤۔ ١ یعنی اعراض اور استہزا کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ مکذبین جواب دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو کچھ بھی نہیں اتارا، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں جو پڑھ کر سناتا ہے، وہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جو کہیں سے سن کر بیان کرتا ہے۔ النحل
25 ٢٥۔ ١ یعنی ان کی زبانوں سے یہ بات اللہ تعالیٰ نے نکلوائی تاکہ وہ اپنے بوجھوں کے ساتھ دوسروں کا بوجھ بھی اٹھائیں۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے۔ نبی نے فرمایا ' جس نے لوگوں کو ہدایت کی طرف بلایا، تو اس شخص کو ان تمام لوگوں کا اجر ملے گا جو اس کی دعوت پر ہدایت کا راستہ اپنائیں گے اور جس نے گمراہی کی طرف بلایا تو اس کو تمام لوگوں کے گناہوں کا بار بھی اٹھانا پڑے گا جو اس کی دعوت پر گمراہ ہوئے۔ النحل
26 ٢٦۔ ١ بعض مفسرین اسرائیلی روایات کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اس سے مراد نمرود یا بخت نصر ہے، جنہوں نے آسمان پر کسی طرح چڑھ کر اللہ کے خلاف مکر کیا، لیکن وہ ناکام واپس آئے اور بعض مفسرین کا خیال میں یہ ایک کہانی ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کے ساتھ کفر و شرک کرنے والوں کے عمل اسی طرح برباد ہونگے جس طرح کسی کے مکان کی بنیادیں متزلزل ہوجائیں اور وہ چھت سمیت گر پڑے۔ مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مقصود ان قوموں کے انجام کی طرف اشارہ کرنا ہے، جن قوموں نے پیغمبروں کی تکذیب پر اصرار کیا اور بالآخر عذاب الٰہی میں گرفتار ہو کر گھروں سمیت تباہ ہوگئے، مثلاً قوم عاد وقوم لوط وغیرہ۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا من حیث لم یحتسبوا۔ ٢٦۔ ٢ ' پس اللہ (کا عذاب) ان کے پاس ایسی جگہ سے آیا جہاں سے ان کو وہم وگمان بھی نہ تھا ' ٢٦۔ ٣ بس اللہ کا عذاب ان کے پاس ایسی جگہ سے آیا جہاں سے ان کو وہم وگمان بھی نہ تھا۔ النحل
27 ٢٧۔ ١ یعنی یہ تو وہ عذاب تھا جو دنیا میں ان پر آئے اور قیامت والے دن اللہ تعالیٰ انھیں اس طرح ذلیل و رسوا کرے گا کہ ان سے پوچھے گا تمہارے وہ شریک کہاں ہیں جو تم نے میرے لئے ٹھہرا رکھے تھے، اور جن کی وجہ سے تم مومنوں سے لڑتے جھگڑتے تھے۔ ٢٧۔ ٢ یعنی جن کو دین کا علم نہیں تھا وہ دین کے پابند تھے وہ جواب دیں گے۔ النحل
28 ٢٨۔ ١ یہ مشرک ظالموں کی موت کے وقت کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے ہیں تو وہ صلح کی بات ڈالتے ہیں یعنی سمع و طاعت اور عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم تو برائی نہیں کرتے تھے۔ جس طرح میدان محشر میں اللہ کے روبرو بھی جھوٹی قسمیں کھائیں گے اور کہیں گے ' اللہ کی قسم، ہم مشرک نہیں تھے ' دوسرے مقام پر فرمایا ' جس دن اللہ تعالیٰ ان سب کو اٹھا کر اپنے پاس جمع کرے گا تو اللہ کے سامنے بھی یہ اسی طرح (جھوٹی) قسمیں کھائیں گے جس طرح تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں۔ ٢٨۔ ٢ فرشتے جواب دیں گے کیوں نہیں؟ یعنی تم جھوٹ بولتے ہو، تمہاری تو ساری عمر ہی برائیوں میں گزری ہے اور اللہ کے پاس تمہارے اعمال کا ریکارڈ محفوظ ہے تمہارے اس انکار سے اب کیا بنے گا۔ النحل
29 ٢٩۔ ١ امام ابن کثیر فرماتے ہیں، ان کی موت کے فوراً بعد سب کی روحیں جہنم میں چلی جاتی ہیں اور ان کے جسم قبر میں رہتے ہیں (جہاں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے جسم و روح میں بعد کے باوجود، ان میں ایک گونہ تعلق پیدا کر کے ان کو عذاب دیتا ہے، (اور صبح شام ان پر آگ پیش کی جاتی ہے) پھر جب قیامت برپا ہوگی تو ان کی روحیں ان کے جسموں میں لوٹ آئیں گی اور ہمیشہ کے لئے یہ جہنم میں داخل کردیئے جائیں گے۔ النحل
30 النحل
31 النحل
32 ٣٢۔ ١ ان آیات میں ظالم مشرکوں کے مقابلے میں اہل ایمان و تقویٰ کا کردار اور ان کا حسن انجام بیان فرمایا ہے۔ ٣٢۔ ٢ سورۃ اعراف کی آیت ٤٣ کے تحت یہ حدیث گزر چکی ہے کہ کوئی شخص بھی محض اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا، جب تک اللہ کی رحمت نہیں ہوگی۔ لیکن یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ تم اپنے عملوں کے بدلے جنت میں داخل ہوجاؤ، تو ان میں دراصل کوئی منافقت نہیں۔ کیونکہ اللہ کی رحمت کے حصول کے لئے اعمال صالحہ ضروری ہیں، اس کے بغیر آخرت میں اللہ کی رحمت مل ہی نہیں سکتی۔ اس لئے حدیث مذکورہ کا مفہوم بھی اپنی جگہ صحیح ہے اور عمل کی اہمیت بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔ اس لیے ایک اور حدیث میں فرمایا گیا ہے ان اللہ لا ینظر الی صورکم واموالکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم۔ النحل
33 ٣٣۔ ١ یعنی کیا یہ بھی اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے یا رب کا حکم (یعنی عذاب یا قیامت) آ جائے۔ ٣٣۔ ٢ یعنی اس طرح سرکشی اور معصیت، ان سے پہلے لوگوں نے اختیار کئے رکھی، جس پر وہ غضب الٰہی کے مستحق بنے۔ ٣٣۔ ٣ اس لئے اللہ نے تو ان کے لئے کوئی عذر ہی باقی نہیں چھوڑا۔ رسولوں کو بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر ان پر حجت تمام کردی۔ ٣٣۔ ٤ یعنی رسولوں کی مخالفت اور ان کی تکذیب کر کے خود ہی انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ النحل
34 ٣٤۔ ١ یعنی جب رسول ان سے کہتے کہ اگر تم ایمان نہیں لاؤ گے تو اللہ کا عذاب آ جائے گا۔ تو یہ استہزا کے طور پر کہتے کہ جا اپنے اللہ سے کہہ وہ عذاب بھیج کر ہمیں تباہ کر دے۔ چنانچہ اس عذاب نے انھیں گھیر لیا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے، پھر اس سے بچاؤ کا کوئی راستہ ان کے پاس نہیں رہا۔ النحل
35 ٣٥۔ ١ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے ایک وہم اور مغالطے کا ازالہ فرمایا ہے وہ کہتے تھے کہ ہم اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں یا اس کے حکم کے بغیر ہی کچھ چیزوں کو حرام کرلیتے ہیں، اگر ہماری یہ باتیں غلط ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے ہمیں ان چیزوں سے روک کیوں نہیں دیتا، وہ اگر چاہے تو ہم ان کاموں کو کر ہی نہیں سکتے۔ اگر وہ نہیں روکتا تو اس کا مطلب ہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں، اس کی مشیت کے مطابق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس شبہ کا ازالہ ' رسولوں کا کام صرف پہنچا دینا ہے ' کہہ کر فرمایا۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارا یہ گمان صحیح نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے روکا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو تمہیں ان مشرکانہ امور سے بڑی سختی سے روکا ہے۔ اسی لئے وہ ہر قوم میں رسول بھیجتا اور کتابیں نازل کرتا رہا ہے اور ہر نبی نے آ کر سب سے پہلے اپنی قوم کو شرک ہی سے بچانے کی کوشش کی ہے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہرگز یہ پسند نہیں کرتا کہ لوگ شرک کریں کیونکہ اگر اسے یہ پسند ہوتا کہ تکذیب کر کے شرک کا راستہ اختیار کیا اور اللہ نے اپنی مشیت تکوینیہ کے تحت قہراً و جبراً تمہیں اس سے نہیں روکا، تو یہ اس کی حکمت ومصلحت کا ایک حصہ ہے، جس کے تحت اس نے انسانوں کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر ان کی آزمائش ممکن ہی نہ تھی۔ ہمارے رسول ہمارا پیغام تم تک پہنچا کر یہی سمجھاتے رہے کہ اس آزادی کا غلط استعمال نہ کرو بلکہ اللہ کی رضا کے مطابق اسے استعمال کرو۔ ہمارے رسول یہی کچھ کرسکتے تھے، جو انہوں نے کیا اور تم نے شرک کے آزادی کا غلط استعمال کیا جس کی سزا دائمی عذاب ہے۔ النحل
36 ٣٦۔ ١ مذکورہ شبہ کے ازالے کے لئے مزید فرمایا کہ ہم نے تو ہر امت میں رسول بھیجا اور یہ پیغام ان کے ذریعے سے پہنچایا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ لیکن جن پر گمراہی ثابت ہوچکی تھی، انہوں نے اس کی پرواہ ہی نہ کی۔ النحل
37 ٣٧۔ ١ اس میں اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے۔ اے پیغمبر! تیری خواہش یقیناً یہی ہے کہ یہ سب ہدایت کا راستہ اپنا لیں لیکن قوانین الہیہ کے تحت جو گمراہ ہوگئے ہیں، ان کو ہدایت کے راستے پر نہیں چلا سکتا، یہ تو اپنے آخری انجام کو پہنچ کر ہی رہیں گے، جہاں ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ النحل
38 ٣٨۔ ١ کیونکہ مٹی میں مل جانے کے بعد ان کا دوبارہ جی اٹھنا، انھیں مشکل اور ناممکن نظر آتا تھا۔ اسی لئے رسول جب انھیں بعث بعد الموت کی بابت کہتا تو اسے جھٹلاتے ہیں، اس کی تصدیق نہیں کرتے بلکہ اس کے برعکس یعنی دوبارہ زندہ نہ ہونے پر قسمیں کھاتے ہیں، قسمیں بھی بڑی تاکید اور یقین کے ساتھ۔ ٣٨۔ ٢ اس جہالت اور بے علمی کی وجہ سے رسولوں کی تکذیب و مخالفت کرتے ہوئے دریاے کفر میں ڈوب جاتے ہیں۔ النحل
39 ٣٩۔ ١ یہ وقوع قیامت کی حکمت و علت بیان کی جا رہی ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ ان چیزوں میں فیصلہ فرمائے گا جن میں لوگ دنیا میں اختلاف کرتے تھے اور اہل حق اور اہل تقویٰ کو اچھی جزا اور اہل کفر و فسق کو ان کے برے عملوں کی سزا دے گا۔ نیز اس دن اہل کفر پر بھی یہ بات واضح ہوجائے گی کہ قیامت کے عدم وقوع پر جو قسمیں کھاتے تھے ان میں وہ جھوٹے تھے۔ النحل
40 ٤٠۔ ١ یعنی لوگوں کے نزدیک قیامت کا ہونا، کتنا بھی مشکل یا ناممکن ہو، مگر اللہ کے لئے تو کوئی مشکل نہیں اسے زمین اور آسمان ڈھانے کے لئے مزدوروں، انجینئروں اور مستریوں اور دیگر آلات ووسائل کی ضرورت نہیں۔ اسے تو صرف کن کہنا ہے اس کے لفظ کن سے پلک جھپکتے میں قیامت برپا ہوجائے گی۔ (وَمَآ اَمْرُ السَّاعَۃِ اِلَّا کَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ ہُوَ اَقْرَبُ ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) 16۔ النحل :77) قیامت کا معاملہ پلک جھپکتے یا اس سے بھی کم مدت میں واقع ہوجائے گا۔ النحل
41 ٤١۔ ١ ہجرت کا مطلب ہے اللہ کے دین کے لئے اللہ کی رضا کی خاطر اپنا وطن، اپنے رشتہ دار اور دوست احباب چھوڑ کر ایسے علاقے میں چلے جانا جہاں آسانی سے اللہ کے دین پر عمل ہو سکے۔ اس آیت میں ان ہی مہاجرین کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے، یہ آیت عام ہے جو تمام مہاجرین کو شامل ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ ان مہاجرین کے بارے میں نازل ہوئی جو اپنی قوم کی ایذاؤں سے تنگ آ کر حبشہ ہجرت کر گئے تھے۔ ان کی تعداد عورتوں سمیت ایک سو یا اس سے زیادہ تھی، جن میں حضرت عثمان غنی اور ان کی زوجہ۔ دختر رسول حضرت رقیہ بھی تھیں۔ ٤١۔ ٢ اس سے رزق طیب اور بعض نے مدینہ مراد لیا ہے، جو مسلمانوں کا مرکز بنا، امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ دونوں قولوں میں منافات نہیں ہے۔ اس لئے کہ جن لوگوں نے اپنے کاروبار اور گھر بار چھوڑ کر ہجرت کی تھی، اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہی انھیں نعم البدل عطا فرما دیا۔ رزق طیب بھی دیا اور پورے عرب پر انھیں اقتدار و تمکن عطا فرمایا۔ ٤١۔ ٣ حضرت عمر نے جب مہاجرین و انصار کے وظیفے مقرر کئے تو ہر مہاجر کو وظیفہ دیتے ہوئے فرمایا۔ ھَذَا مَا وَ عَدَکَ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا ' یہ وہ ہے جس کا اللہ نے دنیا میں وعدہ کیا ہے '۔ وما ادخر لک فی الآخرۃ افضل۔ اور آخرت میں تیرے لیے جو ذخیرہ ہے وہ اس سے کہییں بہتر ہے۔ النحل
42 النحل
43 ٤٣۔ ١ اَ ھْلُ الذِّکْر سے مراد اہل کتاب ہیں جو پچھلے انبیاء اور ان کی تاریخ سے واقف تھے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے جتنے بھی رسول بھیجے، وہ انسان ہی تھے اس لئے محمد رسول اللہ بھی اگر انسان ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں کہ تم ان کی بشریت کی وجہ سے ان کی رسالت کا انکار کر دو۔ اگر تمہیں شک ہے تو اہل کتاب سے پوچھ لو کہ پچھلے انبیاء بشر تھے یا ملائکہ؟ اگر وہ فرشتے تھے تو پھر بیشک انکار کردینا، اگر وہ بھی انسان ہی تھے تو پھر محمد رسول اللہ کی رسالت کا محض بشریت کی وجہ سے انکار کیوں؟ النحل
44 النحل
45 النحل
46 ٤٦۔ ١ اس کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں، مثلًا، ١۔ جب تم تجارت اور کاروبار کے لئے سفر پر جاؤ، ٢۔ جب تم کاروبار کو فروغ دینے کے لئے مختلف حیلے اور طریقے اختیار کرو، ٣۔ یا رات کو آرام کرنے کے لئے اپنے بستروں پر جاؤ۔ یہ تَقَلُّب کے مختلف مفہوم ہیں۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے ان صورتوں میں بھی تمہارا مواخذا کرسکتا ہے۔ النحل
47 ٤٧۔ ١ نخوف کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ پہلے سے ہی دل میں عذاب اور مواخذے کا ڈر ہو۔ جس طرح بعض دفعہ انسان کسی بڑے گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے، تو خوف محسوس کرتا ہے کہ کہیں اللہ میری گرفت نہ کرلے چنانچہ بعض دفعہ اس طرح مؤاخذہ ہوتا ہے۔ ٤٧۔ ٢ کہ وہ گناہوں پر فوراً مواخذہ نہیں کرتا بلکہ مہلت دیتا ہے اور اس مہلت سے بہت سے لوگوں کو توبہ و استغفار کی توفیق بھی نصیب ہوجاتی ہے۔ النحل
48 ٤٨۔ ١ اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور اس کی جلالت شان کا بیان ہے کہ ہر چیز اس کے سامنے جھکی ہوئی اور مطیع ہے۔ جمادات ہوں یا حیوانات یا جن و انسان اور ملائکہ۔ ہر وہ چیز جس کا سایہ ہے اور اس کا سایہ دائیں بائیں جھکتا ہے تو وہ صبح و شام اپنے سائے کے ساتھ اللہ کو سجدہ کرتی ہے۔ امام مجاہد فرماتے ہیں جب سورج ڈھلتا ہے تو ہر چیز اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتی ہے۔ النحل
49 النحل
50 ٥٠۔ ١ اللہ کے خوف سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔ ٥٠۔ ٢ اللہ کے حکم سے سرتابی نہیں کرتے بلکہ جس کا حکم دیا جاتا ہے، بجا لاتے ہیں، جس سے منع کیا جاتا ہے، اس سے دور رہتے ہیں۔ النحل
51 ٥١۔ ١ کیونکہ اللہ کے سوا کوئی معبود ہے ہی نہیں۔ اگر آسمان و زمین میں دو معبود ہوتے تو نظام عالم قائم ہی نہیں رہ سکتا تھا یہ فساد اور خرابی کا شکار ہوچکا ہوتا۔ جب کائنات کا خالق ایک ہے اور وہی بلا شرکت غیر تمام کائنات کا نظم و نسق چلا رہا ہے تو معبود بھی صرف وہی ہے جو اکیلا ہے۔ دو یا دو سے زیادہ نہیں ہیں۔ النحل
52 ٥٢۔ ١ اسی کی عبادت و اطاعت دائمی اور لازم ہے واصِب کے معنی ہمیشگی کے ہیں ' ان کے لئے عذاب ہے ہمیشہ کا ' اور اس کا وہی مطلب ہے جو دوسرے مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ ' پس اللہ کی عبادت کرو، اسی کے لئے بندگی کو خالص کرتے ہوئے، خبردار! اسی کے لئے خالص بندگی ہے '۔ النحل
53 ٥٣۔ ١ جب سب نعمتوں کا دینے والا صرف ایک اللہ ہے تو پھر عبادت کسی اور کی کیوں؟ ٥٣۔ ٢ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ایک ہونے کا عقیدہ قلب و جدان کی گہرائیوں میں راسخ ہے جو اس وقت ابھر کر سامنے آ جاتا ہے جب ہر طرف سے مایوسی کے بادل گہرے ہوجاتے ہیں۔ النحل
54 النحل
55 ٥٥۔ ١ لیکن انسان بھی کتنا ناشکرا ہے کہ تکلیف (بیماری، تنگ دستی اور نقصان وغیرہ) کے دور ہوتے ہی وہ پھر رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے۔ ٥٥۔ ٢ یہ اس طرح ہی ہے جیسے اس سے قبل فرمایا تھا، (قُلْ تَمَتَّعُوْا فَاِنَّ مَصِیْرَکُمْ اِلَی النَّارِ) 14۔ ابراہیم :30) چند روزہ زندگی میں فائدہ اٹھالو! بالآخر تمہارا ٹھکانا جہنم ہے۔ النحل
56 ٥٦۔ ١ یعنی جن کو یہ حاجت روا، مشکل کشا اور معبود سمجھتے ہیں، وہ پتھر کی مورتیاں ہیں یا جنات و شیاطین ہیں، جن کی حقیقت کا ان کو علم ہی نہیں۔ اسی طرح قبروں میں مدفون لوگوں کی حقیقت بھی کوئی نہیں جانتا کہ ان کے ساتھ وہاں کیا معاملہ ہو رہا ہے؟ وہ اللہ کے پسندیدہ افراد میں ہیں یا کسی دوسری فہرست میں؟ ان باتوں کو کوئی نہیں جانتا لیکن ان ظالم لوگوں نے ان کی حقیقت سے ناآشنا ہونے کے باوجود، انھیں اللہ کا شریک ٹھہرا رکھا ہے اور اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے ان کے لیے بھی نذر ونیاز کے طور پر حصہ مقرر کرتے ہیں بلکہ اللہ کا حصہ رہ جائے تو بیشک رہ جائے ان کے حصے میں کمی نہیں کرتے جیسا کہ سورۃ الانعام میں بیان کیا گیا ہے۔ ٥٦۔ ٢ تم جو اللہ پر افترا کرتے ہو کہ اس کا شریک یا شرکا ہیں، اس کی بابت قیامت والے دن تم سے پوچھا جائے گا۔ النحل
57 ٥٧۔ ١ عرب کے بعض قبیلے (خزاعہ اور کنانہ) فرشتوں کی عبادت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ یعنی ایک ظلم تو یہ کیا کہ اللہ کی اولاد قرار دی۔ جب کہ اس کی کوئی اولاد نہیں۔ پھر اولاد بھی مونث، جسے وہ اپنے لئے پسند ہی نہیں کرتے اللہ کے لئے اسے پسند کیا، جسے دوسرے مقام پر فرمایا ' کیا تمہارے لئے بیٹے اور اس کے لئے بیٹیاں؟ یہ تو بڑی بھونڈی تقسیم ہے ' یہاں فرمایا کہ تم تو یہ خواہش رکھتے ہو کہ بیٹے ہوں، بیٹی کوئی نہ ہو۔ النحل
58 النحل
59 ٥٩۔ ١ یعنی لڑکی کی ولادت کی خبر سن کر ان کا تو یہ حال ہوتا ہے جو مذکور ہوا، اور اللہ کے لئے بیٹیاں تجویز کرتے ہیں۔ کیسا برا یہ فیصلہ کرتے ہیں، یہاں یہ نہ سمجھا جائے کہ اللہ تعالیٰ بھی لڑکوں کے مقابلے میں لڑکی کو حقیر اور کم تر سمجھتا ہے، نہیں اللہ کے نزدیک لڑکے اور لڑکی میں کوئی تمیز نہیں ہے نہ جنس کی بنیاد پر حقارت اور برتری کا تصور اس کے ہاں ہے یہاں تو صرف عربوں کی اس ناانصافی اور سراسر غیر معقول رویے کی وضاحت مقصود ہے جو انہوں نے اللہ کے ساتھ اختیار کیا تھا درآں حالیکہ اللہ کی برتری اور فوقیت کے وہ بھی قائل تھے جس کا منطقی نتیجہ تو یہ تھا کہ جو چیز یہ اپنے لیے پسند نہیں کرتے، اللہ کے لیے بھی اسے تجویز نہ کرتے لیکن انہوں نے اس کے برعکس کیا۔ یہاں صرف اسی ناانصافی کی وضاحت کی گئی ہے۔ النحل
60 ٦٠۔ ١ یعنی کافروں کے برے اعمال بیان کئے گئے ہیں انھیں کے لئے بری مثال یا صفت ہے یعنی جہل اور کفر کی صفت۔ یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کی جو بیوی اور اولاد یہ ٹھہراتے ہیں، یہ بری مثال ہے جو یہ منکرین آخرت اللہ کے لئے بیان کرتے ہیں۔ ٦٠۔ ٢ یعنی اس کی ہر صفت، مخلوق کے مقابلے میں اعلٰی و برتر ہے، مثلاً اس کا علم و سیع ہے، اس کی قدرت لا متناہی ہے، اس کی جود و عطا بے نظیر ہے۔ و علٰی ہذا القیاس یا یہ مطلب ہے کہ وہ قادر ہے، خالق ہے۔ رازق ہے اور سمیع و بصیر ہے وغیرہ (فتح القدیر) یا بری مثال کا مطلب نقص کوتاہی ہے اور مثل اعلی کا مطلب کمال مطلق ہر لحاظ سے اللہ کے لیے ہے۔ النحل
61 ٦١۔ ١ یہ اس کی نرم دلی ہے اور اس کی حکمت و مصلحت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی نافرمانیاں دیکھتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی نعمتیں سلب کرتا ہے نہ فوری مواخذہ ہی کرتا ہے حالانکہ اگر ارتکاب معصیت کے ساتھ ہی وہ مواخذہ کرنا شروع کر دے تو ظلم اور معصیت اور کفر اور شرک اتنا عام ہے کہ روئے زمین پر کوئی جاندار باقی نہ رہے کیونکہ جب برائی عام ہوجائے تو پھر عذاب عام میں نیک لوگ بھی ہلاک کردیئے جاتے ہیں تاہم آخرت میں وہ عند اللہ سرخرو رہیں گے جیسا کہ حدیث میں وضاحت آتی ہے (ملاحظۃ ہو صحیح بخاری۔ نمبر ٢١١٨۔ ٦١۔ ٢ یہ اس کی حکمت کا بیان ہے جس کے تحت وہ ایک خاص وقت تک مہلت دیتا ہے تاکہ ایک تو ان کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے۔ دوسرے، ان کی اولاد میں سے کچھ ایماندار نکل آئیں۔ النحل
62 ٦٢۔ ١ یعنی بیٹیاں۔ یہ تکرار تاکید کے لئے ہے۔ ٦٢۔ ٢ یہ ان کی دوسری خرابی کا بیان ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ ناانصافی کا معاملہ کرتے ہیں ان کی زبانیں یہ جھوٹ بولتی ہیں کہ ان کا انجام اچھا ہے، ان کے لئے بھلائیاں ہیں اور دنیا کی طرح ان کی آخرت بھی اچھی ہوگی۔ ٦٢۔ ٣ یعنی یقیناً ان کا انجام ' اچھا ' ہے اور وہ ہے جہنم کی آگ، جس میں وہ دوزخیوں کے پیش رو پہلے جانے والے ہوں گے۔ فَرَط کے یہی معنی حدیث سے بھی ثابت ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' اَ نَا فَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ ' (صحیح بخاری) ' میں حوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا ' ایک دوسرے معنی مفرَطُوْنَ کے یہ کئے گئے ہیں کہ انھیں جہنم میں ڈال کر فراموش کردیا جائے گا۔ النحل
63 ٦٣۔ ١ جس کی وجہ سے انہوں نے بھی رسولوں کی تکذیب کی جس طرح پیغمبر قریش مکہ تیری تکذیب کر رہے ہیں۔ ٦٣۔ ٢ اَلْیَوْمَ سے یا تو زمانہ دنیا مراد ہے، جیسا کہ ترجمے سے واضح ہے، یا اس سے مراد آخرت ہے کہ وہاں بھی یہ ان کا ساتھی ہوگا۔ یعنی یہی شیطان جس نے پچھلی امتوں کو گمراہ کیا، آج وہ ان کفار مکہ کا دوست ہے اور انھیں تکذیب رسالت پر مجبور کر رہا ہے۔ النحل
64 ٦٤۔ ١ اس میں نبی کا یہ منصب بیان کیا گیا کہ عقائد و احکام شرعیہ کے سلسلے میں یہود و انصاری کے درمیان اور اسی طرح مجوسیوں اور مشرکین کے درمیان اور دیگر اہل مذاہب کے درمیان جو باہم اختلاف ہے، اس کی اس طرح تفصیل بیان فرمائیں کہ حق اور باطل واضح ہوجائے تاکہ لوگ حق کو اختیار اور باطل سے پرہیز کریں۔ النحل
65 النحل
66 ٦٦۔ ١ اَنْعَام (چوپائے) سے اونٹ، گائے، بکری (اور بھیڑ، دنبہ) مراد ہوتے ہیں۔ ٦٦۔ ٢ یہ چوپائے جو کچھ کھاتے ہیں، معدے میں جاتا ہے، اسی خوراک سے دودھ، خون، گوبر اور پیشاب بنتا ہے، خون رگوں میں اور دودھ تھنوں میں اسی طرح گوبر اور پیشاب اپنے اپنے مخرج میں منتقل ہوجاتا ہے اور دودھ میں نہ خون کی رنگت شامل ہوتی ہے اور نہ گوبر پیشاب کی بدبو۔ سفید اور شفاف دودھ باہر آتا ہے جو نہایت آسانی سے حلق سے نیچے اتر جاتا ہے۔ النحل
67 ٦٧۔ ١ یہ آیت اس وقت اتری تھی جب شراب حرام نہیں تھی، اس لئے حلال چیزوں کے ساتھ اس کا بھی ذکر کیا گیا ہے، لیکن اس میں سَکَرً ا کے بعد رِزْقًا حَسَنًا ہے، جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شراب رزق حسن نہیں ہے۔ نیز یہ سورت مکی ہے۔ جس میں شراب کے بارے ناپسندیدگی کا اظہار ہے۔ پھر مدنی سورتوں میں بتدریج اس کی حرمت نازل ہوگئی۔ النحل
68 ٦٨۔ ١ وَحَیً سے مراد الہام اور وہ سمجھ بوجھ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی طبعی ضروریات کی تکمیل کے لئے حیوانات کو بھی عطا کی ہے۔ النحل
69 ٦٩۔ ١ شہد کی مکھی پہلے پہاڑوں میں، درختوں میں انسانی عمارتوں کی بلندیوں پر اپنا مسدس خانہ اور چھتہ اس طرح بناتی ہے کہ درمیان میں کوئی شگاف نہیں رہتا۔ پھر وہ باغوں، جنگلوں، وادیوں اور پہاڑوں میں گھومتی پھرتی ہے اور ہر قسم کے پھلوں کا جوس اپنے پیٹ میں جمع کرتی ہے اور پھر انھیں راہوں سے، جہاں جہاں سے وہ گزرتی ہے، واپس لوٹتی ہے اور اپنے چھتے میں آ کر بیٹھ جاتی ہے، جہاں اس کے منہ یا دبر سے وہ شہد نکلتا ہے جسے قرآن نے ' شراب ' سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی مشروب روح افزا۔ ٦٩۔ ٢ کوئی سرخ، کوئی سفید، کوئی نیلا اور کوئی زرد رنگ کا، جس قسم کے پھلوں اور کھیتوں سے وہ خوراک حاصل کرتی ہے، اسی حساب سے اس کا رنگ اور ذائقہ بھی مختلف ہوتا ہے۔ ٦٩۔ ٣ شِفَاء میں تنکیر تعظیم کے لئے ہے۔ یعنی بہت سے امراض کے لئے شہد میں شفا ہے۔ یہ نہیں کہ مطلقًا ہر بیماری کا علاج ہے۔ علمائے طب نے تشریح کی ہے کہ شہد یقیناً ایک شفا بخش قدرتی مشروب ہے۔ لیکن مخصوص بیماریوں کے لئے نہ کہ ہر بیماری کے لئے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حلوا میٹھی چیز اور شہد پسند تھا (صحیح البخاری، کتاب الاشربہ۔ باب شراب الحلواء والعسل) ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تین چیزوں میں شفا ہے۔ فصد کھلوانے (پچھنے لگانے) میں شہد کے پینے میں اور آگ سے داغنے میں۔ لیکن میں اپنی امت کو داغ لگونے سے منع کرتا ہوں۔ حدیث میں ایک واقعہ بھی آتا ہے اسہال (دست) کے مرض میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہد پلانے کا مشورہ دیا جس سے مزید فضلات خارج ہوئے اور گھر والے سمجھے کہ شاید مرض میں اضافہ ہوگیا ہے پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیسری مرتبہ فرمایا اللہ سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے۔ جا اور اسے شہد پلا چنانچہ تیسری مرتبہ میں اسے شفائے کاملہ حاصل ہوگئی۔ النحل
70 ٧٠۔ ١ جب انسان طبعی عمر سے تجاوز کرجاتا ہے تو پھر اس کا حافظہ بھی کمزور ہوجاتا ہے اور بعض دفعہ عقل بھی ماؤف، اور وہ نادان بچے کی طرح ہوجاتا ہے۔ یہی طویل عمر ہے جس سے نبی نے بھی پناہ مانگی ہے۔ النحل
71 ٧١۔ ١ یعنی جب تم اپنے غلاموں کو اتنا مال اسباب دنیا نہیں دیتے کہ تمہارے برابر ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ کب یہ پسند کرے گا کہ تم کچھ لوگوں کو، جو اللہ ہی کے بندے اور غلام ہیں اللہ کا شریک اور اس کے برابر قرار دے دو، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ معاشی لحاظ سے انسانوں میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے فطری نظام کے مطابق ہے۔ جسے جبری قوانین کے ذریعے ختم نہیں کیا جاسکتا کہ اشتراکی نظام میں ہے یعنی معاشی مساوات کی غیر فطری کوشش کی بجائے ہر کسی کو معاشی میدان میں کسب معاش کے لئے مساوی طور پر دوڑ دھوپ کے مواقع میسر ہونے چاہیں۔ ٧١۔ ٢ کہ اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے غیر اللہ کے لیے نذر نیاز نکالتے ہیں اور یوں کفران نعمت کرتے ہیں۔ النحل
72 ٧٢۔ ١ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے انعامات کا تذکرہ کر کے جو آیت میں مذکور ہیں، سوال کر رہا ہے کہ سب کچھ دینے والا تو اللہ ہے، لیکن یہ اسے چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں اور دوسروں کا ہی کہنا مانتے ہیں۔ النحل
73 ٧٣۔ ١ یعنی اللہ کو چھوڑ کر عبادت بھی ایسے لوگوں کی کرتے ہیں جن کے پاس کسی چیز کا اختیار نہیں۔ النحل
74 ٧٤۔ ١ جس طرح مشرکین مثالیں دیتے ہیں کہ بادشاہ سے ملنا ہو یا اس سے کوئی کام ہو تو کوئی براہ راست بادشاہ سے نہیں مل سکتا ہے۔ پہلے اسے بادشاہ کے مقربین سے رابطہ کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر بادشاہ تک اس کی رسائی ہوتی ہے اسی طرح اللہ کی ذات بھی بہت اعلی اور اونچی ہے۔ اس تک پہنچنے کے لیے ہم ان معبودوں کو ذریعہ بناتے ہیں یا بزرگوں کا وسیلہ پکڑتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، تم اللہ کو اپنے پر قیاس مت کرو نہ اس قسم کی مثالیں دو۔ اس لیے کہ وہ تو واحد ہے، اس کی کوئی مثال ہی نہیں ہے۔ پھر بادشاہ نہ تو عالم الغیب ہے، نہ حاضر و ناظر نہ سمیع وبصیر۔ کہ وہ بغیر کسی ذریعے کے رعایا کے حالات وضروریات سے آگاہ ہوجائے جب کہ اللہ تعالیٰ تو ظاہر وباطن اور حاضر غائب ہر چیز کا علم رکھتا ہے، رات کی تاریکیوں میں ہونے والے کاموں کو بھی دیکھتا ہے اور ہر ایک کی فریاد سننے پر بھی قادر ہے۔ بھلا ایک انسانی بادشاہ اور حاکم کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا مقابلہ اور موازنہ؟ النحل
75 ٧٥۔ ١ بعض کہتے ہیں کہ یہ غلام اور آزاد کی مثال ہے کہ پہلا شخص غلام اور دوسرا آزاد ہے۔ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے بعض کہتے ہیں کہ یہ مومن اور کافر کی مثال ہے۔ پہلا کافر اور دوسرا مومن ہے۔ یہ برابر نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ اور بت (معبودان باطلہ) کی مثال ہے، پہلے سے مراد بت اور دوسرے سے اللہ ہے۔ یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے مطلب یہی ہے کہ ایک غلام اور آزاد، باوجود اس بات کے کہ دونوں انسان ہیں، دونوں اللہ کی مخلوق ہیں اور بھی بہت سی چیزیں دونوں کے درمیان مشترکہ ہیں، اس کے باوجود رتبہ اور شرف اور فضل و منزلت میں تم دونوں کو برابر نہیں سمجھتے تو اللہ تعالیٰ اور پتھر کی ایک مورتی یہ دونوں کس طرح برابر ہو سکتے ہیں۔ النحل
76 ٧٦۔ ١ یہ ایک اور مثال ہے جو پہلے سے زیادہ واضح ہے۔ ٧٦۔ ٢ اور ہر کام کرنے پر قادر ہے کیونکہ ہر بات بولتا اور سمجھتا ہے اور ہے بھی سیدھی راہ یعنی دین اور سیرت صالحہ پر۔ یعنی کمی بیشی سے پاک۔ جس طرح یہ دونوں برابر نہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ اور وہ چیزیں، جن کو لوگ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں، برابر نہیں ہو سکتے۔ النحل
77 ٧٧۔ ١ یعنی آسمان اور زمین میں جو چیزیں غائب ہیں اور وہ بیشمار ہیں اور انہی میں قیامت کا علم ہے۔ ان کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ اس لئے عبادت کے لائق بھی صرف ایک اللہ ہے نہ کہ وہ پتھر کے بت جن کو کسی چیز کا علم نہیں نہ وہ کسی کو نفع نقصان پہنچانے پر قادر ہیں۔ ٧٧۔ ٢ یعنی اس کی قدرت کاملہ کی دلیل ہے کہ وسیع وعریض کائنات اس کے حکم سے پلک جھپکنے میں بلکہ اس سے بھی کم لمحے میں تباہ برباد ہوجائے گی۔ یہ بات بطور مبالغہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت واقعہ ہے کیونکہ اس کی قدرت غیر متناہی ہے۔ جس کا ہم اندازہ نہیں کرسکتے، اس کے ایک لفظ کُنْ سے سب کچھ ہوجاتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ تو یہ قیامت بھی اس کے کُنْ (ہو جا) کہنے سے برپا ہوجائے گی۔ النحل
78 ٧٨۔ ١ شَیْئًا، نکرہ ہے تم کچھ نہیں جانتے تھے، نہ نیکی و بد بختی کو، نہ فائدے اور نقصان کو۔ ٧٨۔ ٢ تاکہ کانوں کے ذریعے تم آوازیں سنو، آنکھوں کے ذریعے سے چیزوں کو دیکھو اور دل، یعنی عقل (کیونکہ عقل کا مرکز دل ہے) دی، جس سے چیزوں کے درمیان تمیز کرسکو اور نفع نقصان پہچان سکو، جوں جوں انسان بڑا ہوتا ہے، اس کی عقل و حواس میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے، حتیٰ کہ جب انسان شعور اور بلوغت کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کی یہ صلاحیتیں بھی قوی ہوجاتی ہیں، حتیٰ کہ پھر کمال کو پہنچ جاتی ہیں۔ ٧٨۔ ٣ یعنی یہ صلاحیتیں اور قوتیں اللہ تعالیٰ نے اس لئے عطا کی ہیں کہ انسان ان عضا و جوارح کو اس طرح استعمال کرے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے۔ ان سے اللہ کی عبادت و اطاعت کرے۔ یہی اللہ کی ان نعمتوں کا عملی شکر ہے حدیث میں آتا ہے ' میرا بندہ جن چیزوں کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے ان میں سب سے محبوب وہ چیزیں ہیں جو میں نے اس پر فرض کی ہیں۔ علاوہ ازیں نوافل کے ذریعے سے بھی وہ میرا قرب حاصل کرنے کی سعی کرتا ہے۔ حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ اور جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے پاؤں ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اور مجھ سے کسی چیز سے پناہ طلب کرتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں۔ تنبیہ : اس حدیث کا بعض لوگ غلط مطلب لے کر اولیاء اللہ کو خدائی اختیارات کا حامل باور کراتے ہیں۔ حالانکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب بندہ اپنی اطاعت و عباد اللہ کے لیے خالص کرلیتا ہے تو اس کا ہر کام صرف اللہ کی رضا کے کے لیے ہوتا ہے، وہ اپنے کانوں سے وہی بات سنتا اور اپنی آنکھوں سے وہی چیز دیکھتا ہے جس کی اللہ نے اجازت دی ہے، جس چیز کو ہاتھ سے پکڑتا ہے یا پیروں سے چل کر اس کی طرف جاتا ہے تو وہی چیز ہوتی ہے جس کو شریعت نے روا رکھا ہے وہ ان کو اللہ کی نافرمانی میں استعمال نہیں کرتا بلکہ صرف اطاعت میں استعمال کرتا ہے۔ النحل
79 ٧٩۔ ١ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے پرندوں کو اس طرح اڑنے کی اور ہواؤں کو انھیں اپنے دوش پر اٹھائے رکھنے کی طاقت بخشی۔ النحل
80 ٨٠۔ ١ یعنی چمڑے کے خیمے، جنہیں تم سفر میں آسانی کے ساتھ اٹھائے پھرتے ہو، اور جہاں ضرورت پڑتی ہے اسے تان کر موسم کی شدتوں سے اپنے کو محفوط کرلیتے ہو۔ ٨٠۔ ٢ اَ صْوَاف، صُوْف، کی جمع۔ بھیڑ کی اون اَوْبَار، وَبَر، کی جمع، اونٹ کے بال، اَشْعَار، شَعَر، کی جمع، دنبے اور بکری کے بال۔ ان سے کئی قسم کی چیزیں تیار ہوتی ہیں، جن سے انسان کو مال بھی حاصل ہوتا ہے اور ان سے ایک وقت تک فائدہ بھی اٹھاتا ہے۔ النحل
81 ٨١۔ ١ یعنی درخت جن سے سایہ حاصل کیا جاتا ہے۔ ٨١۔ ٢ یعنی اون اور روئی کے کرتے جو عام پہننے میں آتے ہیں اور لوہے کی زرہیں اور خود جو جنگوں میں پہنی جاتی ہیں۔ النحل
82 النحل
83 ٨٣۔ ١ یعنی اس بات کو جانتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ ساری نعمتیں پیدا کرنے والا اور ان کا استعمال میں لانے کی صلاحیتیں عطا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے، پھر بھی اللہ کا انکار کرتے ہیں اور اکثر ناشکری کرتے ہیں۔ یعنی اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں۔ النحل
84 ٨٤۔ ١ یعنی ہر امت پر اس امت کا پیغمبر گواہی دے گا کہ انھیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی ان کافروں کو عذر پیش کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی، اس لئے کہ ان کے پاس حقیقت میں کوئی عذر یا حجت ہوگی ہی نہیں۔ نہ ان سے رجوع یا عتاب دور کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ کیونکہ اس کی ضرورت بھی اس وقت پیش آتی ہے جب کسی کو گنجائش دینا مقصود ہو، ایک دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ انھیں اپنے رب کو راضی کرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ کیونکہ وہ موقع تو دنیا میں دیا جا چکا ہے جو دارالعمل ہے۔ آخرت تو دارعمل نہیں، وہ تو دارالجزا ہے، وہاں تو اس چیز کا بدلہ ملے گا جو انسان دنیا سے کر کے گیا ہوگا، وہاں کچھ کرنے کا موقع کسی کو نہیں ملے گا۔ النحل
85 ٨٥۔ ١ ہلکا نہ کرنے کا مطلب، درمیان میں کوئی وقفہ نہیں ہوگا، عذاب اور مسلسل بلا توقف عذاب ہوگا۔ اور نہ ڈھیل ہی دیئے جائیں گے یعنی، ان کو فوراً لگاموں سے پکڑ کر اور زنجیروں میں جکڑ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا یا توبہ کا موقع نہیں دیا جائے گا، کیونکہ آخرت عمل کی جگہ نہیں، جزا کا مقام ہے۔ النحل
86 ٨٦۔ ١ معبودان باطلہ کی پوجا کرنے والے اپنے اس دعوے میں جھوٹے تو نہیں ہوں گیں۔ لیکن شرکا جن کو یہ اللہ کا شریک گردانتے تھے، کہیں گے یہ جھوٹے ہیں۔ یہ یا تو شرکت کی نفی ہے ہمیں اللہ کا شریک ٹھہرانے میں یہ جھوٹے ہیں، بھلا اللہ کا شریک کوئی ہوسکتا ہے؟ یا اسلئے جھوٹا قرار دیں گے کہ وہ ان کی عبادت سے بالکل بے خبر تھے، جس طرح قرآن کریم نے متعدد جگہ اس بات کو بیان فرمایا ہے۔ ' ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ بطور گواہ کافی ہے کہ ہم اس بات سے بے خبر تھے کہ تم ہماری عبادت کرتے تھے۔ مزید دیکھیے سورۃ احقاف (وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَہُمْ عَنْ دُعَاۗیِٕہِمْ غٰفِلُوْنَ ۝ وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَہُمْ اَعْدَاۗءً وَّکَانُوْا بِعِبَادَتِہِمْ کٰفِرِیْنَ ۝) 46۔ الاحقاف :6-5)۔ (وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اٰلِہَۃً لِّیَکُوْنُوْا لَہُمْ عِزًّا 81؀ۙ کَلَّا ۭ سَیَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِہِمْ وَیَکُوْنُوْنَ عَلَیْہِمْ ضِدًّا 82؀ۧ) 19۔ مریم :82-81)۔ (وَقَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْثَانًا ۙ مَّوَدَّۃَ بَیْنِکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ۚ ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُمْ بِبَعْضٍ وَّیَلْعَنُ بَعْضُکُمْ بَعْضًا ۡ وَّمَاْوٰیکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ) 29۔ العنکبوت :25)۔ (وَیَوْمَ یَقُوْلُ نَادُوْا شُرَکَاۗءِیَ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْہُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَہُمْ وَجَعَلْنَا بَیْنَہُمْ مَّوْبِقًا) 18۔ الکہف :52)۔ وغیرھا من الایات ایک یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ہم نے تمہیں اپنی عبادت کرنے کے لیے کبھی نہیں کہا تھا اس لیے تم ہی جھوٹے ہو۔ یہ شرکا اگر حجر وشجر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انھیں قوت گویائی عطا فرمائے گا۔ جنات وشیاطین ہوں گے تو کوئی اشکال ہی نہیں ہے اور اگر اللہ کے نیک بندے ہوں گے جس طرح کہ متعدد صلحا واتقیا اور اولیاء اللہ کو لوگ مدد کے لیے پکارتے ہیں ان کے نام کی نذر نیاز دیتے ہیں اور ان کی قبروں پر جا کر ان کی اسی طرح تعظیم کرتے ہیں جس طرح کسی معبود کی خوف ورجا کے جذبات کے ساتھ کی جاتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ ان کو میدان محشر میں ہی بری فرما دے گا اور ان کی عبادت کرنے والوں کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ کا سوال اور ان کا جواب سورۃ مائدہ کے آخر میں مذکور ہے۔ النحل
87 النحل
88 ٨٨۔ ١ جس طرح جنت میں اہل ایمان کے درجات مختلف ہوں گے، اسی طرح جہنم میں کفار کے عذاب میں فرق ہوگا جو گمراہ ہونے کے ساتھ دوسروں کی گمراہی کا سبب بنے ہونگے، ان کا عذاب دوسروں کی نسبت شدید تر ہوگا۔ النحل
89 ٨٩۔ ١ یعنی ہر نبی اپنی امت پر گواہی دے گا اور نبی اور آپ کی امت کے لوگ انبیاء کی بابت گواہی دیں گے کہ یہ سچے ہیں، انہوں نے یقیناً تیرا پیغام پہنچا دیا تھا (صحیح بخاری) ٨٩۔ ٢ کتاب سے مراد اللہ کی کتاب اور نبی کی تشریحات (احادیث) ہیں۔ اپنی احادیث کو بھی اللہ کے رسول نے ' کتاب اللہ ' قرار دیا ہے۔ اور ہر چیز کا مطلب ہے، ماضی اور مستقبل کی خبریں جن کا علم ضروری اور مفید ہے، اسی طرح حرام و حلال کی تفصیلات اور وہ باتیں جن کے دین و دنیا اور معاش و معاد کے معاملات میں انسان محتاج ہیں۔ قرآن و حدیث دونوں میں یہ سب چیزیں واضح کردی گئی ہیں۔ النحل
90 ٩٠۔ ١ عدل کے مشہور معنی انصاف کرنے کے ہیں۔ یعنی اپنوں اور بیگانوں سب کے ساتھ انصاف کیا جائے، کسی کے ساتھ دشمنی یا عناد یا محبت یا قرابت کی وجہ سے، انصاف کے تقاضے مجروح نہ ہوں۔ ایک دوسرے معنی اعتدال کے ہیں یعنی کسی معاملے میں بھی زیادتی یا کمی کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ حتیٰ کہ دین کے معاملے میں بھی۔ کیونکہ دین میں زیادتی کا نتیجہ حد سے زیادہ گزر جانا ہے، جو سخت خراب ہے اور کمی، دین میں کوتاہی ہے یہ بھی ناپسندیدہ ہے۔ ٩٠۔ ٢ احسان کے ایک معنی حسن سلوک، عفو ودرگزر اور معاف کردینے کے ہیں۔ دوسرے معنی تفضل کے ہیں یعنی حق واجب سے زیادہ دینا یا عمل واجب سے زیادہ عمل کرنا۔ مثلا کسی کام کی مزدوری سو روپے طے ہے لیکن دیتے وقت ١٠، ٢٠ روپے زیادہ دے دینا، طے شدہ سو روپے کی ادائیگی حق واجب ہے اور یہ عدل ہے۔ مزید ١٠، ٢٠ روپے یہ احسان ہے۔ عدل سے بھی معاشرے میں امن قائم ہوتا ہے لیکن احسان سے مزید خوش گواری اور اپنائیت و فدائیت کے جذبات نشو ونما پاتے ہیں۔ اور فرائض کی ادائیگی کے ساتھ نوافل کا اہتمام، عمل واجب سے زیادہ عمل جس سے اللہ کا قرب خصوصی حاصل ہوتا ہے۔ احسان کے ایک تیسرے معنی اخلاص عمل اور حسن عبادت ہے، جس کو حدیث میں ان تعبد اللہ کانک تراہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایتاء ذی القربی رشتے داروں کا حق ادا کرنا یعنی ان کی امداد کرنا ہے اسے حدیث میں صلہ رحمی کہا گیا ہے اور اس کی نہایت تاکید احادیث میں بیان کی گئی ہے۔ عدل واحسان کے بعد اس کا الگ سے ذکر یہ بھی صلہ رحمی کی اہمیت کو واضح کر رہا ہے۔ فحشاء سے مراد بے حیائی کے کام ہیں۔ آج کل بے حیائی اتنی عام ہوگئی ہے کہ اس کا نام تہذیب ترقی اور آرٹ قرار پا گیا ہے۔ یا تفریح کے نام پر اس کا جواز تسلیم کرلیا گیا ہے۔ تاہم محض خوشنما لیبل لگا لینے سے کسی چیز کی حقیقت نہیں بدل جاتی اسی طرح شریعت اسلامیہ نے زنا اور اس کے مقدمات کو رقص وسرود بے پردگی اور فیشن پرستی کو اور مرد و زن کے بے باکانہ اختلاط اور مخلوط معاشرت اور دیگر اس قسم کی خرافات کو بے حیائی قرار دیا ہے، ان کا کتنا بھی اچھا نام رکھ لیا جائے مغرب سے درآمد شدہ یہ خباثتیں جائز قرار نہیں پا سکتیں۔ منکر ہر وہ کام ہے جسے شریعت نے ناجائز قرار دیا ہے اور بغی کا مطلب ظلم وزیادتی کا ارتکاب۔ ایک حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ قطع رحمی اور بغی یہ دونوں جرم اللہ کو اتنے ناپسند ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی ان کی فوری سزا کا امکان غالب رہتا ہے۔ النحل
91 ٩١۔ ١ قَسَم ایک تو وہ ہے جو کسی عہد و پیمان کے وقت، اسے مزید پختہ کرنے کے لئے کھائی جاتی ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جو انسان اپنے طور پر کسی وقت کھا لیتا ہے کہ میں فلاں کام کروں گا یا نہیں کروں گا۔ یہاں آیت میں اول الذکر قسم مراد ہے کہ تم نے قسم کھا کر اللہ کو ضامن بنا لیا ہے۔ اب اسے نہیں توڑنا بلکہ عہد وپیمان کو پورا کرنا ہے جس پر تم نے قسم کھائی ہے۔ کیونکہ ثانی الذکر قسم کی بابت تو حدیث میں حکم دیا گیا ہے کہ ' کوئی شخص کسی کام کی بابت قسم کھا لے، پھر وہ دیکھے کہ زیادہ خیر دوسری چیز میں ہے (یعنی قسم کے خلاف کرنے میں ہے) تو بہتری والے کام کو اختیار کرے اور قسم کو توڑ کر اس کا کفارہ ادا کرے، نبی کا عمل بھی یہی تھا۔ (صحیح بخاری) النحل
92 ٩٢۔ ١ یعنی مؤکد بہ حلف عہد کو توڑ دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی عورت سوت کاتنے کے بعد اسے خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔ یہ تمثیل ہے۔ ٩٢۔ ٢ یعنی دھوکہ اور فریب دینے کا ذریعہ بناؤ۔ ٩٢۔ ٣ جب تم دیکھو کہ اب تم زیادہ ہوگئے ہو تو اپنے گمان سے حلف توڑ دو، جب کہ قسم اور معاہدے کے وقت وہ گروہ کمزور تھا، لیکن کمزوری کے باوجود وہ مطمئن تھا کہ معاہدے کی وجہ سے ہمیں نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ لیکن تم عذر اور نقص عہد کر کے نقصان پہنچاؤ۔ زمانہء جایلیت میں اخلاقی پستی کی وجہ سے اس قسم کی عہد شکنی عام تھی، مسلمانوں کو اس اخلاقی پستی سے روکا گیا ہے۔ النحل
93 النحل
94 ٩٤۔ ١ مسلمانوں کو دوبارہ مذکورہ عہد شکنی سے روکا جا رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری اس اخلاقی پستی سے کسی کے قدم ڈگمگا جائیں اور کافر تمہارا یہ رویہ دیکھ کر قبول اسلام سے رک جائیں اور یوں تم لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے کے مجرم اور سزا کے مستحق بن جاؤ۔ بعض مفسرین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیعت مراد لی ہے۔ یعنی نبی کی بیعت توڑ کر پھر مرتد ہوجانا، تمہارے ارادوں کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اسلام قبول کرنے سے رک جائیں گے اور یوں تم دگنے عذاب کے مستحق قرار پاؤ گے۔ (فتح القدیر) النحل
95 النحل
96 النحل
97 ٩٧۔ ١ حیات طیبہ (بہتر زندگی) سے مراد دنیا کی زندگی ہے، اس لئے آخرت کی زندگی کا ذکر اگلے جملے میں ہے اور مطلب یہ ہے کہ ایک مومن باکردار کو صالحانہ اور متقیانہ زندگی گزارنے اور اللہ کی عبادت و اطاعت اور زہد و قناعت میں جو لذت و حلاوت محسوس ہوتی ہے، وہ ایک کافر اور نافرمان کو دنیا بھر کی آسائشوں اور سہولتوں کے باوجود میسر نہیں آتی، بلکہ وہ ایک طرح کی بے چینی و اضطراب کا شکار رہتا ہے۔ "ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشۃ ضنکا" جس نے میری یاد سے اعراض کیا اس کا گزران تنگی والا ہوگا۔ النحل
98 ٩٨۔ ١ خطاب اگرچہ نبی سے ہے لیکن مخاطب ساری امت ہے۔ یعنی تلاوت کے آغاز میں اَ عُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھا جائے۔ النحل
99 النحل
100 النحل
101 ١٠١۔ ١ یعنی ایک حکم منسوخ کر کے اس کی جگہ دوسرا حکم نازل کرتے ہیں، جس کی حکمت و مصلحت اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور اس کے مطابق وہ احکام میں رد وبدل فرماتا ہے، تو کافر کہتے ہیں کہ یہ کلام اے محمد! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرا اپنا گھڑا ہوا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو اس طرح نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے اکثر لوگ بے علم ہیں، اس لئے یہ منسوخی کی حکمتیں اور مصلحتیں کیا جانیں۔ مزید وضاحت کیلیے ملاحظہ ہو سورۃ بقرہ آیت ١٠٦ کا حاشیہ النحل
102 ١٠٢۔ ١ یعنی یہ قرآن محمد کا اپنا گھڑا ہوا نہیں بلکہ اسے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) جیسے پاکیزہ ہستی نے سچائی کے ساتھ رب کی طرف سے اتارا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر ہے، (نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ ١٩٣؀ۙ عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ ١٩٤؀ۙ) 26۔ الشعراء :194-193) اسے الروح الامین (جبرائیل علیہ السلام) نے تیرے دل پر اتارا ہے '۔ ١٠٢۔ ٢ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ منسوخ کرنے والا اور منسوخ دونوں رب کی طرف سے ہیں۔ علاوہ ازیں منسوخی کی مصلحتیں بھی جب ان کے سامنے آتی ہیں تو ان کے اندر مزید ثبات قدمی اور ایمان میں رسوخ پیدا ہوتا ہے۔ ١٠٢۔ ٣ اور یہ قرآن مسلمانوں کے لئے ہدایت اور بشارت کا ذریعہ ہے، کیونکہ قرآن بھی بارش کی طرح ہے، جس سے بعض زمینیں خوب شاداب ہوتی ہیں اور بعض میں کانٹے دار جھاڑیوں کے سوا کچھ نہیں اگتا۔ مومن کا دل صاف اور شفاف ہے جو قرآن کی برکت سے اور ایمان کے نور سے منور ہوجاتا ہے اور کافر کا دل زمین شور کی طرح ہے جو کفر و ضلالت کی تاریکیوں سے بھرا ہوا ہے، جہاں قرآن کی ضیا پاشیاں بھی بے اثر رہتی ہیں۔ النحل
103 ١٠٣۔ ١ یعنی بعض غلام تھے جو تورات و انجیل سے واقف تھے، پہلے وہ عیسائی یا یہودی تھے، پھر مسلمان ہوگئے ان کی زبان میں بھی روانی نہ تھی۔ مشرکین مکہ کہتے تھے کہ فلاں غلام، محمد کو قرآن سکھاتا ہے۔ ١٠٣۔ ٢ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ یہ جس آدمی، یا آدمیوں کا نام لیتے ہیں وہ تو عربی زبان بھی روانی کے ساتھ نہیں بول سکتے، جب کہ قرآن تو ایسی صاف عربی زبان میں ہے جو فصاحت و بلاغت اور اعجاز بیان میں بے نظیر ہے اور چلینج کے باوجود اس کی مثل ایک سورت بھی بنا کر پیش نہیں کی جا سکتی، دنیا بھر کے عالم فاضل اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ عربی اس شخص کو عجمی (گونگا) کہتے تھے جو فصیح و بلیغ زبان بولنے سے قاصر ہوتا تھا اور غیر عربی کو بھی عجمی کہا جاتا ہے کہ عجمی زبانیں بھی فصاحت وبلاغت میں عربی زبان کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ النحل
104 النحل
105 ١٠٥۔ ١ اور ہمارا پیغمبر تو ایمانداروں کا سردار اور ان کا قائد ہے، وہ کس طرح اللہ پر افترا باندھ سکتا ہے کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے اس پر نازل نہ ہوئی ہو، اور وہ یونہی کہہ دے کہ یہ کتاب مجھ پر اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ اس لئے جھوٹا ہمارا پیغمبر نہیں، یہ خود جھوٹے ہیں جو قرآن کے منزل من اللہ ہونے کے منکر ہیں۔ النحل
106 ١٠٦۔ ١ اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس شخص کو کفر پر مجبور کیا جائے اور وہ جان بچانے کے لئے قولاً یا فعلاً کفر کا ارتکاب کرلے جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، تو وہ کافر نہیں ہوگا، نہ اس کی بیوی اس سے جدا ہوگی اور نہ اس پر دیگر احکام کفر لاگو ہونگیں۔ قالہ الْقُرْطُبِیُّ (فتح القدیر) ١٠٦۔ ٢ یہ مرتد ہونے کی سزا ہے کہ وہ غضب الٰہی اور عذاب عظیم کے مستحق ہوں گے اور اس کی دنیاوی سزا قتل ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ (مزید تفصیل کے لئے دیکھئے (یَسْــَٔـلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ ۭ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ ۭ وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَکُفْرٌۢ بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۤ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ ۚ وَالْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۭ وَلَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا ۭ وَمَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَھُوَ کَافِرٌ فَاُولٰۗیِٕکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ۚ وَاُولٰۗیِٕکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ) 2۔ البقرۃ:217) اور آیت (لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ ڐ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ۚ فَمَنْ یَّکْفُرْ بالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ۤ لَا انْفِصَامَ لَہَا ۭ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ) 2۔ البقرۃ:256) کا حاشیہ)۔ النحل
107 ١٠٧۔ ١ یہ ایمان کے بعد کفر اختیار کرنے (مرتد ہوجانے) کی علت ہے کہ انھیں ایک تو دنیا محبوب ہے۔ دوسرے اللہ کے ہاں یہ ہدایت کے قابل ہی نہیں ہیں۔ النحل
108 ١٠٨۔ ١ پس یہ وعظ ونصیحت کی باتیں سنتے ہیں نہ انھیں سمجھتے ہیں اور نہ وہ نشانیاں ہی دیکھتے ہیں جو انھیں حق کی طرف لے جانے والی ہیں۔ بلکہ یہ ایسی غفلت میں مبتلا ہیں جس نے ہدایت کے راستے ان کے لئے مسدود کردیئے ہیں۔ النحل
109 النحل
110 ١١٠۔ ١ یہ مکے کے ان مسلمانوں کا تذکرہ ہے جو کمزور تھے اور قبول اسلام کی وجہ سے کفار کے ظلم وستم کا نشانہ بنے رہے۔ بالآخر انھیں ہجرت کا حکم دیا گیا تو اپنے خویش و اقارب، وطن مالوف اور مال جائداد سب کچھ چھوڑ کر حبشہ یا مدینہ چلے گئے، پھر جب کفار کے ساتھ معرکہ آرائی کا مرحلہ آیا تو مردانہ وار لڑے اور جہاد میں بھرپور حصہ لیا اور پھر اس کی راہ کی شدتوں اور الم ناکیوں کو صبر کے ساتھ برداشت کیا۔ ان تمام باتوں کے بعد یقیناً تیرا رب ان کے لئے غفور ورحیم ہے یعنی رب کی مغفرت و رحمت کے حصول کے لئے ایمان اور اعمال صالح کی ضرورت ہے، جیسا کہ مذکورہ مہاجرین نے ایمان وعمل کا عمدہ نمونہ پیش کیا تو رب کی رحمت ومغفرت سے وہ شاد کام ہوئے۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُو ا عَنْہُ۔ النحل
111 ١١١۔ ١ یعنی کوئی اور کسی حمایت میں آگے نہیں آئے گا نہ باپ، نہ بھائی، نہ بیٹا نہ بیوی نہ کوئی اور۔ بلکہ ایک دوسرے سے بھاگیں گے۔ بھائی بھائی سے، بیٹے ماں باپ سے، خاوند بیوی سے بھاگے گا۔ ہر شخص کو صرف اپنی فکر ہوگی جو اسے دوسرے سے بے پروا کر دے گی۔ "لکل امرء منھم یومئذ شأن یغنیہ" ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایک ایسا مشغلہ ہوگا جو اسے مشغول رکھنے کیلیے کافی ہوگا۔ ١١١۔ ٢ یعنی نیکی کے ثواب میں کمی کردی جائے اور برائی کے بدلے میں زیادتی کردی جائے۔ ایسا نہیں ہوگا کسی پر ادنیٰ سا ظلم بھی نہیں ہوگا۔ برائی کا اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنا کسی برائی کا ہوگا۔ البتہ نیکی کی جزا اللہ تعالیٰ خوب بڑھا چڑھا کر دے گا اور یہ اس کے فضل وکرم کا مظاہرہ ہوگا جو قیامت والے دن اہل ایمان کے لئے ہوگا۔ جَعَلَنَا اللّٰہُ مِنْھُمْ۔ النحل
112 ١٢٢۔ ١ اکثر مفسرین نے اس قریہ (بستی) سے مراد مکہ لیا ہے۔ یعنی اس میں مکہ اور اہل مکہ کا حال بیان کیا گیا ہے اور یہ اس وقت ہوا جب اللہ کے رسول نے ان کے لئے بد دعا فرمائی ' اے اللہ مضر (قبیلے) پر اپنی سخت گرفت فرما اور ان پر اس طرح قحط سالی مسلط کر دے، جس طرح حضرت یوسف کے زمانے میں مصر میں ہوئی ' چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مکے کے امن کو خوف سے اور خوشحالی کو بھوک سے بدل دیا۔ حتیٰ کہ ان کا یہ حال ہوگیا کہ ہڈیاں اور درختوں کے پتے کھا کر انھیں گزارہ کرنا پڑا۔ اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ غیر معین بستی ہے اور تمثیل کے طور پر یہ بات بیان کی گئی ہے۔ کہ کفران نعمت کرنے والے لوگوں کا یہ حال ہوگا، وہ جہاں بھی ہوں اور جب بھی ہوں۔ اس کے اس عموم سے جمہور مفسرین کو بھی انکار نہیں ہے، گو نزول کا سبب ان کے نزدیک خاص ہے۔ النحل
113 ١١٣۔ ١ اس عذاب سے مراد وہی عذاب خوف وبھوک ہے جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں ہے، یا اس سے مراد کافروں کا وہ قتل ہے جو جنگ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا۔ النحل
114 ١١٤۔ ١ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حلال وطیب چیزوں سے تجاوز کر کے حرام اور خبیث چیزوں کا استعمال اور اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا، یہ اللہ کی نعمتوں کی ناشکری ہے۔ النحل
115 ١١٥۔ ١ یہ آیت اس سے قبل تین مرتبہ پہلے بھی گزر چکی ہے۔ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ) 2۔ البقرۃ:183)۔ (حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ وَالْمُتَرَدِّیَۃُ وَالنَّطِیْحَۃُ وَمَآ اَ کَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ ۣ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَاَنْ تَسْـتَقْسِمُوْا بالْاَزْلَامِ ۭذٰلِکُمْ فِسْقٌ ۭ اَلْیَوْمَ یَیِٕسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ ۭ اَلْیَوْمَ اَ کْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ۭ فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) 5۔ المائدہ :3)۔ (قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗٓ اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) 6۔ الانعام :145) میں۔ یہ چوتھا مقام ہے۔ یعنی مخاطبین کے عقیدے اور خیال کو سامنے رکھتے ہوئے فرمایا گیا ہے۔ ورنہ دوسرے جانور اور درندے وغیرہ بھی حرام ہیں، البتہ ان آیات سے یہ واضح ہے کہ ان میں جن چار محرکات کا ذکر ہے، اللہ تعالیٰ ان سے مسلمانوں کو نہایت تاکید کے ساتھ بچانا چاہتا ہے۔ اس کی ضروری تشریح گزشتہ مقامات پر کی جا چکی ہے، تاہم اس میں (جس چیز پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا جائے) جو چوتھی قسم ہے۔ اس کے مفہوم میں حقیر عذر کو سامنے رکھ کر شرک کے لئے چور دروازہ تلاش کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کی مزید وضاحت پیش خدمت ہے۔ جو جانور غیر اللہ کے لیے نامزد کردیا جائے اس کی مختلف صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ غیر اللہ کے تقرب اور اس کی خوشنودی کے لیے اسے ذبح کیا جائے اور ذبح کرتے وقت نام بھی اسی بت یا بزرگ کا لیا جائے بزعم خویش جس کو راضی کرنا مقصود ہے دوسری صورت یہ ہے کہ مقصود تو غیر اللہ کا تقرب ہی ہو۔ لیکن ذبح اللہ کے نام پر ہی کیا جائے جس طرح کہ قبر پرستوں میں یہ سلسلہ عام ہے۔ وہ جانوروں کو بزرگوں کیلیے نامزد تو کرتے ہیں مثلا یہ بکرا فلاں پیر کا ہے یہ گائے فلاں پیر کی ہے، یہ جانور گیا رہویں کے لیے یعنی شیخ عبدالقادر جیلانی کے لیے ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اور ان کو وہ بسم اللہ پڑھ کر ہی ذبح کرتے ہیں۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ پہلی صورت تو یقیناً حرام ہے لیکن یہ دوسری صورت حرام نہیں بلکہ جائز ہے کیونکہ یہ غیر اللہ کے نام پر ذبح نہیں کیا گیا ہے اور یوں شرک کا راستہ کھول دیا گیا ہے۔ حالانکہ فقہاء نے اس دوسری صورت کو بھی حرام قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ یہ بھی وما اھل لغیر اللہ بہ میں داخل ہے چنانچہ حاشیہ بیضاوی میں ہے ہر وہ جانور جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے حرام ہے اگرچہ ذبح کے وقت اس پر اللہ ہی کا نام لیا جائے اس لیے کہ علماء کا اتفاق ہے کہ کوئی مسلمان اگر غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی غرض سے جانور ذبح کرے گا تو وہ مرتد ہوجائے گا اور اس کا ذبیح مرتد کا ذبیحہ ہوگا اور فقہ حنفی کی مشہور کتاب درمختار میں ہے کہ کسی حاکم اور کسی طرح کسی بڑے کی آمد پر حسن خلق یا شرع ضیافت کی نیت سے نہیں بلکہ اس کی رضامندی اور اس کی تعظیم کے طور پر جانور ذبح کیا جائے تو وہ حرام ہوگا اس لیے کہ وہ وما اھل لغیر اللہ میں داخل ہے اگرچہ اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو اور علامہ شامی نے اس کی تائید کی ہے۔ البتہ بعض فقہاء اس دوسری صورت کو وما اھل لغیر اللہ کا مدلول اور اس میں داخل نہیں سمجھتے اور اشتراک علت کی وجہ سے اسے حرام سمجھتے ہیں۔ گویا حرمت میں کوئی اختلاف نہیں صرف استدلال و احتجاج کے طریقے میں اختلاف ہے۔ علاوہ ازیں یہ دوسری صورت وماذبح علی النصب (جو بتوں کے پاس یا تھانوں پر ذبح کیے جائیں) بھی داخل ہے، جسے سورۃ المائدہ میں محرمات میں ذکر کیا گیا ہے اور احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آستانوں درباروں اور تھانوں پر ذبح کیے گئے جانور بھی حرام ہیں اس لیے کہ وہاں ذبح کرنے کا یا وہاں لے جا کر تقسیم کرنے کا مقصد تقرب لغیر اللہ ہی ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے ایک شخص نے آ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ کیا وہاں زمانہ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی پرستش کی جاتی تھی؟ لوگوں نے بتلایا نہیں پھر آپ نے پوچھا کہ وہاں ان کی عیدوں میں سے کوئی عید تو نہیں منائی جاتی تھی؟ لوگوں نے اس کی بھی نفی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سائل کو نذر پوری کرنے کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ بتوں کے ہٹائے جانے کے بعد بھی غیر آباد آستانوں پر جا کر جانور ذبح کرنا جائز نہیں ہے۔ چہ جائیکہ ان آستانوں اور درباروں پر جا کر ذبح کیے جائیں جو پرستش اور نذر ونیاز کے لیے مرجع عوام ہیں۔ اعاذنا اللہ منہ النحل
116 ١١٦۔ ١ یہ اشارہ ہے ان جانوروں کی طرف جو وہ بتوں کے نام وقف کر کے ان کو اپنے لئے حرام کرلیتے تھے، جیسے بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام وغیرہ۔ (دیکھئے (مَا جَعَلَ اللّٰہُ مِنْۢ بَحِیْرَۃٍ وَّلَا سَاۗیِٕبَۃٍ وَّلَا وَصِیْلَۃٍ وَّلَا حَامٍ ۙ وَّلٰکِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ ۭ وَاَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ) 5۔ المائدہ :103) اور الا نعام (وَقَالُوْا مَا فِیْ بُطُوْنِ ہٰذِہِ الْاَنْعَامِ خَالِصَۃٌ لِّذُکُوْرِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلٰٓی اَزْوَاجِنَا ۚ وَاِنْ یَّکُنْ مَّیْتَۃً فَہُمْ فِیْہِ شُرَکَاۗءُ ۭ سَیَجْزِیْہِمْ وَصْفَہُمْ ۭاِنَّہٗ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ ١٣٩؁ قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُوْٓا اَوْلَادَہُمْ سَفَہًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّحَرَّمُوْا مَا رَزَقَہُمُ اللّٰہُ افْتِرَاۗءً عَلَی اللّٰہِ ۭ قَدْ ضَلُّوْا وَمَا کَانُوْا مُہْتَدِیْنَ ١٤٠؀ۧ وَہُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُکُلُہٗ وَالزَّیْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِہًا وَّغَیْرَ مُتَشَابِہٍ ۭ کُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ ڮ وَلَا تُسْرِفُوْا ۭ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ ١٤١؀ۙ) 6۔ الانعام :139 تا 141) کے حواشی) النحل
117 النحل
118 ١١٨۔ ١ دیکھئے سورۃ الا نعام، (وَعَلَی الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ ۚ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ شُحُوْمَہُمَآ اِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُہُوْرُہُمَآ اَوِ الْحَوَایَآ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۭذٰلِکَ جَزَیْنٰہُمْ بِبَغْیِہِمْ ڮ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ) 6۔ الانعام :146) کا حاشیہ، نیز سورۃ نساء۔ (فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتْ لَہُمْ وَبِصَدِّہِمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَثِیْرًا) 4۔ النساء :160) میں بھی اس کا ذکر ہے النحل
119 النحل
120 ١٢٠۔ ١ اُ مَّۃٌ کے معنی پیشوا اور قائد کے بھی ہیں۔ جیسا کہ ترجمے سے واضح ہے اور امت بمعنی امت بھی ہے، اس اعتبار سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا وجود ایک امت کے برابر تھا۔ (امت کے معانی کے لئے (وَلَیِٕنْ اَخَّرْنَا عَنْہُمُ الْعَذَابَ اِلٰٓی اُمَّۃٍ مَّعْدُوْدَۃٍ لَّیَقُوْلُنَّ مَا یَحْبِسُہٗ ۭ اَلَا یَوْمَ یَاْتِیْہِمْ لَیْسَ مَصْرُوْفًا عَنْہُمْ وَحَاقَ بِہِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِءُوْنَ) 11۔ ہود :8) کا حاشیہ دیکھئے) النحل
121 النحل
122 النحل
123 ١٢٣۔ ١ مِلَّۃَ کے معنی ایسا دین جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی نبی کے ذریعے لوگوں کے لئے شروع کے موافق اور ضروری قرار دیا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجود اس بات کے کہ آپ تمام انبیاء سمیت اولاد آدم کے سردار ہیں، آپ کو ملت ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے، جس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی امتیازی اور خصوصی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ ایسے اصول میں تمام انبیاء کی شریعت اور ملت ایک ہی رہی جس میں رسالت کے ساتھ توحید وعقبیٰ و بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ النحل
124 ١٢٤۔ ١ اس اختلاف کی نیت کیا ہے؟ اس کی تفصیل میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے لئے جمعہ کا دن مقرر فرمایا تھا، لیکن بنو اسرائیل نے اختلاف کیا اور ہفتے کا دن تعظیم وعبادت کے لئے پسند کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موسیٰ ! انہوں نے جو دن پسند کیا ہے، وہی دن رہنے دو، بعض کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا تھا تعظیم کے لئے ہفتے میں کوئی ایک دن متعین کرلو۔ جس کے تعین میں ان کے درمیان اختلاف ہوا۔ پس یہود نے اپنے مذہبی قیاس کی بنیاد پر ہفتے کا دن اور نصاریٰ نے اتوار کا دن یہودیوں کی مخالفت کے جذبے سے اپنے لئے مقرر کیا تھا، اسی طرح عبادت کے لئے انہوں نے اپنے کو یہودیوں سے الگ رکھنے کے لئے بیت المقدس کی شرقی جانب کو بطور قبلہ اختیار کیا۔ جمعہ کا دن اللہ کی طرف سے مسلمانوں کے لئے مقرر کئے جانے کا ذکر حدیث میں موجود ہے (صحیح بخاری) النحل
125 ١٢٥۔ ١ اس میں تبلیغ ودعوت کے اصول بیان کئے گئے ہیں جو حکمت، اصلاحات کی مناسبت پر مبنی ہیں۔ جدال بالأحسن، درشتی اور تلخی سے بچتے ہوئے نرم ومشفقانہ لب ولہجہ اختیار کرنا ہے۔ ١٢٥۔ ٢ یعنی آپ کا کام مذکورہ اصولوں کے مطابق وعظ و تبلیغ ہے، ہدایت کے راستے پر چلا دینا، یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے، اور وہ جانتا ہے کہ ہدایت قبول کرنے والا کون ہے اور کون نہیں؟ النحل
126 ١٢٦۔ ١ اس میں اگرچہ بدلہ لینے کی اجازت ہے بشرطیکہ تجاوز نہ ہو، ورنہ یہ خود ظالم ہوجائے گا، تاہم معاف کردینے اور صبر اختیار کرنے کو بہتر قرار دیا گیا ہے۔ النحل
127 ١٢٧۔ ١ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے مکروں کے مقابلے میں اہل ایمان وتقویٰ اور محسنین کے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ اللہ ہو، اسے اہل دنیا کی سازشیں نقصان نہیں پہنچا سکتیں، جیسا کہ ما بعد کی آیت میں ہے النحل
128 النحل
0 یہ سورت مکی ہے۔ اسے سورت الاسراء بھی کہتے ہیں، اس لئے کہ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسراء (رات کو مسجد اقصیٰ لے جانے) کا ذکر ہے۔ صحیح بخاری میں ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) مرفوعا حدیث فرماتے ہیں کہ سورۃ کہف، مریم اور بنی اسرائیل یہ عتاق اول میں سے ہیں اور میرے تلاد میں سے ہیں، تلاد قدیم مال کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ سورتیں ان قدیم سورتوں میں سے ہیں جو مکے میں اول اول نازل ہوئیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر رات کو بنی اسرائیل اور سورۃ زمر کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ مسند احمد جلد ٦، ص ٤٨،۔ الإسراء
1 ١۔ ١ سُبْحَا نَ عام طور پر اس کا استعمال ایسے موقع پر ہوتا ہے جب کسی عظیم الشان واقعے کا ذکر ہو۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک ظاہری اسباب کے اعتبار سے یہ واقعہ کتنا محال ہو، اللہ کے لئے مشکل نہیں، اس لئے کہ وہ اسباب کا پابند نہیں، وہ لفظ کُنْ سے پلک جھپکنے میں جو چاہے کرسکتا ہے۔ اسباب تو انسانوں کے لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پابندیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہے۔ ١۔ ٢ اِسْرَآء کے معنی ہوتے ہیں، رات کو لے جانا۔ آگے لَیْلًا اس لیے ذکر کیا گیا تاکہ رات کی قلت واضح ہوجائے۔ یعنی رات ایک حصے یا تھوڑے سے حصے میں۔ یعنی چالیس راتوں کا دور دراز کا سفر، پوری رات میں بھی نہیں بلکہ رات کے ایک قلیل حصے میں طے ہوا۔ ١۔ ٣ اقصیٰ دور کو کہتے ہیں بیت المقدس، جو القدس یا ایلیاء (قدیم نام) شہر میں اور فلسطین میں واقع ہے، مکے سے القدس تک مسافت (٤٠) دن کی ہے، اس اعتبار سے مسجد حرام کے مقابلے میں بیت المقدس کو مسجد اقصٰی (دور کی مسجد) کہا گیا ہے۔ ١۔ ٤ یہ علاقہ قدرتی نہروں اور پھلوں کی کثرت اور انبیاء کا مسکن و مدفن ہونے کے لحاظ سے ممتاز ہے، اس لئے اسے بابرکت قرار دیا گیا ہے۔ ١۔ ٥ یہ اس سیر کا مقصد ہے تاکہ ہم اپنے بندے کو عجائبات اور آیات کبریٰ دکھائیں۔ جن میں سے ایک آیت اور معجزہ یہ سفر بھی ہے کہ اتنا لمبا سفر رات کے ایک قلیل حصے میں ہوگیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو معراج ہوئی یعنی آسمانوں پر لے جایا گیا، وہاں مختلف آسمانوں پر انبیاء علیہم السلام سے ملاقاتیں ہوئیں اور سدرۃ المنتہٰی پر، جو عرش سے نیچے ساتویں آسمان پر ہے، اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے نماز اور دیگر بعض چیزیں عطا کیں۔ جس کی تفصیلات صحیح احادیث میں بیان ہوئی ہیں اور صحابہ و تابعین سے لے کر آج تک امت کے اکثر علماء فقہاء اس بات کے قائل چلے آرہے ہیں کہ یہ معراج حالت بیداری میں ہوئی ہے۔ یہ خواب یا روحانی سیر اور مشاہدہ نہیں ہے، بلکہ عینی مشاہدہ ہے جو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے اپنے پیغمبر کو کرایا ہے۔ اس معراج کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ اسراء کہلاتا ہے، جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے اور جو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کا نام ہے، یہاں پہنچنے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ بیت المقدس سے پھر آپ کو آسمانوں پر لے جایا گیا، یہ سفر کا دوسرا حصہ ہے جسے معراج کہا جاتا ہے۔ اس کا تذکرہ سورۃ نجم میں کیا گیا ہے اور باقی تفصیلات احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔ عام طور پر اس پورے سفر کو ' معراج ' سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے۔ معراج سیڑھی کو کہتے ہیں یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ عُرِجَ بِیْ اِلَی السّمَاءِ (مجھے آسمان پر لے جایا یا چڑھایا گیا) سے ماخوذ ہے۔ کیونکہ اس سفر کا یہ دوسرا حصہ پہلے سے بھی زیادہ اہم اور عظیم الشان ہے، اس لئے معراج کا لفظ ہی زیادہ مشہور ہوگیا۔ اس کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ تاہم اس میں اتفاق ہے کہ یہ ہجرت سے قبل کا واقعہ ہے۔ بعض کہتے ہیں ایک سال قبل اور بعض کہتے ہیں کئی سال قبل یہ واقعہ پیش آیا۔ اسی طرح مہینے اور اس کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ کوئی ربیع الاول کی ١٧ یا ٢٧، کوئی رجب کی ٢٧ اور بعض کوئی اور مہینہ اس کی تاریخ بتلاتے ہیں۔ (فتح القدیر) الإسراء
2 الإسراء
3 ٣۔ ١ طوفان نوح (علیہ السلام) کے بعد نسل انسانی نوح (علیہ السلام) کے ان بیٹوں کی نسل سے ہے جو کشتیئ نوح (علیہ السلام) میں سوار ہوئے تھے اور طوفان سے بچ گئے تھے۔ اس لئے بنو اسرائیل کو خطاب کر کے کہا گیا کہ تمہارا باپ، نوح (علیہ السلام)، اللہ کا بہت شکر گزار بندہ تھا۔ تم بھی اپنے باپ کی طرح شکر گزاری کا راستہ اختیار کرو اور ہم نے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول بنا کر بھیجا ہے، ان کا انکار کر کے کفران نعمت مت کرو۔ الإسراء
4 الإسراء
5 ٥۔ ١ یہ اشارہ ہے اس ذلت اور تباہی کی طرف جو بابل کے فرمان روا بخت نصر کے ہاتھوں، حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تقریبًا چھ سو سال قبل، یہودیوں پر یروشلم میں نازل ہوئی۔ اس نے بےدریغ یہودیوں کو قتل کیا اور ایک بڑی تعداد کو غلام بنا لیا اور یہ اس وقت ہوا جب انہوں نے اللہ کے نبی حضرت شعیب (علیہ السلام) کو قتل کیا یا حضرت ارمیا (علیہ السلام) کو قید کیا اور تورات کے احکام کی خلاف ورزی اور معصیات کا ارتکاب کر کے فساد فی الارض کے مجرم بنے۔ بعض کہتے ہیں کہ بخت نصر کے بجائے جالوت کو اللہ تعالیٰ نے بطور سزا ان پر مسلط کیا، جس نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے۔ حتیٰ کہ طالوت کی قیادت میں حضرت داوٗد (علیہ السلام) نے جالوت کو قتل کیا۔ الإسراء
6 ٦۔ ١ یعنی بخت نصر یا جالوت کے قتل کے بعد ہم نے تمہیں پھر مال اور دولت، بیٹوں اور جاہ حشمت سے نوازا، جب کہ یہ ساری چیزیں تم سے چھن چکی تھیں۔ اور تمہیں پھر زیادہ جتھے والا اور طاقتور بنا دیا۔ الإسراء
7 ٧۔ ١ یہ دوسری مرتبہ انہوں نے فساد برپا کیا کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کو قتل کردیا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی قتل کرنے کے درپے رہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھا کر ان سے بچا لیا۔ اس کے نتیجے میں پھر رومی بادشاہ ٹیٹس کو اللہ نے ان پر مسلط کردیا، اس نے یروشلم پر حملہ کر کے ان کے کشتے کے پشتے لگا دیئے اور بہت سوں کو قیدی بنا لیا، ان کے اموال لوٹ لئے، مذہبی صحیفوں کو پاؤں تلے روندا اور بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی کو غارت کیا اور انھیں ہمیشہ کے لئے بیت المقدس سے جلا وطن کردیا۔ اور یوں ان کی ذلت و رسوائی کا خوب خوب سامان کیا۔ یہ تباہی ٧٠ ء میں ان پر آئی۔ الإسراء
8 ٨۔ ١ یہ انھیں تنبیہ کی کہ اگر تم نے اصلاح کرلی تو اللہ کی رحمت کے مستحق ہو گے۔ جس کا مطلب دنیا وآخرت کی سرخ روئی اور کامیابی ہے اور اگر دوبارہ اللہ کی نافرمانی کا راستہ اختیار کر کے تم نے فساد فی الارض کا ارتکاب کیا تو ہم پھر تمہیں اسی طرح ذلت و رسوائی سے دو چار کردیں گے۔ جیسے اس سے قبل دو مرتبہ ہم تمہارے ساتھ یہ معاملہ کرچکے ہیں چنانچہ ایسا ہی ہوا یہ یہود اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے اور وہی کردار رسالت محمدیہ کے بارے میں دہرایا جو رسالت موسوی اور رسالت عیسوی میں ادا کرچکے تھے جس کے نتیجے میں یہ یہودی تیسری مرتبہ مسلمانوں کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہوئے اور بصد رسوائی انھیں مدینے اور خیبر سے نکلنا پڑا۔ ٨۔ ٢ یعنی اس دنیا کی رسوائی کے بعد آخرت میں جہنم کی سزا اور اس کا عذاب الگ ہے جو وہاں انھیں بھگتنا ہوگا۔ الإسراء
9 الإسراء
10 الإسراء
11 ١١۔ ١ انسان چونکہ جلد باز اور بے حوصلہ ہے اس لیے جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو اپنی ہلاکت کے لیے اسی طرح بد دعا کرتا ہے جس طرح بھلائی کے لیے اپنے رب سے دعائیں کرتا ہے یہ تو رب کا فضل و کرم ہے کہ وہ اس کی بد دعاؤں کو قبول نہیں کرتا یہی مضمون (وَلَوْ یُعَجِّلُ اللّٰہُ للنَّاس الشَّرَّ اسْتِعْجَالَھُمْ بالْخَیْرِ لَقُضِیَ اِلَیْہِمْ اَجَلُھُمْ ۭ فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا فِیْ طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُوْنَ) 10۔ یونس :11) میں گزر چکا ہے۔ الإسراء
12 ١٢۔ ١ یعنی رات کو بے نور یعنی تاریک کردیا تاکہ تم آرام کرسکو اور تمہاری دن بھر کی تھکاوٹ دور ہوجائے اور دن کو روشن بنایا تاکہ کسب معاش کے ذریعے سے تم رب کا فضل تلاش کرو۔ علاوہ ازیں رات اور دن کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح ہفتوں، مہینوں اور برسوں کا شمار اور حساب تم کرسکو، اس حساب کے بھی بیشمار فوائد ہیں۔ اگر رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات نہ آتی بلکہ ہمیشہ رات ہی رات یا دن ہی دن رہتا تو تمہیں آرام اور سکون کا یا کاروبار کرنے کا موقع نہ ملتا اور اسی طرح مہینوں اور سالوں کا حساب بھی ممکن نہ رہتا۔ ١٢۔ ٢ یعنی انسان کے لئے دین اور دنیا کی ضروری باتیں سب کھول کر ہم نے بیان کردی ہیں تاکہ ان سے انسان فائدہ اٹھائیں، اپنی دنیا سنواریں اور آخرت کی بھی فکر اور اس کے لئے تیاری کریں۔ الإسراء
13 ١٣۔ ١ طَائِر کے معنی پرندے کے ہیں اور عُنُق کے معنی گردن کے۔ امام ابن کثیر نے طائر سے مراد انسان کے عمل کے لئے ہیں۔ فِیْ عُنُقِہِ کا مطلب ہے، اس کے اچھے یا برے عمل، جس پر اس کو اچھی یا بری جزا دی جائے گی، گلے کے ہار کی طرح اس کے ساتھ ہوں گے۔ یعنی اس کا ہر عمل لکھا جا رہا ہے، اللہ کے ہاں اس کا پورا ریکارڈ محفوظ ہوگا۔ قیامت والے دن اس کے مطابق اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اور امام شوکانی نے طائر سے مراد انسان کی قسمت لی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق پہلے سے لکھ دی ہے، جسے سعادت مند اور اللہ کا مطیع ہونا تھا وہ اللہ کو معلوم تھا اور جسے نافرمان ہونا تھا، وہ بھی اس کے علم میں تھا، یہی قسمت (سعادت مندی یا بد بختی) ہر انسان کے ساتھ گلے کے ہار کی طرح چمٹی ہوئی ہوگی۔ اسی کے مطابق اس کے عمل ہوں گے اور قیامت والے دن اسی کے مطابق فیصلے ہوں گے۔ الإسراء
14 الإسراء
15 ١٥۔ ١ البتہ جو مضل (گمراہ کرنے والے) بھی ہوں گے، انھیں اپنی گمراہی کے بوجھ کے ساتھ، ان کے گناہوں کا بار بھی (بغیر ان کے گناہوں میں کمی کیے) اٹھانا پڑے گا جو ان کی کوششوں سے گمراہ ہوئے ہوں گے، جیسا کہ قرآن کے دوسرے مقامات اور احادیث میں واضح ہے۔ یہ دراصل ان کے اپنے ہی گناہوں کا بھار ہوگا جو دوسروں کو گمراہ کر کے انہوں نے کمایا ہوگا۔ ١٥۔ ٢ بعض مفسرین نے اس سے صرف دنیاوی عذاب مراد لیا ہے۔ یعنی آخرت کے عذاب سے مستثنٰی نہیں ہوں گے، لیکن قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں سے پوچھے گا کہ تمہارے پاس میرے رسول نہیں آئے تھے؟ جس پر اثبات میں جواب دیں گے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ارسال رسل اور انزال کتب کے بغیر وہ کسی کو عذاب نہیں دے گا۔ تاہم اس کا فیصلہ کہ کس قوم یا فرد تک اس کا پیغام نہیں پہنچا، قیامت والے دن وہ خود ہی فرمائے گا، وہاں یقینا کسی کے ساتھ ظلم نہیں ہوگا۔ اسی طرح بہرا پاگل فاترالعقل اور زمانہ فترت یعنی دو نبیوں کے درمیانی زمانے میں فوت ہونے والے لوگوں کا مسئلہ ہے ان کی بابت بعض روایات میں آتا ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ان کی طرف فرشتے بھیجے گا اور وہ انھیں کہیں گے کہ جہنم میں داخل ہوجاؤ اگر وہ اللہ کے اس حکم کو مان کر جہنم میں داخل ہوجائیں گے تو جہنم ان کے لیے گل و گلزار بن جائے گی بصورت دیگر انھیں گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ مسند احمد۔ علامہ البانی نے صحیح الجامع الصغیر میں اسے ذکر کیا ہے چھوٹے بچوں کی بابت اختلاف ہے مسلمانوں کے بچے تو جنت میں ہی جائیں گے البتہ کفار و مشرکین کے بچوں میں اختلاف ہے کوئی توقف کا کوئی جنت میں جانے کا اور کوئی جہنم میں جانے کا قائل ہے امام ابن کثیر نے کہا ہے کہ میدان محشر میں ان کا امتحان لیا جائے گا جو اللہ کے حکم کی اطاعت اختیار کرے گا وہ جنت میں اور جو نافرمانی کرے گا جہنم میں جائے گا امام ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ اس سے متضاد روایات میں تطبیق بھی ہوجاتی ہے۔ تفصیل کے لیے تفسیر ابن کثیر ملاحظہ کیجئے۔ مگر صحیح بخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کے بچے بھی جنت میں جائیں گے۔ الإسراء
16 ١٦۔ ١ اس میں وہ اصول بتلایا گیا ہے جس کی روح سے قوموں کی ہلاکت کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور یہ کہ ان کا خوش حال طبقہ اللہ کے حکموں کی نافرمانی شروع کردیتا ہے اور انہی کی تقلید پھر دوسرے لوگ کرتے ہیں، یوں اس قوم میں اللہ کی نافرمانی عام ہوجاتی ہے اور وہ مستحق عذاب قرار پا جاتی ہے۔ الإسراء
17 ١٧۔ ١ وہ بھی اسی اصول ہلاکت کے تحت ہی ہلاک ہوئیں الإسراء
18 ١٨۔ ١ یعنی دنیا کے ہر طالب کو دنیا نہیں ملتی، صرف اسی کو ملتی ہے جس کو ہم چاہیں، پھر اس کو بھی اتنی دنیا نہیں جتنی وہ چاہتا ہے بلکہ اتنی ہی ملتی ہے جتنی ہم اس کے لئے فیصلہ کریں۔ لیکن اس دنیا طلبی کا نتیجہ جہنم کا دائمی عذاب اور اس کی رسوائی ہے۔ الإسراء
19 ١٩۔ ١ اللہ تعالیٰ کے ہاں قدر دانی کے لئے تین چیزیں یہاں بیان کی گئی ہیں، ١۔ ارادہ آخرت، یعنی اخلاص اور اللہ کی رضا جوئی ٢۔ ایسی کوشش جو اس کے لائق ہو، یعنی سنت کے مطابق، ٣۔ ایمان کیونکہ اس کے بغیر تو کوئی عمل بھی قابل توجہ نہیں۔ یعنی قبولیت عمل کے لئے ایمان کے ساتھ اخلاص اور سنت نبوی کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ الإسراء
20 ٢٠۔ ١ یعنی دنیا کا رزق اور اس کی آسائشیں ہم بلا تفریق مومن اور کافر، طالب دنیا اور طالب آخرت سب کو دیتے ہیں۔ اللہ کی نعمتیں کسی سے بھی روکی نہیں جاتیں۔ الإسراء
21 ٢١۔ ١ تاہم دنیا کی چیزیں کسی کو کم، کسی کو زیادہ ملتی ہیں، اللہ تعالیٰ اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق یہ روزی تقسیم فرماتا ہے۔ تاہم آخرت میں درجات کا یہ تفاضل زیادہ واضح اور نمایاں ہوگا اور وہ اس طرح کہ اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر جہنم میں جائیں گے۔ الإسراء
22 الإسراء
23 ٢٣۔ ١ اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے، جس سے والدین کی اطاعت، ان کی خدمت اور ان کے ادب و احترام کی اہمیت واضح ہے۔ گویا ربوبیت الٰہی کے تقاضوں کے ساتھ اطاعت والدین کے تقاضوں کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ احادیث میں بھی اس کی اہمیت اور تاکید کو خوب واضح کردیا گیا ہے، پھر بڑھاپے میں بطور خاص ان کے سامنے ' ہوں ' تک کہنے اور ان کو ڈانٹنے ڈپٹنے سے منع کیا ہے، کیونکہ بڑھاپے میں والدین تو کمزور، بے بس اور لا چار ہوتے ہیں، جب کہ اولاد جوان اور وسائل معاش پر قابض ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں جوانی کے دیوانے جذبات اور بڑھاپے کے سرد و گرم تجربات میں تصادم ہوتا ہے۔ ان حالات میں والدین کے ادب و احترام کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا بہت ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ تاہم اللہ کے ہاں سرخ رو وہی ہوگا جو ان تقاضوں کو ملحوظ رکھے گا۔ الإسراء
24 ٢٤۔ ١ پرندہ جب اپنے بچوں کو اپنے سایہء شفقت میں لیتا ہے تو ان کے لئے اپنے بازو پست کردیتا ہے، یعنی تو بھی والدین کے ساتھ اسی طرح اچھا اور پر شفقت معاملہ کرنا اور ان کی اسی طرح کفالت کر جس طرح انہوں نے بچپن میں تیری کی۔ یا یہ معنی ہیں کہ جب پرندہ اڑنے اور بلند ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو اپنے بازو پھیلا لیتا ہے اور جب نیچے اترتا ہے تو بازؤں کو پست کرلیتا ہے۔ اس اعتبار سے بازوؤں کے پست کرنے کے معنی، والدین کے سامنے تواضع اور عاجزی کا اظہار کرنے کے ہوں گے۔ الإسراء
25 الإسراء
26 ٢٦۔ ١ قرآن کریم کے ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ غریب رشتہ داروں، مساکین اور ضرورت مند مسافروں کی امداد کر کے، ان پر احسان نہیں جتلانا چاہیے کیونکہ یہ ان پر احسان نہیں ہے، بلکہ مال کا وہ حق ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اصحاب مال کے مالوں میں مذکورہ ضرورت مندوں کا رکھا ہے، اگر صاحب مال یہ حق ادا نہیں کرے گا تو عند اللہ مجرم ہوگا۔ گویا یہ حق کی ادائیگی ہے، نہ کہ کسی پر احسان علاوہ ازیں رشتے داروں کے پہلے ذکر سے ان کی اولیت اور اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔ رشتے داروں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو، صلہ رحمی کہا جاتا ہے، جس کی اسلام میں بڑی تاکید ہے۔ الإسراء
27 ٢٧۔ ١ تبذیر کی اصل بذر (بیج) ہے، جس طرح زمین میں بیج ڈالتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ یہ صحیح جگہ پر پڑ رہا ہے یا اس سے ادھر ادھر، بلکہ کسان بیج ڈالے چلا جاتا ہے (فضول خرچی) بھی یہی ہے کہ انسان اپنا مال بیج کی طرح اڑاتا پھرے اور خرچ کرنے میں حد شرع سے تجاوز کرے اور بعض کہتے ہیں کہ تبذیر کے معنی ناجائز امور میں خرچ کرنا ہیں چاہے تھوڑا ہی ہو۔ ہمارے خیال میں دونوں ہی صورتیں تبذیر میں آجاتی ہیں۔ اور یہ اتنا برا عمل ہے کی اس کے مرتکب کو شیطان سے مشابہت ہے اور شیطان کی مماثلت سے بچنا چاہیے وہ کسی ایک ہی خصلت میں ہو، انسان کے لئے واجب ہے، پھر شیطان کو کَفُوْر (بہت ناشکرا) کہہ کر مذید بچنے کی تاکید کردی ہے اگر شیطان کی مشابہت اختیار کرو گے تو تم بھی اس کی طرح کَفُوْر قرار دئیے جاؤ گے۔ (فتح القدیر) الإسراء
28 ٢٨۔ ١ یعنی مالی استطاعت کے فقدان کی وجہ سے، جس کے دور ہونے کی اور کشائش رزق کی تو اپنے رب سے امید رکھتا ہے۔ اگر تجھے غریب رشتے داروں، مسکینوں اور ضرورت مندوں سے اعراض کرنا یعنی اظہار معذرت کرنا پڑے تو نرمی اور عمدگی کے ساتھ معذرت کر، یعنی جواب بھی دیا جائے تو نرمی اور پیار و محبت کے لہجے میں نہ کہ ترشی اور بد اخلاقی کے ساتھ، جیسا کہ عام طور پر لوگ ضرورت مندوں اور غریبوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ الإسراء
29 ٢٩۔ ١ گزشتہ آیت میں انکار کرنے کا ادب بیان فرمایا اب انفاق کا ادب بیان کیا جا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان بخل کرے کہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر بھی خرچ نہ کرے اور نہ فضول خرچی ہی کرے کہ اپنی وسعت اور گنجائش دیکھے بغیر ہی بےدریغ خرچ کرتا رہے۔ بخل کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان، قابل ملامت و ندمت قرار پائے گا اور فضول خرچی کے نتیجے میں محسور (تھکا ہارا اور پچھتانے والا) محسور اس جانور کو کہتے ہیں جو چل چل کر تھک چکا اور چلنے سے عاجز ہوچکا ہو۔ فضول خرچی کرنے والا بھی بالآخر خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ، یہ کنایہ ہے بخل سے اور ' نہ اسے بالکل ہی کھول دے ' یہ کنایہ ہے فضول خرچی سے۔ ملوما محسورا لف نشر مرتب ہے، یعنی ملوم بخل کا اور محسور فضول خرچی کا نتیجہ ہے۔ الإسراء
30 ٣٠۔ ١ اس میں اہل ایمان کے لئے تسلی ہے کہ ان کے پاس وسائل رزق کی فروانی نہیں ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے اللہ کے ہاں ان کا مقام نہیں ہے بلکہ یہ رزق کی وسعت یا کمی، اس کا تعلق اللہ کی حکمت و مصلحت سے ہے جسے صرف وہی جانتا ہے۔ وہ اپنے دشمنوں کو قارون بنا دے اور اپنوں کو اتنا ہی دے کہ جس سے یہ مشکل وہ اپنا گذارہ کرسکیں۔ یہ اس کی مشیت ہے۔ جس کو وہ زیادہ دے، وہ اس کا محبوب نہیں، اور وہ قوت لا یموت کا مالک اس کا مبغوض نہیں۔ الإسراء
31 ٣١۔ ١ یہ آیت سورۃ الا نعام، ١٥١ میں بھی گزر چکی ہے، حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شرک کے بعد جس گناہ کو سب سے بڑا قرار دیا وہ یہی ہے کہ ان تقتل ولدک خشیۃ ان یطعم معک۔ (صحیح بخاری) ' کہ تو اپنی اولاد اس ڈر سے قتل کردے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی ' آجکل قتل اولاد کا گناہ عظیم طریقے سے خاندانی منصوبہ بندی کے حسین عنوان سے پوری دنیا میں ہو رہا ہے اور مرد حضرات ' بہتر تعلیم و تربیت ' کے نام پر اور خواتین اپنے ' حسن ' کو برقرار رکھنے کے لئے اس جرم کا عام ارتکاب کر رہی ہیں۔ اعاذنا اللہ منہ۔ الإسراء
32 ٣٢۔ ١ اسلام میں زنا چونکہ بہت بڑا جرم ہے، اتنا بڑا کہ کوئی شادی شدہ مرد یا عورت اس کا ارتکاب کرلے تو اسے اسلامی معاشرے میں زندہ رہنے کا ہی حق نہیں ہے۔ پھر اسے تلوار کے ایک وار سے مار دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ پتھر مار مار کر اس کی زندگی کا خاتمہ کیا جائے تاکہ معاشرے میں نشان عبرت بن جائے۔ اس لئے یہاں فرمایا کہ زنا کے قریب مت جاؤ، یعنی اس کے دواعی و اسباب سے بھی بچ کر رہو، مثلًا غیر محرم عورت کو دیکھنا، ان سے اختلاط، کلام کی راہیں پیدا کرنا، اسی طرح عورتوں کا بے پردہ اور بن سنور کر گھروں سے باہر نکلنا، وغیرہ ان تمام امور سے پرہیز ضروری ہے تاکہ اس بے حیائی سے بچا جا سکے۔ الإسراء
33 ٣٣۔ ١ حق کے ساتھ قتل کرنے کا مطلب قصاص میں قتل کرنا ہے، جس کو انسانی معاشرے کی زندگی اور امن و سکون کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح شادی شدہ زانی اور مرتد کو قتل کرنے کا حکم ہے۔ ٣٣۔ ٢ یعنی مقتول کے وارثوں کو یہ حق یا غلبہ یا طاقت دی گئی ہے کہ وہ قاتل کو حاکم وقت کے شرعی فیصلہ کے بعد قصاص میں قتل کردیں یا اس سے دیت لے لیں یا معاف کردیں اور اگر قصاص ہی لینا ہے تو اس میں زیادتی نہ کریں کہ ایک کے بدلے میں دو یا تین چار کو مار دیں، یا اس کا مثلہ کر کے یا عذاب دے کر ماریں، مقتول کا وارث، مدد دیا گیا ہے، یعنی امرا و احکام کو اس کی مدد کرنے کی تاکید کی گئی ہے، اس لئے اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے نہ یہ کہ زیادتی کا ارتکاب کر کے اللہ کی ناشکری کرے۔ الإسراء
34 ٣٤۔ ١ کسی کی جان کو ناجائز طریقے سے ضائع کرنے کی ممانعت کے بعد، اتلاف مال (مال کے ضائع کرنے) سے روکا جا رہا ہے اور اس میں یتیم کا مال سب سے زیادہ اہم ہے، اس لئے فرمایا کہ یتیم کے بالغ ہونے تک اس کے مال کو ایسے طریقے سے استعمال کرو، جس میں اس کا فائدہ ہو۔ یہ نہ ہو کہ سوچے سمجھے بغیر ایسے کاروبار میں لگا دو کہ وہ ضائع یا خسارے سے دو چار ہوجائے۔ یا عمر شعور سے پہلے تم اسے اڑا ڈالو۔ ٣٤۔ ٢ عہد سے وہ میثاق بھی مراد ہے جو اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہے اور وہ بھی جو انسان آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ دونوں قسم کے عہدوں کا پورا کرنا ضروری ہے اور نقص عہد کی صورت میں باز پرس ہوگی۔ الإسراء
35 ٣٥۔ ١ اجر و ثواب کے لحاظ سے بہتر ہے، علاوہ ازیں لوگوں کے اندر اعتماد پیدا کرنے میں ناپ تول میں دیانت داری مفید ہے الإسراء
36 ٣٦۔ ١ فَفَا یَقْفُوْ کے معنی ہیں پیچھے لگنا، یعنی جس چیز کا علم نہیں، اس کے پیچھے مت لگو، یعنی بدگمانی مت کرو، کسی کی ٹوہ میں مت رہو، اسی طرح جس چیز کا علم نہیں، اس پر عمل مت کرو۔ ٣٦۔ ٢ یعنی جس چیز کے پیچھے تم پڑو گے اس کے متعلق کان سے سوال ہوگا کہ کیا اس نے سنا تھا، آنکھ سے سوال ہوگا کیا اس نے دیکھا تھا اور دل سے سوال ہوگا کیا اس نے جانا تھا ؟ کیونکہ یہی تینوں علم کا ذریعہ ہیں۔ یعنی ان اعضا کو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن قوت گویائی عطا فرمائے گا اور ان سے پوچھا جائیگا۔ الإسراء
37 ٣٧۔ ١ اترا کر اور اکڑ کر چلنا، اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ قارون کو اسی بنا پر اس کے گھر اور خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا (فَخَسَفْنَا بِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ ۣ فَمَا کَانَ لَہٗ مِنْ فِئَۃٍ یَّنْصُرُوْنَہٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ۤ وَمَا کَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ) 28۔ القصص :81) حدیث میں آتا ہے ' ایک شخص دو چادریں پہنے اکڑ کر چل رہا تھا کہ اس کو زمین میں دھنسا دیا گیا اور وہ قیامت تک دھنستا چلا جائے گا۔ (صحیح مسلم) اللہ تعالیٰ کو عاجزی پسند ہے۔ الإسراء
38 ٣٨۔ ١ یعنی جو باتیں مذکور ہوئیں، ان میں جو بھی بری ہیں، جن سے منع کیا گیا، وہ ناپسندیدہ ہیں الإسراء
39 الإسراء
40 الإسراء
41 ٤١۔ ١ ہر ہر طرح کا مطلب ہے، وعظ و نصیحت، دلائل و بینات اور مثالیں و واقعات، ہر طریقے سے بار بار سمجھایا گیا ہے تاکہ وہ سمجھ جائیں، لیکن وہ کفر شرک کی تاریکیوں میں اس طرح پھنسے ہوئے ہیں کہ وہ حق کے قریب ہونے کی بجائے، اور زیادہ دور ہوگئے ہیں۔ اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ قرآن جادو، کہانیاں اور شاعری ہے، پھر وہ اس قرآن سے کس طرح راہ یاب ہوں؟ کیونکہ قرآن کی مثال بارش کی ہے کہ اچھی زمین پر پڑے تو وہ بارش سے شاداب ہوجاتی ہے اور اگر وہ گندی ہے تو بارش سے بدبو میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ الإسراء
42 ٤٢۔ ١ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ جس طرح ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ پر لشکر کشی کر کے غلبہ و قوت حاصل کرلیتا ہے، اسی طرح دوسرے معبود بھی اللہ پر غلبے کی کوئی راہ ڈھونڈ نکالتے۔ اور اب تک ایسا نہیں ہوا، جب کہ ان معبودوں کو پوجتے ہوئے صدیاں گزر گئی ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود ہی نہیں، کوئی با اختیار ہی نہیں، دوسرے معنی ہیں کہ وہ اب تک اللہ کا قرب حاصل کرچکے ہوتے اور یہ مشرکین جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے ذریعے سے وہ اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں، انھیں بھی وہ اللہ کے قریب کرچکے ہوتے الإسراء
43 ٤٣۔ ١ یعنی واقعہ یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کی بابت جو کہتے ہیں کہ اس کے شریک ہیں، اللہ تعالیٰ ان باتوں سے پاک اور بلند ہے الإسراء
44 ٤٤۔ ١ یعنی سب اسی کے مطیع اور اپنے اپنے انداز میں اس کی تسبیح و تحمید میں مصروف ہیں۔ گو ہم ان کی تسبیح و تحمید کو نہ سمجھ سکیں۔ اس کی تائید بعض آیات قرآنی سے بھی ہوتی ہے مثلًا حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں آتا ہے (اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ) 38۔ ص :18) ' ہم نے پہاڑوں کو داؤد (علیہ السلام) کے تابع کردیا ' بس وہ شام کو اور صبح کو اس کے ساتھ اللہ کی تسبیح (پاکی) بیان کرتے ہیں۔ ' بعض پتھروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وَاِنَّ مِنْہَا لَمَا یَہْبِطُ مِنْ خَشْـیَۃِ اللّٰہِ) 2۔ البقرۃ:74) اور بعض اللہ تعالیٰ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں، ایک اور حدیث سے ثابت ہے کہ چیونٹیاں اللہ کی تسبیح کرتی ہیں، اسی طرح جس تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، جب لکڑی کا منبر بن گیا اور اسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چھوڑ دیا تو بچے کی طرح اس سے رونے کی آواز آتی تھی (بخاری نمبر ٣٥٨٣) مکے میں ایک پتھر تھا جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا کرتا تھا (صحیح مسلم۔ ١٧٨٢) ان آیات و صحیح حدیث سے واضح ہے کہ جمادات و نباتات کے اندر بھی ایک مخصوص قسم کا شعور موجود ہے، جسے گو ہم نہ سمجھ سکیں، مگر وہ اس شعور کی بنا پر اللہ کی تسبیح کرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد تسبیح دلالت ہے یعنی یہ چیزیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تمام کائنات کا خالق اور ہر چیز پر قادر صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وفی کل شیء لہ آیۃ۔ تدل علی انہ واحد۔ ہر چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے لیکن صحیح بات پہلی ہی ہے کہ تسبیح اپنے حقیقی معنی میں ہے۔ الإسراء
45 ٤٥۔ ١ مَسْتُور بمعنی ساترٍ (مانع اور حائل) ہے مستور عن الابصار (آنکھوں سے اوجھل) پس وہ اسے دیکھتے ہیں۔ اس کے باوجود، ان کے اور ہدایت کے درمیان حجاب ہے۔ الإسراء
46 ٤٦۔ ١ اکنۃ، کنان کی جمع ہے ایسا پردہ جو دلوں پر پڑجائے وقر کانوں میں ایسا ثقل یا ڈاٹ جو قرآن کے سننے میں مانع ہو۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے دل قرآن کے سمجھنے سے قاصر اور کان قرآن سن کر ہدایت قبول کرنے سے عاجز ہیں، اور اللہ کی توحید سے انھیں اتنی نفرت ہے کہ اسے سن کر تو بھاگ ہی کھڑے ہوتے ہیں، ان افعال کی نسبت اللہ کی طرف، بہ اعتبار خلق کے ہے۔ ورنہ ہدایت سے محرومی ان کے جمود و عناد ہی کا نتیجہ تھا۔ الإسراء
47 ٤٧۔ ١ یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ سحر زدہ سمجھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہوئے قرآن سنتے اور آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں، اس لئے ہدایت سے محروم ہی رہتے ہیں۔ الإسراء
48 ٤٨۔ ١ کبھی ساحر، کبھی مسحور، کبھی مجنون اور کبھی کاہن کہتے ہیں، پس اس طرح گمراہ ہو رہے ہیں، ہدایت کا راستہ انھیں کس طرح ملے۔ الإسراء
49 الإسراء
50 ٥٠۔ ١ جو مٹی اور ہڈیوں سے زیادہ سخت ہے اور جس میں زندگی کے آثار پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے۔ الإسراء
51 ٥١۔ ١ یعنی اس سے بھی زیادہ سخت چیز، جو تمہارے علم میں ہو، وہ بن جاؤ اور پھر پوچھو کہ کون زندہ کرے گا ؟ ٥١۔ ٢ انغض۔ ینغض کے معنی ہیں سر ہلانا۔ یعنی استہزاء کے طور پر سر ہلا کر وہ کہیں گے کہ یہ دوبارہ زندگی کب ہوگی؟ ٥١۔ ٣ قریب کا مطلب ہے، ہونے والی چیز کُلُّ مَا ھُوَ آتٍ فَھُّوَ قَرِیْب ہر وقوع پذیر ہونے والی چیز قریب ہے ' یعنی قیامت کا وقوع یقینی اور ضروری ہے۔ الإسراء
52 ٥٢۔ ١ ' بلائے گا ' کا مطلب ہے قبروں سے زندہ کر کے اپنی بارگاہ میں حاضر کرے گا، تم اس کی حمد کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے یا اسے پہچانتے ہوئے اس کے پاس حاضر ہوجاؤ گے۔ ٥٢۔ ٢ وہاں یہ دنیا کی زندگی بالکل تھوڑی معلوم ہوگی۔ کانھم یوم یرونھا لم یلبثوا الا عشیۃ او ضحہا۔ النازعات۔ جب قیامت کو دیکھ لیں گے، تو دنیا کی زندگی انھیں ایسے لگے گی گویا اس میں ایک شام یا ایک صبح رہے ہیں ' اسی مضمون کو دیگر مقامات میں بھی بیان کیا گیا ہے بعض کہتے ہیں کہ پہلا صور پھونکیں گے تو سب مردے قبروں میں زندہ ہوجائیں گے۔ پھر دوسرے صور پر میدان محشر میں حساب کتاب کے لئے اکٹھے ہونگے۔ دونوں صور کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہوگا اور اس فاصلے میں انھیں کوئی عذاب نہیں دیا جائے گا، وہ سو جائیں گے۔ دوسرے صور پر اٹھیں گے تو کہیں گے ' افسوس، ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھایا ؟ ' (قَالُوْا یٰوَیْلَنَا مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا ۆھٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ) 36۔ یس :52) (فتح القدیر) پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔ الإسراء
53 ٥٣۔ ١ یعنی آپس میں گفتگو کرتے وقت زبان کو احتیاط سے استعمال کریں، اچھے کلمات بولیں، اسی طرح کفار و مشرکین اور اہل کتاب سے اگر مخاطبت کی ضرورت پیش آئے تو ان سے مشفقانہ اور نرم لہجے میں گفتگو کریں۔ ٥٣۔ ٢ زبان کی ذرا سی بے اعتدالی سے شیطان، جو تمہارا کھلا دشمن ہے، تمہارے درمیان آپس میں فساد ڈلوا سکتا ہے، یا کفار یا مشرکین کے دلوں میں تمہارے لئے زیادہ بغض و عناد پیدا کرسکتا ہے۔ حدیث میں ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار کے ساتھ اشارہ نہ کرے اس لیے کہ وہ نہیں جانتا کہ شیطان شاید اس کے ہاتھ سے وہ ہتھیار چلوا دے اور وہ اس مسلمان بھائی کو جا لگے جس سے اس کی موت واقع ہوجائے پس وہ جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔ صحیح بخاری الإسراء
54 ٥٤۔ ١ اگر خطاب مشرکین سے ہو تو رحم کے معنی قبول اسلام کی توفیق کے ہونگے اور عذاب سے مراد شرک پر ہی موت ہے، جس پر وہ عذاب کے مستحق ہوں گے۔ اور اگر خطاب مومنین سے ہو تو رحم کے معنی ہوں گے کہ وہ کفار سے تمہاری حفاظت فرمائے گا اور عذاب کا مطلب ہے کفار کا مسلمانوں پر غلبہ و تسلط۔ ٥٤۔ ٢ کہ آپ انھیں ضرور کفر کی دلدل سے نکالیں یا ان کے کفر پر جمے رہنے پر آپ سے باز پرس ہو۔ الإسراء
55 ٥٥۔ ١ یہ مضمون (تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ) 2۔ البقرۃ:253) بھی گزر چکا ہے۔ یہاں دوبارہ کفار مکہ کے جواب میں یہ مضمون دہرایا گیا ہے، جو کہتے تھے کہ کیا اللہ کو رسالت کے لئے یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ملا تھا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کسی کو رسالت کے لئے منتخب کرنا اور کسی ایک نبی کو دوسرے پر فضیلت دینا، یہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ الإسراء
56 الإسراء
57 ٥٧۔ ١ مذکورہ آیت میں مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ سے مراد فرشتوں اور بزرگوں کی وہ تصویریں اور مجسمے ہیں جن کی عبادت کرتے تھے، یا حضرت عزیر و مسیح علہما السلام ہیں جنہیں یہودی اور عیسائی ابن اللہ کہتے ہیں اور انھیں ربوبیت صفات کا حامل مانتے تھے، یا وہ جنات ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے اور مشرکین ان کی عبادت کرتے تھے۔ اس لئے کہ اس آیت میں بتلایا جا رہا ہے کہ یہ تو خود اپنے رب کا قرب تلاش کرنے کی جستجو میں رہتے اور اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور یہ صفت جمادات (پتھروں) میں نہیں ہو سکتی۔ اس آیت سے واضح ہوجاتا ہے کہ مِنْ دُوْنِ اللّٰہ (اللہ کے سوا جن کی عبات کی جاتی رہی ہے) وہ صرف پتھر کی مورتیاں ہی نہیں تھیں، بلکہ اللہ کے وہ بندے بھی تھے جن میں سے کچھ فرشتے، کچھ صالحین، کچھ انبیاء اور کچھ جنات تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سب کی بابت فرمایا کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے، نہ کسی کی تکلیف دور کرسکتے ہیں نہ کسی کی حالت بدل سکتے ہیں ' اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں ' کا مطلب اعمال صالحہ کے ذریعے سے اللہ کا قرب ڈھونڈتے ہیں۔ یہی الوسیلۃ ہے جسے قرآن نے بیان کیا ہے وہ نہیں ہے جسے قبر پرست بیان کرتے ہیں کہ فوت شدہ اشخاص کے نام کی نذر نیاز دو، ان کی قبروں پر غلاف چڑھاؤ اور میلے ٹھیلے جماؤ اور ان سے استمداد و استغاثہ کرو کیونکہ یہ وسیلہ نہیں یہ تو ان کی عبادت ہے جو شرک ہے اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے۔ الإسراء
58 ٥٨۔ ١ کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات طے شدہ ہے، جو لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے کہ ہم کافروں کی ہر بستی کو یا تو موت کے ذریعے سے ہلاک کردیں گے اور بستی سے مراد، بستی کے باشندگان ہیں اور ہلاکت کی وجہ ان کا کفر و شرک اور ظلم و طغیان ہے۔ علاوہ ازیں یہ ہلاکت قیامت سے قبل وقوع پذیر ہوگی، ورنہ قیامت کے دن تو بلا تفریق ہر بستی ہی شکست و ریخت کا شکار ہوجائے گی۔ الإسراء
59 ٥٩۔ ١ یہ آیت اس وقت اتری جب کفار مکہ نے مطالبہ کیا کوہ صفا کو سونے کا بنا دیا جائے یا مکے کے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹا دیئے جائیں تاکہ وہاں کاشت کاری ممکن ہو سکے، جس پر اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کے ذریعے سے پیغام بھیجا کہ ان کے مطالبات ہم پورے کرنے کے لئے تیار ہیں، لیکن اگر اس کے بعد بھی وہ ایمان نہ لائے تو پھر ان کی ہلاکت یقینی ہے۔ پھر انھیں مہلت دی جائے گی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس بات کو پسند فرمایا کہ ان کا مطالبہ پورا نہ کیا جائے تاکہ یہ ہلاکت سے بچ جائیں، اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی مضمون بیان فرمایا کہ ان کی خواہش کے مطابق نشانیاں اتار دینا ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں۔ لیکن ہم اس سے گریز اس لئے کر رہے ہیں کہ پہلی قوموں نے بھی اپنی خواہش کے مطابق نشانیاں مانگیں جو انھیں دکھا دی گئیں، لیکن اس کے باوجود انہوں نے تکذیب کی اور ایمان نہ لائے، جس کے نتیجے میں وہ ہلاک کردی گئیں۔ ٥٩۔ ٢ قوم ثمود کا بطور مثال تذکرہ کیا کیونکہ ان کی خواہش پر پتھر کی چٹان سے اونٹنی ظاہر کر کے دکھائی گئی تھی، لیکن ان ظالموں نے، ایمان لانے کی بجائے، اس اونٹنی ہی کو مار ڈالا، جس پر تین دن کے بعد ان پر عذاب آگیا۔ الإسراء
60 ٦٠۔ ١ یعنی لوگ اللہ کے غلبہ و تصرف میں ہیں اور جو اللہ چاہے گا وہی ہوگا نہ کہ جو وہ چاہیں گے، یا مراد اہل مکہ ہیں کہ وہ اللہ کے زیر اقتدار ہیں، آپ بے خوفی سے تبلیغ رسالت کیجئے، وہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، ہم ان سے آپ کی حفاظت فرمائیں گے۔ یا جنگ بدر اور فتح مکہ کے موقع پر جس طرح اللہ نے کفار مکہ کو عبرت ناک شکست سے دو چار کیا، اس کو واضح کیا جارہا ہے۔ ٦٠۔ ٢ صحابہ و تابعین نے اس رویا کی تفسیر عینی رویت سے کی ہے اور مراد اس سے معراج کا واقعہ ہے، جو بہت سے کمزور لوگوں کے لئے فتنے کا باعث بن گیا اور وہ مرتد ہوگئے۔ اور درخت سے مراد (تھوہر) کا درخت ہے، جس کا مشاہدہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج، جہنم میں کیا۔ اَ لْمَلْعُونَۃَسے مراد، کھانے والوں پر یعنی جہنمیوں پر لعنت۔ جیسے دوسرے مقام پر ہے کہ۔ ان شجرۃ الزقوم۔ طعام الاثیم۔ زقوم کا درخت، گناہ گاروں کا کھانا ہے ٦٠۔ ٣ یعنی کافروں کے دلوں میں جو خبث و عناد ہے، اس کی وجہ سے، نشانیاں دیکھ کر ایمان لانے کی بجائے، ان کی سرکشی و طغیانی میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔ الإسراء
61 الإسراء
62 ٦٢۔ ١ یعنی اس پر غلبہ حاصل کرلوں گا اور اسے جس طرح چاہوں گا، گمراہ کرلوں گا۔ البتہ تھوڑے سے لوگ میرے داؤ سے بچ جائیں گے۔ آدم (علیہ السلام) و ابلیس کا یہ قصہ اس سے قبل سورۃ بقرہ، اعراف اور حجر میں گزر چکا ہے۔ یہاں چوتھی مرتبہ اسے بیان کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں سورۃ کہف طٰہٰ اور سورۃ ص میں بھی اس کا ذکر آئے گا۔ الإسراء
63 الإسراء
64 ٦٤۔ ١ آواز سے مراد پر فریب دعوت یا گانے، موسیقی اور لہو و لعب کے دیگر آلات ہیں، جن کے ذریعے سے شیطان بکثرت لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ ٦٤۔ ٢ ان لشکروں سے مراد، انسانوں اور جنوں کے وہ سوار اور پیادے لشکر ہیں جو شیطان کے چیلے اور اس کے پیروکار ہیں اور شیطان ہی کی طرح انسانوں کو گمراہ کرتے ہیں، یا مراد ہے ہر ممکن ذرائع جو شیطان گمراہ کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ ٦٤۔ ٣ مال میں شیطان کے شامل ہونے کا مطلب حرام ذریعے سے مال کمانا اور حرام طریقے سے خرچ کرنا ہے اور اسی طرح مویشیوں کو بتوں کے ناموں پر وقف کردینا مثلًا بحیرہ، سائبہ وغیرہ اور اولاد میں شرکت کا مطلب، زنا کاری، عبدالات، عبدالعزیٰ وغیرہ نام رکھنا، غیر اسلامی طریقے سے ان کی تربیت کرنا کہ برے اخلاق و کردار کے حامل ہوں، ان کو تنگ دستی کے خوف سے ہلاک یا زندہ درگور کردینا، اولاد کو مجوسی، یہودی و نصرانی وغیرہ بنانا اور بغیر مسنون دعا پڑھے بیوی سے ہم بستری کرنا وغیرہ وغیرہ ہے۔ ان تمام صورتوں میں شیطان کی شرکت ہوجاتی ہے۔ ٦٤۔ ٤ کہ کوئی جنت و دوزخ نہیں ہے، یا مرنے کے بعد دوبارہ زندگی نہیں ہے وغیرہ۔ ٦٤۔ ٥ غُروُر (فریب) کا مطلب ہوتا ہے غلط کام کو اس طرح مزین کرکے دکھانا کہ وہ اچھا اور درست لگے۔ الإسراء
65 ٦٥۔ ١ بندوں کی نسبت اپنی طرف کی، بطور شرف اور اعزاز کے ہے، جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے خاص بندوں کو شیطان بہکانے میں ناکام رہتا ہے۔ ٦٥۔ ٢ یعنی جو صحیح معنوں میں اللہ کا بندہ بن جاتا ہے، اسی پر اعتماد اور توکل کرتا ہے تو اللہ بھی اس کا دوست اور کار ساز بن جاتا ہے۔ الإسراء
66 ٦٦۔ ١ یہ اس کا فضل اور رحمت ہی ہے کہ اس نے سمندر کو انسانوں کے تابع کردیا اور وہ اس پر کشتیاں اور جہاز چلا کر ایک ملک سے دوسرے ملک میں آتے جاتے اور کاروبار کرتے ہیں، نیز اس نے ان چیزوں کی طرف رہنمائی بھی فرمائی جن میں بندوں کے لئے منافع اور مصالح ہیں۔ الإسراء
67 ٦٧۔ ١ یہ مضموں پہلے بھی کئی جگہ گزر چکا ہے۔ الإسراء
68 ٦٨۔ ١ یعنی سمندر سے نکلنے کے بعد تم جو اللہ کو بھول جاتے ہو تو کیا تمہیں معلوم نہیں کہ وہ خشکی میں بھی تمہاری گرفت کرسکتا ہے، تمہیں وہ زمین میں دھنسا سکتا ہے یا پتھروں کی بارش کر کے تمہیں ہلاک کرسکتا ہے، جس طرح بعض گزشتہ قوموں کو اس نے اس طرح ہلاک کیا۔ الإسراء
69 ٦٩۔ ١ قَاصِف ایسی تند تیز سمندری ہوا جو کشتیوں کو توڑ دے اور انھیں ڈوب دے تَبِیْعًا انتقام لینے والا، پیچھا کرنے والا، یعنی تمہارے ڈوب جانے کے بعد ہم سے پوچھے کہ تو نے ہمارے بندوں کو کیوں ڈبویا ؟ مطلب یہ ہے کہ ایک مرتبہ سمندر سے بخریت نکلنے کے بعد، کیا تمہیں دوبارہ سمندر میں جانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی؟ اور وہاں وہ تمہیں بھنور میں نہیں پھنسا سکتا ؟۔ الإسراء
70 ٧٠۔ ا یہ شرف اور فعل، بحیثیت انسان کے، ہر انسان کو حاصل ہے چاہے مومن ہو یا کافر۔ کیونکہ یہ شرف دوسری مخلوقات، حیوانات، جمادات و نباتات وغیرہ کے مقابلے میں ہے۔ اور یہ شرف متعدد اعتبار سے ہے جس طرح کی شکل و صورت، قدو قامت اور ہیئت اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہے، وہ کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں، جو عقل انسان کو دی گئی ہے، جس کے ذریعے سے اس نے اپنے آرام و راحت کے لئے بیشمار چیزیں ایجاد کیں۔ حیوانات وغیرہ اس سے محروم ہیں۔ علاوہ ازیں اسی عقل سے صحیح، مفید و مضر اور حسین قبیح کے درمیان تمیز کرنے پر قادر ہے۔ علاوہ ازیں کائنات کی تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی خدمت پر لگا رکھا ہے۔ چاند سورج، ہوا، پانی اور دیگر بیشمار چیزیں ہیں جن سے انسان فیض یاب ہو رہا ہے۔ ٧٠۔ ٢ خشکی میں گھوڑوں خچروں، گدھوں اونٹوں اور اپنی تیار کردہ سواریوں (ریلیں، گاڑیاں، بسیں، ہوائی جہاز، سائیکل اور موٹر سائیکل وغیرہ) پر سوار ہوتا ہے اور اسی طرح سمندر میں کشتیاں اور جہاز ہیں جن پر وہ سوار ہوتا ہے اور سامان لاتا لے جاتا ہے۔ ٧٠۔ ٣ انسان کی خوراک کے لئے جو غلہ جات، میوے اور پھل ہیں سب اسی نے پیدا کئے اور ان میں جو جو لذتیں، ذائقے اور قوتیں رکھیں ہیں۔ انواع اقسام کے کھانے، یہ لذیذ و مرغوب پھل اور یہ قوت بخش اور مفرح مرکبات و مشروبات اور خمیرے اور معجونات، انسان کے علاوہ اور کس مخلوق کو حاصل ہیں؟ ٧٠۔ ٤ مذکورہ تفصیل سے انسان کی، بہت سی مخلوقات پر، فضیلت اور برتری واضح ہے۔ الإسراء
71 ٧١۔ ١ اِ مَام کے معنی پیشوا، لیڈر اور قائد کے ہیں، یہاں اس سے کیا مراد ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد پیغمبر ہے یعنی ہر امت کو اس کے پیغمبر کے حوالے سے پکارا جائے گا، بعض کہتے ہیں، اس سے آسمانی کتاب مراد ہے جو انبیاء کے ساتھ نازل ہوتی رہیں۔ یعنی اے اہل تورات! اے اہل انجیل! اور اے اہل قرآن! وغیرہ کہہ کر پکارا جائے گا بعض کہتے ہیں یہاں 'امام سے مراد نامہ اعمال ہے یعنی ہر شخص کو جب بلایا جائے گا تو اس کا نامہ اعمال اس کے ساتھ ہوگا اور اس کے مطابق اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اسی رائے کو امام ابن کثیر اور امام شوکانی نے ترجیح دی ہے۔ ٧١۔ ٢ فَتِیل اس جھلی یا تاگے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی میں ہوتا ہے یعنی ذرہ برابر ظلم نہیں ہوگا۔ الإسراء
72 ٧٢۔ ١ اَ عْمَیٰ (اندھا) سے مراد دل کا اندھا ہے یعنی جو دنیا میں حق کے دیکھنے، سمجھنے اور اسے قبول کرنے سے محروم رہا، وہ آخرت میں اندھا، اور رب کے خصوصی فضل و کرم سے محروم رہے گا۔ الإسراء
73 الإسراء
74 ٧٤۔ ١ اس میں اس عصمت کا بیان ہے جو اللہ کی طرف سے انبیاء علیہم السلام کو حاصل ہوتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ مشرکین اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتے تھے، لیکن اللہ نے آپ کو ان سے بچایا اور آپ ذرا بھی ان کی طرف نہیں جھکے۔ الإسراء
75 ٧٥۔ ١ اس سے معلوم ہوا کہ سزا قدرو منزلت کے مطابق ہوتی ہے الإسراء
76 ٧٦۔ ١ یہ سازش کی طرف اشارہ ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکے سے نکالنے کے لئے قریش مکہ نے تیار کی تھی، جس سے اللہ نے آپ کو بچا لیا۔ ٧٦۔ ٢ یعنی اگر اپنے منصوبے کے مطابق یہ آپ کو مکے سے نکال دیتے تو یہ بھی اس کے بعد زیادہ دیر نہ رہتے یعنی عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاتے۔ الإسراء
77 ٧٧۔ ١ یعنی یہ دستور پرانا چلا آرہا ہے جو آپ سے پہلے رسولوں کے لئے بھی برتا جاتا رہا ہے کہ جب ان قوموں نے انھیں اپنے وطن سے نکال دیا یا انھیں نکلنے پر مجبور کردیا تو پھر وہ قومیں بھی اللہ کے عذاب سے محفوظ نہ رہیں۔ ٧٧۔ ٢ چنانچہ اہل مکہ کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ رسول اللہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کے ڈیڑھ سال بعد ہی میدان بدر میں وہ عبرت ناک ذلت و شکست سے دو چار ہوئے اور چھ سال بعد ٨ ہجری میں مکہ ہی فتح ہوگیا اور اس ذلت و ہزیمیت کے بعد وہ سر اٹھانے کے قابل نہ رہے۔ الإسراء
78 ٧٨۔ ١ دلوک کے معنی زوال کے اور غسق کے معنی تاریکی کے ہیں۔ آفتاب کے ڈھلنے کے بعد، ظہر اور عصر کی نماز اور رات کی تاریکی تک مراد مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں اور قرآن الفجر سے مراد فجر کی نماز ہے۔ قرآن، نماز کے معنی میں ہے۔ اس کو قرآن سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ فجر میں قرأت لمبی ہوتی ہے۔ اس طرح اس آیت میں پانچوں فرض نمازوں کا اجمالی ذکر آجاتا ہے۔ جن کی تفیصلات احادیث میں ملتی ہیں اور جو امت کے لئے عملی تواتر سے بھی ثابت ہیں۔ ٧٨۔ ٢ یعنی اس وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں بلکہ دن کے فرشتوں اور رات کے فرشتوں کا اجتماع ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے (صحیح بخاری)، تفسیر بنی اسرائیل) ایک اور حدیث میں ہے کہ رات والے فرشتے جب اللہ کے پاس جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ خود خوب جانتا ہے تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ ' فرشتے کہتے ہیں ہم ان کے پاس گئے تھے، اس وقت بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس سے آئے ہیں تو انھیں نماز پڑھتے ہوئے ہی چھوڑ کر آئے ہیں۔ البخاری ومسلم الإسراء
79 ٧٩۔ ١ بعض کہتے ہیں تہجد اضداد میں سے ہے جس کے معنی سونے کے بھی ہیں اور نیند سے بیدار ہونے کے بھی۔ اور یہاں یہی دوسرے معنی ہیں کہ رات کو سو کر اٹھیں اور نوافل پڑھیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ہجود کے اصل معنی تو رات کو سونے کے ہی ہیں، لیکن باب تفعل میں جانے سے اس میں پرہیز کے معنی پیدا ہوگئے جیسے تأثم کے معنی ہیں اس نے گناہ سے اجتناب کیا، یا بچا، اس طرح تہجد کے معنی ہونگے، سونے سے بچنا جو رات کو سونے سے بچا اور قیام کیا۔ بہرحال تہجد کا مفہوم رات کے پچھلے پہر اٹھ کر نوافل پڑھنا۔ ساری رات قیام اللیل کرنا خلاف سنت ہے۔ نبی رات کے پہلے حصے میں سوتے اور پچھلے حصے میں اٹھ کر تہجد پڑھتے۔ یہی طریقہ سنت ہے۔ ٧٩۔ ٢ بعض نے اس کے معنی کئے ہیں یہ ایک زائد فرض ہے جو آپ کے لئے خاص ہے، اس طرح وہ کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تہجد بھی اسی طرح فرض تھی، جس طرح پانچ نمازیں فرض تھیں۔ البتہ امت کے لئے تہجد کی نماز فرض نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تہجد آپ پر فرض تھی نہ آپ کی امت پر۔ یہ ایک زائد عبادت ہے جس کی فضیلت یقینا بہت ہے اور اس وقت اللہ اپنی عبادت سے بڑا خوش ہوتا ہے۔ تاہم یہ نماز فرض و واجب نہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تھی اور نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت پر ہی فرض ہے۔ ٧٩۔ ٣ یہ وہ مقام ہے جو قیامت والے دن اللہ تعالیٰ نبی کو عطا فرمائے گا اور اس مقام پر ہی آپ وہ شفاعت عظمٰی فرمائیں گے، جس کے بعد لوگوں کا حساب کتاب ہوگا۔ الإسراء
80 ٨٠۔ ١ بعض کہتے ہیں کہ یہ ہجرت کے موقع پر نازل ہوئی جب آپ کو مدینے میں داخل ہونے اور مکہ سے نکلنے کا مسئلہ درپیش تھا، بعض کہتے ہیں اس کے معنی ہیں مجھے سچائی کے ساتھ موت دینا اور سچائی کے ساتھ قیامت والے دن اٹھانا۔ بعض کہتے ہیں کہ مجھے قبر میں سچا داخل کرنا اور قیامت کے دن جب قبر سے اٹھائے تو سچائی کے ساتھ قبر سے نکالنا وغیرہ۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ چونکہ یہ دعا ہے اس لئے اس کے عموم میں سب باتیں آجاتی ہیں۔ الإسراء
81 ٨١۔ ١ حدیث میں آتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں تین سو ساٹھ بت تھے، آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی، آپ چھڑی کی نوک سے ان بتوں کو مارتے جاتے اور (وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ ۭ) 17۔ الاسراء :81)۔ اور (قُلْ جَاۗءَ الْحَـقُّ وَمَا یُبْدِیُٔ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیْدُ) 34۔ سبأء :49) پڑھتے جاتے (صحیح بخاری) الإسراء
82 ٨٢۔ ١ اس مفہوم کی آیت (یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ ڏ وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ) 10۔ یونس :57) میں گزر چکی ہے، اس کا حاشیہ ملاحظہ فرما لیا جائے۔ الإسراء
83 ٨٣۔ ١ اس میں انسان کی حالت و کیفیت کا ذکر ہے جس میں وہ عام طور پر خوش حالی کے وقت اور تکلیف کے وقت مبتلا ہوتا ہے، خوشحالی میں وہ اللہ کو بھول جاتا ہے اور تکلیف میں مایوس ہوجاتا ہے، لیکن اہل ایمان کا معاملہ دونوں حالتوں میں اس سے مختلف ہوتا ہے۔ الإسراء
84 ٨٤۔ ١ اس میں مشرکین کے لئے تہدید و وعید ہے اور اس کا وہی مفہوم ہے جو سورۃ ہود کی آیت ١٢١۔ ١٢٢ کا ہے۔ وقل للذین لا یومنون اعملوا علی مکانتکم انا عملون۔ شاکلۃ کے معنی نیت دین طریقے اور مزاج و طبیعت کے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس میں کافر کے لیے ذم اور مومن کے لیے مدح کا پہلو ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان ایسا عمل کرتا ہے جو اس کے اخلاق و کردار پر مبنی ہوتا ہے جو اس کی عادت و طبیعت ہوتی ہے۔ الإسراء
85 ٨٥۔ ١ روح وہ لطیف شے ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی لیکن ہر جاندار کی قوت و توانائی اسی روح کے اندر مضمر ہے اس کی حقیقت و ماہیت کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ یہودیوں نے بھی ایک مرتبہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی بابت پوچھا تو یہ آیت اتری (صحیح بخاری) اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمہارا علم، اللہ کے علم کے مقابلے میں قلیل ہے، اور یہ روح، جس کے بارے میں تم سے پوچھ رہے ہو، اس کا علم تو اللہ نے انبیاء سمیت کسی کو بھی نہیں دیا ہے اتنا سمجھو کہ یہ میرے رب کا امر (حکم) ہے۔ یا میرے رب کی شان میں سے ہے، جس کی حقیقت کو صرف وہی جانتا ہے۔ الإسراء
86 ٨٦۔ ١ یعنی وحی کے ذریعے سے جو تھوڑا بہت علم دیا گیا ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اسے بھی سلب کرلے یعنی دل سے محو کر دے یا کتاب سے ہی مٹا دے۔ ٨٦۔ ٢ جو دوبارہ اس وحی کو آپ کی طرف لوٹا دے۔ الإسراء
87 ٨٧۔ ١ کہ اس نے نازل کردہ وحی کو سلب نہیں کیا یا وحی سے آپ کو مشرف فرمایا۔ الإسراء
88 ٨٨۔ ١ قرآن مجید سے متعلق یہ چلینج اس سے قبل بھی کئی جگہ گزر چکا ہے۔ یہ چلینج آج تک تشنہ جواب ہے الإسراء
89 ٨٩۔ ١ یہ آیت اسی سورت کے شروع میں بھی گزر چکی ہے۔ الإسراء
90 ٩٠۔ ١ ایمان لانے کے لئے قریش مکہ نے یہ مطالبات پیش کئے الإسراء
91 الإسراء
92 ٩٢۔ ١ یعنی ہمارے روبرو آکر کھڑے ہوجائیں اور ہم انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں الإسراء
93 ٩٣۔ ١ زُخْرُف کے اصل معنی زینت کے ہیں مَزِخَرَفُ، مزین چیز کو کہتے ہیں۔ لیکن یہاں اسکے معنی سونے کے ہیں۔ ٩٣۔ ٢ یعنی ہم میں سے ہر شخص اسے صاف صاف خود پڑھ سکتا ہو۔ ٩٣۔ ٣ مطلب یہ ہے کہ میرے رب کے اندر تو ہر طرح کی طاقت ہے، وہ چاہے تو تمہارے مطالبے آن واحد میں لفظ ' کُنْ ' سے پورے فرما دے۔ لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے میں تو (تمہاری طرح) ایک بشر ہوں۔ کیا کوئی بشر ان چیزوں پر قادر ہے؟ جو مجھ سے مطالبہ کرتے ہو۔ ہاں، اس کے ساتھ میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔ لیکن رسول کا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچانا ہے، اور وہ میں نے پہنچا دیا اور پہنچا رہا ہوں۔ لوگوں کے مطالبات پر معجزات ظاہر کر کے دکھانا یہ رسالت کا حصہ نہیں ہے۔ البتہ اگر اللہ چاہے تو صدق رسالت کے لئے ایک آدھا معجزہ دکھا دیا جاتا ہے لیکن لوگوں کی خواہشات پر اگر معجزے دکھانے شروع کردیئے جائیں تو یہ سلسلہ کہیں بھی جا کر نہیں رک سکے گا ہر آدمی اپنی خواہش کے مطابق نیا معجزہ دیکھنے کا آرزو مند ہوگا اور رسول پھر اسی کام پر لگا رہے گا تبلیغ ودعوت کا اصل کام ٹھپ ہوجائے گا اس لیے معجزات کا صدور صرف اللہ کی مشیت سے ہی ممکن ہے اور میں بھی اس کی مشیت میں دخل اندازی کا مجاز نہیں۔ الإسراء
94 ٩٤۔ ١ یعنی کسی انسان کا رسول ہونا، کفار و مشرکین کے لئے سخت تعجب کی بات تھی، وہ یہ بات مانتے ہی نہ تھے کہ ہمارے جیسا انسان، جو ہماری طرح چلتا پھرتا ہے، ہماری طرح کھاتا پیتا ہے، ہماری طرح انسانی رشتوں میں منسلک ہے، وہ رسول بن جائے۔ یہی تعجب ان کے ایمان میں مانع رہا۔ الإسراء
95 ٩٥۔ ١ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب زمین میں انسان بستے ہیں تو ان کی ہدایت کے لئے رسول بھی انسان ہی ہوں گے۔ غیر انسان رسول، انسانوں کی ہدایت کا فریضہ انجام دے ہی نہیں سکتا۔ ہاں اگر زمین میں فرشتے بستے ہوتے تو ان کے لئے رسول بھی یقینا فرشتے ہی ہوتے۔ الإسراء
96 ٩٦۔ ١ یعنی میرے ذمے جو تبلیغ و دعوت تھی، وہ میں نے پہنچا دی، اس بارے میرے اور تمہارے درمیان اللہ کا گواہ ہونا کافی ہے، کیونکہ ہر چیز کا فیصلہ اسی کو کرنا ہے۔ الإسراء
97 ٩٧۔ ١ میری تبلیغ و دعوت سے کون ایمان لاتا ہے، کون نہیں، یہ بھی اللہ کے اختیار میں ہے، میرا کام صرف تبلیغ ہی ہے۔ ٩٧۔ ٢ حدیث میں آتا ہے کہ صحابہ کرام نے تعجب کا اظہار کیا کہ اوندھے منہ کس طرح حشر ہوگا ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، جس اللہ نے ان کو پیروں سے چلنے کی قوت عطا کی ہے، وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ انھیں منہ کے بل چلا دے۔ ٩٧۔ ٣ یعنی جس طرح وہ دنیا میں حق کے معاملے میں اندھے، بہرے اور گونگے بنے رہے، قیامت والے دن بطور جزا اندھے، بہرے اور گونگے ہوں گے۔ الإسراء
98 ٩٨۔ ١ یعنی جہنم کی یہ سزا ان کو اس لئے دی جائیگی کہ انہوں نے ہماری نازل کردہ آیات کی تصدیق نہیں کی اور کائنات میں پھیلی ہوئی تکوینی آیات پر غور و فکر نہیں کیا، جس کی وجہ سے انہوں نے و قوع قیامت اور بعث بعد الموت کو محال خیال کیا اور کہا کہ ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہوجانے کے بعد ہمیں نئی پیدائش کس طرح مل سکتی ہے؟ الإسراء
99 ٩٩۔ ١ اللہ نے ان کے جواب میں فرمایا کہ جو اللہ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے، وہ ان جیسوں کی پیدائش یا دوبارہ انھیں زندگی دینے پر بھی قادر ہے، کیونکہ یہ تو آسمان و زمین کی تخلیق سے زیادہ آسان ہے۔ (لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ) 40۔ المؤمن :57)۔ المومن۔ آسمان اور زمین کی پیدائش انسانوں کی تخلیق سے زیادہ بڑا اور مشکل کام ہے۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحقاف میں اور سورۃ یسین میں بھی بیان فرمایا ہے۔ ٩٩۔ ٢ اس اجل (وقت مقرر) سے مراد موت یا قیامت ہے۔ یہاں سیاق کلام کے اعتبار سے قیامت مراد لینا زیادہ صحیح ہے یعنی ہم نے انھیں دوبارہ زندہ کر کے قبروں سے اٹھانے کے لئے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے۔ وما تؤخرہ الا لاجل معدود۔ ہود۔ ہم ان کے معاملے کو ایک وقت مقرر تک کے لیے ہی مؤخر کر رہے ہیں۔ الإسراء
100 ١٠٠۔ ١ خشیۃ الانفاق کا مطلب ہے۔ خشیۃ ان ینفقوا فیفتقروا۔ اس خوف سے کہ خرچ کر کے ختم کر ڈالیں گے، اس کے بعد فقیر ہوجائیں گے۔ حالانکہ یہ خزانہ الٰہی جو ختم ہونے والا نہیں لیکن چونکہ انسان تنگ دل واقع ہوا ہے، اس لئے بخل سے کام لیتا ہے۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اَمْ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّنَ الْمُلْکِ فَاِذًا لَّا یُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِیْرًا)۔ 4۔ النساء :53)۔ یعنی ان کو اگر اللہ کی بادشاہی میں سے کچھ حصہ مل جائے تو یہ لوگوں کو کچھ نہ دیں۔ نقیر کھجور کی گٹھلی میں جو گڑھا ہوتا ہے اس کو کہتے ہیں یعنی تل برابر بھی کسی کو نہ دیں یہ تو اللہ کی مہربانی اور اس کا فضل وکرم ہے کہ اس نے اپنے خزانوں کے منہ لوگوں کے لیے کھولے ہوئے ہیں جس طرح حدیث میں ہے اللہ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں وہ رات دن خرچ کرتا ہے لیکن اس میں کوئی کمی نہیں آتی ذرا دیکھو تو سہی جب سے آسمان و زمین اس نے پیدا کیے ہیں کس قدر خرچ کیا ہوگا لیکن اس کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس میں کمی نہیں وہ بھرے کے بھرے ہیں۔ البخاری۔ مسلم۔ الإسراء
101 ١٠١۔ ١ وہ نو معجزے ہیں۔ ہاتھ، لاٹھی، قحط سالی، نقص ثمرات، طوفان، جراد (ٹڈی دل) قمل (کھٹمل، جوئیں) ضفاد (مینڈک) اور خون، امام حسن بصری کہتے ہیں، کہ قحط سالی اور نقص ثمرات ایک ہی چیز ہے اور نواں معجزہ لاٹھی کا جادو گروں کی شعبدہ بازی کو نگل جانا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے علاوہ بھی معجزات دیئے گئے تھے مثلًا لاٹھی کا پتھر پر مارنا، جس سے بارہ چشمے ظاہر ہوگئے تھے، بادلوں کا سایہ کرنا، من و سلوی وغیرہ۔ لیکن یہاں آیات تسعہ سے صرف وہی نو معجزات مراد ہیں، جن کا مشاہدہ فرعون اور اس کی قوم نے کیا۔ اسی لیے حضرت ابن عباس (رض) نے انفلاق بحر (سمندر کا پھٹ کر راستہ بن جانے) کو بھی ان نو معجزات میں شمار کیا ہے اور قحط سالی اور نقص ثمرات کو ایک معجزہ شمار کیا ہے ترمذی کی ایک روایت میں آیات تسعہ کی تفصیل اس سے مختلف بیان کی گئی ہے لیکن سنداً وہ روایت ضعیف ہے اس لیے آیات تسعہ سے مراد یہی مذکورہ معجزات ہیں۔ الإسراء
102 الإسراء
103 الإسراء
104 ١٠٤۔ ١ بظاہر اس سرزمین جس سے فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کو نکالنے کا ارادہ کیا تھا۔ مگر تاریخ بنی اسرائیل کی شہادت یہ ہے کہ مصر سے نکلنے کے بعد دوبارہ مصر نہیں گئے، بلکہ چالیس سال میدان تیہ میں گزار کر فلسطین میں داخل ہوئے۔ اس کی شہادت سورۃ اعراف وغیرہ میں قرآن کے بیان سے ملتی ہے۔ اس لئے صحیح یہی ہے کہ اس سے مراد فلسطین کی سرزمین ہے۔ الإسراء
105 ١٠٥۔ ١ یعنی با حفاظت آپ تک پہنچ گیا، اس میں راستے میں کوئی کمی بیشی اور کوئی تبدیلی اور آمیزش نہیں کی گئی اس لئے کہ اس کو لانے والا فرشتہ۔ شدید القوی، الامین، المکین اور المطاع فی الملاء الاعلی ہے۔ یہ وہ صفات ہیں جو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے متعلق قرآن میں بیان کی گئی ہیں۔ ١٠٥۔ ٢ بَشِیْر اطاعت گزار مومن کے لئے اور نَذِیْر نافرمان کے لئے۔ الإسراء
106 ١٠٦۔ ١ فَرَقْنَاہُ کے ایک دوسرے معنی بَیَّنَّاہ وَ اَوْضَحْنَاہ (ہم نے اسے کھول کر وضاحت سے بیان کردیا) بھی کئے گئے ہیں الإسراء
107 ١٠٧۔ ١ یعنی وہ علماء جنہوں نے نزول قرآن سے قبل کتب سابقہ پڑھی ہیں اور وہ وحی کی حقیقت اور رسالت کی علامات سے واقف ہیں، وہ سجدہ ریز ہوتے ہیں، اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہ انھیں آخری رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پہچان کی توفیق دی اور قرآن و رسالت پر ایمان لانے کی سعادت نصیب فرمائی۔ الإسراء
108 ١٠٨۔ ١ مطلب یہ ہے کہ یہ کفار مکہ جو ہر چیز سے ناواقف ہیں اگر یہ ایمان نہیں لاتے تو آپ پروانہ کریں اس لیے کہ جو اہل علم ہیں اور وحی ورسالت کی حقیقت سے آشنا ہیں وہ اس پر ایمان لے آئے ہیں بلکہ قرآن سن کر وہ بارگاہ الہی میں سجدہ ریز ہوگئے ہیں اور اس کی پاکیزگی بیان کرتے اور رب کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں۔ الإسراء
109 ١٠٩۔ ١ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑنے کا دوبارہ ذکر کیا، کیونکہ پہلا سجدہ اللہ کی تعظیم کے لئے اور بطور شکر تھا اور قرآن سن کر جو خشیت و رقت ان پر طاری ہوئی اور اس کی تاثیر و اعجاز سے جس درجہ وہ متأثر ہوئے، اس نے دوبارہ انھیں سجدہ ریز کردیا۔ الإسراء
110 ١١٠۔ ١ جس طرح کہ پہلے گزر چکا ہے کہ مشرکین مکہ کے لئے اللہ کا صفتی نام ' رحمٰن ' یا ' رحیم ' نامانوس تھا اور بعض آثار میں آتا ہے کہ بعض مشرکین نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے یا رحمٰن و رحیم کے الفاظ سنے تو کہا کہ ہمیں تو یہ کہتا ہے کہ صرف ایک اللہ کو پکارو اور خود دو معبودوں کو پکار رہا ہے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) ١١٠۔ ٢ اس کی شان نزول میں حضرت ابن عباس بیان فرماتے ہیں کہ مکے میں رسول اللہ چھپ کر رہتے تھے، جب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تو آواز قدرے بلند فرما لیتے، مشرکین قرآن سن کر قرآن کو اور اللہ کو گالی گلوچ کرتے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اپنی آواز کو اتنا اونچا نہ کرو کہ مشرکین سن کر قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ آواز اتنی پست کرو کہ صحابہ بھی نہ سن سکیں، خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا واقعہ ہے کہ ایک رات نبی کا گزر حضرت ابو بکر صدیق کی طرف سے ہوا تو وہ پست آواز سے نماز پڑھ رہے ہیں، پھر حضرت عمر کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا تو وہ اونچی آواز سے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ نے دونوں سے پوچھا تو حضرت ابو بکر صدیق نے فرمایا، میں جس سے مصروف مناجات تھا، وہ میری آواز سن رہا تھا، حضرت عمر نے جواب دیا کہ میرا مقصد سوتوں کو جگانا اور شیطان کو بھگانا تھا۔ آپ نے صدیق اکبر سے فرمایا، اپنی آواز قدرے بلند کرو اور حضرت عمر سے کہا، اپنی آواز کچھ پست رکھو۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے (بخاری و مسلم، بحوالہ فتح القدیر) الإسراء
111 الإسراء
0 الكهف
1 کہف کے معنی غار کے ہیں۔ اس میں اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس لئے اسے سورۃ کہف کہا جاتا ہے۔ اس کی ابتدائی دس آیات اور آخری دس آیات کی فضیلت حدیث میں بیان کی گئی ہے کہ جو ان کو یاد کرے اور پڑھے گا وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا (صحیح مسلم) اور اس کی تلاوت جمعہ کے دن کرے گا تو آئندہ جمعے تک اس کے لئے خاص نور کی روشنی رہے گی، اور اس کے پڑھنے سے گھر میں سکون و برکت نازل ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی نے سورۃ کہف پڑھی گھر میں ایک جانور بھی تھا، وہ بدکنا شروع ہوگیا، انہوں نے غور سے دیکھا کہ کیا بات ہے؟ تو انھیں ایک بادل نظر آیا، جس نے انھیں ڈھانپ رکھا تھا، صحابی نے اس واقعہ کا ذکر جب نبی سے کیا، تو آپ نے فرمایا، اسے پڑھا کرو۔ قرآن پڑھتے وقت سکینۃ نازل ہوتی ہے (صحیح بخاری) ١۔ ١ یا کوئی کجی اور راہ اعتدال سے انحراف اس میں نہیں رکھا بلکہ اسے قیم یعنی سیدھا رکھا۔ یا قیم کے معنی، بندوں کے دینی و دنیاوی مصالح کی رعایت و حفاظت کرنے والی کتاب۔ الكهف
2 ٢۔ ١ مِنْ لَّدنہ، جو اس اللہ کی طرف سے صادر یا نازل ہونے والا ہے الكهف
3 الكهف
4 ٤۔ ١ جیسے یہودیوں عیسائیوں اور بعض مشرکین (فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں) کا عقیدہ ہے۔ الكهف
5 ٥۔ ١ اس کلمہ تہمت سے مراد یہی ہے کہ اللہ کی اولاد ہے جو نرا جھوٹ ہے۔ الكهف
6 ٦۔ ١ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ (اس بات) سے مراد قرآن کریم ہے۔ کفار کے ایمان لانے کی جتنی شدید خواہش آپ رکھتے تھے اور ان کے اعراض و گریز سے آپ کو سخت تکلیف ہوتی تھی، اس میں آپ کی اسی کیفیت اور جذبے کا اظہار ہے۔ الكهف
7 ٧۔ ١ روئے زمین میں جو کچھ ہے، حیوانات، جمادات، نباتات، معدنیات اور دیگر مدفون خزانے، یہ سب دنیا کی زینت اور رونق ہیں الكهف
8 ٨۔ ١ صعیدا۔ صاف میدان۔ جرز۔ بالکل ہموار۔ جس میں کوئی درخت وغیرہ نہ ہو، یعنی ایک وقت آئے گا کہ یہ دنیا اپنی تمام تر رونقوں سمیت فنا ہوجائے گی اور روئے زمین ایک چٹیل اور ہموار میدان کی طرح ہوجائے گی، اس کے بعد ہم نیک و بد کو ان کے عملوں کے مطابق جزا دیں گے۔ الكهف
9 ٩۔ ١ یعنی یہ واحد بڑی اور عجیب نشانی نہیں ہے۔ بلکہ ہماری ہر نشانی ہی عجیب ہے۔ یہ آسمان و زمین کی پیدائش اور اس کا نظام، شمس و قمر اور کواکب کی تسخیر، رات اور دن کا آنا جانا اور دیگر بیشمار نشانیاں، کیا تعجب انگیز نہیں ہیں۔ کَھْف اس غار کو کہتے ہیں جو پہاڑ میں ہوتا ہے۔ رقیم، بعض کے نزدیک اس بستی کا نام ہے جہاں سے یہ نوجوان گئے تھے، بعض کہتے ہیں اس پہاڑ کا نام ہے جس میں غار واقع تھا بعض کہتے ہیں رَقِیْم بمعنی مَرْقُوْم ہے اور یہ ایک تختی ہے لوہے یا سیسے کی، جس میں اصحاب کہف کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ اسے رقیم اس لئے کہا گیا ہے کہ اس پر نام تحریر ہیں۔ حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔ جس پہاڑ میں یہ غار واقع ہے اس کے قریب ہی ایک آبادی ہے جسے اب الرقیب کہا جاتا ہے جو مرور زمانہ کے سبب الرقیم کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ الكهف
10 ١٠۔ ١ یہ وہی نوجوان ہیں جنہیں اصحاب کہف کہا گیا، (تفصیل آگے آرہی ہے) انہوں نے جب اپنے دین کو بچاتے ہوئے غار میں پناہ لی تو یہ دعا مانگی۔ اصحاب کہف کے اس قصے میں نوجوانوں کے لئے بڑا سبق ہے، آجکل کے نوجوانوں کا بیشتر وقت فضولیات میں برباد ہوتا ہے اور اللہ کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ کاش! آج کے مسلمان نوجوان اپنی جوانیوں کو اللہ کی عبادت میں صرف کریں۔ الكهف
11 ١١۔ ١ یعنی کانوں پر پردے ڈال کر ان کے کانوں کو بند کردیا تاکہ باہر کی آوازوں سے ان کی نیند میں خلل نہ پڑے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے انھیں گہری نیند سلا دیا۔ الكهف
12 ١٢۔ ١ ان دو گروہوں سے مراد اختلاف کرنے والے لوگ ہیں۔ یہ یا تو اسی دور کے لوگ تھے جن کے درمیان ان کی بابت اختلاف ہوا، یا عہد رسالت کے مومن و کافر مراد ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصحاب کہف ہی ہیں ان کے دو گروہ بن گئے تھے۔ ایک کہتا تھا ہم اتنا عرصہ سوئے رہے، دوسرا، اس کی نفی کرتا اور فریق اول سے کم و بیش مدت بتلاتا۔ الكهف
13 ١٣۔ ١ اب اختصار کے بعد تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ یہ نوجوان، بعض کہتے ہیں عیسائیت کے پیروکار تھے اور بعض کہتے ہیں ان کا زمانہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے کا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ کہتے ہیں ایک بادشاہ تھا، دقیانوس، جو لوگوں کو بتوں کی عبادت کرنے اور ان کے نام کی نذر نیاز دینے کی ترغیب دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے چند نوجوانوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ عبادت کے لائق تو صرف ایک اللہ ہی ہے جو آسمان و زمین کا خالق اور کائنات کا رب ہے۔ فِتْیِۃ جمع قلت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے ان کی تعداد ٩ یا اس سے بھی کم تھی۔ یہ الگ ہو کر کسی ایک جگہ اللہ واحد کی عبادت کرتے، آہستہ آہستہ لوگوں میں ان کے عقیدہ کا چرچا ہوا، تو بادشاہ تک بات پہنچ گئی اور اس نے انھیں اپنے دربار میں طلب کر کے ان سے پوچھا، تو وہاں انہوں نے برملا اللہ کی توحید بیان کی بالآخر پھر بادشاہ اور اپنی مشرک قوم کے ڈر سے اپنے دین کو بچانے کے لئے آبادی سے دور ایک پہاڑ کے غار میں پناہ گزین ہوگئے، جہاں اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند مسلط کردی اور وہ تین سو نو (٣٠٩) سال وہاں سوئے رہے۔ الكهف
14 ١٤۔ ١ یعنی ہجرت کرنے کی وجہ سے اپنے خویش و اقارب کی جدائی اور عیش و راحت کی زندگی سے محرومی کا جو صدمہ انھیں اٹھانا پڑا، ہم نے ان کے دل کو مضبوط کردیا تاکہ وہ صدمات کو برداشت کرلیں۔ نیز حق گوئی کا فریضہ بھی جرأت اور حوصلے سے ادا کرسکیں۔ ١٤۔ ٢ اس قیام سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک وہ طلبی ہے، جو بادشاہ کے دربار میں ان کی ہوئی اور بادشاہ کے سامنے کھڑے ہو کر انہوں نے توحید کا وعظ بیان کیا، بعض کہتے ہیں کہ شہر سے باہر آپس میں ہی کھڑے، ایک دوسرے کو توحید کی بات سنائی، جو فرداً فرداً اللہ کی طرف سے ان کے دلوں میں ڈالی گئی اور یوں اہل توحید باہم اکٹھے ہوگئے۔ ١٤۔ ٣ شططا کے معنی جھوٹ کے یا حد سے تجاوز کرنے کے ہیں۔ الكهف
15 الكهف
16 ١٦۔ ١ یعنی جب تم نے اپنی قوم کے معبودوں سے کنارہ کشی کرلی ہے، تو اب جسمانی طور پر بھی ان سے علیحدگی اختیار کرلو۔ یہ اصحاب کہف نے آپس میں کہا۔ چنانچہ اس کے بعد وہ ایک غار میں جا چھپے، جب ان کے غائب ہونے کی خبر مشہور ہوئی تو تلاش کیا گیا، لیکن وہ اسی طرح ناکام رہے، جس طرح نبی کی تلاش میں کفار مکہ غار ثور تک پہنچ جانے کے باوجود، جس میں آپ حضرت ابو بکر کے ساتھ موجود تھے، ناکام رہے تھے۔ الكهف
17 ١٧۔ ١ یعنی سورج طلوع کے وقت دائیں جانب کو اور غروب کے وقت بائیں جانب کو کترا کر نکل جاتا اور یوں دونوں وقتوں میں ان پر دھوپ نہ پڑتی، حالانکہ وہ غار میں کشادہ جگہ پر محو استراحت تھے۔ فجوۃ کے معنی ہیں کشادہ جگہ۔ ١٧۔ ٢ یعنی سورج کا اس طرح نکل جانا کہ باوجود کھلی جگہ ہونے کے وہاں دھوپ نہ پڑے، اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ ١٧۔ ٣ جیسے دقیانوس بادشاہ اور اس کے پیروکار ہدایت سے محروم رہے تو کوئی انھیں راہ یاب نہیں کرسکا۔ الكهف
18 ١٨۔ ١ ایقاظ، یقظ کی جمع اور رقود راقد کی جمع ہے وہ بیدار اس لئے محسوس ہوتے تھے کہ ان کی آنکھیں کھلی ہوتی تھیں، جس طرح جاگنے والے شخص کی ہوتی ہیں۔ بعض کہتے ہیں زیادہ کروٹیں بدلنے کی وجہ سے وہ بیدار نظر آتے تھے۔ ١٨۔ ٢ تاکہ ان کے جسموں کو مٹی نہ کھا جائے۔ ١٨۔ ٣ یہ ان کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انتظام تھا تاکہ کوئی ان کے قریب نہ جاسکے۔ الكهف
19 ١٩۔ ١ یعنی جس طرح ہم نے انھیں اپنی قدرت سے سلا دیا تھا، اسی طرح تین سو نو سال کے بعد ہم نے انھیں اٹھا دیا اور اس حال میں اٹھایا کہ ان کے جسم اسی طرح صحیح تھے، جس طرح تین سو سال قبل سوتے وقت تھے، اسی لئے آپس میں ایک دوسرے سے انہوں نے سوال کیا۔ ١٩۔ ٢ گویا جس وقت وہ غار میں داخل ہوئے، صبح کا پہلا پہر تھا اور جب بیدار ہوئے تو دن کا آخری پہر تھا، یوں وہ سمجھے کہ شاید ہم ایک دن یا اس سے بھی کم، دن کا کچھ حصہ سوئے رہے۔ ١٩۔ ٣ تاہم کثرت نوم کی وجہ سے وہ سخت تردد میں رہے اور بالآخر معاملہ اللہ کے سپرد کردیا کہ وہی صحیح مدت جانتا ہے۔ ١٩۔ ٤ بیدار ہونے کے بعد، خوراک جو انسان کی سب سے اہم ضرورت ہے، اس کا سر و سامان کرنے کی فکر لاحق ہوئی۔ ١٩۔ ٥ احتیاط اور نرمی کی تاکید اسی اندیشے کے پیش نظر کی، جس کی وجہ سے وہ شہر سے نکل کر ایک ویرانے میں آئے تھے۔ اسے تاکید کی کہ کہیں اس کے روپے سے شہر والوں کو ہمارا علم نہ ہوجائے اور کوئی نئی افتاد ہم پر نہ آپڑے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔ الكهف
20 ٢٠۔ ١ یعنی آخرت کی جس کامیابی کے لئے ہم نے صعوبت، مشقت برداشت کی، ظاہر بات ہے کہ اگر اہل شہر نے ہمیں مجبور کرکے پھر آبائی دین کی طرف لوٹا دیا، تو ہمارا اصل مقصد ہی فوت ہوجائے گا، ہماری محنت بھی برباد جائے گی اور ہم نہ دین کے رہیں گے نہ دنیا کے۔ الكهف
21 ٢١۔ ١ یعنی جس طرح ہم نے سلایا اور جگایا، اسی طرح ہم نے لوگوں کو ان کے حال سے آگاہ کردیا۔ بعض روایات کے مطابق یہ آگاہی اس طرح ہوئی جب اصحاب کہف کا ایک ساتھی چاندی کا سکہ لے کر شہر گیا، جو تین سو سال قبل کے بادشاہ دقیانوس کے زمانے کا تھا اور وہ سکہ اس نے ایک دکاندار کو دیا، تو وہ حیران ہوا، اس نے ساتھ والی دکان والے کو دکھایا، وہ دیکھ کر حیران ہوا، جب کہ اصحاب کہف کا ساتھی یہ کہتا رہا کہ میں اس شہر کا باشندہ ہوں اور کل ہی یہاں سے گیا ہوں، لیکن اس ' کل ' کو تین صدیاں گزر چکی تھیں، لوگ کس طرح اس کی بات مان لیتے؟ لوگوں کو شبہ گزرا کہ کہیں اس شخص کو مدفون خزانہ ملا ہو۔ یہ بات بادشاہ یا حاکم مجاز تک پہنچی اور اس ساتھی کی مدد سے وہ غار تک پہنچا اور اصحاب کہف سے ملاقات کی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں پھر وفات دے دی (ابن کثیر) ٢١۔ ٢ یعنی اصحاب کہف کے اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے وقوع اور بعث بعد الموت کا وعدہ الٰہی سچا ہے، منکرین کے لئے اس واقعہ میں اللہ کی قدرت کا ایک نمونہ موجود ہے۔ ٢١۔ ٣ اذ یا تو ظرف ہے اعثرنا کا، یعنی ہم نے انھیں اس وقت ان کے حال سے آگاہ کیا، جب وہ بعث بعد الموت یا واقعہ قیامت کے بارے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ ٢١۔ ٤ یہ کہنے والے کون تھے، بعض کہتے ہیں کہ اس وقت کے اہل ایمان تھے، بعض کہتے ہیں بادشاہ اور اس کے ساتھی تھے، جب جاکر انہوں نے ملاقات کی اور اس کے بعد اللہ نے انھیں پھر سلا دیا، تو بادشاہ اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ ان کی حفاظت کے لئے ایک عمارت بنا دی جائے۔ ٢١۔ ٥ جھگڑا کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی بابت صحیح علم صرف اللہ کو ہی ہے۔ ٢١۔ ٦ یہ غلبہ حاصل کرنے والے اہل ایمان تھے یا اہل کفر و شرک؟ شوکانی نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے اور ابن کثیر نے دوسری رائے کو۔ کیونکہ صالحین کی قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنا اللہ کو پسند نہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ لعن اللہ الیھود والنصٓاری اتخذوا قبور انبیائھم وصٓالحیھم مساجد۔ البخاری۔ مسلم۔ اللہ تعالیٰ بہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے جنہوں نے اپنے پیغمبروں اور صالحین کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا، حضرت عمر کی خلافت میں عراق میں حضرت دانیال (علیہ السلام) کی قبر دریافت ہوئی تو آپ نے حکم دیا کہ اسے چھپا کر عام قبروں جیسا کردیا جا‏ئے تاکہ لوگوں کے علم میں نہ آئے کہ فلاں قبر فلاں پیغمبر کی ہے۔ تفسیر ابن کثیر۔ الكهف
22 ٢٢۔ ١ یہ کہنے والے اور ان کی مختلف تعداد بتلانے والے عہد رسالت کے مؤمن اور کافر تھے، خصوصاً اہل کتاب جو کتب آسمانی سے آگاہی اور علم کا دعویٰ رکھتے تھے۔ ٢٢۔ ٢ یعنی علم ان میں سے کسی کے پاس نہیں، جس طرح بغیر دیکھے کوئی پتھر مارے، یہ بھی اس طرح اٹکل پچو باتیں کر رہے ہیں۔ ٢٢۔ ٣ اللہ تعالیٰ نے صرف تین قول بیان فرمائے، پہلے وہ دو قولوں کو رَجْمَا بالْغَیْبِ (ظن و تخمین) کہہ کر ان کو کمزور رائے قرار دیا اور اس تیسرے قول کا ذکر اس کے بعد کیا، جس سے اہل تفسیر نے استدلال کیا ہے کہ یہ انداز اس قول کی صحت کی دلیل ہے اور فی الواقع ان کی اتنی ہی تعداد تھی (ابن کثیر) ٢٢۔ ٤ بعض صحابہ سے مروی ہے کہ وہ کہتے تھے میں بھی ان کم لوگوں میں سے ہوں جو یہ جانتے ہیں کہ اصحاب کہف کی تعداد کتنی تھی؟ وہ صرف سات تھے جیسا کہ تیسرے قول میں بتلایا گیا ہے (ابن کثیر) ٢٢۔ ٥ یعنی صرف ان ہی باتوں پر اکتفا کریں جن کی اطلاع آپ کو وحی کے ذریعے سے کردی گئی ہے۔ یا تعین عدد میں بحث و تکرار نہ کریں، صرف یہ کہہ دیں کہ اس تعین کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ ٢٢۔ ٦ یعنی بحث کرنے والوں سے ان کی بابت کچھ نہ پوچھیں، اس لئے کہ جس سے پوچھا جائے، اس کو پوچھنے والے سے زیادہ علم ہونا چاہئے، جب کہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ آپ کے پاس تو پھر بھی یقینی علم کا ایک ذریعہ وحی، موجود ہے، جب کہ دوسروں کے پاس ذہنی تصور کے سوا کچھ بھی نہیں۔ الكهف
23 الكهف
24 ٢٤۔ ١ مفسرین کہتے ہیں کہ یہودیوں نے نبی سے تین باتیں پوچھی تھیں، روح کی حقیقت کیا ہے اور اصحاب کہف اور ذوالقرنین کون تھے؟ کہتے ہیں کہ یہی سوال اس سورت کے نزول کا سبب بنا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمہیں کل جواب دونگا، لیکن اس کے بعد ١٥ دن تک جبرائیل وحی لے کر نہیں آئے۔ پھر جب آئے تو اللہ تعالیٰ نے انشاء اللہ کہنے کا یہ حکم دیا۔ آیت میں (غد) سے مراد مستقبل ہے یعنی جب بھی مستقبل قریب یا بعید میں کوئی کام کرنے کا عزم کرو تو انشاء اللہ ضرور کہا کرو۔ کیونکہ انسان کو تو پتہ نہیں کہ جس بات کا عزم کر رہا ہے، اس کی توفیق بھی اسے اللہ کی مشیت سے ملتی ہے یا نہیں۔ ٢٤۔ ٢ یعنی اگر کلام یا وعدہ کرتے وقت انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ، تو جس وقت یاد آجائے انشاء اللہ کہہ لیا کرو، یا پھر رب کو یاد کرنے کا مطلب، اس کی تسبیح و تحمید اور اس سے استفغار ہے۔ ٢٤۔ ٣ یعنی میں جس کا عزم ظاہر کر رہا ہوں، ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ بہتر اور مفید کام کی طرف میری رہنمائی فرما دے۔ الكهف
25 ٢٥۔ ١ جمہور مفسرین نے اسے اللہ کا قول قرار دیا ہے۔ شمسی حساب سے تین سو سال اور قمری حساب سے ٣٠٩ سال بنتے ہیں۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ انھیں لوگوں کا قول ہے جو ان کی مختلف تعداد بتاتے ہیں، جس کی دلیل اللہ کا یہ قول ہے ' کہ اللہ ہی کو ان کے ٹھرے رہنے کا بخوبی علم ہے ' جس کا مطلب وہ مذکورہ مدت کی نفی لیتے ہیں۔ لیکن جمہور کی تفسیر کے مطابق اس کا مفہوم یہ ہے کہ اہل کتاب یا کوئی اور اس بتلائی ہوئی مدت سے اختلاف کرے تو آپ ان سے کہہ دیں کہ تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ جب اس نے تین سو نو سال مدت بتلائی ہے تو یہی صحیح ہے کیونکہ وہی جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت غار میں رہے؟ الكهف
26 ٢٦۔ ١ یہ اللہ کی صفت علم و خبر کی مذید وضاحت ہے الكهف
27 ٢٧۔ ١ ویسے تو یہ حکم عام ہے کہ جس چیز کی بھی وحی آپ کی طرف کی جائے، اس کی تلاوت فرمائیں اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیں۔ لیکن اصحاب کہف کے قصے کے خاتمے پر اس حکم سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اصحاب کہف کے بارے میں لوگ جو چاہیں، کہتے پھریں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں اپنی کتاب میں جو کچھ اور جتنا کچھ بیان فرما دیا ہے، وہی صحیح ہے، وہی لوگوں کو پڑھ کر سنا دیجئے، اس سے زیادہ دیگر باتوں کی طرف دھیان نہ دیجئے۔ ٢٧۔ ٢ یعنی اگر اسے بیان کرنے سے گریز و انحراف کیا، یا اس کے کلمات میں تغیر و تبدیلی کی کوشش کی، تو اللہ سے آپ کو بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ خطاب اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے، لیکن اصل مخاطب امت ہے۔ الكهف
28 ٢٨۔ ١ یہ وہی حکم ہے جو اس کے قبل سورۃ الا نعام۔ ٥٢ میں گزر چکا ہے۔ مراد ان سے وہ صحابہ کرام ہیں جو غریب اور کمزور تھے۔ جن کے ساتھ بیٹھنا اشراف قریش کو گوارا نہ تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ ہم چھ آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے، میرے علاوہ بلال، ابن مسعود، ایک ہذلی اور دو صحابی اور تھے۔ قریش مکہ نے خواہش ظاہر کی کہ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹا دو تاکہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کی بات سنیں، نبی کے دل میں آیا کہ چلو شاید میری بات سننے سے ان کے دلوں کی دنیا بدل جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے سختی کے ساتھ ایسا کرنے سے منع فرما دیا (صحیح مسلم) ٢٨۔ ٢ یعنی ان کو دور کر کے آپ اصحاب شرف و اہل غنی کو اپنے قریب کرنا چاہتے ہیں۔ ٢٨۔ ٣ فرطا، اگر افراط سے ہو تو معنی ہوں گے حد سے متجاوز اور اگر تفریط سے ہو تو معنی ہوں گے کہ ان کا کام تفریط پر مبنی ہے جس کا نتیجہ ضیاع اور ہلاکت ہے۔ الكهف
29 الكهف
30 ٣٠۔ ١ قرآن کے انداز بیان کے مطابق جہنمیوں کے ذکر کے بعد اہل جنت کا تذکرہ ہے تاکہ لوگوں کے اندر جنت حاصل کرنے کا شوق و رغبت پیدا ہو۔ الكهف
31 ٣١۔ ١ زمانہ نزول قرآن اور اس سے ما قبل رواج تھا کہ بادشاہ، رؤسا سردران قبائل اپنے ہاتھوں میں سونے کے کڑے پہنتے تھے، جس سے ان کی امتیازی حیثیت نمایاں ہوتی تھی۔ اہل جنت کو بھی سونے کے کڑے پہنائے جائیں گے۔ ٣١۔ ٢ سندس، باریک ریشم اور استبرق موٹا ریشم۔ دنیا میں مردوں کے لئے سونا اور ریشمی لباس ممنوع ہیں، جو لوگ اس حکم پر عمل کرتے ہوئے دنیا میں ان محرمات سے اجتناب کریں گے، انھیں جنت میں یہ ساری چیزیں میسر ہونگی۔ وہاں کوئی چیز ممنوع نہیں ہوگی بلکہ اہل جنت جس چیز کی خواہش کریں گے، وہ موجود ہوگی۔ ولکم فیہا ما تشتھی انفسکم ولکم فیھا ماتدعون۔ جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب جنت میں موجود ہے۔ الكهف
32 ٣٢۔ ١ مفسرین کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ دو شخص کون تھے؟ اللہ تعالیٰ نے تفہیم کے لئے بطور مثال ان کا تذکرہ کیا ہے یا واقعی دو شخص ایسے تھے؟ اگر تھے تو یہ بنی اسرائیل میں گزرے ہیں یا اہل مکہ میں تھے، ان میں ایک مومن اور دوسرا کافر تھا۔ ٣٣۔ ٢ جس طرح چار دیواری کے ذریعے سے حفاظت کی جاتی ہے، اس طرح ان باغوں کے چاروں طرف کھجوروں کے درخت تھے، جو باڑ اور چار دیواری کا کام دیتے تھے۔ ٣٢۔ ٣ یعنی دونوں باغوں کے درمیان کھیتی تھی جن سے غلہ جات کی فصلیں حاصل کی جاتی تھیں۔ یوں دونوں باغ غلے اور میووں کے جامع تھے۔ الكهف
33 ٣٣۔ ١ یعنی اپنی پیداوار میں کوئی کمی نہیں کرتے تھے بلکہ بھرپور پیداوار دیتے تھے۔ ٣٣۔ ٢ تاکہ باغوں کو سیراب کرنے میں کوئی رکاوٹ واقع نہ ہو۔ یا بارانی علاقوں کی طرح بارش کے محتاج نہ رہیں۔ الكهف
34 ٣٤۔ ١ یعنی باغوں کے مالک نے، جو کافر تھا، اپنے ساتھیوں سے کہا جو مومن تھا۔ ٣٤۔ ٢ نَفَر (جتھے) سے مراد اولاد اور نوکر چاکر ہیں۔ الكهف
35 الكهف
36 ٣٦۔ ١ یعنی وہ کافر عجب اور غرور میں ہی مبتلا نہیں ہوا بلکہ اس کی مد ہوشی اور مستقبل کی حسین اور لمبی امیدوں نے اسے اللہ کی گرفت اور سزا کے عمل سے بالکل غافل کردیا۔ علاوہ ازیں اس نے قیامت کا ہی انکار کردیا، پھر مذاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر قیامت برپا ہوئی بھی تو وہاں بھی حسن انجام میرا مقدر ہوگا۔ جن کا کفر طغیان حد سے تجاوز کرجاتا ہے، وہ مست مئے پندار ہو کر ایسے ہی متکبرانہ دعوے کرتے ہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ولئن رجعت الی ربی ان لی عندہ للحسنی۔ حم السجدہ۔ اگر مجھے رب کی طرف لوٹایا گیا تو وہاں بھی میرے لیے اچھائیاں ہی ہیں۔ افرءیت الذی کفر بایتنا وقال لاوتین مالا وولدا۔ مریم۔ کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں کے ساتھ کفر کیا اور دعوی کیا کہ آخرت میں بھی مجھے مال و اولاد سے نوازا جائے گا۔ الكهف
37 ٣٧۔ ١ اس کی یہ باتیں سن کر اس کے مومن ساتھی نے اس کو وعظ وتبلیغ کے انداز میں سمجھایا کہ تو اپنے خالق کے ساتھ کفر کا ارتکاب کر رہا ہے جس نے تجھے مٹی اور قطرہ پانی سے پیدا کیا ابو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) چونکہ مٹی سے بنائے گئے تھے اس لیے انسانوں کی اصل مٹی ہی ہوئی، پھر قریبی سبب وہ نطفہ بنا جو باپ کی صلب سے نکل کر رحم مادر میں گیا وہاں نو مہینے اس کی پرورش کی پھر اسے پورا انسان بنا کر ماں کے پیٹ سے نکالا بعض کے نزدیک مٹی سے پیدا ہونے کا مطلب ہے کہ انسان جو خوراک کھاتا ہے وہ سب زمین سے یعنی مٹی سے ہی حاصل ہوتی ہے اسی خوراک سے وہ نطفہ بنتا ہے جو عورت کے رحم میں جا کر انسان کی پیدائش کا ذریعہ بنتا ہے یوں بھی ہر انسان کی اصل مٹی ہی قرار پاتی ہے ناشکرے انسان کو اس کی اصل یاد دلا کر اسے اس کے خالق اور رب کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے کہ تو اپنی حقیقت اور اصل پر غور کر اور پھر رب کے ان احسانات کو دیکھ کہ تجھے اس نے کیا کچھ بنا دیا اور اس عمل تخلیق میں کوئی اس کا شریک اور مددگار نہیں ہے یہ سب کچھ کرنے والا صرف اور صرف وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس کو ماننے کے لیے تو تیار نہیں ہے آہ، کس قدر یہ انسان ناشکرا ہے؟ الكهف
38 ٣٨۔ ١ یعنی میں تیری طرح بات نہیں کروں گا بلکہ میں تو اللہ کی ربوبیت اور اس کی واحدنیت کا اقرار و اعتراف کرتا ہوں اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دوسرا ساتھی مشرک ہی تھا۔ الكهف
39 ٣٩۔ ١ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا طریقہ بتلاتے ہوئے کہا کہ باغ میں داخل ہوتے وقت سرکشی اور غرور کا مظاہرہ کرنے کی بجائے یہ کہا ہوتا، مَا شَاَءَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلّا باللّٰہِ یعنی جو کچھ ہوتا ہے اللہ کی مشیت سے ہوتا ہے، وہ چاہے تو اسے باقی رکھے اور چاہے تو فنا کر دے۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ جس کو کسی کا مال، اولاد یا حال اچھا لگے تو اسے مَا شَاَءَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِ لّا باللّٰہِ پڑھنا چاہیے (تفسیر ابن کثیر) الكهف
40 ٤٠۔ ١ دنیا یا آخرت میں۔ یا دنیا اور آخرت دونوں جگہوں میں۔ ٤٠۔ ٢ حَسْبَان، غُفْرَان کے وزن پر۔ حساب سے ہے یعنی ایسا عذاب، جو کسی کے کرتوتوں کے نتیجے میں آئے۔ یعنی آسمانی عذاب کے ذریعے سے وہ محاسبہ کرلے۔ اور یہ جگہ جہاں اس وقت سرسبز و شاداب باغ ہے، چٹیل اور صاف میدان بن جائے۔ الكهف
41 ٤١۔ ١ یا درمیان میں جو نہر ہے جو باغ کو شادابی اور زرخیزی کا باعث ہے، اس کے پانی کو اتنا گہرا کر دے کہ اس سے پانی کا حصول ہی ناممکن ہوجائے اور جہاں پانی زیادہ گہرائی میں چلا جائے تو پھر وہاں بڑے بڑے ہارس پاور کی موٹریں اور مشینیں بھی پانی کو اوپر کھینچ لانے میں ناکام رہتی ہیں۔ الكهف
42 ٤٢۔ ١ یہ کنایہ ہے ہلاکت و فنا سے۔ یعنی سارا باغ ہلاک کر ڈالا۔ ٤٢۔ ٢ یعنی باغ کی تعمیر و اصلاح اور کاشتکاری کے اخراجات پر کف افسوس ملنے لگا۔ ہاتھ ملنا کنایہ، یہ ہے ندامت سے۔ ٤٢۔ ٣ یعنی جن چھتوں، چھپروں پر انگوروں کی بیلیں تھیں، وہ سب زمین پر آرہیں اور انگوروں کی ساری فصل تباہ ہوگئی۔ ٤٢۔ ٤ اب اسے احساس ہوا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اس کی نعمتوں سے فیض یاب ہو کر اس کے احکام کا انکار کرنا اور اس کے مقابلے میں سرکشی، کسی طرح بھی ایک انسان کے لئے زیبا نہیں، لیکن اب حسرت و افسوس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا، اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ الكهف
43 ٤٣۔ ١ جس جتھے پر اس کو ناز تھا، وہ بھی اس کے کام نہیں آیا نہ وہ خود ہی اللہ کے عذاب سے بچنے کا کوئی انتظام کر سکا الكهف
44 ٤٤۔ ١ ولایۃ۔ کے معنی موالات اور نصرت کے ہیں یعنی اس مقام پر ہر مومن و کافر کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی کسی کی مدد کرنے پر اور اس کے عذاب سے بچانے پر قادر نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ پھر اس موقع پر بڑے بڑے سرکش اور جبار بھی اظہار ایمان پر مجبور ہوجاتے ہیں، گو اس وقت کا ایمان نافع اور مقبول نہیں۔ جس طرح قرآن نے فرعون کی بابت نقل کیا ہے کہ جب وہ غرق ہونے لگا تو کہنے لگا۔ امنت انہ لا الہ الا الذی امنت بہ بنوا اسرائیل وانا من المسلمین۔ سورۃ یونس۔ میں اس اللہ پر ایمان لایا جس پر بنو اسرائیل ایمان رکھتے ہیں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ دوسرے کفار کی بابت فرمایا گیا جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھا تو کہا ہم اللہ واحد پر ایمان لائے اور جن کو ہم اللہ کا شریک ٹھہراتے تھے ان کا انکار کرتے ہیں سورۃ المومن۔ اگر ولایت واو کے کسرے کے ساتھ ہو تو پھر اس کے معنی حکم اور اختیارات کے ہیں جیسا کہ ترجمے میں یہی معنی اختیار کیے گئے ہیں۔ ابن کثیر۔ ٤٤۔ ٢ یعنی وہی اپنے دوستوں کو بہتر بدلہ دینے والا اور حسن عاقبت سے مشرف کرنے والا ہے۔ الكهف
45 ٤٥۔ ١ اس آیت میں دنیا کی بے ثباتی اور ناپائداری کو کھیتی کی مثال کے ذریعے واضح کیا گیا ہے کہ کھیتی میں لگے پودوں اور درختوں پر جب آسمان سے بارش برستی ہے تو پانی سے ملکر کھیتی لہلہا اٹھتی ہے، پودے اور درخت حیات نو سے شاداب ہوجاتے ہیں۔ لیکن پھر ایک وقت آتا ہے کہ کھیتی سوکھ جاتی ہے۔ پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے یا فصل پک جانے کے سبب تو پھر ہوائیں اس کو اڑائے پھرتی ہیں۔ ہوا کا ایک جھونکا کبھی اسے دائیں اور کبھی بائیں جانب جھکا دیتا ہے۔ دنیا کی زندگی بھی ہوا کے ایک جھونکے یا اس پانی کے بلبلے یا کھیتی ہی کی طرح ہے، جو اپنی چند روزہ بہار دکھا کر فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہے۔ اور یہ سارے تصرفات اس ہستی کے ہاتھ میں ہیں جو ایک ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی مثال قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان فرمائی ہے۔ (مثلًا (وَاللّٰہُ یَدْعُوْٓا اِلٰی دَار السَّلٰمِ ۭ وَیَہْدِیْ مَنْ یَّشَاۗءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَــقِیْمٍ) 10۔ یونس :25)، (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَلَکَہٗ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ یُخْرِجُ بِہٖ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُہٗ ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرٰیہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَجْعَلُہٗ حُطَامًا ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَابِ) 39۔ الزمر :21) وغیرہا من الآیات) الكهف
46 ٤٦۔ ١ اس میں اہل ایمان دنیا کا اور جو دنیا کے مال اسباب، قبیلہ اور خاندان اور آل اولاد پر فخر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، یہ چیزیں تو دنیا فانی کی عارضی زینت ہیں۔ آخرت میں یہ چیزیں کچھ کام نہیں آئیں گی۔ اسی لئے اسے آگے فرمایا کہ آخرت میں کام آنے والے عمل وہ ہیں جو باقی رہنے والے ہیں۔ ٤٦۔ ٢ باقیات صالحات (باقی رہنے والی نییکیاں) کون سی یا کون کون سی ہیں؟ کسی نے نماز کو، کسی نے تحمید و تسبیح اور تکبیر و تہلیل کو اور کسی نے اعمال خیر کو مصداق قرار دیا۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ عام ہے اور تمام نیکیوں کو شامل ہے۔ تمام فرائض و واجبات اور سنن و نوافل سب باقیات صالحات ہیں بلکہ برے کاموں سے اجتناب بھی ایک عمل صالح ہے، جس پر عند اللہ اجر و ثواب کی امید ہے۔ الكهف
47 ٤٧۔ ١ یہ قیامت کی ہولناکیاں اور بڑے بڑے واقعات کا بیان ہے۔ پہاڑوں کو چلائیں گے کا مطلب، پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے اور دھنی ہوئی روئی کی طرح اڑ جائیں گے اور پہاڑ ایسے ہونگے جیسے دھنکی ہوئی رنگین اون، زمین سے جب پہاڑ جیسی مضبوط چیزیں ختم ہوجائیں گی، تو مکانات، درخت اور اسی طرح کی دیگر چیزیں کس طرح وجود برقرار رکھ سکیں گی؟ اسی لئے آگے فرمایا ' 'و زمین کو صاف کھلی ہوئی دیکھے گا ' ٤٧۔ ٢ یعنی اولین و آخرین، چھوٹے بڑے، کافر و مومن سب کو جمع کریں گے، کوئی زمین کی تہ میں پڑا نہ رہ جائے گا اور نہ قبر سے نکل کر کسی جگہ چھپ سکے گا۔ الكهف
48 ٤٨۔ ١ اس کے معنی ہیں کہ ایک ہی صف میں اللہ کے سامنے کھڑے ہونگے، یا صفوں کی شکل میں بارگاہ الٰہی میں حاضر ہونگے الكهف
49 الكهف
50 ٥٠۔ ١ قرآن کی اس آیت نے واضح کردیا کہ شیطان فرشتہ نہیں تھا، فرشتہ اگر ہوتا تو حکم الٰہی سے سرتابی کی اسے مجال ہی نہ ہوتی، کیونکہ فرشتوں کی صفت اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے ( لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ) 66۔ التحریم :6)۔ وہ اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جس کا انھیں حکم دیا جاتا ہے۔ اس صورت میں یہ اشکال رہتا ہے اگر وہ فرشتہ نہیں تھا تو پھر اللہ کے حکم کا وہ مخاطب ہی نہیں تھا کیونکہ اس کے مخاطب تو فرشتے تھے انھیں کو سجدے کا حکم دیا گیا تھا صاحب روح المعانی نے کہا ہے کہ وہ فرشتہ یقینا نہیں تھا لیکن وہ فرشتوں کے ساتھ ہی رہتا تھا اور ان ہی میں شمار ہوتا تھا اس لیے وہ بھی اسجدوا لادم کے حکم کا مخاطب تھا اور سجدہ آدم کے حکم کے ساتھ اس کا خطاب کیا جانا قطعی ہے ارشاد باری ہے۔ ما منعک الا تسجد اذ امرتک۔ جب میں نے تجھے حکم دے دیا تو پھر تو نے سجدہ کیوں نہ کیا۔ ٥٠۔ ٢ فِسْق کے معنی ہوتے ہیں نکلنا چوہا جب اپنے بل سے نکلتا ہے تو کہتے ہیں فَسَقَتِ الفَارَۃ مِنْ جُحرِھَا، شیطان بھی سجدہ تعظیم و تحیہ کا انکار کرکے رب کی اطاعت سے نکل گیا۔ ٥٠۔ ٣ یعنی کیا تمہارے لئے یہ صحیح ہے کہ تم ایسے شخص کو اور اسکی نسل کو دوست بناؤ جو تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کا دشمن، تمہارا دشمن اور تمہارے رب کا دشمن ہے اور اللہ کو چھوڑ کر اس شیطان کی اطاعت کرو؟ ٥٠۔ ٤ ایک دوسرا ترجمہ اس کا یہ کیا گیا ہے ظالموں نے کیا ہی برا بدل اختیار کیا ہے یعنی اللہ کی اطاعت اور اسکی دوستی کو چھوڑ کر شیطان کی اطاعت اور اسکی دوستی جو اختیار کی ہے تو یہ بہت ہی برا بدل ہے جسے ان ظالموں نے اپنایا ہے۔ الكهف
51 ٥١۔ ١ یعنی آسمان اور زمین کی پیدائش اور اس کی تدبیر میں، بلکہ خود شیاطین کی پیدائش میں ہم نے ان سے یا ان میں سے کسی ایک سے کوئی مدد حاصل نہیں کی، یہ تو اسوقت موجود بھی نہ تھے۔ پھر تم اس شیطان اور اس کے نسل کی پوجا یا ان کی اطاعت کیوں کرتے ہو؟ اور میری عبادت و اطاعت سے تمہیں گریز کیوں ہے؟ جب کہ یہ مخلوق ہیں اور میں ان سب کا خالق ہوں۔ ٥١۔ ٢ اور بفرض محال اگر میں کسی کو مددگار بناتا بھی تو ان کو کیسے بناتا، جبکہ یہ میرے بندوں کو گمراہ کرکے میری جنت اور میری رضا سے روکتے ہیں۔ الكهف
52 ٥٢۔ ١ موبق کے ایک معنی حجاب۔ پردے اور آڑ کے ہیں یعنی ان کے درمیان پردہ اور فاصلہ کردیا جائے گا کیونکہ ان کے درمیان آپس میں عداوت ہوگی۔ نیز اس لئے کہ محشر میں یہ ایک دوسرے کو نہ مل سکیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ جہنم میں پیپ اور خون کی مخصوص آبادی ہے۔ اور بعض نے اس کا ترجمہ مہلک کیا ہے، یہ ایک دوسرے کو مل ہی نہیں سکیں گے کیونکہ ان کے درمیان ہلاکت کا سامان اور ہولناک چیزیں ہونگی۔ الكهف
53 ٥٣۔ ١ جس طرح بعض روایات میں ہے کہ کافر ابھی چالیس سال کی مسافت پر ہوگا کہ یقین کرلے گا کہ جہنم ہی اس کا ٹھکانا ہے (مسند احمد جلد۔ ٣، ص ٧٥) الكهف
54 ٥٤۔ ١ یعنی ہم نے انسان کو حق کا راستہ سمجھانے کے لئے قرآن میں ہر طریقہ استعمال کیا، وعظ، نصیحت، امثال، واقعات اور دلائل، علاوہ ازیں انھیں بار بار اور مختلف انداز سے بیان کیا ہے۔ لیکن انسان چونکہ سخت جھگڑالو ہے، اس لئے وعظ نصیحت کا اس پر اثر ہوتا ہے اور نہ دلائل و نصیحت اس کے لئے کارگر۔ الكهف
55 ٥٥۔ ١ یعنی تکذیب کی صورت میں ان پر بھی اسی طرح عذاب آئے، جیسے پہلے لوگوں پر آیا۔ ٥٥۔ ٢ یعنی اہل مکہ ایمان لانے کے لئے ان دو باتوں میں سے کسی ایک کے منتظر ہیں۔ لیکن ان عقل کے اندھوں کو یہ پتہ نہیں کہ اس کے بعد ایمان کی کوئی حیثیت ہی نہیں یا اس کے بعد ایمان لانے کا ان کو موقع ہی کب ملے گا ؟ الكهف
56 ٥٦۔ ١ اور اللہ کی آیتوں کا مذاق اڑانا، یہ جھٹلانے کی بدترین قسم ہے۔ اس طرح جدال بالباطل کے ذریعہ سے (یعنی باطل طریقے اختیار کر کے) حق کو باطل ثابت کرنے کی سعی کرنا بھی نہایت مذموم حرکت ہے۔ اس جدال بالباطل کی ایک صورت یہ ہے جو کافر رسولوں کو یہ کہہ کر ان کی رسالت انکار کردیتے رہے ہیں کہ تم ہمارے جیسے ہی انسان ہو۔ ما انتم الا بشر مثلنا۔ یسین۔ ہم تمہیں رسول کس طرح تسلیم کرلیں؟ دحض۔ کے اصل معنی پھسلنے کے ہیں کہا جاتا ہے دحضت رجلہ اس کا پیر پھسل گیا یہاں سے یہ کسی چیز کے زوال اور بطلان کے معنی میں استعمال ہونے لگا کہتے ہیں دحضت حجتۃ دحوضا ای بطلت اس کی حجت باطل ہوگئی اس لحاظ سے ادحض یدحض کے معنی ہوں گے باطل کرنا (فتح القدیر) الكهف
57 ٥٧۔ ١ یعنی ان کے اس ظلم عظیم کی وجہ سے کہ انسان نے رب کی آیات سے اعراض کیا اور اپنے کرتوتوں کو بھولے رہے، ان کے دلوں پر ایسے پردے اور ان کے کانوں پر ایسے بوجھ ڈال دیئے گئے ہیں، جس سے قرآن کا سمجھنا، سننا اور اس سے ہدایت قبول کرنا ان کے لئے ناممکن ہوگیا۔ ان کو کتنا بھی ہدایت کی طرف بلا لو، یہ کبھی بھی ہدایت کا راستہ اپنانے کے لئے تیار نہیں ہونگے۔ الكهف
58 ٥٨۔ ١ یعنی یہ تو رب غفور کی رحمت ہے کہ وہ گناہ پر فوراً گرفت نہیں فرماتا، بلکہ مہلت دیتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پاداش عمل میں ہر شخص ہی عذاب الٰہی کے شکنجے میں کسا ہوتا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ جب مہلت عمل ختم ہوجاتی ہے اور ہلاکت کا وقت آجاتا ہے، جو اللہ تعالیٰ مقرر کئے ہوتا ہے تو پھر فرار کا کوئی راستہ اور بچاؤ کی کوئی سبیل ان کے لئے نہیں رہتی۔ مو‏‏ئل۔ کے معنی ہیں جائے پناہ راہ فرار۔ الكهف
59 ٥٩۔ ١ اس سے مراد، عاد، ثمود اور حضرت شعیب (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) وغیرہ کی قومیں جو اہل حجاز کے قریب اور ان کے راستوں میں ہی تھیں۔ انھیں بھی اگرچہ ان کے ظلم کے سبب ہی ہلاک کیا گیا لیکن ہلاکت سے پہلے انھیں پورا موقع دیا گیا اور جب یہ بات واضح ہوگئی کہ ان کا ظلم و طغیان اس حد کو پہنچ گیا ہے جہاں سے ہدایت کے راستے بالکل مسدود ہوجاتے ہیں اور ان سے خیر اور بھلائی کی امید باقی نہیں رہی، تو پھر ان کی مہلت عمل ختم اور تباہی کا وقت شروع ہوگیا۔ پھر انھیں حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا۔ یا اہل دنیا کے لئے عبرت کا نمونہ بنا دیا گیا۔ یہ دراصل اہل مکہ کو سمجھایا جا رہا ہے کہ تم ہمارے آخری پیغمبر اور اشرف الرسل حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کر رہے ہو۔ تم یہ نہ سمجھنا کہ تمہیں مہلت مل رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں بلکہ یہ مہلت تو سنت اللہ ہے، جو ایک وقت موعود تک ہر فرد گروہ اور قوم کو وہ عطا کرتا ہے جب یہ مدت ختم ہوجائے گی اور تم اپنے کفر و عناد سے باز نہیں آؤ گے تو پھر تمہارا حشر بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا جو تم سے پہلی قوموں کا ہوچکا ہے۔ الكهف
60 ٦٠۔ ١ نوجوان سے مراد حضرت یوشع بن نون (علیہ السلام) ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) کے وفات کے بعد ان کے جانشین بنے۔ ٦٠۔ ٢ اس مقام کی تعیین کسی یقینی ذریعہ سے نہیں ہوسکی تاہم قیاس کیا جاتا ہے کہ اس سے مراد صحرائے سینا کا وہ جنوبی راستہ ہے جہاں خلیج عقبہ اور خلیج سویز دونوں آکر ملتے ہیں اور بحر احمر میں ضم ہوجاتے ہیں۔ دوسرے مقامات جن کا ذکر مفسرین نے کیا ہے ان پر سرے سے مجمع البحرین کی تعبیر ہی صادق نہیں آتی۔ ٦٠۔ ٣ حقب، کے ایک معنی ٧٠ یا ٨٠ سال اور دوسرے معنی غیر معین مدت کے ہیں یہاں یہی دوسرا معنی مراد ہے یعنی جب تک میں مجمع البحرین (جہاں دونوں سمندر ملتے ہیں) نہیں پہنچ جاؤں گا، چلتا رہوں گا اور سفر جاری رکھوں گا، چاہے کتنا بھی عرصہ لگ جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس سفر کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ انہوں نے ایک موقع پر ایک سائل کے جواب میں یہ کہہ دیا کہ اس وقت مجھ سے بڑا عالم کوئی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو ان کا یہ جملہ پسند نہیں آیا اور وحی کے ذریعہ سے انھیں مطلع کیا کہ ہمارا ایک بندہ (خضر) ہے جو تجھ سے بڑا عالم ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا کہ یا اللہ اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جہاں دونوں سمندر ملتے ہیں، وہیں ہمارا وہ بندہ بھی ہوگا۔ نیز فرمایا کہ مچھلی ساتھ لے جاؤ، جہاں مچھلی تمہاری ٹوکری (زنبیل) سے نکل کر غائب ہوجائے تو سمجھ لینا کہ یہی مقام ہے (بخاری، سورۃ کہف) چنانچہ اس کے حکم کے مطابق انہوں نے ایک مچھلی لی اور سفر شروع کردیا۔ الكهف
61 الكهف
62 الكهف
63 ٦٣۔ ١ یعنی مچھلی زندہ ہو کر سمندر میں چلی گئی اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے سمندر میں سرنگ کی طرح راستہ بنا دیا۔ حضرت یوشع (علیہ السلام) نے مچھلی کو سمندر میں جاتے اور راستہ بنتے ہوئے دیکھا، لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بتلانا بھول گئے۔ حتٰی کہ آرام کرکے وہاں سے پھر سفر شروع کردیا، اس دن اور اس کے بعد رات سفر کر کے، جب دوسرے دن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تھکاوٹ اور بھوک محسوس ہوئی تو اپنے جوان ساتھی سے کہا لاؤ بھئی ناشتہ، ناشتہ کرلیں۔ اس نے کہا، مچھلی تو، جہاں ہم نے پتھر سے ٹیک لگا کر آرام کیا تھا، وہاں زندہ ہو کر سمندر میں چلی گئی تھی اور وہاں عجب طریقے سے اس نے اپنا راستہ بنایا تھا، جس کا میں آپ سے تذکرہ کرنا بھول گیا۔ شیطان نے مجھے بھلا دیا۔ الكهف
64 ٦٤۔ ١ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا، اللہ کے بندے! جہاں مچھلی زندہ ہو کر غائب ہوئی تھی، وہی تو ہمارا مطلوبہ مقام تھا، جس کی تلاش میں ہم سفر کر رہے ہیں۔ چنانچہ اپنے نشانات دیکھتے ہوئے پیچھے لوٹے اور اسی مجمع البحرین پر واپس آگئے۔ قَصَصَا کے معنی ہیں پیچھے لگنا، پیچھے پیچھے چلنا۔ یعنی نشانات قدم کو دیکھتے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہے۔ الكهف
65 ٦٥۔ ١ اس بندے سے مراد حضرت خضر ہیں، جیسا کہ صحیح احادیث میں وضاحت ہے۔ خضر کے معنی سرسبز اور شاداب کے ہیں، یہ ایک مرتبہ سفید زمین پر بیٹھے تو وہ حصہ زمین ان کے نیچے سے سرسبز ہو کر لہلہانے لگا، اسی وجہ سے ان کا نام خضر پڑگیا (صحیح بخاری، تفسیر سورۃ کہف) ٦٥۔ ٢ رَحْمَۃ سے مراد مفسرین نے وہ خصوصی انعامات مراد لئے ہیں جو اللہ نے اپنے اس خاص بندے پر فرمائے اور اکثر مفسرین نے اس سے مراد نبوت لی ہے۔ ٦٥۔ ٣ اس سے علم نبوت کے علاوہ جس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی بہرہ ور تھے، بعض خاص امور کا علم ہے جس اللہ تعالیٰ نے صرف حضرت خضر کو نوازا تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس بھی وہ علم نہیں تھا۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے بعض صوفیا دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو، جو نبی نہیں ہوتے، علم الہام سے نوازتا ہے، جو بغیر استاد کے محض فیض کے سر چشمہ کا نتیجہ ہوتا ہے اور یہ باطنی علم، شریعت کے ظاہری علم سے، جو قرآن و حدیث کی صورت میں موجود ہے، مختلف بلکہ بعض دفعہ اس کے مخالف اور معارض ہوتا ہے لیکن استدلال اس لئے صحیح نہیں کہ حضرت خضر کی بابت تو اللہ تعالیٰ نے خود ان کے علم خاص دیئے جانے کی وضاحت کردی ہے، جب کہ کسی اور کے لئے ایسی وضاحت کہیں نہیں اگر اس کو عام کردیا جائے تو پھر ہر شعبدہ باز اس قسم کا دعویٰ کرسکتا ہے، چنانچہ اس طبقے میں یہ دعوے عام ہی ہیں۔ اس لئے ایسے دعوؤں کی کوئی حیثیت نہیں۔ الكهف
66 الكهف
67 الكهف
68 ٦٨۔ ١ یعنی جس کا پورا علم نہ ہو الكهف
69 الكهف
70 الكهف
71 ٧١۔ ١ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو چونکہ اس علم خاص کی خبر نہیں تھی جس کی بنا پر خضر نے کشتی کے تختے توڑ دیئے تھے، اس لئے صبر نہ کرسکے اور اپنے علم و فہم کے مطابق اسے نہایت ہولناک کام قرارا دیا۔ امرا کے معنی ہیں الداھیۃ العظیمۃ، بڑا ہیبت ناک کام۔ الكهف
72 الكهف
73 ٧٣۔ ١ یعنی میرے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں، سختی کا نہیں۔ الكهف
74 ٧٤۔ ١ غلام سے مراد بالغ جوان بھی ہوسکتا ہے اور نابالغ بچہ بھی۔ ٧٤۔ ٢ نکرا، فظیعامنکرا لا یعرف فی الشرع،، ایسا بڑا برا کام جس کی شریعت میں گنجائش نہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی ہیں انکر من الامر الاول پہلے کام (کشتی کے تختے توڑنے) سے زیادہ برا کام۔ اس لئے کہ قتل، ایسا کام ہے جس کا تدارک اور ازالہ ممکن نہیں۔ جبکہ کشتی کے تختے اکھیڑ دینا، ایسا کام ہے جس کا تدارک اور ازالہ کیا جا سکتا ہے، کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جو علم شریعت حاصل تھا، اس کی رو سے حضرت خضر کا یہ کام بہرحال خلاف شرع تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے اعتراض کیا اور اسے نہایت برا کام قرار دیا۔ الكهف
75 الكهف
76 ٧٦۔ ١ یعنی اب اگر سوال کروں تو اپنے ساتھ رکھنے کے شرف سے مجھے محروم کردیں، مجھے کوئی احتراز نہیں ہوگا، اس لئے کہ آپ کے پاس معقول عذر ہوگا۔ الكهف
77 ٧٧۔ ١ یعنی یہ بخیلوں کی بستی تھی کہ مہمانوں کی مہمان نوازی سے انکار کردیا، دراں حالیکہ مسافروں کو کھانا کھلانا اور مہمان نوازی کرنا ہر شریعت کی اخلاقی تعلیمات کا اہم حصہ رہا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی مہمان نوازی کو ایمان کا تقاضا قرار دیا ہے اور فرمایا ' جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت وتکریم کرے۔ ٧٧۔ ٢ حضرت خضر نے اس دیوار کو ہاتھ لگایا اور اللہ کے حکم سے معجزانہ طور پر سیدھی ہوگئی۔ جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت سے واضح ہے۔ ٧٧۔ ٣ حضرت موسیٰ علیہ السلام، جو اہل بستی کے رویے سے پہلے ہی کبیدہ خاطر تھے، حضرت خضر کے بلا معاوضہ احسان پر خاموش نہ رہ سکے اور بول پڑے کہ جب ان بستی والوں نے ہماری مسافرت، ضرورت مندی اور شرف وفضل کسی چیز کا بھی لحاظ نہیں کیا تو یہ لوگ کب اس لائق ہیں کہ ان کے ساتھ احسان کیا جائے۔ الكهف
78 ٧٨۔ ١ حضرت خضرنے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام، یہ تیسرا موقعہ ہے کہ تو صبر نہیں کرسکا اور اب خود تیرے کہنے کے مطابق میں تجھے ساتھ رکھنے سے معذور ہوں۔ ٧٨۔ ٢ لیکن جدائی سے قبل حضرت خضر نے تینوں واقعات کی حقیقت سے انھیں آگاہ اور باخبر کرنا ضروری خیال کیا تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کسی مغالطے کا شکار نہ رہیں اور وہ یہ سمجھ لیں کہ علم نبوت اور ہے، جس سے انھیں نوازا گیا ہے اور بعض اہم امور کا علم اور ہے جو اللہ کی حکمت ومشیت کے تحت، حضرت خضر کو دیا گیا ہے اور اسی کے مطابق انہوں نے ایسے کام کیے جو علم شریعت کی رو سے جائز نہیں تھے اور اسی لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بجا طور پر ان پر خاموش نہیں رہ سکے تھے۔ انہی اہم امور کی انجام دہی کی وجہ سے بعض اہل علم کی رائے ہے کہ حضرت خضر انسانوں میں سے نہیں تھے اور اسی لئے وہ ان کی نبوت ورسالت یا دلائل کے بیچ میں نہیں پڑتے کیونکہ یہ سارے مناصب تو انسانوں کے ساتھ ہی خاص ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ فرشتہ تھے، لیکن اگر اللہ تعالیٰ اپنے کسی نبی کو بعض اہم امور سے مطلع کر کے ان کے ذریعے سے کام کروا لے، تو اس میں بھی کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔ جب وہ صاحب وحی خود اس امر کی وضاحت کر دے کہ میں نے یہ کام اللہ کے حکم سے ہی کئے ہیں تو گو بظاہر وہ خلاف شریعت ہی نظر آتے ہوں، لیکن جب ان کا تعلق ہی اہم امور سے ہے تو وہاں جواز اور عدم جواز کی حیثیت غیر ضروری ہے۔ جیسے تکوینی احکامات کے تھے کوئی بیمار ہوتا ہے، کوئی مرتا ہے، کسی کا کاروبار تباہ ہوجاتا ہے، قوموں پر عذاب آتا ہے، ان میں سے بعض کام بعض دفعہ بہ اذن الٰہی فرشتے ہی کرتے ہیں، تو جس طرح یہ امور آج تک کسی کو خلاف شریعت نظر نہیں آئے۔ اسی طرح حضرت خضر کے ذریعے سے و قوع پذیر ہونے والے واقعات کا تعلق بھی چوں کہ اہم امور سے ہے اس لئے انھیں شریعت کی ترازو میں تولنا ہی غیر صحیح ہے۔ البتہ اب وحی و نبوت کا سلسلہ ختم ہوجانے کے بعد کسی شخص کا اس قسم کا دعویٰ ہرگز صحیح اور قابل تسلیم نہیں ہوگا جیسا کہ حضرت خضر سے منقول ہے کیونکہ حضرت خضر کا معاملہ تو آیت قرآنی سے ثابت ہے، اس لئے مجال انکار نہیں۔ لیکن اب جو بھی اس قسم کا دعویٰ یا عمل کرے گا، اس کا انکار لازمی اور ضروری ہے کیونکہ اب وہ یقینی ذریعہ علم موجود نہیں ہے جس سے اس کے دعوے اور عمل کی حقیقت واضح ہو سکے۔ الكهف
79 الكهف
80 الكهف
81 الكهف
82 ٨٢۔ ١ حضرت خضر کی نبوت کے قائلین کی یہ دوسری دلیل ہے جس سے وہ نبوت خضر کا اثبات کرتے ہیں۔ کیونکہ کسی بھی غیر نبی کے پاس اس قسم کی وحی نہیں آتی کہ وہ اتنے اتنے اہم کام کسی اشارہ غیبی پر کر دے، نہ کسی غیر نبی کا ایسا اشارہ غیبی قابل عمل ہی ہے۔ نبوت خضر کی طرح حیات خضر بھی ایک حلقے میں مختلف ہے اور حیات خضر کے قائل بہت سے لوگوں کی ملاقاتیں حضرت خضر سے ثابت کرتے ہیں اور پھر ان سے ان کے اب تک زندہ ہونے پر دلیل پیش کرتے ہیں لیکن جس طرح حضرت خضر کی زندگی پر کوئی آیت شرعی نہیں ہے، اسی طریقے سے لوگوں کے مکاشفات یا حالت بیداری یا نیند میں حضرت خضر سے ملنے کے دعوے بھی قابل تسلیم نہیں۔ جب ان کا حلیہ ہی معقول ذرائع سے بیان نہیں کیا گیا ہے تو ان کی شناخت کس طرح ممکن ہے؟ اور کیوں کر یقین کیا جا سکتا ہے، کہ جن بزرگوں نے ملنے کے دعوے کئے ہیں، واقعی ان کی ملاقات خضر، موسیٰ (علیہ السلام) سے ہی ہوئی ہے، خضر کے نام سے انھیں کسی نے دھوکہ اور فریب نے مبتلا نہیں کیا۔ الكهف
83 ٨٣۔ ١ یہ مشرکین کے اس تیسرے سوال کا جواب ہے جو یہودیوں کے کہنے پر انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کئے تھے، ذوالقرنین کے لفظی معنی دو سینگوں والے کے ہیں۔ یہ نام اس لئے پڑا کہ فی الواقع اس کے سر پر دو سینگ تھے یا اس لئے کہ اس نے مشرق ومغرب دنیا کے دونوں کناروں پر پہنچ کر سورج کی قرن یعنی شعاع کا مشاہدہ کیا، بعض کہتے ہیں کہ اس کے سر پر بالوں کی دو لٹیں تھیں، قرن بالوں کی لٹ کو بھی کہتے ہیں۔ یعنی دو لٹوں دو مینڈھیوں یا، دو زلفوں والا۔ قدیم مفسرین نے بالعموم اس کا مصداق سکندر رومی کو قرار دیا ہے جس کی فتوحات کا دائرہ مشرق ومغرب تک پھیلا ہوا تھا (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تفسیر ' ' ترجمان القرآن '۔ الكهف
84 ٨٤۔ ١ ہم نے اسے ایسے ساز وسامان اور وسائل مہیا کیے، جن سے کام لے کر اس نے فتوحات حاصل کیں، دشمنوں کا غرور خاک میں ملایا اور ظالم حکمرانوں کو نیست ونابود کیا۔ الكهف
85 ٨٥۔ ١ دوسرے سبب کے معنی راستے کے کئے گئے ہیں یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے وسائل سے مزید وسائل تیار اور مہیا کئے، جس طرح اللہ کے پیدا کردہ لوہے سے مختلف قسم کے ہتھیار اور اسی طرح دیگر خام مواد سے بہت سی اشیاء بنائی جاتی ہیں۔ الكهف
86 ٨٦۔ ١ عین سے مراد چشمہ یا سمندر ہے حمثۃ، کیچڑ، دلدل، وجد (پایا) یعنی دکھایا محسوس کیا مطلب یہ ہے کہ ذوالقرنین جب مغربی جہت میں ملک پر ملک فتح کرتا ہوا، اس مقام پر پہنچ گیا جہاں آخری آبادی تھی وہاں گدلے پانی کا چشمہ یا سمندر تھا جو نیچے سے سیاہ معلوم ہوتا تھا اسے ایسا محسوس ہوا کہ گویا سورج اس چشمے میں ڈوب رہا ہے۔ ساحل سمندر سے دور سے، جس کے آگے حد نظر تک کچھ نہ ہو، غروب شمس کا نظارہ کرنے والوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سورج سمندر میں یا زمین میں ڈوب رہا ہے حالانکہ وہ اپنے مقام آسمان پر ہی ہوتا ہے۔ ٨٦۔ ٢ قُلْنَا (ہم نے کہا) بذریعہ وحی، اسی سے بعض علماء نے نبوت پر ثبوت کیا ہے اور جو ان کی نبوت کے قائل نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس وقت کے پیغمبر کے ذریعے سے ہم نے اس سے کہا۔ ٨٦۔ ٣ یعنی ہم نے اس قوم پر غلبہ دے کر اختیار دے دیا کہ چاہے تو اسے قتل کرے اور قیدی بنا لے یا فدیہ لے کر بطور احسان چھوڑ دے الكهف
87 ٨٧۔ ١ یعنی جو کفر و شرک پر جما رہے گا، اسے ہم سزا دیں گے یعنی پچھلی غلطیوں پر مواخذہ نہیں ہوگا۔ الكهف
88 الكهف
89 ٨٩۔ ١ یعنی اب مغرب سے مشرق کی طرف سفر اختیار کیا۔ الكهف
90 ٩٠۔ ١ یعنی ایسی جگہ پہنچ گیا جو مشرقی جانب کی آخری آبادی تھی، اس کو مطلع الشمس کہا گیا ہے۔ جہاں اس نے ایسی قوم دیکھی جو مکانوں میں رہنے کے بجائے میدانوں اور صحراؤں میں بسیرا کیے ہوئے، لباس سے بھی آزاد تھی۔ یہ مطلب ہے کہ ان کے اور سورج کے درمیان کوئی پردہ اور اوٹ نہیں تھی۔ سورج ان کے ننگے جسموں پر طلوع ہوتا۔ الكهف
91 ٩١۔ ١ یعنی ذوالقرنین کی بابت ہم نے جو بیان کیا ہے وہ اسی طرح ہے کہ پہلے وہ انتہائی مغرب اور پھر انتہائی مشرق میں پہنچا اور ہمیں اس کی تمام صلاحیتوں، اسباب ووسائل اور دیگر تمام باتوں کا پورا علم ہے۔ الكهف
92 ٩٢۔ ٢ یعنی اب اس کا رخ کسی اور طرف ہوگیا۔ الكهف
93 ٩٣۔ ١ اس سے مراد دو پہاڑ ہیں جو ایک دوسرے کے مقابل تھے، ان کے درمیان کھائی تھی، جس سے یاجوج و ماجوج ادھر آبادی میں آ جاتے اور اودھم مچاتے اور قتل وغارت گری کا بازار گرم کرتے۔ ٩٣۔ ٢ یعنی اپنی زبان کے سوا کسی اور کی زبان نہیں سمجھتے تھے۔ الكهف
94 ٩٤۔ ١ ذو القرنین سے یہ خطاب یا تو کسی ترجمان کے ذریعے ہوا ہوگا یا اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو جو خصوصی اسباب ووسائل مہیا فرمائے تھے، انہی میں مختلف زبانوں کا علم بھی ہوسکتا ہے اور یوں یہ خطاب براہ راست بھی ہوسکتا ہے۔ ٩٤۔ ٢ یاجوج و ماجوج یہ دو قومیں ہیں اور حدیث صحیح کے مطابق نسل انسانی میں سے ہیں اور ان کی تعداد، دوسری انسانی نسلوں کے مقابلے میں زیادہ ہوگی اور انہی سے جہنم زیادہ بھرے گی (صحیح بخاری) الكهف
95 ٩٥۔ ١ قوت سے مراد یعنی تم مجھے تعمیراتی سامان اور رجال کار مہیا کرو۔ الكهف
96 ٩٦۔ ١ یعنی دونوں پہاڑوں کے سروں کے درمیان جو خلا تھا، اسے لوہے کی چھوٹی چھوٹی چادروں سے پر کردیا۔ ٩٦۔ ٢ پگھلا ہوا سیسہ، یا لوہا یا تانبا۔ یعنی لوہے کی چادروں کو خوب گرم کر کے ان پر پگھلا ہوا لوہا، تانبا یا سیسہ ڈالنے سے وہ پہاڑی درہ یا راستہ ایسا مضبوط ہوگیا کہ اسے عبور کر کے یا توڑ کر یاجوج ماجوج کا ادھر دوسری طرف انسانی آبادیوں میں آنا ناممکن ہوگیا۔ الكهف
97 الكهف
98 ٩٨۔ ١ یعنی یہ دیوار اگرچہ بڑی مضبوط بنا دی گئی جس کے اوپر چڑھ کر اس میں سوراخ کر کے یاجوج ماجوج کا ادھر آنا ممکن نہیں ہے لیکن جب میرے رب کا وعدہ آ جائے گا، تو وہ اسے ریزہ ریزہ کر کے زمین کے برابر کر دے گا، اس وعدے سے مراد قیامت کے قریب یاجوج و ماجوج کا ظہور ہے جیسا کہ احادیث میں ہے۔ مثلًا ایک حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دیوار کے تھوڑے سے سوراخ کو فتنے کے قریب ہونے سے تعبیر فرمایا (صحیح بخاری، نمبر ٣٣٤٦ و مسلم، نمبر ٢٢٠٨) ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ وہ ہر روز اس دیوار کو کھودتے ہیں اور پھر کل کے لئے چھوڑ دیتے ہیں، لیکن جب اللہ کی مشیت ان کے باہر نکلنے کی ہوگی تو پھر وہ کہیں گے کل انشا اللہ اسکو کھو دیں گے اور پھر دوسرے دن وہ اس سے نکلنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ زمین میں فساد پھیلائیں گے حتٰی کے لوگ قلعہ بند ہوجائیں گے، یہ آسمانوں پر تیر پھینکیں گے جو خون آلودہ لوٹیں گے، بالآخر اللہ تعالیٰ ان کی گدیوں پر ایسا کیڑا پیدا فرما دے گا جس سے ان کی ہلاکت واقع ہوجائے گی۔ صحیح مسلم میں نواس بن سمعان کی روایت میں وضاحت ہے کہ یاجوج و ماجوج کا ظہور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کے بعد ان کی موجودگی میں ہوگا۔ جس سے ان حضرات کی تردید ہوجاتی ہے، جو کہتے ہیں کہ تاتاریوں کا مسلمانوں پر حملہ، یا منگول ترک جن میں چنگیز بھی تھا یا روسی یا چینی قومیں یہی یاجوج و ماجوج ہیں، جن کا ظہور ہوچکا۔ یا مغربی قومیں ان کا مصداق ہیں کہ پوری دنیا میں ان کا غلبہ و تسلط ہے۔ یہ سب باتیں غلط ہیں کیونکہ ان کے غلبے سے سیاسی غلبہ مراد نہیں ہے بلکہ قتل وغارت گری اور زرو وفساد کا وہ عارضی غلبہ ہے جس کا مقابلہ کرنے کی طاقت مسلمانوں میں نہیں ہوگی، تاہم پھر وبائی مرض سے سب کے سب آن واحد میں لقمہ اجل بن جائیں گے۔ الكهف
99 الكهف
100 الكهف
101 الكهف
102 ١٠٢۔ ١ حسب، بمعنی ظن ہے اور عبادی (میرے بندوں) سے مراد ملائکہ، مسیح (علیہ السلام) اور دیگر صالحین ہیں، جن کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھا جاتا ہے، اسی طرح شیاطین و جنات ہیں جن کی عبادت کی جاتی ہے اور استفہام زجر وتوبیخ کے لیے ہے۔ یعنی غیر اللہ کے یہ پجاری کیا یہ سمجھتے ہیں کہ وہ مجھے چھوڑ کر اور میرے بندوں کی عبادت کر کے ان کی حمایت سے میرے عذاب سے بچ جائیں گے؟ یہ ناممکن ہے، ہم نے تو ان کافروں کے لئے جہنم تیار کر رکھی ہے جس میں جانے سے ان کو وہ بندے نہیں روک سکیں گے جن کی یہ عبادت کرتے اور ان کو اپنا حمایتی سمجھتے ہیں۔ الكهف
103 الكهف
104 ١٠٤۔ ١ یعنی اعمال ان کے ایسے ہیں جو اللہ کے ہاں ناپسندیدہ ہیں، لیکن بزم خویش سمجھتے یہ ہیں کہ وہ بہت اچھے کام کر رہے ہیں۔ اس سے مراد کون ہیں بعض کہتے ہیں، یہود وانصار ہیں، بعض کہتے ہیں مخالفین اور دیگر اہل بدعت ہیں، بعض کہتے ہیں کہ مشرکین ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ آیت عام ہے جس میں ہر وہ فرد اور گروہ شامل ہے جس کے اندر مذکورہ صفات ہوں گی۔ آگے ایسے ہی لوگوں کی بابت مزید سزا دینے کے وعدے بیان کیے جا رہے ہیں۔ الكهف
105 ١٠٥۔ ١ رب کی آیات سے مراد توحید کے وہ دلائل ہیں جو کائنات میں پھیلے ہوئے ہیں اور وہ آیات شرعی ہیں اور جو اس نے اپنی کتابوں میں نازل کیں اور پیغمبروں نے تبلیغ وتوضیع کی۔ اور رب کی ملاقات سے کفر کا مطلب آخرت کی زندگی اور دوبارہ جی اٹھنے سے انکار ہے۔ ١٠٥۔ ٢ یعنی ہمارے ہاں ان کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہوگی یا یہ مطلب ہے کہ ہم ان کے لئے میزان کا اہتمام ہی نہیں کریں گے کہ جس میں ان کے اعمال تولے جائیں، اس لئے کہ اعمال تو خدا کو ایک ماننے والوں کے تولے جائیں گے جن کے نامہ اعمال میں نیکیاں اور برائیاں دونوں ہونگی، جب کہ ان کے نامہ اعمال نیکیوں سے بالکل خالی ہوں گے جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ ' قیامت والے دن موٹا تازہ آدمی آئے گا، اللہ کے ہاں اس کا اتنا وزن نہیں ہوگا جتنا مچھر کے پر کا ہوتا ہے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ (صحیح بخاری۔ سورۃ کہف) الكهف
106 الكهف
107 ١٠٧۔ ١ جنت الفردوس، جنت کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے، اسی لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' جب بھی تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو الفردوس کا سوال کرو، اس لئے کہ وہ جنت کا اعلیٰ حصہ ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں ' (البخاری کتاب التوحید) الكهف
108 ١٠٨۔ ١ یعنی اہل جنت، جنت اور اس کی نعمتوں سے کبھی نہ اکتائیں گے کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور جگہ منتقل ہونے کی خواہش ظاہر کریں۔ الكهف
109 ١٠٩۔ ١ کَلِمَاَت سے مراد، اللہ تعالیٰ کا علم محیط، اس کی حکمتیں اور وہ دلائل وبرائین ہیں جو اس کی واحدنیت پر دال ہیں۔ انسانی عقلیں ان سب کا احا طہ نہیں کرسکتیں اور دنیا بھر کے درختوں کے قلم بن جائیں اور سارے سمندر بلکہ ان کی مثل اور بھی سمندر ہوں، وہ سب سیاہی میں بدل جائیں، قلم گھس جائیں گے اور سیاہی ختم ہوجائے گی، لیکن رب کے کلمات اور اس کی حکمتیں ضبط تحریر میں نہیں آ سکیں گی۔ الكهف
110 ١١٠۔ ١ اس لئے میں بھی رب کی باتوں کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ ١١٠۔ ٢ البتہ مجھے یہ امتیاز حاصل ہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے۔ اسی وحی کی بدولت میں نے اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق اللہ کی طرف سے نازل کردہ وہ باتیں بیان کی ہیں جن پر مرور ایام کی دبیز تہیں پڑی ہوئی تھیں یا ان کی حقیقت افسانوں میں گم ہوگئی تھی۔ علاوہ ازیں اس وحی میں سب سے اہم حکم یہ دیا گیا ہے کہ تم سب کا معبود صرف ایک ہے۔ ١١٠۔ ٣ عمل صالح وہ ہے جو سنت کے مطابق ہو، یعنی جو اپنے رب کی ملاقات کا یقین رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ ہر عمل سنت نبوی کے مطابق کرے اور دوسرا اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، اس لئے کہ بدعت اور شرک دونوں ہی ضبط اعمال کا سبب ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں سے ہر مسلمان کو مفوظ رکھے۔ * ہجرت حبشہ کے واقعات میں بیان کیا گیا کہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی اور اس کے مصاحبین اور امرا کے سامنے جب سورۃ مریم کا ابتدائی حصہ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ نے پڑھ کر سنایا تو ان سب کی ڈاڑھیاں آنسوؤں سے تر ہوگئیں اور نجاشی نے کہا کہ یہ قرآن اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جو لے کر آئے ہیں، یہ سب ایک ہی مشعل کی کرنیں ہیں (فتح القدیر)۔ الكهف
0 مريم
1 مريم
2 ٢۔ ١ حضرت زکر یا علیہ السلام، انبیائے بنی اسرائیل میں سے ہیں۔ یہ بڑھئی تھے اور یہی پیشہ ان کا ذریعہ آمدنی تھا (صحیح مسلم) مريم
3 ٣۔ ١ خفیہ دعا اس لئے کی کہ ایک تو یہ اللہ کو زیادہ پسند ہے کیونکہ اس میں تضرع وانابت اور خشوع وخضوع زیادہ ہوتا ہے۔ دوسرے لوگ انھیں بیوقوف نہ قرار دیں کہ یہ بڈھا اب بڑھاپے میں اولاد مانگ رہا ہے جب کہ اولاد کے تمام ظاہری امکانات ختم ہوچکے ہیں۔ مريم
4 ٤۔ ١ یعنی جس طرح لکڑی آگ سے بھڑک اٹھتی ہے اسی طرح میرا سر بالوں کی سفیدی سے بھڑک اٹھا ہے مراد ضعف وکبر (بڑھاپے) کا اظہار ہے۔ ٤۔ ٢ اور اسی لیے ظاہری اسباب کے فقدان کے باوجود تجھ سے اولاد مانگ رہا ہوں۔ مريم
5 ٥۔ ١ اس ڈر سے مراد یہ ہے کہ اگر میرا کوئی وارث میری مسند وعظ وارشاد نہیں سنبھالے گا تو میرے قرابت داروں میں اور تو کوئی اس مسند کا اہل نہیں ہے۔ میرے قرابت دار بھی تیرے راستے سے گریز وانحراف نہ اختیار کرلیں۔ ٥۔ ٢ ' اپنے پاس سے ' کا مطلب یہی ہے کہ گو ظاہری اسباب اس کے ختم ہوچکے ہیں، لیکن تو اپنے فضل خاص سے مجھے اولاد سے نواز دے۔ مريم
6 مريم
7 ٧۔ ١ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف دعا قبول فرمائی بلکہ اس کا نام بھی تجویز فرما دیا مريم
8 ٨۔ ١ عَاقِر اس عورت کو بھی کہتے ہیں جو بڑھاپے کی وجہ سے اولاد جننے کی صلاحیت سے محروم ہوچکی ہو اور اس کو بھی کہتے ہیں جو شروع سے ہی بانجھ ہو۔ یہاں یہ دوسرے معنی میں ہی ہے۔ جو لکڑی سوکھ جائے، اسے عِتِیًّا کہتے ہیں۔ مراد بڑھاپے کا آخری درجہ ہے۔ جس میں ہڈیاں اکڑ جاتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ میری بیوی تو جوانی سے ہی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کے آخری درجے پر پہنچ چکا ہوں، اب اولاد کیسے ممکن ہے؟ کہا جاتا ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کی اہلیہ کا نام اشاع بنت فاقود بن میل ہے یہ حضرت حنہ (والدہ مریم) کی بہن ہیں۔ لیکن زیادہ قول صحیح یہ لگتا ہے کہ اشاع بھی حضرت عمران کی دختر ہیں جو حضرت مریم کے والد تھے۔ یوں حضرت یٰحیٰی (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ حدیث صحیح سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (فتح القدیر) مريم
9 ٩۔ ١ فرشتوں نے حضرت زکریا کا تعجب دور کرنے کے لئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے بیٹا دینے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے مطابق یقیناً تجھے بیٹا ملے گا، اور یہ اللہ کے لئے قطعاً مشکل کام نہیں ہے کیونکہ جب وہ تجھے نیست سے ہست کرسکتا ہے تو تجھے ظاہری اسباب سے ہٹ کر بیٹا بھی دے سکتا ہے۔ مريم
10 ١٠۔ ١ راتوں سے مراد، دن اور رات ہیں اور سَوِیاًّ کا مطلب ہے بالکل ٹھیک ٹھاک، تندرست، یعنی ایسی کوئی بیماری نہیں ہوگی جو تجھے بولنے سے روک دے۔ لیکن اس کے باوجود تیری زبان سے گفتگو نہ ہو سکے تو سمجھ لینا کہ خوشخبری کے دن قریب آ گئے ہیں۔ مريم
11 ١١۔ ١ مِحْرَاب سے مراد حجرہ ہے جس میں وہ اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ یہ حَرْب سے ہے جس کے معنی لڑائی کے ہیں۔ گویا عبادت گاہ میں اللہ کی عبادت کرنا ایسے ہے گویا وہ شیطان سے لڑ رہا ہے۔ ١١۔ ٢ صبح وشام اللہ کی تسبیح سے مراد عصر اور فجر کی نماز ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ دو وقتوں میں اللہ کی تسبیح وتمحید اور پاکی کا خصوصی اہتمام کرو۔ مريم
12 ١٢۔ ١ یعنی اللہ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کو یٰحیٰی (علیہ السلام) عطا فرمایا اور جب وہ کچھ بڑا ہوا، گو ابھی بچہ ہی تھا، اس اللہ نے کتاب کو مضبوطی سے پکڑنے یعنی اس پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ کتاب سے مراد تورات ہے یا ان پر مخصوص نازل کردہ کوئی کتاب ہے جس کا ہمیں علم نہیں۔ ١٢۔ ٢ حُکْم سے مراد دانائی، عقل، شعور، کتاب میں درج احکام دین کی سمجھ، علم وعمل کی جامعیت یا نبوت سے مراد ہے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ اس امر میں کوئی مانع نہیں ہے کہ حکم میں یہ ساری ہی چیزیں داخل ہوں۔ مريم
13 ١٣۔ ١ حَنَانًا، شفقت، مہربانی، یعنی ہم نے اس کو والدین اور اقربا پر شفقت ومہربانی کرنے کا جذبہ اور اسے نفس کی آلائشوں اور گناہوں سے پاکیزگی وطہارت بھی عطا کی۔ مريم
14 ١٤۔ ١ یعنی اپنے ماں باپ کی یا اپنے رب کی نافرمانی کرنے والا نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے دل میں والدین کے لئے شفقت ومحبت کا اور ان کی اطاعت وخدمت اور حسن سلوک کا جذبہ اللہ تعالیٰ پیدا فرما دے تو یہ اس کا خاص فضل وکرم ہے اور اس کے برعکس جذبہ یا رویہ، یہ اللہ تعالیٰ کے فضل خاص سے محرومی کا نتیجہ ہے۔ مريم
15 ١٥۔ ١ تین مواقع انسان کے لئے سخت ودہشت ناک ہوتے ہیں، ١۔ جب انسان رحم مادر سے باہر آتا ہے، ٢۔ جب موت کا شکنجہ اسے اپنی گرفت میں لیتا ہے، ٣۔ اور جب اسے قبر سے زندہ کر کے اٹھایا جائے گا تو وہ اپنے کو میدان محشر کی ہولناکیوں میں گھرا ہوا پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان تینوں جگہوں میں اس کیلئے ہماری طرف سے سلامتی اور امان ہے۔ بعض اہل بدعت اس آیت سے یوم ولادت پر عید میلاد "کا جواز ثابت کرتے ہیں لیکن کوئی ان سے پوچھے تو پھر یوم وفات پر عید وفات یا عید ممات "بھی منانی ضروری ہوئی کیونکہ جس طرح یوم ولادت کے لیے سلام ہے یوم وفات کے لیے بھی سلام ہے اگر محض لفظ "سلام "سے عید میلاد "کا اثبات ممکن ہے تو پر اسی لفظ سے "عید وفات "کا بھی اثبات ہوتا ہے لیکن کہاں وفات کی عید تو کجا سرے سے وفات وممات ہی کا انکار ہے یعنی وفات نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کر کے نص قرآنی کا تو انکار کرتے ہی ہیں خود اپنے استدلال کی رو سے بھی آیت کے ایک جز کو تو مانتے ہیں اور اسی آیت کے دوسرے جز سے ان ہی کے استدلال کی روشنی میں جو ثابت ہوتا ہے اس کا انکار ہے۔ (ۭاَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ) 2۔ البقرۃ:85) کیا بعض احکام پر ایمان رکھتے ہو اور بعض کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ مريم
16 مريم
17 ١٧۔ ١ یہ علیحدگی اور حجاب (پردہ) اللہ کی عبادت کی غرض سے تھا تاکہ انھیں کوئی نہ دیکھے اور یکسوئی حاصل رہے یا طہارت حیض کے لئے۔ اور مشرقی مکان سے مراد بیت المقدس کی مشرقی جانب ہے۔ ١٧۔ ٢ رُوْح سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں، جنہیں کامل انسانی شکل میں حضرت مریم کی طرف بھیجا گیا، حضرت مریم نے جب دیکھا کہ ایک شخص بےدھڑک اندر آ گیا ہے تو ڈر گئیں کہ یہ بری نیت سے نہ آیا ہو۔ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا میں وہ نہیں ہوں جو تو گمان کر رہی ہے بلکہ تیرے رب کا قاصد ہوں اور یہ خوشخبری دینے آیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تجھے لڑکا عطا فرمائے گا، بعض قرائتوں میں لِیَھَبَ صیغہ غائب ہے۔ متکلم کا صیغہ (جو موجودہ قراءت میں ہے) اس لئے بولا کہ ظاہری اسباب کے لحاظ سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے ان کے گریبان میں پھونک ماری تھی جس سے باذن اللہ ان کو حمل ٹھہر گیا تھا۔ اس لئے ہبہ کا تناسب اپنی طرف منسوب کرلیا۔ یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کا قول ہو اور یہاں حکایتًا نقل ہوا ہو۔ اس اعتبار سے تقدیر کلام یوں ہوگی۔ (اَ رْسَلَنِیْ، یَقُولُ لَکَ اَرْسَلٰتُ رَسُوْلِیْ اِلَیْکِ الأھَبَ لَکِ) 'یعنی اللہ نے مجھے تیرے لئے یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ میں نے تیری طرف اپنا قاصد یہ بتلانے کے لئے بھیجا ہے کہ میں تجھے ایک پاکیزہ بچہ عطا کروں گا 'اس طرح حذف اور تقدیر کلام قرآن میں کئی جگہ ہے۔ مريم
18 مريم
19 مريم
20 مريم
21 ٢١۔ ١ یعنی یہ بات تو صحیح ہے کہ تجھے مرد سے مقاربت کا کوئی موقع نہیں ملا ہے، جائز طریقے سے نہ ناجائز طریقے سے۔ جب کہ حمل کے لئے عادتًا یہ ضروری ہے۔ ٢١۔ ٢ یعنی میں اسباب کا محتاج نہیں ہوں، میرے لئے یہ بالکل آسان ہے اور ہم اسے اپنی قدرت تخلیق کے لئے نشانی بنانا چاہتے ہیں۔ اس سے قبل ہم نے تمہارے باپ آدم کو مرد اور عورت کے بغیر، اور تمہاری ماں حوا کو صرف مرد سے پیدا کیا اور اب عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا کر کے چوتھی شکل میں بھی پیدا کرنے پر اپنی قدرت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور وہ ہے صرف عورت کے بطن سے، بغیر مرد کے پیدا کردینا۔ ہم تخلیق کی چاروں صورتوں پر قادر ہیں۔ ٢١۔ ٣ اس سے مراد نبوت ہے جو اللہ کی رحمت خاص ہے اور ان کے لئے بھی جو اس نبوت پر ایمان لائیں گے۔ ٢١۔ ٤ یہ اسی کلام کا ضمیمہ ہے جو جبرائیل (علیہ السلام) نے اللہ کی طرف سے نقل کیا ہے۔ یعنی یہ اعجازی تخلیق۔ تو اللہ کے علم اور اس کی قدرت ومشیت میں مقدر ہے۔ مريم
22 مريم
23 ٢٣۔ ١ موت کی آرزو اس ڈر سے کی کہ میں بچے کے مسئلے پر لوگوں کو کس طرح مطمئن کرسکوں گی، جب کہ میری بات کی کوئی تصدیق کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوگا۔ اور یہ تصور بھی روح فرسا تھا کہ کہاں شہرت ایک عابدہ وزاہدہ کے طور پر ہے اور اس کے بعد لوگوں کی نظروں میں بدکار ٹھہروں گی۔ مريم
24 مريم
25 ٢٥۔ ١ سَرِبّاَ چھوٹی نہر یا پانی کا چشمہ۔ یعنی بطور کرامت اور خلاف قانون قدرت، اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کے پاؤں تلے پینے کے لئے پانی کا اور کھانے کے لئے ایک سوکھے ہوئے درخت میں پکی ہوئے تازہ کھجوروں کا انتطام کردیا۔ آواز دینے والے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) تھے، جنہوں نے وادی کے نیچے سے آواز دی اور کہا جاتا ہے کہ سَرِیّ بمعنی سردار ہے اور اس سے مراد عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور انہی نے حضرت مریم کو نیچے سے آواز دی تھی۔ مريم
26 ٢٦۔ ١ یعنی کھجوریں کھا، چشمے کا پانی پی اور بچے کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کر۔ ٢٦۔ ٢ یہ کہنا بھی اشارے سے تھا، زبان سے نہیں، علاوہ ازیں ان کے ہاں روزے کا مطلب ہی کھانے اور بولنے سے پرہیز ہے۔ مريم
27 مريم
28 ٢٨۔ ١ ہارون سے مراد ممکن ہے ان کا کوئی عینی یا علاتی بھائی ہو، یہ بھی ممکن ہے ہارون سے مراد ہارون رسول (برادر موسیٰ علیہ السلام) ہی ہوں اور عربوں کی طرح ان کی نسبت اخوت ہارون کی طرف کردی، جیسے کہا جاتا ہے، تقویٰ وپاکیزگی اور عبادت میں حضرت ہارون (علیہ السلام) کی طرح انھیں سمجھتے ہوئے، انھیں کی مثل اور مشابہت میں اخت ہارون کہا ہو، اس کی مثالیں قرآن کریم میں بھی موجود ہیں (ابن کثیر) مريم
29 مريم
30 ٣٠۔ ١ یعنی قضا وقدر ہی میں اللہ نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ مجھے کتاب اور نبوت سے نوازے گا مريم
31 ٣١۔ ١ اللہ کے دین میں ثابت قدم، یا ہر چیز میں زیادتی، برتری اور کامیابی میرا مقدر ہے یا لوگوں کے لئے نافع، نیکی کے کام کرنے کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا۔ (فتح القدیر) مريم
32 ٣٢۔ ١ صرف والدہ کے ساتھ حسن سلوک کے ذکر سے بھی واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت بغیر باپ کے ایک اعجازی شان کی حامل ہے، ورنہ حضرت عیسیٰ علیہ لسلام بھی، حضرت یحیٰی (علیہ السلام) کی طرح (ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا) کہتے، یہ نہ کہتے کہ میں ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں۔ ٣٢۔ ٢ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو ماں باپ کا خدمت گزار اور اطاعت شعار نہیں ہوتا، اس کی فطرت میں سرکشی اور قسمت میں بد بختی لکھی ہے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ساری گفتگو ماضی کے صیغوں میں کی ہے حالاں کہ ان تمام باتوں کا تعلق مستقبل سے تھا، کیونکہ ابھی تو وہ شیر خوار بچے ہی تھے۔ یہ اس لئے کہ یہ اللہ کی تقدیر کے اٹل فیصلے تھے کہ گو ابھی یہ معرض ظہور میں نہیں آئے تھے لیکن ان کا وقوع اس طرح یقینی تھا جس طرح کے گزرے ہوئے واقعات شک وشبہ سے بالا ہوتے ہیں۔ مريم
33 مريم
34 ٣٤۔ ١ یعنی یہ ہیں وہ صفات، جن سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) صفت کئے گئے تھے نہ کہ ان صفات کے حامل، جو نصاریٰ نے حد سے گزر کر ان کے بارے میں باور کرائیں اور نہ ایسے، جو یہودیوں نے کمی کی اور نقص نکالنے سے کام لیتے ہوئے ان کی بابت کہا۔ اور یہی حق بات ہے۔ جس میں لوگ خواہ مخواہ شک کرتے ہیں۔ مريم
35 ٣٥۔ ١ جس اللہ کی یہ شان اور قدرت ہو اسے بھلا اولاد کی کیا ضرورت ہے؟ اور اسی طرح اس کے لئے بغیر باپ کے پیدا کردینا کون سا مشکل امر ہے۔ گویا جو اللہ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں یا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی اعجازی ولادت سے انکار کرتے ہیں، وہ دراصل اللہ کی قدرت وطاقت کے منکر ہیں۔ مريم
36 مريم
37 ٣٧۔ ١ یہاں الاحزاب سے مراد کتاب کے فرقے اور خود عیسائیوں کے فرقے ہیں۔ جنہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں باہم اختلاف کیا۔ یہود نے کہا کہ وہ جادوگر اور یوسف نجار کے بیٹے ہیں نصا ریٰ کے ایک فرقے نے کہا کہ وہ ابن اللہ ہیں۔ (کیتھولک) فرقے نے کہا وہ ثالثُ ثَلَاثلَۃِ (تین خداؤں میں سے تیسرے) ہیں اور تیسرے فرقے یعقوبیہ (آرتھوڈکس) نے کہا، وہ اللہ ہیں۔ پس یہودیوں نے تفریط اور تقصیر کی عیسائیوں نے افراط وغلو (الیسرا لتفاسیر، فتح القدیر) ٣٧۔ ٢ ان کافروں کے لئے جنہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اس طرح اختلاف اور افراط کا ارتکاب کیا، قیامت والے دن جب وہاں حاضر ہوں گے، ہلاکت ہے۔ مريم
38 ٣٨۔ ١ یہ تعجب کے صیغے ہیں یعنی دنیا میں تو یہ حق کے دیکھنے اور سننے سے اندھے اور بہرے رہے لیکن آخرت میں یہ کیا خوب دیکھنے اور سننے والے ہونگے؟ لیکن وہاں یہ دیکھنا سننا کس کام کا ؟ مريم
39 ٣٩۔ ١ روز قیامت کو یوم حسرت کہا، اس لئے کہ اس روز سب ہی حسرت کریں گے۔ بدکار حسرت کریں گے کہ کاش انہوں نے برائیاں نہ کی ہوتیں اور نیکوکار اس بات پر حسرت کریں گے کہ انہوں نے اور زیادہ نیکیاں کیوں نہیں کمائیں؟ ٣٩۔ ٢ یعنی حساب کتاب کر کے صحیفے لپیٹ دیئے جائیں گے اور جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اس کے بعد موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا اور جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا کردیا جائے گا، جنتیوں اور دوزخیوں دونوں سے پوچھا جائے گا، اسے پہچانتے ہو، یہ کیا ہے؟ وہ کہیں گے، ہاں یہ موت ہے پھر ان کے سامنے اسے ذبح کردیا جائے گا اور اعلان کردیا جائے گا کہ اہل جنت! تمہارے لئے جنت کی زندگی ہمیشہ کے لئے ہے، اب موت نہیں آئے گی۔ دوزخیوں سے کہا جائے گا۔ اے دوزخیو! تمہارے لئے دوزخ کا عذاب دائمی ہے۔ اب موت نہیں آئے گی (صحیح بخاری) مريم
40 مريم
41 ٤١۔ ١ صدیق صدق (سچائی سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ بہت راست باز، یعنی جس کے قول وعمل میں مطابقت اور راست بازی اس کا شعار ہو۔ صدیقیت کا یہ مقام، نبوت کے بعد سب سے اعلٰی ہے ہر نبی اور رسول بھی اپنے وقت کا سب سے بڑا راست باز اور صداقت شعار ہوتا ہے، اس لئے وہ صدیق بھی ہوتا ہے۔ تاہم ہر صدیق، نبی نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں حضرت مریم کو صدیقہ کہا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تقویٰ وطہارت اور راست بازی میں بہت اونچے مقام پر فائز تھیں تاہم نبیہ نہیں تھیں۔ امت محمدیہ میں بھی صدیقین ہیں۔ اور ان میں سر فہرست حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ ہیں جو انبیاء کے بعد امت میں خیر البشر تسلیم کئے گئے ہیں۔ رَ ضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ۔ مريم
42 مريم
43 ٤٣۔ ١ جس سے مجھے اللہ کی معرفت اور اس کا یقین حاصل ہوا، بعث بعد الموت اور غیر اللہ کے پجاریوں کے لئے دائمی عذاب کا علم ہوا۔ ٤٣۔ ٢ جو آپ کی سعادت کو ابدی اور نجات سے ہمکنار کر دے گی۔ مريم
