Maktaba Wahhabi

آیت نمبرترجمہسورہ نام
1 سورۃ الفاتحۃ: 1۔ یہ سورت مکی ہے یا مدنی ؟ مکی ان سورتوں کو کہتے ہیں جو ہجرت سے قبل نازل ہوئیں، اور مکی ان سورتوں کو کہتے ہیں جو ہجرت سے قبل نازل ہوئیں، اور مدنی ان کو جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں اکثر مفسرین کے نزدیک سورۃ الفاتحہ ہجرت سے پہلے نازل ہوئی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سورۃ الفاتحہ دو بار نازل ہوئی۔ پہلی بار مکہ مکرمہ میں اور دوسری بار ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں۔ لیکن راجح یہی ہے کہ یہ صرف ایک بار ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ 2۔ اس کے کئی نام ہیں : قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں اس سورت کے کئی نام آئے ہیں۔ امام قرطبی نے اس کے بارہ نام بتائے ہیں۔ جو مندرجہ ذیل ہیں۔ الصلاۃ۔ جیسا کہ حدیث قدی میں آیا ہے۔ قسمت الصلاۃ بینی وبین عبدی نصفین۔ الحدیث۔ یعنی میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے۔ اس حدیث میں صلاۃ سے مراد سورۃ فاتحہ ہے۔ اس سورت کا ابتدائی نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اس کی ربوبیت، الوہیت اور ملوکیت کا اعتراف ہے، اور دوسرا نصف حصہ اللہ سے دعا و مناجات ہے۔ الحمد۔ اس لیے کہ اس سورت میں حمد کا ذکر ہے۔ فاتحۃ الکتاب : اس لیے کہ قرآن کریم کی تلاوت، مصحت کی کتابت اور نماز کی ابتدا اسی سورت سے ہوتی ہے۔ ام الکتاب : امام بخاری (رح) نے کتاب التفسیر کے شروع میں لکھا ہے کہ اس کا نام ام الکتاب اس لیے کہ مصحبت کی کتابت اور نماز میں قراءت کی ابتدا اسی سے ہوتی ہے۔ ایک توجیہہ اس کی یہ بھی کی گئی ہے کہ اس سورت میں قرآن کریم کے تمام معانی و مضامین کا ذکر اجمالی طور پر آگیا ہے۔ ام القرآن : امام ترمذی نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سورۃ الحمد للہ، ام القرآن ہے، ام الکتاب ہے اور سبع مثانی ہے۔ السبع المثانی : اس لیے کہ یہ سورت سات آیتوں پر مشتمل ہے اور نماز کی ہر رکعت میں ان آیتوں کا اعادہ ہوتا ہے۔ القرآن العظیم : اس لیے کہ اس میں تمام قرآنی علوم کا ذکر کیا گیا ہے۔ الشفاء : امام دارمی نے ابوسعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : فی فاتحۃ الکتاب شفاء من کل داء۔ یعنی سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کے لیے شفا رکھی ہے۔ رقیہ : یعنی دم، اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس صحابی سے جس نے ایک سردارِ قبیلہ پر سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا اور اس کے جسم سے سانپ کا زہر اتر گیا تھا کہ تجھے کس نے بتایا کہ یہ دم ہے۔ ؟ تو صحابی نے کہا یا رسول اللہ ! میرے دل میں یہ بات ڈال دی گئی تھی۔ الاساس : امام شعبی (رح) نے حضرت ابن عباس رضی الہ عنہما سے روایت کی ہے کہ قرآن کی اساس سورۃ فاتحہ ہے، جب کبھی بیماری پڑو تو اس سورت کے ذریعہ شفا حاصل کرو۔ الوافیۃ۔ سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ نماز میں سورۃ فاتحہ کی تقسیم نہیں ہوسکتی۔ یعنی دیگر سورتوں کی طرح اسے نصف نصف دو رکعتوں میں پڑھنا جائز نہیں اس لیے اس کا نام الوافیہ ہے۔ الکافیہ : یحیی بن ابی کثیر کہتے ہیں کہ یہ سورت دوسری سورتوں کے بدلے میں کافی ہوجاتی ہے۔ لیکن دوسری سورتیں اس کے بدلہ میں کافی نہیں ہوتی ہیں۔ اس لیے اس کا نام الکفایہ ہے۔ 3۔ اس کی فضیلت : یہ سورت قرآن کریم کی عظیم ترین سورت ہے اس کی فضیلت میں نبی کریم کی کئی صحیح حدیثیں آئی ہیں یہاں کچھ حدیثوں کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے : 1۔ ترمذی اور نسائی نے بی بن کعب (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تورات و انجیل میں ام القرآن یعنی سورۃ فاتحہ جیسی سورت نہیں اتاری۔ اسی کو سبع مثانی بھی کہتے ہیں۔ 2۔ مسند احمد میں ہے کہ ابو سعید بن المعلی (رض) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا کہ میں تجھے مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن کریم کی عظیم ترین سورت سکھاؤں گا۔ پھر آپ نے انہیں سورۃ فاتحہ کی تعلیم دی۔ اس حدیث کو امام بخاری، ابوداود، نسائی اور ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے۔ 3۔ امام مالک نے مؤطا میں روایت کی ہے کہ ابوسعید مولی عامر بن کریز نے بتایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابی بن کعب (رض) کو کہا، میں تجھے مسجد سے نکلنے سے قبل ایک ایسی سورت بتاؤں گا جیسی تورات و انجیل میں نہیں اتاری گئی، اور نہ ہی قرآن میں ویسی کوئی دوسری سورت ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ جب نماز کی ابتدا کرتے ہو تو کیا پڑھتے ہو ؟ انہوں نے الحمد للہ رب العالمین پڑھی، آپ نے فرمایا : یہی وہ سورت ہے۔ 4۔ امام احمد نے عبداللہ بن جابر (رض) سے ایک حدیث روایت کی ہے۔ جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قرآن کریم کی سب سے بہترین سورت سورۃ فاتحہ ہے۔ 5۔ اس سورۃ کریمہ کے فضائل میں سے یہ بھی ہے کہ اسے پڑھ کر پھونکنے سے سانپ کے کاٹے کا زہر اللہ کے حکم سے اتر جاتا ہے۔ امام بخاری نے ابوسعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم ایک بار سفر میں تھے۔ ایک جگہ پڑاؤ ڈالا، تو ایک لڑکی آئی اور بتایا کہ قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے اور ہمارے لوگ باہر گئے ہوئے ہیں، کیا آپ لوگوں میں کوئی دم کرنے والا ہے ؟ تو ہم میں سے ایک آدمی اٹھ کر گیا، جس کے بارے میں ہم لوگ نہیں جانتے تھے کہ دم کرنا جانتا ہے۔ اس نے دم کیا تو سانپ کا زہر اتر گیا۔ اس نے اسے تیس بکریاں دین۔ اور ہم سب کو دودھ بھی پلایا۔ جب وہ واپس آیا تو ہم نے اس سے پوچھا کہ کیا تم دم کرنا جانتے تھے۔ اس نے جواب میں کہا کہ میں نے تو صف سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا ہے۔ ہم نے کہا کہ برکیوں کے معاملہ کو ایسے ہی رہنے دو۔ یہاں تک کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوچھ لیں۔ جب ہم مدینہ آئے اور آپ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اسے کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ منتر ہے۔ تم لوگ ان بکریوں کو آپس میں تقسیم کرتے وقت میرا بھی ایک حصہ رکھنا۔ اس حدیث کو امام مسلم اور امام ابو داود نے بھی روایت کیا ہے امام مسلم کی بعض روایتوں میں ہے کہ دم کرنے والے ابوسعید خدری (رض) ہی تھے۔ 6۔ امام مسلم اور نسائی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے درمیان تشریف فرما تھے اور جبرئیل (علیہ السلام) آپ کے پاس موجود تھے کہ اوپر سے ایک آواز سنائی دی۔ جبرئیل (علیہ السلام) نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور کہا کہ آسمان کا یہ دروازہ آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا اس سے ایک فرشتہ اترا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کو دو نور دئیے جانے کی خوشخبری دیتا ہوں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دئیے گئے۔ سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کی آخری آیتیں۔ ان کا ایک حرف بھی آپ پڑھیں گے تو اس کا بدل آپ کو دیا جائے گا۔ 7۔ سورۃ فاتحہ کی فضیلت اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہوگی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کو تین بار دہرایا۔ اس حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے نماز (یعنی سورۃ فاتحۃ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے اور میں اپنے بندے کو وہ دیتا ہوں جو وہ مانگتا ہے (مسلم، نسائی مؤطا، مسند احمد) 4۔ نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنا امام اور مقتدی سب پر واجب ہے : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر کوئی نماز قبول نہیں ہوتی۔ جن حضرات نے سورۃ فاتحہ پڑھنا واجب نہیں سمجھا ہے ان کی مشہور دلیلیں مندرجہ ذیل ہیں : الف : اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا۔ الایہ۔ یعنی جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی اختیار کرو اور دھیان دے کر سنو۔ (الاعراف : 204)۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حکم عام ہے اور نماز میں قرات فاتحہ کے وجوب سے متعلق حدیثیں خاص اور بہت ہی واضح اور صریح ہیں اور اس آیت کی تخصیص کرتی ہیں۔ ب۔ ان کی دوسری دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ اسلم کا یہ قول ہے کہ مالی انازع القرآن۔ یعنی کیا بات ہے کہ نماز میں لوگ میرے ساتھ قرآن پڑھتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لاتفعلوا الا بام القرآن فانہ لا صلاۃ لمن لم یقرا بھا۔ یعنی سورۃ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھو۔ کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ (ابو داود، ترمذی، نسائی)۔ ج۔ ان کی تیسری مشہور دلیل یہ حدیث ہے۔ من کان لہ امام فقراءۃ الامام لہ قراءۃ۔ یعنی اگر کوئی شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو تو امام کی قراءت اس کی قراءت ہوگی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں محدثین کا کلام ہے، وجوب قراءت فاتحہ والی صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے یہ قابل قبول نہیں لیکن اس کا بہترین جواب یہ ہے کہ ووجوب قراءت والی حدیثیں اس کی تخصیص کرتی ہیں۔ یعنی جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کے بعد امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہوگی۔ اب آئیے، ان احادیث صحیحہ پر ایک نظر ڈالی جائے جن کی بنیاد پر محدثین کرام کی کثیر تعداد نے فاتحہ کی قراءت کو امام اور مقتدی سب کے لیے واجب قرار دیا ہے۔ 1۔ ابوہریرہ (رض) کی حدیث جو اوپر گذر چکی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے کوئی نماز پڑھی، اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہوگی۔ آپ نے یہ بات تین بار دہرائی۔ ابوہریرہ (رض) سے کہا گیا کہ ہم لوگ تو امام کے پیچھے ہوتے ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ دل میں پڑھ لیا کرو۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے سنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ میں نے نماز (سورہ فاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے۔ الحدیث (مسلم، نسائی، مؤطا، مسند احمد) 2۔ ابو ہریرہ (رض) ہی کی دوسری حدیث کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : وہ نماز کفایت نہیں کرتی جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے (صحیح ابن خزیمہ) 3۔ عبادہ بن صامت (رض) کی حدیث کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا۔ (متفق علیہ) 4۔ ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے کہ مجھے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ اعلان کردینے کا حکم دیا۔ لا صلاۃ الا بقراءۃ فاتحۃ الکتاب فما زاد۔ یعنی نماز صحیح نہیں ہوتی جب تک سورۃ فاتحہ اور قرآن کا کچھ اور حصہ نہ پڑھا جائے (ابوداود) یہی قول صحابہ کرام میں عمر بن خطاب، عبداللہ بن عباس، ابوہریرہ، ابی بن کعب، ابو ایوب انصاری، عبداللہ بن عمرو بن العاص، عبادہ بن صامت، ابو سعید خدری، عثمان بن ابی العاص، خوات بن جبیر اور عبداللہ بن عمر (رض) وغیرہم کا ہے اور ائمہ کرام میں شافعی، احمد، مالک، اوزاعی وغیرہم کی یہی رائے ہے۔ یہ سبھی حضرات نماز کی ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کو واجب قرار دیتے ہیں۔ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم : اس کا معنی یہ ہے کہ ” میں اللہ تعالیٰ کے ذریعہ مردود شیطان سے پناہ مانگتا ہوں“ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بندوں کو مردود شیطان کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِینَ (١٩٩) وَإِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّہِ إِنَّہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ (٢٠٠)۔ اور فرمایا وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِکَ مِنْ ہَمَزَاتِ الشَّیَاطِینِ (٩٧) وَأَعُوذُ بِکَ رَبِّ أَنْ یَحْضُرُونِ (٩٨)۔ اور فرمایا ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَۃٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (٣٤) وَمَا یُلَقَّاہَا إِلا الَّذِینَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقَّاہَا إِلا ذُو حَظٍّ عَظِیمٍ (٣٥) وَإِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ (٣٦)۔ ان آیتوں میں اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شیطان سے پناہ مانگنے کی نصیحت کی ہے، کیونکہ جنوں کا شیطان، انسان کا ایسا دشمن ہے جو کسی بھی بھلائی اور احسان کو نہیں مانتا۔ اور ہر وقت اس کے خلاف سازش میں لگا رہتا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح احادیث سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے کہ مسلمان کی زندگی میں اللہ کے ذریعہ شیطان مردود کے شر سے پناہ مانگنے کی بڑی اہمیت ہے۔ ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب رات کو نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے، پھر کہتے۔ سبحانک اللہ ربنا و بحمدک و تبارک اسمک و تعالیٰ جدک ولا الہ غیرک۔ پھر تین بار لا الہ غیرک۔ کہتے، پھر کہتے : اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم من ھمزہ و نفخہ ونفثہ۔ (ابو داود، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ) عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا کرتے تھے۔ اللہم انی اعوذبک من الشیطان الرجیم من نفخہ و نفثہ۔ (ابن ماجہ)۔ معاذ بن جبل (رض) کہتے ہیں کہ دو آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آپس میں گالی گلوچ کیا۔ ان میں کا ایک آدمی اتنا زیادہ غصہ ہوا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا اس کی ناک غصہ سے پھٹ جائے گی۔ آپ نے فرمایا کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں جسے اگر وہ کہے تو اس کا غصہ ختم ہوجائے۔ معاذ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول، وہ کون سا کلمہ ہے۔ تو آپ نے فرمایا، یوں کہے۔ اللہ انی اعوذبک من الشیطان الرجیم۔ الحدیث (احمد، ابو داود ترمذی، نسائی) اسی حدیث کو حافظ ابو یعلی موصلی نے ابی بن کعب سے روایت کی ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے شیطان مردود کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم : عام حالات کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بات کا خاص طور پر حکم دیا ہے کہ جب وہ قرآن کریم کی تلاوت کرنا چاہیں تو پہلے اللہ کے ذریعہ شیطان مردود کے شر سے پناہ مانگ لیں۔ سورۃ النحل میں ہے۔ فاذا قرات القران فاستعذ باللہ من الشیطان الرجیم۔ جب تم قرآن پڑھو تو اللہ کے ذریعہ مردود شیطان سے پناہ مانگ لو۔ اسی آیت کے پیش نظر جمہور علماء کا قول ہے کہ نماز کے علاوہ دیگر حالات میں قراءت قرآن کی ابتدا سے پہلے اعوذ باللہ پڑھنا مستحب ہے۔ حالت نماز کے بارے میں راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ بسم اللہ اور سورۃ فاتحہ کے قبل اعوذ باللہ سری یا جہری طور پر پڑھ لیا جائے، کیونکہ یہ آیت قراءت قرآن کی تمام حالتوں کو شامل ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ کس سورت کی آیت ہے؟ صحابہ کرم نے حضرت عثمان (رض) کے زمانے میں جو مصحف تیار کیا اور جس کی تمام صحابہ کرام نے تائید و توثیق کی، اس مصحف میں سورۃ براءت کے علاوہ تمام سورتوں کی ابتدا میں بسم اللہ لکھی گئی۔ اس مصحف میں کوئی بھی ایسی چیز نہ لکھی گئی جو قرآن کریم کا حصہ نہ تھی، نہ سورتوں کے نام لکھے گئے، نہ ہی آیتوں کی تعداد اور نہ کلمہ آمین۔ تاکہ کوئی شخص۔ اللہ نہ کرے۔ غیر قرآن کو قرآن نہ سمجھ لے۔ اس تمام تر احتیاط کے باوجود بسم اللہ صرف ایک سورت کے علاوہ تمام سورتوں کی ابتدا میں لکھی گئی۔ جن کی تعداد ایک سو تیرہ ہے۔ یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ بسم اللہ، سورۃ نمل کی ایک آیت کا بعض حصہ ہونے کے علاوہ ایک مستقل آیت ہے، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہر سورت کی ابتدا سے پہلے اترا کرتی تھی۔ اور اسی کے ذریعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جان پاتے تھے کہ ایک سورت ختم ہوگئی، اب دوسری سورت کی ابتدا ہونے والی ہے۔ اس کی تائید حضرت ابن عباس (رض) کی روایت سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سورت کی انتہا اور دوسری سورت کی ابتدا اس وقت تک نہیں جانتے تھے جب تک بسم اللہ الرحمن الرحیم نئے سرے سے نازل نہیں ہوتی تھی۔ اس حدیث کو ابو داود اور حاکم نے صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے۔ یہاں تک یہ بات ثابت ہوگئی کہ بسم اللہ قرآن کریم کی ایک آیت ہے۔ اس کے بعد علمائے کرام کا اختلاف رہا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ سورۃ براءت کے علاوہ یہ ہر سورت کی ایک آیت ہے، تو گویا سورۃ فاتحہ کی بھی ایک آیت ہے۔ امام مالک، ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ یہ نہ تو سورۃ فاتحہ کی آیت ہے نہ ہی کسی دوسری سورت کی۔ داود ظاہری کا خیال ہے کہ ہر سورت کی ابتدا میں یہ ایک مستقل آیت ہے، لیکن کسی سورت کا حصہ نہیں ہے۔ بسم اللہ باآواز پڑھی جائے یا آہستہ : اس اختلاف کی وجہ سے جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ کو باآواز بلند پڑھنے کے بارے میں ائمہ کرام کا اختلاف ہوگیا ہے۔ جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سورۃ فاتحہ کی ایک آیت نہیں اور وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک مستقل آیت ہے، کسی سورت کی آیت نہیں، وہ کہتے ہیں کہ جہری نمازوں میں بسم اللہ آہستہ پڑھی جائے گی، اور جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ سورۃ براءت کے علاوہ ہر سورت کی آیت ہے، ان میں امام شافعی اسے جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ اور ہر سورت کے پہلے بآواز بلند پڑھنے کے قائل ہیں۔ ان لوگوں نے ابوہریرہ، ابن عباس، اور ام سلمہ (رض) وغیرہم سے مروی احادیث سے استدلال کیا ہے، جن میں اس بات کی صراحت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورۃ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ بآواز بلند پڑھی۔ (دیکھئے ابن کثیر و فتح القدیر)۔ لیکن خلفائے اربعہ، احمد بن حنبل اور سفیان ثوری وغیرہم کی رائے ہے کہ نماز میں بسم اللہ بآواز بلند نہیں پڑھی جائے گی۔ ان لوگوں نے امام مسلم کی حضرت عائشہ صدیقہ (رض) سے روایت کردہ حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں قراءت، الحمد للہ رب العالمین سے شروع کرتے تھے۔ اسی طرح صحیحین کی حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت کردہ حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، ابوبکر، عمر، اور عثمان (رض) کے پیچھے نماز پڑھی، یہ حضرات ابتدا الحمد للہ رب العالمین سے کرتے تھے۔ چونکہ دونوں ہی قسم کی حدیثیں صحیح ہیں۔ اس لیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بسم اللہ کبھی آہستہ پڑھی اور کبھی بآواز بلند، اور جس صحابی نے جیسا دیکھا ویسا بیان کیا۔ بہتر یہی ہے کہ کبھی آہستہ پڑھی جائے اور کبھی بآواز بلند، تاکہ دونوں قسم کی حدیثوں پر عمل ہوجائے، اور ائمہ کرام کا اجماع بھی ہے کہ چاہے بسم اللہ بآواز بلند پڑھی جائے یا آہستہ، نماز کی صحت میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ بسم اللہ کی فضیلت : قرآن کریم کی کئی آیتوں اور کئی صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی میں بسم اللہ کی بڑی اہمیت ہے۔ اور کوئی بھی کام کرنے سے پہلے بسم اللہ کہنا باعث خیر و برکت اور اللہ کی نصرت و حمایت اور تائید و حفاظت کس سبب ہے۔ مسند احمد کی روایت ہے کہ بسم اللہ کہنے سے شیطان ذلیل ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ مکھی کی مانند حقیر بن جاتا ہے۔ اسی لیے کھانے پینے، جانور ذبح کرنے، بیوی سے مباشرت کرنے، وضو کرنے، اور بیت الخلا میں داخل ہونے سے پہلے اور تمام دوسرے کاموں کے کرنے سے پہلے بسم اللہ کہنا مستحب ہے۔ بسم اللہ کا معنی۔ یعنی ” میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے“ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ آدمی جب کوئی کام شروع کرنا چاہے تو اس کی ابتدا کرتے وقت نیت کرے کہ میں اس کام کی ابتدا اللہ کے نام سے کرتا ہوں۔ ” اللہ“ رب العالمین کا مخصوص نام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اسم اعظم ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی دیگر تمام صفات اسی مخصوص نام کے وصف کے طور پر بیان ہوئی ہیں۔ رب العالمین کے علاوہ دوسروں کے لیے اس نام کا استعمال جائز نہیں۔ ” الرحمن“ اور ” الرحیم“ دونوں اللہ کی صفت ہیں۔ اور رحمت سے ماخوذ ہیں، دونوں میں مبالغۃ پایا جاتا ہے۔ ” الرحمن“ میں ” الرحیم“ سے زیادہ مبالغہ ہے۔ اسی لیے مفسرین نے لکھا ہے کہ ” الرحمن“ رحمت کے تمام اقسام کو عام ہے اور دنیا و آخرت میں تمام مخلوق کو شامل ہے۔ جبکہ ” الرحیم“ مومنین کے لیے خاص ہے۔ اللہ نے فرمایا وکان بالمومنین رحیما۔ الاحزاب :43۔ بعض علمائے تفسیر ” الرحمن“ کو تو ” احسان عام“ کے لیے مانتے ہیں۔ یعنی اللہ کی رحمت اس کی تمام مخلوقات کے لیے عام ہے، لیکن ” الرحیم“ کو مومنین کے لیے خاص نہیں مانتے۔ انہوں نے ان دونوں صفات کی ایک بڑی اچھی توجیہہ بیان کی ہے جو عربی زبان کے مدلول کے بالکل موافق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لفظ ” الرحمن“ سے مراد وہ ذات ہے جس کی نعمتوں کا فیض عام ہے، لیکن یہ فعل عارضی بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ عربی میں اس وزن کے اوصاف فعل کے عارضی ہونے پر دلالت کرتے ہیں اور لفظ ” الرحیم“ دائمی اور مستقل صفت رحمت پر دلالت کرتا ہے۔ اس لیے جب عربی زبان کا سلیقہ رکھنے والا اللہ تعالیٰ کی صفت ” الرحمن“ سنتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ ذات جس کی نعمتوں کا فیض عام ہے۔ لیکن وہ نہیں سمجھتا کہ ” رحمت“ اس کی دائمی صفت ہے۔ اس کے بعد جب وہ ” الرحیم“ ہے تو اسے یقین کامل ہوجاتا ہے کہ ” رحمت“ اس کی دائمی اور ایسی صفت ہے جو اس سے کبھی جدا ہونے والی نہیں (محاسن التنزیل : 2، 6) یہاں ایک اور بات ذکر کردینے کے قابل ہے۔ الرحمن، نام اللہ کے ساتھ خاص ہے، غیر اللہ کے لیے اس نام کا استعمال جائز نہیں نے فرمایا۔ قل ادعوا اللہ او ادعوا الرحمن ایاما تدعوا فلہ الاسماء الحسنی۔ الاسراء : 110۔ جبکہ الرحیم غیر اللہ کی صفت، اس کی حیثیت و کیفیت کے مطابق، بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے۔ بالمومنین رؤوف رحیم۔ یعنی وہ مومنوں کے ساتھ رافت و رحمت کا سلوک کرنے والے ہیں۔ التوبہ : 128)۔ اللہ کے اسماء و صفات پر ایمان لانا ضروری ہے۔ ائمہ سلف کے نزدیک یہ متفق علیہ قاعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات پر اور اس کی صفات پر مرتب شدہ احکام پر ایمان لانا واجب ہے۔ قرآن کریم میں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح احادیث میں اللہ کے جو اسماء و صفات ثابت ہیں۔ ان پر اسی طرح ایمان لانا ضروری ہے جس طرح ثابت ہیں، نہ ان کی کیفیت بیان کی جائے گی اور نہ ہی ان کی تاویل کی جائے گی اور نہ انہیں معطل قرار دیا جائے گا۔ امام مالک (رح) سے جب اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : استواء معلوم ہے، اس کی کیفیت مجہول ہے، اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے، اور اس پر ایمان رکھنا واجب ہے۔ اسی طرح اللہ کی صفات پر جو احکام مرتب ہوتے ہیں ان پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ مثلا ” الرحمن“ اور ” الرحیم“ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں، تو یہ ایمان رکھنا ہوگا کہ اللہ بڑا ہی رحمت والا اور بہت ہی مہربان ہے۔ اسے ہر چیز کا علم ہے۔ یہی قاعدہ تمام صفات الٰہیہ کے بارے میں جاری ہوگا۔ سلفِ صالحین کا یہی طریقہ رہا ہے۔ اور اسی طریقہ کو اختیار کرنے میں ہر بھلائی ہے۔ الفاتحة
2 لفظ حمد کا ترجمہ، تعریف کرنا ہے۔ حمد اور شکر میں فرق یہ ہے کہ حمد صرف زبان سے ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ کسی نعمت کے مقابلہ میں ہو۔ جبکہ شکر زبان، دل اور دیگر اعضاء کے ذریعہ کسی نعمت اور داد و دہش پر ہوتا ہے۔ اور اس پر الف لام، استغراق و شمولیت کا مفہوم پیدا کرنے کے لیے داخل کیا گیا ہے۔ یعنی حمد و ثنا اور تعریف و توصیف کی وہ تمام قسمیں جو آسمان و زمین کے درمیان ہوسکتی ہیں، وہ سب اللہ کے لیے ہیں۔ ابن جریر لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف خود بیان کر کے اپنے بندوں کو تعلیم دی ہے کہ وہ اس کی تعریف بیان کریں۔ امام ابن القیم (رح) نے اپنی کتاب (طریق الہجرتین) میں لکھا ہے کہ ہر اعلی صفت، ہر اچھے نام، ہر عمدہ تعریف، ہر حمد و مدح، ہر تسبیح و تقدیس اور ہر جلال و عزت کی جو کامل ترین اور دائمی اور ابدی شکل ہوسکتی ہے، وہ سب اللہ کے لیے ہے۔ اللہ کی جتنی بھی صفتیں بیان کی جاتی ہیں، جتنے ناموں سے اس کو یاد کیا جاتا ہے، اور جو کچھ بھی اللہ کی بڑائی میں کہا جاتا ہے، وہ سب اللہ کی تعریفیں ہیں اور اس کی حمد و ثنا اور تسبیح و تقدیس ہے۔ اللہ ہر عیب سے پاک ہے، ساری تعریفیں اس کے لیے ہیں، مخلوق کا کوئی فرد اس کی تعریفوں کو شمار نہیں کرسکتا۔ (الرب) کا معنی ہے۔ وہ آقا جس کی اطاعت کی جائے، وہ مالک جو تصرف کلی کا حق رکھتا ہے، وہ ذات برتر و بالا جو مخلوق کی اصلاح احوال کے لیے ہر تصرف کا حق رکھتا ہے۔ الف لام کے اضافہ کے ساتھ الرب صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مخلوق کے لیے اضافت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے مثلا رب الدار، گھر والا، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کہا ہے ارجع الی ربک۔ اپنے آقا کے پاس لوٹ کر جاؤ (یوسف :50)۔ العالمین عالم کی جمع ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عالم کا اطلاق انس و جن اور ملائکہ و شیاطین پر ہوتا ہے۔ بہائم، عالم میں داخل نہیں۔ اللہ تعالیٰ سارے جہان والوں کا آقا و مالک اور ان میں تصرف کرنے والا ہے۔ رب کا ایک معنی مربی بھی کیا گیا ہے، بایں طور کہ وہ تربیۃ سے مشتق ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کا بطور عام اور بطور خاص مدبر و مربی ہے۔ بطور عام مربی اس طرح ہے کہ اس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا، ان کو روزی دی، اور ان امور کی طرف رہنمائی کی جو دنیاوی زندگی کے لیے نافع ہیں اور بطور خاص اپنے اولیاء کا مربی ہے، یعنی ایمان کے ذریعہ ان کی تربیت کرتا ہے، انہیں ایمان کی توفیق دیتا ہے اور صاحب کمال بناتا ہے اور ان رکاوٹوں کو دور کرتا ہے، جو اس کے اور ان اولیاء کے درمیان حائل ہوسکتے ہیں۔ یعنی انہیں ہر خیر کی توفیق دیتا ہے اور ہر شر سے محفوظ رکھتا ہے۔ اور غالباً یہی راز ہے کہ انبیاء کرام کی تمام دعائیں کلمہ الرب سے شروع ہوتی ہیں اس لیے کہ ان کے تمام مطالب اللہ کی ربوبیت خاص کے ضمن میں آتے ہیں۔ اس تمام تر تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ صفت خلق و تدبیر عالم اور صفت کمال بے نیاز و تمام نعمت میں اللہ تعالیٰ منفرد ہے اور آسمان و زمین کی تمام مخلوق ہر اعتبار سے اس کی محتاج ہے۔ الفاتحة
3 ان دونوں صفات الٰہیہ پر کلام بسم اللہ کی تفسیر کے ضمن میں گذر چکا، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ دونوں صفتیں چونکہ اللہ کی رحمت پر دلالت کرتی ہیں اس لیے بندے کے لیے ان میں ایک طرح کی ترغیب ہے۔ جبکہ صفت ربوبیت میں ترہیب و تخوفی ہے۔ اس سورت میں اللہ ترہیب و ترغیب دونوں کو جمع کردیا ہے، تاکہ بندہ اپنے مبود کی اطاعت و بندگی کی طرف زیادہ راغب ہو، اور اس کا اپنی زندی میں زیادہ اہتمام کرے۔ الفاتحة
4 اللہ تعالیٰ جس طرح قیامت کے دن کا مالک ہے اسی طرح وہ دوسرے تمام دنوں کا مالک ہے۔ یہاں قیامت کے دن کا ذکر بالخصوص اس لیے آیا کہ اس دن تمام مخلوقات کی بادشاہت ختم ہوجائے گی۔ تمام شاہانِ دنیا اور ان کی رعایا، تمام آزاد و غلام اور چھوٹے بڑے سب برابر ہوجائیں گے اور صرف ایک اللہ کی ملوکیت و بادشاہت باقی رہے گی، سبھی اس کے جلال و جبروت کے سامنے سرنگوں ہوں گے، اس کی جنت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خائف ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لمن الملک الیوم اللہ الواحد القہار۔ قیامت کے دن اللہ وپچھے گا آج کس کی بادشاہت ہے۔ پھر خود ہی جواب دے گا صرف اللہ کی، جو ایک ہے اور قہار ہے۔ (غافر :16) قیامت کے دن کو یوم الدین اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اعمال کے جزا کا دن ہوگا، جس نے اس دنیا میں جیسا کیا ہوگا اسے اس کا بدلہ مل کر رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یومئذ تعرضون لا تخفی منکم خافیہ، جس دن تم لوگ اللہ کے سامنے پیش کیے جاؤ گے، اس دن تم سے کوئی چیز مخفی نہ رہے گی۔ الحاقہ :18۔ الفاتحة
5 عبادت کا لغوی معنی ہے : ذلت اور خشوع و خضوع۔ شریعت اسلامیہ میں عبادت ہر اس عمل کو کہتے ہیں، جس میں اللہ کے لیے کمال محبت کے ساتھ انتہائی درجہ کا خشوع و خضوع اور خوف شامل ہو۔ استعانت کا مفہوم یہ ہے کہ حصول نفع اور دفع ضرر کے لیے اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ کیا جائے، اس یقین کے ساتھ کہ وہ اسے ضرور پورا کرے گا۔ اس آیت کریمہ میں عبادت و استعانت دونوں کو اللہ کے لیے خاص کیا گیا ہے، اور اللہ علاوہ تمام مخلوقات سے ان کی نفی کی گئی ہے۔ عربی زبان میں اگر مفعول کو فعل پر مقدم کریا جائے تو حصر کا معنی دیتا ہے، یعنی اس فعل کو اسی مفعول کے ساتھ خاص کردیا جاتا ہے، اور دوسروں سے اس کی نفی ہوجاتی ہے، تو گویا آیت کا معنی یہ ہوا، کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرتے، ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور تیرے علاوہ کسی سے مدد نہیں مانگتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ انسان اپنے آپ کو ہر ایک غلامی سے آزاد کر کے ایک اللہ کا بندہ بنا دے، اس کے ساتھ کسی چیز کو عبادت میں شریک نہ کرے، نہ اس جیسی کسی سے محبت کرے، اور نہ اس جیسا کسی سے ڈرے، نہ اس جیسی کسی سے امید رکھے، صرف اسی پر توکل کرے، نذر و نیاز، خشوع خضوع، تذلل و تعظیم اور سجدہ و تقرب سب کا مستحق صرف وہ ہے، جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے۔ لیکن انسان نے ہمیشہ ہی اس تعلیم کو پس پشت ڈالا، اور اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بنایا، غیروں سے مدد مانگی، شرک کے ارتکاب کے لیے بہانے تلاش کیے اور اللہ کے بجائے انبیاء اولیاء، صالحین اور قبروں میں مدفون لوگوں سے مدد مانگی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایمان قوی ہوجاتا ہے، جب ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کو یاد کرتے ہیں کہ اے لوگو ! اس شرک سے بچو، یہ چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ پوشیدہ چیز ہے (مسند احمد) حافظ ابن القیم (رح) فرماتے ہیں کہ بندہ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہر نماز میں ایاک نعبد و ایاک نستعین کہتے۔ اس لیے کہ شیطان اسے شرک کرنے کا حکم دیتا ہے اور نفس انسانی اس کی بات مان کر ہمیشہ غیر اللہ کی طرف ملتفت ہوجاتا ہے، اس لیے بندہ ہر دم محتاج ہے کہ وہ اپنے عقیدہ توحید کو شرک کی آلائشوں سے پاک کرتا رہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ ہم تیری توحید بیان کرتے ہیں، اے ہمارے رب ! اور تجھ ہی سے ڈرتے ہیں، اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں، تیری بندگی کرنے کے لیے اور اپنے تمام امور میں۔ عبادت، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی وقت قابل قبول ہوگی، جب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے مطابق ہو، اور اس سے مقصود اللہ کی رضا ہو۔ توحید کی تین قسمیں : اس سورت میں توحید کی تینوں قسموں کو اختصار کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے۔ 1۔ توحید ربوبیت : رب العالمین سے ماخوذ ہے۔ توحید ربوبیت یہ ہے کہ آسمان و زمین اور اس میں پائی جانے والی تمام مخلوقات کا خالق ورازق اور مالک و مدبر صرف اللہ تعالیٰ ہے 2۔ توحید الوہیت۔ لفظ اللہ اور ایاک نعبد و ایاک نستعین سے ماخوذ ہے، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ عبادت کی جتنی قسمیں ہوسکتی ہیں ان سب کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ 3۔ توحید اسماء و صفات۔ کلمہ، الحمد، سے ماخوذ ہے، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحیح احادیث میں اللہ کے جتنے اسماء و صفات ثابت کیے ہیں، ان کو اسی طرح مانا جائے، نہ ان کا انکار کیا جائے، نہ ان کی مثال بیان کی جائے اور نہ ہی کسی غیر اللہ کے ناموں اور صفات کے سات تشبیہ دی جائے۔ حضرت امام مالک (رح) وسلم سے عرش پر مستوی ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا الاستواء معلوم، والکیف مجہول والسوال عنہ بدعۃ والایمان بہ واجب۔ یعنی استواء معلوم ہے، اس کی کیفیت مجہول ہے، یعنی یہ نہیں معلوم کہ اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کی کیا کیفیت ہے، اور اس کے بارے میں پوچھنا بدعت ہے، یعنی اسلاف کرام کبھی اس کی کرید میں نہ پڑے، اور اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ الفاتحة
6 اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے، اور اس کے لیے کمال خشوع و خضوع اور اپنی انتہائی محتاجی و مسکنت کے اظہار کے بعد، بندے کے لیے اب یہ بات مناسب معلوم ہوئی کہ اپنا سوال اس کے حضور پیش کرے اور کہے کہ اے اللہ ! صراط مستقیم کی طرف میری رہنمائی کر۔ ہدایت کا معنی : رہنمائی اور توفیق ہے اور صراط مستقیم سے مراد : وہ روشن راستہ ہے جس میں کجی نہ ہو، جو اللہ اور اس کی جنت تک پہنچانے والا ہو۔ اور یہ قرآن و سنت کی راہ ہے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ اس سے مراد راہ حق ہے۔ ابو العالیہ سے روایت ہے کہ اس سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے بعد ابوبکر اور عمر (رض) ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ سبھی اقوال صحیح ہیں، اس لیے کہ جس نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کی، اور ان کے بعد ان کے صاحبین کی اقتدا کی، اس نے حق کی اتباع کی، اور جس نے حق کی اتباع کی، اس نے اسلام کی اتباع کی، اور جس نے اسلام کی اتباع کی اس نے قرآن کی اتباع کی، اور یہی قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے، اس کی مضبوط رسی ہے، اور اس کی سیدھی راہ ہے۔ نواس بن سمعان (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم (سیدھی راہ) کی ایک مثال بیان کی ہے، اس راہ کے دونوں جانب دو دیواریں ہیں، ان میں کچھ دروازے کھول دئیے گئے ہیں۔ ان دروازوں پر پردے لٹکا دئیے گئے ہیں، اور سیدھی راہ پر ایک پکارنے والا کہہ رہا ہے۔ اے لوگو سیدھی راہ پر گامزن ہوجاؤ اور اس سے انحراف نہ کرو۔ ایک اور پکارنے والا سیدھی راہ کے اوپر سے پکار رہا ہے، جب کوئی آدمی ان دروازوں میں سے کوئی دروازہ کھولنا چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے، دیکھو اسے نہ کھولو، اگر تم نے اسے کھول دیا، تو اس میں داخل ہوجاؤ گے۔ وہ سیدھی راہ، اسلام، ہے۔ دونوں دیواریں اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں کھولے گئے دروازے اللہ کے حرام کردہ امور ہیں۔ اور سیدھی راہ کے سرے پر موجود پکارنے والا اللہ کی کتاب ہے، اور سیدھی راہ کے اوپر سے پکارنے والا، اللہ کی طرف سے ہر مسلمان کے دل میں موجود خیر کی دعوت دینے والا جذبہ ہے (مسند احمد، ترمذی، نسائی)۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ بندہ مومن ہدایت پر ہونے کے باوجود، اس کا محتاج ہے کہ وہ ہر نماز میں اللہ سے رشد و ہدایت کا سوال کرتا رہے، تاکہ اللہ تعالیٰ اسے صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے اور دوام و استمرار بخشے، اس لیے آیت کا معنی یہ ہوگا کہ اے اللہ ! ہمیں صراط مستقیم پر قائم رکھ، اور اس کے علاوہ کسی اور راہ کی طرف نہ پھیر دے۔ امام راغب اصفہانی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ہدایت کا معنی قول و عمل میں اچھائیوں اور بھلائیوں کی طرف رہنمائی کرنا ہے۔ اور اللہ کی طرف سے اس کا ظہور کئی منازل میں ہوتا ہے جو ایک دوسرے کے بعد بالترتیب حاصل ہوتے ہیں اس کی پہلی منزل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو وہ قوتیں عطا کرتا ہے جن کی بدولت وہ اپنے منافع و مصالح تک پہنچ پاتا ہے، جسے انسان کے حواس خمسہ اور اس کی فکری قوت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی، یعنی اللہ نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر اس کی رہنمائی کی (طہ، 50)۔ اس کی دوسری منزل انبیاء کی بعثت اور دعوت الی اللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، وجعلنا منہم ائمۃ یھدون بامرنا۔ اور ہم نے ان میں اماموں کو پیدا کیا جو ان کی رہنمائی کرتے ہیں (سجدہ :24)۔ تیسری منزل : وہ روشنی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو کثرت عبادت و عمل خیر کے سبب عطا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا۔ اور جو لوگ ہماری راہ میں جدو جہد کرتے ہیں ہم اپنی راہ کی طرف ان کی رہنمائی کرتے ہیں (الانعام :190)۔ چوتھی منزل۔ دخول جنت کو ممکن بنانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا و نزعنا ما فی صدورھہم من غل تجری من تحتہم الانہار وقالوا الحمد للہ ھدانا لہذا۔ یعنی ہم نے ان کے دلوں سے کینہ کو نکال دیا، جنت میں ان کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اور وہ کہیں گے کہ ساری تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اس جنت کی طرف ہماری رہنمائی کی۔ (الاعراف :43)۔ قرآن کریم کی آیات کے تتبع سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت بمعنی دعوت و رہنمائی۔ سب کے لیے عام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وانک لتھدی الی صراط مستقیم۔ اور آپ صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے ہیں (شوری :52)۔ لیکن ہدایت، بمعنی توفیق اور جنت میں داخل کرنا، سب کو نصیب نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : انک لا تہدی من احببت ولکن اللہ یہدی من یشاء، یعنی آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے (قصص :56)۔ ہدایت کے مذکورہ بالا معنی کو مد نظر رکھتے ہوئے مفسرین نے اھدنا الصراط المستقیم کی تفسیر کئی طرح سے کی ہے۔ کسی نے کہا کہ ہدایت سے مراد عام ہدایت ہے، اور ہمیں دعا کا حکم اس لیے دیا گیا ہے، تاکہ ہمارے ثواب میں اضافہ ہو، کسی نے اس کی تفصیر کی۔ ہمیں راہ شریعت پر چلنے کی توفیق دے۔ تیسرا قول یہ ہے۔ گمراہ کرنے والوں، شہوتوں اور شبہات سے بچا، چوتھا قول ہے۔ ہمیں مزید ہدایت دے۔ پانچواں قول ہے : ہمیں علم حقیقی (نور) عطا فرما۔ چھٹا قول ہے : ہمیں جنت دے، اور صحیح بات تو یہ ہے کہ یہاں ہدایت کی یہ تمام قسمیں مراد لی جاسکتی ہیں، کیونکہ ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں۔ وباللہ التوفیق۔ الفاتحة
7 اس میں صراط مستقیم کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ کہ صراط مستقیم سے مراد ان لوگوں کی راہ ہے جن پر اللہ کا انعام ہوا، یہی وہ لوگ ہیں جن کا ذکر سورۃ نساء میں آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَمَنْ یُطِعِ اللَّہَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا : یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان کے ساتھ ہوں گے، جن پر اللہ نے انعام کیا یعنی انبیاء و صدیقین اور شہداء و صالحین کے ساتھ ہوں گے، اور یہ لوگ بڑے ہی اچھے ساتھی ہوں گے۔ یہ لوگ اہل ہدایت و استقامت ہوتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں، اوامر کو بجا لاتے ہیں اور منکرات و منہیات سے باز رہتے ہیں۔ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ۔ اس سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جن کی نیتیں فاسد ہوگئیں، جنہوں نے حق کو پہچان کر اس سے اعراض کیا، ایسے لوگوں میں پیش پیش ہمیشہ یہود رہے۔ جنہوں نے تورات میں موجود دلائل کی روشنی میں اسلام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کا یقین کرلیا، لیکن عداوت عناد کی وجہ سے اسلام قبول نہیں کیا۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے۔ وَلَا الضَّاۗلِّیْنَ۔ اس سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جنہوں نے اسلام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کا علم حاصل نہیں کیا، اور گمراہی میں بھٹکتے رہے۔ ایسے لوگوں میں پیش پیش نصٓری رہے۔ عدی بن حاتم (رض) سے ایک طویل حدیث مروی ہے۔ جس میں انہوں نے اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کیا ہے، اس میں آتا ہے کہ نبی کریم نے فرمایا، ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِم سے مراد یہود اور الضَّاۗلِّیْنَ سے مراد نصاری ہیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ ولا الضالین کی (لا) تاکید کے لیے ہے، سامع کے دل میں یہ بات بٹھانے کے لیے کہ یہاں پر دو الگ الگ پرفساد راستوں کا ذکر ہے۔ ایک یہود کا راستہ اور دوسرا نصاری کا، تاکہ اہل ایمان دونوں راستوں سے بچیں۔ یہود نے حق پہچاننے کے بعد اس کی اتباع نہیں کی، اس لیے اللہ کے غضب کے مستحق بنے۔ اور نصاری نے حق کو پہچانا ہی نہیں، کیونکہ انہوں نے اس راہ کو اختیار ہی نہیں کیا، جس پر چل کر آدمی حق پاتا ہے، اس لیے وہ گمراہ ہوگئے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہود و نصاری سبھی گمراہ ہیں اور ان سب پر اللہ کا غضب ہے، لیکن یہود اللہ کے غضب کے ساتھ، اور نصٓری ضلالت و گمراہی کے ساتھ مشہور ہوگئے۔ ” آمین“ نماز میں سورۃ فاتحہ کے بعد آمین کہنا مستحب ہے، جہری نمازوں میں بآواز بلند اور سری نمازوں میں آہستگی کے ساتھ۔ آمین کا معنی ہے۔ اے اللہ قبول فرما۔ وائل بن حجر (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پڑھا اور اپنی آواز کو کھینچ کر آمین کہی۔ ابو داود کی ایک روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلند آواز سے آمین کہی۔ امام ترمذی کے نزدیک یہ حدیث حسن ہے اور اسی قسم کی روایات علی، ابوہریرہ اور ابن مسعود (رض) وغیرہم سے بھی مروی ہیں۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پڑھتے تو آمین کہتے، یہاں تک کہ صف اول میں ان کے آس پاس کے لوگ سنتے۔ (ابوداود) ابوہریرہ (رض) ہی کی ایک اور روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : جب امام ” آمین“ کہے تو تم بھی کہو، اس لیے کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے گی، اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کردئیے جائیں گے (بخاری و مسلم)۔ ابو موسیٰ اشعری (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ جب امام ولا الضالین کہے تو، آمین کہو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری دعا قبول فرمائے گا۔ (مسلم) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جہری نمازوں میں جب امام سورۃ الفاتحہ ختم کرلے تو تمام مقتدیوں کو بآواز بلند آمین کہنا چاہئے۔ اور اگر سری نماز ہے تو جب نمازی سورۃ الفاتحہ پڑھ لے تو آہستگی کے ساتھ آمین کہہ لے، تاکہ ان حدیثوں پر عمل ہوجائے، اور آمین کہنے کی خیر و برکت حاصل ہو۔ کلمہ ” آمین قرآن کا حصہ نہیں ہے۔ اس لیے مصحف عثمانی میں اسے نہیں لکھا گیا “ الفاتحة
0 1۔ اس سورت کا نام البقرۃ اس مناسبت سے ہے کہ اس کی آیت اور اس کے بعد والی آیتوں میں بقرہ۔ یعنی گائے کا ذکر آیا ہے، قرآن کریم کی تقریبا تمام ہی سورتوں کے نام کے لیے ان سورتوں میں مذکور کسی نام، کلمہ یا ابتدائے سورت میں مذکور حروف مقطعات کا استعمال کیا گیا ہے۔ 2۔ یہ سورت بلا اختلاف مدنی ہے، یعنی پوری سورت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ منورہ میں آنے کے بعد اتری ہے۔ اس لیے کہ اکثر و بیشتر مضامین انہی حالات سے مطابقت رکھتے ہیں جو مسلمانوں کو مدنی زندگی میں پیش آئے، جن کی تفصیل انشاء اللہ آگے آئے گی۔ 3۔ اس سورت کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلہ کی چند چیدہ احادیث کا ذکر یہاں کردیا جائے۔ الف۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنے گھروں کو قبر نہ بناؤ جس گھر میں سورۃ البقرہ پڑھ جاتی ہے، اس میں شیطان داخل نہیں ہوتا (مسند احمد، صحیح مسلم، ترمذی، نسائی) ب۔ عبداللہ بن مسعود (رض) سے موقوفا اور مرفوعاً روایت ہے کہ شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے، جس میں سورۃ البقرہ کی تلات سنتا ہے (مستدرک حاکم، نسائی فی الیوم واللیلہ) ج۔ ابو امامہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے سنا : قرآن پڑھا کرو، اس لیے کہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔ دونوں روشنی پھیلانے والی سورتیں (سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران) پڑھا کرو، دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے دو بادل ہوں، یا چریوں کے دو جھنڈ ہوں، صف باندھے ہوئے، اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے دفاع کر رہی ہوں گی۔ سورۃ البقرہ پڑھو، اس لیے کہ اس کا حاصل کرنا برکت ہوئے، اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے دفاع کر رہی ہوں گی۔ سورۃ البقرہ پڑھو، اس لیے کہ اس کا حاصل کرنا برکت ہے۔ اور اس کا چھوڑ دینا باعث حسرت ہے، اور جادوگر لوگ اس کے پڑھنے والے پر اثر انداز نہیں ہوسکتے ہیں۔ البقرة
1 البقرة
2 قرآن کریم کی انتیس سورتوں کی ابتدا حروف مقطعات سے ہوئی ہے۔ اس کے معنی و مفہوم کے بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف رہا ہے۔ پہلا مشہور مذہب تو یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک راز ہے۔ اس کا معنی کسی کو معلوم نہیں۔ اسی لیے ان حضرات نے اس کی تفسیر بیان نہیں کی ہے۔ دوسرا مذہب ان لوگوں کا ہے جنہوں نے اس کی تفسیر بیان کرنے کی کوشش کی ہے، ان میں سے اکثر لوگوں کی رائے یہ ہے کہ یہ حروف سورتوں کے نام ہیں۔ بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ ان حروف کے ذریعہ بہت سی قرآنی سورتوں کی ابتدا اہل عرب جن کے لیے قرآن کریم ایک چیلنج بنا کر بھیجا گیا کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھانے کے لیے کی گئی کہ یہ قرآن انہی حروف سے مرکب ہے، جن سے تمہاری تقریر و تحریر کے کلمات بنتے ہیں، لیکن تم اس جیسی ایک آیت بھی لانے سے عاجز ہو، کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے، کسی انسان کا نہیں؟ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (رح) نے اوائل سورۃ میں ان حروف کے لائے جانے کی حکمت یہی بیان کی ہے کہ ان کا مقصد قرآن کریم کا اعجاز ثابت کرنا ہے کہ اللہ کی کتاب انہی حروف سے مرکب ہے جن سے تمہاری گفتگو کے کلمات بنتے ہیں، لیکن پھر بھی تم اس جیسا کلام لانے سے عاجز ہو۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ یہ کلام الٰہی ہے !! حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ جن سورتوں کی ابتدا ان حروف سے ہوئی ہے ان میں قرآن کی عظمت اور اس کے اعجازی کلام ہونے پر زور دیا گیا ہے۔ الم ذالک الکتاب لاریب فیہ۔ المص، کتاب انزل الیک فلا یکن فی صدرک ھرف منہ۔ الم تنزیل الکتاب لا ریب فیہ من رب العالمین۔ حم تنزیل من الرحمن الرحیم۔ اور اسی طرح وہ تمام سورتیں جن کی ابتدا حروف مقطعات سے ہوتی ہے، آپ دیکھیں گے کہ ان سب میں قرآن کی عظمت اور اس کے اللہ کا کلام ہونے پر زور دیا گیا ہے۔ کتاب سے مراد قرآن کریم ہے۔ یعنی وہ کتاب عظیم جو حقیقی معنوں میں کتاب ہے، اس لیے کہ اس میں علم و حکمت کے ایسے خزانے اور ایسا کھلا ہوا حق بیان کیا گیا ہے جو اگلی کتابوں میں موجود نہیں۔ کتاب سے مراد قرآن کریم ہے۔ یعنی وہ کتاب عظیم جو حقیقی معنوں میں کتاب ہے، اس لیے کہ اس میں علم و حکمت کے ایسے خزانے اور ایسا کھلا ہوا حق بیان کیا گیا ہے جو اگلی کتابوں میں موجود نہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے اتاری گئی ہے، کیونکہ عرب و بلاغت کی انتہائی بلندی پر پہنچنے کے باجود قرآن جیسی ایک چھوٹی سورت لانے سے عاجز رہے، تو کوئی عقل مند آدمی اس کے اللہ کی کتاب ہونے میں شبہ نہیں کرے گا۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں : متقی ان لوگوں کو کہتے ہیں جو راہ ہدایت پر نہ چلنے کی صورت میں اللہ کے عقاب سے ڈرتے ہیں، اور دین اسلام کی تصدیق اور اس پر چلنے کی صورت میں اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں۔ ابوہریرہ (رض) سے کسی نے تقوی کا معنی پوچھا تو کہا کہ کبھی خار دار راستہ پر چلے ہو، اس نے کہا : ہاں، تو انہوں نے پوچھا کہ تم نے کس طرح راستہ طے کیا؟ اس نے کہا : جب کانٹا دیکھتا تو اس سے الگ ہوجاتا۔ تو انہوں نے کہا یہی تقوی ہے۔ قرآن کریم میں لفظ ھدی کا استعمال دو معنوں میں ہوا ہے : پہلا معنی رہنمائی کرنا اور راہ حق کو واضح کردینا ہے ہے اس اعتبار سے قرآن کریم راہ حق سے بھٹکے ہوئے لوگوں کے لیے ھدی ہے، کہ ان کی حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے، چاہے وہ اس سے فائدہ اٹھائیں یا نہ اٹھائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ واما ثمود فھدیناہم فاستحبوا العمی علی الھدی۔ یعنی ہم نے ثمود کی حق کی طرف رہنمائی کی، لیکن انہوں نے ہدایت کے مقابلے میں گمراہی کو پسند کرلیا۔ دوسرا معنی : بندہ کے دل میں ہدایت قبول کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا اور توفیق دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اولئک الذین ھدی اللہ فبھداہم اقتدہ۔ یعنی یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت (راہ حق پر چلنے کی توفیق) دی، پس آپ انہی کی راہ کی اتباع کریں۔ اس آیت کریمہ میں ہدایت کے دونوں معنی مراد ہیں، اس لیے کہ اہل تقوی کو دونوں ہدایتیں حاصل ہوتی ہیں، قرآن ان کی رہنمائی کرتا ہے، اور اس کے ذریعہ راہ حق پر چلنے کی توفیق بھی انہیں ملتی ہے۔ البقرة
3 یہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے عقائد اور ظاہری اور باطنی اعمال کو بیان کیا ہے جن کو لفظ تقوی شامل ہے، یعنی متقی وہ ہوگا جس کے اندر مندرجہ ذیل اوصاف پائے جائیں گے۔ ایمان سے مراد تصدیق ہے اور غیب سے مراد ہر وہ بات ہے جس کا ادراک انسان کے حواس خمسہ سے نہیں ہوتا، بلکہ اس کا علم وحی اور انبیاء کی تعلیمات کے ذریعہ ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں غیب سے مراد ہر وہ بات ہے جس تک عقل کی رسائی نہیں ہوسکتی اور جس کی خبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دی ہے، جیسے ذات و صفات باری تعالیٰ، فرشتوں کا وجود، عرش و کرسی، لوح و قلم، علامات قیامت، عذاب قبر، نشر و حشر، پل صراط و میزان، جنت و جہنم، اور اسی طرح کے تمام غیبی امور۔ مومن ہر اس بات پر ایمان لاتا ہے جس کی خبر اللہ یا اس کے رسول نے دی ہے، چاہے انسان نے اس کا مشاہدہ کیا ہو یا نہیں۔ اور چاہے اس نے سمجھا ہو یا نہیں، لیکن ملحدین اور غیبی امور کر جھٹلانے والے اس نعمت (ایمان و تصدیق) سے محروم ہوتے ہیں۔ یعنی جب وہ نماز ادا کرتے ہیں تو اس کے تمام ارکان، واجبات اور شروط کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں اور مکمل خشوع و خضوع، اور حضور قلب کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ اور ان سنتوں کو بھی ادا کرتے ہیں جو فرض نمازوں سے پہلے اور بعد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہیں۔ یہی وہ نماز ہے جس کی پابندی کرنے والوں کی اللہ نے قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں تعریف کی ہے۔ والمقیمن الصلاۃ، الذین یقیمون الصلاۃ اور اسی لیے جب منافقین کی نماز کا ذکر آیا تو فویل للمصلین کہا گیا اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نماز پڑھنے والے تو بہت ہیں لیکن اقامت صلاۃ، کی صفت والے تھوڑے ہیں۔ یہاں مال خرچ کرنے کی جتنی واجب اور مستحب صورتیں ہوسکتی ہیں سبھی مراد ہیں۔ لفظ (رزق) سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ مال اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ کوئی اس زعم باطل میں مبتلا نہ ہو کہ اس نے اپنے زور بازو سے حاصل کرلیا۔ اس لیے اس انعام کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے ان رشتہ داروں اور بھائیوں کو نہ بھولا جائے جنہیں اللہ نے اس مال سے محروم رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں صلاۃ و زکاۃ کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے، اس لیے کہ نماز کے ذریعہ اللہ کے لیے اخلاص کا اظہار ہوتا ہے، اور زکاۃ و صدقہ کے ذریعہ اللہ کے بندوں کے ساتھ احسان اور بھلائی کے جذبہ کا اظہار ہوتا ہے۔ آدمی کی نیک بختی اور سعادت اسی میں ہے کہ اپنے معبود حقیقی کے لیے مخلص رہے، اور جب تک ذندہ رہے اس کی مخلوق کو نفع پہنچا نے کی سعی کرتا رہے۔ البقرة
4 10۔ اس سے مراد قرآن و سنت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، وانزل اللہ علیک الکتاب والحکمۃ، یعنی اللہ نے آپ پر قرآن و سنت اتارا ہے، مومنین صادقین ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن و سنت دونوں ہی اللہ کی وحی ہیں، اور جتنی کتابیں اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں، ان تمام پر ایمان رکھتے ہیں، اور اللہ کے اوامر و نواہی کے درمیان تفریق نہیں کرتے کہ جو بات ان کی خواہش و مرضی کے مطابق ہوئی اس پر ایمان لے آئے، اور جو ان کی خواہش کے مطابق نہ ہوئی اس کا انکار کردیا، یا تاویل فاسد کے ذریعہ اس کا معنی و مفہوم بدل دیا۔ 11۔ آخرت سے مراد ہر وہ بات ہے جو موت کے بعد وقوع پذیر ہوگی۔ اس کا ذکر خاص طور پر اس لیے کیا گیا کہ یہ ایمان کا ایک رکن ہے، اور اس لیے بھی کہ آخرت پر یقین آدمی کو عمل صالح پر ابھارتا اور عذاب الٰہی سے ڈراتا ہے۔ البقرة
5 12۔ یہاں (ھدی) سے مراد نور بصیرت، اللہ کے دین پر استقامت، اور عمل صالح کی توفیق ہے، یعنی جو لوگ گذشتہ اوصاف حمید کے ساتھ متصف ہوتے ہیں، انہی کو اللہ نور بصیرت اور دین حق پر چلنے کی توفیق دیتا ہے۔ اور یہی لوگ فلاح و نجات پانے والے ہیں۔ اس لیے کہ اس راہ کے علاوہ تمام راہیں بدبختی، ہلاکت اور تباہی کی راہیں ہیں۔ البقرة
6 13۔ مومنین و متقین کے اوصاف حمیدہ ذکر کرنے کے بعد، ان کافروں کے اوصاف کا بیان شروع ہوا جو کھلم کھلا کافر تھے۔ اور جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کر رکھا تھا، تاکہ معلوم ہوجائے کہ ان کا راستہ تباہی و بربادی کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو سرکش کافروں کے بارے میں اطلاع دی ہے جو گمراہی کی انتہا کو پہنچ گئے تھے حتی کہ کفر ان کی لازمی صفت بن گئی، کہ کوئی وعظ و نصیحت اور کوئی دھمکی ان پر اثر انداز نہ ہوگی۔ آپ ان کے ایمان کی خاطر اتنا زیادہ پریشان نہ ہوں اور اپنی جان ہلاک نہ کریں۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہتے تھے کہ تمام لوگ اسلام میں داخل ہوجائیں، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو خبر دی کہ ایمان وہی لائے گا جس کے لیے نیک بختی لکھ دی گئی ہے، اور جس کے لیے بدبختی لکھ دی گئی ہے وہ گمراہ ہو کر رہے گا۔ البقرة
7 14۔ کافروں کے بارے میں گذشتہ آیت میں جو حکم بیان ہوا ہے کہ وہ ہرگز ایمان نہ لائیں گے۔ اس آیت کریمہ میں اس کی علت بیان کی گئی ہے، اور ان امور کا ذکر ہے جو ان کے لیے ایمان سے مانع تھے۔ کسی چیز پر مہر لگا دینے کا مفہوم ہوتا ہے، اس بات کا یقین کرلینا کہ اب اس کے اندر کوئی چیز باہر سے داخل نہیں ہوسکتی۔ یہی حال کافروں کا ہے کہ کفر و ضلالت پر اصرار، تقلیدِ آباء میں انہماک اور غور وفکر کے صحیح راستوں سے اعراض کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کی ایسی حالت بنا دی کہ وعظ و نصیحت ان پر اثر انداز نہیں ہوتی، اور حق بات اس میں داخل نہیں ہوتی۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہے جو ہر نفع بخش چیز کے دیکھنے سے مانع ہے، دل، کان، اور آنکھ یہی راستے ہیں علم حاصل کرنے کے، جب یہ بند کردئیے گئے، تو ان سے ایمان لانے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔، اور نہ ان سے کسی خیر کی امید کی جاسکتی ہے۔ یہ سب کچھ ان کے کفر اور حق سے عناد کی وجہ سے ہوا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا و نقلب افئدتہم وابصارہم کما لم یومنوا بہ اول مرۃ۔ یعنی اور ہم ان کے دل اور آنکھیں الٹ دیں گے، جیسے پہلی بار نشانی پر ایمان نہیں لائے۔ اللہ کا یہ فوری عذاب تھا اور آخرت میں آگ کا سخت عذاب، اور رب العالمین کی دائمی ناراضگی ان کی قسمت بن جائے گی۔ تفسیر ابو السعود میں ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگانے کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا، اس لیے کہ وجود میں آنے کے اعتبار سے تمام اشیاء کی نسبت اللہ ہی کی طرف ہونی چاہئے۔ اگرچہ اکتساب عمل کے اعتبار سے یہ جو کچھ ہوا، انہی کے کرتوتوں کا نتیجہ تھا، ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی، اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا بل طبع اللہ علیہا بکفرہم کہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی۔ البقرة
8 15۔ سچے مسلمانوں اور کھلم کھلا کافروں کی حالت بیان کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے اب منافقین کی حالت بیان کرنی شروع کی، جو ظاہری طور پر تو مسلمان تھے، لیکن درحقیقت وہ کافر تھے۔ دنیاوی مصالح کی خاطر اسلام کا اعلان کردیا تھا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے، تو اس وقت تین قسم کے لوگ وہاں رہتے تھے۔ اوس و خزرج کے انصار مسلمان، اوس و خزرج کے وہ لوگ جنہوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا تھا اور یہود تین قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے۔ بنو قینقاع (حلفائے خزرج) اور بنو نضیر و بنو قریظہ (حلفائے اوس) رسول اللہ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد اوس و خزرج کے بہت سے عرب اسلام میں داخل ہوگئے اور بہت ہی تھوڑے یہودیوں نے اسلام کو قبول کیا، ابتدائے ایام مدینہ میں منافقین نہیں پائے گئے، کیونکہ اس وقت تک مسلمانوں کا رعب و دبدبہ نہ تھا، بلکہ حالات کے تقاضے کے مطابق نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہودیوں اور بہت سے عرب قبائل سے مصالحت کر رکھی تھی۔ واقعہ بدر کے بعد مسلمانوں کی ہیبت کافروں پر طاری ہونے لگی تو عبداللہ بن ابی بن سلول، جو قبیلہ خزرج کا تھا اور جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد سے پہلے اہل مدینہ اپنا بادشاہ بنانا چاہتے تھے، جب اس نے دیکھا کہ اب تو اسلام غالب ہونے لگا اور مسلمانوں کے قدم جم گئے، تو اس نے اور اس کے ساتھیوں نے دل سے نہ چاہتے ہوئے بھی اسلام میں داخل ہونے کا اعلان کردیا، کچھ یہودیوں نے بھی ایسا ہی کیا، اس طرح منافقین وجود میں آئے، اس کے بعد مدینہ اور آس پاس کے بہت سے دیہاتیوں نے بھی ایسا ہی کیا، اور منافقین کی صفوں میں شامل ہوگئے۔ 16۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے انہی منافقین کی حالت اور ان کے اوصاف بیان کیے ہیں تاکہ مسلمان ان سے دھوکہ نہ کھائیں، اور ان جیسی منافقانہ صفات اپنے اندر پیدا نہ ہونے دیں۔ 17۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تکذیب کی کہ یہ لوگ اپنے دعوی میں جھوٹے ہیں، اس لیے کہ ایمانِ حقیقی یہ ہے کہ زبان سے جو کچھ کہا جا رہا ہے، دل اس کی تصدیق کرے۔ البقرة
9 18۔ یہ تو در حقیقت اللہ اور اس کے مومن بندوں کو دھوکہ دینے کے لیے صرف زبان سے اسلام کا اظہار کر رہے ہیں۔ 19۔ یہ لوگ حقیقت معنوں میں اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں اور یہ عجیب و غریب بات ہے، کیونکہ ہوتا یوں ہے کہ دھوکہ دینے والا یا تو اپنی کوشش میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اس کا مقصد پورا ہوجاتا ہے۔ یا کم از کم کسی نقصان بچا رہتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ کچھ اور ہی طرح کا ہے، وہ اپنے مکر و فریب کے ذریعہ خود اپنے آپ کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کے مکر سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے، اور مسلمانوں کو بھی وہ کیا نقصان پہنچائیں گے اللہ ان کا حامی و ناصر ہے، ان کے مکر وفریب کا وبال تو ان کے سر ہی جائے گا، کہ دنیا میں ذلت و رسوائی، اور مسلمانوں کی نصرت و فتحمندی کے قصے سن سن کر مسلسل غم و ملال، اور آخرت میں (جھوٹ اور کفر و فجور کی وجہ سے) دردناک عذاب کا سامنا ہوگا اور یہ لوگ اپنی جہالت و نادانی میں اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ انہیں اپنی تباہیوں اور بربادیوں کا احساس بھی نہیں۔ البقرة
10 20۔ یہاں ” مرض“ سے مراد شکوک و شبہات اور نفاق کی بیماری ہے، قلبِ انسانی کو دو طرح کے امراض لاحق ہوتے ہیں : شبہاتِ باطلہ کا مرض اور مہلک شہوات کا مرض۔ کفر و نفاق اور شکوک و شبہات کی پہلی قسم سے ہے، اور زنا و فواحش و معاصی سے محبت، دوسری قسم سے۔ اور حقیقی عافیت یہ ہے کہ آدمی دونوں قسم کے امراض سے بچا رہے، تو پھر اسے یقین و ایمان حاصل ہوتا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہاں اہل نفاق کے دل کو قلب مریض سے تعبیر کیا ہے، اسی طرح مومنوں کے دل کو قلب سلیم سے تعبیر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : الا من اتی اللہ بقلب سلیم، یعنی وہ دل جو کفر و نفاق کے مرض سے محفوظ ہے۔ الشعراء : 89) 21۔ یہاں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آدمی اپنے سابقہ گناہوں کی وجہ سے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور عقاب) دوسرے گناہوں میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ واما الذین فی قلوبہم مرض فزادتہم رجسا الی رجسہم، یعنی جن کے دلوں میں گناہ کی گندگی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کے گناہ اور بڑھا دیتا ہے، تو گناہ کی سزا اس کے بعد دوسرا گناہ ہوتا ہے۔ جیسے نیکی کا ثواب دوسری نیکی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ویزید اللہ الذین اھتدوا ھدی۔ یعنی اہل ہدایت کو اللہ مزید ہدایت دیتا ہے مریم :76۔ کفر و نفاق کے مرض میں مبتلا ہونے اور اس پر اصرار کی سزا اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ دی کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی، اب کسی وعظ و نصیحت کا کوئی اثر ان پر نہیں ہوتا، یا یوں کہہ لیجیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کی مسلسل دنیوی اور دینی کامیابیوں کی وجہ سے ان کا حسد و حقد اور کفر و نفاق بڑھتا گیا، اور ان کی حسرتوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ 22۔ دردناک عذاب کا سبب ان کا کذب و نفاق ہے۔ اس میں جھوٹ کی قباحت کی طرف اشارہ ہے، اور اس طرف بھی کہ ایمان باللہ میں نفاق سے بڑھ کر کوئی جھوٹ نہیں۔ البقرة
11 23۔ جب منافقین سے کہا جاتا کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ یعنی کفر و معاصی کا ارتکاب نہ کرو، کافروں کے ساتھ دوستی نہ کرو، مسلمانوں کے بھید ان کے دشمنوں کو نہ دو، اور کافروں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر جنگ کی آگ نہ سلگاؤ، تو کہتے کہ در اصل ہم ہی لوگ تو اصلاح کرنے والے ہیں کہ مسلمانوں اور کافروں کے ساتھ مدارات سے کام لیتے ہیں اور ان کے درمیان اصلاح کرتے ہیں، مسلمان کیا اصلاح کریں گے؟ اس طرح انہوں نے قلب حقیقت سے کام لیا، زمین میں فساد پھیلایا، اور ظاہر کیا کہ ان کا عمل فساد فی الارض نہیں، بلکہ اصلاح بین الناس ہے۔ البقرة
12 24۔ اللہ تعالیٰ نے ان زعم باطل کی تردید کی کہ ان سے بڑھ کر فسادی کون ہوسکتا ہے اور اس سے بڑا فساد اور کیا ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کیا جائے، اس کے دین سے لوگوں کو روکا جائے، اللہ اور اس کے اولیاء کو دھوکہ دیا جائے، اور اس کے دشمنوں سے دوستی کی جائے۔ 25۔ مرض نفاق میں مبتلا ہونے کے سبب حق و باطل کے درمیان تمیز کی حس بھی کھو چکے ہیں، اس لیے زمین میں فساد پھیلانے کو اصلاح سمجھ رہے ہیں۔ زمین میں اصلاح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا جائے، اس کی بندگی کی جائے اس کے خلاف کرنا، زمین میں فساد پھیلانا اور تباہی و بربادی لانا ہے۔ البقرة
13 26۔ نہی عن المنکر یعنی فساد فی الارض سے روکنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے منافقین کے ساتھ امر بالمعروف کا اسلوب اختیار کیا، تاکہ خیر خواہی اور ارشاد و رہنمائی کی ذمہ داری پوری طرح ادا ہوجائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ تم لوگ اپنے ایمان میں وہ خلوص پیدا کرو جو صحابہ کرام کے ایمان میں ہے۔ الناس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے مومنین صادقین ہیں۔ کیونکہ انسانوں کی بہترین صفات اور اعلیٰ اخلاق ان میں پائے جانے کی وجہ سے حقیقت میں وہی لوگ (آدمی) تھے۔ 27۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب انہیں ایمان خالص کی دعوت دیتے، تو وہ لوگ اپنی نجی مجلسوں میں کہتے کہ، کیا ہم ان بے وقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں؟ صحابہ کرام کو سفیہ اور بے وقوف سمجھتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے، اپنا گھر بار چھوڑا اور کافروں سے دشمنی مول لی۔ حالانکہ ان کے نزدیک عقل کا تقاضا اس کے برعکس تھا، اس لیے صحابہ کرام کو کم عقلی اور بے وقوفی کی طرف منسوب کیا، اور اپنے آپ کو دنیا والوں کے سامنے اربابِ عقل و خرد باور کرایا۔ وہ لوگ صحابہ کرام کو اس لیے سفیہ کہتے تھے کہ اس زمانے میں اکثر مسلمان غریب و فقیر، اور منافقین اصحابِ ریاست و ثروت تھے۔ اس لیے یہ لوگ صحابہ کو بطور تحقیر سفیہ کہتے۔ البقرة
14 28۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا راز افشا کیا کہ (چوں بخلوت می بوند آن کار دیگری کنند) یہ لوگ مسلمانوں کے سامنے تو اسلام کا اظہار کرتے ہیں لیکن اپنی مجلسوں میں صحابہ کرام کے بارے میں اپنے گندے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا کہ فی الواقع منافقین ہی کم عقل اور بے وقوف ہیں۔ اس لیے کہ ناسمجھی کی حقیقت یہ ہے کہ ادمی اپنی مصلحت و مضرت میں فرق نہ کرپائے۔ اور یہ صفت ان میں ہی پائی جاتی تھی، نہ کہ صحابہ میں جو اپنے دنیوی اور دینی مصالح کی خاطر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے تھے۔ 29۔ آیت (8) میں منافقین کی زبانی ان کا عقیدہ اور مذہب بیان کیا گیا ہے، اور یہاں ان کے کردار اور گفتار میں تناقض اور تباین کو انہی کی زبانی بیان کیا گیا ہے، کہ جب مسلمانوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں تاکہ مسلم سوسائٹی کے منافع اور مصالح سے مستفید ہوں، اور جب اپنے سرداروں کی مجلسوں میں جاتے ہیں تو انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ہم تو آپ لوگوں کے ساتھ ہیں۔ ہم تو یونہی مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ البقرة
15 30۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ منافقین تم لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کا مذاق اڑائے گا، یعنی ان سے انتقام لے گا، انہیں دنیا میں ذلت و حقارت میں مبتلا کرے گا، اور آخرت میں ان کے ساتھ مذاق یہ ہوگا کہ مومنین جب اپنا نور لے کر چلیں گے تو اچانک منافقین کا نور بجھ جائے گا، اور ظلمت و تاریکی میں بھٹکتے رہ جائیں گے، اس سے بڑھ کر ان کا استہزا اور کیا ہوسکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ینادونہم الم نکن معکم قالوا بلی ولکن کم فتنتم انفسکم و تربصتم وارتبتم۔ یعنی مومنین جب اپنا نور لے کر آگے بڑھ جائیں گے اور منافقین ظلمت میں ٹامک ٹوئیا کھانے لگیں گے، تو وہ ایمان والوں کو پکار پکار کر کہیں گے کہ دنیا میں ہم تمہارے انتظار کرتے تھے، دل سے ہمارے خیر خواہ نہ تھے، اور اللہ اور رسول کی طرف سے تم کو شک ہی رہا۔ الحدید، 14۔ 31۔ یہ بھی منافقین کے ساتھ اللہ کا استہزا ہی ہے کہ انہیں ڈھیل دیتا ہے اور کفر و فجور میں آگے بڑھنے دیتا ہے، دراں حالیکہ وہ حیران و پریشان ہوتے ہیں، اور اس سے باہر نکلنے کا انہیں کوئی راستہ نہیں ملتا۔ البقرة
16 32۔ ان منافقین کی طرف اشارہ ہے جن کے گھناؤنے اوصاف ابھی بھی بیان کیے جا چکے ہیں، اور مقصود ان کی بد عقیدگی اور بدکرداری کی مزید توضیح و تاکید ہے۔ گمراہی اور ضلالت میں بھٹکنے کی ان کی رغبت اس قدر بڑھ گئی جیسے کوئی کسی نفیس سامان کو حاصل کرنے کے لیے اپنا قیمتی مال خرچ کردیتا ہے، انہوں نے اللہ کی طرف سے بھیجی گئی ہدایت دے کر گمراہی کو قبول کرلیا بڑی ہی بری تجارت تھی یہ، اور بڑی ہی بری شے انہوں نے خریدی، اور بڑی ہی قیمتی چیز انہوں نے ضائع کردی۔ 33: جب اللہ نے ان کی تجارت کو گھاٹے اور خسارے والی بتا دیا، تو یہاں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ وہ بدنصیب لوگ تجارت کے اصولوں سے واقف ہی نہ تھے، انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ تجارت کیسے ہوتی ہے؟ یعنی منافقین کے اندر سے یہ صلاحیت ہی مسلوب تھی کہ وہ نفع نقصان، خیر و شر، نور وظلمت اور ہدایت و گمراہی میں تمیز کرپاتے۔ البقرة
17 34: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں، اور اس سے پہلے کی دیگر آسمانی کتابوں میں مثالوں کے ذریعہ بہت سے حقائق واضح کیے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، دیگر انبیاء کرام اور حکمائے عالم کے کلام میں مثالیں بہت ملتی ہیں۔ اس لیے کہ مثالوں کے ذریعہ بہت سے پوشیدہ معانی کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ بہت سے حقائق سے پردہ اٹھ جاتا ہے۔ غائب حاضر بن کر سامنے آجاتا ہے اور دشمن کی قلعی کھل جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ وتلک الامثال نضربہا للناس وما یعقلھا الا العالمین۔ کہ یہ مثالیں ہم لوگوں کو سمجھانے کے لیے بیان کرتے ہیں، اور انہیں علم والے ہی سمجھتے ہیں۔ العنکبوت : 43)۔ 35: منافقین کی حقیقت اور ان کی صفات کو مزید اجاگر کرنے کے لیے، اللہ تعالیٰ نے ان کے نفاق کی ایک اور مثال بیان کی اور بتایا کہ ان منافقین کی مثال اس آدمی کی ہے، جو کسی جنگل میں شدید ظلمت و تاریکی میں پھنس گیا، اسے روشنی کی شدید ضرورت تھی، اس کے پاس کوئی ذریعہ نہ تھا کہ آگ روشن کرتا اور روشنی حاسل کرتا۔ اس نے کسی دوسرے سے چنگاری لے کر آگ روشن کی، جب اس کے ارد گرد کا ماحول روشن ہوگیا، وہ جگہ دیکھی جہاں وہ کھڑا تھا، وہاں کے خطرات اور پھر امن و امان کے اسباب دیکھے، اس آگ سے فائدہ اٹھایا، اس کی آنکھ ٹھنڈی ہوئی، اور اسے یہ خیال ہونے لگا کہ یہ آگ اور یہ روشنی تو اس کے اختیار میں ہے، تو اچانک اللہ نے اس کی آگ بجھا دی، اس کی روشنی چھین لی، اس کی خوشی رخصت ہوگئی، اور گھٹا ٹوپ تاریکی چھا گئی، آگ کی سوزش رہ گئی اور روشنی رخصت ہوگئی، اب وہ تھا اور کئی قسم کی تاریکیاں تھیں جو اسے گھیرے میں لیے ہوئی تھیں، رات کی تاریکی، بادل کی تاریکی، بارش کی تاریکی، اور روشنی جانے کے بعد کی تاریکی، ذرا اندازہ کیجیے کہ ایسے آدمی کا کیا حال ہوگا؟ یہی حال منافقین مدینہ کا بھی تھا انہوں نے مسلمانوں کے ایمان کی آگ سے اپنی آگ روشن کی، ان کے پاس اپنے ایمان کی آگ نہ تھی۔ کچھ دیر اس سے فائدہ اٹھایا، ان کی جانیں محفوظ ہوگئیں، ان کے اموال بچ گئے اور دنیا میں یک گونہ سکون ملا۔ 36: وہ اسی حال میں تھے کہ موت نے انہیں دبوچ لیا، جس جھوٹے نور سے انہیں فائدہ پہنچ رہا تھا وہ کھو گیا، اور غم و حرماں نصیبی اور عذاب نے انہیں آ گھیرا، قبر کی تاریکی، کفر کی تاریکی، نفاق کی تاریکی، مختلف الانواع گناہوں کی تاریکی اور عیاذاً باللہ۔ اس کے بعد جہنم کی آگ کی تاریکی نے ہر طرف سے نہیں گھیرے میں لے لیا۔ اس سے بڑھ کر کیا بد نصیبی ہوسکتی ہے؟ البقرة
18 37: اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں کہا کہ وہ خیر کی باتیں سننے سے بہرے ہیں، انہیں اپنی زبان سے ادا کرنے سے عاجز ہیں، اور نعمت بصیرت سے محروم ہیں، اس لیے اب وہ لوگ حق کی طرف کبھی بھی لوٹ کر نہ آئیں گے۔ البقرة
