Maktaba Wahhabi

16 - 42
’’قائد‘‘ کے تحت ہی کوئی ’’قدم‘‘ اٹھایا جائے،اور دوسری ’’دولت‘‘ کی اہمیت۔ انسانی زندگی میں ’’دولت‘‘ کی اہمیت اپنی جگہ مسلَّم ہے،لیکن دنیا میں دین کو نافذ کرنے کے لئے ’’چندہ‘‘ اور ’’دولت‘‘ جمع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اور نہ ہی اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی قید لگائی ہے کہ اتنی دولت تمہارے پاس ہو گی تب تم دین کو نافذ کرنے کا بیڑا اٹھاؤ۔اُس نے تو صرف یہی بات کہی ہے کہ ’’وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ‘‘ کہ اپنی ’’استطاعت‘‘ کے مطابق ’’قوت‘‘ کو تیار کر کے رکھو۔چنانچہ اس میں دولت کی کوئی قید نہیں،ہاں ’’قوت‘‘ جمع کرنے کی قید ضرور ہے۔اور نبی کریم ا نے اس ’’قوت‘‘ سے مراد تیر اندازی،نشانہ بازی،نیزہ بازی وغیرہ لی ہے۔آجکل کی زبان میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ گولی چلانا،گولی کو صحیح نشانہ پر لگانا،اس کی مشق کرنا،انہیں اپنے پاس جمع کرنا،انہیں بنانا اور استعمال کرنا فرض ہے۔ دولت کی آمد ہم دیکھتے ہیں کہ زمانہء قدیم سے لے کر کم و بیش 1920ء تک دنیا پر حکومت کے دو ہی معیار تھےایک ’’علم‘‘ اور دوسرا ’’طاقت‘‘۔کبھی علم والے غالب آئے اور کبھی طاقت والے۔اور سب سے اچھا وہ رہا جس کے پاس علم و طاقت جمع ہو گئیں۔مثلاً مسلمانوں کا تابناک ماضی۔ اب سوال یہ ہے کہ دولت کہاں سے برآمد ہوئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے صدیوں پر محیط ’’علم و طاقت‘‘ کے معیار ختم کر دیئے۔تو اس کا جواب بہت سادہ ہے،وہ یہ کہ یہ معیار ’’یہودیوں‘‘ نے قائم کیا،اس کو ’’جدید میڈیا‘‘ کی مدد سے دنیا میں پھیلایا اور پوری دنیا کو ’’روٹی،کپڑا،ضروریاتِ زندگی‘‘ کے چکر میں پھانس کر وہ پوری دنیا کے بے تاج بادشاہ بن
Flag Counter