44 ٤٤۔ ١ یعنی شیطان کے وسوسے اور اس کے بہکاوے سے آپ جو ایسے بتوں کی پرستش کرتے ہیں جو سننے اور دیکھنے کی طاقت رکھتے ہیں نہ نفع نقصان پہنچانے کی قدرت، تو یہ دراصل شیطان ہی کی پرستش ہے۔ جو اللہ کا نافرمان ہے اور دوسروں کو بھی اللہ کا نافرمان بنا کر ان کو اپنے جیسا بنانے پر تلا رہتا ہے۔ مريم
45 ٤٥۔ ١ اگر آپ اپنے شرک وکفر پر باقی رہے اور اسی حال میں آپ کو موت آ گئی، تو عذاب الٰہی سے آپ کو کوئی نہیں بچا سکے گا۔ یا دنیا میں ہی آپ عذاب کا شکار نہ ہوجائیں اور شیطان کے ساتھی بن کر ہمیشہ کے لئے راندہ بارگاہ الٰہی ہوجائیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے ادب واحترام کے تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہوئے، نہایت شفقت اور پیار کے لہجے میں باپ کو توحید کا وعظ سنایا، لیکن توحید کا سبق کتنے ہی شریں اور نرم لہجے میں بیان کیا جائے، مشرک کے لئے ناقابل برداشت ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ مشرک باپ نے اس نرمی اور پیار کے جواب میں نہایت درشتی اور تلخی کے ساتھ موحد بیٹے کو کہا اگر تو میرے معبودوں سے روگردانی کرنے سے باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا۔ مريم
46 ٤٦۔ ١ دراز مدت، ایک عرصہ۔ دوسرے معنی اس کے صحیح وسالم کے کئے گئے ہیں۔ یعنی مجھے میرے حال پر چھوڑ دے، کہیں مجھ سے اپنے ہاتھ پیر نہ تڑوا لینا۔ مريم
47 ٤٧۔ ١ یہ سلام دعایہ نہیں ہے جو ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو کرتا ہے بلکہ ترک مخاطب کا اظہار ہے جیسے ( وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا) 25۔ الفرقان :63) 'جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے ' اس میں اہل ایمان اور بندگان الٰہی کا طریقہ بتلایا گیا ہے۔ ٤٧۔ ٢ یہ اس وقت کہا جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مشرک کے لئے مغفرت کی دعا کرنے کی ممانعت کا علم نہیں تھا، جب یہ علم ہوا تو آپ نے دعا کا سلسلہ موقوف کردیا (وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاہُ ۚ فَلَمَّا تَـبَیَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ ۭ اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ) 9۔ التوبہ :114) مريم
48 مريم
49 ٤٩۔ ١ حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے بیٹے یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر بھی بیٹے کے ساتھ اور بیٹے ہی کی طرح کیا۔ مطلب یہ ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) توحید الٰہی کی خاطر باپ کو، گھر کو اور اپنے پیارے وطن کو چھوڑ کر بیت المقدس کی طرف ہجرت کر گئے، تو ہم نے انھیں اسحاق ویعقوب علیہما السلام سے نوازا تاکہ ان کی انس ومحبت، باپ کی جدائی کا صدمہ بھلا دے۔ مريم
50 ٥٠۔ ١ یعنی نبوت کے علاوہ بھی اور بہت سی رحمتیں ہم نے انھیں عطا کیں، مثلا مال مزید اولاد اور پھر اسی سلسلہ نسب میں عرصہ دراز تک نبوت کے سلسلے کو جاری رکھنا یہ سب سے بڑی رحمت تھی جو ان پر ہوئی اسی لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ابو الانبیا کہلاتے ہیں۔ ٥٠۔ ٢ لسان صدق سے مراد ثنائے حسن اور ذکر جمیل ہے لسان کی اضافت صدق کی طرف کی اور پھر اس کا وصف علو بیان کیا جس سے اس طرف اشارہ کردیا کہ بندوں کی زبانوں پر جو ان کا ذکر جمیل رہتا ہے، تو وہ واقعی اس کے مستحق ہیں۔ چنانچہ دیکھ لیجئے کہ تمام دیگر مذاہب کو ماننے والے بلکہ مشرکین بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کا تذکرہ بڑے اچھے الفاظ میں اور نہایت ادب واحترام سے کرتے ہیں۔ یہ نبوت واولاد کے بعد ایک اور انعام ہے جو ہجرت فی سبیل اللہ کی وجہ سے انھیں حاصل ہوا۔ مريم
51 ٥١۔ ١ مخلص، مصطفیٰ، مجتبیٰ اور مختار، چاروں الفاظ کا مفہوم ایک ہے یعنی رسالت وپیامبری کے لیے چنا ہوا پسندیدہ شخص رسول بمعنی مرسل ہے (بھیجا ہوا) اور نبی کے معنی اللہ کا پیغام لوگوں کو سنانے والا یا وحی الہٰی کی خبر دینے والا تاہم مفہوم دونوں کا ایک ہے کہ اللہ جس بندے کو لوگوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے چن لیتا ہے اور اسے اپنی وحی سے نوازتا ہے، اسے رسول اور نبی کہا جاتا ہے۔ زمانہ قدیم سے اہل علم میں ایک بحث یہ چلی آ رہی ہے کہ آیا کہ ان دونوں میں فرق ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو وہ کیا ہے؟ فرق کرنے والے بالعموم کہتے ہیں کہ صاحب شریعت یا صاحب کتاب کو رسول اور نبی کہا جاتا ہے اور جو پیغمبر اپنی سابقہ پیغمبر کی کتاب یا شریعت کے مطابق ہی لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچاتا رہا، وہ صرف نبی ہے، رسول نہیں۔ تاہم قرآن کریم میں ان کا اطلاق ایک دوسرے پر بھی ہوا ہے اور بعض جگہ مقابلہ کرنے والے بھی آئے ہیں، مثلاً سورۃ الحج آیت ٥٢ میں۔ ْْ مريم
52 مريم
53 مريم
54 مريم
55 مريم
56 مريم
57 ٥٧۔ ١ حضرت ادریس علیہ السلام، کہتے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد پہلے نبی تھے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے یا ان کے والد کے دادا تھے، انہوں نے ہی سب سے پہلے کپڑے سیئے، بلندی مکان سے مراد؟ بعض مفسرین نے اس کا مفہوم رُفِعَ اِلَی السَّمَآء سمجھا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح انھیں بھی آسمان پر اٹھا لیا گیا لیکن قرآن کے الفاظ اس مفہوم کے لئے صاف نہیں ہیں اور کسی صحیح حدیث میں بھی یہ بیان نہیں ہوا۔ البتہ اسرائیلی روایات میں ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کا ذکر ملتا ہے جو اس مفہوم کے اثبات کے لئے کافی نہیں۔ اس لئے زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد مرتبے کی وہ بلندی ہے جو نبوت سے سرفراز کر کے انھیں عطا کی گئی۔ واللہ اعلم مريم
58 ٥٨۔ ١ گویا اللہ کی آیات کو سن کر وجد کی کیفیت کا طاری ہوجانا اور عظمت الٰہی کے آگے سجدہ ریز ہوجانا، بندگان الٰہی کی خاص علامت ہے۔ سجدہ تلاوت کی مسنوں دعا یہ ہے (وَ سَجَدَ وَ جْھِیَ لِلَّذِیْ خَلَہُ، وَصَوَّرَہُ، وَ شَقَّ سَمْعَہُ وَ بَصَرَہَ بِحَوْلِہِ وَ قُوَّتِہِ) (ابو داؤد، ترمذی، نسائی۔ بحالہ مشکوۃ، باب سجود القرآن) بعض روایات میں اضافہ ہے۔ مريم
59 ٥٩۔ ١ انعام یافتہ بندگان الٰہی کا تذکرہ کرنے کے بعد ان لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے، جو ان کے برعکس اللہ کے احکام سے غفلت واعراض کرنے والے ہیں۔ نماز ضائع کرنے سے مراد یا تو بالکل نماز کا ترک ہے جو کفر ہے یا ان کے اوقات کو ضائع کرنا ہے یعنی وقت پر نماز نہ پڑھنا، جب جی چاہا، نماز پڑھ لی، یا بلا عذر اکٹھی کر کے پڑھنا کبھی دو، کبھی چار، کبھی ایک اور کبھی پانچوں نمازیں۔ یہ بھی تمام صورتیں نماز ضائع کرنے کی ہیں جس کا مرتکب سخت گناہ گار اور آیت میں بیان کردہ وعید کا سزاوار ہوسکتا ہے۔ غیا کے معنی ہلاکت، انجام بد کے ہیں یا جہنم کی ایک وادی کا نام ہے۔ مريم
60 ٦٠۔ ١ یعنی جو توبہ کر کے ترک صلٰوۃ اور جنسی خواہش کی پیروی سے باز آ جائیں اور ایمان وعمل صالح کے تقاضوں کا اہتمام کرلیں تو ایسے لوگ مذکورہ انجام بد سے محفوظ اور جنت کے مستحق ہوں گے۔ مريم
61 ٦١۔ ١ یعنی یہ ان کے ایمان ویقین کی پختگی ہے کہ انہوں نے جنت کو دیکھا بھی نہیں، صرف اللہ کے غائبانہ وعدے پر ہی اس کے حصول کے لئے ایمان وتقویٰ کا راستہ اختیار کیا۔ مريم
62 ٦٢۔ ١ یعنی فرشتے بھی انھیں ہر طرف سے سلام کریں گے اور اہل جنت بھی آپس میں ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کیا کریں گے۔ ٦٢۔ ٢ امام احمد نے اس کی تفسیر میں کہا کہ جنت میں رات اور دن نہیں ہونگے، صرف اجالا ہی اجالا اور روشی ہی روشنی ہوگی۔ حدیث میں ہے۔ جنت میں داخل ہونے والے پہلے گروہ کی شکلیں چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوں گی، وہاں انھیں تھوک آئے گا نہ رینٹ اور بول وبزاز۔ ان کے برتن اور کنگھیاں سونے کی ہونگی، ان کا بخور، خوشبودار (لکڑی) ہوگی۔ ان کا پسینہ کستوری (کی طرح) ہوگا۔ ہر جنتی کی دو بیویاں ہوں گی، ان کی پنڈلیوں کا گودا ان کے گوشت کے پیچھے نظر آئے گا، ان کے حسن جمال کی وجہ سے۔ ان میں باہم بغض اور اختلاف نہیں ہوگا، ان کے دل، ایک دل کی طرح ہوں گے، صبح شام اللہ کی تسبیح کریں گے (صحیح بخاری) مريم
63 مريم
64 ٦٤۔ ١ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ جبرائیل (علیہ السلام) سے زیادہ اور جلدی جلدی ملاقات کی خواہش ظاہر فرمائی جس پر یہ آیت اتری (صحیح بخاری)، تفسیر سورۃ مریم) مريم
65 ٦٥۔ ١ یعنی نہیں ہے، جب اس کی مثل کوئی اور نہیں تو پھر عبادت بھی کسی اور کی جائز نہیں مريم
66 ٦٦۔ ١ انسان سے مراد یہاں کافر باحیثیت جنس کے ہے، جو قیامت کے وقوع اور بعث بعد الموت کے قائل نہیں۔ ٦٦۔ ٢ استفہام، انکار کے لئے ہے۔ یعنی جب میں بوسیدہ اور مٹی میں رل مل جاؤں گا، تو مجھے دوبارہ کس طرح نیا وجود عطا کردیا جائے گا ؟ یعنی ایسا ممکن نہیں۔ مريم
67 ٦٧۔ ١ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ جب پہلی مرتبہ بغیر نمونے کے ہم نے انسان پیدا کردیا، تو دوبارہ پیدا کرنا ہمارے لئے کیوں کر مشکل ہوگا ؟ پہلی مرتبہ پیدا کرنا مشکل ہے یا دوبارہ اسے پیدا کرنا ؟ انسان کتنا نادان اور خود فراموش ہے اسی خود فراموشی نے اسے خدا فراموش بنا دیا ہے۔ مريم
68 ٦٨۔ ١ جثیی، جاث کی جمع ہے جثا یجثو سے۔ جَاثٍ گھٹنوں کے بل گرنے والے کو کہتے ہیں۔ یہ حال ہے یعنی ہم دوبارہ انھیں کو نہیں بلکہ ان شیاطین کو بھی زندہ کردیں گے جنہوں نے ان کو گمراہ کیا تھا یا جن کی وہ عبادت کرتے تھے پھر ان سب کو اس حال میں جہنم کے گرد جمع کردیں گے کہ یہ محشر کی ہولناکیوں اور حساب کے خوف سے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہونگے، میرے لئے پہلی مرتبہ پیدا کرنا دوسری مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے (یعنی مشکل اگر ہے تو پہلی مرتبہ پیدا کرنا نہ کہ دوسری مرتبہ) اور اس کا مجھے ایذا پہنچانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے میری اولاد ہے، حالانکہ میں ایک ہوں، بے نیاز ہوں نہ میں نے کسی کو جنا اور نہ خود جنا گیا ہوں میرا کوئی ہمسر نہیں ہے (صحیح بخاری۔ تفسیر سورۃ اخلاص) مريم
69 ٦٩۔ ١ مطلب یہ ہے کہ ہر گمراہ فرقے کے بڑے بڑے سرکشوں اور لیڈروں کو ہم الگ کرلیں گے اور ان کو اکٹھا کر کے جہنم میں پھینک دیں گے۔ کیونکہ یہ قائدین دوسرے جہنمیوں کے مقابلے میں سزا وعقوبت کے زیادہ سزا وار ہیں، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔ مريم
70 ٧٠۔ ١ یعنی جہنم میں داخل ہونے اور اس میں جلنے کے کون زیادہ مستحق ہیں، ہم ان کو خوب جانتے ہیں مريم
71 مريم
72 ٧٢۔ ١ اس کی تفسیر صحیح حدیث میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ جہنم کے اوپر پل بنایا جائے گا جس میں ہر مومن و کافر کو گزرنا ہوگا۔ مومن تو اپنے اعمال کے مطابق جلد یا بدیر گزر جائیں گے، کچھ تو پلک جھپکنے میں، کچھ بجلی اور کچھ ہوا کی طرح، کچھ پرندوں کی طرح اور کچھ عمدہ گھوڑوں اور دیگر سواریوں کی طرح گزر جائیں گے یوں کچھ بالکل صحیح سالم، کچھ زخمی تاہم پل عبور کرلیں گے کچھ جہنم میں گر پڑیں گے جنہیں بعد میں شفاعت کے ذریعے سے نکال لیا جائے گا۔ لیکن کافر اس پل کو عبور کرنے میں کامیاب نہیں ہونگے اور سب جہنم میں گر پڑیں گے۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ ' جس کے تین بچے بلوغت سے پہلے وفات پا گئے ہوں، اسے آگ نہیں چھوئے گی مگر صرف قسم حلال کرنے کے لئے (البخاری) یہ قسم وہی ہے جسے اس آیت میں حَتْمًا مَّقْضِیًّا (قطعی طے شدہ امر) یعنی اس کا در جہنم میں صرف پل پر گزرنے کی حد تک ہی ہوگا۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ابن کثیر وایسر التفاسیر) مريم
73 ٧٣۔ ١ یعنی قرآنی دعوت کا مقابلہ یہ کفار مکہ فقرا مسلمین اور اغنیائے قریش اور ان کی مجلسوں اور مکانوں کے باہمی موازنے سے کرتے ہیں، کہ مسلمانوں میں عمار، بلال، صہیب (رض) جیسے فقیر لوگ ہیں، انکا دار الشوریٰ دار ارقم ہے۔ جب کہ کافروں میں ابو جہل، نفر بن حارث، عتبہ، شیبہ وغیرہ جیسے رئیس اور ان کی عالی شان کوٹھیاں اور مکانات ہیں، ان کی اجتماع گاہ بہت عمدہ ہے۔ مريم
74 ٧٤۔ ١ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، دنیا کی یہ چیزیں ایسی نہیں ہیں کہ ان پر فخر اور ناز کیا جائے، یا ان کو دیکھ کر حق وباطل کا فیصلہ کیا جائے۔ یہ چیزیں تو تم سے پہلی امتوں کے پاس تھیں، لیکن تکذیب حق کی پاداش میں انھیں ہلاک کردیا گیا، دنیا کا یہ مال واسباب انھیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکا۔ مريم
75 ٧٥۔ ١ علاوہ ازیں یہ چیزیں گمراہوں اور کافروں کو مہلت کے طور پر بھی ملتی ہیں، اس لئے یہ کوئی معیار نہیں۔ اصل اچھے برے کا پتہ تو اس وقت چلے گا، جب مہلت عمل ختم ہوجائے گی اور اللہ کا عذاب انھیں آ گھیرے گا یا قیامت برپا ہوجائے گی۔ لیکن اس وقت کا علم، کوئی فائدہ نہیں دے گا، کیونکہ وہاں ازالے اور تدارک کی کوئی صورت نہیں ہوگی۔ مريم
76 ٧٦۔ ١ اس میں ایک دوسرے اصول کا ذکر ہے جس طرح قرآن سے، جن کے دلوں میں کفر اور شرک وضلالت کا روگ ہے۔ ان کی بدبختی و ضلالت میں اور اضافہ ہوجاتا ہے، اسی طرح اہل ایمان کے دل ایمان وہدایت میں اور پختہ ہوجاتے ہیں۔ ٧٦۔ ٢ اس میں فقرا مسلمین کو تسلی ہے کہ کفار ومشرکین جن مال واسباب پر فخر کرتے ہیں، وہ سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے اور تم جو نیک اعمال کرتے ہو، یہ ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں۔ جن کا اجر وثواب تمہیں اپنے رب کے ہاں ملے گا۔ اور ان کا بہترین صلہ اور نفع تمہاری طرف لوٹے گا۔ مريم
77 مريم
78 مريم
79 مريم
80 ٨٠۔ ١ ان آیات کی شان نزول میں بتلایا گیا ہے۔ کہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ کے والد عاص بن وائل، جو اسلام کے شدید دشمنوں میں سے تھا۔ اس کے ذمے حضرت خباب بن ارت کا قرضہ تھا جو آہن گری کا کام کرتے تھے۔ حضرت خباب رضی اللہ نے اس سے اپنی رقم کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا جب تک تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر نہیں کرے گا میں تجھے تیری رقم نہیں دونگا۔ انہوں نے کہا یہ کام تو، تو مر کر دوبارہ زندہ ہوجائے تب بھی نہیں کرونگا۔ اس نے کہا اچھا پھر ایسے ہی سہی، جب مجھے مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جائے گا اور وہاں بھی مجھے مال واولاد سے نوازا جائے گا تو میں وہاں رقم ادا کر دونگا (صحیح بخاری) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جو دعویٰ کر رہا ہے کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے کہ وہاں بھی اس کے پاس مال اور اولاد ہوگی؟ یا اللہ سے اس کا کوئی عہد ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے یہ صرف اللہ تعالیٰ اور آیات الہٰی کا استہزا وتمسخر ہے یہ جس مال واولاد کی بات کر رہا ہے اس کے وارث تو ہم ہیں یعنی مرنے کے ساتھ ہی ان سے اس کا تعلق ختم ہوجائے گا اور ہماری بارگاہ میں یہ اکیلا آئے گا نہ مال ساتھ ہوگا نہ اولاد اور نہ کوئی جتھہ۔ البتہ عذاب ہوگا جو اس کے لیے اور ان جیسے دیگر لوگوں کے لیے ہم بڑھاتے رہیں گے۔ مريم
81 مريم
82 ٨٢۔ ١ عِزًّا کا مطلب ہے یہ معبود ان کے لئے عزت کا باعث اور مددگار ہوں گے اور ضِدًّا کے معنی ہیں، دشمن، جھٹلانے والے اور ان کے خلاف دوسروں کے مددگار۔ یعنی یہ معبود ان کے گمان کے برعکس ان کے حمایتی ہونے کی بجائے، ان کے دشمن، ان کو جھٹلانے والے اور ان کے خلاف ہونگے۔ مريم
83 ٨٣۔ ١ یعنی گمراہ کرتے، بہکاتے اور گناہ کی طرف کھینچ کرلے جاتے ہیں مريم
84 ٨٤۔ ١ اور جب وہ مہلت ختم ہوجائے گی تو عذاب الٰہی ان کیلئے ہمیشگی کے لئے بن جائیگا۔ آپ کو جلدی کرنے کی ضرورت نہیں ہے مريم
85 مريم
86 ٨٦۔ ١ وفد وافد کی جمع ہے جیسے رکب راکب کی جمع ہے۔ مطلب یہ کہ انھیں اونٹوں، گھوڑوں پر سوار کرا کے نہایت عزت واحترام سے جنت کی طرف لے جایا جائے گا۔ وزدا کے معنی پیاسے۔ اس کے برعکس مجرمین کو بھوکا پیاسا جہنم میں ہانک دیا جائے گا۔ مريم
87 ٨٧۔ ١ قول و قرار (عہد) کا مطلب ایمان و تقوٰی ہے۔ یعنی اہل ایمان و تقوٰی میں سے جن کو اللہ شفاعت کرنے کی اجازت دے گا، وہی شفاعت کریں گے، ان کے سوا کسی کو شفاعت کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔ مريم
88 مريم
89 مريم
90 مريم
91 ٩١۔ ١ ادا کے معنی بہت بھیانک معاملہ اور داھیۃ (بھاری چیز اور مصبیت) کے ہیں۔ یہ مضمون پہلے بھی گزر چکا ہے کہ اللہ کی اولاد قرار دینا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس سے آسمان و زمین پھٹ سکتے ہیں اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو سکتے ہیں۔ مريم
92 مريم
93 ٩٣۔ ١ جب سب اللہ کے غلام اور اس کے عاجز بندے ہیں تو پھر اسے اولاد کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اور یہ اس کے لائق بھی نہیں ہے مريم
94 ٩٤۔ ١ یعنی آدم سے لے کر صبح قیامت تک جتنے بھی انسان، جن ہیں، سب کو اس نے گن رکھا ہے، سب اس کے قابو اور گرفت میں ہیں، کوئی اس سے چھپا ہے اور نہ چھپا رہ سکتا ہے۔ مريم
95 ٩٥۔ ١ یعنی کوئی کسی کا مددگار نہیں ہوگا، نہ مال ہی وہاں کچھ کام آئے گا (یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ) 26۔ الشعراء :88) اس دن نہ مال نفع دے گا، نہ بیٹے، ہر شخص کو تنہا اپنا اپنا حساب دینا پڑے گا اور جن کی بابت انسان دنیا میں یہ سمجھتا ہے کہ یہ میرے وہاں حمائتی اور مددگار ہوں گے، وہاں سب غائب ہوجائیں گے۔ کوئی کسی کی مدد کے لئے حاضر نہیں ہوگا۔ مريم
96 ٩٦۔ ١ یعنی دنیا میں لوگوں کے دلوں میں اس کی نیکی اور پارسائی کی وجہ سے محبت پیدا کر دے گا، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے ' جب اللہ تعالیٰ کسی (نیک) بندے کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے تو اللہ جبرائیل (علیہ السلام) کو کہتا ہے، میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔ پس جبرائیل (علیہ السلام) بھی اس سے محبت کرنی شروع کردیتے ہیں پھر جبرائیل (علیہ السلام) آسمان میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں آدمی سے محبت کرتا ہے، پس تمام آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر زمین میں اس کے لئے قبولیت اور پذیرائی رکھ دی جاتی ہے ' (صحیح بخاری)۔ مريم
97 ٩٧۔ ١ قرآن کو آسان کرنے کا مطلب اس زبان میں اتارنا ہے جس کو پیغمبر جانتا تھا یعنی عربی زبان میں، پھر اس کے مضمون کا کھلا ہونا، واضح اور صاف ہونا۔ ٩٧۔ ٢ لُدَّا (أَلَدُّ کی جمع) کے معنی جھگڑا لو کے ہیں مراد کفار ومشرکین ہیں۔ مريم
98 ٩٨۔ ١ احساس کے معنی ہیں، حس کے ذریعے سے معلومات حاصل کرنا۔ یعنی کیا تو ان کو آنکھوں سے دیکھ سکتا یا ہاتھوں سے چھو سکتا ہے؟ استفہام انکاری ہے۔ یعنی ان کا وجود ہی دنیا میں نہیں ہے کہ تو انھیں دیکھ یا چھو سکے یا دیکھ سکے یا اس کی ہلکی سی آواز ہی تجھے کہیں سے سنائی دے سکے۔ * حضرت عمر (رض) کے قبول اسلام کے متعدداسباب بیان کئے گئے ہیں۔ بیض تاریخ وسیر کی روایتات میں اپنی بہن اور بہنوئی کے گھر میں سورۃ طہ کا سننا اور اس سے مثاثر ہونا بھی مذکورہے۔ (فتح القدیر) مريم
0 طه
1 طه
2 ٢۔ ١ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے قرآن اس لئے نہیں اتارا کہ تو ان کے کفر پر کثرت افسوس اور ان کے عدم ایمان پر حسرت سے اپنے آپ کو مشقت میں ڈال لے اور غم میں پڑجائے جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے۔ (فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا) 18۔ الکہف :6) پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے بلکہ ہم نے تو قرآن کو نصیحت اور یاد دہانی کے لیے اتارا ہے تاکہ ہر انسان کے تحت الشعور میں ہماری توحید کا جو جذبہ چھپا ہوا ہے۔ واضح اور نمایاں ہوجائے گویا یہاں شقآء عنآء اور تعب کے معنی میں ہے یعنی تکلیف اور تھکاوٹ۔ طه
3 طه
4 طه
5 ٥۔ ١ بغیر کسی حد بندی اور کیفیت بیان کرنے کے، جس طرح کہ اس کی شان کے لائق ہے یعنی اللہ تعالیٰ عرش پر قائم ہے، لیکن کس طرح اور کیسے؟ یہ کیفیت کسی کو معلوم نہیں۔ طه
6 ٦۔ ١ ثَرَیٰ کے معنی ہیں السافلین یعنی زمین کا سب سے نچلا حصہ طه
7 ٧۔ ١ یعنی اللہ کا ذکر یا اس سے دعا اونچی آواز میں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر بات کو بھی جانتا ہے یا اَخْفَیٰ کے معنی ہیں کہ اللہ تو ان باتوں کو بھی جانتا ہے جن کو اس نے تقدیر میں لکھ دیا اور ابھی تک لوگوں سے مخفی رکھا ہے۔ یعنی قیامت تک وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا اسے علم ہے۔ طه
8 ٨۔ ١ یعنی معبود وہی ہے جو مذکورہ صفات سے متصف ہے اور بہترین نام بھی اسی کے ہیں جن سے اس کو پکارا جاتا ہے۔ نہ معبود اس کے سوا کوئی اور ہے اور نہ اس کے اسمائے حسنٰی ہی کسی کے ہیں۔ پس اسی کی صحیح معرفت حاصل کر کے اسی سے ڈرایا جائے، اسی سے محبت رکھی جائے، اسی پر ایمان لایا جائے اور اسی کی اطاعت کی جائے۔ تاکہ انسان جب اس کی بارگاہ میں واپس جائے تو وہاں شرمسار نہ ہو بلکہ اس کی رحمت و مغفرت سے شاد کام اور اس کی رضا سے سعادت مند ہو۔ طه
9 طه
10 ١٠۔ ١ یہ اس وقت کا واقعہ ہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے اپنی بیوی کے ہمراہ (جو ایک قول کے مطابق حضرت شعیب (علیہ السلام) کی دختر نیک اختر تھیں) اپنی والدہ کی طرف سے واپس جا رہے تھے، اندھیری رات تھی اور راستہ بھی نامعلوم۔ بعض مفسرین کے بقول بیوی کی زچگی کا وقت بالکل قریب تھا اور انھیں حرارت کی ضرورت تھی۔ یا سردی کی وجہ سے گرمی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اتنے میں دور سے انھیں آگ کے شعلے بلند ہوتے ہوئے نظر آئے۔ گھر والوں سے یعنی بیوی سے (یا بعض کہتے ہیں خادم اور بچہ بھی تھا اس لئے جمع کا لفظ استعمال فرمایا) کہا تم یہاں ٹھہرو! شاید میں آگ کا کوئی انگارا وہاں سے لے آؤں یا کم از کم وہاں سے راستے کی نشان دہی ہوجائے۔ طه
11 ١١۔ ١ موسیٰ (علیہ السلام) جب آگ والی جگہ پہنچے تو وہاں ایک درخت سے (جیسا کہ سورۃ قصص۔ ٣٠ میں صراحت ہے) آواز آئی۔ طه
12 ١٢۔ ١ جوتیاں اتارنے کا حکم اس لئے دیا کہ اس میں تواضع کا اظہار اور شرف و تکریم کا پہلو زیادہ اور وادی کی پاکیزگی اس کا سبب تھا، جیسا کہ قرآن کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے۔ تاہم اس کے دو پہلو ہیں۔ یہ حکم وادی کی تعظیم کے لئے تھا یا اس لئے کہ وادی کی پاکیزگی کے اثرات ننگے پیر ہونے کی صورت میں موسیٰ (علیہ السلام) کے اندر زیادہ جذب ہو سکیں۔ واللہ اعلم۔ ١٢۔ ٢ طُوَی وادی کا نام ہے، اسے بعض نے منصرف اور بعض نے غیر منصرف کہا ہے (فتح القدیر) طه
13 ١٣۔ ١ یعنی نبوت و رسالت اور ہم کلامی کے لئے۔ طه
14 ١٤۔ ١ یعنی تکلیفات میں سب سے پہلا اور سب سے اہم حکم ہے جس کا ہر انسان پر تکلف ہی ہے۔ علاوہ ازیں جب الوہیت کا مستحق بھی وہی ہے تو عبادت بھی صرف اسی کا حق ہے۔ ١٤۔ ٢ عبادت کے بعد نماز کا خصوصی حکم دیا۔ حالانکہ عبادت میں نماز بھی شامل تھی، تاکہ اس کی وہ اہمیت واضح ہوجائے جیسے کہ اس کی ہے۔ لِذِکْرِیْ کا ایک مطلب یہ ہے کہ تو مجھے یاد کرے، اسلئے یاد کرنے کا طریقہ عبادت ہے اور عبادت میں نماز کو خصوصی اہمیت وفضیلت حاصل ہے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی میں تجھے یاد آ جاؤں نماز پڑھ، یعنی اگر کسی وقت غفلت یا نیند کا غلبہ ہو تو اس کیفیت سے نکلتے ہی اور میری یاد آتے ہی نماز پڑھ۔ جس طرح کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' جو نماز سے سو جائے یا بھول جائے، تو اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب بھی اسے یاد آئے پڑھ لے ' (صحیح بخاری) طه
15 طه
16 ١٦۔ ١ اس لئے کہ آخرت پر یقین کرنے سے یا اس کے ذکر و مراقبے سے گریز، دونوں ہی باتیں ہلاکت کا باعث ہیں طه
17 طه
18 طه
19 طه
20 طه
21 ٢١۔ ١ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو معجزہ عطا کیا گیا جو عصائے موسیٰ (علیہ السلام) کے نام سے مشہور ہے طه
22 ٢٢۔ ١ بغیر عیب اور روگ کے، کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ کا اس طرح سفید اور چمک دار ہو کر نکلنا، کسی بیماری کی وجہ سے نہیں ہے جیسا کہ برص کے مریض کی چمڑی سفید ہوجاتی ہے۔ بلکہ یہ دوسرا معجزہ ہے، جو ہم تجھے عطا کر رہے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر ان دونوں معجزوں کا ذکر فرمایا ( فَذٰنِکَ بُرْہَانٰنِ مِنْ رَّبِّکَ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَا۟یِٕہ) 28۔ القصص :32) ' پس یہ دو دلیلیں ہیں تیرے پروردگار کی طرف سے، فرعون اور اس کے سرداروں کے لئے ' طه
23 طه
24 ٢٤۔ ١ فرعون کا ذکر اس لئے کیا کہ اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا اور اس پر طرح طرح کے ظلم روا رکھتا تھا۔ علاوہ ازیں اس کی سرکشی و طغیانی بھی بہت بڑھ گئی تھی حتٰی کہ وہ دعویٰ کرنے لگا تھا ( اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی) 79۔ النازعات :24) ' میں تمہارا بلند تر رب ہوں ' طه
25 طه
26 طه
27 طه
28 طه
29 طه
30 طه
31 طه
32 ٣٢۔ ١ کہتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب فرعون کے شاہی محل میں زیر پرورش تھے تو کھجور یا موتی کی بجائے آگ کا انگارا منہ میں ڈال لیا تھا جس سے ان کی زبان جل گئی اور اس میں لکنت پیدا ہوگئی (ا بن کثیر) جب اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ فرعون کے پاس جا کر میرا پیغام پہنچاؤ تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں دو باتیں آئیں ایک تو یہ کہ وہ بڑا جابر اور متکبر بادشاہ ہے بلکہ رب ہونے تک کا دعویدار ہے دوسرا یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں اس کی قوم کا ایک آدمی مارا گیا تھا اور جس کی وجہ سے موسیٰ کو اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے نکلنا پڑا تھا یعنی ایک فرعون کی عظمت وجباریت کا خوف اور دوسرا اپنے ہاتھوں ہونے والے واقعہ کا اندیشہ اور ان دونوں پر زائد تیسری بات زبان میں لکنت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا فرمائی کہ یا اللہ ! میرا سینہ کھول دے تاکہ میں رسالت کا بوجھ اٹھا سکوں میرے کام کو آسان فرما دے یعنی جو مہم مجھے درپیش ہے اس میں میری مدد فرما اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ فرعون کے سامنے میں پوری وضاحت سے تیرا پیغام پہنچا سکوں اور اگر ضرورت پیش آئے تو اپنا دفاع بھی کرسکوں اس کے ساتھ یہ دعا بھی کی کہ میرے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو (کہتے ہیں کہ یہ عمر میں موسیٰ (علیہ السلام) سے بڑے تھے) بطور معین اور مددگار میرا وزیر اور شریک کار بنا دے وزیر موازر کے معنی میں ہے یعنی بوجھ اٹھانے والا جس طرح ایک وزیر بادشاہ کا بوجھ اٹھاتا ہے اور امور مملکت میں اسکا مشیر ہوتا ہے اسی طرح ہارون (علیہ السلام) میرا مشیر اور بوجھ اٹھانے والا ساتھی ہو۔ طه
33 طه
34 ٣٤۔ ١ یہ دعاؤں کی علت بیان کی کہ اس طرح ہم تبلیغ رسالت کے ساتھ ساتھ تیری تسبیح اور تیرا ذکر بھی زیادہ کرسکیں۔ طه
35 ٣٥۔ ١ یعنی تجھے سارے حالات کا علم ہے اور بچپن میں جس طرح تو نے ہم پر احسان کئے، اب بھی اپنے احسانات سے ہمیں محروم نہ رکھ۔ طه
36 ٣٦۔ ١ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ، اللہ تعالیٰ نے زبان کی لکنت کو بھی دور فرما دیا ہوگا۔ اس لئے یہ کہنا صحیح نہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے چونکہ پوری لکنت دور کرنے کی دعا نہیں کی تھی، اس لئے کچھ باقی رہ گئی تھی۔ باقی رہا فرعون کا یہ کہنا (وَّلَایَکَادُ یُبِیْنُ) ' یہ تو صاف بول بھی نہیں سکتا ' یہ ان کی تحقیق گزشتہ کیفیت کے اعتبار سے ہے۔ طه
37 ٣٧۔ ١ قبولیت دعا کی خوشخبری کے ساتھ مزید تسلی اور حوصلے کے لئے اللہ تعالیٰ بچپن کے اس احسان کا ذکر فرما رہا ہے، جب موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں نے قتل کے اندیشے سے اللہ کے حکم سے، جب وہ شیر خوار بچے تھے تابوت میں ڈل کر دریا کے سپرد کردیا تھا طه
38 طه
39 ٣٩۔ ١ مراد فرعون ہے جو اللہ کا بھی دشمن اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بھی دشمن تھا۔ یعنی لکڑی کا وہ تابوت تیرتا ہوا جب شاہی محل کے کنارے پہنچا تو اسے باہر نکال کر دیکھا گیا، تو اس میں ایک معصوم بچہ تھا، فرعون نے اپنی بیوی کی خواہش پر پرورش کے لئے شاہی محل میں رکھ لیا۔ ٣٩۔ ٢ یعنی فرعون کے دل میں ڈال دی یا عام لوگوں کے دلوں میں تیری محبت ڈال دی۔ ٣٩۔ ٣ چنانچہ اللہ کی قدرت کا اور اس کی حفاظت و نگہبانی کا کمال اور کرشمہ دیکھئے کہ جس بچے کی خاطر، فرعون بیشمار بچوں کو قتل کروا چکا، تاکہ وہ زندہ نہ رہے، اسی بچے کو اللہ تعالیٰ اس کی گود میں پلوا رہا ہے، اور ماں اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے، لیکن اس کی اجرت بھی اسی دشمن موسیٰ (علیہ السلام) سے وصول کر رہی ہے۔ طه
40 ٤٠۔ ١ یہ اس وقت ہوا، جب ماں نے تابوت دریا میں پھینک دیا تو بیٹی سے کہا، ذرا دیکھتی رہو، یہ کہاں کنارے لگتا ہے اور اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے؟ جب اللہ کی مشیت سے موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے محل میں پہنچ گئے، شیرخوارگی کا عالم تھا، چنانچہ دودھ پلانے والی عورتوں اور آیاؤں کو بلایا گیا لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کسی کا دودھ نہ پیتے موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن خاموشی سے سارا منظر دیکھ رہی تھی، بالآخر اس نے کہا میں تمہیں ایسی عورت بتاتی ہوں جو تمہاری یہ مشکل دور کر دے گی، انہوں نے کہا ٹھیک ہے، چنانچہ وہ اپنی ماں کو، جو موسیٰ (علیہ السلام) کی بھی ماں تھی، بلا لائی، جب ماں نے بیٹے کو چھاتی سے لگایا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کی تدبیر و مشیت سے غٹا غٹ دودھ پینا شروع کردیا۔ ٤٠۔ ٢ یہ ایک دوسرے احسان کا ذکر ہے، جب موسیٰ (علیہ السلام) سے غیر ارادی طور پر ایک فرعونی کو صرف گھونسہ مارنے سے مر گیا، جس کا ذکر سورۃ قصص میں آئے گا ٤٠۔ ٣ فتون دخول اور خروج کی طرح مصدر ہے یعنی ابتلیناک ابتلاء یعنی ہم نے تجھے خوب آزمایا۔ یا یہ جمع ہے فتنہ کی جیسے حجرۃ کی حجور اور بدرۃ کی بدور کی جمع ہے یعنی ہم نے تجھے کئی مرتبہ یا بار بار آزمایا یا آزمائشوں سے نکالا مثلا جو سال بچوں کے قتل کا تھا تجھے پیدا کیا تیری ماں نے تجھے سمندر کی موجوں کے سپرد کردیا تمام دایاؤں کا دودھ تجھ پر حرام کردیا تو نے فرعون کی داڑھی پکڑ لی تھی جس پر اس نے تیرے قتل کا ارادہ کرلیا تھا تیرے ہاتھوں قبطی کا قتل ہوگیا وغیرہ ان تمام مواقع آزمائش میں ہم ہی تیری مدد اور چارہ سازی کرتے رہے۔ ٤٠۔ ٤ یعنی فرعونی کے غیر ارادی قتل کے بعد تو یہاں سے نکل کر مدین چلا گیا اور وہاں کئی سال رہا۔ ٤٠۔ ٥ یعنی ایسے وقت میں تو آیا جو وقت میں نے اپنے فیصلے اور تقدیر میں تجھ سے ہم کلامی اور نبوت کے لئے لکھا ہوا تھا یا قَدَرٍ سے مراد، عمر ہے یعنی عمر کے اس مرحلے میں آیا جو نبوت کے لئے موزوں ہے۔ یعنی چالیس سال کی عمر میں۔ طه
41 طه
42 ٤٢۔ ١ اس میں اللہ سے دعا کے لئے بڑا سبق ہے کہ انھیں کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا چاہئے طه
43 طه
44 ٤٤۔ ١ یہ وصف بھی اللہ سے دعا کے لئے بہت ضروری ہے۔ کیونکہ سختی سے لوگ بدکتے ہیں اور دور بھاگتے ہیں اور نرمی سے قریب آتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں اگر وہ ہدایت قبول کرنے والے ہوتے ہیں۔ طه
45 طه
46 ٤٦۔ ١ تم فرعون کو جا کر کہو گے اور اس کے جواب میں جو کہے گا، میں وہ سنتا اور تمہارے اور اس کے طرز عمل کو دیکھتا رہوں گا۔ اس کے مطابق میں تمہاری مدد اور اس کی چالوں کو ناکام کروں گا، اس لئے اس کے پاس جاؤ، فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ طه
47 ٤٧۔ ١ یہ سلام تحیہ نہیں ہے، بلکہ امن و سلامتی کی طرف دعوت ہے۔ جیسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روم کے بادشاہ ہرقل کے نام مکتوب میں لکھا تھا، و اَسْلِمْ، تَسْلَمْ، (اسلام قبول کرلے، سلامتی میں رہے گا) اس طرح مکتوب کے شروع میں آپ نے (وَالسَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدٰی) 20۔ طہ :47) بھی تحریر فرمایا، (ابن کثیر) اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی غیر مسلم کو مکتوب یا مجلس میں مخاطب کرنا ہو تو اسے انہی الفاظ میں سلام کہا جائے، جو مشروط ہے ہدایت کے اپنانے کے ساتھ۔ طه
48 طه
49 طه
50 ٥٠۔ ١ مثلاً جو شکل صورت انسان کے مناسب حال تھی، وہ اسے، جو جانوروں کے مطابق تھی وہ جانوروں کو عطا فرمائی ' راہ سجھائی ' کا مطلب ہر مخلوق کو اس کی طبعی ضروریات کے مطابق رہن سہن، کھانے پینے اور بود و باش کا طریقہ سمجھا دیا، اس کے مطابق ہر مخلوق کا سامان زندگی فراہم کرتی اور حیات مستعار کے دن گزارتی ہے۔ طه
51 ٥١۔ ١ فرعون نے بات کا رخ دوسری طرف پھیرنے کے لئے یہ سوال کیا، یعنی پہلے لوگ جو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہوئے دنیا سے چلے گئے، ان کا حال کیا ہوگا ؟ طه
52 ٥٢۔ ١ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا، ان کا علم نہ تجھے ہے نہ مجھے۔ البتہ ان کا علم میرے رب کو ہے، جو اس کے پاس کتاب میں موجود ہے وہ اس کے مطابق جزا و سزا دے گا، پھر اس کا علم اس طرح ہر چیز کو محیط ہے کہ اس کی نظر سے کوئی چھوٹی بڑی چیز اوجھل نہیں ہو سکتی، نہ اسے بھول ہی لا حق ہو سکتی ہے۔ جب کہ مخلوق کے علم میں دونوں نقص موجود ہیں۔ ایک تو ان کا علم محیط کل نہیں، بلکہ ناقص ہے۔ دوسرے، علم کے بعد وہ بھول بھی سکتے ہیں، میرا رب ان دونوں نقصوں سے پاک ہے۔ آگے، رب کی مزید صفات بیان کی جا رہی ہیں۔ طه
53 طه
54 ٥٤۔ ١ یعنی بیشمار اقسام کی پیداوار میں کچھ چیزیں تمہاری خوراک اور لذت اور راحت کا سامان ہیں اور کچھ تمہارے چوپاؤں اور جانوروں کے لئے ہیں۔ ٥٤۔ ٢ اُولُو النُّھَیٰ عقل والے۔ عقل کو نُھْبَۃ اور عقلمند کو ذُوْ نُھْیَۃٍ، اس لئے کہا جاتا ہے کہ بالآخر انہی کی رائے پر معاملہ انتہا پذیر ہوتا ہے، یا اس لئے کہ یہ نفس کو گناہوں سے روکتے ہیں (فتح القدیر) طه
55 ٥٥۔ ١ بعض روایات میں دفنانے کے بعد تین مٹھیاں (یا بکے) مٹی ڈالتے وقت اس آیت کا پڑھنا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے، لیکن سنداً یہ روایات ضعیف ہیں۔ تاہم آیت کے بغیر تین لپیں ڈالنے والی روایت، جو ابن ماجہ میں ہے، صحیح ہے، اس لئے دفنانے کے بعد دونوں ہاتھوں سے تین تین مرتبہ مٹی ڈالنے کو علماء نے مستحب قرارا دیا ہے۔ ملاحظہ ہو کتاب الجنائر صفحہ ١٥٢۔ طه
56 طه
57 ٥٧۔ ١ جب فرعون کو دلائل واضح کے ساتھ وہ معجزات بھی دکھلائے گئے، جو عصا اور ید بیضا کی صورت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کئے گئے تھے، تو فرعون نے اسے جادو کا کرتب سمجھا اور کہنے لگا اچھا تو ہمیں اس جادو کے زور سے ہماری زمین سے نکالنا چاہتا ہے؟ طه
58 ٥٨۔ ١ موعد مصدر ہے یا اگر ظرف ہے تو زمان اور مکان دونوں مراد ہو سکتے ہیں کوئی جگہ اور دن مقرر کرلے۔ ٥٨۔ ٢ مکان سوی۔ صاف ہموار جگہ، جہاں ہونے والے مقابلے کو ہر شخص آسانی سے دیکھ سکے یا ایسی برابر کی جگہ، جہاں فریقین سہولت سے پہنچ سکیں۔ طه
59 ٥٩۔ ١ اس سے مراد نو روز یا کوئی اور سالانہ میلے یا جشن کا دن ہے جسے وہ عید کے طور پر مناتے تھے۔ طه
60 ٦٠۔ ١ یعنی مختلف شہروں سے ماہر جادو گروں کو جمع کر کے اجتماع گاہ میں آ گیا۔ طه
61 ٦١۔ ١ جب فرعون اجتماع گاہ میں جادو گروں کو مقابلہ کی ترغیب دے رہا تھا اور ان کو انعامات اور قرب خصوصی سے نواز نے کا اظہار کر رہا تھا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی مقابلے سے پہلے انھیں وعظ کیا اور ان کے موجودہ رویے پر انھیں عذاب الٰہی سے ڈرایا۔ طه
62 ٦٢۔ ١ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے وعظ سے ان میں باہم کچھ اختلاف ہوا اور بعض چپکے چپکے کہنے لگے کہ یہ واقعی اللہ کا نبی ہی نہ ہو، اس کی گفتگو تو جادو گروں والی نہیں پیغمبرانہ لگتی ہے۔ بعض نے اس کے برعکس رائے کا اظہار کیا۔ طه
63 ٦٣۔ ١ مثلیٰ، طریقۃ کی صفت ہے یہ امثل کی تانیث ہے افضل کے معنی میں مطلب یہ ہے کہ اگر یہ دونوں بھائی اپنے ' جادو ' کے زور سے غالب آ گئے، تو سادات و اشراف اس کی طرف مائل ہوجائیں گے، جس سے ہمارا اقتدار خطرے میں اور ان کے اقتدار کا امکان بڑھ جائے گا۔ علاوہ ازیں ہمارا بہترین طریقہ یا مذہب، اسے بھی یہ ختم کردیں گے۔ یعنی اپنے مشرکانہ مذہب کو بھی انہوں نے "بہترین"قرار دیا جیسا کہ آج بھی ہر باطل مذہب اور فرقے کے پیروکار اسی زعم فاسد میں مبتلا ہیں سچ فرمایا اللہ نے (کل حزب بما لدیھم فرحون) ہر فرقہ جو اس کے پاس ہے اس پر ریچھ رہا ہے۔۔ طه
64 طه
65 طه
66 ٦٦۔ ١ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں پہلے اپنا کرتب دکھانے کے لئے کہا، تاکہ ان پر یہ واضح ہوجائے کہ وہ جادو گروں کی اتنی بڑی تعداد سے، جو فرعون جمع کر کے لے آیا ہے، اسی طرح ان کے ساحرانہ کمال اور کرتبوں سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ دوسرے، ان کی ساحرانہ شعبدہ بازیاں، جب معجزہ الٰہی سے چشم زدن میں ہوا ہوجائیں گی، تو اس کا بہت اچھا اثر پڑے گا اور جادوگر یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ یہ جادو نہیں ہے، واقعی اسے اللہ کی تائید حاصل ہے کہ آن واحد میں اس کی ایک لاٹھی ہمارے سارے کرتبوں کو نگل گئی۔ ٦٦۔ ٢ قرآن کے ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسیاں اور لاٹھیاں حقیقتاً سانپ نہیں بنی تھیں، بلکہ جادو کے زور سے ایسا محسوس ہوتا تھا، جیسے مسمریزم کے ذریعے سے نظر بندی کردی جاتی ہے۔ تاہم اس کا اثر یہ ضرور ہوتا ہے کہ عارضی اور وقتی طور پر دیکھنے والوں پر ایک دہشت طاری ہوجاتی ہے، گو شے کی حقیقت تبدیل نہ ہو۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جادو کتنا بھی اونچے درجے کا ہو، وہ شے کی حقیقت تبدیل نہیں کرسکتا۔ طه
67 طه
68 ٦٨۔ ١ اس دہشت ناک منظر کو دیکھ کر اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خوف محسوس کیا، تو یہ ایک طبعی چیز تھی، جو کمال نبوت کے منافی ہے نہ عصمت کے۔ کیونکہ نبی بھی بشر ہی ہوتا ہے اور بشریت کے طبعی تقاضوں سے نہ وہ بالا ہوتا ہے نہ ہوسکتا ہے، بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) کے اندیشے اور خوف کو دور کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موسیٰ (علیہ السلا م) کسی بھی لحاظ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، تو ہی غالب رہے گا، اس جملے سے طبعی خوف اور دیگر اندیشوں، سب کا ہی ازالہ فرما دیا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔ طه
69 طه
70 طه
71 ٧١۔ ١ مِنْ خِلَافِ (الٹے سیدھے) کا مطلب ہے سیدھا ہاتھ تو بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ تو سیدھا پاؤں طه
72 ٧٢۔ ١ یہ ترجمہ اس صورت میں ہے جب والذی فطرنا کا عطف ما جاءنا پر ہو اور یہ بھی صحیح ہے تاہم بعض مفسرین نے اسے قسم قرار دیا ہے۔ یعنی قسم ہے اس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا، ہم تجھے ان دلیلوں پر ترجیح نہیں دیں گے جو ہمارے سامنے آ چکیں۔ ٧٢۔ ٢ یعنی تیرے بس میں جو کچھ ہے وہ کرلے ہمیں معلوم ہے کہ تیرا بس صرف اس دنیا میں ہی چل سکتا ہے جب کہ ہم جس پروردگار پر ایمان لائے ہیں اس کی حکمرانی تو دنیا وآخرت دونوں جگہوں پر ہے مرنے کے بعد ہم تیری حکمرانی اور تیرے ظلم وستم سے تو بچ جائیں گے کیونکہ جسموں سے روح کے نکل جانے کے بعد تیرا اختیار ختم ہوجائے گا لیکن اگر ہم اپنے رب کے نافرمان رہے تو ہم مرنے کے بعد بھی رب کے اختیار سے باہر نہیں نکل سکتے وہ ہمیں سخت عذاب دینے پر قادر ہے رب پر ایمان لانے کے بعد ایک مومن کی زندگی میں جو عظیم انقلاب آنا اور دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی دائمی زندگی پر جس طرح یقین ہونا چاہیے اور پھر اس عقیدہ و ایمان پر جو تکلیفیں آئیں انھیں جس حوصلہ وصبر اور عزم و استقامت سے برداشت کرنا چاہیے جادو گروں نے اس کا ایک بہترین نمونہ پیش کیا کہ ایمان لانے سے قبل کس طرح وہ فرعون سے انعامات اور دنیاوی جاہ ومنصب کے طالب تھے لیکن ایمان لانے کے بعد کوئی ترغیب وتحریض انھیں متزلزل کرسکی نہ تشدید وتعذیب کی دھمکیاں انھیں ایمان سے منحرف کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ طه
73 ٧٣۔ ١ دوسرا ترجمہ اس کا یہ ہے کہ ' ہماری وہ غلطیاں بھی معاف فرما دے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں تیرے مجبور کرنے پر ہم نے عمل جادو کی صورت میں کیں۔ ' اس صورت میں مَا اَکْرَھْتَنَا کا عطف خَطَایانا پر ہوگا۔ ٧٣۔ ٢ یہ فرعون کے الفاظ، (وَلَتَعْلَمُنَّ اَیُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبْقٰی) 20۔ طہ :71) کا جواب ہے کہ اے فرعون! تو جو سخت ترین عذاب کی ہمیں دھمکی دے رہا ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمیں اجر و ثواب ملے گا، وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر اور پائیدار ہے۔ طه
74 ٧٤۔ ١ یعنی عذاب سے تنگ آ کر موت کی آرزو کریں گے، تو موت نہیں آئے گی اور رات دن عذاب میں مبتلا رہنا، کھانے پینے کو زقوم جیسا تلخ درخت اور جہنمیوں کے جسموں سے نچڑا ہوا خون اور پیپ ملنا، یہ کوئی زندگی ہوگی؟ طه
75 طه
76 ٧٦۔ ١ جہنمیوں کے مقابلے میں اہل ایمان کو جو جنت کی پر آسائش زندگی ملے گی، اس کا ذکر فرمایا اور واضح کردیا کہ اس کے مستحق وہ لوگ ہونگے جو ایمان لانے کے بعد اس کے تقاضے پورے کریں گے۔ یعنی اعمال صالح اختیار اور اپنے نفس کو گناہوں کی آلودگی سے پاک کریں گے۔ اس لئے کہ ایمان زبان سے صرف چند کلمات ادا کردینے کا نام نہیں ہے بلکہ عقیدہ و عمل کے مجموعے کا نام ہے۔ طه
77 ٧٧۔ ١ جب فرعون ایمان بھی نہیں لایا اور بنی اسرائیل کو بھی آزاد کرنے پر آمادہ نہیں ہوا، تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ حکم دیا۔ ٧٧۔ ٢ اس کی تفصیل سورۃ الشعرا میں آئے گی کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے سمندر میں لاٹھی ماری، جس سے سمندر میں گزرنے کے لئے خشک راستہ بن گیا۔ ٧٧۔ ٣ خطرہ فرعون اور اس کے لشکر کا اور ڈر پانی میں ڈوبنے کا۔ طه
78 ٧٨۔ ١ یعنی اس خشک راستے پر جب فرعون اور اس کا لشکر چلنے لگا، تو اللہ نے سمندر کو حکم دیا کہ حسب سابق رواں دواں ہوجا، چنانچہ وہ خشک راستہ چشم زدن پانی کی موجوں میں تبدیل ہوگیا اور فرعون سمیت سارا لشکر غرق ہوگیا۔ غشیھم، کے معنی ہیں علاھم وأصابھم سمندر کا پانی ان پر غالب آ گیا۔ ماغشیھم یہ تکرار تعثیم وتہویل یعنی ہولناکی کے بیان کے لیے ہے یا اس کے معنی ہیں جو کہ مشہور ومعروف ہے۔۔ طه
79 ٧٩۔ ١ اس لئے کہ سمندر میں غرق ہونا ان کا مقدر تھا طه
80 ٨٠۔ ١ اس کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر تمہیں یعنی تمہارے نمائندے بھی ساتھ لے کر آئیں تاکہ تمہارے سامنے ہی ہم موسیٰ (علیہ السلام) سے ہم کلام ہوں، یا ضمیر جمع اس لئے لائی گئی کہ کوہ طور پر موسیٰ (علیہ السلام) کو بلانا، بنی اسرائیل ہی کی خاطر اور انہی کی ہدایت و رہنمائی کے لئے تھا۔ ٨٠۔ ٢ من و سلویٰ کے نزول کا واقعہ، سورۃ بقرہ کے آغاز میں گزر چکا ہے۔ من کوئی میٹھی چیز تھی جو آسمان سے نازل ہوئی تھی اور سلویٰ سے مراد بٹیر پرندے ہیں جو کثرت سے ان کے پاس آتے اور وہ حسب ضرورت انھیں پکڑ کر پکاتے اور کھا لیتے۔ (ابن کثیر) طه
81 ٨١۔ ١ یعنی حلال اور جائز چیزوں کو چھوڑ کر حرام اور ناجائز چیزوں کی طرف تجاوز مت کرو، یا اللہ کی نعمتوں کا انکار کر کے یا کفر ان نعمت کا ارتکاب کر کے اور نافرمانی کر کے حد سے تجاوز نہ کرو، ان تمام مفہومات پر طغیان کا لفظ صادق آتا ہے اور بعض نے کہا کہ طغیان کا مفہوم ہے، ضرورت و حاجت سے زیادہ پرندے پکڑنا یعنی حاجت کے مطابق پرندے پکڑو اور اس سے تجاوز مت کرو۔ ٨١۔ ٢ دوسرے معنی یہ بیان کئے گئے ہیں کہ وہ ہاویہ یعنی جہنم میں گرا۔ ہاویہ جہنم کا نچلا حصہ ہے، یعنی جہنم کی گہرائی والے حصے کا مستحق ہوگیا۔ طه
82 ٨٢۔ ١ یعنی مغفرت الٰہی کا مستحق بننے کے لئے چار چیزیں ضروری ہیں۔ کفر و شرک اور معاصی سے توبہ، ایمان، عمل صالح اور راہ راست پر چلتے رہنا یعنی استقلال حتٰی کہ ایمان ہی پر اسے موت آئے، ورنہ ظاہر بات ہے کہ توبہ و ایمان کے بعد اگر اس نے پھر شرک کا راستہ اختیار کرلیا، حتٰی کہ موت بھی اسے کفر و شرک پر ہی آئے تو مغفرت الٰہی کے بجائے عذاب کا مستحق ہوگا۔ طه
83 طه
84 ٨٤۔ ١ سمندر پار کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) اسرائیل کے سربرآوردہ لوگوں کو ساتھ لے کر کوہ طور کی طرف چلے، لیکن رب کے شوق ملاقات میں تیز رفتاری سے ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ کر اکیلے ہی طور پر پہنچ گئے، سوال کرنے پر جواب دیا، مجھے تو تیری رضا کی طلب اور اس کی جلدی تھی۔ وہ لوگ میرے پیچھے ہی آ رہے ہیں۔ بعض کہتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ میرے پیچھے آ رہے ہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ میرے پیچھے کوہ طور کے قریب ہی ہیں اور وہاں میری واپسی کے منتظر ہیں۔ طه
85 ٨٥۔ ١ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد سامری نامی شخص نے بنی اسرائیل کو بچھڑا پوجنے پر لگا دیا، جس کی اطلاع اللہ تعالیٰ نے طور پر موسیٰ (علیہ السلام) کو دی کہ سامری نے تیری قوم کو گمراہ کردیا ہے، فتنے میں ڈالنے کی نسبت اللہ نے اپنی طرف باحیثیت خالق کے کی ہے، ورنہ اس گمراہی کا سبب تو سامری ہی تھا۔ جیسا کہ اضلھم السامری سے واضح ہے۔ طه
86 ٨٦۔ ١ اس سے مراد جنت کا یا فتح و ظفر کا وعدہ ہے اگر وہ دین پر قائم رہے یا تورات عطا کرنے کا وعدہ ہے، جس کے لئے طور پر انھیں بلایا گیا تھا۔ ٨٦۔ ٢ کیا اس عہد کو مدت دراز گزر گئی تھی کہ تم بھول گئے، اور بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔ ٨٦۔ ٣ قوم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی طور سے واپسی تک وہ اللہ کی اطاعت و عبادت پر قائم رہیں گے، یا یہ وعدہ تھا کہ ہم بھی طور پر آپ کے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں لیکن راستے میں ہی رک کر انہوں نے گو سالہ پرستی شروع کردی۔ طه
87 ٨٧۔ ١ یعنی ہم نے اپنے اختیار سے یہ کام نہیں کیا بلکہ غلطی ہم سے اضطراری طور پر ہوگئی، آگے اس کی وجہ بیان کی طه
88 ٨٨۔ ١ زینۃ سے زیورات اور القوم سے قوم فرعون مراد ہے۔ کہتے ہیں یہ زیورات انہوں نے فرعونیوں سے عاریتًا لئے تھے، اسی لئے انھیں بوجھ کہا گیا کیونکہ یہ ان کے لئے جائز نہیں تھے، چنانچہ انھیں جمع کر کے ایک گڑھے میں ڈال دیا گیا، سامری نے بھی (جو مسلمانوں کے بعض گمراہ فرقوں کی طرح) گمراہ تھا اس نے تمام زیورات کو تپا کر ایک طرح بچھڑا بنا دیا کہ جس میں ہوا کے اندر باہر آنے جانے سے ایک قسم کی آواز پیدا ہوتی تھی۔ اس آواز سے اس نے بنی اسرائیل کو گمراہ کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) تو گمراہ ہوگئے ہیں کہ وہ اللہ سے ملنے کے لئے طور پر گئے ہیں، جبکہ تمہارا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا معبود تو یہ ہے۔ طه
89 ٨٩۔ ١ اللہ تعالیٰ نے ان کی جہالت و نادنی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ان عقل کے اندھوں کو اتنا بھی نہیں پتہ چلا کہ یہ بچھڑا کوئی جواب دے سکتا ہے۔ نہ نفع نقصان پہنچانے پر قادر ہے۔ جب کہ معبود تو وہی ہوسکتا ہے جو ہر ایک کی فریاد سننے پر، نفع و نقصان پہنچانے پر اور حاجت برآوری پر قادر ہو۔ طه
90 ٩٠۔ ١ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے یہ اس وقت کہا جب یہ قوم سامری کے پیچھے لگ کر بچھڑے کی عبادت میں لگ گئی طه
91 ٩١۔ ١ اسرائیلیوں کو یہ گو سالہ اتنا اچھا لگا کہ ہارون (علیہ السلام) کی بات کی بھی پروا نہیں کی اور اس کی تعظیم و عبادت چھوڑنے سے انکار کردیا۔ طه
92 طه
93 ٩٣۔ ١ یعنی اگر انہوں نے تیری بات ماننے سے انکار کردیا تھا، تو تجھ کو فوراً میرے پیچھے کوہ طور پر آ کر مجھے بتلانا چاہیے تھا تو نے بھی میرے حکم کی پروا نہ کی۔ یعنی جانشینی کا صحیح حق ادا نہیں کیا۔ طه
94 ٩٤۔ ١ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قوم کو شرک کی گمراہی میں دیکھ کر سخت غضب ناک تھے اور سمجھتے تھے کہ شاید اس میں ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کی، جن کو وہ اپنا خلیفہ بنا کر گئے تھے، خوش آمد کا بھی دخل ہو، اس لئے سخت غصے میں ہارون (علیہ السلام) کی داڑھی اور سر پکڑ کر انھیں جھنجھوڑنا اور پوچھنا شروع کیا، جس پر حضرت ہارون (علیہ السلام) نے انھیں اتنا سخت رویہ اپنانے سے روکا۔ ٩٤۔ ٢ سورۃ اعراف میں حضرت ہارون (علیہ السلام) کا جواب یہ نقل ہوا ہے کہ قوم نے مجھے کمزور خیال کیا اور میرے قتل کے درپے ہوگئی (آیت۔ ١٤٢) جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے اپنی ذمے داری پوری طرح نبھائی اور انھیں سمجھا نے اور گو سالہ پرستی سے روکنے میں مداہنت اور کوتاہی نہیں کی۔ لیکن معاملے کو اس حد تک نہیں جانے دیا کہ خانہ جنگی شروع ہوجائے کیونکہ ہارون (علیہ السلام) کے قتل کا مطلب پھر ان کے حامیوں اور مخالفوں میں آپس میں خونی تصادم ہوتا اور بنی اسرائیل واضح طور پر دو گروہوں میں بٹ جاتے جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چوں کہ خود وہاں موجود نہ تھے اس لیے صورت حال کی نزاکت سے بے خبر تھے اسی بنا پر حضرت ہارون (علیہ السلام) کو انہوں نے سخت سست کہا لیکن پھر وضاحت پر وہ اصل مجرم کی طرف متوجہ ہوئے اس لیے یہ استدلال صحیح نہیں (جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں) کہ مسلمانوں کے اتحاد وارفاق کی خاطر شرکیہ امور اور باطل چیزوں کو بھی برداشت کرلینا چاہیے کیونکہ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے نہ ایسا کیا ہی ہے نہ ان کے قول کا یہ مطلب ہی ہے۔ طه
95 طه
96 ٩٦۔ ١ مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کو گزرتے ہوئے سامری نے دیکھا اور اس کے قدموں کے نیچے کی مٹی اس نے سنبھال رکھ لی، جس میں کچھ کرامات کے اثرات تھے۔ اس مٹی کی مٹھی اس نے پگھلے ہوئے زیورات یا بچھڑے میں ڈالی تو اس میں سے ایک قسم کی آواز نکلنی شروع ہوگئی جو ان کے فتنے کا باعث بن گئی۔ طه
97 ٩٧۔ ١ یعنی عمر بھر تو یہی کہتا رہے گا کہ مجھ سے دور رہو، مجھے نہ چھونا، اس لئے کہ اسے چھو تے ہی چھونے والا بھی اور یہ سامری بھی دونوں بخار میں مبتلا ہوجاتے۔ اس لئے جب کسی انسان کو دیکھتا تو فوراً چیخ اٹھتا کہا جاتا ہے کہ پھر یہ انسانوں کی بستی سے نکل کر جنگل میں چلا گیا، جہاں جانوروں کے ساتھ اس کی زندگی گزری اور یوں عبرت کا نمونہ بنا رہا، گویا لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے جو شخص جتنا زیادہ حیلہ و فن اور مکر و فریب اختیار کرے گا، دنیا اور آخرت میں اس کی سزا بھی اسی حساب سے شدید تر اور نہایت عبرت ناک ہوگی۔ ٩٧۔ ٢ یعنی آخرت کا عذاب اس کے علاوہ ہے جو ہر صورت بھگتنا پڑے گا۔ ٩٧۔ ٣ اس سے معلوم ہوا کہ شرک کے آثار ختم کرنا بلکہ ان کا نام ونشان تک مٹا ڈالنا چاہیے ان کی نسبت کتنی ہی مقدس ہستیوں کی طرف ہو، توہین نہیں، جیسا کہ اہل بدعت، قبر پرست اور تعزیہ پرست باور کراتے ہیں بلکہ یہ توحید کا منشا اور دینی غیرت کا تقاضا ہے جیسے اس واقعے میں اس اثرالرسول کو نہیں دیکھا گیا جس سے ظاہری طور پر روحانی برکات کا مشاہدہ بھی کیا گیا اس کے باوجود اس کی پروا نہیں کی گئی اس لیے کہ وہ شرک کا ذریعہ بن گیا تھا۔ طه
98 طه
99 ٩٩۔ ١ یعنی جس طرح ہم نے فرعون و موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیا، اسی طرح انبیاء کے حالات ہم آپ پر بیان کر رہے ہیں تاکہ آپ ان سے باخبر ہوں، اور اس میں عبرت کے پہلو ہوں، انھیں لوگوں کے سامنے نمایاں کریں تاکہ لوگ اس کی روشنی میں صحیح رویہ اختیار کریں۔ ٩٩۔ ٢ نصیحت (ذکر) سے مراد قرآن عظیم ہے۔ جس سے بندہ اپنے رب کو یاد کرتا، ہدایت اختیار کرتا اور نجات و سعادت کا راستہ اپناتا ہے۔ طه
100 ١٠٠۔ ١ یعنی اس پر ایمان نہیں لائے گا اور اس میں جو کچھ درج ہے، اس پر عمل نہیں کرے گا۔ ١٠٠۔ ٢ یعنی گناہ عظیم اس لئے کہ اس کا نامہ اعمال، نیکیوں سے خالی اور برائیوں سے پر ہوگا۔ طه
101 ١٠١۔ ١ جس سے وہ بچ نہ سکے گا، نہ ہی بھاگ سکے گا طه
102 ١٠٢۔ ١ صور سے مراد وہ (نرسنگا) ہے، جس میں اسرافیل (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے پھونک ماریں گے تو قیامت برپا ہوجائے گی، حضرت اسرافیل (علیہ السلام) کے پہلے پھونکنے سے سب پر موت طاری ہو جائیگی، اور دوسرے پھونکنے سے بحکم الٰہی سب زندہ اور میدان محشر میں جمع ہوجائیں گے۔ آیت میں یہی دوسرا پھونکنا مراد ہے۔ طه
103 ١٠٣۔ ١ شدت ہول اور دہشت کی وجہ سے ایک دوسرے سے چپکے چپکے باتیں کریں گے۔ طه
104 ١٠٤۔ ١ یعنی سب سے زیادہ عاقل اور سمجھدار۔ یعنی دنیا کی زندگی انھیں چند دن بلکہ گھڑی دو گھڑی کی محسوس ہوگی۔ جس طرح دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (وَیَوْمَ تَــقُوْمُ السَّاعَۃُ یُـقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ ڏ مَا لَبِثُوْا غَیْرَ سَاعَۃٍ ۭ کَذٰلِکَ کَانُوْا یُؤْفَکُوْنَ) 30۔ الروم۔55) جس دن قیامت برپا ہوگی کافر قسمیں کھا کر کہیں گے کہ وہ (دنیا میں ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے یہی مضمون اور بھی متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مثلا سورۃ فاطر، ٣٧ سورۃ المؤمنون۔، ١١٢۔ ١١٤ سورۃ النازعات وغیرہ مطلب یہی ہے فانی زندگی کو پاقی رہنے والی زندگی پر ترجیح نہ دی جائے۔ طه
105 طه
106 طه
107 طه
108 ١٠٨۔ ١ یعنی جس دن اونچے نیچے پہاڑ، وادیاں، فلک بوس عمارتیں، سب صاف ہوجائیں گی، سمندر اور دریا خشک ہوجائیں گے، اور ساری زمین صاف چٹیل میدان ہو جائی گی۔ پھر ایک آواز آئیگی، جس کے پیچھے سارے لوگ لگ جائیں گے یعنی جس طرف وہ بلائے گا، جائیں گے۔ ١٠٨۔ ٢ یعنی اس بلانے والے سے ادھر ادھر نہیں ہو نگے۔ ١٠٨۔ ٣ یعنی مکمل سناٹا ہوگا سوائے قدموں کی آہٹ اور کھسر پھسر کے کچھ سنائی نہیں دے گا۔ طه
109 ١٠٩۔ ١ یعنی اس دن کسی کی سفارش کسی کو فائدہ نہیں پہنچائے گی، سوائے ان کے جن کو رحمٰن شفاعت کرنے کی اجازت دے گا، اور وہ بھی ہر کسی کی سفارش نہیں کریں گے بلکہ صرف ان کی سفارش کریں گے جن کی بابت سفارش کو اللہ پسند فرمائے گا اور یہ کون لوگ ہونگے؟ صرف اہل توحید، جن کے حق میں اللہ تعالیٰ سفارش کرنے کی اجازت دے گا۔ یہ مضمون قرآن میں متعدد جگہ بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلا سورۃ نجم، ٢ ٦ ، سورۃ انبیاء، ٢٨۔ سورۃ سباء، ٢٣۔ سورۃ النباء ٣٨۔ اور آیت الکرسی۔ طه
110 ١١٠۔ ١ گزشتہ آیت میں شفاعت کے لیے جو اصول بیان فرمایا گیا ہے اس میں اس کی وجہ اور علت بیان کردی گئی ہے کہ چونکہ اللہ کے سوا کسی کو بھی کسی کی بابت پورا علم نہیں ہے کہ کون کتنا بڑا مجرم ہے؟ اور وہ اس بات کا مستحق ہے بھی یا نہیں کہ اس کی سفارش کی جا سکے؟ اس لیے اس بات کا فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ ہی فرمائے گا کہ کون کون لوگ انبیاء وصلحا کی سفارش کے مستحق ہیں؟ کیونکہ ہر شخص کے جرائم کی نوعیت وکیفیت کو اس کے سواء کوئی نہیں جانتا اور نہ جان ہی سکتا ہے۔ طه
111 ١١١۔ ١ اس لئے کہ اس روز اللہ تعالیٰ مکمل انصاف فرمائے گا اور ہر صاحب حق کو اس کا حق دلائے گا۔ حتٰی کہ اگر ایک سینگ والی بکری نے بغیر سینگ والی بکری پر ظلم کیا ہوگا، تو اس کا بھی بدلہ دلایا جائے گا، اسی لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی حدیث میں یہ بھی فرمایا"لتؤدن الحقوق الی اھلھا " ' ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دو ' ورنہ قیامت کو دینا پڑے گا۔ دوسری حدیث میں فرمایا (اِیَّاکُمْ و الظُّلْمَ فَاِنَّ الظُلْمَ ظُلُمَات،ُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) ظلم سے بچو اس لئے کہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا باعث ہوگا، سب سے نامراد وہ شخص ہوگا جس نے شرک کا بوجھ بھی لاد رکھا ہوگا، اس لئے کہ شرک ظلم عظیم بھی ہے اور ناقابل معافی بھی۔ طه
112 ١١٢۔ ١ بے انصافی یہ ہے کہ اس پر دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی ڈال دیا جائے اور حق تلفی یہ ہے کہ نیکیوں کا اجر کم دیا جائے۔ یہ دونوں باتیں وہاں نہیں ہونگی۔ طه
113 ١١٣۔ ١ یعنی گناہ، محرمات اور فواحش کے ارتکاب سے باز آ جائیں۔ ١١٣۔ ٢ یعنی اطاعت اور قرب حاصل کرنے کا شوق یا پچھلی امتوں کے حالات و واقعات سے عبرت حاصل کرنے کا جذبہ ان کے اندر پیدا کر دے۔ طه
114 ١١٤۔ ١ جس کا وعدہ اور وعید حق ہے، جنت دوزخ حق ہے اور اس کی ہر بات حق ہے۔ ١١٤۔ ٢ جبرائیل (علیہ السلام) جب وحی لے کر آتے اور سناتے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی جلدی جلدی ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے، کہ کہیں کچھ بھول نہ جائیں، اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا اور تاکید کی کہ غور سے، پہلے وحی کو سنیں، اس کو یاد کرانا اور دل میں بٹھا دینا ہمارا کام ہے۔ جیسا کہ سورۃ ق میں آئے گا۔ ١١٤۔ ٣ یعنی اللہ تعالیٰ سے زیادتی علم کی دعا فرماتے رہیں۔ اس میں علماء کے لئے بھی نصیحت ہے کہ وہ فتوٰی میں پوری تحقیق اور غور سے کام لیں، جلد بازی سے بچیں اور علم میں اضافہ کی صورتیں اختیار کرنے میں کوتاہی نہ کریں علاوہ ازیں علم سے مراد قرآن و حدیث کا علم ہے۔ قرآن میں اسی کو علم سے تعبیر کیا گیا اور ان کے حاملین کو علماء دیگر چیزوں کا علم، جو انسان کسب معاش کے لئے حاصل کرتا ہے، وہ سب فن ہیں، ہنر ہیں اور صنعت و حرفت ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس علم کے لئے دعا فرماتے تھے، وہ وحی و رسالت ہی کا علم ہے جو قرآن و حدیث میں محفوظ ہے، جس سے انسان کا ربط و تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہوتا ہے، اس کے اخلاق و کردار کی اصلاح ہوتی اور اللہ کی رضا و عدم رضا کا پتہ چلتا ہے ایسی دعاؤں میں ایک دعا یہ ہے جو آپ پڑھا کرتے تھے۔ (اللَّھُمَّ اُنْفْعُنِیْ بِمَا عَلَّمْتَنِیْ، وَ عَلِّمْنِیْ مَا یَنْفَعُنِیْ وَ زِدْ نِیْ عِلْمًا، وَالْحمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی کُلِّ حَال) (ابن ماجہ) طه
115 ١٥۔ ١ نسیان، (بھول جانا) ہر انسان کی سرشت میں داخل ہے اور ارادے کی کمزوری یعنی فقدان عزم۔ یہ بھی انسانی خصلت میں بالعموم پائی جاتی ہے۔ یہ دونوں کمزوریاں ہی شیطان کے وسوسوں میں پھنس جانے کا باعث بنتی ہیں۔ اگر ان کمزوریوں میں اللہ کے حکم سے بغاوت و سرکشی کا جذبہ اور اللہ کی نافرمانی کا عزم مصمم شامل نہ ہو، تو بھول اور ضعف ارادہ سے ہونے والی غلطی عصمت و کمال نبوت کے منافی نہیں، کیونکہ اس کے بعد انسان فوراً نادم ہو کر اللہ کی بارگاہ میں جھک جاتا اور توبہ و استفغار میں مصروف ہوجاتا ہے۔ (جیسا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے کیا) حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ نے سمجھایا تھا کہ شیطان تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے، یہ تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے گا۔ یہی وہ بات ہے جسے یہاں عہد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آدم (علیہ السلام) اس عہد کو بھول گئے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو ایک درخت کے قریب جانے یعنی اس سے کچھ کھانے سے منع فرمایا تھا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کے دل میں یہ بات تھی کہ وہ اس درخت کے قریب نہیں جائیں گے۔ لیکن جب شیطان نے اللہ کی قسمیں کھا کر انھیں یہ باور کرایا کہ اس کا پھل تو یہ تاثیر رکھتا ہے کہ جو کھا لیتا ہے، اسے زندگی جاوداں اور دائمی بادشاہت مل جاتی ہے۔ تو ارادے پر قائم نہ رہ سکے اور اس فقدان عزم کی وجہ سے شیطانی وسوسے کا شکار ہوگئے۔ طه
116 طه
117 ١١٧۔ ١ یہ شقا، محنت ومشقت کے معنی میں ہے، یعنی جنت میں کھانے پینے، لباس اور مسکن جو سہولتیں بغیر کسی محنت کے حاصل ہیں۔ جنت سے نکل جانے کی صورت میں ان چاروں چیزوں کے لئے محنت و مشقت کرنی پڑے گی، جس طرح کہ ہر انسان کو دنیا میں ان بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لئے محنت کرنی پڑ رہی ہے۔ علاوہ ازیں صرف آدم (علیہ السلام) سے کہا گیا کہ محنت مشقت میں پڑجائیگا۔ دونوں کو نہیں کہا گیا حالانکہ درخت کا پھل کھانے والے آدم (علیہ السلام) و حوا دونوں ہی تھے۔ اس لئے اصل مخاطب آدم ہی تھے۔ نیز بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی مرد ہی کی ذمہ داری ہے عورت کی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو اس محنت و مشقت سے بچا کر گھر کی ملکہ کا اعزاز عطا فرمایا ہے۔ لیکن آج عورت کو یہ "اعزاز الہٰی ""طوق غلامی "نظر آتا ہے جس سے آزاد ہونے کے لیے وہ بے قرار اور مصروف جہد ہے آہ! اغوائے شیطانی بھی کتنا موثر اور اس کا جال بھی کتنا حسین اور دلفریب ہے۔ طه
118 طه
119 طه
120 طه
121 ١٢١۔ ١ یعنی درخت کا پھل کھا کر نافرمانی کی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مطلوب یا راہ راست سے بہک گئے طه
122 ١٢٢۔ ١ اس سے بعض لوگ استدال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے مذکورہ غلطیوں کا ہونا، نبوت سے قبل ہوا، اور نبوت سے اس کے بعد آپ کو نوازا گیا۔ لیکن ہم نے گزشتہ صفحے میں اس ' معصیت ' کی حقیقت بیان کی ہے، وہ عصمت کے منافی نہیں رہتی۔ کیونکہ ایسا وعظ و نصیحت، جس کا تعلق تبلیغ رسالت اور تشریع سے نہ ہو، بلکہ ذاتی افعال سے ہو اور اس میں بھی اس کا سبب ضعف کا اطلاق کیا گیا ہے تو محض ان کی عظمت شان اور مقام بلند کی وجہ سے کہ بڑوں کی معمولی غلطی کو بھی بڑا سمجھ لیا جاتا ہے، اس لئے آیت کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نے اس کے بعد اسے نبوت کے لئے چن لیا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ندامت اور توبہ کے بعد ہم نے اسے پھر اسی مقام پر فائز کردیا، جو پہلے انھیں حاصل تھا۔ ان کو زمین پر اتار نے کا فیصلہ، ہماری مشیت اور حکمت و مصلحت پر مبنی تھا، اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ یہ ہمارا غضب ہے جو آدم پر نازل ہوا ہے۔ طه
123 طه
124 ١٢٤۔ ١ اس تنگی سے بعض نے عذاب قبر اور بعض نے وہ، قلق واضطراب، بے چینی اور بے کلی مراد لی ہے جس میں اللہ کی یاد سے غافل بڑے بڑے دولت مند مبتلا رہتے ہیں۔ ١٢٤۔ ٢ اس سے مراد فی الواقع آنکھوں سے اندھا ہونا ہے یا پھر بصیرت سے محرومی مراد ہے یعنی وہاں اس کو کوئی ایسی دلیل نہیں سوجھے گی جسے پیش کر کے وہ عذاب سے چھوٹ سکے۔ طه
125 طه
126 طه
127 طه
128 طه
129 ١٢٩۔ ١ یعنی یہ مکذبین اور مشرکین مکہ دیکھتے نہیں کہ ان سے پہلے کئی امتیں گزر چکی ہیں، جن کے جانشین ہیں اور ان کی رہائش گاہوں سے گزر کر آگے جاتے ہیں انھیں ہم اسکے جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک کرچکے ہیں، جن کے عبرت ناک انجام میں اہل عقل و دانش کے لئے بڑی نشانیاں ہیں، لیکن اہل مکہ ان سے آنکھیں بند کئے ہوئے انہی کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے سے یہ فیصلہ نہ کیا ہوتا کہ وہ تمام حجت کے بغیر اور اس مدت کے آنے سے پہلے جو وہ مہلت کے لئے کسی قوم کو عطا فرماتا ہے، کسی کو ہلاک نہیں کرتا۔ تو فورا! انھیں عذاب الٰہی آ چمٹتا اور یہ ہلاکت سے دو چار ہوچکے ہوتے۔ مطلب یہ ہے کہ تکذیب رسالت کے باوجود اگر ان پر اب تک عذاب نہیں آیا تو یہ سمجھیں کہ آئندہ بھی نہیں آئے گا بلکہ ابھی ان کو اللہ کی طرف سے مہلت ملی ہوئی ہے، جیسا کہ وہ ہر قوم کو دیتا ہے۔ مہلت عمل ختم ہوجانے کے بعد ان کو عذاب الٰہی سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ طه
130 ١٣٠۔ ١ بعض مفسرین کے نزدیک تسبیح سے مراد نماز ہے اور وہ اسے پانچ نمازوں سے مراد لیتے ہیں۔ طلوع شمس سے قبل فجر، ٖغروب سے قبل، عصر رات کی گھڑیوں سے مغرب و عشاء اور اطراف النھار سے ظہر کی نماز مراد ہے کیونکہ ظہر کا وقت، یہ نماز اول کا طرف آخر اور نہار آخر کا طرف اول ہے۔ اور بعض کے نزدیک ان اوقات میں ایسے ہی اللہ کی تسبیح و توحید ہے، جس میں نماز، تلاوت، ذکر اذکار، دعا مناجات اور نوافل سب داخل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ان مشرکین کی تکذیب سے بددل نہ ہوں۔ اللہ کی تسبیح و تحمید کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ جب چاہے گا، ان کی گرفت فرما لے گا۔ ١٣٠۔ ٢ یہ متعلق ہے فَسَبِّحْ سے یعنی ان اوقات میں تسبیح کریں، یہ امید رکھتے ہوئے کہ اللہ کے ہاں آپ کو وہ مقام و درجہ حاصل ہوجائے گا جس سے آپ کا نفس راضی ہوجائے۔ طه
131 ١٣١۔ ١ یہ وہی مضمون ہے جو اس سے قبل سورۃ عمران ١٩٦۔ ١٩٧، سورۃ حجر، ٨٧۔ ٨٨ اور سورۃ کہف، ٧ وغیرہ میں بیان ہوا ہے۔ ١٣١۔ ٢ اس سے مراد آخرت کا اجر و ثواب ہے جو دنیا کے مال و اسباب سے بہتر بھی ہے اور اس کے مقابلے میں باقی رہنے والا بھی۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عمر، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ آپ ایک کھردری چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور بے سرو سامانی کا یہ عالم ہے، کہ گھر میں چمڑے کی دو چیزوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ گئے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا، عمر کیا بات ہے، روتے کیوں ہو؟ عرض کیا یا رسول اللہ! قیصرو کسرٰی، کس طرح آرام و راحت کی زندگی گزار رہے ہیں اور آپ کا، باوجود اس بات کے کہ آپ افضل الخلق ہیں، یہ حال ہے، فرمایا، عمر کیا تم اب تک شک میں ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو ان کے آرام کی چیزیں دنیا میں ہی دے دی گئی ہیں۔ ' یعنی آخرت میں ان کے لئے کچھ نہیں ہوگا (مسلم بخاری) طه
132 ١٣٢۔ ١ اس خطاب میں ساری امت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع ہے۔ یعنی مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود بھی نماز کی پا بندی کرے اور اپنے گھر والوں کو بھی نماز کی تاکید کرتا رہے۔ طه
133 ١٣٣۔ ١ یعنی ان کی خواہش کے مطابق نشانی، جیسے ثمود کے لئے اونٹنی ظاہر کی گئی۔ ١٣٣۔ ٢ ان سے مراد تورات، انجیل اور زبور وغیرہ ہیں، یعنی کیا ان میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات موجود نہیں، جن سے ان کی نبوت کی تصدیق ہوتی ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ کیا ان کے پاس پچھلی قوموں کے حالات نہیں پہنچے کہ انہوں نے جب اپنی حسب خواہش معجزے کا مطالبہ کیا اور وہ انھیں دکھا دیا گیا لیکن اس کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے، تو انھیں ہلاک کردیا گیا۔ طه
134 ١٣٤۔ ١ مراد آخر الزماں پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ طه
135 ١٣٥۔ ١ یعنی مسلمان اور کافر دونوں اس انتظار میں ہیں کہ دیکھو کفر غالب رہتا ہے یا اسلام غالب آتا ہے۔ ١٣٥۔ ٢ اس کا علم تمہیں اس سے ہوجائے گا کہ اللہ کی مدد سے کامیاب اور سرخرو کون ہوتا ہے؟ چنانچہ یہ کامیابی مسلمانوں کے حصے میں آئی، جس سے واضح ہوگیا کہ اسلام ہی سیدھا راستہ اور اس کے حاملین ہی ہدایت یافتہ ہیں۔ طه
0 الأنبياء
1 ١۔ ١ وقت حساب سے مراد قیامت ہے جو ہر گھڑی قریب سے قریب تر ہو رہی ہے۔ اور وہ ہر چیز جو آنے والی ہے، قریب ہے۔ اور ہر انسان کی موت بجائے خود اس کے لئے قیامت ہے۔ علاوہ ازیں گزرے ہوئے زمانے کے لحاظ سے بھی قیامت قریب ہے کیونکہ جتنا زمانہ گزر چکا ہے۔ باقی رہ جانے والا زمانہ اس سے کم ہے۔ ١۔ ٢ یعنی اس کی تیاری سے غافل، دنیا کی زینتوں میں گم اور ایمان کے تقاضوں سے بے خبر ہیں۔ الأنبياء
2 ٢۔ ١ یعنی قرآن جو وقتاً فوقتاً حسب حالات و ضروریات نیا نیا اترتا رہتا ہے، وہ اگرچہ انہی کی نصیحت کے لئے اترتا ہے، لیکن وہ اسے اس طرح سنتے ہیں جیسے وہ اس سے استہزاء مذاق اور کھیل کر رہے ہوں یعنی اس میں تدبر و غور و فکر نہیں کرتے۔ الأنبياء
3 ٣۔ ١ یعنی نبی کا بشر ہونا ان کے لئے ناقابل قبول ہے پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ تم دیکھ نہیں رہے کہ یہ تو جادوگر ہے، تم اس کے جادو میں دیکھتے بھالتے کیوں پھنستے ہو۔ الأنبياء
4 ٤۔ ١ وہ تمام بندوں کی باتیں سنتا ہے اور سب کے اعمال سے واقف ہے، تم جو جھوٹ بکتے ہو، اسے سن رہا ہے اور میری سچائی کو اور جو دعوت تمہیں دے رہا ہوں، اس کی حقیقت کو خوب جانتا ہے۔ الأنبياء
5 ٥۔ ١ ان سرگوشی کرنے والے ظالموں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ کہا کہ یہ قرآن تو پریشان خواب کی طرح حیران کن افکار کا مجموعہ، بلکہ اس کا اپنا گھڑا ہوا ہے، بلکہ یہ شاعر ہے اور یہ قرآن کتاب ہدایت نہیں، شاعری ہے۔ یعنی کسی ایک بات پر ان کو قرار نہیں ہے۔ ہر روز ایک نیا پینترا بدلتے اور نئی سے نئی الزام تراشی کرتے ہیں۔ ٥۔ ٢ یعنی جس طرح ثمود کے لئے اونٹنی، موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے عصا اور ید بیضا وغیرہ۔ الأنبياء
6 ٦۔ ١ یعنی ان سے پہلے جتنی بستیاں ہم نے ہلاک کیں، یہ نہیں ہوا کہ ان کی حسب خواہش معجزہ دکھلانے پر ایمان لے آئی ہوں، بلکہ معجزہ دیکھ لینے کے باوجود وہ ایمان نہیں لائیں، جس کے نتیجے میں ہلاکت ان کا مقدر بنی تو کیا اگر اہل مکہ کو ان کی خواہش کے مطابق کوئی نشانی دکھلا دی جائے، تو وہ ایمان لے آئیں گے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ یہ بھی تکذیب و عناد کے راستے پر ہی بدستور گامزن رہیں گے۔ الأنبياء
7 ٧۔ ١ یعنی تمام نبی مرد انسان تھے، نہ کوئی غیر انسان کبھی نبی آیا اور نہ غیر مرد، گویا نبوت انسانوں کے ساتھ اور انسانوں میں بھی مردوں کے ساتھ ہی خاص رہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی عورت نبی نہیں بنی۔ اس لئے نبوت بھی ان کے فرائض میں سے ہے جو عورت کو طبعی اور فطری دائرہ عمل سے خارج ہے۔ ٧۔ ٢ اَ ھْلَ الذِّکْرِ (اہل علم) سے مراد اہل کتاب ہیں، جو سابقہ آسمانی کتابوں کا علم رکھتے تھے، ان سے پوچھ لو کہ پچھلے انبیاء جو ہو گزرے ہیں، وہ انسان تھے یا غیر انسان؟ وہ تمہیں بتلائیں گے کہ تمام انبیاء انسان ہی تھے۔ الأنبياء
8 ٨۔ ١ بلکہ وہ کھانا بھی کھاتے تھے اور موت سے بھی ہم کنار ہو کر مسافر عالم بقاء بھی ہوئے، یہ انبیاء کی بشریت ہی کی دلیل دی جا رہی ہے۔ الأنبياء
9 ٩۔ ١ یعنی وعدے کے مطابق نبیوں کو اور اہل ایمان کو نجات عطا کی اور حد سے تجاوز کرنے والے یعنی کفار و مشرکین کو ہم نے ہلاک کردیا۔ الأنبياء
10 الأنبياء
11 ١١۔ ١ قَصَمَ کے معنی ہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دینا۔ یعنی کتنی ہی بستیوں کو ہم نے ہلاک کردیا، توڑ پھوڑ کر رکھ دیا، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ' قوم نوح کے بعد ہم نے کتنی ہی بستیاں ہلاک کردیں (سورہ بنی اسرائیل) الأنبياء
12 ١٢۔ ١ احساس کے معنی ہیں، حواس کے ذریعے سے ادراک کرلینا۔ یعنی جب انہوں نے عذاب یا اس کے آثار کو آتے دیکھا یا کڑک گرج کی آواز سن کر معلوم کرلیا، تو اس سے بچنے کے لئے راہ فرار ڈھونڈنے لگے۔ رکض کے معنی ہوتے ہیں آدمی گھوڑے وغیرہ پر بیٹھ کر اس کو دوڑانے کے لیے ایڑ لگائے یہیں سے یہ بھاگنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ الأنبياء
13 ١٣۔ ١ یہ فرشتوں نے ندا دی یا مومنوں نے استہزاء کے طور پر کہا۔ ١٣۔ ٢ یعنی جو نعمتیں اور آسائشیں تمہیں حاصل تھیں جو تمہارے کفر اور سرکشی کا باعث تھیں اور وہ مکانات جن میں تم رہتے تھے اور جن کی خوبصورتی اور پائیداری پر فخر کرتے تھے ان کی طرف پلٹو۔ ١٣۔ ٣ اور عذاب کے بعد تمہارا حال احوال تو پوچھ لیا جائے کہ تم پر یہ کیا بیتی، کس طرح بیتی اور کیوں بیتی؟ یہ سوال بطور خیال اور مذاق کے ہے، ورنہ ہلاکت کے شکنجے میں کسے جانے کے بعد وہ جواب دینے کی پوزیشن میں ہی کب رہتے تھے؟ الأنبياء
14 الأنبياء
15 ١٥۔ ١ یعنی جب تک زندگی کے آثار ان کے اندر رہے، وہ اعتراف ظلم کرتے رہے۔ ١٥۔ ٢ حَصِیْد کٹی ہوئی کھیتی کو اور خُمُوْد آگ کے بج جانے کو کہتے ہیں۔ یعنی بالآخر وہ کٹی ہوئی کھیتی اور بھجی ہوئی آگ کی طرح راکھ کا ڈھیر ہوگئے، کوئی تاب و توانائی اور حس و حرکت ان کے اندر نہ رہی۔ الأنبياء
16 ١٦۔ ١ بلکہ اس کے کئی مقاصد اور حکمتیں ہیں، مثلاً بندے میرا ذکر و شکر کریں، نیکوں کو نیکیوں کی جزا اور بدوں کو بدیوں کی سزا دی جائے۔ وغیرہ۔ الأنبياء
17 ١٧۔ ١ یعنی اپنے پاس سے ہی کچھ چیزیں کھیل کے لئے بنا لیتے اور اپنا شوق پورا کرلیتے۔ اتنی لمبی چوڑی کائنات بنانے کی اور پھر میں ذی روح اور ذی شعور مخلوق بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ ١٧۔ ٢ ' اگر ہم کرنے والے ہی ہوتے ' عربی اسلوب کے اعتبار سے یہ زیادہ ہے بہ نسبت اس ترجمہ کے کہ ' ہم کرنے والے ہی نہیں ' صحیح ہے (فتح القدیر) الأنبياء
18 ١٨۔ ١ یعنی تخلیق کائنات کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ ہے کہ یہاں حق و باطل کی جو معرکہ آرائی اور خیرو شر کے درمیان جو تصادم ہے، اس میں ہم حق اور خیر کو غالب اور باطل اور شر کو مغلوب کریں چنانچہ ہم حق کو باطل پر یا سچ کو جھوٹ پر یا خیر کو شر پر مارتے ہیں، جس سے باطل، جھوٹ اور شر کا بھیجہ نکل جاتا ہے اور چشم زدن میں وہ نابود ہوجاتا ہے۔ ١٨۔ ٢ یعنی رب کی طرف سے تم جو بے سرو پا باتیں منسوب کرتے یا اس کی بابت باور کراتے ہو، (مثلاً یہ کائنات ایک کھیل ہے، ایک کھلنڈرے کا شوق فضول ہے وغیرہ) یہ تمہاری ہلاکت کا باعث ہے۔ کیونکہ اسے کھیل تماشہ سمجھنے کی وجہ سے تم حق سے گریز اور باطل کو اختیار کرنے میں کوئی تامل اور خوف محسوس نہیں کرتے، جس کا نتیجہ بالآخر تمہاری بربادی اور ہلاکت ہی ہے۔ الأنبياء
19 ١٩۔ ١ سب اسی کی ملک اور اسی کے غلام ہیں، پھر جب تم کسی غلام کو اپنا بیٹا اور کسی لونڈی کو بیوی بنانے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے مملوکین اور غلاموں میں سے بعض کو بیٹا اور بعض کو بیوی کس طرح بنا سکتا ہے؟ ١٩۔ ٢ اس سے مراد فرشتے ہیں، وہ بھی اس کے غلام اور بندے ہیں، ان الفاظ سے ان کا شرف و اکرام بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اس کی بارگاہ کے مقربین ہیں۔ اس کی بیٹیاں نہیں ہیں جیسا کہ مشرکین کا عقیدہ تھا۔ الأنبياء
20 الأنبياء
21 ٢١۔ ١ استفہام انکاری ہے یعنی نہیں کرسکتے۔ پھر وہ ان کو جو کسی چیز کی قدرت نہیں رکھتے، اللہ کا شریک کیوں ٹھہراتے اور ان کی عبادت کیوں کرتے ہیں؟ الأنبياء
22 ٢٢۔ ١ یعنی اگر واقع آسمان و زمین میں دو معبود ہوتے تو کائنات میں تصرف کرنے والی دو ہستیاں ہوتیں، دو کا ارادہ و شعور اور مرضی کار فرما ہوتی اور جب دو ہستیوں کا ارادہ اور فیصلہ کائنات میں چلتا تو یہ نظم کائنات اس طرح قائم رہ ہی نہیں سکتا تھا جو ابتدائے آفرینش سے، بغیر کسی ادنیٰ توقف کے قائم چلا آرہا ہے۔ کیونکہ دونوں کا ارادہ ایک دوسرے سے ٹکراتا۔ دونوں کی مرضی کا آپس میں تصادم ہوتا، دونوں کے اختیارات ایک دوسرے کے مخالف سمت میں استعمال ہوتے۔ جس کا نتیجہ ابتری اور فساد کی صورت میں رونما ہوتا اور اب تک ایسا نہیں ہوا تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ کائنات میں صرف ایک ہی ہستی ہے جس کا ارادہ ومشیت کار فرما ہے جو کچھ بھی ہوتا ہے صرف اور صرف اسی کے حکم پر ہوتا ہے اس کے دئیے ہوئے کو کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے وہ اپنی رحمت روک لے اس کو دینے والا کوئی نہیں۔ الأنبياء
23 الأنبياء
24 ٢٤۔ ١ مطلب یہ ہے کہ قرآن میں اور اس سے قبل کی دیگر کتابوں میں سب میں صرف ایک ہی معبود کی الوہیت و ربوبیت کا ذکر ملتا ہے۔ لیکن مشرکین اس حق کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور بدستور اس توحید سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ الأنبياء
25 ٢٥۔ ١ یعنی تمام پیغمبر بھی یہی توحید کا پیغام لے کر آئے۔ الأنبياء
26 الأنبياء
27 ٢٧۔ ١ اس میں مشرکین کا کہنا ہے جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔ فرمایا وہ بیٹیاں نہیں، اس کے ذی عزت بندے اور اس کے فرما بردار ہیں۔ علاوہ ازیں بیٹے، بیٹیوں کی ضرورت، اس وقت پڑتی ہے۔ جب عالم پیری میں ضعف و بڑھاپا، ایسے عوارض ہیں جو انسان کو لاحق ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات ان تمام کمزوریوں اور کوتاہیوں سے پاک ہے۔ اس لئے اسے اولاد کی یا کسی سہارے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں بار بار اس امر کی صراحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ الأنبياء
28 ٢٨۔ ١ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء صالحین کے علاوہ فرشتے بھی سفارش کریں گے۔ حدیث صحیح سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، لیکن یہ سفارش انہی کے حق میں ہوگی جن کے لئے اللہ تعالیٰ پسند فرمائے گا۔ اور ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ سفارش اپنے نافرمان بندوں کے لئے نہیں، صرف گناہ گار مگر فرماں بردار بندوں یعنی اہل ایمان و توحید کے لئے پسند فرمائے گا۔ الأنبياء
29 ٢٩۔ ١ یعنی ان فرشتوں میں سے بھی اگر کوئی اللہ ہونے کا دعویٰ کر دے تو ہم اسے بھی جہنم میں پھینک دیں گے۔ یہ شرطیہ کلام ہے، جس کا وقوع ضروری نہیں۔ مقصد، شرک کی تردید اور توحید کا اثبات ہے۔ جیسے (قُلْ اِنْ کَان للرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ڰ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ) 43۔ الزخرف :81) ' اگر بالفرض رحمٰن کی اولاد ہو تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والوں میں سے ہوں گا ' ( لَیِٕنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ) 39۔ الزمر :65)' اے پیغمبر! اگر تو بھی شرک کرے تو تیرے عمل برباد ہوجائیں گے ' یہ سب مشروط ہیں جن کا وقوع غیر ضروری ہے۔ الأنبياء
30 ٣٠۔ ١ یعنی آسمان و زمین، ابتدائے امر ہیں، باہم ملے ہوئے اور ایک دوسرے کے ساتھ پیوست تھے۔ ہم نے ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا، آسمانوں کو اوپر کردیا جس سے بارش برستی ہے اور زمین کو اپنی جگہ پر رہنے دیا، تاہم وہ پیداوار کے قابل ہوگئی۔ ٣٠۔ ٢ اس سے مراد اگر بارش اور چشموں کا پانی ہے، تب بھی واضح ہے کہ اس کی روئیدگی ہوتی ہے اور ہر ذی روح کو حیات نو ملتی ہے اور اگر مراد نطفہ ہے، تو اس میں بھی کوئی اشکال نہیں کہ ہر زندہ چیز کے وجود کے باعث وہ قطرہ آب ہے جو نر کی پیٹھ کی ہڈیوں سے نکلتا اور مادہ کے رحم میں جاکر قرار پکڑتا ہے۔ الأنبياء
31 ٣١۔ ١ یعنی اگر زمین پر یہ بڑے بڑے پہاڑ نہ ہوتے تو زمین جنبش اور لرزش ہوتی رہتی، جس کی وجہ سے انسانوں اور حیوانوں کے لئے زمین مسکن اور مستقر بننے کی صلاحیت سے محروم رہتی۔ ہم نے پہاڑوں کا بوجھ اس پر ڈال کر اسے ڈانوا ڈول ہونے سے محفوظ کردیا۔ ٣١۔ ٢ اس سے مراد زمین یا پہاڑ ہیں، یعنی زمین میں کشادہ راستے بنا دیئے یا پہاڑوں میں درے رکھ دیئے، جس سے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں آنا جانا آسان ہوگیا، دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے تاکہ ان کے ذریعے سے اپنی معاش کے مصالح و مفادات حاصل کرسکیں۔ الأنبياء
32 ٣٢۔ ١ زمین کے لئے محفوظ چھت، جس طرح خیمے اور قبے کی چھت ہوتی ہے یا اس معنی میں محفوظ کہ ان کو زمین پر گرنے سے روک رکھا ہے، ورنہ آسمان زمین پر گر پڑیں تو زمین کا سارا نظام تہ وبالا ہوسکتا ہے۔ یا شیاطین سے محفوظ جیسے فرمایا (وَحَفِظْنٰہَا مِنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ) 45۔ الحجر :17) الأنبياء
33 ٣٣۔ ١ یعنی رات کو آرام اور دن کو معاش کے لئے بنایا، سورج کو دن کی نشانی چاند کو رات کی نشانی بنایا، تاکہ مہینوں اور سالوں کا حساب کیا جاسکے، جو انسان کی اہم ضروریات میں سے ہے۔ ٣٣۔ ٢ جس طرح پیراک سطح آب پر تیرتا ہے، اسی طرح چاند اور سورج اپنے اپنے مدار پر تیرتے یعنی رواں دواں رہتے ہیں۔ الأنبياء
34 ٣٤۔ ١ یہ کفار کے جواب میں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت کہتے تھے کہ ایک دن اسے مر ہی جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موت تو ہر انسان کو آنی ہے اور اس اصول سے یقینا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مستشنٰی نہیں۔ کیونکہ وہ بھی انسان ہی ہیں اور ہم نے انسان کے لئے بھی دوام اور ہمیشگی نہیں رکھی ہے۔ لیکن کیا بات کہنے والے خود نہیں مریں گے۔؟ اس سے صنم پرستوں کی بھی تردید ہوگئی جو دیوتاؤں کی اور انبیاء واولیاء کی زندگی کے قائل ہیں اور اسی بنیاد پر ان کو حاجت روا مشکل کشا سمجھتے ہیں فنعوذ باللہ من ھذہ العقیدۃ الفاسدۃ التی تعارض القرآن۔ الأنبياء
35 ٣٥۔ ١ یعنی کبھی مصائب و رنج و غم سے دو چار کرکے اور کبھی دنیا کے وسائل فراواں سے بہرور کر کے۔ کبھی صحت و فراخی کے ذریعے سے اور کبھی تنگی و بیماری کے ذریعے سے، کبھی تونگری دیکر اور کبھی فقرو فاقہ میں مبتلا کر کے ہم آزماتے ہیں۔ تاکہ ہم دیکھیں کہ شکر گزاری کون کرتا ہے اور ناشکری کون؟ صبر کون کرتا ہے اور ناصبری کون؟ شکر اور صبر، یہ رضائے الٰہی کا اور کفران نعمت اور ناصبری غضب الٰہی کا موجب ہے۔ ٣٥۔ ٢ وہاں تمہارے عملوں کے مطابق اچھی یا بری جزا دیں گے۔ اول الذکر لوگوں کے لئے بھلائی اور دوسروں کے لئے برائی۔ الأنبياء
36 ٣٦۔ ١ اس کے باوجود یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہنسی و مذاق اڑاتے ہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔ ( اِنْ یَّتَّخِذُوْنَکَ اِلَّا ہُزُوًا ۭ اَھٰذَا الَّذِیْ بَعَثَ اللّٰہُ رَسُوْلًا) 25۔ الفرقان :41) جب اے پیغمبر! یہ کفار مکہ تجھے دیکھتے ہیں تو تیرا مذاق اڑانے لگ جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ وہ شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ؟ الأنبياء
37 ٣٧۔ ١ یہ کفار کے متعلق عذاب کے جواب میں ہے کہ چونکہ انسان کی فطرت میں عجلت اور جلد بازی ہے اس لئے وہ پیغمبروں سے بھی جلدی مطالبہ کرنے لگ جاتا ہے کہ اپنے اللہ سے کہہ کہ ہم پر فوراً عذاب نازل کروا دے۔ اللہ نے فرمایا جلدی مت کرو، میں عنقریب اپنی نشانیاں تمہیں دکھاؤں گا۔ ان نشانیوں سے مراد عذاب بھی ہوسکتا ہے اور صداقت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دلائل وبراہین بھی۔ الأنبياء
38 الأنبياء
39 ٣٩۔ ١ اس کا جواب علیحدہ ہے، یعنی اگر یہ جان لیتے تو پھر عذاب کا جلدی مطالبہ نہ کرتے یا یقینا جان لیتے کہ قیامت آنے والی ہے یا کفر پر قائم نہ رہتے بلکہ ایمان لے آتے۔ الأنبياء
40 ٤٠۔ ١ یعنی انھیں کچھ سجھائی نہ نہیں دے گا کہ وہ کیا کریں؟ ٤٠۔ ٢ کہ وہ توبہ و اعتذار کا اہتمام کرلیں۔ الأنبياء
41 ٤١۔ ١ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ مشرکین کے مذاق اور جھٹلانے سے بد دل نہ ہوں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، تجھ سے پہلے آنے والے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا گیا، بالآخر وہی عذاب ان پر الٹ پڑا، یعنی اس نے انھیں گھیر لیا، جس کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور جس کا وقوع ان کے نزدیک ابھی مستبعد تھا جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰی اَتٰیہُمْ نَصْرُنَا) 6۔ الانعام :34) تجھ سے پہلے بھی رسول جھٹلائے گئے پس انہوں نے تکذیب پر اور ان تکلیفوں پر جو انھیں دی گئیں صبر کیا یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے ساتھ کفار و مشرکین کے لیے اس میں تہدید و وعید بھی ہے۔ الأنبياء
42 ٤٢۔ ١ یعنی تمہارے جو کرتوت ہیں، وہ تو ایسے ہیں کہ دن یا رات کی کسی گھڑی میں تم پر عذاب آسکتا ہے؟ اس عذاب سے دن اور رات تمہاری کون حفاطت کرتا ہے؟ کیا اللہ کے سوا بھی کوئی اور ہے جو عذاب الٰہی سے تمہاری حفاظت کرسکے؟ الأنبياء
43 ٤٣۔ ١ اس معنی ہیں ' وَلَا ھُمْ یَجْارُوْنَ مِنْ عَذَابِنَا ' نہ وہ ہمارے عذاب سے ہی محفوظ ہیں، یعنی وہ خود اپنی مدد پر اور اللہ کے عذاب سے بچنے پر قادر نہیں ہیں، پھر ان کی طرف سے ان کی مدد کیا ہوئی ہے اور وہ انھیں عذاب سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟ الأنبياء
44 ٤٤۔ ١ یعنی ان کی یا ان کے آبا واجداد، کی زندگیاں اگر عیش و راحت میں گزر گئیں تو کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح راستے پر ہیں؟ اور آئندہ بھی انھیں کچھ نہیں ہوگا ؟ نہیں بلکہ یہ چند روزہ زندگی کا آرام تو ہمارے اصول مہلت کا ایک حصہ ہے، اس سے کسی کو دھوکا اور فریب میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ ٤٤۔ ٢ یعنی زمین کفر بتدریج گھٹ رہی ہے اور دولت اسلام وسعت پذیر ہے۔ کفر کے پیروں تلے سے زمین کھسک رہی ہے اور اسلام کا غلبہ بڑھ رہا ہے اور مسلمان علاقے پر علاقہ فتح کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ٤٤۔ ٣ یعنی کفر کو سمٹتا اور اسلام کو بڑھتا ہوا دیکھ کر بھی، کیا وہ کافر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ غالب ہیں؟ استفہام انکاری ہے۔ یعنی وہ غالب نہیں، مغلوب ہیں، فاتح نہیں، مفتوح ہیں، معزز و سر فراز نہیں، ذلت اور خواری ان کا مقدر ہے۔ الأنبياء
45 ٤٥۔ ١ یعنی قرآن سنا کر انھیں وعظ و نصیحت کر رہا ہوں اور یہی میری ذمہ داری ہے اور منصب ہے۔ لیکن جن لوگوں کے کانوں کو اللہ نے حق کے سننے سے بہرا کردیا، آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور دلوں پر مہر لگا دی، ان پر اس قرآن کا اور وعظ و نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ الأنبياء
46 ٤٦۔ ١ یعنی عذاب کا ایک ہلکا سا چھٹا اور تھوڑا حصہ بھی پہنچے گا تو پکار اٹھیں گے اور اعتراف جرم کرنے لگ جائیں گے۔ الأنبياء
47 ٤٧۔ ١ ‏موازین، میزان (ترازو) کی جمع ہے وزن اعمال کے لئے قیامت والے دن یا تو کئی ترازو ہونگے یا ترازو تو ایک ہی ہوگی انسان کے اعمال تو بے وزن ہیں یعنی ان کا کوئی ظاہری وجود یا جسم تو ہے نہیں پھر وزن کس طرح ہوگا ؟ یہ سوال آج سے قبل تک شاید کوئی اہمیت رکھتا ہو۔ لیکن آج سائنسی ایجادات نے اسے ممکن بنا دیا ہے۔ اب ان ایجادات کے ذریعے سے بے وزن چیزوں کا وزن بھی تولا جانے لگا ہے۔ جب انسان اس بات پر قادر ہوگیا ہے، تو اللہ کے لئے ان اعمال کا، جو بے وزن کو دکھلانے کے لئے ان بے وزن اعمال کو وہ اجسام میں بدل دے گا اور پھر وزن کرے، جیسا کہ حدیث میں بعض اعمالوں کے مجسم ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلا! صاحب قرآن کے لئے ایک خوش شکل نوجوان کی شکل میں آئے گا۔ اور پوچھے گا، تو کون ہے؟ وہ کہے گا میں قرآن ہوں جسے تو راتوں کو (قیام اللیل) بیدار رہ کر اور دن کو پیاسا رہ کر پڑھا کرتا تھا، اسی طرح مومن کی قبر میں عمل صالح ایک خوش رنگ اور معطر نوجوان کی شکل میں آئے گا اور کافر اور منافق کے پاس اس کی برعکس شکل میں (مسند احمد ٥۔ ٢٨٧)۔ اس کی مذید تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ الاعراف ٧ کا حاشیہ القسط مصدر اور الموازین کی صفت ہے معنی ہیں ذوات قسط انصاف کرنے والی ترازو یا ترازوئیں الأنبياء
48 ٤٨۔ ١ یہ تورات کی صفات بیان کی گئی ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دی گئی تھی۔ اس میں بھی متقین کے لئے ہی نصیحت تھی۔ جیسے قرآن کریم کو بھی (ھُدَی لِّلْمُتَّقِیْنَ) کہا گیا، کیونکہ جن کے دلوں میں اللہ کا تقوٰی نہیں ہوتا، وہ اللہ کی کتاب کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے، تو آسمانی کتاب ان کیلئے نصیحت اور ہدایت کا ذریعہ کس طرح بنے، نصیحت یا ہدایت کے لئے ضروری ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جائے اور اس میں غور و فکر کیا جائے۔ الأنبياء
49 ٤٩۔ ١ یہ متقین کی صفات ہیں، جیسے سورۃ بقرہ کے آغاز میں اور دیگر مقامات پر بھی متقین کی صفات کا تذکرہ ہے۔ الأنبياء
50 ٥٠۔ ١ یہ قرآن، جو یاد دہانی حاصل کرنے والے کے لئے ذکر اور نصیحت اور خیر و برکت کا حامل ہے، اسے بھی ہم نے ہی اتارا ہے۔ تم اس کے مُنَزَّل مِّنَ اللّٰہِ ہونے سے کیوں انکار کرتے ہو، جب کہ تمہیں اعتراف ہے کہ تورات اللہ کی طرف سے ہی نازل کردہ کتاب ہے۔ الأنبياء
51 ٥١۔ ١ مِنْ قَبْلُ سے مراد تو یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو رشد و ہدایت (یا ہوشمندی) دینے کا واقع، موسیٰ (علیہ السلام) کو ابتدائے تورات سے پہلے کا ہے یہ مطلب ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو نبوت سے پہلے ہی ہوش مندی عطا کردی تھی۔ ٥١۔ ٢ یعنی ہم جانتے تھے کہ وہ اس رشد کا اہل ہے اور وہ اس کا صحیح استعمال کرے گا۔ الأنبياء
52 ٥٢۔ ١ تَمَاثِیْل، تِمْثَالُ کی جمع ہے۔ یہ اصل میں کسی چیز کی ہوبہو نقل کو کہتے ہیں۔ جیسے پتھر کا مجسمہ یا کاغذ اور دیوار پر کسی کی تصویر۔ یہاں مراد وہ مورتیاں ہیں جو قوم ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے معبودوں کی بنا رکھی تھیں اور جن کی وہ عبادت کرتے تھے عاکف۔ عکوف سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے معنی کسی چیز کو لازم پکڑنے اور اس پر جھک کر جم کر بیٹھ رہنے کے ہیں۔ اسی سے اعتکاف ہے جس میں انسان اللہ کی عبادت کے لیے جم کر بیٹھتا ہے اور یکسوئی اور انہماک سے اس کی طرف لو لگاتا ہے یہاں اس سے مراد بتوں کی تعظیم وعبادت اور ان کے تھانوں پر مجاور بن کر بیٹھنا ہے یہ تمثالیں (مورتیاں اور تصویریں) قبر پرستوں اور پیر پرستوں میں بھی آجکل عام ہیں اور ان کو بڑے اہتمام سے گھروں اور دکانوں میں بطور تبرک آویزاں کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں سمجھ عطا فرمائے۔ الأنبياء
53 جس طرح آج بھی جہالت وخرافات میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کو بدعات و رسومات جاہلیہ سے روکا جائے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم انھیں کس طرح چھوڑیں جب کہ ہمارے آباواجداد بھی یہی کچھ کرتے رہے ہیں اور یہی جواب وہ حضرات دیتے ہیں جو نصوص کتاب و سنت سے اعراض کر کے علماء ومشائخ کے آراء وافکار سے چمٹے رہنے کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ الأنبياء
54 الأنبياء
55 ٥٥۔ ١ یہ اس لئے کہا کہ انہوں نے اس سے قبل توحید کی آواز ہی نہیں سنی تھی انہوں نے سوچا، پتہ نہیں، ابراہیم (علیہ السلام) ہمارے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہا ہے۔ الأنبياء
56 ٥٦۔ ١ یعنی میں مذاق نہیں کر رہا، بلکہ ایک ایسی چیز پیش کر رہا ہوں جس کا علم و یقین (مشاہدہ) مجھے حاصل ہے اور وہ یہ کہ تمہارا معبود مورتیاں نہیں، بلکہ وہ رب ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک اور ان کا پیدا کرنے والا ہے۔ الأنبياء
57 ٥٧۔ ١ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے دل میں عزم کیا، بعض کہتے ہیں کہ آہستہ سے کہا جس سے مقصود بعض لوگوں کو سنانا تھا۔ مراد یہی وہ عملی کوشش ہے جو وہ زبانی وعظ کے بعد عملی اہتمام کی شکل میں کرنا چاہتے تھے۔ یعنی بتوں کی توڑ پھوڑ۔ الأنبياء
58 ٥٨۔ ١ چنانچہ وہ جس دن اپنی عید یا کوئی جشن مناتے تھے، ساری قوم اس کے لئے باہر چلی گئی اور ابراہیم (علیہ السلام) نے موقع غنیمت جان کر انھیں توڑ پھوڑ کر رکھ دیا صرف ایک بڑا بت چھوڑ دیا، بعض کہتے ہیں کہ کلہاڑی اس کے ہاتھ میں پکڑا دی تاکہ وہ اس سے پوچھیں۔ الأنبياء
59 ٥٩۔ ١ یعنی جب وہ جشن سے فارغ ہو کر آئے تو دیکھا کہ معبود تو ٹوٹے پڑے ہیں، تو کہنے لگے، یہ کوئی بڑا ہی ظالم شخص ہے جس نے یہ حرکت کی ہے۔ الأنبياء
60 ٦٠۔ ١ ان میں سے بعض نے کہا کہ وہ نوجوان ابراہیم (علیہ السلام) ہے نا، وہ ہمارے بتوں کے خلاف باتیں کرتا ہے، معلوم ہوتا ہے یہ اس کی کارستانی ہے۔ الأنبياء
61 ٦١۔ ١ یعنی اس کو سزا ملتی ہوئی دیکھیں تاکہ آئندہ کوئی اور یہ کام نہ کرے۔ یا یہ معنی ہیں کہ لوگ اس بات کی گواہی دیں کہ انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بت توڑتے ہوئے دیکھا یا ان کے خلاف باتیں کرتے ہوئے سنا ہے۔ الأنبياء
62 الأنبياء
63 ٦٣۔ ١ چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مجمع عام میں لایا گیا اور ان سے پوچھا گیا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ یہ کام تو اس بڑے بت نے کیا ہے، اگر یہ (ٹوٹے ہوئے بت) بول کر بتلا سکتے ہیں تو ذرا ان سے پوچھو تو سہی۔ یہ بطور اپنے مطلب کے بات کی یا انہوں نے کہا تاکہ وہ یہ بات جان لیں کہ جو نہ بول سکتا ہو نہ کسی چیز سے آگاہی کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ معبود نہیں ہو سکتا۔ نہ اس پر الہ کا اطلاق ہی صحیح ہے ایک حدیث صحیح میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس قول بل فعلہ کبیرھم کو لفظ کذب سے تعبیر کیا گیا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے تین جھوٹ بولے دو اللہ کے لیے ایک (انی سقیم) اور دوسرا یہی اور تیسرا حضرت سارہ اپنی بیوی کو بہن کہنا (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب واتخذاللہ ابراہیم خلیلا) زمانہ حال کے بعض مفسرین نے اس حدیث صحیح کو قرآن کے خلاف باور کر کے اس کا انکار کردیا ہے اور اس کی صحت پر اصرار غلو اور روایت پرستی قرار دیا ہے لیکن ان کی یہ رائے صحیح نہیں یقینا حقیقت کے اعتبار سے انھیں جھوٹ نہیں کہا جا سکتا لیکن ظاہری شکل کے لحاظ سے ان کو کذب سے خارج بھی نہیں کیا جا سکتا ہے گو یہ کذب اللہ کے ہاں قابل مواخذہ نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ ہی کے لیے بولے گئے ہیں درآنحالیکہ کوئی گناہ کا کام اللہ کے لیے نہیں ہوسکتا اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے کہ ظاہری طور پر کذب ہونے کے باوجود وہ حقیقتا کذب نہ ہو جیسے حضرت آدم (علیہ السلام) کے لیے عصی اور غوی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں حالانکہ خود قرآن میں ہی ان کے فعل اکل شجر کو نسیان اور ارادے کی کمزوری کا نتیجہ بھی بتلایا گیا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ کسی کام کے دو پہلو بھی ہو سکتے ہیں من وجہ اس میں استحسان اور من وجہ ظاہری قباحت کا پہلو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ قول اس پہلو سے ظاہری طور پر کذب ہی ہے کہ واقعے کے خلاف تھا بتوں کو انہوں نے خود توڑا تھا لیکن اس کا انتساب بڑے بت کی طرف کیا لیکن چونکہ مقصد ان کا تعریض اور اثبات توحید تھا اس لیے حقیقت کے اعتبار ہم اسے جھوٹ کے بجائے اتمام حجت کا ایک طریق اور مشرکین کی بے عقلی کے اثبات واظہار کا ایک انداز کہیں گے علاوہ ازیں حدیث میں ان کذبات کا ذکر جس ضمن میں آیا ہے وہ بھی قابل غور ہے اور وہ ہے میدان محشر میں اللہ کے روبرو جاکر سفارش کرنے سے اس لیے گریز کرنا کہ ان سے دنیا میں تین موقعوں پر لغزش کا صدور ہوا ہے درآنحالیکہ وہ لغزشیں نہیں یعنی حقیقت اور مقصد کے اعتبار وہ جھوٹ نہیں ہیں مگر وہ اللہ کی عظمت وجلا کیوجہ سے اتنے خوف زدہ ہوں گے کہ یہ باتیں جھوٹ کے ساتھ مماثلت کی وجہ سے قابل گرفت نظر آئیں گی گویا حدیث کا مقصد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جھوٹا ثابت کرنا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کیفیت کا اظہار ہے جو قیامت والے دن خشیت الہی کی وجہ سے ان پر طاری ہوگی۔ الأنبياء
64 ٦٤۔ ١ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس جواب سے وہ سوچ میں پڑگئے اور ایک دوسرے کو لاجواب ہو کر، کہنے لگے، واقع ظالم تو تم ہی ہو، جو اپنی جان کو بچانے پر اور نقصان پہنچانے والے کا ہاتھ پکڑنے پر قادر نہیں وہ مستحق عبادت کیونکر ہوسکتا ہے؟ بعض نے یہ مفہوم بیان کیا کہ معبودوں کی عدم حفاظت پر ایک دوسرے کو ملامت کی اور ترک حفاظت پر ایک دوسرے کا ظالم کہا۔ الأنبياء
65 ٦٥۔ ١ پھر اے ابراہیم (علیہ السلام) تو ہمیں یہ کیوں کہہ رہا ہے کہ ان سے پوچھو اگر یہ بول سکتے ہیں، جب کہ تو اچھی طرح جانتا ہے کہ یہ بولنے کی طاقت سے محروم ہیں۔ الأنبياء
66 الأنبياء
67 ٦٧۔ ١ یعنی جب وہ خود ان کی بے بسی کے اعتراف پر مجبور ہوگئے تو پھر ان کی بے عقلی پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ اللہ کو چھوڑ کر ایسے بے بسوں کی تم عبادت کرتے ہو؟ الأنبياء
68 ٦٨۔ ١ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب یوں اپنی حجت تمام کردی اور ان کی ضلالت وحماقت کو ایسے طریقے سے ان پر واضح کردیا کہ وہ لاجواب ہوگئے۔ تو چونکہ وہ توفیق ہدایت سے محروم تھے اور کفر و شرک نے ان کے دلوں کو بے نور کردیا تھا۔ اس لئے بجائے اس کے کہ وہ شرک سے بعض آجاتے، الٹا ابراہیم (علیہ السلام) کے خلاف سخت اقدام کرنے پر آمادہ ہوگئے اور اپنے معبودوں کی دہائی دیتے ہوئے انھیں آگ میں جھونک دینے کی تیاری شروع کردی، چنانچہ آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کیا گیا اور اس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کہا جاتا ہے کہ منجنیق (جس سے بڑے پتھر پھینکے جاتے ہیں) کے ذریعے سے پھینکا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی بن جا علماء کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ، ٹھنڈی کے ساتھ ' سلامتی ' نہ فرماتا تو اس کی ٹھنڈک ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے ناقابل برداشت ہوتی۔ بہرحال یہ ایک بہت بڑا معجزہ ہے جو آسمان سے باتیں کرتی ہوئی دہکتی آگ کے گل و گلزار بن جانے کی صورت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے اللہ کی مشیت سے ظاہر ہوا۔ اس طرح اللہ نے اپنے بندے کو دشمنوں کی سازش سے بچا لیا۔ الأنبياء
69 الأنبياء
70 الأنبياء
71 ٧١۔ ١ اس سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک ملک شام ہے۔ جسے شادابی اور پھلوں اور نہروں کی کثرت نیز انبیاء علیہم السلام کا مسکن ہونے کے لحاظ سے بابرکت کہا گیا ہے۔ الأنبياء
72 ٧٢۔ ١ نَا فِلَۃ، زائد کو کہتے ہیں، یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تو صرف بیٹے کے لئے دعا کی تھی، ہم نے بغیر دعا مذید پوتا بھی عطا کردیا۔ الأنبياء
73 الأنبياء
74 الأنبياء
75 ٧٥۔ ١ حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے برادر زاد (بھتیجے) تھے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے اور ان کے ساتھ عراق سے ہجرت کرکے شام جانے والوں میں سے تھے۔ اللہ نے ان کو بھی علم و حکمت یعنی نبوت سے نوازا۔ یہ جس علاقے میں نبی بنا کر بھیجے گئے، اسے عمورہ اور سدوم کہا جاتا ہے۔ یہ فلسطین کے بحیرہ مردار سے متصل بجانب اردن ایک شاداب علاقہ تھا۔ جس کا بڑا حصہ اب بحیرہ مردار کا جزو ہے۔ ان کی قوم لواطت جیسے فعل شفیع، گزر گاہوں پر بیٹھ کر آنے جانے والوں پر آوازے کسنا اور انھیں تنگ کرنا روڑے ریزے پھینکنا وغیرہ میں ممتاز تھی، جسے اللہ نے یہاں خبائث (پلید کاموں) سے تعبیر فرمایا ہے۔ بالآخر حضرت لوط (علیہ السلام) کو اپنی رحمت میں داخل کرکے یعنی انھیں اور ان کے پیرو کار کو بچا کر قوم کو تباہ کردیا گیا۔ الأنبياء
76 الأنبياء
77 الأنبياء
78 الأنبياء
79 ٧٩۔ ١ مفسرین نے یہ قصہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ایک شخص کی بکریاں، دوسرے شخص کے کھیت میں رات کو جا گھسیں اور اس کی کھیتی چر چگئیں۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے جو پیغمبر کے ساتھ حکمران بھی تھے فیصلہ دیا کہ بکریاں، کھیت والا لے لے تاکہ اس کے نقصان کی تلافی ہوجائے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور یہ فیصلہ دیا کہ بکریاں کچھ عرصے کے لئے کھیتی کے مالک کو دے دی جائیں، وہ ان سے فائدہ اٹھائے اور کھیتی بکری والے کے سپرد کردی جائے تاکہ وہ کھیتی کی آب پاشی اور دیکھ بھال کرکے، اسے صحیح کرے، جب وہ اس حالت میں آجائے جو بکریوں چرنے سے پہلے تھی تو کھیتی، کھیتی والے کو اور بکریاں، بکری والے کو واپس کردی جائیں۔ پہلے فیصلے کے مقابل میں دوسرا فیصلہ اس لحاظ سے بہتر تھا کہ اس میں کسی کو بھی اپنی چیز سے محروم ہونا نہیں پڑا۔ جب کہ پہلے فیصلے میں بکری والے اپنی بکریوں سے محروم کردیئے گئے تھے۔ تاہم اللہ نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کی بھی تعریف کی اور فرمایا کہ ہم نے ہر ایک کو (یعنی داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) دونوں کو) علم و حکمت سے نوازا تھا۔ بعض لوگ اس سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ یہ دعویٰ صحیح نہیں۔ کسی ایک معاملے میں دو الگ الگ (متضاد) فیصلہ کرنے والے دو منصف، بیک وقت دونوں مصنفین ہو سکتے، ان میں ضرور ایک مصیب (درست فیصلہ کرنے والا) ہوگا اور دوسرا غلطی کر کے غلط فیصلہ کرنے والا، البتہ یہ الگ بات ہے کہ غلطی سے غلط فیصلہ کرنے سے گناہ گار نہیں ہوگا، بلکہ اسے ایک اجر ملے گا۔ کما فی الحدیث (فتح القدیر)۔ ٧٩۔ ٢ اس سے مراد یہ نہیں کہ پہاڑ ان کی تسبیح کی آواز سے گونج اٹھتے تھے (کیونکہ اس میں تو کوئی اعجاز ہی باقی نہیں رہتا) ٧٩۔ ٣ یعنی پرندے بھی داؤد (علیہ السلام) کی سوز آواز سن کر اللہ کی تسبیح کرنے لگتے، مطلب یہ ہے کہ پرندے بھی داؤد (علیہ السلام) کے لئے مسخر کردیئے گئے تھے (فتح القدیر) ٧٩۔ ٣ یعنی یہ تفہیم، ابتائے حکم اور تسخی، ان سب کے کرنے والے ہم ہی تھے، اس لئے ان میں کسی کو تعجب کرنے کی یا انکار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس لئے کہ ہم جو چاہیں کرسکتے ہیں۔ الأنبياء
80 ٨٠۔ ١ یعنی لوہے کو ہم نے داؤد (علیہ السلام) کے لئے نرم کردیا تھا، وہ اس سے جنگی لباس، لوہے کی زریں تیار کرتے تھے، جو جنگ میں تمہاری حفاظت کا ذریعہ ہیں۔ حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) سے پہلے بھی زریں بنتی تھیں۔ لیکن وہ سادہ بغیر کنڈوں اور بغیر حلقوں کے ہوتی تھیں، حضرت داؤد (علیہ السلام) پہلے شخص ہیں جنہوں نے کنڈے دار حلقے والی زریں بنائیں (ابن کثیر) الأنبياء
81 ٨١۔ ١ یعنی جس طرح پہاڑ اور پرندے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لئے مسخر کردیئے تھے، اسی طرح ہوا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردی گئی تھی۔ وہ اپنے وزرا سلطنت سمیت تخت پر بیٹھ جاتے تھے اور جہاں چاہتے، مہینوں کی مسافت، لمحوں اور ساعتوں میں طے کرکے وہاں پہنچ جاتے، ہوا آپ کے تخت کو اڑا کرلے جاتی۔ بابرکت زمین سے مراد شام کا علاقہ ہے۔ الأنبياء
82 ٨٢۔ ١ جنات بھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے تابع تھے جو ان کے حکم سے سمندروں میں غوتے لگاتے اور موتی اور جواہر نکال لاتے، اسی طرح دیگر عمارتی کام، جو آپ چاہتے کرتے تھے۔ ٨٢۔ ٢ یعنی جنوں کے اندر جو سرکشی اور فساد کا مادہ ہے، اس سے ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کی حفاظت کی اور وہ ان کے آگے سرتابی کی مجال نہیں رکھتے تھے۔ الأنبياء
83 الأنبياء
84 ٨٤۔ ١ قرآن مجید میں حضرت ایوب (علیہ السلام) کو صابر کہا گیا ہے، (ۭاِنَّا وَجَدْنٰہُ صَابِرًا ۭ نِعْمَ الْعَبْدُ ۭ اِنَّہٗٓ اَوَّابٌ) 38۔ ص :44) اس کا مطلب یہ ہے کہ انھیں سخت آزمائشوں میں ڈالا گیا جن میں انہوں نے صبر شکر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ یہ آزمائش اور تکلیفیں کیا تھیں، اس کی مستند تفصیل تو نہیں ملتی، تاہم قرآن کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں مال و دولت دنیا اور اولاد وغیرہ سے نوازا ہوا تھا، بطور آزمائش اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ سب نعمتیں چھین لیں، حتٰی کہ جسمانی صحت سے بھی محروم اور بیماریوں میں گھر کر رہ گئے۔ بالآخر کہا جاتا ہے کہ ٨ ا سال کی آزمائشوں کے بعد بارگاہ الٰہی میں دعا کی، اللہ نے دعا قبول فرمائی اور صحت کے ساتھ مال و اولاد، پہلے سے دوگنا عطا فرمائے۔ اس کی کچھ تفصیل صحیح ابن حبان (رض) کی ایک روایت میں ملتی ہے، جس کا اظہار حضرت ایوب (علیہ السلام) نے کبھی نہیں کیا۔ البتہ دعا صبر کے منافی نہیں ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ' ہم نے قبول کرلی 'کے الفاظ استعمال فرمائے۔ الأنبياء
85 ٨٥۔ ١ ذوالکفل کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ نبی تھے یا نہیں؟ بعض نے ان کی نبوت کے اور بعض ولایت کے قائل ہیں۔ امام ابن جریر نے ان کی بابت توقف اختیار کیا ہے، امام ابن کثیر فرماتے ہیں، قرآن میں نبیوں کے ساتھ ان کا ذکر ان کے نبی ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ واللہ اعلم۔ الأنبياء
86 الأنبياء
87 ٨٧۔ ١ مچھلی والے سے مراد حضرت یونس (علیہ السلام) ہیں جو اپنی قوم سے ناراض ہو کر اور انھیں عذاب الٰہی کی دھمکی دے کر، اللہ کے حکم کے بغیر وہاں سے چل دیئے تھے، جس پر اللہ نے ان کی گرفت اور انھیں مچھلی کا لقمہ بنا دیا، اس کی کچھ تفصیل سورۃ یونس میں گزر چکی ہے اور کچھ سورۃ صافات میں آئے گی۔ ٨٧۔ ٢ ظلمات، ظلمۃ کی جمع ہے بمعنی اندھیرا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) متعدد اندھیروں میں گھر گئے۔ رات کا اندھیرا، سمندر کا اندھیرا اور مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا۔ الأنبياء
88 ٨٨۔ ١ ہم نے یونس (علیہ السلام) کی دعا قبول کی اور اسے اندھیروں سے اور مچھلی کے پیٹ سے نجات دی اور جو بھی مومن ہمیں اس طرح شدائد اور مصیبتوں میں پکارے گا، ہم اسے نجات دیں گے۔ حدیث میں آتا ہے۔ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' جس مسلمان نے بھی اس دعا کے ساتھ کسی معاملے کے لئے دعا مانگی تو اللہ نے اسے قبول فرمایا (جامع ترندی نمبر ٣٥٠٥ وصححہ الالبانی) الأنبياء
89 الأنبياء
90 ٩٠۔ ١ حضرت زکریا (علیہ السلام) کا بڑھاپے میں اولاد کے لئے دعا کرنا اور اللہ کی طرف سے اس کا عطا کیا جانا، اس کی ضروری تفصیل سورۃ آل عمران اور سورۃ طٰہٰ میں گزر چکی ہے۔ یہاں بھی اس کی طرف اشارہ ان الفاظ میں کیا ہے۔ ٩٠۔ ٢ یعنی وہ بانجھ اور ناقابل اولاد تھی، ہم نے اس کے اس نقص کا ازالہ فرما کر اسے نیک بچہ عطا فرمایا۔ ٩٠۔ ٣ گویا قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے کہ ان باتوں کا اہتمام کیا جائے جن کا بطور خاص یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً الحاح و زاری کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں دعا و مناجات، نیکی کے کاموں میں سبقت، خوف و طمع کے ملے جلے جذبات کے ساتھ رب کو پکارنا اور اس کے سامنے عاجزی اور خشوع خضوع کا اظہار۔ الأنبياء
91 ٩١۔ ١ یہ حضرت مریم اور عیسیٰ علیہما السلام کا تذکرہ ہے جو پہلے گزر چکا ہے۔ الأنبياء
92 ٩٢۔ ١ امۃ سے مراد یہاں دین یا ملت یعنی تمہارا دین یا ملت ایک ہی ہے اور وہ دین ہے دین توحید، جس کی دعوت تمام انبیاء نے دی اور ملت، ملت اسلام ہے جو تمام انبیاء کی ملت رہی۔ جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' ہم انبیاء کی جماعت اولاد علات ہیں، (جن کا باپ ایک اور مائیں مختلف ہوں) ہمارا دین ایک ہی ہے ' (ابن کثیر) الأنبياء
93 ٩٣۔ ١ یعنی دین توحید اور عبادت رب کو چھوڑ کر مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئے ایک گروہ تو مشرکین اور کفار کا ہوگیا اور انبیاء و رسل کے ماننے والے بھی گروہ بن گئے، کوئی یہودی ہوگیا، کوئی عیسائی، کوئی کچھ اور اور بد قسمتی سے یہ فرقہ بندیاں خود مسلمانوں میں بھی پیدا ہوگئیں اور یہ بھی بیسیوں فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ ان سب کا فیصلہ، جب یہ بارگاہ الٰہی میں لوٹ کر جائیں گیں۔ تو وہیں ہوگا۔ الأنبياء
94 الأنبياء
95 ٩٥۔ ١ جیسا کہ ترجمے میں واضح ہے۔ یا پھر لَا یَرْجِعُوْنَ میں لَا زائد ہے، یعنی جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا، اس کا دنیا میں پلٹ کر آنا حرام ہے۔ الأنبياء
96 ٩٦۔ ١ یاجوج ماجوج کی ضروری تفصیل سورۃ کہف کے آخر میں گزر چکی ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی موجودگی میں قیامت کے قریب ان کا ظہور ہوگا اور اتنی تیزی اور کثرت سے یہ ہر طرف پھیل جائیں گے کہ ہر اونچی جگہ یہ دوڑتے ہوئے محسوس ہونگے۔ ان کی فساد انگیزیوں اور شرارتوں سے اہل ایمان تنگ آ جائیں گے حتٰی کی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اہل ایمان کو ساتھ کوہ طور پر پناہ گزیں ہوجائیں گے، پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بد دعا سے یہ ہلاک ہوجائیں گے اور ان کی لاشوں کی سڑاند اور بدبو ہر طرف پھیلی ہوگی، حتٰی کہ اللہ تعالیٰ پرندے بھیجے گا جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیں گے پھر ایک زور دار بارش نازل فرمائے گا، جس سے ساری زمین صاف ہو جائیگی۔ (یہ ساری تفصیلات صحیح حدیث میں بیان کی گئی ہیں تفصیل کے لئے تفسیر ابن کثیر ملاحطہ ہو) الأنبياء
97 ٩٧۔ ١ یعنی یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد قیامت کا وعدہ، جو برحق ہے، بالکل قریب آجائے گا اور جب یہ قیامت برپا ہوجائے گی شدت ہولناکی کی وجہ سے کافروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ الأنبياء
98 ٩٨۔ ١ یہ آیت مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو لات منات اور عزٰی و ہبل کی پوجا کرتے تھے یہ سب پتھر کی مورتیاں تھیں۔ جو جمادات یعنی غیر عاقل تھیں، اس لئے آیت میں مَا تَعْبُدُوْنَ کے الفاظ ہیں اور عربی میں ( مَا) غیر عاقل کے لئے آتا ہے۔ یعنی کہا جارہا ہے کہ تم بھی اور تمہارے معبود بھی جن کی مورتیاں بنا کر تم نے عبادت کے لئے رکھی ہوئی ہیں سب جہنم کا ایندھن ہیں۔ الأنبياء
99 ٩٩۔ ١ یعنی اگر یہ واقع معبود ہوتے تو با اختیار ہوتے اور تمہیں جہنم جانے سے روک لیتے۔ لیکن وہ تو خود جہنم میں بطور عبرت کے جا رہے ہیں۔ تمہیں جانے سے کس طرح روک سکتے ہیں۔ لہذا عابد و معبود دونوں ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ الأنبياء
100 ١٠٠۔ ١ یعنی سارے کے سارے شدت غم و الم سے چیخ اور چلا رہے ہونگے، جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کی آواز بھی نہیں سن سکیں گے۔ الأنبياء
101 ١٠١۔ ١ بعض لوگوں کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوسکتا تھا یا مشرکین کی طرف سے پیدا کیا جاسکتا تھا، جیسا کہ فی الواقع کیا جاتا ہے کہ عبادت تو حضرت عیسیٰ و عزیز علیہالسلام، فرشتوں اور بہت سے صالحین کی بھی کی جاتی ہے تو کیا یہ بھی اپنے عابدین کے ساتھ جہنم میں ڈالے جائیں گے؟ اس آیت میں اس کا ازالہ کردیا گیا ہے کہ یہ لوگ تو اللہ کے نیک بندے تھے جن کی نیکیوں کی وجہ سے اللہ کی طرف سے ان کے لئے نیکی یعنی سعادت ابدی یا بشارت جنت ٹھہرائی جا چکی ہے۔ یہ جہنم سے دور ہی رہیں گے الأنبياء
102 الأنبياء
103 ١٠٣۔ ١ بڑی گھبراہٹ سے موت یا صور اسرافیل مراد ہے یا وہ لمحہ جب دوزخ اور جنت کے درمیان موت کو ذبح کردیا جائے گا۔ دوسری بات یعنی صور اسرافیل اور قیام قیامت سیاق کے زیادہ قریب ہے۔ الأنبياء
104 ١٠٤۔ ١ یعنی جس طرح کاتب لکھنے کے بعد اوراق یا رجسٹر لپیٹ کر رکھ دیتا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌۢ بِیَمِیْنِہٖ) 39۔ الزمر :87) آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہونگے ' ' سِجِل کے معنی صحیفے یا رجسٹر کے ہیں لِلْکُتُبِ کے معنی ہیں عَلَی الْکِتَابِ بِمَعْنَی الْمَکْتُوْبِ (تفسیر ابن کثیر) مطلب یہ ہے کہ کاتب کے لئے لکھے ہوئے کاغذات کو لپیٹ لینا جس طرح آسان ہے، اسی طرح اللہ کے لئے آسمان کی وسعتوں کو اپنے ہاتھ میں سمیٹ لینا کوئی مشکل امر نہیں۔ الأنبياء
105 ١٠٥۔ ١ زبور سے مراد یا تو زبور ہی ہے اور ذکر سے مراد پندونصیحت جیسا کہ ترجمہ میں درج ہے یا پھر زبور سے مراد گذشتہ آسمانی کتابیں اور ذکر سے مراد لوح محفوظ ہے۔ یعنی پہلے لوح محفوظ میں یہ بات درج ہے اور اس کے بعد آسمانی کتابوں میں بھی یہ بات لکھی جاتی رہی ہے کہ زمین کے وارث نیک بندے ہونگے۔ زمین سے مراد بعض مفسرین کے نزدیک جنت ہے اور بعض کے نزدیک ارض کفار۔ یعنی اللہ کے نیک بندے زمین میں اقتدار اور سرخرو رہے اور آئندہ بھی جب کبھی وہ اس صفت کے حامل ہوں گے، اس وعدہ الٰہی کے مطابق، زمین کا اقتدار انہی کے پاس ہوگا۔ اس لیے مسلمانوں کی محرومی اقتدار کی موجودہ صورت حال کسی اشکال کا باعث نہیں بننی چاہیے یہ وعدہ مشروط ہے صالحیت عباد کے ساتھ اور اذا فات الشرط فات المشروط کے مطابق جب مسلمان اس خوبی سے محروم ہوگئے تو اقتدار سے بھی محروم کردئیے گئے اس میں گویا حصول اقتدار کا طریقہ بتلایا گیا ہے اور وہ ہے صالحیت یعنی اللہ رسول کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنا اور اس کے حدود وضابطوں پر کاربند رہنا۔ الأنبياء
106 ١٠٦۔ ١ فی ‌ھذا سے مراد وہ وعظ وتنبیہ ہے جو اس سورت میں مختلف انداز سے بیان کی گئی ہے بلاغ سے مراد کفایت ومنفعت ہے یعنی وہ کافی اور مفید ہے یا اس سے مراد قرآن مجید ہے جس میں مسلمانوں کے لئے بڑا فائدہ اور کفالت ہے عابدین سے، خشوع خضوع سے اللہ کی عبادت کرنے والے، اور شیطان اور خواہشات نفس پر اللہ کی اطاعت کو ترجیح دینے والے ہیں۔ الأنبياء
107 اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لے آئے گا اس نے گویا اس رحمت کو قبول کرلیا اور اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کیا۔ نتیجتًا دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہوگا اور اور چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پورے جہان کے لیے ہے اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پورے جہان کے لیے رحمت بن کر یعنی اپنی تعلیمات کے ذریعے سے دین و دنیا کی سعادتوں سے ہمکنار کرنے کے لیے آئے ہیں بعض لوگوں نے اس اعتبار سے بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جہان والوں کے لیے رحمت قرار دیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے یہ امت بالکلیہ تباہی و بربادی سے محفوظ کردی گئی جیسے پچھلی قومیں اور امتیں حرف غلط کی طرح مٹا دی جاتی رہیں امت محمدیہ (جو امت اجابت اور امت دعوت کے اعتبار سے پوری نوع انسانی پر مشتمل ہے) پر اس طرح کا کلی عذاب نہیں آئے اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین کے لیے بد دعا نہ کرنا یہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحمت کا ایک حصہ تھا انی لم ابعث لعانا وانما بعثت رحمۃ (صحیح مسلم) اسی طرح غصے میں کسی مسلمان کو لعنت یا سب وشتم کرنے کو بھی قیامت والے دن رحمت کا باعث قرار دینا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحمت کا حصہ ہے ( مسند احمد) اسی لیے ایک حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انما رحمۃ مھداۃ (صحیح الجامع الصغیر) میں رحمت مجسم بن کر آیا ہوں جو اللہ کی طرف سے اہل جہان کے لیے ایک ہدیہ ہے۔ الأنبياء
108 ١٠٨۔ ١ اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اصل رحمت توحید کو اپنا لینا اور شرک سے بچ جانا ہے۔ الأنبياء
109 ١٠٩۔ ١ یعنی جس طرح میں جانتا ہوں کہ تم میری دعوت توحید و اسلام سے منہ موڑ کر میرے دشمن ہو، اسی طرح تمہیں بھی معلوم ہونا چاہیے کہ میں بھی تمہارا دشمن ہوں اور ہماری تمہاری آپس میں کھلی جنگ ہے۔ ١٠٩۔ ٢ اس وعدے سے مراد قیامت ہے یا غلبہ اسلام و مسلمین کا وعدہ یا وہ وعدہ جب اللہ کی طرف سے تمہارے خلاف جنگ کرنے کی مجھے اجازت دی جائے گی۔ الأنبياء
110 الأنبياء
111 الأنبياء
112 ١١٢۔ ١ یعنی اس وعدہ الٰہی میں تاخیر، میں نہیں جانتا کہ تمہاری آزمائش کے لئے ہے یا ایک خاص وقت تک فائدہ اٹھانے کے لئے مہلت دینا ہے۔ ١١٢۔ ٢ یعنی میری بابت جو تم مختلف باتیں کرتے رہتے ہو، یا اللہ کے لئے اولاد ٹھہراتے ہو، ان سب باتوں کے مقابلے میں وہ رب ہی مہربانی کرنے والا اور وہی مدد کرنے والا ہے۔ الأنبياء
0 الحج
1 الحج
2 ٢۔ ١ آیت مذکورہ میں جس زلزلے کا ذکر ہے، جس کے نتائج دوسری آیت میں بتلائے گئے ہیں جس کا مطلب لوگوں پر سخت خوف، دہشت اور گھبراہٹ کا طاری ہونا، یہ قیامت سے قبل ہوگا اور اس کے ساتھ دنیا فنا ہو جائیگی۔ یا یہ قیامت کے بعد اس وقت ہوگا جب قبروں سے اٹھ کر میدان محشر میں جمع ہوں گے۔ بہت سے مفسرین پہلی رائے کے قائل ہیں۔ جبکہ بعض مفسرین دوسری رائے کے اور اس کی تائید میں وہ احادیث پیش کرتے ہیں مثلا اللہ تعالیٰ آدم (علیہ السلام) کو حکم دے گا کہ وہ اپنی ذریت میں سے ہزار میں ٩٩٩ جہنم کے لیے نکال دے۔ یہ بات سن کر حمل والیوں کے حمل گرجائیں گے بچے بوڑھے ہوجائیں گے اور لوگ مدہوش سے نظر آئیں گے حالانکہ وہ مدہوش نہیں ہونگے صرف عذاب کی شدت ہوگی یہ بات صحابہ پر بڑی گراں گزری ان کے چہرے متغیر ہوگئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دیکھ کر فرمایا (گھبراؤ نہیں) یہ ٩٩٩ یاجوج ماجوج میں سے ہوں گے اور تم میں سے صرف ایک ہوگا۔ تمہاری (تعداد) لوگوں میں اس طرح ہوگی جیسے سفید رنگ کے بیل کے پہلو میں کالے بال یا کالے رنگ کے بیل کے پہلو میں سفید بال ہوں اور مجھے امید ہے کہ اہل جنت میں تم چوتھائی یا تہائی یا نصف ہو گے جسے سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بطور مسرت کے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا (صحیح بخاری تفسیر سورۃ حج) پہلی رائے بھی بے وزن نہیں ہے بعض ضعیف احادیث سے ان کی بھی تائید ہوتی ہے اس لئے زلزلہ اور اس کی کیفیات سے مراد اگر فزع اور ہولناکی کی شدت ہے (ظاہر یہی ہے) تو سخت گھبراہٹ اور ہولناکی کی یہ کیفیت دونوں موقعوں پر ہی ہوگی اس لیے دونوں ہی رائیں صحیح ہوسکتی ہیں کیونکہ دونوں موقعوں پر لوگوں کی کیفیت ایسی ہوگی جیسی اس آیت میں اور صحیح بخاری کی روایت میں بیان کی گئی ہے۔ الحج
3 ٣۔ ١ مثلًا یہ کہ اللہ تعالیٰ دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، یا اس کی اولاد ہے وغیرہ وغیرہ۔ الحج
4 ٤۔ ١ یعنی شیطان کی بابت تقدیر الٰہی میں یہ بات ثبت ہے۔ الحج
5 ٥۔ ١ یعنی نطفے (قطرہ منی) سے چالیس روز بعد عَلَقَۃٍ گاڑھا خون اور عَلَقَۃٍ سے مُضْغَۃٍ گوشت کا لوتھڑا بن جاتا ہے مُخَلَّقَۃٍ سے، وہ بچہ مراد ہے جس کی پیدائش واضح اور شکل و صورت نمایاں ہوجائے، اس کے برعکس، جس کی شکل و صورت واضح نہ ہو، نہ اس میں روح پھونکی جائے اور قبل از وقت ہی وہ ساقط ہوجائے۔ صحیح حدیث میں بھی رحم مادر کی ان کیفیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلا ایک حدیث میں ہے کہ نطفہ چالیس دن کے بعد علقۃ (گاڑھا خون) بن جاتا ہے پھر چالیس دن کے بعد یہ مضغۃ (لوتھرڑا یا گوشت کی بوٹی) کی شکل اختیار کرلیتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرشتہ آتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے یعنی چار مہینے کے بعد نفخ روح ہوتا ہے اور بچہ ایک واضح شکل میں ڈھل جاتا ہے (صحیح بخاری) ٥۔ ٢ یعنی اس طرح ہم اپنا کمال قدرت و تخلیق تمہارے لئے بیان کرتے ہیں۔ ٥۔ ٣ یعنی جس کو ساقط کرنا نہیں ہوتا۔ ٥۔ ٤ یعنی عمر اشد سے پہلے ہی۔ عمر اشد سے مراد بلوغت یا کمال عقل و کمال قوت و تمیز کی عمر، جو ٣٠ سے ٤٠ سال کے درمیان عمر ہے۔ ٥۔ ٥ اس سے مراد بڑھاپے میں قوائے انسانی میں ضعف و کمزوری کے ساتھ عقل و حافظہ کا کمزور ہوجانا اور یادداشت اور عقل و فہم میں بچے کی طرح ہوجانا، جسے سورۃ یٰسین میں (وَمَنْ نُّعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِی الْخَلْقِ) 36۔ یس :68) اور سورۃ تین میں (ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ) 95۔ التین :5) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ٥۔ ٦ یہ احیائے موتی (مردوں کے زندہ کرنے) پر اللہ تعالیٰ کے قادر ہونے کی دوسری دلیل ہے۔ پہلی دلیل، جو مذکورہ ہوئی، یہ تھی کہ جو ذات ایک حقیر قطرہ پانی سے اس طرح ایک انسانی پیکر تراش سکتا ہے اور ایک حسین وجود عطا کرسکتا ہے، علاوہ ازیں وہ اسے مختلف مراحل سے گزارتا ہوا بڑھاپے کے ایسے اسٹیج پر پہنچا سکتا ہے جہاں اس کے جسم سے لے کر اس کی ذہنی و دماغی صلاحیتیں تک، سب ضعف و انحطاط کا شکار ہوجائیں۔ کیا اس کے لئے اسے دوبارہ زندگی عطا کردینا مشکل ہے؟ یقینا جو ذات انسان کو ان مراحل سے گزار سکتی ہے، وہی ذات مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرکے ایک نیا قالب اور نیا وجود بخش سکتی ہے دوسری دلیل یہ دی ہے کہ دیکھو زمین بنجر اور مردہ ہوتی ہے لیکن اسے بارش کے بعد یہ کس طرح زندہ اور شاداب اور انواع و اقسام کے غلے، میوہ جات اور رنگ برنگ کے پھولوں سے مالا مال ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ قیامت والے دن انسانوں کو بھی ان کی قبروں سے اٹھا کر کھڑا کرے گا۔ جس طرح حدیث میں ہے ایک صحابی نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو جس طرح پیدا فرمائے گا اس کی کوئی نشانی مخلوقات میں سے بیان فرمائیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تمہارا گزر ایسی وادی سے ہوا ہے جو خشک اور بنجر ہو پھر دوبارہ اسے لہلہاتا ہوا دیکھا ہو؟ اس نے کہا ہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بس اسی طرح انسانوں کی جی اٹھنا ہوگا۔ (مسند احمد جلد ٤) الحج
6 الحج
7 الحج
8 الحج
9 ٩۔ ١ ثانی اسم فاعل ہے موڑنے والا عطف کے معنی پہلو کے ہیں یہ یجادل سے حال ہے اس میں اس شخص کی کیفیت بیان کی گئی ہے جو بغیر کسی عقلی اور نقلی دلیل کے اللہ کے بارے میں جھگڑتا ہے کہ وہ تکبر اور اعراض کرتے ہوئے اپنی گردن موڑتے ہوئے پھرتا ہے جیسے دوسرے مقامات پر اس کیفیت کو ان الفاظ سے ذکر کیا گیا ہے۔ ( وَلّٰی مُسْتَکْبِرًا کَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْہَا) 31۔ لقمان :7) ( لَوَّوْا رُءُوْسَہُمْ) 63۔ المنافقون :5) ( اَعْرَضَ وَنَاٰ بِجَانِبِہٖ) 17۔ الاسراء :83) الحج
10 الحج
11 ١١۔ ١ حرف کے معنی ہیں کنارہ۔ ان کناروں پر کھڑا ہونے والا، غیر مستقر ہوتا ہے یعنی اسے قرار و ثبات نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو شخص دین کے بارے میں شک و تذبذب کا شکار رہتا ہے اس کا حال بھی یہی ہے، اسے دین پر استقامت نصیب نہیں ہوتی کیونکہ اس کی نیت صرف دنیاوی مفادات کی رہتی ہے، ملتے رہے تو ٹھیک ہے، بصورت دیگر وہ پھر دین آبائی یعنی کفر اور شرک کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو سچے مسلمان ہوتے اور ایمان اور یقین سے سرشار ہوتے ہیں۔ بعض روایات میں یہ وصف نو مسلم اعرابیوں کا بیان کیا گیا ہے (فتح الباری، باب مذکور) الحج
12 الحج
13 ١٣۔ ١ بعض مفسرین کے نزدیک غیر اللہ کا پجاری قیامت والے دن کہے گا کہ جس کا نقصان، اس کے نفع کے قریب تر ہے، وہ والی اور ساتھی یقینا برا ہے۔ یعنی اپنے معبودوں کے بارے یہ کہے گا کہ وہاں اس کے امیدوں کے محل ڈھے جائیں گے اور یہ معبود، جن کی بات اس کا خیال تھا کہ وہ اللہ کے عذاب سے اس بچائیں گے، اس کی شفاعت کریں گے، وہاں خود وہ معبود بھی، اس کے ساتھ ہی جہنم کا ایندھن بنے ہونگے مطلب یہ کہ غیر اللہ کو پکارنے سے فوری نقصان تو اس کا ہوا کہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھا، یہ قریب نقصان ہے۔ اور آخرت میں تو اس کا نقصان تحقیق شدہ ہی ہے۔ الحج
14 الحج
15 ١٥۔ ١ اس کے ایک معنی تو یہ کئے گئے ہیں کہ ایسا شخص، جو یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد نہ کرے، کیونکہ اس کے غلبہ و فتح سے اسے تکلیف ہوتی ہے، تو وہ اپنے گھر کی چھت پر رسی لٹکا کر اور اپنے گلے میں اس کا پھندا لے کر اپنا گلا گھونٹ لے، شاید یہ خود کشی اسے غیظ و غضب سے بچا لے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو دیکھ کر اپنے دل میں پاتا ہے۔ اس صورت میں سماء سے مراد گھر کی چھت ہوگی۔ دوسرے معنی ہیں کہ ایک رسہ لے کر آسمان پر چڑھ جائے اور آسمان سے جو وحی یا مدد آتی ہے، اس کا سلسلہ ختم کرا دے (اگر وہ کرسکتا ہے) اور دیکھے کہ کیا اس کے بعد اس کا کلیجہ ٹھنڈا ہوگیا ہے؟ امام ابن کثیر نے پہلے مفہوم کو اور امام شوکانی نے دوسرے مفہوم کو زیادہ پسند کیا ہے اور سیاق سے یہی دوسرا مفہوم زیادہ قریب لگتا ہے۔ الحج
16 الحج
17 ١٧۔ ١ مجوسی سے مراد ایران کے آتش پرست ہیں جو دو خداؤں کے قائل ہیں، ایک ظلمت کا خالق ہے، دوسرا نور کا، جسے وہ اہرمن اور یزداں کہتے ہیں۔ ١٧۔ ٢ ان میں مذکورہ گمراہ فرقوں کے علاوہ جتنے بھی اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرنے والے ہیں، سب آگئے۔ ١٧۔ ٣ ان میں سے حق پر کون ہے، باطل پر کون، یہ تو ان دلائل سے واضح ہوجاتا ہے جو اللہ اپنے قرآن میں نازل فرماتے ہیں اور اپنے آخری پیغمبر کو بھی اسی مقصد کے لئے بھیجا تھا، یہاں فیصلے سے مراد وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ باطل پرستوں کو قیامت والے دن دے گا، اس سزا سے بھی واضح ہوجائے گا کہ دنیا میں حق پر کون تھا اور باطل پر کون کون۔ ١٧۔ ٤ یہ فیصلہ محض حاکمانہ اختیارات کے زور پر نہیں ہوگا، بلکہ عدل و انصاف کے مطابق ہوگا، کیونکہ وہ باخبر ہستی ہے، اسے ہر چیز کا علم ہے۔ الحج
18 ١٨۔ ١ بعض مفسرین نے اس سجدے سے ان تمام چیزوں کا احکام الٰہی کے تابع ہونا مراد لیا ہے، کسی میں مجال نہیں کہ وہ حکم الٰہی سے سرتابی کرسکے۔ ان کے نزدیک وہ سجدہ اطاعت و عبادت مراد نہیں۔ جب کہ بعض مفسرین نے اسے مجاز کے بجائے حقیقت پر مبنی کیا ہے کہ ہر مخلوق اپنے اپنے انداز سے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہے مثلا ( من فی السموات) سے مراد فرشتے ہیں ومن فی الارض سے ہر قسم کے حیوانات، انسان، جنات، چوپائے اور پرندے اور دیگر اشیاء ہیں یہ سب اپنے اپنے انداز سے سجدہ اور تسبیح کرتی ہیں (وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّایُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ) 17۔ الاسراء :44) سورۃ بنی اسرائیل۔ سورج چاند اور ستاروں کا بطور خاص اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ مشرکین ان کی عبادت کرتے رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا تم ان کو سجدہ کرتے ہو یہ تو اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے والے ہیں اور اس کے ماتحت ہیں اس لیے تم انھیں سجدہ مت کرو اس ذات کو سجدہ کرو جو ان کا خالق ہے (حم سجدہ ٣٧) صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابوذر (رض) فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا جانتے ہو سورج کہاں جاتا ہے میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی بہتر جانتے ہیں فرمایا سورج جاتا ہے اور عرش کے نیچے جاکر سجدہ ریز ہوجاتا ہے پھر اسے (طلوع ہونے کا) حکم دیا جاتا ہے ایک وقت آئے گا کہ اسے کہا جائے گا واپس لوٹ جا یعنی جہاں سے آیا ہے وہیں چلا جا۔ (صحیح بخاری) اسی طرح صحابی کا واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے خواب میں اپنے ساتھ درخت کو سجدہ کرتے دیکھا (ترمذی) اور پہاڑوں اور درختوں کے سجدے میں ان سایوں کا دائیں بائیں پھرنا یا جھکنا بھی شامل ہے جس طرف اشارہ سورۃ الرعد اور النحل ٤٧، ٤٨ میں بھی کیا گیا ہے۔ ١٨۔ ٢ یہ سجدہ اطاعت و عبادت ہی ہے جس کو انسانوں کی ایک بڑی تعداد کرتی ہے اور اللہ کی رضا کی مستحق قرار پاتی ہے۔ ١٨۔ ٣ یہ وہ ہیں جو سجدہ اطاعت سے انکار کرکے کفر اختیار کرتے ہیں، ورنہ تکوینی احکام یعنی سجدہ انقیاد میں تو انھیں بھی مجال انکار نہیں۔ ١٨۔ ٤ کفر اختیار کرنے کا نتیجہ ذلت و رسوائی اور آخرت کا دائمی عذاب ہے، جس سے بچا کر کافروں کو عزت دینے والا کوئی نہیں ہوگا۔ الحج
19 ١٩۔ ١ ھذان خصمن یہ دونوں تثنیہ کے صیغے ہیں بعض نے اس سے مراد مذکورہ گمراہ فرقے اور اس کے مقابلے میں دوسرا فرقہ مسلمان کو لیا ہے۔ یہ دونوں اپنے رب کے بارے میں جھگڑتے ہیں، مسلمان تو وحدانیت اور اس کی قدرت علی البعث کے قائل ہیں، جب کہ دوسرے اللہ کے بارے میں مختلف گمراہیوں میں مبتلا ہیں۔ اس ضمن میں جنگ بدر میں لڑنے والے مسلمان اور کافر بھی آجاتے ہیں، جس کے آغاز میں مسلمانوں میں ایک طرف حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدۃ (رض) تھے اور دوسری طرف ان کے مقابلے میں کافروں میں عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ تھے (امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ دونوں ہی مفہوم صحیح اور آیت کے مطابق ہیں۔ الحج
20 الحج
21 الحج
22 ٢٢۔ ١ اس میں جہنمیوں کے عذاب کی کچھ تفصیل بیان کی گئی ہے جو انھیں وہاں بھگتنا ہوگا۔ الحج
23 ٢٣۔ ١ جہنمیوں کے مقابلے میں یہ اہل جنت کا اور ان نعمتوں کا تذکرہ ہے جو اہل ایمان کو مہیا کی جائیں گی۔ الحج
24 ٢٤۔ ١ یعنی جنت ایسی جگہ ہے جہاں پاکیزہ باتیں ہی ہونگی، وہاں بے ہودہ اور گناہ کی بات نہیں ہوگی۔ ٢٤۔ ٢ یعنی ایسی جگہ کی طرف جہاں ہر طرف اللہ کی حمد اور اس کی تسبیح کی صدائے دل نواز گونج رہی ہوگی۔ اگر اس کا تعلق دنیا سے ہو تو مطلب قرآن اور اسلام کی طرف رہنمائی ہے جو اہل ایمان کے حصے میں آتی ہے۔ الحج
25 ٢٥۔ ١ روکنے والوں سے مراد کفار مکہ ہیں جنہوں نے ٦ ہجری میں مسلمانوں کو مکہ جاکر عمرہ کرنے سے روک دیا تھا، اور مسلمانوں کو حدیبیہ سے واپس آنا پڑا تھا۔ ٢٥۔ ٢ اس میں اختلاف ہے کہ مسجد حرام سے مراد خاص مسجد (خانہ کعبہ) ہی ہے یا پورا حرم مکہ۔ کیونکہ قرآن میں بعض جگہ پورے حرم مکہ کے لیے بھی مسجد حرام کا لفظ بولا گیا ہے۔، یعنی جزء بول کر کل مراد لیا گیا ہے۔ جو شخص بھی کسی جگہ سے حج یا عمرے کے لئے مکہ جائے تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہے ٹھہر جائے، وہاں رہنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ٹھہرانے سے نہ روکیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ مکانات اور زمینیں ملک خاص ہو سکتی ہیں اور ان میں مالکانہ تصرفات یعنی بیچنا، کرائے پر دینا جائز ہے۔ البتہ وہ مقامات جن کا تعلق مناسک حج سے ہے، مثلاً منی، مزدلفہ اور عرفات کے میدان یہ وقف عام ہیں۔ ان میں کسی کی ملکیت جائز نہیں۔ یہ مسئلہ قدیم فقہاء کے درمیان خاصہ مختلف فیہ رہا ہے۔ تاہم آجکل تقریباً تمام کے تمام علماء ہی ملکیت خاص کے قائل ہوگئے ہیں۔ اور یہ مسئلہ سرے سے اختلافی ہی نہیں رہا۔ مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم نے بھی امام ابو حنیفہ اور فقہاء کا مسلک مختار اسی کو قرار پایا ہے۔ (ملاحظہ ' معارف القرآن جلد ٦ صفحہ ٢٥٣) ٢٥۔ ٣ الحاد کے لفظی معنی تو کج روی ہے ہیں یہاں یہ عام ہے، کفر و شرک سے لے کر ہر قسم کے گناہ کے لئے حتٰی کہ بعض عملا الفاظ قرآنی کے پیش نظر اس بات تک قائل ہیں کہ حرم میں اگر کسی گناہ کا ارادہ بھی کرلے گا، (چاہے اس پر عمل نہ کرسکے) تو وہ بھی اس وعید میں شامل ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ محض ارادے پر مؤاخذہ نہیں ہوگا، جیسا کہ دیگر آیات سے واضح ہے۔ تاہم ارادہ اگر عزم مصمم کی حد تک ہو تو پھر گرفت ہوسکتا ہے۔ (فتح القدیر) ٢٥۔ ٤ یہ بدلہ ہے ان لوگوں کا جو مذکورہ گناہوں کے مرتکب ہوں گے۔ الحج
26 ٢٦۔ ١ یعنی بیعت اللہ کی جگہ بتلا دی اور وہاں ہم نے ذریت ابراہیم (علیہ السلام) کو ٹھہرایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان نوح (علیہ السلام) کی ویرانی کے بعد خانہ کعبہ کی تعمیر سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں سے ہوئی ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے بھی ثابت ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' سب سے پہلی مسجد جو زمین میں بنائی گئی، مسجد حرام ہے، اور اس کے چالیس سال بعد مسجد اقصٰی تعمیر ہوئی ' (مسند احمد ٥۔ ١٥٠، ١٦٦، ١٦٧ و مسلم کتاب المساجد) ف ٤ یہ خانہ کعبہ کی تعمیر کی غرض بیان کی کہ اس میں صرف میری عبادت کی جائے اس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ مشرکین نے اس میں جو بت سجا رکھے ہیں جن کی وہ یہاں آکر عبادت کرتے ہیں یہ ظلم صریح ہے کہ جہاں صرف اللہ کی عبادت کرنی چاہیے تھی وہاں بتوں کی عبادت کی جاتی ہے۔ ٢٦۔ ٢ کفر بت پرستی اور دیگر گندگیوں اور نجاستوں سے۔ یہاں ذکر صرف نماز پڑھنے والوں کا کیا ہے، کیونکہ یہ دونوں عبادت خانہ کعبہ کے ساتھ خاص ہیں، نماز میں رخ اس کی طرف ہوتا ہے اور طواف صرف اسی کے گرد کیا جاتا ہے۔ لیکن اہل بدعت نے اب بہت سی قبروں کا طواف بھی ایجاد کرلیا ہے اور بعض نمازوں کے لیے قبلہ بھی کوئی اور۔ اعاذنا اللہ منہما الحج
27 ٢٧۔ ١ جو چارے کی قلت اور سفر کی دوری اور تھکاوٹ سے لاغر اور کمزور ہوجائیں گے۔ ٢٧۔ ٢ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ مکہ کے پہاڑ کی چوٹی سے بلند ہونے والی یہ نحیف سی صدا، دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئی، جس کا مشاہدہ حج اور عمرے میں ہر حاجی اور معتمر کرتا ہے۔ الحج
28 ٢٨۔ ١ یہ فائدے دینی بھی ہیں کہ نماز، طواف اور مناسک حج و عمرہ کے ذریعے سے اللہ کی مغفرت و رضا حاصل کی جائے اور دنیاوی بھی کہ تجارت اور کاروبار سے مال و اسباب دنیا میسر آجائے۔ ٢٨۔ ٢ بہیمۃ الانعام پالتو جانوروں سے مراد اونٹ، گائے، بکری (اور بھیڑ دنبے) ہیں۔ ان پر اللہ کا نام لینے کا مطلب ان کو ذبح کرنا جو اللہ کے نام لے کر ہی کیا جاتا ہے اور ایام معلومات سے مراد، ذبح کے ایام ' ایام تشریق ہیں، جو یوم (١٠ ذولالحجہ) اور تین دن اس کے بعد ہیں۔ یعنی ١١، ١٢ اور ١٣ ذوالحجہ تک قربانی کی جاسکتی ہے۔ عام طور پر ایام معلومات سے عشرہ ذوالحجہ اور ایام معدودات سے ایام تشریق مراد لئے جاتے ہیں۔ تاہم یہاں ' معلومات ' جس سیاق میں آیا ہے، اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایام تشریق مراد ہیں۔ واللہ اعلم۔ الحج
29 ٢٩۔ ١ یعنی ١٠ ذوالحجہ کو جمرہ کبریٰ (یا عقبہ) کو کنکریاں مارنے کے بعد حاجی تحلل اول (یا اصغر) حاصل ہوجاتا ہے، جس کے بعد وہ احرام کھول دیتا ہے اور بیوی سے مباشرت کے سوا، دیگر وہ تمام کام اس کے لئے جائز ہوجاتے ہیں، جو حالت احرام میں ممنوع ہوتے ہیں۔ میل کچیل دور کرنے کا مطلب یہی ہے کہ پھر وہ بالو، ناخنوں وغیرہ کو صاف کرلے، تیل خوشبو استعمال کرے اور سلے ہوئے کپڑے پہن لے وغیرہ۔ ٢٩۔ ٢ اگر کوئی مانی ہوئی ہو، جیسے لوگ مان لیتے ہیں کہ اگر اللہ نے ہمیں اپنے مقدس گھر کی زیارت نصیب فرمائی، تو ہم فلاں نیکی کا کام کریں گے۔ ٢٩۔ ٣ عتیق کے معنی قدیم کے ہیں مراد خانہ کعبہ ہے کہ حلق یا تقصیر کے بعد افاضہ کرلے، جسے طواف زیارت بھی کہتے ہیں، اور یہ حج کا رکن ہے جو وقوف عرفہ اور جمرہ عقبہ (یا کبرٰی) کو کنکریاں مارنے کے بعد کیا جاتا ہے۔ جب کہ طواف قدوم بعض کے نزدیک واجب اور بعض کے نزدیک سنت ہے اور طواف وداع سنت مؤکدہ (یا واجب) ہے۔ جو اکثر اہل علم کے نزدیک عذر سے ساقط ہوجاتا ہے، جیسے حائضہ عورت سے بالاتفاق ساقط ہوجاتا ہے (ایسر التفاسیر) الحج
30 ٣٠۔ ١ ان حرمتوں سے مراد وہ مناسک حج ہیں جن کی تفصیل ابھی گزری ہے۔ ان کی تعظیم کا مطلب، ان کی اس طرح ادائیگی ہے جس طرح بتلایا گیا ہے۔ یعنی ان کی خلاف ورزی کر کے ان حرمتوں کو پامال نہ کرے۔ ٣٠۔ ٢ جو بیان کئے گئے ہیں ' کا مطلب ہے جن کا حرام ہونا بیان کردیا گیا، جیسے آیت (حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ) 5۔ المائدہ :3) میں تفصیل ہے۔ ٣٠۔ ٣ رجس سے مراد گندگی اور پلیدی کے ہیں یہاں اس سے مراد لکڑی، لوہے یا کسی اور چیز کے بنے ہوئے بت ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا، یہ نجاست ہے اور اللہ کے غضب اور عدم رضا کا باعث، اس سے بچو۔ ٣٠۔ ٤ جھوٹی بات میں، جھوٹی بات کے علاوہ جھوٹی قسم بھی ہے (جس کو حدیث میں شرک اور حقوق والدین کے بعد تیسرے نمبر پر کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے) اور سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ اللہ جن چیزوں سے پاک ہے، وہ اسکی طرف منسوب کی جائیں۔ مثلًا اللہ کی اولاد ہے وغیرہ۔ فلاں بزرگ کے اختیارات میں شریک ہے یا فلاں کام پر اللہ کس طرح قادر ہوگا جیسے کفار بعث بعد الموت پر تعجب کا اظہار کرتے رہے ہیں اور کرتے ہیں یا اپنی طرف سے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کو حلال کرلینا جیسے مشرکین بحیرہ سائبہ وصیلہ اور عام جانوروں کو اپنے اوپر حرام کرلیتے تھے یہ سب جھوٹ ہیں ان سے اجتناب ضروری ہے۔ الحج
31 ٣١۔ ١ حنفاء حنیف کی جمع ہے جس کے مصدری معنی ہیں مائل ہونا ایک طرف ہونا، یک رخا ہونا یعنی شرک سے توحید کی طرف اور کفر و باطل سے اسلام اور دین حق کی طرف مائل ہوتے ہوئے۔ یا ایک طرف ہو کر خالص اللہ کی عبادت کرتے ہوئے۔ ٣١۔ ٢ یعنی جس طرح بڑے پرندے، چھوٹے جانوروں کو نہایت تیزی سے جھپٹا مار کر انھیں نوچ کھاتے ہیں یا ہوائیں کسی کو دور دراز جگہوں پر پھینک دیں اور کسی کو اس کا سراغ نہ ملے۔ دونوں صورتوں میں تباہی اس کا مقدر ہے۔ اسی طرح وہ انسان جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہے، وہ سلامت فطرت اور طہارت نفس کے اعتبار سے طہر و صفا کی بلندی پر فائز ہوجاتا ہے اور جوں ہی وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے تو گویا اپنے کو بلندی سے پستی میں اور صفائی سے گندگی اور کیچڑ میں پھینک لیتا ہے الحج
32 ٣٢۔ ١ شعائر شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں علامت اور نشانی کے ہیں جیسے جنگ میں ایک شعار (مخصوص لفظ بطور علامت) اختیار کرلیا جاتا ہے جس سے وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہنچانتے ہیں اس اعتبار سے شعائر اللہ وہ ہیں، جو جو اسلام کے نمایاں امتیازی احکام ہیں، جن سے ایک مسلمان کا امتیاز اور تشخص قائم ہوتا ہے اور دوسرے اہل مذاہب سے الگ پہچان لیا جاتا ہے، صفا، مروہ پہاڑیوں کو بھی اس لئے شعائر اللہ کہا گیا ہے کہ مسلمان حج و عمرے میں ان کے درمیان سعی کرتے ہیں۔ یہاں حج کے دیگر مناسک خصوصاً قربانی کے جانوروں کو شعائر اللہ کہا گیا ہے۔ اس تعظیم کو دل کا تقوٰی قرار دیا گیا ہے۔ یعنی دل کے ان افعال سے جن کی بنیاد تقوٰی ہے۔ الحج
33 ٣٣۔ ١ وہ فائدہ، سواری، دودھ، مذید نسل اور اون وغیرہ کا حصول ہے۔ وقت مقرر مراد (ذبح کرنا) ہے یعنی ذبح نہ ہونے تک تمہیں ان سے مذکورہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کے جانور سے، جب تک وہ ذبح نہ ہوجائے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ صحیح حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ایک آدمی ایک قربانی کا جانور اپنے ساتھ ہانکے لے جا رہا تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا اس پر سوار ہوجا، اس نے کہا یہ حج کی قربانی ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اس پر سوار ہوجا۔ (صحیح بخاری) ٣٣۔ ٢ حلال ہونے سے مراد جہاں ان کا ذبح کرنا حلال ہوتا ہے۔ یعنی یہ جانور، مناسک حج کی ادائیگی کے بعد، بیت اللہ اور حرم مکی میں پہنچتے ہیں اور وہاں اللہ کے نام پر ذبح کر دئیے جاتے ہیں، پس مذکورہ فوائد کا سلسلہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔ اور اگر وہ ایسے ہی حرم کے لئے قربانی دی جاتی ہے، تو حرم میں پہنچتے ہی ذبح کردیئے جاتے ہیں اور فقراء مکہ میں ان کا گوشت تقسیم کردیا جاتا ہے۔ الحج
34 ٣٤۔ ١ منسک۔ نسک ینسک کا مصدر ہے معنی ہیں اللہ کے تقرب کے لیے قربانی کرنا ذبیحۃ (ذبح شدہ جانور) کو بھی نسیکۃ کہا جاتا ہے جس کی جمع نسک ہے اس کے معنی اطاعت وعبادت کے بھی ہیں کیونکہ رضائے الٰہی کے لئے جانور کی قربانی کرنا عبادت ہے۔ اسی لئے غیر اللہ کے نام پر یا ان کی خوشنودی کے لئے جانور ذبح کرنا غیر اللہ کی عبادت ہے، جہاں حج کے اعمال و ارکان ادا کئے جاتے ہیں، جیسے عرفات، مزدلفہ، منٰی اور مکہ۔ مطلق ارکان و اعمال حج کو بھی مناسک کہہ لیا جاتا ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ ہم پہلے بھی ہر مذہب والوں کے لئے ذبح کا یا عبادت کا یہ طریقہ مقرر کرتے آئے ہیں تاکہ وہ اس کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرتے رہیں۔ اور اس میں حکمت یہ ہے کہ ہمارا نام لیں۔ یعنی بسم اللہ و اللہ اکبر کہہ کر ذبح کریں یا ہمیں یاد رکھیں۔ الحج
35 الحج
36 ٣٦۔ ١ بدن بدنۃ کی جمع ہے یہ جانور عام طور پر موٹا تازہ ہوتا ہے اس لیے بدنۃ کہا جاتا ہے۔ فربہ جانور۔ اہل لغت نے اسے صرف اونٹوں کے ساتھ خاص کیا ہے لیکن حدیث کی رو سے گائے پر بھی بدنۃ کا اطلاق صحیح ہے مطلب یہ ہے کہ اونٹ اور گائے جو قربانی کے لیے لیے جائیں یہ بھی شعائر اللہ یعنی اللہ کے ان احکام میں سے ہیں جو مسلمانوں کے لیے خاص اور ان کی علامت ہیں۔ ٣: صواف مصفوفۃ (صف بستہ یعنی کھڑے ہوئے) معنی میں ہے اونٹ کو اسی طرح کھڑے کھڑے نحر کیا جاتا ہے کہ بایاں ہاتھ پاؤں اس کا بندھا ہوا اور تین پاؤں پر وہ کھڑا ہوتا ہے۔ ٣٦۔ ٢ یعنی سارا خون نکل جائے اور وہ بے روح ہو کر زمین پر گرے تب اسے کاٹنا شروع کرو۔ کیونکہ جی دار جانور کا گوشت کاٹ کر کھانا ممنوع ہے ' جس جانور سے اس حال میں گوشت کاٹا جائے کہ وہ زندہ ہو تو وہ (کاٹا) ہوا گوشت مردہ ہے۔ ٣٦۔ ٣ بعض علماء کے نزدیک یہ امر وجوب کے لئے ہے یعنی قربانی کا گوشت کھانا، قربانی کرنے والے کے لئے واجب ہے یعنی ضروری ہے اور اکثر علماء کے نزدیک یہ امر جواز کے لئے ہے۔ یعنی اس امر کا مقصد صرف جواز کا اثبات یعنی اگر کھالیا جائے تو جائز یا پسندیدہ ہے اور اگر کوئی نہ کھائے بلکہ سب کا سب تقسیم کر دے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔ ٣: قانع کے ایک معنی سائل کے اور دوسرے معنی قناعت کرنے والے کے کیے گئے ہیں یعنی وہ سوال نہ کرے اور معتر کے معنی بعض نے بغیر سوال کے سامنے آنے والے کے کیے ہیں اور تیسرا سائلین اور معاشرے کی ضرورت مند افراد کے لیے۔ جس کی تائید میں یہ حدیث بھی پیش کی جاتی جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے تمہیں (پہلے) تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت ذخیرہ کرکے رکھنے سے منع کیا تھا لیکن اب تمہیں اجازت ہے کہ کھاؤ اور جو مناسب سمجھو ذخیرہ کرو دوسری روایت کے الفاظ ہیں پس کھاؤ الحج
37 الحج
38 ٣٨۔ ١ جس طرح ٦ ہجری میں کافروں نے اپنے غلبے کی وجہ سے مسلمانوں کو مکہ جا کر عمرہ نہیں کرنے دیا، اللہ تعالیٰ نے دو سال بعد ہی کافروں کے اس غلبہ کو ختم فرما کر مسلمانوں سے ان کے دشمنوں کو ہٹا دیا اور مسلمانوں کو ان پر غالب کردیا۔ الحج
39 ٣٩۔ ١ اکثر سلف کا قول ہے کہ اس آیت میں سب سے پہلے جہاد کا حکم دیا گیا، جس کے دو مقصد یہاں بیان کئے گئے ہیں۔ مظلومیت کا خاتمہ اور اعلائے کلمۃ اللہ۔ اس لئے کہ مظلومین کی مدد اور ان کی داد رسی نہ کی جائے تو پھر دنیا میں زور آور کمزوروں کو اور بے وسیلہ لوگوں کو جینے ہی نہ دیں جس سے زمین فساد سے بھر جائے۔ اور اگر باطل تو باطل کے غلبے سے دنیا کا امن و سکون اور اللہ کا نام لینے والوں کے لئے کوئی عبادت خانہ باقی نہ رہے (مذید تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ بقرہ، آیت ٢٥١ کا حاشیہ)۔ الحج
40 صوامع صومعۃ کی جمع) سے چھوٹے گرجے اور بیع (بیعۃ کی جمع) سے بڑے گرجے صلوات سے یہودیوں کے عبادت خانے اور مساجد سے مسلمانوں کی عبادت گاہیں مراد ہیں الحج
41 ٤١۔ ١ اس آیت میں اسلامی حکومت کی بنیادی اہداف اور اغراض و مقاصد بیان کئے گئے ہیں، جنہیں خلافت راشدہ کی دیگر اسلامی حکومتوں میں بروئے کار لایا گیا اور انہوں نے اپنی ترجیحات میں ان کو سر فہرست رکھا تو ان کی بدولت ان کی حکومتوں میں امن اور سکون بھی رہا، رفاہیت و خوش حالی بھی رہی اور مسلمان سربلند اور سرفراز بھی رہے۔ آج بھی سعودی عرب کی حکومت میں بحمد اللہ ان چیزوں کا اہتمام ہے، تو اس کی برکت سے وہ اب بھی امن و خوش حالی کے اعتبار سے دنیا کی بہترین اور مثالی مملکت ہے۔ آجکل اسلامی ملکوں میں فلاحی مملکت کے قیام کا بڑا غلغلہ اور شور ہے اور ہر آنے جانے والاحکمران اس کے دعوے کرتا ہے لیکن ہر اسلامی ملک میں بدامنی، فساد، قتل وغارت اور ادبار وپستی اور زبوں حالی روز افزوں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سب اللہ کے بتلائے ہوئے راستے کو اختیار کرنے کے بجائے مغرب کے جمہوری اور لادینی نظام کے ذریعے سے فلاح وکامرانی حاصل کرنا چاہتے ہیں جو آسمان میں تھگلی لگانے اور ہوا کو مٹھی میں لینے کے مترادف ہے جب تک مسلمان مملکتیں قرآن کے بتلائے ہوئے اصول کے مطابق اقامت صلوۃ و زکوٰۃ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام نہیں کریں اور اپنی ترجیحات میں ان کو سرفہرست نہیں رکھیں گی وہ فلاحی ممللکت کے قیام میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گی۔ ٤١۔ ٢ یعنی ہر بات کا مرجع اللہ کا حکم اور اس کی تدبیر ہی ہے اس کے حکم کے بغیر کائنات میں کوئی پتہ بھی نہیں ہلتا۔ چہ جائیکہ کوئی اللہ کے احکام اور ضابطوں سے انحراف کرکے حقیقی فلاح و کامیابی سے ہمکنار ہوجائے۔ الحج
42 الحج
43 الحج
44 ٤٤۔ ١ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ کفار مکہ اگر آپ کو جھٹلا رہے ہیں تو یہ نئی بات نہیں ہے پچھلی قومیں بھی اپنے پیغمبروں کے ساتھ یہی کچھ کرتی رہی ہیں اور میں بھی انھیں مہلت دیتا رہا۔ پھر جب ان کا وقت مہلت ختم ہوگیا تو انھیں تباہ برباد کردیا گیا۔ اس میں تعریض وکنایہ ہے مشرکین مکہ کے لیے کہ تکذیب کے باوجود تم ابھی تک مؤاخذہ الہی سے بچے ہوئے ہو تو یہ نہ سمجھ لینا کہ ہمارا کوئی مؤاخذہ کرنے والا نہیں بلکہ یہ اللہ کی طرف سے مہلت ہے جو وہ ہر قوم کو دیا کرتا ہے لیکن اگر وہ اس اس مہلت سے فائدہ اٹھا کر اطاعت وانقیاد کا راستہ اختیار نہیں کرتی تو پھر اسے ہلاک یا مسلمانوں کے ذریعے سے مغلوب اور ذلت و رسوائی سے دوچار کردیا جاتا ہے۔ ٤٤۔ ٢ یعنی کس طرح میں نے انھیں اپنی نعمتوں سے محروم کرکے عذاب و ہلاکت سے دو چار کردیا۔ الحج
45 الحج
46 ٤٦۔ ١ اور جب کوئی قوم ضلالت کے اس مقام پر پہنچ جائے کہ عبرت کی صلاحیت بھی کھو بیٹھے، تو ہدایت کی بجائے، گذشتہ قوموں کی طرح تباہی اس کا مقدر بن کر رہتی ہے۔ آیت میں عمل و عقل کا تعلق دل کی طرف کیا گیا ہے، جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ عقل کا محل دل ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ محل عقل دماغ ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ان دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں، اس لئے عقل و فہم کے حصول میں عقل اور دماغ دونوں کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے (فتح القدیر) الحج
47 ٤٧۔ ١ اس لئے یہ لوگ تو اپنے حساب سے جلدی کرتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے حساب میں ایک دن بھی ہزار سال کا ہے اس اعتبار سے وہ اگر کسی کو ایک دن (٢٤ گھنٹے) کی مہلت دے تو ہزار سال، نصف یوم کی مہلت تو پانچ سو سال، ٦ گھنٹے (جو ٢٤ گھنٹے کا چوتھائی ہے) مہلت دے تو ڈھائی سو سال کا عرصہ عذاب کے لئے درکار ہے، اس طرح اللہ کی طرف سے کسی کو ایک گھنٹے کی مہلت مل جانے کا مطلب کم و بیش چالیس سال کی مہلت ہے (ایسر التفاسیر) ایک دوسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی قدرت میں ایک دن اور ہزار سال برابر ہیں اس لیے تقدیم وتاخیر سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ جلدی مانگتے ہیں وہ دیر کرتا ہے تاہم یہ بات تو یقینی ہے کہ وہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرکے رہے گا اور بعض نے اسے آخرت پر محمول کیا ہے کہ شدت ہولناکی کی وجہ سے قیامت کا ایک دن ہزار سال بلکہ بعض کو پچاس ہزار سال کا لگے گا اور بعض نے کہا کہ آخرت کا دن واقعی ہزار سال کا ہوگا۔ الحج
48 ٤٨۔ ١ اسی لئے یہاں قانون مہلت کو پھر بیان کیا ہے کہ میری طرف سے عذاب میں کتنی ہی تاخیر کیوں نہ ہوجائے، تاہم میری گرفت سے کوئی بچ نہیں سکتا، نہ کہیں فرار ہوسکتا ہے۔ اسے لوٹ کر بالآخر میرے ہی پاس آنا ہے۔ الحج
49 ٤٩۔ ١ یہ کفار و مشرکین کے مطالبہ پر کہا جا رہا ہے کہ میرا کام تو عذاب بھیجنا، یہ اللہ کا کام ہے، وہ جلدی گرفت فرما لے یا اس میں تاخیر کرے، وہ اپنی حسب و مشیت و مصلحت یہ کام کرتا ہے۔ جس کا علم بھی اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ اس خطاب کے اصل مخاطب اگرچہ اہل مکہ ہیں۔ لیکن چونکہ آپ پوری نوح انسانی کے لئے رہبر اور رسول بن کر آئے تھے، اس لئے خطاب یَا اَیُّھَا لنَّاسُ ! کے الفاظ سے کیا گیا، اس میں قیامت تک ہونے والے وہ کفار و مشرکین آگئے جو اہل مکہ کا سا رویہ اختیار کریں گے۔ الحج
50 الحج
51 ٥١۔ ١ مُعٰجِزِیْنَ کا مطلب ہے یہ گمان کرتے ہوئے کہ ہمیں عاجز کردیں گے، تھکا دیں گے اور ہم ان کی گرفت کرنے پر قادر نہیں ہو سکیں گے۔ اس لئے کہ وہ بعث بعد الموت اور حساب کتاب کے منکر تھے۔ الحج
52 ٥٢۔ ١ تمنی کے ایک معنی ہیں آرزو کی یا دل میں خیال آیا۔ دوسرے معنی ہیں پڑھایا تلاوت کی۔ اسی اعتبار سے امنیۃ کا ترجمہ آرزو، خیال یا تلاوت ہوگا پہلے معنی کے اعتبار سے مفہوم ہوگا اس کی آرزو میں شیطان نے رکاوٹیں ڈالیں تاکہ وہ پوری نہ ہوں۔ اور رسول و نبی کی آرزو یہی ہوتی ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ ایمان لے آئیں، شیطان رکاوٹیں ڈال کر لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ایمان سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مفہوم ہوگا کہ جب بھی اللہ کا رسول یا نبی وحی شدہ کلام پڑھتا اور اس کی تلاوت کرتا ہے۔ تو شیطان اس کی قرأت و تلاوت میں اپنی باتیں ملانے کی کوشش کرتا ہے یا اس کی بابت لوگوں کے دلوں میں شبہ ڈالتا اور میں میخ نکالتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شیطان کی رکاوٹوں کو دور فرما کر یا تلاوت میں ملاوٹ کی کوشش ناکام فرما کر شیطان کے پیدا کردہ شکوک و شبہات کا ازالہ فرما کر اپنی بات کو یا اپنی آیات کو محکم (پکا) فرما دیتا ہے۔ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ شیطان کی یہ کارستانیاں صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہی نہیں ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جو رسول اور نبی آئے، سب کے ساتھ یہی کچھ کرتا آیا ہے۔ تاہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھبرائیں نہیں شیطان کی ان شرارتوں اور سازشوں سے جس طرح ہم پچھلے انبیاء علیہم السلام کو بچاتے رہے ہیں یقینا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی محفوظ رہیں گے اور شیطان کے علی الرغم اللہ تعالیٰ اپنی بات کو پکا کرکے رہے گا۔ یہاں بعض مفسرین نے غرانیق علی کا قصہ بیان کیا ہے جو محققین کے نزدیک ثابت ہی نہیں ہے اس لیے اسے یہاں پیش کرنے کی ضرورت ہی سرے سے نہیں سمجھی کی گئی ہے۔ الحج
53 ٥٣۔ ١ یعنی شیطان یہ حرکتیں اس لئے کرتا ہے کہ لوگوں کو گمراہ کرے اور اس کے جال میں لوگ پھنس جاتے ہیں جن کے دلوں میں کفر و نفاق کا روگ ہوتا ہے گناہ کرکے ان کے دل سخت ہوچکے ہوتے ہیں۔ الحج
54 ٥٤۔ ١ یعنی یہ القائے شیطانی، جو دراصل اغوائے شیطانی ہے، اگر اہل مشرکین اور اہل کفر و شرک کے حق میں فتنے کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف جو علم معرفت کے حال ہیں، ان کے ایمان و یقین میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اللہ کی نازل کردہ بات یعنی قرآن حق ہے۔ جس سے ان کے دل بارگاہ الٰہی میں جھک جاتے ہیں۔ ٣: دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دنیا میں اس طرح کی ان کی راہنمائی حق کی طرف کردیتا ہے اور اس کے قبول اور اتباع کی توفیق سے بھی نواز دیتا ہے باطل کی سمجھ بھی ان کو دے دیتا ہے اور اس سے انھیں بچا بھی لیتا ہے اور آخرت میں سیدھے راستے کی راہنمائی یہ ہے کہ انھیں جہنم کے عذاب الیم و عظیم سے بچا کر جنت میں داخل فرمائے گا اور وہاں اپنی نعمتوں اور دیدار سے انھیں نوازے گا۔ اللھم اجعلنا منہم الحج
55 ٥٥۔ ١ یَوْمِ عَقِیْمِ (بانجھ دن) سے مراد قیامت کا دن ہے۔ اسے عقیم اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کے بعد کوئی دن نہیں ہوگا، جس طرح عقیم اس کو کہا جاتا ہے جس کی اولاد نہ ہو۔ یا اس لئے کہ کافروں کے لئے اس دن کوئی رحمت نہیں ہوگی، گویا ان کے لئے خیر سے خالی ہوگا۔ جس طرح باد تند کو، جو بطور عذاب کے آتی رہی ہے الرِّیْحَ الْعَقِیْمَ کہا گیا ہے۔ (اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَ) 51۔ الذاریات :41) جب ہم نے ان پر بانجھ ہوا بھیجی۔ یعنی ایسی ہوا جس میں کوئی خیر تھی نہ بارش کی نوید الحج
56 ٥٦۔ ١ یعنی دنیا میں تو عارضی طور پر بطور انعام یا بطور امتحان لوگوں کو بھی بادشاہتیں اور اختیار و اقتدار مل جاتا ہے لیکن آخرت میں کسی کے پاس بھی کوئی بادشاہت اور اختیار نہیں ہوگا۔ صرف ایک اللہ کی بادشاہی اور اس کی فرمان روائی ہوگی، اسی کا مکمل اختیار اور غلبہ ہوگا (اَلْمُلْکُ یَوْمَیِٕذِۨ الْحَقُّ للرَّحْمٰنِ ۭ وَکَانَ یَوْمًا عَلَی الْکٰفِرِیْنَ عَسِیْرًا) 25۔ الفرقان :26) ' بادشاہی اس دن ثابت ہے واسطے رحمان کے اور یہ دن کافروں پر سخت بھاری ہوگا، اللہ تعالیٰ پوچھے گا ' آج کس کی بادشاہی ہے؟ ' پھر خود ہی جواب دے گا ' ایک اللہ غالب کی '۔ الحج
57 الحج
58 ٥٨۔ ١ یعنی اسی ہجرت کی حالت میں موت آگئی یا شہید ہوگئے۔ ٥٨۔ ٢ یعنی جنت کی نعمتیں جو ختم نہ ہونگیں نہ فنا۔ ٥٨۔ ٣ کیونکہ وہ بغیر حساب کے، بغیر استحقاق کے اور بغیر سوال کے دیتا ہے۔ علاوہ ازیں انسان بھی جو ایک دوسرے کو دیتے ہیں تو اسی کے دیئے ہوئے میں سے دیتے ہیں۔ اس لئے اصل رازق وہی ہے۔ الحج
59 ٥٩۔ ١ کیونکہ جنت کی نعمتیں ایسی ہونگیں، جنہیں آج تک نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا۔ اور دیکھنا سننا تو کجا، کسی انسان کے دل میں ان کا وہم و گمان بھی نہیں گزرا، بھلا ایسی نعمتوں سے بہرا یاب ہو کر کون خوش نہیں ہوگا ؟ ٥٩۔ ٢ عَلِیْم وہ نیک عمل کرنے والوں کے درجات اور ان کے مراتب استحقاق کو جانتا ہے۔ کفر و شرک کرنے والوں کی گستاخیوں اور نافرمانیوں کو دیکھتا ہے۔ لیکن ان کا فوری مؤاخذہ نہیں کرتا۔ الحج
60 ٦٠۔ ١ یعنی یہ کہ مہاجرین بطور خاص شہادت یا طبعی موت پر ہم نے جو وعدہ کیا ہے، وہ ضرور پورا ہوگا۔ ٦٠۔ ٢ کسی نے اگر کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہے تو جس سے زیادتی کی گئی ہے، اسے بقدر زیادتی بدلہ لینے کا حق ہے۔ لیکن اگر بدلہ لینے کے بعد، جب کہ ظالم اور مظلوم دونوں برابر سربرا ہوچکے ہوں، ظالم، مظلوم پھر زیادتی کرے تو اللہ تعالیٰ اس مظلوم کی ضرور مدد فرماتا ہے۔ یعنی یہ شبہ نہ ہو کہ مظلوم نے معاف کردینے کی بجائے بدلہ لے کر غلط کام کیا ہے، نہیں، بلکہ اس کی بھی اجازت اللہ ہی نے دی ہے، اس لئے آئندہ بھی اللہ کی مدد کا مستحق رہے گا۔ ٦٠۔ ٣ اس میں پھر معاف کردینے کی ترغیب دی گئی ہے کہ اللہ درگزر کرنے والا ہے۔ تم بھی درگزر سے کام لو۔ ایک دوسرے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ بدلہ لینے میں۔ جو بقدر ظلم ظالم ہوگا۔ جتنا ظلم کیا جائے گا، اس کی اجازت چونکہ اللہ کی طرف سے ہے، اس لئے اس پر مؤاخذہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ معاف ہے۔ بلکہ اسے ظلم اور سیئہ بطور مشاکلت کے کہا جاتا ہے، ورنہ انتقام یا بدلہ سرے سے ظلم یا سیئہ ہی نہیں ہے۔ الحج
61 ٦١۔ ١ یعنی جو اللہ اس طرح کام کرنے پر قادر ہے، وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ اس کے جن بندوں پر ظلم کیا جائے ان کا بدلہ وہ ظالموں سے لے۔ الحج
62 ٦٢۔ ١ اس لئے اس کا دین حق ہے، اس کی عبادت حق ہے اس کے وعدے حق ہیں، اس کا اپنے اولیاء کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد کرنا حق ہے، وہ اللہ عزوجل اپنی ذات میں، اپنی صفات میں اور اپنے افعال میں حق ہے۔ الحج
63 ٦٣۔ ١ لَطِیْف (باریک بین) ہے، اس کا علم ہر چھوٹی بڑی چیز کو محیط ہے یا لطف کرنے والا یعنی اپنے بندوں کو روزی پہنچانے میں لطف و کرم سے کام لیتا ہے۔ خَیْر وہ ان باتوں سے باخبر ہے جن میں اس کے بندوں کے معاملات کی تدبیر اور اصلاح ہے۔ یا ان کی ضروریات و حاجات سے آگاہ ہے۔ الحج
64 ٦٤۔ ١ پیدائش کے لحاظ سے بھی، ملکیت کے اعتبار سے بھی اور تصرف کرنے کے اعتبار سے بھی۔ اس لئے سب مخلوق اس کی محتاج ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ کیونکہ وہ غنی بے نیاز ہے۔ اور جو ذات سارے کمالات اور اختیارات کا منبع ہے، ہر حال میں تعریف کی مستحق بھی وہی ہے۔ الحج
65 ٦٥۔ ١ مثلًا جانور، نہریں، درخت اور دیگر بیشمار چیزیں، جن کے منافع سے انسان بہرہ ور اور لذت یاب ہوتا ہے۔ ٦٥۔ ٢ یعنی اگر وہ چاہے تو آسمان زمین پر گر پڑے، جس سے زمین پر ہر چیز تباہ ہوجائے۔ ہاں قیامت والے دن اس کی مشیت سے آسمان بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا۔ ٦٥۔ ٣ اس لئے اس نے مذکورہ چیزوں کو انسان کے تابع کردیا ہے اور آسمان کو بھی ان پر گرنے نہیں دیتا۔ تابع (مسخر) کرنے کا مطلب ہے کہ ان چیزوں سے فائدہ اٹھانا اس کے لئے ممکن یا آسان کردیا گیا ہے۔ الحج
66 ٦٦۔ ١ یہ بحیثیت جنس کے ہے۔ بعض افراد کا اس ناشکری سے نکل جانا اس کے منافی نہیں، کیونکہ انسانوں کی اکثریت میں یہ کفر و جحود پایا جاتا ہے۔ الحج
67 ٦٧۔ ١ یعنی ہر زمانے میں ہم نے لوگوں کے لئے ایک شریعت مقرر کی، جو بعض چیزوں میں سے ایک دوسرے سے مختلف بھی ہوتی، جس طرح تورات، امت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے، انجیل امت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لئے شریعت تھی اور اب قرآن امت محمدیہ کے لئے شریعت اور ضابطہ حیات ہے۔ ٦٧۔ ٢ یعنی اللہ نے آپ کو جو دین اور شریعت عطا کی ہے، یہ بھی مذکورہ اصول کے مطابق ہی ہے، ان سابقہ شریعت والوں کو چاہیے کہ اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت پر ایمان لے آئیں، نہ کہ اس معاملے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جھگڑیں۔ ٦٧۔ ٣ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے جھگڑے کی پرواہ نہ کریں، بلکہ ان کو اپنے رب کی طرف دعوت دیتے رہیں، کیونکہ اب صراط مستقیم پر صرف آپ ہی گامزن ہیں، یعنی پچھلی شریعتیں منسوخ ہوگئی ہیں۔ الحج
68 الحج
69 ٦٩۔ ١ یعنی بیان اور اظہار حجت کے بعد بھی اگر یہ جھگڑے سے باز نہ آئیں تو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیں کہ اللہ تعالیٰ ہی تمہارے اختلافات کا فیصلہ قیامت والے دن فرمائے گا، پس اس دن واضح ہوجائے گا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟ کیونکہ وہ اس کے مطابق سب کو جزا دے گا۔ الحج
70 ٧٠۔ ١ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال علم اور مخلوقات کے احاطے کا ذکر فرمایا ہے۔ یعنی اس کی مخلوقات کو جو جو کچھ کرنا تھا، اس کو علم پہلے سے ہی تھا، وہ ان کو جانتا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنے علم سے یہ باتیں پہلے ہی لکھ دیں۔ اور لوگوں کو یہ بات چاہے، کتنی ہی مشکل معلوم ہو، اللہ کے لئے بالکل آسان ہے۔ یہ وہی تقدیر کا مسئلہ ہے، اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے، جسے حدیث میں اس طرح بیان فرمایا گیا ' اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے، جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا، مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی تھیں (صحیح مسلم) اور سنن کی روایت ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم پیدا فرمایا، اور اس کو کہا ' لکھ ' اس نے کہا، کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو کچھ ہونے والا ہے، سب لکھ دے۔ چنانچہ اس نے اللہ کے حکم سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا تھا، سب لکھ دیا۔ (ابوداؤد کتاب السنۃ) الحج
71 ٧١۔ ١ یعنی ان کے پاس نہ کوئی نقلی دلیل ہے، جسے آسمانی کتاب سے یہ دکھا سکیں، نہ عقلی دلیل ہے جسے غیر اللہ کی عبادت کے اثبات میں پیش کرسکیں۔ الحج
72 ٧٢۔ ١ اپنے ہاتھوں سے دست درازی کرکے یا بد زبانی کے ذریعے سے۔ یعنی مشرکین اور اہل ضلالت کے لئے اللہ کی توحید اور رسالت و قیامت کا بیان ناقابل برداشت ہوتا ہے، جس کا اظہار، ان کے چہرے سے اور بعض دفعہ ہاتھوں اور زبانوں سے ہوتا ہے۔ یہی حال آج کے اہل بدعت اور گمراہ فرقوں کا ہے، جب ان کی گمراہی، قرآن و حدیث کے دلائل سے واضح کی جاتی ہے تو ان کا رویہ بھی آیات قرآنی اور دلائل کے مقابلے میں ایسا ہی ہوتا ہے، جس کی وضاحت اس آیت میں کی گئی ہے (فتح القدیر) ٧٢۔ ٢ یعنی ابھی تو آیات الٰہی سن کر صرف تمہارے چہرے ہی حیران ہوتے ہیں۔ ایک وقت آئے گا، اگر تم نے اپنے اس روئیے سے توبہ نہیں کی، کہ اس سے کہیں زیادہ بدتر حالات سے تمہیں دو چار ہونا پڑے گا، اور وہ ہے جہنم کی آگ میں جلنا، جس کا وعدہ اللہ نے اہل کفر و شرک سے کر رکھا ہے۔ الحج
73 ٧٣۔ ١ یعنی یہ معبودان باطل، جن کو تم، اللہ کو چھوڑ کر، مدد کے لئے پکارتے ہو، یہ سارے کے سارے جمع ہو کر ایک نہایت حقیر سی مخلوق مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں، تو نہیں کرسکتے۔ اس کے باوجود بھی تم انہی کو حاجت روا سمجھو، تو تمہاری عقل قابل ماتم ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی رہی ہے، وہ صرف پتھر کی بے جان مورتیاں ہیں جو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتیں ہیں۔ ٧٣۔ ٢ طالب سے مراد، خود ساختہ معبود اور مطلوب سے مراد مکھی یا بعض کے نزدیک طالب سے، پجاری اور مطلوب سے اس کا معبود مراد ہے، حدیث قدسی میں معبود ان باطل کی بے بسی کا تذکرہ ان الفاظ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو میری طرح پیدا کرنا چاہتا ہے اگر کسی میں واقع یہ قدرت ہے تو وہ ایک ذرہ یا ایک جو ہی پیدا کر کے دکھا دے ' (صحیح بخاری) الحج
74 ٧٤۔ ١ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کی بے بس مخلوق کو اس کا ہمسر اور شریک قرار دے لیتے ہیں۔ اگر ان کو اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت، اس کی قدرت و طاقت اور اس کی بے پناہی کا صحیح صحیح اندازہ اور علم ہو تو وہ کبھی اس کی خدائی میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ الحج
75 ٧٥۔ ١ رسل رسول (فرستادہ، بھیجا ہوا قاصد) کی جمع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے بھی رسالت کا یعنی پیغام رسانی کا کام لیا ہے، جیسے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو اپنی وحی کے لئے منتخب کیا کہ وہ رسولوں کے پاس وحی پہنچائیں۔ یا عذاب لے کر قوموں کے پاس جائیں اور لوگوں میں سے بھی، جنہیں چاہا، رسالت کے لئے چن لیا اور انھیں لوگوں کی ہدایت و راہنمائی پر مامور فرمایا۔ یہ سب اللہ کے بندے تھے، گو منتخب اور چنیدہ تھے لیکن کسی کے لئے؟ خدائی اختیارات میں شرکت کے لئے؟ جس طرح کے بعض لوگوں نے انھیں اللہ کا شریک گردان لیا۔ نہیں، بلکہ صرف اللہ کا پیغام پہنچانے کے لئے۔ ٧٥۔ ٢ وہ بندوں کے اقوال سننے والا ہے اور بصیر ہے۔ یعنی یہ جانتا ہے کہ رسالت کا مستحق کون ہے؟ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ( اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ) 6۔ الانعام :124) ' ' ' اس موقع کو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ کہاں وہ اپنی پیغمبری رکھے ' الحج
76 ٧٦۔ ١ جب تمام معاملات کا مرجع اللہ ہی ہے تو پھر انسان اس کی نافرمانی کرکے کہاں جا سکتا ہے اور اس کے عذاب سے کیونکر بچ سکتا ہے؟ کیا اس کے لئے یہ بہتر نہیں ہے کہ وہ اس کی اطاعت اور فرماں برداری کا راستہ اختیار کر کے اس کی رضا حاصل کرے؟ چنانچہ اگلی آیت میں اس کی صراحت کی جا رہی ہے۔ الحج
77 ٧٧۔ ١ یعنی اس نماز کی پابندی کرو جو شریعت میں مقرر کی گئی ہے۔ آگے عبادت کا بھی حکم آرہا ہے۔ جس میں نماز بھی شامل تھی، لیکن اس کی اہمیت و افضلیت کے پیش نظر اس کا خصوصی حکم دیا۔ ٧٧۔ ٢ یعنی فلاح (کامیابی) اللہ کی عبادت اور اطاعت یعنی افعال خیر اختیار کرنے میں ہے، نہ کہ اللہ کی عبادت و اطاعت سے گریز کرکے محض مادی اسباب و وسائل کی فراہمی اور فراوانی میں، جیسا کہ اکثر لوگ سمجھتے ہیں۔ الحج
78 ٧٨۔ ١ اس جہاد سے مراد بعض نے وہ جہاد اکبر لیا ہے جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے کفار و مشرکین سے کیا جاتا ہے اور بعض نے ادائے امر الٰہی کی بجاآوری، کہ اس میں بھی نفس امارہ اور شیطان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ اور بعض نے ہر وہ کوشش مراد لی ہے جو حق اور صداقت کے غلبے اور باطل کی سرکوبی۔ ٧٨۔ ٢ یعنی ایسا حکم نہیں دیا گیا جس کا متحمل نفس انسانی نہ ہو بلکہ پچھلی شریعتوں کے بعض سخت احکام بھی اس نے منسوخ کردیئے علاوہ ازیں بہت سی آسانیاں مسلمانوں کو عطا کردیں جو پچھلی شریعتوں میں نہیں تھیں۔ ٧٨۔ ٣ عرب حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد سے تھے، اس اعتبار سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) عربوں کے باپ تھے اور غیر عرب بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک بزرگ شخصیت کے طور پر اسی طرح احترام کرتے تھے، جس طرح بیٹے باپ کا احترام کرتے ہیں، اس لئے وہ تمام ہی لوگوں کے باپ تھے، علاوہ ازیں پیغمبر اسلام کے (عرب ہونے کے ناطے سے) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) باپ تھے، اس لئے امت محمدیہ کے بھی باپ ہوئے، اس لئے کہا گیا، یہ دین اسلام، جسے اللہ نے تمہارے لئے پسند کیا ہے، تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا دین ہے، اسی کی پیروی کرو۔ ٧٨۔ ٤ مسلم کا مرجع بعض کے نزدیک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں یعنی نزول قرآن سے پہلے تمہارا نام مسلم بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی نے رکھا ہے اور بعض کے نزدیک، مرجع اللہ تعالیٰ ہے۔ یعنی اس نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے۔ ٧٨۔ ٥ یہ گواہی، قیامت والے دن ہوگی، جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ملاحظہ ہو سورۃ بقرہ، آیت ١٤٣ کا حاشیہ۔ الحج
0 المؤمنون
1 ١۔ ١ فَلَاح کے لغوی معنی ہیں چیرنا، کاٹنا، کاشت کار کو فَلَاح کہا جاتا ہے کہ وہ زمین کو چیر پھاڑ کر اس میں بیج بوتا ہے، شریعت کی نظر میں کامیاب وہ ہے جو دنیا میں رہ کر اپنے رب کو راضی کرلے اور اس کے بدلے میں آخرت میں اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار پا جائے۔ اس کے ساتھ دنیا کی سعادت و کامرانی بھی میسر آ جائے تو سبحان اللہ۔ ورنہ اصل کامیابی تو آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ گو دنیا والے اس کے برعکس دنیاوی آسائشوں سے بہرہ ور کو ہی کامیاب سمجھتے ہیں۔ آیت میں ان مومنوں کو کامیابی کی نوید سنائی گئی ہے جن میں ذیل کی صفات ہوں گی۔ مثلًا اگلی آیات ملاحظہ ہوں۔ المؤمنون
2 ٢۔ ١ خُشُوع سے مراد، قلب کی یکسوئی اور مصروفیت ہے۔ قلبی یکسوئی یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بہ قصد خیالات اور وسوسوں کے ہجوم سے دل کو محفوظ رکھے اور اللہ کی عظمت و جلالت کا نقش اپنے دل پر بٹھا نے کی سعی کرے۔ اعضا و دل کی یکسوئی یہ ہے کہ ادھر ادھر نہ دیکھے، کھیل کود نہ کرے، بالوں اور کپڑوں کو سنوارنے میں نہ لگا رہے بلکہ خوف و خشیت اور عاجزی کی ایسی کیفیت طاری ہو، جیسے عام طور پر بادشاہ یا کسی بڑے شخص کے سامنے ہوتی ہے۔ المؤمنون
3 ٣۔ ١ لَغْو ہر وہ کام اور ہر وہ بات جس کا کوئی فائدہ نہ ہو یا اس میں دینی یا دنیاوی نقصانات ہوں، ان سے پرہیز مطلب ہے ان کی طرف خیال بھی نہ کیا جائے۔ چہ جائیکہ انھیں اختیار یا ان کا ارتکاب کیا جائے۔ المؤمنون
4 ٤۔ ١ اس سے مراد بعض کے نزدیک زکوٰۃ مفروضہ ہے، (جس کی تفصیلات یعنی اس کا نصاب اور زکوٰۃ کی شرع مدینہ میں بتلائی گئی تاہم) اس کا حکم مکے میں ہی دے دیا گیا تھا اور بعض کے نزدیک ایسے افعال کا اختیار کرنا ہے، جس سے نفس اور اخلاق و کردار کی پاکیزگی ہو۔ المؤمنون
5 المؤمنون
6 المؤمنون
7 ٧۔ ١ اس سے معلوم ہوا کہ متعہ کی اسلام میں قطعًا اجازت نہیں اور جنسی خواہش کی تسکین کے لئے صرف دو ہی جائز طریقے ہیں۔ بیوی سے مباشرت کر کے یا لونڈی سے ہم بستری کر کے۔ بلکہ اب صرف بیوی ہی اس کام کے لئے رہ گئی ہے کیونکہ اصطلاحی لونڈی کا وجود فی الحال ختم ہے جب کبھی حالات نے دوبارہ وجود پذیر کیا تو بیوی ہی کی طرح اس سے مباشرت جائز ہوگی۔ المؤمنون
8 ٨۔ ١ اَ مَانَات سے مراد سونپی ہوئی ڈیوٹی کی ادائیگی، راز دارانہ باتوں اور مالی امانتوں کی حفاظت اور رعایت عہد میں اللہ سے کیے ہوئے میثاق اور بندوں سے کیے عہد و پیماں دونوں شامل ہیں۔ المؤمنون
9 ٩۔ ١ آخر میں پھر نمازوں کی حفاظت کو فلاح کے لئے ضروری قرار دیا، جس سے نماز کی اہمیت و فضیلت واضح ہے۔ لیکن آج مسلمان کے نزدیک دوسرے اعمال صالح کی طرح اس کی بھی کوئی اہمیت سرے سے باقی نہیں رہ گئی ہے۔ فانا للہ وان الیہ راجعون المؤمنون
10 المؤمنون
11 ١١۔ ١ ان صفات مذکورہ کے حامل مومن ہی فلاح یاب ہونگے جو جنت کے وارث یعنی حق دار ہوں گے۔ جنت بھی جنت الفردوس، جو جنت کا اعلٰی حصہ ہے۔ جہاں سے جنت کی نہریں جاری ہوتی ہیں (صحیح بخاری، کتاب الجہاد، باب درجات المجاہدین، فی سبیل اللہ، و کتاب التوحید، باب وکان عرشہ علی ماء) المؤمنون
12 ١٢۔ ١ مٹی سے پیدا کرنے کا مطلب، ابو البشر حضرت آدم (علیہ السلام) کی مٹی سے پیدائش ہے یا انسان جو خوراک بھی کھاتا ہے وہ سب مٹی سے ہی پیدا ہوتی ہیں، اس اعتبار سے اس نطفے کی اصل، جو خلقت انسانی کا باعث بنتا ہے، مٹی ہی ہے۔ المؤمنون
13 ١٣۔ ١ محفوظ جگہ سے مراد رحم مادر ہے، جہاں نو مہینے بچہ بڑی حفاظت سے رہتا اور پرورش پاتا ہے۔ المؤمنون
14 ١٤۔ ١ اس کی کچھ تفصیل سورۃ حج میں گزر چکی ہے۔ یہاں پھر اسے بیان کیا گیا ہے۔ تاہم وہاں مخلَّقَۃ کا جو ذکر تھا، یہاں اس کی وضاحت، مُضْغَۃ کو ہڈیوں میں تبدیل کرنے اور ہڈیوں کو گوشت پہنانے، سے کردی ہے۔ مُضْغَۃ گوشت کو ہڈیوں سے تبدیل کرنے کا مقصد، انسانی ڈھانچے کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنا ہے کیونکہ محض گوشت میں تو کوئی سختی نہیں ہوتی، پھر اگر اسے ہڈیوں کا ڈھانچہ ہی رکھا جاتا، تو انسان میں وہ حس و رعنائی نہ آتی، جو ہر انسان کے اندر موجود ہے۔ اس لئے ہڈیوں پر ایک خاص تناسب اور مقدار سے گوشت چڑھا دیا گیا کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ تاکہ قدو قامت میں غیر موزونیت اور بھدا پن پیدا نہ ہو۔ بلکہ حسن و جمال کا ایک پیکر اور قدرت کی تخلیق کا ایک شاہ کار ہو۔ اسی چیز کو قرآن نے ایک دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا (لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ) 95۔ التین :4) ' ہم نے انسان کو احسن تقویم یعنی بہت اچھی ترکیب یا بہت اچھے ڈھانچے میں بنایا ' ١٤۔ ٢ اس سے مراد وہ بچہ ہے جو نو مہینے کے بعد ایک خاص شکل و صورت لے کر ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے اور حرکت و اضطراب کے ساتھ دیکھنے اور سننے اور ذہنی قوتیں بھی ساتھ ہوتی ہیں۔ ١٤۔ ٣ خَالِقِیْنَ یہاں ان صالحین کے معنی میں ہے۔ جو خاص خاص مقداروں میں اشیا کو جوڑ کر کوئی ایک چیز تیار کرتے ہیں۔ یعنی ان تمام صنعت گروں میں، اللہ جیسا بھی کوئی صنعت گر ہے جو اس طرح کی صنعت کاری کا نمونہ پیش کرسکے جو اللہ تعالیٰ نے انسانی پیکر کی صورت میں پیش کیا ہے۔ پس سب سے زیادہ خیر و برکت والا وہ اللہ ہی ہے، جو تمام صنعت کاروں سے بڑا اور سب سے اچھا صنعت کار ہے۔ المؤمنون
15 المؤمنون
16 المؤمنون
17 ١٧۔ ١ طرائق، طریقۃ کی جمع ہے مراد آسمان ہیں عرب، اوپر تلے چیز کو بھی کہتے ہیں آسمان بھی اوپر تلے ہیں اس لئے انھیں طرائق کہا۔ یا طریقہ بمعنی راستہ ہے، آسمان ملائکہ کے آنے جانے یا ستاروں کی گزرگاہ ہے، اس لئے انھیں طرائق قرار ریا۔ ١٧۔ ٢ خَلَق سے مراد مخلوق ہے۔ یعنی آسمانوں کو پیدا کر کے ہم اپنی زمینی مخلوق سے غافل نہیں ہوگئے بلکہ ہم نے آسمانوں کو زمین پر گرنے سے محفوظ رکھا ہے تاکہ مخلوق ہلاک نہ ہو۔ یا یہ مطلب ہے کہ مخلوق کی مصلحتوں اور ان کی ضروریات زندگی سے غافل نہیں ہوگئے بلکہ ہم اس کے انتظام کرتے ہیں (فتح القدیر) اور بعض نے یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ زمین سے جو کچھ نکلتا یا داخل ہوتا، اسی طرح آسمان سے جو اترتا اور چڑھتا ہے، سب اس کے علم میں ہے اور ہر چیز پر وہ نظر رکھتا ہے اور ہر جگہ وہ اپنے علم کے لحاظ سے تمہارے ساتھ ہوتا ہے (ابن کثیر) المؤمنون
18 ١٨۔ ١ یعنی نہ زیادہ کہ جس سے تباہی پھیل جائے اور نہ اتنا کم کہ پیداوار اور دیگر ضروریات کے لئے کافی نہ ہو۔ ١٨۔ ٢ یعنی یہ انتطام بھی کیا کہ سارا پانی برس کر فوراً بہہ نہ جائے اور ختم نہ ہوجائے بلکہ ہم نے چشموں، نہروں، دریاؤں اور تالابوں اور کنوؤں کی شکل میں اسے محفوظ بھی کیا، تاکہ ان ایام میں جب بارشیں نہ ہوں، یا ایسے علاقے میں جہاں بارش کم ہوتی ہے اور پانی کی ضرورت زیادہ ہے، ان سے پانی حاصل کرلیا جائے۔ ١٨۔ ٣ یعنی جس طرح ہم اپنے فضل و کرم سے پانی کا ایسا وسیع انتظام کیا ہے، وہیں ہم اس بات پر بھی قادر ہیں کہ پانی کی سطح اتنی نیچی کردیں کہ تمہارے لئے پانی کا حصول ناممکن ہوجائے۔ المؤمنون
19 ١٩۔ ١ یعنی ان باغوں میں انگور اور کھجور کے علاوہ اور بہت سے پھل ہوتے ہیں، جن سے تم لذت اندوز ہوتے ہو اور کچھ کھاتے ہو۔ المؤمنون
20 ٢٠۔ ١ اس سے زیتون کا درخت مراد ہے، جس کا روغن تیل کے طور پر اور پھل سالن کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ سالن کو صِبْغٍ،ُ رنگ کہا ہے کیونکہ روٹی، سالن میں ڈبو کر، گویا رنگی جاتی ہے۔ طُوْرِ سَیْنَآءَ (پہاڑ) اور اس کا قرب و جوار خاص طور پر اس کی عمدہ قسم کی پیداوار کا علاقہ ہے۔ المؤمنون
21 المؤمنون
22 ٢٢۔ ١ یعنی رب کی ان نعمتوں سے تم فیض یاب ہوتے ہو، کیا وہ اس لائق کہ تم اس کا شکر ادا کرو اور صرف اسی ایک کی عبادت اور اطاعت کرو۔ المؤمنون
23 المؤمنون
24 ٢٤۔ ١ یعنی یہ تو تمہارے جیسا ہی انسان ہے، یہ کس طرح نبی اور رسول ہوسکتا ہے؟ اور اگر یہ نبوت و رسالت کا دعویٰ کر رہا ہے تو اصل مقصد اس سے تم پر فضیلت اور بہتری حاصل کرنا ہے۔ ٢٤۔ ٢ اور اگر واقع اللہ اپنے رسول کے ذریعہ سے ہمیں یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ عبادت کے لائق صرف وہی ہے، تو وہ کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتا نہ کہ کسی انسان کو، وہ ہمیں آ کر توحید کا مسئلہ سمجھاتا۔ ٢٤۔ ٣ یعنی اس کی دعوت توحید، ایک نرالی دعوت ہے، اس سے پہلے ہم نے اپنے باپ دادوں کے زمانے میں تو یہ سنی ہی نہیں۔ المؤمنون
25 ٢٥۔ ١ یہ ہمیں اور ہمارے باپ دادوں کو بتوں کی عبادت کرنے کی وجہ سے، بیوقوف اور کم عقل سمجھتا اور کہتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ خود ہی دیوانہ ہے اسے ایک وقت تک ڈھیل دو، موت کے ساتھ ہی اس کی دعوت بھی ختم ہوجائے گی یا ممکن ہے اس کی دیوانگی ختم ہوجائے اور اس دعوت کو ترک کر دے۔ المؤمنون
26 ٢٦۔ ١ ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ و دعوت کے بعد، بالآخر رب سے دعا کی، (فدَعارَبَّہ، اَنِّیْ مَغْلُوْب فَانْتَصِرُ) (القمر ١٠) ' نوح (علیہ السلام) نے رب سے دعا کی، میں مغلوب اور کمزور ہوں میری مدد کر ' اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور حکم دیا کہ میری نگرانی اور ہدایت کے مطابق کشتی تیار کرو۔ المؤمنون
27 ٢٧۔ ١ یعنی ان کی ہلاکت کا حکم آ جائے۔ ٢٧۔ ٢ تنور پر حاشیہ سورۃ ہود میں گزر چکا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مراد ہمارے ہاں کا معروف تنور نہیں، جس میں روٹی پکائی جاتی ہے، بلکہ روئے زمین سے مراد ہے ساری زمین ہی چشمے میں تبدیل ہوگئی۔ نیچے زمین سے پانی چشموں کی طرح ابل پڑا۔ نوح (علیہ السلام) کو ہدایت جاری ہے کہ جب پانی زمین سے ابل پڑے۔ ٢٧۔ ٣ یعنی حیوانات، نباتات اور ثمرات ہر ایک میں سے ایک ایک جوڑا (نر مادہ) کشتی میں رکھ لے تاکہ سب کی نسل باقی رہے۔ ٢٧۔ ٤ یعنی جن کی ہلاکت کا فیصلہ، ان کے کفر و طغیان کی وجہ سے ہوچکا ہے، جیسے زوجہ نوح (علیہ السلام) اور انکا پسر۔ ٢٧۔ ٥ یعنی جب عذاب کا آغاز ہوجائے تو ان ظالموں میں سے کسی پر رحم کھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ تو کسی کی سفارش کرنی شروع کر دے۔ کیونکہ ان کے غرق کرنے کا قطعی فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ المؤمنون
28 المؤمنون
29 ٢٩۔ ١ کشتی میں بیٹھ کر اللہ کا شکر ادا کرنا کہ ان ظالموں کو بالآخر غرق کر کے، ان سے نجات عطا فرمائی اور کشتی کے خیرو عافیت کے ساتھ کنارے پر لگنے کی دعا کرنا (وَقُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُّبٰرَکًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ) 23۔ المومنون :29) ٢٩۔ ٢ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، سواری پر بیٹھتے وقت یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ اللّٰہُ اَکْبَرْ، اللّٰہ اَکْبَرْ، ا للّٰہُ اَکْبَرْ (وَتَـقُوْلُوْاسُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ) 43۔ الزخرف :13) المؤمنون
30 ٣٠۔ ١ یعنی اس سرگزشت نوح (علیہ السلام) میں اہل ایمان کو نجات اور کافروں کو ہلاک کردیا گیا، نشانیاں ہیں اس امر پر کہ انبیاء جو کچھ اللہ کی طرف سے لے کر آتے ہیں، ان میں وہ سچے ہوتے ہیں۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر اور کشمکش حق و باطل میں ہر بات سے آگاہ ہے اور وقت آنے پر اس کا نوٹس لیتا ہے اور اہل باطل کی پھر اس طرح گرفت کرتا ہے کہ اس کے شکنجے سے کوئی نکل نہیں سکتا۔ ٣٠۔ ٢ اور ہم انبیاء و رسل کے ذریعے سے یہ آزمائش کرتے رہے ہیں۔ المؤمنون
31 ٣١۔ ١ اکثر مفسرین کے نزدیک قوم نوح کے بعد، جس قوم کو اللہ نے پیدا فرمایا اور ان میں رسول بھیجا، وہ قوم عاد ہے کیونکہ اکثر مقامات پر قوم نوح کے جانشین کے طور پر عاد ہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ بعض کے نزدیک یہ قوم ثمود ہے کیونکہ آگے چل کر ان کی ہلاکت کے ذکر میں کہا گیا کہ زبردست چیخ نے ان کو پکڑ لیا، اور یہ عذاب قوم ثمود پر آیا تھا۔ بعض کے نزدیک یہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم اہل میں ہیں کہ ان کی ہلاکت بھی چیخ کے ذریعے سے ہوئی تھی۔ المؤمنون
32 ٣٢۔ ١ یہ رسول بھی ہم نے انہی میں سے بھیجا، جس کی نشو و نما ان کے درمیان ہی ہوئی تھی، جس کو وہ اچھی طرح پہچانتے تھے، اس کے خاندان، مکان اور جائے پیدائش ہر چیز سے واقف تھے۔ ٣٢۔ ٢ اس نے آ کر سب سے پہلے وہی توحید کی دعوت دی جو ہر نبی کی دعوت و تبلیغ کا سرنامہ رہی۔ المؤمنون
33 ٣٣۔ ١ یہ سردار قوم ہی ہر دور میں انبیاء و رسل اور اہل حق کو جھٹلاتے ہیں، جس کی وجہ سے قوم کی اکثریت ایمان لانے سے محروم رہتی۔ کیونکہ یہ نہایت با اثر لوگ ہوتے تھے، قوم انھیں کے پیچھے چلنے والی ہوتی تھی۔ ٣٣۔ ٢ یعنی عقیدہ آخرت پر عدم ایمان اور دنیاوی آسائشوں کی فروانی، یہ دو بنیادی سبب تھے، اپنے رسول پر ایمان نہ لانے کے۔ آج بھی باطل انھیں اسباب کی بنا پر اہل حق کی مخالفت اور دعوت حق سے گریز کرتے ہیں۔ ٣٣۔ ٣ چنانچہ انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ تو ہماری ہی طرح کھاتا پیتا ہے۔ یہ اللہ کا رسول کس طرح ہوسکتا ہے؟ جیسے آج بھی بہت سے مدعیان اسلام کے لیے رسول کی بشریت کا تسلیم کرنا نہایت گراں ہے۔ المؤمنون
34 ٣٤۔ ١ وہ خسارہ ہی ہے کہ اپنے ہی جیسے انسان کو رسول مان کر تم اس کی فضیلت و برتری کو تسلیم کرلو گے، جب کہ ایک بشر، دوسرے بشر سے افضل کیوں کر ہوسکتا ہے۔ یہی وہ مغالطہ ہے جو مکرین بشریت رسول کے دماغوں میں رہا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ جس بشر کو رسالت کے لیے چن لیتا ہے تو وہ اس وحی رسالت کی وجہ سے دوسرے تمام غیر نبی انسانوں سے شرف و فضل میں بہت بالا اور نہایت ارفع ہوجاتا ہے۔ المؤمنون
35 المؤمنون
36 ھیھات، جس کے معنی دور کے ہیں، دو مرتبہ تاکید کے لیے ہے۔ المؤمنون
37 المؤمنون
38 ٣٨۔ ١ یعنی دوبارہ زندہ ہونے کا وعدہ، یہ ایک نرا جھوٹ ہے جو یہ شخص اللہ پر باندھ رہا ہے۔ المؤمنون
39 ٣٩۔ ١ بالآخر، حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرح، اس پیغمبر نے بھی بارگاہ الٰہی میں، مدد کے لئے، دست دعا دراز کردیا۔ المؤمنون
40 ٤٠۔ ١ عما میں ما زائد ہے جو مجرور کے درمیان، قلت زمان کی تاکید کے لیے آیا ہے جیسے (فبما رحمتہ من اللہ) میں ما زائد ہے یعنی بہت جلد عذاب آنا ہے جس پر یہ پچھتائیں گے۔ لیکن اس وقت یہ پچھتاوا ان کے کچھ کام نہ آئے گا۔ یعنی بہت جلد عذاب آنے والا ہے، جس پر یہ پچھتائیں گے۔ لیکن اس وقت یہ پچھتانا ان کے کچھ کام نہ آئے گا۔ المؤمنون
41 ٤١۔ ١ یہ چیخ کہتے ہیں کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کی چیخ تھی، بعض کہتے ہیں کہ ویسے ہی سخت چیخ تھی، جس کے ساتھ باد صر صر بھی تھی۔ دونوں نے مل کر ان کو چشم زدن میں فنا کے گھاٹ اتار دیا۔ ٤١۔ ٢ غُثْآءَ اس کوڑے کرکٹ کو کہتے ہیں جو سیلابی پانی کے ساتھ ہوتا ہے، جس میں درختوں کے پتے، خشک تنے، تنکے اور اسی طرح کی چیزیں ہوتی ہیں۔ جب پانی کا زور ختم ہوجاتا ہے، تو خشک ہو کر بیکار پڑے ہوتے ہیں، یہی حال ان منکرین اور متکبرین کا ہوا۔ المؤمنون
42 ٤٢۔ ١ اس سے مراد حضرت صالح، حضرت لوط اور حضرت شعیب علیہم السلام کی قومیں ہیں، کیونکہ سورۃ اعراف اور سورۃ ہود میں اسی ترتیب سے ان کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ بعض کے نزدیک بنو اسرائیل مراد ہیں۔ قرون، قرن کی جمع ہے اور یہاں بمعنی امت استعمال ہوا ہے۔ المؤمنون
43 ٤٣۔ ١ یعنی سب امتیں بھی قوم نوح اور عاد کی طرح، جب ان کی ہلاکت کا وقت آیا تو تباہ اور برباد ہوگئیں، ایک لمحہ آگے پیچھے نہ ہوئیں۔ جیسے فرمایا (ۭاِذَا جَاۗءَ اَجَلُھُمْ فَلَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ) 10۔ یونس :49) المؤمنون
44 ٤٤۔ ١ نَتْرَا کے معنی ہیں۔ یکے بعد دیگرے، متواتر لگا تار۔ ٤٤۔ ٢ ہلاکت اور بربادی میں۔ یعنی جس طرح یکے بعد دیگرے رسول آئے، اسی طرح رسالت کے جھٹلانے پر یہ قومیں یکے بعد دیگرے، عذاب سے دو چار ہو کر ہست و نیست ہوتی رہیں۔ ٤٤۔ ٣ جس طرح اَعَاجِیْبُ، اُعْجُوبَۃً کی جمع ہے (تعجب انگیز چیز یا بات) اسی طرح اَحَاحِیْثُ اُحْدُوْثَۃً کی جمع ہے بمعنی مشہور معروف مخلو قات کے واقعات اور قصص۔ المؤمنون
45 ٤٥۔ ١ آیات سے مراد وہ نو آیات ہیں، جن کا ذکر سورۃ اعراف میں ہے، جن کی وضاحت گزر چکی ہے اور سُلْطَانٍ مُبِیْنٍ سے مراد واضح اور پختہ دلیل ہے، جس کا کوئی جواب فرعون اور اس کے درباریوں سے نہ بن پڑا۔ المؤمنون
46 ٤٦۔ ١ استکبار اور اپنے کو بڑا سمجھنا، اس کی بنیادی وجہ بھی وہی عقیدہ آخرت سے انکار اور اسباب دنیا کی فروانی ہی تھی، جس کا ذکر پچھلی قوموں کے واقعات میں گزرا۔ المؤمنون
47 یہاں بھی انکار کے لیے دلیل انہوں نے حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کی بشریت ہی پیش کی اور اسی بشریت کی تاکید کے لیے انہوں نے کہا کہ یہ دونوں اسی قوم کے افراد ہیں جو ہماری غلام ہے۔ المؤمنون
48 المؤمنون
49 ٤٩۔ ١ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات، فرعون اور اس کی قوم کو غرق کرنے کے بعد دی گئی۔ اور نزول تورات کے بعد اللہ نے کسی قوم کو عذاب عام سے ہلاک نہیں کیا۔ بلکہ مومنوں کو حکم دیا جاتا رہا کہ وہ کافروں سے جہاد کریں۔ المؤمنون
50 ٥٠۔ ١ کیونکہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت بغیر باپ کے ہوئی، جو رب کی قدرت کی ایک نشانی ہے، جس طرح آدم (علیہ السلام) کو بغیر ماں باپ کے اور ہوا کو بغیر مادہ کے حضرت آدم (علیہ السلام) سے اور دیگر تمام انسانوں کو ماں اور باپ سے پیدا کرنا اس کی نشانیوں میں سے ہے۔ ٥٠۔ ٢ رَبْوَۃٍ (بلند جگہ) سے بیت المقدس اور مَعِیْنٍ (چشمہ جاری) سے وہ چشمہ مراد ہے جو ایک قول کے مطابق ولادت عیسیٰ (علیہ السلام) کے وقت اللہ نے بطور معجزہ، حضرت مریم کے پیروں کے نیچے سے جاری فرمایا تھا۔ جیسا سورۃ مریم میں گزرا۔ المؤمنون
51 ٥١۔ ١ طِیِّبٰت سے مراد پاکیزہ اور لذت بخش چیزیں ہیں، بعض نے اس کا ترجمہ حلال چیزیں کیا ہے۔ دونوں ہی اپنی جگہ صحیح ہیں کیونکہ ہر پاکیزہ چیز اللہ نے حلال کردی ہے اور ہر حلال چیز پاکیزہ اور لذت بخش ہے۔ خبائث کو اللہ نے اس لئے حرام کیا ہے کہ وہ اثرات و نتائج کے لحاظ سے پاکیزہ نہیں ہیں۔ حلال روزی کے ساتھ عمل صالح کی تاکید سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ ایک دوسر کے معاون ہیں۔ اسی لئے اللہ نے تمام پیغمبروں کو ان دونوں باتوں کا حکم دیا۔ چنانچہ تمام پیغمبر محنت کر کے حلال روزی کمانے اور کھانے کا اہتمام کرتے رہے، جس طرح حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں آتا ہے 'کہ وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے ' اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں، میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند سکوں کے عوض چراتا رہا (صحیح بخاری) المؤمنون
52 ٥٢۔ ١ اُ مَّۃ سے مراد دین ہے، اور ایک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سب انبیاء نے ایک اللہ کی عبادت ہی کی دعوت پیش کی ہے۔ لیکن لوگ دین توحید چھوڑ کر الگ الگ فرقوں میں بٹ گئے اور ہر گروہ اپنے عقیدہ و عمل پر خوش ہے، چاہے وہ حق سے کتنا بھی دور ہو۔ المؤمنون
53 المؤمنون
54 ٥٤۔ ١ گمراہی کی تاریکیاں بھی اتنی گمبھیر ہوتی ہیں کہ اس میں گھرے ہوئے انسان کی نظروں سے حق اوجھل ہی رہتا ہے عمرۃ، حیرت، غفلت اور ضلالت ہے۔ آیت میں بطور دھمکی ان کو چھوڑنے کا حکم ہے، مقصود وعظ و نصیحت سے روکنا نہیں ہے۔ المؤمنون
55 المؤمنون
56 المؤمنون
57 المؤمنون
58 المؤمنون
59 المؤمنون
60 ٦٠۔ ١ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں لیکن اللہ سے ڈرتے ہیں کہ کسی کوتاہی کی وجہ سے ہمارا عمل یا صدقہ نامقبول قرار نہ پائے۔ حدیث میں آتا ہے۔ حضرت عائشہ نے پوچھا ' ڈرنے والے کون ہیں؟ وہ جو شراب پیتے، بدکاری کرتے اور چوریاں کرتے ہیں؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، نہیں، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے، روزہ رکھتے اور صدقہ و خیرات کرتے ہیں لیکن ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں یہ نامقبول نہ ٹھہریں ' (ترمذی تفسیر سورۃ المومنون۔ مسند احمد ٦۔ ١٩٥۔ ١٦٠)۔ المؤمنون
61 المؤمنون
62 ٦٢۔ ١ ایسی ہی آیت سورۃ بقرہ کے آخر میں گزر چکی ہے۔ المؤمنون
63 ٦٣۔ ١ یعنی شرک کے علاوہ دیگر برائیاں یا اعمال مراد ہیں، جو مومنوں کے اعمال (خشیت الٰہی، ایمان با توحید وغیرہ) کے برعکس ہیں۔ تاہم مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے۔ المؤمنون
64 ٦٤۔ ١ عذاب تو آسودہ اور غیر آسودہ حال دونوں کو ہی ہوتا ہے۔ لیکن آسودہ حال لوگوں کا نام خصوصی طور پر شاید اس لئے لیا گیا کہ قوم کی قیادت بالعموم انہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، وہ جس طرف چاہیں قوم کا رخ پھیر سکتے ہیں۔ اگر وہ اللہ کی نافرمانی کا راستۃ اختیار کریں اور اس پر ڈٹے رہیں تو انہی کی دیکھا دیکھی قوم بھی ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ یا مراد چوہدری اور سردار قسم کے لوگ ہیں۔ اور عذاب سے مراد اگر دنیاوی ہے، تو جنگ بدر میں کفار مکہ مارے گئے بلکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بد دعا کے نتیجے میں بھوک اور قحط سالی کا عذاب مسلط ہوا، وہ مراد ہے یا پھر مراد آخرت کا عذاب ہے۔ مگر یہ سیاق سے بعید ہے۔ المؤمنون
65 ۔ ١ یعنی دنیا میں عذاب الٰہی سے دوچار ہوجانے کے بعد کوئی چیخ پکار انھیں اللہ کی گرفت سے چھڑا نہیں سکتی۔ اسی طرح عذاب آخرت سے بھی انھیں چھڑانے والا یا مدد کرنے والا، کوئی نہیں ہوگا۔ المؤمنون
66 ٦٦۔ ١ یعنی قرآن مجید یا کلام الٰہی، جن میں پیغمبر کے فرمودات بھی شامل ہیں۔ ٦٦۔ ٢ یعنی آیا احکام الٰہی سن کر تم منہ پھیر لیتے تھے اور ان سے بھا گتے تھے۔ المؤمنون
67 ٦٧۔ ١ یعنی انھیں اپنی تولیت خانہ کعبہ اور اس کا خادم و نگران ہونے کا جو غرور تھا، اس کی بنا پر آیات الٰہی کا انکار کیا اور بعض نے اس کا مرجع قرآن کو بنایا ہے اور مطلب یہ ہے کہ قرآن سن کر ان کے دل میں کھلبلی پیدا ہوجاتی جو انھیں قرآن پر ایمان لانے سے روک دیتی۔ ٦٧۔ ٢ سَمَر کے معنی ہیں رات کی گفتگو یہاں اس کے معنی خاص طور پر ان باتوں کے ہیں جو قرآن کریم اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں وہ کرتے تھے اور اس کی بنا پر وہ حق کی بات سننے اور قبول کرنے سے انکار کردیتے۔ یعنی چھوڑ دیتے۔ اور بعض نے ہجر کے معنی فحش گوئی کے کئے ہیں۔ یعنی راتوں کی گفتگو میں تم قرآن کی شان میں بے ہودہ اور فحش باتیں کرتے ہو، جن میں کوئی بھلائی نہیں (فتح القدیر) المؤمنون
68 ٦٨۔ ١ بات سے مراد قرآن مجید ہے۔ یعنی اس میں غور کرلیتے تو انھیں اس پر ایمان لانے کی توفیق نصیب ہوجاتی۔ ٦٨۔ ٢ یعنی ان کے پاس وہ دین اور شریعت آئی ہے جس سے ان کے آباؤ اجداد زمانہ جاہلیت میں محروم رہے۔ جس پر انھیں اللہ کا شکر ادا کرنا اور دین اسلام کو قبول کرلینا چاہیے تھا۔ المؤمنون
69 ٦٩۔ ١ یہ بطور توبیخ کے ہے، کیونکہ وہ پیغمبر کے نسب، خاندان اور اسی طرح اس کی صداقت و امانت، راست بازی اور اخلاق و کردار کی بلندی کو جانتے تھے اور اس کا اعتراف کرتے تھے۔ المؤمنون
70 ٧٠۔ ١ یہ بھی زجر و توبیخ کے طور پر ہی ہے یعنی اس پیغمبر نے ایسا قرآن پیش کیا جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔ اسی طرح اس کی تعلیمات نوع انسانی کے لئے رحمت اور امن و سکون کا باعث ہیں۔ کیا ایسا قرآن اور ایسی تعلیمات ایسا شخص بھی پیش کرسکتا ہے جو دیوانہ اور مجنون ہو۔ ٧٠۔ ٢ یعنی ان کے اعراض اور استکبار کی اصل وجہ حق سے ان کی کراہت (ناپسدیدگی) ہے جو عرصہ دراز سے باطل کو اختیار کئے رکھنے کی وجہ سے ان کے اندر پیدا ہوگئی ہے۔ المؤمنون
71 ٧١۔ ١ حق سے مراد دین اور شریعت ہے۔ یعنی اگر دین ان کی خواہشات کے مطابق اترے تو ظاہر بات ہے کہ زمین و آسمان کا سارا نظام ہی درہم برہم ہوجائے۔ مثلاً وہ چاہتے ہیں کہ ایک معبود کے بجائے متعدد معبود ہوں، اگر فی الواقع ایسا ہو، تو کیا نظام کائنات ٹھیک رہ سکتے ہیں۔ المؤمنون
72 المؤمنون
73 المؤمنون
74 ٧٤۔ ١ یعنی صراط مستقیم سے انحراف کی وجہ آخرت پر عدم ایمان ہے۔ المؤمنون
75 ٧٥۔ ١ اسلام کے خلاف ان کے دلوں میں جو بغض و عناد تھا اور کفر و شرک کی دلدل میں جس طرح وہ پھنسے ہوئے تھے، اس میں ان کا بیان ہے۔ المؤمنون
76 ٧٦۔ ١ عذاب سے مراد یہاں وہ شکست ہے جو جنگ بدر میں کفار مکہ کو ہوئی، جس میں ان کے ستر آدمی مارے گئے تھے یا وہ قحط سالی کا عذاب ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بد دعا کے نتیجے میں ان پر آیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی تھی ' اے اللہ، جس طرح حضرت یوسف کے زمانے میں سات سال قحط رہا، اسی طرح قحط سالی میں انھیں مبتلا کر کے ان کے مقابلے میں میری مدد فرما ' چنانچہ کفار مکہ اس قحط سالی میں مبتلا ہوگئے جس پر حضرت سفیان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور انھیں اللہ کا اور رشتہ داری کا واسطہ دے کر کہا کہ اب تو ہم جانوروں کی کھالیں اور خون تک کھانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جس پر آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) المؤمنون
77 ۔ ١ اس سے دنیا کا عذاب بھی مراد ہوسکتا ہے اور آخرت کا بھی، جہاں وہ تمام راحت اور خیر سے مایوس اور محروم ہوں گے اور تمام امیدیں منقطع ہوجائیں گی۔ المؤمنون
78 ٧٨۔ ١ یعنی عقل و فہم اور سننے کی صلاحتیں عطا کیں تاکہ ان کے ذریعے سے وہ حق کو پہچانیں، سنیں اور اسے قبول کریں۔ یہی ان نعمتوں کا شکر ہے۔ مگر یہ شکر کرنے والے یعنی حق کو اپنانے والے کم ہی ہیں۔ المؤمنون
79 ۔ ١ اس میں اللہ کی قدرت عظیمہ کا بیان ہے کہ جس طرح اس نے تمہیں پیدا کر کے مختلف اطراف میں پھیلا دیا ہے۔ تمہارے رنگ بھی ایک دوسرے سے مختلف، زبانیں بھی مختلف اور عادات و رسومات بھی مختلف۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ تم سب کو زندہ کر کے وہ اپنی بارگاہ میں جمع فرمائے گا۔ المؤمنون
80 ٨٠۔ ١ یعنی رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات کا آنا، پھر رات اور دن کا چھوٹا بڑا ہونا۔ ٨٠۔ ٢ جس سے تم یہ سمجھ سکو کہ یہ سب کچھ اس ایک اللہ کی طرف سے ہے جو ہر چیز پر غالب ہے اور اس کے سامنے ہر چیز جھکی ہے۔ المؤمنون
81 المؤمنون
82 المؤمنون
83 ٨٣۔ ١ یہ سب لکھی ہوئی حکایتیں، کہانیاں۔ یعنی دوبارہ جی اٹھنے کا وعدہ کب سے ہوتا چلا آ رہا ہے، ہمارے آباؤ اجداد سے، لیکن ابھی تک روبہ عمل نہیں ہوا، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ کہانیاں ہیں جو پہلے لوگوں نے اپنی کتابوں میں لکھ دی ہیں جو نقل در نقل ہوتی چلی آ رہی ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔ المؤمنون
84 المؤمنون
85 المؤمنون
86 المؤمنون
87 ٨٧۔ ١ یعنی جب تمہیں تسلیم ہے کہ زمین کا اور اس میں موجود تمام اشیا کا خالق بھی ایک اللہ ہے آسمان اور عرش عظیم کا مالک بھی وہی ہے، تو پھر تمہیں یہ تسلیم کرنے میں تامل کیوں ہے کہ عبادت کے لائق بھی صرف وہی ایک اللہ ہے، پھر تم اس کی واحدانیت کو تسلیم کر کے اس کے عذاب سے بچنے کا اہتمام کیوں نہیں کرتے۔ المؤمنون
88 ٨٨۔ ١ یعنی جس کی حفاظت کرنا چاہے اسے اپنی پناہ میں لے لے، کیا اسے کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ٨٨۔ ٢ یعنی جس کو وہ نقصان پہنچانا چاہے، کیا کائنات میں اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی ہے کہ وہ اسے نقصان سے بچا لے اور اللہ کے مقابلے میں اپنی پناہ میں لے لے؟ المؤمنون
89 ٩٨۔ ١ یعنی پھر تمہاری عقلوں کو کیا ہوگیا ہے کہ اس اعتراف اور علم کے باوجود تم دوسروں کو اس کی عبادت میں شریک کرتے ہو؟ قرآن کریم کی اس صراحت سے واضح ہے کہ مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، اسکی خالقیت و مالکیت اور رزاقیت کے منکر نہیں تھے بلکہ وہ سب باتیں تسلیم کرتے تھے۔ انھیں صرف توحید الوہیت سے انکار تھا۔ یعنی عبادت صرف ایک اللہ کی نہیں کرتے تھے بلکہ اس میں دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے اس لئے نہیں کہ آسمان و زمین کی تخلیق یا تدبیر میں کوئی اور بھی شریک ہے بلکہ صرف اس مغالطے کی بنا پر کہ یہ اللہ کے نیک بندے تھے ان کو اللہ نے اختیار دے رکھے ہیں اور ہم ان کے ذریعے سے اللہ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ المؤمنون
90 المؤمنون
91 المؤمنون
92 المؤمنون
93 المؤمنون
94 ٩٤۔ ١ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا فرماتے تھے (وَ اِذَا اَرَدَتَ بِقَوْمِ فِتْنَۃ،ُ فَوَفَّنِیْ اِلَیْکَ غَیْرَ مَفْتُوْنِ) (ترندی تفسیر سورۃ ص و مسند احمد، جلد ٥، ص ٢٤٣)۔ ' اے اللہ جب تو کسی قوم پر آزمائش یا عذاب بھیجنے کا فیصلہ کرے تو اس سے پہلے پہلے مجھے دنیا سے اٹھا لے۔ المؤمنون
95 المؤمنون
96 ٩٦۔ ١ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ' برائی ایسے طریقے سے دور کرو جو اچھا ہو، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا دشمن بھی، تمہارا گہرا دوست بن جائے گا۔ حٰم السجدہ (٢٤۔ ٣٥) المؤمنون
97 ٩٧۔ ١ چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شیطان سے اس طرح پناہ مانگتے (وَ اَعُوذ باللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَیْطٰنِ الرَّجِیْمِ مِنْ حَمْزِہِ وَ نَفُخِہِ وَنَفْثِہِ) (ابو داؤد) المؤمنون
98 ٩٨۔ ١ اس لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تاکید فرمائی کہ ہر اہم کام کی ابتدا اللہ کے نام سے کرو یعنی بسم اللہ پڑھ کر، کیونکہ اللہ کی یاد، شیطان کو دور کرنے والی چیز ہے۔ اسی لئے آپ یہ دعا بھی مانگتے تھے۔ (اللَّھُمَّ اِنِّیْ اَعُوذُبِکَ مِنَ الْحَرَمِ وَ اَعُوذُبِکَ مِنَ الْغَرَقِ، و اَعُوذُبِکَ اَنْ یَّتَخَبَّطَنِیْ الشَّیْطَانُ عِنْدَالمُوْتِ) (ابو داؤد) المؤمنون
99 المؤمنون
100 ١٠٠۔ ١ یہ آرزو، ہر کافر موت کے وقت، دوبارہ اٹھائے جانے کے وقت، بارگاہ الٰہی میں قیامت کے وقت اور جہنم میں دھکیل دیئے جانے کے وقت کرتا ہے اور کرے گا، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ قرآن کریم میں اس مضمون کو متعدد، جگہ بیان کیا گیا ہے۔ ١٠٠۔ ٢ کَلَّا، ڈانٹ ڈپٹ کے لئے ہے یعنی ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ انھیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے۔ ١٠٠۔ ٣ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ایسی بات ہے کہ جو ہر کافر نزع (جان کنی) کے وقت کہتا ہے۔ دوسرے معنی ہیں کہ یہ صرف بات ہی بات ہے عمل نہیں، اگر انھیں دوبارہ بھی دنیا میں بھیج دیا جائے تو ان کا یہ قول، قول ہی رہے گا عمل اصلاح کی توفیق انھیں پھر نصیب نہیں ہوگی، کافر دنیا میں اپنے خاندان اور قبیلے کے پاس جانے کی آرزو نہیں کرے گا، بلکہ عمل صالح کے لئے دنیا میں آنے کی آرزو کرے گا۔ اس لئے زندگی کے لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے زیادہ سے زیادہ عمل صلاح کر لئے جائیں تاکہ کل قیامت کو یہ آرزو کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے (ابن کثیر) ١٠٠۔ ٤ دو چیزوں کے درمیان حجاب اور آڑ کو برزخ کہا جاتا ہے۔ دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی کے درمیان جو وقفہ ہے، اسے یہاں برزخ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ مرنے کے بعد انسان کا تعلق دنیا کی زندگی سے ختم ہوجاتا ہے اور آخرت کی زندگی کا آغاز اس وقت ہوگا جب تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ یہ درمیان کی زندگی ہے۔ انسان کا وجود جہاں بھی اور جس شکل میں بھی ہوگا، بظاہر وہ مٹی میں مل کر مٹی بن چکا ہوگا، یا راکھ بنا کر ہواؤں میں اڑا دیا یا دریاؤں میں بہا دیا ہوگا یا کسی جانور کی خوراک بن گیا ہوگا، مگر اللہ تعالیٰ سب کو ایک نیا وجود عطا فرما کر میدان محشر میں جمع فرمائے گا۔ المؤمنون
101 ١٠١۔ ١ محشر کی ہولناکیوں کی وجہ سے ابتداء ایسا ہوگا، بعد میں وہ ایک دوسرے کو پہچانیں گے بھی اور ایک دوسرے سے پوچھ گچھ بھی کریں گے۔ المؤمنون
102 المؤمنون
103 المؤمنون
104 ١٠٤۔ ١ چہرے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ یہ انسانی وجود کا سب سے اہم اور اشرف حصہ ہے، ورنہ جہنم تو پورے جسم کو ہی محیط ہوگی۔ ١٠٤۔ ٢ کَلَحً کے معنی ہوتے ہیں ہونٹ سکڑ کر دانت ظاہر ہوجائیں۔ ہونٹ گویا دانتوں کا لباس ہیں، جب یہ جہنم کی آگ سے سمٹ اور سکڑ جائیں گے تو دانت ظاہر ہوجائیں گے، جس سے انسان کی صورت بدشکل اور ڈراؤنی ہوجائے گی۔ المؤمنون
105 المؤمنون
106 المؤمنون
107 المؤمنون
108 المؤمنون
109 المؤمنون
110 المؤمنون
111 ١١١۔ ١ دنیا میں اہل ایمان کے لئے ایک صبر آزما مرحلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جب دین و ایمان پر عمل کرتے ہیں تو دین سے ناآشنا اور ایمان سے بے خبر لوگ انھیں ہنسی مذاق و ملامت کا نشانہ بنا لیتے ہیں۔ کتنے ہی کمزور ایمان والے ہیں کہ وہ ان ملامتوں سے ڈر کر بہت سے احکام اللہ پر عمل کرنے سے کرتے ہیں، جیسے ڈاڑھی ہے، پردے کا مسئلہ ہے، شادی بیاہ کی ہندوانہ رسومات سے اجتناب ہے وغیرہ وغیرہ۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو کسی بھی ملامت کی پروا نہیں کرتے اور اللہ و رسول کی اطاعت سے کسی بھی موقع پر انحراف نہیں کرتے، اللہ تعالیٰ قیامت والے دن انھیں اس کی بہترین جزا عطا فرمائے گا اور انھیں کامیابی سے سرفراز کرے گا۔ جیسا کہ اس آیت سے واضح ہے۔ اللَّھُمَّ! اَجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔ المؤمنون
112 المؤمنون