19 38: اللہ تعالیٰ نے ان کی ایک دوسری مثال دی کہ ان کی مثال آسمان سے ہونے والی بارش کی ہے جس میں تاریکیاں ہوں، کڑک ہو، اور بجلی ہو، جب جب اس بجلی سے ذرا روشنی ہوتی ہے تو وہ چلنے لگتے ہیں، اور جب تاریکی عود کر آتی ہے تو گھبرا کر ٹھہر جاتے ہیں۔ یہی حال منافقین کا تھا کہ جب قرآن کریم میں مذکور اوامر و نواہی اور وعدہ ووعید سنتے، تو مارے ڈر کے، اور رعب و خوف کی وجہ سے اپنی انگلیوں کو کانوں میں ڈال لیتے، جتنا ان کے لیے ممکن ہوتا اتنا قرآن اور اس کی تعلیمات سے اعراض کرتے اور اسے برا جانتے، بالکل اس آدمی کی طرح جو بارش میں کڑک کی وجہ سے، موت کے ڈر سے، اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں میں ٹھونس لیتا ہے وہ سوچتا ہے کہ شاید اس طرح موت کا خطرہ اس سے ٹل جائے گا۔ 39: لیکن منافقین کو کہاں سے نجات مل سکتی ہے، اللہ تعالیٰ انہیں ہر طرف سے اپنے گھیرے میں لیے ہوئے ہے کون اسے عاجز بنا سکتا ہے، کون اس کے قبضہ قدرت سے نکل سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ان کے کرتوتوں کا پورا پورا بدلہ دے کر رہے گا۔ البقرة
20 البقرة
21 41: گذشتہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی عظمت اور اسلام کی حقانیت بیان کرنے کے بعد، یہ بتایا کہ مدینہ منورہ میں بسنے والے لوگ قرآن کریم کے بارے میں تین جماعتوں میں بٹ گئے تھے، مومنین کی جماعت جو قرآن پر ایمان لائی اور اس کے شرائع و احکام کو اپنی زندگی میں نافذ کیا، کافروں کی جماعت جس نے کھلم کھلا قرآن کا انکار کردیا، اور تیسری جماعت منافقین کی جس نے نفاق اور دھوکہ دہی سے کام لیا، اور پھر اللہ نے تینوں جماعتوں کا انجام بتایا۔ اب اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کو خطاب کر کے کہا کہ اے انسانو ! دیکھو، دھوکے میں نہ آؤ اور اپنی تخلیق کے مقصد کو فراموش نہ کرو، کبر و غرور سے کام نہ لو، اور اس اللہ کی بندگی کے لیے جھک جاؤ جس نے تمہیں پیدا کیا ہے، اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تقوی کی راہ ہے اور یہی ذریعہ ہے اللہ کی ناراضگی اور اس کے عذاب سے بچنے کا۔ البقرة
22 42: تمہارے اوپر نعمتوں کی بارش کی، زمین کو تمہارے لیے فرش بنایا، جس پر تم مکان بناتے ہو، کاشت کرتے ہو، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہو، اور آسمان کو تمہارے لیے چھت بنایا، اس میں شمس و قمر اور ستاروں کو بسایا تاکہ وہ تمہیں فائدہ پہنچائیں اور بادل سے پانی برسایا، جس کے ذریعہ مختلف قسم کے پھل پیدا کیے، تاکہ تم انہیں استعمال کرو، ان سے قوت حاصل کرو اور زندہ رہو۔ 43: ان ساری نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ تم اللہ کے ساتھ دوسروں شریک نہ بناؤ، جو تمہاری طرح مخلوق ہیں، اور آسمان و زمین کے درمیان ایک ذرہ کے بھی مالک نہیں ہیں۔ اور تم یہ جانتے بھی ہو کہ اللہ کا کوئی شریک نہیں وہی تنہا پیدا کرنے والا ہے، روزی دینے والا ہے، اور وہی آسمان و زمین کے درمیان سارے امور کی تدبیر کرنے والا ہے صحیحین میں عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت ہے کہ میں نے کہا : یارسول اللہ ! سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بناؤ، حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ اس طرح اس آیت میں تین باتیں جمع ہوگئی ہیں، صرف ایک اللہ کی عبادت کا حکم، اس کے سوا کی عبادت کا انکار، اور توحید ربوبیت کا بیان کہ اللہ کے علاوہ کوئی خالق، رازق اور مدبر نہیں۔ اور یہ کھلی دلیل ہے اس بات کی کہ سارے انسانوں پر صرف اس ذات واحد کی بندگی واجب ہے۔ بہت سے مفسرین نے اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے وجود پر استدلال کیا ہے، کیونکہ جو شخص سفلی اور علوی موجودات و مخلوقات، ان کی شکلوں، رنگوں، مزاجوں اور منافع پر غور کرے گا، اور اس بات پر غور کرے گا کہ اللہ نے انہیں کس مناسب انداز میں اور کیسی مناسب جگہوں پر رکھا ہے تو وہ خالق کے وجود پر ایمان لے آئے گا۔ اس کی قدرت، حکمت، علم اور اس کی عظیم بادشاہت کا یقین اس کے دل و دماغ پر ثبت ہوجائے گا۔ البقرة
23 عقیدہ توحید کو ثابت کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی نبوت کی صداقت پر عقلی دلیل پیش کی ہے، اور کہا ہے کہ اے میرے رسول کی مخالفت کرنے والو، اس دعوت کو رد کرنے والو اور اسے جھوٹا بتانے والو، اگر تمہیں اس باتے میں شبہ ہے کہ واقعی یہ قرآن ہم نے اپنے بندے پر اتارا ہے، تو جان لو کہ وہ تمہاری طرح ایک انسان ہے۔ تم اسے یوم پیدائش سے جانتے ہو کہ نہ وہ لکھتا ہے نہ پڑھتا ہے۔ وہ ایک کتاب لایا اور تمہیں خبر دی کہ یہ اللہ کی کتاب ہے، تو تم نے کہا کہ اس نے خود گھڑا ہے اور اللہ پر افترا پردازی کی ہے۔ اگر بات ویسی ہی ہے جیسا تم کہتے ہو، تو اس کتاب جیسی ایک سورت لے آؤ اور تمہارے جتنے معاون و مددگار ہوں ان سب کی مدد حاصل کرلو، اور یہ تمہارے لیے آسان بھی ہے اس لیے کہ تم لوگ فصاحت و خطابت کے بادشاہ ہو، اور میرے رسول سے تمہاری دشمنی بھی بہت بڑی ہے۔ اور اگر تم نہیں لا سکتے (جیسا کہ تاریخ شاہد ہے کہ چودہ سو سال گذر گئے اور کوئی شخص اس چیلنج کو قبول نہ کرسکا) تو یہ کھلی نشانی اور واضح دلیل ہوگی اس امر کی کہ میرا رسول سچا ہے، اور وہ کتاب سچی ہے جو میں اس پر اتاری ہے، اور تمہارے عجز کا یہ اعتراف اس بات کا متقاضی ہے کہ تم اس کی ابتاع کرو اور اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوگا اور یہ آگ اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ یہ آیت قرآن کریم اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں کی صداقت پر دلیل ہے۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ ہدایت قبول کرنے کی توقع اسی سے کی جاتی ہے جو شبہ میں مبتلا ہو اور حق کو جانا چاہتا ہو، لیکن وہ مخالف جو حق کو جاننے کے باوجود اسے چھوڑ چکا ہو اس سے قبول حق کی توقع نہیں کی جاتی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے لفظ عبد کا استعمال اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی سب سے پہلی صفت یہی تھی، اسی لیے آپ نے اللہ کا حق عبودیت اس طرح ادا کیا کہ دوسرے سے اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔۔ البقرة
24 45: اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ : یعنی جہنم کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ یہ دلیل ہے اس بات کی کہ جنت و جہنم اللہ کی دو مخلوق ہیں۔ اور موجود ہیں۔ جمہور اہل سنت والجماعت کا یہی عقیدہ ہے اور بہت سی صحیح احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ البقرة
25 46: قرآن کریم کا یہ طریقہ ہے کہ ہر ترہیب (ڈرانا) کے بعد ترغیب (رغبت دلانا)، اور ہر خوشخبری کے بعد دھمکی کا ذکر ہوتا ہے، اس لیے جب کفار اور ان کے اعمال و عقاب کا ذکر ہوچکا، تو مناسب تھا کہ اہل ایمان اور ان کے لیے بشارتوں کا ذکر ہوتا۔ آیت میں مخاطب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ہر دور میں ان کے قائم مقام لوگ ہیں۔ 47:۔ یعنی جو لوگ اپنے دل سے اللہ پر ایمان لائے اور ایمان کی تصدیق نیک اعمال کے ذریعہ کی۔ 48: پانی، دودھ، شہد اور شراب کی نہریں۔ 49: جنت کے پھل ناموں میں متشابہ ہوں گے۔ لیکن ان کے مزے مختلف ہوں گے۔ ایک دوسرا قول ہے کہ رنگوں میں متشابہ ہوں گے لیکن ان کے نام مختلف ہوں گے۔ ایک تیسرا قول ہے کہ جنت کے پھل خوبصورتی، لذت اور ذائقہ میں ایک دوسرے کے متشابہ ہوں گے۔ 50: وہ ہر اعتبار سے پاک ہوں گی، ان کے اخلاق، ان کی خلقت، ان کی زبان اور نظر سب کچھ میں طہارت اور پاکیزگی ہوگی، مفسرین نے لکھا ہے کہ حیض، نفاس، منی، پیشاب یا پاخانہ، تھوک، رینٹ اور بدبو سے پاک ہوں گی۔ 51: انتہائے سعادت یہ ہوگی کہ ان تمام گوناگوں نعمتوں کے ساتھ وہان کی زندگی دائمی ہوگی۔ نہ نعمتیں ختم ہوں گی اور موت لاحق ہوگی۔ البقرة
26 52: حافظ ابن کثیر (رح) نے ابن مسعود (رض) وغیرہ کی روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب منافقین کی دو مثالیں بیان کیں، جن کا ذکر اوپر کی آیتوں میں آچکا تو منافقین نے کہا اللہ اس سے برتر و بالا ہے کہ ایسی مثالیں بیان کرتے تو مذکورہ آیت اور اس سے اگلی آیت نازل ہوئیں۔ 53: اللہ تعالیٰ حقیر ترین چیزوں (جیسے مچھر وغیرہ) کی مثال بیان کرنے میں بھی کوئی حیا محسوس نہیں کرتا، ان حکمتوں کے پیش نظر جو ان مثالوں میں ہوتی ہیں۔ چنانچہ اہل ایمان ان پر غور کرتے ہیں اور ان کے علم و ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور اگر ان پر ان کی حکمتیں نہیں بھی واضح ہوتی ہیں تو بھی وہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ مثالیں حق ہیں۔ 54: لیکن اہل کفر و عناد حیرانگی اور تردد میں پڑجاتے ہیں اور ان کے کفر میں اضافہ ہوجاتا ہے، اور کہتے ہیں کہ ایسی مثال بیان کرنے سے اللہ کا کیا مقصد ہے، یعنی انکار کردیتے ہیں۔ 55: منافقین کا جواب دیا ہے اور اور مثالوں کی حکمت بیان کی ہے اللہ تعالیٰ ان مثالوں کے ذریعہ گمراہی میں بھٹکنے والوں کو گمراہ کردیتا ہے اور جن کے اندر ہدایت قبول کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے انہیں مزید ہدایت دیتا ہے۔ 56: یہاں ” فسق“ سے مراد کفر ہے۔ فسق ان کی فطرت ثانیہ بن گئی۔ اس کے بدلے میں کوئی دوسری چیز چاہتے ہی نہیں، اس لیے حکمت الٰہیہ کے تقاضے کے مطابق انہیں گمراہ کردیا گیا، کیونہ ہدایت قبول کرنے کی ان کے اندر صلاحیت باقی ہی نہ رہی البقرة
27 ان اہل فسق کی صفت یہ ہوتی ہے کہ یہ اپنے رب سے اور دوسرے انسانوں سے کیے گئے عہود و مواثیق کی پرواہ نہیں کرتے۔ اللہ کے اوامر کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور نواہی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ایمان اور اظہار عبودیت کے ذریعہ اپنا تعلق اس کے ساتھ استوار کریں، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کریں، وہ اس طرح کہ ان پر ایمان لائیں، ان سے محبت کریں اور ان کی اتباع کریں اسی طرح والدین، خویش و اقارب، دوست و احباب اور تمام بندگان اللہ کے ساتھ حسب مراتب اپنا رشتہ صحیح رکھیں، اور سب کے حقوق ادا کرتے رہیں، اہل ایمان ان حقوق کا خیال رکھتے ہیں اور حتی المقدور ہر رشتے کی حفاظت کرتے ہیں، لیکن اہل فسق تمام ہی رشتوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں، اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ دین حق کا مذاق اڑاتے ہیں اور لوگوں کو ایمان لانے سے روکتے ہیں، در حقیقت یہی لوگ گھاٹا اٹھانے والے ہیں، اس لیے کہ انہوں نے نقص عہد، قطعِ تعلقات اور فساد فی الارض کو اپنا شیوہ بنا لیا۔ البقرة
28 استفہام بمعنی تعجب، انکار اور توبیخ ہے، اور خطاب انہی کافروں کو ہے جن کا ذکر اوپر آچکا ہے، کہ حیرت ہے کہ تم اس اللہ کا انکار کرتے ہو جس نے تمہیں عدم سے پیدا کیا ہے، پھر تمہاری عمریں پوری ہوجانے کے بعد تم پر دوبارہ موت طاری کرے گا، پھر تمہیں قیامت کے دن زندہ کرے گا، پھر اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے تاکہ تمہارے اعمال کا بدلہ تمہیں دے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تم تقوی کی راہ اختیار کرتے، اللہ پر ایمان لاتے، اس کے عذاب سے ڈرتے اور اس کے ثواب کی امید کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود، اپنی قدرت، اور اپنے خالق ہونے پر ایک دوسری دلیل پیش کی ہے کہ جس طرح اس نے تمہیں عدم سے پیدا کیا، پھر تمہیں موت دے گا اور پھر دوبارہ زندہ کرے گا، اسی طرح اس نے تمہارے لیے زمین اور اس میں موجود تمام نعمتیں پیدا کیں اور پھر آسمان کو پیدا کیا۔ البقرة
29 اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت پر اپنی قدرت کاملہ کا ذکر کر کے بعث بعد الموت پر دلیل پیش کیا، پھر اچھوتے انداز میں کائنات کی تخلیق کا ذکر کیا اور کہا کہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ اللہ تو ہر چیز کو جاننے والا ہے، اس لیے وہ ہر چیز کو احسن طریق پر پیدا کرنے پر قادر ہے، اس نے آڈم کو پیدا کیا اور اس علم سے نوازا جس سے اس کی فضیلت ظاہر ہوئی۔ یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی چیزیں پیدا کی ہیں ان کے بارے میں اصل حکم اباحت و طہارت ہے۔ یہاں تک کہ کسی چیز کی حرمت یا ناپاکی کے بارے میں کوئی صریح دلیل نہ آجائے۔ قرآن کریم میں (استوی) تین معنوں میں استعمال ہوا ہے : اگر کسی حرف سے متعدی نہیں ہے تو کمال و تمام کے معنی میں ہوگا، جیسا کہ اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا۔ ولما بلغ اشدہ واستوی۔ اور اگر حرف علی کے ذریعہ متعدی ہے تو علا اور ارتفع کے معنی میں ہوگا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا الرحمن علی العرش استوی۔ اور اگر الی کے ذریعہ متعدی ہے تو (قصد) کے معنی میں ہوگا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے۔ ثم استوی الی السماء۔ یعنی اللہ نے آسمان کی طرف قصد کیا، اور اسے ساتھ آسمان بنایا اور مضبوط و مستحکم کیا، اور وہ آسمان و زمین کے درمیان کی ہر چیز کو جانتا ہے، ہر ظاہر و باطن کا علم رکھتا ہے۔ اس آیت میں دلیل ہے اس بات کی کہ اللہ نے زمین کو آسمان سے پہلے پیدا کیا اور سورۃ نازعات کی آیت والارض بعد ذلک دحاھا اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ نے پہلے زمین کو پیدا کیا پھر آسمان کو پیدا کیا۔ پھر زمین کو پھیلایا اور اس میں درخت اور گھاس وغیرہ اگائے۔ البقرة
30 ٦٥: اس میں بنی آدم پر ایک طرح کے احسان کا ذکر ہے کہ اللہ نے انہیں پیدا کرنے سے قبل فرشتوں کے سامنے ان کا ذکر کیا اور ان کی فضیلت بیان کی۔ ٦٦۔ یعنی ایک ایسی قوم کو پیدا کرنا چاہتا ہوں جس کی ایک نسل دوسری نسل کے بعد آتی رہے گی۔ ٦٧: فرشتوں کی مراد اس سے یہ تھی کہ آدم کی ذریت میں ایسے لوگ ہوں گے جو زمین میں فساد پھیلائیں گے، اللہ نے شاید خاص طور پر انہیں بشر طبیعت کا علم دے دیا تھا، اور اس سوال سے ان کا مقصد تخلیق آدم کی حکمت جاننی تھی، نہ کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر اعتراض۔ ٦٨: میں ان میں انبیاء و رسل پیدا کروں گا، ان میں صدیقین، شہداء، صالحین، عباد، زہاد، اولیاء وابرار، علماء واتقیا ٤ اور اللہ سے خالص محبت کرنے والے پیدا ہوں گے۔ البقرة
31 ٦٩: اجمالی طور پر آدم کی فضیلت بیان کرنے کے بعد، اب اس کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ نیز فرشتوں کے سوال میں اس طرف اشارہ تھا کہ وہ آدم سے افضل ہیں اسی لیے اللہ نے بتانا چاہا کہ آدم اس علم کی بدولت جو اللہ نے انہیں دیا ہے ان سے افضل ہیں اور یہ کہ اللہ ہی حکمتوں کو زیادہ بہتر جانتا ہے۔ اللہ نے تمام چیزوں سے متعلق ضروری علم ان کے اندر ودیعت کردی۔ اور (تمام چیزوں) سے مراد وہ ساری مخلوقات اور وہ سب اشیاء ہیں جو دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ 70: ابن جریر کہتے ہیں کہ ان آیات میں یہود مدینہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ ووسلم پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے وہ اس طرح کہ اللہ نے ان آیات میں اپنے نبی کو وہ باتیں بتائی ہیں جن کا علم بغیر وحی کے ممکن نہیں اور یہ دلیل ہے اس بات کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے اور ان کا دین سچا ہے۔ اس لیے یہود مدینہ کو ان پر ایمان لے آنا چاہیے۔ ٧١: اللہ نے فرشتوں سے ان اشیاء کے نام پوچھے، حالانکہ اللہ جانتا تھا کہ وہ ان کے نام بتانے سے عاجز ہیں۔ اس میں فرشتوں کی ایک طرح سے سرزنش تھی اور اس بات کا مزید اظہار کہ وہ خلیفہ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ البقرة
32 ٧٢: فرشتوں کو اپنی غلطی اور علمی کم مائگی کا احساس ہوا، تو فوراً اللہ کے حضور توبہ کی، اور کہا کہ اے اللہ، ہم تو اتنا ہی علم رکھتے ہیں جتنا تو نے ہمیں عطا فرمایا ہے۔ البقرة
33 ٧٣: تمام غیبی امور کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے، اسی حقیقت کو یہاں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کے تمام غیبی امور کو جانتا ہے، انہی غیبی امور میں سے اللہ کا یہ علم بھی تھا کہ آدم (علیہ السلام) تمام اشیاء کا نام بتا دیں گے اور فرشتے عاجز رہیں گے۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی آگئی کہ آدم اور اس کی ذریعت میں خلیفۃ الارض بننے کے جن اسباب و مبررات کو اللہ جانتا ہے وہ فرشتے نہیں جان سکتے، اور اس کا مشاہدہ بھی ہوگیا کہ آدم نے تمام چیزوں کے نام بتا دئیے جبکہ فرشتے عاجز رہے۔ ٧٤: جب آدم (علیہ السلام) نے تمام اشیاء کے نام بتا دئیے، اور ان کی فضیلت فرشتوں پر ثابت ہوگئی، تو اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں۔ اس سجدہ سے مقصود آدم کی تعظیم، اور فرشتوں کی طرف سے ایک طرح کا اعتذار تھا اس بات پر جو انہوں نے آدم کے بارے میں کہی تھی۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے آدم کی انتہائے تکریم تھی۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (رح) فرماتے ہیں کہ : فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا تھا اور ایسا اللہ کے حکم سے کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسجدو الادم کہا، الی آدم نہیں کہا اور ہر حرف کا ایک معنی ہوتا ہے، یعنی آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا، آدم کی طرف رخ کر کے، اللہ کے لیے سجدہ کا حکم نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لا تسجدوا للشمس ولا للقمر واسجدوا للہ، یعنی شمس وقمر کو سجدہ نہ کرو بلکہ اللہ کو سجدہ کرو۔ فصلت : ٣٧۔ آگے چل کر لکھتے ہیں : سجدہ ایک تشریع ہے، اس کے بارے میں اللہ کے حکم کی اتباع کی جائے گی۔ اگر اللہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ اس کی کسی مخلوق کو سجدہ کریں تو ہم اس کے حکم کی اتباع کریں گے اور اس مخلوق کو سجدہ کریں گے۔ معلوم ہوا کہ فرشتوں کا آدم کو سجدہ کرنا اللہ کی بندگی اور اطاعت تھی۔ اور وہ آدم کے لیے تعظیم وتکریم کا اظہار تھا۔ البقرة
34 ٧٥: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فرشتوں سے مراد وہی فرشتے ہیں جو ابلیس کے ساتھ زمین میں تھے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (رح) کہتے ہیں کہ یہ مسلمانوں اور یہود و نصاری کا قول نہیں ہوسکتا۔ عام اہل علم کا یہ خیال ہے کہ یہاں تمام فرشتے مراد ہیں۔ جو اس کے خلاف اعتقاد رکھتا ہے وہ قرآن کا انکار کرتا ہے۔ اللہ نے تو فرمایا : فسجد الملائکۃ کلہم اجمعون یعنی تمام فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا (دیکھئتے محاسن التنزیل للقاسمی) ٧٦: ابلیس کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے کہ وہ فرشتوں میں سے تھا یا نہیں بعض کہتے ہیں کہ وہ فرشتوں میں سے تھا اور بعض کا خیال ہے کہ جنوں میں سے تھا، دونوں ہی جماعتوں نے قرآن کریم سے دلیل پیش کی ہے۔ صاحب کشاف کہتے ہیں کہ ابلیس تھا تو جنوں میں سے، اور سجدے کا حکم فرشتوں کو دیا گیا تھا، لیکن چونکہ ابلیس فرشتوں کے ساتھ رہتا تھا، انہی کی طرح اللہ کی عبادت کرتا تھا، اس لیے جب اللہ نے فرشتوں کو سجدے کا حکم دیا تو یہ حکم ابلیس کو بھی شامل تھا۔ حافظ ابن القیم (رح) کہتے ہیں کہ دونوں اقوال در اصل ایک قول ہے، اس لیے کہ ابلیس صورت میں فرشتوں کے جیسا تھا، لیکن اصل و مادہ میں فرشتوں سے مختلف تھا۔ اس لیے کہ اس کی اصل آگ ہے اور فرشتوں کی اصل نور ہے۔ ٧٧: یعنی یہ بات ازل سے اللہ کے علم میں تھی کہ ابلیس ایک دن کافر ہوجائے گا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ سب سے پہلا کافر ابلیس تھا اور اس کا سبب کبر و غرور تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث ہے کہ جس آدمی کے دل میں ذرہ برابر بھی کبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا (صحیح مسلم، کتاب الایمان) البقرة
35 ٧٨: اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا، ان کو عزت دی، اور پھر ان کی بیوی کو ان کی پسلی سے پیدا کیا، تاکہ آم ان کے ذریعے سکون حاصل کریں، اور اللہ نے اپنی نعمت ان پر تمام کردی کہ دونوں کو حکم دیا کہ جنت میں رہیں اور اس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت میں فرمایا ان لک الا تجوع فیہا ولا تعری، وانک لا تظما فیھا ولا تضحی۔ اللہ نے آدم سے کہا کہ جنت میں نہ تمہیں بھوک لگے گی اور نہ تم ننگے ہوگے، نہ تمہیں پیاس لگے گی اور نہ گرمی (طہ : 118، 119) ٧٩: اللہ تعالیٰ نے آڈم کے لیے جنت کی ہر نعمت مباح کردی، سوائے اس درخت کے جس کا کھانا اللہ نے ان کے لیے ممنوع قرار دے دیا، تاکہ ان کے لیے اس ممنوع درخت کو کھانے کا کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔ اور یہ ممانعت اللہ کی طرف سے ان کا امتحان تھا اور اس درخت کے قریب ہونے سے منع کیا، اس سے کھانے کی حرمت میں مبالغہ مقصود ہے کہ اس کے قریب بھی نہ جاؤ۔ قرآن و سنت میں اس درخت کی تعیین نہیں آئی ہے، کسی نے کہا وہ گیہوں کا پودا تھا، کسی نے اسے انگور کا درخت کہا ہے، اور کسی نے انجیر کا، ممکن ہے انہی میں سے کوئی درخت ہو، بہرحال اس کے جان لینے سے سامع کو نہ کوئی مزید نفع پہنچ گا اور نہ اس کے نہ جاننے سے کوئی نقصان۔ اس لیے اس کرید میں نہیں پڑنا چاہیے۔ ٨٠: یہ دلیل ہے اس بات کی کہ آیت میں (نہی) تحریم کے لیے ہے۔ اس لیے کہ ممنوع درخت کو کھانے کا نتیجہ ظلم بتایا گیا ہے اور اس لیے بھی کہ اللہ کے اوامر و نواہی کو استحباب و کراہت پر محمول کرنا بغیر کسی ایسی دلیل کے جائز نہیں جو واضح طور پر بتاتی ہو کہ یہ امر یا نہی استحباب یا کراہت کے لیے ہے۔ البقرة
36 ٨١: شیخ الاسلام تقی الدین ابن تیمیہ (رح) اور متاخرین کی جماعت نے کہا ہے کہ ابلیس نے آڈم کے سامنے قسم کھائی اور متعدد طریقوں سے انہیں یقین دلایا کہ وہ ان کے لیے خیر خواہ ہے۔ اور آدم کو یہ گمان بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ کوئی جھوٹی قسم کھا سکتا ہے، اس لیے دھوکے میں پڑگئے اور گمان کرلیا کہ اگر اس درخت کا پھل کھا لیں گے تو جنت سے نہ نکلیں گے، اور یہ بھی انکے دل میں بات آگئی کہ اگرچہ اس میں یہ خرابی ہے کہ اللہ کی نافرمانی ہو رہی ہے، لیکن فائدہ بہت بڑا ہے کہ ہمیشہ کے لیے جنت کے مقیم ہوجائیں گے اور بعد میں اللہ سے معذرت کرلیں گے اور توبہ کر کے اپنا گناہ معاف کروالیں گے، اسی لیے انہوں نے معصیت کا ارتکاب کرلیا، اور یہی ہر اس مومن کی نیت ہوتی ہے جو شیطان کے پھندے میں آکر گناہ کرتا ہے، وہ سوچتا ہے کہ ابھی یہ گناہ کرلیتا ہوں، پھر توبہ کرلوں گا اور اللہ سے معافی مانگ لوں گا۔ چنانچہ شیطان ان کے پیچھے لگا رہا انہیں طرح طرح سے بہکاتا رہا ان کے دل و دماغ میں یہ بات ڈالتا رہا کہ وہ اس ممنوع درخت کو کھالینے کے بعد ہمیشہ کے لیے جنت میں رہنے لگیں گے اور کبھی اس سے نہ نکلیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا ہے، آیت، وقاسمہما انی لکما لمن الناصحین، اور شیطان نے قسم کھائی کہ میں تم دونوں کا بہت بڑا خیر خواہ ہوں (الاعراف : ٢١) ٨٢:: یہ خطاب آدم، حوا اور شیطان تینوں کو ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خطاب صرف آدم اور حوا کو ہو، کیونکہ وہ دونوں افزائش نسلِ انسانی کا ذریعہ تھے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سب سے بہترین دن جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کیے گئے اور اسی دن جنت میں داخل کیے گئے اور اسی دن وہاں سے نکالے گئے (مسلم، نسائی) ٨٣: یعنی آدم اور ان کی اولاد، ابلیس اور اس کی اولاد کے دشمن ہوں گے، اور معلوم ہے کہ ہر شخص اپنے دشمن کو ہر ممکن طریقے سے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ کوشش کرتا ہے کہ اس کا دشمن ہر نعمت سے محروم ہوجائے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، آیت، ان الشیطان لکم عدو فاتخذوہ عدوا انما یدعو حزبہ لیکونوا من اصحاب السعیر۔ بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے، اس لیے تم اسے دشمن سمجھتے رہو، وہ تو اپنے گروہ والوں کو بلاتا ہے، تاکہ وہ سب جہنمی ہوجائیں (فاطر : ٦) اور دوسری جگہ فرمایا آیت افتتخذونہ وذریتہ اولیاء من دونی وھم لکم عدو بئس للظالمین بدلا، کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کے اپنا دوست بنا رہے ہو، حالانکہ وہ تمہارا دشمن ہے۔ ایسے ظالموں کا برا بدلہ ہے (الکہف : ٥٠) ٨٤: یعنی دنیاوی زندگی ختم ہونے تک زمین پر رہو گے، پھر دار آخرت کی طرف منتقل ہوجاؤ گے جس کے لیے تم پیدا کیے گئے ہو، اور جو تمہارے لیے بنایا گیا ہے۔ اس میں اشارہ ہے اس طرف کہ دنیا کی زندگی عارضی ہے، یہاں انسان کو اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ آخرت کے لیے تیار کرے۔ البقرة
37 ٨٥: وہ کلمات جو اللہ نے آدم کو سکھائے تاکہ ان کے ذریعہ اپنی توبہ کا اعلان کریں، یہ دعا تھی آیت ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخاسرین۔ یعنی اے ہمارے رب ! ہم نے اپنے اوپر بہت ظلم کیا، اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہمارے حال پر رحم نہ کیا تو ہم بے خسارہ پانے والوں میں سے ہوں گے (الاعراف :23) حضرت ابن عباس (رض) (فتلقی ادم من ربہ کلمات) کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ آدم نے کہا : یا رب ! کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے نہیں بنایا؟ اللہ نے کہا : ہاں، آدم نے کہا : اگر میں توبہ کروں اور اپنی حالت درست کرلوں، تو کیا تو مجھے دوبارہ جنت میں لوٹا دے گا؟ اللہ نے کہا : ہاں، (حاکم) ٨٦: یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے دو نام جمع کردئیے ہیں، اس میں توبہ کرنے والے کے لیے ایک طرح کا وعدہ ہے کہ اللہ اس کی توبہ قبول کرے گا اور اس پر مہربان ہوگا۔ البقرة
38 ٨٧: آدم کے زمین پر چلے جانے کا ذکر دوبارہ اس لیے ہوا تاکہ اس کے بعد آنے والا حکم اس پر مرتب ہوسکے، اور یہاں مراد آدم کی اولاد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کی اولاد کو خطاب کر کے کہا کہ تم زمین پر رہو گے، اور ہم تمہاری ہدایت کے لیے کتابیں اتاریں گے اور انبیاء ورسل بھیجیں گے، تو جو لوگ میری بھیجی گئی ہدایت کی اتباع کریں گے، انہیں نہ دنیا میں کسی کھوئی ہوئی چیز کا غم ہوگا اور نہ آخرت میں اپنے انجام کے بارے میں کوئی خوف لاحق ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت میں فرمایا، آیت فمن اتبع ھدای فلا یضل ولا یشق، یعنی جو میری ہدایت کو مانے گا وہ نہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں اسے بدنصیبی لاحق ہوگی (طہ : ١٢٣) اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے، ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا، جہاں وہ لوگ ہمیشہ کے لیے رہیں گے۔ ابو سعید خدری (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اہل جہنم، جنہیں اس میں ہمیشہ کے لیے رہنا ہوگا، وہ لوگ نہ اس میں مریں گے اور نہ زندہ ہی رہیں گے، لیکن کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کو ان کے گناہوں کی وجہ سے آگ میں ڈال دیا جائے گا، پھر ان کو موت لاحق ہوجائے گی، یہاں تک کہ کوئلہ ہوجائیں گے، اس کے بعد ان کے لیے شفاعت کی اجازت دی جائے گی۔ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے، اور یہاں ابن جریر طبری کی روایت کے الفاظ کا ترجمہ درج کیا گیا ہے) (فائدہ)۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ جنت جس سے آدم نکالے گئے تھے زمین پر تھی اور جنت سے نکل کر زمین پر جانے کا مطلب، ایک علاقہ سے دوسرے علاقے میں منتقل ہونا ہے اور اس کے عقلی اور نقلی دلائل پیش کیے ہیں جو قابل قبول نہیں۔ اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ اس جنت سے مراد وہی جنت ہے، جسے اللہ نے اپنے نیک بندوں کے لیے پیدا کیا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (رح) کہتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کا یہی قول ہے اور جو کوئی کہتا ہے کہ وہ جنت زمین پر ہندوستا یا جدہ یا کسی اور جگہ تھی، تو وہ ملحد اور بدعتی ہے۔ کیونکہ قرآن و سنت سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ فائدہ : ابن مسعود، ابن عباس (رض) اور جمہور علماء کا خیال ہے کہ شیطان نے آدم کو براہ راست اور روبرو جا کر بہکایا، اس کی دلیل قرآن کریم کی آیات ہیں جن سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے، شیطان نے آدم سے کہا، آیت یا آدم ھل ادلک علی شجرۃ الخلد، کیا میں تمہیں شجرہ خلد کا پتہ دوں (طہ : ١٢٠)۔ دوسری جگہ کہا آیت مانہاکما ربکما عن ھذہ الشجرۃ الا ان تکونا ملکین او تکونا من الخالدین۔ یعنی اللہ نے تم دونوں کو اس درخت سے اس لیے روکا ہے کہ تم دونوں فرشتے یا اس جنت میں رہنے والے نہ بن جاؤ، الاعرا : ٢٠۔ اور تیسری جگہ قرآن کریم ابلیس کی بات نقل کرتا ہے آیت انی لکما لمن الناصحین کہ میں تم دونوں کا بڑا ہی خیر خواہ ہوں۔ اور یہ باتیں تو روبرو گفتگو میں ہی ہو سکتی ہیں۔ اس لیے یہ خیال صحیح نہیں کہ شیطان نے آدم کے دل میں وسوسہ ڈالا تھا۔ فائہد : مفسرین نے ان آیتوں سے اور انہی جیسی دوسری آیتوں سے استدلال کیا ہے کہ ثواب و عقاب میں جن انسانوں کے مانند ہیں، اور انسانوں میں جس طرح جنتی اور جہنی ہوں گے، اسی طرح جنوں میں بھی ہوں گے کیونکہ اللہ کے اوامر و نواہی دونوں کو شامل ہیں۔ البقرة
39 البقرة
40 ٨٨: گذشتہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی پیدائش کی ابتدا کا ذکر کیا، پھر عام انسانوں کو اپنی بندگی کرنے کی دعوت دی، اس کے بعد اب ان آیتوں میں بطور خاص بنی اسرائیل کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جارہی ہے، کیونکہ وہ مدینہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے رہتے تھے اور زیادہ حقدار تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاتے، کیونکہ تورات کے ذریعہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی صداقت کو خوب جان گئے تھے۔ اس آیت سے لے کر آیت ١٤٢ تک بنی اسرائیل کا ہی ذکر ہے، کہیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نرم لہجہ میں اسلام کی طرف بلایا ہے، ان پر اور ماضی میں ان کے آباء و اجداد پر اپنی نعمتوں کو ذکر کیا ہے، کہیں انہیں ڈرایا ہے، تو کہیں ان کے خلاف حجت قائم کر کے ان کی بد اعمالیوں پر انہیں ڈانٹ پلائی ہے، اور ان کے آباء واجداد کو جو سزائیں ملیں ان کا ذکر کیا ہے۔ اسرائیل، یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے، اس لیے بنی اسرائیل سے مراد اولاد، یعقوب ہے، اللہ تعالیٰ نے یعقوب (علیہ السلام) کا ذکر کر کے ان کی اولاد یعنی یہود کو نیکی کی رغبت دلانی چاہی ہے کہ اے اللہ کے نیک بندے یعقوب کے بیٹو، اپنے باپ کے مانند نیک بنو۔ ٨٩: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو گوناگوں نعمتیں دیں۔ ان کی ہدایت کے لیے بڑے بڑے انبیاء و رسل بھیجے کتابیں نازل کیں، فرعون اور اس کے لشکر سے نجات دی، زمین پر بادشاہت دی، پتھروں سے پانی کے دشمنے جاری کیے اور کھانے کے لیے من و سلوی اتارا، نبی کریم کے زمانے کے یہودیوں کو اللہ نے نصیحت کی کہ وہ اپنے آباء و اجداد پر کیے گئے احسانات کو یاد رکھیں، انہیں فراموش نہ کریں اور دین اسلام میں داخل ہوجائیں، تاکہ ان پر اللہ کا وہ عذاب نہ نازل ہو جو ماضی کے ان اولاد یعقوب پر نازل ہو، جنہوں نے احسان فراموشی کی، اور اللہ کی نعمتوں کو بھول گئے۔ اس لیے انعمت علیکم سے مراد انعمت علی آبائکم ہے۔ یعنی ان نعمتوں کو یاد کرو، جو اللہ نے تمہارے آباء و اجداد کو دیا تھا۔ ٩٠: یہاں دو عہدوں کا ذکر ہے، ایک وہ عہد جو اللہ نے بنی اسرائیل سے لیا، اور دوسرا وہ جو اللہ نے بنی اسرائیل سے کیا۔ بنی اسرائیل سے لیے گئے عہد کا ذکر دوسری آیتوں میں یوں آیا ہے۔ آیت ولقد اخذ اللہ میثاق بنی اسرائیل و بعثنا منہم اثنی عشر نقیبا وقال اللہ انی معکم لئن اقمتم الصلاۃ وآتیتم الزکاۃ وامنتم برسلی و عزرتموہم واقرضتم اللہ قرضا حسنا لاکفرن عنکم سیئاتکم ولا دخلنکم جنات تجری من تحتہا الانہار، اور اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد و پیمان لیا اور انہیں میں سے بارہ سردار ہم نے مقرر کیے اور اللہ نے فرما دیا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نے نماز قائم کی اور زکاۃ ادا کی اور میرے رسولوں پر ایمان لائے اور ان کی مدد کرتے رہے، اور اللہ تعالیٰ کو عمدہ قرض دیتے رہے تو تمہارے گناہوں کو مٹا دوں گا اور تمہیں اس جنگ میں داخل کروں گا جس کے نیچے نہریں جاری ہیں (المائدہ : 12) اس عہد میں یہ بات بھی شامل تھی کہ وہ خاتم الانبیاء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے، جن کی تمام صفات اپنی کتاب تورات میں وہ پڑھ چکے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ان سے عہد کیا تھا کہ اگر انہوں نے اللہ سے کیے گئے عہد و پیمان کو پورا کیا تو اللہ انہیں جنت میں داخل کرے گا۔ البقرة
41 ٩١: ابن جریر نے اس کی تفسیر یوں کی ہے اے بنی اسرائیل کے وہ لوگو جنہوں نے مجھ سے کیے گئے عہد و پیمان کو ضائع کردیا، اور جنہوں نے میرے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلا دیا جن پر ایمان لانے کا عہد میں ان تمام کتابوں میں لیا تھا جو انبیائے بنی اسرائیل پر اتاری گئیں، مجھ سے ڈرو اور دیکھو آگاہ رہو کہ اگر تم لوگوں نے میرے رسول کی اتباع نہ کی اور قرآن کریم پر ایمان نہ لائے تو کہیں تمہیں بھی وہ عذاب نہ لاحق ہوجائے جو تمہارے ان اجداد کو لاحق ہوا جنہوں نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی، اور میرے رسولوں کی تکذیب کی۔ ٩٢: ابن جریر کہتے ہیں کہ اللہ نے انہیں قرآن کی تصدیق کا حکم دیا، اور تبایا کہ قرآن کی تصدیق در اصل تورات کی تصدیق ہے۔ اس لیے کہ اگر انہیں قرآن میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تصدیق اور ان کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے، تو یہی بات انجیل و تورات میں بھی موجودہے، اس لیے اگر وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتاری گئی کتاب کی تصدیق کرتے ہیں، تو گویا تورات کی تصدیق کرتے ہیں، اور اگر اس کی تکذیب کرتے ہیں تو گویا تورات کی تکذیب کرتے ہیں۔ ٩٣: یعنی اہل کتاب میں قرآن کریم کا سب سے اولین انکار کرنے والے نہ بنو، ورنہ کفار مکہ تو قرآن کا پہلے انکار کرچکے تھے، مدینہ منورہ کے یہودی بنی اسرائیل میں پہلے لوگ تھے، جن کو اللہ نے قرآن پر ایمان لانے کی دعوت دی، اور حق تو یہ تھا کہ وہ سب سے پہلے ایمان لاتے، کیونکہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کو پہلے سے تورات کے ذریعہ جانتے تھے، لیکن انہوں نے کفر کی راہ اختیار کی اور قرآن اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پہلے منکر بن گئے۔ ٩٤: یعنی دنیا اور اس کی خواہشات کی خاطر (جو بہت ہی قلیل اور فانی ہیں) قرآن کریم اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار مت کرو، اور مجھ سے ڈرتے رہو، یعنی ایمان لے آؤ، حق کی اتباع کرو اور دنیا کی عارضی نعمتوں کے دھوکے میں نہ پڑو۔ البقرة
42 ٩٥: یہاں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حق وباطل کو خلط ملط کرنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے بارے میں کتمانِ حق سے منع فرمایا ہے، اس لیے کہ ہونا تو یہ چاہئے کہ اہل علم واہل کتاب باطل کی تردید کریں اور حق کو ظاہر کریں، لوگوں کو بتائیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں، تاکہ ہدایت چاہنے والے ہدایت حاصل کریں، گمراہ لوگ حق کی طرف رجوع کریں اور سوسائٹی میں مخالفین حق کے خلاف حجت قائم ہو، کیوں کہ جو لوگ ایسا کریں گے وہی قوموں کے رہنما اور رسلوں کے نائب ہوں گے اور جو حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط کریں گے اور کتمانِ حق سے کام لیں گے، وہ جہنم کی طرف بلانے والے ہوں گے، اس لیے کہ لوگ دینی امور میں علماء کی ہی پیروی کرتے ہیں، اس لیے اے اولادِ یعقوب، تم اپنے لیے دو راہوں میں سے ایک راہ اختیار کرلو۔ البقرة
43 ٩٦: ابن جریر کہتے ہیں کہ اس آیت میں علمائے بنی اسرائیل اور منافقین بنی اسرائیل کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں، نماز پڑھیں، زکاۃ دیں، مسلمانوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوجائیں اور پورے طور پر اللہ کی بندگی اختیار کرلیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ وارکعوا مع الراکعین میں نماز باجماعت ادا کرنے کا حکم ہے اس سے ثابت ہوا کہ نماز باجماعت واجب ہے۔ البقرة
44 ٩٧: بنی اسرائیل کے بارے میں سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ تمہارے اندر ایک اور بہت ہی بری صفت ہے کہ تم لوگوں کو تو ایمان اور بھلائی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، حالانکہ تم تورات پڑھتے ہو جس میں خیانت، ترک خیر اور قول و عمل میں تضاد پر بہت ہی شدید وعید آئی ہے، اس خصلت کی مزید برائی بیان کرنے کے لیے اللہ نے آخر میں کہا کہ کیا تمہارے پاس اتنی بھی عقل نہیں کہ قول وعمل کے تضاد کی برائی کو محسوس کرسکو ! البقرة
45 ٩٨: بنی اسرائیل کو گذشتہ آیتوں میں حب دنیا اور حب مال سے بچنے کی نصیحت کی گئی، جو بغیر صبر و ثبات کے حاصل نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے اللہ نے اس آیت میں انہیں صبر اور نماز کی تلقین کی۔ صبر کے بغیر تو کوئی کار خیر وجود میں نہیں آسکتا۔ اور نماز کا لب لباب اللہ کے حضور دل کا جھکاؤ ہے جو ایمان و عمل کے میدان میں ثبات قدمی کے لیے سب سے بڑی مددگار ہے۔ ٩٩: جن کے دل کے اندر اللہ کے لیے جھکاؤ نہیں ہوتا، ان کے اوپر نماز بہت بھاری ہوتی ہے، اور جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں، نماز میں انہیں سکون ملتا ہے۔ البقرة
46 البقرة
47 100: نعمتوں کی دوبارہ یاد دہانی اس لیے کی گئی ہے تاکہ گذشتہ باتوں کی مزید تاکید کی جا سکے، اور آئندہ آیتوں میں آنے والے وعید شدید کا بنی اسرائیل کے کفرانِ نعمت کے ساتھ ربط پیدا کیا جائے ١٠١: نعمتوں کا بالمعموم ذکر کرنے کے بعد اب ایک خاص نعمت کا ذکر کیا گیا ہے اور خطاب اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے یہود سے ہے، لیکن مراد ان کے آباء واجداد ہیں اور (عالم) سے مراد اس دور کا عالم ہے، اور فضیلت دینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے ان میں رسولوں کو بھیجا، کتابیں اتاریں، اور انہیں بادشاہت عطا کی۔ اس لیے آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اے یہود مدینہ میں نے تمہارے آباء و اجداد کو ان کے دور کے دوسرے لوگوں پر فضیلت دی۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہی معنی مراد لینا ضروری ہے کیونکہ امت محمدیہ ان سے بلاشبہ افضل ہے، جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے آیت کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر وتومنون باللہ ولو امن اھل الکتاب لکان خیرا لہم، یعنی اے مسلمانو ! تم بہترین لوگ ہو جو پیدا کیے گئے ہو، لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو، اور برائیوں سے روکتے ہو، اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا (آل عمران : ١١٠) البقرة
48 ١٠٢: یہاں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو قیامت کے دن سے ڈرایا ہے کہ اگر تم لوگ میرے رسول اور اس پر نازل کردہ کتاب پر ایمان نہ لائے اور اسی حال میں قیامت کے دن ہمارا سامنا ہوا تو نہ کوئی رشتہ دار اس دن کام آئے گا، نہ کسی کی سفارش، اور نہ ہی عذاب سے جان بر ہونے کے لیے کوئی معاوضہ یا رشوت ہی قبول کی جائے گی، اور نہ کوئی تمہاری مدد کے لیے آگے آئے گا۔ ہر تعلق، ہر رشتہ داری اور ہر سفارش بے کار ثابت ہوگی، اس دن فیصلہ صرف اللہ کے اختیار میں ہوگا، اور بروں کو ان کی برائی کا اور اچھوں کو ان کی اچھائی کا دس گنا بدلہ دے گا۔ فائدہ : آیت میں شفاعت کی نفی کافروں کے لیے کی گئی ہے، جیسا کہ اللہ نے دوسری جگہ فرمایا ہے فما تنفعہم شفاعۃ الشافعین، یعنی کافروں کو کسی کی شفاعت کام نہ دے گی، المدثر، ٤٨۔ اور جہنمی کہیں گے فما لنا من شافعین، یعنی کوئی ہماری شفاعت کرنے والا نہیں۔ الشعراء، ١٠٠۔ مومنوں کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت ثابت ہے، یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے، اور قرآن و سنت سے یہی ثابت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنین موحدین کے لیے شفاعت کریں گے، اور اللہ ان کی شفاعت قبول فرمائیں گے۔ البقرة
49 ١٠٣: اب بنی اسرائیل پر اللہ کی نعمتوں کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ یہاں بھی خطاب اگرچہ یہود مدینہ سے ہے، لیکن مراد ان کے آباء و اجداد ہیں، اور آل فرعون سے مراد : فرعون، اس کا لشکر اور اس کے پیرو کار ہیں۔ اس آیت کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ جب یوسف (علیہ السلام) نے کنعان سے اپنے والدین، بھائیوں اور خویش و اقارب کو مصر بلالیا، تو انہیں بادشاہِ مصر کے حکم سے زرخیز زمین دی، ان میں کثرت سے اولاد ہونے لگی۔ یوسف (علیہ السلام) اور عزیز مصر کے انتقال کے بعد ان کی وقعت تو گھٹ گئی، لیکن افزائش نسل ہوتی رہی۔ آخر کار مصر کا ایک ایسا بادشاہ ہو جوا اسرائیلیوں کی کثرت دیکھ کر ڈر گیا اور اپنی قوم سے کہا کہ بنی اسرائیل ہم سے تعداد میں زیادہ اور شان و شوکت والے ہوگئے، یہ تمہارے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ہمیں ہماری سرزمین سے بے دخل کردیں، اس لیے اس نے حکم دیا کہ انہیں سخت سے سخت کاموں میں لگا دیا جائے۔ اور قرآن کریم کے ذکر کردہ واقعے کے مطابق اس نے ایک خواب دیکھا جس کی تاویل اسے یہ بتائی گئی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جس کے ذریعہ اس کی حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا، اس لیے اس نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے ہر لڑ کے کو ذبح کردیا جائے، بنی اسرائیل ان پر یشانیوں سے گذرتے رہے، یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے اور انہیں فرعون کے عذاب سے نجات دلایا۔ البقرة
50 ١٠٤: نجات دینے کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے، کہ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے اپنی قوم کو لے کر رات کے وقت بحر قلزم کی طرف چل پڑے، فرعون نے ان کا پیچھا کیا اور اللہ کے فیسلہ کے مطابق بحرقلزم کے کنارے پر مڈبھیڑ ہوگئی، موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے اپنی لاتھی پانی پر ماری، پانی دو طرف ہوگیا، موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو لے کر چل پڑے اور پیچھے فرعون اور اس کا لشکر بھی، موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے ساتھ دوسرے کنارے پر پہنچ گئے، اور فرعون اپنے لشکر کے ساتھ جب بیچ میں پہنچا تو پانی نے ہر طرف سے آگھیر اور سبھی اس میں غرق ہوگئے۔ ابن عباس (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ آئے تو دیکھا کہ یہود محرم کی دس تاریخ کو روزہ رکھتے ہیں، آپ نے ان سے پوچھا کہ یہ کیسا روزہ ہے، تو انہوں نے کہا کہ آج ہی کے دن اللہ نے موسیٰ اور بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تھی، اس لیے موسیٰ نے اللہ کے شکر کے طور پر روزہ رکھا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں موسیٰ کا تم سے زیادہ حقدار ہوں، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم دیا (بخاری، مسلم، نسائی، ابن ماجہ) البقرة
51 البقرة
52 ١٠٥: فرعون اور اس کے پیروکاروں کی ہلاکت کے بعد، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جبلِ طور پر تورات عطا کرنے کے لیے بلایا، موسیٰ (علیہ السلام) وہاں چالیس دن چالیس رات رہے۔ مدت ختم ہونے کے بعد اللہ نے انہیں تورات دی، اس اثنا میں بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی، ان آیتوں میں انہیں یاد دلایا گیا ہے کہ ان کے اس جرم عظیم کو اللہ نے معاف کردیا کہ شاید وہ بطور شکر اس کی طرف رجوع کریں۔ البقرة
53 ١٠٦: اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے تورات دی یہ اللہ کی عظیم نعمت تھی، یہاں اسی نعت کی یاد دہانی ہے، تاکہ اس میں موجود بشارت کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لا کر اور دین اسلام پر عمل کر کے گمراہی سے نجات حاصل کریں۔ آیت میں (کتاب) سے مراد یا تو تورات ہے جس کی ایک اہم صفت فرقان ہے، یعنی وہ حق و باطل کے درمیان فرق کرتی ہے، یا کتاب سے مراد تورات اور فرقان سے مراد وہ معجزات ہیں جو اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کفر و ایمان کے درمیان تفریق کرنے کے لیے دئیے تھے۔ البقرة
54 ١٠٧: گذشتہ آیتوں میں جس عفو و مغفرت کا ذکر ہوا اس کی تفصیل یہاں بیان کی گئی ہے۔ حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا کہ ہمارے اس گناہ کی توبہ کیا ہے۔ تو موسیٰ نے کہا تم میں کا بعض بعض کو قتل کرے۔ چنانچہ انہوں نے چھریاں لے کر ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب ستر ہزار آدمی قتل ہوگئے تو اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی اطلاع دی کہ انہیں حکم دو کہ اب قتل کرنا بند کردیں، جو قتل ہوگئے انہیں معاف کردیا گیا، اور جو باقی رہ گئے ان کی توبہ قبول کرلی گئی۔ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ لاوی بن یعقوب کی اولاد نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی تھی، انہیں حکم دیا گیا کہ وہ ان لوگوں کو قتل کریں جنہوں نے بچھڑے کی پرستش کی تھی، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے سب کی توبہ قبول کرلی۔ یہی رائے راجح معلوم ہوتی ہے، اس لیے کہ موحدین نے مشرکین کو اللہ کے حکم سے قتل کیا تھا۔ البقرة
55 ١٠٨: بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ ہم جب تک اللہ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں گے، تم پر ایمان نہ لائیں گے۔ بہت سے مفسرین کی یہ رائے ہے کہ یہ وہی ستر آدمی تھے جنہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ساتھ طور پر چلنے کے لیے چنا تھا، اور واپسی میں انہوں نے ر استہ میں یہ مطالبہ کیا تھا، یہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف غایت درجہ کی جرات تھی جس کا خمیازہ ان کو بھگتنا پڑا کہ آسمان سے ایک کڑک والی بجلی اتری جس نے دیکھتے دیکھتے ان کی جان لے لی، لیکن اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ان کو دوبارہ زندہ کردیا، یہ اللہ کا ان پر ایک اور احسان تھا۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھا جاسکتا، لیکن مومنین صادقین آخرت میں اللہ کو دیکھ سکیں گے، جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ البقرة
56 البقرة
57 ١٠٩: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ ان کافر عمالقہ کے خلاف جہاد کریں جو بیت المقدس پر قابض ہیں تو انہوں نے انکار کردیا، اور نہایت پست ہمتی کا ثبوت دیا، اللہ تعالیٰ نے بطور سزا انہیں میدان تیہ میں پھینک دیا، جہاں وہ چالیس سال تک بھٹکتے رہے۔ اس طویل مدت کے بعد یوشع بن نون (علیہ السلام) کے ساتھ وہاں سے نکلے، اور بیت المقدس کو فتح کیا، جب وہ لوگ میدان تیہ میں زندگی گذار رہے تھے تو اللہ نے ایک سفید بادل کو ان کے سروں پر لا کر ٹھہرا دیا تاکہ آفتاب کی تمازت سے بچے رہیں، اور کھانے کے (من و سلوی) دیا۔ من شبنم کی ماند ایک چیز تھی جو آسمان سے اترتی تھی اور درختوں اور پتھروں پر جم جاتی تھی، اور مزے میں شہد کی مانند میٹھی تھی، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کماۃ (سانپ کی چھتری)، من کی ایک قسم ہے جسے اللہ نے بنی اسرائیل کے لیے اتارا تھا، سلوی، بٹیر کے مشابہ ایک چڑھیا تھی۔ ١١٠: اللہ تعالیٰ نے تو من و سلوی جیسی نعمتوں کو ان کے لیے حلال بنا دیا تھا تاکہ کھائیں پئیں اور اللہ کی عبادت کریں، لیکن نافرمانی اور سرکشی ان کی سرشت بن چکی تھی، اظہار بے صبری وناراضگی، بے ادبی، شکوہ و شکایت اور اللہ کی ناشکری ان کا شیوہ ہوچکی تھی، اس لیے اللہ کے عذاب کے مستحق بنے البقرة
58 ١١١: بیت المقدس فتح ہوگیا، تو اللہ نے ان سے کہا کہ جب شہر کے دروازے پر پہنچو تو سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو، اور حطۃ کہتے جاؤ، یعنی اے اللہ ہمارے گناہوں کو معاف کردے، لیکن ان ظالموں نے بد باطن ہونے کے سبب سرکشی کی راہ اختیار کی، اور اپنے سرینوں کے بل حطۃ کی بجائے حبۃ فی شعرۃ کہتے ہوئے داخل ہوئے۔ چونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی غایت درجہ اہانت تھی، اس لیے اللہ نے انہیں طاعون میں مبتلا کردیا (بخاری ومسلم) البقرة
59 البقرة
60 ١١٢: یہ واقعہ بھی میدانِ تیہ میں پیش آیا، بنی اسرائیل نے پانی کا مطالبہ کیا، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے دعا کی اللہ نے وحی کی کہ آپ اپنی لاٹھی پتھر پر مارئیے، پانی ابل پڑے گا، موسیٰ نے ایسا ہی کیا، چنانچ بارہوں قبائل بنی اسرائیل کے لیے الگ الگ بارہ چشمے جاری ہوگئے۔ البقرة
61 ١١٣: من و سلوی روزانہ کھا کھا کر جی بھر گیا، تو مصر کے زمانے کی چیزیں یاد آنے لگیں، اور موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ ہمیں تو کھانے کے لیے سبزی، ککڑی، لہسن، پیاز اور دال چاہئے، موسیٰ نے ڈانٹ پلائی، تم کیسے لوگ ہو کہ لذیذ اور پاکیزہ کھانے چھوڑ کر گھٹیاں قسم کے کھانوں کا سوال کرتے ہو، یہ چیزیں تو ہر شہر میں کثرت سے ملتی ہیں، اگر یہی تم کو چاہئے تو کسی شہر میں چلے جاؤ، یہ چیزیں اس قابل نہیں کہ انہیں تمہارے لیے اللہ سے اس چٹیل میدان میں مانگوں۔ جب بنی اسرائیل پر اللہ کی گوناگوں نعمتوں کا ذکر ہوچکا، اور اسی ضمن میں ان کی خباثتوں کا بھی ذکر آیا، تو اللہ نے ان کے کفر اور قتل انبیاء جیسے جرائم کا ذکر کر کے، ان کی تمام بد اعمالیوں کا اخری نتیجہ بیان کردیا کہ اللہ نے ان پر ہمیشہ کے لیے ذلت و مسکنت مسلط کردی، اس لیے وہ دنیا میں جب بھی رہے اور جس سرزمین پر بھی رہے، قوموں نے ان کو ذلیل کیا، اور وہ بذات خود ہمیشہ ذلیل بن کر رہے۔ اگر ان کے پاس دولت بھی آئی تو اس پر ذلت و مسکنت کی چادر پڑی رہی۔ البقرة
62 ١١٤: صابئین سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے یہود و نصاری کا دین چھوڑ دیا تھا، اور فرشتوں کی عبادت کرتے تھے۔ یہاں اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ توبہ کا دروازہ یہود اور غیر یہود سب کے لیے کھلا ہوا ہے، چاہے گناہ ایسے ہوں جو اللہ کے غضب اور ذلت و مسکنت کا سب ہوں جیسے یہود کے گناہ تھے، توبہ کرلینے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے بعد دنیا وآخرت میں انہیں بھی وہی اجر ملے گا جو دیگر مومنوں کو ملے گا۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گذشتہ قوموں میں سے جن لوگوں نے اپنے اپنے زمانے کے نبی کی اتباع کی، ان کو اللہ اچھا بدلہ دے گا، اور یہی حال قیامت تک رہے گا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد سے قیامت تک جتنے لوگ آپ کی اتباع کریں گے، ان کو ابدی سعادت ملے گی اور کسی قسم کا غم و خوف انہیں لاحق نہیں ہوگا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اس آیت کے بعد آیت ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الاخرۃ من الخاسرین۔ نازل ہوئی، یعنی دین اسلام آجانے کے بعد دیگر تمام ادیان منسوخ ہوگئے۔ اور اس آیت میں یہود و نصاریٰ اور صائبین کے لیے جو اجر بتایا گیا ہے وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کے لوگوں کے لیے ہے۔ آپ کے زمانے کے یہود و نصاری اور صابئین میں سے جو لوگ آپ پر ایمان لائے، انہی کو یہ حکم شامل ہوگا، جو لوگ آپ پر ایمان نہیں لائے ان کے لیے یہ وعدہ نہیں ہے۔ البقرة
63 ١١٥: یہود سے اللہ تعالیٰ کے خطاب کا باقی حصہ ہے، اللہ نے جب ان سے تورات اور اس کی تعلیمات کی حفاظت کا عہد و پیمان لینا چاہا تو اپنی قدرت کا مظاہرہ کرنے کے لیے طور پہاڑ کو ان کے سر کے اوپر اٹھا دیا، اور کہا کہ اسے پوری قوت اور مضبوطی کے ساتھ سنبھالو، اور اس کے اوامر و نواہی پر عمل پیرا ہونے کے لیے صبر سے کام لو۔ انہوں نے اس وقت عہد تو کرلیا، لیکن بعد میں اس کا کوئی خیال نہیں رکھا، اور اسے توڑ ڈالا، انجام تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ اللہ کا عذاب ان کو پکڑ لیتا، لیکن اللہ نے ان پر رحم کیا اور ان کی رہنمائی کے لیے انبیاء و رسل بھیجے کہ شاید وہ راہ راست پر آجائیں۔ البقرة
64 البقرة
65 ١١٦: یہاں یہود کی ایک بستی والوں کی بدعہدی اور حیلہ سازی کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہفت کے دن مچھلی کا شکار حرام کردیا تھا۔ اس دن ان کی کی آزمائش کے لیے مچھلیاں زیادہ آتی تھیں۔ انہوں نے حیلہ سے کام لیا، ہفتہ کے دن مچھلیاں آکر ان کے جالوں اور تالابوں میں پھنس جاتی تھیں، بستی والے ہفتہ کے دن گذر جانے کے بعد ان کا شکار کرلیتے۔ اللہ نے انہیں حیلہ سازی اور بدعہدی کی یہ سزا دی کہ ان کی صورتوں کو بندر کی صورت میں بدل دیا۔ یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۃ اعراف آیت ١٦٣ میں مذکور ہے۔ البقرة
66 البقرة
67 ١١٧: بنی اسرائیل کا ایک آدمی قتل کردیا گیا، مقتول کے ورثہ نے قصاص کا مطالبہ کیا، تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ایک گائے ذبح کرو، اور اس کا کوئی ٹکڑا لے کر مردہ کے جسم سے لگاؤ، وہ زندہ ہوجائے گا، اور قاتل کی خبر دے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا، لیکن گائے مل جانے اور اسے ذبح کرنے سے قبل انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کس کس طرح جھٹلایا اور کہا کہ کیا تو ہمارا مذاق اڑا رہا ہے، اور پھر گائے کی صفات کی تفصیل میں اپنی کن کن کج فہمیوں کا ثبوت دیا، یہ ساری تفصیلات یہاں بیان کی گئی ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا احسان یاد دلایا ہے کہ ایک آدمی کے قتل کے بعد تمہارے درمیان اختلاف واقع ہوا تو خرق عادت کے طور پر مذبوح گائے کا ایک ٹکڑا اس مردہ کے جسے سے لگانے سے بول پڑا، اور قاتل کا نام بتا کر پھر مر گیا۔ ١١٨: دوسروں کا مذاق اڑانا نادانوں کی صفت ہے، اسی لیے اللہ کے نبی موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے ذریعہ ایسی صفت سے پناہ مانگی۔ البقرة
68 ١١٩: کج روی اور اللہ کے رسول کو کثرت سوالات کے ذریعہ تنگ کرنا بنی اسرائیل کی فطرت تھی، اس واقعہ میں بھی انہوں نے اپنی کج روی کا ثبوت دیا، اور گائے کی عمر وغیرہ سے متعلق سوال کرنے لگے، اگر خاموشی کے ساتھ کوئی بھی گائے ذبح کردیتے تو کام بن جاتا، لیکن انہوں نے جب اپنے آپ پر سختی کی تو اللہ نے بھی ان پر سختی کی۔ البقرة
69 البقرة
70 البقرة
71 البقرة
72 البقرة
73 ١٢٠: مردہ آدمی ان کی آنکھوں کے سامنے زندہ ہوگیا اور قاتل کا نام بتا دیا، یہ واقعہ اس بات کی کھلی دلیل تھی کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔ البقرة
74 ١٢١: اس چشم دید واقعہ کا تقاضا تھا کہ ان کے دلوں میں نرمی پیدا ہوتی، اور اللہ کی یاد میں مشغول ہوجاتے، لیکن ان کے دلوں کی سختی کی گواہی اللہ نے دے دی کہ وہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہیں اور ان کے دل کی سختی کی مثال پتھر کی سختی سے اس لیے دی کہ پتھر لوہے اور رانگے سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے، کیونکہ لوہا تو آگ میں پگھل جاتا ہے، پتھر نہیں پگھلتا، پھر اللہ نے بتایا کہ پتھر ان کے دلوں سے بہتر ہے، اس لیے کہ بعض پتھر ایسے ہوتے ہیں جن سے نہریں جاری ہوتی ہیں، بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے چشمے جاری ہوجاتے ہیں، اور بعض پتھر تو ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ کے ڈر سے اپنی جگہ سے لڑھکتے ہوئے نیچے آجاتے ہیں۔ البقرة
75 ١٢٢: یہود کے دلوں کی سختی بیان کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خطاب کیا کہ کیا اب بھی تم لوگ امید کرتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے دین میں داخل ہوجائیں گے؟ ان کے آباء و اجداد کی تاریخ یہ ہے کہ تورات کو سنتے تھے، اچھی طرح سمجھتے تھے اور پھر اسے بدل دیتے تھے، حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا دیتے تھے حق کو باطل اور باطل کو حق بتاتے تھے۔ ان کا بھی حال ایسا ہی ہے۔ یہ اپنے آباء واجداد سے کسی طرح کم نہیں ہیں اس لیے ان سے کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ یہ دین اسلام میں داخل ہوجائیں گے۔ البقرة
76 ١٢٣: منافقین اہل کتاب کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ جب وہ مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم لوگ آپ ہی کی طرح مسلمان ہیں، لیکن جب آپس میں مل بیٹھتے ہیں اور کوئی دوسرا نہیں ہوتا تو ایک دوسرے کو تنبیہ کرتے ہیں کہ تم لوگ کیوں مسلمانوں کے سامنے اسلام و ایمان کا اظہار کرتے ہو اور کہتے ہو کہ ہم تو تمہاری طرح ہیں، یہ تو ہمارے خلاف ان کے لیے دلیل بن جاتی ہے، اور کہتے ہیں کہ ان یہودیوں نے اقرار کرلیا کہ ہم لوگ (یعنی مسلمان) جس دین پر ہیں وہ حق ہے، اور وہ لوگ (یعنی یہود) جس دین پر ہیں وہ باطل ہے، اور قیامت کے دن یہی لوگ اللہ کے سامنے ہمارے خلاف گواہی دیں گے اور کہیں گے کہ کیا تم لوگ دنیا میں ہمیں نہیں بتایا کرتے تھے کہ تمہاری کتابوں میں ہمارے دین اسلام اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی گواہی موجود ہے، تو اس دن تمام مخلوق کے سامنے ہماری رسوائی ہوگی۔ البقرة
77 ١٢٤: علمائے یہود کے ذکر کے بعد ان کے عوام کا ذکر ہورہا ہے کہ کفر و ضلالت میں سبھی برابر ہیں، یہ لوگ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے تاکہ خود تورات کا مطالعہ کرتے، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے دلائل کو سمجھتے اور ایمان لاتے، ان کا کل اثاثہ کچھ بے بنیاد تمنائیں تھیں جو انہوں نے اپنے علماء سے پایا تھا، وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ انہیں معاف کردے گا، اس لیے کہ کہ ان کے انبیاء جن کی وہ اولاد ہیں، ان کے لیے اللہ کے یہاں شفاعت کریں گے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر ایسی بے بنیاد تمنائیں ان کے دل و دماغ کی آماجگاہ تھیں جن کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی اور جنہیں محض اپنے علماء کی تقلید میں اپنے ایمان کا حصہ بنا لیا تھا۔ البقرة
78 البقرة
79 ١٢٥: علمائے یہود کے لیے وعید کا ذکر ہورہا ہے جو تورات کی آیات اور اس کے احکام کو دنیا کی حقیر متاع کی خاطر بدل دیتے تھے، اور تحریف کردہ کلام کے بارے میں لوگوں کو باور کراتے تھے کہ یہ اللہ کا کلام ہے، اور اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے ناجائز طور پر لوگوں پر دو قسم کا ظلم کرتے تھے، ان کا دین بدل دیتے تھے، اور ان کا مال بھی ناجائز طور پر کھاجاتے تھے، اسی لیے آیت میں دو بار ان کے لیے ویل کا ذکر آیا ہے، ویل ہے ان کے لیے، اس لیے کہ انہوں نے تورات کو بدلا، اور ویل ہے ان کے لیے اس لیے کہ لوگوں کا مال ناجائز طریقے پر کھا جاتے تھے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) کہتے ہیں کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان یہود علماء کی مذمت کی ہے جو تورات کی آیات کو بدل دیتے تھے لیکن دین اسلام آنے کے بعد ان لوگوں کو بھی شامل ہے جو بدعتوں کو صحیح ثابت کرنے کے لیے قرآن و سنت میں تحریف کرتے ہیں۔ اس میں ان یہود کی مذمت کی گئی ہے جو تورات کا علم نہیں رکھتے تھے صرف ان کے پاس چند بے بنیاد تمنائیں تھیں، اور اب اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو قرآن کریم میں غور وفکر نہیں کرتے صرف حروف کی تلاوت کرتے ہیں، اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو دنیاوی مقاصد حاصل کرنے کے لیے قرآن کریم کے خلاف کوئی دوسری بات اپنے ہاتھ سے لکھ کر لوگوں میں رائج کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی شریعت اور اللہ کا دین ہے، اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جو قرآن و سنت کو چھپاتے ہیں، تاکہ ان کا مخالف حق بات پر ان سے استدلال نہ کرے۔ البقرة
80 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے ایک اور جرم کا ذکر کیا ہے، ان کا دعوی ہے کہ وہ لوگ آخرت میں جہنم میں صرف تھوڑی مدت کے لیے داخل ہوں گے، یعنی اس میں ہمیشہ کے لیے نہیں رہیں گے۔ ابن عباس اور مجاہد کی روایت ہے، یہود کہا کرتے تھے کہ دنیا کی عمر سات ہزار سال ہے، اور ہم لوگ ہر ہزار سال کے مقابل ایک دن کے لیے عذاب میں مبتلا ہوں گے، ابن عباس (رض) کی ایک دوسری روایت ہے کہ یہود کہا کرتے تھے کہ ہم لوگ صرف اتنی ہی مدت عذاب میں مبتلا ہوں گے، جتنی مدت بچھڑے کی عبادت کی تھی، یعنی چالیس دن، پھر عذاب کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس زعم باطل کی تردید کی، اور کہا کہ کیا تم لوگوں نے اللہ سے اس کے لیے کوئی عہد و پیمان لے رکھا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ اللہ پر افترا پردازی ہے۔ البقرة
81 ١٢٧: اس آیت میں ان کے گذشتہ دعوی کی تردید ہے کہ وہ آگ میں ہمیشہ کے لیے نہیں رہیں گے۔ اللہ نے فرمایا کہ جس آدمی کے گناہ اسے ہر چہار جانب سے گھیرے میں لے لیں، حتی کہ اس کے پاس کوئی نیکی باقی نہ رہے تو اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا، جہاں وہ ہمیشہ کے لیے رہے گا، اور یہی حال یہود کا ہے ان کے گناہوں نے بھی انہیں ہر طرف سے گھیر لیا، اس لیے وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے۔ اس آیت کریمہ میں سیئۃ اور خطیئۃ سے مراد شرک اور کفر ہے، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ آیت یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ دوسری دلیل اللہ کا قول واحاطت بہ خطیئتہ ہے، یعنی جس کے گناہوں نے اسے گھیر لیا ہو، اور یہ گناہ شرک ہے، اس لیے کہ مومن و موحد کا گناہ اسے ہر چہار جانب سے احاطہ نہیں کرپاتا، اسی لیے اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ جہنم میں ہمیشہ کے لیے صرف کافرو مشرک ہی رہیں گے، گناہ گار موحدین جہنم سے نکال دئیے جائیں گے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سے یہی ثابت ہے۔ البقرة
82 قرآن کریم کا یہ طریقہ ہے کہ گناہگاروں کے لیے وعید کے بعد نیک لوگوں کو جنت کی خوشخبری دیتا ہے، تاکہ اللہ کا عدل و انصاف ظاہر ہو کہ اگر وہ کفر پر اصرار کرنے والوں کو ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دے گا، تو ایمان پر اصرار کرنے والوں کو ہمیشہ کے لیے جنت اور اس کی بے بہا نعمتوں سے نوازے گا۔ البقرة
83 ١٢٩: یہاں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے یہودیوں کو وہ باتیں یاد دلائی جا رہی ہیں جن کا اللہ نے ان کے آباء واجداد کو حکم دیا تھا، اور جن کے کرنے کے لیے ان سے عہد و پیمان لیا تھا، لیکن وہ ایسی سخت دل قوم تھی کہ اس نے کبھی بھی کسی عہد و پیمان کا خیال نہ رکھا، اور سوائے چند لوگوں کے پوری قوم نے بد عہدی کی۔ ١٣٠: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے اس بات کا عہد لیا تھا کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ دوسروں کو عبادت میں شریک نہ بنائیں گے۔ اور اس بات کا عہد لیا تھا کہ والدین کے ساتھ احسان و اکرام کا سلوک کریں گے اس میں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی خدمت و اطاعت کی تمام صورتیں داخل ہیں۔ اور غایت درجہ کی تاکید پیدا کرنے کے لیے اللہ نے توحید اور شرک سے براءت کا حکم دینے کے بعد، والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کسی کام کا حکم دینا اس کی ضد سے ممانعت کو شامل ہوتا ہے، جب والدین کے ساتھ احسان کا حکم دیا گیا تو گویا اس کی ضد ان کے ساتھ بد سلوکی سے منع کیا گیا جو جرمِ عظیم ہے، اور ان کے ساتھ حسن سلوک چھوڑ دینے سے بھی منع کیا گیا جو حرام ہے اور یہی بات رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں کے بارے میں بھی کہی جائے گی کہ ان کے ساتھ بدسلوکی جرم اور ترک حسن سلوک حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بھی سورۃ نساء میں ایسا ہی حکم دیا ہے، فرمایا وَاعْبُدُوا اللَّہَ وَلا تُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا وَبِالْوَالِدَیْنِ إِحْسَانًا وَبِذِی الْقُرْبَی وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبَی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیلِ وَمَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ إِنَّ اللَّہَ لا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالا فَخُورًا (النساء :36)۔ اور اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں، اور رشتہ دار پڑوسی، اور اجنبی پڑوسی کے ساتھ، اور پہلو سے لگے ہوئے دوست، اور مسافر، اور غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ، بے شک اللہ اکڑنے والے اور بڑا بننے والے کو پسند نہیں کرات۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امت اسلامیہ نے ان عہود و مواثیق کا دوسری امتوں کے مقابلے میں زیادہ خیال کیا، صحیحین میں عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت ہے، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ کون سا عمل سب سے بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا : وقت پر نماز ادا کرنا، میں نے پوچھا پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا : والدین کے ساتھ حسن سلوک، میں نے پوچھا پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ ایک دوسری صحیح حدیث میں ہے، ایک آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ میں کس کے ساتھ حسن سلوک کرو؟ تو آپ نے فرمایا : اپنی ماں کے ساتھ، کہا : پھر کس کے ساتھ؟ آپ نے فرمایا : اپنی ماں کے ساتھ، کہا : پھر کس کے ساتھ؟ آپ نے فرمایا : اپنے باپ کے ساتھ، پھر بالترتیب جو تمہارے قریبی رشتہ دار ہوں۔ ١٣١: یتیم اسے کہتے ہیں جس کا باپ بلوغت سے پہلے مر چکا ہو، آیت میں یتیم کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا گیا ہے، اور یہ شرط نہیں لگائی گئی ہے کہ وہ فقیر و محتاج ہو، معلوم ہوا کہ اس میں ہر یتیم داخل ہے، (مسکین) سے مراد وہ ہے جو کسب معاش سے عاجز ہو۔ ١٣٢: لوگوں کے ساتھ اچھی بات کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ امام حسن بصری کہتے ہیں کہ اس میں لوگوں کو اچھائی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا بدرجہ اولی شامل ہے، کلمہ (الناس) سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس حکم میں سبھی لوگ حتی کہ کفار بھی شریک ہیں۔ اگر مخاطب مسلمان ہے تو اسے سلام کیا جائے اور ہنستے چہرے کے ساتھ بات کی جائے اور اگر کافر ہے تب بھی اس کے ساتھ اچھے انداز میں گفتگو کی جائے، کیونکہ مسلمان بد زبان، گالی گلوچ دینے والا اور جھگڑا لو نہیں ہوتا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے، چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی حقیر نہ جانو، چاہے نیکی یہی ہو کہ تم اپنے بھائی کے ساتھ مسکراتے چہرے کے ساتھ ملو، (مسلم، ترمذی) ١٣٣: بنی اسرائیل نے نقض عہد کیا اور مذکورہ اعمالِ صالحہ کی ادائیگی میں ناکام رہے، سوئے چند لوگوں کے جنہوں نے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کی، جیسے عبداللہ بن سلام اور ان کے وہ ساتھی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے تھے۔ اس میں غالبا اس حکمت کا بیان بھی مقصود ہے کہ کسی قوم میں چند صالح افراد کا وجود عذاب الٰہی سے مانع نہیں ہوتا۔ ١٣٤: یہود کی بری عادت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ کی اطاعت سے اعراض اور اس سے کیے گئے عہد و پیمان کو توڑنا ان کی سرشت میں داخل ہے البقرة
84 ١٣٥: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے تورات میں یہ عہد لیا تھا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہیں کریں گے، گھروں سے نہ نکالیں گے، اور غلام نہ بنائیں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے یہود مدینہ کو وہی عہد یاد دلایا جا رہا ہے، اور ان سے کہا جا رہا ہے کہ تم لوگوں نے اس عہد کا پاس نہ رکھا، ایک دوسرے کو قتل کیا اور ایک گروہ کو ان کے گھروں سے نکال دیا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ اوس و خزرج والے عہد جاہلیت میں بت پرست لوگ تھے، اور آپس میں جنگ کرتے رہتے تھے قبیلہ بنو قینقاع اور قبیلہ بنو نضیر خزرج کے حلیف ہوتے تھے، اور بنو قریظہ اوس کے ج، جب لڑائی چھڑتی تھی تو ہر فریق اپنے حلیف کا ساتھ دیتا تھا، اور یہود جہاں اپنے دشمنوں کو قتل کرتے تھے، اپنے حریف عربوں کے حلیف یہودیوں کو بھی قتل کرتے تھے، ان کو گھروں سے نکال دیتے تھے، اور تمام مال و متاع لوٹ لیتے تھے، حالانکہ ایسا کرنا تورات میں ان پر حرام قرار دیا گیا تھا، اور جب جنگ کا بادل چھٹ جاتا تو تورات کے ایک حکم پر عمل کرتے ہوئے غالب فریق کے پاس سے یہودی قیدیوں کو چھڑا کر آزاد کردیتے تھے۔ ان کے اسی مبغوض عمل کی وجہ سے اللہ نے ان کے اوپر دنیا میں ذلت و رسوائی مسلط کردی، اور اپنے رسول کو ان کے خلاف ابھارا جس کے نتیجہ میں قتل، قید و بند اور جلا وطنی کی مصیبتوں میں مبتلا ہوئے اور آخرت میں بھی شدید عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہود کے اسی خبث باطن کی وجہ سے کہ تورات کا جو حکم اپنی خواہش کے مطابق پایا بیان کیا، اور جسے چاہا چھپا دیا، تورات اور اس میں موجود احکام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات، آپ کی بعثت اور ہجرت سے متعلق خبروں کے بارے میں ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ البقرة
85 البقرة
86 ١٣٦: اللہ تعالیٰ نے تورات کے بعض احکام پر ان کے عمل نہ کرنے کا سبب یہ بتایا کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی سوچا کہ اگر حلیفوں کی مدد نہ کی تو دنیا عار دلائے گا، اسی لیے عار کے مقابلے میں عذاب نار کو قبول کرلیا۔ البقرة
87 ١٣٧: بنی اسرائیل کے بعض دوسرے جرائم کا ذکر کیا جا رہا ہے کہ اللہ نے انہیں تورات دی جسے بدل ڈالا، موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ان میں دیگر انبیاء ورسل بھیجے تاکہ تورات کو نافذ کریں، لیکن ان کے ساتھ بد ترین معاملہ کیا، ان کو جھٹلایا اور کتنوں کو قتل کیا، اور آخر میں عیسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث کیا، جنہوں نے اللہ کے حکم سے تورات کے بعض احکام میں تبدیلی کی، تو بنی اسرائیل نے ان کو جھٹلایا، اور ان کے خلاف حسد و عناد کا شیوہ اختیار کیا، انبیاء کے ساتھ ان کا ایسا معاملہ اس لیے رہا کہ ان کی خواہشات نفس کے مطابق ان کی باتیں نہ ہوتیں تھیں، اور انہیں تورات کے صحیح احکام پر عمل کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ ١٣٨: (بینات) سے مراد وہ معجزے ہیں جو اللہ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو دئیے، اور جن کا ذکر آل عمران اور المائدہ میں آیا ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کرتے تھے۔ مٹی سے بنے ہوئے چڑیا کے مجسمے پھونک مارتے تھے تو اللہ کے حکم سے اڑنے لگتی تھی، مادر زاد نابینا اور سفید داغ کے مریض پر ہاتھ پھیرتے تھے تو مریض شفایاب ہوجاتا تھا، لوگوں کو بہت سی غیب کی باتیں بتا دیا کرتے تھے، انہوں نے دعا کی اور آسمان سے لوگوں کے لیے کھانا اتر آیا، اور سب سے بڑا معجزہ انجیل کا نزول تھا۔ ١٣٩: روح القدس سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں، ابن مسعود اور ابن عباس کا یہی قول ہے اور حضرت عائشہ کی حدیث (اللہم اید حسان بروح القدس) سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس حدیث کی بعض روایتوں میں آیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حسان سے کہا اھجہم، اوھاجہم، وجبریل معک۔ یعنی کفار کی ہجو بیان کرو، جبریل تمہارے ساتھ ہیں۔ البقرة
88 ١٤٠: جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود مدینہ کو دعوت اسلام دی تو انہوں نے آپ کو ناامید کرنے کے لیے تاکہ دوبارہ ان کو دعوت نہ دیں، یہ بات کہی، حضرت ابن عباس (رض) سے آیت کا معنی یوں مروی ہے، انہوں نے کہا کہ ہمارے دلوں کے اوپر پردے پڑے ہوئے ہیں، اس لیے تمہاری بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی، ہمارے اوپر محنت نہ کرو۔ حضرت ابن عباس (رض) سے دوسرا قول یہ مروی ہے کہ ” یہود نے کہا، ہمارے دل علم کے مخزن ہیں۔ یہ پہلے سے ہی علم و معرفت سے بھرے ہوئے ہیں، اب ان میں علم محمد کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے“ کہ اللہ نے ان کے قول کی تردید کی اور کہا کہ ایسی بات نہیں کہ ان کے دل قبول حق کی صلاحیت نہیں رکھتے، بلکہ اللہ نے ان کے کفر و عناد کی وجہ سے ان کے دلوں پر لعنت بھیج دی ہے، اور ان پر مہر لگا دی ہے، اسی لیے ان کا حال یہ ہے کہ تورات کے بہت ہی تھوڑے احکام پر ایمان رکھتے ہیں۔ البقرة
