Maktaba Wahhabi

41 - 42
چنانچہ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود و نصاریٰ اور تمام غیر مسلموں کے ہر قول،فعل اور عمل میں مخالفت کا حکم دیا،وہیں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿وَاَنْ اَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا وَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾ (یونس:105) اور یہ کہ اپنا رخ یکسو ہو کر (اس) دین کی طرف کر لینا اور مشرکوں میں سے نہ ہونا چنانچہ قائد کو چاہیئے کہ وہ تمام لوگوں کو چھوڑ کر،برادری و قبیلہ اور حکومت ِ وقت کو پس پشت ڈال کر اللہ کے دین کو نافذ کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہو۔جیسا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کی مسجد میںپڑھنے والے طالبعلم،حکومت وقت کی اجازت اور تائید کے بغیر اکیلے ہی تاتاریوں کے خلاف لڑتے رہے اور اللہ تعالیٰ انہیں فتح دیتا رہا۔ پاکستان کے حکمران تو دین کے نفاذ کا کام نہیں کریں گے،نہ مسلمانوں کو غیر مسلموں کی تہذیبی،ثقافتی،تمدنی،معاشی و معاشرتی یلغاروں سے بچائیں گے،بلکہ یہ تو اپنے ملک و قوم کو غیر مسلموں کی ریشہ دوانیوں کے سپرد کر چکے ہیں،اور روزانہ ایک ایک برائی کو ملک و قوم کے حلق میں اُتارتے چلے جا رہے ہیں۔پاکستان کی ہر نئی حکومت ’’یہود و نصاریٰ‘‘ ہی معرض وجود میں لاتے ہیں۔ قائد کو سیدھا رکھنا اس سے بڑھ کر یہ کہ قائد کو سیدھا رکھنا بھی عوام ہی کی ذمہ داری ہے۔کیونکہ صحیح مسلم کی ایک حدیث کے مطابق عیسائی لوگوں میں چار انتہائی اعلیٰ خوبیاں ہیں جن میں سے چوتھی،جو سب سے بڑی خوبی کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ عیسائی لوگ اپنے ’’قائدین‘‘ کو سب سے زیادہ سیدھا رکھتے ہیں۔حالانکہ یہ کام صرف اور صرف مسلمانوں کا ہی تھا۔مثلاً امیر المؤمنین
Flag Counter