113 ١١٣۔ ١ اس سے مراد فرشتے ہیں، جو انسانوں کے اعمال اور عمریں لکھنے پر مامور ہیں یا وہ انسان مراد ہیں جو حساب کتاب میں مہارت رکھتے ہیں۔ قیامت کی ہولناکیاں، ان کے ذہنوں سے دنیا کی عیش و عشرت کو محو کردیں گی اور دنیا کی زندگی انھیں ایسے لگے گی جیسے دن یا آدھا دن۔ اس لئے وہ کہیں گے کہ ہم تو ایک دن یا اس سے بھی کم وقت دنیا میں رہے۔ بیشک تو فرشتوں سے یا حساب جاننے والوں سے پوچھ لے۔ المؤمنون
114 ١١٤۔ ١ اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کی دائمی زندگی کے مقابلے میں یقینا دنیا کی زندگی بہت ہی قلیل ہے۔ لیکن اس نکتے کو دنیا میں تم نے نہیں جانا کاش تم دنیا میں اس کی حقیقت سے دنیا کی بے ثباتی سے آگاہ ہوجاتے، تو آج تم بھی اہل ایمان کی طرح کامیاب و کامران ہوتے۔ المؤمنون
115 المؤمنون
116 ١١٦۔ ١ یعنی وہ اس سے بہت بلند کہ وہ تمہیں بغیر کسی مقصد کے یوں ہی ایک کھیل کے طور پر بے کار پیدا کیا اور وہ ہے اس کی عبادت کرنا۔ اسی لئے آگے فرمایا وہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ١١٦۔ ٢ عرش کی صفت کریم بیان فرمائی کہ وہاں سے رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔ المؤمنون
117 ١١٧۔ ١ اس سے معلوم ہوا کہ فلاح اور کامیابی آخرت میں عذاب الٰہی سے بچ جانا ہے، محض دنیا کی دولت اور آسائشوں کی فروانی، کامیابی نہیں، یہ دنیا میں کافروں کو بھی حاصل ہے، لیکن اللہ تعالیٰ ان سے فلاح کی نفی فرما رہا ہے، جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اصل فلاح آخرت سے فلاح ہے جو اہل ایمان کے حصے آئے گی، نہ کہ دنیاوی مال و اسباب کی کثرت، جو کہ بلا تفریق مومن اور کافر، سب کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ المؤمنون
118 المؤمنون
0 سُوْرَۃُ النُّوْرِ ٢٤ یہ سورت مدنی ہے اس میں (٦٤) آیات اور (٩) رکوع ہیں۔ النور
1 ١۔ ١ قرآن کریم کی ساری ہی سورتیں اللہ کی نازل کردہ ہیں، لیکن اس سورت کی بابت جو یہ کہا تو اس سے اس سورت میں بیان اہم تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ النور
2 ٢۔ ١ بدکاری کی ابتدائی سزا جو اسلام میں عبوری طور پر بتائی گئی تھی، وہ سورۃ النساء آیت۔ ١٥ میں گزر چکی ہے، اس میں کہا گیا تھا کہ اس کے لئے جب تک مستقل سزا مقرر نہ کی جائے، ان بدکار عورتوں کو گھروں میں بند رکھو، پھر جب سورۃ نور کی یہ آیت نازل ہوئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا تھا، اس کے مطابق بدکار مرد و عورت کی مستقل سزا مقرر کردی گئی ہے، وہ تم مجھ سے سیکھ لو، اور وہ ہے کنوارے (غیر شادی شدہ) مرد اور عورت کے لئے سو سو کوڑے اور شادی شدہ مرد اور عورت کو سو سو کوڑے اور سنگساری کے ذریعے مار دینا۔ (صحیح مسلم) پھر آپ نے شادی شدہ زانیوں کے لئے سزا صرف رجم (سنگساری) ہے۔ ٢۔ ٢ اس کا مطلب یہ ہے کہ ترس کھا کر سزا دینے سے گریز مت کرو، ورنہ طبعی طور پر ترس کا آنا، ایمان کے منافی نہیں، منجملہ خواص طبائع انسانی میں سے ہے۔ ٢۔ ٣ تاکہ سزا کا اصل مقصد کہ لوگ اس سے عبرت پکڑیں، زیادہ وسیع پیمانے پر حاصل ہو سکے۔ بد قسمتی سے آج کل برسر عام سزا کو انسانی حقوق کے خلاف باور کرایا جا رہا ہے۔ یہ سراسر جہالت، احکام الٰہی سے بغاوت اور بزم خویش اللہ سے بھی زیادہ انسانوں کا ہمدرد اور خیرخواہ بننا ہے۔ درانحالیکہ اللہ سے زیادہ رؤف رحیم کوئی نہیں۔ النور
3 ٣۔ ١ اس کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ النور
4 ٤۔ ١ اس میں (بہتان تراشی) کی سزا بیان کی گئی ہے کہ جو شخص کسی پاک دامن عورت یا مرد پر زنا کی تہمت لگائے اس طرح جو عورت کسی پاک دامن مرد یا عورت پر زنا کی تہمت لگائے اور بطور ثبوت چار گواہ پیش نہ کرسکے تو اس کے لئے تین حکم بیان کئے گئے ہیں (١) انھیں اسی کوڑے لگائے جائیں (٢) ان کی شہادت قبول نہ کی جائے (٣) وہ عند اللہ و عندالناس فاسق ہیں۔ النور
5 ٥۔ ١ توبہ سے کوڑوں کی سزا تو معاف نہیں ہوگی، تائب ہوجائے یا اصرار کرے، یہ سزا تو بہرحال ملے گی البتہ دوسری دو باتیں جو ہیں اس کے بارے میں اختلاف ہے، بعض علماء اس استثنا کو فسق تک محدود رکھتے ہیں۔ یعنی توبہ کے بعد فاسق نہیں رہے گا۔ اور بعض مفسرین دونوں جملوں کو اس میں شامل سمجھتے ہیں، یعنی توبہ کے بعد مقبول الشہادۃ بھی ہوجائے گا۔ النور
6 النور
7 ٧۔ ١ اس میں لعان کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مرد نے اپنی بیوی کو اپنی آنکھوں سے کسی غیر کے ساتھ بدکاری کرتے ہوئے دیکھا، جس کا وہ خود عینی گواہ ہے لیکن چونکہ زنا کی حد کے اثبات کے لئے چار مردوں کی عینی گواہی ضروری ہے، اس لئے جب تک وہ اپنے ساتھ مزید تین عینی گواہ پیش نہ کرے، اس کی بیوی پر زنا کی حد نہیں لگ سکتی۔ لیکن اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایسی بد چلن بیوی کو برداشت کرنا بھی اس کے لئے ناممکن ہے۔ شریعت نے اس کا حل یہ پیش کیا ہے کہ یہ شخص عدالت میں یا حاکم مجاز کے سامنے چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے گا کہ وہ اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگانے میں سچا ہوں بچہ یا حمل اس کا نہیں ہے۔ اور پانچویں مرتبہ کہے گا کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت۔ النور
8 النور
9 ٩۔ ١ یعنی اگر خاوند کے جواب میں بیوی چار مرتبہ قسم کھا کر یہ کہہ دے کہ وہ جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اگر اس کا خاوند سچا ہے (اور میں جھوٹی ہوں) تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ تو اس صورت میں وہ زنا کی سزا سے بچ جائی گی اس کے بعد ان دونوں کے درمیان ہمیشہ کے لئے جدائی ہوجائے گی۔ اسے لعان اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں دونوں ہی اپنے آپ کو جھوٹا ہونے کی صورت میں مستحق لعنت قرار دیتے ہیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایسے بعض واقعات پیش آئے، جن کی تفصیل احادیث میں موجود ہے، وہی واقعات ان آیات کے نزول کا سبب بنے۔ النور
10 ١٠۔ ١ تو تم میں سے جھوٹے پر فوراً اللہ کا عذاب نازل ہوجاتا۔ لیکن چونکہ وہ تو رب ہے اور حکیم بھی، اس لئے ایک تو اس نے ستر پوشی کردی، تاکہ اس کے بعد اگر کوئی سچے دل سے توبہ کرلے تو وہ اسے اپنے دامن رحمت میں ڈھانپ لے گا اور حکیم بھی ہے کہ اس نے لعان جیسا مسئلہ بیان کر کے غیور مردوں کے لئے ایک نہایت معقول اور آسان تجویز مہیا کردی۔ النور
11 ١١۔ ١ اِ فَک سے مراد وہ واقع افک ہے جس میں منافقین نے حضرت عائشہ (رض) کے دامن عفت و عزت کو داغ دار کرنا چاہا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت عائشہ کی حرمت میں آیت نازل فرما کر ان کی پاک دامنی اور عفت کو واضح تر کردیا۔ اِفْک کے معنی ہیں کسی چیز کو الٹا دینا۔ اس واقع میں بھی چونکہ منافقین نے معاملے کو الٹا کردیا تھا یعنی حضرت عائشہ تو ثنا تعریف کی مستحق تھیں، عالی نسب اور رفعت کردار کی مالک تھیں نہ کہ قذف کی۔ لیکن ظالموں نے اس پیکر عفت کو اس کے برعکس طعن اور بہتان تراشی کا ہدف بنا لیا۔ ١١۔ ٢ ایک گروہ اور جماعت کو عَصْبَۃ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کی تقویت اور عصیبت کا باعث ہوتے ہیں۔ ١١۔ ٣ کیونکہ اس سے ایک تو تمہیں کرب اور صدمے کے سبب ثواب عظیم ملے گا، دوسرے آسمانوں سے حضرت عائشہ کی حرمت میں ان کی عظمت شان اور ان کے خاندان کا شرف و فضل نمایاں تر ہوگیا، علاوہ ازیں اہل ایمان کے لئے اس میں عبرت ونصیحت کے اور کئی پہلو ہیں۔ ١١۔ ٤ اس سے مراد عبد اللہ بن ابی منافق ہے جو اس سازش کا سرغنہ تھا۔ النور
12 ١٢۔ ١ یہاں سے تربیت کے ان پہلوؤں کو نمایاں کیا جا رہا ہے جو اس واقعے میں مضمر ہیں۔ ان میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اہل ایمان ایک جان کی طرح ہیں، جب حضرت عائشہ پر تہمت طرازی کی گئی تو تم نے اپنے اوپر قیاس کرتے ہوئے فورا! اس کی تردید کیوں نہ کی اور اسے بہتان صریح کیوں قرار نہیں دیا ؟ النور
13 النور
14 النور
15 النور
16 ١٦۔ ١ دوسری بات اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہ بتلائی کہ اس بہتان پر انہوں نے ایک گواہ پیش نہیں کیا۔ جبکہ اس کے لئے چار گواہ ضروری تھے، اس کے باوجود تم نے ان بہتان تراشیوں کو جھوٹا نہیں کہا یہی وجہ ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد حسان، مسطح اور حمنہ بنت حجش (رض) کو حد قذف لگائی گئی (مسند احمد، جلد۔ ٦) عبد اللہ بن ابی کو سزا اس لئے نہیں دی گئی کہ اس کے لئے آخرت کے عذاب عظیم کو ہی کافی سمجھ لیا گیا اور مومنوں کو سزا دے کر دنیا ہی میں پاک کردیا گیا۔ دوسرے اس کے پیچھے ایک پورا جتھہ تھا، اس کو سزا دینے کی صورت میں کچھ ایسے خطرات تھے کہ جن سے نمٹنا اس وقت مسلمانوں کے لئے مشکل تھا، اس لئے مصلتًا اس سزا دینے سے گریز کیا گیا (فتح القدیر) النور
17 النور
18 النور
19 ١٩۔ ا فَاحِشَۃ، کے معنی بے حیائی ہیں اور قرآن نے بدکاری کو بھی فاحشہ قرار دیا ہے، (بنی اسرائیل) اور یہاں بدکاری کی ایک جھوٹی خبر کی اشاعت کو بھی اللہ تعالیٰ نے بے حیائی سے تعبیر فرمایا ہے اور اسے دنیا و آخرت میں عذاب الیم کا باعث قرار دیا ہے۔ النور
20 ٢٠۔ ١ جواب محذوف ہے، تو پھر اللہ کا عذاب تمہیں اپنی گرفت میں لے لیتا۔ یہ محض اس کا فضل اور شفقت و رحمت ہے کہ اس نے تمہارے اس جرم عظیم کو معاف فرما دیا۔ النور
21 ٢١۔ ١ اس مقام پر شیطان کی پیروی سے ممانعت کے بعد یہ فرمانا کہ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی پاک صاف نہ ہوتا، اس سے یہ مقصد معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ مذکورہ واقعہ افک میں ملوث ہونے سے بچ گئے، یہ محض اللہ کا فضل و کرم ہے جو ان پر ہوا، ورنہ وہ بھی اسی رو میں بہہ جاتے، جس میں بعض مسلمان بہہ گئے تھے۔ اس لئے شیطان کے داؤ اور فریب سے بچنے کے لئے ایک تو ہر وقت اللہ سے مدد طلب کرتے اور اس کی طرف رجوع کرتے رہو اور دوسرے جو لوگ اپنے نفس کی کمزوری سے شیطان کے فریب کا شکار ہوگئے ہیں، ان کو زیادہ ہدف ملامت مت بناؤ، بلکہ خیر خواہانہ طریقے سے ان کی اصلاح کی کوشش کرو۔ النور
22 ٢٢۔ ١ حضرت مسطح، جو واقعہ افک میں ملوث ہوگئے تھے، فقرائے مہاجرین میں سے تھے، رشتے میں حضرت ابو بکر صدیق کے خالہ زاد تھے، اسی لئے ابو بکر ان کے کفیل اور معاش کے ذمے دار تھے، جب یہ بھی حضرت عائشہ ' کے خلاف مہم میں شریک ہوگئے تو ابو بکر صدیق کو سخت صدمہ پہنچا، جو ایک فطری عمل تھا چنانچہ نزول براءت کے بعد غصہ میں انہوں نے قسم کھالی کہ وہ آئندہ مسطح کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ ابو بکر صدیق کی یہ قسم، جو اگرچہ انسانی فطرت کے مطابق ہی تھی، تاہم مقام صدیق تم اس سے بلند تر کردار کا متقاضی تھا، اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آئی اور یہ آیت نازل فرمائی، جس میں بڑے پیار سے ان کی اس عاجلانہ بشری اقدام پر انھیں متنبہ فرمایا کہ تم سے بھی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں اور تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیاں معاف فرماتا رہے۔ تو پھر تم بھی دوسروں کے ساتھ اسی طرح معافی اور درگزر کا معاملہ کیوں نہیں کرتے؟ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیاں معاف فرما دے؟ یہاں انداز بیان اتنا موثر تھا کہ اسے سنتے ہی ابو بکر صدیق بے ساختہ پکار اٹھے ' کیوں نہیں اے ہمارے رب! ہم ضرور یہ چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف فرما دے ' اس کے بعد انہوں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کر کے حسب سابق مسطح کی مالی سر پرستی شروع فرما دی (فتح القدیر)، ابن کثیر) النور
23 ٢٣۔ ١ بعض مفسرین نے اس آیت کو حضرت عائشہ (رض) اور دیگر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے ساتھ خاص قرار دیا ہے کہ اس آیت میں بطور خاص ان پر تہمت لگانے کی سزا بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ ان کے لئے توبہ نہیں ہے۔ اور بعض مفسرین نے اسے عام ہی رکھا ہے اور اس میں وہی حد قذف بیان کی گئی ہے، جو پہلے گزر چکی ہے۔ اگر تہمت لگانے والا مسلمان ہے تو لعنت کا مطلب ہوگا کہ وہ قابل حد ہے اور مسلمان کے لئے نفرت اور بعد کا مستحق اور اگر کافر ہے، تو مفہوم واضح ہی ہے کہ وہ دنیا و آخرت میں ملعون یعنی رحمت الٰہی سے محروم ہے۔ النور
24 ٢٤۔ ١ جیسا کہ قرآن کریم میں دوسرے مقامات پر بھی اور احادیث میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔ النور
25 النور
26 ٢٦۔ ١ اس کا ایک مفہوم تو یہی بیان کیا گیا ہے جو ترجمے سے واضح ہے۔ اس صورت میں یہ ہم معنی آیت ہوگی، اور خبیثات اور خبیثیوں سے زانی مرد و عورت اور طیبات اور رفیون سے مراد پاک دامن عورت اور مرد ہونگے۔ دوسرے معنی اس کے ہیں کہ ناپاک باتیں ناپاک مردوں کے لئے اور ناپاک مرد ناپاک باتوں کے لئے ہیں اور پاکیزہ باتیں پاکیزہ مردوں کے لئے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ باتوں کے لئے ہیں اور مطلب یہ ہوگا کہ ناپاک باتیں وہی مرد عورت کرتے ہیں جو ناپاک ہیں اور پاکیزہ باتیں کرنا پاکیزہ مردوں اور عورتوں کا شیوہ ہے۔ اس میں اشارہ ہے۔ اس بات کی طرف کہ حضرت عائشہ پر ناپاکی کا الزام عائد کرنے والے ناپاک اور ان سے اس کی براءت کرنے والے پاک ہیں۔ ٢٦۔ ٢ اس سے مراد جنت کی روزی ہے جو اہل ایمان کو نصیب ہوگی۔ النور
27 ٢٧۔ ١ گزشتہ آیات میں زنا اور قذف اور ان کی حدوں کا بیان گزرا، اب اللہ تعالیٰ گھروں میں داخل ہونے کے آداب بیان فرما رہا ہے تاکہ مرد و عورت کے درمیان اختلاط نہ ہو جو عام طور زنا یا قذف کا سبب بنتا ہے۔ اَسْتِیْنَاس کے معنی ہیں، معلوم کرنا، یعنی جب تک تمہیں یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اندر کون ہے اور اس نے تمہیں اندر داخل ہونے کی اجازت دے دی ہے، اس وقت تک داخل نہ ہو۔ آیت میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرنے کا ذکر پہلے اور سلام کرنے کا ذکر بعد میں ہے۔ لیکن حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے سلام کرتے اور پھر داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول بھی تھا کہ تین مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجازت طلب فرماتے اگر کوئی جواب نہیں آتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوٹ آتے۔ اور یہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت مبارکہ تھی کہ اجازت طلبی کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دروازے کے دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے، تاکہ ایک دم سامنا نہ ہوجائے جس بے پردگی کا امکان رہتا ہے (ملاحظہ ہو صحیح بخاری) اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دروازے پر کھڑے ہو کر اندر جھانکنے سے بھی نہایت سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے حتیٰ کہ اگر کسی شخص نے جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس پر کوئی گناہ نہیں (البخاری) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو بھی ناپسند فرمایا کہ جب اندر سے صاحب بیت پوچھے، کون ہے؟ تو اس کے جواب میں "میں""میں"کہا جاۓ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نام لے کر اپنا تعارف کرائے (صحیح بخاری) ٢٧۔ ٢ یعنی عمل کرو، مطلب یہ ہے کہ اجازت طلبی اور سلام کرنے کے بعد گھر کے اندر داخل ہونا، دونوں کے لئے اچانک داخل ہونے سے بہتر ہے۔ النور
28 النور
29 ٢٩۔ ١ اس سے مراد کون سے گھر ہیں، جن میں بغیر اجازت لئے داخل ہونے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ گھر ہیں، جو بطور خاص مہمانوں کے لئے الگ تیار یا مخصوص کردیئے گئے ہوں۔ ان میں صاحب خانہ کی پہلی مرتبہ اجازت کافی ہے، بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد سرائے ہیں جو مسافروں کے لئے ہی ہوتی ہیں یا تجارتی گھر ہیں، یعنی جن میں تمہارا فائدہ ہو۔ النور
30 ٣٠۔ ١ جب کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت لینے کو ضروری قرار دیا تو اس کے ساتھ ہی (آنکھوں کو پست رکھنے یا بند رکھنے) کا حکم دے دیا تاکہ اجازت طلب کرنے والا بھی بالخصوص اپنی نگاہوں پر کنٹرول رکھے۔ ٣٠۔ ٢ یعنی ناجائز استعمال سے اس کو بچائیں یا انھیں اس طرح چھپا کر رکھیں کہ ان پر کسی کی نظر نہ پڑے۔ اس کے یہ دونوں مفہوم صحیح ہیں کیونکہ دونوں ہی مطلوب ہیں۔ علاوہ ازیں نظروں کی حفاظت کا ذکر کیا کیونکہ اس میں بے احتیاطی ہی، غفلت کا سبب بنتی ہے۔ النور
31 ٣١۔ ١ یہاں پردے کے احکام میں توبہ کا حکم دینے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں ان احکام کی خلاف ورزی بھیتم کرتے رہے ہو، وہ چونکہ اسلام سے قبل کی باتیں ہیں، اس لئے اگر تم نے سچے دل سے توبہ کرلی اور ان احکام مذکورہ کے مطابق پردے کا صحیح اہتمام کرلیا تو لازمی کامیابی اور دنیا اور آخرت کی سعادت تمہارا مقدر ہے۔ النور
32 ٣٢۔ ١ آیت میں خطاب اولیاء سے ہے کہ نکاح کر دو، یہ نہیں فرمایا کہ نکاح کرلو، کہ مخاطب نکاح کرنے والے مرد و عورت ہوتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورت ولی کی اجازت اور رضامندی کے بغیر از خود اپنا نکاح نہیں کرسکتی، جس کی تائید احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ اس طرح امر کے صیغے سے بعض نے ثبوت کیا ہے کہ نکاح کرنا واجب ہے، جب کہ اسے جائز اور پسندیدہ قرار دیا ہے۔ تاہم استطاعت رکھنے والے کے لئے یہ سنت مؤکدہ بلکہ بعض حالات میں واجب ہے اور اس سے بچنے کی سخت وعید ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ جس نے میری سنت سے انکار کیا، وہ مجھ سے نہیں۔ ٣٢۔ ٢ یہاں صالحیت سے مراد ایمان ہے، اس میں اختلاف ہے کہ مالک اپنے غلام اور لونڈیوں کو نکاح کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں یا نہیں بعض نفرت کے قائل ہیں، بعض نہیں۔ تاہم اندیشہ ضرر کی صورت میں شرعاً مجبور کرنا جائز ہے۔ بصورت دیگر غیر مشروع (الیسر التفاسیر) ٣٢۔ ٣ یعنی محض غربت اور تنگ دستی نکاح میں مانع نہیں ہونی چاہیے ممکن ہے نکاح کے بعد اللہ ان کی تنگ دستی کو اپنے فضل سے وسعت ورزق میں بدل دے۔ حدیث میں آتا ہے تین شخص ہیں جن کی اللہ ضرور مدد فرماتا ہے ١۔ نکاح کرنے والا جو پاکدامنی کی نیت سے نکاح کرتا ہے ٢۔ مکاتب غلام، جو ادائیگی کی نیت رکھتا ہے ٣۔ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا۔ النور
33 النور
34 النور
35 ٣٥۔ ١ یعنی اگر اللہ نہ ہوتا تو آسمان میں نور ہوتا نہ زمین میں، نہ آسمان و زمین میں کسی کو ہدایت نصیب ہوتی۔ پس وہ اللہ تعالیٰ ہی آسمان و زمین کو روشن کرنے والا ہے اس کی کتاب نور ہے، اس کا رسول (بحیثیت صفات کے) نور ہے۔ یعنی ان دونوں کے ذریعے سے زندگی کی تاریکیوں میں رہنمائی اور روشنی حاصل کی جاتی ہے، جس طرح چراغ اور بلب سے انسان روشنی حاصل کرتا ہے۔ حدیث سے بھی اللہ کا نور ہونا ثابت ہے، پس اللہ، اس کی ذات نور ہے، اس کا حجاب نور ہے اور ہر ظاہری اور معنوی نور کا خالق، اس کا عطا کرنے والا اور اس کی طرف ہدایت کرنے والا صرف ایک اللہ ہے۔ ٣٥۔ ٢ نور سے مراد ایمان و اسلام ہے، یعنی اللہ تعالیٰ جن کے اندر ایمان کی رغبت اور اس کی طلب دیکھتا ہے، ان کی اس نور کی طرف رہنمائی فرما دیتا ہے، جس سے دین و دنیا کی سعادتوں کے دروازے ان کے لئے کھل جاتے ہیں۔ ٣٥۔ ٣ جس طرح اللہ نے مثال بیان فرمائی، جس میں اس نے ایمان کو اور اپنے مومن بندے کے دل میں اس کے راسخ ہونے اور بندوں کے احوال قلوب کا علم رکھنے کو واضح فرمایا کہ کون ہدایت کا اہل ہے اور کون نہیں۔ النور
36 ٣٦۔ ١ جب اللہ تعالیٰ نے قلب مومن کو اور اس میں جو ایمان و ہدایت اور علم ہے، اس کو ایسے چراغ سے تشبیہ دی جو شیشے کی قندیل میں ہو اور جو صاف اور شفاف تیل سے روشن ہو۔ تو اب اس کا محل بیان کیا جا رہا ہے کہ یہ قندیل ایسے گھروں میں ہیں، جن کی بابت حکم دیا گیا ہے کہ انھیں بلند کیا جائے اور ان میں اللہ کا ذکر کیا جائے مراد مسجدیں ہیں، جو اللہ کو زمین کے حصوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ بلندی سے مراد سنگ و خشت کی بلندی نہیں ہے بلکہ اس میں مسجدوں کو گندگی، لغویات اور غیر مناسب اقوال و افعال سے پاک رکھنا بھی شامل ہے۔ ورنہ محض مسجدوں کی عمارتوں کو عالی شان اور فلک بوس بنا دینا مطلوب نہیں ہے بلکہ احادیث میں مسجدوں کو زر و نگار اور زیادہ آراستہ و پیراستہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اور ایک حدیث میں تو اسے قرب قیامت کی علامات میں بتلایا گیا ہے۔ ٣٦۔ ٢ تسبیح سے مراد نماز ہے، یعنی اہل ایمان، جن کے دل میں ایمان اور ہدایت کے نور سے روشن ہوتے ہیں، صبح شام مسجدوں میں اللہ کی رضا کے لئے نماز پڑھتے اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔ النور
37 ٣٧۔ ١ یعنی شدت خوف اور ہولناکی کی وجہ سے جس طرح دوسرے مقام پر ہے ' ان کو قیامت والے دن سے ڈراؤ، جس دن دل، گلوں کے پاس آجائیں گے، غم بھرے ہوئے '۔ ابتداً دلوں کی یہ کیفیت سب کی ہی ہوگی، مومن کی بھی اور کافر کی بھی۔ النور
38 ٣٨۔ ١ قیامت والے دن اہل ایمان کو ان کی نیکیوں کا بدلہ (کئی کئی گنا) کی صورت میں دیا جائے گا اور بہت سوں کو بے حساب ہی جنت میں داخل کردیا جائے گا اور وہاں رزق کی فروانی جس کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔ النور
39 النور
40 ٤٠۔ ١ یعنی دنیا میں ایمان و اسلام کی روشنی نصیب نہیں ہوتی اور آخرت میں بھی اہل ایمان کو ملنے والے نور سے وہ محروم رہیں گے۔ النور
41 ٤١۔ ١ یعنی اہل زمین و اہل آسمان، جس طرح اللہ کی اطاعت اور اس کی تسبیح کرتے ہیں، سب اس کے علم میں ہے، یہ گویا انسانوں اور جنوں کو تنبیہ ہے کہ تمہیں اللہ نے شعور اور ارادے کی آزادی دی ہے تو تمہیں تو دوسری مخلوقات سے زیادہ اللہ کی تسبیح و تحمید اور اس کی اطاعت کرنی چاہیئے۔ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ دیگر مخلوقات تو تسبیح الٰہی میں مصروف ہیں۔ لیکن شعور اور ارادہ سے بہرہ ور مخلوق اس میں کوتاہی کا ارتکاب کرتی ہے۔ جس پر یقینا وہ اللہ کی گرفت کی مستحق ہوگی۔ النور
42 ٤٢۔ ١ پس وہی اصل حاکم ہے، جس کے حکم کا کوئی تعاقب کرنے والا نہیں اور وہی معبود برحق ہے، جس کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں۔ اس کی طرف سب کو لوٹ کر جانا ہے، جہاں ہر ایک کے بارے میں عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ فرمائے گا۔ النور
43 النور
44 ٤٤۔ ١ یعنی کبھی دن بڑے، راتیں چھوٹی اور کبھی اس کے برعکس۔ یا کبھی دن کی روشنی، کو بادلوں کی تاریکیوں سے اور رات کے اندھیروں کو چاند کی روشنی سے بدل دیتا ہے۔ النور
45 ٤٥۔ ١ جس طرح سانپ، مچھلی اور دیگر حشرات الارض کیڑے مکوڑے ہیں۔ ٤٥۔ ٢ جیسے انسان اور پرند ہیں ٤٥۔ ٣ جیسے تمام چوپائے اور دیگر حیوانات ہیں۔ ٤٥۔ ٤ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ بعض حیوانات ایسے بھی ہیں جو چار سے بھی زیادہ پاؤں رکھتے ہیں، جیسے کیکڑا، مکڑی اور بہت سے زمینی کیڑے۔ النور
46 ٤٦۔ ١ اللہ تعالیٰ اسے نظر صحیح اور قالب صادق عطا فرما دیتا ہے جس سے اس کے لئے ہدایت کا راستہ کھل جاتا ہے۔ صراط مستقیم سے مراد یہی ہدایت کا راستہ ہے جس میں کوئی کجی نہیں، اسے اختیار کر کے انسان اپنی منزل مقصود جنت تک پہنچ جاتا ہے۔ النور
47 ٤٧۔ ١ یہ منافقین کا بیان ہے جو زبان سے اسلام کا اظہار کرتے تھے لیکن دلوں میں کفر و عناد تھا یعنی اعتقاد صحیح سے محروم تھے۔ اس لئے زبان سے اظہار ایمان کے باوجود ان کے ایمان کی نفی کی گئی۔ النور
48 النور
49 ٤٩۔ ١ کیونکہ انھیں یقین ہوتا ہے کہ عدالت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو فیصلہ صادر ہوگا، اس میں کسی کی رو رعایت نہیں ہوگی، اس لئے وہاں اپنا مقدمہ لے جانے سے ہی گریز کرتے ہیں۔ ہاں اگر وہ جانتے ہیں کہ مقدمے میں وہ حق پر ہیں اور ان ہی کے حق میں فیصلہ ہونے کا غالب امکان ہے تو پھر خوشی خوشی وہاں آتے ہیں۔ النور
50 ٥٠۔ ١ جب فیصلہ ان کے خلاف ہونے کا امکان ہوتا ہے تو اس سے اعراض و گریز کی وجہ بیان کی جا رہی ہے کہ یا تو ان کے دلوں میں کفر و نفاق کا روگ ہے یا انھیں نبوت محمدی میں شک ہے یا انھیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان پر اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ظلم کرے گا، حالانکہ ان کی طرف سے ظلم کا کوئی امکان ہی نہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ خود ہی ظالم ہیں۔ النور
51 ٥١۔ ١ یہ اہل کفر و نفاق کے مقابلے میں اہل ایمان کے کردار و عمل کا بیان ہے۔ النور
52 ٥٢۔ ١ یعنی فلاح و کامیابی کے مستحق صرف وہ لوگ ہوں گے جو اپنے تمام معاملات میں اللہ اور رسول کے فیصلے کو خوش دلی سے قبول کرتے اور انہی کی اطاعت کرتے ہیں اور خشیت الٰہی اور تقوٰی سے متصف ہیں، نہ کہ دوسرے لوگ، جو ان صفات سے محروم ہیں۔ النور
53 ٥٣۔ ١ اور وہ یہ ہے کہ جس طرح تم قسمیں جھوٹی کھاتے ہو، تمہاری اطاعت بھی نفاق پر مبنی ہے۔ بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ تمہارا معاملہ اطاعت معروف ہونا چاہیئے۔ یعنی معروف میں بغیر کسی قسم کے حلف کے اطاعت، جس طرح مسلمان کرتے ہیں، پس تم بھی ان کی مثل ہوجاؤ۔ (ابن کثیر) النور
54 ٥٤۔ ١ یعنی تبلیغ و دعوت، جو وہ ادا کر رہا ہے۔ ٥٤۔ ٢ یعنی تبلیغ و دعوت کو قبول کر کے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا۔ ٥٤۔ ٣ اس لئے کہ صراط مستقیم کی طرف دعوت دیتا ہے۔ النور
55 ٥٥۔ ١ بعض نے اس وعدہ الٰہی کو صحابہ کرام کے ساتھ یا خلفائے راشدین کے ساتھ خاص قرار دیا ہے لیکن اس کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔ قرآن کے الفاظ عام ہیں اور ایمان اور عمل صالح کے ساتھ مشروط ہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ عہد خلافت راشدہ اور عہد خیر القرون میں، اس وعدہ الٰہی کا ظہور ہوا، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو زمین میں غلبہ عطا فرمایا۔ اپنے پسندیدہ دین اسلام کو عروج دیا اور مسلمانوں کے خوف کو امن سے بدل دیا، پہلے مسلمان کفار عرب سے ڈرتے تھے، پھر اس کے برعکس معاملہ ہوگیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی جو پیش گوئیاں فرمائی تھیں وہ بھی اس عہد میں پوری ہوئیں۔ مثلا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا حیرہ سے ایک عورت تن تنہا اکیلی چلے گی اور بیت اللہ کا آ کر طواف کرے گی، اسے کوئی خوف خطرہ نہیں ہوگا۔ کسریٰ کے خزانے تمہارے قدموں میں ڈھیر ہوجائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا (صحیح بخاری) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا تھا (ان اللہ زوی لی الارض، فرایت مشارقھا ومغاربھا، وان امتی سیبلغ ملکھا ما زوی لی منھا) (صحیح مسلم )"اللہ تعالیٰ نے زمین کو میرے لیے سکیڑ دیا "پس میں نے اس کے مشرقی اور مغربی حصے دیکھے، عنقریب میری امت کا دائرہ اقتدار وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک میرے لیے زمین سکیڑ دی گئی "حکمرانی کی یہ وسعت بھی مسلمانوں کے حصے میں آئی، اور فارس وشام اور مصر افریقہ اور دیگر دور دراز کے ممالک فتح ہوئے اور کفر و شرک کی جگہ توحید وسنت کی مشعلیں ہر جگہ روشن ہوگئیں اور اسلامی تہذیب وتمدن کا پھریرا چار دانگ عالم میں لہرا گیا۔ لیکن یہ وعدہ چونکہ مشروط تھا، جب مسلمان ایمان میں کمزور اور عمل صالح میں کوتاہی کے مرتکب ہوئے اور اللہ نے ان کی عزت کو ذلت میں، ان کے اقتدار اور غلبے کو غلامی میں اور ان کے امن واستحکام کو خوف اور دہشت میں بدل دیا۔ ٥٥۔ ٢ یہ بھی ایمان اور عمل صالح کے ساتھ ایک اور بنیادی شرط ہے جس کی وجہ سے مسلمان اللہ کی مدد کے مستحق اور اس وصف توحید سے عاری ہونے کے بعد وہ اللہ کی مدد سے محروم ہوجائیں گے۔ ٥٥۔ ٣ اس کفر سے مراد، وہی ایمان، عمل صالح اور توحید سے محرومی ہے، جس کے بعد ایک انسان اللہ کی اطاعت سے نکل جاتا اور کفر فسق کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے۔ النور
56 ٥٦۔ ١ یہ گویا مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ اللہ کی رحمت اور مدد حاصل کرنے کا طریقہ یہی ہے جس پر چل کر صحابہ کرام کو یہ رحمت اور مدد حاصل ہوئی۔ النور
57 ٥٧۔ ١ یعنی آپ کے مخالفین اور مکذبین اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کی گرفت کرنے پر ہر طرح قادر ہے۔ النور
58 ٥٨۔ ١ یعنی ان اوقات ثلاثہ کے علاوہ گھر کے مذکورہ خدمت گزاروں کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اجازت طلب کئے بغیر گھر کے اندر آ جا سکتے ہیں۔ النور
59 ٥٩۔ ١ ان بچوں سے مراد احرار بچے ہیں، بلوغت کے بعد ان کا حکم عام مردوں کا سا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ جب بھی کسی کے گھر آئیں تو پہلے اجازت طلب کریں۔ النور
60 ٦٠۔ ١ ان سے مراد وہ بوڑھی اور راز کار رفتہ عورتیں ہیں جن کو حیض آنا بند ہوگیا ہو اور ولادت کے قابل نہ رہی ہوں اس عمر میں بالعموم عورت کے اندر مرد کے لئے فطری طور پر جو جنسی کشش ہوتی ہے وہ ختم ہوجاتی ہے نہ وہ کسی مرد سے نکاح کی خواہش مند ہوتی ہیں، نہ مرد ہی ان کے لئے ایسے جذبات رکھتے ہیں۔ ایسی عورتوں کو پردے میں تخفیف کی اجازت دے دی گئی ہے ' کپڑے اتار دیں سے مراد جو شلوار قمیض کے اوپر عورت پردے کے لئے بڑی چادر یا برقعہ وغیرہ کی شکل میں لیتی ہے بشرطیکہ مقصد اپنی زینت اور بناؤ سنگھار کا اظہار نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی عورت اپنی جنسی کشش کھو جانے کے باوجود اگر بناؤ سنگھار کے ذریعے سے ' اپنی جنسیت کو نمایاں کرنے کے مرض میں مبتلا ہو تو اس تخفیف پردہ کے حکم سے مستشنٰی ہوگی اور اس کے لئے مکمل پردہ کرنا ضروری ہوگا۔ ٦٠۔ ٢ یعنی مذکورہ بوڑھی عورتیں بھی پردے میں تخفیف نہ کریں بلکہ بدستور بڑی چادر یا برقعہ بھی استعمال کرتی رہیں تو یہ ان کے لئے زیادہ بہتر ہے۔ النور
61 النور
62 ٦٢۔ ١ یعنی جمعہ وعیدین کے اجتماعات میں یا داخلی و بیرونی مسئلے پر مشاورت کے لئے بلائے گئے اجلاس میں اہل ایمان تو حاضر ہوتے ہیں، اسی طرح اگر وہ شرکت سے معذور ہوتے ہیں تو اجازت طلب کرتے ہیں۔ جس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہوا کہ منافقین ایسے اجتماعات میں شرکت سے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت مانگنے سے گریز کرتے ہیں۔ النور
63 ٦٣۔ ١ یہ منافقین کا رویہ ہوتا تھا کہ اجتماع مشاورت سے چپکے سے کھسک جاتے۔ النور
64 ٦٤۔ ١ خلق کے اعتبار سے بھی، ملک کے اعتبار سے بھی اور ماتحتی کے اعتبار سے بھی۔ وہ جس طرح چاہے تصرف کرے اور جس چیز کا چاہے، حکم دے۔ پس اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیئے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ رسول کے کسی حکم کی مخالفت نہ کی جائے اور جس سے اس نے منع کردیا ہے، اس کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ اس لئے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھیجنے کا مقصد ہی یہی ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔ ٦٤۔ ٢ یہ مخالفین رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنبیہ ہے کہ جو کچھ حرکات تم کر رہے ہو، یہ نہ سمجھو کہ وہ اللہ سے مخفی رہ سکتی ہیں۔ اس کے علم میں سب کچھ ہے اور وہ اس کے مطابق قیامت والے دن جزا اور سزا دے گا۔ النور
0 سُوْ رَۃُ الْفُرْ قَا نِ ٢٥ یہ سورت مکی ہے اس میں (٧٧) آیات اور (٦) رکوع ہیں۔ الفرقان
1 ١۔ ١ فرقان کے معنی ہیں حق و باطل، توحید و شرک اور عدل و ظلم کے درمیان کا فرق کرنے والا، اس قرآن نے کھول کر ان امور کی وضاحت کردی ہے، اس لئے اسے فرقان سے تعبیر کیا۔ ١۔ ٢ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت عالم گیر ہے اور آپ تمام انسانوں اور جنوں کے لئے ہادی و رہنما بنا کر بھیجے گئے ہیں، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ( قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً) 7۔ الاعراف :158) (صحیح مسلم) ' پہلے نبی کسی ایک قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا اور میں تمام لوگوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ' رسالت و نبوت کے بعد، توحید کا بیان کیا جا رہا ہے۔ یہاں اللہ کی چار صفات بیان کی گئی ہیں۔ الفرقان
2 ٢۔ ١ یہ پہلی صفت ہے یعنی کائنات میں تصرف کا مالک صرف وہی ہے، کوئی اور نہیں۔ ٢۔ ٢ اس میں نصاریٰ، یہود اور بعض ان عرب قبائل کا رد عمل جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ ٢۔ ٣ اس میں صنم پرست مشرکین اور (دو خداؤں کے خالق) کے قائلین کا رد عمل ہے۔ ٢۔ ٤ ہر چیز کا خالق صرف وہی ہے اور اپنی حکمت و مشیت کے مطابق اس نے اپنی مخلوقات کو ہر وہ چیز بھی مہیا کی ہے جو اس کے مناسب حال ہے یا ہر چیز کی موت اور روزی اس نے پہلے سے ہی مقرر کردی ہے۔ الفرقان
3 ٣۔ ١ لیکن ظالموں نے ایسے ہمہ صفات موصوف رب کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کو رب بنا لیا جو اپنے بارے میں بھی کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے چہ جائیکہ کہ وہ کسی اور کے لئے کچھ کرسکنے کے اختیارات سے بہرہ ور ہوں اس کے بعد منکرین نبوت کے شبہات کا ازالہ کیا جا رہا ہے۔ الفرقان
4 ٤۔ ١ مشرکین کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ کتاب گھڑنے میں یہود سے یا ان کے بعض دوست (مثلاً ابو فکیہہ یسار، عداس اور جبرو غیرہ) سے مدد لی۔ جیسا کہ سورۃ النحل آیت ١٠٣ میں اس کی ضروری تفصیل گزر چکی ہے۔ الفرقان
5 الفرقان
6 ٦۔ ١ یہ ان کے جھوٹ اور افترا کے جواب میں کہا کہ قرآن کو تو دیکھو، اس میں کیا ہے؟ کیا اس کی کوئی بات غلط اور خلاف واقعہ ہے؟ یقینا نہیں ہے، بلکہ ہر بات بالکل صحیح اور سچی ہے، اس لئے کہ اس کو اتارنے والی ذات وہ ہے جو آسمان و زمین کی ہر پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔ الفرقان
7 ٧۔ ١ قرآن پر طعن کرنے کے بعد رسول پر طعن کیا جا رہا ہے اور یہ طعن رسول کی بشریت پر ہے۔ کیونکہ ان کے خیال میں بشریت، عظمت رسالت کی متحمل نہیں۔ اس لئے انہوں نے کہا کہ یہ تو کھاتا پیتا ہے اور بازاروں میں آتا جاتا ہے اور ہمارے ہی جیسا بشر ہے۔ حالانکہ رسول کو تو بشر نہیں ہونا چاہیئے۔ الفرقان
8 ٨۔ ١ تاکہ طلب رزق سے بے نیاز ہو۔ ٨۔ ٢ تاکہ اس کی حیثیت تو ہم سے کچھ ممتاز ہوجاتی۔ ٨۔ ٣ یعنی جس کی عقل و فہم سحر زدہ ہے الفرقان
9 ٩۔ ١ یعنی اے پیغمبر! آپ کی نسبت یہ اس قسم کی باتیں اور بہتان تراشی کرتے ہیں، کبھی ساحر کہتے ہیں، کبھی مسحور و مجنون اور کبھی کذاب و شاعر۔ حالانکہ یہ ساری باتیں باطل ہیں اور جن کے پاس ذرہ برابر بھی عقل فہم ہے، وہ ان کا جھوٹا ہونا جانتے ہیں، پس یہ ایسی باتیں کر کے خود ہی راہ ہدایت سے دور ہوجاتے ہیں، انھیں راہ راست کس طرح نصیب ہو سکتی ہے؟ الفرقان
10 ١٠۔ ١ یعنی یہ آپ کے لئے جو مطالبے کرتے ہیں، اللہ کے لئے ان کا کردینا کوئی مشکل نہیں ہے، وہ چاہے تو ان سے بہتر باغات اور محلات دنیا میں آپ کو عطا کرسکتا ہے جو کہ ان کے دماغوں میں ہیں۔ لیکن ان کے مطالبے تو تکذیب و عناد کے طور پر ہیں نہ کہ طلب ہدایت اور تلاش نجات کے لئے۔ الفرقان
11 ١١۔ ١ قیامت کا جھٹلانا ہی تکذیب رسالت کا بھی باعث ہے۔ الفرقان
12 ١٢۔ ١ یعنی جہنم ان کافروں کو دور سے میدان محشر میں دیکھ کر ہی غصے سے کھول اٹھے گی اور ان کو اپنے دامن غضب میں لینے کے لئے چلائے گی اور جھنجھلائے گی، جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (اِذَآ اُلْقُوْا فِیْہَا سَمِعُوْا لَہَا شَہِیْقًا وَّہِیَ تَفُوْرُ ۝ ۙ تَکَادُ تَمَــیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ) 67۔ الملک :8-7) ' ' جب جہنمی، جہنم میں ڈالے جائیں گے تو اس کا دھاڑنا سنیں گے اور وہ (جوش غضب سے) اچھلتی ہوگی، ایسے لگے گا کہ وہ غصے سے پھٹ پڑے گی ' جہنم کا دیکھنا اور چلانا ایک حقیقت ہے۔ الفرقان
13 الفرقان
14 ١٤۔ ١ یعنی جہنمی جب جہنم کے عذاب سے تنگ آ کر آرزو کریں گے کہ کاش انھیں موت آ جائے، وہ فنا کے گھاٹ اتر جائیں۔ تو ان سے کہا جائے گا کہ اب ایک موت نہیں کئی موتوں کو پکارو۔ مطلب یہ ہے کہ اب تمہاری قسمت میں ہمیشہ کے لئے انواع و اقسام کے عذاب ہیں یعنی موتیں ہی موتیں ہیں، تم کہاں تک موت کا مطالبہ کرو گے الفرقان
15 ١٥۔ ١ یہ، اشارہ ہے جہنم کے مذکورہ عذابوں کی طرف، جن میں جہنمی جکڑ بند ہو کر مبتلا ہوں گے۔ کہ یہ بہتر ہے جو کفر و شرک کا بدلہ ہے یا وہ جنت، جس کا وعدہ متقین سے ان کے تقویٰ و اطاعت الٰہی پر کیا گیا ہے۔ یہ سوال جہنم میں کیا جائے گا لیکن اسے یہاں اس لئے نقل کیا گیا ہے کہ شاید جہنمیوں کے اس انجام سے عبرت پکڑ کر لوگ تقویٰ و اطاعت کا راستہ اختیار کرلیں اور اس انجام بد سے بچ جائیں، جس کا نقشہ یہاں کھینچا گیا ہے۔ الفرقان
16 ١٦۔ ١ یعنی ایسا وعدہ، جو یقینا پورا ہو کر رہے گا، جیسے قرض کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ نے اپنے ذمے یہ وعدہ واجب کرلیا ہے جس کا اہل ایمان اس سے مطالبہ کرسکتے ہیں۔ یہ محض اس کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اہل ایمان کے لئے اس حسن جزا کو اپنے لئے ضروری قرار دے لیا ہے۔ الفرقان
17 ١٧۔ ١ دنیا میں اللہ کے سوا جن کی عبادت کی جاتی رہی اور کی جاتی رہے گی۔ ان میں جمادات (پتھر، لکڑی اور دیگر دھاتوں کی بنی ہوئی مورتیاں) بھی ہیں، جو غیر عاقل ہیں اور اللہ کے نیک بندے بھی ہیں جو عاقل ہیں مثلاً حضرت عزیر، حضرت مسیح علیہما السلام اور دیگر بہت سے نیک بندے۔ اسی طرح فرشتے اور جنات کے پجاری بھی ہونگے۔ اللہ تعالیٰ غیر عاقل جمادات کو بھی شعور و ادراک اور گویائی کی قوت عطا فرمائے گا اور ان سب معبودین سے پوچھے گا کہ بتلاؤ! تم نے میرے بندوں کو اپنی عبادت کرنے کا حکم دیا تھا یا یہ اپنی مرضی سے تمہاری عبادت کر کے گمراہ ہوئے تھے؟ الفرقان
18 ١٨۔ ١ یعنی جب ہم خود تیرے سوا کسی کو کار ساز نہیں سمجھتے تھے تو پھر ہم اپنی بابت کس طرح لوگوں کو کہہ سکتے تھے کہ تم اللہ کی بجائے ہمیں اپنا ولی اور کار ساز سمجھو۔ الفرقان
19 ١٩۔ ١ یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے جو مشرکین سے مخاطب ہو کر اللہ تعالیٰ کہے گا کہ تم جن کو اپنا معبود گمان کرتے تھے، انہوں نے تو تمہیں تمہاری باتوں میں جھوٹا قرار دے دیا ہے اور تم نے دیکھ لیا ہے کہ انہوں نے تم سے صفائی کا اعلان کردیا ہے۔ گویا جن کو تم اپنا مددگار سمجھتے تھے، وہ مددگار ثابت نہیں ہوئے۔ اب کیا تمہارے اندر یہ طاقت ہے کہ تم میرے عذاب کو اپنے سے پھیر سکو اور اپنی مدد کرسکو۔ الفرقان
20 ٢٠۔ ١ یعنی وہ انسان تھے اور غذا کے محتاج۔ ٢٠۔ ٢ یعنی رزق حلال کی فراہمی کے لئے کسب و تجارت بھی کرتے تھے۔ مطلب اس سے یہ ہے کہ یہ چیزیں منصب نبوت کے منافی نہیں، جس طرح کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔ ٢٠۔ ٣ یعنی ہم نے انبیاء کو اور ان کے ذریعے سے ان پر ایمان لانے والوں کی بھی آزمائش کی، تاکہ کھرے کھوٹے کی تمیز ہوجائے، جنہوں نے آزمائش میں صبر کا دامن پکڑے رکھ، وہ کامیاب اور دوسرے ناکام رہے؛ اسی لئے آگے فرمایا، کیا تم صبر کرو گے؟، الفرقان
21 ٢١۔ ١ یعنی کسی انسان کو رسول بنا کر بھیجنے کی بجائے، کسی فرشتے کو بنا کر بھیجا جاتا۔ یا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کے ساتھ فرشتے بھی نازل ہوتے، جنہیں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور وہ اس بشر رسول کی تصدیق کرتے۔ ٢١۔ ٢ یعنی رب آ کر ہمیں کہتا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا رسول ہے اور اس پر ایمان لانا تمہارے لئے ضروری ہے۔ ٢١۔ ٣ اسی استکبار اور سرکشی کا نتیجہ ہے کہ وہ اس قسم کے مطالبے کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی منشا کے خلاف ہیں اللہ تعالیٰ تو ایمان بالغیب کے ذریعے سے انسانوں کو آزماتا ہے اگر وہ فرشتوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے اتار دے یا آپ خود زمین پر نزول فرما لے تو اس کے بعد ان کی آزمائش کا پہلو ہی ختم ہوجائے اس لیے اللہ تعالیٰ ایسا کام کیونکر کرسکتا ہے جو اس کی حکمت تخلیق اور مشیت تکوینی کے خلاف ہے؟ الفرقان
22 ٢٢۔ ١ اس دن سے مراد موت کا دن ہے یعنی یہ کافر فرشتوں کو دیکھنے کی آرزو تو کرتے ہیں لیکن موت کے وقت جب یہ فرشتوں کو دیکھیں گے تو ان کے لیے کوئی خوشی اور مسرت نہیں ہوگی اس لیے کہ فرشتے انھیں اس موقع پر عذاب جہنم کی وعید سناتے ہیں اور کہتے ہیں اے خبیث روح خبیث جسم سے نکل جس سے روح دوڑتی اور بھاگتی ہے جس پر فرشتے اسے مارتے اور کوٹتے ہیں جیسا کہ (وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا ۙ الْمَلٰۗیِٕکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْ ۚ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ) 8۔ الانفال :50)، (وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَلَمْ یُوْحَ اِلَیْہِ شَیْءٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ ۭ وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰۗیِٕکَۃُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْہِمْ ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُمْ ۭ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ) 6۔ الانعام :93) میں ہے اس کے برعکس مومن کا حال وقت احتضار جان کنی کے وقت یہ ہوتا ہے کہ فرشتے اسے جنت اور اس کی نعمتوں کی نوید جاں فزا سناتے ہیں جیسا کہ سورۃ حم السجدۃ ٣٠، ٣٢ میں ہے اور حدیث میں بھی آتا ہے کہ فرشتے مومن کی روح سے کہتے ہیں اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی نکل اور ایسی جگہ چل جہاں اللہ کی نعمتیں ہیں اور وہ رب ہے جو تجھ سے راضی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے مسند احمد، ابن ماجہ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد قیامت کا دن ہے امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ دونوں ہی قول صحیح ہیں اس لیے کہ دونوں ہی دن ایسے ہیں کہ فرشتے مومن اور کافر دونوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں مومنوں کو رحمت ورضوان الہی کی خوشخبری اور کافروں کو ہلاکت وخسران کی خبر دیتے ہیں۔ ٢٢۔ ٢ حِجْر کے اصل معنی ہیں منع کرنا، روک دینا۔ جس طرح قاضی کسی کو اس کی بے وقوفی یا کم عمری کی وجہ سے اس کے اپنے مال کو خرچ کرنے سے روک دے تو کہتے ہیں حَجَرَ الْقَاضِیْ عَلٰی فُلَان قاضی نے فلاں کو تصرف کرنے سے روک دیا ہے۔ اسی مفہوم میں خانہ کعبہ کے اس حصے حطیم کو حجر کہا جاتا ہے جسے قریش مکہ نے خانہ کعبہ میں شامل نہیں کیا تھا اس لیے طواف کرنے والوں کے لیے اس کے اندر سے طواف کرنا منع ہے طواف کرتے وقت اس کے بیرونی حصے سے گزرنا چاہیے جسے دیوار سے ممتاز کردیا گیا ہے اور عقل کو بھی حجر کہا جاتا ہے اس لیے کہ عقل بھی انسانوں کو ایسے کاموں سے روکتی ہے جو انسان کے لائق نہیں ہیں معنی یہ ہیں کہ فرشتے کافروں کو کہتے ہیں کہ تم ان چیزوں سے محروم ہو جن کی خوشخبری متقین کو دی جاتی ہے یعنی یہ حراما محرما علیکم کے معنی میں ہے آج جنت الفردوس اور اس کی نعمتیں تم پر حرام ہیں اس کے مستحق صرف اہل ایمان وتقوی ہوں گے۔ الفرقان
23 ٢٣۔ ١ ھَبَاَء ان باریک ذروں کو کہتے ہیں جو کسی سوراخ سے گھر کے اندر داخل ہونے والی سورج کی کرن میں محسوس ہوتے ہیں لیکن اگر کوئی انھیں ہاتھ میں پکڑنا چاہے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ کافروں کے عمل بھی قیامت والے دن ان ہی ذروں کی طرح بے حیثیت ہونگے، کیونکہ وہ ایمان و اخلاص سے بھی خالی ہونگے اور موافقت شریعت کی مطابقت بھی۔ یہاں کافروں کے اعمال کو جس طرح بے حیثیت ذروں کی مثل کہا گیا ہے۔ اسی طرح دوسرے مقامات پر کہیں راکھ سے، کہیں سراب سے اور کہیں صاف چکنے پتھر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ ساری تمثیلات پہلے گزر جکی ہیں ملاحظہ ہو (وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَلَمْ یُوْحَ اِلَیْہِ شَیْءٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ ۭ وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰۗیِٕکَۃُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْہِمْ ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُمْ ۭ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ) 2۔ البقرۃ:264) (مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ اَعْمَالُہُمْ کَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ ۭ لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْءٍ ۭ ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ) 14۔ ابراہیم :18) الفرقان
24 ٢٤۔ ١ بعض نے اس سے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ اہل ایمان کے لئے قیامت کا یہ ہولناک دن اتنا مختصر اور ان کا حساب اتنا آسان ہوگا کہ قیلولے کے وقت تک یہ فارغ ہوجائیں گے اور جنت میں یہ اہل خاندان اور حور عین کے ساتھ دوپہر کو آرام فرما ہونگے، جس طرح حدیث میں ہے کہ مومن کے لئے یہ دن اتنا ہلکا ہوگا کہ جتنے میں دنیا میں ایک فرض نماز ادا کرلینا (مسند احمد ٤۔ ٧٥) الفرقان
25 ٢٥۔ ١ اس کا مطلب یہ ہے کہ آسمان پھٹ جائے گا اور بادل سایہ فگن ہوجائیں گے، اللہ تعالیٰ فرشتوں کے جلو میں، میدان محشر میں، جہاں ساری مخلوق جمع ہوگی، حساب کتاب کے لئے جلوہ فرما ہوگا، جیسا کہ سورۃ بقرۃ آیت ٢١٠ سے واضح ہے۔ الفرقان
26 الفرقان
27 الفرقان
28 ٢٨۔ ١ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نافرمانوں سے دوستی اور وابستگی نہیں رکھنی چاہیئے، اس لئے کہ اچھی صحبت سے انسان اچھا اور بری صحبت سے انسان برا بنتا ہے۔ اکثر لوگوں کی گمراہی کی وجہ غلط دوستوں کا انتخاب اور صحبت بد کا اختیار کرنا ہی ہے۔ اس لئے حدیث میں بھی صالحین کی صحبت کی تاکید اور بری صحبت سے اجتناب کو ایک بہترین مثال سے و اضع کیا گیا ہے۔ الفرقان
29 الفرقان
30 ٣٠۔ ١ مشرکین قرآن پڑھے جانے کے وقت خوب شور کرتے تاکہ قرآن نہ سنا جا سکے، یہ بھی ہجران ہے، اس پر ایمان نہ لانا اور عمل نہ کرنا بھی ہجران ہے، اس پر غور و فکر کرنا اور اس کے اوامر پر عمل اور نواہی سے اجتناب نہ کرنا بھی ہجران ہے۔ اسی طرح اس کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو ترجیح دینا، یہ بھی ہجران ہے یعنی قرآن کا ترک اور اس کا چھوڑ دینا ہے، جس کے خلاف قیامت والے دن اللہ کے پیغمبر اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ دائر فرمائیں گے۔ الفرقان
31 ٣١۔ ١ یعنی جس طرح اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیری قوم میں سے وہ لوگ تیرے دشمن ہیں جنہوں نے قرآن کو چھوڑ دیا، اسی طرح گزشتہ امتوں میں بھی تھا، یعنی ہر نبی کے دشمن وہ لوگ ہوتے تھے جو گناہگار تھے، وہ لوگوں کو گمراہی کی طرف بلاتے تھے (مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ اَعْمَالُہُمْ کَرَمَادِۨ اشْـتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ ۭ لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْءٍ ۭ ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ) 6۔ الانعام :112) میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔ ٣١۔ ٢ یعنی یہ کافر گو لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں لیکن تیرا رب جس کو ہدایت دے اس کو ہدایت سے کون روک سکتا ہے؟ اصل ہادی اور مددگار تو تیرا رب ہی ہے۔ الفرقان
32 ٣٢۔ ١ جس طرح تورات، انجیل اور زبور وغیرہ کتابیں بیک مرتبہ نازل ہوئیں۔ ٣٢۔ ٢ اللہ نے جواب میں فرمایا کہ ہم نے حالات و ضروریات کے مطابق اس قرآن کو ٢٣ سال میں تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا تاکہ اے پیغمبر! تیرا اور اہل ایمان کا دل مضبوط ہو اور ان کے خوب ذہن نشین ہوجائے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (وَقُرْاٰنًا فَرَقْنٰہُ لِتَقْرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّنَزَّلْنٰہُ تَنْزِیْلًا) 17۔ الاسراء :106) ' اور قرآن، اس کو ہم نے جدا جدا کیا، تاکہ تو اسے لوگوں پر رک رک کر پڑھے اور ہم نے اس کو وقفے وقفے سے اتارا '۔ اس قرآن کی مثال بارش کی طرح ہے بارش جب بھی نازل ہوتی ہے مردہ زمین میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور یہ فائدہ بالعموم اسی وقت ہوتا ہے جب بارش وقتا فوقتا نازل ہو نہ کہ ایک ہی مرتبہ ساری بارش کے نزول سے۔ الفرقان
33 ٣٣۔ ١ یہ قرآن کے وقفے وقفے سے اتارے جانے کی حکمت و علت بیان کی جا رہی ہے کہ یہ مشرکین جب بھی کوئی مثال یا اعتراض اور شبہ پیش کریں گے تو قرآن کے ذریعے سے ہم اس کا جواب یا وضاحت پیش کردیں گے اور یوں انھیں لوگوں کو گمراہ کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ الفرقان
34 الفرقان
35 الفرقان
36 الفرقان
37 الفرقان
38 ٣٨۔ ١ رس کے معنی کنویں کے ہیں۔ اَصْحَاب الرَّس کنوئیں والے۔ اس کی تعین میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، امام ابن جریر طبری نے کہا کہ اس سے مراد اصحاب الاخدود ہیں جن کا ذکر سورۃ البروج میں ہے (ابن کثیر) ٣٨۔ ٢ قرن کے صحیح معنی ہیں ہم عصر لوگوں کا ایک گروہ۔ جب ایک نسل کے لوگ ختم ہوجائیں تو دوسری نسل دوسرا قدیم زمانہ کہلائے گی۔ (ابن کثیر)، اس کے معنی ہیں ہر نبی کی امت بھی ایک زمانہ ہو سکتی ہے۔ الفرقان
39 ٣٩۔ ١ یعنی دلائل کے ذریعے سے ہم نے حجت قائم کردی۔ ٣٩۔ ٢ یعنی تمام حجت کے بعد۔ الفرقان
40 ٤٠۔ ١ بستی سے، قوم لوط کی بستیاں سدوم اور عمورہ وغیرہ مراد ہیں اور بری بارش سے پتھروں کی بارش مراد ہے۔ ان بستیوں کو الٹ دیا گیا تھا اور اس کے بعد ان پر کھنگر پتھروں کی بارش کی گئی تھی جیسا کہ (فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَہَا سَافِلَہَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ ڏ مَّنْضُوْدٍ) 11۔ ہود :82) میں بیان ہے۔ یہ بستیاں شام فلسطین کے راستے میں پڑتی ہیں، جن سے گزر کر ہی اہل مکہ آتے جاتے تھے۔ ٤٠۔ ٢ اس لئے ان تباہ شدہ بستیوں اور ان کے کھنڈرات دیکھنے کے باوجود عبرت نہیں پکڑتے۔ اور آیات الٰہی اور اللہ کے رسول کو جھٹلانے سے باز نہیں آتے۔ الفرقان
41 ٤١۔ ١ دوسرے مقام پر اس طرح فرمایا (اَھٰذَا الَّذِیْ یَذْکُرُ اٰلِہَتَکُمْ) 21۔ الانبیاء :36) کیا یہ وہ شخص ہے جو تمہارے معبودوں کا ذکر کرتا ہے؟ یعنی ان کی بابت کہتا ہے کہ وہ کچھ اختیار نہیں رکھتے۔ اس حقیقت کا اظہار ہی مشرکین کے نزدیک ان کے معبودوں کی توہین تھی۔ جیسے آج بھی قبر پرستوں کو کہا جائے کہ قبروں میں مدفون بزرگ کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تو کہتے ہیں کہ یہ اولیاء اللہ کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں۔ الفرقان
42 ٤٢۔ ١ یعنی ہم ہی اپنے آباؤ اجداد کی تقلید اور روایتی مذہب سے وابستگی کی وجہ سے غیر اللہ کی عبادت سے باز نہیں آئے ورنہ اس پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو ہمیں گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کا یہ قول نقل فرمایا کہ کس طرح وہ شرک پر جمے ہوئے ہیں کہ اس میں فخر کر رہے ہیں ٤٢۔ ٢ یعنی اس دنیا میں تو ان مشرکین اور غیر اللہ کے پجاریوں کو اہل توحید گمراہ نظر آتے ہیں لیکن جب یہ اللہ کی بارگاہ میں پہنچیں گے اور وہاں انھیں شرک کی وجہ سے عذاب الہی سے دوچار ہونا پڑے گا تو پتہ لگے گا کہ گمراہ کون تھا ؟ ایک اللہ کی عبادت کرنے والے یا در در پر اپنی جبینیں جھکانے والے؟ الفرقان
43 ٤٣۔ ١ یعنی جو چیز اس کے نفس کو اچھی لگی اسی کو اپنا دین ومذہب بنا لیا کیا ایسے شخص کو تو راہ یاب کرسکتا ہے یا اللہ کے عذاب سے چھڑا سکے گا ؟ اس کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا کیا وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل مزین کردیا گیا پس وہ اسے اچھا سمجھتا ہے پس اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ یاب پس تو ان پر حسرت و افسوس نہ کر۔ فاطر۔ حضرت ابن عباس (رض) اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں زمانہ جاہلیت میں آدمی ایک عرصے تک سفید پتھر کی عبادت کرتا رہتا جب اسے اس سے اچھا پتھر نظر آ جاتا تو وہ پہلے پتھر کو چھوڑ کر دوسرے پتھر کی پوجا شروع کردیتا ابن کثیر۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے اشخاص جو عقل وفہم سے اس طرح عاری اور محض خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہیں اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا تو ان کو ہدایت کے راستے پر لگا سکتا ہے؟ یعنی نہیں لگا سکتا۔ الفرقان
44 ٤٣۔ ١ یعنی یہ چوپائے جس مقصد کے لئے پیدا کیئے گئے ہیں، اسے وہ سمجھتے ہیں۔ لیکن انسان، جسے صرف اللہ کی عبادت کے لئے پیدا کیا گیا تھا، وہ رسولوں کی یاد دہانی کے باوجود اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتا اور در در پر اپنا ماتھا ٹیکتا پھرتا ہے۔ اس اعتبار سے چوپائے سے بھی زیادہ بدتر اور گمراہ ہے۔ الفرقان
45 ٤٥۔ ١ یہاں سے پھر توحید کے دلائل کا آغاز ہو رہا ہے۔ دیکھو، اللہ تعالیٰ نے کائنات میں کس طرح سایہ پھیلایا ہے، جو صبح صادق کے بعد سے سورج طلوع ہونے تک رہتا ہے۔ یعنی اس وقت دھوپ نہیں ہوتی، دھوپ کے ساتھ یہ سمٹتا سکڑنا شروع ہوتا جاتا ہے۔ ٤٥۔ ٢ یعنی ہمیشہ سایہ ہی رہتا، سورج کی دھوپ سائے کو ختم ہی نہ کرتی۔ ٤٥۔ ٣ یعنی دھوپ سے ہی سایہ کا پتہ چلتا ہے کہ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ اگر سورج نہ ہوتا، تو سائے سے بھی لوگ متعارف نہ ہوتے۔ الفرقان
46 ٤ ٦ ۔ ١ یعنی وہ سایہ آہستہ آہستہ ہم اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور اس کی جگہ رات کا گمبیھر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ الفرقان
47 ٤٧۔ ١ یعنی لباس، جس طرح لباس انسانی ڈھانچے کو چھپا لیتا ہے، اسی طرح رات تمہیں اپنی تاریکی میں چھپا لیتی ہے۔ ٤٧۔ ٢ سبات کے معنی کاٹنے کے ہوتے ہیں۔ نیند انسان کے جسم کو عمل سے کاٹ دیتی ہے، جس سے اس کو راحت میسر آتی ہے۔ بعض کے نزدیک سبات کے معنی تمدد پھیلنے کے ہیں نیند میں انسان دراز ہوجاتا ہے اس لیے اسے سبات کہا۔ ایسر التفاسیر وفتح القدیر۔ ٤٧۔ ٣ یعنی نیند، جو موت کی بہن ہے، دن کو انسان اس نیند سے بیدار ہو کر کاروبار اور تجارت کے لئے پھر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أحْیَانا بَعْدَ مَا اَمَاتَنا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ) ' تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندہ کیا اور اسی کی طرف اکٹھے ہونا ہے '۔ الفرقان
48 ٤٨۔ ١ طَھُور فعول کے وزن پر آلے کے معنی میں ہے۔ یعنی ایسی چیزیں جس سے پاکیزگی حاصل کی جاتی ہے جیسے وضو کے پانی کو وضو اور ایندھن کو وقود کہا جاتا ہے اس معنی میں پانی طاہر خود بھی پاک اور مطہر دوسروں کو پاک کرنے والا بھی ہے حدیث میں بھی ہے ان الماء طہور لا ینجسہ شیء ابو داؤد۔ ذائقہ بدل جا‏ئے تو ایسا پانی ناپاک ہے کما فی الحدیث الفرقان
49 الفرقان
50 ٥٠۔ ١ یعنی قرآن کریم کو اور بعض نے صٓرفناہ میں ھا کا مرجع بارش قرار دیا ہے جس کا مطب یہ ہوگا کہ بارش کو ہم پھیر پھیر کر برساتے ہیں یعنی کبھی ایک علاقے میں کبھی دوسرے علاقے میں حتی کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی ایک ہی شہر کے ایک حصے میں بارش ہوتی ہے دوسروں میں نہیں ہوتی اور کبھی دوسرے حصوں میں ہوتی ہے پہلے حصے میں نہیں ہوتی یہ اللہ کی حکمت ومشیت ہے وہ جس طرح چاہتا ہے کہیں بارش برساتا ہے اور کہیں نہیں اور کبھی کسی علاقے میں کبھی کسی اور علاقے میں۔ ٥٠۔ ٢ اور ایک کفر ناشکری یہ بھی ہے کہ بارش کو مشیت الٰہی کی بجائے ستاروں کی گردش کا نتیجہ قرار دیا جائے، جیسا کہ اہل جاہلیت کہا کرتے تھے۔ کما فی الحدیث۔ الفرقان
51 ٥١۔ ١ لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا اور صرف آپ کو ہی تمام بستیوں بلکہ تمام انسانوں کے لیے نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ الفرقان
52 ٥٢۔ ١ جاھدھم بہ میں ھا ضمیر کا مرجع قرآن ہے یعنی اس قرآن کے ذریعے سے جہاد کریں یہ آیت مکی ہے ابھی جہاد کا حکم نہیں ملا تھا اس لیے مطلب یہ ہوا کہ قرآن کے اوامرو نواہی کھول کھول کر بیان کریں اور اہل کفر کے لیے جو زجر و توبیخ اور وعیدیں ہیں وہ واضح کریں۔ الفرقان
53 ٥٣۔ ١ آپ شریں کو فرات کہتے ہیں، فَرَات کے معنی کاٹ دینا، توڑ دینا، میٹھا پانی پیاس کو کاٹ دیتا ہے یعنی ختم کردیتا ہے۔ اُجَاج، سخت کھاری یا کڑوا۔ ٥٣۔ ٢ جو ایک دوسرے سے ملنے نہیں دیتی بعض نے حجرا محجورا کے معنی کیے ہیں حراما محرما ان پر حرام کردیا گیا ہے کہ میٹھا پانی کھاری یا کھاری پانی میٹھا ہوجائے اور بعض مفسرین نے مرج البحرین کا ترجمہ کیا ہے خلق المائین دو پانی پیدا کیے ایک میٹھا اور دوسرا کھاری میٹھا پانی تو وہ ہے جو نہروں چشموں اور کنوؤں کی شکل میں آبادیوں کے درمیان پایا جاتا ہے جس کو انسان اپنی ضروریات کے لیے استعمال کرتا ہے اور کھاری پانی وہ ہے جو مشرق و مغرب میں پھیلے ہوئے بڑے بڑے سمندروں میں ہے جو کہتے ہیں کہ زمین کا تین چوتھائی حصہ ہیں اور ایک چوتھائی حصہ خشکی کا ہے جس میں انسانوں اور حیوانوں کا بسیرا ہے یہ سمندر ساکن ہیں البتہ ان میں مد وجزر ہوتا رہتا ہے اور موجوں کا تلاطم جاری رہتا ہے سمندری پانی کے کھاری رکھنے میں اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمت ہے میٹھا پانی زیادہ دیر تک کہیں ٹھہرا رہے تو وہ خراب ہوجاتا ہے اس کے ذائقے رنگ یا بو میں تبدیلی آجاتی ہے کھاری پانی خراب نہیں ہوتا نہ اس کا ذائقہ بدلتا ہے نہ رنگ اور بو اگر ان ساکن سمندروں کا پانی بھی میٹھا ہوتا تو اس میں بدبو پیدا ہوجاتی جس سے انسانوں اور حیوانوں کا زمین میں رہنا مشکل ہوجاتا اس میں مرنے والے جانوروں کی سڑاند اس پر مستزاد اللہ کی حکمت تو یہ ہے کہ ہزاروں برس سے یہ سمندر موجود ہیں اور ان میں ہزاروں جانور مرتے ہیں اور انہی میں گل سڑ جاتے ہیں لیکن اللہ نے ان میں ملاحت نمکیات کی اتنی مقدار رکھ دی ہے کہ وہ اس کے پانی میں ذرا بھی بدبو پیدا نہیں ہونے دیتی ان سے اٹھنے والی ہوائیں بھی صحیح ہیں اور انکا پانی بھی پاک ہے حتی کہ ان کا مردار بھی حلال ہے کما فی الحدیث۔ موطا امام مالک۔ ابن ماجہ الفرقان
54 ٥٤۔ ١ نسب سے مراد رشتے داریاں ہیں جو باپ یا ماں کی طرف سے ہوں اور صہرا سے مراد وہ قرابت مندی ہے جو شادی کے بعد بیوی کی طرف سے ہو، جس کو ہماری زبان میں سسرالی رشتے کہا جاتا ہے۔ ان دونوں رشتہ داریوں کی تفصیل آیت (وَلَا تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ اٰبَاۗؤُکُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۭاِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّمَقْتًا ۭوَسَاۗءَ سَبِیْلًا 22؀ۧ حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّھٰتُکُمْ وَبَنٰتُکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ وَعَمّٰتُکُمْ وَخٰلٰتُکُمْ وَبَنٰتُ الْاَخِ وَبَنٰتُ الْاُخْتِ وَاُمَّھٰتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ وَاُمَّھٰتُ نِسَاۗیِٕکُمْ وَرَبَاۗیِٕبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَاۗیِٕکُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِہِنَّ ۡ فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ ۡ وَحَلَاۗیِٕلُ اَبْنَاۗیِٕکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ ۙ وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۭاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِـیْمًا 23؀ۙ) 4۔ النساء :23-22) میں بیان کردی گئی ہے اور رضائی رشتے داریاں حدیث کی رو سے نسبی رشتوں میں شامل ہے۔ جیسا کہ فرمایا یحرم من الرضاع ما یحرم من النسب۔ البخاری ومسلم۔ الفرقان
55 الفرقان
56 الفرقان
57 ٥٧۔ ١ یعنی یہی میرا اجر ہے کہ رب کا راستہ اختیار کرلو۔ الفرقان
58 الفرقان
59 الفرقان
60 ٦٠۔ ١ رَ حْمٰن، رَ حِیْم اللّٰہ کی صفات اور اسمائے حسنٰی میں سے ہیں لیکن اہل جاہلیت، اللہ کو ان ناموں سے نہیں پہچانتے تھے جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقعے پر جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدے کے آغاز پر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ لکھوایا تو مشرکین مکہ نے کہا، ہم رحمٰن و رحیم کو نہیں جانتے۔ بِاسْمِکَ اللَّھُمَّ! لکھو (سیرت ابن ہشام۔ ٢۔ ٣١٧) مذید دیکھئے (کَذٰلِکَ اَرْسَلْنٰکَ فِیْٓ اُمَّۃٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہَآ اُمَمٌ لِّتَتْلُوَا۟ عَلَیْہِمُ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَہُمْ یَکْفُرُوْنَ بالرَّحْمٰنِ ۭ قُلْ ہُوَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ مَتَابِ) 13۔ الرعد :30) (قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ۭ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰی ۚ وَلَا تَجْـہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا) 17۔ الاسراء :110) یہاں بھی ان کا رحمٰن کے نام سے بدکنے اور سجدہ کرنے سے گریز کرنے کا ذکر ہے۔ الفرقان
61 ٦١۔ ١ بروج۔ برج کی جمع ہے، سلف کی تفسیر میں بروج سے مراد بڑے بڑے ستارے لئے گئے ہیں۔ اور اسی مراد پر کلام کا نظم واضح ہے کہ بابرکت ہے وہ ذات جس نے آسمان میں بڑے بڑے ستارے اور سورج اور چاند بنائے۔ بعد کے مفسرین نے اس سے اہل نجوم کے مطابق بروج مراد لئے اور یہ بارہ برج ہیں، حمل، ثور، جوزاء، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو اور حوت اور یہ برج سات بڑے سیاروں کی منزلیں ہیں جن کے نام ہیں مریخ، زہرہ، عطارد، قمر، شمس، مشتری اور زحل۔ یہ کواکب (سیارے) ان برجوں میں اس طرح اترتے ہیں جیسے یہ ان کے لئے عالی شان محل ہیں (ایسرالتفاسیر) الفرقان
62 ٦٢۔ ١ یعنی رات جاتی ہے تو دن آجاتا ہے اور دن آتا ہے تو رات چلی جاتی ہے۔ دونوں بیک وقت جمع نہیں ہوتے، اس کے فوائد و مصالح محتاج وضاحت نہیں۔ بعض نے خِلْفَۃً کے معنی ایک دوسرے کے مخالف کے کئے ہیں یعنی رات تاریک ہے تو دن روشن۔ الفرقان
63 ٦٣۔ ١ سلام سے مراد یہاں اعراض اور ترک بحث ہے۔ یعنی اہل ایمان، اہل جہالت سے الجھتے نہیں ہیں بلکہ ایسے موقع پر پرہیز اور گریز کی پالیسی اختیار کرتے ہیں اور بے فائدہ بحث نہیں کرتے۔ الفرقان
64 الفرقان
65 ٦٥۔ ١ اس سے معلوم ہوا کہ رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو ایک طرف راتوں کو اٹھ کر عبادت کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ ڈرتے بھی ہیں کہ کہیں کسی غلطی یا کوتاہی پر اللہ کی گرفت میں نہ آجائیں، اس لئے وہ عذاب جہنم سے پناہ طلب کرتے ہیں۔ گویا اللہ کی عبادت و اطاعت کے باوجود اللہ کے عذاب اور اس کے مؤاخذے سے انسان کو بے خوف اور اپنی عبادت و اطاعت الٰہی پر کسی غرور اور گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ اسی مفہوم کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے۔ (وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمْ اِلٰی رَبِّہِمْ رٰجِعُوْنَ) 23۔ المومنون :60) اور وہ لوگ کہ جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل ڈرتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ڈر صرف اسی بات کا نہیں کہ انھیں بارگاہ الہی میں حاضر ہونا ہے بلکہ اس کے ساتھ اس کا بھی کہ ان کا صدقہ و خیرات قبول ہوتا ہے یا نہیں؟ حدیث میں آیت کی تفسیر میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کی بابت پوچھا کہ کیا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انھیں اے ابو بکر (رض) کی بیٹی! بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے، نماز پڑھتے اور صدقہ کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے یہ اعمال نا مقبول نہ ہوجائیں۔ الترمذی۔ الفرقان
66 الفرقان
67 ٦٧۔ ١ اللہ کی نافرمانی میں خرچ کرنا اسراف اور اللہ کی اطاعت میں خرچ کرنا بخیلی اور اللہ کے احکام و اطاعت کے مطابق خرچ کرنا قوام ہے (فتح القدیر) اسی طرح نفقات واجبہ اور مباحات میں حد اعتدال سے تجاور بھی اسراف میں آسکتا ہے، اس لیے وہاں بھی احتیاط اور میانہ روی نہایت ضروری ہے۔ الفرقان
68 ٦٨۔ ١ اور حق کے ساتھ قتل کرنے کی تین صورتیں ہیں، اسلام کے بعد کوئی دوبارہ کفر اختیار کرے، جسے ارتداد کہتے ہیں، یا شادی شدہ ہو کر بدکاری کا ارتکاب کرے یا کسی کو قتل کر دے۔ ان صورتوں میں قتل کیا جائے گا۔ ٦٨۔ ٢ حدیث میں ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا، کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا۔ یہ کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے دراں حالیکہ اس نے تجھے پیدا کیا۔ اس نے کہا، اس کے بعد کون سا گناہ بڑا ہے؟ فرمایا، اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی، اس نے پوچھا، پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایا، یہ کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ان باتوں کی تصدیق اس آیت سے ہوتی ہے۔ پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی (البخاری، تفسیر سورۃ البقرۃ) الفرقان
69 الفرقان
70 ٧٠۔ ١ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں خالص توبہ سے ہر گناہ معاف ہوسکتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہو، اور سورۃ نساء کی آیت ٩٣ میں جو مومن کے قتل کی سزا جہنم بتلائی گئی ہے، تو وہ اس صورت پر معمول ہوگی، جب قاتل نے توبہ نہ کی ہو اور بغیر توبہ کئے فوت ہوگیا۔ ورنہ حدیث میں آتا ہے کہ سو آدمی کے قاتل نے بھی خالص توبہ کی تو اللہ نے اسے معاف فرمایا (صحیح مسلم) ٧٠۔ ٢ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کا حال تبدیل فرما دیتا ہے اسلام قبول کرنے سے پہلے وہ برائیاں کرتا تھا، اب نیکیاں کرتا ہے، پہلے شرک کرتا تھا، اب صرف اللہ واحد کی عبادت کرتا ہے، پہلے کافروں کے ساتھ ملکر مسلمانوں سے لڑتا تھا، اب مسلمانوں کی طرف سے کافروں سے لڑتا ہے وغیرۃ وغیرہ۔ دوسرے معنی یہ ہوئے کہ اس کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا جاتا ہے اس کی تائید حدیث میں بھی ہوتی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' میں اس شخص کو جانتا ہوں، جو سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا ہے اور سب آخر میں جہنم سے نکلنے والا ہوگا۔ یہ وہ آدمی ہوگا کہ قیامت کے دن اس پر اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کئے جائیں گے، بڑے ایک طرف رکھ دیئے جائیں گے۔ اس کو کہا جائیگا کہ تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں کام کیا تھا ؟ وہ ہاں میں جواب دے گا، انکار کی اسے طاقت نہ ہوگی، علاوہ ازیں وہ اس بات سے بھی ڈر رہا ہوگا کہ ابھی تو بڑے گناہ بھی پیش کئے جائیں گے۔ کہ اتنے میں اس سے کہا جائے گا کہ جا تیرے لئے ہر برائی کے بدلے ایک نیکی ہے۔ اللہ کی مہربانی دیکھ کر کہے گا، کہ ابھی تو میرے بہت سے اعمال ایسے ہیں کہ میں انھیں یہاں نہیں دیکھ رہا، یہ بیان کر کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کے دانت ظاہر ہوگئے (صحیح مسلم) الفرقان
71 ٧١۔ ١ پہلی توبہ کا تعلق کفر و شرک سے ہے۔ اس توبہ کا تعلق دیگر معاصی اور کوتاہیوں سے ہے۔ الفرقان
72 ٧٢۔ ١ زور کے معنی جھوٹ کے ہیں۔ ہر باطل چیز بھی جھوٹ ہے، اس لئے جھوٹی گواہی سے لے کر کفر و شرک اور ہر طرح کی غلط چیزیں مثلاً، گانا اور دیگر بے ہودہ جاہلانہ رسوم و افعال، سب اس میں شامل ہیں اور اللہ کے نیک بندوں کی یہ صفت بھی ہے کہ وہ کسی بھی جھوٹ میں اور جھوٹی مجلس میں حاضر نہیں ہوتے۔ ٧٢۔ ٢ لَغْو ہر وہ بات اور کام ہے، جس میں شرعاً کوئی فائدہ نہیں۔ یعنی ایسے کاموں اور باتوں میں بھی شرکت نہیں کرتے بلکہ خاموشی کے ساتھ عزت اور وقار سے گزر جاتے ہیں۔ الفرقان
73 ٧٣۔ ١ یعنی وہ ان سے اعراض و غفلت نہیں برتتے جیسے وہ بہرے ہوں کہ سنیں ہی نہیں یا اندھے ہوں کہ دیکھیں ہی نہیں۔ بلکہ وہ غور اور توجہ سے سنتے اور انھیں آویزہ گوش اور حرز جان بناتے ہیں۔ الفرقان
74 ٧٤۔ ١ یعنی انھیں اپنا بھی فرماں بردار بنا اور ہمارا بھی اطاعت گزار جس سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ ٧٤ ۔ ١ یعنی ایسا اچھا نمونہ کہ خیر میں وہ ہماری پیروی کریں۔ الفرقان
75 الفرقان
76 الفرقان
77 ٧٧۔ ١ دعا و التجا کا مطلب، اللہ کو پکارنا اور اس کی عبادت کرنا اور مطلب یہ ہے کہ تمہارا مقصد تخلیق اللہ کی عبادت ہے، اگر یہ نہ ہو تو اللہ کو تمہاری کوئی پرواہ نہ ہو۔ یعنی اللہ کے ہاں انسان کی قدر و قیمت، اس کے اللہ پر ایمان لانے اور اس کی عبادت کرنے کی وجہ سے ہے۔ ٧٧۔ ٢ اس میں کافروں سے خطاب ہے کہ تم نے اللہ کو جھٹلا دیا، سو اب اس کی سزا بھی لازماً تمہیں چکھنی ہے۔ چنانچہ دنیا میں یہ سزا بدر میں شکست کی صورت میں انھیں ملی اور آخرت میں جہنم کے دائمی عذاب سے بھی انھیں دو چار ہونا پڑے گا۔ الفرقان
0 الشعراء
1 الشعراء
2 الشعراء
3 ٣۔ ١ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انسانیت سے جو ہمدردی اور ان کی ہدایت کے لئے جو تڑپ تھی، اس میں اس کا اظہار ہے۔ الشعراء
4 ٤۔ ١ یعنی جسے مانے اور جس پر ایمان لائے بغیر چارہ نہ ہوتا۔ لیکن اس طرح جبر کا پہلو شامل ہوجاتا، جب کہ ہم نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے تاکہ اس کی آزمائش کی جائے۔ اس لئے ہم نے ایسی نشانی بھی اتارنے سے گریز کیا جس سے ہمارا یہ قانون متاثر ہو۔ اور صرف انبیاء و رسل بھیجنے اور کتابیں نازل کرنے پر ہی اکتفا کیا۔ الشعراء
5 الشعراء
6 ٦ ۔ ١ یعنی تکذیب کے نتیجے میں ہمارا عذاب عنقریب انھیں اپنی گرفت میں لے لے گا جسے وہ ناممکن سمجھ کر استہزاء ومذاق کرتے ہیں یہ عذاب دنیا میں بھی ممکن ہے جیسا کہ کئی قومیں تباہ ہوئیں بصورت دیگر آخرت میں تو اس سے کسی صورت چھٹکارا نہیں ہوگا ماکانوا عنہ معرضین نہیں کہا بلکہ ماکانوا بہ یستھزؤن کہا کیونکہ استہزا ایک تو اعراض وتکذیب کو بھی مستلزم ہے دوسرے یہ اعراض وتکذیب سے زیادہ بڑا جرم ہے۔ فتح القدیر۔ الشعراء
7 ٧۔ ١ زَوْجٍ کے دوسرے معنی یہاں صنف اور نوع کے کئیے گئے ہیں۔ یعنی ہر قسم کی چیزیں ہم نے پیدا کیں جو کریم ہیں یعنی انسان کے لئے بہتر اور فائدے مند ہیں۔ جیسے غلہ جات ہیں پھل میوے ہیں اور حیوانات وغیرہ ہیں۔ الشعراء
8 ٨۔ ١ یعنی جب اللہ تعالیٰ مردہ زمین سے یہ چیزیں پیدا کرسکتا ہے، تو کیا انسانوں کو دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا۔ ٨۔ ٢ یعنی اس کی یہ عظیم قدرت دیکھنے کے باوجود اکثر لوگ اللہ اور رسول کی تکذیب ہی کرتے ہیں، ایمان نہیں لاتے۔ الشعراء
9 ٩۔ ١ یعنی ہر چیز پر اس کا غلبہ اور انتقام لینے پر وہ ہر طرح قادر ہے لیکن چونکہ وہ رحیم بھی ہے اس لئے فوراً گرفت نہیں فرماتا بلکہ پوری مہلت دیتا ہے اور اس کے بعد مؤاخذہ کرتا ہے۔ الشعراء
10 ١٠۔ ١ یہ رب کی اس وقت کی ندا ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے اپنی اہلیہ کے ہمراہ واپس آرہے تھے، راستے میں انھیں حرارت حاصل کرنے کے لئے آگ کی ضرورت محسوس ہوئی تو آگ کی تلاش میں کوہ طور پہنچ گئے، جہاں نداء غیبی نے ان کا استقبال کیا اور انھیں نبوت سے سرفراز کردیا گیا اور ظالموں کو اللہ کا پیغام پہنچانے کا فریضہ انکو سونپ دیا گیا۔ الشعراء
11 الشعراء
12 الشعراء
13 ١٣۔ ١ اس خوف سے کہ وہ نہایت سرکش ہے، میری تکذیب کرے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ طبع خوف انبیاء کو بھی لا حق ہوسکتا ہے۔ ١٣۔ ٢ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) زیادہ بول نہیں سکتے تھے۔ یا اس طرف کہ زبان پر انگارہ رکھنے کی وجہ سے لکنت پیدا ہوگئی تھی، جسے اہل تفسیر بیان کرتے ہیں۔ ١٣۔ ١ یعنی ان کی طرف جبرائیل (علیہ السلام) کو وحی دے کر بھیج اور انھیں بھی نبوت سے سرفراز فرما کر میرا معاون بنا۔ الشعراء
14 ١٤۔ ١ یہ اشارہ ہے اس قتل کی طرف، جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے غیر ارادی طور پر ہوگیا تھا اور مقتول قبطی یعنی فرعون کی قوم سے تھا، اس لئیے فرعوں اس کے بدلے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنا چاہتا تھا، جس کی اطلاع پا کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے مدین چلے گئے تھے۔ اس واقعہ پر اگرچہ کئی سال گزر چکے تھے، مگر فرعون کے پاس جانے میں واقعی یہ امکان موجود تھا کہ فرعون ان کو اس جرم میں پکڑ کر قتل کی سزا دینے کی کوشش کرے۔ اس لئے یہ خوف بھی بلا جواز نہیں تھا۔ الشعراء
15 ١٥۔ ١ اللہ تعالیٰ نے تسلی دی کہ تم دونوں جاؤ، میرا پیغام ان کو پہنچاؤ، تمہیں جو اندیشے لاحق ہیں ان سے ہم تمہاری حفاظت کریں گے۔ آیات سے مراد وہ دلائل ہیں جن سے ہر پیغمبر کو آگاہ کیا جاتا ہے یا وہ معجزات ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیئے گئے تھے، جیسے ید بیضا اور عصا۔ ١٥۔ ٢ یعنی تم جو کچھ کہو گے اور اس کے جواب میں وہ جو کچھ کہے گا، ہم سن رہے ہونگے اس لئے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم تمہیں فریضہ رسالت سونپ کر تمہاری حفاظت سے بے پرواہ نہیں ہوجائیں گے بلکہ نصرت ومعاونت ہے۔ الشعراء
16 الشعراء
17 ١٧۔ ١ یعنی ایک بات یہ کہو کہ ہم تیرے پاس اپنی مرضی سے نہیں آئے ہیں بلکہ رب العالمین کے نمائندے اور اس کے رسول کی حیثیت سے آئے ہیں اور دوسری بات یہ کہ تو نے (چار سو سال سے) بنی اسرائیل غلام بنا رکھا ہے، ان کو آزاد کر دے تاکہ میں انھیں شام کی سرزمین پر لے جاویں، جس کا اللہ نے وعدہ کیا ہوا ہے۔ الشعراء
18 ١٨۔ ١ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت اور مطالبے پر غور کرنے کی بجائے، ان کی جوابدہی کرنی شروع کردی اور کہا کہ کیا تو وہی نہیں ہے جو ہماری گود میں اور ہمارے گھر میں پلا، جب کہ ہم بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کر ڈالتے تھے؟ ١٨۔ ٢ بعض کہتے ہیں کہ ١٨ سال فرعون کے محل میں بسر کئے، بعض کے نزدیک ٣٠ سال اور بعض کے نزدیک چالیس سال یعنی اتنی عمر ہمارے پاس گزرانے کے بعد، چند سال ادھر ادھر رہ کر اب تو نبوت کا دعویٰ کرنے لگا ؟ الشعراء
19 ١٩۔ ١ پھر ہمارا ہی کھا کر ہماری ہی قوم کے ایک آدمی کو قتل کر کے ہماری ناشکری بھی کی۔ الشعراء
20 ٢٠۔ ١ یعنی یہ قتل ارادتًا نہیں تھا بلکہ ایک گھونسہ ہی تھا جو اسے مارا تھا، اس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ علاوہ ازیں یہ واقعہ بھی نبوت سے قبل کا ہے جب کہ مجھ کو علم کی یہ روشنی نہیں دی گئی تھی۔ الشعراء
21 ٢١۔ ١ یعنی پہلے جو کچھ ہوا، اپنی جگہ، لیکن اب میں اللہ کا رسول ہوں، اگر میری اطاعت کرے گا تو بچ جائے گا، بصورت دیگر ہلاکت تیرا مقدر ہوگی۔ الشعراء
22 ٢٢۔ ١ یعنی یہ اچھا احسان ہے جو تو مجھے جتلا رہا ہے کہ مجھے تو یقینا تو نے غلام نہیں بنایا اور آزاد چھوڑے رکھا لیکن میری پوری قوم کو غلام بنا رکھا ہے۔ اس ظلم عظیم کے مقابلے میں اس احسان کی آخر حیثیت کیا ہے؟ الشعراء
23 ٢٣۔ ١ یہ اس نے بطور دریافت کے نہیں، بلکہ جواب کے طور پر کہا، کیونکہ اس کا دعویٰ تو یہ تھا (مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہِ غَیْرِیْ) (وَقَالَ فِرْعَوْنُ یٰٓاَیُّہَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ ۚ فَاَوْقِدْ لِیْ یٰہَامٰنُ عَلَی الطِّیْنِ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْٓ اَطَّلِــعُ اِلٰٓی اِلٰہِ مُوْسٰی ۙ وَاِنِّیْ لَاَظُنُّہٗ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ) 28۔ القصص :38) ' میں اپنے سوا تمہارے لئے کوئی اور معبود جانتا ہی نہیں ' الشعراء
24 الشعراء
25 ٢٥۔ ١ یعنی کیا تم اس کی بات پر تعجب نہیں کرتے کہ میرے سوا بھی کوئی اور معبود ہے؟ الشعراء
26 الشعراء
27 الشعراء
28 ٢٨۔ ١ یعنی جس نے مشرق کو مشرق بنایا، جس سے کواکب طلوع ہوتے ہیں اور مغرب کو مغرب بنایا جس میں کواکب غروب ہوتے ہیں۔ اسی طرح ان کے درمیان جو کچھ ہے، ان سب کا رب اور ان کا انتظام کرنے والا بھی وہی ہے۔ الشعراء
29 ٢٩۔ ١ فرعون نے دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) مختلف انداز سے رب العالمین کی ربوبیت کامل کی وضاحت کر رہے ہیں جس کا کوئی معقول جواب اس سے نہیں بن پا رہا ہے۔ تو اس نے دلائل سے صرف نظر انداز کرکے دھمکی دینی شروع کردی اور موسیٰ (علیہ السلام) کو قید کرنے سے ڈرایا۔ الشعراء
30 ٣٠۔ ١ یعنی ایسی چیز یا معجزہ جس سے واضح ہوجائے کہ میں سچا اور واقعی اللہ کا رسول ہوں، تب بھی تو میری صداقت کو تسلیم نہیں کرے گا ؟ الشعراء
31 الشعراء
32 ٣٢۔ ١ بعض جگہ ثعبان کو حیۃ اور بعض جگہ جان کہا گیا ہے ثعبان وہ سانپ ہوتا ہے جو بڑا ہو اور جان چھوٹے سانپ کو کہتے ہیں او حیۃ چھوٹے بڑے دونوں قسم کے سانپوں پر بولا جاتا ہے۔ فتح القدیر۔ گویا لاٹھی نے پہلے چھوٹے سانپ کی شکل اختیار کی پھر دیکھتے دیکھتے اژدھا بن گئی۔ واللہ اعلم الشعراء
33 ٣٣۔ ١ یعنی گریبان سے ہاتھ نکالا تو چاند کے ٹکڑے کی طرح چمکتا تھا ؛ یہ دوسرا معجزہ موسیٰ (علیہ السلام) نے پیش کیا۔ الشعراء
34 ٣٤۔ ١ فرعون بجائے اس کے کہ ان معجزات کو دیکھ کر، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کرتا اور ایمان لاتا، اس نے جھٹلانے اور عناد کا راستہ اختیار کیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بابت کہا کہ یہ کوئی بڑا فنکار جادوگر ہے۔ الشعراء
35 ٣٥۔ ١ پھر اپنی قوم کو مذید بھڑکانے کے لئے کہا کہ وہ ان شعبدہ بازیوں کے ذریعے سے تمہیں یہاں سے نکال کر خود اس پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ اب بتلاؤ! تمہاری کیا رائے ہے؟ یعنی اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔ الشعراء
36 الشعراء
37 ٣٧۔ ١ یعنی ان دونوں کو فی الحال اپنے حال پر چھوڑ دو، اور تمام شہروں سے جادوگروں کو جمع کرکے ان کا باہمی مقابلہ کیا جائے تاکہ ان کے کرتب کا جواب اور تیری تائید و نصرت ہوجائے۔ اور یہ اللہ ہی کی طرف سے سب انتطام تھا تاکہ لوگ ایک ہی جگہ جمع ہوجائیں اور دلائل کا بہ چشم خود مشاہدہ کریں، جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا فرمائے تھے۔ الشعراء
38 ٣٨۔ ١ چنانچہ جادوگروں کی ایک بہت بڑی تعداد مصر کے اطراف و جوانب سے جمع کرلی گئی، ان کی تعداد ١٢ ہزار، ١٧ ہزار ١٩ ہزار، ٣٠ ہزار اور ٨٠ ہزار (مختلف اقوال کے مطابق) بتلائی جاتی ہے۔ اصل تعداد اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ کیونکہ کسی مستند مأخذ میں تعداد کا ذکر نہیں ہے۔ اس کی تفصیلات اس سے قبل سورۃ اعراف، سورۃ طہ میں بھی گزر چکی ہیں گویا فرعون کی قوم قبط نے اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے بجھانا چاہا تھا لیکن اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کرنا چاہتا تھا چنانچہ کفر و ایمان کے معرکے میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ جب بھی کفر خم ٹھونک کر ایمان کے مقابلے میں آتا ہے تو ایمان کو اللہ تعالیٰ سرخروئی اور غلبہ عطا فرماتا ہے۔ جس طرح فرمایا، (بَلْ نَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌ) 21۔ الانبیاء :18)۔ بلکہ ہم سچ کو چھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں پس وہ اس کا سر توڑ دیتا ہے اور جھوٹ اسی وقت نابود ہوجاتا ہے۔ الشعراء
39 ٣٩۔ ١ یعنی عوام کو بھی تاکید کی جا رہی ہے کہ تمہیں بھی یہ معرکہ دیکھنے کے لئے ضرور حاضر ہونا ہے۔ الشعراء
40 الشعراء
41 الشعراء
42 الشعراء
43 ٤٣۔ ١ حضرت موسیٰ علیہ کی طرف سے جادوگروں کو پہلے اپنے کرتب دکھانے کے لئے کہنے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ ایک تو ان پر یہ واضح ہوجائے کہ اللہ کے پیغمبر اتنی بڑی تعداد میں نامی گرامی جادوگروں کے اجتماع اور ان کی ساحرانہ شعبدہ بازیوں سے خوف زدہ نہیں ہے۔ دوسرا یہ مقصد بھی ہوسکتا ہے کہ جب اللہ کے حکم سے یہ ساری شعبدہ بازیاں آن واحد میں ختم ہوجائیں گی تو دیکھنے والوں پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہونگے اور شاید اس طرح زیادہ لوگ اللہ پر ایمان لے آئیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، بلکہ جادوگر ہی سب سے پہلے ایمان لے آئے، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ الشعراء
44 ٤٤۔ ١ جیسا کہ سورۃ اعراف اور طٰہٰ میں گزرا کہ ان جادوگروں نے اپنے خیال میں بہت بڑا جادو پیش کیا،۔ سحروا أعین الناس واسترھبوھم وجاؤا بسحر عظیم۔ سورۃ الاعراف۔ حتٰی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اپنے دل میں خوف محسوس کیا،۔ فاوجس فی نفسہ خیفۃ موسی۔ طہ۔ چنانچہ ان جادوگروں کو اپنی کامیابی اور برتری کا بڑا یقین تھا، جیسا کہ یہاں ان الفاظ سے ظاہر ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی دی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ذرا اپنی لاٹھی زمین پر پھینکو اور پھر دیکھو۔ چنانچہ لاٹھی کا زمین پر پھینکنا تھا کہ اس نے ایک خوفناک اژدھا کی شکل اختیار کرلی اور ایک ایک کر کے ان سارے کرتبوں کو نگل گیا۔ جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔ الشعراء
45 الشعراء
46 الشعراء
47 الشعراء
48 الشعراء
49 ٤٩۔ ١ فرعون کے لئے یہ واقعہ بڑا عجیب اور نہایت حیرت ناک تھا جن جادوگروں کے ذریعے وہ فتح و غلبہ کی آس لگائے بیٹھا تھا وہی نہ صرف مغلوب ہوگئے بلکہ موقع پر ہی وہ اس رب پر ایمان لے آئے، جس نے حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو دلائل و معجزات دے کر بھیجا تھا لیکن بجائے اس کے کہ فرعون بھی غور و فکر سے کام لیتا اور ایمان لاتا، اس نے مکابرہ اور عناد کا راستہ اختیار کیا اور جادوگروں کو ڈرانا دھمکانا شروع کردیا اور کہا کہ تم سب اسی کے شاگرد لگتے ہو اور تمہارا استاد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سازش کے ذریعے سے تم ہمیں یہاں سے بےدخل کر دو۔ (اِنَّ ہٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْتُمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ لِتُخْرِجُوْا مِنْہَآ اَہْلَہَا) 7۔ الاعراف :123)۔ ٤٩۔ ٢ الٹے طور پر ہاتھ پاؤں کاٹنے کا مطلب دایاں ہاتھ اور بایاں پیر یا بایاں ہاتھ اور دایاں پیر ہے۔ اس پر سولی مستزاد یعنی ہاتھ پیر کاٹنے سے بھی اس کی آتش غضب ٹھنڈی نہ ہوئی مذید اس نے سولی پر لٹکانے کا اعلان کیا۔ الشعراء
50 ٥٠۔ ١ لاضیر۔ کوئی حرج نہیں یا ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ یعنی اب جو سزا چاہے دے لے، ایمان سے نہیں پھر سکتے۔ الشعراء
51 ٥١۔ ١ أوَّلُ الْمُئْومِنِیْنَ اس اعتبار سے کہا کہ فرعون کی قوم مسلمان نہیں ہوئی اور انہوں نے قبول ایمان میں سبقت کی۔ الشعراء
52 ٥٢۔ ١ جب مصر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قیام لمبا ہوگیا اور ہر طرح سے انہوں نے فرعون اور اس کے درباریوں پر حجت قائم کردی۔ لیکن اس کے باوجود وہ ایمان لانے پر تیار نہیں ہوئے، تو اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ انھیں عذاب سے دوچار کر کے سامان عبرت بنا دیا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ راتوں رات بنی اسرائیل کو لے کر یہاں سے نکل جائیں، اور فرمایا کہ فرعون تمہارے پیچھے آئے گا، گھبرانا نہیں۔ الشعراء
53 الشعراء
54 ٥٤۔ ١ یہ بطور تحقیر کے کہا، ورنہ ان کی تعداد چھ لاکھ بتلائی جاتی ہے۔ الشعراء
55 ٥٥۔ ١ یعنی میری اجازت کے بغیر ان کا یہاں سے فرار ہونا ہمارے لئے غیظ و غضب کا باعث ہے۔ الشعراء
56 ٥ ٦ ۔ ١ اس لیے ان کی اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں مستعد ہونے کی ضرورت ہے۔ الشعراء
57 الشعراء
58 ٥٨۔ ١ یعنی فرعون اور اس کا لشکر بنی اسرائیل کے تعاقب میں کیا نکلا، کہ پلٹ کر اپنے گھروں اور باغات میں آنا نصیب ہی نہیں ہوا، یوں اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت و مشیت سے انھیں تمام نعمتوں سے محروم کر کے ان کا وارث دوسروں کو بنا دیا۔ الشعراء
59 ٥٩۔ ١ یعنی جو اقتدار اور بادشاہت فرعون کو حاصل تھی، وہ اس سے چھین کر ہم نے بنی اسرائیل کو عطا کردی۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد مصر جیسا اقتدار اور دنیاوی جاہ جلال ہم نے بنی اسرائیل کو بھی عطا کیا۔ کیونکہ بنی اسرائیل، مصر سے نکل جانے کے بعد مصر واپس نہیں آئے۔ نیز سورۃ دخان میں فرمایا کہ ' ہم نے اس کا وارث کسی دوسری قوم کو بنایا ' (أیسر التفاسیر) اول الذکر اہل علم کہتے ہیں کہ قوما آخرین میں قوم کا لفظ اگرچہ عام ہے لیکن یہاں سورۃ شعراء میں جب بنی اسرائیل کو وارث بنانے کی صراحت آگئی ہے تو اس سے مراد بھی قوم بنی اسرائیل ہی ہوگی۔ مگر خود قرآن کی صراحت کے مطابق مصر سے نکلنے کے بعد بنو اسرائیل کو ارض مقدس میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا اور ان کے انکار پر چالیس سال کے لیے یہ داخلہ مؤخر کرکے میدان تیہ میں بھٹکایا گیا پھر وہ ارض مقدس میں داخل ہوئے چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قبر حدیث اسراء کے مطابق بیت المقدس کے قریب ہی ہے اس لیے صحیح معنی یہی ہے کہ جیسی نعمتیں آل فرعون کو مصر میں حاصل تھیں ویسی ہی نعتیں اب بنو اسرائیل کو عطا کی گئیں لیکن مصر میں نہیں بلکہ فلسطین میں واللہ اعلم۔ الشعراء
60 ٦٠۔ ١ یعنی جب صبح ہوئی اور فرعون کو پتہ چلا کہ نبی اسرائیل راتوں رات یہاں سے نکل گئے، تو اس کے پندار اقتدار کو بڑی ٹھیس پہنچی۔ اور سورج نکلتے ہی ان کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا۔ الشعراء
61 ٦١۔ ١ یعنی فرعون کے لشکر کو دیکھتے ہی وہ، گھبرا اٹھے کہ آگے سمندر ہے اور پیچھے فرعون کا لشکر، اب بچاؤ کس طرح ممکن ہے؟ اب دوبارہ وہی فرعون اور اس کی غلامی ہوگی۔ الشعراء
62 ٦٢۔ ١ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تسلی دی کہ تمہارا اندیشہ صحیح نہیں، اب دوبارہ تم فرعون کی گرفت میں نہیں جاؤ گے۔ میرا رب یقینا نجات کے راستے کی نشاندہی فرمائے گا۔ الشعراء
63 ٦٣۔ ١ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ راہنمائی اور نشان دہی فرمائی کہ اپنی لاٹھی سمندر پر مارو، جس سے دائیں طرف کا پانی دائیں طرف اور بائیں طرف کا پانی بائیں طرف رک گیا اور دونوں کے بیچ راستہ بن گیا کہا جاتا ہے کہ بارہ قبیلوں کے حساب سے بارہ راستے بن گئے تھے واللہ عالم۔ ٦ ٣۔ ٢ فرق قطعہ بحر، سمندر کا حصہ طور پہاڑ۔ یعنی پانی کا ہر حصہ بڑے پہاڑ کی طرح کھڑا ہوگیا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزے کا صدور ہوا تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم فرعون سے نجات پالے اس تائید الہی کے بغیر فرعون سے نجات ممکن نہیں تھی۔ الشعراء
64 ٦٤۔ ١ اس سے مراد فرعون اور اس کا لشکر ہے یعنی ہم نے دوسروں کو سمندر کے قریب کردیا۔ الشعراء
65 الشعراء
66 ٦٦۔ ٢ موسیٰ (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو ہم نے نجات دی اور فرعون اور اس کا لشکر جب انہی راستوں سے گزرنے لگا تو ہم نے سمندر کو دوبارہ حسب دستور رواں کردیا، جس سے فرعون اپنے لشکر سمیت غرق ہوگیا۔ الشعراء
67 ٦٧۔ ١ یعنی اگرچہ اس واقعے میں، جو اللہ کی نصرت و معاونت کا واضح مظہر ہے، بڑی نشانی ہے لیکن اس کے باوجود اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔ الشعراء
68 الشعراء
69 الشعراء
70 الشعراء
71 ٧١۔ ١ یعنی رات دن ان کی عبادت کرتے ہیں۔ الشعراء
72 الشعراء
73 ٧٣۔ ١ یعنی اگر تم ان کی عبادت ترک کر دو تو کیا وہ تمہیں نقصان پہنچاتے ہیں؟ الشعراء
74 ٧٤۔ ١ جب وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سوال کا کوئی معقول جواب نہیں دے سکے تو یہ کہہ کر چھٹکارا حاصل کرلیا۔ کہ ہمارے آبا و اجداد سے یہی کچھ ہوتا آرہا ہے، ہم اسے نہیں چھوڑ سکتے۔ الشعراء
75 ٧٥۔ ١ افرائیتم کے معنی ہیں فھل أبصٓرتم وتفکرتم کیا تم نے غور و فکر کیا ؟ الشعراء
76 الشعراء
77 ٧٦۔ ١ اس لئے کہ تم سب اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرنے والے ہو۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جن کی تم اور تمہارے باپ دادا عبادت کرتے رہے ہیں، وہ سب معبود میرے دشمن ہیں یعنی ان سے بیزار ہوں۔ ٧٧۔ ٢ یعنی وہ دشمن نہیں، بلکہ وہ تو دنیا و آخرت میں میرا ولی اور دوست ہے۔ الشعراء
78 ٧٨۔ ١ یعنی دین اور دنیا کے مصالح اور منافع کی طرف۔ الشعراء
79 ٧٩۔ ١ یعنی بہت سے اقسام کے رزق پیدا کرنے والا اور جو پانی ہم پیتے ہیں، اسے مہیا کرنے والا وہی اللہ ہے الشعراء
80 ٨٠۔ ١ بیماری کو دور کر کے شفا عطا کرنے والا بھی وہی ہے یعنی دواؤں میں شفا کی تاثیر بھی اسی کے حکم سے ہوتی ہے۔ ورنہ دوائیں بھی بے اثر ثابت ہوتی ہیں بیماری بھی اگرچہ اللہ کے حکم اور مشیت سے ہی آتی ہے لیکن اس کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی بلکہ اپنی طرف کی یہ گویا اللہ کے ذکر میں اس کے ادب واحترام کے پہلو کو ملحوظ رکھا۔ الشعراء
81 ٨١۔ ١ یعنی قیامت والے دن جب سارے لوگوں کو زندہ فرمائے گا، مجھے بھی زندہ کرے گا۔ الشعراء
82 ٨٤۔ ١ یہاں امید، یقین کے معنی میں ہے۔ کیونکہ کسی بڑی شخصیت سے امید، یقین کے مترادف ہی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ تو کائنات کی سب سے بڑی ہستی ہے، اس سے وابستہ امید، یقینی کیوں نہیں ہوگی اسی لئے مفسرین کہتے ہیں کہ قرآن میں جہاں بھی اللہ کے لئے عَسَیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ یقین ہی کے مفہوم میں ہے۔ خطیئتی، خطیئۃ واحد کا صیغہ ہے لیکن خطایا جمع کے معنی میں ہے انبیاء علیہم السلام اگرچہ معصوم ہوتے ہیں اس لیے ان سے کسی بڑے گناہ کا صدور ممکن نہیں پھر بھی اپنے بعض افعال کو کوتاہی پر محمول کرتے ہوئے بارگاہ الہی میں عفو وطلب ہوں گے۔ الشعراء
83 ٨٣۔ ١ حکم یا حکمت سے مراد علم و فہم، قوت فیصلہ، یا نبوت و رسالت یا اللہ کے حدود و احکام کی معرفت ہے۔ الشعراء
84 ٨٤۔ ١ یعنی جو لوگ میرے بعد قیامت تک آئیں گے، وہ میرا ذکر اچھے لفظوں میں کرتے رہیں، اس سے معلوم ہوا کہ نیکیوں کی جزا اللہ تعالیٰ دنیا میں ذکر جمیل اور ثنائے حسن کی صورت میں بھی عطا فرماتا ہے۔ جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر خیر ہر مذہب کے لوگ کرتے ہیں، کسی کو بھی ان کی عظمت و تکریم سے انکار نہیں ہے۔ الشعراء
85 الشعراء
86 ٨٦۔ ١ یہ دعا اس وقت کی تھی، جب ان پر واضح نہیں تھا کہ مشرک (اللہ کے دشمن) کے لئے دعائے مغفرت جائز نہیں، جب اللہ نے واضح کردیا، تو انہوں نے اپنے باپ سے بیزاری کا اظہار کردیا (وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاہُ ۚ فَلَمَّا تَـبَیَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ ۭ اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ) 9۔ التوبہ :114) الشعراء
87 ٨٧۔ ١ یعنی تمام مخلوق کے سامنے میرا مؤاخذہ کرکے یا عذاب سے دوچار کرکے حدیث میں آتا ہے کہ قیامت والے دن، جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے والد کو برے حال میں دیکھیں گے، تو ایک مرتبہ پھر اللہ کی بارگاہ میں ان کے لئے مغفرت کی درخواست کریں گے اور فرمائیں گے یا اللہ! اس سے زیادہ میرے لئے رسوائی اور کیا ہوگی؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے جنت کافروں پر حرام کردی ہے۔ پھر ان کے باپ کو نجاست میں لتھڑے ہوئے بجو کی شکل میں جہنم میں ڈال دیا جائے گا (صحیح بخاری) الشعراء
88 الشعراء
89 ٨٩۔ ١ قلب سلیم یا بے عیب دل سے مراد وہ دل ہے جو شرک سے پاک ہو۔ یعنی کلب مومن۔ اس لئے کافر اور منافق کا دل مریض ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں، بدعت سے خالی اور سنت پر مطمئن دل، بعض کے نزدیک دنیا کے مال متاع کی محبت سے پاک دل اور بعض کے نزدیک، جہالت کی تاریکیوں اور اخلاقی ذلالتوں سے پاک دل۔ یہ سارے مفہوم بھی صحیح ہو سکتے ہیں۔ اس لئے کہ قلب مومن مذکورہ تمام برائیوں سے پاک ہوتا ہے۔ الشعراء
90 الشعراء
91 ٩١۔ ١ مطلب یہ ہے کہ جنت اور دوزخ میں داخل ہونے سے پہلے ان کو سامنے کردیا جائے گا۔ جس سے کافروں کے غم میں اور اہل ایمان کے سرور میں مذید اضافہ ہوجائے گا۔ الشعراء
92 الشعراء
93 ٩٣۔ ١ یعنی تم سے عذاب ٹال دیں یا خود اپنے نفس کو اس سے بچالیں۔ الشعراء
94 ٩٤۔ ١ یعنی معبودین اور عابدین سب کو مال ڈنگر کی طرح ایک دوسرے کے اوپر ڈال دیا جائے گا۔ الشعراء
95 ٩٥۔ ١ اس سے مراد وہ لشکر ہیں جو لوگوں کو گمراہ کرتے تھے۔ الشعراء
96 الشعراء
97 الشعراء
98 ٩٨۔ ١ دنیا میں تو ہر تراشا ہوا پتھر اور، مشرکوں کو خدائی اختیارات کا حامل نظر آتا ہے۔ لیکن قیامت کو پتہ چلے گا کہ یہ کھلی گمراہی تھی کہ وہ انھیں رب کے برابر سمجھتے رہے۔ الشعراء
99 ٩٩۔ ١ یعنی وہاں جا کر احساس ہوگا کہ ہمیں دوسرے مجرموں نے گمراہ کیا۔ دنیا میں انھیں متوجہ کیا جاتا ہے کہ فلاں فلاں کام گمراہی ہے۔ بدعت ہے شرک ہے تو نہیں مانتے نہ غور وفکر سے کام لیتے ہیں کہ حق و باطل ان پر واضح ہو سکے۔ الشعراء
100 الشعراء
101 ١٠١۔ ١ گناہ گار اہل ایمان کی سفارش تو اللہ کی اجازت کے بعد انبیاء صلحاء بالخصوص حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمائیں گے۔ لیکن کافروں اور مشرکوں کے لئے سفارش کرنے کی کسی کو اجازت ہوگی نہ حوصلہ، اور نہ وہاں کوئی دوستی ہی کام آئے گی۔ الشعراء
102 ١٠٢۔ ١ اہل کفر و شرک، قیامت کے روز دوبارہ دنیا میں آنے کی آرزو کریں گے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرکے اللہ کو خوش کرلیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ اگر انھیں دوبارہ بھی دنیا میں بھیج دیا جائے تو وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے تھے۔ الشعراء
103 ١٠٣۔ ١ یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بتوں کے بارے میں اپنی قوم سے مناظرہ اللہ کی توحید کے دلائل، یہ اس بات کی واضح نشانی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ١٠٣۔ ٢ بعض نے اس مرجع مشرکین مکہ یعنی قریش کو قرار دیا ہے یعنی ان کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں۔ الشعراء
104 الشعراء
105 ٠٥۔ ١ قوم نوح (علیہ السلام) نے اگرچہ صرف اپنے پیغمبر حضرت نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی۔ مگر چونکہ ایک نبی کی تکذیب، تمام نبیوں کی تکذیب کے مترادف ہے۔ اس لئے فرمایا کہ قوم نوح (علیہ السلام) نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ الشعراء
106 ١٠٦۔ ١ بھائی اس لئے کہا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) ان ہی کی قوم کے ایک فرد تھے۔ الشعراء
107 ١٠٧۔ ١ یعنی اللہ نے جو پیغام دے کر مجھے بھیجا ہے، وہ بلا کم و کاست تم تک پہنچانے والا ہوں، اس میں کمی بیشی نہیں کرتا۔ الشعراء
108 ١٠٨۔ ١ یعنی میں تمہیں جو ایمان باللہ اور شرک نہ کرنے کی دعوت دے رہا ہوں، اس میں میری اطاعت کرو۔ الشعراء
109 ١٠٩۔ ١ میں تمہیں جو تبلیغ کر رہا ہوں، اس کا کوئی اجر تم سے نہیں مانگتا، بلکہ اس کا اجر رب العالمین ہی کے ذمے ہے جو قیامت کو عطا فرمائے گا۔ الشعراء
110 ١١٠۔ ١ یہ تاکید کے طور پر بھی ہے اور الگ الگ سبب کی بنا پر بھی، پہلے اطاعت کی دعوت، امانت داری کی بنیاد پر تھی اور اب یہ دعوت اطاعت عدم طمع کی وجہ سے ہے۔ الشعراء
111 ١١١۔ ١ الارذلون، ارذل کی جمع ہے، جاہ و مال رکھنے والے، اور اس کی وجہ سے معاشرے میں کمتر سمجھے جانے والے اور ان ہی میں وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو حقیر سمجھے جانے والے پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں الشعراء
112 ١١٢۔ ١ یعنی مجھے اس بات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا ہے کہ میں لوگوں کے حسب نسب، امارت و غربت اور ان کے پیشوں کی تفتیش کروں بلکہ میری ذمہ داری صرف یہ ہے کہ ایمان کی دعوت دوں اور جو اسے قبول کرلے، چاہے وہ کسی حیثیت کا حامل ہو، اسے اپنی جماعت میں شامل کرلوں۔ الشعراء
113 ١١٣۔ ١ یعنی ان کے ضمیروں اور اعمال کی تفتیش یہ اللہ کا کام ہے۔ الشعراء
114 ١١٤۔ ١ یہ ان کی اس خواہش کا جواب ہے کہ کمتر حیثیت کے لوگوں کو اپنے سے دور کر دے، پھر ہم تیری جماعت میں شامل ہوجائیں گے۔ الشعراء
115 ١١٥۔ ١ پس جو اللہ سے ڈر کر میری اطاعت کرے گا، وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں، چاہے دنیا کی نظر میں وہ شریف ہو یا رذیل، کمینہ ہو یا حقیر۔ الشعراء
116 الشعراء
117 الشعراء
118 الشعراء
119 الشعراء
120 ١٢٠۔ ١ یہ تفیصلات کچھ پہلے بھی گزر چکی ہیں اور کچھ آئندہ بھی آئیں گی کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی ساڑھے نو سو سالہ تبلیغ کے باوجود ان کی قوم کے لوگ بد اخلاقی اور اعراض پر قائم رہے، بالآخر حضرت نوح (علیہ السلام) نے بد دعا کی، اللہ تعالیٰ نے کشتی بنانے کا اور اس میں مومن انسانوں، جانوروں اور ضروری سازو سامان رکھنے کا حکم دیا اور یوں اہل ایمان کو بچا لیا گیا اور باقی سب لوگوں کو حتٰی کہ بیوی اور بیٹے کو بھی، جو ایمان نہیں لائے تھے، غرق کردیا گیا۔ الشعراء
121 الشعراء
122 الشعراء
123 ١٢٣۔ ١ عاد، ان کے جد اعلٰی کا نام تھا، جس کے نام پر قوم کا نام پڑگیا۔ یہاں عاد قبیلہ تصور کر کے کَذَّبَتْ (صیغہ مؤنث) لایا گیا ہے۔ الشعراء
124 ١٢٤۔ ١ ہود (علیہ السلام) کو بھی عاد کا بھائی اس لئے کہا گیا ہے کہ ہر نبی اسی قوم کا ایک فرد ہوتا ہے، جس کی طرف اسے مبعوث کیا جاتا تھا اور اسی اعتبار سے انھیں اس قوم کا بھائی قرار دیا گیا۔ جیسا کہ آگے بھی آئے گا اور انبیاء ورسل کی یہ بشریت بھی ان کی قوموں کے ایمان لانے میں رکاوٹ بنی رہی ہے ان کا خیال تھا کہ نبی کو بشر نہیں، مافوق البشر ہونا چاہیے آج بھی اس مسلمہ حقیقت سے بے خبر لوگ پیغمبر اسلام حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مافوق البشر باور کرانے پر تلے رہتے ہیں حالانکہ وہ بھی خاندان قریش کے ایک فرد تھے جن کی طرف اولا ان کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا۔ الشعراء
125 الشعراء
126 الشعراء
127 الشعراء
128 ١٢٨۔ ١ ریع، ریعۃ، کی جمع ہے۔ ٹیلہ، بلند جگہ، پہاڑ، درہ یا گھاٹی یہ ان گزر گاہوں پر کوئی عمارت تعمیر کرتے جو بلندی پر ایک نشانی مشہور ہوتی۔ لیکن اس کا مقصد اس میں رہنا نہیں ہوتا بلکہ صرف کھیل کود ہوتا تھا۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے منع فرمایا کہ یہ تم ایسا کام کرتے ہو، جس میں وقت اور وسائل کا بھی ضیاع ہے اور اس کا مقصد بھی ایسا ہے جس سے دین اور دنیا کا کوئی مفاد وابستہ نہیں بلکہ صرف کھیل کود ہوتا ہے بیکار محض بے فائدہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ الشعراء
129 ١٢٩۔ ١ اسی طرح وہ بڑی مضبوط اور عالی شان رہائشی عمارتیں تعمیر کرتے تھے، جیسے وہ ہمیشہ انہی محلات میں رہیں گے۔ الشعراء
130 ١٣٠۔ ١ یہ ان کے ظلم و تشدد اور قوت و طاقت کی طرف اشارہ ہے۔ الشعراء
131 ١٣١۔ ١ جب ان کے اوصاف قبیحہ بیان کیئے جو ان کے دنیا میں انہماک اور ظلم و سرکشی پر دلالت کرتے ہیں تو پھر انھیں دوبارہ تقویٰ اور اپنی اطاعت کی دعوت دی۔ الشعراء
132 الشعراء
133 الشعراء
134 الشعراء
135 ١٣٥۔ ١ یعنی اگر تم نے اپنے کفر پر اصرار جاری رکھا اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں، ان کا شکر ادا نہ کیا، تو تم عذاب الٰہی کے مستحق قرار پا جاؤ گے۔ یہ عذاب دنیا میں بھی آسکتا ہے اور آخرت تو ہے ہی عذاب و ثواب کے لئے۔ وہاں تو عذاب سے چھٹکارا ممکن ہی نہیں ہوگا۔ الشعراء
136 الشعراء
137 ١٣٧۔ ١ یعنی وہی باتیں ہیں جو پہلے بھی لوگ کرتے آئے ہیں یا یہ مطلب ہے کہ ہم جس دین اور عادات و روایات پر قائم ہیں، وہ وہی ہیں جن پر ہمارے آباء و اجداد کار بند رہے، مطلب دونوں سورتوں میں یہ ہے کہ ہم آبائی مذہب کو نہیں چھوڑ سکتے۔ الشعراء
138 ١٣٨۔ ١ جب انہوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ ہم تو اپنا آبائی دین نہیں چھوڑیں گے، تو اس میں عقیدہ آخرت کا انکار بھی تھا۔ اس لئے انہوں نے عذاب میں مبتلا ہونے کا بھی انکار کیا۔ کیونکہ عذاب الٰہی کا اندیشہ تو اسے ہوتا ہے جو اللہ کو مانتا اور روز جزا کو تسلیم کرتا ہے۔ الشعراء
139 ١٣٩۔ ١ قوم عاد، دنیا کی مضبوط ترین اور قوی ترین قوم تھی، جس کی بابت اللہ نے فرمایا (الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُہَا فِی الْبِلَادِ) 89۔ الفجر :8) ' اس جیسی قوم پیدا ہی نہیں کی گئی ' یعنی جو قوت اور شدت و جبروت میں اس جیسی ہو۔ اس لئے یہ کہا کرتی تھی (مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً) 41۔ فصلت :15) ' کون قوت میں ہم سے زیادہ ہے ' لیکن جب اس قوم نے بھی کفر کا راستہ چھوڑ کر ایمان و تقویٰ اختیار نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے سخت ہوا کی صورت میں ان پر عذاب فرمایا جو مکمل سات راتیں اور آٹھ دن ان پر مسلط رہا۔ باد تند آتی اور آدمی کو اٹھا کر فضا میں بلند کرتی اور پھر زور سے سر کے بل زمین پر پٹخ دیتی۔ جس سے اس کا دماغ پھٹ اور ٹوٹ جاتا اور بغیر سر کے ان کے لاشے اس طرح زمین پر پڑے ہوتے گویا وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں۔ انہوں نے پہاڑوں، کھوؤں اور غاروں میں بڑی بڑی مضبوط عمارتیں بنا رکھی تھیں۔ پینے کے لئے گہرے کنوئیں کھود رکھے تھے، باغات کی کثرت تھی۔ لیکن جب اللہ کا عذاب آیا تو کوئی چیز ان کے کام نہ آئی اور انھیں صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دیا گیا۔ الشعراء
140 الشعراء
141 ١٤١۔ ١ ثمود کا مسکن حضر تھا جو حجاز کے شمال میں ہے، آجکل اسے مدائن صالح کہتے ہیں۔ (ایسر التفاسیر) یہ عرب تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک جاتے ہوئے ان بستیوں سے گزر کر گئے تھے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ الشعراء
142 الشعراء
143 الشعراء
144 الشعراء
145 الشعراء
146 ١٤٦۔ ١ یعنی یہ نعمتیں کیا تمہیں ہمیشہ حاصل رہیں گی، نہ تمہیں موت آئے گی نہ عذاب؟ استفہام انکاری اور توبیخی ہے یعنی ایسا نہیں ہوگا بلکہ عذاب یا موت کے ذریعے سے، جب اللہ چاہے گا، تم ان نعمتوں سے محروم ہوجاؤ گے اس میں ترغیب ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اور اس پر ایمان لاؤ اور اگر ایمان و شکر کا راستہ اختیار نہیں کیا تو پھر تباہی و بربادی تمہارا مقدر ہے۔ الشعراء
147 الشعراء
148 ١٤٨۔ ١ یہ ان نعمتوں کی تفصیل ہے جن سے وہ بہرہ ور تھے، طلع، کھجور کے اس شگوفے کو کہتے ہیں جو پہلے پہل نکلتا یعنی طلوع ہوتا ہے، اس کے بعد کھجور کا یہ پھل بلح، پھر بسر، پھر رتب اور اس کے بعد تمر کہلاتا ہے۔ (ایسر التفاسر) باغات میں دیگر پھلوں کے ساتھ کھجور کا پھل بھی آجاتا ہے لیکن عربوں میں چونکہ کھجور کی بڑی اہمیت ہے اس لیے اس کا خصوصی طور پر بھی ذکر کیا ھضیم کے اور بھی کئی معانی بیان کیے گئے ہیں مثلا لطیف اور نرم ونازک۔ تہ بہ تہ وغیرہ الشعراء
149 ١٤٩۔ ١ فَارِھِیْنَ یعنی ضرورت سے زیادہ فنکارانہ مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا فخرو غرور کرتے ہوئے، جیسے آجکل لوگوں کا حال ہے۔ آج بھی عمارتوں پر غیر ضروری آرائشوں اور فنکارانہ مہارتوں کا خوب خوب مظاہرہ ہو رہا ہے اور اس کے ذریعے سے ایک دوسرے پر برتری اور فخرو غرور کا اظہار بھی۔ الشعراء
150 الشعراء
151 ١٥١۔ ١ مُسْرِفِیْنَ سے مراد وہ رؤسا اور سردار ہیں جو کفر و شرک کے داعی اور مخالفت میں پیش پیش تھے۔ الشعراء
152 الشعراء
153 الشعراء
154 الشعراء
155 ١٥٥۔ ١ یہ وہی اونٹنی تھی جو ان کے مطالبے پر پتھر کی ایک چٹان سے بطور معجزہ ظاہر ہوئی تھی ایک دن اونٹنی کے لئے اور ایک دن ان کے لئے پانی مقرر کردیا گیا تھا، اور ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ جو دن تمہارا پانی لینے کا ہوگا، اونٹنی گھاٹ پر نہیں آئے گی اور جو دن اونٹنی کے پانی پینے کا ہوگا، تمہیں گھاٹ پر آنے کی اجازت نہیں ہے۔ الشعراء
156 ١٥٦۔ ١ دوسری بات انھیں یہ کہی گئی کہ اس اونٹنی کو کوئی بری نیت سے ہاتھ نہ لگائے، نہ اسے نقصان پہنچایا جائے۔ چنانچہ یہ اونٹنی اسی طرح ان کے درمیان رہی۔ گھاٹ سے پانی پیتی اور گھاس چارہ کھا کر گزارہ کرتی۔ کہا جاتا ہے کہ قوم ثمود اس کا دودھ دوہتی اور اس سے فائدہ اٹھاتی۔ لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انہوں نے اسے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ الشعراء
157 ١٥٧۔ ١ یعنی باوجود اس بات کے کہ وہ اونٹنی، اللہ کی قدرت کی ایک نشانی اور پیغمبر کی صداقت کی دلیل تھی، قوم ثمود ایمان نہیں لائی اور کفر و شرک کے راستے پر گامزن رہی اور اس کی سرکشی یہاں تک بڑھی کہ بالآخر قدرت کی زندہ نشانی ' اونٹنی ' کی کوچیں کاٹ ڈالیں یعنی اس کے ہاتھوں پیروں کو زخمی کردیا، جس سے وہ بیٹھ گئی اور پھر اسے قتل کردیا۔ ١٥٧۔ ٢ یہ اس وقت ہوا جب اونٹنی کے قتل کے بعد حضرت صالح (علیہ السلام) نے کہا کہ اب تمہیں صرف تین دن کی مہلت ہے، چوتھے دن تمہیں ہلاک کردیا جائے گا اس کے بعد جب واقع عذاب کی علامتیں ظاہر ہونی شروع ہوگئیں تو پھر ان کی طرف سے بھی اظہار ندامت ہونے لگا۔ لیکن علامات عذاب دیکھ لینے کے بعد ندامت اور توبہ کا کوئی فائدہ نہیں۔ الشعراء
158 ١٥٨۔ ٢ یہ عذاب زمین سے زلزلے اور اوپر سے سخت چنگھاڑ کی صورت میں آیا، جس سے سب کی موت واقع ہوگئی۔ الشعراء
159 الشعراء
160 ١٦٠۔ ١ حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھائی ہارون بن آزر کے بیٹے تھے۔ اور ان کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کی زندگی میں نبی بناکر بھیجا گیا تھا۔ ان کی قوم ' سدوم ' اور ' عموریہ ' میں رہتی تھی۔ یہ بستیاں شام کے علاقے میں تھیں۔ الشعراء
161 الشعراء
162 الشعراء
163 الشعراء
164 الشعراء
165 الشعراء
166 ١٦٦۔ ١ یہ قوم لوط کی سب سے بری عادت تھی، جس کی ابتداء اسی قوم سے ہوئی تھی، اسی لئے اس فعل بد کو لواطت سے تعبیر کیا جاتا ہے یعنی بد فعلی جس کا آغاز قوم لوط سے ہوا لیکن اب یہ بد فعلی پوری دنیا میں عام ہے بلکہ یورپ میں تو اسے قانوناً جائز تسلیم کرلیا گیا ہے یعنی ان کے ہاں اب سرے سے گناہ ہی نہیں ہے۔ جس قوم کا مذاج اتنا بگڑ گیا ہو کہ مرد عورت کا ناجائز جنسی ملاپ (بشرطیکہ باہمی رضامندی سے ہو) ان کے نزدیک جرم نہ ہو، تو وہاں دو مردوں کا آپس میں بدفعلی کرنا کیونکر گناہ اور ناجائز ہوسکتا ہے۔؟ اعاذنا اللہ منہ ١ ٦  ٦ ۔ ٢ عادون۔ عاد کی جمع ہے عربی میں عاد کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنے والا یعنی حق کو چھوڑ کر باطل کو اور حلال کو چھوڑ کر حرام کو اختیار کرنے والا اللہ تعالیٰ نے نکاح شرعی کے ذریعے سے عورت کو فرج سے اپنی جنسی خواہش کی تسکین کو حلال قرار دیا ہے اور اس کام کے لیے مرد کی دبر کو حرام قوم لوط نے عورتوں کی شرم گاہوں کو چھوڑ کر مردوں کی دبر اس کام کے لیے استعمال کی اور یوں اس نے حد سے تجاوز کیا۔ الشعراء
167 ١٦٧۔ ١ یعنی حضرت لوط (علیہ السلام) کے وعظ نصیحت کے جواب میں انہوں نے کہا تو بڑا پاک باز بنا پھرتا ہے۔ یاد رکھنا اگر تو باز نہ آیا تو ہم اپنی بستی میں تجھے رہنے ہی نہیں دیں گے۔ الشعراء
168 ١٦٨۔ ١ یعنی میں اسے پسند نہیں کرتا اور اس سے سخت بیزار ہوں۔ الشعراء
169 الشعراء
170 الشعراء
171 ١٧١۔ ١ اس سے مراد حضرت لوط (علیہ السلام) کی بوڑھی بیوی ہے جو مسلمان نہیں ہوئی تھی، چنانچہ وہ بھی اپنی قوم کے ساتھ ہلاک کردی گئی۔ الشعراء
172 الشعراء
173 ۔ ١ یعنی نشان زدہ کھنگر پتھروں کی بارش سے ہم نے ان کو ہلاک کیا اور ان کی بستیوں کو ان پر الٹ دیا گیا، جیسا کہ سورۃ ہود، ٨٢۔ ٨٣ میں بیان ہے۔ الشعراء
174 الشعراء
175 الشعراء
176 ١٧٦۔ ١ اَیْکَۃَ، جنگل کو کہتے ہیں۔ اس سے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم اور بستی ' مدین ' کے اطراف کے باشندے مراد ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ ایکہ کے معنی گھنا درخت اور ایسا ایک درخت مدین کے نواحی آبادی میں تھا۔ جس کی پوجا پاٹ ہوتی تھی۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا دائرہ نبوت اور حدود دعوت و تبلیغ مدین سے لے کر اس کی نواحی آبادی تک تھا جہاں ایک درخت کی پوجا ہوتی تھی۔ وہاں کے رہنے والوں کو اصحاب الایکہ کہا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اصحاب الایکہ اور اہل مدین کے پیغمبر ایک ہی یعنی حضرت شعیب (علیہ السلام) تھے اور یہ ایک ہی پیغمبر کی امت تھی۔ ایکہ چونکہ قوم نہیں بلکہ درخت تھا۔ اس لیے اخوت نسبی کا یہاں ذکر نہیں کیا جس طرح کہ دوسرے انبیاء کے ذکر میں ہے البتہ جہاں مدین کے ضمن میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کا نام لیا گیا ہے وہاں ان کے اخوت نسبی کا ذکر بھی ملتا ہے کیونکہ مدین قوم کا نام ہے والی مدین اخاھم شعیبا۔ کالاعراف۔ بعض مفسرین نے اصحاب الایکہ کی طرف لیکن امام ابن کثیر نے فرمایا ہے کہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ ایک ہی امت ہے اوفوا لکیل والمیزان کا جو وعظ اہل مدین کو کیا گیا یہی وعظ یہاں اصحاب الایکہ کو کیا جا رہا ہے جس سے صاف واضح ہے کہ یہ ایک ہی امت ہے دو نہیں۔ الشعراء
177 الشعراء
178 الشعراء
179 الشعراء
180 الشعراء
181 ١٨١۔ ١ یعنی جب تم لوگوں کو ناپ کر دو تو اسی طرح پورا دو، جس طرح لیتے وقت تم پورا ناپ کرلیتے ہو۔ لینے اور دینے کے پیمانے الگ الگ مت رکھو، کہ دیتے وقت کم دو اور لیتے وقت پورا لو! الشعراء
182 ١٨٢۔ ١ اسی طرح تول میں ڈنڈی مت مارو بلکہ پورا صحیح تول کر دو! الشعراء
183 ١٨٣۔ ١ یعنی لوگوں کو دیتے وقت ناپ یا تول میں کمی مت کرو۔ ٨٣۔ ٢ یعنی اللہ کی نافرمانی مت کرو اس سے زمین میں فساد پھیلتا ہے بعض نے اس سے مراد وہ رہزنی لی ہے جس کا ارتکاب بھی یہ قوم کرتی تھی جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے۔ ( وَلَا تَقْعُدُوْا بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ) 7۔ الاعراف :86)۔ راستوں میں لوگوں کو ڈرانے کے لیے مت بیٹھو۔ ابن کثیر۔ الشعراء
184 ١٨٤۔ ١ جبلۃ اور جبل مخلوق کے معنی میں ہے جس طرح دوسرے مقام پر شیطان کے بارے میں فرمایا۔ (وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْکُمْ جِبِلًّا کَثِیْرًا ۭ اَفَلَمْ تَکُوْنُوْا تَـعْقِلُوْنَ) 36۔ یس :62) اس نے تم میں سے بہت ساری مخلوق کو گمراہ کیا اس کا استعمال بڑی جماعت کے لیے ہوتا ہے۔ وھو الجمع ذو العدد الکثیر من الناس۔ فتح القدیر۔ الشعراء
185 الشعراء
186 ١٨٦۔ ١ یعنی تو جو دعوا کرتا ہے کہ مجھے اللہ نے وحی و رسالت سے نوازا ہے، ہم تجھے اس دعوے میں جھوٹا سمجھتے ہیں، کیونکہ تو بھی ہم جیسا انسان ہے۔ پھر تو اس شرف سے مشرف کیونکر ہوسکتا ہے۔ الشعراء
187 ١٨٧۔ ١ یہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی تہدید کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر تو واقعی سچا ہے تو جا ہم تجھے نہیں مانتے، ہم پر آسمان کا ٹکڑا گرا کر دکھا! الشعراء
188 ١٨٨۔ ١ یعنی تم جو کفر و شرک کر رہے ہو، سب اللہ کے علم میں ہے اور وہی اس کی جزا تمہیں دے گا، اگر چاہے گا تو دنیا میں بھی دے دے گا، یہ عذاب اور سزا اس کے اختیار میں ہے۔ الشعراء
189 ١٨٩۔ ١ انہوں نے بھی کفار مکہ کی طرح آسمانی عذاب مانگا تھا، اللہ نے اس کے مطابق ان پر عذاب نازل فرما دیا اور وہ اس طرح کے بعض روایات کے مطابق سات دن تک ان پر سخت گرمی اور دھوپ مسلط کردی، اس کے بعد بادلوں کا ایک سایہ آیا اور یہ سب گرمی اور دھوپ کی شدت سے بچنے کے لئے اس سائے تلے جمع ہوگئے اور کچھ سکھ کا سانس لیا لیکن چند لمحے بعد ہی آسمان سے آگ کے شعلے برسنے شروع ہوگئے، زمین زلزلے سے لرز اٹھی اور ایک سخت چنگھاڑ نے انھیں ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سلا دیا یوں تین قسم کا عذاب ان پر آیا اور یہ اس دن آیا جس دن ان پر بادل سایہ فگن ہوا، اس لئے فرمایا کہ سائے والے دن کے عذاب نے انھیں پکڑ لیا۔ الشعراء
190 الشعراء
191 الشعراء
192 الشعراء
193 ١٩٣۔ ١ کفار مکہ نے قرآن کے وحی الٰہی اور منزل من اللہ ہونے کا انکار کیا اور اسی بنا پر رسالت محمدیہ اور دعوت محمدیہ کا انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام کے واقعات بیان کرکے یہ واضح کیا کہ یہ قرآن یقینا وحی الٰہی ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ پیغمبر جو پڑھ سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے گزشتہ انبیاء اور قوموں کے واقعات کس طرح بیان کرسکتا تھا ؟ اس لئے یہ قرآن یقینا اللہ رب العالمین ہی کی طرف سے نازل کردہ ہے جسے ایک امانت دار فرشتہ جبرائیل (علیہ السلام) لے کر آئے۔ الشعراء
194 ١٩٤۔ ١ دل کا بطور خاص اس لئے ذکر فرمایا کہ حواس باختہ میں دل ہے سب سے زیادہ ادراک اور حفظ کی قوت رکھتا ہے۔ ١٩٤۔ ٢ یعنی نزول قرآن کی علت ہے۔ الشعراء
195 الشعراء
196 ١٩٦۔ ١ یعنی جس طرح پیغمبر آخری زمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور و بعث کا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کا تذکرہ پچھلی کتابوں میں ہے، اسی طرح اس قرآن کے نزول کی خوشخبری بھی سابقہ آسمانی کتابوں میں دی گئی تھی۔ ایک دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ یہ قرآن مجید، بہ اعتبار ان احکام کے، جن پر شریعتوں کا اتفاق رہا ہے، پچھلی کتابوں میں بھی موجود رہا ہے۔ الشعراء
197 ١٩٧۔ ١ کیونکہ ان کتابوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اور قرآن کا ذکر موجود ہے۔ یہ کفار مکہ، مذہبی معاملات میں یہود کی طرح رجوع کرتے تھے۔ اس اعتبار سے فرمایا کہ کیا ان کا یہ جاننا اور بتلانا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، اللہ کے سچے رسول اور یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ پھر یہود کی اس بات کو مانتے ہوئے پیغمبر پر ایمان کیوں نہیں لاتے؟ الشعراء
198 الشعراء
199 ١٩٩۔ ١ یعنی کسی عجمی زبان میں نازل کرتے تو یہ کہتے کہ یہ ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتا۔ جیسے (وَلَوْ جَعَلْنٰہُ قُرْاٰنًا اَعْجَمِیًّا لَّـقَالُوْا لَوْلَا فُصِّلَتْ اٰیٰتُہٗ ڼءَاَعْجَمِیٌّ وَّعَرَبِیٌّ ۭ قُلْ ہُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہُدًی وَّشِفَاۗءٌ ۭ وَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ فِیْٓ اٰذَانِہِمْ وَقْرٌ وَّہُوَ عَلَیْہِمْ عَمًی ۭ اُولٰۗیِٕکَ یُنَادَوْنَ مِنْ مَّکَانٍۢ بَعِیْدٍ) 41۔ فصلت :44) میں ہے۔ الشعراء
200 ٢٠٠۔ ١ یعنی سَلَکْنَاہ میں ضمیر کا مرجع کفر و تکذیب اور جحود و عناد ہے۔ الشعراء
201 الشعراء
202 الشعراء
203 ٢٠٣۔ ١ لیکن مشاہدہ عذاب کے بعد مہلت نہیں دی جاتی، نہ اس وقت کی توبہ ہی مقبول ہے۔ الشعراء
204 ٢٠٤۔ ١ یہ اشارہ ہے ان کے مطالبے کی طرف جو اپنے پیغمبر سے کرتے رہے ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو عذاب لے آ۔ الشعراء
205 الشعراء
206 الشعراء
207 ٢٠٧۔ ١ یعنی اگر ہم نے انھیں مہلت دے دیں اور پھر انھیں اپنے عذاب کی گرفت میں لیں، تو کیا دنیا کا مال و متاع ان کے کچھ کام آئے گا ؟ یعنی انھیں عذاب سے بچا سکے گا ؟ نہیں یقینا نہیں۔ الشعراء
208 الشعراء
209 ٢٠٩۔ ١ یعنی ارسال رسل اور انزار کے بغیر اگر ہم کسی بستی کو ہلاک کردیتے تو یہ ظلم ہوتا، تاہم ہم نے ایسا ظلم نہیں کیا بلکہ عدل کے تقاضوں کے مطابق ہم نے پہلے ہر بستی میں رسول بھیجے، جنہوں نے اہل بستی کو عذاب الٰہی سے ڈرایا اور اس کے بعد جب انہوں نے پیغمبر کی بات نہیں مانی، تو ہم نے انھیں ہلاک کیا۔ یہی مضمون بنی اسرائیل۔ ١٥ اور قصص۔ ٥٩ وغیرہ میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ الشعراء
210 الشعراء
211 الشعراء
212 ٢١٢۔ ١ ان آیات میں قرآن کی، شیطانی دخل اندازیوں سے، محفوظیت کا بیان ہے۔ ایک تو اس لئے کہ شیا طین کا قرآن لے کر نازل ہونا، ان کے لائق نہیں ہے۔ کیونکہ ان کا مقصد شر و فساد اور منکرات کی اشاعت ہے، جب کہ قرآن کا مقصد نیکی کا حکم اور فروغ اور منکرات کا سد باب ہے گویا دونوں ایک دوسرے کی ضد اور باہم منافی ہیں۔ دوسرے یہ کہ شیاطین اس کی طاقت بھی نہیں رکھتے، تیسرے، نزول قرآن کے وقت شیاطین اس کے سننے سے دور اور محروم رکھے گئے، آسمانوں پر ستاروں کو چوکیدار بنا دیا گیا تھا اور جو بھی شیطان اوپر جاتا یہ ستارے اس پر بجلی بن کر گرتے اور بھسم کردیتے، اس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کو شیاطین سے بچانے کا خصوصی اہتمام فرمایا۔ الشعراء
213 الشعراء
214 ٢١٤۔ ١ پیغمبر کی دعوت صرف رشتہ داروں کے لئے نہیں، بلکہ پوری قوم کے لئے ہوتی ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو پوری نسل انسانی کے لئے ہادی اور رہبر بن کر آئے تھے۔ قریبی رشتہ داروں کو دعوت ایمان، دعوت عام کے منافی نہیں، بلکہ اسی کا ایک حصہ یا اس کا ترجیحی پہلو ہے۔ جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی سب سے پہلے اپنے باپ آزر کو توحید کی دعوت دی تھی۔ اس حکم کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور یَا صَبَاحَا کہہ کر آواز دی۔ یہ کلمہ اس وقت بولا جاتا ہے جب دشمن اچانک حملہ کر دے، اس کے ذریعہ سے قوم کو خبردار کیا جاتا ہے۔ یہ کلمہ سن کر لوگ جمع ہوگئے، آپ نے قریش کے مختلف قبیلوں کے نام لے لے کر فرمایا، بتلاؤ اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ اس پہاڑی کی پشت پر دشمن کا لشکر موجود ہے جو تم پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے، تو کیا تم مانو گے؟ سب نے کہا ہاں، یقینا ہم تصدیق کریں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے نذیر بنا کر بھیجا ہے، میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈراتا ہوں، اس پر ابو لہب نے کہا، تیرے لئے ہلاکت ہو، کیا تو نے ہمیں اس لئے بلایا تھا ؟ اس کے جواب میں یہ سورۃ تبت نازل ہوئی (صحیح بخاری) آپ نے اپنی بیٹی فاطمہ اور اپنی پھوپھی حضرت صفیہ کو بھی فرمایا تم اللہ کے ہاں بچاؤ کا بندوبست کرلو میں وہاں تمہارے کام نہیں آسکوں گا۔ الشعراء
215 الشعراء
216 الشعراء
217 الشعراء
218 الشعراء
219 ٢١٩۔ ١ یعنی جب تو تنہا ہوتا ہے، تب بھی اللہ دیکھتا ہے اور جب لوگوں میں ہوتا ہے تب بھی۔ الشعراء
220 الشعراء
221 الشعراء
222 ٢٢٢۔ ١ یعنی اس قرآن کے نزول میں شیطان کا کوئی دخل نہیں ہے، کیونکہ شیطان تو جھوٹوں اور گنہگاروں (یعنی کاہنوں، نجومیوں وغیرہ) پر اترتے ہیں نہ کہ انبیاء صالحین پر۔ الشعراء
223 ٢٢٣۔ ١ یعنی ایک آدھ بات، جو کسی طرح وہ سننے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، ان کاہنوں کو آکر بتلا دیتے ہیں، جن کے ساتھ وہ جھوٹی باتیں اور بھی ملا لیتے ہیں۔ الشعراء
224 الشعراء
225 الشعراء
226 ٢٢٦۔ ١ شاعروں کی اکثریت چونکہ ایسی ہوتی ہے کہ وہ اصول کی بجائے، ذاتی پسند و ناپسند کے مطابق اظہار رائے کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں غلو اور مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور شاعرانہ تخیلات میں کبھی ادھر اور کبھی ادھر بھٹکتے ہیں، اس لئے فرمایا کہ ان کے پیچھے لگنے والے بھی گمراہ ہیں، اسی قسم کے اشعار کے لئے حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے کہ 'پیٹ کو لہو پیپ سے بھر جانا، جو اسے خراب کر دے، شعر سے بھر جانے سے بہتر ہے ' (ترمذی و مسلم وغیرہ) الشعراء
227 ٢٢٧۔ ١ اس سے ان شاعروں کو مستشنٰی فرما دیا گیا، جن کی شاعری صداقت اور حقائق پر مبنی ہے اور استثنا ایسے الفاظ سے فرمایا جن سے واضح ہوجاتا ہے کہ ایماندار، عمل صلح پر کاربند اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والا شاعر، جس میں جھوٹ، غلو اور افراط اور تفریط ہو، کر ہی نہیں سکتا۔ یہ ان ہی لوگوں کا کام ہے جو مومنانہ صفات سے عاری ہوں۔ ٢٢٧۔ ٢ یعنی ایسے مومن شاعر، ان کافر شعرا کا جواب دیتے ہیں، جس میں انہوں نے مسلمانوں کی (برائی) کی ہو۔ جس طرح حضرت حسان بن ثابت کافروں کی شاعری کا جواب دیا کرتے تھے اور خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو فرماتے کہ ' ان (کافروں) کی ہجو بیان کرو، جبرائیل (علیہ السلام) بھی تمہارے ساتھ ہیں (صحیح بخاری) ٢٢٧۔ ٣ یعنی کون سی جگہ وہ لوٹتے ہیں؟ اور وہ جہنم ہے۔ اس میں ظالموں کے لئے سخت وعید ہے۔ جس طرح حدیث میں بھی فرمایا گیا ہے ' تم ظلم سے بچو! اس لئے کہ ظلم قیامت والے دن اندھیروں کا باعث ہوگا (صحیح مسلم) الشعراء
0 النمل
1 نَمْل، چیو نٹی کو کہتے ہیں۔ اس سورت میں چیونٹیوں کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے اس کو سورۃ نمل کہا جاتا ہے۔ النمل
2 النمل
3 ٣۔ ١ یہ مضمون متعدد جگہ گزر چکا ہے کہ قرآن کریم ویسے تو پوری نسل انسانی کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے لیکن اس سے حقیقتاً راہ یاب وہی ہونگے جو ہدایت کے طالب ہونگے، جو لوگ اپنے دل اور دماغ کی کھڑکیوں کو حق کے دیکھنے اور سننے سے بند یا اپنے دلوں کو گناہوں کی تاریکیوں سے مسخ کرلیں گے، قرآن انھیں کس طرح سیدھی راہ پر لگا سکتا ہے، ان کی مثال اندھوں کی طرح ہے جو سورج کی روشنی سے فیض یاب نہیں ہو سکتے، درآں حالیکہ سورج کی روشنی پورے عالم کی درخشانی کا سبب ہے۔ النمل
4 ٤۔ ١ یہ گناہوں کا وبال اور بدلہ ہے کہ برائیاں ان کو اچھی لگتی ہیں اور آخرت پر عدم ایمان اس کا بنیادی سبب ہے اس کی نسبت اللہ کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ ہر کام اس کی مشیت سے ہی ہوتا ہے، تاہم اس میں بھی اللہ کا وہی اصول کار فرما ہے کہ نیکوں کے لئے نیکی کا راستہ اور بدوں کے لئے بدی کا راستہ آسان کردیا جاتا ہے۔ لیکن ان دونوں میں سے کسی ایک راستے کا اختیار کرنا، یہ انسان کے اپنے ارادے پر منحصر ہے۔ ٤۔ ٢ یعنی گمراہی کے جس راستے پر وہ چل رہے ہوتے ہیں، اس کی حقیقت سے وہ آشنا نہیں ہوتے اور صحیح راستے کی طرف رہنمائی نہیں پاتے۔ النمل
5 النمل
6 النمل
7 ٧۔ ١ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے اپنی اہلیہ کو ساتھ لے کر واپس آرہے تھے، رات کو اندھیرے میں راستے کا علم نہیں تھا اور سردی سے بچاؤ کے لئے آگ کی ضرورت تھی۔ النمل
8 ٨۔ ١ دور سے جہاں آگ کے شعلے لپکتے نظر آئے، وہاں پہنچے یعنی کوہ طور پر، تو دیکھا کہ سر سبز درخت سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے ہیں۔ یہ حقیقت میں آگ نہیں تھی، اللہ کا نور تھا، جس کی تجلی آگ کی طرح محسوس ہوتی تھی مَنْ فَی النَّار میں مَنْ سے مراد اللہ تبارک و تعالیٰ اور نار سے مراد اس کا نور ہے اور وَمَنْ حَوْلَھَا (اس کے ارد گرد) سے مراد موسیٰ اور فرشتے، حدیث میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے حجاب (پردے) کو نور (روشنی) اور ایک روایت میں نار (آگ) سے تعبیر کیا گیا ہے اور فرمایا ہے، کہ ' اگر اپنی ذات کو بے نقاب کر دے تو اس کا جلال تمام مخلوقات کو جلا کر رکھ دے ' (صحیح مسلم) النمل
9 ٩۔ ١ درخت سے ندا کا آنا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے باعث تعجب تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، موسٰی! تعجب نہ کر میں ہی اللہ ہوں۔ النمل
10 ١٠۔ ١ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر عالم الغیب نہیں ہوتے، ورنہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے ہاتھ کی لاٹھی سے نہ ڈرتے دوسرا، طبعی خوف پیغمبر کو بھی لا حق ہوسکتا ہے کیونکہ وہ بھی بالآخر انسان ہی ہوتے ہیں۔ النمل
11 ١١۔ ١ یعنی ظالم کو تو خوف ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کی گرفت نہ فرما لے ١١۔ ٢ یعنی ظالم کی توبہ بھی قبول کرلیتا ہوں۔ النمل
12 ١٢۔ ١ یعنی بغیر برص وغیرہ کی بیماری کے۔ یہ لاٹھی کے ساتھ دوسرا معجزہ انھیں دیا گیا۔ ١٢۔ ٢ فِیْ تسْعِ آیَات یعنی یہ دو معجزے ان ٩ نشانیوں میں سے ہیں، جن کے ذریعے سے میں نے تیری مدد کی ہے۔ انھیں لے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس جا، ان ٩ نشانیوں کی تفصیل کے لئے دیکھئے (وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ اٰیٰتٍۢ بَیِّنٰتٍ فَسْــــَٔـلْ بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ اِذْ جَاۗءَہُمْ فَقَالَ لَہٗ فِرْعَوْنُ اِنِّیْ لَاَظُنُّکَ یٰمُوْسٰی مَسْحُوْرًا) 17۔ الاسراء :101) کا حاشیہ۔ النمل
13 ١٣۔ ١ مُبْصِرَۃً، واضح اور روشن یا اسم فاعل مفعول کے معنی میں ہے النمل
14 ١٤۔ ١ یعنی علم کے باوجود جو انہوں نے انکار کیا تو اس کی وجہ ان کا ظلم اور استکبار تھا۔ النمل
15 ١٥۔ ١ سورت کے شروع میں فرمایا گیا تھا کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے سکھلایا جاتا ہے اس کی دلیل کے طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مختصرا قصہ بیان فرمایا اور اب دوسری دلیل حضرت داؤد (علیہ السلام) و سلیمان (علیہ السلام) کا یہ قصہ ہے انبیا علیہم السلام کے یہ واقعات اس بات کی دلیل ہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں علم سے مراد نبوت کے علم کے علاوہ وہ علم ہے جن سے حضرت داؤد (علیہ السلام) اور سلیمان (علیہ السلام) کو بطور خاص نوازا گیا تھا جیسے حضرت داؤد (علیہ السلام) کو لوہے کی صنعت کا علم اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو جانوروں کی بولیوں کا علم عطا کیا گیا تھا ان دونوں باپ بیٹوں کو اور بھی بہت کچھ عطا کیا گیا تھا لیکن یہاں صرف علم کا ذکر کیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ علم اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ النمل
16 ١٦۔ ١ اس سے مراد نبوت اور بادشاہت کی وراثت ہے، جس کے وارث صرف سلیمان (علیہ السلام) قرار پائے۔ ورنہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے اور بھی بیٹے تھے جو اس کی وراثت سے محروم رہے۔ ویسے بھی انبیاء کی وراثت علم میں ہی ہوتی ہے، جو مال اسباب وہ چھوڑ جاتے ہیں، وہ صدقہ ہوتا ہے، جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (البخاری کتاب الفرائض و مسلم، کتاب الجہاد) ١٦۔ ٢ بولیاں تو تمام جانور کی سکھلائی گئی تھیں لیکن پرندوں کا ذکر بطور خاص اس لئے کیا گیا ہے کہ پرندے سائے کے لئے ہر وقت ساتھ رہتے تھے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ صرف پرندوں کی بولیاں سکھلائی گئی تھیں اور چونٹیاں بھی منجملہ پرندوں کے ہیں۔ (فتح القدیر) ١٦۔ ٣ جس کی ان کو ضرورت تھی، جیسے علم، نبوت، حکمت، مال، جن و انس اور طیور و حیوانات کی تسخیر وغیرہ۔ النمل
17 ١٧۔ ١ اس میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی اس انفرادی خصوصیت و فضیلت کا ذکر ہے، جس میں وہ پوری تاریخ انسانیت میں ممتاز ہیں کہ ان کی حکمرانی صرف انسانوں پر ہی نہ تھی بلکہ جنات، حیوانات اور چرند پرند حتٰی کہ ہوا تک ان کے ماتحت تھی، اس میں کہا گیا ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے تمام لشکر یعنی جنوں، انسانوں اور پرندوں سب کو جمع کیا گیا۔ یعنی کہیں جانے کے لئے یہ لاؤ لشکر جمع کیا گیا۔ ١٧۔ ٢ یعنی سب کو الگ الگ گروہوں میں تقسیم (قسم وار) کردیا جاتا تھا، مثلًا انسانوں، جنوں کا گروہ، پرندوں اور حیوانات کا گروہ وغیرہ وغیرہ۔ النمل
18 ١٨۔ ١ اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ حیوانات میں بھی ایک خاص قسم کا شعور موجود ہوتا ہے۔ گو وہ انسانوں سے بہت کم اور مختلف ہے۔ دوسرا، یہ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اتنی عظمت و فضیلت کے باوجود عالم الغیب نہیں تھے۔ اس لئے چیونٹیوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں بے خبری میں ہم روند نہ دی جائیں۔ تیسرا یہ کہ حیوانات بھی اس عقیدہ صحیحہ سے بہرہ ور تھے اور ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ جیسا کہ آگے آنے والے ہدہد کے واقعے سے بھی اس کی مذید تائید ہوتی ہے۔ چوتھا یہ کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) پرندوں کے علاوہ دیگر جانوروں کی بولیاں بھی سمجھتے تھے۔ یہ علم بطور اعجاز اللہ تعالیٰ نے انھیں عطا فرمایا تھا، جس طرح تسخیر جنات وغیرہ اعجازی شان تھی۔ النمل
19 ١٩۔ ١ چیونٹی جیسی حقیر مخلوق کی گفتگو سن کر سمجھ لینے سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دل میں شکر گزاری کا احساس پیدا ہوا کہ اللہ نے مجھ پر کتنا انعام فرمایا ہے۔ ١٩۔ ٢ اس سے معلوم ہوا کہ جنت مومنوں ہی کا گھر ہے اس میں کوئی بھی اللہ کی رحمت کے بغیر داخل نہیں ہو سکے گا اسی لیے حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سیدھے سیدھے اور حق کے قریب رہو اور یہ بات جان لو کہ کوئی شخص بھی صرف اپنے عمل سے جنت میں نہیں جائے گا صحابہ رضی اللہ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ بھی؟ آپ نے فرمایا ہاں میں بھی اس وقت تک جنت میں نہیں جاؤں گا جب تک اللہ کی رحمت مجھے اپنے دامن میں نہیں ڈھانک لے گی۔ صحیح بخاری۔ النمل
20 ٢٠۔ ١ یعنی موجود تو ہے، مجھے نظر نہیں آرہا یا یہاں موجود ہی نہیں ہے۔ النمل
21 النمل
22 ٢٢۔ ١ احاطہ کے معنی ہیں کسی چیز کی بابت مکمل علم اور معرفت حاصل کرنا ٢٢۔ ٢ سَبَا ایک شخص کے نام پر ایک قوم کا نام بھی تھا اور ایک شہر کا بھی۔ یہاں شہر مراد ہے۔ یہ صنعا (یمن) سے تین دن کے فاصلے پر ہے اور مارب یمن کے نام سے معروف ہے (فتح القدیر) النمل
23 ٢٣۔ ١ یعنی ہدہد کے لئے بھی یہ امر باعث تعجب تھا کہ سبا میں ایک عورت حکمران ہے۔ لیکن آجکل کہا جاتا ہے کہ عورتیں بھی ہر معاملے میں مردوں کے برابر ہیں۔ اگر مرد حکمران ہوسکتا ہے تو عورت کیوں نہیں ہوسکتی، حالانکہ یہ نظریہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ عورت کی سربراہی کے عدم جواز پر قرآن و حدیث میں واضح دلائل موجود ہیں۔ ٢٣۔ ٢ کہا جاتا ہے کہ اس کا طول ٨٠ ہاتھ اور عرض ٤٠ ہاتھ اور انچائی ٣٠ ہاتھ تھی اور اس میں موتی، سرخ یا قوت اور سبز زمرد جڑے ہوئے تھے، واللہ اعلم۔ (فتح القدیر) ویسے یہ قول مبالغے سے خالی نہیں معلوم ہوتا۔ یمن میں بلقیس کا جو محل ٹوٹی پھوٹی شکل میں موجود ہے اس میں اتنے بڑے تخت کی گنجائش نہیں۔ النمل
24 ٢٤۔ ١ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح پرندوں کو یہ شعور ہے کہ غیب کا علم انبیاء بھی نہیں جانتے، جیسا کہ ہدہد نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو کہا کہ میں ایک ایسی اہم خبر لایا ہوں جس سے آپ بھی بے خبر ہیں، اسی طرح وہ اللہ کی وحدانیت کا احساس و شعور بھی رکھتے ہیں۔ اسی لئے یہاں ہدہد نے حیرت و استعجاب کے انداز میں کہا کہ یہ ملکہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے، سورج کی پجاری ہے اور شیطان کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ جس نے ان کے لئے سورج کی عبادت کو بھلا کر کے دکھلایا ہوا ہے۔ النمل
25 ٢٥۔ ١ یعنی آسمان سے بارش برساتا اور زمین سے اس کی مخفی چیزیں نباتات، معدنیات اور دیگر زمینی خزانے ظاہر فرماتا اور نکالتا ہے۔ النمل
26 النمل
27 ٢٧۔ ١ مالک تو اللہ تعالیٰ کائنات کی ہر چیز کا ہے لیکن یہاں صرف عرش عظیم کا ذکر کیا، ایک تو اس لئے کہ عرش الٰہی کائنات کی سب سے بڑی چیز اور سب سے برتر ہے۔ دوسرا، یہ واضح کرنے کے لئے کہ ملکہ سبا کا تخت شاہی بھی، گو بہت بڑا ہے لیکن اسے عرش عظیم سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے جس پر اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق مستوی ہے۔ ہدہد نے چونکہ توحید کا وعظ اور شرک کا رد کیا ہے اور اللہ کی عظمت و شان کو بیان کیا ہے، اس لئے حدیث میں آتا ہے ' چار جانوروں کو قتل مت کرو۔ چیونٹی، شہد کی مکھی، ہدہد اور صرد یعنی لٹورا ' (مسند احمد) النمل
28 ٢٨۔ ١ یعنی ایک جانب ہٹ کر چھپ جا اور دیکھ کہ وہ آپس میں کیا گفتگو کرتے ہیں۔ النمل
29 النمل
30 النمل
31 ٣١۔ ١ جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی بادشاہوں کو خطوط لکھے تھے، جن میں انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔ اسی طرح سلیمان (علیہ السلام) نے بھی اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت بذریعہ خط دی۔ آج کل مکتوب الیہ کا نام خط میں پہلے لکھا جاتا ہے لیکن سلف کا طریقہ یہی تھا جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اختیار کیا کہ پہلے اپنا نام تحریر کیا۔ النمل
32 النمل
33 ٣٣۔ ١ یعنی ہمارے پاس قوت اور اسلحہ بھی ہے اور لڑائی کے وقت نہایت پا مردی سے لڑنے والے بھی ہیں، اس لئے جھکنے اور دبنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٣٣۔ ٢ اس لئے کہ ہم تو آپ کے تابع ہیں، جو حکم ہوگا، بجا لائیں گے۔ النمل
34 ٣٤۔ ١ یعنی طاقت کے ذریعے سے فتح کرتے ہوئے۔ ٣٤۔ ٢ یعنی قتل و غارت گری کرکے اور قیدی بنا کر۔ ٣٤۔ ٣ بعض مفسرین کے نزدیک یہ اللہ کا قول ہے جو ملکہ سبا کی تائید میں ہے اور بعض کے نزدیک یہ بلقیس ہی کا کلام اور اس کا تتمہ ہے اور یہی سیاق کے زیادہ قریب ہے۔ النمل
35 ٣٥۔ ١ اس سے اندازہ ہوجائے گا کہ سلیمان (علیہ السلام) کوئی دنیا دار بادشاہ ہے یا نبی مرسل، جس کا مقصد اللہ کے دین کا غلبہ ہے۔ اگر ہدیہ قبول نہیں کیا تو یقینا اس کا مقصد دین کی اشاعت و سر بلندی ہے، پھر ہمیں بھی اطاعت بغیر چارہ نہیں ہوگا۔ النمل
36 ٣٦۔ ١ یعنی تم دیکھ نہیں رہے، کہ اللہ نے مجھے ہر چیز سے نوازا ہوا ہے۔ پھر تم اس ہدئیے سے میرے مال و دولت میں کیا اضافہ کرسکتے ہو؟ یہ دریافت کرنا انکاری ہے۔ یعنی کوئی اضافہ نہیں کرسکتے۔ ٣٦۔ ٢ یہ بطور توبیخ کے کہا کہ تم اس ہدیئے پر فخر کرو اور خوش ہو، میں تو اس سے خوش ہونے سے رہا، اس لئے کہ ایک تو دنیا میرا مقصود ہی نہیں۔ دوسرے اللہ نے مجھے وہ کچھ دیا ہے جو پورے جہان میں کسی کو نہیں دیا۔ تیسرے، مجھے نبوت سے بھی سرفراز کیا گیا ہے۔ النمل
37 ٣٧۔ ١ یہاں صیغہ واحد سے مخاطب کیا جب کہ اس سے قبل صیغہ جمع سے خطاب کیا تھا کیونکہ خطاب میں کبھی پوری جماعت کو ملحوظ رکھا گیا ہے کبھی امیر کو۔ ٣٧۔ ٢ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نرے بادشاہ ہی نہیں تھے، اللہ کے پیغمبر بھی تھے۔ اس لئے ان کی طرف سے لوگوں کو ذلیل خوار کیا جانا ممکن نہیں تھا، لیکن جنگ و قتال کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کیونکہ جنگ نام ہی کشت و خون اور اسیری کا ہے اور ذلت و خواری سے یہی مراد ہے، ورنہ اللہ کے پیغمبر لوگوں کو خواہ مخواہ ذلیل خوار نہیں کرتے۔ جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا طرز عمل اور اسوہ، حسنہ جنگوں کے موقع پر رہا۔ النمل
38 ٣٨۔ ١ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اس جواب سے ملکہ نے اندازہ لگا لیا کہ وہ سلیمان (علیہ السلام) کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے چنانچہ انہوں نے مطیع و منقاد ہو کر آنے کی تیاری شروع کردی۔ سلیمان (علیہ السلام) کو بھی ان کی آمد کی اطلاع مل گئی تو آپ نے انھیں مذید اپنی اعجازی شان دکھانے کا پروگرام بنایا اور انکے پہنچنے سے قبل ہی اس کا تخت شاہی اپنے پاس منگوانے کا بندوبست کیا۔ النمل
39 ٣٩۔ ١ اس سے وہ مجلس مراد ہے، جو مقدمات کی سماعت کے لئے حضرت سلیمان (علیہ السلام) صبح سے نصف النہار تک منعقد فرماتے تھے۔ ٣٩۔ ٢ اس سے معلوم ہوا کہ وہ یقینا ایک جن ہی تھا جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مقابلے میں غیر معمولی قوتوں سے نوازا ہے کیونکہ کسی انسان کے لیے چاہے وہ کتنا ہی زور آور ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ بیت المقدس سے مآرب یمن جائے اور پھر وہاں سے تخت شاہی اٹھا لائے اور ڈیڑھ ہزار میل کا یہ فاصلہ جسے دو طرفہ شمار کیا جائے تو تین ہزار میل بنتا ہے تین یا چار گھنٹے میں ٍطے کرلے ایک طاقتور سے طاقتور انسان بھی اول تو اتنے بڑے تخت کو اٹھا ہی نہیں سکتا اور اگر وہ مختلف لوگوں یا چیزوں کا سہارا لے کر اٹھوا بھی لے تو اتنی قلیل مدت میں اتنا سفر کیوں کر ممکن ہے۔ ٣٩۔ ٣ یعنی میں اسے اٹھا کر لا بھی سکتا ہوں اور اس کی کسی چیز میں ہیرا پھیری بھی نہیں کروں گا۔ النمل
40 ٤٠۔ ١ یہ کون شخص تھا جس نے یہ کہا ؟ یہ کتاب کون سی تھی؟ اور یہ علم کیا تھا، جس کے زور پر یہ دعویٰ کیا گیا ؟ اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں، ان تینوں کی پوری حقیقت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ یہاں قرآن کریم کے الفاظ سے جو معلوم ہوتا ہے وہ اتنا ہی ہے کہ وہ کوئی انسان ہی تھا، جس کے پاس کتاب الٰہی کا علم تھا، اللہ تعالیٰ نے کرامات اور اعجاز کے طور پر اسے یہ قدرت دے دی کہ پلک جھپکتے میں وہ تخت لے آیا۔ کرامت اور معجزہ نام ہی ایسے کاموں کا ہے جو ظاہری اسباب اور امور عادیہ کے یکسر خلاف ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے ہی ظہور پذیر پاتے ہیں۔ اس لئے نہ شخصی قوت قابل تعجب ہے اور نہ اس علم کا سراغ لگانے کی ضرورت، جس کا ذکر یہاں ہے۔ کیونکہ یہ تو اس شخص کا تعارف ہے جس کے ذریعے سے یہ کام ظاہری طور پر انجام پایا، ورنہ حقیقت میں تو یہ مشیت الٰہی ہی کی کار فرمائی ہے جو چشم زدن میں، جو چاہے، کرسکتی ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے، اس لئے انہوں نے دیکھا کہ تخت موجود ہے تو اسے فضل ربی سے تعبیر کیا۔ النمل
41 ٤١۔ ١ یعنی اس کے رنگ روپ یا واضح و شکل شباہت میں تبدیلی کردو۔ ٤١۔ ٢ یعنی وہ اس بات سے آگاہ ہوتی ہے کہ یہ تخت اسی کا ہے یا اس کو سمجھ نہیں پاتی؟ دوسرا مطلب ہے کہ وہ راہ ہدایت پاتی ہے یا نہیں؟ یعنی اتنا بڑا معجزہ دیکھ کر بھی اس پر راہ ہدایت واضح ہوتی ہے یا نہیں؟ النمل
42 ٤٢۔ ١ ردو بدل سے چونکہ اس کی وضع شکل میں کچھ تبدیلی آگئی تھی، اس لئے اس نے صاف الفاظ میں اس کے اپنے ہونے کا اقرار بھی نہیں کیا اور ردو بدل کے باوجود انسان پھر بھی اپنی چیز کو پہچان لیتا ہے، اس لئے اپنے ہونے کی نفی بھی نہیں کی۔ اور یہ کہا ' گویا یہ وہی ہے ' اس میں اقرار ہے نہ نفی۔ بلکہ نہایت محتاط جواب ہے۔ ٤٢۔ ٢ یعنی یہاں آنے سے قبل ہی ہم سمجھ گئے تھے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں اور آپ کے مطیع و منقاد ہوگئے تھے۔ لیکن امام ابن کثیر و شوکانی وغیرہ نے اسے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قول قرار دیا ہے کہ ہمیں پہلے ہی یہ علم دے دیا گیا تھا کہ ملکہ سبا تابع فرمان ہو کر حاضر خدمت ہوگی۔ النمل
43 ٤٣۔ ١ یعنی اسے اللہ کی عبادت سے جس چیز نے روک رکھا تھا وہ غیر اللہ کی عبادت تھی، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا تعلق ایک کافر قوم سے تھا، اس لئے توحید کی حقیقت سے بے خبر رہی، یعنی اللہ نے یا اللہ کے حکم سے سلیمان (علیہ السلام) نے اسے غیر اللہ کی عبادت سے روک دیا ؛ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے (فتح القدیر) النمل
44 ٤٤۔ ١ یہ محل شیشے کا بنا ہوا تھا، جس کا صحن اور فرش بھی شیشے کا تھا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنی نبوت کے اعجازی مظاہرے دکھانے کے بعد مناسب سمجھا کہ اسے اپنی دنیاوی شان و شوکت کی بھی ایک جھلک دکھلا دی جائے جس میں اللہ نے انھیں تاریخ انسانیت میں ممتاز کیا تھا۔ چنانچہ اس محل میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا، جب وہ داخل ہونے لگی تو اس نے اپنے پانچے چڑھا لئے۔ شیشے کا فرش اسے پانی معلوم ہوا جس سے اپنے کپڑوں کو بچانے کے لئے اس نے کپڑے سمیٹ لئے۔ ٤٤۔ ٢ یعنی جب اس پر فرش کی حقیقت واضح ہوئی تو اپنی کوتاہی اور غلطی کا بھی احساس ہوگیا اور اعتراف قصور کرتے ہوئے مسلمان ہونے کا اعلان کردیا صاف چکنے گھڑے ہوئے پتھروں کو ممرد کہا جاتا ہے اسی سے مراد ہے جو اس خوش شکل بچے کو کہا جاتا ہے جس کے چہرے پر ابھی ڈاڑھی مونچھ نہ ہو جس درخت پر پتے نہ ہوں اسے شجرۃ مرداء کہا جاتا ہے۔ فتح القدیر۔ لیکن یہاں یہ تعبیر یا جڑاؤ کے معنی میں ہے یعنی شیشوں کا بنا ہوا یا جڑا ہوا محل۔ ملحوظہ : ملکہ سبا بلقیس کے مسلمان ہونے کے بعد کیا ہوا ؟ قرآن میں یا کسی صحیح حدیث میں اس کی تفصیل نہیں ملتی تفسیری روایات میں یہ ضرور ملتا ہے کہ ان کا باہم نکاح ہوگیا تھا لیکن جب قرآن و حدیث اس صراحت سے خاموش ہیں تو اس کی بابت خاموشی ہی بہتر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ النمل
45 ٤٥۔ ١ ان سے مراد کافر اور مومن ہیں، جھگڑنے کا مطلب ہر فریق کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ حق پر ہے۔ النمل
46 ٤٦۔ ١ یعنی ایمان قبول کرنے کی بجائے، تم کفر ہی پر کیوں اصرار کر رہے ہو، جو عذاب کا باعث ہے۔ علاوہ ازیں اپنے عناد و سرکشی کی وجہ سے کہتے بھی تھے کہ ہم پر عذاب لے آ۔ جس کے جواب میں حضرت صالح (علیہ السلام) نے یہ کہا۔ النمل
47 ٤٧۔ ١ عرب جب کسی کام کا یا سفر کا ارادہ کرتے تو پرندے کو اڑاتے اگر وہ دائیں جانب اڑتا تو اسے نیک شگون سمجھتے اور وہ کام کر گزرتے یا سفر پر روانہ ہوجاتے اور اگر بائیں جانب اڑتا تو بد شگونی سمجھتے اور اس کام یا سفر سے رک جاتے (فتح القدیر) اسلام میں یہ بدشگونی اور نیک شگونی جائز نہیں ہے البتہ فال نکالنا جائز ہے ٤٧۔ ٢ یعنی اہل ایمان نحوست کا باعث نہیں ہیں جیسا کہ تم سمجھتے ہو بلکہ اس کا اصل سبب اللہ ہی کے پاس ہے کیونکہ قضا وتقدیر اسی کے اختیار میں ہے مطلب یہ ہے کہ تمہیں جو نحوست پہنچی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور اس کا سبب تمہارا کفر ہے۔ فتح القدیر ٤٧۔ ٣ یا گمراہی میں ڈھیل دے کر تمہیں آزمایا جا رہا ہے۔ النمل
48 النمل
49 ٤٩۔ ١ یعنی صالح (علیہ السلام) کو اور اس کے گھر والوں کو قتل کردیں گے، یہ قسمیں انہوں نے اس وقت کھائیں، جب اونٹنی کے قتل کے بعد حضرت صالح (علیہ السلام) نے کہا کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عذاب کے آنے سے قبل ہی ہم صالح (علیہ السلام) اور ان کے گھر والوں کا صفایا کردیں۔ ٤٩۔ ٢ یعنی ہم قتل کے وقت وہاں موجود نہ تھے ہمیں اس بات کا علم ہے کہ کون انھیں قتل کر گیا ہے۔ النمل
50 ٥٠۔ ١ ان کا مکر یہی تھا کہ انہوں نے باہم حلف اٹھایا کہ رات کی تاریکی میں اس منصوبہ قتل کو بروئے کار لائیں اور تین دن پورے ہونے سے پہلے ہی ہم صالح (علیہ السلام) اور ان کے گھر والوں کو ٹھکانے لگا دیں۔ ٥٠۔ ٢ یعنی ہم نے ان کی اس سازش کا بدلہ دیا اور انھیں ہلاک کردیا۔ اسے بھی مَکَرْنَا مَکْرًا کے طور پر تعبیر کیا گیا۔ ٥٠۔ ٣ اللہ کی اس تدبیر (مکر) کو سمجھتے ہی نہ تھے۔ النمل
51 ٥١۔ ١ یعنی ہم نے مذکورہ ٩ سرداروں کو ہی نہیں، بلکہ ان کی قوم کو بھی مکمل طور پر ہلاک کردیا۔ کیونکہ وہ قوم ہلاکت کے اصل سبب کفر میں مکمل طور پر ان کے ساتھ شریک تھی اور گو عملی طور ان کے منصوبہ قتل میں شریک نہ ہوسکی تھی۔ کیونکہ یہ منصوبہ خفیہ تھا۔ لیکن ان کی منشاء اور دلی آرزو کے عین مطابق تھا اس لئے وہ بھی گویا اس مکر میں شریک تھی جو ٩ افراد نے حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کے اہل کے خلاف تیار کیا تھا۔ اس لئے پوری قوم ہی ہلاکت کی مستحق قرار پائی۔ النمل
52 النمل
53 النمل
54 ٥٤۔ ١ یعنی لوط (علیہ السلام) کا قصہ یاد کرو، جب لوط (علیہ السلام) نے کہا یہ قوم عموریہ اور سدوم بستیوں میں رہائش پذیر تھی۔ ٥٤۔ ٢ یعنی یہ جاننے کے باوجود کہ یہ بے حیائی کا کام ہے۔ یہ بصارت قلب ہے۔ اور اگر بصارت ظاہری یعنی آنکھوں سے دیکھنا مراد ہو تو معنی ہونگے کہ نظروں کے سامنے یہ کام کرتے ہو، یعنی تمہاری سرکشی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ چھپنے کا تکلف بھی نہیں کرتے ہو۔ النمل
55 ٥٥۔ ١ یہ تکرار توبیخ کے لئے ہے کہ یہ بے حیائی وہی لواطت ہے جو تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے غیر فطری شہوت رانی کے طور پر کرتے ہو۔ ٥٥۔ ٢ یا اس کی حرمت سے یا اس معصیت کی سزا سے تم بے خبر ہو۔ ورنہ شاید یہ کام نہ کرتے۔ النمل
56 ٥٦۔ ١ بطور طنز اور استہزاء کے کہا۔ النمل
57 ٥٧۔ ١ یعنی پہلے ہی اس کی بابت یہ اندازہ یعنی تقدیر الٰہی میں تھا وہ انہی پیچھے رہ جانے والوں میں ہوگی جو عذاب سے دو چار ہونگے۔ النمل
58 ٥٨۔ ١ ان پر عذاب آیا، اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے کہ ان کی بستیوں کو الٹ دیا گیا اور کھنگرو کی بارش ہوئی۔ ٥٨۔ ٢ یعنی جنہیں پیغمبروں کے ذریعے سے ڈرایا گیا اور ان پر حجت قائم کردی گئی لیکن وہ تکذیب وانکار سے باز نہیں آئے۔ النمل
59 ٥٩۔ ١ جن کو اللہ نے رسالت اور بندوں کی رہنمائی کے لئے چنا تاکہ لوگ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں۔ ٥٩۔ ٢ یہ استفہام تقریری ہے یعنی اللہ ہی کی عبادت بہتر ہے کیونکہ جب خالق رازق اور مالک یہی ہے تو عبادت کا مستحق کوئی دوسرا کیوں کر ہوسکتا ہے جو نہ کسی چیز کا خالق ہے نہ رازق اور مالک خیر اگرچہ تفضیل کا صیغہ ہے لیکن یہاں تفضیل کے معنی میں نہیں ہے مطلق بہتر کے معنی میں ہے اس لیے کہ معبودان باطلہ میں تو سرے سے کوئی خیر ہے ہی نہیں۔ النمل
60 ٦ ٠۔ ١ یہاں سے پچھلے جملے کی تشریح اور اس کے دلائل دئیے جا رہے ہیں کہ وہی اللہ پیدائش، رزق اور تدبیر وغیرہ میں متفرد ہے۔ کوئی اسکا شریک نہیں ہے۔ فرمایا آسمانوں کو اتنی بلندی اور خوبصورتی کے ساتھ بنانے والا، ان میں درخشاں کواکب، روشن ستارے اور گردش کرنے والے افلاک بنانے والا اسی طرح زمین اور آسمان سے بارش برسا کر اس کے ذریعے سے بارونق باغات اگانے والا کون ہے؟ کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو زمین سے درخت ہی اگا کر دکھا دے؟ ان سب کے جواب میں مشرکین بھی کہتے اور اعتراف کرتے تھے کہ یہ سب کچھ کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، جیسا کہ قرآن میں دوسرے مقام پر ہے۔ (وَلَیِٕنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِہَا لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ ۭ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ ۭ بَلْ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ) 29۔ العنکبوت :63) ٦ ٠۔ ٢ یعنی ان سب حقیقتوں کے باوجود کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی ہستی ایسی ہے، جو عبادت کے لائق ہو؟ یا جس نے ان میں سے کسی چیز کو پیدا کیا ہو؟ یعنی کوئی ایسا نہیں جس نے کچھ بنایا ہو یا عبادت کے لائق ہو۔ امن کا ان آیات میں مفہوم یہ ہے کہ کیا وہ ذات جو ان تمام چیزوں کو بنانے والی ہے۔ اس شخص کی طرح ہے جو ان میں سے کسی چیز پر قادر نہیں؟ (ابن کثیر) ٦ ٠۔ ٣ اس کا دوسرا ترجمہ ہے کہ وہ لوگ اللہ کا ہمسر اور نظیر ٹھہراتے ہیں۔ النمل
61 ٦١۔ ١ یعنی ساکن اور ثابت، نہ ہلتی ہے، نہ ڈولتی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین پر رہنا ممکن ہی نہ ہوتا زمین پر بڑے بڑے پہاڑ بنانے کا مقصد بھی زمین کو حرکت کرنے سے اور ڈولنے سے روکنا ہی ہے۔ ٦١۔ ٢ اس کی تشریح کے لئے دیکھیں (وَہُوَ الَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ ۚ وَجَعَلَ بَیْنَہُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا) 25۔ الفرقان :53) کا حاشیہ۔ النمل
62 ٦٢۔ ١ یعنی وہی اللہ ہے جسے سختی کے وقت پکارا جاتا اور مصیبتوں کے وقت جس سے امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں اس کی طرف رجوع کرتا اور برائی کو وہی دور کرتا ہے۔ مزید ملاحظہ ہو سورۃ الا سراء۔ ٦٧ سورۃ النمل۔ ٥٣ ٦٢۔ ٢ یعنی ایک امت کے بعد دوسری، ایک قوم کے بعد دوسری قوم اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل پیدا کرنا ہے۔ ورنہ اگر وہ سب کو ایک ہی وقت میں وجود بخش دیتا تو زمین تنگ ہونے کا شکوہ کرتی معیشت میں بھی دشواریاں پیدا ہوتیں اور سب کو ایک دوسرے کی ٹانگ کھنچنے میں ہی مصروف و سرگرداں رہتے۔ یعنی یکے بعد دیگرے انسانوں کو پیدا کرنا اور ایک کو دوسرے کا جانشین بنانا، یہ بھی اس کی کمال مہربانی ہے۔ النمل
63 ٦٣۔ ١ یعنی آسمانوں پر ستاروں کو درخشانی عطا کرنے والا کون ہے؟ جن سے تم تاریکیوں میں راہ پاتے ہو، پہاڑوں اور وادیوں کا پیدا کرنے والا کون ہے جو ایک دوسرے کے لئے سرحدوں کا کام بھی دیتے ہیں اور راستوں کی نشان دہی کا بھی۔ ٦٣۔ ٢ یعنی بارش سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں، جو بارش کی خوشخبری ہی نہیں ہوتیں، بلکہ ان سے خشک سالی کے مارے ہوئے لوگوں میں خوشی کی لہر بھی دوڑ جاتی ہے۔ النمل
64 ٦٤۔ ١ یعنی قیامت والے دن تمہیں دوبارہ زندگی عطا فرمائے گا۔ ٦٤۔ ٢ یعنی آسمان سے بارش نازل فرما کر، زمین سے اس کے چھپے خزانے (غلہ جات اور میوے) پیدا فرماتا ہے اور یوں آسمان و زمین کی برکتوں کو کھول دیتا ہے۔ النمل
65 ٦٥۔ ١ یعنی جس طرح مذکورہ معاملات میں اللہ تعالیٰ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی طرح غیب کے علم میں بھی وہ متفرد ہے۔ اس کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ نبیوں اور رسولوں کو بھی اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنا اللہ تعالیٰ وحی اور الہام کے ذریعے سے انھیں بتلا دیتا ہے اور جو علم کسی کے بتلانے سے حاصل ہو، اس کے عالم کو عالم الغیب نہیں کہا جاتا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جو شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئندہ کل پیش آنے والے حالات کا علم رکھتے ہیں، اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا اس لئے کہ وہ تو فرما رہا ہے کہ آسمان و زمین میں غیب کا علم صرف اللہ کو ہے ' (صحیح بخاری) حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ستارے تین مقاصد کے لیے بنائے ہیں۔ آسمان کی زینت، رہنمائی کا ذریعہ اور شیطان کو سنگسار کرنا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے احکام سے بے خبر لوگوں نے ان سے غیب کا علم حاصل کرنے (کہانت) کا ڈھونگ رچا لیا ہے۔ مثلا کہتے ہیں جو فلاں فلاں ستارے کے وقت نکاح کرے گا تو یہ یہ ہوگا فلاں فلاں ستارے کے وقت سفر کرے گا تو ایسا ایسا ہوگا۔ فلاں فلاں ستارے کے وقت پیدا ہوگا تو ایسا ایسا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ ان کے قیاسات کے خلاف اکثر ہوتا رہتا ہے۔ ستاروں، پرندوں اور جانوروں سے غیب کا علم کس طرح حاصل ہوسکتا ہے؟ جبکہ اللہ کا فیصلہ تو یہ ہے کہ آسمان و زمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔ (ابن کثیر) النمل
66 (١) یعنی ان کا علم آخرت کے وقوع کا وقت جاننے سے عاجز ہے۔ النمل
67 النمل
68 ٦٨۔ ١ یعنی اس میں حقیقت کوئی نہیں، بس ایک دوسرے سے سن کر یہ کہتے چلے آ رہے ہیں۔ النمل
69 (١) یہ ان کافروں کے قول کا جواب ہے کہ پچھلی قوموں کو دیکھو کہ کیا ان پر اللہ کا عذاب نہیں آیا ؟ جو پیغمبروں کی صداقت کی دلیل ہے۔ اسی طرح قیامت اور اس زندگی کے بارے میں بھی ہمارے رسول جو کہتے ہیں، یقینا سچ ہے۔ النمل
70 النمل
71 النمل
72 ٧٢۔ ١ اس سے مراد جنگ بدر کا وہ عذاب ہے جو قتل اور اسیری کی شکل میں کافروں کو پہنچایا یا عذاب قبر ہے رَدِفَ، قرب کے معنی میں ہے، جیسے سواری کی عقبی نشست پر بیٹھنے والے کو ردیف کہا جاتا ہے۔ النمل
73 ٧٣۔ ١ یعنی عذاب میں تاخیر، یہ بھی اللہ کے فضل و کرم کا ایک حصہ ہے، لیکن لوگ پھر بھی اس سے انکار کر کے ناشکری کرتے ہیں۔ النمل
74 النمل
75 ٧٥۔ ١ اس سے مراد لوح محفوظ ہے۔ ان ہی غائب چیزوں میں اس عذاب کا علم بھی ہے جس کے لئے یہ کفار جلدی مچاتے ہیں لیکن اس کا وقت بھی اللہ نے لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے جسے صرف وہی جانتا ہے اور جب وہ وقت آ جاتا ہے جو اس نے کسی قوم کی تباہی کے لئے لکھ رکھا ہے، تو پھر اسے تباہ کردیتا ہے۔ یہ مقررہ وقت آنے سے پہلے جلدی کیوں کرتے ہیں؟ النمل
76 ٧٦۔ ١ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئے تھے۔ ان کے عقائد بھی ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ یہود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی توہین کرتے تھے اور عیسائی ان کی شان میں غلو۔ حتٰی کہ انہیں، اللہ یا اللہ کا بیٹا قرار دے دیا۔ قرآن کریم نے ان کے حوالے سے ایسی باتیں بیان فرمائیں، جن سے حق واضح ہوجاتا ہے اور اگر وہ قرآن کے بیان کردہ حقائق کو مان لیں تو ان کے عقائدی اختلاف اور تفریق و انتشار کم ہوسکتا ہے۔ النمل
77 ٧٧۔ ١ مومنوں کا اختصاص اس لئے کہ وہی قرآن سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ انھیں میں وہ بنی اسرائیل بھی ہیں جو ایمان لے آئے تھے۔ النمل
78 ٧٨۔ ١ یعنی قیامت میں ان کے اختلافات کا فیصلہ کر کے حق کو باطل سے ممتاز کر دے گا اور اس کے مطابق جزا و سزا کا اہتمام فرمائے گا یا انہوں نے اپنی کتابوں میں جو تعریفیں کی ہیں، دنیا میں ہی ان کا پردہ چاک کر کے ان کے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔ النمل
79 ٧٩۔ ١ یعنی اپنا معاملہ اسی کے سپرد کردیں اور اسی پر اعتماد کریں، وہی آپ کا مددگار ہے۔ النمل
80 ٨٠۔ ١ یہ ان کافروں کی پروا نہ کرنے اور صرف اللہ پر بھروسہ رکھنے کی دوسری وجہ ہے کہ یہ لوگ مردہ ہیں جو کسی کی بات سن کر فائدہ نہیں اٹھا سکتے یا بہرے ہیں جو سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں اور نہ راہ یاب ہونے والے ہیں۔ گویا کافروں کو مردوں سے تشبیہ دی جن میں حس ہوتی ہے نہ عقل اور بہروں سے، جو وعظ و نصیحت سنتے ہیں نہ دعوت الی اللہ قبول کرتے ہیں۔ النمل
81 ٨١۔ ١ یعنی جن کو اللہ تعالیٰ حق سے اندھا کر دے، آپ ان کی اس طرح رہنمائی نہیں فرما سکتے جو انھیں مطلوب یعنی ایمان تک پہنچا دے۔ النمل
82 ٨٢۔ ١ یعنی جب نیکی کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا نہیں رہ جائے گا۔ ٨٢۔ ٢ یہ وہی ہے جو قرب قیامت کی علامات میں سے ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو، ان میں ایک جانور نکلنا ہے۔ (صحیح بخاری) دوسری روایت میں ہے ' سب سے پہلی نشانی جو ظاہر ہوگی، وہ ہے سورج کا مشرق کی بجائے، مغرب سے طلوع ہونا اور چاشت کے وقت جانور کا نکلنا۔ ان دونوں میں سے جو پہلے ظاہر ہوگی، دوسری اس کے فوراً بعد ظاہر ہوجائے گی (صحیح بخاری) النمل
83 ٨٣۔ ١ یا قسم قسم کردیئے جائیں گے۔ یعنی زانیوں کا ٹولہ، شرابیوں کا ٹولہ وغیرہ۔ یا یہ معنی ہیں کہ ان کو روکا جائے گا۔ یعنی ان کو ادھر ادھر اور آگے پیچھے ہونے سے روکا جائے گا اور سب کو ترتیب وار لا کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ النمل
84 ٨٤۔ ١ یعنی تم نے میری توحید اور دعوت کے دلائل سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کہ اور اس کے بغیر ہی میری آیتوں کو جھٹلاتے رہے۔ ٨٤۔ ٢ جس کی وجہ سے تمہیں میری باتوں پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ النمل
85 ٨٥۔ ١ یعنی ان کے پاس کوئی عذر نہیں ہوگا کہ جسے وہ پیش کرسکیں۔ یا قیامت کی ہولناکیوں کی وجہ سے بولنے کی قدرت سے ہی محروم ہونگے اور بعض کے نزدیک یہ اس وقت کی کیفیت کا بیان ہے جب ان کے منہوں پر مہر لگا دی جائے گی۔ النمل
86 ٨٦۔ ١ تاکہ وہ اس میں کسب معاش کے لئے دوڑ دھوپ کرسکیں۔ النمل
87 ٨٧۔ ١ صور سے مراد وہی قرن ہے جس میں اسرائیل (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے پھونک ماریں گے پہلی پھونک میں ساری دنیا گھبرا کر بے ہوش اور دوسری پھونک میں موت سے ہم کنار ہوجائے گی اور تیسری پھونک میں سب لوگ قبروں سے زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہونگے جس سے سب لوگ میدان محشر میں اکھٹے ہوجائیں گے۔ یہاں کون سا نفحہ مراد ہے؟ امام ابن کثیر کے نزدیک یہ پہلا نفحہ اور امام شوکانی کے نزدیک تیسرا نفحہ ہے جب لوگ قبروں سے اٹھیں گے۔ ٨٧۔ ٢ یہ مشتثنٰی لوگ کون ہونگے۔ بعض کے نزدیک انبیاء و شہدا، بعض کے نزدیک فرشتے اور بعض کے نزدیک سب اہل ایمان ہیں۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ ممکن ہے کہ تمام مذکورین ہی اس میں شامل ہوں کیونکہ اہل ایمان حقیقی گھبراہٹ سے محفوظ ہوں گے۔ النمل
88 ٨٨۔ ١ یہ قیامت والے دن ہوگا کہ پہاڑ اپنی جگہوں پر نہیں رہیں گے بلکہ بادلوں کی طرح چلیں گے اور اڑیں گے۔ ٨٨۔ ٢ یعنی یہ اللہ کی عظیم قدرت سے ہوگا جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا ہے۔ لیکن وہ ان مضبوط چیزوں کو بھی روئی کے گالوں کی طرح کردینے پر قادر ہے۔ النمل
89 ٨٩۔ ١ یعنی حقیقی اور بڑی گھبراہٹ سے وہ محفوظ ہوں گے۔ النمل
90 النمل
91 ٩١۔ ١ اس سے مراد مکہ شہر ہے اس کا بطور خاص اس لئے ذکر کیا ہے کہ اسی میں خانہ کعبہ ہے اور یہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی سب سے زیادہ محبوب تھا ' حرمت والا ' کا مطلب ہے اس میں خون ریزی کرنا، ظلم کرنا، شکار کرنا درخت کاٹنا حتّٰی کہ کانٹا توڑنا بھی منع ہے (بخاری کتاب الجنائز) النمل
92 ٩٢۔ ١ یعنی میرا کام صرف تبلیغ ہے۔ میری دعوت و تبلیغ سے مسلمان ہوجائے گا، اس میں اسی کا فائدہ ہے کہ اللہ کے عذاب سے بچ جائے گا، اور جو میری دعوت کو نہیں مانے گا، تو میرا کیا ؟ اللہ تعالیٰ خود ہی اس سے حساب لے لے گا اور اسے جہنم کے عذاب کا مزہ چکھائے گا۔ النمل
93 ٩٣۔ ١ کہ جو کسی کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتا جب تک دلیل قائم نہیں کردیتا۔ ٩٣۔ ٢ ہم انھیں آفاق وانفس میں اپنی نشانیاں دکھلائیں گے تاکہ ان پر حق واضح ہوجائے اگر زندگی میں یہ نشانیاں دیکھ کر ایمان نہیں لاتے تو موت کے وقت تو ان نشانیوں کو دیکھ کر ضرور پہچان لیتے ہیں۔ لیکن اس وقت کی معرفت کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی، اس لئے کہ اس وقت ایمان مقبول نہیں۔ ٩٣۔ ٢ بلکہ ہر چیز کو وہ دیکھ رہا ہے۔ اس میں کافروں کے لئے ترہیب شدید اور تہدید عظیم ہے۔ النمل
0 القصص
1 القصص
2 القصص
3 ٣۔ ١ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں کیونکہ وحی الٰہی کے بغیر صدیوں قبل کے واقعات بالکل اس طریقے سے بیان کردینا جس طرح پیش آتے ناممکن ہے، تاہم اس کے باوجود اس سے فائدہ اہل ایمان ہی کو ہوگا کیونکہ وہی آپ کی باتوں کی تصدیق کریں گے۔ القصص
4 ٤۔ ١ یعنی ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا تھا اور اپنے کو بڑا معبود کہلاتا تھا۔ ٤۔ ٢ جن کے ذمے الگ الگ کام اور ڈیوٹیاں تھیں۔ ٤۔ ٣ اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں، جو اس وقت کی افضل ترین قوم تھی لیکن آزمائش کے طور پر فرعون کی غلام اور اس کی ستم زانیوں کا تختہ مشق بنی ہوئی تھی۔ ٤۔ ٤ جس کی وجہ بعض نجومیوں کی پیش گوئی تھی کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے ایک بچے کے ہاتھوں فرعون کی ہلاکت اور اس کی سلطنت کا خاتمہ ہوگا۔ جس کا حل اس نے یہ نکالا کہ ہر پیدا ہونے والا اسرائیلی بچہ قتل کردیا جائے۔ حالانکہ اس احمق نے یہ نہیں سوچا کہ اگر کاہن سچا ہے تو ایسا یقینا ہو کر رہے گا چاہے وہ بچے قتل کرواتا رہے اور اگر وہ جھوٹا ہے تو قتل کروانے کی ضرورت ہی نہیں تھی (فتح القدیر) بعض کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف سے یہ خوشحبری منتقل ہوتی چلی آ رہی تھی کہ ان کی نسل سے ایک بچہ ہوگا جسکے ہاتھوں سلطنت مصر کی تباہی ہوگی۔ قبیلوں نے یہ بشارت بنی اسرائیل سے سنی اور فرعون کو اس سے آگاہ کردیا جس پر اس نے بنی اسرائیل کے بچوں کو مروانا شروع کردیا۔ (ابن کثیر) القصص
5 ٥۔ ١ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس کمزور اور غلام قوم کو مشرق و مغرب کا وارث (مالک و حکمران) بنا دیا نیز انھیں دین کا پیشوا اور امام بھی بنا دیا۔ القصص
6 ٦۔ ١ یہاں زمین سے مراد ارض شام ہے جہاں وہ کنعانیوں کی زمین کے وارث بنے کیونکہ مصر سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل مصر واپس نہیں گئے، واللہ اعلم۔ ٦۔ ٢ یعنی انھیں جو اندیشہ تھا کہ ایک اسرائیلی کے ہاتھوں فرعون کی اور اس کے ملک و لشکر کی تباہی ہوگی، ان کے اس اندیشے کو ہم نے حقیقت کر دکھایا۔ القصص
7 ٧۔ ١ وحی سے مراد یہاں دل میں بات ڈالنا ہے، وہ وحی نہیں ہے، جو انبیاء پر فرشتے کے ذریعے سے نازل کی جاتی تھی اور اگر فرشتے کے ذریعے سے بھی آئی ہو، تب بھی اس ایک وحی سے ام موسیٰ (علیہ السلام) کا نبی ہونا ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ فرشتے بعض دفعہ عام انسانوں کے پاس بھی آ جاتے ہیں۔ جیسے حدیث میں واقع، ابرص اور اعمی کے پاس فرشتوں کا آنا ثابت ہے (متفق علیہ، بخاری، کتاب احادیث الانبیاء) ٧۔ ٢ یعنی دریا میں ڈوب جانے یا ضائع ہوجانے سے ڈرنا اور اس کی جدائی کا غم نہ کرنا۔ ٧۔ ٣ یعنی ایسے طریقے سے کہ جس سے اس کی نجات یقینی ہو، کہتے ہیں کہ جب قتل اولاد کا یہ سلسلہ زیادہ ہوا تو فرعون کی قوم کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں بنی اسرائیل کی نسل ہی ختم نہ ہوجائے اور مشقت والے کام ہمیں نہ کرنے پڑجائیں۔ اس اندیشے کا ذکر انہوں نے فرعون سے کیا، جس پر نیا حکم جاری کردیا گیا کہ ایک سال بچے قتل کئے جائیں اور ایک سال چھوڑ دیئے جائیں ؛ حضرت ہارون (علیہ السلام) اس سال پیدا ہوئے جس میں بچے قتل نہ کئے جاتے تھے، جب کہ موسیٰ (علیہ السلام) قتل والے سال پیدا ہوئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کا سروسامان پیدا فرما دیا۔ کہ ایک تو ان کی والدہ پر حمل کے آثار اس طرح ظاہر نہیں فرمائے جس سے وہ فرعون کی چھوڑی ہوئی دائیوں کی نگاہ میں آ جائیں اس لئے ولادت کا مرحلہ تو خاموشی کے ساتھ ہوگیا اور یہ واقعہ حکومت کے منصوبہ بندوں کے علم میں نہیں آیا، لیکن ولادت کے بعد قتل کا اندیشہ موجود تھا۔ جس کا حل خود اللہ تعالیٰ نے وحی والقاء کے ذریعے سے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کو سمجھا دیا چنانچہ انہوں نے اسے تابوت میں لٹا کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔ (ابن کثیر) القصص
8 ٨۔ ١ یہ تابوت بہتا بہتا فرعون کے محل کے پاس پہنچ گیا، جو لب دریا تھا اور وہاں فرعون کے نوکروں چاکروں نے پکڑ کر باہر نکال لیا۔ ٨۔ ٢ یہ عاقبت کے لئے ہے۔ یعنی انہوں نے تو اسے اپنا بچہ اور آنکھوں کی ٹھنڈک بنا کرلیا تھا نہ کہ دشمن سمجھ کر۔ لیکن انجام ان کے اس فعل کا یہ ہوا کہ وہ ان کا دشمن اور رنج و غم کا باعث، ثابت ہوا۔ ٨۔ ٣ یہ اس سے پہلے کی تعلیل ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) ان کے لئے دشمن کیوں ثابت ہوئے؟ اس لئے کہ وہ سب اللہ کے نافرمان اور خطا کار تھے، اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان کے پروردہ کو ہی ان کی ہلاکت کا ذریعہ بنا دیا۔ القصص
9 ٩۔ ١ یہ اس وقت کہا جب تابوت میں ایک حسین و جمیل بچہ انہوں نے دیکھا۔ بعض کے نزدیک یہ اس وقت کا قول ہے جب موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کی داڑھی کے بال نوچ لئے تھے تو فرعوں نے ان کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ جمع کا صیغہ یا تو اکیلے فرعون کے لئے بطور تعظیم کے کہا یا ممکن ہے وہاں اس کے کچھ درباری موجود رہے ہوں۔ ٩۔ ٢ کیونکہ فرعون اولاد سے محروم تھا۔ ٩۔ ٣ کہ یہ بچہ جسے وہ اپنا بچہ بنا رہے ہیں، یہ تو وہی بچہ ہے جس کو مارنے کے لئے سینکڑوں بچوں کو موت کی نید سلا دیا گیا ہے۔ القصص
10 ١٠۔ ١ یعنی ان کا دل ہر چیز اور فکر سے فارغ (خالی) ہوگیا اور ایک ہی فکر یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کا غم دل میں سما گیا، جس کو اردو میں بے قراری سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ١٠۔ ٢ یعنی شدت غم سے یہ ظاہر کر دیتیں کہ یہ ان کا بچہ ہے لیکن اللہ نے ان کے دل کو مضبوط کردیا جس پر انہوں نے صبر کیا اور یقین کرلیا کہ اللہ نے اس موسیٰ (علیہ السلام) کو بخریت واپس لٹانے کا جو وعدہ کیا ہے، وہ پورا ہوگا۔ القصص
11 ١١۔ ١ موسیٰ کی بہن کا نام مریم بنت عمران تھا جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کا مریم بنت عمران تھیں نام اور ولدیت دونوں میں اتحاد تھا۔ ١١۔ ٢ چنانچہ وہ دریا کے کنارے کنارے، دیکھتی رہی تھی، حتّٰی کہ اس نے دیکھ لیا کہ اسکا بھائی فرعون کے محل میں چلا گیا ہے۔ القصص
12 ١٢۔ ١ یعنی ہم نے اپنی قدرت اور تکوینی حکم کے ذریعے سے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی ماں کے علاوہ کسی اور انا کا دودھ پینے سے منع کردیا، چنانچہ بسیار کوشش کے باوجود کوئی انا انھیں دودھ پلانے اور چپ کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ ١٢۔ ٢ یہ سب منظر ان کی ہمشیرہ خاموشی کے ساتھ دیکھ رہی تھیں، بالآخر بول پڑیں کہ میں تمہیں ایسا گھرانا بتاؤں جو اس بچہ کی تمہارے لئے پرورش کرے۔ ١٢۔ ٣ چنانچہ انہوں نے ہمشیرہ موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ جا اس عورت کو لے آ چنانچہ وہ دوڑی دوڑی گئی اور اپنی ماں کو، جو موسیٰ (علیہ السلام) کی بھی ماں تھی، ساتھ لے آئی۔ القصص
13 ١٣۔ ١ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی والدہ کا دودھ پی لیا، تو فرعون نے والدہ موسیٰ سے محل میں رہنے کی استداعا کی تاکہ بچے کو صحیح پرورش اور نہگداشت ہو سکے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ میں اپنے خاوند اور بچوں کو چھوڑ کر یہاں نہیں رہ سکتی۔ بالآخر یہ طے پایا کہ بچے کو وہ اپنے ساتھ ہی گھر میں لے جائیں اور وہیں اس کی پرورش کریں اور اس کی اجرت انھیں شاہی خزانے سے دی جائے گی، سبحان اللہ! اللہ کی قدرت کے کیا کہنے، دودھ اپنے بچے کو پلائیں اور تنخواہ فرعون سے وصول کریں، رب نے موسیٰ (علیہ السلام) کو واپس لوٹانے کا وعدہ کس احسن طریقے سے پورا فرمایا۔ ایک مرسل روایت میں ہے۔ اس کاریگر کی مثال جو اپنی بنائی ہوئی چیز میں ثواب اور خیر کی نیت بھی رکھتا ہے، موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کی طرح ہے جو اپنے ہی بچے کو دودھ پلاتی ہے اور اس کی اجرت بھی وصول کرتی ہے۔ (مراسیل ابی داؤد) ١٣۔ ٣ یعنی بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے انجام کی حقیقت سے اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں لیکن اللہ کو اس کے حسن انجام کا علم ہوتا ہے۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا (ہو سکتا ہے جس چیز کو تم برا سمجھو، اس میں تمہارے لئے خیر ہو اور جس چیز کو تم پسند کرو، اس میں تمہارے لئے شر کا پہلو ہو) (کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ ۚ وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَـیْـــًٔـا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ۚ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَـیْـــــًٔـا وَّھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ۭ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ) 2۔ البقرۃ:216) دوسرے مقام پر فرمایا (ہو سکتا ہے تم کسی چیز کو برا سمجھو، اور اللہ اس میں تمہارے لئے خیر کثیر پیدا فرما دے) (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَاۗءَ کَرْہًا ۭوَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْہَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ۚ وَعَاشِرُوْھُنَّ بالْمَعْرُوْفِ ۚ فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَـیْـــــًٔـا وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا) 4۔ النساء :19) اس لئے انسان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنی پسند وناپسند سے قطع نظر ہر معاملے میں اللہ اور رسول کے احکام کی پابندی کرلے کہ اسی میں اس کے لئے خیر اور حسن انجام ہے۔ القصص
14 ١٤۔ ١ حکم اور علم سے مراد نبوت ہے تو اس مقام تک کس طرح پہنچے، اس کی تفصیل اگلی آیات میں ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد نبوت نہیں بلکہ عقل اور دانش اور وہ علوم ہیں جو انہوں نے اپنے آبائی اور خاندانی ما حول میں رہ کر سیکھے۔ القصص
15 ١٥۔ ١ اس سے بعض نے مغرب اور عشاء کے درمیان کا وقت اور بعض نے نصف النہار مراد لیا۔ جبکہ لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں۔ ١٥۔ ٢ یعنی فرعون کی قوم قبط میں سے تھا۔ ١٥۔ ٣ اسے شیطانی فعل اس لئے قرار دیا کہ قتل ایک نہایت سنگین جرم ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مقصد اسے ہرگز قتل کرنا نہیں تھا۔ ١٥۔ ٤ جس کی انسان سے دشمنی بھی واضح ہے اور انسان کو گمراہ کرنے کے لئے وہ جو جو جتن کرتا ہے وہ بھی مخفی نہیں۔ القصص
16 ١٦۔ ١ یہ اتفاقیہ قتل اگرچہ کبیرہ گناہ نہیں تھا، کیونکہ کبیرہ گناہوں سے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کی حفاطت فرماتا ہے۔ تاہم یہ بھی ایسا گناہ نظر آتا تھا جس کے لئے بہت بخشش انہوں نے ضروری سمجھی۔ دوسرے، انھیں خطرہ تھا کہ فرعون کو اس کی اطلاع ملی تو اس کے بدلے انھیں قتل نہ کر دے۔ القصص
17 ١٧۔ ١ یعنی جو کافر اور تیرے حکموں کا مخالف ہوگا، تو نے مجھ پر جو انعام کیا ہے، اس کے سبب میں اس کا مددگار نہیں ہوں گا۔ القصص
18 ١٨۔ ١ خائفا کے معنی ڈرتے ہوئے، ادھر ادھر جھانکتے اور اپنے بارے میں اندیشوں میں مبتلا۔ ١٨۔ ٢ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو ڈانٹا کہ تو کل بھی لڑتا ہوا پایا گیا تھا اور آج پھر تو کسی سے دست بہ گریبان ہے، تو صریح بے راہ، یعنی جھگڑالو ہے۔ القصص
19 ١٩۔ ١ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے چاہا کہ قطبی کو پکڑ لیں، کیونکہ وہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کا دشمن تھا، تاکہ لڑائی زیادہ نہ بڑھے۔ ١٩۔ ٢ فریادی (اسرائیلی) سمجھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) شاید اسے پکڑنے لگے ہیں تو وہ بول اٹھا کہ اے موسٰی، جس سے قبطی کے علم میں یہ بات آ گئی کہ کل جو قتل ہوا تھا، اس کا قاتل موسیٰ (علیہ السلام) ہے، اس نے جا کر فرعون کو بتلا دیا جس پر فرعون نے اس کے بدلے میں موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا عزم کرلیا۔ القصص
20 ٢٠۔ ١ یہ آدمی کون تھا ؟ بعض کے نزدیک یہ فرعون کی قوم کا تھا جو در پردہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا خیر خواہ تھا۔ اور ظاہر ہے سرداروں کے مشورے کی خبر ایسے ہی آدمی کے ذریعے آنا زیادہ قرین قیاس ہے۔ بعض کے نزدیک یہ موسیٰ (علیہ السلام) کا قریبی رشتے دار اور اسرائیلی تھا۔ اور اقصائے شہر سے مراد منف ہے جہاں فرعون کا محل اور دارالحکومت تھا اور یہ شہر کے آخری کنارے پر تھا۔ القصص
21 ٢١۔ ١ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے علم میں یہ بات آئی تو وہاں سے نکل کھڑے ہوئے تاکہ فرعون کی گرفت میں نہ آ سکیں۔ ٢١۔ ٢ یعنی فرعون اور اس کے درباریوں سے، جنہوں نے باہم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کا مشورہ کیا تھا، کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوئی علم نہ تھا کہ کہاں جانا ہے؟ کیونکہ مصر چھوڑنے کا یہ حادثہ بالکل اچانک پیش آیا، پہلے سے کوئی خیال یا منصوبہ نہیں تھا، چنانچہ اللہ نے گھوڑے پر ایک فرشتہ بھیج دیا، جس نے انھیں راستے کی نشان دہی کی واللہ اعلم (ابن کثیر) القصص
22 ٢٢۔ ١ چنانچہ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور ایسے سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی فرمائی جس سے ان کی دنیا بھی سنور گئی اور آخرت بھی یعنی وہ ہادی بھی بن گئے اور مہدی بھی، خود بھی ہدایت یافتہ اور دوسروں کو بھی ہدایت کا راستہ بتلانے والے۔ القصص
23 ٢٣۔ ١ یعنی جب مدین پہنچے تو اس کے کنویں پر دیکھا کہ لوگوں کا ہجوم ہے جو اپنے جانوروں کو پانی پلا رہا ہے۔ مدین یہ قبیلے کا نام تھا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سے تھا، جب کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی نسل سے تھے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پوتے (حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے بیٹے تھے۔ یوں اہل مدین اور موسیٰ کے درمیان نسبی تعلق بھی تھا (ایسرالتفاسیر) اور یہی حضرت شعیب (علیہ السلام) کا مسکن مبعث بھی تھا۔ ٢٣۔ ٢ دو عورتوں کو اپنے جانور روکے، کھڑے دیکھ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں رحم آیا اور ان سے پوچھا، کیا بات ہے تم اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلاتیں؟۔ رعاء راع (چرواہا) کی جمع ہے۔ ٢٣۔ ٣ تاکہ مردوں سے ہمارا اختلاط نہ ہو۔ ٢٣۔ ٤ والد صاحب بوڑھے ہیں اس لئے وہ گھاٹ پر پانی پلانے کے لئے نہیں آ سکتے القصص
24 ٢٤۔ ١ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اتنا لمبا سفر کر کے مصر سے مدین پہنچے تھے، کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا، جب کہ سفر کی تھکان اور بھوک سے نڈھال تھے۔ چنانچہ جانوروں کو پانی پلا کر ایک درخت کے سائے تلے آ کر مصروف دعا ہوگئے۔ خیر کئی چیزوں پر بولا جاتا ہے، کھانے پر، امور خیر اور عبادت پر، قوت پر اور مال پر (ایسر التفاسیر) یہاں اس کا اطلاق کھانے پر ہوا ہے۔ یعنی میں اس وقت کھانے کا ضرورت مند ہوں۔ القصص
25 ٢٥۔ ١ اللہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمالی اور دونوں میں سے ایک لڑکی انہیں بلانے آ گئی۔ لڑکی کی شرم و حیا کا قرآن نے بطور خاص ذکر کیا ہے کہ یہ عورت کا اصل زیور ہے اور مردوں کی طرح حیاء و حجاب سے بے نیازی اور بے باکی عورت کے لئے شرعا ناپسندیدہ ہے۔ ٢٥۔ ٢ بچیوں کا باپ کون تھا ؟ قرآن کریم نے وضاحت سے کسی کا نام نہیں لیا ہے۔ مفسرین کی اکثریت نے اس سے مراد حضرت شعیب (علیہ السلام) کو لیا ہے جو اہل مدین کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ امام شوکانی نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے۔ لیکن امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا زمانہ نبوت، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بہت پہلے کا ہے۔ اس لئے یہاں حضرت شعیب (علیہ السلام) کا برادر زادہ یا کوئی اور قوم شعیب (علیہ السلام) کا شخص مراد ہے، واللہ اعلم۔ بہرحال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بچیوں کے ساتھ ہمدردی اور احسان کیا، وہ بچیوں نے جا کر بوڑھے باپ کو بتلایا، جس سے باپ کے دل میں بھی ہمدردی پیدا ہوئی کہ احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ دیا جائے یا اس کی محنت کی اجرت ہی ادا کردی جائے۔ ٢٥۔ ٣ یعنی اپنے مصر کی سرگزشت اور فرعون کے ظلم و ستم کی تفصیل سنائی جس پر انہوں نے کہا کہ یہ علاقہ فرعون کی حدود حکمرانی سے باہر ہے اس لئے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ نے ظالموں سے نجات عطا فرما دی ہے۔ القصص
26 ٢٦۔ ١ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ باپ نے بچیوں سے پوچھا تمہیں کس طرح معلوم ہے کہ یہ طاقتور بھی ہے اور ایمان دار بھی، جس پر بچیوں نے بتلایا کہ جس کنویں سے پانی پلایا، اس پر اتنا بھاری پتھر رکھا ہوتا ہے کہ اسے اٹھانے کے لئے دس آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ اس شخص نے وہ پتھر اکیلے ہی اٹھا لیا اور پھر بعد میں رکھ دیا اسی طرح جب میں اس کو بلا کر ساتھ لا رہی تھی، تو چونکہ راستے کا علم مجھے ہی تھا، میں آگے آگے چل رہی تھی اور یہ پیچھے پیچھے لیکن ہوا سے میری چادر اڑ جاتی تھی تو اس شخص نے کہا تو پیچھے چل، میں آگے آگے چلتا ہوں تاکہ میری نگاہ تیرے جسم کے کسی حصے پر نہ پڑے۔ راستے کی نشان دہی کے لئے پیچھے سے پتھر کی کنکری مار دیا کر، واللہ اعلم (ابن کثیر) القصص
27 ٢٧۔ ١ ہمارے ملک میں کسی لڑکی والے کی طرف سے نکاح کی خواہش کا اظہار معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن شریعت اللہ میں یہ برا نہیں ہے۔ صفات محمودہ کا حامل لڑکا اگر مل جائے تو اسے یا اس کے گھر والوں سے اپنی لڑکی کے لئے رشتے کی بابت بات چیت کرنا برا نہیں ہے۔ بلکہ محمود اور پسندیدہ ہے، عہد رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بھی یہی طریقہ تھا۔ ٢٧۔ ٢ اس سے علماء نے اجارے کے جواز پر استدلال کیا ہے یعنی کرائے اور اجرت پر مرد کی خدمات حاصل کرنا جائز ہے ٢٧۔ ٣ یعنی مزید دو سال کی خدمت میں مشقت اور ایزاء محسوس کریں تو آٹھ سال کے بعد جانے کی اجازت ہوگی۔ ٢٧۔ ٤ نہ جھگڑا کرونگا نہ اذیت پہنچاؤں گا، نہ سختی سے کام لونگا۔ القصص
28 ٢٨۔ ١ یعنی آٹھ سال بعد یا دس سال کے بعد جانا چاہوں تو مجھ سے مزید رہنے کا مطالبہ نہ کیا جائے۔ ٢٨۔ ٢ یہ بعض کے نزدیک شعیب (علیہ السلام) یا برادر زادہ شعیب (علیہ السلام) کا قول ہے اور بعض کے نزدیک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ممکن ہے دونوں ہی کی طرف سے ہو کیونکہ جمع کا صیغہ ہے گویا دونوں نے اس معاملے پر اللہ کو گواہ ٹھہرایا اور اس کے ساتھ ہی ان کی لڑکی اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان رشتہ ازدواجی قائم ہوگیا۔ باقی تفصیلات کا اللہ نے ذکر نہیں کیا۔ ویسے تو اسلام میں طرفین کی رضامندی کے ساتھ نکاح کے لئے دو عادل گواہ بھی ضروری ہیں۔ القصص
29 ٢٩۔ ١ حضرت ابن عباس نے اس مدت سے دس سالہ مدت مراد لی ہے، کیونکہ یہی اکمل اور اطیب (یعنی خسر موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے خوشگوار اور مرغوب) تھی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کریمانہ اخلاق نے اپنے بوڑھے خسر کی دلی خواہش کے خلاف کرنا پسند نہیں کیا۔ ٢٩۔ ٢ اس سے معلوم ہوا کہ خاوند اپنی بیوی کو جہاں چاہے لے جا سکتا ہے۔ القصص
30 ٣٠۔ ١ یعنی آواز وادی کے کنارے سے آ رہی تھی، جو مغربی جانب سے پہاڑ کے دائیں طرف تھی، یہاں درخت سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے جو دراصل رب کی تجلی کا نور تھا۔ ٣٠۔ ٢ یعنی اے موسٰی! تجھ سے جو اس وقت مخاطب اور ہم کلام ہے، وہ میں اللہ ہوں رب العالمین۔ القصص
31 ٣١۔ ١ یہ موسیٰ (علیہ السلام) کا وہ معجزہ ہے جو کوہ طور پر، نبوت سے سرفراز کئے جانے کے بعد ان کو ملا۔ چونکہ اللہ کے حکم اور مشیت سے ظاہر ہوتا ہے کسی بھی انسان کے اختیار سے نہیں۔ چاہے وہ جلیل القدر پیغمبر اور نبی مقرب ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے جب موسیٰ (علیہ السلام) کے اپنے ہاتھ کی لاٹھی، زمین پر پھینکنے سے حرکت کرتی اور دوڑتی پنکارتی سانپ بن گئی، تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی ڈر گئے۔ جب اللہ تعالیٰ نے بتلایا اور تسلی دی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا خوف دور ہوا اور یہ واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی صداقت کے لئے بطور دلیل یہ معجزہ انھیں عطا فرمایا ہے۔ القصص
32 ٣٢۔ ١ یہ ید بیضاء دوسرا معجزہ تھا جو انھیں عطا کیا گیا۔ ٣٢۔ ٢ لاٹھی کا اژدھا بن جانے کی صورت میں جو خوف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو لاحق ہوتا تھا، اس کا حل بتلا دیا گیا کہ اپنا بازو اپنی طرف ملا لیا کرو یعنی بغل میں دبا لیا کرو جس سے خوف جاتا رہا کرے گا۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ عام ہے کہ جب بھی کسی سے کوئی خوف محسوس ہو تو اس طرح کرنے سے خوف دور ہوجائے گا۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اقتداء میں جو شخص بھی گھبراہٹ کے موقع پر اپنے دل پر ہاتھ رکھے گا، تو اس کے دل سے خوف جاتا رہے گا یا کم از کم ہلکا ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ۔ ٣٢۔ ٣ یعنی فرعون اور اسکی جماعت کے سامنے یہ دونوں معجزے اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کرو۔ یہ لوگ اللہ کی اطاعت سے نکل چکے ہیں اور اللہ کے دین کے مخالف ہیں۔ القصص
33 ٣٣۔ ١ یہ خطرہ تھا جو واقع حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جان کو لاحق تھا، کیونکہ ان کے ہاتھوں ایک قبطی قتل ہوچکا تھا۔ القصص
34 ٣٤۔ ١ اسرائیلی روایات کی رو سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان میں لکنت تھی، جس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے آگ کا انگارہ اور کھجور یا موتی رکھے گئے تو آپ نے انگارہ اٹھا کر منہ میں رکھ لیا تھا جس سے آپ کی زبان جل گئی۔ یہ وجہ صحیح ہے یا نہیں؟ تاہم قرآن کریم کی اس نص سے یہ تو ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں حضرت ہارون (علیہ السلام) فصیح اللسان تھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان میں گرہ تھی۔ جس کے کھولنے کی دعا انہوں نے نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد کی۔ ردءا کے معنی ہیں معین، مددگار تقویت پہنچانے والا۔ یعنی ہارون (علیہ السلام) اپنی فصاحت لسانی سے مجھے مدد اور تقویت پہنچائیں گے۔ القصص
35 ٣٥۔ ١ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول کرلی گئی اور ان کی سفارش پر حضرت ہارون (علیہ السلام) کو بھی نبوت سے سرفراز فرما کر ان کا ساتھی اور مددگار بنا دیا گیا۔ ٣٥۔ ٢ یعنی ہم تمہاری حفاظت فرمائیں گے، فرعون اور اس کے حوالی موالی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ ٣٥۔ ٣ یہ وہی مضمون ہے جو قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان کیا گیا مثلاً، (قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْءٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰیۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ ۭوَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّکُفْرًا ۚ فَلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ) 5۔ المائدہ :68، ( الَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰہِ وَیَخْشَوْنَہٗ وَلَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰہَ ۭوَکَفٰی باللّٰہِ حَسِیْبًا) 33۔ الاحزاب :39) (کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ ۭ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ) 58۔ المجادلہ :21) ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ 51؀ۙ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ الظّٰلِمِیْنَ مَعْذِرَتُہُمْ وَلَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ 52؀) 40۔ غافر :52-51) القصص
36 ٣٦۔ ١ یعنی یہ دعوت کہ کائنات میں صرف ایک ہی اللہ اس کے لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے ہمارے لئے بالکل نئی بات ہے۔ یہ ہم نے سنی ہے نہ ہمارے باپ دادا اس توحید سے واقف تھے مشرکین مکہ نے بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت کہا تھا ' اس نے تو تمام معبودوں کو (ختم کر کے) ایک ہی معبود بنا دیا ہے؟ یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے '۔ القصص
37 ٣٧۔ ١ یعنی مجھ سے اور تم سے زیادہ ہدایت کا جاننے والا اللہ ہے، اس لئے جو بات اللہ کی طرف سے آئے گی، وہ صحیح ہوگی یا تمہارے اور تمہارے باپ دادوں کی۔ ٣٧۔ ٢ اچھے انجام سے مراد آخرت میں اللہ کی رضامندی اور اس کی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار پا جانا ہے اور یہ استحقاق صرف اہل توحید کے حصے میں آئے گا ٣٧۔ ٣ ظالم سے مراد مشرک اور کافر ہیں، کیونکہ ظلم کے معنی ہیں۔ وضع الشئ فی غیر محلہ کسی چیز کو اسکے اصل مقام سے ہٹا کر کسی اور جگہ رکھ دینا۔ مشرک بھی چونکہ الوہیت کے مقام پر ایسے لوگوں کو بٹھا دیتے ہیں جو اس کے مستحق نہیں ہوتے۔ اسی طرح کافر بھی رب کے اصل مقام سے ناآشنا ہی رہتے ہیں۔ اس لئے یہ لوگ سب سے بڑے ظالم ہیں اور یہ کامیابی سے یعنی آخرت میں اللہ کی رحمت و مغفرت سے محروم رہیں گے۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ دنیا میں خوشحالی اور مال و اسباب کی فراوانی حقیقی کامیابی کی نفی فرما رہا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حقیقی کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے نہ کہ دنیا کی چند روزہ عارضی خوشحالی و فراوانی۔ القصص
38 ٣٨۔ ١ یعنی مٹی کو آگ میں تپا کر اینٹیں تیار کر، ہامان، فرعون کا وزیر، مشیر اور اس کے معاملات کا انتظام کرنے والا تھا۔ ٣٨۔ ٢ یعنی ایک اونچا اور مضبوط محل تیار کر، جس پر چڑھ کر میں آسمان پر یہ دیکھ سکوں کہ وہاں میرے سوا کوئی اور رب ہے۔ ٣٨۔ ٣ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) جو یہ دعوی کرتا ہے کہ آسمانوں پر رب ہے جو ساری کائنات کا پالن ہار ہے، میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔ القصص
39 ٣٩۔ ١ زمین سے مراد ارض مصر ہے جہاں فرعون حکمران تھا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھتا تھا، یعنی ان کے پاس کوئی دلیل ایسی نہیں تھی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے دلائل معجزات کا رد کرسکتے لیکن استکبار بلکہ ان کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے ہٹ دھرمی اور انکار کا راستہ اختیار کیا۔ القصص
40 ٤٠۔ ١ یعنی جب ان کا کفر و طغیان حد سے بڑھ گیا اور کسی طرح بھی وہ ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوئے تو بالآخر ایک صبح ہم نے انھیں دریا میں غرق کردیا۔ القصص
41 ٤١۔ ١ یعنی جو بھی ان کے بعد ایسے لوگ ہوں گے جو اللہ کی توحید یا اس کے وجود کے منکر ہوں گے، تو ان کا امام و پیشوا یہی فرعونی سمجھے جائیں گے جو جہنم کے داعی ہیں۔ القصص
42 ٤٢۔ ١ یعنی دنیا میں بھی ذلت و رسوائی ان کا مقدر بنی اور آخرت میں بھی وہ بد حال ہونگے۔ یعنی چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلگوں جیسا کہ جہنمیوں کے تذکرے میں آتا ہے۔ القصص
43 ٤٣۔ ١ یعنی فرعون اور اس کی قوم یا نوح و عاد و ثمود وغیرہ قوم کی ہلاکت کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب (تورات) دی۔ ٤٣۔ ٢ جس سے وہ حق کو پہچان لیں اور اسے اختیار کریں اور اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پائیں۔ ٤٣۔ ٣ یعنی اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کریں اور اللہ پر ایمان لائیں اور اس کے پیغمبروں کی اطاعت کریں جو انھیں خیر و رشد اور فلاح حقیقی کی طرف بلاتے ہیں۔ القصص
44 ٤٤۔ ١ یعنی کوہ طور پر جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام کیا اور اسے وحی و رسالت سے نوازا، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو نہ وہاں موجود تھا اور نہ یہ منظر دیکھنے والوں میں سے تھا۔ بلکہ یہ غیب کی وہ باتیں ہیں جو ہم نے وحی کے ذریعے سے تجھے بتلا رہے ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ تو اللہ کا سچا پیغمبر ہے۔ کیونکہ نہ تو نے یہ باتیں کسی سے سیکھی ہیں نہ خود ہی مشاہدہ کیا ہے۔ یہ مضمون اور بھی متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے مثلاً (ذٰلِکَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ ۭ وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَامَھُمْ اَیُّھُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ ۠وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ) 3۔ آل عمران :44) (تِلْکَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہَآ اِلَیْکَ ۚ مَا کُنْتَ تَعْلَمُہَآ اَنْتَ وَلَا قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا ړ فَاصْبِرْ ړاِنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِیْنَ) 11۔ ہود :49) (ذٰلِکَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْقُرٰی نَقُصُّہٗ عَلَیْکَ مِنْہَا قَاۗیِٕمٌ وَّحَصِیْدٌ) 11۔ ہود :100)، (ذٰلِکَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ ۚ وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْ اَجْمَعُوْٓا اَمْرَہُمْ وَہُمْ یَمْکُرُوْنَ) 12۔ یوسف :102)، (کَذٰلِکَ نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ مَا قَدْ سَبَقَ ۚ وَقَدْ اٰتَیْنٰکَ مِنْ لَّدُنَّا ذِکْرًا) 20۔ طہ :99) وغیرہ میں۔ القصص
45 ٤٥۔ ١ قرون، قرن کی جمع ہے، زمانہ لیکن یہاں امتوں کے معنی میں ہے یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان جو زمانہ ہے اس میں ہم نے کئی امتیں پیدا کیں۔ ٤٥۔ ٢ یعنی مراد ایام سے شرائع و احکام بھی متغیر ہوگئے اور لوگ بھی دین کو بھول گئے، جس کی وجہ سے انہوں نے اللہ کے حکموں کو پس پشت ڈال دیا اور ان کے عہد کو فراموش کردیا اور یوں اس کی ضرورت پیدا ہوگئی کہ ایک نئے بنی کو معبوث کیا جائے یا یہ مطلب ہے کہ طول زماں کی وجہ سے عرب کے لوگ نبوت و رسالت کو بالکل ہی بھلا بیٹھے، اس لئے آپ کی نبوت پر انھیں تعجب ہو رہا ہے اور اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ٤٥۔ ٣ جس سے آپ خود اس واقعے کی تفصیلات سے آگاہ ہوجاتے۔ ٤٥۔ ٤ اور اسی اصول پر ہم نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور پچھلے حالات و واقعات سے آپ کو باخبر کر رہے ہیں۔ القصص
46 ٤٦۔ ١ یعنی اگر آپ رسول برحق نہ ہوتے تو موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعے کا علم بھی آپ کو نہ ہوتا۔ ٤٦۔ ٢ یعنی آپ کا علم، مشاہدہ روئیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے کہ اس نے آپ کو نبی بنایا اور وحی سے نوازا۔ ٤٦۔ ٣ اس سے مراد اہل مکہ اور عرب ہیں جن کی طرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا، کیونکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد نبوت کا سلسلہ خاندان ابراہیمی ہی میں رہا اور ان کی بعث بنی اسرائیل کی طرف سے ہی ہوتی رہی بنی اسماعیل یعنی عربوں میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے نبی تھے اور سلسلہ نبوت کے خاتم تھے۔ ان کی طرف نبی بھیجنے کی ضرورت اس لئے نہیں سمجھی گئی ہوگی کہ دوسرے انبیاء کی دعوت اور ان کا پیغام ان کو پہنچتا رہا ہوگا۔ کیونکہ اس کے بغیر ان کے لئے کفر و شرک پر جمے رہنے کا عذر موجود رہے گا اور یہ عذر اللہ نے کسی کے لئے باقی نہیں چھوڑا ہے۔ القصص
47 ٤٧۔ ١ یعنی ان کے اسی عذر کو ختم کرنے کے لئے ہم نے آپ کو ان کی طرف بھیجا ہے کیونکہ طول زمانی کی وجہ سے گزشتہ انبیاء کی تعلیمات مسخ اور ان کی دعوت فراموش ہوچکی ہے اور ایسے ہی حالات کسی نئے نبی کی ضرورت کے متقاضی ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات (قرآن و حدیث) کو مسخ ہونے اور تغیر و تحریف سے محفوظ رکھا اور ایسا تکوینی انتظام فرما دیا ہے جس سے آپ کی دعوت دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئی ہے اور مسلسل پہنچ رہی ہے تاکہ کسی نئے نبی کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ اور جو شخص اس ' ضرورت ' کا دعو یٰ کر کے نبوت کا ڈھونگ رچاتا ہے، وہ جھوٹا اور دجال ہے۔ القصص
48 ٤٨۔ ١ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سے معجزات، جیسے لاٹھی کا سانپ بن جانا اور ہاتھ کا چمکنا وغیرہ ٤٨۔ ٢ یعنی مطلوبہ معجزات، اگر دکھا بھی دیئے جائیں تو کیا فائدہ، جنہیں ایمان نہیں لانا، وہ ہر طرح کی نشانیاں دیکھنے کے باوجود ایمان سے محروم ہی رہیں گے۔ کیا موسیٰ (علیہ السلام) کے مذکورہ معجزات دیکھ کر فرعونی مسلمان ہوگئے تھے، انہوں نے کفر نہیں کیا ؟ یا یکفُروا کی ضمیر قریش مکہ کی طرف ہے یعنی کیا انہوں نے نبوت محمدیہ سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کفر نہیں کیا۔ ٤٨۔ ٣ پہلے مفہوم کے اعتبار سے دونوں سے مراد حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام ہوں گے اور دوسرے مفہوم اس سے قرآن اور تورات مراد ہونگے یعنی دونوں جادو ہیں جو ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور ہم سب کے یعنی موسیٰ (علیہ السلام) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منکر ہیں۔ (فتح القدیر) القصص
49 ٤٩۔ ١ یعنی اگر تم اس دعوے میں سچے ہو کہ قرآن مجید اور تورات دونوں جادو ہیں، تو تم کوئی اور کتاب الٰہی پیش کر دو، جو ان سے زیادہ ہدایت والی ہو، میں اس کی پیروی کرونگا، کیونکہ میں ہدایت کا طالب اور پیرو ہوں۔ القصص
50 ٥٠۔ ١ یعنی قرآن و تورات سے زیادہ ہدایت والی کتاب پیش نہ کرسکیں اور یقینا نہیں کرسکیں گے۔ ٥٠۔ ٢ یعنی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہدایت کو چھوڑ کر خواہش نفس کی پیروی کرنا یہ سب سے بڑی گمراہی ہے اور اس لحاظ سے یہ قریش مکہ سب سے بڑے گمراہ ہیں جو ایسی حرکت کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ القصص
51 ٥١۔ ١ یعنی ایک رسول کے بعد دوسرا رسول، ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب ہم بھیجتے رہے اور اس طرح مسلسل لگاتار ہم اپنی بات لوگوں تک پہنچاتے رہے۔ ٥١۔ ٢ مقصد اس سے یہ تھا کہ لوگ پچھلے لوگوں کے انجام سے ڈر کر اور ہماری باتوں سے نصیحت حاصل کر کے ایمان لے آئیں۔ القصص
52 ٥٢۔ ١ اس سے مراد یہودی ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے، جیسے عبد اللہ بن سلام وغیرہ یا وہ عیسائی ہیں جو حبشہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئے تھے اور آپ کی زبان مبارک سے قرآن کریم سن کر مسلمان ہوگئے تھے (ابن کثیر) القصص
53 ٥٣۔ ١ یہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے جسے قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے کہ ہر دور میں اللہ کے پیغمبروں نے جس دین کی دعوت دی، وہ اسلام ہی تھا اور ان نبیوں کی دعوت پر ایمان لانے والے مسلمان ہی کہلاتے تھے۔ یہود یا نصاری وغیرہ کی اصطلاحیں لوگوں کی اپنی خود ساختہ ہیں جو بعد میں ایجاد ہوئیں۔ اسی اعتبار سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والے اہل کتاب (یہود یا عیسائیوں) نے کہا کہ ہم تو پہلے سے ہی مسلمان چلے آ رہے ہیں۔ یعنی سابقہ انبیاء کے پیروکار اور ان پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ القصص
54 ٥٤۔ ١ صبر سے مراد ہر قسم کے حالات میں انبیاء اور کتاب الہی پر ایمان اور اس پر ثابت قدمی سے قائم رہنا ہے۔ پہلی کتاب آئی تو اس پر، اس کے بعد دوسری پر ایمان رکھا۔ پہلے نبی پر ایمان لائے، اس کے بعد دوسرا نبی آ گیا تو اس پر ایمان لائے۔ ان کے لئے دوہرا اجر ہے، حدیث میں بھی ان کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، تین آدمیوں کے لئے دوہرا اجر ہے، ان میں ایک وہ اہل کتاب ہے جو اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا اور پھر مجھ پر ایمان لے آیا۔ ٥٤۔ ٢ یعنی برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے، بلکہ معاف کردیتے ہیں اور درگزر سے کام لیتے ہیں۔ القصص
55 ٥٥۔ ١ یہاں لغو سے مراد وہ سب و شتم اور دین کے ساتھ استہزاء ہے جو مشرکین کرتے تھے۔ ٥٥۔ ٢ یہ سلام، سلام تحیہ نہیں بلکہ سلام متارکہ ہے یعنی ہم تم جیسے جاہلوں سے بحث اور گفتگو کے روادار ہی نہیں، جیسے اردو میں بھی کہتے ہیں جاہلوں کو دور ہی سے سلام، ظاہر ہے سلام سے مراد ترک بول چال اور آمنا سامنا ہی ہے۔ القصص
56 ٥٦۔ ١ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمدرد اور غمسار چچا ابو طالب کا انتقال ہونے لگا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوشش فرمائی کہ چچا اپنی زبان سے ایک مرتبہ لاَ اِلٰہ اِلَّا اللّٰہُ کہہ دیں تاکہ قیامت والے دن میں اللہ سے ان کی مغفرت کی سفارش کرسکوں۔ لیکن وہاں پر دوسرے رؤسائے قریش کی موجودگی کی وجہ سے ابو طالب قبول ایمان کی سعادت سے محروم رہے اور کفر پر ہی ان کا خاتمہ ہوگیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کا بڑا صدمہ تھا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر واضح کیا کہ آپ کا کام صرف تبلیغ و دعوت اور راہنمائی ہے۔ لیکن ہدایت کے اوپر چلا دینا یہ ہمارا کام ہے۔ ہدایت اسے ہی ملے گی جسے ہم ہدایت سے نوازنا چاہیں نہ کہ اسے جسے آپ ہدایت پر دیکھنا پسند کریں (صحیح بخاری) القصص
57 ٥٧۔ ١ یعنی ہم جہاں ہیں، وہاں ہمیں رہنے دیا جائے گا اور ہمیں اذیتوں سے یا مخالفین سے جنگ و پیکار سے دوچار ہونا پڑے گا۔ یہ بعض کفار نے ایمان نہ لانے کا عذر پیش کیا۔ اللہ نے جواب دیا۔ ٥٧۔ ٢ یعنی ان کا یہ عذر غیر معقول ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس شہر کو، جس میں یہ رہتے ہیں، امن والا بنایا ہے جب یہ شہر ان کے کفر و شرک کی حالت میں ان کے لئے امن کی جگہ ہے تو کیا اسلام قبول کرلینے کے بعد وہ ان کے لئے امن کی جگہ نہیں رہے گا ؟ ٥٧۔ ٣ یہ مکے کی وہ خصوصیت ہے جس کا مشاہدہ لاکھوں حاجی اور عمرہ کرنے والے ہر سال کرتے ہیں کہ مکے میں پیداوار نہ ہونے کے باوجود نہایت فروانی سے ہر قسم کا پھل بلکہ دنیا بھر کا سامان ملتا ہے۔ القصص
58 ٥٨۔ ١ یہ اہل مکہ کو ڈرایا جا رہا ہے کہ تم دیکھتے نہیں کہ اللہ کی نعمتوں سے فیض یاب ہو کر اللہ کی ناشکری کرنے اور سرکشی کرنے والوں کا انجام کیا ہوا، آج ان کی بیشتر آبادیاں کھنڈر بنی ہوئی یا صرف صفحات تاریخ پر ان کا نام رہ گیا ہے۔ اور اب آتے جاتے مسافر ہی ان میں کچھ دیر کے لئے سستا لیں تو سستا لیں، ان کی نحوست کی وجہ سے کوئی بھی ان میں مستقل رہنا پسند نہیں کرتا۔ ٥٨۔ ٢ یعنی ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہا جو ان مکانوں اور مال و دولت کا وارث ہوتا۔ القصص
59 ٥٩۔ ١ یعنی تمام حجت کے بغیر کسی کو ہلاک نہیں کرتا، ہر چھوٹے بڑے علاقے میں نبی نہیں آیا، بلکہ مرکزی مقامات پر نبی آتے رہے اور چھوٹے علاقے اس کے زیر اثر میں آ جماتے رہے ہیں۔ ٥٩۔ ٢ یعنی نبی بھیجنے کے بعد وہ بستی والے ایمان نہ لاتے اور کفر و شرک پر اپنا اصرار جاری رکھتے تو پھر انھیں ہلاک کردیا جاتا، یہی مضمون (وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِـیُہْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّاَہْلُہَا مُصْلِحُوْنَ) 11۔ ہود :117) میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ القصص
60 ٦٠۔ ١ کیا اس حقیقت سے بھی تم بے خبر ہو کہ یہ دنیا اور اس کی رونقیں عارضی بھی ہیں اور حقیر بھی، جب کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے اپنے پاس جو نعمتیں، آسائشیں اور سہولتیں تیار کر رکھی ہیں وہ دائمی بھی ہیں اور عظیم بھی، حدیث میں ہے ' اللہ کی قسم دنیا، آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے تم سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبو کر نکال لے، دیکھے کہ سمندر کے مقابلے میں انگلی میں کتنا پانی ہوگا۔ (صحیح بخاری) القصص
61 ٦١۔ ١ یعنی سزا اور عذاب کا مستحق ہوگا مطلب ہے اہل ایمان، وعدہ الٰہی کے مطابق نعمتوں سے بہرہ ور اور نافرمان عذاب سے دو چار، کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں۔ القصص
62 ٦٢۔ ١ یعنی وہ بت یا اشخاص ہیں، جن کو تم دنیا میں میری الوہیت میں شریک گردانتے تھے، انھیں مدد کے لئے پکارتے تھے اور ان کے نام کی نذر نیاز دیتے تھے، آج کہاں ہیں؟ کیا وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور تمہیں میرے عذاب سے چھڑا سکتے ہیں؟ یہ تقریع وتوبیخ کے طور پر اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا، ورنہ وہاں اللہ کے سامنے کس کو مجال دم زدنی ہوگی؟ یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام، (وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰی کَمَا خَلَقْنٰکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّتَرَکْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰکُمْ وَرَاۗءَ ظُہُوْرِکُمْ ۚ وَمَا نَرٰی مَعَکُمْ شُفَعَاۗءَکُمُ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّہُمْ فِیْکُمْ شُرَکٰۗؤُا ۭ لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَیْنَکُمْ وَضَلَّ عَنْکُمْ مَّا کُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ) 6۔ الانعام :94) اور دیگر بہت سے مقامات پر بیان فرمایا ہے۔ القصص