89 ١٤١: عبداللہ بن عباس (رض) وغیرہ سے مروی ہے کہ یہود جزیرہ عرب میں ذلت و مسکنت کی زندگی گذار رہے تھے، اس لیے وہ اپنے لیے ایک طرح کی قوت حاصل کرنے کے لیے بعض قبائل عرب کے حلیف بن کر رہنا پسند کرتے تھے، اور جب اوس و خزرج والے ان پر زیادتی کرتے تو کہتے کہ عنقریب آخری نبی مبعوث ہونے والا ہے، ہم اس کے ساتھ مل کر تم سے جنگ کریں گے اور غلبہ حاصل کریں گے، لیکن جب اللہ نے اس آخری نبی کو عربوں میں مبعوث کیا تو حسد کے مارے کہ یہ نبی بنی اسرائیل میں سے کیوں نہ ہوا، ان پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ عبداللہ بن سلام نے اپنے اسلام لانے کے واقعہ میں یہودیوں کو خطاب کر کے کہا تھا کہ اے قوم یہود، اللہ سے ڈرو، اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہٰں، تم جانتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور دین حق لے کر آئے ہیں (بخاری)۔ ١٤٢: یہود کے اس صریح کفر اور انکار حق کی وجہ سے اللہ نے ان پر لعنت بھیج دی۔ یہاں (الکافرین) سے مراد یہود مدینہ ہیں۔ البقرة
90 ١٤٣: بہت ہی بری چیز تھی جس کے عوض یہود نے اپنی جانوں کو ہلاکت و بربادی میں ڈال دیا، صرف حسد اور نسلی تعصب کی بنیاد پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا یقین رکھتے ہوئے ان پر ایمان نہ لائے، اور اللہ کے ایک غضب کے بعد دوسرے غضب کے مستحق ہوئے، اللہ کا پہلا غضب ان پر اس وقت اترا جب انہوں نے صرف حسد کی بنیاد پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے انکار کردیا، اور چونکہ انہوں نے صرف کبر و حسد کی وجہ سے ایسا کیا، اس لیے غضب الٰہی کے ساتھ جہنم کا رسوا کن عذاب ان کا انتظار کر رہا ہے، جو تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا ہے۔ اللہ نے فرمایا ان الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جہنم داخرین، کہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کی وجہ سے اعراض کرتے ہیں۔ وہ جہنم میں ذلیل و رسوا ہو کر داخل ہوں گے۔ (غافر : ٦٠) البقرة
91 ١٤٤: جب یہود مدینہ سے کہا جاتا کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ پر جو کتاب اتاری ہے، اس پر ایمان لے آؤ، تو وہ کہتے کہ ہم تو صرف تورات پر ایمان رکھتے ہیں، یعنی قرآن کریم کا انکار کردیتے، جو ان کی تورات کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کے بعد اللہ نے ان کے قول و عمل میں تضاد اور تباین کو بیان کیا کہ اگ تم اور تمہارے آباء واجداد اپنے دعوی میں صادق ہو کہ تم لوگ تورات پر ایمان رکھتے ہو تو پھر انبیاء کو کیوں قتل کرتے تھے، جو تورات کے احکام نافذ کرنے کے لیے بھیجے جاتے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ تم اپنے نفس کے غلام ہو اور صرف اپنی خواہشاتِ نفس کی پرستش کرتے ہو۔ البقرة
92 دعائے ایمان میں یہود کی کذب بیانی پر دلیل قائم کرنے کے بعد، اس آیت میں یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے توحید پر قائم رہنے اور شرک سے دور رہنے کا عہد لیا تھا، لیکن جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب سے سرگوشی کرنے کے لیے طور پہاڑ پر گئے تو انہوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کردی۔ آیت میں (بینات) سے مراد وہ نشانیاں اور دلائل ہیں جو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے نبی اور رسول ہونے کے ثبوت میں پیش کیے تھے۔ جیسے طوفان، ٹڈی، جوئیں، مینڈک، خون، عصا، ید بیضا، سمندر میں راستہ، پتھر سے چشموں کا جاری ہونا اور من و سلوی وغیرہ۔ البقرة
93 ١٤٦: اس سے بھی بڑا ان عناد اور نفس پرستی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں یبت پیدا کرنے کے لیے طور پہاڑ کو ان کے سروں کے اوپر اٹھا دیا، اور ان سے کہا کہ تورات کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو، اور اس میں موجود اوامر و نواہی کو غور سے سنو اور ان پر عمل کرو، تو انہوں نے کہا کہ ہم نے تمہاری بات سن لی اور تمہارے حکم کی نافرمانی کی، اس آیت کی تفسیر اسی سورت کی آیت 63، 64 میں گذر چکی ہے۔ ١٤٧: اس میں انتہائی درجہ کا مبالغہ ہے کہ ان کے کفر و عناد کی ایک سزا اللہ نے ان کو یہ دی کہ بچھڑے کی محبت ان کی گھٹی میں پڑگئی۔ ١٤٨: ان کا دعوی تھا کہ وہ تورات پر ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ نے ان کے دعوائے ایمان پر نقد کرتے ہوئے کہا کہ اگر تمہارا ایمان انہی برے کاموں کا حکم دیتا ہے جو تم کرتے آرہے ہو، تو تمہارا ایمان تمہیں بڑی بری باتوں کا حکم دیتا ہے، اس میں یہود کے ایمان کی نفی ہے، اس لیے کہ ایمان اعمال قبیحہ کا حکم نہیں دیتا۔ البقرة
94 ١٤٩: یہود دعوی کرتے تھے کہ جنت صرف ان کے لیے ہے، دوسرے لوگ اس میں داخل نہیں ہوں گے، اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کرو تاکہ تم جلد از جلد دنیا کی پریشانیوں سے نجات پاکر جنت کی راحتوں کو پالو، ابن جریر نے یہی تفسیر بیان کی ہے۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ آیت میں دعوت مباہلہ ہے،۔ اور ابن عباس (رض) سے یہی مروی ہے۔ اس قول کے پیش نطر آیت کی تفسیر یوں ہوگی کہ اے میرے رسول ! آپ یہودیوں سے کہئے کہ اگر تم اپنے دعوی میں سچے ہو تو دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ دونوں جماعتوں میں سے جھوٹی جماعت کو موت دے دے، چنانچہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے ایسی دعا کرنے کو کہا تو انہوں نے انکار کردیا، کیونکہ انہیں اپنے گناہوں کا علم تھا، اور اس کی خبر خود قرآن کریم نے دے دی کہ وہ ایسا کبھی بھی نہیں کریں گے۔ امام بخاری وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ اگر اس دعوت مباہلہ کے بعد یہود موت کی تمنا کرتے تو سب کے سب مرجاتے، اور جہنم میں اپنا ٹھکانا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے۔ البقرة
95 ١٥٠: وہ بھلا موت کی تمنا کیسے کرسکتے تھے، وہ تو طول عمر کی حد درجہ خواہش رکھتے تھے، کیونکہ موت کے بعد انہیں اپنے برے انجام کا پتہ تھا، وہ تو چاہتے تھے کہ جتنا دن ہوسکے موت ان سے ٹلتی رہے، تاکہ عذاب سے بچے رہیں، وہ تو مشرکین سے بھی زیادہ زندگی کے خواہاں تھے، جن کے پاس آسمانی کتاب نہ تھی، اور جو موت کے بعد دوبارہ زندگی پر یقین نہیں رکھتے تھے، اسی لیے دنیا میں لمبی عمر کی خواہش رکھتے تھے۔ مجاہد، یود احدھم لو یعمر الف سنۃ، کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ گناہ نے طول عمر کی خواہش بڑھا دی تھی، ابن عباس (رض) وما ھو بمزحزحہ من العذاب ان یعمر، کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ ان کی یہ خواہش انہیں عذاب سے نہیں بچا سکتی۔ البقرة
96 البقرة
97 ١٥١: مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ آیت یہود کے جواب میں نازل ہوئی تھی جنہوں نے کہا تھا کہ جبریل ان کا دشمن، اور میکائیل ان کا دوست ہے، لیکن اس کے سبب کی تعیین میں ان کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کا سبب ایک مناظرہ تھا جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے بارے میں آپ اور یہود کے درمیان ہوا تھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ : کچھ یہود آپ کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ سے چند ایسے سوالات کرنا چاہتے ہیں جن کے جوابات نبی کے علاوہ کوئی نہیں دے سکتا۔ آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، لیکن تم لوگ یہ عہد کرو کہ اگر میں تمہارے سوالات کے جوابات صحیح صحیح دے دئیے تو تم لوگ اسلام قبول کرلو گے، انہوں نے کہا : ہاں، چنانچہ آپ نے ان تمام سوالات کے صحیح صحیح جوابات دے دئیے (جن کی تفصیل تفسیر اور حدیث کی کتابوں میں موجود ہے) اور یہود ان کی صحت کا اعتراف کرتے گئے، آخر میں انہوں نے پوچھا کہ فرشتوں میں آپ کا دوست کون ہے؟ آپ نے فرمایا : جبرئیل، اللہ نے جتنے بھی انبیاء بھیجے ان سب کے دوست جبرئیل تھے، یہ سن کر یہود نے کہا، پھر ہم اور آپ اکٹھے نہیں ہوسکتے، اگر کوئی اور فرشتہ ہوتا تو ہم آپ کی اتباع کرتے اور تصدیق کرتے، آپ نے پوچھا کیا وجہ ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ تو ہمارا دشمن ہے۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض دوسرے لوگوں نے کہا ہے کہ یہ مناظرہ عمر بن خطاب (رض) اور یہود کے درمیان نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ہوا تھا، حافظ ابن کثیر نے اسے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے، اور کہا ہے کہ اس کی روایت کی سند عمر اور شعبی کے درمیان منقطع ہے۔ آیت کی تفسیر یہ ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان یہودیوں سے کہہ دیجئے جو گمان کرتے ہیں کہ وہ آپ پر اس لیے ایمان نہیں لاتے کہ آپ کے دوست جبرئیل ہیں کہ تمہارا یہ خیال بکواس ہے، اور کبر و عناد پر مبنی ہے، اس لیے کہ جبرئیل اللہ کے پیغامبر ہیں، اور اللہ کے حکم سے آپ کے قلب مبارک پر قرآن اتارتے ہیں، جو گذشتہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، اور جو مومنوں کے لیے ہدایت و بشارت ہے، جبرئیل سے عداوت تو اللہ، اس کے فرشتوں اور اس کے تمام رسولوں سے عداوت ہے، اس لیے کہ جبرئیل سے ان کی عداوت اس حق کی وجہ سے ہے جو وہ اللہ کی طرف سے تمام رسولوں پر نازل کرتے رہے ہیں۔ حضرت امام بخاری (رح) نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث قدسی ہے (جو میری کسی دوست سے عداوت کرے گا اسے میں جنگ کی خبر دیتا ہوں) اور جس کا دشمن اللہ ہوگا اس کی دنیا و آخرت دونوں برباد ہوجائے گی، اسی لیے اللہ نے جبرئیل کے دشمنوں کے خلاف اس آیت میں اپنے غضب کا اظہار کیا ہے۔ البقرة
98 البقرة
99 ١٥٢: آیات بینات، سے مراد قرآن کریم کی وہ آیتیں ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے مخفی علوم و اسرار، بنی اسرائیل کے آباء واجداد کی خبریں، اور تورات اور ان کی دیگر کتب سماویہ کی وہ باتیں بیان کی ہیں، جنہیں ان کے علماء کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا، اور جنہیں قدیم و جدید یہودیوں نے بدل ڈالا تھا۔ ان آیات کے سننے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آتے، جنہوں نے کسی آدمی سے کچھ سیکھے بغیر انہیں ان باتوں کی اطلاع دی، لیکن وہ اس نعمت سے محروم رہے۔ آیت میں الفاسقون سے مراد یہود ہیں۔ البقرة
100 ١٥٣: اس میں اظہار تعجب ہے ان کی خبیث عادت پر کہ جب بھی انہوں نے اللہ سے کوئی عہد کیا تو اسے توڑ ڈالا، اور ایک قسم کی تسلی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے کہ اگر وہ قرآن کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، یہ تو ان کی اور ان کے بڑوں کی پرانی عادت رہی ہے کہ ہمیشہ ہی اللہ کی نشانیوں کا انکار کرتے رہے ہیں۔ البقرة
101 ١٥٤: اسی بری عادت کا نتیجہ تھا کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے اور قرآن نے تورات کی تصدیق کی، تو یہودیوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام نشانیاں جاننے اور پہچاننے کے باوجود آپ کی تکذیب کی، اور قرآن کو اللہ کی کتاب ماننے سے انکار کردیا۔ البقرة
102 ١٥٥: یہاں یہود کی ایک گمراہی کا بیان ہے کہ انہوں نے اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا، اور شیطانوں سے جادو سیکھنا شروع کردیا، اس آیت کی تفسیر میں علمائے تفسیر کے کوئی اقوال ہیں، میں ان میں سے دو قول یہاں ذکر کرتا ہوں۔ پہلا قول حضرت ابن عباس (رض) وغیرہ سے مروی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے انتقال کے بعد شیاطین نے ان کی کرسی کے نیچے مدفون لکھی ہوئی چیزوں کو نکالا، اور ہر دو سطر کے درمیان جادو اور کفر کی باتیں لکھ ڈالیں، اور لوگوں میں مشہور کردیا کہ سلیمان اسی سحر کی بدولت بادشاہ بنے ہوئے تھے۔ چنانچہ جاہل یہودیوں نے ان کو ساحر کہا، اور ان پر کفر کا الزام لگایا، اللہ تعالیٰ نے ان شیاطین کی تکذیب کی اور بتایا کہ سلیمان ساحر نہیں تھے، اور کفر کا ارتکاب نہیں کیا تھا بلکہ شیاطین نے کفر کی راہ اختیار کی، اور لوگوں کو سحر سکھلایا، آیت میں اسی طرح اشارہ ہے کہ یہودیوں نے ان شیاطین سے وہ سیکھا جسے انہوں نے سلیمان (علیہ السلام) کی طرف جھوٹ منسوب کردیا تھا اور وہ سحر بھی سیکھا جو بابل میں دو فرشتوں کو لوگوں کی ابتلاء و آزمائش کے لیے دے کر بھیجا گیا تھا۔ یہ دونوں فرشتے کسی کو جادو سکھلانے سے پہلے یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ دیکھو، ہم لوگ آزمائش بنا کر بھیجے گئے ہیں، اور جادو کفر ہے، اسے نہ سیکھو۔ اس طرح یہود نے انبیاء و رسل کے علو انوار کو چھوڑ کر دونوں راستوں سے جادو سیکھا، شیاطین سے بھی اور بابل والے دونوں فرشتوں سے بھی۔ دوسرے قول کے مطابق (شیاطین) سے مراد انسانوں کے شیاطین ہیں اور وہ لوگ ” جو کچھ بیان کرتے تھے“ سے مراد قصے اور خرافات ہیں اور ” سلیمان نے کفر نہیں کیا“ سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے بتوں کی پرستش نہیں کی اور ولکن الشیاطین کفروا، میں کفر سے منزل من اللہ آیتوں کا انکار، یا غیر اللہ کی عبادت، یا جادو سیکھ سکھا کر کفر کا ارتکاب ہے اور ہاروت و ماروت سے مراد دو آدمی ہیں جنہیں لوگ غایت حسن ظن کی وجہ سے فرشتہ کہتے تھے حالانکہ وہ دونوں اچھے لوگ نہیں تھے، بلکہ لوگوں کو دھوکہ میں ڈالنے کے لیے ظاہر کرتے تھے کہ وہ اچھے ہیں اور جادو سیکھنے سے منع کرتے ہیں۔ اس قول کا خلاصہ یہ ہے کہ یہود نے قرآن کو جھٹلایا، اور اس کے بدلے میں ان قصوں اور خرافات کی تصدیق کی جو شیاطین انس نے سلیمان (علیہ السلام) اور ان کی بادشاہت کے بارے میں پھیلا رکھا تھا، اور مشہور کیا کہ سلیمان نے بتوں کی پرستش کی اور کفر کیا، حالانکہ سلیمان (علیہ السلام) نے فکر نہیں کیا بلکہ شیاطین الجن نے کفر کیا، لوگوں کو جادو سکھلایا اور کہا کہ یہ ہاروت و ماروت دو آدمیوں پر اترا ہے جنہیں وہ لوگ (ان کی ظاہری نیکی کی وجہ سے) فرشتہ کہتے تھے۔ حالانکہ ان دونوں پر اللہ کی طرف سے کچھ بھی نہ اترا تھا، بلکہ وہ دونوں دو آدمی تھے جو نیک ہونے کا جھوٹا دعوی کرتے تھے، اور لوگوں کو باور کراتے تھے کہ وہ تو لوگوں کے لیے صرف خیر چاہتے ہیں اور انہیں کفر سے ڈراتے ہیں۔ ١٥٦: یہ آیت دلیل ہے کہ جادو کی حقیقت ہے اور وہ اللہ کے ارادہ کے مطابق نقصان پہنچاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس میں صراحت کردی ہے کہ جادوگر دنیاوی تعلقات میں سب سے قوی اور مضبوط رشتہ یعنی میاں بیوی کے تعلقات کو بھی توڑنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ١٥٧: معلوم ہوا کہ جادو میں کسی طرح کی کوئی دینی یا دنیوی منفعت نہیں۔ ١٥٨: اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے جادو کو جان بوجھ کر اختیار کیا تھا، ایسی بات نہیں تھی کہ وہ لوگ جادو کے نقصانات سے ناواقف تھے۔ فائدہ : انما نحن فتنۃ فلا تکفر۔ سے بعض علماء نے جادو سیکھنے والے کے کفر پر استدلال کیا ہے، اور اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کوئی کسی کاہن یا جادوگر کے پاس آیا اور اس کے کہے کی تصدیق کی، اس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل شدہ دین اسلام کا انکار کیا، اس حدیث کو حافظ بزار نے عمدہ سند کے ساتھ روایت کی ہے، اور اس کے دیگر شواہد بھی پائے جاتے ہیں۔ جادوگر کی تکفیر پر استدلال، ولو انہم امنوا وواتقوا، سے بھی کیا جاتا ہے، کہ ان سے ایمان کی نفی کردی گئی ہے، امام احمد بن حنبل (رح) اور دیگر سلف صالحیں کی یہی رائے ہے۔ بعض دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ جادوگر کافر نہیں ہوتا، لیکن بطور تعزیری سزا اس کی گردن مار دی جائے گی، امام بخاری اور احمد بن حنبل نے بجالہ بن عبدہ (رض) سے روایت کی ہے، حضرت عمر (رض) نے ہمیں لکھ بھیجا کہ ہر ساحر اور ساحرہ کو قتل کردیا جائے، بجالہ کہتے ہیں کہ ہم نے تین جادوگروں کو قتل کیا۔ یہ بھی صحیح روایت سے ثابت ہے کہ ام المومنین حفصہ (رض) کو ان کی ایک لونڈی نے جادو کردیا تو آپ نے اس کے قتل کرنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ قتل کردی گئی۔ ترمذی نے جندب الازدی سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جادوگر کی سزا تلوار سے قتل کردینا ہے البقرة
103 البقرة
104 ١٥٩: صحابہ کرام جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس تعلیم و دعوت میں ہوتے اور کوئی بات آپ سے دوبارہ سمجھنی چاہتے تو (راعنا) کا لفظ استعمال کرتے، جس کا معنی ہے (ذرا ہمارا خیال کیجیے اور دوبارہ ارشاد فرما دیجئے) ان مجلسوں میں یہود بھی ہوتے تھے جب یہ لفظ انہوں نے سنا تو ان کا خبث باطن حرکت میں آگیا، اور اپنی زبان موڑ کر اس لفظ کو راعینا بنا دیا یعنی ہمارا چرواہا، اور خود عبرانی زبان میں راعنا کا معنی احمق یا نہایت درجہ کا جاہل آدمی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو ایسا کلمہ استعمال کرنے سے منع فرمایا جس سے کسی شر کا دروازہ کھلتا ہو، اور قول وفعل میں کافروں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہو، اور انہیں حکم دیا کہ راعنا کے بجائے انظرنا کا لفظ استعمال کیا کریں، تاکہ یہود کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بے ادبی کا موقع نہ ملے، اور نہ ہی ان کے ساتھ مشابہت ہو۔ مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کی بدنیتی اور رسول اللہ کے ساتھ بے ادبی یہود کی قبیح عادت تھی۔ حدیث میں آیا ہے کہ جب وہ مسلمانوں سے ملتے تو السلام علیکم کی بجائے السام عللیکم کہتے، یعنی تم پر موت ہو، اسی لیے اللہ تعالیٰ یہاں مسلمانوں کے ساتھ کافروں کی شدید عداوت بیان کردی، تاکہ مسلمان کافروں اور مشرکوں کے دلوں میں کانٹا بن کر پیوست ہوگئی۔ البقرة
105 البقرة
106 ١٦٠: عربی زبان میں کلمہ نسخ، نسخ الکتاب، سے ماخوذ ہے، جس کا معنی کس کتاب کا دوسرا نسخہ تیار کرنا ہوتا ہے، نسخ، ابطال اور ازالہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، قرآن کریم کی اصطلاح میں ایک حکم کے بدلے دوسرا حکم لانا، یا اسے ساقط کردینامراد ہوتا ہے، اور شریعت اسلامیہ میں نسخ صرف تحریم و تحلیل اور منع و اباحت میں ہوا ہے، اخبار وغیرہ میں نسخ نہیں ہوا۔ جمہور علمائے اسلام کی رائے ہے کہ قرٓان و حدیث میں نسخ واقع ہوا ہے، جیسے اللہ کا یہ قول الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموھما البتۃ، کہ بوڑھا اور بوڑھی اگر زنا کریں تو ان دونوں کو ضرور پتھر مار مار کر ہلاک کردو۔ اور یہ قول، لوکان لابن آدم وادیان من ذھب لابتغی لھما ثالثا۔ کہ اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوتیں، تو وہ تیسری وادی کی خواہش کرتا، ابو مسلم اصفہانی معتزلی جیسے بعض باطل عقیدہ رکھنے والوں نے نسخ کا انکار کیا ہے جن کا اسلام میں کوئی اعتبار نہیں۔ یہودیوں نے قرآن کے ذریعہ احکام تورات کے نسخ کا انکار کیا، اور عیسیٰ (علیہ السلام) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نوبت انکار اس لیے کیا کہ ان دونوں رسولوں نے تورات کے بعض احکام کو بذریعہ وحی الٰہی منسوخ قرار دیا۔ قرآن کریم نے تورات کے بعض احکام کو منسوخ قرار دیا، اور بعض کو باقی رکھا، ایسا بھی ہوا کہ اللہ تعالیٰ میں ایک حکم نازل فرمایا، اور کچھ دنوں کے بعد اسے منسوخ کردیا، یا اس کے بدلے میں دوسرا کوئی حکم اتار دیا، یہودیوں نے کہا کہ محمد اپنے ساتھیوں کو آج ایک حکم دیتا ہے، اور کل اس سے روک دیتا ہے اور اس کی جگہ کوئی دوسرا حکم دیتا ہے، اس لیے وہ نبی نہیں ہوسکتا، اور نہ یہ قرآن کلام الٰہی ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت میں یہودیوں کے اسی قول کی تردید کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر کسی آیت کو منسوخ کردیتا ہے تو اس کی جگہ اس سے بہتر یا اسی جیسا حکم لاتا ہے، اور یہ اس لیے نہیں کہ اللہ ابتدا میں ہی دوسرا حکم لانے سے عاجز تھا بلکہ بندوں کی مصلحت اسی میں تھی، اور جو اللہ کی قدرت کا کچھ علم رکھے گا وہ ایسی بات کبھی نہیں کرے گا۔ دوسری آیت میں اسی کی مزید تاکید آئی ہے کہ آسمان و زمین کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے، ساری مخلوق اس کے زیر اطاعت ہے، انہیں اللہ کے اوامر و نواہی کو بہرحال بجا لانا ہے۔ اللہ انہیں جو چاہے گا حکم دے گا، اور جس کام سے چاہے گا روکے گا، اور حو حکم چاہے گا منسوخ کرے گا اور جو چاہے گا باقی رکھے گا۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہودیوں نے نسخ کا انکار صرف کفر و عناد کی وجہ سے کیا، ورنہ یہ چیز عقلی طور پر ممنوع نہیں، اس لیے کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا، اور گذشتہ آسمانی کتابوں میں نسخ واقع ہوا ہے، آدم (علیہ السلام) کے لیے اپنے بیٹے بیٹی کی آپس میں شادی حلال تھی، پھر حرام کردی گئی، نوح (علیہ السلام) جب سفینہ (کشتی) سے بارہ آئے تو تمام حیوانات کا کھانا جائز تھا، اس کے بعد بعض کی حلت منسوخ ہوگئی، یعقوب (علیہ السلام) اور ان کے بیٹوں کے لیے بیک وقت دو بہنوں سے شادی جائز تھی، اس کے بعد تورات میں اسے حرام کردیا گیا۔ البقرة
107 البقرة
108 ١٦١: اس آیت میں مسلمانوں کو ایسی چیزوں کے بارے میں کثرت سوال سے منع کیا گیا ہے جو ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئیں، صحیحین میں مغیرہ بن شعبہ (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیل و قال، اضاعتِ مال اور کثرت سوال سے منع فرمایا صحیح مسلم میں ہے تم لوگ مجھے چھوڑ دو جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں، تم سے پہلے کے لوگ کثرت سوال اور انبیاء کی مخالفت کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔ محققین نے لکھا ہے کہ یہاں مراد ایسے سوالات کی ممانعت ہے جن کا مقصد محض اعتراض کرنا، اور دین میں شدت پیدا کرنا ہو، اگر سوالات علم حاصل کرنے کے لیے ہوں تو کوئی ممانعت نہیں، بلکہ اللہ نے ایسے سوالات کا حکم دیا ہے، فاسئلوا اھل الکر ان کنتم لا تعلمون۔ کہ اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے پوچھ لو، الانبیاء : 7۔ البقرة
109 ١٦٢: اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مومنوں کو اہل کتاب کافروں کی راہ اپنانے سے منع فرمایا ہے، اور انہیں خبر دی ہے کہ یہ اہل کتاب مسلمانوں سے زبردست عداوت رکھتے ہیں، ان سے حسد کی وجہ سے چاہتے ہیں کہ مسلمان پھر سے کافر بن جائیں، اور اس کے لیے انہوں نے ہر قسم کی ساش اور مکر و فریب کو روا رکھا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو عفو و درگذر اور تحمل سے کام لینے، نماز قائم کرنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیا، یہاں تک کہ اللہ کا کوئی اور حکم ان کے بارے میں آجائے، چنانچہ جہاد کا حکم نازل ہوا، تو بہت سے یہود قتل کیے گئے، بہت سے غلام بنائے گئے، اور بہت سے جلا وطن کردئیے گئے۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ عفو و درگذر کرنے کا حکم قتال والی آیتوں سے منسوخ ہوگیا، انہی میں سے ایک آیت یہ ہے، قاتلوا الذین لا یومنون باللہ ولا بالیوم الاخر، الایۃ، مسلمانو ! ان لوگوں سے قتال کرو جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں۔ التوبہ، ٢٩۔ ابن عباس رضٰ اللہ عنہما کی روایت ہے کہ حیی بن اخطب اور اس کے بھائی ابویاسر بن اخطب نے عربوں سے شدید دشمنی اس لیے شروع کردی تھی کہ اللہ نے اپنا آخری نبی عربوں میں کیوں مبعوث کردیا، یہ دونوں یہودی لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے شدت کے ساتھ روکتے تھے، یہ آیت انہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ البقرة
110 البقرة
111 ١٦٣: یہاں اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے غرور کی خبر دی ہے، ان میں سے ہر ایک گروہ یہ کہتا تھا کہ جنت میں وہی داخل ہوگا، جو اس کے دین کو ماننے والا ہوگا، اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوی کی تردید کی، اور کہا کہ یہ محض تمہاری جھوٹ تمنائی ہیں جن کی صداقت پر تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل تو پیش کرو۔ البقرة
112 ١٦٤: اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے دعوی کی دوبارہ تردید کی اور فرمایا کہ یہ محض تمہارا دعوی ہے کہ صرف تم ہی لوگ جنت میں جاؤ گے، جن میں ہر وہ شخص داخل ہوگا، جو موحد اور اپنے عمل میں مخلص ہوگا، اور متبع سنت ہوگا، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یہود و نصاری جنت میں داخل نہیں ہوں گے، اس لیے کہ نہ وہ موحد ہیں، نہ اپنے عمل میں مخلص ہیں اور نہ متبع سنت ہیں۔ فائدہ : حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ عمل کے (عنداللہ) مقبول ہونے کی دو شرطیں ہیں، پہلی شرط یہ ہے کہ وہ خالص اللہ کے لیے ہو، دوسری شرط یہ ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اور اسلامی شریعت کے مطابق ہو، اگر نیت میں اخلاص ہو لیکن سنت کے مطابق نہ ہو تو وہ عمل مردود ہوگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس کا ہم نے حکم نہیں دیا تو وہ رد کردیا جائے گا (مسلم) اس لیے راہبوں، سادھووں اور صوفیوں کا عمل اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں، اس لیے کہ ان کے عمل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع مفقود ہے، اسی طرح اگر عمل بظاہر شریعت کے موافق ہے، لیکن نیت اللہ کی رضا نہیں، تو ایسا عمل بھی مردود ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا، ان المنافقین یخادعون اللہ وھو خادعہم، کہ بے شک منافقین اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں اور اللہ ان کو دھوکہ دے رہا ہے۔ البقرة
113 ١٦٥: پہلے اہل کتاب نے اپنے علاوہ تمام اہل ادیان کی گمراہی کا دعوی کیا، اب ایک دوسرے پر گمراہی اور کفر کا الزام لگا رہے ہیں۔ اس سے ان کی آپس کی نفرت و دشمنی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ حالانکہ اہل کتاب ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کی تکذیب نہ کرتے، کیونکہ تورات و انجیل البقرة
114 126: اس سے کون لوگ مراد ہیں، مفسرین کے دو قول ہیں۔ عوفی نے اپنی تفسیر میں ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ وہ نصٓری تھے، جنہوں نے یہود کو بیت المقدس میں نماز پڑھنے سے روکا تھا اور بخت نصر بابلی مجوسی کی مدد کی تھی، جس نے بیت المقدس کو تاراج کیا تھا، ابن جریر نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے دوسر قول یہ ہے کہ مراد مشرکین مکہ ہیں، جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صلح حدیبیہ کے موقع سے مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا، ابن ابی حاتم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ قریش نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد حرام میں کعبہ کے پاس نماز پڑھنے سمنع کردیا تو یہ آیت اتری۔ حافظ ابن کثیر نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے، کیونکہ نصاری نے جب یہود کو بیت المقدس میں نماز پڑھنے سے منع کیا تو وہ دینی اعتبار سے یہود سے بہتر تھے، یہود پر تو اللہ نے لعنت بھیج دی تھی، ان کی عبادت ہی مقبول نہیں تھی اور کلام کا سیاق و سباق بھی اسی کا تقاضا کرتا ہے کہ یہود و نصاری کی مذمت بیان کرنے کے بعد اب مشرکین کی مذمت بیان کی جا رہی ہے، اور مسجد کی بربادی کی کوشش اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ انہوں نے وہاں سے اللہ کے رسول کو نکال دیا، اور خانہ کعبہ کے پاس بت پرستی کا بازار گرم کیا۔ 127: اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہے کہ مسلمانوں کو مسجد حرام پر غلبہ نصیب ہوگا، اور مشرکین ذلیل ہوں گے، اور مسجد حرام میں ڈرتے ہوئے داخل ہوں گے کہ کہیں انہیں پکڑ نہ لیا جائے یا قتل نہ کردیا جائے۔ چنانچہ اللہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا کیا، کہ مکہ فتح ہوا اور مشرکین کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روک دیا گیا (لھم فی الدنیا خزی) میں اسی ذلت کی طرف اشارہ ہے اور آخرت میں عذاب نار کا سامنا کرنا پڑے گا، اس لیے کہ انہوں نے بیت اللہ کی حرمت کو پامال کیا، اس میں بتوں کو لا کر نصب کیا، غیر اللہ کو پکارا اور ننگے ہو کر خانہ کعبہ کا طواف کیا۔ فائدہ : علمائے کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ کفار کو مساجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ مساجد کی تعمیر اور انہیں ظاہری اور معنوی طور پر آباد کرنے سے بڑھ کر ایمان والی کوئی بات نہیں۔ جیسا کہ اللہ نے دوسری جگہ فرمایا ہے آیت انما یعمر مساجد اللہ من آمن باللہ والیوم الاخر، کہ مسجدوں کو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔ توبہ : 18۔ البقرة
115 128: ابتدائے اسلام میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خانہ کعبہ کے سامنے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔ ہجرت کے بعد خانہ کعبہ کی دید سے بھی محروم ہوگئے۔ مدینہ منورہ میں سولہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے، اور دل میں یہ خواہش رہی کہ کاش، مسجد حرام، مسلمانوں کا قبلہ بن جاتا، اسی زمانے میں اللہ نے اپنے رسول اور صحابہ کرام کو تسلی دینے کے لیے یہ آیت اتاری کہ مشرق و مغرب اور تمام جہات کا مالک صرف اللہ ہے۔ اس لیے آپ جس طرف بھی رخ کر کے نماز پڑھیں گے، اس طرف اللہ کو پائیں گے۔ اس کے بعد یہ حکم خاص تو منسوخ ہوگیا، اور خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم ااگیا، لیکن اس آیت کا حکم عام باقی رہا کہ جہت قبلہ معلوم نہ ہونے کی صورت میں، اور نفل نمازوں میں، نیز خوف اور سفر کی حالت میں کسی طرف بھی رخ کیا جائے تو نماز صحیح ہوگی۔ 129: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے (وجہ) یعنی چہرہ ثابت کیا ہے، اس لیے صحیح عقیدہ والے اللہ کے لیے وجہ ثابت کرتے ہیں، جیسا کہ اللہ کی ذات کے لائق ہے، ایسا چہرہ جو دوسرے چہروں کے مشابہ نہیں۔ نیز آیت میں اللہ نے اپنے لیے واسع اور علیم دو صفت ثابت کی ہے۔ اس لیے ہم بھی ثابت کرتے ہیں، اسی تفصیل کے ساتھ جیسا کہ وجہ کے بارے میں کہا گیا ہے۔ البقرة
116 170: اس آیت میں یہود و نصاری اور مشرکین عرب کی تکذیب کی گئی ہے، جنہوں نے عزیر و مسیح کو اللہ کا بیٹا تصور کیا، اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتایا، اللہ نے فرمایا کہ (سبحنہ) یعنی اللہ کی ذات ان باطل دعووں سے پاک ہے۔ آسمان و زمین کے درمیان جو کچھ ہے وہ سب اللہ کے مملوک اور بندے ہیں، اور اس کے حضور عجز و انکساری کے ساتھ جھکے ہوئے ہیں، بندوں میں سے کوئی اللہ کا بیٹا کیسے ہوسکتا ہے، اولاد تو دو متناسب ذاتوں کے ارتباط سے پیدا ہوتی ہے، اللہ کا کوئی شریک اور نظیر نہیں، اور نہ اس کی کوئی بیوی ہے، پھر اللہ کا بیٹا کیسے ہوسکتا ہے؟ صحیحین کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اذیت کی باتیں سن کر اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا کوئی نہیں، لوگ اس کے لیے بیٹا بتاتے ہیں، پھر بھی وہ انہیں روزی دیتا ہے اور عافیت سے نوازتا ہے (قانتون) یعنی تمام مخلوق اس کے زیر تصرف ہے، اور اس کی عبادت میں لگی ہوئی ہے البقرة
117 171: بدیع السماوات والارض ؛ یعنی اللہ نے آسمان و زمین کو بغیر کسی سابق مثال کے پیدا کیا ہے، جس طرح اس نے مسیع (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے کلمہ کن سے پیدا کیا لفظ بدعت اسی سے ماخوذ ہے۔ ہر وہ بات جو اسلام میں نئی پیدا کی جائے اور جس کی تائید قرآن و سنت سے نہ ملے، اسے بدعت کہا جاتا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، کل محدچۃ بدعۃ کہ اسلام میں ہر نئی بات بدعت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال قدرت اور عظیم بادشاہی کی خبر دی ہے، کہ جب وہ کسی چیز کے ہوجانے کا فیصلہ کرتا ہے، تو کن یعنی ” ہوجا“ کہتا ہے، اور وہ ہر چیز اللہ کے ارادے کے مطابق وجود میں آجاتی ہے۔ کوئی شے (وجود میں آنے سے) نافرمانی نہیں کرسکتی۔ البقرة
118 172: ابولاعالیہ، ربیع بن انس، قتادہ اور سدی وغیرہم کی رائے ہے کہ یہ آیت مشرکینِ عرب کے بارے میں اتری ہے، انہی لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تھا کہ اگر تم اللہ کے رسول ہو تو اللہ ہم لوگوں سے بات کر کے کیوں نہیں بتا دیتا کہ اس نے تمہیں اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اس رائے کے مطابق آیت میں، الذین من قبلہم، سے مراد یہود و نصاری ہیں مجاہد کی رائے ہے کہ یہ آیت نصٓری کے بارے میں اتری ہے اور ابن عباس (رض) کی روایت ہے کہ رافع بن حریملہ یہودی نے اعتراض کیا تھا، تو یہ آیت نازل ہوئی تھی، حافظ ابن کثیر اور شوکانی نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہیے۔ 173: یہاں ” آیت“ سے مراد مشرکین کی مرضی کی نشانیاں ہیں، جن سے ان کی عقل فاسد اور جرات علی اللہ کا پتہ چلتا ہے، مشرکین مکہ اس قسم کے سولات ہمیشہ ہی کیا کرتے تھے، کہتے تھے ” ہم اللہ کو دیکھنا چاہتے ہیں“ ” اگر تم رسول ہو تو ایک فرشتہ تمہارے ساتھ کیوں نہیں رہتا جو لوگوں کو تمہاری طرف بلاتا رہے“ ” اگر تم رسول ہو تو تمہارے پاس خزانہ کیوں نہیں ہے“۔ یا یہ کہ ” تمہارے پاس کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہونا چاہیے“ ان کا مقصد طلب ہدایت نہیں بلکہ شرارت اور فتنہ انگیزی ہوتی تھی، ورنہ اللہ نے تو نشانیاں ہمیشہ ہی بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے انبیاء ورسل کے ساتھ بھیجی ہیں۔ 174: مشرکین عرب اور یوہد و نصاری کے دل کفر و عناد اور سرکشی میں ایک دوسرے جیسے ہیں 175: ایمان ویقین والوں کے لیے وہ نشانیاں کافی ہیں جو اللہ نے قرآن میں بیان کردی ہیں ْ البقرة
119 176: اس میں گواہی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ حق سے مراد دین اسلام ہے جو قرآن وسنت کا نام ہے 177: مشرکین عرب کے لیے وعید شدید ہے اور یہ کہ ان سے ایمان کی توقع نہیں کی جاسکتی، وہ لوگ اللہ کے علم میں جہنمی ہیں البقرة
120 178: اس میں یہود و نصاری کے ایمان لانے سے غایت درجہ کی ناامیدی کی خبر دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، یہود و نصاری آپ سے کبھی بھی خوش نہیں ہوں گے، یہاں تک کہ آپ ان کے دین کو قبول کرلیں۔ اس لیے ان کی مرضی حاصل کرنے کی کوشش اچھی بات نہیں، آپ بس اللہ کی رضا طلب کریں، اور ان کے سامنے وہ دین حق پیش کریں جو آپ کو دے کر بھیجا گیا ہے اور جس کے علاوہ کوئی بھی دین، دین حق نہیں ہے۔ 179: یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ یہود و نصاری کے پاس ہدایت نہیں، ہوائے نفس ہے، اور وہ دوسروں کو اسی کی طرف بلاتے ہیں، اور اس میں امت اسلامیہ کے شدید وعید ہے کہ اگر قرآن وسنت کا علم آجانے کے بعد یہود و نصاری کی راہ اپنائیں گے تو اللہ کے عذاب سے انہیں کوئی نہیں بچا سکتا۔ اس آیت کے ضمن میں وہ لوگ بھی آتے ہیں جو محض مداہنت کی بنیاد پر کسی کی رائے کو قرآن و سنت پر ترجیح دیتے ہیں یا سنت کو پس پشت اس لیے ڈال دیتے ہیں کہ کسی امام یا کسی عالم کا قول اس کے خلاف ہے اور قرآن و سنت کی تاویل کرتے ہیں ہیں ان کے معانی و مفاہیم کو بدل دیتے ہیں تاکہ کوئی منافق حاکم وقت ناراض نہ ہوجائے۔ گویا کوئی بھی آدمی اگر کسی انسان کی مرضی یا رائے کو مقدم کرنے کے لیے قرآن اور رسول اللہ کی سنت کو نظر انداز کردیتا ہے، وہ اس آیت کے ضمن میں آئے گا، اور آیت میں موجود تہدید و وعید اس کو شامل ہوگی۔ البقرة
121 180: مراد یہود و نصاری ہیں اور ان آیتوں میں ان کے دعائے ایمان کی تردید کی جا رہی ہے، اس لیے آیت کی تفسیر یہ ہوگی کہ ان میں سے جن لوگوں نے اپنی کتاب کی اتباع کی، حلال و حرام کا التزام کیا، ان میں تحریف نہیں کیا، وہی لوگ، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دین پر ایمان لائیں گے جو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے، وہ یہود و نصاری نہیں جنہوں نے اپنی کتاب کو بدل دیا، حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنایا، آپ سے متعلق نشانیوں کو چھپایا، اسی لیے اللہ نے فرمایا، آیت و من یکفر بہ فاولئک ھم الخاسرون، جو لوگ دین کا انکار کریں گے، وہی درحقیقت خسارہ پانے والے ہوں گے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح حدیث ہے کہ (اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، جو شخص بھی، چاہے وہ یہودی ہو یا عیسائی، میرے بارے میں سنے گا اور مجھ پر ایمان نہیں لائے گا، وہ جہنم میں داخل ہوگا) مسلم۔ البقرة
122 البقرة
123 181: اسی سورت کی آیت (48) کی تفسیر دیکھئے، آیت کے تکرار سے مقصود، بنی اسرائیل کو اللہ کے انعامات یاد دلا کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی ترغیب دلائی ہے کہ وہ محض حسد کی بنیاد پر ان کا انکار نہ کریں، اور تورات میں ان کی جو صفات بیان کی گئی ہیں انہیں نہ چھپائیں اور قیامت کے دن کے عذاب سے ڈریں۔ البقرة
124 182: ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے مختل اوامر و نواہی کے ذریعہ آزمایا، آپ تمام آزمائشوں میں پورے اترے، تو اللہ نے انہیں بطور انعام و اکرام تمام عالم کے لیے توحید کا امام بنا دیا، جب یہ خوشخبری ان کو دی گئی، تو انہوں نے خواہش کی اور دعا کی کہ اے اللہ اس انعام و اکرام میں میری اولاد کو بھی شریک کردے۔ تو اللہ نے ان کی دعا سن لی، جیسا کہ اللہ نے دوسری جگہ فرمایا ہے : آیت وجعلنا فی ذریتہ النبوۃ والکتاب کہ ہم نے ان کی نسل کو نبوت اور کتاب دی۔ العنکبوت : 27۔ لیکن اس استثناء کے ساتھ کہ ظالم لوگ اس وعدہ میں شامل نہیں ہوں گے۔ اس میں ایک قسم کی ترگیب ہے ان سب لوگوں کے لیے جو اپنی نسبت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف کرتے ہیں کہ اگر وہ دنیا میں عزت، اور آخرت میں جہنم سے نجات چاہتے ہیں تو دین اسلام جو دین ابراہیمی ہے اسے قبول کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا، آیت، ماکان ابراہیم یہودیا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما وما کان من المشرکین۔ ان اولی الناس بابراہیم للذین اتبعوہ وھذا النبی والذین امنوا واللہ ولی المومنین۔ کہ ابراہیم یہودی اور نصرانی نہیں تھے وہ تو موحد مسلمان تھے اور مشرکین میں نہ تھے، بے شک لوگوں میں سب سے زیادہ ابراہیم کے حقدار وہ ہیں جنہوں نے ان کی اتباع کی، اور یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور جو لوگ ایمان لائے، اور اللہ مومنوں کا دوست (آل عمران : 67 تا 68)۔ 183: حافظ ابن کثیر کے نزدیک راجح قول یہ کہ کلمات سے مراد وہ تمام اوامر و نواہی اور وہ تمام امور ہیں جن کے التزام کا اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا۔ انتہی، ان میں رب العالمین کے لیے خشوع وخضوع، ہجرت فی سبیل اللہ، آگ میں ڈالا جانا، ختنہ اور بیٹے کی قربانی سر فہرست آتے ہیں۔ 184: ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ نے اس آیت میں ابراہیم (علیہ السلام) کو خبر دی ہے کہ ان کی نسل میں ظالم لوگ بھی ہوں گے۔ آیت سے مستفاد ہوتا ہے کہ ظالم لوگ دوسروں کی امامت کے حقدار نہیں ہوسکتے۔ اس لیے کہ امام کو عدل و انسٓف والا اور عامل بالشریعت ہونا چاہیے۔ اسی طرح اس سے یہ حکم بھی نکلتا ہے کہ امور شریعت کی ذمہ داری کسی ظالم کو نہیں دی جائے گ۔ اس لیے کہ مسلمان اپنے امام کی پیروی کرتے ہیں اور اگر وہ ظالم یا فاسق ہوگا تو اپنے ماتحت لوگوں کو گمراہ کردے گا۔ البقرة
125 185: اللہ تعالیٰ نے امام ابراہیم کی نشانی خانہ کعبہ کا ذکر فرمایا ہے۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ مومن کے دل میں زیارت خانہ کعبہ کی خواہش ہر دم کروٹیں لیتی رہتی ہے۔ ایک بار زیارت کے کرکے لوگ اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں تو دوبارہ زیارت کی خواہش پھر پیدا ہوجاتی ہے اور اس گھر کا زائر امن میں ہوتا ہے دور جاہلیت میں آدمی اپنے باپ یا بھائی کے قاتل کو کعبہ کے سامنے پاتا اور اسے کچھ نہیں کہتا تھا۔ یہ سب ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کی برکت تھی۔ 186: اس گھر کے بنانے والے (ابراہیم) کا رب العالمین کے یہاں وہ مقام ہے کہ اللہ نے ہمیشہ کے لیے ان کی یاد کو خانہ کعبہ سے جوڑ دیا اور ہر زائر کعبہ کو حکم دیا کہ وہ مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھے امام بخاری نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے، عمر بن الخطاب (رض) نے کہا کہ میرے رب نے تین باتوں میں میری موافقت کی۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! کاش مقام ابراہیم کو آپ نماز پڑھنے کی جگہ بنا دیتے تو یہ آیت آیت واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی نازل ہوئی (الحدیث) کہ تم لوگ مقام ابراہیم کو نماذ پڑھنے کی جگہ بناؤ۔ مقام ابراہیم وہی پتھر ہے جس پر پاؤں رکھ کر ابراہیم (علیہ السلام) نے خانہ کعبہ کی دیوار بنائی تھی۔ یہ پتھر کعبہ کی دیوار سے لگا ہوا تھا، ایک شدید سیلاب میں بہہ کر مکہ کی وادی میں چلا گیا، تو امیر المومنین عمر بن الخطاب (رض) نے اسے وہاں سے لا کر دیوارِ کعبہ سے الگ جما دیا، اور کسی صحابی نے نکیر نہیں کی۔ حافظ ابوبکر بیہقی نے سند صحیح کے ساتھ عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ مقام ابراہیم، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابو بکر (رض) کے زمانے میں بیت اللہ سے لگا ہوا تھا، حضرت عمر (رض) نے اسے الگ کردیا۔ 187: اس میں ان مشرکین کی تردید ہے جو اللہ کے بجائے بتوں کی پرتش اس گھر کے پاس کرتے تھے جسے ابراہیم (علیہ السلام) نے صرف رب العالمین کی عبادت کے لیے بنایا تھا اور جسے ابراہیم اور اسماعیل نے اللہ کے حکم سے بتوں سے پاک کیا تھا، تاکہ ہمیشہ کے لیے یہ سنت قائم ہوجائے۔ اس آیت میں یہودو نصاری پر بھی نقد ہے کہ وہ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کی فضیلت و عظمت کا اعتراف کرتے ہیں، اور جانتے ہیں کہ انہوں نے ہی بیت اللہ کو حج وعمرہ میں طواف کرنے اور اس کے پاس اعتکاف اور نماز ادا کرنے کے لیے بنایا تھا، لیکن وہ لوگ ایسا نہیں کرتے، پھر خلیل اللہ (علیہ السلام) کے متبع کیسے ہوگئے؟ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ موسیٰ بن عمران اور ان کے بعد انبیاء علیہم السلام نے حج کیا تھا۔ البقرة
126 188: ابراہیم (علیہ السلام) نے کعبہ بنانے کے بعد یہ دعا کی کہ اے میرے رب اس جگہ کو جہاں میں نے تیرا گھر بنایا ہے اور جہاں تیرے حکم سے اپنی اولاد کو بسایا ہے، ایسا شہر بنا دے جہاں لوگ انس محسوس کریں اور ہر خوف سے آزاد رہیں، اور یہاں بسنے والے مومنین کے لیے ہر قسم کا پھل مہیا فرما۔ چنانچہ اللہ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور حرم کو امن کا گہوارہ اور بلد حرام بنا دیا، جہاں ہتھیار اٹھانا حرام ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے آخر میں یہ صراحت کردی کہ جو کافر ہوگا وہ یہاں تو تمہاری دعا سے فائدہ اٹھائے گا، لیکن آخرت میں اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ فائدہ : امام مسلم (رح) نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابراہیم نے مکہ کو حرم قرار دیا، اور میں مدینہ کو دونوں حروں کے درمیان حرم بناتا ہوں۔ البقرة
127 189: اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ اپنی قوم کو بتائیں کہ ابراہیم اور ان کے بیٹے اسماعیل، ام القری کی سرزمین میں اللہ کا گھر بناتے ہوئے یہ کہتے جا رہے تھے کہ اے ہمارے رب اسے قبول کرلے۔ امام بخاری (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب ابراہیم (علیہ السلام)، اسماعیل (علیہ السلام) اور ان کی ماں کی حیریت معلوم کرنے کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لائے تو اسماعیل بڑے ہوچکے تھے، ابراہیم نے کہا : اے اسماعیل اللہ نے مجھے ایک کام کا حکم دیا ہے۔ اسماعیل نے کہا آپ کے رب نے جو حکم دیا ہے اسے کیجیے کہا تم میری مدد کرو گے؟ کہاں (ہاں) میں آپ کی مدد کروں گا، کہا اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہاں ایک گھر بناؤ۔ جب دونوں نے مل کر اس گھر کی بنیاد اونچی کرلی تو اسماعیل پتھر لاتے رہے اور ابراہیم جوڑتے رہے۔ جب مکان اونچا ہوگیا تو وہ پتھر (مقام ابراہیم) لائے جس پر کھڑے ہو کر ابراہیم جوڑتے رہے، اور اسماعیل ان کو پتھر لا لا کردیتے رہے۔ دونوں بیت اللہ کے ارد گرد گھوم گھوم کر جوڑتے رہے اور کہتے رہے آیت ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔ اے ہمارے رب ہماری طرف سے اس عمل کو قبول کر، تو بڑا سننے والا اور جاننے والا ہے۔ ابن ابی حاتم نے وہیب بن الورد کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ یہ آیت پڑھتے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ خلیل الرحمن آپ اللہ کا گھر بنا رہے تھے اور ڈر رہے تھے کہ کہیں آپ کا عمل قبول نہ کیا جائے۔ معلوم ہوا کہ مومن مخلص عمل کرتا ہے اور ڈرتا ہے کہ کہیں اس کا عمل اس کے منہ پر نہ مار دیا جائے (وہیب، عبداللہ بن مبارک، فضیل بن عیاض اور عبدالرزاق وغیرہم کے شیخ اور بڑے عابد و زاہد آدمی تھے) البقرة
128 190: مناسک سے مراد یا تو حج کے اعمال ہیں جیسا کہ سیاق و سباق سے پتہ چلتا ہے یا اس سے مراد پورا دین اور ساری عبادات ہیں کیونکہ کہ نسک کا لغوی معنی تعبد ہے یعنی عبادات کرنا۔ البقرة
129 191: ابراہیم اور ان کے بیٹے اسماعیل علیہما السلام نے اللہ سے علم نافع اور عمل صالح کی توفیق، اور اللہ کی رضا مانگی، اور پھر یہ دعا کی کہ اے اللہ ! اسماعیل کی اولاد میں ایک نبی پیدا کر، جو لوگوں کو تیری آیات پڑھ کر سنائے، انہیں قرآن و سنت کی تعلیم دے، اور انہیں شرک اور تمام گناہوں سے پاک کرے، چنانچہ اللہ نے ان کی دعا قبول فرم الی۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا، عیسیٰ کی بشارت، اور اپنی ماں کا خواب ہوں (مسند احمد) البقرة
130 192: اس آیت میں اہل کتاب اور مشرکین عرب کی تردید ہے جنہوں نے ملت ابراہیمی کو چھوڑ کر جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے کے بعد دین اسلام اور عقیدہ توحید میں محصور ہوگئی، اپنی اپنی ہوائے نفس کی اتباع کی ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب کی وحدانیت کا برملا اعلان کیا، اس کے ساتھ کسی کو ایک لمحہ کے لیے بھی رشریک نہ بنایا، اور پوری قوم کی مخالفت مول لی، حتی کہ اپنے باپ سے براءت کا اعلان کیا، اور اس عقیدہ کی خاطر بے دھڑک آگ میں کود گئے۔ یہی ہے ملت ابراہیمی، اسی کی وصیت ابراہیم نے اپنے بیٹوں اور اپنے پوتے یعقوب کو کی، اور اسی ملت ابراہیمی کی دعوت و تبلیغ کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب اور کفار سب کو خطاب کر کے کہا کہ اس سے بڑھ کر اپنے حق میں ظلم کرنے والا اور کون ہوگا، جو اس ملت ابراہیمی کو قبول نہیں کرے گا، اور اس کی مخالفت کرے گا، وہی ابراہیم جسے اللہ نے بچپن سے دعوت توحید کے لیے چن لیا تھا، یہاں تک کہ اپنا خلیل بنا لیا اور آخرت میں وہ ان نیک بخت روحوں میں سے ہوں گے جنہیں اللہ اعلی مقام عطا فرمائے گا۔ البقرة
131 193: اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو اخلاص، کمال عبودیت اور توحید و اسلام پر ثابت رہنے کا حکم دیا، تو انہوں نے رب العالمین کے سامنے سر تسلیم ختم کردیا۔ البقرة
132 194: ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب نے اپنے بیٹوں کو دین اسلام پر قائم رہنے کی نصیحت کی، جس کے علاوہ اللہ کے نزدیک کوئی دین قابل قبول نہیں۔ البقرة
133 یہود و نصاری پر حجت تمام کرنے کے لیے یعقوب (علیہ السلام) کی وصیت بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے بھی اپنے بیٹوں کو مرنے سے پہلے (دین اسلام) پر چلنے کی وصیت کی تھی۔ صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (الانبیاء اخوۃ لعلات، امہاتہم شتی، ود ینہم واحد) انبیائے کرام آپس میں علاقتی بھائی ہیں ان کی مائیں مختلف ہیں اور ان کا دین ایک ہے۔ البقرة
134 196: ابراہیم، یعقوب اور ان کی اولاد کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے اعتقادات، اعمال اور اخلاق حسنہ ان کے کام آئیں گے، اور اے یہود و نصاری تمہاری بد اعمالیاں تمہارے میزانِ عمل میں ہوں گی۔ ان کے اچھے اعمال کا تذکرہ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ تم بھی انہی جیسے بنو، اگر انکار کرو گے تو ان کے اعمال تمہارے کام نہیں آئیں گے۔ البقرة
135 197: محمد بن اسحاق نے ابن عباس رضٰ اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن صوریا (جو کانا تھا) یہودی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ ہم لوگ صحیح دین پر ہیں، اس لیے اے محمد تم ہماری اتباع کرو، اور نصاری نے بھی ایسی ہی بات کہی، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ ان سب سے کہیں کہ ہم تو ابراہیم کے دین کی اتباع کریں گے، جنہوں نے تمام ادیان باطلہ سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے دین حنیف (دین اسلام) پر چلنے کا اعلان کیا تھا۔ 198: اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ یہود و نصاری شرک میں مبتلا ہوگئے، لہذا راہ ہدایت سے وہ ہزاروں میل دور ہیں۔ البقرة
136 199: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تعلیم دی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو کتاب نازل ہوئی اس پر مفصل طور پر ایمان لائیں، اور گذشتہ انبیائے کرام پر جو کتابیں نازل ہوئیں تھیں ان پر مجمل طور پر ایمان رکھیں، اور بغیر تفریق سب پر ایمان رکھیں، یہود و نصاریٰ کی طرح نہ کریں کہ کسی پر ایمان کا دعوی کریں اور کسی کا انکار کریں۔ حضرت امام بخاری (رح) نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ اہل کتاب (یہود) تورات عبرانی زبان میں پڑھتے تھے، اور اس کی تفسیر عربی زبان میں مسلمانوں کو بتاتے تھے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہ اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب اور ان سے کہو کہ ہم تو اللہ پر اور اس کی کتاب پر ایمان لے آئے ہیں جو ہم پر اتری ہے (پھر آپ نے پوری آیت پڑھی) فوائد : 1۔ اس آیت کریمہ میں وہ تمام چیزیں سمیٹ دی گئی ہیں جن پر ایمان لانا واجب ہے۔ ایمان کا لفظ بولاجا تو ارکان اسلام اور اعمال صالحہ سبھی داخل ہوں گے، اسی طرح جب صرف اسلام کا لفظ بولا جائے گا تو اس میں ایمان داخل ہوگا، اور جب دونوں ایک ساتھ بولے جائیں گے تو ایمان دل کے اقرار و تصدیق کا نام ہوگا اور اسلام ظاہری اعمال کا۔ 2: قولوا امنا : یعنی زبان سے کہو ہم ایمان لے آئے، درآحالیکہ دل اس کی تصدیق کر رہا ہو، اس لیے کہ اس کے بغیر ثواب و جزا کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح اگر دل کے اعتقاد کی تائید عمل سے نہیں ہوتی تو وہ بھی تقریباً بے اثر اور بے فائدہ ہے۔ 3: قولوا : اس میں اشارہ ہے اس طرف کہ مسلمان اپنے عقیدہ کا اعلان کرتا ہے، اور اس کی طرف دوسروں کو دعوت دیتا ہے۔ 4: آمنا : جمع کا صیغہ، اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ امت اسلامیہ کے تمام افراد کی یہ ذمہ داری ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رہیں، اور افتراق کو قبول نہ کریں۔ 5: آمنا باللہ : یعنی ہم ایمان لائے اس اللہ پر جو واجب الوجود ہے، واحد ہے، احد ہے، ہر صفت کمال کے ساتھ متصف ہے، ہر نقص و عیب سے پاک ہے، جو اکیلا تمام انواعِ عبادت کا مستحق ہے، اور جس کا کوئی کسی بھی حیثیت سے شریک نہیں۔ 6: وما انزل الینا : قرآن و سنت دونوں کو شامل ہے، جیسا کہ اللہ نے فرمایا، وما انزل علیکم من الکتاب والحکمۃ، اور اللہ نے آپ پر قرآن و حکمت دونوں اتارا ہے، قرآن و سنت پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ان دونوں میں موجود تمام صفات باری تعالیٰ، صفات انبیاء و رسل، یوم آخرت، غیبی امور اور احکام شریعہ پر ایمان رکھتا ہے۔ 7۔ وما انزل الی ابراہیم۔۔۔ الایہ۔ تمام کتب سماویہ اور تمام انبیاء پر وجوب ایمان کی دلیل ہے یعنی سب پر ایمان لانا ضروری ہے۔ البقرة
137 200: یعنی اے مسلمانو ! اگر اہل کتاب (یعنی یہود) اسی ایمان سے متصف ہوجائیں جس ایمان سے تم لوگ متصف ہو اور جس کا ذکر ابھی ہوچکا، تو وہ لوگ صراط مستقیم پر گامزن ہوجائیں گے۔ اور اگر انہوں نے محض آپ کی مخالفت اور عداوت میں آ کر حق سے روگردانی کی، تو اللہ اپنے رسول سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ ان کے شر کو آپ سے دور رکھے گا، اور ان کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، کچھ قتل کردئیے گئے، کچھ قید کرلئے گئے، اور کچھ جلا وطن کردئیے گئے اور ہر طرف تتر بتر ہوگئے، اور یہ قرآن اللہ کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے کہ جیسا قرآن نے خبر دی تھی ایسا ہی وقوع پذیر ہوا۔ صحیح بخاری میں ابو سعید خدری (رض) سے مروی ہے کہ بنو قیظہ نے جب سعد بن معاذ (جو ان کے حلیف تھے) کو حکم تسلیم کرلیا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بلا بھیجا، وہ ایک گدھے پر آئے، جب مسجد کے قریب ہوئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار سے کہا، تم لوگ اپنے سردار کے استقبال کے لیے کھڑے ہوجاؤ پھر ان کو بتایا کہ بنو قریظہ والوں نے تمہیں حکم مان لیا ہے، تو انہوں نے فرمایا، آپ ان کے جنگ کرنے والوں کو قتل کردیں، اور ان کی اولاد کو قیدی بنا لیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، تم نے اللہ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ صحیح بخاری کی دوسری روایت ابن عمر (رض) سے مروی ہے کہ بنو نضیر اور بنو قریظہ نے مسلمانوں سے جنگ کی، تو بنو نضیر جلا وطن کردئیے گئے، اور بنو قریظہ احسان کر کے چھور دئیے گئے، لیکن بنو قریظہ نے پھر مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی تو ان کے مردوں کو قتل کردیا گیا، اور عورتوں، بچوں اور ان کی جائدادوں کو مسلمانے کے درمیان تقسیم کردیا گیا، سوائے ان بعض لوگوں کے جو پہلے ہی آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مل گئے تو آپ نے ان کو امن دے دیا، اور وہ لوگ مسلمان ہوگئے، اس کے بعد تمام یہود مدینہ کو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جلا وطن کردیا اور مدینہ ان کے وجود سے پاک ہوگیا۔ البقرة
138 201: یہود و نصاری کا دستور تھا کہ جب وہ کسی آدمی کو اپنے مذہب میں داخل کرنا چاہتے یا اپنے بچوں کو ایک خاص عمر میں پہنچنے کے بعد یہودیت یا نصرانیت کی تلقین کرتے، تو کہتے کہ ہم نے اس پر اپنے مذہب کا رنگ چڑھا دیا، عیسائیوں نے اس کے لیے ایک زرد پانی ایجاد کیا تھا، جس میں وہ اپنے بچوں کو اور ہر اس شخص جو ان کے مذہب میں داخل ہونا چاہتا تھا، غسل دیتے تھے، جسے عربی میں صبغہ اور اردو میں بپتسمہ کہتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن کے زمانے کے یہودیوں اور عیسائیوں کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ تمہارا یہ عمل کوئی معنی نہیں رکھتا، اور اللہ کے نزدیک اس کی کوئی حیثیت نہیں، اصلی رنگ تو اللہ کا رنگ ہے اور وہ دین اسلام ہے اس لیے تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اسلام کے رنگ میں رنگو اور اس کو اپنی زندگی میں جاری و ساری کرو، کیونکہ جس طرح رنگ کپڑے کے ہر جزو میں پیوست کرجاتا ہے اسی طرح اسلام اپنے ماننے والے کی حالت کو یکسر بدل دیتا ہے۔ البقرة
139 202: اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تعلیم دی ہے کہ مشرکینِ اہل کتاب آپ سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں، تو جھگڑا ختم کرتے ہوئے کہیے کہ تم کیسے لوگ ہو جو اللہ کی توحید و اخلاص اور اس کے اوامر و نواہی پر عمل کرنے میں مجھ سے جھگڑتے ہو، حالانکہ وہ ہمارا اور تمہارا سب کا رب ہے۔ اس کے بعد اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تعلیم دی کہ آپ ان سے براءت کا اعلان کردیں، اور کہدیں کہ اگر تم شرک پر جمے رہے تو ہم ایک دوسرے سے بری ہیں، اور ہم تو اپنی عبادت اور تعلق باللہ میں مخلص ہیں۔ البقرة
140 203: یہود و نصاری دعوے کرتے تھے کہ ابراہیم اور دیگر انبیاء جن کا آیت میں ذکر آیا ہے، یہودی یا نصرانی تھے۔ اللہ نے ان کی تردید کی اور کہا کہ تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اس کے بعد اللہ نے خبر دی کہ وہ لوگ یہود و نصاری نہیں تھے اللہ نے دوسری جگہ ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا، آیت، ماکان ابراہیم یہودیا ولا نصرانیا ولکن کان حنیفا مسلما وماکان من المشرکین۔ کہ ابراہیم یہودی یا نصرانی نہیں تھے، بلکہ وہ تو موحد مسلمان تھے اور مشرکوں میں سے نہیں تھے اال عمران : 67۔ 204: حسن بصری کہتے ہیں کہ اہل کتاب اپنی کتابیں پڑھا کرتے کہ سچا دین اسلام ہے، اور محمد اللہ کے رسول ہیں، اور ابراہیم اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کے بیٹے یہودیت و نصرانیت سے بری تھے۔ تورات و انجیل میں اللہ نے ان باتوں کو بیان کیا، اور اہل کتاب نے ان کا اقرار کیا، لیکن انہوں نے اس صداقت کو جان بوجھ کر چھپا دیا، اسی لیے نے بطور تہدید و وعدی کہا کہ تم بڑے ہی ظالم ہو، اور اللہ تمہارے کرتوتوں سے غافل نہیں۔ البقرة
141 205: اس آیت کی تفسیر آیت 134 میں گذر چکی ہے۔ یہاں تکرار کا مقصد، گذشتہ بات کی یاد دہانی کرانی ہے کہ انسان کا ذاتی عمل ہی اس کے کام آئے گا محض انبیاء و رسل کی طرف نسبت، قیام تکے دن کچھ کام نہیں آئے گی، اس لیے گذشتہ لوگوں کے بارے میں باتیں نہ بناؤ۔ تم سے ان کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ تم سے تو تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا، تم سے سوال کیا جائے گا کہ خاتم النبیین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے تھے یا نہیں، ان کی شریعت پر عمل کیا تھا یا نہیں؟ البقرة
142 206: مکی زندگی میں جب نماز فرض ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا گیا کہ نماز پڑھتے ہوئے اپنا رخ بیت المقدس میں موجود صخرہ چٹان کی طرف کریں، چنانچہ آپ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان خانہ کعبہ کو اپنے سامنے کرکے اور صخرہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے، ہجرت مدینہ کے بعد آپ کو دونوں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، آپ سولہ یا سترہ ماہ اسی طرح نماز پڑھتے رہے، اور تمنا کرتے رہے کہ اللہ ان کا رخ خانہ کعبہ کی طرف پھیر دے جو ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ تھا۔ اللہ نے ان کی تمنا پوری کردی، اور خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دے دیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور انہیں اس بات کی اطلاعی۔ تحویل قبیلہ کے بعد آپ نے پہلی نماز، نماز عصر، خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے پڑھی، جیسا کہ براء بن عازب (رض) کی روایت سے پتہ چلتا ہے جسے شیخین نے روایت کی ہے۔ اہل قبا کو اس کی خبر دوسرے دن فجر کی نماز میں ہوئی جیسا کہ ابن عمر (رض) کی روایت میں ہے جسے شیخین نے روایت کی ہے، تو لوگوں نے نماز کی حالت میں ہی اپنا رخ ملک شام سے خانہ کعبہ کی طرف پھیر لیا۔ 207 : نفسیاتی طور پر حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور مومنین کو اس بات کی اطلاع پہلے دے دی کہ کچھ نادان لوگ باتیں بنائیں گے، اور کہیں گے کہ آخر ان لوگوں نے اپنا قبلہ کیوں بد لیا، چنانچہ ایسا ہی ہوا، اور یہود، منافقین اور مشرکین عرب نے آپس میں ایسی باتیں کرنی شروع کردیں، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے شبہ کا جواب دیا کہ تمام جہات عالم اللہ کی ملکیت ہیں، ان میں سے کوئی جہت بذات خود قبلہ بننے کی مستحق نہیں، وہ قبلہ اس لیے ہے کہ اللہ نے اسے قبلہ بنایا ہے۔ اس لیے ایک جہت سے دوسری جہت تحویل قبلہ پر کوئی عقلمند اور سنجیدہ آدمی اعتراض نہیں کرے گا، بلکہ سمجھے گا کہ جب اللہ نے ایسا حکم دیا ہے تو یہی حق ہے، کیوں کہ تمام جہات کا مالک اللہ ہے۔ البقرة
143 208: اس آیت کریمہ میں امت مسلمہ کی فضیلت اور بڑائی بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے مسلمانو ! جس طرح ہم نے تمہیں ابراہیم کے قبلہ کی طرف پھیر دیا ہے جو سب سے افضل قبلہ ہے۔ اسی طرح ہم نے تمہیں سب سے بہترین معتدل اور صاحب عدالت امت بنایا ہے، اور تمہیں وہ دین دیا ہے جو کامل اور واضح دین ہے، جس میں نہ یہودیت کی تشدید ہے، اور نہ نصرانیت کی ڈھیل۔ 209: اس کا مشہور مفہوم یہ ہے کہ قیامت کے دن مسلمان، انبیاء کے حق میں ان کی امتوں کے خلاف گواہی دیں گے، جب وہ امتیں کہیں گی کہ ہمارے پاس کوئی اللہ کی طرف بلانے والا اور اس سے ڈرانے والا نہیں آیا تھا، تو مسلمان کہیں گے، ہم گواہی دیتے ہیں کہ تمام رسولوں نے اپنی دعوت ان قوموں تک پہنچائی تھی، اسی طرح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سامنے گواہی دیں گے کہ انہوں نے اللہ کا پیغام امت مسلمہ کو پہنچا دیا تھا۔ امام بخاری نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نوح (علیہ السلام) کو بلائیں گے، اور ان سے پوچھیں گے کہ کیا تم نے میرا پیغام اپنی قوم کو پہنچا دیا تھا؟ تو وہ کہیں گے کہ ہاں، پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا کہ کیا اس نے میر اپیغام تمہیں پہنچا دیا تھا، تو وہ لوگ کہیں گے، ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، اللہ نوح سے پوچھیں گے، کون ہے تمہارا گواہ؟ تو وہ کہیں گے، محمد اور ان کی امت،،، پھر مسلمان گواہی دیں گے کہ ہاں، انہوں نے پیغام پہنچا دیا تھا، اور محمد رسول اللہ گواہی دیں گے کہ انہوں نے مسلمانوں کو پیغام پہنچا دیا تھا، پھر آپ نے فرمایا : یہی مفہوم ہے اللہ کے قول وکذلک جعلناکم امۃ وسطا الایہ کا۔ اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ تاکہ تم دوسری قوموں کو راہ حق کی طرف بلانے کی ذمہ داری قبول کرو، جیسا کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے دین کی طرف دعوت دینے کی ذمہ داری سنبھالی ہے، مجاہد نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ تاکہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے یہود، نصاری اور مجوسیوں کے سامنے گواہ بنو، انہیں دین اسلام کی طرف بلاؤ، بھلائی کا حکم دو، اور برائی سے روکو، جو دعوت اسلامیہ کی اساس اور اس کی روح ہے۔ علمائے تفسیر نے اس آیت کے ضمن میں یہ بھی کہا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو لوگوں کے بارے میں گواہ بنایا ہے، اور ان کی گواہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گواہی کے قائم مقام ہے۔ صحیح بخاری میں انس بن مالک (رض) کی روایت ہے کہ صحابہ کرام ایک جنازہ کے پاس سے گذرے اور اس کی اچھائی بیان کی، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا، واجب ہوگئی، پھر ایک دوسرے جنازہ سے گذرے تو اس کی برائی بیان کی، آپ نے کہا، واجب ہوگئی، حضرت عمر بن خطاب (رض) نے پوچھا، کیا واجب ہوگئی؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم لوگوں نے اس کی اچھائی بیان کی تو اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، اور اس کی برائی بیان کی تو اس کے لیے جہنم واجب ہوگئی، تم لوگ زمین پر اللہ کے گواہ ہو، امام حاکم نے اس حدیث کی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے کہ آپ نے یہ آیت پڑھی، وکذلک جعلناکم، الایۃ۔ فائدہ : یہ آیت، اجماع امت کے حجت ہونے کی دلیل ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے وسطا کا لفظ استعمال کیا ہے، جس کے معنی عدل اور ثقہ کے ہیں۔ اگر پوری امت غلطی پر اتفاق کرلے گی تو وہ امت وسط نہیں ہوگی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ الہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو گمراہی پر مجتمع ہوجانے سے محفوظ رکھا ہے، اور اس میں ایک ایسی جماعت ہمیشہ رہے گی جس کے ذریعہ قیامت تک حجت پوری ہوتی رہے گی، اسی لیے امت اسلامیہ کا اجماع حجت ہے، جیسے قرآن و سنت حجت ہے۔ اور اسی لیے اس امت کے اہل حق، سنت اور جماعت کے التزام کی وجہ سے ان باطل پرستوں سے ہمیشہ ممتاز رہے، جو اس زعم باطل میں مبتلا رہے کہ وہ صرف قرآن کی اتباع کرتے ہیں، اور سنت رسول اور اجماع امت سے اعراض کرتے ہیں۔ اصحاب سنن و مسانید نے مختلف طریقوں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ یہ امت بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، سبھی جہنم میں جائیں گے، سوائے ایک فرقہ کے، اور وہ جماعۃ المسلمین کا فرقہ ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا : وہ لوگ اس پر قائم ہوں گے جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں۔ انتہی۔ اور یہ فرقہ ناجیہ اہل سنت کی جماعت ہوگی۔ یہ لوگ فرقوں میں سب سے بہتر لوگ ہیں، جیسے مذہب اسلام سب سے بہتر مذہب ہے۔ 210: یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا، پھر کعبہ کی طرف پھیر دیا، تاکہ معلوم ہوجائے کہ کون آپ کی اتباع کرتا ہے، اور کون اپنے دین سے پھر جاتا ہے، کیونکہ اب بیت المقدس کے بجائے کعبہ کی طرف متوجہ ہونا مومنین صادقین کے علاوہ کفار اور منافقین پر تو بڑا شاق گذرے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، اس امتحان میں کوئی لوگ ناکام رہے، کئی لوگ مرتد ہوگئے، اور بہت سے منافقین نے اپنا نفاق ظاہر کردیا اور کہنے لگے کیا بات ہے کہ محمد، ہمیں کبھی ادھر پھیرتا ہے اور کبھی ادھر؟ مشرکین نے کہا کہ محمد کو اپنے دین میں شک ہوگیا، اور نہی بھانت بھانت کی بولیوں کے درمیان بعض مسلمانوں بھی کہنا شروع کردیا کہ ہم نے اور ہمارے فوت شدہ بھائیوں نے جو نمازیں بیت المقدس کی طرف رخ کر کے پڑھی تھیں، وہ سب ضائع ہوگئیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اطمینان دلاتے ہوئے فرمایا کہ تمہاری وہ نمازیں ضائع نہیں ہوئیں، اللہ اپنے بندوں پر مہربانی اور رحم کرنے والا ہے۔ فائدہ : یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ اعضاء و جوارح کے ذریعہ جو اعمال صالحہ ادا کیے جاتے ہیں، وہ ایمان میں داخل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کو ایمان سے تعبیر کیا ہے۔ البقرة
144 211: یہ آیت اگرچہ تلاوت کے اعتبار سے متاخر ہے، لیکن معنی کے اعتبار سے متقدم ہے، اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ آنے کے بعد اللہ کے حکم کے مطابق بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے اور تمنا کرتے رہے کہ کاش ان کا قبلہ مسجد حرام ہوجاتا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمنا پوری ہوئی۔ 212: مسجد حرام سے اس طرح اشارہ ہے کہ جہت کعبہ کی طرف رخ کرنا واجب ہے، نہ کہ خاص کعبہ کیطرف 213: یعنی بحر و بر میں جہاں بھی رہو، نماز میں اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کرو، اور خطاب خاص کے بعد خطاب عام سے مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ یہ حکم تمام مسلمانوں کے لیے عام، اور یہ کہ مسلمان دنیا کے جس گوشے میں بھی ہوگا، نماز میں رخ کعبہ کی طرف کرے گا۔ 214: یہود اپنے انبیاء کی تصریحات کے ذریعہ جو ان کی کتابوں میں موجود تھیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت کی صفات کو اچھی طرح جانتے تے، یہ بھی جانتے کہ دین اسلام جو انسانیت کی ہدایت کے لیے آخری دین ہوگا، وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی امت کا دین ہوگا، اور ان صفات محمدیہ کے ضمن میں یہ بھی پڑھتے تھے کہ خاتم النبیین کا قبلہ کعبہ ہوگا، لیکن حسد و عناد کی وجہ سے جہاں انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دوسری صفات کا انکار کیا، وہاں کعبہ کے قبلہ ہونے کا بھی انکار کیا، اسی لیے اللہ نے انہیں دھمکی دی کہ اللہ ان کے کرتوتوں سے غافل نہیں ہے۔ البقرة
145 215: اس میں اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاری کے کفر وعناد اور ان کی جانب سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہر بات کی مخالفت کی اطلاع دی ہے، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس بات کی خبر دی ہے کہ اگر آپ اپنے دین کی صداقت پر تمام دلیلیں اکٹھا کر کے ان یہود و نصاری کے سامنے پیش کردیں گے، تب بھی یہ آپ کی اتباع نہیں کریں گے، اور اپنی خواہشات کی غلامی سے آزاد نہیں ہوں گے، کیونکہ ان کا کفر کسی شبہ کی وجہ سے نہیں جسے دلائل کے ذریعہ دور کیا جاسکتے، یہ تو صرف کبر و عناد کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں۔ 216: یعنی نہ وہ لوگ اپنے باطل کو چھوڑنے والے ہیں، اور نہ آپ اپنے حق کو چھورنے والے ہیں، آپ سے ایسا سرزد ہونا ممکن ہی نہیں۔ 217: یہود کا قبلہ بیت المقدس ہے، اور نصاری کا مطلع آفتاب، حالانکہ ان سب کا تعلق بنی اسرائیل سے ہے، لیکن دونوں ہی جماعتیں اپنی اپنی رائے پر سختی کے ساتھ جمی ہوئی ہیں۔ اس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ایک طرح کا اشارہ ہے کہ آپ ان سے بھلائی کی توقع نہ کریں اور ان کی ہدایت کی امید نہ رکھیں۔ 218: یہود و نصاری کے مذہب کو اھواء یعنی خواہشات نفس سے تعبیر کیا گیا ہے، اس لیے کہ ان کا مذہب ان کی خواہشات کے مجموعے کا نام تھا اور وہ لوگ اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ جاثیہ آیت 23 میں فرمایا ہے۔ آیت افرایت من اتخذ الہہ ھواہ، یعنی کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے اس آیت میں بندے کی خواہش نفس کو اس کا معبود بتایا گیا ہے۔ 219: اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہوگا کہ آدمی حق وباطل کو جانتے ہوئے، باطل کو حق پر ترجیح دے، یہاں مخاطب اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، لیکن ان کی امت اس میں داخل ہے، اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی عظمت شان اور علوت مرتبت کے باوجود ایسا کرنے پر اللہ کے نزدیک ظالم ہوجائیں گے، تو ان کی امت کے لوگوں کا ایسا کرنے پر کیا حال ہوگا۔ البقرة
146 220: اس میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اہل کتاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رسول ہونے پر ایسا ہی یقین رکھتے ہیں جیسے انہیں اپنی صلبی اولاد کے بارے میں یقین ہے کہ یہ ہماری اولاد ہیں اور یہ یقین انہیں ان اوصاف کے ذریعہ حاصل ہوچکا ہے جو تورات و انجیل میں نبی موعود کے بارے میں موجود ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورۃ اعراف آیت 157 میں فرمایا ہے آیت یجدونہ مکتوبا عندھم فی التوراۃ والانجیل، یعنی نبی موعود (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات ان کے تورات و انجیل میں لکھی ہوئی موجود ہیں لیکن اہل کتاب کا ایک گروہ اس حق بات کو جانتے ہوئے چھپاتا ہے۔ البقرة
147 221: نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین کے لیے مزید یقین دہانی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو قرآن نازل ہوا ہے اور انہیں جو دین دے کر بھیجا گیا ہے وہی حق ہے جس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں، اس لیے آپ کی امت اس حق میں کوئی شبہ نہ کرے۔ البقرة
148 222: یہ آیت بتاتی ہے کہ ہر صاحب دین و ملت کے لیے ایک مخصوص جہت ہوتی ہے، جدھر وہ اپنی عبادتوں میں رخ کرتا ہے، جیسے مسلمانوں کا قبلہ کعبہ، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا میں مختلف مذاہبھ اور متعدد ادیان پائے جاتے ہیں، اس لیے عقلمند آدمی کو چاہیے کہ ان میں جو سب سے بہتر اور اعلی و ارفع دین ہو، اسے اپنائے، اور تمام عقلائے بنی نوع انسان کا اس پر اتفاق ہے کہ دین اسلام ہی وہ دین ہے جس میں انسان کے لیے تمام بھلائیاں جمع کردی گئی ہیں، اس لیے اسے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے ہر انسان کو ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہئے۔ 223: کلمہ مسابقت، مسارعت سے زیادہ بلیغ ہے، کیونکہ اس میں دوسروں پر سبقت لے جانے کا معنی بھی پایا جاتا ہے، اور خیرات سے مراد وہ تمام اعمال صالحہ ہیں جن کے ذریعہ دنیا وآخرت کی سعادت حاصل کی جاسکتی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصیحت کی ہے کہ تمہارا شیوہ ہر خیر اور ہر بھلائی کی طرف سبقت کرنا ہونا چاہئے۔ 224: اس میں اعمالِ صالحہ کے لیے ایک قسم کی ترغیب ہے، کیونکہ آدمی کو جب یقین ہوگا یکہ اللہ سے ادوبارہ زندگہ کرے گا اور اسے اس کے اعمال کا بدلہ چکائے گا، تو پھر وہ آخرت کی تیاری میں تیز تر ہوجائے گا 225: یعنی اللہ تعالیٰ روز قیامت تمہیں زمین کے گوشے گوشے سے جمع کرنے پر قادر ہے، چاہے تمہارے اجسام و اعضاء ہر طرف بکھر کیوں نہ گئے ہوں۔ البقرة
149 البقرة
