Maktaba Wahhabi

35 - 42
آجکل کے نام نہاد ’’قائدین‘‘ اور حکمرانوں سمیت کوئی بھی اس بات کا جواب نہیں دے سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے جانشینوں نے اپنا تمام مال و دولت اللہ کی راہ میں لوگوں میں تقسیم کر کے ’’غربت زدہ‘‘ زندگی گزارنے کو کیوں ترجیح دی۔ہماری نظر میں تو ایک ہی بات ہے کہ نبی کریم ا کی حدیث کے مطابق جب انسان کا پیٹ بھوک سے بیتاب ہو تو انسان اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا بلکہ تعلق باﷲ مضبوط رہتا ہے اور دوسرا یہ کہ انسان کو تقویٰ بھی حاصل ہوتا ہے۔وہ رات کو اٹھ کر اللہ کی بارگاہ میں اپنی حاجات اور اپنی رعایا کی بہتری کے لئے دعا گو رہتا ہے۔اور قیامت کے دن چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہو جاتا ہے اور امیروں کی طرح جنت واجب ہونے کے باوجود مال و دولت کا حساب دیتے رہنے سے بھی بچ جاتا ہے۔نہ کہ آجکل کے امراء کی طرح کہ راتیں شراب و شباب اور رقص و سرود کی محفلوں میں گزاریں اور صبح کو بھی اللہ کی یاد سے غافل ہو کرعوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑیں۔ چنانچہ جب ’’قائد‘‘ اپنی دولت عوام الناس میں تقسیم کر دیتا ہے تو عوام الناس اس سے محبت کرتے ہیں،اس پر جان نچھاور کرتے ہیں،اس کی من و عن اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہیں۔اور جب اس دولت کے بل بوتے پر ’’قائد‘‘ اپنی ’’اولاد‘‘ کو غیر مسلموں کے اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے کے لئے نہیں بھیجتا تو پھر وہ انہی غیر مسلموں کے ہاتھوں ’’بلیک میل‘‘ ہونے سے بچ جاتا ہے اور اپنی پوری قوم کی خیر خواہی کرتا ہے بصورتِ دیگر ……… اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا فرمائے۔ میڈیا آج کے دور میں دنیا کے پاس ایک ایسی قوت ہے جو لوگوں کے ذہنوں میں خیالات
Flag Counter