63 ۔ ٦٣۔ ١ یعنی جو عذاب الٰہی کے مستحق قرار پا چکے ہوں گے، مثلاً سرکش شیاطین اور دعویٰ کفر و شرک وغیرہ وہ کہیں گے۔ ٦ ٣۔ ٢ یہ جاہل عوام کی طرف اشارہ ہے جن کو دعویٰ کفر نے اور شیاطین نے گمراہ کیا تھا۔ ٦ ٣۔ ٣ یعنی ہم تو تھے ہی گمراہ لیکن ان کو بھی اپنے ساتھ گمراہ کئے رکھا۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان پر کوئی جبر نہیں کیا تھا، بس ہمارے ادنی سے اشارے پر ہماری طرح ہی انہوں نے بھی گمراہی احتیار کرلی۔ ٦ ٣۔ ٤ یعنی ہم ان سے بیزار اور الگ ہیں، ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے، مطلب یہ ہے کہ وہاں یہ تابع اور متبوع، چیلے اور گرو ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ ٦ ٣۔ ٥ بلکہ درحقیقت اپنی خواہشات کی پیروی کرتے تھے۔ یعنی وہ معبودین، جن کی لوگ دنیا میں عبادت کرتے تھے، اس بات سے ہی انکار کردیں گے کہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے۔ اس مضمون کو قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ القصص
64 ٦٤۔ ١ یعنی ان سے مدد طلب کرو، جس طرح دنیا میں کرتے تھے کیا وہ تمہاری مدد کرتے ہیں؟ پس وہ پکاریں گے، لیکن وہاں کس کو یہ جرت ہوگی کہ جو یہ کہے کہ ہاں ہم تمہاری مدد کرتے ہیں؟ ٦ ٤۔ ٢ یعنی یقین کرلیں گے کہ ہم سب جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔ ٦ ٤۔ ٣ یعنی عذاب دیکھ لینے کے بعد آرزو کریں گے کہ کاش دنیا میں ہدایت کا راستہ اپنا لیتے تو آج وہ اس حشر سے بچ جاتے۔ (وَیَوْمَ یَقُوْلُ نَادُوْا شُرَکَاۗءِیَ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْہُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَہُمْ وَجَعَلْنَا بَیْنَہُمْ مَّوْبِقًا 52؀ وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ مُّوَاقِعُوْہَا وَلَمْ یَجِدُوْا عَنْہَا مَصْرِفًا 53؀ۧ) 18۔ الکہف :53-52) میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔ القصص
65 ٦٥۔ ١ اس سے پہلے کی آیات میں توحید سے متعلق سوال تھا، یہ ندائے ثانی رسالت کے بارے میں ہے، یعنی تمہاری طرف ہم نے رسول بھیجے تھے، تم نے ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا، ان کی دعوت قبول کی تھی؟ جس طرح قبر میں سوال ہوتا ہے، تیرا پیغمبر کون ہے؟ تیرا دین کونسا ہے؟ مومن تو صحیح جواب دے دیتا ہے لیکن کافر کہتا ہے مجھے تو کچھ معلوم نہیں، اسی طرح قیامت والے دن انھیں اس سوال کا جواب نہیں سوجھے گا۔ اسی لئے آگے فرمایا‏‏، ان پر تمام حبریں اندھی ہوجائیں گی، یعنی کوئی دلیل ان کی سمجھ میں نہیں آئے گی جسے وہ پیش کرسکیں۔ یہاں دلائل کو احبار سے تعبیر کر کے اس طرف اشارہ فرما دیا کہ ان کے باطل عقائد کے لئے حقیقت میں ان کے پاس کوئی دلیل ہے ہی نہیں، صرف قصص و حکایات ہیں، جیسے آج بھی قبر پرستوں کے پاس من گھڑت کراماتی قصوں کے سوا کچھ نہیں۔ القصص
66 ٦  ٦ ۔ ١ کیونکہ انھیں یقین ہوچکا ہوگا کہ سب جہنم میں داحل ہونے والے ہیں۔ القصص
67 القصص
68 ٦٨۔ ١ یعنی اللہ تعالیٰ مختار کل ہے اس کے مقابلے میں کسی کو سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں، چہ جائکہ کوئی مختار کل ہو۔ القصص
69 القصص
70 القصص
71 القصص
72 القصص
73 ٧٣۔ ١ دن اور رات، یہ دونوں اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ رات کو تاریک بنایا تاکہ سب لوگ آرام کرسکیں۔ اس اندھیرے کی وجہ سے ہر مخلوق سونے اور آرام کرنے پر مجبور ہے۔ ورنہ اگر آرام کرنے اور سونے کے اپنے اپنے اوقات ہوتے تو کوئی بھی مکمل طریقے سے سونے نہ پاتا، جب کہ معاشی تگ و دو اور کاروبار جہاں کے لئے نیند کا پورا کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس کے بغیر توانائی بحال نہیں ہوتی۔ اگر کچھ لوگ سو رہے ہوتے اور کچھ لوگ جاگ کر مصروف تگ و تاز ہوتے، تو سونے والوں کے آرام و راحت میں خلل پڑتا، نیز لوگ ایک دوسرے کے تعاون سے بھی محروم رہتے، جب کہ دنیا کا نظام ایک دوسرے کے تعاون و تناصر کا محتاج ہے اس لئے اللہ نے رات کو تاریک کردیا تاکہ ساری مخلوق بیک وقت آرام کرے اور کوئی کسی کی نیند اور آرام میں مخل نہ ہو سکے۔ اسی طرح دن کو روشن بنایا تاکہ روشنی میں انسان اپنا کاروبار بہتر طریقے سے کرسکے۔ دن کی یہ روشنی نہ ہوتی تو انسان کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا، اسے ہر شخص باآسانی سمجھتا اور اس کا ادارک رکھتا ہے۔ اللہ نے اپنی ان نعمتوں کے حوالے سے اپنی توحید کا اثبات فرمایا ہے کہ بتلاؤ اگر اللہ تعالیٰ دن اور رات کا یہ نظام ختم کر کے ہمیشہ کے لئے تم پر رات ہی مسلط کر دے۔ تو کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود ایسا ہے جو تمہیں دن کی روشنی عطا کر دے؟ یا اگر وہ ہمیشہ کے لئے دن ہی دن رکھے تو کیا کوئی تمہیں رات کی تاریکی سے بہرہ ور کرسکتا ہے، جس میں تم آرام کرسکو؟ نہیں یقینا نہیں۔ یہ صرف اللہ کی کمال مہربانی ہے کہ اس نے دن اور رات کا ایسا نظام قائم کردیا ہے کہ رات آتی ہے تو دن کی روشنی ختم ہوجاتی ہے اور انسان کسب و محنت کے ذریعے سے اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرتا ہے۔ ٧٣۔ ٢ یعنی اللہ کی حمد و ثنا بھی بیان کرو (یہ زبانی شکر ہے) اور اللہ کی دی ہوئی دولت، صلاحیتوں اور توانائیں کو اس کے احکام و ہدایات کے مطابق استعمال کرو۔ (یہ عملی شکر ہے) القصص
74 القصص
75 ٧٥۔ ١ اس گواہ سے مراد پیغمبر ہے۔ یعنی ہر امت کے پیغمبر کو اس امت سے الگ کھڑا کردیں گے۔ ٧٥۔ ٢ یعنی دنیا میں میرے پیغمبروں کی دعوت توحید کے باوجود میرے شریک ٹھہراتے تھے اور میرے ساتھ ان کی بھی عبادت کرتے تھے، اس کی دلیل پیش کرو۔ ٧٥۔ ٣ یعنی وہ حیران اور ساکت کھڑے ہونگے، کوئی جواب اور دلیل انھیں نہیں سوجھے گی۔ ٧٥۔ ٤ یعنی ان کے کام نہیں آئے گا۔ القصص
76 ٧٦۔ ١ اپنی قوم بنی اسرائیل پر اس کا ظلم یہ تھا کہ اپنے مال و دولت کی فراوانی کی وجہ سے ان کا استخفاف کرتا تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ فرعون کی طرف سے یہ اپنی قوم بنی اسرائیل پر عامل مقرر تھا اور ان پر ظلم کرتا تھا۔ ٧٦۔ ٢ تنوء کے معنی تمیل (جھکنا) جس طرح کوئی شخص بھاری چیز اٹھاتا ہے تو بوجھ کی وجہ سے ادھر ادھر لڑکھڑاتا ہے اس کی چابیوں کا بوجھ اتنا زیادہ تھا کہ ایک طاقتور جماعت بھی اسے اٹھاتے ہوئے گرانی محسوس کرتی تھی۔ ٧٦۔ ٣ یعنی تکبر اور غرور مت کرو، بعض نے بخل، معنی کئے ہیں، بخل مت کر۔ ٧ ٦ ۔ ٤ یعنی تکبر اور غرور کرنے والوں کو یا بخل کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ القصص
77 ٧٧۔ ١ یعنی اپنے مال کو ایسی جگہوں اور راہوں پر خرچ کر، جہاں اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے، اس سے تیری آخرت سنورے گی اور وہاں اس کا تجھے اجر ثواب ملے گا۔ ٧٧۔ ٢ یعنی دنیا کے مباحات پر بھی اعتدال کے ساتھ خرچ کر مباحات دنیا کیا ہیں؟ کھانا پینا، لباس، گھر اور نکاح وغیرہ، مطلب یہ ہے کہ جس طرح تجھ پر تیرے رب کا حق ہے، اسی طرح تیرے اپنے نفس کا، بیوی بچوں کا اور مہمانوں وغیرہ کا بھی حق ہے، ہر حق والے کو اس کا حق دے۔ ٧٧۔ ٣ اللہ نے تجھے مال دے کر تجھ پر احسان کیا ہے تو مخلوق پر حرچ کر کے ان پر احسان کر۔ ٧٧۔ ٤ یعنی تیرا مقصد زمین میں فساد پھیلانا نہ ہو۔ اسی طرح مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کے بجائے بدسلوکی مت کر، نہ معصیتوں کا ارتکاب کر کہ ان تمام باتوں سے فساد پھیلتا ہے۔ القصص
78 ٧٨۔ ١ ان نصیحتوں کے جواب میں اس نے یہ کہا۔ اس کا مطلب ہے کہ مجھے کسب وتجارت کا جو فن آتا ہے، یہ دولت تو اسکا اور ثمر ہے، اللہ کے فضل و کرم سے اسکا کیا تعلق ہے؟ جو سرے معنی یہ کیے گئے ہیں کہ اللہ نے مجھے یہ مال دیا ہے تو اس نے اپنے علم کی وجہ سے دیا ہے کہ میں اس کا مستحق ہوں اور میرے لیے اس نے یہ پسند کیا ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر انسانوں کا ایک اور قول اللہ نے نقل فرمایا ہے ‏، جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اسے اپنی نعمت سے نواز دیتے ہیں تو کہتا ہے ( اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ) 28۔ القصص :78) أی۔ علی علم من اللہ یعنی مجھے یہ نعمت اس لیے ملی ہے کہ اللہ کے علم میں میں اس کا مستحق تھا، ایک مقام پر ہے،، جب ہم انسان پر تکلیف کے بعد اپنی رحمت کرتے ہیں تو کہتا ہے۔ (ھٰذَا لِی) (41۔ فصلت :50) أی۔ ہذا أستحقہ یہ تو میرا استحقاق ہے (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں کہ قارون کو کیمیا (سونا بنانے کا) علم آتا تھا، یہاں یہی مراد ہے اسی کیمیا گری سے اس نے اتنی دولت کما‍‍ئی تھی۔ لیکن امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ علم سراسر جھوٹ، فریب اور دھوکہ ہے۔ کوئی شخص اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کی ماہیت تبدیل کر دے۔ اس لیے قارون کے لیے بھی یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ دوسری دھاتوں کو تبدیل کر کے سونا بنا لیا کرتا اور اس طرح دولت کے انبار جمع کرلیتا۔ ٧٨۔ ٢ یعنی قوت اور مال کی فروانی۔ یہ فضیلت کا باعث نہیں، اگر ایسا ہوتا تو پچھلی قومیں تباہ و برباد نہ ہوتیں۔ اسلئے قارون کا اپنی دولت پر گھمنڈ کرنے اور اسے باعث فضیلت گرداننے کا کوئی جواز نہیں۔ ٧٨۔ ٣ یعنی جب گناہ اتنی زیادہ تعداد میں ہوں کہ ان کی وجہ سے مستحق عذاب قرار دئے گئے ہوں تو پھر ان سے باز پرس نہیں ہوتی، بلکہ اچانک ان کا مواخذہ کرلیا جاتا ہے۔ القصص
79 ٧٩۔ ١ یعنی زینت و آرائش کے ساتھ۔ ٧٩۔ ٢ یہ کہنے والے کون تھے؟ بعض کے نزدیک ایماندار ہی تھے جو اس کی امارت و شوکت کے مظاہرے سے متاثر ہوگئے تھے اور بعض کے نزدیک کافر تھے۔ القصص
80 ٨٠۔ ١ یعنی جن کے پاس دین کا علم تھا اور دنیا اور اس کے مظاہر کی اصل حقیقت سے باخبر تھے، انہوں نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ اللہ نے اہل ایمان اور اعمال صالح بجا لانے والوں کے لئے جو اجر و ثواب رکھا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ جیسے حدیث قدسی میں ہے۔ اللہ فرماتا ہے ' میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں کسی آنکھ نے نہیں دیکھا، کسی کان نے نہیں سنا اور نہ کسی کے وہم و گمان میں ان کا ذکر ہوا ' (البخاری کتاب التوحید) ٨٠۔ ٢ یعنی یلقاھا میں ھا کا مرجع، کلمہ ہے اور یہ قول اللہ کا ہے۔ اور اگر اسے اہل علم ہی کے قول کا تتمہ قرار دیا جائے تو ھا کا مرجع جنت ہوگی یعنی جنت کے مستحق وہ صابر ہی ہوں گے جو دنیاوی لذتوں سے کنارہ کش اور آحرت کی زندگی میں رغبت رکھنے والے ہوں گے۔ القصص
81 ٨١۔ ١ یعنی قارون کو اس کے تکبر کی وجہ سے اس کے محل اور خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا‏‏، ایک آدمی اپنی ازار زمین پر لٹکائے جا رہا تھا (اللہ کو اس کا یہ تکبر پسند نہیں آیا) اور اسے زمین میں دھنسا دیا گیا، پس وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا،۔ القصص
82 ٨٢۔ ١ مکان سے مراد دنیاوی مرتبہ و منزلت ہے جو دنیا میں عارضی طور پر ملتا ہے۔ جیسے قارون کو ملا تھا، مطلب یہ ہے کہ قارون کی سی دولت و حشمت کی آرزو کرنے والوں نے جب قارون کا عبرت ناک حشر دیکھا تو کہا کہ مال و دولت، اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس صاحب مال سے راضی بھی ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کسی کو مال زیادہ دیتا ہے اور کسی کو کم اس کا تعلق اس کی مشیت اور حکمت بالغہ سے ہے جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، مال کی فروانی اس کی رضا کی اور مال کی کمی اس کی نارضگی کی دلیل نہیں ہے نہ یہ معیار فضیلت ہے۔ ٨٢۔ ٢ یعنی ہم بھی اسی حشر سے دوچار ہوتے جس سے قارون دو چار ہوا۔ ٨٢۔ ٣ یعنی قارون نے دولت پا کر شکر گزاری کے بجائے ناشکری اور معصیت کا راست اختیار کیا تو دیکھ لو اس کا انجام بھی کیسا ہوا ؟ دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو۔ القصص
83 ٨٣۔ ١ علو کا مطلب ہے ظلم و زیادتی، لوگوں سے اپنے کو بڑا اور برتر سمجھنا اور باور کرانا، تکبر اور فخر غرور کرنا اور فساد کے معنی ہیں ناحق لوگوں کا مال ہتھیانا یا نافرمانیوں کا ارتکاب کرنا کہ ان دونوں باتوں سے زمین میں فساد پھیلتا ہے۔ فرمایا کہ متقین کا عمل و اخلاق ان برائیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہوتا ہے اور تکبر کے بجائے ان کے اندر تواضع، فروتنی اور معصیت کیثی کی بجائے اطاعت کیسی ہوتی ہے اور آخرت کا گھر یعنی جنت اور حسن انجام انہی کے حصے میں آئے گا۔ القصص
84 ٨٤۔ ١ یعنی کم از کم ہر نیکی کا بدلہ دس گنا تو ضرور ہی ملے گا، اور جس کے لئے اللہ چاہے گا، اس سے بھی زیادہ، کہیں زیادہ، عطا فرمائے گا۔ ٨٤۔ ٢ یعنی نیکی کا بدلہ تو بڑھا چڑھا کردیا جائے گا لیکن برائی کا بدلہ برائی کے برابر ہی ملے گا۔ یعنی نیکی کی جزا میں اللہ کے فضل و کرم کا اور بدی کی جزا میں اس کے عدل کا مظاہرہ ہوگا۔ القصص
85 ٨٥۔ ١ یا اس کی تلاوت اور اس کی تبلیغ و دعوت آپ پر فرض کی ہے۔ ٨٥۔ ٢ یعنی آپ کے مولد مکہ، جہاں سے آپ نکلنے پر مجبور کردیئے گئے تھے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے صحیح بخاری میں اس کی یہی تفسیر نقل ہوئی ہے۔ چنانچہ ہجرت کے آٹھ سال بعد اللہ کا یہ وعدہ پورا ہوگیا اور آپ ٨ ہجری میں فاتحانہ طور پر مکے میں دوبارہ تشریف لے گئے۔ بعض نے معاد سے مراد قیامت لی ہے۔ یعنی قیامت والے دن آپ کو اپنی طرف لوٹائے گا اور تبلیغ رسالت کے بارے میں پوچھے گا۔ ٨٥۔ ٣ یہ مشرکین کے اس جواب میں ہے جو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے آبائی اور روایتی مذہب سی انحراف کی بنا پر گمراہ سمجھتے تھے۔ فرمایا، میرا رب خوب جانتا ہے کہ گمراہ میں ہوں، جو اللہ کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہوں یا تم ہو، جو اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کو قبول نہیں کر رہے ہو؟ القصص
86 ٨٦۔ ١ یعنی نبوت سے قبل آپ کے وہم گمان میں بھی نہیں تھا کہ آپ کو رسالت کے لئے چنا جائے گا اور آپ پر کتاب الٰہی کا نزول ہوگا۔ ٨٦۔ ٢ یعنی نبوت و کتاب سے سرفرازی، اللہ کی خاص رحمت کا نتیجہ ہے جو آپ پر ہوئی اس سے معلوم ہوا کہ نبوت کوئی ایسی چیز نہیں ہے، جسے محنت اور سعی و کاوش سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا رہا، نبوت و رسالت سے مشرف فرماتا رہا، جیسا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سلسلہ الزہب کی آخری کڑی قرار دے کر اسے موقوف فرما دیا ٨٦۔ ٣ اب اس نعمت اور فضل الٰہی کا شکر آپ اس طرح ادا کریں کہ کافروں کی مدد اور ہمنوائی نہ کریں۔ القصص
87 ٨٧۔ ١ یعنی ان کافروں کی باتیں، انکی ایذاء رسانی اور انکی طرف سے تبلیغ و دعوت کی راہ میں رکاوٹیں، آپ کو قرآن کی تلاوت اور اس کی تبلیغ سے نہ روک دیں۔ بلکہ آپ پوری تن دہی اور یکسوئی سے رب کی طرف بلانے کا کام کرتے رہیں۔ القصص
88 ٨٨۔ ١ یعنی کسی اور کی عبادت نہ کرنا، نہ دعا کے ذریعے سے، نہ نذر نیاز کے ذریعے، نہ ہی قربانی کے ذریعے سے کہ یہ سب عبادات ہیں جو صرف ایک اللہ کے لئے خاص ہیں۔ قرآن میں ہر جگہ غیر اللہ کی عبادت کو پکارنے سے تعبیر کیا گیا ہے، جس سے مقصود اسی نکتے کی وضاحت ہے کہ غیر اللہ کو ما فوق الا سباب طریقے سے پکارنا، ان سے استغاثہ کرنا، ان سے دعائیں اور التجائیں کرنا یہ ان کی عبادت ہی ہے جس سے انسان مشرک بن جاتا ہے۔ ٨٨۔ ٢ وجھہ (اس کا منہ) سے مراد اللہ کی ذات ہے جو وجہ (چہرہ) سے متصف ہے۔ یعنی اللہ کے سوا ہر چیز ہلاک اور فنا ہوجانے والی ہے۔ ٨٨۔ ٣ یعنی اسی کا فیصلہ، جو وہ چاہے، نافذ ہوتا ہے اور اسی کا حکم، جس کا وہ ارادہ کرے، چلتا ہے۔ ٨٨۔ ٤ تاکہ وہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا اور بدوں کو انکی بدیوں کی سزا دے۔ القصص
0 العنكبوت
1 العنكبوت
2 ٢۔ ١ یعنی یہ گمان کہ صرف زبان سے ایمان لانے کے بعد، بغیر امتحان لئے، انھیں دیا جائے گا، صحیح نہیں۔ بلکہ انھیں جان و مال کی تکالیف اور دیگر آزمائشوں کے ذریعہ سے جانچا پرکھا جائے گا تاکہ کھرے کھوٹے کا اور مومن و منافق کا پتہ چل جائے۔ العنكبوت
3 ٣۔ ١ یعنی یہ سنت الٰہیہ ہے جو پہلے سے چلی آرہی ہے۔ اس لئے وہ اس امت کے مومنوں کی بھی آزمائش کرے گا، جس طرح پہلی امتوں کی آزمائش کی گئی۔ ان آیات کی شان نزول کی روایات میں آتا ہے کہ صحابہ کرام نے اس ظلم و ستم کی شکایت کی جس کا نشانہ وہ کفار مکہ کی طرف سے بنے ہوئے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دعا کی درخواست کی تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' یہ تشدد و ایذاء تو اہل ایمان کی تاریخ کا حصہ ہے تم سے پہلے بعض مومنوں کا یہ حال کیا گیا کہ انھیں ایک گھڑا کھود کر اس میں کھڑا کردیا گیا اور پھر ان کے سروں پر آرا چلا دیا گیا، جس سے ان کے جسم دو حصوں میں تقسیم ہوگئے، اسی طرح لوہے کی کنگھیاں ان کے گوشت پر ہڈیوں تک پھیری گئیں۔ لیکن یہ ایذائیں انھیں دین حق سے پھیرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں ' (صحیح بخاری) حضرت عمار، انکی والدہ حضرت سمیہ اور والد حضرت یاسر، حضرت صہیب، بلال ومقداد وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اسلام کے ابتدائی دور میں جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، وہ صفحات تاریح میں محفوظ ہیں۔ یہ واقعات ہی ان آیات کے نزول کا سبب بنے۔ تاہم عموم الفاظ کے اعتبار سے قیامت تک کے اہل ایمان اس میں داخل ہیں۔ العنكبوت
4 ٤۔ ١ یعنی ہم سے بھاگ جائیں گے اور ہماری گرفت میں نہ آسکیں گے۔ ٤۔ ٢ یعنی اللہ کے بارے میں کس ظن فاسد میں یہ مبتلا ہیں، جب کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور ہر بات سے باخبر بھی۔ پھر اس کی نافرمانی کر کے اس کے مؤاخذہ و عذاب سے بچنا کیونکر ممکن ہے؟ العنكبوت
5 ٥۔ ١ یعنی جسے آخرت پر یقین ہے اور وہ اجر و ثواب کی امید پر اعمال صالحہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی امیدیں بر لائے گا اور اسے اس کے عملوں کی مکمل جزاء عطا فرمائے گا، کیونکہ قیامت یقینا برپا ہو کر رہے گی اور اللہ کی عدالت ضرور قائم ہوگی۔ ٥۔ ٢ وہ بندوں کی باتوں اور دعاؤں کا سننے والا اور ان کے پیچھے اور ظاہر سب عملوں کو جاننے والا ہے اسکے مطابق وہ جزا اور سزا بھی یقینا دے گا۔ العنكبوت
6 ٦۔ ١ یعنی جو نیک عمل کرے گا، اس کا فائدہ اسی کو ہوگا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں کے افعال سے بے نیاز ہے۔ اگر سارے کے سارے متقی بن جائیں تو اس سے اس کی سلطنت میں قوت و اضافہ نہیں ہوگا اور سب نافرمان ہوجائیں تو اس سے اس کی بادشاہی میں کمی نہیں ہوگی۔ الفاظ کی مناسبت سے اس میں جہاد مع الکفار بھی شامل ہے کہ وہ بھی من جملہ اعمال صالحہ ہی ہے۔ العنكبوت
7 ٧۔ ١ یعنی باوجود اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق سے بے نیاز ہے، وہ محض اپنے فضل و کرم سے اہل ایمان کو ان کے عملوں کی بہترین جزا عطا فرمائے گا۔ اور ایک ایک نیکی پر کئی کئی گنا اجر ثواب دے گا۔ العنكبوت
8 ٨۔ ١ قرآن کریم کے متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید و عبادت کا حکم دینے کے ساتھ والدین کے ساتھ جس سلوک کی تاکید کی ہے۔ جس سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ ربوبیت (اللہ واحد) کے تقاضوں کو صحیح طریقہ سے وہی سمجھ سکتا ہے اور انھیں ادا کرسکتا ہے جو والدین کی اطاعت و خدمت کے تقاضوں کو سمجھتا اور ادا کرتا ہے۔ جو شخص یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ دنیا میں اس کا وجود والدین کی باہمی قربت کا نتیجہ اور ان کی تربیت و پرداخت، ان کی نہایت مہربانی اور شفقت کا ثمرہ ہے۔ اس لئے مجھے ان کی خدمت میں کوئی کوتاہی اور ان کی اطاعت سے سرتابی نہیں کرنی چاہیے اور یقینا خالق کائنات کو سمجھنے اور اس کی توحید و عبادت کے تقاضوں کی ادائیگی سے بھی قاصر رہے گا۔ اسی لئے احادیث میں بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید آئی ہے۔ ایک حدیث میں والدین کی رضامندی کو اللہ کی رضا اور ان کی ناراضگی کو رب کی نارضگی کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ ٨۔ ٢ یعنی والدین اگر شرک کا حکم دیں (اور اسی میں دیگر معاصی کا حکم شامل ہے) اور اس کے لئے خاص کوشش بھی کریں تو ان کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے 'کیونکہ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں '۔ اس آیت کے شان نزول میں حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کا واقعہ آتا ہے کہ ان کے مسلمان ہونے پر انکی والدہ نے کہا کہ میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی، یہاں تک کہ مجھے موت آجائے یا پھر تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کر دے، بالآخر یہ اپنی والدہ کو زبردستی منہ کھول کر کھلاتے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی العنكبوت
9 ٩۔ ١ یعنی اگر کسی کے والدین مشرک ہوں گے تو مومن بیٹا نیکوں کے ساتھ ہوگا، والدین کے ساتھ نہیں۔ اس لیے کہ گو والدین دنیا میں اس کے بہت قریب رہے ہوں گے لیکن اس کی محبت دینی اہل ایمان ہی کے ساتھ تھی بنابریں المرء مع من أحب کے تحت وہ زمرہ صالحین میں ہوگا۔ العنكبوت
10 ١٠۔ ١ اس میں اہل نفاق یا کمزور ایمان والوں کا حال بیان کیا گیا ہے کہ ایمان کی وجہ سے انھیں ایذاء پہنچتی ہے تو عذاب الہی کی طرح وہ ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ نتیجتا وہ ایمان سے پھرجاتے اور دین عوام کو اختیار کرلیتے ہیں۔ ١٠۔ ٢ یعنی مسلمانوں کو فتح و غلبہ نصیب ہوجائے۔ ١٠۔ ٣ یعنی تمہارے دینی بھائی ہیں، یہ وہی مضمون ہے جو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ وہ لوگ تمہیں دیکھتے رہتے ہیں، اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح ملتی ہی، تو کہتے ہیں کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے؟ اور اگر حالات کافروں کے لیے کچھ سازگار ہوتے ہیں تو کافروں سے جا کر کہتے ہیں کہ کیا ہم نے تم کو گھیر نہیں لیا تھا۔ اور مسلمانوں سے تم کو نہیں پجایا تھا۔ (الَّذِیْنَ یَتَرَبَّصُوْنَ بِکُمْ ۚ فَاِنْ کَانَ لَکُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰہِ قَالُوْٓا اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ ڮ وَاِنْ کَانَ لِلْکٰفِرِیْنَ نَصِیْبٌ ۙ قَالُوْٓا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْکُمْ وَنَمْنَعْکُمْ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ۭفَاللّٰہُ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ۭ وَلَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا) 4۔ النساء :141) ١٠۔ ٤ یعنی کیا اللہ ان باتوں کو نہیں جانتا جو تمہارے دلوں میں ہے اور تمہارے ضمیروں میں پوشیدہ ہے۔ گو تم زبان سے مسلمانوں کا ساتھی ہونا ظاہر کرتے ہو۔ العنكبوت
11 (١) اسکا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ خوشی اور تکلیف دے کر آزمائے گا تاکہ منافق اور مومن کی تمیز ہوجائے جو دونوں حالتوں میں اللہ کی اطاعت کرے گا، وہ مومن ہے اور جو صرف خوشی اور راحت میں اطاعت کرے گا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ صرف اپنے حظ نفس کا مطیع ہے، اللہ کا نہیں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا۔ (وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتّٰی نَعْلَمَ الْمُجٰہِدِیْنَ مِنْکُمْ وَالصّٰبِرِیْنَ ۙ وَنَبْلُوَا۟ اَخْبَارَکُمْ) 47۔ محمد :31) ہم تمہیں ضرور آزمائینگے، تاکہ ہم جان لیں تم میں مجاہد اور صابر کون ہیں اور تمہارے دیگر حالات بھی جانچیں گے ‏،۔ جنگ احد کے بعد، جس میں مسلمان اختیار و امتحان کی بھٹی سے گزارے گئے تھے، فرمایا (مَا کَان اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ) 3۔ آل عمران :179) نہیں ہے اللہ تعالیٰ کہ وہ چھوڑ دے مومنوں کو، اس حالت پر جس پر کہ تم ہو، یہاں تک کہ وہ جدا کر دے ناپاک کو پاک سے۔ العنكبوت
12 ١٢۔ ١ یعنی تم اسی آبائی دین کی طرف لوٹ آؤ، جس پر ہم ابھی تک قائم ہیں، اس لئے کہ وہی دین صحیح ہے، اگر اس روایتی مذہب پر عمل کرنے سے تم گناہ گار ہو گے تو اس کے ذمے دار ہم ہیں، وہ بوجھ ہم اپنی گردنوں پر اٹھائیں گے۔ ١٢۔ ٢ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ جھوٹے ہیں۔ قیامت کا دن تو ایسا ہوگا کہ وہاں کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ وہاں تو ایک دوست، دوسرے دوست کو نہیں پوچھے گا چاہے ان کے درمیان نہایت گہری دوستی ہو۔ حتی کہ رشتے دار ایک دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائیں گے۔ اور یہاں بھی اس بوجھ کے اٹھانے کی نفی فرمائی۔ العنكبوت
13 ١٣۔ ١ یعنی یہ ائمہ کفر اور داعیان ضلال اپنا ہی بوجھ نہیں اٹھائیں گے، بلکہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ان پر ہوگا جو انکی سعی و کاوش سے گمراہ ہوئے تھے۔ یہ مضمون سورۃ النحل میں بھی گزر چکا ہے۔ حدیث میں ہے، جو ہدایت کی طرف بلاتا ہے، اس کے لئے اپنی نیکیوں کے اجر کے ساتھ ان لوگوں کی نیکیوں کا اجر بھی ہوگا جو اس کی وجہ سے قیامت تک ہدایت کی پیروی کریں گے، بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کوئی کمی ہو۔ اور جو گمراہی کا داعی ہوگا اس کے لئے اپنے گناہوں کے علاوہ ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ بھی ہوگا جو قیامت تک اس کی وجہ سے گمراہی کا راستہ اختیار کرنے والے ہونگے۔، بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کمی ہو۔ اسی اصول سے قیامت تک ظلم سے قتل کیے جانے والوں کے خون کا گناہ آدم (علیہ السلام) کے پہلے بیٹے (قابیل) پر ہوگا۔ اس لیے کہ سب سے پہلے اسی نے ناحق قتل کیا تھا۔ العنكبوت
14 ١٤۔ ١ قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کی دعوت و تبلیغ کی عمر ان کی پوری عمر کتنی تھی؟ اس کی صراحت نہیں کی گئی۔ بعض کہتے ہیں چالیس سال نبوت سے قبل اور ساٹھ سال طوفان کے بعد، اس میں شامل کر لئے جائیں۔ اور بھی کئی اقوال ہیں۔ و اللہ اعلم۔ العنكبوت
15 العنكبوت
16 العنكبوت
17 ١٧۔ ١ اوثان وثن کی جمع ہے۔ جس طرح اصنام، صنم کی جمع ہے۔ دونوں کے معنی بت کے ہیں۔ بعض کہتے ہیں صنم، سونے، چاندی، پیتل اور پتھر کی مورت کو اور وثن مورت کو بھی اور چونے کے پتھر وغیرہ کے بنے ہوئے آستانوں کو بھی کہتے ہیں۔ تحلقون افکا کے معنی ہیں تکذبون کذبا، جیسا کہ متن کے ترجمہ سے واضح ہے۔ دوسرے معنی ہیں تعملونہا وتنحتونہا للافک، جھوٹے مقصد کے لیے انھیں بناتے اور گھڑتے ہو۔ مفہوم کے اعتبار سے دونوں ہی معنی صحیح ہیں۔ یعنی اللہ کو چھوڑ کر جن بتوں کی عبادت کرتے ہو، وہ تو پتھر کے بنے ہوئے ہیں جو سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں، نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع۔ اپنے دل سے ہی تم نے انھیں گھڑ لیا ہے کوئی دلیل تو ان کی صداقت کی تمہارے پاس نہیں ہے یہ بت تم نے خود اپنے ہاتھوں سے تراشے ہیں جب کہ ان کی ایک خاص شکل و صورت بن جاتی ہے تو تم سمجھتے ہو کہ ان میں خدائی اختیارات آگئے ہیں اور ان سے تم امیدیں وابستہ کر کے انھیں حاجت روا اور مشکل کشا باور کرلیتے ہو۔ ١٧۔ ٢ یعنی جب بت تمہاری روزی کے اسباب و وسائل میں سے کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں، نہ بارش برسا سکتے ہیں، نہ زمین میں درخت اگا سکتے ہیں اور نہ سورج کی حرارت پہنچا سکتے ہیں اور نہ تمہیں وہ صلاحیتیں دے سکتے ہیں، جنہیں بروئے کار لا کر تم قدرت کی ان چیزوں سے فیض یاب ہوتے ہو، تو پھر تم روزی اللہ ہی سے طلب کرو، اسی کی عبادت اور اسی کی شکر گزاری کرو۔ ١٧۔ ٣ یعنی مر کر اور پھر دوبارہ زندہ ہو کر جب اسی کی طرف لوٹنا ہے، اسی کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے تو پھر اس کا در چھوڑ کر دوسروں کے در پر اپنی جبین نیاز کیوں جھکاتے ہو؟ اس کے بجائے دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ اور دوسروں کو حاجت روا اور مشکل کشا کیوں سمجھتے ہو؟ العنكبوت
18 ١٨۔ ١ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قول بھی ہوسکتا ہے، جو انہوں نے اپنی قوم سے کہا۔ یا اللہ تعالیٰ کا قول ہے جس میں اہل مکہ سے خطاب ہے اور اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ کفار مکہ اگر آپ کو جھٹلا رہے ہیں، تو اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، پیغمبروں کے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے پہلی امتیں بھی رسولوں کو جھٹلاتی اور اس کا نتیجہ بھی ہلاکت و تباہی کی صورت میں بھگتتی رہی ہیں۔ ١٨۔ ٢ اس لیے آپ بھی تبلیغ کا کام کرتے رہیے۔ اس سے کوئی راہ یاب ہوتا ہے یا نہیں؟ اس کے ذمے دار آپ نہیں ہیں، نہ آپ سے اسکی بابت پوچھا ہی جائے گا، کیونکہ ہدایت دینا نہ دینا یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے، جو اپنی سنت کے مطابق جس میں ہدایت کی طلب صادق دیکھتا ہے، اس کو ہدایت سے نواز دیتا ہے۔ دوسروں کو ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔ العنكبوت
19 ١٩۔ ١ توحید اور رسالت کے اثبات کے بعد یہاں معاد (آخرت) کا اثبات کیا جا رہا ہے جس کا کفار انکار کرتے تھے۔ فرمایا پہلی مرتبہ پیدا کرنے والا بھی وہی ہے جب تمہارا سرے سے وجود ہی نہ تھا، پھر تم دیکھنے سننے اور سمجھنے والے بن گئے اور پھر جب مر کر تم مٹی میں مل جاؤ گے، بظاہر تمہارا نام و نشان تک نہیں رہے گا، اللہ تعالیٰ تمہیں دوبارہ زندہ فرمائے گا۔ ١٩۔ ٢ یعنی یہ بات چاہے تمہیں کتنی ہی مشکل لگے، اللہ کے لئے بالکل آسان ہے۔ العنكبوت
20 ٢٠۔ ١ یعنی آفاق میں پھیلی ہوئی اللہ کی نشانیاں دیکھو زمین پر غور کرو، کس طرح اسے بچھایا، اس میں پہاڑ، وادیاں، نہریں اور سمندر بنائے، اسی انواع و اقسام کی روزیاں اور پھل پیدا کئے۔ کیا یہ سب چیزیں اس بات پر دلالت نہیں کرتیں کہ انھیں بنایا گیا ہے اور ان کا کوئی بنانے والا ہے؟ العنكبوت
21 ٢١۔ ١ یعنی وہی اصل حاکم اور متصرف ہے، اس سے کوئی پوچھ نہیں سکتا تاہم اس کا عذاب یا رحمت، یوں ہی نہیں ہوگی بلکہ اصولوں کے مطابق ہوگی جو اس نے اس کے لئے طے کر رکھے ہیں۔ العنكبوت
22 العنكبوت
23 ٢٣۔ ١ اللہ تعالیٰ کی رحمت، دنیا میں عام ہے جس سے کافر اور مومن، منافق اور مخلص اور نیک اور بد سب یکساں طور پر مستفید ہو رہے ہیں اللہ تعالیٰ سب کو دنیا کے وسائل، آسائش اور مال و دولت عطا کر رہا ہے یہ رحمت الٰہی کی وہ وسعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر فرمایا ' میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر لیا ہے ' لیکن آخر میں چونکہ دارالجزاء ہے، انسان نے دنیا کی کھیتی میں جو کچھ بویا ہوگا اسی کی فصل اسے وہاں کاٹنی ہوگی، جیسے عمل کئے ہونگے اس کی جزاء اسے وہاں ملے گی۔ اللہ کی بارگاہ میں بے لاگ فیصلے ہوں گے۔ دنیا کی طرح اگر آخرت میں بھی نیک وبد کے ساتھ یکساں سلوک ہو اور مومن و کافر دونوں ہی رحمت الہی کے مستحق قرار پائیں تو اس سے ایک تو اللہ تعالیٰ کی صفت عدل پر حرف آتا ہے، دوسرے قیامت کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ قیامت کا دن تو اللہ نے رکھا ہی اس لیے ہے کہ وہاں نیکوں کو ان کی نیکیوں کے صلے میں جنت اور بدوں کو انکی بدیوں کی جزا میں جہنم دی جائے۔ اس لیے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت صرف اہل ایمان کے لیے خاص ہوگی۔ جسے یہاں بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ آخرت اور معاد کے ہی منکر ہوں گے وہ میری رحمت سے ناامید ہوں گے یعنی ان کے حصے میں رحمت الہی نہیں آئے گی۔ سورۃ اعراف میں اس کو ان الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔ (فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ) 7۔ الاعراف :156) میں یہ رحمت (آخرت میں) ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو متقی، زکوٰۃ ادا کرنے والے اور ہماری آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہوں گے۔ العنكبوت
24 ٢٤۔ ١ ان آیات سے قبل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان ہو رہا تھا، اب پھر اس کا بقیہ بیان کیا جا رہا ہے، درمیان میں جملہ معترضہ کے طور پر اللہ کی توحید اور اس کی قدرت و طاقت کو بیان کیا گیا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وعظ کا حصہ ہے۔ جس میں انہوں نے توحید و معاد کے اثبات میں دلائل دیئے ہیں، جن کا کوئی جواب جب ان کی قوم سے نہیں بنا تو انہوں نے اس کا جواب ظلم و تشدد کی اس کاروائی سے دیا، جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اسے قتل کر دو یا جلا ڈالو۔ چنانچہ انہوں نے آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کر کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو منجنیق کے ذریعے سے اس میں پھینک دیا۔ ٢٤۔ ٢ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو گلزار کی صورت میں بدل کر اپنے بندے کو بچا لیا۔ جیسا کہ سورۃ انبیاء میں گزرا۔ العنكبوت
25 ٢٥۔ ١ یعنی یہ تمہارے قوی بت ہیں جو تمہاری اجتماعت اور آپس کی دوستی کی بنیاد ہیں۔ اگر تم ان کی عبادت چھوڑ دو تو تمہاری قومیت اور دوستی کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ ٢٥۔ ٢ یعنی قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار اور دوستی کی بجائے ایک دوسرے پر لعنت کرو گے اور تابع، متبوع کو ملامت اور متبوع، تابع سے بیزاری کا اظہار کریں گے۔ العنكبوت
26 ٢٦۔ ١ حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے برادر زاد تھے، یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان لائے، بعد میں ان کو بھی ' سدوم ' کے علاقے میں نبی بنا کر بھیجا گیا۔ ٢٦۔ ٢ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اور بعض کے نزدیک حضرت لوط (علیہ السلام) نے، اور بعض کہتے ہیں دونوں نے ہجرت کی۔ یعنی جب ابراہیم (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والے لوط (علیہ السلام) کے لئے اپنے علاقے ' کو ٹی ' میں، جو حران کی طرف جاتے ہوئے کوفے کی ایک بستی تھی، اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہوگئی تو وہاں سے ہجرت کر کے شام کے علاقے میں چلے گئے، تیسری، ان کے ساتھ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اہلیہ سارہ تھیں۔ العنكبوت
27 ٢٧۔ ١ یعنی حضرت اسحاق (علیہ السلام) سے یعقوب (علیہ السلام) ہوئے، جن سے بنی اسرئیل کی نسل چلی اور انہی میں سارے انبیاء ہوئے، اور کتابیں آئیں۔ آخر میں حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل سے ہوئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل ہوا۔ ٢٧۔ ٢ اس اجر سے مراد رزق دنیا بھی ہے اور ذکر خیر بھی۔ یعنی دنیا میں ہر مذہب کے لوگ (عیسائی، یہودی وغیرہ حتی کہ مشرکین بھی) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عزت و تکریم کرتے ہیں اور مسلمان تو ہیں ہی ملت ابراہیمی کے پیرو، ان کے ہاں وہ محترم کیوں نہ ہونگے؟ ٢٧۔ ٣ یعنی آخرت میں بھی وہ بلند درجات کے حامل اور زمرہ صالحین میں ہونگے۔ اس مضمون کو دوسرے مقام پر بھی بیان کیا گیا ہے العنكبوت
28 ٢٨۔ ١ اس بدکاری سے مراد وہی لواطت ہے جس کا ارتکاب قوم لوط (علیہ السلام) نے سب سے پہلے کیا جیسا کہ قرآن نے صراحت کی ہے۔ العنكبوت
29 ٢٩۔ ١ یعنی تمہاری شہوت پرستی اس انتہاء تک پہنچ گئی ہے کہ اس کے لئے طبعی طریقے تمہارے لئے ناکافی ہیں اور غیر طبعی طریقہ اختیار کرلیا ہے۔ جنسی شہوت کی تسکین کے لئے طبعی طریقہ اللہ تعالیٰ نے بیویوں سے مباشرت کی صورت میں رکھا ہے۔ اسے چھوڑ کر اس کام کے لئے مردوں کی دبر استعمال کرنا غیر طبعی طریقہ ہے۔ ٢٩۔ ٢ اس کے ایک معنی تو یہ کیے گے ہیں کہ آنے جانے والے مسافروں، نو واردوں اور گزرنے والوں کو زبردستی پکڑ پکڑ کر تم ان سے بے حیائی کا کام کرتے ہو، جس سے لوگوں کے لئے راستوں سے گزرنا مشکل ہوگیا ہے، قطع طریق کے ایک معنی قطع نسل کے بھی کئے گئے ہیں، یعنی عورتوں کی شرم گاہوں کو استعمال کرنے کی بجائے مردوں کی دبر استعمال کر کے تم اپنی نسل بھی منقطع کرنے میں لگے ہوئے ہو (فتح القدیر) ٢٩۔ ٢ یہ بے حیائی کیا تھی؟ اس میں بھی مختلف اقوال ہیں، مثلا لوگوں کو کنکریاں مارنا، اجنبی مسافر کا استہزاء و استخفاف، مجلسوں میں پاد مارنا، ایک دوسرے کے سامنے اغلام بازی، شطرنج وغیرہ قسم کی قماربازی، رنگے ہوئے کپڑے پہننا، وغیرہ۔ امام شوکانی فرماتے ہیں، کوئی بعید نہیں کہ وہ یہ تمام ہی منکرات کرتے رہے ہوں، ٢٩۔ ٣ حضرت لوط (علیہ السلام) نے جب انھیں ان منکرات سے منع کیا تو اس کے جواب میں کہا۔ العنكبوت
30 ٣٠۔ ١ یعنی حضرت لوط (علیہ السلام) قوم کی اصلاح سے ناامید ہوگئے تو اللہ سے مدد کی دعا فرمائی۔ العنكبوت
31 ٣١۔ ١ یعنی حضرت لوط (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمائی گئی اور اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو ہلاک کرنے کے لئے بھیج دیا۔ وہ فرشتے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس گئے اور انھیں اسحاق (علیہ السلام) و یعقوب (علیہ السلام) کی خوشخبری دی اور ساتھ ہی بتلایا کہ ہم لوط (علیہ السلام) کی بستی ہلاک کرنے آئے ہیں۔ العنكبوت
32 ٣٢۔ ١ یعنی ہمیں علم ہے کہ ظالم اور مومن کون ہیں اور اشرار کون؟ ٣٢۔ ٢ یعنی ان پیچھے رہ جانے والوں میں سے، جن کو عذاب کے ذریعے سے ہلاک کیا جانا ہے وہ چونکہ مومنہ نہیں تھی بلکہ اپنی قوم کی طرف دار تھی۔ اس لئے اسے بھی ہلاک کردیا گیا۔ العنكبوت
33 ٣٣۔ ١ لوط (علیہ السلام) نے ان فرشتوں کو، جو انسانی شکل میں آئے تھے، انسان ہی سمجھا۔ ڈرے اپنی قوم کی عادت بد اور سرکشی کی وجہ سے کہ ان خوبصورت مہمانوں کی آمد کا علم اگر انھیں ہوگیا تو وہ زبردستی بے حیائی کا ارتکاب کریں گے جس سے میری رسوائی ہوگی، جس کی وجہ سے وہ غمگین اور دل ہی دل میں پریشان تھے۔ ٣٣۔ ٢ فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی پریشانی اور غم ورنج کی کیفیت کو دیکھا تو انھیں تسلی دی اور کہا کہ آپ کوئی خوف اور رنج نہ کریں، ہم اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں۔ ہمارا مقصد آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو سوائے آپ کی بیوی کے نجات دلانا ہے۔ العنكبوت
34 ٣٤۔ ١ اس آسمانی عذاب سے وہی عذاب مراد ہے جس کے ذریعے سے قوم لوط کو ہلاک کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) ان کی بستیوں کو زمین سے اکھیڑا آسمان کی بلندیوں تک لے گئے پھر ان ہی پر الٹا دیا گیا، اس کے بعد کھنگر پتھروں کی بارش ان پر ہوئی اور اس جگہ کو سخت بدبو دار بیحرہ (جھیل) میں تبدیل کردیا گیا (ابن کثیر) العنكبوت
35 ٣٥۔ ١ یعنی پتھروں کے وہ آثار، جن کی بارش ان پر ہوئی سیاہ بدبودار پانی اور الٹی ہوئی بستیاں، یہ سب عبرت کی نشانیاں ہیں مگر کن کے لئے؟ دانش مندوں کے لئے۔ ٣٥۔ ٢ اس لیے کہ وہی معاملات پر غور کرتے، اسباب وعوامل کا تجزیہ کرتے اور نتائج و آثار کو دیکھتے ہیں کہ لیکن جو لوگ عقل و شعور سے بے بہرہ ہوتے ہیں، انھیں ان چیزوں سے کیا تعلق؟ وہ تو جانوروں کی طرح ہیں جنہیں ذبح کے لیے بوچڑ خانے لے جایا جاتا ہے لیکن انھیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ اس میں مشرکین مکہ کے لیے بھی تعریض ہے کہ وہ بھی تکذیب کا مظاہرہ کر رہے ہیں جو عقل و دانش سے بے بہرہ لوگوں کا وطیرہ ہے۔ العنكبوت
36 ٣٦۔ ١ مدین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے کا نام تھا، بعض کے نزدیک یہ ان کے پوتے کا نام ہے، بیٹے کا نام مدیان تھا ان ہی کے نام پر اس قبیلے کا نام پڑگیا، جو ان ہی کی نسل پر مشتمل تھا۔ اسی قبیلے مدین کی طرف حضرت شعیب (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجا گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ مدین شہر کا نام تھا، یہ قبیلہ یا شہر لوط (علیہ السلام) کی بستی کے قریب تھا۔ ٣٦۔ ٢ اللہ کی عبادت کے بعد، انھیں آخرت کی یاد دہانی کرائی گئی یا تو اس لئے کہ وہ آخرت کے منکر تھے یا اس لئے کہ وہ اسے فراموش کئے ہوئے تھے اور مستیوں میں مبتلا تھے اور جو قوم آخرت کو فرا موش کر دے، وہ گناہوں میں دلیر ہوتی ہے۔ جیسے آج مسلمانوں کی اکثریت کا حال ہے۔ ٣ ٦ ۔ ٣ ناپ تول میں کمی اور لوگوں کو کم دینا یہ بیماری ان میں عام تھی اور ارتکاب معاصی میں انھیں باک نہیں تھا، جس سے زمین فساد سے بھر گئی تھی۔ العنكبوت
37 ٣٧۔ ١ حضرت شعیب (علیہ السلام) کے وعظ و نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا بالآخر بادلوں کے سائے والے دن، جبرائیل (علیہ السلام) کی ایک سخت چیخ سے زمین زلزلے سے لرز اٹھی، جس سے ان کے دل ان کی آنکھوں میں آگئے اور ان کی موت واقع ہوگئی اور وہ گھٹنوں کے بل بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے۔ العنكبوت
38 ٣٨۔ ١ قوم عاد کی بستی احقاف، حضرموت (یمن) کے قریب اور ثمود کی بستی، حجر، جسے آجکل مدائن صالح کہتے ہیں، حجاز کے شمال میں ہے۔ ان علاقوں سے عربوں کے تجارتی قافلے آتے جاتے تھے، اس لئے یہ بستیاں ان کے لئے انجان نہیں، بلکہ ظاہر تھیں۔ ٣٨۔ ٢ یعنی تھے وہ عقلمند اور ہوشیار۔ لیکن دین کے معاملے میں انہوں نے اپنی عقل و بصیرت سے کچھ کام نہیں لیا، اس لئے یہ عقل اور سمجھ ان کے کام نہ آئی۔ العنكبوت
39 ٣٩۔ ١ یعنی دلائل و معجزات کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوا اور بدستور متکبر بنے رہے، یعنی ایمان و تقویٰ اختیار کرنے سے گریز کیا۔ ٣٩۔ ٢ یعنی ہماری گرفت سے بچ کر نہیں جاسکے اور ہمارے عذاب کے شکنجے میں آکر رہے۔ ایک دوسرا ترجمہ ہے کہ ' یہ کفر میں سبقت کرنے والے نہیں تھے ' بلکہ ان سے پہلے بھی بہت سی امتیں گزر چکی ہیں جنہوں نے اس طرح کفر و عناد کا راستہ اختیار کئے رکھا۔ العنكبوت
40 ٤٠۔ ١ یعنی ان مذکورین میں سے ہر ایک کی ان کے گناہوں کی پاداش میں ہم نے گرفت کی۔ ٤٠۔ ٢ یہ قوم عاد تھی، جس پر نہایت تتند و تیز ہوا کا عذاب آیا۔ یہ ہوا زمین سے کنکریاں اڑا اڑا کر ان پر برساتی، بالآخر اس کی شدت اتنی بڑھی کہ انھیں اچک کر آسمان تک لے جاتی اور انھیں سر کے بل زمین پر دے مارتی، جس سے ان کا سر الگ اور دھڑ الگ ہوجاتا گویا کہ وہ کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں۔ (ابن کثیر) بعض مفسرین نے حصبا کا مصداق قوم لوط (علیہ السلام) کو ٹھہرایا ہے۔ لیکن امام ابن کثیر نے اسے غیر صحیح اور حضرت ابن عباس (رض) کی طرف منسوب قول کو منقطع قرار دیا ہے۔ ٤٠۔ ٣ حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم ثمود ہے۔ جنہیں ان کے کہنے پر ایک چٹان سے اونٹنی نکال کر دکھائی گئی۔ لیکن ان ظالموں نے ایمان لانے کے بجائے اس اونٹنی کو ہی مار ڈالا۔ جس کے تین دن بعد ان پر سخت چنگھاڑ کا عذاب آیا، جس نے انکی آوازوں اور حرکتوں کو خاموش کردیا۔ ٤٠۔ ٤ یہ قارون ہے، جسے مال و دولت کے خزانے عطا کئے گئے، لیکن یہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہوگیا کہ یہ مال و دولت اس بات کی دلیل ہے کہ میں اللہ کے ہاں معزز و محترم ہوں۔ مجھے موسیٰ (علیہ السلام) کی بات ماننے کی کیا ضرورت ہے، چنانچہ اسے اس کے خزانوں اور محلات سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ ٤٠۔ ٥ یہ فرعون ہے، جو ملک مصر کا حکمران تھا، لیکن حد سے تجاوز کر کے اس نے اپنے بارے میں الوہیت کا دعوی بھی کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے سے اور انکی قوم بنی اسرائیل کو، جس کو اس نے غلام بنا رکھا تھا، آزاد کرنے سے انکار کردیا، بالآخر ایک صبح اس کو اس کے پورے لشکر سمیت دریائے قلزم میں غرق کردیا گیا۔ ٤٠۔ ٦  یعنی اللہ کی شان نہیں کہ وہ ظلم کرے۔ اس لئے پچھلی قومیں، جن پر عذاب آیا، محض اس لئے ہلاک ہوئیں کہ کفر و شرک اور تکذیب و معاصی کا ارتکاب کر کے انہوں نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا۔ العنكبوت
41 ٤١۔ ١ یعنی جس طرح مکڑی کا جالا (گھر) نہایت، کمزور اور ناپائیدار ہوتا ہے، ہاتھ کے معمولی اشارے سے وہ نابود ہوجاتا ہے۔ اللہ کے سوا دوسروں کو معبود، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا بھی بالکل ایسا ہی ہے، یعنی بے فائدہ ہے کیونکہ وہ بھی کسی کے کام نہیں آسکتے۔ اس لئے غیر اللہ کے سہارے بھی مکڑی کے جالے کی طرح یکسر ناپائیدار ہیں۔ اگر یہ پائیدار یا نفع بخش ہوتے تو یہ معبود گزشتہ اقوام کو تباہی سے بچا لیتے۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ انھیں نہیں بچا سکے۔ العنكبوت
42 العنكبوت
43 ٤٣۔ ١ یعنی انھیں خواب غفلت سے بیدار کرنے، شرک کی حقیقت سے آگاہ کرنے اور ہدایت کا راستہ سجھانے کے لئے۔ ٤٣۔ ٢ اس علم سے مراد اللہ کا، اس کی شریعت کا اور ان آیات و دلائل کا علم ہے جن پر غور و فکر کرنے سے انسان کو اللہ کی معرفت حاصل ہوتی اور ہدایت کا راستہ ملتا ہے۔ العنكبوت
44 ٤٤۔ ١ یعنی بے فائدہ اور بے مقصد نہیں۔ ٤٤۔ ٢ یعنی اللہ کے وجود کی، اس کی قدرت اور علم و حکمت کی۔ اور پھر اسی دلیل سے وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کائنات میں اس کے سوا کوئی معبود نہیں، کوئی حاجت روا اور مشکل کشا نہیں۔ العنكبوت
45 ٤٥۔ ١ قرآن کریم کی تلاوت متعدد مقاصد کے لئے مطلوب ہے۔ محض اجر و ثواب کے لئے، اس کے معنی و مطلب پر تدبر و تفکر کے لئے، تعلیم و تدریس کے لئے، اور وعظ و نصیحت کے لئے، اس حکم تلاوت میں ساری صورتیں شامل ہیں۔ ٤٥۔ ٢ کیونکہ نماز سے (بشرطیکہ نماز ہو) انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہوجاتا ہے، جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر اس کے عزم و ثبات کا باعث، اور ہدایت کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے اس لیے قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ نماز اور صبر کوئی مرئی چیز نہیں ہے نہیں کہ انسان انکا سہارا پکڑ کر ان سے مدد حاصل کرلے۔ یہ تو غیر مرئی چیز ہے مطلب یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے انسان کا اپنے رب کے ساتھ جو خصوصی ربط و تعلق پیدا ہوتا ہے وہ قدم قدم پر اس کی دستگیری اور رہنمائی کرتا ہے اسی لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رات کی تنہائی میں تہجد کی نماز بھی پڑھنے کی تاکید کی گئی کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے جو عظیم کام سونپا گیا تھا، اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی مدد کی بہت زیادہ ضرورت تھی اور یہی وجہ ہے کہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی جب کوئی اہم مرحلہ درپیش ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کا اہتمام فرماتے۔ ٤٥۔ ٣ یعنی بے حیائی اور برائی سے روکنے کا سبب اور ذریعہ بنتی ہے جس طرح دواؤں کی مختلف تاثیرات ہیں اور کہا جاتا ہے کہ فلاں دوا فلاں بیماری کو روکتی ہے اور واقعتا ایسا ہوتا ہے لیکن کب؟ جب دو باتوں کا التزام کیا جائے ایک دوائی کو پابندی کے ساتھ اس طریقے اور شرائط کے ساتھ استعمال کیا جائے جو حکیم اور ڈاکٹر بتلائے۔ دوسرا پرہیز یعنی ایسی چیزوں سے اجتناب کیا جائے جو اس دوائی کے اثرات کو زائل کرنے والی ہوں۔ اسی طرح نماز کے اندر بھی یقینا اللہ نے ایسی روحانی تاثیر رکھی ہے کہ یہ انسان کو بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے لیکن اسی وقت جب نماز کو سنت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق ان آداب وشرائط کے ساتھ پڑھا جائے جو اس کی صحت و قبولیت کے ضروری ہیں۔ مثلا اس کے لیے پہلی چیز اخلاص ہے، ثانیا طہارت قلب یعنی نماز میں اللہ کے سوا کسی اور کی طرف التفات نہ ہو۔ ثالثا باجماعت اوقات مقررہ پر اس کا اہتمام۔ رابعا ارکان صلاۃ قرأت رکوع قومہ سجدہ وغیرہ میں اعتدال و اطمینان خامسا خشوع وخضوع اور رقت کی کیفیت۔ سادسا مواظبت یعنی پابندی کے ساتھ اس کا التزام سابعا رزق حلال کا اہتمام۔ ہماری نمازیں ان آداب وشرائط سے عاری ہیں۔ اس لیے ان کے وہ اثرات بھی ہماری زندگی میں ظاہر نہیں ہو رہے ہیں جو قرآن کریم میں بتلائے گئے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی امر کے کیے ہیں۔ یعنی نماز پڑھنے والے کو چاہیے کہ بے حیائی کے کاموں سے اور برائی سے رک جائے۔ ٤٥۔ ٤ یعنی بے حیائی اور برائی سے روکنے میں اللہ کا ذکر، اقامت صلٰوۃ سے زیادہ مؤثر۔ اس لئے کہ آدمی جب تک نماز میں ہوتا ہے، برائی سے رکا رہتا ہے۔ لیکن بعد میں اس کی تاثیر کمزور ہوجاتی ہے، اس کے برعکس ہر وقت اللہ کا ذکر اس کے لئے ہر وقت برائی میں مانع رہتا ہے۔ العنكبوت
46 ٤٦۔ ١ اس لئے کہ وہ اہل علم و فہم ہیں، بات کو سمجھنے کی صلاحیت و استعداد رکھتے ہیں۔ بنابریں ان سے بحث و گفتگو میں تلخی اور تندی مناسب نہیں۔ ٤٦۔ ٢ یعنی جو بحث و مجادلہ میں افراط سے کام لیں تو تمہیں بھی سخت لب و لہجہ اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ بعض نے پہلے گروہ سے مراد وہ اہل کتاب لیے ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے اور دوسرے گروہ سے وہ اشخاص جو مسلمان نہیں ہوئے بلکہ یہودیت و نصرانیت پر قائم رہے اور بعض نے ظلموا منھم کا مصداق ان اہل کتاب کو لیا ہے جو مسلمانوں کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتے تھے اور جدال قتال کے بھی مرتکب ہوتے تھے ان سے تم بھی قتال کرو تاآنکہ مسلمان ہوجائیں یا جزیہ دیں۔ ٤٦۔ ٣ تورات و انجیل پر۔ یعنی یہ بھی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں اور یہ شریعت اسلامیہ کے قیام اور بعثت محمدیہ تک شریعت الٰہی ہیں۔ العنكبوت
47 ٤٧۔ ١ اس سے مراد عبد اللہ بن سلام وغیرہ ہیں۔ ایتائے کتاب سے مراد اس پر عمل ہے، گویا اس پر جو عمل نہیں کرتے، انھیں یہ کتاب دی ہی نہیں گئی۔ ٤٧۔ ٢ ان سے مراد اہل مکہ ہیں۔ جن میں سے کچھ لوگ ایمان لے آئے تھے۔ العنكبوت
48 ٤٨۔ ١ اس لیے کہ ان پڑھ تھے ٤٨۔ ٢ اس لئے کہ لکھنے کے لئے بھی علم ضروری ہے، جو آپ نے کسی سے حاصل ہی نہیں کیا تھا۔ ٤٨۔ ٣ یعنی اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے یا کسی استاد سے کچھ سیکھا ہوتا تو لوگ کہتے کہ یہ قرآن مجید فلاں کی مدد سے یا اس سے تعلیم حاصل کرنے کا نتیجہ ہے۔ العنكبوت
49 ٤٩۔ ١ یعنی قرآن مجید کے حافظوں کے سینوں میں ہے۔ یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ قرآن مجید لفظ بہ لفظ سینے میں محفوظ ہوجاتا ہے۔ العنكبوت
50 ٥٠۔ ١ یعنی یہ نشانیاں اس کی حکمت و مشیت، جن بندوں پر اتارنے کی ہوتی ہے، وہاں وہ اتارتا ہے، اس میں اللہ کے سوا کسی کا اختیار نہیں ہے۔ العنكبوت
51 ٥١۔ ١ یعنی وہ نشانیاں طلب کرتے ہیں۔ کیا ان کے لیے بطور نشانی قرآن کافی نہیں ہے جو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اور جس کی بابت انھیں چیلنج دیا گیا ہے کہ اس جیسا قرآن لا کر دکھائیں یا کوئی ایک سورت ہی بنا کر پیش کردیں۔ جب قرآن کی اس معجزہ نمائی کے باوجود یہ قرآن پر ایمان نہیں لا رہے ہیں تو حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام کی طرح انھیں معجزے دکھا بھی دیے جائیں تو اس پر یہ کون سا ایمان لے آئیں گے۔ ٥١۔ ٢ یعنی ان لوگوں کے لیے جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے آیا ہے، کیونکہ وہی اس سے متمتع اور فیض یاب ہوتے ہیں۔ العنكبوت
52 ٥٢۔ ١ اس بات پر کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور جو کتاب مجھ پر نازل ہوئی ہے یقینا منجانب اللہ ہے۔ ٥٢۔ ٢ یعنی غیر اللہ کی عبادت کا مستحق ٹھہراتے ہیں اور جو فی الواقع مستحق عبادت ہے، یعنی اللہ تعالیٰ، اس کا انکار کرتے ہیں۔ ٥٢۔ ٣ کیونکہ یہی لوگ فساد عقلی اور سوء فہم میں مبتلا ہیں، اسی لئے انہوں نے سودا کیا ہے کہ ایمان والوں کے بدل کفر اور ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی ہے، اس میں یہ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ العنكبوت
53 ٥٣۔ ١ یعنی پیغمبر کی بات ماننے کی بجائے، کہتے ہیں کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر عذاب نازل کروا دے۔ ٥٣۔ ٢ یعنی ان کے اعمال و اقوال تو یقینا اس لائق ہیں کہ انھیں فوراً صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا جائے لیکن ہماری سنت ہے کہ ہر قوم کو ایک وقت خاص تک مہلت دیتے ہیں جب وہ مہلت عمل ختم ہوجاتی ہے تو ہمارا عذاب آجاتا ہے۔ ٥٣۔ ٣ یعنی جب عذاب کا وقت مقرر آجائے گا تو اس طرح اچانک آئے گا کہ انھیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔ یہ وقت مقرر وہ ہے جو اس نے اہل مکہ کے لیے لکھ رکھا تھا یعنی جنگ بدر میں اسارت و قتل یا پھر قیامت کا وقوع ہے جس کے بعد کافروں کے لیے عذاب ہی عذاب ہے۔ العنكبوت
54 ٥٤۔ ١ پہلا یستعجلونک بطور خبر کے تھا اور یہ دوسرا بطور تعجب کے ہے یعنی یہ امر تعجب انگیز ہے کہ عذاب کی جگہ ان کو اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔ پھر بھی یہ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں؟ حالاں کہ ہر آنے والی چیز قریب ہی ہوتی ہے اسے دور کیوں سمجھتے ہیں؟ یا پھر یہ تکرار بطور تاکید کے ہے۔ العنكبوت
55 ٥٥۔ ١ یقول کا فاعل اللہ ہے یا فرشتے یعنی جب چاروں طرف سے ان پر عذاب ہو رہا ہوگا تو کہا جائے گا۔ العنكبوت
56 ٥٦۔ ١ اس میں ایسی جگہ سے، جہاں اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہو اور دین پر قائم رہنا دوبھر ہو رہا ہو ہجرت کرنے کا حکم ہے، جس طرح مسلمانوں نے پہلے مکہ سے حبشہ کی طرف اور بعد میں مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ العنكبوت
57 ٥٧۔ ١ یعنی موت کا جرعہ تلخ تو لامحالہ ہر ایک کو پینا ہے ہجرت کرو گے تب بھی اور نہ کرو گے تب بھی اس لیے تمہارے لیے وطن کا رشتے داروں کا اور دوست احباب کا چھوڑنا مشکل نہیں ہونا چاہیے موت تو تم جہاں بھی ہو گے آجائے گی۔ البتہ اللہ کی عبادت کرتے ہوئے مروگے تو تم اخروی نعمتوں سے شاد کام ہوگے۔ اس لیے کہ مر کر تو اللہ ہی کے پاس جانا ہے۔ العنكبوت
58 ٥٨۔ ١ یعنی اہل جنت کے مکانات بلند ہونگے، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہونگی۔ یہ نہریں پانی، شراب، شہد اور دودھ کی ہونگی، علاوہ ازیں انھیں جس طرف پھیرنا چاہیں گے، ان کا رخ اسی طرف ہوجائے گا۔ ٥٨۔ ٢ ان کے زوال کا خطرہ ہوگا نہ انھیں موت کا اندیشہ نہ کسی اور جگہ پھر جانے کا خوف۔ العنكبوت
59 ٥٩۔ ١ یعنی دین پر مضبوطی سے قائم رہے، ہجرت کی تکلیفیں برداشت کیں، اہل و عیال اور عزیز و اقربا سے دوری کو محض اللہ کی رضا کے لئے گوارا کیا۔ ٥٩۔ ٢ دین اور دنیا کے ہر معاملے اور حالات میں۔ العنكبوت
60 ٦٠۔ ١ کَاَیِّنْ میں کاف تشبیہ کا ہے اور معنی ہیں کتنے ہی یا بہت سے۔ ٦٠۔ ٢ کیونکہ اٹھا کرلے جانے کی ان میں ہمت نہیں ہوتی، اسی طرح وہ ذخیرہ بھی نہیں کرسکتے، مطلب یہ ہے کہ رزق کسی خاص جگہ کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ اللہ کا رزق اپنی مخلوق کے لئے عام ہے وہ جو بھی ہو جہاں بھی ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کو جانے والے صحابہ کرام کو پہلے سے کہیں زیادہ وسیع اور پاکیزہ رزق عطا فرمایا، نیز تھوڑے ہی عرصے بعد انھیں عرب کے متعدد علاقوں کا حکمران بنا دیا۔ ٦٠۔ ٣ یعنی کوئی کمزور ہے یا طاقتور، اسباب وسائل سے بہرہ ور ہے یا بے بہرہ اپنے وطن میں ہے یا مہاجر اور بے وطن، سب کا روزی رساں وہی اللہ ہے جو چیونٹی کو زمین کے کو نوں کھدروں میں پرندوں کو ہواؤں میں اور مچھلیوں اور دیگر آبی جانوروں کو سمندر کی گہرائیوں میں روزی پہنچاتا ہے اس موقع پر مطلب یہ ہے کہ فقر فاقہ کا ڈر ہجرت میں رکاوٹ نہ بنے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اور تمام مخلوقات کی روزی کا ذمے دار ہے۔ ٦٠۔ ٤ وہ جاننے والا ہے تمہارے اعمال و افعال کو اور تمہارے ظاہر و باطن کو، اس لئے صرف اسی سے ڈرو، اس کے سوا کسی سے مت ڈرو! اسی کی اطاعت میں سعادت و کمال ہے اور اسی کی معصیت میں بد بختی و نقصان۔ العنكبوت
61 ٦١۔ ١ یعنی یہ مشرکین، جو مسلمان کو محض توحید کی وجہ سے ایذائیں پہنچا رہے ہیں، ان سے اگر پوچھا جائے کہ آسمان و زمین کو عدم وجود میں لانے والا اور سورج اور چاند کو اپنے اپنے مدار پر چلانے والا کون ہے؟ تو وہاں یہ اعتراف کئے بغیر انھیں چارہ نہیں ہوتا کہ یہ سب کچھ کرنے والا اللہ ہے ٦١۔ ٢۔ یعنی دلائل اور و اعتراف کے باوجود حق سے انکار اور گریز باعث تعجب ہے۔ العنكبوت
62 ٦٢۔ ١ یہ مشرکین کے اعتراض کا جواب ہے جو وہ مسلمانوں پر کرتے تھے کہ اگر تم حق پر ہو تو پھر غریب اور کمزور کیوں ہو؟ اللہ نے فرمایا کہ رزق کی کشادگی اور کمی اللہ کے اختیار میں ہے وہ اپنی حکمت و مشیت کے مطابق جس کو چاہتا کم یا زیادہ دیتا ہے، اس کا تعلق اس کی رضامندی یا غضب سے نہیں ہے۔ ٦٢۔ ٢ اس کو بھی وہی جانتا ہے کہ زیادہ رزق کس کے لئے بہتر ہے اور کس کے لئے نہیں؟ العنكبوت
63 ٦٣۔ ١ کیونکہ عقل ہوتی تو اپنے رب کے ساتھ پتھروں کو اور مردوں کو رب نہ بناتے۔ نہ ان کے اندریہ تمیز ہوتی کہ اللہ تعالیٰ کی خالقیت و ربوبیت کے اعتراف کے باوجود، بتوں کو حاجت روا اور لائق عبادت سمجھ رہے ہیں۔ العنكبوت
64 ٦٤۔ ١ یعنی جس دنیا نے انھیں آخرت سے اندھا اور اس کے لیے توشہ جمع کرنے سے غافل رکھا ہے وہ ایک کھیل سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، کافر دنیا کے کاروبار میں مشغول رہتا ہے، اس کے لیے شب وروز محنت کرتا ہے لیکن جب مرتا ہے تو خالی ہاتھ ہوتا ہے۔ جس طرح بچے سارا دن مٹی کے گھروندوں سے کھیلتے ہیں پھر خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ سوائے تھکاوٹ کے انھیں کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ ٦٤۔ ٢ اس لئے ایسے عمل صالح کرنے چاہئیں جن سے آخرت کا یہ گھر سنور جائے۔ ٦٤۔ ٣ کیونکہ اگر وہ یہ بات جان لیتے تو آخرت سے بے پرواہ ہو کر دنیا میں مگن نہ ہوتے۔ اس لئے ان کا علاج علم ہے، علم شریعت۔ العنكبوت
65 ٦٥۔ ١ مشرکین کے اس تناقض کو بھی قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان فرمایا گیا ہے۔ اس منافقت کو حضرت عکرمہ سمجھ گئے تھے جس کی وجہ سے انھیں قبول اسلام کی توفیق حاصل ہوگئی۔ ان کے متعلق آتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد یہ مکہ سے فرار ہوگئے تاکہ نبی کی گرفت سے بچ جائیں۔ یہ حبشہ جانے کے لئے ایک کشتی میں بیٹھے، کشتی گرداب میں پھنس گئی، تو کشتی میں سوار لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ پورے خلوص کے ساتھ رب سے دعائیں کرو، اس لئے کہ یہاں اس کے علاوہ کوئی نجات دینے والا نہیں۔ حضرت عکرمہ نے یہ سن کر کہا کہ اگر سمندر میں اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا تو خشکی میں بھی اس کے سوا کوئی نجات نہیں دے سکتا۔ اسی وقت اللہ سے عہد کرلیا کہ اگر میں یہاں سے بخیریت ساحل پر پہنچ گیا تو میں محمد کے ہاتھ پر بیعت کر لونگا۔ یعنی مسلمان ہوجاؤ گا چنانچہ یہاں سے نجات پا کر انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ العنكبوت
66 ٦٦۔ ١ یہ لام کئی ہے جو علت کے لیے ہے۔ یعنی نجات کے بعد ان کا شرک کرنا اس لئے ہے کہ وہ کفران نعمت کریں اور دنیا کی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ کیونکہ اگر وہ ناشکری نہ کرتے تو اخلاص پر قائم رہتے اور صرف اللہ واحد کو ہی ہمیشہ پکارتے۔ گو ان کا مقصد کفر کرنا نہیں ہے لیکن دوبارہ شرک کے ارتکاب کا نتیجہ بہرحال کفر ہی ہے۔ العنكبوت
67 ٦٧۔ ١ اللہ تعالیٰ اس احسان کا تذکرہ فرما رہا ہے جو اہل مکہ پر اس نے کیا کہ ہم نے ان کے حرم کو امن والا بنایا جس میں اس کے باشندے قتل وغارت اسیری لوٹ مار وغیرہ سے محفوظ ہیں۔ جب کہ عرب کے دوسرے علاقے اس امن و سکون سے محروم ہیں قتل وغارت گری ان کے ہاں معمول اور آئے دن کا مشغلہ ہے۔ ٦٧۔ ٢ یعنی کیا اس نعمت کا شکر یہی ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرائیں، اور جھوٹے معبودوں اور بتوں کی پرستش کرتے رہیں۔ اس احسان کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے اور اس کے پیغمبر کی تصدیق کرتے۔ العنكبوت
68 ٦٨۔ ١ یعنی دعویٰ کرے کہ مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے درآں حالیکہ ایسا نہ ہو یا کوئی یہ کہے میں بھی وہ چیز اتار سکتا ہوں جو اللہ نے اتاری ہے۔ یہ تو سراسر جھوٹ ہے۔ ٦٨۔ ٢ یہ تکذیب ہے اور اس کا مرتکب مکذب ہے یہ دونوں کفر ہیں جس کی سزا جہنم ہے۔ العنكبوت
69 ٦٩۔ ١ یعنی دین پر عمل کرنے میں جو دشواریاں، آزمائشیں پیش آتی ہیں ٦٩۔ ٢ اس سے مراد دنیا اور آخرت کے وہ راستے ہیں جن پر چل کر انسان کو اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ ٦٩۔ ٣ احسان کا مطلب ہے اللہ کو حاضر ناظر جان کر ہر نیکی کے کام کو اخلاص کے ساتھ کرنا، سنت نبوی کے مطابق کرنا، برائی کے بدلے حسن سلوک کرنا، اپنا حق چھوڑ دینا اور دوسروں کو حق سے زیادہ دینا۔ یہ سب احسان کے مفہوم میں شامل ہیں۔ العنكبوت
0 الروم
1 سُوْرَۃُ الرُّوْمِ ٣٠ یہ سورت مکی ہے اس میں (٦٠) آیات اور (٦) رکوع ہیں الروم
2 الروم
3 الروم
4 الروم
5 ٥۔ ١ عہد رسالت میں دو بڑی طاقتیں تھیں۔ ایک فارس (ایران) کی، دوسری روم کی۔ اول الذکر حکومت آتش پرست اور دوسری عیسائی یعنی اہل کتاب تھی۔ مشرکین مکہ کی ہمدردیاں فارس کے ساتھ تھیں کیونکہ دونوں غیر اللہ کے پجاری تھے۔ جب کہ مسلمان کی ہمدردیاں روم کی عیسائی حکومت کے ساتھ تھیں، اس لئے عیسائی بھی مسلمانوں کی طرح اہل کتاب تھے اور وحی و رسالت پر یقین رکھتے تھے، ان کی آپس میں ٹھنی رہتی تھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے چند سال بعد ایسا ہوا کہ فارس کی حکومت عیسائی حکومت پر غالب آگئی، جس پر مشرکوں کو خوشی اور مسلمانوں کو غم ہوا، اس موقعہ پر قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں، جن میں پیش گوئی کی گئی کہ رومی پھر غالب آجائیں گے اور غالب، مغلوب اور مغلوب غالب ہوجائیں گے۔ بظاہر اسباب یہ پیش گوئی ناممکن العمل نظر آتی تھی۔ تاہم مسلمانوں کو اللہ کے اس فرمان کی وجہ سے یقین تھا کہ ایسا ضرور ہو کر رہے گا۔ اسی لئے حضرت ابو بکر صدیق نے ابو جہل سے یہ شرط باندھی کہ رومی پانچ سال کے اندر دوبارہ غالب آجائیں گے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم میں یہ بات آئی تو فرمایا بِضْع کا لفظ تین سے دس تک کے عدد کے لئے استعمال ہوتا ہے تم نے ٥ سال کی مدت کم رکھی ہے، اس میں اضافہ کرلو، چنانچہ آپ کی ہدایت کے مطابق حضرت ابو بکر صدیق نے اس مدت میں اضافہ کروا لیا۔ اور پھر ایسا ہوا کہ رومی ٩ سال کی مدت کے اندر اندر یعنی ساتویں سال دوبارہ فارس پر غالب آگئے، جس سے یقینا مسلمانوں کو بڑی خوشی ہوئی، بعض کہتے ہیں کہ رومیوں کو یہ فتح اس وقت ہوئی، جب بدر میں مسلمانوں کو کافروں پر غلبہ حاصل ہوا اور مسلمان اپنی فتح پر خوش ہوئے۔ رومیوں کی یہ فتح قرآن کریم کی صداقت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ نزدیک کی زمین سے مراد، عرب کی زمین کے قریب کے علاقے، یعنی شام و فلسطین وغیرہ، جہاں عیسائیوں کی حکومت تھی۔ الروم
6 ٦۔ ١ یعنی اے محمد! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ کو جو خبر دے رہے ہیں کہ عنقریب رومی، فارس پر دوبارہ غالب آجائیں گے، یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے جو مدت مقررہ کے اندر یقینا پورا ہو کر رہے گا۔ الروم
7 ٧۔ ١ یعنی اکثر لوگوں کو دنیاوی معاملات کا خوب علم ہے۔ چنانچہ وہ ان میں تو اپنی چابک دستی اور مہارت فن کا مظاہرہ کرتے ہیں جن کا فائدہ عارضی اور چند روزہ ہے لیکن آخرت کے معاملات سے یہ غافل ہیں جن کا نفع مستقل اور پائیدار ہے۔ یعنی دنیا کے امور کو خوب پہچانتے اور دین سے بے خبر ہیں۔ الروم
8 ٨۔ ١ یا ایک مقصد اور حق کے ساتھ پیدا کیا ہے بے مقصد اور بیکار نہیں۔ اور وہ مقصد ہے کہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا اور بدوں کو ان کی بدی کی سزا دی جائے۔ یعنی کیا وہ اپنے وجود پر غور نہیں کرتے کہ کس طرح انھیں نیست سے ہست کیا اور پانی کے ایک حقیر قطرے سے ان کی تخلیق کی۔ پھر آسمان و زمین کا ایک خاص مقصد کے لیے وسیع وعریض سلسلہ قائم کیا نیز ان سب کے لیے ایک خاص وقت مقرر کیا یعنی قیامت کا دن۔ جس دن یہ سب کچھ فنا ہوجائے گا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ ان باتوں پر غور کرتے تو یقینا اللہ کے وجود اس کی ربوبیت و الوہیت اور اس کی قدرت مطلقہ کا انھیں ادراک واحساس ہوجاتا اور اس پر ایمان لے آتے۔ ٨۔ ٢ اور اس کی وجہ وہی کائنات میں غور و فکر کا فقدان ہے ورنہ قیامت کے انکار کی کوئی معقول بنیاد نہیں ہے۔ الروم
9 ٩۔ ١ یہ آثار کھنڈرات اور نشانات عبرت پر غور و فکر نہ کرنے پر ملامت کی جا رہی ہے۔ مطلب ہے کہ چل پھر کر وہ مشاہدہ کرچکے ہیں۔ ٩۔ ٢ یعنی ان کافروں کا جن کو اللہ نے ان کے کفر باللہ، حق کے انکار اور رسولوں کو جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک کیا۔ ٩۔ ٣ یعنی قریش اور اہل مکہ سے زیادہ۔ ٩۔ ٤ یعنی اہل مکہ تو کھیتی باڑی سے ناآشنا ہیں لیکن پچھلی قومیں اس وصف میں بھی ان سے بڑھ کر تھیں۔ ٩۔ ٥ اس لئے کہ ان کی عمریں بھی زیادہ تھیں، جسمانی قوت میں بھی زیادہ تھے اسباب معاش بھی ان کو زیادہ حاصل تھے۔ پس انہوں نے عمارتیں بھی زیادہ بنائیں، زراعت و کاشتکاری بھی کی اور وسائل رزق بھی زیادہ مہیا کئے۔ ٩۔ ٦ لیکن وہ ان پر ایمان نہیں لائے۔ لہذا تمام تر قوتوں، ترقیوں اور فراغت و خوش حالی کے باوجود ہلاکت ان کا مقدر بن کر رہی۔ ٩۔ ٧ کہ انھیں بغیر گناہ کے عذاب میں مبتلا کر دیتا ٩۔ ٨ یعنی اللہ کا انکار اور رسولوں کی تکذیب کر کے۔ الروم
10 ١٠۔ ١ سوآی بروزن فعلی سوء سے اسوأ کی تانیث ہے یسے حسنی احسن کی تانیث ہے۔ یعنی ان کا جو انجام ہوا، بدترین انجام تھا۔ الروم
11 ١١۔ ١ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ پہلی مرتبہ پیدا کرنے پر قادر ہے، وہ مرنے کے بعد دوبارہ انھیں زندہ کرنے پر بھی قادر ہے، اس لئے کہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی مرتبہ سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ ١١۔ ٢ یعنی میدان محشر اور موقف حساب میں جہاں وہ عدل و انصاف کا اہتمام فرمائے گا۔ الروم
12 ١٢۔ ١ ابلاس کے معنی ہیں اپنے موقف کے اثبات میں کوئی دلیل پیش نہ کرسکنا اور حیران و ساکت کھڑے رہنا اسی کو ناامیدی کے مفہوم سے تعبیر کرلیتے ہیں۔ اس اعتبار سے مبلس وہ ہوگا جو ناامید ہو کر خاموش کھڑا ہو اور اسے کوئی دلیل نہ سوجھ رہی ہو قیامت والے دن کافروں اور مشرکوں کا یہی حال ہوگا، یعنی کہ عذاب کے بعد وہ ہر خبر سے مایوس اور دلیل و حجت پیش کرنے سے قاصر ہونگے۔ مجرموں سے مراد کافر و مشرکین ہیں جیسے کہ اگلی آیت میں واضح ہے الروم
13 ١٣۔ ١ شریکوں سے مراد معبودان باطلہ ہیں جن کی مشرکین، یہ سمجھ کر عبادت کرتے تھے کہ یہ اللہ کے ہاں ان کے سفارشی ہوں گے، اور انھیں اللہ کے عذاب سے بچالیں گے۔ لیکن اللہ نے یہاں وضاحت فرما دی کہ اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے اللہ کے ہاں کوئی سفارشی نہیں ہوگا ۔ ١٣۔ ٢ یعنی وہاں ان کی الوہیت کے منکر ہوجائیں گے کیونکہ وہ دیکھ لیں گے کہ یہ تو کسی کو کوئی فائدہ پہنچانے پر قادر نہیں ہیں دوسرے معنی ہیں کہ یہ معبود اس بات سے انکار کردیں گے کہ یہ لوگ انھیں اللہ کا شریک گردان کر ان کی عبادت کرتے تھے۔ کیونکہ وہ تو ان کی عبادت سے ہی بے خبر ہیں۔ الروم
14 ١٤۔ ١ اس سے مراد ہر فرد کا دوسرے فرد سے الگ ہونا نہیں ہے۔ بلکہ مطلب مومنوں کا اور کافروں کا الگ الگ ہونا ہے اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر و شرک جہنم میں چلے جائیں گے اور ان کے درمیان دائمی جدائی ہوجائے گی، یہ دونوں پھر کبھی اکٹھے نہیں ہوں گے یہ حساب کے بعد ہوگا۔ چنانچہ اسی علیحدگی کی وضاحت اگلی آیات میں کی جارہی ہے۔ الروم
15 ١٥۔ ١ یعنی انھیں جنت میں اکرام و انعام سے نوازا جائے گا، جن سے وہ مذید خوش ہونگے۔ الروم
16 ١٦۔ ١ یعنی ہمیشہ اللہ کے عذاب کی گرفت میں رہیں گے الروم
17 الروم
18 ١٨۔ ١ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی ذات مقدسہ کے لئے تسبیح و تحمید ہے، جس سے مقصد اپنے بندوں کی رہنمائی ہے کہ ان اوقات میں، جو ایک دوسرے کے پیچھے آتے ہیں اور جو اس کے کمال قدرت و عظمت پر دلالت کرتے ہیں، اس کی تسبیح و تحمید کیا کرو۔ شام کا وقت رات کی تاریکی کا پیش خیمہ اور سپیدہ سحر دن کی روشنی کا پیامبر ہوتا ہے۔ عشاء شدت تاریکی کا اور ظہر خوب روشن ہوجانے کا وقت ہے۔ پس وہ ذات پاک ہے جو ان سب کی خالق اور جس نے ان تمام اوقات میں الگ الگ فوائد رکھے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تسبیح سے مراد، نماز ہے اور دونوں آیات میں مذکور اوقات پانچ نمازوں کے اوقت ہیں۔ تمسون میں مغرب وعشاء، تصبحون میں نماز فجر، عشیا (سہ پہر) میں عصر اور تظہرون میں نماز ظہر آجاتی ہے۔ ایک ضعیف حدیث میں ان دونوں آیات کو صبح وشام پڑھنے کی یہ فضیلت بیان ہوئی ہے کہ اس سے شب و روز کی کوتاہیوں کا ازالہ ہوتا ہے۔ الروم
19 ١٩۔ ١ جیسے انڈے کو مرغی سے، مرغی کو انڈے سے۔ انسان کو نطفے سے، نطفے کو انسان اور مومن کو کافر سے، کافر کو مومن سے پیدا فرماتا ہے۔ ١٩۔ ٢ یعنی قبروں سے زندہ کر کے۔ الروم
20 ٢٠۔ ١ اذا فجائیہ ہے مقصود اس سے ان اطوار کی طرف اشارہ ہے جن سے گزر کر بچہ پورا انسان بنتا ہے جس کی تفصیل قرآن میں دوسرے مقامات پر بیان کی گئی ہے تَنْتَشِرُو نَ سے مراد انسان کا کسب معاش اور دیگر حاجات و ضروریات بشریہ کے لئے چلنا پھرنا ہے۔ الروم
21 ٢١۔ ١ یعنی تمہاری ہی جنس سے عورتیں پیدا کیں تاکہ وہ تمہاری بیویاں بنیں اور تم جوڑا جوڑا ہوجاؤ زوج عربی میں جوڑے کو کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے مرد عورت کے اور عورت مرد کے لیے زوج ہے۔ عورتوں کے جنس بشر ہونے کا مطلب ہے کہ دنیا کی پہلی عورت۔ حضرت حوا کو حضرت آدم (علیہ السلام) کی بائیں پسلی سے پیدا کیا گیا۔ پھر ان دونوں سے نسل انسانی کا سلسلہ چلا۔ ٢١۔ ٢ مطلب یہ ہے کہ اگر مرد اور عورت کی جنس ایک دوسرے سے مختلف ہوتی، مثلاً عورتیں جنات یا حیوانات میں سے ہوتیں، تو ان سے سکون کبھی حاصل نہ ہوتا جو اس وقت دونوں کے ایک ہی جنس سے ہونے کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ بلکہ ایک دوسرے سے نفرت وحشت ہوتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کمال رحمت ہے کہ اس نے انسانوں کی بیویاں، انسان ہی بنائیں۔ ٢١۔ ٢ مَوَدَّۃ یہ ہے کہ مرد بیوی سے بے پناہ پیار کرتا ہے اور ایسے ہی بیوی شوہر سے۔ جیسا کہ عام مشاہدہ ہے۔ ایسی محبت جو میاں بیوی کے درمیان ہوتی ہے، دنیا میں کسی بھی دو شخصوں کے درمیان نہیں ہوتی۔ اور رحمت یہ ہے کہ مرد بیوی کو ہر طرح کی سہولت اور آسائش بہم پہنچاتا ہے، جس کا مکلف اسے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے اور ایسے ہی عورت بھی اپنے قدرت و اختیار کے دائرہ میں۔ تاہم انسان کو یہ سکون اور باہمی پیار انہی جوڑوں سے حاصل ہوتا ہے جو قانون شریعت کے مطابق باہم نکاح سے قائم ہوتے ہیں اور اسلام انہی کو جوڑا قرار دیتا ہے۔ غیر قانونی جوڑوں کو وہ جوڑا ہی تسلیم نہیں کرتا بلکہ انھیں زانی اور بدکار قرار دیتا ہے اور ان کے لئے سزا تجویز کرتا ہے۔ آج کل مغربی تہذیب کے علم بردار شیاطین ان مذموم کوششوں میں مصروف ہیں کہ مغربی معاشروں کی طرح اسلامی ملکوں میں بھی نکاح کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے بدکار مرد و عورت کو جوڑا تسلیم کروایا جائے اور ان کے لیے سزا کے بجائے وہ حقوق منوائے جائیں جو ایک قانونی جوڑے کو حاصل ہوتے ہیں۔ (قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ ۡ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ) 63۔ المنفقون :4)۔ الروم
22 ٢٢۔ ١ دنیا میں اتنی زبانوں کا پیدا کردینا بھی اللہ کی قدرت کی ایک بہت بڑی نشانی ہے۔ پھر ایک ایک زبان کے مختلف لہجے اور اسلوب ہیں۔ اسی طرح ایک ہی ماں باپ (آدم و حوا علیہما السلام) سے ہونے کے باوجود رنگ ایک دوسرے سے مختلف ہیں کوئی کالا، کوئی گورا اور شکلیں بھی ایک دوسرے سے مختلف بولنے کے لہجے جدا جدا اور حتیّٰ کہ آواز بھی ایک دوسرے سے الگ الگ، ایک بھائی دوسرے بھائی سے مختلف ہے لیکن اللہ کی قدرت کا کمال ہے کہ پھر بھی کسی ایک ہی ملک کے باشندے، دوسرے ملک کے باشندوں سے ممتاز ہوتے ہیں۔ الروم
23 ٢٣۔ ١ نیند کا باعث سکون و راحت ہونا چاہیے وہ رات کو ہو یا بوقت قیلولہ، اور دن کو تجارت و کاروبار کے ذریعہ سے اللہ کا فضل تلاش کرنا، یہ مضمون کئی جگہ گزر چکا ہے۔ الروم
24 ٢٤۔ ١ یعنی آسمان میں بجلی چمکتی ہے اور بادل کڑکتے ہیں، تو تم ڈرتے بھی ہو کہ کہیں بجلی گرنے یا زیادہ بارش ہونے کی وجہ سے کھیتاں برباد نہ ہوجائیں اور امیدیں بھی وابستہ کرتے کہ بارشیں ہوں گی تو فصل اچھی ہوگی۔ الروم
25 ٢٥۔ ١ یعنی جب قیامت برپا ہوگی تو آسمان و زمین کا یہ سارا نظام، جو اس وقت اس کے حکم سے قائم ہے، درہم برہم ہوجائے گا اور تمام انسان قبروں سے زندہ ہو کر باہر نکل آئیں گے۔ الروم
26 ٢٦۔ ١ یعنی اس کے تکوینی حکم کے آگے سب بے بس اور لاچار ہیں۔ جیسے موت و حیات، صحت و مرض، ذلت و عزت وغیرہ میں۔ الروم
27 ٢٧۔ ١ یعنی اتنے کمالات اور عظیم قدرتوں کا مالک ہے، تمام مثالوں سے اعلٰی اور برتر (لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ) 42۔ الشوری :11) الروم
28 ٢٨۔ ١ یعنی جب تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے غلام اور نوکر چاکر جو تمہارے ہی جیسے انسان ہیں وہ تمہارے مال و دولت میں شریک اور تمہارے برابر ہوجائیں تو پھر یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ اللہ کے بندے چاہے وہ فرشتے ہوں پیغمبر ہوں اولیا وصلحا ہوں یا شجر وحجر کے بنائے ہوئے معبود، وہ اللہ کے ساتھ شریک ہوجائیں جب کہ وہ بھی اللہ کے غلام اور اس کی مخلوق ہیں؟ یعنی جس طرح پہلی بات نہیں ہوسکتی، دوسری بھی نہیں ہوسکتی۔ اس لیے اللہ کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کرنا اور انھیں بھی حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا یکسر غلط ہے۔ ٢٨۔ ٢ یعنی کیا تم اپنے غلاموں سے اس طرح ڈرتے ہو جس طرح تم (آزاد لوگ) آپس میں ایک دوسرے سے ڈرتے ہو۔ یعنی جس طرح مشترکہ کاروبار یا جائیداد میں خرچ کرتے ہوئے ڈر محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے شریک باز پرس کریں گے۔ کیا تم اپنے غلاموں سے اس طرح ڈرتے ہو؟ یعنی نہیں ڈرتے۔ کیونکہ تم انھیں مال و دولت میں شریک قرار دے کر اپنا ہم رتبہ بنا ہی نہیں سکتے تو اس سے ڈر بھی کیسا ۔ ٢٨۔ ٣ کیونکہ وہ اپنی عقلوں کو استعمال میں لا کر اور غور و فکر کا اہتمام کر کے آیات تنزیلیہ اور تکوینیہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور جو ایسا نہیں کرتے، ان کی سمجھ میں توحید کا مسئلہ بھی نہیں آتا جو بالکل صاف اور نہایت واضح ہے۔ الروم
29 ٢٩۔ ١ یعنی اس حقیقت کا انھیں خیال ہی نہیں ہے کہ وہ علم سے بے بہرہ اور ضلالت کا شکار ہیں اور اسی بے علمی اور گمراہی کی وجہ سے وہ اپنی عقل کو کام میں لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور اپنی نفسانی خواہشات اور آرائے فاسدہ کے پیروکار ہیں۔ ٢٩۔ ٢ کیونکہ اللہ کی طرف سے ہدایت اسے ہی نصیب ہوتی ہے جس کے اندر ہدایت کی طلب اور آرزو ہوتی ہے، جو اس طلب صادق سے محروم ہوتے ہیں، انھیں گمراہی میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ٢٩۔ ٣ یعنی ان گمراہوں کا کوئی مددگار نہیں جو انھیں ہدایت سے بہرہ ور کر دے یا ان سے عذاب پھیر دے۔ الروم
30 ٣٠۔ ١ یعنی اللہ کی توحید اور اس کی عبادت پر قائم رہیں اور جھوٹے مذاہب کی طرف دھیان ہی نہ کریں ٣٠۔ ٢ فطرت کے اصل معنی خلقت پیدائش کے ہیں یہاں مراد ملت اسلام ہے مطلب یہ ہے کہ سب کی پیدائش بغیر مسلم و کافر کی تفریق کے اسلام اور توحید پر ہوتی ہے اس لیے توحید ان کی فطرت یعنی جبلت میں شامل ہے جس طرح کہ عہد الست سے واضح ہے بعد میں بہت سوں کو ماحول یا دیگر عوارض فطرت کی اس آواز کی طرف نہیں آنے دیتے، جس کی وجہ سے وہ کفر پر ہی باقی رہتے ہیں جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی وغیرہ بنا دیتے ہیں۔ ٣٠۔ ٣ یعنی اللہ کی خلقت کو تبدیل نہ کرو بلکہ صحیح تربیت کے ذریعے سے اس کی نشوونما کرو تاکہ ایمان وتوحید بچوں کے دل ودماغ میں راسخ ہوجائے یہ خبر بمعنی انشا ہے یعنی نفی نہی کے معنی میں ہے۔ ٣٠۔ ٤ یعنی وہ دین جس کی طرف یکسو اور متوجہ ہونے کا حکم ہے یا جو فطرت کا تقاضا ہے وہ یہ دین قیم ہے۔ ٣٠۔ ٥ اسی لیے وہ اسلام اور توحید سے ناآشنا رہتے ہیں۔ الروم
31 ٣١۔ ١ یعنی ایمان تقوٰی اور اقامت صلاۃ سے گریز کر کے، مشرکین میں سے نہ ہوجاؤ۔ الروم
32 ٣٢۔ ١ یعنی اصل دین کو چھوڑ کر یا اس میں من مانی تبدیلیاں کرکے الگ الگ فرقوں میں بٹ گئے، جیسے کوئی یہودی، کوئی نصرانی، کوئی مجوسی وغیرہ ہوگیا۔ ٣٢۔ ٢ یعنی ہر فرقہ اور گروہ سمجھتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور دوسرے باطل پر، اور جو سہارے انہوں نے تلاش کر رکھے ہیں جن کو وہ دلائل سے تعبیر کرتے ہیں، ان پر خوش اور مطمئن ہیں، بدقسمتی سے ملت اسلامیہ کا بھی یہی حال ہوا کہ وہ بھی مختلف فرقوں میں بٹ گئی اور ان کا بھی ہر فرقہ اسی زعم باطل میں مبتلا ہے کہ وہ حق پر ہے، حالانکہ حق پر صرف ایک ہی گروہ ہے جس کی پہچان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتلا دی ہے کہ میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلنے والا ہوگا۔ الروم
33 الروم
34 ٣٤۔ ١ یہ وہی مضمون ہے جو سورۃ عنکبوت کے آخر میں گزرا۔ الروم
35 ٣٥۔ ١ یہ استفہام انکاری ہے۔ یعنی یہ جن کو اللہ کا شریک گردانتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں، یہ بلا دلیل ہے، اللہ نے اس کی کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ بھلا اللہ تعالیٰ شرک کے اثبات و جواز کے لئے کس طرح کوئی دلیل اتار سکتا تھا۔ جب کہ اس نے سارے پیغمبر بھیجے ہی اس لئے تھے کہ وہ شرک کی تردید اور توحید کا اثبات کریں۔ چنانچہ ہر پیغمبر نے آکر سب سے پہلے اپنی قوم کو توحید ہی کا وعظ کیا۔ اور آج اہل توحید مسلمانوں کو بھی نام نہاد مسلمانوں میں توحید و سنت کا وعظ کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ مسلمان عوام کی اکثریت شرک و بدعت میں مبتلا ہے۔ الروم
36 ٣٦۔ ١ یہ وہی مضمون ہے جو سورۃ ہود میں گزرا اور جو انسانوں کی اکثریت کا شیوہ ہے کہ راحت میں وہ خوش ہوتے ہیں اور مصیبت میں ناامید ہوجاتے ہیں۔ اہل ایمان اس سے مستشنٰی ہیں۔ وہ تکلیف میں صبر اور راحت میں اللہ کا شکر یعنی عمل صالح کرتے ہیں۔ یوں دونوں حالتیں ان کے لئے خیر اور اجر و ثواب کا باعث بنتی ہیں۔ الروم
37 ٣٧۔ ١ یعنی اپنی حکمت و مصلحت سے وہ کسی کو مال و دولت زیادہ اور کسی کو کم دیتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض دفعہ عقل و شعور میں اور ظاہری اسباب و وسائل میں دو انسان ایک جیسے ہی محسوس ہوتے ہیں ایک جیسا ہی کاروبار بھی شروع کرتے ہیں لیکن ایک کے کاروبار کو خوب فروغ ملتا ہے اور اس کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں، جب کہ دوسرے شخص کا کاروبار محدود ہی رہتا ہے اور اسے وسعت نصیب نہیں ہوتی۔ آخر یہ کون ہستی ہے جس کے پاس تمام اختیارات ہیں اور وہ اس قسم کے تصرفات فرماتا ہے علاوہ ازیں وہ کبھی دولت فراواں کے مالک کو محتاج کردیتا ہے اور محتاج کو مال ودولت سے نواز دیتا ہے اور یہ سب اسی ایک اللہ کے ہاتھ میں ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ الروم
38 ٣٨۔ ١ جب وسائل رزق تمام تر اللہ ہی کے اختیار میں ہیں اور وہ جس پر چاہے اس کے دروازے کھول دیتا ہے تو اصحاب ثروت کو چاہیے کہ وہ اللہ کے دیئے ہوئے مال میں سے ان کا حق ادا کرتے رہیں جو ان کے مال میں مستحق رشتے داروں، مسکین اور مسافروں کا رکھا گیا ہے۔ رشتہ دار کا حق اس لئے مقدم کیا کہ اس کی فضیلت زیادہ ہے حدیث میں آتا ہے کہ غریب رشتہ دار کے ساتھ احسان کرنا دوہرے اجر کا باعث ہے۔ ایک صدقے کا اجر اور دوسرا صلہ رحمی کا۔ علاوہ ازیں اسے حق سے تعبیر کر کے اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ امداد کر کے ان پر احسان نہیں کرو گے بلکہ ایک حق کی ہی ادائیگی کرو گے۔ ٣٨۔ ٢ یعنی جنت میں اس کے دیدار سے مشرف ہونا۔ الروم
39 ٣٩۔ ١ یعنی سود سے بظاہر اضافہ معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل ایسا نہیں ہوتا بلکہ اس کی نحوست بالآخر دنیا اور آخرت میں تباہی کا باعث ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور متعدد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس آیت میں ربا سے مراد سود نہیں بلکہ وہ تحفہ اور ہدیہ لیا جو کوئی غریب آدمی کسی مال دار کو یا رعایا کا کوئی فرد بادشاہ یا حکمران کو اور ایک خادم اپنے مخدوم کو اس نیت سے دیتا ہے کہ وہ اس کے بدلے میں مجھے اس سے زیادہ دے گا۔ اسے ربا سے اسی لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ دیتے وقت اس میں زیادتی کی نیت ہوتی ہے۔ یہ اگرچہ مباح ہے تاہم اللہ کے ہاں اس پر اجر نہیں ملے گا۔ (فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ) 30۔ الروم :39) سے اسی اخروی اجر کی نفی ہے۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا (جو تم عطیہ دو) اس نیت سے کہ واپسی کی صورت میں زیادہ ملے، پس اللہ کے ہاں اس کا ثواب نہیں۔ ٣٩۔ ٢ زکوٰۃ صدقات سے ایک تو روحانی و معنوی اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی بقیہ مال میں اللہ کی طرف سے برکت ڈال دی جاتی ہے۔ دوسرے قیامت والے دن اس کا اجر و ثواب کئی کئی گنا ملے گا، جس طرح حدیث میں ہے کہ حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ بڑھ بڑھ کر احد پہاڑ کے برابر ہوجائے گا (صحیح مسلم) الروم
40 الروم
41 ٤١۔ ١ خشکی سے مراد، انسانی آبادیاں اور تری سے مراد سمندر، سمندری راستے اور ساحلی آبادیاں ہیں فساد سے مراد ہر وہ بگاڑ ہے جس سے انسانوں کے معاشرے اور آبادیوں میں امن و سکون تہ و بالا ہوجاتا ہے اور ان کے عیش و آرام میں خلل واقع ہو۔ اس لیے اس کا اطلاق معاصی وسیئات پر بھی صحیح ہے کہ انسان ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں اللہ کی حدوں کو پامال اور اخلاقی ضابطوں کو توڑ رہے ہیں اور قتل وخونریزی عام ہوگئی ہے اور ان ارضی و سماوی آفات پر بھی اس کا اطلاق صحیح ہے جو اللہ کی طرف سے بطور سزا و تنبیہ نازل ہوتی ہیں جیسے قحط، کثرت موت، خوف اور سیلاب وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ جب انسان اللہ کی نافرمانیوں کو اپنا وطیرہ بنالیں تو پھر مکافات عمل کے طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے اعمال و کردار کا رخ برائیوں کی جانب پھر جاتا ہے اور زمین فساد سے بھر جاتی ہے امن و سکون ختم اور اس کی جگہ خوف و دہشت، سلب و نہب اور قتل وغارت گری عام ہوجاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ بعض دفعہ آفات ارضی و سماوی کا بھی نزول ہوتا ہے۔ مقصد اس سے یہی ہوتا ہے کہ اس عام بگاڑ یا آفات الہیہ کو دیکھ کر شاید لوگ گناہوں سے باز آجائیں توبہ کرلیں اور ان کا رجوع اللہ کی طرف ہوجائے۔ اس کے برعکس جس معاشرے کا نظام اطاعت الہی پر قائم ہو اور اللہ کی حدیں نافذ ہوں، ظلم کی جگہ عدل کا دور دورہ ہو۔ وہاں امن و سکون اور اللہ کی طرف سے خیر برکت کا نزول ہوتا ہے۔ جس طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ زمین میں اللہ کی ایک حد کو قائم کرنا وہاں کے انسانوں کے لیے چالیس روز کی بارش سے بہتر ہے۔ اسی طرح یہ حدیث ہے کہ جب ایک بدکار آدمی فوت ہوجاتا ہے تو بندے ہی اس سے راحت محسوس نہیں کرتے شہر بھی اور درخت اور جانور بھی آرام پاتے ہیں۔ الروم
42 ٤٢۔ ١ شرک کا خاص طور پر ذکر کیا، کہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے۔ علاوہ ازیں اس میں دیگر برائیوں سیأت و معاصی بھی آجاتی ہے کیونکہ ان کا ارتکاب بھی انسان اپنے نفس کی بندگی ہی اختیار کر کے کرتا ہے اسی لئے اسے بعض لوگ عملی شرک سے تعبیر کرتے ہیں۔ الروم
43 ٤٣۔ ١ یعنی اس دن کے آنے کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اس لئے اس دن (قیامت) کے آنے سے پہلے پہلے اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار کرلیں اور نیکیوں سے اپنا دامن بھر لیں۔ ٤٣۔ ٢ یعنی دو گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے ایک مومنوں کا دوسرا کافروں کا۔ الروم
44 ٤٤۔ ١ مَھْد کے معنی راستہ ہموار کرنا، فرش بچھانا، یعنی یہ عمل صالح کے ذریعے سے جنت میں جانے اور وہاں اعلٰی منازل حاصل کرنے کے لئے راستہ ہموار کر رہے ہیں۔ الروم
45 ٤٥۔ ١ یعنی محض نیکیاں دخول جنت کے لئے کافی نہیں ہوں گی، جب تک ان کے ساتھ اللہ کا فضل بھی شامل حال نہ ہوگا پس وہ اپنے فضل سے ایک ایک نیکی کا اجر دس سے سات سو گنا تک بلکہ اس سے زیادہ بھی دے گا۔ الروم
46 ٤٦۔ ١ یعنی یہ ہوائیں بارش کی پیامبر ہوتی ہیں۔ ٤٦۔ ٢ یعنی بارش سے انسان بھی لذت و سرور محسوس کرتا ہے اور فصلیں بھی لہلا اٹھتی ہیں۔ ٤٦۔ ٣ یعنی ان ہواؤں کے ذریعے سے کشتیاں بھی چلتی ہیں۔ مراد بادبانی کشتیاں ہیں اب انسان نے اللہ کی دی ہوئی دماغی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال سے دوسری کشتیاں اور جہاز ایجاد کرلیے ہیں جو مشینوں کے ذریعے سے چلتے ہیں۔ تاہم ان کے لیے بھی موافق اور مناسب ہوائیں ضروری ہیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ انھیں بھی طوفانی موجوں کے ذریعے سے غرق آب کردینے پر قادر ہے۔ ٤٦۔ ٤ یعنی ان کے ذریعے سے مختلف ممالک میں جاکر تجارت و کاروبار کرکے۔ ٤٦۔ ٥ یعنی ظاہری و باطنی نعمتوں پر جن کا کوئی شمار ہی نہیں۔ یعنی یہ ساری سہولتیں اللہ تعالیٰ تمہیں اس لئے بہم پہنچاتا ہے کہ تم اپنی زندگی میں ان سے فائدہ اٹھاؤ اور اللہ کی بندگی و اطاعت بھی کرو! الروم
47 ٤٧۔ ١ یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس طرح ہم نے آپ کو رسول بنا کر آپ کی قوم کی طرف بھیجا اسی طرح آپ سے پہلے بھی رسول ان کی قوموں کی طرف بھیجے، ان کے ساتھ دلائل اور معجزات بھی تھے، لیکن قوموں نے ان کی تکذیب کی، ان پر ایمان نہیں لائے بالآخر ان کے اس جرم تکذیب اور ارتکاب معصیت پر ہم نے انھیں اپنی سزا کا نشانہ بنایا اور اہل ایمان کی تائید و نصرت کی جو ہم پر لازم ہے یہ گویا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان پر ایمان لانے والے مسلمانوں کو تسلی دی جا رہی ہے کہ کفار و مشرکین کی روش تکذیب سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر نبی کے ساتھ اس کی قوم نے یہی معاملہ کیا ہے۔ نیز کفار کو تنبیہ ہے کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان کا حشر بھی وہی ہوگا جو گذشتہ قوموں کا ہوچکا ہے۔ کیونکہ اللہ کی مدد تو بالآخر مومنوں ہی کو حاصل ہوگی، جس میں پیغمبر اور اس پر ایمان لانے والے سب شامل ہیں۔ حقا کان کی خبر ہے جو مقدم ہے نصر المومنین اس کا اسم ہے۔ الروم
48 ٤٨۔ ١ یعنی بادل جہاں بھی ہوتے ہیں وہاں سے ہوائیں ان کو اٹھا کرلے جاتی ہیں۔ ٤٨۔ ٢ کبھی چلا کر کبھی ٹھہرا کر، کبھی تہ بہ تہ کرکے، کبھی دور دراز تک۔ یہ آسمانوں پر بادلوں کی مختلف کیفیتیں ہوتی ہیں۔ ٤٨۔ ٣ یعنی ان کو آسمان پر پھیلانے کے بعد کبھی ان کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ ٤٨۔ ٤ یعنی ان بادلوں سے اللہ اگر چاہتا ہے تو بارش ہوجاتی ہے جس سے بارش کے ضرورت مند خوش ہوجاتے ہیں الروم
49 الروم
50 ٥٠۔ ١ آثار رحمت سے مراد غلہ جات اور میوے ہیں جو بارش سے پیدا ہوتے اور خوش حالی و فراغت کا باعث ہوتے ہیں۔ دیکھنے سے مراد نظر عبرت سے دیکھنا ہے تاکہ انسان اللہ کی قدرت کا اور اس بات کا قائل جائے کہ قیامت والے دن اسی طرح مردوں کو زندہ فرما دے گا۔ الروم
51 ٥١۔ ١ یعنی ان ہی کھیتوں کو جن کو ہم نے بارش کے ذریعے سے شاداب کیا تھا، اگر سخت (گرم یا ٹھنڈی) ہوائیں چلا کر ان کی ہریالی کو زردی میں بدل دیں، یعنی تیار فصل کو تباہ کردیں تو یہی بارش سے خوش ہونے والے اللہ کی ناشکری پر اتر آئیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو نہ ماننے والے صبر اور حوصلے سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ ذرا سی بات پر مارے خوشی کے پھولے نہیں سماتے اور ذراسی ابتلا پر فوراً ناامید اور گریہ کنا ہوجاتے ہیں۔ اہل ایمان کا معاملہ دونوں حالتوں میں ان سے مختلف ہوتا ہے جیسا کہ تفصیل گزر چکی۔ الروم
52 ٥٢۔ ١ یعنی جس طرح مردے فہم شعور سے عاری ہوتے ہیں، اسی طرح یہ آپ کی دعوت کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے سے قاصر ہیں۔ ٥٢۔ ٢ یعنی آپ کا وعظ و نصیحت ان کے لئے بے اثر ہے جس طرح کوئی بہرہ ہو، اسے تم اپنی بات نہیں سنا سکتے۔ ٥٢۔ ٣ یہ ان کے اعراض کی مذید وضاحت ہے کہ مردہ اور بہرہ ہونے کے ساتھ وہ پیٹھ پھیر کر جانے والے ہیں حق کی بات ان کے کانوں میں کس طرح پڑ سکتی اور کیوں کر ان کے دل ودماغ میں سما سکتی ہے۔ الروم
53 ٥٣۔ ١ اس لئے کہ یہ آنکھوں سے کما حقہ فائدہ اٹھانے سے یا بصیرت (دل کی بینائی) سے محروم ہیں۔ یہ گمراہی کی جس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، اس سے کس طرح نکلیں؟ ٥٣۔ ٢ یعنی یہی سن کر ایمان لانے والے ہیں، اس لئے کہ یہ اہل تفکر و تدبر ہیں اور آثار قدرت سے مؤثرحقیقی کی معرفت حاصل کرلیتے ہیں۔ ٥٣۔ ٣ یعنی حق کے آگے سر تسلیم خم کردینے والے اور اس کے پیرو کار۔ الروم
54 ٥٤۔ ١ یہاں سے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا ایک اور کمال بیان فرما رہا ہے اور وہ ہے مختلف اطوار سے انسان کی تخلیق۔ ضعف (کمزوری کی حالت) سے مراد نطفہ یعنی قطرہ آب ہے یا عالم طفولیت۔ ٥٤۔ ٢ یعنی جوانی، جس میں قوائے عقلی و جسمانی کی تکمیل ہوجاتی ہے۔ ٥٤۔ ٣ کمزوری سے مراد کہولت کی عمر ہے جس میں عقلی و جسمانی قوتوں میں نقصان کا آغاز ہوجاتا ہے اور بڑھاپے سے مراد شیخوخت کا وہ دور ہے جس میں ضعف بڑھ جاتا ہے۔ ہمت پست ہاتھ پیروں کی حرکت اور گرفت کمزور، بال سفید اور تمام ظاہری و باطنی صفات متغیر ہوجاتی ہیں۔ قرآن نے انسان کے یہ چار بڑے اطوار بیان کیے ہیں۔ بعض علماء نے دیگر چھوٹے چھوٹے اطوار بھی شمار کر کے انھیں قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے جو قرآن کے اجمال کی توضیح اور اس کے اعجاز بیان کی شرح ہے مثلا امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ انسان یکے بعد دیگرے ان حالات واطوار سے گزرتا ہے۔ اس کی اصل مٹی ہے یعنی اس کے باپ آدم (علیہ السلام) کی تخلیق مٹی سے ہوئی تھی یا انسان جو کچھ کھاتا ہے جس سے وہ منی پیدا ہوتی ہے جو رحم مادر میں جاکر اس کے وجود و تخلیق کا باعث بنتی ہے، وہ سب مٹی ہی کی پیداوار ہے پھر وہ نطفہ، نطفہ سے علقہ پھر مضغہ پھر ہڈیاں جنہیں گوشت کا لباس پہنایا جاتا ہے۔ پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ پھر ماں کے پیٹ سے اس حال میں نکلتا ہے کہ نحیف و نزار اور نہایت نرم ونازک ہوتا ہے۔ پھر بتدریج نشوونما پاتا، بچپن، بلوغت اور جوانی کو پہنچتا ہے اور پھر بتدریج رجعت قہقری کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ کہولت، شیخوخت اور پھر کبر سنی تاآنکہ موت اسے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ ٥٤۔ ٣ انہی اشیاء میں ضعف و قوت بھی ہے، جس سے انسان گزرتا ہے جیسا کہ ابھی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ الروم
55 ٥٥۔ ١ ساعت کے معنی ہیں گھڑی، لمحہ، مراد قیامت ہے، اس کو ساعت اس لئے کہا گیا کہ اس واقعہ کو جب اللہ چاہے گا، ایک گھڑی میں ہوجائے گا۔ یا اس لئے کہ یہ اس گھڑی میں ہوگی جو دنیا کی آخری گھڑی ہوگی۔ ٥٥۔ ٢ دنیا میں یا قبروں میں یہ اپنی عادت کے مطابق جھوٹی قسم کھائیں گے اس لیے کہ دنیا میں وہ جتنا عرصہ رہے ہوں گے ان کے علم میں ہی ہوگا اور اگر مراد قبر کی زندگی ہے تو ان کا حلف جہالت پر ہوگا کیونکہ وہ قبر کی مدت نہیں جانتے ہوں گے۔ بعض کہتے کہ آخرت کے شدائد اور ہولناک احوال کے مقابلے میں دنیا کی زندگی انھیں گھڑی کی طرح ہی لگے گی۔ ٥٥۔ ٣ اَفَکَ الرَّجُلُ کے معنی ہیں۔ سچ سے پھر گیا، مطلب ہوگا، اسی پھرنے کے مثل وہ دنیا میں پھرتے رہے یا بہکے رہے۔ الروم
56 ٥٦۔ ١ جس طرح یہ علماء دنیا میں بھی سمجھاتے رہے تھے۔ ٥٦۔ ٢ کِتَا بِ اللّٰہِ سے مراد اللہ کا علم اور اس کا فیصلہ ہے یعنی لوح محفوظ ۔ ٥٦۔ ٣ یعنی پیدائش کے وقت سے قیامت کے دن تک۔ ٥٦۔ ٤ کہ وہ آئے گی بلکہ استہزاء اور تکذیب کے طور پر اس کا تم مطالبہ کرتے تھے۔ الروم
57 ٥٧۔ ١ یعنی انھیں دنیا میں بھیج کر یہ موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہاں توبہ و اطاعت کے ذریعے سے عتاب الٰہی کا ازالہ کرلو۔ الروم
58 ٥٨۔ ١ جن سے اللہ کی توحید کا اثبات اور رسولوں کی صداقت واضح ہوتی ہے اور اسی طرح شرک کی تردید اور اس کا باطل ہونا نمایاں ہوتا ہے۔ ٥٨۔ ٢ وہ قرآن کریم کی پیش کردہ کوئی دلیل ہو یا ان کی خواہش کے مطابق کوئی معجزہ وغیرہ ٥٨۔ ٣ یعنی جادو وغیرہ کے پیروکار، مطلب یہ ہے کہ بڑی سے بڑی نشانی اور واضح سے واضح دلیل بھی اگر وہ دیکھ لیں، تب بھی ایمان بہرحال نہیں لائیں گے، کیوں؟ اس کی وجہ آگے بیان کردی گئی ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے جو اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ ان کا کفر و طغیان اس آخری حد کو پہنچ گیا ہے جس کے بعد حق کی طرف واپسی کے تمام راستے ان کے لیے مسدود ہیں۔ الروم
59 الروم
60 ٦٠۔ ١ یعنی ان کی مخالفت و عناد پر اور ان کی تکلیف دہ باتوں پر، اس لئے کہ اللہ نے آپ سے مدد کا وعدہ کیا ہے، یقینا حق ہے جو بہر صورت پورا ہوگا۔ ٦٠۔ ٢ یعنی آپ کو غضب ناک کر کے صبر و حلم ترک کرنے یا خوش آمد پر مجبور نہ کردیں بلکہ آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہیں اور اس سے انحراف نہ کریں۔ الروم
0 لقمان
1 سُوْ رَ ۃُ لُقْمٰنَ ٣١ سورت مکی ہے اس میں (٣٤) آیات اور (٤) رکوع ہیں لقمان
2 ١۔ ١ اس کے آغاز میں بھی یہ حروف مقطعات ہیں جن کے معنی و مراد کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ تاہم بعض مفسرین نے اس کے دو فوائد بڑے اہم بیان کئے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ قرآن اسی قسم کے حروف مقطعات سے ترتیب و تالیف پایا ہے جس کی مثل تالیف پیش کرنے سے عرب عاجز آگئے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ ہی کا نازل کردہ ہے اور جس پیغمبر پر نازل ہوا ہے وہ سچا رسول ہے جو شریعت وہ لے کر آیا ہے، انسان اس کا محتاج ہے اور اس کی اصلاح اور سعادت کی تکمیل اسی شریعت سے ممکن ہے۔ دوسرا یہ کہ مشرکین اپنے ساتھیوں کو اس قرآن کے سننے سے روکتے تھے مبادا وہ اس سے متاثر ہو کر مسلمان ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف سورتوں کا آغاز ان حروف مقطعات سے فرمایا تاکہ وہ اس کے سننے پر مجبور ہوجائیں کیونکہ یہ انداز بیان نیا اور اچھوتا تھا (ایسر التفاسیر) واللہ اعلم۔ لقمان
3 ٣۔ ١ محسنین محسن کی جمع ہے اس کے ایک معنی تو یہ ہیں احسان کرنے والا والدین کے ساتھ رشتے داروں کے ساتھ، مستحقین اور ضرورت مندوں کے ساتھ، دوسرے معنی ہیں، نیکیاں کرنے والا، یعنی برائیوں سے مجتنب اور نیکوکار، تیسرے معنی ہیں اللہ کی عبادت نہایت اخلاص اور خشوع و خضوع کے ساتھ کرنے والا۔ جس طرح حدیث جبرائیل میں ہے ان تعبد اللہ کانک تراہ۔ قرآن ویسے تو سارے جہان کے لئے ہدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے لیکن اس سے اصل فائدہ چونکہ صرف محسنین اور متقین ہی اٹھاتے ہیں، اس لئے یہاں اسطرح فرمایا۔ لقمان
4 ٤۔ ١ نماز زکوٰۃ اور آخرت پر یقین۔ یہ تینوں نہایت اہم ہیں، اس لئے ان کا بطور خاص ذکر کیا، ورنہ محسنین و متقین تمام فرائض و سنت رسول کے مطابق پابندی سے کرتے ہیں۔ لقمان
5 ٥۔ ١ فلاح کے مفہوم کے لئے دیکھئے سورۃ بقرہ اور مومنون کا آغاز۔ لقمان
6 ٦۔ ١ اہل سعادت جو کتاب الہی سے راہ یاب اور اس کے سماع سے فیض یاب ہوتے ہیں، ان کے ذکر کے بعد اہل شقاوت کا بیان ہو رہا ہے۔ جو کلام الہی کے سننے سے تو اعراض کرتے ہیں۔ البتہ ساز و موسیقی، نغمہ و سرود اور گانے وغیرہ خوب شوق سے سنتے اور ان میں دلچسپی لیتے ہیں۔ خریدنے سے مراد یہی ہے کہ آلات طرب شوق سے اپنے گھروں میں لاتے اور پھر ان سے لذت اندوز ہوتے ہیں۔ لغوالحدیث سے مراد گانا بجانا، اس کا سازوسامان اور آلات، ساز و موسیقی اور ہر وہ چیز ہے جو انسانوں کو خیر اور معروف سے غافل کر دے۔ اس میں قصے کہانیاں، افسانے ڈرامے، اور جنسی اور سنسنی خیز لٹریچر، رسالے اور بے حیائی کے پرچار اخبارات سب ہی آجاتے ہیں اور جدید ترین ایجادات ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ویڈیو فلمیں وغیرہ بھی۔ عہد رسالت میں بعض لوگوں نے گانے بجانے والی لونڈیاں بھی اسی مقصد کے لیے خریدی تھیں کہ وہ لوگوں کا دل گانے سنا کر بہلاتی رہیں تاکہ قرآن و اسلام سے وہ دور رہیں۔ اس اعتبار سے اس میں گلو کارائیں بھی آجاتی ہیں جو آج کل فن کار، فلمی ستارہ اور ثقافتی سفیر اور پتہ نہیں کیسے کیسے مہذب خوش نما اور دل فریب ناموں سے پکاری جاتی ہیں۔ ٦۔ ٢ ان تمام چیزوں سے یقینا انسان اللہ کے راستے سے گمراہ ہوجاتے ہیں اور دین کو مذاق کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ ٦۔ ٢ ان کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرنے والے ارباب حکومت، ادارے، اخبارات کے مالکان، اہل قلم اور فیچر نگار بھی اس عذاب کے مستحق ہوں گے۔ لقمان
7 ٧۔ ١ یہ اس شخص کا حال ہے جو مذکورہ لہو و لعب کی چیزوں میں مگن رہتا ہے، وہ آیات قرآنیہ اور اللہ رسول کی باتیں سن کر بہرا بن جاتا ہے حالانکہ وہ بہرا نہیں ہوتا اور اس طرح منہ پھیر لیتا ہے گویا اس نے سنا ہی نہیں، کیونکہ اس کے سننے سے وہ ایذاء محسوس کرتا ہے۔ اس لیے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، وقرا کے معنی ہیں کانوں میں ایسا بوجھ جو اسے سننے سے محروم کردے۔ لقمان
8 لقمان
9 ٩۔ ١ یعنی یہ یقینا پورا ہوگا، اس لئے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ وَاللّٰہُ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ۔ لقمان
10 ١٠۔ ١ تَرَوْنَھَا، اگر عَمَد کی صفت ہو تو معنی ہونگے ایسے ستونوں کے بغیر جنہیں تم دیکھ سکو۔ یعنی آسمان کے ستون ہیں لیکن ایسے کہ تم انھیں دیکھ نہیں سکتے۔ ١٠۔ ٢ رواسی راسیۃ کی جمع ہے جس کے معنی ثابتۃ کے ہیں یعنی پہاڑوں کو زمین پر اس طرح بھاری بوجھ بنا کر رکھ دیا ہے کہ جن سے زمین ثابت رہے یعنی حرکت نہ کرے۔ اسی لیے آگے فرمایا ان تمید بکم یعنی کراھۃ ان تمید (تمیل) بکم او لئلا تمید یعنی اس بات کی ناپسندیدگی سے کہ زمین تمہارے ساتھ ادھر ادھر ڈولے، یا اس لیے کہ زمین ادھر ادھر نہ ڈولے۔ جس طرح ساحل پر کھڑے بحری جہازوں میں بڑے بڑے لنگر ڈال دیے جاتے ہیں تاکہ جہاز نہ ڈولے زمین کے لیے پہاڑوں کی بھی یہی حیثیت ہے۔ ١٠۔ ٣ یعنی انواع و اقسام کے جانور زمین میں ہر طرف پھیلا دیئے جنہیں انسان کھاتا بھی ہے، سواری اور بار برداری کے لئے بھی استعمال کرتا ہے اور بطور زینت اور آرائش کے بھی اپنے پاس رکھتا ہے۔ ١٠۔ ٤ زوج یہاں صنف کے معنی میں ہے یعنی ہر قسم کے غلے اور میوے پیدا کیے۔ ان کی صفت کریم ان کے حسن لون اور کثرت منافع کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ لقمان
11 ١١۔ ١ ھٰذَا (یہ) اشارہ ہے اللہ کی ان پیدا کردہ چیزوں کی طرف جن کا گذشتہ آیات میں ذکر ہوا۔ ١١۔ ٢ یعنی جن کی تم عبادت کرتے ہو اور انھیں مدد کے لیے پکارتے ہو، انہوں نے آسمان و زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے؟ کوئی ایک چیز تو بتلاؤ؟ مطلب یہ ہے کہ جب ہر چیز کا خالق صرف اور صرف اللہ ہے، تو عبادت کا مستحق بھی صرف وہی ہے اس کے سوا کائنات میں کوئی ہستی اس لائق نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے اور اسے مدد کے لیے پکارا جائے۔ لقمان
12 ١٢۔ ١ حضرت لقمان، اللہ کے نیک بندے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حکمت یعنی عقل فہم اور دینی بصیرت میں ممتاز مقام عطا فرمایا تھا۔ ان سے کسی نے پوچھا تمہیں یہ فہم و شعور کس طرح حاصل ہوا ؟ انہوں نے فرمایا، راست بازی، امانت کے اختیار کرنے اور بے فائدہ باتوں سے اجتناب اور خاموشی کی وجہ سے۔ ان کا حکمت و دانش پر مبنی ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے کہ یہ غلام تھے، ان کے آقا نے کہا کہ بکری ذبح کرکے اس کے سب سے بہترین دو حصے لاؤ، چنانچہ وہ زبان اور دل نکال کرلے گئے۔ ایک دوسرے موقع پر آقا نے ان سے کہا کہ بکری ذبح کرکے اس کے سب سے بدترین حصے لاؤ، چنانچہ وہ زبان اور دل نکال کرلے گئے، پوچھنے پر انہوں نے بتلایا کہ زبان اور دل، اگر صحیح ہوں تو سب سے بہتر ہیں اور اگر یہ بگڑ جائیں تو ان سے بدتر کوئی چیز نہیں۔ (ابن کثیر) ١٢۔ ٢ شکر کا مطلب ہے، اللہ کی نعمتوں پر اس کی حمد و ثنا اور اس کے احکام کی فرماں برداری۔ لقمان
13 ١٣۔ ١ اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان کی سب سے پہلی وصیت یہ نقل فرمائی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو شرک سے منع فرمایا، جس سے یہ واضح ہوا کہ والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو شرک سے بچانے کی سب سے زیادہ کوشش کریں۔ ١٣۔ ٢ یہ بعض کے نزدیک حضرت لقمان ہی کا قول ہے اور بعض نے اسے اللہ کا قول قرار دیا ہے اور اس کی تائید میں وہ حدیث پیش کی ہے جو (اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ) 6۔ الانعام :82) کے نزول کے تعلق سے وارد ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ یہاں ظلم سے مراد ظلم عظیم ہے اور آیت ( ڼ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ) 31۔ لقمان :13) کا حوالہ دیا۔ مگر درحقیقت اس سے اللہ کا قول ہونے کی نہ تائید ہوتی ہے نہ تردید۔ لقمان
14 ١٤۔ ١ توحید و عبادت الٰہی کے ساتھ ہی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید سے اس نصیحت کی اہمیت واضح ہے۔ ١٤۔ ٢ اس کا مطلب ہے رحم مادر میں بچہ جس حساب سے بڑھتا جاتا ہے، ماں پر بوجھ بڑھتا جاتا ہے جس سے عورت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ ماں کی اس مشقت کے ذکر سے اس طرف بھی اشارہ نکلتا ہے کہ والدین کے ساتھ احسان کرتے وقت ماں کو مقدم رکھا جائے، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے۔ ١٤۔ ٣ اس سے معلوم ہوا کہ مدت رضاعت دو سال ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ لقمان
15 ١٥۔ ١ یعنی مومنین کی راہ۔ ١٥۔ ٢ یعنی میری طرف رجوع کرنے والوں کی پیروی اس لیے کرو کہ بالآخر تم سب کو میری ہی بارگاہ میں آنا ہے، اور میری ہی طرف سے ہر ایک کو اس کے اچھے یا برے عمل کی جزا ملنی ہے۔ اگر تم میرے راستے کی پیروی کرو گے اور مجھے یاد رکھتے ہوئے زندگی گزارو گے تو امید ہے کہ قیامت والے روز میری عدالت میں سرخرو ہو گے بصورت دیگر میرے عذاب میں گرفتار ہو گے۔ سلسلہ کلام حضرت لقمان کی وصیتوں سے متعلق تھا۔ اب آگے پھر وہی وصیتیں بیان کی جارہی ہیں۔ جو لقمان نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ درمیان کی دو آیتوں میں اللہ تبارک وتعالی نے جملہ معترضہ کے طور پر ماں باپ کے ساتھ احسان کی تاکید فرمائی۔ جس کی ایک وجہ تو یہ بیان کی گئی ہے کہ لقمان نے یہ وصیت اپنے بیٹے کو نہیں کی تھی کیونکہ اس میں ان کا اپنا ذاتی مفاد بھی تھا۔ دوسرا یہ واضح ہوجائے کہ اللہ کی توحید و عبادت کے بعد والدین کی خدمت و اطاعت ضروری ہے۔ تیسرا یہ کہ شرک اتنا بڑا گناہ ہے کہ اگر اس کا حکم والدین بھی دیں تو ان کی بات نہیں ماننی چاہیے۔ لقمان
16 ١٦۔ ١ ان تک کا مرجع خطیئۃ ہو تو مطلب گناہ اور اللہ کی نافرمانی والا کام ہے۔ اور اگر اس کا مرجع خصلۃ ہو تو مطلب اچھائی یا برائی کی خصلت ہوگا۔ مطلب یہ کہ انسان اچھا یا برا کام کتنا بھی چھپ کر کرے، اللہ سے چھپا نہیں رہ سکتا، قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اسے حاضر کرلے گا، یعنی اس کی جزا دے گا اچھے عمل کی اچھی جزا، برے عمل کی بری جزا، رائی کے دانے کی مثال اس لئے دی کہ وہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ جس کا وزن محسوس ہوتا ہے نہ تول میں ترازو کے پلڑے جھکا سکتا ہے۔ اسی طرح چٹان (آبادی سے دور جنگل، پہاڑ میں) مخفی ترین جگہ ہے یہ مضمون حدیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ فرمایا ' اگر تم میں سے کوئی شخص بے سوراخ کے پتھر میں بھی عمل کرے گا، جس کا کوئی دروازہ ہو نہ کھڑکی، اللہ تعالیٰ اسے لوگوں پر ظاہر فرما دے گا، چاہے وہ کیسا ہی عمل ہو ' (مسند احمد، ٣۔ ٢٨) اس لیے کہ وہ لطیف وباریک بین ہے۔ اس کا علم مخفی ترین چیز تک محیط ہے اور خبیر ہے اندھیری رات میں چلنے والی چیونٹی کی حرکات و سکنات سے بھی وہ باخبر ہے۔ لقمان
17 ١٧۔ ١ اقامۃ صلوۃ، امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور مصائب پر صبر کا اس لئے ذکر کیا کہ یہ تینوں اہم ترین عبادات اور امور خیر کی بنیاد ہیں۔ ١٧۔ ٢ یعنی مذکورہ باتیں ان کاموں میں سے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی ہے اور بندوں پر انھیں فرض قرار دیا ہے۔ یا یہ ترغیب ہے عزم و ہمت پیدا کرنے کی کیونکہ عزم و ہمت کے بغیر اطاعت مذکورہ عمل ممکن نہیں۔ بعض مفسرین کے نزدیک ذالِکَ کا مرجع صبر ہے۔ اس سے پہلے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی وصیت ہے اور اس راہ میں شدائد و مصائب اور طعن و ملامت ناگزیر ہے، اس لئے اس کے فوراً بعد صبر کی تلقین کرکے واضح کردیا کہ صبر کا دامن تھامے رکھنا کہ یہ عزم و ہمت کے کاموں میں سے ہے اور اہل عزم و ہمت کا ایک بڑا ہتھیار، اس کے بغیر فریضہ تبلیغ کی ادائیگی ممکن نہیں۔ لقمان
18 ١٨۔ ١ یعنی تکبر نہ کر کہ لوگوں کو حقیر سمجھے اور جب وہ تجھ سے ہم کلام ہوں تو ان سے منہ پھیر لے۔ یا گفتگو کے وقت اپنا منہ پھیرے رکھے؛ صعر ایک بیماری ہے جو اونٹ کے سر یا گردن میں ہوتی ہے، جس سے اس کی گردن مڑ جاتی ہے، یہاں بطور تکبر منہ پھیر لینے کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے (ابن کثیر) ١٨۔ ٢ یعنی ایسی چال یا رویہ جس سے مال ودولت یا جاہ و منصب یا قوت و طاقت کی وجہ سے فخر و غرور کا اظہار ہوتا ہو، یہ اللہ کو ناپسند ہے، اس لیے کہ انسان ایک بندہ عاجز وحقیر ہے، اللہ تعالیٰ کو یہی پسند ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق عاجزی وانکساری ہی اختیار کیے رکھے اس سے تجاوز کر کے بڑائی کا اظہار نہ کرے کہ بڑائی صرف اللہ ہی کے لیے زیبا ہے جو تمام اختیارات کا مالک اور تمام خوبیوں کا منبع ہے۔ اسی لیے حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہوگا۔ جو تکبر کے طور پر اپنے کپڑے کو گھسیٹتے ہوئے چلے اللہ اس کی طرف قیامت والے دن نہیں دیکھے گا۔ تاہم تکبر کا اظہار کیے بغیر اللہ کے انعامات کا ذکر یا اچھا لباس اور خوراک وغیرہ کا استعمال جائز ہے۔ لقمان
19 ١٩۔ ١ یعنی چال اتنی سست نہ ہو جیسے کوئی بیمار ہو اور نہ اتنی تیز ہو کہ شرف و وقار کے خلاف ہو۔ اسی کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا (یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا) 25۔ الفرقان :63) اللہ کے بندے زمین پر وقار اور سکونت کے ساتھ چلتے ہیں۔ ١٩۔ ٢ یعنی چیخ یا چلا کر بات نہ کر، اس لئے کہ زیادہ اونچی آواز سے بات کرنا پسندیدہ ہوتا تو گدھے کی آواز سب سے اچھی سمجھی جاتی لیکن ایسا نہیں، بلکہ گدھے کی آواز سب سے بدتر اور بری ہے۔ اس لئے حدیث میں آتا ہے کہ ' گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے پناہ مانگو (بخاری، کتاب بدء الخلق اور مسلم وغیرہ) لقمان
20 ٢٠۔ ١ تسخیر کا مطلب ہے انتفاع (فائدہ اٹھانا) جس کو ' یہاں کام سے لگا دیا ' سے تعبیر کیا گیا ہے جیسے آسمانی مخلوقْ، چاند، سورج، ستارے وغیرہ ہیں، انھیں اللہ تعالیٰ نے ایسے ضابطوں کا پابند بنا دیا ہے کہ یہ انسانوں کے لئے کام کر رہے ہیں اور انسان ان سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ دوسرا مطلب تسخیر کا تابع بنا دینا ہے۔ چنانچہ بہت سی زمینی مخلوق کو انسان کے تابع بنا دیا گیا ہے جنہیں انسان اپنی حسب منشا استعمال کرتا ہے جیسے زمین اور حیوانات وغیرہ ہیں، گویا تسخیر کا مفہوم یہ ہوا کہ آسمان و زمین کی تمام چیزیں انسانوں کے فائدے کے لئے کام میں لگی ہوئی ہیں، چاہے وہ انسان کے تابع اور اس کے زیر اثر تصرف ہوں یا اس کے تصرف اور تابعیت سے بالا ہوں۔ (فتح القدیر) ٢٠۔ ٢ ظاہری سے وہ نعمتیں مراد ہیں جن کا ادراک عقل، حواس وغیرہ سے ممکن ہو اور باطنی نعمتیں وہ جن کا ادراک و احساس انسان کو نہیں۔ یہ دونوں قسم کی نعمتیں اتنی ہیں کہ انسان ان کو شمار بھی نہیں کرسکتا۔ ٢٠۔ ٣ یعنی اس کے باوجود لوگ اللہ کی بابت جھگڑتے ہیں، کوئی اس کے وجود کے بارے میں کوئی اس کے ساتھ شریک گرداننے میں اور کوئی اس کے احکام و شرائع کے بارے میں۔ لقمان
21 ٢١۔ ١ یعنی ان کے پاس کوئی عقلی دلیل ہے، نہ کسی ہادی کی ہدایت اور نہ کسی کتاب آسمانی سے کوئی ثبوت، گویا کہ لڑتے ہیں ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔ لقمان
22 ٢٢۔ ١ یعنی صرف اللہ کی رضا کے لئے عمل کرے اس کے حکم کی اطاعت اور اس کی شریعت کی پیروی کرے۔ ٢٢۔ ٢ یعنی ما مور بہ چیزوں کا اتباع اور منہیات کو ترک کرنے والا۔ ٢٢۔ ٣ یعنی اللہ سے اس نے مضبوط عہد لے لیا کہ وہ اس کو عذاب نہیں کرے گا۔ لقمان
23 ٢٣۔ ١ اس لئے کہ ایمان کی سعادت ان کے نصیب میں ہی نہیں ہے۔ آپ کی کوشش اپنی جگہ بجا اور آپ کی خواہش بھی قابل قدر لیکن اللہ کی تقدیر اور مشیت سب پر غالب ہے۔ ٢٣۔ ٢ یعنی ان کے عملوں کی جزا دے گا۔ ٢٣۔ ٣ پس اس پر کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی۔ لقمان
24 ٢٤۔ ١ یعنی دنیا میں آخر کب تک رہیں گے اور اس کی لذتوں اور نعمتوں سے کہاں تک شاد کام ہونگے؟ یہ دنیا اور اسکی لذتیں تو چند روزہ ہیں، اس کے بعد ان کے لئے سخت عذاب ہی عذاب ہے۔ لقمان
25 ٢٥۔ ١ یعنی ان کو اعتراف ہے کہ آسمانوں و زمین کا خالق اللہ ہے نہ کہ وہ معبود جن کی وہ عبادت کرتے ہیں۔ ٢٥۔ ٢ اس لئے کہ ان کے اعتراف سے ان پر حجت قائم ہوگئی۔ لقمان
26 ٢٦۔ ١ یعنی ان کا خالق بھی وہی ہے، مالک بھی وہی اور مدبر و متصرف کائنات کا محتاج بھی وہی۔ ٢٦۔ ٢ بے نیاز ہے اپنے ماسوائے یعنی ہر چیز اس کی محتاج ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ ٢٦۔ ٣ اپنی تمام پیدا کردہ چیزوں میں۔ پس اس نے جو کچھ پیدا کیا اور جو احکام نازل فرمائے، اس پر آسمان و زمین میں سزاوار حمد و ثنا صرف اسی کی ذات ہے۔ لقمان
27 ٢٧۔ ١ اس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی، جلالت شان، اس کے اسمائے حسنٰی اور صفات عالیہ اور اس کی عظمتوں کا بیان ہے کہ وہ اتنے ہیں کہ کسی کے لئے ان کا احاطہ یا ان سے آگاہی یا ان کی حقیقت تک پہنچنا ممکن ہی نہیں اگر ان کا شمار کرنا حیطہ تحریر میں لانا چاہے، تو دنیا بھر کے درختوں کے قلم گھس جائیں، سمندروں کے پانی سے بنائی ہوئی سیاہی ختم ہوجائے، لیکن اللہ کی معلومات، اس کی تخلیق و صنعت کے عجائبات اور عظمت و جلالت کے مظاہر کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔ سات سمندر بطور مبالغہ ہے، حصر مراد نہیں (ابن کثیر) اس لیے کہ اللہ کی آیات و کلمات کا حصر و احصاء ممکن ہی نہیں ہے۔ اسی مفہوم کی ایک آیت سورۃ کہف کے آخر میں گزر چکی ہے۔ لقمان
28 ٢٨۔ ١ یعنی اس کی قدرت اتنی عظیم ہے کہ تم سب کا پیدا کرنا یا قیامت والے دن زندہ کرنے یا پیدا کرنے کی طرح ہے۔ اس لئے وہ جو چاہتا ہے لفظ کُنْ سے پلک جھپکتے میں معرض وجود میں آجاتا ہے۔ لقمان
29 ٢٩۔ ١ یعنی رات کا کچھ حصہ لے کر دن میں شامل کردیتا ہے، جس سے دن بڑا اور رات چھوٹی ہوجاتی ہے جیسے گرمیوں میں ہوتا ہے، اور پھر دن کا کچھ حصہ لے کر رات میں شامل کردیتا ہے، جس سے رات بڑی اور دن چھوٹا ہوجاتا ہے جیسے سردیوں میں ہوتا ہے۔ ٢٩۔ ٢ ' مقررہ وقت تک ' سے مراد قیامت تک ہے یعنی سورج اور چاند کے طلوع و غروب کا نظام، جس کا اللہ نے ان کو پابند کیا ہوا ہے قیامت تک یوں ہی قائم رہے گا۔ دوسرا مطلب ہے کہ ایک متعینہ منزل تک، یعنی اللہ نے ان کی گردش کے لیے ایک منزل اور ایک دائرہ متعین کیا ہوا ہے جہاں ان کا سفر ختم ہوتا ہے اور دوسرے روز پھر وہاں سے شروع ہو کر پہلی منزل پر آکر ٹھہر جاتا ہے ایک حدیث سے بھی اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوذر (رض) سے فرمایا جانتے ہو، یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ ابوذر (رض) کہتے میں نے کہا اللہ اور کے رسول خوب جانتے ہیں فرمایا اس کی آخری منزل عرش الہی ہے یہ وہاں جاتا ہے اور زیر عرش سجدہ ریز ہوتا ہے پھر وہاں سے نکلنے کی اپنے رب سے اجازت مانگتا ہے ایک وقت آئے گا کہ اس کو کہا جائے تو جہاں سے آیا ہے وہی لوٹ جا۔ تو وہ مشرق سے طلوع ہونے کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگا جیسا کہ قرب قیامت کی علامات میں آتا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں سورج رہٹ کی طرح ہے، دن کو آسمان پر اپنے مدار پر چلتا رہتا ہے، جب غروب ہوجاتا ہے، تو رات کو زمین کے نیچے اپنے مدار پر چلتا رہتا ہے یہاں تک کہ مشرق سے طلوع ہوجاتا ہے۔ اسی طرح چاند کا معاملہ ہے۔ لقمان
30 ٣٠۔ ١ یعنی یہ انتظامات یا نشانیاں، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ظاہر کرتا ہے تاکہ تم سمجھ لو کہ کائنات کا نظام چلانے والا صرف ایک اللہ ہے، جس کے حکم اور مشیت سے سب کچھ ہو رہا ہے، اور اس کے سوا سب باطل ہے یعنی کسی کے پاس کوئی بھی اختیار نہیں ہے بلکہ اس کے محتاج ہیں کیونکہ سب اس کی مخلوق اور اس کے ماتحت ہیں، ان میں سے کوئی بھی ایک ذرے کو بھی ہلانے کی قدرت نہیں رکھتا ہے (ابن کثیر) ٣٠۔ ٢ اس سے برتر شان والا کوئی ہے نہ اس سے بڑا کوئی۔ اس کی عظمت شان، علوم مرتبہ اور بڑائی کے سامنے ہر چیز حقیر اور پست ہے۔ لقمان
31 ٣١۔ ١ یعنی سمندر میں کشتیوں کا چلنا، یہ بھی اس کے لطف و کرم کا ایک مظہر اور اس کی قدرت تسخیر کا ایک نمونہ ہے، اس نے ہوا اور پانی کو ایسے مناسب انداز سے رکھا کہ سمندر کی سطح پر کشتیاں چل سکیں، ورنہ وہ چاہے تو ہوا کی تندی اور موجوں کی طغیانی سے کشتیوں کا چلنا ناممکن ہوجائے۔ ٣١۔ ٢ تکلیفوں میں صبر کرنے والے، راحت اور خوشی میں اللہ کا شکر کرنے والے۔ لقمان
32 ٣٢۔ ١ یعنی جب ان کی کشتیاں ایسی طوفانی موجوں میں گھر جاتی ہیں جو بادلوں اور پہاڑوں کی طرح ہوتی ہیں اور موت کا آہنی پنجہ انھیں اپنی گرفت میں لے لینا نظر آتا ہے تو پھر سارے زمینی معبود ان کے ذہنوں سے نکل جاتے ہیں اور صرف ایک آسمانی اللہ کو پکارتے ہیں جو واقعی اور حقیقی معبود ہے ٣٢۔ ٢ بعض نے مقتصد کے معنی بیان کیے ہیں عہد کو پورا کرنے والا، یعنی بعض ایمان، توحید اور اطاعت کے اس عہد پر قائم رہتے ہیں جو موج گرداب میں انہوں نے کیا تھا۔ ان کے نزدیک کلام میں حذف ہے، تقدیر کلام یوں ہوگا۔ فمنھم مقتصد ومنھم کافر۔ پس بعض ان میں سے مومن اور بعض کافر ہوتے ہیں، دوسرے مفسرین کے نزدیک اس کے معنی اعتدال پر رہنے والا اور یہ باب انکار سے ہوگا۔ یعنی اتنے ہولناک حالات اور پھر وہاں رب کی اتنی عظیم آیات کا مشاہدہ کرنے اور اللہ کے اس احسان کے باوجود کہ اس نے وہاں سے نجات دی۔ انسان اب بھی اللہ کی مکمل عبادت و اطاعت نہیں کرتا ؟ اور متوسط راستہ اختیار کرتا ہے، جب کہ وہ حالات، جن سے گزر کر آیا ہے مکمل بندگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ نہ کہ اعتدال کا۔ مگر پہلا مفہوم سیاق کے زیادہ قریب ہے۔ ٣٢۔ ٣ ختار غدار کے معنی میں ہے بد عہدی کرنے والا کفور ناشکری کرنے والا۔ لقمان
33 ٣٣۔ ١ جاز اسم فاعل ہے جَزْی یَجْزِی سے، بدلہ دینا، مطلب یہ ہے کہ اگر باپ چاہے کہ بیٹے کو بچانے کے لئے اپنی جان کا بدلہ، یا بیٹا باپ کے بدلے اپنی جان بطور معاوضہ پیش کر دے، تو وہاں ممکن نہیں ہوگا، ہر شخص کو اپنے کئے کی سزا بھگتنی ہوگی۔ جب باپ بیٹا ایک دوسرے کے کام نہ آسکیں گے تو دیگر رشتے داروں کی کیا حیثیت ہوگی، اور وہ کیوں کر ایک دوسرے کو نفع پہنچا سکیں گے۔ لقمان
34 ٣٤۔ ١ حدیث میں آتا ہے کہ پانچ چیزیں مفاتیح الغیب ہیں، جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ قرب قیامت کی علامات تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمائیں ہیں لیکن قیامت کے وقوع کا یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، کسی فرشتے کو، نہ کسی نبی مرسل کو، بارش کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے آثار و علائم سے تخمینہ تو لگایا جاتا اور لگایا جاسکتا ہے لیکن یہ بات ہر شخص کے تجربہ و مشاہدے کا حصہ ہے کہ یہ تخمینے کبھی صحیح نکلتے ہیں اور کبھی غلط۔ حتی کہ محکمہ موسمیات کے اعلانات بھی بعض دفعہ صحیح ثابت نہیں ہوتے۔ جس سے صاف واضح ہے کہ بارش کا بھی یقینی علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔ رحم مادر میں مشینی ذرائع سے جنسیت کا ناقص اندازہ تو شاید ممکن ہے کہ بچہ ہے یا بچی؟ لیکن ماں کے پیٹ میں نشوونما پانے والا یہ بچہ نیک بخت ہے یا بدبخت ناقص ہوگا یا کامل، خوب رو ہوگا یا بد شکل، کالا ہوگا یا گورا، وغیرہ باتوں کا علم اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں۔ انسان کل کیا کرے گا ؟ وہ دین کا معاملہ ہو یا دنیا کا ؟ کسی کو آنے والے کل کے بارے میں علم نہیں کہ وہ اس کی زندگی میں آئے گا بھی یا نہیں؟ اور اگر آئے گا تو وہ اس میں کیا کچھ کرے گا ؟ موت کہاں آئے گی؟ گھر میں یا گھر سے باہر اپنے وطن میں یا دیار غیر میں جوانی میں آئے گی یا بڑھاپے میں اپنی آرزوؤں اور خواہشات کی تکمیل کے بعد آئے گی یا اس سے پہلے؟ کسی کو معلوم نہیں۔ لقمان
0 السجدة
1 سُوْرَۃُ السَّجْدَ ۃِ ٣٢ سورۃ سجدہ مکی ہے اس میں تیس آیتیں اور تین رکوع ہیں السجدة
2 حدیث میں آتا ہے کہ نبی جمعہ کے دن فجر نماز میں الَمَّ السَّجْدَہ (اور دوسری رکعت میں) (ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ) (سُوْرَۃ دہر) پڑھا کرتے تھے (صحیح بخاری) اسی طرح یہ بھی سند سے ثابت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو سونے سے قبل سورۃ الم السجدہ اور سورۃ ملک پڑھا کرتے تھے (ترمذی ٨٩٢، مسند احمد أ٣٤٠) ٢۔ ١ مطلب یہ ہے کہ جھوٹ، جادو، کہانت اور من گھڑت قصے کہانیوں کی کتاب نہیں ہے بلکہ رب العالمین کی طرف سے آسمانی کتاب ہدایت ہے۔ السجدة
3 ٣۔ ١ یہ بطور توبیخ کے ہے کہ کیا رب العالمین کے نازل کردہ اس کلام بلاغت نظام کی بابت یہ کہتے ہیں کہ اسے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھڑ لیا ہے؟ ٣۔ ٢ یہ نزول قرآن کی علت ہے۔ اس سے معلوم ہوا (جیسا کہ پہلے بھی وضاحت گزر چکی ہے) کہ عربوں میں نبی پہلے نبی تھے۔ بعض لوگوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کو بھی عربوں میں مبعوث نبی قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم۔ اس اعتبار سے قوم سے مراد پھر خاص قریش ہوں گے جن کی طرف کوئی نبی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے نہیں آیا۔ السجدة
4 ٤۔ ١ اس کے لئے دیکھئے (اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِہٖ ۭاَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ۭ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ) 7۔ الاعراف :54) کا حاشیہ یہاں اس مضمون کو دہرانے سے مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت اور عجائب صنعت کے ذکر سے شاید وہ قرآن کو سنیں اور اس پر غور کریں۔ ٤۔ ٢ یعنی وہاں کوئی ایسا دوست نہیں ہوگا، جو تمہاری مدد کرسکے اور تم سے اللہ کے عذاب کو ٹال دے، نہ وہاں کوئی سفارشی ہی ایسا ہوگا جو تمہاری سفارش کرسکے۔ ٤۔ ٣ یعنی اے غیر اللہ کے پجاریو اور دوسروں پر بھروسہ رکھنے والو! کیا پھر تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟ السجدة
5 ٥۔ ١ آسمان سے، جہاں اللہ کا عرش اور لوح محفوظ ہے، اللہ تعالیٰ زمین پر احکام نازل فرماتا ہے یعنی تدبیر کرتا اور زمین پر ان کا نفاذ ہوتا ہے۔ جیسے موت اور زندگی، صحت اور مرض، عطا اور منع، غنا اور فقر، جنگ اور صلح، عزت اور ذلت، وغیرہ، اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر سے اپنی تقدیر کے مطابق یہ تدبیریں اور تصرفات کرتا ہے۔ ٥۔ ٢ یعنی پھر اس کی یہ تدبیر یا امر اس کی طرف واپس لوٹتا ہے ایک ہی دن میں جسے فرشتے لے کر جاتے ہیں اور صعود کا یا آنے جانے کا فاصلہ اتنا ہے کہ غیر فرشتہ ہزار سال میں طے کرے۔ یا اس سے قیامت کا دن مراد ہے کہ اس دن انسانوں کے سارے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے۔ اس یوم کی تعیین و تفسیر میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے امام شوکانی نے ١٥، ١٦ اقوال اس ضمن میں ذکر کیے ہیں اس لیے حضرت ابن عباس نے اس کے بارے میں توقف کو پسند فرمایا اور اس کی حقیقت کو اللہ کے سپرد کردیا ہے۔ صاحب ایسر التفاسیر لکھتے ہیں کہ قرآن میں یہ تین مقامات پر آیا ہے اور تینوں جگہ الگ الگ دن مراد ہے۔ (وَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَمْلَیْتُ لَہَا وَہِیَ ظَالِمَۃٌ ثُمَّ اَخَذْتُہَا ۚ وَاِلَیَّ الْمَصِیْرُ) 22۔ الحج :48) میں یوم کا لفظ عبارت ہے اس زمانہ اور مدت سے جو اللہ کے ہاں اور سورۃ معارج میں جہاں یوم کی مقدار پچاس ہزار سال بتلائی گئی ہے یوم حساب مراد ہے اور اس مقام زیر بحث میں یوم سے مراد دنیا کا آخری دن ہے جب دنیا کے تمام معاملات فنا ہو کر اللہ کی طرف لوٹ جائیں گے۔ السجدة
6 السجدة
7 ٧۔ ١ یعنی جو چیز بھی اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے، وہ چوں کہ اس کی حکمت و مصلحت کا اعتدال ہے، اس لئے اس میں اپنا ایک حسن اور انفرادیت ہے۔ یوں اس کی بنائی ہوئی ہر چیز حسین ہے اور بعض نے اَ حْسَنَ کے معنی اَتْکُنَ و اَحْکَمَ کے کئے ہیں، یعنی ہر چیز مضبوط اور پختہ بنائی۔ بعض نے اسے اَ لْھَمَ کے مفہوم میں لیا یعنی ہر مخلوق کو ان چیزوں کا الہام کردیا جس کی وہ محتاج ہے۔ ٧۔ ٢ یعنی انسان اول آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے بنایا جن سے انسانوں کا آغاز ہوا اور اس کی زوجہ حضرت حوا کو آدم (علیہ السلام) کی بائیں پسلی سے پیدا کردیا جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ السجدة
8 ۔ ١ یعنی منی کے قطرے سے، مطلب یہ ہے کہ ایک انسانی جوڑا بنانے کے بعد، اس کی نسل کے لئے ہم نے یہ طریقہ مقرر کردیا کہ مرد اور عورت آپس میں نکاح کریں، ان کے جنسی ملاپ سے جو قطرہ آب، عورت کے رحم میں جائے گا، اس سے ہم ایک انسانی پیکر تراش کر باہر بھیجتے رہیں گے۔ السجدة
9 ٩۔ ١ یعنی اس بچے کی ماں کے پیٹ میں نشو و نما کرتے، اس کے اعضا بناتے، سنوارتے ہیں اور پھر اس میں روح پھونکتے ہیں۔ ٩۔ ٢ یعنی ساری چیزیں پیدا کیں تاکہ وہ اپنی تخلیق کی تکمیل کر دے، پس تم سننے والی بات کو سن سکو دیکھنے والی چیز کو دیکھ سکو اور ہر عقل و فہم میں آنے والی بات کو سمجھ سکو۔ ٩۔ ٣ یعنی اتنے احسانات کے باوجود انسان اتنا ناشکرا ہے کہ وہ اللہ کا شکر بہت ہی کم ادا کرتا ہے یا شکر کرنے والے آدمی بہت تھوڑے ہیں۔ السجدة
10 ١٠۔ ١ جب کسی چیز پر کوئی دوسری چیز غالب آجائے اور پہلی کے تمام اثرات مٹ جائیں تو اس کو ضلالت (گم ہوجانے) سے تعبیر کرتے ہیں ضَلَلُنَا فِیْ الْاَرْضِ کے معنی ہوں کے کہ جب مٹی میں مل کر ہمارا وجود زمین میں غائب ہوجائے گا۔ السجدة
11 ١١۔ ١ یعنی اس کی ڈیوٹی ہی یہ ہے کہ جب تمہاری موت کا وقت آجائے تو وہ آکر روح قبض کرلے۔ السجدة
12 ١٢۔ ١ یعنی اپنے کفر و شرک اور معصیت کی وجہ سے مارے ندامت کے۔ ١٢۔ ٢ یعنی جس کو جھٹلایا کرتے تھے، اسے دیکھ لیا، جس کا انکار کرتے تھے، اسے سن لیا۔ یا تیری وعیدوں کی سچائی کو دیکھ لیا اور پیغمبروں کی تصدیق کو سن لیا، لیکن اس وقت کا دیکھنا، سننا ان کے کچھ کام نہیں آئے گا۔ ١٢۔ ٣ لیکن اب یقین کیا تو کس کام کا ؟ اب تو اللہ کا عذاب ان پر ثابت ہوچکا جسے بھگتنا ہوگا۔ السجدة
13 ١٣۔ ١ یعنی دنیا میں، لیکن یہ ہدایت جبری ہوتی، جس میں امتحان کی گنجائش نہ ہوتی۔ ١٣۔ ٢ یعنی انسانوں کی دو قسموں میں سے جو جہنم میں جانے والے ہیں، ان سے جہنم کو بھرنے والی میری بات سچ ثابت ہوگی۔ السجدة
14 ١٤۔ ١ یعنی جس طرح تم ہمیں دنیا میں بھلائے رہے، آج ہم بھی تم سے ایسا ہی معاملہ کریں گے ورنہ ظاہر بات ہے کہ اللہ تو بھولنے والا نہیں ہے۔ السجدة
15 ١٥۔ ١ یعنی تصدیق کرتے اور ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ١٥۔ ٢ یعنی اللہ کی آیات کی تعظیم اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے۔ ١٥۔ ٣ یعنی رب کو ان چیزوں سے پاک قرار دیتے ہیں جو اس کی شان کے لائق نہیں ہیں اور اس کے ساتھ اس کی نعمتوں پر اس کی حمد کرتے ہیں جن میں سے سب سے بڑی اور کامل نعمت ایمان کی ہدایت ہے۔ یعنی وہ اپنے سجدوں میں، سُبْحَان اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعٰلٰی وَ بَحَمْدِہٖ وغیرہ کلمات پڑھتے ہیں۔ ١٥۔ ٤ یعنی اطاعت وانقیاد کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ جاہلوں اور کافروں کی طرح تکبر نہیں کرتے۔ اس لیے کہ اللہ کی عبادت سے تکبر کرنا، جہنم میں جانے کا سبب ہے۔ اس لیے اہل ایمان کا معاملہ ان کے برعکس ہوتا ہے وہ اللہ کے سامنے ہر وقت عاجزی ذلت ومسکینی اور خشوع و خضوع کا اظہار کرتے ہیں۔ السجدة
16 ١٦۔ ١ یعنی راتوں کو اٹھ کر نوافل (تہجد) پڑھتے توبہ استغفار، تسبیح تحمید اور دعا الحاح و زاری کرتے ہیں۔ ١٦۔ ٢ یعنی اس کی رحمت اور فضل و کرم کی امید بھی رکھتے ہیں اور اس کے عتاب و غضب اور مؤاخذہ و عذاب سے ڈرتے بھی ہیں۔ محض امید ہی امید نہیں رکھتے کہ عمل سے بے پرواہ ہوجائیں جیسے بے عمل اور بدعمل لوگوں کا شیوہ ہے اور نہ عذاب کا اتنا خوف طاری کرلیتے ہیں کہ اللہ کی رحمت سے ہی مایوس ہوجائیں کہ یہ مایوسی بھی کفر وضلالت ہے۔ ١٦۔ ٣ یعنی انفاق میں صدقات واجبہ (زکوٰۃ) اور عام صدقہ و خیرات دونوں شامل ہیں، اہل ایمان دونوں کا حسب استطاعت اہتمام کرتے ہیں۔ السجدة
17 ١٧۔ ١ نفس نکرہ ہے جو عموم کا فائدہ دیتا ہے یعنی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ان نعمتوں کو جو اس نے مذکورہ اہل ایمان کے لیے چھپا کر رکھی ہیں جن سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں گی۔ اس کی تفسیر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حدیث قدسی بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھیں کسی کان نے ان کو سنا نہیں نہ کسی انسان کے وہم و گمان میں ان کا گزر ہوا۔ ١٧۔ ٢ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رحمت کا مستحق بننے کے لئے اعمال صالحہ کا اہتمام ضروری ہے۔ السجدة
18 ١٨۔ ١ یہ استفہام انکاری ہے یعنی اللہ کے ہاں مومن اور کافر برابر نہیں ہیں بلکہ ان کے درمیان بڑا فرق و تفاوت ہوگا مومن اللہ کے مہمان ہوں گے۔ اور اعزاز و کرام کے مستحق اور فاسق و کافر تعزیر و عقوبت کی بیڑیوں میں جکڑے ہوئے جہنم کی آگ میں جھلسیں گے۔ اس مضمون کو دوسرے مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً (اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَاۗءً مَّحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ ۭ سَاۗءَ مَا یَحْکُمُوْنَ) 45۔ الجاثیہ :21) (اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ ۡ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِ) 38۔ ص :28) (لَا یَسْتَوِیْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ہُمُ الْفَاۗیِٕزُوْنَ) 59۔ الحشر :20) وغیرہ۔ السجدة
19 السجدة
20 ۔ ١ یعنی جہنم کے عذاب کی شدت اور ہولناکی سے گھبرا کر باہر نکلنا چاہیں گے تو فرشتے پھر جہنم کی گہرائیں میں دھکیل دیں گے۔ ٢٠۔ ٢ یہ فرشتے کہیں گے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئے گی، بہرحال اس میں مکذبین کی ذلت و رسوائی کا جو سامان ہے وہ چھپا ہوا نہیں۔ السجدة
21 ٢١ ا۔ ١ عذاب ادنی (چھوٹے سے یا قریب کے بعض عذاب) سے دنیا کا عذاب یا دنیا کی مصیبتیں اور بیماریاں وغیرہ مراد ہیں۔ بعض کے نزدیک وہ قتل اس سے مراد ہے، جس سے جنگ بدر میں کافر دوچار ہوئے یا وہ قحط سالی ہے جو اہل مکہ پر مسلط کی گئی تھی۔ امام شوکانی فرماتے ہیں۔ تمام صورتیں ہی اس میں شامل ہوسکتی ہیں۔ ٢١ ا۔ ٢ یہ آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب بھیجنے کی علت ہے کہ شاید وہ کفر و شرک اور معصیت سے باز آجائیں۔ السجدة
22 ٢٢۔ ١ یعنی اللہ کی آیتیں سن کر جو ایمان و اطاعت کی موجب ہیں، جو شخص ان سے اعراض کرتا ہے، اس سے بڑا ظالم کون ہے؟ یعنی سب سے بڑا ظالم ہے۔ السجدة
23 ٢٣۔ ١ کہا جاتا ہے کہ اشارہ ہے اس ملاقات کی طرف جو معراج کی رات نبی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان ہوئی، جس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے نمازوں میں تخفیف کرانے کا مشورہ دیا تھاـ ٢٣۔ ٢ ' اس ' سے مراد کتاب (تورات) ہے یا خود حضرت موسیٰ علیہ السلام۔ السجدة
24 ٢٤۔ ١ اس آیت سے صبر کی فضیلت واضح ہے، صبر کا مطلب اللہ کے اوامر کے بجا لانے اور اللہ کے رسولوں کی تصدیق اور ان کے پیروی میں جو تکلیفیں آئیں، انھیں خندہ پیشانی سے جھیلنا، اللہ نے فرمایا، ان کے صبر کرنے اور آیات الٰہی پر یقین رکھنے کی وجہ سے ہم نے ان کو دینی امامت اور پیشوائی کے منصب پر فائز کیا۔ لیکن جب انہوں نے اس کے برعکس تبدیل و تحریف کا ارتکاب شروع کردیا، تو ان سے یہ مقام سلب کرلیا گیا، چنانچہ اس کے بعد ان کے دل سخت ہوگئے، پھر ان کا عمل صالح رہا اور نہ اعتقاد صحیح۔ السجدة
25 ٢٥۔ ١ اس سے وہ اختلاف مراد ہے جو اہل کتاب میں باہم برپا تھا، ضمناً وہ اختلاف بھی آجاتے ہیں۔ جو اہل ایمان کفر، اہل حق اور اہل باطل کے درمیان دنیا میں رہے اور ہیں دنیا میں تو ہر گروہ اپنے دلائل پر مطمئن اور اپنی ڈگر پر قائم رہے۔ اس لئے ان اختلافات کا فیصلہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ ہی فرمائے گا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اہل حق کو جنت میں اور اہل کفر و باطل کو جہنم میں داخل فرمائے گا۔ السجدة
26 ٢٦۔ ١ یعنی پچھلی امتیں جو جھٹلانے اور عدم ایمان کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، کیا یہ نہیں دیکھتے کہ آج ان کا وجود دنیا میں نہیں، البتہ ان کے مکانات ہیں جن کے یہ وارث بنے ہوئے ہیں۔ مطلب اس سے اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ تمہارا حشر بھی یہی ہوسکتا ہے، اگر ایمان نہ لائے۔ السجدة
27 ٢٧۔ ١ پانی سے مراد آسمانی بارش اور چشموں نالوں اور وادیوں کا پانی ہے، جسے اللہ تعالیٰ بنجر زمین کے علاقوں کی طرف بہا کرلے جاتا ہے اس سے پیداوار ہوتی ہے جو انسان کھاتے ہیں اور جو بھوسا چارہ ہوتا ہے وہ جانور کھاتے ہیں اس سے مراد کوئی خاص زمین یا علاقہ مراد نہیں ہے بلکہ عام ہے۔ جر ہر بے آباد، بنجر اور چٹیل زمین کو شامل ہے۔ السجدة
28 ٢٨۔ ١ اس فیصلے (فتح) سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ عذاب ہے جو کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے طلب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے اللہ کی مدد کب آئے گی؟ جس سے تو ہمیں ڈراتا رہتا ہے۔ فی الحال تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ تجھ پر ایمان لانے والے چھپے پھرتے ہیں۔ السجدة
29 ٢٩۔ ١ یوم الفتح سے مراد آخرت کا فیصلے کا دن، جہاں ایمان مقبول ہوگا اور نہ مہلت دی جائے گی۔ فتح مکہ کے دن مراد نہیں ہے کیونکہ اس دن طلقاء کا اسلام قبول کرلیا تھا، جن کی تعداد تقریباً دو ہزار تھی (ابن کثیر) طلقاء سے مراد وہ اہل مکہ ہیں جن کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ والے دن سزا و تعزیر کے بجائے معاف فرما دیا تھا اور یہ کہہ کر آزاد کردیا تھا کہ آج تم سے تمہاری پچھلی ظالمانہ کاروائیوں کا بدلہ نہیں لیا جائے گا۔ چنانچہ ان کی اکثریت مسلمان ہوگئی تھی۔ السجدة
30 ٣٠۔ ١ یعنی ان مشرکین سے اعراض کرلیں اور تبلیغ و دعوت کا کام اپنے انداز سے جاری رکھیں، جو وحی آپ کی طرف نازل کی جاتی ہے، اس کی پیروی کریں۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا "اتبع ما اوحی الیک من ربک لا الہ الا ہو واعرض عن المشرکین" آپ خود اس طریقت پر چلتے ہیں رہیے جس کی وحی آپ کے رب تعالیٰ کی طرف سے آپ کے پاس آئی ہے اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور مشرکین کی طرف خیال نہ کیجئے۔ ٣٠۔ ٢ یعنی اللہ کے وعدے کا کہ کب پورا ہوتا ہے اور تیرے مخالفوں پر تجھے غلبہ عطا فرماتا ہے؟ یقینا وہ پورا ہو کر رہے گا۔ ٣٠۔ ٣ یعنی کافر منتظر ہیں کہ شاید یہ پیغمبر ہی گردشوں کا شکار ہوجائے اور اس کی دعوت ختم ہوجائے۔ لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ اللہ نے اپنے نبی کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کو پورا فرمایا اور آپ پر گردشوں کے منتظر مخالفوں کو ذلیل خوار کیا یا ان کو آپ کا غلام بنایا دیا۔ السجدة
0 سُوْرَۃُ اَلْاَحْزَابِ ٣٣ یہ سورت مدنی ہے اسمیں (٧٣) آیات اور (٩) رکوع ہیں الأحزاب
1 ٢۔ ١ آیت میں تقویٰ پر مداومت اور تبلیغ و دعوت میں استقامت کا حکم ہے۔ طلق بن حبیب کہتے ہیں، تقویٰ کا مطلب ہے کہ اللہ کی اطاعت اللہ کی دی ہوئی روشنی کے مطابق کرے اور اللہ سے ثواب کی امید رکھے اور اللہ کی معصیت اللہ کی دی ہوئی روشنی کے مطابق ترک کر دے، اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے (ابن کثیر) ٢۔ ٢ پس وہی اس بات کا حق دار ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اس لئے نتائج کو وہی جانتا ہے اور اپنے اقوال و افعال میں وہ حکیم ہے الأحزاب
2 ٢۔ ١ یعنی قرآن کی اور احادیث کی بھی، اس لئے کہ احادیث کے الفاظ گو نبی کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے معانی و مفہوم من جانب اللہ ہی ہیں۔ اس لئے ان کو وحی خفی کہا یا وحی غیر متلو کہا جاتا ہے۔ الأحزاب
3 ٣۔ ١ اپنے تمام معاملات اور احوال میں۔ ٣۔ ٢ ان لوگوں کے لئے جو اس پر بھروسہ رکھتے، اور اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ الأحزاب
4 ٤۔ ١ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک منافق یہ دعوی کرتا تھا کہ اس کے دو دل ہیں۔ ایک دل مسلمانوں کے ساتھ ہے اور دوسرا دل کفر اور کافروں کے ساتھ ہے۔ یہ آیت اس کی تردید میں نازل ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ مشرکین مکہ میں سے ایک شخص جمیل بن معمر فہر تھا، جو بڑا ہوشیار مکار اور نہایت تیز طرار تھا، اس کا دعوی تھا کہ میرے تو دو دل ہیں جن سے میں سوچتا سمجھتا ہوں۔ جب کہ محمد کا ایک ہی دل ہے۔ یہ آیت اس کے رد میں نازل ہوئی۔ (ایسر التفاسیر) بعض مفسرین کہتے ہیں کہ آگے جو دو مسئلے بیان کیے جا رہے ہیں، یہ ان کی تمہید ہے یعنی جس طرح ایک شخص کے دو دل نہیں ہو سکتے اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ظہار کرلے یعنی یہ کہہ دے کہ تیری پشت میرے لیے ایسے ہی ہے جیسے میری ماں کی پشت تو اس طرح کہنے سے اس کی بیوی، اس کی ماں نہیں بن جائے گی۔ یوں اس کی دو مائیں نہیں ہو سکتیں۔ اسی طرح کوئی شخص کسی کو اپنا بیٹا لے پالک بیٹا بنا لے تو وہ اس کا حقیقی بیٹا نہیں بن جائے گا بلکہ وہ بیٹا اپنے باپ کا ہی رہے گا اس کے دو باپ نہیں ہو سکتے۔ ٤۔ ٢ یہ مسئلہ ظہار کہلاتا ہے ِ اس کی تفصیل سورۃ مجادلۃ میں آئے گی۔ ٤۔ ٣ اس کی تفصیل اسی سورت میں آگے آئے گی۔ ٤۔ ٤ یعنی کسی کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں نہیں بن جائے گی، نہ بیٹا کہنے سے بیٹا بن جائے گا، یعنی ان پر بنوت کے شرعی احکام جاری نہیں ہونگے۔ ٤۔ ٥ اس لئے اس کا اتباع کرو اور ظہار والی عورت کو ماں اور لے پالک کو بیٹا مت کہو، خیال رہے کہ کسی کو پیار اور محبت میں بیٹا کہنا اور بات ہے اور لے پالک کو حقیقی بیٹا تصور کر کے بیٹا کہنا اور بات ہے۔ پہلی بات جائز ہے، یہاں مقصود دوسری بات کی ممانعت ہے۔ الأحزاب
5 ٥۔ ١ اس حکم سے اس رواج کی ممانعت کردی گئی جو زمانہ جاہلیت سے چلا آرہا تھا اور ابتدائے اسلام میں بھی رائج تھا کہ لے پالک بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھا جاتا تھا۔ صحابہ کرام بیان فرماتے ہیں کہ ہم زید بن حارثہ کو جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آزاد کر کے بیٹا بنا لیا تھا زید بن محمد کہہ کر پکارا کرتے تھے، حتی کہ قرآن کریم کی آیت ادعوھم لآبائھم نازل ہوگئی اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابو حذیفہ کے گھر میں بھی ایک مسئلہ پیدا ہوگیا، جنہوں نے سالم کو بیٹا بنایا ہوا تھا جب منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹا سمجھنے سے روک دیا گیا تو اس سے پردہ کرنا ضروری ہوگیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابو حذیفہ کی بیوی کو کہا کہ اسے دودھ پلا کر اپنا رضاعی بیٹا بنالو کیونکہ اس طرح تم اس پر حرام ہوجاؤ گی چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ یعنی جن کے حقیقی باپوں کا علم ہے۔ اب دوسری نسبتیں ختم کر کے انھیں کی طرف انھیں منسوب کرو۔ البتہ جن کے باپوں کا علم نہ ہو سکے تو تم انھیں اپنا دینی بھائی اور دوست سمجھو، بیٹا مت سمجھو۔ ٥۔ ٢ اس لئے کہ خطا معاف ہے، جیسا کہ حدیث میں بھی صراحت ہے۔ ٥۔ ٣ یعنی جو جان بوجھ کر انتساب کرے گا وہ سخت گناہگار ہوگا، حدیث میں آتا ہے، ' جس نے جانتے بوجھتے اپنے غیر باپ کی طرف منسوب کیا۔ اس نے کفر کا ارتکاب کیا (صحیح بخاری) الأحزاب
6 ٦۔ ١ نبی اپنی امت کے لئے جتنے شفیق اور خیر خواہ تھے، محتاج وضاحت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس شفقت اور خیر خواہی کو دیکھتے ہوئے اس آیت میں آپکو مومنوں کے اپنے نفس سے بھی زیادہ حق دار، آپ کی محبت کو دیگر تمام محبتوں سے فائق تر اور آپ کے حکم کو اپنی تمام خواہشات سے اہم قرار دیا ہے۔ اس لئے مومنوں کے لئے ضروری ہے کہ آپ ان کے جن مالوں کا مطالبہ اللہ کے لئے کریں، وہ آپ پر نچھاور کردیں چاہے انھیں خود کتنی ہی ضرورت ہو۔ آپ سے اپنے نفسوں سے بھی زیادہ محبت کریں (جیسے حضرت عمر کا واقعہ ہے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کو سب پر مقدم اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کو سب سے اہم سمجھیں۔ جب تک یہ خود سپردگی نہیں ہوگی (فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤمِنُوْنَ) (النساء۔ ٦٥) کے مطابق آدمی مومن نہیں ہوگا۔ اسی طرح جب تک آپ کی محبت تمام محبتوں پر غالب نہیں ہوگی وہ صحیح مومن نہ ہوگا۔ ٦۔ ٢ یعنی احترام و تکریم میں اور ان سے نکاح نہ کرنے میں۔ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی مائیں بھی ہیں ٦۔ ٣ یعنی اب مہاجرت، اخوت کی وجہ سے وراثت نہیں ہوگی۔ اب وراثت صرف قریبی رشتہ کی بنیاد پر ہوگی۔ ٦۔ ٤ ہاں غیر رشتہ داروں کے لئے احسان اور بر و صلہ کا معاملہ کرسکتے ہو، نیز ان کے لئے ایک تہائی مال میں وصیت بھی کرسکتے ہو۔ ٦۔ ٥ یعنی لوح محفوظ میں اصل حکم یہی ہے، گو عارضی طور پر مصلحتًا دوسروں کو بھی وارث قرار دیا گیا تھا، لیکن اللہ کے علم میں تھا کہ یہ منسوخ کردیا جائے گا۔ چنانچہ اسے منسوخ کر کے پہلا حکم بحال کردیا ہے۔ اسی طرح جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت تمام محبتوں پر غالب نہیں ہوگی تو لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ۔ کی رو سے مومن نہیں، ٹھیک اسی طرح اطاعت رسول میں کوتاہی بھی لا یومن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ کا مصداق بنا دے گی۔ ٦۔ ٢ یعنی احترام و تکریم میں اور ان سے نکاح نہ کرنے میں۔ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی مائیں بھی ہیں۔ ٦۔ ٣ یعنی اب مہاجرت، اخوت اور موالات کی وجہ سے وراثت نہیں ہوگی۔ اب وراثت صرف قریبی رشتہ کی بنیاد پر ہی ہوگی۔ ٦۔ ٤ ہان تم غیر رشتے داروں کے لیے احسان اور بر و صلہ کا معاملہ کرسکتے ہو، نیز انکے لیے ایک تہائی مال میں سے وصیت بھی کرسکتے ہو۔ ٦۔ ٥ یعنی لوح محفوظ میں اصل حکم یہی ہے گو عارضی طور پر مصلحتا دوسروں کو بھی وارث قرار دے دیا گیا تھا، لیکن اللہ کے علم میں تھا کہ یہ منسوخ کردیا جائے گا۔ چنانچہ اسے منسوخ کر کے پہلا حکم بحال کردیا گیا ہے۔ الأحزاب
7 ٧۔ ١ اس عہد سے مراد ہے؟ بعض کے نزدیک یہ وہ عہد ہے جو ایک دوسرے کی مدد اور تصدیق کا انبیاء علیہم السلام سے لیا گیا تھا (وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاق النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَاۗءَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ ۭ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ ۭ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا ۭ قَالَ فَاشْہَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰہِدِیْنَ) 3۔ آل عمران :81) میں ہے، بطور خاص پانچ انبیاء علیہم السلام کا نام لیا گیا جن سے ان کی اہمیت و عظمت واضح ہے اور ان میں بھی نبی کا ذکر سب سے پہلے ہے درآں حالیکہ نبوت کے لحاظ سے آپ سب سے متأخر ہیں، اس سے آپ کی عظمت اور شرف کا جس طرح اظہار ہو رہا ہے، محتاج وضاحت نہیں۔ الأحزاب
8 ٨۔ ١ یہ لام کئ ہے یعنی یہ عہد اس لئے لیا تھا تاکہ اللہ سچے نبیوں سے پوچھے کہ انہوں نے اللہ کا پیغام اپنی قوموں تک پہنچایا تھا یا دوسرا مطلب یہ ہے کہ انبیاء سے پوچھے کہ تمہاری قوموں نے تمہاری دعوت کا جواب کس طرح دیا ؟ مثبت انداز میں یا منفی طریقے سے، اس میں داعیان حق کے لئے بھی تنبیہ ہے کہ وہ دعوت حق کا فریضہ پوری تن دہی اور اخلاص سے ادا کریں تاکہ بارگاہ الٰہی میں سرخرو ہو سکیں، اور ان لوگوں کے لئے بھی وعید ہے جن کو حق کی دعوت پہنچائی جائے کہ اگر وہ اسے قبول نہیں کریں گے تو عند اللہ مجرم اور مستوجب سزا ہوں گے۔ الأحزاب
9 ٩۔ ١ ان آیات میں غزوہ احزاب کی کچھ تفصیل ہے جو ٥ ہجری میں پیش آیا۔ اسے احزاب اس لئے کہتے ہیں کہ اس موقعہ پر تمام اسلام دشمن گروہ جمع ہو کر مسلمانوں کے مرکز ' مدینہ ' پر حملہ آور ہوئے تھے۔ احزاب حزب (گروہ) کی جمع ہے۔ اسے جنگ خندق بھی کہتے ہیں، اس لئے کہ مسلمانوں نے اپنے بچاؤ کے لئے مدینے کے اطراف میں خندق کھودی تھی تاکہ دشمن مدینہ کے اندر نہ آسکیں۔ اس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے کہ یہودیوں کے قبیلے بنو نضیر، جس کو رسول اللہ نے مسلسل بد عہدی کی وجہ سے مدینے سے جلا وطن کردیا تھا، یہ قبیلہ خیبر میں جا آباد ہوا اس نے کفار مکہ کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے لئے تیار کیا، اسی طرح غطفان وغیرہ قبائل نجد کو بھی امداد کا یقین دلا کر آمادہ قتال کیا یوں یہ یہودی اسلام اور مسلمانوں کے تمام دشمنوں کو اکٹھا کر کے مدینے پر حملہ آور ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ مشرکین مکہ کی قیادت ابو سفیان کے پاس تھی، انہوں نے احد کے آس پاس پڑاؤ ڈال کر تقریباً مدینے کا محاصرہ کرلیا ان کی مجموعی تعداد ١٠ ہزار تھی، جب کہ مسلمان تین ہزار تھے۔ علاوہ ازیں جنوبی رخ پر یہودیوں کا تیسرا قبیلہ بنو قریظہ آباد تھا۔ جس سے ابھی تک مسلمانوں کا معاہدہ قائم اور وہ مسلمانوں کی مدد کرنے کا پابند تھا۔ لیکن اسے بھی بنو نضیر کے یہودی سردار حیی بن اخطب نے ورغلا کر مسلمانوں پر کاری ضرب لگانے کے حوالے سے، اپنے ساتھ ملا لیا یوں مسلمان چاروں طرف سے دشمن کے نرغے میں گھر گئے۔ اس موقع پر حضرت سلیمان فارسی کے مشورے سے خندق کھودی گئی، جس کی وجہ سے دشمن کا لشکر مدینے سے اندر نہیں آسکا اور مدینے کے باہر قیام پذیر رہا۔ تاہم مسلمان اس محاصرہ اور دشمن کی متحدہ یلغار سے سخت خوفزدہ تھے، کم و بیش ایک مہینے تک محاصرہ قائم رہا اور مسلمان سخت خوف اور اضطراب کے عالم میں مبتلا تھے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے پردہ غیب سے مسلمانوں کی مدد فرمائی ان آیات میں ان ہی سراسیمہ حالات اور امداد غیبی کا تذکرہ فرمایا گیا ہے پہلے جُنُودًا سے مراد کفار کی فوجیں ہیں، جو جمع ہو کر آئی تھیں۔ تیز و تند ہوا سے مراد ہوا ہے جو سخت طوفان اور آندھی کی شکل میں آئی، جس نے ان کے خیموں کو اکھاڑ پھینکا جانور رسیاں تڑا کر بھاگ کھڑے ہوئے، ہانڈیاں الٹ گئیں اور سب بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔ یہ وہی ہوا ہے۔ جس کی بابت حدیث میں آتا ہے، (بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْہَا) 9۔ التوبہ :40) سے مراد فرشتے ہیں۔ جو مسلمانوں کی مدد کے لئے آئے، انہوں نے دشمن کے دلوں پر ایسا خوف اور دہشت طاری کردی کہ انہوں نے وہاں سے جلد بھاگ جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ الأحزاب
10 ١٠۔ ١ اس سے مراد یہ ہے کہ ہر طرف سے دشمن آگئے یا اوپر سے مراد غطفان، ہوازن اور دیگر نجد کے مشرکین ہیں اور نیچے کی سمت سے قریش اور ان کے اعوان و انصار۔ ١٠۔ ٢ یہ مسلمانوں کی اس کیفیت کا اظہار ہے جس سے اس وقت دو چار تھے۔ الأحزاب
11 ١١۔ ١ یعنی مسلمانوں کو خوف، قتال، بھوک اور محاصرے میں مبتلا کر کے ان کو جانچا پرکھا گیا تاکہ منافق الگ ہوجائیں۔ الأحزاب
12 ١٢۔ ١ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کا وعدہ ایک فریب تھا۔ یہ تقریباً ستر منافقین تھے جن کی زبانوں پر وہ بات آگئی جو دلوں میں تھی۔ الأحزاب
13 ١٣۔ ١ یثرب اس پورے علاقے کا نام تھا، مدینہ اسی کا ایک حصہ تھا، جسے یہاں یثرب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا نام یثرب اس لیے پڑا کہ کسی زمانے میں عمالقہ میں سے کسی نے یہاں پڑاؤ کیا تھا جس کا نام یثرب بن عمیل تھا۔ ١٣۔ ٢ یعنی مسلمانوں کے لشکر میں رہنا سخت خطرناک ہے، اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاؤ۔ ١٣۔ ٣ یعنی بنو قریظہ کی طرف سے حملے کا خطرہ ہے یوں اہل خانہ کی جان مال اور آبرو کا خطرے میں ہے۔ ١٣۔ ٣ یعنی جو خطرہ وہ ظاہر کر رہے ہیں، نہیں ہے وہ اس بہانے سے راہ فرار چاہتے ہیں۔ الأحزاب
14 ١٤۔ ١ یعنی مدینے یا گھروں میں چاروں طرف سے دشمن داخل ہوجائیں اور ان سے مطالبہ کریں کے تم کفر و شرک کی طرف دوبارہ واپس آجاؤ، تو یہ ذرا توقف نہ کریں گے اور اس وقت گھروں کے غیر محفوظ ہونے کا عذر بھی نہیں کریں گے بلکہ فوراً مطالبہ شرک کے سامنے جھک جائیں مطلب یہ کہ کفر و شرک ان کو مرغوب ہے اور اس کی طرف لپکتے ہیں۔ الأحزاب
15 ١٥۔ ١ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ منافقین جنگ بدر تک مسلمان نہیں ہوئے۔ لیکن جب مسلمان فاتح ہو کر اور مال غنیمت لے کر واپس آئے تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ اسلام کا اظہار کیا بلکہ یہ عہد بھی کیا کہ آئندہ جب بھی کفار سے معرکہ پیش آیا تو وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر ضرور لڑیں گے، یہاں ان کو وہی عہد یاد کرایا گیا ہے۔ ١٥۔ ٢ یعنی اسے پورا کرنے کا ان سے مطالبہ کیا جائے گا اور عدم وفا پر سزا کے مستحق ہوں گے۔ الأحزاب
16 ١٦۔ ١ یعنی موت سے کوئی صورت مفر نہیں ہے۔ اگر میدان جنگ سے بھاگ کر آ بھی جاؤ گے تو کیا فائدہ؟ کچھ عرصے بعد موت کا پیالہ تو پھر بھی پینا پڑے گا۔ الأحزاب
17 ١٧۔ ١ یعنی تمہیں ہلاک کرنا، بیمار کرنا، یا مال و جائداد میں نقصان پہنچانا یا قحط سالی میں مبتلا کرنا چاہے، تو کون ہے جو تمہیں اس سے بچا سکے؟ یا اپنا فضل و کرم کرنا چاہے تو وہ روک سکے؟ الأحزاب
18 ١٨۔ ١ یہ کہنے والے منافقین تھے، جو اپنے دوسرے ساتھیوں کو بھی مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ہونے سے روکتے تھے۔ ١٨۔ ٢ کیونکہ وہ موت کے خوف سے پیچھے ہی رہتے تھے۔ الأحزاب
19 ١٩۔ ١ یعنی تمہارے ساتھ خندق کھود کر تم سے تعاون کرنے میں یا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں یا تمہارے ساتھ مل کر لڑنے میں بخیل ہیں۔ ١٩۔ ٢ یہ ان کی بزدلی اور پست ہمتی کی کیفیت کا بیان ہے۔ ١٩۔ ٣ یعنی اپنی شجاعت ومردانگی کی ڈینگیں مارتے ہیں، جو سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں، یا غنیمت کی تقسیم کے وقت اپنی زبان کی تیزی وطراری سے لوگوں کو مثاثر کرکے زیادہ سے زیادہ مال حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حضرت قتادہ (رض) فرماتے ہیں، غنیمت کی تقسیم کے وقت یہ سب سے زیادہ بخیل اور سب سے زیادہ بڑا حصہ لینے والے اور لڑائی کے وقت سب سے زیادہ بزدل اور ساتھیوں کو بےیارو مددگار چھوڑنے والے ہیں۔ ١٩۔ ٣ یا دوسرا مفہوم ہے کہ خیر کا جذبہ بھی ان کے اندر نہیں ہے۔ یعنی مذکورہ خرابیوں اور کوتاہیوں کے ساتھ خیر اور بھلائی سے بھی وہ محروم ہیں۔ ١٩۔ ٤ یعنی دل سے بلکہ یہ منافق ہیں، کیونکہ ان کے دل کفر و عناد سے بھرے ہوئے ہیں۔ ١٩۔ ٥ ان کے اعمال کا برباد کردینا، یا ان کا نفاق۔ الأحزاب
20 ٢٠۔ ١ یعنی ان منافقین کی بزدلی، کم ہمتی اور خوف و دہشت کا یہ حال ہے کہ کافروں کے گروہ اگرچہ ناکام و نامراد واپس جا چکے ہیں۔ لیکن یہ اب تک یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ابھی تک اپنے مورچوں اور خیموں میں موجود ہیں۔ ٢٠۔ ٢ یعنی بالفرض اگر کفار کی ٹولیاں دوبارہ لڑائی کی نیت سے واپس آجائیں تو منافقین کی خواہش یہ ہوگی کہ وہ مدینہ شہر کے اندر رہنے کے بجائے باہر صحرا میں بادیہ نشینوں کے ساتھ ہوں اور وہاں لوگوں سے تمہاری بابت پوچھتے رہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے ساتھی ہلاک ہوئے یا نہیں؟ یا لشکر کفار کامیاب رہا یا ناکام؟ ٢٠۔ ٣ محض عار کے ڈر سے یا ہم وطنی کی حمیت کی وجہ سے۔ اس میں ان لوگوں کے لئے سخت وعید ہے جو جہاد سے گریز کرتے یا اس سے پیچھے رہتے ہیں۔ الأحزاب
21 ٢١۔ ١ یعنی اے مسلمانو! اور منافقو! تم سب کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے اندر بہترین نمونہ ہے، پس تم جہاد میں اور صبر ثبات میں اسی کی پیروی کرو۔ ہمارا یہ پیغمبر جہاد میں بھوکا رہا حتی کہ اسے پیٹ پر پتھر باندھنے پڑے، اس کا چہرہ زخمی ہوگیا اس کا رباعی دانت ٹوٹ گیا، خندق اپنے ہاتھوں سے کھودی اور تقریبا ایک مہینہ دشمن کے سامنے سینہ سپر رہا۔ یہ آیت اگرچہ جنگ احزاب کے ضمن میں نازل ہوئی ہے جس میں جنگ کے موقعے پر بطور خاص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوہ حسنہ کو سامنے رکھنے اور اس کی اقتدا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن یہ حکم عام ہے یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام اقوال افعال اور احوال میں مسلمانوں کے لیے آپ کی اقتدا ضروری ہے چاہے ان کا تعلق عبادات سے یا معاشرت سے، معیشت سے یا سیاست سے، زندگی کے ہر شعبے میں آپ کی ہدایات واجب الاتباع ہیں۔ ( ۭ وَمَآ اٰتٰیکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ۤ وَمَا نَہٰیکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا) 59۔ الحشر :7) (اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ۭوَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ) 3۔ آل عمران :31)، کا بھی یہی مفاد ہے۔ ٢١۔ ٢ اس سے یہ واضح ہوگیا کہ اسوہ رسول کو وہی اپنائے گا جو آخرت میں اللہ کی ملاقات پر یقین رکھتا اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ آجکل مسلمان بھی بالعموم ان دونوں وصفوں سے محروم ہیں، اس لئے اسوہ رسول کی بھی کوئی اہمیت ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ ان میں جو اہل دین ہیں ان کے پیشوا پیر اور مشائخ ہیں اور جو اہل دنیا و سیاست ہیں ان کے مرشد و رہنما آقایان مغرب ہیں۔ رسول اللہ سے عقیدت کے زبانی دعوے بڑے ہیں لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مرشد اور پیشوا ماننے کے لیے ان میں سے کوئی بھی آمادہ نہیں ہے۔ فالی اللہ المشتکی۔ الأحزاب
22 ٢٢۔ ١ یعنی منافقین نے دشمن کی کثرت تعداد اور حالات کی سنگینی دیکھ کر کہا تھا کہ اللہ اور رسول کے وعدے فریب تھے، ان کے برعکس اہل ایمان نے کہا کہ اللہ اور رسول نے جو وعدہ کیا ہے کہ امتحان سے گزارنے کے بعد تمہیں فتح و نصرت سے ہمکنار کیا جائے گا، وہ سچا ہے۔ ٢٢۔ ٢ یعنی حالات کی شدت اور ہولناکی نے ان کے ایمان کو متزلزل نہیں کیا، بلکہ ان کے ایمان میں جذبہ اطاعت اور تسلیم و رضا میں مذید اضافہ کردیا۔ اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں اور ان کے مختلف احوال کے اعتبار سے ایمان اور اس کی قوت میں کمی بیشی ہوتی ہے جیسا کہ محدثین کا مسلک ہے۔ الأحزاب
23 ٢٣۔ ١ یہ آیت ان بعض صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جنہوں نے اس موقع پر جاں نثاری کے عجیب وغریب جوہر دکھائے تھے اور انھیں میں وہ صحابہ بھی شامل ہیں جو جنگ بدر میں شریک نہ ہوسکے تھے لیکن انہوں نے یہ عہد کر رکھا تھا کہ اب آئندہ کوئی معرکہ پیش آیا تو جہاد میں بھرپور حصہ لیں گے۔ جیسے نضر بن انس وغیرہ جو بالآخر لڑتے ہوئے جنگ احد میں شہید ہوئے ان کے جسم پر تلوار نیزے اور تیروں کے اسی سے کچھ اوپر زخم تھے، شہادت کے بعد ان کی ہمشیرہ نے انھیں ان کی انگلی کے پور سے پہچانا۔ ٢٣۔ ٢ نَحْبہ، نحب کے معنی ہیں عہد، نذر اور موت کے کئے گئے ہیں۔ مطلب ہے کہ ان صادقین میں کچھ نے اپنا وعدہ اور نذر پوری کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرلیا ہے۔ ٢٣۔ ٣ اور دوسرے وہ ہیں جو ابھی تک عروس شہادت سے ہمکنار نہیں ہوئے ہیں تاہم اس کے شوق میں شریک جہاد ہوتے ہیں اور شہادت کی سعادت کے آرزو مند ہیں اپنی اس نذر یا عہد میں انہوں نے تبدیلی نہیں کی۔ الأحزاب
24 ٢٤۔ ١ یعنی انھیں قبول اسلام کی توفیق دے۔ الأحزاب
25 ٢٥۔ ١ یعنی مشرک جو مختلف طرفوں سے جمع ہو کر آئے تھے تاکہ مسلمانوں کا نشان مٹا دیں۔ اللہ نے انھیں اپنے غیظ و غضب سمیت واپس لوٹا دیا۔ نہ دنیا کا مال متاع ان کے ہاتھ لگا اور نہ آخرت میں ہی اجر و ثواب کے مستحق ہوں گے، کسی بھی قسم کی خیر انھیں حاصل نہیں ہوئی۔ ٢٥۔ ٢ یعنی مسلمانوں کو ان سے لڑنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ہوا اور فرشتوں کے ذریعے سے اپنے مومن بندوں کی مدد کا سامان بہم پہنچا دیا۔ اسلئے نبی نے فرمایا (لَا اِلَہَ اَلَّا للّٰہُ وَحْدَہُ، صَدَقَ وَعْدَۃُ، نَصَرَ عَبْدَہُ، وَ اَعَزَّ جُنْدَہُ، وَحَزَمَ الاَّحْزَابَ وَحْدَہَ، فَلَا شَیْءٍ بَعْدَ ہُ) (صحیح بخاری) ' ' ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی، اپنے لشکر کو سرخرو کیا، اور تمام گروہوں کو اکیلے اس نے ہی شکست دے دی، اس کے بعد کوئی شئ نہیں ' یہ دعا حج عمرہ، جہاد اور سفر سے واپسی پر پڑھنی چاہئے۔ الأحزاب
26 الأحزاب
27 ٢٧۔ ١ اس میں غزہ بنی قریظہ کا ذکر ہے جیسے کہ پہلے گزرا کہ اس قبیلے نے نقص عہد کر کے جنگ احزاب میں مشرکوں اور دوسرے یہودیوں کا ساتھ دیا۔ چنانچہ جنگ احزاب سے واپس آکر رسول اللہ ابھی غسل ہی فرما سکے تھے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آگئے اور کہا کہ آپ نے ہتھیار رکھ دیئے؟ ہم فرشتوں نے تو نہیں رکھے ہیں چلئے، اب بنو قریظہ کے ساتھ نمٹنا ہے، مجھے اللہ نے اس لئے آپ کی طرف بھیجا ہے۔ چنانچہ آپ نے مسلمانوں میں اعلان فرما دیا بلکہ ان کو تاکید کردی کہ عصر کی نماز وہاں جاکر پڑھنی ہے۔ ان کی آبادی مدینے سے چند میل کے فاصلے پر تھی۔ یہ اپنے قلعوں میں بند ہوگئے، باہر سے مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کرلیا جو کم و بیش پچیس روز جاری رہا۔ بالآخر انہوں نے سعد بن معاذ کو اپنا (ثالث) تسلیم کرلیا کہ وہ فیصلہ ہماری بات پر دیں گے، ہمیں منظور ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ ان میں سے لڑنے والے لوگوں کو قتل کردو اور بچوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کا مال مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے، نبی نے یہ فیصلہ سن کر فرمایا کہ یہی فیصلہ آسمانوں کے اوپر اللہ تعالیٰ کا بھی ہے، اس کے مطابق ان کے جنگجو افراد کی گردنیں اڑا دی گئیں اور مدینے کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کردیا گیا (صحیح بخاری) دیکھئے صحیح بخاری باب غزوہ خندق انزل قلعوں سے نیچے اتار دیا، ظاہروھم کافروں کی انہوں نے مدد کی ٢٧۔ ٢ بعض نے اس سے خیبر کی زمین مراد لی ہے کیونکہ اس کے بعد ہی ٦  ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں نے خیبر فتح کیا ہے بعض نے کہا کہ مکہ ہے اور بعض نے ارض فارس و روم کو اس کا مصداق قرار دیا ہے اور بعض کے نزدیک تمام وہ زمینیں ہیں جو قیامت تک مسلمان فتح کریں گے۔ (فتح القدیر) الأحزاب
28 الأحزاب
29 ٢٩۔ ١ فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی حالت پہلے کی نسبت کچھ بہتر ہوگئی تو انصار اور مہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر ازواج مطہرات نے بھی نان نَفَقَہ میں اضافے کا مطالبہ کردیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ نہایت سادگی پسند تھے، اس لئے ازواج مطہرات کے اس مطالبے پر سخت کبیدہ خاطر ہوئے اور بیویوں سے علیحدگی اختیار کرلی جو ایک مہینہ جاری رہی بالآخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی۔ اس کے بعد سب سے پہلے آپ نے حضرت عائشہ کو یہ آیت سنا کر انھیں اختیار دیا تاہم انھیں کہا کہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کی بجائے اپنے والدین سے مشورے کے بعد کوئی اقدام کرنا۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے بارے میں مشورہ کروں؟ بلکہ میں اللہ اور رسول کو پسند کرتی ہوں یہی بات دیگر ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے بھی کہی اور کسی نے بھی آپ کو چھوڑ کر دنیا کے عیش وآرام کو ترجیح نہیں دی۔ اس وقت رسول اللہ کے حبالہ عقد میں ٩ بیویاں تھیں، پانچ قریش میں سے تھیں۔ حضرت عائشہ، حفصہ، ام حبیبہ، سودہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہن اور چار ان کے علاوہ، یعنی حضرت صفیہ، زینب اور جویریہ تھیں۔ بعض لوگ مرد کی طرف سے اختیار علیحدگی کو طلاق قرار دیتے ہیں، لیکن یہ بات صحیح نہیں، صحیح بات یہ ہے کہ اختیار علیحدگی کے بعد اگر عورت علیحدگی کو پسند کرلے، پھر تو یقینا طلاق ہوجائے گی (اور یہ طلاق بھی رجعی ہوگی نہ کہ بائنہ، جیسا کہ بعض علماء کا مسلک ہے) تاہم اگر عورت علیحدگی نہیں کرتی تو پھر طلاق نہیں ہوگی، جیسے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے علیحدگی کی بجائے حرم رسول میں ہی رہنا پسند کیا تو اس اختیار کو طلاق شمار نہیں کیا گیا (صحیح بخاری) الأحزاب
30 ٣٠۔ ١ قرآن میں الفَاحِشَۃُ (مُعَرَّف بلام) کو زنا کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے لیکن فاحِشَۃ (نکرہ) کو برائی کے لئے، جیسے یہاں ہے۔ یہاں اس کے معنی بد اخلاقی اور نامناسب رویے کے ہیں۔ کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بد اخلاقی اور نامناسب رویہ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچانا ہے جس کا ارتکاب کفر ہے۔ علاوہ ازیں ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن خود بھی مقام بلند کی حامل تھیں اور بلند مرتبہ لوگوں کی معمولی غلطیاں بڑی شمار ہوتی ہیں، اس لئے انھیں دوگنے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔ الأحزاب
31 ٣١۔ ١ یعنی جس طرح گناہ کا وبال دگنا ہوگا، نیکیوں کا اجر بھی دوہرا ہوگا جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اِذًا لَّاَذَقْنٰکَ ضِعْفَ الْحَیٰوۃِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ) 17۔ الاسراء :75) ' پھر تو ہم بھی آپ کو دوہرا عذاب دنیا کا کرتے اور دوہرا ہی موت کا ' الأحزاب
32 ٣٢۔ ١ یعنی تمہاری حیثیت اور مرتبہ عام عورتوں کا سا نہیں ہے۔ بلکہ اللہ نے تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجیت کا جو شرف عطا فرمایا ہے، اس کی وجہ سے تمہیں ایک امتیازی مقام حاصل ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح تمہیں بھی امت کے لئے ایک نمونہ بننا چاہیے چنانچہ انھیں ان کے مقام و مرتبے سے آگاہ کرکے انھیں کچھ ہدایت دی جا رہی ہے۔ اس کی مخاطب اگرچہ ازواج مطہرات ہیں جنہیں امہات المومنین قرار دیا گیا ہے لیکن انداز بیان سے صاف واضح ہے کہ مقصد پوری امت مسلمہ کی عورتوں کو سمجھانا اور متنبہ کرنا ہے اس لیے یہ ہدایات تمام مسلمان عورتوں کے لیے ہیں۔ ٣٢۔ ٢ اللہ تعالیٰ نے جس طرح عورت کے وجود کے اندر مرد کے لئے جنسی کشش رکھی ہے (جس کی حفاظت کے لئے بھی خصو سی ہدایت دی گئی ہے تاکہ عورت مرد کے لئے فتنے کا باعث نہ بنے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی آواز میں بھی فطری طور پر دلکشی، نرمی اور نزاکت رکھی ہے جو مرد کو اپنی طرف کھینچتی ہے، بنا بریں اس آواز کے لئے بھی یہ ہدایت دی گئی ہے کہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت قصداً ایسا لب و لہجہ اختیار کرو کہ نرمی اور لطافت کی جگہ قدرے سختی اور روکھا پن ہو، تاکہ کوئی بد ظن لہجے کی نرمی سے تمہاری طرف مائل نہ ہو اور اس کے دل میں برا خیال پیدا نہ ہو۔ ٣٢۔ ٣ یعنی روکھا پن، صرف لہجے کی حد ہی ہو، زبان سے ایسا لفظ نہ نکالنا جو معروف قائدے اور اخلاق کے منافی ہو۔ اِنِ اتقیتن کہہ کر اشارہ کردیا کہ یہ بات اور دیگر ہدایات جو آگے آرہی ہیں متقی عورتوں کے لئے ہیں، کیونکہ انھیں ہی یہ فکر ہوتی ہے کہ ان کی آخرت برباد نہ ہوجائے۔ جن کے دل خوف الٰہی سے عاری ہیں، انھیں ان ہدایات سے کیا تعلق؟ اور وہ کب ان ہدایات کی پروا کرتی ہیں؟ الأحزاب
33 ٣٣۔ ١ یعنی ٹک کر رہو اور بغیر ضروری حاجت کے گھر سے باہر نہ نکلو۔ اس کی وضاحت کردی گئی کہ عورت کا دائرہ عمل امور سیاست اور جہان بانی نہیں، معاشی جھمیلے بھی نہیں، بلکہ گھر کی چار دیواری کے اندر رہ کر امور خانہ داری سرانجام دینا ہے۔ ٣٣۔ ٢ اس میں گھر سے باہر نکلنے کے آداب بتلادیئے کہ اگر باہر جانے کی ضرورت پیش آئے تو بناؤ سنگھار کر کے یا ایسے انداز سے جس سے تمہارا بناؤ سنگھار ظاہر ہو مت نکلو۔ جیسے بے پردہ ہو کر جس سے تمہارا سر چہرہ بازو اور چھاتی وغیرہ لوگوں کو دعوت نظارہ دے بلکہ بغیر خوشبو لگائے سادہ لباس میں ملبوس اور باپردہ باہر نکلو تبرج بے پردگی اور زیب و زینت کے اظہار کو کہتے ہیں قرآن نے واضح کردیا ہے کہ یہ تبرج جاہلیت ہے جو اسلام سے پہلے تھے اور آئندہ بھی جب کبھی اسے اختیار کیا جائے گے یہ جاہلیت ہی ہوگی اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے چاہے اس کا نام کتناہی خوش نما دل فریب رکھ لیا جائے۔ ٣٣۔ ٣ پچھلی ہدایت، برائی سے اجتناب سے متعلق تھیں، یہ ہدایت نیکی اختیار کرنے سے متعلق ہیں۔ ٣٣۔ ٤ اہل بیت سے کون مراد ہیں؟ اس کی تعیین میں کچھ اختلاف ہے، بعض نے ازواج مطہرات کو مراد لیا ہے، جیسا کہ یہاں قرآن کریم کے سیاق سے واضح ہے قرآن نے یہاں ازواج مطہرات ہی کو اہل بیت کہا۔ قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی بیوی کو اہل بیت کہا گیا ہے، بعض روایات کی روح سے اہل بیت کا مصداق صرف حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرت حسن وحسین (رض) کو مانتے ہیں اور ازواج مطہرات کو اس سے خارج سمجھتے ہیں۔ جبکہ اول الذکر ان اصحاب اربعہ کو اس سے خارج سمجھتے ہیں تاہم اعتدال کی راہ اور نقطہ متوسطہ یہ ہے دونوں ہی اہل بیت ہیں۔ ازواج مطہرات تو اس نص قرآنی کی وجہ سے اور داماد اور اولاد ان روایات کی رو سے جو صحیح سند سے ثابت ہیں جن میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اپنی چادر میں لے کر فرمایا کہ اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں جس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ بھی میرے اہل بیت سے ہیں یا یہ دعا ہے کہ یا اللہ ان کو بھی ازواج مطہرات کی طرح میرے اہل بیت میں شامل فرمادے اس طرح تمام دلائل میں بھی تطبیق ہوجاتی ہے (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے فتح القدیر، للشوکانی) الأحزاب
34 ٣٤۔ ١ یعنی ان پر عمل کرو حکمت سے مراد احادیث ہیں۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ حدیث بھی قرآن کی طرح ثواب کی نیت سے پڑھی جاسکتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ آیت بھی ازواج مطہرات کے اہل بیت ہونے پر دلالت کرتی ہے، اس لئے کہ وحی کا نزول، جس کا ذکر اس آیت میں ہے، ازواج مطہرات کے گھروں میں ہی ہوتا تھا، بالخصوص حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ کے گھر میں۔ جیسا کہ احادیث میں ہے۔ الأحزاب
35 ٣٥۔ ١ حضرت ام سلمہ (رض) اور بعض دیگر صحابیات نے کہا کہ کیا بات ہے اللہ تعالیٰ ہر جگہ مردوں سے ہی خطاب فرماتا ہے عورتوں سے نہیں جس پر یہ آیت نازل ہوئی (مسندا ٦ /٣٠١ ترمذی نمبر ٣٢١١) اس میں عورتوں کی دل داری کا اہتمام کردیا گیا ہے ورنہ تمام احکام میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شامل ہیں سوائے ان مخصوص احکام کے جو صرف عورتوں کے لیے ہیں۔ اس آیت اور دیگر آیات سے واضح ہے کہ عبادت واطاعت الہٰی اور اخروی درجات وفضائل میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے دونوں کے لیے یکساں طور پر یہ میدان کھلا ہے اور دونوں زیادہ سے زیادہ نیکیاں اور اجر و ثواب کماسکتے ہیں جنس کی بنیاد پر اس میں کمی پیشی نہیں کی جائے گے علاوہ ازیں مسلمان اور مومن کا الگ الگ ذکر کرنے سے واضح ہے کہ ان دونوں میں فرق ہے ایمان کا درجہ اسلام سے بڑھ کر ہے جیسا کہ قرآن و حدیث کے دیگر دلائل بھی اس پر دلالت کرتے ہیں۔ الأحزاب
36 ٣٦۔ ١ یہ آیت حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ کے نکاح کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی۔ حضرت زید بن حارثہ (رض)، جو کہ اصلا عرب تھے، لیکن کسی نے انھیں بچپن میں زبردستی پکڑ کر بطور غلام بیچ دیا تھا لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حضرت خدیجہ کے نکاح کے بعد حضرت خدیجہ نے انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہبہ کردیا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں آزاد کر کے اپنا بیٹا بنا لیا تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے نکاح کے لئے اپنی پھوپھی زاد حضرت زینب کو نکاح کا پیغام بیجھا، جس پر انھیں اور ان کے بھائی کو خاندانی وضاحت کی بنا پر تامل ہوا، کہ زید ایک آزاد کردہ غلام ہیں اور ہمارا تعلق ایک اونچے خاندان سے ہے۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور رسول کے فیصلے کے بعد کسی مومن مرد اور عورت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنا اختیار بروئے کار لائے۔ بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ سر تسلیم خم کردے چنانچہ یہ آیت سننے کے بعد حضرت زینب وغیرہ نے اپنی رائے پر اصرار نہیں کیا باہم نکاح ہوگیا۔ الأحزاب
37 ٣٧۔ ١ لیکن چونکہ ان کے مزاج میں فرق تھا، بیوی کے مزاج میں خاندانی نسب و شرف رچا ہوا تھا، جب کہ زید کے دامن میں غلامی کا داغ تھا، ان کی آپس میں ان بن رہتی تھی جس کا تذکرہ حضرت زید نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کرتے رہتے تھے اور طلاق کا عندیہ بھی ظاہر کرتے۔ لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انکو طلاق دینے سے روکتے اور نباہ کرنے کی تلقین فرماتے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس پیش گوئی سے بھی آگاہ فرمادیا تھا کہ زید کی طرف سے طلاق واقع ہو کر رہے گی اور اس کے بعد زینب کا نکاح آپ سے کردیا جائے گا تاکہ جاہلیت کی اس رسم تبنیت پر ایک کاری ضرب لگا کر واضح کردیا جائے کہ منہ بولا بیٹا، احکام شرعیہ میں حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہے اور اسکی مطلقہ سے نکاح جائز ہے۔ اس آیت میں انہی باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ حضرت زید پر اللہ کا انعام یہ تھا کہ انھی قبول اسلام کی توفیق دی اور غلامی سے نجات دلائی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا احسان ان پر یہ تھا کہ انکی دینی تربیت کی۔ انکو آزاد کرکے اپنا بیٹا قرار دیا اور اپنی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی لڑکی سے ان کا نکاح کرادیا۔ دل میں چھپانے والی بات یہی تھی جو آپ کو حضرت زینب سے نکاح کی بابت بذریعہ وحی بتلائی گئی تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ڈرتے اس بات سے تھے کہ لوگ کہیں گے کہ اپنی بہو سے نکاح کرلیا۔ حالانکہ جب اللہ کو آپ کے ذریعے سے اس رسم کا خاتمہ کرانا تھا تو پھر لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ خوف اگرچہ فطری تھا، اسکے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنبیہ فرمائی گئی۔ ظاہر کرنے سے مراد یہی ہے کہ یہ نکاح ہوگا، جس سے یہ بات سب کے علم کے ہی علم میں آجائے گی۔ ٣٧۔ ٢ یعنی نکاح کے بعد طلاق دی اور حضرت زینب عدت سے فارغ ہوگئیں۔ ٣٧۔ ٣ یعنی یہ نکاح معرفت طریقے کے برعکس اللہ کے حکم سے قرار پا گیا، نکاح خوانی، ولایت، حق مہر اور گواہوں کے بغیر ہی ٣٧۔ ٤ یہ حضرت زینب سے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح کی علت ہے کہ آئندہ کوئی مسلمان اس بارے میں تنگی محسوس نہ کرے اور حسب ضرورت اقتضا لے پالک کی مطلقہ بیوی سے نکاح کیا جاسکے۔ ٣٧۔ ٥ یعنی پہلے سے ہی تقدیر الہٰی میں تھا بہر صورت ہو کر رہنا تھا۔ الأحزاب
38 ٣٨۔ ١ یہ اسی واقعہ نکاح زینب کی طرف سے اشارہ ہے، چونکہ یہ نکاح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے حلال تھا، اس لئے اس میں کوئی گناہ اور تنگی والی بات نہیں ہے۔ ٣٨۔ ٢ یعنی گزشتہ انبیاء علیہم السلام بھی ایسے کاموں کے کرنے میں کوئی حرج محسوس نہ کرتے تھے جو اللہ کی طرف سے ان پر فرض قرار دیئے جاتے تھے چاہے قومی اور عوامی رسم و رواج ان کے خلاف ہی ہوتے۔ ٣٨۔ ٣ یعنی خاص حکمت و مصلحت پر مبنی ہوتے ہیں دنیاوی حکمرانوں کی طرح وقتی اور فوری ضرورت پر مشتمل نہیں ہوتے اسی طرح ان کا وقت بھی مقرر ہوتا ہے جس کے مطابق وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ الأحزاب
39 ٣٩۔ ١ اس لئے کسی کا ڈر یا خوف انھیں صرف اللہ کا پیغام پہنچانے میں مانع بنتا نہ طعن و ملامت کی انھیں کوئی پرواہ ہوتی تھی۔ ٣٩۔ ٢ یعنی ہر جگہ وہ اپنے علم اور قدرت کے لحاظ سے موجود ہے، اس لئے وہ اپنے بندوں کی مدد کے لئے کافی ہے اور اللہ کے دین کی تبلیغ و دعوت میں انھیں جو مشکلات آتیں ان میں وہ چارہ سازی فرماتا اور دشمنوں کے مذموم ارادوں اور سازشوں سے انھیں بچاتا ہے۔ الأحزاب
40 (١) اس لیے وہ زید بن حارثہ (رض) کے بھی باپ نہیں ہیں جس پر انھیں مورد طعن بنایا جاسکے کہ انہوں نے اپنی بہو سے نکاح کرلیا ؟ بلکہ ایک زید (رض) ہی کیا وہ تو کسی بھی مرد کے باپ نہیں ہیں۔ کیونکہ زید تو حارثہ کے بیٹے تھے آپ صلی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو انھیں منہ بولا بیٹا بنایا ہوا تھا اور جاہلی دستور کے مطابق انھیں زید بن محمد کہا جاتا تھا۔ حقیقتا وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صلبی بیٹے نہیں تھے اسی لیے (اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَاۗیِٕہِمْ) 33۔ الاحزاب :5) کے نزول کے بعد انھیں زید بن حارثہ ہی کہا جاتا تھا علاوہ ازیں حضرت خدیجہ سے آپ کے تین بیٹے قاسم، طاہر، طیب ہوئے اور ایک ابراہیم بچہ ماریہ قبطیہ کے بطن سے ہوا لیکن یہ سب کے سب بچپن میں ہی فوت ہوگئے ان میں سے کوئی بھی عمر رجولیت کو نہیں پہنچا۔ بنابریں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صلبی اولاد میں سے بھی کوئی مرد نہیں بنا کہ جس کے آپ باپ ہوں (ابن کثیر) ٤٠۔ ٢ خاتم مہر کو کہتے ہیں اور مہر آخری عمل ہی کو کہا جاتا ہے یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نبوت ورسالت کا خاتمہ کردیا گیا آپ کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ نبی نہیں کذاب و دجال ہوگا احادیث میں اس مضمون کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور اس پر پوری امت کا اجماع واتفاق ہے قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول ہوگا جو صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے تو وہ نبی کی حیثیت سے نہیں آئیں گے بلکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امتی بن کر آئیں گے اس لیے ان کا نزول عقیدہ ختم نبوت کے منافی نہیں ہے۔ الأحزاب
41 الأحزاب
42 الأحزاب
43 الأحزاب
44 ٤٤۔ ١ یعنی جنت میں فرشتے اہل ایمان کو یا مومن آپس میں ایک دوسرے کو سلام کریں گے۔ الأحزاب
45 ٤٥۔ ١ بعض لوگ شاہد کے معنی حاضر و ناظر کے کرتے ہیں جو قرآن کے اصل لفظ سے معنوی ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کی گواہی دیں گے، ان سے بھی جو آپ پر ایمان لائے اور ان کی بھی جنہوں نے تکذیب کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت والے دن اہل ایمان کو ان کے اعضائے وضو سے پہچان لیں گے جو چمکتے ہونگے، اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیگر انبیاء علیہم السلام کی گواہی دیں گے کہ انہوں نے اپنی اپنی قوموں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا اور یہ گواہی اللہ کے دیئے ہوئے یقینی علم کی بنیاد پر ہوگی۔ اس لئے نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیاء علیہم السلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے ہیں، یہ عقیدہ تو احکام قرآنی کے خلاف ہے۔ الأحزاب
46 ٤٦۔ ١ جس طرح چراغ سے اندھیرے دور ہوجاتے ہیں، اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعے سے کفر و شرک کی تاریکیاں دور ہوجائیں۔ علاوہ ازیں اس چراغ سے کسب ضیا کر کے جو کمال و سعادت حاصل کرنا چاہے، کرسکتا ہے۔ اس لئے کہ یہ چراغ قیامت تک روشن رہے۔ الأحزاب
47 الأحزاب
48 الأحزاب
49 ٤٩۔ ١ نکاح کے بعد جن عورتوں سے ہم بستری کی جاچکی ہو وہ بھی جوان ہوں، ایسی عورتوں کو طلاق مل جائے تو ان کی عدت تین حیض ہے اور جن سے نکاح ہوا ہے لیکن میاں بیوی کے درمیان ہم بستری نہیں ہوئی۔ ان کو اگر طلاق ہوجائے تو عدت نہیں ہے یعنی ایسی غیر مدخولہ مطلقہ بغیر عدت گزارے فوری طور پر کہیں نکاح کرنا چاہے، تو کرسکتی ہے، البتہ ہم بستری سے قبل خاوند فوت ہوجائے تو پھر اسے ٤ ماہ اور دس دن کی عدت گزارنا پڑے گی (فتح القدیر، ابن کثیر) چھونا یا ہاتھ لگانا، یہ کنایہ ہے۔ جماع (ہم بستری) سے نکاح لفظ خاص جماع اور عقد زواج دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں عقد کے معنی میں ہے۔ اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ نکاح سے پہلے طلاق نہیں۔ اس لئے کہ یہاں نکاح کے بعد طلاق کا ذکر ہے۔ اس لئے جو فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر فلاں عورت سے میں نے نکاح کیا تو اسے طلاق، تو ان کے نزدیک اس عورت سے نکاح ہوتے ہی طلاق ہوجائے گی۔ اسی طرح بعض جو کہتے ہیں کہ اگر وہ یہ کہے کہ میں کسی بھی عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق، تو جس عورت سے بھی نکاح کرے گا، طلاق واقع ہوجائے گی۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ حدیث میں وضاحت ہے (لاطلاق قبل النکاح) اس سے واضح ہے 'کہ نکاح سے قبل طلاق، ایک فعل عبث ہے جس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے ٤٩۔ ٢ یہ متعہ، اگر مہر مقرر کیا گیا ہو تو نصف مہر ورنہ حسب توفیق کچھ دے دیا جائے۔ ٤٩۔ ٣ یعنی انھیں عزت واحترام سے بغیر کوئی ایذاء پہنچائے علیحدہ کردیا جائے۔ الأحزاب
50 ٥٠۔ ١ بعض احکام شرعیہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امتیاز حاصل تھا جنہیں آپ کی خصوصیات کہا جاتا ہے مثلا اہل علم کی ایک جماعت کے بقول قیام اللیل (تہجد) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فرض تھا صدقہ آپ پر حرام تھا، اسی طرح کی بعض خصوصیات کا ذکر قرآن کریم کے اس مقام پر کیا گیا ہے جن کا تعلق نکاح سے ہے جن عورتوں کو آپ نے مہر دیا ہے وہ حلال ہیں چاہے تعداد میں وہ کتنی ہی ہوں اور آپ نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنھا اور جویریہ رضی اللہ عنھا کا مہر ان کی آزادی کو قرار دیا تھا ان کے علاوہ بصورت نقد سب کو مہر ادا کیا تھا صرف ام حبیبہ رضی اللہ عنھا کا مہر نجاشی نے اپنے طرف سے دیا تھا۔ ٥٠۔ ٢ چنانچہ حضرت صفیہ (رض) اور جویریہ ملکیت میں آئیں جنہیں آپ نے آزاد کر کے نکاح کرلیا اور رحانہ اور ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنھا یہ بطور لونڈی آپ کے پاس رہیں۔ ٥٠۔ ٣ اس کا مطلب ہے جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کی اسی طرح انہوں نے بھی مکے سے مدینہ ہجرت کی۔ کیونکہ آپ کے ساتھ تو کسی عورت نے بھی ہجرت نہیں کی تھی۔ ٥٠۔ ٤ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا آپ ہبہ کرنے والی عورت، اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے نکاح کرنا پسند فرمائیں تو بغیر مہر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اس اپنے نکاح میں رکھنا جائز ہے۔ ٥٠۔ ٥ یہ اجازت صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہے (دیگر مومنوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ حق مہر ادا کریں، تب نکاح جائز ہوگا۔ ٥٠۔ ٦ یعنی عقد کے جو شرائط اور حقوق ہیں جو ہم نے فرض کئے ہیں کہ مثلا چار سے زیادہ عورتیں بیک وقت کوئی شخص اپنے نکاح میں نہیں رکھ سکتا، نکاح کے لئے ولی، گواہ اور حق مہر ضروری ہے۔ البتہ لونڈیاں جتنی کوئی چاہے، رکھ سکتا ہے، تاہم آجکل لونڈیوں کا مسئلہ تو ختم ہے۔ ٥٠۔ ٧ اس کا تعلق اِ نَّا اَ حْلَلْنَا سے ہے یعنی مذکورہ تمام عورتوں کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اجازت اس لئے ہے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی تنگی محسوس نہ ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے کسی کے نکاح میں گناہ نہ سمجھیں۔ الأحزاب
51 ٥١۔ ١ اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک اور خصوصیت کا بیان ہے، وہ یہ کہ بیویوں کے درمیان باریاں مقرر کرنے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار دے دیا گیا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس کی باری چاہیں موقوف کردیں یعنی اسے نکاح میں رکھتے ہوئے اس سے مباشرت نہ کریں اور جس سے چاہیں یہ تعلق قائم رکھیں۔ ٥١۔ ٢ یعنی جن بیویوں کی باریاں موقوف کر رکھی تھیں اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہیں کہ ان سے بھی مباشرت کا تعلق قائم کیا جائے، تو یہ اجازت بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہے۔ ٥١۔ ٣ یعنی باری موقوف ہونے اور ایک کو دوسری پر ترجیح دینے کے باوجود وہ خوش ہونگی، غمگین نہیں ہونگی اور جتنا کچھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے انھیں مل جائے گا، اس پر مطمئن رہیں گی اسلئے کہ انھیں معلوم ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سب کچھ اللہ کے حکم اور اجازت سے کر رہے ہیں اور یہ ازواج مطہرات اللہ کے فیصلے پر راضی اور مطمن ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار ملنے کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے استعمال نہیں کیا اور سوائے حضرت سودہ کے (کہ انہوں نے اپنی باری خود ہی حضرت حضرت عائشہ کے لئے ہبہ کردی تھی) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام ازواج مطہرات کی باریاں برابر مقرر کر رکھی تھیں، اسی لیے آپ نے مرض الموت میں ازواج مطہرات سے اجازت لے کر بیماری کے ایام حضرت عائشہ کے پاس گزارے (ان تقر اعینھن) کا تعلق آپ کے اسی طرز عمل سے ہے کہ آپ پر تقسیم اگرچہ (دوسرے لوگوں کی طرح) واجب نہیں تھی اس کے باوجود آپ نے تقسیم کو اختیار فرمایا، تاکہ آپ کی بیویوں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس حسن سلوک اور عدل وانصاف سے خوش ہوجائیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خصوصی اختیار استعمال کرنے کے بجائے ان کی دلجوئی اور دلداری کا اہتمام فرمایا۔ ٥٢۔ ٤ یعنی تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے ان میں یہ بات بھی یقینا ہے کہ سب بیویوں کی محبت دل میں یکساں نہیں ہے۔ کیونکہ دل پر انسان کا اختیار ہی نہیں ہے۔ اس لئے بیویوں کے درمیان مساوات باری میں، نان، نفقہ اور دیگر ضروریات زندگی اور آسائشوں میں ضروری ہے، جس کا اہتمام انسان کرسکتا ہے۔ دلوں کے میلان میں مساوات چونکہ اختیار میں ہی نہیں ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس پر گرفت بھی نہیں فرمائے گا بشرطیکہ دلی محبت کسی ایک بیوی سے امتیازی سلوک کا باعث ہو۔ اس لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے ' یا اللہ یہ میری تقسیم ہے جو میرے اختیار میں ہے، لیکن جس چیز پر تیرا اختیار ہے، میں اس پر اختیار نہیں رکھتا اس میں مجھے ملامت نہ کرنا (مسند احمد) الأحزاب
52 ٥٢۔ ١ آیت تخییر کے نزول کے بعد ازواج مطہرات نے دنیا اسباب عیش و راحت کے مقابلے میں عسرت کے ساتھ، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہنا پسند کیا تھا، اس کا صلہ اللہ نے یہ دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ازواج کے علاوہ (جن کی تعداد ٩ تھی اور دیگر عورتوں سے نکاح کرنے یا ان میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ کسی اور سے نکاح کرنے سے منع فرمایا۔ بعض کہتے ہیں کہ بعد میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اختیار دے دیا گیا تھا، لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی نکاح نہیں کیا (ابن کثیر) ٥٢۔ ٢ یعنی لونڈیاں رکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے بعض نے اس کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ کافر لونڈی بھی رکھنے کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اجازت تھی اور بعض نے ( وَلَا تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ) 60۔ الممتحنہ :10) کے پیش نظر اسے آپ کے لیے حلال نہیں سمجھا (فتح القدیر) الأحزاب
53 ٥٣۔ ١ اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر حضرت زینب کے ولیمے میں صحابہ کرام تشریف لائے جن میں سے بعض کھانے کے بعد بیٹھے ہوئے باتیں کرتے رہے جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاص تکلیف ہوئی، تاہم حیا اور اخلاق کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں جانے کے لئے نہ کہا (صحیح بخاری) چنانچہ اس آیت میں دعوت کے آداب بتلا دیئے گئے کہ ایک تو اس وقت جاؤ جب کھانا تیار ہوچکا ہو پہلے سے ہی جا کر دھرنا مار کر نہ بیٹھ جاؤ۔ دوسرا، کھاتے ہی اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ وہاں بیٹھے ہوئے باتیں مت کرتے رہو۔ کھانے کا ذکر تو سبب نزول کی وجہ سے ہے ورنہ ملطب یہ ہے کہ جب بھی تمہیں بلایا جائے چاہے کھانے کے لیے یا کسی اور کام کے لیے اجازت کے بغیر گھر کے اندر داخل مت ہو۔ ٥٣۔ ٢ یہ حکم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کی خواہش پر نازل ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا یارسول اللہ ! آپ کے پاس اچھے برے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں کاش آپ امہات المؤمنین کو پردے کا حکم دیں تو کیا اچھا ہو جس پر اللہ نے یہ حکم نازل فرمایا (صحیح بخاری) ٥٣۔ ٣ یہ پردے کی حکمت اور علت ہے کہ اس سے مرد اور عورت کے دل ریب و شک سے ایک دوسرے کے ساتھ فتنے میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہیں گے۔ ٥٣۔ ٤ چا ہے وہ کسی بھی لحاظ سے ہو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش کے بغیر گھر میں بیٹھے رہنا اور بغیر حجاب کے ازواج مطہرات سے گفتگو کرنا یہ امور بھی ایذا کے باعث ہیں ان سے بھی اجتناب کرو۔ ٥٣۔ ٢ یہ حکم ان ازواج مطہرات کے بارے میں ہے جو وفات کے وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حبالہ عقد میں تھیں۔ تاہم جن کو آپ نے ہم بستری کے بعد زندگی میں طلاق دے کر اپنے سے علیحدہ کردیا ہو وہ اس کے عموم میں داخل ہیں یا نہیں؟ اس میں دو رائے ہیں۔ بعض ان کو بھی شامل سمجھتے ہیں اور بعض نہیں لیکن آپ کی ایسی کوئی بیوی تھی ہی نہیں اس لیے یہ محض ایک فرضی شکل ہے علاوہ ازیں ایک تیسری قسم ان عورتوں کی ہے جن سے آپ کا نکاح ہوا لیکن ہم بستری سے قبل ہی ان کو آپ نے طلاق دے دی دوسرے لوگوں کا نکاح درست ہونے میں کوئی نزاع معلوم نہیں (تفسیر ابن کثیر) الأحزاب
54 الأحزاب
55 ٥٥۔ ١ جب عورتوں کے لئے پردے کا حکم نازل ہوا تو پھر گھروں میں موجود اقارب یا ہر وقت آنے جانے والے رشتے داروں کی بابت سوال ہوا کہ ان سے پردہ کیا جائے یا نہیں؟ چنانچہ اس آیت میں ان اقارب کا ذکر کردیا گیا جن سے پردے کی ضرورت نہیں۔ اس کی تفصیل (وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ ۠ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اٰبَاۗیِٕہِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اَبْنَاۗیِٕہِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اَخَوٰتِہِنَّ اَوْ نِسَاۗیِٕہِنَّ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ ۠ وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ ۭ وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ) 24۔ النور :31) میں بھی گزر چکی ہے، اسے ملاحظہ فرما لیا جائے۔ ٥٥۔ ٢ اس مقام پر عورتوں کو تقوٰی کا حکم دے کر واضح کردیا کہ اگر تمہارے دلوں میں تقوٰی ہوگا تو پردے کا جو اصل مقصد، قلب و نظر کی طہارت اور عصمت کی حفاظت ہے، وہ یقینا تمہیں حاصل ہوگا، ورنہ حجاب کی ظاہری پابندیاں تمہیں گناہ میں ملوث ہونے سے نہیں بچاسکیں گی۔ الأحزاب
56 ٥٦۔ ١ اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس مرتبہ و منزلت کا بیان ہے جو (آسمانوں) میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہے اور یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ثنا و تعریف کرتا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رحمتیں بھیجتا ہے اور فرشتے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بلندی درجات کی دعا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے عالم سفلی (اہل زمین) کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ اور سلام بھیجیں تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف میں علوی اور سفلی دونوں عالم متحد ہوجائیں۔ حدیث میں آیا ہے صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یارسول اللہ ! سلام کا طریقہ تو ہم جانتے ہیں (یعنی التحیات میں السلام علیک ایھا النبی! پڑھتے ہیں) ہم درود کس طرح پڑھیں؟ اس پر آپ نے وہ درود ابراہیمی بیان فرمایا جو نماز میں پڑھا جاتا ہے (صحیح بخاری) علاوہ ازیں احادیث میں درود کے اور بھی صیغے آتے ہیں جو پڑھے جاسکتے ہیں۔ نیز مختصرا صلی اللہ علی رسول اللہ وسلم بھی پڑھا جاسکتا ہے تاہم الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ وسلم! پڑھنا اس لیے صحیح نہیں کہ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب ہے اور یہ صیغہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عام درود کے وقت منقول نہیں ہے اور تحیات میں السلام علیک ایھا النبی! چونکہ آپ سے منقول ہے اس وجہ سے اس وقت میں پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں مزید برآں اس کا پڑھنے والا اس فاسد عقیدے سے پڑھتا ہے کہ آپ اسے براہ راست سنتے ہیں یہ عقیدہ فاسدہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے اور اس عقیدے سے مذکورہ خانہ ساز درود پڑھنا بھی بدعت ہے جو ثواب نہیں گناہ ہے احادیث میں درود کی بڑی فضیلت وارد ہے نماز میں اس کا پڑھنا واجب ہے یا سنت؟ جمہور علماء اسے سنت سمجھتے ہیں اور امام شافعی اور بہت سے علماء واجب اور احادیث سے اس کے وجوب ہی کی تائید ہوتی ہے اسی طرح احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آخری تشہد میں درود پڑھنا واجب ہے پہلے تشہد میں بھی درود پڑھنے کی وہی حیثیت ہے اس لیے نماز کے دونوں تشہد میں درود پڑھنا ضروری اس کے دلائل مختصراحسب ذیل ہیں ایک دلیل یہ ہے کہ مسند احمد میں صحیح سند سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا یارسول اللہ آپ پر سلام کس طرح پڑھنا ہے یہ تو ہم نے جان لیا (کہ ہم تشہد میں السلام علیک پڑھتے ہیں) لیکن جب ہم نماز میں ہوں تو آپ پر درود کس طرح پڑھیں؟ تو آپ نے درود ابراہیمی کی تلقین فرمائی (الفتح الربانی) مسند احمد کے علاوہ یہ روایت صحیح ابن حبان، سنن کبری بیہقی، مستدرک حاکم اور ابن خزیمہ میں بھی ہے اس میں صراحت ہے کہ جس طرح سلام نماز میں پڑھا جاتا ہے یعنی تشہد میں اسی طرح یہ سوال بھی نماز کے اندر درود پڑھنے سے متعلق تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے درود ابراہیمی پڑھنے کا حکم فرمایا۔ جس سے معلوم ہوا کہ نماز میں سلام کے ساتھ درود بھی پڑھنا چاہیے اور اس کا مقام تشہد ہے اور حدیث میں یہ عام ہے اسے پہلے یا دوسرے تشہد کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا ہے جس سے یہ استدلال کرنا صحیح ہے کہ (پہلے اور دوسرے) دونوں تشہد میں سلام اور درود پڑھا جائے اور جن روایات میں تشہد کا بغیر درود کے ذکر ہے انھیں سورۃ احزاب کی آیت صلوا علیہ وسلموا کے نزول سے پہلے پر محمول کیا جائے گا لیکن اس آیت کے نزول یعنی ٥ ہجری کے بعد جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کے استفسار پر درود کے الفاظ بھی بیان فرمادیئے تو اب نماز میں سلام کے ساتھ صلوۃ (درودشریف) کا پڑھنا بھی ضروری ہوگیا چاہے وہ پہلا تشہد ہو یا دوسرا اس کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ نے بیان فرمایا کہ (بعض دفعہ) رات کو ٩ رکعات ادا فرماتے آٹھویں رکعت میں تشہد بیٹھتے تو اس میں اپنے رب سے دعا کرتے اور اس کے پیغمبر پر درود پڑھتے پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہوجاتے اور نویں رکعت پوری کر کے تشہد میں بیٹھتے تو اپنے رب سے دعا کرتے اور اس کے پیغمبر پر درود پڑھتے اور پھر دعا کرتے پھر سلام پھیر دیتے (السنن الکبری مزید ملائظہ ہو صفۃ صلات النبی للألبانی) اس میں بالکل صراحت ہے کہ نبی نے اپنی رات کی نماز میں پہلے اور آخری دونوں تشہد میں درود پڑھا ہے یہ اگرچہ نفلی نماز کا واقعہ ہے لیکن مذکورہ عمومی دلائل کی آپ کے اس عمل سے تائید ہوجاتی ہے اس لیے اسے صرف نفلی نماز تک محدود کردینا صحیح نہیں ہوگا۔ الأحزاب
57 ٥٧۔ ١ اللہ کو ایذا دینے کا مطلب ان کے افعال کا ارتکاب ہے جو وہ ناپسند فرماتا ہے ورنہ اللہ پر ایذا پہنچانے پر کون قادر ہے؟ جسے مشرکین، یہود اور نصاریٰ وغیرہ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں۔ یا جس طرح حدیث قدسی میں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ' ابن آدم مجھے ایذا دیتا ہے، زمانے کو گالی دیتا ہے، حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں اس کے رات دن کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے (صحیح بخاری) یعنی یہ کہنا کہ زمانے نے یا فلک کج رفتار نے ایسا کردیا یہ صحیح نہیں اس لیے کہ افعال اللہ کے ہیں زمانے یا فلک کے نہیں اللہ کے رسول کو ایذا پہنچانا آپ کی تکذیب آپ کو شاعر کذاب ساحر وغیرہ کہنا ہے علاوہ ازیں بعض احادیث میں صحابہ کرام کو ایذا پہنچانے اور ان کی تنقیص واہانت کو بھی آپ نے ایذا قرار دیا ہے لعنت کا مطلب اللہ کی رحمت سے دوری اور محرومی ہے۔ الأحزاب
58 یعنی ان کو بدنام کرنے کے لیے ان پر بہتان باندھنا ان کی ناجائز تنقیص وتوہین کرنا جیسے روافض صحابہ کرام (رض) پر سب وشتم کرتے اور ان کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جن کا ارتکاب انہوں نے نہیں کیا امام ابن کثیر فرماتے ہیں رافضی منکوس القلوب ہیں ممدوح اشخاص کی مذمت کرتے اور مذموم لوگوں کی مدح کرتے ہیں۔ الأحزاب
59 ٥٩۔ ١ جلابیب، جلباب کی جمع ہے جو ایسی بڑی چادر کو کہتے ہیں جس سے پورا بدن ڈھک جائے اپنے اوپر چادر لٹکانے سے مراد اپنے چہرے پر اس طرح گھونگٹ نکالنا ہے کہ جس سے چہرے کا بیشتر حصہ بھی چھپ جائے اور نظریں جھکا کر چلنے سے اسے راستہ بھی نظر آتا جائے پاک وہند یا دیگر اسلامی ممالک میں برقعے کی جو مختلف صورتیں ہیں عہد رسالت میں یہ برقعے عام نہیں تھے پھر بعد میں معاشرت میں وہ سادگی نہیں رہی جو عہد رسالت اور صحابہ وتابعین کے دور میں تھی عورتیں نہایت سادہ لباس پہنتی تھیں بناؤ سنگھار اور زیب وزینت کے اظہار کا کوئی جذبہ ان کے اندر نہیں ہوتا تھا اس لیے ایک بڑی چادر سے بھی پردے کے تقاضے پورے ہوجاتے تھے لیکن بعد میں یہ سادگی نہیں رہی اس کی جگہ تجمل اور زینت نے لے لی اور عورتوں کے اندر زرق برق لباس اور زیورات کی نمائش عام ہوگئی جس کی وجہ سے چادر سے پردہ کرنا مشکل ہوگیا اور اس کی جگہ مختلف انداز کے برقعے عام ہوگئے گو اس سے بعض دفعہ عورت کو بالخصوص سخت گرمی میں کچھ دقت بھی محسوس ہوتی ہے لیکن یہ ذرا سی تکلیف شریعت کے تقاضوں کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی تاہم جو عورت برقعے کے بجائے پردے کے لیے بڑی چادر استعمال کرتی ہے اور پورے بدن کو ڈھانکتی اور چہرے پر صحیح معنوں میں گھونگٹ نکالتی ہے وہ یقینا پردے کے حکم کو بجالاتی ہے کیونکہ برقعہ ایسی لازمی شئی نہیں ہے جسے شریعت نے پردے کے لیے لازمی قرار دیا ہو لیکن آج کل عورتوں نے چادر کو بے پردگی اختیار کرنے کا ذریعہ بنالیا ہے پہلے وہ برقعے کی جگہ چادر اوڑھنا شروع کرتی ہیں پھر چادر بھی غائب ہوجاتی ہے صرف دوپٹہ رہ جاتا ہے اور بعض عورتوں کے لیے اس کا لینا بھی گراں ہوتا ہے۔ صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ اب برقع کا استعمال ہی صحیح ہے کیونکہ جب سے برقعے کی جگہ چادر نے لے لی ہے بے پردگی عام ہوگئ ہے بلکہ عورتیں نیم برہنگی پر بھی فخر کرنے لگی ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون بہرحال اس آیت میں نبی کی بیویوں، بیٹیوں اور عام مومن عورتوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت پردے کا حکم دیا گیا جس سے واضح ہے کہ پردے کا حکم علماء کا ایجاد کردہ نہیں ہے جیسا کہ آج کل بعض لوگ باور کراتے ہیں یا اس کو قرار واقعی اہمیت نہیں دیتے بلکہ یہ اللہ کا حکم ہے جو قرآن کریم کی نص سے ثابت ہے۔ اس سے اعراض، انکار اور بے پردگی پر اصرار کفر تک پہنچا سکتا ہے دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ نبی کی ایک بیٹی نہیں تھی جیسا کہ رافضیوں کا عقیدہ ہے بلکہ آپ کی ایک سے زائد بیٹیاں تھیں جیسا کہ نص قرآنی سے واضح ہے اور یہ چار تھیں جیسا کہ تاریخ و سیرت اور احادیث کی کتابوں سے ثابت ہے۔ ٥٩۔ ٢ یہ پردے کی حکمت اور اس کے فائدے کا بیان ہے کہ اس سے ایک شریف زادی اور باحیا عورت اور بے شرم اور بدکار عورت کے درمیان پہچان ہوگی۔ پردے سے معلوم ہوگا کہ یہ خاندانی عورت ہے جس سے چھیڑ خانی کی جرات کسی کو نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس بے پردہ عورت اوباشوں کی نگاہوں کا مرکز اور ان کی ابو الہوسی کا نشانہ بنے گی الأحزاب
60 ٦٠۔ ا مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کے لئے منافقین افواہیں اڑاتے رہتے تھے کہ مسلمان فلاں علاقے میں مغلوب ہوگئے، یا دشمن کا لشکر جرار حملہ آور ہونے کے لئے آرہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ الأحزاب
61 ٦١۔ ١ یہ حکم نہیں ہے کہ ان کو پکڑ کر مار ڈالا جائے، بلکہ بددعا ہے کہ اگر وہ اپنے نفاق اور حرکتوں سے باز نہ آئے تو ان کا نہایت عبرت ناک حشر ہوگا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ حکم ہے۔ لیکن یہ منافقین نزول آیت کے بعد اپنی حرکتوں سے باز آگئے تھے، اس لئے ان کے خلاف یہ کاروائی نہیں کی گئی جس کا حکم اس آیت میں دیا گیا تھا (فتح القدیر الأحزاب
62 الأحزاب
63 الأحزاب
64 الأحزاب
65 الأحزاب
66 الأحزاب
67 ٦٧۔ ١ یعنی ہم نے تیرے پیغمبروں اور داعیان دین کی بجائے اپنے ان بڑے اور برزگوں کی پیروی کی، لیکن آج ہمیں معلوم ہوا کہ انہوں نے ہمیں تیرے پیغمبروں سے دور رکھ کر راہ راست سے بھٹکائے رکھا۔ آبا پرستی اور تقلید فرنگ آج بھی لوگوں کی گمراہی کا باعث ہے کاش مسلمان آیات الٰہی پر غور کر کے ان پگڈنڈیوں سے نکلیں اور قرآن و حدیث کی صراط مستقیم کو اختیار کرلیں کہ نجات صرف اور صرف اللہ اور رسول کی پیروی میں ہی ہے نہ کہ مشائخ واکابر کی تقلید میں یا آبا واجداد کے فرسودہ طریقوں کے اختیار کرنے میں۔ الأحزاب
68 الأحزاب
69 ٦٩۔ ١ اس کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نہایت با حیا تھے، چنانچہ اپنا جسم انہوں نے کبھی لوگوں کے سامنے ننگا نہیں کیا۔ بنو اسرائیل کہنے لگے کہ شاید موسیٰ (علیہ السلام) کے جسم میں برص کے داغ یا کوئی اس قسم کی آفت ہے جس کی وجہ سے ہر وقت لباس میں ڈھکا چھپا رہتا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تنہائی میں غسل کرنے لگے، کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیئے۔ پتھر (اللہ کے حکم سے) کپڑے لے کر بھاگ کھڑا ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کے پیچھے پیچھے دوڑے۔ حتٰی کہ بنی اسرائیل کی ایک مجلس میں پہنچ گئے، انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ننگا دیکھا تو ان کے سارے شبہات دور ہوگئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نہایت حسین و جمیل ہر قسم کے داغ اور عیب سے پاک تھے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر پتھر کے ذریعے سے ان کے اس الزام اور شبہہ سے صفائی کردی جو بنی اسرائیل کی طرف سے ان پر کیا جاتا تھا (صحیح بخاری) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے اہل ایمان کو سمجھایا جارہا ہے کہ تم ہمارے پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بنی اسرائیل کی طرح ایذا مت پہنچاؤ اور آپ کی بابت ایسی بات مت کرو جسے سن کر آپ قلق اور اضطراب محسوس کریں جیسے ایک موقعے پر مال غنیمت کی تقسیم میں ایک شخص نے کہا کہ اس میں عدل وانصاف سے کام نہیں لیا گیا جب آپ تک یہ الفاظ پہنچے تو غضب ناک ہوئے حتیٰ کہ آپ کا چہر مبارک سرخ ہوگیا آپ نے فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ کی رحمت ہو انھیں اس سے کہیں زیادہ ایذا پہنچائی گئی لیکن انہوں نے صبر کیا (صحیح بخاری) الأحزاب
70 ٧٠۔ ١ یعنی ایسی بات جس میں کجی اور انحراف ہو، نہ دھوکا اور فریب۔ بلکہ سچ اور حق ہو، یعنی جس طرح تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے تاکہ ٹھیک نشانے پر جا لگے اسی طرح تمہاری زبان سے نکلی ہوئی بات اور تمہارا کردار راستی پر مبنی ہو، حق اور صداقت سے بال برابر انحراف نہ ہو۔ الأحزاب
71 ٧١۔ ١ یہ تقویٰ اور قول کا نتیجہ ہے کہ تمہارے عملوں کی اصلاح ہوگی اور مزید تو فیق سے نوازے جاؤ گے اور کچھ کمی کوتاہی رہ جائیگی، تو اسے اللہ معاف فرما دے گا۔ الأحزاب