150 226: مسلمانوں کا قبلہ کعبہ بن جانے کے بعد میدنہ منورہ میں ایک فتنہ برپا ہوگیا، اہل کتاب، منافقین اور مشرکین نے طرح طرح کی باتیں بنانا شروع کردیں، اور مختلف قسم کے شب ہے پھیلانا شروع کردئیے، ایسی فضا کو ختم کرنے اور مسلمانوں کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھانے کے لیے کہ کعبہ اب ابدالآباد تک کے لیے مسلمانوں کا قبلہ ہوگیا ہے، ضرورت اس بات کی تھی کہ مختلف اسالیب اور مختلف پیرائے میں یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشیں کرادی جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو بیان کرنے کے لیے تکرار کا اسلوب اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنے نبی کو خطاب کر کے فرمایا کہ آپ سفر و حضرت میں کہیں بھی ہوں نماز میں اپنا رخ کبعہ کی طرف کریں، اور یہ حکم تمام مسلمانوں کے لیے تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے تمام امت اسلامیہ کو خطاب کر کے فرمایا کہ تم لوگ جہاں کہیں بھی رہو، نماز میں مسجد حرام کی طرف رخ کرو، پھر اللہ تعالیٰ نے مزید تاکید کے لیے فرمایا کہ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف تحویل قبلہ اللہ کی طرف سے ہے۔ اور یہ سب اللہ نے اس لیے کیا تاکہ اہل کتاب اور مشرکین کے پاس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف باتیں بنانے کا بہانہ باقی نہ رہ جائے، کیونکہ اہل کتاب اپنی کتابوں کے ذریعہ جانتے تھے کہ خاتم النبیین کا قبلہ کعبہ ہوگا، اگر بیت المقدس ہی قبلہ رہ جاتا تو اہل کتاب کو حیرانگی ہوتی اور دل میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت میں شبہ کرتے، اور مشرکین کہتے کہ محمد دعوی کرتا ہے کہ وہ ملت ابراہیمی پر گامزن ہے، اور اس کی اولاد میں سے ہے، تو پھر ابراہیم کا قبلہ کیوں نہیں اختیار کرتا، چنانچہ کعبہ کے قبلہ ہوجانے کے بعد سب کی زبانیں تقریباً بند نہ ہوگئیں۔ سوائے چند ظالموں کے جنہیں کوئی نہ کوئی بات بناتے رہنا تھا۔ مجاہد کہتے ہیں کہ بعض یہودیوں نے کہا کہ محمد اپنے باپ کے گھر اور اپنی قوم کے دین کا مشتاق ہوگیا ہے اور بعض مشرکوں نے آپس میں کہنا شروع کیا کہ محمد جب ہمارے قبلہ کی طرف لوٹ گیا ہے تو اب ہمارے دین کی طرف بھی لوٹ جائے گا۔ اس کے بعد اللہ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ تم لوگ ان کی فتنہ انگیز باتوں سے نہ گھبراؤ، اور مجھ سے ڈرو، اور میرے حکم کی مخالفت نہ کرو، میں چاہتا ہوں کہ اپنی نعمت تم پر تمام کردوں، اور تم لوگ حق کو پہچان کر اس پر عمل کرو۔ البقرة
151 227: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے مسلمانو ! اگر آج ہم نے تمہیں کعبہ بطور قبلہ عنایت کیا ہے، اور شریعت اسلامیہ جیسی نعمت سے نوازا ہے، تو ہم نے اس سے پہلے تمہارے پاس اپنا رسول بھیجا ہے تو جو تم ہی میں سے ہیں، تمہیں قرآن پڑھ کر سناتے ہیں، بے مثال تربیت کے ذریعہ تمہیں دین اور اخلاقی خرابیوں سے پاک کرتے ہیں اور قرآن و سنت کی تعلیم دیتے ہیں، نیز وہ تمام اچھی باتیں سکھاتے ہیں جو تم جانتے نہ تھے، اور جو انسان کو دنیا و آخرت میں بلند وبالا کرتی ہیں۔ ان احسانات کا تقاضا یہ ہے کہ تم مجھے یاد کرتے رہو اور میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں یاد کرتا رہوں گا، اور میرا شکر ادا کرتے رہو، اور کفرانِ نعمت نہ کرو، امام احمد اور امام بخاری نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ عز وجل کہتا ہے میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے، اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں، اور اگر وہ مجھے مجمع میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہتر مجمع میں یاد کرتا ہوں۔ الحدیث اور امام مسلم نے ابوسعید خدری اور ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، ان دونوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں گواہی دی کہ آپ نے فرمایا : جب کوئی جماعت اللہ کا ذکر کرنے کے لیے بیٹھتی ہے تو فرشتے انہیں گھیرے میں لے لیتے ہیں، رحمت انہیں ڈھانک لیتی ہے، ان پر سکون و اطمینان نازل ہوتا ہے، اور اللہ انہیں پاس رہنے والوں کے درمیان یاد کرتا ہے۔ فائدہ : ذکرِ الٰہی صرف تسبیح و تہلیل اور تحمید و تکبیر میں منحصر نہیں ہے، بلکہ ہر وہ عمل جو قرآن و سنت کے مطابق ہو، اور جس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہو وہ ذکر الٰہی ہے۔ امام ابن القیم (رح) وسلم فرماتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے زیادہ اللہ کو یاد کرنے والے تھے، ان کی گفتگو، ان کا امر و نہی، اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات، احکام و افعال اور وعدہ و وعید کے بارے میں ان کی حدیثیں، ان کا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنا، اللہ تعالیٰ سے سوال و دعا، جنت کی رغبت دلانا، اور جہنم سے ڈرانا، ان کی خاموشی، سب کچھ ذکر الٰہی تھا۔ وہ ہر وقت اور ہر حال میں، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھے، سوتے جاگتے اور سفر و حضرت میں اللہ کی یاد میں مشغول رہتے تھے، انتہی۔ ذکر الٰہی کے وہ تمام طریقے اور وہ حرکات و سکنات جو گمراہ صوفیا نے ایجاد کرلیے ہیں، جن کا ثبوت صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ کرام سے نہیں ملتا، بدترین بدعت ہیں، انہوں سماع کے نام سے اپنی محفلوں میں رقص و موسیقی کو داخل کردیا، اور مسلمانوں کو قرآن سننے اور سنانے سے روک دیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جب جمع ہوتے تھے تو ان میں کا ایک قرآن پڑھتا تھا، اور باقی لوگ سنتے تھے۔ حضرت عمر رضٰ اللہ عنہ ابو موسیٰ اشعری (رض) سے کہتے تھے، ذکرنا ربنا، کہ ہمیں ہمارے رب کی یاد دلاؤ، چنانچہ وہ قرآن پڑھتے اور عمر سنتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، آیت اذ تتلی علیہم آیات الرحمن خروا سجدا وبکیا، جب ان کے سامنے اللہ کے قرآن کی تلاوت ہوتی ہے تو وہ سجدے میں روتے ہوئے گر پڑتے ہیں (مریم : 58)۔ ایک دوسری آیت میں اللہ نے فرمایا ہے۔ آیت اللہ نزل احسن الحدیث کتابا متشابھا مثانی تقشعر منہ جلود الذین یخشون ربہم ثم تلین جلودھم وقلوبہم الی ذکر اللہ۔ کہ اللہ نے سب سے اچھی حدیث نازل کی ہے جو اسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے جس سے ان لوگوں کے جسم کانپ اٹھتے جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں۔ پھر ان کے جسم اور دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف جھک جاتے ہیں۔ الزمر : 23)۔ معلوم ہوا کہ قرآن وسنت کے حدود میں رہ کر اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت مبارکہ کے سانچے میں اپنی زندگی کو ڈھالنا، قرآن کریم کی تلاوت اور قرآن کریم کو سمجھنا اور سمجھانا، ذکر الٰہی کے صحیح طریقے ہیں۔ وہ تسبیحات جن کا ثبوت قرآن و سنت سے نہیں ملتا، مثلاً پالتی مار کر اور آنکھیں بند کر کے بیٹھ جانا اور دعوی کرنا کہ اللہ کا تصور دل و دماغ میں بسایا جا رہا ہے، حق ھو کے نعرے لگانا، دل پر لا الہ الا اللہ کی ضربیں لگانا، حلقے بنا کر بیٹھ جانا اور سری یا جہری ذکر میں بزعم خود مشغول ہونا، یہ اور اس قسمکے افعال و حرکات کا، مشروع ذکرِ الٰہی سے کوئی تعلق نہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ہر وہ کام جس کا ثبوت ہماری شریعت میں نہیں ملتا، وہ مردود ہے۔ چاہے وہ کوئی عقیدہ ہو کوئی نظریہ ہو کوئی قول وعمل ہو، اور چاہے ذکر کے خود ساختہ طریقے ہوں، سبھی کچھ مردود ہے اگر قرآن و سنت سے اس کو ثبوت نہیں ملتا، اگر کوئی شخص زندگی بھر مراقبہ میں بیٹھا رہ جائے اور اس زعم باطل میں مبتلا رہے کہ وہ اللہ کی یاد میں مشغول ہے، لیکن اس کے اس عمل کا ثبوت قرآن وسنت سے نہیں ملتا، تو اس کی ساری محنت بے کار ہے، بلکہ قیامت کے دن وبال جان بن کر اس کے سامنے آئے گی۔ البقرة
152 البقرة
153 228: اللہ تعالیٰ نے بندون خو شکر ادا کرنے کا حکم دینے کے بعد، اس آیت میں صبر اور نماز کی اہمیت بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ مومن کی زندگی میں ان دونوں چیزوں کی بڑی اہمیت ہے، اور اللہ کی راہ میں مصائب کو جھیل جانے کا اہم ترین نسخہ صبر اور نماز ہے۔ اسی لیے تو اللہ نے اسی سورت کی آیت 45 میں فرمایا ہے، آیت واستعینوا بالصبر والصلاۃ وانہا لکبیرۃ الا علی الخاشعین۔ اور تم لوگ صبر اور نماز سے مدد لو، اور یہ نماز اللہ کے لیے عاجزی اختیار کرنے والوں کے علاوہ لوگوں پر بڑا بھاری گذرتا ہے۔ اور مسند احمد میں حذیفہ بن یمان (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کوئی اہم معاملہ پیش آتا، تو نماز پڑھتے تھے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ صبر کی تین قسمیں ہیں : 1۔ محرمات اور معاصی سے اجتناب پر صبر کرنا۔ 2۔ اعمال صالحہ اور اللہ کی اطاعت ٦ پر صبر کرنا۔ 3۔ مصائب و حادثات زمانہ پر صبر کرنا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) اپنی کتاب السیاسۃ الشرعیۃ میں لکھتے ہیں کہ حاکم کے لیے بالخصوص اور رعایا کے لیے بالعموم تین چیزیں عظیم مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ 1۔ اللہ کے لیے اخلاص، اور دعا اور غیر دعا کے ذریعہ اس پر توکل، اور دل و جان سے نماز کی حفاظت و پابندی، جو اللہ کے لیے اخلاص کی اصل ہے۔ 2۔ مخلوق کے ساتھ بھلائی کرنا اور زکاۃ ادا کرنا۔ 3۔ تکلیف، مصیبت اور حادثاتِ زمانہ کے وقت صبر کرنا۔ انتہی۔ 229: اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور یہاں (معیت) سے مراد ” معیت خاصۃ“ ہے، جو اللہ کی محبت اور اس کی نصرت و قربت پر دلالت کرتی ہے۔ یعنی اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، ان سے محبت کرتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے۔ اور صبر کرنے والوں کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا فضیلت ہوسکتی ہے کہ اللہ ان کے ساتھ ہے اور معیت کی ایک دوسرے قسم معیت عامہ ہے یعنی اللہ اپنی علم وقدرت کے ذریعہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے وھو معکم این ما کنتم۔ اور یہ معیت تمام مخلوق کے لیے ہے۔ البقرة
154 230: اللہ کی اطاعت پر صبر کرنے کا عظیم ترین نمونہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے کہ آدم اپنے خالق و مالک کی رضا کی خاطر اس کی راہ میں اپنی عزیز ترین شے (جان) کی قربانی دیتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے شہید کو اس دنیاوی زندگی سے افضل و اعلی زندگی عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے اور مومنین کو منع کیا ہے کہ وہ شہید کو مردہ کہٰں، کیونکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہوتا ہے۔، لیکن وہ اسی زندگی ہوتی ہے جس کا ہم شعور نہیں کرپاتے، مگر ہمارے شعور نہ کر پانے سے اللہ کے نزدیک ثابت شدہ حقائق نہیں بدل جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے۔ آیت بل احیاء عند ربہم یرزقون۔ فرحین بما اتاھم اللہ من فضلہ ویستبشرون بالذین لم یلحقوا بہم من خلفہم الا خوف علیہم ولا ھم یحزنون۔ یستبشرون بنعمۃ من اللہ وفضل وان اللہ لا یضیع اجر المومنین۔ یعنی وہ زندہ ہیں، انہیں اپنے رب کی طرف سے روزی مل رہی ہے، اور اللہ نے اپنے فضل سے جو کچھ انہیں دیا ہے، اس پر خوش ہیں اور ان لوگوں کی نسبت خوش ہو رہے ہیں جو ابھی ان سے ملے نہیں، ان کے پیچھے ہیں کہ نہ تو انہیں کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ کسی قسم کا غم کھائیں گے، وہ اللہ کی نعمتوں اور اس کے فضل کی وجہ سے خوشیاں مناتے ہیں اور اس بات سے اللہ ایمان رکھنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ آل عمران : 169 تا 171۔ فائدہ : یہ آیت برزخ کی زندگی پر دلیل ہے، اور یہ کہ برزخ کی زندگی دنیاوی زندگی سے افضل و اکمل ہے۔ البقرة
155 231: یہ خطاب صحابہ کرام کے لیے ہے، لیکن دیگر مومنین بھی اس میں شامل ہیں، اس لیے کہ جو لوگ دعوت الی اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کی ذمہ داری قبول کریں گے، ان کا مقابلہ اہل فسق و فجور سے ہوگا، اور جو لوگ حق پر قائم رہٰیں گے اور اس کی طرف دوسروں کو بلائیں گے ان کی ابتلاء و آزمائش لازم ہے، یہی سنت ابراہیمی ہے، اور یہ آزمائش اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ جھوٹے اور سچے اور صبر کرنے والے اور جزع و فزع کرنے والے میں تمیز ہوسکے۔ اور جو صبر سے کام لیتا ہے، اللہ سے اجر کی امید رکھتا ہے، اور راجی بقضائے الٰہی ہوتا ہے، اللہ اسے بشارت دیتا ہے کہ اس کا اجر اس کو پورا پورا ملے گا۔ البقرة
156 232: صبر کرنے والوں کی اللہ نے یہ صفت بتائی کہ جب انہیں کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو فوراً اللہ کی تقدیر پر اپنی رضا کا اظہار کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم اللہ اللہ کے غلام ہیں، ہماری جانیں اور ہمارے اموال سب کچھ اللہ کی ملکیت ہیں اس لیے ارحم الراحمین اگر اپنے غلاموں اور ان کے اموال میں تصرف کرتا ہے، تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ البقرة
157 233: صبر کرنے والوں کے لیے ایک اجر عظیم یہ بھی ہے کہ رب العالمین ان کی تعریف بیان کرتا ہے، اور ان پر رحمت کا نزول فرماتا ہے اور یہی لوگ فی الواقع راہ ہدایت پر ہیں، اس لیے کہ انہوں نے جب جان لیا کہ وہ اللہ کے غلام ہیں، اور اسی کی طرف لوٹ کر جائیں گے، تو کسی بھی حال میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ صبر کرنے والوں کے لیے اجر عظیم سے متعلق بہت سی صحیح احادیث آئی ہیں، اختصار کی غرض سے صرف ایک حدیث ذکر کرتا ہوں : شیخین نے ابوسعید اور ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مسلمان کو جب بھی کوئی پریشانی، یا حزن وملال یا غم و تکلیف لاحق ہوتی ہے، حتی کہ اگر ایک کانٹا بھی چبھتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ البقرة
158 234: اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبر دی ہے کہ صفا اور مروہ دونوں پہاڑیاں اس کے دین کی نشانیوں میں سے ہیں، اس لیے جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے، اس کے لیے ان دونوں کے درمیان سعی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس آیت کریمہ کا شان نزول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اوس و خزرج کے لوگ اسلام سے پہلے مناۃ بت کی پرستش کرتے تھے، جو مقام مشلل میں تھا، اور اس کا تلبیہ پڑھتے تھے، اور جو لوگ اس بات کا تلبیہ پڑھتے تھے وہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کو گناہ سمجھتے تھے، اس لیے اسلام لانے کے بعد انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ ہم لوگ جاہلیت کے دور میں صفا و مروہ کے درمیان سعی کو گناہ سمجھتے تھے، اب اس بارے میں اسلام کا کیا حکم ہے؟ تو قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی۔ امام زہری، ابوبکر بن عبدالرحمن سے ایک دوسری روایت بیان کرتے ہیں کہ کچھ لوگ صفا و مروہ کے درمیان سعی کو دور جاہلیت کا عمل سمجھتے تھے، اور انصار کے کچھ لوگوں نے کہا کہ ہمیں بیت اللہ کے طواف کا حکم تو دیا گیا ہے، صفا و مروی ہے کے درمیان سعی کا نہیں، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ ایک اور روایت ہے کہ صفا و مروہ دونوں پہاڑیوں پر اساف اور نائلہ نام کے دو بت تھے، دور جاہلیت میں لوگ ان دونوں کے درمیان دوڑتے تھے، اسلام آنے کے بعد دونوں بتوں کو پھینک دیا گیا تو لوگوں نے کہا کہ سعی دونوں بتوں کے لیے تھی، اس لیے سعی کرنا بند کردیا، تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ابو بکر بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ممکن ہے ان تمام ہی قسم کے لوگوں کے بارے میں یہ آیت اتری ہو، صحیح مسلم میں جابر بن عبداللہ (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ کے طواف کے بعد صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، اور فرمایا سعی کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر سعی کو واجب قرار دیا ہے اور حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا کہ صٖفا اور مروہ کے درمیان طواف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے، اس لیے کسی کے لیے اسے چھوڑ دینا جائز نہیں (صحیحین) فائدہ : صفا و مروہ کے درمیان سعی حضرت ہاجرہ علیہا السلام کی دوڑ کی یاد گار ہے۔ جب کھانا اور پانی ختم ہوگیا، اور اپنے بچے کو پیاس کے مارے بلبلاتے دیکھاتو نہایت اضطراب و پریشان کے عالم میں اللہ کے سامنے عجز و انکساری کے ساتھ دونوں پہاڑیوں کے درمیان لگانے لگیں، تو اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور زمزم کا چشمہ پھوٹ پڑا، اور ان کا کرب و الم دور ہوا، اس لیے سعی کرنے والے کو چاہئے کہ اپنے دل میں اللہ کے سامنے اپنی ذلت و محتاجی کا تصور کرے، اپنے گناہوں سے معافی مانگتا رہے، اور دعا کرتا رہے کہ اللہ اس کے دل کی حالت بہتر بنا دے اور اس کے عیوب و نقائص کو دور کردے۔ البقرة
159 235: اس آیت میں ان لوگوں کے لیے شدید وعید ہے، جو انبیاء ورسل کے ذریعہ بھیجی گئی ہدایت و رہنمائی کو لوگوں سے چھپاتے ہیں۔ یہ آیت اگرچہ یہود و نصاری کے ان علماء کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی نشانیوں کو چھپایا تھا، لیکن اس کا حکم عام ہے، ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ حق کی نشانیوں کو چھپائے گا، وہ اس کی وعید میں شامل ہوگا، کتمان حق اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اپنی رحمت و قربت سے دور کردیتا ہے، اور ساری دنیا کی لعنت ان پر برسنے لگتی ہے۔ البقرة
160 236: اس آیت میں حکم سابق سے استثناء ہے کہ جو اپنے گناہوں سے تائب ہوگا اور اپنی اصلاح کرلے گا، اور حق کی جو بات چھپائی تھی اسے لوگوں کے سامنے بیان کردے گا تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرلے گا۔ البقرة
161 237: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کا انکار کرے گا، اور اسی حال میں اس کی موت آجائے گی، تو اس پر اللہ، اس کے فرشتوں اور تمام بنی نوع انسان کی لعنت واقع ہوجائے گی، اور جہنم اس کا ہمیشہ کے لیے ٹھکانا بن جائے گا، نہ عذاب میں کمی آئے گی، اور نہ اللہ اس پر نظر رحمت ڈالے گا۔ البقرة
162 البقرة
163 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ اپنی ذات، اسماء و صفات اور افعال میں اکیلا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں، اس کے علاوہ کوئی خالق و مدبر نہیں، اس لیے عبادت کی تمام صورتیں صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں۔ البقرة
164 239: اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت کی اجمالی دلیل بیان کرنے کے بعد اس آیت میں تفصیلی دلائل کا ذکر فرمایا ہے، اور انسان کو دعوت فکر دی ہے کہ ذرا ان نشانیوں میں غور تو کرو، کیا یہ اللہ کے وجود اور اس کے قادر مطلق ہونے کے دلائل نہیں ہیں؟ آسمان کی بلندی، اس کی وسعت و پہنائی، اس میں شمس و قمر اور ستاروں کی دنیا، زمین کی پستی، اس کا ہموار ہونا، اس کے پہاڑ، اس کے سمندر، اس کی آبادیاں، اور گوناگوں نفع بخش چیزیں، لیل ونہار کی باضابطہ گردش، گری، سردی، موسم کا اعتدال، رات اور دن کا چھوٹا بڑا ہونا، کشتیوں اور جہازوں کا سمندروں میں انواع و اقسام کے سامان لے کر چلنا، سمندروں اور ہواؤں کا اس کے لیے مسخر ہونا، آسمان سے بارش کا نزول، جس سے مردہ زمین میں جان آجاتی ہے، اور مختلف الانواع نباتات اور کھانے کی چیزوں کا پیدا ہونا، زمین میں مختلف قسم کے جانور اور بنی نوع انسان کے لیے ان کی تسخیر، ہواؤں کا چلنا۔ ٹھنڈی، گرم، جنوبی، شمالی، شرقی اور غربی ہواؤں کا تنوع، اور بادلوں کا وجود جو بارش کا پانی لے کر اللہ کے حکم سے دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچتے رہتے ہیں۔ یقیناً یہ ساری چیزیں اللہ کے وجود اور اس کی قدرت مطلقہ پر دلالت کرتی ہیں اور ہر صاحب عقل و خرد کے لیے اللہ پر ایمان لانے کے لیے یہ نشانیاں کافی ہیں۔ البقرة
165 240: اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود، اپنی قدرت مطلقہ، اپنی توحید اور اپنی رحمت کی نشانیاں اس لیے بیان کردی ہیں، تاکہ بندے صرف اسی کی عبادت کریں، اور صرف اسی سے محبت کریں، اس کی عبادت اور اس کی محبت میں کسی دوسرے کو شریک نہ بنائیں۔ لیکن مشرکین کا حال اس سے مختلف ہوتا ہے۔ وہ اللہ کے بجائے دوسروں کی پرستش کرتے ہیں، اور اپنے معبودان باطل سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے کی جانی چاہئے اور جو صادق الایمان ہوتے ہیں، وہ توحید باری تعالیٰ کا صحیح علم رکھنے کی وجہ سے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے، صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں، اسی پر توکل کرتے ہیں، اور زندگی کے تمام امور میں صرف اللہ کی جناب میں پناہ لیتے ہیں۔ حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ، شرح المنازل، بابت التوبہ میں فرماتے ہیں کہ شرک کی دو قسمیں ہیں : شرک اکبر اور شرک اصغر، شرک اکبر کو اللہ بغیر توبہ معاف نہیں کرتا، اور وہ یہ ہے کہ بندہ کسی کو اللہ کا شریک بنا لے، اور اس سے ویسی ہی محبت کرے جیسی اللہ سے کی جانی چاہئے اور یہ وہ شرک ہے جس میں إشرکین اپنے معبودانِ باطل کو رب العالمین کے برابر قرار دیتے ہیں، اور یہ برابری محبت، تعظیم اور عبادت میں ہوتی ہے، جیسا کہ اکثر مشرکینِ عالم کا حال ہے، بلکہ اکثر مشرکین تو اپنے معبودوں سے اللہ کے مقابلے میں زیادہ محبت کرتے ہیں، اور ان کو یاد کر کے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ اگر ان کے معبودوں اور ان مشایخ کا جنہیں انہوں نے اپنا معبود بنا لیا ہے، کوئی شخص ادب و احترام کے ساتھ نام نہیں لیتا، تو اس قدر غضبناک ہوتے ہیں جس قدر وہ اللہ کا نام سوئے ادب سے لینے والے پر نہیں ہوتے، اور چیتے یا کتے کے مانند غیظ و غضب کا ظہار کرتے ہیں اور اگر کوئی اللہ کے مقرر کردہ حدود کو پامال کرتا ہے تو ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، بلکہ تھوڑی سی دنیاوی لالچ کی خاطر فوراً خوش ہوجاتے ہیں، جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ 241: مشرکین کے لیے دھمکی ہے کہ جب وہ ظالم، عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے، اور اپنے آپ کو اس میں گرفتار پائیں گے، تب شاید انہیں یقین آئے گا کہ حاکمیت صرف اللہ کے لیے ہے، اور آسمان و زمین کے درمیان ایک تنکا بھی اس کی قوت تصرف سے خارج نہیں۔ البقرة
166 242: قیامت کے دن مشرکین کے لیے وعید بیان کی گئی ہے، اس دن مشرکین کے باطل معبودان، جنہیں پوجا گیا تھا، جب عذاب کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں گے تو اپنی پرستش کرنے والوں سے براءت کا اظہار کریں گے، اور تمام رشتے کٹ جائیں گے جن کی بنیاد پر وہ جمع ہوتے تھے، کوئی معبود بنا تھا، اور کسی نے اس کی پرستش کی تھی۔ البقرة
167 243: جب قیامت کے دن مشرکین دیکھیں گے کہ ان کے معبودانِ باطلہ نے ان سے براءت کا اعلان کردیا ہے، تو دنیا میں اپنے کیے پر ندامت کا اظہار کریں گے اور کہیں گے کہ اے کاش ! ہم دوبارہ دنیا میں لوٹا دئیے جاتے، تو ان سے ہم بھی بری ہوجاتے، اور ایک اللہ کی عبادت کرتے، لیکن وہ اپنے اس قول میں جھوٹے ہوں گے، بلکہ اگر انہیں لوٹا دیا جاتا تو پھر وہی کرتے جو پہلے کرتے رہے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں اطلاع دی ہے، اور کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے برے اعمال ان کے سامنے پیش کردے گا، جنہیں وہ حسرت و تاسف کی نگاہوں سے دیکھیں گے، لیکن مثل مشہور ہے کہ ” اب پچھتاوت کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت“ اب تو جہنم ان کا ٹھکانا ہوگا، جہاں سے وہ کبھی بھی نہیں نکل پائیں گے۔ البقرة
168 244: جب یہ بیان ہوچکا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور وہی ہر شے کا خالق و مالک ہے، تو اب یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ وہی اکیلا روزی دینے والا ہے، اور اسی نے انسانوں کے لیے زمین پر موجود ہر حلال اور طیب (یعنی جو فی نفسہ لذیذ ہو اور جسم و عقل کے لیے نقصان دہ نہ ہو) کو مباح قرار دیا ہے، اور شیطان کے نقش قدم پر چلنے سے منع فرمایا ہے، اس لیے کہ شیطان کے بہکاوے میں آکر دور جاہلیت والے کئی قسم کے جانوروں کو بتوں کی طرف مختلف انداز میں منسوب کرتے، اور ان کا گوشت کھانا حرام سمجھتے تھے۔ اس کی تفصیل سے سورۃ مائدہ آیت 103 میں آئے گی۔ 245: مقصود شیطان سے نفرت دلانا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے آیت ان الشیطان لکم عدو فاتخذوہ عدوا انما یدعو حزبہ لیکونوا من اصحاب السعیر۔ کہ شیطان بلاشبہ تمہارا دشمن ہے، سو تم بھی اس کو دشمن ہی سمجھو۔ وہ تو محض اپنے گروہ کو اس لیے بلاتا ہے تاکہ وہ آتش دوزخ میں پڑیں، الفاطر : 6۔ البقرة
169 246: شیطان کی عداوت کی تفصیل بتائی گئی ہے کہ وہ تمہیں معاصی کا بالعموم اور فواحش کا بالخصوص حکم دیتا ہے۔ جیسے زنا، شراب، قتل اور دوسروں پر زنا کی تہمت لگانا وغیرہ اور تمہیں شیطان اس بات کا بھی حکم دیتا ہے کہ اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرو جن کا تم علم نہیں رکھتے ہو۔ فائدہ : اللہ کے بارے میں بغیر علم بات کرنے میں بہت سی چیزیں داخل ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا انکار کرنا یا اس کی تاویل کرنا، اللہ کا کسی کو شریک بنان، بغیر علم و بصیرت کے کہنا کہ اللہ نے یہ چیز حلال اور وہ چیز حرام کی ہے، اس کام کا حکم دیا ہے اور اس سے منع کیا ہے اور اس سلسلے کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ کوئی گمراہ فرقہ اللہ یا اس کے رسول کے کلام کی تاویل کر کے اپنی گمراہی کو حق ثابت کرنے کے لیے دلیل فراہم کرے۔ البقرة
170 247: شیطان کی اتباع سے روکنے کے بعد، اب بغیر حجت و برہان آباء واجداد کی اتباع سے روکا جا رہا ہے جو درحقیقت شیطان ہی کی اتباع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب مشرکین سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول پر جو دین اتارا ہے اس کی اتباع کرو، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو وہی کریں گے جو ہمارے آباء واجداد کرتے تھے، یعنی بتوں اور خود ساختہ معبودوں کی پرستش کریں گے اللہ نے ان کی تردید کی کہ کیا تم اپنے آباء کی پیروی کروگے، چاہے انہوں نے دین کو بالکل نہ سمجھا ہو، اور حق سے دور رہے ہوں؟ فائدہ : اس آیت میں اس بات پر سخت نکیر کی گئی ہے کہ صریح قرآن اور صحیح سنت کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے کی بات مانی جائے اور قرآن و سنت کے مقابلے میں اسے دلیل بنایا جائے، اور حجت یہ پیش کی جائے کہ ہمارے امام، ہمارے مرشد، ہمارے بزرگ، اور ہمارے فقیہ زیادہ سمجھتے تھے، اور یقیناً یہ حدیثیں ان کے علم میں رہی ہوں گی، لیکن کسی اقوی دلیل ہی کی وجہ سے انہوں نے ان حدیثوں کا انکار کیا ہوگا۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان حضرات نے انکار احادیث کے ان واقعات سے فقہی اصول کشید کیے، اور اپنی کتابوں میں مدون کردیا کہ جب بھی کوئی حدیث ان اصولوں کے خلاف پڑے گی اسے رد کردیا جائے گا، اس لیے کہ یا تو وہ ضعیف ہوگی یا مرجوح یا منسوخ ہوگی۔ قرآن و سنت کے حق میں اس جرمِ عظیم کا بدترین نتیجہ یہ سامنے آیا کہ امت کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بہت سی کمزور اور واہیات قسم کی حدیثیں رائج ہوگئیں، اور وہ صحیح حدیثیں جو بخاری و مسلم نے روایت کی ہیں اور جن پر عمل نہ کرنے کا کوئی جواز امت کے پاس موجود نہیں، سیکڑوں سال سے مسلمانوں کا منہ تک رہی ہیں، اور پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ ہم پر عمل کرو، ہم اللہ کے رسول کی صحیح احادیث ہیں، لیکن مقلدین انہیں درخور اعتناء نہیں سمجھتے۔ اسلام میں تمام گمراہ فرقوں کا وجود، شرک و بدعت کا رواج، قبروں، مزاروں اور درگاہوں کی پرستش، اور عقائد کی تمام بیماریاں اسی چور دروازے سے داخل ہوئی ہیں، کہ قرآن و سنت کو چھوڑ کر اپنے بزرگوں، مشایخ اور خود ساختہ معبودوں کی بات کو ترجیح دی، ان کی تقلید کی اور کہا کہ یہ حضرات جو کرتے آئے ہیں آخر ان کے پاس بھی تو کوئی دلیل رہی ہوگی، اس لیے ہم وہی کریں گے جو ہمارے بزرگ کرتے آئے ہیں۔ اور ان حدیثوں کو ہم نہیں مانیں گے اس لیے کہ ہم اپنے بزرگوں سے زیادہ نہیں سمجھتے۔ البقرة
171 248: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کو جانوروں سے تشبیہہ دیا ہے کہ جس طرح چرواہا جب اپنے جانوروں کو آواز دیتا ہے تو وہ جانور صرف آواز سن پاتے ہیں، اس کا معنی کچھ بھی نہیں سمجھتے، بعینہ یہی حال ان کافروں کا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں راہ ہدایت پر چلنے کے لیے پکارتا ہے، قرآن اتارتا ہے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے کھول کھول کر بیان کرتے ہیں، لیکن وہ اپنی شومئی قسمت سے کچھ بھی تو نہیں سمھ پاتے، اس لیے کہ عقل صحیح سے وہ محروم ہیں، وہ بہرے ہیں کہ کچھ بھی نہیں سنا پتے، گونگے ہیں کہ حق کی آواز کا جواب نہیں دے پاتے، اور اندھے ہیں کہ ہزار دلیلوں کے باوجود صڈاقت ان کی آنکھوں سے اوجھل ہے۔ البقرة
172 249: آیت (168) میں اللہ تعالیٰ نے عام انسانوں کو خطاب کر کے کہا ہے کہ حلال و طیب روزی کھاؤ۔ اس آیت میں خطاب مومنین کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ اپنے ایمان کی بدولت یہی لوگ اللہ کے اوامر و نواہی سے صحیح معنوں میں استفادہ کرسکتے ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو پاکیزہ روزی کھانے اور اس کا شکر ادا کرتے رہنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ اللہ نے انبیاء و رسل کو حکم دیا اور فرمایا، آیت، یا ایہا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا، یعنی اے میرے رسولو ! پاکیزہ روزی کھاؤ اور عمل صالح کرو، المومنون : 51۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) کہتے ہیں، طیبات، سے مراد وہ کھانے ہیں جو عقل و اخلاق کے لیے نفع بخش ہیں، اور اس کے مقابلے میں، خبائث، ان کھانوں کو کہتے ہیں جو عقل و اخلاق کے لیے نقصان دہ ہیں، اور شراب تمام خبیث کھانوں کی اصل ہے، اس لیے کہ وہ عقل و اخلاق میں فساد ڈال دیتی ہے۔ انتہی۔ فائدہ : حلال روزی دعا اور عبادت کی مقبولیت کا سبب ہے، اور حرام روزی کھانے سے دعا اور عبادت رد کردی جاتی ہے، جیسا کہ ابوہریرہ (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ ایک آدمی لمبے سفر پر ہے، بال بکھرے ہوئے ہیں، پریشان حال ہے، اور اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف پھیلا کر یارب یارب کہتا ہے، حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے، اس کا پینا حرام ہے، اس کا لباس حرام ہے، اور حرام کے ذریعہ اس کی پرورش ہوئی ہے، تو اس کی دعا کیسے قبول ہوگی؟ (مسلم)۔ البقرة
173 250: اکل حلال کی ترغیب و نصیحت کے بعد، یہاں بعض ان چیزوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کا کھانا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے مردہ جانور (چاہے وہ جیسے بھی مرا ہو) خون، سور کا گوشت، اور جس جانور کو غیر اللہ کے نام سے ذبح کیا گیا ہو، حرام کردیا ہے، ہاں اگر کوئی شخص اضطراری حالت میں جان بچانے کے لیے کھالیتا ہے تو گناہ گار نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ مسروق کہتے ہیں کہ اگر کسی نے اضطراری حالت میں کوئی حرام چیز کھا پی کر اپنی جان نہیں بچائی اور مرگیا تو وہ جہنم میں داخل ہوگا، ابو الحسن ال کیا الہراسی (صاحب احکام القرآن) کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ بات صحیح ہے، جیسے کہ مریض پر افطار بسا اوقات واجب ہوجاتا ہے۔ 251:۔ 1۔ جمہور اہل علم نے سمندر کے مردہ کو مستثنی قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، آیت احل لکم صید البحر وطعامہ، یعنی تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال کردیا گیا، المائدہ : 96۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ (سمندر کا پانی پاک کرنے والا، اور اس کا مردہ حلال ہے) (مسند، موطا، سنن) اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہمارے لیے دو مردے اور دو خون حلال کردئیے گئے ہیں۔ دو مردوں سے مراد، مچھلی اور ٹڈی ہے، اور دو خون سے مراد : کلیجی اور تلی ہے۔ 2۔ امام بخاری نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے، کچھ لوگوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ بعض لوگ ہمیں گوشت دیتے ہیں، اور ہمیں پتہ نہیں ہوتا کہ جانور بسم اللہ پڑھ کر ذبح کیا گیا ہے یا نہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ تم بسم اللہ پڑھ کر اسے کھالو۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ وہ لوگ ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔ معلوم ہوا کہ حرام وہ گوشت نہیں جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ اسے بسم اللہ پڑھ کر ذبح کیا گیا ہے یا نہیں، بلکہ حرام وہ ہے جس کے بارے میں معلوم ہو کہ اس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہے۔ اور حضرت علی (رض) سے مروی ہے، آپ نے کہا کہ اگر یہود و نصاری غیر اللہ کا نام لے کر ذبح کریں تو نہ کھاؤ اور اگر ایسا نہ سنو تو کھاؤ، اس لیے کہ اللہ نے ان کے ذبح کردہ جانوروں کا گوشت حلال قرار دیا ہے، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ لوگ ذبح کرتے وقت کیا کہتے ہیں۔ البقرة
174 252: کتمانِ حق کرنے والوں کے لیے وعید کا دوبارہ ذکر اس لیے کیا گیا ہے تاکہ امت مسلمہ کے افراد ایسی مذموم صفت سے اپنے آپ کو بچا کر رکھیں۔ یہود نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان صفات کو چھپایا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر دلالت کرتی تھیں، تاکہ عربوں پر ان کی برتری باقی رہے، اور جو ہدیے اور تحفے انہیں ان سے ملا کرتے تھے ان کا سلسلہ جاری رہے، اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ درحقیقت (ان حقیر ہدیوں کے عوض) اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ بھر رہے ہیں، اور قیامت کے دن اللہ مارے غضب کے ان سے بات بھی نہ کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ البقرة
175 253: ان کافروں نے ہدایت کے بدلے گمراہی اور مغفرتِ الٰہی کے بدلے عذاب نار کو قبول کرلیا ہے یہ لوگ قیامت کے دن ایسے سخت اور دردناک عذاب میں مبتلا ہوں گے کہ دیکھنے والے ان کے صبر پر مارے حیرانگی کے کہیں گے کہ اتنا دردناک عذاب یہ لوگ کیسے برداشت کیے جا رہے ہیں؟ البقرة
176 254: اور یہ لوگ ایسے سخت عذاب میں اس لیے مبتلا کیے جائیں گے، کہ اللہ تعالیٰ نے تو کتابیں اس لیے اتاری تھیں کہ حق کا ظہور و غلبہ ہو، اور باطل پامال ہو، لیکن ان لوگوں نے اللہ کی کتاب کا استہزاء کیا، اس میں تحریف کی، اور بالخصوص قرآن کے بارے میں خلاف واقع باتیں کہیں، کسی نے کہا یہ جادو ہے، کسی نے کہا یہ شعر ہے، کسی نے کہا یہ گذرے ہوئے زمانہ کی کہانیاں ہیں اور اس طرح وہ حق سے کو سوں دور ہوتے گئے اور عذاب شدید کے مستحق بنے۔ البقرة
177 255: مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت یہود و نصاری کی تردید میں اس وقت نازل ہوئی تھی، جب انہوں نے تحویل قبلہ کے بعد اسلام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں مختلف قسم کی فتنہ انگیز باتیں کرنی شروع کردی تھیں۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ کوئی بعدی بات نہیں کہ تحویل قبلہ کے بعد بعض مسلمانوں نے اپنی نہایت خوشی کا اظہار کیا ہو، اور اس بارے میں ان کا تشدد اس حد تک پہنچ گیا ہو کہ کعبہ کا قبلہ بننا ان کی نظر میں دین کی سب سے بڑی غرض و غایت ٹھہر گیا ہو، تو یہ آیت اتری کہ نیکی یہ نہیں کہ آدمی مشرق یا مغرب کی طرف اپنا رخ پھیرلے، بلکہ نیک وہ ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے (جو ہر صفت کامل کے ساتھ متصف اور ہر نقص سے پاک ہے) اور یوم آخرت اور اس کی ان تمام تفصیلات پر ایمان لائے جن کی خبر اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے، اور فرشتوں پر ان تمام تفصیلات کے ساتھ ایمان لائے جن کی اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے، اور تمام کتابوں پر ایمان لائے جنہیں اللہ نے اپنے رسولوں پر نازل کی اور خاص طور پر اللہ کی عظیم ترین کتاب قرآن کریم پر، اور تمام انبیائے کرام پر، اور خاص طور پر خاتم النبیین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر، اسی طرح نیک وہ ہے جو اپنا عمدہ مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں مسافروں اور مانگنے والوں پر اور غلاموں کا آزاد کرنے پر خرچ کرے، اور جس نے نماز قائم کی اور زکاۃ ادا کی، اللہ اور بندوں سے کیے ہوئے وعدوں کو پورا کیا، اور جس نے تکلیف و مصیبت کے وقت، اور دشمنان اسلام سے جہاد کرتے ہوئے صبر و استقامت سے کام لیا۔ 256: یہی لوگ اپنے ایمان میں صادق ہیں، اس لیے کہ ان کے اقوال و افعال نے ان کے ایمانِ قلبی کی تصدیق کردی، اور انہوں نے ثابت کردیا کہ خوف و دہشت اور حالاتِ زمانہ انہیں نہیں بدل سکتے، اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جو کوئی ایمان کے بعد مذکورہ بالا اوصاف سے متصف نہیں ہوتا، وہ اپنے دوائے ایمان میں صادق نہیں ہوتا۔ اور یہی لوگ حقیقت معنوں میں متقی ہیں، اس لیے کہ انہوں نے محرمات و ممنوعات کو چھوڑ دیا، اور نیک کاموں کو اپنا شیوہ بنا لیا۔ البقرة
178 257: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ قصاص کا حکم نافذ کرنے میں عدل و انصاف سے کام لیں، آزاد کو آزاد کے بدلے، غلام کو غلام کے بدلے اور عورت کو عورت کے بدلے قتل کریں، اور اللہ کے احکام کو بدل کر اپنی خواہش کے مطابق نہ کرلیں۔ مفسرین نے اس آیت کا سبب نزول، بنو قریظہ اور بنو نضیر کے قصاص و دیت سے متعلق آپس کے غیر عادلانہ نظام کو بتایا ہے۔ بنو نضیر نے جاہلیت کے زمانے میں بنو قریظہ سے جنگ کی تھی اور غالب آگئے تھے، اس کے بعد سے کوئی نضری کسی قرظی کے بدلے میں قتل نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ ایک سو وسق (تقریبا پندرہ ہزار کیلو گرام) کھجور کے بدلے نضری قاتل جانبر ہوجاتا تھا اس کے برعکس قرظی نضری کے بدلے میں قتل کیا جاتا تھا۔ اور اگر فدیہ پر آپس میں اتفاق ہوجاتا تاھ، تو بنو قریظہ والوں دو سو وسق (تقریبا تیس ہزار کیلو گرام) کھجور دینی پڑتی تھی۔ یہ سراسر ظلم تھا، اس لیے اللہ نے مسلمانوں کو قصاص میں انصاف کرنے کا حکم دیا، اور کہا کہ آزاد کے بدلے آزاد کو، اور عورت کے بدلے عورت کو قتل کیا جائے گا۔ ہاں ! اگر مقتول کا ولی قاتل کو معاف کردیتا ہے اور دیت لینے پر راضی ہوجاتا ہے، یا مقتول کے بعض ورثہ معاف کردیتے ہیں تو قصاص ساقط ہوجائے گا، اور دیت واجب ہوگی۔ ایسی صورت میں مقتول کے ورثہ کو چاہئے کہ قاتل کو سہولت دیں، اور اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ نہ ڈالیں۔ اسی طرح قاتل کو چاہئے کہ دیت ادا کرنے میں حتی الامکان تاخیر نہ کرے اور نہ اپنے کسی قول و فعل سے مقتول کے اولیاء کو ذہنی اذیت پہنچائے۔ اب اگر مقتول کے ورثہ معاف کردینے کے بعد یا دیت لے لینے کے بعد قاتل کو قتل کردیتے ہیں، تو دنیا میں ان سے قصاص لیا جائے گا اور آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ البقرة
179 258: اس میں اللہ تعالیٰ نے قصاص کی عظیم حکمت بیان فرمائی ہے، کہ قصاص میں زندگی ہے، اس لیے کہ جس کے ذہن میں یہ بات ہر وقت رہے گی کہ اگر اس نے کسی کو قتل کیا تو قتل کردیا جائے گا، تو وہ کسی کو قتل نہیں کرے گا، اسی طرح جب لوگ قاتل کو قتل ہوتا دیکھ لیں گے، تو دوسروں کو قتل کرنے سے خائف رہیں گے، لیکن اگر قتل کی سزا قتل کے علاوہ کچھ اور ہوتی تو شاید شر کا وہ دروازہ بند نہ ہوتا جو قاتل کھول دیتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رح) السیاسۃ الشرعیۃ میں کہتے ہیں کہ قتل کی تین قسمیں ہیں۔ ایک قتل عمد، یعنی کوئی کسی کو قصدا قتل کردے۔ اس قتل پر قصاص واجب ہوجاتا ہے۔ مقتول کے ورثاء چاہیں تو اسے قتل کردیں، چاہیں تو معاف کردیں، یا چاہیں تو دیت لے کر معاف کردیں اور قاتل کے علاوہ کسی دوسرے کا قتل جائز نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص معاف کردینے اور دیت لے لینے کے بعد قاتل کو قتل کردیتا ہے، تو وہ پہلے قاتل سے بڑا مجرم ہے اسی لیے بعض علماء نے کہا ہے کہ اس کا قتل کردینا واجب ہے، اس کا معاملہ مقتول کے ورثاء کے حوالے نہیں ہوگا۔ دوسری قسم قتل شبہ عمد۔ یعنی کسی نے ظلم و عدوان کی نیت سے کسی کو کوڑے یا لاٹھی وغیرہ سے مارنا شروع کیا، اسے جان سے ماردینا نہیں چاہتا تھا، لیکن اس کے ظلم و زیادتی کی وجہ سے وہ آدمی مرگیا تو اس کی دیت سو اونٹ ہے، جن میں چالیس اونٹنیاں حاملہ ہونی چاہئیں۔ تیسری قسم قتل خطا، جیسے کسی نے شکار کرنے کے لیے تیر چلایا اور وہ کسی آدمی کو غلطی سے اور لاعلمی میں لگ گیا، اس میں قصاص نہیں ہے، بلکہ دیت اور کفارہ ہے۔ فوائد : 1۔ جمہور اہل علم کا مذہب ہے کہ مسلمان کو کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کافر کے بدلے مسلمان کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ 2۔ مرد کو عورت کے بدلے قتل کیا جائے گا، اس لیے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ مرد کو عورت کے بدلے قتل کیا جائے گا 3۔ والدین کو اولاد کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ 4۔ جمہور علماء کا مذہب ہے کہ ذمی آدمی مسلمان کے برابر نہیں۔ اس لیے مسلمان کو ذمی کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ البقرة
180 259: اس آیت کریمہ میں والدین اور رشتہ داروں کے لیے وصیت کا حکم ہے صحیح قول کے مطابق میراث کی آیت نازل ہونے کے قبل، وصیت واجب تھی۔ آیت میراث کے نزول کے بعد یہ حکم منسوخ ہوگیا، اور اللہ کی طرف سے ورثہ کے لیے مقرر کردہ حصے لازم ہوگئے، جنہیں وہ میت کی وصیت کا احسان لیے بغیر پائیں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا، اب کسی وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں (ترمذی، نسائی، ابن ماجہ وغیرہ) امام شافعی اپنی کتاب (الرسالہ) میں لکھتے ہیں کہ یہ متن متواتر ہے، اور تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے سال فرمایا تھا کہ (وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں) امام احمد نے محمد بن سیرین سے روایت کی ہے کہ ابن عباس (رض) نے سورۃ بقرہ کی تلاوت کی، اور جب اس آیت پر پہنچے تو کہا کہ یہ آیت منسوخ ہوچکی ہے۔ لیکن وہ رشتہ دار جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے مال میں کوئی حصہ مقرر نہیں کیا ہے، ان کے لیے اسی آیت کو مد نظر رکھتے ہوئے وصیت کرنا مستحب ہے۔ اور اس کام کے لیے مال کا تیسرا حصہ استعمال ہوگا جس کی وصیت کرنی جائز ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد بن ابی وقاص کو صرف ایک تہائی مال میں وصیت کرنے کی اجازت دی تھی۔ البقرة
181 260: اگر کوئی شخص وصیت کو بدل دیتا ہے، تو اس کا گناہ اس کے سر ہوگا، وصیت کرنے والے کا اجر اللہ کے نزدیک ثابت ہوگیا۔ البقرة
182 261: اگر کسی وصیت کرنے والے سے وصیت کرنے میں غلطی ہوجائے، مثال کے طور پر ایک تہائی سے زیادہ مال کی وصیت کردے، یا کسی حیلہ بہانہ کے ذریعہ کسی وارث کو زیادہ دے دے، تو موصی (جس کے لیے وصیت کی گئی ہے) قضیہ کی اصلاح کردے اور اسے شریعت کے مطابق بنادے۔ البقرة
183 262: ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خبر دی ہے کہ ان پر روزے فرض کردئیے گئے ہیں جیسے گذشتہ قوموں پر فرض تھے اس لیے کہ روزہ رکھنے میں انسان کے لیے دنیا و آخرت کی ہر بھلائی ہے، اور اس لیے کہ آدمی جب اللہ کے لیے کھانے پینے اور مباشرت سے رک جاتا ہے، اور اپنے آپ کو اللہ کی بندگی میں مشغول کردیتا ہے، تو اللہ اسے تقوی کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ ابتدائے اسلام میں روزے ہر ماہ میں تین دن کے لیے رکھے جاتے تھے، اور مریض و مسافر حالت سفر میں روزے نہیں رکھتے تھے، بلکہ دوسرے دنوں میں رکھ لیتے تھے، اور صحت مند آدمی جو روزے رکھ سکتا تھا، اسے اجازت تھی کہ چاہے تو روزے رکھے، اور چاہے تو نہ رکھے، اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ کچھ دنوں کے بعد یہ حکم صحت مند لوگوں کے لیے رمضان کے روزوں کی فرضیت کے ذریعہ منسوخ ہوگیا، اور بوڑھے کمزور کے لیے باقی رہ گیا۔ امام بخاری نے آیت وعلی الذین یطیقونہ فدیۃ طعام مسکین کے بارے میں ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے۔ بلکہ یہ حکم بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کے لیے ہے، جو روزے نہیں رکھ سکتے، کہ وہ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں اور یطیقونہ کا معنی یہ بتایا ہے کہ جو لوگ عمر فانی کو پہنچ جانے کی وجہ سے روزے کی شدت برداشت نہیں کرسکتے وہ افطار کرلیں، اور روزانہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ البقرة
184 البقرة
185 263: ماہ رمضان کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نازل فرمایا، جو دین حق کو کھول کھول کر پیش کرتا ہے، اور حق و باطل اور ہدایت و گمراہی کو بیان کرتا ہے، نیک بختوں اور بدبختوں کی نشانیاں اور پھر ان کے انجام بیان کرتا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے مسند احمد کی ایک روایت نقل کی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام آسمانی کتابیں انبیائے کرام پر اسی مہینے میں نازل ہوئی تھیں۔ صحائف ابراہیمی، تورات زبور اور انجیل وغیرہ کتابیں انبیاء پر بیک وقت اتری تھیں، اور قرآن کریم ماہ رمضان کی لیلۃ القدر میں آسمانِ دنیا میں بیت العزت تک بیک وقت اترا، اس کے بعد وہاں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تئیس سال کی مدت میں حالات کے تقاضے کے مطابق جستہ جستہ اترتا رہا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مختلف طریقوں سے ایسا ہی مروی ہے۔ 264:۔ اسی کے بعد رمضان کے روزے فرض ہوگئے، اور سابق حکم منسوخ ہوگیا اور ہر صحت مند آدمی کے لیے جو ماہ رمضان میں اپنے شہر میں ہو، روزے رکھنا ضروری ہوگیا، اب کسی صحت مند آدمی کے لیے جائز نہیں کہ رمضان میں افطار کرے، اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔ اور چونکہ مریض اور مسافر کے بارے میں حکم سابق اسی طرح باقی رہا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے دوبارہ اس کا اعادہ کیا تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ حکم بھی منسوخ ہوگیا، مریض اور مسافر جتنے دن روزے نہیں رکھیں گے، اتنے دن کے روزے صحت مند ہونے اور سفر ختم ہوجانے کے بعد رکھ لیں گے۔ اللہ کی طرف سے بندوں کو یہ سہولت دی گئی ہے، اور قضا کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ رمضان کے فرض روزے پورے ہوجائیں 265: ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت اللہ تعالیٰ کا بندوں پر انعام ہے، اور جب اللہ کی توفیق سے انہوں نے روزے بحسن و خوبی پورے کرلئے تو انہیں اب حکم دیا گیا کہ بطور شکر اللہ کو یاد کریں اور تکبیر کہیں اسی آیت کے پیش نظر بہت سے علماء نے عید الفطر میں تکبیر کہنے کو مشروع قرار دیا ہے۔ امام داود ظاہری (رح) نے اسے واجب کہا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) عید الفطر اور عید الاضحی میں بآواز بلند تکبیر کہتے ہوئے عید گاہ جاتے تھے اور امام کے آنے تک کہتے رہتے تھے، دار قطنی نے ایک سند سے یہ حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے۔ فوائد : 1۔ حالت سفر میں روزہ رکھنا اور افطار کرنا دونوں ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے۔ صحیحین میں ابودرداء (رض) کی روایت ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سخت گرمی کے زمانے میں، ماہ رمضان میں ایک سفر پر روانہ ہوئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عبداللہ بن رواحہ کے علاوہ ہم میں سے کسی نے بھی روزہ نہیں رکھا۔ امام بخاری نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ماہ رمضان میں مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے تو روزے سے تھے، جب عسفان پہنچے تو پانی مانگا اور اسے دونوں ہاتھوں سے اوپر اٹھایا تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں، پھر روزہ توڑ دیا، یہاں تک کہ مکہ مپہنچ گئے۔ اسی حدیث کے پیش نظر ابن عباس (رض) کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر میں روزہ بھی رکھا اور افطار بھی کیا، اس لیے جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے افطار کرے۔ متفق علیہ 2۔ بعض لوگوں کے نزدیک سفر میں روزہ رکھنا افضل ہے، اور بعض کے نزدیک افطار، لیکن صحیح ہے کہ دونوں میں سے کوئی بھی حکم مطلق نہیں ہے۔ اگر سفر ایسا ہے جس میں کوئی پریشانی نہیں ہے، اور نہ ہی دشمن کا مقابلہ ہے، تو روزہ رکھنا افضل ہوگا، اور اگر روزہ رکھنے سے پریشانی لاحق ہوتی ہے تو افطار افضل ہوگا۔ اگر کوئی شخص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سے اعراض کرتے ہوئے اپنے لیے افطار کو مکروہ سمجھتا ہے تو اس پر روزہ رکھنا حرام ہوجائے گا جیسا کہ امام احمد نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی رخصت (چھوٹ) کو قبول نہیں کیا اس پر جبل عرفہ کے برابر گناہ لاد دیا جائے گا۔ 3۔ جمہور اہل علم کے نزدیک چھوٹے ہوئے روزے کا ایک ساتھ رکھنا ضروری نہیں ہے۔ تسلسل کی پابندی صرف رمضان میں لازم ہے البقرة
186 266: یہ آیت گذشتہ آیت کے مضمون کی تکمیل کرتی ہے۔ گذشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ رمضان کے روزے پورے کرلینے کے بعد تکبیر کہو اور اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے رمضان جیسا بابرکت مہینہ عطا کیا اور اس میں روزے رکھنے کی توفیق بخشی اور اب اس آیت میں اللہ نے خبر دی کہ وہ اللہ جسے وہ یاد کریں گے اور جس کا شکر ادا کریں گے، ان سے قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے آیت ونحن اقرب الیہ من حبل الورید۔ کہ ہم انسان سے اس کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں۔ ق : 16 علمائے تفسیر نے یہ بھی کہا ہے کہ روزوں کے احکام کے درمیان دعا کے ذکر سے مقصود اس طرح اشارہ ہے کہ رمضان میں دعا کی بڑی اہمیت ہے۔ مسند طیالسی میں ہے کہ عبداللہ بن عمرو افطار کے وقت اپنے تمام بال بچوں کے ساتھ دعا کیا کرتے تھے، اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ روزہ دار کے افطار کے وقت کی دعا قبول ہوتی ہے۔ ایک اور حدیث ہے کہ تین اادمی کی دعا رد نہیں کی جاتی : امام عادل کی، روزہ دار کی اور مظلوم کی (مسند احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے روایت کی ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا ہمارا رب قریب ہے تاکہ ہم اس سے سرگوشی کریں، یا دور ہے تاکہ اسے پکاریں؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ اللہ اپنے بندوں سے قریب ہے، اس لیے کہ وہ (رقیب) ہے، شہید ہے، ظاہر و پوشیدہ کو جانتا ہے، دلوں کے بھید جانتا ہے، اس لیے وہ اپنے پکارنے والوں سے قریب ہے، اور ان کی پکار کو سنتا ہے جو بندہ اپنے رب کو حضور قلب کے ساتھ پکارتا ہے، اور کوئی چیز دعا کی قبولیت سے مانع نہیں ہوتی، تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا ہے، خاص طور سے اگر قبولیت دعا کے دینی اسباب بھی موجود ہوں یعنی بندہ اللہ کے اوامر و نواہی کا پابند ہو اور اللہ تعالیٰ پر اس کا ایمانِ کامل اور یقین محکم ہو۔ فوائد : 1۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سجدے میں دعا کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ تمہارے سجدے کی دعا قبول ہوجائے۔ مسلم۔ آپ خود بھی سجدے میں کثرت سے دعا کرتے تھے۔ 2۔ قبولیت دعا کی چھ شرطیں ہیں، اگر وہ پوری نہ ہوں تو دعا قبول نہیں ہوگی۔ الف۔، دعا اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی کے واسطے سے کی جائے۔ ب۔ نیت میں اخلاص ہو۔ ج۔ دعا کرنے والا اپنی مسکنت و محتاجی کا اظہار کرے۔ کسی گناہ کی دعا نہ کرے۔ کسی ایسی چیز کے لیے دعا نہ کرے جس کے ذریعے اللہ کی نافرمانی پر مدد لینی چاہے۔ اسے یقین ہو کہ اللہ نے اگر اسے کسی دنیاوی فائدہ سے محروم رکھا ہے، تو یہ بھی اللہ کی نعمت ہے، بالکل اس نعمت کی مانند جو اللہ نے اسے دیا ہے۔ 3۔ مصیبتوں کو ٹالنے کا سب سے قوی ذریعہ دعا ہے۔ لیکن کبھی وہ اپنا اثر نہیں دکھا پاتی، یا تو اس کے لیے کہ دعا کسی ایسی چیز کے لیے ہوتی ہے جو اللہ کو ناپسند ہے، یا دعا کے وقت حضور قلب معدوم ہوتا ہے، یا قبولیت دعا کے کسی مانع کے موجود ہونے کی وجہ سے، مثال کے طور پر، دعا کرنے والے کی روزی حرام ہو، یا وہ ظالم ہو، یا اس کے دل پر گناہوں کا دبیز پردہ پڑا ہو، یا وہ غفلت اور لہو ولعب میں مبتلا ہو۔ 4۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ دعا، مومن کا ہتھیار، اور دین کا ستون ہے اور آسمان و زمین کا نور ہے۔ مستدر الحاکم۔ دعا کا معاملہ کسی مصیبت کے ساتھ تین طرح کا ہوتا ہے۔ یا تو دعا مصیبت سے زیادہ قوی ہوتی ہے تو اسے دور کردیتی ہے، یا کمزور ہوتی ہے، تو مصیبت غالب آجاتی ہے اور بندے کو لاحق ہوجاتی ہے۔ لیکن کبھی کبھار دعا کمزور ہونے کے باوجود مصیبت کو ہلکی کردیتی ہے۔ یا دونوں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتی رہتی ہیں۔ اور ایک دوسرے کو اثر کرنے سے روکتی ہیں 5۔ دعا بار بار اور خوب الحاح کے ساتھ کرنی چاہیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ دعا کرنے سے نہ تھکو، اس لیے کہ جو آدمی دعا کرتا رہتا ہے وہ ہلاک نہیں ہوتا (مستدرک الحاکم)۔ 6۔ دعا کی قبولیت میں عجلت کا اظہار نہیں ہونا چاہیے۔ صحیح بخاری میں ابوہریرہ ری اللہ عنہ کی حدیث ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ آدمی اگر قبولیت میں جلدی نہ کرے تو دعا قبول ہوتی ہے۔ 7۔ دعا کی قبولیت کے چھ مشہور اوقات ہیں۔ آخری تہائی رات میں، اذان کے وقت، اذان اور اقامت کے درمیان، فرض نمازوں کے بعد، جمعہ کے دن امام کے ممبر پر جانے کے بعد سے نماز ختم ہونے تک، جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد آخری ساعت۔ وباللہ التوفیق۔ البقرة
187 267: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان کے روزوں سے متعلق چند اہم مسائل بیان کیے ہیں، رمضان کی راتوں میں بیوی کے ساتھ جماع کرنا، صبح صادق سے پہلے تک کھانا پینا، صبح صادق کے بعد سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے رکے رہنا، اور حالت اعتکاف میں جماع سے پرہیز، آیت کا سب نزول بھی انہی مسائل کے ارد گرد گھومتا ہے۔ 1۔ امام بخاری (رح) نے براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے کہ رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد لوگ پورا رمضان اپنی بیویوں خے قریب نہیں جاتے تھے، لیکن بعض لوگ خیانت کرتے تھے یعنی جماع کرلیتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کی آیت 187، علم اللہ انکم کنتم تختانون الایہ نازل فرمائی، اور رمضان کی راتوں میں جماع کرنا جائز ہوگیا۔ ایک روایت میں ہے کہ عمر بن الخطاب سے بھی ایسی غلطی ہوگئی تھی۔ 2۔ صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ صحابہ کرام اگر افطار سے پہلے سو جاتے، تو دوسرے دن تک کچھ بھی نہیں کھاتے پیتے تھے۔ قیس بن صرمہ انصاری اپنے کھیت میں کام کرتے رہے، افطار کے لیے گھر آئے۔ ان کی بیوی کھانا تلاش کرنے گئیں۔ جب تک انہیں نیند آگئی اور بغیر کھائے پئے دوسرے دن کا روزہ رکھنا پڑا، دوپہر کو بھوک اور پیاس کی شدت کی وجہ سے بے ہوش ہوگئے۔ تو یہ آیت نازل ہوئی، آیت احل لکم۔۔۔۔ من الفجر۔ جسے سن کر صحابہ کرام بہت خوش ہوئے۔ 3۔ امام بخاری نے سہل بن سعد (رض) سے روایت کی ہے کہ لوگوں نے خیط ابیض اور خیط اسود کا مفہوم نہیں سمجھا اور فجر کے بعد دیر تک کھاتے پیتے رہے، تو اللہ نے من الفجر نازل فرمایا تب لوگوں نے جانا کہ سفید اور کالے دھاگے سے مراد رات اور دن ہے۔ 4۔ ضحاک، مجاہد اور قتادہ وغیرہم سے روایت ہے کہ لوگ حالت اعتکاف میں مسجد سے نکل کر گھر جاتے تھے، اور اپنی بیوی کے ساتھ جماع کرتے تھے تو ولا تباشروھن وانتم عاکفون فی المساجد نازل ہوئی۔ فوائد :۔ 1۔ رمضان کی راتوں میں صبح صادق تک بیوی کے ساتھ جماع اور کھانا پینا جائز ہے۔ 2۔ افطار میں جلدی کرنا سنت ہے (بخاری و مسلم) 3۔ صوم وصال (بغیر افطار کیے دو یا زیادہ دن تک روزے رکھنا) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے۔ اگر کوئی چاہے تو سحری تک وصال کرسکتا ہے (صحیحین) 4۔ اعتکاف کی مدت میں بیوی کے ساتھ جماع جائز نہیں۔ 5۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان کے آخری عشرہ میں مسجد میں اعتکاف کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ وفات پا گئے۔ 6۔ جمہور سلف کے نزدیک، اعتکاف کے لیے دن میں روزہ رکھنا شرط ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور علامہ ابن القیم نے اسی کو ترجٰح دیا ہے۔ 7۔ اگر روزہ دار کی حالت جنابت میں صبح ہوجاتی ہے تو غسل کر کے روزہ پورا کرے گا۔ (صحیحین) البقرة
188 268: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز نطور پر کھانے سے منع فرمایا ہے، اور یہ بتایا ہے کہ اگر قاضی رشوت لے کر ناق فیصلہ کردیتا ہے، تو اس فیصلہ سے حرام حلال نہیں ہوجاتا۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ یہ آیت اس آدمی کے بارے میں ہے جس کے ذمے کسی کا مال ہو، اور مال والے کے پاس کوئی دلیل نہ ہو، اس لیے وہ آدمی انکار کر بیٹھے اور معاملہ حاکم کے پاس لے جائے تاکہ فیصلہ اس کے حق میں ہوجائے، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ گناہ گار ہے اور حرام کھانے پر تلا ہوا ہے۔ فائدہ : لوگوں کا مال حرام طور پر کھانے کی بہت سی شکلیں ہیں جیسے کسی کا مال غصب کرلینا، چوری کرنا، امانت میں خیانت کرنا، سود کھانا، جوا کا مال کھانا، خرید و فروخت میں دھوکہ دینا، ایسے کام کی اجرت جسے ٹھیک سے نہیں کیا، عبادت پر اجرت لینا، زکاۃ، صدقہ، وقت اور وصیت کا مال ناحق کھاجانا، یہ اور اس قسم کی وہ تمام صورتیں جن میں لوگوں کا مال ناحق کھایا جا رہا ہو وہ اکل حرام ہے اور کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ البقرة
189 269: آیت کا پہلا حصہ یسالونک عن الاھلۃ، معاذ بن جبل اور ثعلبہ بن غنم (رض) کے بارے میں نازل ہوا۔ ان دونوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا راز ہے کہ چاند دھاگے کے مانند باریک طلوع ہوتا ہے، پھر بڑا ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ گول ہوجاتا ہے، پھر گھٹنے لگتا ہے یہاں تک کہ پہلے کی طرح باریک ہوجاتا ہے، ایک حال پر باقی نہیں رہتا، تو یہ آیت نازل ہوئی (ابو نعیم، ابن عساکر)۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا کہ چاند کے ذریعہ لوگ اپنی ضرویات زندگی کے اوقات مقرر کرتے ہیں۔ قرض، روزہ، افطار، حج، اجرتیں، ماہواری کے ایام، عورتوں کی عدت، اور بہت سی شرطوں کی مدت، یہ سارے مواعید چاند ہی کے ذریعہ معلوم ہوتے ہیں۔ 270۔ انصار اور دوسرے عرب حج کا احرام باندھ لینے کے بعد اگر کوئی ضرورت پیش آجاتی تو اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل نہیں ہوتے تھے، ان کا خیال تھا کہ عبادت اور نیکی کا تقاضا یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی، کہ یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اس کا حکم نہیں دیا ہے، نیکی یہ ہے کہ آدمی تقوی کی راہ اختیار کرے، چنانچہ اللہ نے ان کو حکم دیا کہ وہ حالت احرام میں بھی اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل ہوں۔ البقرة
190 271: ان آیتوں میں مومنوں کو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے اور مسلمانوں میں ذرا قوت آگئی تو انہیں حکم دیا گیا کہ اب دشمن کا مقابلہ طاقت سے کرو، اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو، لیکن زیادتی نہ کرو، یعنی نہ جنگ کی ابتدا تمہاری طرف سے ہونی چاہئے اور نہ جن سے جنگ کرنے سے تمہیں منع کیا گیا ہے ان سے جنگ کرو (مثال کے طور پر عورتیں، بوڑے، پاگل، بچے، گرجوں میں رہنے والے، اور جن سے تمہارا معاہدہ ہے انہیں قتل نہ کرو) کسی کا مثلہ نہ کرو، حیوانات کو قتل نہ کرو، اور درختوں کو نہ کاٹو، اور اسلام کی دعوت دئیے بغیر اچانک کسی قوم پر حملہ نہ کرو، اس لیے کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے کفار کقریش کے بارے میں بالخصوص فرمایا کہ جو لوگ تم سے جنگ کریں انہیں جہاں پاؤ قتل کرو، اور جس شہر سے انہوں نے تم کو نکالا، مال و جائداد پر قبضہ کرلیا، تمہیں آزمائشوں میں مبتلا کیا، اور تمہیں تمہارے دین سے نکال دینا چاہا، یہ جرائم قتل سے کہیں بڑھ کر ہیں، اور دیکھو مسجد حرام کے پاس ان سے قتال نہ کرو، ہاں اگر وہاں پر قتال کی ابتدا ان کی طرف سے ہوتی ہے تو پھر فرار کی راہ نہ اختیار کرو، بلکہ انہیں قتل کرو، اس لیے کہ کافروں کو ایسا ہی بدلہ ملنا چاہیے، اور اگر وہ قتال سے باز رہیں تو تم بھی رک جاؤ، اللہ غفور رحیم ہے۔ اور ان سے قتال کرو، تاکہ حرم سے فتنہ و فساد کا صفایا ہوجائے اور تاکہ وہاں اللہ کے علاوہ کسی کی پرستش نہ ہو، نہ اس کے علاوہ کسی سے ڈرا جائے، نہ کوئی شخص ابتلاء و آزمائش میں مبتلا کیا جائے، اور نہ دین حق پر چلنے کی وجہ سے اسے ستایا جائے۔ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحیثیت فاتح مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور جن مشرکین مکہ نے اسلام قبول نہیں کیا انہیں معاہدہ کی مدت ختم ہوجانے کے بعد مکہ سے نکل جانا پڑا، اور مسجد حرام بتوں اور مشرکوں سے پاک ہوگیا، اور مسلمان وہاں باعزت زندگی گزارنے لگے۔ البقرة
191 البقرة
192 البقرة
193 البقرة
194 272: حضرت ابن عباس (رض) اور قتادہ وغیرہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام کے ساتھ 6 ھ میں مدینہ منورہ سے عمرہ کے لیے روانہ ہوئے، اور حدیبیہ پہنچے، تو مشرکینِ مکہ نے راستہ روک دیا، اور کعبہ تک نہیں پہنچنے دیا، یہ حادثہ ماہ ذی القعدہ میں وقوع پذیر ہوا جو ماہ حرام ہے، جابر بن عبداللہ کی ایک روایت کے مطابق جسے امام احمد نے مسند میں روایت کی ہے، حدیبیہ میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان (رض) کو اپنا ایلچی بنا کر مشرکین مکہ کے پاس بھیجا، کسی طرح یہ جھوٹی خبر اڑ گئی کہ عثمان (رض) قتل کردئیے گئے، خبر کا پھیلنا تھا کہ مسلمانوں میں ایک کھلبلی مچ گئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے مشرکینِ مکہ کے خلاف جنگ کرنے کے لیے بیعت لی، جسے تاریخ اسلام بیعۃ الرضوان کے نام سے جانتی ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ عثمان (رض) کے قتل کی خبر غلط تھی، تو آپ نے مکہ والوں کے ساتھ صلح کرلی۔ اس شرط پر کہ آئندہ سال اسی مہینہ میں عمرہ کریں گے۔ چنانچہ معاہدہ کے مطابق آپ نے صحابہ کرام کے ساتھ دوسرے سال ماہ ذی القعدہ میں عمرہ کیا، تو یہ آیت نازل ہوئی، آیت، الشہر الحرام بالشہر الحرام والحرمات قصاص کہ ماہ حرام کی رعایت ان کے ساتھ واجب ہے، جو ماہ حرام کی رعایت کریں، اور جو اس ماہ کی حرمت کا خیال نہیں کرے گا اس کے ساتھ ماہ حرام کی حرمت کا خیال نہیں رکھا جائے گا، اس لیے کہ حرمتوں کالحاظ ان کے ساتھ ہوگا جو پہلے خود لحاظ کریں گے، چاہے وہ ماہ حرام ہو، بلد حرام ہو، احرام ہو، یا اور کوئی شے جس کی حرمت کا پاس رکھنے کا اسلام نے حکم دیا ہے۔ اور جو کوئی ان حرمتوں کو پامال کرے گا تو ان سے بدلہ لیا جائے گا اگر کوئی ماہ حرام میں جنگ پر آمادہ ہوگا تو اس سے جنگ کی جائے گ۔ 273: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عدل و انصاف کا حکم دیا ہے، حتی کہ مشرکین کے ساتھ بھی، اسی لیے دوبارہ مزید تاکید کے طور پر حرمتوں کو پامال کرنے اور کسی قسم کی زیادتی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ البقرة
195 274: ابو ایوب انصاری رضی الہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اسلام کو قوت و غلبہ حاصل ہوگیا تو انصار نے خفیہ طور پر مشورہ کیا کہ اب تو اسلام معزز و مکرم ہوگیا اور اس کے مددگاروں کی تعداد بہت ہوگئی، اس لیے ہمیں اب اپنے مال و جائداد کا خیال کرنا چاہئے اور جو ضائع ہوچکا ہے اس کی اصلاح کرنی چاہئے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ابو داود، ترمذی، نسائی، حاکم) اس روایت کے رو سے مال و جائداد کے پاس اقامت پذیر ہونا، اور اللہ کی راہ میں جہاد چھوڑ دینا۔ ہلاکت و بربادی ہے۔ لیکن قرآن و حدیث کے الفاظ سے استدلال کرتے وقت اس سبب خاص کا اعتبار نہیں ہوتا، جس کے بعد وہ آیت نازل ہوئی یا وہ حدیث وارد ہوئی بلکہ عموم لفظ کا اعتبار ہوتا ہے اس لیے ہر وہ کام اور ہر وہ بات جس میں مسلمانوں کی ہالکت کا ڈر ہوگا، اس آیت کے حکم میں داخل ہوگی۔ حاکم نے کہا ہے کہ یہ آیت مندرجہ ذیل امور پر دلالت کرتی ہے، اگر ہلاکت کا ڈر ہو تو جہاد میں وقتی طور پر شکست قبول کرلینا جائز ہے۔ اگر امر بالمعروف کی وجہ سے کسی خطرے کا اندیشہ ہو تو خاموشی جائز ہے اگر حاکم وقت کو اپنی اور مسلمانوں کی ہلاکت کا ڈر ہوگا تو کافروں اور باغیوں کے ساتھ مصالحت جائز ہوگی، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح حدیبیہ میں، علی بن ابی طالب نے صفین میں اور حسن بن علی (رض) نے معاویہ (رض) کے ساتھ کیا، بلکہ اگر مسلمانوں کی بربادی کا ڈر ہوگا تو دشمن سے مال کے عوض مصالحت جائز ہوگی، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ احزاب کے موقع سے مدینہ منورہ کے ایک تہائی پھل کے عوض مصالحت کرنی چاہی، لیکن سعد بن عبادہ سے مشورہ کرنے کے بعد ایسا نہیں کیا (سیرت ابن ہشام) البقرة
196 275: روزہ اور جہاد کے بعد اب احکام حج کا بیان شروع ہوا، اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جب حج اور عمرہ میں سے کسی کی ابتدا کرو تو تمام شرائط و اعمال کے ساتھ اسے پورا کرو، اور للہ اس لیے کہا کہ مشرکینِ مکہ و حج و عمرہ کے بعض اعمال کے ذریعہ اپنے بتوں کا تقرب حاصل کرتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے کہا کہ حج و عمرہ کے تمام اعمال صرف اللہ کی رضا کے لیے ادا ہونے چاہئیں۔ 276: اگر حج یا عمرہ کی راہ میں کوئی مانع پیش آجائے جیسے کوئی دشمن راستہ روک دے، یا کوئی مرض لاحق ہوجائے، یا راستہ بھٹک جائے تو محرم کو جو جانور میسر ہوگا، (اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ یا ایک بکری) ذبح کرے گا، اور بال منڈا کر حلال ہوجائے گا، جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام نے سن 6 ہجری میں صلح حدیبیہ کے موقع سے کیا تھا، کہ حدیبیہ ہی میں اپنی اپنی قربانیاں ذبح کیں، اور بال منڈا کر حلال ہوگئے اور پھر سن 7 ہجری میں اس عمرہ کی قضا کی۔ 277: اگر حج کرنے والا ھدی کا جانور اپنے ساتھ لے جا رہا ہے تو حالت امن میں ھدی کی جگہ حرم ہے۔ جب تک ہدی کا جانور حرم نہ پہنچ جائے اور حج کرنے والا حج و عمرہ کے اعمال سے فارغ نہ ہوجائے، اس کے لیے سر کا بال منڈانا جائز نہیں، اور افضل یہ ہے کہ دس تاریخ کو کنکری مارنے کے بعد پہلے قربانی کرے، پھر بال منڈوائے۔ 278: یہ آیت کعب بن عجرہ انصاری کے بارے میں اتری تھی، ان کے بال گھنے اور لمبے تھے۔ عمرۃ الحدیبیہ کے موقع پر ان کے سر میں اتنی جوئیں ہوگئیں کہ ان کے چہرے پر گرنے لگیں، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں حکم دیا کہ بال منڈا لو، اور ایک بکری ذبح کردو، یا چھ مسکین کو کھانا کھلا دو، یا تین روزے رکھ لو، اسی موقع سے یہ آیت نازل ہوئی (صحیحین) 279: اگر محرم کو راستہ میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے اور حرم پہنچ جائے، اور عمرہ کر کے حلال ہوجائے، پھر آٹھ تاریخ کو یا اس سے پہلے حج کا احرام باندھے، تو اس پر قربانی واجب ہے، اسے حج تمتع کہتے ہیں۔ اور یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ حج تمتع افضل ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں صاف طور پر کہہ دیا کہ (اب جو بات مجھے معلوم ہوئی ہے اگر پہلے معلوم ہوجاتی تو ہدی کا جانور لے کر نہ آتا اور پنے حج کو حج تمتع بنا دیتا (صحیحین)۔ اگر حاجی قارن ہے (یعنی عمرہ کر کے احرام کی حالت میں باقی رہے یہاں تک کہ دس تاریخ کے اعمال سے فارغ ہوجائے) تو بھی قربانی واجب ہے، اس لیے کہ اس نے بھی حج و عمرہ دونوں ایک ساتھ کیا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام جنہوں نے حجۃ الوداع میں قران کی نیت کی تھی، سب نے قربانی کی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امہات المومنین کی طرف سے گائے کی قربانی کی تھی، حج افراد کرنے والے پر قربانی واجب نہیں۔ 280: اگر متمتع کے پاس قربانی کا جانور نہیں ہے تو تین روزے حج کے زمانے میں، اور سات روزے اپنے گھر واپس جانے کے بعد رکھے گا، حج کے زمانے میں روزے رکھنے سے مراد یہ ہے کہ عمرہ کا احرام باندھتے وقت اگر اسے معلوم ہے کہ وہ قربانی کا جانور خریدنے کی سکت نہیں رکھتا، تو اس کے بعد سے تین روزے رکھ لے، اور تلک عشرۃ کاملۃ اس لیے کہا تاکہ کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ اسے اختیار ہے کہ یا تو تین روزے حج کے زمانے میں رکھ لے، یا سات گھر پہنچنے کے بعد۔ 281: تمتع یا قران کی قربانی ان حاجیوں پر واجب ہے جو اہل حرم میں سے نہ ہوں، کیونکہ اہل حرم کے لیے حج تمتع نہیں ہے، اہل حرم سے مراد مکہ میں رہنے والے اور وہ لوگ ہیں جو حرم سے اتنی مساف پر رہتے ہوں جس پر سفر کا اطلاق نہ ہو۔ البقرة
197 282: حج کے مہینے معلوم ہیں، اس لیے کہ حج ملتِ ابراہیمی میں اور ابراہیم کی ذریت میں ہمیشہ سے رہا، اور وہ ماہ شوال و ذی القعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ہیں۔ حج کا احرام انہی دنوں میں باندھنا صحیح ہے، اور جو کوئی ان مہینوں میں حج کی نیت کرے اس پر احرام کی تعظیم واجب ہے اور اس تعظیم کا تقاضا یہ ہے کہ محرم جماع، اور اس کے مقدمات، تمام قسم کے گناہ اور جنگ و جدال سے پروہیز کرے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جس نے اس گھر کا حج کیا، اور جماع اور دیگر گناہوں سے بچا رہا، وہ گناہوں سے ایسا ہی پاک ہوگیا جیسے اس دن تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا، متفق علیہ۔ اور چونکہ ترک معاصی کے ساتھ اوامر کا بجا لانا بھی ضروری ہے، اس لیے اللہ نے فرمایا کہ تم کوئی بھی نیکی کروگے، اللہ اسے جانتا ہے۔ 283: اہل یمن جب حج کے لیے آتے تو اپنے ساتھ زاد راہ نہ لاتے، اور کہتے کہ ہم نے اللہ پر توکل کیا ہوا ہے، اور جب مکہ پہنچتے تو لوگوں سے بھیک مانگتے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، کہ تم لوگ جب حج کے لیے نکلو تو اپنا زاد راہ لے کر چلو تاکہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ آئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عقل و خرد والو ! میرے عقاب و عذاب سے ڈرو، اور میرے اوامر و نواہی کی مخالفت نہ کرو۔ البقرة
198 284: اللہ تعالیٰ نے حج کے لیے جب زاد راہ لے کر چلنے کی نصیحت کی، اور اس کے بعد تقویٰ کا حکم دیا، تو اس بات کی بھی خبر دی کہ موسم حج میں تجارت کرنے میں کوئی نہیں اور ایسا کرنا تقوی کے خلاف نہیں، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ سمجھتے تھے کہ حج کے ساتھ تجارت کرنا اچھی بات نہیں۔ امام بخاری (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ عکاظ، مجنہ اور ذو المجاز دور جاہلیت کے بازار تھے، حج کے زمانے میں لوگ ان بازاروں میں تجارت بھی کرتے تھے، اسلام آنے کے بعد مسلمانوں نے موسم حج میں ان بازاروں میں تجارت کرنا مکروہ سمجھا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ 285: یہ آیت مندرجہ ذیل امور پر دلالت کرتی ہے۔ وقوف عرفہ حج کا رکن ہے، اور یہ بات دور جاہلیت سے معلوم ہے، مزدلفہ میں دسویں تاریخ کی رات میں اور فجر کے نماز کے بعد مشعر حرام کے پاس اللہ کو خوب یاد کرنا چاہئے، بعض لوگوں نے اسے واجب بتایا ہے۔ البقرة
199 286: یہاں مراد عرفہ سے روانگی ہے نہ کہ مزدلفہ سے، اور یہاں خطاب قریش کو بالخصوص اور عام مسلمانوں کو بالعموم ہے۔ قریش کے لوگ حج میں مزدلفہ میں ہی رک جاتے تھے، باقی تمام عرب کے لوگ عرفات تک جاتے تھے۔ قریش کے لوگ کہتے تھے کہ ہم اللہ کے گھر والے ہیں، حرم سے نہیں نکلیں گے (بخاری) اسلام آنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو عرفات جانے اور وہاں سے تمام لوگوں کے ساتھ مزدلفہ ہوتے ہوئے منی واپس آنے کا حکم دیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مشہور حدیث ہے کہ حج کا بنیادی کام وقوف عرفہ ہے۔ البقرة
