دینا چاہے جس سے وہ اپنی ضرورت پوری کر سکے اور یہ ضرورت مند شخص لینے سے انکار کر دے اور صبر کرنے کو ہی ترجیح دے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ خود اس کی روزی کا انتظام کر دے، جس میں کسی اور کا کوئی احسان شامل نہ ہو۔ اب اسی طرح کا استغاثہ کیسے عبادت اور شرک ہو سکتا ہے۔ کاش یہ کچھ سمجھ بوجھ رکھتے ہوں!! ……………… شرح ………………… جبریل علیہ السلام کے واقعہ سے استدلال جبرائیل علیہ السلام نے جو ابراہیم علیہ السلام کو پیش کش کی اس کی تکمیل ممکن تھی۔ اگر اللہ تعالیٰ جبرئیل کو حکم فرماتے تو جبرائیل علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام کو آزاد کروا سکتے تھے، کیوں کہ جبرائیل علیہ السلام کی یہ صفت ہے کہ وہ بہت قوت والا ہے۔(النجم:5) اگراللہ پاک جبرئیل کو یہ حکم دیتے کہ ابراہیم کی آگ اور اس کے اردگرد کو اٹھائواور مشرق یا مغرب میں پھینک دو تو جبرئیل ایسا کر سکتے تھے۔ اسی طرح اگر اللہ ان کو حکم دے دیتے کہ ابراہیم علیہ السلام کو یہاں سے اٹھا کر کسی دوسری جگہ چھوڑ آئو تو جبرئیل علیہ السلام ایسا بھی کرسکتے تھے۔ اگر ابراہیم کو اٹھا کر آسمان پر لے جانے کا حکم ہوتا تو یہ بھی ناممکن نہ تھا۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھنا چاہیے: ایک مال دار آدمی کسی فقیر اور محتاج آدمی کے پاس آکر یہ بات کہے کہ تمہیں مال کی ضرورت ہے ؟ قرض کی ادائیگی یا تحفہ وغیرہ دینے کے لیے، چونکہ یہ مالدار آدمی اس کی یہ ضرورت پوری کر سکتا ہے لہٰذا اسے شرک نہیں کہا جائے گا۔ اگر وہ فقیر کہتا ہے کہ جی ہاں مجھے یہ قرضہ ادا کرنا ہے یا میں کسی کو تحفہ دینا چاہتا ہوں تو ایسی صورت میں وہ فقیر مشرک نہیں ہوگا۔ |