72 ٧٢۔ ١ جب اللہ تعالیٰ نے اہل اطاعت کا اجر و ثواب اور اہل مصیت کا وبال اور عذاب بیان کردیا تو اب شرعی احکام اور اس کی صعوبت کا تذکرہ فرما رہا ہے۔ امانت سے وہ احکام شرعیہ اور فرائض و واجبات مراد ہیں جن کی ادائیگی پر ثواب اور ان سے اعراض و انکار پر عذاب ہوگا۔ جب یہ تکالیف شرعیہ آسمان اور زمین پر پیش کی گئیں تو وہ ان کے اٹھانے سے ڈر گئے۔ لیکن جب انسان پر یہ چیز پیش کی گئی تو وہ اطاعت الٰہی (امانت) کے اجر و ثواب اور اس کی فضیلت کو دیکھ کر اس بار گراں کو اٹھانے پر آمادہ ہوگیا۔ احکام شریعہ کو امانت سے تعبیر کر کے اشارہ فرما دیا کہ ان کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے۔ پیش کرنے کا مطلب کیا ہے؟ اور آسمان اور زمین اور پہاڑوں نے کس طرح اس کا جواب دیا ؟ اور انسان نے کس طرح قبول کیا ؟ اس کی پوری کیفیت نہ ہم جان سکتے ہیں اور نہ اسے بیان کرسکتے ہیں۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ نے اپنی ہر مخلوق کیلئے ایک خاص قسم کا احساس و شعور رکھا ہے، گو ہم اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ تو ان کی بات سمجھنے پر قادر ہے، اس نے ضرور اس امانت کو ان پر پیش کیا ہوگا جسے قبول کرنے سے انہوں نے انکار کردیا۔ اور یہ انکار انہوں نے سرکشی و بغاوت کی بنا پر نہیں کیا بلکہ اس میں یہ خوف کار فرما تھا کہ اگر ہم اس امانت کے تقاضے پورے نہ کرسکے تو اس کی سزا ہمیں بھگتنی ہوگی۔ انسان چونکہ جلد باز ہے۔ اس نے عذاب کے پہلو پر زیادہ غور نہیں کیا اور حصول فضیلت کے شوق میں اسے نے ذمے داری کو قبول کرلیا۔ ٧٢۔ ٢ یعنی بار گراں اٹھا کر اس نے اپنے نفس پر ظلم کا ارتکاب اور اس کے مقتضیات سے اعراض یا اس کی قدر و قیمت سے غفلت کر کے جہالت کا مظاہرہ کیا۔ الأحزاب
73 ٧٣۔ ١ اس کا تعلق حَمَلَھَا سے ہے یعنی انسان کو اس امانت کا ذمے دار بنانے سے مقصد یہ ہے کہ اہل نفاق و اہل شرک کا نفاق و شرک اور اہل ایمان کا ایمان ظاہر ہوجائے اور پھر اس کے مطابق انھیں جزا و سزا دی جائے۔ الأحزاب
0 سبأ
1 ١۔ ١ یعنی اسی کی ملکیت اور تصرف میں ہے اسی کا ارادہ اور فیصلہ اس میں نافذ ہوتا ہے انسان کو جو نعمت بھی ملتی ہے وہ اسی کی پیدا کردہ ہے اور اسی کا احسان ہے اسی لیے آسمان و زمین کی ہر چیز کی تعریف دراصل ان نعمتوں پر اللہ ہی کی حمد و تعریف ہے جن سے اس نے اپنی مخلوق کو نوازا ہے۔ ١۔ ٢ یہ تعریف قیامت والے دن اہل ایمان کریں گے مثلا (الحمد للہ الذی صدقنا وعدہ) (الحمدللہ الذی ھدٰنا لھذا) (الحمدللہ الذی اذھب عنا الحزن) تاہم دنیا میں اللہ کی حمد و تعریف عبادت ہے جس کا مکلف انسان کو بنایا گیا ہے اور آخرت میں یہ اہل ایمان کی روحانی خوراک ہوگی جس سے انھیں لذت وفرحت محسوس ہوا کرے گی۔ سبأ
2 ٢۔ ١ مثلا بارش خزانہ اور دفینہ وغیرہ۔ ٢۔ ٢ بارش اولے گرج، بجلی اور برکات الٰہی وغیرہ، نیز فرشتوں اور آسمانی کتابوں کا نزول۔ ٢۔ ٣ یعنی فرشتے اور بندوں کے اعمال۔ سبأ
3 ٣۔ ١ قسم بھی کھائی اور صیغہ بھی تاکید کا اور اس پر مزید لام تاکید یعنی قیامت کیوں نہیں آئے گی؟ وہ تو بہر صورت یقینا آئے گی۔ ٣۔ ٢ یعنی جب آسمان و زمین کا کوئی ذرہ اس سے غائب اور پوشیدہ نہیں، تو پھر تمہارے اجزائے منتشرہ کو، جو مٹی میں مل گئے ہوں گے، جمع کر کے دوبارہ تمہیں زندہ کردینا کیوں ناممکن ہوگا ٣۔ ٣ یعنی وہ لوح محفوظ میں موجود اور درج ہے۔ سبأ
4 ٤۔ ١ یہ وقوع قیامت کی علت ہے یعنی اس لیے برپا ہوگی اور تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ اس لیے دوبارہ زندہ فرمائے گا کہ وہ نیکوں کو ان کی نیکیوں کی جزا عطا فرمائے کیونکہ جزا کے لیے ہی اس نے یہ دن رکھا ہے اگر یہ یوم جزا نہ ہو تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیک و بد دونوں یکساں ہیں اور یہ بات عدل وانصاف کے قطعا منافی اور بندوں بالخصوص نیکوں پر ظلم ہوگا ( وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِیْدِ) 41۔ فصلت :46) سبأ
5 ٥۔ ١ یعنی ہماری ان آیتوں کے بطلان اور تکذیب کی جو ہم نے پیغمبروں پر نازل کیں، یہ سمجھتے ہوئے کہ ہم ان کی گرفت سے عاجز ہونگے، کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ مرنے کے بعد ہم مٹی میں مل جائیں گے تو ہم کس طرح دوبارہ زندہ ہو کر کسی کے سامنے اپنے کیے دھرے کی جواب دہی کریں گے؟ ان کا یہ سمجھنا گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اللہ تعالیٰ ہمارا مواخذہ کرنے پر قادر ہی نہیں ہوگا، اس لئے قیامت کا خوف ہمیں کیوں ہو؟ سبأ
6 ٦۔ ١ یہاں رؤیت سے مراد رؤیت قلبی یعنی علم یقینی ہے، محض رؤیت بصری (آنکھ کا دیکھنا) نہیں اہل علم سے مراد صحابہ کرام یا مومنین ہیں۔ یعنی اہل ایمان اس بات کو جانتے اور اس پر یقین رکھتے ہیں۔ ٦ ۔ ٢ یہ عطف ہے حق پر، یعنی وہ بھی جانتے ہیں کہ یہ قرآن کریم اس راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو اس اللہ کا راستہ ہے جو کائنات میں سب پر غالب ہے اور اپنی مخلوق میں محمود (قابل تعریف) ہے اور وہ راستہ کیا ہے؟ توحید کا راستہ جس کی طرف تمام انبیا علیھم السلام اپنی اپنی قوموں کو دعوت دیتے رہے۔ سبأ
7 ٧۔ ١ یہ اہل ایمان کے مقابلے میں منکرین آخرت کا قول ہے جو آپس میں انہوں نے ایک دوسرے سے کہا۔ ٧۔ ٢ اس سے مراد حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جو ان کی طرف اللہ کے نبی بن کر آئے تھے ٧۔ ٣ یعنی عجیب و غریب خبر، ناقابل فہم خبر۔ ٧۔ ٤ یعنی مرنے کے بعد جب تم مٹی میں مل کر ریزہ ریزہ ہوجاؤ گے تمہارا ظاہری وجود ناپید ہوجائے گا تمہیں قبروں سے دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور دوبارہ وہی شکل وصورت تمہیں عطاکردی جائے گی جس میں تم پہلے تھے یہ گفتگو انہوں نے آپس میں استہزا اور مذاق کے طور پر کی سبأ
8 ٨۔ ١ یعنی دو باتوں میں سے ایک بات تو ضرور ہے، کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اور اللہ کی طرف سے وحی و رسالت کا دعویٰ، یہ اس کا اللہ پر افترا ہے۔ یا پھر اس کا دماغ چل گیا ہے اور دیوانگی میں ایسی باتیں کر رہا ہے جو غیر معقول ہیں۔ ٨۔ ٢ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، بات اس طرح نہیں ہے، جس طرح یہ گمان کر رہے ہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ عقل و فہم اور ادراک حقائق سے یہی لوگ قاصر ہیں، جس کی وجہ سے یہ آخرت پر ایمان لانے کی بجائے اس کا انکار کر رہے ہیں، جس کا نتیجہ آخرت کا دائمی عذاب ہے اور یہ آج ایسی گمراہی میں مبتلا ہیں جو حق سے غایت درجہ دور ہے۔ سبأ
9 ٩۔ ١ یعنی اس پر غور نہیں کرتے؟ اللہ تعالیٰ ان کی زجر و توبیخ کرتے ہوئے فرما رہا ہے کہ آخرت کا یہ انکار، آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر نہ کرنے کا نتیجہ ہے، ورنہ جو ذات آسمان جیسی چیز، جس کی بلندی اور وسعت ناقابل بیان ہے اور زمین جیسی چیز، جس کا طول و عرض بھی ناقابل فہم ہے، پیدا کرسکتا ہے، اس کے لئے اپنی ہی پیدا کردہ چیز کا دوبارہ پیدا کردینا اور اسے دوبارہ اسی حالت میں لے آنا، جس میں وہ پہلے تھی، کیوں کر ناممکن ہے۔ ٩۔ ١ یعنی یہ آیت دو باتوں پر مشتمل ہے ایک اللہ کے کمال قدرت کا بیان جو ابھی مذکور ہوا دوسری کفار کے لیے تنبیہ و تہدید کہ جو اللہ آسمان و زمین کی تخلیق پر اس طرح قادر ہے کہ ان پر اور ان کے مابین ہر چیز پر اس کا تصرف اور غلبہ ہے وہ جب چاہے ان پر اپنا عذاب بھیج کر ان کو تباہ کرسکتا ہے زمین میں دھنسا کر بھی، جس طرح قارون کو دھنسایا یا آسمان کے ٹکڑے گرا کر جس طرح اصحاب الایکہ کو ہلاک کیا گیا۔ سبأ
10 ١٠۔ ١ یعنی نبوت کے ساتھ بادشاہت اور کئی امتیازی خوبیوں سے نوازا۔ ١٠۔ ٢ ان میں سے ایک حسن صوت کی نعمت تھی، جب وہ اللہ کی تسبیح پڑھتے تو پتھر کے ٹھوس پہاڑ بھی تسبیح خوانی میں مصروف ہوجاتے، اڑتے پرندے ٹھہر جاتے اور زمزمہ خواں ہوجاتے، یعنی پہاڑوں اور پرندوں کو ہم نے کہا، چنانچہ یہ بھی داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ مصروف تسبیح ہوجاتے۔ والطیر کا عطف یا جبال کے محل پر ہے اس لیے کہ جبال تقدیرا منصوب ہے اصل عبارت اس طرح ہے نادینا الجبال والطیر (ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو پکارا) یا پھر اس کا عطف فضلا پر ہے اور معنی ہوں گے وسخرنا لہ الطیر (اور ہم نے پرندے ان کے تابع کردیئے (فتح القدیر) ١٠۔ ٣ یعنی لوہے کو آگ میں تپائے اور ہتھوڑی سے کوٹے بغیر، اسے موم، گوندھے ہوئے آٹے اور گیلی مٹی کی طرح جس طرح چاہتے موڑ لیتے، بٹ لیتے اور جو چاہے بنا لیتے۔ سبأ
11 ١١۔ ١ سابغات محزوف موصوف کی صفت ہے دروعا سابغات یعنی پوری لمبیں زرہیں، جو لڑنے والے کے پورے جسم کو صحیح طریقے سے ڈھانک لیں اور اسے دشمن کے وار سے محفوظ رکھیں۔ ١١۔ ٢ تاکہ چھوٹی بڑی نہ ہوں یا سخت یا نرم نہ ہوں یعنی کڑیوں کے جوڑنے میں کیل اتنے باریک نہ ہوں کہ جوڑ حرکت کرتے رہیں اور ان میں قرار وثبات نہ آئے اور نہ اتنے موٹے ہوں کہ اسے توڑ ہی ڈالیں یا جس سے حلقہ تنگ ہوجائے اور اسے پہنا نہ جاسکے یہ زرہ بافی کی صنعت کے بارے میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کو ہدایات دی گئیں۔ ١١۔ ٣ یعنی ان نعمتوں کے بدلے میں عمل صالح کا اہتمام کرو تاکہ میرا عملی شکر بھی ہوتا رہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نعمتوں سے سرفراز فرمائے، اسے اسی حساب سے اللہ کا شکر بھی ادا کرنا چاہیے اور شکر میں بنیادی چیز یہی ہے نعمت دینے والے کو راضی رکھنے کی بھرپور سعی کی جائے یعنی اس کی اطاعت کی جائے اور نافرمانی سے بچا جائے۔ سبأ
12 ١٢۔ ١ یعنی حضرت سلیمان (علیہ السلام) مع اعیان سلطنت اور لشکر تخت پر بیٹھ جاتے اور جدھر آپ کا حکم ہوتا کہ ہوائیں اسے اتنی رفتار سے لے جاتیں کہ ایک مہینے جتنی مسافت صبح سے دوپہر تک کی ایک منزل میں طے ہوجاتی اور پھر اسی طرح دوپہر سے رات تک ایک مہینے جتنی مسافت طے ہوجاتی اس طرح ایک دن میں دو مہینوں کی مسافت طے ہوجاتی۔ ١٢۔ ٢ یعنی جس طرح حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لئے لوہا نرم کردیا تھا، حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے تانبے کا چشمہ ہم نے جاری کردیا تاکہ تانبے کی دھات سے وہ جو چاہیں بنائیں۔ ١٢۔ ٣ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ سزا قیامت والے دن دی جائے گی۔ لیکن بعض کے نزدیک یہ دنیاوی سزا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتہ مقرر فرما دیا تھا جس کے ہاتھ میں آگ کی لاٹھی تھی۔ جو جن حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے حکم سے سرتابی کرتا، فرشتہ وہ لاٹھی اسے مارتا، جس سے وہ جل کر بھسم ہوجاتا (فتح القدیر سبأ
13 ١٣۔ ١ محاریب محراب کی جمع ہے مطلب ہے بلند محلات، عالی شان عمارتیں یا مساجد و تصویریں۔ یہ تصویریں غیر حیوان چیزوں کی ہوتی تھیں، بعض کہتے ہیں کہ انبیاء (علیہ السلام) کی تصاویر مسجدوں میں بنائی جاتی تھیں تاکہ انھیں دیکھ کر لوگ بھی عبادت کریں۔ یہ معنی اس صورت میں صحیح ہے جب تسلیم کیا جائے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی شریعت میں تصویر سازی کی اجازت تھی جو صحیح نہیں۔ تاہم اسلام میں تو نہایت سختی کے ساتھ اس کی ممانعت ہے۔ جفان، جفنۃ کی جمع ہے لگن جواب، جابیۃ کی جمع ہے حوض جس میں پانی جمع کیا جاتا ہے یعنی حوض جتنے بڑے بڑے لگن قدور دیگیں، راسیات جمی ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دیگیں پہاڑوں کو تراش کر بنائی جاتی تھیں جنہیں ظاہر ہے اٹھا کر ادھر ادھر نہیں لے جایا جاسکتا تھا اس میں بیک وقت ہزاروں افراد کا کھانا پک جاتا تھا یہ سارے کام جنات کرتے تھے۔ سبأ
14 ١٤۔ ١ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں جنات کے بارے میں مشہور ہوگیا تھا کہ یہ غائب کی باتیں جانتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی موت کے ذریعے سے اس عقیدے کے فساد کو واضح کردیا۔ سبأ
15 ١٥۔ ١ سبا وہی قوم تھی جس کی ملکہ سبا مشہور ہے جو حضرت سلیمان علیہ والسلام کے زمانے میں مسلمان ہوگئی تھی قوم ہی کے نام پر ملک کا نام بھی سبا تھا آج کل یمن کے نام سے یہ علاقہ معروف ہے یہ بڑا خوش حال ملک تھا یہ ملک بری وبحری تجارت میں بھی ممتاز تھا اور زراعت وباغبانی میں بھی نمایاں اور یہ دونوں ہی چیزیں کسی ملک اور قوم کی خوش حالی کا باعث ہوتی ہیں اسی مال ودولت کی فراوانی کو یہاں قدرت الہٰی کی نشانی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ١٥۔ ٢ کہتے ہیں کہ شہر کے دونوں طرف پہاڑ تھے جن سے چشموں اور نالوں کا پانی بہہ بہہ کر شہر میں آتا تھا ان کے حکمرانوں نے پہاڑوں کے درمیان پشتے تعمیر کرادیئے اور ان کے ساتھ باغات لگائے گئے جس سے پانی کا رخ بھی متعین ہوگیا اور باغوں کو بھی سیرابی کا ایک قدرتی ذریعہ میسر آگیا انہی باغات کو دائیں بائیں دو باغوں سے تعبیر کیا گیا ہے بعض کہتے ہیں جنتین سے دو باغ نہیں بلکہ دائیں بائیں کی دو جہتیں مراد ہیں اور مطلب باغوں کی کثرت ہے کہ جدھر نظر اٹھا کر دیکھیں باغات ہریالی اور شادابی ہی نظرآتی تھی۔ (فتح القدیر) ١٥۔ ٣ یہ ان کے پیغمبروں کے ذریعے سے کہلوایا گیا یا مطلب ان نعمتوں کا بیان ہے، جن سے انکو نوازا گیا تھا۔ ١٥۔ ٤ یعنی منعم و محسن کی اطاعت کرو اور اس کی نافرمانی سے اجتناب۔ ١٥۔ ٥ یعنی باغوں کی کثرت اور پھلوں کی فروانی کی وجہ سے یہ شہر عمدہ ہے۔ کہتے ہیں کہ آب و ہوا کی عمدگی کی وجہ سے یہ شہر مکھی، مچھر اور اس قسم کے دیگر موذی جانوروں سے بھی پاک تھا واللہ عالم۔ ١٥۔ ٦  یعنی اگر تم رب کا شکر کرتے رہو گے تو وہ تمہارے گناہ کا سبب نہیں بنتے، بلکہ اللہ تعالیٰ عفو و درگزر سے کام لیتا ہے۔ سبأ
16 ١ ٦ ۔ ١ یعنی انہوں نے پہاڑوں کے درمیان پشتے اور بند تعمیر کرکے پانی کی جو رکاوٹ کی تھی اور اسے زراعت وباغبانی کے کام میں لاتے تھے ہم نے تندو تیز سیلاب کے ذریعے سے ان بندوں اور پشتوں کو توڑ ڈالا اور شاداب اور پھل دار باغوں کو ایسے باغوں سے بدل دیا جن میں صرف قدرتی جھاڑ جھنکاڑ ہوتے ہیں جن میں اول تو کوئی پھل لگتا ہی نہیں اور کسی میں لگتا بھی ہے تو سخت کڑوا کسیلا اور بدمزہ جنہیں کوئی کھا ہی نہیں سکتا البتہ کچھ بیری کے درخت تھے جن میں بھی کانٹے زیادہ اور بیر کم تھے۔ عرم، عرمۃ کی جمع ہے پشتہ یا بند یعنی ایسا زور کا پانی بھیجا جس نے اس بند میں شگاف ڈال دیا اور پانی شہر میں بھی آ گیا جس سے ان کے مکانات ڈوب گئے اور باغوں کو بھی اجاڑ کر ویران کردیا یہ بند سد مارب کے نام سے مشہور ہے۔ سبأ
17 سبأ
18 ١٨۔ ١ برکت والی بستیوں سے مراد شام کی بستیاں ہیں یعنی ہم نے ملک سبا (یمن) اور شام کے درمیاں لب سڑک بستیاں آباد کی ہوئی تھیں بعض نے ظاھرۃ کے معنی متواصلۃ ایک دوسرے سے پیوست اور مسلسل کے لیے ہیں مفسریں نے ان بستیوں کی تعداد ٤ ہزار سات سو بتلائی ہے یہ ان کی تجارتی شاہراہ تھی جو مسلسل آباد تھی جس کی وجہ سے ایک تو ان کے کھانے پینے اور آرام کرنے کے لیے زاد راہ ساتھ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی دوسرے ویرانی کی وجہ سے لوٹ مار اور قتل وغارت کا جو اندیشہ ہوتا ہے وہ نہیں ہوتا تھا ١٨۔ ٢ یعنی ایک آبادی سے دوسری آبادی کا فاصلہ متعین اور معلوم تھا، اور اس کے حساب سے وہ بہ آسانی اپنا سفر طے کرلیتے تھے۔ مثلا صبح سفر کا آغاز کرتے تو دوپہر تک کسی آبادی اور قریے تک پہنچ جاتے۔ وہاں کھا پی کر قیلولہ کرتے اور پھر سر گرم سفر ہوجاتے تو رات کو کسی آبادی میں جا پہنچتے۔ ١٨۔ ٣ یہ ہر قسم کے خطرے سے محفوظ اور زاد راہ کی مشقت سے بے نیاز ہونے کا بیان ہے کہ رات اور دن کی جس گھڑی میں تم سفر کرنا چاہو کرو نہ جان مال کا کوئی اندیشہ نہ راستے کے لیے سامان سفر ساتھ لینے کی ضرورت۔ سبأ
19 ١٩۔ ١ یعنی جس طرح لوگ سفر کی صعوبتوں، خطرات اور موسم کی شدتوں کا تذکرہ کرتے ہیں ہمارے سفر بھی اسی طرح دور دور کردے مسلسل آبادیوں کے بجائے درمیان میں سنسان و ویران جنگلات اور صحراؤں سے ہمیں گزرنا پڑے گرمیوں میں دھوب کی شدت اور سردیوں میں بیخ بستہ ہوائیں ہمیں پریشان کریں اور راستے میں بھوک اور پیاس اور موسم کی سختیوں سے بچنے کے لیے زاد راہ کا بھی انتظام کرنا پڑے ان کی یہ دعا اسی طرح کی ہے جیسے بنی اسرائیل نے من وسلویٰ اور دیگر سہولتوں کے مقابلے میں دالوں اور سبزیوں وغیرہ کا مطالبہ کیا تھا یا پھر زبان حال سے ان کی یہ دعا تھی۔ ١٩۔ ٢ یعنی انھیں اس طرح ناپید کیا کہ ان کی ہلاکت کا قصہ زبان زد خلائق ہوگیا۔ اور مجلسوں اور محفلوں کا موضوع گفتگو بن گیا۔ ١٩۔ ٣ یعنی انھیں متفرق اور منتشر کردیا، چنانچہ سبا میں آباد مشہور قبیلے مختلف جگہوں پر جا آباد ہوئے، کوئی یثرب و مکہ آگیا، کوئی شام کے علاقے میں چلا گیا کوئی کہیں اور کوئی کہی سبأ
20 سبأ
21 سبأ
22 ٢٢۔ ١ یعنی معبود ہونے کا۔ یہاں زعمتم کے دو مفعول محذوف ہیں زعمتموہم الھۃ یعنی جن جن کو تم معبود گمان کرتے ہو۔ ٢٢۔ ٢ یعنی انھیں نہ خیر پر کوئی اختیار ہے نہ شرپر، کسی کو فائدہ پہنچانے کی قدرت ہے، نہ نقصان سے بچانے کی، آسمان و زمین کا ذکر نہ عموم کے لئے ہے، کیونکہ تمام خارجی موجودات کے لئے یہی ظرف ہیں۔ ٢٢۔ ٣ نہ پیدائش میں نہ ملکیت میں اور نہ تصرف میں۔ ٢٢۔ ٤ جو کسی معاملے میں بھی اللہ کی مدد کرتا ہو، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی بلا شرکت غیرے تمام اختیارات کا مالک ہے اور کسی کے تعاون کے بغیر ہی سارے کام کرتا ہے۔ سبأ
23 ٢٣۔ ١ 'جن کے لئے اجازت ہوجائے ' کا مطلب ہے انبیاء اور ملائکہ وغیرہ یعنی یہی سفارش کرسکیں گے، کوئی اور نہیں۔ اس لئے کہ کسی اور کی سفارش فائدے مند ہوگی، نہ انھیں اجازت ہی ہوگی۔ دوسرا مطلب ہے۔ مستحقین شفاعت۔ یعنی انبیاء علیہم السلام و ملائکہ اور صالحین صرف انھیں کے حق میں سفارش کرسکیں گے جو مستحقین شفاعت ہوں گے کیونکہ اللہ کی طرف سے انھیں کے حق میں سفارش کرنے کی اجازت ہوگی، کسی اور کے لئے نہیں (فتح القدیر) مطلب یہ ہوا کہ انبیاء علیہم السلام ملائکہ اور صالحین کے علاوہ وہاں کوئی سفارش نہیں کرسکے گا اور یہ حضرات بھی سفارش اہل ایمان گناہ گاروں کے لیے ہی کرسکیں گے کافر و مشرک اور اللہ کے باغیوں کے لیے نہیں قرآن کریم نے دوسرے مقام پر ان دونوں نکتوں کی وضاحت فرمادی ہے۔ (مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ) 2۔ البقرۃ:255) ( وَلَا یَشْفَعُوْنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی) 21۔ الانبیاء :28) سبأ
24 ٢٤۔ ١ ظاہر بات ہے گمراہی پر وہی ہوگا جو ایسی چیزوں کو معبود سمجھتا ہے جن کا آسمان و زمین سے روزی پہنچانے میں کوئی حصہ نہیں ہے، نہ وہ بارش برسا سکتے ہیں، نہ کچھ اگاہ سکتے ہیں۔ اس لئے حق پر یقین اہل توحید ہی ہیں، نہ کہ دونوں۔ سبأ
25 سبأ
26 ٢٦۔ ١ یعنی اس کے مطابق جزا دے گا، نیکوں کو جنت میں اور بدوں کو جہنم میں داخل فرمائے گا۔ سبأ
27 ٢٧۔ ١ یعنی اس کا کوئی نظیر ہے نہ ہم سر، بلکہ وہ ہر چیز پر غالب ہے اور اس کے ہر کام اور قول میں حکمت ہے۔ سبأ
28 ٢٨۔ ١ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت عامہ کا بیان فرمایا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری نسل انسانیت کا ہادی اور رہنما بنا کر بھیجا گیا ہے۔ دوسرا، یہ بیان فرمایا کہ اکثر لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش اور کوشش کے باوجود ایمان سے محروم رہیں گے۔ ان دونوں باتوں کی و ضاحت اور بھی دوسرے مقامات پر فرمائی ہے۔ مثلا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے ضمن میں فرمایا، ( قُلْ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ) 7۔ الاعراف :158) (تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَۨا) 25۔ الفرقان :1) ایک حدیث میں ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں ١۔ مہینے کی مسافت پر دشمن کے دل میں میری دھاک بٹھانے میں میری مدد فرمائی گئی ہے۔ ٢۔ تمام روئے زمین میرے لئے مسجد اور پاک ہے، جہاں بھی نماز کا وقت آجائے، میری امت وہاں نماز ادا کر دے۔ ٣۔ مال غنیمت میرے لئے حلال کردیا گیا، جو مجھ سے قبل کسی کے لئے حلال نہیں تھا۔ ٤۔ مجھے شفاعت کا حق دیا گیا ہے۔ ٥۔ پہلے نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا، مجھے کائنات کے تمام انسانوں کے لئے نبی بنا کر بھیجا ہے (صحیح بخاری صحیح مسلم، کتاب المساجد) احمر اسود سے مراد بعض نے جن وانس اور بعض نے عرب وعجم لیے ہیں امام ابن کثیر فرماتے ہیں دونوں ہی معنی صحیح ہیں۔ اسی طرح اکثر کی بے علمی اور گمراہی کی وضاحت فرمائی (وَمَآ اَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ) 12۔ یوسف :103) آپ کی خواہش کے باوجود اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے (وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ) 6۔ الانعام :116) اگر آپ اہل زمین کی اکثریت کے پیچھے چلیں گے تو وہ آپ کو گمراہ کردیں گے جس کا مطلب یہی ہوا کہ اکثریت گمراہوں کی ہے سبأ
29 ٢٩۔ ١ یہ بطور مذاق پوچھتے تھے، کیونکہ اس کا وقوع ان کے نزدیک بعید اور ناممکن تھا۔ سبأ
30 ٣٠۔ ١ یعنی اللہ نے قیامت کا دن مقرر کر رکھا ہے جس کا علم صرف اسی کو ہے، تاہم جب وہ وقت مقرر آجائے گا تو ایک ساعت بھی آگے، پیچھے نہیں ہوگا (اِ نَّ اَجَلَ اللّٰہِ اِ ذَا جَآءَ لَا یُئَوخَّرُ) 71۔ نوح :4) سبأ
31 ٣١۔ ١ جیسے تورات، زبور اور انجیل وغیرہ۔ ٣١۔ ٢ یعنی دنیا میں یہ کفر و شرک ایک دوسرے کے ساتھی اور اس ناطے سے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے تھے، لیکن آخرت میں یہ ایک دوسرے کے دشمن اور ایک دوسرے کو مورد الزام بنائیں گے۔ ٣١۔ ٣ یعنی دنیا میں یہ لوگ، جو سوچے سمجھے بغیر، روش عام پر چلنے والے ہوتے ہیں اپنے ان لیڈروں سے کہیں گے جن کے وہ دنیا میں پیروکار بنے رہے تھے۔ ٣١۔ ٤ یعنی تم ہی نے ہمیں پیغمبروں کے پیچھے چلنے سے روکا تھا، اگر تم اس طرح نہ کرتے تو ہم یقینا ایمان والے ہوتے۔ سبأ
32 ٣٢۔ ١ یعنی ہمارے پاس کون سی طاقت تھی کہ ہم تمہیں ہدایت کے راستے سے روکتے، تم نے خود ہی اس پر غور نہیں کیا اور اپنی خواہشات کی وجہ سے ہی اسے قبول کرنے سے گریزاں رہے، اور آج مجرم ہمیں بنا رہے ہو؟ حالانکہ سب کچھ تم نے خود ہی اپنی مرضی سے کیا، اس لئے مجرم بھی تم خود ہی ہو نہ کہ ہم۔ سبأ
33 ٣٣۔ ١ یعنی ہم مجرم تو تب ہوتے جب ہم اپنی مرضی سے پیغمبروں کی تکذیب کرتے، جب کہ واقعہ یہ ہے کہ تم دن رات ہمیں گمراہ کرنے پر اور اللہ کے ساتھ کفر کرنے اور اس کا شریک ٹھہرانے پر آمادہ کرتے رہے جس سے بالآخر ہم تمہارے پیچھے لگ کر ایمان سے محروم رہے۔ ٣٣۔ ٢ یعنی ایک دوسرے پر الزام تراشی تو کریں گے لیکن دل میں دونوں ہی فریق اپنے اپنے کفر پر شرمندہ ہوں گے لیکن شماتت اعدا کی وجہ سے ظاہر کرنے سے گریز کریں گے۔ ٣٣۔ ٣ یعنی ایسی زنجریں جو ان کے ہاتھوں کو ان کی گردنوں کے ساتھ باندھیں گے۔ ٣٣۔ ٤ یعنی دونوں کو ان کے عملوں کی سزا ملے گی، لیڈروں کو ان کے مطابق اور ان کے پیچھے چلنے والوں کو ان کے مطابق جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ( لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰکِنْ) 7۔ الاعراف :38) یعنی ہر ایک کو دگنا عذاب ہوگا۔ سبأ
34 ٣٤۔ ١ یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جارہی ہے کہ مکے کے رؤسا اور چودھری آپ پر ایمان نہیں لا رہے اور آپ کو ایذائیں پہنچا رہے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہر دور کے اکثر خوش حال لوگوں نے پیغمبروں کی تکذیب ہی کی ہے اور ہر پیغمبر پر ایمان لانے والے پہلے پہل معاشرے کے غریب اور نادار قسم کے لوگ ہی ہوتے تھے جیسے نوح کی قوم نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ کیا ہم تجھ پر ایمان لائیں گے جب کہ تیرے پیروکار کمینے لوگ ہیں۔ دوسرے پیغمبروں کو بھی ان کی قوموں نے یہی کہا۔ سبأ
35 ٣٥۔ ١ یعنی جب اللہ نے ہمیں دنیا میں مال و اولاد کی کثرت سے نوازا ہے، تو قیامت بھی اگر برپا ہوئی تو ہمیں عذاب نہیں ہوگا۔ گویا انہوں نے دار الآخرت کو بھی دنیا پر قیاس کیا کہ جس طرح دنیا میں کافر و مومن سب کو اللہ کی نعمتیں مل رہی ہیں، آخرت میں بھی اسی طرح ہوگا، حالانکہ آخرت تو دار الجزا ہے، وہاں تو دنیا میں کئے گئے عملوں کی جزا ملنی ہے اچھے عملوں کی جزا اچھی اور برے عملوں کی بری۔ جب کہ دنیا دارالامتحان ہے، یہاں اللہ تعالیٰ بطور آزمائش سب کو دنیاوی نعمتوں سے سرفراز فرماتا ہے انہوں نے دنیاوی مال و اسباب کی فروانی کو رضائے الٰہی کا مظہر سمجھا، حالانکہ ایسا بھی نہیں ہے اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنے فرماں بردار بندوں کو سب سے زیادہ مال و اولاد سے نوازتا۔ سبأ
36 ٣٦۔ ١ اس میں کفار کے مذکورہ مغالطے کا ازالہ کیا جا رہا ہے کہ رزق کی کشادگی اور تنگی اللہ کی رضا یا عدم کی مظہر نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اللہ کی حکمت و مشیت سے ہے۔ اس لئے وہ مال اس کو بھی دیتا ہے جسے وہ پسند کرتا ہے اور اس کو بھی جس کو ناپسند کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے غنی کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے فقیر رکھتا ہے۔ سبأ
37 ٣٧۔ ١ یعنی یہ مال اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ہمیں تم سے محبت ہے اور ہماری بارگاہ میں تمہیں خاص مقام حاصل ہے۔ ٣٧۔ ٢ یعنی ہماری محبت اور قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تو صرف ایمان اور عمل صالح ہے جس طرح حدیث میں فرمایا ' اللہ تعالیٰ تمہاری شکلیں اور تمہارے مال نہیں دیکھتا، وہ تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے (صحیح مسلم) ٣٧۔ ٣ بلکہ کئی کئی گنا، ایک نیکی کا اجرکم از کم دس گنا مزید سات سو گنا بلکہ اس سے زیادہ تک۔ سبأ
38 سبأ
39 ٣٩۔ ١ پس وہ کبھی کافر کو بھی خوب مال دیتا ہے، لیکن کس لئے؟ خلاف معمول کے طور پر، اور کبھی مومن کو تنگ دست رکھتا ہے، کس لئے؟ اس کے اجر و ثواب میں اضافے کے لئے۔ اسلئے مال کی فروانی اس کی رضا کی اور اس کی کمی، اس کی نارضگی کی دلیل نہیں ہے۔ یہ تکرار بطور تاکید کے ہے۔ ٣٩۔ ٢ اخلاف کے معنی ہیں، عوض اور بدلہ دینا، یہ بدلہ دنیا میں بھی ممکن ہے اور آخرت میں تو یقینی ہے حدیث قدسی میں آتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انفق انفق علیک۔ تو خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا۔ ٣٩۔ ٣ کیونکہ ایک بندہ اگر کسی کو دیتا ہے تو اس کا یہ دینا اللہ کی توفیق وتیسر اور اس کی تقدیر سے ہی ہے حقیقت میں دینے والا اس کارازق نہیں ہے جس طرح بچوں کا باپ بچوں کا یا بادشاہ اپنے لشکر کا کفیل کہلاتا ہے حالانکہ امیر اور مامور بچے اور بڑے سب کا رازق حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی ہے جو سب کا خالق ہے اس لیے جو شخص اللہ کے دیے ہوئے مال میں سے کسی کو کچھ دیتا ہے تو وہ ایسے مال میں تصرف کرتا ہے جو اللہ ہی نے اسے دیا ہے۔ سبأ
40 ٤٠۔ ١ یہ مشرکوں کو ذلیل و خوار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھے گا، جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے بھی پوچھے گا ' کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں (مریم) کو، اللہ کے سوا، معبود بنا لینا ؟ ' (وَاِذْ قَال اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ للنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰــہَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ۭ قَالَ سُبْحٰنَکَ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ ۤ بِحَقٍّ ڲ اِنْ کُنْتُ قُلْتُہٗ فَقَدْ عَلِمْتَہٗ ۭ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ ۭاِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ) 5۔ المائدہ :116) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فرمائیں گے ' یا اللہ تو پاک ہے، جس کا مجھے حق نہیں تھا، وہ بات میں کیوں کر کہہ سکتا تھا ؟ ' اسی طرح اللہ تعالیٰ فرشتوں سے بھی پوچھے گا جیساہ سورۃ الفرقان (وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ وَمَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَقُوْلُ ءَ اَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ ہٰٓؤُلَاۗءِ اَمْ ہُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَ) 25۔ الفرقان :17) میں بھی گزرا۔ کہ کیا یہ تمہارے کہنے پر تمہاری عبادت کرتے تھے؟ سبأ
41 ٤١۔ ١ یعنی فرشتے بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان کر کے اظہار صفائی کریں گے اور کہیں گے کہ ہم تو تیرے بندے ہیں اور تو ہمارا ولی ہے۔ ہمارا ان سے کیا تعلق؟ سبأ
42 ٤٢۔ ١ یعنی دنیا میں تم یہ سمجھ کر ان کی عبادت کرتے تھے کہ یہ تمہیں فائدہ پہنچائیں گے، تمہاری سفارش کریں گے اور اللہ کے عذاب سے تمہیں نجات دلوائیں گے جیسے آج بھی پیر پرستوں اور قبر پرستوں کا حال ہے لیکن آج دیکھ لو کہ یہ لوگ کسی بات پر قادر نہیں۔ ٤٢۔ ٢ ظالموں سے مراد، غیر اللہ کے پجاری ہیں،۔ کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے اور مشرکین سب سے بڑے ظالم۔ سبأ
43 ٤٣۔ ١ شخص سے مراد، حضرت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، باپ دادا کا دین، ان کے نزدیک صحیح تھا، اس لئے انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ' جرم ' یہ بیان کیا کہ یہ تمہیں ان معبودوں سے روکنا چاہتا ہے جن کی تمہارے آبا عبادت کرتے رہے۔ ٤٣۔ ٢ اس دوسرے ھٰذَا سے مراد قرآن کریم ہے، اسے انہوں نے تراشا ہوا بہتان یا گھڑا ہوا جھوٹ قرار دیا۔ ٣٤۔ ٣ قرآن کو پہلے گھڑا ہوا جھوٹ کہا اور یہاں کھلا جادو۔ پہلے کا تعلق قرآن کے مفہوم و مطالب سے ہے اور دوسرے کا تعلق قرآن کے معجزانہ نظم و اسلوب اور اعجاز و بلاغت سے۔ سبأ
44 ٤٤۔ ١ اس لیے وہ آرزو کرتے تھے کہ ان کے پاس بھی کوئی پیغمبر آئے اور کوئی صحیفہ آسمانی نازل ہو لیکن جب یہ چیزیں آئیں تو انکار کردیا۔ سبأ
45 ٤٥۔ ١ یہ کفار مکہ کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم نے جھٹلایا اور انکار کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ نہایت خطرناک ہے تم سے پچھلی امتیں بھی اسی راستے پر چل کر تباہ ہوچکی ہیں۔ یہ امتیں مال ودولت، قوت وطاقت اور عمروں کے لحاظ سے تم سے بڑھ کر تھیں، تم ان کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچتے لیکن اس کے باوجود وہ اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکیں، اسی مضمون کو سورۃ احقاف کی (وَلَقَدْ مَکَّنّٰہُمْ فِیْمَآ اِنْ مَّکَّنّٰکُمْ فِیْہِ وَجَعَلْنَا لَہُمْ سَمْعًا وَّاَبْصَارًا وَّاَفْـــِٕدَۃً ڮ فَمَآ اَغْنٰی عَنْہُمْ سَمْعُہُمْ وَلَآ اَبْصَارُہُمْ وَلَآ اَفْــِٕدَتُہُمْ مِّنْ شَیْءٍ اِذْ کَانُوْا یَجْـحَدُوْنَ ۙبِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَحَاقَ بِہِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِءُوْنَ) 46۔ الاحقاف :26) میں بیان فرمایا۔ سبأ
46 ٤٦۔ ١ یعنی میں تمہیں تمہارے موجودہ طرز عمل سے ڈراتا اور ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ تم ضد، اور انانیت چھوڑ کر صرف اللہ کے لئے ایک ایک دو دو ہو کر میری بابت سوچو کہ میری زندگی تمہارے اندر گزری ہے اور اب بھی جو دعوت میں تمہیں دے رہا ہوں کیا اس میں کوئی ایسی بات ہے کہ جس سے اس بات کی نشان دہی ہو کہ میرے اندر دیوانگی ہے؟ تم اگر عصبیت اور خواہش نفس سے بالا ہو کر سوچو گے تو یقینا سمجھ جاؤ گے کہ تمہارے رفیق کے اندر کوئی دیوانگی نہیں ہے۔ ٤٦۔ ٢ یعنی وہ تو صرف تمہاری ہدایت کے لئے آیا ہے تاکہ تم اس عذاب شدید سے بچ جاؤ جو ہدایت کا راستہ نہ اپنانے کی وجہ سے تمہیں بھگتنا پڑے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن صفا پہاڑی پر چڑھ کر فرمایا ' یا صباحاہ ' جسے سن کر قریش جمع ہوگئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' بتاؤ، اگر میں تمہیں خبر دوں کہ دشمن صبح یا شام کو تم پر حملہ آور ہونے والا ہے، تو کیا میری تصدیق کرو گے، انہوں نے کہا، کیوں نہیں ' آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' تو پھر سن لو کہ میں تمہیں سخت عذاب آنے سے پہلے ڈراتا ہوں۔ ' یہ سن کہ ابو لہب نے کہا ' تَبَّالکَ ! اَلِھٰذا جَمَعْتَنَا ' تیرے لئے ہلاکت ہو، کیا اس لئے تو نے ہمیں جمع کیا تھا ْ جس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ نازل فرمائی (صحیح بخاری) سبأ
47 ٤٧۔ ١ اس میں اپنی بے غرضی اور دنیا کے مال و متاع بے رغبتی کا مزید اظہار فرما دیا تاکہ ان کے دلوں میں اگر یہ شک و شبہ پیدا ہو کہ اس دعوی نبوت سے اس کا مقصد کہیں دنیا کمانا تو نہیں، تو وہ دور ہوجائے۔ سبأ
48 ٤٨۔ ١ قذف کے معنی تیراندازی اور خشت باری کے بھی ہیں اور کلام کرنے کے بھی، یہاں اس کے دوسرے معنی ہیں یعنی وہ حق کے ساتھ گفتگو فرماتا، اور اپنے رسولوں پر وحی نازل فرماتا اور ان کے ذریعے سے لوگوں کے لیے حق واضح فرماتا ہے۔ سبأ
49 ٤٩۔ ١ حق سے مراد قرآن اور باطل سے مراد کفر و شرک ہے۔ مطلب ہے اللہ کی طرف سے اللہ کا دین اور اس کا قرآن آگیا ہے۔ جس سے باطل ختم ہوگیا ہے، اب وہ سر اٹھانے کے قابل نہیں رہا ہے۔ سبأ
50 ٥٠۔ ١ یعنی بھلائی سب اللہ کی طرف سے ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جو وحی اور حق مبین نازل فرمایا، اس میں رشدو ہدایت ہے، صحیح راستہ لوگوں کو اس سے ملتا ہے۔ پس جو گمراہ ہوتا ہے، تو اس میں انسان کی اپنی ہی کوتاہی اور ہوائے نفس کا دخل ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا ٥٠۔ ٢ جس طرح حدیث میں فرمایا ' تم بہری اور غائب ذات کو نہیں پکار رہے ہو ' بلکہ اس کو پکار رہے ہو جو سننے والا، قریب اور قبول کرنے والا ہے۔ سبأ
51 ٥١۔ ١ فَلَافَوْتَ کہیں بھاگ نہیں سکیں گے؟ کیونکہ وہ اللہ کی گرفت میں ہونگے، یہ میدان محشر کا بیان ہے۔ سبأ
52 ٥٢۔ ١ تَنَاوُش،ُ کے معنی تناول یعنی پکڑنے کے ہیں یعنی اب آخرت میں انہیں ایمان کس طرح حاصل ہوسکتا ہے جب کہ دنیا میں اس سے گریز کرتے رہے گویا آخرت میں انہیں ایمان کے لئے، دنیا کے مقابلے میں دور کی جگہ ہے، جس طرح دور سے کسی چیز کو پکڑنا ممکن نہیں، آخرت میں ایمان لانے کی گنجائش نہیں۔ سبأ
53 ٥٣۔ ١ یعنی اپنے گمان سے کہتے رہے کہ قیامت اور حساب کتاب نہیں۔ یا قرآن کے بارے میں کہتے رہے کہ یہ جادو، گھڑا ہوا جھوٹ اور پہلوں کی کہانیاں ہیں یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کہتے رہے کہ یہ جادوگر ہے، کاہن ہے، شاعر ہے مجنون ہے۔ جب کہ کسی بات کی بھی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں تھی۔ سبأ
54 ٥٤۔ ١ یعنی آخرت میں وہ چاہیں گے کہ ان کا ایمان قبول کرلیا جائے، عذاب سے ان کی نجات ہوجائے، لیکن ان کے درمیان اور ان کی اس خواہش کے درمیاں پردہ حائل کردیا گیا یعنی اس خواہش کو رد کردیا گیا۔ ٥٤۔ ٢ یعنی پچھلی امتوں کا ایمان بھی اس وقت قبول نہیں کیا گیا جب وہ عذاب کے آنے کے بعد ایمان لائیں۔ ٥٤۔ ١ اس لیے اب معائنہ عذاب کے بعد ان کا ایمان بھی کسی طرح قبول ہوسکتا ہے؟ حضرت قتادہ فرماتے ہیں ریب وشک سے بچو، جو شک کی حالت میں فوت ہوگا اسی حالت میں اٹھے گا اور جو یقین پر مرے گا، قیامت والے دن یقین پر ہی اٹھے گا۔ سبأ
0 فاطر
1 ١۔ ١ فَاطِر،ُ کے معنی ہیں، پہلے پہل ایجاد کرنے والا، یہ اشارہ ہے اللہ کی قدرت کی طرف کہ اس نے آسمان و زمین پہلے پہل بغیر نمونے کے بنائے، تو اس کے لئے دوبارہ انسانوں کو پیدا کرنا کون سا مشکل ہے؟۔ ١۔ ٢ مراد جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل فرشتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ انبیاء کی طرف یا مختلف مہمات پر قاصد بنا کر بھیجتا ہے۔ ان میں کسی کے دو کسی کے تین کسی کے چار پر ہیں جن کے ذریعے سے وہ زمین پر آتے اور زمین سے آسمان پر جاتے ہیں۔ ١۔ ٣ یعنی بعض فرشتوں کے اس سے بھی زیادہ پر ہیں، جیسے حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، میں نے معراج کی رات جبرائیل (علیہ السلام) کو اصلی صورت میں دیکھا اس کے چھ سو پر تھے (صحیح بخاری فاطر
2 ٢۔ ١ ان ہی نعمتوں میں سے ارسال رسل اور انزال کتب بھی ہے۔ یعنی ہر چیز کا دینے والا بھی ہے، اور واپس لینے والا یا روک لینے والا بھی وہی ہے۔ اس کے علاوہ نہ کوئی معطی ہے اور نہ مانع وقابض۔ فاطر
3 ٣۔ ١ یعنی اس بیان اور وضاحت کے بعد بھی تم غیر اللہ کی عبات کرتے ہو؟۔ مطلب ہے کہ تمہارے اندر توحید اور آخرت کا انکار کہاں سے آگیا، جب کہ تم مانتے ہو کہ تمہارا خالق اور رازق اللہ ہے (فتح القدیر) فاطر
4 ٤۔ ١ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلا کر کہاں جائیں گے؟ بالآخر تمام معاملات کا فیصلہ تو ہمیں نے کرنا ہے، اس لئے اگر یہ باز نہ آئے، تو ان کو بھی ہلاک کرنا ہمارے لئے مشکل نہیں۔ فاطر
5 ٥۔ ١ کہ قیامت برپا ہوگی اور نیک و بد کو ان کے عملوں کی جزا و سزا دی جائے گی۔ ٥۔ ٢ یعنی آخرت کی ان نعمتوں سے غافل نہ کردے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں اور رسولوں کے پیروکاروں کے لئے تیار کر رکھی ہیں۔ پس اس دنیا کی عارضی لذتوں میں کھو کر آخرت کی دائمی راحتوں کو نظر انداز نہ کرو فاطر
6 ٦۔ ١ یعنی اس سے سخت عداوت رکھو، اس کے فریب اور ہتھکنڈوں سے بچو، جس طرح دشمن کے بچاؤ کے لئے انسان کرتا ہے۔ فاطر
7 ٧۔ ١ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے دیگر مقامات کی طرح ایمان کے ساتھ، عمل صالح بیان کر کے اس کی اہمیت کو واضح کردیا ہے تاکہ اہل ایمان عمل صالح سے کسی وقت بھی غفلت نہ برتیں، کہ مغفرت اور اجر کبیر کا وعدہ اس ایمان پر ہی ہے جس کے ساتھ عمل صالح ہوگا۔ فاطر
8 ٨۔ ١ جس طرح کفار و بدکار ہیں، وہ کفر و شرک فسق اور بدکاری کرتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ وہ اچھا کر رہے ہیں۔ پس ایسا شخص، جس کو اللہ نے گمراہ کردیا ہو، اس کے بچاؤ کے لئے آپ کے پاس کوئی حیلہ ہے؟ یا یہ اس شخص کے برابر ہے جسے اللہ نے ہدایت سے نوازا ہے؟ جواب نفی میں ہی ہے، نہیں یقینا نہیں۔ ٨۔ ٢ اللہ تعالیٰ اپنے عدل کی رو سے اپنی سنت کے مطابق اس کو گمراہ کرتا ہے جو مسلسل اپنے کرتوتوں سے اپنے کو اس کا مستحق ٹھہرا چکتا ہے اور ہدایت اپنے فضل وکرم سے اسے دیتا ہے جو اس کا طالب ہوتا ہے۔ ٨۔ ٣ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت پر اور علم تام پر مبنی ہے اس لیے کسی کی گمراہی پر اتنا افسوس نہ کریں کہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال لیں۔ ٨۔ ٤ یعنی اس سے کوئی قول یا فعل مخفی نہیں ہے مطلب یہ ہے کہ اللہ کا ان کے ساتھ معاملہ علیم وخبیر اور ایک حکیم کی طرح ہے عام بادشاہوں کی طرح کا نہیں ہے جو اپنے اختیارات کا الل ٹپ استعمال کرتے ہیں، کبھی سلام کرنے سے بھی ناراض ہوجاتے ہیں اور کبھی دشنام پر ہی خلعتوں سے نواز دیتے ہیں۔ فاطر
9 ٩۔ ١ یعنی جس طرح بادلوں سے بارش برسا کر خشک زمین کو ہم شاداب کردیتے ہیں اسی طریقے سے قیامت والے دن تمام مردہ انسانوں کو بھی ہم زندہ کردیں گے، حدیث میں آتا ہے کہ انسان کا سارا جسم بوسیدہ ہوجاتا ہے صرف ریڑھ کی ہڈی کا ایک چھوٹا سا حصہ محفوظ رہتا ہے اسی سے اس کی دوبارہ تخلیق وترکیب ہوگی۔ فاطر
10 ١٠۔ ١ یعنی جو چاہتا ہے کہ اسے دنیا اور آخرت میں عزت ملے، تو وہ اللہ کی اطاعت کرے اس سے اسے یہ مقصود حاصل ہوجائے گا اس لیے کہ دنیا وآخرت کا مالک اللہ ہی ہے ساری عزتیں اسی کے پاس ہیں وہ جس کو عزت دے، وہی عزیز ہوگا جس کو وہ ذلیل کردے، اسے دنیا کی کوئی طاقت عزت نہیں دے سکتی۔ ١٠۔ ٢ اَ لْکَلِمُ، کَلِمَہ،ُ ایک جمع ہے، ستھرے کلمات سے مراد اللہ کی تسبیح و تحمید، تلاوت ہے، چڑھتے ہیں کا مطلب، قبول کرنا ہے۔ یا فرشتوں کا انہیں لے کر آسمانوں پر چڑھنا تاکہ اللہ انہیں جزا دے۔ ١٠۔ ٣ خفیہ طریقے سے کسی کو نقصان پہنچانے کی تدبیر کو مکر کہتے ہیں کفر و شرک کا ارتکاب بھی مکر ہے اس طرح اللہ کے راستے کو نقصان پہنچایا جاتا ہے نبی کے خلاف قتل وغیرہ کی جو سازشیں کفار مکہ کرتے تھے وہ بھی مکر ہے، ریاکاری بھی مکر ہے۔ ١٠۔ ٤ یعنی ان کا مکر بھی برباد ہوگا اور اس کا وبال انہی پر پڑے گا جو اس کا ارتکاب کرتے ہیں، جیسے فرمایا (وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّیُٔ) 35۔ فاطر :43) فاطر
11 ١١۔ ١ یعنی تمہارے باپ آدم کو مٹی سے اور پھر اس کے بعد تمہاری نسل کو قائم رکھنے کے لیے انسان کی تخلیق کو نطفے سے وابستہ کردیا جو مرد کی پشت سے نکل کر عورت کے رحم میں جاتا ہے۔ ١١۔ ٢ یعنی اس سے کوئی چیز مخفی نہیں، حتی کہ زمین پر گرنے والے پتے کو اور زمین کی تاریکیوں میں نشوونما پانے والے بیج کو بھی جانتا ہے۔ فاطر
12 ١٢۔ ١ مواخر وہ کشتیاں جو آتے جاتے پانی کو چیرتی ہوئی گزر جاتی ہیں۔ اس کی وضاحت سورۃ فرقان میں گزر چکی ہے۔ فاطر
13 ١٣۔ ١ یعنی مذکورہ تمام افعال کا فاعل ہے۔ ١٣۔ ٢ یعنی اتنی حقیر چیز کے بھی مالک نہیں نہ اسے پیدا کرنے پر ہی قادر ہیں۔ فاطر
14 ١٤۔ ١ یعنی اگر تم انہیں مصائب پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں ہیں، کیونکہ جمادات ہیں پتھر کی مورتیاں۔ ١٤۔ ٢ یعنی اگر بالفرض وہ سن بھی لیں تو بے فائدہ، اس لئے کہ تمہاری التجاؤں کے مطابق تمہارا کام نہیں کرسکتے۔ ١٤۔ ٣ اس لئے کہ اس جیسا کامل علم کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ وہی تمام امور کی حقیقت سے پوری طرح باخبر ہے جس میں ان کے پکارے جانے والوں کی بے اختیاری، پکار کو نہ سننا اور قیامت کے دن اس کا انکار کرنا بھی شامل ہے۔ فاطر
15 ١٥۔ ١ ناس کا لفظ عام ہے جس میں عوام وخاص حتی کہ انبیاء وصلحا سب آجاتے ہیں اللہ کے درکے سب ہی محتاج ہیں لیکن اللہ کسی کا محتاج نہیں۔ ١٥۔ ٢ وہ اتنا بے نیاز ہے کہ اگر سب لوگ اس کے مخالف ہوجائیں اس سے اس کی سلطنت میں کوئی کمی اور سب اس کے اطاعت گزار بن جائیں، تو اس سے اس کی قوت میں زیادتی نہ ہوگی بلکہ نافرمانی میں لوگوں کا اپنا ہی نقصان ہے۔ اور عبادت واطاعت میں اپنا ہی فائدہ ہے۔ ١٥۔ ٣ یعنی محمود ہے اپنی نعمتوں کی وجہ سے۔ پس ہر نعمت، جو اس نے بندوں پر کی ہے، اس پر وہ حمد و شکر کا مستحق ہے۔ فاطر
16 ١٦۔ ١ یہ بھی اس کی شان بے نیازی ہی کی ایک مثال ہے کہ اگر وہ چاہے تو تمہیں فنا کے گھاٹ اتار کے تمہاری جگہ ایک نئی مخلوق پیدا کر دے، جو اس کی اطاعت گزار ہو، اس کی نافرمان نہیں یا یہ مطلب ہے کہ ایک نئی مخلوق اور نیا عالم پیدا کر دے جس سے تم ناآشنا ہو۔ فاطر
17 فاطر
18 ١٨۔ ١ ہاں جس نے دوسروں کو گمراہ کیا ہوگا، وہ اپنے گناہوں کے بوجھ کے ساتھ ان کے گناہوں کا بوجھ بی اٹھائے گا، جیسا کہ آیت (وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَہُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِہِمْ) 29۔ العنکبوت :13) واضح ہے لیکن یہ دوسروں کا بوجھ بھی درحقیقت ان کا اپنا ہی بوجھ کہ ان ہی نے ان دوسروں کو گمراہ کیا تھا۔ ١٨۔ ٢ ایسا انسان جو گناہوں کے بوجھ سے لدا ہو ہوگا، وہ اپنا بوجھ اٹھانے کے لئے اپنے رشتہ دار کو بھی بلائے گا تو وہ آمادہ نہیں ہوگا۔ ١٨۔ ٣ یعنی تیرے انذار وتبلیغ کا فائدہ انہی لوگوں کو ہوسکتا ہے تو یا تو انہی کو ڈراتا ہے ان کو نہیں جن کو انذار سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ یَّخْشٰیہَا) 79۔ النازعات :45) ١٨۔ ٤ تطھر کے معنی ہیں شرک اور فواحش کی آلودگیوں سے پاک ہونا۔ فاطر
19 فاطر
20 ٢٠۔ ١ اندھے سے مراد کافر اور آنکھوں والا سے مومن، اندھیروں سے باطل اور روشنی سے حق مراد ہے، باطل کی بیشمار قسمیں ہیں، اس لئے اس کے لئے جمعود کا اور حق چونکہ متعدد نہیں، ایک ہے، اس لئے اس کے لئے واحد صیغہ استعمال کیا۔ فاطر
21 ٢١۔ ١ یہ ثواب و عتاب یا جنت و دوزخ کی تمثیل ہے۔ فاطر
22 ٢٢۔ ١ احیاء سے مومن اور اموات سے کافر یا علماء اور جاہل یا عقلمند اور غیر عقلمند مراد ہیں۔ ٢٢۔ ٢ یعنی جسے اللہ ہدایت سے نواز نے والا ہوتا ہے اور جنت اس کی مقدر ہوتی ہے، اسے حجت یا دلیل سننے اور پھر اسے قبول کرنے کی تو فیق دے دیتا ہے۔ ٢٢۔ ٣ یعنی جس طرح قبروں میں مردہ اشخاص کی کوئی بات نہیں سنائی جاسکتی اسی طرح جن لوگوں کے دلوں کو کفر نے موت سے ہمکنار کیا اے پیغمبر تو انہیں حق کی بات نہیں سنا سکتا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح مرنے اور قبر میں دفن ہونے کے بعد مردہ کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا، اسی طرح کافر و مشرک جن کی قسمت میں بدبختی لکھی ہے دعوت وتبلیغ سے انہیں فائدہ نہیں ہوتا۔ فاطر
23 ٢٣۔ ١ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام صرف دعوت و تبلیغ ہے۔ ہدایت اور ضلالت یہ اللہ کے اختیار میں ہے۔ فاطر
24 فاطر
25 ٢٥۔ ١ تاکہ کوئی قوم یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں تو ایمان اور کفر کا پتہ ہی نہیں اس لئے ہمارے پاس کوئی پیغمبر بھی نہیں آیا بنا بریں اللہ نے ہر امت میں نبی بھیجا۔ جس طرح دوسرے مقام پر بھی فرمایا ولکل قوم ھاد۔ فاطر
26 ٢٦۔ ١ یعنی کیسے سخت عذاب کے ساتھ میں نے ان کی گرفت کی اور انہیں تباہ و برباد کردیا۔ فاطر
27 ٢٧۔ ١ یعنی جس طرح مومن اور کافر، صالح اور فاسد دونوں قسم کے لوگ ہیں، اسی طرح دیگر مخلوقات میں بھی فرق اور اختلاف ہے، مثلًا پھولوں کے رنگ بھی مختلف ہیں اور ذائقے لذت اور خوشبو میں بھی ایک دوسرے سے مختلف۔ حتٰی کہ ایک ایک پھل کے بھی کئی کئی رنگ بھی مختلف اور ذائقے اور خوشبو اور لذت میں بھی ایک دوسرے سے مختلف جیسے کھجور ہے، انگور ہے، سیب اور دیگر بعض پھل ہیں۔ ٢٧۔ ٢ اسی طرح پہاڑ اور اس کے حصے یا راستے اور خطوط مختلف رنگوں کے ہیں، سفید، سرخ اور بہت گہرے، سیاہ راستہ یا لکیر۔ غَرَابِیْب، غَرِیْب،ُ کی جمع ہے (سیاہ) کی جمع ہے۔ جب سیاہ رنگ کے گہرے پن کو ظاہر کرتا ہو تو اس کے ساتھ غربیب کا الفاظ استعمال کیا جاتا ہے؛ اسود غربیب، جس کے معنی ہوتے ہیں، بہت گہرا سیاہ۔ فاطر
28 ٢٨۔ ١ یعنی انسان اور جانور بھی سفید، سرخ، سیاہ اور زرد رنگ کے ہوتے ہیں۔ ٢٨۔ ٢ یعنی اللہ کی ان قدرتوں اور اس کے کمال صناعی کو وہی جان اور سمجھ سکتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں اس علم سے مراد کتاب وسنت اور اسرار الہیہ کا علم ہے جتنی ان کو رب کی معرفت حاصل ہوتی ہے اتنا ہی وہ ڈرتے ہیں اپنے رب سے۔ گویا جن کے اندر خشیت الہی نہیں ہے سمجھ لو کہ علم صحیح سے بھی وہ محروم ہیں۔ ٢٨۔ ٣ یہ رب سے ڈرنے کی علت ہے کہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ نافرمان کو سزا دے اور توبہ کرنے والے کے گناہ معاف فرما دے۔ فاطر
29 ٢٩۔ ١ کتاب اللہ سے مراد قرآن کریم ہے، تلاوت کرتے ہیں، یعنی پابندی سے اس کا اہتمام کرتے ہیں۔ ٢٩۔ ٢ اقامت صلوٰۃ کا مطلب ہوتا ہے، نماز کی ادائیگی جو مطلوب ہے، یعنی وقت کی پابندی، اعتدالِارکان اور خشوع و خضوع کے اہتمام کے ساتھ پڑھنا۔ ٢٩۔ ٣ یعنی رات دن، اعلانیہ اور پوشیدہ دونوں طریقوں سے حسب ضرورت خرچ کرتے ہیں، بعض کے نزدیک پوشیدہ سے نفلی صدقہ اور اعلانیہ سے صدقہ، واجبہ (زکوٰۃ) مراد ہے۔ ٩٢۔ ٤ یعنی ایسے لوگوں کا اجر اللہ کے ہاں یقینی ہے، جس میں مندے اور کمی کا امکان نہیں۔ فاطر
30 ٣٠۔ ١ یعنی یہ تجارت مندے سے اس لئے محفوظ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال صالحہ پر پورا اجر عطا فرمائے گا۔ یا فعل محذوف کے متعلق ہے کہ یہ نیک اعمال اس لئے کرتے ہیں یا اللہ نے انہیں ان کی طرف ہدایت کی تاکہ وہ انہیں اجر دے۔ فاطر
31 ٣١۔ ١ یعنی جس پر تیرے اور تیری امت کے لئے عمل کرنا ضروری ہے۔ ٣١۔ ٢ تورات اور انجیل وغیرہ کی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کریم اس اللہ کا نازل کردہ ہے جس نے پچھلی کتابیں نازل کی تھیں، جب ہی تو دونوں ایک دوسرے کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔ ٣١۔ ٣ یہ اس کے علم و خبری کا نتیجہ ہے کہ اس نے نئی کتاب نازل فرما دی، کیونکہ وہ جانتا ہے، پچھلی کتابیں ردو بدل کا شکار ہوگئی ہیں اور اب وہ ہدایت کے قابل نہیں رہی ہیں۔ فاطر
32 ٣٢۔ ١ کتاب سے قرآن اور چنے ہوئے بندوں سے مراد امت محمدیہ ہے۔ یعنی اس قرآن کا وارث ہم نے امت محمدیہ کو بنایا ہے جسے ہم نے دوسری امتوں کے مقابلے میں چن لیا اور اسے شرف و فضل سے نوازا۔ یہ تقریبًا وہی مفہوم ہے جو آیت البقرہ ا۔ ١٤٢ کا ہے۔ ٣٢۔ ٢ امت محمدیہ کی تین قسمیں ہیں یہ پہلی قسم ہے جس سے مراد ایسے لوگ ہیں جو بعض فرائض میں کوتاہی اور بعض محرکات کا ارتکاب کرلیتے ہیں یا بعض کے نزدیک وہ ہیں جو صغائر کا ارتکاب کرتے ہیں انہیں اپنے نفس پر ظلم کرنے والا اس لیے کہا کہ وہ اپنی کچھ کوتاہیوں کی وجہ سے اپنے کو اس اعلی درجہ سے محروم کرلیں گے جو باقی دو قسموں کو حاصل ہوں گے۔ ٣٢۔ ٣ یہ دوسری قسم ہے۔ یعنی ملے جلے عمل کرتے ہیں یا بعض کے نزدیک وہ ہیں جو فرائض کے پابند، محرکات کے تارک تو ہیں لیکن کبھی دعاؤں سے منحرف اور بعض منع کی گئی چیزوں کا ارتکاب بھی ان سے ہوجاتا ہے یا وہ ہیں جو نیک تو ہیں لیکن پیش پیش نہیں ہیں. ٣٢۔ ٣ یہ وہ ہیں جو دین کے معاملے میں پچھلے دونوں سے سبقت کرنے والے ہیں۔ ٣٢۔ ٤ یعنی کتاب کا وارث کرنا اور شرف و فضل میں ممتاز (مصطفٰی) کرنا۔ فاطر
33 ٣٣۔ ١ بعض کہتے ہیں کہ جنت میں صرف سابقون جائیں گے لیکن یہ صحیح نہیں قرآن کا سیاق اس امر کا مقتاضی ہے کہ تینوں قسمیں جنتی ہیں یہ الگ بات ہے کہ سابقین بغیر حساب کتاب کے اور مقصدین آسان حساب کے بعد اور ظالمین شفاعت سے یا سزا بھگتنے کے بعد جنت میں جائیں گے۔ جیسا کہ احادیث سے واضح ہے۔ ٣٣۔ ٢ حدیث میں آتا ہے کہ ' ریشم کا لباس دنیا میں مت پہنو، اس لئے کہ جو اسے دنیا میں پہنے گا، وہ اسے آخرت میں نہیں پہنے گا (صحیح بخاری) فاطر
34 فاطر
35 فاطر
36 فاطر
37 ٣٧۔ ١ یعنی غیروں کی بجائے تیری عبادت اور معصیت کی بجائے اطاعت کریں گے۔ ٣٧۔ ٢ اس سے مراد کتنی عمر ہے؟ مفسرین نے مختلف عمریں بیان کی ہیں بعض نے احادیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ 60 سال کی عمر مراد ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں عمر کی تعیین صحیح نہیں اس لیے کہ عمریں مختلف ہوتی ہیں کوئی جوانی میں کوئی بڑھاپے میں فوت ہوتا ہے پھر یہ ادوار بھی لمحہ گزراں کی طرح مختصر نہیں ہوتے، مثلا ہر دور خاصا لمبا ہوتا ہے مثلا جوانی کا دور، بلوغت سے کہولت تک اور کہولت کا دور شیخوخت بڑھاپے تک اور بڑھاپے کا دور موت تک رہتا ہے۔ اور سب سے یہ سوال کرنا صحیح ہوگا کہ ہم نے تجھے اتنی عمر دی تھی کہ اگر تو حق کو سمجھنا چاہتا تو سمجھ سکتا تھا پھر تو نے حق کو سمجھنے اور اسے اختیار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ ٣٧۔ ٣ اس سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ یعنی یاد دہانی اور نصیحت کے لئے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے منبر و محراب کے وارث علماء تیرے پاس آئے، لیکن تو نے اپنی عقل فہم سے کام لیا نہ داعیان حق کی باتوں کی طرف دھیان کیا۔ فاطر
38 ٣٨۔ ١ یہاں یہ بیان کرنے سے یہ مقصد بھی ہوسکتا ہے کہ تم دوبارہ دنیا میں جانے کی آرزو کر رہے ہو اور دعوٰی کر رہے ہو کہ اب نافرمانی کی جگہ اطاعت اور شرک کی جگہ توحید اختیار کرو گے۔ لیکن ہمیں علم ہے تم ایسا نہیں کرو گے۔ تمہیں اگر دنیا میں دوبارہ بھیج دیا جائے تو وہی کچھ کرو گے جو پہلے کرتے رہے ہو جیسے دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا ' اگر انہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تو وہی کام کریں گے جن سے انہیں منع کیا گیا '۔ ٣٨۔ ٢ یہ پچھلی بات کی دلیل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو آسمان اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا علم کیوں نہ ہو، جبکہ وہ سینوں کی باتوں اور رازوں سے بھی واقف ہے جو سب سے زیادہ پوشیدہ ہوتے ہیں۔ فاطر
39 ٣٩۔ ١ یعنی اللہ کے ہاں کفر کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا، بلکہ اس سے اللہ کے غضب اور ناراضگی میں بھی اضافہ ہوگا اور انسان کے اپنے نفس کا خسارہ بھی زیادہ۔ فاطر
40 ٤٠۔ ١ یعنی ہم نے ان پر کوئی کتاب نازل کی ہو، جس میں درج ہو کہ میرے بھی کچھ شریک ہیں جو آسمان اور زمین کی تخلیق میں حصے دار اور شریک ہیں۔ ٤٠۔ ٢ یعنی ان میں سے کوئی بھی بات نہیں ہے بلکہ یہ آپس میں ہی ایک دوسرے کو گمراہ کرتے آئے ہیں۔ ان کے لیڈر کہتے تھے کہ یہ معبود انہیں نفع پہنچائیں گے، انہیں اللہ کے نزدیک کردیں گے اور ان کی شفاعت کریں گے۔ یا یہ باتیں شیاطین مشرکین سے کہتے تھے یا اس سے وہ وعدہ مراد ہے جس کا اظہار وہ ایک دوسرے کے سامنے کرتے تھے کہ وہ مسلمانوں پر غالب آئیں گے جس سے ان کو کفر پر جمے رہنے کا حوصلہ ملتا تھا۔ فاطر
41 ٤١۔ ١ یہ اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت وصنعت کا بیان ہے بعض نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ ان کے شرک اقتضاء ہے کہ آسمان و زمین اپنی حالت پر برقرار نہ رہیں بلکہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیں جیسے آیت تکاد السموات۔۔ مریم) کا مفہوم ہے۔ ٤١۔ ٢ یعنی یہ اللہ کے کمال قدرت کے ساتھ اس کی کمال مہربانی بھی ہے کہ وہ آسمان و زمین کو تھامے ہوئے ہے اور انہیں اپنی جگہ سے ہلنے اور ڈولنے نہیں دیتا ہے ورنہ پلک جھپکتے میں دنیا کا نظام تباہ ہوجائے کیونکہ اگر وہ انہیں تھامے نہ رکھے اور انہیں اپنی جگہ سے پھیر دے تو اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو ان کو تھام لے۔ اللہ نے اپنے اس احسان اور نشانی کا تذکرہ دوسرے مقامات پر بھی فرمایا ہے۔ (وَیُمْسِکُ السَّمَاۗءَ اَنْ تَقَعَ عَلَی الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ۭ اِنَّ اللّٰہَ بالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ) 22۔ الحج :65)۔ اسی نے آسمان کو زمین پر گرنے سے روکا ہوا ہے مگر جب اس کا حکم ہوگا "اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ آسمان و زمین اس کے حکم سے قائم ہیں"۔ ٤١۔ ٣ اتنی قدرتوں کے باوجود وہ حلیم ہے اپنے بندوں کو دیکھتا ہے کہ وہ کفر و شرک اور نافرمانی کر رہے ہیں پھر بھی وہ ان کی گرفت میں جلدی نہیں کرتا بلکہ ڈھیل دیتا ہے اور غفور بھی ہے کوئی تائب ہو کر اس کی بارگاہ میں جھک جاتا ہے توبہ واستغفار وندامت کا اظہار کرتا ہے وہ معاف فرما دیتا ہے۔ فاطر
42 ٤٢۔ ١ اس میں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے کہ بعث محمدی سے قبل یہ مشرکین عرب قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ اگر ہماری طرف کوئی رسول آیا، تو ہم اس کا خیر مقدم کریں گے اور اس پر ایمان لانے میں ایک مثالی کردار ادا کریں گے۔ یہ مضمون دیگر مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً (اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْکِتٰبُ عَلٰی طَاۗیِٕفَتَیْنِ مِنْ قَبْلِنَا ۠ وَاِنْ کُنَّا عَنْ دِرَاسَتِہِمْ لَغٰفِلِیْنَ ١٥٦؀ۙ اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا الْکِتٰبُ لَکُنَّآ اَہْدٰی مِنْہُمْ ۚ فَقَدْ جَاۗءَکُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَہُدًی وَّرَحْمَۃٌ ۚ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَصَدَفَ عَنْہَا ۭ سَنَجْزِی الَّذِیْنَ یَصْدِفُوْنَ عَنْ اٰیٰتِنَا سُوْۗءَ الْعَذَابِ بِمَا کَانُوْا یَصْدِفُوْنَ ١٥٧؁) 6۔ الانعام :157-156) (ثُمَّ اِنَّ مَرْجِعَہُمْ لَا۟اِلَی الْجَحِیْمِ) 37۔ الصافات :68)۔ (فَکَفَرُوْا بِہٖ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ) 37۔ الصافات :170) ٤٢۔ ٢ یعنی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس نبی بن کر آگئے جن کے لئے وہ تمنا کرتے تھے۔ فاطر
43 ٤٣۔ ١ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایمان لانے کی بجائے، انکار و مخالفت کا راستہ محض استکبار اور سرکشی کی وجہ سے اختیار کیا۔ ٤٣۔ ٢ اور بری تدبیر یعنی حیلہ، دھوکا اور عمل قبیح کی وجہ سے کیا۔ ٤٣۔ ٣ یعنی لوگ مکر و حیلہ کرتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ بری تدبیر کا انجام برا ہی ہوتا ہے اور اس کا وبال بالآخر مکر و حیلہ کرنے والوں پر ہی پڑتا ہے۔ ٤٣۔ ٤ یعنی کیا یہ اپنے کفر و شرک، رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور مومنوں کو ایذائیں پہنچانے پر مصر رہ کر اس بات کے منتظر ہیں کہ انہیں بھی اس طرح ہلاک کیا جائے جس طرح پچھلی قومیں ہلاکت سے دو چار ہوئیں۔ ٤٣۔ ٥ بلکہ یہ اسی طرح جاری ہے اور ہر مکذب (جھٹلانے والے) کا مقدر ہلاکت ہے یا بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کے عذاب کو رحمت کے سائے سے بدلنے پر قادر نہیں ہے۔ ٤٣۔ ٦ یعنی کوئی اللہ کے عذاب کو دور کرنے والا یا اس کا رخ پھیرنے والا نہیں ہے یعنی جس قوم کو اللہ عذاب سے دوچار کرنا چاہے کوئی اس کا رخ کسی اور قوم کی طرف پھیر دے، کسی میں یہ طاقت نہیں ہے۔ کوئی بھی اس قانون الہی کو بدلنے پر قادر ہے اور نہ عذاب الہی کو پھیرنے پر۔ فاطر
44 فاطر
45 ٤٥۔ ١ انسانوں کو ان کے گناہوں کی پاداش میں اور جانوروں کو انسانوں کی نحوست کی وجہ سے یا مطلب یہ ہے کہ تمام اہل زمین کو ہلاک کردیتا، انسانوں کو بھی اور جن جانوروں اور روزیوں کے وہ مالک ہیں ان کو بھی یا مطلب ہے کہ آسمان سے بارشوں کا سلسلہ منقطع فرما دیتا ہے جس سے زمین پر چلنے والے سب دابتہ مرجاتے ہیں۔ ٤٥۔ ١ یہ میعاد معین دنیا میں بھی ہوسکتی ہے اور یوم قیامت تو ہے ہی۔ ٤٥۔ ٣ یعنی اس دن ان کا محسابہ کرے گا اور ہر شخص کو اس کے عملوں کا پورا بدلہ دے گا اہل ایمان واطاعت کو اجرو ثواب اور اہل کفر ومعصیت کو عتاب وعقاب۔ اس میں مومنوں کے لیے تسلی ہے اور کافروں کے لیے وعید۔ فاطر
0 يس
1 ١۔ ١ بعض نے اس کے معنی یا رجل یا انسان کے کئے ہیں۔ بعض نے اسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام اور بعض نے اسے اللہ کے اسمائے حسنٰی میں سے بتلایا ہے۔ لیکن یہ سب اقوال بلا دلیل ہیں۔ یہ بھی ان حروف مقطعات میں سے ہی ہے۔ جن کا معنی و مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ يس
2 ٢۔ ١ یا قرآن محکم کی، جو نظم و معنی کے لحاظ سے محکم یعنی پختہ ہے۔ واؤ قسم کے لئے ہے۔ آگے جواب قسم ہے۔ يس
3 ٣۔ ١ مشرکین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت میں شک کرتے تھے، اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار کرتے اور کہتے تھے (وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَسْتَ مُرْسَلًا ۭ قُلْ کَفٰی باللّٰہِ شَہِیْدًۢا بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ ۙ وَمَنْ عِنْدَہٗ عِلْمُ الْکِتٰبِ 43؀ۧ) 13۔ الرعد :43) ' تو تو پیغمبر ہی نہیں ' اللہ نے ان کے جواب میں قرآن حکیم کی قسم کھا کر کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پیغمبروں میں سے ہیں۔ اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شرف و فضل و اظہار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی رسول کی رسالت کے لئے قسم نہیں کھائی یہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امتیازات اور خصائص میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کے اثبات کے لئے قسم کھائی۔ يس
4 ٤۔ ١ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پیغمبروں کے راستے پر ہیں جو پہلے گزر چکے ہیں۔ یا ایسے راستے پر ہیں جو سیدھا اور مطلوب منزل (جنت) تک پہنچانے والا۔ يس
5 ٥۔ ١ یعنی اس اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے جو عزیز ہے یعنی اس کا انکار اور اس کے رسول کو جھوٹا کرنے والے سے انتقام لینے پر قادر ہے رحیم ہے۔ یعنی جو اس پر ایمان لائے گا اور اس کا بندہ بن کر رہے گا اس کے لئے نہایت مہربان۔ يس
6 ٦۔ ١ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول اس لئے بنایا ہے اور یہ کتاب اس لئے نازل کی ہے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قوم کو ڈرائیں جن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، اس لئے ایک مدت سے یہ لوگ دین حق سے بے خبر ہیں۔ یہ مضمون پہلے بھی کئی جگہ گزر چکا ہے کہ عربوں میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے براہ راست کوئی نبی نہیں آیا۔ یہاں بھی اس چیز کو بیان کیا گیا ہے۔ يس
7 ٧۔ ١ جیسے ابو جہل، عتبہ، شیبہ وغیرہ۔ بات ثابت ہونے کا مطلب، اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ ' میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا ' (وَلَوْ شِئْنَا لَاٰتَیْنَا کُلَّ نَفْسٍ ہُدٰیہَا وَلٰکِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّیْ لَاَمْلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ) 32۔ السجدہ :13) شیطان سے بھی خطاب کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا تھا ' میں جہنم کو تجھ سے اور تیرے پیروکاروں سے بھر دونگا۔ یہ اس وجہ سے نہیں کہ اللہ نے جبرا ان کو ایمان سے محروم رکھا کیونکہ جبر کی صورت میں تو وہ عذاب کے مستحق قرار نہ پاتے۔ يس
8 ٨۔ ١ جس کی وجہ سے وہ ادھر ادھر دیکھ سکتے ہیں۔ نہ سر جھکا سکتے ہیں، بلکہ وہ سر اوپر اٹھائے اور نگاہیں نیچے کئے ہوئے ہیں۔ یہ ان کے عدم قبول حق کی اور عدم انفاق کی تمثیل ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ان کی سزا جہنم کی کیفیت کا بیان ہو۔ (ایسر التفاسیر) يس
9 ٩۔ ١ یعنی دنیا کی زندگی ان کے لئے مزین کردی گئی، یہ گویا ان کے سامنے کی آڑ ہے، جس کی وجہ سے وہ لذائذ دنیا کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتے اور یہی چیز ان کے اور ایمان کے درمیان مانع اور حجاب ہے اور آخرت کا تصور ان کے ذہنوں میں ناممکن الواقع کردیا گیا، یہ گویا ان کے پیچھے کی آڑ ہے جس کی وجہ سے وہ توبہ کرتے ہیں نہ نصیحت حاصل کرتے ہیں کیونکہ آخرت کا کوئی خوف ہی ان کے دلوں میں نہیں ہے۔ ٩۔ ٢ یا ان کی آنکھوں کو ڈھانک دیا یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عداوت اور اس کی دعوت حق سے نفرت نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ گی، یا انہیں اندھا کردیا ہے جس سے وہ دیکھ نہیں سکتے یہ ان کے حال کی دوسری تمثیل ہے۔ يس
10 ١٠۔ ١ یعنی جو اپنے کرتوتوں کی وجہ سے گمراہی کے اس مقام تک پہنچ جائیں، ان کے لئے اندازہ بے فائدہ رہتا ہے۔ يس
11 ١١۔ ١ یعنی انذار سے صرف اس کو فائدہ پہنچتا ہے۔ يس
12 ١٢۔ ١ یعنی قیامت والے دن یہاں احیائے موتی کے ذکر سے یہ اشارہ کرنا بھی مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں میں سے جس کا دل چاہتا ہے، زندہ کردیتا ہے جو کفر و ضلالت کی وجہ سے مردہ ہوچکے ہوتے ہیں۔ پس وہ ہدایت اور ایمان کو اپنا لیتے ہیں۔ ١٢۔ ٢ اس سے مراد لوح محفوظ ہے اور بعض نے صحائف اعمال مراد لیے ہیں۔ يس
13 ١٣۔ ١ تاکہ اہل مکہ یہ سمجھ لیں کہ آپ کوئی انوکھے رسول نہیں ہیں، بلکہ رسالت و نبوت کا یہ سلسلہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ يس
14 ١٤۔ ١ یہ تین رسول کون تھے؟ مفسرین نے ان کے مختلف نام بیان کئے ہیں، لیکن نام مستند ذریعے سے ثابت نہیں ہیں۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بھیجے ہوئے تھے، جو انہوں نے اللہ کے حکم سے ایک بستی میں تبلیغ و دعوت کے لئے بھیجے تھے۔ بستی کا نام انطاکیہ تھا۔ يس
15 يس
16 يس
17 يس
18 ١٨۔ ١ ممکن ہے کچھ لوگ ایمان لے آئے ہوں اور ان کی وجہ سے قوم دو گروہوں میں بٹ گئی ہو، جس کو انہوں نے رسولوں کی نَعْوذ باللّٰہِ نحوست قرار دیا۔ یا بارش کا سلسلہ موقوف رہا ہو تو وہ سمجھے ہوں کہ یہ ان رسولوں کی نحوست ہے۔ نَعْوذ باللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ، جیسے آج کل بھی بد نہاد اور دین وشریعت سے بے بہرہ لوگ، اہل ایمان وتقوی کو ہی، منحوس، سمجھتے ہیں۔ يس
19 ١٩۔ ١ یعنی وہ تمہارے اپنے اعمال بد کا نتیجہ ہے جو تمہارے ساتھ ہی ہے نہ کہ ہمارے ساتھ۔ يس
20 ٢٠۔ ١ یہ شخص مسلمان تھا، جب اسے پتہ چلا کہ قوم پیغمبروں کی دعوت کو نہیں اپنا رہی، تو اس نے آکر رسولوں کی حمایت اور ان کے اتباع کی ترغیب دی۔ يس
21 يس
22 ٢٢۔ ١ اپنے مسلک توحید کی وضاحت کی، جس سے مقصد اپنی قوم کی خیر خواہی اور ان کی صحیح رہنمائی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی قوم نے اس سے کہا ہو کہ کیا تو بھی اس معبود کی عبادت کرتا ہے، جس کی طرف یہ مرسلین ہمیں بلا رہے ہیں اور ہمارے معبودوں کو تو بھی چھوڑ بیٹھا ہے؟ جس کے جواب میں اس نے کہا۔ مفسرین نے اس شخص کا نام حبیب نجار بتایا۔ واللہ اعلم۔ يس
23 ٢٣۔ ١ یہ ان معبودان باطلہ کی بے بسی کی وضاحت ہے جن کی عبادت اس کی قوم کرتی تھی اور شرک کی اس گمراہی سے نکالنے کے لئے رسول ان کی طرف بھیجے گئے تھے۔ نہ بچاسکیں کا مطلب ہے کہ اللہ اگر مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو یہ بچا نہیں سکتے۔ يس
24 ٢٤۔ ١ یعنی اگر میں بھی تمہاری طرح اللہ کو چھوڑ کر ایسے بے اختیار اور بے بس معبودوں کی عبادت شروع کر دوں، تو میں بھی کھلی گمراہی میں جا گروں گا۔ یا ضلال یہاں حسران کے معنی میں ہے، یعنی یہ تو نہایت واضح خسارے کا سودا ہے۔ يس
25 ٢٥۔ ١ اس کی دعوت توحید اور اقرار توحید کے جواب میں قوم نے اسے قتل کرنا چاہا تو اس نے پیغمبروں سے خطاب کر کے یہ کہا مقصد اپنے ایمان پر ان پیغمبروں کو گواہ بنایا تھا۔ یا اپنی قوم سے خطاب کر کے کہا جس سے مقصود دین حق پر اپنی صلاحیت اور استقامت کا اظہار تھا کہ تم جو چاہو کرلو، لیکن اچھی طرح سن لو کہ میرا ایمان اسی رب پر ہے، جو تمہارا بھی رب ہے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے اس کو مار ڈالا اور کسی نے ان کو اس سے نہیں روکا۔ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی۔ يس
26 يس
27 ٢٧۔ ١ یعنی جس ایمان اور توحید کی وجہ سے مجھے رب نے بخش دیا، کاش میری قوم اس کو جان لے تاکہ وہ بھی ایمان و توحید کو اپنا کر اللہ کی مغفرت اور اس کی نعمتوں کی مستحق ہوجائے۔ اس طرح اس شخص نے مرنے کے بعد بھی اپنی قوم کی خیر خواہی کی۔ ایک مومن صادق کو ایسا ہی ہونا چاہیے کہ وہ ہر وقت لوگوں کی خیر خواہی ہی کرے، بد خواہی نہ کرے اور ان کی صحیح رہنمائی کرے، گمراہ نہ کرے، بیشک لوگ اسے جو چاہے کہیں اور جس قسم کا سلوک چاہیں کریں، حتی کہ اسے مار ڈالیں۔ يس
28 ٢٨۔ ١ یعنی حبیب نجار کے قتل کے بعد ہم نے ان کی ہلاکت کے لئے آسمان سے فرشتوں کا کوئی لشکر نہیں اتارا۔ یہ اس قوم کی حقیر شان کی طرف اشارہ ہے۔ ٢٨۔ ٢ یعنی جس قوم کی ہلاکت کسی دوسرے طریقے سے لکھی جاتی ہے وہاں ہم فرشتے نازل بھی نہیں کرتے۔ يس
29 ٢٩۔ ١ کہتے ہیں کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے ایک چیخ ماری، جس سے سب جسموں سے روحیں نکل گئیں اور وہ بجھی آگ کی طرح ہوئے۔ گویا زندگی، شعلہ فروزاں ہے اور موت، اس کا بجھ کر راکھ کا ڈھیر ہوجانا۔ يس
30 ٣٠۔ ١ حسرت و ندامت کا یہ اظہار خود اپنے نفسوں پر، قیامت والے دن، عذاب دیکھنے کے بعد کریں گے کہ کاش انہوں نے اللہ کے بارے میں کوتاہی نہ کی ہوتی یا اللہ تعالیٰ بندوں کے رویے پر افسوس کر رہا ہے کہ ان کے پاس جب بھی کوئی رسول آیا انہوں نے اس کے ساتھ مذاق ہی کیا۔ يس
31 ٣١۔ ١ اس میں اہل مکہ کے لئے تنبیہ ہے کہ تکذیب رسالت کی وجہ سے جس طرح پچھلی قومیں تباہ ہوئیں یہ بھی تباہ ہو سکتے ہیں۔ يس
32 ٣٢۔ ١ مطلب یہ ہے کہ تمام لوگ گذشتہ بھی اور آئندہ آنے والے بھی، سب اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونگیں جہاں ان کا حساب کتاب ہوگا۔ يس
33 ٣٣۔ ١ یعنی اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی قدرت اور مردوں کو زندہ کرنے پر نشانی۔ يس
34 ٣٤۔ ١ یعنی مردہ زمین کو زندہ کرکے ہم اس سے ان کی خوراک کے لئے صرف غلہ ہی نہیں لگاتے، بلکہ ان کے کام و دہن کی لذت کے لئے مختلف اقسام کے پھل بھی کثرت سے پیدا کرتے ہیں، یہاں صرف دو پھلوں کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ یہ کثیرالمنافع بھی ہیں اور عربوں کو مرغوب بھی، نیز ان کی پیداوار بھی عرب میں زیادہ ہے۔ پھر غلے کا ذکر پہلے کیا کیونکہ اس کی پیداوار بھی زیادہ ہے اور خوراک کی حیثیت سے اس کی اہمیت بھی مسلمہ۔ جب تک انسان روٹی یا چاول وغیرہ خوراک سے اپنا پیٹ نہیں بھرتا، محض پھل فروٹ سے اس کی غذائی ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ يس
35 ٣٥۔ ١ یعنی بعض جگہ چشمے جاری کرتے ہیں، جس کے پانی سے پیدا ہونے والے پھل لوگ کھائیں۔ ٣٥۔ ٢ امام ابن جریر کے نزدیک یہاں ما نافیہ ہے یعنی غلول اور پھلوں کی یہ پیداوار، اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے جو وہ اپنے بندوں پر کرتا ہے۔ اس میں ان کی سعی و محنت، کدو کاوش اور تصرف کا دخل نہیں ہے۔ پھر بھی یہ اللہ کی ان نعمتوں پر اس کا شکر کیوں نہیں کرتے؟ اور بعض کے نزدیک ما موصولہ ہے جو الَّذِیْ کے معنی میں ہے یعنی تاکہ وہ اس کا پھل کھائیں اور ان چیزوں کو جن کو ان کے ہاتھوں نے بنایا۔ ہاتھوں کا عمل ہے، زمین کو ہموار کرکے بیج بونا، اسی طرح پھلوں کے کھانے مختلف طریقے ہیں، مثلًا انہیں نچوڑ کر ان کا رس پینا، مختلف فروٹوں کو ملا کر چاٹ بنانا وغیرہ۔ يس
36 ٣٦۔ ١ یعنی انسانوں کی طرح زمین کی ہر پیداوار میں بھی ہم نے نر مادہ دونوں پیدا کئے۔ علاوہ ازیں آسمانوں میں اور زمین کی گہرائیوں میں بھی جو چیزیں تم سے غائب ہیں، جن کا علم تم نہیں رکھتے، ان میں زوجیت (نر اور مادہ) کا یہ نظام ہم نے رکھا ہے۔ پس تمام مخلوق جوڑا جوڑا ہے، نباتات بھی نر اور مادے کا یہی نظام ہے۔ حتٰی کہ آخرت کی زندگی، دنیا کی زندگی کے لئے بمنزلہ زوج ہے اور یہ حیات آخرت کے لئے ایک عقلی دلیل بھی ہے۔ صرف ایک اللہ کی ذات ہے جو مخلوق کی صفت سے اور دیگر تمام کوتاہیوں سے پاک ہے۔ وہ (فرد) ہے، زوج نہیں۔ يس
37 ٣٧۔ ١ یعنی اللہ کی قدرت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ دن کو رات سے الگ کردیتا ہے، جس سے فوراً اندھیرا چھا جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ دن کو رات سے الگ کردیتا ہے۔ اَظْلَمَ کے معنی ہیں، اندھیرے میں داخل ہونا۔ جیسے اَصْبَحَ اور اَمْسَیٰ اور اَظْھَرَ کے معنی ہیں، صبح شام اور ظہر کے وقت میں داخل ہونا۔ يس
38 (١) یعنی اپنے اس مدار (فلک) پر چلتا رہتا ہے، جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کردیا ہے، اسی سے اپنی سیر کا آغاز کرتا ہے اور وہیں پر ختم کرتا ہے۔ علاوہ ازیں اس سے ذرا ادھر ادھر نہیں ہوتا، کہ کسی دوسرے سیارے سے ٹکرا جائے۔ دوسرے معنی ہیں، اپنے ٹھہرنے کی جگہ تک، اور اس کا یہ مقام قرار عرش کے نیچے ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ سورج روزانہ غروب کے بعد عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا ہے اور پھر وہاں سے طلوع ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے (صحیح بخاری، تفسیر سورۃ یسین) دونوں مفہوم کے اعتبار سے لمستقر میں لام، علت کے لئے ہے۔ ای۔ لأجل مستقرلھا بعض کہتے ہیں کہ لام، الی کے معنی میں ہے، پھر مستقر یوم قیامت ہوگا۔ یعنی سورج کا یہ چلنا قیامت کے دن تک ہے، قیامت والے دن اس کی حرکت ختم ہوجائے گی۔ یہ تینوں مفہوم اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ يس
39 ٣٩۔ ١ چاند کی ٢٨ منزلیں ہیں، روزانہ ایک منزل طے کرتا ہے، پھر غائب رہ کر تیسری رات کو نکل آتا ہے ٣٩۔ ٢ یعنی جب آخری منزل پر پہنچتا ہے تو بالکل باریک اور چھوٹا ہوجاتا ہے جیسے کھجور کی پرانی ٹہنی ہو، جو سوکھ کر ٹیڑھی ہوجاتی ہے۔ چاند کی انہی گردشوں سے اپنے دنوں مہینوں اور سالوں کا حساب اور اپنے اوقات عبادات کا تعین کرتے ہیں۔ يس
40 ٤٠۔ ١ یعنی سورج کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے جس سے اس کی روشنی ختم ہوجائے بلکہ دونوں کا اپنا اپنا راستہ اور الگ الگ حد ہے۔ سورج دن ہی کو اور چاند رات ہی کو طلوع ہوتا ہے اس کے برعکس کبھی نہیں ہوا، جو ایک مدبر کائنات کے وجود پر ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ ٤٠۔ ٢ بلکہ یہ بھی ایک نظام میں بندھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں۔ ٤٠۔ ٣ کُل سے سورج، چاند یا اس کے ساتھ دوسرے کواکب مراد ہیں، سب اپنے اپنے مدار پر گھومتے ہیں، ان کا باہمی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ يس
41 ٤١۔ ١ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے اس احسان کا تذکرہ فرما رہا ہے کہ اس نے سمندر میں کشتیوں کا چلنا آسان فرما دیا، حتٰی کہ تم اپنے ساتھ بھری ہوئی کشتیوں میں اپنے بچوں کو بھی لے جاتے ہو اور دوسرے معنی سے یہ مراد کشتی نوح (علیہ السلام) ہے۔ یعنی سفینہ نوح (علیہ السلام) میں لوگوں کو بٹھایا جن سے بعد میں نسل انسانی چلی۔ گویا نسل انسانی کے آبا اس میں سوار تھے۔ يس
42 ٤٢۔ ١ اس سے مراد ایسی سواریاں ہیں جو کشتی کی طرح انسانوں اور سامان تجارت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں، اس میں قیامت تک پیدا ہونے والی چیزیں آگئیں۔ جیسے ہوائی جہاز، بحری جہاز، ریلیں، بسیں، کاریں اور دیگر نقل و حمل کی اشیاء۔ يس
43 يس
44 يس
45 يس
46 ٤٦۔ ١ یعنی توحید اور صداقت رسول کی نشانی بھی ان کے سامنے آتی، اس میں یہ غور ہی نہیں کرتے کہ جس سے ان کو فائدہ ہو، ہر نشانی سے اعراض ان کا شیوہ ہے۔ يس
47 ٤٧۔ ١ یعنی غربا مساکین اور ضرورت مندوں کو دو۔ ٤٧۔ ٢ یعنی اللہ چاہتا تو ان کو غریب ہی نہ کرتا، تاہم ان کو دے کر اللہ کی مشیت کے خلاف کیوں کریں۔ یعنی یہ کہہ کر، غربا کی مدد کرو، کھلی غلطی کا مظاہرہ کر رہے ہو۔ یہ بات تو ان کی صحیح تھی کہ غربت و ناداری اللہ کی مشیت ہی سے تھی، لیکن اس کو اللہ کے حکم سے اعراض کا جواز بنا لینا غلط تھا، آخر انکی امداد کرنے کا حکم دینے والا بھی تو اللہ ہی تھا، اس لیے اسکی رضا تو اسی میں ہے کہ غرباء و مساکین کی امداد کی جائے۔ اس لیے کہ مشیت اور چیز ہے اور رضا اور چیز مشیت کا تعلق امور تکوینی سے ہے جس کے تحت جو کچھ بھی ہوتا ہے، اس کی حکمت و مصلحت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور رضا کا تعلق امور تشریعی سے ہے، جن کو بجا لانے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے تاکہ ہمیں اس کی رضا حاصل ہو۔ يس
48 يس
49 ٤٩۔ ١ یعنی لوگ بازاروں میں خرید و فروخت اور حسب عادت بحث و تکرار میں مصروف ہونگے کہ اچانک صور پھونک دیا جائے گا اور قیامت برپا ہوجائے گی یہ نفخہ اولیٰ ہوگا جسے نفخہ فزع بھی کہتے ہیں کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد دوسرا نفخہ ہوگا۔ نَفْخَۃُ الْصَّعْقِ جس سے اللہ تعالیٰ کے سوا سب موت کی آغوش میں چلے جائیں گے۔ يس
50 يس
51 ٥١۔ ١ پہلے قول کی بنا پر یہ نفخہ ثانیہ اور دوسرے قول کی بنا پر یہ نفخہ ثالثہ ہوگا، جسے نَفْخَۃُ الْبَعْثِ وَالنُّشُور کہتے ہیں، اس سے لوگ قبروں سے زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہونگے۔ (ابن کثیر) يس
52 ٥٢۔ ١ قبر کو خواب گاہ سے تعبیر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قبروں میں ان کو عذاب نہیں ہوگا، بلکہ بعد میں جو ہولناک مناظر اور عذاب کی شدت دیکھیں گے، اس کے مقابلے میں انہیں قبر کی زندگی ایک خواب ہی محسوس ہوگی۔ يس
53 يس
54 يس
55 ٥٥۔ ١ فَاکِھُونَ کے معنی ہیں فَرِحُون خوش مسرت کے ساتھ۔ يس
56 يس
57 يس
58 (١) اللہ کا سلام، فرشتے اہل جنت کو پہنچائیں گے۔ بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود سلام سے نوازے گا۔ يس
59 ٥٩۔ ١ یعنی اہل ایمان سے الگ ہو کر کھڑے ہو۔ یعنی میدان محشر میں اہل ایمان و اطاعت اور اہل کفر و معصیت الگ الگ کردیئے جائیں گے، دوسرا مطلب یہ ہے کہ مجرمین کو ہی مختلف گروہوں میں الگ الگ کردیا جائے گا۔ مثلًا یہودیوں کا گروہ، عیسائیوں کا گروہ، صائبین اور مجوسیوں کا گروہ، زانیوں کا گروہ، شرابیوں کا گروہ وغیرہ وغیرہ۔ يس
60 ٦٠۔ ١ اس سے مراد عہد الست ہے جو حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے نکالنے کے وقت لیا گیا تھا یا وہ وصیت ہے جو پیغمبروں کی زبانی لوگوں کو جاتی رہی۔ اور بعض کے نزدیک وہ دلائل عقلیہ ہیں جو آسمان و زمین میں اللہ نے قائم کئے ہیں۔ (فتح القدیر) (٢) یہ اسکی علت ہے کہ تمہیں شیطان کی عبادت اور اس کے وسوسے قبول کرنے سے اس لیے روکا گیا تھا کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور اس نے تمہیں ہر طرح گمراہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ يس
61 ٦١۔ ١ یعنی یہ بھی عہد لیا تھا کہ تمہیں صرف میری ہی عبادت کرنی ہے، میری عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرنا۔ ٦١۔ ٢ یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا، یہی وہ سیدھا راستہ ہے، جس کی طرف تمام انبیاء لوگوں کو بلاتے رہے اور یہی منزل مقصود یعنی جنت تک پہنچانے والا۔ يس
62 ٦٢۔ ١ یعنی اتنی عقل بھی تمہارے اندر نہیں کہ شیطان تمہارا دشمن ہے، اس کی اطاعت نہیں کرنی چاہئے۔ اور میں تمہارا رب ہوں، میں ہی تمہیں روزی دیتا ہوں اور میں ہی تمہاری رات دن حفاظت کرتا ہوں لہذا تمہیں میری نافرمانی نہیں کرنی چاہیے۔ تم شیطان کی عداوت کو اور میرے حق عبادت کو نہ سمجھ کر نہایت بے عقلی اور نادانی کا مظاہرہ کر رہے ہو۔ يس
63 يس
64 ٦٤۔ ١ یعنی اب اس بے عقلی کا نتیجہ بھگتو اور اپنے کفر کے سبب سے جہنم کی سختیوں کا مزہ چکھو۔ يس
65 ٦٥۔ ١ یہ مہر لگانے کی ضرورت اس لئے پیش آئیگی کہ ابتداءً مشرکین قیامت والے دن بھی جھوٹ بولیں گے اور کہیں گے (وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ) 6۔ الانعام :23) اللہ کی قسم، جو ہمارا رب ہے، ہم مشرک نہیں تھے چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا، جس سے وہ خود تو بولنے کی طاقت سے محروم ہوجائیں گے، البتہ اللہ تعالیٰ اعضائے انسانی کو قوت گویائی عطا فرما دے گا، ہاتھ بولیں گے کہ ہم سے اس نے فلاں فلاں کام کیا تھا اور پاؤں اس پر گواہی دیں گے۔ یوں گویا اقرار اور شہادت، دونوں مرحلے طے ہوجائیں گے۔ علاوہ ازیں ناطق کے مقابلے میں غیر ناطق چیزوں کا بول کر گواہی دینا، حجت واستدلال میں زیادہ بلیغ ہے کہ اس میں ایک اعجازی شان پائی جاتی ہے۔ (فتح القدیر) اس مضموں کو احادیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو صحیح مسلم، کتاب الزھد۔) يس
66 ٦٦۔ ١ یعنی بینائی سے محرومی کے بعد انہیں راستہ کس طرح دکھائی دیتا ؟ لیکن یہ ہمارا حلم و کرم ہے کہ ہم نے ایسا نہیں کیا۔ يس
67 ٦٧۔ ١ یعنی نہ آگے جاسکتے، نہ پیچھے لوٹ سکتے، بلکہ پتھر کی طرح ایک جگہ پڑے رہتے۔ مسخہ کے معنی پیدائش میں تبدیلی کے ہیں، یعنی انسان سے پتھر یا جانور کی شکل میں تبدیل کردینا۔ يس
68 ٦٨۔ ١ یعنی جس کو ہم لمبی عمر دیتے ہیں، ان کی پیدائش کو بدل کر برعکس حالت میں کردیتے ہیں۔ یعنی جب وہ بچہ ہوتا ہے تو اس کی نشو و نما جاری رہتی ہے اور اس کی عقلی اور بدنی قوتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے حتٰی کہ وہ جوانی اور بڑھاپے کو پہنچ جاتا ہے۔ اس کے برعکس اس کے قوائے عقلیہ و بدنیہ میں ضعف و گھٹاؤ کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ حتٰی کہ وہ ایک بچے کی طرح ہوجاتا ہے۔ ٦٨۔ ٢ کہ جو اللہ اس طرح کرسکتا ہے، کیا وہ دوبارہ انسانوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں۔ يس
69 ٦٩۔ ١ مشرکین مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے کے لئے مختلف قسم کی باتیں کہتے رہتے تھے۔ ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ آپ شاعر ہیں اور یہ قرآن پاک آپ کی شاعرانہ تک بندی ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی نفی فرمائی۔ کہ آپ شاعر ہیں اور نہ قرآن شعری کلام کا مجموعہ ہے بلکہ یہ تو صرف نصیحت و موعظت ہے۔ شاعری میں بالعموم مبالغہ، افراط و تفریط اور محض تخیلات کی ندرت کاری ہوتی ہے، یوں گویا اسکی بنیاد جھوٹ پر ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں شاعر محض گفتار کے غازی ہوتے ہیں، کردار کے نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے نہ صرف یہ کہ اپنے پیغمبر کو شعر نہیں سکھلائے، نہ اشعار کی اس پر وحی کی، بلکہ اس کے مزاج وطبیعت کو ایسا بنایا کہ شعر سے اسکو کوئی مناسبت ہی نہیں ھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی کسی کا شعر پڑھتے تو اکثر صحیح نہ پڑھ پاتے اور اسکا وزن ٹوٹ جاتا۔ جس کی مثالیں احادیث میں موجود ہیں۔ یہ احتیاط اس لیے کی گئی کہ منکرین پر اتمام حجت اور انکے شبہات کا خاتمہ کردیا جائے۔ اور وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ قرآن کی شاعرانہ تک بندی کا نتیجہ ہے، جس طرح آپ کی امیت بھی قطع شبہات کے لیے تھی تاکہ لوگ قرآن کی بابت یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ تو اس نے فلاں سے سیکھ پڑھ کر اس کو مرتب کرلیا ہے۔ البتہ بعض مواقع پر آپ کی زبان مبارک سے ایسے الفاظ کا نکل جانا، دو مصرعوں کی طرح ہوتے اور شعری اوزان و بحور کے بھی مطابق ہوتے، آپ کے شاعر ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے۔ کیونکہ ایسا آپ کے قصدو ارادہ کے بغیر ہوا اور ان کا شعری قالب میں ڈھل جانا ایک اتفاق تھا، جس طرح حنین والے دن آپ کی زبان پر بے اختیار یہ رجز جاری ہوگیا۔ انا النبی لا کذب۔ انا ابن عبد المطلب ایک اور موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگلی زخمی ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ ھل أنت الا اصبع دمیت۔ وفی سبیل اللہ ما لقیت يس
70 ٧٠۔ ١ یعنی جس کا دل صحیح ہے، حق کو قبول کرتا اور باطل سے انکار کرتا ہے۔ ٧٠۔ ٢ یعنی جو کفر پر مصر ہو، اس پر عذاب والی بات ثابت ہوجائے۔ لِیُنْذِرَ میں ضمیر کا مرجع قرآن ہے۔ يس
71 ٧١۔ ١ اس سے غیروں کی شرکت کی نفی ہے، ان کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا، کسی اور کا ان کے بناننے میں حصہ نہیں ہے۔ ٧١۔ ٢ اَنْعَام نَعَم کی جمع ہے۔ اس سے مراد چوپائے یعنی اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ دنبہ وغیرہ ہیں۔ ٧١۔ ٣ یعنی جس طرح چاہتے ہیں ان میں تصرف کرتے ہیں، اگر ہم ان کے اندر وحشی پن رکھ دیتے (جیسا کہ بعض جانوروں میں ہے) تو یہ چوپائے ان سے دور بھاگتے اور وہ ان کی ملکیت اور قبضے میں ہی نہ آسکتے۔ يس
72 ٧٢۔ ١ یعنی ان جانوروں سے وہ جس طرح کا بھی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، وہ انکار نہیں کرتے، حتٰی کہ وہ انہیں ذبح بھی کردیتے ہیں اور چھوٹے بچے انہیں کھینچے پھرتے ہیں۔ يس
73 ٧٣۔ ١ یعنی سواری اور کھانے کے علاوہ بھی ان سے بہت سے فوائد حاصل کئے جاتے ہیں مثلًا اون اور بالوں سے کئی چیزیں بنتی ہیں، ان کی چربی سے تیل حاصل ہوتا ہے اور یہ باربرداری اور کھیتی باڑی کے کام بھی آتے ہیں۔ يس
74 ٧٤۔ ١ یہ ان کفران نعمت کا اظہار ہے کہ مذکورہ نعمتیں، جن سے یہ فائدہ اٹھاتے ہیں، سب اللہ کی پیدا کردہ ہیں۔ لیکن یہ بجائے اس کے کہ یہ اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کریں یعنی ان کی عبادت و اطاعت کریں، یہ غیروں سے امیدیں وابستہ کرتے اور انہیں معبود بناتے ہیں۔ يس
75 ٧٥۔ ١ مطلب یہ ہے کہ جن بتوں کو معبود سمجھتے ہیں، وہ ان کی مدد کیا کریں گے؟ وہ خود اپنی مدد کرنے سے قاصر ہیں انہیں کوئی برا کہے ان کی ندامت کرے، تو یہی ان کی حمایت و مدافت میں سرگرم ہوتے ہیں، نہ کہ خود ان کے وہ معبود يس
76 يس
77 يس
78 يس
79 ٧٩۔ ١ یعنی جو اللہ تعالیٰ انسان کو ایک حقیر نطفے سے پیدا کرتا ہے، وہ دوبارہ اس کو زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے؟ اسکی قدرت احیائے موتی کا ایک واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے مرتے وقت وصیت کی کہ مرنے کے بعد اسے جلا کر اس کی آدھی راکھ سمندر میں اور آدھی راکھ تیز ہوا والے دن خشکی میں اڑا دی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ساری راکھ جمع کرکے اسے زندہ فرمایا اور اس سے پوچھا تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس نے کہا تیرے خوف سے۔ چنانچہ اللہ نے اسے معاف فرما دیا۔ يس
80 ٨٠۔ ١ کہتے ہیں عرب میں دو درخت ہیں مرخ اور عفار۔ ان کی دو لکڑیاں آپس میں رگڑی جائیں تو آگ پیدا ہوتی ہے، سبز درخت سے آگ پیدا کرنے کے حوالے سے اس طرف اشارہ مقصود ہے۔ يس
81 ٨١۔ ١ یعنی انسانوں جیسے مطلب انسانوں کا دوبارہ پیدا کرنا جس طرح انہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا، آسمان و زمین کی پیدائش سے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر استدلال ہے۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا (لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ) (اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰٓی اَنْ یُّـحْیِۦ الْمَوْتٰی ۭ بَلٰٓی اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ) 46۔ الاحقاف :33) ' آسمان و زمین کی پیدائش (لوگوں کے نزدیک) انسانوں کی پیدائش سے زیادہ مشکل کام ہے '۔ يس
82 (١) یعنی اس کی شان تو یہ ہے پھر اس کے لیے سب انسانوں کا زندہ کردینا کون سا مشکل معاملہ ہے؟ يس
83 (١) یعنی یہ نہیں ہوگا کہ مٹی میں رل مل کر مبالغے کا صیغہ قرار دیتے ہیں۔ (فتح القدیر) یعنی ملکوت ملک کا مبالغہ ہے۔ ٨٣۔ ١ یعنی یہ نہیں ہوگا کہ مٹی میں رل مل کر تمہارا وجود ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے نہیں بلکہ اسے دوبارہ وجود عطا کیا جائے گا۔ یہ بھی نہیں ہوگا کہ تم بھاگ کر کسی اور کے پاس پناہ طلب کرلو۔ تمہیں ہر حال اللہ ہی کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہوگا، جہاں وہ عملوں کے مطابق اچھی یا بری جزا دے گا۔ يس
0 الصافات
1 الصافات
2 الصافات
3 الصافات
4 ٤۔ ١ فرشتوں کی صفات ہیں۔ آسمانوں پر اللہ کی عبادت کے لئے صف باندھنے والے، یا اللہ کے حکم کے انتظار میں صف بستہ، وعظ و نصیحت کے ذریعے سے لوگوں کو ڈانٹنے والے یا بادلوں کو جہاں اللہ کا حکم ہو وہاں ہانک کرلے جانے والے اللہ کے ذکر یا قرآن کی تلاوت کرنے والے۔ ان فرشتوں کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ نے مضموں میں یہ فرمایا ہے کہ تمام انسانوں کا معبود ایک ہی ہے۔ متعدد نہیں جیسا کہ مشرکین بنائے ہوئے ہیں۔ عرف عام میں قسم تاکید اور شک دور کرنے کے لئے کھائی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ نے یہاں قسم اسی شک کو دور کرنے کے لئے کھائی ہے جو مشرکین اسکی واحدنیت و الوہیت کے بارے میں پھلاتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر چیز کی مخلوق اور مملوک ہے، اس لئے وہ جس چیز کو بھی گواہ بنا کر اس کی قسم کھائے، اس کے لئے جائز ہے۔ لیکن انسانوں کے لئے اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھانا بالکل ناجائز اور حرام ہے۔ کیونکہ قسم میں جس کی قسم کھائی جاتی ہے، اسے گواہ بنانا مقصود ہوتا ہے۔ اور گواہ اللہ کے سوا کوئی نہیں بن سکتا، کہ عالم الغیب صرف وہی ہے، اس کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں۔ الصافات
5 الصافات
6 الصافات
7 ٧۔ ١ یعنی آسمان دنیا پر، زینت کے علاوہ، ستاروں کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ سرکش شیاطین سے حفاظت ہو۔ چنانچہ شیطان آسمان پر کوئی بات سننے کے لئے جاتے ہیں تو ستارے ان پر ٹوٹ گرتے ہیں جس سے بالعموم شیطان جل جاتے ہیں۔ جیسا کہ اگلی آیات اور احادیث سے واضح ہے۔ ستاروں کا ایک تیسرا مقصد رات کی تاریکیوں میں رہنمائی بھی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں دوسرے مقام پر بیان فرمایا گیا ہے۔ ان مقاصد سہ گانہ کے علاوہ ستاروں کا اور کوئی مقصد بیان نہیں کیا گیا ہے۔ الصافات
8 الصافات
9 الصافات
10 الصافات
11 ١١۔ ١ یعنی ہم نے جو زمین ملائکہ اور آسمان جیسی چیزیں بنائی ہیں جو اپنے حجم اور وسعت کے لحاظ سے نہایت انوکھی ہیں۔ کیا ان لوگوں کی پیدائش اور دوبارہ زندہ کرنا، ان چیزوں کی تخلیق سے زیادہ سخت اور مشکل ہے؟ یقینا نہیں۔ ١١۔ ٢ یعنی ان کے باپ آدم (علیہ السلام) کو تو ہم نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ انسان آخرت کی زندگی کو اتنا بعید کیوں سمجھتے ہیں درآں حالیکہ ان کی پیدائش ایک نہایت ہی حقیر اور کمزور چیز سے ہوئی ہے۔ جبکہ خلقت میں ان سے زیادہ قوی، عظیم اور کامل و اتم چیزوں کی پیدائش کا ان کو انکار نہیں۔ (فتح القدیر) الصافات
12 ١٢۔ ١ یعنی آپ کو تو منکرین آخرت کے انکار پر تعجب ہو رہا ہے کہ اس کے امکان بلکہ وضاحت کے اتنے واضح دلائل کے باوجود وہ اسے مان کر نہیں دے رہے اور وہ آپ کے دعوائے قیامت کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ یہ کیوں کر ممکن ہے؟ الصافات
13 الصافات
14 الصافات
15 ١٥۔ ١ یعنی یہ ان کا شیوہ ہے کہ نصیحت قبول نہیں کرتے اور کوئی واضح دلیل یا معجزہ پیش کیا جائے تو مذاق کرتے اور انہیں جادو باور کراتے ہیں۔ الصافات
16 الصافات
17 الصافات
18 ١٨۔ ١ جس طرح دوسرے مقام پر بھی فرمایا ( وَکُلٌّ اَتَوْہُ دٰخِرِیْنَ) 27۔ النمل :87) 'سب اس کی بارگاہ میں ذلیل ہو کر آئیں گے الصافات
19 ١٩۔ ١ یعنی وہ اللہ کے ایک ہی حکم اور اسرافیل (علیہ السلام) کی ایک ہی پھونک (نفخہ ثانیہ) سے قبروں سے زندہ ہو کر نکل کھڑے ہونگے۔ ١٩۔ ٢ یعنی ان کے سامنے قیامت کے ہولناک مناظر اور میدان محشر کی سختیاں ہوں گی جنہیں وہ دیکھیں گے، نفخے یا چیخ کو زجرہ (ڈانٹ) سے تعبیر کیا، کیونکہ اس سے مقصود ڈانٹ ہی ہے الصافات
20 الصافات
21 ٢١۔ ١ فرشتے اور اہل ایمان کہیں گے کہ یہ وہی فیصلے کا دن ہے جسے تم مانتے نہیں تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو کہیں گے۔ الصافات
22 ٢٢۔ ١ یعنی جنہوں نے کفر و شرک اور معاصی کا ارتکاب کیا۔ یہ اللہ کی طرف سے حکم ہوگا۔ ٢٢۔ ٢ اس سے مراد کفر و شرک اور تکذیب رسل کے ساتھ یا بعض کے نزدیک جنات و شیاطین ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ وہ بیویاں ہیں جو کفر و شرک میں ان کی ہمنوا تھیں۔ ٢٢۔ ٣ وہ مورتیاں ہوں یا اللہ کے نیک بندے، سب کو ان کی تذلیل کے لئے جمع کیا جائیے گا۔ تاہم نیک لوگوں کو اللہ جہنم سے دور ہی رکھے گا، اور دوسرے معبودوں کو ان کے ساتھ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ تاہم وہ دیکھ لیں کہ یہ کسی کو نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہیں۔ الصافات
23 الصافات
24 ٢٤۔ ١ یہ حکم جہنم میں لے جانے سے قبل ہوگا، کیونکہ حساب کے بعد ہی جہنم میں جائیں گے۔ الصافات
25 الصافات
26 الصافات
27 الصافات
28 ٢٨۔ ١ اس کا مطلب ہے کہ دین اور حق کے نام سے آتے تھے یعنی باور کراتے تھے کہ یہی اصل دین اور حق ہے اور بعض کے نزدیک مطلب ہے، ہر طرف سے آتے تھے جس طرح شیطان نے کہا میں ان کے آگے، پیچھے سے، ان کے دائیں بائیں سے ہر طرف سے ان کے پاس آؤں گا اور انہیں گمراہ کروں گا (ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ اَیْمَانِہِمْ وَعَنْ شَمَاۗیِٕلِہِمْ ۭ وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَہُمْ شٰکِرِیْنَ) 7۔ الاعراف :17) الصافات
29 ٢٩۔ ١ لیڈر کہیں گے کہ ایمان تم اپنی مرضی سے نہیں لائے اور آج ذمہ دار ہمیں ٹھہرا رہے ہو؟ الصافات
30 ٣٠۔ ١ تابعین اور متبوعین کی یہ باہمی تکرار قرآن کریم میں کئی جگہ بیان کی گئی ہے۔ ان کی ایک دوسرے کو یہ ملامت عرصہ قیامت (میدان محشر) میں ہوگی اور جہنم میں جانے کے بعد جہنم کے اندر بھی ملاحظہ ہو الصافات
31 الصافات
32 ٣٢۔ ١ یعنی جس بات کی پہلے انہیں نفی کی، کہ ہمارا تم پر کونسا زور تھا کہ تمہیں گمراہ کرتے۔ اب اس کا یہاں اعتراف ہے کہ ہاں واقعی ہم نے تمہیں گمراہ کیا تھا۔ لیکن یہ اعتراف اس تنبیہ کے ساتھ کیا کہ ہمیں اس ضمن میں مورد طعن مت بناؤ، اس لئے کہ ہم خود بھی گمراہ ہی تھے، ہم نے تمہیں بھی اپنے جیسا ہی بنانا چاہا اور تم نے آسانی سے ہماری راہ اپنا لی۔ جس طرح شیطان بھی اس روز کہے گا الصافات
33 ٣٣۔ ١ اس لئے کہ ان کا جرم بھی مشترکہ ہے مشرک اور شر و فساد ان سب کا وطیرہ تھا۔ الصافات
34 ٣٤۔ ١ یعنی ہر قسم کے گناہ گاروں کے ساتھ ہمارا یہی معاملہ ہے اور اب وہ سب ہمارا عذاب بھگتیں گے الصافات
35 ٣٥۔ ١ یعنی دنیا میں ان سے کہا جاتا تھا کہ جس طرح مسلمانوں نے یہ کلمہ پڑھ کر شرک سے توبہ کرلی ہے، تم بھی یہ پڑھ لو، تاکہ تم دنیا میں بھی مسلمانوں کے قہر و غضب سے بچ جاؤ اور آخرت میں بھی عذاب الٰہی سے تمہیں دو چار نہ ہونا پڑے، تو تکبر کرتے اور انکار کرتے۔ الصافات
36 ٣٦۔ ١ یعنی انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر اور مجنون کہا اور آپ کی دعوت کو جنون (دیوانگی) اور قرآن کو شعر سے تعبیر کیا اور کہا کہ ایک دیوانے کی دیوانگی پر ہم اپنے معبودوں کو کیوں چھوڑیں؟ حالانکہ یہ دیوانگی نہیں، دانائی تھی، شاعری نہیں، حقیقت تھی اور اس دعوت کو اپنانے میں ان کی ہلاکت نہیں، نجات تھی۔ الصافات
37 ٣٧۔ ١ یعنی تم ہمارے پیغمبر کو شاعر اور مجنون کہتے ہو، جب کہ واقع یہ ہے وہ جو کچھ لایا اور پیش کر رہا ہے وہ سچ ہے اور وہی چیز ہے جو اس سے قبل تمام انبیاء پیش کرتے رہے ہیں۔ کیا یہ کام کسی دیوانے کا یا شاعر کے تخیلات کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ الصافات
38 الصافات
39 ٣٩۔ ١ یہ جہنمیوں کو اس وقت کہا جائے گا جب وہ کھڑے ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہونگے اور ساتھ ہی وضاحت کردی جائے گی کہ یہ ظلم نہیں ہے بلکہ عین عدل ہے کیونکہ یہ سب تمہارے اپنے عملوں کا بدلہ ہے۔ الصافات
40 ٤٠۔ ١ یعنی عذاب سے محفوظ ہونگیں، ان کی کوتاہیوں سے بھی درگزر کردیا جائے گا، اگر کچھ ہونگی اور ایک ایک نیکی کا اجر کئی کئی گنا دیا جائے گا۔ الصافات
41 الصافات
42 الصافات
43 الصافات
44 الصافات
45 ٤٥۔ ١ کَاْسً شراب کے بھرے ہوئے جام کو اور قدح خالی جام کو کہتے ہیں مَعِیْن کے معنی ہیں، جاری چشمہ۔ مطلب یہ ہے کہ جاری چشمے کی طرح، جنت میں شراب ہر وقت میسر ہوگی۔ الصافات
46 ٤٦۔ ١ دنیا میں شراب عام طور پر بدرنگ ہوتی ہے، جنت میں وہ جیسے لذیذ ہوگی خوش رنگ بھی ہوگی۔ الصافات
47 الصافات
48 ٤٨۔ ١ بڑی اور موٹی آنکھیں حسن کی علامت ہے یعنی حسین آنکھیں ہونگی۔ الصافات
49 ٤٩۔ ١ یعنی شتر مرغ اپنے پروں کے نیچے چھپائے ہوئے ہوں، جس کی وجہ سے وہ ہوا اور گردو غبار سے محفوظ ہوں گے۔ الصافات
50 ٥٠۔ ١ جنتی، جنت میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہوئے دنیا کے واقعات یاد کریں گے اور ایک دوسرے کو سنائیں گے۔ الصافات
51 الصافات
52 ٥٢۔ ١ یعنی یہ بات وہ مذاق کے طور پر کہا کرتا تھا، مقصد اس کا یہ تھا یہ تو نہ ممکن ہے کیا ایسی ناممکن الواقع بات پر تو یقین رکھتا ہے؟ الصافات
53 ٥٣۔ ١ یعنی ہمیں زندہ کرکے ہمارا حساب لیا جائے گا اور پھر اس کے مطابق جزا دی جائے گی؟ الصافات
54 ٥٤۔ ١ یعنی وہ جنتی اپنے جنت سے ساتھیوں سے کہے گا کیا تم پسند کرتے ہو کہ ذرا جہنم میں جھانک کر دیکھیں، شاید مجھے یہ باتیں کہنے والا وہاں نظر آجائے تو تمہیں بتلاؤں کہ یہ شخص تھا جو باتیں کرتا تھا۔ الصافات
55 الصافات
56 الصافات
57 ٥٧۔ ١ یعنی جھانکنے پر اسے جہنم کے وسط میں وہ شخص نظر آجائے گا اور اسے یہ جنتی کہے گا کہ مجھے بھی تو گمراہ کر کے ہلاکت میں ڈالنے لگا تھا، یہ تو مجھ پر اللہ کا احسان ہوا، ورنہ آج میں تیرے ساتھ جہنم میں ہوتا۔ الصافات
58 ٥٨۔ ١ جہنمیوں کا حشر دیکھ کر جنتی کے دل میں رشک کا جذبہ مذید بیدار ہوجائے گا اور کہے گا کہ ہمیں جو جنت کی زندگی اور اس کی نعمتیں ملی ہیں کیا یہ دائمی نہیں؟ اب ہمیں موت آنے والی نہیں؟ جنتی ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور جہنمی ہمیشہ جہنم میں رہیں گے، نہ انہیں موت آئے گی کہ جہنم کے عذاب سے چھوٹ جائیں، اور نہ ہمیں کہ جنت کی نعمتوں سے محروم ہوجائیں۔ جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں دوزخ اور جنت کے درمیان لا کر ذبح کردیا جائے گا کہ اب موت کسی کو نہیں آئے گی۔ الصافات
59 ٥٩۔ ١ جو دنیا میں آچکی۔ اب ہمارے لئے موت ہے نہ عذاب۔ الصافات
60 ٦٠۔ ١ اس لئے کہ جہنم سے بچ جانے اور جنت کی نعمتوں کا مستحق قرار پا جانے سے بڑھ کر اور کیا کامیابی ہوگی۔ الصافات
61 ٦١۔ ١ یعنی اس جیسی نعمت اور اس جیسے فضل عظیم ہی کے لئے محنت کرنے والوں کو محنت کرنی چاہئے، اس لئے کہ یہی سب نفع بخش تجارت ہے۔ نہ کہ دنیا کے لئے جو عارضی ہے، اور خسارے کا سودا ہے۔ الصافات
62 ٦٢۔ ١ زَ قوْم تَزَقْم سے نکلا ہے، جس کے معنی بدبودار اور کریہ چیز کے نکلنے کے ہیں۔ اس درخت کا پھل بھی کھانا اہل جہنم کے کے لئے سخت ناگوار ہوگا۔ الصافات
63 ٦٣۔ ١ آزمائش اس لئے کہ اس کا پھل کھانا بجائے خود ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔ بعض نے اسے اس اعتبار سے آزمائش کہا کہ اس کے وجود کا انہوں نے انکار کیا کہ جہنم میں جب ہر طرف آگ ہی آگ ہوگی تو وہاں درخت کس طرح موجود رہ سکتا ہے؟ یہاں ظالمین سے مراد اہل جہنم ہیں جن پر جہنم واجب ہوگی۔ الصافات
64 ٦٤۔ ١ یعنی اس کی جڑ جہنم کی گہرائی میں ہوگی البتہ اس کی شاخیں ہر طرف پھیلی ہوں گی۔ الصافات
65 ٦٥۔ ١ اسے قباحت میں شیطانوں کے سروں سے تشبیہ دی، جس طرح اچھی چیز کے بارے میں کہتے ہیں گویا کہ وہ فرشتہ ہے۔ الصافات
66 ٦٦۔ ١ یہ انہیں نہایت کراہت سے کھانا پڑے گا جس سے ظاہر بات ہے پیٹ بوجھل ہی ہونگے۔ الصافات
67 ٦٧۔ ١ یعنی کھانے کے بعد انہیں پانی کی طلب ہوگی تو کھولتا ہوا پانی انہیں دیا جائے گا، جس کے پینے سے ان کی انتڑیاں کٹ جائیں گی (مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ ۭ فِیْہَآ اَنْہٰرٌ مِّنْ مَّاۗءٍ غَیْرِ اٰسِنٍ ۚ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ ۚ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ ڬ وَاَنْہٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّی ۭ وَلَہُمْ فِیْہَا مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ ۭ کَمَنْ ہُوَ خَالِدٌ فِی النَّارِ وَسُقُوْا مَاۗءً حَمِیْمًا فَقَطَّعَ اَمْعَاۗءَہُمْ) 47۔ محمد :15) الصافات
68 ٦٨۔ ١ یعنی زقوم کے کھانے اور گرم پانی کے پینے کے بعد انہیں دوبارہ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ الصافات
69 الصافات
70 ٧٠۔ ١ یہ جہنم کی مذکورہ سزاؤں کی علت ہے کہ اپنے باپ دادوں کی گمراہی پانے کے باوجود یہ انہی کے نقش قدم پر چلتے رہے اور دلیل و حجت کے مقابلے میں تقلید کو اپنائے رکھا۔ الصافات
71 ٧١۔ ١ یعنی یہی گمراہ نہیں ہوئے، ان سے پہلے لوگ بھی اکثر گمراہی پانے کے باوجود یہ انہی کے نقشے قدم پر چلنے والے تھے۔ الصافات
72 ٧٢۔ ١ یعنی ان سے پہلے لوگوں میں۔ انہوں نے حق کا پیغام پہنچایا اور عدم قبول کی صورت میں انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا، لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اور انہیں تباہ کردیا گیا، جیسا کہ اگلی آیت میں ان کے عبرت ناک انجام کی طرف اشارہ فرمایا۔ الصافات
73 الصافات
74 ٧٤۔ ١ یعنی عبرت ناک انجام سے صرف وہ محفوظ رہے جن کو اللہ نے ایمان و توحید کی توفیق سے نواز کر بچا لیا۔ الصافات
75 ٧٥۔ ١ یعنی ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے باوجود جب قوم کی اکثریت نے ان کو جھٹلایا تو انہوں نے محسوس کرلیا کہ ایمان لانے کی کوئی امید نہیں ہے تو اپنے رب کو پکارا (فَدَعَا رَبَّہٗٓ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ) 54۔ القمر :10) یا اللہ میں مغلوب ہوں میری مدد فرما، چنانچہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کی دعا قبول کی اور ان کی قوم کو طوفان بھیج کر ہلاک کردیا۔ الصافات
76 ٧٦۔ ١ حضرت نوح پر ایمان لانے والے، جن میں ان کے گھر کے افراد بھی ہیں جو مومن تھے بعض مفسرین نے ان کی تعداد ٨٠ بتلائی ہے۔ اس میں آپ کی بیوی اور ایک لڑکا شامل نہیں، جو مومن نہیں تھے، وہ بھی طوفان میں غرق ہوگئے۔ کرب عظیم (زبردست مصیبت) سے مراد وہی سیلاب عظیم ہے جس میں یہ قوم غرق ہوئی۔ الصافات
77 ٧٧۔ ١ اکثر مفسرین کے قول کے مطابق حضرت نوح (علیہ السلام) کے تین بیٹے تھے۔ عام، سام، یافث۔ انہی سے بعد کی نسل انسانی چلی۔ اسی لئے حضرت نوح (علیہ السلام) کو آدم ثانی کہا جاتا ہے یعنی آدم (علیہ السلام) کیطرح، آدم (علیہ السلام) کے بعد یہ دوسرے ابو البشر ہیں۔ سام کی نسل سے عرب، فارس، روم اور یہود و نصاریٰ ہیں۔ عام کی نسل سے سوڈان (مشرق سے مغرب تک) یعنی سندھ، ہند، نوب، زنج، حبشہ، قبط اور بربر وغیرہ ہیں اور یافث کی نسل سے صقالہ، ترک، خزر اور یاجوج و ماجوج وغیرہ ہیں (فتح القدیر) واللہ اعلم الصافات
78 ٧٨۔ ١ یعنی قیامت تک آنے والے اہل ایمان میں ہم نے نوح (علیہ السلام) کا ذکر خیر باقی چھوڑ دیا ہے اور وہ سب نوح (علیہ السلام) پر سلام بھیجتے ہیں اور بھیجتے رہیں گے۔ الصافات
79 الصافات
80 ٨٠۔ ١ یعنی جس طرح نوح (علیہ السلام) کی دعا قبول کرکے، ان کی ذریت کو باقی رکھ کے اور پچھلوں میں ان کا ذکر خیر باقی رکھ کے ہم نے نوح (علیہ السلام) کو عزت و تکریم بخشی۔ اسی طرح جو بھی اپنے اقوال و افعال میں محسن اور اس باب میں راسخ اور معروف ہوگا، اس کے ساتھ بھی ہم ایسا معاملہ کریں گے۔ الصافات
81 الصافات
82 الصافات
83 ٨٣۔ ١ شِیْۃً کے معنی گروہ اور پیروکار کے ہیں۔ یعنی ابراہیم (علیہ السلام) بھی اہل دین و اہل توحید کے اسی گروہ سے ہیں جن کو نوح (علیہ السلام) ہی کی طرح قائم مقام الی اللہ کی توفیق خاص نصیب ہوئی۔ الصافات
84 الصافات
85 الصافات
86 ٨٦۔ ١ یعنی اپنی طرف سے گھڑ کے کہ یہ معبود ہیں، تم اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہو، درآں حالیکہ یہ پتھر اور مورتیاں ہیں۔ الصافات
87 ٨٧۔ ١ یعنی اتنی قبیح حرکت کرنے کے باوجود کیا تم پر ناراض نہیں ہوگا اور تمہیں سزا نہیں دے گا۔ الصافات
88 الصافات
89 ٨٩۔ ١ آسمان پر غور و فکر کے لئے دیکھا جیسا کہ بعض لوگ ایسا کرتے ہیں۔ یا اپنی ہی قوم کے لوگوں کو مغالطے میں ڈالنے کے لئے ایسا کیا، جو کہ ستاروں کی گردش کو حوادث زمانہ میں مؤثر مانتے تھے۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے کہ جب ان کی قوم کا وہ دن آیا، جسے وہ باہر جا کر بطور عید اور قومی تہوار منایا کرتی تھی۔ قوم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ لیکن ابراہیم (علیہ السلام) تنہائی اور موقعے کی تلاش میں تھے، تاکہ ان کے بتوں کا تیاپانچہ (یعنی توڑ پھوڑ دیا جاسکے)۔ چنانچہ انہوں نے یہ موقع غنیمت جانا کہ کل ساری قوم باہر میلے میں چلی جائیگی تو میں اپنا منصوبہ بروئے کار لے آؤں گا۔ اور کہہ دیا کہ میں بیمار ہوں یا آسمانوں کی گردش بتاتی ہے کہ میں بیمار ہونے والا ہوں۔ یہ بات بالکل جھوٹی نہیں تھی، ہر انسان کچھ نہ کچھ بیمار ہوتا ہی ہے، علاوہ ازیں قوم کا شرک ابراہیم (علیہ السلام) کے دل کا ایک مستقل روگ تھا جسے دیکھ وہ کڑتے رہتے تھے، جیسا کہ اس کی ضروری تفصیل سورۃ انبیاء۔ ٦٣ میں گزر چکی ہے۔ الصافات
90 الصافات
91 ٩١۔ ١ یعنی جو حلویات بطور تبرک وہاں پڑی ہوئی تھیں، وہ انہیں کھانے کے لئے پیش کیں، جو ظاہر بات ہے انہیں نہ کھانی تھیں نہ کھائیں بلکہ وہ جواب دینے پر بھی قادر نہ تھے، اس لئے جواب بھی نہیں دیا۔ الصافات
92 الصافات
93 ٩٣۔ ١ مطلب یہ ہے کہ ان کو زور سے مار مار کر توڑ ڈالا۔ الصافات
94 ٩٤۔ ١ یعنی جب میلے سے آئے تو دیکھا کہ ان کے معبود ٹوٹے پھوٹے پڑے ہیں تو فوراً ان کا ذہن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف گیا، کہ یہ کام اسی نے کیا ہوگا، جیسا کہ سورۃ انبیاء میں تفصیل گزر چکی ہے چنانچہ انہیں پکڑ کر عوام کی عدالت میں لے آئے۔ وہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس بات کا موقع مل گیا کہ وہ ان پر ان کی بے عقلی اور ان کے معبودوں کی بے اختیاری واضح کریں۔ الصافات
95 الصافات
96 ٩٦۔ ١ یعنی وہ مورتیاں اور تصویریں بھی جنہیں تم اپنے ہاتھوں سے بناتے اور انہیں معبود سمجھتے ہو، یا مطلق تمہارا عمل جو بھی تم کرتے ہو، ان کا خالق بھی اللہ ہے۔ اس سے واضح ہے کہ بندوں کے افعال کا خالق اللہ ہی ہے، جیسے اہل سنت کا عقیدہ ہے۔ الصافات
97 الصافات
98 ٩٨۔ ١ یعنی آگ کو گلزار بنا کر ان کے مکر و حیلے کو ناکام بنا دیا، پس پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندوں کی چارہ سازی فرماتا ہے اور آزمائش کو عطا میں اور شر کو خیر میں بدل دیتا ہے۔ الصافات
99 ٩٩۔ ١ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ واقعہ بابل (عراق) میں پیش آیا، بالآخر یہاں سے ہجرت کی اور شام چلے گئے اور وہاں جا کر اولاد کے لئے دعا کی (فتح القدیر) الصافات
100 الصافات
101 ١٠١۔ ١ حَلِیْمٍ کہہ کر اشارہ فرما دیا کہ بچہ بڑا ہو کر بردبار ہوگا۔ الصافات
102 ١٠٢۔ ١ یعنی دوڑ دھوپ کے لائق ہوگیا یا بلوغت کے قریب پہنچ گیا، بعض کہتے ہیں کہ اس وقت یہ بچہ ١٣ سال کا تھا۔ ١٠٢۔ ٢ پیغمبر کا خواب، وحی اور حکم الٰہی ہی ہوتا ہے۔ جس پر عمل ضروری ہوتا ہے۔ بیٹے سے مشورے کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ بیٹا بھی امر الٰہی کے لئے کس حد تک تیار ہے۔ الصافات
103 ١٠٣۔ ١ ہر انسان کے منہ (چہرے) پر دو جبین (دائیں اور بائیں) ہوتی ہیں اور درمیان میں پیشانی اس لئے لِلْجَبِیْنِ کا صحیح ترجمہ (کروٹ پر) ہے یعنی اس طرح کروٹ پر لٹا لیا، جس طرح جانور کو ذبح کرتے وقت قبلہ رخ کروٹ پر لٹا یا جاتا ہے، مشہور ہے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے وصیت کی کہ انہیں اس طرح لٹایا جائے کہ چہرہ سامنے نہ رہے جس سے پیار اور شفقت کا جذبہ امر الٰہی پر غالب آنے کا امکان نہ رہے۔ الصافات
104 الصافات
105 ١٠٥۔ ١ یعنی دل کے پورے ارادے سے بچے کو ذبح کرنے کے لئے زمین پر لٹا دینے سے ہی تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا ہے کیونکہ اس سے واضح ہوگیا کہ اللہ کے حکم کے مقابلے میں تجھے کوئی چیز عزیز تر نہیں حتٰی کہ اکلوتا بیٹا بھی۔ الصافات
106 ١٠٦۔ ١ یعنی لاڈلے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم یہ ایک بڑی آزمائش تھی جس پر میں تو سرخرو رہا۔ الصافات
107 ١٠٧۔ ١ یہ بڑا ذبیحہ ایک مینڈھا تھا جو اللہ تعالیٰ نے جنت سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے ذریعے سے بھیجا (ابن کثیر) اسماعیل (علیہ السلام) کی جگہ اسے ذبح کیا گیا اور پھر سنت ابراہیمی کو قیامت تک قرب الٰہی کے حصول کا ایک ذریعہ اور عید الاضحٰی کا سب سے پسندیدہ عمل قرار دے دیا گیا۔ الصافات
108 الصافات
109 الصافات
110 الصافات
111 الصافات
112 ١١٢۔ ١ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مذکورہ واقعے کے بعد اب ایک بیٹے اسحاق (علیہ السلام) کی اور اس کے نبی ہونے کی خوشخبری دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے جس بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا، وہ اسماعیل (علیہ السلام) تھے۔ جو اس وقت ابراہیم (علیہ السلام) کے اکلوتے بیٹے تھے اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت ان کے بعد ہوئی ہے۔ مفسرین کے درمیان اس کی بابت اختلاف۔ ہے کہ ذبیح کون ہے، اسماعیل (علیہ السلام) یا اسحاق علیہ السلام؟ امام ابن جریر نے حضرت اسحاق (علیہ السلام) کو اور ابن کثیر اور اکثر مفسرین نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو ذبیح قرار دیا ہے اور یہی بات صحیح ہے۔ امام شوکانی نے اس میں تو قف اختیار کیا (تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر فتح القدیر اور تفسیر ابن کثیر الصافات
113 ١١٣۔ ١ یعنی ان دونوں کی اولاد کو بہت پھیلایا اور انبیاء و رسل کی زیادہ تعداد انہی کی نسل سے ہوئی۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے بیٹے یعقوب (علیہ السلام) ہوئے، جن کے بارہ بیٹوں سے بنی اسرائیل کے ١٢ قبیلے بنے اور ان سے بنی اسرائیل کی قوم بڑھی اور پھیلی اور اکثر انبیاء ان ہی میں سے ہوئے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دوسرے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) سے عربوں کی نسل چلی اور ان میں آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوئے۔ ١١٣۔ ٢ شرک اور معصیت، ظلم و فساد کا ارتکاب کرکے خاندان ابراہیمی میں برکت کے باوجود نیک و بد کے ذکر سے اس طرف اشارہ کردیا کہ خاندان اور آبا کی نسبت، اللہ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ وہاں تو ایمان اور عمل صالح کی اہمیت ہے، یہود و نصاریٰ اگرچہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں۔ اس طرح مشرکین عرب حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد سے ہیں۔ لیکن ان کے جو اعمال ہیں وہ کھلی گمراہی یا شرک و معصیت پر مبنی ہیں۔ اس لئے یہ اونچی نسبتیں ان کے لئے عمل کا بدل نہیں ہو سکتیں۔ الصافات
114 ١١٤۔ ١ یعنی انہیں نبوت و رسالت اور دیگر انعامات سے نوازا۔ الصافات
115 ١١٥۔ ١ یعنی فرعون کی غلامی اور اس کے ظلم وستم سے نجات۔ الصافات
116 الصافات
117 الصافات
118 الصافات
119 الصافات
120 الصافات
121 الصافات
122 الصافات
123 ١٢٣۔ ١ یہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ایک اسرائیلی نبی تھے۔ یہ جس علاقے میں بھیجے گئے تھے اس کا نام بعلبک تھا، بعض کہتے ہیں اس جگہ کا نام سامرہ ہے جو فلسطین کا مغربی وسطی علاقہ ہے۔ یہاں کے لوگ بعل نامی بت کے پجاری تھے (بعض کہتے ہیں یہ دیوی کا نام تھا الصافات
124 ١٢٤۔ ١ یعنی اس کے عذاب اور گرفت سے، کہ اسے چھوڑ کر تم غیر اللہ کی عبادت کرتے ہو۔ الصافات
125 الصافات
126 ١٢٦۔ ١ یعنی اس کی عبادت پرستش کرتے ہو، اس کے نام کی نذر نیاز دیتے اور اس کو حاجت روا سمجھتے ہو، جو پتھر کی مورتی ہے اور جو ہر چیز کا خالق اور اگلوں پچھلوں سب کا رب ہے، اس کو تم نے فراموش کر رکھا ہے۔ الصافات
127 ١٢٧۔ ١ یعنی توحید و ایمان سے انکار کی پاداش میں جہنم کی سزا بھگتیں گے۔ الصافات
128 الصافات
129 الصافات
130 ١٣٠۔ ١ الیاسین، الیاس (علیہ السلام) کا ہی ایک تلفظ ہے، جیسے طور سینا کو طور سینین بھی کہتے ہیں، حضرت الیاس (علیہ السلام) کو دوسری کتابوں میں (ایلیا) بھی کہا گیا ہے۔ الصافات
131 الصافات
132 الصافات
133 الصافات
134 الصافات
135 ١٣٥۔ ١ اس سے مراد حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی ہے جو کافرہ تھی، یہ اہل ایمان کے ساتھ اس بستی سے باہر نہیں گئی تھی، کیونکہ اسے اپنی قوم کے ساتھ ہلاک ہونا تھا، چنانچہ وہ بھی ہلاک کردی گئی۔ الصافات
136 الصافات
137 الصافات
138 ١٣٨۔ ١ یہ اہل مکہ سے خطاب ہے جو تجارتی سفر میں ان تباہ شدہ علاقوں سے آتے جاتے، گزرتے تھے ان کو کہا جارہا ہے کہ تم صبح کے وقت بھی اور رات کے وقت بھی ان بستیوں سے گزرتے ہو، جہاں اب مردار بحیرہ ہے، جو دیکھنے میں بھی نہایت کریہ ہے اور سخت متعفن اور بدبودار۔ کیا تم انہیں دیکھ کر یہ بات نہیں سمجھتے کہ رسولوں کے جھٹلانے کی وجہ سے ان کا یہ بد انجام ہوا، تو تمہاری اس روش کا انجام بھی اس سے مختلف کیوں کر ہوگا ؟ جب تم بھی وہی کام کر رہے ہو، جو انہوں نے کیا تو پھر اللہ کے عذاب سے کیوں کر محفوظ رہو گے۔ الصافات
139 الصافات
140 الصافات
141 الصافات
142 ١٤٢۔ ١ حضرت یونس (علیہ السلام) عراق کے علاقے نینوی (موجودہ موصل) میں نبی بنا کر بھیجے گئے، یہ آشوریوں کا پایہ تخت تھا، انہوں نے ایک لاکھ بنواسرائیلیوں کو قیدی بنایا ہوا تھا، چنانچہ ان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف حضرت یونس (علیہ السلام) کو بھیجا، لیکن یہ قوم آپ پر ایمان نہ لائی۔ بالآخر اپنی قوم کو ڈرایا کہ عنقریب تم عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاؤ گے۔ عذاب میں تاخیر ہوئی تو اللہ کی اجازت کے بغیر ہی اپنے طور پر وہاں سے نکل گئے اور سمندر پر جا کر ایک کشتی میں سوار ہوگئے۔ اپنے علاقے سے نکل کر جانے کو ایسے لفظ سے تعبیر کیا جس طرح ایک غلام اپنے آقا سے بھاگ کر چلا جاتا ہے۔ کیونکہ آپ بھی اللہ کی اجازت کے بغیر ہی اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے گئے۔ کشتی سواروں اور سامان سے بھری ہوئی تھی۔ کشتی سمندر کی موجوں میں گھر گئی اور کھڑی ہوگئی۔ چنانچہ اس کا وزن کم کرنے کے لئے ایک آدھ آدمی کو کشتی سے سمندر میں پھینکنے کی تجویز سامنے آئی تاکہ کشتی میں سوار دیگر انسانوں کی جانیں بچ جائیں۔ لیکن قربانی دینے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا اس لئے قرعہ اندازی کرنی پڑی، جس میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا نام آیا۔ اور وہ مغلوبین میں سے ہوگئے، یعنی طوحًا و کرھًا اپنے آپ کو بھاگے ہوئے غلام کی طرح سمندر کی موجوں کے سپرد کرنا پڑا۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ وہ انہیں ثابت نگل لے اور یوں حضرت یونس (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے الصافات
143 الصافات
144 ١٤٤۔ ١ یعنی توبہ استغفار اور اللہ کی تسبیح بیان نہ کرتے، (جیسا کہ انہوں نے کہا (وَدَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْکُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْہِ غَنَمُ الْقَوْمِ ۚ وَکُنَّا لِحُـکْمِہِمْ شٰہِدِیْنَ) 21۔ الانبیاء :78) تو قیامت تک وہ مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے۔ الصافات
145 ١٤٥۔ ١ جیسے ولادت کے وقت بچہ یا جانور کا چوزہ ہوتا ہے، کمزور اور ناتواں۔ الصافات
146 ١٤٦۔ ١ یَقْطِیْنِ ہر اس بیل کو کہتے ہیں جو اپنے تنے پر کھڑی نہیں ہوتی، جیسے لوکی، کدو وغیرہ کی بیل اس چٹیل میدان میں جہاں کوئی درخت تھا نہ عمارت۔ ایک سایہ دار بیل اگا کر ہم نے ان کی حفاظت فرمائی۔ الصافات
147 الصافات
148 ١٤٨۔ ١ ان کے ایمان لانے کی کیفیت کا بیان (فَلَوْلَا کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَہَآ اِیْمَانُہَآ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ ۭ لَمَّآ اٰمَنُوْا کَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنٰھُمْ اِلٰی حِیْنٍ) 10۔ یونس :98) میں گزر چکا ہے۔ الصافات
149 الصافات
150 ١٥٠۔ ١ یعنی فرشتوں کو جو یہ اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں تو کیا جب ہم نے فرشتے پیدا کئے تھے، یہ اس وقت وہاں موجود تھے اور انہوں نے فرشتوں کو عورتوں والی خصوصیات کا مشاہدہ کیا تھا۔ الصافات
151 الصافات
152 الصافات
153 ١٥٣۔ ١ جب کہ یہ خود اپنے لئے بیٹیاں نہیں، بیٹے پسند کرتے ہیں۔ الصافات
154 الصافات
155 ١٥٥۔ ١ کہ اگر اللہ کی اولاد ہوتی تو ان کا کہیں ذکر ہوتا، جس کو تم بھی پسند کرتے اور بہتر سمجھتے ہو، نہ کہ بیٹیاں، جو تمہاری نظروں میں کمتر اور حقیر ہیں۔ الصافات
156 الصافات
157 ١٥٧۔ ١ یعنی عقل تو اس عقیدے کی صحت کو تسلیم نہیں کرتی کہ اللہ کی اولاد ہے، اور وہ بھی مؤنث، چلو کوئی نقلی دلیل ہی دکھا دو، کوئی کتاب جو اللہ نے اتاری ہو، اس میں اللہ کی اولاد کا اعتراف یا حوالہ ہو؟ الصافات
158 ١٥٨۔ ١ یہ اشارہ ہے مشرکین کے اس عقیدے کی طرف کہ اللہ نے جنات کے ساتھ رشتہ ازدواج قائم کیا، جس سے لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ یہی اللہ کی بیٹیاں، فرشتے ہیں۔ یوں اللہ تعالیٰ اور جنوں کے درمیان قرابت داری (سسرالی رشتہ) قائم ہوگیا۔ ١٥٨۔ ٢ حالانکہ یہ بات کیوں کر صحیح ہو سکتی ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ جنات کو عذاب میں کیوں ڈالتا ؟ کیا وہ اپنی قرابت داری کا لحاظ نہ کرتا ؟ اور اگر ایسا نہیں ہے بلکہ خود جنات بھی جانتے ہیں کہ انہیں عتاب و عذاب الٰہی بھگتنے کے لئے ضرور جہنم میں جانا ہوگا، تو پھر اللہ اور جنوں کے درمیان قرابت داری کس طرح ہوسکتی ہے۔ الصافات
159 الصافات
160 ١٦٠۔ ١ یعنی اللہ کے بارے میں ایسی باتیں نہیں کہتے جن سے وہ پاک ہے۔ یہ مشرکین ہی کا شیوہ ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ جہنم میں جنات اور مشرکین ہی حاضر کئے جائیں گے، اللہ کے مخلص (چنے ہوئے) بندے نہیں۔ ان کے لئے تو اللہ نے جنت تیار کر رکھی ہے۔ الصافات
161 الصافات
162 الصافات
163 ١٦٣۔ ١ یعنی تم اور تمہارے معبودان باطلہ کسی کو گمراہ کرنے پر قادر نہیں ہیں، سوائے ان کے جو اللہ کے علم میں پہلے ہی جہنمی ہیں۔ اور اسی وجہ سے وہ کفر و شرک پر مصر ہیں۔ الصافات
164 ١٦٤۔ ١ یعنی اللہ کی عبادت کے لئے۔ یہ فرشتوں کا قول ہے۔ الصافات
165 الصافات
166 ١٦٦۔ ١ مطلب یہ کہ فرشتے بھی اللہ کی مخلوق اور اس کے خاص بندے ہیں جو ہر وقت اللہ کی عبادت میں اور اس کی تسبیح میں مصروف رہتے ہیں، نہ کہ وہ اللہ کی بیٹیاں ہیں جیسا کہ مشرکین کہتے ہیں۔ الصافات
167 الصافات
168 الصافات
169 ١٦٩۔ ١ ذکر سے مراد کوئی کتاب الٰہی یا پیغمبر ہے، یعنی یہ کفار نزول قرآن سے پہلے کہا کرتے تھے کہ ہمارے پاس بھی کوئی آسمانی کتاب ہوتی، جس طرح پہلے لوگوں پر تورات وغیرہ نازل ہوئیں یا کوئی ہاوی ہمیں وعظ و نصیحت کرنے والا ہوتا، تو ہم بھی اللہ کے خالص بندے بن جاتے۔ الصافات
170 ١٧٠۔ ١ یہ تنبہہ ہے کہ جھٹلانے کا انجام عنقریب ان کو معلوم ہوجائے گا۔ الصافات
171 الصافات
172 الصافات
173 ١٧٣۔ ١ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا، (کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ) 58۔ المجادلہ :21)۔ الصافات
174 ١٧٤۔ ١ یعنی ان کی باتوں اور ایذاؤں پر صبر کیجئے۔ الصافات
175 ١٧٥۔ ١ کہ کب ان پر اللہ کا عذاب آتا ہے؟ الصافات
176 الصافات
177 ١٧٧۔ ١ مسلمان جب خیبر پر حملہ کرنے گئے، تو یہودی انہیں دیکھ کر گھبرا گئے، جس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اللہ اکبر کہ کر فرمایا (خَربَتْ خیبرُ، اِنَّا اِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَۃِ فَوْمِ فَسَاءَ صَبَاحْ الْمُنْذَرِیْنَ) (صحیح بخاری) الصافات
178 الصافات
179 ١٧٩۔ ١ یہ بطور تاکید دوبارہ فرمایا۔ یا پہلے جملے سے مراد دنیا کا وہ عذاب ہے جو اہل مکہ پر بدر و احد اور دیگر جنگوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں کافروں کے قتل و سلب کی صورت میں آیا۔ اور دوسرے جملے میں اس عذاب کا ذکر ہے جس سے یہ کفار و مشرکین آخرت میں دوچار ہوں گے۔ الصافات
180 ١٨٠۔ ١ اس میں عیوب و نقائص سے اللہ کے پاکیزہ ہونے کا بیان ہے جو مشرکین اللہ کے لئے بیان کرتے ہیں، مثلًا اس کی اولاد ہے، یا اس کا کوئی شریک ہے۔ یہ کو تاہیاں بندوں کے اندر ہیں اور اولاد یا شریکوں کے ضرورت مند بھی وہی ہیں، اللہ ان سب باتوں سے بہت بلند اور پاک ہے۔ کیونکہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہے کہ اسے اولاد کی یا کسی شریک کی ضرورت پیش آئے۔ الصافات
181 ١٨١۔ ١ کہ انہوں نے اللہ کا پیغام اہل دنیا کی طرف پہنچایا، جس پر یقینا وہ سلام کے مستحق ہیں۔ الصافات
182 ١٨٢۔ ١ یہ بندوں کو سمجھایا جارہا ہے کہ اللہ نے تم پر احسان کیا ہے، پیغمبر بھیجے، کتابیں نازل کیں اور پیغمبروں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچایا، اس لئے تم اللہ کا شکر ادا کرو۔ بعض کہتے ہیں کہ کافروں کو ہلاک کرکے اہل ایمان اور پیغمبروں کو بچایا، اس پر شکر الٰہی کرو۔ حمد کے معنی ہیں بہ قصد تعظیم ثناء جمیل، ذکر خیر اور عظمت شان بیان کرنا۔ الصافات
0 ص
1 ١۔ ١ جس میں تمہارے لئے ہر قسم کی نصیحت اور ایسی باتیں ہیں، جن سے تمہاری دنیا سنور جائے اور آخرت بھی بعض نے ذی الذکر کا ترجمہ شان اور مرتبت والا، کیے ہیں، امام ابن کثیر فرماتے ہیں۔ دونوں معنی صحیح ہیں۔ اس لئے کہ قرآن عظمت شان کا حامل بھی ہے اور اہل ایمان و تقویٰ کے لئے نصیحت اور درس عبرت بھی، اس قسم کا جواب محذوف ہے کہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح کفار مکہ کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساحر، شاعر یا جھوٹے ہیں، بلکہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں جن پر یہ ذی شان قرآن نازل ہوا۔ ص
2 ٢۔ ١ یعنی یہ قرآن تو یقینا شک سے پاک اور ان کے لئے نصیحت ہے جو اس سے عبرت حاصل کریں البتہ ان کافروں کو اس سے فائدہ اس لئے نہیں پہنچ رہا ہے ان کے دماغوں میں استکبار اور غرور ہے اور دلوں میں مخالفت و عناد۔ عزت کے معنی ہوتے ہیں۔ حق کے مقابلے میں اکڑنا۔ ص
3 ٣۔ ١ جو ان سے زیادہ مضبوط اور قوت والے تھے لیکن کفر و جھٹلانے کی وجہ سے برے انجام سے دوچار ہوئے۔ ص
4 ٤۔ ١ یعنی انہی کی طرح کا ایک انسان رسول کس طرح بن گیا۔ ص
5 ٥۔ ١ یعنی ایک ہی اللہ ساری کائنات کا نظام چلانے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی طرح عبادت اور نذر و نیاز کا مستحق بھی صرف وہی ایک ہے؟ یہ ان کے لئے تعجب انگیز بات تھی۔ ص
6 ٦۔ ١ یعنی اپنے دین پر جمے رہو اور بتوں کی پوجا کرتے رہو، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات پر کان مت دھرو! ٦۔ ٢ یعنی یہ ہمیں ہمارے معبودوں سے چھڑا کر دراصل اپنے پیچھے لگانا اور اپنی قیادت منوانا چاہتا ہے۔ ص
7 ٧۔ ١ پچھلے دین سے مراد تو ان کا دین قریش ہے، یا پھر دین نصاریٰ یعنی یہ جس توحید کی دعوت دے رہا ہے، اس کی بابت تو ہم نے کسی بھی دین میں نہیں سنا۔ ٧۔ ٢ یعنی یہ توحید صرف اس کی اپنی من گھڑت ہے، ورنہ عیسائیت میں بھی اللہ کے ساتھ دوسروں کو الوہیت میں شریک تسلیم کیا گیا ہے۔ ص
8 ٨۔ ١ یعنی مکے میں بڑے بڑے چودھری اور رئیس ہیں، اگر اللہ کسی کو نبی بنانا ہی چاہتا تو ان میں سے کسی کو بناتا۔ ان سب کو چھوڑ کر وحی رسالت کے لئے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتخاب بھی عجیب ہے؟ یہ گویا انہوں نے اللہ کے انتخاب میں کیڑے نکالے۔ سچ ہے خوئے بد را بہانہ بسیار۔ دوسرے مقام پر بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے مثلاً سورۃ زخرف۔ ٣١، ٣٢۔ ٨۔ ٢ یعنی ان کا انکار اس لئے نہیں ہے کہ انہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کا علم نہیں ہے یا آپ کی سلامت عقل سے انہیں انکار ہے بلکہ یہ اس وحی کے بارے میں ہی شک میں مبتلا ہیں جو آپ پر نازل ہوئی، جس میں سب سے نمایا توحید کی دعوت ہے۔ ص
9 ٩۔ ١ کہ جس کو چاہیں دیں اور جس چاہیں نہ دیں، انہی خزانوں میں نبوت بھی ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے، بلکہ رب کے خزانوں کا مالک وہی وہاب ہے جو بہت دینے والا ہے، تو پھر انہیں نبوت محمدی سے انکار کیوں ہے؟ جسے اس نوازنے والے رب نے اپنی رحمت خاص سے نوازا ہے۔ ص
10 ١٠۔ ١ یعنی آسمان پر چڑھ کر اس وحی کا سلسلہ منقطع کردیں جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوتی ہے۔ ص
11 ١١۔ ١ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد اور کفار کی شکست کا وعدہ ہے۔ یعنی کفار کا یہ لشکر جو باطل لشکروں میں سے ایک لشکر ہے، بڑا ہے، یا حقیر، اس کی قطعًا پروا نہ کریں نہ اس سے خوف کھائیں، شکست ان کا مقدر ہے، ھُنَالِکَ مکان بعید کی طرف اشارہ ہے جو جنگ بدر اور یوم فتح مکہ کی طرف بھی ہوسکتا ہے۔ جہاں کافر عبرت ناک شکست سے دوچار ہوئے۔ ص
12 ١٢۔ ١ فرعون کو میخوں والا اس لئے کہا کہ وہ ظالم جب کسی پر غضبناک ہوتا تو اس کے ہاتھوں پیروں اور سر میں میخیں گاڑ دیتا تھا۔ ص
13 ١٣۔ ١ اَ صْحَاب الاَیْکۃِ کے لئے دیکھئے (وَمَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَاِنْ نَّظُنُّکَ لَمِنَ الْکٰذِبِیْنَ) 26۔ الشعراء :186) کا حاشیہ ص
14 ص
15 ١٥۔ ١ یعنی صور پھونکنے کا جس سے قیامت برپا ہوجائے گی۔ ١٥۔ ٢ صور پھونکنے کی دیر ہوگی کہ قیامت کا زلزلہ برپا ہوجائے گا۔ ص
16 ١٦۔ ١ یعنی ہمارے نامہ اعمال کے مطابق ہمارے حصے میں اچھی یا بری سزا جو بھی ہے، یوم حساب آنے سے پہلے ہی دنیا میں دے دے۔ یہ و قوع قیامت کو ناممکن سمجھتے ہوئے انہوں نے تمسخر کے طور پر کہا۔ ص
17 ١٧۔ ١ قوت و شدت۔ اسی سے تائید بمعنی تقویت ہے۔ اس قوت سے مراد دینی قوت و صلاحیت ہے، جس طرح حدیث میں آتا ہے ' کہ اللہ کو سب سے زیادہ محبوب نماز، داؤد (علیہ السلام) کی نماز اور سب سے زیادہ محبوب روزے، داؤد (علیہ السلام) کے روزے ہیں، وہ نصف رات سوتے، پھر اٹھ کر رات کا تہائی حصہ قیام کرتے اور پھر اس کے چھٹے حصے میں سو جاتے۔ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن ناغہ کرتے اور جنگ میں فرار نہ ہوتے (صحیح بخاری) ص
18 ص
19 ١٩۔ ١ یعنی اشراق کے وقت اور آخر دن کو پہاڑ بھی داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ مصروف تسبیح ہوتے اور اڑتے جانور بھی زبور کی قرأت سن کر ہوا ہی میں جمع ہوجاتے اور ان کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے۔ ص
20 ٢٠۔ ١ ہر طرح کی مادی اور روحانی اسباب کے ذریعے سے۔ ٢٠۔ ٢ یعنی، نبوت، اصبات رائے، قول سداد اور نیک کام۔ ٢٠۔ ٣ یعنی مقدمات کے فیصلے کرنے کی صلاحیت، بصیرت اور استدلال و بیان کی قوت۔ ص
21 ٢١۔ ١ مِحْرَاب سے مراد کمرہ ہے جس میں سب سے علیحدہ ہو کر یکسوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے۔ دروازے پر پہرے دار ہوتے، تاکہ کوئی اندر آکر عبادت میں مخل نہ ہو۔ جھگڑا کرنے والے پیچھے سے دیوار پھاند کر اندر آگئے۔ ص
22 ٢٢۔ ١ آنے والوں نے تسلی دی کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے درمیان ایک جھگڑا ہے، ہم آپ سے فیصلہ کرانے آئے ہیں، آپ حق کے ساتھ فیصلہ بھی فرمائیں اور سیدھے راستے کی طرف ہماری رہنمائی بھی۔ ص
23 ٢٣۔ ١ بھائی سے مراد دینی بھائی یا شریک کاروبار یا دوست ہے۔ سب پر بھائی کا اطلاق صحیح ہے۔ ٢٣۔ ٢ یعنی ایک دنبی بھی میری دنبیوں میں شامل کر دے تاکہ میں ہی اس کا بھی ضامن اور کفیل ہوجاؤں۔ ٢٣۔ ٣ دوسرا ترجمہ ہے ' اور یہ گفتگو میں بھی مجھ پر غالب آگیا ' یعنی جس طرح اس کے پاس مال زیادہ ہے، زبان کا بھی مجھ سے زیادہ تیز ہے اور اس تیزی و طراری کی وجہ سے لوگوں کو قائل کرلیتا ہے۔ ص
24 ٢٤۔ ١ یعنی انسانوں میں یہ کوتاہی عام ہے کہ ایک شریک دوسرے پر زیادتی کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ دوسرے کا حصہ بھی خود ہی ہڑپ کر جائے۔ ٢٤۔ ٢ البتہ اس اخلاقی کوتاہی سے اہل ایمان محفوظ ہیں، کیونکہ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے اور عمل صالح کے پابند ہوتے ہیں اس لئے کسی پر زیادتی کرنا اور دوسروں کا مال ہڑپ کر جانے کی سعی کرنا، ان کے مزاج میں شامل نہیں ہوتا۔ وہ تو دینے والے ہوتے ہیں، لینے والے نہیں۔ تاہم ایسے بلند کردار لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ ص
25 ص
26 ص
27 ٢٧۔ ١ بلکہ ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ یہ کہ میرے بندے میری عبادت کریں، جو ایسا کرے گا، میں اسے بہترین جزا سے نوازوں گا اور جو میری عبادت و اطاعت سے سرتابی کرے گا، اس کے لئے جہنم کا عذاب ہے۔ ص
28 ص
29 ص
30 ص
31 ٣١۔ ١ یعنی حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بغرض جہاد جو گھوڑے پالے ہوئے تھے، وہ عمدہ نسل تیز رو گھوڑے حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر معائنے کے لئے پیش کئے گئے، ظہر یا عصر سے لے کر آخر دن تک کے وقت کو کہتے ہیں، جسے شام سے تعبیر کرتے ہیں۔ ص
32 ص
33 ٣٣۔ ١ اس آیت کا مفہوم۔ مطلب ہوگا کہ گھوڑوں کے معانیہ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی عصر کی نماز یا وظیفہ خاص رہ گیا جو اس وقت کرتے تھے جس پر انہیں سخت صدمہ ہوا اور کہنے لگے کہ میں گھوڑوں کی محبت میں اتنا گم ہوگیا کہ سورج کا پردہ مغرب میں چھپ گیا اور اللہ کی یاد، نماز یا وظیفہ رہ گیا۔ چنانچہ اس کی تلافی اور ازالے کے لئے انہوں نے سارے گھوڑے اللہ کی راہ میں قتل کر ڈالے، امام شوکانی اور ابن کثیر وغیرہ نے اس تفسیر کو ترجیح دی ہے ص
34 ٣٤۔ ١ یہ آزمائش کیا تھی، کرسی پر ڈالا گیا جسم کس چیز کا تھا ؟ اور اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کی بھی کوئی تفصیل قرآن کریم یا حدیث میں نہیں ملتی۔ البتہ بعض مفسرین نے صحیح حدیث سے ثابت ایک واقعہ کو اس پر چسپاں کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ میں آج کی رات اپنی تمام بیویوں سے (جن کی تعداد ٧٠ یا ٩٠ تھی) ہم بستری کرونگا تاکہ ان سے شاہ سوار پیدا ہوں جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ اور اس پر انشاء اللہ نہیں کہا تھا (یعنی صرف اپنی ہی تدبیر پر سارا اعتماد کیا) نتیجہ یہ ہوا کہ سوائے ایک بیوی کے کوئی بیوی حاملہ نہیں ہوئی۔ اور حاملہ بیوی نے جو بچہ جنا، وہ ناقص یعنی آدھا تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر سلیمان (علیہ السلام) انشاء اللہ کہہ لیتے تو سب سے مجاہد پیدا ہوتے (صحیح بخاری) ص
35 ٣٥۔ ١ یعنی شاہ سواروں کی فوج پیدا ہونے کی آرزو، تیری حکمت و مشیت کے تحت پوری نہیں ہوئی، لیکن اگر مجھے ایسی با اختیار بادشاہت عطا کر دے کہ ویسی بادشاہت میرے سوا یا میرے بعد کسی کے پاس نہ ہو، تو پھر اولاد کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ یہ دعا بھی اللہ کے دین کے غلبے کے لئے ہی تھی۔ ص
36 ٣٦۔ ١ ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کی دعا قبول کرلی اور ایسی بادشاہی عطا کی جس میں ہوا بھی ان کے ماتحت تھی، جہاں ہوا کو نرمی سے چلنے والا بتایا ہے، جب کہ دوسرے مقام پر اسے تند و تیز کہا جس کا مطلب یہ ہے کہ ہوا پیدائشی قوت کے لحاظ سے تند ہے۔ لیکن سلیمان (علیہ السلام) کے لئے اسے نرم کردیا گیا یا حسب ضرورت وہ کبھی تند ہوتی کبھی نرم، جس طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) چاہتے (فتح القدیر) ص
37 ص
38 ٣٨۔ ١ جنات میں سے جو سرکش یا کافر ہوتے، انہیں بیڑیوں میں جکڑ دیا جاتا، تاکہ وہ اپنے کفر یا سرکشی کی وجہ سے سرتابی نہ کرسکیں۔ ص
39 ٣٩۔ ١ یعنی تیری دعا کے مطابق ہم نے تجھے عظیم بادشاہی سے نواز دیا، اب انسانوں میں سے جس کو چاہے دے، جسے چاہے نہ دے، تجھ سے ہم حساب بھی نہیں لیں گے۔ ص
40 ٤٠۔ ١ یعنی دنیاوی جاہ و مرتبت عطا کرنے کے باوجود آخرت میں بھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو قرب خاص اور مقام خاص حاصل ہوگا۔ ص
41 ٤١۔ ١ حضرت ایوب (علیہ السلام) کی بیماری اور اس میں ان کا صبر مشہور ہے جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اہل و مال کی تباہی اور بیماری کے ذریعے سے ان کی آزمائش کی جس میں وہ کئی سال مبتلا رہے۔ حتٰی کہ صرف ایک بیوی ان کے ساتھ رہ گئی جو صبح شام ان کی خدمت کرتی اور ان کو کہیں کام کاج کرکے بقدر کفالت رزق کا انتظام بھی کرتی۔ اس کی نسبت شیطان کی طرف اس لئے کی گئی ہے درآں حالیکہ سب کچھ کرنے والا صرف اللہ ہی ہے، کہ ممکن ہے شیطان کے وسوسے ہی کسی ایسے عمل کا سبب بنے ہوں جس پر یہ آزمائش آئی یا پھر بطور ادب کے ہے کہ خیر کا اللہ تعالیٰ کی طرف اور شر کو اپنی یا شیطان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ ص
42 ٤٢۔ ١ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمائی اور ان سے کہا کہ زمین پر پاؤں مارو، جس سے ایک چشمہ جاری ہوگیا۔ اس کے پانی پینے سے اندرونی بیماریاں اور غسل کرنے سے ظاہری بیماریاں دور ہوگئیں بعض کہتے ہیں کہ یہ دو چشمے تھے، ایک سے غسل فرمایا اور دوسرے سے پانی پیا۔ لیکن قرآن کے الفاظ سے پہلی بات کی تائید ہوتی ہے، یعنی ایک ہی چشمہ تھا۔ ص
43 ٤٣۔ ١ بعض کہتے ہیں کہ پہلا کنبہ جو بطور آزمائش ہلاک کردیا گیا تھا، اسے زندہ کردیا گیا اور اس کی مثل اور مذید کنبہ عطا کردیا گیا۔ لیکن یہ بات کسی مستند ذریعے سے ثابت نہیں ہے، زیادہ صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ نے پہلے سے زیادہ مال و اولاد سے انہیں نواز دیا جو پہلے سے دگنا تھا۔ ٤٣۔ ٢ یعنی ایوب (علیہ السلام) کو سب کچھ دوبارہ عطا کیا، تو اپنی رحمت خاص کے اظہار کے علاوہ اس کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اہل دانش اس سے نصیحت حاصل کریں اور وہ بھی ابتلاء و شدائد پر اسی طرح صبر کریں جس طرح ایوب (علیہ السلام) نے کیا۔ ص
44 ٤٤۔ ١ بیماری کے ایام میں خدمت گزار بیوی کسی بات سے ناراض ہو کر حضرت ایوب (علیہ السلام) نے اسے سو کوڑے مارنے کی قسم کھائی تھی، صحت یاب ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا، سو تنکوں والی جھاڑو لے کر ایک مرتبہ اسے مار دے، تیری قسم پوری ہو جائیگی۔ ص
45 ٤٥۔ ١ یعنی عبادت الٰہی اور نصرت دین میں بڑے قوی اور دینی و علمی نصیرت میں ممتاز تھے بعض کہتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا خاص انعام و احسان ہوا یا یہ لوگوں پر احسان کرنے والے تھے۔ ص
46 ٤٦۔ ١ یعنی ہم نے ان کو آخرت کی یاد کے لئے چن لیا تھا، چنانچہ آخرت ہر وقت ان کے سامنے رہتی تھی (آخرت کا ہر وقت استحضار، یہ بھی اللہ کی ایک بڑی نعمت اور زاہد و تقویٰ کی بنیاد) یا وہ لوگوں کو آخرت اور اللہ کی طرف بلانے میں کوشاں رہتے تھے۔ ص
47 ص
48 ٤٨۔ ١ یسع (علیہ السلام) کہتے ہیں، حضرت الیاس (علیہ السلام) کے جانشین تھے، ال تعریف کے لئے ہے اور عجمی نام ہے ذوالکفل کے لئے دیکھئے (وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِدْرِیْسَ وَذَا الْکِفْلِ ۭ کُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَ) 21۔ الانبیاء :85) کا حاشیہ۔ ص
49 ص
50 ص
51 ص
52 ٥٢۔ ١ یعنی جن کی نگاہیں اپنے خاوندوں سے حد سے بڑھنے والی نہیں ہونگی۔ اَتْرَاب تِرْب کی جمع ہے، ہم عمر لا زوال حسن و جمال کی حامل (فتح القدیر) ص
53 ص
54 ٥٤۔ ١ رزق، بمعنی عطیہ ہے اور ھٰذَا سے ہر قسم کی مذکور نعمتیں اور وہ اکرام و اعزاز مراد ہے جن سے اہل جنت بہرہ یاب ہوں گے۔ نفاد کے معنی خاتمے کے ہیں یہ نعمتیں بھی غیر فانی ہوں گی اور اعزاز و اکرام بھی دائمی۔ ص
55 ٥٥۔ ١ یعنی مذکورہ اہل خیر کا معاملہ ہوا۔ اس کے بعد اہل شر کا انجام بیان کیا جا رہا ہے۔ ٥٥۔ ٢ طَاغِیْنَ جنہوں نے اللہ کے احکام سے سرکشی اور رسولوں کو جھٹلایا یَصْلُوْنَ کے معنی ہیں یَدْخُلُون داخل ہونگے۔ ص
56 ص
57 ٥٧۔ ١ یہ ہے پینے گرم پانی اور پیپ، اسے چکھو، گرم کھولتا ہو پانی، جو ان کی آنتوں کو کاٹ ڈالے گا، جہنمیوں کی کھالوں سے جو پیپ اور گندا لہو نکلے گا یا نہایت ٹھنڈا پانی، جس کا پینا نہایت مشکل ہوگا۔ ص
58 ص
59 ٥٩۔ ١ جہنم کے دروازوں پر کھڑے فرشتے ائمہء کفر اور پیشوایان ضلالت سے کہیں گے، جب پیروکار قسم کے کافر جہنم میں جائیں گے یا ائمہ کفر و ضلالت آپس میں یہ بات، پیروکاروں کی طرف اشارہ کرکے کہیں گے۔ ٥٩۔ ٢ یہ لیڈر، جہنم میں داخل ہونے والے کافروں کے لئے، فرشتوں کے جواب میں یا آپس میں کہیں گے رَحْبَۃ کے معنی وسعت و فراخی کے ہیں۔ ص
60 ٦٠۔ ١ یعنی تم ہی کفر و ضلالت کے راستے ہمارے سامنے مزین کرکے پیش کرتے تھے، یوں گویا اس عذاب جہنم کے پیش کار تم ہی ہو۔ یہ پیروکار، اپنے پیروی کرنے والوں سے کہیں گے۔ ص
61 ٦١۔ ١ یعنی جنہوں نے ہمیں کفر کی دعوت دی اور اسے حق و صواب باور کرایا۔ یا جنہوں نے ہمیں کفر کی طرف بلا کر ہمارے لئے یہ عذاب آگے بھیجا۔ ٦١۔ ٢ یہ وہی بات ہے جسے اور بھی کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے مثلًا (قَالَ ادْخُلُوْا فِیْٓ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ فِی النَّارِ ۭکُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّۃٌ لَّعَنَتْ اُخْتَہَا ۭ حَتّٰی اِذَا ادَّارَکُوْا فِیْہَا جَمِیْعًا ۙ قَالَتْ اُخْرٰیہُمْ لِاُوْلٰیہُمْ رَبَّنَا ہٰٓؤُلَاۗءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِہِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ ڛ قَالَ لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ) 7۔ الاعراف :38) (رَبَّنَآ اٰتِہِمْ ضِعْفَیْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْہُمْ لَعْنًا کَبِیْرًا) 33۔ الاحزاب :68)۔ ص
62 ٦٢۔ ١ اَ شْرَار سے مراد فقراء مومنین ہیں، جیسے عمار، جناب، بلال و سلیمان وغیرہم (رض)، انہیں رؤسائے مکہ ازراہ خبث برے لوگ کہتے تھے اور اب بھی اہل باطل حق پر چلنے والوں کو بنیاد پرست، دہشت گرد، انتہا پسند وغیرہ القاب سے نوازتے ہیں۔ ص
63 ٦٣۔ ١ یعنی دنیا میں، جہاں ہم غلطی پر تھے؟ ٦٣۔ ٢ یا وہ بھی ہمارے ساتھ ہی یہیں کہیں ہیں، ہماری نظریں انہیں نہیں دیکھ پا رہی ہیں۔ ص
64 ٦٤۔ ١ یعنی آپس میں ان کی تکرار اور ایک دوسرے کو مورد طعن بنانا، ایک ایسی حقیقت ہے جس میں تکلف نہیں ہوگا۔ ص
65 ص
66 ص
67 ٦٧۔ ١ یعنی میں تمہیں جس عذاب اخروی سے ڈرا رہا اور توحید کی دعوت دے رہا ہوں یہ بڑی خبر ہے، جس سے اعراض و غفلت نہ برتو، بلکہ اس پر توجہ دینے اور سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ص
68 ص
69 ٦٩۔ ١ ملاء اعلٰی سے مراد فرشتے ہیں، یعنی وہ کس بات پر بحث کر رہے ہیں؟ میں نہیں جانتا۔ ممکن ہے، اس اختصام (بحث و تکرار) سے مراد وہ گفتگو ہو جو تخلیق آدم (علیہ السلام) کے وقت ہوئی۔ جیسا کہ آگے اس کا ذکر آرہا ہے۔ ص
70 ٧٠۔ ١ یعنی میری ذمہ داری یہی ہے کہ میں وہ فرائض و پیغام تمہیں بتادوں جن کے اختیار کرنے سے تم عذاب الٰہی سے بچ جاؤ گے۔ ص
71 ٧١۔ ١ یہ قصہ اس سے قبل سورۃ بقرہ، سورۃ اعراف، سورۃ حجر، سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ کہف میں بیان ہوچکا ہے اب اسے یہاں بھی اجمالاً بیان کیا جا رہا ہے۔ ٧١۔ ٢ یعنی ایک جسم، جنس بشر سے بنانے والا ہوں۔ انسان کو بشر، زمین سے اس کی مباشرت کی وجہ سے کہا۔ یعنی زمین سے ہی اس کی ساری وابستگی ہے اور وہ سب کچھ اسی زمین پر کرتا ہے۔ یا اس لئے کہ وہ بادی البشرۃ ہے۔ یعنی اس کا جسم یا چہرہ ظاہر ہے ص
72 ٧٢۔ ١ یعنی اسے انسانی پیکر میں ڈھال لوں اور اس کے تمام اجزا درست اور برابر کرلوں۔ ٧٢۔ ٢ یعنی وہ روح، جس کا میں ہی مالک ہوں، میرے سوا اس کا کوئی اختیار نہیں رکھتا اور جس کے پھونکتے ہی یہ پیکر خاکی، زندگی، حرکت اور توانائی سے بہرہ یاب ہوجائے گا۔ انسان کے شرف و عظمت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اس میں وہ روح پھونکی گئی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح قرار دیا ہے۔ ٧٢۔ ٣ یہ سجدہ تحیہ یا سجدہ تعظیم ہے، سجدہ عبادت نہیں۔ یہ تعظیمی سجدہ پہلے جائز تھا، اسی لئے اللہ نے آدم (علیہ السلام) کے لئے فرشتوں کو اس کا حکم دیا۔ اب اسلام میں تعظیمی سجدہ بھی کسی کے لئے جائز نہیں ہے۔ حدیث میں آتا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اگر یہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے (مشکوٰۃ، کتاب النکاح ص
73 ٧٣۔ ١ یہ انسان کا دوسرا شرف ہے کہ اسے مسجود ملائک بنایا۔ یعنی فرشتے جیسی مقدس مخلوق نے تعظیماً سجدہ کیا۔ ص
74 ٧٤۔ ١ اگر ابلیس کو صفات ملائکہ سے متصف مانا جائے تو یہ استثنا متصل ہوگا یعنی ابلیس اس حکم سجدہ میں داخل ہوگا بصورت دیگر یہ استثنا منقطع ہے یعنی وہ اس حکم میں داخل نہیں تھا لیکن آسمان پر رہنے کی وجہ سے اسے بھی حکم دیا گیا۔ مگر اس نے تکبر کی وجہ سے انکار کردیا۔ ٧٤۔ ٢ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت اور اس کی اطاعت سے استکبار کی وجہ سے وہ کافر ہوگیا۔ یا اللہ کے علم میں وہ کافر تھا۔ ص
75 ٧٥۔ ١ یہ بھی انسان کے شرف و عظمت کے اظہار کے لئے فرمایا، ورنہ ہر چیز کا خالق اللہ ہی ہے۔ ص
76 ٧٦۔ ١ یعنی شیطان نے یہ سمجھا کہ آگ کا عنصر مٹی کے عنصر سے بہتر ہے۔ حالانکہ یہ سب جواہر (ہم جنس یا قریب قریب ایک ہی درجے میں) ہیں۔ اس میں سے کسی کو دوسرے پر شرف کسی عارض (خارجی سبب) ہی کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے اور یہ عارض، آگ کے مقابلے میں، مٹی کے حصے میں آیا، کہ اللہ نے اسی سے آدم (علیہ السلام) کو اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ پھر اس میں اپنی روح پھونکی اس لحاظ سے مٹی ہی کو آگ کے مقابلے میں شرف و عظمت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں آگ کا کام جلا کر خاکستر کردینا، جب کہ مٹی اس کے برعکس انواع و اقسام کی پیداوار کا مأخذ ہے۔ ص
77 ص
78 ص
79 ص
80 ص
81 ص
82 ص
83 ص
84 ص
85 ص
86 ٨٦۔ ١ یعنی اس دعوت و تبلیغ سے میرا مقصد صرف امر الٰہی ہے، دنیا کمانا نہیں۔ ٨٦۔ ٢ یعنی اپنی طرف سے گھڑ کر اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کردوں جو اس نے نہ کہی ہو یا میں تمہیں ایسی بات کی طرف دعوت دوں جس کا حکم اللہ نے مجھے نہ دیا ہو بلکہ کوئی کمی بیشی کئے بغیر میں اللہ کے احکام تم تک پہنچا رہا ہوں۔ ص
87 ٨٧۔ ١ یعنی یہ قرآن، وحی یا وہ دعوت، جو میں پیش کر رہا ہوں، دنیا بھر کے انسانوں اور جنات کے لئے نصیحت ہے۔ بشرطیکہ کوئی اس سے نصیحت حاصل کرنے کا قصد کرے۔ ص
88 ٨٨۔ ١ یعنی قرآن نے جن چیزوں کو بیان کیا ہے، جو وعدے وعید ذکر کئے ہیں، ان کی حقیقت و صداقت بہت جلد تمہارے سامنے آجائے گی۔ چنانچہ اس کی صداقت یوم بدر کو واضح ہوئی، فتح مکہ کے دن ہوئی یا پھر موت کے وقت تو سب پر ہی واضح ہوجاتی ہے۔ ص
0 الزمر
1 الزمر
2 ٢۔ ١ یعنی اس میں توحید و رسالت، معاد اور احکام و فرائض کا جو اثبات کیا گیا ہے، وہ سب حق ہے اور انہی کے ماننے اور اختیار کرنے میں انسان کی نجات ہے۔ ٢۔ ٢ دین کے معنی یہاں عبادت اور اطاعت کے ہیں اور اخلاص کا مطلب ہے صرف اللہ کی رضا کی نیت سے نیک عمل کرنا۔ آیت، نیت کے وجوب اور اس کے اخلاص پر دلیل ہے۔ حدیث میں بھی اخلاص نیت کی اہمیت یہ کہہ کر واضح کردی گئی ہے کہ اِنَّمَا الاَعْمَال بالنِّیَّاتِ ' عملوں کا دارو مدار نیتوں پر ہے ' یعنی جو عمل خیر اللہ کی رضا کے لئے کیا جائے گا، (بشرطیکہ وہ سنت کے مطابق ہو) وہ مقبول اور جس عمل میں کسی اور جذبے کی آمیزش ہوگی، وہ نامقبول ہوگا۔ الزمر
3 ٣۔ ١ یہ جھوٹ ہی ہے کہ ان معبودان باطلہ کے ذریعے سے ان کی رسائی اللہ تک ہوجائے گی یا یہ ان کی سفارش کریں گے اور اللہ کو چھوڑ کر بے اختیار لوگوں کو معبود سمجھنا بھی بہت بڑی ناشکری ہے ایسے جھوٹوں اور ناشکروں کو ہدایت کس طرح نصیب ہوسکتی ہے۔ الزمر
4 ٤۔ ١ یعنی پھر اس کی اولاد لڑکیاں ہی کیوں ہوتیں؟ جس طرح مشرکین کا عقیدہ تھا۔ بلکہ وہ اپنی مخلوق میں سے جس کو پسند کرتا، وہ اس کی اولاد ہوتی، نہ کہ وہ جن کو وہ باور کراتے ہیں، لیکن وہ تو اس نقص سے ہی پاک ہے۔ (ابن کثیر الزمر
5 الزمر
6 ٦۔ ١ یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) سے، جن کو اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا تھا اور اپنی طرف سے اس میں روح پھونکی تھی۔ ٦۔ ٢ یعنی حضرت حوا کو حضرت آدم (علیہ السلام) کی بائیں پسلی سے پیدا فرمایا اور یہ بھی اس کا کمال قدرت ہے کیونکہ حضرت حوا کے علاوہ کسی بھی عورت کی تخلیق، کسی آدمی کی پسلی سے نہیں ہوئی۔ یوں یہ تخلیق امر عادی کے خلاف اور اللہ کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے۔ ٦۔ ٣ یہ وہی چار قسم کے جانوروں کا بیان ہے بھیڑ، بکری، اونٹ، گائے، جو نر اور مادہ مل کر آٹھ ہوجاتے ہیں جن کا ذکر سورۃ انعام میں گزر چکا ہے۔ ٦۔ ٤ یعنی رحم مادر میں مختلف اطوار گزارتا ہے، پہلے، نطفہ، پھر عَلَقَۃَ پھر مُضْغَۃَ پھر ہڈیوں کا ڈھانچہ، جس کے اوپر گوشت کا لباس۔ ان کے تمام مراحل سے گزرنے کے بعد انسان کامل تیار ہوتا ہے۔ ٦۔ ٥ ایک ماں کے پیٹ کا اندھیرا اور دوسرا رحم مادر کا اندھیرا اور تیسرا اس جھلی یا پردہ جس کے اندر بچہ لپٹا ہوتا ہے۔ ٦۔ ٦ یا کیوں تم حق سے باطل کی طرف اور ہدایت سے گمراہی کی طرف پھر رہے ہو؟ الزمر
7 ٧۔ ١ اس کی تشریح کے لئے دیکھئے (وَقَالَ مُوْسٰٓی اِنْ تَکْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ) 14۔ ابراہیم :8) کا حاشیہ۔ الزمر
8 ٨۔ ١ یا اس تکلیف کو بھول جاتا ہے جس کو دور کرنے کے لئے وہ دوسروں کو چھوڑ کر، اللہ سے دعا کرتا تھا یا اس رب کو بھول جاتا ہے، جسے وہ پکارتا تھا اور پھر شرک میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ الزمر
9 ٩۔ ١ اور یہ اہل ایمان ہی ہیں، نہ کہ کفار۔ گو وہ اپنے آپ کو صاحب دانش و بصیرت ہی سمجھتے ہوں۔ لیکن جب وہ اپنی عقل و دانش کو استعمال کرکے غور و تدبر ہی نہیں کرتے اور عبرت و نصیحت ہی حاصل نہیں کرتے تو ایسے ہی ہے گویا وہ چوپایوں کی طرح عقل و دانش سے محروم ہیں۔ الزمر
10 ١٠۔ ١ اس کی اطاعت کرکے، معاصی سے اجتناب کرکے اور عبادت و اطاعت کو اس کے لئے خالص کرکے۔ ١٠۔ ٢ یہ تقویٰ کے فوائد ہیں۔ نیک بدلے سے مراد جنت اور اس کی ابدی نعمتیں ہیں۔ بعض اس کا مفہوم یہ کرتے ہیں، کہ جو نیکی کرتے ہیں ان کے لئے دنیا میں نیک بدلہ ہے ' یعنی اللہ انہیں دنیا میں صحت و عافیت، کامیابی اور غنیمت وغیرہ عطا فرماتا ہے۔ لیکن پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔ الزمر
11 الزمر
12 ١٢۔ ١ پہلا اس معنی میں کہ آبائی دین کی مخالفت کرکے توحید کی دعوت سب سے پہلے آپ ہی نے پیش کی۔ الزمر
13 الزمر
14 الزمر
15 الزمر
16 ١٦۔ ١ یعنی ان کے اوپر نیچے آگ کے طبق ہونگے، جو ان پر بھڑک رہے ہونگے (فتح القدیر) ١٦، ٢ یعنی مذکور خسران مبین اور عذاب ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے تاکہ وہ اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار کرکے اس انجام بد سے بچ جائیں۔ الزمر
17 الزمر
18 ١٨۔ ١ اَحسَنُ سے مراد محکم اور پختہ بات، یا سب سے اچھی بات، یا عقوبیت کے مقابلے میں درگزر اختیار کرتے ہیں۔ ١٨۔ ٢ کیونکہ انہوں نے اپنی عقل سے فائدہ اٹھایا ہے، جب کہ دوسروں نے اپنی عقلوں سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ الزمر
19 ١٩۔ ١ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ اس بات کی شدید خواہش رکھتے تھے کہ آپ کی قوم کے سب لوگ ایمان لے آئیں اس میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی اور آپ کو بتلایا کہ آپ کی اپنی جگہ بالکل صحیح اور بجا ہے لیکن جس پر اس کی تقدیر غالب آگئی اور اللہ کا کلمہ اس کے حق میں ثابت ہوگیا، اسے آپ جہنم کی آگ سے بچانے پر قادر نہیں ہیں۔ الزمر
20 ٢٠۔ ١ جو اس نے مومن بندوں کے لئے کیا ہے اور جو یقینا پورا ہوگا، کہ اللہ سے وعدہ خلافی ممکن نہیں۔ الزمر
21 ٢١۔ ١ یعنی بارش کے ذریعے سے پانی آسمان سے اترتا ہے، پھر وہ زمین میں جذب ہوجاتا ہے پھر چشموں کی صورت میں نکلتا ہے یا تالابوں اور نہروں میں جمع ہوجاتا ہے۔ ٢١۔ ٢ یعنی شادابی اور ترو تازگی کے بعد وہ کھیتیاں سوکھ جاتی اور زرد ہوجاتی ہیں اور پھر ریزہ ریزہ ہوجاتی ہیں۔ جس طرح لکڑی کی ٹہنیاں خشک ہو کر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ الزمر
22 ٢٢۔ ١ یعنی جس کو قبول حق اور خیر کا راستہ اپنانے کی توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل جائے پس وہ اس شرح صدر کی وجہ سے رب کی روشنی پر ہو، کیا یہ اس جیسا ہوسکتا ہے جس کا دل اسلام کے لئے سخت اور اس کا سینہ تنگ ہو اور وہ گمراہی کی تاریکیوں میں بھٹک رہا ہو۔ الزمر
23 ٢٣۔ ١ اَحْسَنُ الْحَدِیْثِ سے مراد قرآن مجید ہے، ملتی جلتی کا مطلب، اس کے سارے حصے حسن کلام، اعجاز و بلاغت صحت معانی وغیرہ خوبیوں میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ یا یہ بھی سابقہ کتب آسمانی سے ملتا ہے یعنی ان کے مشابہ ہے مثانی، جس میں قصص و واقعات اور مواعظ و احکام کو بار بار دہرایا گیا ہے۔ ٢٣۔ ٢ کیونکہ وہ ان وعیدوں کو اور تخویف و تہدید کو سمجھتے ہیں جو نافرمانوں کے لئے اس میں ہے۔ الزمر
24 ٢٤۔ ١ یعنی کیا یہ شخص، اس شخص کے برابر ہوسکتا ہے جو قیامت والے دن بالکل بے خوف اور امن میں ہوگا ؟ یعنی محذوف عبارت ملا کر اس کا مفہوم ہوگا۔ الزمر
25 ٢٥۔ ١ اور انہیں ان عذابوں سے کوئی نہیں بچاسکا۔ الزمر
26 الزمر
27 ٢٧۔ ١ یعنی لوگوں کو سمجھانے کے لئے ہر طرح کی مثالیں بیان کی ہیں تاکہ لوگوں کے ذہنوں میں باتیں بیٹھ جائیں اور وہ نصیحت حاصل کریں۔ الزمر
28 الزمر
29 ٢٩۔ ١ اس میں مشرک (اللہ کا شریک ٹھہرانے والے) اور مخلص (صرف ایک اللہ کے لئے عبادت کرنے والے) کی مثال بیان کی گئی ہے یعنی ایک غلام ہے جو کئی شخصوں کے درمیان مشترکہ ہے، چنانچہ وہ آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں اور ایک غلام ہے جس کا مالک صرف ایک ہی شخص ہے، اس کی ملکیت میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔ کیا یہ دونوں غلام برابر ہو سکتے ہیں؟ نہیں یقینا نہیں۔ اسی طرح وہ مشرک جو اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی بھی عبادت کرتا ہے اور وہ مخلص مومن، جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا برابر نہیں ہو سکتے۔ ٢٩۔ ٢ اس بات پر کہ اس نے حجت قائم کردی۔ ٢٩۔ ٣ اسی لئے اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ الزمر
30 الزمر
31 ٣١۔ ١ یعنی اے پیغمبر! آپ بھی اور آپ کے مخالف بھی، سب موت سے ہمکنار ہو کر اس دنیا سے ہمارے پاس آخرت میں آئیں گے۔ دنیا میں تو توحید اور شرک کا فیصلہ تمہارے درمیان نہیں ہوسکا اور تم اس بارے میں جھگڑتے ہی رہے لیکن یہاں میں اس کا فیصلہ کروں گا اور مخلص موحدین کو جنت میں اور مشرکین و جاحدین اور مکذبین کو جہنم میں داخل کروں گا۔ الزمر
32 ٣٢۔ ١ یعنی دعویٰ کرے کہ اللہ کے اولاد ہے یا اس کا شریک ہے یا اس کی بیوی ہے دراں حالیکہ وہ ان سب چیزوں سے پاک ہے۔ ٢٣۔ ٢ جس میں توحید، احکام و فرائض ہیں، عقیدہ بعث و نشور ہے، محرمات سے اجتناب ہے، مومنین کے لئے خوشخبری اور کافروں کے لئے سزائیں ہیں۔ یہ دین و شریعت جو حضرت محمد رسول اللہ لے کر آئے، اسے جھوٹا بتلائے۔ الزمر
33 ٣٣۔ ١ اس سے پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ مراد ہیں جو سچا دین لے کر آئے۔ بعض کے نزدیک یہ عام ہے اور اس سے ہر وہ شخص مراد ہے جو توحید کی دعوت دیتا اور اللہ کی شریعت کی طرف کی رہنمائی کرتا ہے۔ ٣٣۔ ٢ بعض اس سے حضرت ابو بکر صدیق مراد لیتے ہیں جنہوں نے سب سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کی اور ان پر ایمان لائے۔ بعض نے اسے بھی عام رکھا ہے، جس میں سب مومن شامل ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں اور آپ کو سچا مانتے ہیں۔ الزمر
34 ٣٤۔ ١ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے گناہ بھی معاف فرما دے گا، ان کے درجے بھی بلند فرمائے گا، کیونکہ ہر مسلمان کی اللہ سے یہی خواہش ہوتی ہے علاوہ ازیں جنت میں جانے کے بعد ہر مطلوب چیز بھی ملے گی۔ ٣٤۔‎٢ محسنین کا ایک مفہوم تو یہ ہے جو نیکیاں کرنے والے ہیں دوسرا وہ جو اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے ہیں جیسے حدیث میں احسان کی تعریف کی گئی ہے ان تعبد اللہ کانک تراہ فانہ لم تکن تراہ فانہ یراک تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ تصور ممکن نہ ہو تو یہ ضرور ذہن میں رہے کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے تیسرا جو لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور اچھا برتاؤ کرتے ہیں چوتھا ہر نیک عمل کو اچھے طریقے سے خشوع و خضوع سے اور سنت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق کرتے ہیں کثرت کے بجائے اس میں حسن کا خیال رکھتے ہیں۔ الزمر
35 الزمر
36 ٣٦۔ ١ اس سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ عام ہے، تمام انبیاء علیہم السلام اور مومنین اس میں شامل ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کو غیر اللہ سے ڈراتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ جب آپ کا حامی و ناصر ہو تو آپ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہ ان سب کے مقابلے میں آپ کو کافی ہے ۔ ٣٦۔ ٢ جو اس گمراہی سے نکال کر ہدایت کے راستے پر لگا دے۔ الزمر
37 ٣٧۔ ١ جو اس کو ہدایت سے نکال کر گمراہی کے گڑھے میں ڈال دے یعنی ہدایت اور گمراہی اللہ کے ہاتھ میں ہے، جس کو چاہے گمراہ کر دے اور جس چاہے ہدایت سے نوازے۔ ٣٧۔ ٢ کیوں نہیں، یقینا ہے۔ اس لئے کہ اگر یہ لوگ کفر و عناد سے باز نہ آئے، تو یقینا وہ اپنے دوستوں کی حمایت میں ان سے انتقام لے گا اور انہیں عبرت ناک انجام سے دو چار کرے گا۔ الزمر
38 ٣٨۔ ١ بعض کہتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مذکورہ سوال ان کے سامنے پیش کیا، تو انہوں نے کہا کہ واقعی وہ اللہ کی تقدیر کو نہیں ٹال سکتے، البتہ وہ سفارش کریں گے، جس پر یہ ٹکڑا نازل ہوا کہ مجھے تو میرے معاملات میں اللہ ہی کافی ہے۔ ٣٨۔ ٢ جب سب کچھ اسی کے اختیار میں ہے تو پھر دوسروں پر بھروسہ کرنے کا کیا فائدہ؟ اس لئے اہل ایمان صرف اس پر توکل کرتے ہیں، اس کے سوا کسی پر اعتماد نہیں۔ الزمر
39 ٣٩۔ ١ یعنی اگر تم میری اس دعوت توحید کو قبول نہیں کرتے جس کے ساتھ اللہ نے مجھے بھیجا ہے، تو ٹھیک ہے، تمہاری مرضی، تم اپنی اس حالت پر قائم رہو جس پر تم ہو، میں اس حالت میں رہتا ہوں جس میں مجھے اللہ نے رکھا ہے۔ الزمر
40 ٤٠۔ ١ جس سے واضح ہوجائے گا کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون؟ اس سے مراد دنیا کا عذاب ہے جیسا کہ جنگ بدر میں ہوا کافروں کے ستر آدمی قتل اور ستر ہی آدمی قید ہوئے حتی کہ فتح مکہ کے بعد غلبہ وتمکن بھی مسلمانوں کو حاصل ہوگیا جس کے بعد کافروں کے لیے سوائے ذلت و رسوائی کے کچھ باقی نہ رہا ٤۔ ٢ اس سے مراد عذاب جہنم ہے جس میں ہمیشہ مبتلا رہیں گے۔ الزمر
41 ٤١۔ ١ نبی کو اہل مکہ کا کفر پر اصرار بڑا گراں گزرتا تھا، اس میں آپ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ کا کام صرف اس کتاب کو بیان کردینا ہے جو ہم نے آپ پر نازل کی ہے، ان کی ہدایت کے آپ مکلف نہیں ہیں۔ اگر وہ ہدایت کا راستہ اپنا لیں گے تو اس میں انہیں کا فائدہ ہے اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو خود ہی نقصان اٹھائیں گے۔ وکیل کے معنی مکلف اور ذمے دار کے ہیں یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی ہدایت کے ذمے دار نہیں ہیں اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ اپنی ایک قدرت بالغہ اور صنعت عجیبہ کا تذکرہ فرما رہا ہے جس کا مشاہدہ ہر روز انسان کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب وہ سو جاتا ہے تو اس کی روح اللہ کے حکم سے گویا نکل جاتی ہے کیونکہ اس کے احساس و ادراک کی قوت ختم ہوجاتی ہے اور جب وہ بیدار ہوتا ہے تو روح اس میں گویا دوبارہ بھیج دی جاتی ہے جس سے اس کے حواس بحال ہوجاتے ہیں البتہ جس کی زندگی کے دن پورے ہوچکے ہوتے ہیں اس کی روح واپس نہیں آتی اور وہ موت سے ہمکنار ہوجاتا ہے اس کو بعض مفسرین نے وفات کبری اور وفات صغری سے بھی تعبیر کیا ہے۔ الزمر
42 ٤٢۔ ١ یہ وفات کبریٰ ہے کہ روح قبض کرلی جاتی ہے، واپس نہیں آتی۔ ٤٢۔ ٢ یعنی جن کی موت کا وقت ابھی نہیں آیا، تو سونے کے وقت ان کی روح بھی قبض کر کے انہیں وفات صغریٰ سے دو چار کردیا جاتا ہے۔ ٤٢۔ ٣ یہ وہی وفات کبریٰ ہے، جس کا ابھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس میں روح روک لی جاتی ہے۔ ٤٢۔ ٤ یعنی جب تک ان کا وقت نہیں آتا، اس وقت تک کے لئے روحیں واپس ہوتی رہتی ہیں، یہ وفات صغریٰ ہے، یہی مضمون سورۃ الانعام میں بیان کیا گیا ہے تاہم وہاں وفات صغری کا ذکر پہلے اور وفات کبری کا بعد میں ہے جب کہ یہاں اس کے برعکس ہے۔ ٤٢۔ ٥ یعنی روح کا قبض اور اس کا ارسال، اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور قیامت والے دن وہ مردوں کو بھی یقینا زندہ فرمائے گا۔ الزمر
43 ٤٣۔ ١ یعنی شفاعت کا اختیار تو کجا، انہیں تو شفاعت کے معنی و مفہوم کا بھی پتہ نہیں، کیونکہ وہ پتھر ہیں۔ یا بے خبر ہیں الزمر
44 ٤٤۔ ١ یعنی شفاعت کی تمام اقسام کا مالک صرف اللہ ہی ہے، اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش ہی نہیں کرسکے گا، پھر صرف ایک اللہ ہی کی عبادت کیوں نہ کی جائے تاکہ وہ راضی ہوجائے اور شفاعت کے لئے کوئی سہارا ڈھونڈھنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ الزمر
45 ٤٥۔ ١ یا کفر اور استکبار، مطلب یہ ہے کہ مشرکین سے جب یہ کہا جائے کہ معبود صرف ایک ہی ہے تو ان کے دل یہ بات ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے۔ ٤٥۔ ١ ہاں جب یہ کہا جائے کہ فلاں فلاں بھی معبود ہیں یا وہ بھی آخر اللہ کے نیک بندے ہیں وہ بھی کچھ اختیار رکھتے ہیں وہ بھی مشکل کشائی اور حاجت روائی کرسکتے ہیں تو پھر مشرکین بڑے خوش ہوتے ہیں منحرفین کا یہی حال آج بھی ہے جب ان سے کہا جائے کہ صرف یا اللہ مدد کہو کیونکہ اس کے سوا کوئی مدد کرنے پر قادر نہیں ہے تو سیخ پا ہوجاتے ہیں یہ جملہ ان کے لیے سخت ناگوار ہوتا ہے لیکن جب یا علی مدد یا یارسول اللہ مدد کہا جائے اسی طرح دیگر مردوں سے استمداد واستغاثہ کیا جائے مثلا یا شیخ عبد القادر شیئ اللہ وغیرہ تو پھر ان کے دل کی کلیاں کھل اٹھتی ہیں۔ فتشابھت قلوبھم۔ الزمر
46 ٤٦۔ ١ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو تہجد کی نماز کے آغاز میں یہ پڑھا کرتے تھے اللھم رب چبریل ومیکائیل واسرفیل فاطر السموات والارض عالم الغیب والشھادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون اھدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تھدی من تشاء الی صراط مستقیم۔ الزمر
47 ٤٧۔ ١ لیکن پھر بھی وہ قبول نہیں ہوگا جیسا کہ دوسرے مقام پر وضاحت ہے (فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ۚ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ) 3۔ ال عمران :85) ' وہ زمین بھر سونا بھی بدلے میں دے دیں، تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے کہ ولا یوخذ منہا عدل وہاں معاوضہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ ٤٧۔ ١ یعنی عذاب کی شدت اور اس کی ہولناکیاں اور اس کی انواع واقسام ایسی ہوں گی کہ کبھی ان کے گمان میں نہ آئی ہوں گی۔ الزمر
48 ٤٨۔ ١ یعنی دنیا میں جن محارم و ما ثم کا وہ ارتکاب کرتے رہے تھے، اس کی سزا ان کے سامنے آ جائے گی۔ ٤٨۔ ٢ وہ عذاب انہیں گھیر لے گا جسے وہ دنیا میں ناممکن سمجھتے تھے، اس لئے کہ اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ الزمر
49 ٤٩۔ ١ یہ انسان کا بہ اعتبار جنس ذکر ہے یعنی انسانوں کی اکثریت کا یہ حال ہے کہ جب ان کو بیماری فقر و فاقہ یا کوئی اور تکلیف پہنچتی ہے تو اس سے نجات پانے کے لیے اللہ سے دعائیں کرتا اور اس کے سامنے گڑگڑاتا ہے۔ ٤٩۔ ٢ یعنی نعمت ملتے ہی سرکشی اور طغیان کا راستہ اختیار کرلیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس میں اللہ کا کیا احسان؟ یہ تو میری اپنی دانائی کا نتیجہ ہے۔ یا جو علم و ہنر میرے پاس ہے، اس کی بدولت یہ نعمتیں حاصل ہوئی ہیں یا مجھے معلوم تھا کہ دنیا میں یہ چیزیں مجھے ملیں گی کیونکہ اللہ کے ہاں میرا بہت مقام ہے۔ ٤٩۔ ٣ یعنی بات وہ نہیں ہے جو تو سمجھ رہا یا بیان کر رہا ہے بلکہ یہ نعمتیں تیرے لیے امتحان اور آزمائش ہیں کہ تو شکر کرتا ہے یا کفر؟ ٤٩۔ ٤ اس بات سے کہ یہ اللہ کی طرف سے استدراج اور امتحان ہے۔ الزمر
50 ٥٠۔ ١ جس طرح قارون نے بھی کہا تھا، لیکن بالاآخر وہ اپنے خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ فما اغنی میں ما استفہامیہ بھی ہوسکتا ہے اور نافیہ بھی دونوں طرح معنی صحیح ہے۔ الزمر
51 ٥١۔ ١ برائیوں سے مراد ان کی برائیوں کی جزا ہے ان کو مشاکلت کے اعتبار سے سیئات کہا گیا ہے ورنہ برائی کی جزا برائی نہیں ہے جیسے وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا میں ہے فتح القدیر ٤٩۔ ٢ یہ کفار مکہ کو تنبیہ ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا یہ بھی گزشتہ قوموں کی طرح قحط قتل واسارت وغیرہ سے دو چار ہوئے اللہ کی طرف سے آئے ہوئے ان عذابوں کو یہ روک نہیں سکے۔ الزمر
52 ٤٩۔ ١ یعنی رزق کی کشادگی اور تنگی میں بھی اللہ کی توحید کے دلائل ہیں یعنی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں صرف اسی کا حکم و تصرف چلتا ہے اسی کی تدبیر موثر اور کارگر ہے اسی لیے وہ جس کو چاہتا ہے رزق فراواں سے نواز دیتا ہے اور جس کو حاہتا ہے فقر وتنگ دستی میں مبتلا کردیتا ہے اس کے ان فیصلوں میں جو اس کی حکمت ومشیت پر مبنی ہوتے ہیں کوئی دخل انداز ہوسکتا ہے نہ ان میں رد وبدل کرسکتا ہے تاہم یہ نشانیاں صرف اہل ایمان ہی کے لیے ہیں کیونکہ وہی ان پر غور وفکر کر کے ان سے فائدہ اٹھاتے اور اللہ کی مغفرت حاصل کرتے ہیں۔ الزمر
53 ٥٣۔ ١ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی وسعت کا بیان ہے۔ اسراف کے معنی ہیں گناہوں کی کثرت اور اس میں افراط۔ ' اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو ' کا مطلب ہے کہ ایمان لانے سے قبل یا توبہ و استغفار کا احساس پیدا ہونے سے پہلے کتنے بھی گناہ کئے ہوں، انسان یہ نہ سمجھے کہ میں بہت زیادہ گنہگار ہوں، مجھے اللہ تعالیٰ کیونکر معاف کرے گا ؟ بلکہ سچے دل سے اگر ایمان قبول کرلے گا یا توبہ کرلے گا تو اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف فرما دے گا۔ شان نزول کی روایت سے بھی یہی مفہوم ثابت ہوتا ہے کچھ کافر و مشرک تھے جنہوں نے کثرت سے قتل اور زنا کاری کا ارتکاب کیا تھا یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت صحیح ہے لیکن ہم لوگ بہت زیادہ خطا کار ہیں اگر ہم ایمان لے آئیں تو کیا وہ سب معاف ہوجائیں گے جس پر اس آیت کا نزول ہوا۔ صحیح بخاری، تفسیر سورۃ زمر۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ کی رحمت و مغفرت کی امید پر خوب گناہ کیے جاؤ اس کے احکام وفرائض کی مطلق پروا نہ کرو اور اس کے حدود اور ضابطوں کو بےدردی سے پامال کرو اس طرح اس کے غضب و انتقام کو دعوت دے کر اس کی رحمت ومغفرت کی امید رکھنا نہایت نادانش مندی اور خام خیالی ہے یہ تخم حنظل بو کر ثمرات و فواکہ کی امید رکھنے کے مترادف ہے ایسے لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ جہاں اپنے بندوں کے لیے غفور رحیم ہے وہاں وہ نافرمانوں کے لیے عزیز ذو انتقام بھی ہے چنانچہ قرآن کریم میں منعدد جگہ ان دونوں پہلوؤں کو ساتھ ساتھ بیان کیا گیا مثلا نبیء عبادی انی انا الغفور الرحیم وان عذابی ہو العذاب الالیم (الحجر) غالبا یہی توبہ کر کے صحیح معنوں میں اس کا بندہ بن جائے گا اس کے گناہ اگر سمندر کے جھاگ کے برابر بھی ہوں گے تو معاف فرما دے گا وہ اپنے بندوں کے لیے یقینا غفور رحیم ہے جیسے حدیث میں سو آدمیوں کے قاتل کی توبہ کا واقعہ ہے۔ الزمر
54 الزمر
55 ٥٥۔ ١ یعنی عذاب آنے سے قبل توبہ اور عمل صالح کا اہتمام کرلو، کیونکہ جب عذاب آئے گا تو اس کا علم و شعور بھی نہیں ہوگا، اس سے مراد دنیاوی عذاب ہے۔ الزمر
56 ٥٦۔ ١ فِی جَنْب اللّٰہِ کا مطلب، اللہ کی اطاعت یعنی قرآن اور اس پر عمل کرنے میں کوتاہی ہے۔ جَنْب کے معنی قرب اور جوار کے ہیں۔ یعنی اللہ کا قرب اور اس کا جوار (یعنی جنت) طلب کرنے میں کوتاہی کی۔ الزمر
57 ٥٧۔ ١ یعنی اگر اللہ مجھے ہدایت دے دیتا تو میں شرک اور معاصی سے بچ جاتا۔ یہ اس طرح ہی ہے جیسے دوسرے مقام پر مشرکین کا قول نقل کیا گیا، (لَوْ شَاۗءَ اللّٰہُ مَآ اَشْرَکْنَا) (6۔ الانعام :148) اگر اللہ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے، ان کا قول کَلِمَۃُ حَقٍّ بِھَا الْبَاطِلُ کا مصداق ہے (فتح القدیر) الزمر
58 الزمر
59 ٥٩۔ ١ یہ اللہ تعالیٰ ان کی خوا ہش کے جواب میں فرمائے گا۔ الزمر
60 ٦٠۔ ١ جس کی وجہ عذاب کی ہولناکیاں اور اللہ کے غضب کا مشاہدہ ہوگا۔ ٦٠۔ ١ حدیث میں ہے الکبر بطر الحق وغمط الناس حق کا انکار اور لوگوں کو حقیر سمجھنا کبر ہے یہ استفہام تقریری ہے یعنی اللہ کی اطاعت سے تکبر کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ الزمر
61 ٦١۔ ١ مفازۃ مصدر میمی ہے یعنی فوز کامیابی شر سے بچ جانا اور خیر سے سعادت سے ہم کنار ہوجانا، مطلب ہے، اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو اس فوز و سعادت کی وجہ سے نجات عطا فرما دے گا جو اللہ کے ہاں ان کے لئے پہلے سے ثبت ہے۔ ٦١۔ ٢ وہ دنیا میں جو کچھ چھوڑ آئے ہیں، اس پر انہیں کوئی غم نہ ہوگا، وہ چونکہ قیامت کی ہولناکیوں سے محفوظ ہونگے، اس لئے انہیں کسی بات کا غم نہ ہوگا۔ الزمر
62 یعنی ہر چیز کا خالق بھی وہی ہے اور مالک بھی وہی وہ جس طرح چاہے تصرف اور تدبیر کرے ہر چیز اس کے ماتحت اور زیر تصرف ہے کسی کو سرتابی یا انکار کی مجال نہیں وکیل بمعنی محافظ اور مدبر ہر چیز اس کے سپرد ہے اور وہ بغیر کسی کی مشارکت کے ان کی حفاظت اور تدبیر کر رہا ہے۔ الزمر
63 ٦٣۔ ١ مقالید، مقلید اور مقلاد کی جمع ہے فتح القدیر بعض نے اس کا ترجمہ چابیاں اور بعض نے خزانے کیا ہے مطلب دونوں میں ایک ہی ہے تمام معاملات کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے۔ ٦٣۔ ٢ یعنی کامل خسارہ کیونکہ اس کفر کے نتیجے میں وہ جہنم میں چلے گئے۔ الزمر
64 ٦٤۔ ١ یہ کفار کی اس دعوت کے جواب میں ہے جو وہ پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا کرتے تھے کہ اپنے آبائی دین کو اختیار کرلیں، جس میں بتوں کی عبادت تھی۔ الزمر
65 ٦٥۔ ١ اگر تو نے شرک کیا ' مطلب ہے، اگر موت شرک پر آئی اور اس سے توبہ نہ کی۔ خطاب اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے جو شرک سے پاک بھی تھے اور آئندہ کے لئے محفوظ بھی۔ کیونکہ پیغمبر اللہ کی حفاظت و عصمت میں ہوتا ہے ان سے ارتکاب شرک کا کوئی امکان نہیں تھا، لیکن دراصل امت کے لئے تعریض اور اس کو سمجھانا مقصود ہے۔ الزمر
66 ٦٦۔ ١ اِ یَّاکَ نَعْبُدُ کی طرح یہاں بھی مفعول (اللہ) کو مقدم کر کے حصر کا مفہوم پیدا کردیا گیا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ الزمر
67 کیونکہ اس کی بات بھی نہیں مانی جو اس نے پیغمبروں کے ذریعے سے ان تک پہنچائی تھی اور عبادت بھی اس کے لیے خالص نہیں کی بلکہ دوسروں کو بھی اس میں شریک کرلیا حدیث میں آتا ہے کہ ایک یہودی عالم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آیا اور کہا کہ ہم اللہ کی بابت کتابوں میں یہ بات پاتے ہیں کہ وہ قیامت والے دن آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اور فرمائے گا میں بادشاہ ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسکرا کر اس کی تصدیق فرمائی اور آیت وما قدروا اللہ کی تلاوت فرمائی صحیح بخاری تفسیر سورۃ زمر محدثین اور سلف کا عقیدہ ہے کہ اللہ کی جن صفات کا ذکر قرآن اور احادیث صحیحہ میں ہے جس طرح اس آیت میں ہاتھ کا اور حدیث میں انگلیوں کا اثبات ہے ان پر بلا کیف وتشبیہ اور بغیر تاویل و تحریف کے ایمان رکھنا ضروری ہے اس لیے یہاں بیان کردہ حقیقت کو مجرد غلبہ وقوت کے مفہوم میں لینا صحیح نہیں ہے۔ ٦٧۔ ١ اس کی بابت بھی حدیئث میں آتا ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اَنَا المُلْکُ، اَیْنَ مُلُوک الاٰرْضِ ' میں بادشاہ ہوں زمین کے بادشاہ (آج کہاں ہیں؟ ' الزمر
68 ٦ ٨۔ ١ بعض کے نزدیک نفخہ فزع کے بعد یہ نفخہ ثانیہ یعنی نفخہ صعق ہے جس سے سب کی موت واقع ہوجائے گی بعض نے ان نفحات کی ترتیب اس طرح بیان کی ہے پہلا نفخۃ الفناء دوسرا نفخۃ البعث تیسرا نفخۃ الصعق چوتھا نفخۃ القیام لرب العالمین۔ (ایسر التفاسیر) بعض کے نزدیک صرف دو ہی نفخے ہیں نفخہ الموت اور نفخہ نفخۃ البعث اور بعض کے نزدیک تین واللہ اعلم۔ ٦٨۔ ٢ یعنی جن کو اللہ چاہے گا ان کو موت نہیں آئے گی جیسے جبرائیل میکائیل اور اسرافیل بعض کہتے ہیں رضوان فرشتہ حملۃ العرش عرش اٹھانے والے فرشتے اور جنت و جہنم پر مقرر داروغے۔ فتح القدیر ٦٨۔ ٣ چار نفقوں کے قائلین کے نزدیک یہ چوتھا، تین کے قائلین کے نزدیک تیسرا اور دو کے قائلین کے نزدیک یہ دوسرا نفخہ ہے۔ بہرحال اس نفخے سے سب زندہ ہو کر میدان محشر میں رب العالمین کی بارگاہ میں حاضر ہوجائیں گے، جہاں حساب کتاب ہوگا۔ الزمر
69 ٦٩۔ ١ اس نور سے بعض نے عدل اور بعض نے حکم مراد لیا ہے لیکن اس حقیقیٰ معنوں پر اٹھانے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے، کیونکہ اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ ٦ ٩۔ ٢۔ نبیوں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے میرا پیغام اپنی اپنی قوم یا امت کو پہنچا دیا تھا ؟ یا یہ پوچھا جائے گا کہ تمہاری امتوں نے تمہاری دعوت کا کیا جواب دیا اسے قبول کیا یا اس کا انکار کیا ؟ امت محمدیہ کو بطور گواہ لایا جائے گا جو اس بات کی گواہی ان امور پر مطلع فرمایا تھا۔ ١٩۔ ٣ یعنی کسی کے اجر و ثواب میں کمی نہیں ہوگی اور کسی کو اس کے جرم سے زیادہ سزا نہیں دی جائے گی۔ الزمر
70 ٧٠۔ ١ یعنی اس کو کسی کاتب، حاسب اور گواہ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اعمال نامے اور گواہ صرف بطور حجت اور قطع معذورت کے ہونگے۔ الزمر
71 ٧١۔ ١ زمر زَمَرَ سے مشتق ہے بمعنی آواز ہر گروہ یا جماعت میں شور اور آوازیں ضرور ہوتی ہیں اس لیے یہ جماعت اور گروہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مطلب یہ ہے کہ کافروں کو جہنم کی طرف گروہوں کی شکل میں لے جایا جائے گا ایک گروہ کے پیچھے ایک گروہ۔ علاوہ ازیں انہیں مار دھکیل کر جانوروں کے ریوڑ کی طرح ہنکایا جائے گا۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا یوم یدعون الی نار جہنم دعا الطور یعنی انہیں جہنم کی طرف سختی سے دھکیلا جائے گا۔ ٧١۔ ٢ یعنی ان کے پہنچتے ہی فورا جہنم کے ساتوں دروازے کھول دیئے جائیں گے تاکہ سزا میں تاخیر نہ ہو۔ ٧١۔ ٣ یعنی جس طرح دنیا میں بحث و تکرار اور جدال و مناظرہ کرتے تھے، وہاں سب کچھ آنکھوں کے سامنے آ جانے کے بعد بحث و جدال کی گنجایش ہی باقی نہ رہے گی، اس لئے اعتراف کیے بغیر چارہ نہ ہوگا۔ ٧١۔ ٤ یعنی ہم نے پیغمبروں کی تکذیب اور مخالفت کی اس شقاوت کی وجہ سے جس کے ہم مستحق تھے جب کہ ہم نے حق سے گریز کر کے باطل کو اختیار کیا اس مضمون کو سورۃ الملک میں زیادہ وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ الزمر
72 الزمر
73 اہل ایمان وتقوی بھی گروہوں کی شکل میں جنت کی طرف لے جائے جائیں گے پہلے مقربین پھر ابرار اس طرح درجہ بدرجہ ہر گروہ ہم مرتبہ لوگوں پر مشتمل ہوگا مثلا انبیاء علیم السلام کے ساتھ صدیقین شہدا اپنے ہم جنسوں کے ساتھ علماء اپنے اقران کے ساتھ یعنی ہر صنف اپنی ہی صنف یا اس کی مثل کے ساتھ ہوگی۔ ابن کثیر۔ حدیث میں آتا ہے جنت کے آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک ریان ہے جس سے صرف روزے دار داخل ہونگے (صحیح بخاری) اسی طرح دوسرے دروازوں کے بھی نام ہوں گے جیسے باب الصلوۃ باب الصدقۃ باب الجہاد وغیرہ صحیح بخاری کتاب الصیام مسلم کتاب الزکوۃ ہر دروازے کی چوڑائی چالیس سال کی مسافت کے برابر ہوگی اس کے باوجود یہ بھرے ہوئے ہوں گے۔ (صحیح مسلم) سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹانے والے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوں گے (مسلم) جنت میں سب سے پہلے جانے والے گروہ کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح اور دوسرے گرہ کے چہرے آسمان پر چمکنے والے ستاروں میں سے روشن ترین ستارے کی طرح چمکتے ہوں گے جنت میں وہ بول و براز اور تھوک بلغم سے پاک ہوں گے ان کی کنگھیاں سونے کی اور پسینہ کستوری ہوگا ان کی انگیٹھیوں میں خوشبو دار لکڑی ہوگی ان کی بیویاں الحور العین ہوں گی ان کا قد آدم (علیہ السلام) کی طرح ساٹھ ہاتھ ہوگا (صحیح بخاری) صحیح بخاری ہی کی ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مومن کو دو بیویاں ملیں گی ان کے حسن وجمال کا یہ حال ہوگا کہ ان کی پنڈلی کا گودا گوشت کے پیچھے سے نظر آئے گا (کتاب بدء الخلق) بعض نے کہا یہ دو بیویاں حوروں کے علاوہ دنیا کی عورتوں میں سے ہوں گی لیکن چونکہ ٧٢ حوروں والی روایت سندا صحیح نہیں اس لیے بظاہر یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے کہ ہر جنتی کی کم از کم حور سمیت دو بیویاں ہوں گی تاہم و لھم فیھا ما یشتھون کے تحت زیادہ بھی ممکن ہیں واللہ اعلم الزمر
74 الزمر
75 ٧٥۔ ١ قضائے الٰہی کے بعد جب اہل ایمان جنت میں اور اہل کفر و شرک جہنم میں چلے جائیں گے، آیت میں اس کے بعد کا نقشۃ بیان کیا گیا ہے کہ فرشتے عرش الٰہی کو گھیرے ہوئے تسبیح و تحمید میں مصروف ہوں گے۔ ٧٥۔ ٢۔ یہاں حمد کی نسبت کسی ایک مخلوق کی طرف نہیں کی گئی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز (ناطق و غیر ناطق) کی زبان پر حمد الٰہی کے ترانے ہونگے۔ الزمر
0 غافر
1 غافر
2 اس سورت کو سورۃ غافر اور سورہ، الطول بھی کہتے ہیں ۔ ٢۔ ١ تَنْزِیْل مُنَزَّل کے معنی میں ہے، یعنی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے جس میں جھوٹ نہیں ٢۔ ٢ جو غالب ہے، اس کی قوت اور غلبے کے سامنے کوئی پر نہیں مار سکتا۔ علیم ہے، اس سے کوئی ذرہ تک پوشیدہ نہیں چاہے وہ کتنے بھی کثیف پردوں میں چھپا ہو۔ غافر
3 ٣۔ ١ گزشتہ گناہ معاف کرنے والا اور مستقبل میں ہونے والی کوتاہیوں پر توبہ قبول کرنے والا ہے یا اپنے دوستوں کے لئے غافر ہے اور کافر اور مشرک اگر توبہ کریں تو ان کی توبہ قبول کرنے والا ہے۔ ٣۔ ٢ ان کے لیے جو آخرت پر دنیا کو ترجیح دیں اور تمرد و طغیان کا راستہ اختیار کریں یہ اللہ کے اس قول کی طرح ہی ہے (نَبِّئْ عِبَادِیْٓ اَنِّیْٓ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ 49؀ۙ وَاَنَّ عَذَابِیْ ہُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ 50؀) 15۔ الحجر :49) میرے بندوں کو بتلا دو کہ میں غفور و رحیم ہوں اور میرا عذاب بھی نہایت دردناک ہے قرآن کریم میں اکثر جگہ یہ دونوں وصف ساتھ ساتھ بیان کیے گئے ہیں تاکہ انسان خوف اور رجا کے درمیان رہے کیونکہ محض خوف ہی خوف انسان کو رحمت و مغفرت الہی سے مایوس کرسکتا ہے اور نری امید گناہوں پر دلیر کردیتی ہے۔ ٣۔ ٣ طول کے معنی فراخی اور تونگری کے ہیں یعنی وہی فراخی اور تونگری عطا کرنے والا ہے بعض کہتے ہیں اس کے معنی ہیں انعام اور تفضل یعنی اپنے بندوں پر انعام اور فضل کرنے والا ہے۔ غافر
4 ٤۔ ١ اس جھگڑے سے مراد ناجائز اور باطل جھگڑا ہے جس کا مقصد حق کی تکذیب اور اس کی تردید و تغلیظ ہے ورنہ جس جدال بحث ومناظرہ کا مقصد ایضاح حق، ابطال باطل اور منکرین و معترضین کے شبہات کا ازالہ ہو وہ مذموم نہیں نہایت محمود و مستحسن ہے بلکہ اہل علم کو تو اس کی تاکید کی گئی ہے (لَتُبَیِّنُنَّہٗ للنَّاسِ وَلَاتَکْتُمُوْنَہٗ) 3۔ ال عمران :187) تم اسے لوگوں کے سامنے ضرور بیان کرنا اسے چھپانا نہیں بلکہ اللہ کی نازل کردہ کتاب کے دلائل وبراہین کو چھپانا اتنا سخت جرم ہے کہ اس پر کائنات کی ہر چیز لعنت کرتی ہے البقرہ ٤۔ ٢ یعنی یہ کافر اور مشرک جو تجارت کرتے ہیں اس کے لئے مختلف شہروں میں آتے جاتے ہیں اور کثیر منافع حاصل کرتے ہیں، یہ اپنے کفر کی وجہ سے جلد ہی مؤاخذہ الٰہی میں آ جائیں گے، یہ مہلت ضرور دیئے جا رہے ہیں لیکن انہیں چھوڑا نہیں جائے گا۔ غافر
5 ٥۔ ١ تاکہ اسے قید یا قتل کردیں یا سزا دیں۔ ٥۔ ٢ یعنی اپنے رسولوں سے انہوں نے جھگڑا کیا، جس سے مقصود حق بات میں کیڑے نکالنا اور اسے کمزور کرنا تھا۔ ٥۔ ٣ چنانچہ میں نے ان حامیان باطل کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لیا، پس تم دیکھ لو ان کے حق میں میرا عذاب کس طرح آیا اور کیسے انہیں حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا یا انہیں نشان عبرت بنا دیا۔ غافر
6 ٦۔ ٤ مقصد اس سے اس بات کا اظہار ہے کہ جس طرح پچھلی امتوں پر تیرے رب کا عذاب ثابت ہوا اور وہ تباہ کردی گئیں اگر یہ اہل مکہ بھی تیری تکذیب اور مخالفت سے باز نہ آئے اور جدل بالباطل کو ترک نہ کیا تو یہ بھی اسی طرح عذاب الہی کی گرفت میں آ جائیں گے پھر کوئی انہیں بچانے والا نہیں ہوگا۔ غافر
7 ٧۔ ١ اس میں ملائکہ مقربین کے ایک خاص گروہ کا تذکرہ اور وہ جو کچھ کرتے ہیں اس کی وضاحت ہے یہ گروہ ہے ان فرشتوں کا جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ جو عرش کے ارد گرد ہیں ان کا ایک کام یہ ہے کہ یہ اللہ کی تسبیح و تحمید کرتے ہیں یعنی نقائص سے اس کی تنزیہ کمالات اور خوبیوں کا اس کیلیے اثبات اور اس کے سامنے عجز وتذلل یعنی ایمان کا اظہار کرتے ہیں دوسرا کام ان کا یہ ہے کہ یہ اہل ایمان کیلیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں کہا جاتا ہے کہ عرش کو اٹھانے والے فرشتے چار ہیں مگر قیامت والے دن ان کی تعداد آٹھ ہوگی۔ ابن کثیر غافر
8 ٨۔ ١ یعنی ان سب کو جنت میں جمع فرما دے تاکہ ایک دوسرے کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ٰ ہوں اس مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا ہے۔ ' وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہی کی پیروی ان کی اولاد نے ایمان کے ساتھ کی۔ ملا دیا ہم نے ان کے ساتھ ان کی اولاد کو اور ہم نے ان کے عملوں میں سے کچھ کم نہیں کیا ' یعنی سب کو جنت میں اس طرح یکساں مرتبہ دے دیا کہ ادنیٰ کو بھی اعلٰی مقام عطا کردیا۔ یہ نہیں کیا کہ اعلٰی مقام میں کمی کر کے انہیں ادنیٰ مقام پر لے آئے، بلکہ اد نیٰ کو اٹھا کر اعلیٰ کردیا اور اس کے عمل کی کمی کو اپنے فضل و کرم سے پورا کردیا (الطور۔ ٢١) غافر
9 ٩۔ ١ سیأت سے مراد یہاں عقوبات ہیں یا پھر جزا محذوف ہے یعنی انہیں آخرت کی سزاؤں سے یا برائیوں کی جزا سے بچانا۔ ٩۔ ٢ یعنی آخرت کے عذاب سے بچ جانا اور جنت میں داخل ہوجانا یہی سب سے بڑی کامیابی ہے اس لیے کہ اس جیسی کوئی کامیابی نہیں اور اس کے برابر کوئی نجات نہیں ان آیات میں اہل ایمان کے لیے دو عظیم خوش خبریاں ہیں ایک تو یہ کہ فرشتے ان کے لیے غائبانہ دعا کرتے ہیں جس کی حدیث میں بڑی فضلیت وارد ہے دوسری یہ کہ اہل ایمان کے خاندان جنت میں اکٹھے ہوجائیں گے جعلنا اللہ من الذین یلحقھم اللہ بابائھم الصالحین۔ غافر
10 ١٠۔ ١ مقت سخت ناراضی کو کہتے ہیں اہل کفر جو اپنے کو جہنم کی آگ میں جھلستے دیکھیں گے تو اپنے آپ پر سخت ناراض ہونگے، اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ دنیا میں جب تمہیں ایمان کی دعوت دی جاتی تھی اور تم انکار کرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ اس سے کہیں زیادہ تم پر ناراض ہوتا تھا جتنا تم آج اپنے آپ پر ہو رہے ہو۔ یہ اللہ کی اس ناراضی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج تم جہنم میں ہو۔ غافر
11 ١١۔ ١ جمہور مفسرین کی تفسیر کے مطابق دو موتوں میں سے پہلی موت تو وہ نطفہ ہے کو باپ کی پشت میں ہوتا ہے یعنی انسان کے وجود سے پہلے اس کے عدم وجود کو موت تے تعبیر کیا گیا ہے اور دوسری موت وہ ہے جس سے انسان اپنی زندگی گزار کر ہمکنار ہوتا اور اس کے بعد قبر میں دفن ہوتا ہے اور دو زندگیوں میں سے پہلی زندگی یہ دنیاوی زندگی ہے جس کا آغاز ولادت سے اور اختتام وفات پر ہوتا ہے اور دوسری زندگی وہ ہے جو قیامت والے دن قبروں سے اٹھنے کے بعد حاصل ہوگی انہی دو موتوں اور دو زندگیوں کا تذکرہ وکنتم امواتا فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم البقرۃ میں بھی کیا گیا ہے۔ ١١۔ ٢ یعنی جہنم میں اعتراف کریں گے، جہاں اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں اور وہاں پشیمان ہونگے جہاں پیشمانی کی کوئی حیثیت نہیں۔ ١١۔ ٣ یہ وہی خواہش ہے جس کا تذکرہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے کہ ہمیں دوبارہ زمین پر بھیج دیا جائے تاکہ ہم نیکیاں کما کر لائیں۔ غافر
12 ١٢۔ ١ یہ ان کے جہنم سے نہ نکالے جانے کا سبب بیان فرمایا کہ تم دنیا میں اللہ کی توحید کے منکر تھے اور شرک تمہیں مرغوب تھا اس لیے اب جہنم کے دائمی عذاب کے سوا تمہارے لیے کچھ نہیں۔ ١٢۔ ٢ اسی ایک اللہ کا حکم ہے کہ اب تمہارے لیے جہنم کا عذاب ہمیشہ کے لیے ہے اور اس سے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں۔ جو اعلیٰ یعنی ان باتوں سے بلند ہے کہ اس کی ذات یا صفات میں کوئی اس جیسا ہو اور کبیر یعنی ان باتوں سے بہت بڑا ہے کہ اس کی کوئی مثل ہو یا بیوی اور اولاد ہو یا شریک ہو۔ غافر
13 ١٣۔ ١ یعنی پانی جو تمہارے لئے تمہاری روزیوں کا سبب ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے اظہار آیات کو انزال رزق کے ساتھ جمع کردیا اس لئے کہ آیات قدرت کا اظہار، مذا ہب کی بنیاد ہے اور روزیاں اجسام کی بنیاد ہیں، یوں دونوں بنیادوں کو جمع فرما دیا ہے۔ (فتح القدیر) ١٣۔ ١ اللہ کی اطاعت کی طرف جس سے ان کے دلوں میں آخرت کا خوف پیدا ہوتا ہے اور احکام و فرائض الہی کی پایندی کرتے ہیں۔ غافر
14 ١٤۔ ١ یعنی جب سب کچھ اللہ ہی اکیلا کرنے والا ہے تو کافروں کو چاہے کتنا بھی ناگوار گزرے صرف اسی ایک اللہ کو پکارو اس کے لیے عبادت و اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔ غافر
15 ١٥۔ ١ روح سے مراد وحی ہے جو وہ بندوں میں سے ہی کسی کو رسالت کے لیے چن کر اس پر نازل فرماتا ہے وحی کو روح سے اس لیے تعبیر فربایا کہ جس طرح روح میں انسانی زندگی کی بقا و سلامتی کا راز مضمر ہے اسی طرح وحی سے بھی ان انسانی قلوب میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے جو پہلے کفر و شرک کی وجہ سے مردہ ہوتے ہیں۔ غافر
16 ١٦۔ ١ یعنی زندہ ہو کر قبروں سے نکل کھڑے ہونگے۔ ١٦۔ ١ یہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ پوچھے گا جب سارے انسان اس کے سامنے میدان محشر میں جمع ہوں گے اللہ تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں اور آسمان کو اپنے دا‏ئیں ہاتھ میں لپیٹ لے گا اور کہے گا میں بادشاہ ہوں زمین کے بادشاہ کہاں ہیں؟ (صحیح بخاری)، ١٦۔ ١ جب کوئی نہیں بولے گا تو یہ جواب اللہ تعالیٰ خود ہی دے گا بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک فرشتہ منادی کرے گا جس کے ساتھ ہی تمام کافر اور مسلمان بیک آواز یہی جواب دیں گے۔ فتح القدیر غافر
17 ١٧۔ ١ اس لئے کہ اسے بندوں کی طرح غورو فکر کرنے کی ضرورت نہ ہوگی۔ غافر
18 ١٨۔ ١ َ اَزِفَۃ کے معنی ہیں قریب آنے والی۔ یہ قیامت کا نام ہے، اس لئے کہ وہ بھی قریب آنے والی ہے۔ ١٨۔ (٢) یعنی اس دن خوف کی وجہ سے دل اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے کا ظمین غم سے بھرے ہوئے یا روتے ہوئے یا خاموش اس کے تینوں معنی کیے گئے ہیں۔ غافر
19 اس میں اللہ تعالیٰ کے علم کامل کا بیان ہے کہ اسے تمام اشیا کا علم ہے چھوٹی ہو یا بڑی باریک ہو یا موٹی اعلی مرتبے کی ہو یا چھوٹے مرتبے کی اس لیے انسان کو چاہیے کہ جب اس کے علم واحاطہ کا یہ حال ہے تو اس کی نافرمانی سے اجتناب اور صحیح معنوں میں اس کا خوف اپنے اندر پیدا کرے آنکھوں کی خیانت یہ ہے کہ دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا جائے جیسے راہ چلتے کسی حسین عورت کو کنکھیوں سے دیکھنا سینوں کی باتوں میں وہ وسوسے بھی آ جاتے ہیں جو انسان کے دل میں پیدا ہوتے رہتے ہیں وہ جب تک وسوسے ہی رہتے ہیں یعنی ایک لمحہ گزراں کی طرح آتے اور ختم ہوجاتے ہیں تب تک تو وہ قابل مواخذہ نہیں ہوگے لیکن جب وہ عزائم کا روپ دھار لیں تو پھر ان کا مواخذہ ہوسکتا ہے چاہے ان پر عمل کرنے کا انسان کو موقع نہ ملے۔ غافر
20 ٢٠۔ ١ اس لئے کہ انہیں کسی چیز کا علم ہے نہ کسی پر قدرت، وہ بے خبر بھی ہیں اور بے اختیار بھی، جب کہ فیصلے کے لئے علم اور اختیار دونوں چیزوں کی ضرورت ہے اور یہ دونوں خوبیاں صرف اللہ کے پاس ہیں۔ اس لئے صرف اسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کرے اور وہ یقینا حق کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا، کیونکہ اسے کسی کا خوف ہوگا نہ کسی سے حرص و طمع۔ غافر
21 ٢١۔ ١ گزشنہ آیات میں احوال آخرت کا بیان تھا اب دنیا کے احوال سے انہیں ڈرایا جا رہا ہے کہ یہ لوگ ذرا زمین میں چل پھر کر ان قوموں کا انجام دیکھیں جو ان سے پہلے اس جرم تکذیب میں ہلاک کی گئیں جس کا ارتکاب یہ کر رہے ہیں دراں حالیکہ گزشتہ قومیں قوت و آثار میں ان سے کہیں بڑھ کر تھیں لیکن جب ان پر اللہ کا عذاب آیا تو انہیں کوئی نہیں بجا سکا اسی طرح تم پر بھی عذاب آ سکتا ہے اور اگر آ گیا تو پھر کوئی تمہارا پشت پناہ نہ ہوگا۔ غافر
22 ٢٢۔ ١ یہ ان کی ہلاکت کی وجہ بیان کی گئی ہے، اور وہ ہے اللہ کی آیتوں کا انکار اور پیغمبروں کی تکذیب۔ اب سلسلہ نبوت و رسالت تو بند ہے۔ تاہم آفاق پر انس میں بیشمار آیات الٰہی بکھری اور پھیلی ہوئی ہیں۔ علاوہ ازیں وعظ وتذکیر اور دعوت وتبلیغ کے ذریعے سے علماء اور داعیان حق ان کی وضاحت اور نشاندہی کے لیے موجود ہیں اس لیے آج بھی جو آیات الہی سے اعراض اور دین وشریعت سے غفلت کرے گا اس کا انجام مکذبین اور منکرین رسالت سے مختلف نہیں ہوگا۔ غافر
23 ٢٣۔ ١ آیات سے مراد وہ نشانیاں بھی ہو سکتی ہیں جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے یا عصا اور ید بیضا والے دو بڑے واضح معجزات بھی سلطان مبین سے مراد قوی دلیل اور حجت واضحہ جس کا کوئی جواب ان کی طرف سے ممکن نہیں تھا بجز ڈھٹائی اور بے شرمی کے۔ غافر
24 ٢٤۔ ١ فرعون مصر میں آباد قبط کا بادشاہ تھا بڑا ظالم وجابر اور رب اعلی ہونے کا دعوے دار اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا اور اس پر طرح طرح کی سختیاں کرتا تھا جیسا کہ قرآن کے متعدد مقامات پر اس کی تفصیل ہے ہامان فرعون کا وزیر اور مشیر خاص تھا قارون اپنے وقت کا مال دار ترین آدمی تھا ان سب نے پہلے لوگوں کی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی اور انہیں جادوگر اور کذاب کہا جیسے دوسرے مقام پر فرمایا گیا کذلک ما اتی الذین من قبلھم من رسول الا قالو ساحر او مجنون اتواصوابہ بل ھم قوم طاغون اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں ان کے پاس جو بھی نبی آیا انہوں نے کہہ دیا کہ یا تو یہ جادوگر ہے یا دیوانہ ہے کیا یہ اس بات کی ایک دوسرے کو وصیت کرتے گئے ہیں؟ نہیں بلکہ یہ سب کے سب سرکش ہیں۔ غافر
25 ٢٥۔ ١ فرعون یہ کام پہلے بھی کر رہا تھا تاکہ وہ بچہ پیدا نہ ہو جو نجومیوں کی پیش گوئی کے مطابق اس کی بادشاہت کے لیے خطرے کا تھا یہ دوبارہ حکم اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تذلیل واہانت کے لیے دیا نیز تاکہ بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) کے وجود کو اپنے لیے مصبیت اور نحوست کا باعث سمجھیں جیسا کہ فی الواقع انہوں نے کہا (اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا) 7۔ الاعراف :129) اے موسیٰ (علیہ السلام) تیرے آنے سے قبل بھی ہم اذیتوں سے دو چار تھے اور تیرے آنے کے بعد بھی ہمارا یہی حال ہے۔ ٢٥۔ ١ یعنی اس سے جو مقصد وہ حاصل کرنا چاہتا تھا کہ بنی اسرائیل کی قوت میں اضافہ اور اس کی عزت میں کمی نہ ہو۔ یہ اسے حاصل نہیں ہوا، بلکہ اللہ نے فرعون اور اس کی قوم ہی غرق کردیا اور بنی اسرائیل کو بابرکت زمین کا وارث بنا دیا۔ غافر
26 ٢٦۔ ١ یہ غالبًا فرعون نے ان لوگوں سے کہا جو اسے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے سے منع کرتے تھے۔ ٢٦۔ ٢ یہ فرعون کی دیدہ دلیری کا اظہار ہے کہ میں دیکھوں گا، اس کا رب اسے کیسے بچاتا ہے، اسے پکار کر دیکھ لے۔ یا رب ہی کا انکار ہے کہ اس کا کون سا رب ہے جو بچا لے گا، کیونکہ رب تو وہ اپنے آپ کو کہتا تھا۔ ٢٦۔ ٣ یعنی غیر اللہ کی عبادت سے ہٹا کر ایک اللہ کی عبادت پر نہ لگا دے یا اس کی وجہ سے فساد نہ پیدا ہوجائے مطلب یہ تھا کہ اس کی دعوت اگر میری قوم کے کچھ لوگوں نے قبول کرلی تو وہ نہ قبول کرنے والوں سے بحث وتکرار کریں گے جس سے ان کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوگا جو فساد کا ذریعہ بنے گا یوں دعوت توحید کو اس نے قساد کا سبب اور اہل توحید کو فسادی قرار دیا درآں حالیکہ فسادی وہ خود تھا اور غیر اللہ کی عبادت ہی فساد کی جڑ ہے۔ غافر
27 ٢٧۔ ١ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے علم میں جب یہ بات آئی کہ فرعون مجھے قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو انہوں نے اللہ سے اس کے شر سے بچنے کیلیے دعا مانگی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب دشمن کا خوف ہوتا تو یہ دعا پڑھتے اللھم انا نجعلک فی نحورھم ونعوذ بک من شرور ھم مسند احمد اے اللہ ہم تجھ کو ان کے مقابلے میں کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ طلب کرتے ہیں۔ غافر
28 ٢٨۔ ١ یعنی اللہ کی ربوبیت پر وہ ایمان یوں ہی نہیں رکھتا، بلکہ اس کے پاس اپنے اس موقف کی واضح دلیلیں ہیں۔ ٢٨۔ یہ اس نے بطور تنزل کے کہا کہ اگر اس کے دلائل سے تم مطمئن نہیں اور اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے اس سے تعرض نہ کیا جائے اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے اس جھوٹ کی سزا دنیا و آخرت میں دے دے گا اور اگر وہ سچا ہے اور تم نے اسے ایذائیں پہنچائیں تو پھر یقینا وہ نمہیں جن عذابوں سے ڈراتا ہے تم پر ان میں سے کوئی عذاب آ سکتا ہے۔ ٢٨۔ ٣ اس کا مطلب ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہوتا جیسا کہ تم باور کراتے ہو تو اللہ تعالیٰ اسے دلائل معجزات سے نہ نوازتا جب کہ اس کے پاس یہ چیزیں موجود ہیں دوسرا مطلب ہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ خود ہی اسے ذلیل اور ہلاک کر دے گا تمہیں اس کے خلاف کوئی اقدام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ غافر
29 ٢٩۔ ١ یعنی یہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ تمہیں زمین پر غلبہ عطا فرمایا اس کا شکر ادا کرو اور اس کے رسول کی تکذیب کر کے اللہ کی ناراضی مول نہ لو۔ ٢٩۔ ٢ یہ فوجی لشکر تمہارے کچھ کام نہ آئیں گے، نہ اللہ کے عذاب ہی کو ٹال سکیں گے اگر وہ آ گیا۔ یہاں تک اس مومن کا کلام تھا جو ایمان چھپائے ہوئے تھا۔ ٢٩۔ ٣ فرعون نے اپنے دنیاوی جاہ جلال کی بنیاد پر جھوٹ بولا اور کہا کہ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں وہی تمہیں بتلا رہا ہوں اور میری بتلائی ہوئی راہ ہی صحیح ہے حالانکہ ایسا نہیں تھا وما امر فرعون برشید (ھود) غافر
30 غافر
31 ٣١۔ ١ یہ اس مومن آدمی نے دوبارہ اپنی قوم کو ڈرایا کہ اگر اللہ کے رسول کی تکذیب (جھٹلایا) پر ہم اڑے رہے تو خطرہ ہے کہ گزشتہ قوموں کی طرح عذاب الٰہی کی گرفت میں آ جائیں گے ۔ ٣١۔ ٢ یعنی اللہ نے جن کو بھی ہلاک کیا ان کے گناہوں کی پاداش میں اور رسولوں کی تکذیب ومخالفت کی وجہ سے ہی ہلاک کیا ورنہ وہ شفیق ورحیم رب اپنے بندوں پر ظلم کرنے کا ارادہ ہی نہیں کرتا گویا قوموں کی ہلاکت یہ ان پر اللہ کا ظلم نہیں ہے بلکہ قانون مکافات کا ایک لازمی نتیجہ ہے جس سے کوئی قوم اور فرد مستثنی نہیں از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروید جو از جو غافر
32 ٣٢۔ ١ تنادی کے معنی ہیں۔ ایک دوسرے کو پکارنا، قیامت کو یَوْمَ التَّنَادِ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس دن ایک دوسرے کو پکاریں گے۔ اہل جنت اہل نار کو اور اہل نار اہل جنت کو ندائیں دیں گے۔ (وَنَادٰٓی اَصْحٰبُ الْاَعْرَافِ رِجَالًا یَّعْرِفُوْنَہُمْ بِسِیْمٰیہُمْ قَالُوْا مَآ اَغْنٰی عَنْکُمْ جَمْعُکُمْ وَمَا کُنْتُمْ تَسْتَکْبِرُوْنَ 48؀ اَہٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِیْنَ اَقْسَمْتُمْ لَا یَنَالُہُمُ اللّٰہُ بِرَحْمَۃٍ ۭ اُدْخُلُوا الْجَنَّۃَ لَا خَوْفٌ عَلَیْکُمْ وَلَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ 49؀) 7۔ الاعراف :49-48)۔ بعض کہتے ہیں کہ میزان کے پاس ایک فرشتہ ہوگا جس کی نیکیوں کا پلڑا ہلکا ہوگا اس کی بد بختی کا یہ فرشتہ چیخ کر اعلان کرے گا بعض کہتے ہیں کہ عملوں کے مطابق لوگوں کو پکارا جائے گا جیسے اہل جنت کو اے جنتیو! اور اہل جہتم کو اے جہنمیو! امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ امام بغوی کا یہ قول بہت اچھا ہے کہ ان تمام باتوں ہی کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا ہے۔ غافر
33 ٣٣۔ ١ یعنی موقف (میدان محشر) سے جہنم کی طرف جاؤ گے، یا حساب کے بعد وہاں سے بھاگو گے ۔ ٣٣۔ ٢ جو اسے ہدایت کا راستہ بتا سکے یعنی چلا سکے۔ غافر
34 ٣٤۔ ١ یعنی اہل مصر! حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے قبل تمہارے اس علاقہ میں جس میں تم آباد ہو، حضرت یوسف (علیہ السلام) بھی دلائل و براہین کے ساتھ آئے تھے۔ جس میں تمہارے آباؤ اجداد کو ایمان کی دعوت دی گئی تھی یعنی جَآءَ کُمْ سے مراد جَآءَ اِلَیٰ آبائِکُمْ ہے یعنی تمہارے آباؤ واجداد کے پاس آئے۔ ٣٤۔ ٢ لیکن تم ان پر بھی ایمان نہیں لائے اور ان کی دعوت میں شک و شبہ ہی کرتے رہے۔ ٣٤۔ ٣ یعنی یوسف (علیہ السلام) پیغمبر کی وفات ہوگئی۔ ٣٤۔ ٤ یعنی تمہارا شیوہ چونکہ ہر پیغمبر کی تکذیب اور مخالفت ہی رہا ہے اس لیے سمجھتے تھے کہ اب کوئی رسول ہی نہیں آئے گا یا یہ مطلب ہے کہ رسول کا آنا یا نہ آنا تمہارے لیے برابر ہے یا یہ مطلوب ہے کہ اب ایسا باعظمت انسان کہاں پیدا ہوسکتا ہے جو رسالت سے سرفراز ہو گویا بعد از مرگ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی عظمت کا اعتراف تھا اور بہت سے لوگ ہر اہم ترین انسان کی وفات کے بعد یہی کہتے رہے ہیں۔ ٣٤۔ ٥ یعنی اس واضح گمراہی کی طرح جس میں تم مبتلا ہو اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو بھی گمراہ کرتا ہے جو نہایت کثرت سے گناہوں کا ارتکاب کرتا اور اللہ کے دین کی وحدانیت اور اس کے وعدوں وعیدوں میں شک کرتا ہے۔ غافر
35 ٣٥۔ ١ یعنی اللہ کی طرف سے اتاری ہوئی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہے، اس کے باوجود اللہ کی توحید اور اس کے احکام میں جھگڑتے ہیں، جیسا کہ ہر دور کے اہل باطن کا وطیرہ رہا ہے۔ ٣٥۔ ٢ یعنی ان کی اس حرکت سے اللہ تعالیٰ ہی ناراض نہیں ہوتا، اہل ایمان بھی اس کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ ٣٥۔ ٢ یعنی جس طرح ان مجادلین کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے اسی طرح ہر اس شخص کے دل پر مہر لگا دی جاتی ہے جو اللہ کی آیتوں کے مقابلے میں تکبر اور سرکشی کا اظہار کرتا ہے جس کے بعد معروف ان کو معروف اور منکر، منکر نظر نہیں آتا بلکہ بعض دفعہ منکر، ان کے ہاں معروف اور اور معروف، منکر قرار پاتا ہے۔ غافر
36 ٣٦۔ ١ یہ فرعون کی سرکشی کا بیان ہے کہ اس نے اپنے وزیر ہامان کو بلند عمارت بنانے کا حکم دیا تاکہ اس کے ذریعے سے وہ آسمان کے دروازوں تک پہنچ جائے۔ اسباب کے معنی دروازے، یا راستے کے ہیں مزید دیکھئے القصص، آیت۔ غافر
37 ٣٧۔ ١ یعنی دیکھوں کہ آسمانوں پر کیا واقعی کوئی اللہ ہے؟ ٣٧۔ ٢ اس بات میں کہ آسمان پر اللہ ہے جو آسمان و زمین کا خالق اور ان کا مدبر ہے۔ یا اس بات میں کہ وہ اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہے۔ ٣٧۔ ٣ یعنی شیطان نے اس طرح اسے گمراہ کئے رکھا اور اس کے برے عمل اسے اچھے نظر آتے رہے۔ ٣٧۔ ٤ یعنی حق اور درست راستے سے اسے روک دیا گیا اور وہ گمراہیوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہا۔ ٣٧۔ ٥ تباب خسارہ، ہلاکت۔ یعنی فرعون نے جو تدبیر اختیار کی، اس کا نتیجہ اس کے حق میں برا ہی نکلا۔ اور بالآخر اپنے لشکر سمیت پانی میں ڈبو دیا گیا۔ غافر
38 ٣٨۔ ١ فرعون کی قوم سے ایمان لانے والا پھر بولا اور کہا کہ دعویٰ تو فرعون بھی کرتا ہے کہ میں تمہیں سیدھے راستے پر چلا رہا ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فرعون بھٹکا ہوا ہے، میں جس راستے کی نشاندہی کر رہا ہوں وہ سیدھا راستہ ہے اور وہ وہی راستہ ہے، جس کی طرف تمہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دعوت دے رہے ہیں۔ غافر
39 ٣٩۔ ١ جس کی زندگی چند روزہ ہے۔ اور وہ بھی آخرت کے مقابلے میں صبح یا شام کی ایک گھڑی کے برابر۔ ٣٩۔ ٢ جس کو زوال اور فنا نہیں، نہ وہاں انتقال اور کوچ ہوگا۔ کوئی جنت میں جائے یا جہنم میں، دونوں کی زندگیاں ہمیشہ کی ہوں گی۔ ایک راحت اور آرام کی زندگی۔ دوسرے عذاب کی زندگی۔ موت اہل جنت کو آئے گی نہ اہل جہنم کو۔ غافر
40 ٤٠۔ ١ یعنی برائی کی مثل ہی جزا ہوگی زیادہ نہیں اور اس کے مطابق ہی عذاب ہوگا جو عدل وانصاف کا آئینہ دار ہوگا۔ ٤٠۔ ٢ یعنی وہ جو ایمان دار بھی ہوں گے اور اعمال صالحہ کے پابند بھی اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اعمال صالحہ کے بغیر محض ایمان یا ایمان کے بغیر اعمال صالحہ کی حثییت اللہ کے ہاں کچھ نہیں ہوگی عند اللہ کامیابی کے لیے ایمان کے ساتھ عمل صالح اور عمل صالح کے ساتھ ایمان ضروری ہے۔ ٤٠۔ ٣ یعنی بغیر اندازے اور حساب کے نعمتیں ملیں گی اور ان کے ختم ہونے کا بھی اندیشہ نہیں ہوگا۔ غافر
41 ٤١۔ ١ اور وہ یہ کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور اس کے رسول کی تصدیق کرو، جو اس نے تمہاری ہدایت اور راہنمائی کے لئے بھیجا ہے ٤١۔ ٢ یعنی توحید کی بجائے شرک کی دعوت دے رہے ہو جو انسان کو جہنم میں لے جانے والا ہے جیسا کہ اگلی آیت میں وضاحت ہے۔ غافر
42 ٤٢۔ ١ عزیز غالب جو کافروں سے انتقام لینے اور ان کو عذاب دینے پر قادر ہے غفار اپنے ماننے والوں کی غلطیوں کوتاہیوں کو معاف کردینے والا اور ان کی پردہ پوشی کرنے والا۔ جب کہ تم جن کی عبادت کرنے کی طرف مجھے بلا رہے ہو وہ بالکل حقیر اور کم تر چیزیں ہیں نہ وہ سن سکتی ہیں نہ جواب دے سکتی ہیں کسی کو نفع پہچانے پر قادر ہیں نہ نقصان پہنچانے پر۔ غافر
43 ٤٣۔ ١ لاجرَمَ یہ بات یقینی ہے، یا اس میں جھوٹ نہیں ہے۔ ٤٣۔ ٢ یعنی وہ کسی کی پکار سننے کی استعداد ہی نہیں رکھتے کہ کسی کو نفع پہنچا سکیں یا الوہیت کا استحقاق انہیں حاصل ہو اس کا تقربیا وہی مفہوم ہے جو اس آیت اور اس جیسی دیگر متعدد آیات میں بیان کیا گیا ہے (وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗٓ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَہُمْ عَنْ دُعَاۗیِٕہِمْ غٰفِلُوْنَ) 46۔ الاحقاف :5) (اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَاۗءَکُمْ ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَکُمْ) 35۔ فاطر :14) اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہی نہیں اور اگر بالفرض سن لیں تو قبول نہیں کرسکتے۔ ٤٣۔ ٣ یعنی آخرت میں ہی وہ پکار سن کر کسی کو عذاب سے چھڑانے پر یا شفاعت ہی کرنے پر قادر ہوں؟ یہ بھی ممکن نہیں ہے ایسی چیزیں بھلا اس لائق ہو سکتی ہیں کہ وہ معبود بنیں اور ان کی عبادت کی جائے؟ ٤٣۔ ٤ جہاں ہر ایک کا حساب ہوگا اور عمل کے مطابق اچھی یا بری جزا دی جائے گی۔ ٤٣۔ ٥ یعنی کافر و مشرک جو اللہ کی نافرمانی میں ہر حد سے تجاوز کر جاتے ہیں اس طرح جو بہت زیادہ گناہ گار مسلمان ہوں گے جن کی نافرمانیاں اسراف کی حد تک پہنچی ہوئی ہوں گی انہیں بھی کچھ عرصہ جہنم کی سزا بھگتنی ہوگی تاہم بعد میں شفاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا اللہ کی مشیت سے ان کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ غافر
44 ٤٤۔ ١ عنقریب وہ وقت آئے گا جب میری باتوں کی صداقت اور جن باتوں سے روکتا تھا ان کی شناعت تم پر واضح ہوجائے گی پھر تم ندامت کا اظہار کرو گے مگر وہ وقت ایسا ہوگا کہ ندامت بھی کوئی فائدہ نہیں دے گی۔ ٤٤۔ ٢ یعنی اسی پر بھروسہ کرتا اور اسی سے ہر وقت استعانت کرتا ہوں اور تم سے بیزاری اور قطع تعلق کا اعلان کرتا ہوں۔ ٤٤۔ ٣ وہ انہیں دیکھ رہا ہے پس وہ مستحق ہدایت کو ہدایت سے نوازتا اور ضلالت کا استحقاق رکھنے والے کو ضلالت سے ہمکتار کتا ہے ان امور میں جو حکمتیں ہیں ان کو وہی خوب جانتا ہے۔ غافر
45 ٤٥۔ ١ یعنی اس کی قوم قبط نے اس مومن کے اظہار حق کی وجہ سے اس کے خلاف جو تدبیریں اور سازشیں سوچ رکھی تھیں ان سب کو ناکام بنا دیا اور اسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ نجات دے دی۔ اور آخرت میں اس کا گھر جنت ہوگا۔ ٤٥۔ ٢ یعنی دنیا میں انہیں سمندر میں غرق کردیا گیا اور آخرت میں ان کے لئے جہنم کا سخت ترین عذاب ہے۔ غافر