200 287: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اعمالِ حج سے فراغت کے بعد ذکر کا حکم دیا ہے، کہ اللہ کی توفیق سے یہ عظیم عبادت پوری ہوگئی تو اس کا شکر بجا لانا چاہئے۔ اہل جاہلیت کا دستور تھا کہ مزدلفہ سے منی واپسی کے بعد جمرات کے پاس میلہ لگاتے اور اپنے آباء و اجداد کی شان میں قصیدے پڑھتے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اللہ کو یاد کرتے، اسی لیے اللہ نے مسلمانوں کے فکر دھارے کی اصلاح کی اور انہیں تعلیم دی کہ وہ اللہ کو یاد کریں، اس لیے کہ ذکر و شکر کا وہی اکیلا حقدار ہے۔ اس لیے کنکری مارنے کے بعد جب حجاج قربانی، بال منڈانے، طواف زیارت اور صفا و مروہ کی سعی سے فارگ ہو کر منی میں قیام پذیر ہوجائیں تو اللہ کے ذکر میں مشغول رہیں۔ 288: استغفار اور کثرت ذکر کی نصیحت کے بعد اللہ تعالیٰ نے دعا کی طرف توجہ دلائی، اس لیے کہ کثرت ذکر کے بعد دعا کی قبولیت کی زیادہ امید ہوتی ہے اور ان لوگوں کی مذمت کی جن کی زندگی کا مقصود اول دنیا کا حصول ہوتا ہے، اور ان کی تعریف کی جن کا مطمع نظر آخرت کی کامیابی اور جہنم کی آگ سے نجات حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ کچھ اعرابی لوگ عرفات میں اللہ سے دنیاوی فائدہ مانگتے اور آخرت کا کوئی ذکر نہیں لاتے، بعض نے کہا کہ مشرکین عرب ایسا کرتے تھے، کسی نے کہا کہ بعض مسلمان ہی ایسا کرتے تھے کہ اپنی دنیا سنورنے کی دعا کرتے، اور آخرت کو فراموش کرجاتے، انہی لوگوں کے حالات کے پیش نظر یہ آیت نازل ہوئی۔ 289: یعنی آخرت کی کامیابی کا کوئی حصہ ان کو نہیں ملے گا، الا یہ کہ وہ توبہ کریں اور اللہ انہیں معاف کردے۔ البقرة
201 290۔ اس دعا میں دنیا و آخرت کی ہر بھلائی جمع کردی گئی ہے، اور ہر شر سے اللہ کی پناہ مانگی گئی ہے، دنیا میں بھلائی، ہر دنیاوی خیر کو شامل ہے، اور آخرت میں بھلائی کی سب سے اعلی شے اللہ کی رضا اور دخول جنت ہے۔ احادیث میں اس دعا کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ امام بخاری (رح) نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کثرت سے یہ دعا کرتے تھے۔ ابو داود وغیرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہی دعا کرتے تھے۔ امام احمد اور امام مسلم نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مریض کی عیادت کی جو سوکھ کر کانٹا ہوگیا تھا، آپ نے اسے یہی دعا کرنے کی نصیحت کی، اس نے ایسا ہی کیا اور اس کی بیماری دور ہوگئی۔ البقرة
202 291: اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو لوگ دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی کی دعا کرتے ہیں، اللہ ان کی دعا قبول کرتا ہے، اور پوری دعا نہیں تو اس کا ایک حصہ ضرور انہیں ملتا ہے۔ آیت میں کمانے سے مراد دعا کرنا ہے۔ البقرة
203 292: مراد ایام تشریق ہے۔ ابن عباس (رض) سے یہی منقول ہے۔ امام مسلم کی روایت ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ایام تشریق کھانے پینے اور ذکرِ الٰہی کے ایام ہیں۔ بخاری کی روایت ہے کہ ابن عمر (رض) منی میں ہر وقت اور ہر حال میں تکبیر کہتے رہتے تھے۔ رمی جمار کے وقت تکبیر کہنا اسی میں شامل ہے۔ 293: اگر حاجی گیارہ اور بارہ کی کنکریاں مار کر منیٰ سے رخصت ہوجائے تو کوئی حرج نہیں، اور اگر تیرہ کی کنکریاں بھی مارے تو بھی کوئی حرج نہیں، سنت یہی ہے کہ تیرہ کی کنکریاں بھی ماری جائیں۔ حجۃ الوداع میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منیٰ سے تیرہ کی کنکریاں مار کر رخصت ہوئے تھے۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں (ایام معدودات) سے مراد ایام تشریق ہے، اور وہ چار دن ہیں، قربانی کا دن اور اس کے بعد تین دن، ابن عمر، ابن زبیر، ابو موسی، مجادہ، سعید بن جبیر اور قاتادہ وغیرہم کا یہی قول ہے، اور آیت سے بھی اسی قول کی تائید ہوتی ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی دو دن کے بعد منیٰ چھوڑ دے گا تو کوئی حرج نہیں اور جو کوئی تیسرے دن بھی کنکری مارے گا تو کوئی حرج نہیں اس طرح قربانی کے دن کے بعد ایام تشریق کے تین دن ہوئے۔ البقرة
204 294: ابن جریر نے سدی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت اخنس بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ اس شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا، حالانکہ وہ دل سے کافر تھا۔ ابن عباس (رض) کی ایک روایت کے مطابق منافقین کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جنہوں نے خبیب (رض) اور ان کے ساتھیوں کا مذاق اڑایا تھا۔ بہرحال مشہور قاعدہ کے مطابق کہ قرآن و سنت سے استفادہ کے لیے عموم لفظ کا اعتبار ہوتا ہے، خصوص سبب کا نہیں، یہ آیت ہر اس شخص پر صادق آتی ہے جو اسلام کو عقیدہ اور منہج حیات کی حیثیت سے قبول نہیں کرتا، لیکن دنیوی مصالح کی خاطر اعلان کرتا پھرتا ہے کہ وہ بھی مسلمان ہے۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کچھ ایسے منافقین ہوتے ہیں جو مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے چکنی چپڑی باتیں کرتے ہیں، اور اللہ کو اپنے قول و فعل کی صداقت پر گواہ بناتے ہیں، حالانکہ وہ باطل کو حق دکھانے کے لیے بد ترین جھگڑالو ہوتے ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو دھوکہ دیتا ہے، اور جب جھگڑتا ہے تو گالی گلوچ پر اتر آتا ہے۔ (متفق علیہ) البقرة
205 295: یعنی جب مسلمانوں کے پاس سے غیر مسلموں کے پاس واپس جاتا ہے تب اس کی خباثت ظاہر ہوتی ہے، اور امام کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شب ہے پیدا کرتا ہے، کفر کی تقویت کے لیے سازشیں کرتا ہے، اور مسلمانوں کی ہر قسم کی بربادی کے لیے کوشاں رہتا ہے، کھیتی اور مویشی کے ہلاک کرنے کا یہی مفہوم ہے۔ البقرة
206 296: یعنی جب اس فاجر سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو، اور اپنے قول و فعل کے تضاد سے باز آجاؤ، تو مارے کبر و غرور کے پھٹا پڑتا ہے، اور نصیحت قبول نہیں کرتا، ایسے لوگوں کا انجام اللہ نے تبا دیا ہے کہ ان کے کفر و نفاق اور کبر وغرور کے بدلے جہنم ان کے لیے کافی ہے، جو بہت برا ٹھکانا ہے، حاکم نے لکھا ہے کہ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کسی کو کہا جائے کہ اللہ سے ڈرو، تو وہ جواب میں کہے کہ، تم اپنی فکر کرو۔ البقرة
207 297: منافقین کی صفات بیان کرنے کے بعد، مومنین صالحین کی صفات حمید بیان کی جا رہی ہیں، تاکہ بندہ مومن منافقین کی صفات سے بچے، اور صالحین کی صفات اپنے اندر پیدا کرے۔ ابن عباس (رض) وغیرہ کی روایت ہے کہ یہ آیت حضرت صہیب رومی کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جب مکہ سے ہجرت کے وقت کفار قریش نے انہیں گھیر لیا کہ تم اپنا مال لے کر نہیں جاسکتے۔ اگر مال چھوڑ کر جانا چاہو تو جاسکتے ہو۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ساری جائیداد اہل مکہ کے حوالے کردی، اور صرف ایمان لے کر مدینہ کے لیے روانہ ہوگئے، ان کے مدینہ پہنچنے سے پہلے یہ آیت نازل ہوچکی تھی، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں دیکھا تو کہا ربح صہیب ربح صہیب، مستدرک حاکم، طبقات ابن سعد۔ یہاں بھی وہی بات کہی جائے گی کہ قرآن و سنت سے استفادہ کرتے وقت عموم لفظ کا اعتبار ہوتا ہے، خصوسِ سبب کا نہیں ،، اس لیے یہ آیت ہر مجاہد فی سبیل اللہ پر منطبق ہوتی ہے، جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنی جان و مال کی قربانی پیش کردیتا ہے۔ البقرة
208 298: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ اسلام کو اس کے تمام جزئیات و تفاصیل کے ساتھ قبول کریں، ان کی طرح نہ ہوجائیں جو خواہش نفس کے غلام بن گئے کہ جو بات ان کی خواہش کے مطابق ہوئی اسے لے لیا، اور جو ان کی خواہش کے مطابق نہ ہوئی اسے چھوڑ دیا، اسلام لانے کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان کی ہر خواہش دین کے تابع ہو، جن اعمال خیر کو وہ کرسکتا ہے انہیں کرے، اور جنہیں نہیں کرسکتا ہے، انہیں بشرط قدرت و امکان کرنے کی نیت رکھے، تاکہ اسے نیت کا اجر ملے۔ آدمی پورے اسلام پر اسی وقت گامزن ہوسکتا ہے جب شیطان کی مخالفت کو اپنی زندگی کا شیوہ بنا لے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے شیطان کی اتباع سے منع فرمایا، اور تنبیہ کی کہ وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے، اور یہ بات تو تمہیں معلوم ہے، اس لیے کہ اسی نے تو تمہارے باپ آدم کے ساتھ کھلی عداوت کی تھی، اور جنت سے نکلوایا تھا۔ اسی بات کی مزید تاکید کے لیے اللہ نے آگے فرمایا کہ اگر اللہ کی طرف سے واضح دلائل آجانے کے باوجود تم شیطان کی اتباع کرتے ہو تو یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ بڑا ہی قدرت والا ہے، اس کے انتقام سے کوئی بچ نہیں سکتا، اور حکمت والا ہے، اس کا کوئی بھی حکم حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوتا، اس کے قہر و عذاب سے بچنا ناممکن ہے۔ ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ آیت میں ایمان والوں سے مراد اہل کتاب کے بعض وہ لوگ ہیں جنہوں نے اسلام کو تو قبول کرلیا تھا، لیکن تورات کے بعض احکام و شرائع کو بھی اب تک گلے لگا رکھا تھا، انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ پورے دین محمدی کو قبول کرو، اس میں سے کسی بھی حکم کو نہ چھوڑو، اور تورات پر اب صرف تمہارا ایمان لانا کافی ہوگا۔ البقرة
209 299: اس آیت میں جو وعید وارد ہوئی ہے اس کا تعلق قیامت کے دن سے ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرنے والوں کو دھمکی دی گئی ہے کہ ان کا عناد اور ان کی مخالفت حد سے تجاوز کرگئی ہے، اب انہیں قیامت اور اس کی ہولناکیوں کا انتظار کرنا چاہئے، جب اللہ تعالیٰ اپنے پورے جلال میں ہوگا، اور صرف اسی کی بادشاہت ہوگی، اسی کے اوامر نافذ ہوں گے، وہی تمام امور میں تصرف کر رہا ہوگا، اور تمام مخلوق اس کے سامنے اس دن بلا تفریق سرنگوں ہوگی، اور اس دن کی ہولناکیاں اس قدر بڑھی ہوں گی کہ ظالموں کے دل دہل رہے ہوں گے، اس دن اللہ تعالیٰ کافروں کو ان کے کفر کا مزا چکھائے گا۔ فائدہ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے (آنے) کی صفت استعمال کی ہے، جیسا کہ دوسری آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے استواء، نزول اور مجیئ وغیرہ کی صفات اپنے لیے ثابت کی ہیں، اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اللہ کے لیے متعدد صفات کو صحیح احادیث میں ثابت کیا ہے۔ ان تمام صفات کے بارے میں سلف صالحین کا منہج رہا ہے کہ ہم بھی انہیں اللہ کے لیے ثابت کرتے ہیں اور ان پر ایمان رکھتے ہییں، اور مخلوق کی صفات کے ساتھ انہیں تشبیہ نہیں دیتے، اور نہ مخلوق کی کسی صفت کے ذریعہ اس کی مثال بیان کرتے ہیں اور نہ ان صفات کی ہم تاویل کرتے ہیں، جیسا کہ باطل فرقوں کا شیوہ رہا ہے، معطلہ، جہمیہ، معتزلہ، اشاعرہ اور اسی قسم کے باطل فرقوں نے اللہ کی صفات کو اسی طرح تسلیم نہیں کیا جس طرح انہیں اللہ نے اپنے لیے ثابت کیا ہے، یا اس کے رسول صلی اللہ علیہو سلم نے اس کے لیے ثابت کیا ہے۔ حافظ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ اہل سنت بالاجماع اللہ کی ان تمام صفات کو مانتے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم یا سنت میں آیا ہے، ان پر ایمان رکھتے ہیں، اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ تمام صفات اللہ کی فی الحقیقت صفات ہیں، مجازاً نہیں، لیکن ہم ان کی کیفیت نہیں جانتے۔ اہل بدعت جہمیہ، معتزلہ اور خوارج وغیرہم ان کا انکار کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ان صفات سے ان کا حقیقی معنی مراد نہیں ہے۔ انتہی۔ البقرة
210 البقرة
211 300: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی ان کے کفر و سرکشی پر سرزنش کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لیے انبیاء و رسل بھیجے، اور ان کے ساتھ بہت سی کھلی نشانیاں اور واضح دلائل بھیجے، تاکہ انہیں دیکھ کر ایمان لے آئیں ید بیضاء، عصائے موسی، شق سمندر، پتھروں سے چشموں کا جاری ہونا، میدان تیہ میں بادل کا سایہ، من و سلوی اور اسی قسم کے اور بھی دلائل اللہ تعالیٰ نے انہیں راہ راست پر لانے کے لیے بھیجے، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا، اور ایمان کے بدلے کفر کو قبول کرلیا، اور حرمانِ ثواب اور عذاب نار کے مستحق بنے۔ آیت 212 میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ کافروں کے لیے دنیا کی زندگی کو خوش رنگ بنا دیا گیا ہے، جس پر وہ خوش اور مطمئن ہیں، دولت جمع کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، اور مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہیں کہ وہ فقیر ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیاوی مال و متاعی ہی حقیق سعادت ہے، اور جو اس سے محروم ہے وہ شقی و بدبخت ہے، لیکن اہل ایمان دنیا سے اعراض کرتے ہیں اور جو مال وہ حاصل کرتے ہیں اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، اس لیے قیامت کے دن ان کا مقام جنت اور کفار کا ٹھکانا جہنم ہوگا، وہ علیین میں ہوں گے اور کفار اسفل السافلین میں اور چاہے دنیاوی رزق ہو یا اخروی نعمت، اللہ کی مرضٰ کے بغیر کسی کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ کائنات اور اس کا ذرہ ذرہ اسی کے تصرف میں ہے، وہ جسے چاہتا ہے بے حساب روزی دیتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بے حساب روزی دیتا ہے۔ البقرة
212 البقرة
213 301: ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آدم اور نوح علیہما السلام کے درمیان دس صدیوں کی مدت تھی۔ اس پوری مدت میں لوگ ایک ہی شریعت حقہ پر قائم رہے۔ پھر ان کے درمیان مرور زمانہ کے ساتھ عقائد میں اختلاف واقع ہوگیا (انتہی) تو اللہ تعالیٰ نے ان کو راہ راست پر لانے کے لیے انبیاء کرام کو بھیجا جنہوں نے اللہ کی بندگی کرنے والوں کو دنیا و آخرت کی کامیابی اور جنت کی خوشخبری دی، اور اس کی نافرمانی کرنے والوں کو دنیا و آخرت کی ناکامی، محرومی، ذلت و رسوائی اور جہنم سے ڈرایا، اور ان انبیاء کے ساتھ کتابیں بھیجیں جن میں سچی خبریں اور مبنی بر عدل اوامر تھے، جو اصول و فروع میں اختلاف کرنے والوں کے درمیان قول فیصل کا درجہ رکھتی تھیں۔ یہود و نصاری ٰ نے اللہ کی کتابوں (سب کچھ جاننے کے باوجود)۔ اختلاف کیا، اور اس کا سبب ان کا آپس کا حسد و عناد تھا، لیکن اللہ نے مسلمانوں کو اپنے فضل و کرم سے حق کی طرف ہدایت دی، وہ تمام کتب سماویہ پر ایمان لائے، پھر قرآن پر ایمان لائے اور ان تمام امور میں اعتدال کی راہ اختیار کی جن میں یہود و نصاریٰ نے اختلاف کیا تھا، اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنی سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ مصنف عبدالرزاق میں ابوہریرہ رضٰ اللہ عنہ کی روایت ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہم مسلمان زمانہ کے اعتبار سے آخر میں آئے ہیں، قیامت کے دن اولین لوگوں میں سے ہوں گے، ہم لوگ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے، حالانکہ اہل کتاب کو ہم سے پہلے کتاب ملی ہے اور ہمیں بعد میں کتاب ملی، لیکن اللہ نے ہمیں حق کی طرف اپنے فضل و کرم سے ہدایت دی، لوگوں نے جمعہ کے دن کے بارے میں آپس میں اختلاف کیا، تو اللہ نے ہمیں ہدایت دی اور ہم نے جمعہ کا اختیار کرلیا اور لوگ ہمارے تابع بن گئے، یعنی ہفتہ کا دن یہود نے اختیار کرلیا، اور نصاری نے اتوار کا دن۔ البقرة
214 302: اس میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کا امتحان لیتا ہے اور جس کا جس درجہ کا ایمان ہوتا ہے، اسی درجہ کا اس کا امتحان بھی ہوتا ہے۔ گذشتہ انبیاء ومومنین کے ساتھ یہی اللہ کی سنت رہی ہے، اور اللہ کی یہ سنت بدل نہیں سکتی، جو بھی اللہ کے دین پر چلے گا اس کی آزمائش ہونی ضروری ہے، تو جو لوگ صبر و استقامت سے کام لیں گے، اللہ تعالیٰ انہیں سعادت نصیب فرمائے گا اور جو لوگ آزمائش میں پورے نہیں اتریں گے، اور دنیاوی پریشانیوں اور مصائب و آلام کو عذاب آخرت تصور کرلیں گے، انہیں آخرت میں محرومیوں اور ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ اللہ نے مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا کہ تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ بغیر امتحان و آزمائش سے گذرے ہوئے جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تمہاری ویسی آزمائش ہوئی ہی نہیں، جیسی آزمائش گذشتہ انبیاء اور مومنین کی ہوئی، ان پر جو مصیبتیں آئیں ان کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انبیاء اور ان پر ایمان لانے والے شدت کرب و الم سے چیخ پڑے کہ اے اللہ، اب تو اپنی مدد بھیج دے، اور جب ان کا امتحان ہوچکا تو اللہ نے کہا کہ ہاں، اب اللہ کی مدد میرے مومن و صالح بندوں سے قریب ہے، کیونکہ اللہ تو ہر چیز پر ہر وقت قادر ہے، اللہ تو آزمانا چاہتا تھا کہ میدانِ عمل میں کون بندہ صادق ہے۔ بخاری نے خباب بن الارت (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کے سائے میں ایک چادر کو تکیہ بنائے لیٹے تھے، اور مشرکین کی زیادتی انتہا کو پہنچ رہی تھی، تو ہم نے کہا کہ اب تو ہمارے لیے اللہ کی مدد مانگئے، اب تو ہمارے لیے دعا کیجئے؟ تو آپ نے فرمایا کہ تم سے پہلے زمانہ میں مسلمان آدمی کو پکڑ لیا جاتا تھا، اور خندق کھود کر گاڑ دیا جاتا تھا، پھر آری سے اس کے دو ٹکڑے کر دئیے جاتے، یا لوہے کے کنگھے سے اس کا گوشت ہڈی سے الگ کردیا جاتا تھا، لیکن یہ عذاب اسے اس کے دین سے نہیں پھیرتا تھا، اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ اس دین کو پورا کرے گا، یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضرت موت تک جائے گا، اور اسے اللہ کے علاوہ کسی کا ڈر نہیں ہوگا، یا چرواہا اپنی بکریں کے بارے میں بھیڑیا سے ڈرے گا، لیکن تم لوگ جلدی کر رہے ہو، البقرة
215 303: لوگوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ وہ اپنے مال میں سے اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں تو اللہ تعالیٰ نے ان کا جواب دیا، اور ان کی رہنمائی فرمائی کہ وہ کوئی بھی مال حلال اللہ کی راہ میں خرچ کرسکتے ہٰں، چاہے تھوڑا ہو یا زیادہ، اس کے بعد آپ نے انہٰں بتایا کہ اس سوال سے زیادہ اہم یہ جاننا ہے کہ مال کن پر خرچ کیا جائے، چنانچہ انہیں تعلیم دی کہ انسان کی نیکی اور حسن سلوک کے سب سے زیادہ حقدار اس کے والدین ہیں، ان پر خرچ کرنا اور ان کے ساتھ حسن سلوک سب سے بڑی نیکی ہے اور ان کے ضرورت مند ہونے کے باوجود ان پر نہ خرچ کرنا ان کی سب سے بڑی نافرمانی ہے۔ مسند احمد میں ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اپنی ماں اور باپ پر خرچ کرو، اپنی بہن اور بھائی پر خرچ کرو، اس کے بعد حسب مراتب قریبی رشتہ داروں پر، والدین کے بعد حسب مراتب دوسرے رشتہ داروں، ایتام مساکین و فقراء اور ان مسافروں پر خرچ کرنا چاہئے جن کا زاد راہ ختم ہوگیا ہو، اور اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے پیسوں کے محتاج ہوں، اس تفصیل کے بعد اللہ تعالیٰ نے علی وجہ الاجمال یہ فرمایا کہ اے مسلمانوں تم جو بھی کار خیر کروگے، چاہے ان لوگوں کے ساتھ جن کا ذکر اوپر آچکا، اوروں کے ساتھ، تو اللہ اسے جانتا ہے اور اس کا بہترین بدلہ تمہیں عطا فرمائے گا، جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے آیت انی لا اضیع عمل عامل منکم من ذکر او انثی، کہ مرد ہو یا عورت، میں کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔ آل عمران : 195۔ نیز فرمایا ہے، آیت فمن یعمل مثقال ذرۃ خیر ایرہ، کہ جو کوئی ایک ذرہ کے برابر نیکی کرے گا، اسے روز قیامت اپنے میزان عمل میں دیکھ لے گا، الزلزلہ : 7۔ البقرة
216 304: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں پر جہاد فی سبیل اللہ کو فرض قرار دیا ہے۔ مدنی زندگی کے ابتدائی دنوں میں مسلمان ہر اعتبار سے کمزور تھے، ان کی تعداد کم تھی اور ان کے پاس سامانِ جنگ بھی نہیں تھا، اس لیے اللہ نے انہیں عفو و درگذر اور صبر کرنے کا حکم دیا، جنگ بدر کے قبل جب ان کی تعداد زیادہ ہوگئی اور پہلے کے مقابلہ میں قوی ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اللہ کی راہ میں جنگ کرنے کا حکم دے دیا، اور کہا کہ اگرچہ اس کام میں جان کی بازی لگانی پڑتی ہے اور مختلف قسم کے خطرات اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اللہ جانتا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ میں مومنوں کے لیے خیر ہی خیر ہے، دشمنوں کے اوپر غلبہ اور مال غنیمت کے حصول کے علاوہ آخرت کی کامیابی اور جہنم سے نجات اس کا انجام ہوتا ہے، اسی طرح انسان بعض چیزوں کو پسند کرتا ہے، حالانکہ وہ اس کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ظاہری راحت کی خاطر جہاد فی سبیل اللہ کو چھوڑ دینے کا انجام دنیا میں ذلت و رسوائی، دشمنوں کا بلاد اسلامیہ پر قابض ہوجانا، اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب اور جہنم کے عذاب کا سامنا ہوگا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ تمہاری بھلائی کس کام میں ہے صرف اللہ جانتا ہے، تم کچھ بھی نہیں جانتے، اس لیے اللہ کا جو حکم ہو اسے بجا لانے میں ہی خیر ہے۔ چاہے اس میں مشقت کیوں نہ اٹھانی پڑے، اس لیے کہ اللہ اپنے بندوں کے لیے مہربان ہے، وہ انہی باتوں کا حکم دیتا ہے جن کے بجا لانے میں بندوں کی بھلائی ہے۔ البقرة
217 305: اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک فوجی دستہ عبداللہ بن جحش کی قیادت میں نخلہ کی طرف روانہ کیا، راستہ میں قریش کے ایک قافلہ سے مڈبھیڑ ہوگئی جو طائف کی طرف سے آرہا تھا، ایک مسلمان تیر انداز نے عمرو بن الحضرمی کو قتل کردیا، چونکہ رجب کا مہینہ تھا جو حرمت والا مہینہ ہوتا ہے، اس لیے کفار قریش نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عار دلایا کہ تم لوگ تو حرمت والے مہینوں کا بھی پاس نہیں رکھتے، تو یہ آیت نازل ہوئی، جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ ان کافروں سے کہہ دیجئے کہ جس بات کا تم عار دلاتے ہو اگرچہ وہ بڑا گناہ ہے، لیکن اللہ کے دین سے روکنا، اللہ کا انکار کرنا، مسجد حرام سے روکنا، نبی کریم اور صحابہ کرام کو ان کے گھروں سے نکالنا، یہ جرام اللہ کے نزدیک بڑے ہیں، اور لوگوں کو ان کے دین اسلام پر چلنے کی وجہ سے آزمائشوں میں ڈالنا تو قتل سے بھی بڑا جرم ہے، اور یہ تمام عیوب تمہارے اندر پائے جاتے ہیں، لیکن تمہیں اپنے عیوب نظر نہیں آتے، اور مسلمانوں کو ان کی ایک غلطی کا عار دلاتے ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کفار جو آپ سے جنگ کرتے ہیں، ان کا مقصد آپ کو اور مسلمانوں کو دین اسلام سے نکال دینا ہے، جو وہ نہیں کرسکیں گے، پھر اللہ نے فرمایا کہ جو کوئی دین اسلام سے مرتد ہوجائے گا، اس کے سارے اعمال دنیا و آخرت میں ضائع ہوجائیں گے اور اس کا ٹھکانا ہمیشہ کے لیے جہنم ہوگا۔ فائدہ : جمہور اہل علم کی رائے یہ ہے کہ حرمت والے مہینوں (شوال، ذی القعدہ، ذی الحجہ، رجب) میں قتال جائز ہے۔ ائمہ اربعہ کا یہی مزہب ہے کہ ان مہینوں میں قتال کی حرمت منسوخ ہوچکی ہے، اس لیے کہ اس کے بعد نازل ہونے والی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے بارے میں حکم دیا کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں انہیں قتل کرو، اور کسی مہینہ کی استثناء نہیں کی۔ البقرة
218 306: اہل ارتداد اور ان کے انجام بد کا ذکر کرنے کے بعد اہل ایمان کا ذکر کیا گیا ہے کہ جو لوگ ایمان لائیں گے، اور السامی زندگی کی خاطر وطن، مال و دولت، خاندان اور دوست احباب چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلے جائیں گے، اور اللہ کے دین کی نصرت اور دشمنان دین کا قلع قمع کرنے کے لیے جہاد کریں گے، وہی لوگ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہوں گے، اللہ تعالیٰ تو بڑا ہی مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ البقرة
219 307: شراب کی حرمت کے بارے میں سب سے پہلے یہی آیت نازل ہوئی، اس کے بعد سورۃ نساء کی مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی۔ آیت یا ایہا الذین آمنو لاتقربوا الصلاۃ وانتم سکارا، یعنی اے ایمان والو ! تم جب نشہ کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب بھی نہ جاؤ، النساء :43۔ اور سب سے آخر میں سورۃ مائدہ کی آیت نازل ہوئی۔ آیت یا ایہا الذین امنوا انما الخمر و المیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون۔ انما یرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والمیسر و یصدکم عن ذکر اللہ و عن الصلاۃ فہم انتم منتہون۔ اے ایمان والو، شراب اور جواب اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر، یہ سب گندی باتیں شیطان کا کام ہے، ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح پا سکو، شیطان تو چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعہ تمہارے آپس میں عداوت اور بغض پیدا کردے، اور اللہ کی یاد اور نماز سے تم کو باز رکھے، تو اب کیا تم شراب پینے سے رک جاؤ گے۔ المائدہ :90-91۔ اس کے بعد حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے کہا کہ اے اللہ ہم رک گئے، ہم رک گئے۔ دور جاہلیت اور ابتدائے اسلام میں لوگ شراب پیتے تھے،، اس لیے ی جب اس کا استعمال حرام کردیا گیا تو اس کے بعض ظاہری منافع کے پیش نظر، کچھ لوگوں کے ذہنوں میں ایک طرح کا اشکال باقی رہ گیا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ کیا واقعی شراب حرام کردی گئی ہے؟ اسی طرح لوگ جوا بھی کھیلا کرتے تھے اور اس کے بارے میں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تو اللہ نے فرمایا کہ لوگ آپ سے شراب اور جوا کے بارے میں پوچھتے ہیں تو کہہ دیجئے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ اور کچھ ظاہری منافع بھی ہیں، لیکن ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔ شراب انسان کے عقل پر اثر انداز ہوتی ہے، جو اس کے جسم میں سب سے قیمتی متاع ہے، اور جنگ و جدال، گالی گلوچ، بہتان و زُور اور ترک نماز و ترک اعمال صالحہ کا سبب بنتی ہے، اور جوا محتاجی، دشمنی اور بغض و حسد کا سبب ہوتا ہے۔ لوگوں نے شراب اور جوا کے منافع کے بارے میں لکھا ہے کہ شراب کی لوگ تجارت کرتے ہیں اور اس کے استعمال سے نشاط و طرب حاصل ہوتا ہے اور معدہ کی اصلاح ہوتی ہے اور جوا اسے فقیروں کو نفع پہنچتا ہے۔ لیکن فساد عقل کے بعد کسی ظاہری نفع کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی، اس لیے کہ عقل کے ذریعہ ہی آدمی ایمان و کفر اور خیر و شر میں تمیز کرتا ہے۔ علمائے کرام اور محققین نے اس کے علاوہ بھی شراب کے بہت سے نقصانات بتائے ہیں، مثال کے طور پر اس سے پیاس نہیں بجھتی، بچوں کی ذہنی اور جسمانی ترقی رک جاتی ہے، قوت ارادی کمزور ہوجاتی ہے، ٹی بی کی بیماری ہوتی ہے، دل اور خون کی نالیوں پر اثر انداز ہوتی ہے، اور بھی بہت سی بیماریاں پیدا ہوتی ہے جن کا ذکر شراب سے متعلق لکھی گئی کتابوں میں اایا ہے اسی طرح جوا انسان کو محتاجی تک پہنچا دیتا ہے اس کی وجہ سے ایسی عداوتیں پیدا ہوتی ہیں جو قتل و غارت گری اور ایک دوسرے کی عورتوں کی عصمت دری کا سبب بنتی ہیں، والعیاذ باللہ۔ 308: بعض صحابہ کرام نے زکاۃ فرض ہونے سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ وہ اللہ کی راہ میں اپنے مال کا کتنا حصہ خرچ کریں، تو اللہ نے فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اہل وعیال پر خرچ کرنے کے بعد جو بچ جائے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کریں، اللہ تعالیٰ تو ہمیشہ ہی اپنی آیتیں کھول کھول کر تم لوگوں کے لیے بیان کردیتا ہے تاکہ تم لوگ دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی حقیقت کے بارے میں غور و فکر کرتے رہو۔ صحیحین میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ بہترین صدقہ وہ ہے جو اپنی ضرورت پوری ہونے کے بعد ہو، اور ابتدا اس آدمی سے کرو، جس کی کفالت تمہارے ذمہ ہو۔ فائدہ : ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ یہ حکم فرضیت زکاۃ والی آیت کے ذریعہ منسوخ ہوگیا ہے، اور عطاء خراسانی اور سدی وغیرہ کا خیال ہے کہ آیت زکاۃ کے ذریعہ اس حکم کی تفصیل بیان کردی گئی ہے کہ آدمی اپنے مال میں سے کیا خرچ کرے اور کن لوگوں پر خرچ کرے۔ البقرة
220 309: ابن عباس (رض) کی روایت ہے کہ جب قرآن کریم کی یہ آیت اتری، ولا تقربوا مال الیتیم الا بالتی ھی احسن، اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگر ایسے طریقے سے جو مستحسن ہو، الانعام : 152۔ اور یہ آیت ان الذین یاکلون اموال الیتامی ظلما انما یاکلوان فی بطونہم نارا و سیصلون سعیرا۔ اور جو لوگ یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہٰں، اور وہ دوزخ میں جائیں گے۔ النساء :10۔ تو تمام صحابہ کرام نے جن کے گھروں میں ایتام تھے، ان کا کھانا پینا لاگ کردیا، اور جب ان کے کھانے کا کچھ حصہ بچ جاتا تو اسے اٹھا رکھتے، یا تو یتیم اسے کھاتا یا پھر خراب ہوجانے کے بعد اسے پھینک دیا جاتا، یہ چیز ان پر بڑی شاق گذری، اور اس کا تذکرہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا، تو سورۃ بقرہ کی آیت اتری کہ مقصود یتیموں کے مال کی حفاظت ہے، اور اگر انہیں کھانے وغیرہ میں شریک کرلیا جائے اس طور پر کہ نیت ان کے ساتھ بھلائی کرنی ہو، ان کا مال کھانا نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ چاہے ان کے کھانے کا کچھ حصہ تم یا تمہارے بچے کھا جائیں، کیونکہ وہ دینی بھائی ہیں، اور دینی اخوت خاندانی اخوت سے زیادہ قوی اور مبنی بر اخلاص ہوتی ہے، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ کس کی نیت یتیم کی خیر خواہی ہے، اور کس کی اس کا مال حیلہ بہانا سے کھا جانا، اور اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت و پریشانی میں ڈال دیتا، اور ان کا کھانا الگ رکھنے کا حکم دیتا، اور کوئی چیز اسے اس سے نہ روک سکتی تھی، اس لیے کہ اللہ تو ہر چیز پر غالب آنے والا اور صاحب حکمت ہے (ابو داو، نسائی، حاکم)۔ فائدہ : سہل بن سعد (رض) کی روایت ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح رہیں گے، اور اپنی شہادت کی انگلی اور بچلی انگلی سے اشارہ کیا اور ان دونوں کے درمیان فاصلہ بنایا (بخاری و مسلم) البقرة
221 310: اس آیت کریمہ میں اللہ تعاللیٰ نے مشرکہ اور بت پرست عورتوں سے نکاح کرنے سے منع فرمایا ہے، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں، مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت عام ہے اور اہل کتاب کی عورتوں کو بھی شامل ہے اس کے بعد سورۃ مائدہ کی آیت نے اس کی تخصیص کردی اور اہل کتاب کی عورتوں سے شادی کرنا جائز ہوگیا۔ آیت یہ ہے آیت والمحصنات من المومنات والمحصنات من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم، اور مومن پاکدامن عورتوں سے اور اہل کتاب کی پاکدامن عورتوں سے شادی کرنا تمہارے لیے جائز کردیا گیا ہے۔ مائدہ : 5۔ بعض دیگر محققین نے لکھا ہے کہ مشرک اور مشرکہ کا لفظ کتابی اور کتابیہ کو شامل نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآن نے پوری صراحت کے ساتھ دونوں میں تفریق کی ہے اور ایک کے بعد دوسرے کا ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، آیت ان الذین کفروا من اھل الکتاب و المشرکین۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرک کے مزہب کی بنیاد ہی شرک پر ہے، جبکہ کتابی کے دین کی بنیاد توحید پر تھی، مرورِ زمانہ کے ساتھ انہوں نے اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک بنا دیا۔ معلوم ہوا کہ مشرکہ سے نکاح کی حرمت میں اہل کتاب کی عورتیں شامل نہیں ہیں۔ 311: مشرکہ کے ساتھ حرمت نکاح کی علت بیان کی گئی ہے، اور مونہ سے شادی کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے، کہ غلامی ذلت کے باوجود، ایمان کی نعمت کفر و شرک پر ہر طرح بھاری ہے، چاہے مشرکہ کا حسن و جمال اور اس کا حسب و نسب تمہیں کتنا ہی کیوں نہ بھا رہا ہو۔ 312: مومنہ عورت (چاہے آزاد ہو یا لونڈی) کی شادی مشرک کے ساتھ کسی حال میں جائز نہیں ہے، امت کا اس پر اجماع ہے، یہاں بھی اس حرمت نکاح کی علت بیان کی گئی ہے کہ مومن طوق غلامی کے باوجود مشرک سے ہر طرح سے بہتر ہے، چاہے مشرک کیسا ہی مال و دولت اور جاہ و حشم والا کیوں نہ ہو، اس لیے مومنہ عورت کی شادی صرف مومن مرد ہی کے ساتھ حلال ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری وجہ حرمت بیان کی کہ مشرک عورتیں اپنے شوہروں کو اور مشرک مرد اپنی بیویوں کو جہنم کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ قرآن سنت کی تعلیمات کے ذریعہ رضائے الٰہی اور جنت کی طرف بلاتا ہے اور اپنی آیتیں لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں، حرام شادیوں سے بچیں، اور رشتہ ازدواج صرف مومن مردوں اور عورتوں کے ساتھ استوار کریں۔ فوائد : 1۔ مشرک اور بدعتی کے ساتھ میل جول رکھنا جائز نہیں ہے اس لیے کہ وہ اپنے ہر قول و فعل کے ذریعہ جہنم کی طرف بلاتا ہے۔ 2۔ عورت کا نکاح بغیر ولی کے معتبر نہیں ہوگا، اللہ نے فرمایا۔ ولا تنکحوا المشرکین، یعنی اپنی عورتوں کا نکاح مشرکین کے ساتھ نہ کرو، معلوم ہوا کہ عورت کی شادی اس کا ولی کرے گا، وہ خود اپنی شادی نہیں کرے گی۔ 3۔ حضرت عمر (رض) نے کتابیہ سے شادی کو مکروہ سمجھا، تاکہ ایسا نہ ہو کہ مسلمان مرد اپنی عورتوں کو چھوڑ کر کتابیات سے شادی کرنے لگیں۔ 4۔ اس آیت میں ترغیب دلائی گئی ہے کہ مومن مردوں اور عورتوں کی شادی انہی جیسے مومن مردوں اور عورتوں سے ہونی چاہئے اور کافر مردوں اور عورتوں سے رشہ ازداوج نہیں جوڑنا چاہئے۔ صحیح احادیث میں بھی اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔ صحیحین میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عورت سے شادی چار اسباب کی وجہ سے کی جاتی ہے، مال و دولت، حسب و نسب، حسن و جمال اور دینداری، تم دیندار عورت حاصل کرنے کی کوشش کرو، اور مسلم نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ دنیا ایک عارضی متاع (فائدہ کی چیز) ہے، اور دنیا کی سب سے بہترین متاع نیک بیوی ہے۔ البقرة
222 313: انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ یہود اپنی حائضہ عورتوں کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے تھے تھے، اور نہ ایک گھر میں ان کے ساتھ سوتے تھے، صحابہ کرام (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ اپنی عورتوں کے ساتھ کیسا معاملہ کریں تو یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ انہیں بتا دیجئے کہ ماہواری کا خون گندا اور نقصان دہ ہوتا ہے، اس لیے مدت حیض میں ان کے ساتھ مجامعت نہ کرو، اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان کے قریب بھی نہ جاؤ، اور جب تک پاکی حاصل نہ کرلیں ان کے ساتھ جماع نہ کرو، اللہ تعالیٰ گناہوں سے توبہ کرنے والوں، اور نجاستوں اور گندگیوں سے پاکی حاصل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ فوائد : 1۔ آیت میں ممانعت جماع سے ہے، ایک ساتھ اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے، لیٹنے اور جماع کے علاوہ دیگر امور استمتاع کی ممانعت نہیں ہے۔ صحیحین میں ام المومنین میمونہ (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ساتھ لیٹتے تھے اور میں حائضہ ہوتی تھی اور میرے اور ان کے درمیان صرف ایک کپڑا ہوتا تھا۔ 2۔ حیض آنے کے بعد بہتوں کے نزدیک جماع کے جواز کی دو شرطیں ہیں : پہلی شرط یہ ہے کہ حیض کا خون آنا بند ہوجائے، اور دوسری یہ ہے کہ عورت غسل کرلے۔ اگر غسل کے لیے پانی میسر نہ ہو تو تیمم کرلینا کافی ہوگا، مام شوکانی کے نزدیک یہی راجح ہے، لیکن امام ابن حزم اور دیگر بہت سے علماء کا خیال ہے کہ غسل کرنا شرط نہیں۔ اگر عورت انقطاع دم کے بعد اپنی شرمگاہ اچھی صاف کرلیتی ہے تاکہ وہاں خون کا کوئی اثر باقی نہ رہے، تو پھر جماع جائز ہوگا، محدث شام علامہ ناصر الدین البانی نے اپنی کتاب آداب الزفاف میں اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ 3۔ خون رک جانے کے بعد حائضہ کے لیے غسل کرنا واجب ہے۔ البقرة
223 314: یہود کہا کرتے تھے کہ اگر عورت کے ساتھ اس کی پشت کی طرف سے اس کے فرج (اگلی شرمگاہ) میں جماع کیا جائے، تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے، ان کی تردید میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہے اور بیوی کے ساتھ کسی بھی جائے، تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے، ان کی تردید میں یہ آیت نازل ہوئی کہ ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہے اور بیوی کے ساتھ کسی بھی طرف سے اس کی اگلی شرمگاہ میں جماع کرنا جائز ہے، اور اس سے بچے پر کوئی اثر نہیں پڑتا، بخاری ومسلم۔ اس آیت کے شان نزول میں ابن عباس (رض) کا ایک قول ہے جسے ابو داود اور حاکم نے روایت کی ہے، کہتے ہیں کہ قبل از اسلام انصار کے بعض محلے بعض یہودی محلوں کے آس پاس تھے اور سمجھتے تھے کہ یہود ان سے علم وفضل میں زیادہ تھے، اس لیے انصار میں بھی یہی عادت چل پڑی تھی، اہل قریش اپنی بیویوں سے زیادہ سے زیادہ تلذذ کے لیے آگے سے، پیچے سے، اور چت لیٹی ہوئی حالت میں جماع کرتے تھے، ہجرت کے بعد ایک مہاجر نے ایک انصاری عورت سے شادی کی اور ایسا ہی کرنا چاہا تو عورت نے نکیر کی اور کہا کہ ہمارے لوگ اپنی بیویوں کے پاس پہلو کے بل آیا کرتے ہیں ویسا ہی کرو ورنہ مجھ سے الگ رہو، ان دونوں کی بات لوگوں میں پھیل گئی، حتی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی ان کی بات معلوم ہوگئی، اسی کے بعد یہ آیت نازل ہوئی، نساءکم حرث لکم۔ الایۃ۔ 315: چونکہ بات قضائے شہوت سے متعلق ہو رہی تھی، اسی لیے اللہ نے تنبیہ کی کہ آدمی کو شہوت کی بندگی سے آزاد ہو کر ہمیشہ اللہ کی بندگی اختیار کرنا چاہئے۔ فرمایا کہ حصول جنت کے لیے نیک اعمال کرو، اور یاد رکھو کہ موت کے بعد اللہ کے حضور پیش ہونا ہے، اس لیے اس کی ملاقات کے لیے تیار رہو، اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے کہا گیا کہ آپ اہل ایمان کو اچھے بدلے کی خوشخبری دے دیں۔ فائدہ : اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کے دبر (پچھلی شرمگاہ) میں جماع کرنا حرام ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ جماع کی اجازت دی ہے جو کھیتی کی جگہ ہے اور وہ اگلی شرمگاہ ہے، وہیں جماع کرنے سے اولاد ہوتی ہے، ابو ہریرہ (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی کی طرف روز قیامت دیکھے گا بھی نہیں جو اپنی بیوی کے دبر یعنی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرے گا، ابن ماجہ۔ محدث سندی کہتے ہیں کہ ابو داود اور ترمذی میں بھی اسی معنی کی روایت موجود ہے۔ ترمذی میں ابن عباس (رض) کی ایک دوسری روایت ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا کہ میں تو ہلاک ہوگیا، آپ نے پوچھا کہ کس چیز نے تمہیں ہلاک کردیا؟ تو اس نے کہا کہ آج کی رات میں نے اپنی سواری کو الٹ دیا تھا، یعنی پیٹ کے بل لیٹی ہوئی حالت میں جماع کیا، آپ نے اس کا کوئی جواب نہ دیا، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی کہ تمہاری بیویاں تمہاری کھیتیاں ہیں، اپنی کھیتیوں میں آگے سے، پیچھے سے، جیسے چاہو، آؤ، لیکن دبر سے اور حیض سے بچے رہو، اس حدیث کو دارمی نے بھی روایت کیا ہے۔ البقرة
224 316: اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ مسلمان جب قسم کھائے تو اسے پورا کرے، لیکن اگر قسم ایسی ہو جو کسی عمل صالح کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہو تو ایسی قسم توڑ دی جائے گی اور اس نیک کام کو پورا کیا جائے گا اور قسم کا کفارہ ادا کردیا جائے گا۔ بعض لوگ اپنے بعض رشتہ داروں سے کسی وقتی اختلاف اور ناراضگی کی وجہ سے قسم کھا لیتے تھے کہ آئندہ اس کے ساتھ وہ بھلائی جاری نہیں رکھیں گے جو وہ پہلے سے کرتے آرہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اس کی مانعت فرمائی ہے کہ اپنی قسموں کو نیکی، تقوی اور بھلائی کی راہ میں رکاوٹ نہ بناؤ۔ صحیحین میں ابو موسیٰ اشعری (رض) کی روایت ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کی قسم، اگر میں کسی بات پر قسم کھا لوں اور بعد میں اس سے بہتر صورت نظر آجائے، تو انشاء اللہ میں وہی کروں گا جو بہتر ہے اور قسم توڑ دوں گا۔ اور صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو کوئی قسم کھائے اور بعد میں اس سے بہتر کوئی دوسری صورت نظر آئے، تو اپنی قسم کا کفار ادا کردے اور وہی کرے جو بہتر ہے۔ فوائد : 1۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اس آیت میں ہر بات پر قسم کھانے کی ممانعت آئی ہے۔ 2۔ اگر کوئی شخص ترک واجب کی قسم کھاتا ہے تو قسم توڑ دینا واجب ہوگا، اور اگر ترک مستحب کی قسم کھاتا ہے تو قسم توڑنا مستحب ہوگا، اور اگر کوئی حرام کام کے ارتکاب کی قسم کھاتا ہے تو اس پر بھی قسم توڑ دینا واجب ہوگا۔ البقرة
225 317: بسا اوقات انسان کی زبان پر قسم کے الفاظ آجاتے ہی، ان سے اس کی کوئی نیت نہیں ہوتی، ایسی قسم کا کوئی اعتبار نہیں اللہ نے اپنا فضل و کرم کرتے ہوئے بندوں کو خبر دی ہے کہ ایسی قسم پر اللہ تعالیٰ مواخذہ نہیں کریں گے۔ مواخذہ اس قسم پر ہوگا جس میں دل کے قصد کا دخل ہو۔ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو غیر شعوری طور لا واللہ، بلی واللہ، کہہ دیتے تھے، (بخار، موطا، ابو داود)۔ فائدہ : مفسرین نے لکھا ہے کہ (لغو قسم) ہر وہ قسم ہے جس میں الفاظ کے ساتھ دل کی نیت شامل نہ ہو چاہے وہ کوئی بھی صورت اور کوئی بھی حالت ہو، اور ایسی قسم پر مواخذہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر کفارہ واجب نہیں ہوگا۔ البقرة
226 318: یہاں ایک خاص نوع کی قَسَم کا حکم بیان کیا جا رہا ہے، جسے قرآن و سنت کی زبان میں ایلاء کہا جاتا ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص قسم کھا لے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری نہیں کرے گا۔ ایسی صورت میں اگر اس نے چار ماہ سے کم مدت کے لیے قسم کھائی ہے تو اس کی حیثیت عام قسم کی ہوگی اگر مدت پوری ہونے سے قبل ہمبستری کرلیتا ہے تو اسے کفارہ دینا ہوگا، اور اگر مدت پوری کرلیتا ہے، تو اس پر کوئی کفارہ نہیں، اور اگر اس نے ہمیشہ کے لیے یا چار ماہ سے زیادہ کے لیے قسم کھائی ہے، تو اسے بیوی کے مطالبہ پر صرف چار ماہ کی مدت دی جائے گی اگر یہ مدت پوری کرلینے کے بعد وہ اپنی بیوی سے ہمبستری کرلیتا ہے تو اس پر صرف کفار واجب ہوگا، اور اگر ہمبستری نہیں کرتا تو اسے طلاق دینے پر مجبور کیا جائے گا، اگر طلاق نہیں دیتا تو عورت سے دفع ضرر کے لیے حاکم وقت شوہر کی طرف سے طلاق کو نافذ کردے گا۔ لیکن چونکہ بیوی کے پاس واپس چلاجانا اللہ کے نزدیک زیادہ بہتر ہے، اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ اگر قسم کھانے والا آدمی اپنی بیوی کے پاس واپس چلا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہمبستری کرلیتا ہے تو جو غلطی اس سے سرزد ہوئی تھی اللہ اسے معاف کردے گا، اور اللہ مومنوں پر رحم کرنے والا ہے کہ کفارہ دے کر قسم توڑ دینے کی اجازت دے دی، اللہ چاہتا تو اسے لازم کردیتا۔ البقرة
227 319: اگر شوہر مدت گذر جانے کے بعد طلاق کا ارادہ کرلیتا ہے، اور ایسا کر گذرتا ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ حاکم وقت اسے مجبور کرے گا، یا اس کی طرف سے طلاق دے دے گا۔ آیت کے آخر میں ایک قسم کی دھمکی ہے ان کے لیے جو اپنی بیویوں کو نقصان پہنچا نے کے لیے اس طرح کی قسمیں کھایا کرتے ہیں۔ فائدہ : آیت کریمہ میں دلیل ہے اس بات کی کہ ہر چار ماہ میں کم از کم ایک بار بیوی کے ساتھ ہمبستری واجب ہے، اس لیے کہ ایلاء کی قسم کھاجانے کی صورت میں آیت کے بموجب شوہر کو چار ماہ کے بعد مجبور کیا جاتا ہے کہ یا تو اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کرے، یا پھر طلاق دے دے۔ البقرة
228 320: اس آیت کریمہ میں ایسی مطلقہ عورت کی عدت بیان کی گئی ہے جس کی ماہواری ابھی رکی نہ ہو، اور جس کے ساتھ اس کا شوہر ہمبستری کرچکا ہو، کہ اگر اس کا شوہر اسے طلاق رجعی دے دے، تو اس کی عدت تین ماہواری ہوگی، قرآن کریم نے ثلاثۃ قروء کا لفظ استعمال کیا ہے، صحیح قول یہی ہے کہ قروء سے مراد حیض ہے، یعنی عورت کو تین حیض کی مدت بطور عدت گذارنی پڑے گی، تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس کے رحم میں بچہ نہیں ہے اور مقصود اس سے یہ ہے کہ لوگوں کا نسب خلط ملط نہ ہو۔ اسی لیے عورت کے لیے یہ حرام ہے کہ وہ اپنے رحم کی حالت چھپائے اگر حمل کو چھپائے گی تو بچے کو اس کے غیر باپ کے ساتھ ملائے گی جس کے بد ترین اور سنگین نتائج ظاہر ہوں گے، بچہ اپنے خاندان اور حق وراثت سے محرم ہوجائے گا، محرم عورتیں اس سے پردہ کریں گی، بلکہ بہت ممکن ہے وہ اپنی کسی مرحم عورت سے شادی کرلے۔ اسی طرح جس غیر باپ کی طرف وہ منسوب کردیا جائے گا اس کے مال کا ناجائز وارث ہوگا، اس کی عورتوں کا غیر شرعی محرم بن جائے گا، اور شر و فساد کے دیگر ایسے دروازے کھل جائیں گے، جنہیں کوئی بند نہ کر پائے گا۔ مثال کے طور پر اگر وہ عورت حمل کو چھپا دیتی ہے اور کسی دوسرے سے شادی کرلیتی ہے تو یہ شادی حرام ہوگی، اور دوسرے آدمی کا اس کے ساتھ جماع کرنا زنا ہوگا۔ اور حیض کو چھپا دیتی ہے اور کہہ دیت ہے کہ طلاق کے بعد تین ماہواری گذر چکی، تو اس نے شوہر کا حق رجعت ختم کردیا اور اپنے آپ کو دوسرے آدمی کے لیے غیر شرعی طور پر مباح کردیا، اور اگر کہتی ہے کہ ابھی تین ماہواری نہیں گذری ہے حالانکہ گذر چکی ہے، تو وہ ناحق نان و نفقہ لینا چاہتی ہے جو اس کے لیے حرام ہے، اور اگر شوہر اسے رجوع کرلیتا ہے تو اس کے ساتھ ہمبستری حرام ہوگی، اس لیے کہ عدت گذرنے کے بعد عقد جدید ضروری تھا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر شوہر کی نیت اصلاح کی ہے تو عدت گذر جانے سے پہلے اپنی بیوی کو لوٹا لینے کا وہ زیادہ حقدار ہے۔ اور اگر عورتوں کے اوپر شوہروں کے حقوق ہیں، تو شوہروں کے اوپر بھی عورتوں کے حقوق ہیں۔ عرف عام کے مطابق کھانا، کپڑا، اچھا برتاؤ، رہائش اور ہمبستری وغیرہ عورتوں کے شوہروں پر حقوق ہیں جنہیں ادا کرنا ضروری ہے، اور یہ بھی صحیح ہے کہ مردوں کو عورتوں پر فوقیت حاصل ہے جس کا لحاظ بیویوں کو بہرحال کرنا ہے۔ فوائد : 1۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ تین حیض کی مدت پوری ہوجانے کے سلسلے میں عورت کی بات مانی جائے گی۔ 2۔ اگر عورت کی ماہواری بند ہوچکی ہے یا ابھی سن بلوغت کو نہیں پہنچی ہے تو اس کی عدت تین ماہ ہوگی اور اگر حاملہ ہے تو اس کی عدت وضع حمل ہوگی اور اگر شوہر نے ابھی بیوی کے ساتھ ہمبستری نہیں کی ہے، تو اس پر کوئی عدت نہیں ہے، البقرة
229 321: زمانہ جاہلیت اور ابتدائے اسلام میں دستور تھا کہ لوگ اپنی بیویوں کو بغیر تجدید عدد طلاق دیتے رہتے تھے، ایک طلاق کی مدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلیتے تھے، اور پھر طلاق دے دیتے تھے، اور مقصود عورتوں کو نقصان پہنچانا ہوتا تھا، اس ظالمانہ فعل سے بہت سی عورتوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی تھی۔ حضرت عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نہ تجھے الگ ہونے دوں گا اور نہ ہی تجھے پناہ دوں گا، عورت نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ تو اس نے کہا کہ میں تجھے طلاق دوں گا، اور ہر بار عدت گذرنے سے پہلے تمہیں رجوع کرلوں گا، وہ عورت حضرت عائشہ (رض) کے پاس گئی اور انہیں یہ بات سنائی، تو عائشہ خاموش رہیں، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو انہیں ماجرا سنایا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی کہ شوہر دو بار طلاق دینے کے بعد یا تو رجوع کرے گا، یا تیسری طلاق دے دے گا، اس کے بعد عورت جہاں چاہے گی، اور جس سے چاہے گی شادی کرلے گی، اب شوہر کو مزید طلاق ورجوع کا حق نہیں ہوگا۔ فائدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں یہ حکم بیان فرمایا ہے کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو اسے ایک طہر میں ایک طلاق دینی چاہئے، اس کے بعد اگر رجوع نہیں کرتا ہے تو پھر دوسرے طہر میں دوسری طلاق دینی چاہئے۔ آیت سے یہ بات ہرگز سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر کوئی شخص ایک ہی بار دو طلاق دے دے تو دونوں واقع ہوجائے گی، دوسری طلاق کے بعد اگر چاہے تو عدت گذرنے سے پہلے رجوع کرلے، ورنہ تیسری طلاق دے کر ہمیشہ کے لیے رشتہ ازدواج کو ختم کرلے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ زن و شوہر کا رشتہ ازدواج الفت و محبت کی فضا میں ہمیشہ کے لیے استوار رہے، اور اگر کوئی عارضی اختلاف پیدا ہوجائے تو اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یکے بعد دیگرے تین طلاقوں کی مہلت دی ہے، تاکہ انسان کو بار سوچنے کا موقع ملے، اور عارضی ناراضگی ختم ہوجائے، اور شوہر اپنی بیوی کو رجوع کرلے، اگر ایک ہی طلاق رجعت سے مانع ہوتی، تو یہ عظیم مصلحت مفقود ہوجاتی اور بہت سے خاندان تباہ ہوجاتے، اور سوسائٹی میں ایسی خرابیاں پیدا ہوجاتیں جن کا تدارک ناممکن ہوگا۔ اسی طرح اگر ایک ہی مرتبہ کی تین طلاقیں یا ایک مجلس کی تین طلاقیں نافذ کردی جائیں تو وہی خرابیاں پیدا ہوں گی جن سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تین طلاقیں الگ الگ طہر میں دینے کا حکم دیا ہے، بہت سے خاندان تباہ ہوجائیں، بہت سے بچے بربادی کی راہ پر لگ جائیں، اور بہت سی بے گناہ عورتوں کی زندگی میں آگ صرف اس لیے بھر جائے کہ اس کے شوہر نے وقتی طور پر طیش میں آ کر تین بار کلمہ طلاق اپنی زبان سے نکال دیا ہے۔ اسی لیے عہد نبوی، عہد ابوبکر، اور ابتدائے عہد عمر میں بالاتفاق ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھیں۔ اماممسلم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ عہد نبوی، عہد ابوبکر اور عہد عمر کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک مانی جاتی تھیں۔ حضرت عمر (رض) نے اپنے دو خلافت میں دیکھا کہ لوگوں نے کثرت سے طلاق دینی شروع کردی ہے، تو کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں عجلت سے کام لینا شروع کردیا ہے، اس لیے ہم تین طلاقوں کو تین نافذ کردیں گے، چنانچہ نافذ کردیا، اور امام احمد نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دے دی، اس کے بعد انہیں اس پر بڑا غم ہوا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا کہ تم نے کسی طرح طلاق دی ہے، تو انہوں نے کہا کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ کیا ایک مجلس میں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں تو آپ نے فرمایا کہ وہ سب ایک طلاق شمار ہوں گی، اگر چاہو تو رجوع کرلو، چنانچہ انہوں نے رجوع کرلیا۔ معلوم ہوا کہ حضرت عمر (رض) نے جو کچھ کیا یہ ان کی اپنی رائے تھی، جسے انہوں نے مصلحت عامہ کے تقاضے کے مطابق نافذ کردیا تھا، ورنہ انہیں سنت کا پتہ تھا، اور ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین حقیقی طلاق اعتبار کرنے سے زیادہ ان کا یہ فیصلہ ایک تعزیراتی اور اجتہادی حکم تھا، تاکہ لوگ آئندہ طلاق دینے میں عجلت سے کام نہ لیں۔ بعض علماء نے اس مسئلہ پر اجماع قدیم کا دعوی کیا ہے اور بہت سے صحابہ کرام اور تابعین نے اسی کے مطابق فتوی دیا ہے امام داود ظاہری، بعض اصحاب مالک اور بعض احناف کا بھی یہی قول ہے، اور بعض اصحابِ احمد اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (رح) کے دادا بھی یہی فتوی دیا کرتے تھے۔ اس لیے کہ اس قول کی تائید قرآن و سنت، قیاس اور اجماع قدیم سب سے سے ہوتی ہے اور اس کے بعد کوئی ایسا اجماع نہیں آیا جس نے اس اجماع قدیم کو باطل قرار دے دیا ہو۔ اب جبکہ حالات بدل چکے، اور نکاحِ حلالہ کا بازار گرم ہے، اور لوگ حرام کاری میں مبتلا ہیں، اور جہالت اس قدر عام ہے کہ اکثر لوگ جانتے بھی نہیں کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین فرض کرلی جاتی ہیں، ضرورت کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے خلیفہ کی سنت کو زندہ کیا جائے، تاکہ فتنوں کا دروازہ بند ہوجائے اور نکاح حلالہ کا رواج ختم ہو، اس لیے کہ ہر بھلائی قرآن و سنت کی اتباع میں ہے، اور ہر شر اور ہر برائی ان دونوں سے انحراف میں ہے۔ 322: یہاں شوہر کو نصیحت کی گئی ہے کہ اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ بیوی کو تنگ کرے اور ایسے حالات پیدا کرے کہ اس سے نجات پانے کے لیے بیوی کو جو کچھ بطور مہر یا ہدیہ وغیرہ دیا تھا واپس کردے، تاکہ وہ اسے طلاق دے دے، ہاں اگر بیوی بطیب نفس کچھ دے دیتی ہے تو وہ شوہر کے لیے حلال ہوگا۔ 323: یہ آیت احکامِ خلع کے بیان میں بنیاد مانی جاتی ہے، خلع یہ ہے کہ بیوی تھوڑ یا زیادہ مال دے کر شوہر کو طلاق دینے پر راضی کرلے، اس لیے کہ اس کے ساتھ کسی مجبوری کی وجہ سے ازدواجی زندگی نہیں گذارنا چاہتی۔ ابن جریر کہتے ہیں کہ یہ آیت ثابت بن قیس کے بارے میں نازل ہوئی تھی، ان کی بیوی ان سے شدید نفر کرتے تھے، امام بخاری (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میں ثابت کے دین و اخلاق میں کوئی عیب نہیں لگاتی، لیکن اسلام کے بعد کفر کو مکروہ جانتی ہوں، یعنی ڈرتی ہوں کہ مجھ سے ان کے حق میں نافرمانی نہ ہوتی رہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کیا تم اس کا باغ اسے واپس کردو گی؟ اس نے کہا ہاں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثابت سے کہا کہ باغ لے لو اور اسے ایک طلاق دے دو، فائدہ : احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خلع اسی صورت میں جائز ہے، جب قاضی کی نظر میں عورت کا عذر ثابت ہوجائے، بغیر عذر اور بغیر مجبوری کے اگر کوئی عورت اپنے شوہر سے خلع کراتی ہے تو اس کے بارے میں احادیث میں بڑی شدید وعید آئی ہے۔ مسند احمد میں ثوبان (رض) سے روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو عورت اپنے شوہر سے بغیر کسی مجبوری کے طلاق مانگے گی، اس پر جنت کی خوشبو حرام ہوگی۔ مسند احمد میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ خلع مانگنے والی اور اپنے شوہر سے جدائی مانگنے والی عورتیں منافق ہوتی ہیں۔ البقرة
230 324: یہاں مراد تیسری طلاق ہے، کہ اگر شوہر تیسری طلاق دے دے، تو وہ عورت اس کے لیے نہ رجعت کے ذریعہ حلال ہوگی، اور نہ ہی نکاح جدید کے ذریعہ، یہاں تک کہ کوئی اور مرد اس سے برضا و رغبت اور عرف عام کے مطابق ہمیشہ کے لیے ازدواجی ززندگی گزارنے کے لیے شادی کرے، اور اس کے ساتھ ہمبستری کرے، پھر کسی وجہ سے اسے طلاق دے دے، تو نکاح جدید کے ذریعہ اسے اپنی زوجیت میں لا سکتا ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ دونوں کا غالب گمان ہو کہ دوبارہ وہ اچھی ازدواجی زندگی گزار سکیں گے، اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھیں گے۔ صحیحین میں حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ رفاعہ قرظی کی بیوی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور کہا کہ رفاعہ نے مجھے تیسری اور آخری طلاق دے دی تھی، اس کے بعد میں نے عبدالرحمن بن زبیر قرظی سے شادی کرلی، لیکن اس کا مردانہ آلہ تو کپڑے کے پھندنے کی مانند ہے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ شاید تم رفاعہ کی زوجیت میں دوبارہ جانا چاہتی ہو ایسا نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ تم دونوں ایک دوسرے کی مٹھاس کو چکھ لو۔ (یعنی وہ تمہارے ساتھ جماع کرلے) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نکاح حلالہ کے ذریعہ اگر کوئی آدمی اس عورت کے ساتھ جماع بھی کرلیتا ہے، تو وہ عورت اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوگی، اس لیے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے دونوں پر اللہ کی لعنت کی خبر دی ہے۔ اور جس پر لعنت بھیج دی گئی ہو وہ شادی صحیح نہیں ہوسکتی۔ اور اس لیے بھی کہ عرف عام کے مطابق شادی اسے کہتے ہیں جو ہمیشہ کے لیے ازدواجی زندگی گذارنے کے لیے کی گئی ہو، اور نکاح حلالہ پر یہ تعریف صادق نہیں آتی۔ مسند احمد، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ احادیث کی کتابوں میں نکاحِ حلالہ سے متعلق حدیثیں دیکھئے۔ حاکم نے نافع سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر (رض) سے ایک ایسے آدمی کے بارے میں دریافت کیا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی تھی، اس کے بعد اس کے ایک بھائی نے بغیر کسی سابق ساز باز کے اس سے شادی کرلی، تاکہ اسے اپنے بھائی کے لیے حلال بنا دے تو کیا وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجائے گی؟ تو ابن عمر (رض) نے کہا کہ نہیں، ایسے نکاح کے بغیر حلال نہیں ہوگی، جو اس رغبت کے ساتھ کیا گیا ہو کہ اس کے ساتھ ہمیشہ کے لیے ازدواجی زندگی گذارنی ہے، پھر فرمایا کہ ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایسے نکاح کو زنا تصور کرتے تھے۔ حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ البقرة
231 325: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے طلاق رجعی کا حکم بیان فرمایا ہے کہ ایک یا دو طلاق دینے کے بعد، عدت گذرجانے کے قبل چاہو تو نیک نیتی کے ساتھ رجوع کرلو، یا چاہو تو چھوڑ دو تاکہ اس کی عدت مکمل ہوجائے، اور دیکھو اسے نقصان پہنچانے کی نیت سے رجوع نہ کرو، کہ جب اس کی عدت ختم ہونے کو آئے تو رجوع کرلو اور پھر طلاق دے دو، تاکہ اس کی عدت کی مدت طویل ہوجائے اور اسے پھر دوبارہ عدت گذارنی پڑے، اس لیے کہ یہ زیادتی ہے، اور ایسا کرنے والا خود اپنے اوپر ظلم کرتا ہے کہ اسے اللہ کے حدود کا پاس و لحاظ نہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آیتوں کا مذاق اڑانے سے منع فرمایا ہے، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ کیا کرتے تھے کہ بیوی کو طلاق دے دیتے، یا کسی عورت سے شادی کرلیتے، یا کسی غلام یا لونڈی کو آزاد کردیتے اور پھر کہنے لگتے کہ ہم تو یونہی مذاق کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی طلاق کو نافذ کردیا، اور اس کی بے فائدہ توجیہہ کا اعتبار نہیں کیا ہے۔ ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تین کام ایسے ہیں جو چاہے سنجیدگی سے کیے جائیں یا مذاق کی نیت سے وہ نافذ العمل ہوتے ہیں، نکاح، طلاق اور بیوی کو رجوع کرنا (ابوداود، ترمذی، ابن ماجہ) البقرة
232 اس آیت میں مطلقہ غیر بائنہ عورت کے ولی کو خطاب کیا گیا ہے کہ اگر ایک یا دو طلاق کے بعد عدت گذر جائے، اور پھر دونوں ایک دوسرے کو چاہیں، اور نکاح شرعی کے ذریعہ دوبارہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا چاہیں تو انہیں نہ روکو اس لیے کہ اسی میں ہر خیر ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت معقل بن یسار مزنی (رض) اور ان کی بہن کے بارے میں نازل ہوئی، انہوں نے اپنی بہن کی شادی ایک مسلمان سے کردی، کچھ مدت کے بعد اس نے ایک طلاق دے دی اور پھر رجوع نہیں کیا، عدت گذر جانے کے بعد دونوں نے ایک دوسرے میں رغبت ظاہر کی، اور اس آدمی نے دوبارہ پیغام نکاح دیا، تو معقل (رض) نے انکار کردیا، اور کہا کہ اب یہ تیرے نکاح میں کبھی بھی نہ جائے گی، لیکن اللہ کو ان دونوں کی حاجت و رغبت کا علم تھا۔ اس اطاعت کرتا ہوں پھر اس آدمی کو بلا کر کہا کہ میں اپنی بہن سے تمہاری شادی کردوں گا اور تمہارا اکرام کروں گا۔ (بخاری، ابو داود، ترمذی) فائدہ : یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ نکاح کے لیے ولی کا ہونا ضروری ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اولیاء کو منع فرمایا ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو دوبارہ اپنے سابق شوہروں کے ساتھ نکاح کرنے سے روکیں، اور روکنے کا حق اسی کو حاصل ہوگا جس کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا۔ البقرة
233 327: نکاح و طلاق کے بعد مسئلہ رضاع کا ذکر آیا ہے، اس لیے کہ طلاق ہوجانے کی صورت میں ممکن ہے کہ ان کا کوئی دودھ پینے والا بچہ ہو، تو یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ اس کی پرورش و پرداخت کیسے ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مطلقہ مائیں اپنے دودھ پیتے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں گی، یہ حکم اس کے لیے ہے جو رضاعت کی مدت پوری کرنی چاہے، اگر کوئی ماں باپ اس سے کم ہی مدت کے بعد بچے کا دودھ چھڑا دینا چاہیں تو کوئی حرج نہیں اور باپ اس مطلقہ ماں کو جو دود پلائے گی عرف عام کے مطابق کھانا اور کپڑا فراہم کرے گا، اور جب وہ مطلقہ ماں اپنے بچے کو دودھ پلانے کے لیے تیار ہو تو باپ کے لیے یہ جائز نہیں کہ بچہ اس سے لے لے، یا یہ کہ دودھ پلانے کے باوجود اسے کھانا اور کپڑا فراہم نہ کرے۔ اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ مطلقہ ماں، باپ کو نقصان پہنچانے کے لیے بچے کو اس کے پاس ڈال دے اور دودھ پلانے سے انکار کردے، جبکہ بچہ ماں سے مانوس ہو، یا یہ کہ زیادہ پیسے کا مطالبہ کرے۔ اور اگر باپ اپنے بچے کے لیے کوئی دوسری دودھ پلانے والی دایا مقرر کرنا چاہے (اس لیے کہ ماں نے انکار کردیا، یا وہ دودھ پلانے سے مجبور ہے، یا شادی کرنا چاہتی ہے) تو بھی کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ بطیب خاطر دایا کو اس کی مناسب مزدوری دے۔ اور اگر باپ مر چکا ہے تو اس کے ورثہ پر وہی کچھ واجب ہوگا، جو اس کے باپ پر واجب تھا، یعنی وہ ماں سے بچہ کو نہ چھینیں گے، اور اس کے اخراجاتِ رضاعت پورے طور پر ادا کریں گے۔ فوائد : 1۔ اس آیت کریمہ میں اللہ کی طرف سے اس بارے میں بھی رہنمائی ملتی ہے کہ مدت رضاعت دو سال ہے، اس کے بعد رضاعت کا کوئی اعتبار نہیں اسی لیے تو اللہ نے فرمایا لمن اراد ان یتم الرضاعۃ، اکثر ائمہ کرام کی یہی رائے ہے کہ حرم اسی رضاعت سے ثابت ہوتی ہے جو دو سال کے اندر ہو، اگر بچے کی عمر دو سال سے زیادہ ہوجاتی ہے تو رضاعت سے حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ ترمذی نے ام سلمہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ رضاعت سے حرمت اسی وقت ثابت ہوتی ہے جبکہ منہ کے ذریعہ دودھ چھاتی سے نکل کر آنتوں کو پھاڑنے لگے (یعنی خوب آسودہ ہو کر پیے) اور مدت رضاعت کے اندر ہو۔ دارقطنی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حرمت اسی رضاعت سے ثابت ہوتی ہے جو دو سال کے اندر ہو، اور ابو داود طیالسی نے جابر (رض) سے روایت کی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مدت رضاعت ختم ہوجانے کے بعد حکم رضاعت نہیں، اور بلوغت کو پہنچ جانے کے بعد یتیمی نہیں، قرآن کریم کی اسی صریح آیت اور انہی احادیث نبویہ کی وجہ سے بہت سے صحابہ و تابعین کا یہی مذہب تھا۔ علی بن ابی طالب، ابن عباس، ابن مسعود، جابر، ابوہریرہ، ابن عمر، ام سلمہ، سعید بن المسیب اور عطاء وغیرہم کی یہی رائے ہے اور شافعی، احمد، اسحاق اور سفیان ثوری کا یہی مذہب ہے، امام ابو حنیفہ کی رائے ہے کہ مدت رضاعت دو سال چھ ماہ ہے اور وحملہ وفصالہ ثلاثون شہرا سے استدلال کرتے ہیں۔ امام لیث بن سعد کا خیال ہے کہ اگر بڑے آدمی کو بھی کوئی عورت دودھ پلا دے تو وہ اس کا رضاعی بیٹا بن جائے گا، اور حرمت رضاعت ثابت ہوجائے گی، اور اس کی دلیل میں سہلہ بنت سہیل کا واقعہ پیش کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میں محسوس کرتی ہوں کہ سالم کا میرے پاس آنا ابو حذیفہ (ان کے شوہر) کو گوارہ نہیں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم سالم کو دودھ پلا دو، سہلہ نے کہا میں کیسے دودھ پلا دوں وہ تو بڑا مرد ہوچکا ہے؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرائے اور کہا کہ میں جانتا ہوں کہ وہ بڑا مرد ہوچکا ہے۔ سہلہ نے ایسا ہی کیا۔ اور پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں بتایا کہ اب میں ابو حذیفہ کے چہرے پر ناگواری کے آثار نہیں دیکھتی۔ ابو حذیفہ بدری صحابی تھی، (ابن ماجہ) اس واقعہ کو امام مسلم، ابو داود، اور امام مالک نے بھی روایت کی ہے، حضرت عائشہ (رض) اور ابو موسیٰ اشعری کی بھی یہی رائے تھی۔ لیکن ارجح یہی ہے کہ دو سال کے بعد رضاعت ثابت نہیں ہوتی، جیسا کہ اوپر دلائل سے ثابت کیا جا چکا ہے۔ اس رائے کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ایک بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عائشہ (رض) کے پاس تشریف لے گئے تو دیکھا کہ ایک آدمی ان کے پاس بیٹھا ہے، آپ نے پوچھا کہ یہ کون آدمی ہے؟ تو عائشہ نے کہا کہ یہ میرا رضاعی بھائی ہے، تو آپ نے فرمایا کہ ذرا سوچ لیا کرو کہ کون لوگ تمہارے پاس آتے ہیں، اس لیے کہ رضاعت اسی وقت ثابت ہوتی ہے جب وہ بھوک کو دور کرے (بخاری، مسلم، ابوداود، ابن ماجہ ) معلوم ہوا کہ رضاعت جبھی ثابت ہوگی کہ دودھ بھوک کو دور کرے اور بچے کی غذا صرف دودھ ہو۔ اور سہلہ بنت سہیل اور سالم کے واقعہ کو گذشتہ صریح روایات کی روشنی میں جو اوپر گذر چکیں، خاص مانا جائے گا اور اس لیے بھی کہ عہد نبوی اور عہد صحابہ میں اس طرح کا کوئی دوسرا واقعہ وقوع پذیر نہیں ہوا۔ سہلہ (رض) کے واقعے میں آچکا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں سالم کو دودھ پلانے کو کہا تو انہیں حیرت ہوئی اور کہا کہ وہ تو اچھا خاصا بڑا آدمی ہے، اسے میں کیسے دودھ پلاؤ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرائے اور کہا کہ میں جانتا ہوں کہ وہ بھرپور جوان ہوچکا ہے اس گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سہلہ کے گھرانے کے تمام حالات سے اچھی طرح واقفیت رکھتے تھے، اور جانتے تھے کہ سالم بہت چھوٹی عمر سے ان کے پاس رہتے ہیں، انہی کے پاس پلے بڑھے ہیں، نہ وہ سالم کے بغیر رہ سکتی ہیں اور نہ سالم ان سے جدا ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے جب سہلہ (رض) نے اپنی مجبور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتائی تو ان کے مخصوص حالات کو سامنے رکھ کر وہ حل بتایا جو اوپر گذر چکا، ایک طرف اللہ کے رسول تھے اور دوسری جانب ایک صحابیہ کی ضرورت، انہیں اس کی اجازت دی گئی، عام صحابہ کرام کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے وہی حکم رہا جو آیت کریمہ میں اور احادیث میں بیان کیا گیا کہ رضاعت کا حکم دو سال کے اندر ہی ثابت ہوتا ہے۔ وباللہ التوفیق۔ 2۔ محدثین کے نزدیک پانچ بار دودھ پینے سے رضاعت کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ اور اس کی مشہور دلیل وہ حدیث ہے جسے امام مسلم نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ قرآن کریم میں دس بار دودھ پینے کے بعد حرمت رضاعت کا حکم نازل ہوا تھا، پھر پانچ بار کے ذریعہ حکم سابق منسوخ ہوگیا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے وقت یہی حکم موجود تھا، دوسری دلیل سہلہ بنت سہیل کا واقعہ ہے، جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ وہ پانچ مرتبہ سالم کو دودھ پلا دیں۔ 3: احادیث میں رضعات کا لفظ آیا ہے، جو رضعہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں، خوب سیراب ہو کر دودھ پینا، اس طرح کہ دودھ سے آنتیں بھر جائیں، بچہ جب اس طرح پانچ بار کسی عورت کا دودھ پی لے گا، تو وہ اس کی رضاعی ماں بن جائے گی، اور اس کے تمام بچے اس کے رضاعی بھائی بہن ہوجائیں گے اور اس کا شوہر رضاعی باپ۔ البقرة
234 328: طلاق کی عدت بیان کرنے کے بعد اب وفات کی عدت بیان کی جا رہی ہے کہ اگر کوئی آدمی وفات پا جائے، تو اس کی بیوی کی عدت چار ماہ دس دن ہے، اس کے بعد اگر وہ عورت شرعی حدود میں زینت اختیار کرے اور شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کرے، تو اولیاء کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اسے منع کریں۔ چار ماہ دس دن کے ذریعہ مدت کی تحدید میں حکمت یہ ہے کہ اگر حمل ہوگا تو ظاہر ہوجائے گا، پانچویں ماہ کی ابتدا میں حمل حرکت کرنا شروع کردیتا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کی حکمت یہ بیان کی ہے کہ اس مدت کے بعد وفات پانے والے کی محبت اس کے دل میں کمزور پڑجاتی ہے، اور شادی کی رغبت پیدا ہوجاتی ہے۔ فوائد : 1۔ اگر عورت حاملہ ہے تو اس کی عدت بچے کی ولادت ہوگی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، آیت واولات الاحمال اجلہن ان یضعن حملھن کہ حاملہ عورت کی عدت بچے کی ولادت ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سبیعہ اسلمیہ کو وضع حمل کے بعد شادی کی اجازت دے دی تھی، حالانکہ ان کے شوہر کے انتقال کو چند ہی دن ہوئے تھے (متفق علیہ) 2۔ دوران عدت عورت کو شادی، زینت اور بغیر شدید ضرورت کے شوہر کے گھر سے بارہ رات گذارنے کی اجازت نہیں ہے۔ پہلی بات پر علماء کا اجماع ہے۔ دوسری بات کی دلیل حضرت ام سلمہ (رض) کی حدیث ہے کہ ایک عورت کا شوہر مر گیا تو اس کی ماں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت مانگی کہ وہ اپنی آنکھوں میں سرمہ لگائے، اس لیے کہ اس کی آنکھوں میں تکلیف تھی، تو آپ نے اجازت نہیں دی۔ (متفق علیہ)۔ اور تیسری بات کی دلیل فریعہ بنت مالک بن سنان (رض) کی حدیث ہے کہ ان کے شوہر کو بھاگے ہوئے غلاموں نے مدینہ سے دور کسی جگہ قتل کردیا، فریعہ کو جب یہ خبر ملی تو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ انہیں اپنے خاندان والوں کے پاس عدت گذارنے کی اجازت دے دیں، اس لیے کہ جس گھر میں وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھیں دور تھا، تو آپ نے انہیں جازت نہیں دی، (ابو داود، ترمذی، نسائی، احمد وغیرہم)۔ البتہ آپ نے بعض صحابیہ کو دن میں ضرورت کے پیش نظر غالباً باغ کا پھل توڑنے کی اجازت دی تھی۔ البقرة
235 329: اس آیت میں شوہر کی وفات کی عدت گذارنے والی اور مطلقہ بائنہ کا حکم بیان کیا گیا ہے کہ عدت گذرنے سے پہلے ایسی عورتوں کو شادی کا پیغام تو نہیں دیا جاسکتا، البتہ جو شخص شادی کرنی چاہے وہ اشارے کنائے میں اسے یہ سمجھانے کی کوشش کرسکتا ہے کہ وہ اس سے شادی کی خواہش رکھتا ہے، لیکن پوشیدہ طور پر اس سے شادی کی بات طے کرلینا یا شادی کرلینا جائز نہیں۔ فاطمہ بنت قیس (رض) کو جب ان کے شوہر ابو عمرو بن حفص نے تیسری طلاق دے دی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا کہ وہ ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گذارے، اور عدت گذرجانے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دے، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسامہ بن زید کے لیے پیغام دیا، اور ان کی شادی اسامہ سے کردی۔ البقرة
236 330: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسی عورت کو طلاق دینے کا حکم بیان کیا ہے جس کے ساتھ شوہر نے ابھی مباشرت نہ کی ہو، اور نہ اس کی مہر مقرر کی ہو، اللہ نے فرمایا کہ ایسی عورت کے لیے کوئی مہر نہیں ہوگی، بلکہ شوہر اپنے حسب حال اسے کچھ مال یا کوئی ہدیہ دے دے گا۔ اگر مالدار ہے تو اپنی حیثیت کے مطابق دے گا، اور اگر فقیر ہے تو جو کچھ بھی میسر ہوگا اسے دے گا، لیکن شرط یہ ہے کہ نصف مہر مثل کے برابر نہ ہو، اور نہ اتنا کم ہو کہ اس کی کوئی قیمت ہی نہ ہو اس سے مقصود عورت اور اس کے گھر والوں کی دل دہی کرنی ہے، تاکہ طلاق کی وجہ سے انہیں جو تکلیف ہوئی اس کا کچھ مداوا ہوسکے۔ البقرة
237 331: اس میں ایسی عورت کے طلاق کا حکم بیان کیا جا رہا ہے، جس کے ساتھ شوہر نے مباشرت نہ کی ہو، لیکن اس کی مہر مقرر ہوچکی ہو۔ اللہ نے فرمایا کہ اسے نصف مہر دی جائے گی۔ یہ بھی جائز ہے کہ عورت معاف کردے اور کہے کہ اس نے مجھے دیکھا نہیں، اور نہ میں نے اس کی خدمت کی، نہ مجھ سے مستفید ہوا، تو میں کیسے اس سے کوئی رقم لے لوں، یا شوہر نے اگر مہر کی پوری رقم ادا کردی تھی تو وہ معاف کردے اور عورت سے نصف مہر واپس نہ لے، یا اگر لڑکی نابالغ ہے یا اسے معاملہ کرنا نہیں آتا، تو اس کا ولی شوہر سے نصف مہر نہ لے اور معاف کردے، اور اللہ نے فرمایا کہ بہرحال معاف کردینا تقوی کے زیادہ قریب اور عمل احسان ہے اس کے بعد اللہ نے ہر ایک کو معاف کردینے کی ترغیب دلائی کہ جو معاف کردے گا وہ دوسرے سے بہتر ہوگا۔ البقرة
