Maktaba Wahhabi

44 - 42
لہٰذا جن دقیق اہل نظر نے اس حدیث پر عمل کیا اور ان کی بات کو سنا،مانا اور سراہا گیا تو اس وقت تک حاکم/قائد بھی سیدھے رہے اور ان کی حکومت اور رعایا اور دنیا سیدھی رہی مثلاً سیدنا عمر فاروق ص۔لیکن جب ان اہل نظر کی بات کو ’’سنا اور نہ مانا‘‘ گیا بلکہ ان پر ظلم و ستم روا رکھے جانے شروع ہوئے تو حکمرانوں کی حکومتیں کمزور ہو گئیں۔دنیا برباد ہوئی اور آخرت میں اللہ ہی اُن کے انجامِ کار سے واقف ہے۔مثلاً بنو امیہ اور بنو عباس کی حکومتیں۔پھر جب یہ دور بھی ختم ہوا اور طوائف الملوکی آئی اور دقیق نظر اہل علم کی جگہ مداحوں/ طبلہ نوازوں/ شاعروں اور ناچ گانے والوں نے لے لی اور اہل علم کی آوازاگر کہیں اٹھی بھی تو کبھی ’’قائدین‘‘ کے کانوں تک نہ پہنچی اور کبھی پہنچنے نہ دی گئی اور اگر کبھی بادلِ نخواستہ قائدین نے وہ بات سنی تو اس کا الٹ ہی مطلب سمجھا اور جن لوگوں نے درمیانی واسطہ بن کر بات سنائی انہوں نے اور بھی مرچ مسالحہ لگا کر بتائی۔نتیجتاً قائدین نے اپنے ہاتھوں سے اپنی فوجوں اور سپاہیوں سے اپنے ہی عوام کو جو کہ اسلام نافذ کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے،گولیوں کی بارش سے بھون ڈالا اور یہ ’’آوازیں‘‘ ہمیشہ کے لئے بند کر دی گئیں۔ کیا آپ ان میں اپنا شمار کروانا چاہتے ہیں؟ یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً مسلمانوں میں ایسا ’’قائد‘‘ اپنی طرف سے پیدا کر دیتا ہے جو کہ پھر اس ڈوبتی ہوئی کشتی میں لوگوں کو مزید ’’سوراخ‘‘ کرنے سے منع کر دیتا ہے مثلاً امام احمد بن حنبل اور امام ابن تیمیہ وغیرہ۔وگرنہ پانی تو اس کشتی کے بادبانوں کو بھی چھو چکا ہے۔الامان الحفیظ۔ مجھے امید ہے کہ اب بھی کوئی ایسا ’’قائد‘‘ آئے گا جو اس کشتی کو پھر سے منزل کی طرف رواں دواں کرنے کے لئے حکمرانوں کو ان کی ’’کرتوتوں‘‘ سے باز رکھ سکے گا۔
Flag Counter