46 ٤٦۔ ١ اس آگ پر برزخ میں یعنی قبروں میں لوگ روزانہ صبح شام پیش کئے جاتے ہیں، جس سے قبر کا عذاب ثابت ہوتا ہے جس کا بعض لوگ انکار کرتے ہیں۔ حدیث میں تو بڑی وضاحت سے عذاب قبر پر روشنی ڈالی گئی ہے مثلاً حضرت عائشہ (رض) کے سوال کے جواب میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' ہاں! قبر کا عذاب حق ہے ' اسی طرح ایک اور حدیث میں فرمایا گیا ' جب تم میں سے کوئی مرتا ہے تو (قبر میں) اس پر صبح و شام اس کی جگہ پیش کی جاتی ہے یعنی اگر وہ جنتی ہے تو جنت اور جہنمی ہے تو جہنم اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ تیری اصل جگہ ہے، جہاں قیامت والے دن اللہ تعالیٰ تجھے بھیجے گا (صحیح بخاری اس کا مطلب ہے کہ منکرین عذاب قبر قرآن و حدیث دونوں کی صراحتوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ ٤٦۔ ٢ اس سے بالکل واضح ہے کہ عرض علی النار کا معاملہ جو صبح وشام ہوتا ہے قیامت سے پہلے کا ہے اور قیامت سے پہلے برزخ اور قبر ہی کی زندگی ہے قیامت والے دن اس کو قبر سے نکال کر سخت ترین عذاب یعنی جہنم میں ڈال دیا جائے گا آل فرعون سے مراد فرعون اس کی قوم اور اس کے سارے پیروکار ہیں یہ کہنا کہ ہمیں تو قبر میں مردہ آرام سے پڑا نظر آتا ہے اسے اگر عذاب ہو تو اس طرح نظر نہ آئے لغو ہے کیونکہ عذاب کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ہمیں نظر بھی آ‏ئے اللہ تعالیٰ ہر طرح عذاب دینے پر قادر ہے کیا ہم دیکھتے نہیں ہیں کہ خواب میں ایک شخص نہایت المناک منظر دیکھ کر سخت کرب و اذیت محسوس کرتا ہے لیکن دیکھنے والوں کو ذرا محسوس نہیں ہوتا کہ یہ خوابیدہ شخص تکلیف سے دو چار ہے اس کے باوجود عذاب قبر کا انکار محض ہٹ دھرمی اور بے جا تحکم ہے بلکہ بیداری میں بھی انسان کو جو تکالیف ہوتی ہیں وہ خود ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ صرف انسان کا تڑپنا اور تلملانا ظاہر ہوتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جبکہ وہ تڑپے اور تلمائے۔ غافر
47 غافر
48 غافر
49 غافر
50 ٥٠۔ ١ ہم ایسے لوگوں کے حق میں اللہ سے کیونکر کچھ کہہ سکتے ہیں جن کے پاس اللہ کے پیغمبر دلائل و معجزات لے کر آئے لیکن انہوں نے پروا نہ کی؟ ٥٠۔ ٢ یعنی بالآخر وہ خود ہی اللہ سے فریاد کریں گے لیکن اس فریاد کی وہاں شنوائی نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ دنیا میں ان پر حجت تمام کی جا چکی تھی اب آخرت تو ایمان، توبہ اور عمل کی جگہ نہیں، وہ تو دار الجزا ہے، دنیا میں جو کچھ کیا ہوگا، اس کا نتیجہ وہاں بھگتنا ہوگا۔ غافر
51 ٥١۔ ١ یعنی ان کے دشمن کو ذلیل اور ان کو غالب کریں گے بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ اشکال پیدا ہوسکتا ہے کہ بعض نبی قتل کر دئیے گئے جیسے حضرت یحیی و زکریا علیہما السلام وغیرہ اور بعض ہجرت پر مجبور ہوگئے جیسے ابراہیم (علیہ السلام) اور ہمارے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وعدہ امداد کے باوجود ایسا کیوں ہوا ؟ دراصل یہ وعدہ غالب حالات اور اکثریت کے اعتبار سے ہے اس لیے بعض حالتوں میں اور بعض اشخاص پر کافروں کا غلبہ اس کے منافی نہیں یا مطلب یہ ہے کہ عارضی طور پر یعض دفعہ اللہ کی حکمت و مشیت کے تحت کافروں کو غلبہ عطا فرما دیا جاتا ہے لیکن بالاخر اہل ایمان ہی غالب اور سرخرو ہوتے ہیں جیسے حضرت یحیی و زکریا علیہما السلام کے قاتلین پر بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کے دشمنوں کو مسلط فرما دیا جنہوں نے ان کے خون سے اپنی پیاس بجھائی اور انہیں ذلیل و خوار کیا جن یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو سولی دے کر مارنا چاہا اللہ نے ان یہودیوں پر رومیوں کو ایسا غلبہ دیا کہ انہوں نے یہودیوں کو خوب ذلت کا عذاب چکھایا پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے رفقا یقینا ہجرت پر مجبور ہوئے لیکن اس کے بعد جنگ بدر، احد، احزاب، غزوہ خیبر، اور پھر فتح مکہ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے جس طرح مسلمانوں کی مدد فرمائی اور اپنے پیغمبر اور اہل ایمان کو جس طرح غلبہ عطا فرمایا اس کے بعد اللہ کی مدد کرنے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے؟ ابن کثیر ٥١۔ ٢ اشہاد شہید گواہ کی جمع ہے جیسے شریف کی جمع اشراف ہے قیامت والے دن فرشتے اور انبیاء علیہم السلام گواہی دیں گے یا فرشتے اس بات کی گواہی دیں گے کہ یا اللہ پیغمبروں نے تیرا پیغام پہنچا دیا تھا لیکن ان کی امتوں نے ان کو جھٹلایا۔ علاوہ ازیں امت محمدیہ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی گواہی دیں گے جیسے کہ پہلے بیان ہوچکا ہے۔ اس لئے قیامت کو گواہوں کے کھڑا ہونے کا دن کہا گیا ہے۔ اس دن اہل ایمان کی مدد کرنے کا مطلب ہے ان کو ان کے اچھے اعمال کی جزا دی جائے گی اور انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا۔ غافر
52 ٥٢۔ ١ یعنی اللہ کی رحمت سے دوری اور پھٹکار۔ اور معذرت کا فائدہ اس لئے نہیں ہوگا کہ وہ معذرت کی جگہ نہیں، اس لئے یہ معذرت، معذرت باطلہ ہوگی۔ غافر
53 ٥٣۔ ١ یعنی نبوت اور تورات عطا کی جیسے فرمایا (اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰیۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌ) 5۔ المائدہ :44) ٥٣۔ ١ یعنی تورات، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بھی باقی رہی، جس کے نسلاً بعد نسل وہ وارث ہوتے رہے۔ یا کتاب سے مراد وہ تمام کتابیں ہیں جو انبیائے بنی اسرائیل پر نازل ہوئیں، ان سب کتابوں کا وارث بنی اسرائیل کو بنایا۔ غافر
54 ٥٤۔ ١ آسمانی کتابوں کا فائدہ وہی اٹھاتے ہیں ہدایت و نصیحت حاصل کرتے ہیں جو عقل سلیم کے مالک ہیں دوسرے لوگ تو گدھوں کی طرح ہیں جن پر کتابوں کا بوجھ تو لدا ہوتا ہے لیکن وہ اس سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کتابوں میں کیا ہے؟ غافر
55 ٥٥۔ ١ گناہ سے مراد چھوٹی چھوٹی لغزشیں ہیں، جو بہ تقاضائے بشریت سرزد ہوجاتی ہیں، جن کی اصلاح بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کردی جاتی ہے۔ یا استغفار بھی ایک عبادت ہی ہے۔ اجر و ثواب کی زیادتی کے لئے استغفار کا حکم دیا گیا ہے، یا مقصد امت کی رہنمائی ہے کہ وہ استغفار سے بے نیاز نہ ہوں۔ ٥٥۔ ٢ عشیی سے دن کا آخری اور رات کا ابتدائی حصہ اور ابکار سے رات کا آخری اور دن کا ابتدائی حصہ مراد ہے۔ غافر
56 ٥٦۔ ١ یعنی وہ لوگ جو بغیر آسمانی دلیل کے بحث و حجت کرتے ہیں، یہ محض تکبر کی وجہ سے ایسا کرتے ہیں، تاہم اس سے جو ان کا مقصد ہے کہ حق کمزور اور باطل مضبوط ہو وہ ان کو حاصل نہیں ہوگا۔ غافر
57 ٥٧۔ ١ یعنی پھر یہ کیوں اس بات سے انکار کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا ؟ جب کہ یہ کام آسمان و زمین کی تخلیق سے بہت آسان ہے۔ غافر
58 ٥٨۔ ١ مطلب ہے جس طرح بینا اور نابینا برابر نہیں، اسی طرح مومن و کافر اور نیکوکار اور بدکار برابر نہیں بلکہ قیامت کے دن ان کے درمیان جو عظیم فرق ہوگا، وہ بالکل واضح ہو کر سامنے آئے گا۔ غافر
59 غافر
60 ٦٠۔ ١ گزشتہ آیت میں جب اللہ نے وقوع قیامت کا تذکرہ فرمایا تو اب اس آیت میں ایسی راہنمائی دی جا رہی ہے، جسے اختیار کر کے انسان آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہو سکے، اس آیت میں دعا سے اکثر مفسرین نے عبادت مراد لی ہے یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔ جیسا کہ حدیث میں میں بھی دعا کو عبادت بلکہ عبادت کا مغز قرار دیا گیا، بعض کہتے ہیں کہ دعا سے مراد دعا ہی ہے۔ یعنی اللہ سے جلب نفع اور دفع ضرر کا سوال کرنا، کیونکہ دعا کے شرعی اور حقیقی معنی طلب کرنے کے ہیں، دوسرے مفہوم میں اس کا استعمال مجازی ہے۔ علاوہ ازیں دعا بھی اپنے حقیقی معنی کے اعتبار سے اور حدیث مذکورہ کی رو سے بھی عبادت ہے کیونکہ مافوق الاسباب طریقے سے کسی کو حاجت روائی کے لئے پکارنا اس کی عبادت ہے اور عبادت اللہ کے سوا کسی کی جائز نہیں۔ ٦٠۔ ٢ یہ اللہ کی عبادت سے انکار و اعراض یا اس میں دوسروں کو بھی شریک کرنے والوں کا انجام ہے۔ غافر
61 ٦١۔ ١ یعنی رات کو تاریک بنایا، تاکہ کاروبار زندگی معطل ہوجائیں اور لوگ امن اور سکون سے سو سکیں۔ ٦١۔ ٢ یعنی روشن بنایا تاکہ معاشی محنت اور تگ و دو میں تکلیف نہ ہو۔ ٦١۔ ٢ اللہ کی نعمتوں کا اور نہ ان کا اعتراف ہی کرتے ہیں یا تو کفر وجحود کی وجہ سے جیسا کہ کافروں کا شیوہ ہے یا منعم کے واجبات شکر سے اہمام و غفلت کی وجہ سے جیسا کہ جاہلوں کا شعار ہے۔ غافر
62 ٦٢۔ ١ یعنی پھر تم اس کی عبادت سے کیوں بدکتے ہو اور اس کی توحید سے کیوں پھرتے اور بھاگتے ہو۔ غافر
63 غافر
64 ٦٤۔ ١ آگے نعمتوں کی کچھ قسمیں بیان کی جا رہی ہیں تاکہ اللہ کی قدرت کاملہ بھی واضح ہوجائے اور اس کا بلا شرکت غیرے معبود ہونا بھی۔ ٦٤۔ ٢ جس میں تم رہتے چلتے پھرتے کاروبار کرتے اور زندگی گزارتے ہو پھر بالآخر موت سے ہمکنار ہو کر قیامت تک کے لیے اسی میں آسودہ خواب رہتے ہو۔ ٦٤۔ ٣ یعنی قائم اور ثابت رہنے والی چھت اگر اس کے گرنے کا اندیشہ رہتا تو کوئی شخص آرام کی نیند سو سکتا تھا نہ کسی کے لیے کاروبار حیات کرنا ممکن ہوتا۔ ۔ ٦٤۔ ٤ جتنے بھی روئے زمین پر حیوانات ہیں، ان سب میں (تم) انسانوں کو سب سے زیادہ خوش شکل اور متناسب الا، عضا بنایا ہے۔ ٦٤۔ ٥ یعنی اقسام و انواع کے کھانے تمہارے لئے مہیا کئے، جو لذیذ بھی ہیں اور قوت بخش بھی۔ غافر
65 ٦٥۔ ١ یعنی جب سب کچھ کرنے والا اور دینے والا وہی ہے دوسرا کوئی بنانے میں شریک ہے نہ اختیارات میں تو پھر عبادت کا مستحق بھی صرف اک اللہ ہی ہے، دوسرا کوئی اس میں شریک نہیں ہو سکتا۔ استمداد و استغاثہ بھی اسی سے کرو کہ وہی سب کی فریادیں اور التجائیں سننے پر قادر ہے دوسرا کوئی بھی مافوق الاسباب طریقے سے کسی کی بات سننے پر قادر ہی نہیں ہے جب یہ بات ہے تو دوسرے مشکل کشائی اور حاجت روائی کس طرح کرسکتے ہیں؟ غافر
66 ٦٦۔ ١ چاہے وہ پتھر کی مورتیاں ہوں، انبیاء علیہم السلام اور صلحا ہوں اور قبروں میں مدفون اشخاص ہوں۔ مدد کے لئے کسی کو مت پکارو، ان کے ناموں کی نذر نیاز مت دو ان کے ورد نہ کرو ان سے خوف مت کھاؤ اور ان سے امیدیں وابستہ نہ کرو کیونکہ یہ سب عبادت کی قسمیں ہیں جو صرف ایک اللہ کا حق ہے۔ ٦٦۔ ٢ یہ وہی عقلی اور نقلی دلائل ہیں جن سے اللہ کی توحید یعنی اللہ کے واحد الہ اور رب ہونے کا اثبات ہوتا ہے جو قرآن میں جا بجا ذکر کیے گئے ہیں اسلام کے معنی ہیں اطاعت وانقیاد کے لیے جھک جانا سر اطاعت خم کردینا یعنی اللہ کے سامنے میں جھک جاؤں ان سے سرتابی نہ کروں آگے پھر توحید کے کچھ دلائل بیان کیے جا رہے ہیں۔ غافر
67 ٦٧۔ ١ یعنی تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے بنایا جو ان کی تمام اولاد کے مٹی سے پیدا ہونے کو مستلزم ہے پھر اس کے بعد نسل انسانی کے تسلسل اور اس کی بقا وتحفظ کے لیے انسانی تخلیق کو نطفے سے وابستہ کردیا اب ہر انسان اس نطفے سے پیدا ہوتا ہے جو صلب پدر سے رحم مادر میں جا کر قرار پکڑتا ہے سوائے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے کہ ان کی پیدائش معجزانہ طور پر بغیر باپ کے ہوئی جیسا کہ قرآن کریم کی بیان کردہ تفصیلات سے واضح ہے اور جس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ ٦٧۔ ٢ یعنی ان تمام کیفیتوں اور اطوار سے گزارنے والا وہی اللہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ ٦٧۔ ٣ یعنی رحم مادر میں مختلف ادوار سے گزر کر باہر آنے سے پہلے ہی ماں کے پیٹ میں، بعض بچپن میں، بعض جوانی میں اور بعض بڑھاپے سے قبل فوت ہوجاتے ہیں۔ ٦٧۔ ٤ یعنی اللہ تعالیٰ یہ اس لئے کرتا ہے تاکہ جس کی جتنی عمر اللہ نے لکھ دی ہے، وہ اس کو پہنچ جائے اور اتنی زندگی دنیا میں گزار لے۔ ٦٧۔ ٥ یعنی جب تم ان اطوار اور مراحل پر غور کرو گے کہ نطفے سے علقہ پھر مضغۃ، پھر بچہ، پھر جوانی، کہولت اور بڑھاپا، تو تم جان لو گے کہ تمہارا رب بھی ایک ہی ہے اور تمہارا معبود بھی ایک اس کے سوا کو‏ئی معبود نہیں علاوہ ازیں یہ بھی سمجھ لو گے کہ جو اللہ یہ سب کچھ کرنے والا ہے اس کے لیے قیامت والے دن انسانوں کو دوبارہ زندہ کردینا بھی مشکل نہیں ہے اور وہ یقینا سب کو زندہ فرما‏ئے گا۔ غافر
68 ٦٨۔ ١ زندہ کرنا اور مارنا اسی کے اختیار میں ہے۔ وہ ایک بے جان نطفے کو مختلف اطوار سے گزار کر ایک زندہ انسان کے روپ میں ڈھال دیتا ہے اور پھر ایک وقت مقررہ کے بعد اس زندہ انسان کو مار کر موت کی وادیوں میں سلا دیتا ہے۔ ٦٨۔ ٢ اس کی قدرت کا یہ حال ہے کہ اس کے لفظ کن (ہو جا) سے وہ چیز معرض وجود میں آجاتی ہے جس کا وہ ارادہ کرے۔ غافر
69 ٦٩۔ ١ انکار اور تکذیب کے لئے یا اس کے رد و ابطال کے لئے۔ ٦٩۔ ٢ یعنی ظہور دلائل اور وضوح حق کے باوجود وہ کس طرح حق کو نہیں مانتے۔ یہ تعجب کا اظہار ہے۔ غافر
70 غافر
71 ٧١۔ ١ یہ وہ نقشہ ہے جو جہنم میں ان مکذبین کا ہوگا۔ غافر
72 ٧٢۔ ١ مجاہد اور مقاتل کا قول ہے کہ ان کے ذریعے سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی یعنی یہ لوگ اس کا ایندھن بنے ہوں گے۔ غافر
73 غافر
74 ٧٤۔ ١ کیا وہ آج تمہاری مدد کرسکتے ہیں؟ ٧٤۔ ٢ یعنی پتہ نہیں، کہاں چلے گئے ہیں، وہ ہماری مدد کیا کریں گے؟ ٧٤۔ ٣ اقرار کرنے کے بعد، پھر ان کی عبادت کا ہی انکار کردیں گے کیونکہ وہاں ان پر واضح ہوجائے گا کہ وہ ایسی چیزوں کی عبادت کرتے رہے جو سن سکتی تھیں، نہ دیکھ سکتی تھیں اور نقصان پہنچا سکتی تھیں نہ نفع (فتح القدیر اور اس کا دوسرا معنی واضح ہے اور وہ یہ کہ وہ شرک کا سرے سے انکار ہی کریں گے۔ ٧٤۔ ٤ یعنی ان مکذبین ہی کی طرح اللہ تعالیٰ کافروں کو بھی گمراہ کرنا ہے مطلب یہ ہے کہ مسلسل تکذیب اور کفر یہ ایسی چیزیں ہیں کہ جن سے انسانوں کے دل سیاہ اور زنگ آلود ہوجاتے ہیں اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے قبول حق کی توفیق سے محروم ہوجاتے ہیں۔ غافر
75 ٧٥۔ ١ یعنی تمہاری یہ گمراہی اس بات کا نتیجہ ہے کہ تم کفر وتکذیب اور فسق وفجور میں اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ ان پر تم خوش ہوتے اور اتراتے تنے اترانے میں مزید خوشی کا اظہار ہے جو تکبر کو مستلزم ہے۔ غافر
76 ٧٦۔ ١ یہ جہنم پر مقرر فرشتے، اہل جہنم کو کہیں گے۔ غافر
77 ٧٧۔ ١ کہ ہم کافروں سے انتقام لیں گے۔ یہ وعدہ جلدی بھی پورا ہوسکتا ہے یعنی دنیا میں ہی ہم ان کی گرفت کرلیں گے یا حسب مشیت الٰہی تاخیر بھی ہو سکتی ہے۔ یعنی قیامت والے دن ہم انہیں سزا دیں۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ یہ اللہ کی گرفت سے بچ کر کہیں جا نہیں سکتے۔ ٧٧۔ ٢ یعنی آپ کی زندگی میں ان کو مبتلائے عذاب کردیں چنانچہ ایسا ہی ہوا اللہ نے کافروں سے انتقام لے کر مسلمانوں کی آنکھوں کو ٹھنڈا کیا جنگ بدر میں ستر کافر مارے گئے ٨ ہجری میں مکہ فتح ہوگیا اور پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ میں ہی پورا جزیرہ عرب مسلمانوں کے زیر نگیں آ گیا۔ ٧٧۔ ٣ یعنی اگر کافر دنیاوی مواخذہ و عذاب سے بچ بھی گئے تو آخر میرے پاس ہی آئیں گے جہاں ان کے لیے سخت عذاب تیار ہے۔ غافر
78 ٧٨۔ ١ اور یہ تعداد میں، بہ نسبت ان کے جن کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ بہت زیادہ ہیں۔ اس لئے کہ قرآن کریم میں تو صرف ٢٥، انبیاء و رسل کا ذکر اور ان کی قوموں کے حالات بیان کئے ہیں۔ ٧٨۔ ٢ آیت سے مراد یہاں معجزہ اور خرق عادت واقعہ ہے جو پیغمبر کی صداقت پر دلالت کرے کفار پیغمبروں سے مطالبے کرتے رہے کہ ہمیں فلاں فلاں چیز دکھاؤ جیسے خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفار مکہ نے کئی چیزوں کا مطالبہ کیا جس کی تفصیل سورۃ بنی اسرائیل میں موجود ہے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ کسی پیغمبر کے اختیار میں یہ نہیں تھا کہ وہ اپنی قوموں کے مطالبے پر ان کو کوئی معجزہ صادر کر کے دکھلادے یہ صرف ہمارے اختیار میں تھا بعض نبیوں کو تو ابتدا ہی سے معجزے دے دیے گئے تھے بعض قوموں کو ان کے مطالبے پر معجزہ دکھلایا گیا اور بعض کو مطالبے کے باوجود نہیں دکھلایا گیا ہماری مشیت کے مطابق اس کا فیصلہ ہوتا تھا کسی نبی کے ہاتھ میں یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ جب چاہتا معجزہ صادر کر کے دکھلا دیتا اس سے ان لوگوں کی واضح تردید ہوتی ہے جو بعض اولیاء کی طرف یہ باتیں منسوب کرتے ہیں کہ وہ جب چاہتے اور جس طرح کا چاہتے خرق عادت امور کا اظہار کردیتے تھے جیسے شیخ عبد القادر جیلانی کے لیے بیان کیا جاتا ہے یہ سب من گھڑت قصے کہانیاں ہیں جب اللہ نے پیغمبروں کو یہ اختیار نہیں دیا جن کو اپنی صداقت کے ثبوت کے لیے اس کی ضرورت بھی تھی تو کسی ولی کو یہ اختیار کیوں کر مل سکتا ہے؟ بالخصوص جب کہ ولی کو اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ نبی کی نبوت پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے اس لیے معجزہ ان کی ضرورت تھی لیکن اللہ کی حکمت ومشیت اس کی متقصضی نہ تھی اس لیے یہ قوت کسی نبی کو نہیں دی گئی ولی کی ولایت پر ایمان رکھنا ضروری نہیں ہے اس لیے انہیں معجزے اور کرامات کی ضرورت ہی نہیں ہے انہیں اللہ تعالیٰ یہ اختیار بلا ضرورت کیوں عطا کرسکتا ہے؟ ‏٧٨۔ ٣ یعنی دنیا یا آخرت میں جب ان کے عذاب کا وقت معین آجائے گا۔ ٧٨۔ ٤ یعنی ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردیا جائے گا۔ اہل حق کو نجات اور اہل باطل کو عذاب۔ غافر
79 ٧٩۔ ١ اللہ تعالیٰ اپنی ان گنت نعمتوں میں سے بعض نعمتوں کا تذکرہ فرما رہا ہے چوپائے سے مراد اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ ہے یہ نر مادہ مل کر آٹھ ہیں جیسا کہ سورۃ انعام میں ہے ٧٩۔ ٢ یہ سواری کے کام بھی آتے ہیں، ان کا دودھ بھی پیا جاتا ہے (جیسے بکری، گائے اور اونٹنی کا دودھ) ان کا گوشت انسان کی مرغوب ترین غذا ہے اور بار برداری کا کام بھی ان سے لیا جاتا ہے۔ غافر
80 ٨٠۔ ١ جیسے ان سب کے اون اور بالوں سے اور ان کی کھالوں سے کئی چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ ان کے دودھ سے گھی مکھن، پنیر وغیرہ بھی بنتی ہے۔ ٨٠۔ ١ ان سے مراد بچے اور عورتیں ہیں جنہیں ہودج سمیت اونٹ وغیرہ پر بٹھا دیا جاتا تھا۔ غافر
81 ٨١۔ ١ جو اس کی قدرت اور وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں اور یہ نشانیاں آفاق میں ہی نہیں ہیں تمہارے نفسوں کے اندر بھی ہیں۔ ٨١۔ ٢ یعنی یہ اتنی واضح عام اور کثیر ہیں جن کا کوئی منکر انکار کرنے کی قدرت نہیں رکھتا یہ استفہام انکار کے لیے ہے۔ غافر
82 ٨٢۔ ١ یعنی جن قوموں نے اللہ کی نافرمانی کی اور اس کے رسولوں کو جھٹلایا۔ یہ ان کی بستیوں کے آثار اور کھنڈرات تو دیکھیں جو ان کے علاقوں میں ہی ہیں کہ ان کا کیا انجام ہوا ؟ ٨٢۔ ٢ یعنی عمارتوں کارخانوں اور کھیتیوں کی شکل میں ان کے کھنڈرات واضح کرتے ہیں کہ وہ کاریگی کے میدان میں بھی تم سے بڑھ کر تھے۔ ٨٢۔ ٣ فما اغنی میں ما استفہامیہ بھی ہوسکتا ہے اور نافیہ بھی نافیہ کا مفہوم تو ترجمے سے واضح ہے استفہامیہ کی رو سے مطلب ہوگا ان کو کیا فائدہ پہنچایا ؟ مطلب وہی ہے کہ ان کی کمائی ان کے کچھ کام نہیں آئی۔ غافر
83 ٨٣۔ ١ علم سے مراد ان کی خود ساختہ شبہات اور باطل دعوے ہیں، انہیں علم سے بطور استہزاء تعبیر فرمایا وہ چونکہ انہیں علمی دلائل سمجھتے تھے، ان کے خیال کے مطابق ایسا کہا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ اور رسول کی باتوں کے مقابلے میں یہ اپنے توہمات پر اتراتے اور فخر کرتے رہے۔ یا علم سے مراد دنیاوی باتوں کا علم ہے، یہ احکام و فرائض الٰہی کے مقابلے میں انہیں ترجیح دیتے رہے۔ غافر
84 غافر
85 ٨٥۔ ١ یعنی اللہ کا یہ معمول چلا آ رہا ہے کہ عذاب دیکھنے کے بعد توبہ اور ایمان مقبول نہیں یہ مضمون قرآن کریم میں متعدد جگہ بیان ہوا ہے۔ ٨٥۔ ٢ یعنی معاینہ عذاب کے بعد ان پر واضح ہوگیا کہ اب سوائے خسارے اور ہلاکت کے ہمارے مقدر میں کچھ نہیں۔ غافر
0 فصلت
1 اس سورت کا دوسرا نام فصّلت ہے اس کی شان نزول کی روایات میں بتلایا گیا ہے کہ ایک مرتبہ سرداران قریش نے باہم مشورہ کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیروکاروں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہی ہو رہا ہے ہمیں اس کے سد باب کے لیے ضرور کچھ کرنا چاہیے چنانچہ انہوں نے اپنے میں سے سب سے زیادہ بلیغ و فصیخ آدمی عتبہ بن ربیعہ کا انتخاب کیا تاکہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گفتگو کرے چنانچہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں گیا اور آپ پر عربوں میں انتشار و افتراق پیدا کرنے کا الزام عائد کر کے پیشکش کی کہ اس نئی دعوت سے اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقصد مال ودولت کا حصول ہے تو وہ ہم جمع کیے دیتے ہیں قیادت وسیادت منوانا چاہتے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہم اپنا لیڈر اور سردار مان لیتے ہیں کسی حسین عورت سے شادی کرنا چاہتے ہیں تو ایک نہیں ایسی دس عورتوں کا انتظام ہم کردیتے ہیں اور اگر آپ پر آسیب کا اثر ہے جس کے تحت آپ ہمارے معبودوں کو برا کہتے ہیں تو ہم اپنے خرچ پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علاج کرا دیتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی تمام باتیں سن کر اس سورت کی تلاوت اس کے سامنے فرما‏ئی جس سے وہ بڑا متاثر ہوا اس نے واپس جا کر سرداران قریش کو بتلایا کہ وہ جو چیز پیش کرتا ہے وہ جادو اور کہانت ہے نہ شعر وشاعری مطلب اس کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر سرداران قریش کو غور و فکر کی دعوت دینا تھا لیکن وہ غور وفکر کیا کرتے؟ الٹا عتبہ پر الزام لگا دیا کہ تو بھی اس کے سحر کا اسیر ہوگیا ہے یہ روایات مختلف انداز سے اہل سیر وتفسیر نے بیان کی ہیں امام ابن کثیر اور امام شوکانی نے بھی انہیں نقل کیا ہے امام شوکانی فرماتے ہیں یہ روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قریش کا اجتماع ضرور ہوا انہوں نے عتبہ کو گفتگو کے لیے بھیجا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اس سورت کا ابتدا‏ئی حصہ سنایا۔ فصلت
2 فصلت
3 ٣۔ ١ یعنی کیا حلال ہے اور کیا حرام؟ یا طاعت کیا ہیں اور معاصی کیا ؟ یا ثواب والے کام کون سے ہیں اور عقاب والے کون سے؟ ٣۔ ٢ یہ حال ہے۔ یعنی اس کے الفاظ عربی ہیں، جن کے معانی مفصل اور واضح ہیں۔ ٣۔ ٣ یعنی اس کے الفاظ عربی ہیں، جن کے معانی و مفا ہیم اور اس کے اسرار و اسلوب کو جانتی ہے۔ فصلت
4 ٤۔ ١ ایمان اور اعمال صالح کے حاملین کو کامیابی اور جنت کی خوشخبری سنانے والا اور مشرکین و مکذبین کو عذاب نار سے ڈرانے والا۔ ٤۔ ٢ یعنی غور و فکر اور تدبر و تعقل کی نیت سے نہیں سنتے کہ جس سے انہیں فائدہ ہو۔ اسی لئے ان کی اکثریت ہدایت سے محروم ہے۔ فصلت
5 ٥۔ ١ اکنہ کنان کی جمع ہے۔ پردہ۔ یعنی ہمارے دل اس بات سے پردوں میں ہیں کہ ہم تیری توحید و ایمان کی دعوت کو سمجھ سکیں۔ ٥۔ ٢ وَقْر کے اصل معنی بوجھ کے ہیں، یہاں مراد بہرا پن ہے، جو حق کے سننے میں مانع تھا۔ ٥۔ ٣ یعنی ہمارے اور تیرے درمیان ایسا پردہ حائل ہے کہ تو جو کہتا ہے، وہ سن نہیں سکتے اور جو کرتا ہے، اسے دیکھ نہیں سکتے، اس لئے تو ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دے اور ہم تجھے تیرے حال پر چھوڑ دیں، تو ہمارے دین پر عمل نہیں کرتا، ہم تیرے دین پر عمل نہیں کرسکتے۔ فصلت
6 ٦۔ ١ یعنی میرے اور تمہارے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہے بجز وحی الہی کے پھر یہ بعد وحجاب کیوں؟ علاوہ ازیں میں جو دعوت توحید پیش کر رہا ہوں وہ بھی ایسے نہیں کہ عقل وفہم میں نہ آسکے پھر اس سے اعراض کیوں؟ فصلت
7 ٧۔ ١ یہ سورت مکی ہے۔ زکوٰۃ ہجرت کے دوسرے سال فرض ہوئی اس لئے اس سے مراد یا تو صدقات ہیں جس کا حکم مسلمانوں کو مکے میں ہی دیا جاتا رہا، جس طرح پہلے صبح وشام کی نماز تھا، پھر ہجرت سے ڈیڑھ سال قبل لیلۃ الاِسراء کو پانچ فرض نمازوں کا حکم ہوا۔ یا پھر زکوٰۃ سے مراد کلمہ شہادت ہے، جس سے نفس انسانی شرک کی آلودگیوں سے پاک ہوجاتا ہے۔ (ابن کثیر) فصلت
8 ٨۔ ١ اجر غیر ممنون کا وہی مطلب ہے جو عطاء غیر مجذوذ ہود کا ہے یعنی نہ ختم ہونے والا اجر۔ فصلت
9 ٩۔ ١ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا یہاں اس کی کچھ تفصیل بیان فرما‏ئی گئی ہے فرمایا زمین کو دو دن میں بنایا اس سے مراد ہیں یوم الاحد اتوار اور یوم الاثنین سورۃ نازعات میں کہا گیا ہے والارض بعد ذلک دحہا جس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو آسمان کے بعد بنایا گیا ہے جب کہ یہاں زمین کی تخلیق کا ذکر آسمان کی تخلیق سے پہلے کیا گیا ہے حضرت ابن عباس (رض) نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے کہ تخلیق اور چیز ہے اور دحی جو اصل میں دحو ہے بچھانا یا پھیلانا اور چیز زمین کی تخلیق آسمان سے پہلے ہوئی جیسا کہ یہاں بھی بیان کیا گیا اور دحو کا مطلب ہے کہ زمین کو رہائش کے قابل بنانے کے لیے اس میں پانی کے ذخائر رکھے گئے اسے پیداواری ضروریات کا مخزن بنایا گیا۔ (اَخْرَجَ مِنْہَا مَاۗءَہَا وَمَرْعٰیہَا) 79۔ النازعات :31) اس میں پہاڑ ٹیلے اور جمادات رکھے گئے یہ عمل آسمان کی تخلیق کے بعد دوسرے دو دنوں میں کیا گیا یوں زمین اور اس کے متعلقات کی تخلیق پورے چار دنوں میں مکمل ہوئی۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورۃ حم) السجدۃ فصلت
10 ١٠۔ ١ یعنی پہاڑوں کو زمین میں سے ہی پیدا کر کے ان کو اس کے اوپر گاڑ دیا تاکہ زمین ادھر یا ادھر نہ ڈولے۔ ١٠۔ ٢ یہ اشارہ ہے پانی کی کثرت، انواع و اقسام کے رزق، معدنیات اور دیگر اسی قسم کی اشیاء کی طرف یہ زمین کی برکت ہے، کثرت خیر کا نام ہی برکت ہے ١٠۔ ٣ اقوات، قوت غذا، خوراک کی جمع ہے یعنی زمین پر بسنے والی تمام مخلوقات کی خوارک اس میں مقدر کردی ہے یا بندوبست کردیا ہے اور رب کی اس تقدیر یا بندوبست کا سلسلہ اتنا وسیع ہے کہ کوئی زبان اسے بیان نہیں کرسکتی کوئی قلم اسے رقم نہیں کرسکتا اور کوئی کیلکولیٹر اسے گن نہیں سکتا بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ہر زمین کے دوسرے حصوں میں پیدا نہیں ہو سکتیں تاکہ ہر علاقے کی یہ مخصوص پیداوار ان ان علاقوں کی تجارت و معیشت کی بنیادیں بن جائیں چنانچہ یہ مفہوم بھی اپنی جگہ صحیح اور بالکل حقیقت ہے۔ ١٠۔ ٤ یعنی تخلیق کے پہلے دو دن اور وحی کے دو دن سارے دن ملا کر یہ کل چار دن ہوئے، جن میں یہ سارا عمل تکمیل کو پہنچا۔ ١٠۔ ٥ سوآء کا مطلب ہے۔ ٹھیک چار دن میں ہوا۔ یعنی پوچھنے والوں کو بتلا دو کہ یہ عمل ٹھیک چار دن میں ہوا۔ یا پورا یا برابر جواب ہے سائلین کے لئے۔ فصلت
11 ١١۔ ١ یہ آنا کس طرح تھا ؟ اس کی کیفیت بیان نہیں کی جا سکتی۔ یہ دونوں اللہ کے پاس آئے جس طرح اس نے چاہا، بعض نے اس کا مفہوم لیا ہے کہ میرے حکم کی اطاعت کرو، انہوں نے کہا ٹھیک ہے ہم حاضر ہیں، چنانچہ اللہ نے آسمانوں کو حکم دیا، سورج، چاند ستارے نکال اور زمین کو کہا، نہریں جاری کر دے اور پھل نکال دے (ابن کثیر) یہ مفہوم ہے کہ تم دونوں وجود میں آ جاؤ۔ فصلت
12 ١٢۔ ١ یعنی خود آسمانوں کو یا ان میں آباد فرشتوں کو مخصوص کاموں اور وظائف کا پابند کردیا۔ ١٢۔ ٢ یعنی شیطان سے نگہبانی، جیسا کہ دوسرے مقام پر وضاحت کی ہے ستاروں کا ایک تیسرا مقصد دوسری جگہ اَھْتِدَاء (راستہ معلوم کرنا) بھی بیان کیا گیا (وَعَلٰمٰتٍ ۭ وَبِالنَّجْمِ ہُمْ یَہْتَدُوْنَ) 16۔ النحل :16) فصلت
13 فصلت
14 ١٤۔ ١ یعنی چونکہ تم ہماری طرح ہی کے انسان ہو، اس لئے ہم تمہیں نبی نہیں مان سکتے اللہ تعالیٰ کو نبی بھیجنا ہوتا تو فرشتوں کو بھیجتا نہ کہ انسانوں کو۔ فصلت
15 ١٥۔ ١ اس فقرے سے ان کا مقصود یہ تھا کہ وہ عذاب روک لینے پر قادر ہیں کیونکہ وہ دراز قد اور نہایت زور آور تھے یہ انہوں نے اس وقت کہا جب ان کے پیغمبر حضرت ہود (علیہ السلام) نے ان کو انذار وتنبیہ کے لیے عذاب الہی سے ڈرایا۔ ١٥۔ ١ یعنی کیا وہ اللہ سے بھی زیادہ زور آور ہیں، جس نے انہیں پیدا کیا اور انہیں قوت و طاقت سے نوازا۔ کیا ان کے بنانے کے بعد اس کی اپنی قوت و طاقت ختم ہوگئی ہے؟ یہ استفہام استنکار اور توبیخ کے لیے ہے۔ ١٥۔ ٢ ان معجزات کا جو انبیاء کو ہم نے دیئے تھے یا ان دلائل کا جو پیغمبروں کے ساتھ نازل کیے تھے یا ان آیات تکوینیہ کا جو کائنات میں پھیلی اور بکھری ہوئی ہیں۔ فصلت
16 ١٦۔ ١ صر صر، صرۃ (آواز) سے ہے۔ یعنی ایسی ہوا جس میں سخت آواز تھی، یعنی نہایت تند اور تیز ہوا، جس میں آواز بھی ہوتی ہے بعض کہتے ہیں یہ صر سے ہے جس کے معنی برد ٹھنڈک کے ہیں یعنی ایسی پالے والی ہوا جو آگ کی طرح جلا ڈالتی ہے امام ابن کثیر فرماتے ہیں والحق انہا متصفۃ بجمیع ذلک وہ ہوا ان تمام ہی باتوں سے متصف تھی۔ ١٦۔ ٢ نحسات کا ترجمہ، بعض نے متواتر پے درپے کا کیا ہے کیونکہ یہ ہوا سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلتی رہی، بعض نے گرد و غبار یہ ایام جن میں ان پر سخت ہوا کا طوفان جاری رہا، انکے لئے منحوس ثابت ہوئے۔ یہ نہیں کہ ایام ہی منحوس ہیں۔ فصلت
17 ١٧۔ ١ یعنی ان کو توحید کی دعوت دی، اس کے دلائل ان کے سامنے واضح کئے اور ان کے پیغمبر حضرت صالح (علیہ السلام) کے ذریعے سے ان پر حجت تمام کی۔ ١٧۔ ٢ یعنی انہوں نے مخالفت کی حتیٰ کہ اس اونٹنی تک کو ذبح کر ڈالا جو بطور معجزہ ان کی خواہش پر چٹان سے ظاہر کی گئی تھی اور پیغمبر کی صداقت کی دلیل تھی۔ ١٧۔ ٢ صاعقۃ عذاب شدید کو کہتے ہیں ان پر یہ سخت عذاب چنگھاڑ اور زلزلے کی صورت میں آیا جس نے انہیں ذلت و رسوائی کے ساتھ تباہ وبرباد کردیا۔ فصلت
18 فصلت
19 ١٩۔ ١ یہاں اذکر محذوف ہے وہ وقت یاد کرو جب اللہ کے دشمنوں کو جہنم کے فرشتے جمع کریں گے یعنی اول سے آخر تک کے دشمنوں کا اجتماع ہوگا۔ ١٩۔ ١ ای یحبس اولھم علی آخرھم لیلا حقوا (فتح القدیر) یعنی ان کو روک روک کر اول وآخر کو باہم جمع کیا جائے گا اس لفظ کی مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورۃ النمل آیت نمبر ١٧ (وَحُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّیْرِ فَہُمْ یُوْزَعُوْنَ) کا حاشیہ فصلت
20 ٢٠۔ ١ یعنی جب وہ اس بات سے انکار کریں گے کہ انہوں نے شرک کا ارتکاب کیا، تو اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا اور ان کے اعضاء بول کر گواہی دیں گے کہ یہ فلاں فلاں کام کرتے رہے۔ اذا ما جاءوھا میں ما زائد ہے تاکید کے لیے انسان کے اندر پانچ حواس ہیں یہاں دو کا ذکر ہے تیسری جلد میں کھال کا ذکر ہے جو مس یا لمس کا آلہ ہے یوں حواس کی تین قسمیں ہوگئیں باقی دو حواس کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ ذوق بوجہ لمس میں داخل ہے کیونکہ یہ چکھنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اس شئے کو زبان کی جلد پر نہ رکھا جائے اسی طرح سونگھنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وہ شئے ناک کی جلد پر نہ گزرے اس اعتبار سے جلود کے لفظ میں تین حواس آ جاتے ہیں۔ فتح القدیر فصلت
21 ٢١۔ ١ یعنی جب مشرکین اور کفار دیکھیں گے کہ خود ان کے اپنے اعضا ان کے خلاف گواہی دے رہے ہیں، تو ازراہ تعجب یا بطور عتاب اور ناراضگی کے، ان سے کہیں گے۔ ٢١۔ ١ بعض کے نزدیک وہو سے اللہ کا کلام مراد ہے اس لحاظ سے یہ جملہ مستانفہ ہے اور بعض کے نزدیک جلود انسانی ہی کا اس اعتبار سے یہ انہی کے کلام کا تتمہ ہے قیامت والے دن انسانی اعضاء کے گواہی دینے کا ذکر اس سے قبل (وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ) 24۔ النور :42) (اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاہِہِمْ وَتُکَلِّمُنَآ اَیْدِیْہِمْ وَتَشْہَدُ اَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ) 65) میں بھی گزر چکا ہے اور صحیح احادیث میں بھی اسے بیان کیا گیا ہے مثلا جب اللہ کے حکم سے انسانی اعضا بول کر بتلائیں گے تو بندہ کہے گا بعدا لکن وسحقا فعنکن کنت اناضل ( صحیح مسلم، کتاب الزہد) تمہارے لیے ہلاکت اور دوری ہو میں تو تمہاری ہی خاطر چھگڑ رہا اور مدافعت کر رہا تھا اسی روایت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ بندہ کہے گا کہ میں اپنے نفس کے سوا کسی کی گواہی نہیں مانوں گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں اور میرے فرشتے کراما کاتبین گواہی کے لیے کافی نہیں پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے اعضاء کو بولنے کا حکم دیا جائے گا (حوالہ مذکورہ) فصلت
22 ٢٢۔ ١ اس کا مطلب ہے کہ تم گناہ کا کام کرتے ہوئے لوگوں سے تو چھپنے کی کوشش کرتے تھے لیکن اس بات کا کوئی خوف تمہیں نہیں تھا کہ تمہارے خلاف خود تمہارے اپنے اعضا بھی گواہی دیں گے جن سے چھپنے کی ضرورت محسوس کرتے۔ اس کی وجہ ان کا بعث و نشور سے انکار اور اس پر عدم یقین تھا۔ ٢٢۔ ١ اس لیے تم اللہ کی حدیں توڑنے اور اس کی نافرمانی کرنے میں بے باک تھے فصلت
23 ٢٣۔ ١ یعنی تمہارے اس اعتقاد فاسد اور گمان باطل نے کہ اللہ کو ہمارے بہت سے عملوں کا علم نہیں ہوتا تمہیں ہلاکت میں ڈال دیا کیونکہ اس کی وجہ سے تم ہر قسم کا گناہ کرنے میں دلیر اور بے خوف ہوگئے تھے اس کی شان نزول میں ایک روایت ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ خانہ کعبہ کے پاس دو قرشی اور ایک ثقفی یا دو ثقفی اور ایک قرشی جمع ہوئے فربہ بدن قلیل الفہم ان میں سے ایک نے کہا کیا تم سمجھتے ہو ہماری باتیں اللہ سنتا ہے؟ دوسرے نے کہا ہماری جہری باتیں سنتا ہے اور سری باتیں نہیں سنتا ایک اور نے کہا اگر وہ ہماری جہری باتیں سنتا ہے تو ہماری سری باتیں بھی یقینا سنتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آیت وما کنتم تسترون نازل فرمائی (صحیح بخاری، تفسیر سورۃ حم السجدۃ) فصلت
24 ٢٤۔ ١ ایک دوسرے معنی یہ کئے گئے ہیں کہ اگر وہ منانا چاہیں گے تاکہ وہ جنت میں چلے جائیں تو یہ چیز ان کو کبھی حاصل نہ ہوگی (ایسر التفاسیر و فتح القدیر) بعض نے اس کا مفہرم یہ بیان کیا ہے کہ وہ دنیا میں دوبارہ بھیجے جانے کی آرزو کریں گے جو منظور نہیں ہوگی ابن جریر طبری نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ ان کا ابدی ٹھکانا جہنم ہے اس پر صبر کریں تب بھی رحم نہیں کیا جائے گا جیسا کہ دنیا میں بعض دفعہ صبر کرنے والوں پر ترس آ جاتا ہے یا کسی اور طریقے سے وہاں سے نکلنے کی سعی کریں مگر اس میں بھی انہیں ناکامی ہی ہوگی۔ فصلت
25 ٢٥۔ ١ ان سے مراد وہ شیاطین انس و جن ہیں جو باطل پر اصرار کرنے والوں کے ساتھ لگ جاتے ہیں، جو انہیں کفر و معاصی کو خوبصورت کر کے دکھاتے ہیں، پس وہ اس گمراہی کی دلدل میں پھنسے رہتے ہیں، حتیٰ کہ انہیں موت آ جاتی ہے اور وہ خسارہ ابدی کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ فصلت
26 ٢٦۔ ١ یہ انہوں نے باہم ایک دوسرے کو کہا۔ بعض نے لا تسمعوا کے معنی کیے ہیں اس کی اطاعت نہ کرو۔ ٢٦۔ ٢ یعنی شور کرو، تالیاں، سیٹیاں بجاؤ، چیخ چیخ کر باتیں کرو تاکہ حاضرین کے کانوں میں قرآن کی آواز نہ جائے اور ان کے دل قرآن کی بلاغت اور خوبیوں سے متا ثر نہ ہوں۔ ٢٦۔ ٣ یعنی ممکن ہے اس طرح شور کرنے کی وجہ سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کی تلاوت ہی نہ کرے جسے سن کر لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ فصلت
27 ٢٧۔ ١ یعنی ان کے بعض اچھے عملوں کی کوئی قیمت نہ ہوگی، مثلاً اکرام ضعیف، صلہ رحمی وغیرہ، کیونکہ ایمان کی دولت سے وہ محروم رہے تھے، البتہ برے عملوں کی جزا انہیں ملے گی، جن میں قرآن کریم سے روکنے کا جرم بھی ہے۔ فصلت
28 ٢٨۔ ١ آیتوں سے مراد جیسا کہ پہلے بھی بتلایا گیا ہے وہ دلائل و براہین واضحہ ہیں جو اللہ تعالیٰ انبیاء پر نازل فرماتا ہے یا وہ معجزات ہیں جو انہیں عطا کیے جاتے ہیں یا دلائل تکوینیہ ہیں جو کائنات یعنی آفاق و انفس میں پھیلے ہوئے ہیں کافر ان سب ہی کا انکار کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ایمان کی دولت سے محروم رہتے ہیں۔ فصلت
29 ٢٩۔ ١ اس کا مفہوم واضح ہے کہ گمراہ کرنے والے شیاطین ہی نہیں ہوتے تاہم بعض نے جن سے ابلیس اور انسانوں سے قابیل مراد لیا ہے، جس نے انسانوں میں سے سب سے پہلے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر کے ظلم اور کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا اور حدیث کے مطابق قیامت تک ہونے والے ناجائز قتلوں کے گناہ کا ایک حصہ بھی اس کو ملتا رہے گا ہمارے خیال میں پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔ ٢٩۔ ٢ یعنی اپنے قدموں سے انہیں روندیں اور اس طرح ہم انہیں خوب ذلیل و رسوا کریں جہنمیوں کو اپنے لیڈروں پر جو غصہ ہوگا اس کی تشفی کے لیے وہ یہ کہیں گے ورنہ دونوں ہی مجرم ہیں اور دونوں ہی یکساں جہنم کی سزا بھگتیں گے جیسے دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (لِکُلٍّ ضِعْفٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ) 7۔ الاعراف :38) جہنمیوں کے تذکرے کے بعد اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا تذکرہ فرما رہا ہے جیسا کہ عام طور پر قرآن کا انداز ہے تاکہ ترہیب کے ساتھ ترغیب اور ترغیب کے ساتھ ترہیب کا بھی اہتمام رہے گویا انذار کے بعد اب تبشیر۔ فصلت
30 ٣٠۔ ١ یعنی ایک اللہ وحدہ لا شریک رب بھی وہی اور معبود بھی وہی یہ نہیں کہ ربوبیت کا تو اقرار لیکن الوہیت میں دوسروں کو بھی شریک کیا جارہا ہے۔ ٣٠۔ ٢ یعنی سخت سے سخت حالات میں بھی ایمان و توحید پر قائم رہے، اس سے انحراف نہیں کیا بعض نے استقامت کے معنی اخلاص کیے ہیں یعنی صرف ایک اللہ ہی کی عبادت واطاعت کی جس طرح حدیث میں بھی آتا ہے ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا مجھے ایسی بات بتلا دیں کہ آپ کے بعد کسی سے مجھے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ رہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قل آمنت باللہ ثم استقم (صحیح مسلم کتاب الایمان) کہہ میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر استقامت اختیار کر۔ ٣٠۔ ٣ یعنی موت کے وقت، بعض کہتے ہیں، فرشتے یہ خوشخبری تین جگہوں پر دیتے ہیں، موت کے وقت، قبر میں اور قبر سے دوبارہ اٹھتے وقت۔ ٣٠۔ ٤ یعنی آخرت میں پیش آنے والے حالات کا اندیشہ اور دنیا میں مال و اولاد جو چھوڑ آئے ہو، ان کا غم نہ کرو۔ ٣٠۔ ٥ یعنی دنیا میں جس کا وعدہ تمہیں دیا گیا تھا۔ فصلت
31 ٣١۔ ١ یہ مزید خوشخبری ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ بعض کے نزدیک یہ فرشتوں کا قول ہے، دونوں صورتوں میں مومن کے لئے یہ عظیم خوشخبری ہے۔ فصلت
32 فصلت
33 ٣٣۔ ١ یعنی لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے کے ساتھ خود بھی ہدایت یافتہ، دین کا پابند اور اللہ کا مطیع ہے۔ فصلت
34 ٣٤۔ ١ بلکہ ان میں عظیم فرق ہے۔ ٢٤۔ ٢ یہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہے کہ برائی کو اچھائی کے ساتھ ٹالو یعنی برائی کا بدلہ احسان کے ساتھ، زیادتی کا بدلہ عفو کے ساتھ غضب کا صبر کے ساتھ بے ہودگیوں کا جواب چشم پوشی کے ساتھ اور مکروہات کا جواب برداشت اور حلم کے ساتھ دیا جائے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا دشمن دوست بن جائے گا دور دور رہنے والا قریب ہوجائے گا اور خون کا پیاسا تمہارا گرویدہ اور جانثار ہو جا‏ئے گا۔ فصلت
35 ٣٥۔ ١ یعنی برائی کو بھلائی کے ساتھ ٹالنے کی خوبی اگرچہ نہایت مفید اور بڑی ثمر آور ہے لیکن اس پر عمل وہی کرسکیں گے جو صابر ہونگے۔ غصے کو پی جانے والے اور ناپسندیدہ باتوں کو برداشت کرنے والے۔ ٣٥۔ ٢ حظ عظیم (بڑا نصیبہ) سے مراد جنت ہے۔ یعنی مذکورہ خوبیاں اس کو حاصل ہوتی ہیں جو بڑے نصیبے والا ہوتا ہے، یعنی جنتی جس کے لئے جنت میں جانا لکھ دیا گیا ہو۔ فصلت
36 ٣٦۔ ١ یعنی شیطان، شریعت کے کام سے پھیرنا چاہے یا احسن طریقے سے برائی کے دفع کرنے میں رکاوٹ ڈالے تو اس کے شر سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ طلب کرو۔ ٣٦۔ ٢ اور جو ایسا ہو یعنی ہر ایک کی سننے والا اور ہر بات کو جاننے والا، وہی پناہ کے طلب گاروں کو پناہ دے سکتا ہے۔ اس کے بعد اب پھر بعض ان نشانیوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جو اللہ کی توحید، اس کی قدرت کاملہ اور اس کی قوت تصرف پر دلالت کرتی ہیں۔ فصلت
37 ٣٧۔ ١ یعنی رات کو تاریک بنانا تاکہ لوگ اس میں آرام کرسکیں دن کو روشن بنانا تاکہ کسب معاش میں پریشانی نہ ہو پھر یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کا آنا جانا اور کبھی رات کا لمبا اور دن کا چھوٹا ہونا اور کبھی اس کے برعکس دن کا لمبا اور رات کا چھوٹا ہوتا اسی طرح سورج اور چاند کا اپنے اپنے وقت پر طلوع وغرب ہونا اور اپنے اپنے مدار پر اپنی منزلیں طے کرتے رہنا اور آپس میں باہمی تصادم محفوظ رہنا، یہ سب اس بات کی دلیلیں ہیں کہ ان کا یقینا کوئی خالق اور مالک ہے نیز وہ ایک اور صرف ایک ہے اور کائنات میں صرف اسی کا تصرف اور حکم چلتا ہے اگر تدبیر و امر کا اختیار رکھنے والے ایک سے زیادہ ہوتے ہیں تو یہ نظام کائنات ایسے مستحکم اور لگے بندھے طریقے سے کبھی نہیں چل سکتا تھا۔ ٣٧۔ ٢ اس لئے کہ یہ بھی تمہاری طرح اللہ کی مخلوق ہیں، خدائی اختیارات سے بہرہ ور یا ان میں شریک نہیں ہیں ٣٧۔ ٣ خلقھن میں جمع مونث کی ضمیر اس لیے آئی ہے کہ یہ یا تو خلق ھذہ الاربعۃ المذکورۃ کے مفہوم میں ہے کیونکہ غیر عاقل کی جمع کا حکم جمع مونث ہی کا ہے یا اس کا مرجع صرف شمس وقمر ہی ہیں اور بعض ازمہ نحاۃ کے نزدیک تثنیہ بھی جمع ہے یا پھر مراد الآیات ہیں فتح القدیر فصلت
38 فصلت
39 ٣٩۔ ١ خَاشِعَۃً کا مطلب، خشک اور قحط زدہ یعنی مردہ۔ ٣٩۔ ٢ یعنی انوارع و اقسام کے خوش ذائقہ پھل اور غلے پیدا کرتی ہے۔ ٣٩۔ ٣ مردہ زمین کو بارش کے ذریعے سے اس طرح زندہ کردینا اور روئیدگی کے قابل بنا دینا، اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مردوں کو بھی یقینا زندہ کر دے گا۔ فصلت
40 ٤٠۔ ١ یعنی ان کو مانتے نہیں بلکہ ان سے اعراض، انحراف اور ان کی تکذیب کرتے ہیں حضرت ابن عباس (رض) نے الحاد کے معنی کیے ہیں وضع الکلام علی غیر مواضعہ جس کی رو سے اس میں وہ باطل فرقے بھی آ جاتے ہیں جو اپنے غلط عقائد و نظریات کے اثبات کے لیے آیات الہی میں تحریف معنوی اور دجل وتلبیس سے کام لیتے ہیں۔ ٤٠۔ ٢ یہ ملحدین (چاہے وہ کسی قسم کے ہوں) کے لئے سخت وعید ہے۔ ٤٠۔ ٣ یعنی کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ نہیں۔، یقینا نہیں علاوہ ازیں اس سے اشارہ کردیا کہ کافر آگ میں ڈالے جائیں گے اور اہل ایمان قیامت والے دن بے خوف ہونگے۔ ٤٠۔ ٣ یہ امر کا لفظ ہے، لیکن یہاں اس سے مقصود وعید اور تہدید ہے۔ کفر و شرک اور معیصت کے لئے اذن اور جواز نہیں ہے۔ فصلت
41 ٤١۔ ١ بریکٹ کے الفاظ ان کی خبر محذوف کا ترجمہ ہیں بعض نے کچھ اور الفاظ محذوف مانے ہیں مثلا یجازون بکفرھم انہیں ان کے کفر کی سزا دی جائے گی یا ھالکون وہ ہلاک ہونے والے ہیں یا یعذبون انہیں ان کے کفر کی سزا دی جائے گی یا (وہ ہلاک ہونے والے ہیں) ٤١۔ ٢ یعنی یہ کتاب، جس سے اعراض انحراف کیا جاتا ہے معارضے اور طعن کرنے والوں کے طعن سے بہت بلند اور ہر عیب سے پاک ہے۔ فصلت
42 ٤٢۔ ١ یعنی وہ ہر طرح سے محفوظ ہے، آگے سے، کا مطلب ہے کمی اور پیچھے سے، کا مطلب ہے زیادتی یعنی باطل اس کے آگے سے آ کر اس میں کمی اور نہ اس کے پیچھے سے آ کر اضافہ کرسکتا ہے اور نہ کوئی تغیر و تحریف ہی کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہ اس کی طرف سے نازل کردہ ہے جو اپنے اقوال وافعال میں حکیم ہے اور حمید یعنی محمود ہے یا وہ جن باتوں کا حکم دیتا ہے اور جن سے منع فرماتا ہے عواقب اور غایات کے اعتبار سے سب محمود ہیں یعنی اچھے اور مفید ہیں (ابن کثیر) فصلت
43 ٤٣۔ ١ یعنی پچھلی قوموں نے اپنے پیغمبروں کی تکذیب کے لئے جو کچھ کہا یہ ساحر ہیں، مجنون ہیں، کذاب ہیں وغیرہ وغیرہ، وہی کچھ کفار مکہ نے بھی آپ کو کہا۔ یہ گویا آپ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپکی تکذیب اور آپ کی سحر، کذب اور جنون کی طرف نسبت، نئی نہیں ہے، ہر پیغمبر کے ساتھ یہی کچھ ہوتا آیا ہے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ( مَآ اَتَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ 52؀ۚ اَتَوَاصَوْا بِہٖ ۚ بَلْ ہُمْ قَوْمٌ طَاغُوْنَ 53؀ۚ) 51۔ الزایات :53-52) دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے رسولوں کو بھی کہی گئی تھیں اس لیے کہ تمام شریعتیں ان باتوں پر متفق رہی ہیں بلکہ سب کی اولین دعوت ہی توحید و اخلاص تھی۔ (فتح القدیر)۔ ٤٣۔ ٢ یعنی اہل ایمان و توحید کے لئے جو مستحق مغفرت ہیں۔ ٤٣۔ ٣ ان کے لئے جو کافر اور اللہ کے پیغمبروں کے دشمن ہیں۔ یہ آیت بھی سورۃ حجر کی آیت کی طرح ہے۔ فصلت
44 ٤٤۔ ١ یعنی عربی کے بجائے کسی اور زبان میں قرآن نازل کرتے۔ ٤٤۔ ٢ یعنی ہماری زبان میں اسے بیان کیوں نہیں کیا گیا جسے ہم سمجھ سکتے کیونکہ ہم تو عرب ہیں عجمی زبان نہیں سمجھتے ٤٤۔ ٣ یہ بھی کافروں ہی کا قول ہے کہ وہ تعجب کرتے کہ رسول تو عربی ہے اور قرآن اس پر عجمی زبان میں نازل ہوا ہے مطلب یہ ہے کہ قرآن کو عربی زبان میں نازل فرما کر اس کے اولین مخاطب عربوں کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہنے دیا ہے اگر یہ غیر عربی زبان میں ہوتا تو وہ عذر کرسکتے تھے ٤٤۔ ٤ یعنی جس طرح دور کا شخص، دوری کی وجہ سے پکارنے والے کی آواز سننے سے قاصر رہتا ہے، اسی طرح ان لوگوں کی عقل و فہم میں قرآن نہیں آتا۔ فصلت
45 ٤٥۔ ١ کہ ان کے عذاب دینے سے پہلے مہلت دی جائے گی۔ ولکن یوخرھم الی اجل مسمی فاطر ٤٥۔ ٢ یعنی فوراً عذاب دے کر ان کو تباہ کردیا گیا ہوتا۔ ٤٥۔ ٣ یعنی ان کا انکار عقل و بصیرت کی وجہ سے نہیں، بلکہ محض شک کی وجہ سے ہے جو ان کو بے چین کئے رکھتا ہے۔ فصلت
46 ٤٦۔ ١ اس لئے کہ وہ عذاب صرف اسی کو دیتا ہے جو گناہ گار ہوتا ہے، نہ کہ جس کو چاہے، یوں ہی عذاب میں مبتلا کر دے۔ فصلت
47 ٤٧۔ ١ یعنی اللہ کے سوا اس کے وقوع کا علم کسی کو نہیں۔ اس لئے جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قیامت کے واقع ہونے کے بارے میں پوچھا تھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا ' اس کی بابت مجھے بھی اتنا علم ہے، جتنا تجھے ہے، میں تجھ سے زیادہ نہیں جانتا۔ دوسرے مقامات پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اِلٰی رَبِّکَ مُنْتَہٰہَا) 79۔ النازعات :44) ٤٧۔ ٢ یہ اللہ کے علم کا محیط کا بیان ہے اور اس کی صفت علم میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے یعنی اس طرح کا علم کامل کسی کو حاصل نہیں، حتیٰ کے انبیاء علیہم السلام کو بھی نہیں انہیں بھی اتنا ہی علم ہے جتنا اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کے ذریعے سے بتلا دیتا ہے۔ ٤٧۔ ٣ یعنی آج ہم میں سے کوئی شخص یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ تیرا کوئی شریک ہے؟ فصلت
48 ٤٨۔ ١ یعنی وہ ادھر ادھر ہوگئے اور حسب گمان انہوں نے کسی کو فائدہ نہیں پہنچایا۔ ٤٨۔ ٢ یہ گمان، یقین کے معنی میں ہیں یعنی قیامت والے دن وہ یقین کرنے پر مجبور ہوں گے کہ انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا"وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ مُّوَاقِعُوْہَا وَلَمْ یَجِدُوْا عَنْہَا مَصْرِفًا "18۔ الکہف :53) فصلت
49 ٤٩۔ ١ یعنی دنیا کا مال واسباب، صحت وقوت، عزت و رفعت اور دیگر دنیاوی نعمتوں کے مانگنے سے انسان نہیں تھکتا، بلکہ مانگتا ہی رہتا ہے۔ انسان سے مراد انسانوں کی غالب اکثریت ہے۔ ٤٩۔ ٢ یعنی تکلیف پہنچنے پر فوراً مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے جب کہ اللہ کے مخلص بندوں کا حال اس سے مختلف ہوتا ہے، وہ ایک تو دنیا کے طالب نہیں ہوتے، ان کے سامنے ہر وقت آخرت ہی ہوتی ہے، دوسرے تکلیف پہنچنے پر بھی اللہ کی رحمت اور اس کے فضل سے مایوس نہیں ہوتے، بلکہ آزمائشوں کو بھی کفارہ سیأت اور رفع درجات کا باعث گردانتے ہیں، گویا مایوسی ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتی۔ فصلت
50 ٥٠۔ ١ یعنی اللہ کے ہاں میں محبوب ہوں، وہ مجھ سے خوش ہے، اسی لئے مجھے وہ اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے۔ حالانکہ دنیا کی کمی بیشی اس کی محبت یا نارضگی کی علامت نہیں ہے۔ بلکہ صرف آزمائش کے لئے اللہ ایسا کرتا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ نعمتوں میں اس کا شکر کون کر رہا ہے اور تکلیفوں میں صابر کون ہے؟ ٥٠۔ ٢ یہ کہنے والا منافق یا کافر ہے، کوئی مومن ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ کافر ہی یہ سمجھتا ہے کہ میری دنیا خیر کے ساتھ گزر رہی ہے تو آخرت بھی میرے لئے ایسی ہی ہوگی۔ ٤٩۔ ٣ یہ کہنے والا منافق یا کافر ہے، کوئی مومن ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ کافر ہی یہ سمجھتا ہے کہ میری دنیا خیر کے ساتھ گزر رہی ہے تو آخرت بھی میرے لیے ایسی ہی ہوگی۔ فصلت
51 ٥١۔ ١ یعنی حق سے منہ پھیر لیتا ہے اور حق کی اطاعت سے اپنا پہلو بدل لیتا ہے اور تکبر کا اظہار کرتا ہے۔ ٥١۔ ٢ یعنی بارگاہ الہی میں تضرع و زاری کرتا ہے تاکہ وہ مصیبت دور فرما دے۔ یعنی شدت میں اللہ کو یاد کرتا ہے، خوش حالی میں بھول جاتا ہے نزول نقمت کے وقت اللہ سے فریادیں کرتا ہے، حصول نعمت کے وقت اسے وہ یاد نہیں رہتا۔ فصلت
52 ٥٢۔ ١ یعنی ایسی حالت میں تم سے زیادہ گمراہ اور تم سے زیادہ دشمن کون ہوگا۔ ٥٢۔ ٢ شقاق کے معنی ہیں ضد، عناد اور مخالفت بعید مل کر اس میں اور مبالغہ ہوجاتا ہے۔ یعنی جو بہت زیادہ مخالف اور عناد سے کام لیتا ہے، حتی کہ اللہ کے نازل کردہ قرآن کی بھی تکذیب کردیتا ہے، اس سے بڑھ کر گمراہ اور بد بخت کون ہوسکتا ہے؟ فصلت
53 ٥٣۔ ١ جن سے قرآن کی صداقت اور اس کا من جانب اللہ ہونا واضح ہوجائے گا یعنی انہ میں ضمیر کا مرجع قرآن ہے بعض نے اس کا مرجع اسلام یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتلایا ہے۔ مآل سب کا ایک ہی ہے۔ آفاق افق کی جمع ہے کنارہ مطلب ہے کہ ہم اپنی نشانیاں باہر کناروں میں بھی دکھائیں گے اور خود انسان کے اپنے نفسوں کے اندر بھی۔ چنانچہ آسمان و زمین کے کناروں میں بھی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں مثلا سورج، چاند، ستارے، رات اور دن، ہوا اور بارش، گرج چمک، بجلی، کڑک، نباتات وجمادات، اشجار، پہاڑ اور انہار و بحار وغیرہ۔ اور آیات انفس سے انسان کا وجود، جن اخلاط ومواد اور ہیئتوں پر مرکب ہے وہ مراد ہیں۔ جن کی تفصیلات طب وحکمت کا دلچسپ موضوع ہے۔ بعض کہتے ہیں، آفاق سے مراد شرق وغرب کے وہ دور دراز کے علاقے ہیں۔ جن کی فتح کو اللہ نے مسلمانوں کے لیے آسان فرما دیا اور انفس سے مراد خود عرب کی سرزمین پر مسلمانوں کی پیش قدمی ہے جیسے جنگ بدر اور فتح مکہ وغیرہ فتوحات میں مسلمانوں کو عزت وسرفرازی عطا کی گئی استفہام اقراری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اقوال و افعال کے دیکھنے کے لئے کافی ہے، اور وہی اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جو اس کے سچے رسول حضرت محمد پر نازل ہوا۔ فصلت
54 ٥٤۔ ١ اس لئے اس کی بابت غورو فکر نہیں کرتے، نہ اس کے لئے عمل کرتے ہیں اور نہ اس دن کا کوئی خوف ان کے دلوں میں ہے۔ ٥٤۔ ٢ بنابریں اس کے لیے قیامت کا وقوع قطعا مشکل امر نہیں کیونکہ تمام مخلوقات پر اس کا غلبہ وتصرف ہے وہ اس میں جس طرح چاہے تصرف کرے کرتا ہے کرسکتا ہے اور کرے گا کوئی اس کو روکنے والا نہیں ہے۔ فصلت
0 الشورى
1 حم الشورى
2 عسق الشورى
3 ٣۔ ١ یعنی جس طرح یہ قرآن تیری طرف نازل کیا گیا ہے اسی طرح تجھ سے پہلے انبیاء پر آسمانی کتابیں نازل کی گئیں وحی اللہ کا کلام ہے جو فرشتے کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے پاس بھیجتا رہا ہے ایک صحابی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وحی کی کیفیت پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ کبھی تو یہ میرے پاس گھنٹی کی آواز کی مثل آتی ہے اور یہ مجھ پر سب سے سخت ہوتی ہے، جب یہ ختم ہوجاتی ہے تو مجھے یاد ہوچکی ہوتی ہے اور کبھی فرشتہ انسانی شکل میں آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور وہ جو کہتا ہے میں یاد کرلیتا ہوں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں، میں نے سخت سردی میں مشاہدہ کیا کہ جب وحی کی کیفیت ختم ہوتی تو آپ پسینے میں شرابور ہوتے اور آپ کی پیشانی سے پسینے کے قطرے گر رہے ہوتے۔ (صحیح بخاری) الشورى
4 الشورى
5 ٥۔ ١ اللہ کی عظمت و جلال کی وجہ سے۔ ٥۔ ٢ یہ مضمون سورۃ مومن کی (اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَــحِیْمِ) 40۔ غافر :7) میں بھی بیان ہوا ہے۔ ٥۔ ٣ اپنے دوستوں اور اہل اطاعت کے لئے یا تمام ہی بندوں کے لئے، کیونکہ کفار اور نافرمانوں کی فوراً گرفت نہ کرنا بلکہ انہیں ایک وقت معین تک مہلت دینا، یہ بھی اس کی رحمت و مغفرت ہی کی قسم سے ہے۔ الشورى
6 ٦۔ ١ یعنی ان کے عملوں کو محفوظ کر رہا ہے تاکہ اس پر ان کو جزا دے۔ ٦۔ ٢ یعنی آپ اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ان کو ہدایت کے راستے پر لگا دیں یا ان کے گناہوں پر ان کا مؤاخذہ فرمائیں، بلکہ یہ کام ہمارے ہیں، آپ کا مصرف پیغام (پہنچا دینا) ہے۔ الشورى
7 ٧۔ ١ یعنی جس طرح ہم نے ہر رسول اس کی قوم کی زبان میں بھیجا، اسی طرح ہم نے آپ پر عربی زبان میں قرآن نازل کیا ہے، کیونکہ آپ کی قوم یہی زبان بولتی اور سمجھتی ہے۔ ٧۔ ٢ قیامت والے دن کو جمع ہونے والا دن اس لئے کہا کہ اس میں اگلے پچھلے تمام انسان جمع ہونگیں علاوہ ازیں ظالم مظلوم اور مومن و کافر سب جمع ہونگے اور اپنے اپنے اعمال کے مطابق جزا و سزا سے بہرہ ور ہونگے۔ الشورى
8 ٨۔ ١ اس صورت میں قیامت والے دن صرف ایک ہی گروہ ہوتا یعنی اہل ایمان اور اہل جنت کا لیکن اللہ کی حکمت و مشیت نے اس جبر کو پسند نہیں کیا بلکہ انسانوں کو آزمانے کے لئے اس نے انسانوں کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی، جس نے آزادی کا صحیح استعمال کیا، وہ اللہ کی رحمت کا مستحق ہوگیا، اور جس نے اس کا غلط استعمال کیا، اس نے ظلم کا ارتکاب کیا کہ اللہ کی دی ہوئی آزادی اور اختیار کو اللہ ہی کی نافرمانی میں استعمال کیا۔ چنانچہ ایسے ظالموں کا قیامت والے دن کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ الشورى
9 ٩۔ ١ جب یہ بات ہے تو پھر اللہ ہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کو ولی اور کار ساز مانا جائے نہ کہ ان کو جن کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے اور جو سننے اور جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں، نہ نفع نقصان پہنچانے کی صلاحیت۔ الشورى
10 ١٠١۔ ١ اس اختلاف سے مراد دین کا اختلاف ہے جس طرح یہودیت، عیسائیت اور اسلام وغیرہ میں آپس میں اختلاف ہیں اور ہر مذہب کا پیروکار دعویٰ کرتا ہے اس کا دین سچا ہے اور حق کا راستہ پہنچاننے کے لئے اللہ تعالیٰ کا قرآن موجود ہے۔ لیکن دنیا میں لوگ اس کلام الٰہی کو اپنا اور ثالث ماننے کے لئے تیار نہیں۔ بالآخر پھر قیامت کا دن ہی رہ جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ ان اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا اور سچوں کو جنت میں اور دوسروں کو جہنم میں داخل فرمائے گا۔ الشورى
11 ١١۔ ١ یعنی یہ اس کا احسان ہے کہ تمہاری جنس سے ہی اس نے تمہارے جوڑے بنائے ورنہ اگر تمہاری بیویاں انسانوں کی بجائے کسی اور مخلوق سے بنائی جاتیں تو تمہیں یہ سکون حاصل نہ ہوتا جو اپنی ہم جنس اور ہم شکل بیوی سے ملتا ہے۔ ١١۔ ٢ نہ ذات میں نہ صفات میں، پس وہ اپنی نظیر آپ ہی ہے، واحد اور بے نیاز۔ الشورى
12 الشورى
13 ١٣۔ ١ صرف ایک اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت (یا اس کے رسول کی اطاعت جو دراصل اللہ ہی کی اطاعت ہے)، اس کی عبادت و اطاعت سے گریزاں ان میں دوسروں کو شریک کرنا، انتشار انگیزی، جس سے ' پھوٹ ڈالنا ' کہہ کر منع کیا گیا ہے۔ ١٣۔ ٢ اور وہی توحید اور اللہ و رسول کی اطاعت ہے۔ ١٣۔ ٣ یعنی جس کی ہدایت کا مستحق سمجھتا ہے، اسے ہدایت کے لئے چن لیتا ہے ١٣۔ ٤ یعنی اپنے دین اپنانے کی اور عبادت کو اللہ کے لئے خالص کرنے کی توفیق اس شخص کو عطا کردیتا ہے جو اس کی اطاعت و عبادت کی طرف رجوع کرتا ہے۔ الشورى
14 ١٤۔ ١ یعنی اگر ان کی بابت عقوبیت میں تاخیر کا فیصلہ پہلے سے نہ ہوتا تو فوراً عذاب بھیج کر ان کو ہلاک کردیا جاتا۔ الشورى
15 ١٥۔ ١ یعنی اس تفرق اور شک کی وجہ سے، جس کا ذکر پہلے ہوا، آپ ان کو توحید کی دعوت دیں اور اس پر جمے رہیں۔ الشورى
16 ١٦۔ ١ یعنی یہ مشرکین مسلمانوں سے لڑتے جھگڑتے ہیں، جنہوں نے اللہ اور رسول کی بات مان لی، تاکہ انہیں پھر راہ ہدایت سے ہٹا دیں۔ یا مراد یہود انصاریٰ ہیں جو مسلمانوں سے جھگڑتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمارا دین تمہارے دین سے بہتر ہے اور ہمارا نبی بھی تمہارے نبی سے پہلے ہوا ہے، اس لئے ہم تم سے بہتر ہیں۔ الشورى
17 ١٧۔ ١ الْکِتَابَ سے مراد جنس ہے یعنی تمام پیغمبروں پر جتنی کتابیں نازل ہوئیں، وہ سب حق اور سچی تھیں یا بطور خاص قرآن مجید مراد ہے اور اس کی صداقت کو واضح کیا جا رہا ہے۔ الشورى
18 ١٨۔ ١ یعنی استہزاد کے طور پر یہ سمجھتے ہوئے کہ اس کو آنا ہی کہاں سے ہے؟ اس لئے کہتے ہیں کہ قیامت جلدی آئے۔ ١٨۔ ٢ اس لئے کہ وہ ان دلائل پر غور و فکر ہی نہیں کرتے جو ایمان لانے کے موجب بن سکتے ہیں حالانکہ یہ دلائل روز و شب ان کے مشاہدے میں آتے ہیں۔ ان کی نظروں سے گزرتے ہیں اور ان کی عقل و فہم میں آسکتے ہیں۔ اس لئے وہ حق سے بہت دور جا پڑے ہیں۔ الشورى
19 اور جس کا ارادہ آخر کی کھیتی کا ہو ہم اسے اس کی کھیتی میں ترقی دیں گے (١) اور جو دنیا کی کھیتی کی طلب رکھتا ہو ہم اسے اس دنیا میں سے ہی کچھ دے دیں گے ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ الشورى
20 الشورى
21 الشورى
22 ٢٢۔ ١ یعنی قیامت والے دن۔ ٢٢۔ ٢ حالانکہ ڈرنا بے فائدہ ہوگا کیونکہ اپنے کئے کی سزا تو انہیں بہرحال بھگتنی ہوگی۔ الشورى
23 ٢٣۔ ١ یعنی اجر و ثواب میں اضافہ کریں گے یا نیکی کے بعد اس کا بدلہ مزید نیکی کی توفیق کی صورت میں دیں گے جس طرح بدی کا بدلہ مذید بدیوں کا ارتکاب ہے۔ ٢٣۔ ٢ اس لئے وہ پردہ پوشی فرماتا اور معاف کردیتا ہے اور زیادہ سے زیادہ اجر دیتا ہے۔ الشورى
24 ٢٤۔ ١ یعنی اس الزام میں اگر صداقت ہوتی تو ہم آپ کے دل پر مہر لگا دیتے، جس سے وہی محو ہوجاتا جس کے گھڑنے کا انتساب آپ کی طرف کیا جاتا ہے، مطلب یہ ہے کہ ہم آپ کو اس کی سخت ترین سزا دیتے۔ ٢٤۔ ٢ یہ قرآن بھی اگر باطل ہوتا (جیسا کہ مکذبین کا دعویٰ ہے) تو یقینا اللہ تعالیٰ اس کو بھی مٹا ڈالتا، جیسا کہ اس کی عادت ہے۔ الشورى
25 ٢٥۔ ١ توبہ کا مطلب ہے، معصیت پر ندامت کا اظہار اور آئندہ اس کو نہ کرنے کا عزم محض زبان سے توبہ توبہ کرلینا یا اس گناہ اور معصیت کے کام کو تو نہ چھوڑنا اور توبہ کا اظہار کئے جانا، توبہ نہیں ہے۔ یہ استہزاء اور مذاق ہے۔ تاہم خالص اور سچی توبہ اللہ تعالیٰ یقینا قبول فرماتا ہے۔ الشورى
26 ٢٦۔ ١ یعنی ان کی دعائیں سنتا ہے اور ان کی خواہشیں اور آرزوئیں پوری فرماتا ہے۔ بشرطیکہ دعا کے آداب و شرائط کا بھی پورا اہتمام کیا گیا ہو، اور حدیث میں آتا ہے ' اللہ اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے زیادہ خوش ہوتا ہے جس کی سواری مع کھانے پینے کے سامان کے، صحرا، بیابان میں گم ہوجائے اور وہ ناامید ہو کر کسی درخت کے نیچے لیٹ جائے کہ اچانک اسے اپنی سواری مل جائے اور فرط مسرت میں اس کے منہ سے نکل جائے، اے اللہ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب یعنی شدت فرحت میں غلطی کر جائے (صحیح مسلم) الشورى
27 ٢٧۔ ١ یعنی اللہ ہر شخص کی حاجت و ضرورت سے زیادہ یکساں طور پر وسائل رزق عطا فرما دیتا تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ کوئی کسی کی ماتحتی قبول نہ کرتا، ہر شخص شرو فساد اور دشمنی میں ایک سے بڑھ کر ایک ہوتا، جس سے زمین فساد سے بھر جاتی۔ الشورى
28 ٢٨۔ ١ کار ساز ہے، اپنے نیک بندوں کی چارہ سازی فرماتا ہے، انہیں منافع سے نوازتا ہے اور شرور اور مہلکات سے ان کی حفاطت فرماتا ہے۔ اپنے ان انعامات بے پایاں اور احسنات فراواں پر قابل حمد و ثنا ہے۔ الشورى
29 ٢٩۔ ١ یعنی روئے زمین پر پھیلے ہوئے، جن و انس تمام جاندار حیوانات شامل ہیں ان سب کو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ایک ہی میدان میں جمع فرما دے گا۔ الشورى
30 ٣٠۔ ١ بعض گناہوں کا کفارہ تو وہ مصائب بن جاتے ہیں، جو تمہیں گناہوں کی پاداش میں پہنچتے ہیں اور کچھ گناہ وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ یوں ہی معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کی ذات بڑی کریم ہے، معاف کرنے کے بعد آخرت میں اس پر مؤاخذہ نہیں فرمائے گا۔ الشورى
31 ٣١۔ ١ یعنی تم بھاگ کر کسی ایسی جگہ نہیں جاسکتے کہ جہاں تم ہماری گرفت میں نہ آسکو یا جو مصیبت ہم تم پر نازل کرنا چاہیں، اس سے تم بچ جاؤ۔ الشورى
32 ٣٢۔ ١ سمندروں میں پہاڑوں جیسی کشتیاں اور جہاز اس کے حکم سے چلتے ہیں، ورنہ اگر وہ حکم دے تو سمندروں میں ہی کھڑے رہیں۔ الشورى
33 الشورى
34 ٣٤۔ ١ یعنی سمندر کو حکم دے اور اس کی موجوں میں طغیانی آجائے اور یہ ان میں ڈوب جائیں۔ ٣٤۔ ٢ ورنہ سمندر میں سفر کرنے والا کوئی بھی سلامتی کے ساتھ واپس نہ آسکے۔ الشورى
35 ٣٥۔ ١ یعنی اللہ کے عذاب سے وہ کہیں بھاگ کر چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے۔ الشورى
36 ٣٦۔ ١ یعنی معمولی اور حقیر ہے، چاہے قارون کا خزانہ ہی کیوں نہ ہو، اس لئے اس سے دھوکے میں مبتلا نہ ہونا کہ یہ عارضی اور فانی ہے۔ ٣٦۔ ٢ یعنی نیکیوں کا جو اجر و ثواب اللہ کے ہاں ملے گا وہ متاع دنیا سے کہیں بہتر بھی ہے اور پائیدار بھی، کیونکہ اس کو زوال اور فنا نہیں، مطلب ہے دنیا کو آخرت پر ترجیح مت دو، ایسا کرو گے تو پچھتاؤ گے۔ الشورى
37 ٣٧۔ ١ یعنی لوگوں سے عفو و درگزر کرنا ان کے مزاج و طبیعت کا حصہ ہے نہ کہ انتقام اور بدلہ لینا جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں آتا ہے ' نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ذات کے لئے کبھی بدلہ نہیں لیا، ہاں اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کا توڑا جانا آپ کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ الشورى
38 ٣٨۔ ١ یعنی اس کے حکم کی اطاعت، اس کے رسول کا اتباع اور اسکے حکم کو نہ ماننے سے پرہیز کرتے ہیں ٣٨۔ ٢ نماز کی پابندی اور اقامت کا بطور خاص ذکر کیا کہ عبادت میں اس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ الشورى
39 الشورى
40 ٤٠۔ ١ یہ (قصاص (بدلہ لینے) کی اجازت ہے۔ برائی کا بدلہ اگرچہ برائی نہیں ہے لیکن مشکلات کی وجہ سے اسے بھی برائی ہی کہا گیا ہے۔ الشورى
41 الشورى
42 الشورى
43 الشورى
44 الشورى
45 ٤٥۔ ١ یعنی دنیا میں یہ کافر ہمیں بیوقوف اور دنیاوی خسارے کا حامل سمجھتے تھے، جب کہ ہم دنیا میں صرف آخرت کو ترجیح دیتے تھے اور دنیا کے خساروں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ آج دیکھ لو حقیقی خسارے سے کون دو چار ہے۔ وہ جنہوں نے دنیا کے عارضی خسارے کو نظر انداز کیے رکھا اور آج جنت کے مزے لوٹ رہے ہیں یا وہ جنہوں نے دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ رکھا تھا اور آج ایسے عذاب میں گرفتار ہیں جس سے چھٹکارا ممکن ہی نہیں۔ الشورى
46 الشورى
47 ٤٧۔ ١ یعنی جس کو روکنے اور ٹالنے کی کوئی طاقت نہیں رکھے گا۔ ٤٧۔ ٢ یعنی تمہارے لئے کوئی ایسی جگہ نہیں ہوگی، کہ جس میں تم چھپ کر انجان بن جاؤ اور پہنچانے نہ جاسکو یا نظر میں نہ آسکو جیسے فرمایا ' اس دن انسان کہے گا، کہیں بھاگنے کی جگہ ہے، ہرگز نہیں، کوئی راہ فرار نہیں ہوگی، اس دن تیرے رب کے پاس ہی ٹھکانا ہوگا۔ الشورى
48 ٤٨۔ ١ یعنی وسائل رزق کی فروانی، صحت و عافیت، اولاد کی کثرت، جاہ و منصب وغیرہ۔ ٤٨۔ ٢ یعنی تکبر اور غرور کا اظہار کرتا ہے، ورنہ اللہ کی نعمتوں پر خوش ہونا یا اس کا اظہار ہونا، ناپسندیدہ امر نہیں، لیکن وہ تحدیث نعمت اور شکر کے طور پر نہ کہ فخر و ریا اور تکبر کے طور پر۔ ٤٨۔ ٣ مال کی کمی، بیماری، اولاد سے محرومی وغیرہ۔ الشورى
49 الشورى
50 الشورى
51 ٥١۔ ١ اس آیت میں وحی الٰہی کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں پہلی یہ کہ دل میں کسی بات کا ڈال دینا یا خواب میں بتلا دینا اور یقین کے ساتھ کہ یہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ دوسری، پردے کے پیچھے سے کلام کرنا، جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کوہ طور پر کیا گیا، تیسری، فرشتے کے ذریعے اپنی وحی بھیجنا، جیسے جبرائیل (علیہ السلام) اللہ کا پیغام لے کر آتے اور پیغمبروں کو سناتے رہے۔ الشورى
52 ٥٢۔ ١ روح سے مراد ْقرآن ہے۔ یعنی جس طرح آپ سے پہلے اور رسولوں پر ہم وحی کرتے رہے، اسطرح ہم نے آپ پر قرآن کی وحی کی ہے قرآن کو روح اس لئے تعبیر کیا ہے کہ قرآن سے دلوں کو زندگی حاصل ہوتی ہے جیسے روح میں انسانی زندگی کا راز مضمر ہے۔ ٥٢۔ ٢ کتاب سے مراد قرآن ہے، یعنی نبوت پہلے قرآن کا بھی کوئی علم آپ کو نہیں تھا اور اسی طرح ایمان کی ان تفصیلات سے بھی بے خبر تھے جو شریعت میں مطلوب ہیں۔ الشورى
53 ٥٣۔ ١ یہ صراط مستقیم، اسلام ہے۔ اس کی اضافت اللہ نے اپنی طرف فرمائی ہے جس سے اس راستے کی عظمت و شان واضح ہوتی ہے اور اس کے واحد راہ نجات ہونے کی طرف اشارہ بھی۔ ٥٣۔ ٢ یعنی قیامت والے دن تمام معاملات کا فیصلہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہوگا، اس میں سخت وعید ہے۔ الشورى
0 الزخرف
1 الزخرف
2 الزخرف
3 ٣۔ ١ جو دنیا کی فصیح ترین زبان ہے، دوسرے، اس کے اولین مخاطب بھی عرب تھے، انہی کی زبان میں قرآن اتارا تاکہ وہ سمجھنا چاہیں تو آسانی سے سمجھ سکیں۔ الزخرف
4 ٤۔ ١ اس میں قرآن کریم کی اس عظمت اور شرف کا بیان ہے جو ملاء اعلٰی میں اسے حاصل ہے تاکہ اہل زمین بھی اس کے شرف و عظمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کو قرار واقعی اہمیت دیں اور اس سے ہدایت کا وہ مقصد حاصل کریں جس کے لئے اسے دنیا میں اتارا گیا ہے اُمْ الْکِتَابِ سے مراد لوح محفوظ ہے۔ الزخرف
5 ٥۔ ١ اس کے مختلف معنی کئے گئے ہیں مثلاً ١۔ تم چونکہ گناہوں میں بہت بڑھ چکے ہو اور ان پر مصر ہو، اس لئے کہ یہ گمان کرتے ہو کہ ہم وعظ و نصیحت کرنا چھوڑ دیں گے؟ ٢۔ یا تمہارے کفر اور اسراف پر ہم تمہیں کچھ نہ کہیں گے اور تم سے درگزر کرلیں گے ٣۔ یا تمہیں ہلاک کردیں گے اور کسی چیز کا تمہیں حکم دیں نہ منع کریں، ٤۔ چونکہ تم قرآن پر ایمان لانے والے نہیں ہو۔ الزخرف
6 الزخرف
7 الزخرف
8 ٨۔ ١ یعنی اہل مکہ سے زیادہ زور آور تھے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (ۭکَانُوْٓا اَکْثَرَ مِنْہُمْ وَاَشَدَّ قُوَّۃً) 40۔ غافر :82) ' وہ ان سے تعداد اور قوت میں کہیں زیادہ تھے۔ الزخرف
9 الزخرف
10 ١٠۔ ١ ایسا بچھونا، جس میں ثبات و قرار ہے، تم اس پر چلتے ہو، کھڑے ہوتے اور سوتے ہو اور جہاں چاہتے ہو، پھرتے ہو اس نے اس کو پہاڑوں کے ذریعے سے جما دیا تاکہ اس میں حرکت و جنبش نہ ہو۔ ١٠۔ ٢ یعنی ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانے کے لئے راستے بنا دیئے تاکہ کاروباری، تجارتی اور دیگر مقاصد کے لئے تم آجا سکو۔ الزخرف
11 ١١۔ ١ جس سے تمہاری ضرورت پوری ہو سکے، کیونکہ قدرت حاجت سے کم بارش ہوتی وہ تمہارے لئے مفید ثابت نہ ہوتی اور زیادہ ہوتی تو وہ طوفان بن جاتی، جس سے تمہارے ڈوبنے اور ہلاک ہونے کا خطرہ ہوتا۔ ١١۔ ٢ یعنی جس طرح بارش سے مردہ زمین شاداب ہوجاتی ہے۔ اسی طرح قیامت والے دن تمہیں بھی زندہ کر کے قبروں سے نکال لیا جائے گا۔ الزخرف
12 الزخرف
13 ١٣۔ ١ یعنی اگر ان جانوروں کو ہمارے تابع اور ہمارے بس میں نہ کرتا تو ہم انہیں اپنے قابو میں رکھ کر ان کی سواری، بار برداری اور دیگر مقاصد کے لئے استعمال نہیں کرسکتے تھے۔ الزخرف
14 الزخرف
15 ١٥۔ ١ عِبَاد سے مراد فرشتے اور جُزْء سے مراد بیٹیاں یعنی فرشتے، جن کو مشرکین اللہ کی بیٹیاں قرار دے کر ان کی عبادت کرتے تھے۔ یوں وہ مخلوق کو اللہ کا شریک اور اس کا جزء مانتے تھے۔ الزخرف
16 الزخرف
17 الزخرف
18 الزخرف
19 ١٩۔ ١ یعنی جزا کے لئے۔ کیونکہ فرشتوں کے اللہ کی بیٹیاں ہونے کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہوگی۔ الزخرف
20 ٢٠۔ ١ یعنی اپنے طور پر اللہ کی مشیت کا سہارا، یہ ان کی ایک بڑی دلیل ہے کیونکہ ظاہراً یہ بات صحیح ہے کہ اللہ کی مشیت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا نہ ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ اس کی مشیت، اس کی رضا سے مختلف چیز ہے۔ ہر کام یقینا اس کی مشیت ہی سے ہوتا ہے لیکن راضی وہ انہی کاموں سے ہوتا ہے جن کا اس نے حکم دیا ہے نہ کہ ہر اس کام سے جو انسان اللہ کی مشیت سے کرتا ہے، انسان چوری، بدکاری، ظلم اور بڑے بڑے گناہ کرتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو کسی کو یہ گناہ کرنے کی قدرت ہی نہ دے فوراً اس کا ہاتھ پکڑ لے، اور اس کے قدموں کو روک دے اس کی نظر سلب کرلے۔ لیکن یہ جبر کی صورتیں ہیں جب کہ اس نے انسان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے تاکہ اسے آزمایا جائے، تاہم یہ اختیار اللہ دنیا میں اس سے واپس نہیں لے گا، البتہ اس کی سزا قیامت والے دن دے گا۔ الزخرف
21 ٢١۔ ١ یعنی قرآن سے پہلے کوئی کتاب، جس میں ان کو غیر اللہ کی عبادت کرنے کا اختیار دیا ہے جسے انہوں نے مضبوطی سے تھام رکھا ہے؟ یعنی ایسا نہیں ہے بلکہ اپنے آباو اجداد کی پیروی کے سوا ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ الزخرف
22 الزخرف
23 الزخرف
24 ٢٤۔ ١ یعنی اپنے آبا کی تقلید میں اتنے پختہ تھے کہ پیغمبر کی وضاحت اور دلیل بھی انہیں اس سے نہیں پھیر سکی۔ یہ آیت اندھی تقلید کے بطلان اور اس کی قباحت پر بہت بڑی دلیل ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے فتح القدیر، للشوکافی) الزخرف
25 الزخرف
26 الزخرف
27 ٢٧۔ ١ یعنی جس نے مجھے پیدا کیا وہ مجھے اپنے دین کی سمجھ بھی دے اور اس پر ثابت قدم بھی رکھے گا، میں صرف اسی کی عبادت کروں گا۔ الزخرف
28 ٢٨۔ ١ یعنی اس کا کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی وصیت اپنی اولاد کو کر گئے جیسے فرمایا ' یعنی اللہ نے اس کلمہ کو ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد ان کی اولاد میں باقی رکھا اور وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے رہے۔ ٢٨۔ ٢ یعنی اولاد ابراہیم میں یہ موحدین اس لئے پیدا کئے تاکہ ان کی توحید کے وعظ سے لوگ شرک سے باز آتے رہیں، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا دین تھا جو خالص توحید پر مبنی تھا نہ کہ شرک پر۔ الزخرف
29 ٢٩۔ ١ یہاں سے پھر ان نعمتوں کا ذکر ہو رہا ہے جو اللہ نے انہیں عطا کی تھیں اور نعمتوں کے بعد عذاب میں جلدی نہیں کی بلکہ انہیں پوری مہلت دی، جس سے وہ دھوکے میں مبتلا ہوگئے اور خواہش کے بندے بن گئے۔ ٢٩۔ ٢ حق سے قرآن اور رسول سے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں۔ مُبِیْن رسول کی صفت ہے، کھول کر بیان کرنے والا بیان کی رسالت واضح اور ظاہر ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ الزخرف
30 ٣٠۔ ١ قرآن کو جادو قرار دے کر اس کا انکار کردیا اور اگلے الفاظ میں حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تحقیر و تنقیص کی۔ الزخرف
31 ٣١۔ ١ دونوں بستیوں سے مراد مکہ اور طائف ہے اور بڑے آدمی سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک مکے کا ولید بن مغیرہ اور طائف کا عروہ بن ثقفی ہے۔ الزخرف
32 ٣٢۔ ١ اس رحمت سے مراد آخرت کی وہ نعمتیں ہیں جو اللہ نے اپنے نیک بندوں کے لئے تیار کر رکھی ہیں۔ الزخرف
33 ٣٣۔ ١ یعنی دنیا کے مال و اسباب میں رغبت کرنے کی وجہ سے طالب دنیا ہی ہوجائیں گے اور رضائے الٰہی اور آخرت کی طلب سب فراموش کردیں گے۔ الزخرف
34 الزخرف
35 ٣٥۔ ١ جو شرک و معاصی سے اجتناب اور اللہ کی اطاعت کرتے رہے، ان کے لئے آخرت اور جنت کی نعمتیں ہیں جن کو زوال و فنا نہیں۔ الزخرف
36 ٣٦۔ ١ عَشَا یَعْشُوْ کے معنی ہیں آنکھوں کی بیماری اس کی وجہ سے جو اندھا پن ہوتا ہے۔ یعنی جو اللہ کے ذکر سے اندھا ہوجائے۔ ٣٦۔ ٢ وہ شیطان، اللہ کی یاد سے غافل رہنے والے کا ساتھی بن جاتا ہے جو ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے اور نیکیوں سے روکتا ہے۔ الزخرف
37 ٣٧۔ ١ یعنی وہ شیطان ان کے حق کے راستے کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں اور اس سے انہیں روکتے ہیں اور انہیں برابرسمجھاتے رہتے ہیں کہ تم حق پر ہو، حتٰی کہ وہ واقعی اپنے بارے میں یہی گمان کرنے لگ جاتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں یا کافر شیطانوں کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہیں اور ان کی اطاعت کرتے رہتے ہیں (ابن کثیر)۔ الزخرف
38 ٣٨۔ ١ مراد مشرق اور مغرب کی دوری ہے، یہ کافر قیامت والے دن کہے گا لیکن اس دن اس اعتراف کا کیا فائدہ؟ الزخرف
39 الزخرف
40 ٤٠۔ ١ یعنی جس کے لئے شقاوت ابدی لکھ دی گئی، وہ وعظ نصیحت کے اعتبار سے بہرہ اور اندھا ہے دعوت و تبلیغ سے وہ راہ راست پر نہیں آسکتا۔ الزخرف
41 ٤١۔ ١ یعنی تجھے موت آجائے، قبل اس کے کہ ان پر عذاب آئے، یا تجھے مکے سے نکال لے جائیں۔ ٤١۔ ٢ دنیا میں اگر ہماری مشیت طلب کرنے والی ہوئی، بصورت دیگر عذاب آخروی سے تو وہ کسی صورت نہیں بچ سکتے۔ الزخرف
42 ٤٢۔ ١ یعنی تیری موت سے قبل ہی، یا مکے میں ہی تیرے رہتے ہوئے عذاب بھیج دیں۔ ٤٢۔ ٢ یعنی ہم جب چاہیں ان پر عذاب نازل کرسکتے ہیں، کیونکہ ہم ان پر قادر ہیں۔ چنانچہ آپ کی زندگی میں ہی بدر کی جنگ میں کافر عبرت ناک شکست اور ذلت سے دو چار ہوئے۔ الزخرف
43 ٤٣۔ ١ یعنی قرآن کریم کو، چاہے کوئی بھی اسے جھٹلاتا رہے۔ الزخرف
44 ٤٤۔ ١ یعنی یہ قرآن تیرے لئے اور تیری قوم کے لئے شرف و عزت کا باعث ہے کہ یہ ان کی زبان میں اترا، اس کو وہ سب سے زیادہ سمجھنے والے ہیں اور اس کے ذریعے سے وہ پوری دنیا پر فضل و برتری پا سکتے ہیں اس لئے ہم کو چاہیے کہ اس کو اپنائیں اور اس پر سب سے زیادہ عمل کریں۔ الزخرف
45 ٤٥۔ ١ جواب یقینا نفی میں ہے۔ اللہ نے کسی بھی نبی کو یہ حکم نہیں دیا۔ بلکہ اس کے برعکس ہر نبی کو دعوت توحید کا حکم دیا گیا۔ الزخرف
46 الزخرف
47 ٤٧۔ ١ یعنی جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دعوت توحید دی تو انہوں نے ان کے رسول ہونے کی دلیل طلب کی، جس پر انہوں نے وہ دلائل و معجزات پیش کئے جو اللہ نے انہیں عطا فرمائے تھے، جنہیں دیکھ کر انہوں نے مذاق کیا اور کہا یہ کون سی چیزیں ہیں۔ یہ تو جادو کے ذریعے ہم بھی پیش کرسکتے ہیں۔ الزخرف
48 ٤٨۔ ١ ان نشانیوں سے وہ نشانیاں مراد ہیں جو طوفان، ٹڈی دل، جوئیں، مینڈک اور خون وغیرہ کی شکل میں یکے بعد دیگرے انہیں دکھائیں گئیں، جن کا تذکرہ سورۃ اعراف، آیات۔ (فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَکْبَرُوْا وَکَانُوْاقَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ ١٣٣؁ وَلَمَّا وَقَعَ عَلَیْہِمُ الرِّجْزُ قَالُوْا یٰمُوْسَی ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِنْدَکَ ۚ لَیِٕنْ کَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَکَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَکَ بَنِیْٓ اِ سْرَاۗءِیْلَ ١٣٤؀ۚ فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُمُ الرِّجْزَ اِلٰٓی اَجَلٍ ہُمْ بٰلِغُوْہُ اِذَا ہُمْ یَنْکُثُوْنَ ١٣٥؁) 7۔ الاعراف :135-133) میں گزر چکا ہے۔ بعد میں آنے والی ہر نشانی پہلی نشانی سے بڑی چڑھی ہوتی، جس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت واضح سے واضح تر ہوجاتی۔ ٤٨۔ ٢ مقصد ان نشانیوں یا عذاب سے یہ ہوتا تھا کہ شاید وہ تکذیب سے باز آجائیں۔ الزخرف
49 ٤٩۔ ١ 'اپنے رب سے ' کے الفاظ اپنی مشرکانہ ذہنیت کی وجہ سے کہے کیونکہ مشرکوں میں مختلف رب اور اللہ ہوتے تھے، موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب سے یہ کام کروا لو! ٤٩۔ ٢ یعنی ہمارے ایمان لانے پر عذاب ٹالنے کا وعدہ۔ ٤٩۔ ٣ اگر عذاب ٹل گیا تو ہم تجھے اللہ کا سچا رسول مان لیں گے اور تیرے ہی رب کی عبادت کریں گے لیکن ہر دفعہ وہ اپنا یہ عہد توڑ دیتے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے اور سورۃ اعراف میں بھی گزرا۔ الزخرف
50 الزخرف
51 ٥١۔ ١ اس سے مراد دریائے نیل یا اس کی بعض شاخیں ہیں جو اس کے محل کے نیچے سے گزرتی تھیں۔ الزخرف
52 ٥٢۔ ١ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی لکنت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ سورۃ طہ میں گزرا۔ الزخرف
53 ٥٣۔ ١ اس دور میں مصر اور فارس کے بادشاہ اپنی امتیازی شان اور خصوصی حیثیت کو نمایاں کرنے کے لئے سونے کے کڑے پہنتے تھے۔ اسی طرح قبیلوں کے سردار کے ہاتھوں میں بھی سونے کے کڑے اور گلے میں سونے کے طوق اور زنجریں ڈال دی جاتی ہیں۔ اسی اعتبار سے فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کہا کہ اگر اس کی حیثیت اور امتیازی شان ہوتی تو اس کے ہاتھ میں سونے کے کڑے ہونے چاہیے تھے۔ ٥٣۔ ٢ جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ اللہ کا رسول ہے یا بادشاہوں کی طرح اس کی شان کو نمایاں کرنے کے لئے اس کے ساتھ ہوتے۔ الزخرف
54 الزخرف
55 الزخرف
56 ٥٦۔ ١ یعنی ان کو بعد میں آنے والوں کے لئے نصیحت اور مثال بنا دیا۔ کہ وہ اس طرح کفر و ظلم اور علو و فساد نہ کریں جس طرح فرعون نے کیا تاکہ وہ اس جیسے عبرت ناک حشر سے محفوظ رہیں۔ الزخرف
57 الزخرف
58 ٥٨۔ ١ شرک کی تردید اور جھوٹے معبودوں کی بے وقعتی کی وضاحت کے لئے جب مشرکین مکہ سے کہا جاتا کہ تمہارے ساتھ تمہارے معبود بھی جہنم جائیں گے تو اس سے مراد وہ پتھر کی مورتیاں ہوتی ہیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے نہ کہ وہ نیک لوگ جو اپنی زندگیوں میں لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے، مگر ان کی وفات کے بعد ان کے معتقدین نے انہیں بھی معبود سمجھنا شروع کردیا ان کی بابت قرآن کریم نے ہی واضح کردیا ہے کہ یہ جہنم سے دور رہیں گے۔ الزخرف
59 ٥٩۔ ١ ایک اس اعتبار سے کہ بغیر باپ کے ان کی ولادت ہوئی، دوسرے، خود انہیں جو معجزات دیئے گئے، احیائے موتی وغیرہ، اس لحاظ سے بھی۔ الزخرف
60 ٦٠۔ ١ یعنی تمہیں ختم کرکے تمہاری جگہ زمین پر فرشتوں کو آباد کردیتے، جو تمہاری ہی طرح ایک دوسرے کی جانشینی کرتے، مطلب یہ ہے کہ فرشتوں کا آسمان پر رہنا اشرف نہیں ہے کہ ان کی عبادت کی جائے یہ تو ہماری مشیت ہے اور قضا ہے کہ فرشتوں کو آسمان اور انسانوں کو زمین پر آباد کیا، ہم چاہیں تو فرشتوں کو زمین پر بھی آباد کرسکتے ہیں۔ الزخرف
61 ٦١۔ ١ اکثر مفسرین کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے قریب ان کا آسمان سے نزول ہوگا، جیسا کہ، صحیح متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ یہ نزول اس بات کی علامت ہوگا کہ اب قیامت قریب ہے اس لئے بعض نے اسے عین اور لام کے زبر کے ساتھ (عَلَم) پڑھا ہے، جس کے معنی نشانی اور علامت کے۔ الزخرف
62 الزخرف
63 ٦٣۔ ١ اس کے لئے دیکھئے آل عمران (اِنَّ اللّٰہَ لَا یَخْفٰی عَلَیْہِ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاۗءِ ۝ۭ) 3۔ آل عمران :5) کا حاشیہ۔ الزخرف
64 الزخرف
65 ٦٥۔ ١ اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں، یہودیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) میں نقص نکالا اور انہیں نعوذ باللہ ولد الزنا قرار دیا، جب کہ عیسائیوں نے غلو سے کام لے کر انہیں معبود بنا لیا۔ یا مراد عیسائیوں ہی کے مختلف فرقے ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں ایک دوسرے سے شدید اختلاف رکھتے ہیں، ایک انہیں ابن اللہ، دوسرا اللہ اور ثالث ثلاثہ کہتا اور ایک فرقہ مسلمانوں ہی کی طرح انہیں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول تسلیم کرتا ہے۔ الزخرف
66 الزخرف
67 الزخرف
68 ٦٨۔ ٢ یہ قیامت والے دن ان متقین کو کہا جائے گا جو دنیا میں صرف اللہ کی رضا کے لئے ایک دوسرے سے محبت رکھتے تھے۔ جیسا کہ حدیث میں بھی اس کی فضیلت ہے۔ بلکہ اللہ کے لئے بغض اور اللہ کے لئے محبت کو کمال ایمان کی بنیاد بتلایا گیا ہے۔ الزخرف
69 الزخرف
70 ٧٠۔ ١ اَ زْوَاجُکُمْ سے بعض نے مومن بیویاں، بعض نے مومن ساتھی اور بعض نے جنت میں ملنے والی حورعین بیویاں مراد لی ہیں۔ یہ سارے ہی مفہوم صحیح ہیں کیونکہ جنت میں یہ سب کچھ ہی ہوگا۔ تُحْبَرُونَ حَبْر سے ماخوذ ہے یعنی وہ فرحت و مسرت جو انہیں جنت کی نعمت و عزت کی وجہ سے ہوگی۔ الزخرف
71 ٧١۔ ١ مطلب ہے اہل جنت کو جو کھانے ملیں گے، وہ سونے کی رکابیوں میں ہوں گے (فتح القدیر) الزخرف
72 الزخرف
73 الزخرف
74 الزخرف
75 ٧٥۔ ١ یعنی نجات سے مایوس۔ الزخرف
76 الزخرف
77 ٧٧۔ ١ مالک، دروغہ جہنم کا نام ہے۔ ٧٧۔ ٢ یعنی ہمیں موت ہی دے دے تاکہ عذاب سے جان چھوٹ جائے۔ ٧٧۔ ٣ یعنی وہاں موت کہاں؟ لیکن یہ عذاب کی زندگی موت سے بھی بدتر ہوگی، تاہم اس کے بغیر بھی چارہ نہیں ہوگا۔ الزخرف
78 ٧٨۔ ١ یہ اللہ کا ارشاد ہے یا فرشتوں کا ہی قول بطور نیابت الٰہی ہے۔ جیسے کوئی افسر مجاز ' ہم ' کا استعمال حکومت کے مفہوم میں کرتا ہے۔ اکثر سے مراد کل ہے یعنی سارے ہی جہنمی، یا پھر اکثر سے مراد رؤسا اور لیڈر ہیں۔ باقی جہنمی ان کے پیروکار ہونے کی حیثیت سے اس میں شامل ہونگے۔ حق سے مراد، اللہ کا وہ دین اور پیغام ہے جو وہ پیغمبروں کے ذریعے سے ارسال کرتا رہا۔ آخری حق قرآن اور دین اسلام ہے۔ الزخرف
79 ٧٩۔ ١ یعنی ان جہنمیوں نے حق کو ناپسند ہی نہیں کیا بلکہ یہ اس کے خلاف منظم تدبیریں اور سازشیں کرتے رہے۔ جس کے مقابلے میں پھر ہم نے بھی اپنی تدبیر کی اور ہم سے زیادہ مضبوط تدبیر کس کی ہوسکتی ہے؟ الزخرف
80 ٨٠۔ ١ یعنی جو پوشیدہ باتیں وہ اپنے نفسوں میں چھپائے پھرتے ہیں یا خلوت میں آہستگی سے کرتے ہیں یا آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں، کیا وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم وہ نہیں سنتے؟ ٨٠۔ ٢ یعنی یقینا سنتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے الگ ان کی ساری باتیں نوٹ کرتے ہیں۔ الزخرف
81 ٨١۔ ١ کیونکہ اللہ کا مطیع اور فرماں بردار ہوں اگر واقع اس کی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے میں ان کی عبادت کرنے والا ہوتا۔ مطلب مشرکین کے عقیدے میں اللہ کی اولاد ثابت کرتے ہیں۔ الزخرف
82 الزخرف
83 ٨٣۔ ١ یعنی اگر یہ ہدایت کا راستہ نہیں اپناتے تو اب انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیں اور دنیا کے کھیل کود میں لگا رہنے دیں۔ ٨٣۔ ٢ ان کی آنکھیں اس دن کھلیں گی جب ان کے اس رویے کا انجام ان کے سامنے آئے گا۔ الزخرف
84 ٨٤۔ ١ یہ نہیں ہے کہ آسمانوں کا معبود کوئی اور بلکہ جس طرح ان دونوں کا خالق ایک ہی معبود بھی ایک ہی ہے۔ الزخرف
85 ٨٥۔ ١ جس کو اپنے وقت پر ظاہر فرمائے گا۔ ٨٥۔ ٢ جہاں وہ ہر ایک کو اس کے عملوں کے مطابق جزا و سزا دے گا۔ الزخرف
86 ٨٦۔ ١ یعنی دنیا میں جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں، یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ اللہ کے ہاں ہماری سفارش کریں گے ان معبودوں کو شفاعت کا قطعًا کوئی اختیار نہیں ہوگا۔ ٨٦۔ ٢ حق بات سے مراد کلمہ توحید لا الٰہ الا اللہ ہے اور یہ اقرار بھی علم و بصیرت کی بنیاد ہو، محض رسمی اور تقلیدی نہ ہو یعنی زبان سے کلمہ توحید ادا کرنے والے کو پتہ ہو کہ اس میں صرف ایک اللہ کا اثبات اور دیگر تمام معبودوں کی نفی ہے۔ الزخرف
87 الزخرف
88 ٨٨۔ ١ اللہ کے پاس ہی قیامت اور اپنے پیغمبر کے شکوہ کا علم ہے۔ الزخرف
89 ٨٩۔ ١ یعنی دین کے معاملے میں میری اور تمہاری راہ الگ الگ ہے، تم اگر باز نہیں آتے تو اپنا عمل کئے جاؤ، میں اپنا کام کئے جا رہا ہوں، عنقریب معلوم ہوجائے گا سچا کون ہے اور جھوٹا کون؟ الزخرف
0 الدخان
1 الدخان
2 الدخان
3 ٣۔ ١ بابرکت رات (لَیْلَۃُ الْقَدْرِ) سے مراد شب قدر ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر صراحت ہے (شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ) 2۔ البقرۃ:185) رمضان کے مہینے میں قرآن نازل کیا گیا، یہ شب قدر رمضان کے عشرہ اخیر کی طاق راتوں میں سے ہی کوئی ایک رات ہوتی ہے۔ یہاں قدر کی رات اس رات کو بابرکت رات قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بابرکت ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے کہ ایک تو اس میں قرآن کا نزول ہوا دوسرے، اس میں فرشتوں اور روح الامین کا نزول ہوتا ہے تیسرے اس میں سارے سال میں ہونے والے واقعات کا فیصلہ کیا جاتا ہے (جیسا کہ آگے آرہا ہے) چوتھے اس رات کی عبادت ہزار مہینے (٨٣ سال ٤ ماہ) کی عبادت سے بہتر ہے شب قدر یا لیلہ مبارکہ میں قرآن کے نزول کا مطلب یہ ہے کہ اسی رات سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔ یعنی پہلے پہل اس رات آپ پر قرآن نازل ہوا، یا یہ مطلب ہے لوح محفوظ سے اسی رات قرآن بیت العزت میں اتارا گیا جو آ ّسمان دنیا پر ہے۔ پھر وہاں سے ضرورت و مصلحت ٣٣ سالوں تک مختلف اوقات میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اترتا رہا۔ الدخان
4 الدخان
5 ٥۔ ١ یعنی سارے فیصلے ہمارے حکم و اذن اور ہماری تقدیر و مشیت سے ہوتے ہیں۔ الدخان
6 ٦۔ ١ یعنی انزال کتب کے ساتھ (رسولوں کا بھیجنا) یہ بھی ہماری رحمت ہی کا ایک حصہ ہے تاکہ وہ ہماری نازل کردہ کتابوں کو کھول کر بیان کریں اور ہمارے احکام لوگوں تک پہنچائیں۔ اس طرح مادی ضرورتوں کی فراہمی کے ساتھ ہم نے اپنی رحمت سے لوگوں کے روحانی تقاضوں کی تکمیل کا بھی سامان مہیا کردیا۔ الدخان
7 الدخان
8 الدخان
9 ٩۔ ١ یعنی حق اور اس کے دلائل کے سامنے آگئے۔ لیکن وہ اس پر ایمان لانے کے بجائے شک میں مبتلا ہیں اور اس شک کے ساتھ استہزاء اور کھیل کود میں پڑے ہیں۔ الدخان
10 ١٠۔ ١ یہ کافروں کے لئے تہدید ہے کہ اچھا آپ اس دن کا انتظار فرمائیں جب آسمان پر دھوئیں کا ظہور ہوگا۔ الدخان
11 الدخان
12 ١٢۔ ١ پہلی تفسیر کی رو سے یہ کفار مکہ نے کہا اور دوسری تفسیر کی رو سے قیامت کے قریب کافر کہیں گے۔ الدخان
13 الدخان
14 الدخان
15 الدخان
16 ١٦۔ ١ اس سے مراد جنگ بدر کی گرفت ہے، جس میں ستر کافر مارے گئے اور ستر قیدی بنا لئے گئے۔ دوسری تفسیر کی رو سے یہ سخت گرفت قیامت والے دن ہوگی۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ یہ اس گرفت خاص کا ذکر ہے جو جنگ بدر میں ہوئی، کیونکہ قریش کے سیاق میں ہی اس کا ذکر ہے، اگرچہ قیامت والے دن بھی اللہ تعالیٰ سخت گرفت فرمائے گا تاہم وہ گرفت عام ہوگی، ہر نافرمان اس میں شامل ہوگا۔ الدخان
17 ١٧۔ ١ آزمانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے انہیں دنیاوی خوشی، خوشحالی و فراغت سے نوازا اور پھر اپنا جلیل القدر پیغمبر بھی ان کی طرف ارسال کیا لیکن انہوں نے رب کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا اور نہ پیغمبر پر ایمان لائے۔ الدخان
18 ١٨۔ ١ عِبَاد اللّٰہِ سے مراد یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم بنی اسرائیل ہے جسے فرعون نے غلام بنا رکھا تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ ١٨۔ ٢ اللہ کا پیغام پہنچانے میں امانت دار ہوں۔ الدخان
19 ١٩۔ ١ یعنی اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کر کے اللہ کے سامنے اپنی بڑائی اور سرکشی کا اظہار نہ کرو۔ ١٩۔ ٢ یہ ما قبل کی علت ہے کہ میں ایسی حجت واضح ساتھ لایا ہوں جس کے انکار کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ الدخان
20 ٢٠۔ ١ اس دعوت و تبلیغ کے جواب میں فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کی دھمکی دی، جس پر انہوں نے اپنے رب سے پناہ طلب کی۔ الدخان
21 ٢١۔ ١ یعنی اگر مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو نہ لاؤ، لیکن مجھے قتل کرنے کی اذیت پہنچانے کی کوشش نہ کرو۔ الدخان
22 ٢٢۔ ١ یعنی جب انہوں دیکھا کہ دعوت کا اثر قبول کرنے کی بجائے، اس کا کفر و عناد بڑھ گیا تو اللہ کی بارگاہ میں دعا کے لئے ہاتھ پھیلا دیئے۔ الدخان
23 ٢٣۔ ١ چنانچہ اللہ نے دعا قبول فرمائی اور انہیں حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو راتوں رات لے کر یہاں سے نکل جاؤ اور دیکھو! گھبرانا نہیں، تمہارا پیچھا بھی ہوگا۔ الدخان
24 ٢٤۔ ١ رَھْوًا بمعنی ساکن یا خشک۔ مطلب یہ ہے کہ تیرے لاٹھی مارنے سے دریا معجزانہ طور پر ساکن یا خشک ہوجائے گا اور اس میں راستہ بن جائے گا، تم دریا پار کرنے کے بعد اسے اسی حالت میں چھوڑ دینا تاکہ فرعون اور اس کا لشکر بھی دریا کو پار کرنے کی غرض سے اس میں داخل ہوجائے اور ہم اسے وہیں غرق کردیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ پہلے تفصیل گزر چکی ہے۔ الدخان
25 الدخان
26 الدخان
27 الدخان
28 ٢٨۔ ١ بعض کے نزدیک اس سے مراد بنی اسرائیل ہیں۔ لیکن بعض کے نزدیک بنی اسرائیل کا دوبارہ مصر آنا تاریخی طور پر ثابت نہیں، اس لئے ملک مصر کی وارث کوئی اور قوم بنی، بنی اسرائیل نہیں۔ الدخان
29 ٢٩۔ ١ یعنی ان فرعونیوں کے نیک اعمال ہی نہیں تھے جو آسمان پر چڑھتے اور ان کا سلسلہ منقطع ہونے پر آسمان روتے، نہ زمین پر ہی وہ اللہ کی عبادت کرتے تھے کہ اس سے محرومی پر زمین روتی۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان و زمین میں کوئی بھی ان کی ہلاکت پر رونے والا نہیں تھا (فتح القدیر) الدخان
30 الدخان
31 الدخان
32 ٣٢۔ ١ اس جہان سے مراد بنی اسرائیل کے زمانے کا جہان ہے کل جہان نہیں ہے، کیونکہ قرآن میں امت محمدیہ کو کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے یعنی بنی اسرائیل اپنے زمانے میں دنیا جہان والوں پر فضیلت رکھتے تھے ان کی یہ فضیلت اس استحقاق کی وجہ سے تھی جس کا علم اللہ کو ہے۔ الدخان
33 الدخان
34 ٣٤۔ ١ یہ اشارہ کفار مکہ کی طرف ہے۔ اس لئے کہ سلسلہ کلام ان ہی سے متعلق ہے۔ درمیان میں فرعون کا قصہ ان کی تنبیہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ الدخان
35 ٣٥۔ ١ یعنی یہ دنیا کی زندگی ہی بس آخری زندگی ہے اس کے بعد دوبارہ زندہ ہونا اور حساب کتاب ہونا ممکن نہیں ہے۔ الدخان
36 ٣٦۔ ١ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو کافروں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ اگر تمہارا یہ عقیدہ واضح اور صحیح ہے کہ دوبارہ زندہ ہونا ہے تو ہمارے باپ دادوں کو زندہ کرکے دکھا دو یہ ان کی کٹ حجتی تھی کیونکہ دوبارہ زندہ کرنے کا عقیدہ قیامت سے متعلق ہے نہ کہ قیامت سے پہلے ہی دنیا میں زندہ ہوجانا یا کردینا۔ الدخان
37 ٣٧۔ ١ یعنی یہ کفار مکہ اور ان سے پہلے کی قومیں، عاد و ثمود وغیرہ سے زیادہ طاقتور اور بہتر ہیں، جب ہم نے انہیں ان کے گناہوں کی پاداش میں، ان سے زیادہ قوت و طاقت رکھنے کے باوجود ہلاک کردیا تو یہ کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ الدخان
38 ٣٨۔ ١ یہی مضمون اس سے قبل (وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بَاطِلًا ۭ ذٰلِکَ ظَنُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ۚ فَوَیْلٌ لِّــلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنَ النَّارِ 27؀ۭ) 38۔ ص :27) (اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ١١٥؁ فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ ١١٦؁) 23۔ المؤمنون :116-115) (وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بالْحَقِّ ۭ وَاِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیَۃٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ 85؀) 15۔ الحجر :85) و غیرہا میں بیان کیا گیا ہے۔ الدخان
39 ٣٩۔ ١ یعنی وہ اس مقصد سے غافل اور بے خبر ہیں۔ اسی لئے آخرت کی تیاری سے لا پروا ہیں۔ الدخان
40 ٤٠۔ ١ یعنی وہ اصل مقصد ہے جس کے لئے انسانوں کو پیدا کیا گیا اور آسمان و زمین کی تخلیق کی گئی ہے۔ الدخان
41 الدخان
42 الدخان
43 الدخان
44 الدخان
45 ٤٥۔ ١ پگھلا ہوا تانبہ، آگ میں پگھلی ہوئی چیز یا تلچھٹ تیل وغیرہ کے آخر میں جو گدلی سی مٹی کی تہ رہ جاتی ہے۔ الدخان
46 ٤٦۔ ١ وہ زقوم کی خوراک، کھولتے ہوئے پانی کی طرح پیٹ میں کھولے گی۔ الدخان
47 ٤٧۔ ١ یہ جہنم پر مقرر فرشتوں سے کہا جائے گا۔ الدخان
48 الدخان
49 ٤٩۔ ١ یعنی دنیا میں اپنے طور پر تو بڑا ذی عزت اور صاحب اکرام بنا پھرتا تھا اور اہل ایمان کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ الدخان
50 الدخان
51 الدخان
52 الدخان
53 ٥٣۔ ١ اہل کفر و فسق کے مقابلے میں اہل ایمان و تقویٰ کا مقام بیان کیا جا رہا ہے جنہوں نے اپنا دامن کفر و فسق اور معاصی سے بچائے رکھا تھا۔ آمین کا مطلب ایسی جگہ، جہاں ہر قسم کے خوف اور اندیشوں سے وہ محفوظ ہونگے۔ الدخان
54 ٥٤۔ ٢ حُورَاَءُ اس لئے کہا جاتا ہے کہ نظریں ان کے حسن و جمال کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوجائیں گی کشادہ چشم جیسے ہرن کی آنکھیں ہوتی ہیں۔ ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں کہ ہر جنتی کو کم ازکم دو حوریں ضرور ملیں گی، جو حسن جمال کے اعتبار سے چندے آفتاب و ماہتاب ہوں گی۔ البتہ ترمذی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے، جسے صحیح کہا گیا ہے، کہ شہید کو خصوصی طور پر ٧٢ حوریں ملیں گی۔ الدخان
55 ٥٥۔ ١ آمِنِیْنَ (بے خوفی کے ساتھ) کا مطلب ان کے ختم ہونے کا اندیشہ ہوگا نہ کے کھانے سے بیماری وغیرہ کا خوف یا موت، تھکاوٹ اور شیطان کا کوئی خوف نہیں ہوگا۔ الدخان
56 ٥٦۔ ١ یعنی دنیا میں انہیں جو موت آئی تھی، اس موت کے بعد انہیں موت کا مزہ نہیں چکھنا پڑے گا جیسے حدیث میں آتا ہے ' کہ موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں لا کر دوزخ اور جنت کے درمیاں ذبح کردیا جائے گا اور اعلان کردیا جائے گا اے جنتیو! تمہارے لئے جنت کی زندگی دائمی ہے، اب تمہارے لئے موت نہیں۔ اور اے جہنمیوں! تمہارے لئے جہنم کا عذاب دائمی ہے موت نہیں الدخان
57 ٥٧۔ ١ جس طرح حدیث میں آتا ہے، فرمایا یہ بات جان لو! تم میں کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں نہیں لے جائے گا صحابہ نے عرض کیا۔ یارسول اللہ! آپ کو بھی؟ فرمایا ' ہاں مجھے بھی، مگر اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت اور فضل میں ڈھانپ لے گا ' (صحیح بخاری) الدخان
58 الدخان
59 ٥٩۔ ١ تو عذاب الٰہی کا انتظار کر، اگر یہ ایمان نہ لائے۔ یہ منتظر ہیں اس بات کے کہ اسلام کے غلبہ و نفوذ سے قبل ہی شاید آپ موت سے ہمکنار ہوجائیں۔ الدخان
0 الجاثية
1 الجاثية
2 الجاثية
3 الجاثية
4 الجاثية
5 ٥۔ ١ آسمانوں و زمین، انسانی تخلیق، جانوروں کی پیدائش، رات دن کے آنے جانے اور آسمانی بارش کے ذریعے سے مردہ زمین میں زندگی کی لہر کا دوڑ جانا وغیرہ، آفاق و انفس میں بیشمار نشانیاں ہیں جو اللہ کی واحدنیت و ربوبیت پر دال ہیں۔ ٥۔ ٢ یعنی کبھی ہوا کا رخ شمال جنوب، کبھی پچھم (مشرق و مغرب) کو ہوتا ہے، کبھی بحری ہوائیں اور کبھی بری ہوائیں، کبھی رات کو، کبھی دن کو، بعض ہوائیں بارش خیز، بعض نتیجہ خیز، بعض ہوائیں روح کی غذا اور بعض سب کچھ جھلسا دینے والی اور محض گردو غبار کا طوفان، ہواؤں کی اتنی قسمیں بھی دلالت کرتے ہیں کہ اس کائنات کا کوئی چلانے والا ہے اور وہ ایک ہی ہے دو یا دو سے زائد نہیں تمام اختیارات کا مالک وہی ایک ہے، ان میں کوئی شریک نہیں سارا اور ہر قسم کا تصرف وہی کرتا ہے کسی اور کے پاس ادنیٰ سا تصرف کرنے کا بھی اختیار نہیں۔ الجاثية
6 ٦۔ ١ یعنی اللہ کا نازل کردہ قرآن، جس میں اس کی توحید کے دلائل و براہین ہیں۔ اگر یہ اس پر بھی ایمان نہیں لاتے تو اللہ کی بات کے بعد کس کی بات ہے اور اس کی نشانیوں کے بعد کون سی نشانیاں ہیں جن پر ایمان لائیں گے۔ الجاثية
7 ٧۔ ١ بہت گنہگار، وَیْل بمعنی ہلاکت یا جہنم کی ایک وادی کا نام۔ الجاثية
8 ٨۔ ١ یعنی کفر پر اڑا رہتا ہے اور حق کے مقابلے میں اپنے کو بڑا سمجھتا ہے اور اسی غرور میں سنی ان سنی کردیتا ہے۔ الجاثية
9 ٩۔ ١ یعنی اول تو وہ قرآن کو غور سے سنتا ہی نہیں اور اگر کوئی بات اس کے کان میں پڑجاتی ہے یا کوئی بات اس کے علم میں آجاتی ہے تو اسے مذاق کا موضوع بنا لیتا ہے۔ اپنی کم عقلی اور نافہمی کی وجہ سے یا کفر و معصیت پر اصرار و استکبار کی وجہ سے۔ الجاثية
10 ١٠۔ ١ یعنی ایسے کردار کے لوگوں کے لئے قیامت میں جہنم ہے۔ الجاثية
11 ١١، ١ یعنی قرآن! کیونکہ اس کے نزول کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگوں کو کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لایا جائے۔ الجاثية
12 ١٢۔ ١ یعنی اس کو ایسا بنا دیا کہ تم کشتیوں اور جہازوں کے ذریعے اس پر سفر کرسکو۔ الجاثية
13 ١٣۔ ١ مطیع کرنے کا مطلب یہی ہے کہ ان کو تمہاری خدمت پر مامور کردیا ہے، تمہارے منافع اور تمہاری معاش سب انہی سے وابستہ ہے، جیسے چاند، سورج ستارے، بارش، بادل اور ہوائیں وغیرہ ہیں۔ اور اپنی طرف سے کا مطلب، اپنی رحمت اور فضل خاص سے۔ الجاثية
14 الجاثية
15 ١٥۔ ١ یعنی ہر گروہ اور فرد کا عمل، اچھا یا برا، اس کا فائدہ یا نقصان خود کرنے والے ہی کو پہنچے گا، کسی دوسرے کو نہیں اس میں نیکی کی ترغیب بھی ہے اور بدی سے ترہیب بھی۔ الجاثية
16 ١٦۔ ١ کتاب سے مراد تورات، حکم سے حکومت و بادشاہت یا فہم و قضا کی وہ صلاحیت ہے جو فضل خصوصیات اور لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے کے لئے ضروری ہے۔ الجاثية
17 ١٧۔ ١ آپس میں ایک دوسرے سے حسد اور بغض و عناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے یا جاہ و منصب کی خاطر۔ انہوں نے اپنے دین میں، علم آجانے کے باوجود، اختلاف یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت سے انکار کیا۔ ١٧۔ ٢ یعنی اہل حق کو اچھی جزا اور اہل باطل کو بری جزا دے گا۔ الجاثية
18 ١٨۔ ١ شریعت کے لغوی معنی ہیں، ملت اور منہاج۔ شاہراہ کو بھی شارع کہا جاتا ہے کہ وہ مقصد اور منزل تک پہنچاتی ہے پس شریعت سے مراد، وہ دین ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے لئے مقرر فرمایا ہے تاکہ لوگ اس پر چل کر اللہ کی رضا کا مقصد حاصل کرلیں۔ آیت کا مطلب ہے ہم نے آپ کو دین کے ایک واضح راستے یا طریقے پر قائم کردیا ہے جو آپ کو حق تک پہنچا دے گا۔ ١٨۔ ٢ جو اللہ کی توحید اور اس کی شریعت سے ناواقف ہیں۔ مراد کفار مکہ اور ان کے ساتھی ہیں۔ الجاثية
19 الجاثية
20 ٢٠۔ ١ یعنی ان کے دلائل کا مجموعہ ہے جو احکام دین سے متعلق ہیں اور جن سے انسانی ضروریات و حاجات وابستہ ہیں۔ ٢٠۔ ٢ یعنی دنیا میں ہدایت کا راستہ بتلانے والا اور آخرت میں رحمت الٰہی کا موجب ہے۔ الجاثية
21 ٢١۔ ١ یعنی دنیا اور آخرت میں دونوں کے درمیان کوئی فرق نہ کریں۔ اس طرح ہرگز نہیں ہوسکتا یا یہ مطلب ہے کہ جس دنیا میں وہ برابر تھے، آخرت میں بھی برابر رہیں گے کہ مر کر یہ بھی ناپید اور وہ بھی ناپید؟ نہ بدکار کو سزا، نہ ایمان و عمل صالح کرنے والے کو انعام، ایسا نہیں ہوگا اس لئے آگے فرمایا ان کا یہ فیصلہ برا ہے جو وہ کر رہے ہیں۔ الجاثية
22 الجاثية
23 ٢٣۔ ١ یعنی بلوغ علم اور قیام حجت کے باوجود، وہ گمراہی ہی کا راستہ اختیار کرتا ہے جیسے بہت سے پندار علم میں مبتلا گمراہ۔ ٢٣۔ ٢ چنانچہ وہ حق کو دیکھ بھی نہیں پاتا۔ الجاثية
24 ٢٤۔ ١ یہ دہریہ اور ان کے ہم نوا مشرکین مکہ کا قول ہے جو آخرت کے منکر تھے وہ کہتے تھے کہ بس یہ دنیا کی زندگی ہی پہلی اور آخری زندگی ہے، اس کے بعد کوئی زندگی نہیں اور اس میں موت و حیات کا سلسلہ، محض زمانے کی گردش کا نتیجہ ہے، جیسے فلاسفر کا ایک گروہ کہتا ہے چھتیس ہزار سال کے بعد ہر چیز دوبارہ اپنی حالت لوٹ آتی ہے اور یہ سلسلہ، بغیر کسی سانح اور مدبر کے، یوں ہی چل رہا ہے اور چلتا رہے گا نہ اس کی کوئی ابتداء ہے نہ انتہاء۔ یہ گروہ دوریہ کہلاتا ہے (ابن کثیر) ظاہر بات ہے یہ نظریہ، اسے عقل بھی قبول نہیں کرتی اور نقل کے بھی خلاف ہے، حدیث قدسی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ' ابن آدم مجھے ایذاء پہنچاتا ہے۔ زمانے کو برا بھلا کہتا ہے (یعنی اس کی طرف افعال کی نسبت کرکے، اسے برا کہتا ہے، حالانکہ (زمانہ بجائے خود کوئی چیز نہیں) میں خود زمانہ ہوں، میرے ہی ہاتھ میں تمام اختیارات ہیں، رات دن بھی میں ہی پھیرتا ہوں ' (البخاری)۔ الجاثية
25 ٢٥۔ ١ یہ ان کی سب سے بڑی دلیل ہے جو ان کی کٹ حجتی کا مظہر ہے۔ الجاثية
26 الجاثية
27 الجاثية
28 ٢٨۔ ١ ظاہر آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر گروہ ہی (چاہے وہ انبیاء کے پیروکار ہوں یا ان کے مخالفین) خوف اور دہشت کے مارے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہونگے (فتح القدیر) تاآنکہ سب کو حساب کتاب کے لئے بلایا جائے گا، جیسا کہ آیت کے اگلے حصے سے واضح ہے۔ الجاثية
29 ٢٩۔ ١ یعنی ہمارے علم کے علاوہ، فرشتے بھی ہمارے حکم سے تمہاری ہر چیز نوٹ کرتے اور محفوظ رکھتے تھے۔ الجاثية
30 ٣٠۔ ١ یہاں بھی ایمان کے ساتھ عمل صالح کا ذکر کرکے اس کی اہمیت واضح کردی اور عمل صالح وہ اعمال خیر ہیں جو سنت کے مطابق ادا کئے جائیں نہ کہ ہر وہ عمل جسے انسان اپنے طور پر اچھا سمجھ لے اور اسے نہایت اہتمام اور ذوق شوق کے ساتھ کرے۔ الجاثية
31 ٣١۔ ١ یہ بطور توبیخ کے ان سے کہا جائے گا، کیونکہ رسول ان کے پاس آئے تھے، انہوں نے اللہ کے احکام انہیں سنائے تھے، لیکن انہوں نے پروا ہی نہیں کی تھی۔ ٣١۔ ٢ یعنی حق کے قبول کرنے سے تم نے تکبر کیا اور ایمان نہیں لائے، بلکہ تم تھے ہی گناہ گار۔ الجاثية
32 ٣٢۔ ١ یعنی قیامت کا وقوع، محض ظن و تخمین ہے، ہمیں تو یقین نہیں کہ یہ واقعی ہوگی۔ الجاثية
33 ٣٣۔ ١ یعنی قیامت کا عذاب، جسے وہ مذاق یعنی انہونا سمجھتے تھے، اس میں وہ گرفتار ہوں گے۔ الجاثية
34 ٣٤۔ ١ جیسے حدیث میں آتا ہے۔ اللہ اپنے بعض بندوں سے کہے گا 'کیا میں نے تجھے بیوی نہیں دی تھی؟ کیا میں نے تیرا اکرام نہیں کیا تھا ؟ کیا میں نے گھوڑے اور بیل وغیرہ تیری ماتحتی میں نہیں دیئے تھے؟ تو سرداری بھی کرتا اور چنگی بھی وصول کرتا رہا۔ وہ کہے گا ہاں یہ تو ٹھیک ہے میرے رب! اللہ تعالیٰ پوچھے گا، کیا تجھے میری ملاقات کا یقین تھا ؟ وہ کہے گا، نہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا پس آج میں بھی (تجھے جہنم میں ڈال کر) بھول جاؤں گا جیسے تو مجھے بھولے رہا (صحیح مسلم) الجاثية
35 الجاثية
36 الجاثية
37 ٣٧۔ ١ جیسے حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلْعَظَمَۃُ اِذَارِیْ وَالْکِبْریاءُ رِدَائیْ فَمَنْ نَازَعَنِیْ وَاحِدًا مِنْھُمَا اَسْکَنْتُہُ نَارِیْ (صحیح مسلم) الجاثية
0 الأحقاف
1 حم الأحقاف
2 ٢۔ ١ یہ فواتح سورۃ ان متشابہات میں سے ہیں جن کا علم صرف اللہ کو ہے اس لیے ان کے معانی و مطالب میں پڑنے کی ضرورت نہیں تاہم ان کے دو فائدے بعض مفسرین نے بیان کیے ہیں جنہیں ہم پیچھے بیان کر آئے ہیں۔ الأحقاف
3 ٣۔ ١ یعنی آسمان اور زمین کی پیدائش کا ایک خاص مقصد بھی ہے اور وہ ہے انسانوں کی آزمائش۔ دوسرا اس کے لئے ایک وقت بھی مقرر ہے جب وہ وقت آ جائے گا تو آسمان اور زمین کا موجودہ نظام سارا بکھر جائے گا۔ نہ آسمان، یہ آسمان ہوگا نہ زمین، یہ زمین ہوگی۔ یوم تبدل الارض غیر الارض والسموات "سورہ ابراھیم۔ ٣۔ ٢ یعنی عدم ایمان کی صورت میں بعث حساب اور جزا سے جو انہیں ڈرایا جاتا ہے وہ اس کی پرواہی نہیں کرتے اس پر ایمان لاتے ہیں نہ عذاب اخروی سے بچنے کی تیاری کرتے ہیں۔ الأحقاف
4 ٤۔ ١ ارایتم یعنی اخبرونی یا ارونی یعنی اللہ کو چھوڑ کر جن بتوں یا شخصیات کی تم عبادت کرتے ہو مجھے بتلاؤ یا دکھلاؤ کہ انہوں نے زمین و آسمان کی پیدائش میں کیا حصہ لیا ہے مطلب یہ ہے کہ جب آسمان و زمین کی پیدائش میں بھی ان کا کوئی حصہ نہیں ہے بلکہ مکمل طور پر ان سب کا خالق صرف ایک اللہ ہے تو پھر تم ان غیر حق معبودوں کو اللہ کی عبادت میں کیوں شریک کرتے ہو۔ ٤۔ ٢ یعنی کسی نبی پر نازل شدہ میں یا کسی منقول روایت میں یہ بات لکھی ہو تو وہ لا کر دکھاؤ تاکہ تمہاری صداقت واضح ہو سکے۔ بعض نے اثارہ من علم کے معنی واضح علمی دلیل کے کئے ہیں اس صورت میں کتاب سے نقلی دلیل اور اثارہ من علم سے عقلی دلیل مراد ہوگی یعنی کوئی عقلی اور نقلی دلیل پیش کرو پہلے معنی اس کے اثر سے ماخوذ ہونے کی بنیاد پر روایت کے کیے گئے ہیں یا بقیۃ من علم پہلے انبیاء علیم السلام کی تعلیمات کا باقی ماندہ حصہ جو قابل اعتماد ذریعے سے نقل ہوتا آیا ہو اس میں یہ بات ہو۔ الأحقاف
5 ٥۔ ١ یعنی یہی سب سے بڑے گمراہ ہیں جو پتھر کی مورتیوں کو مدد کے لئے پکارتے ہیں جو قیامت تک جواب دینے سے قاصر۔ ہیں اور قاصر ہی نہیں بلکہ بالکل بے خبر ہیں۔ الأحقاف
6 ٦ ۔ ١ یہ مضمون قرآن کریم میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے مثلا سورۃ یونس سورۃ مریم سورۃ عنکبوت وغیر ھا من الایات دنیا میں ان معبودوں کی دو قسمیں ہیں ایک تو غیر ذی روح جمادات ونباتات اور مظاہر قدرت (سورج آگ) ہیں اللہ تعالیٰ ان کو زندگی اور قوت گویائی عطا فرمائے گا اور یہ چیزیں بول کر بتلائیں گی کہ ہمیں قطعا اس بات کا علم نہیں ہے کہ یہ ہماری عبادت کرتے اور ہمیں تیری خدائی میں شریک گردانتے تھے بعض کہتے ہیں کہ زبان قال سے نہیں ہے زبان حال سے وہ اپنے جذبات کا اظہار کریں گی واللہ اعلم معبودوں کی دوسری قسم وہ ہے جو انبیاء علیہم السلام ملائکہ اور صالحین میں سے ہیں جیسے عیسی، حضرت عزیر علیہما السلام اور دیگر عباد اللہ الصالحین ہیں یہ اللہ کی بارگاہ میں اسی طرح کا جواب دیں گے جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا جواب قرآن کریم میں منقول ہے علاوہ ازیں شیطان بھی انکار کریں گے جیسے قرآن میں ان کا قول نقل کیا گیا ہے۔ تبرأنا الیک ما کانوا ایانا یعبدون۔ القصص۔ ہم تیرے سامنے (اپنے عابدین سے) اظہار براءت کرتے ہیں یہ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے الأحقاف
7 الأحقاف
8 ٨۔ ١ اس حق سے مراد جو ان کے پاس آیا قرآن کریم ہے اس کے اعجاز اور قوت تاثیر کو دیکھ کر وہ اسے جادو سے تعبیر کرتے پھر اس سے بھی انحراف کر کے یا اس سے بھی بات نہ بنتی تو کہتے کہ یہ تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا گھڑا ہوا کلام ہے۔ ٨۔ ٢ یعنی اگر تماری یہ بات صحیح ہو کہ میں اللہ کا بنایا ہوا رسول نہیں ہوں اور یہ کلام بھی میرا اپنا گھڑا ہوا ہے پھر تو یقینا میں بڑا مجرم ہوں اللہ تعالیٰ اتنے بڑے جھوٹ پر مجھے پکڑے بغیر تو نہیں چھوڑے گا اور اگر ایسی کوئی گرفت ہوئی تو پھر سمجھ لینا کہ میں جھوٹا ہوں اور میری کوئی مدد بھی مت کرتا بلکہ ایسی حالت میں مجھے مواخذہ الہی سے بچانے کا تمہیں کوئی اختیار ہی نہیں ہوگا اسی مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے۔ (وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ 44 ؀ۙ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بالْیَمِیْنِ 45؀ۙ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ 46؀ڮ فَمَا مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْہُ حٰجِـزِیْنَ 47؀) 69۔ الحاقہ :44) ٨۔ ٣ یعنی جس جس انداز سے بھی تم قرآن کی تکذیب کرتے ہو، کبھی اسے جادو، کبھی کہانت اور کبھی گھڑا ہوا کہتے ہو۔ اللہ اسے خوب جانتا ہے یعنی وہی تمہاری ان مذموم حرکتوں کا تمہیں بدلہ دے گا ۔ ٨۔ ٤ وہ اس بات کی گواہی کے لئے کافی ہے کہ یہ قرآن اسی کی طرف سے نازل ہوا ہے اور وہی تمہاری تکذیب و مخالفت کا بھی گواہ ہے۔ اس میں بھی ان کے لئے سخت وعید ہے۔ ٨۔ ٥ اس کے لیے جو توبہ کرلے ایمان لے آئے اور قرآن کو اللہ تعالیٰ کا سچا کلام مان لے مطلب ہے کہ ابھی بھی وقت ہے کہ توبہ کر کے اللہ کی مغفرت و رحمت کے مستحق بن جاؤ۔ الأحقاف
9 ٩۔ ١ یعنی پہلا اور انوکھا رسول تو نہیں ہوں، بلکہ مجھ سے پہلے بھی متعدد رسول آ چکے ہیں۔ ٩۔ ٢ یعنی دنیا میں، میں مکے میں ہی رہوں گا یا یہاں سے نکلنے پر مجبور ہونا پڑے گا، مجھے موت طبعی آئے گی یا تمہارے ہاتھوں میرا قتل ہوگا ؟ تم جلدی ہی سزا سے دو چار ہونگیں یا لمبی مہلت تمہیں دی جائے گی؟ ان تمام باتوں کا علم صرف اللہ کو ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے ساتھ یا تمہارے ساتھ کل کیا ہوگا تاہم آخرت کے بارے میں یقینی علم ہے کہ اہل ایمن جنت میں اور کافر جہنم میں جائیں گے اور حدیث میں جو آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر جب ان کے بارے میں حسن ظن کا اظہار کیا گیا تو فرمایا واللہ ما ادری وانا رسول اللہ ما یفعل بی ولا بکم۔ صحیح بخاری۔ اللہ کی قسم مجھے اللہ کا رسول ہونے کے باوجود علم نہیں کہ قیامت کو میرے اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا اس سے کسی ایک معین شخص کے قطعی انجام کے علم کی نفی ہے الا یہ کہ ان کی بابت بھی نص موجود ہو جیسے عشرہ مبشرہ اور اصحاب بدر وغیرہ۔ الأحقاف
10 ١٠۔ ١ اس شاہد بنی اسرائیل سے کون مراد ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ یہ بطور جنس کے ہے۔ بنی اسرائیل میں سے ہر ایمان لانے والا اس کا مصداق ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ مکے میں رہنے والا کوئی بنی اسرائیلی مراد ہے کیونکہ یہ سورت مکی ہے بعض کے نزدیک اس سے مراد عبد اللہ بن سلام ہیں اور وہ اس آیت کو مدنی قرار دیتے ہیں (صحیح بخاری) امام شوکانی نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے (اس جیسی کتاب کی گواہی) کا مطلب تورات کی گواہی جو قرآن کے منزل من اللہ ہونے کی تصدیق ہے۔ کیونکہ قرآن بھی توحید و معاد کے اثبات میں تورات ہی کی مثل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب کی گواہی اور ان کے ایمان لانے کے بعد اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ہے۔ اس لیے اس کے بعد تمہارے انکار استکبار کا بھی کوئی جواز نہیں ہے تمہیں اپنے اس رویے کا انجام سوچ لینا چاہئے الأحقاف
11 ١١۔ ١ کفار مکہ، حضرت بلال، عمار، صہیب اور خباب (رض) جیسے مسلمانوں کو، جو غریب و قلاش کے لوگ تھے لیکن اسلام قبول کرنے میں انہیں سب سے پہلے شرف حاصل ہوا، دیکھ کر کہتے کہ اگر اس دین میں بہتری ہوتی تو ہم جیسے ذی عزت و ذی مرتبہ لوگ سب سے پہلے اسے قبول کرتے نہ کہ یہ لوگ پہلے ایمان لاتے۔ یعنی اپنے طور پر انہوں نے اپنی بابت یہ فرض کرلیا کہ اللہ کے ہاں ان کا بڑا مقام ہے۔ اس لیے اگر یہ دین بھی اللہ کی طرف سے ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے قبول کرنے میں پیچھے نہ چھوڑتا اور جب ہم نے اسے نہ اپنایا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک پرانا جھوٹ ہے یعنی قرآن کو انہوں نے پرانا جھوٹ قرار دیا ہے جیسے وہ اسے اساطیر الاولین بھی کہتے تھے حالانکہ دنیاوی مال ودولت میں ممتاز ہونا عند اللہ مقبولیت کی دلیل نہیں (جیسے ان کو مغالظہ ہوا یا شیطان نے مغالطے میں ڈالا) عند اللہ مقبولیت کے لیے تو ایمان واخلاص کی ضرورت ہے اور اس دولت ایمان واخلاص سے وہ جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے۔ جیسے وہ مال ودولت آزمائش کے طور پر جس کو چاہتا ہے دیتا ہے۔ الأحقاف
12 الأحقاف
13 الأحقاف
14 الأحقاف
15 ١٥۔ ١ اس مشقت وتکلیف کا ذکر والدین کے ساتھ حسن سلوک کے حکم میں مزید تاکید کے لیے ہے جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ماں اس حکم احسان میں باپ سے مقدم ہے کیونکہ نو ماہ تک مسلسل حمل کی تکلیف اور پھر زچگی کی تکلیف صرف تنہا ماں ہی اٹھاتی ہے باپ کی اس میں شرکت نہیں اسی لیے حدیث میں بھی ماں کے ساتھ حسن سلوک کو اولیت دی گئی ہے اور باپ کا درجہ اس کے بعد بتلایا گیا ہے ایک صحابی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری ماں اس نے پھر یہی پوچھا آپ نے یہی جواب دیا تیسری مرتبہ بھی یہی جواب دیاچھوتھی مرتبہ پوچھنے پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر تمہارا باپ۔ صحیح مسلم۔ ١٥۔ ٢ فِصَا ل،ُ کے معنی، دودھ چھڑانا ہیں۔ اس سے بعض صحابہ نے استدلال کیا ہے کہ کم از کم مدت حمل چھ مہینے یعنی چھ مہینے کے بعد اگر کسی عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوجائے تو وہ بچہ حلال ہی ہوگا، حرام نہیں۔ اس لئے کہ قرآن نے مدت رضاعت دو سال (٢٤) مہینے بتلائی ہے، اس حساب سے مدت حمل صرف چھ مہینے ہی باقی رہ جاتی ہے۔ ١٥۔ ٣ کمال قدرت (اَشْدُّہُ) کے زمانے سے مراد جوانی ہے، بعض نے اسے ١٨ سال سے تعبیر کیا ہے، حتٰی کہ پھر بڑھتے بھڑتے چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا یہ عمر قوائے عقلی کے مکمل بلوغ کی عمر ہے اسی لیے مفسرین کی رائے ہے کہ ہر نبی کو چالیس سال کے بعد ہی نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ ١٥۔ ٤ اَوْزِغنِیْ بمعنی اَلْھِمْنِیْ ہے، مجھے توفیق دے۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے علماء نے کہا کہ اس عمر کے بعد انسان کو یہ دعا کثرت سے پڑھتے رہنا چاہئے۔ یعنی ربی اَوْزغْنِیْ سے مِنَ الْمُسْلِمیْنَ تک۔ کو پہنچ گیا، یہ عمر قوائے عقلی کے مکمل بلوغ کی عمر ہے۔ اس لئے مفسرین کی رائے ہے کہ ہر نبی کو چالیس سال کے بعد ہی نبوت سے سرفراز کیا گیا الأحقاف
16 الأحقاف
17 ١٧۔ ١ مذکورہ آیت میں سعادت مند اولاد کا تذکرہ تھا جو ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک بھی کرتی ہے اور ان کے حق میں دعائے خیر بھی اب اس کے مقابلے میں بدبخت اور نافرمان اولاد کا ذکر کیا جارہا ہے جو ماں باپ کے ساتھ گستاخی سے پیش آتی ہے اف لکما افسوس ہے تم پر اف کا کلمہ ناگواری کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے یعنی نافرمان اولاد باپ کی ناصحانہ باتوں پر یا دعوت ایمان وعمل صالح پر ناگواری اور شدت غیظ کا اظہار کرتی ہے جس کی اولاد کو قظعا اجازت نہیں ہے یہ آیت عام ہے ہر نافرمان اولاد اس کی مصداق ہے۔ ١٧۔ ٢ مطلب ہے کہ وہ تو دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں نہیں آئے۔ حالانکہ دوبارہ زندہ ہونے کا مطلب قیامت والے دن زندہ ہونا ہے جس کے بعد حساب ہوگا۔ ١٧۔ ٣ ماں باپ مسلمان ہوں اور اولاد کافر، تو وہاں اولاد اور والدین کے درمیان اسی طرح تکرار اور بحث ہوتی ہے جس کا ایک نمونہ اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ الأحقاف
18 ١٨۔ ١ جو پہلے اللہ کے علم میں تھا، یا شیطان کے جواب میں جو اللہ نے فرمایا تھا (لَاَمْلَــــَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْہُمْ اَجْمَعِیْنَ) 38۔ ص :85)۔ ١٨۔ ٢ یعنی یہ بھی ان کافروں میں شامل ہوگئے جو انسانوں اور جنوں میں سے قیامت والے دن نقصان اٹھانے والے ہونگے۔ الأحقاف
19 ١٩۔ ١ مومن اور کافر دونوں کا ان کے عملوں کے مطابق اللہ کے ہاں مرتبہ ہوگا مومن مراتب عالیہ سے سرفراز ہوں گے اور کافر جہنم کے پست ترین درجوں میں ہوں گے۔ ١٩۔ ١ گنہگار کو اس کے جرم سے زیادہ سزا نہیں دی جائے گی اور نیکوکار کے صلے میں کمی نہیں ہوگی۔ بلکہ ہر ایک کو خیر یا شر میں سے وہی ملے گا جس کا وہ مستحق ہوگا۔ الأحقاف
20 ٢٠۔ ١ یعنی اس وقت کو یاد کرو جب کافروں کی آنکھوں سے پردے ہٹا دیئے جائیں گے اور وہ جہنم کی آگ دیکھ رہے یا اس کے قریب ہوں گے بعض نے یعرضون کے معنی یعذبون کے کیے ہیں اور بعض کہتے ہیں کلام میں قلب ہے مطلب ہے جب آگ ان پر پیش کی جائے گی تعرض النار علیھم (فتح القدیر) ٢٠۔ ٢ طیبات سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو انسان ذوق وشوق سے کھاتے پیتے اور استعمال کرتے اور لذت وفرحت محسوس کرتے لیکن آخرت کی فکر کے ساتھ ان کا استعمال ہو تو بات اور ہے جیسے مومن کرتا ہے وہ اس کے ساتھ ساتھ احکام الہی کی اطاعت کر کے شکر الہی کا بھی اہتمام کرتا رہتا ہے لیکن فکر آخرت سے بے نیازی کے ساتھ ان کا استعمال انسان کو سرکش اور باغی بنا دیتا ہے جیسے کافر کرتا ہے اور یوں وہ اللہ کی ناشکری کرتا ہے چنانچہ مومن کو تو اس کے شکر و اطاعت کی وجہ سے یہ نعمتیں بلکہ ان سے بدرجہا بہتر نعمتیں آخرت میں پھر مل جائیں گی۔ ٢٠۔ ٣ ان کے عذاب کے دو سبب بیان فرمائے، ناحق تکبر، جس کی بنیاد پر انسان حق کا اتباع کرنے سے گریز کرتا ہے اور دوسرا فسق۔ بے خوفی کے ساتھ معاصی کا ارتکاب یہ دونوں باتیں تمام کافروں میں مشترکہ ہوتی ہیں۔ اہل ایمان کو ان دونوں باتوں سے اپنا دامن بچانا چاہیئے۔ الأحقاف
21 ٢١۔ ١ احقاف حقف کی جمع ہے ریت کا بلند مستطیل ٹیلہ بعض نے اس کے معنی پہاڑ اور غار کے کیے ہیں یہ حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم عاد اولی کے علاقے کا نام ہے جو حضرموت (یمن) کے قریب تھا کفار کہ کی تکذیب کے پیش نظر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لیے گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے واقعات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ ٢١۔ ٢ یوم عظیم سے مراد قیامت کا دن ہے، جسے اس کی ہولناکیوں کی وجہ سے بجا طور پر بڑا دن کہا گیا ہے۔ الأحقاف
22 ٢٢۔ ١ لتافکنا لتصرفنا یا لتمنعنا یا لتزیلنا سب متقارب المعنی ہیں تاکہ تو ہمیں ہمارے معبودوں کی پرستش سے پھیر دے روک دے ہٹا دے۔ الأحقاف
23 ٢٣۔ ١ یعنی عذاب کب آئے گا یا دنیا میں نہیں آئے گا بلکہ آخرت میں تمہیں عذاب دیا جائے گا اس کا علم صرف اللہ کو ہے وہی اپنی مشیت کے مطابق فیصلہ فرماتا ہے میرا کام تو صرف پیغام پہچانا ہے۔ ٢٣۔ ٢ کہ ایک کفر پر اصرار کر رہے ہو۔ دوسرے، مجھ سے ایسی چیز کا مطالبہ کر رہے ہو جو میرے اختیار میں نہیں ہے۔ الأحقاف
24 ٢٤۔ ١ عرصہ دراز سے ان کے ہاں بارش نہیں ہوئی تھی امنڈتے بادل دیکھ کر خوش ہوئے کہ اب بارش ہوگی بادل کو عارض اس لیے کہا ہے کہ بادل عرض آسمان پر ظاہر ہوتا ہے۔ ٢٤۔ ١ یہ حضرت ہود (علیہ السلام) نے انہیں کہا کہ یہ محض بادل نہیں ہے جیسے تم سمجھ رہے ہو۔ بلکہ یہ وہ عذاب ہے جسے تم جلدی لانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ٢٤۔ ٣ یعنی وہ ہوا جس سے اس قوم کی ہلاکت ہوئی ان بادلوں سے ہی اٹھی اور نکلی اور اللہ کی مشیت سے ان کو اور ان کی ہر چیز کو تباہ کرگئی اسی لیے حدیث میں آتا ہے حضرت عائشہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ لوگ تو بادل دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہوگی لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے پر اس کے برعکس تشویش کے آثار نظر آتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عائشہ (رض) اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس بادل میں عذاب نہیں ہوگا جب کہ ایک قوم ہوا کے عذاب سے ہی ہلاک کردی گئی اس قوم نے بھی بادل دیکھ کر کہا تھا یہ بادل ہے جو ہم پر بارش برسائے گا۔ البخاری۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب باد تند چلتی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا پڑھتے اللھم انی اسالک خیرھا وخیر ما فیھا وخیر ما ارسلت بہ واغوذبک من شرھا وشر ما ارسلت بہ اور جب آسمان پر بادل گہرے ہوجاتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رنگ متغیر ہوجاتا اور خوف کی سی ایک کیفیت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر طاری ہوجاتی جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اطمینان کا سانس لیتے (صحیح مسلم) الأحقاف
25 ٢٥۔ ١ یعنی مکین سب تباہ ہوگئے اور صرف مکانات نشان عبرت کے طور پر باقی رہ گئے۔ الأحقاف
26 ٢ ٦ ۔ ١ یہ اہل مکہ کو خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ تم کیا چیز ہو تم سے پہلی قومیں جنہیں ہم نے ہلاک کیا قوت وشوکت میں تم سے کہیں زیادہ تھیں لیکن جب انہوں نے اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں آنکھ کان اور دل کو حق کے سننے دیکھنے اور اسے سمجھنے کے لیے استعمال نہیں کیا تو بالآخر ہم نے انہیں تباہ کردیا اور یہ چیزیں ان کے کچھ کام نہ آ سکیں۔ ٢٦۔ یعنی جس عذاب کو وہ انہونا سمجھ کر بطور مذاق کہا کرتے تھے کہ لے آ اپنا عذاب! جس سے تو ہمیں ڈراتا رہتا ہے، وہ عذاب آیا اور اس نے انہیں ایسا گھیرا کہ پھر اس سے نکل نہ سکے۔ الأحقاف
27 ٢٧۔ ١ آس پاس سے عاد، ثمود اور لوط کی وہ بستیاں مراد ہیں جو حجاز کے قریب ہی تھیں، یمن اور شام و فلسطین کی طرف آتے جاتے ان سے ان کا گزر ہوتا تھا۔ ٢٧۔ ٢ یعنی ہم نے مختلف انداز سے اور مختلف انوواع کے دلائل ان کے سامنے پیش کئے کہ شاید وہ توبہ کرلیں۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ الأحقاف
28 ٢٨۔ ١ یعنی جن معبودوں کو وہ تقرب الہی کا ذریعہ سمجھتے تھے انہوں نے ان کی کوئی مدد نہیں کی بلکہ وہ اس موقعے پر آئے ہی نہیں بلکہ گم رہے اس سے بھی معلوم ہوا کہ مشرکین مکہ بتوں کو الہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ انہیں بارگاہ الہی میں قرب کا ذریعہ اور وسیلہ سمجھتے تھے اللہ نے اس وسیلے کو یہاں افک اور افتراء قرار دے کر واضح فرما دیا کہ یہ ناجائز اور حرام ہے۔ الأحقاف
29 ٢٩۔ ١ صحیح مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مکہ کے قریب نخلہ وادی میں پیش آیا، جہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحاب اکرام کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جنوں کو تجسس تھا کہ آسمان پر ہم پر بہت زیادہ سختی کردی گئی ہے اب ہمارا وہاں جانا تقریبًا ناممکن بنا دیا گیا ہے، کوئی بہت ہی اہم واقعہ رونما ہوا ہے جس کے نتیجے میں ایسا ہوا ہے۔ چنانچہ مشرق و مغرب کے مختلف اطراف میں جنوں کی ٹولیاں واقعے کا سراغ لگانے کے لئے پھیل گئیں ان میں سے ایک ٹو لی نے یہ قرآن سنا اور یہ بات سمجھ لی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا یہ واقعہ ہی ہم پر آسمان کی بندش کا سبب ہے اور جنوں کی یہ ٹولی آپ پر ایمان لے آئی اور جا کر اپنی قوم کو بھی بتلایا (مسلم بخاری) (صحیح بخاری)۔ میں بھی بعض باتوں کا تذکرہ ہے کتاب مناقب الانصار باب ذکر الجن بعض دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد آپ جنوں کی دعوت پر ان کے ہاں بھی تشریف لے گئے اور انہیں جا کر اللہ کا پیغام سنایا اور متعدد مرتبہ جنوں کا وفد آپ کی خدمت میں بھی حاضر ہوا (فتح الباری، تفسیر ابن کثیر) ٢٩۔ ٢ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے تلاوت قرآن ختم ہوگی۔ الأحقاف
30 الأحقاف
31 ٣١۔ ١ یہ جنوں نے اپنی قوم کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی اس سے قبل قرآن کریم کے متعلق بتلایا کہ یہ تورات کے بعد ایک اور آسمانی کتاب ہے جو سچے دین اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ ٣١۔ ٢ یہ ایمان لانے کے وہ فائدے بتلائے جو آخرت میں انہیں حاصل ہوں گے من ذنوبکم میں من تبعیض کے لیے ہے یعنی بعض گناہ معاف فرما دے گا اور یہ وہ گناہ ہوں گے جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہوگا کیونکہ حقوق العباد معاف نہیں ہوں گے یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ ثواب وعقاب اور اوامر ونواہی میں جنات کے لیے بھی وہی حکم ہے جو انسانوں کے لیے ہے۔ الأحقاف
32 ٣٢۔ ١ یعنی ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ زمین کی وسعتوں میں اس طرح گم ہوجائے کہ اللہ کی گرفت میں نہ آ سکے۔ ۔ ٣٢۔ ١ جو اسے اللہ کے عذاب سے بچا لیں۔ مطلب یہ ہوا کہ نہ وہ خود اللہ کی گرفت سے بچنے پر قادر ہے اور نہ کسی دوسرے کی مدد سے ایسا ممکن ہے۔ الأحقاف
33 ٣٣۔ ١ جو اللہ آسمان اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے، جن کی وسعت و بے کرانی کی انتہا نہیں ہے وہ ان کو بنا کر تھکا بھی نہیں۔ کیا وہ مردوں کو دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا ؟ یقینا کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ وہ علی کل شیء قدیر کی صفت سے متصف ہے۔ الأحقاف
34 ٣٤۔ ١ وہاں اعتراف ہی نہیں کریں گے بلکہ اپنے اس اعتراف پر قسم کھا کر اسے مؤکد کریں گے لیکن اس وقت کا یہ اعتراف بے فائدہ ہے کیونکہ مشاہدے کے بعد اعتراف کی کیا حثیت ہو سکتی ہے آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد اعتراف نہیں تو کیا انکار کریں گے۔ ٣٤۔ ٢ اس لئے کہ جب ماننے کا وقت تھا، اس وقت مانا نہیں، یہ عذاب اسی کفر کا بدلہ ہے، جو اب تمہیں بھگتنا ہی بھگتنا ہے۔ الأحقاف
35 ٣٥۔ ١ یہ کفار مکہ کے رویے کے مقابلے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے اور صبر کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے۔ ٣٥۔ ٢ قیامت کا ہولناک عذاب دیکھنے کے بعد انہیں دنیا کی زندگی ایسے ہی معلوم ہوگی جیسے دن کی صرف ایک گھڑی یہاں گزار کر گئے ہیں۔ ٣٥۔ ٣ یہ مبتدا محذوف کی خبر ہے ای ہذا الذی وعظتھم بہ بلاغ یہ وہ نصحیت یا پیغام ہے جس کا پہچانا تیرا کام ہے۔ ٣٥۔ ٤ اس آیت میں بھی اہل ایمان کے لیے خوشخبری اور حوصلہ افزائی ہے کہ ہلاکت اخروی صرف ان لوگوں کا حصہ ہے جو اللہ کے نافرمان اور اس کی حدود پامال کرنے والے ہیں۔ الأحقاف
0 محمد
1 ١۔ ١ بعض نے اس سے مراد کفار قریش اور بعض نے اہل کتاب لئے ہیں۔ لیکن یہ عام ہے ان کے ساتھ سارے ہی کفار اس میں داخل ہیں۔ ١۔ ٢ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جو سازشیں کیں اللہ نے انہیں ناکام بنا دیا اور انہی پر ان کو الٹ دیا دوسرا مطلب ہے کہ ان میں جو بعض مکارم اخلاق پائے جاتے تھے مثلا صلہ رحمی قیدیوں کو آزاد کرنا مہمان نوازی وغیرہ یا خانہ کعبہ اور حجاج کی خدمت ان کا کوئی صلہ انہیں آخرت میں نہیں ملے گا۔ کیونکہ ایمان کے بغیر اعمال پر اجر و ثواب مرتب نہیں ہوگا۔ محمد
2 ٢۔ ١ ایمان میں اگرچہ وحی محمدی یعنی قرآن پاک پر ایمان لانا بھی شامل ہے لیکن اس کی اہمیت اور شرف کو مزید واضح اور نمایاں کرنے کے لئے اس کا علیحدہ ذکر فرمایا۔ ٢۔ ٢ یعنی ایمان لانے سے قبل کی غلطیاں اور کو تاہیاں معاف فرما دیں جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی فرمان ہے کہ اسلام ماقبل کے سارے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح الجامع الصغیر الالبانی) ٢۔ ٣ بالھم کے معنی امرھم شانھم حالھم یہ سب متقارب المعنی ہیں مطلب ہے کہ انہیں معاصی سے بچا کر رشد و خیر کی راہ پر لگا دیا ایک مومن کے لیے اصلاح حال کی یہی سب سے بہتر صورت ہے یہ مطلب نہیں ہے کہ مال و دولت کے ذریعے سے ان کی حالت درست کردی کیونکہ ہر مومن کو مال ملتا بھی نہیں علاوہ ازیں محض دنیاوی مال اصلاح احوال کا یقینی ذریعہ بھی نہیں بلکہ اس سے فساد احوال کا زیادہ امکان ہے اسی لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کثرت مال کو پسند نہیں فرمایا۔ محمد
3 ٣۔ ١ ذلک یہ مبتدا ہے یا خبر ہے مبتدا محذوف کی ای الامر ذلک یہ اشارہ ہے ان وعیدوں کی طرف جو کافروں اور مومنوں کے لیے بیان ہوئے۔ ٣۔ ٢ تاکہ لوگ اس انجام سے بچیں جو کافروں کا مقدر ہے اور وہ راہ حق اپنائیں جس پر چل کر ایمان والے فلاح ابدی سے ہمکنار ہونگے۔ محمد
4 ٤۔ ١ جب دونوں فریقوں کا ذکر کردیا تو اب کافروں اور غیر معاہد اہل کتاب سے جہاد کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے قتل کرنے کے بجائے گردنیں مارنے کا حکم دیا کہ اس تعبیر میں کفار کے ساتھ غلظت وشدت کا زیادہ اظہار ہے۔ (فتح القدیر) ٤۔ ٢ یعنی زور دار معرکہ آرائی اور زیادہ سے زیادہ ان کو قتل کرنے کے بعد ان کے جو آدمی قابو میں آ جائیں انہیں قیدی بنا لو اور مضبوطی سے انہیں جکڑ کر رکھو تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں۔ ٤۔ ٣ من کا مطلب ہے بغیر فدیہ لیے بطور احسان چھوڑ دینا اور فداء کا مطلب کچھ معاوضہ لے کر چھوڑنا ہے قیدیوں کے بارے میں اختیار دے دیا گیا جو صورت حالات کے اعتبار سے اسلام اور مسلمانوں کے حق میں زیادہ بہتر ہو وہ اختیار کرلی جائے۔ ٤۔ ٤ یعنی کافروں کے ساتھ جنگ ختم ہوجائے یا مراد ہے کہ محارب دشمن شکست کھا کر یا صلح کر کے ہتھیار رکھ دے یا تمہاری معرکہ آرائی جاری رہے گی جس میں تم انہیں قتل بھی کرو گے قیدیوں میں تمہیں مذکورہ دونوں باتوں کا اختیار ہے بعض کہتے ہیں یہ آیت منسوخ ہے اور سوائے قتل کے کوئی صورت باقی نہیں ہے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں محکم ہے اور امام وقت کو چاروں باتوں کا اختیار ہے کافروں کو قتل کرے یا قیدی بنائے قیدیوں میں سے جس کو یا سب کو چاہے بطور احسان چھوڑ دے یا معاوضہ لے کر چھوڑ دے۔ (فتح القدیر) ٤۔ ٥ یا تم اسی طرح کرو افعلوا ذلک یا ذلک حکم الکفار۔ ٤۔ ٦  مطلب کافروں کو ہلاک کر کے یا انہیں عذاب میں مبتلا کر کے۔ یعنی تمہیں ان سے لڑنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ ٤۔ ٧ یعنی ان کا اجر وثواب ضائع نہیں فرمائے گا۔ محمد
5 ٥۔ ١ یعنی انہیں ایسے کاموں کی توفیق دے گا جن سے ان کے لئے جنت کا راستہ آسان ہوجائے گا۔ محمد
6 ٦۔ ١ یعنی جسے وہ بغیر راہنمائی کے پہچان لیں گے اور جب وہ جنت میں داخل ہونگے تو از خود ہی اپنے اپنے گھروں میں جا داخل ہونگے۔ اس کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ایک جنتی کو اپنے جنت والے گھر کے راستوں کا اس سے زیادہ علم ہوگا جتنا دنیا میں اسے اپنے گھر کا تھا (صحیح بخاری) محمد
7 ٧۔ ١ اللہ کی مدد کرنے سے مطلب اللہ کے دین کی مدد ہے کیونکہ وہ اسباب کے مطابق اپنے دین کی مدد اپنے مومن بندوں کے ذریعے سے ہی کرتا ہے یہ مومن بندے اللہ کے دین کی حفاظت اور اس کی تبلیغ ودعوت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا ہے یعنی انہیں کافروں پر فتح وغلبہ عطا کرتا ہے جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور قرون اولی کے مسلمانوں کی روشن تاریخ ہے وہ دین کے ہوگئے تھے تو اللہ بھی ان کا ہوگیا تھا انہوں نے دین کو غالب کیا تو اللہ نے نہیں بھی دنیا پر غالب فرما دیا جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ ولینصرن اللہ من ینصرہ۔ الحج۔ اللہ اس کی ضرور مدد فرماتا ہے جو اس کی ضرور مدد فرماتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہے۔ ٧۔ ٢ یہ لڑائی کے وقت تثبیت اقدام یہ عبارت ہے مواطن حرب میں نصرو معونت سے بعض کہتے ہیں اسلام یا پل صراط پر ثابت قدم رکھے گا۔ محمد
8 محمد
9 ٩۔ ١ یعنی قرآن اور ایمان کو انہوں نے ناپسند کیا۔ ٩۔ ٢ اعمال سے مراد وہ اعمال ہیں جو صورۃ اعمال خیر ہیں لیکن عدم ایمان کی وجہ سے اللہ کے ہاں ان پر اجر و ثواب نہیں ملے گا۔ محمد
10 ١٠۔ ١ جن کے بہت سے آثار ان کے علاقوں میں موجود ہیں نزول قرآن کے وقت بعض تباہ شدہ قوموں کے کھنڈرات اور آثار موجود تھے اس لیے انہیں چل پھر کر ان کے عبرت ناک انجام دیکھنے کی طرف توجہ دلائی گئی کہ شاید ان کو دیکھ کر ہی یہ ایمان لے آئیں۔ ١٠۔ ٢ یہ اہل مکہ کو ڈرایا جا رہا ہے کہ تم کفر سے باز نہ آئے تو تمہارے لئے بھی ایسی ہی سزا ہو سکتی ہے؟ اور گزشتہ کافر قوموں کی ہلاکت کی طرح، تمہیں بھی ہلاکت سے دو چار کیا جا سکتا ہے۔ محمد
11 ١١۔ ١ چنانچہ جنگ احد میں کافروں کے نعروں کے جواب میں مسلمانوں نے جو نعرے بلند کیے مثلا اعل ھبل اعل ھبل (ھبل بت کا نام ہے) کے جواب میں اللہ اعلی واجل کافروں کے انہی نعروں میں سے ایک نعرے لنا العزی ولا عزی لکم کے جواب مسلمانوں کا نعرہ تھا اللہ مولانا ولا مولی لکم۔ صحیح بخاری۔ اللہ ہمارا مددگار ہے تمہارا کوئی مددگار نہیں۔ محمد
12 ١٢۔ ١ یعنی جس طرح جانور کو پیٹ اور جنس کے تقاضے پورے کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہوتا۔ یہی حال کافروں کا ہے، ان کا مقصد زندگی بھی کھانے کے علاوہ کچھ نہیں، آخرت سے وہ بالکل غافل ہیں۔ اس ضمن میں کھڑے کھڑے کھانے کی ممانعت کا بھی اثبات ہوتا ہے، جس کا آجکل دعوتوں میں عام رواج ہے کیونکہ اس میں بھی جانوروں سے مشابہت ہے جسے کافروں کا شیوا بتلایا گیا ہے احادیث میں کھڑے کھڑے پانی پینے سے نہایت سختی سے منع فرمایا گیا، جس سے کھڑے کھڑے کھانے کی ممانعت بطریق اولیٰ ثابت ہوتی ہے اس لئے جانوروں کی طرح کھڑے ہو کر کھانے سے اجتناب کرنا نہایت ضروری ہے۔ محمد
13 محمد
14 ١٤، ١ برے کام سے مراد شرک اور معصیت ہیں، مطلب وہی ہے جو پہلے بھی متعدد جگہ گزر چکا ہے کہ مومن و کافر، مشرک و موحد اور نیکوکار اور بدکار برابر نہیں ہو سکتے ایک کے لئے اللہ کے ہاں اجر و ثواب اور جنت کی نعمتیں ہیں، جب کہ دوسرے کے لئے جہنم کا ہولناک عذاب۔ اگلی آیت میں دونوں کا انجام بیان کیا جا رہا ہے۔ پہلے اس جنت کی خوبیاں اور محاسن جس کا وعدہ متقین سے ہے۔ محمد
15 ١٥۔ ١ آسن کے معنی متغیر یعنی بدل جانے والا غیر آسن نہ بدلنے والا یعنی دنیا میں تو پانی کسی ایک جگہ کچھ دیر پڑا رہے تو اس کا رنگ متغیر ہوجاتا ہے اور اس کی بو اور ذائقے میں تبدیلی آ جاتی ہے جس سے وہ مضر صحت ہوجاتا ہے جنت کے پانی کی یہ خوبی ہوگی کہ اس میں کوئی تغیر نہیں ہوگا یعنی اس کی بو اور ذائقے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی جب پیو تازہ مفرح اور صحت افزا۔ جب دنیا کا پانی خراب ہوسکتا ہے تو شریعت نے اسی لیے پانی کی بابت کہا ہے کہ یہ پانی اس وقت تک پاک ہے جب تک اس کا رنگ یا بو نہ بدلے کیونکہ رنگ یا بو متغیر ہونے کی صورت میں پانی ناپاک ہوجائے گا۔ ١٥۔ ٢ جس طرح دنیا میں وہ دودھ بعص دفعہ خراب ہوجاتا ہے جو گایوں بھینسوں اور بکریوں وغیرہ کے تھنوں سے نکلتا ہے جنت کا دودھ چونکہ اس طرح جانوروں کے تھنوں سے نہیں نکلے گا بلکہ اس کی نہریں ہوں گی اس لیے جس طرح وہ نہایت لذیذ ہوگا خراب ہونے سے بھی محفوظ ہوگا۔ ١٥۔ ٣ دنیا میں جو شراب ملتی ہے وہ عام طور پر نہایت تلخ بدمزہ اور بدبودار ہوتی ہے علاوہ ازیں اسے پی کر انسان بالعموم حواس باختہ ہوجاتا ہے اول فول بکتا ہے اور اپنے جسم تک کا ہوش اسے نہیں رہتا جنت کی شراب دیکھنے میں حسین ذائقے میں اعلی اور نہایت خوشبودار ہوگی اور اسے پی کر کوئی انسان بہکے گا نہ کوئی گرانی محسوس کرے گا بلکہ ایسی لذت وفرحت محسوس کرے گا جس کا تصور اس دنیا میں ممکن نہیں جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ (وَعِنْدَہُمْ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ عِیْنٌ) 37۔ الصافات :48)۔ نہ اس سے چکر آئے گا نہ عقل جائے گی۔ ١٥۔ ٤ یعنی شہد میں بالعموم جن چیزوں کی آمیزش کا امکان رہتا ہے جس کا مشاہدہ دنیا میں عام ہے جنت میں ایسا کوئی اندیشہ نہیں ہوگا بالکل صاف شفاف ہوگا کیونکہ یہ دنیا کی طرح مکھیوں سے حاصل کردہ نہیں ہوگا بلکہ اس کی بھی نہریں ہوں گی اسی لیے حدیث میں آتا ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب بھی تم سوال کرو تو جنت الفردوس کی دعا کرو اس لیے کہ وہ جنت کا درمیانہ اور اعلی درجہ ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں اور اس کے اوپر رحمان کا عرش ہے۔ صحیح بخاری۔ کتاب الجہاد۔ ١٥۔ ٥ یعنی جن کو جنت میں وہ اعلٰی درجے نصیب ہونگے جو مذکور ہوئے کیا وہ ایسے جہنمیوں کے برابر ہیں جن کا یہ حال ہوگا ؟ ظاہر بات ہے ایسا نہیں ہوگا، بلکہ ایک درجات میں ہوگا اور دوسرا درکات (جہنم) میں۔ ایک نعمتوں میں دادو طرب و عیش لے رہا ہوگا، دوسرا عذاب جہنم کی سختیاں جھیل رہا ہوگا۔ ایک اللہ کا مہمان ہوگا جہاں انواع اقسام کی چیزیں اس کی تواضع اور اکرام کے لئے ہونگی اور دوسرا اللہ کا قیدی، جہاں اس کو کھانے کے لئے زقوم جیسا تلخ و کسیلہ کھانا اور پینے کے لئے کھولتا ہوا پانی ملے گا۔ محمد
16 ١ ٦ ۔ ١ یہ منافقین کا ذکر ہے ان کی نیت چونکہ صحیح نہیں ہوتی تھی اسلیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں وہ مجلس سے باہر آ کر صحابہ (رض) سے پوچھتے کہ آپ نے کیا فرمایا۔ محمد
17 ١٧۔ ١ یعنی جن کی نیت ہدایت حاصل کرنے کی ہوتی ہے تو اللہ ان کو ہدایت کی توفیق بھی دے دیتا ہے اور ان کو اس ثابت قدمی بھی عطا کرتا ہے۔ محمد
18 ١٨۔ ١ یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت بجائے خود قرب قیامت کی ایک علامت ہے جیسا کہ آپ نے بھی فرمایا بعثت انا والساعۃ کھاتین۔ صحیح بخاری۔ میری بعثت اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارہ کر کے واضح فرمایا کہ جس طرح یہ دونوں انگلیاں باہم ملی ہوئی ہیں اسی طرح قیامت میرے ذرا سا بعد ہے۔ ١٨۔ ٢ یعنی جب قیامت اچانک آ جائے گی تو کافر کس طرح نصیحت حاصل کرسکیں گے؟ مطلب ہے اس وقت اگر وہ توبہ کریں گے بھی تو مقبول نہیں ہوگی اس لئے اگر توبہ کرنی ہے تو یہی وقت ہے ورنہ وہ وقت بھی آ سکتا ہے کہ ان کی توبہ بھی غیر مفید ہوگی۔ محمد
19 ١٩۔ ١ یعنی اس عقیدے پر ثابت اور قائم رہیں کیونکہ یہی توحید اور اطاعت الہی مدار خیر ہے اور اس سے انحراف یعنی شرک اور معصیت مدار شر ہے۔ ١٩۔ ٢ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو استغفار کا حکم دیا گیا ہے، اپنے لئے بھی اور مومنین کے لئے بھی استغفار کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے۔ احادیث میں بھی اس پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یَا اّیُّھَا النَّاسُ ! تُوْبُوْا اِلٰی رَبِّکُمْ فَاِنِّی اَسْتَغْعِرُ اللّٰہَ وَ اَتُوْبُ اِلَیہِ فِی الیَوْمِ اَکْثَرَ مِنْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً (صحیح بخا ری) لوگو! استغفار کیا کرو، میں بھی اللہ کے حضور روزانہ ستر مرتبہ سے زیادہ توبہ استغفار کرتا ہوں۔ بارگاہ الٰہی میں توبہ واستغفار کرتا ہوں۔ ١٩۔ ٣ یعنی دن کو تم جہاں پھرتے اور جو کچھ کرتے ہو اور رات کو جہاں آرام کرتے اور استقرار پکڑتے ہو اللہ تعالیٰ جانتا ہے مطلب ہے شب وروز کی کوئی سرگرمی اللہ سے مخفی نہیں ہے۔ محمد
20 ٢٠۔ ١ جب جہاد کا حکم نازل نہیں ہوا تھا تو مومنین جو جذبہ جہاد سے سرشار تھے جہاد کی اجازت کے خواہش مند تھے اور کہتے تھے کہ اس بارے میں کوئی سورت نازل کیوں نہیں کی جاتی یعنی جس میں جہاد کا حکم ہو۔ ٢٠۔ ٢ یعنی ایسی سورت جو غیر منسوح ہو۔ ٢٠۔ ٣ یہ ان منافقین کا ذکر ہے جن پر جہاد کا حکم نہایت گراں گزرتا تھا، ان میں بعض کمزور ایمان والے بھی بعض دفعہ شامل ہوجاتے تھے سورۃ نساء آیت ٧٧ میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔ محمد
21 ٢١۔ ١ یعنی جہاد کی تیاری مکمل ہوجائے اور وقت جہاد آ جائے۔ ٢١۔ ٢ یعنی اگر اب بھی نفاق چھوڑ کر، اپنی نیت اللہ کے لئے خالص کرلیں، یا رسول کے سامنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لڑنے کا عہد کرتے ہیں، اس میں اللہ سے سچے رہیں۔ ٢١۔ ٣ یعنی نفاق اور مخالفت کے مقابلے میں توبہ و اخلاص کا مظاہرہ بہتر ہے۔ محمد
22 ٢٢۔ ١ ایک دوسرے کو قتل کر کے یعنی اختیار واقتدار کا غلط استعمال کرو امام ابن کثیر نے تولیتم کا ترجمہ کیا ہے تم جہاد سے پھر جاؤ اور اس سے اعراض کرو یعنی تم پھر زمانہ جاہلیت کی طرف لوٹ جاؤ اور باہم خون ریزی اور قطع رحمی کرو اس میں فساد فی الارض کی عموما اور قطع رحمی کی خصوصا ممانعت اور اصلاح فی الارض اور صلہ رحمی کی تاکید ہے جس کا مطلب ہے کہ رشتے داروں کے ساتھ زبان سے عمل سے اور بذل اموال کے ذریعے سے اچھا سلوک کرو احادیث میں بھی اس کی بڑی تاکید اور فضلیت آئی ہے۔ محمد
23 ٢٣۔ ١ یعنی ایسے لوگوں کے کانوں کو اللہ نے (حق کے سننے سے) بہرہ اور آنکھوں کو (حق کے دیکھنے سے) اندھا کردیا ہے۔ یہ نتیجہ ہے انکے مذکورہ اعمال کا۔ محمد
24 ٢٤۔ ١ جس وجہ سے قرآن کے معانی و مفاہیم ان کے دلوں کے اندر نہیں جاتے۔ محمد
25 ٢٥۔ ١ اس سے مراد منافقین ہی ہیں جنہوں نے جہاد سے گریز کر کے کفر و ارتداد کو ظاہر کردیا۔ ٢٥۔ ٢ اس کا فاعل بھی شیطان ہے یعنی مدلھم فی الامل ووعدھم طول العمر یعنی انہیں لمبی آرزوؤں اور اس دھوکے میں مبتلا کردیا کہ ابھی تو تمہاری بڑی عمر ہے کیوں لڑائی میں اپنی جان گنواتے ہو یا فاعل اللہ ہے اللہ نے انہیں ڈھیل دی یعنی فورا ان کا مواخذہ نہیں فرمایا۔ محمد
26 ٢٦۔ ١ ' یہ ' سے مراد ان کا مرتد ہونا ہے۔ ٢٦۔ ٢ یعنی منافقین نے مشرکین سے یا یہود سے کہا۔ ٢٦۔ ٣ یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لائے ہوئے دین کی مخالفت میں۔ ٢ ٦ ۔ ٤ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا۔ ( ۭ وَاللّٰہُ یَکْتُبُ مَا یُبَیِّتُوْنَ) 4۔ النساء :81)۔ محمد
27 ٢٧۔ ١ یہ کافروں کی اس وقت کی کیفیت بیان کی گئی ہے جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے ہیں۔ روحیں فرشتوں سے بچنے کے لئے جسم کے اندر چھپتی اور ادھر ادھر بھاگتی ہیں تو فرشتے سختی اور زور سے انہیں پکڑتے، کھنچتے اور مارتے ہیں یہ مضمون اس سے قبل (وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَلَمْ یُوْحَ اِلَیْہِ شَیْءٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ ۭ وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰۗیِٕکَۃُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْہِمْ ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُمْ ۭ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ) 6۔ الانعام :93) (وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا ۙ الْمَلٰۗیِٕکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْ ۚ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ) 8۔ الانفال :50) میں بھی گزر چکا ہے۔ محمد
28 محمد
29 ٢٩۔ ١ منافقین کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغض و عناد تھا، اس کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے ظاہر کرنے پر قادر نہیں ہے؟ محمد
30 ٣٠۔ ١ یعنی ایک ایک شخص کی اس طرح نشان دہی کردیتے ہیں کہ ہر منافق کو پہچان لیا جاتا۔ لیکن تمام منافقین کے لئے اللہ نے ایسا اس لئے نہیں کیا کہ یہ اللہ کی صفت ستاری کے خلاف ہے، وہ بالعموم پردہ پوشی فرماتا ہے، پردہ دری نہیں۔ دوسرا اس نے انسانوں کو ظاہر پر فیصلہ کرنے کا اور باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد کرنے کا حکم دیا ہے۔ ٣٠۔ ٢ البتہ ان کا لہجہ اور انداز گفتگو ہی ایسا ہوتا ہے جو ان کے باطن کا غماز ہوتا ہے وہ اسے لاکھ چھپائے لیکن انسان کی گفتگو حرکات و سکنات اور بعض مخصوص کیفیات اس کے دل کے راز کو آشکار کردیتی ہیں۔ محمد
31 ٣١۔ ١ اللہ تعالیٰ کے علم میں تو پہلے ہی سب کچھ ہے۔ یہاں علم سے مراد اس کا وقوع اور ظہورہے تاکہ دوسرے بھی جان لیں اور دیکھ لیں۔ اسی لئے امام ابن کثیر نے اس کا مفہوم بیان کیا ہے کہ ہم اس کے وقوع کو جان لیں یا ہم دیکھ لیں۔ محمد
32 ٣٢۔ ١ بلکہ اپنا ہی بیڑا غرق کریں گے۔ ٣٢۔ ٢ کیونکہ ایمان کے بغیر کسی عمل کو اللہ کے ہاں کوئی اہمیت نہیں۔ ایمان و اخلاص ہی ہر عمل خیر کو اس قابل بناتا ہے کہ اس پر اللہ کے ہاں سے اجر ملے۔ محمد
33 ٣٣۔ ١ یعنی منافقین اور مرتدین کی طرح ارتداد ونفاق اختیار کر کے اپنے عملوں کو برباد مت کرو یہ گویا اسلام پر استقامت کا حکم ہے بعض نے کبائر وفواحش کے ارتکاب کو بھی حبط اعمال کا باعث گردانا ہے اسی لیے مومنین کی صفات میں ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ بڑے گناہ اور فواحش سے بچتے ہیں (النجم) اس اعتبار سے کبائر وفواحش سے بچنے کی اس میں تاکید ہے اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی عمل خوانہ کتنا ہی بہتر کیوں نہ معلوم ہوتا ہو اگر اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کے دائرے سے باہر ہے تو رائیگاں اور برباد ہے۔ محمد
34 محمد
35 ٣٥۔ ١ مطلب یہ ہے کہ جب تم تعداد اور قوت وطاقت کے اعتبار سے دشمن پر غالب اور فائق تر ہو تو ایسی صورت میں کفار کے ساتھ صلح اور کمزوری کا مظاہرہ مت کرو بلکہ کفر پر ایسی کاری ضرب لگاؤ کہ اللہ کا دین سر بلند ہوجائے غالب و برتر ہوتے ہوئے کفر کے ساتھ مصالحت کا مطلب کفر کے اثر ونفوذ کے بڑھانے میں مدد دینا ہے یہ ایک بڑا جرم ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کافروں کے ساتھ صلح کرنے کی اجازت نہیں ہے یہ اجازت یقینا ہے لیکن ہر وقت نہیں صرف اس وقت ہے جب مسلمان تعداد میں کم اور وسائل کے لحاظ سے فروتر ہوں ایسے حالات میں لڑائی کی بہ نسبت صلح میں زیادہ فائدہ ہے تاکہ مسلمان اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر بھرپور تیاری کرلیں جیسے خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار مکہ سے جنگ نہ کرنے کا دس سالہ معاہدہ کیا تھا۔ ٣٥۔ ٢ اس میں مسلمانوں کے لئے دشمن پر فتح و نصرت کی عظیم بشارت ہے۔ جس کے ساتھ اللہ ہو، اس کو کون شکست دے سکتا ہے۔ ٣٥۔ ٢ بلکہ وہ اس پر پورا اجر دے گا اور اس میں کوئی کمی نہیں کرے گا۔ محمد
36 ٣٦۔ ١ یعنی ایک فریب اور دھوکا ہے، اس کی کسی چیز کی بنیاد ہے نہ اس کو ثبات اور نہ اس کا اعتبار۔ ٣٦۔ ٢ یعنی وہ تمہارے مالوں سے بے نیاز ہے۔ اسی لئے اس نے تم سے زکوٰۃ میں کل مال کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ اس کے ایک نہایت قلیل حصے صرف ڈھائی فیصد کا اور وہ بھی ایک سال کے بعد اپنی ضرورت سے زیادہ ہونے پر، علاوہ ازیں اس کا مقصد بھی تمہارے اپنے ہی بھائی بندوں کی مدد اور خیر خواہی ہے نہ کہ اللہ اس مال سے اپنی حکومت کے اخراجات پورے کرتا ہے۔ محمد
37 ٣٧۔ ١ یعنی ضرورت سے زائد کل مال کا مطالبہ کرے وہ بھی اصرار کے ساتھ اور زور دے کر تو یہ انسانی فطرت ہے کہ تم بخل بھی کرو گے اور اسلام کے خلاف اپنے بغض و عناد کا اظہار بھی اور اس صورت میں خود اسلام کے خلاف بھی تمہارے دلوں میں عناد پیدا ہوجاتا کہ یہ اچھا دین ہے جو ہماری محنت کی ساری کمائی اپنے دامن میں سمیٹ لینا چاہتا ہے۔ محمد
38 ٣٨۔ ١ یعنی کچھ حصہ زکوٰۃ کے طور پر اور کچھ اللہ کے راستے میں خرچ کرو۔ ٣٨۔ ٢ یعنی اپنے ہی نفس کو انفاق فی سبیل اللہ کے اجر سے محروم رکھتا ہے۔ ٣٨۔ ٣ یعنی اللہ تمہیں خرچ کرنے کی ترغیب اس لیے نہیں دیتا کہ وہ تمہارے مال کا ضرورت مند ہے نہیں وہ تو غنی ہے بے نیاز ہے وہ تو تمہارے ہی فائدے کے لیے تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ اس سے ایک تو تمہارے اپنے نفسوں کا تزکیہ ہو دوسرے تمہارے ضرورت مندوں کی حاجتیں پوری ہوں تیسرے تم دشمن پر غالب اور برتر رہو اس لیے اللہ کی رحمت اور مدد کے محتاج تم ہو نہ کہ اللہ تمہارا محتاج ہے۔ ٣٨۔ ٤ یعنی اسلام سے کفر کی طرف پھر جاؤ۔ ٣٥۔ ٥ بلکہ تم سے زیادہ اللہ اور رسول کے اطاعت گزار اور اللہ کی راہ میں خوب خرچ کرنے والے ہوں گے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی بابت پوچھا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سلمان فارسی (رض) کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اس سے مراد یہ اور اس کی قوم ہے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ایمان ثریا ستارے کے ساتھ بھی لٹکا ہوا ہو تو اس کو فارس کے کچھ لوگ حاصل کرلیں گے۔ الترمذی۔ محمد
0 الفتح
1 ١۔ ١ ٦ ہجری میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ١٤ سو کے قریب صحاب اکرام رضوان علیہم اجمعین عمرے کی نیت سے مکہ تشریف لے گئے، لیکن مکہ کے قریب حدیبیہ کے مقام پر کافروں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روک لیا عمرہ نہیں کرنے دیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان رضی اللہ کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تاکہ قریش کے سرداروں سے گفتگو کر کے انہیں مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت دینے پر آمادہ کریں کفار مکہ نے اجازت نہیں دی اور مسلمانوں نے آئندہ سال کے وعدے پر واپسی کا ارادہ کرلیا وہیں اپنے سر بھی منڈوا لئے اور قربانیاں کرلیں۔ نیز کفار سے بھی چند باتوں کا معاہدہ ہوا جنہیں صحابہ کرام کی اکثریت ناپسند کرتی تھی لیکن نگاہ رسالت نے اس کے دور رس اثرات کا اندازہ لگاتے ہوئے، کفار کی شرائط پر ہی صلح کو بہتر سمجھا۔ حدیبیہ سے مدینے کی طرف آتے ہوئے راستے میں یہ سورت اتری، جس میں صلح کو فتح مبین سے تعبیر فرمایا گیا کیونکہ یہ صلہ فتح مکہ کا ہی پیش خیمہ ثابت ہوئی اور اس کے دو سال بعد ہی مسلمان مکے میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے۔ اسی لئے بعض صحابہ اکرام کہتے تھے کہ تم فتح مکہ کو شمار کرتے ہو لیکن ہم حدیبیہ کی صلح کو فتح شمار کرتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورت کی بابت فرمایا کہ آج کی رات مجھ پر وہ سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیا ما فیہا سے زیادہ محبوب ہے (صحیح بخاری) الفتح
2 ٢۔ ١ اس سے مراد ترک اولی والے معاملات یا وہ امور ہیں جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے فہم واجتہاد سے کیے لیکن اللہ نے انہیں ناپسند فرمایا جیسے عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ وغیرہ کا واقعہ ہے جس پر سورۃ عبس کا نزول ہوا یہ معاملات وامور اگرچہ گناہ اور منافی عصمت نہیں لیکن آپ کی شان ارفع کے پیش نظر انہیں بھی کو تاہیاں شمار کرلیا گیا جس پر معافی کا اعلان فرمایا جا رہا ہے لیغفر میں لام تعلیل کے لیے ہے یعنی یہ فتح مبین ان تین چیزوں کا سبب ہے جو آیت میں مذکور ہیں اور یہ مغفرت ذنوب کا سبب اس اعتبار سے ہے کہ اس صلح کے بعد قبول اسلام کرنے والوں کی تعداد میں بکثرت اضافہ ہوا جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اجر عظیم میں بھی خوب اضافہ ہوا اور حسنات وبلندی درجات میں بھی۔ ٢۔ ٢ اس دین کو غالب کر کے جس کی تم دعوت دیتے ہو، یا فتح وغلبہ عطا کر کے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ مغفرت اور ہدایت پر یہی تمام نعمت ہے (فتح القدیر) ٢۔ ٣ یعنی اس پر استقلال نصیب فرمائے۔ ہدایت کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجات سے نوازے۔ الفتح
3 الفتح
4 ٤۔ ١ یعنی اس اضطراب کے بعد جو مسلمانوں کو شرائط صلح کی وجہ سے لاحق ہوا اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں سکینت نازل فرما دی جس سے ان کے دلوں کو اطمینان سکون اور ایمان مزید حاصل ہوا یہ آیت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ ٤۔ ٢ یعنی اگر اللہ چاہے تو اپنے کسی لشکر (مثلًا فرشتوں) سے کفار کو ہلاک کروا دے، لیکن اس نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت ایسا نہیں کیا اور اس کے بجائے مومنوں کو قتال و جہاد کا حکم دیا ہے۔ الفتح
5 ٥۔ ١ حدیث میں آتا ہے کہ جب مسلمانوں نے سورۃ فتح کا ابتدائی حصہ سنا لیغفرلک اللہ تو انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبارک ہو ہمارے لیے کیا ہے جس پر اللہ نے آیت لیدخل المومنین نازل فرما دی (صحیح بخاری باب غزوہ الحدیبیۃ) الفتح
6 ٦ ۔ ١ یعنی اللہ کو اس کے حکموں پر مہتم کرتے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے بارے میں گمان رکھتے ہیں کہ یہ مغلوب یا مقتول ہوجائیں گے اور دین اسلام کا خاتمہ ہوجائے گا۔ (ابن کثیر) ٦۔ ١ یعنی یہ جس گردش، عذاب یا ہلاکت کے مسلمانوں کے لئے منتظر ہیں، وہ تو انہی کا مقدر بننے والی ہے الفتح
7 ٧۔ ١ اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو ہر طرح ہلاک کرنے پر قادر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی حکمت ومشیت کے تحت ان کو جتنی چاہے مہلت دے دے۔ الفتح
8 الفتح
9 الفتح
10 ١٠۔ ١ یعنی یہ بیعت دراصل اللہ ہی کی ہے کیونکہ اسی نے جہاد کا حکم دیا ہے اور اس پر اجر بھی وہی عطا فرمائے گا جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا کہ یہ اپنے نفسوں اور مالوں کا جنت کے بدلے اللہ کے ساتھ سودا ہے التوبہ۔ ١١١ یہ اسی طرح ہے جیسے (مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاع اللّٰہَ) 4۔ النساء :80) ١٠۔ ٢ آیت سے وہی بیعت رضوان مراد ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان شہادت کی خبر سن کر ان کا انتقام لینے کے لئے حدیبیہ میں موجود ١٤ یا ١٥ سو مسلمانوں نے لی تھی۔ ١٠۔ ٣ نَکْث، (عہد شکنی) سے مراد یہاں بیعت کا توڑ دینا یعنی عہد کے مطابق لڑائی میں حصہ نہ لینا ہے۔ یعنی جو شخص ایسا کرے گا تو اس کا وبال اسی پر پڑے گا۔ ١٠۔ ٤ کہ وہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کرے گا، ان کے ساتھ ہو کر لڑے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی فتح و غلبہ عطا فرما دے۔ الفتح
11 ١١۔ ١ اس سے مدینے کے اطراف میں آباد قبیلے غفار مزینہ جہینہ اسلم اور وئل مراد ہیں جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب دیکھنے کے بعد جس کی تفصیل آگے آئے گی عمرے کے لیے مکہ جانے کی عام منادی کرا دی مذکورہ قبیلوں نے سوچا کہ موجودہ حالات تو مکہ جانے کے لیے ساز گار نہیں ہیں وہاں ابھی کافروں کا غلبہ ہے اور مسلمان کمزور ہیں نیز مسلمان عمرے کے لیے پورے طور پر ہتھیار بند ہو کر بھی نہیں جا سکتے اگر ایسے میں کافروں نے مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کا فیصلہ کرلیا تو مسلمان خالی ہاتھ ان کا مقابلہ کس طرح کریں گے اس وقت مکے جانے کا مطلب اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے چنانچہ یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عمرے کے لیے نہیں گئے اللہ تعالیٰ ان کی بابت فرما رہا ہے کہ یہ تجھ سے مشغو لیتوں کا عذر پیش کر کے طلب مغفرت کی التجائیں کریں گے۔ ١١۔ ٢ یعنی زبانوں پر تو یہ ہے کہ ہمارے پیچھے ہمارے گھروں کی اور بیوی بچوں کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں تھا اس لیے ہمیں خود ہی رکنا پڑا لیکن حقیقت میں ان کا پیچھے رہنا نفاق اور اندیشہ موت کی وجہ سے تھا ١١۔ ٣ یعنی اگر اللہ تمہارے مال ضائع کرنے اور تمہارے اہل کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کرلے تو کیا تم سے کوئی اختیار رکھتا ہے کہ وہ اللہ کو ایسا نہ کرنے دے۔ ١١۔ ٤ یعنی تمہیں مدد پہنچانا اور تمہیں غنیمت سے نوازنا چاہے تو کوئی روک سکتا ہے یہ دراصل مذکورہ متخلفین پیچھے رہ جانے والوں کا رد ہے جنہوں نے یہ گمان کرلیا تھا کہ وہ اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہیں گئے تو نقصان سے محفوظ اور منافع سے بہرہ ور ہوں گے حالا نکہ نفع وضرر کا سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ١١۔ ٥ یعنی تمہیں تمہارے عملوں کی پوری جزا دے گا۔ الفتح
12 ١٢۔ ١ اور وہ یہی تھا کہ اللہ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد نہیں کرے گا۔ یہ وہی پہلا گمان ہے، تکرار تاکید کے لئے ہے۔ ١٢۔ ٢ بور، بائر کی جمع ہے ہلاک ہونے والا یعنی یہ وہ لوگ ہیں جن کا مقدر ہلاکت ہے اگر دنیا میں یہ اللہ کے عذاب سے بچ گئے تو آخرت میں تو بچ کر نہیں جا سکتے وہاں تو عذاب ہے ہر صورت میں بھگتنا ہوگا۔ الفتح
13 الفتح
14 ١٤۔ ١ اس میں متخلفین کے لیے توبہ وانابت الی اللہ کی ترغیب ہے کہ اگر وہ نفاق سے توبہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرما دے گا وہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ الفتح
15 ١٥۔ ١ اس میں غزوہ خیبر کا ذکر ہے جس کی فتح کی نوید اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ میں دی تھی نیز اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ یہاں سے جتنا بھی مال غنیمت حاصل ہوگا وہ صرف حدیبیہ میں شریک ہونے والوں کا حصہ ہے چنانچہ حدیبیہ سے واپسی کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں کی مسلسل عہد شکنی کی وجہ سے خیبر پر چڑھائی کا پروگرام بنایا تو مذکورہ متخلفین نے بھی محض مال غنیمت کے حصول کے لیے ساتھ جانے کا ارادہ ظاہر کیا جسے منظور نہیں کیا گیا آیت میں مغانم سے مراد مغانم خیبر ہی ہیں۔ ١٥۔ ٢ اللہ کے کلام سے مراد، اللہ کا خیبر کی غنیمت کو اہل حدیبیہ کے لئے خاص کرنے کا وعدہ ہے، منافقین اس میں شریک ہو کر اللہ کے کلام یعنی اس کے وعدے کو بدلنا چاہتے تھے۔ ١٥۔ ٣ یہ نفی بمعنی نہی ہے یعنی تمہیں ہمارے ساتھ چلنے کی اجازت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی یہی ہے۔ ١٥۔ ٤ یعنی یہ متخلفین کہیں گے کہ تم ہمیں حسد کی بنا پر ساتھ لے جانے سے گریز کر رہے ہو تاکہ مال غنیمت میں ہم تمہارے ساتھ شریک نہ ہوں۔ ١٥۔ ٥ یعنی بات یہ نہیں ہے جو وہ سمجھ رہے ہیں، بلکہ یہ پابندی ان کے پیچھے رہنے کی پا داش میں ہے۔ لیکن اصل بات ان کی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ الفتح
16 ١ ٦ ۔ ١ اس جنگجو قوم کی تعیین میں اختلاف ہے بعض مفسرین اس سے عرب کے ہی بعض قبائل مراد لیتے ہیں مثلا ہوازن یا ثقیف جن سے حنین کے مقام پر مسلمانوں کی جنگ ہوئی یا مسیلمۃ الکذاب کی قوم بنو حنیفہ اور بعض نے فارس اور روم کے مجوسی وعیسائی مراد لیے ہیں ان پیچھے رہ جانے والے بدویوں سے کہا جا رہا ہے کہ عنقریب ایک جنگجو قوم سے مقابلے کے لیے تمہیں بلایا جائے گا اگر وہ مسلمان نہ ہوئے تو تمہاری اور ان کی جنگ ہوگی۔ ١٦۔ ٢ یعنی خلوص دل سے مسلمانوں کے ساتھ ملکر لڑو گے ۔ ١٦۔ ٣ دنیا میں غنیمت اور آخرت میں پچھلے گناہوں کی مغفرت اور جنت۔ ١٦۔ ٤ یعنی جس طرح حدیبیہ کے موقع پر تم نے مسلمانوں کے ساتھ مکہ جانے سے گریز کیا تھا، اسی طرح اب بھی تم جہاد سے بھاگو گے، تو پھر اللہ کا دردناک عذاب تمہارے لئے تیار ہے۔ الفتح
17 ١٧۔ ١ بصارت سے محرومی اور لنگڑے پن کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذوری۔ یہ دونوں عذر لازمی ہیں۔ ان اصحاب عذر یا ان جیسے دیگر معذورین کو جہاد سے مستثنٰی کردیا گیا ان کے علاوہ جو بیماریاں ہیں وہ عارضی عذر ہیں۔ الفتح
18 ١٨۔ ١ یہ ان اصحاب بیعت رضوان کے لیے رضائے الہی اور ان کے پکے سچے مومن ہونے کا سرٹیفکیٹ ہے جنہوں نے حدیبیہ میں ایک درخت کے نیچے اس بات پر بیعت کی کہ وہ قریش مکہ سے لڑیں گے اور راہ فرار اختیار نہیں کریں گے۔ ١٨۔ ٢ یعنی ان کے دلوں میں جو صدق و صفا کے جذبات تھے، اللہ ان سے بھی واقف ہے۔ اس سے ان دشمنان صحابہ اکرام کا رد ہوگیا جو کہتے ہیں کہ ان کا ایمان ظاہری تھا، دل سے وہ منافق تھے۔ ١٨۔ ٣ یعنی وہ نہتے تھے جنگ کی نیت سے نہیں گئے تھے اس لیے جنگی ہتھیار مطلوبہ تعداد میں نہیں تھے اس کے باوجود جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان رضی اللہ کا بدلہ لینے کے لیے ان سے جہاد کی بیعت لی تو بلا ادنی تامل سب لڑنے کے لیے تیار ہوگئے یعنی ہم نے موت کا خوف ان کے دلوں سے نکال دیا اور اس کی جگہ صبر و سکینت ان پر نازل فرما دی جس کی بنا پر انہیں لڑنے کا حوصلہ ہوا۔ ١٨۔ ٤ اس سے مراد وہی فتح خیبر ہے جو یہودیوں کا گڑھ تھا اور حدیبیہ سے واپسی پر مسلمانوں نے اسے فتح کیا۔ الفتح
19 ١٩۔ ١ یہ وہ غنیمتیں ہیں جو خیبر سے حاصل ہوئیں یہ نہایت زرخیز اور شاداب علاقہ تھا اسی حساب سے یہاں سے مسلمانوں کو بہت بڑی تعداد میں غنیمت کا مال حاصل ہوا جسے صرف اہل حدیبیہ میں تقسیم کیا گیا۔ الفتح
20 ٢٠۔ ١ یہ دیگر فتوحات کے نتیجے میں حاصل ہونے والی غنیمتوں کی خوشخبری ہے جو قیامت تک مسلمانوں کو حاصل ہونے والی ہیں۔ ٢٠۔ ٢ یعنی فتح خیبر یا صلح حدیبیہ کیونکہ یہ دونوں تو فوری طور پر مسلمانوں کو حاصل ہوگئیں۔ ٢٠۔ ٣ حدیبیہ میں کافروں کے ہاتھ اور خیبر میں یہودیوں کے ہاتھ اللہ نے روک دیئے یعنی ان کے حوصلے پست کردیئے اور وہ مسلمانوں سے مصروف پیکار نہیں ہوئے۔ ٢٠۔ ٤ یعنی لوگ اس واقعے کا تذکرہ پڑھ کر اندازہ لگا لیں گے کہ اللہ تعالیٰ قلت تعداد کے باوجود مسلمانوں کا محافظ اور دشمنوں پر ان کو غالب کرنے والا ہے یا یہ روک لینا تمام موعودہ باتوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی نشانی ہے۔ ٢٠۔ ٥ یعنی ہدایت پر استقامت عطا فرمائے یا اس نشانی سے تمہیں ہدایت میں اور زیادہ کرے۔ الفتح
21 ٢١۔ ١ یہ بعد میں ہونے والی فتوحات اور ان سے حاصل ہونے والی غنیمت کی طرف اشارہ ہے۔ الفتح
22 ٢٢۔ ١ یہ حدیبیہ میں متوقع جنگ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اگر یہ قریش مکہ صلح نہ کرتے بلکہ جنگ کا راستہ اختیار کرتے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے، کوئی ان کا مددگار نہ ہوتا۔ الفتح
23 ٢٣۔ ١ یعنی اللہ کی یہ سنت اور عادت پہلے سے چلی آ رہی ہے کہ جب کفر و ایمان کے درمیان فیصلہ کن معرکہ آرائی کا مرحلہ آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی مدد فرما کر حق کو سر بلندی عطا کرتا ہے، جیسے اس سنت اللہ کے مطابق بدر میں تمہاری مدد کی گئی۔ الفتح
24 ٢٤۔ ١ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام حدیبیہ میں تھے تو کافروں نے ٨٠ آدمی، جو ہتھیاروں سے لیس تھے، اس نیت سے بھیجے کہ اگر ان کو موقع مل جائے تو دھوکے سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ اکرام کے خلاف کاروائی کریں چنانچہ یہ مسلح جتھہ جبل تغیم کی طرف سے حدیبیہ میں آیا جس کا علم مسلمانوں کو بھی ہوگیا اور انہوں نے ہمت کر کے تمام آدمیوں کو گرفتار کرلیا اور بارگاہ رسالت میں پیش کردیا۔ ان کا جرم شدید تھا اور ان کو جو بھی سزا دی جاتی، صحیح ہوتی۔ لیکن اس میں خطرہ یہی تھا پھر جنگ ناگزیر ہوجاتی۔ جب کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس موقعے پر جنگ کے بجائے صلح چاہتے تھے کیونکہ اس میں مسلمانوں کا مفاد تھا۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سب کو معاف کر کے چھوڑ دیا (صحیح مسلم) الفتح
25 ٢٥۔ ١ ھدی اس جانور کو کہا جاتا ہے جو حاجی یا معتمر عمرہ کرنے والا اپنے ساتھ مکے لے جاتا تھا یا وہیں سے خرید کر ذبح کرتا تھا محل سے مراد وہ قربان گاہ ہے جہاں ان کو لے جا کر ذبح کیا جاتا ہے جاہلیت کے زمانے میں یہ مقام معتمر کے لیے مروہ پہاڑی کے پاس اور حاجیوں کے لیے منی تھا اور اسلام میں ذبح کرنے کی چگہ مکہ منی اور پورے حدود حرم ہیں۔ معکوفا حال ہے یعنی یہ جانور اس انتظار میں رکے ہوئے تھے کہ مکے میں داخل ہوں تاکہ انہیں قربان کیا جائے مطلب یہ ہے کہ ان کافروں نے ہی تمہیں بھی مسجد حرام سے روکا اور تمہارے ساتھ جو جانور تھے انہیں بھی اپنی قربان گاہ تک نہیں پہنچنے دیا۔ ٢٥۔ ٢ یعنی مکہ میں اپنا ایمان چھپائے رہ رہے تھے۔ ٢٥۔ ٣ کفار کے ساتھ لڑائی کی صورت میں ممکن تھا کہ یہ بھی مارے جاتے اور تمہیں ضرر پہنچتا معرۃ کے اصل معنی عیب کے ہیں یہاں مراد کفارہ اور وہ برائی اور شرمندگی ہے جو کافروں کی طرف سے تمہیں اٹھانی پڑتی یعنی ایک تو قتل خطا کی دیت دینی پڑتی اور دوسرے کفار کا یہ طعنہ سہنا پڑتا کہ یہ اپنے مسلمان ساتھیوں کو بھی مار ڈالتے ہیں۔ ٢٥۔ ٤ یہ لولا کا محذوف جواب ہے یعنی اگر یہ بات نہ ہوتی تو تمہیں مکے میں داخل ہونے کی اور قریش مکہ سے لڑنے کی اجازت دے دی جاتی۔ ٢٥۔ ٥ بلکہ اہل مکہ کو مہلت دے دی گئی تاکہ جس کو اللہ چاہے قبول اسلام کی توفیق دے دے۔ ٢٥۔ ٦  تزیلوا بمعنی تمیزوا ہے مطلب یہ ہے کہ مکے میں آباد مسلمان اگر کافروں سے الگ رہائش پذیر ہوتے تو ہم تمہیں اہل مکہ سے لڑنے کی اجازت دے دیتے اور تمہارے ہاتھوں ان کو قتل کرواتے اور اس طرح انہیں دردناک سزا دیتے عذاب الیم سے مراد یہاں قتل قیدی بنانا اور قہر اور غلبہ ہے۔ الفتح
26 ٢ ٦ ۔ ١ اذ کا ظرف یا تو لعذبتا ہے یا واذکرو محذوف ہے یعنی اس وقت کو یاد کرو جب کہ ان کافروں نے۔ ٢ ٦ ۔ ٢ کفار کی اس حمیت جاہلیہ عار اور غرور سے مراد اہل مکہ کا مسلمانوں کو مکے میں داخل ہونے سے روکتا ہے انہوں نے کہا کہ انہوں نے ہمارے بیٹوں اور باپوں کو قتل کیا ہے لات وعزی کی قسم ہم انہیں کبھی یہاں داخل نہیں ہونے دیں گے یعنی انٰہوں نے اسے اپنی عزت اور وقار کا مسئلہ بنا لیا اسی کو حمیت جاہلیہ کہا گیا ہے کیونکہ خانہ کعبہ میں عبادت کے لیے آنے سے روکنے کا کسی کو حق حاصل نہیں تھا قریش مکہ کے اس معاندانہ رویے کے جواب میں خطرہ تھا کہ مسلمانوں کے جذبات میں بھی شدت آ جاتی اور وہ بھی اسے اپنے وقار کا مسئلہ بنا کر مکے جانے پر اصرار کرتے جس سے دونوں کے درمیان لڑائی چھڑ جاتی اور یہ لڑائی مسلمانوں کے لیے سخت خطرناک رہتی اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے دلوں میں سکینت نازل فرما دی یعنی انہیں صبر وتحمل کی توفیق دے دی اور وہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے مطابق حدیبیہ میں ہی ٹھہرے رہے جوش اور جذبے میں آ کر مکے جانے کی کوشش نہیں کی لعض کہتے ہیں کہ اس حمیت جاہلیہ سے مراد قریش مکہ کا وہ رویہ ہے جو صلح کے لیے اور معاہدے کے وقت انہوں نے اختیار کیا یہ رویہ اور معاہدہ دونوں مسلمانوں کے لیے بظاہر ناقابل برداشت تھا لیکن انجام کے اعتبار سے چونکہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کا بہترین مفاد تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نہایت ناگواری اور گرانی کے باوجود اسے قبول کرنے کا حوصلہ عطا فرما دیا اس کی مختصر تفصیل اس طرح ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش مکہ کے بھیجے ہوئے نمائندوں کی یہ بات تسلیم کرلی کہ اس سال مسلمان عمرے کے لیے مکہ نہیں جائیں گے اور یہیں سے واپس ہوجائیں گے تو پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی رضی اللہ کو معاہدہ لکھنے کا حکم دیا انہوں نے آپ کے حکم سے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی انہوں نے اس پر اعتراض کردیا کہ رحمن رحیم کو ہم نہیں جانتے ہمارے ہاں جو لفظ استعمال ہوتا ہے اس کے ساتھ یعنی باسمک اللھم اے اللہ تیرے نام سے لکھیں چنانچہ آپ نے اسی طرح لکھوایا پھر آپ نے لکھوایا یہ وہ دستاویز ہے جس پر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ سے مصالحت کی ہے قریش کے نمائندوں نے کہا اختلاف کی بنٰیاد تو آپ کی رسالت ہی ہے اگر ہم آپ کو رسول اللہ مانٰ لیں تو اس کے بعد جھگڑا ہی کیا رہ جاتا ہے پھر ہمیں آپ سے لڑنے کی اور بیت اللہ میں جانے سے روکنے کی ضرورت ہی کیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہاں محمد رسول اللہ کی جگہ محمد بن عبد اللہ لکھیں چنانچہ آپ نے حضرت علی رضی الیہ کو ایسا ہی لکھنے کا حکم دیا یہ مسلمانوں کے لیے نہایت اشتعال انگیز صورت حال تھی اگر اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر سکینت نازل نہ فرماتا تو وہ کبھی اسے برداشت نہ کرتے حضرت علی رضی اللہ نے اپنے ہاتھ سے محمد رسول اللہ کے الفاظ مٹانے اور کاٹنے سے انکار کردیا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا کہ یہ لفظ کہاں ہے بتانے کے بعد خود آپ نے اسے اپنے دست مبارک سے مٹا دیا اور اس کی جگہ محمد بن عبد اللہ تحریر کرنے کو فرمایا اس کے بعد اس معاہدے یا صلح نامے میں تین باتیں لکھیں گئیں ١۔ اہل مکہ میں سے جو مسلمان ہو کر آپ کے پاس آئے گا اسے واپس کردیا جائے گا۔ ٢۔ جو مسلمان اہل مکہ سے جا ملے گا وہ اس کو واپس کرنے کے پابند نہیں ہوں گے۔ ٣۔ مسلمان آئندہ سال مکے میں آئیں گے اور یہاں تین دن قیام کرسکیں گے تاہم انہیں ہتھیار ساتھ لانے کی اجازت نہیں ہوگی (صحیح مسلم کتاب الجہاد) اور اس کے ساتھ دو باتیں اور لکھی گئیں۔ ١ اس سال لڑائی موقوف رہے گی۔ ٢۔ قبائل میں سے جو چاہے مسلمانوں کے ساتھ اور جو چاہے قریش کے ساتھ ہوجائے۔ ٢٦۔ ٣ اس سے مراد کلمہ توحید و رسالت لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے، جس سے حدیبیہ والے دن مشرکین نے طواف و عمرہ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ نبی کا خواب بھی بمنزلہ وحی ہی ہوتا ہے۔ تاہم اس خواب میں یہ تعین نہیں تھی کہ یہ اسی سال ہوگا، لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان، اس بشارت عظیمہ سمجھتے ہوئے، عمرے کے لئے فوراً ہی امادہ ہوگئے اور اس کے لئے عام منادی کرا دی گئی اور چل پڑے۔ بالآخر حدیبیہ میں وہ صلح ہوئی، جس کی تفصیل ابھی گزری، دراں حالیکہ اللہ کے علم میں اس خواب کی تعبیر آئندہ سال تھی، جیسا کہ آئندہ سال مسلمانوں نہایت امن کے ساتھ یہ عمرہ کیا اور اللہ نے اپنے پیغمبر کے خواب کو سچا کر دکھایا۔ الفتح
27 ٢٧۔ ١ واقعہ حدیبیہ سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں مسلمانوں کے ساتھ بیت اللہ میں داخل ہو کر طواف وعمرہ کرتے ہوئے دکھا گیا نبی کا خواب بھی بمنزلہ وحی ہی ہوتا ہے تاہم اس خواب میں یہ تعیین نہیں تھی کہ یہ اسی سال ہوگا لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان اسے بشارت عظیمہ سمجھتے ہوئے عمرے کے لیے فورا ہی آمادہ ہوگئے اور اس کے لیے عام مندی کرا دی گئی اور چل پڑے بالآخر حدیبیہ میں وہ صلح ہوئی جس کی تفصل ابھی گزری دراں حالیکہ اللہ کے علم میں اس خواب کی تعبیر آئندہ سال تھی جیسا کہ آئندہ سال مسلمانوں نے نہایت امن کے ساتھ یہ عمرہ کیا اور اللہ نے اپنے پیغمبر کے خواب کو سچا کر دکھایا۔ ٢٧۔ ٢ یعنی اگر حدیبیہ کے مقام پر صلح نہ ہوتی تو جنگ سے مکے میں مقیم کمزور مسلمانوں کو نقصان پہنچتا صلح کے ان فوائد کو اللہ ہی جانتا تھا۔ ٢٧۔ ٣ اس سے فتح خیبر و فتح مکہ کے علاوہ، صلح کے نتیجے میں جو بہ کثرت مسلمان ہوئے وہ بھی مراد ہے، کیونکہ وہ بھی فتح کی ایک عظیم قسم ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ڈیڑھ ہزار تھے، اس کے دوسال بعد جب مسلمان مکے میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے تو ان کی تعداد دس ہزار تھی۔ الفتح
28 ٢٨۔ ١ اسلام کا یہ غلبہ دیگر ادیان پر دلائل کے لحاظ سے تو ہر وقت مسلم ہے تاہم دنیاوی اور عسکری لحاظ سے بھی قرون اولی اور اس کے مابعد عرصہ دراز تک جب تک مسلمان اپنے دین پر عامل رہے انہیں غلبہ حاصل رہا اور آج بھی یہ مادی غلبہ ممکن ہے بشرطیکہ مسلمان مسلمان بن جائیں (وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ) 3۔ آل عمران :139)۔ یہ دین غالب ہونے کے لیے ہی آیا ہے مغلوب ہونے کے لیے نہیں۔ الفتح
29 ٢٩۔ ١ انجیل پر وقف کی صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ ان کی یہ خوبیاں جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں ان کی یہی خوبیاں تورات وانجیل میں مذکور ہیں اور آگے کزرع میں اس سے پہلے ھم محذوف ہوگا اور بعض فی التوراۃ پر وقف کرتے ہیں یعنی ان کی مذکرورہ صفت تورات میں ہے اور مثلھم فی الانجیل کو کزرع کے ساتھ ملاتے ہیں یعنی انجیل میں ان کی مثال مانند اس کھیتی کے ہے۔ فتح القدیر۔ ٢٩۔ ٢ شَطْاَءُ سے پودے کا پہلا ظہور ہے جو دانہ پھاڑ کر اللہ کی قدرت سے باہر نکلتا ہے۔ ٢٩۔ ٣ یہ صحابہ کرام کی مثال بیان فرمائی گئی ہے۔ ابتدا میں وہ قلیل تھے، پھر زیادہ اور مضبوط ہوگئے، جیسے کھیتی ابتدا میں کمزور ہوتی ہے، پھر دن بدن قوی ہوتی جاتی ہے حتٰی کہ مضبوط تنے پر وہ قائم ہوجاتی ہے۔ ٢٩۔ ٤ یا کافر غیظ وغضب کا باعث تھی اس لیے کہ اس سے اسلام کا دائرہ پھیل رہا اور کفر کا دائرہ سمٹ رہا تھا اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے بعض ائمہ نے صحابہ کرام (رض) سے بغض وعناد رکھنے والوں کو کافر قرار دیا ہے علاوہ ازیں اس فرقہ ضالہ کے دیگر عقائد بھی ان کے کفر پر ہی دال ہیں۔ ٢٩۔ ٥ اس پوری آیت کا ایک ایک جز صحابہ کرام کی عظمت و فضیلت، اخروی مغفرت اور اجر عظیم کو واضح کر رہا ہے، اس کے بعد بھی صحابہ کرام کے ایمان میں شک کرنے والا مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے تو اسے کیوں کر دعوائے مسلمانی میں سچا سمجھا جا سکتا ہے الفتح
0 یہ طوال مفصل میں پہلی سورت ہے حجرات سے نازعات تک کی سورتیں طوال مفصل کہلاتی ہیں بعض نے سورۃ ق کو پہلی سورت قرار دیا ہے ابن کثیر وفتح القدیر۔ ان کا فجر کی نماز میں پڑھنا مسنون ومستحب ہے اور عبس سے سورۃ الشمس تک اوساط مفصل اور سورۃ ضحی سے والناس تک قصار مفصل ہیں ظہر اور عشاء میں اوساط اور مغرب میں قصار پڑھنی مستحب ہیں (ایسر التفاسیر) الحجرات
1 ١۔ ١ اس کا مطلب ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہ کرو نہ اپنی سمجھ اور رائے کو ترجیح دو، بلکہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو۔ اپنی طرف سے دین میں اضافہ یا بد عات کی ایجاد، اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے بڑھنے کی ناپاک جسارت ہے جو کسی بھی صاحب ایمان کے لائق نہیں۔ اسی طرح کوئی فتوٰی قرآن و حدیث میں غور و فکر کے بغیر نہ دیا جائے۔ مومن کی شان تو اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردینا ہے نہ کہ ان کے مقابلے میں اپنی بات پر یا کسی امام کی رائے پر اڑے رہنا۔ الحجرات
2 ٢۔ ١ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اس ادب وتعظیم اور احترام وتکریم کا بیان ہے جو ہر مسلمان سے مطلوب ہے پہلا ادب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں جب تم آپس میں گفتگو کرو تو تمہاری آواز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند نہ ہو دوسرا ادب جب خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کلام کرو تو نہایت وقار اور سکون سے کرو اس طرح اونچی اونچی آواز سے نہ کرو جس طرح تم آپس میں بے تکلفی سے ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہو بعض نے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یا محمد یا احمد نہ کہو بلکہ ادب سے یا رسول اللہ کہہ کر خطاب کرو اگر ادب واحترام کے ان تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھو گے تو بے ادبی کا احتمال ہے جس سے بے شعوری میں تمہاے عمل برباد ہو سکتے ہیں اس آیت کی شان نزول کے لیے دیکھئے صحیح بخاری تفسیر سورۃ الحجرات تاہم حکم کے اعتبار سے یہ عام ہے۔ الحجرات
3 ٣۔ ١ اس میں ان لوگوں کی تعریف ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت و جلالت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی آوازیں پست رکھتے تھے۔ الحجرات
4 ٤۔ ١ یہ آیت قبیلہ بنو تمیم کے بعض اعرابیوں (گنوار قسم کے لوگوں) کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے ایک روز دوپہر کے وقت، جو کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قیلولے کا وقت تھا، حجرے سے باہر کھڑے ہو کر عامیانہ انداز میں یا محمد یا محمد کی آوازیں لگائیں تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لے آئیں (مسند احمد ٨٤۔ ٣١٨) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی اکثریت بے عقل ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اداب و احترام کے تقاضوں کا خیال نہ رکھنا، بے عقلی ہے۔ الحجرات
5 ٥۔ ١ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکلنے کا انتظار کرتے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آواز دینے میں جلدی نہ کرتے تو دین اور دنیا دونوں لحاظ سے بہتر ہوتا۔ ٥۔ ٢ اس لیے مواخذہ نہیں فرمایا بلکہ آئندہ کے لیے ادب وتعظیم کی تاکید بیان فرما دی۔ الحجرات
6 ٦ ۔ ٢ یہ آیت اکثر مفسرین کے نزدیک حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو المصطلق کے صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا لیکن انہوں نے آ کر یوں ہی رپورٹ دے دی کہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے خلاف فوج کشی کا ارادہ فرما لیا تاہم پھر پتہ لگ گیا کہ یہ بات غلظ تھی اور ولید (رض) تو وہاں گئے ہی نہیں لیکن سند اور امر واقعہ دونوں اعتبار سے یہ روایت صحیح نہیں ہے اس لیے اسے ایک صحابی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چسپاں کرنا صحیح نہیں ہے تاہم شان نزول کی بحث سے قطع نظر اس میں ایک نہایت ہی اہم اصول بیان فرمایا گیا ہے جس کی انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر نہایت اہمیت ہے ہر فرد اور ہر حکومت سے تو پہلے اس کی تحقیق کی جائے تاکہ غلظ فہمی میں کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہو۔ الحجرات
7 ٧۔ ١ جس کا تقاصا یہ ہے کہ ان کی تعظیم اور اطاعت کرو اس لیے کہ وہ تمہاے مصالح زیادہ بہتر جاتنے ہیں کیونکہ ان پر وحی اترتی ہے پس تر ان کے پیچھے چلو ان کو اپنے پیچھے چلانے کی کوشش مت کرو اس لیے کہ اگر وہ تمہاری پسند کی باتیں ماننا شروع کردیں تو اس سے تم خود ہی زیادہ مشقت میں پڑ جاو گے جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (وَلَوِ اتَّبَـعَ الْحَقُّ اَہْوَاۗءَہُمْ لَــفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْہِنَّ) 23۔ المؤمنون :71)۔ الحجرات
8 ٨۔ ١ یہ آیت میں بھی صحابہ کرام کی فضیلت، ان کے ایمان اور ان کے رشد و ہدایت پر ہونے کی واضح دلیل ہے ولو کرہ الکافرون۔ الحجرات
9 ٩۔ ١ اور اس صلح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں قرآن و حدیث کی طرف بلایا جائے یعنی ان کی روشنی میں ان کے اختلاف کا حل تلاش کیا جائے۔ ٩۔ ٢ یعنی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کے مطابق اپنا اختلاف دور کرنے پر آمادہ نہ ہو بلکہ بغاوت کی روش اختیار کرے تو دوسرے مسلمانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ سب مل کر بغاوت کرنے والے گروہ سے لڑائی کریں تاکہ وہ اللہ کے حکم کو ماننے کے لیے تیار ہوجائے۔ ٩۔ ٣ یعنی باغی گروہ بغاوت سے باز آ جائے تو پھر عدل کے ساتھ یعنی قرآن و حدیث کی روشنی میں دونوں گروہوں کے درمیان صلح کرا دی جائے۔ الحجرات
10 ١٠۔ ١ یہ پچھلے حکم کی ہی تاکید ہے یعنی جب مومن سب آپس میں بھائی بھائی ہیں تو ان سب کی اصل ایمان ہوئی اس لیے اس اصل کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ ایک ہی دین پر ایمان رکھنے والے آپس میں نہ لڑیں بلکہ ایک دوسرے کے دست و باز و ہمدرد وغم گسار اور مونس و خیر خواہ بن کر رہیں اور کبھی غلط فہمی سے ان کے درمیان بعد اور نفرت پیدا ہوجائے تو اسے دور کر کے انہیں آپس میں دوبارہ جوڑ دیا جائے مزید دیکھئے (مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰہِ شٰہِدِیْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ بالْکُفْرِ ۭاُولٰۗیِٕکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ ښ وَفِی النَّارِ ہُمْ خٰلِدُوْنَ) 9۔ التوبہ :17) ١٠۔ ١ اور ہر معاملے میں اللہ سے ڈرو، شاید اس کی وجہ سے تم اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پا جاؤ۔ ورنہ اللہ کی رحمت تو اہل ایمان و تقوٰی کے لئے یقینی ہے۔ الحجرات
11 ١١۔ ١ ایک شخص دوسرے کسی شخص کا استہزا یعنی اس سے مسخرا پن اسی وقت کرتا ہے جب وہ اپنے کو اس سے بہتر اور اس کو اپنے سے حقیر اور کمتر سمجھتا ہے حالانکہ اللہ کے ہاں ایمان وعمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے اور کون نہیں۔ اس کا علم صرف اللہ کو ہے اس لیے اپنے کو بہتر اور دوسرے کو کم تر سمجنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے بنا بریں آیت میں اس سے منع فرما دیا گیا ہے اور کہتے ہیں کہ عورتوں میں یہ اخلاقی بیماری زیادہ ہوتی ہے اس لیے عورتوں کا الگ ذکر کر کے انہیں بھی بظور خاص اس سے روک دیا گیا ہے اور حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں لوگوں کے حقیر سمجھنے کو کبر سے تعبیر کیا گبا ہے الکبر بطر الحق وغمط الناس اور کبر اللہ کو نہایت ہی ناپسند ہے۔ ١١۔ ٢ یعنی ایک دوسرے پر طعنہ زنی مت کرو، مثلاً تو فلاں کا بیٹا ہے، تیری ماں ایسی ویسی ہے، تو فلاں خاندان کا ہے نا وغیرہ۔ ١١۔ ٣ یعنی اپنے طور پر استزاء اور تحقیر کے لیے لوگوں کے ایسے نام رکھ لینا جو انہیں ناپسند ہوں یا اچھے بھلے ناموں کو بگاڑ کر بولنا یہ تنابز بالالقاب ہے جس کی یہاں ممانعت کی گئی ہے ١١۔ ٤ یعنی اس طرح نام بگاڑ کر یا برے نام تجریز کر کے بلانا یا قبول اسلام اور توبہ کے بعد اسے سابقہ دین یا گناہ کی طرف منسوب کر کے خطاب کرنا مثلا اے کافر اے زانی یا شرابی وغیرہ یہ بہت برا کام ہے الاسم یہاں الذکر کے معنی میں ہے یعنی بئس الاسم الذی یذکر بالفسق بعد دخولھم فی الایمان فتح القدیر۔ البتہ اس سے بعض وہ صفاتی نام بعض حضرات کے نزدیک مستثنی ہیں جو کسی کے لیے مشہور ہوجائیں اور وہ اس پر اپنے دل میں رنج بھی محسوس نہ کریں جیسے لنگڑے پن کی وجہ سے کسی کا نام لنگڑا پڑجائے کالے رنگ کی بنا پر کالیا یا کالو مشہور ہوجائے وغیرہ۔ القرطبی۔ الحجرات
12 ١٢۔ ١ ظن کے معنی ہیں گمان کرنا مطلب ہے کہ اہل خیر واہل اصلاح وتقوی کے بارے میں ایسے گمان رکھنا جو بے اصل ہوں اور تہمت وافترا کے ضمن میں آتے ہوں اسی لیے اس کا ترجمہ بد گمانی کیا جاتا ہے اور حدیث میں اس کو اکذب الحدیث سب سے بڑا جھوٹ کہہ کر اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے ایاکم والظن البخاری کتاب الادب باب یا ایھا الذین امنو اجتنبو امنو اجتنبوا کثیرا من الظن صحیح مسلم ورنہ فسق وفجور میں مبتلا لوگوں سے ان کے گناہوں کی وجہ سے اور ان کے گناہوں پر بد گمانی رکھنا یہ وہ بد گمانی نہیں ہے جسے یہاں گناہ کہا گیا ہے اور اس سے اجتناب کی تاکید کی گئی ہے۔ ان الظن القبیح بمن ظاہرہ الخیر لا یجوز وانہ لا حرج فی الظن القبیح بمن ظاہرہ القبیح۔ القرطبی۔ ١٢۔ ٢ یعنی اس ٹوہ میں رہنا کہ کوئی خامی یا عیب معلوم ہوجائے تاکہ اسے بدنام کیا جائے یہ تجسس ہے جو منع ہے اور حدیث میں بھی اس سے منع کیا گیا ہے بلکہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی کی خامی کوتاہی تمہارے علم میں آ جائے تو اس کی پردہ پوشی کرو نہ کہ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتے پھرو بلکہ جستجو کر کے عیب تلاش کرو آج کل حریت اور آزادی کا بڑا چرچا ہے اسلام نے بھی تجسس سے روک کر انسان کی حریت اور آزدی کو تسلیم کیا ہے لیکن اس وقت تک جب تک وہ کھلے عام بے حیائی کا ارتکاب نہ کرے یا جب تک دوسروں کے لیے ایذا کا باعث نہ ہو مغرب نے مطلق آزادی کا درس دے کر لوگوں کو فساد عام کی اجازت دے دی ہے جس سے معاشرے کا تمام امن و سکون برباد ہوگیا ہے۔ ١٢۔ ٣ غیبت کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کے سامنے کسی کی برائیوں اور گناہوں کا ذکر کیا جائے جسے وہ برا سمجھے اور اگر اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو اس کے اندر موجود ہی نہیں ہیں تو وہ بہتان ہے۔ اپنی اپنی جگہ دونوں ہی بڑے جرم ہیں۔ ١٢۔ ٤ یعنی کسی مسلمان بھائی کی کسی کے سامنے برائی بیان کرنا ایسے ہی ہے جیسے مردار بھائی کا گوشت کھانا تو پسند نہیں کرتا۔ لیکن غیبت لوگوں کی نہایت مرغوب غذا ہے۔ الحجرات
13 ١٣۔ ١ یعنی آدم وحوا علیہما السلام سے یعنی تم سب کی اصل ایک ہی ہے ایک ہی مان باپ کی اولاد ہو مطلب ہے کسی کو محض خاندان اور نسب کی بنا پر فخر کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ سب کا نسب حضرت آدم (علیہ السلام) سے ہی جا کر ملتا ہے۔ ١٣۔ ٢ شعوب شعب کی جمع ہے برادری یا بڑا قبیلہ شعب کے بعد قبیلہ پھر عمارہ پھر بطن پھر فصیلہ اور پھر عشیرہ ہے (فتح القدیر) مطلب یہ ہے کہ مختلف خاندانوں برادریوں اور قبیلوں کی تقسیم محض تعارف کے لیے ہے تاکہ آپس میں صلہ رحمی کرسکو اس کا مقصد ایک دوسرے پر برتری کا اظہار نہیں ہے جیسا کہ بد قسمتی سے حسب ونسب کو برتری کی بنیاد بنا لیا گیا ہے حالانکہ اسلام نے آ کر اسے مٹایا تھا اور اسے جاہلیت سے تعبیر کیا تھا۔ ١٣۔ ٣ یعنی اللہ کے ہاں برتری کا معیار خاندان قبیلہ اور نسل ونسب نہیں ہے جو کسی انسان کے اختیار میں ہی نہیں ہے۔ بلکہ یہ معیار تقوی ہے جس کا اختیار کرنا انسان کے ارادہ اختیار میں ہے یہی آیت ان علماء کی دلیل ہے جو نکاح میں کفائت نسب کو ضروری نہیں سمجھتے اور صرف دین کی بنیاد پر نکاح کو پسند کرتے ہیں۔ ابن کثیر۔ الحجرات
14 ١٤۔ ١ بعض مفسرین کے نزدیک ان اعراب سے مراد بنو اسد اور خزیمہ کے منافقین ہیں جنہوں نے قحط سالی میں محض صدقات کی وصولی کے لیے یا قتل ہونے اور قیدی بننے کے اندیشے کے پیش نظر زبان سے اسلام کا اظہار کیا تھا ان کے دل ایمان اعتقاد صحیح اور خلوص نیت سے خالی تھے (فتح القدیر) لیکن امام ابن کثبر کے نزدیک ان سے وہ اعراب مراد ہیں جو نئے مسلمان ہوئے تھے اور ایمان ابھی ان کے اندر پوری طرح راسخ نہیں ہوا تھا لیکن دعوی انہوں نے اپنی اصل حثییت سے بڑھ کر ایمان کا کیا تھا جس پر انہیں یہ ادب سکھایا گیا کہ پہلے مرتبے پر ہی ایمان کا دعوی صحیح نہیں آہستہ آہستہ ترقی کے بعد تم ایمان کے مرتبے پر پہنچو گے۔ الحجرات
15 ١٥۔ ١ نہ کہ وہ جو صرف زبان سے اسلام کا اظہار کردیتے ہیں اور مذکورہ اعمال کا سرے سے کوئی اہتمام ہی نہیں کرتے۔ الحجرات
16 ١٦۔ ١ تعلیم، یہاں علم اور اخبار کے معنی میں ہے یعنی آمَنَّا کہہ کر تم اللہ کو اپنے دین و ایمان سے آگاہ کر رہے ہو؟ یا اپنے دلوں کی کیفیت اللہ کو بتلا رہے ہو ۔ ١٦۔ ٢ تو کیا تمہارے دلوں کی کیفیت پر یا تمہارے ایمان کی حقیقت سے وہ آگاہ نہیں۔ الحجرات
17 ١٧۔ ١ یہی اعراب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے کہ دیکھو ہم مسلمان ہوگئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کی، جبکہ دوسرے عرب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے برسر پیکار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا رد فرماتے ہوئے فرمایا، تم اللہ پر اسلام لانے کا احسان مت جتلاؤ اس لئے کہ اگر تم اخلاص سے مسلمان ہوئے ہو تو اس کا فائدہ تمہیں ہوگا، نہ کہ اللہ کو۔ اس لئے یہ اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں قبول اسلام کی توفیق دی نہ کہ تمہارا احسان اللہ پر ہے۔ الحجرات
18 الحجرات
0 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عید کی نماز میں سورۃ ق اور اقتربت الساعۃ پڑھا کرتے تھے (صحیح مسلم) ہر جمعے کے خطبے میں بھی پڑھتے تھے (صحیح مسلم) امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ عیدین اور جمعے میں پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ بڑے مجمعوں میں یہ سورۃ پڑھا کرتے تھے کیونکہ اس میں ابتدائے خلق، بعث و نشور، معاد وقیام، حساب، جنت دوزخ، ثواب وعتاب اور ترغیب وترہیب دلانے کا بیان ہے۔ ق
1 ١۔ ١ اس کا جواب قسم محذوف ہے لَتُبْعَثنَّ (تم ضرور قیامت والے دن اٹھائے جاؤ گے) بعض کہتے ہیں اس کا جواب ما بعد کا مضمون کلام ہے جس میں نبوت اور معاد کا اثبات ہے (فتح القدیر و ابن کثیر) ق
2 ٢۔ ١ حالانکہ اس میں کوئی تعجب والی بات نہیں ہے، ہر نبی اسی قوم کا ایک فرد ہوتا تھا جس میں اسے مبعوث کیا جاتا تھا۔ اسی حساب سے قریش مکہ کو ڈرانے کے لئے قریش ہی میں سے ایک شخص کو نبوت کے لئے چن لیا گیا۔ ق
3 ٣۔ ١ حالانکہ عقلی طور پر اس میں بھی کوئی استحالہ نہیں ہے۔ آگے اس کی کچھ وضاحت ہے ق
4 ٤۔ ١ یعنی زمین انسان کے گوشت، ہڈی اور بال وغیرہ بوسیدہ کر کے کھا جاتی ہے یعنی اسے ریزہ ریزہ کردیتی ہے وہ نہ صرف ہمارے علم میں ہے بلکہ لوح محفوظ میں بھی درج ہے اس لئے ان تمام اجزا کو جمع کر کے انہیں دوبارہ زندہ کردینا ہمارے لئے قطعًا مشکل امر نہیں ہے۔ ق
5 ٥۔ ١ یعنی ایسا معاملہ جو ان پر مشتبہ ہوگیا ہے، جس سے وہ ایک الجھاؤ میں پڑگئے ہیں، کبھی اسے جادوگر کہتے ہیں، کبھی شاعر اور کبھی غیب کی خبریں بتانے والا۔ ق
6 ٦۔ ١ یعنی بغیر ستون کے، جن کا اسے کوئی سہارا ہو۔ ٦۔ ٢ یعنی ستاروں سے مزین کیا۔ ٦۔ ٣ اسی طرح کوئی فرق وتفاوت بھی نہیں ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ۭ مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ ۭ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ۙ ہَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ ۝ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّہُوَ حَسِیْرٌ ۝) 67۔ الملک :4-3) ق
7 ٧۔ ١ اور بعض نے زوج کے معنی جوڑا کیا ہے یعنی ہر قسم کی نباتات اور اشیا کو جوڑا جوڑا (نر مادہ) بنایا ہے بھیج کے معنی خوش منظر شاداب اور حسین ق
8 ٨۔ ١ یعنی آسمان و زمین کی تخلیق اور دیگر اشیا کا مشاہدہ اور ان کی معرفت ہر اس شخص کے لئے بصیرت و دانائی اور عبرت و نصیحت کا باعث ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہے۔ ق
9 ٩۔ ١ کٹنے والے غلے سے مراد وہ کھیتیاں مراد ہیں جن سے گندم مکڑی جوار باجرہ دالیں اور چاول وغیرہ پیدا ہوتے ہیں۔ اور پھر ان کا ذخیرہ کرلیا جاتا ہے۔ ق
10 ١٠۔ ١ باسقات کے معنی طوالاً شاھقات، بلند وبالا طلع کھجور کا وہ گدرا گدرا پھل، جو پہلے پہل نکلتا ہے۔ نضید کے معنی تہ بہ تہ۔ باغات میں کھجور کا پھل بھی آ جاتا ہے۔ لیکن اسے الگ سے بطور خاص ذکر کیا، جس سے کھجور کی وہ اہمیت واضح ہے جو اسے عرب میں حاصل ہے۔ ق
11 ١١۔ ١ یعنی جس طرح بارش سے مردہ زمین کو شاداب کردیتے ہیں، اسی طرح قیامت والے دن ہم قبروں سے انسانوں کو زندہ کر کے نکال لیں گے۔ ق
12 ١٢۔ ١ اصحاب الرس کی تعیین میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے۔ امام ابن جریر طبری نے اس قول کو ترجیح دی ہے جس میں انہیں اصحاب اخدود قرار دیا گیا ہے، جس کا ذکر سورۃ بروج میں ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ابن کثیر و فتح القدیر، (وَّعَادًا وَّثَمُــوْدَا۟ وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ وَقُرُوْنًــۢا بَیْنَ ذٰلِکَ کَثِیْرًا) 25۔ الفرقان :38) ق
13 ق
14 ١٤۔ ١ اَصْحَاب الاءَیْکَۃِ کے لئے دیکھئے سورۃ الشعراء (وَمَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَاِنْ نَّظُنُّکَ لَمِنَ الْکٰذِبِیْنَ ١٨٦؀ۚ) 26۔ الشعراء :186) کا حاشیہ۔ ١٤۔ ٢ قَوْمُ تُبَعِ کے لئے دیکھئے سورۃ الدخان، (اَہُمْ خَیْرٌ اَمْ قَوْمُ تُبَّــعٍ ۙ وَّالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ۭ اَہْلَکْنٰہُمْ ۡ اِنَّہُمْ کَانُوْا مُجْرِمِیْنَ 37؀) 44۔ الدخان :37) کا حاشیہ۔ ١٤۔ ٣ یعنی ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے پیغمبر کو جھٹلایا۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہا جا رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قوم کی طرف سے تکذیب پر غمگین نہ، اس لیے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ بھی ان کی قوموں نے یہی معاملہ کیا دوسرے اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ پچھلی قوموں نے انبیاء علیہم السلام کی تکذیب کی تو دیکھ لو ان کا انجام کیا ہوا ؟ کیا تم بھی اپنے لیے یہی انجام چاہتے ہو اگر یہ انجام پسند نہیں کرتے تو تکذیب کا راستہ چھوڑو اور پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آؤ۔ ق
15 ١٥۔ ١ کہ قیامت والے دن دوبارہ پیدا کرنا ہمارے لیے مشکل ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ جب پہلی مرتبہ پیدا کرنا ہمارے لیے مشکل نہیں تھا تو دوبارہ زندہ کرنا تو پہلی مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (وَہُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَہُوَ اَہْوَنُ عَلَیْہِ) 30۔ الروم :27) (وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ ۭ قَالَ مَنْ یُّـحْیِ الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیْمٌ 78؀ قُلْ یُحْیِیْہَا الَّذِیْٓ اَنْشَاَہَآ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ۭ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِـیْمُۨ 79؀ۙ) 36۔ یس :79-78) میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔ اور حدیث قدسی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے"ابن آدم مجھے یہ کہہ کر ایذا پہنچاتا ہے کہ اللہ مجھے ہرگز دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے جس طرح اس نے پہلی مرتبہ مجھے پیدا کیا۔ حالانکہ پہلی مرتبہ پیدا کرنا دوسری مرتبہ پیدا کرنے سے زیادہ آسان نہیں ہے" یعنی اگر مشکل ہے پہلی مرتبہ پیدا کرنا نہ کہ دوسری (صحیح البخاری) ١٥۔ ٢ یعنی یہ اللہ کی قدرت ہے کہ منکر نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ انہیں قیامت کے وقوع اور اس میں دوبارہ زندگی کے بارے میں ہی شک ہے۔ ق
16 ١ ٦ ۔ ١ یعنی انسان جو کچھ چھپاتا اور دل میں مستور رکھتا ہے وہ سب ہم جانتے ہیں وسوسہ دل میں گزرنے والے خیالات کو کہا جاتا ہے جس کا علم اس انسان کے علاوہ کسی کو نہیں ہوتا لیکن اللہ ان وسوسوں کو بھی جانتا ہے اسی لیے حدیث میں آتا ہے اللہ تعالیٰ نے میری امت سے دل میں گزرنے والے خیالات کو معاف فرما دیا ہے یعنی ان پر گرفت نہیں فرمائے گا جب تک وہ زبان سے ان کا اظہار یا ان پر عمل نہ کرے۔ البخاری کتاب الایمان۔ ١٦۔ ١ ورید شہ رگ یا رگ جان کو کہا جاتا ہے جس کے کٹنے سے موت واقع ہوجاتی ہے یہ رگ حلق کے ایک کنارے سے انسان کے کندھے تک ہوتی ہے ہم انسان کے بالکل بلکہ اتنے قریب ہیں کہ اس کے نفس کی باتوں کو بھی جانتے ہیں۔ امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ نَحْنُ سے مراد فرشتے ہیں۔ یعنی ہمارے فرشتے انسان کی رگ جان سے بھی قریب ہیں۔ کیونکہ انسان کے دائیں بائیں دو فرشتے ہر وقت موجود رہتے ہیں، وہ انسان کی ہر بات اور عمل کو نوٹ کرتے ہیں۔ اور بعض کے نزدیک رات اور دن کے فرشتے مراد ہیں۔ رات کے دو فرشتے الگ اور دن کے دو فرشتے الگ (فتح لقدیر) ق
17 ق
18 ١٨۔ ١ رَقِیْب محافظ، نگران اور انسان کے قول اور عمل کا انتظار کرنے والا عَتِیْد حاضر اور تیار۔ ق
19 ١٩۔ ١ تَحِیْدُ، تَمِیْلُ عَنْہُ وَتَفِرُّتو اس موت سے بدکتا اور بھاگتا تھا۔ ق
20 ق
21 ٢١۔ ١ سَائِق (ہانکنے والا) اور شھید (گواہ) کے بارے میں اختلاف ہے۔ امام طبری کے نزدیک دو فرشتے ہیں۔ ایک انسان کو محشر تک ہانک کر لانے والا اور دوسرا گواہی دینے والا۔ ق
22 ق
23 ٢٣۔ ١ یعنی فرشتہ انسان کا سارا ریکارڈ سامنے رکھ دے گا اور کہے گا کہ یہ تیری فرد عمل ہے کو جو میرے پاس تھی۔ ق
24 ق
25 ق
26 ٢ ٦ ۔ ١ اللہ تعالیٰ اس فرد عمل کی روشنی میں انصاف اور فیصلہ فرمائے گا القیا سے الشدید تک اللہ کا قول ہے۔ ق
27 ٢٧۔ ١ اس لئے اس نے فوراً میری بات مان لی، اگر یہ تیرا مخلص بندہ ہوتا تو میرے بہکاوے میں ہی نہ آتا۔ یہاں قرین سے مراد شیطان ہے۔ ق
28 ٢٨۔ ١ یعنی اللہ تعالیٰ کافروں اور ان کے ہم نشین شیطانوں کو کہے گا کہ یہاں موقف حساب یا عدالت انصاف میں لڑنے جھگڑنے کی ضرورت نہیں نہ اس کا کوئی فائدہ ہی ہے، میں نے پہلے ہی رسولوں اور کتابوں کے ذریعے سے وعیدوں سے تم کو آگاہ کردیا تھا۔ ق
29 ٢٩۔ ١ یعنی جو وعدے میں نے کئے تھے، ان کے خلاف نہیں ہوگا بلکہ ہر صورت میں پورے ہو نگے اور اسی اصول کے مطابق تمہارے لئے عذاب کا فیصلہ میری طرف سے ہوا ہے جس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ ق
30 ٣٠۔ ١ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ ( لَاَمْلَئَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ 13؀) 32۔ السجدہ :13)۔ میں جہنم کو انسانوں اور جنوں سے بھر دوں گا اس وعدے کا جب ایفا ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ کافر جن و انس کو جہنم میں ڈال دے گا، تو جہنم سے پوچھے گا کہ تو بھر گئی ہے یا نہیں؟ وہ جواب دے گی، کیا کچھ اور بھی ہے؟ یعنی اگرچہ بھر گئی ہوں لیکن یا اللہ تیرے دشمنوں کے لئے میرے دامن اب بھی گنجائش ہے۔ ق
31 ٣١۔ ١ اور بعض نے کہا ہے کہ قیامت جس روز جنت قریب کردی جائے گے دور نہیں ہے کیونکہ وہ لامحالہ واقع ہو کر رہے گی اور کل ما ہوات فھو قریب اور جو بھی آنے والی چیز ہے وہ قریب ہی ہے دور نہیں (ابن کثیر) ق
32 ٣٢۔ ١ یعنی اہل ایمان جب جنت کا اور اس کی نعمتوں کا قریب سے مشاہدہ کریں گے تو کہا جائے گا کہ یہی وہ جنت ہے جس کا وعدہ ہر اواب اور حفیظ سے کیا گیا تھا اواب، بہت رجوع کرنے والا یعنی اللہ کی (طرف کثرت سے توبہ استغفار اور تسبیح و ذکر الٰہی کرنے والا خلوت میں اپنے گناہوں کو یاد کر کے ان سے توبہ کرنے والا، یا اللہ کے حقوق اور اس کی نعمتوں کو یاد رکھنے والا یا اللہ کے اوامر نواہی کو یاد رکھنے والا گیا تھا۔ فتح القدیر ق
33 ٣٣۔ ١ مُنِیْبِ، اللہ کی طرف رجوع کرنے والا اور اس کا اطاعت گزار دل۔ یا بمعی سلیمِ، شرک و مصیت کی نجاستوں سے پاک دل۔ ق
34 ق
35 ٣٥۔ ١ اس سے مراد رب تعالیٰ کا دیدار ہے جو اہل جنت کو نصیب ہوگا۔ (لِلَّذِیْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ) 10۔ یونس :26)۔ ق
36 ٣٦۔ ١ (فَنقبُوْفِی الْبِلَادِ) (شہروں میں چلے پھرے) کا ایک مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ اہل مکہ سے زیادہ تجارت و کاروبار کے لئے مختلف شہروں میں پھرتے تھے۔ لیکن ہمارا عذاب آیا تو انہیں کہیں پناہ اور راہ فرار نہ ملی۔ ق
37 ٣٧۔ ١ یعنی دل بیدار، جو غور و فکر کر کے حقائق کا ادراک کرلے۔ ٣٧۔ ٢ یعنی توجہ سے وہ وحی الٰہی سنے جس میں گزشتہ امتوں کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ ٣٧۔ ٣ یعنی قلب اور دماغ کے لحاظ سے حاضر ہو۔ اس لئے کہ جو بات ہی کو نہ سمجھے، وہ موجود ہوتے ہوئے بھی ایسے ہے جیسے نہیں۔ ق
38 ق
39 ٣٩۔ ١ یعنی صبح وشام اللہ کی تسبیح بیان کرو یا عصر اور فجر کی نماز پڑھنے کی تاکید ہے۔ ق
40 ٤٠۔ ١ یعنی رات کے کچھ حصے میں بھی اللہ کی تسبیح کریں یا رات کی نماز (تہجد) پڑھیں جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ' رات کو اٹھ کر نماز پڑھیں جو آپ کے لئے مزید ثواب کا باعث ہے۔ ٤٠۔ ٢ یعنی اللہ کی تسبیح کریں بعض نے اس سے تسبیحات مراد لی ہے، جن کے پڑھنے کی تاکید نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرض نمازوں کے بعد فرمائی ہے مثلاً ٣٣ مرتبہ سُبْحَان اللہ ٣٣ مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰلہ اور ٣٤ مرتبہ اللّٰہ اَکْبَرْ وغیرہ ق
41 ٤١۔ ١ یعنی قیامت کے جو احوال وحی کے ذریعے سے بیان کئے جا رہے ہیں، انہیں توجہ سے سنیں۔ ٤١۔ ٢ یہ پکارنے والا اسرافیل فرشتہ ہوگا یا جبرائیل اور یہ ندا وہ ہوگی جس سے لوگ میدان محشر میں جمع ہوجائیں گے۔ یعنی نفخہ ثانیہ۔ ٤١۔ ٣ اس سے بعض نے صخرہ بیت المقدس مراد لیا ہے، کہتے ہیں یہ آسمان کے قریب ترین جگہ ہے اور بعض کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص یہ آوازیں اس طرح سنے گا جیسے اس کے قریب سے ہی آواز آ رہی ہے (فتح القدیر) ق
42 ٤٢۔ ١ یعنی یہ چیخ یعنی نفخہ قیامت یقینا ہوگا جس میں یہ دنیا میں شک کرتے تھے۔ اور یہی دن قبروں سے زندہ ہو کر نکلنے کا ہوگا۔ ق
43 ٤٣۔ ١ یعنی دنیا میں موت سے ہمکنار کرنا اور آخرت میں زندہ کردینا، یہ ہمارا ہی کام ہے، اس میں کوئی ہمارا شریک نہیں ہے۔ ٤٣۔ ٢ وہاں ہم ہر شخص کو اس کے عملوں کے مطابق جزا دیں گے۔ ق
44 ٤٤۔ ١ یعنی اس آواز دینے والے کی طرف دوڑیں گے، جس نے آواز دی ہوگی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، جب زمین پھٹے گی تو سب سے پہلے زندہ ہو کر نکلنے والا میں ہوں گا۔ انا اول من تشق عنہ الارض۔ ق
45 ٤٥۔ ١ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ایمان لانے پر مجبور کریں بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام صرف تبلیغ و دعوت ہے، وہ کرتے رہیں۔ ٤٥۔ ٢ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت ذکر سے وہی نصیحت حاصل کرے گا جو اللہ سے اور اس کی سزا کی دھمکیوں سے ڈرتا اور اس کے وعدوں پر یقین رکھتا ہوگا اسی لئے حضرت قتادہ یہ دعا فرماتے ' اے اللہ ہمیں ان لوگوں میں سے کر جو تیری وعیدوں سے ڈرتے اور تیرے وعدوں کی امید رکھتے ہیں۔ اے احسان کرنے والے رحم فرما نے والے۔ ق
0 الذاريات
1 ١۔ ١ اس سے مراد ہوائیں جو مٹی کو اڑا کر بکھیر دیتی ہیں۔ الذاريات
2 ٢۔ ١ وقر، ہر وہ بوجھ جسے کوئی جاندار لے کر چلے، حاملات، وہ ہوائیں ہیں جو بادلوں کو اٹھائے ہوئے ہیں یا پھر وہ بادل ہیں جو پانی کا بوجھ اٹھائے ہوتے ہیں جیسے چوپائے، حمل کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ الذاريات
3 ٣۔ ١ جاریات، پانی میں چلنے والی کشتیاں، یُسْرا آسانی سے۔ الذاريات
4 ٤۔ ١ مقسمات، اس سے مراد فرشتے ہیں جو کام کو تقسیم کرلیتے ہیں، کوئی رحمت کا فرشتہ ہے تو کوئی عذاب کا، کوئی پانی کا ہے تو کوئی سختی کا، کوئی ہواؤں کا فرشتہ ہے تو کوئی موت اور حوادث کا۔ بعض نے ان سب سے صرف ہوائیں مراد لی ہیں اور ان سب کو ہواؤں کی صفت بتایا ہے۔ جیسے کہ فاضل مترجم نے بھی اسی کے مطابق ترجمہ کیا ہے۔ لیکن ہم نے امام ابن کثیر اور امام شوکانی کی تفسیر کے مطابق تشریح کی ہے۔ قسم سے مقصد مقسم علیہ کی سچائی کو بیان کرنا ہوتا ہے یا بعض دفعہ صرف تاکید مقصود ہوتی ہے اور بعض دفعہ مقسم علیہ کو دلیل کے طور پر پیش کرنا مقصود ہوتا ہے۔ یہاں قسم کی یہی تیسری قسم ہے۔ آگے جواب قسم یہ بیان کیا گیا ہے کہ تمک سے جو وعدے کیے جاتے ہیں یقیناً وہ سچے ہیں اور قیامت برپا ہو کر رہے گی جس میں انصاف کیا جائے گا۔ یہ ہواؤں کا چلنا، بادلوں کا پانی کو اٹھانا، سمندروں میں کشتیوں کا چلنا اور فرشتوں کا مختلف امور کو سر انجام دینا، قیامت کے وقوع پر دلیل ہے، کیونکہ جو ذات یہ سارے کام کرتی ہے جو بظاہر نہایت مشکل اور اسباب عادیہ کے خلاف ہیں، وہی ذات قیامت والے دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ بھی کرسکتی ہے۔ الذاريات