238 332: ذیل کی دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرض نمازوں کے اہتمام کی تاکید فرمائی ہے، پانچوں نمازوں کی بالعموم اور نماز وسطی کی بالخصوص، نمازوں کی محافظت اور اہتمام کا مفہوم یہ ہے کہ نمازیں مسنون اوقات میں پڑھی جائیں، اور شروط و ارکان، خشوع و خضوع اور تمام واجبات و مستحبات کا خیال رکھتے ہوئے پڑھی جائیں۔ اور اگر آدمی کو کوئی خطرہ در پیش ہو، چاہے دشمن سے یا جانور سے، تو چلتے ہوئے نماز پڑھ لے، یا سواری پر پڑھ لے، ایسی حالت میں قبلہ کی طرف رخ کرنا ضروری نہیں، اور جب خطرہ زائل ہوجائے تو مکمل نماز پڑھے، یعنی تمام ارکان، واجبات اور مستحبات وغیرہ کی رعایت کر کے نماز پڑھے۔ صلاۃ وسطی، کی تفسیر میں علماء کے کئی اقوال ہیں، لیکن محدثین کے نزدیک اس سے مراد عصر کی نماز ہے۔ صحیحین میں علی بن ابی طالب (رض) سے مروی ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ خندق کے دن کہا کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں اور گھروں کو آگ سے بھردے، جس طرح انہوں نے ہمیں صلاۃ وسطی سے مشغول کردیا۔ یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ انہوں نے ہمین صلاۃ وسطی عصر کی نماز سے مشغول کردیا۔ مسند احمد میں سمرہ (رض) سے مروی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حافظوا علی الصلوات والصلوۃ الوسطی پڑھا اور ہمیں نام لے کر بتایا کہ وہ عصر کی نماز ہے۔ ابن جریر نے ابوہریرہ (رض) سے روای تکی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ صلاۃ وسطی سے مراد عصر کی نماز ہے۔ 333: یعنی نماز میں اللہ کے سامنے نہایت خشوع و خضوع اور عاجزی و انکساری کے ساتھ کھڑے ہو۔ اللہ کے حضور اس طرح کھڑے ہونے میں یہ امر بدرجہ اولی داخل ہے کہ نماز میں بات نہ کی جائے۔ امام احمد وغیرہ نے زید بن ارقم (رض) سے روایت کی ہے کہ لوگ ابتدائے عہد نبوی میں نماز میں آپس میں بات کرتے تھے تو یہ آیت اتری، ابن مسعود رضٰ اللہ عنہ نے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا، اور آپ نماز پڑھ رہے تھے تو جواب نہ دیا، اور نماز ختم کرنے کے بعد فرمایا کہ نماز میں آدمی اللہ کی جناب میں مشغول ہوتا ہے (متفق علیہ) اور معاویہ بن الحکم السلمی (رض) نے جب نماز میں بات کی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا کہ نماز میں بات کرنی جائز نہیں ہے۔ نماز میں آدمی تسبیح و تکبیر اور ذکر الٰہی میں مشغول ہوتا ہے (مسلم) البقرة
239 334: یہاں اللہ تعالیٰ نے حالت جنگ میں نماز پڑھنے کی کیفیت بیان کی ہے، جہاں آدمی تمام ارکان و واجبات اور سنن و مستحبات کی رعایت کرتے ہوئے نماز نہیں پڑھ سکتا۔ اللہ نے فرمایا کہ ایسی حالت میں چلتے ہوئے یا سواری پر ہی نماز پڑھ لو، چاہے رخ قبلہ کی طرف ہو یا کسی اور طرف۔ امام مالک نے نافع سے روایت کی ہے کہ ابن عمر (رض) صلاۃ خوف (خوف کی حالت میں نماز) کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ اگر خوف اس سے بھی زیادہ شدید ہو تو چلتے ہوئے یا سواری پر نماز پڑھ لو، چاہے رخ قبلہ کی طرف ہو یا کسی اور طرف، نافع کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث بیان کی تھی۔ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے بھی روایت کی ہے۔ البقرة
240 335: آیت کا معنی یہ ہے کہ جب کسی آدمی کی موت قریب ہو تو وہ اپنی بیویوں کے لیے ورثہ کی وصیت کرجائے کہ انہیں ایک سال تک گھر سے نکلنے پر مجبرو نہ کیا جائے اور انہیں نفقہ بھی دیا جائے، لیکن اگر وہ خود ہی شوہر کے گھر سے نکل جائیں اور زینت و خوشبو استعمال کرنے لگیں اور اشارئے کنائے میں شادی کی بات کرنے لگیں تو شوہر کے اولیاء کو کوئی گناہ نہیں ہوگا، اور ایسی صورت میں نفقہ و مسکن واجب نہیں ہوگا۔ جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا جبکہ بیوی کے لیے میراث میں حصہ نہ تھا، اور عدت کی مدت ایک سال تھی، اور اسے اختیار ہوتا تھا کہ چاہے تو شوہر کے گھر میں عدت کی مدت گذارے اور نفقہ لے اور چاہے تو سال پورا ہونے سے پہلے ہی گھر سے نکل جائے اور اس کے لیے نہ نفقہ ہوتا تھا اور نہ مسکن۔ اس کے بعد اسی سورت کی آیت 234 نازل ہوئی، جس کے مطابق عورتوں کی عدت چار ماہ دس دن وہگئی۔ اسی طرح نفقہ و مسکن کی وصیت کا حکم آیت میراث کے ذریعہ منسوخ ہوگیا، اور بیوی کے لیے پوری جائداد کا چوتھا یا آٹھواں حصہ مقرر کردیا گیا۔ مجاہد، شیخ الاسلام بن تیمیہ اور حافظ ابن کثیر وغیرہم کی رائے ہے کہ یہ آیت محکم ہے، منسوخ نہیں ہوئی ہے، اور پہلی آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ چار ماہ دس دن عورت کی لازمی عدت ہے، جسے اسے بہرحال شوہر کے گھر میں گذارنا ہے اور یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ میت کے اولیاء کو چاہئے کہ اس کی دلجوئی کی خاطر اور میت کے ساتھ اظہار اخلاص و محبت کے طور پر اسے مزید سات ماہ بیس دن شوہر کے گھر میں رہنے دیں، ہاں، اگر عورت چار ماہ دس دن یا وضع حمل کے بعد، اپنی مرضی سے اس کے گھر سے منتقل ہونا چاہے تو اسے روکا نہ جائے۔ البقرة
241 336: یہ آیت ان لوگوں کی دلیل ہے، جو ہر مطلقہ عورت کے لیے متعہ کو واجب قرار دیتے ہیں۔ متعہ کا مطلب یہ ہے کہ طلاق کے بعد (مہر کے علاوہ) عورت کو کچھ دیا جائے۔ سعید بن جبیر اور ابن جریر وغیرہما کی یہی رائے ہے اور بعض دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ (متعہ) ہر حال میں واجب نہیں۔ اگر مطلقہ کے ساتھ شوہر نے مباشرت نہیں کی ہے اور اس کی مہر بھی مقرر نہیں ہوئی تھی، تو اس کے لیے متعہ واجب ہے، دوسری تمام مطلقہ عورتوں کے لیے مستحب ہے۔ اور ان کی دلیل قرآن کریم کی وہ آیت ہے جو گذر چکی۔ لَاجُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ مَالَمْ تَمَسُّوْھُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَھُنَّ فَرِیْضَۃً ښ وَّمَتِّعُوْھُنَّ ۚ عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ۚ مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِ ۚ حَقًّا عَلَی الْمُحْسِـنِیْنَ۔ البقرة
242 البقرة
243 337: اس میں بنی اسرائیل کے ایک واقعہ کا ذکر کرے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دلائی گئی ہے، بنی اسرائیل کے ایک علاقے میں طاعون پھیل گیا، تو وہاں کے باشندے اپنے گھر بار چھوڑ کر موت کے ڈرے سے بھاگ پڑے، لیکن بھاگ کرو وہ موت سے نہ بچ سکے، اور اللہ نے ان سے ب پر موت طاری کردی، پھر اس زمانے کے نبی کی دعا سے اللہ نے ان پر کرم فرمایا، اور انہیں زندگہ کردیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ وہ لوگ کسی دشمن کے ڈر سے نکل بھاگے ہوں، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد جہاد کی ترغیب دلائی ہے اور پھر اس بات کا ذکر کیا ہے کہ بنی اسرائیل نے اپنے نبی سے درخواست کی کہ وہ ان کے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیں تاکہ اس کی قیادت میں اس دشمن سے جہاد کریں جس نے انہیں ان کے گھروں سے نکال دیا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں، آیت میں جہاد کی ترغیب دلائی گئی ہے، اور فرار کی راہ اختیار کرنے سے ڈرایا گیا ہے کہ اس کے ذریعے آدمی موت سے نہیں بچ سکتا۔ البقرة
244 ذیل کی دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مال اور بدن کے ذریعہ جہاد فی سبیل اللہ کی ترگیب دلائی ہے، اس لیے کہ جہاد میں دونوں ہی چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ پہلی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح ڈر اور خوف نوشتہ تقدیر سے نہیں بچا سکتا، اسی طرح جہاد سے فرار، انسان کے اجل کو نہ قریب کرسکتا ہے اور نہ دور اور وہی قتال جہاد فی سبیل اللہ ہوگا، جو اللہ کے دین کو سربلند کرنے کے لیے ہوگا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، جو قتال اس لیے ہو کہ اللہ کا کلمہ اونچا ہو، وہی فی سبیل اللہ ہوگا، (متفق علیہ)۔ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے (قرض حسن) سے مراد اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اہل و عیال پر خرچ کرنا مراد ہے۔ البقرة
245 البقرة
246 339: بنی اسرائیل کے لوگ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ایک زمانے تک اہل توحید و استقامت رہے، پھر مرور زمانہ کے ساتھ توحید کی راہ سے بھٹک گئے اور بتوں کی پرستش شروع کردی، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر عمالقہ کو مسلط کردیا، جنہوں نے ان کی سرزمین پر قبضہ کرلیا، ان کی بہت بڑی تعداد کو قتل کیا، اور بہتوں کو پابند سلاسل کردیا، اور اس تابوت کو ان سے چھین لیا، جس میں وہ احکام تھے، جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر دئیے تھے، نیز اس میں تورات کو نسخہ اور موسیٰ و ہارون اور دیگر انبیائے بنی اسرائیل کے آثار تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں موسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی بھی تھی۔ بنی اسرائیل جب اپنے دشمنوں سے جنگ کے لیے جاتے تو اس تابوت کو اپنے آگے رکھتے تھے جس سے ان کو سکون و قرار ملتا تھا اور فتح نصیب ہوتی تھی۔، علماء نے اس سے استدلال کیا ہے کہ انبیاء کے صحیح اور ثابت شدہ آثار کے ذریعہ تبر حاسل کرنا جائز ہے، جیسے نبی کا عمامہ اس کا کرتا اور اس کا جوتا وگیرہ۔ عمالقہ نے وہ تابوت بھی چھین لیا۔ اس کے بعد ذلت و رسوائی ان کی قسمت بنی رہی، یہاں تک کہ ان میں صموئیل نبی پیدا ہوئے اور انہیں توحید کی طرف بلایا، تو انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیجئے تاکہ ہم لوگ اس کی زیر قیادت عمالقہ سے جہاد کریں، اور اپنی زمین اور تاربوت اور تورات وغیرہ ان سے دوبارہ واپس لیں۔ آیت 246 سے لے کر 251 تک اسی عہد بنی اسرائیل کا ذکر ہے۔ صموئیل نبی نے جس نوجوان کو ان کا بادشاہ مقرر کیا اس کا نام طالوت تھا، وہ بنی اسرائیل کے اس خاندان سے نہیں تھا جس میں اب تک بادشاہت چلی آرہی تھی، لیکن وہ ایک قوی الجسم اور خوبصورت نوجوان تھا اور جسے اللہ نے علم و بصیرت سے نوازا تھا، اور جالوت عمالقہ کی فوج میں ایک مشہور پہلوان اور اس کا کمانڈر تھا جس پر عمالقہ کو بڑا ناز تھا۔ اس واقعہ کے ذکر سے مقصود مسلمانوں کو جہاد فی سبیل اللہ پر ابھارنا ہے کہ بادشاہ طالوت سے جب جنگ کے لیے نکلا تو جن لوگوں نے صبر و استقامت سے کام لیا، ان کو اللہ نے دنیا وآخرت میں عزت دی، اور جنہوں نے بزدلی دکھائی اور راہ فرار اختیار کیا، ان کی دنیا خراب ہوئی، اور آخرت میں بھی ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 340: جب بنی اسرائیل کے اہل و فکر نے جہاد کا ارادہ کرلیا، تو اپنے نبی سے کہا کہ آپ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کردیجئے۔ تاکہ ہمارے درمیان کا اختلاف ختم ہوجائے اور سب لوگ اس کی اطاعت پر متفق ہوجائیں۔ صموئیل نبی ڈرے کہ شاید یہ ان کا محض زبانی دعوی ہے اور وہ جہاد فی سبیل اللہ نہ کرسکیں گے، تو انہوں نے عزم کا اظہار کیا کہ ہم اپنا وطن واپس لینے کے لیے ضرور جہاد کریں گے۔ البقرة
247 341: صموئیل نے جب طالوت کو ان کا بادشاہ مقرر کردیا، تو انہوں نے حیرت کا اظہار کیا، اور کہا کہ خاندان اور ثروت کے اعتبار سے اس زیادہ حقدار لوگ موجود ہیں، پھر اسے آپ نے کیوں ہمارا بادشاہ بنایا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اسے اللہ نے بادشاہ بنایا ہے، اس لیے کہ وہ علم اور قوت جسم میں دوسروں پر فوقیت رکھتا ہے، اور اس لیے کہ بادشاہت کے لیے کثرت مال شرط نہیں اور نہ یہ ہے کہ وہ پہلے سے شاہی خاندان کا ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنی حکومت دے دیتا ہے۔ البقرة
248 342: پھر انہیں مزید قانع کرنے کے لیے کہا کہ دیکھو طالوت کو اللہ کی طرف سے بادشاہ مقرر کیے جانے کی نشانی یہ ہوگی کہ وہ تمہارا گم کردہ تابوت واپس لے آئے گا، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ تابوت فرشتوں کے ذریعہ طالوت کے پاس آگیا، تو انہوں نے اس اپنا بادشاہ تسلیم کرلیا۔ البقرة
249 343: جب طالوت کی قیادت میں بنی اسرائیل عمالقہ سے جہاد کرنے کے لیے چلے تو طالوت نے کہا کہ ابھی ایک نہر آئے گی۔ یہ نہر اردن اور فلسطین کے درمیان تھی، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے صبر کا امتحان یہ ہے کہ شدت پیاس کے باوجود تمہیں اس کا پانی نہیں پینا ہے جو کوئی پی لے گا، وہ ہماری فوج سے الگ ہوجائے گا، اور جو ایک چلو سے زیادہ نہیں پئیے گا وہ ہمارے ساتھ آگے بڑھے گا۔ اس آزمائش میں ان میں سے اکثر لوگ پورے نہ اترے، صرف تھوڑے لوگوں نے صبر سے کام لیا۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ جس نے ایک چلو پی لیا وہ سیراب ہوگیا، اور جس نے خوب پیا وہ سیراب نہ ہوا، جب سب ایمان والے نہر پار کر گئے تو ان میں سے بعض ضعیف الیقین لوگوں نے کہا کہ آج ہم جالوت اور اس کی فوج سے جنگ نہیں کرسکتے، تو ان کے قوی الایمان علماء نے ان کی ہمت بڑھائی جنہیں معلوم تھا کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے، اور فتح و نصرت اللہ کی طرف سے آتی ہے، اس کا تعلق کثرت تعداد سے نہیں ہوتا، اور کہا کہ بسا اوقات تھوڑی تعداد والی فوج اللہ کے حکم سے زیادہ تعداد والی فوج پر غالب آجاتی ہے۔ اس پر ان کی ہمت بڑھی اور انہوں نے جالوت کی فوج سے جنگ کی اور داود (علیہ السلام) نے جو بعد میں طالوت کی فوج میں آکر شامل ہوگئے تھے اور جو ابھی نبی اور بادشاہ نہیں ہوئے تھے۔ جالوت کو قتل کردیا، اور بنی اسرائیل کو فتح مبین حاصل ہوئی۔ البقرة
250 البقرة
251 344: اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جہاد فی سبیل اللہ کا فائدہ بیان کیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجاہدین کے ذریعہ کفار و فجار اور اہل شر و فساد کو مار نہ بھگائے تو وہ زمین میں فساد پھیلائیں، لیکن اللہ نے اپنے لطف و کرم سے جہاد کو واجب قرار دیا تاکہ اہل خیر کا غلبہ ہو، اور اللہ کا دین سرزمین پر جاری و ساری ہو۔ البقرة
252 345: بنی اسرائیل کے اس واقعہ کی تفصیل بیان کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم سلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ یہ نشانیاں ہم آپ کے لیے بیان کر رہے ہیں جو سچی ہیں اور آپ کے رسول ہونے کی واضح اور صریح دلیل ہیں، اس لیے کہ اللہ نے آپ کو بذریعہ وحی اس واقعے کی اطلاع دی ہیں جس کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلے سے کوئی علم نہ تھا، اس واقعے میں امت مسلمہ کے لیے بہت سی نصیحتیں ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں۔ 1۔ جہاد فی سبیل اللہ کے بغیر دین، وطن اور جان و مال کی حفاظت نہیں ہوسکتی۔2۔ مجاہدین کا انجام ہمیشہ ہی اچھا ہوتا ہے۔3۔ مسلمانوں کی قیادت کے لیے ایسے لوگوں کا اختیار عمل میں آنا چاہئے جو اس کے اہل ہوں، اور اہلیت میں خاص طور پر دو چیزوں کا اعتبار ہوتا ہے، علم اور قوت جسم کا۔ 4۔ قائد جیش کو اپنی فوج پر نظر رکھنی چاہئے کہ جو جنگ کرنے کا اہل نہ ہو اسے روک دے۔ 5۔ اگر دشمن کی کثرت یا کسی اور وجہ سے مجاہدین کی صفوں میں یاس و ناامیدی پھیلنے لگے تو ان کی ہمت بڑھانی چاہئے، اور قوت ایمانی کو حرکت میں لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ وباللہ التوفیق۔ البقرة
253 اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خبر دی ہے کہ انبیاء و رسل کے درمیان گوناگوں فضائل وصفات میں تفاوت رہا ہے، بعض انبیاء کو اللہ نے کوئی ایسی فضیلت دی جو دوسروں کو نہیں ملی، ابراہیم کو اللہ نے اپنا خلیل بنایا، موسیٰ سے بغیر کسی واسطے کے بات کی، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام بنی نوع انسان سے رفیع المرتبت بنایا، کہا جاتا ہے کہ اللہ نے آپ کو ایک ہزار سے زیادہ نشانیاں دی تھیں، اور سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم تھا، جو تنہا تمام انبیاء پر فوقیت حاصل کرنے کے لیے کافی تھا۔ اور عیسیٰ بن مریم کو دیگر معجزات دئیے جن کے ذریعہ اللہ کے حکم سے اندھے کو بینائی اور برص والے کو شفا ملتی تھی، مردوں کو زندہ کرتے تھے، اور جب گود ہی میں تھے تو لوگوں سے بات کی، اور اللہ نے روح القدس کے ذریعہ ان کی تائید کی، یعنی جبرئیل امین کے ذریعہ، یا اس مقدس روح کے ذریعے جو اللہ نے ان میں پھونکی تھی۔ انبیائے کرام کے کمال و ظمت اور ان کے ساتھ بھیجی گئی نشانیوں کا تقاضا یہ تھا کہ سارے انسان ان پر ایمان لے آتے، لیکن ایسا نہ ہوا، اور اکثر و بیشتر لوگ سیدھی راہ سے برگشتہ ہوگئے، اور ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے، حالانکہ اللہ چاہتا تو سب کو ایک راہ ہدایت پر ڈال دیتا، لیکن اللہ کی حکمت اس کی مقتضی ہوئی کہ نظام عالم کو اسباب سے جوڑ دیا جائے۔ فائدہ : آیت سے معلوم ہوا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوں سے افضل بنایا ہے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث انا سید ولد آدم کہ میں اولاد آدم کا سردار ہوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے، اس لیے صحیحین میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث لاتفضلونی علی الانبیاء یعنی مجھے دیگر انبیاء پر فوقیت نہ دو، آپ کی طرف سے تواضع پر محمول کی جائے گی، البقرة
254 347: اس آیت میں مومنوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے کسی نے کہا کہ اس سے مراد زکاۃ ہے، کسی نے راہ جہاد میں خرچ کرنا مراد لیا ہے، اور کسی نے کہا کہ یہ ہر قسم کے فرض اور نفل خرچ کو شامل ہے۔ آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ بندہ مومن اس دنیا میں جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا، اسے قیامت کے دن اپنے نامہ اعمال میں پائے گا، جس دن آدمی کو نہ مال کام آئے گا، نہ کوئی دوست، اور نہ کوئی سفارشی، اور اس دن کافروں سے بڑھ کر کوئی ظالم نہ ہوگا۔ البقرة
255 348: نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ آیۃ الکرسی قرآن کریم کی عظیم ترین آیت ہے، اس لیے کہ اس میں باری تعالیٰ کی توحید، اس کی عظمت اور اس کی صفات کا بیان ہے، مسند احمد میں ابی بن کعب (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، آیۃ الکرسی قرآن کریم کی عظیم ترین آیت ہے، مسند احمد میں ہی انس بن مالک (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، آیۃ الکرسی ایک چوتھائی قرآن ہے۔ امام احمد اور نسائی نے ابوذر (رض) سے روایت کی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عظیم ترین آیت جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی، آیۃ الکرسی ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے، جسے امام احمد، ابو داود، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے کہ اللہ کا اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے۔ اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم، اور الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم۔ 349: اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تمام مخلوق کا تنہا معبود ہے، وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور زندہ رہے گا، اور کبھی نہیں مرے گا، وہ قائم بنفسہ ہے، تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے، اور تمام موجودات کو اسی نے پیدا کیا ہے، اسی نے انہیں باقی بھی رکھا ہے، اور اپنے وجود و بقا کے لیے انہیں جن چیزوں کی ضرورت ہے اللہ ہی انہیں وہ چیزیں دیتا ہے، اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند 350: تمام موجودات اس کے غلام ہیں، اور اس کے قبضہ وقدرت میں ہیں۔ اللہ نے فرمایا، ان کل من فی السماوات والارض الا اتی الرحمن عبدا۔ کہ آسمان و زمین کی تمام مخلوقات اللہ کے بندے ہیں (مریم :39) 351: اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر، کوئی کسی کے لیے اللہ کے حضور شفاعت کرنے کی جراءت نہیں کرے گا، جب انبیاء اور فرشتے اللہ کی اجازت کے بغیر شفاعت نہ کریں گے، تو بھلا وہ اصنام جن کی کفار پرستش کرتے ہیں، اور جن کے بارے میں وہ اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ وہ اللہ کے یہاں ان کے لیے سفارشی بنیں گے، کیسے شفاعت کرسکیں گے؟ حدیث شفاعت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں عرش کے نیچے آؤں گا، اور سجدے میں گر جاؤں گا تو اللہ مجھے اسی حال میں چھوڑ دے گا جتنی دیر چاہے گا، پھر مجھ سے کہے گا کہ اپنا سر اٹھاؤ اور کہو، سنا جائے گا، اور شفاعت کرو، قبول کی جائے گی (بخاری و مسلم) اور یہ شفاعت اہل توحید کے لیے ہوگی، مشرکین کے لیے نہیں۔ ابوہریرہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ وہ کون خوش بخت ہوگا جس کو آپ کی شفاعت نصیب ہوگی؟ تو آپ نے فرمایا کہ جس نے لا الہ الا اللہ پورے خلوص قلب کے ساتھ کہا ہوگا (بخاری) معلوم ہوا کہ یہ شفاعت اہل توحید کے لیے اللہ تعالیٰ کا ایک انعام ہوگا 352: اللہ تعالیٰ کا علم تمام کائنات کو محیط ہے، کسی بھی مخلوق کا ماضی، حاضر اور مستقبل اس کے علم کے حدود سے خارج نہیں، جیسا کہ اللہ نے فرشتوں کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا وما نتنزل الا بامر ربک لہ مابین ایدینا وما خلفنا وما بین ذلک وما کان ربک نسیا۔ یعنی ہم بغیر آپ کے رب کے حکم کے اتر نہیں سکتے۔ ہمارے آگے پیچھے اور ان کے درمیان کی کل چیزیں اس کی ملکیت میں ہیں، اور آپ کا پروردگار بھولنے والا نہیں۔ 353: کوئی بھی شخص اتنا ہی علم رکھتا ہے جتنا اللہ نے اسے دیا ہے، جیسا کہ اللہ نے فرشتوں کی زبان میں فرمایا۔ سبحانک لا علم لنا الا ما علمتنا۔ یعنی اے اللہ ! تیری ذات پاک اور بے عیب ہے، ہمارے پاس کوئی علمہ نہیں، سوائے اس علم کے جو تو نے دیا ہے (البقرہ) 354۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ کرسی سے مراد علم ہے، یعنی اللہ کا علم آسمان اور زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا، ربنا وسعت کل شیء رحمۃ وعلما۔ یعنی اے ہمارے رب ! تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ کرسی سے مراد اللہ تعالیٰ کے دونوں قدموں کی جگہ ہے۔ 355: آسمان و زمین اور ان دونوں میں پائی جانے والی تمام مخلوقات و موجودات کی حفاظت اور ان کی دیکھ بھال اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل کام نہیں، ہر ایک کا وہی اکیلا نگہبان ہے، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں، ہر چیز اس کے سامنے حقیر و ذلیل ہے، ہر چیز اس کی محتاج ہے، اور وہ بے نیاز ہے۔ یہ اور ان جیسی تمام آیتوں اور صحیح احادیث میں باری تعالیٰ کی جن صفات کا ذکر آیا ہے، ان کے بارے میں سلف صالحین کا یہی طریقہ رہا ہے کہ ان پر ایمان رکھا جائے، اور ان کی کیفیت نہ بیان کی جائے، اور نہ کسی مخلوق کی صفات کے ساتھ ان صفات کو تشبیہ دی جائے۔ البقرة
256 356: یہ آیت کریمہ دین اسلام کے کامل ہونے کی دلیل ہے، اور اس میں اس بات کا بیان ہے کہ دین اسلام کی صداقت کے دلائل وبراہین واضح ہیں، اس لیے ضرورت نہیں کہ کسی کو اس میں داخل ہونے پر مجبور کیا جائے، اگر کوئی شخص اس میں داخل ہوتا ہے تو یہ اس کی خوش نصیبی ہے کہ اللہ نے اسے حق قبول کرنے کی توفیق دی، اور اگر وہ کفر کی راہ اختیار کرتا ہے تو گویا اللہ نے اس کے دل کی روشنی چھین لی، اور اس کی آنکھ اور کان پر مہر لگا دی، اب اگر ایسے آدمی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور بھی کیا جائے تو کوئی فائدہ نہ ہوگا، کیونکہ حق قبول کرنے کے تمام راستے مسدود ہوچکے ہیں۔ اس آیت اور جہاد کی آیتوں کے درمیان کوئی تعارض نہیں، کیونکہ جہاد اس لیے نہیں فرض کیا گیا کہ لوگوں کو دین اسلام میں داخل ہونے پر مجبور کیا جائے، جیسا کہ اوپر گذر چکا کہ جس کے دل پر مہر لگا دی گئی ہو، اسے مجبور کرنے پر بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ تاریخ شاہد ہے کہ مجاہدین اسلام نے جب بھی کوئی شہر یا علاقہ فتح کیا تو وہاں کے لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ بلکہ انہیں اختیار دیا کہ اگر وہ چاہیں تو اپنے دین پر رہیں اور جزیہ دیں، اور اسلامی حکومت ان کی حفاظت کرے گی، جہاد سے متعلق آیات کا تتبع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی غرض و غایت یہ تھی کہ اسلامی حکومت کو دشمنان اسلام کی سازشوں سے محفوط کردیا جائے۔ اللہ کا دین غالب ہو، اور شریعت اسلامیہ کا نفاذ ہو، اور اگر کسی دشمن کی طرف سے کوئی خطرہ ہو تو اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے دفاع میں پیش قدمی کی جائے۔ اس لیے بعض لوگوں کا یہ خیال کہ یہ آیت آیات جہاد کے ذریعہ منسوخ ہے، صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح مرتد کا قتل بھی اس آیت کے خلاف نہیں ہے اس لیے کہ اسلام میں داخل ہونے پر کسی کو مجبور نہیں کیا جاتا، لیکن جب ایک شخص اپنی مرض سے اس میں داخل ہوگیا، تو اگر وہ چوری کرے گا تو اس کا ہاتھ کاٹ لیا جائے گا اور اگر زنا کرے گا اور شادی شدہ ہوگا تو اسے رجم کردیا جائے گا، تاکہ مسلم معاشرہ کو اس کی اور اس جیسوں کی انارکیوں اور شر و فساد سے بچایا جائے، اسی طرح حاکم وقت کا یہ فرض ہے کہ اگر کوئی شخص دوبارہ کفر کو قبول کرلے تو اسے قتل کردے تاکہ مسلم سوسائٹی کو مذہبی انتشار سے بچایا جائے۔ آیت کریمہ میں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ دین اسلام آنے کے بعد لوگ دو جماعتوں میں بٹ گئے، ایک جماعت نے اسلام کو قبول کیا اور طاغوتی طاقتوں کا انکار کیا، تو اس نے دین کی اصل اور بنیاد کو مضبوطی سے تھام لیا، اور دوسرے لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اور طاغوتی طاقتوں سے رشتہ استوار کیا تو وہ ہلاک ہوگئے۔ البقرة
257 357: اس کا تعلق گذشتہ آیت سے ہے، گذشتہ آیت اساس اور بنیاد ہے، اور یہ آیت اس کا ثمرہ اور نتیجہ ہے کہ جو لوگ اپنے ایمان میں صادق ہوتے ہیں، عمل صالح کرتے ہیں اور ایمان کے منافی تمام کاموں سے بچتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں اپنا ولی اور دوست بنا لیتا ہے، انہیں کفر اور شک و شبہ کی تاریکیوں سے نکال کر کھلے اور واضح حق کے راستے پر ڈال دیتا ہے، اور جو اہل کفر ہوتے ہیں، ان کے دوست شیاطین اور ائمہ کفر و الحاد ہوتے ہیں، وہ کفر و الحاد کو خوشنما بنا کر ان کے سامنے پیش کرتے ہیں، اور راہ حق سے انہیں برگشتہ کرکے کفر و ضلالت کی راہ پر ڈال دیتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے کلمہ نور کو مفرد اور ظلمات کو جمع استعمال کیا ہے، اس لیے کہ حق ہمیشہ اور ہر زمانے میں ایک رہا ہے، اور کفر کی مختلف قسمیں اور متعدد شکلیں رہی ہیں۔ جیسا کہ اللہ نے فرمایا آیت وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ ذلکم وصاکم بہ لعلکم تتقون۔ اور یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے، سو اس راہ پر چلو، اور دوسری راہوں پر مت چلو، کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کردیں گی، اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا تاکہ تم احتیاط رکھو (الانعام :153) البقرة
258 358: وہ بابل کا بادشاہ نمرود بن کنعان تھا، جس نے ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا کہ کون ہے تمہارا رب جس کی طرف ہمیں بلاتے ہو اور وہ اس کفر و سرکشی پر اس لیے تل گیا تھا، کہ ایک مدت مدید تک بادشاہت کرنے کی وجہ سے کبر و غرور میں مبتلا ہوگیا تھا، اور شیطان نے اس کے دماغ میں یہ احمقانہ خیال بٹھا دیا تھا کہ وہی رب العالمین ہے، اسی لیے ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اس کے جواب میں کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، تو اس دل کے اندھے نے کہا کہ میں بھی تو زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں، ابن عباس (رض) کی روایت ہے کہ اس نے اسی مجلس میں دو قیدی منگائے، ایک کو قتل کردیا اور دوسرے کو چھوڑدیا، حالانکہ ابراہیم (علیہ السلام) کا مقصد واضح تھا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو عدم سے وجود میں لاتا ہے اور پھر انہیں وجود سے عدم کی طرف لے جاتا ہے، لیکن جب یہ بات اسے سمجھ میں نہ آئی تو ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ اچھا تو اللہ تعالیٰ آفتاب کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا، تو وہ مبہوت اور عاجز ہوگیا، اور ظالموں کے پاس کبھی بھی حجت و برہان نہیں ہوتا۔ البقرة
259 359: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بعث بعد الموت کی ایک عظیم دلیل پیش کی ہے، جس کا ہر آدمی یوم قیامت سے پہلے اسی دنیا میں ادراک کرسکتا ہے۔ اور اس دلیل کا اجرا اللہ تعالیٰ نے جس آدمی کے جسم پر کیا، اس کے بارے کئی اقوال ہیں : ایک قول یہ ہے کہ وہ عزیر (علیہ السلام) تے، کسی نے کہا کہ وہ خضر (علیہ السلام) تھے، مجاہد کا قول ہے کہ وہ بنی اسرائیل کا ایک فرد تھا، اور یہی قول اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے، اس لیے کہ واقعہ کے سیاق و سباق سے پتہ چلتا ہے کہ وہ آدمی اللہ کی اس قدرت میں شبہ کرتا تھا کہ وہ دوبارہ مردوں کو زندہ کرے گا۔ اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ وہ نبی نہ تھا، بلکہ ایک عام انسان تھا جسے بعث بعد الموت میں شبہ تھا۔ وہ شخص ایک ایسی بستی سے گذرا جو مکمل طور پر تہ و بالا ہوچکی تھی، اور اس کے رہنے والے سبھی لوگ مر چکے تھے، اس کے ذہن میں یہ بات آئی کہ ان لوگوں کو اب اللہ کیسے زندہ کرسکتا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے اس کے اور دیگر لوگوں کے حال پر رحم کرتے ہوئے اسے سو سال کے لیے مردہ بنا دیا اس کا گدھا بھی مر گیا، اور اس کے پاس کھانے پینے کی جو چیزیں تھی وہ سب علی حالہ باقی رہیں، ان میں کوئی تبدیلی نہ آئی، جب اللہ نے اسے دوبارہ زندہ کیا تو اس سے پوچھا کہ کتنے دن تم اس حال میں باقی رہے؟ تو اس نے کہا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ تب اللہ تعالیٰ نے اسے بعض انبیاء کے ذریعے خبر دی کہ وہ سو سال مردہ رہا ہے، پھر اللہ نے اس سے کہا کہ تم اپنے کھانے پینے کی چیزیں دیکھ، وہ خراب نہیں ہوئی ہیں، اور اپنے گدھے کو دیکھو، اس کے چیتھڑے ہوچکے ہیں اور اس کی ہڈیاں سڑ گل گئی ہیں، اس کے بعد اللہ نے اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے گدھے کو زندہ کیا، تو بول اٹھا کہ مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اور یقیناً ہر فردِ بشر کو قیامت کے دن زندہ کرے گا۔ البقرة
260 360: یہ بعث بعد الموت کی دوسری عظیم دلیل ہے، جس کا اجرا اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں کیا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ سے سوال کیا کہ اے اللہ ! میں ان آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے؟ اللہ نے کہا کہ کیا اس حقیقت پر تمہارا ایمان نہیں ہے؟ ابراہیم نے کہا کہ اے رب ! میرا ایمان ہے کہ تو مردوں کو زندہ کرے گا اور انہیں نیکی و بدی کا بدلہ دے گا، لیکن اس حقیقت کے بارے میں عین الیقین کا درجہ حاصل کرنا چاہتا ہوں، تو اللہ نے ان کی دعا قبول کرلی، اور کہا کہ چار چڑیوں کو ذبح کر کے ایک ساتھ ملا دو، اور انہیں مختلف پہاڑوں پر ڈال دو، پھر انہیں بلاؤ، وہ تمہارے پاس اڑتی چلی آئیں گی، ابراہیم (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا اور وہ سب اڑتی ہوئی ان کے پاس آگئیں۔ جمہور اہل علم کا خیال ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کے بارے میں شبہ نہیں تھا کہ اللہ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے، بلکہ ان کا مقصود یہ تھا کہ قدرت الٰہیہ کا مظاہرہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر مزید سکون قلب اور عین الیقین حاصل کریں، جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے، کہ کوئی خبر آنکھوں سے دیکھ لینے کی مانند نہیں ہے (مسند احمد) اور یہ جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ نحن احق بالشک من ابراہیم کہ ہم لوگ ابراہیم کے مقابلے میں شک میں مبتلا ہونے کے زیادہ قریب تھے (بخاری، مستدرک حاکم) تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ابراہیم شک میں مبتلا ہوتے تو ہم لوگ اس کے زیادہ قریب تھے اور جب ہم شبہ نہیں کرتے ہیں تو ابراہیم کیسے شبہ کرسکتے تھے؟ قرطبی نے لکھا ہے کہ انبیائے کرام کے لیے اس قسم کا شبہ جائز نہیں ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے ان عبادی لیس لک علیہم سلطان کہ میرے مخلص بندوں پر تمہاری نہیں چل سکے گی (الاسراء : 65)۔ البقرة
261 361: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں خرچ کرنے کی زبردست ترغیب دلائی ہے، اور یہاں فی سبیل اللہ سے مراد ہر وہ راستہ ہے جو اللہ تک پہنچائے، جہاد فی سبیل اللہ، مسلمانوں کے لیے نفع بخش اعمال، مفید علوم کی نشر و اشاعت اور فقراء و مساکین پر خرچ کرنا اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے، اور ان نیکیوں میں اللہ تعالیٰ بڑھاوا دیتا ہے، صحیحین میں ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ابن آدم کے نیک کام کو اللہ تعالیٰ بڑھاتا ہے، ایک نیکی دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھتی ہے۔ ابن مسعود (رض) کی روایت ہے کہ ایک آدمی ایک اونٹ لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا کہ اسے میں اللہ کی راہ میں دے رہا ہوں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کے بدلے تمہیں قیامت کے دن اللہ سات سو اونٹنیاں دے گا (احمد، مسلم، نسائی، حاکم) البقرة
262 362: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ اگر (اللہ کی راہ میں خرچ) صرف اللہ کی رضا کے لیے ہو، اور خرچ کرنے والا اصحاب حاجت کو دینے کے بعد احسان نہ جتائیں اور نہ دوسروں سے اس کا ذکر کر کے اس آدمی کو تکلیف پہنچائیں جس پر خرچ کیا ہے، تو اللہ تعالیٰ ان کو اجر خاص عطا فرمائے گا، اور مستقبل کا نہ انہیں خوف لاحق ہوگا نہ ماضی کا غم۔ اسی لیے اللہ نے اسکے بعد فرمایا کہ اگر آدمی سائل کو کچھ نہ دے سکے تو اچھے اسلوب میں معذرت کردے، اور اگر سائل کسی کلمہ کے ذریعہ تکلیف پہنچائے تو اسے درگذر کردے۔ یہ ایسے صدقہ و خیرات سے کہیں بہتر ہے جس کے بعد صاحب حاجت کو اذیت پہنچائے، احسان جتائے اور لوگوں سے بیان کرتا پھرے کہ میں نے فلاں آدمی کو صدقہ دیا ہے، صحیح مسلم میں ابو ذر غفاری (رض) کی روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تین آدمی سے نہ بات کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا، اور نہ انہیں ُاک کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا، احسان جتانے والا، اپنی لنگی یا پائجامہ ٹخنے سے نیچے پہننے والا، اور اپنا سامان تجارت جھوٹی قسم کے ذریعہ بیچنے والا۔ البقرة
263 البقرة
264 363: اس آیت میں اور اس کے بعد آنے والی دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مال خرچ کرنے والوں کی تین قسمیں بتائی ہیں۔ اور ان کی تین مثالیں بیان کی ہیں۔ پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو صرف لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں، اللہ پر ان کا ایمان نہیں ہوتا، اور نہ ان کی نیت ثواب کی ہوتی ہے، ان کا دل سخت اور چکنے پتھر کے مانند ہوتا ہے، جس پر مٹی جمی ہوتی ہے، دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ جب بارش ہوگی تو اس میں پودے اگیں گے، لیکن جب بارش ہوتی ہے تو مٹی دھل جاتی ہے اور سخت پتھر باقی رہا جاتا ہے۔ یہ مثال اس آدمی کے دل کی ہے جو لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے، جو ایمان سے عاری اور سخت دل ہوتا ہے، نہ اللہ کی یاد سے نرم ہوتا ہے اور نہ اس کے خوف سے اس میں خشوع و خضوع پیدا ہوتا ہے۔ دوسری قسم، ان لوگوں کی ہے جو اللہ کی رضا کے لیے صدق دل سے خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال بلند اور اونچی جگہ پر پائے جانے والے اس باغ کی ہے، جو ہوا اور آفتاب کی گرمی سے مستفید ہوتا ہے، اور وہاں پانی بھی خوب پایا جاتا ہے، اس لیے پیداوار دوگنی ہوتی ہے، اور اگر پانی اسے سیراب نہیں کرپاتا، تو شبنم ہی اتنی زیادہ گرتی ہے، اور اس باغ کی مٹی اتنی اچھی ہوتی ہے کہ وہی شبنم اس باغ کے درختوں کے بڑھنے اور لہلہانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ تیسری قسم : ان لوگوں کی ہے جو خرچ تو کرتے ہیں اللہ کے لیے لیکن اس کے بعد احسان جتاتے ہیں، اور لوگوں کو بتا بتا کر صاحب حاجت کو اذیت پہنچاتے ہیں، اور اس طرح اپنا عمل ضائع کردیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی مثال اس آدمی کی ہے جس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا باغ ہو جس کے نیچے نہریں جاری ہوں اور جس میں ہر قسم کے پھل ہوں اور باغ والا بوڑھا ہوچکا ہو، اور اس کے پاس چھوٹے چھوٹے بچے ہوں اچانک ایک سخت آنکھی آتی ہے جو کہیں سے آگ اٹھا کر لاتی ہے اور باغ کو جلا دیتی ہے اور باغ والے کو کچھ نظر نہیں آتا۔ دنیا میں نیک اعمال کرنے والے انہیں تینوں قسموں میں سے ایک قسم کے ہوتے ہیں۔ مسلمان کو چاہئے کہ اپنی نیت کا محاسبہ کرتا رہے، اور ہر ممکن کوشش کرے کہ اس کا ہر عمل صالح صرف اللہ کی رضا کے لیے ہو، تاکہ آخرت میں ذلت و رسوائی اور خسارے کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔ البقرة
265 البقرة
266 البقرة
267 346: انفاق اور کیفیت انفاق کے بیان کے بعد، اس مال کا حال بیان کیا جا رہا ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں اپنا بہترین مال خرچ کریں، چاہے وہ مال بذریعہ تجارت حاصل ہوا ہو، یا کھیتوں سے حاصل شدہ غلے ہوں، کیونکہ ایمان کا یہی تقاضا ہے، اسی لیے اللہ نے دوسری جگہ فرمایا ہے لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون، کہ جب تک تم پسندیدہ چیز سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے۔ آل عمران : 92۔ ردی اور گلا سڑا مال اللہ کی راہ میں نہیں دینا چاہئے۔ اس لیے کہ اللہ طیب اور پاک ہے، اور عمدہ اور اچھا مال ہی قبول کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ خراب مال اللہ کی راہ میں نہ خرچ کرو، حالانکہ خود تمہارا حال یہ ہے کہ اگر کوئی تمہارا قرض چکانے کے لیے خراب مال دے تو تم اسے بطیب خاطر قبول نہیں کروگے، آنکھیں بند کر کے بصورتِ جبر و اکراہ ہی قبول کروگے۔ براء بن عازب (رض) سے مروی ہے کہ یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ کھجور پکنے کے زمانے میں لوگ مسجد نبوی میں دو عمودوں کے درمیان رسی سے کھجور کے گچھے لٹکا دیتے، تاکہ غریب مہاجرین کھایا کریں۔ بعض لوگ ان گچھوں میں ردی کھجوروں کے گچھے ملا دیتے تھے، اور سمجھتے تھے کہ ایسا کرنا جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تنبیہ فرمائی کہ ایسا کرنا جائز نہیں (ترمذی، ابن ماجہ، حاکم، بیقہی) بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے مرادمال حرام ہے، کہ اللہ کی راہ میں حرام مال نہ خرچ کرو، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ پہلا قول ہی صحیح ہے۔ امام شوکانی نے دونوں ہی مراد لیا ہے۔ یعنی اللہ کی راہ میں نہ حرام مال خرچ کرو اور نہ ہی ردی مال۔ البقرة
268 365: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ مسلمان دو دعوت دینے والوں کے درمیان ہوتا ہے ایک اللہ کا داعی ہوتا ہے جو اسے بھلائی کی طرف بلاتا ہے، اور بھلائی، ثواب اور خرچ کردہ مال کے نعم البدل کا وعدہ کرتا ہے اور دوسرا شیطان کا داعی ہوتا ہے، جو اسے بخل پر اکساتا ہے اور محتاجی سے ڈراتا ہے، تو جو کوئی اللہ کی پکار پر لبیک کہتا ہے، اور اس کی دی ہوئی روزی میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اللہ اسے گناہوں کی مغفرت اور ہر مقصد کے حصول کی خوشخبری دیتا ہے، اور جو کوئی شیطان کی بات مان کر اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا، تو وہ اپنے لیے جہنم کی راہ ہموار کرتا ہے۔ البقرة
269 366: صدقات و خیرات اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے اموال واجر و ثواب کا ذکر ہوچکا، تو اب ایک ایسی نعمت کا ذکر ہو رہا ہے جو ان سب سے افضل ہے اور وہ ہے حکمت، یعنی نفع بخش علوم، عقلِ راجح، فہمِ ثاقب اور اقوال و افعال میں صائب الرائے ہونا، اسی لیے اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جسے اللہ نے حکم تدے دی اسے خیر کثیر سے نواز دیا، ابن عباس رضٰ اللہ عنہما کے نزدیک حکمت سے مراد فہم قرآن ہے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ اس سے مراد فقہ اور قرآن ہے۔ امام مالک کے نزدیک حکمت فقہ فی الدین اور ایسی چیز کو کہتے ہیں جسے اللہ اپنے فضل و کرم سے دلوں میں ڈال دیتا ہے۔ اس آیت میں اشاہ ہے کہ جو شیطان کے وعدوں کے دھوکے میں نہیں آتا، اور اللہ کے وعدوں پر یقین رکھتا ہے، در حقیقت اللہ تعالیٰ نے اسے حکمت جیسی دولت سے نواز دیا، نیز حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اللہ کی راہ میں پاکیزہ مال خرچ کرتا رہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) روایت کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے سنا ہے کہ حسد دو چیزوں میں جائز ہے، اللہ نے ایک آدمی کو مال دیا جسے وہ راہ حق میں خوب خرچ کرتا ہے، اور دوسرا وہ آدمی جسے اللہ نے حکمت دی ہے جس کے مطابق وہ لوگوں کے درمیان فیصلے کرتا ہے، اور انہیں اس کی تعلیم دیتا ہے۔ (مسند احمد، بخاری، مسلم) البقرة
270 اللہ کی راہ میں لوگ جو کچھ خرچ کرتے ہیں، صدقہ کرتے ہیں، یا نذرانہ پیش کرتے ہیں اللہ انہیں خوب جانتا ہے اور اس علم کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ انہیں ان اعمال کا اچھا بدلہ عطا فرمائے گا، اور یہ کہ کسی کا ایک ذرہ کے برابر بھی عمل ضائع نہیں ہوگا۔ اور جو ظالم لوگ ان پر واجب کردہ حقوق کو ادا نہیں کرتے یا حرام کا ارتکاب کرتے ہیں، اللہ کا عذاب انہیں پکڑ لے گا اور کوئی ان کا مددگار نہ ہوگا۔ البقرة
271 368: آیت کے اس حصہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ صدقہ کو چھپانا افضل ہے تاکہ ریاکاری کا شبہ نہ رہے۔ لیکن اگر ظاہر کرنے میں کوئی دینی مصلحت ہو، جیسے نیت یہ ہو کہ کار خیر میں دوسرے لوگ اس کی اقتدا کریں تو ظاہر کرنا ہی افضل ہوگا۔ اسی لیے جمہور مفسرین کی رائے کہ چھپانے کی افضلیت نفلی صدقہ کے ساتھ خاص ہے۔ فرض صدقات و زکاۃ میں ظاہر کرنا ہی افضل ہے، صحیحین میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ سات قسم کے لوگوں کو اللہ قیامت کے دن اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا، جس دن اور کوئی سایہ نہ ہوگا ان میں ایک وہ آدمی ہوگا جس نے صدقہ دے کر چھپایا، یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ نہ نے جانا کہ دائیں نے کیا خرچ کیا ہے۔ البقرة
272 369: اس سے مقصود مومنوں کو اللہ کے اوامر کی اطاعت پر ابھارنا اور انہیں یہ بتانا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو راہ راست پر چلانے کے مکلف نہیں ہیں، یہ تو اللہ کا کام ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کام تو لوگوں کو صرف راستہ بتا دینا ہے۔ اور جو اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا، قیامت کے دن اس کا حقیقی اور ابدی فائدہ اسی کو پہنچے گا، اس لیے محتاجوں پر اس کا احسان نہ جتائے اور نیت اس سے صرف اللہ کی رضا رکھے۔ اور اللہ صدقات و خیرات کا ثواب کوئی گنا زیادہ دیتا ہے، اللہ تعالیٰ نہ کسی کی نیکیوں کو کم کرتا ہے اور نہ کسی کے گناہوں کو زیادہ کرتا ہے البقرة
273 370: اللہ تعالیٰ نے مال والوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنا مال ان فقیروں اور محتاجوں پر خرچ کریں جنہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے، یا دن رات اس کی بندگی اور حصول علم کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ یہاں مراد اصحاب صفہ ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے ان سے مراد وہ تمام مہاجرین لیے ہیں جو مدینہ منورہ میں آ کر اقامت پذیر ہوگئے تھے اور تجارت و حصول مال کے اسباب و ذرائع ان سے منقطع ہوچکے تھے۔ فائدہ : اس آیت کریمہ میں مومنین مہاجرین کی یہ صفت بتائی گئی ہے کہ وہ اپنی شدت ضرورت و حاجت کے باوجود لوگوں سے الحاح کے ساتھ نہیں مانگتے۔ اسلام نے شدت ضرورت کے وقت سوال کرنے کو جائز قرار دیا ہے، اور بغیر ضرورت سوال کرنے کی بڑی مذمت کی ہے۔ بخاری اور مسلم نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک آدمی ہمیشہ مانگتا رہے گا، یہاں تک کہ جب قیامت کا دن آئے گا تو اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہوگا، اس طرح کی اور بھی حدیثیں ہیں جن میں لوگوں سے سوال کرنے کی بڑی مذمت آئی ہے، امام مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے مانگتا ہے وہ گویا جہنم کی آگ مانگتا ہے۔ البقرة
274 371: اللہ کی رضا کی خاطر مال خرچ کرنے والوں کی تعریف کی گئی ہے۔ اور آیت میں رات کو دن پر، اور پوشیدہ کو اعلانیہ پر مقدم کرنے سے مقصود اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ پوشیدہ طور پر دینا افضل ہے اہل وعیال پر کرچ کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ صحیحین میں مروی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد بن وقاص (رض) سے فرمایا کہ رضائے الٰہی کی خاطر تم جو بھی خرچ کروگے، اس سے اللہ کے نزدیک تمہارا مقام بلند ہوگا، حتی کہ وہ لقمہ جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے۔ البقرة
275 372: اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے احوال و کوائف، ان کے لیے اجر عظیم کے وعدوں اور ان کے گناہوں کی معافی کا ذکر ہوچکا، تو اب سود اور لوگوں کا مال حرام طریقوں سے کھانے والوں کا ذکر ہورہا ہے، اور ان انجامہائے بد کا بیان ہو رہا ہے جن کا سامنا انہیں روز قیامت قبر سے نکلتے وقت کرنا پڑے گا، جس طرح وہ لوگ دنیا میں مال حرام کے حصول میں پاگل بن گئے تھے، برزخ میں اور روز قیامت اپنی قبروں سے اس طرح اٹھیں گے جیسے انہیں شیطانی مس (اثر) کی وجہ سے جنون اور مرگی لاحق ہوگئی ہو، اور یہ سزا انہیں اس لیے ملے گی کہ وہ کہتے تھے کہ بیع ربا کی مانند ہے اور اس طرح حلال و حرام کو ایک جیسا بناتے تھے اور سود کو حلال قرار دیتے تھے۔ تحریم ربا کے قبل جو مال سود کھانے والے نے لیا تھا، اسے لوٹانا ضروری قرار نہیں دیا گیا، لیکن جو شخص اس کے بعد سود کو حلال قرار دے گا اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا، اس لیے کہ اس نے نص قرآنی کا انکار کیا، اور اللہ کی حرام کردہ چیز کو حلال بنایا۔ فائدہ : سود کی مذمت اور اس کے دینی اور دنیوی مفاسد کے بیان میں بہت ساری احادیث آئی ہیں۔ حاکم اور بیہقی نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سود کے تہتر (73) دروازے ہیں، اس کا سب سے ہلکا گناہ یہ ہے کہ جیسے کوئی آدمی اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے۔ احادیث کی رو سے سود کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم ربا الفضل یعنی ایک چیز کو دوسرے کے مقابلے میں زیادہ دے کر خرید و فروخت کرنا، اور فقہاء نے اس کا قاعدہ کلیہ یہ بتایا ہے کہ ہر وہ دو چیزیں جن میں ناپ، وزن اور خوراک، تینوں صفات میں سے دو پائی جائیں گی، ان کا آپس میں خرید و فروخت کسی ایک کو زیادہ کر کے جائز نہیں۔ جن چیزوں میں یہ تینوں صفات معدوم ہوں گی، یا دونوں کی جنس مختلف ہوگی تو پھر کسی ایک کی زیادتی سود نہیں ہوگی اور اگر دونوں کی جنس ایک ہو، لیکن تینوں صفات میں سے صرف ایک صفت پائی جائے، تو ایک قول یہ ہے کہ کسی ایک کی زیادتی سود نہیں ہوگی، لیکن راجح یہی ہے کہ اس صورت میں بھی زیادتی سود ہوگی، اس کی دلیل عبادہ بن صامت (رض) کی مرفوع حدیث ہے جسے امام احمد اور مسلم نے روایت کی ہے کہ سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گیہوں گیہوں کے بدلے، جو جو کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے، برابر اور نقد بیچنا جائز ہے، یعنی کسی ایک کو زیادہ کر کے بیچنا جائز نہیں، اس لیے کہ دونوں کی جنس ایک ہے، اور تینوں صفات میں سے دو یا ایک صفت دونوں میں پائی جاتی ہے۔ دوسری قسم : ربا النسیئۃ ہے، اور اس کی ایک صورت زمانی جاہلیت میں یہ تھی کہ جب قرض کی مدت پوری ہوجاتی، تو قرض والا قرض دار سے کہتا کہ قرض ادا کروگے یا سود دو گے؟ اگر قرض ادا نہ کرتا تو قرض دینے والا مال کی مقدار بڑھا دیتا اور قرض کی مدت بھی بڑھا دیتا، سود کی یہ شکل بالاتفاق حرام ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیع و شراء کی بعض قسموں کو صرف اس لیے ناجائز قرار دیا، تاکہ سود کے پوشیدہ درازوں کو بند کردیا جائے، اور علمائے اسلام نے بھی ہر زمانے میں ایسی تمام صورتوں کو ممنوع قرار دیا، جن سے سود کے دروازے کھلتے نظر آئے، اس لیے کہ سود اسلام کی نظر میں عظیم ترین گناہ اور بدترین اجتماعی جرم ہے، مسلمانوں کو چاہئے کہ سود اور بیع وشراء کی ان تمام شکلوں سے بچیں جن میں سود کا شبہ پایا جاتا ہو۔ البقرة
276 373: اللہ تعالیٰ سود کے مال سے برکت چھین لیتا ہے اور صدقات کو بڑھا وا دیتا ہے، اس لیے کہ روزی کا مالک تو اللہ ہے اور اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اس کی اطاعت کر کے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے، اور یہ امر مشاہدہ ہے کہ سود خور کا مال بظاہر تو بڑھتا ہے لیکن اس کی برکت اس سے چھین لی جاتی ہے، دنیا میں اس کا سکون چھن جاتا ہے، اولاد نالائق ہوجاتی ہے اور قسم قسم کی پریشانیوں میں وہ گھرا رہتا ہے، اور آخرت میں تو عذاب نار اس کا انتظار کر ہی رہا ہے۔ البقرة
277 374: ربا (سود) کی آیتوں کے درمیان اس آیت کو لانے کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ سودی کاروبار سے بچاوے کا اہم سبب ایمان باللہ اور اس کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ البقرة
278 375: اس آیت میں مسلمانوں کو حتمی طور سے حکم دے دیا گیا کہ قرضداروں پر سود کی جو رقم رہ گئی ہے اب نہ لی جائے، ایمان کا یہی تقاضا ہے، کیونکہ سود اور ایمان دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔ البقرة
279 376: سود لینا اللہ اور رسول کے خلاف جنگ ہے، اور جس کی جنگ اللہ اور اس کے رسول سے ٹھن جائے وہ کب فلاح پائے گا؟ سودی کاروبار سے توبہ کرنے کے بعد صرف اصل مال لینا جائز ہوگا، اور اگر قرضدار تنگدست ہے، اس کے پاس قرض کی ادائیگی کے لیے پیسے نہیں، تو اسے مہلت دینی چاہئے اور اگر قرض والا تنگدست قرض دار کو معاف کردے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے کیونکہ وہ آخرت میں اس کا اچھا بدلہ پائے گا۔ البقرة
280 البقرة
281 البقرة
282 377: سودی کاروبار کے بیان کے بعد آپس میں بذریعہ قرض لین دین کا بیان ہورہا ہے، تاکہ لوگ اپنی مالی ضرورتیں جائز اور مشروع طریقوں سے پوری کریں، یہ قرآن کریم کی سب سے طویل آیت ہے، اور ابن جریر طبری نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ یہ آیت عرش سے نازل ہونے والی آخری آیت تھی، اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو تعلیم دی ہے کہ جب وہ بذریعہ قرض لین دین کریں تو اسے لکھ لیا کریں، اس لیے کہ قرض کی مقدار، اس کی ادائیگی کا وقت، اور گواہیوں کو ریکارڈ میں لانے کا اس سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ ضمانت پر لیا گیا قرض جس کی مدت معلوم ہو حلال ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہے، پھر یہ آیت پڑھی، (بخاری، طبری) قرض کے ذریعہ لین دین کو لکھنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ کوئی اس کا انکار نہ کرسکے، یا بھول نہ جائے، اس آیت کریمہ سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں : 1۔ قرض کے ذریعہ لین دین جائز ہے۔ 2۔ قرضوں کے تمام لین دین میں مدت کی تحدید ضروری ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے قرضوں کو لکھ لینے کا حکم دیا ہے۔ 4۔ لکھنے والا عدل و انصاف کے ساتھ لکھے، اور قرابت یا عداوت سے متاثر نہ ہو۔ 5۔ یہ ضروری ہے کہ لکھنے والا انصاف کے تقاضوں کو جانتا ہو، اور خود بھی صفت عدل کے ساتھ متصف ہو۔ 6۔ کاتب کی تحریر قرضدار کا اعتراف ہوتا ہے، اور اگر وہ صغر سنی، کم عقلی، جنون، گونگا پن، یا عدم قدرت کی وجہ سے اپنے اوپر لوگوں کے حقوق کی تعبیر اچھی طرح نہیں کرسکتا، تو اس کے ولی کی تعبیر اس کی تعبیر کے قائم مقام ہوگی۔ 7۔ قرضدار جب لوگوں کے حقوق کاتب کو لکھائے تو اللہ سے ڈرے، اور ان کے حقوق اور شروط و قیود میں کمی و زیادتی نہ کرے۔ 8۔ خرید و فروخت میں گواہ مقرر کرنا ضروری ہے۔ 9۔ گواہ دو مرد، یا ایک مرد اور دو عورتیں ہوں گی۔ 10۔ گواہی یقینی بات پر ہو، شک پر نہیں۔ 11۔ جب گواہ کی ضرورت پڑے تو اسے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ 12 کاتب و شاہد کو کسی کے نقصان کا سبب نہیں بننا چاہئے، اسی طرح اصحاب معاملہ کو کاتب و شاہد کے نقصان کا سبب نہ بننا چاہئے۔ البقرة
283 387۔ اگر آدمی سفر میں ہو، اور خرید و فروخت کی نوبت آجائے، اور کاتب میسر نہ ہو تو ایسی صورت میں حقوق کی توثیق رہن کے ذریعہ کردینی چاہئے، تاکہ رہن اس بات کا ثوبت ہو کہ رہن رکھنے والے کے ذمہ اس آدمی کا حق ہے جس کے پاس رہن موجود ہے، معلوم ہوا کہ اشیائے رہن اور ضمانتوں کے ذریعے لوگوں کے حقوق کی حفاظت ہوتی ہے، اور خلاف و نزاع کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ رہن ہمیشہ صاحب حق کے قبضے میں رہنا چاہئے، اور یہ بات تحریر میں آجانی چاہئے۔ اگر راہن اور مرتہن کے درمیان مقدار قرض میں اختلاف واقع ہوجائے تو بات صاحب حق کی مانی جائے گی، اس لیے کہ رہن اس کے ہاتھ میں بطور وثیقہ موجود ہے، آیت سے یہ بھی مستفاد ہے کہ آپس میں اعتماد ہونے کی صورت میں بغیر وثیقہ اور بغیر گواہ بنائے بھی خرید و فروخت اور قرض کا لین دین کیا جاسکتا ہے، یہ بھی مستفاد ہے کہ گواہ کا اپنی گواہی چھپانا حرام ہے۔ البقرة
284 379۔ اگر آدمی سفر میں ہو، اور خرید وفروخت کی نوبت آجائے اور کاتب میسر نہ ہو تو ایسی صورت میں حقوق کی توثیق رہن کے ذریعہ کردینی چاہئے، تاکہ رہن اس بات کا ثبوت ہو کہ رہن رکھے والے کے ذمہ اس آدمی کا حق ہے جس کے رہن موجود ہے۔ معلوم ہوا کہ اشیائے رہن اور ضمانتوں کے ذریعے لوگوں کے حقوق کی حفاظت ہوتی ہے اور خلاف و نزاع کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ رہن ہمیشہ صاحب حق کے بقضے میں رہنا چاہئے، اور یہ بات تحریر میں آجانی چاہئے۔ اگر راہن اور مرتہن کے درمیان مقدارِ قرض میں اختلاف واقع ہوجائے تو بات صاحب حق کی مانی جائے گی، اس لیے کہ رہن اس کے ہاتھ میں بطور و ثیقہ موجود ہے۔ آیت سے یہ بھی مستفاد ہے کہ گواہ کا اپنی گواہی کا چھپانا حرام ہے۔ 379: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ بندوں کے تمام احوال وکوائف کو جانتا ہے، ان کے دلوں کی ظاہر اور چھپی تمام باتوں کو جانتا ہے، اور ان پر ان کا محاسبہ کرے گا، جسے چاہے گا معاف کردے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا۔ امام احمد، مسلم، نسائی وغیرہم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام بہت پریشان ہوئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : تم لوگ کہو کہ اے ہمارے رب ! ہم نے سنا اور اطاعت و بندگی کے لیے جھگ گئے۔ تو اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان کو راسخ کردیا، اور اگلی آیت نازل ہوئی، یعنی لایکلف اللہ نفسا الایۃ، اور بات اس پر آ کر رکی کہ بندہ اسی قول و فعل کا ذمہ دار ہے جس کا اس نے ارتکاب کیا ہے، اور اس سے پہلی والی آیت منسوخ ہوگئی، جیسا کہ امام بخاری نے مروان الاصفر سے اور انہوں نے ایک صحابی رسول سے جو غالبا ابن عمر تھے روایت کی ہے کہ آیت وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ اس کے والی آیت کے ذریعہ منسوخ ہوچکی ہے یہی قول علی، ابن مسعود، شعبی، عکرمہ، سعید بن جبیر اور قتادہ کا ہے۔ لیکن ابن جریر نے حسن بصری کا قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے بلکہ محکم ہے، اور ابن جریر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے، اور دلیل یہ پیش کی ہے کہ حساب عقاب کو لازم نہیں، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ حساب لینے کے بعد معاف کردے، جیسا کہ صحیحین کی روایت سے ثابت ہوتا ہے، کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جب اپنے ایک بندے سے اس کے کان کے قریب جا کر اس کے گناہوں کا اعتراف کروالے گا، تو کہے گا کہ میں نے دنیا میں تمہاری پردہ پوشی کی تھی، اور آج تمہیں معاف کرتا ہوں بعض دوسرے حضرات جو اس آیت کے منسوخ ہونے کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ جن احادیث میں یہ آیا ہے کہ بندے کے دل میں جو کچھ گذرتا ہے، جب تک اپنے قول وعمل کے ذریعہ اس کی تصدیق نہ کردے اللہ اسے معاف کردے گا، تو اس سے مراد وہ خیالات پراگندہ ہیں جو بندے کے دل میں گذرتے ہیں، اور جن کے کر گذرنے کا وہ عزم نہیں کرتا اور یہاں اس آیت میں مراد وہ پختہ ارادہ اور دل کا وہ عزم مصمم ہے، جو عمل کے مترادف ہوتا ہے، اللہ بندے کا اس پر محاسبہ کرے گا، کیونکہ ایسی نیت اس کے کسب و عمل میں داخل ہے۔ جس کا ذکر اگلی آیت میں ہے کہ لہا ما کسبت و علیہا ما اکتسبت۔ البقرة
285 380: ذیل کی دونوں آیتوں کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے۔ امام بخاری نے ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا : جو شخص سورۃ بقرہ کی آخری دونوں آیتیں رات میں پڑھ لے گا، وہ اس کو کافی ہوں گی۔ امام احمد نے ابو ذر (رض) سے، اور مسلم نے عبداللہ سے روایت کی ہے کہ سورۃ بقرہ کی آخری آیتیں عرش کے نیچے خزانے میں تھیں، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج کی رات میں عطا ہوئیں۔ سورۃ فاتحہ کی فضیلت کے بیان میں بھی ان آیتوں کی فضیلت کا ذکر آیا ہے (دیکھئے سورۃ الفاتحہ کی فضیلت کا بیان) پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے ساتھ مومنین تمام ارکان ایمان پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ کہ مسلمان قرآن و سنت کے مطابق زندگی گذارنے کا اعلان کرتے ہیں۔ دوسری آیت میں اس بات کی خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے کو اتنا ہی مکلف کرتا ہے جتنے کی وہ طاقت رکھتا ہے، اور یہ کہ وہ اپنے قول و فعل کا ذمہ دار ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بندے کو اپنی جناب میں گریہ و زاری اور دعا کرنے کی تعلیم دی ہے، تاکہ جو تقصیر حاصل ہوئی ہے اسے اللہ معاف کردے۔ اور اللہ تعالیٰ نے مومنین کی یہ دعا قبول کرلی، جیسا کہ صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ جب بندوں نے یہ دعا کی تو اللہ نے کہا کہ ہاں ! میں نے قبول کرلیا، ابن عباس (رض) سے بھی ایسا ہی مروی ہے (مسلم) (فائدہ) اس آیت سے یہ شرعی قاعدہ ماخوذ ہے کہ دین اسلام میں تمام اعمال کی بنیاد نرمی اور آسانی پر ہے۔ البقرة
286 البقرة
0 تفسیر سورۃ آل عمران : 1۔ اس سورت کا نام آل عمران اس مناسبت سے ہے کہ اس میں خاندانِ عمران کے برگزیدہ اشخاص (عیسی، یحیی، مریم اور ان کی ماں) کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر آیا ہے۔ اس کا نام ” زہراء“ بھی ہے، اس لیے کہ یہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اہل کتاب کے شبہات کا ازالہ کرتی ہے۔ اس کا نام ” امان“ بھی ہے۔ اس لیے کہ اس سے استفادہ کرنے والا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شان میں غلطی کرنے سے بچ جاتا ہے۔ اسے ” کنز“ بھی کہتے ہیں، اس لیے کہ یہ اسرار عیسوی کا خزانہ ہے۔ اسے ” مجادلہ“ بھی کہتے ہیں، اس لیے کہ اس کی 80 سے زیادہ آیتیں نجران کے نصرانیوں کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مناظرہ پر مشتمل ہیں۔ اسے سورۃ الاستغفار بھی کہتے ہیں جو آیت والمستغفرین بالاسحار سے مستفاد ہے، اسے طیبہ بھی کہتے ہیں، اس لیے کہ اس میں طیبین یعنی اچھے لوگوں کا ذکر ہے یعنی آیت کریمہ الصابرین والصادقین والقانتین والمنفقین والمستغفرین بالاسحار، کی طرف اشارہ ہے۔ ناموں کی اس تفصیل سے اس سورت کے مرکزی مضامین پر ایک گنا روشنی پڑتی ہے، جن کا ذکر انشاء اللہ آگے آئے گا۔ 2۔ قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ سورت بالاجماع مدنی ہے اور اس کی دلیل ابتدا کی تراسی آیتیں ہیں، جو نجران کے عیسائی وفد کے بارے میں نازل ہوئی تھیں، اور یہ وفد مدینہ منورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سن 9 ھ میں آیا تھا۔ آل عمران
1 1۔ اس سورت کی فضیلت میں کئی حدیثیں وارد ہوئی ہیں، امام احمد نے بریدہ (رض) سے ایک حدیث روایت کی ہے، جس میں آیا ہے کہ سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران سیکھو، یہ دو خوشنما پودے ہیں جو قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں پر بادل کی طرح سایہ کیے ہوں گے۔ نواس بن سمعان (رض) کہتے ہیں، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ قیامت کے دن قرآن اور اہل قرآن کو لایا جائے گا جو اس پر دنیا میں عمل کرتے تھے، سورۃ البقرہ، اور سورۃ آل عرمان ان کے آگے ہوں گی، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونون سورتوں کی مثال بیان کی کہ گویا وہ دو بادل ہوں گے، یا گھنے سائے، یا صف باندھے چڑیوں کی دو جماعت، جو ان کے پڑھنے والوں کی طرف سے دفاع کر رہی ہوگی (مسلم، ترمذی، احمد) 1۔ ابتدائے سورۃ البقرہ میں، کلمہ الم کے بارے میں لکھا جا چکا ہے۔ آل عمران
2 2۔ سورۃ البقرہ میں آیۃ الکرسی کی تفسیر میں الحی اور القیوم دونوں صفات الٰہیہ کے بارے میں لکھا جا چکا ہے، آل عمران
3 3۔ یہاں کتاب سے مراد قرآن کریم ہے، جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ قرآن اگلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، تورات عبرانی لفظ ہے، جس کا معنی شریعت ہے، اور انجیل یونانی لفظ ہے، جس کا معنی خوشخبری ہے۔ یہ دونوں کتابیں قوم موسیٰ اور قوم عیسیٰ کی ہدایت کے لیے نازل ہوئی تھیں، نزول قرآن کے بعد دونوں منسوخ ہوگئیں۔ امت محمدیہ منسوخ شریعتوں کی مکلف نہیں۔ فرقان سے مراد یا تو تمام آسمانی کتابیں ہیں، اس لیے کہ سبھی حق و باطل کے درمیان تفریق کرتی ہیں۔ یا صرف قرآن مراد ہے، جو حق و باطل کے درمیان بالعموم تفریق کرتا ہے، یا اس حق و باطل میں تفریق کرتا ہے جس میں یہود و نصاریٰ اختلاف کرتے ہیں، ان الذین کفروا، الایۃ سے مقصود قرآن کریم پر ایمان لانے کی ترغیب، اور بصورت انکار اللہ کے عذاب سے خوف دلانا ہے۔ آل عمران
4 آل عمران
5 اللہ تعالیٰ لوگوں کے ایمان و کفر سے باخبر ہے، اور ہر ایک کو اس کے ایمان یا کفر کا بدلہ ضرور دے گا۔ آل عمران
6 اللہ تعالیٰ مرد و عورت، خوبصورت و بدصورت، اور نیک و بدبخت، جیسا چاہتا ہے رحم میں پیدا کرتا ہے، اشارہ ہے اس طرف کہ عیسیٰ بن مریم دیگر تمام انسانوں کی طرح اللہ کے ایک مخلوق بندہ تھے، اللہ نے انہیں بھی مریم کے رحم میں جیسا چاہا بنا، تو پھر وہ اللہ کیسے ہوسکتے ہیں؟ جیسا کہ نصاریٰ کا باطل عقیدہ ہے۔ آل عمران
7 6: اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت اور کمال قیومیت کی خبر دی ہے کہ اسی نے قرآن کریم کو نازل کیا ہے جس کی نظیر قیامت تک نہیں پائی جائے گی۔ اس کا ایک حصہ صریح اور واضح احکام پر مشتمل ہے، جیسے حلال و حرام، حدود، عبادات اور عبرتوں اور نصیحتوں والی آیتیں، اور ایک حصہ ایسی آیتوں پر مشتمل ہے جن کا علم اور جن کی حقیقت اللہ کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں، یا جن میں ایک سے زیادہ معانی کا احتمال پایا جاتا ہے، جیسے سورتوں کی ابتدا میں حروف مقطعات، غیبی امور اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اللہ کا یہ قول، وکلمتہ القاھا الی مریم و روح منہ، کہ وہ اللہ کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم کی طرف ڈال دیا، اور اس کی طرف سے ایک روح، نساء :171۔ لیکن جن کے دلوں میں کفر و نفاق ہے وہ متشابہ آیتوں کے درپے ہوتے ہیں، تاکہ لوگوں کو شبہات میں مبتلا کرسکیں، اپنے باطل عقائد و نظریات پر فاسد تاویلات کے ذریعہ ان سے استدلال کرسکیں، اپنے باطل عقائد و نظریات پر فاسد تاویلات کے ذریعہ ان سے استدلال کرسکیں، اور اسلام میں بدعتوں کو رواج دے سکیں، اور جن کا ایمان اور علم راسخ ہوتا ہے وہ ان متشابہات کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی آیات ہیں، ان کا جو معنی و مفہوم دیگر قرآنی آیات، احادیث نبویہ اور عربی زبان کے مطابق انہیں سمجھ میں آتا ہے وہ لوگوں کے لیے بیان کرتے، لیکن ان کی حقیقت اور کنہیات کی کرید میں نہیں پڑتے، اس لیے کہ اصحابِ عقل و دانش کے لیے محکم آیتیں ہی کافی اور وافی ہوتی ہیں۔ اور بیمار عقل والے ہمیشہ ہی مشتبہ آیتوں کی تلاش میں ہوتے ہیں تاکہ اپنے باطل افکار کی تائید میں کوئی دلیل لا سکیں، اور مسلمانوں میں شر اور فتنہ پھیلا سکیں۔ محکم اور متشابہ کی علمائے تفسیر نے کئی تعریفیں بیان کی ہیں، امام شوکانی نے ان کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ تعریفیں جزوی اور ناقص ہیں، اور ان کی تفصیل بیان کی ہے، پھر کہا ہے کہ محکم کی سب سے بہتر تعریف یہ ہے کہ جس کا معنی واضح اور جس کی دلالت ظاہر ہو، اور متشابہ یہ ہے کہ جس کا معنی واضح نہ ہو یا جس کی دلالت ظاہر نہ ہو۔ اکثر مفسرین کی رائے کہ والراسخون فی العلم، کا ماقبل سے کوئی تعلق نہیں، اور مجاہد کا خیال ہے کہ اس کا ما قبل سے تعلق ہے، اور متشابہ آیتوں کی تاویل راسخ العلم لوگ بھی جانتے ہں۔ قرطبی نے لکھا ہے کہ ابن عباس (رض) سے بھی یہی منقول ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ بعض اہل علم نے اعتدال کی راہ اختیار کی ہے۔ اور کہا ہے کہ قران کریم میں تاویل دو معنوں میں استعمال ہوا ہے، تاویل بمعنی حقیقت شے اور اس کا انجام و نتیجہ، اگر تاویل سے مراد یہ لیا جائے تو وقف اللہ پر ہوگا، اس لیے کہ اشیاء کے حقائق و کنہیات کو اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اور اگر تاویل سے مراد تفسیر اور بیان لیا جائے تو الراسخون فی العلم اللہ پر معطوف ہوگا۔ اس لیے کہ علماء کو ان آیات کا مفہوم ضرور جاننا چاہئے جن کے مسلمان مخاطب ہیں۔ آل عمران
8 7۔ چونکہ یہاں مستقیم اور منحرف دو قسم کے لوگوں کا ذکر ہورہا ہے، اس لیے اللہ نے مومنوں کو تعلیم دی کہ وہ اللہ سے ایمان پر ثبات قدمی کی دعا کیا کریں، اور اس بات کا دل سے اقرار کریں کہ وہ بعث بعد الموت اور جزا و سزا پر یقین رکھتے ہیں، اور یہ کہ اللہ نے جو وعدہ کیا ہے وہ ہو کر رہے گا، ترمذی نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم اکثر و بیشتر یہ دعا کرتے تھے یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک، کہ اے دلوں کو الٹ پھیر کرنے والے ! میرے دل کو تو اپنے دین پر قائم رکھ، میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! آپ یہ دعا بہت زیادہ مانگا کرتے ہیں۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر انسان کا دل رحمان کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے، چاہتا ہے تو حق پر قائم رکھتا ہے، اور چاہتا ہے تو اسے گمراہ کردیتا ہے۔ آل عمران
9 آل عمران
10 8۔ ذکر قیامت کے بعد اب یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ وہ تمام لوگو جنہوں نے اللہ کا انکار کیا اور رسولوں کی تکزیب کی جہنم میں ضرور داخل ہوں گے۔ اور ان کا مال اور ان کی اولاد انہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکتی، اور دنیا میں بھی ان کا حشر فرون اور ان لوگوں جیسا ہوگا جنہوں نے اللہ کی آیات کی تکذیب کی، کہ اللہ نے ان کے گناہوں کے سبب انہیں ُکڑ لیا، اور عذاب آخرت سے پہلے دنیاوی مصیبتوں اور عقوبتوں میں مبتلا کیا۔ آل عمران
11 آل عمران
12 اس سے مراد یہود مدینہ ہیں اس کے شان نزول کے بارے میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب غزوہ بدر کے بعد مدینہ منورہ واپس آئے تو بنو قینقاع کے بازار میں تمام یہودیوں کو جمع کیا، اور کہا کہ اے جماعتِ یہود ! تم لوگ اسلام لے آؤ قبل اس کے کہ تمہارا وہی انجام ہو جو اہل قریش کا ہوا، تو انہوں نے کہا کہ اے محمد ! تم اس بات سے دھوکے میں نہ آجاؤ کہ مٹھی بھر جنگ سے ناواقف قریشیوں کو قتل کر کے آگئے ہو، اگر ہم سے جنگ ہوئی تو سمجھ جاؤ گے کہ ہم کون لوگ ہیں، ہم جیسوں سے ابھی تمہیں سابقہ نہیں پڑا ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی، اور اللہ کا وعدہ پورا ہوا کہ بنو قریظہ قتل کردئیے گئے، بنو نضیر کو جلا وطن ہونا پڑا، اور خیبر فتح ہوا اور باقی لوگوں پر جزیہ لگا دیا گیا آل عمران
13 10۔ یہاں بھی مخاطب یہود مدینہ ہیں، کہ غزوہ بدر میں جو کچھ ہوا اس سے تمہیں عبرت حاصل کرنی چاہئے تھی، اور سمجھ لینا چاہئے تھا کہ اللہ اپنے دین کو غالب کر کے رہے گا، اور اپنے رسول کی مدد ضرور کرے گا۔ فئۃ تقاتل فی سبیل اللہ، سے مراد اللہ کے رسول اور اور صحابہ کرام ہیں، جن کی تعداد تین سو تیرہ تھی اور فئۃ اخری سے مراد مشرکین قریش ہیں، جن کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ کفار کو مسلمان اپنے سے دوگنا نظر آنے لگے، یہ اللہ کی طرف سے مسلمانوں کی مدد تھی تاکہ کفار پر رعب طاری ہوجائے، اس کے علاوہ اللہ نے مسلمانوں کی مدد فرشتوں کے ذریعہ بھی کی، اور یہ جو سورۃ انفال میں آیا ہے، ویقللکم فی اعینہم اور تمہیں ان کی نظروں میں کم دکھایا، تو یہ ابتدائے امر میں ہوا تاکہ کفار ڈر کے مارے بھاگ نہ جائیں، اور جب دونوں فوجیں ٹکرا گئیں تو اللہ نے مسلمانوں کو کافروں کی نظر میں دوگنا کر دکھایا، تاکہ کافروں پر رعب طاری ہوجائے، اور اللہ نے جس امر کا فیصلہ کردیا تھا وہ ہو کر رہا، یعنی کفار قریش کے کشتوں کے پشتے لگ جائیں۔ آل عمران
14 11۔ اوپر بیان ہوا کہ کافروں کو ان کے تمام دنیاوی قوت و اسباب کام نہ آئے، اور جنگ بدر میں گاجر مولی کی طرح قتل کردئیے گئے اب اسی دنیا اور اس کی لذتوں کی حقارتِ شان بیان کر کے لوگوں کو اللہ کی جنت کے حصول کی ترغیب دلائی جا رہی ہے۔ حب الشہوات میں اس طرف اشارہ ہے کہ آدمی اپنی شہوتوں سے اندھی محبت کرتا ہے، حالانکہ یہ شہوتیں جب حد اعتدال سے بڑھ جاتی ہیں تو اصحاب حکمت و دانائی کے نزدیک قابل حقارت ہوجاتی ہیں۔ اور ان کا غلام بہائم سے قریب ہوجاتا ہے، بخاری کی روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی فتنہ نہیں چھوڑا۔ اور اللہ نے قرآن کریم میں فرمایا، ان من ازواجکم واولادکم عدوا لکم فاحذروہم، یعنی تمہاری بعض بیویاں اور اولاد تمہارے دشمن ہیں، تم ان سے بچ کر رہو، (التغابن، 14) اور فرمایا۔ کلا ان الانسان لیطغی، ان راہ استغنی، یعنی انسان اپنے آپ سے باہر ہوجاتا ہے جب وہ اپنے آپ کو دولت میں گھرا دیکھ لیتا ہے۔ آل عمران
15 قیامت کے دن اہل تقوی کے لیے اچھی منزل کا اجمالی ذکر ہونے کے بعد اب اس کی تفصیل بیان ہو رہی ہے، تاکہ مومنین اس کے حصول کے لیے سبقت کریں۔ جنت میں شہد، دودھ، شراب اور پانی وغیرہ کی نہریں جاری ہوں گی، اور ایسی نعمتیں ہوں گی جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا نہ کسی کان نے سنا ہوگا، اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا کھٹکا ہوا ہوگا۔ پاکیزہ بیوی سے مراد ایسی بیویاں ہیں جو ہر طرح کی نجاست اور گندگی سے پاک ہوں گی، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سے مراد اللہ کی ایسی رضا ہے جس کے بعد اللہ کبھی بھی جنتیوں سے ناراض نہ ہو، جیسا کہ بخاری و مسلم نے ابوسعید خدری (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ سلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے پوچھے گا کہ کیا تم لوگ خوش ہوگئے، تو جنتی کہیں گے کہ ہم کیوں نہ خوش ہوں، تو نے تو ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو کسی کو بھی نہ دیا، تو اللہ کہے گا کہ میں تمہیں اس سے بھی افضل چیز دیتا ہوں، میں تمہیں اپنی رضامندی دیتا ہوں ایسی رضامندی جس کے بعد تم پر کبھی بھی ناراض نہ ہوں گا، اے اللہ،! میں تجھ سے جنت الفردوس کی دعا کرتا ہوں، اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگتا ہوں۔ آل عمران
16 13۔ اس میں ان اہل تقوی کی صفت بیان کی گئی ہے، جو اللہ کی جنت اور اس کی نعمتوں کے حقدار بنے، اور اس میں دلیل ہے کہ دعا کرنے والا اپنی نیکیوں کا ذکر کر کے دعا کرے، اور اس کی تائید صحیحین کی اصحاب غار والی حدیث سے ہوتی ہے، جس میں آیا ہے کہ ان تینوں نے جو غار میں گھر گئے تھے اپنی اپنی نیکیوں کو وسیلہ بنا کر دعا کی تھی، اور اللہ نے پتھر کو غار کے دہانے سے سے ہٹا کر ان کی جان بچا دی تھی۔ آل عمران
17 14: اس میں اہل تقوی کی مزید صفات بیان کی گئی ہیں والمستغفرین بالاسحار میں استغفار سحر گاہی کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ صحیین اور احادیث کی دوسری کتابوں میں کئی صحابہ کرم سے مروی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر رات جب رات کا ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے توا للہ تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے، اور کہتا ہے کہ کوئی مانگنے والا ہے جسے میں دوں، کوئی دعا کرنے والا ہے جس کی دعا قبول کروں، کوئی مغفرت چاہنے والا ہے جسے میں معاف کردوں؟ مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلاتا ہے، اور کہتا ہے کہ کون قرض دے گا ایسے کو جو فقیر نہیں، اور ظالم نہیں، ایک اور روایت میں ہے کہ طلوع فجر تک ایسا ہی رہتا ہے۔ آل عمران