5 الذاريات
6 الذاريات
7 ٧۔ ١ دوسرا ترجمہ، حسن جمال اور زینت و رونق والا کیا گیا ہے چاند، سورج ستارے و سیارے، روشن ستارے، اس کی بلندی اور وسعت، یہ سب چیزیں آسمان کی رونق و زینت اور خوب صورتی کا باعث ہیں الذاريات
8 ٨۔ ١ یعنی اے اہل مکہ! تمہارا کسی بات میں آپس میں اتفاق نہیں ہے۔ ہمارے پیغمبر کو تم میں سے کوئی جادو گر، کوئی شاعر، کوئی کاہن اور کوئی جھوٹا کہتا ہے۔ اسی طرح کوئی قیامت کی بالکل نفی کرتا ہے، کوئی شک کا اظہار، علاوہ ازیں ایک طرف اللہ کے خالق اور رازق ہونے کا اعتراف کرتے ہو، دوسری طرف دوسروں کو بھی معبود بنا رکھا ہے۔ الذاريات
9 ٩۔ ١ یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے، یا حق سے یعنی بعث و توحید سے یا مطلب ہے مذکورہ اختلاف سے وہ شخص پھیر دیا گیا جسے اللہ نے اپنی توفیق سے پھیر دیا، پہلے مفہوم میں ذم ہے اور دوسرے میں مدح۔ الذاريات
10 الذاريات
11 الذاريات
12 الذاريات
13 ١٣۔ ١ یفتنون کے معنی ہیں یحرقون ویعذبون جس طرح سونے کو آگ میں ڈال کر پرکھا جاتا ہے، اسی طرح یہ ڈالے جائیں گے۔ الذاريات
14 ١٤۔ ١ فِتْنَۃ بمعنی عذاب یا آگ میں جلنا۔ الذاريات
15 الذاريات
16 الذاريات
17 ١٧۔ ١ ھجوع کے معنی ہیں رات کو سونا۔ ما یھجعون میں ما تاکید کے لیے ہے۔ وہ رات کو کم سوتے تھے، مطلب ہے ساری رات سو کر غفلت اور عیش و عشرت میں نہیں گزار دیتے تھے۔ بلکہ رات کا کچھ حصہ اللہ کی یاد میں اور اس کی بارگاہ میں گڑ گڑاتے ہوئے گزارتے تھے۔ جیسا کہ حدیث بھی قیام اللیل کی تاکید ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں فرمایا ' لوگو! لوگوں کو کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو، سلام پھیلاؤ اور رات کو اٹھ کر نماز پڑھو، جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں، تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ گے ' (مسند احمد ٥۔ ٤٥١)۔ الذاريات
18 ١٨۔ ١ وقت سحر قبولیت دعا کے بہترین اوقات میں سے ہے حدیث میں آتا ہے کہ جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور ندا دیتا ہے کہ کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ میں اس کی توبہ قبول کروں؟ کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں کوئی سائل ہے کہ میں اس کے سوال کو پورا کر دوں۔ یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔ّصحیح مسلم) الذاريات
19 ١٩۔ ١ محروم سے مراد، وہ ضرورت مند ہے جو سوال سے اجتناب کرتا ہے۔ چنانچہ مستحق ہونے کے باوجودلوگ اسے نہیں دیتے۔ یا وہ شخص ہے جس کا سب کچھ، آفت ارضی و سماوی میں، تباہ ہوجائے۔ الذاريات
20 الذاريات
21 الذاريات
22 ٢٢۔ ١ یعنی بارش بھی آسمان سے ہوتی ہے جس سے تمہارا رزق پیدا ہوتا ہے اور جنت دوزخ ثواب وعتاب بھی آسمانوں میں ہے جن کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ الذاريات
23 ٢٣۔ ١ انہ میں ضمیر کا مرجع (یہ) وہ امور و آیات ہیں جو مذکور ہوئیں۔ الذاريات
24 ٢٤۔ ١ ھَلْ استفہام کے لئے ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تنبیہ ہے کہ اس قصے کا تجھے علم نہیں، بلکہ ہم تجھے وحی کے ذریعے سے مطلع کر رہے ہیں۔ الذاريات
25 ٢٥۔ ١ یہ اپنے جی میں کہا، ان سے خطاب کر کے نہیں کہا۔ الذاريات
26 الذاريات
27 ٢٧۔ ١ یعنی سامنے رکھنے کے باوجود انہوں نے کھانے کی طرف ہاتھ ہی نہیں بڑھایا تو پوچھا الذاريات
28 ٢٨۔ ١ ڈر اس لئے محسوس کیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سمجھے، یہ کھانا نہیں کھا رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آنے والے کسی خیر کی نیت سے نہیں بلکہ شر کی نیت سے آئے ہیں۔ ٢٨۔ ٢ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے چہرے پر خوف کے آثار دیکھ کر فرشتوں نے کہا۔ الذاريات
29 ٢٩۔ ١ صرۃ کے دوسرے معنی ہیں چیخ و پکار، یعنی چیختے ہوئے کہا۔ الذاريات
30 ٣٠۔ ١ یعنی جس طرح ہم نے تجھے کہا ہے، یہ ہم نے اپنی طرف سے نہیں کہا ہے، بلکہ تیرے رب نے اسی طرح کہا ہے جس کی ہم تجھے اطلاع دے رہے ہیں، اس لئے اس پر تعجب کی ضرورت ہے نہ کہ شک کرنے کی، اس لئے کہ اللہ جو چاہتا ہے وہ لا محالہ ہو کر رہتا ہے۔ الذاريات
31 ٣١۔ ١ یعنی اس بشارت کے علاوہ تمہارا اور کیا کام اور مقصد ہے جس کے لئے تمہیں بھیجا گیا ہے۔ الذاريات
32 ٣٢۔ ١ اس سے مراد قوم لوط ہے جن کا سب سے بڑا جرم لواطت تھا۔ الذاريات
33 ٣٣۔ ١ برسائیں کا مطلب ہے، ان کنکریوں سے انہیں رجم کردیں۔ یہ کنکریاں خالص پتھر کی تھیں نہ آسمانی اولے تھے، بلکہ مٹی کی بنی ہوئی تھیں۔ الذاريات
34 ٣٤۔ ١ مسومۃ (نامزد یا نشان زدہ) ان کی مخصوص علامت تھی جن سے انہیں پہچان لیا جاتا تھا یا وہ عذاب کے لیے مخصوص تھیں، بعض کہتے ہیں کہ جس کنکری سے موت جس کی موت واقع ہوئی تھی اس پر اسی کا نام لکھا ہوا تھا، مسرفین جو شرک و ضلالت میں بہت بڑھے ہوئے تھے اور فسق و فجور میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ الذاريات
35 ٣٥۔ ١ یعنی عذاب آنے سے پہلے ہم ان کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا تاکہ وہ عذاب سے محفوظ رہیں۔ الذاريات
36 ٣٦۔ ١ اور یہ اللہ کے پیغمبر حضرت لوط (علیہ السلام) کا گھر تھا جس میں دو بیٹیاں اور کچھ ایمان لانے والے تھے، کہتے ہیں کہ کل تیرہ آدمی تھے۔ ان میں حضرت لوط (علیہ السلام) کا گھر تھا، جس میں ان کی دو بیٹیاں اور کچھ ایمان لانے والے تھے ان میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی شامل نہ تھی بلکہ وہ اپنی قوم کے ساتھ عذاب سے ہلاک ہونے والوں میں سے تھی۔ (ایسر التفاسیر) اسلام کے معنی ہیں اطاعت انقیاد اللہ کے حکموں پر سر اطاعت خم کردینے والا مسلم ہے اس اعتبار سے ہر مومن مسلمان ہے اسی لیے پہلے ان کے لیے مومن کا لفظ استعمال کیا، اور پھر ان ہی کے لیے مسلم کا لفظ بولا گیا ہے اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ ان کے مصداق میں کوئی فرق نہیں ہے، جیسا کہ بعض لوگ مومن اور مسلم کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ قرآن نے جو کہیں مومن اور مسلم کا لفظ استعمال کیا ہے۔ تو وہ ان معانی کے اعتبار سے ہے جو عربی لغت کی رو سے ان کے درمیان ہے اس لیے لغوی استعمال کے مقابلے میں حقیقت شرعیہ کا اعتبار زیادہ ضروری ہے اور حقیقت شرعیہ کے اعتبار سے ان کے درمیان صرف وہی فرق ہے حدیث جبرائیل (علیہ السلام) سے ثابت ہے جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ اسلام کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا لا الہ الا اللہ کی شہادت، اقامت صلوۃ، ایتائے زکوٰۃ، حج اور صیام رمضان۔ اور جب ایمان کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا، اللہ پر ایمان لانا، اس کے ملائکہ، کتابوں، رسولوں اور تقدیر (خیر وشر کے من جانب اللہ ہونے) پر ایمان رکھنا، یعنی دل سے ان چیزوں پر یقین رکھنا ایمان اور احکام و فرائض کی ادائیگی اسلام ہے۔ اس لحاظ سے ہر مومن مسلمان اور ہر مسلمان مومن ہے (فتح القدیر) اور جو مومن اور مسلمان کے درمیان میں فرق کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے کہ یہاں قرآن نے ایک ہی گروہ کے لیے مومن اور مسلمان کے الفاظ استعمال کیے ہیں لیکن ان کے درمیان جو فرق ہے اس کی رو سے ہر مومن مسلم بھی ہے تاہم ہر مسلم کا مومن ہونا ضروری نہیں (ابن کثیر) بہرحال یہ ایک علمی بحث ہے فریقین کے پاس اپنے اپنے موقف پر استدلال کے لیے دلائل موجود ہیں۔ الذاريات
37 ٣٧۔ ١ یہ آیت یا کامل علامت وہ آثار عذاب ہیں جو ان ہلاک شدہ بستیوں میں ایک عرصے تک باقی رہے۔ اور یہ علامت بھی انہی کے لئے ہے جو عذاب الٰہی سے ڈرنے والے ہیں، کیونکہ وعظ و نصیحت کا اثر بھی وہی قبول کرتے ہیں اور آیات میں غور و فکر بھی وہی کرتے ہیں۔ الذاريات
38 الذاريات
39 ٣٩۔ ١ جانب اقویٰ کو رکن کہتے ہیں۔ یہاں مراد اس کی اپنی قوت اور لشکر ہے۔ الذاريات
40 ٤٠۔ ١ یعنی اس کے کام ہی ایسے تھے کہ جن پر وہ ملامت ہی کا مستحق تھا الذاريات
41 ٤١۔ ١ ای ترکنا فی قصۃ عاد آیۃ عاد کے قصے میں بھی ہم نے نشانی چھوڑی۔ ٤١۔ ٢ الریح العقیم (بانجھ ہوا) جس میں خیر و برکت نہیں تھی، وہ ہوا درختوں کو ثمر آور کرنے والی تھی نہ بارش کی پیامبر، بلکہ صرف ہلاکت اور عذاب کی ہوا تھی۔ الذاريات
42 ٤٢۔ ١ یہ اس ہوا کی تاثیر تھی جو قوم عاد پر بطور عذاب بھیجی گئی تھی۔ یہ تند تیز ہوا، سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلتی رہی (الحاقہ) الذاريات
43 ٤٣۔ ١ یعنی جب انہوں نے اپنے ہی طلب کردہ معجزے اونٹنی کو قتل کردیا، تو ان سے کہہ دیا گیا کہ اب تین دن اور تم دنیا کے مزے لوٹ لو، تین دن کے بعد تم ہلاک کردیئے جاؤ گے۔ یہ اسی طرف اشارہ ہے بعض نے اسے حضرت صالح (علیہ السلام) کی ابتدائے نبوت کا قول قرار دیا ہے۔ الفاظ اس مفہوم کے بھی متحمل ہیں بلکہ سیاق سے یہی معنی زیادہ قریب ہے۔ الذاريات
44 ٤٤۔ ١ (کڑاکا) آسمانی چیخ تھی اور اس کے ساتھ (زلزلہ) تھا جیسا کہ (فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِہِمْ جٰثِمِیْنَ 78؀) 7۔ الاعراف :78) میں ہے۔ الذاريات
45 ٤٥۔ ١ چہ جائیکہ وہ بھاگ سکیں۔ ٤٥۔ ٢ یعنی اللہ کے عذاب سے اپنے آپ کو نہیں بچا سکے۔ الذاريات
46 ٤٦۔ ١ قوم نوح، عاد، فرعون اور ثمود و غیرہ بہت پہلے گزر چکی ہے اس نے بھی اطاعت الٰہی کی بجائے اسکی بغاوت کا راستہ اختیار کیا تھا۔ بالآخر اسے طوفان میں ڈبو دیا گیا۔ الذاريات
47 ٤٧۔ ١ السماء منصوب ہے بنینا محذوف کی وجہ سے بنینا السماء بنیناھا ٤٧۔ ٢ یعنی پہلے ہی بہت وسیع ہے لیکن ہم نے اس کو اور بھی زیادہ وسیع کرنے کی طاقت رکھتے ہین۔ یا آسمان سے بارش برسا کر روزی کشادہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں وُسْع (طاقت و قدرت رکھنے والے) تو مطلب ہوگا ہمارے اندر اس جیسے اور آسمان بنانے کی بھی طاقت و قدرت موجود ہے۔ ہم آسمان و زمین بنا کر تھک نہیں گئے ہیں بلکہ ہماری قدرت طاقت کی کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔ الذاريات
48 ٤٨۔ ١ یعنی فرش کی طرح اسے بچھا دیا ہے۔ الذاريات
49 ٤٩۔ ١ یعنی ہر چیز کو جوڑا جوڑا، نر اور مادہ یا اس کی مقابل اور ضد کو بھی پیدا کیا ہے۔ جیسے روشنی اور اندھیرا، خشکی اور تری، چاند اور سورج، میٹھا اور کڑوا رات اور دن خیر اور شر زندگی اور موت ایمان اور کفر شقاوت اور سعادت جنت اور دوزخ جن وانس وغیرہ حتی کہ حیوانات کے مقابل جمادات اس لیے ضروری ہے کہ دنیا کا بھی جوڑا ہو یعنی آخرت، دنیا کے بالمقابل دوسری زندگی۔ ٤٩۔ ٢ یہ جان لو کہ ان سب کا پیدا کرنے والا صرف ایک اللہ ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ الذاريات
50 ٥٠۔ ١ یعنی کفر و معصیت سے توبہ کرکے فوراً بارگاہ الٰہی میں جھک جاؤ، اس میں تاخیر مت کرو۔ الذاريات
51 ٥١۔ ١ یعنی میں تمہیں کھول کھول کر ڈرا رہا اور تمہاری خیر خواہی کر رہا ہوں کہ صرف ایک اللہ کی طرف رجوع کرو، اسی پر اعتماد اور بھروسہ کر اور صرف اسی ایک کی عبادت کرو، اس کے ساتھ دوسرے معبودوں کو شریک مت کرو، ایسا کرو گے تو یاد رکھنا جنت کی نعمتوں سے ہمیشہ کے لیے محروم کردیئے جاؤ گے۔ الذاريات
52 الذاريات
53 ٥٣۔ ١ یعنی ہر بعد میں آنے والی قوم نے اس طرح رسولوں کو جھٹلایا اور انہیں جادوگر اور دیوانہ قرار دیا، جیسے پچھلی قومیں بعد میں آنے والی قوم کیلئے وصیت کر کے جاتی رہی ہیں۔ یکے بعد دیگرے ہر قوم نے یہی تکذیب کا راستہ اختیار کیا۔ الذاريات
54 ٥٤۔ ١ یعنی ایک دوسرے کو وصیت تو نہیں کی بلکہ ہر قوم ہی اپنی اپنی جگہ سرکش ہے، اس لئے ان سب کے دل بھی متشابہ ہیں اور ان کے طور اطوار بھی ملتے جھلتے ہیں۔ الذاريات
55 ٥٥۔ ١ اس لیے کہ نصیحت سے فائدہ انہیں کو پہنچتا ہے۔ یا مطلب ہے کہ آپ نصیحت کرتے رہیں اس نصیحت سے وہ لوگ یقینا فائدہ اٹھائیں گے جن کی بابت اللہ کے علم میں ہے کہ وہ ایمان لائیں گے۔ الذاريات
56 ٥ ٦ ۔ ١ اس میں اللہ تعالیٰ کے اس ارادہ شرعیہ تکلیفیہ کا اظہار ہے جو اس کو محبوب و مطلوب ہے کہ تمام انس وجن صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اطاعت بھی اسی ایک کی کریں۔ اگر اس کا تعلق ارادہ تکوینی سے ہوتا، پھر تو کوئی انس وجن اللہ کی عبادت و اطاعت سے انحراف کی طاقت ہی نہ رکھتا۔ یعنی اس میں انسانوں اور جنوں کو اس مقصد زندگی کی یاد دہانی کرائی گئی ہے، جسے اگر انہوں نے فراموش کیے رکھا تو آخرت میں سخت باز پرس ہوگی اور وہ اس امتحان میں ناکام قرار پائیں گے جس میں اللہ نے ان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر ڈالا ہے۔ الذاريات
57 ٥٧۔ ١ یعنی میری عبادت و اطاعت سے میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ مجھے کما کر کھلائیں، جیسا کہ دوسرے آقاؤں کا مقصود ہوتا ہے، بلکہ رزق کے سارے خزانے تو خود میرے ہی پاس ہیں میری عبادت و اطاعت سے تو خود ان ہی کا فائدہ ہوگا کہ ان کی آخرت سنور جائے گی نہ کہ مجھے کوئی فائدہ ہوگا۔ الذاريات
58 الذاريات
59 ٥٩۔ ١ ذنوب کے معنی بھرے ڈول کے ہیں۔ کنویں سے ڈول میں پانی نکال کر تقسیم کیا جاتا ہے اس اعتبار سے یہاں ڈول کو حصے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ مطلب ہے کہ ظالموں کو عذاب سے حصہ پہنچے گا، جس طرح اس سے پہلے کفر و شرک کا ارتکاب کرنے والوں کو ان کے عذاب کا حصہ ملا تھا۔ ٥٩۔ ٢ لیکن یہ حصہ عذاب انہیں کب پہنچے گا، یہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے، اس لئے طلب عذاب میں جلدی نہ کریں۔ الذاريات
60 الذاريات
0 الطور
1 ١۔ ١ طور وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ ہم کلام ہوئے۔ اسے طور سینا بھی کہا جاتا ہے۔ اللہ نے اس کے اس شرف کی بنا پر اس کی قسم کھائی۔ الطور
2 ٢۔ ١ مَسْطُوْرِ کے معنی ہیں مکتوب، لکھی ہوئی چیز۔ اس کا مصداق مختلف بیان کئے گئے ہیں۔ قرآن مجید، لوح محفوظ، تمام کتب منزلہ یا انسانی اعمال نامے جو فرشتے لکھتے ہیں۔ الطور
3 ٣۔ ١ رق یہ متعلق ہے مَسْطُورِ کے۔ رَقِ وہ باریک چمڑا جس پر لکھا جاتا تھا۔ منشور بمعنی مبسوط پھیلا یا کھلا ہوا۔ الطور
4 ٤۔ ١ یہ بیت معمور، ساتویں آسمان پر وہ عبادت خانہ ہے جس میں فرشتے عبادت کرتے ہیں، یہ عبادت خانہ فرشتوں سے اس طرح بھرا ہوتا ہے کہ روزانہ اس میں ستر ہزار فرشتے عبادت کے لئے آتے ہیں جن کی پھر دوبارہ قیامت تک باری نہیں آتی۔ جیسا کہ احادیث معراج میں بیان کیا گیا۔ بعض بیت معمور سے خانہ کعبہ مراد لیتے ہیں۔ جو عبادت کے لیے آنے والے انسانوں سے ہر وقت بھرا رہتا ہے معمور کے معنی ہی آباد اور بھرے ہوئے کے ہیں۔ الطور
5 ٥۔ ١ اس سے مراد آسمان ہے جو زمین کے لئے بمنزلہ چھت کے ہے۔ قرآن نے دوسرے مقام پر اسے ' محفوظ چھت ' کہا ہے، بعض نے اس سے عرش مراد لیا ہے جو تمام مخلوقات کے لئے چھت ہے۔ (وَجَعَلْنَا السَّمَاۗءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا) 21۔ الانبیاء :32)۔ بعض نے اس سے عرش مراد لیا ہے جو تمام مخلوقات کے لیے چھت ہے۔ الطور
6 ٦۔ ١ مسجور کے معنی ہیں بھڑکے ہوئے۔ بعض کہتے ہیں، اس سے وہ پانی مراد ہے جو زیر عرش ہے جس سے قیامت والے دن بارش نازل ہوگی، اس سے مردہ جسم زندہ ہوجائیں گے۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد سمندر ہیں ان میں قیامت والے دن آگ بھڑک اٹھے گی۔ جیسے فرمایا واذا البحار سجرت اور جب سمندر بھڑکا دیئے جائیں گے امام شوکانی نے اسی مفہوم کو اولی قرار دیا ہے اور بعض نے مسجور کے معنی مملوء بھرے ہوئے کے لیے ہیں یعنی فی الحال سمندروں میں آگ تو نہیں ہے البتہ وہ پانی سے بھرے ہوئے ہیں امام طبری نے اس قول کو اختیار کیا ہے اس کے اور بھی کئی معنی بیان کیے گئے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر) الطور
7 الطور
8 ٨۔ ١ یہ مذکورہ قسموں کا جواب ہے یعنی یہ تمام چیزیں جو اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کی مظہر ہیں اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ کا وہ عذاب بھی یقینا واقع ہو کر رہے گا جس کا اس نے وعدہ کیا ہے اسے کوئے ٹالنے پر قادر نہیں ہوگا۔ الطور
9 ٩۔ ١ مور کے معنی ہیں حرکت و اضطراب، قیامت والے دن آسمان کے نظم میں جو اختلال اور ستارے و سیاروں کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے جو اضطراب واقع ہوگا، اس کو ان الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اور یہ مذکورہ عذاب کے لئے ظرف ہے۔ یعنی عذاب اس روز واقع ہوگا جب آسمان تھر تھرائے گا اور پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ کر روئی کے گالوں اور ریت کے ذروں کی طرح اڑ جائیں گے۔ الطور
10 الطور
11 الطور
12 ١٢۔ ١ یعنی اپنے کفر و باطل میں مصروف اور حق کی تکذیب استہزاء میں لگے ہوئے ہیں۔ الطور
13 ١٣۔ ١ الدَّعُّ کے معنی ہیں نہایت سختی کے ساتھ دھکیلنا۔ الطور
14 ١٤۔ ١ یہ جہنم پر مقرر فرشتے انہیں کہیں گے۔ الطور
15 ١٥۔ ١ جس طرح تم دنیا میں پیغمبروں کو جادوگر کہا کرتے تھے، بتلاؤ! کیا یہ بھی کوئی جادو کا کرتب ہے؟ ١٥۔ ٢ یا جس طرح تم دنیا میں حق کے دیکھنے سے اندھے تھے یہ عذاب بھی تمہیں نظر نہیں آرہا ہے؟ یہ تقریع وتوبیخ کے لیے انہیں کہا جائے گا ورنہ ہر چیز ان کے مشاہدے میں آچکی ہوگی۔ الطور
16 الطور
17 ١٧۔ ١ اہل کفر و اہل شقاوت کے بعد اہل ایمان و اہل سعادت کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ الطور
18 ١٨۔ ١ یعنی جنت کے گھر، لباس، کھانے، سواریاں، حسین جمیل بیویاں (حورعین) اور دیگر نعمتیں، ان سب پر وہ خوش ہونگے، کیونکہ یہ نعمتیں دنیا کی نعمتوں سے بدرجہا بڑھ کر ہوں گی۔ اور ما لا عین رأت ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر کا مصداق۔ الطور
19 ١٩۔ ١ دوسرے مقام پر فرمایا (کُلُوْا وَاشْرَبُوْا ہَنِیْۗئًۢا بِمَآ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَۃِ) 69۔ الحاقہ :24) اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رحمت حاصل کرنے کے لئے ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ بہت ضروری ہیں۔ الطور
20 ٢٠۔ ١ مَصْفُوفَۃِ، ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے، گویا ایک صف میں ہیں۔ بعض نے مفہوم بیان کیا ہے، کہ چہرے ایک دوسرے کے سامنے ہونگے۔ جیسے میدان جنگ میں فوجیں ایک دوسرے کے سامنے ہوتی ہیں اس مفہوم کو قرآن میں دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے "علی سرر متقابلین" ایک دوسرے کے سامنے تختوں پر فروکش ہوں گے۔ الطور
21 ٢١۔ ١ یعنی جن کے باپ اپنے اخلاص و تقوٰی اور عمل و کردار کی بنیاد پر جنت کے اعلٰی درجوں پر فائز ہوں گے، اللہ تعالیٰ ان کی ایماندار اولاد کے بھی درجے بلند کرکے، ان کو ان کے باپوں کے ساتھ ملا دے گا یہ نہیں کرے گا کہ ان کے باپوں کے درجے کم کرکے ان کی اولاد والے کمتر درجوں میں انہیں لے آئے یعنی اہل ایمان پر دو گونہ احسان فرمائے گا۔ ایک تو باپ بیٹوں کو آپس میں ملا دے گا تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں، بشرطیکہ دونوں ایماندار ہوں دوسرا یہ کہ کم درجے والوں کو اٹھا کر اونچے درجوں پر فائز فرما دے گا۔ ورنہ دونوں کے ملاپ کا یہ طریقہ بھی ہوسکتا ہے کہ اے کلاس والوں کو بی کلاس دے دے، یہ بات چونکہ اس کے فضل واحسان سے فروتر ہوگی اس لیے وہ ایسا نہیں کرے گا بلکہ بی کلاس والوں کا اے کلاس عطا فرمائے گا۔ یہ تو اللہ کا وہ احسان ہے جو اولاد پر آبا کے عملوں کی برکت سے ہوگا اور حدیث میں آتا ہے کہ اولاد کی دعا واستغفار سے آبا کے درجات میں بھی اضافہ ہوتا ہے ایک شخص کے جب جنت میں درجے بلند ہوتے ہیں تو وہ اللہ سے اس کا سبب پوچھتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیری اولاد کی تیرے لیے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے (مسند احمد) اس کی تأیید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے البتہ تین چیزوں کا ثواب موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ دوسرا وہ علم جس سے لوگ فیض یاب ہوتے رہیں اور تیسری نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔ (صحیح مسلم) ٢١۔ ٢ رھین بمعنی مرھون (گروی شدہ چیز) ہر شخص اپنے عمل کا گروی ہوگا۔ یہ عام ہے۔ مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور مطلب ہے کہ جو جیسا اچھا یا برا عمل کرے گا۔ اس کے مطابق اچھی یا بری جزاء پائے گا۔ یا اس سے مراد صرف کافر ہیں کہ وہ اپنے اعمال میں گرفتار ہوں گے، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا "کُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا کَسَبَتْ رَہِیْنَۃٌ" 74۔ المدثر :38) ہر شخص اپنے اعمال میں گرفتار ہوگا۔ الطور
22 ٢٢۔ ١ زِدْنَاہُمْ، یعنی خوب دیں گے الطور
23 ٢٣۔ ١ یتنازعون یتعاطون ویتناولون ایک دوسرے سے لیں گے۔ یا پھر وہ معنی ہیں جو فاضل مترجم نے کیے ہیں، کس اس پیالے اور جام کو کہتے ہیں جو شراب یا کسی اور مشروب سے بھرا ہوا ہو خالی برتن کو کس نہیں کہتے۔ ٢٣۔ ٢ اس شراب میں دنیا کی شراب کی تاثیر نہیں ہوگی اسے پی کر نہ کوئی بہکے گا اور نہ اتنا مدہوش ہوگا۔ الطور
24 ٢٤۔ ١ یعنی جنتیوں کی خدمت کے لئے انہیں نو عمر خادم بھی دیئے جائیں گے جو ان کی خدمت کے لئے پھر رہے ہونگے اور حسن و جمال اور صفائی و رعنائی میں وہ ایسے ہونگے جیسے موتی، جسے ڈھک کر رکھا گیا ہو، تاکہ ہاتھ لگنے سے اس کی چمک دمک ماند نہ پڑ ے۔ الطور
25 ٢٥۔ ١ ایک دوسرے سے دنیا کے حالات پوچھیں گے کہ دنیا میں وہ کن حالات میں زندگی گزارتے اور ایمان و عمل کے تقاضے کس طرح پورے کرتے رہے۔ الطور
26 ٢٦۔ ١ یعنی اللہ کے عذاب سے۔ اس لئے اس عذاب سے بچنے کا اہتمام بھی کرتے رہے، اس لئے کہ انسان کو جس چیز کا ڈر ہوتا ہے، اس سے بچنے کے لئے وہ تگ و دو کرتا ہے۔ الطور
27 ٢٧۔ ١ سَمُوم لو، جھلس ڈالنے والی گرم ہوا کو کہتے ہیں، جہنم کے ناموں میں سے ایک نام بھی ہے۔ الطور
28 ٢٨۔ ١ یعنی صرف اسی ایک کی عبادت کرتے تھے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے، یا یہ مطلب ہے کہ اس سے عذاب جہنم سے بچنے کے لیے دعا کرتے تھے۔ الطور
29 ٢٩۔ ١ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ وعظ و تبلیغ اور نصیحت کا کام کرتے رہیں اور یہ آپ کی بابت جو کچھ کہتے رہتے ہیں، ان کی طرف کان نہ دھریں، اس لئے کہ آپ اللہ کے فضل سے کاہن ہیں نہ دیوانہ (جیسا کہ یہ کہتے ہیں) بلکہ آپ پر باقاعدہ ہماری طرف سے وحی آتی ہے جو کہ کاہن پر نہیں آتی آپ جو کلام لوگوں کو سناتے ہیں وہ دانش و بصیرت کا آئینہ دار ہوتا ہے ایک دیوانے سے اس طرح گفتگو کیوں کر ممکن ہے۔ الطور
30 ٣٠۔ ١ رَیْب کے معنی ہیں حوادث، موت کے ناموں سے ایک نام۔ مطلب ہے قریش مکہ اس انتظار میں ہیں کہ زمانے کے حوادث سے شاید اس (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو موت آجائے اور ہمیں چین نصیب ہوجائے، جو اس کی دعوت توحید نے ہم سے چھین لیا ہے۔ الطور
31 ٣١۔ ١ یعنی دیکھو! موت پہلے کسے آتی ہے؟ اور ہلاکت کس کا مقدر ہے۔ الطور
32 ٣٢۔ ١ یعنی یہ تیرے بارے میں جو اناپ شناپ جھوٹ اور غلط سلط باتیں کرتے رہتے ہیں، کیا ان کی عقلیں ان کو یہی سجھاتی ہیں۔ ٣٢۔ ٢ نہیں بلکہ یہ سرکش اور گمراہ لوگ ہیں، اور یہی سرکشی اور گمراہی انہیں ان باتوں پر بڑھکاتی ہے۔ الطور
33 ٣٣۔ ١ یعنی قرآن گھڑنے کے الزام پر ان کو آمادہ کرنے والا بھی ان کا کفر ہی ہے۔ الطور
34 ٣٤۔ ١ یعنی اگر یہ اپنے دعوے میں سچے ہیں کہ یہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنا گھڑا ہوا ہے تو پھر یہ بھی اس جیسی کتاب بنا کر پیش کردیں جو نظم، اعجاز، حسن بیان، حقائق کے مسائل میں اس کا مقابلہ کرسکیں۔ الطور
35 ٣٥۔ ١ یعنی اگر واقعی ایسا ہے تو پھر کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ انہیں کسی بات کا حکم دے یا کسی بات سے منع کرے۔ لیکن جب ایسا نہیں ہے بلکہ انہیں ایک پیدا کرنے والے نے پیدا کیا ہے تو ظاہر ہے اس کا انہیں پیدا کرنے کا ایک خاص مقصد ہے، وہ انہیں پیدا کر کے یوں کس طرح چھوڑ دے گا۔ ٣٥۔ ٢ یعنی یہ خود بھی اپنے خالق نہیں ہیں، بلکہ یہ اللہ کے خالق ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔ الطور
36 ٣٦۔ ١ بلکہ اللہ کے وعدوں اور وعیدوں کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں۔ الطور
37 ٣٧۔ ١ کہ یہ جس کو چاہیں روزی دیں جس کو چاہیں نہ دیں یا جس کو چاہیں نبوت سے نوازیں۔ ٣٧۔ ٢ مصیطر یا مسیطر سَطْرً سے ہے، لکھنے والا، جو محافظ و نگران ہو، وہ چونکہ ساری تفیصلات لکھتا ہے، اس لئے یہ محافظ اور نگران کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ یعنی کیا اللہ کے خزانوں یا اس کی رحمتوں پر ان کا تسلط ہے کہ جس کو چاہیں دیں یا نہ دیں۔ الطور
38 ٣٨۔ ١ یعنی کیا ان کا دعویٰ ہے کہ سیڑھی کے ذریعے سے یہ بھی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح آسمانوں پر جاکر ملائکہ کی باتیں یا ان کی طرف جو وحی کی جاتی ہے، وہ سن آئے ہیں۔ الطور
39 الطور
40 ٤٠۔ ١ یعنی اس کی ادائیگی ان کے لئے مشکل ہو۔ الطور
41 ٤١۔ ١ کہ ضرور ان سے پہلے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مر جائیں گے اور ان کو موت اس کے بعد آئیگی الطور
42 ٤٢۔ ١ یعنی ہمارے پیغمبر کے ساتھ، جس سے اس کی ہلاکت واقع ہوجائے۔ ٤٢۔ ١ یعنی کید ومکر ان پر ہی الٹ پڑے گا اور سارا نقصان انہیں کو ہوگا جیسے فرمایا ولا یحیق المکر السیء الا باھلہ چنانچہ بدر میں یہ کافر مارے گئے اور بھی بہت سی جگہوں پر ذلت و رسوائی سے دوچار ہوئے۔ الطور
43 الطور
44 ٤٤۔ ١ مطلب ہے کہ اپنے کفر و عناد سے پھر بھی باز نہ آئیں گے، بلکہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہیں گے کہ یہ عذاب نہیں، بلکہ ایک پر ایک بادل چڑھا آرہا ہے، جیسا کہ بعض موقعوں پر ایسا ہوتا ہے۔ الطور
45 الطور
46 الطور
47 (١) یعنی دنیا میں، جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (وَلَنُذِیْـقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ) 32۔ السجدہ :21) ٤٧۔ ٢ اس بات سے کہ دنیا کے یہ عذاب اور مصائب، اس لئے ہیں تاکہ انسان اللہ کی طرف رجوع کریں یہ نکتہ چونکہ نہیں سمجھتے اس لئے گناہوں سے تائب نہیں ہوتے بلکہ بعض دفعہ پہلے سے بھی زیادہ گناہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ جس طرح ایک حدیث میں فرمایا کہ ' منافق جب بیمار ہو کر صحت مند ہوجاتا ہے تو اسکی مثال اونٹ کی سی ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ اسے کیوں رسیوں سے باندھا گیا۔ اور کیوں کھلا چھوڑ دیا گیا ؟ (ابوداؤد کتاب الجنائز نمبر ٣٠٨٩) الطور
48 ٤٨۔ ١ اس کھڑے ہونے سے کونسا کھڑا ہونا مراد ہے؟ بعض کہتے ہیں جب نماز کے لئے کھڑے ہوں جیسے آغاز نماز میں سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ پڑھی جاتی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ جب کسی مجلس میں کھڑے ہوں جیسے حدیث میں آتا ہے جو شخص کسی مجلس سے اٹھتے وقت یہ دعا پڑھ لے تو یہ اسکی مجلس کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ سبحانک اللہم وبحمدک اشھد ان لا الہ انت أستغفرک واتوب الیک۔ الطور
49 ٤٩۔ ١ اس سے مراد قیام اللیل۔ یعنی نماز تہجد، جو عمر بھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول رہا۔ الطور
0 یہ پہلی سورت ہے جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار کے مجمع عام میں تلاوت کیا، تلاوت کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے جتنے لوگ تھے، سب نے سجدہ کیا، ماسوائے امیہ بن خلف کے، اس نے اپنی مٹھی میں مٹی لے کر اس پر سجدہ کیا۔ چنانچہ یہ کفر کی حالت میں ہی مارا گیا (صحیح بخاری، تفسیر سورۃ نجم) بعض طریق میں اس شخص کا نام عتبہ بن ربیعہ بتلایا گیا ہے (تفسیر ابن کثیر) واللہ اعلم۔ حضرت زید بن ثابت (رض) کہتے ہیں کہ میں نے اس سورت کی تلاوت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں سجدہ نہیں کیا (صحیح بخاری، باب مذکور) اس کا مطلب یہ ہوا کہ سجدہ کرنا مستحب ہے، فرض نہیں۔ اگر کبھی چھوڑ بھی دیا جائے تو جائز ہے۔ النجم
1 ١۔ ١ بعض مفسرین نے ستارے سے ثریا ستارہ اور بعض نے زہرہ ستارہ مراد لیا ہے، یعنی جب رات کے اختتام پر فجر کے وقت وہ گرتا ہے، یا شیاطین کو مارنے کے لئے گرتا ہے یا بقول بعض قیامت والے دن گریں گے۔ النجم
2 ٢۔ ١ یہ جواب قسم ہے۔ صَاحِبِکُمْ (تمہارا ساتھی) کہہ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کو واضح تر کیا گیا ہے کہ نبوت سے پہلے چالیس سال اس نے تمہارے ساتھ اور تمہارے درمیان گزارے ہیں، اس کے شب و روز کے تمام معمولات تمہارے سامنے ہیں، اس کا اخلاق و کردار تمہارا جانا پہچانا ہے۔ راست بازی اور امانت داری کے سوا تم نے اس کے کردار میں کبھی کچھ اور بھی دیکھا ؟ اب چالیس سال کے بعد جو وہ نبوت کا دعوی کر رہا ہے تو ذرا سوچو، وہ کس طرح جھوٹ ہوسکتا ہے؟ چنانچہ واقعہ یہ کہ وہ نہ گمراہ ہوا ہے نہ بہکا ہے۔ ضلالت، راہ حق سے وہ انحراف ہے جو جہالت اور لاعلمی سے ہو اور غوابت، وہ کجی ہے جو جانتے بوجھتے حق کو چھوڑ کر اختیار کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں قسم کی گمراہیوں سے اپنے پیغمبر کی تنزیہ بیان فرمائی۔ النجم
3 النجم
4 النجم
5 النجم
6 النجم
7 النجم
8 النجم
9 النجم
10 النجم
11 ١١۔ ١ یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرائیل (علیہ السلام) کو اصل شکل میں دیکھا کہ ان کے چھ سو پر ہیں۔ ایک پر مشرق و مغرب کے درمیان فاصلے جتنا تھا، اس کو آپ کے دل نے جھٹلایا نہیں، بلکہ اللہ کی اس عظیم قدرت کو تسلیم کیا۔ النجم
12 النجم
13 النجم
14 ١٤۔ ١ یہ لیلۃ المعراج کو جب اصل شکل میں جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا، اس کا بیان ہے۔ یہ سدرۃ المنتہیٰ، ایک بیری کا درخت ہے جو چھٹے یا ساتویں آسمان پر ہے اور یہ آخری حد ہے، اس کے اوپر کوئی فرشتہ نہیں جاسکتا۔ فرشتے اللہ کے احکام بھی یہیں سے وصول کرتے ہیں النجم
15 ١٥۔ ١ اسے جنت الماویٰ، اس لئے کہتے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کا ماویٰ و مسکن یہی تھا، بعض کہتے ہیں کہ روحیں یہاں آکر جمع ہوتی ہیں (فتح القدیر) النجم
16 ١٦۔ ١ سدرۃ المنتہیٰ کی اس کیفیت کا بیان ہے جب شب معراج میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا مشاہدہ کیا، سونے کے پروانے اس کے گرد منڈلا رہے تھے، فرشتوں کا عکس اس پر پڑ رہا تھا، اور رب کی تجلیات کا مظہر بھی وہی تھا (ابن کثیر) اس مقام پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تین چیزوں سے نوازا گیا، پانچ وقت کی نمازیں، سورۃ بقرہ کی آخری آیات اور اس مسلمان کی مغفرت کا وعدہ جو شرک کی آلودگیوں سے پاک ہوگا۔ النجم
17 ١٧۔ ١ یعنی نبی کی نگاہیں دائیں بائیں ہوئیں اور نہ حد سے بلند اور متجاوز ہوئیں جو آپ کے لئے مقرر کردی گئی تھی۔ (ایسر التفاسیر) النجم
18 ١٨۔ ١ جن میں جبرائیل (علیہ السلام) اور سدرۃ المنتہیٰ کا دیکھنا اور دیگر مظاہر قدرت کا مشاہدہ ہے جس کی کچھ تفصیل احادیث معراج میں بیان کی گئی ہے۔ النجم
19 النجم
20 ٢٠۔ ١ یہ مشرکین کی توبیخ کے لئے کہا جا رہا ہے کہ اللہ کی یہ تو شان ہے جو مذکور ہوئی کہ جبرائیل (علیہ السلام) جیسے عظیم فرشتوں کا وہ خالق ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے اس کے رسول ہیں، جنہیں اس نے آسمان پر بلا کر بڑی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ بھی کرایا اور وحی بھی ان پر نازل فرماتا ہے۔ کیا تم جن معبودوں کی عبادت کرتے ہو، ان کے اندر بھی یہ یا اس قسم کی خوبیاں ہیں؟ اس ضمن میں عرب کے تین مشہور بتوں کے نام بطور مثال لیے۔ لات، بعض کے نزدیک یہ لفظ اللہ سے ماخوذ ہے، بعض کے نزدیک لات یلیت سے ہے، جس کے معنی موڑنے کے ہیں، پجاری اپنی گردنیں اس کی طرف موڑتے اور اس کا طواف کرتے تھے۔ اس لیے یہ نام پڑگیا۔ بعض کہتے ہیں، کہ لات میں تا مشدد ہے لت یلت سے اسم فاعل (ستو گھولنے والا) یہ ایک نیک آدمی تھا، حاجیوں کو ستو گھول کر پلایا کرتا تھا، جب یہ مر گیا تو لوگوں نے اس کی قبر کو عبادت گاہ بنالیا، پھر اس کے مجسمے اور بت بن گئے۔ یہ طائف میں بنو ثقیف کا سب سے بڑا بت تھا۔ عزی کہتے ہیں یہ اللہ کے صفاتی نام عزیز سے ماخوذ ہے، اور یہ أعز کی تانیث ہے بمعنی عزیزت بعض کہتے ہیں کہ یہ غطفان میں ایک درخت تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی، بعض کہتے ہیں کہ شیطاننی (بھوتنی) تھی جو بعض درختوں میں ظاہر ہوتی تھی۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سنگ ابیض تھا جس کو پوجتے تھے۔ یہ قریش اور بنو کنانہ کا خاص معبود تھا۔ منوت، منی یمنی سے ہے جس کے معنی صب (بہانے) کے ہیں۔ اس کا تقرب حاصل کرنے کے لئے لوگ کثرت سے اس کے پاس جانور ذبح کرتے اور انکا خون بہاتے تھے۔ یہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک بت تھا (فتح القدیر) یہ قدید کے بالمقابل مشلل جگہ میں تھا، بنوخزاعہ کا یہ خاص بت تھا۔ زمانہ جاہلیت میں اوس اور خزرج یہیں سے احرام باندھتے تھے اور اس بت کا طواف بھی کرتے تھے۔ (ایسر التفاسیر وابن کثیر) ان کے علاوہ مختلف اطراف میں اور بھی بہت سے بت اور بت خانے پھیلے ہوئے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے بعد اور دیگر مواقع پر ان بتوں اور دیگر تمام بتوں کا خاتمہ فرما دیا ان پر جو قبے اور عمارتیں بنی ہوئی تھیں، وہ مسمار کروا دیں، ان درختوں کو کٹوا دیا، جن کی تعظیم کی جاتی تھی اور وہ تمام آثار و مظاہر مٹا ڈالے گئے جو بت پرستی کی یادگار تھے، اس کام کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد، حضرت علی، حضرت عمرو بن عاص اور حضرت جریر بن عبد اللہ البجلی وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین کو، جہاں جہاں یہ بت تھے، بھیجا اور انہوں نے جاکر ان سب کو ڈھا کر سرزمین عرب سے شرک کا نام مٹا دیا۔ (ابن کثیر) النجم
21 ٢١۔ ١ مشرکین مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے، یہ اس کی تردید ہے، جیسا کہ متعدد جگہ یہ مضمون گزر چکا ہے۔ النجم
22 ٢٢۔ ١ ضِیْزیٰ، حق و صواب سے ہٹی ہوئی۔ النجم
23 النجم
24 ٢٤۔ ١ یعنی یہ جو چاہتے ہیں کہ ان کے یہ معبود انہیں فائدہ پہنچائیں اور ان کی سفارش کریں یہ ممکن ہی نہیں۔ النجم
25 ٢٥۔ ١ یعنی وہی ہوگا، جو وہ چاہے گا، کیونکہ تمام اختیارات اسی کے پاس ہیں۔ النجم
26 ٢٦۔ ١ یعنی فرشتے، جو اللہ کے مقرب ترین مخلوق ہے ان کو بھی شفاعت کا حق صرف انہی لوگوں کے لئے ملے گا جن کے لئے اللہ پسند کرے گا، جب یہ بات ہے تو پھر یہ پتھر کی مورتیاں کس طرح کسی کی سفارش کرسکیں گی؟ جن سے تم آس لگائے بیٹھے ہو، نیز اللہ تعالیٰ مشرکوں کے حق میں کسی کو سفارش کرنے کا حق بھی کب دے گا، جب کہ شرک اس کے نزدیک ناقابل معافی ہے؟ النجم
27 النجم
28 النجم
29 النجم
30 النجم
31 ٣١۔ ١ یعنی ہدایت اور گمراہی اسی کے ہاتھ میں ہے، وہ جس کو چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے، گمراہی کے گڑھے میں ڈال دیتا ہے، تاکہ نیکوکار اس کی نیکیوں کا صلہ اور بدکار کو اس کی برائیوں کا بدلہ دے۔ النجم
32 ٣٢۔ ١ کبائر، کبیرت کی جمع ہے۔ کبیرہ گناہ کی تعریف میں اختلاف ہے۔ زیادہ اہل علم کے نزدیک ہر وہ گناہ کبرہ ہے جس پر جہنم کی وعید ہے، یا جس کے مرتکب کی سخت مذمت قرآن و حدیث میں مذکور ہے اور اہل علم یہ بھی کہتے ہیں کہ چھوٹے گناہ پر اصرار و دوام بھی اسی کبیرہ گناہ بنا دیتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے معنی اور ماہیت کی تحقیق میں اختلاف کی طرح، اس کی تعداد میں بھی اختلاف ہے، بعض علماء نے انہیں کتابوں میں جمع بھی کیا ہے۔ جیسے کتاب الکبائر للذہبی اور الزواجر وغیرہ۔ فواحش، فاحشت کی جمع ہے، بے حیائی کے مظاہر چونکہ بہت عام ہوگئے ہیں، اس لیے بے حیائی کو، تہذیب، سمجھ لیا گیا، حتی کہ اب مسلمانوں نے بہی اس، تہذیب بے حیائی، کو اپنا لیا ہے۔ چنانچہ گھروں میں ٹی وی، وی سی آر وغیرہ عام ہیں، عورتوں نے نہ صرف پردے کو خیرباد کہہ دیا، بلکہ بن سنور کر اور حسن وجمال کا مجسم اشتہار بن کر باہر نکلنے کو اپنا شعار اور وطیرہ بنالیا ہے۔ مخلوط تعلیم، مخلوط ادارے، مخلوط مجلسیں اور دیگر بہت سے موقعوں پر مرد و زن کا بے باکانہ اختلاط اور بے محابا گفتگو روز افزوں ہے، دراں حالیکہ یہ سب، فواحش، میں داخل ہیں، جن کی بابت یہاں بتلایا جارہا ہے کہ جن لوگوں کی مغفرت ہونی ہے، وہ کبائر فواحش سے اجتناب کرنے والے ہوں گے نہ کہ ان میں مبتلا۔ (٢) اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بڑے گناہ کے آغاز کا ارتکاب، لیکن بڑے گناہ سے پر ہیز کرنا یا کسی گناہ کا ایک دو مرتبہ کرنا پھر ہمیشہ کے لئے اسے چھوڑ دینا، یا کسی گناہ کا محض دل میں خیال کرنا لیکن عملاً اس کے قریب نہ جانا، یہ سارے صغیرہ گناہ ہوں گے، جو اللہ تعالیٰ کبائر سے اجتناب کی برکت سے معاف فرمادے گا۔ (٣) جنین کی جمع ہے جو پیٹ کے بچے کو کہا جاتا ہے، اس لیے کہ یہ لوگوں کی نظروں سے مستور ہوتا ہے۔ (٣) یعنی اس سے جب تمہاری کوئی کیفیت اور حرکت مخفی نہیں، حتی کہ جب تم ماں کے پیٹ میں تھے، جہاں تمہیں کوئی دیکھنے پر قادر نہیں تھا، وہاں بھی تمہارے تمام احوال سے واقف تھا، تو بھر اپنی پاکیزگی بیان کرنے کی اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی کیا ضرورت ہے؟ مطلب یہ ہے کہ ایسا نہ کرو۔ تاکہ ریاکاری سے تم بچو۔ النجم
33 النجم
34 ٣٤۔ ١ یعنی تھوڑا سا دیکر ہاتھ روک لیا۔ یا تھوڑی سی اطاعت کی اور پیچھ ہٹ گیا، یعنی کوئی کام شروع کرے لیکن اسے پایہ تکمیل تک نہ پہنچائے۔ النجم
35 ٣٥۔ ١ یعنی کیا وہ دیکھ رہا ہے کہ اس نے فی سبیل اللہ خرچ کیا تو اس کا مال ختم ہوجائے گا ؟ نہیں، غیب کا یہ علم اس کے پاس نہیں ہے بلکہ وہ خرچ کرنے سے گریز محض بخل، دنیا کی محبت اور آخرت پر عدم یقین کی وجہ سے کر رہا ہے اور اطاعت الٰہی سے انحراف کی وجوہات بھی یہی ہیں۔ النجم
36 النجم
37 النجم
38 النجم
39 ٣٩۔ ١ یعنی جس طرح کوئی کسی دوسرے کے گناہ کا ذمے دار نہیں ہوگا، اسی طرح اسے آخرت میں اجر بھی انہی چیزوں کا ملے گا، جن میں اس کی اپنی محنت ہوگی۔ النجم
40 ٤٠۔ ١ یعنی دنیا میں اس نے اچھا یا برا جو بھی کیا، چھپ کر کیا یا اعلانیہ کیا، قیامت والے دن سامنے آجائے گا اور اس پر اسے پوری جزا دی جائے گی۔ النجم
41 النجم
42 النجم
43 النجم
44 النجم
45 النجم
46 النجم
47 النجم
48 ٤٨۔ ١ یعنی کسی کو اتنی تونگری دیتا ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہیں ہوتا اور اسکی تمام حاجتیں پوری ہوجاتی ہیں اور کسی کو اتنا سرمایا دے دیتا ہے کہ اس کے پاس ضرورت سے زائد بچ رہتا ہے اور وہ اس کو جمع کرکے رکھتا ہے۔ النجم
49 ٤٩۔ ١ رب تو وہ ہر چیز کا ہے، یہاں ستارے کا نام اس لئے لیا ہے کہ بعض عرب قبائل اس کی پوجا کرتے ہیں۔ النجم
50 ٥٠۔ ١ قوم عاد اول اس لئے کہا کہ یہ ثمود سے پہلے ہوئی، یا اس لئے کہ قوم نوح کے بعد سب سے پہلے یہ قوم ہلاک کی گئی۔ بعض کہتے ہیں، عاد نامی دو قومیں گزری ہیں، یہ پہلی ہے جسے باد تند سے ہلاک کیا گیا جب کہ دوسری زمانے کی گردشوں کے ساتھ مختلف ناموں سے چلتی اور بکھرتی ہوئی موجود رہی۔ النجم
51 النجم
52 النجم
53 ٥٣۔ ١ اس سے مراد حضرت لوط (علیہ السلام) کی بستیاں ہیں، جن کو الٹ دیا گیا۔ النجم
54 ٥٤۔ ١ یعنی اس کے بعد ان پر پتھروں کی بارش ہوئی۔ النجم
55 ٥٥۔ ١ یا شک کرے گا اور ان کو جھٹلائے گا، جب کہ وہ اتنی عام اور واضح ہیں کہ ان کا انکار ممکن ہے اور نہ چھپانا ہی۔ النجم
56 النجم
57 النجم
58 النجم
59 ٥٩۔ ١ بات سے مراد قرآن کریم ہے، یعنی اس سے تم تعجب کرتے اور اس کا مذاق کرتے ہو، حالانکہ اس میں نہ تعجب والی کوئی بات ہے نہ مذاق اور جھٹلانے والی۔ النجم
60 النجم
61 النجم
62 ٦٢۔ ١ یہ مشرکین اور مکذبین کی توبیخ کے لئے حکم دیا۔ یعنی جب ان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ قرآن کو ماننے کی بجائے، اس کا مذاق و استخفاف کرتے ہیں اور ہمارے پیغمبر کے وعظ و نصیحت کا کوئی اثر ان پر نہیں ہو رہا ہے، تو اے مسلمانو! تم اللہ کی بارگاہ میں جھک کر اور اس کی عبادت و اطاعت کا مظاہرہ کرکے قرآن کی تعظیم و توقیر کا اہتمام کرو۔ چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور صحابہ نے سجدہ کیا، حتی کہ اس وقت مجلس میں موجود کفار نے بھی سجدہ کیا۔ جیسا کہ احادیث میں ہے۔ النجم
0 یہ بھی ان سورتوں میں ہے جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز عید میں پڑھا کرتے تھے،. القمر
1 ١۔ ١ ایک تو بہ اعتبار اس زمانے کے جو گزر گیا، کیونکہ جو باقی ہے، وہ تھوڑا ہے۔ دوسرے ہر آنے والی چیز قریب ہی ہے چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بابت فرمایا کہ میرا وجود قیامت سے متصل ہے، یعنی میرے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ١۔ ٢ یہ وہ معجزہ ہے جو اہل مکہ کے مطالبے پر دکھایا گیا، چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے حتی کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو اس کے درمیان دیکھا۔ یعنی اس کا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اس طرف اور ایک ٹکڑا اس طرف ہوگیا۔ جمہور سلف و خلف کا یہی مسلک ہے (فتح القدیر) امام ابن کثیر لکھتے ہیں علماء کے درمیان یہ بات متفق علیہ ہے کہ انشقاق قمر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ہوا اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واضح معجزات میں سے ہے، صحیح سند سے ثابت احادیث متواترہ اس پر دلالت کرتی ہیں۔ القمر
2 ٢۔ ١ یعنی قریش نے، ایمان لانے کی بجائے، اسے جادو قرار دے کر اپنے اعراض کی روش جاری رکھی۔ القمر
3 ٣۔ ١ یہ کفار مکہ کی تکذیب اور اتباع کی تردید کے لئے فرمایا کہ ہر کام کی ایک انتہا ہوتی ہے، وہ کام اچھا ہو یا برا۔ یعنی بالآخر اس کا نتیجہ نکلے گا، اچھے کام کا نتیجہ اچھا اور برے کام کا نتیجہ برا۔ اس نتیجے کا ظہور دنیا میں بھی ہوسکتا ہے اگر اللہ کی مشیت مقتضی ہو، ورنہ آخرت میں تو یقینی ہے۔ القمر
4 ٤۔ ١ یعنی گذشتہ امتوں کی ہلاکت کی، جب انہوں نے جھٹلایا۔ القمر
5 ٥۔ ١ یعنی ایسی بات جو تباہی سے پھیر دینے والی ہے یا قرآن حکمت بالغہ ہے جس میں کوئی نقص یا خلل نہیں ہے۔ یا اللہ تعالیٰ جس کو ہدایت دے اور یا اسے گمراہ کرے، اس میں بڑی حکمت ہے جس کو وہی جانتا ہے۔ القمر
6 ٦۔ ١ یعنی اس دن کو یاد کرو، نہایت ہولناک اور دہشت ناک مراد میدان محشر اور موقف حساب کے آزمائشیں ہیں۔ القمر
7 ٧۔ ١ یعنی قبروں سے نکل کر وہ اس طرح پھیلیں گے اور موقف حساب کی طرف اس طرح نہایت تیزی سے جائیں گے، گویا ٹڈی دل ہے جو آنا فانا میں کشادہ فضا میں پھیل جاتا ہے۔ القمر
8 القمر
9 ٩۔ ١ یعنی قوم نوح نے نوح (علیہ السلام) کی تکذیب ہی نہیں کی، بلکہ انہیں جھڑکا اور ڈرایا دھمکایا بھی گیا تھا۔ القمر
10 القمر
11 ١١۔ ١ کہتے ہیں کہ چالیس دن تک مسلسل خوب زور سے پانی برستا رہا۔ القمر
12 القمر
13 القمر
14 القمر
15 ١٥۔ ١ مُدَّکِرٍ معنی ہیں عبرت پکڑنے اور نصیحت حاصل کرنے والا (فتح القدیر) القمر
16 القمر
17 ١٧۔ ١ یعنی اس کے مطلب اور معانی کو سمجھنا، اس سے عبرت و نصیحت حاصل کرنا اور اسے زبانی یاد کرنا ہم نے آسان کردیا، اسی طرح یہ دنیا کی واحد کتاب ہے، جو لفظ بہ لفظ یاد کرلی جاتی ہے ورنہ چھوٹی سی کتاب کو بھی اس طرح یاد کرلینا اور اسے یاد رکھنا نہایت مشکل ہے القمر
18 القمر
19 ١٩۔ ١ کہتے ہیں یہ بدھ کی شام تھی، جب اس تند، یخ اور شاں شاں کرتی ہوئی ہوا کا آغاز ہوا، پھر مسلسل ٧ راتیں اور ٨ دن چلتی رہی۔ یہ ہوا گھروں اور قلعوں میں بند انسانوں کو بھی وہاں سے اٹھاتی اور اس طرح زور سے انہیں زمین پر پٹختی کہ ان کے سر ان کے دھڑوں سے الگ ہوجاتے۔ یہ دن ان کے لیے عذاب کے اعتبار سے منحوس ثابت ہوا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بدھ کے دن میں یا کسی اور دن میں نحوست ہے، جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔ مستمر کا مطلب، یہ عذاب اس وقت تک جاری رہا جب تک سب ہلاک نہیں ہوگئے۔ القمر
20 القمر
21 القمر
22 القمر
23 القمر
24 ٢٤۔ ١ یعنی ایک بشر کو رسول مان لینا، ان کے نزدیک گمراہی اور دیوانگی تھی۔ القمر
25 ٢٥۔ ١ یعنی اس نے جھوٹ بھی بولا تو بہت بڑا۔ کہ مجھ پر وحی آتی ہے۔ بھلا ہم میں سے صرف اسی پر وحی آنی تھی؟ یا اس کے ذریعے سے ہم پر اپنی بڑائی جتانا اس کا مقصد تھا۔ القمر
26 ٢٦۔ ١ یہ خود، پیغمبر پر الزام تراشی کرنے والے۔ یا حضرت صالح علیہ السلام، جن کو اللہ نے وحی و رسالت سے نوازا۔ غَدًا یعنی کل سے مراد قیامت کا دن یا دنیا میں ان کے لئے عذاب کا مقررہ دن۔ القمر
27 ٢٧۔ ١ کہ یہ ایمان لاتے ہیں یا نہیں وہی اونٹنی ہے جو اللہ نے خود ان کے کہنے پر پتھر کی ایک چٹان ظاہر فرمائی تھی۔ القمر
28 ٢٨۔ ١ یعنی ایک دن اونٹنی کے پانی پینے کے لئے اور ایک دن قوم کے پانی پینے کے لئے۔ ٢٨۔ ٢ مطلب ہے ہر ایک کا حصہ اس کے ساتھ ہی خاص ہے جو اپنی اپنی باری پر حاضر ہو کر وصول کرے دوسرا اس روز نہ آئے شُرَب حصہ آب۔ القمر
29 ٢٩۔ ١ یعنی جس کو انہوں نے اونٹنی کو قتل کرنے کے لئے آمادہ کیا تھا، جس کا نام قدار بن سالف بتلایا جاتا ہے، اس کو پکارا کہ وہ اپنا کام کرے۔ ٢٩۔ ٢ یا تلوار یا اونٹنی کو پکڑا اور اس کی ٹانگیں کاٹ دیں اور پھر اسے ذبح کردیا۔ بعض نے فَتَعَاطَیٰ کے معنی فَجَسَرَ کئے ہیں، پس اس نے جسارت کی۔ القمر
30 القمر
31 ٣١۔ ١ باڑ جو خشک جھاڑیوں اور لکڑیوں سے جانوروں کی حفاظت کے لئے بنائی جاتی ہے، خشک لکڑیاں اور جھاڑیاں مسلسل روندے جانے کی وجہ سے چورا چورا ہوجاتی ہیں وہ بھی اس باڑ کی ماند ہمارے عذاب سے چورا ہوگئے۔ القمر
32 القمر
33 القمر
34 ٣٤۔ ١ یعنی ایسی ہوا بھیجی جو ان کو کنکریاں مارتی تھی، یعنی ان کی بستیوں کو ان پر الٹا کردیا گیا، اس طرح کہ ان کا اوپر والا حصہ نیچے اور نیچے والا حصہ اوپر، اس کے بعد ان پر کھنگر پتھروں کی بارش ہوئی جیسا کہ سورۃ ہود وغیرہ میں تفصیل گزری۔ القمر
35 ٣٥۔ ١ یعنی ان کو عذاب سے بچانا، یہ ہماری رحمت اور احسان تھا جو ان پر ہوا۔ القمر
36 ٣٦۔ ١ یعنی عذاب آنے سے پہلے سخت گرفت سے ڈرایا تھا۔ ٣٦۔ ٢ لیکن انہوں نے اس کی پروا نہ کی بلکہ شک کیا اور ڈرانے والوں سے جھگڑتے رہے۔ القمر
37 ٣٧۔ ١ یا بہلایا یا مانگا لوط (علیہ السلام) سے ان کے مہمانوں کو۔ مطلب یہ ہے کہ جب لوط (علیہ السلام) کی قوم کو معلوم ہوا کہ چند خوبرو نوجوان لوط (علیہ السلام) کے ہاں آئے ہیں۔ (جو دراصل فرشتے تھے اور انکو عذاب دینے کے لیے آئے تھے) تو انہوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ ان مہمانوں کو ہمارے سپرد کردیں تاکہ ہم اپنے بگڑے ہوئے ذوق کی ان سے تسکین کریں۔ (٢) کہتے ہیں کہ یہ فرشتے جبرائیل میکائیل اور اسرافیل علیہم السلام تھے۔ جب انہوں نے بد فعلی کی نیت سے فرشتوں (مہمانو) کو لینے پر زیادہ اصرار کیا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنے پر کا ایک حصہ انہیں مارا، جس سے ان کی آنکھوں کے ڈھیلے ہی باہر نکل آئے، بعض کہتے ہیں، صرف آنکھوں کی بصارت زائل ہوئی، بہرحال عذاب عام سے پہلے یہ عذاب خاص ان لوگوں کو پہنچا جو حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس بدنیتی سے آئے تھے۔ اور آنکھوں سے یا بینائی سے محروم ہو کر گھر پہنچے۔ اور صبح اس عذاب عام میں تباہ ہوگئے جو پوری قوم کے لئے آیا۔ (تفسیر ابن کثیر) القمر
38 ٣٨۔ ١ یعنی صبح ان پر نازل ہونے والا عذاب آگیا، جو انہیں ہلاک کئے بغیر نہ چھوڑے القمر
39 القمر
40 ٤٠۔ ١ قرآن کا اس سورت میں بار بار ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ یہ قرآن اور اس کے فہم و حفظ کو آسان کردینا، اللہ کا احسان عظیم ہے، اس کے شکر سے انسان کو کبھی غافل نہیں ہونا چاہیئے۔ القمر
41 القمر
42 ٤٢۔ ١ وہ نشانیاں، جن کے ذریعے سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور فرعونیوں کو ڈرایا، یہ نشانیاں تھیں جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ القمر
43 ٤٣۔ ١ یہ استفہام انکار یعنی نفی کے لئے ہے، یعنی اے اہل عرب! تمہارے کافر، گذشتہ کافروں سے بہتر نہیں ہیں، جب وہ اپنے کفر کی وجہ سے ہلاک کردیئے گئے، تو تم جب کہ تم ان سے بدتر ہو، عذاب سے سلامتی کی امید کیوں رکھتے ہو القمر
44 ٤٤۔ ١ تعداد کی کثرت اور وسائل قوت کی وجہ سے، ہم دشمن سے انتقام لینے پر قادر ہیں۔ القمر
45 ٤٥۔ ١ جماعت سے مراد کفار مکہ ہیں۔ چنانچہ بدر میں انہیں شکست ہوئی اور یہ پیٹھ دے کر بھاگے۔ القمر
46 ٤٦۔ ١ یعنی دنیا میں جو یہ قتل کئے گئے، قیدی بنائے گئے وغیرہ، یہ ان کی آخری سزا نہیں ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت سزائیں ان کو قیامت والے دن دی جائیں گی جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ القمر
47 القمر
48 ٤٨۔ ١ سَقَرً بھی جہنم کا نام ہے یعنی اس کی حرارت اور شدت عذاب کا مزہ چکھو۔ القمر
49 القمر
50 القمر
51 ٥١۔ ١ یعنی گذشتہ امتوں کے کافروں کو، جو کفر میں تمہارے ہی جیسے تھے۔ القمر
52 ٥٢۔ ١ یا دوسرے معنی میں، لوح محفوظ میں درج ہیں۔ القمر
53 ٥٣۔ ١ یعنی مخلوق کے تمام اعمال، اقوال و افعال لکھے ہوئے ہیں، چھوٹے ہوں یا بڑے، حقیر ہوں یا جلیل۔ القمر
54 ٥٤۔ ١ یعنی مختلف اور قسم قسم کے باغات میں ہونگے، بطور جنس کے ہے جو جنت کی تمام نہروں کو شامل ہے۔ القمر
55 ٥٥۔ ١ مَقْعَدِ صِدْقٍ عزت کی بیٹھک یا مجلس حق، جس میں گناہ کی بات ہوگی نہ لغویات کا ارتکاب۔ مراد جنت ہے۔ القمر
0 الرحمن
1 الرحمن
2 ٢۔ ١ کہتے ہیں کہ اہل مکہ کے جواب میں ہے جو کہتے رہتے یہ قرآن محمد کو کوئی انسان سکھاتا ہے بعض کہتے ہیں ان کے اس قول کے جواب میں ہے کہ رحمٰن کیا ہے؟ قرآن سکھانے کا مطلب ہے، اسے آسان کردیا، یا اللہ نے اپنے پیغمبر کو سکھایا اور پیغمبر نے امت کو سکھلایا۔ اس سورت میں اللہ نے اپنی بہت سی نعمتیں گنوائی ہیں۔ چونکہ تعلیم قرآن ان میں قدر ومنزلت اور اہمیت و افادیت کے لحاظ سے سب سے نمایاں ہے، اس لیے پہلے اسی نعمت کا ذکر فرمایا۔ (فتح القدیر) الرحمن
3 ٣۔ ٢ یعنی یہ بندر وغیرہ جانوروں سے ترقی کرتے کرتے انسان نہیں بن گئے۔ جیسا کہ ڈارون کا فلسفہ ارتقا ہے۔ بلکہ انسان کو اسی شکل و صورت میں اللہ نے پیدا فرمایا ہے جو جانوروں سے الگ ایک مستقل مخلوق ہے۔ انسان کا لفظ بطور جنس کے ہے۔ الرحمن
4 ٤۔ ٣ اس بیان سے مراد ہر شخص کی اپنی مادری بولی ہے جو بغیر سیکھے از خود ہر شخص بول لیتا اور اس میں اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرلیتا ہے، حتیٰ کے وہ چھوٹا بچہ بھی بول لیتا ہے، جس کو کسی بات کا علم اور شعور نہیں ہوتا۔ یہ تعلیم الٰہی کا نتیجہ ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔ الرحمن
5 ٥۔ ١ یعنی اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حساب سے اپنی اپنی منزلوں پر رواں دواں رہتے ہیں، ان سے تجاوز نہیں کرتے۔ الرحمن
6 ٦۔ ١ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَاۗبُّ) 22۔ الحج :18) الرحمن
7 ٧۔ ١ یعنی زمین میں انصاف رکھا، جس کا اس نے لوگوں کو حکم دیا۔ الرحمن
8 ٨۔ ١ یعنی انصاف سے تجاوز نہ کرو۔ الرحمن
9 الرحمن
10 الرحمن
11 الرحمن
12 ١٢۔ ١ حب سے مراد وہ خوراک ہے جو انسان اور جانور کھاتے ہیں۔ خشک ہو کر اس کا پودا بھی بھس بن جاتا ہے جو جانوروں کے کام آتا ہے۔ الرحمن
13 ١٣۔ ١ یہ انسانوں اور جنوں دونوں سے خطاب ہے اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں گنوا کر ان سے پوچھ رہا ہے یہ تکرار اس شخص کی طرح ہے جو کسی پر مسلسل احسان کرے لیکن وہ اس کے احسان کا منکر ہو، جیسے کہے، میں نے تیرا فلاں کام کیا، کیا تو انکار کرتا ہے؟ فلاں چیز تجھے دی، کیا تجھے یاد نہیں؟ تجھ پر فلاں احسان کیا، کیا تجھے ہمارا ذرا خیال نہیں؟ (فتح القدیر) الرحمن
14 ١٤۔ ١ صَلصَالٍ خشک مٹی جس میں آواز ہو۔ فَخَّار آگ میں پکی ہوئی مٹی، جسے ٹھیکری کہتے ہیں۔ انسان سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں، جن کا پہلے مٹی کا پتلا بنایا گیا اور پھر اس میں اللہ نے روح پھونکی۔ پھر حضرت آدم (علیہ السلام) کی بائیں پسلی سے حوا کو پیدا فرمایا، اور پھر ان دونوں سے نسل انسانی چلی۔ الرحمن
15 ١٥۔ ١ اس سے مراد پہلا جن جو ابو الجن ہے، یا جن بطور جنس کے ہے جیسا کہ ترجمہ جنس کے اعتبار سے ہی کیا گیا مارِجٍ آگ کے بلند ہونے والے شعلے کو کہتے ہیں۔ الرحمن
16 ١٦۔ ١ یعنی تمہاری یہ پیدائش بھی اور پھر تم سے مذید نسلوں کی تخلیق و افزائش، یہ اللہ کی نعمتوں میں سے ہے۔ کیا تم اس نعمت کا انکار کرو گے۔ الرحمن
17 ١٧۔ ١ ایک گرمی کا مشرق اور ایک سردی کا مشرق اسی طرح مغرب ہے۔ اس لئے دونوں کو دوگنا ذکر کیا ہے، موسموں کے اعتبار سے مشرق و مغرب کا مختلف ہونا اس میں بھی انس و جن کی بہت سی مصلحتیں ہیں، اس لئے اسے بھی نعمت قرار دیا گیا ہے۔ الرحمن
18 الرحمن
19 الرحمن
20 ٢٠۔ ١ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دو دریاؤں سے مراد بعض کے نزدیک ان کے الگ الگ وجود ہیں، جیسے میٹھے پانی کے دریا ہیں، جن سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں اور انسان ان کا پانی اپنی دیگر ضروریات میں بھی استعمال کرتا ہے۔ دوسری قسم سمندروں کا پانی جو کھارا ہے جس کے کچھ اور فوائد ہیں۔ یہ دونوں آپس میں نہیں ملتے۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ کھارے سمندروں میں ہی میٹھے پانی کی لہریں چلتی ہیں اور یہ دونوں لہریں آپس میں نہیں ملتیں، بلکہ ایک دوسرے سے جدا اور ممتاز ہی رہتی ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھارے سمندروں میں ہی کئی مقامات پر میٹھے پانی کی لہریں بھی جاری کی ہوئی ہیں اور وہ کھارے پانی سے الگ ہی رہتی ہیں۔ دوسری صورت یہ بھی ہے کہ اوپر کھارا پانی ہو اور اس کی تہ میں نیچے چشمہ آب شیریں۔ جیسا کہ واقعتا بعض مقامات پر ایسا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ جن مقامات پر میٹھے پانی کے دریا کا پانی سمندر میں جاکر گرتا ہے، وہاں کئی لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ دونوں پانی میلوں دور تک اس طرح ساتھ ساتھ چلتے ہیں کہ ایک طرف میٹھا دریائی پانی اور دوسری طرف وسیع و عریض سمندر کا کھارا پانی، ان کے درمیان اگرچہ کوئی آڑ نہیں۔ لیکن یہ باہم نہیں ملتے۔ دونوں کے درمیان یہ وہ برزخ (آڑ) ہے جو اللہ نے رکھ دی ہے، دونوں اس سے تجاوز نہیں کرتے۔ الرحمن
21 الرحمن
22 ٢٢۔ ١ مَرْجَان سے چھوٹے موتی یا پھر مونگے مراد ہیں کہتے ہیں آسمان سے بارش ہوتی ہے تو سیپیاں اپنے منہ کھول دیتی ہیں، جو قطرہ ان کے منہ کے اندر پڑجاتا ہے، وہ موتی بن جاتا ہے۔ الرحمن
23 الرحمن
24 ٢٤۔ ١ یعنی بلندی ہوئیں، مراد بادبان ہیں، جو بادبانی کشتیوں میں جھنڈوں کی طرح اونچے اور بلند بنائے جاتے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی مصنوعات کے کئے ہیں، یعنی اللہ کی بنائی ہوئی جو سمندر میں چلتی ہیں۔ الرحمن
25 الرحمن
26 الرحمن
27 الرحمن
28 الرحمن
29 ٢٩۔ ١ یعنی سب اس کے محتاج اور اس کے در کے سوالی ہیں۔ ٢٩۔ ٢ ہر روز کا مطلب، ہر وقت۔ شان کے معنی امر یا معاملہ، یعنی ہر وقت وہ کسی نہ کسی کام میں مصروف ہے، کسی کو بیمار کر رہا ہے، کسی کو شفایاب، کسی کو تونگر کسی کو فقیر، کسی کو گدا سے شاہ اور شاہ سے گدا، کسی کو بلندیوں پر فائز کر رہا ہے، کسی کو پستی میں گرا رہا ہے کسی کو ہست سے نیست اور نیست کو ہست کر رہا ہے وغیرہ۔ الغرض کائنات میں یہ سارے تصرف اسی کے امرو مشیت سے ہو رہے ہیں اور شب و روز کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جو اس کی کارگزاری سے خالی ہو۔ الرحمن
30 الرحمن
31 ٣١۔ ١ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کو فراغت نہیں ہے بلکہ یہ محاورۃً بولا گیا ہے جس کا مقصد وعید و تہید ہے (جن و انس کو) اسلئے کہا گیا کہ ان کو تکلیف شرعیہ کا پابند کیا گیا ہے، اس پابندی یا بوجھ سے دوسری مخلوق مستشنٰی ہے الرحمن
32 الرحمن
33 ٣٣۔ ١ یہ تہدید بھی نعمت ہے کہ اس سے بدکار، بدیوں کے ارتکاب سے باز آجائے اور محسن زیادہ نیکیاں کمائے۔ (٢) یعنی اگر اللہ کی تقدیر اور قضا سے تم بھاگ کر کہیں جاسکتے ہو تو چلے جاؤ لیکن یہ طاقت کس میں ہے؟ اور بھاگ کر آخر کہاں جائے گا کون سی جگہ ایسی ہے، جو اللہ کے اختیار سے باہر ہو، بعض نے کہا کہ یہ میدان محشر میں کہا جائے گا، جبکہ فرشتے ہر طرف سے لوگوں کو گھیر رکھے ہونگے۔ دونوں ہی مفہوم اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ الرحمن
34 الرحمن
35 ٣٥۔ ١ مطلب یہ ہے کہ اگر تم قیامت والے دن کہیں بھاگ کر گئے، تو فرشتے آگ کے شعلے اور دھواں تم پر چھوڑ کر یا پگھلا ہوا تانبہ تمہارے سروں پر ڈال کر تمہیں واپس لے آئیں گے۔ نحاس کے دوسرے معنی پگھلے ہوئے تانبے کے کئے گئے ہیں۔ ٣٥۔ ٢ یعنی اللہ کے عذاب کو ٹالنے کی تم قدرت نہیں رکھو گے۔ الرحمن
36 الرحمن
37 ٣٧۔ ١ قیامت والے دن آسمان پھٹ پڑے گا، فرشتے زمین پر اتر آئیں گے، اس دن یہ نار جہنم کی شدت حرارت سے پگھل کر سرخ چمڑے کی طرح ہوجائے گا۔ دِھَان سرخ چمڑا۔ الرحمن
38 الرحمن
39 ٣٩۔ ١ یعنی جس وقت وہ قبروں سے باہر نکلیں گے۔ ورنہ بعد میں موقف حساب میں ان سے باز پرس کی جائے گی، بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ گناہوں کی بابت نہیں پوچھا جائے گا، کیونکہ انکا تو پورا ریکارڈ فرشتوں کے پاس بھی ہوگا اور اللہ کے علم میں بھی۔ البتہ پوچھا جائے گا کہ تم نے یہ کیوں کیے؟، یا یہ مطلب ہے، ان سے نہیں پوچھا جائے گا بلکہ انسانی اعضا خود بول کر بتلائیں گے۔ الرحمن
40 الرحمن
41 ٤١۔ ١ یعنی جس طرح اہل ایمان کی علامت ہوگی کہ ان کے اعضائے وضو چمکتے ہونگے، اسی طرح گنہگاروں کے چہرے سیاہ، آنکھیں نیلگوں اور وہ دہشت زدہ ہونگے۔ ٤١۔ ٢ فرشتے ان کی پیشانیاں اور ان کے قدموں کے ساتھ ملا کر پکڑیں گے اور جہنم میں ڈال دیں گے، یا کبھی پیشانیوں سے اور کبھی قدموں سے انہیں پکڑیں گے۔ الرحمن
42 الرحمن
43 الرحمن
44 ٤٤۔ ١ یعنی کبھی انہیں دکھتی ہوئی آگ کا عذاب دیا جائے گا اور کبھی کھولتے ہوئے گرم پانی، جو ان کی انتڑیوں کو کاٹ دے گا (ابن کثیر) الرحمن
45 الرحمن
46 ٤٦۔ ١ جیسے حدیث میں آتا ہے ' دو باغ چاندی کے ہیں، جن میں برتن اور جو کچھ ان میں ہے، سب چاندی کے ہونگے۔ دو باغ سونے کے ہیں اور ان کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے سونے کے ہی ہونگے '( صحیح بخاری تفسیر رحمن) بعض آثار میں ہے کہ سونے کے باغ خواص مومنین مقربین اور چاندی کے باغ عام مومنین اصحاب الیمین کے لیے ہوں گے۔ (ابن کثیر) الرحمن
47 الرحمن
48 ٤٨۔ ١ یہ اشارہ ہے اس طرف کہ اس میں سایہ گنجان اور گہرا ہوگا، نیز پھلوں کی کثرت ہوگی، کیونکہ کہتے ہیں ہر شاخ ٹہنی پھلوں سے لدی ہوگی (ابن کثیر) الرحمن
49 الرحمن
50 ٥٠۔ ١ ایک کا نام تَسْنِیْم اور دوسرے کا نام سَلْسَبِیْل ہے۔ الرحمن
51 الرحمن
52 ٢٥۔ ١ یعنی ذائقے اور لذت کے اعتبار سے ہر پھل دو قسم کا ہوگا، مذید فضل خاص کی ایک صورت ہے، بعض نے کہا کہ ایک قسم خشک میوے اور دوسری تازہ میوے کی ہوگی۔ الرحمن
53 الرحمن
54 ٥٤۔ ١ ابری یعنی اوپر کا کپڑا ہمیشہ استر سے بہتر اور خوبصورت ہوتا ہے، یہاں صرف استر کا بیان ہے، جس کا مطلب ہے کہ اوپر (ابری) کا کپڑا اس سے کہیں زیادہ عمدہ ہوگا۔ ٥٤۔ ٢ اتنے قریب ہونگے کہ بیٹھے بیٹھے بلکہ لیٹے لیٹے بھی توڑ سکیں گے۔ الرحمن
55 الرحمن
56 ٥٦۔ ١ جن کی نگاہیں اپنے خاوندوں کے علاوہ کسی پر نہیں پڑیں گی اور ان کے اپنے خاوند ہی سب سے زیادہ حسین اور اچھے معلوم ہونگے۔ ٥٦۔ ٢ یعنی باکرہ اور نئی نویلی ہوں گی۔ اس سے قبل وہ کسی کے نکاح میں نہیں رہی ہونگی۔ یہ آیت اور اس سے ماقبل کی بعض آیات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جو جن مومن ہونگے وہ بھی مومن انسانوں کی طرح جنت میں جائیں گے اور ان کے لیے بھی وہی کچھ ہوگا جو دیگر اہل ایمان کے لیے ہوگا۔ الرحمن
57 الرحمن
58 ٥٨۔ ١ یعنی صفائی میں یاقوت اور سفیدی و سرخی میں موتی یا مونگے کی طرح ہونگی جس طرح صحیح حدیث میں بھی ان کے حسن و جمال کو ان الفاظ میں فرمایا گیا ہے ' ان کے حسن و جمال کی وجہ سے ان کی پنڈلی کا گودا، گوشت اور ہڈی کے باہر نظر آئے گا، ایک دوسری روایت میں فرمایا کہ جنتیوں کی بیویاں اتنی حسین و جمیل ہوں گی کہ اگر ان میں سے ایک عورت اہل ارض کی طرف جھانک لے تو آسمان و زمین کے درمیان کا سارا حصہ چمک اٹھے اور خوشبو سے بھر جائے۔ اور اس کے سر کا دوپٹہ اتنا قیمتی ہوگا کہ وہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد باب الحورالعین) الرحمن
59 الرحمن
60 ٦٠۔ ١ پہلے احسان سے مراد نیکی اور اطاعت الٰہی اور دوسرے احسان سے اس کا صلہ، یعنی جنت اور اس کی نعمتیں ہیں۔ الرحمن
61 الرحمن
62 ٦٢۔ ١ دُوْنِھِمَا سے یہ ثابت بھی کیا گیا ہے کہ یہ دو باغ شان اور فضیلت میں پچھلے دو باغوں سے، جن کا ذکر آیت ٢٦ میں گزرا، کم تر ہونگے۔ الرحمن
63 الرحمن
64 ٦٤۔ ١ کثر سیرابی اور سبزے کی فروانی کی وجہ سے وہ مائل بہ سیاہی ہوں گے الرحمن
65 الرحمن
66 ٦٦۔ ١ یہ صفت تَجْرِیَانِ سے ہلکی ہے اَلْجَرْیءِ اَقْوَیٰ مِنَ النَّفْخِ (ابن کثیر) الرحمن
67 الرحمن
68 ٦٨۔ ١ جب کہ پہلی دو جنتوں (باغوں) کی صفت میں بتلایا گیا ہے کہ ہر پھل دو قسم کا ہوگا۔ ظاہر ہے اس میں شرف و فضل کی جو زیادتی ہے، وہ دوسری بات میں نہیں ہے الرحمن
69 الرحمن
70 ٧٠۔ ١ خَیْرَات سے مراد اخلاق و کردار کی خوبیاں ہیں اور حِسَانکا مطلب ہے حسن و جمال میں یکتا۔ الرحمن
71 الرحمن
72 ٧٢۔ ١ حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' جنت میں موتیوں کے خیمے ہونگے، ان کا عرض ساٹھ میل ہوگا، اس کے ہر کونے میں جنتی کے اہل ہونگے، جس کو دوسرے کونے والے نہیں دیکھ سکیں گے۔ مومن اس میں گھومے گا ' (صحیح بخاری)۔ الرحمن
73 الرحمن
74 الرحمن
75 الرحمن
76 ٧٦۔ ١ مطلب یہ ہے کہ جنتی ایسے تختوں پر بیٹھے ہوں گے جس پر سبز رنگ کی مسندیں، غالیچے اور اعلٰی قسم کے خوب صورت منقش فرش بچھے ہوں گے۔ الرحمن
77 الرحمن
78 ٧٨۔ ١ تَبَارَکَ، برکت سے ہے جس کے معنی دوام و ثبات کے ہیں۔ مطلب یہ ہے اس کا نام ہمیشہ رہنے والا ہے، یا اس کے پاس ہمیشہ خیر کے خزانے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی بلندی اور علوشان کے کئے ہیں اور جب اس کا نام اتنا بابرکت یعنی خیر اور بلندی کا حامل ہے تو اس کی ذات کتنی برکت اور عظمت و رفعت والی ہوگی۔ الرحمن
0 الواقعة
1 ١۔ ١ واقعہ بھی قیامت کے ناموں سے ہے، کیونکہ یہ لامحالہ واقع ہونے والی ہے، اس لئے اس کا نام بھی ہے۔ الواقعة
2 الواقعة
3 ٣۔ ١ پستی اور بلندی سے مطلب ذلت اور عزت ہے۔ یعنی اللہ کے اطاعت گزار بندوں کو یہ بلند اور نافرمانوں کو پست کرے گی، چاہے دنیا میں معاملہ اس سے برعکس ہو،۔ الواقعة
4 الواقعة
5 ٥۔ ١ رَجًا کے معنی حرکت و اضطراب (زلزلہ) اور بس کے معنی ریزہ ریزہ ہوجانے کے ہیں۔ الواقعة
6 الواقعة
7 الواقعة
8 ٨۔ ١ اس سے عام مومنین مراد ہیں جن کو ان کے اعمال نامے دائیں ہاتھوں میں دیئے جائیں گے جو ان کی خوش بختی کی نشانی ہوگی۔ الواقعة
9 ٩۔ ١ اس سے مراد کافر ہیں جن کو ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے۔ الواقعة
10 ١٠۔ ١ ان سے مراد خواص مومنین ہیں، یہ تیسری قسم ہے جو ایمان قبول کرنے میں سبقت کرنے اور نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو قرب خاص سے نوازے گا، یہ ترکیب ایسے ہی ہے، جیسے کہتے ہیں، تو تو ہے اور زید زید، اس میں گویا زید کی اہمیت اور فضیلت کا بیان ہے۔ الواقعة
11 الواقعة
12 الواقعة
13 الواقعة
14 ١٤۔ ١ کہا جاتا ہے کہ اولین سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک کی امت کے لوگ ہیں اور آخرین سے امت محمدیہ کے افراد مطلب یہ ہے کہ پچھلی امتوں میں سابقین کا ایک بڑا گروہ ہے، کیونکہ ان کا زمانہ بہت لمبا ہے جس میں ہزاروں انبیاء کے سابقین شامل ہیں ان کے مقابلے میں امت محمدیہ کا زمانہ (قیامت تک) تھوڑا ہے، اس لیے ان میں سابقین بھی بہ نسبت گذشتہ امتوں کے تھوڑے ہوں گے۔ اور ایک حدیث میں آتا ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ، مجھے امید ہے کہ تم جنتیوں کا نصف ہو گے۔ تو یہ آیت مذکورہ مفہوم کے مخالف نہیں۔ کیونکہ امت محمدیہ کے سابقین اور عام مومنین ملا کر باقی تمام امتوں سے جنت میں جانے والوں کا نصف ہوجائیں گے، اس لیے محض سابقین کی کثرت (سابقہ امتوں میں) سے حدیث میں بیان کردہ تعداد کی نفی نہیں ہوگی۔ مگر یہ قول محل نظر ہے اور بعض نے اولین و آخرین سے اسی امت محمدیہ کے افراد مراد لیے ہیں۔ یعنی اس کے پہلے لوگوں میں سابقین کی تعداد زیادہ اور پچھلے لوگوں میں تھوڑی ہوگی۔ امام ابن کثیر نے اسی دوسرے قول کو ترجیح دی ہے۔ اور یہی زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔ یہ جملہ معترضہ ہے، فی جنت النعیم اور علی سرر موضونۃ کے درمیان۔ الواقعة
15 الواقعة
16 الواقعة
17 ١٧۔ ١ یعنی وہ بڑے نہیں ہونگے کہ بوڑھے ہوجائیں نہ ان کے خدو خال اور قدو قامت میں کوئی تغیر ہوگا بلکہ ایک ہی عمر اور ایک ہی حالت پر رہیں گے، جیسے نو عمر لڑکے ہوتے ہیں۔ الواقعة
18 الواقعة
19 ١٩۔ ١ آخرت کی شراب میں سرور اور لذت تو یقینا ہوگی لیکن یہ خرابیاں مثلاً مدہوشی عقل میں فتور نہیں ہوگا الواقعة
20 الواقعة
21 الواقعة
22 الواقعة
23 الواقعة
24 الواقعة
25 الواقعة
26 ٢٦۔ ١ وہاں سلام ہی سلام کی آوازیں سننے میں آئیں گی، فرشتوں کی طرف سے بھی اور آپس میں اہل جنت کی طرف سے بھی۔ الواقعة
27 ٢٧۔ ١ اب تک سابقین کا ذکر تھا اب عام مومنین کا ذکر ہو رہا ہے الواقعة
28 الواقعة
29 الواقعة
30 ٣٠۔ ١ جیسے ایک حدیث میں ہے ' کہ جنت کے ایک درخت کے سائے تلے ایک گھوڑا سوار سو سال تک چلتا رہے گا، تب بھی وہ سایہ ختم نہیں ہوگا '( صحیح بخاری) الواقعة
31 الواقعة
32 الواقعة
33 ٣٣۔ ١ یعنی یہ پھل موسمی نہیں ہونگے کہ موسم گزر گیا تو پھل بھی آئندہ فصل تک ناپید ہوجائیں، یہ پھل اس طرح فصل گل و لالہ کے پابند نہیں ہونگے، بلکہ بہار و خزاں اور گرمی و سردی ہر موسم میں دستیاب ہوں گے۔ اس طرح ان کے حصول کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ الواقعة
34 ٣٤۔ ١ بعض نے فرشوں سے بیویوں اور مرفوعہ سے بلند مرتبہ کا مفہوم مراد لیا ہے۔ الواقعة
35 الواقعة
36 ٣٦۔ ١ اس سے مراد اہل جنت کو ملنے والی بیویاں اور حور عین ہیں۔ حوریں، ولادت کے عام طریقے سے پیدا شدہ نہیں ہونگی، بلکہ اللہ تعالیٰ خاص طور پر انہیں جنت میں اپنی قدرت خاص سے بنائے گا، اور جو دنیاوی عورتیں ہونگی، تو وہ بھی حوروں کے علاوہ اہل جنت کی بیویوں کے الواقعة
37 الواقعة
38 الواقعة
39 ٣٩۔ ١ یعنی آدم (علیہ السلام) سے لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک کے لوگوں میں سے یا خود امت محمدیہ کے اگلوں میں سے۔ الواقعة
40 ٤٠۔ ١ یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت میں سے یا آپ کی امت کے پچھلوں میں سے۔ الواقعة
41 ٤١۔ ١ اس سے مراد اہل جہنم ہیں، جن کو ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے۔ الواقعة
42 الواقعة
43 الواقعة
44 ٤٤۔ ١ یعنی سایہ ٹھنڈا ہوتا ہے، لیکن یہ جس کا سایہ سمجھ رہے ہونگے، وہ سایہ ہی نہیں ہوگا، جو ٹھنڈا ہو، وہ تو جہنم کا دھواں ہوگا جس میں کوئی حسن منظر یا خیر نہیں۔ یا مٹھاس نہیں۔ الواقعة
45 ٤٥۔ ١ یعنی دنیا اور آخرت سے غافل ہو کر عیش و عشرت کی زندگی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ الواقعة
46 الواقعة
47 الواقعة
48 الواقعة
49 الواقعة
50 الواقعة
51 الواقعة
52 الواقعة
53 الواقعة
54 الواقعة
55 الواقعة
56 الواقعة
57 ٥٧۔ ١ یعنی تم جانتے ہو کہ تمہیں پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے، پھر تم اس کو مانتے کیوں نہیں ہو؟ یا دوبارہ زندہ کرنے پر یقین کیوں نہیں کرتے۔ الواقعة
58 الواقعة
59 ٥٩۔ ١ یعنی تمہارے بیویوں سے مباشرت کرنے کے نتیجے میں تمہارے جو قطرات منی عورتوں کے رحموں میں جاتے ہیں، ان سے انسانی شکل و صورت بنانے والے ہم ہیں یا تم؟ الواقعة
60 ٦٠۔ ١ یعنی ہر شخص کی موت کا وقت مقرر کردیا ہے، جس سے کوئی تجاوز نہیں کرسکتا، چنانچہ کوئی بچپن میں، کوئی جوانی میں اور کوئی بڑھاپے میں فوت ہوتا ہے ٦٠۔ ٢ یا مغلوب اور عاجز نہیں ہیں، بلکہ قادر ہیں۔ الواقعة
61 ٦١۔ ١ یعنی تمہاری صورتیں مسخ کر کے بندر اور خنزیر بنا دیں اور تمہاری جگہ تمہاری شکل و صورت کی کوئی اور مخلوق پیدا کردیں۔ الواقعة
62 ٦٢۔ ١ یعنی کیوں نہیں سمجھتے کہ جس طرح اس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا (جس کا تمہیں علم ہے) وہ دوبارہ بھی پیدا کرسکتا ہے۔ الواقعة
63 الواقعة
64 الواقعة
65 الواقعة
66 ٦٦۔ ١ یعنی ہم نے پہلے زمین پر ہل چلا کر اسے ٹھیک کیا پھر بیج ڈالا، پھر اسے پانی دیتے رہے۔ لیکن جب فصل کے پکنے کا وقت آیا تو وہ خشک ہوگئی، اور ہمیں کچھ بھی نہ ملا یعنی یہ سارا خرچ اور محنت کا معاوضہ نہ ملے، بلکہ یوں ہی ضائع ہوجائے یا زبردستی اس سے کچھ وصول کرلیا جائے اور اسکے بدلے میں اسے کچھ نہ دیا جائے۔ الواقعة
67 الواقعة
68 الواقعة
69 الواقعة
70 ٧٠۔ ١ یعنی اس احسان پر ہماری اطاعت کرکے ہمارا عملی شکر ادا کیوں نہیں کرتے؟ الواقعة
71 الواقعة
72 ٧٢۔ ١ کہتے ہیں عرب میں دو درخت ہیں، مرخ اور عفار، ان دونوں سے ٹہنیاں لے کر، ان کو آپس میں رگڑا جائے تو اس سے آگ کے شرارے نکلتے ہیں۔ الواقعة
73 ٧٣۔ ١ کہ اس کے اثرات اور فوائد حیرت انگیز ہیں اور دنیا کی بیشمار چیزوں کی تیاری کے لئے اسے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ جو ہماری قدرت عظیمہ کی نشانی ہے، پھر ہم نے جس طرح دنیا میں یہ آگ پیدا کی ہے، ہم آخرت میں بھی پیدا کرنے پر قادر ہیں جو اس سے ٦٩ درجہ حرارت میں زیادہ ہوگی۔ (٢) مقوین، مقوی کی جمع ہے، قواء یعنی خالی صحراء میں داخل ہونے والا، مراد مسافر ہے، یعنی مسافر صحراؤں اور جنگلوں میں ان درختوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اس سے روشنی، گرمی اور ایندھین حاصل کرتے ہیں۔ بعض نے مقوی سے وہ فقراء مراد لیے ہیں جو بھوک کی وجہ سے خالی پیٹ ہوں۔ بعض نے اس کے معنی مستمعین (فائدہ اٹھانے والے) کیے ہیں۔ اس میں امیر غریب، مقیم اور مسافر سب آجاتے ہیں اور سب ہی آگ سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی لیے حدیث میں جن تین چیزوں کو عام رکھنے کا اور ان سے کسی کو نہ روکنے کا حکم دیا گیا ہے، ان میں پانی اور گھاس کے علاوہ آگ بھی ہے، امام ابن کثیر نے اس مفہوم کو زیادہ پسند کیا ہے۔ الواقعة
74 الواقعة
75 ٧٥۔ ١ یعنی یہ قرآن کی کہانت یا شاعری نہیں ہے بلکہ میں ستاروں کے گرنے کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ قرآن عزت والا ہے۔ الواقعة
76 الواقعة
77 ٧٧۔ ١ یہ جواب قسم ہے۔ الواقعة
78 ٧٨۔ ١ یعنی لوح محفوظ ہیں۔ الواقعة
79 ٧٩۔ ١ یعنی اس قرآن کو فرشتے ہی چھوتے ہیں، یعنی آسمانوں پر فرشتوں کے علاوہ کسی کی بھی رسائی اس قرآن تک نہیں ہوتی۔ مطلب مشرکین کی تردید ہے جو کہتے تھے کہ قرآن شیاطین لے کر اترتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا یہ کیوں کر ممکن ہے یہ قرآن تو شیطانی اثرات سے بالکل محفوظ ہے۔ الواقعة
80 الواقعة
81 الواقعة
82 الواقعة
83 الواقعة
84 ٨٤۔ ١ یعنی روح نکلتے ہوئے دیکھتے ہو لیکن ٹال سکنے کی یا اسے کوئی فائدہ پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتے۔ الواقعة
85 ٨٥۔ ١ یعنی مرنے والے کے ہم، تم سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ اپنے علم، قدرت کے اعتبار سے۔ یا ہم سے مراد اللہ کے کارندے یعنی موت کے فرشتے ہیں جو اس کی روح قبض کرتے ہیں۔ الواقعة
86 الواقعة
87 ٨٧۔ ١ یعنی اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ کوئی تمہارا آقا اور مالک نہیں جس کے تم زیر فرمان اور ما تحت ہو یا کوئی جزا سزا کا دن نہیں آئے گا، تو اس قبض کی ہوئی روح کو اپنی جگہ پر واپس لوٹا کر دکھاؤ اور اگر تم ایسا نہیں کرسکتے اس کا مطلب تمہارا گمان باطل ہے۔ یقینا تمہارا ایک آقا ہے اور یقینا ایک دن آئے گا جس میں وہ آقا ہر ایک کو اسکے عمل کی جزا دے گا۔ الواقعة
88 الواقعة
89 الواقعة
90 ٩٠۔ ١ یہ دوسری قسم ہے، عام مومنین۔ یہ بھی جہنم سے بچ کر جنت میں جائیں گے، تاہم درجات میں سابقین سے کمتر ہوں گے۔ موت کا فرشتے ان کو بھی سلامتی کی خوشخبری دیتے ہیں۔ الواقعة
91 الواقعة
92 ٩٢۔ ١ یہ تیسری قسم ہے جنہیں آغاز سورت میں کہا گیا تھا، بائیں ہاتھ والے یا حاملین نحوست۔ یہ اپنے کفر و نفاق کی سزا یاس اس کی نحوست عذاب جہنم کی صورت میں بھگتیں گے۔ الواقعة
93 الواقعة
94 الواقعة
95 الواقعة
96 ٩٦۔ ١ حدیث میں آتا ہے کہ دو کلمے اللہ کو بہت محبوب ہیں، زبان پر ہلکے اور وزن میں بھاری۔ سُبْحَان اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہِ سُبْحَان اللّٰہِ الْعَظِیْمِ (صحیح بخاری)۔ الواقعة
0 الحديد
1 ١۔ ٣ یہ تسبیح زبان حال سے نہیں، بلکہ زبان کی بات چیت سے ہے اسی لئے فرمایا گیا 'کہ تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے ساتھ پہاڑ بھی تسبیح کرتے تھے۔ الحديد
2 الحديد
3 ٣۔ ١ وہی اول ہے یعنی اس سے پہلے کچھ نہ تھا، وہی آخر ہے، اس کے بعد کوئی چیز نہ ہوگی، وہی ظاہر ہے۔ یعنی وہ سب پر غالب ہے، اس پر کوئی غالب نہیں، وہی باطن ہے، یعنی باطن کی ساری باتوں کو صرف وہی جانتا ہے۔ الحديد
4 ٤۔ ١ اس مفہوم کی آیات ( اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا ۙ وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِہٖ ۭاَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ۭ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ 54؀) 7۔ الاعراف :54)، (اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ ۭمَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِہٖ ۭ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ۭ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ ۝) 10۔ یونس :3)، (اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِـتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ۭ مَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا شَفِیْعٍ ۭ اَفَلَا تَتَذَکَّرُوْنَ ۝) 32۔ السجدہ :4) وغیرھا من الآیات میں گزر چکی ہیں، ان کے حواشی ملاحظہ فرمالیے جائیں۔ ٤۔ ٢ یعنی زمین میں بارش کے جو قطرے اور غلہ جات و میوہ جات کے جو بیج داخل ہوتے ہیں کی کیفیت کو وہ جانتا ہے۔ (٣) جو درخت، چاہے وہ پھلوں کے ہوں یا غلوں کے یا زینت اور آرائش کے اور خوشبو والے پھولوں یہ جتنے بھی اور جیسے بھی باہر نکلتے ہیں۔ سب اللہ کے علم میں ہیں۔ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں تمام مخفی اشیاء کے خزانے، ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے، اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے جو کچھ خشکی میں اور جو کچھ دریاؤں میں ہیں۔ کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اسکو بھی جانتا ہے، اور کوئی دانہ کوئی زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک چیز گرتی ہے، مگر یہ سب کتاب مبین میں ہیں۔ (٤) بارش، اولے، برف تقدیر اور وہ احکام، جو فرشتے لے کر اترتے ہیں۔ (٥) فرشتے انسانوں کے جو عمل لے کر چڑھتے ہیں جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ اللہ کی طرف رات کے عمل دن سے پہلے اور دن کے عمل رات سے پہلے چڑھتے ہیں۔ (٦) یعنی تم خشکی میں ہو یا تری میں، رات ہو یا دن، گھروں میں ہو یا صحراؤں میں، ہر جگہ ہر وقت وہ اپنے علم وبصر کے لحاظ سے تمہارے ساتھ ہے یعنی تمہارے ایک ایک عمل کو دیکھتا ہے، تمہاری ایک ایک بات کو جانتا اور سنتا ہے۔ یہی مضمون (وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُمَتِّعْکُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّیُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہٗ ۭ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیْرٍ ۝) 11۔ ہود :3)۔ (سَوَاۗءٌ مِّنْکُمْ مَّنْ اَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَہَرَ بِہٖ وَمَنْ ہُوَ مُسْتَخْفٍۢ بِالَّیْلِ وَسَارِبٌۢ بِالنَّہَارِ 10۝) 13۔ الرعد :10) اور دیگر آیات میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ الحديد
5 الحديد
6 الحديد
7 الحديد
8 ٨۔ ١ ابن کثیر نے اخذ کا فاعل الرسول کو بنایا ہے اور مراد وہ بیعت لی ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام سے لیتے تھے کہ خوشی اور ناخوشی ہر حالت میں اطاعت کرنی ہے اور امام ابن جریر کے نزدیک اس کا فاعل اللہ ہے اور مراد وہ عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں سے اس وقت لیا تھا جب انہیں آدم (علیہ السلام) کی پشت سے نکالا تھا، جو عہد الست کہلاتا ہے، جس کا ذکر (وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْـتَدْرِجُہُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ ١٨٢؀ښ) 7۔ الاعراف :182) میں ہے۔ الحديد
9 الحديد
10 ١٠۔ ١ فتح سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک فتح مکہ ہے۔ بعض نے صلح حدیبیہ کو فتح مبین کا مصداق سمجھ کر اسے مراد لیا ہے۔ بہر حال صلح حدیبیہ یا فتح مکہ سے قبل مسلمان تعداد اور قوت کے لحاظ سے بھی کم تر تھے اور مسلمانوں کی مالی حالت بھی بہت کمزور تھی۔ ان حالات میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اور جہاد میں حصہ لینا، دونوں کام نہایت مشکل اور بڑے دل گردے کا کام تھا، جب کہ فتح مکہ کے بعد یہ صورت حال بدل گئی۔ مسلمان قوت وتعداد میں بھی بڑھتے چلے گئے اور انکی مالی حالت بھی پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہوگئی۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے دونوں ادوار کے مسلمانوں کی بابت فرمایا کہ یہ اجر میں برابر نہیں ہوسکتے۔ (٢) کیونکہ پہلوں کا انفاق اور جہاد، دونوں کام نہایت کٹھن حالات میں ہوئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل فضل و عزم کو دیگر لوگوں کے مقابلے میں مقدم رکھنا چاہیے۔ اسی لیے اہل سنت کے نزدیک شرف وفضل میں حضرت ابو بکر صدیق (رض) سب سے مقدم ہیں، کیونکہ مومن اول بھی وہی ہیں اور منفق اول اور مجاہد اول بھی وہی۔ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صدیق اکبر (رض) کو اپنی زندگی اور موجودگی میں نماز کے لیے آگے کیا، اور اسی بنیاد پر مومنوں (صحابہ کرام) نے انہیں استحقاق خلافت میں مقدم رکھا۔ (رض) و رضوا عنہ۔ (٣) اس میں وضاحت فرما دی ہے کہ صحابہ کرام کے درمیان شرف و فضل میں فرق تو ضرور ہے لیکن فرق درجات کا مطلب یہ نہیں کہ بعد میں مسلمان ہونے والے صحابہ کرام ایمان اور اخلاق کے اعتبار سے بالکل ہی گئے گزرے تھے، جیسا کہ بعض حضرات، حضرت معاویہ ان کے والد حضرت ابو سفیان اور دیگر بعض ایسے ہی جلیل القدر صحابہ کے بارے میں ہرزہ سرائی یا انہیں طلقاء کہہ کر انکی تنقیص و اہانت کرتے ہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام صحابہ کرام (رض) کے بارے میں فرمایا ہے کہ لا تسبوا اصحابی میرے صحابہ پر سب و شتم نہ کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کردے تو وہ میرے صحابی کے خرچ کیے ہوئے ایک مد بلکہ نصف مد کے بھی برابر نہیں۔ الحديد
11 (١) اللہ کو قرض حسن دینے کا مطلب ہے، اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات کرنا، یہ مال، جو انسان اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اللہ ہی کا دیا ہوا ہے، اس کے باوجود اسے قرض قرار دینا، یہ اللہ کا فضل و احسان ہے کہ وہ اس انفاق پر اسی طرح اجر دے گا جس طرح قرض کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے۔ الحديد
12 ١٢۔ ١ یہ عرصہ محشر میں پل صراط میں ہوگا، یہ نور ان کے ایمان اور عمل صالح کا صلہ ہوگا، جس کی روشنی میں وہ جنت کا راستہ آسانی سے طے کرلیں گے۔ امام ابن کثیر اور امام ابن جریر وغیرہما نے وَ بِاَیْمَانِھِمْ کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ان کے دائیں ہاتھوں میں ان کے اعمال نامے ہوں گے۔ (٢) یہ وہ فرشتے کہیں گے جو ان کے استقبال اور پیشوائی کے لیے وہاں ہوں گے۔ الحديد
13 ١٣۔ ١ یہ منافقین کچھ فاصلے تک اہل ایمان کے ساتھ ان کی روشنی میں چلیں گے، پھر اللہ تعالیٰ منافقین پر اندھیر مسلط فرما دے گا، اس وقت وہ اہل ایمان سے یہ کہیں گے۔ ١٣۔ ٢ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں جاکر اسی طرح ایمان اور عمل صالح کی پونجی لے کر آؤ، جس طرح ہم لائے ہیں یا مذاق کے طور پر اہل ایمان کہیں گے کہ پیچھے جہاں سے ہم نور لائے تھے وہی جا کر تلاش کرو۔ ١٣۔ ٣ یعنی مومنین اور منافقین کے درمیان۔ (٤) اس سے مراد جنت ہے جس میں اہل ایمان داخل ہوچکے ہوں گے۔ (٥) یعنی وہ حصہ ہے جس میں جہنم ہوگی۔ الحديد
14 ١٤۔ ١ یعنی دیوار حائل ہونے پر منافقین مسلمانوں سے کہیں گے کہ دنیا میں ہم تمھارے ساتھ نمازیں نہیں پڑھتے تھے اور جہاد وغیرہ میں حصہ نہیں لیتے تھے۔ ١٤۔ ٢ تم نے اپنے دلوں میں کفر اور نفاق چھپا رکھا تھا۔ ١٤۔ ٣ کہ شاید مسلمان کسی گردش کا شکار ہوجائیں ١٤۔ ٤ دین کے معاملے میں، اسی لیے قرآن کو مانا نہ دلائل ومعجزات کو۔ ١٤۔ ٥ جس میں تمہیں شیطان نے مبتلا کیے رکھا۔ ١٤۔ ٦  یعنی تمہیں موت آگئی، یا مسلمان بالآخر غالب رہے اور تمہاری آرزوں پر پانی پھر گیا۔ ١٤۔ ٧ یعنی اللہ کے حلم اور اس کے قانون امہال کی وجہ سے تمہیں شیطان نے دھوکے میں ڈالے رکھا۔ الحديد
15 ١٥۔ ١ مولیٰ اسے کہتے ہیں جو کسی کے کاموں کا متولی یعنی ذمے دار بنے گویا اب جہنم ہی اس بات کی ذمہ دار ہے کہ انہیں سخت سے سخت تر عذاب کا مزا چکھائے بعض کہتے ہیں کہ ہمیشہ ساتھ رہنے والے کو بھی مولیٰ کہہ لیتے ہیں یعنی اب جہنم کی آگ ہی ان کی ہمیشہ کی ساتھی اور رفیق ہوگی، بعض کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جہنم کو بھی عقل وشعور عطا فرمائے گا پس وہ کافروں کے خلاف غیظ وغضب کا اظہار کرے گی، یعنی ان کی والی بنے گی اور انہیں عذاب الیم سے دوچار کرے گی۔ الحديد
16 ١ ٦ ۔ ١ خطاب اہل ایمان کو ہے اور مطلب ان کو اللہ کی یاد کی طرف مذید متوجہ اور قرآن کریم سے کسب ہدایت کی تلقین کرنا ہے خشوع کے معنی ہیں دلوں کا نرم ہو کر اللہ کی طرف جھک جانا حق سے مراد قرآن کریم ہے۔ ١٦۔ ٢ جیسے یہود و نصاریٰ ہیں، یعنی تم ان کی طرح نہ ہوجانا۔ ١ ٦ ۔ ٣ چنانچہ انہوں نے اللہ کی کتاب میں تحریف اور تبدیلی کردی اس کے عوض دنیا کا ثمن قلیل حاصل کرنے کو انہوں نے شعار بنا لیا، اس کے احکام کو پس پشت ڈال دیا اللہ کے دین میں لوگوں کی تقلید اختیار کرلی۔ ١ ٦ ۔ ٤ یعنی ان کے دل فاسد اور اعمال باطل ہیں۔ الحديد
17 الحديد
18 ١٨۔ ١ یعنی ایک کے بدلے میں کم ازکم دس گنا اور اس سے زیادہ سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ تک۔ اور یہ زیادتی اخلاص نیت، حاجت وضرورت اور مکان کی بنیاد پر ہو سکتی ہے۔ ١٨۔ ٢ یعنی جنت اور اس کی نعمتیں، جنکو کبھی زوال اور فنا نہیں۔ الحديد
19 الحديد
20 ٢٠۔ ١ یعنی اہل کفر کے لئے جو دنیا کے کھیل کود میں ہی مصروف رہے اور اسی کو انہوں نے حاصل زندگی سمجھا۔ ٢٠۔ ٢ یعنی اہل ایمان و طاعت کے لئے، جنہوں نے دنیا کو ہی سب کچھ نہیں سمجھا، بلکہ اسے عارضی، فانی اور دارالا متحان سمجھتے ہوئے اللہ کی ہدایات کے مطابق اس میں زندگی گزاری۔ الحديد
21 ٢١۔ ١ یعنی اعمال صالحہ اور توبۃ النصوح کی طرف کیونکہ یہی چیزیں مغفرت رب کا ذریعہ ہیں۔ ٢١۔ ٢ اور جس کا عرض اتنا ہو، اس کا طول کتنا ہوگا ؟ کیونکہ طول عرض سے زیادہ ہی ہوتا ہے ٢١۔ ٣ ظاہر ہے اس کی چاہت اسی کے لیے ہوتی ہے جو کفر و معصیت سے توبہ کر کے ایمان وعمل صالح کی زندگی اختیار کرلیتا ہے اسی لیے وہ ایسے لوگوں کو ایمان صالحہ کی توفیق سے بھی نوازتا دیتا ہے۔ ٢١۔ ٤ وہ جس پر چاہتا ہے اپنا فضل فرماتا ہے جس کو وہ کچھ دے کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے روک لے اسے کوئی نہیں دے سکتا۔ تمام خیر اسی کے ہاتھ میں ہے۔ الحديد
22 ٢٢۔ ١ مثلاً قحط، سیلاب اور دیگر آفات زمینی اور آسمانی۔ ٢٢۔ ٢ مثلاً بیماریاں، تعب و تکان اور تنگ دستی وغیرہ۔ ٢٢۔ ٣ یعنی اللہ نے اپنے علم کے مطابق تمام مخلوقات کی پیدائش سے پہلے ہی باتیں لکھ دی ہیں جیسے حدیث میں آتا ہے کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار پہلے ہی ساری تقدیریں لکھ دی تھیں۔ الحديد
23 ٢٣۔ ١ یہاں جس حزن اور فرح سے روکا گیا ہے وہ غم اور خوشی ہے جو انسان کو ناجائز کاموں تک پہنچا دیتی ہے ورنہ تکلیف پر رنجیدہ اور راحت پر خوش ہونا یہ ایک فطری عمل ہے لیکن مومن تکلیف پر صبر کرتا ہے کہ اللہ کی مشیت اور تقدیر ہے جزع فزع کرنے سے کوئی اس میں تبدیلی نہیں آسکتی اور راحت پر اتراتا نہیں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ الحديد
24 ٢٤۔ ١ یعنی انفاق فی سبیل اللہ سے، کیونکہ اصل بخل یہی ہے۔ الحديد
25 ٢٥۔ ١ میزان سے مراد انصاف ہے اور مطلب ہے کہ ہم نے لوگوں کو انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔ بعض نے اس کا ترجمہ ترازو کیا ہے ترازو کے اتارنے کا مطلب ہے کہ ہم نے ترازو کی طرف لوگوں کی رہنمائی کی کہ اس کے ذریعے سے لوگوں کو تول کر پورا پورا حق دو۔ ٢٥۔ ٢ یہاں بھی اتارا، پیدا کرنے اور اس کی صنعت سکھانے کے معنی میں ہے۔ لوہے سے بیشمار چیزیں بنتی ہیں یہ سب اللہ کے الہام وارشاد کا نتیجہ ہے جو اس نے انسان کو کیا ہے۔ ٢٥۔ ٣ یعنی لوہے سے جنگی ہتھیار بنتے ہیں جیسے تلوار، نیزہ، بندوق وغیرہ جن سے دشمن پر وار کیا جا سکتا ہے اور اپنا دفاع بھی۔ ٢٥۔ ٤ یعنی جنگی ہتھیاروں کے علاوہ بھی لوہے سے اور بھی بہت سی چیزیں بنتی ہیں جو گھروں میں اور مختلف صنعتوں میں کام آتی ہیں جیسے چھریاں، چاقو، قینچی، سوئی اور عمارت وغیرہ کا سامان اور چھوٹی بڑی مشینیں اور سازو سامان۔ ٢٥۔ ٥ یعنی رسولوں کو اس لیے بھیجا ہے تاکہ وہ جان لے کہ کون اس کے رسولوں پر اللہ کو دیکھے بغیر ایمان لاتا اور ان کی مدد کرتا ہے۔ ٢٥۔ ٦  اس کو اس بات کی حاجت نہیں کہ لوگ اس کے دین کی اور اس کے رسول کی مدد کریں بلکہ وہ چاہے تو اس کے بغیر ہی ان کو غالب فرما دے لوگوں کو تو ان کی مدد کرنے کا حکم ان کی اپنی بھلائی کے لیے دیا گیا ہے تاکہ وہ اس طرح اپنے اللہ کو راضی کرکے اس کی مغفرت کے مستحق بن جائیں۔ الحديد
26 الحديد
27 ٢٧۔ ١ رَأْفَۃً، کے معنی نرمی اور رحمت کے معنی شفقت کے ہیں۔ پیروکاروں سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری ہیں، یعنی ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے پیار اور محبت کے جذبات پیدا کر دئیے۔ جیسے صحابہ کرام (رض) اجمعین ایک دوسرے کے لیے رحیم و شفیق تھے۔ رحماء بینہم۔ یہود، آپس میں اس طرح ایک دوسرے کی ہمدر اور غم خوار نہیں، جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکار تھے۔ ٢٧۔ ٢ رَہْبَانِیَّۃً رھب (خوف) سے ہے یا رھبان (درویش) کی طرف منسوب ہے اس صورت میں رے پر پیش رہے گا، یا اسے رہبنہ کی طرف منسوب مانا جائے تو اس صورت میں رے پر زبر ہوگا۔ رہبانیت کا مفہوم ترک دنیا ہے یعنی دنیا اور علائق دنیا سے منقطع ہو کر کسی جنگل، صحرا میں جاکر اللہ کی عبادت کرنا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ایسے بادشاہ ہوئے جنہوں نے تورات اور انجیل میں تبدیلی کردی، جسے ایک جماعت نے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے بادشاہوں کے ڈر سے پہاڑوں اور غاروں میں پناہ حاصل کرلی۔ یہ اس کا آغاز تھا، جسکی بنیاد اضطرار پر تھی۔ لیکن انکے بعد آنے والے بہت سے لوگوں نے اپنے بزرگوں کی اندھی تقلید میں اس شہر بدری کو عبادت کا ایک طریقہ بنا لیا اور اپنے آپ کو گرجاؤں اور معبودوں میں محبوس کرلیا اور اسکے لیے علائق دنیا سے انقطاع کو ضروری قرار دے لیا۔ اسی کو اللہ نے ابتداع (خود گھڑنے) سے تعبیر فرمایا ہے۔ (٣) یہ پچھلی بات کی تاکید ہے کہ یہ رہبانیت ان کی اپنی ایجاد تھی، اللہ نے اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ ٢٧۔ ٤ یعنی ہم نے تو ان پر صرف اپنی رضا جوئی فرض کی تھی۔ دوسرا ترجمہ اس کا ہے کہ انہوں نے یہ کام اللہ کی رضا تلاش کرنے کے لئے کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمادی کہ اللہ کی رضا، دین میں اپنی طرف سے بدعات ایجاد کرنے سے حاصل نہیں ہوسکتی، چاہے وہ کتنی ہی خوش نما ہو۔ اللہ کی رضا تو اس کی اطاعت سے ہی حاصل ہوگی۔ (٥) یعنی گو انہوں نے مقصد اللہ کی رضا جوئی بتلایا، لیکن اس کی انہوں نے پوری رعایت نہیں کی، ورنہ وہ ابتداع (بدعت ایجاد کرنے) کے بجائے اتباع کا راستہ اختیار کرتے۔ (٦) یہ وہ لوگ ہیں جو دین عیسیٰ پر قائم رہے تھے۔ الحديد
28 ٢٨۔ ١ یہ دگنا اجر اہل ایمان کو ملے گا جو نبی سے قبل پہلے کسی رسول پر ایمان رکھتے تھے پھر نبی پر بھی ایمان لے آئے جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے (صحیح بخاری) ایک دوسری تفسیر کے مطابق جب اہل کتاب نے اس بات پر فخر کا اظہار کیا کہ انہیں دوگنا اجر ملے گا، تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے حق میں یہ آیت نازل فرمائی۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے، تفسیر ابن کثیر) الحديد
29 الحديد
0 المجادلة
1 ١۔ ١ یہ اشارہ ہے حضرت خولہ بنت مالک بن ثعلبہ (رض) کے واقعہ کی طرف جن کے خاوند حضرت اوس بن صامت (رض) نے ان سے ظہار کرلیا تھا ظہار کو طلاق سمجھا جاتا تھا حضرت خولہ (رض) سخت پریشان ہوئیں اس وقت تک اس کی بابت کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا اس لیے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی کچھ توقف فرمایا اور وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بحث وتکرار کرتی رہیں جس پر یہ آیات نازل ہوئیں جن میں مسئلہ ظہار اور اس کا حکم و کفارہ بیان فرمادیا گیا۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح لوگوں کی باتیں سننے والا ہے کہ یہ عورت گھر کے ایک کونے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مجادلہ کرتی اور اپنے خاوند کی شکایت کرتی رہی مگر میں اس کی باتیں نہیں سنتی تھی لیکن اللہ نے آسمانوں پر سے اس کی بات سن لی، سنن ابن ماجہ المقدمہ۔ صحیح بخاری میں بھی تعلیقا اس کا مختصر ذکر ہے۔ کتاب التوحید۔ المجادلة
2 ٢۔ ١ یہ اظہار کا حکم بیان فرمایا ہے کہ تمہارے کہہ دینے سے تمہاری بیوی تمہاری ماں نہیں بن جائے گی اگر ماں کے بجائے کوئی شخص اپنی بیٹی یا بہن وغیرہ کی پیٹھ کی طرح اپنی بیوی کو کہہ دے تو یہ ظہار ہے یا نہیں؟ امام مالک اور امام ابو حنیفہ رحمہما اللہ اسے بھی ظہار قرار دیتے ہیں جب کہ دوسرے علماء اسے ظہار تسلیم نہیں کرتے پہلا قول ہی صحیح معلوم ہوتا ہے اسی طرح اس میں بھی اختلاف ہے کہ پیٹھ کی جگہ اگر کوئی یہ کہے کہ تو میری ماں کی طرح ہے پیٹھ کا نام نہ لے تو علماء کہتے ہیں کہ اگر ظہار کی نیت سے وہ مذکورہ الفاظ کہے گا تو ظہار ہوگا بصورت دیگر نہیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر ایسے عضو کے ساتھ تشبیہ دے گا جس کا دیکھنا جائز ہے تو یہ ظہار نہیں ہوگا امام شافعی رحمہ اللہ بھی کہتے ہیں کہ ظہار صرف پیٹھ کی طرح کہنے سے ہی ہوگا۔ فتح القدیر۔ ٢۔ ٢ اسی لیے اس نے کفار کو اس قول منکر اور جھوٹ کی معافی کا ذریعہ بنا دیا۔ المجادلة
3 ٣۔ ١ اب اس حکم کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ رجوع کا مطلب، بیوی سے ہم بستری کرنا چاہیں۔ ٣۔ ٢ یعنی ہم بستری سے پہلے وہ کفارہ ادا کریں ١۔ ایک غلام آزاد کرنا ٢۔ اس کی طاقت نہ ہو تو پے درپے دو مہینے کے روزے رکھنے پڑیں گے۔ عذر شرعی سے مراد بیماری یا سفر ہے، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ بیماری وغیرہ کی وجہ سے روزے رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔ بعض کہتے ہیں کہ ہر مسکین کو دو مد نصف صاع یعنی سوا کلو اور بعض کہتے ہیں ایک مد کافی ہے لیکن قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانا اس طرح کھلایا جائے کہ وہ شکم سیر ہوجائیں یا اتنی مقدار میں ان کو کھانا دیا جائے ایک مرتبہ ہی سب کو کھلانا بھی ضروری نہیں بلکہ متعدد اقساط میں یہ تعداد پوری کی جاسکتی ہے۔ فتح القدیر۔ تاہم یہ ضروری ہے جب تک یہ تعداد پوری نہ ہوجائے اس وقت تک بیوی سے ہم بستری جائز نہیں۔ المجادلة
4 المجادلة
5 ٥۔ ١ کتبوا، ماضی مجہول کا صیغہ ہے مستقبل میں ہونے والے واقعے کو ماضی سے تعبیر کر کے واضح کردیا کہ اس کا وقوع اور تحقق اسی طرح یقینی ہے جیسے کہ وہ ہوچکا ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ یہ مشرکین مکہ بدر والے دن ذلیل کیے گئے کچھ مارے گئے کچھ قیدی ہوگئے اور مسلمان ان پر غالب رہے مسلمانوں کا غلبہ بھی ان کے حق میں نہایت ذلت تھا۔ ٥۔ ٢ اس سے مراد گزشتہ امتیں ہیں جو اسی مخالفت کی وجہ سے ہلاک ہوئیں المجادلة
6 ٦ ۔ ١ یہ ذہنوں میں پیدا ہونے والے اشکال کا جواب ہے کہ گناہوں کی اتنی کثرت اور ان کا اتنا تنوع ہے کہ ان کا احصار بظاہر ناممکن ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمہارے لیے یقینا ناممکن ہے بلکہ تمہیں تو خود اپنے کیے ہوئے سارے کام بھی یاد نہیں ہوں گے لیکن اللہ کے لیے یہ کوئی مشکل نہیں اس نے ایک ایک کا عمل محفوظ کیا ہوا ہے۔ ٦۔ ٢ اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں آگے اس کی مزید تاکید ہے کہ وہ ہر چیز کو جانتا ہے المجادلة
7 ٧۔ ١ یعنی مذکورہ تعداد کا خصوصی طور پر ذکر اس لئے نہیں ہے کہ اس میں کم یا اس سے زیادہ تعداد کے درمیان ہونے والی گفتگو سے بے خبر رہتا ہے بلکہ یہ تعداد بطور مثال ہے، مقصد یہ بتلانا ہے کہ تعداد تھوڑی ہو یا زیادہ وہ ہر ایک کے ساتھ ہے اور ہر ظاہر اور پوشیدہ بات کو جانتا ہے۔ ٧۔ ٢ خلوت میں ہوں یا جلوت میں، شہروں میں ہوں یا جنگلوں صحراؤں میں، آبادیوں میں ہوں یا بے آباد پہاڑوں بیابانوں میں، جہاں بھی ہوں، اس سے چھپے نہیں رہ سکتے۔ ٧۔ ٣ یعنی اس کے مطابق ہر ایک کو جزا دے گا نیک کو اس کی نیکیوں کی جزا اور بد کو اس کی بدیوں کی سزا۔ المجادلة
8 ٨۔ ١ اس سے مدینے کے یہودی اور منافقین مراد ہیں جب مسلمان ان کے پاس سے گزرتے تو یہ باہم سر جوڑ کر اس طرح سرگوشیاں اور کانا پھوسی کرتے کہ مسلمان یہ سمجھتے کہ شاید ان کے خلاف یہ کوئی سازش کر رہے ہیں یا مسلمانوں کے کسی لشکر پر دشمن نے حملہ کر کے انہیں نقصان پہنچایا ہے جس کی خبر ان کے پاس پہنچ گئی ہے مسلمان ان چیزوں سے خوف زدہ ہوجاتے چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح سرگوشیاں کرنے سے منع فرما دیا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد انہوں نے پھر یہ مذموم سلسلہ شروع کردیا آیت میں ان کے اسی کردار کو بیان کیا جارہا ہے۔ ٨۔ ٢ یعنی ان کی سرگوشیاں نیکی اور تقویٰ کی باتوں میں نہیں ہوتیں، بلکہ گناہ، زیادتی اور معصیت رسول پر مبنی ہوتی ہیں مثلاً کسی کی غیبت، الزام تراشی، بے ہودہ گوئی ایک دوسرے کو رسول اللہ کی نافرمانی پر اکسانا وغیرہ۔ ٨۔ ٣ یعنی اللہ نے سلام کا طریقہ یہ بتلایا ہے کہ تم السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہو، لیکن یہودی نبی کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اس کی بجائے کہتے السام علیکم یا علیکَ (تم پر موت وارد ہو) اس لئے رسول اللہ ان کے جواب میں صرف یہ فرمایا کرتے تھے، و علیکم یا و علیکَ (اور تم پر ہی ہو) اور مسلمانوں کو بھی آپ نے تاکید فرمائی کہ جب کوئی اہل کتاب تمہیں سلام کرے تو جواب میں و علیک کہا کرو یعنی علیکَ ما قلتَ (تو نے جو کہا ہے وہ تجھ پر ہی وارد ہو (صحیح بخاری) ٨۔ ٤ یعنی وہ آپس میں یا اپنے دلوں میں کہتے کہ اگر یہ سچا نبی ہوتا تو اللہ تعالیٰ یقینا ہماری اس قبیح حرکت پر ہماری گرفت ضرور فرماتا۔ ٨۔ ٥ اللہ نے فرمایا کہ اگر اللہ نے اپنی مشیت اور حکمت بالغہ کے تحت دنیا میں ان کی فوری گرفت نہیں فرمائی تو کیا وہ آخرت میں جہنم کے عذاب سے بھی بچ جائیں گے؟ نہیں یقینا نہیں جہنم ان کی منتظر ہے جس میں وہ داخل ہوں گے۔ المجادلة
9 ٩۔ ١ جس طرح یہود اور منفقین کا شیوہ ہے یہ گویا اہل ایمان کو تربیت اور کردار سازی کے لیے کہا جارہا ہے کہ اگر تم اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہو تو تمہاری سرگوشیاں یہود اور اہل نفاق کی طرح اثم وعدوان پر نہیں ہونی چاہئیں۔ ٩۔ ٢ یعنی جس میں خیر ہی خیر ہو اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر مبنی ہو، کیونکہ یہی نیکی اور تقویٰ ہے المجادلة
10 ١٠۔ ١ یعنی اثم و عدوان اور معصیت رسول پر مبنی سرگوشیاں یہ شیطانی کام ہیں، کیونکہ شیطان ہی ان پر آمادہ کرتا ہے، تاکہ وہ اس کے ذریعے سے مومنوں کو غم میں مبتلا کرے۔ ١٠۔ ٢ لیکن یہ سرگوشیاں اور شیطانی حرکتیں مومنوں کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتیں الا یہ کہ اللہ کی مشیت ہو اس لیے تم اپنے دشمنوں کی ان اوچھی حرکتوں سے پریشان نہ ہوا کرو بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھو اس لیے کہ تمام معاملات کا اختیار اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے نہ کہ یہود اور منافقین جو تمہیں تباہ وبرباد کرنا چاہتے ہیں سرگوشی کے سلسلے میں ہی مسلمانوں کو ایک اخلاقی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ جب تم تین آدمی اکٹھے ہو تو اپنے میں سے ایک کو چھوڑ کر دو آدمی آپس میں سرگوشی نہ کریں کیونکہ یہ طریقہ اس ایک آدمی کو غم ڈال دے گا۔ صحیح بخاری۔ البتہ اس کی رضامندی اور اجازت سے ایسا کرنا جا‏ئز ہے کیونکہ اس صورت میں دو آدمیوں کا سرگوشی کرنا کسی کے لیے تشویش کا باعث نہیں ہوگا۔ المجادلة
11 ١١۔ ١ اس میں مسلمانوں کو مجلس کے آداب بتلائے جا رہے ہیں مجلس کا لفظ عام ہے جو ہر اس مجلس کو شامل ہے جس میں مسلمان خیر اور اجر کے حصول کے لیے جمع ہوں وعظ ونصیحت کی مجلس ہو یا جمعہ کی مجلس ہو تفسیر القرطبی کھل کر بیٹھو کا مطلب ہے کہ مجلس کا دائرہ وسیع رکھو تاکہ بعد میں آنے والوں کے لے بیٹھنے کی جگہ رہے دائرہ تنگ مت رکھو کہ بعد میں آنے والے کو کھڑا رہنا پڑھے یا کسی بیٹھے ہو‏ئے کو اٹھا کر اس کی جگہ وہ بیٹھے کہ یہ دونوں باتیں ناشائستہ ہیں چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود نہ بیٹھے اس لیے مجلس کے دائرے کو فراخ اور وسیع کرلو۔ صحیح بخاری۔ ١١۔ ٢ یعنی اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ تمہیں جنت میں وسعت عطا فرمائے گا یا جہاں بھی تم وسعت و فراخی کے طالب ہوگے، مثلاً مکان میں، رزق میں، قبر میں، ہر جگہ تمہیں فراخی عطا فرمائے گا۔ ١١۔ ٣ یعنی جہاد کے لئے، نماز کے لئے یا کسی بھی عمل خیر کے لئے۔ یا مطلب ہے کہ جب مجلس سے اٹھ کر جانے کو کہا جائے تو فوراً چلے جاؤ۔ مسلمانوں کو یہ حکم اس لئے دیا گیا کہ صحابہ کرام نبی کی مجلس سے اٹھ کر جانا پسند نہیں کرتے تھے لیکن اس طرح بعض دفعہ ان لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی جو نبی سے خلوت میں کوئی گفتگو کرنا چاہتے تھے۔ ١١۔ ٤ یعنی اہل ایمان کے درجے غیر اہل ایمان پر اور اہل علم کے درجے اہل ایمان پر بلند فرمائے گا جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایمان کے ساتھ علوم دین سے واقفیت مزید رفع درجات کا باعث ہے۔ المجادلة
12 ١٢۔ ١ ہر مسلمان نبی سے مناجات اور خلوت میں گفتگو کرنے کی خواہش رکھتا تھا، جس سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاصی تکلیف ہوتی، بعض کہتے ہیں کہ منافقین یوں ہی بلا وجہ نبی سے مناجات میں مصروف رہتے تھے، جس سے مسلمان تکلیف محسوس کرتے تھے، اس لئے اللہ نے یہ حکم نازل فرمایا، تاکہ آپ سے گفتگو کرنے کے رحجان عام کی حوصلہ شکنی ہو ١٢۔ ٢ بہتر اس لیے کہ صدقے سے تمہارے ہی دوسرے غریب مسلمان بھا‏ئیوں کو فائدہ ہوگا اور پاکیزہ تر اس لیے کہ یہ ایک عمل صالح اور اطاعت الہی ہے جس سے نفوس انسانی کی تطہیر ہوتی ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ امر بطور استحباب کے تھا وجوب کے لیے نہیں۔ المجادلة
13 ١٣۔ ١ یہ امر گو استحاباً تھا، پھر بھی مسلمانوں کے لئے شاق تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے جلدی اسے منسوخ فرما دیا۔ ١٣۔ ٢ یعنی فرائض و احکام کی پابندی، اس صدقے کا بدل بن جائے گی، جسے اللہ نے تمہاری تکلیف کے لئے معاف فرما دیا۔ المجادلة
14 ١٤۔ ١ جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا وہ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق یہود ہیں اور ان سے دوستی کرنے والے منافقین یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب مدینے میں منافقین کا بھی زور تھا اور یہودیوں کی سازشیں بھی عروج پر تھیں ابھی یہود کو جلا وطن نہیں کیا گیا تھا۔ ١٤۔ ٢ یعنی یہ منافقین مسلمان ہیں اور نہ دین کے لحاظ سے یہودی ہیں۔ پھر یہ کیوں یہودیوں سے دوستی کرتے ہیں۔؟ صرف اس لیے کہ ان کے اور یہود کے درمیان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسلام کی عداوت قدر مشترک ہے۔ ١٤۔ ٣ یعنی قسمیں کھا کر مسلمانوں کو باور کراتے ہیں کہ ہم تمہاری طرح مسلمان ہیں یا یہودیوں سے انکے رابطے نہیں ہیں۔ المجادلة
15 ١٥۔ ١ یعنی یہودیوں سے دوستانہ تعلق رکھنے اور جھوٹی قسمیں کھانے کی وجہ سے۔ المجادلة
16 ١ ٦ ۔ ١ ایمان، یمین، کی جمع ہے بمعنی قسم۔ یعنی قسم جس طرح ڈھال سے دشمن کے وار کو روک کر اپنا بچاؤ کرلیا جاتا ہے اسی طرح انہوں نے اپنی قسموں کو مسلمانوں کی تلواروں سے بچنے کے لیے ڈھال بنا رکھا ہے۔ ١ ٦ ۔ ٢ یعنی جھوٹی قسمیں کھا کر یہ اپنے کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو ان کے بارے میں حقیقت واقعیہ کا علم نہیں ہوتا اور وہ ان کے غرے میں آکر قبول اسلام سے محروم رہتے ہیں اور یوں یہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے کا جرم بھی کرتے ہیں۔ المجادلة
17 المجادلة
18 ١٨۔ ١ یعنی ان کی بد بختی اور سنگ دلی کی انتہا ہے کہ قیامت والے دن، جہاں کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہے گی، وہاں بھی اللہ کے سامنے جھوٹی قسمیں کھانے کی شوخ چشمانہ جسارت کریں گے ١٨۔ ٢ یعنی جس طرح دنیا میں وہ وقتی طور پر جھوٹی قسمیں کھا کر کچھ فائدے اٹھا لیتے تھے وہاں بھی سمجھیں گے کہ یہ جھوٹی قسمیں ان کے لیے مفید رہیں گی۔ المجادلة
19 ١٩۔ ١ استحوذ کے معنی ہیں گھیر لیا احاطہ کرلیا جمع کرلیا اسی کا ترجمہ غلبہ حاصل کرلیا کیا جاتا ہے کہ غلبے میں یہ سارے مفہوم آجاتے ہیں۔ ١٩۔ ٢ یعنی اس نے جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیا ہے، ان سے شیطان نے ان کو غافل کردیا ہے اور جن چیزوں سے اس نے منع کیا ہے، ان کا وہ ارتکاب کرواتا ہے، انہیں خوبصورت دکھلا کر یا مغالطوں میں ڈال کر یا تمناؤں اور آرزاؤں میں مبتلا کر کے۔ ١٩۔ ٣ یعنی مکمل خسارا انہی کے حصے میں آئے گا۔ گویا دوسرے ان کی نسبت خسارے میں نہیں ہیں۔ اس لئے کہ انہوں نے جنت کا سودا گمراہی لے کر کرلیا، اللہ پر جھوٹ بولا اور دنیا و آخرت میں جھوٹی قسمیں کھاتے رہے۔ المجادلة
20 ٢٠۔ ١ محادۃ، ایسی شدید مخالفت عناد اور جھگڑے کو کہتے ہیں کہ فریقین کا باہم ملنا نہایت مشکل ہو گویا دونوں دو کناروں پر ہیں جو ایک دوسرے کے مخالف ہیں اسی سے یہ ممانعت کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اسی لیے دربان اور پہرے دار کو بھی حداد کہا جاتا ہے۔ فتح القدیر۔ ٢٠۔ ٢ یعنی جس طرح گزشتہ امتوں میں سے اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالفوں کو ذلیل اور تباہ کیا گیا ان کا شمار بھی انہیں اہل ذلت میں ہوگا اور ان کے حصے میں بھی دنیا وآخرت کی ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ المجادلة
21 ٢١۔ ١ یعنی تقدیر اور لوح محفوظ میں جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی یہ مضمون سورۃ مومن میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ ٢١۔ ٢ جب یہ بات لکھنے والا، سب پر غالب اور نہایت زورآور ہے تو پھر اور کون ہے جو اس فیصلے میں تبدیلی کرسکے۔؟ مطلب یہ ہوا کہ یہ فیصلہ قدر محکم اور امر مبرم ہے۔ المجادلة
22 ٢٢۔ ١ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرمائی کہ جو ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت میں کامل ہوتے ہیں وہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمنوں سے محبت اور تعلق خاطر نہیں رکھتے گویا ایمان اور اللہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمنوں کی محبت ونصرت ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے یہ مضمون قرآن مجید میں اور بھی کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے مثلا (لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ۚ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْءٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰیۃً ۭ وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ ۭ وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ 28) 3۔ آل عمران :28) (قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَاۗؤُکُمْ وَاَبْنَاۗؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ۭ وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ 24؀ۧ) 9۔ التوبہ :24)۔ وغیرہ۔ ٢٢۔ ٢ اس لیے کہ ان کا ایمان ان کو ان کی محبت سے روکتا ہے اور ایمان کی رعایت ابوت بنوت اخوت اور خاندان وبرادری کی محبت ورعایت سے زیادہ اہم اور ضروری ہے چنانچہ صحابہ کرام (رض) نے عملا ایسا کر کے دکھایا ایک مسلمان صحابی نے اپنے باپ اپنے بیٹے اپنے بھائی اور اپنے چچا ماموں اور دیگر رشتے داروں کو قتل کرنے سے گریز نہیں کیا اگر وہ کفر کی حمایت میں کافروں کے ساتھ لڑنے والوں میں شامل ہوتے سیر وتواریخ کی کتابوں میں یہ مثالیں درج ہیں اسی ضمن میں جنگ بدر کا واقعہ بھی قابل ذکر ہے جب اسیران بدر کے بارے میں مشورہ ہوا کہ ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے یا قتل کردیا جائے تو حضرت عمر (رض) نے مشورہ دیا تھا کہ ان کافر قیدیوں میں سے ہر قیدی کو اس کے رشتے دار کے سپرد کردیا جائے جسے وہ خود اپنے ہاتھوں سے قتل کرے اور اللہ تعالیٰ کو حضرت عمر (رض) کا یہی مشورہ پسند آیا تھا۔ تفصیل کے لیے دیکھئے (مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ ۭتُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا ڰ وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ ۭوَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ 67؀) 8۔ الانفال :67) کا حاشیہ۔ ٢٢۔ ٣ یعنی راسخ اور مضبوط کردیا ہے۔ ٢٢۔ ٤ روح سے مراد اپنی نصرت خاص، یا نور ایمان ہے جو انہیں ان کی مذکورہ خوبی کی وجہ سے حاصل ہوا۔ ٢٢۔ ٥ یعنی جب یہ اولین مسلمان صحابہ کرام (رض) ایمان کی بنیاد پر اپنے عزیز واقارب سے ناراض ہوگئے حتی کہ انہیں اپنے ہاتھوں سے قتل تک کرنے میں تامل نہیں کیا تو اس کے بدلے میں اللہ نے ان کو اپنی رضامندی سے نواز دیا اور ان پر اس طرح اپنے انعامات کی بارش فرمائی کہ وہ بھی اللہ سے راضی ہوگئے اس لیے آیت میں بیان کردہ اعزاز (رض) ورضوا عنہ۔ اگرچہ خاص صحابہ کرام (رض) کے بارے میں نازل نہیں ہوا ہے تاہم وہ اس کا مصداق اولین اور مصداق اتم ہیں اسی لیے اس کے لغوی مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے مذکورہ صفات سے متصف ہر مسلمان (رض) کا مستحق بن سکتا ہے جیسے لغوی معنی کے لحاظ سے ہر مسلمان شخص پر علیہ الصلوۃ والسلام کا دعائیہ جملے کے طور پر اطلاق کیا جاسکتا ہے لیکن اہل سنت نے ان کے مفہوم لغوی سے ہٹ کر ان کو صحابہ کرام (رض) اور انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کسی اور کے لیے بولنا لکھنا جائز قرار نہیں دیا ہے۔ یہ گویا شعار ہیں (رض) صحابہ کے لیے اور علیہم الصلواۃ والسلام انبیائے کرام کے لیے یہ ایسے ہی ہے جیسے (رح) اللہ کی رحمت اس پر ہو یا اللہ اس پر رحم فرما‏ئے کا اطلاق لغوی مفہوم کی رو سے زندہ اور مردہ دونوں پر ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ایک دعائیہ کلمہ ہے جس کے ضرورت مند زندہ اور مردہ دونوں ہی ہیں لیکن ان کا استعمال مردوں کے لیے خاص ہوچکا ہے اس لیے اسے زندہ کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ ٢٢۔ ٦ یعنی یہی گروہ مومنین فلاح سے ہمکنار ہوگا دوسرے ان کی بہ نسبت ایسے ہی ہوں گے جیسے وہ فلاح سے بالکل محروم ہیں جیسا کہ واقعی وہ آخرت میں محروم ہوں گے۔ المجادلة
0 یہ سورت یہود کے ایک قبیلے بنو نضیر کے بارے میں نازل ہوئی، اس لئے اسے سورۃ النضیر بھی کہتے ہیں۔ صحیح بخاری۔ الحشر
1 الحشر
2 ٢۔ ١ مدینے کے اطراف میں یہودیوں کے تین قبیلے آباد تھے، بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع، ہجرت مدینہ کے بعد نبی نے ان سے معاہدہ بھی کیا لیکن یہ لوگ درپردہ سازشیں کرتے رہے اور کفار مکہ سے بھی مسلمانوں کے خلاف رابطہ رکھا، حتیٰ کے ایک موقع پر جب کہ آپ ان کے پاس گئے ہوئے تھے، بنو نضیر نے رسول اللہ پر اوپر سے پتھر پھینک کر آپ کو مار ڈالنے کی سازش تیار کی، جس سے وحی کے ذریعے سے آپ بروقت اطلاع کردی گئی، اور آپ وہاں سے واپس تشریف لے آئے۔ ان کی اس عہد شکنی کی وجہ سے رسول اللہ ان پر لشکر کشی کی، یہ چند دن اپنے قعلوں میں محصور رہے، بالآخر انہوں نے جان بخشی کی صورت میں جلا وطنی پر آمادگی کا اظہار کیا جسے رسول اللہ نے قبول فرما لیا، یہاں سے یہ خیبر میں جا کر مقیم ہوگئے، وہاں سے حضرت عمر نے اپنے دور میں انہیں دوبارہ جلا وطن کیا اور شام کی طرف دھکیل دیا جہاں کہتے ہیں کہ تمام انسانوں کا آخری حشر ہوگا۔ ٢۔ ٢ اس لئے انہوں نے نہایت مضبوط قعلے تعمیر کر رکھے تھے جس پر انہیں گھمنڈ تھا اور مسلمان بھی سمجھتے تھے کہ اتنی آسانی سے یہ قعلے فتح نہیں ہو سکیں گے۔ ٢۔ ٣ اور وہ یہی تھا کہ رسول اللہ نے ان کا محاصرہ کرلیا تھا جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ٢۔ ٤ اس رعب کی وجہ سے ہی انہوں نے جلا وطنی پر آمادگی کا اظہار کیا ورنہ عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین اور دیگرلوگوں نے انہیں پیغامات بھیجے تھے کہ تم مسلمانوں کے سامنے جھکنا نہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خصوصی وصف عطا فرمایا تھا کہ دشمن ایک مہینے کی مسافت پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرعوب ہوجاتا تھا اس لیے سخت دہشت اور گھبراہٹ ان پر طاری ہوگئی اور تمام تر اسباب ووسائل کے باوجود انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور صرف یہ شرط مسلمانوں سے منوائی کہ جتنا سامان وہ لاد کرلے جاسکتے ہیں انہیں لے جانے کی اجازت ہو، چنانچہ اس اجازت کی وجہ سے انہوں نے اپنے گھروں کے دروازے اور شہتیر تک اکھیڑ ڈالے تاکہ انہیں اپنے ساتھ لے جائیں ٢۔ ٥ یعنی جب انہیں یقین ہوگیا کہ اب جلا وطنی ناگزیر ہے تو انہوں نے دوران محاصرہ اندر سے اپنے گھروں کو برباد کرنا شروع کردیا تاکہ وہ مسلمانوں کے بھی کام نہ رہیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ سامان لے جانے کی اجازت سے پورا فائدہ اٹھانے کے لئے وہ اپنے اپنے اونٹوں پر جتنا سامان لاد کرلے جاسکتے تھے اپنے گھر ادھیڑ ادھیڑ کر وہ سامان انہوں نے اونٹوں پر رکھ لیا۔ ٢۔ ٦ باہر سے مسلمان ان کے گھروں کو برباد کرتے رہے تاکہ ان پر گرفت آسان ہوجائے یا یہ مطلب ہے کہ ان کے ادھیڑے ہوئے گھروں سے بقیہ سامان نکالنے اور حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کو مزید تخریب سے کام لینا پڑا۔ ٢۔ ٧ کہ کس طرح اللہ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈالا دراں حالیکہ وہ ایک نہایت طاقتور اور باوسائل قبیلہ تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہلت عمل ختم ہوگئی اور اللہ نے اپنے مواخذے کے شکنجے میں کسنے کا فیصلہ کرلیا تو پھر ان کی اپنی طاقت اور وسائل ان کے کام آئے نہ دیگر اعوان وانصار ان کی کچھ مدد کرسکے۔ الحشر
3 ٣۔ ١ یعنی اللہ کی تقدیر میں پہلے سے ہی اس طرح ان کی جلاوطنی لکھی ہوئی نہ ہوتی تو ان کو دنیا میں ہی سخت عذاب سے دوچار کردیا جاتا جیسا کہ بعد میں ان کے بھائی یہود کے ایک دوسرے قبیلے بنو قریظہ کو ایسے ہی عذاب میں مبتلا کیا گیا کہ ان کے جوان مردوں کو قتل کردیا گیا دوسروں کو قیدی بنا لیا گیا اور ان کا مال مسلمانوں کے لیے غنیمت بنا دیا گیا۔ الحشر
4 الحشر
5 ٥۔ ١ لینۃ۔ کھجور کی ایک قسم ہے جیسے عجوہ برنی وغیرہ کھجوروں کی قسمیں ہیں یا عام کھجور کا درخت مراد ہے۔ دوران محاصرہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے مسلمانوں نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درختوں کو آگ لگا دی، کچھ کاٹ ڈالے اور کچھ چھوڑ دیئے۔ جس سے مقصود دشمن کی آڑ کو ختم کرنا۔ اور یہ واضح کرنا تھا کہ اب مسلمان تم پر غالب ہیں، وہ تمہارے اموال و جائیداد میں جس طرح چاہے، تصرف کرنے پر قادر ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی مسلمانوں کی اس حکمت عملی کی تصویب فرمائی اور اسے یہود کی رسوائی کا ذریعہ قرارا دیا۔ الحشر
6 ٦۔ ١ بنو نضیر کا یہ علاقہ، جو مسلمانوں کے قبضے میں آیا، مدینے سے تین چار میل کے فاصلے پر تھا، یعنی مسلمانوں کو اس کے لئے لمبا سفر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ یعنی اس میں مسلمانوں کو اونٹ اور گھوڑے دوڑانے نہیں پڑے۔ اسطرح لڑنے کی بھی نوبت نہیں آئی اور صلح کے ذریعے سے یہ علاقہ فتح ہوگیا، یعنی اللہ نے اپنے رسول کو بغیر لڑے ان پر غالب فرما دیا۔ اس لئے یہاں سے حاصل ہونے والے مال کو فَیْء قرار دیا گیا، جس کا حکم غنیمت سے مختلف ہے یعنی جو مال بغیر لڑے دشمن چھوڑ کر بھاگ جائے یا صلح کے ذریعے سے حاصل ہو، اور جو مال باقاعدہ لڑائی اور غلبہ حاصل کرنے کے بعد ملے، وہ غنیمت ہے۔ الحشر
7 الحشر
8 ٨۔ ١ اس میں مال فیء کا ایک صحیح ترین مصرف بیان کیا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی مہاجرین کی فضیلت، ان کے اخلاص اور ان کی راست بازی کی وضاحت ہے، جس کے بعد ان کے ایمان میں شک کرنا، گویا قرآن کا انکار ہے۔ الحشر
9 ٩۔ ١ ان سے انصار مدینہ مراد ہیں جو مہاجرین کے مدینہ آنے سے قبل مدینے میں آباد تھے اور مہاجرین کے ہجرت کر کے آنے سے قبل امین بھی ان کے دلوں میں قرار پکڑ چکا تھا یہ مطلب نہیں ہے کہ مہاجرین کے ایمان لانے سے پہلے یہ انصار ایمان لا چکے تھے کیونکہ ان کی اکثریت مہاجرین کے ایمان لانے کے بعد ایمان لائی ہے یعنی من قبلھم کا مطلب من قبل ھجرتھم ہے اور دار سے دار الھجرۃ یعنی مدینہ مراد ہے۔ ٩۔ ٢ یعنی مہاجرین کو اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ دے، اس پر حسد محسوس نہیں کرتے، جیسے فیء کا اولین مستحق بھی ان کو قرار دیا گیا۔ لیکن انصار نے برا نہیں منایا۔ ٩۔ ٣ یعنی اپنے مقابلے میں مہاجرین کی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں خود بھوکا رہتے ہیں لیکن مہاجرین کو کھلاتے ہیں جیسے حدیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک مہمان آیا لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں کچھ نہ تھا چنانچہ ایک انصاری اسے اپنے گھر لے گیا گھر جا کر بیوی کو بتلایا تو بیوی نے کہا کہ گھر میں تو صرف بچوں کی خوراک ہے انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ بچوں کو تو آج بھوکا سلا دیں اور ہم خود بھی ایسے ہی کچھ کھائے بغیر سو جائیں گے البتہ مہمان کو کھلاتے وقت چراغ بجھا دینا تاکہ اسے ہماری بابت علم نہ ہو کہ ہم اس کے ساتھ کھانا نہیں کھا رہے ہیں صبح جب وہ صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم دونوں میاں بیوی کی شان میں یہ آیات نازل فرمائی ہے۔ ویوثرون علی انفسھم۔ الایۃ صحیح بخاری۔ ان کے ایثار کی یہ بھی ایک نہایت عجیب مثال ہے کہ ایک انصاری کے پاس دو بیویاں تھیں تو اس نے ایک بیوی کو اس لیے طلاق دینے کی پیشکش کی کہ عدت گزرنے کے بعد اس سے اس کا دوسرا مہاجر بھائی نکاح کرلے۔ صحیح بخاری۔ کتاب النکاح۔ ٩۔ ٤ حدیث میں ہے ' شح سے بچو، اس حرص نفس نے ہی پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، اسی نے خون ریزی پر آمادہ کیا اور انہوں نے محارم کو حلال کرلیا ' (صحیح مسلم) الحشر
10 ١٠۔ ١ یہ مال فئی کے مستحقین کی تیسری قسم ہے یعنی صحابہ (رض) کے بعد آنے والے اور صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والے اس میں تابعین اور تبع تابعین اور قیامت تک ہونے والے اہل ایمان وتقوی آگئے لیکن شرط یہی ہے کہ وہ انصار ومہاجرین کو مومن ماننے اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرنے والے ہوں نہ کہ ان کے ایمان میں شک کرنے اور ان پر سب وشتم کرنے اور ان کے خلاف اپنے دلوں میں بغض وعناد رکھنے والے امام مالک رحمہ اللہ نے اس آیت سے استنباط کرتے ہوئے یہی بات ارشاد فرمائی ہے ان الرافضی الذی یسب الصحابۃ لیس لہ فی مال الفی نصیب لعدم اتصافہ بما مدح اللہ بہ ھولاء فی قولھم رافضی کو جو صحابہ کرام رضوان علیھم اجمعین پر سب وشتم کرتے ہیں مال فیء سے حصہ نہیں ملے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مدح کی ہے اور رافضی ان کی مذمت کرتے ہیں (ابن کثیر)۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ فرماتی ہیں۔ امرتم بالاستغفار لاصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فسببتموھم سمعت نبیکم یقول : لا تذھب ھذہ الامۃ حتی یلعن آخرھا اولھا۔ رواہ البغوی۔ تم لوگوں اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے استغفار کا حکم دیا گیا مگر تم نے ان پر لعن طعن کی میں نے تمہارے نبی کو فرماتے ہوئے سنا کہ یہ امت اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک کہ اس کے آخرین اولین پر لعنت نہ کریں۔ حوالہ مذکور۔ الحشر
11 ١١۔ ١ جیسے پہلے گزر چکا ہے کہ منافقین نے بنو نضیر کو یہ پیغام بھیجا تھا۔ ١١۔ ٢ چنانچہ ان کا جھوٹ واضح ہو کر سامنے آگیا کہ بنو نضیر جلا وطن کردیئے گئے، لیکن یہ ان کی مدد کو پہنچے نہ ان کی حمایت میں مدینہ چھوڑنے پر آمادہ ہوئے۔ الحشر
12 ١٢۔ ١ یہ منافقین کے گذشتہ جھوٹے وعدوں ہی کی مزید تفصیل ہے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، بنو قضیر، جلا وطن اور بنو قریظہ قتل اور اسیر کئے گئے، لیکن منافقین کسی کی مدد کو نہ پہنچے۔ ١٢۔ ٢ یہ بطور فرض، بات کی جا رہی ہے، ورنہ جس چیز کی نفی اللہ فرما دے، اس کا وجود کیوں کر ممکن ہے، مطلب ہے کہ اگر یہود کی مدد کرنے کا ارادہ کریں۔ ١٢۔ ٣ یعنی شکست کھا کر۔ الحشر
13 ١٣۔ ١ یہود کے یا منافقین کے یا سب کے ہی دلوں میں۔ ١٣۔ ٢ یعنی تمہارا یہ خوف ان کے دلوں میں ان کی ناسمجھی کی وجہ سے ہے، ورنہ اگر سمجھدار ہوتے تو سمجھ جاتے کہ مسلمانوں کا غلبہ و تسلط، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اس لئے ڈرنا اللہ تعالیٰ سے چاہیے نہ کہ مسلمانوں سے۔ الحشر
14 ١٤۔ ١ یعنی یہ منافقین اور یہودی مل کر بھی کھلے میدان میں تم سے لڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتے البتہ قلعوں میں محصور ہو کر یا دیواروں کے پیچھے چھپ کر تم پر وار کرسکتے ہیں جس سے یہ واضح ہے کہ یہ نہایت بزدل ہیں اور تمہاری ہیبت سے لرزاں وترساں ہیں۔ ١٤۔ ٢ یعنی آپس میں یہ ایک دوسرے کے سخت خلاف ہیں۔ اس لئے ان میں باہم تو تکار اور تھکا فضیحتی عام ہے۔ ١٤۔ ٣ یہ منافقین کا آپس میں دلوں کا حال ہے یا یہود اور منافقین کا یا مشرکین اور اہل کتاب کا مطلب یہ ہے کہ حق کے مقابلے میں یہ ایک نظر آتے ہیں لیکن ان کے دل ایک نہیں ہیں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف بغض وعناد سے بھرے ہوئے ١٤۔ ٤ یعنی یہ اختلاف ان کی بے عقلی کی وجہ سے ہے، اگر ان کے پاس سمجھنے والی عقل ہوتی تو یہ حق کو پہچان لیتے اور اسے اپنا لیتے۔ الحشر
15 ١٥۔ ١ اس سے بعض نے مشرکین مکہ مراد لیے ہیں جنہیں غزوہ بنی نصیر سے کچھ عرصہ قبل جنگ بدر میں عبرت ناک شکست ہوئی تھی یعنی یہ بھی مغلوبیت اور ذلت میں مشرکین ہی کی طرح ہیں جن کا زمانہ قریب ہی ہے بعض نے یہود کے دوسرے قبیلے بنو قینقاع کو مراد لیا ہے جنہیں بنو نضیر سے قبل جلا وطن کیا جا چکا تھا جو زمان ومکان دونوں لحاظ سے ان کے قریب تھے۔ ابن کثیر۔ ١٥۔ ٢ یعنی یہ وبال جو انہوں نے چکھا، یہ تو دنیا کی سزا ہے، آخرت کی سزا اس کے علاوہ ہے جو نہایت دردناک ہوگی۔ الحشر
16 ١ ٦ ۔ ١ یہ یہود اور منافقین کی ایک اور مثال بیان فرمائی کہ منافقین نے یہودیوں کو اسی طرح بےیار ومددگا چھوڑ دیا جس طرح شیطان انسان کے ساتھ معاملہ کرتا ہے پہلے وہ انسان کو گمراہ کرتا ہے اور جب انسان شیطان کے پیچھے لگ کر کفر کا ارتکاب کرلیتا ہے تو شیطان اس سے براءت کا اظہار کردیتا ہے۔ ١٦۔ ٢ شیطان اپنے اس قول میں سچا نہیں ہے، مقصد صرف اس کفر سے علیحدگی اور چھٹکارا حاصل کرتا ہے جو انسان شیطان کے گمراہ کرنے سے کرتا ہے۔ الحشر
17 ١٧۔ ١ یعنی جہنم کی دائمی سزا۔ الحشر
18 ١٨۔ ١ اہل ایمان کو خطاب کرکے انہیں وعظ کیا جارہا ہے اللہ سے ڈرنے کا مطلب ہے اس نے جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیا ہے انہیں بجا لاؤ جن سے روکا ہے ان سے رک جاؤ آیت میں یہ بطور تاکید دو مرتبہ فرمایا کیونکہ یہ تقوی اللہ کا خوف ہی انسان کو نیکی کرنے پر اور برائی سے اجتناب پر آمادہ کرتا ہے۔ ١٨۔ ٢ اسے کل سے تعبیر کرکے اس طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ اس کا وقوع زیادہ دور نہیں، قریب ہے۔ ١٨۔ ٣ چنانچہ وہ ہر ایک کو اس کے عمل کی جزا دے گا، نیک کو نیکی کی جزا اور بد کو بدی کی جزا۔ الحشر
19 ١٩۔ ١ یعنی اللہ نے بطور جزا انہیں ایسا کردیا کہ وہ ایسے عملوں سے غافل ہوگئے جن میں ان کا فائدہ تھا اور جن کے ذریعے سے وہ اپنے نفسوں کو عذاب الٰہی سے بچا سکتے تھے یوں انسان خدا فراموشی سے خود فراموشی تک پہنچ جاتا ہے۔ الحشر
20 ٢٠۔ ١ جنہوں نے اللہ کو بھول کر یہ بات بھی بھلائے رکھی کہ اس طرح وہ خود اپنے ہی نفسوں پر ظلم کر رہے ہیں اور ایک دن آئے گا کہ اس کے نتیجے میں ان کے یہ جسم جن کے لیے دنیا میں وہ بڑے بڑے پاپڑ بیلتے تھے جہنم کی آگ کا ایندھن بنیں گے اور ان کے مقابلے میں دوسرے وہ لوگ تھے جنہوں نے اللہ کو یاد رکھا اس کے احکام کے مطابق زندگی گزاری ایک وقت آئے گا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس کی بہترین جزا عطا فرمائے گا اور اپنی جنت میں انہیں داخل فرمائے گا جہاں ان کے آرام وراحت کے لیے ہر طرح کی نعمتیں اور سہولتیں ہوں گی یہ دونوں فریق یعنی جنتی اور جہنمی برابر نہیں ہوں گے بھلا یہ برابر ہو بھی کس طرح سکتے ہیں ایک نے اپنے انجام کو یاد رکھا اور اس کے لیے تیاری کرتا رہا دوسرا اپنے انجام سے غافل رہا اس لیے اس کے لیے تیاری میں بھی مجرمانہ غفلت برتی۔ ٢٠۔ ١ جس طرح امتحان کی تیاری کرنے والا کامیاب اور دوسرا ناکام ہوتا ہے۔ اسی طرح اہل ایمان و تقوٰی جنت کے حصول میں کامیاب ہوجائیں گے، کیونکہ اس کے لئے کہ وہ دنیا میں نیک عمل کرکے تیاری کرتے رہے گویا دنیادار العمل اور دارلا متحان ہے۔ جس نے اس حقیقت کو سمجھ لیا اور اس نے انجام سے بے خبرہو کر زندگی نہیں گزاری وہ کامیاب ہوگا اور جو دنیا کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر اور انجام سے غافل، فسق و فجور میں مبتلا رہا وہ خاسر و ناکام ہوگا۔ الحشر
21 ٢١۔ ١ اور پہاڑ میں فہم و ادراک کی صلاحیت پیدا کردیتے جو ہم نے انسان کے اندر رکھی ہے۔ ٢١۔ ٢ یعنی قرآن کریم میں ہم نے بلاغت و فصاحت، قوت و استدلال اور وعظ تذکرہ کے ایسے پہلو بیان کئے ہیں کہ انہیں سن کر پہاڑ بھی باوجود اتنی سختی اور وسعت و بلندی کے خوف الٰہی سے ریزہ ریزۃ ہوجاتا۔ یہ انسان کو سمجھایا اور ڈرایا جا رہا ہے کہ تجھے عقل و فہم کی صلاحیتیں دی گئی ہیں۔ لیکن قرآن سن کر تیرا دل کوئی اثر قبول نہیں کرتا تو تیرا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ ٢١۔ ٣ تاکہ قرآن کے مواعظ سے وہ نصحیت حاصل کریں اور زواجر کو سن کر نافرمانیوں سے اجتناب کریں بعض کہتے ہیں کہ اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب ہے کہ ہم نے آپ پر یہ قرآن مجید نازل کیا جو ایسی عظمت شان کا حامل ہے کہ اگر ہم اسے کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا لیکن یہ آپ پر ہمارا احسان ہے کہ ہم نے آپ کو اتنا قوی اور مضبوط کردیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس چیز کو برداشت کرلیا جس کو برداشت کرنے کی طاقت پہاڑوں میں بھی نہیں ہے۔ فتح القدیر اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی صفات بیان فرما رہا ہے جس سے مقصود توحید کا اثبات اور شرک کی تردید ہے۔ الحشر
22 ٢٢۔ ١ غیب مخلوقات کے اعتبار سے ہے ورنہ اللہ کے لیے تو کوئی چیز غیب نہیں مطلب یہ ہے کہ وہ کائنات کی ہر چیز کو جانتا ہے چاہے وہ ہمارے سامنے ہو یا ہم سے غائب ہو حتی کہ وہ تاریکیوں میں چلنے والی چیونٹی کو بھی جانتا ہے۔ الحشر
23 الحشر
24 ٢٤۔ ١ کہتے ہیں کہ خلق کا مطلب ہے اپنے ارادہ و مشیت کے مطابق اندازہ کرنا اور براَ کے معنی ہیں اسے پیدا کرنا، گھڑنا، وجود میں لانا۔ ٢٤۔ ٢ اسمائے حسنٰی کی بحث (وَلِلّٰہِ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا ۠ وَذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَاۗیِٕہٖ ۭ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ١٨٠۔) 7۔ الاعراف :180) میں گزر چکی ہے۔ ٢٤۔ ٣ زبان حال سے بھی اور زبان مقال سے بھی، جیسا کہ پہلے بیان ہوا۔ ٢٤۔ ٤ جس چیز کا بھی فیصلہ کرتا ہے، وہ حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ الحشر
0 الممتحنة
1 ١۔ ١ کفار مکہ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان حدیبیہ میں جو معاہدہ ہوا تھا اہل مکہ نے اس کی خلاف ورزی کی اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی مسلمانوں کو خفیہ طور پر لڑائی کی تیاری کا حکم دے دیا حضرت حاطب بن ابی بلتعہ (رض) ایک مہاجر بدری صحابی تھے جن کی قریش کے ساتھ کوئی رشتے داری نہیں تھی لیکن ان کے بیوی بچے مکے میں ہی تھے انہوں نے سوچا کہ میں قریش مکہ کو آپ کی تیاری کی اطلاع کردوں تاکہ اس احسان کے بدلے وہ میرے بال بچوں کا خیال رکھیں چنانچہ انہوں نے ایک عورت کے ذریعے سے یہ پیغام تحریری طور پر اہل مکہ کی طرف روانہ کردیا جس کی اطلاع بذریعہ وحی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کردی گئی چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی حضرت مقداد اور حضرت زبیر (رض) کو فرمایا کہ جاؤ روضہ خاخ پر ایک عورت ہوگی جو مکہ جا رہی ہوگی اس کے پاس ایک رقعہ ہے وہ لے آؤ چنانچہ وہ حضرات گئے اور اس سے یہ رقعہ لے آئے جو اس نے سر کے بالوں میں چھپارکھا تھا آپ نے حضرت حاطب رضی اللہ سے پوچھا یہ تم نے کیا کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے یہ کام کفر وارتداد کی بنا پر نہیں کیا بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ دیگر مہاجرین کے رشتے دار مکے میں موجود ہیں جو ان کے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں میرا وہاں کوئی رشتے دار نہیں ہے تو میں نے یہ سوچا کہ میں اہل مکہ کو کچھ اطلاع کردوں تاکہ وہ میرے احسان مند رہیں اور میرے بچوں کی حفاظت کریں آپ نے ان کی سچائی کی وجہ سے انہیں کچھ نہیں کہا تاہم اللہ نے تنبیہ کے طور پر یہ آیات نازل فرما دیں تاکہ آئندہ کوئی مومن کسی کافر کے ساتھ اس طرح کا تعلق مودت قائم نہ کرے صحیح بخاری۔ ١۔ ٢ مطلب ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبریں ان تک پہنچا کر ان سے دوستانہ تعلق قائم کرنا چاہتے ہو؟ ١۔ ٣ جب ان کا تمہارے ساتھ اور حق کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو تمہارے لئے کیا یہ مناسب ہے کہ تم ان سے محبت اور ہمدردی کا رویہ اختیار کرو؟ ١۔ ٤ یہ جواب شرط، جو محذوف ہے، کا ترجمہ ہے۔ ١۔ ٥ یعنی میرے اور اپنے دشمنوں سے محبت کا تعلق جوڑنا اور انہیں خفیہ نام و پیام بھیجنا، یہ گمراہی کا راستہ ہے، جو کسی مسلمان کے شایان شان نہیں۔ الممتحنة
2 ٢۔ ١ یعنی تمہارے خلاف ان کے دلوں میں تو اس طرح بغض و عناد ہے اور تم ہو کہ ان کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھا رہے ہو۔ الممتحنة
3 ٣۔ ١ یعنی جس اولاد کے لئے تم کفار کے ساتھ محبت کا اظہار کر رہے ہو، یہ تمہارے کچھ کام نہ آئے گی، پھر اس کی وجہ سے تم کافروں سے دوستی کرکے کیوں اللہ کو ناراض کرتے ہو۔ قیامت والے دن جو چیز کام آئے گی، وہ تو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت ہے، اس کا اہتمام کرو۔ ٣۔ ٢ دوسرے معنی ہیں تمہارے درمیان جدائی ڈال دے گا۔ یعنی اہل اطاعت کو جنت میں اور اہل معصیت کو جہنم میں داخل کرے گا، بعض کہتے ہیں آپس میں جدائی کا مطلب کہ ایک دوسرے سے بھا گیں گے۔ الممتحنة
4 ٤۔ ١ کفار سے عدم اتحاد کے مسئلے کی وضاحت کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مثال دی جا رہی ہے کہ ایسا نمونہ جس کی پیروی کی جائے ٤۔ ٢ یعنی شرک کی وجہ سے ہمارا اور تمہارا کوئی تعلق نہیں، اللہ کے پرستاروں کا بھلا غیر اللہ کے پجاریوں سے کیا تعلق۔ ٤۔ ٣ یعنی علیحدگی اور بیزاری اس وقت تک رہے گی جب تک کفر و شرک چھوڑ کر توحید کو نہیں اپنالو گے۔ ٤۔ ٤ مطلب یہ حضرت ابراہیم کی پوری زندگی ایک قابل تقلید نمونہ ہے، البتہ ان کے باپ کے لئے مغفرت کی دعا کرنا ایک ایسا عمل ہے جس میں ان کی پیروی نہیں کرنی چاہیئے، کیونکہ ان کا یہ فعل اس وقت ہے جب ان کو اپنے باپ کی بابت علم نہیں تھا، چنانچہ جب ان پر واضح ہوگیا کہ ان کا باپ اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اپنے باپ سے بھی اظہار نجات کردیا، جیسا کہ (وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ وَّعَدَھَآ اِیَّاہُ ۚ فَلَمَّا تَـبَیَّنَ لَہٗٓ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنْہُ ۭ اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیْمٌ ١١٤۔) 9۔ التوبہ :114) میں ہے۔ ٤۔ ٥ توکل کا مطلب ہے امکانی حد تک ظاہری اسباب ووسائل اختیار کرنے کے بعد معاملہ اللہ کے سپرد کردیا جائے یہ ہے اس لیے توکل کا یہ مفہوم بھی غلط ہوگا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اونٹ کو باہر کھڑا کرکے اندر آگیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا تو کہا میں اونٹ اللہ کے سپرد کر آیا ہوں آپ نے فرمایا یہ توکل نہیں ہے۔ اعقل وتوکل۔ پہلے اسے کسی چیز سے باندھ پھر اللہ پر بھروسہ کر۔ ترمذی۔ انابت کا مطلب ہے اللہ کی طرف رجوغ کرنا الممتحنة
5 ٥۔ ١ یعنی کافروں کو ہم پر غلبہ وتسلط عطا نہ فرما اس طرح وہ سمجھیں گے کہ وہ حق پر ہیں اور یوں ہم ان کے لیے فتنے کا باعث بن جائیں گے یا یہ مطلب ہے کہ ان کے ہاتھوں یا اپنی طرف سے ہمیں کسی سزا سے دو چار نہ کرنا اس طرح بھی ہمارا وجود ان کے لیے فتنہ بن جائے گا وہ کہیں گے کہ اگر یہ حق پر ہوتے تو ان کو یہ تکلیف کیوں پہنچتی؟ الممتحنة
6 ٦۔ ١ یعنی ابراہیم (علیہ السلام) کے اور ان کے ساتھی اہل ایمان میں۔ یہ تکرار تاکید کے لئے ہے۔ ٦۔ ٢ کیونکہ ایسے ہی لوگ اللہ سے اور عذاب آخرت سے ڈرتے ہیں، یہی لوگ حالات و واقعات سے عبرت پکڑتے اور نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ ٦ ۔ ٣ یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اسوے کو اپنانے سے گریز کرے۔ الممتحنة
7 ٧۔ ١ یعنی ان کو مسلمان کرکے تمہارا بھائی اور ساتھی بنا دے، جس سے تمہارے مابین عداوت، دوستی اور محبت میں تبدیل ہوجائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، فتح مکہ کے بعد لوگ فوج در فوج مسلمان ہونا شروع ہوگئے اور ان کے مسلمان ہوتے ہی نفرتیں، محبت میں تبدیل ہوگئیں، جو مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے، وہ دست و بازو بن گئے۔ الممتحنة
8 ٨۔ ١ یہ ان کافروں کے بارے میں ہدایت دی جا رہی ہے جو مسلمانوں سے محض دین السلام کی وجہ سے بغض و عداوت نہیں رکھتے اور اس بنیاد پر مسلمانوں سے نہیں لڑتے، یہ پہلی شرط ہے ۔ ٨۔ ٢ یعنی تمہارے ساتھ ایسا رویہ بھی اختیار نہیں کیا کہ تم ہجرت پر مجبور ہوجاؤ، یہ دوسری شرط ہے۔ ایک تیسری شرط یہ ہے جو اگلی آیت سے واضح ہوتی ہے، کہ وہ مسلمانوں کے خلاف دوسرے کافروں کو کسی قسم کی مدد بھی نہ پہنچائیں مشورے اور رائے سے اور نہ ہتھیار وغیرہ کے ذریعے سے۔ ٨۔ ٣ یعنی ایسے کافروں سے احسان اور انصاف کا معاملہ کرنا ممنوع نہیں ہے جیسے حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنی مشرکہ ماں کی بابت صلہ رحمی یعنی حسن سلوک کرنے کا پوچھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : صلی امک۔ صحیح مسلم۔ اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔ ٨۔ ٤ اس میں انصاف کرنے کی ترغیب ہے حتی کہ کافروں کے ساتھ بھی حدیث میں انصاف کرنے والوں کی فضیلت یوں بیان ہوئی ہے۔ ان المقسطین عند اللہ علی منبر من نور عن یمین الرحمن عز وجل وکلتا یدیہ یمین الذین یعدلون فی حکمھم واھلیھم وماولوا۔ صحیح مسلم کتاب الامارہ۔ انصاف کرنے والے نور کے منبروں پر ہوں گے جو رحمن کے دائیں جانب ہوں گے اور رحمن کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں جو اپنے فیصلوں میں اپنے اہل میں اور اپنی رعایا میں انصاف کا اہتمام کرتے ہیں۔ الممتحنة
9 ٩۔ ١ یعنی ارشاد الٰہی اور امر ربانی سے اعراض کرتے ہوئے۔ ٩۔ ٢ کیونکہ انہوں نے ایسے لوگوں سے محبت کی ہے جو محبت کے اہل نہیں تھے، یوں انہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا کہ انہیں اللہ کے عذاب کے لئے پیش کردیا۔ الممتحنة
10 ١٠۔ ١ معاہدہ حدیبیہ میں ایک شق یہ تھی کہ مکے سے کوئی مسلمانوں کے پاس چلا جائے گا تو اس کو واپس کرنا پڑے گا لیکن اس میں مرد و عورت کی صراحت نہیں تھی بظاہر کوئی احد میں دونوں ہی شامل تھے چنانچہ بعد میں بعض عورتیں مکے سے ہجرت کرکے مسلمانوں کے پاس چلی گئیں تو کفار نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا جس پر اللہ نے اس آیت میں مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی اور یہ حکم دیا امتحان لینے کا مطلب ہے اس امر کی تحقیق کرو کہ ہجرت کر کے آنے والی عورت جو ایمان کا اظہار کر رہی ہے اپنے کافر خاوند سے ناراض ہو کر یا کسی مسلمان کے عشق میں یا کسی اور غرض سے تو نہیں آئی ہے اور صرف یہاں پناہ لینے کی خاطر ایمان کا دعوی کر رہی ہے۔ ١٠۔ ٢ یعنی تم اپنی تحقیق سے اس نتیجے پر پہنچو اور تمہیں گمان غالب حاصل ہوجائے کہ یہ واقعی مومنہ ہیں۔ ١٠۔ ٣ یہ انہیں ان کے کافر خاوندوں کے پاس واپس نہ کرنے کی علت ہے کہ اب کوئی مومن عورت کسی کافر کے لیے حلال نہیں جیسا کہ ابتدائے اسلام میں یہ جائز تھا چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صاحبزادی حضرت زینب (رض) کا نکاح ابو العاص ابن ربیع کے ساتھ ہوا تھا جب کہ وہ مسلمان نہیں تھے لیکن اس آیت نے آئندہ کے لیے ایسا کرنے سے منع کردیا اسی لیے یہاں فرمایا گیا کہ وہ ایک دوسرے کے لیے حلال نہیں اس لیے انہیں کافروں کے پاس مت لوٹاؤ ہاں اگر شوہر بھی مسلمان ہوجائے تو پھر ان کا نکاح برقرار رہ سکتا ہے چاہے خاوند عورت کے بعد ہجرت کر کے آئے۔ ١٠۔ ٤ یعنی ان کے کافر خاوندوں نے ان کو جو مہر ادا کیا ہے، وہ تم انہیں ادا کردو۔ ١٠۔ ٥ یہ مسلمانوں کو کہا جا رہا ہے کہ یہ عورتیں جو ایمان کی خاطر اپنے کافر خاوندوں کو چھوڑ کر تمہارے پاس آگئی ہیں تم ان سے نکاح کرسکتے ہو بشرطیکہ ان کا حق مہر تم ادا کرو تاہم یہ نکاح مسنون طریقے سے ہی ہوگا یعنی ایک تو انقضائے عدت (استبراء رحم) کے بعد ہوگا دوسرے اس میں ولی کی اجازت اور دو عادل گواہوں کی موجودگی بھی ضروری ہے البتہ عورت مدخول بہا نہیں ہے تو پھر بلا عدت فوری نکاح جائز ہے ١٠۔ ٦  عصم عصمۃ کی جمع ہے یہاں اس سے مراد عصمت عقد نکاح ہے مطلب یہ ہے کہ اگر خاوند مسلمان ہوجائے اور بیوی بدستور کافر اور مشرک رہے تو ایسی مشرک عورت کو اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہے اسے فورا طلاق دے کر اپنے سے علیحدہ کردیا جائے چنانچہ اس حکم کے بعد حضرت عمر (رض) نے اپنی دو مشرک بیویوں کو اور حضرت طلحہ ابن عبید اللہ (رض) نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ابن کثیر۔ البتہ اگر بیوی کتابیہ ہو تو اسے طلاق دینا ضروری نہیں ہے کیونکہ ان سے نکاح جائز ہے اس لیے اگر وہ پہلے سے ہی بیوی کی حثییت سے تمہارے پاس موجود ہے تو قبول اسلام کے بعد اسے علیحدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ١٠۔ ٧ یعنی ان عورتوں پر جو کفر پر برقرا رہنے کی وجہ سے کافروں کے پاس چلی گئی ہیں ١٠۔ ٨ یعنی ان عورتوں پر جو مسلمان ہو کر ہجرت کرکے مدینے آگئی ہیں۔ ١٠۔ ٩ یعنی یہ حکم مذکور کہ دونوں ایک دوسرے کو حق مہر ادا کریں بلکہ مانگ کرلیں اللہ کا حکم ہے امام قرطبی فرماتے ہیں کہ یہ حکم اس دور کے ساتھ ہی خاص تھا اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے فتح القدیر۔ اس کی وجہ وہ معاہدہ ہے جو اس وقت فریقین کے درمیان تھا اس قسم کے معاہدے کی صورت میں آئندہ بھی اس پر عمل کرنا ضروری ہوگا بصورت دیگر نہیں۔ الممتحنة
11 ١١۔ ١ فعاقبتم۔ پس تم سزا دو یا بدلہ لو۔ کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ مسلمان ہو کر آنے والی عورتوں کے حق مہر، جو تمہیں ان کے کافر شوہروں کو ادا کرنے تھے، وہ تم ان مسلمانوں کو دے دو، جن کی عورتیں کافر ہونے کی وجہ سے کافروں کے پاس چلی گئی ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کو مہر ادا نہیں کیا (یعنی یہ بھی سزا کی ایک صورت ہے) دوسرا مفہوم یہ ہے کہ تم کافروں سے جہاد کرو اور جو مال غنیمت حاصل ہو اس میں تقسیم سے پہلے ان مسلمانوں کو، جن کی بیویاں دارالکفر چلی گئی ہیں، ان کے خرچ کے بقدر ادا کردو، گویا مال غنیمت سے مسلمانوں کے نقصان کا (ازالہ) یہ بھی سزا ہے (ایسر التفاسیر و ابن کثیر) اگر مال غنیمت سے بھی ازالہ کی صورت نہ ہو تو بیت المال سے تعاون کیا جائے۔ الممتحنة
12 ١٢۔ ١ یہ بیعت اس وقت لیتے جب عورتیں ہجرت کرکے آتیں جیسا کہ صحیح بخاری تفسیر سورۃ ممتحنہ میں ہے علاوہ ازیں فتح مکہ والے دن بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کی عورتوں سے بیعت لی بیعت لیتے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف زبان سے عہد لیتے کسی عورت کے ہاتھ کو آپ نہیں چھوتے تھے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں اللہ کی قسم بیعت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا بیعت کرتے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف یہ فرماتے کہ میں نے ان باتوں پر تجھ سے بیعت لے لی۔ صحیح بخاری۔ بیعت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ عہد بھی عورتوں سے لیتے تھے کہ وہ نوحہ نہیں کریں گی گریبان چاک نہیں کریں گی سر کے بال نہیں نوچیں گی اور جاہلیت کی طرح بین نہیں کریں گی۔ صحیح بخاری۔ اس بیعت میں نماز روزہ حج اور زکوٰۃ وغیرہ کا ذکر نہیں ہے اس لیے کہ یہ ارکان دین اور شعائراسلام ہونے کے اعتبار سے محتاج وضاحت نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور خاص ان چیزوں کی بیعت لی جن کا عام ارتکاب عورتوں سے ہوتا تھا تاکہ وہ ارکان دین کی پابندی کے ساتھ ان چیزوں سے بھی اجتناب کریں اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ علماودعاۃ اور واعظین حضرات اپنا زور خطابت ارکان دین کے بیان کرنے میں ہی صرف نہ کریں جو پہلے ہی واضح ہیں بلکہ ان خرابیوں اور رسموں کی بھی پر زور انداز میں تردید کیا کریں جو معاشرے میں عام ہیں اور نماز روزے کے پابند حضرات بھی ان سے اجتناب نہیں کرتے۔ الممتحنة
13 ١٣۔ ١ اس سے بعض یہود، بعض منافقین اور بعض نے تمام کافر مراد لئے ہیں۔ یہ آخری قول ہی زیادہ صحیح ہے، کیونکہ اس میں یہود و منافقین بھی آجاتے ہیں، علاوہ ازیں سارے کفار ہی غضب الٰہی کے مستحق ہیں، اس لئے مطلب یہ ہوگا کہ کسی بھی کافر سے دوستانہ تعلق مت رکھو، جیسا کہ یہ مضمون قرآن میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ ١٣۔ ٢ آخرت سے مایوس ہونے کا مطلب، قیامت کے برپا ہونے سے انکار ہے۔ ایک دوسرے معنی اس کے یہ کئے گئے ہیں کہ قبروں میں مدفون کافر، ہر قسم کی خیر سے مایوس ہوگئے۔ کیونکہ مر کر انہوں نے اپنے کفر کا انجام دیکھ لیا، اب وہ خیر کی کیا توقع کرسکتے ہیں (ابن جریر طبری)۔ الممتحنة
0 اس کی شان نزول میں آتا ہے کہ کچھ صحابہ (رض) آپس میں بیٹھے کہہ رہے تھے کہ اللہ کو جو سب سے زیادہ پسندیدہ عمل ہیں وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھنے چاہییں تاکہ ان پر عمل کیا جاسکے، لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر پوچھنے کی جرات کوئی نہیں کر رہا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمادی (مسند احمد) الصف
1 الصف
2 ٢۔ ١ یہاں ندا اگرچہ عام ہے لیکن اصل خطاب ان مومنوں سے ہے جو کہہ رہے تھے کہ اللہ کو جو سب سے زیادہ پسند عمل ہیں، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھنے چاہئیں تاکہ ان پر عمل کیا جاسکے لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاکر پوچھنے کی جرت کوئی نہیں کر رہا تھا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی (مسند احمد) الصف
3 ٣۔ ١ یہ اسی کی مزید تاکید ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں پر سخت ناراض ہوتا ہے۔ الصف
4 ٤۔ ١ یہ جہاد کا ایک انتہائی نیک عمل بتلایا گیا جو اللہ کو بہت محبوب ہے۔ الصف
5 ٥۔ ١ یہ جانتے ہوئے بھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے سچے رسول ہیں، بنی اسرائیل انہیں اپنی زبان سے ایذا پہنچاتے تھے، حتٰی کہ بعض جسمانی عیوب ان کی طرف منسوب کرتے تھے، حالانکہ وہ بیماری ان کے اندر نہیں تھی۔ ٥۔ ٢ یعنی علم کے باوجود حق سے اعراض کیا اور حق کے مقابلے میں باطل کو خیر کے مقابلے میں شر کو اور ایمان کے مقابلے میں کفر کو اختیار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی سزا کے طور پر ان کے دلوں کو مستقل طور پر ہدایت سے پھیر دیا۔ کیونکہ یہی سنت اللہ چلی آرہی ہے۔ کفر وضلالات پر دوام واستمرار ہی دلوں پر مہر لگنے کا باعث ہوتا ہے پھر فسق کفر اور ظلم اس کی طبیعت اور عادت بن جاتی ہے جس کو کوئی بدلنے پر قادر نہیں ہے۔ اس لیے آگے فرمایا اللہ تعالیٰ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو اپنی سنت کے مطابق گمراہ کیا ہوتا ہے اب کون اسے ہدایت دے سکتا ہے جسے اس طریقے سے اللہ نے گمراہ کیا ہو۔ الصف
6 ٦۔ ١ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ اس لیے بیان فرمایا کہ بنی اسرائیل نے جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نافرمانی کی، اسی طرح انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا بھی انکار کیا، اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ یہود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے ساتھ اس طرح نہیں کر رہے ہیں، بلکہ ان کی تو ساری تاریخ ہی انبیاء علیہم السلام کی تکذیب سے بھری پڑی ہے۔ تورات کی تصدیق کا مطلب یہ ہے کہ میں جو دعوت دے رہا ہوں، وہ وہی ہے جو تورات کی بھی دعوت ہے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ جو پیغمبر مجھ سے پہلے تورات لے کر آئے اور اب میں انجیل لے کر آیا ہوں، ہم دونوں کا اصل ماخذ ایک ہی ہے۔ اس لیے جس طرح تم موسیٰ وہارون اور داوٗد وسلیمان علیہم السلام پر ایمان لائے مجھ پر بھی ایمان لاؤ، اس لیے کہ میں تورات کی تصدیق کر رہا ہوں نہ کہ اس کی تردید و تکذیب۔ ٦۔ ٢ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بعد آنے والے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوشخبری سنائی چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' "انا دعوۃ ابی ابراہیم وبشسارۃ عیسی" میں اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت کا مصداق ہوں۔ احمد یہ فاعل سے اگر مبالغے کا صیغہ ٠ ہو تو معنی ہوں گے دوسرے تمام لوگوں سے اللہ کی زیادہ حمد کرنے والا۔ اور اگر یہ مفعول سے ہوں تو معنی ہوں گے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوبیوں اور کمالات کی وجہ سے جتنی تعریف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کی گئی اتنی کسی کی بھی نہیں کی گئی۔ (فتح القدیر) ٦۔ ٢ یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیش کردہ معجزات کو جادو سے تعبیر کیا گیا، جس طرح گذشتہ قومیں بھی اپنے پیغمبروں کو اسی طرح کہتی رہیں۔ بعض نے اس سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لئے ہیں جیسا کہ کفار مکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے تھے۔ الصف
7 ٧۔ ١ یعنی اللہ کی اولاد قرار دے، یا جو جانور اس نے حرام قرار نہیں دیئے ان کو حرام باور کرائے۔ ٧۔ ٢ جو تمام دینوں میں اشرف اور اعلٰی ہے، اس لئے جو شخص ایسا ہو، اس کو کب یہ زیب دیتا ہے یہ وہ کسی پر بھی جھوٹ گھڑے، چہ جائیکہ اللہ پر جھوٹ باندھے؟ الصف
8 ٨۔ ١ نور سے مراد قرآن، یا اسلام یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے، یا دلائل و براہین ہیں ' منہ سے بجھا دیں ' کا مطلب ہے، وہ طعن کی وہ باتیں ہیں جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہیں۔ ٨۔ ٢ یعنی اس کو آفاق میں پھیلانے والا اور دوسرے تمام دینوں پر غالب کرنے والا ہے۔ دلائل کے لحاظ سے، یا مادی غلبے کے لحاظ سے یا دونوں لحاظ سے۔ الصف
9 ٩۔ ١ یہ گذشتہ بات ہی کی تاکید ہے، اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے پھر دہرایا گیا ہے۔ ٩۔ ١ تاہم یہ لامحالہ ہو کر رہے گا۔ الصف
10 ١٠۔ ١ اس عمل (یعنی ایمان اور جہاد) کو تجارت سے تعبیر کیا، اس لئے کہ اس میں بھی انہیں تجارت کی طرح ہی نفع ہوگا وہ نفع کیا ہے؟ جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات۔ اس سے بڑا نفع اور کیا ہوگا۔ اور وہ نفع کیا ہے اس بات کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا "اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ" 9۔ التوبہ :111) اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کا سودا جنت کے بدلے میں کرلیا ہے۔ الصف
11 الصف
12 الصف
13 ١٣۔ ١ یعنی جب تم اس کی راہ میں لڑو گے اور اس کے دین کی مدد کروگے، تو وہ بھی تمہیں فتح و نصرت سے نوازے گا۔ "ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم"(سورہ محمد) "ولینصرن اللہ من ینصرہ ان اللہ لقوی عزیز"(الحج) آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں اسے فتح قریب قرار دیا اور اس سے مراد فتح مکہ ہے اور بعض نے فارس و روم کی عظیم الشان سلطنتوں پر مسلمانوں کے غلبے کو اس کا مصداق قرار دیا ہے۔ جو خلافت راشدہ میں مسلمانوں کو حاصل ہوا۔ ١٣۔ ٢ جنت کی بھی، مرنے کے بعد اور فتح و نصرت کی بھی، دنیا میں، بشرطیکہ اہل ایمان ایمان کے تقاضے پورے کرتے رہیں۔ "وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ" 3۔ آل عمران :139) آگے اللہ تعالیٰ مؤمنوں کو اپنے دین کی نصرت کی مزید ترغیب دے رہا ہے۔ الصف
14 ١٤۔ ١ تمام حالتوں میں، اپنے اقوال وافعال کے ذریعے سے بھی اور جان ومال کے ذریعے سے بھی۔ جب بھی جس وقت بھی اور جس حالت میں بھی تمہیں اللہ اور اس کا رسول اپنے دین کے لیے پکارے تم فورا ان کی پکار پر لبیک کہو، جس طرح حواریین نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی پکار پر لبیک کہا۔ ١٤۔ ٢ یعنی ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس دین کی دعوت و تبلیغ میں مددگار ہیں جس کی نشرو اشاعت کا حکم اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایام حج میں فرماتے ' کون ہے جو مجھے پناہ دے تاکہ میں لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا سکوں، اس لئے کہ قریش مجھے فریضہ رسالت ادا نہیں کرنے دیتے ' حتٰی کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پکار پر مدینے کے اوس اور خزرج نے لبیک کہا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر انہوں نے بیعت کی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کا وعدہ کیا۔ نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ پیشکش کی کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے تو وعدے کے مطابق انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور آپ کے تمام ساتھیوں کی مدد کی حتی کہ اللہ اور اس کے رسول نے ان کا نام ہی انصار رکھ دیا اور اب یہ ان کا علم بن گیا۔ (رض) وارضاھم۔ ١٤۔ ٣ یہ یہود تھے جنہوں نے نبوت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی کا انکار بلکہ ان پر اور ان کی ماں پر بہتان تراشی کی بعض کہتے ہیں کہ یہ اختلاف و تفرق اس وقت ہوا جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ ایک نے کہا عیسیٰ (علیہ السلام) کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہی زمین پر ظہور فرمایا تھا، اب وہ پھر آسمان پر چلا گیا، یہ فرقہ یعقوبیہ کہلاتا ہے نسطوریہ فرقے نے کہا وہ اب اللہ کے بیٹے تھے، باپ نے بیٹے کو آسمان پر بلا لیا ہے، تیسرے فرقے نے کہا وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے، یہی فرقہ صحیح تھا۔ ١٤۔ ٤ یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرما کر ہم نے اسی آخری جماعت کی دوسرے باطل گروہوں کے مقابلے میں مدد کی چنانچہ یہ صحیح عقیدے کی حامل جماعت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئی اور یوں ہم نے ان کو دلائل کے لحاظ سے بھی سب کافروں پر غلبہ عطا فرمایا اور قوت وسلطنت کے اعتبار سے بھی۔ اس غلبے کا آخری ظہور اس وقت پھر ہوگا۔ جب قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا دوبارہ نزول ہوگا جیسا کہ اس نزول اور غلبے کی صراحت احادیث صحیحہ میں تواتر کے ساتھ منقول ہے۔ الصف
0 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کی نماز میں سورۃ جمعہ اور منافقون پڑھا کرتے تھے (صحیح مسلم) تاہم ان کا جمعہ کی رات کو عشا کی نماز میں سورۃ جمعہ اور کافرون کا پڑھنا صحیح روایت سے ثابت نہیں، البتہ ایک ضعیف روایت میں ایسا آتا ہے۔ الجمعة
1 الجمعة
2 ٢۔ ١ اُ مِّیِّینَ سے مراد عرب ہیں جن کی اکثریت ان پڑھ تھی۔ ان کے خصوصی ذکر کا یہ مطلب نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت دوسروں کے کے لئے نہیں تھی، لیکن چونکہ اولین مخاطب وہ تھے اس لئے اللہ کا ان پر زیادہ احسان تھا۔ الجمعة
3 ٣۔ ١ یہ امیین پر عطف ہے یعنی بَعَثَ فِیْ اَ خِرِ یْنَ مِنْھُمْ اَخَرِ یْنَ سے فارس اور دیگر غیر عرب لوگ ہیں جو قیامت تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے والے ہونگے، بعض کہتے ہیں کہ عرب و عجم کے وہ تمام لوگ ہیں جو عہد صحابہ کرام کے بعد قیامت تک ہوں گے چنانچہ اس میں فارس، روم، بربر، سوڈان، ترک، مغول، کرد، چینی اور اہل ہند وغیرہ سب آجاتے ہیں۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہم کی نبوت سب کے لیے ہے چنانچہ یہ سب ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے۔ اور اسلام لانے کے بعد یہ بھی منہم کا مصداق یعنی اولین اسلام لانے والے امیین میں سے ہوگئے کیونکہ تمام مسلمان امت واحدہ ہیں۔ اسی ضمیر کی وجہ سے بعض کہتے ہیں کہ آخرین سے مراد بعد میں ہونے والے عرب ہیں کیونکہ منہم کی ضمیر کا مرجع امیین ہیں۔ الجمعة
4 ٤۔ ١ یہ اشارہ نبوت محمدی کی طرف ہوسکتا ہے اور اس پر ایمان لانے والوں کی طرف بھی۔ الجمعة
5 ٥۔ ١ اَ سْفَار سَفْر کی جمع ہے، معنی ہیں بڑی کتاب۔ کتاب جب پڑھی جاتی ہے تو انسان اس کے معنوں میں سفر کرتا ہے اس لئے کتاب کو سفر کہا جاتا ہے (فتح القدیر) یہ بے عمل یہودیوں کی مثال بیان کی گئی ہے کہ جس طرح گدھے کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی کمر پر جو کتابیں لدی ہیں، ان میں کیا لکھا ہوا ہے۔ یا اس پر کتابیں لدی ہوئی ہیں یا کوڑا کرکٹ۔ اسی طرح یہ یہودی ہیں یہ تورات کو تو اٹھائے پھرتے ہیں، بلکہ اس میں تاویل وتحریف اور تغیر وتبدل سے کام لیتے ہیں۔ اس لیے یہ حقیقت میں گدھے سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ گدھا تو پیدائشی طور پر فہم وشعور سے ہی عاری ہوتا ہے، جب کہ ان کے اندر فہم و شعور ہے لیکن یہ اسے صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرتے۔ اسی لیے آگے فرمایا کہ ان کی بڑی بری مثال ہے۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا " ۭاُولٰۗیِٕکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ اُولٰۗیِٕکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ ١٧٩؁" 7۔ الاعراف :179) یہ چوپائے کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں، یہی مثال مسلمانوں کی اور بالخصوص علماء کی ہے جو قرآن پڑھتے ہیں اسے یاد کرتے ہیں اور اس کے معانی ومطالب کو سمجھتے ہیں لیکن اس کے مقتضی پر عمل نہیں کرتے۔ الجمعة
6 ٦۔ ١ جیسے وہ کہا کرتے تھے کہ ' ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے چہیتے ہیں (وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰی نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّاۗؤُہٗ ۭقُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوْبِکُمْ ۭ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ ۭیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَاۗءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَاۗءُ ۭوَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا ۡ وَاِلَیْہِ الْمَصِیْرُ 18؀) 5۔ المائدہ :18) اور دعویٰ کرتے تھے کہ ' جنت میں صرف وہی جائے گا جو یہودی یا نصرانی ہوگا ' (وَقَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی ۭ تِلْکَ اَمَانِیُّھُمْ ۭ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ١١١۔) 2۔ البقرۃ:111) ٦۔ ٢ تاکہ تمہیں وہ اعزاز و اکرام حاصل ہو جو تمہارے غرور کے مطابق تمہارے لئے ہونا چاہیئے، ٦۔ ٣ اس لیے کہ جس کو یہ علم ہو کہ مرنے کے بعد اس کے لیے جنت ہے وہ تو وہاں جلد پہنچنے کا خواہش مند ہوتا ہے حافظ ابن کثیر نے اس کی تفسیر دعوت مباہلہ سے کی ہے۔ یعنی اس میں ان سے کہا گیا ہے کہ اگر تم نبوت محمدیہ کے انکار اور اپنے دعوائے ولایت ومحبوبیت میں سچے ہو تو مسلمانوں کے ساتھ مباہلہ کرلو۔ یعنی مسلمان اور یہودی دونوں مل کر بارگاہ الہی میں دعا کریں کہ یا اللہ ہم دونوں میں جو جھوٹا ہے اسے موت سے ہمکنار فرما دے۔ الجمعة
7 ٧۔ ١ یعنی کفر و معاصی اور کتاب الٰہی میں تحریف و تغیر کا جو ارتکاب یہ کرتے رہے ہیں، ان کے باعث کبھی بھی یہ موت کی آرزو نہیں کریں گے الجمعة
8 الجمعة
9 ٩۔ ١ یہ اذان کس طرح دی جائے، اس کے الفاظ کیا ہوں؟ یہ قرآن میں کہیں نہیں ہے۔ البتہ حدیث میں ہے جس سے یہ معلوم ہوا کہ حدیث کے بغیر قرآن کو سمجھنا ممکن ہے نہ اس پر عمل کرنا ہی۔ جمعہ کو، جمعہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس دن اللہ تعالیٰ ہر چیز کی پیدائش سے فارغ ہوگیا تھا، یوں گویا تمام مخلوقات کا اس دن اجتماع ہوگیا، یا نماز کے لئے لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے اس بنا پر کہتے ہیں (فتح القدیر) فَاَسْعَوْا کا مطلب یہ نہیں کہ دوڑ کر آؤ، بلکہ یہ ہے کہ اذان کے بعد فوراً کاروبار بند کر کے آجاؤ۔ کیونکہ نماز کے لیے دوڑ کر آنا ممنوع ہے، وقار اور سکینت کے ساتھ آنے کی تاکید کی گئی ہے۔ (صحیح بخاری) بعض حضرات نے ذروا البیع (خرید وفروخت) چھوڑ دو سے استدلال کیا ہے کہ جمعہ صرف شہروں میں فرض ہے اہل دیہات پر نہیں۔ کیونکہ کاروبار اور خریدوفروخت شہروں میں ہی ہوتی ہے دیہاتوں میں نہیں۔ حالانکہ اول تو دنیا میں کوئی ایسا گاؤں نہیں جہاں خرید وفروخت اور کاروبار نہ ہوتا ہو اس لیے یہ دعوٰی خلاف واقعہ دوسرا بیع اور کاروبار سے مطلب دنیا کے مشاغل ہیں وہ جیسے بھی اور جس قسم کے بھی ہوں۔ اذان جمعہ کے بعد انہیں ترک کردیا جائے۔ کیا اہل دیہات کے مشاغل دنیا نہیں ہوتے؟ کیا کیھتی باڑی کاروبار اور مشاغل دنیا سے مخلتف چیز ہے۔ الجمعة
10 ١٠۔ ١ اس سے مراد کاروبار اور تجارت ہے۔ یعنی نماز جمعہ سے فارغ ہو کر تم اپنے اپنے کاروبار اور دنیا کے مشاغل میں مصروف ہوجاؤ۔ مقصد اس امر کی وضاحت ہے کہ جمعہ کے دن کاروبار بند رکھنے کی ضرورت نہیں۔ صرف نماز کے وقت ایسا کرنا ضروری ہے۔ الجمعة
11 ١١۔ ١ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعے کا خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک قافلہ آگیا، لوگوں کو پتہ چلا تو خطبہ چھوڑ کر باہر خرید و فروخت کے لئے چلے گئے کہ کہیں سامان فروخت ختم نہ ہوجائے صرف ١٢ آدمی مسجد میں رہ گئے جس پر یہ آیت نازل ہوئی (صحیح بخاری)۔ انفضاض کے معنی ہیں مائل اور متوجہ ہونا دوڑ کر منتشر ہوجانا۔ الیھا میں ضمیر کا مرجع تجارۃ ہے یہاں صرف ضمیر تجارت پر اکتفا کیا اس لیے کہ جب تجارت بھی باوجود جائز اور ضروری ہونے کے دوران خطبہ مذموم ہے تو کھیل وغیرہ کے مذموم ہونے کیا شک ہوسکتا ہے؟ علاوہ ازیں قائما سے معلوم ہوا کہ خطبہ جمعہ کھڑے ہو کردینا سنت ہے۔ چنانچہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دو خطبے ہوتے تھے، جن کے درمیان آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھتے تھے، قرآن پڑھتے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت فرماتے۔ (صحیح مسلم) ١١۔ ٢ یعنی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کی اطاعت کی جو جزائے عظیم ہے ۔ ١١۔ ٣ جس کی طرف تم دوڑ کر گئے اور مسجد سے نکل گئے اور خطبہ جمعہ کی سماعت بھی نہیں کی۔ ١١۔ ٤ پس اسی سے روزی طلب کرو اور اطاعت کے ذریعے سے اسی کی طرف وسیلہ پکڑو۔ اس کی اطاعت اور اس کی طرف رزق حاصل کرنے کا بہت بڑا سبب ہے۔ الجمعة
0 المنافقون
1 ١۔ ١ منافقین سے مراد عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھی ہیں۔ یہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتے تو قسمیں کھا کھا کر کہتے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ ١۔ ٢ یہ جملہ معترضہ ہے جو مضمون ماقبل کی تاکید کے لیے ہے جس کا اظہار منافقین بطور منافقت کے کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تو ویسے ہی زبان سے کہتے ہیں، ان کے دل اس یقین سے خالی ہیں۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کے رسول ہیں۔ ١۔ ٣ اس بات میں کہ وہ دل سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی گواہی دیتے ہیں، یعنی دل سے گواہی نہیں دیتے صرف زبان سے دھوکا دینے کے لئے اظہار کرتے ہیں۔ المنافقون
2 ٢۔ ١ یعنی وہ قسم کھا کر کہتے ہیں کہ وہ تمہاری طرح مسلمان ہیں اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں انہوں نے اپنی اس قسم کو ڈھال بنا رکھا ہے۔ اس کے ذریعے سے وہ تم سے بچے رہتے ہیں اور کافروں کی طرح یہ تمہاری تلواروں کی زد میں نہیں آتے۔ ٢۔ ٢ دوسرا ترجمہ یہ ہے کہ انہوں نے شک و شبہات پیدا کرکے لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکا۔ المنافقون
3 ٣۔ ١ اس سے معلوم ہوا کہ منافقین بھی صریح کافر ہیں۔ المنافقون
4 ٤۔ ١ یعنی ان کے حسن و جمال اور رونق و شادابی کی وجہ سے۔ ٤۔ ٢ یعنی زبان کی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے۔ ٤۔ ٣ یعنی اپنی درازئی قد اور حسن ورعنائی، عدم فہم اور قلت خیر میں ایسے ہیں گویا کہ دیوار پر لگائی ہوئی لکڑیاں ہیں جو دیکھنے والوں کو تو بھلی لگتی ہے لیکن کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ ٤۔ ٤ یعنی بزدل ایسے ہیں کہ کوئی زوردار آواز سن لیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم پر کوئی آفت نازل ہوگئی یا گھبرا اٹھتے ہیں کہ ہمارے خلاف کسی کاروائی کا آغاز تو نہیں ہو رہا۔ المنافقون
5 ٥۔ ١ یعنی استغفار سے اعراض کرتے ہوئے اپنے سروں کو موڑ لیتے ہیں۔ ٥۔ ٢ یعنی کہنے والے کی بات سے منہ موڑ لیں گے یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اعراض کرلیں گے۔ المنافقون
6 ٦۔ ١ اپنے نفاق پر اصرار اور کفر پر قائم رہنے کی وجہ سے وہ ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں استغفار اور عدم استغفار ان کے حق میں برابر ہے۔ ٦۔ ٢ اگر اسی حالت میں نفاق میں مر گئے۔ ہاں اگر وہ زندگی میں کفر و نفاق سے تائب ہوجائیں تو بات اور ہے، پھر ان کی مغفرت ممکن ہے۔ المنافقون
7 ٧۔ ١ مطلب یہ کہ مہاجرین کا رازق اللہ تعالیٰ ہے اس لئے رزق کے خزانے اسی کے پاس ہیں، وہ جس کو جتنا چاہے دے اور جس سے چاہے روک لے۔ ٧۔ ٢ منافق اس حقیقت کو نہیں جانتے، اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ انصار اگر مہاجرین کی طرف دست تعاون دراز نہ کریں تو وہ بھوکے مر جائیں گے۔ المنافقون
8 ٨۔ ١ اس کا کہنے والا رئیس المنافق عبد اللہ بن ابی تھا، عزت والے سے اس کی مراد تھی، وہ خود اور اس کے رفقاء اور ذلت والے سے (نعوذ باللہ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان۔ ٨۔ ٢ یعنی عزت اور غلبہ صرف ایک اللہ کے لیے ہے اور پھر وہ اپنی طرف سے جس کو چاہے عزت وغلبہ عطا فرمادے۔ ٨۔ ٣ اس لیے ایسے کام نہیں کرتے جو ان کے لیے مفید ہیں اور ان چیزوں سے نہیں بچتے جو اس کے لیے نقصان دہ ہیں۔ المنافقون
9 ٩۔ ١ یعنی مال اور اولاد کی محبت تم پر غالب آجائے کہ تم اللہ کے بتلائے ہوئے احکام و فرائض سے غافل ہوجاؤ اور اللہ کی قائم کردہ حلال وحرام کی حدوں کی پروا نہ کرو۔ المنافقون
10 ١٠۔ ١ خرچ کرنے سے مراد زکوٰۃ کی ادائیگی اور دیگر امور خیر میں خرچ کرنا ہے۔ ١٠۔ ٢ اس سے معلوم ہوا کہ زکواۃ کی ادائیگی اور انفاق فی سبیل اللہ میں اور اسی طرح اگر حج کی استطاعت ہو تو اس کی ادائیگی میں قطعا تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ موت کا کوئی پتہ نہیں کس وقت آجائے؟ اور یہ فرائض اس کے ذمے رہ جائیں۔ المنافقون
11 المنافقون
0 التغابن
1 ١۔ ١ یعنی آسمان و زمین کی ہر مخلوق اللہ تعالیٰ کی ہر نقص وعیب سے تنزیہ وتقدیس بیان کرتی ہے زبان حال سے بھی اور زبان مقال سے بھی۔ جیسا کہ پہلے گزرا۔ ١۔ ٢ یہ دونوں خوبیاں بھی اسی کے ساتھ خاص ہیں۔ اگر کسی کو کوئی اختیار حاصل ہے تو وہ اسی کا عطا کردہ ہے جو عارضی ہے، کسی کے پاس کچھ حسن و کمال ہے تو اسی مبدأ فیض کی کرم گستری کا نتیجہ ہے، اس لئے اصل تعریف کا مستحق بھی صرف وہی ہے۔ التغابن
2 ٢۔ ١ یعنی انسان کے لیے خیروشر، نیکی اور بدی اور کفر و ایمان کے راستوں کی وضاحت کے بعد اللہ نے انسان کو ارادہ واختیار کی جو آزادی دی ہے اس کی رو سے کسی نے کفر کا اور کسی نے ایمان کا راستہ اپنایا ہے اس نے کسی پر جبر نہیں کیا ہے۔ اگر وہ جبر کرتا تو کوئی بھی شخص کفر کا راستہ اختیار کرنے پر قادر نہ ہوتا۔ التغابن
3 ٣۔ ١ اور وہ عدل و حکمت یہی ہے کہ محسن کو احسان کی اور بدکار کو اس کی بدی کی جزا دے، چنانچہ وہ اس عدل کا مکمل اہتمام قیامت والے دن فرمائے گا۔ ٣۔ ٢ تمہاری شکل وصورت، قدو قامت اور خدوخال نہایت خوبصورت بنائے۔ جس سے اللہ کی دوسری مخلوق محروم ہے۔ ٣۔ ٢ کسی اور کی طرف نہیں، کہ اللہ کے محاسبے اور مؤاخذے سے بچاؤ ہوجائے۔ التغابن
4 ٤۔ ١ یعنی اس کا علم کائنات ارضی و سماوی سب پر محیط ہے بلکہ تمہارے سینوں کے رازوں تک سے واقف ہے، اس سے قبل جو وعدے اور وعیدین بیان ہوئی ہیں، یہ ان کی تاکید ہے۔ التغابن
5 ٥۔ ١ یعنی دنیاوی عذاب کے علاوہ آخرت میں۔ ٥۔ ٢ یہ اشارہ ہے اس عذاب کی طرف جو دنیا میں انہیں ملا اور آخرت میں بھی انہیں ملے گا۔ التغابن
6 ٦۔ ١ چنانچہ اس بنا پر انہوں نے رسولوں کو رسول ما ننے سے اور ان پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ ٦۔ ٢ یعنی ان سے اعراض کیا اور جو دعوت وہ پیش کرتے تھے، اس پر انہوں نے غور و تدبر ہی نہیں کیا۔ ٦۔ ٣ یعنی ان کے ایمان اور ان کی عبادت سے۔ ٦۔ ٤ اس کو کسی کی عبادت سے کیا فائدہ اور اس کی عبادت سے انکار کرنے سے کیا نقصان؟ ٦ ۔ ٥ یا محمود ہے تمام مخلوقات کی طرف سے یعنی ہر مخلوق زبان حال وقال سے اس کی حمد وتعریف میں رطب اللسان ہے۔ التغابن
7 ٧۔ ١ یعنی یہ عقیدہ کے قیامت والے دن دوبارہ زندہ نہیں کیے جائیں گے یہ کافروں کا محض گمان ہے جس کی پشت پر دلیل کوئی نہیں۔ زعم کا اطلاق کذب پر بھی ہوتا ہے۔ ٧۔ ٢ قرآن مجید میں تین مقامات پر اللہ نے اپنے رسول کو یہ حکم دیا کہ وہ اپنے رب کی قسم کھا کر یہ اعلان کرے کہ اللہ تعالیٰ ضرور دوبارہ زندہ فرمائے گا۔ ان میں سے ایک یہ مقام ہے اس سے قبل ایک مقام سورۃ یونس، اور دوسرا مقام سورۃ سبا ہے۔ ٧۔ ٣ یہ وقوع قیامت کی حکمت ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو کیوں دوبارہ زندہ کرے گا ؟ تاکہ وہاں پر ہر ایک کو اس کے عمل کی پوری جزا دی جائے۔ ٧۔ ٤ یہ دوبارہ زندگی، انسانوں کو کتنی ہی مشکل نظر آتی ہو، لیکن اللہ کے لئے بالکل آسان ہے۔ التغابن
8 ٨۔ ١ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نازل ہونے والا یہ نور قرآن مجید ہے، جس سے گمراہی کی تاریکیاں چھٹتی ہیں اور ایمان کی روشنی پھیلتی ہے۔ التغابن
9 ٩۔ ١ قیامت کو یوم الجمع اس لیے کہا کہ اس دن اول وآخر سب ایک ہی میدان میں جمع ہوں گے فرشتے کی آواز سب سنیں گے ہر ایک کی نگاہ آخر تک پہنچے گی کیونکہ درمیان میں کوئی چیز حائل نہ ہوگی۔ ٩۔ ٢ یعنی ایک گروہ جیت جائے گا اور ایک ہار جائے گا، اہل حق اہل باطن پر، ایمان والے اہل کفر پر اور اہل طاعت اہل معصیت پر جیت جائیں گے، سب سے بڑی جیت اہل ایمان کو یہ حاصل ہوگی کہ وہ جنت میں داخل ہوجائیں گے اور سب سے بڑی ہار جہنمیوں کے حصے آئے گی جو جہنم میں داخل ہونگے۔ التغابن
10 التغابن
11 ١١۔ ١ یعنی اس کی تقدیر اور مشیت سے ہی اس کا ظہور ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں اس کے نزول کا سبب کفار کا یہ قول ہے کہ اگر مسلمان حق پر ہوتے تو دنیا کی مصیبتیں انہیں نہ پہنچتیں (فتح القدیر) ١١۔ ٢ یعنی وہ جان لیتا ہے کہ اسے جو کچھ پہنچا ہے اللہ کی مشیت اور اس کے حکم سے ہی پہنچا ہے پس وہ صبر اور رضا بالقضاء کا مظاہرہ کرتا ہے۔ التغابن
12 ١٢۔ ١ یعنی ہمارے رسول کا اس سے کچھ نہیں بگڑے گا، کیونکہ اس کا کام صرف تبلیغ ہے۔ امام زہری فرماتے ہیں، اللہ کا کام رسول بھیجنا ہے، رسول کا کام تبلیغ اور لوگوں کا کام تسلیم کرنا ہے (فتح القدیر) التغابن
13 ١٣۔ ١ یعنی تمام معاملات اسی کو سونپیں، اسی پر اعتماد کریں اور صرف اسی سے دعا والتجا کریں کیونکہ اس کے سوا کوئی حاجت روا اور مشکل کشا ہے ہی نہیں۔ التغابن
14 ١٤۔ ١ یعنی جو تمہیں عمل صالح اور اطاعت الٰہی سے روکیں، سمجھ لو وہ تمہارے خیر خواہ نہیں، دشمن ہیں۔ ١٤۔ ٢ یعنی ان کے پیچھے لگنے سے بچو، بلکہ انہیں اپنے پیچھے لگاؤ تاکہ وہ بھی اطاعت الٰہی اختیار کریں، نہ کہ ان کے پیچھ لگ کر اپنی عاقبت خراب کرلو۔ ١٤۔ ٣ اس کا سبب نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ مکے میں مسلمان ہونے والے بعض مسلمانوں نے مکہ چھوڑ کر مدینہ آنے کا ارادہ کیا، جیسا کہ اس وقت ہجرت کا حکم نہایت تاکید کے ساتھ دیا گیا تھا۔ لیکن ان کے بیوی بچے آڑے آگئے اور انہوں نے انہیں ہجرت نہیں کرنے دی پھر بعد میں جب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آگئے تو دیکھا کہ ان سے پہلے آنے والوں نے دین میں بہت زیادہ سمجھ حاصل کرلی تو انہیں اپنے بیوی بچوں پر غصہ آیا، جنہوں نے انہیں ہجرت سے روکا تھا، چنانچہ انہوں نے ان کو سزا دینے کا ارادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں انہیں معاف کرنے اور درگزر سے کام لینے کی تلقین فرمائی۔ التغابن
15 ١٥۔ ١ جو تمہیں کسب حرام پر اکساتے ہیں اور اللہ کے حقوق ادا کرنے سے روکتے ہیں پس اس آزمائش میں تم اسی وقت سرخرو ہوسکتے ہو جب تم اللہ کی معصیت میں ان کی اطاعت نہ کرو۔ مطلب یہ ہوا کہ مال واولاد جہاں اللہ کی نعمت ہیں وہاں انسان کی آزمائش کا ذریعہ بھی ہیں اس طرح اللہ دیکھتا ہے کہ کون میرا فرمانبردار ہے اور کون نافرمان۔ ١٥۔ ٢ یعنی اس شخص کے لئے جو مال و اولاد کی محبت کے مقابلے میں اللہ کی اطاعت کو ترجیح دیتا ہے اور اس کی نافرمانی سے اجتناب کرتا ہے۔ التغابن
16 ١٦۔ ١ یعنی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں کو توجہ اور غور سے سنو اور ان پر عمل کرو۔ اس لئے کہ صرف سن لینا بے فائدہ ہے، جب تک عمل نہ ہو۔ التغابن
17 ١٧۔ ١ یعنی اخلاص نیت اور طیب نفس کے ساتھ اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے۔ ١٧۔ ٢ یعنی کئی کئی گنا بڑھانے کے ساتھ وہ تمہارے گناہ بھی معاف فرما دے گا۔ ١٧۔ ٣ وہ اپنے اطاعت گزاروں کو اجر و ثواب سے نوازتا ہے اور گناہ گاروں کی فوری باز پرس نہیں فرماتا۔ التغابن
18 التغابن
0 الطلاق
1 ١۔ ١ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب آپ کے شرف و مرتب کی وجہ سے ہے، ورنہ حکم تو امت کو دیا جا رہا ہے۔ یا آپ ہی کو بطور خاص خطاب ہے۔ اور جمع کا صیغہ بطور تعظیم کے ہے اور امت کے لیے آپ کا اسوہ ہی کافی ہے۔ طَلَّقْتُمْ کا مطلب ہے جب طلاق دینے کا پختہ ارادہ کرلو۔ ١۔ ٢ اس میں طلاق دینے کا طریقہ اور وقت بتلایا ہے لعدتھن میں لام توقیت کے لیے ہے۔ یعنی لاول یا لاستقبال عدتھن (عدت کے آغاز میں طلاق دو۔ یعنی جب عورت حیض سے پاک ہوجائے تو اس سے ہم بستری کے بغیر طلاق دو حالت طہر میں اسکی عدت کا آغاز ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے حیض کی حالت میں یا طہر میں ہم بستری کرنے کے بعد طلاق دینا غلط طریقہ ہے اسکو فقہا طلاق بدعی سے اور پہلے صحیح طریقے کو طلاق سنت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسکی تایید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آتا ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) نے حیض کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غضبناک ہوئے اور انہیں اس سے رجوع کرنے کے ساتھ حکم دیا کہ حالت طہر میں طلاق دینا اور اسکے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی آیت سے استدلال فرمایا۔ (صحیح بخاری) تاہم حیض میں دی گئی طلاق بھی باوجود بدعی ہونے کے واقع ہوجائے گی۔ محدثین اور جمہور علماء اسی بات کے قائل ہیں البتہ امام ابن قیم اور امام ابن تیمیہ طلاق بدعی کے وقوع کے قائل نہیں ہیں۔ ۔ ١۔ ٣ یعنی اس کی ابتدا اور انتہا کا خیال رکھو، تاکہ عورت اس کے بعد نکاح ثانی کرسکے، یا اگر تم ہی رجوع کرنا چاہو، (پہلی اور دوسری طلاق کی صورت میں) تو عدت کے اندر رجوع کر سکو ١۔ ٤ یعنی طلاق دیتے ہی عورت کو اپنے گھر سے مت نکالو، بلکہ عدت تک اسے گھر ہی میں رہنے دو اور اس وقت تک رہائش اور نان و نفقہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ ١۔ ٥ یعنی عدت کے دوران خود عورت بھی گھر سے باہر نکلنے سے احتراز کرے الا یہ کہ کوئی بہت ہی ضروری معاملہ ہو۔ ١۔ ٦ یعنی بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھے یا بد زبانی اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کرے جس سے گھر والوں کو تکلیف ہو۔ دونوں صورتوں میں اس کا اخراج جائز ہوگا۔ ١۔ ٧ یعنی مرد کے دل میں مطلقہ عورت کی رغبت پیدا کردے اور وہ رجوع کرنے پر آمادہ ہوجائے جیسا کہ پہلی دوسری طلاق کے بعد خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہے۔ الطلاق
2 ٢۔ ١ مطلقہ مد خولہ کی عدت تین حیض ہے۔ اگر رجوع کرنا مقصود ہو تو عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے رجوع کرلو۔ بصورت دیگر انہیں معروف کے مطابق اپنے سے جدا کردو۔ ٢۔ ٢ اس رجعت اور بعض کے نزدیک طلاق پر گواہ کرلو۔ یہ امر وجوب کے لئے نہیں، استحباب کے لئے ہے، یعنی گواہ بنا لینا بہتر ہے تاہم ضروری نہیں۔ ٢۔ ٣ یہ تاکید گواہوں کو ہے کہ وہ کسی کی رعایت اور لالچ کے بغیر صحیح صحیح گواہی دیں۔ ٢۔ ٤ یعنی شدائد اور آزمائشوں سے نکلنے کی سبیل پیدا فرما دیتا ہے الطلاق
3 ٣۔ ١ یعنی وہ جو چاہے۔ اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ ٣۔ ٢ تنگیوں کے لئے بھی اور آسانیوں کے لئے بھی۔ یہ دونوں اپنے وقت پر انتہا پذیر ہوجاتے ہیں۔ بعض نے اس سے حیض اور عدت مراد لی ہے۔ الطلاق
4 ٤۔ ١ یہ ان کی عدت ہے جن کا حیض عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے بند ہوگیا ہو، یا جنہیں حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو۔ واضح رہے کہ نادر طور پر ایسا ہوتا ہے کہ عورت سن بلوغت کو پہنچ جاتی ہے اور اسے حیض ہی نہیں آتا۔ ٤۔ ٢ مطلقہ اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے، چاہے دوسرے روز ہی وضع حمل ہوجائے، ہر حاملہ عورت کی عدت یہی ہے چاہے وہ مطلقہ ہو یا اس کا خاوند فوت ہوگیا ہو۔ احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے (صحیح بخاری) اور جن کے خاوند فوت ہوجائیں ان کی عدت چار مہینے دس دن ہے۔ الطلاق
5 الطلاق
6 ٦۔ ١ یعنی مطلقہ رجعیہ کو۔ اس لیے کہ مطلقہ بائنہ کے لیے تو رہائش اور نفقہ ضروری ہی نہیں۔ اپنی طاقت کے مطابق رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر مکان فراخ ہو اور اس میں متعدد کمرے ہوں تو ایک کمرہ اس کے لیے مخصوص کردیا جائے۔ بصورت دیگر اپنا کمرہ اس کے لیے خالی کردے۔ اس میں حکمت یہی ہے کہ قریب رہ کر عدت گزارے گی تو شاید خاوند کا دل پسیج جائے اور رجوع کرنے کی رغبت اس کے دل میں پیدا ہوجائے خاص طور پر اگر بچے بھی ہوں تو پھر رغبت اور رجوع کا قوی امکان ہے۔ مگر افسوس ہے کہ مسلمان اس ہدایت پر عمل نہیں کرتے جس کی وجہ سے اس حکم کے فوائد سے بھی محروم ہیں۔ ہمارے معاشرے میں طلاق کے ساتھ ہی جس طرح عورت کو فوراً چھوت بنا کر گھر سے نکال دیا جاتا ہے، یا بعض دفعہ لڑکی والے اسے اپنے گھر لے جاتے ہیں، یہ رواج قرآن کریم کی صریح تعلیم کے خلاف ہے۔ ٦۔ ٢ یعنی نان نفقہ میں یا رہائش میں اسے تنگ اور بے آبرو کرنا تاکہ وہ گھر چھوڑ جائے۔ عدت کے دوران ایسا رویہ اختیار نہ کیا جائے۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے عدت ہوجانے کے قریب ہو تو رجوع کرلے اور بار بار ایسا نہ کرے، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں کیا جاتا تھا۔ جس کے سدباب کے لیے شریعت نے طلاق کے بعد رجوع کرنے کی حد مقرر فرمادی تاکہ کوئی شخص آئندہ اس طرح عورت کو تنگ نہ کرے، اب ایک انسان دو مرتبہ تو ایسا کرسکتا ہے یعنی طلاق دے کر عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلے۔ لیکن تیسری مرتبہ جب طلاق دے گا تو اس کے بعد اس کے رجوع کا حق بھی ختم ہوجائے گا۔ ٦۔ ٢ یعنی مطلقہ خواہ بائنہ ہی کیوں نہ ہو، اگر حاملہ ہے تو اس کا نفقہ و رہائش ضروری ہے، جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے۔ ٦۔ ٣ یعنی طلاق دینے کے بعد اگر وہ تمہارے بچے کو دودھ پلائے تو اس کی اجرت تمہارے ذمے ہے۔ ٦۔ ٤ یعنی باہم مشورے سے اجرت اور دیگر معاملات طے کر لئے جائیں۔ مثلاً بچے کا باپ حیثیت کے مطابق اجرت دے اور ماں، باپ کی حیثیت کے مطابق اجرت طلب کرے، وغیرہ۔ ٦۔ ٥ یعنی آپس میں اجرت وغیرہ کا معاملہ طے نہ ہوسکے تو کسی دوسری انا کے ساتھ معاملہ کرلے جو اسکے بچے کو دودھ پلائے الطلاق
7 ٧۔ ١ یعنی دودھ پلانے والی عورتوں کو اجرت اپنی طاقت کے مطابق دی جائے اگر اللہ نے مال ودولت میں فراخی عطا فرمائی ہے تو اسی فراخی کے ساتھ مرضعۃ کی خدمت ضروری ہے۔ ٧۔ ٢ یعنی مالی لحاظ سے کمزور ہو۔ ٧۔ ٣ اس لیے وہ غریب اور کمزور کو یہ حکم نہیں دیتا کہ وہ دودھ پلانے والی کو زیادہ اجرت ہی دے۔ مطلب ان ہدایات کا یہ ہے کہ بچے کی ماں اور بچے کا باپ دونوں ایسا مناسب رویہ اختیار کریں کہ ایک دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے اور بچے کو دودھ پلانے کا مسئلہ سنگین نہ جیسے دوسرے مقام پر فرمایا ( لَا تُضَاۗرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ) 2۔ البقرۃ:233) نہ ماں کو بچے کی وجہ سے تکلیف پہنچائی جائے اور نہ باپ کو۔ ٧۔ ٤ چنانچہ جو اللہ پر اعتماد وتوکل کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو آسانی و کشادگی سے بھی نواز دیتا ہے۔ الطلاق
8 ٨۔ ١ عَتَتُ، ای تمردت وطغت و استکبرت عن اتباع امر اللہ تعالیٰ و متابعۃ رسلہ۔ ٧۔ ٢ نکرا، منکرا فظیعا، حساب اور عذاب، دونوں سے مراد دنیاوی مواخذہ اور سزا ہے یا پھر بقول بعض کلام میں تقدیم وتاخیر ہے۔ عذابا نکرا، وہ عذاب ہے جو دنیا میں قحط، خسف ومسخ وغیرہ کی شکل میں انہیں پہنچا، اور حسابا شدیدا وہ ہے جو آخرت میں ہوگا۔ الطلاق
9 الطلاق
10 الطلاق
11 ١١۔ ١ رسول، ذکر سے بدل ہے، بطور مبالغہ رسول کو ذکر سے تعبیر فرمایا، جیسے کہتے ہیں، وہ مجسم عدل ہے۔ یا ذکر سے مراد قرآن ہے اور رسولاً سے پہلے اَرْسَلْنَا محذوف ہے یعنی ذکر (قرآن) کو نازل کیا اور رسول کو ارسال کیا۔ ١١۔ ٢ یہ رسول کا منصب اور فریضہ بیان کیا گیا کہ وہ قرآن کے ذریعے سے لوگوں کو اخلاقی پستیوں سے شرک و ضلالت کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان و عمل صالح کی روشنی کی طرف لاتا ہے۔ رسول سے یہاں مراد الرسول یعنی حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ ١١۔ ٣ عمل صالح میں دونوں باتیں شامل ہیں احکام وفرائض کی ادائیگی اور معصیات ومنہیات سے اجتناب، مطلب ہے کہ جنت میں وہی اہل ایمان داخل ہوں گے، جنہوں نے صرف زبان سے ہی ایمان کا اظہار نہیں کیا تھا، بلکہ انہوں نے ایمان کے تقاضوں کے مطابق فرائض پر عمل اور معاصی سے اجتناب کیا تھا۔ الطلاق
12 ١٢۔ ١ ای خلق من الارض مثلھن۔ یعنی سات آسمانوں کی طرح، اللہ نے سات زمینیں بھی پیدا کی ہیں۔ بعض نے اس سے سات اقالیم مراد لیے ہیں، لیکن یہ صحیح نہیں۔ بلکہ جس طرح اوپر نیچے سات آسمان ہیں۔ اسی طرح سات زمینیں ہیں، جن کے درمیان بعد و مسافت ہے اور ہر زمین میں اللہ کی مخلوق آباد ہے۔ (القرطبی) احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ جیسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من اخذ شبرا من الارض ظلاما فانہ یطوقہ یوم القیامۃ من سبع ارضین (صحیح مسلم) جس نے کسی کی ایک بالشت زمین بھی ہتھیالی تو قیامت والے دن اس زمین کا اتنا حصہ ساتوں زمینوں سے طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح بخاری) اور صحیح بخاری کے الفاظ ہیں خسف بہ الی سبع ارضین یعنی اس کو ساتوں زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا۔ بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ ہر زمین میں اسی طرح کا پیغمبر ہے جس طرح کا پیغمبر تمہاری زمین پر آیا مثلاً آدم آدم کی طرح، نوح نوح کی طرح، ابراہیم ابراہیم کی طرح، عیسیٰ عیسیٰ کی طرح۔ لیکن یہ بات کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں۔ ١٢۔ ٢ یعنی جس طرح ہر آسمان پر اللہ کا حکم نافذ اور غالب ہے، اسی طرح ہر زمین پر اس کا حکم چلتا ہے، آسمانوں کی طرح ساتوں زمینوں کی بھی وہ تدبیر فرماتا ہے۔ ١٢۔ ٣ پس اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیں، چاہے وہ کیسی ہی ہو۔ الطلاق
0 التحريم
1 ١۔ ١ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس چیز کو اپنے لئے حرام کرلیا تھا، وہ کیا تھی؟ جس پر اللہ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ اس سلسلے میں ایک تو وہ مشہور واقعہ ہے جو صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں نقل ہوا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت زینب بنت جحش (رض) کے پاس کچھ دیر ٹھہرتے اور وہاں شہد پیتے، حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ (رض) دونوں نے وہاں معمول سے زیادہ دیر تک آپ کو ٹھہرنے سے روکنے کے لئے یہ سکیم تیار کی کہ ان میں سے جس کے پاس بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں تو وہ ان سے کہے کہ اللہ کے رسول! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ سے مغافیر (ایک قسم کا پھول جس میں گوشت مچھلی کی سی بو ہوتی ہے) کی بو آرہی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، میں نے تو زینب رضی اللہ کے گھر صرف شہد پیا ہے۔ اب میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ نہیں پیوں گا، لیکن یہ بات تم کسی کو مت بتلانا۔ صحیح بخاری۔ سنن نسائی میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایک لونڈی تھی جس کو آپ نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا (سنن نسائی) جب کہ کچھ دوسرے علماء اسے ضعیف قرار دیتے ہیں اس کی تفصیل دوسری کتابوں میں اس طرح بیان کی گئی ہے کہ یہ حضرت ماریہ قبطیہ تھیں جن سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحبزادے ابراہیم تولد ہوئے تھے یہ ایک مرتبہ حضرت حفصہ کے گھر آگئی تھیں جب کہ حضرت حفصہ رضی اللہ موجود نہیں تھیں اتفاق سے انہی کی موجودگی میں حضرت حفصہ رضی اللہ آگئیں انہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اپنے گھر میں خلوت میں دیکھنا ناگوار گزرا جسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی محسوس فرمایا جس پر آپ نے حضرت حفصہ کو راضی کرنے کے لیے قسم کھا کر ماریہ رضی اللہ کو اپنے اوپر حرام کرلیا اور حفصہ رضی اللہ کو تاکید کی کہ وہ یہ بات کسی کو نہ بتلائے امام ابن حجر ایک تو یہ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ مختلف طرق سے نقل ہوا ہے جو ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں دوسری بات وہ یہ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے بیک وقت دونوں ہی واقعات اس آیت کے نزول کا سبب بنے ہوں۔ فتح الباری۔ امام شوکانی نے بھی اسی رائے کا اظہار کیا ہے اور دونوں کو صحیح قرار دیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام کرنے کا اختیار کسی کے پاس بھی نہیں ہے حتی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی یہ اختیار نہیں رکھتے۔ التحريم
2 ٢۔ ١ یعنی کفارہ ادا کرکے اس کام کو کرنے کی، جس کی نہ کرنے کی قسم کھائی ہو، اجازت دے دی، قسم کا یہ کفارہ سورۃ مائد ۃ۔ ٨٩ میں بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی کفارہ ادا کیا (فتح القدیر) اس امر میں علماء کے مابین اختلاف ہے کہ اگر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے تو اس کا یہ حکم ہے؟ جمہور علماء کے نزدیک بیوی کے علاوہ کسی چیز کو حرام کرنے سے وہ چیز حرام ہوگی اور نہ اس پر کفارہ ہے، اگر بیوی کو اپنے اوپر حرام کرے گا تو اس سے اس کا مقصد اگر طلاق ہے تو طلاق ہوجائے گی اور اگر طلاق کی نیت نہیں ہے تو راجح قول کے مطابق یہ قسم ہے، اس کے لئے کفارہ کی ادائیگی ضروری ہے۔ (ایسر التفاسیر)۔ التحريم
3 ٣۔ ١ وہ پوشیدہ بات شہد کو یا ماریہ کو حرام کرنے والی بات تھی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حفصہ سے کی تھی۔ ٣۔ ٢ یعنی حفصہ رضی اللہ نے وہ بات حضرت عائشہ رضی اللہ کو جاکر بتلا دی۔ ٣۔ ٣ یعنی حفصہ رضی اللہ کو بتلا دیا کہ تم نے میرا راز فاش کردیا ہے۔ تاہم اپنی تکریم و عظمت کے پیش نظر ساری بات بتانے سے اعراض فرمایا۔ ٣۔ ٤ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حفصہ رضی اللہ کو بتلایا کہ تم نے میرا راز ظاہر کردیا ہے تو وہ حیران ہوئیں کیونکہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ کے علاوہ کسی کو یہ بات نہیں بتلائی تھی اور عائشہ رضی اللہ سے انہیں یہ توقع نہیں تھی کہ وہ آپ کو بتلا دیں گی، کیونکہ وہ شریک معاملہ تھیں۔ ٣۔ ٥ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے علاوہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کا نزول ہوتا تھا۔ التحريم
4 ٤۔ ١ یا تمہاری توبہ قبول کرلی جائے گی یہ شرط ان تتوبا کا جواب محذوف ہے۔ ٤۔ ٢ یعنی حق سے ہٹ گئے ہیں اور وہ ہے ان کا ایسی چیز پسند کرنا جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ناگوار تھی (فتح القدیر) ٤۔ ٣ یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں تم جتھہ بندی کروگی تو نبی کا کچھ نہیں بگاڑ سکو گی، اس لئے کہ نبی کا مددگار تو اللہ بھی ہے اور مومنین اور ملائکہ بھی۔ التحريم
5 ٥۔ ١ یہ تنبیہ کے طور پر ازواج مطہرات کو کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو تم سے بھی بہتر بیویاں عطا کرسکتا ہے ٥۔ ٢ ثیبات۔ ثیب کی جمع ہے (لوٹ آنے والی) بیوہ عورت کو ثیب اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ خاوند سے واپس لوٹ آتی ہے اور پھر اس طرح بے خاوند رہ جاتی ہے جیسے پہلے تھی ابکار بکر کی جمع ہے کنواری عورت اسے بکر اسی لیے کہتے ہیں کہ یہ ابھی اپنی اسی پہلی حالت پر ہوتی ہے جس پر اس کی تخلیق ہوتی ہے فتح القدیر۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ ثیب سے حضرت آسیہ فرعون کی بیوی اور بکر سے حضرت مریم حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ مراد ہیں یعنی جنت میں ان دونوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں بنا دیا جائے گا ممکن ہے کہ ایسا ہو لیکن ان روایات کی بنیاد پر ایسا خیال رکھنا یا بیان کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ سندا یہ روایات پایہ اعتبار سے ساقط ہیں۔ التحريم
6 ٦ ۔ ١ اس میں اہل ایمان کو ان کی ایک نہایت اہم ذمے داری کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور وہ ہے اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کی بھی اصلاح اور ان کی اسلامی تعلیم وتربیت کا اہتمام تاکہ یہ سب جہنم کا ایندھن بننے سے بچ جائیں اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جب بچہ سات سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اسے نماز کی تلقین کرو اور دس سال عمر کے بچوں میں نماز سے تساہل دیکھو تو انہیں سرزنش کرو سنن ابی داؤد۔ فقہا نے کہا ہے اسی طرح روزے ان سے رکھوائے جائیں اور دیگر احکام کے اتباع کی تلقین انہیں کی جائے تاکہ جب وہ شعور کی عمر کو پہنچیں تو اس دین حق کا شعور بھی انہیں حاصل ہوچکا ہو۔ ابن کثیر۔ التحريم
7 التحريم
8 ٨۔ ١ خالص توبہ یہ ہے کہ، ١۔ جس گناہ سے توبہ کر رہا ہے، اسے ترک کر دے ٢۔ اس پر اللہ کی بارگاہ میں ندامت کا اظہار کرے، ٣۔ آئندہ اسے نہ کرنے کا عزم رکھے، ٤۔ اگر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو جس کا حق غصب کیا ہے اس کا ازالہ کرے، جس کے ساتھ زیادتی کی ہے اس سے معافی مانگے، محض زبان سے توبہ توبہ کرلینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ٨۔ ٢ یہ دعا اہل ایمان اس وقت کریں جب منافقین کا نور بجھا دیا جائے گا، جیسا سورۃ حدید میں تفصیل گزری، اہل ایمان کہیں گے، جنت میں داخل ہونے تک ہمارے اس نور کو باقی رکھ اور اس کا اتمام فرما۔ التحريم
9 ٩۔ ١ کفار کے ساتھ جہاد، و قتال کے ساتھ اور منافقین سے، ان پر حدود الٰہی قائم کرکے، جب وہ ایسے کام کریں جو موجب حد ہوں۔ ٩۔ ٢ یعنی دعوت وتبلیغ میں سختی اور احکام شریعت میں درشتی اختیار کریں کیونکہ یہ لاتوں کے بھوت ہیں جو باتوں سے ماننے والے نہیں ہیں اس کا مطلب ہے کہ حکمت تبلیغ کبھی نرمی کی متقاضی ہوتی ہے اور کبھی سختی کی ہر جگہ نرمی بھی مناسب نہیں اور ہر جگہ سختی بھی مفید نہیں رہتی تبلیغ ودعوت میں حالات وظروف اور اشخاص وافراد کے اعتبار سے نرمی یا سختی کرنے کی ضرورت ہے۔ ٩۔ ٣ یعنی کافروں اور منافقوں دونوں کا ٹھکانا جہنم ہے۔ التحريم
10 ١٠۔ ١ مثل کا مطلب ہے کسی ایسی حالت کا بیان کرنا جس میں ندرت وغرابت ہوتا کہ اس کے ذریعے سے ایک دوسری حالت کا تعارف ہوجائے جو ندرت وغرابت میں اس کے مماثل ہو مطلب یہ ہوا کہ ان کافروں کے حال کے لیے اللہ نے ایک مثال بیان فرمائی ہے جو نوح اور لوط علیہما السلام کی بیوی کی ہے۔ ١٠۔ ٢ یہاں خیانت سے مراد ہے کہ یہ اپنے خاوندوں پر ایمان نہیں لائیں نفاق میں مبتلا رہیں اور ان کی ہمدردیاں اپنی کافر قوموں کے ساتھ رہیں چنانچہ نوح (علیہ السلام) کی بیوی، حضرت نوح (علیہ السلام) کی بابت لوگوں سے کہتی کہ یہ مجنون ہے اور لوط (علیہ السلام) کی بیوی اپنی قوم کو گھر میں آنے والے مہمانوں کی اطلاع پہنچاتی تھی بعض کہتے ہیں کہ یہ دونوں اپنی قوم کے لوگوں میں اپنے خاوندوں کی چغلیاں کھاتی تھیں۔ ١٠۔ ٣ یعنی نوح اور لوط علیہما السلام دونوں، باوجود اس بات کے کہ وہ اللہ کے پیغمبر تھے، جو اللہ کے مقرب ترین بندوں میں سے ہوتے ہیں، اپنی بیویوں کو اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکے ١٠۔ ٤ یہ انہیں قیامت والے دن کہا جائے گا یا موت کے وقت انہیں کہا گیا کافروں کی یہ مثال بطور خاص یہاں ذکر کرنے سے مقصود ازواج مظہرات کو تنبیہ کرنا ہے کہ وہ بیشک اس رسول کے حرم کی زینت ہیں جو تمام مخلوق میں سب سے بہتر ہے لیکن انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر انہوں نے رسول کی مخالفت کی یا انہیں تکلیف پہنچائی تو وہ بھی اللہ کی گرفت میں آسکتی ہیں اور اگر ایسا ہوگیا تو پھر کوئی ان کو بچانے والا نہیں ہوگا۔ التحريم
11 ١١۔ ١ یعنی ان کی ترغیب ثبات قدمی، استقامت فی الدین اور شدائد میں صبر کے لئے۔ نیز یہ بتلانے کے لئے کہ کفر کی صولت و شوکت، ایمان والوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، جیسے فرعون کی بیوی ہے جو اپنے وقت کے سب سے بڑے کافر کے تحت تھی۔ لیکن وہ اپنی بیوی کو ایمان سے نہیں روک سکا۔ التحريم
12 ١٢۔ ١ حضرت مریم علیہا السلام کے ذکر سے مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ باوجود اس بات کے کہ وہ ایک بگڑی ہوئی قوم کے درمیان رہتی تھی، لیکن اللہ نے انہیں دنیا و آخرت میں شرف و کرامت سے سرفراز فرمایا اور تمام جہان کی عورتوں پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔ ١٢۔ ٢ کلمات رب سے مراد شرائع الہی ہیں۔ ١٢۔ ٣ یعنی ایسے لوگوں میں سے یا خاندان میں سے تھیں جو فرماں بردار عبادت گزار اور صلاح واطاعت میں ممتاز تھا حدیث میں ہے جنتی عورتوں میں سب سے افضل حضرت خدیجہ، حضرت فاطمہ، حضرت مریم اور فرعون کی بیوی آسیہ ہیں رضی اللہ عنھن۔ (مسند احمد) ایک دوسری حدیث میں فرمایا مردوں میں تو کامل بہت ہوئے ہیں مگر عورتوں میں کامل صرف فرعون کی بیوی آسیہ مریم بنت عمران اور خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھن ہیں اور عائشہ (رض) کی فضلیت عورتوں پر ایسے ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر فضلیت حاصل ہے۔ صحیح بخاری۔ التحريم
0 الملك
1 ١۔ ١ اسی کے ہاتھ میں بادشاہی ہے یعنی ہر طرح کی قدرت اور غلبہ اسی کو حاصل ہے، وہ کائنات میں جس طرح کا تصرف کرے، کوئی اسے روک نہیں سکتا، وہ شاہ کو گدا اور گدا کو شاہ بنا دے، امیر کو غریب اور غریب کو امیر کردے۔ کوئی اس کی حکمت و مشیت میں دخل نہیں دے سکتا۔ الملك
2 روح ایک ایسی غیر مرئی چیز ہے جس بدن سے اس کا تعلق واتصال ہوجائے وہ زندہ کہلاتا ہے اور جس بدن سے اس کا تعلق منقطع ہوجائے وہ موت سے ہم کنار ہوجاتا ہے اس نے یہ عارضی زندگی کا سلسلہ، جس کے بعد موت ہے اس لیے قائم کیا ہے تاکہ وہ آزمائے کہ اس زندگی کا صحیح استعمال کون کرتا ہے؟ جو اسے ایماء و اطاعت کے لیے استعمال کرے گا اس کے لیے بہترین جزاء ہے اور دوسروں کے لیے عذاب۔ الملك
3 ٣۔ ١ یعنی کوئی نقص، کوئی کجی اور کوئی خلل، بلکہ بالکل سیدھے اور برابر ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ان سب کا پیدا کرنے والا صرف ایک ہی ہے متعدد نہیں۔ ٣۔ ٢ بعض دفعہ دوبارہ دیکھنے سے کوئی نقص اور عیب نکل آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دعوت دے رہا ہے کہ بار بار دیکھو کہ کیا تمہیں کوئی شگاف تو نظر نہیں آتا۔ الملك
4 ٤۔ ١ یہ مذید تاکید ہے کہ جس سے مقصد اپنی عظیم قدرت اور وحدانیت کو واضح تر کرنا ہے۔ الملك
5 ٥۔ ١ یہاں ستاروں کے دو مقصد بیان کئے گئے ہیں ایک آسمانوں کی زینت کیونکہ وہ چراغوں سے جلتے ہیں دوسرا کہ شیطان آسمانوں کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ شرارہ بن کر ان پر گرتے ہیں۔ تیسرا مقصد ان کا یہ ہے جسے دوسرے مقامات پر بیان فرمایا گیا ہے کہ ان سے برو بحر میں راستوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ الملك
6 الملك
7 ٧۔ ١ شَھِیْق، اس آواز کو کہتے ہیں جو گدھا پہلی مرتبہ نکالتا ہے، یہ قبیح ترین آواز ہوتی ہے۔ جہنم بھی گدھے کی طرح چیخ اور چلا رہی اور آگ پر رکھی ہوئی ہانڈی کی طرح جوش مار رہی ہوگی۔ الملك
8 ٨۔ ١ یا مارے غیظ وغضب کے اس کے حصے ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں گے یہ جہنم کافروں کو دیکھ کر غضب ناک ہوگی جس کا شعور اللہ تعالیٰ اس کے اندر پیدا فرما دے گا اللہ تعالیٰ کے لیے جہنم کے اندر یہ ادراک وشعور پیدا کردینا کوئی مشکل نہیں۔ ٨۔ ٢ جس کی وجہ سے تمہیں آج جہنم کے عذاب کا مزہ چکھنا پڑا ہے۔ الملك
9 ٩۔ ١ یعنی ہم نے پیغمبروں کی تصدیق کرنے کی بجائے انہیں جھٹلایا، آسمانی کتابوں کا ہی سرے سے انکار کردیا حتٰی کہ اللہ کے پیغمبروں کو ہم نے کہا کہ تم بڑی گمراہی میں مبتلا ہو۔ الملك
10 ١٠۔ ١ یعنی غور اور توجہ سے سنتے اور ان کی باتوں اور نصیحتوں کو آویزہ گوش بنا لیتے، اسی طرح اللہ کی دی ہوئی عقل سے بھی سوچنے سمجھنے کا کام لیتے تو آج ہم دوزخ والوں میں شامل نہ ہوتے۔ الملك
11 ١١۔ ١ جس کی بنا پر مستحق عذاب قرار پائے اور وہ ہے کفر اور انبیاء علیہم السلام کی تکذیب۔ ١١۔ ٢ یعنی اب ان کے لئے اللہ اور اس کی رحمت سے دوری ہی دوری ہے۔ الملك
12 ١٢۔ ١ یہ اہل کفر وتکذیب کے مقابلے میں اہل ایمان کا اور ان نعمتوں کا ذکر ہے جو انہیں قیامت والے دن اللہ کے ہاں ملیں گی۔ بالغیب کا ایک مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کو دیکھا تو نہیں لیکن پیغمبروں کی تصدیق کرتے ہوئے وہ اللہ عذاب سے ڈرتے رہے دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لوگوں کی نظروں سے غائب یعنی خلوتوں میں اللہ سے ڈرتے رہے۔ الملك
13 ١٣۔ ١ یہ پھر کافروں سے خطاب ہے۔ مطلب ہے کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں چھپ کر باتیں کرو یا اعلان یہ سب اللہ کے علم میں ہے، اس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں۔ وہ تو سینوں کے رازوں اور دلوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے تمہاری باتیں کس طرح اس سے پوشیدہ رہ سکتی ہیں۔ الملك
14 ١٤۔ ١ یعنی سینوں اور دلوں اور ان میں پیدا ہونے والے خیالات، سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے، تو کیا وہ اپنی مخلوق سے بے علم رہ سکتا ہے۔ الملك
15 ١٥۔ ١ لطیف کے معنی ہے باریک بین یعنی جس کا علم اتنا ہے کہ دلوں میں پرورش پانے والی باتوں کو بھی جانتا ہے۔ ذلول کے معنی مطیع۔ یعنی زمین کو تمہارے لیے نرم اور آسان کردیا اس کو اسی طرح سخت نہیں بنایا کہ تمہارا اس پر آباد ہونا اور چلنا پھرنا مشکل ہو۔ یعنی زمین کی پیداوار سے کھاؤ پیو۔ الملك
16 ١٦۔ ١ یہ کافروں کو ڈرایا جا رہا ہے کہ آسمانوں والی ذات جب چاہے تمہیں زمین میں دھنسا دے۔ یعنی وہی زمین جو تمہاری قرار گاہ ہے اور تمہاری روزی کا مخزن و منبع ہے، اللہ تعالیٰ اسی زمین کو، جو نہایت پر سکون ہے، حرکت، جنبش میں لا کر تمہاری ہلاکت کا باعث بنا سکتا ہے۔ الملك
17 ١٧۔ ١ جیسے اس نے قوم لوط اور اصحاب فیل پر برسائے اور پتھروں کی بارش سے ان کو ہلاک کردیا۔ ١٧۔ ٢ لیکن اس وقت یہ علم، بے فائدہ ہوگا۔ الملك
18 الملك
19 ١٩۔ ١ پرندہ جب ہوا میں اڑتا ہے تو وہ پر پھیلاتا ہے اور کبھی دوران پرواز پروں کو سمیٹ لیتا ہے۔ یہ پھیلانا، صَف اور سمیٹ لینا قَبْض ہے۔ ١٩۔ ٢ یعنی دوران پرواز ان پرندوں کو تھامے رکھنے والا کون ہے، جو انہیں زمین پر گرنے نہیں دیتا ؟ یہ اللہ رحمان ہی کی قدرت کا ایک نمونہ ہے۔ الملك
20 ٢٠۔ ١ جس میں انہیں شیطان نے مبتلا کر رکھا ہے۔ الملك
21 ٢١۔ ١ یعنی اللہ بارش نہ برسائے، یا زمین ہی کو پیداوار سے روک دے یا تیار شدہ فصلوں کو تباہ کر دے، جیسا کہ بعض بعض دفعہ وہ ایسا کرتا ہے، جس کی وجہ سے تمہاری خوراک کا سلسلہ موقوف ہوجائے، اگر اللہ تعالیٰ ایسا کر دے تو کیا کوئی اور ہے جو اللہ کی مشیت کے برعکس تمہیں روزی مہیا کر دے؟ یعنی وعظ ونصیحت کی ان باتوں کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ وہ حق سے سرکشی اور اعراض ونفور میں ہی بڑھتے چلے جا رہے ہیں عبرت پکڑتے ہیں اور نہ ہی غور و فکر کرتے ہیں۔ الملك
22 ٢٢۔ ١ منہ کے بل اوندھے چلنے والے کو دائیں بائیں کچھ نظر نہیں آتا نہ وہ ٹھوکروں سے محفوظ ہوتا ہے کیا ایسا شخص اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے؟ یقینا نہیں اسی طرح دنیا میں اللہ کی معصیتوں میں ڈوبا ہوا شخص آخرت کی کامیابی سے محروم رہے گا۔ (٢) جس میں کوئی کجی اور انحراف نہ ہوا اور اس کو آگے اور دائیں بائیں بھی نظر آرہا ہو ظاہر ہے یہ شخص اپنی منزل مقصود کو پہنچ جائے گا یعنی اللہ کی اطاعت کا سیدھا راستہ اپنانے والا آخرت میں سرخرو رہے گا بعض کہتے ہیں کہ مومن اور کافر دونوں کی اس کیفیت کا بیان ہے جو قیامت والے دن انکی ہوگی کافر منہ کے بل جہنم میں جائے جائیں گے اور مومن سیدھے قدموں سے چل کر جنت میں جائیں گے۔ الملك
23 ٣۔ ١ یعنی پہلی مرتبہ پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے۔ ٢٣۔ ٢ یعنی کان آنکھیں اور دل بنائیں جن سے تم سن سکو اور اللہ کی مخلوق میں غور و فکر کرکے اللہ کی معرفت حاصل کرسکو تین قوتوں کا ذکر فرمایا ہے جن سے انسان مسموعات، مبصرات اور معقولات کا ادراک کرسکتا ہے یہ ایک طرح سے اتمام حجت بھی ہے اور اللہ کی ان نعمتوں پر شکر نہ کرنے کی مذمت بھی اسی لیے آگے فرمایا تم بہت ہی کم شکرگزاری کرتے ہو۔ ٢٣۔ ٢ یعنی شُکْرًا قَلِیْلًا یا زَمْنً قَلِیلًا یا قلت شکر سے مراد ان کی طرف سے شکر کا عدم وجود ہے۔ الملك
24 یعنی انسانوں کو پیدا کرکے زمین میں پھیلانے والا بھی وہی ہے اور قیامت والے دن سب جمع بھی اس کے پاس ہوں گے کسی اور کے پاس نہیں۔ الملك
25 ٢٥۔ ١ یہ کافر بطور مذاق قیامت کو دور دراز کی باتیں سمجھتے ہوئے کہتے ہیں۔ الملك
26 ٢٦۔ ١ یعنی میرا کام تو صرف انجام سے ڈرانا ہے جو میری تکذیب کی وجہ تمہارا ہوگا، دوسرے لفظوں میرا کام انزاز ہے، غیب کی خبریں بتانا نہیں۔ الا یہ کہ جس کی بابت خود اللہ مجھے بتلا دے۔ الملك
27 ٢٧۔ ١ یعنی ذلت اور ہولناکی اور دہشت سے ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہونگی۔ جس کو دوسرے مقام پر چہروں کے سیاہ ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی یہ عذاب جو تم دیکھ رہے ہو وہی ہے جسے تم دنیا میں جلد طلب کرتے تھے۔ الملك
28 ٢٨۔ ١ مطلب یہ ہے کہ کافروں کو تو اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہے چاہے اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور اس پر ایمان لانے والوں کو موت یا قتل کے ذریعے ہلا کر دے یا انہیں مہلت دے دے یا یہ مطلب ہے کہ ہم باوجود ایمان کے خوف اور رجا کے درمیان پس تمہیں تمہارے کفر کے باوجود عذاب سے کون بچائے گا۔ الملك
29 ٢٩۔ ١ یعنی وحدانیت پر، اسی لئے اس کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتے۔ ٢٩۔ ٢ کسی اور پر نہیں۔ ہم اپنے تمام معاملات اسی کے سپرد کرتے ہیں، کسی اور کے نہیں جیسے مشرک کرتے ہیں۔ یعنی تم ہو یا ہم اس میں کافروں کے لیے سخت وعید ہے۔ الملك
30 ٣٠۔ ١ غَوْرًا کے معنی ہیں خشک ہوجانا یا اتنی گہرائی میں چلا جانا کہ وہاں سے پانی نکالنا ناممکن ہو۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ پانی خشک فرما دے کہ اس کا وجود ہی ختم ہوجائے یا اتنی گہرائی میں کر دے کہ ساری مشینیں پانی نکالنے میں ناکام ہوجائیں تو بتلاؤ! پھر کون ہے جو تمہیں جاری، صاف اور نتھرا ہوا پانی مہیا کر دے؟ یعنی کوئی نہیں ہے کہ تمہیں پانی سے محروم نہیں فرماتا۔ الملك
0 القلم
1 ١۔ ٢ قلم کی قسم کھائی، جس کی اس لحاظ سے ایک اہمیت ہے کہ اس کے ذریعے سے کھول کر بیان لکھا جاتا ہے بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ خاص قلم ہے جسے اللہ نے سب سے پہلے پیدا فرمایا اور اسکو تقدیر لکھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اس نے ابد تک ہونے والی ساری چیزیں لکھ دیں (سنن ترمذی) القلم
2 ٢۔ ١ یہ جواب قسم ہے، جس میں کفار کے قول کا رد ہے، وہ آپ کو مجنون (دیوانہ) کہتے تھے۔ القلم
3 ٣۔ ١ فریضہ نبوت کی ادائیگی میں جتنی زیادہ تکلیفیں برداشت کیں اور دشمنوں کی باتیں سنی ہیں اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔ القلم
4 ٤۔ ١ خلق عظیم سے مراد اسلام، دین یا قرآن ہے مطلب ہے کہ تو اس خلق پر ہے جس کا حکم اللہ نے تجھے قرآن میں یا دین میں دیا ہے۔ القلم
5 ٥۔ ١ یعنی جب حق واضح ہوجائے گا اور سارے پردے اٹھ جائیں گے اور یہ قیامت کے دن ہوگا بعض نے اسے جنگ بدر سے متعلق فرمایا ہے۔ القلم
6 القلم
7 القلم
8 ٨۔ ١ اطاعت سے مراد یہاں وہ مدارات ہے جس کا اظہار انسان نے اپنے ضمیر کے خلاف کرتا ہے۔ یعنی مشرکوں کی طرف جھکنے اور ان کی خاطر مدارت کی ضرورت نہیں۔ القلم
9 ٩۔ ١ وہ چاہتے ہیں کہ تو ان کے معبودوں کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرے تو وہ بھی تیرے بارے میں نرم رویہ اختیار کریں باطل پرست اپنی باطل پرستی کو چھوڑنے میں ڈھیلے ہوجائیں گے۔ اس لئے حق میں خوشامد، حکمت، تبلیغ اور کار نبوت کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔ القلم
10 القلم
11 القلم
12 القلم
13 ١٣۔ ١ یہ ان کافروں کی اخلاقی پستیوں کا ذکر ہے جن کی خاطر پیغمبر کو خوش آمد کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ القلم
14 ١٤۔ ١ یعنی مذکورہ اخلاقی قباحتوں کا ارتکاب اس لئے کرتا ہے کہ اللہ نے اسے مال اور اولاد کی نعمتوں سے نوازا ہے یعنی وہ شکر کی بجائے کفران نعمت کرتا ہے، یعنی جس شخص کے اندر یہ خرابیاں ہوں، اس کی بات صرف اس لئے مان لی جائے کہ وہ مال اور اولاد رکھتا ہے۔ القلم
15 القلم
16 ١٦۔ ١ بعض کے نزدیک اس کا تعلق دنیا سے ہے، مثلًا کہا جاتا ہے کہ جنگ بدر میں ان کافروں کے ناکوں کو تلواروں کا نشانہ بنایا گیا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ قیامت والے دن جہنمیوں کی علامت ہوگی کہ ان کے ناکوں کو داغ دیا جائے گا یا اس کا مطلب چہروں کی سیاہی ہے۔ جیسا کہ کافروں کے چہرے اس دن سیاہ ہونگے۔ بعض کہتے ہیں کہ کافروں کا یہ حشر دنیا اور آخرت دونوں جگہ ممکن ہے۔ القلم
17 ١٧۔ ١ مراد اہل مکہ ہیں یعنی ہم نے ان کو مال و دولت سے نوازا تاکہ وہ اللہ کا شکر کریں نہ کہ کفر وتکبر لیکن انہوں نے کفر و استکبار کیا تو ہم نے انہیں بھوک اور قحط کی آزمائش میں ڈال دیا جس میں وہ نبی کی بددعا کی وجہ سے کچھ عرصہ مبتلا رہے۔ ١٧۔ ٢ باغ والوں کا قصہ عربوں میں مشہور تھا۔ یہ باغ (یمن) سے دو فرسخ کے فاصلے پر تھا اس کا مالک اس کی پیداوار غربا و مساکین پر بھی خرچ کرتا تھا، لیکن اس کے مرنے کے بعد جب اس کی اولاد اس کی وارث بنی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے تو اپنے اخراجات بمشکل پورے ہوتے ہیں، ہم اس کی آمدنی میں سے مساکین اور سائلین کو کس طرح دیں؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس باغ کو تباہ کردیا، کہتے ہیں یہ واقعہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان پر اٹھائے جانے کے تھوڑے عرصے بعد پیش آیا (فتح القدیر) یہ ساری تفصیل تفسیری روایات کی ہے۔ القلم
18 یعنی صبح ہوتے ہی پھل اتار لیں گے اور پیداوار کاٹ لیں گے۔ القلم
19 ١٩۔ ١ بعض کہتے ہیں، راتوں رات اسے آگ لگ گئی، بعض کہتے ہیں، جبرائیل (علیہ السلام) نے آکر اسے تہس نہس کردیا۔ القلم
20 ٢٠۔ ١ یعنی جس طرح کھیتی کٹنے کے بعد خشک ہوجاتی ہے، اس طرح سارا باغ اجڑ گیا، بعض نے ترجمہ یہ کیا ہے، سیاہ رات کی طرح ہوگیا، یعنی جل کر۔ القلم
21 القلم
22 القلم
23 ٢٣۔ ١ یعنی باغ کی طرف جانے کے لئے ایک تو صبح صبح نکلے دوسرے آہستہ آہستہ باتیں کرتے ہوئے گئے تاکہ کسی کو ان کے جانے کا علم نہ ہو۔ القلم
24 ٢٤۔ ١ یعنی وہ ایک دوسرے کو کہتے رہے کہ آج کوئی باغ میں آکر ہم سے کچھ نہ مانگے جس طرح ہمارے باپ کے زمانے میں آیا کرتے تھے اور وہ اپنا حصہ لے جاتے تھے۔ القلم
25 ٢٥۔ ١ یعنی اپنے معاملے کا انہوں نے اندازہ کرلیا، یا اپنے ارادے سے انہوں نے باغ پر قدرت حاصل کرلی، یا مطلب ہے مساکین پر انہوں نے قابو پا لیا۔ القلم
26 ٢٦۔ ١ یعنی باغ والی جگہ کو راکھ کا ڈھیر یا اسے تباہ برباد دیکھا۔ (١) یعنی پہلے پہل تو ایک دوسرے کو کہا۔ القلم
27 ٢٧۔ ١ پھر جب غور کیا تو جان گئے کہ یہ آفت زدہ اور تباہ شدہ باغ ہمارا ہی ہے جسے اللہ نے ہمارے طرز عمل کی پاداش میں ایسا کردیا اور واقعی یہ ہماری بد نصیبی ہے۔ القلم
28 ٢٨۔ ١ بعض نے تسبیح سے مراد انشاء اللہ کہنا مراد لیا ہے۔ القلم
29 ٢٩۔ ١ یعنی اب انہیں احساس ہوا کہ ہم نے اپنے باپ کے طرز عمل کے خلاف قدم اٹھا کر غلطی کا ارتکاب کیا ہے جس کی سزا اللہ نے ہمیں دی ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ معصیت کا عزم اور اس کے لیے ابتدائی اقدامات بھی ارتکاب معصیت کی طرح جرم ہے جس پر مؤاخذہ ہوسکتا ہے صرف وہ ارادہ معاف ہے جو وسوسے کی حد تک ہو۔ القلم
30 القلم
31 القلم
32 ٣٢۔ ١ کہتے ہیں کہ انہوں نے آپس میں عہد کیا کہ اب اگر اللہ نے ہمیں مال دیا تو اپنے باپ کی طرح اس میں سے غربا اور مساکین کا حق ادا کریں گے۔ اسلئے ندامت اور توبہ کے ساتھ رب سے امیدیں بھی وابستہ کیں۔ القلم
33 یعنی اللہ کے حکم کی مخالفت اور اللہ کے دیے مال میں بخل کرنے والوں کو ہم دنیا میں اسی طرح عذاب دیتے ہیں۔ ٣٣۔ ١ لیکن افسوس وہ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے، اس لئے پروا نہیں کرتے۔ القلم
34 القلم
35 ٣٥۔ ١ مشرکین مکہ کہتے تھے کہ اگر قیامت ہوئی تو وہاں بھی ہم مسلمانوں سے بہتر ہی ہونگے، جیسے دنیا میں ہم مسلمانوں سے زیادہ آسودہ حال ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا، یہ کس طرح ممکن ہے ہم مسلمانوں کو یعنی اپنے فرماں برداروں کو مجرموں یعنی نافرمانوں کی طرح کردیں گے مطلب یہ ہے کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ عدل وانصاف کے خلاف دونوں کو یکساں کردے۔ القلم
36 القلم
37 ٣٧۔ ١ جس میں یہ بات لکھی ہوئی ہے جس کا تم دعویٰ کر رہے ہو، کہ وہاں بھی تمہارے لئے وہ کچھ ہو جسے تم پسند کرتے ہو۔ القلم
38 ٣٩۔ ١ یا ہم نے تم سے پکا عہد کر رکھا ہے، جو قیامت تک باقی رہنے والا ہے کہ تمہارے لئے وہی کچھ ہوگا جس کا تم اپنی بابت فیصلہ کرو گے۔ القلم
39 القلم
40 ٤٠۔ ١ کہ کیا وہ قیامت والے دن ان کے لئے وہی کچھ فیصلہ کروائے گا، جو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لئے فرمائے گا۔ القلم
41 ٤١۔ ١ یا جن کو انہوں نے شریک ٹھہرا رکھا ہے وہ ان کی مدد کر کے ان کو اچھا مقام دلوا دیں گے؟ اگر ان کے شریک ایسے ہیں تو ان کو سامنے لائیں تاکہ ان کی صداقت واضح ہو۔ القلم
42 ٤٢۔ ١ بعض نے کشف ساق سے مراد قیامت کی ہولناکیاں [ ا۔ ی] لی ہیں لیکن ایک صحیح حدیث اس کی تفسیر اس طرح بیان ہوئی ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا (جس طرح اس کی شان کے لائق ہے) تو ہر مومن مرد اور عورت اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں گے البتہ وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھلاوے اور شہرت کے لئے سجدہ کرتے تھے وہ سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی ریڑھ کی ہڈی کے منکے، تختے کی طرح ایک ہڈی بن جائیں گے جس کی وجہ سے ان کے لئے جھکنا ناممکن ہوجائے گا (صحیح بخاری) اللہ تعالیٰ کی پنڈلی کس طرح کی ہوگی؟ اسے وہ کس طرح کھولے گا ؟ اس کیفیت ہم نہ جان سکتے ہیں نہ بیان کرسکتے ہیں۔ اس لئے جس طرح ہم بلا کیف و بلاشبہ اس کی آنکھوں، کان، ہاتھ وغیرہ پر ایمان رکھتے ہیں، اسی طرح پنڈلی کا ذکر بھی قرآن اور حدیث میں ہے، اس پر بلاکیف ایمان رکھنا ضروری ہے۔ یہی سلف اور محدثین کا مسلک ہے۔ القلم
43 ٤٣۔ ١ یعنی دنیا کے برعکس ان کا معاملہ ہوگا دنیا میں تکبر وعناد کی وجہ سے ان کی گردنیں اکڑی ہوتی تھیں۔ ٤٣۔ ٢ یعنی صحت مند اور توانا تھے، اللہ کی عبادت میں کوئی چیز ان کے لئے مانع نہیں تھی۔ لیکن دنیا میں اللہ کی عبادت سے یہ دور رہے۔ القلم
44 ٤٤۔ ١ یعنی میں ہی ان سے نمٹ لوں گا تو ان کی فکر نہ کر یہ ڈھیل دینے کا ذکر ہے۔ قرآن میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے اور حدیث میں بھی وضاحت کی گئی ہے کہ نافرمانی کے باوجود دنیاوی مال و اسباب کی فراوانی، اللہ کا فضل نہیں ہے، اللہ کے قانون پھر جب وہ گرفت کرنے پر آتا ہے تو کوئی بچانے والا نہیں ہوتا۔ القلم
45 القلم
46 ٤٦۔ ١ یہ خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے لیکن سرزنش ان کو کی جا رہی ہے جو آپ پر ایمان نہیں لا رہے تھے۔ القلم
47 ٤٧۔ ١ یعنی کیا غیب کا علم ان کے پاس ہے لوح محفوظ ان کے تصرف میں ہے کہ اس میں سے جو بات چاہتے ہیں نقل کرلیتے ہیں اس لیے یہ تیری اطاعت اختیار کرنے اور تجھ پر ایمان لانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ القلم
48 ٤٨۔ ١ جنہوں نے اپنی قوم کی روش تکذیب کو دیکھتے ہوئے عجلت سے کام لیا اور رب کے فیصلے کے بغیر ہی از خود اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے گئے۔ جس کے نتیجے میں انہیں مچھلی کے پیٹ میں، جب کہ وہ غم و اندوہ سے بھرے ہوئے تھے اپنے رب کو مدد کے لئے پکارنا پڑا۔ جیسے کہ تفصیل پہلے گزر چکی ہے، القلم
49 ٤٩۔ ١ یعنی اگر اللہ تعالیٰ انہیں توبہ و مناجات کی توفیق نہ دیتا اور ان کی دعا قبول نہ فرماتا تو ساحل سمندر کے بجائے جہاں ان کے سائے اور خوراک کے لئے بیلدار درخت اگا دیا گیا، کسی بنجر زمین میں پھینک دیا جاتا اور عند اللہ ان کی حیثیت بھی مذموم رہتی، جب کہ قبولیت دعا کے بعد وہ محمود ہوگئے۔ القلم
50 ٥٠۔ ١ اس کا مطلب ہے کہ انہیں توانا اور تندرست کرنے کے بعد دوبارہ رسالت سے نواز کر انہیں اپنی قوم کی طرف بھیجا گیا، جیسا کہ (وَاَنْۢبَتْنَا عَلَیْہِ شَجَرَۃً مِّنْ یَّقْطِیْنٍ ١٤٦؀ۚ) 37۔ الصافات :146) سے بھی واضح ہے۔ القلم
51 ٥١۔ ١ یعنی اگر تجھے اللہ کی حمائت و حفاظت نہ ہوتی تو کفار کی حاسدانہ نظروں سے نظر بد کا شکار ہوجانا یعنی ان کی نظر تمہیں لگ جاتی۔ چنانچہ امام ابن کثیر نے یہ مفہوم بیان کیا، مذید لکھتے ہیں ' یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نظر کا لگ جانا اور اس کا دوسروں پر، اللہ کے حکم سے، اثر انداز ہونا، حق ہے۔ جیسا کہ متعدد احادیث سے بھی ثابت ہے۔ چنانچہ حدیث میں اس سے بچنے کے لیے دعائیں بھی بیان کی گئی ہیں اور یہ بھی تاکید کی گئی ہے کہ جب تمہیں کوئی چیز اچھی لگے تو ماشاء اللہ یا بارک اللہ کہا کرو تاکہ اسے نظر نہ لگے۔ یعنی حسد کے طور پر بھی اور اس غرض سے بھی کہ لوگ اس قرآن سے متاثر نہ ہوں بلکہ اس سے دور ہی رہیں آنکھوں کے ذریعے سے بھی یہ کفار نبی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے اور زبانوں سے بھی آپ کو دیوانہ کہہ کر ایذاء پہنچاتے اور آپ کے دل کو مجروح کرتے۔ القلم
52 ٥٢۔ ١ جب واقعہ یہ ہے کہ یہ قرآن جن و انس کی ہدایت و رہنمائی کے لئے آیا ہے تو پھر اس کو لانے والا اور بیان کرنے والا مجنون (دیوانہ) کس طرح ہوسکتا ہے؟ القلم
0 الحاقة
1 ١۔ ١ یہ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اس میں امر الٰہی ثابت ہوگا اور خود یہ بھی بہر صورت وقوع پذیر ہونے والی ہے، اس لئے اسے الْحَاَقَّۃُ سے تعبیر فرمایا۔ الحاقة
2 ٢۔ ١ یہ لفظًا استفہام ہے لیکن اس کا مقصد قیامت کی عظمت اور شان بیان کی گئی ہے۔ الحاقة
3 ٣۔ ١ گویا کہ تجھے اس کا علم نہیں، کیونکہ تو نے ابھی اسے دیکھا ہے اور نہ اس کی ہولناکیوں کا مشاہدہ کیا ہے، گویا مخلوقات کے دائرہ علم سے باہر ہے (فتح القدیر) الحاقة
4 ٤۔ ١ اس میں قیامت کو کھڑکا دینے والی کہا ہے، اس لئے کہ یہ اپنی ہولناکیوں سے لوگوں کو بیدار کر دے گی۔ الحاقة
5 ٥۔ ١ اس میں قیام کو کھڑکا دینے والی کہا ہے، اس لئے کہ یہ اپنی ہولناکیوں سے لوگوں کو بیدار کر دے گی۔ الحاقة
6 ٦۔ ١ کسی کے قابو میں نہ آنے والی، یعنی نہایت تند و تیز، پالے والی اور بے قابو ہوا کے ذریعے اسے حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم عاد کو ہلاک کیا گیا۔ الحاقة
7 ٧۔ ١ جسم کے معنی کاٹنے اور جدا جدا کرنے کے ہیں اور بعض نے حسوما کے معنی پے درپے کیے ہیں۔ اس سے ان کی درازی کی طرف اشارہ ہے کھوکھلے بے روح جسم کو کھوکھلے تنے سے تشبیہ دی ہے۔ الحاقة
8 الحاقة
9 ٩۔ ١ اس سے قوم لوط مراد ہے۔ الحاقة
10 ١٠۔ ١ یعنی ان کی ایسی گرفت کی جو دوسری قوموں کی گرفت سے زائد یعنی سب میں سخت تر تھی۔ الحاقة
11 ١١۔ ١ یعنی پانی بلندی میں تجاوز کر گیا، یعنی پانی خوب چڑھ گیا۔ ١١۔ ٢ کُم سے مخاطب عہد رسالت کے لوگ ہیں، مطلب ہے کہ تم جن آبا کی پشتوں سے ہو، ہم نے انہیں کشتی میں سوار کرکے بپھرے ہوئے پانی سے بچایا تھا۔ اَلْجَارِیَۃ سے مراد سفینہ نوح (علیہ السلام) ہے۔ الحاقة
12 ١٢۔ ١ یعنی یہ فعل کہ کافروں کو پانی میں غرق کردیا اور مومنوں کو کشتی میں سوار کرا کے بچا لیا تمہارے لیے اس کو عبرت و نصیحت بنا دیں تاکہ تم اس سے نصیحت حاصل کرو اور اللہ کی نافرمانی سے بچو۔ یعنی سننے والے اسے سن کر یاد رکھیں اور وہ بھی اس سے عبرت پکڑیں۔ الحاقة
13 ١٣۔ ١ مکذبین کا انجام بیان کرنے کے بعد اب بتلایا جارہا ہے کہ یہ الحاقہ کس طرح واقع ہوگی اسرافیل کی ایک ہی پھونک سے یہ برپا ہوجائے گی۔ الحاقة
14 ١٤۔ ١ یعنی اپنی جگہوں سے اٹھا لیے جائیں گے اور قدرت الہی سے اپنی قرار گاہوں سے ان کو اکھیڑ لیا جائے گا۔ الحاقة
15 الحاقة
16 ١٦۔ ١ یعنی اس میں کوئی قوت اور استحکام نہیں رہے گا جو چیز پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے۔ اس میں استحکام کس طرح رہ سکتا ہے۔ الحاقة
17 ١٧۔ ١ یعنی آسمان تو ٹکرے ٹکرے ہوجائے گا پھر فرشتے کہاں ہونگے فرمایا کہ وہ آسمان کے کناروں پر ہوں گے اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ فرشتے آسمان پھٹنے سے پہلے ہی اللہ کے حکم سے زمین پر آجائیں گے۔ یعنی اب مخصوص فرشتوں نے عرش الٰہی کو اپنے سروں پر اٹھایا ہوا ہوگا، یہ بھی ممکن ہے اس عرش سے مراد وہ عرش ہو جو فیصلوں کے لئے زمین پر رکھا جائے گا، جس پر اللہ تعالیٰ نزول اجلال فرمائے گا (ابن کثیر) الحاقة
18 ١٨۔ ١ یہ پیشی اس لیے نہیں ہوگی کہ جن کو اللہ نہیں جانتا ان کو جان لے گا وہ تو سب کو ہی جانتا ہے یہ پیشی خود انسانوں پر حجت قائم کرنے کے لیے ہوگی ورنہ اللہ سے تو کسی کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ الحاقة
19 ١٩۔ ١ یعنی جو اس کی سعادت، نجات اور کامیابی کی دلیل ہوگا۔ یعنی وہ مارے خوشی کے ہر ایک کو کہے گا کہ لو، میرا اعمال نامہ پڑھ لو میرا اعمال نامہ تو مجھے مل گیا، اس لئے کہ اسے پتہ ہوگا کہ اس میں اس کی نیکیاں ہی نیکیاں ہوں گی، کچھ برائیاں ہونگی تو اللہ نے معاف فرما دی ہونگی۔ الحاقة
20 ٢٠۔ ١ یعنی آخرت کے حساب و کتاب پر میرا کامل یقین تھا۔ الحاقة
21 الحاقة
22 ٢٢۔ ١ جنت میں مختلف درجات ہیں ہر درجے کے درمیان بہت فاصلہ ہے جیسے مجاہدین کے بارے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ نے مجاہدین کے تیار کیے ہیں ان کے دو درجوں کے درمیان کا فاصلہ زمین و آسمان جتنا ہے۔ (صحیح مسلم) الحاقة
23 ٢٣۔ ١ یعنی بالکل قریب ہونگے کوئی لیٹے لیٹے بھی توڑنا چاہے گا تو ممکن ہوگا۔ الحاقة
24 ٢٤۔ ١ یعنی دنیا میں اعمال صالحہ کئے، یہ جنت ان کا صلہ ہے۔ الحاقة
25 ٢٥۔ ١ کیونکہ نامہ اعمال کا بائیں ہاتھ میں ملنا بدبختی کی علامت ہوگا۔ الحاقة
26 ٢٦۔ ١ یعنی مجھے بتلایا ہی نہ جاتا کیونکہ سارا حساب ان کے خلاف ہوگا۔ الحاقة
27 ٢٧۔ ١ یعنی موت ہی فیصلہ کن ہوتی اور دوبارہ زندہ نہ کیا جاتا تاکہ یہ روز بد نہ دیکھنا پڑتا۔ الحاقة
28 الحاقة
29 ٢٩۔ ١ یعنی جس طرح مال میرے کام نہ آیا، جاہ و مرتبہ اور سلطنت و حکومت بھی میرے کام نہ آئی۔ آج میں اکیلا ہی سزا بھگت رہا ہوں۔ الحاقة
30 الحاقة
31 ٣١۔ ١ یہ اللہ ملائکہ جہنم کو حکم دے گا۔ الحاقة
32 ٣٢۔ ١ ذراع (ہاتھ) یہ کتنا ہوگا اس کی وضاحت ممکن نہیں تاہم اس سے اتنا معلوم ہوا کہ زنجیر کی لمبائی ستر ذراع ہوگی۔ الحاقة
33 ٣٣۔ ١ یہ مذکورہ سزا کی علت یا مجرم کے جرم کا بیان ہے۔ الحاقة
34 ٣٤۔ ١ یعنی عبادت و اطاعت کے ذریعے سے اللہ کا حق ادا کرتا تھا اور نہ وہ حقوق ادا کرتا تھا جو بندوں کے بندوں پر ہیں۔ گویا اہل ایمان میں یہ جامعیت ہوتی ہے کہ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں۔ الحاقة
35 الحاقة
36 ٣ ٦ ۔ ١ بعض کہتے ہیں کہ یہ جہنم میں کوئی درخت ہے بعض کہتے ہیں کہ زقوم ہی کو غسلین کہا گیا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ جہنمیوں کی پیپ یا ان کے جسموں سے نکلنے والا خون اور بدبودار ہوگا۔ اللہ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔ الحاقة
37 ٣٧۔ ١ خاطئون سے مراد اہل جہنم ہیں جو کفر و شرک کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوں گے اس لیے کہ یہ گناہ ایسے ہیں جو خلود فی النار کا سبب ہیں۔ الحاقة
38 الحاقة
39 ٣٩۔ ١ یعنی اللہ کی پیدا کردہ وہ چیزیں، جو اللہ کی ذات اور اس کی قدرت و طاقت پر دلالت کرتی ہیں، جنہیں تم دیکھتے ہو یا نہیں دیکھتے، ان سب کی قسم ہے۔ آگے جواب قسم ہے۔ الحاقة
40 ٤٠۔ ١ بزرگ رسول سے مراد حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ اور قول سے مراد تلاوت ہے یعنی رسول کریم سے مراد ایسا قول ہے جو یہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے تمہیں پہنچاتا ہے۔ کیونکہ قرآن، رسول یا جبرائیل (علیہ السلام) کا قول نہیں ہے، بلکہ اللہ کا قول ہے جو اس نے فرشتے کے ذریعے سے پیغمبر پر نازل فرمایا ہے، پھر پیغمبر اسے لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ الحاقة
41 ٤١۔ ١ جیسا کہ تم سمجھتے ہو اور کہتے ہو اس لیے کہ یہ اصناف شعر سے نہ اس کے مشابہ ہے پھر یہی کسی شاعر کا کلام کس طرح ہوسکتا ہے۔ الحاقة
42 ٤٢۔ ١ جیسا کہ تم بعض دفعہ تم یہ دعوی کرتے ہو حالانکہ کہانت بھی ایک دوسری چیز ہے۔ قلت دونوں جگہ نفی کے معنی میں ہے یعنی تم نہ قرآن پر ایمان لاتے ہو نہ نصیحت پر عمل کرتے ہو۔ الحاقة
43 ٤٣۔ ١ یعنی رسول کی زبان سے ادا ہونے والا یہ قول رب العالمین کا اتارا ہوا کلام ہے اسے تم کبھی شاعری اور کبھی کہانت کہہ کر اس کی تکذیب کرتے ہو۔ الحاقة
44 ٤٤۔ ١ یعنی اپنی طرف سے گھڑ کر ہماری طرف منسوب کردیتا، یا اس میں کمی بیشی کردیتا، تو ہم فوراً اس کا مؤاخذہ کرتے اور اسے ڈھیل نہ دیتے جیسا کہ اگلی آیات میں فرمایا۔ الحاقة
45 ٤٥۔ ١ یا دائیں ہاتھ کے ساتھ اس کی گرفت کرتے، اس لئے کہ دائیں ہاتھ سے گرفت زیادہ سخت ہوتی ہے۔ اور اللہ کے دونوں ہاتھ ہی دائیں ہیں۔ الحاقة
46 ٤٦۔ ١ خیال رہے یہ سزا، خاص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ضمن میں بیان کی گئی ہے جس سے مقصد آپ کی صداقت کا اظہار ہے۔ اس میں یہ اصول بیان نہیں کیا گیا ہے کہ جو بھی نبوت کا جھوٹا وعدہ کرے تو جھوٹے مدعی کو ہم فورا سزا سے دوچار کردیں گے لہذا اس سے کسی جھوٹے نبی کو اس لیے سچا باور نہیں کرایا جاسکتا کہ دنیا میں وہ مؤخذہ الہی سے بچا رہا۔ الحاقة
47 ٤٧۔ ١ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے رسول تھے، جن کو اللہ نے سزا نہیں دی، بلکہ دلائل و معجزات اور اپنی خاص تائید و نصرت سے انہیں نوازا۔ الحاقة
48 ٤٨۔ ١ کیونکہ وہی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ورنہ قرآن تو سارے ہی لوگوں کے لیے نصیحت لے کر آیا ہے۔ الحاقة
49 الحاقة
50 ٥٠۔ ١ یعنی قیامت والے دن اس پر حسرت کریں گے، کہ کاش ہم نے قرآن کی تکذیب نہ کی ہوتی۔ یا یہ قرآن بجائے خود ان کے لئے حسرت کا باعث ہوگا، جب وہ اہل ایمان کو قرآن کا اجر ملتے ہوئے دیکھیں گے۔ الحاقة
51 ٥١۔ ١ یعنی قرآن اللہ کی طرف سے ہونا بالکل یقینی ہے، اس میں قطعًا شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ یا قیامت کی بابت جو خبر دی جا رہی ہے، وہ بالکل حق اور سچ ہے۔ الحاقة
52 ٥٢۔ ١ جس نے قرآن کریم جیسی عظیم کتاب نازل فرمائی۔ الحاقة
0 المعارج
1 ١۔ ١ کہتے ہیں نضر بن حارث تھا یا ابو جہل تھا جس نے کہا تھا (وَاِذْ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنْ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ 32؀) 8۔ الانفال :32) چنانچہ یہ شخص جنگ بدر میں مارا گیا۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ جنہوں نے اپنی قوم کے لئے بد دعا کی تھی اور اس کے نتیجے میں اہل مکہ پر قحط سالی مسلط کی گئی تھی۔ المعارج
2 المعارج
3 ٣۔ ١ یا درجات والا، بلندیوں والا ہے، جس کی طرف فرشتے چڑھتے ہیں۔ المعارج
4 ٤۔ ١ روح سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں، ان کی عظمت شان کے پیش نظر ان کا الگ خصوصی ذکر کیا گیا ہے ورنہ فرشتوں میں وہ بھی شامل ہیں۔ یا روح سے مراد انسانی روحیں ہیں جو مرنے کے بعد آسمان پر لے جاتی ہیں جیسا کہ بعض روایات میں ہے۔ اس یوم کی تعریف میں بہت اختلاف ہے جیسا کہ الم سجدہ کے آغاز میں ہم بیان کر آئے ہیں۔ المعارج
5 المعارج
6 المعارج
7 ٧۔ ١ دور سے مراد ناممکن اور قریب سے اس کا یقینی واقع ہونا ہے۔ یعنی کافر قیامت کو ناممکن سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ وہ ضرور آکر رہے گی۔ المعارج
8 المعارج
9 ٩۔ ١ یعنی دھنی ہوئی روئی کی طرح، جیسے سورۃ القارعۃ میں ہے۔ المعارج
10 المعارج
11 ١١۔ ١ لیکن سب کو اپنی اپنی پڑی ہوگی، اس لئے تعارف اور شناخت کے باوجود ایک دوسرے کو نہیں پوچھیں گے المعارج
12 المعارج
13 المعارج
14 ١٤۔ ١ یعنی اولاد، بیوی، بھائی اور خاندان یہ ساری چیزیں انسان کو نہایت عزیز ہوتی ہیں، لیکن قیامت والے دن مجرم چاہے گا کہ اس سے فدیے میں یہ عزیز چیزیں قبول کرلی جائیں اور اسے چھوڑ دیا جائے۔ المعارج
15 ١٥۔ ١ یعنی وہ جہنم، یہ اس کی شدت حرارت کا بیان ہے۔ المعارج
16 ١٦۔ ١ یعنی گوشت اور کھال کو جلا کر رکھ دے گی۔ انسان صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ جائے گا۔ المعارج
17 المعارج
18 ١٨۔ ١ یعنی دنیا میں حق سے پیٹھ پھیرتا اور منہ موڑتا تھا اور مال جمع کرکے خزانوں میں سنبھال سنبھال کر رکھتا تھا، اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا تھا نہ اس میں سے زکوٰۃ نکالتا تھا۔ اللہ تعالیٰ جہنم کو قوت گویائی عطا فرمائے گا اور جہنم بزبان قال خود ایسے لوگوں کو پکارے گی، بعض کہتے ہیں، پکارنے والے فرشتے ہی ہونگے اسے منسوب جہنم کی طرف کردیا گیا ہے۔ بعض کہتے ہیں کوئی نہیں پکارے گا، یہ صرف تمثیل کے طور پر ایسا کہا گیا ہے۔ مطلب ہے کہ مذکورہ افراد کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ المعارج
19 ١٩۔ ١ سخت حریص اور بہت جزع فزع کرنے والے کو ھلوع کہا جاتا ہے۔ جس کو ترجمے میں انسان کچے دل والا سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ ایسا شخص ہی بخیل و حریص اور زیادہ گریہ جاری کرنے والا ہوتا ہے۔ المعارج
20 المعارج
21 المعارج
22 المعارج
23 ٢٣۔ ١ مراد ہیں مومن کامل اور اہل توحید، ان کے اندر مذکورہ اخلاقی کمزوریاں نہیں ہوتیں بلکہ اس کے برعکس وہ صفات محمودہ کے پیکر ہوتے ہیں۔ ہمیشہ نماز پڑھنے کا مطلب ہے کہ نماز میں کوتاہی نہیں کرتے ہر نماز اپنے وقت پر نہایت پابندی اور التزام سے پڑھ لیتے ہیں۔ کوئی مشغولیت انہیں نماز سے نہیں روکتی اور دنیا کا کوئی فائدہ انہیں نماز سے غافل نہیں کرتا۔ المعارج
24 ٢٤۔ ١ یعنی زکوٰۃ مفروضۃ، بعض کے نزدیک یہ عام ہے، صدقات واجبہ اور نافلہ دونوں اس میں شامل ہیں۔ المعارج
25 ٢٥۔ ١ محروم میں وہ شخص بھی داخل ہے جو رزق سے ہی محروم ہے وہ بھی جو کسی آفت سماوی وارضی کی زد میں آکر اپنی پونجی سے محروم ہوگیا اور وہ بھی جو ضرورت مند ہونے کے باوجود اپنی صفت تعفف کی وجہ سے لوگوں کی عطا اور صدقات سے محروم رہتا ہے۔ المعارج
26 ٢ ٦ ۔ ١ یعنی وہ اس کا انکار کرتے ہیں نہ اس میں شک وشبہ کا اظہار۔ المعارج
27 ٢٧۔ ١ یعنی اطاعت اور اعمال صالحہ کے باوجود اللہ کی عظمت وجلالت کے پیش نظر اس کی گرفت سے لرزاں وترساں رہتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ جب تک اللہ کی رحمت ہمیں اپنے دامن میں نہیں ڈھانک لے گی ہمارے یہ اعمال نجات کے لیے کافی نہیں ہوں گے جیسا کہ اس مفہوم کی حدیث پہلے گزر چکی ہے۔ المعارج
28 ٢٨۔ ١ یہ سابقہ مضمون ہی کی تاکید ہے کہ اللہ کے عذاب سے کسی کو بھی بے خوف نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر وقت اس سے ڈرتے رہنا اور اس سے بچاؤ کی ممکنہ تدابیر اختیار کرتے رہنا چاہیے۔ المعارج
29 المعارج
30 ٣٠۔ ١ یعنی انسان کے جنسی تسکین کے لئے اللہ نے دو جائز ذرائع رکھے ہیں ایک بیوی اور دوسری (لونڈی) بہرحال اہل ایمان کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ جنسی خواہش کی تکمیل و تسکین کے لئے ناجائز ذریعہ اختیار نہیں کرتے۔ المعارج
31 المعارج
32 ٣٢۔ ١ یعنی ان کے پاس جو لوگوں کی امانتیں ہیں اس میں وہ خیانت نہیں کرتے اور لوگوں سے جو عہد کرتے ہیں انہیں توڑتے نہیں بلکہ ان کی پاسداری کرتے ہیں۔ المعارج
33 ٣٣۔ ١ یعنی اسے صحیح صحیح ادا کرتے ہیں چاہے اس کی زد میں ان کے قریبی عزیز ہی آجائیں علاوہ ازیں اسے چھپاتے بھی نہیں، نہ اس میں تبدیلی ہی کرتے ہیں۔ المعارج
34 المعارج
35 المعارج
36 المعارج
37 ٣٧۔ ١ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے کفار کا ذکر ہے کہ وہ آپ کی مجلس میں دوڑتے دوڑتے آتے، لیکن آپ کی باتیں سن کر عمل کرنے کی بجائے ان کا مذاق اڑاتے اور ٹولیوں میں بٹ جاتے۔ اور دعویٰ یہ کرتے کہ اگر مسلمان جنت میں گئے تو ہم ان سے پہلے جنت میں جائیں گے۔ اللہ نے اگلی آیت میں ان کے اس زعم باطل کی تردید فرمائی۔ المعارج
38 المعارج
39 ٣٩۔ ١ ایسا کیسا ممکن ہے کہ مومن اور کافر دونوں جنت میں جائیں رسول کو ماننے والے اور اس کی تکذیب کرنے والے دونوں کو اخروی نعمتیں ملیں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ یعنی (حقیر قطرے) سے۔ جب یہ بات ہے تو کیا تکبر اس انسان کو زیب دیتا ہے؟ جس تکبر کی وجہ سے ہی یہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب بھی کرتا ہے۔ المعارج
40 ٤٠۔ ١ تفصیل کے لئے سورۃ صافا ت۔ ٥ دیکھئے۔ المعارج
41 ٤١۔ ١ یعنی ان کو ختم کرکے ایک نئی مخلوق آباد کردینے پر ہم پوری طرح قادر ہیں۔ جب ایسا ہے تو کیا ہم قیامت والے دن ان کو دوبارہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ المعارج
42 ٤٢۔ ١ یعنی فضول اور لایعنی بحثوں میں پھنسے اور اپنی دنیا میں مگن رہیں تاہم آپ اپنی تبلیغ کا کام جاری رکھیں ان کا رویہ آپ کو اپنے منصب سے غافل یا بد دل نہ کر دے۔ المعارج
43 ٤٣۔ ١ جدث کے معنی ہیں قبر۔ جہاں بتوں کے نام پر جانور ذبح کیے جاتے ہیں اور بتوں کے معنی میں بھی استعمال ہے۔ بتوں کے پجاری جب سورج طلوع ہوتا تھا تو نہایت تیزی سے اپنے بتوں کی طرف دوڑتے کہ کون پہلے اسے بوسہ دیتا ہے۔ اسی طرح قیامت والے دن اپنی قبروں سے برق رفتاری سے نکلیں گے۔ المعارج
44 ٤٤۔ ١ جس طرح مجرموں کی آنکھیں جھکی ہوتی ہیں کیونکہ انہیں اپنے کرتوتوں کا علم ہوتا ہے۔ ٤٤۔ ٢ یعنی سخت ذلت انہیں اپنی لپیٹ میں لے رہی ہوگی اور ان کے چہرے مارے خوف کے سیاہ ہوں گے۔ ٤٤۔ ٣ یعنی رسولوں کی زبانی اور آسمانی کتابوں کے ذریعے سے۔ المعارج
0 نوح
1 ١۔ ١ حضرت نوح (علیہ السلام) جلیل القدر پیغمبروں میں سے ہیں، صحیح مسلم وغیرہ کی حدیث شفاعت میں ہے کہ یہ پہلے رسول ہیں، نیز کہا جاتا ہے کہ انہی کی قوم سے شرک کا آغاز ہوا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قوم کی ہدایت کے لئے مبعوث فرمایا۔ ١۔ ٢ قیامت کے دن عذاب یا دنیا میں عذاب آنے سے قبل، جیسے اس قوم پر طوفان آیا۔ نوح
2 ٢۔ ١ اللہ کے عذاب سے اگر تم ایمان نہ لائے اسی لیے عذاب سے نجات کا نسخہ تمہیں بتلانے آیا ہوں جو آگے بیان ہو رہا ہے۔ نوح
3 ٢۔ ١ اور شرک چھوڑ دو، صرف اسی کی عبادت کرو۔ ٢۔ ٢ اللہ کی نافرمانیوں سے اجتناب کرو، جن سے تم عذاب الٰہی کے مستحق قرار پا سکتے ہو، ٢۔ ٣ یعنی میں تمہیں جن باتوں کا حکم دوں اس میں میری اطاعت کرو، اس لئے کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول اور اس کا نمائندہ بن کر آیا ہوں۔ نوح
4 ٤۔ ١ اس کے معنی یہ کیے گۓ ہیں کہ ایمان لانے کی صورت میں تمہاری موت کی جو مدت مقرر ہے اس کو مؤخر کرکے تمہیں مذید مہلت عمر عطا فرمائے گا اور وہ عذاب تم سے دور کردے گا جو عدم ایمان کی صورت میں تمہارے لیے مقدر تھا۔ بلکہ لامحالہ واقع ہو کر رہنا ہے اسی لیے تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ ایمان واطاعت کا راستہ فورا اپنا لو تاخیر خطرہ ہے کہ وعدہ عذاب الہی کی لپیٹ میں نہ آجاؤ۔ نوح
5 ٥۔ ١ یعنی تیرے حکم کی تعمیل میں، بغیر کسی کوتاہی کے رات دن میں نے تیرا پیغام اپنی قوم کو پہنچایا ہے۔ نوح
6 ٦۔ ١ یعنی میری پکار سے یہ ایمان سے اور زیادہ دور ہوگئے ہیں۔ جب کوئی قوم گمراہی کے آخری کنارے پر پہنچ جائے تو پھر اس کا یہی حال ہوتا ہے، اسے جتنا اللہ کی طرف بلاؤ، وہ اتنا ہی دور بھاگتی ہے۔ نوح
7 ٧۔ ١ یعنی ایمان اور اطاعت کی طرف، جو سبب مغفرت ہے۔ ٧۔ ٢ تاکہ میری آواز سن سکیں۔ تاکہ میرا چہرہ نہ دیکھ سکیں یا اپنے سروں پر کپڑے ڈال دیے تاکہ میرا کلام نہ سن سکیں ٧۔ ٣ یعنی کفر پر مصر رہے، اس سے باز نہ آئے اور توبہ نہیں کی۔ ٧۔ ٤ قبول حق اور امتثال امر سے انہوں نے سخت تکبر کیا۔ نوح
8 نوح
9 ٩۔ ١ یعنی مختلف انداز اور طریقوں سے انہیں دعوت دی۔ بعض کہتے ہیں، کہ اجتماعات اور مجلسوں میں بھی انہیں دعوت دی اور گھروں میں فرساً فرداً بھی تیرا پیغام پہنچایا۔ نوح
10 ١٠۔ ١ یعنی ایمان اور اطاعت کا راستہ اپنالو، اور اپنے رب سے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگ لو۔ ١٠۔ ٢ وہ توبہ کرنے والوں کے لئے بڑا رحیم و غفار ہے۔ نوح
11 ١١۔ ١ بعض علماء اسی آیت کی وجہ سے نماز استسقاء میں سورۃ نوح کے پڑھنے کو مستحب سمجھتے ہیں۔ مروی ہے کہ حضرت عمر بھی ایک مرتبہ نماز استسقاء کے لئے منبر پر چڑھے تو صرف آیات استغفار (جن میں یہ آیت بھی تھی) پڑھ کر منبر سے اتر آئے۔ اور فرمایا کہ میں نے بارش کو، بارش کے ان راستوں سے طلب کیا ہے جو آسمانوں میں ہیں جن سے بارش زمین پر اترتی ہے (ابن کثیر) نوح
12 ١٢۔ ١ یعنی ایمان و اطاعت سے تمہیں اخروی نعمتیں ملیں گی بلکہ دنیاوی مال ودولت اور بیٹوں کی کثرت سے بھی نوازے جاؤ گے۔ نوح
13 ١٣۔ ١ یعنی جس طرح اس کی عظمت کا حق ہے تم اس سے ڈرتے کیوں نہیں؟ اور اس کو ایک کیوں نہیں مانتے اور اس کی اطاعت کیوں نہیں کرتے۔ نوح
14 ١٤۔ ١ پہلے نطفہ، پھر علقہ، پھر مضغہ، پھر عظام اور لحم اور پھر خلق تام، جیسا کہ (بَلْ قَالُـوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍۢ بَلِ افْتَرٰیہُ بَلْ ہُوَ شَاعِرٌ ښ فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَۃٍ کَمَآ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ ۝) 21۔ الانبیاء :5)، (اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ اَمْ جَاۗءَہُمْ مَّا لَمْ یَاْتِ اٰبَاۗءَہُمُ الْاَوَّلِیْنَ 68؀ۡ) 23۔ المؤمنون :68) وغیرھا میں تفصیل گزری۔ نوح
15 ١٥۔ ١ جو اس کی قدرت اور کمال صناعت پر دلالت کرتے ہیں اور اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عبادت کے لائق صرف وہی ایک اللہ ہے۔ نوح
16 ١٦۔ ١ جو روئے زمین کو منور کرنے والا اور اس کے ماتھے کا جھومر ہے۔ تاکہ اس کی روشنی میں انسان معاش کے لیے جو انسانوں کی انتہائی ناگزیر ضرورت ہے کسب و محنت کرسکے۔ نوح
17 ١٧۔ ١ یعنی تمہارے باپ آدم (علیہ السلام) کو، جنہیں مٹی سے بنایا گیا اور پھر اس میں اللہ نے روح پھونکی۔ یا اگر تمام انسانوں کو مخاطب سمجھا جائے، تو مطلب ہوگا کہ تم جس نطفے سے پیدا ہوتے ہو وہ اسی خوراک سے بنتا ہے جو زمین سے حاصل ہوتی ہے، اس اعتبار سے سب کی پیدائش کی اصل زمین ہی قرار پائی ہے۔ نوح
18 ١٨۔ ١ یعنی، مر کر پھر اسی مٹی میں دفن ہونا ہے اور پھر قیامت والے دن اسی زمین سے تمہیں زندہ کرکے نکالا جائے گا۔ نوح
19 ١٩۔ ١ یعنی اسے فرش کی طرح بچھا دیا ہے تم اس پر اسی طرح چلتے پھرتے ہو جیسے اپنے گھر میں بچھے ہوئے فرش پر چلتے اور اٹھتے بیٹھتے ہو۔ نوح
20 ٢٠۔ ١ یعنی اس زمین پر اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے کشادہ راستے بنا دیے ہیں تاکہ انسان آسانی کے ساتھ ایک دوسری جگہ، ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک ملک سے دوسرے ملک میں جاسکے اس لیے یہ راستے بھی انسان کی کاروباری اور تمدنی ضرورت ہے جس کا انتظام کرکے اللہ نے انسانوں پر احسان عظیم کیا ہے۔ نوح
21 ٢١۔ ١ لوگ میری نافرمانی پر اڑے ہوئے ہیں اور میری دعوت پر لبیک نہیں کہہ رہے۔ یعنی ان کے اپنے بڑوں اور صاحب ثروت ہی کی پیروی کی جن کے مال و اولاد نے انہیں دنیا اور آخرت کے خسارے میں ہی بڑھایا ہے۔ نوح
22 ٢٢۔ ١ یہ مکر یا فریب کیا تھا بعض کہتے ہیں ان کا بعض لوگوں کو حضرت نوح (علیہ السلام) کے قتل پر ابھارنا تھا بعض کہتے ہیں کہ مال واولاد کی وجہ سے جس فریب نفس کا وہ شکار ہوئے حتی کہ بعض نے کہا کہ اگر یہ حق پر نہ ہوتے تو ان کو یہ نعمتیں میسر کیوں آتیں؟ بعض کے نزدیک ان کا کفر ہی بڑا مکر تھا۔ نوح
23 ٢٣۔ ١ یہ قوم نوح (علیہ السلام) کے وہ لوگ تھے جن کی عبادت کرتے تھے اور ان کی اتنی شہرت ہوئی کہ عرب میں بھی ان کی پوجا ہوتی رہی، یہ پانچوں قوم نوح (علیہ السلام) کے نیک آدمیوں کے نام تھے، جب یہ مر گئے تو شیطان نے ان کے عقیدت مندوں کو کہا کہ ان کی تصوریں بنا کر تم اپنے گھروں اور دکانوں میں رکھ لو تاکہ ان کی یاد تازہ رہے اور ان کے تصور سے تم بھی ان کی طرح نیکیاں کرتے رہو، جب یہ تصویریں رکھنے والے فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کی نسلوں کو یہ کہہ کر کہ شرک میں ملوث کردیا کہ تمہارے آباء تو ان کی عبادت کرتے تھے جن کی تصویریں تمہارے گھروں میں لٹک رہی ہیں چنانچہ انہوں نے ان کی پوجا شروع کردی (صحیح بخاری) نوح
24 ٢٤۔ ١ انہوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا اور اس کا مرجع یہی مذکورہ پانچ بت ہیں، اس کا مطلب ہوگا کہ ان کے سبب بہت سے لوگ گمراہی میں مبتلا ہوئے۔ جیسے ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی کہا تھا۔ نوح
25 نوح
26 ٢٦۔ ١ یہ بددعا اس وقت کی جب حضرت نوح (علیہ السلام) ان کے ایمان لانے سے بالکل ناامید ہوگئے اور اللہ نے بھی اطلاع کردی کہ اب ان میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا (وَاُوْحِیَ اِلٰی نُوْحٍ اَنَّہٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِکَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَیِٕسْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ 36؀ښ) 11۔ ہود :36) مطلب ہے کسی کو باقی نہ چھوڑ۔ نوح
27 نوح
28 ٢٨۔ ١ کافروں کے لیے بدعا کی تو مومنین کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔ ٢٨۔ ٢ یہ بددعا قیامت تک آنے والے ظالموں کے لئے ہے جس طرح مذکورہ دعا تمام مومن مردوں اور تمام مومن عورتوں کے لئے ہے۔ نوح
0 الجن
1 ١۔ ١ یہ واقعہ (وَاِذْ صَرَفْنَآ اِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْٓا اَنْصِتُوْا ۚ فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوْا اِلٰی قَوْمِہِمْ مُّنْذِرِیْنَ 29؀) 46۔ الاحقاف :29) کے حاشیہ میں گزر چکا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وادی نخلہ صحابہ کرام کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ کچھ جنوں کا وہاں سے گزر ہوا تو انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قرآن سنا۔ جس سے وہ متاثر ہوئے۔ یہاں بتلایا جا رہا ہے کہ اس وقت جنوں کا قرآن سننا، آپ کے علم میں نہیں آیا، بلکہ وحی کے ذریعے سے ان کو اس سے آگاہ فرمایا گیا، الجن
2 ٢۔ ١ یہ قرآن کی دوسری صفت ہے کہ وہ راہ راست یعنی حق کو واضح کرتا ہے یا اللہ کی معرفت عطا کرتا ہے۔ یعنی ہم نے سن کر اس بات کی تصدیق کردی کہ واقعی یہ اللہ کا کلام ہے کسی انسان کا نہیں اس میں کفار کو توبیخ وتنبیہ ہے کہ جن تو ایک مرتبہ ہی سن کر قرآن پر ایمان لے آئے لیکن انسانوں کو خاص کر ان کے سرداروں کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ کی زبان سے متعدد بار انہوں نے قرآن سنا۔ ہم کسی کو بھی اس کا شریک نہ بنائیں گے نہ مخلوق میں سے نہ کسی اور معبود کو اس لیے کہ وہ اپنی ربوبیت میں متفرد ہے۔ الجن
3 ٣۔ ١ یعنی ہمارے رب کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ اس کی اولاد یا بیوی ہو۔ گویا جنوں نے ان مشرکوں کی غلطی کو واضح کیا جو اللہ کی طرف بیوی یا اولاد کی نسبت کرتے تھے، انہوں نے ان دونوں کمزویوں سے رب کی پاکی بیان کی۔ الجن
4 ٤۔ ١ (ہمارے بے وقوف) سے بعض نے شیطان مراد لیا ہے اور بعض نے ان کے ساتھی جن اور بعض نے بطور جنس ؛ یعنی ہر وہ شخص جو یہ گمان باطل رکھتا ہے کہ اللہ کی اولاد ہے۔ شَطَطًا کے کئ معنی کئے گئے ہیں، ظلم، جھوٹ، باطل، کفر میں مبالغہ وغیرہ۔ مقصد، راہ اعتدال سے دوری اور حد سے تجاوز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ بات کہ اللہ کی اولاد ہے ان بے وقوفوں کی بات ہے جو راہ اعتدال سے دور، حد متجاوز اور کاذب و افترا پرداز ہیں۔ الجن
5 ٥۔ ١ اسی لئے ہم اس کی تصدیق کرتے رہے اور اللہ کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے رہے۔ حتٰی کہ ہم نے قرآن سنا تو پھر ہم پر اس عقیدے کا باطل ہونا واضع ہوا۔ الجن
6 ٦۔ ١ یعنی جب جنات نے یہ دیکھا کہ انسان ہم سے ڈرتے ہیں اور ہماری پناہ طلب کرتے ہیں تو ان کی سرکشی اور تکبر میں اضافہ ہوگیا۔ الجن
7 الجن
8 ٨۔ ١ یعنی آسمانوں پر فرشتے چوکیداری کرتے ہیں کہ آسمانوں کی کوئی بات کوئی اور نہ سن لے اور یہ ستارے آسمان پر جانے والے شیاطین پر شعلہ بن کر گرتے ہیں۔ الجن
9 ٩۔ ١ اور آسمانی باتوں کی کچھ گن سن پا کر کاہنوں کو بتلا دیا کرتے تھے جس میں وہ اپنی طرف سے سو جھوٹ ملا دیا کرتے تھے۔ ٩۔ ٢ لیکن بعثت محمدیہ کے بعد یہ سلسلہ بند کردیا گیا، اب جو بھی اس نیت سے اوپر جاتا ہے، شعلہ اس کی تاک میں ہوتا ہے اور ٹوٹ کر اس پر گرتا ہے۔ الجن
10 ١٠۔ ١ یعنی اس حراست آسمانی سے مقصد اہل زمین کے لئے کسی شر کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہچانا یعنی ان پر عذاب نازل کرنا یا بھلائی کا ارادہ یعنی رسول کا بھیجنا ہے۔ الجن
11 ١١۔ ١ مطلب یہ ہے کہ ہم مختلف جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں مطلب یہ کہ جنات میں بھی مسلمان، کافر، یہودی، عیسائی، مجوسی وغیرہ ہیں، بعض کہتے ہیں ان میں بھی مسلمانوں کی طرح قدریہ، مرحبئہ اور رافضہ و غیرہ ہیں (فتح القدیر) الجن
12 الجن
13 ١٣۔ ١ یعنی نہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان کی نیکیوں کے اجر و ثواب میں کوئی کمی کردی جائے گی اور نہ اس بات کا خوف کہ ان کی برائیوں میں اضافہ ہوجائے گا۔ الجن
14 ١٤۔ ١ یعنی جو نبوت محمدیہ پر ایمان لائے وہ مسلمان، اور اس کے منکر بے انصاف ہیں۔ الجن
15 اس سے معلوم ہوا کہ انسانوں کی طرح جنات بھی دوزخ اور جنت میں جانے والے ہوں گے ان میں جو کافر ہیں وہ جہنم میں اور مسلمان جنت میں جائیں گے یہاں تک جنات کی گفتگو ختم ہوگئی۔ الجن
16 الجن
17 ١٧۔ ١ اس آیت کا نزول اس وقت ہوا جب کفار قریش پر قحط سالی مسلط کردی گئی تھی، الطَّرِیْقَۃٍ کے دوسرے معنی گمراہی کے راستے کے کئے گئے ہیں۔ ١٧۔ ٢ نہایت سخت الم ناک عذاب (ابن کثیر) الجن
18 ١٨۔ ١ مسجد کے معنی ہیں سجدہ گاہ۔ سجدہ بھی ایک رکن نماز ہے اس لیے نماز پڑھنے کی جگہ مسجد کہا جاتا ہے آیت کا مطلب واضح ہے کہ مسجدوں کا مقصد صرف ایک اللہ کی عبادت ہے اس لیے مسجدوں میں کسی اور کی عبادت کسی اور سے دعا ومناجات جائز نہیں۔ الجن
19 ١٩۔ ١ عَبْدُاللّٰہِ سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور مطلب ہے کہ انس و جن مل کر چاہتے ہیں کہ اللہ کے اس نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، لیکن امام ابن کثیر نے اسے رجوع کرنا قرار دیا ہے۔ الجن
20 ٢٠۔ ١ یعنی جب سب آپ کی عداوت پر اتر آئے ہیں تو آپ کہہ دو کہ میں تو صرف اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں اسی سے پناہ طلب کرتا ہوں اور اسی پر بھروسہ کرتا ہوں۔ الجن
21 ٢١۔ ١ یعنی مجھے تمہاری ہدایت یا گمراہی کا یا کسی اور نفع نقصان کا اختیار نہیں ہے میں تو صرف اس کا ایک بندہ ہوں جسے اللہ نے وحی ورسالت کے لیے چن لیا ہے۔ الجن
22 ٢٢۔ ١ اگر میں اس کی نافرمانی کروں اور وہ مجھے اس پر وہ عذاب دینا چاہے۔ الجن
23 الجن
24 ٢٤۔ ١ یا مطلب یہ ہے کہ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین کی عداوت اور اپنے کفر پر مصر رہیں گے، یہاں تک کہ دنیا یا آخرت میں وہ عذاب دیکھ لیں گے، جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ ٢٤۔ ٢ یعنی اس وقت ان کو پتہ لگے گا کہ مومنوں کا مددگار کمزور ہے یا مشرکوں کا ؟ اہل توحید کی تعداد کم ہے یا غیر اللہ کے پجاریوں کی۔ مطلب یہ ہے کہ پھر مشرکین کا تو سرے سے کوئی مددگار ہی نہیں ہوگا اور اللہ کے ان گنت لشکروں کے مقابلے میں ان مشرکین کی تعداد بھی آٹے میں نمک کے برابر ہوگی۔ الجن
25 ٢٥۔ ١ مطلب یہ ہے کہ عذاب یا قیامت کا علم، یہ غیب سے تعلق رکھتا ہے جس کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ وہ قریب ہے یا دور۔ الجن
26 ٢ ٦ ۔ ١ یعنی اپنے پیغمبر کو بعض امور غیب سے مطلع کردیا جاتا ہے جن کا تعلق یا تو اس کے فرائض رسالت سے ہوتا ہے یا وہ اس کی رسالت کی صداقت کی دلیل ہوتے ہیں اور ظاہر بات ہے کہ اللہ کے مطلع کرنے سے پیغمبر عالم الغیب نہیں ہوجاتا۔ لہذا عالم الغیب صرف اللہ ہی کی ذات ہے جیسا کہ یہاں بھی اس کی صراحت فرمائی گئی ہے۔ الجن
27 ٢٧۔ ١ یعنی نزول وحی کے وقت پیغمبر کے آگے پیچھے فرشتے ہوتے ہیں اور شیاطین اور جنات کو وحی کی باتیں سننے نہیں دیتے۔ الجن
28 ٢٨۔ ١ لیعلم۔ میں ضمیر کا مرجع کون ہے؟ بعض کے نزدیک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تاکہ آپ جان لیں کہ آپ سے پہلے رسولوں نے بھی اللہ کا پیغام اسی طرح پہنچایا جس طرح آپ نے پہنچایا۔ بعض نے فرشتوں کو بنایا ہے کہ فرشتوں نے اللہ کا پیغام نبیوں تک پہنچایا۔ اور بعض نے اللہ کو مرجع بنایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کی فرشتوں کے ذریعے حفاظت فرماتا ہے۔ ٢٨۔ ٢ فرشتوں کے پاس کی یا پیغمبروں کے پاس کی۔ ٢٨۔ ٣ کیونکہ وہی عالم الغیب ہے، جو ہوچکا اور آئندہ ہوگا، سب کا اس نے شمار کر رکھا ہے۔ یعنی اسکے علم میں ہے۔ الجن
0 المزمل
1 ١۔ ١ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چادر اوڑھے ہوئے تھے اللہ نے آپ کی اسی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا مطلب یہ ہے کہ اب چادر چھوڑ دیں اور رات کو تھوڑا قیام کریں یعنی نماز تہجد پڑھیں کہا جاتا ہے کہ اس حکم کی بناء پر تہجد آپ کے لیے واجب تھی۔ (ابن کثیر) المزمل
2 المزمل
3 المزمل
4 ٤۔ ١ یعنی یہ قیام نصف رات سے کچھ کم (ثلث) یا کچھ زیادہ (دو ثلث) ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ ٤۔ ٢ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ آپ کی قرأت ترتیل کے ساتھ ہی تھی اور آپ نے اپنی امت کو بھی ترتیل کے ساتھ، یعنی ٹھہر ٹھہر پڑھنے کی تلقین کی ہے۔ المزمل
5 ٥۔ ١ رات کا قیام چونکہ نفس انسانی کے لئے بالعموم گراں ہے، اس لئے یہ جملہ خاص طور پر فرمایا کہ ہم اس سے بھی بھاری بات تجھ پر نازل کریں گے، یعنی، قرآن، جس کے احکام و فرائض پر عمل، اس کی حدود کی پابندی اور اس کی تبلیغ اور دعوت، ایک بھاری جانفسانی کا عمل ہے۔ بعض نے ثقالت سے وہ بوجھ مراد لیا ہے جو وحی کے وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پڑتا تھا جس سے سخت سردی میں بھی آپ پسینے سے شرابور ہوجاتے تھے۔ المزمل
6 ٦۔ ١ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ دن کے مقابلے میں رات کو قرآن زیادہ واضح اور حضور قلب کے لئے زیادہ موثر ہے، اس لئے کہ اس وقت دوسری آوازیں خاموش ہوتی ہیں۔ فضا میں سکون غالب ہوتا ہے اس وقت نمازی جو پڑھتا ہے وہ آوازوں کے شور اور دنیا کے ہنگاموں کے نذر نہیں ہوتا بلکہ نمازی اس سے خوب محفوظ ہوتا اور اس کی اثر آفرینی کو محسوس کرتا ہے۔ المزمل
7 ٧۔ ١ یعنی رات کو نماز اور تلاوت زیادہ مفید اور موثر ہے، یعنی اس پر ہمیشگی کر، دن ہو یا رات، اللہ کی تسبیح و تمحید اور تکبیر و تہلیل کرتا رہ۔ المزمل
8 ٨۔ ١ یعنی اللہ کی عبادت اور اس سے دعا و مناجات کے لیے یکسو اور ہمہ تن اس کی طرف متوجہ ہوجانا، یہ رہبانیت سے مختلف چیز ہے رہبانیت تو تجرد اور ترک دنیا ہے جو اسلام میں ناپسندیدہ ہے۔ المزمل
9 المزمل
10 المزمل
11 المزمل
12 المزمل
13 ١٣۔ ١ ذَا غُصَّۃ حلق میں اٹک جانے والا، نہ حلق سے نیچے اترے اور نہ باہر نکلے۔ یہ زَ قُّوْم کا کھانا ہوگا۔ ضَرِیْع ایک کانٹے دار جھاڑی ہے جو سخت بدبو دار اور زہریلی ہوتی ہے۔ المزمل
14 ١٤۔ ١ یعنی یہ عذاب اس دن ہوگا جس دن زمین پہاڑ بھونچال سے تہ وبالا ہوجائیں گے اور بڑے بڑے پر ہیبت پہاڑ ریت کے ٹیلوں کی طرح بے حثییت ہوجائیں گے۔ کثیب ریت کا ٹیلا، مھیلا کا معنی بھربھری پیروں کے نچیے سے نکل جانے والی ریت۔ المزمل
15 ١٥۔ ١ جو قیامت والے دن تمہارے اعمال کی گواہی دے گا۔ المزمل
16 ١٦۔ ١ اس میں اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ تمہارا حشر بھی وہی ہوسکتا ہے۔ جو فرعون کا موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب کی وجہ سے ہوا۔ المزمل
17 ١٧۔ ١ قیامت والے دن کی ہولناکی بیان کی کہ واقع اس دن بچے بوڑھے ہوجائیں گے یا تمثیل کے طور پر کہا گیا۔ المزمل
18 ١٨۔ ١ یہ یوم کی دوسری صفت ہے اس دن ہولناکی سے آسمان پھٹ جائے گا ١٨۔ ٢ یعنی اللہ نے جو بعث بعد الموت، حساب کتاب اور جنت دوزخ کا وعدہ کیا ہوا ہے یہ یقینا لامحالہ ہو کر رہنا ہے۔ المزمل
19 المزمل
20 ٢٠۔ ١ جب سورت کے آغاز میں نصف رات یا اس سے کم یا زیادہ قیام کا حکم دیا گیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت رات کو قیام کرتی کبھی دو تہائی سے کم یا زیادہ کبھی نصف رات کبھی ثلث رات جیسا کہ یہاں ذکر ہے۔ لیکن ایک تو رات کا یہ قیام نہایت گراں تھا دوسرے وقت کا اندازہ لگانا مشکل تھا کہ یہ نصف رات ہوئی یا ثلث اس لیے اللہ نے اس آیت میں تخفیف کا حکم نازل فرمایا جس میں فرمایا کہ بعض کے نزدیک ترک قیام کی اجازت ہے۔ ٢٠۔ ٢ یعنی اللہ تورات کی گھڑیاں گن سکتا ہے کتنی گزر گئی ہیں اور کتنی باقی ہیں تمہارے لیے یہ اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ ٢٠۔ ٣ جب تمہارے لئے رات کے گزرنے کا صحیح اندازہ ممکن ہی نہیں، تو تم مقررہ اوقات تک نماز تہجد میں مشغول بھی کس طرح رہ سکتے ہو۔ ٢٠۔ ٤ یعنی تجارت اور کاروبار کے لئے سفر کرنا اور ایک شہر سے دوسرے شہر میں یا ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانا پڑے گا۔ ٢٠۔ ٥ اسی طرح جہاد میں بھی پُر مشقت سفر اور مشقتیں کرنی پڑتی ہیں، اور یہ تینوں چیزیں، بیماری، سفر اور جہاد نوبت بہ نوبت ہر ایک کو لاحق ہوتی ہیں اس لیے اللہ نے قیام اللیل کے حکم میں تخفیف کردی ہے کیونکہ تینوں حالتوں میں یہ نہایت مشکل اور بڑا صبر آزما کام ہے۔ ٢٠۔ ٦  اسباب تخفیف کے ساتھ تخفیف کا یہ حکم دوبارہ بطور تاکید بیان کردیا گیا۔ ٢٠۔ ٧ یعنی پانچوں نمازوں کی جو فرض ہیں۔ ٢٠۔ ٨ یعنی اللہ کی راہ میں حسب ضرورت و توفیق خرچ کرو، اسے قرض حسنہ سے اس لئے تعبیر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں سات سو گنا بلکہ اس سے زیادہ تک اجر و ثواب عطا فرمائے گا نفلی نمازیں، صدقات و خیرات اور دیگر نیکیاں جو بھی کرو گے اللہ کے ہاں ان کا بہترین اجر پاؤ گے اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا نصف حصہ مکی اور نصف حصہ مدنی ہے۔ المزمل
0 المدثر
1 ١۔ ١ سب سے پہلے جو وحی نازل ہوئی وہ (اِ قْرَاْ باسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ) ہے اس کے بعد وحی میں وقفہ ہوگیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت مضطرب اور پریشان رہتے۔ ایک روز اچانک پھر وہی فرشتہ، جو غار حرا میں پہلی مرتبہ وحی لے کر آیا تھا۔ آپ نے دیکھا کہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے، جس سے آپ پر ایک خوف سا طاری ہوگیا اور گھر جاکر گھر والوں سے کہا کہ مجھے کوئی کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ چنانچہ انہوں نے آپ کے جسم پر ایک کپڑا ڈال دیا، اسی حالت میں وحی نازل ہوئی۔ (صحیح بخاری) اس اعتبار سے یہ دوسری وحی اور احکام کے حساب سے پہلی وحی ہے۔ المدثر
2 ٢۔ ١ یعنی اہل مکہ کو ڈرا، اگر وہ ایمان نہ لائیں۔ المدثر
3 المدثر
4 ٤۔ ١ یعنی قلب اور نیت کے ساتھ کپڑے بھی پاک رکھ۔ یہ حکم اس لئے دیا گیا کہ مشرکین مکہ طہارت کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔ المدثر
5 ٥۔ ١ یعنی بتوں کی عبادت چھوڑ دے۔ یہ دراصل لوگوں کو آپ کے ذریعے سے حکم دیا جا رہا ہے۔ المدثر
6 ٦۔ ١ یعنی احسان کرکے یہ خواہش نہ کر کہ بدلے میں اس سے زیادہ ملے گا۔ المدثر
7 المدثر
8 المدثر
9 المدثر
10 ١٠۔ ١ یعنی قیامت کا دن کافروں پر بھاری ہوگا کیونکہ اس روز کفر کا نتیجہ انہیں بھگتنا ہوگا، جو جرم وہ دنیا میں کرتے رہے ہونگے۔ المدثر
11 ١١۔ ١ یہ کلمہ وعید و تہدید ہے کہ اسے، جسے میں نے ماں کے پیٹ میں اکیلا پیدا کیا، اس کے پاس مال تھا نہ اولاد، اور مجھے اکیلا چھوڑ دو، یعنی میں خود ہی اس سے نمٹ لوں گا، کہتے ہیں کہ یہ ولید بن مغیرہ کی طرف اشارہ ہے۔ یہ کفر و طغیان میں بہت بڑھا ہوا تھا، اس لئے اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے۔ واللہ عالم۔ المدثر
12 المدثر
13 ١٣۔ ١ اسے اللہ نے اولاد سے نوازا تھا اور وہ ہر وقت اس کے پاس ہی رہتے تھے، گھر میں دولت کی فروانی تھی، اس لئے بیٹوں کو تجارت و کاروبار کے لئے باہر جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی بعض کہتے ہیں کہ اس کے تین بیٹے مسلمان ہوگئے تھے، خالد، ہشام اور ولید بن ولید (فتح القدیر) المدثر
14 ١٤۔ ١ یعنی مال و دولت میں ریاست و سرداری میں اور درازی عمر میں۔ المدثر
15 ١٥۔ ١ یعنی کفر و معصیت کے باوجود، اس کی خواہش ہے کہ میں اسے زیادہ دوں۔ المدثر
16 ١٦۔ ١ یعنی میں اسے زیادہ نہیں دونگا۔ عنید اس شخص کو کہتے ہیں جو جاننے کے باوجود حق کی مخالفت کرے اور اس کو رد کرے۔ المدثر
17 ١٧۔ ١ یعنی ایسے عذاب میں مبتلا کروں گا جس کا برداشت کرنا نہایت سخت ہوگا، بعض کہتے ہیں، جہنم میں آگ کا پہاڑ ہوگا جس پر اس کو چڑھایا جائے گا (فتح القدیر) المدثر
18 ١٨۔ ١ یعنی قرآن اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغام سن کر، اس نے اس امر پر غور کیا کہ میں اس کا جواب دوں؟ اور اپنے جی میں اس نے وہ تیار کیا۔ المدثر
19 المدثر
20 ٢٠۔ ١ یہ اس کے حق میں بد دعائیہ کلمے ہیں، کہ ہلاک ہو، مارا جائے، کیا بات اس نے سوچی ہے؟ المدثر
21 ٢١۔ ١ یعنی پھر غور کیا کہ قرآن کا رد کس طرح ممکن ہے۔ المدثر
22 ٢٢۔ ١ یعنی جواب سوچتے وقت چہرے کی سلوٹیں بدلیں، اور منہ بسورا، جیسا کہ عمومًا کسی مشکل بات پر غور کرتے وقت آدمی ایسا کرتا ہے۔ المدثر
23 ٢٣۔ ١ یعنی حق سے انکار کیا اور ایمان لانے سے تکبر کیا۔ المدثر
24 ٢٤۔ ١ یعنی کسی سے یہ سیکھ آیا ہے اور وہاں سے نقل کر لایا ہے اور دعویٰ کردیا کہ اللہ کا نازل کردہ ہے۔ المدثر
25 المدثر
26 المدثر
27 ٢٧۔ ١ دوزخ کے ناموں یا درجات ایک کا نام سَقَرُ بھی ہے۔ المدثر
28 ٢٨۔ ١ ان کے جسموں پر گوشت چھوڑے گی نہ ہڈی، یا مطلب ہے جہنمیوں کو زندہ چھوڑے گی نہ مردہ، المدثر
29 المدثر
30 ٣٠۔ ١ یعنی جہنم پر بطور دربان ١٩ فرشتے مقرر ہیں المدثر
31 ٣١۔ ١ یہ مشرکین قریش کا رد ہے، جب جہنم کے دروغوں کا اللہ نے ذکر فرمایا تو ابو جہل نے جماعت قریش کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کیا تم میں سے ہر دس آدمیوں کا گروپ، ایک ایک فرشتے کے لئے کافی نہیں ہوگا، بعض کہتے ہیں کہ کالدہ نامی شخص نے اپنی طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا، کہا، تم سب صرف دو فرشتے سنبھال لینا، ١٧ فرشتوں کو تو میں اکیلا ہی کافی ہوں۔ کہتے ہیں اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کشتی کا بھی کئی مرتبہ چلینج دیا اور ہر مرتبہ شکست کھائی مگر ایمان نہیں لایا، کہتے ہیں اس کے علاوہ رکانہ بن عبد یزید کے ساتھ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کشتی لڑی تھی لیکن وہ شکست کھا کر مسلمان ہوگئے تھے (ابن کثیر) مطلب یہ کہ یہ تعداد بھی ان کے مذاق یا آزمائش کا سبب بن گئی۔ ٣١۔ ٢ یعنی جان لیں کہ رسول برحق ہے اور اس نے وہی بات کی ہے جو پچھلی کتابوں میں بھی درج ہے۔ ٣١۔ ٣ کہ اہل کتاب نے ان کے پیغمبر کی بات کی تصدیق کی ہے ٣١۔ ٤ بیمار دلوں سے مراد منافقین ہیں یا پھر وہ جن کے دلوں میں شکوک تھے کیونکہ مکہ میں منافقین نہیں تھے۔ یعنی یہ پوچھیں گے کہ اس تعداد کو یہاں ذکر کرنے میں اللہ کی کیا حکمت ہے؟ ٣١۔ ٥ یعنی گذشتہ گمراہی کی طرح جسے چاہتا ہے گمراہ اور جسے چاہتا ہے، راہ یاب کردیتا ہے، اس میں حکمت بالغہ ہوتی ہے اسے صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ ٣١۔ ٦ یعنی کفار و مشرکین سمجھتے ہیں کہ جہنم میں ١٩ فرشتے ہی تو ہیں، جن پر قابو پانا کون سا مشکل کام ہے؟ لیکن ان کو معلوم نہیں کہ رب کے لشکر تو اتنے ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہی نہیں۔ صرف فرشتے ہی اتنی تعداد میں ہیں کہ ٧٠ ہزار فرشتے روزانہ اللہ کی عبادت کے لئے بیت المعمور میں داخل ہوتے ہیں، پھر قیامت تک ان کی باری نہیں آئے گی۔ (صحیح بخاری) ٣١۔ ٧ یعنی یہ جہنم اور اس پر مقرر فرشتے، انسانوں کی پند و نصیحت کے لئے ہیں کہ شاید وہ نافرمانیوں سے باز آجائیں۔ المدثر
32 المدثر
33 المدثر
34 المدثر
35 ٣٥۔ ١ یہ جواب قسم ہے کُبَر، کُبْرَیٰ کی جمع ہے تین نہایت اہم چیزوں کی قسموں کے بعد اللہ نے جہنم کی بڑائی اور ہولناکی کو بیان کیا ہے جس سے اس کی بڑائی میں کوئی شک نہیں رہتا۔ المدثر
36 المدثر
37 ٣٧۔ ١ یعنی یہ جہنم ڈرانے والی ہے یا نذیر سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یا قرآن بھی اپنے بیان کردہ وعد و وعید کے اعتبار سے انسانوں کے لئے نذیر ہے۔ اور ایمان واطاعت میں آگے بڑھنا چاہیے یا اس سے پیچھے ہٹنا چاہیے مطلب ہے کہ انداز ہر ایک کے لیے ہے جو ایمان لائے یا کفر کرے۔ المدثر
38 ٣٨۔ ١ رہن گروی کو کہتے ہیں یعنی ہر شخص اپنے عمل کا گروی ہے، وہ عمل اسے عذاب سے چھڑا لے گا، (اگر نیک ہوگا) یا ہلاک کروا دے گا۔ (اگر برا ہے) المدثر
39 ٣٩۔ ١ یعنی وہ گناہوں کے اسیر نہیں ہوں گے بلکہ اپنے نیک اعمال کی وجہ سے آزاد ہونگے۔ المدثر
40 ٤٠۔ ١ اہل جنت بالاخانوں میں بیٹھے، جہنمیوں سے سوال کریں گے۔ المدثر
41 المدثر
42 المدثر
43 المدثر
44 ٤٤۔ ١ نماز حقوق اللہ میں سے اور مساکین کو کھانا کھلانا حقوق العباد میں سے ہے مطلب یہ ہوا کہ ہم نے اللہ کے حقوق ادا کیے نہ بندوں کے۔ المدثر
45 ٤٥۔ ١ یعنی کج بحثی اور گمراہی کی حمایت میں سرگرمی سے حصہ لیتے تھے۔ المدثر
46 المدثر
47 المدثر
48 ٤٨۔ ١ یعنی جو صفات مذکورہ کا حامل ہوگا، اسے کسی کی شفاعت بھی فائدہ نہیں پہنچائے گی، اس لئے کہ کفر کی وجہ سے محل شفاعت ہی نہیں ہوگا، شفاعت تو صرف ان کے لئے مفید ہوگی جو ایمان کی وجہ سے شفاعت کے قابل ہونگے۔ المدثر
49 المدثر
50 المدثر
51 ٥١۔ ١ یعنی یہ حق سے نفرت اور اعراض کرنے میں ایسے ہیں جیسے وحشی، خوف زدہ گدھے، شیر سے بھاگتے ہیں جب وہ ان کا شکار کرنا چاہیے۔ المدثر
52 ٥٢۔ ١ یعنی ہر ایک کے ہاتھ میں اللہ کی طرف سے ایک ایک کتاب مفتوح نازل ہو جس میں لکھا ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ بغیر عمل کے یہ عذاب سے چھٹکارہ چاہتے ہیں، یعنی ہر ایک کو پروانہ نجات مل جائے۔ (ابن کثیر) المدثر
53 ٥٣۔ ١ یعنی ان کے فساد کی وجہ سے ان کا آخرت پر عدم ایمان اور اس کی تکذیب ہے جس نے انہیں بے خوف کردیا ہے۔ المدثر
54 ٥٤۔ ١ لیکن اس کے لئے جو اس قرآن کے واعظ اور نصیحت سے عبرت حاصل کرنا چاہے۔ المدثر
55 المدثر
56 ٥٦۔ ١ یعنی اس قرآن سے ہدایت اور نصیحت اسے ہی حاصل ہوگی جسے اللہ چاہے گا۔ ٥٦۔ ٢ یعنی وہ اللہ ہی اس لائق ہے اس سے ڈرا جائے اور وہی معاف کرنے کے اختیارات رکھتا ہے۔ اس لئے وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اسکی نافرمانی سے بچا جائے تاکہ انسان اس کی مغفرت و رحمت کا سزاوار قرار پائے۔ المدثر
0 القيامة
1 ١۔ ١ میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں، قیامت کے دن کی قسم کھانے کا مقصد اس کی اہمیت اور عظمت کو واضح کرنا ہے۔ القيامة
2 ٢۔ ١ یعنی بھلائی پر بھی کرتا ہے کہ زیادہ کیوں نہیں کی۔ اور برائی پر بھی، کہ اس سے باز کیوں نہیں آتا ؟ دنیا میں بھی جن کے ضمیر بیدار ہوتے ہیں ان کے نفس انہیں ملامت کرتے ہیں، تاہم آخرت میں تو سب کے ہی نفس ملامت کریں گے۔ القيامة
3 ٣۔ ١ یہ جواب قسم ہے انسان سے مراد یہاں کافر اور بےدین انسان ہے جو قیامت کو نہیں مانتا۔ اس کا گمان غلط ہے، اللہ تعالیٰ یقینا انسانوں کے اجزا کو جمع فرمائے گا یہاں ہڈیوں کا بطور خاص ذکر ہے، اس لیئے کہ ہڈیاں ہی پیدائش کا اصل ڈھانچہ اور قالب ہیں۔ القيامة
4 ٤۔ ١ بَنَان (پور پور) جوڑوں، ناخن، لطیف رگوں اور باریک ہڈیوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جب یہ باریک اور لطیف چیزیں ہم بالکل صحیح صحیح جوڑ دیں گے تو بڑے حصے کو جوڑ دینا ہمارے لئے کیا مشکل ہوگا القيامة
5 ٥۔ ١ یعنی اس امید پر نافرمانی اور حق کا انکار کرتا ہے کہ کون سی قیامت آنی ہے۔ القيامة
6 ٦۔ ١ یہ سوال اس لئے نہیں کرتا کہ گناہوں سے تائب ہوجائے، بلکہ قیامت کو ناممکن الو قوع سمجھتے ہوئے پوچھتا ہے۔ اسی لیے فسق وفجور سے باز نہیں آتا۔ تاہم اگلی ٓآیت میں اللہ تعالیٰ قیامت کے آنے کا وقت بیان فرما رہے ہیں۔ القيامة
7 ٧۔ ١ دہشت اور حیرانی سے جیسے موت کے وقت عام طور پر ہوتا ہے۔ القيامة
8 ٨۔ ١ جب چاند کو گرہن لگ جاتا ہے تو اس وقت بھی وہ بے نور ہوجاتا ہے۔ لیکن جو علامات قیامت میں سے ہے، جب ہوگا تو اس کے بعد اس میں روشنی نہیں آئے گی۔ القيامة
9 ٩۔ ١ یعنی بے نوری میں۔ مطلب ہے کہ چاند کی طرح سورج کی روشنی بھی ختم ہوجائے گی۔ القيامة
10 ١٠۔ ١ یعنی جب یہ واقعات ظہور پذیر ہونگے تو پھر اللہ سے یا جہنم کے عذاب سے راہ فرار ڈھونڈے گا، لیکن اس وقت راہ فرار کہاں ہوگی۔ القيامة
11 ١١۔ ١ وَزَرَ پہاڑ یا قعلے کو کہتے ہیں جہاں انسان پناہ حاصل کرلے۔ وہاں ایسی کوئی پناہ گاہ نہیں ہوگی۔ القيامة
12 ١٢۔ ١ جہاں وہ بندوں کے درمیان فیصلے فرمائے گا۔ یہ ممکن نہیں ہوگا کہ کوئی اللہ کی اس عدالت سے چھپ جائے القيامة
13 ٣ ١۔ ١ یعنی اس کے تمام اعمال سے آگاہ کیا جائے گا قدیم ہو یا جدید، اول ہو یا آخر چھوٹا ہو یا بڑا القيامة
14 ١٤۔ ١ یعنی اس کے اپنے ہاتھ، پاؤں، زبان اور دیگر اعضاء گواہی دیں گے، یا یہ مطلب ہے کہ انسان اپنے عیوب خود جانتا ہے۔ القيامة
15 ١٥۔ ١ یعنی لڑے جھگڑے، ایک سے ایک بہانہ کرے، لیکن ایسا کرنا نہ اس کے لئے مفید ہے اور نہ وہ اپنے ضمیر کو مطمئن کرسکتا ہے۔ القيامة
16 ١٦۔ ١ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) جب وحی لے کر آتے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے ساتھ جلدی سے پڑھتے جاتے کہ کہیں کوئی لفظ بھول نہ جائے۔ اللہ نے اپنے فرشتے کے ساتھ ساتھ اس طرح پڑھنے سے منع فرمایا۔ صحیح بخاری القيامة
17 ١٧۔ ١ یعنی آپ کے سینے میں اس کا جمع کردینا اور آپ کی زبان پر اس کی قرأت کو جاری کردینا ہماری ذمہ داری ہے۔ تاکہ اس کا کوئی حصہ آپ کی یادداشت سے نہ نکلے اور آپ کے ذہن سے محو نہ ہو۔ القيامة
18 ١٨۔ ١ یعنی فرشتے کے ذریعے سے جب ہم اس کی قرأت آپ پوری کرلیں۔ یعنی اس کے شرائع و احکام لوگوں کو پڑھ کر سنائیں اور ان کی پیروی بھی کریں۔ القيامة
19 ١٩۔ ١ یعنی اس کے مشکل مقامات کی تشریح اور حلال وحرام کی توضیح یہ بھی ہمارے ذمے ہے اس کا صاف مطلب ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کے مجملات کی توضیح جو تخصیص بیان فرمائی ہے جسے حدیث کہا جاتا ہے یہ بھی اللہ کی طرف سے ہی الہام اور سمجھائی ہوئی باتیں ہیں اس لیے انہیں بھی قرآن کی طرح ماننا ضروری ہے۔ القيامة
20 القيامة
21 ٢١۔ ١ یعنی یوم قیامت کو جھٹلانا اور حق سے اعراض، اسلئے ہے کہ تم نے دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ رکھا ہے اور آخرت تمہیں بالکل فراموش ہے۔ القيامة
22 القيامة
23 ٢٣۔ ١ یہ اہل ایمان کے چہرے ہونگے جو اپنے حسن انجام کی وجہ سے مطمئن، مسرور اور منور ہونگے۔ مذید دیدار الٰہی سے بھی لطف اندوز ہونگیں۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے اور اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے۔ القيامة
24 ٢٤۔ ١ یہ کافروں کے چہرے ہونگے سیاہ اور بے رونق۔ القيامة
25 ٢٥۔ ١ اور وہ یہی ہے کہ جہنم میں ان کو پھینک دیا جائے گا۔ القيامة
26 ٢٦۔ ١ یعنی یہ ممکن نہیں کہ کافر قیامت پر ایمان لے آئیں۔ ٢٦۔ ٢ گردن کے قریب، سینے اور کندھے کے درمیان ایک ہڈی ہے، یعنی جب موت آئے گی آہنی پنجہ تمہیں اپنی گرفت میں لے لے گا۔ القيامة
27 ٢٧۔ ١ یعنی حاضرین میں سے کوئی ہے جو جھاڑ پھونک کے ذریعہ سے تمہیں موت کے پنجے سے چھڑا لے۔ بعض نے اس کا ترجمہ یہ بھی کیا ہے کہ اس کی روح کون لے کر چڑھے گا ملائکہ رحمت یا ملائکہ عذاب؟ اس صورت میں یہ قول فرشتوں کا ہے۔ القيامة
28 ٢٨۔ ١ یعنی وہ شخص یقین کرلے گا جس کی روح ہنسلی تک پہنچ گئی ہے کہ اب، مال، اولاد اور دنیا کی ہر چیز سے جدائی کا مرحلہ آگیا ہے۔ القيامة
29 ٢٩۔ ١ اس سے یا تو موت کے وقت پنڈلی کا پنڈلی کے ساتھ مل جانا مراد ہے یا پے درپے تکلیفیں، بہت سے مفسرین نے دوسرے معنی کئے ہیں۔ (فتح القدیر) القيامة
30 القيامة
31 ٣١۔ ١ یعنی اس انسان نے رسول اور قرآن کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی یعنی اللہ کی عبادت نہیں کی۔ القيامة
32 ٣٢۔ ١ یعنی رسول کو جھٹلایا اور ایمان و اطاعت سے روگردانی کی۔ القيامة
33 ٣٣۔ ١ یَتَمَطَّیٰ اتراتا اور اکڑاتا ہوا۔ القيامة
34 القيامة
35 ٣٥۔ ١ یہ کلمہ وعید سے کہا جاتا ہے کہ اس کی اصل ہے، اللہ تجھے ایسی چیز سے دو چار کرے جسے تو ناپسند کرے۔ القيامة
36 ٣٦۔ ١ یعنی اس کو کسی چیز کا حکم دیا جائے گا، نہ کسی چیز سے منع کیا جائے گا، نہ اس کا محاسبہ ہوگا۔ یا اس کی قبر میں ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا جائے گا، وہاں سے اسے دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا۔ القيامة
37 القيامة
38 ٣٨۔ ١ فَسَوَّیٰ، یعنی اسے ٹھیک ٹھاک کیا اور اس کی تکمیل کی اور اس میں روح پھونکی۔ القيامة
39 القيامة
40 ٤٠۔ ١ یعنی انسان کو اس طرح مختلف اطوار سے گزار کر پیدا فرماتا ہے کیا مرنے کے بعد دوبارہ اسے زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے؟ القيامة
0 الإنسان
1 ١۔ ١ یعنی انسان اول حضرت آدم ہیں اور حِیْن (ایک وقت) سے مراد، روح پھونکے جانے سے پہلے کا زمانہ ہے، جو چالیس سال ہے اور اکثر مفسرین کے نزدیک الانسان کا لفظ بطور جنس کے استعمال ہوا ہے اور حِیْن، سے مراد حمل یعنی رحم مادر کی مدت ہے جس میں وہ قابل ذکر چیز نہیں ہوتا۔ اس میں گویا انسان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایک پیکر حسن و جمال کی صورت میں جب باہر آتا ہے تو رب کے سامنے اکڑتا اور اتراتا ہے، اسے اپنی حیثیت یاد رکھنی چاہیے کہ میں تو وہی ہوں جب میں عالم نیست میں تھا، تو مجھے کون جانتا تھا۔ الإنسان
2 ٢۔ ١ ملے جلے مطلب، مرد اور عورت دونوں کے پانی کا ملنا پھر ان کا مختلف اطوار سے گزرنا ہے۔ پیدا کرنے کا مقصد انسان کی آزمائش ہے۔ ٢۔ ٢ یعنی اسے سماعت اور بصارت کی قوتیں عطا کیں، تاکہ وہ سب کچھ دیکھ سکے اور سن سکے اور اس کے بعد اطاعت یا انکاری دونوں راستوں میں کسی ایک کا انتخاب کرسکے۔ الإنسان
3 ٣۔ ١ یعنی مذکورہ قوتوں اور صلاحیتوں کے علاوہ ہم نے خود بھی انبیاء علیہ السلام، اپنی کتابوں اور داعیان حق کے ذریعے سے صحیح راستے کو بیان اور واضح کردیا ہے اب یہ اس کی مرضی ہے کہ اطاعت الہی کا راستہ اختیار کر کے شکر گزار بندہ بن جائے یا معصیت کا راستہ اختیار کر کے اس کا ناشکرا بن جائے۔ الإنسان
4 ٤۔ ١ یہ اللہ کی دی ہوئی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہے۔ الإنسان
5 ٥۔ ١ کأس اس جام کو کہتے ہیں جو بھرا ہوا ہو اور چھلک رہا ہو کافور ٹھنڈی اور ایک مخصوص خوشبو کی حامل ہوتی ہے۔ اس کی آمیزش سے شراب کا ذائقہ دو آتشہ اور اس کی خوشبو مشام جان کو معطر کرنے والی ہوجائے گی۔ الإنسان
6 ٦۔ ١ یعنی کافور ملی شراب، دو چار صراحیوں یا مٹکوں نہیں ہوگی، بلکہ چشمہ ہوگا، یعنی ختم ہونے والی نہیں ہوگی۔ ٦۔ ٢ یعنی اس کو جدھر چاہیں گے، موڑ لیں گے، اپنے محلات و منازل میں، اپنی مجلسوں میں اور بیٹھکوں میں اور باہر میدانوں اور تفریح گاہوں میں۔ الإنسان
7 ٧۔ ١ یعنی صرف ایک اللہ کی عبادت و اطاعت کرتے ہیں نذر بھی مانتے ہیں تو اسی کے لیے اور پھر اسے پورا کرتے ہیں۔ اس دن سے ڈرتے ہوئے محرمات اور معصیات کا ارتکاب نہیں کرتے۔ برائی پھیل جانے کا مطلب ہے کہ اس روز اللہ کی گرفت صرف وہی بچے گا جسے اللہ اپنے دامن عفو و رحمت میں ڈھانک لے گا۔ باقی سب اس کے شر کی لپیٹ میں ہونگے۔ الإنسان
8 یا طعام کی محبت کے باوجود وہ اللہ کی رضا کے لیے ضرورت مندوں کو کھانا کھلاتے ہیں، قیدی اگر غیر مسلم ہو تب بھی اس کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید ہے جیسے جنگ بدر کے کافر قیدیوں کی بابت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کو حکم دیا کہ ان کی تکریم کرو۔ چنانچہ صحابہ پہلے ان کو کھانا کھلاتے، خود بعد میں کھاتے۔ (ابن کثیر) الإنسان
9 الإنسان
10 ١٠۔ ١ یعنی وہ دن نہایت سخت ہوگا اور سختیوں اور ہولناکیوں کی وجہ سے کافروں پر بڑا لمبا ہوگا (ابن کثیر) الإنسان
11 ١١۔ ١ جیسا کہ وہ اس کے شر سے ڈرتے تھے اور اس سے بچنے کے لئے اللہ کی اطاعت کرتے تھے۔ ١١۔ ٢ تازگی چہروں پر ہوگی اور خوشی دلوں میں، جب انسان کا دل مسرت سے لبریز ہوتا ہے تو اس کا چہرہ بھی مسرت سے گلنار ہوجاتا ہے۔ الإنسان
12 ١٢۔ ١ صبر کا معنی ہے دین کے راستے میں جو تکلفیں آئیں انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرنا اللہ کی اطاعت میں نفس کی خواہشات اور لذات کو قربان کرنا اور معصیتوں سے اجتناب کرنا۔ الإنسان
13 ١٣۔ ١ مطلب یہ ہے کہ وہاں ہمیشہ ایک ہی موسم رہے گا اور وہ ہے موسم بہار، نہ سخت گرمی اور نہ کڑاکے کی سردی۔ الإنسان
14 ١٤۔ ١ گو وہاں سورج کی حرارت نہیں ہوگی، اس کے باوجود درختوں کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے یا یہ مطلب ہے کہ ان کی شاخیں ان کے قریب ہونگی۔ اور درختوں کے پھل، گوش برآواز فرماں بردار کی طرح انسان کا جب کھانے کو جی چاہے گا تو وہ جھک کر اتنے قریب ہوجائیں گے کہ بیٹھے، لیٹے بھی انہیں توڑ لے۔ ابن کثیر) الإنسان
15 ١٥۔ ١ یعنی خادم انہیں لے کر جنتیوں کے درمیان پھریں گے۔ الإنسان
16 ١٦۔ ١ یعنی یہ برتن اور آب خورے چاندی اور شیشے سے بنے ہونگے، نہایت نفیس اور نازک۔ ١٦۔ ٢ یعنی ان میں شراب ایسے اندازے سے ڈالی گئی ہوگی کہ جس سے وہ سیراب بھی ہوجائیں، تشنگی محسوس نہ کریں اور برتنوں اور جاموں میں بھی زائد نہ بچی رہے۔ مہمان نوازی کے اس طریقے میں بھی مہمانوں کی عزت افزائی ہی کا اہتمام ہے۔ الإنسان
17 ١٧۔ ١ زَ نْجَبِیْل (سونٹھ، خشک ادرک) کو کہتے ہیں۔ یہ گرم ہوتی ہے اس کی آمیزش سے ایک خوشگوار تلخی پیدا ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں عربوں کی یہ مرغوب چیز ہے۔ چنانچہ ان کے قہوہ میں بھی زنجبیل شامل ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جنت میں ایک وہ شراب ہوگی جو ٹھنڈی ہوگی جس میں کافور کی آمیزش ہوگی اور دوسری شراب گرم، جس میں زنجبیل کی ملاوٹ ہوگی۔ الإنسان
18 ١٨۔ ١ یعنی اس شراب زنجبیل کی بھی ایک نہر ہوگی جسے سلسبیل کہا جاتا ہے۔ الإنسان
19 ١٩۔ ١ شراب کی اوصاف بیان کرنے کے بعد، ساقیوں کا وصف بیان کیا جا رہا ہے ' ہمیشہ رہیں گے 'کا مطلب تو یہ ہے جنتیوں کی طرح ان خادموں کو بھی موت نہیں آئے گی۔ دوسرا یہ کہ ان کا بچپن اور ان کی رعنائی ہمیشہ برقرار رہے گی۔ وہ بوڑھے نہ ہونگے نہ ان کا حسن جمال تبدیل ہوگا۔ ١٩۔ ٢ حسن و صفائی اور تازگی و شادابی میں موتیوں کی طرح ہونگے، بکھرے ہونے کا مطلب، خدمت کے لئے ہر طرف پھیلے ہوئے اور نہایت تیزی سے مصروف خدمت ہوں گے۔ الإنسان
20 الإنسان
21 ٢١۔ ١ جیسے ایک زمانے میں بادشاہ، سردار اور ممتاز قسم کے لوگ پہنا کرتے تھے۔ الإنسان
22 الإنسان
23 ٢٣۔ ١ یعنی ایک ہی مرتبہ نازل کرنے کی بجائے حسب ضرورت مختلف اوقات میں نازل کیا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ قرآن ہم نے نازل کیا ہے، یہ تیرا اپنا گھڑا ہوا نہیں ہے، جیسا کہ مشرکین دعویٰ کرتے ہیں۔ الإنسان
24 ٢٤۔ ١ یعنی اس کے فیصلے کا انتظار کرو وہ تیری مدد میں کچھ تاخیر کر رہا ہے تو اس میں اس کی حکمت ہے۔ اس لئے صبر اور حوصلے کی ضرورت ہے۔ اور اگر تجھے اللہ کے نازل کردہ احکام سے روکیں تو ان کا کہنا نہ مان، بلکہ تبلیغ ودعوت کا کام جاری رکھ اور اللہ پر بھروسہ رکھ، وہ لوگوں سے تیری حفاظت فرمائے گا، فاجر جو اللہ کی نافرمانی کرنے والا ہو اور کفور جو دل سے کفر کرنے والا ہو یا کفر میں حد سے بڑھ جانے والا ہو۔ الإنسان
25 ٢٥۔ ١ صبح شام سے مراد تمام اوقات میں اللہ کا ذکر کر، یا صبح سے مراد فجر کی نماز اور شام سے عصر کی نماز ہے۔ الإنسان
26 ٢ ٦ ۔ ١ رات کو سجدہ کر سے مراد بعض نے مغرب وعشاء کی نمازیں مراد لی ہیں اور تسبیح کا مطلب جو باتیں اللہ کے لائق نہیں ہیں ان سے اس کی پاکیزگی بیان کر، بعض کے نزدیک اس سے رات کی نفلی نمازیں یعنی تہجد ہے امر ندب واستحباب کے لیے ہے۔ الإنسان
27 ٢٧۔ ١ یعنی کفار مکہ اور ان جیسے دوسرے لوگ دنیا کی محبت میں گرفتار ہیں اور ساری توجہ اسی پر ہے۔ ٢٧۔ ٢ یعنی قیامت کو، اس کی شدتوں اور ہولناکیوں کی وجہ سے اسے بھاری دن کہا اور چھوڑنے کا مطلب ہے کہ اس کے لئے تیاری نہیں کرتے اور اس کی پروا نہیں کرتے۔ الإنسان
28 ٢٨۔ ١ یعنی ان کی پیدائش کو مضبوط بنایا، یا ان کے جوڑوں کو، رگوں کو اور پٹھوں کے ذریعے سے، ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیا، بلفظ دیگر، ان کا مانجھا کڑا کیا۔ الإنسان
29 ٢٩۔ ١ یعنی اس قرآن سے ہدایت حاصل کرے۔ الإنسان
30 ٣٠۔ ١ یعنی تم میں سے کوئی اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ ہدایت کی راہ لگا لے، اپنے لئے کسی نفع کو جاری کرلے، ہاں اگر اللہ چاہے تو ایسا ممکن ہے، اس کی مشیت کے بغیر تم کچھ نہیں کرسکتے۔ البتہ صحیح ارادہ نیت پر وہ اجر ضرور عطا فرماتا ہے ' اعمال کا دارو مدار، نیتوں پر ہے، ہر آدمی کے لئے وہ ہے جس کی وہ نیت کرے چوں کہ وہ علیم وحکیم ہے اس لیے اس کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے بنابریں ہدایت اور گمراہی کے فیصلے بھی یوں ہی نہیں ہوجاتے بلکہ جس کو ہدایت دی جاتی ہے وہ واقعی اس کا مستحق ہوتا ہے اور جس کے حصے میں گمراہی آتی ہے وہ حقیقتا اسی کے لائق ہوتا ہے۔ ' الإنسان
31 ٣١۔ ١ والظالمین اس لیے منصوب ہے کہ اس سے پہلے یعذب محذوف ہے۔ الإنسان
0 یہ سورت مکی ہے جیسا کہ صحیحین میں مروی ہے۔ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ ہم منٰی کے ایک غار میں تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سورۃ مرسلات کا نزول ہوا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تلاوت فرما رہے تھے اور میں اسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حاصل کر رہا تھا کہ اچانک ایک سانپ آگیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اسے مار دو، لیکن وہ تیزی سے غائب ہوگیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' تم اس کے شر اور وہ تمہارے شر سے بچ گیا ' (بخاری تفسیر سورۃ المرسلات) المرسلات
1 ١۔ ١ اس مفہوم کے اعتبار سے عرفاً کے معنی پے درپے ہوں گے، بعض نے مرسلات سے فرشتے یا انبیا مراد لئے ہیں اس صورت میں عرفاً کے معنی وحی الٰہی، یا احکام شریعت ہوں گے۔ المرسلات
2 ٢۔ ١ یا فرشتے مراد ہیں، جو بعض دفعہ ہواؤں کے عذاب کے ساتھ بھیجے جاتے ہیں۔ المرسلات
3 ٣۔ ١ یا ان فرشتوں کی قسم، جو بادلوں کو منتشر کرتے ہیں یا فضائے آسمانی میں اپنے پر پھیلاتے ہیں۔ تاہم امام ابن کثیر اور امام طبری نے ان تینوں ہوائیں مراد لی اور صحیح قرار دیا ہے، جیسے کہ ترجمے میں بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ المرسلات
4 ٤۔ ١ یعنی ان فرشتوں کی قسم جو حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے احکام لے کر اترتے ہیں۔ یا مراد آیات قرآنیہ ہیں، جن سے حق و باطل اور حلال و حرام کی تمیز ہوتی ہے یا رسول مراد ہیں جو وحی الٰہی کے ذریعے سے حق و باطل کے درمیان فرق واضح کرتے ہیں۔ المرسلات
5 ٥۔ ١ جو اللہ کا کلام پیغمبروں تک پہنچاتے ہیں یا رسول مراد ہیں جو اللہ کی طرف سے نازل کردہ وحی، اپنی امتوں کو پہنچاتے ہیں۔ المرسلات
6 ٦۔ ١ یعنی فرشتے وحی لے کر آتے ہیں تاکہ لوگوں پر دلیل قائم ہوجائے اور یہ عذر باقی نہ رہے کہ ہمارے پاس تو کوئی اللہ کا پیغام ہی لے کر نہیں آیا یا مقصد ڈرانا ہے ان کو جو انکار یا کفر کرنے والے ہوں گے۔ المرسلات
7 ٧۔ ١ (یا جواب قسم) یہ ہے کہ تم سے قیامت کا جو وعدہ کیا جاتا ہے، وہ یقینا واضح ہونے والی ہے، یعنی اس میں شک کرنے کی نہیں بلکہ اس کے لئے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ قیامت کب واقع ہوگی؟ اگلی سورت میں اس کو واضح کیا جا رہا ہے المرسلات
8 ٨۔ ١ طَمْس کے معنی مٹ جانے اور بے نشان ہونے کے ہیں، یعنی جب ستاروں کی روشنی ختم بلکہ ان کا نشان تک مٹ جائے گا۔ المرسلات
9 المرسلات
10 ١٠۔ ١ یعنی انہیں زمین سے اکھیڑ کر ریزہ ریزہ کردیا جائے گا اور زمین بالکل صاف اور ہموار کردی جائے گی۔ المرسلات
11 ١١۔ ١ یعنی فصل وقضا کے لیے ان کے بیانات سن کر ان کی قوموں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ المرسلات
12 ١٢۔ ١ یعنی کیسے عظیم دن کے لئے، جس کی شدت اور ہولناکی، لوگوں کے لئے سخت تعجب انگیز ہوگی، ان پیغمبروں کے جمع ہونے کا وقت دیا گیا ہے۔ المرسلات
13 ١٣۔ ١ یعنی جس دن لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا کوئی جنت میں اور کوئی دوزخ میں جائے گا۔ المرسلات
14 المرسلات
15 ١٥۔ ١ یعنی ہلاکت ہے بعض کہتے ہیں جہنم کی ایک وادی کا نام ہے، یہ آیت اس سورت میں بار بار دہرائی گئی ہے۔ اس لیے کہ ہر مکذب کا جرم ایک دوسرے سے مختلف نوعیت کا ہوگا اور اسی حساب سے عذاب کی نوعیتیں بھی مختلف ہوں گی، بنابریں اسی ویل کی مختلف قسمیں ہیں جسے مختلف مکذبین کے لیے الگ الگ بیان کیا گیا ہے۔ المرسلات
16 المرسلات
17 ١٧۔ ١ یعنی کفار مکہ اور ان کے ہم نوا، جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلایا۔ المرسلات
18 ١٨۔ ١ یعنی سزا دیتے ہیں دنیا میں اور آخرت میں۔ المرسلات
19 المرسلات
20 المرسلات
21 ٢١۔ ١ یعنی رحم مادر میں۔ المرسلات
22 یعنی مدت حمل تک نو یا چھ مہینے۔ المرسلات
23 ٢٣۔ ١ یعنی رحم مادر میں جسمانی ساخت و ترکیب و صحیح اندازہ کیا کہ دونوں آنکھوں، دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں اور دونوں کانوں کے درمیان اور دیگر اعضا کا ایک دوسرے کے درمیان کتنا فاصلہ رہنا چاہیئے۔ المرسلات
24 المرسلات
25 المرسلات
26 ٢٦۔ ١ یعنی زمین زندوں کو اپنی پشت پر اور مردوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔ المرسلات
27 المرسلات
28 المرسلات
29 ٢٩۔ ١ یہ فرشتے جہنمیوں کو کہیں گے المرسلات
30 ٣٠۔ ١ جہنم سے جو دھواں آئے گا وہ بلند ہو کر تین طرفوں میں پھیل جائے گا، یعنی جس طرح دیوار یا درخت کا سایہ ہوتا ہے، یہ دھواں حقیقت میں اس طرح کا سایہ نہیں ہوگا جس میں جہنمی کچھ سکون حاصل کرلیں۔ المرسلات
31 یعنی جہنم کی حرارت سے بچنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ المرسلات
32 ٣٢۔ ١ اس کا ایک ترجمہ ہے جو لکڑی کے بوٹے یعنی بھاری ٹکڑے کے مثل ہیں۔ المرسلات
33 ٣٣۔ ١ اس معنی کی بناء پر مطلب یہ ہے کہ اس کی ایک ایک چنگاڑی اتنی اتنی بڑی ہوگی جیسے محل یا قلعہ۔ پھر ہر چنگاڑی کے مذید اتنے بڑے بڑے ٹکڑے ہوجائیں گے جیسے اونٹ ہوتے ہیں۔ المرسلات
34 المرسلات
35 ٣٥۔ ١ محشر کا دن جس میں کافروں کی مختلف حالتیں ہوں گی۔ ایک وقت وہ ہوگا کہ وہ وہاں بھی جھوٹ بولیں گے پھر اللہ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ پاؤں گواہی دیں گے پھر جس وقت ان کو جہنم میں لے جایا جارہا ہوگا اس وقت عالم اضطراب وپریشانی میں ان کی زبانیں بھی گنگ ہوجائیں گی۔ بعض کہتے ہیں کہ بولیں گے تو سہی لیکن ان کے پاس حجت کوئی نہیں ہوگی۔ المرسلات
36 ٣ ٦ ۔ ١ مطلب یہ ہے کہ ان کے پاس پیش کرنے کے لیے معقول عذر ہی نہیں ہوگا جسے وہ پیش کرسکیں گے۔ المرسلات
37 المرسلات
38 ٣٨۔ ١ یہ اللہ کے بندوں سے خطاب فرمائے گا کہ ہم نے تمہیں اپنی قدرت کاملہ سے فیصلہ کرنے کے لئے ایک ہی میدان میں جمع کرلیا۔ المرسلات
39 ٣٩۔ ١ یہ سخت وعید اور تہدید ہے کہ اگر تم میری گرفت سے بچ سکتے ہو اور میرے حکم سے نکل سکتے ہو تو بچ اور نکل کے دکھاؤ۔ لیکن وہاں کس میں یہ طاقت ہوگی؟ المرسلات
40 المرسلات
41 ٤١۔ ١ یعنی درختوں اور محلات کے سائے، آگ کے دھوئیں کا سایہ نہیں ہوگا جیسے مشرکین کے لئے ہوگا۔ المرسلات
42 ٤٢۔ ١ ہر قسم کے پھل، جب بھی خواہش کریں گے، آ موجود ہونگے۔ المرسلات
43 ٤٣۔ ١ یہ بطور احسان انہیں کہا جائے گا یعنی جنت کی یہ نعمتیں ان اعمال صالحہ کی وجہ سے تمہیں ملی ہیں جو تم دنیا میں کرتے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی رحمت کے حصول کا ذریعہ جس کی وجہ سے انسان جنت میں داخل ہوگا اعمال صالحہ ہیں۔ جو لوگ عمل صالح کے بغیر اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں ان کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی زمین میں ہل چلائے اور بیج بوئے بغیر فصل کا امیدوار ہو یا حنظل بوکر خوش ذائقہ پھلوں کی امید رکھے۔ المرسلات
44 ٤٤۔ ١ اس میں بھی اس امر کی ترغیب و تلقین ہے کہ اگر آخرت میں حسن انجام کے طالب ہو تو دنیا میں نیکی اور بھلائی کا راستہ اپناؤ۔ المرسلات
45 ٤٥۔ ١ کہ اہل تقویٰ کے حصے میں جنت کی نعمتیں آئیں اور ان کے حصے میں بڑی بد بختی۔ المرسلات
46 ٤٦۔ ١ یہ مکذبین قیامت کو خطاب ہے اور یہ امر، تہدید و وعید کے لئے ہے، یعنی اچھا چند روز خوب عیش کرلو، تم جیسے مجرمین کے لئے شکنجہ عذاب تیار ہے۔ المرسلات
47 المرسلات
48 ٤٨۔ ١ یعنی جب ان کو نماز پڑھنے کا حکم دیا جاتا ہے، تو نماز نہیں پڑھتے۔ المرسلات
49 ٤٩۔ ١ یعنی ان کے لیے جو اللہ کے اوامر ونواہی کو نہیں مانتے۔ المرسلات
50 ٥٠۔ ١ یعنی جب قرآن پر ایمان نہیں لائیں گے تو اس کے بعد اور کون سا کلام ہے جس پر ایمان لائیں گے۔ المرسلات
0 النبأ
1 ١۔ ١ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خلعت نبوت سے نوازا گیا اور آپ نے توحید، قیامت وغیرہ کا بیان فرمایا اور قرآن کی تلاوت فرمائی تو کفار و مشرکین باہم ایک دوسرے سے پوچھتے کہ یہ قیامت کیا واقعی ممکن ہے، جبکہ یہ شخص دعویٰ کر رہا ہے یا یہ قرآن، واقعی اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے جیسا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتا ہے استفہام کے ذریعے سے اللہ نے پہلے ان چیزوں کی وہ حیثیت نمایاں کی جو ان کی ہے۔ پھر خود ہی جواب دیا کہ۔ النبأ
2 النبأ
3 ٣۔ ١ یعنی جس بڑی خبر کی بابت ان کے درمیان اختلاف ہے اس کے متعلق استفسار ہے۔ اس بڑی خبر سے بعض نے قرآن مجید مراد لیا ہے کافر اس کے بارے میں مختلف باتیں کرتے تھے، کوئی اسے جادو، کوئی کہانت، کوئی شعرا اور کوئی پہلوں کی کہانیاں بتلاتا تھا۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد قیامت کا برپا ہونا اور دوبارہ زندہ ہونا ہے۔ اسکا ان کے درمیان کچھ اختلاف تھا کوئی بالکل انکار کرتا تھا کوئی صرف شک کا اظہار بعض کہتے تھے کہ سوال کرنے والے مومن و کافر دونوں ہی تھے، مومنین کا سوال تو اضافہ یقین یا بصیرت کے لئے تھا اور کافروں کا جھٹلانا اور مذاق کے طور پر۔ النبأ
4 النبأ
5 ۔ ١ اللہ تعالیٰ اپنی کاریگری اور عظیم قدرت کا تذکرہ فرما رہا ہے تاکہ توحید کی حقیقت ان کے سامنے واضح ہو اور اللہ کا رسول انہیں جس چیز کی دعوت دے رہا تھا، اس پر ایمان لانا ان کے لئے آسان ہوجائے۔ النبأ
6 النبأ
7 ٧۔ ١ یعنی پہاڑوں کو زمین کے لئے میخیں بنایا تاکہ ساکن رہے، حرکت نہ کرے۔ النبأ
8 النبأ
9 النبأ
10 ١٠۔ ١ یعنی رات کا اندھیرا اور سیاہی ہر چیز کو اپنے دامن میں چھپا لیتی ہے، جس طرح لباس انسان کے جسم کو چھپا لیتا ہے۔ النبأ
11 ١١۔ ١ مطلب ہے کہ دن روشن بنایا تاکہ لوگ کسب معاش کے لئے جدو جہد کرسکیں۔ النبأ
12 النبأ
13 النبأ
14 ١٤۔ ١ مُعْصِرَات،ُ وہ بدلیاں جو پانی سے بھری ہوئی ہوں لیکن ابھی برسی نہ ہوں جیسے اَلْمَرْاَۃُ الْمُعْتَصِرَۃُ اس عورت کو کہتے ہیں جس کی ماہواری قریب ہو ثَجَّاجًا کثرت سے بہنے والا پانی۔ النبأ
15 النبأ
16 ١٦۔ ١ شاخوں کی کثرت کی وجہ سے ایک دوسرے سے ملے ہوئے درخت یعنی گھنے باغ۔ النبأ
17 النبأ
18 ١٨۔ ١ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ہر امت اپنے رسول کے ساتھ میدان حشر میں آئے گی۔ یہ دوسرا نفخہ ہوگا، جس میں سب لوگ قبروں سے زندہ اٹھ کر نکل آئیں گے۔ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی نازل فرمائیے گا، جس سے انسان کھیتی کی طرح اگ آئے گا۔ انسان کی ہر چیز بوسیدہ ہوجائے گی، سوائے ریڑھ کی ہڈی کے آخری سرے کے، اس سے قیامت والے دن تمام مخلوقات کی دوبارہ ترکیب ہوگی۔ (صحیح بخاری) النبأ
19 ١٩۔ ١ یعنی فرشتوں کے نزول کے لئے راستے بن جائیں گے اور وہ زمین پر اتر آئیں گے۔ النبأ
20 ٢٠۔ ١ وہ ریت جو دور سے پانی محسوس ہوتی ہو، پہاڑ بھی دور سے نظر آنے والی چیز بن کر رہ جائیں گے۔ النبأ
21 ٢١۔ ١ گھات ایسی جگہ کو کہتے ہیں، جہاں چھپ کر دشمن کا انتظار کیا جاتا ہے تاکہ وہاں سے گزرے تو فوراً حملہ کردیا جائے، جہنم کے دروغے بھی جہنمیوں کے انتظار میں اسی طرح بیٹھے ہیں یا خود جہنم اللہ کے حکم سے کفار کے لئے گھات لگائے بیٹھی ہے۔ النبأ
22 النبأ
23 النبأ
24 النبأ
25 جو جہنمیوں کے جسموں سے نکلے گی۔ النبأ
26 ٢٦۔ ١ یعنی یہ سزا ان کے اعمال کے مطابق ہے جو وہ دنیا میں کرتے رہے ہیں۔ النبأ
27 النبأ
28 النبأ
29 ٢٩۔ ١ یعنی لوح محفوظ میں۔ یا وہ ریکارڈ مراد ہے جو فرشتے لکھتے رہے۔ پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔ النبأ
30 النبأ
31 النبأ
32 النبأ
33 ٣٣۔ ١ کَوَاعِبَ کَاعِبَۃً کی جمع ہے، یہ کَعْبً (ٹخنہ) سے ہے، ابھرا ہوا ہوتا ہے، ان کی چھاتیوں میں بھی ایسا ہی ابھار ہوگا، جو ان کے حسن و جمال کا ایک مظہر ہے۔ اَتْرَاب،ُ ہم عمر۔ النبأ
34 النبأ
35 ٣٥۔ ١ یعنی کوئی بے فائدہ اور بے ہودہ بات وہاں نہیں ہوگی، نہ ایک دوسرے سے جھوٹ بولیں گے۔ النبأ
36 ٣٦۔ ١ یعنی اللہ کی دادو دہشت کی وہاں فروانی ہوگی۔ النبأ
37 ٣٧۔ ١ یعنی اس کی عظمت، ہیبت اور جلالت اتنی ہوگی کہ ابتداء اس سے کسی کو بات کرنے کی ہمت نہ ہوگی، اسی لئے اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کے لئے لب کشائی نہیں کرسکے گا۔ النبأ
38 ٣٨۔ ١ یہ اجازت اللہ تعالیٰ ان فرشتوں کو اور اپنے پیغمبروں کو عطا فرمائے گا اور وہ جو بات کریں گے حق و صواب ہی ہوگی، یا یہ مفہوم ہے کہ اجازت صرف اس کے بارے میں دی جائے گی جس نے درست بات کہی ہو، یعنی کلمہ توحید کا اقراری رہا ہو۔ النبأ
39 ٣٩۔ ١ اس آنے والے دن کو سامنے رکھتے ہوئے ایمان و تقویٰ کی زندگی اختیار کرے تاکہ اس روز وہاں اس کو اچھا ٹھکانا مل جائے۔ النبأ
40 ٤٠۔ ١ یعنی جب وہ اپنے لئے ہولناک عذاب دیکھے گا تو یہ آرزو کرے گا۔ بعض کہتے ہیں کہ اللہ حیوانات کے درمیان بھی عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ فرمائے گا، حتیٰ کہ ایک سینگ والی بکری نے بے سینگ والی پر کوئی زیادتی کی ہوگی، تو اس کا بھی بدلہ دلائے گا اس سے فراغت کے بعد اللہ تعالیٰ جانوروں کو حکم دے گا کہ مٹی ہوجاؤ۔ چنانچہ وہ مٹی ہوجائیں گے۔ اسوقت کافر بھی آرزو کریں گے کہ کاش وہ بھی حیوان ہوتے اور آج مٹی بن جاتے (تفسیر ابن کثیر) النبأ
0 النازعات
1 ١۔ ١ نَزْع کے معنی سختی سے کھنچنا، غَرْقًا ڈوب کر، یہ جان نکالنے والے فرشتوں کی صفت ہے فرشتے کافروں کی جان، نہایت سختی سے نکالتے ہیں اور جسم کے اندر ڈوب کر۔ النازعات
2 ٢۔ ١ نَشْط کے معنی گرہ کھول دینا، یعنی مومنوں کی جان فرشتے بہ سہولت سے نکالتے ہیں جیسے کسی چیز کی گرہ کھول دی جائے۔ النازعات
3 ٣۔ ١ سَبْح کے معنی تیرنا، فرشتے روح نکالنے کے لئے انسان کے بدن میں اس طرح تیرتے پھرتے ہیں جیسے سمندر سے موتی نکالنے کے لئے سمندر کی گہرائیوں میں تیرتے ہیں یا مطلب ہے کہ نہایت تیزی سے اللہ کا حکم لے کر آسمان سے اترتے ہیں۔ النازعات
4 ٤۔ ١ یہ فرشتے اللہ کی وحی، انبیاء تک، دوڑ کر پہنچاتے ہیں تاکہ شیطان کو اس کی کوئی خبر نہ لگے۔ یا مومنوں کی روحیں جنت کی طرف لے جانے میں نہایت سرعت سے کام لیتے ہیں۔ النازعات
5 ٥۔ ١ یعنی اللہ تعالیٰ جو کام سپرد کرتا ہے، وہ اس کی تدبیر کرتے ہیں اصل مدبر تو اللہ ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ اپنی حکمت بالغہ کے تحت فرشتوں کے ذریعے سے کام کرواتا ہے تو انہیں بھی مدبر کہا جاتا ہے۔ النازعات
6 ٦۔ ١ یہ نفخئہ اولیٰ ہے جسے نفخئہ فنا کہتے ہیں، جس سے ساری کائنات کانپ اور لرز اٹھے گی اور ہر چیز فنا ہوجائے گی۔ النازعات
7 ٧۔ ١ یہ دوسرا نفخہ ہوگا، جس سے سب لوگ زندہ ہو کر قبروں سے نکل آئیں گے۔ یہ دوسرا نفخہ پہلے نفخہ سے چالیس سال بعد ہوگا۔ النازعات
8 ٨۔ ١ قیامت کے ہول اور شدائد سے۔ النازعات
9 ٩۔ ١ دہشت زدہ لوگوں کی نظریں بھی (مجرموں کی طرح) جھکی ہوئی ہوں گی۔ النازعات
10 ١٠۔ ١ حافِرَۃ، پہلی حالت کو کہتے ہیں۔ منکرین قیامت کا قول ہے کہ کیا ہم پھر اس طرح زندہ کردیئے جائیں گے جس طرح مرنے سے پیشتر تھے۔ النازعات
11 ١١۔ ١ یہ انکار قیامت کی مزید تاکید ہے کہ ہم کس طرح زندہ کردیئے جائیں گے جب کہ ہماری ہڈیاں بوسیدہ اور ریزہ ریزہ ہوجائیں گی۔ النازعات
12 ١٢۔ ١ یعنی اگر واقعی ایسا ہوا جیسا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے ہیں، پھر دوبارہ زندگی ہمارے لئے سخت نقصان دہ ہوگی النازعات
13 النازعات
14 ١٤۔ ١ یہ قیامت کی منظر کشی ہے کہ ایک ہی نفخے سے سب لوگ ایک میدان میں جمع ہوجائیں گے۔ النازعات
15 النازعات
16 ١٦۔ ١ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے واپسی پر آگ کی تلاش میں کوہ طور پر پہنچ گئے تھے تو وہاں ایک درخت کی اوٹ سے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ الالسلام سے کلام فرمایا تھا، جیسا کہ تفصیل سورۃ طٰہٰ کے آغاز میں گزری۔ النازعات
17 ١٧۔ ١ یعنی کفر و معصیت اور تکبر میں حد سے تجاوز کر گیا ہے۔ النازعات
18 ١٨۔ ١ یعنی کیا ایسا راستہ اور طریقہ تو پسند کرتا ہے جس سے تیری اصلاح ہوجائے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اور مطیع ہوجا۔ النازعات
19 ١٩۔ ١ یعنی اس کی توحید اور عبادت کا راستہ، تاکہ تو اس کے عقاب سے ڈرے۔ اس لئے کہ اللہ کا خوف اسی دل میں پیدا ہوتا ہے جو ہدایت پر چلنے والا ہوتا ہے۔ النازعات
20 ٢٠۔ ١ یعنی اپنی صداقت کے وہ دلائل پیش کئے جو اللہ کی طرف سے انہیں عطا کئے گئے تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیئے گئے تھے۔ مثلاً ید بیضا اور عصا اور بعض کے نزدیک آیات تسعہ۔ النازعات
21 النازعات
22 ٢٢۔ ١ یعنی اس نے ایمان و اطاعت سے انکار ہی نہیں کیا بلکہ زمین میں فساد پھیلائے اور موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ کرنے کی سعی کرتا رہا، چنانچہ جادوگروں کو جمع کر کے ان کا مقابلہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کرایا تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو جھوٹا ثابت کیا جا سکے۔ النازعات
23 النازعات
24 النازعات
25 ٢٥۔ ١ یعنی اللہ نے اس کی ایسی گرفت فرمائی کہ اسے دنیا میں آئندہ آنے والے فرمانوں کے لئے نشان عبرت بنا دیا اور قیامت کا عذاب اس کے علاوہ ہے، جو اسے وہاں ملے گا النازعات
26 ٢٦۔ ١ یا میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی اور کفار مکہ کو تنبیہ ہے کہ اگر انہوں نے گزشتہ لوگوں کے واقعات سے عبرت نہ پکڑی تو ان کا انجام بھی فرعون کی طرح ہوسکتا ہے۔ النازعات
27 ٢٧۔ ١ یہ کفار مکہ کو خطاب ہے اور مقصود تنبیہ ہے کہ جو اللہ اتنے بڑے آسمانوں اور ان کے عجائبات کو پیدا کرسکتا ہے، اس کے لئے تمہارا دوبارہ پیدا کرنا آسمان بنانے سے زیادہ مشکل ہے۔ النازعات
28 ٢٨۔ ١ ٹھیک ٹھاک کا مطلب اسے ایسی شکل صورت میں ڈھالنا ہے کہ جس میں کوئی تفاوت، کجی، شگاف اور خلل باقی نہ رہے۔ النازعات
29 النازعات
30 النازعات
31 النازعات
32 النازعات
33 النازعات
34 النازعات
35 النازعات
36 النازعات
37 ٣٧۔ ١ یعنی کفر و گناہوں میں حد سے تجاوز کیا ہوگا۔ النازعات
38 النازعات
39 النازعات
40 ٤٠۔ ١ کہ اگر میں نے گناہ اور اللہ کی نافرمانی کی تو مجھے اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ہوگا، اس لئے وہ گناہوں سے اجتناب کرتا رہا ہو۔ النازعات
41 النازعات
42 ٤٢۔ ١ یعنی قیامت کب واقع اور قائم ہوگی؟ جس طرح کشتی اپنے آخری مقام پر پہنچ کر لنگر انداز ہوتی ہے اسی طرح قیامت کے واقع کا صحیح وقت کیا ہے؟ النازعات
43 ٤٣۔ ١ یعنی آپ کو اس کی بابت یقینی علم نہیں ہے، اس لئے آپ کا اس کو بیان کرنے سے کیا تعلق؟ اس کا یقینی علم تو صرف اللہ ہی کے پاس ہے۔ النازعات
44 النازعات
45 ٤٥۔ ١ یعنی آپ کا کام صرف انذاز (ڈرانا) ہے، نہ کہ غیب کی خبریں دینا، جن میں قیامت کا علم بھی ہے جو اللہ نے کسی کو بھی نہیں دیا۔ النازعات
46 ٤٦۔ ١ یعنی دنیا میں پورا ایک دن بھی نہ رہے، دن کا پہلا حصہ یا دن کا آخری حصہ ہی صرف دنیا میں رہے ہیں یعنی دنیا کی زندگی، انہیں اتنی قلیل معلوم ہوگی۔ النازعات
0 عبس
1 عبس
2 ٢۔ ١ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں اشراف قریش بیٹھے گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک ابن ام مکثوم جو نابینا تھے، تشریف لے آئے اور آ کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دین کی باتیں پوچھنے لگے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر کچھ ناگواری محسوس کی اور کچھ بے توجہی سی برتی۔ چنانچہ تنبیہ کے طور پر ان آیات کا نزول ہوا (ترندی، تفسیر سورۃ عبس) عبس
3 ٣۔ ١ یعنی وہ نابینا تجھ سے دینی رہنمائی حاصل کر کے عمل صالح کرتا، جس سے اس کا اخلاق و کردار سنور جاتا، اس کے باطن کی اصلاح ہوجاتی اور تیری نصیحت سننے سے اس کو فائدہ ہوتا۔ عبس
4 عبس
5 ٥۔ ١ ایمان سے اور اس علم سے جو تیرے پاس اللہ کی طرف سے آیا ہے۔ یا دوسرا ترجمہ جو صاحب ثروت و غنا ہے۔ عبس
6 عبس
7 عبس
8 ٨۔ ١ اس بات کا طالب بن کر آتا ہے کہ تو خیر کی طرف اس کی رہنمائی کرے اور اسے واعظ نصیحت سے نوازے۔ عبس
9 ٩۔ ١ خدا کا خوف بھی اس کے دل میں ہے۔ عبس
10 ١٠۔ ١ یعنی ایسے لوگوں کی قدر افزائی کی ضرورت ہے نہ کہ ان سے بے رخی برتنے کی۔ ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ دعوت و تبلیغ میں کسی کو خاص نہیں کرنا چاہیے بلکہ صاحب حیثیت اور بے حیثیت، امیر اور غریب، آقا اور غلام مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے سب کو یکساں حیثیت دی جائے اور سب کو مشترکہ خطاب کیا جائے۔ عبس
11 ١١۔ ١ یعنی غریب سے یہ روگردانی اور اصحاب حیثیت کی طرف خصوصی توجہ، یہ ٹھیک نہیں۔ مطلب ہے کہ، آئندہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔ عبس
12 ١٢۔ ١ یعنی جو اس میں رغبت کرے، وہ اس سے نصیحت حاصل کرے، اور اسے یاد کرے اور اس پر عمل کرے اور جو اس سے منہ پھیرے، جیسے اشراف قریش نے کیا، تو ان کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ عبس
13 ١٣۔ ١ یعنی لوح محفوظ میں، کیونکہ وہیں سے یہ قرآن اترتا ہے کہ یہ صحیفے اللہ کے ہاں بڑے محترم ہیں کیونکہ وہ علم و حکم سے پر ہیں۔ عبس
14 عبس
15 ١٥۔ ١ یعنی اللہ اور رسول کے درمیان ایلچی کا کام کرتے ہیں۔ یہ قرآن سفیروں کے ہاتھوں میں ہے جو اسے لوح محفوظ سے نقل کرتے ہیں۔ عبس
16 ١٦۔ ١ یعنی خلق کے اعتبار سے وہ کریم یعنی شریف اور بزرگ ہیں اور افعال کے اعتبار سے وہ نیکوکار اور پاکباز ہیں۔ عبس
17 عبس
18 عبس
19 ١٩۔ ١ یعنی جس کی پیدائش ایسے حقیر قطرہ آب سے ہوئی ہے، کیا اسے تکبر زیب دیتا ہے۔ عبس
20 ٢٠۔ ١ یعنی خیر اور شر کے راستے اس کے لئے واضح کردیئے، بعض کہتے ہیں اس سے مراد ماں کے پیٹ سے نکلنے کا راستہ ہے۔ لیکن پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔ عبس
21 عبس
22 عبس
23 ٢٣۔ ١ یعنی معاملہ اس طرح نہیں ہے، جس طرح یہ کافر کہتا ہے۔ عبس
24 ٢٤۔ ١ کہ اسے اللہ نے کس طرح پیدا کیا، جو اس کی زندگی کا سبب ہے اور کس طرح اس کے لئے اسباب معاش مہیا کئے تاکہ وہ ان کے ذریعے سعادت آخروی حاصل کرسکے۔ عبس
25 عبس
26 عبس
27 عبس
28 عبس
29 عبس
30 عبس
31 عبس
32 عبس
33 ٣٣۔ ١ یعنی قیامت وہ ایک نہایت سخت چیخ کے ساتھ واقع ہوگی جو کانوں کو بہرہ کر دے گی۔ عبس
34 عبس
35 عبس
36 عبس
37 ٣٧۔ ١ یا اپنے اقربا اور احباب سے بے نیاز اور بے پروا کر دے گا حدیث میں آتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سب لوگ میدان محشر میں ننگے بدن ننگے پیر، پیدل اور بغیر ختنے کئے ہوئے ہوں گے۔ عبس
38 عبس
39 ٣٩۔ ١ یہ اہل ایمان کے چہرے ہونگے، جنہیں ان کے اعمال نامے ان کے دائیں ہاتھ میں ملیں گے، جس سے انہیں اپنی آخروی سعادت و کامیابی کا یقین ہوجائے گا، جس سے ان کے چہرے خوشی سے ٹمٹماتے رہے ہونگے۔ عبس
40 عبس
41 ٤١۔ ١ یعنی ذلت اور عذاب سے ان کے چہرے غبار آلود، کدورت زدہ اور سیاہ ہونگے۔ عبس
42 ٤٢۔ ١ یعنی اللہ کا، رسولوں کا اور قیامت کا انکار کرنے والے بھی تھے اور بدکردار بداطوار بھی۔ عبس
0 التكوير
1 ١۔ ١ یعنی جس طرح سر پر پگڑی کو لپیٹا جاتا ہے، اسی طرح سورج کے وجود کو لپیٹ کر پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی روشنی از خود ختم ہوجائے گی۔ التكوير
2 ٢۔ ١ دوسرا ترجمہ کہ جھڑ کر گر جائیں گے یعنی آسمان پر ان کا وجود ہی نہیں رہے گا التكوير
3 ٣۔ ١ یعنی انہیں زمین سے اکھیڑ کر ہواؤں میں چلا دیا جائے گا اور دھنی ہوئی روئی کی طرح اڑیں گے۔ التكوير
4 ٤۔ ١ جب قیامت برپا ہوگی تو ایسا ہولناک منظر ہوگا کہ اگر کسی کے پاس اس قسم کی حاملہ اور قیمتی اونٹنی بھی ہوگی تو وہ ان کی پرواہ نہیں کرے گا اور چھوڑ دے گا۔ التكوير
5 ٥۔ ١ یعنی انہیں بھی قیامت والے دن جمع کیا جائے گا التكوير
6 التكوير
7 ٧۔ ١ اس کے کئے مفہوم بیان کئے گئے ہیں۔ زیادہ قرین قیاس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کو اس کے ہم مذہب وہم مشرب کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ مومنوں کو مومنوں کے ساتھ اور بد کو بدوں کے ساتھ یہودی کو یہودیوں کے ساتھ اور عیسائی کو عیسائیوں کے ساتھ۔ التكوير
8 التكوير
9 التكوير
10 ١٠۔ ١ موت کے وقت یہ صحیفے لپیٹ دیئے جاتے ہیں، پھر قیامت والے دن حساب کے لئے کھول دیئے جائیں گے، جنہیں ہر شخص دیکھ لے گا بلکہ ہاتھوں میں پکڑا دیئے جائیں گے۔ التكوير
11 ١١۔ ١ یعنی اس طرح ادھیڑ دیئے جائیں گے جس طرح چھت ادھڑی جاتی ہے۔ التكوير
12 التكوير
13 التكوير
14 ١٤۔ ١ یہ جواب ہے یعنی مذکورہ امور ظہور پذیر ہوں گے، جن میں سے پہلے چھ کا تعلق دنیا سے ہے اور دوسرے چھ امور کا آخرت سے۔ اس وقت ہر ایک کے سامنے اس کی حقیقٹ آ جائے گی۔ التكوير
15 التكوير
16 ١٦۔ ١ یہ ستارے دن کے وقت اپنے منظر سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور نظر نہیں آتے اور یہ زحل، مستری، مریخ، زہرہ، عطارد ہیں، یہ خاص طور پر سورج کے رخ پر ہوتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ سارے ہی ستارے مراد ہیں، کیونکہ سب ہی اپنے غائب ہونے کی جگہ پر غائب ہوجاتے ہیں یا دن کو چھپے رہتے ہیں۔ التكوير
17 التكوير
18 التكوير
19 ١٩۔ ١ اس لئے کہ وہ اسے اللہ کی طرف سے لے کر آیا ہے۔ مراد حضرت جبرائیل علیہ الاسلام ہیں۔ التكوير
20 التكوير
21 التكوير
22 ٢٢۔ ١ یہ خطاب اہل مکہ سے ہے اور صاحب سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ یعنی تم جو گمان رکھتے ہو کہ تمہارا ہم نسب اور ہم وطن ساتھی، (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیوانہ ہے۔ نعوذ باللہ ایسا نہیں ہے، ذرا قرآن پڑھ کر تو دیکھو کہ کیا کوئی دیوانہ ایسے حقائق بیان کرسکتا ہے اور گزشتہ قوموں کے صحیح صحیح حالات بتلا سکتا ہے جو اس قرآن میں بیان کئے گئے ہیں۔ التكوير
23 ٢٣۔ ١ یہ پہلے گزر چکا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو دو مرتبہ ان کی اصل حالت میں دیکھا ہے، جن میں سے ایک یہاں ذکر ہے۔ یہ ابتدائے نبوت کا واقع ہے، اس وقت حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے چھ سو پر تھے، جنہوں نے آسمان کے کناروں کو بھر دیا تھا، دوسری مرتبہ معراج کے موقعہ پر دیکھا جیسا کہ سورۃ نجم میں تفصیل گزر چکی ہے۔ التكوير
24 التكوير
25 التكوير
26 ٢٦۔ ١ یعنی کیوں اس سے روگردانی کرتے ہو؟ اور اس کی اطاعت نہیں کرتے۔ التكوير
27 التكوير
28 التكوير
29 ٢٩۔ ١ یعنی تمہاری چاہت، اللہ کی توفیق پر منحصر ہے، جب تک تمہاری چاہت کے ساتھ اللہ کی مشیت اور اس کی توفیق بھی شامل نہیں ہوگی اس وقت تک تم سیدھا راستہ اختیار نہیں کرسکتے۔ التكوير
0 الإنفطار
1 ١۔ ١ یعنی اللہ کے حکم اور اس کی ہیبت سے پھٹ جائے گا اور فرشتے نیچے اتر آئیں گے۔ الإنفطار
2 الإنفطار
3 الإنفطار
4 ٤۔ ١ یعنی قبروں سے مردے زندہ ہو کر نکل آئیں گے یا ان کی مٹی پلٹ دی جائے گی۔ الإنفطار
5 الإنفطار
6 الإنفطار
7 ٧۔ ١ یعنی حقیر نطفے سے، جب کہ اس کے پہلے تیرا وجود نہیں تھا۔ ٧۔ ٢ یعنی تجھے ایک کامل انسان بنا دیا، تو سنتا ہے، دیکھتا ہے اور عقل فہم رکھتا ہے۔ الإنفطار
8 الإنفطار
9 الإنفطار
10 الإنفطار
11 الإنفطار
12 الإنفطار
13 الإنفطار
14 الإنفطار
15 ١٥۔ ١ یعنی جس دن جزا و سزا کے دن کا وہ انکار کرتے تھے اسی دن جہنم میں اپنے اعمال کی پاداش میں داخل ہونگے، الإنفطار
16 الإنفطار
17 الإنفطار
18 الإنفطار
19 ١٩۔ ١ یعنی دنیا میں تو اللہ نے عارضی طور پر، آزمانے کے لئے، انسانوں کو کم و بیش کے کچھ فرق کے ساتھ اختیارات دے رکھے ہیں۔ لیکن قیامت والے دن تمام اختیارات صرف اور صرف اللہ کے پاس ہوں گے۔ الإنفطار
0 المطففين
1 المطففين
2 المطففين
3 ٣۔ ١ یعنی لینے اور دینے کے الگ الگ پیمانے رکھنا اور اس طرح ڈنڈی مار کر ناپ تول میں کمی کرنا، بہت بڑی اخلاقی بیماری ہے، جس کا نتیجہ دین اور آخرت میں تباہی ہے۔ ایک حدیث ہے، جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے، تو اس پر قحط سالی، سخت محنت اور حکمرانوں کا ظلم مسلط کردیا جاتا ہے۔ المطففين
4 المطففين
5 المطففين
6 المطففين
7 ٧۔ ١ سِجِیْن بعض کہتے ہیں سِجْن (قید خانہ) سے ہے، مطلب ہے کہ قید خانہ کی طرح ایک نہایت تنگ مقام ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ زمین کے سب سے نچلے حصے میں ایک جگہ ہے، جہاں کافروں، ظالموں اور مشرکوں کی روحیں اور ان کے اعمال نامے جمع اور محفوظ ہوتے ہیں۔ اسی لئے آگے اسے لکھی ہوئی کتاب قرار دی ہے۔ المطففين
8 المطففين
9 المطففين
10 المطففين
11 المطففين
12 المطففين
13 ١٣۔ ١ یعنی اس کا گناہوں میں مصروفیت اور حد سے تجاوز اتنا بڑھ گیا کہ اللہ کی آیات سن کر ان پر غور و فکر کرنے کے بجائے، انہیں اگلوں کی کہانیاں بتلاتا ہے۔ المطففين
14 (٣) یعنی یہ قرآن کہانیاں نہیں، جیسا کہ کافر کہتے اور سمجھتے ہیں۔ بلکہ یہ اللہ کا کلام اور اس کی وحی ہے جو اس کے رسول پر جبرائیل (علیہ السلام) امین کے ذریعے سے نازل ہوئی ہے۔ (٤) یعنی ان کے دل اس قرآن اور وحی الہٰی پر ایمان اس لیے نہیں لاتے کہ ان کے دلوں پر گناہوں کی کثرت کی وجہ سے پردے پڑگئے ہیں اور وہ زنگ آلود ہوگئے ہیں رین گناہوں کی وہ سیاہی ہے جو مسلسل ارتکاب گناہ کی وجہ سے اس کے دل پر چھا جاتی ہے۔ حدیث میں ہے "بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے، اگر وہ توبہ کرلیتا ہے تو وہ سیاہی دور کردی جاتی ہے، اور اگر توبہ کے بجائے، گناہ کیے جاتا ہے تو وہ سیاہی پڑھتی جاتی ہے، حتیٰ کہ اس کے پورے دل پر چھا جاتی ہے۔ یہی وہ رین ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ (ترمذی، باب تفسیر سورۃ المطففین، ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب ذکرالذنوب۔ مسند أحمد ٢٩٧/٢) المطففين
15 ١٥۔ ١ ان کے برعکس اہل ایمان روئیت باری تعالیٰ سے مشرف ہوں گے۔ المطففين
16 المطففين
17 المطففين
18 ١٨۔ ١ عِلَیِئیْنُ، (بلندی سے ہے یہ عِلَیِئیْنُ کے برعکس، آسمانوں میں یا سدرۃ المُنْتَہٰی یا عرش کے پاس جگہ ہے جہاں نیک لوگوں کی روحیں اور ان کے اعمال نامے محفوظ ہوتے ہیں، جس کے پاس مقرب فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ المطففين
19 المطففين
20 المطففين
21 المطففين
22 المطففين
23 المطففين
24 المطففين
25 المطففين
26 ٢٦۔ ١ یعنی عمل کرنے والو ایسے عملوں میں سبقت کرنی چاہیے جس کے صلے میں جنت اور اس کی نعمتیں حاصل ہوں۔ جیسے فرمایا، (لِــمِثْلِ ھٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ 61؀) 37۔ الصافات :61) المطففين
27 ٢٧۔ ١ اس میں تسنیم شراب کی امیزش ہوگی جو جنت کے بلائی علاقوں سے ایک چشمے کے ذریعے سے آئے گی۔ یہ جنت کی بہترین اور اعلیٰ شراب ہوگی۔ المطففين
28 المطففين
29 ٢٩۔ ١ یعنی انہیں حقیر جانتے ہوئے ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ المطففين
30 المطففين
31 ٣١۔ ١ یعنی اہل ایمان کا ذکر کر کے خوش ہوتے اور دل لگیاں کرتے۔ دوسرا مطلب یہ کہ جب اپنے گھروں میں لو ٹتے تو وہاں خوشحالی اور فراغت ان کا استقبال کرتی اور جو چاہتے وہ انہیں مل جاتا، اس کے باوجود انہوں نے اللہ کا شکر ادا نہیں کیا بلکہ اہل ایمان کی تحقیر کی اور ان پر حسد کرنے میں ہی مشغول رہے (ابن کثیر) المطففين
32 المطففين
33 ٣٣۔ ١ یعنی یہ کافر مسلمانوں پر نگران بنا کر تو نہیں بھیجے گئے ہیں کہ ہر وقت مسلمانوں کے اعمال و احوال ہی دیکھتے اور ان پر تبصر کرتے رہیں۔ المطففين
34 المطففين
35 المطففين
36 ٣٦۔ ١ کافروں کو، جو کچھ وہ کرتے تھے، اس کا بدلہ دے دیا گیا ہے۔ المطففين
0 الانشقاق
1 ١۔ ١ یعنی جب قیامت برپا ہوگی۔ الانشقاق
2 ٢۔ ١ یعنی اس کے یہ لائق ہے کہ سنے اطاعت کرے، اس لئے کہ وہ سب پر غالب ہے اور سب اس کے ماتحت ہیں اس کے حکم سے سرتابی کرنے کی کس کو مجال ہے؟ الانشقاق
3 ٣۔ ١ یعنی اس کے طول و عرض میں مزید وسعت کردی جائے گی۔ یا یہ مطلب ہے کہ اس پر جو پہاڑ وغیرہ ہیں، سب کو ریزہ ریزہ کر کے زمین کو ہموار کر کے بچھایا جائے گا۔ اس میں میں کوئی اونچ نیچ نہیں رہے گی۔ الانشقاق
4 ٤۔ ١ یعنی اس میں جو مردے دفن ہیں، سب زندہ ہو کر باہر نکل آئیں گے جو خزانے اس کے بطن میں موجود ہیں وہ انہیں ظاہر کر دے گی، اور خود بالکل خالی ہوجائے گی۔ الانشقاق
5 الانشقاق
6 الانشقاق
7 الانشقاق
8 الانشقاق
9 ٩۔ ١ یعنی جو اس کے گھر والوں میں سے جنتی ہونگے۔ یا مراد وہ حور عین اور دلدان ہیں جو جنتیوں کو ملیں گے۔ الانشقاق
10 الانشقاق
11 الانشقاق
12 الانشقاق
13 ١٣۔ ١ یعنی دنیا میں اپنی خواہشات میں مگن اور اپنے گھر والوں کے درمیان بڑا خوش تھا، الانشقاق
14 الانشقاق
15 ١٥۔ ١ یعنی اس سے اس کا کوئی عمل چھپا ہوا نہیں تھا۔ الانشقاق
16 ١٦۔ ١ شفق جو سورج غروب ہونے پر ظاہر ہوتی ہے اور عشا کا وقت شروع ہونے تک رہتی ہے۔ الانشقاق
17 ١٧۔ ١ اندھیرا ہوتے ہی ہر چیز اپنے مسکن کی طرف جمع اور سمٹ آتی ہے یعنی رات کا اندھیرا جن چیزوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ الانشقاق
18 الانشقاق
19 ١٩۔ ١ یہاں مراد شدائد ہیں جو قیامت والے دن واقع ہونگے۔ یعنی اس روز ایک سے بڑھ کر ایک حالت طاری ہوگی (یہ جواب قسم ہے) الانشقاق
20 الانشقاق
21 ٢١۔ ١ احادیث سے یہاں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کا سجدہ کرنا ثابت ہے۔ الانشقاق
22 ٢٢۔ ١ یعنی ایمان لانے کی بجائے جھٹلا رہے ہیں۔ الانشقاق
23 الانشقاق
24 الانشقاق
25 الانشقاق
0 البروج
1 ١۔ ١ بروج، برج کی جمع ہے، برج کے اصل معنی ظہور کے ہیں، یہ کواکب کی منزلیں ہیں جنہیں ان کے محل اور قصور کی حثییت حاصل ہے ظاہر اور نمایاں ہونے کی وجہ سے انہیں برج کہا جاتا ہے تفصیل کے لیے دیکھیے الفرقان، ٦١ کا حاشیہ بعض نے بروج سے مراد ستارے لیے ہے۔ یعنی ستارے والے آسمان کی قسم، بعض کے نزدیک اس سے آسمان کے دروازے یا چاند کی منزلیں مراد ہیں (فتح القدیر) البروج
2 ٢۔ ١ اس سے مراد قیامت کا دن ہے۔ البروج
3 ٣۔ ١ شَاھْدٍ اور مَشْھُوْدِ کی تفسیر میں بہت اختلاف ہے، امام شوکانی نے احادیث و آثار کی بنیاد پر کہا ہے کہ شاہد سے مراد جمعہ کا دن ہے، اس دن جس نے جو بھی عمل کیا ہوگا یہ قیامت کے دن اس کی گواہی دے گا، اور مشہود سے عرفہ (٩ ذوالحجہ) کا دن ہے جہاں لوگ حج کے لئے جمع اور حاضر ہوتے ہیں۔ البروج
4 ٤۔ ١ یعنی جن لوگوں نے خندقیں کھود کر اس میں رب کے ماننے والوں کو ہلاک کیا، ان کے لئے ہلاکت اور بربادی ہے قتل بمعنی لعن۔ البروج
5 ٥۔ ١ یہ خندقیں کیا تھیں؟ ایندھن والی آگ تھیں، جو اہل ایمان کو اس میں جھونکنے کے لئے دہکائی گئی تھی۔ البروج
6 ٦۔ ١ کافر بادشاہ یا اسکے کارندے، آگ کے کنارے بیٹھے اہل ایمان کے جلنے کا تماشہ دیکھ رہے تھے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔ البروج
7 البروج
8 ٨۔ ١ یعنی ان لوگوں کا جرم، جنہیں آگ میں جھونکا جا رہا تھا، یہ تھا کہ وہ اللہ غالب پر ایمان لائے تھے، اس واقع کی تفصیل جو صحیح احادیث سے ثابت ہے، مختصراً اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں۔ البروج
9 واقعہ اصحاب الا خدود : گزشتہ زمانے میں ایک بادشاہ کا جادوگر اور کاہن تھا، جب وہ کاہن بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ مجھے ایک ذہین لڑکا دو، جسے میں یہ علم سکھا دوں، چنانچہ بادشاہ نے ایک سمجھدار لڑکا تلاش کر کے اس کے سپرد کردیا۔ لڑکے کے راستے میں ایک راہب کا بھی مکان تھا، یہ لڑکا آتے جاتے اس کے پاس بھی بیٹھتا اور اس کی باتیں سنتا، جو اسے اچھی لگتیں، اسی طرح سلسلہ چلتا رہا، ایک مرتبہ یہ لڑکا جا رہا تھا کہ راستے میں ایک بہت بڑے جانور (شیر یا سانپ وغیرہ) نے لوگوں کا راستہ روک رکھا تھا، لڑکے نے سوچا، آج میں پتہ کرتا ہوں کہ جادوگر صحیح ہے یا راہب؟ اس نے ایک پتھر پکڑا اور کہا اے اللہ، اگر راہب کا معاملہ، تیرے نزدیک جادوگر کے معاملے سے بہتر اور پسندیدہ ہے تو اس جانور کو مار دے، تاکہ لوگوں کی آمد و رفت جاری ہوجائے یہ کہہ کر اس نے پتھر مارا اور وہ جانور مر گیا۔ لڑکے نے جا کر یہ واقعہ راہب کو بتایا راہب نے کہا، بیٹے! اب تم فضل و کمال کو پہنچ گئے ہو اور تمہاری آزمائش شروع ہونے والی ہے۔ لیکن اس دور آزمائش میں میرا نام ظاہر نہ کرنا، یہ لڑکا مادر زاد اندھے، برص اور دیگر بیماریوں کا علاج بھی کرتا تھا لیکن ایمان باللہ کی شرط پر، اسی شرط پر اس نے بادشاہ کے ایک نابینا مصاحب کی آنکھیں بھی اللہ سے دعا کر کے صحیح کردیں۔ یہ لڑکا یہی کہتا تھا کہ اگر تم ایمان لے آؤ گے تو میں اللہ سے دعا کروں گا، وہ شفا عطا فرما دے گا، چنانچہ اس کی دعا سے اللہ شفا یاب فرما دیتا، یہ خبر بادشاہ تک پہنچی تو وہ بہت پریشان ہوا، بعض اہل ایمان کو قتل کرا دیا۔ اس لڑکے کے بارے میں اس نے چند آدمیوں کو کہا کہ اسے پہاڑ کی چوٹی پر لے جا کر نیچے پھینک دو، اس نے اللہ سے دعا کی پہاڑ میں لرزش پیدا ہوئی جس سے وہ سب مر گئے اور اللہ نے اسے بچا لیا۔ بادشاہ نے اسے دوسرے آدمیوں کے سپرد کر کے کہ کہا کہ ایک کشتی میں بٹھا کر سمندر کے بیچ لے جا کر اسے پھینک دو، وہاں بھی اس کی دعا سے کشتی الٹ گئی، جس سے وہ سب غرق ہوگئے اور یہ بچ گیا۔ اس لڑکے نے بادشاہ سے کہا، اگر تو مجھے ہلاک کرنا چاہتا ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک کھلے میدان میں لوگوں کو جمع کرو اور بِسْمِ اللہ رَبِّ الْغُلام کہہ کر مجھے تیر مار، بادشاہ نے ایسے ہی کیا جس سے وہ لڑکا مر گیا لیکن سارے لوگ پکار اٹھے، کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے، بادشاہ اور زیادہ پریشان ہوگیا۔ چنانچہ اس نے خندقیں کھدوائیں اور اس میں آگ جلوائی اور حکم دیا کہ جو ایمان سے انحراف نہ کرے اس کو آگ میں پھینک دو، اس طرح ایماندار آتے رہے اور آگ کے حوالے ہوتے رہے، حتیٰ کہ ایک عورت آئی، جس کے ساتھ ایک بچہ تھا وہ ذرا ٹھٹھکی، تو بچہ بول پڑا، اماں صبر کر تو حق پر ہے (صحیح مسلم) امام ابن کثیر نے اور بھی بعض واقعات نقل کئے ہیں جو اس سے مختلف ہیں اور کہا ہے، ممکن ہے اس قسم کے متعدد واقعات مختلف جگہوں پر ہوئے ہوں (تفصیل کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر) البروج
10 البروج
11 البروج
12 ١٢۔ ١ یعنی جب وہ اپنے ان دشمنوں کی گرفت پر آئے جو اس کے رسولوں کی تکذیب کرتے اور اس کے حکموں کی مخالفت کرتے ہیں تو پھر اس کی گرفت سے انہیں کوئی نہیں بچا سکتا البروج
13 ١٣۔ ١ یعنی وہی اپنی قوت اور قدرت کاملہ سے پہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے اور پھر قیامت والے دن دوبارہ انہیں اسی طرح پیدا کرے گا جس طرح اس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا۔ البروج
14 البروج
15 ١٥۔ ١ یعنی تمام مخلوقات سے معظم اور بلند ہے اور عرش، جو سب سے اوپر ہے وہ اس کا مستقر ہے جیسا کہ صحابہ و تابعین اور محدثین کا عقیدہ ہے۔ المجید صاحب فضل و کرم۔ البروج
16 ١٦۔ ١ یعنی وہ جو چاہے، کر گزرتا ہے اس کے حکم اور مشیت کو ٹالنے والا کوئی نہیں ہے نہ اسے کوئی پوچھنے والا ہی ہے۔ حضرت ابو بکر سے ان کے مرض الموت میں کسی نے پوچھا کیا کسی طبیب نے آپ کو دیکھا ہے انہوں نے فرمایا کہ ہاں، پوچھا اس نے کیا کہا، انی فعال لما ارید، میں جو چاہوں کروں، میرے معاملے میں کوئی دخل دینے والا نہیں۔ (ابن کثیر) مطلب یہ تھا کہ معاملہ اب طبیبوں کے ہاتھ میں نہیں رہا میرا آخری وقت آ گیا ہے اور اللہ ہی اب میرا طبیب ہے جس کی مشییت کو ٹالنے کی کسی کے اندر طاقت نہیں۔ البروج
17 ١٧۔ ١ یعنی ان پر میرا عذاب آیا اور میں نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا، جسے کوئی ٹال نہیں سکا۔ البروج
18 البروج
19 البروج
20 ٢٠۔ ١ (ان بطش ربک لشدید) ہی کا اثبات اور اس کی تاکید ہے۔ البروج
21 البروج
22 ٢٢۔ ١ یعنی لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے، جہاں فرشتے اس کی حفاظت پر مامور ہیں، اللہ تعالیٰ حسب ضرورت اسے نازل فرماتا ہے۔ البروج
0 الطارق
1 الطارق
2 الطارق
3 ٣۔ ١ طارق سے مراد؟ خود قرآن نے واضح کردیا۔ روشن ستارہ طارق ہے جس کے لغوی معنی کھٹکھٹانے کے ہیں، لیکن طارق رات کو آنے والے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ستاروں کو بھی طارق اسی لئے کہا گیا ہے کہ یہ دن کو چھپ جاتے ہیں اور رات کو نمودار ہوتے ہیں۔ الطارق
4 ٤۔ ١ یعنی ہر نفس پر اللہ کی طرف سے فرشتے مقرر ہیں جو اس کے اچھے یا برے سارے اعمال لکھتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ انسانوں کی حفاطت کرنے والے فرشتے ہیں۔ الطارق
5 ٥۔ ١ یعنی منی سے جو قضائے شہوت کے بعد زور سے نکلتی ہے۔ یہی قطرہ آب رحم عورت میں جر اللہ کے حکم سے حمل کا باعث بنتا ہے۔ الطارق
6 الطارق
7 ٧۔ ١ کہا جاتا ہے کہ پیٹھ مرد کی اور سینہ عورت کا، ان دونوں کے پانی سے انسان کی تخلیق ہوتی ہے۔ لیکن اسے ایک پانی اس لیے کہا کہ یہ دونوں مل کر ایک ہی بن جاتا ہے۔ الطارق
8 ٨۔ ١ یعنی انسان کے مرنے کے بعد، اسے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔ بعض کے نزدیک اس کا مطلب ہے کہ وہ اس قطرہ آب کو دوبارہ شرمگاہ کے اندر لوٹانے کی قدرت رکھتا ہے جہاں سے وہ نکلا تھا پہلے مفہوم کو امام شوکانی اور امام ابن جریر طبری نے زیادہ صحییح قرار دیا ہے۔ الطارق
9 ٩۔ ١ یعنی ظاہر ہوجائیں گے کیونکہ ان پر جزا و سزا ہوگی بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ ہر غدر (بدعہدی) کرنے والے کے سرین کے پاس جھنڈا گاڑ دیا جائے گا اور اعلان کردیا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی غداری ہے۔ (صحیح بخاری) الطارق
10 ١٠۔ ١ یعنی خود انسان کے پاس اتنی قوت نہ ہوگی کہ وہ خدا کے عذاب سے بچ جائے نہ کسی اور طرف اس کو کوئی ایسا مددگار مل سکے گا جو اس کو اللہ کے عذاب سے بچا دے۔ الطارق
11 ١١۔ ١ عرب بارش کو رجع کہتے ہیں اس لئے بارش کو رَجْع کہا اور بطور شگون عرب بارش کو کہتے تھے تاکہ وہ بار بار ہوتی رہے۔ الطارق
12 ١٢۔ ١ یعنی زمین پھٹتی ہے تو اس سے پودا باہر نکلتا ہے، زمین پھٹتی ہے تو اس سے چشمہ جاری ہوتا ہے اور اسی طرح ایک دن آئے گا کہ زمین پھٹے گی، سارے مردے زندہ ہو کر باہر نکل آئیں گے۔ اس لیے زمین کو پھٹنے والی اور شگاف والی کہا۔ الطارق
13 ١٣۔ ١ یہ جواب قسم ہے، یعنی کھول کر بیان کرنے والا ہے جس سے حق اور باطل دونوں واضح ہوجاتے ہیں۔ الطارق
14 ١٤۔ ١ یعنی کھیل کود اور مذاق والی چیز نہیں ہے (قصد اور ارادہ) کی ضد ہے، یعنی ایک واضح مقصد کی حامل کتاب ہے، لہو و لعب کی طرح بے مقصد نہیں۔ الطارق
15 ١٥۔ ١ یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو دین حق لے کر آئے ہیں، اس کو ناکام کرنے کے لئے سازشیں کرتے ہیں، یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دھوکا اور فریب دیتے ہیں اور منہ پر ایسی باتیں کرتے ہیں کہ دل میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ الطارق
16 ١٦۔ ١ یعنی میں ان کی چالوں اور سازشوں سے غافل نہیں ہوں، میں بھی ان کے خلاف تدبیر کر رہا ہوں یا ان کی چالوں کا توڑ کر رہا ہوں، جو برے مقصد کے لئے ہو تو بری اور مقصد نیک تو بری نہیں۔ الطارق
17 ١٧۔ ١ یعنی ان کے لئے جلدی عذاب کا سوال نہ کر بلکہ انہیں کچھ مہلت دے دے۔ الطارق
0 الأعلى
1 ١۔ ١ یعنی ایسی چیزوں سے اللہ کی پاکیزگی اس کے لائق نہیں ہے حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے جواب میں پڑھا کرتے تھے، سُبْحَانَ رَبَّیَ ا لاَّعْلَیٰ (مسند احمد ٢٣٢۔ ١) الأعلى
2 ٢۔ ١ دیکھیے سورۃ انفطار کا حاشیہ نمبر ٧ الأعلى
3 ٣۔ ١ یعنی نیکی اور بدی کی، ضروریات زندگی، اشیا کی جنسوں کی، ان کی انواع و صفات اور خصوصیات کا اندازہ فرما کر انسان کی بھی ان کی طرف رہنمائی فرما دی تاکہ انسان ان سے استفادہ حاصل کرے۔ الأعلى
4 ٤۔ ١ جسے جانور چرتے ہیں۔ الأعلى
5 ٥۔ ١ گھاس خشک ہوجائے تو اسے غثاء کہتے ہیں، احوی سیاہ کردیا۔ الأعلى
6 ٦۔ ١ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) وحی لے کر آتے تو آپ جلدی جلدی پڑھتے تاکہ بھول نہ جائے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس طرح جلدی نہ کریں، نازل شدہ وحی ہم آپ کو پڑھوائیں گے، یعنی آپ کی زبان پر جاری کردیں گے۔ پس آپ بھولیں گے نہیں۔ مگر جسے اللہ چاہے گا لیکن اللہ نے ایسا نہیں چاہا، اس لیے آپ کو سب کچھ یاد ہی رہا بعض نے کہا کہ اس کا مفہوم ہے کہ جن کو اللہ منسوخ کرنا چاہے گا وہ آپ کو بھلوا دے گا (فتح القدیر) الأعلى
7 ٧۔ ١ یہ بھی عام ہے جہر قرآن کا وہ حصہ ہے جسے رسول اللہ یاد کرلیں اور جو آپ کے سینے سے محو کردیا جائے وہ مخفی ہے۔ خفی چھپ کر عمل کرے اور جہر ظاہر ان سب کو اللہ جانتا ہے۔ الأعلى
8 ٨۔ ١ یہ بھی عام ہے۔ ہم آپ پر وحی آسان کردیں گے تاکہ اس کو یاد کرنا اور اس پر عمل کرنا آسان ہوجائے ہم آپ کے اس طریقے سے رہنمائی کریں گے جو آسان ہوگا، ہم جنت والا عمل آپ کے لئے آسان کردیں گے۔ ہم آپ کے لیے ایسے اقوال وافعال آسان کردیں گے جن میں خیر ہو اور ہم آپ کے لیے ایسی شریعت مقرر کریں گے جو سہل، مستقیم، اور معتدل ہوگی جس میں کوئی کجی، عسر اور تنگی نہیں ہوگی۔ الأعلى
9 ٩۔ ١ یعنی وعظ ونصیحت وہاں کریں جہاں محسوس ہو کہ فائدہ مند ہوگی، یہ وعظ ونصیحت اور تعلیم کے لیے ایک اصول اور ادب بیان فرمایا۔ امام شوکانی کے نزدیک مفہوم یہ ہے کہ آپ نصیحت کرتے رہیں، چاہے فائدہ دے یا نہ دے، کیونکہ انداز و تبلیغ دونوں صورتوں میں آپ کے لیے ضروری تھی۔ الأعلى
10 یعنی آپ کی نصیحت سے وہ یقینا عبرت حاصل کریں گے جن کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوگا، ان میں خشیت الہی اور اپنی اصلاح کا جذبہ مزید قوی ہوگا۔ الأعلى
11 ١١۔ ١ یعنی اس نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے کیونکہ ان کا کفر پر اصرار اللہ کی معصیتوں میں انہماک جاری رہتا ہے۔ ب الأعلى
12 الأعلى
13 ١٣۔ ١ ان کے برعکس جو لوگ صرف اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے عارضی طور پر جہنم میں رہ گئے ہوں گے انہیں اللہ تعالیٰ ایک طرح کی موت دے دے گا حتی کہ وہ آگ میں جل کر کوئلہ ہوجائیں گے پھیر اللہ تعالیٰ انبیاء وغیرہ کی سفارش سے ان کو گروہوں کی شکل میں نکالے گا، ان کو جنت کی نہر میں ڈالا جائے گا، جنتی بھی ان پر پانی ڈالیں گے جس سے وہ اس طرح اٹھیں گے جیسے سیلاب کے کورے سے دانہ اگ آتا ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان) الأعلى
14 ١٤۔ ١ جنہوں نے اپنے نفس کو اخلاق رذیلہ سے اور دلوں کو شرک کی آلودگی سے پاک کرلیا۔ الأعلى
15 الأعلى
16 الأعلى
17 ١٧۔ ١ کیونکہ دنیا اور اس کی ہر چیز فانی ہے، جبکہ آخرت کی زندگی دائمی اور ابدی ہے، اس لئے عاقل فانی چیز کو باقی رہنے والی پر ترجیح نہیں دیتا۔ الأعلى
18 الأعلى
19 الأعلى
0 الغاشية
1 ١۔ ١ غاشیہ سے مراد قیامت ہے، اس لئے کہ اس کی ہولناکیاں تمام مخلوق کو ڈھانک لیں گی۔ الغاشية
2 ٤۔ ١ یعنی کافروں کے چہرے، خاشعۃ جھکے ہوئے، پست اور ذلیل، جیسے نمازی، نماز کی حالت میں عاجزی سے جھکا ہوتا ہے۔ الغاشية
3 ٣۔ ١ یعنی انہیں اتنا پر مشقت عذاب ہوگا کہ اس سے ان کا سخت برا حال ہوگا۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں عمل کر کے تھکے ہوئے ہونگے یعنی بہت عمل کرتے رہے، لیکن وہ عمل باطل مذہب کے مطابق بدعات پر مبنی ہونگے، اس لئے عبادت اور سخت اعمال کے باوجود جہنم میں جائیں گے۔ چنانچہ اس مفہوم کی روح سے حضرت ابن عباس نے (عَمِلَۃ، نَّاصِیَۃ) سے نصاریٰ مراد لئے ہیں (صحیح بخاری) الغاشية
4 الغاشية
5 یہاں وہ سخت کھولتا ہوا پانی مراد ہے جس کی گرمی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہو۔ (فتح القدیر) الغاشية
6 یہ ایک کانٹے دار درخت ہوتا ہے جسے خشک ہونے پر جانور بھی کھانا پسند نہیں کرتے، بہرحال یہ بھی زقوم کی طرح ایک نہایت تلخ، بدمزہ، اور ناپاک ترین کھانا ہوگا جو جزو بدن بنے گا نہ اس سے بھوک ہی مٹے گی۔ الغاشية
7 الغاشية
8 الغاشية
9 الغاشية
10 الغاشية
11 الغاشية
12 الغاشية
13 الغاشية
14 الغاشية
15 یہ اہل جنت کا تذکرہ ہے جو جہنمیوں کے برعکس نہایت آسودہ حال اور ہر قسم کی آسائشوں سے بہرور ہوں گے۔ الغاشية
16 الغاشية
17 ١٧۔ ١ اونٹ عرب میں عام تھے اور ان عربوں کی غالب سواری یہ تھی، اس لیے اللہ نے اس کا تذکرہ کیا یعنی اونٹ کی خلقت پر غور کرو، اللہ نے اسے کتنا بڑا وجود عطا کیا اور کتنی قوت و طاقت اس کے اندر رکھی ہے۔ اس کے باوجود وہ تمہارے لئے نرم اور تابع ہے، تم اس پر جتنا چاہو بوجھ لادھ دو وہ انکار نہیں کرے گا اور تمہارا ماتحت ہو کر رہے گا علاوہ ازیں اس کا گوشت تمہارے کھانے کے لئے، اسکا دودھ تمہارے پینے کے لئے اور اس کی اون، گرمی حاصل کرنے کے کام آتی ہے۔ الغاشية
18 ١٨۔ ١ یعنی آسمان کتنی بلندی پر ہے پانچ سو سال کی مسافت پر پھیر بھی بغیر ستون کے وہ کھڑا ہے اس میں کوئی شگاف اور کجی نہیں نیز ہم نے اسے ستاروں سے مزین کیا ہوا ہے۔ الغاشية
19 ١٩۔ ١ یعنی کس طرح اس کو زمین پر میخوں کی طرح گاڑھ دیا تاکہ زمین حرکت نہ کرے، نیز ان میں جو معدنیات اور دیگر منافع ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ الغاشية
20 ٢٠۔ ١ یعنی کس طرح اسے ہموار کر کے انسان کے رہنے کے قابل بنایا ہے وہ اس پر چلتا پھرتا ہے کاروبار کرتا ہے اور فلک بوس عمارتیں بناتا ہے۔ الغاشية
21 ٢١۔ ١ یعنی آپ کا کام صرف تبلیغ و دعوت ہے، اس کے علاوہ یا اس سے بڑھ کر نہیں۔ الغاشية
22 الغاشية
23 الغاشية
24 ١۔ ١ یعنی جہنم کا دائمی عذاب۔ الغاشية
25 الغاشية
26 ٢۔ ١ مشہور ہے کہ اس کے جواب میں اللھم حاسبنا حسابا یسیرا۔ پڑھا جائے، یہ دعا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے جو آپ اپنی بعض نمازوں میں پڑھتے تھے، جیسا کہ سورۃ انشقاق میں گزرا لیکن اس کے جواب میں پڑھنا یہ آپ سے ثابت نہیں۔ الغاشية
0 الفجر
1 ١۔ ١ اس سے مراد مطلق فجر ہے، کسی خاص دن کی فجر نہیں۔ الفجر
2 ٢۔ ١ اس سے اکثر مفسرین کے نزدیک ذو الحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ جن کی فضیلت احادیث سے ثابت ہے، نبی کریم نے فرمایا عشرہ ذوالحجہ میں کیے گئے عمل صالح اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں، حتی کہ جہاد فی سبیل اللہ بھی اتنا پسندیدہ نہیں سوائے اس جہاد کے جس میں انسان شہید ہوجائے۔ (البخاری، کتاب العیدین، باب فضل العمل فی ایام التشریق) الفجر
3 ٣۔ ١ اس سے مراد جفت اور طاق عدد ہیں یا وہ معدودات جو جفت اور طاق ہوتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ یہ دراصل مخلوق کی قسم ہے اس لیے کہ مخلوق جفت یا طاق ہے اس کے علاوہ نہیں۔ الفجر
4 ٤۔ ١ یعنی جب آئے اور جب جائے، کیونکہ سیر (چلنا) آتے جاتے دونوں صورتوں میں ہوتا ہے۔ الفجر
5 ٥۔ ١ ذٰلِکَ سے مذکورہ قسمیں بہ اشیا کی طرف اشارہ ہے یعنی کیا ان کی قسم اہل عقل و دانش کے واسطے کافی نہیں۔ حجر کے معنی ہیں روکنا، منع کرنا، انسانی عقل بھی انسان کو غلط کاموں سے روکتی ہے اس لیے عقل کو بھی حجر کہا جاتا ہے۔ آگے بہ طریق استشہاد اللہ تعالیٰ بعض ان قوموں کا ذکر فرما رہے ہیں جو تکذیب وعناد کی بناء پر ہلاک کی گئی تھیں، مقصد اہل مکہ کو تنبیہ ہے کہ اگر تم ہمارے رسول کی تکذیب سے باز نہ آئے تو تمہارا بھی اسی طرح مواخذہ ہوسکتا ہے جیسے گزشتہ قوموں کا اللہ نے کیا۔ الفجر
6 ٦۔ ١ ان کی طرف حضرت ہود (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجے گئے تھے انہوں نے جھٹلایا، بالآخر اللہ تعالیٰ نے سخت ہوا کا عذاب بھیجا۔ جو متواتر سات راتیں اور آٹھ دن چلتی رہی اور انہیں نہس تہس کر کے رکھ دیا۔ الفجر
7 ٧۔ ١ ارم یہ قوم عاد کے دادا کا نام ہے، ان کا سلسلہ نسب ہے عاد بن عوص بن ارم بن سام بن نوح (فتح القدیر) ذات العماد سے اشارہ ہے ان کی قوت وطاقت اور دراز قامتی کی طرف، علاوہ ازیں وہ فن تعمیر میں بھی بری مہارت رکھتے تھے اور نہایت مضبوط بنا دوں پر عظیم الشان عمارتیں تعمیر کرتے تھے۔ ذات العماد میں دونوں ہی مفہوم شامل ہو سکتے ہیں۔ الفجر
8 ٨۔ ١ یعنی ان جیسی دراز قامت اور قوت وطاقت والی قوم کوئی اور پیدا نہیں ہوئی، یہ قوم کہا کرتی تھی (من اشد منا قوۃ) ہم سے زیادہ کوئی طاقتور ہے؟ الفجر
9 ٩۔ ١ یہ حضرت صالح کی قوم تھی اللہ نے اسے پتھر تراشنے کی خاص صلاحیت وقوت عطا کی تھی، حتی کہ یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر ان میں اپنی رہائش گاہیں تعمیر کرلیتے تھے، جیسا کہ قرآن نے کہا ہے (وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا فٰرِہِیْنَ ١٤٩؀ۚ) 26۔ الشعراء :149) الفجر
10 ١٠۔ ١ اس کا مطلب ہے کہ بڑے لشکروں والا تھا جس کے پاس خیموں کی کثرت تھی جنہیں میخیں گاڑ کر کھڑا کیا جاتا تھا۔ یا اس کے ظلم وستم کی طرف اشارہ ہے کہ میخوں کے ذریعے وہ لوگوں کو سزائیں دیتا تھا۔ الفجر
11 الفجر
12 الفجر
13 ١٣۔ ١ یعنی ان پر آسمان سے اپنا عذاب نازل فرما کر ان کو تباہ برباد یا انہیں عبرتناک انجام سے دوچار کردیا۔ الفجر
14 ١٤۔ ١ یعنی تمام مخلوقات کے اعمال دیکھ رہا ہے اور اس کے مطابق وہ دنیا اور آخرت میں جزا دیتا ہے۔ الفجر
15 ١٥۔ ١ یعنی جب کسی کو عزت و دولت کی فروانی عطا فرماتا ہے تو وہ اپنی بابت اس غلط فہمی کا شکار ہوجاتا ہے کہ اللہ اس پر بہت مہربان ہے، حالانکہ فروانی امتحان اور آزمائش کے طور پر ہوتی ہے۔ الفجر
16 ١٦۔ ١ یعنی وہ تنگی میں مبتلا کر کے آزماتا ہے تو اللہ کے بارے میں بدگمانی کا اظہار کرتا ہے۔ الفجر
17 ١٧۔ ١ یعنی بات اس طرح نہیں جیسے لوگ سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مال اپنے محبوب بندوں کو بھی دیتا ہے اور ناپسندیدہ افراد کو بھی اور وہ اپنے اور بیگانوں دونوں کو مبتلا کرتا ہے۔ اصل مدار دونوں حالتوں میں اللہ کی اطاعت پر ہے جب اللہ مال دے تو اللہ کا شکر کرے، تنگی آئے تو صبر کرے۔ ١٧۔ ٢ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے وہ گھر سب سے بہتر ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے اور وہ گھر بدترین ہے جس میں اس کے ساتھ بدسلوکی کی جائے۔ پھر اپنی انگلی کے ساتھ اشارہ کر کے فرمایا، میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ساتھ ساتھ ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں ساتھ ملی ہوئی ہیں (ابو داؤد) الفجر
18 الفجر
19 ١٩۔ ١ یعنی جس طریقے سے بھی حاصل ہو، حلال طریقے سے حرام طریقے سے۔ الفجر
20 الفجر
21 الفجر
22 ٢٢۔ ١ کہا جاتا ہے کہ جب فرشتے، قیامت والے دن آسمان سے نیچے اتریں گے تو ہر آسمان کے فرشتوں کی الگ صف ہوگی اس طرح سات صفیں ہونگیں۔ جو زمین کو گھیر لیں گی۔ الفجر
23 ٢٣۔ ١ ستر ہزار لگاموں کے ساتھ جہنم جکڑی ہوئی ہوگی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہونگے جو اسے کھینچ رہے ہونگے (صحیح مسلم) اسے عرش کے بائیں جانب کھڑا کردیا جائے گا پس اسے دیکھ کر تمام مقرب اور انبیاء گھٹنوں کے بل گر پڑیں گے اور یارب نفسی نفسی پکاریں گے۔ (فتح القدیر) ٢٣۔ ٢ یعنی یہ ہولناک منظر دیکھ کر انسان کی آنکھیں کھلیں گی اور اپنے کفر و معاصی پر نادم ہوگا، لیکن اس روز ندامت اور نصیحت کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ الفجر
24 ٢٤۔ ١ یہ افسوس اور حسرت کا اظہار، اسی ندامت کا حصہ ہے جو اس روز فائدہ مند نہیں ہوگی۔ الفجر
25 الفجر
26 اس لیے کہ اس روز تمام اختیارات صرف ایک اللہ کے پاس ہوں گے، دوسرے کسی کو اس کے سامنے رائے یادم زنی نہیں ہوگا حتی کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش تک نہیں کرسکے گا ایسے حالات میں کافروں کو جو عذاب ہوگا اور جس طرح وہ اللہ کی قید وبند میں جکڑے ہوں گے، اس کا یہاں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، چہ جائیکہ اس کا کچھ اندازہ ممکن ہو، یہ تو مجرموں اور ظالموں کا حال ہوگا لیکن اہل ایمان وطاعت کا حال اس سے بلکل مختلف ہوگا جیسا کہ اگلی آیات میں ہے۔ الفجر
27 الفجر
28 ٢٨۔ ١ یعنی اس کے اجر و ثواب اور ان نعمتوں کی طرف جو اس نے اپنے بندوں کے لیے جنت میں تیار کی ہیں بعض کہتے ہیں قیامت والے دن کہا جائے گا بعض کہتے ہیں کہ موت کے وقت بھی فرشتے خوشخبری دیتے ہیں اسی طرح قیامت والے دن بھی اسے یہ کہا جائے گا جو یہاں مذکور ہے، حافظ ابن کثیر نے ابن عساکر کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ نبی کریم نے ایک آدمی کو یہ دعا پڑھنے کا حکم دیا، اللھم انی اسالک نفسا، بک مطمئنہ، تو من بلقائک، وترضی بقضائک، وتقنع بعطائک۔ الفجر
29 الفجر
30 الفجر
0 البلد
1 ١۔ ١ اس شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے جس میں اس وقت، جب سورت کا نزول ہوا، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قیام تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جائے پیدائش بھی یہی شہر تھا۔ یعنی اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مولد و مسکن کی قسم کھائی، جس سے اس کی عظمت کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ البلد
2 ٢۔ ١ یہ اشارہ ہے اس وقت کی طرف جب مکہ فتح ہوا، اس وقت اللہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اس شہر حرام میں قتال کو حلال فرما دیا تھا جب کہ اس میں لڑائی کی اجازت نہیں ہے چنانچہ حدیث میں ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس شہر کو اللہ نے اس وقت سے حرمت والا بنایا ہے، جب سے اس نے آسمان و زمین پیدا کئے۔ پس یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حرمت سے قیامت تک حرام ہے، نہ اس کا درخت کاٹا جائے نہ اس کے کانٹے اکھیڑے جائیں، میرے لئے اسے صرف دن کی ایک ساعت کے لئے حلال کیا گیا تھا اور آج اس کی حرمت پھر اسی طرح لوٹ آئی ہے جیسے کل تھی۔ اگر کوئی یہاں قتال کے لئے دلیل میری لڑائی کو پیش کرے تو اس سے کہو کہ اللہ کے رسول کو تو اس کی اجازت اللہ نے دی تھی جب کہ تمہیں یہ اجازت اس نے نہیں دی (صحیح بخاری) البلد
3 ٣۔ ١ بعض نے اس سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد لی ہے اور بعض کے نزدیک یہ عام ہے، ہر باپ اور اس کی اولاد اس میں شامل ہے۔ البلد
4 ٤۔ ١ یعنی اس کی زندگی محنت و مشقت اور شدائد سے معمور ہے۔ امام طبری نے اس مفہوم کو اختیار کیا ہے، یہ جواب قسم ہے۔ البلد
5 ٥۔ ١ یعنی کوئی اس کی گرفت کرنے پر قادر نہیں۔ البلد
6 ٦۔ ١ یعنی دنیا کے معاملات اور فضولیات میں خوب پیسہ اڑاتا ہے، پھر فخر کے طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے۔ البلد
7 ٧۔ ١۔ اس طرح اللہ کی نافرمانی میں مال خرچ کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کوئی اسے دیکھنے والا نہیں؟ حالانکہ اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے جس پر وہ اسے جزا دے گا، آگے اللہ تعالیٰ اپنے بعض انعامات کا تذکرہ فرما رہا ہے تاکہ ایسے لوگ عبرت پکڑیں۔ البلد
8 ٨۔ ١ جن سے دیکھتا ہے۔ البلد
9 ٩۔ ١ زبان سے وہ بولتا ہے اور مافی الضمیر کا اظہار کرتا ہے ہونٹوں سے وہ بولنے اور کھانے کے لیے مدد حاصل کرتا ہے علاوہ ازیں وہ اس کے چہرے اور منہ کے لیے خوب صورتی کا بھی باعث ہیں۔ البلد
10 ١٠۔ ١ یعنی خیر کی بھی شر کی بھی اور ایمان کی بھی، سعادت کی بھی اور بد بختی کی بھی، جیسے فرمایا، بعض نے یہ ترجمہ کیا ہے، ہم نے انسان کی (ماں کے) دو پستانوں کی طرف رہنمائی کردی یعنی وہ عالم شیر خوارگی میں ان سے خوراک حاصل کرے لیکن پہلا مفہوم زیادہ صحیح ہے۔ البلد
11 ١١۔ ١ عقبہ گھاٹی کو کہتے ہیں یعنی وہ راستہ جو پہاڑ میں ہو یہ عام طور پر نہایت دشوار گزار ہوتا ہے۔ یہ جملہ یہاں استفہام بمعنی انکار کے مفہوم میں ہے یعنی (فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ 11۝ڮ) 90۔ البلد :11) کیا وہ گھاٹی میں داخل نہیں ہوا ؟ مطلب ہے نہیں ہوا۔ یہ ایک مثال ہے اس محنت و مشقت کی وضاحت کے لئے جو نیکی کے کاموں کے لئے ایک انسان کو شیطان کے وسوسوں اور تقاضوں کے خلاف کرنی پڑتی ہے، جیسے گھاٹی پر چڑھنے کے لئے سخت جدو جہد کی ضرورت ہوتی ہے (فتح القدیر) البلد
12 البلد
13 البلد
14 البلد
15 البلد
16 ١٦۔ ١ یعنی جو فقر و غربت کی وجہ سے مٹی پر پڑا ہو، اس کا گھر بار بھی نہ ہو، مطلب یہ ہے کہ کسی گردن کو آزاد کرنا، کسی بھوکے رشتے دار کو کھانا کھلا دینا، یہ دشوار گزار گھاٹی میں داخل ہونا ہے جس کے ذریعے سے انسان جہنم سے بچ کر جنت میں جا پہنچے گا یتیم کی کفالت ویسے ہی بڑے اجر کا کام ہے، لیکن اگر وہ رشتے دار بھی ہو تو اس کی کفالت کا اجر بھی دگنا ہے ایک صدقے کا، دوسرا صلہ رحمی کا، اسی طرح غلام آزاد کرنے کی بھی بڑی فضیلت احادیث میں آئی ہے، آج کل اس کی ایک صورت کسی مقروض کو قرض کے بوجھ سے نجات دلا دینا ہو سکتی ہے، یہ بھی ایک گونہ فک رقبہ ہے۔ البلد
17 ١٧۔ ١ اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ اعمال خیر، اسی وقت نافع اور اخروی سعادت کا باعث ہونگے جب ان کا کرنے والا صاحب ایمان ہوگا۔ ١٧۔ ٢ اہل ایمان کی صفت ہے کہ وہ ایک دوسرے کو صبر اور رحم کی تلقین کرتے ہیں۔ البلد
18 البلد
19 البلد
20 ٢٠۔ ١ یعنی ان کو آگ میں ڈال کر چاروں طرف بند کردیا جائے گا تاکہ ایک تو آگ کی پوری شدت وحرارت ان کو پہنچے، دوسرے وہ بھاگ کر کہیں نہ جا سکیں گے۔ البلد
0 الشمس
1 ١۔ ١ یا اس کی روشنی کی، یا مطلب ضحیٰ سے دن ہے، یعنی سورج کی اور دن کی۔ الشمس
2 ٢۔ ١۔ یعنی جب سورج غروب ہونے کے بعد وہ طلوع ہو، جیسا کہ پہلے نصف مہینہ میں ایسا ہوتا ہے۔ الشمس
3 ٣۔ ١ یا تاریکی کو دور کرے، ظلمت کا پہلے ذکر تو نہیں ہے لیکن سیاق اس پر دلالت کرتا ہے۔ (فتح القدیر) الشمس
4 ٤۔ ١۔ یعنی سورج کو ڈھانپ لے اور ہر سمت اندھیرا چھا جائے۔ الشمس
5 ٥۔ ١ یا اس ذات کی جسے اس نے بنایا۔ الشمس
6 ٦۔ ١ یا جس نے اسے ہموار کیا۔ الشمس
7 ٧۔ ١ یا جس نے اس درست کیا۔ درست کرنے کا مطلب اسے مناسب الا عضاء بنایا بے ڈھنگا نہیں بنایا۔ الشمس
8 ٨۔ ١ الہام کا مطلب یا تو یہ ہے کہ انہیں اچھی طرح سمجھایا اور انہیں انبیاء اور آسمانی کتابوں کے ذریعے سے خیر وشر کی پہچان کروا دی، یا مطلب یہ ہے کہ ان کی عقل اور فطرت میں خیر اور شر، نیکی اور بدکاری کا شور ودیعت کردیا، تاکہ وہ نیکی کو اپنائیں اور بدی سے اجتناب کریں۔ الشمس
9 ٩۔ ١ شرک سے، معصیت سے اور اخلاقی آلائشوں سے پاک کیا، وہ اخروی فوز و فلاح سے ہمکنار ہوگا۔ الشمس
10 ١٠۔ ١ یعنی جس نے اسے گمراہ کرلیا وہ خسارے میں رہا جس کے معنی ہیں ایک چیز کو دوسری چیز میں چھپا دینا، جس نے اپنے نفس کا چھپا دیا اور اسے بے کار چھوڑ دیا اسے اللہ کی اطاعت اور عمل صالح کے ساتھ مشہور نہیں کیا۔ الشمس
11 ١١۔ ١ طغیان، وہ سرکشی جو حد سے تجاوز کر جائے اسی طغیان نے انہیں تکذیب پر آمادہ کیا۔ الشمس
12 ١٢۔ ١ جس کا نام مفسرین قدار بن سالف بتلاتے ہیں سب سے بڑا شقی اور بد بخت۔ الشمس
13 ١٣۔ ١ یعنی اس اونٹنی کو کوئی نقصان نہ پہنچائے، اسی طرح اس کے لئے پانی پینے کا جو دن ہو، اس میں بھی گڑ بڑ نہ کی جائے، اونٹنی اور قوم ثمود دونوں کے لیے پانی کا ایک دن مقرر کردیا گیا تھا اس کی حفاظت کی تاکید کی گئی لیکن ان ظالموں نے اس کی پروا نہ کی۔ الشمس
14 ١٤۔ ١ یہ کام ایک شخص قدار نے کیا تھا لیکن چوں کہ اس شرارت میں قوم بھی اس کے ساتھ تھی اس لیے اس میں سب کو برابر کا مجرم قرار دیا گیا، اور تکذیب اور اونٹنی کی کوچیں کاٹنے کی نسبت پوری قوم کی طرف کی گئی، جس سے یہ اصول معلوم ہوا کہ ایک برائی پر نکیر کرنے کے بجائے اسے پسند کرتی ہو تو اللہ کے ہاں پوری قوم اس برائی کی مرتکب قرار پائے گی اور اس جرم یا برائی میں برابر کی شریک سمجھی جائے گی۔ ١٤۔ ٢ ان کو ہلاک کردیا اور ان پر سخت عذاب نازل کیا۔ ١٤۔ ٣۔ یعنی اس عذاب میں سب کو برابر کردیا، کسی کو نہیں چھوڑا، چھوٹا بڑا، سب کو نیست ونابود کردیا گیا یا زمین کو ان پر برابر کردیا یعنی سب کو تہ خاک کردیا۔ الشمس
15 الشمس
0 الليل
1 ١۔ ١ یعنی افق پر چھا جائے جس سے دن کی روشنی ختم اور اندھیرا ہوجائے۔ الليل
2 ٢۔ ١۔ یعنی رات کا اندھیرا ختم ہوجائے اور دن کو اجالا پھیل جائے۔ الليل
3 ٣۔ ١ یہ اللہ نے اپنی قسم کھائی ہے، کیونکہ مرد و عورت دونوں کا خالق اللہ ہی ہے الليل
4 ٤۔ ١ یعنی کوئی اچھے عمل کرتا ہے، جس کا صلہ جنت ہے اور کوئی برے عمل کرتا ہے جس کا بدلہ جہنم ہے۔ یہ جواب قسم ہے۔ الليل
5 ٥۔ ١ یعنی خیر کے کاموں میں خرچ کرے گا اور محارم سے بچے گا۔ الليل
6 ٦۔ ١ یا اچھے صلے کی تصدیق کرے گا، یعنی اس بات پر یقین رکھے گا کہ انفاق اور تقوی اللہ کی طرف سے عمدہ صلہ ملے گا۔ الليل
7 ٧۔ ٢ یعنی ہم بھی اس کو اس سے نیکی اور اطاعت کی توفیق دیتے اور ان کو اس کے لیے آسان کردیتے ہیں۔ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت ابو بکر کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے چھ غلام آزاد کیے، جنہیں اہل مکہ مسلمان ہونے کی وجہ سے سخت اذیت دیتے تھے۔ (فتح القدیر) الليل
8 ٨۔ ١ یعنی اللہ کے راہ میں خرچ نہیں کرے گا اور اللہ کے حکم سے بے پرواہی کرے گا۔ الليل
9 ٩۔ ١ یا آخرت کی جزاء وسزا اور حساب و کتاب کا انکار کرے گا۔ الليل
10 ١٠۔ ١ تنگی سے مراد کفر ومعصیت اور طریق شر ہے، یعنی ہم اس کے لیے نافرمانی کا راستہ آسان کردیں گے، جس سے اس کے لیے خیر وسعادت کے راستے مشکل ہوجائیں گے، قرآن مجید میں یہ مضمون کئی جگہ بیان کیا گیا ہے کہ جو خیر و رشد کا راستہ اپناتا ہے اس کے صلے میں اللہ اسے خیر و توفیق سے نوازتا ہے اور جو شر و معصیت کو اختیار کرتا ہے اللہ اس کو اس کے حال پر چھوڑتا ہے یہ اس کی تقدیر کے مطابق ہوتا ہے جو اللہ نے اپنے علم سے لکھ رکھی ہے۔ (ابن کثیر) الليل
11 ١١۔ ١ یعنی جب جہنم میں گرے گا تو یہ مال جسے وہ خرچ نہیں کرتا تھا، کچھ کام نہ آئے گا۔ الليل
12 ١٢۔ ١ یعنی حلال اور حرام، خیر و شر، ہدایت وضلالت کو واضح اور بیان کرنا ہمارے ذمے ہے۔ (جو کہ ہم نے کردیا) الليل
13 ١٣۔ ١ یعنی دونوں کے مالک ہم ہی ہیں، ان میں جس طرح چاہیں تصرف کریں اس لئے ان دونوں کے یا ان میں سے کسی ایک کے طالب ہم سے ہی مانگیں کیونکہ ہر طالب کو ہم اپنی مشیت کے مطابق دیتے ہیں۔ الليل
14 الليل
15 الليل
16 الليل
17 ١٧۔ ١ یعنی جہنم سے دور رہے گا اور جنت میں داخل ہوگا۔ الليل
18 ١٨۔ ١ یعنی جو اپنا مال اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرتا ہے تاکہ اس کا نفس بھی اور اس کا مال بھی پاک ہوجائے۔ الليل
19 الليل
20 ٢٠۔ ١ بلکہ اخلاص سے اللہ کی رضا اور جنت میں اس کے دیدار کے لئے خرچ کرتا ہے۔ الليل
21 ٢١۔ ١ یعنی جو شخص ان صفات کا حامل ہوگا، اللہ تعالیٰ اسے جنت کی نعمتیں اور عزت و شرف عطا فرمائے گا۔ جس سے وہ راضی ہوجائے گا، اکثر مفسرین نے کہا ہے بلکہ بعض نے اجماع تک نقل کیا ہے کہ یہ آیات حضرت ابو بکر کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ تاہم معنی ومفہوم کے اعتبار سے عام ہیں جو بھی ان صفات عالیہ سے متصف ہوگا، وہ بارگاہ الہی میں ان کا مصداق قرار پائے گا۔ الليل
0 الضحى
1 ١۔ ١ چاشت اس وقت کو کہتے ہیں، جب سورج بلند ہوتا ہے۔ یہاں مراد پورا دن ہے۔ الضحى
2 ٢۔ ١ جب ساکن ہوجائے، یعنی جب اندھیرا مکمل چھا جائے، کیونکہ اس وقت ہر چیز ساکن ہوجاتی ہے۔ الضحى
3 ٣۔ ١ جیسا کہ کافر سمجھ رہے ہیں۔ الضحى
4 ٤۔ ١ یا آخرت دنیا سے بہتر ہے، دونوں مفہوم معانی کے اعتبار سے صحیح ہیں۔ الضحى
5 ٥۔ ١ اس سے دنیا کی فتوحات اور آخرت کا اجر و ثواب مراد ہے، اس میں وہ حق شفاعت بھی داخل ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی امت کے گناہ گاروں کے لئے ملے گا۔ الضحى
6 ٦۔ ١ یعنی باپ کے سہارے سے بھی محروم تھا، ہم نے تیری دست گیری اور چارہ سازی کی۔ الضحى
7 ٧۔ ١ یعنی تجھے دین شریعت اور ایمان کا پتہ نہیں تھا، ہم نے تجھے راہ یاب کیا، نبوت سے نوازا اور کتاب نازل کی، ورنہ اس سے قبل تو ہدایت کے لئے سرگرداں تھا۔ الضحى
8 ٨۔ ١ تونگر کا مطلب ہے کہ اپنے سوا تجھ کو ہر ایک سے بے نیاز کردیا، پس تو فقر میں صابر اور غنا میں شاکر رہا ہے۔ جیسے خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تونگری کثرت ساز و سامان کا نام نہیں اصل تونگری تو دل کی تونگری ہے۔ (صحیح مسلم) الضحى
9 ٩۔ ١ بلکہ اس کے ساتھ نرمی واحسان کا معاملہ کر۔ الضحى
10 ١٠۔ ١ یعنی اس سے سختی اور تکبر نہ کر، نہ درشت اور تلخ لہجہ اختیار کر، بلکہ جواب بھی دینا ہو تو پیار اور محبت سے دو۔ الضحى
11 ١١۔ ١ یعنی اللہ نے تجھ پر جو احسانات کیے ہیں، مثلا ہدایت اور رسالت و نبوت سے نوازا، یتیمی کے باوجود تیری کفالت و سرپرستی کا انتظام کیا، تجھے قناعت وتونگری عطا کی وغیرہ۔ الضحى
0 الشرح
1 ١۔ ١ گزشتہ سورت میں تین انعامات کا ذکر تھا، اس سورت میں مزید تین احسانات جتلائے جا رہے ہیں، سینہ کھول دینا ان میں پہلا ہے۔ اس کا مطلب ہے سینے کا منور اور فراخ ہوجانا، تاکہ حق واضح ہوجائے اور دل میں بھی سما جائے اسی مفہوم میں قرآن کی یہ آیت ہے (فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ) 6۔ الانعام :125) جس کو اللہ ہدایت سے نوازنے کا ارادہ کرے، اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے، یعنی وہ اسلام کو دین حق کے طور پر پہچان بھی لیتا ہے اور اسے قبول بھی کرلیتا ہے اس شرح صدر میں وہ شق صدر بھی آتا ہے جو معتبر روایات کی رو سے دو مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہوا الشرح
2 ٢۔ ١ یہ بوجھ نبوت سے قبل چالیس سالہ دور زندگی سے متعلق ہے۔ اس دور میں اگرچہ اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گناہوں سے محفوظ رکھا، کسی بت کے سامنے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سجدہ ریز نہیں ہوئے، کبھی شراب نوشی نہیں کی اور بھی دیگر برائیوں سے دامن کش رہے، تاہم معروف معنوں میں اللہ کی عبادت و اطاعت کا نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم تھا نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کی، لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احساس و شعور نے اسے بوجھ بنا رکھا تھا اللہ نے اسے اتار دینے کا اعلان فرما کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر احسان فرمایا۔ الشرح
3 الشرح
4 ٤۔ ١ یعنی جہاں اللہ کا نام آتا ہے وہیں آپ کا نام بھی آتا ہے، مثلا اذان، نماز، دیگر بہت سے مقامات پر، گزشتہ کتابوں میں آپ کا تذکرہ اور صفات کی تفصیل ہے۔ فرشتوں میں آپ کا ذکر خیر ہے آپ کی اطاعت کو اللہ نے اپنی اطاعت قرار دیا اور اپنی اطاعت کے ساتھ آپ کی اطاعت کا بھی حکم دیا۔ الشرح
5 الشرح
6 ٦۔ ١ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اور صحابہ کرام کے لیے خوشخبری ہے کہ تم اسلام کی راہ میں جو تکلیفیں برداشت کر رہے ہو تو گھبرانے کی ضرورت نہیں اس کے بعد ہی اللہ تمہیں فراغت وآسانی سے نوازے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا جیسے ساری دنیا جانتی ہے۔ الشرح
7 ٧۔ ١ یعنی نماز سے، یا تبلیغ سے یا جہاد سے، تو دعا میں محنت کر، یا اتنی عبادت کر کہ تو تھک جائے۔ الشرح
8 ٨۔ ١ یعنی اسی سے جنت کی امید رکھ، اسی سے اپنی حاجتیں طلب کر اور تمام معاملات میں اسی پر اعتماد اور بھروسہ رکھ۔ الشرح
0 التين
1 التين
2 ٢۔ ١ یہ وہی کوہ طور ہے جہاں اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہم کلام ہوا تھا التين
3 ٣۔ ١ اس سے مراد مکہ مکرمہ ہے، جس میں قتال کی اجازت نہیں ہے۔ علاوہ ازیں جو اس میں داخل ہوجائے، اسے بھی امن حاصل ہوتا ہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ دراصل تین مقامات کی قسم ہے جن میں سے ہر ایک جگہ میں جلیل القدر پیغمبر مبعوث ہوئے، انجیر اور زیتون سے مراد وہ علاقہ ہے جہاں پر اس کی پیداوار ہوئی اور وہ ہے بیت المقدس، جہاں حضرت عیسیٰ پیغمبر بن کر آئے، سنین پر حضرت موسیٰ کو نبوت ملی، اور شہر مکہ میں سیدالرسل حضرت محمد کی بعثت ہوئی۔ التين
4 ٤۔ ١ یہ جواب قسم ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کو اس طرح پیدا کیا کہ اس کا منہ نیچے کو جھکا ہوا ہے صرف انسان کو دراز قد، سیدھا بنایا ہے جو اپنے ہاتھوں سے کھاتا پیتا ہے، پھر اس کے اعضا کو نہایت تناسب کے ساتھ بنایا، ان میں جانوروں کی طرح بے ڈھنگا پن نہیں ہے۔ التين
5 ٥۔ ١ یہ اشارہ ہے انسان کی ارذل العمر کی طرف جس میں جوانی اور قوت کے بعد بڑھاپا اور ضعف آ جاتا ہے اور انسان کی عقل اور ذہن بچے کی طرح ہوجاتا ہے۔ بعض نے اس سے کردار کا وہ سفلہ پن لیا ہے جس میں مبتلا ہو کر انسان انتہائی پست اور سانپ بچھو سے بھی گیا گزرا ہوجاتا ہے بعض نے اس سے ذلت و رسوائی کا وہ عذاب مراد لیا ہے جو جہنم میں کافروں کے لیے ہے، گویا انسان اللہ اور رسول کی اطاعت سے انحراف کر کے اپنے احسن تقویم کے بلند رتبہ واعزاز سے گرا کر جہنم کے اسفل السافلین میں ڈال لیتا ہے۔ التين
6 التين
7 ٧۔ ١ یہ انسان سے خطاب ہے کہ اللہ نے تجھے بہترین صورت میں پیدا کیا اور وہ تجھے اور اس کے برعکس ذلت میں گرانے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کے لئے دوبارہ پیدا کرنا کوئی مشکل نہیں۔ اس کے بعد بھی تو قیامت اور جزا کا انکار کرتا ہے۔ التين
8 ٨۔ ١ جو کسی پر ظلم نہیں کرتا اور اس کے عدل ہی کا یہ تقاضا ہے کہ وہ قیامت برپا کرے اور ان کی داد رسی کرے جن پر دنیا میں ظلم ہوا۔ التين
0 العلق
1 ١۔ ١ یہ سب سے پہلی وحی ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس وقت آئی جب آپ غار حرا میں مصروف عبادت تھے، فرشتے نے آ کر کہا، پڑھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں، فرشتے نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پکڑ کر زور سے بھینچا اور کہا پڑھ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پھر وہی جواب دیا۔ اس طرح تین مرتبہ اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھینچا (تفصیل کے لئے دیکھئے صحیح بخاری بدء الوحی، مسلم، باب بدء الوحی، اقرا) جو تیری طرف وحی کی جاتی ہے وہ پڑھ، جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا۔ العلق
2 ٢۔ ١ مخلوقات میں سے بطور خاص انسان کی پیدائش کا ذکر فرمایا جس سے اس کا شرف واضح ہے۔ العلق
3 ٣۔ ١ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تو قاری ہی نہیں اللہ نے فرمایا، اللہ بہت کرم والا ہے پڑھ، یعنی انسانوں کی کوتاہیوں سے درگزر کرنا اس کا وصف خاص ہے۔ العلق
4 ٤۔ ١ قلم کا معنی ہے قطع کرنا، تراشنا، قلم بھی پہلے زمانے میں تراش کر ہی بنائے جاتے تھے۔ اس لیے آلہ کتابت کو قلم سے تعبیر کیا۔ العلق
5 العلق
6 العلق
7 العلق
8 العلق
9 العلق
10 ١٠۔ ١ مفسرین کہتے ہیں کہ روکنے والے سے مراد ابو جہل ہے جو اسلام کا شدید دشمن تھا۔ العلق
11 ١١۔ ١ یعنی جس کو یہ نماز پڑھنے سے روک رہا ہے، وہ ہدایت پر ہو۔ العلق
12 ١٢۔ ١ یعنی اخلاص، توحید، اور عمل صالح کی تعلیم، جس سے جہنم کی آگ سے انسان بچ سکتا ہے تو کیا یہ چیزیں (نماز، روزہ وغیرہ) ایسی ہیں کہ ان کی مخالفت کی جائے اور اس پر اس کو دھمکیاں دی جائیں۔ العلق
13 ١٣۔ ١ یعنی یہ ابو جہل اللہ کے پیغمبر کو جھٹلاتا ہو اور ایمان منہ سے پھیرتا ہو (مجھے بتلاؤ) العلق
14 ٣۔ ١ مطلب یہ ہے کہ یہ شخص جو مذکورہ حرکتیں کر رہا ہے کیا نہیں جانتا کہ اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے وہ اس کو اسکی سزا دے گا۔ العلق
15 ١٥۔ ١ یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور دشمنی سے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھنے سے روکتا ہے، اس سے باز نہ آیا تو میں اس کی گردن پر پاؤں رکھ دونگا۔ (یعنی اسے روندوں گا اور یوں ذلیل کرونگا) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات پہنچی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو فرشتے اسے پکڑ لیتے (صحیح بخاری) العلق
16 (٥) پیشانی کی یہ صفات بطور مجاز ہیں، جھوٹی ہے اپنی بات میں، خطاکار ہے اپنے فعل میں۔ العلق
17 العلق
18 (٦) حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ ابو جہل گزرا تو کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں نے تجھے نماز پڑھنے سے منع نہیں کیا تھا ؟ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سخت دھمکی آمیز باتیں کیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کڑا جواب دیا تو کہنے لگا اے محمد! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو مجھے کس چیز سے ڈراتا ہے؟ اللہ کی قسم، اس وادی میں سب سے زیادہ میرے حمایتی اور مجسل والے ہیں، جس پر یہ آیت نازل ہوئی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں، اگر وہ اپنے حمایتیوں کو بلاتا تو اسی وقت ملائکہ عذاب اسے پکڑ لیتے۔ (ترمذی، تفسیر سورۃ اقرأ مسند أحمد ٣٢٩/١ وتفسیر ابن جریر) اور صحیح مسلم کے الفاظ ہیں کہ اس نے آگے بڑھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گردن پر پیر رکھنے کا رادہ کیا کہ ایک دم الٹے پاؤں پیچھے ہٹا اور اپنے ہاتھوں سے اپنا بچاؤ کرنے لگا، اس سے کہا گیا، کیا بات ہے؟ اس نے کہا کہ "میرے اور محمد (صلی اللہ علیہ صلم) کے درمیان آگ کی خندق، ہولناک منظر اور بہت سارے پر ہیں"رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اگر یہ میرے قریب ہوتا تو فرشتے اس کی بوٹی بوٹی نوچ لیتے (کتاب صفۃ القیامۃ، باب ان الأنسان لیطغیٰ) الزبانیۃ، داروغے اور پولیس۔ یعنی طاقتو لشکر، جس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ العلق
19 العلق
0 * اس سورت کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ میں بھی اختلاف ہے۔ قدر کے معنی قدور منزلت بھی ہیں، اس لیے اسے شب قدر کہتے ہیں، اس کے معنی اندازہ اور فیصلہ کرنا بھی ہیں، اس میں سال بھر کے لیے فیصلے کیے جاتے ہیں، اسی لیے اسے لیلۃ الحکم بھی کہتے ہیں، اس کے معنی تنگی کے بھی ہیں۔ اس رات اتنی کثرت سے زمین پر فرشتے اترتے ہیں کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے۔ شب قدر یعنی تنگی کی رات، یا اس لیے یہ نام رکھا گیا کہ اس رات جو عبادت کی جاتی ہے، اللہ کے ہاں اس کی بڑی قدر ہے اور اس پر بڑا ثواب ہے۔ اس کی تعیین میں بھی شدید اختلاف ہے۔ (فتح القدیر) تاہم احادیث و آثار سے واضح ہے کہ یہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے۔ اس کو مبہم رکھنے میں یہی حکمت ہے کہ لوگ پانچوں ہی طاق راتوں میں اس کی فضیلت حاصل کرنے کے شوق میں، اللہ کی خوب عبادت کریں۔ القدر
1 ١۔ ١ یعنی اتار نے کا آغاز کیا، یا لوح محفوظ سے بیت العزت میں، جو آسمان دنیا پر ہے، ایک ہی مرتبہ اتار دیا، اور وہاں سے حسب واقعہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اترتا رہا تاآنکہ ٢٣ سال میں پورا ہوگیا۔ اور لیلۃ القدر رمضان میں ہی ہوتی ہے، جیسا کہ قرآن کی آیت (شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ) 2۔ البقرۃ:185) سے واضح ہے۔ القدر
2 ٢۔ ١ اس استفہام سے اس رات کی عظمت و اہمیت واضح ہے، گویا کہ مخلوق اس کی تہ تک پوری طرح نہیں پہنچ سکتی، یہ صرف ایک اللہ ہی ہے جو اس کو جانتا ہے۔ القدر
3 ٣۔ ١ یعنی اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے اور ہزار مہینے ٨٣ سال چار مہینے بنتے ہیں یہ امت محمدیہ پر اللہ کا کتنا احسان عظیم ہے کہ مختصر عمر میں زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لیے کیسی سہولت عطا فرما دی۔ القدر
4 ٤۔ ١ روح سے مراد حضرت جبرائیل ہیں یعنی فرشتے حضرت جبرائیل سمیت، اس رات میں زمین پر اترتے ہیں ان کاموں کو سر انجام دینے کے لیے جن کا فیصلہ اس سال میں اللہ فرماتا ہے۔ القدر
5 ٥۔ ١ یعنی اس میں شر نہیں۔ یا اس معنی میں سلامتی والی ہے کہ مومن اس رات کو شیطان کے شر سے محفوظ رہتے ہیں یا فرشتے اہل ایمان کو سلام عرض کرتے ہیں، یا فرشتے ہی آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں۔ شب قدر کے لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بطور خاص یہ دعا بتلائی ہے، اللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُو تُحِبُّ العَفْوَ فَاعْفُ۔ القدر
0 * اس کا دوسرا نام سورۃ لم یکن بھی ہے۔ حدیث میں ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابی بن کعب (رض) سے فرمایا، الہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں سورۃ (لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) 98۔ البینہ :1) تجھے پڑھ کر سناؤں۔ حضرت ابی (رض) نے پوچھا، کیا اللہ نے آپ کے سامنے میرا نام لیا ہے آپ نے فرمایا،"ہاں"جس پر (مارے خوشی کے) حضرت ابی (رض) کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ (صحیح البخاری، تفسیر سورۃ لم یکن) البينة
1 ١۔ ١ اس سے مراد یہود ونصاری ہیں، ١۔ ٢ مشرک سے مراد عرب و عجم کے وہ لوگ ہیں جو بتوں اور آگ کے پجاری تھے۔ منفکّین باز آنے والے، بیّنۃ (دلیل) سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ یعنی یہود و نصاریٰ اور عرب وعجم کے مشرکین اپنے کفر و شرک سے باز آنے والے نہیں ہیں یہاں تک کہ ان کے پاس محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن لے کر آ جائیں اور وہ ان کی ضلالت و جہالت بیان کریں اور انہیں ایمان کی دعوت دیں۔ البينة
2 ٢۔ ١ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔ ٢ یعنی قرآن مجید جو لوح محفوظ میں پاک صحیفوں میں درج ہے۔ البينة
3 ٣۔ ١ یہاں کتب سے مراد احکام دینیہ، قیمہ، معتدل اور سیدھے۔ البينة
4 ٤۔ ١ یعنی اہل کتاب، حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد سے قبل اکھٹے تھے، یہاں تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعث ہوگئی، اس کے بعد یہ متفرق ہوگئے، ان میں سے کچھ مومن ہوگئے لیکن اکثریت ایمان سے محروم ہی رہی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعث و رسالت کو دلیل سے تعبیر کرنے میں یہی نقطہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت واضح تھی جس میں مجال انکار نہیں تھی۔ لیکن ان لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب محض حسد اور عناد کی وجہ سے کی۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں تفرق کا ارتکاب کرنے والوں میں صرف اہل کتاب کا نام لیا ہے، حالانکہ دوسروں نے بھی اس کا ارتکاب کیا تھا، کیونکہ یہ بہرحال علم والے تھے۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد اور صفات کا تذکرہ ان کی کتابوں میں موجود تھا۔ البينة
5 ٥۔ ١ یعنی ان کی کتابوں میں انہیں حکم تو یہ دیا گیا تھا کہ۔۔۔ ٥۔ ٢ حنیف کے معنی ہیں، مائل ہونا، کسی ایک طرف یکسو ہونا، حنفآء جمع ہے۔ یعنی شرک سے توحید کی طرف اور تمام ادیان سے منقطع ہو کر صرف دین اسلام کی طرف مائل اور یکسو ہوتے ہوئے۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ والسلام نے کیا۔ ٥۔ ٣ ا ؛ قیّمۃ محذوف موصوف کی صفت ہے۔ دین الملۃ القیّمۃ ائ: المستقیمۃ یا الأمّۃ المستقیمۃ المعتدلۃ، یہی اس ملت یا امت کا دین ہے جو سیدھی اور معتدل ہے۔ اکثر ائمہ نے اس آیت سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ اعمال، ایمان میں داخل ہیں (ابن کثیر) البينة
6 ٦۔ ١ یہ اللہ کے رسول اور اس کی کتابوں کا انکار کرنے والوں کا انجام۔ نیز انہیں تمام مخلوقات میں بدترین قرار دیا گیا۔ البينة
7 ٧۔ ١ یعنی جو دل کے ساتھ ایمان لائے اور جنہوں نے اعضا کے ساتھ عمل کئے، وہ تمام مخلوقات سے بہتر اور افضل ہیں۔ جو اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ مومن بندے ملائکہ سے شرف فضل میں بہترین ہیں۔ ان کی ایک دلیل یہ آیت بھی ہے۔ البریۃ، یرأ (خلق) سے ہے۔ اسی سے اللہ کی صفت الباری ہے۔ اس لیے بریّہ اصل میں بریئۃ ہے، ہمزہ کو یا سے بدل کر یا کا یا میں ادغام کردیا گیا البينة
8 ٨۔ ١ ان کے ایمان وطاعت اور اعمال صالحہ کے سبب۔ اللہ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے (ورضوان من اللہ اکبر) ٨۔ ٢ اس لئے کہ اللہ نے انہیں ایسی نعمتوں سے نواز دیا، جن میں ان کی روح اور بدن دونوں کی سعادتیں ہیں۔ ٨۔ ٣ یعنی یہ جزا اور رضامندی ان لوگوں کے لئے ہے جو دنیا میں اللہ سے ڈرتے رہے اور اس کے ڈر کی وجہ سے اللہ کی نافرمانی کے ارکاب سے بچتے رہے۔ اگر کبھی نافرمانی کرلی بھی تو توبہ کرلی۔ اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کرلی، حتیٰ کہ ان کی موت اسی اطاعت پر ہوئی نہ کہ معصیت پر۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ سے ڈرنے والا معصیت پر اصرار اور دوام نہیں کرسکتا اور جو ایسا کرتا ہے، حقیقت میں اس کا دل اللہ کے خوف سے خالی ہے۔ البينة
0 * اس کے مدنی اور مکی ہونے میں اختلاف ہے، اس کی فضیلت میں متعدد روایات منقول ہیں لیکن ان میں سے کوئی روایت صحیح نہیں ہے۔ الزلزلة
1 ١۔ ١ اس کا مطلب ہے سخت بھو نچال سے ساری زمین لرز اٹھے گی اور ہر چیز ٹوٹ پھوٹ جائے گی، یہ اس وقت ہوگا جب پہلا نفخہ پھونکا جائے گا۔ الزلزلة
2 ٢۔ ١ یعنی زمین میں جتنے انسان دفن ہیں، وہ زمین کا بوجھ ہیں، جنہیں زمین قیامت والے دن باہر نکال پھینکے گی اور اللہ کے حکم سے سب زندہ ہو کر باہر نکل آئیں گے۔ یہ دوسرے نفخے میں ہوگا، اسی طرح زمین کے خزانے بھی باہر نکل آئیں گے۔ الزلزلة
3 ٣۔ ١ یعنی دہشت زدہ ہو کر کہے گا کہ اسے کیا ہوگیا ہے یہ کیوں اس طرح ہل رہی ہے اور اپنے خزانے اگل رہی ہے۔ الزلزلة
4 ٤۔ ١ حدیث میں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ آیت تلاوت فرمائی اور صحابہ سے پوچھا کہ جانتے ہو کہ اس کی خبریں کیا ہیں صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اس کی خبریں یہ ہیں کہ جس بندے یا بندی نے زمین کی پشت پر جو کچھ کیا ہوگا، اس کی گواہی دے گی۔ کہے گی فلاں فلاں شخص نے فلاں فلاں عمل، فلاں فلاں دن میں کیا تھا۔ الزلزلة
5 ٥۔ ١ یعنی زمین کو یہ قوت گویائی اللہ تعالیٰ عطا کرے گا اس لیے اس میں تعجب بات نہیں۔، جس طرح انسانی اعضا میں اللہ تعالیٰ یہ قوت پیدا فرمادے گا، زمین کو بھی اللہ تعالیٰ متکلم بنا دے گا اور وہ اللہ کے حکم سے بولے گی۔ الزلزلة
6 ٦۔ ١ یصدر، یرجع (لوٹیں گے) یہ ورود کی ضد ہے یعنی قبروں سے نکل کر موقف حساب کی طرف، یا حساب کے بعد جنت اور دوزخ کی طرف لوٹیں گے۔ اشتاتا، متفرق، یعنی ٹولیاں ٹولیاں، بعض بے خوف ہوں گے، بعض خوف زدہ، بعض کے رنگ سفید ہوں گے جیسے جنتیوں کے ہوں گے اور بعض کے رنگ سیاہ، جو ان کے جہنمی ہونے کی علامت ہوگی۔ بیض کا رخ دائیں جانب ہوگا تو بعض کا بائیں جانب۔ یا یہ مختلف گروہ ادیان ومذاہب اور اعمال وافعال کی بنیاد پر ہوں گے۔ ٦۔ ١ یعنی زمین اپنی خبریں اس لئے بیان کرے گی تاکہ انسانوں کو ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں۔ الزلزلة
7 ٧۔ ١ پس وہ اس سے خوش ہوگا۔ الزلزلة
8 ٨۔ ١ وہ اس پر سخت پشیمان اور مضطرب ہوگا۔ ذرۃ بعض کے نزدیک چیونٹی سے بھی چھوٹی چیز ہے۔ بعض اہل لغت کہتے ہیں، انسان زمین پر ہاتھ مارتا ہے، اس سے اس کے ہاتھ پر جو مٹی لگ جاتی ہے وہ ذرہ ہے۔ بعض کے نزدیک سوراخ سے آنے والی سورج کی شعاعوں میں گردوغبار کے جو ذرات سے نظر آتے ہیں، وہ ذرہ ہے۔ لیکن امام شوکانی نے پہلے معنی کو اولیٰ کہا ہے۔ امام مقاتل کہتے ہیں کہ یہ سورت ان دو آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن میں سے ایک شخص، ساءل کو تھوڑا سا صدقہ دینے میں تامل کرتا اور دوسراشخص چھوٹا گناہ کرنے میں کوئی خوف محسوس نہ کرتا تھا۔ (فتح القدیر) الزلزلة
0 العاديات
1 ١۔ ١ عادیات، عادیۃ کی جمع ہے۔ یہ عدو سے ہے جیسے غزو ہے غازیات کی طرح اس کے واؤ کو بھی یا سے بدل دیا گیا ہے۔ تیز رو گھوڑے۔ ضبح کے معنی بعض کے نزدیک ہانپنا اور بعض کے نزدیک ہنہنانا ہے۔ مراد وہ گھوڑے ہیں جو ہانپتے یا ہنہناتے ہوئے جہاد میں تیزی سے دشمن کی طرف دوڑتے ہیں۔ العاديات
2 ٢۔ ١ موریات، ایراء سے ہے آگ نکالنے والے۔ قدح کے معنی ہیں۔ صبک چلنے میں گھٹنوں یا ایڑیوں کا ٹکرانا، یا ٹاپ مارنا۔ اسی سے قدح بالزناد ہے۔ چقماق سے آگ نکالنا۔ یعنی گھوڑوں کی قسم جن کی ٹاپوں کی رگڑ سے پتھروں سے آگ نکلتی ہے جیسے چقماق سے نکلتی ہے (جو کہ ایک قسم کا پتھر ہے) العاديات
3 ٣۔ ١ مغیرات،أغار یعیر سے ہے، شب خون مارنے یا دھاوا بولنے والے۔ صبحا صبح کے وقت، عرب میں عام طور پر حملہ اسی وقت کیا جاتا تھا، شب خون تو مارتے ہیں، جو فوجی گھوڑوں پر سوار ہوتے ہیں، لیکن اس کی نسبت گھوڑوں کی طرف اسلئے کی ہے کہ دھاوا بولنے میں فوجیوں کے یہ بہت زیادہ کام آتے ہیں۔ العاديات
4 أثار، اڑانا۔ نقع، گرد و غبار۔ یعنی یہ گھوڑے جس وقت تیزی سے دوڑتے یا دھاوا بولتے ہیں تو اس جگہ پر گرد و غبار چھا جاتا ہے۔ العاديات
5 ٥۔ ١ فوسطن، درمیان میں گھس جاتے ہیں۔ اس وقت، یا حالت گرد و غبار میں۔ جمعا دشمن کے لشکر۔ مطلب ہے کہ اس وقت، یا جبکہ فضا گردوغبار سے اٹی ہوئی ہے یہ گھوڑے دشمن کے لشکروں میں گھس جاتے ہیں اور گھمسان کی جنگ کرتے ہیں۔ العاديات
6 ١۔ ٦ یہ جواب قسم ہے۔ انسان سے مراد کافر، یعنی بعض افراد ہیں۔ کنود بمعنی کفور، ناشکرا۔ العاديات
7 ٧۔ ١ یعنی انسان خود بھی اپنی ناشکری کی گواہی دیتا ہے۔ بعض لشہید کا فاعل اللہ کو قرار دیتے ہیں۔ لیکن امام شوکانی نے پہلے مفہوم کو راجح قرار دیا ہے، کیونکہ مابعد کی آیات میں ضمیر کا مرجع انسان ہی ہے۔ اس لیے یہاں بھی انسان ہی ہونا زیادہ صحیح ہے۔ العاديات
8 ٨۔ ١ خَیْر،ُ سے مراد مال ہے، اور ایک دوسرا مفہوم یہ ہے کہ نہایت حریص اور بخیل ہے جو مال کی شدید محبت کا لازمی نتیجہ ہے۔ العاديات
9 ٩۔ ١ بعثر، نثر وبعث یعنی قبروں کے مردوں کو زندہ کر کے اٹھا کھڑا کردیا جائے گا۔ العاديات
10 حصل، میز وبین یعنی سینوں کی باتوں کو ظاہر اور کھول دیا جائے گا۔ العاديات
11 ١١۔ ١ یعنی جو رب ان کو قبروں سے نکال لے گا ان کے سینوں کے رازوں کو ظاہر کر دے گا اس کے متعلق ہر شخص جان سکتا ہے کہ وہ کتنا باخبر ہے؟ اور اس سے کوئی چیز مخفی نہیں پھر وہ ہر ایک کو اس کے عملوں کے مطابق اچھی یا بری جزا دے گا۔ یہ گویا ان اشخاص کو تنبیہ ہے جو رب کی نعمتیں تو استعمال کرتے ہیں لیکن اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے، اسکی ناشکری کرتے ہیں۔ اسی طرح مال کی محبت میں گرفتار ہو کر مال کے وہ حقوق ادا نہیں کرتے جو اللہ نے اس میں دوسرے لوگوں کے رکھے ہیں۔ العاديات
0 القارعة
1 القارعة
2 ٢۔ ١ یہ بھی قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے جسے اس سے قبل متعدد نام گزر چکے ہیں مثلاً اَ لْحاقَّۃُ، الطَّاَمَّۃُ، صَّاَخَّہُ، اَلْغَاشِیَۃُ، الْسَّاعَہُ، الْوَاقِعَۃُ وغیرہ، اسے الْقَارِعَۃُ اس لئے کہتے ہیں کہ یہ اپنی ہولناکیوں سے دلوں کو بیدار اور اللہ کے دشمنوں کو عذاب سے خبردار کر دے گی، جیسے دروازہ کھٹکھٹانے والا کرتا ہے۔ القارعة
3 القارعة
4 ٤۔ ١ فراش، مچھر اور شمع کے گرد منڈلانے والے پرندے وغیرہ۔ مبثوث، منتشر اور بکھرے ہوئے۔ یعنی قیامت والے دن انسان بھی پروانوں کی طرح پراگندہ اور بکھرے ہوئے ہوں گے۔ القارعة
5 عھن، اس اون کو کہتے ہیں جو مختلف رنگوں کے ساتھ رنگی ہوئی ہو، منفوش، دھنی ہوئی۔ یہ پہاڑوں کی وہ کیفیت بیان کی گئی ہے جو قیامت والے دن انکی ہوگی۔ قرآن کریم میں پہاڑوں کی یہ کیفیت مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے، جسکی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ اب آگے ان دو فریقوں کا اجمالی ذکر کیا جا رہا ہے جو قیامت والے دن اعمال کے اعتبار سے ہوں گے۔ القارعة
6 ٦۔ ١ موازین، میزان کی جمع ہے۔ ترازو، جس میں صحائف اعمال تولے جائیں گے۔ جیسا کہ اس کا ذکر (وَالْوَزْنُ یَوْمَیِٕذِۨ الْحَقُّ ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ فَاُولٰۗیِٕکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۝) 7۔ الاعراف :8) (اُولٰۗیِٕکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ وَلِقَاۗیِٕہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا ١٠٥۔) 18۔ الکہف :105) اور (وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـیْــــــًٔا ۭ وَ اِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِہَا ۭ وَکَفٰی بِنَا حٰسِـبِیْنَ 47؀) 21۔ الانبیاء :47) میں بھی گزرا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہاں یہ میزان نہیں، موزون کی جمع ہے یعنی ایسے اعمال جن کی اللہ کے ہاں کوئی اہمیت اور خاص وزن ہوگا (فتح القدیر) لیکن پہلا مفہوم ہی راجح اور صحیح ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن کی نیکیاں زیادہ ہوں گی تو وزن اعمال کے وقت ان کی نیکیوں والا پلڑا بھاری ہوجائے گا۔ القارعة
7 ٧۔ ١ یعنی ایسی زندگی جس کو وہ صاحب زندگی پسند کرے گا۔ القارعة
8 ٨۔ ١ جس کی برائیاں نیکیوں پر غالب ہوں گی اور برائیوں کا پلڑا بھاری اور نیکیوں کا ہلکا ہوگا۔ القارعة
9 ٩۔ ١ ہاویہ جہنم کا نام ہے اس کو ہاویہ اس لیے کہتے ہیں کہ جہنمی اس کی گہرائی میں گرے گا۔ اور اس کو ام (ماں) سے اس لیے تعبیر کیا کہ جس طرح انسان کے لیے ماں، جائے پناہ ہوتی ہے اسی طرح جہنمیوں کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ بعض کہتے ہیں کہ ام کے معنی دماغ کے ہیں۔ جہنمی، جہنم میں سرکے بل ڈالے جائیں گے۔ (ابن کثیر) القارعة
10 ١٠۔ ١ یہ استفہام اس کی ہو لناکی اور شدت عذاب کو بیان کرنے کے لئے ہے کہ انسان کے وہم و تصور سے بالا ہے انسانی علوم اس کا احاطہ نہیں کرسکتے اور اس کی کنہ نہیں جان سکتے۔ القارعة
11 ١١۔ ١ جس طرح حدیث میں آتا ہے کہ انسان دنیا میں جو آگ جلاتا ہے، یہ جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے، جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے ٦٩ درجہ زیادہ ہے (صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، باب صفۃ لنار وأنھا مخلوقۃ مسلم، کتاب الجنۃ، باب فی شدۃ حرنار جھنم) ایک اور حدیث میں ہے کہ "آگ نے اپنے رب سے شکایت کی کہ میرا ایک حصہ دوسرے حصے کو کھائے جا رہا ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت فرما دی۔ ایک سانس گرمی میں اور ایک سانس سردی میں پس جو سخت سردی ہوتی ہے یہ اس کا ٹھنڈا سانس ہے، اور نہایت سخت گرمی جو پڑتی ہے، وہ جہنم کا گرم سانس ہے"(بخاری، کتاب و باب مذکور) ایک اور حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا"جب گرمی زیادہ سخت ہو تو نماز ٹھنڈی کر کے پڑھو، اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش کی وجہ سے ہے۔ (حوالہ مذکور، مسلم، کتاب المساجد) القارعة
0 التکاثر
1 ١۔ ١ الھیٰ یلھی کے معنی ہیں، غافل کردینا۔ تکاثر، زیادتی کی خواہش۔ یہ یہ عام ہے، مال، اولاد، اعوان و انصار اور خاندان و قبیلہ وغیرہ سب کو شامل ہے۔ ہر وہ چیز، جس کی کثرت انسان کو محبوب ہو اور کثرت کے حصول کی کوشش و خواش اسے اللہ کے احکام اور آخرت سے غافل کر دے۔ یہاں اللہ تعالیٰ انسان کی اس کمزوری کو بیان کر رہا ہے۔ جس میں انسانوں کی اکثریت ہر دور میں مبتلا رہی ہے۔ التکاثر
2 ٢۔ ١ اس کا مطلب ہے کہ حصول کی خاطر محنت کرتے کرتے تمہیں موت آ گئی اور تم قبروں میں جا پہنچے۔ التکاثر
3 ٣۔ ١ یعنی تم جن تکاثر و تفاخر میں ہو، یہ صحیح نہیں۔ التکاثر
4 ٤۔ ١ اس کا انجام عنقریب تم جان لو گے، یہ بطور تاکید دو مرتبہ فرمایا۔ التکاثر
5 ٥۔ ١ مطلب یہ ہے کہ اگر تم اس غفلت کا انجام اسطرح یقینی طور پر جان لو جس طرح دنیا کی کسی دیکھی بھالی چیز کا تم یقین کرتے ہو تو تم یقینا تکاثر وتفاخر میں مبتلا نہ ہو۔ التکاثر
6 ٦۔ ١ یہ قسم مخذوف کا جواب ہے یعنی اللہ کی قسم تم جہنم ضرور دیکھو گے یعنی اس کی سزا بھگتو گے التکاثر
7 ٧۔ ١ پہلا دیکھنا دور سے ہوگا یہ دیکھنا قریب سے ہوگا، اسی لیے اسے عین الیقین (جس کا یقین مشاہدہ عین سے حاصل ہو) کہا گیا۔ التکاثر
8 ٨۔ ١ یہ سوال ان نعمتوں کے بارے میں ہوگا، جو اللہ نے دنیا میں عطا کی ہونگی جیسے آنکھ، کان، دل، دماغ، امن اور صحت، مال و دولت اور اولاد وغیرہ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سوال صرف کافروں سے ہوگا بعض کہتے ہیں کہ ہر ایک سے ہوگا۔ بعض سوال مستلزم عذاب نہیں۔ جنہوں نے ان نعمتوں کا استعمال اللہ کے حکم کے مطابق کیا ہوگا وہ عذاب سے محفوظ ہوں گے اور جنہوں نے کفران نعمت کا ارتکاب کیا ہوگا وہ دھر لیے جائیں گے۔ التکاثر
0 العصر
1 ١۔ ١ زمانے سے مراد، شب و روز کی یہ گردش اور ان کا ادل بدل کر آنا ہے، رات آتی ہے تو اندھیرا چھا جاتا ہے اور دن طلوع ہوتا ہے تو ہر چیز روشن ہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں کبھی رات لمبی، دن چھوٹا اور کبھی دن لمبا، رات چھوٹی ہوجاتی ہے یہی مرور ایام، زمانہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور کاریگیر پر دلالت کرتا ہے۔ اسی لیے رب نے اس کی قسم کھائی ہے۔ یہ پہلے بتلایا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اپنی مخلوق میں سے جس کی چاہے قسم کھا سکتا ہے لیکن انسانوں کے لیے اللہ کی قسم کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھان جائز نہیں ہے۔ العصر
2 ٢۔ ١ یہ جواب قسم ہے۔ انسان کا خسارہ اور ہلاکت واضح ہے کہ جب تک وہ زندہ رہتا ہے، اس کے شب و روز سخت محنت کرتے ہوئے گزرتے ہیں، پھر جب موت سے ہمکنار ہوتا ہے تو موت کے بعد آرام اور راحت نہیں ہوتی، بلکہ وہ جہنم کا ایندھن بنتا ہے۔ العصر
3 ٣۔ ١ ہاں اس خسارے سے وہ لوگ محفوط ہیں جو ایمان اور عمل صالح کے جامع ہیں، کیونکہ ان کی زندگی چاہے جیسی بھی گزری ہو، موت کے بعد وہ بہر حال ابدی نعمتوں اور جنت کی پر آسائش زندگی سے بہرہ ور ہوں گے۔ آگے اہل ایمان کی مزید صفات کا تذکرہ ہے۔ ٣۔ ٢ یعنی اللہ کی شریعت کی پابندی اور محرمات ومعاصی سے اجتناب کی تلقین۔ ٣۔ ٣ یعنی مصائب و آلام پر صبر، احکام و فرائض شریعت پر عمل کرنے میں صبر، معاصی سے اجتناب پر صبر، لذات و خواہشات کی قربانی پر صبر، صبر بھی اگرچہ تواصی بالحق میں شامل ہے، تاہم اسے خصوصیت سے الگ ذکر کیا گیا، جس سے اس کا شرف و فضل اور خصال حق میں اس کا ممتاز ہونا واضح ہے۔ العصر
0 الهمزة
1 ھمزۃ اور لمزۃ، بعض کے نزدیک ہم معنی ہیں بعض اس میں کچھ فرق کرتے ہیں۔ ھمزۃ وہ شخص ہے جو رو در رو برائی کرے اور لمزۃ وہ جو پیٹھ پیچھے غیمت کرے۔ بعض اس کے برعکس معنی کرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں ھمز، آنکھوں اور ہاتھوں کے اشارے سے برائی کرنا ہے اور لمز زبان سے۔ الهمزة
2 اس سے مراد مال جمع کرتا ہے اور اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتا۔ ورنہ مطلق مال جمع کرکے رکھنا مذموم نہیں ہے۔ یہ مذموم اس وقت ہے جب اس میں زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ نہ کا اہتمام نہ ہو۔ الهمزة
3 ٣۔ ١ اخلدہ کا زیادہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ"اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا" یعنی یہ مال، جسے وہ جمع کر کے رکھتا ہے، اس کی عمر میں اضافہ کر دے گا اور اسے مرنے نہیں دے گا الهمزة
4 ٤۔ ١ یعنی معاملہ ایسا نہیں ہے جیسا اس کا وہم اور گمان ہے۔ ٤۔ ٢ ایسا بخیل شخص حطمہ میں پھینک دیا جائے گا یہ بھی جہنم کا ایک نام ہے، توڑ پھوڑ دینے والی ہے۔ الهمزة
5 ٥۔ ١ یہ استفہام اس کی ہولناکی کے بیان کے لیے ہے، یعنی وہ ایسی آگ ہوگی کہ تمہاری عقلیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور تمہارا فہم و شعور اس کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ الهمزة
6 الهمزة
7 ٧۔ ١ یعنی اس کی حرارت دل تک پہنچ جائے گی۔ اگرچہ دنیا کی آگ کے اندر بھی یہ خاصیت ہے کہ وہ دل تک پہنچ جائے لیکن وہ پہنچتی نہیں کیوں انسا کی موت اس سے پہلے ہی ہوجاتی ہے لیکن جہنم کی آگ دلوں تک پہنچے گی لیکن موت نہ آئے گی۔ باوجود آرزو کے۔ الهمزة
8 ٩۔ ١ مؤصدۃ جہنم کے دروازے اور راستے بند کر دئیے جائیں گے تاکہ کوئی باہر نہ نکل سکے اور انہیں لوہے کی میخوں کے ساتھ باندھ دیا جائے گا، جو لمبے لمبے ستونوں کی طرح ہوں گی، بعض کے نزدیک عمد سے مراد بیڑیاں یا طوق ہیں اور بعض کے نزدیک ستون ہیں جن میں انہیں عذاب دیا جائے گا۔ (فتح القدیر) الهمزة
9 الهمزة
0 الفیل
1 ١۔ ١ جو یمن سے خانہ کعبہ کی تخریب کے لئے آئے تھے، الم تعلم کیا تجھے معلوم نہیں؟ استفہام تقریر کے لیے ہے، یعنی تو جانتا ہے یا وہ سب لوگ جانتے ہیں جو تیرے ہم عصر ہیں۔ یہ اس لئے فرمایا کہ عرب میں یہ واقعہ گزرے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ مشہور ترین قول کے مطابق یہ واقعہ اس سال پیش آیا جس سال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت ہوئی تھی، اس لئے عربوں میں اس کی خبریں مشہور اور متواتر تھیں یہ واقع مختصر! حسب ذیل ہے : واقعہ اصحاب الفیل : حبشہ کے بادشاہ کی طرف سے یمن میں ابرہتہ الاشرم گورنر تھا اس نے صنعاء میں ایک بہت بڑا گرجا (عبادت گھر) تعمیر کیا اور کوشش کی کہ لوگ خانہ کعبہ کی بجائے عبادت اور حج عمرہ کے لئے ادھر آیا کریں۔ یہ بات اہل مکہ اور دیگر قبائل عرب کے لئے سخت ناگوار تھی۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص ابرہہ کے بنائے ہوئے عبادت خانے کو غلاظت سے پلید کردیا، جس کی اطلاع اس کو کردی گئی کہ کسی نے اس طرح گرجا کو ناپاک کردیا ہے، جس پر اس نے خانہ کعبہ کو ڈھانے کا عزم کرلیا اور ایک لشکر جرار لے کر مکے پر حملہ آور ہوا، کچھ ہاتھی بھی اس کے ساتھ تھے۔ جب یہ لشکر وادی محسر کے پاس پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے غول بھیج دیئے جن کی چونچوں اور پنجوں میں کنکریاں تھیں جو چنے یا مسور کے برابر تھیں، جس فوجی کے بھی یہ کنکری لگتی وہ پگل جاتا اور اس کا گوشت جھڑ جاتا۔ خود ابرہہ کا بھی صنعاء پہنچتے پہنچتے یہی انجام ہوا۔ اسطرح اللہ نے اپنے گھر کی حفاظت فرمائی، مکے کے قریب پہنچ کر ابرہہ کے لشکر نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دادا کے، جو مکے کے سردار تھے، اونٹوں پر قبضہ کرلیا، جس پر عبدالمطلب نے آ کر ابرہہ سے کہا کہ تو میرے اونٹ واپس کر دے جو تیرے لشکریوں نے پکڑے ہیں۔ باقی رہا خانہ کعبہ کا مسئلہ جس کو ڈھانے کے لئے تو آیا ہے تو وہ تیرا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے، وہ اللہ کا گھر ہے، وہی محافظ ہے، تو جانے اور بیت اللہ کا مالک اللہ جانے۔ (ایسر التفاسیر) الفیل
2 ٢۔ ١ یعنی وہ خانہ کعبہ ڈھانے کا ارادہ لے کر آئے تھا، اس میں اس کو ناکام کردیا۔۔ استفہام تقریری ہے۔ الفیل
3 ٣۔ ١ ابابیل پرندے کا نام نہیں بلکہ اس کے معنی غول در غول۔ الفیل
4 ٤۔ ١ سجیل مٹی کو آگ میں پکا کر اس سے بنائے ہوئے کنکر۔ ان چھوٹے چھوٹے پتھروں یا کنکروں نے توپ کے گولوں اور بندوق کی گولیوں سے زیادہ مہلک کام کیا۔ الفیل
5 ٥۔ ١ یعنی ان کے اجزائے جسم اس طرح بکھر گئے جیسے کھائی ہوئی بھوسی ہوتی ہے۔ الفیل
0 * اسے سورۃ ایلاف بھی کہتے ہیں، اس کا تعلق بھی گزشتہ سورت سے ہے۔ قریش
1 قریش
2 (١) ایلاف کے معنی ہیں مانوس اور عادی بنانا، یعنی اس کام سے کلفت اور نفرت کا دور ہوجانا قریش کا گزران کا ذریعہ تجارت تھی، سال میں دو مرتبہ ان کا تجارتی قافلہ باہر جاتا اور وہاں سے اشیاء تجارت لاتا، سردیوں میں یمن، جو گرم علاقہ تھا اور گرمیوں میں شام کی طرف جو ٹھنڈا تھا خانہ کعبہ کے خدمت گزار ہونے کی وجہ سے اہل عرب انکی عزت کرتے تھے۔ اسلیے یہ قافلے بلا روک ٹوک سفر کرتے، اللہ تعالیٰ اس سورت میں قریش کو بتلا رہا ہے کہ تم جو گرمی، سردی میں دو سفر کرتے ہو تو ہمارے اس احسان کی وجہ سے کہ ہم نے تمہیں مکے میں امن عطا کیا ہے اور اہل عرب میں معزز بنایا ہوا ہے۔ اگر یہ چیز نہ ہوتی تو تمہارا سفر ممکن نہ ہوتا۔ اور اصحاب الفیل کو بھی ہم نے اسی لیے تباہ کیا ہے کہ تمہاری عزت بھی برقرار رہے اور تمہارے سفروں کا سلسلہ بھی، جس کے تم خوگر ہو، قائم رہے، اگر ابرہہ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہوجاتا تو تمہاری عزت و سیادت بھی ختم ہوجاتی اور سلسلہ سفر بھی منقطع ہوجاتا۔ اس لیے تمہیں چاہیے کہ صرف اسی بیت اللہ کے رب کی عبادت کرو۔ قریش
3 قریش
4 ٤۔ ١ مذکورہ تجارت اور سفر کے ذریعے سے۔ ٤۔ ٢ عرب میں قتل و غارت گری عام تھی لیکن قریش مکہ کو حرم مکہ کی وجہ سے جو احترام حاصل تھا، اس کی وجہ سے وہ خوف و خطرے سے محفوظ تھے۔ قریش
0 * اس سورت کو سورۃ الدین سورۃ ارأیت اور سورۃ الیتیم بھی کہتے ہیں (فتح القدیر) الماعون
1 ١۔ ١ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب ہے اور استفہام سے مقصد اظہار تعجب ہے۔ رؤیت معرفت کے مفہوم میں ہے اور دین سے مراد آخرت کا حساب اور جزا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ کلام میں حذف ہے۔ اصل عبادت ہے" کیا تو نے اس شخص کو پہچانا جو روز جزا کو جھٹلاتا ہے؟ آیا وہ اپنی اس بات میں صحیح یا غلط۔ الماعون
2 ٢۔ ١ اس لیے کہ ایک تو بخیل ہے، دوسرا قیامت کا منکر ہے بھلا ایسا شخص یتیم کے ساتھ کیوں کر حسن سلوک کرسکتا ہے؟ یتیم کے ساتھ وہی شخص اچھا برتاؤ کرے گا جس کے دل میں مال کے بجائے انسانی قدروں اور اخلاقی ضابطوں کی اہمیت ومحبت ہوگی۔ دوسرے اسے اس امر کا یقین ہو کہ اس کے بدلے میں مجھے قیامت والے دن اچھی جزا ملے گی۔ الماعون
3 ٣۔ ١ یہ کام بھی وہی کرے گا جس میں مذکورہ خوبیاں ہونگی ورنہ یتیم کی طرح مسکین کو بھی دھکا ہی دے گا۔ الماعون
4 الماعون
5 ٥۔ ١ اس مراد وہ لوگ ہیں نماز یا تو پڑھتے ہی نہیں یا پہلے پڑھتے رہے پھر سست ہوگئے یا نماز کو اس کے اپنے مسنوں وقت میں نہیں پڑھتے۔ جب جی چاہتا ہے پڑھ لیتے ہیں یا تاخیر سے پڑھنے کو معمول بنا لیتے ہیں یا خشوع خضوع کے ساتھ نہیں پڑھتے۔ یہ سارے ہی مفہوم اس میں آ جاتے ہیں اس لیے نماز کی مذکورہ ساری ہی کوتاہیوں سے بچنا چاہیے۔ کہاں اس مقام پر ذکر کرنے سے یہ بھی واضح ہے کہ نماز میں ان کوتاہیوں کے مرتکب وہی لوگ ہوتے ہیں جو آخرت کی جزا اور حساب کتاب پر یقین نہیں رکھتے۔ اسی لیے منافقین کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے۔ (وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی ۙ یُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیْلًا ١٤٢؁ۡۙ) 4۔ النساء :142) الماعون
6 ٦۔ ١ یعنی ایسے لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ ہوئے تو نماز پڑھ لی بصورت دیگر نماز پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے، یعنی صرف نمود و نمائس اور ریا کاری کے لیے نماز پڑھتے ہیں۔ الماعون
7 ٧۔ ١ معن شیء قلیل کہتے ہیں۔ بعض اس سے مراد زکوٰۃ لیتے ہیں، کیونکہ وہ بھی اصل مال کے مقابلے میں بالکل تھوڑی سی ہوتی ہے (ڈھائی فی صد) اور بعض اس سے گھروں میں برتنے والی چیزیں مراد لیتے ہیں جو پڑوسی ایک دوسرے سے عاریتا مانگ لیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ گھریلو چیزیں عاریتا دے دینا اور اس میں کبیدگی محسوس نہ کرنا اچھی صفت ہے اور اس کے برعکس بخل اور کنجوسی برتنا، یہ منکرین قیامت ہی کا شیوہ ہے۔ الماعون
0 * اس کا دوسرا نام سورۃ النحر بھی ہے۔ الكوثر
1 ١۔ ١ کوثر، کثرت سے ہے اس کے متعدد معنی بیان کیے گئے ہیں۔ ابن کثیر نے "خیر کثیر"کے مفہوم کو ترجیح دی ہے کیونکہ اس میں ایسا عموم ہے کہ جس مییں دوسرے معانی بھی آ جاتے ہیں۔ مثلاً صحیح حدیث میں بتلایا گیا ہے کہ اس سے ایک نہر مراد ہے جو جنت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کی جائے گی۔ اس طرح بعض حدیث میں مصداق حوض بتایا گیا ہے، جس سے اہل ایمان جنت میں جانے سے قبل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دست مبارک سے پانی پئیں گے۔ اس حوض میں بھی پانی اسی جنت والی نہر سے آ رہا ہوگا۔ اسی طرح دنیا کی فتوحات اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رفع و دوام ذکر اور آخرت کا اجر و ثواب، سب ہی چیزیں"خیر کثیر"میں آ جاتی ہیں۔ (ابن کثیر) الكوثر
2 ٢۔ ١ یعنی نماز بھی صرف اللہ کے لیے اور قربانی بھی صرف اللہ کے لیے ہے مشرکین کی طرح اس میں دوسروں کو شریک نہ کرو۔ نحر کے اصل معنی اونٹ کے حلقوم میں چھری یا نیزہ مار کر اسے ذبح کرنا۔ دوسرے جانوروں کو زمین پر لٹا کر ان کے گلوں پر چھری پھیری جاتی ہے اسے ذبح کرنا کہتے ہیں۔ لیکن یہاں نحر سے مراد مطلق قربانی ہے، علاوہ ازیں اس میں بطور صدقہ و خیرات جانور قربان کرنا، حج کے موقعے پر منیٰ میں اور عیدالاضحیٰ کے موقعے پر قربانی کرنا، سب شامل ہیں۔ الكوثر
3 ٣۔ ١ ابتر ایسے شخص کو کہتے ہیں جو مقطوع النسل یا مقطوع الذکر ہو، یعنی اس کی ذات پر ہی اس کی نسل کا خاتمہ ہوجائے یا کوئی اس کا نام لیوا نہ رہے۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولاد نرینہ زندہ نہ رہی تو بعض کفار نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابتر کہا، جس پر اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی کہ ابتر تو نہیں، تیرے دشمن ہی ہونگے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسل کو باقی رکھا گو اس کا سلسلہ لڑکی کی طرف سے ہی ہے۔ اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولاد معنوی ہی ہے، جس کی کثرت پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت والے دن فخر کریں گے، علاوہ ازیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر پوری دنیا میں نہایت عزت و احترام سے لیا جاتا ہے، جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بغض و عناد رکھنے والے صرف صفحات تاریخ پر ہی موجود رہ گئے ہیں لیکن کسی دل میں ان کا احترام نہیں اور کسی زبان پر ان کا ذکر نہیں۔ الكوثر
0 * صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طواف کی دو رکعتوں اور فجر اور مغرت کی سنتوں میں (قل یٰٓایھا الکٰفرون) اور سورۃ اخلاص پڑھتے تھے۔ اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض صحابہ (رض) کو فرمایا کہ رات کو سوتے وقت، یہ سورت پڑھ کر سوؤ گے تو شرک سے بری قرار پاؤ گے۔ بعض روایت میں خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل بھی یہ بتلایا گیا ہے۔ (ابن کثیر) الكافرون
1 ١۔ ١ الکفرون میں الف لام جنس کے لیے ہے لیکن بطور خاص صرف ان کافروں سے خطاب ہے جن کی بابت اللہ کو علم تھا کہ ان کا خاتمہ کفر و شرک پر ہوگا۔ کیونکہ اس سورت کے نزول کے بعد کئی مشرک مسلمان ہوئے اور انہوں نے اللہ کی عبادت کی (فتح القدیر) الكافرون
2 الكافرون
3 الكافرون
4 الكافرون
5 بعض نے پہلی آیت کو حال کے اور دوسری کو استقبال کے مفہوم میں لیا ہے، لیکن امام شوکانی نے کہا ہے کہ ان تکلفات کی ضرورت نہیں ہے۔ تاکید کے لیے تکرار، عربی زبان کا عام اسلوب ہے، جسے قرآن کریم میں کئی جگہ اختیار کیا گیا ہے۔ جیسے سورۃ رحمٰن، سورۃ مرسلات میں ہے۔ اسی طرح یہاں بھی تاکید کے لیے یہ جملہ دہرایا گیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ کبھی ممکن نہیں کہ میں توحید کا راستہ چھوڑ کر شرک کا راستہ اختیار کرلوں، جیسا کہ تم چاہتے ہو۔ اور اگر اللہ نے تمہاری قسمت میں ہدایت نہیں لکھی ہے، تو تم بھی اس توحید اور عبادت الہی سے محروم ہی رہو گے۔ یہ بات اس وقت فرمائی گئی جب کفار نے یہ تجویز پیش کی کہ ایک سال ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معبود کی اور ایک سال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے معبودوں کی عبادت کریں۔ الكافرون
6 ٦۔ ١ یعنی اگر تم اپنے دین پر راضی ہو اور اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہو، تو میں اپنے دین پر راضی ہوں میں اسے کیوں چھوڑوں۔؟ (لنا اعمالنا ولکم اعمالکم) الكافرون
0 * نزول کے اعتبار سے یہ اخری سورت ہے۔ (صحیح مسلم، کتاب التفسیر) جس وقت یہ سورت نازل ہوئی تو بعض صحابہ رضی اللہ سمجھ گئے کہ اب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا آخری وقت آ گیا ہے، اسی لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسبیح وتحمید اور استغفار کا حکم دیا گیا ہے جیسے حضرت ابن عباس اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کا واقعہ صحیح بخاری میں ہے۔ (تفسیر سورۃ النصر) النصر
1 النصر
2 ٢۔ ١ اللہ کی مدد کا مطلب، اسلام اور مسلمانوں کا کفر اور کافروں پر غلبہ ہے، اور فتح سے مراد فتح مکہ ہے، جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مولد و مسکن تھا، لیکن کافروں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کرام کو وہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ چنانچہ جب ٨ ہجری میں یہ مکہ فتح ہوگیا تو لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے شروع ہوگئے، جب کہ اس سے قبل ایک ایک دو دو فرد مسلمان ہوتے تھے فتح مکہ سو لوگوں پر یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے پیغمبر ہیں اور دین اسلام دین حق ہے، جس کے بغیر اب نجات اخروی ممکن نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب ایسا ہو تو۔ النصر
3 ٣۔ ١ یعنی یہ سمجھ لے کہ تبلیغ رسالت اور احقاق حق کا فرض، جو تیرے ذمہ تھا، پورا ہوگیا اور اب تیرا دنیا سے کوچ کرنے کا مرحلہ قریب آ گیا ہے، اس لئے حمد و تسبیح الٰہی اور استفغار کا خوب اہتمام کر۔ اس سے معلوم ہوا کہ زندگی کے آخری ایام میں ان چیزوں کا اہتمام کثرت سے کرنا چاہئے۔ النصر
0 اسے سورۃ المسد بھی کہتے ہیں۔ اس کی شان نزول میں آتا ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ اپنے رشتہ داروں کو انذار و تبلیغ کریں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا پہاڑی پر چڑھ کر یا صباحاہ! کی آواز لگائی۔ اس طرح کی آواز خطرے کی علامت سمجھی جاتی ہے، چنانچہ اس آواز پر لوگ اکٹھے ہوگئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، ذرا بتلاؤ، اگر میں تمہیں خبردوں کہ اس پہاڑ کی پشت پر ایک گھڑ سوار لشکر ہے جو تم پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے، تو تم میری تصدیق کرو گے؟ انہوں نے کہا، کیوں نہیں۔ ہم نے کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا نہیں پایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پھر میں تمہیں ایک بڑے عذاب سے ڈرانے آیا ہوں۔ (اگر تم کفر و شرک میں مبتلا رہے) یہ سن کر ابو لہب نے کہا تباً لنا تیرے لیے ہلاکت ہو، کیا تو نے ہمیں اس لیے جمع کیا تھا ؟ جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ نازل فرما دی۔ (صحیح بخاری، تفسیر سورۃ تبت) ابو لہب کا اصل نام عبدالعزیٰ تھا، اپنے حسن جمال اور چہرے کی سرخی کی وجہ سے اسے ابو لہب (شعلہ فروزاں) کہا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں اپنے انجام کے اعتبار سے بھی اسے جہنم کی آگ کا ایندھن بننا تھا۔ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حقیقی چچا تھا، لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شدید دشمن تھا اور اس کی بیوی ام جمیل بنت حرب بھی دشمنی میں اپنے خاوند سے کم نہ تھی۔ الہب
1 ١۔ ١ یدا، ید (ہاتھ) کا تثنیہ ہے، مراد اس سے اس کا نفس ہے، جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے یعنی ہلاک اور برباد ہوجائے یہ بد دعا ان الفاظ کے جواب میں ہے جو اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق غصے اور عداوت میں بولے تھے۔ وَ تَبَّ (اور وہ ہلاک ہوگیا) یہ خبر ہے یعنی بد دعا کے ساتھ ہی اللہ نے اس کی ہلاکت اور بربادی کی خبر دے دی، چنانچہ جنگ بدر کے چند روز بعد یہ عدسیہ بیماری میں مبتلا ہوگیا، جس میں طاعون کی طرح گلٹی سی نکلتی ہے، اسی میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ تین دن تک اسکی لاش یوں ہی پڑی رہی، حتیٰ کہ سخت بدبو دار ہوگئی۔ بالآخر اس کے لڑکوں نے بیماری کے پھیلنے اور عار کے خوف سے، اس کے جسم پر دور سے ہی پتھر اور مٹی ڈال کر اسے دفنا دیا۔ (ایسر التفاسیر) الہب
2 ٢۔ ١ کمائی میں اس کی رئیسانہ حثییت اور جاہ ومنصب اور اس کی اولاد بھی شامل ہے یعنی جب اللہ کی گرفت آئی تو کوئی چیز اس کے کام نہ آئی۔ الہب
3 الہب
4 ٤۔ ١ یعنی جہنم میں یہ اپنے خاوند کی آگ پر لکڑیاں لا لا کر ڈالے گی، تاکہ مزید آگ بھڑکے۔ یہ اللہ کی طرف سے ہوگا۔ یعنی جس طرح یہ دنیا میں اپنے خاوند کی، اس کے کفر وعناد میں مددگار تھی آخرت میں بھی عذاب میں اس کی مددگار ہوگی۔ (ابن کثیر) بعض کہتے ہیں کہ وہ کانٹے دار جھاڑیاں ڈھو ڈھو کر لاتی اور نبی کریم کے راستے میں لا کر بچھا دیتی تھی۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اس کی چغل خوری کی عادت کی طرف اشارہ ہے۔ چغل خوری کے لیے یہ عربی محاورہ ہے۔ یہ کفار قریش کے پاس جا کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غیبت کرتی اور انہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت پر اکساتی تھی۔ (فتح الباری) الہب
5 جید گردن۔ مسد، مضبوط بٹی ہوئی رسی۔ وہ مونج کی یا کھجور کی پوست کی ہو یا آہنی تاروں کی۔ جیسا کہ مختلف لوگوں نے اس کا ترجمہ کیا ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ وہ دنیا میں ڈالے رکھتی تھی جسے بیان کیا گیا ہے۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جہنم میں اس کے گلے میں جو طوق ہوگا، وہ آہنی تاروں سے بٹا ہوا ہوگا۔ مسد سے تشبیہ اس کی شدت اور مضبوطی کو واضح کرنے کے لیے دی گئی ہے۔ الہب
0 "* یہ مختصر سی سورت بڑی فضیلت کی حامل ہے، اسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثلث (ایک تہائی ١/٣) قرآن قرار دیا ہے اور اسے رات کو پڑھنے کی ترغیب دی ہے۔ (بخاری) بعض صحابہ رضی اللہ ہر رکعت میں دیگر سورتوں کے ساتھ اسے بھی ضرور پڑھتے تھے، جس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں فرمایا"تمہاری اس کے ساتھ محبت تمہیں جنت میں داخل کردے گی"(بخاری) اس کا سبب نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اپنے رب کا نسب بیان کرو۔ (مسند احمد) الاخلاص
1 الاخلاص
2 ٢۔ ١ یعنی سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ الاخلاص
3 ٣۔ ١ یعنی نہ کوئی چیز اس سے نکلی ہے نہ وہ کسی چیز سے نکلا ہے۔ الاخلاص
4 ٤۔ ١ اس کی ذات میں اس کی صفات میں اور نہ اس کے افعال میں۔ (لیس کمثلہ شئی) حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے"انسان مجھے گالی دیتا ہے یعنی میرے لیے اولاد ثابت کرتا ہے، حالانکہ میں ایک ہوں بے نیاز ہوں، میں نے کسی کو جنا ہے نہ کسی سے پیدا ہوا ہوں اور نہ کوئی میرا ہمسر ہے (صحیح بخاری) اس سورت میں ان کا بھی رد ہوگیا جو متعدد خداؤں کے قائل ہیں اور جو اللہ کے لیے اولاد ثابت کرتے ہیں اور جو اس کو دوسروں کا شریک گردانتے ہیں اور ان کا بھی جو سرے سے وجود باری تعالیٰ ہی کے قائل نہیں۔ الاخلاص
0 * اس کے سورۃ الناس ہے، ان دونوں کی مشترکہ فضیلت متعدد احاچیث میں بیان کی گئی ہے۔ مثلا ایک حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا"آج کی رات مجھ پر کچھ ایسی آیات نازل ہوئی ہیں جن کی مثل میں نے کبھی نہیں دیکھی"یہ فرما کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دونوں سورتیں پڑھیں (صحیح مسلم) ابو حابس جہنی (رض) سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا"اے ابو حابس! کیا میں تمہیں سب سے بہترین تعویذ نہ بتاؤں جس کے ذریعے سے پناہ طلب کرنے والے پناہ مانگتے ہیں انہیں نے عرض کیا، ہاں ضرور بتلایئے! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں سورتوں کا ذکر کر کے فرمایا یہ دونوں معوذتان ہیں"(صحیح النسائی) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسانوں اور جنوں کی نظر سے پناہ مانگا کرتے تھے، جب یہ دونوں سورتیں نازل لوئیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے پڑھنے کو معمول بنا لیا اور باقی دوسری چیزیں چھوڑ دیں (صحیح الترمذی) حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی تکلیف ہوتی تو معوذتین (قل اعوذ برب الفلق) اور (قل اعوذ برب الناس) پڑھ کر اپنے جسم پر پھونک لیتے، جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکلیف زیادہ ہوگئی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں کو برکت کی امید سے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جسم پر پھیرتی (بخاری) جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا گیا تو جبرائیل (علیہ السلام) یہی دو سورتیں لے کر حاضر ہوئے اور فرمایا کہ ایک یہودی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا ہے، اور یہ جادو فلاں کنویں میں ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی رضی اللہ کو بھیج کر اسے منگوایا، (یہ ایک کنگھی کے دندانوں اور بالوں کے ساتھ ایک دانتوں کے اندر گیا گرہیں پڑی ہوئی تھیں اور موم کا ایک پتلا تھا جس میں سوئیاں چبھوئی ہوئی تھیں) جبرائیل (علیہ السلام) کے حکم مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دونوں سورتوں میں سے ایک ایک آٰیت پڑھتے جاتے اور گرہ کھلتی جاتی اور سوئی نکلتی جاتی خاتمے تک پہنچتے پہنچتے ساری گرہیں بھی کھل گئیں اور سوئیاں بھی نکل گئیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح صحیح ہوگئے جیسے کوئی شخص جکڑ بندی سے آزاد ہوجائے (صحیح) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ معمول بھی تھا کہ رات کو سوتے وقت سورۃ اخلاص اور معوذتین پڑھ کر اپنی ہتھیلیوں پر پھونکتے اور پھر انہیں پورے جسم پر ملتے، پہلے سر، چہرے اور جسم کے اگلے حصے پر ہاتھ پھیرتے، اس کے بعد جہاں تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پہنچتے تین مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسا کرتے۔ (صحیح بخاری) الفلق
1 ١۔ ١ فلَق کے معنی صبح کے ہیں۔ صبح کی تخصیص اس لئے کی کہ جس طرح اللہ تعالیٰ رات کا اندھیرا ختم کر کے دن کی روشنی لا سکتا ہے، وہ اللہ اسی طرح خوف اور دہشت کو دور کر کے پناہ مانگنے والے کو امن بھی دے سکتا ہے۔ یا انسان جس طرح رات کو اس بات کا منتظر ہوتا ہے کہ صبح روشنی ہوجائے گی، اسی طرح خوف زدہ آدمی پناہ کے ذریعے سے صبح کامیابی کے طلوع کا امیدوار ہوتا ہے۔ (فتح القدیر) الفلق
2 ٢۔ ١ یہ عام ہے اس میں شیطان اور اس کی ذریت، جہنم اور ہر اس چیز سے پناہ ہے جس سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ الفلق
3 ٣۔ ١ رات کے اندھیرے میں خطرناک درندے اپنی کچھاروں سے اور موذی جانور اپنے بلوں سے اور اسی طرح جرائم پیشہ افراد اپنے مذموم ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نکلتے ہیں ان الفاظ کے ذریعے سے ان تمام سے پناہ طلب کی گئی۔ غاسق، رات وقت داخل ہوجائے، چھا جائے۔ الفلق
4 ٤۔ ١ نفاثات، مونث کا صیغہ ہے، جو النفوس (موصوف محذوف) کی صفت ہے من شر النفوس النفاثات یعنی گرہوں میں پھونکنے والے نفسوں کی برائی سے پناہ اس سے مراد جادو کا کالا عمل کرنے والے مرد اور عورت دونوں ہیں یعنی اس میں جادوگروں کی شرارت سے پناہ مانگی گئی ہے، جادوگر پڑھ پڑھ کر پھونک مارتے اور گرہ لگاتے جاتے ہیں۔ عام طور پر جس پر جادو کرنا ہوتا ہے اس کے بال یا کوئی چیز حاصل کر کے اس پر یہ عمل کیا جاتا ہے۔ الفلق
5 ٥۔ ١ حسد یہ ہے کہ حاسد، محسود سے زوال کی نعمت کی آرزو کرتا ہے چنانچہ اس سے بھی پناہ طلب کی گئی ہے کیونکہ حسد بھی ایک نہایت بری اخلاقی بیماری ہے جو نیکیوں کو کھا جاتی ہے۔ الفلق
0 * اس کی فضیلت گزشتہ سورت کے ساتھ بیان ہوچکی ہے۔ ایک اور حدیث جس میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز میں بچھو ڈس کیا۔ نماز سے فراغت کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانی اور نمک منگوا کر اس کے اوپر ملا اور ساتھ ساتھ (قل یٰٓایھا الکفرون قل ھو اللہ احد اور قل اعوذ برب الناس) پڑھتے رہے الناس
1 رب (پروردگار) کا مطلب ہے جو ابتدا سے ہی جب کہ انسان ابھی ماں کے پیٹ میں ہی ہوتا ہے اس کی تدبیرو اصلاح کرتا ہے، حتٰی کہ وہ بالغ عاقل ہوجاتا ہے پھر وہ یہ تدبیر چند مخصوص افراد کے لیے نہیں، بلکہ تمام انسانوں کے لیے کرتا ہے اور تمام انسانوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ اپنی تمام مخلوقات کے لیے کرتا ہے، یہاں صرف انسانوں کا ذکر انسان کے اس شرف افضل کے اظہار کے لیے ہے جو تمام مخلوقات پر اس کو حاصل ہے۔ الناس
2 ٢۔ ١ جو ذات، تمام انسانوں کی پرورش اور نہگداشت کرنے والی ہے، وہی اس لائق ہے کہ کائنات کی حکمرانی اور بادشاہی بھی اسی کے پاس ہو۔ الناس
3 ٣۔ ١ اور جو تمام کائنات کا پروردگار ہو، پوری کائنات پر اسی کی بادشاہی ہو، وہی ذات اس بات کی مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور وہی تمام لوگوں کا معبود ہو۔ چنانچہ میں اسی عظیم و برتر ہستی کی پناہ حاصل کرتا ہوں۔ الناس
4 ٤۔ ١ الوسواس، بعض کے نزدیک اسم فاعل الموسوس کے معنی میں ہے اور بعض کے نزدیک یہ ذی الوسو اس ہے۔ وسوسہ، مخفی آواز کو کہتے ہیں، شیطان بھی نہایت غیر محسوس طریقوں سے انسان کے دل میں بری باتیں ڈال دیتا ہے اسی کو وسوسہ کہتے ہیں۔ الخناس (کھسک جانے والا یہ شیطان کی صفت ہے۔ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو یہ کھسک جاتا ہے اور اللہ کی یاد سے غفلت برتی جائے تو دل پر چھا جاتا ہے) الناس
5 الناس
6 ٦۔ ١ یہ وسوسہ ڈالنے والوں کی دو قسمیں ہیں، شیاطین الجن کو تو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو گمراہ کرنے کی قدرت دی ہے علاوہ ازیں ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان اس کا ساتھی ہوتا ہے جو اس کو گمراہ کرتا رہتا ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات فرمائی تو صحابہ کرام نے پوچھا کہ یارسول اللہ! کیا وہ آپ کے ساتھ بھی ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں! میرے ساتھ بھی ہے، لیکن اللہ نے اس پر میری مدد فرمائی ہے، اور میرا مطیع ہوگیا ہے مجھے خیر کے علاوہ کسی بات کا حکم نہیں دیتا (صحیح مسلم) اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعتکاف فرما تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ مطہرہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملنے کے لیے آئیں رات کا وقت تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں چھوڑنے کے لیے ان کے ساتھ گئے۔ راستے میں دو انصاری صحابی وہاں سے گزرے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بلا کر فرمایا کہ یہ میری اہلیہ، صفیہ بنت حیی، ہیں۔ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت ہمیں کیا بدگمانی ہو سکتی تھی؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تو ٹھیک ہے لیکن شیطان انسان کی رگوں میں خوف کی طرح دوڑتا ہے۔ مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دلوں میں کچھ شبہ نہ ڈال دے۔ (صحیح بخاری) دوسرے شیطان، انسانوں میں سے ہوتے ہیں جو ناصح، مشفق کے روپ میں انسانوں کو گمراہی کی تر غیب دیتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ شیطان جن کو گمراہ کرتا ہے یہ ان کی دو قسمیں ہیں، یعنی شیطان انسانوں کو بھی گمراہ کرتا ہے اور جنات کو بھی۔ صرف انسانوں کا ذکر تغلیب کے طور پر ہے، ورنہ جنات بھی شیطان کے وسوسوں سے گمراہ ہونے والوں میں شامل ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ جنوں پر بھی قرآن میں"رجال "کا لفظ بولا گیا ہے (وَّاَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْہُمْ رَہَقًا ۝ ۙ) 72۔ الجن :6) اس لیے وہ بھی ناس کا مصداق ہیں۔ الناس
Flag Counter