18 15۔ یہ مالک دو جہاں، اس کے فرشتوں اور اہل علم کی زبانی ایک عظیم شہادت ہے، یعنی اللہ عز و جل کی توحید کی شہادت اور اس بات کی شہادت کہ عدل و انصاف اور اعتدال اس کی صفت ہے۔ اس آیت میں اہل علم کی بھی بہت بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اللہ نے توحید کی بہت بڑی دلیل قرار دیا، اور مخلوق کے لیے ان کی شہادت کو قبول کرنا واجب قرار دیا۔ امام شوکانی کہتے ہیں کہ یہاں اہل علم سے مراد قرآن و سنت کا علم رکھنے والے ہیں۔ آل عمران
19 16۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام کے علاوہ اور کوئی دین قابل قبول نہیں، ہر نبی یہی دین لے کر آئے، اور ان کے زمانے کے لوگوں کے لیے اسی کی اتباع لازم ہوئی، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ تشریف لائے، اور تمام سابقہ ادیان منسوخ ہوگئے، اور صرف وہ دین رہ گیا جو اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دے کر مبعوث کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اگر کوئی شخص کسی دوسرے دین کی اتباع کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوجائے گا تو اس کی موت کفر پر ہوگی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس امت کا کوئی بھی آدمی جو میرے بارے میں سنے گا، چاہے وہ یہودی ہو یا نصرانی، اور دین اسلام پر ایمان نہیں لائے گا وہ جہنمی ہوگا (مسلم) آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میں سرخ اور کالے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں (مسلم) اور یہ بھی فرمایا کہ ہر نبی ایک خاص قوم کے لیے مبعوث ہوتا ہے اور میں تمام لوگوں کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ (بخاری)۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ یہود نے قرآن کا انکار لا علمی کی وجہ سے نہیں بلکہ حسد و عداوت کی وجہ سے کیا۔ آل عمران
20 17۔ اسلام کی حقانیت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت ثابت ہوجانے کے باوجود بھی اگر اہل کتاب کفر و عناد کی راہ اختیار کرتے ہیں، تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تو اپنا ظاہر و باطن اللہ کے سامنے جھکا دیا ہے، اور یہی حال میری اتباع کرنے والے مسلمانوں کا بھی ہے، اور اہل کتاب اور غیر اہل کتاب سب کو کہہ دیجئے کہ اگر تم اسلام لے آؤ گے تو صراط مستقیم پر گامزن ہوجاؤ گے، اور اگر روگردانی کروگے تو میرا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے، اور حساب تو تمہیں اللہ کو دینا ہوگا۔ آل عمران
21 18: یہاں بھی مراد اقوام یہود ہیں، جنہوں نے زکریا اور ان کے بیٹے یحیی علیہما السلام کو قتل کیا، اور حزقیل (علیہ السلام) کو بھی قتل کیا، اور ان کا خود گمان ہے کہ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا تھا اور چونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے یہود اپنے باپ دادوں کے کرتوتوں سے راضی تھے، اس لیے ان قبیح اعمال کی نسبت ان کی طرف کرنا صحیح ہوا، امام حاکم نے لکھا ہے، اس آیت میں دلیل ہے کہ داعی الی اللہ اپنی جان کا خطرہ ہونے کے باوجود لوگوں کو بھلائی کی دعوت دیتا رہے گا۔ آل عمران
22 19۔ دنیا میں ان کے اعمال اس طرح ضائع ہوئے کہ اللہ نے ان کی مذمت کی، ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا، قتل کیے گئے، ان کی عورتیں اور بچے قیدی اور غلام بنا لیے گئے، اور ان کے اموال بطور غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کردئیے گئے، اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ ان کے ثواب کو عذاب الیم سے بدل دے گا۔ آل عمران
23 کتاب سے مراد تورات اور جنہیں اس کا ایک حصہ دیا گیا، سے مراد علمائے یہود ہیں، اور کتاب اللہ سے مراد قرآن کریم ہے، بعض مفسرین نے کتاب اللہ سے بھی مراد تورات لیا ہے، اور کہا ہے کہ آیت میں اشارہ ایک خاص واقعہ کی طرف ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہود مدینہ اپنے دو زانی مرد اور عورت کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے گئے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کا حکم دے دیا، لیکن انہوں نے انکار کردیا اور کہا کہ ہماری کتاب (یعنی تورات) میں تو صرف منہ کالا کرنا ہے، پھر تورات منگائی گئی تو اس میں رجم کا ذکر ملا، چنانچہ ان دونوں کو رجم کردیا گیا، اس پر یہود ناراض ہوئے، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ فائدہ : جب کسی شخص کو اللہ کی کتاب اور اس میں موجود شریعت کی طرف بلایا جائے تو قبول کرنا واجب ہے۔ شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کے لیے اس کا مسلمان ہونا شرط نہیں ہے۔ آل عمران
24 21۔ یہودیوں نے قرآن کریم اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دو اسباب کی وجہ سے اعراض کیا اول تو ان کا یہ گمان کاذب کہ جہنم کی آگ انہیں چند ہی دن اپنی لپیٹ میں لے گی، جس کی انہوں نے من مانی تحدید کرلی تھی، اور دوم یہ کہ اللہ کی آیات کی تکذیب کی وجہ سے شیطان نے ان کے برے اعمال کو ان کی نظروں میں اچھا بنا کر پیش کیا اور وہ دھوکے میں آگئے اور سمجھ بیٹے کہ وہ حق پر ہیں، حق سے اعراض کی وجہ سے اللہ کی طرف سے یہ ایک سزا تھی، ایسے لوگوں کا قیامت کے دن کیا حال ہوگا؟ اور کیسے عذاب کی سزا انہیں بھگتنی پڑے گی؟ اس کا تصور انسان اس دنیا میں نہیں کرسکتا۔ آل عمران
25 آل عمران
26 22۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طریقہ دعا سکھلایا ہے، اور تسبیح و تحمید کی تعلیم دی ہے۔ اللہ تعالیٰ مالک کل، مالک مطلق اور مالک حقیقی ہے، اپنے ملک میں جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے، ایجاد کرتا ہے، ختم کرتا ہے، مارتا ہے، زندہ کرتا ہے، عذاب یا ثواب دیتا ہے، کوئی اس کا شریک نہیں اور نہ کوئی اسے روک سکتا ہے، وہ جسے چاہتا ہے، بادشاہ بنا دیتا ہے، اس لیے کہ حقیقی بادشاہت اسی کے ساتھ خاص ہے، اور دوسروں کی بادشاہت مجازی اور عارضی ہے۔ اسی کے ہاتھ میں عزت و ذلت ہے، اور اسی کے ہاتھ میں تمام بھلائیاں ہیں۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آیت میں ملک سے مراد نبوت ہے۔ حافظ ابن کثیر (رح) کہتے ہیں، آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت مسلمہ پر احسان کر کے نبوت بنی اسرائیل سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منتقل کردی، اور ان کے دین کو تمام ادیان پر غالب کردیا، اور پوری دنیا میں پھیلا دیا، اس لیے مسلمانوں کو اس نعمت عظمی کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے۔ آل عمران
27 23۔ رات اور دن کو ایک دوسرے میں داخل کرتا ہے، یعنی ایک کو دوسرے کے پیچے لا کر یا نقص و زیادتی کے ذریعہ اور حیوان کو نطفہ سے اور نطفہ کو حیوان سے پیدا کرتا ہے، بعض نے کہا ہے کہ مومن کو کافر سے، اور کافر کو مومن سے نکالتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بلا حد و حساب روزی دیتا ہے۔ آل عمران
28 24۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس بات سے منع کیا ہے کہ وہ مومنوں کے بجائے کافروں کو اپنا دوست بنائیں، اس لیے کہ مومنوں کا ولی اللہ ہے، اور مومنین آپس میں ایک دوسرے کے ولی اور دوست ہیں، قرآن کریم میں اس مضمون کی کئی آیتیں آئی ہیں، اللہ کے لیے محبت اور اللہ کے لیے بغض و عداوت ایمان کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے، اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ جو کوئی کافروں کو اپنا دوست بنائے گا، اللہ اس سے بری ہے اور اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، ہاں اگر کافروں سے کوئی خطرہ ہو، تو مسلمان کے لیے یہ جائز ہے کہ وقتی طور پر زبان سے دوستی کا اظہار کرے، امام بخاری نے ابوالدرداء کا قول نقل کیا ہے کہ ہم لوگ بعض قوموں کے سامنے مصنوعی مسکراہٹ کا اظہار کرتے تھے، حالانکہ ہمارے دل ان پر لعنت بھیجتے تھے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اللہ تمہیں اپنی ذات مقدس سے ڈرا رہا ہے، دیکھو، اس کے احکام کی مخالفت اور اس کے دشمنوں سے دوستی کر کے اسے ناراض نہ کرو، اس میں انتہا درجے کی دھمکی ہے۔ آل عمران
29 25: اللہ کی طرف سے بندوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ وہ اللہ سے دڑتے رہیں، اور ایسے اعمال کا ارتکاب نہ کریں جن سے اس نے منع کیا ہے اور جو اس کی نا راضگی کا سبب بنیں اور بندہ اس یقین کے ساتھ دنیا میں رہے کہ اللہ سے کوئی بات بھی مخفی نہیں، وہ دلوں کے بھید جانتا ہے، چاہے بندہ اسے ظاہر کرے یا چھپائے، وہ آسمان و زمین کی تمام چیزوں کو جانتا ہے، زمینوں، پہاڑوں اور سمندروں کا ایک ذرہ یا اس سے بھی کوئی چھوٹی چیز اللہ سے مخفی نہیں، اور جب کوئی چیز مخفی نہیں تو اگر کوئی شخص پوشیدہ طور پر کافروں سے دوستی رکھے، یا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرے، یا کفر کا ارتکاب کرے، تو اللہ تعالیٰ سے یہ باتیں کیسے مخفی رہ سکتی ہیں؟ آل عمران
30 26: اگر اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی کو ڈھیل دیتا ہے تو اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے اعمال مخفی ہیں، بلکہ اس کے اعمال قیامت کے دن کے لیے اٹھا کر رکھ دئیے جاتے ہیں، جس دن ہر آدمی اپنی نیکیوں کو اپنے سامنے پائے گا، اور جب اپنے گناہوں کو اپنے سامنے دیکھے گا، تو تمنا کرے گا کہ کاش اس کے درمیان اور ان گناہوں کے درمیان ایسی دوری ہوتی جس کے بعد کوئی دوری نہیں ہوستی۔ آل عمران
31 27۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ان تمام لوگوں کے خلاف دلیل ہے جو اللہ کی محبت کا دعوی کرتے ہیں اور طریقہ محمدی پر گامزن نہیں ہوتے۔ جب تک آدمی اپنے تمام اقوال و افعال میں شرع محمدی کی اتباع نہیں کرتا، وہ اللہ سے دعوائے محبت میں کاذب ہوتا ہے، بخاری ومسلم نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس کا ہم نے حکم نہیں دیا تو وہ عمل مردود ہوگا۔ آل عمران
32 28: یہ آیت دلیل ہے کہ طریقہ محمدی کی مخالفت کفر ہے۔ اس لیے کہ اللہ نے فرمایا اگر انہوں نے اعراض سے کام لیا تو اللہ تعالیٰ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔ معلوم ہوا کہ طریقہ محمدی سے اعراض کرنے والا کافر ہوتا ہے۔ آل عمران
33 29۔ اللہ تعالیٰ نے آدم اور نوح علیہما السلام کو نبوت کے لیے چن لیا، اور آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام عالم کے مقابلے میں چن لیا، آل ابراہیم میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدرجہ اولی داخل ہیں اس لیے کہ وہ اولاد ابراہیم سے تھے۔ علماء نے لکھا ہے کہ یہاں درحقیقت یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام کی صراحت برگزیدگی میں کمال شہرت اور امام الانبیاء ہونے کی وجہ سے ضروری نہ رہی۔ آل عمران سے مراد، مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰ علیہما السلام ہیں۔ حافظ سیوطی نے اپنی کتاب (الاکلیل) میں لکھا ہے کہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ انبیاء ملائکہ سے افضل ہیں اس لیے کہ العالمین میں فرشتے بھی داخل ہیں۔ اور اللہ نے انبیاء کو العالمین پر فضیلت دی ہے۔ اس کے بعد اللہ نے بتایا کہ یہ خیر و برکت ان کی ذریت میں تسلسل کے ساتھ جاری رہی، مردوں میں بھی اور عورتوں میں بھی۔ آل عمران
34 آل عمران
35 30: محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ عمران کی بیوی یعنی مریم علیہا السلام کی ماں کو حمل قرار نہیں پاتا تھا، انہوں نے دعا کہ اے اللہ مجھے بیٹا عطا کر، اللہ نے ان کی دعا قبول کرلی، جب حمل قرار پا گیا، تو انہوں نے نذر مانی کہ بچے کو عبادت اور بیت المقدس کی خدمت کے لیے بالکل فارغ کردوں گی، جب ولادت ہوگئی تو انہوں نے کہا، اے میرے رب ! یہ تو بچی ہوگئی اور میں نے تو سوچا تھا کہ بچہ ہوگا تو بیت المقدس کی خدمت کرے گا، اور اللہ کو تو معلوم ہی تھا کہ انہوں نے کیا جنا۔ اللہ نے کہا کہ وہ بچہ جس کی انہوں نے خواہش کی تھی قوت، صبر و تحمل اور مسجد اقصی کی خدمت میں اس بچی کی مانند نہ ہوتا جو پیدا ہوئی ہے۔ ام مریم نے اس بچی کا نام مریم رکھ دیگا، مفسرین نے لکھا ہے کہ مریم کا معنی ان کی زبان میں عابدہ اور رب کی خامدہ کے ہے۔ اس کے بعد ام مریم نے دعا کی کہ اے اللہ ! میں اس بچی کو اور اس کی اولاد یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کو تیری پناہ میں دیتی ہوں چنانچہ اللہ نے ان کی دعا قبول فرما لی۔ بخاری و مسلم نے ابوہر یرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے مس کرتا ہے یعنی اس پر اپنا اثر ڈالتا ہے تو بچہ چیخنے لگتا ہے، لیکن مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) شیطان کے مس سے محفوظ رہے، اس کے بعد ابوہریرہ (رض) نے کہا کہ اگر چاہو تو یہ آیت پڑھو وانی سمیتہا مریم وانی اعیذھا بک و ذریتہا من الشیطان الرجیم۔ فائدہ : یہ آیت دلیل ہے کہ ماں اپنے بچے کی نذر مان سکتی ہے، اور یہ کہ ماں اپنے چھوٹے بچے سے اپنی ذات کے لیے استفادہ کرسکتی ہے۔ اسی لیے ام مریم نے کہا کہ اے میرے رب ! میں اپنے حمل کو تیرے لیے وقف کرتی ہوں آیت سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ آدمی چاہئے کہ جب اللہ سے اولاد مانگے تو ام مریم کی طرح اچھی اولاد کی نیت کرے، اور اس کے لیے عمل صالح کی خواہش کرے۔ حافظ سیوطی نے (الاکلیل) میں لکھا ہے۔ یہ آیت دلیل ہے کہ بچے کا نام ولادت کے دن ہی رکھنا جائز ہے۔ ساتویں دین کی ہی تعیین صحیح نہیں۔ آیت سے یہ بھی مستفاد ہے کہ ماں اپنے بچے کا نام رکھ سکتی ہے، یہ کام باپ ہی کے ساتھ خاص نہیں آل عمران
36 آل عمران
37 31۔ ام مریم نے بیٹے کی نیت کی تھی تاکہ بیت المقدس کی خوب خدمت کرے۔ جب بچی ہوئی تو انہیں ایک طرح کی مایوسی ہوئی چنانچہ اللہ نے ان کا دل رکھا اور ان کی نذر قبول کرلی، اور پھر وہ لڑکی ایسی ہوئی کہ صلاح و تقوی اور دینی مقاصد کے حصول میں ہزاروں لڑکوں پر سبقت کرگئی، اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ اللہ نے ان کی نذر قبول کرلی، اور اس لڑکی کو ایسا شرف قبولیت حاصل ہوا کہ بہت سے اولیاء اللہ سے آگے بڑھ گئی، اور پھر اللہ نے ان کفالت زکریا کے ذمہ لگا دی، جو ان کے خالو تھے۔ دوسری آیت میں اسی کی طرف اشارہ ہے، اذ یلقون اقلامہم ایہم یکفل مریم۔ جب وہ لوگ اپنے قلم (نہر میں) بطور قرعہ اندازی ڈال رہے تھے کہ مریم کی کفالت کون کرے۔ مریم علیہا السلام نے زکریا (علیہ السلام) سے علم نافع اور عمل صالح حاصل کیا، اور دینی ماحول اور فضا میں ان کی تربیت ہوتی رہی۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ جب بھی زکریا (علیہ السلام) ان کے پاس جاتے تو موسم سرما کا پھل موسم گرما میں اور گرما کا سرما میں پاتے تھے۔ آیت میں اشارہ ہے کہ مریم علیہا السلام دن رات عبادت میں لگی رہتی تھیں، اور محراب سے صرف بشری تقاضوں کے لیے ہی نکلتی تھیں۔ فائدہ : آیت میں دلیل ہے کہ اللہ کے دوستوں کے ذریعہ کرامات صادر ہوتے ہیں۔ اس کی تصدیق خبیب بن عدی انصاری (رض) کے واقعہ سے بھی ہوتی ہے، جنہیں مکہ مکرمہ میں کافروں نے شہید کردیا تھا، اور جن کے پاس قید کے زمانے میں انگور کے گچھے ملا کرتے تھے (دیکیے صحیح الباری کتاب الجہاد) لیکن اللہ کا دوست وہی ہوگا، جو پابند شریعت، قرآن وسنت کا متبع، اور بدعات و خرافات سے ہزاروں کوس دور ہوگا، اور جس کے بارے میں قرآن وسنت کے متبع علماء اور فضلاء اس بات کی گواہی دیں کہ وہ عقیدہ صحیحہ اور دین خالص کے ساتھ تمام شرائع اسلامیہ کا پابند ہے، مشرک، بدعتی، قرآن وسنت سے دور اور عمل صالح میں کوتاہ کبھی بھی اللہ کا ولی نہیں ہوسکتا، اور ایسے لوگوں سے جن خرق عادت امور کا ظہور ہوتا ہے وہ جادو اور شیطانی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ آل عمران
38 32۔ جب زکریا (علیہ السلام) نے مریم علیہا السلام کے ساتھ اللہ کا یہ لطف و کرم دیکھا، تو اپنی کبر سنی اور بیوی کے سن یاس کو پہنچ جانے کے باوجود نیک لڑکے کے لیے دعا کی، جو نیکی اور طہارت و نجابت میں مریم کی مانند ہو، چنانچہ اللہ نے ان کی دعا قبول کرلی، اور فرشتوں کے ذریعہ ولد صالح کی بشارت بھیج دی آل عمران
39 33۔ زکریا (علیہ السلام) اپنے محرابِ عبادت میں نماز پڑھنے میں مشغول تھے کہ فرشتوں نے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایک لڑکے کی خوشخبری دیتا ہے، جس کا نام یحیی ہوگا، جو عیسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کرے گا، علم و عبادت میں لوگوں کا سردار ہوگا، گناہوں سے محفوط رہے گا، اور نبی صالح ہوگا۔ فائدہ : اس آیت میں حضرت یحیی (علیہ السلام) کی ولادت اور ان کے نبی ہونے کی بشارت کے ساتھ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بھی بشارت پائی جاتی ہے۔ یحیی (علیہ السلام) عیسیٰ (علیہ السلام) سے بڑے تھے اور دونوں خالہ زاد بھائی تھے۔ آل عمران
40 34۔ جب زکریا (علیہ السلام) کو یقین ہوگیا کہ اللہ انہیں بیٹا عطا کرے گا، تو ظاہری حالات کے پیش نظر تعجب کرنے لگے اور کہنے لگے کہ اے میرے رب ! مجھے لڑکا کیسے ہوگا، میں تو بوڑھا ہوچکا ہوں، اور میری بیوی بانجھ ہے؟! تو اللہ نے فرمایا کہ تم اور تمہاری بیوی جس حال میں ہو اسی حال میں لڑکا پیدا ہوگا، اس لیے کہ اللہ کسی ظاہری سبب کا محتاج نہیں، اسے کوئی چیز عاجز نہیں کرسکتی، اور ان کے نزدیک کوئی بات بھی بڑی نہیں ہے۔ آل عمران
41 35: زکریا (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے رب کوئی نشانی بتا دے تاکہ جان سکوں کہ واقعی حمل قرار پا گیا ہے، اور اللہ نے انہیں ابتدا ہی میں نشانی اس لیے بتا دی کہ نعمت کا شکر ادا کرنا شروع کردیں، نشانی یہ تھی کہ وہ تین دن تک زبان سے بات نہ کرسکٰں گے، اور یہ نشانی اس لیے دی تاکہ اس مدت میں اللہ کے ذکر و شکر میں خوب مشغول رہیں۔ فائدہ : اس آیت میں ذکر الٰہی کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ ابن ابی حاتم نے محمد بن کعب کا قول نقل کیا ہے کہ اگر تک ذکر الٰہی کی کسی کو اجازت ہوتی تو زکریا کو ہوتی، اس لیے کہ وہ بات کرنے سے عاجز تھے۔ لیکن اللہ نے اس حال میں بھی انہیں اپنے ذکر کا حکم دیا۔ آل عمران
42 36۔ دوبارہ آل عمران کے فضائل کا بیان ہورہا ہے۔ فرشتوں نے مریم علیہا السلام سے کہا کہ اللہ نے ان کی کثرت عبادت اور زہد فی الدنیا کی وجہ سے اپنی محبت و قربت کا چادر ان پر ڈال دی ہے، اور انہیں برتری اور فوقیت دے دی ہے۔ صحیحین میں علی بن ابی طالب (رض) سے مروی ہے وہ کہتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے سنا کہ دنیا کی سب سے بہتر عورت مریم بنت عمران اور خدیجہ بنت خویلد تھیں۔ اور حاکم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے، اور اس پر حدیث صحیح کا حکم لگایا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ دنیا کی سب سے افضل عورت خدیجہ، فاطمہ، مریم اور فرعون کی بیوی آسیہ تھیں۔ علامہ البانی نے بھی اس حدیث کی تصحیح کی ہے اور صحیحین میں ابوموسی اشعری (رض) سے مروی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مردوں میں بہت سے لوگ کامل ہوئے، اور عورتوں میں صرف مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ کامل بنیں اور عائشہ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہی ہے جیسی ثرید کی فضیلت تمام کھانوں پر۔ آل عمران
43 37: اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ فرشتوں نے مریم کو کثرت عبادت، خشوع و خضوع، رکوع و سجود اور مسلسل عمل صالح کا حکم دیا، تاکہ اس امر الٰہی کے لیے ذہنی اور روحانی طور پر تیار ہوجائیں جس کا فیصلہ اللہ کرچکا تھا، اور جس میں ان کی بڑی آزمائش تھی، اور دنیا و آخرت میں ان کی رفعت شان بھی، یعنی ان کے بطن سے بغیر باپ کے عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا ہونا تھا۔ آل عمران
44 38: اس قصہ میں بہت بڑی دلیل ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے نبی اور رسول تھے، اس لیے کہ جو واقعہ ہزاروں سال قبل گذر چکا تھا، اس کی خبر آپ نے لوگوں کو تفصیل کے ساتھ دی، نہ اس میں زیادتی کی اور نہ کمی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ باتیں بذریعہ وحی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتائیں اور آپ نے من و عن لوگوں کو سنا دیا۔ حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت کے بارے میں آتا ہے کہ ان کی ماں انہیں مسجد لے گئیں اور علماء سے کہا کہ میں نے اس کی نذر مانی تھی وہ میں پوری کر رہی ہوں، اور آپ لوگوں کے حوالے کر رہی ہوں، اب آپ لوگ اس کی دیکھ بھال کریں، تو ہر آدمی ان کی کفالت کے لیے آگے بڑھنے لگا، کیونکہ وہ ان کے امام عمران کی بیٹی تھیں۔ زکریا (علیہ السلام) نے کہا کہ میں زیادہ حقدار ہوں، اس لیے کہ اس کی خالہ میری بیوی ہے۔ بالآخر سب نے قرعہ اندازی پر اتفاق کیا، اور نہر اردن میں سب نے اپنے اپنے قلم ڈالے، اس شرط کے ساتھ کہ جس کا قلم پانی کی تہہ میں جا کر پھر اوپر اٹھ آئے گا وہی مریم کی کفالت کرے گا، زکریا (علیہ السلام) کا قلم اوپر اٹھ آیا اور سب کے قلم نیچے ہی رہ گئے۔ چنانچہ زکریا انہیں اپنے گھر لے آئے اور ان کی خالہ کی گود میں ان کی پرورش ہونے گلی، یہاں تک کہ بڑی ہوگئیں اور محراب میں یکسوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت میں لگ گئیں۔ (فوائد)۔ 1۔ اس آیت سے اس بات کی نفی ہوتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غیب کا علم رکھتے تھے۔ انہیں غیب کی وہی باتیں معلوم ہوتی تھیں جن کی خبر اللہ بذریعہ وحی انہیں دیتا تھا، جیسا کہ اس واقعے میں اس کی صراحت آئی ہے۔ 2۔ اس سے منکرین وحی کی تردید بھی ہوتی ہے، اس لیے کہ جو باتیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مریم علیہا السلام کے بارے میں لوگوں کو بتائیں وہ یا تو مشاہدہ کا نتیجہ ہوسکتی تھیں، جو محال تھا، اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دونوں موجود نہ تھے۔ یا پھر اللہ نے انہیں بذریعہ وحی بتائی تھی، اور یہی بات صحیح تھی کہ اللہ نے آپ پر قرآن کریم نازل فرمایا جس میں اس واقعے کی تفصیلات موجود ہیں۔ آل عمران
45 39۔ یہاں سے عیسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ شروع ہورہا ہے، اور مریم علیہا السلام کو بشارت دی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایک عظیم المرتبت لڑکا عطا فرمائے گا۔ فرشتوں نے کہا کہ اے مریم اللہ تمہیں ایک لڑکے کی بشارت دیتا ہے، جو اس کے ایک کلمہ کے ذریعہ بغیر باپ کے وجود میں آئے گا، جس کا لقب مسیح اور نام عیسیٰ ہوگا۔ بقاعی نے مسیح لقب سے متعلق لکھا ہے۔ اس وقت کی شریعت میں تھا کہ امام وقت جس کے بدن میں مقدس تیل لگا دیتا تھا وہ طاہر ہوجاتا تھا اور صاحب برکت بن کر حکومت، علم اور دیگر بڑی ذمہ داریاں اٹھانے کا اہل بن جاتا تھا۔ اللہ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو مسیح کا لقب دے کر اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ وہ اللہ کی جانب سے ان تمام خوبیوں کے پیدائشی مالک ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ جب وہ کسی مریض پر ہاتھ پھیر دیتے تو وہ شفا یاب ہوجاتا تھا۔ اسی لیے انہیں مسیح کہا گیا، ابن مریم میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوں گے، اس لیے ان کی نسبت ان کی ماں کی طرف ہوگی، اور تمام دنیا کی عورتوں پر مریم کی فضیلت کا یہی سبب تھا۔ آل عمران
46 40۔ وہ لڑکا جب گود میں ہوگا تو بطور معجزہ بات کرے گا، اور نبی ہو کر ادھیڑ عمر میں اللہ تعالیٰ سے جو کچھ بذریعہ تعلیمات ملیں گی انہیں لوگوں تک پہنچائے گا، چونکہ انبیاء کا کلام دونوں حالتوں میں ایک ہی جیسا ہوتا ہے، اس لیے اس میں مریم علیہا السلام کو یہ بشارت بھی دے دی گئی کہ ان کا لڑکا چالیس پچاس سال کی عمر تک زندہ رہے گا۔ آل عمران
47 41: جب مریم علیہا السلام کو بذریعہ ملائکہ یہ بشارت مل گئی، تو اپنی مناجات میں کہا کہ اے میرے رب ! مجھے لڑکا کیسے ہوسکتا ہے؟ میرا نہ تو کوئی شوہر ہے اور نہ میرا ارادہ شادری کرنے کا ہے، اور نہ ہی میں بدکار عورت ہوں؟ تور فرشتوں نے اللہ کی طرف سے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اللہ کا ایسا ہی فیصلہ ہے کہ بغیر کسی مرد کے ملاپ سے وہ تمہیں بیٹا عطا کرے گا، اللہ تعالیٰ کسی سبب کا محتاج نہیں اور کوئی شے اسے عاجز نہیں کرسکتی۔ آل عمران
48 42۔ یہ بشارت کی تکمیل ہے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمانی کتابوں کا اور خاص طور پر تورات و انجیل کا علم دے گا، اور دین کی سمجھ عطا کرے گا، اور انہیں بنی اسرائیل کے لیے نبی بنائے گا، اس وقت وہ ان سے کہیں گے کہ میں تمہارے رب کی طرف سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں۔ اس کے بعد اس نشانی کی تفصیل بیان کی۔ کلمہ باذن اللہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر اللہ کا حکم نہ ہوتا تو عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ پر ان معجزات کا ظہور نہ ہوتا۔ اس سے عیسیٰ علیہ السلا کے بارے میں اعتقادِ الوہیت کی بھی نفی ہوجاتی ہے، اور یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ وہ اللہ کے بندے تھے، اللہ نے اپنی قدرت مطلقہ سے ان کے ہاتھ پر ان معجزات کا اجرا کیا، تاکہ لوگ ان کے ثبوت پر ایمان لے آئیں۔ فائدہ : چونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا زمانہ، طبیبوں اور علم طبیعیات کے ماہرین کا زمانہ تھا، اس لیے اللہ نے انہیں ایسے معجزات دئیے جن کا تعلق طب اور علم طبیعیات سے تھا، لیکن اس دور کا انسان اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود ان کی مثال و نظیر لانے سے عاجز رہا، اور ثابت ہوگیا کہ ان کے ہاتھوں جو معجزانہ امور ظاہر ہوئے وہ اللہ کی طرف سے ان کی رسالت و نبوت کے اثبات کے لیے معجزات تھے، کسی انسانی علوم کا نتیجہ نہ تھے۔ آل عمران
49 آل عمران
50 43۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں، یہ آیت دلیل ہے کہ اللہ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ تورات کے بعض احکام کو منسوخ کردیا تھا۔ بعض دوسرے حضرات نے کہا ہے کہ ان کے ذریعہ تورات کا کوئی حکم منسوخ نہیں ہوا، بلکہ انہوں نے بعض ایسی چیزوں کی حلت بیان کی جن کے بارے میں علمائے یہود آپس میں اختلاف کرتے تھے، اور اپنی طرف سے انہیں حرام بنا رکھا تھا۔ آل عمران
51 44۔ تمام انبیاء کرام کی دعوت بنیاد توحید باری تعالیٰ رہی ہے، عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی بنی اسرائیل کے سامنے یہی دعوت پیش کی، اور کہا کہ میرا اور تمہارا رب اللہ ہے، اس لیے صرف اسی کی عبادت کرو۔ کچھ لوگوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کیا اور ان کے پیرو کار بن گئے، اور کچھ نے ان کا انکار کردیا اور ان کی تکذیب کی، اور یہودیوں نے ان کی ماں مریم علیہا السلام کو زنا کے ساتھ متہم کیا۔ جب عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے کفر کا یقین ہوگیا، اور یہ بات واضح ہوگئی کہ لوگوں نے ان کی دعوت کو ٹھکرا دیا ہے، تو انہوں نے بنی اسرائیل کو اپنی مدد کے لیے پکارا اور کہا کہ تم میں سے کون اللہ اور اس کے دین کی خاطر میری مدد کرنے کے لیے تیار ہے؟ تو حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے دین اور اس کے رسول کے مددگار ہیں۔ پھر کہا کہ ہم اللہ پر ایمان لے آئے، اور اے نبی ! آپ گواہ رہئے کہ ہم لوگ مسلمان ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ہر نبی کا ایک حواری (مخلص اور خاص مددگار) ہوتا ہے، اور زبیر میرے حواری ہیں (متفق علیہ) عیسیٰ (علیہ السلام) کا تمام تر توکل تو اللہ پر تھا، لیکن ظاہری اسباب کے طور پر انہوں نے اپنے پیروکاروں سے مدد مانگی، جن کی تعداد بارہ بتائی جاتی ہے، جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار قریش کے ظلم وجور سے تنگ آ کر ابو طالب وغیرہ سے مددطلب کی، اور مدینہ منورہ آنے کے بعد صحابہ کرام سے ہر مشکل وقت میں مدد طلب کی، اور انہوں نے اپنی جان و مال سے آپ کی مدد کی۔ آل عمران
52 آل عمران
53 45۔ حواری حضرات عیسیٰ (علیہ السلام) سے مخاطب ہونے کے بعد اللہ کی طرف متوجہ ہوئے، اور کہا کہ اے ہمارے رب ! تو گواہ رہ کہ ہم تیری نازل کردہ شریعت پر ایمان لے آئے، اور تیرے رسول کے پیرو کار بن گئے، اس لیے تو ہمیں ان لوگوں میں لکھ دے جو تیری وحدانیت کی گواہی دیتے ہیں۔ آل عمران
54 46۔ کفار بنی اسرائیل نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کروانے کی سازش کی، اور اس وقت کے کافر بادشاہ سے شکایت کی کہ ایک آدمی ہے جو لوگوں کو گمراہ کرتا ہے، اور انہیں بادشاہ کی اطاعت سے روکتا ہے، عوام میں اختلاف پیدا کرتا ہے، باپ کو بیٹے سے جدا کردیتا ہے، اور وہ (العیاذ باللہ) اپنی ماں کا ناجزئ لڑکا ہے، بادشاہ یہ سب سن کر سیخ پا ہوگیا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو پکڑ کر سولی پر چڑھا دینے کا حکم دے د یا، جب لوگوں نے ان کے گھر کا گھراوا کرلیا اور اس گمان میں مبتلا ہوگئے کہ انہوں نے ان کو پالیا، تو اللہ نے انہیں اس گھر کے ایک روشن دان کے راستے آسمان پر اٹھا لیا، اور سازشوں کے سرغنہ کو ان کا شبیہ بنا دیا، جسے لوگوں نے پکڑ لیا، اس کی خوب اہانت کی اور پھر سولی پر چڑھا دیا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں قیامت تک کے لیے کفر و ضلالت کی ظلمتوں میں بھٹکتا چھوڑ دیا، ان کے دل سخت ہوگئے، اور اللہ کی طرف سے قیامت تک کے لیے ان پر ذلت و مسکنت کی چادر پڑگئی، انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف سازش کی، لیکن اللہ کی تدبیر کے سامنے ان کی ایک نہ چلی، اللہ سے بڑ کر کون تدبیر کرنے والا ہوسکتا ہے؟ آل عمران
55 47۔ جب بنی اسرائیل کے کافروں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کی سازش مکمل کرلی، اور اس کی تمام کڑیاں ایک دوسرے سے ملا لیں، تو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اے عیسی، میں تمہیں پورے طور پر لے لینے والا ہوں اور اپنے پاس اٹھا کر لانے والو ہوں، اور آسمان پر بلا کر کافروں کی خباثت آلود فضا سے تمہیں دور کرنے والا ہوں، اور تمہاری اتباع کرنے والوں کو کافروں پر قیامت کے دن تک فوقیت دینے والا ہوں۔ کلمہ متوفیک کی تفسیر میں علماء کے کئی اقوال ہیں۔ قتادہ وغیرہ کا قول ہے کہ آیت میں تقدیم و تاخیر ہے۔ اس اعتبار سے معنی یہ ہوگا کہ میں تمہیں ابھی زندہوں اٹھالوں گا، پھر قبل از قیامت دنیا میں بلا کر طبیعی موت دوں گا۔ ایک دوسرا قول یہ ہے کہ میں تمہیں دنیا سے بغیر موت پورے طور پر لے لینے والا ہوں، ابن جریج کہتے ہیں کہ توفی اور رفع دونون یہاں پر مترادف ہیں، یعنی میں تمہیں پورے طور پر اٹھا لینے والا ہوں اکثر و بیشتر مفسرین نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ اس لیے کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب آسمان سے دنیا میں دوبارہ آئیں گے، دجال اور خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑیں گے، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کریں گے اور یہ جو فرمایا ہے کہ میں تمہارے پیروکاروں کو کافروں پر قیامت تک کے لیے فوقیت دینے والا ہوں تو اس سے مراد مومنین بنی اسرائیل کی وہ جمات ہے جو ان پر ایمان لائی تھی، اور کافروں کے مقابلے میں ان کی مدد کا اعلان کیا تھا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے دنیا میں آجانے کے بعد یہی لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کے صحیح پیرو کار ہوئے، اس لیے اللہ نے کفار کے مقابلے میں ان کی مدد کی، اور ان کے دین کو تمام ادیان پر غالب کیا، اور بفضل باری تعالیٰ قیامت تک اسلام اور مسلمان اسی حال میں رہیں گے۔ ایک دوسری قول یہ ہے کہ نصاری جو عیسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والے ہیں یہودیوں پر ہمیشہ غالب رہیں گے۔ اس قول کے مطابق آیت میں کافروں سے مراد یہود ہیں ایک اور قول ہے کہ اہل روم اپنے مخالف کافروں پر ہمیشہ غالب رہیں گے۔ ایک چوتھا قول ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواری لوگ کافروں پر غالب رہیں گے۔ اگر ان اقوال کو صحیح بھی مان لیا جائے تو اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ مسلمان عیسائیوں پر غالب نہیں آئیں گے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات سے یہ بات ثابت ہے کہ امت مسلمہ کو اللہ تعالیٰ دیگر تمام اہل ادیان پر غلبہ دے گا، بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب آسمان سے اتریں گے، صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ قبول نہیں کریں گے، ان کے نزدیک یا تو اسلام ہوگا یا نہیں تو قتل، وہ شریعت اسلامیہ کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں گے، اور مسلمان ہی ان کے مددگار اور پیروکار ہوں گے، اور بہت ممکن ہے کہ اس آیت کریمہ میں اسی کی طرف اشارہ ہو۔ آیت کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان کے اوپر ہے۔ قرآن کریم کی دیگر کئی آیتوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے اور یہی مذہب سلف ہے۔ حافظ ذہبی نے اپنی کتاب العلو للعلی الغفار اور ابن رشد نے اپنی کتاب مناھج الادلۃ میں اسی مذہب سلف کو ترجیح دیا ہے، اور متاخرین اشاعرہ اور معتزلہ وغیرہ کی تردید کی ہے۔ آل عمران
56 48۔ گذشتہ آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا تھا کہ تمام انسانوں کو اللہ کے پاس لوٹ کر جانا ہے، اور اللہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا ان آیتوں میں اسی فیصلے کی تفصیل بیان کی گئی ہے آل عمران
57 آل عمران
58 آل عمران
59 49۔ نصاری کا یہ عقیدہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے تھے، اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ نے انہیں بغیر باپ کے پیدا کیا تھا، اللہ نے ان کے دعوے کی تردید کی کہ اگر تمہاری یہ بات صحیح ہوتی تو پھر آدم کو بدرجہ اولی اللہ کا بیٹا ہونا چاہئے تاھ، اس لیے کہ اللہ نے انہیں بغیر ماں اور باپ کے پیدا کیا، بلکہ مٹی سے پیدا کیا۔ اللہ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے، آدم (علیہ السلام) کو بغیر ماں اور باپ کے، اور حوا کو صرف مرد سے پیدا کر کے اپنی قدرت مطلقہ کا اظہار کیا ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں صحیح عقیدہ یہی ہے۔ نہ مریم نے معبود کو جنا، جیسا کہ نصاری کہتے ہیں، اور نہ انہوں نے یوسف النجار کے ساتھ بدکاری کی، جیسا کہ یہود ان پر بہتان باندھتے ہیں آل عمران
60 آل عمران
61 50۔ اسے آیت مباہلہ کہتے ہیں۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد نجران کے نصاری کا ایک وفد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں آپ سے مناظرہ کیا۔ وہ عیسیٰ کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دلائل کے ذریعہ ثابت کیا کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے۔ جب باطل پر ان کا اصرار حد سے آگے بڑھ گیا، تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے ساتھ مباہلہ کا حکم دیا۔ امام بخاری نے حذیفہ (رض) سے روایت کی ہے کہ نجران کے نصرانیوں کے دو سردار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مباہلہ کے لیے آئے۔ حالات کا جائزہ لینے کے بعد ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کہ ایسا نہ کرو، اللہ کی قسم، اگر یہ نبی ہے اور ہم نے مباہلہ کیا تو ہم اور ہمارے بعد ہماری نسل کبھی بھی فلاح نہ پائے گی۔ چنانچہ وہ لوگ رسول اللہ کو جزیہ دینے پر راضی ہوگئے۔ امام احمد نے ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مباہلہ کی نیت کرنے والے ایسا کر گذرتے تو لٹنے کے بعد نہ انہیں اپنا مال ملتا اور نہ اہل وعیال ابن عباس (رض) کا یہ قول ترمذی اور نسائی میں بھی موجود ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ دونوں سردارانِ نجران کے ساتھ کیے گئے وعدہ کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کے وقت علی، فاطمہ اور حسن و حسین کے ساتھ باہر نکلے اور ان دونوں کو بلا بھیجا، تو انہوں نے انکار کردیا اور جزیہ دینے پر تیار ہوگئے۔ آل عمران
62 آل عمران
63 آل عمران
64 51۔ اس آیت میں مخاطب یہود و نصاری اور عام لوگ ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ لوگوں کو تین باتوں کی طرف بلائیں۔ اول یہ کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں۔ دوم یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائی اور سوم یہ کہ اللہ کی شریعت کو چھوڑ کرانسانوں کے بنائے ہوئے قانون اور ان کی تحلیل و تحریم کے احکام کو نہ مانیں۔ بخاری، مسلم اور نسائی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ مجھ سے ابوسفیان نے بیان کیا کہ ہر قل نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خط منگایا اور اسے پڑھا، تو اس میں یہ تھا، بسم اللہ الرحمن الرحیم، محمد رسول اللہ کی طرف سے ہر قل ” عظیم روم“ کے نام، سلام ہو اس پر جو راہ حق کی اتباع کرے، امابعد ! میں تمہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں، اسلام قبول کرلو، سلامتی پالو گے، اللہ تمہیں دوگنا اجر دے گا، اور اگر روگردانی کی تو اریسیوں کا گناہ تمہارے سر ہوگا، خط میں اس کے بعد یہی آیت یا اہل الکتاب سے لے کر بان امسلمون تک تھی، تو گویا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شاہ روم کو بھی دعوت اسلام کے بعد آیت کریمہ میں مذکورہ تینوں باتوں کی طرف بلایا تھا۔ وَّلَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ، میں مسیح و عزیر کی الوہیت کا انکار ہے، اور اشارہ ہے کہ یہ لوگ ہماری اور تمہاری طرح انسان تھے معبود کیسے بن گئے؟ اور اس میں ان لوگوں کی بھی تردید ہے جنہوں نے اللہ کا دین حاصل کرنے میں لوگوں کی اندھی تقلید کی، اور ان کی حلال کردہ چیزوں کو حلال اور ان کی حرام کردہ چیزوں کو حرام جانا، اور اس طرح انہیں اپنا معبود بنا لیا، امام ترمذی نے عدی بن حاتم (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کریم کی آیت اتخذوا احبارہم ورہبانہم اربابا من دون اللہ پڑھی۔ اور کہا کہ وہ لوگ ان علماء کی عبادت نہیں کرتے، لیکن وہ علماء جب ان کے لیے کوئی چیز حلال کردیتے تو اسے حلال سمجھتے، اور جب کسی چیز کو حرام کردیتے تو اسے حرام سمجھتے، اللہ نے ان کے اس فعل کو انہیں معبود بنا لینے کے مترادف قرار دیا۔ مفسر ال کیا الہراسی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس میں ان لوگوں کی تردید ہے جو بغیر کسی دلیل شرعی کے استحسان کے قائل ہیں اور ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو یہ کہتے ہیں کہ تحلیل و تحریم میں بغیر دلیل شرعی بیان کیے امام کا قول قبول کرنا واجب ہے آل عمران
65 آل عمران
66 آل عمران
67 52۔ یہود و نصاری، مشرکین اور مسلمان سبھی یہ دعوی کرتے تھے کہ وہ لوگ ملت ابراہیم پر قائم ہیں۔ محمد بن اسحاق، ابن جریر، اور بیہقی نے ” کتاب الدلائل“ میں ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ نجران کے نصاری اور علمائے یہود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اکٹھا ہوگئے، اور جھگڑنے لگے، علمائے یہود نے کہا کہ ابراہیم یہودی تھے، اور نصاری نے کہا کہ وہ تو نصرانی تھے، تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ان کی تکذیب کی کہ تورات ابراہیم کے تقریباً ایک ہزار سال بعد نازل ہوئی اور انجیل تقریباً دو ہزار سال کے بعد، تو ابراہیم یہودی یا نصرانی کیسے ہوگئے؟ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ ابراہیم خلیل اللہ کی طرف نسبت کے زیادہ حقدار یا تو وہ لوگ تھے جنہوں نے ان کے دین میں ان کی اتباع کی، یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے مہاجرین و انصار صحابہ کرام اور دیگر مسلمان۔ آل عمران
68 آل عمران
69 53۔ یہاں اہل کتاب سے مراد بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع کے یہود ہیں جنہوں نے بعض مسلمانوں کو یہودیت کی دعوت دی تھی آل عمران
70 آل عمران
71 54۔ یہود و نصاری کی کتابوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات اور ان کی نبوت کی بشارت موجود تھی، لیکن ان حقائق کو وہ لوگوں سے چھپاتے تھے۔ اس آیت میں دلیل ہے کہ حق کو چھپانا، اور اس سلسلہ میں تلبیس سے کام لینا اللہ کے نزدیک بہت ہی بری بات ہے آل عمران
72 55۔ یہاں اہل کتاب کی ایک نئی سازش کا ذکر ہے۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ کچھ سیدھے سادے مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی صداقت کے بارے میں شبہ پیدا کرسکیں۔ انہوں نے آپس میں طے کرلیا کہ ان کے کچھ افراد صبح کے وقت ایمان لانے کا اعلان کریں، اور لوگوں کے ساتھ نماز پڑھیں، اور جب شام ہو تو اپنے دین کی طرف لوٹ جائیں، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کچھ کمزور مسلمان یہ سمجھیں گے کہ یہ لوگ اہل علم اور اہل کتاب ہیں، ان کی نیت حق پانے کی تھی اور اب جبکہ انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد اسے چھوڑ دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک یہ بات ثابت ہوگئی کہ اسلام سچا دین نہیں ہے۔ اللہ نے بذریعہ وحی ان کی سازش کا پردہ فاش کیا، ان کی سازش ناکام رہی، اور مسلمانوں پر اس کا کوئی برا اثر نہ پڑا۔ آل عمران
73 56۔ اہل کتاب کے کلام کا تتمہ ہے۔ وہ یہودیوں سے کہا کرتے تھے کہ مسلمانوں پر بھروسہ نہ کرو، اپنا راز اور اپنے دل کی باتیں انہیں ہرگز نہ بتاؤ۔ یہودیوں کی اس سازش کو بیان کرنے کے بعد اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ ہدایت کا سرچشمہ اسلام ہے، اس کے علاوہ سب کچھ گمراہی ہے، تم لوگوں کی سازش اور تمہارا یہ حسد اس لیے ہے کہ تم یہ گوارہ نہیں کرسکتے کہ تمہاری طرح دوسروں کو بھی شریعت الٰہیہ، علم اور اللہ کی کتاب دی جائے، یا تمہارا رویہ اس لیے یہ ہے کہ یہ مسلمان قیامت کے دن تمہارے خلاف گواہی نہ دیں کہ وہ ایمان لے آئے اور تم لوگوں نے حق واضح ہوجانے کے باوجود کفر کی راہ اختیار کی۔ اے رسول ! آپ یہ بھی کہہ دیجئے کہ قرآن کریم اور دوسری نعمتیں سب اللہ کے اختیار میں ہیں، اللہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے آل عمران
74 آل عمران
75 57۔ گذشتہ آیتوں میں یہودیوں کی دینی خیانت کا ذکر تھا، اب ان کی مالی خیانت کا ذکر ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ان میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جن پر مال کثیر کے سلسلہ میں بھروسہ کیا جاسکتا ہے، اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ جن پر ایک دینار کے لیے بھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ عدی بن حاتم کا قول ہے کہ آیت میں امانت دار اہل کتاب سے مراد نصاری اور خیانت کرنے والوں سے مراد یہود ہیں، یہ خائن یہود لوگوں کو باور کراتے تھے کہ امیین یعنی عربوں کا مال کسی طرح بھی لینا جائز ہے، کیونکہ یہ لوگ مشرک ہیں، حالانکہ یہ سراسر جھوٹ اور اللہ پر بہتان تھا۔ اللہ نے کبھی بھی کسی کا مال دوسرے کے لیے غیر شرعی طور پر لینا جائز نہیں قرار دیا، اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے کوئی مال حاصل کرنے کے لیے جھوٹی قسم کھائی، وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر ناراض ہوگا (، مسند احمد) آل عمران
76 آل عمران
77 58۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں خبر دی ہے جو دنیاوی حقیر فائدوں کے حصول کے لیے جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اور اللہ سے کیے ہوئے عہد و پیمان کا پاس و لحاط نہیں رکھتے، کہ انہیں آخرت میں کوئی بھلائی نصیب نہیں ہوگی، نہ اللہ تعالیٰ ان سے بات کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا، یعنی ان سے شدید ناراض ہوگا، اور نہ گناہوں سے انہیں پاک کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ امام بخاری نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی بازار میں ایک سامان لے آیا، اور قسم کھائی کہ اس نے اتنی قیمت میں خریدا ہے، اس کا مقصد ایک مسلمان کو پھنسانا تھا تاکہ وہ سامان خرید لے، تو یہ آیت اتری۔ اشعث بن قیس کندی کا قول ہے کہ یہ آیت میرے متعلق نازل ہوئی تھی، میرے اور ایک یہودی کے درمیان ایک زمین تھی۔ یہودی نے انکار کردیا تو میں نے اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کردیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی دلیل ہے؟ میں نے کہا، نہیں، تو آپ نے یہودی سے کہا کہ تم قسم کھاؤ، تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسول ! تب تو یہ قسم کھا لے گا، اور میرا مال ہڑپ جائے گا، تو یہ آیت نازل ہوئی (مسند احمد) آل عمران
78 59۔ یہ آیت بھی یہود سے متعلق ہے، ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہود ہیں جو تورات میں اپنی طرف سے اضافہ کرتے تھے۔ مجاہد کا قول ہے کہ وہ لوگ تورات میں تحریف کرتے تھے، اور لوگوں سے جھوٹ کہا کرتے تھے کہ تورات میں ایس اہی ہے، حالانکہ وہ جانتے تھے کہ یہ جھوٹ اور اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی ہے۔ امام بخاری نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہود تورات میں یہ تحریف کرتے تھے کہ معنی بدل کر بیان کرتے تھے۔ کوئی شخص اللہ کی کسی کتاب کا کوئی لفظ نہیں بدل سکتا، بلکہ وہ لوگ تحریف معنوی کیا کرتے تھے آل عمران
79 60۔ اس آیت کریمہ میں نصاری کی بالعموم اور نجران کے نصرانیوں کی بالخصوص تردید ہے، جو عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں افترا پردازی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ انہوں نے ہی اپنے پیروکاروں کو اپنی عبادت کا حکم دیا تھا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس انسان کو اللہ تعالیٰ نے وحی، آسمانی کتاب اور نبوت جیسی نعمتوں سے نوازا ہو، اور علم شریعت کا فہم بھی عطا کیا ہو، اس کے لیے عقلی طور پر ممنوع اور مستحیل ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی عبادت، یا انبیاء یا فرشتوں کی عبادت کی طرف بلائے، اس لیے کہ یہ کفر صریح ہے، وہ تو اللہ کی طرف سے دین خالص لے کر اس لیے مبعوث ہوا تھا کہ لوگوں کو فر کی راہ سے روکے۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کا تزکیہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ تو لوگوں سے یہ کہتے تھے کہ تم لوگ علم دین سے بہرہ ور اور اللہ والے بن جاؤ۔ آیت کریمہ میں ” بشر“ کا لفظ اشارہ کرتا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) ایک انسان تھے، جنہیں اللہ نے رتبہ نبوت سے نوازا تھا، وہ معبود کیسے ہوسکتے تھے؟ ابن اسحاق، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے اور بیہقی نے دلائل النبوۃ میں ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ علمائے یہود اور نجران کے نصاری رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جمع ہوئے، اور آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی، تو ابو رافع قرظی نے کہا : اے محمد ! کیا تم چاہتے ہو کہ ہم تمہاری عبادت کریں، جس طرح نصاری عیسیٰ کی عبادت کرتے ہیں؟ تو ایک نصرانی نے بھی کہا کہ اے محمد ! کیا تم واقعی ہم سے یہی چاہتے ہو؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا کہ غیر اللہ کی عبادت کرنے یا اس کا حکم دینے سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ اللہ نے مجھے اس لیے نہیں بھیجا ہے، اور نہ ہی اس کا حکم دیا ہے۔ تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت کریمہ اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ حصول علم اور تعلیم کا تقاضا یہ ہے کہ انسان ربانی بن جائے۔ اگر حصول علم سے کسی کی نیت تعلق باللہ نہیں تو اس نے عمر ضائع کی اور نقصان و خسارہ اس کا نصیب ہوا۔ اسی لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہم اللہ کے ذریعہ پناہ مانگتے ہیں ایسے علم سے جو نفع نہ پہنچائے اور ایسے دل سے جو اللہ کے لیے نہ جھکے (مسلم) آیت سے یہ بھی مستفاد ہے کہ جو علماء و مشائخ قرآن و سنت سے ہٹ کر اپنی مرضی سے اپنے پیروکاروں کے لیے حلال و حرام کرنے کی دکان سجاتے ہیں، وہ اپنی عبادت کرواتے ہیں، مسند احمد اور ترمذی میں ہے کہ عدی بن حاتم (رض) نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! نصرانیوں نے اپنے علماء کی عبادت تو نہیں کی؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں، ان علماء نے اپنی مرضی سے ان کے لیے حرام کو حلال اور حلال کو حرام بنا دیا، تو انہوں نے ان کی اتباع کی، یہی ان کی عبادت تھی۔ آل عمران
80 آل عمران
81 61۔ اس آیت میں بھی نجران کے نصاری کی تردید ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) تک ہر نبی سے یہ عہد و پیمان لیا کہ جب بھی کو نیا رسول آئے گا جو گذشتہ انبیاء کی تصدیق کر رہا ہوگا، تو گذشتہ نبی اور اس کے پیروکاروں پر لازم ہوگا کہ اس پر ایمان لے آئیں، اور اسکی مدد کریں۔ چنانچہ تمام انبیاء نے اس کا اقرار کیا، اور اس اقرار کے گواہ بنے، اور اللہ نے بھی شہادت دی، اس عمومی اقرار و عہدنامے کا تقاضا یہ تھا کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیا میں تشریف لائیں گے تو وہ تمام لوگ جو موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کے پیروکار ہوں گے، ان پر ایمان لے آئیں گے، اس لیے اب اگر کوئی شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع نہیں کرتا تو وہ فاسق، اللہ کا نافرمان اور اس نبی کو جھٹلانے والا ہوگا جس کی محبت کا دم بھر رہا ہے اور جس پر ایمان لانے کا دعوی کر رہا ہے، اور اگر نجران کے نصاری بھی عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان کا دعوی کرتے ہیں، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لاتے، تو وہ اپنے دعوی میں کاذب ہیں۔ علی بن ابی طالب اور ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اللہ نے جب بھی کسی نبی کو مبعوث کیا، تو اس سے یہ عہد لیا کہ اگر اللہ نے اس کی زندگی میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا تو وہ محمد پر ایمان لائے گا اور اس کی مدد کرے گا، ہر نبی کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ اپنی امت سے اس بات کا عہد لے گا کہ اگر محمد مبعوث ہوئے اور وہ لوگ زندہ رہے، تو ان پر ایمان لائیں گے اور ان کی مدد کریں گے۔ حضرت علی (رض) کے اسی اثر کے پیش نظر بعض علماء نے کہا ہے کہ آیت کریمہ میں مذکور عہد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص ہے، جیسا کہ قاضی عیاض نے اپنی کتاب الشفاء میں بیان کیا ہے۔ آل عمران
82 آل عمران
83 62۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا تمام انبیاء اور ان کی امتوں پر لازم ہے تو یہ بھی ثابت ہوگیا کہ جو شخص دین محمدی سے اعراض کرے گا، گویا وہ اللہ کے دین کے علاوہ کسی دوسرے دین کا طالب ہوگا، اسی حقیقت کو اللہ نے اس آیت میں بیان کیا ہے کہ کیا وہ لوگ اللہ کے دین کے علاوہ کوئی دوسرا دین چاہتے ہیں، حالانکہ آسمان و زمین کی ساری کائنات (برضا یا بغیر رضا) اسی کے سامنے جھک رہی ہے۔ مومن دل و جان سے، اور کافر اللہ کے قہرو جبروت کے نیچے آ کر، کائنات کا ایک ذرہ بھی اس کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ آل عمران
84 اس آیت میں بھی سیاق کلام اہل کتاب سے متعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ اہل کتاب سے کہہ دیجئے کہ تم دین اسلام اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان نہیں لاتے (حالانکہ موسیٰ و عیسیٰ پر ایمان لانے کا تقاضا یہی تھا جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا) لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ہم تو اللہ پر، قرآن کریم پر، اور ان تمام آسمانی صحائف پر ایمان لاتے ہیں جو اللہ نے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، ان کی اولاد، موسی، عیسیٰ اور دیگر انبیاء پر نازل کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بطور تاکید فرما دیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد اسلام کے علاوہ کوئی دین اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں صحیح بخاری میں ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے کوئی ایسا کام کیا جو ہمارے دین میں ثابت نہیں، اسے رد کردیا جائے گا، یعنی اب دین اسلام کے علاوہ کوئی دین، کوئی مذہب، یا کوئی عقیدہ اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں آل عمران
85 آل عمران
86 اب بھی سیاق کلام اہل کتاب ہی سے متعلق ہے، اگرچہ بعض مرتد ہونے والوں کا بھی ذکر آیا ہے۔ یہود عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کرتے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے آپ کا آنا برحق سمجھتے تھے، اور آپ کے واسطے سے مشرکین کے خلاف اللہ سے فتح کی دعا کرتے تھے، لیکن آپ کی بعثت کے بعد آپ کا انکار کردیا، اور ان پر ایمان نہیں لائے۔ اس کے علاوہ مدینہ منورہ میں ایک آدمی تھا جو پہلے مسلمان ہوچکا تھا، وہ مرتد ہو کر مشرکوں کے ساتھ جا ملا، پھر نادم ہوا اور اپنی قوم کے لوگوں کو خبر کی کہ وہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھیں کہ کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ تو یہ آیات نازل ہوئی کیف یہدی اللہ الایہ، (نسائی، حاکم، ابن حبان، حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے) اس آیت کریمہ میں انہی یہودیوں اور مرتد ہونے والوں کا انجام بتایا گیا ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو کبھی بھی ہدایت نہیں دے گا، اور یہ کہ ان پر اللہ کی، فرشتوں کی، اور تمام بنی نوع انسان کی لعنت برستی رہے گی، اور ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا جس میں ہمیشہ کے لیے رہیں گے، البتہ اس وعید سے وہ لوگ مستثنی رہیں گے جو اپنے کفر اور گناہوں سے تائب ہوں گے اور اپنی حالت کی اصلاح کرلیں گے۔ روایات میں آیا ہے کہ وہ آدمی جو مرتد ہوگیا تھا جب اسے یہ آیت پہنچی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر اپنی توبہ کا اعلان کیا اور دوبارہ اسلام میں داخل ہوگیا۔ تمام علماء کا اس پر اجماع ہے کہ کافر اور گناہ گار کی توبہ قبول کی جائے گی۔ البتہ مرتد کے بارے میں بعض لوگوں نے اختلاف کیا ہے، لیکن راجح یہی ہے کہ اس آیت اور سورۃ نساء کی آیت 137 ان الذین امنوا ثم کفروا ثم امنو، کے پیش نظر اس کی توبہ قبول کی جائے گی۔ قرآن کریم میں اور بھی آیتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مرتد کی توبہ قبول کی جائے گی، لیکن عمل صالح کے ذریعہ اپنی نیت کی صداقت کی دلیل پیش کرنی ہوگی۔ آل عمران
87 آل عمران
88 آل عمران
89 آل عمران
90 65۔ یہاں بھی سیاق کلام اہل کتاب سے ہی متعلق ہے۔ قتادہ، عطاء خراسانی اور حسن کا قول ہے کہ یہ آیت یہود و نصاری کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جنہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی کتابوں کے ذریعہ جاننے اور پہچاننے کے باوجود ان کا انکار کردیا۔ انہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن یہود و نصاری نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار رکدیا تھا اور اسی حال پر باقی رہے، یہاں تک کہ موت نے انہیں آلیا، تو ان کی توبہ قبول نہیں کی جائے، اور درحقیقت وہی لوگ گمراہ ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کئی بار مرتد ہوئے، کہ اللہ ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں کرے گا، اس لیے کہ کفر ان کے دلوں میں راسخ ہوچکا ہے۔ امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء 137 میں فرمایا ہے۔ ان الذین امنو ثم کفروا ثم امنوا ثم کفروا ثم ازدادو کفرا لم یکن اللہ لیغفر لہم ولا لیہدیہم سبیلا۔ کہ جو لوگ ایمان لائے، پھر کفر کیا، پھر ایمان لائے، پھر کفر کیا، پھر کفر میں بڑھتے رہے رہے، تو اللہ تعالیٰ انہیں کبھی بھی معاف نہیں کرتے اور نہ انہیں راہ راست پر لائے گا۔ آل عمران
91 جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اور حالت کفر میں ہی مر گئے تو اللہ تو اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن ان کا انجام بتایا ہے، کہ اس دن کسی کے پاس کوئی مال نہ ہوگا، لیکن اگر فرض کرلیا جائے کہ کسی کے پاس مال و دولت ہو، تو چاہے وہ پوری زمین بھر کے بھی سونا دے کر اپنی جان جہنم کی آگ سے چھڑانا چاہے گا تو بچ نہ سکے گا، یعنی کوئی بھی چیز اسے اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے گی۔ مسند احمد میں انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، قیامت کے دن ایک جہنمی سے پوچھا جائے گا کہ اگر تم زمین کی ہر چیز کے مالک ہوتے تو کیا اسے دے کر اپنی جان چھڑانا چاہتے ؟ وہ کہے گا ہاں، تو اللہ کہے گا کہ میں تو تم سے اس سے آسان چیز چاہی تھی، میں نے تم سے (جب تم اپنے باپ آدم کی پیٹھ میں تھے) یہ عہد لیا تھا کہ تم میرے ساتھ شرک نہ کرو گے تو تم نے انکار کردیا۔ مسند احمد اور صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عبداللہ بن جدعان کے بارے میں پوچھا گیا، جو مہمانون کو کھانا کھلایا کرتا تھا، قیدیوں کو چھڑاتا تھا، اور مسکینوں کو کھانا دیتا تھا، کہ یہ نیکیاں اس کے کام آئیں گی؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نہٰں، اس لیے کہ اس نے پوری زنددگی میں ایک دن بھی یہ نہیں کہا کہ اے میرے رب قیامت کے دن میرے گناہوں کو معاف کردینا۔ آل عمران
92 67۔ گذشتہ آیت سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن کوئی چیز کافروں کو اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے گی، اور نہ اس دن صدقہ و خیرات کا موقع ہوگا۔ صدقہ وخیرات کی جگہ یہ دنیا ہے۔ اسلام لانے کے بعد یہاں جو آدمی اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا، قیامت کے دن اسے پائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مومنوں کی اسی طرف رہنمائی کی ہے کہ تم اللہ کی خوشنودی اور اس کی جنت کو نہیں پا سکتے جب تک کہ اللہ کی راہ میں اپنا مرغوب و محبوب مال نہ خرچ کرو۔ بخاری و مسلم نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ مدینہ منورہ میں ابوطلحہ انصاری (رض) بہت مالدار آدمی تھے، اور ان کا سب سے محبوب مال بیرحاء باغ تھا جو مسجد نبوی کے سامنے تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کبھی کبھار اس میں داخل ہوتے اور اس کا میٹھا پانی پیتے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ میرا سب سے محبوب مال بیرحاء ہے، اسے میں اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں، آپ اسے جہاں چاہیں خرچ کریں۔ تو آپ نے کہا کہ بہت خوب، یہ تو قیمتی مال ہے، جو تم نے کہا، میں نے سن لیا، میری رائے ہے کہ تم اسے رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔ تو ابوطلحہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! ایسا ہی کروں گا، چنانچہ انہوں نے اپنے رشتہ داروں اور چچازاد بھائیوں میں تقسیم حافظ ابوبکر بزار نے روایت کی ہے، عبداللہ بن عمر نے کہا کہ میں نے یہ آیت سنی تو اپنے اموال پر غور کیا، میری سب سے قیمتی شے ایک روی لونڈی تھی، اسے میں اللہ کے لیے آزاد کردیا۔ آل عمران
93 68۔ زمخشری نے لکھا ہے کہ یہ آیت یہودیوں کے رد میں اور ان کی تکذیب کے لیے نازل ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء کی آیت 160 تا 161 میں اور سورۃ انعام کی آیت 146 میں بیان کیا کہ ہم نے ان کے ظلم و طغیان کی وجہ سے ان پر کئی حلال چیزوں کو حرام کردیا تھا، تو اس سے وہ بہت ہی زیادہ چیں بجبیں ہوئے، اور اللہ نے جو انہیں ظلم و طغیان کے ساتھ متہم کیا تھا، اس کی تکذیب کی، اور کہا کہ یہ غلط ہے کہ یہ چیزیں سب سے پہلے ہم پر حرام کی گئی تھیں، یہ تو نوح، ابراہیم، اور اولادِ اسرائیل پر قدیم زمانے سے حرام تھیں، تو ہمارے لیے بھی ان کی حرمت باقی رہی، اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوی کی تکذیب کی کہ اللہ نے بنی اسرائیل پر کوئی بھی کھانا حرام نہیں کیا تھا، البتہ اسرائیل یعنی یعقوب نے خود ہی بطور نذر بعض کھانوں کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ اس کے بعد اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ اگر انہیں اپنی افترا پردازی پر اصرار ہے تو آپ ان سے کہیے کہ تم لوگ تورات کھول کر دیکھو، تمہارے دعوے کی صداقت کی قلعی کھل جائے گی، یعنی تورات میں یہ کہیں بھی نہیں ہے کہ یہ چیزیں قدم زمانے سے حرام رہی ہیں۔ ترمذی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہودیوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا مجھے بتائیے کہ یعقوب نے اپنے لیے کس چیز کو حرام کیا تھا؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہ بادیہ میں رہتے تھے، انہیں عرق النساء کی بیماری ہوگئی، انہیں بطور علاج یہی سمجھ میں آیا کہ اونٹ کا گوشت اور دودھ چھوڑ دیں، چنانچہ انہوں نے اسے اپنے اوپر حرام کرلیا (یعنی دونوں چیزوں کا کھانا پینا بند کردیا) یہودیوں نے کہا کہ آپ نے سچ کہا، اس حدیث کو احمد اور نسائی نے بھی روایت کی ہے۔ امام احمد کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے دونوں چیزوں کو بطور نذر اپنے اوپر حرام کرلیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو حکم دیا کہ آپ ان سے کہیں، اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں کہ تحریم قدیم ہے، تو وہ تورات سے یہ بات ثابت کر دکھائیں، اس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت اور ان کے جھوٹے ہونے کی بہت بڑی دلیل موجود ہے، اس لیے کہ انہوں نے تورات لانے کی جسارت نہیں کی۔ اس کے بعد آیت (94) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی کرے گا، وہ ظالم ہوگا، اور اللہ اس کا پردہ فاش کر کے رہے گا، اور آیت (95) میں فرمایا کہ ثابت ہوگیا کہ اللہ سچا ہے، اور یہود جھوٹے ہیں، اس لیے اب انہیں یہودیت سے اعلان براءت کر کے ملت ابراہیم یعنی دین اسلام کو اختیار کرلینا چاہیے آل عمران
94 آل عمران
95 آل عمران
96 69۔ یہود کے ایک نئے جدال کی تردید ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیت المقدس لوگوں کا پہلا قبلہ ہے۔ اور خانہ کعبہ سے افضل ہے، اس لیے کہ وہ ارض مقدس میں واقع ہے، اور بہت سے انبیاء کرام ہجرت کر کے یہاں آتے رہے ہیں، پھر محمد نے اسے چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ کیسے بنا لی؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کی، اور کہا کہ سرزمین پر اللہ کا پہلا گھر خانہ کعبہ ہے، اور جب تک دنیا رہے گی، وہ گھر متبرک اور انسان کی ہدایت کا ذریعہ رہے گا، لوگ دنیا کے چپے چپے سے کھچ کر یہاں حج و زیارت کے لیے آتے رہیں گے، اور جب تک دنیا رہے گی اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہیں گے اور اللہ کو یاد کرتے رہیں گے۔ صحیحین میں ابو ذر (رض) کی روایت ہے، میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! روئے زمین پر کون سی مسجد پہلے بنائی گئی ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسجد حرام، میں نے پوچھا، پھر کون؟ تو آپ نے مسجد اقصی، میں نے پوچھا : دونوں کے درمیان کتنی مدت کا فاصلہ تھا؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا چالیس سال، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے خانہ کعبہ کو بنایا، اس کے چالیس سال کے بعد یعقوب بن اسحاق علیہما السلام نے مسجد اقصی کو بنایا۔ آیت میں ایات بینات (کھلی نشانیاں) سے مراد مقامِ ابراہیم ہے، یعنی وہ پتھر جس پر پاؤں رکھ کر ابراہیم (علیہ السلام) نے کعبہ کی دیوار بنائی اور جس پر اللہ کے حکم سے ان کے دونوں قدموں کے نشان بن گئے (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے سورۃ بقرہ آیت (125) کی تفسیر)۔ اسی طرح صفا و مروہ، زمزم کا پانی، خانہ کعبہ کا زمانہ جاہلیت سے گہوارہ امن ہونا اور دیگر تمام مشاعر حج مراد ہیں۔ صحیحین کی روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن فرمایا کہ اس شہر کو اللہ نے اس دن سے (بلد حرام) بنا دیا ہے، جس دن آسمان اور زمین کو پیدا کیا، اور یہ قیامت تک بلد حرام رہے گا۔ جمہور علماء نے وللہ علی الناس حج البیت سے حج کے وجوب پر استدلال کیا ہے۔ حج سن بلوغ کو پہنچ جانے کے بعد زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے، جیسا کہ ابوہریرہ (رض) کی حدیث سے ثابت ہے، جسے امام احمد اور مسلم نے روایت کی ہے، کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ اللہ نے تمہارے اوپر حج فرض کیا ہے، اس لیے تم لوگ حج کرو۔ اور حج صاحب استطاعت پر فرض ہے۔ حاکم نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ اس آیت کریمہ میں (سبیل) سے کیا مراد ہےِ، تو آپ نے فرمایا : راستے کا خرچ اور سواری، حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث امام مسلم کی شرط کے مطاب صحیح ہے۔ ومن کفر فان اللہ غنی عن العالمین میں کفر سے مراد یا تو فریضہ حج کا انکار ہے، یا اس کی عدم ادائیگی، ترمذی نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ جو شخص سفر کا خرچ اور سواری ہونے کے باوجود حج نہیں کرے گا، تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہودی یا نصرانی ہو کر مرے، اگرچہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے، لیکن قرآن کریم کی اس آیت اور دیگر احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ آل عمران
97 آل عمران
98 70۔ گذشتہ آیتوں میں اہل کتاب کی سازشوں کا بیان ہوا، اور ان کے خلاف بہت ساری حجتیں قائم کی گئیں، اب ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ ان سے کہیں، تم لوگ جان بوجھ کر کیوں اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہو؟ کیوں خاتم النبیین پر ایمان نہیں لاتے؟ خود اسلام میں داخل نہیں ہوتے اور اللہ کی مخلوق کو بھی روکتے ہو۔ آل عمران
99 آل عمران
100 اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو تنبیہ کی ہے کہ انہیں یہودیوں کے مکر وفریب اور ان کی سازشوں سے ہمیشہ بچ کر رہنا چاہئے۔ حافظ ابن کثیر اور امام شوکانی نے اس آیت کا پس منظر بیان کرنے کے لیے زید بن اسلم کی روایت نقل کی ہے، جسے ابن جریر، ابن اسحاق اور ابن ابی حاتم وغیرہم نے اپنی اپنی سندوں سے روایت کی ہے کہ شاس بن قیس یہودی مسلمانوں کا بہت بڑا دشمن تھا، ایک دن انصار مدینہ کی ایک مجلس کے پاس سے اس کا گذر ہوا، تو مسلمانوں کے آپس کی محبت و الفت کو دیکھ کر اس کی نفرت و عداوت جاگ اٹھی، اور ایک نوجوان یہودی کو انصار کی مجلس میں بھیجا تاکہ انہیں ” جنگ بعاث“ کی یاد دلا کر اوس و خزرج کے مسلمانوں کے درمیان پھر سے جنگ کی آگ بھڑکائے، اور ایسا ہی ہوا، ان کی قبائلی حمیت جاگ اٹھی، آپس میں بدزبانی پر اتر آئے اور جنگ کے لیے آمادہ ہوگئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر ہوئی تو آپ تشریف لائے اور انہیں اللہ کی یاد دلائی، اور جاہلیت کی عصبیت اور اس کی خطرناکیوں کا خوف دلایا، تو شر ٹل گیا، لوگوں نے ہتھیار پھینک دیا، دھاڑیں مار مار کر رونے لگے اور آپس میں گلے ملنے لگے۔ آیت 101 میں اللہ تعالیٰ نے گذشتہ حادثہ کو مد نظر رکھتے ہوئے خبر دی ہے کہ مسلمانوں کی جماعت کفر کو قبول نہیں کرسکتی، اس لیے کہ وہ لوگ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، اور اللہ کے رسول ان کی ہمیشہ رہنمائی کرتے رہتے ہیں، اس لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ دین اسلام کو چھوڑ کر دوبارہ کفر کقبول کرلیں۔ آل عمران
101 آل عمران
102 ابن ابی حاتم اور حاکم وغیرہما نے سند صحیح کے ساتھ روایت کی ہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے تقاتہ کا معنی یہ بیان کیا کہ اللہ کی اطاعت کی جائے، اس کی نافرمانی نہ کی جائے، اسے یاد کیا جائے، بھولا نہ جائے، اس کا شکر ادا کیا جائے، ناشکری نہ کی جائے، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس آیت کا ابتدائی حصہ سورۃ تغابن کی آیت فاتقوا اللہ ما استطعتم۔ یعنی اللہ سے اپنی طاقت بھر ڈرتے رہو۔ کے ذریعہ منسوخ ہے، لیکن یہ رائے صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ بندہ ہر وقت ہر حال میں اللہ سے تعلق رکھتے، اس کے عقاب سے ڈرتا رہے، اور اس کی عظمت و جلال کا اعتراف اس کے دل و دماغ پر مسلط رہے، اور سورۃ تغابن والی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی انسان کو اس کی طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کیا ہے۔ آل عمران
103 73۔ حافط ابن کثیر (رح) نے لکھا ہے، آیت کا سیاق دلالت کرتا ہے کہ اس آیت میں اوس و خزرج کے ماضی کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے درمیان کیسی دشمنی تھی، لیکن اسلام کو قبول کرلینے کے بعد اللہ کے لیے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے۔ اللہ کی رسی سے مراد یا تو اللہ سے کیا گیا عہد و پیمان ہے، یا قرآن کریم، امام مسلم نے کتاب فضائل الصحابہ میں زید بن ارقم سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آگاہ رہو، میں تمہارے پاس دو بہت ہی بھاری اور عظیم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے، جو اللہ کی رسی ہے، جو اس کی اتباع کرے گا وہ ہدایت پر رہے گا، اور جو اسے چھوڑ دے گا، وہ گمراہ ہوجائے گا۔ اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو اتفاق و اتحاد کی نصیحت کی گئی ہے، اور ہر قسم کے افتراق و اختلاف سے ڈرایا گیا ہے، اور اتفاق کی بنیاد قرآن کریم کو بتایا گیا ہے۔ اور جیسا کہ معلوم ہے کہ سنت قرآن سے جدا نہیں ہوسکتی، اور قرآن بغیر سنت کے نہیں سمجھا جاسکتا، اس لیے مسلمانوں کے درمیان حقیق اتفاق و اتحاد صرف قرآن و سنت پر عمل کر کے ہی پیدا کیا جاسکتا ہے۔ اس معنی کی حدیثیں متعدد ہیں جن میں امت کو افتراق سے ڈرایا گیا ہے، اور انہیں سکھایا گیا ہے کہ امت مسلمہ صرف قرآن و سنت کے ذریعہ ہی متحد ہوسکتی ہے۔ اور یہ کہ امت (73) فرقوں میں صرف اس وجہ سے بٹ گئی کہ اس نے ان دونوں بنیادوں کو پس پشت ڈال دیا۔ جس فرقہ کو (ناجیہ) کہا گیا ہے، اس کی صفت خود اللہ کے رسول نے بتا دی ہے کہ جو میری اور میرے صحابہ کی راہ پر گامزن ہوگا۔ اس لیے اگر کسی بھی زمانے میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد ہوگا تو صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر، کسی دوسری بنیاد پر امت مسلمہ کی جماعتوں میں حقیقی اتحاد وجود میں نہیں آسکتا۔ آل عمران
104 74۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے، اور کہا ہے کہ مسلمانوں میں ایک ایسی جماعت کا ہونا از بس ضروری ہے جو لوگوں کو خیر کی دعوت دے، اچھائی کا حکم دے اور برائی سے روکے، اس کے بعد اللہ نے صراحت کردی کہ امت مسلمہ کی دینی اور دنیاوی فلاح و بہبودی کی یہی بنیادی شرط ہے۔ آل عمران
105 75۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہود و نصاری کی طرح مختلف گروہوں میں بٹ جانے سے منع فرمایا ہے، جنہوں نے حق سے روگردانی کر کے خواہش نفس کی اتباع کی، اور ایک دوسرے سے حسد کیا، یہاں تک کہ انبیاء کرام کو بھی انہوں نے آپس میں بانٹ لیا، دین میں بدعت کو راہ دی، اور اس طرح حق بات کے واضح دلائل آجانے کے باوجود ان کے آپس میں حسد و عداوت اور بغض و عناد پیدا ہوگیا، اور ان کے دل مختلف ہوگئے۔ امام فخر الدین رازی نے اس آیت کے ضمن میں لکھا ہے کہ ان میں سے ہر ایک دعوی کرنے لگا کہ وہ حق پر ہے، اور اس کا مخالف باطل پر ہے، اس کے بعد لکھا ہے کہ اگر انصاف کے ساتھ غور کریں گے تو دیکھیں گے کہ اس زمانے کے اکثر علماء میں بھی یہ صفت پیدا ہوگئی ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں معاف کرے اور ہمارے حال پر رحم کرے، علمائے سلف میں یہ صفت نہیں پائی جاتی تھی، صحابہ کرام قرآن و سنت کی روشنی میں فتاوے دیتے تھے اور اگر کبھی ان کے درمیان کسی مسئلہ میں اختلاف ہوتا تھا تو ان کے دلوں میں فرق نہیں آتا تھا۔ مسلمانوں میں دلوں کا اختلاف تقلید جامد اور فقہی مذاہب کی اندھی عصبیت کے بعد پیدا ہوا۔ قرآن و سنت سے جتنا دور ہوتے گئے، اتنا ہی یہ مرض جڑ پکڑتا گیا، اور نوبت ایک دوسرے کی تکفیر و تضلیل تک پہنچ گئی۔ بعض کج فہموں اور امت میں اختلاف کو راہ دینے والوں نے اختلاف امتی رحمۃ جیسی ضیعف اور کمزور حدیث کا سہارا لینا چاہا، اس حدیث کی کوئی صحیح سند نہیں ہے۔ اسے طبرانی اور بیہقی نے المدخل میں ابن عباس (رض) سے سند ضعیف کے ساتھ مرفوعاً روایت کی ہے۔ اس حدیث کی سند تو کمزور ہے ہی، اس کے علاوہ بہت سی قرآنی آیات اور صحیح احادیث کے مخالف ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ولا یزالون مختلفین، الا من رحم ربک۔ کہ لوگ ہمیشہ آپس میں اختلاف کرتے رہیں گے، سوائے اس آدمی کے جس پر اللہ رحم کرے۔ اس آیت میں اختلاف نہ کرو، ورنہ تمہارے دل مختلف ہوجائیں گے۔ (مسلم) آل عمران
106 76۔ گذشتہ آیت کے آخر میں اختلاف کرنے والوں کو عذاب الیم سے ڈرایا گیا ہے، یہاں بتایا جا رہا ہے کہ یہ عذاب انہیں اس دن ملے گا جب مومنوں کے چہرے نور ایمان سے چمک رہے ہوں گے اور کافروں اور دین میں اختلاف پیدا کرنے والوں کے چہرے نور ایمان سے محروم ہونے کی وجہ سے سیاہ ہوں گے۔ ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ روشن چہرے والوں سے مراد اہل سنت والجماعت ہیں، اور سیاہ چہرے والوں سے مراد اہل بدعت اور امت میں افتراق پیدا کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن روشن چہروں والا بنائے۔ آمین۔ آل عمران
107 آل عمران
108 77۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کیا جا رہا ہے کہ اب تک جو کچھ بیان ہوا سب اللہ کی برحق آیتیں ہیں، اور اللہ تعالیٰ کسی کو بغیر جرم کے سزا نہیں دیتا، اور نہ کسی کی نیکی میں کوئی کمی کرتا ہے، اس لیے کہ آسمانوں اور زمین کی تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں۔ وہ ہر چیز سے بے نیاز ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے، اس لیے اللہ کسی پر ظلم کیوں کرے گا۔ آل عمران
109 آل عمران
110 78۔ اس آیت کریم میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کی فضیلت دوسری امتوں پر بیان کی ہے کہ اے مسلمانو ! تم سب سے اچھے لوگ ہو، اس لیے کہ تمہیں اللہ نے اس لیے دنیا میں بھیجا ہے کہ بنی نوع انسان کو بھلائی کا حکم دو، برائی سے روکو، اور اللہ پر اور ان تمام چیزوں پر ایمان لے آؤ جن پر اللہ نے ایمان لانے کا حکم دیا ہے۔ امت مسلمہ کی یہ فضیلت دوسری تمام امتوں پر علی الاطلاق ہے۔ اور اس فضیلت میں امت مسلمہ کے ہر دور کے لوگ شریک ہیں، خود امت مسلمہ کے درمیان درجات میں تفاوت تو موجود ہے، جیسے صحابہ کرام کو دیگر مسلمانوں پر فوقیت حاصل ہے۔ لیکن مسلمان چاہے جس دور کے ہوں، انہیں غیر مسلموں پر فضیلت حاصل ہے۔ امام احمد، ترمذی اور حاکم نے معاویہ بن حیدہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اے مسلمانو ! تمہارا وزن ستر امتوں کے برابر ہے، اور تم ان سے بہتر اور اللہ کے نزدیک ان سے زیادہ مکرم ہو۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کو یہ مقام، ان کے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے ملا ہے، اس لیے کہ اللہ نے انہیں مخلوق میں سب سے اشرف اور رسولوں میں سب سے اعلیٰ بنایا تھا، اور انہیں ایک ایسا عظیم اور کامل دین دے کر بھیجا تھا جو ان سے پہلے کسی نبی یا رسول کو نہیں ملا، ان کے اس دین کا پابند رہ کر تھوڑا عمل بھی دوسرے مذاہب والوں کے عمل کثیر سے زیادہ افضل ہے۔ اور یہ مقام ہر اس شخص کو ملے گا جو مذکورہ بالا صفات کے ساتھ متصف ہوگا، اور جس کے اندر یہ صفات نہیں پائی جائیں گی، وہ اہل کتاب یعنی یہودیوں کے مشباہ ہوگا، جیسا کہ آیت کے اگلے حصہ میں ان کا ذکر آیا ہے، کہ ان میں سے اکثر لوگ کفر و ضلالت اور فسق و معصیت میں مبتلا ہیں۔ آل عمران
111 79۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خبر دی ہے کہ اہل کتاب پر نصرت و فتح تمہارا نصیب ہے، یہ ملحد اور کافر اہل کتاب یعنی یہودی تمہیں تکلیف تو پہنچا سکتے ہیں، لیکن جب تم سے ان کی جنگ ہوگی تو پیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑے ہوں گے، اور ایسا ہی ہوا، خیبر کے دن اللہ نے یہودیوں کو رسوا کیا، اور مدینہ میں بھی رسوا ہوئے، اور شام کے نصرانیوں کی تو صحابہ کرام نے کمر توڑ دی، ان کا ملک ہمیشہ کے لیے ان کے ہاتھ سے نکل گیا، اور اللہ کے حکم سے اب شام میں مسلمانوں ہی کا غلبہ ہے اور رہے گا، یہاں تک کہ قیامت کے قریب وہاں عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) اتریں گے اور شریعت محمد کا نفاذ کریں گے۔ آل عمران
112 80۔ اللہ تعالیٰ نے ذلت و رسوائی کو یہود کی قسمت بنا دی ہے، وہ جہاں اور جس زمانے میں بھی ہوں گے، ذلیل و رسوا ہی ہو کر رہیں گے۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کے کسی گوشے میں اور کسی زمانے میں بھی انہیں احترام و عزت نصیب نہیں ہوئی۔ انہیں عارضی چین اور سکون صرف دو میں سے ایک ہی صورت میں ملے گا، یا تو جزیہ دے کر بطور ذمی زندگی گزاریں گے، یا کسی بڑی غیر اسلامی طاقتور حکومت کی پشت پناہی حاصل ہوجائے گی، جیسا کہ آج کل فلسطین میں یہودیوں کی ایک حکومت، امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور دیگر کافر حکومتوں کی شہ پر، اور ان کی مدد سے قائم ہے، ابھی حال ہی میں مشہور نو مسلم مفکر رجا جارودی کا بیان شائع ہوا ہے کہ اگر امریکہ اپنا ہاتھ کھینچ لے، تو اسرائیل کی حکومت عرب مسلمانوں کے سامنے چوبیس گھنٹے سے زیادہ نہیں ٹک سکتی۔ ان کی ذلت و رسوائی اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ فلسطینی مسلمان بچوں نے پتھر مار مار کر ان کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ آل عمران
113 اس آیت کا پس منظر بیان کرتے ہوئے ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، طبرانی اور دیگر کئی محدثین نے ابن عباس (رض) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جب عبداللہ بن سلام، ثعلبہ بن سعید، اسید بن سعید، اسد بن عبید اور کچھ دوسرے یہودیوں نے اسلام قبول کرلیا، تو علماء یہود کہنے لگے کہ محمد پر برے لوگ ایمان لائے ہیں، اگر وہ اچھے ہوتے تو اپنے باپ دادا کا دین نہ چھوڑ دیتے۔ اور ان مسلمانوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم لوگوں نے اپنا دین بدل کر خسارہ اٹھایا ہے۔ اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ وہ اہل کتاب جنہوں نے دین اسلام کو قبول کرلیا، ان اہل کتاب کی مانند نہیں ہیں جو اپنے کفر پر قائم رہے۔ امام احمد اور نسائی وغیرہما نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عشاء کی نماز کے لیے بہت تاخیر سے تشریف لائے اور فرمایا کہ اہل ادیان میں سے تمہارے علاوہ کوئی نہیں جو اس وقت اللہ کو یاد کرے تو لیسوا سواء، سے بالمتقین تک تین آیتیں نازل ہوئیں۔ اس روایت کے مطابق بھی آیت کا مفہوم یہی ہوگا کہ اہل کتاب میں سے جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے، اور جن کی صفات وہ ہیں جو یہاں بیان کی گئی ہیں، وہ لوگ ان اہل کتاب کی مانند نہیں ہیں، جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی آل عمران
114 آل عمران
115 آل عمران
116 82۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اہل کفر کا حال بیان کیا ہے کہ ان کا مال، ان کی اولاد، اللہ کے عذاب کو ان سے نہیں ٹال سکے گی، اور ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ آیت 117 میں ایک مثال کے ذریعہ اللہ نے یہ بیان کیا ہے کہ اہل کفر اگر اپنا مال کسی خیر کے کام میں بھی خرچ کرتے ہیں تو قیامت کے دن ان کے کام نہ آئے گا، اللہ تعالیٰ نے ایسے بد نصیب کافروں کی بدنصیبی کی مزید وضاحت کے لیے یہ مثال بیان کی، کہ جیسے کسی قوم کا کوئی ہرا بھرا باغ یا کھیت ہو جسے دیکھ دیکھ کر وہ خوش ہو رہے ہوں، کہ اچانک ایک سخت ٹھنڈی ہوا چلے، جس میں آگ کی سی تیزی ہو، جو اسے مارے ٹھنڈک کے جلا دے، یعنی کافروں کو ان کے کارہائے خیر کا کوئی فائدہ نہ پہنچے گا، کیوں کہ ایمان کے بغیر کوئی عمل بھی اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں۔ آل عمران
117 آل عمران
118 83۔ ابن جریر، ابن اسحاق، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم وغیرہم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ کچھ مسلمانوں کا یہود مدینہ کے ساتھ پڑوس میں ہونے کی وجہ سے، یا دور جاہلیت کے کسی معاہدے کی بنا پر ایک گنا تعلق تھا، جس کی وجہ سے خدشہ رہتا تھا کہ وہ مسلمان اپنے دل کی باتیں اور مسلمانوں کے راز انہیں بتا دیا کریں گے اور مسلمانوں کو ان کی اس نادانی کی وجہ سے کوئی خطرہ لاحق ہوجائے گا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی اور مسلمانوں کو منع کیا کہ وہ غیر مسلموں کو اپنا رازداں بنائیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں نازل ہوئی تھی تاکہ مسلمان ان سے اپنے دل کی بات مسلمانوں کا راز نہ بتائیں۔ اس لیے کہ بعد والی آیت میں ان لوگوں کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ جب وہ تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے، اور جب تم سے جدا ہوتے ہیں تو تمہارے خلاف مارے گصہ کے اپنے دانتوں سے اپنی انگلیاں کاٹتے ہیں، اور یہ صفات منافقین کی تھیں۔ بعض نے کہا ہے کہ آیت میں تمام کفار مراد ہیں لفظ (من دونکم) یعنی، تم اپنے سوا کسی دوسرے کو اپنا راز داں نہ بنا، سے اسی رائے کی تائید ہوتی ہے۔ ابن ابی حاتم نے روایت کی ہے، حضرت عمر (رض) سے کہا گیا کہ حیرہ کا ایک نصرانی غلام ہے جو بڑا ہی ذہن و فطین کاتب ہے، آپ اسے اپنا کاتب کیوں نہیں مقرر کرلیتے؟ تو انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں کسی غیر مسلم کو اپنا بطانہ اور رازداں بنا لوں؟ رازی کہتے ہیں کہ عمر (رض) نے اسی آیت سے استدلال کیا تھا۔ اور اس ممانعت کی علت قرآن نے یہ بتائی کہ غیر مسلم ہمیشہ مسلمانوں کی تباہی و بربادی کی سوچتے رہتے ہیں، اور ہر وقت تمنا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ اے مسلمانو ! کیا تم دیکھتے نہیں کہ ان کا چھپا ہوا بغض و حسد کبھی کبھار ان کی زبانوں سے ظاہر ہوتا رہتا ہے۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ غیر مسلموں کو مسلم ممالک کی آفسوں میں ایسی ذمہ داریاں نہیں دینی چاہئے، جن کے ذریعہ وہ مسلمانوں کے راز حاصل کریں، اور دشمنوں کو ان کی اطلاع دیں۔ مفسر ال کیا الہرسی لکھتے ہیں کہ اس آیت کے پیش نظر کسی ذمی (غیر مسلم جو مسلمانوں کے ملک میں رہتا ہے) سے مسلمانون کے کسی معاملے میں مدد لینی جائز نہیں۔ آل عمران
119 84۔ اس ممانعت کی مزید علت بیان کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ تم اپنی سادگی میں ان سے محبت کرتے ہو، اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ تمہیں بالکل نہیں چاہتے، بلکہ شدت نفرت اور شدت بغض و عداوت کی وجہ سے اپنے دانتوں سے اپنی انگلیاں کاٹتے ہیں کہ کب انہیں کوئی ایسا موقع ملے کہ تمہارے وجود سے چھٹکارا پا لیں۔ اس کے بعد اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا، آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ اپنے غیظ و غضب کے مارے زندہ رہتے ہوئے بار بار مرتے ہو، اللہ تو اپنی نعمت کو مسلمانوں پر تمام کر کے رہے گا اور اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنا کر رہے گا۔ آل عمران
120 85۔ کافروں کی مسلمانوں سے شدت عداوت کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے، اللہ نے فرمایا کہ تم ان کافروں سے دوستی رکھتے ہو، جب کہ تم سے ان کی عداوت کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی بھلائی تمہیں چھو بھی جاتی ہے تو انہیں تکلیف ہوتی ہے، اور اگر تم پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے، تو مارے خوشی کے آپے سے باہر نکلے جاتے ہیں۔ تو بھلا ایسوں کو دوست بنانا کہاں کی دانشمندی ہے؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کافروں کے شر و فساد سے بچنے کا یہ طریقہ بتایا کہ مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے آزمائشوں پر صبر کی عادت ڈالنی چاہئے، ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہئے، تقوی اور بندگی کی راہ اختیار کرنی چاہئے، اور غیر مسلموں سے مدد نہیں لینی چاہئے، اگر وہ ایسا کریں گے تو کافروں کا مکر و فریب انہیں نقصان نہیں پہنچائے گا، اس لیے کہ جو اللہ پر توکل کرے گا، آزمائشوں پر صبر کرے گا اور صرف اسی سے مدد مانگے گا، وہ یقیناً اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگا۔ اللہ اسے کبھی بھی ضائع نہیں کرے گا، اور دشمن کے مقابلہ میں اسے فتح و نصرت عطا کرے گا، اور جو غیروں سے مدد چاہے گا، اللہ اسے اس کے نفس کے حوالے کردے گا، اور اپنی نصرت سے اسے محروم کردے گا۔ کاش مسلمان آج بھی یہ نسخہ استعمال کر کے دیکھتے اور اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کے سامنہ جبہ سائی نہ کرتے، بڑی طاقتوں کو اپنا معبود نہ بناتے، اللہ کے بجائے ان سے مدد نہ مانگتے، تو اللہ کا وعدہ ہمیشہ کے لیے ایک ہی ہے، فتح و کامیابی ان کا قدم چومتی، عزت و سیادت ان کے سر کا تاج ہوتی اور دوسری قومیں ان کے سامنے گھٹنا ٹیک دیتیں، کیا کوئی ہے جو اس آواز پر کان دھرے؟ آل عمران
121 86۔ غزوات کے مورخین اور جمہور علماء کی رائے ہے کہ یہ آیت واقعہ احد کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اور اس واقعہ کے ساتھ غزوہ بدر کے ذکر کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ فتح و نصرت اور شکست و ناکامی کے باب میں نظام الٰہی یہ ہے کہ صبر و تقوی کا نتیجہ نصرت و کامیابی ہوتی ہے، اور بے صبری اور عدم تقوی کا لازمی نتیجہ شکست و ناکامی ہوتی ہے اور اس کی مثال مسلمانوں کا ماضی قریب ہے، کہ میدان احد میں بے صبری اور حرص دنیا کا ثبوت دیا تو فتح کے بعد شکست کا منہ دیکھنا پڑا، اور ان کے دشمنوں نے خوشی کے نغمے گائے، اور میدانِ بدر میں صبر و شکیب کا ثبوت دیا، اور تقوی اور تعلق باللہ کی راہ پر گامزن رہے تو اللہ تعالیٰ نے نہیں فتحیاب کیا، اور ان کے ستر بڑے بڑے دشمن مارے گئے، اور ستر قیدی بنے، اور غنیمت کا بہت سا مال ان کے ہاتھ آیا۔ اس آیت سے جنگ احد کے واقعہ کی ابتدا ہوتی ہے۔ اور تقریباً ساٹھ آیتوں میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ یہ واقعہ شوال 3 ہجری میں وقوع پذیر ہوا، اور اس کا سبب یہ تھا کہ جنگ بدر میں جب قریش کے سرداران مارے گئے، اور رسوا کن شکست سے دوچار ہوئے، تو مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے کفار قریش ابو سفیان کی قیادت میں تین ہزار کی تعداد میں جبل احد کے قریب آ کر جمع ہوگئے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا کہ مدینہ میں رہ کر ہی دفاع کیا جائے، یا باہر نکل کر مقابلہ کیا جائے، کچھ لوگوں کی پہلی رائے تھی، عبداللہ بن ابی بن سلول راس المنافقین کی بھی یہی رائے تھی۔ کچھ نوجوان اور پرجوش صحابہ کی رائے دوسری تھی، اور اس پر انہوں نے اصرار کیا، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی دوسری رائے کے مطابق گھر کے اندر تشریف لے گئے، اور زرہ پہن کر باہر آگئے، دوسری رائے والے صحابہ نے سمجھا کہ شاید ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجبور کیا ہے، اس لیے انہوں نے آپ سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو پہلی رائے پر عمل کریں۔ تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کا نبی جب زرہ پہن کر گھر سے باہر آجاتا ہے تو اسے اس وقت تک نہیں اتارتا جب تک اس کے اور اس کے دشمن کے درمیان اللہ تعالیٰ فیصلہ نہ کردے۔ چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ہزار لشکر کے ساتھ جمعہ کے بعد جبل احد کی طرف روانہ ہوگئے۔ عبداللہ بن ابی مقام ’ شوط‘ سے اپنے تین سو افراد کے ساتھ یہ بہانا بنا کر واپس آگیا کہ ہماری بات نہیں مانی گئی۔ جنگ ہوئی اور مسلمانوں کو فتح ہوئی، لیکن جن تیر اندازوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبل احد پر مقرر کیا تھا اور کہا تھا کہ اگر ہمیں چڑیاں بھی اچک کرلے جائیں تو بھی اپنی جگہ نہ چھوڑنا، انہوں نے مال غنیمت لوٹنے کے لیے اپنی جگہ چھوڑ دی، اور خالد بن ولید نے اس طرف سے حملہ کردیا، اور مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل گئی (تفصیل کے لیے دیکھئے زاد المعاد، ابن القیم رحمہ اللہ) بعض لوگوں نے غدوت کا معنی صبح کے وقت نکلنا کیا ہے، اور پھر یہ اشکال پیدا کیا ہے کہ پھر یہ کیسے صحیح ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے بعد نکلے، صاحب فتح البیان نے لکھا ہے کہ بسا اوقات، غدو، مطلق خروج کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، یہاں بھی غدوت، خرجت، کے معنی میں ہے، اس لیے اشکال باقی نہیں رہتا۔ آل عمران
122 87۔ یہاں دونوں گروہوں سے مراد خزرج کا قبیلہ بنو سلمہ، اور اوس کا قبیلہ بنو حارثہ ہے۔ بخاری اور مسلم نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی تھی، اور یہ ہمیں بہت پسند اس لیے ہے کہ اس میں اللہ نے اپنے آپ کو ہم دونوں قبیلے والوں کو دوست بتایا ہے۔ آل عمران
123 88۔ اوپر بیان ہوچکا کہ واقعہ احد کے ساتھ غزوہ بدر کے ذکر کرنے کا مقصد مسلمانوں کو یہ بتانا ہے کہ اللہ پر توکل اور صبر وتقوی کا پھل فتح و کامرانی ہوتی ہے، جنگ بدر میں یہی ہوا کہ مسلمان ہر طرح سے کمزور تھے، لیکن جب انہوں نے اللہ پر بھروسہ کیا، اور صبر و ثبات قدمی سے کام لیا تو اللہ نے انہیں کافروں پر غلبہ دیا۔ آل عمران
124 89۔ اس آیت میں مسلمانوں سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وعدے کا ذکر ہے، کہ اللہ تعالیٰ ان کی تین ہزار فرشتوں سے مدد کرے گا، اور اس کے بعد والی آیت میں پانچ ہزار فرشتوں کے ذریعہ مدد کے وعدے کا ذکر ہے، اللہ کا یہ وعدہ جنگ بدر سے متعلق تھا یا جنگ احد سے متعلق، مفسرین کے دونوں اقوال ہیں۔ راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس وعدے کا تعلق یوم بدر سے تھا، اس لیے کہ سیاق کلام واقعہ بدر سے متعلق ہے۔ اور سورۃ انفال میں واقعہ بدر کے بیان میں ایک ہزار فرشتوں کے ذریعہ مدد کا جو ذکر ہے، وہ اس آیت میں تین ہزار یا اس سے زیادہ کے ذریعہ مدد کے منافی نہیں ہے، اس لیے کہ سورۃ انفال والی آیت میں ایک ہزار فرشتوں کے ذکر کے بعد مردفین کا لفظ آیا ہے، یعنی ایک ہزار کے بعد مزید فرشتے آئیں گے۔ ربیع بن انس کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کی ایک ہزار کے ذریعہ مدد کی، پھر تین ہزار کے ذریعہ، پھر جب صبر اور تقوی کا مظاہرہ کیا تو پانچ ہزار کے ذریعہ، اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ سورۃ انفال میں واقعہ بدر سے متعلق سیاق کلام، بالکل ان آیتوں کے سیاق کلام کے مشابہ ہے، یعنی دونوں ہی سیاق کلام واقعہ بدر سے متعلق ہے۔ آل عمران
125 آل عمران
126 90۔ فرشتوں کے ذریعہ امداد کی خبر مسلمانوں کے لیے ایک خوشخبری تھی، اور مقصد یہ تھا کہ ان کے دل مطمئن ہوں، ورنہ نصرت وفتح تو اللہ کی طرف سے آتی ہے، اللہ کسی سبب کا محتاج نہیں ہے۔ اس کے بعد آیت (127) میں اللہ نے فرمایا کہ اللہ چاہتا ہے کہ کفار قتل و بند کی سزا بھگتیں، یا شکست کے بعد ذلت و رسوائی اٹھائیں ْ آل عمران
127 آل عمران
128 91۔ یہ ایک جملہ معترضۃ ہے، جس سے مقصود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو متنبہ کرنا ہے کہ کہیں آپ کے ذہن و دماغ میں یہ بات نہ آجائے کہ آپ کی ذات بھی کچھ مؤثر ہے، اور آپ کے عقیدہ توحید میں فرق آجائے، آپ تو ایک انسان ہیں آپ کا کام اللہ کے حکم کے مطابق انسانوں کو ڈرانا ہے، ان کی بخشش یا عذاب کا معاملہ تو صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کسی دن فجر کی نماز میں کہا کرتے تھے کہ اے اللہ ! فلاں اور فلاں قبائل عرب پر لعنت بھیج، تو یہ آیت اتری کہ (لیس لک من الامر شیء) ابن عمر (رض) سے بخاری اور احمد نے روایت کی ہے کہ جب جنگ احد میں آپ زخمی ہوئے، تو کہا کہ وہ قوکیسے فلاح پائے گی جس نے اپنی نبی کے ساتھ ایسا کیا، تو یہ آیت اتری، آیت 129 میں اسی مضمون کی تائید ہے، کہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک اللہ ہے، وہ جسے چاہے گا معاف کردے گا، اور جسے چاہے گا عذاب دے گا، کسی بندے کو، چاہے وہ نبی مرسل ہو یا ولی مکرم، یہ اختیار حاصل نہیں کہ کسی کی قسمت کا فیصلہ کرے، اور کسی کو جنت میں بھیج دے اور کسی کو جہنم میں۔ آل عمران
129 آل عمران
130 92۔ واقعہ احد کے بیان میں سود کا بیان اچانک آگیا ہے، اس کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی آیت 120 اور 125 میں یہ بتایا گیا ہے کہ فتح و نصرت کا راز صبر و تقوی میں مضمر ہے، اور تقوی ہی دنیا و آخرت کی ہر کامیابی کا ذریعہ ہے، تو طبعی طور پر ذہنوں میں تقوی کی صفات جاننے کا شوق پیدا ہوا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے (جنگ احد کی مزید تٖفصیلات بیان کرنے سے پہلے) تقوی کی اہم صفات کو بیان کیا، اور یہی وجہ ہے کہ یہاں سود سے متعلق آیتوں میں تین بار لفظ (تقوی) کو دہرایا گیا ہے، گویا سود نہ لینا تقوی کی اہم صفت ہے۔ ایک دوسرا سبب یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنگ احد میں فتح، شکست میں اس وجہ سے بدل گئی کہ تیرانداز مسلمان مال کی لالچ میں پڑگئے، اور لالچ اور دولت پرستی کی سب سے گھناؤنی صورت ” سود“ ہے، اسی لیے اللہ نے اس سے منع فرمایا، اور اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کی فضیلت بیان کی۔ زمانہ جاہلیت میں جب قرض کی مدت پوری ہوجاتی، تو قرض والا کہتا کہ تم میری رقم واپس کرو، یا میں مدت بڑھا دیتا ہوں اور تم رقم میں اضافہ کرو، آیت میں لفظ ” ایمان“ کے ساتھ خطاب سے اس طرف اشارہ ہے، کہ ایمان کا تقاضا سود کو چھوڑ دینا ہے۔ اور سورۃ بقرہ میں سودی کاروبار کو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کہا گیا ہے۔ کئی گنا بنا کر سود لینے کا ذکر، زمانہ جاہلیت کی عادت بیان کرنے کے لیے کیا گیا ہے، کہ وہ لوگ ایسا کرتے تھے، ورنہ سود تو ہر حال میں حرام ہے، چاہے کم ہو یا زیادہ، اور تقوی کا تقاضا یہی ہے کہ سود نہ لیا جائے۔ آل عمران
131 آیت 131 میں سود خوروں کو اس آگ سے ڈرایا گیا ہے جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ معلوم ہوا کہ سود خوری کبھی آدمی کو کفر تک لے جاسکتی ہے۔ امام ابو حنیفہ (رح) سے مروی ہے، وہ کہتے تھے کہ قرآن کریم میں یہ آیت سب سے زیادہ خوف دلانے والی ہے، کہ اگر مسلمانوں نے تقوی کی راہ اختیار نہ کی تو اس آگ کا سامنا کرنا پڑے گا جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے آل عمران
132 آیت 132 میں مزید تاکید کے طور پر اللہ نے ایمان والوں کو حکم دیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اور سود لینا یکسر بند کردیں، تاکہ اللہ کی رحمت ان کے شامل حال ہو۔ آل عمران
133 آیت 133 میں اللہ تعالیٰ نے نصیحت کی ہے کہ ایمان والے ان اعمال صالحہ کی طرف سبقت کریں جو اللہ کی مغفرت کا سب بنتے ہیں، اور جن کی وجہ سے اللہ اپنے فضل و کرم سے انہیں اس جنت میں داخل کرے گا جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، اور جو متقیوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ یہاں جنت کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر بتائی گئی ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ جنت کی حقیقی وسعت ہے، اور اس کا ذکر یہاں اس لیے آیا ہے تاکہ معلوم ہو کہ اس کا طول اس کے عرض سے یقیناً زیادہ ہوگا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ اللہ کی جنت ہمارے گمان سے بہت ہی زیادہ وسیع ہوگی۔ آل عمران
134 آیت 134 میں اہل جنت کی صفات بیان کی گئی ہے کہ وہ لوگ وسعت اور تنگی ہر حال میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور جب انہیں غصہ آتا ہے تو اسے پی جاتے ہیں، اور اس پر عمل نہیں کرتے، امام احمد نے جاریہ بن قدامہ السدی سے روایت کی ہے، انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے کوئی نفع بخش بات بتائیے، لیکن لمبی بات نہ ہو تاکہ میں اسے یاد کرلو، تو آپ نے فرمایا : غصہ مت کرو، صحابی نے بار بار اپنا سوال دہرایا، اور ہر بار آپ نے ان سے یہی کہا : غصہ مت کرو، اہل جنت کی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ اگر کوئی ان کے ساتھ بد سلوکی کرتا ہے تو اسے معاف کردیتے ہیں، اور اپنے دل میں اس کے خلاف کوئی بغض و کینہ نہیں رکھتے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ شوری آیت 37 میں فرمایا ہے۔ واذا ما غضبوا ھم یغفرون۔ کہ جب انہیں غصہ آتا ہے تو لوگوں کو معاف کردیتے ہیں۔ آل عمران
135 93۔ اہل جنت کی ایک اور صفت یہ بتائی گئی کہ جب ان سے کبیرہ یا صغیرہ گناہ کا ارتکاب ہوجاتا ہے، تو انہیں اللہ سے حیا آتی ہے، اور اس کے عقاب کا ڈر لاحق ہوجاتا ہے، تو فوراً اللہ سے معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے علاوہ گناہوں کو کون معاف کرسکتا ہے؟ اس کے سوا کسے اس کا اختیار حاصل ہے؟ امام احمد نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے سنا ہے کہ ابلیس نے اپنے رب سے کہا تیری عزت و جلال کی قسم، میں بنی آدم کو جب تک ان کی سانس چلتی رہے گی گمراہ کرتا رہوں گا۔ تو اللہ نے کہا، میری عزت و جلال کی قسم، جب تک وہ مجھ سے مغفرت چاہتے رہیں گے، میں انہیں معاف کرتا رہوں گا۔ اور اس طلب مغفرت والی صفت کی تکمیل یہ ہے کہ وہ جانتے ہوئے گناہ پر اصرار نہیں کرتے، یعنی اگر گناہ ہوجاتا ہے تو استغفار کرتے ہیں، کیونکہ دل سے استغفار کرلینے کے بعد اگر دوبارہ اسی گناہ کا ارتکاب ہوجاتا ہے، تو اسے گناہ پر اصرار نہیں کہا جاتا، ابو داود، ترمذی، بزار اور ابویعلی نے ابوبکر (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے اللہ سے مغفرت مانگ لی اس نے گناہ پر اصرار نہیں کیا، چاہے وہ دن میں سو بار اس کا ارتکاب کرے، حافظ ابن کثیر نے اس حدیث کو ” حسن“ کہا ہے۔ امام احمد نے علی بن ابی طالب (رض) سے اور انہوں نے ابوبکر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جب کوئی آدمی گناہ کرتا ہے، تو اس کے بعد اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہے تو اللہ سے معاف کردیتا ہے۔ آل عمران
136 آیت 136 میں مذکورہ بالا صفات والوں کے لیے یہ اجر و ثواب بتایا گیا ہے کہ اللہ ان کے تمام گناہ معاف کردے گا، اور انہیں جنت میں داخل کردے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جس میں وہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے۔ آل عمران
137 94۔ واقعہ احد کے درمیان اس آیت کو لانے کا مقصد مسلمانوں کو تسلی دینا ہے، اور انہیں یہ بتانا ہے کہ تم سے پہلے بھی بہت سی قومیں آئیں، ان کا امتحان ہوا، اور مسلمانوں کو کافروں سے جنگ کرنی پڑی، وہ صبر و ثبات قدمی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے رہے، بالآخر نصرت و فتح یابی مسلمانوں کے حصہ میں آئی اور اللہ کے دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی، اور اگر اس میں شبہ ہو تو دنیا میں گھوم کر دیکھ لو، تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہوا۔ آل عمران
138 اس آیت میں اللہ نے بتایا کہ حق و باطل کو لوگوں کے لیے کھول کھول کر اس کے لیے بیان کردیا گیا ہے تاکہ اللہ سے ڈرنے والے عبرت اور نصیحت حاصل کریں آل عمران
139 اس میں بھی مسلمانوں کو تسلی ہی دی جارہی ہے، کہ میدان احد میں تمہیں جو زخم لگے ہیں، اور تمہارے جو آدمی قتل ہوگئے، اس سے تمہارے پاؤں میں لغزش نہیں آنی چاہئے، اور تمہیں سست اور کاہل نہیں ہونا چاہئے، اس لیے کہ انجام کار غلبہ تمہیں نصیب ہوگا، اور اسلام کا بول بالا ہوگا، ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تم اپنے دل مضبوط رکھو، اللہ پر بھروسہ رکھو، اور دشمنوں کی پرواہ نہ کرو، آل عمران
140 96۔ یہاں بھی مسلمانوں کو ایک دوسری طرح سے تسلی دی جا رہی ہے کہ میدانِ احد میں اگر تمہیں زخم لگے ہیں، اور تمہارے لوگ قتل ہوئے، تو تمہارے دشمنوں کے ساتھ بھی تو ایسا ہوا ہے، لیکن کافر ہوتے ہوئے، انہوں نے اپنی قوم کو بزدلی نہیں دکھائی، اور اپنی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا، تم تو مسلمان ہو، اللہ نے تم سے فتح و نصرت کا وعدہ کر رکھا ہے، اس لیے تمہیں بدرجہ اولی قوت و شجاعت کا مظاہرہ کرنا چاہئے، اور یہ تو دنیاوی اور عارضی زندگی ہے، یہاں تو ایسا ہی ہوتا رہتا ہے کہ کبھی اللہ کے دوستوں کو غلبہ حاصل ہوتا ہے، اور کبھی اس کے دشمنوں کو اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، اور وہاں کی کامیابی اصل کامیابی ہے، اور وہ مومنوں کے ساتھ خاص ہے، اور ایسا اس لیے بھی ہوتا ہے تاکہ مومنوں اور منافقوں میں تمیز ہوسکے، اور کچھ لوگوں کو شہادت کا مقام مل سکے، اور تاکہ اللہ مومنوں کو ان کے گناہوں سے اور ان کے نفس کے آفات سے پاک کردے (جیسا کہ اس واقعہ نے مسلمانوں کو منافقوں سے ممتاز کردیا) اور تاکہ کافروں کو ہلاک کردے، وہ اس طرح کہ جب وہ غالب آئیں گے تو کبر و غرور میں طاغوتی طاقت بن کر ابھریں گے، مسلمانوں سے ٹکرائیں گے، اور پھر پاش پاش ہوجائیں گے، چنانچہ ان تمام کافروں کا انجام جنہوں نے جنگ احد میں حصہ لیا بعد میں ایسا ہی ہوا، سبھی مارے گئے یا ذلیل و خوار ہو کر در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ آل عمران
141 آل عمران
142 97۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے کہا کہ تم یہ نہ گمان کرو کہ بغیر جہاد کیے ہی جنت میں داخل ہوجاؤ گے، اس لیے غزوہ احد میں جو کچھ ہوا اسے ہونا ہی تھا، تاکہ اللہ تعالیٰ عملی طور پر جان لے کہ کون اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے، اور اس راہ کی کٹھنائیوں پر صبر کرتا ہے، قرآن کریم میں اللہ نے اس مضمون کو کئی جگہ دہرایا ہے۔ سورۃ بقرہ آیت 214 اور سورۃ عنکبوت آیت 1، 2 میں اس مضمون کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ آزمائشوں کی بھٹی میں ڈال کر صبر کرنے والے مجاہدین کو میدانِ کار زار چھوڑ کر بھاگنے والوں سے الگ کرنا چاہتا ہے۔ آل عمران
143 آیت 143 میں اللہ تعالیٰ نے کلام کا رخ پھر واقعہ احد کی طرف پھیر دیا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہدائے بدر کی فضیلت بیان کی، تو جن صحابہ کرام کو اس میں شرکت کا موقع نصیب نہیں ہوا تھا، انہوں نے جہاد کی تمنا کی، تاکہ شہید ہو کر اپنے بدری بھائیوں جیسی فضیلت کے حقدار بن جائیں۔ چنانچہ غزوہ احد کے موقع سے وہ دن آہی گیا، لیکن جب حالات نے پلٹا کھایا، اور موت سامنے نظر آنے لگی تو بہت سے صحابہ کرام بھاگ کھڑے ہوئے، اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے، اور ایک قسم کا عتاب ہے کہ تم لوگ تو موت کی تمنا کر رہے تھے، اور جب اس کا منظر تمہاری آنکحوں کے سامنے آگیا تو میدان چھوڑ بیٹھے ! بخاری ومسلم نے عبداللہ بن ابی اوفی (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرو، اور اللہ سے عافیت کی دعا کرتے رہو، لیکن جب دشمن کا سامنا ہوجائے تو صبر سے کام لو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ آل عمران
144 98۔ غزوات کے مورخین نے لکھا ہے کہ جب کچھ مسلمان میدان احد سے شکست کھا کر بھاگ پڑے تو عبداللہ بن قمیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کی غرض سے آگے بڑھا، مصعب بن عمیر (رض) مسلمانوں کا جھنڈا لیے وہیں موجود تھے، انہوں نے آپ کی طرف سے دفاع کرنا چاہا تو ابن قمیہ نے انہیں قتل کردیا، اور اسے گمان ہوگیا کہ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کردیا اور کہنا شروع کردیا کہ میں نے محمد کو قتل کردیا، شیطان بھی چیخ پڑا کہ محمد کا قتل ہوگیا، جب بہت سے مسلمانون کے کانوں میں یہ آواز پڑی تو جنگ کرنا بند کردیا اور تھر اکر بیٹھ گئے، بعض نے کہا کہ کاش کوئی آدمی ہمارے لیے ابوسفیان سے امان مانگ لیتا، بعض منافقین نے کہا کہ اگر محمد نبی ہوتا تو قتل نہ ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر اس ذہنیت کی تردید کی اور کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو ایک نبی ہیں۔ ان سے پہلے بھی اللہ کے بہت سے انبیاء و رسل گذر چکے ہیں، تو کیا اگر وہ مرجائیں گے یا قتل کردئیے جائیں گے تو تم لوگ اللہ کے دین سے پھر جاؤ گے؟ یاد رکھو کہ جو شخص دین اسلام سے صرف اس وجہ سے پھرجائے گا تو وہ صرف اپنے آپ کو نقصان پہنچائے گا، کیونکہ دین تو اللہ کا ہے اور عبادت اللہ کی کرنی ہے، وہ تو ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا، کسی نبی یا رسول کی موت یا قتل سے اللہ کا دین دنیا سے اٹھ نہیں جاتا، اسی لیے انس بن مالک کے چچا انس بن النضر نے جب صحابہ کا یہ حال دیکھا تو کہا کہ اے لوگو ! اگر محمد قتل کردئیے گئے تو محمد کا رب زندہ ہے، وہ کبھی نہیں مرے گا، اور تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد زندہ رہ کر کیا کرو گے، آؤ جس مقصد کے لیے محمد نے جنگ کی، اسی کے لیے تم بھی جنگ کرو، اور جس کی خاطر محمد نے جان دے دی، تم بھی جان دے دو، ھر کہا، اے اللہ ! یہ لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کے لیے معافی مانگتا ہوں اور اپنی براءت کا اظہار کرتا ہوں، پھر اپنی تلوار کھینچ کر جنگ کرنی شروع کردی یہاں تک کہ قتل کردئیے گئے، (رض) (دیکھئے بخاری، کتاب الجہاد، باب : 12) امام ابن لقیم نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ اس آیت کریمہ کا جو مضمون ہے اور اس میں جس سزا کا ذکر ہے، اس کی حقیقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے وقت کھل کر سامنے آئی کہ بہت سے منافقین اور ضعیف الایمان لوگ ایمان سے مرتد ہوگئے، اور جو مخلص لوگ اسلام پر ثابت قدم رہے اللہ نے انہیں عزت دی اور فتح و نصرت سے نوازا، انتہی۔ بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے دن ابوبکر صدیق (رض) نے اسی آیت کی تلاوت کی، اور ان کی تلاوت سن کر تمام صحابہ نے تلاوت کرنی شروع کردی اور عمر (رض) تھرا کر بیٹھ گئے، اور انہیں ایسا معلوم ہوا کہ جیسے یہ آیت آج ہی نازل ہوئی ہے آل عمران
145 99۔ میدانِ جنگ چھور کر بھاگنے والے مسلمانوں کی ہمت افزائی کی جا رہی ہے کہ موت کا ایک دن مقرر ہے، اس دن اور اس وقت سے پہلے موت نہیں آسکتی، اور جب اس کا مقرر وقت آجائے گا تو کوئی اس سے بچ نہیں سکتا۔ اس لیے بزدلی دکھانے سے کیا فائدہ۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جو اپنے نیک اعمال کے ذریعہ دنیاوی فوائد و مصالح کے حصول کی نیت کرتا ہے تو اسے ہم اس کی مانگ کے مطابق دیتے ہیں، لیکن آخرت میں اس کا کوئ اجر اسے نہیں ملے گا، اور جو آخرت میں اجر و ثواب کی نیت کرتا ہے تو اسے ہم اس کی نیت کے مطابق دیتے ہیں، اور ہم شکر گذار بندوں کو ان کا اجر و ثواب ضرور دیں گے۔ آل عمران
146 100۔ میدان احد میں مسلمانوں سے جو تقصیر ہوئی اور ماضی میں اللہ والے مجاہدین کا جہاد میں اپنے رسولوں کے ساتھ جیسا معاملہ رہا، دونوں کا تقابل کر کے مسلمانوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تمہیں ان اللہ والے مجاہدین کی زندگی سے سبق حاصل کرنا چاہپئے کہ میدان جنگ میں انہیں زخم لگے یا ان کے افراد شہید ہوئے، تو انہوں نے دشمنوں کے سامنے کمزوری اور شکست خوردنی کا مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ ثبات قدمی کا ثبوت دیا۔ آل عمران
147 101۔ اللہ والے مجاہدین کی عملی خوبیاں بیان کرنے کے بعد ان کے قول کی خوبی بیان کی جا رہی ہے کہ وہ لوگ اللہ کے حضور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے تھے، تو بہ و استغفار کرتے تھے، اور اپنے رب سے دعا کرتے تھے کہ اے اللہ ! ہمیں ثبات قدم عطا فرما اور دشمنوں پر غلبہ دے۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ گناہوں کی وجہ سے ہی دشمن غالب آجاتا ہے، اور شیطان کو مسلمانوں کے دشمنوں کی مدد کا موقع مل جاتا ہے، فتح و کامرانی کی شرط اول اللہ کی اطاعت و بندگی ہے، اسی لیے اللہ کے نیک بندوں کے : ربنا الغفرلنا ذنوبنا واسرافنا فی امرنا۔ انہیں معلوم تھا کہ ثبات قدمی اور نصرت و فتح اللہ کی طرف سے ملتی ہے، اس لیے انہوں نے اللہ سے ثبات قدمی اور دشمن پر غلبہ کے لیے دعا کی۔ انتہی۔ آل عمران
148 اس آیت میں یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان نیک بندوں کو ان کی توحید، اللہ پر توکل کامل اور گناہوں سے معافی مانگنے کی وجہ سے دنیا میں بھی کامیابی دی، اور آخرت میں اپنے فضل و کرم سے انہیں جنت دے گا، آیت کے آخر میں اللہ نے ان کا اچھے نام کے ساتھ ذکر کر کے ان سے محبت کا اظہار کیا۔ آل عمران
149 102۔ سیاق کلام جنگ احد سے ہی متعلق ہے۔ اوپر گذر چکا کہ شیطان نے مشہور کردیا کہ محمد کا قتل ہوگیا، تو منافقین نے بعض مسلمانوں سے کہا کہ اگر محمد نبی ہوتے تو قتل نہ ہوجاتے، اس لیے تم لوگ اپنے آباء و اجداد کے دین کی طرف پھر جاؤ، چونکہ یہ بات اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی سازش تھی، اس لیے اللہ نے انہیں متنبہ کیا، کہ اگر تم لوگوں نے ان کافروں کی اطاعت کی تو یہ تمہیں اسلام سے برگشتہ بنا دیں گے، اور ہر طرح کا خسارہ تمہارا نصیب بن جائے گا۔ آل عمران
150 اس آیت میں اللہ نے کہا کہ اے مسلمانوں ! اللہ ہی تمہارا مولی اور دوست ہے، اس لیے تم لوگ اسی کی اطاعت کرو، اور وہ سب سے بہترین مددگار ہے۔ آل عمران
151 103۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ واقعہ احد کے بعد جب مشرکین مکہ کی طرف واپس ہونے لگے، تو انہیں پھر خیال آیا کہ دوبارہ مدینہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کی جڑ ہی کیوں نہ کاٹ دی جائے، بہت برا کیا کہ ہم نے انہٰں قتل تو کیا لیکن بھاگنے والوں کو چھوڑ دیا، چنانچہ انہوں نے طے کیا کہ واپس جا کر مسلمانوں کا صفایا کردیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا، اور وہ ڈر گئے کہ اگر اب دوبارہ گئے تو زخمی شیر انہیں زندہ نہیں واپس آنے دیں گے۔ اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کے مشرکانہ عمل کی وجہ سے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا۔ بخاری و مسلم نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے پانچ ایسی چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملیں۔ میرا دشمن ایک ماہ کی مسافت پر بیٹھا مجھ سے خوفزدہ رہتا ہے۔ الحدیث آل عمران
152 104۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ واقعہ احد کے موقع سے بھی اللہ کا وعدہ سچا تھا کہ وہ اپنے مومن بندوں کی مدد کرتا ہے، اور کافروں پر انہیں غلبہ دیتا ہے، چنانچہ اس نے تمہیں تمہارے دشمنوں پر غلبہ دیا تھا، اور اگر تم اطاعت و فرمانبرداری پر قائم رہتے اور رسول کے حکم کی اتباع کرتے، تو اللہ کی نصرت آخرت تک تمہارے لیے باقی رہتی، لیکن جب تم نے روگردانی کی اور اپنے مرکز کو چھوڑ دیا، تو بطور عقاب اللہ کی نصرت تم سے چھن گئی، اور پاسا پلٹ گیا، (اس کی تفصیل آیت 121 میں گذر چکی ہے، وہاں دیکھ لیجیے) ” بعض نے دنیا کا ارادہ کیا“ یعنی مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعین کیے ہوئے مرکز کو چھوڑ دیا، اور“ بعض نے آخرت کا ارادہ کیا“ یعنی شوق شہادت میں جنگ کرتے رہے، جیسا کہ انس بن نضر نے کیا کہ دشمنوں سے لڑتے رہے، یہاں تک کہ شہید ہوگئے، پھر اللہ نے مسلمانوں کو کافروں کا پیچھا کرنے سے روک دیا، تاکہ اس واقعہ کو مسلمانوں لیے امتحان و آزمائش کا سبب بنا دے، اور تاکہ وہ اللہ کی طرف رجوع کریں، اور اپنے گناہوں سے معافی مانگیں، اس کے بعد اللہ نے خبر دی ہے کہ اس نے مسلمانوں کی لغزشوں اور خطاؤں کو معاف کردیا۔ آل عمران
153 105۔ سلسلہ کلام غزوہ احد کے بارے میں ہی ہے۔ جب خالد بن ولید کے دستہ نے باقی ماندہ تیر اندازوں کو قتل کر کے پہاڑی کی طرف سے حملہ کردیا، تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی، اور رعب و دہشت کی وجہ سے ایسا سرپٹ بھاگے کہ کسی کی طرف مڑ کر دیکھتے بھی نہیں تھے۔ بعض مدینہ کی طرف بھاگے، اور بعض پہاڑوں کی طرف، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو بلانے لگے کہ اے اللہ کے بندو ! میری طرف آؤ، اے اللہ کے بندو ! میری طرف آؤ، مسند امام احمد میں براء بن عازب (رض) کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صرف بارہ (آدمی رہ گئے تھے۔) اور مسلم میں انس بن مالک (رض) کی روایت ہے کہ صرف نو آدمی رہ گئے تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ راہ فرار اختیار کرنے کی وجہ سے انہیں مال غنیمت فوت ہوجانے کا غم، شکست کا غم، بہتوں کے زخمی ہونے کا غم، بہتوں کے قتل ہونے کا غم اور پھر یہ غم اٹھانا پڑا کہ شیطان نے یہ بات پھیلا دی کہ محمد کا قتل ہوگیا، اور یہ سب اس لیے ہوا تاکہ انہیں مصیبتوں پر صبر کرنے کی عادت پڑے، اور ان کے دلوں میں یہ بات بیٹھ جائے کہ فتح و نصرت اور حصول مال غنیمت سب اللہ کی جانب سے ہوتا ہے، ان کی قدرت و طاقت کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ آل عمران
154 106۔ ان تمام غم و آلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان مخلص مسلمانوں پر، جنہیں یقین تھا کہ اللہ اپنے رسول کی ضرور مدد کرے گا، اور ان کی امیدوں کو ضرور پوری کرے گا، بطور امن و سکون ایک اونگھ طاری کردی۔ امام بخاری نے ابو طلحہ (رض) کا قول نقل کیا ہے، کہ میدانِ احد میں لوگ صفوں میں کھڑے تھے، اور ہم پر اونگھ کا غلبہ تھا، میری تلوار میرے ہاتھ سے گر جاتی تھی اور میں دوبارہ اسے پکڑ لیتا تھا، ترمذی کے الفاظ ہیں، ابو طلحہ (رض) نے کہا کہ میں نے میدان احد میں سر اٹھایا تو دیکھا کہ ہر آدمی اونگھ کی وجہ سے جھکا پڑا ہے۔ فخر الدین رازی نے لکھا ہے کہ اونگھ کے کئی فوائد تھے۔ ایک اہم فائدہ یہ ہوا کہ دشمنان اسلام مسلمانوں کو یکسر ختم کردینے کے درپے تھے، اس لیے نیند کی حالت میں محفوظ و مامون رہنا اس بات کی سب سے بڑی دلیل تھی، کہ اللہ تعالیٰ نے اس حال میں بھی ان کا حامی و ناصر تھا، اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کے وعدے پر ان کا یقین بڑھ گیا، اور دشمن کا خوف ان کے دل سے نکل گیا۔ لیکن منافقین پر یہ اونگھ طاری نہیں ہوئی، انہیں صرف اپنی فکر لاحق تھی، انہیں تو اپنے دین کی فکر تھی، نہ اپنے رسول کی، اور نہ ہی صحابہ کرام کی، خوف و قلقل اور جزع و فزع کی وجہ سے انہیں کہاں نیند آسکتی تھی !! انہوں نے اللہ کے بارے میں بدگمانی شروع کردی، اور اس سوء ظن میں مبتلا ہوگئے کہ اب تو اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ ہوگیا، اور منافقین سے شک اور بد ظنی کے علاوہ اور کس بات کی امید کی جاسکتی تھی؟ منافقین نے اپنے سوء ظن کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگوں کی تو بات چلتی نہیں، اگر ہماری بات مانی جاتی تو آج یہ حال نہ ہوتا، یہ عبداللہ بن ابی بن سلول کی طرف اشارہ ہے، جنگ کے لیے مدینہ سے نکلنے سے پہلے اس نے یہی مشورہ دیا تھا کہ شہر کے اندر ہی رہ کر دفاع کیا جائے، اس لیے جب اسے خبر ملی کہ خزرج کے بہت سے لوگ قتل ہوگئے، تو اس نے مسلمانوں میں بد ظنی پھیلانے کے لیے کہا کہ ھل لنا من الامر من شیء، یعنی ہماری بات تو چلتی نہیں اگر محمد نے میری بات مانی ہوتی تو اتنے لوگ قتل نہ ہوتے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے دیا کہ اگر تم سب اس بات پر اتفاق کرلیتے کہ تم اور وہ تمام لوگ جو قتل ہوگئے اپنے گھروں سے نہ نکلو گے، تو لوح محفوظ میں جنہیں قتل ہوجانا لکھا تھا، وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر اپنی قتل گاہوں تک ضرور پہنچ جاتے، قضا و قدر کی تنفیذ کے لیے اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں ڈال دیتا کہ وہ گھروں سے نکل کر وہاں پہنچ جائیں۔ اور یہ جو کچھ ہوا اس میں بہت سی حکمتیں تھیں، جنہیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے، ایک حکمت یہ تھی کہ مخلص مسلمانوں کا اخلاص اور منافقوں کا نفاق ظاہر ہو، کیونکہ ایسے حالات سے گذرنے کے بعد مومن کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور منافق کے جسم اور زبان سے بے قراری، قلق و اضطراب اور اسلام کے بارے میں عدمِ اطمینان کا اظہار ہونے لگتا ہے۔ اور ایک حکمت یہ بھی تھی کہ امتحان و آزمائش کے مراحل سے گذر کر مومن شیطانی وسوسوں، غفلت اور ان تمام آلائشوں سے نجات پا سکے جو ایمان و اسلام اور اصلاح و تقوی کے منافی ہیں۔ آل عمران
155 107۔ ابن عساکر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے، کہ یہ آیت عثمان بن رافع بن المعلی اور خارجہ بن زید کے بارے میں نازل ہوئی تھی، اس بارے میں کئی دوسری روایتیں بھی آئی ہیں۔ سب کا خلاصہ یہ ہے کہ جب مسلمانوں اور مشرکوں کی مڈبھیڑ ہوگئی اور حالات نے پلٹا کھایا تو کچھ مسلمان بھاگ پڑے، اور یہ سب ان کے بعض گناہوں کی وجہ سے ہوا، اور شیطان کو انہیں بہکانے کا موقع مل گیا۔ حافظ ابن لقیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ انسان کے اعمال لشکر کی مانند ہیں، اگر اچھے ہیں تو ان سے دشمن کے خلاف تقویت ملتی ہے اور اگر برے ہیں تو دشمن کو تقویت ملتی ہے۔ اس کے بعد اللہ نے ان مسلمانوں کو معافی کا اعلان کردیا، اس لیے کہ ان کا فرار نفاق کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک عارضی غلطی تھی۔ آل عمران
156 108۔ یہاں اہل کفر سے مراد منافقین ہیں، جنہوں نے واقعہ احد کے بعد کہا کہ اگر ہماری بات مانی جاتی اور مدینہ سے باہر جا کر دشمنوں سے جنگ نہ کرتے تو اتنے لوگوں کا قتل نہ ہوتا اور اتنے لوگ زخمی نہ ہوتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ہمارے یہ نظریاتی یا خاندانی بھائی سفر میں نہ جاتے یا جنگ میں شریک نہ ہوتے، اپنے گھروں میں رہتے تو انہیں موت لاحق نہیں ہوتی اور قتل نہ کیے جاتے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسا عقیدہ رکھنے سے منع فرمایا اور انہیں حکم دیا کہ اپنی زبان اور دل کی حفاظت کریں۔ نہ دل میں ایسا اعتقاد رکھیں اور نہ ہی زبان پر ایسے کلمات لائیں، کیونکہ ایسے عقیدہ سے صرف منافقین کی حسرت میں اضافہ ہوتا ہے، فائدہ کچھ نہیں ہوتا، اس لیے کہ موت اور زندگی کا مالک اللہ ہے۔ اس نے جس کی موت جب، جس طرح اور جہاں لکھ رکھی ہے، اسی وقت، اسی طرح اور اسی جگہ آئے گی، حضرت خالد بن ولید (رض) نے بستر مرگ پر کہا تھا کہ میرے جسم میں ایک بالشت جگہ بھی تلوار یا نیزے کے نشان سے خالی نہیں اور اب میں اونٹ کی طرح بستر مرگ پر مر رہا ہوں، بزدلوں کی آنکھوں سے نیند اڑ جائے۔ آل عمران
157 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اللہ کی راہ میں جان دینے سے بہتر کوئی موت نہیں، کیونکہ اللہ اس کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے، اور اس پر اپنی رحمت نازل کرتا ہے، جو دنیا اور اس کی تمام لذتوں سے بہتر ہے۔ آل عمران
158 اس آیت میں بعث بعد الموت کا عقیدہ بیان کیا گیا ہے کہ چاہے آدمی طبعی موت مرے یا قتل کردیا جائے، بہرحال اسے اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اپنے اعمال کا بدلہ پانا ہے۔ آل عمران
159 109۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات عالیہ کا ذکر فرمایا ہے، اور ان پر اور مسلمانوں پر احسان جتایا ہے کہ نرمی کا یہ جذبہ جو آپ کے اندر مسلمانوں کے لیے موجزن ہے، اللہ کا عطیہ ہے، اسی نے آپ پر اور صحابہ کرام پر رحم کھاتے ہوئے یہ جذبہ نرم خوئی آپ کے اندر پیدا کردیا ہے کہ آپ ہر حال میں ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرتے ہیں، ورنہ میدان احد میں انہوں نے آپ کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ تو بڑا ہی غصہ دلانے والا تھا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر آپ بدخلق، سخت زبان، سخت دل ہوتے، اور اپنے صحابہ کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرتے تو ایک ایک کر کے سب آپ سے الگ ہوجاتے اور دعوت کا کام رک جاتا، لیکن اللہ نے آپ کو نرم خو، نرم زبان، خوش مزاج اور رحم دل بنایا ہے۔ امام بخاری اور دوسرے محدثین نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تورات میں وہی صفات بیان ہوئی ہیں جو قرآن میں موجود ہیں، کہ آپ سخت زبان، سخت دل، اور بازاروں میں شور مچانے والے نہ ہوں گے اور برائی کا جواب برائی سے نہیں دیں گے، بلکہ عفو و درگذر سے کام لیں گے۔ اس لیے ان سے آپ کے حق میں جو کوتاہی ہوئی ہے اسے درگذر کردیجئے، جیسا کہ اللہ نے انہیں معاف کردیا ہے، اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کیجیے اور جنگی اور غیر جنگی تمام معاملات میں ان سے مشورہ لیتے رہیے۔ چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی زندگی میں صحابہ کرام سے بہت سے معاملات میں مشورہ کرتے رہے۔ غزوہ بدر کے موقع سے دشمن کی فوج کو جالینے کے بارے میں مشورہ کیا، غزوہ احد کے موقع سے مشورہ کیا کہ شہر میں رہ کر ہی دفاع کیا جائے، یا باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے، غزوہ خندق کے موقع سے مشورہ طلب کیا اور کہا کہ اے مسلمانو ! مجھے مشورہ دو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مسلمانوں کے ساتھ مشورہ کے بعد جو رائے طے پا جائے، اس کام کو کر گذرنے کے لیے اللہ پر بھروسہ کیجئے۔ لوگوں کے مشورہ پر نہیں۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ مقصود انہی امور میں مشورہ کرنا ہے، جن کے بارے میں شرع میں حکم صریح موجود نہ ہو، بعض علمائے امت کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ مسلمان حکام کو علماء سے ان امور میں ضرور مشورہ کرنا چاہئے، جن کے بارے میں وہ کچھ نہیں جانتے۔ قرطبی نے ابن عطیہ کا قول نقل کیا ہے کہ علماء کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو حاکم، اہل علم اور اہل دین سے مشورہ نہیں کرتا اسے معزول کردینا واجب ہے۔ فخر الدین رازی لکھتے ہیں، یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ توکل کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ آدمی اپنے آپ کو مہمل اور بے کار سمجھے، جیسا کہ بعض جاہلوں کا خیال ہے، ورنہ مشورہ کرنا توکل کے خلاف ہوتا، توکل یہ ہے کہ آدمی ظاہری اسباب تو اختیار کرے، لیکن دل سے اس پر بھروسہ نہ کرے، بھروسہ ہو تو صرف اللہ پر۔ آل عمران
160 اس آیت میں اللہ نے فرمایا کہ اگر اللہ تمہاری مدد کرنی چاہے جیسا کہ میدان بدر میں کیا، تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا، اور اگر اپنی مدد کھینچ لے جیسا کہ میدان احد میں کیا، تو کوئی تمہاری مدد کو نہیں آسکتا، اس لیے کہ تمام امور صرف اللہ کے اختیار میں ہیں، اور اس کی مدد فرمانبرداروں کو حاصل ہوتی ہے، اور گناہ زوالِ نعمت اور مغلوبیت و مہزومیت کا سبب ہوتا ہے، اس لیے مومنوں کو صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہئے، اس ایمان ویقین کے ساتھ کہ اس کے علاوہ کوئی حامی و ناصر نہیں۔ آل عمران
161 110۔ ابو داود اور ترمذی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ میدان بدر میں ایک سرخ چادر کھو گئی، تو کسی نے کہا کہ شاید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لے لیا ہے، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ حافظ ابن مردویہ رحمہ اللہ نے ابن عباس (رض) سے ہی روایت کی ہے کوئی چیز کھو گئی تو بعض منافقین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو متہم کیا تو یہ آیت نازل ہوئی، جس سے مقصود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفعت شان اور ان کی عصمت کی شہادت دینی ہے۔ اس کے بعد اللہ نے خیانت کی وعید بیان کی، کہ خائن آدمی قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ خیانت کا مال اس کی گردن پر ہوگا، تاکہ محشر والوں کے سامنے اس کی رسوائی ہو۔ بخاری و مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن خیانت کے بارے میں بات کی اور اسے بہت ہی زیادہ اہمیت دی، پھر کہا، ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی قیامت کے دن میرے سامنے اس حال میں آئے کہ اس کی گردن پر اونٹ ہو جو چیخ رہا ہو، اور وہ کہے کہ یارسول اللہ ! میری مدد کیجیے تو میں کہوں گا کہ آج میں کچھ نہیں کرسکتا، میں نے تمہیں تنبیہہ کردی تھی، اس کے بعد آپ نے اسی طرح گھوڑے، بکری آدمی اور زمین کے ٹکڑوں کا ذکر کیا، اور ہر بار یہی بات دہرائی کہ میں کہوں گا، آج میں کچھ نہیں کرسکتا۔ آل عمران
162 111۔ خائن کی خیانت اور اس کا انجام بیان کرنے کے بعد کسی کو شبہ ہوسکتا تھا کہ دوسروں کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ نہیں ملے گا، اس لیے ایک حکم عام لا کر اس بات کی تاکید کردی گئی کہ جو شخص اپنے اعمال کے ذریعہ اللہ کی رضا کا طالب ہوگا چاہے جو بھی عمل ہو، اس آدمی کی مانند نہیں ہوسکتا جو گناہوں کا ارتکاب کر رہا ہے اور اپنے رب کی ناراضگی مول لے رہا ہے اور پھر بات یہیں نہیں ختم ہوجاتی، بلکہ اللہ کے پاس نیکوں کو ان کے اعمال صالحہ کے درجات کے مطابق درجات ملیں گے، اور بدوں کے بھی جہنم میں (العیاذ باللہ طبقات ہوں گے) آل عمران
163 آل عمران
164 112۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اوپر اپنے احسان کا ذکر کیا ہے، کہ اس نے ان کی رہنمائی کے لیے انہی جیسے ایک عربی آدمی کو اپنا رسول بنا کر بھیجا، تاکہ اس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرسکیں، اور اس کی تعلیمات سے مستفید ہوسکیں، اور چونکہ رسول کی بعثت سے مسلمان ہی حقیقی معنوں میں مستفید ہوئے، اس لیے انہیں کے اوپر احسان کا ذکر آیا، ورنہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے، جیسا کہ اللہ نے سورۃ الانبیاء آیت 107 میں فرمایا، وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین۔ کہ ہم نے آپ کو سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اس رسول کی صفت یہ ہے کہ وہ انہیں قرآن پڑھ کر سناتے ہیں، جبکہ اس کے پہلے ان عربوں کے پاس کوئی وحی نہیں آئی تھی، انہیں دعوت توحید اور دعوت اسلام کے ذریعہ شرک اور گناہوں سے پاک کرتے ہیں، اور انہیں قرآن وسنت کی تعلیم دیتے ہیں، عرب والے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور ان کے تزکیہ و تعلیم کے پہلے کھلی گمراہی میں تھے، بتوں کی پوجا کرتے تھے، حرام اور گندی چیزیں کھاتے تھے، اور ایک دوسرے پر ظلم کرتے تھے، اللہ نے اپنا نبی بھیج کر انہیں ظلمت سے نکال کر روشنی تک پہنچا دیا، اور علم، زہد اور عبادت میں انہیں دنیا کا بہترین انسان بنا دیا، اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر یہ احسان عظیم تھا، جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں آیا ہے۔ فخر الدین رازی نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عربوں میں پیدا کیا، یہ عربوں کے لیے بڑے فخر و شرف کی بات تھی، اس لیے کہ ابراہیم (علیہ السلام) پر فخر کرنا تو یہود، نصاری اور عرب سبھوں میں مشترک تھا، اور یہود و نصاری، موسیٰ، عیسیٰ اور تورات و انجیل پر فخر کیا کرتے تھے۔ عربوں کے پاس ان کے مقابلہ میں فخر کی کوئی بات موجود نہ تھی، جب اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا، اور ان پر قرآن نازل فرمایا، تو یہ عربوں کے لیے بڑے شرف کی بات تھی، جس میں دوسری قومیں شریک نہ تھیں۔ آل عمران
165 113۔ اب تک سیاق کلام غزوہ احد ہی سے متعلق ہے، مسلمان جب قتل، زخم اور شکست کی مصیبتوں سے دوچار ہوئے تو ان کی زبان سے حیرت و استعجاب کے طور پر نکلا کہ ایسا کیسے ہوا؟ جبکہ ہم مسلمان ہیں اور اللہ کی راہ میں اس کے نبی کے ساتھ جہاد کر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تمہیں مصیبت لاحق ہوئی، یعنی تمہارے ستر آدمی قتل ہوگئے (حالانکہ تم میدان بدر میں اپنے دشمن کو اس کے دوگنا زک پہنچا چکے تھے، یعنی ان کے ستر آدمیوں کو قتل کیا، اور ستر کو پابند سلاسل کیا) تو تم نے کہا کہ اللہ نے تو فتح و نصرت کا وعدہ کیا تھا، پھر ایسا کیوں ہوا؟ تو اللہ نے اپنے رسول سے کہا کہ آپ انہیں جواب دیجئے کہ یہ تمہارے کرتوت کا ہی نتیجہ ہے، تم نے مرکز کر چھوڑ کر اپنے نبی کے حکم کی مخالفت کی تو یہ دن دیکھنا پڑا، اس لیے کہ اللہ کا وعدہ تو اطاعت اور ثبات قدمی کے ساتھ مشروط تھا۔ آل عمران
166 یہ اور اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ معرکہ احد میں جب مومنین اور کفار کی مڈبھیڑ ہوئی، اور تمہیں مصیبت لاحق ہوئی، تو وہ اللہ کی تقدیر کا نتیجہ تھا، تاکہ صادق الایمان مسلمانوں کی حقیقت کھل کر سامنے آجائے، اور ان منافقین کا بھی پتہ چل جائے جو اللہ، اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ اپنی دوستی کا دم بھرتے تھے، حالانکہ ان کے دل کفر اور اللہ اور اس کے رسول کی عداوت سے بھرے ہوئے تھے، اور جب ان سے کہا گیا کہ آؤ اللہ کی راہ میں جہاد کرو، یا کم از بظاہر ہی سہی مسلمانوں کی تعداد تو بڑھاؤ، تو انہوں نے کہا کہ اگر ہم جانتے کہ واقعی یہ جنگ ہے اور شہر سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے، تو ہم تمہارا ساتھ دیتے، لیکن تمہارا یہ فیصلہ تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کی طرف اشارہ ہے، جب مقام شوط سے ایک تہائی کی تعداد میں منافقین، عبداللہ بن ابی کی بات مانتے ہوئے مسلمانوں کی فوج سے الگ ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ منافقین اس دن ایمان کی بہ نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے، حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ آدمی کے حالات بدلتے رہتے ہیں، کبھی کوئی شخص کفر کے زیادہ قریب ہوجاتا ہے، اور کبھی کوئی شخص ایمان کے زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔ واحدی نے لکھا ہے، یہ آیت دلیل ہے کہ جو آدمی اپنی زبان سے کلمہ توحید کا اقرار کرے گا، اس کا کفر جانتے ہوئے بھی اسے کافر نہیں کہا جائے گا۔ اللہ نے ان منافقین کی یہ صفت بیان کی کہ وہ اپنی زبان سے تو ایمان کا اظہار کرتے ہیں، لیکن ان کے دل کفر سے بھرے ہوئے ہیں۔ آل عمران
167 آل عمران
168 انہی منافقین کے بارے میں جو مقام شوط سے واپس چلے گئے تھے، کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھ گئے، اور اپنی نجی مجلسوں میں کہنے لگے، کہ اگر وہ لوگ ہماری بات مانتے اور باہر نہ نکلتے تو قتل نہ کیے جاتے، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کہا، آپ ان سے کہئے اگر تمہارا دعوی صحیح ہے کہ تم موت کو ٹال سکتے ہو، تو ذرا اپنی موت کو ٹال کر دکھاؤ، چونکہ وہاں تمہارا قتل ہونا اللہ کی تقدیر میں نہیں لکھا تھا، اس لیے تم وہاں قتل نہیں ہوئے، تمہارے گھروں میں بیٹھ جانے سے تمہاری تقدیر نہیں بدل گئی، حافظ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں، واقعہ احد کی ایک حکمت یہ بھی تھی کہ منافقین نے ازخود اپنے دل کی بات کہی، جسے مسلمانوں نے سنا، اور اللہ نے جو جواب دیا، اسے بھی مسلمانوں نے سنا، اور نفاق اور اس کے انجام کو جانا، کہ کس طرح منافق دنیا و آخرت کی نیک بختیوں سے محروم ہوجاتا ہے اور ہر بدبختی اسے گھیر لیتی ہے۔ آل عمران
169 115۔ گذشتہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا کہ غزوہ احد میں مسلمانوں کو جن آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا، ان کا مقصد مومن و منافق اور صادق و کاذب کے درمیان تفریق کرنا تھا، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کیا ہے کہ جو لوگ میدان چھوڑ کر نہیں بھاگے اور اللہ کی راہ میں قتل ہوگئے، ان کا مقام بہت ہی اونچا ہے، جس کی تفصیل اس آیت میں آئی ہے، اور یہ وہ مقام ہے جسے حاصل کرنے کے لیے ہر آدمی کو کوشش کرنی چاہئے، اللہ کی راہ میں جان دینا ایسا عمل ہے، جس کی طرف ہر ایک کو سبقت کرنی چاہئے۔ بعض نے کہا کہ یہ آیت شہدائے بدر کے بارے میں نازل ہوئی تھی، اور بعض نے کہا کہ بئر معونہ کے شہداء کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جن کی تعداد چالیس یا ستر تھی، اور جنہیں عامر بن الطفیل الجعفری نے غار میں گھیر کر قتل کردیا تھا۔ لیکن جیسا کہ علمائے تفسیر میں ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے، خصوصِ سبب کا نہیں، یعنی شہیدوں کی جو فضیلت یہاں بیان کی گئی ہے، وہ سارے شہدائے اسلام کے لیے عام ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک شہداء حقیقی معنوں میں زندہ ہیں، اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں مجازی زندگی مراد ہے، لیکن راجح پہلی رائے ہے، صحیح احادیث کے مطابق ان کی روحیں سبز چڑیوں کے پوٹوں میں ہوتی ہیں، وہ جنت کے پھل کھاتی ہیں، اور عرش کے ساتھ معلق قندیلوں میں پناہ لیتی ہیں، اور اللہ نے ان کے ساتھ جو اکرم کا معاملہ کیا ہے، اس سے غایت درجہ خوش ہیں، اور دنیا میں ان کے جو مومن بھائی رہ گئے ہیں، ان کے بارے میں سوچ سوچ کر خوش ہوتی ہیں کہ انہیں بھی دنیا سے رخصت ہونے کے بعد نہ کوئی خوف لاحق ہوگا، اور نہ کسی بات کا غم ہوگا، اور جنت کی نعمتوں اور آسائشوں سے مستفید ہوں گے حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو بہت بڑی تسلی دی ہے، کہ جو مسلمان میدانِ احد میں کام آگئے انہیں آپ لوگ مردہ نہ کہیں، وہ تو اللہ کے پاس حقیقی زندگی گذار رہے ہیں، اور ہر طرح کی نعمتوں سے مستفیدہو رہے ہیں آل عمران
170 آل عمران
171 آل عمران
172 116۔ اس آیت کریمہ میں ان زخمی صحابہ کرام کی طرف اشارہ ہے، جنہوں نے جنگ احد کے بعد ابو سفیان اور اس کی فوج کا پیچھا کیا تھا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ ابوسفیان اور مشرکین مکہ جنگ احد کے بعد جب واپس ہونے لگے، تو کچھ دور جانے کے بعد انہیں خیال آیا کہ کیوں نہ مدینہ واپس جا کر مسلمانوں کا صفایا کردیا جائے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اس کی اطلاع ہوئی، تو انہیں ڈرانے اور یہ احساس دلانے کے لیے کہ مسلمان ابھی قوی ہیں اور کافروں کا صفایا کرسکتے ہیں، انہی صحابہ کرام کو جنہوں نے جنگ احد میں شرکت کی تھی، اپنے ساتھ کافروں کو پیچھا کرنے کا حکم دیا، جابر بن عبداللہ واحد صحابی تھے جنہوں نے جنگ احد میں اپنی بہنوں کی دیکھ بھال کے لیے اپنے باپ کے حکم سے شرکت نہیں کی تھی، تاکہ ان کے باپ جنگ میں شریک ہوسکیں۔ انہیں اللہ کے رسول نے اجازت دے دی کہ وہ ابوسفیان کا پیچھا کرنے میں شریک ہوسکتے۔ صحابہ کرام نے اپنے نبی کے حکم پر لبیک کہا اور ہزار تکلیفوں اور زخموں کے باوجود ابو سفیان کی تلاش میں نکل پڑے یہاں تک کہ حمراء الاسد پہنچ گئے، جہاں معبد الخزاعی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر اسلام قبول کرلیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں حکم دیا کہ ابوسفیان کے پاس جا کر اسے مسلمانوں سے خوف دلائیں۔ ابوسفیان کو معبد کے اسلام لانے کا علم نہیں تھا، اس نے پوچھا کہ تمہارے پاس محمد اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں خبر ہے؟ تو انہوں نے نے جواب دیا کہ وہ لوگ تو کسی طرح تمہیں پا لینا چاہتے ہیں، اگر انہوں نے تمہیں آلیا تو تمہاری خیر نہیں۔ محمد کے وہ ساتھی جنہوں نے جنگ احد میں شرکت نہیں کی تھی وہ بھی ساتھ ہوگئے ہیں۔ ابو سفیان نے پوچھا کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میری رائے بس یہ ہے کہ تم لوگ جلد از جلد یہاں سے روانہ ہوجاؤ، چنانچہ وہ لوگ گھبرا کر مکہ کی طرف لوٹ گئے۔ آل عمران
173 سیرت ابن ہشام میں ہے کہ معبد الخزاعی جب ابو سفیان اور اس کی فوج کو مسلمانوں سے مرعوب کرنے کے بعد واپس ہوگئے، تو قبیلہ عبدالقیس کا ایک قافلہ ابو سفیان کے پاس سے گذرا، اس نے پوچھا کہ تم لوگ کہاں جا رہے ہو، کہا مدینہ، پوچھا کس لیے ؟ کہا : خوراک حاصل کرنے کے لیے، ابو سفیان نے کہا کہ تم لوگ محمد کو ہمارا ایک پیغام پہنچا دو، اس کے بدلے ہم تمہیں عکاظ کے بازار میں کشمش دیں گے۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے، کہا کہ جب محمد سے ملاقات ہو تو کہہ دینا کہ ہم نے باقی مسلمانوں کا صفایا کرنے کے لیے آنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ عبدالقیس کا یہ قافلہ حمراء الاسد میں ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جا ملا، اور ابو سفیان کا پیغام پہنچا دیا، تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں نے کہا، حسبنا اللہ و نعم الوکیل، کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور بہتر کارساز ہے، اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔ آیت میں پہلے (الناس) سے مراد قافلہ عبدالقیس اور دوسرے سرے مراد ابو سفیان اور اس کا لشکر ہے، اس خبر سے مسلمانوں کا ایمان بڑھ گیا، اور اللہ پر اعتماد اور توکل میں اضافہ ہوگیا، احادیث میں حسبنا اللہ و نعم الوکیل کی بڑی فضیلت آئی ہے، امام بخاری نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حسبنا اللہ و نعم الوکیل، ابراہیم نے کہا جب وہ آگ میں ڈالے جانے لگے، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا جب لوگوں نے کہا کہ مشرکینِ قریش اپنی پوری قوت مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے جمع کر رہے ہیں۔ آل عمران
174 اس آیت میں اللہ نے اطلاع دی ہے کہ مسلمان حمراء الاسد سے بخیر و عافیت اور شجاعت و ایمان میں مزید قوت و صلابت کے ساتھ واپس ہوئے۔ آل عمران
175 اس آیت میں اللہ نے نصیحت کی ہے کہ اے مسلمانو ! شیطان اپنے اولیاء اور پیرو کاروں کا تمہیں خوف دلاتا ہے۔ لیکن تمہیں ان سے نہیں ڈرنا چاہئے، اس لیے کہ مسلمان تو صرف اللہ سے ڈرتا ہے۔ آل عمران
176 118۔ اس آیت کا اور اس کے بعد آنے والی دونوں آیتوں کا تعلق بھی غزوہ احد ہی سے ہے، اس غزوہ کے بعد منافقین کا نفاق، کفار قریش اور یہود مدینہ کا کفر اور ان کی سازشیں کھل کر سامنے آگئیں، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کو اس سے بڑی تکلیف ہوئی کہ ہزار جانفشانی کے باوجود یہ لوگ اسلام کیوں نہیں لاتے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں تسلی دی کہ اگر وہ لوگ کفر میں بڑھے جا رہے ہیں تو آپ اس کا غم کیوں کرتے ہیں؟ وہ لوگ اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے، اللہ تو چاہتا ہے کہ آخرت میں انہیں کوئی کامیابی نصیب نہ ہو۔ آل عمران
177 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم جو کافروں کی عمریں لمبی کر رہے ہیں، اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے رہے ہیں، تو یہ ان کے لیے بہتر نہیں ہے، بلکہ اس سے تو ان کے گناہوں میں اضاہف ہوگا، اور پھر عذاب میں اضافہ ہوگا، اور قیامت کے دن ان کے لیے بڑا دردناک عذاب ہوگا آل عمران
178 آل عمران
179 119۔ جیسا کہ اوپر گذر چکا کہ غزوہ احد کے بعد منافقین تقریباً ظاہر ہوگئے اور اپنے دل کی باتیں اگلنے لگے، اور لوگ (کافر، مومن اور منافق) تین گروہوں میں بٹ گئے، اور مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ ان کے گھروں میں اور ان کے ساتھ بھی ان کے دشمن موجود ہیں، اس لیے احتیاط کرنے لگے، اور اپنے آستین کے سانپوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنے لگے، اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں غزوہ احد کی اسی حکمت کو بیان کیا ہے کہ مومن و منافق کی تمیز کیے بغیر مسلمانوں کو چھوڑا نہیں جاسکتا تھا، اور غیب کی کسی کو خبر ہو نہیں سکتی تھی، اس لیے کہ غیب کی خبر تو اللہ صرف اپنے رسولوں کو دعوتی حالات کے تقاضے کے مطابق ہی دیتا ہے۔ لیکن غزوہ احد کے بعد کے حالات نے از خود منافقین کو مسلمانوں سے جدا کردیا۔ آل عمران
180 120۔ گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جان کی قربانی دینے کی خوب ترغیب دلائی ہے، اور یہاں مال کی قربانی پر زور دیا ہے، اور بخیلوں کے لیے وعیدِ شدید کا ذکر کیا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ مال جمع کرنا ان کے لیے نفع بخش ہے، یہ تو قیامت کے دن عذاب الیم کا سبب بنے گا اور طوق بنا کر ان کی گردن میں ڈال دیا جائے گا۔ امام بخاری نے کتاب الزکاۃ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ نے جسے مال دیا اور اس کی زکاۃ ادا نہیں کی، قیامت کے دن وہ ایک زہریلا سانپ بن کر اس کے سامنے آئے گا، جس کی دونوں آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے اور اسے دونوں جبڑوں سے پکڑے گا، پھر کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، اس کے بعد اللہ کے رسول نے یہی آیت پڑھی۔ آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، ان کا مالک تو اللہ ہے، پھر کسی کو کیسے یہ جرات ہوتی ہے کہ اللہ کا دیا ہوا مال اس کی راہ میں خرچ نہیں کرتا؟ آل عمران
181 121۔ حافظ ابن مردویہ اور ابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب سورۃ بقرہ کی یہ آیت نازل ہوئی، من ذالذی یقرض اللہ قرضا حسنا فیضاعفہ لہ اضعافا کثیرہ، یعنی کون ہے جو اللہ کو اچھاقرض دے، پس اللہ اسے خوب بڑھا چڑھا کردے، تو یہود نے کہا کہ اے محمد ! تیرا رب فقیر ہوگیا ہے، اسی لیے اپنے بندوں سے قرض مانگتا ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ یہود نے جو بات اللہ کے بارے میں کہی، اس سے بڑھ کر اللہ کے خلاف تمرد و سرکشی کی مثال نہیں ہوسکتی، اسی لیے وعید شدید کے طور پر اللہ نے کہا کہ ان کی یہ بات ہم ان کے خلاف درج کر رہے ہیں، اور وہ تو اس کے پہلے قتل انبیاء جیسے جرم کا ارتکاب کرچکے ہیں، ہم انہیں چھوڑیں گے نہیں، قیامت کے دن ہم انہیں کہیں گے کہ اب جہنم کا عذاب چکھو۔ آل عمران
182 اس آیت میں سابقہ مضمون کی تکمیل ہے کہ یہ تمہارے کیے کا تمہیں پھل مل رہا ہے، اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ آل عمران
183 122۔ اس آیت کریمہ میں یہودیوں کے ایک دوسرے جھوٹے دعوی اور اللہ کی طرف سے اس کی تکذیب کا بیان ہے، یہودیوں نے کہا کہ اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اسی کو رسول مانیں اور اسی کی تصدیق کریں، جس کی دعا سے آسمان سے ایک آگ اترے جو تمام جمع شدہ صدقات کو چاہے وہ حیوان ہو یا غیرا حیوان جلا ڈالے، اور اے محمد ! تمہارے ذریعہ اس معجزے کا ظہور نہیں ہوسکا، اس لیے ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے، تو اللہ نے کہا کہ اے میرے نبی ! آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تمہارے پاس تو مجھ سے پہلے بہت سے انبیاء کھلی نشانیاں لے کر آئے، اور وہ معجزہ بھی لے کر آئے جس کا مطالبہ مجھ سے کر رہے ہو، پھر اگر سچے تھے تو انہیں کیوں قتل کردئیے۔ آل عمران
184 اس آیت میں اللہ نے کاہ کہ اگر یہ یہود ان کے جھوٹے عذر کا پول کھل جانے کے بعد بھی آپ کی تکذیب کرتے ہیں، تو آپ غم نہ کریں، اس لیے کہ آپ کے پہلے بھی بہت سے انبیاء کی ان کی قوموں نے تکذیب کی، حالانکہ انہوں نے کھلی نشانیاں پیش کیں اور اللہ کی کتابیں پڑھ پڑھ کر انہیں سناتے رہے۔ آل عمران
185 123۔ اس آیت کریمہ میں بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو تسلی دی جا رہی ہے کہ یہ دنیا جزا کی جگہ نہیں ہے، یہ تو عمل کی جگہ ہے، یہاں سے ہر آدمی کو گذر جانا ہے، یہاں تو بہت سے مجرم اور ظالم دندناتے پھرتے ہیں، اور انہیں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی۔ اور بہت سے نیک اور صالح لوگ پوری زندگی اللہ کی مرضی کے کاموں میں گذار دیتے ہیں اور انہیں کوئی راحتِ جان نصیب نہیں ہوتی۔ جزا و سزا کی جگہ تو قیامت کا دن ہوگا، اس دن جو جہنم سے دور کردیا جائے گا اور جنت میں داخل کردیا جائے گا، وہی حقیقی معنوں میں فائز المرام ہوگا، یہ دنیاوی زندگی تو دھوکے کی ٹٹی ہے۔ امام احمد اور مسلم نے عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو چاہتا ہے کہ جہنم سے دور کردیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے، تو اسے چاہئے کہ اس کی موت اس حال میں آئے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اور لوگوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرے جیسا وہ چاہتا ہے کہ لوگ اس کے ساتھ کریں۔ آل عمران
186 124۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو صبر و ثبات قدمی کی تعلیم دی ہے جو ایمان کا تقاضا ہے مومن اپنی زندگی میں اللہ کی جانب سے آزمایا جاتا ہے، کبھی اس کے مال و جائداد پر کوئی آفت آتی ہے تو کبھی اس کی جان کے لالے پڑجاتے ہیں، قتل و بند اور زخم و مصیبت، اور دیگر قسم کے شدائد سے دوچار ہوتا ہے، اور اس کا ایمان اس سے تقاضا کرتا ہے کہ اللہ کے لیے اور جنت کی خاطر بخوشی کڑوے گھونٹ پیتا رہے، اور زبان پر کلمہ شکایت نہ لائے۔ سورۃ بقرہ کی آیات 155 تا 156 میں یہی مضمون گذر چکا ہے۔ ترمذی نے کتاب الزہد میں مصعب بن سعد سے اور انہوں نے اپنے والد سعد سے روایت کی ہے کہ میں نے کہا، یا رسول اللہ ! سب سے زیادہ کس کی آزمائش ہوتی ہے؟ تو آپ نے فرمایا ” انبیاء کی، ان کے بعد بتدریج سب سے اچھے مسلمانوں کی، آدمی کی آزمائش اس کے دین و ایمان کے درجہ کے مطابق ہوتی ہے، دین میں جو جتنا سخت ہوتا ہے، اس کی آزمائش بھی سخت ہوتی ہے اور جو دین میں ڈھیلا ہوتا ہے، اس کی آزمائش اس کے دین و ایمان کے درجہ کے مطابق ہوتی ہے، دین میں جو جتنا سخت ہوتا ہے، اس کی آزمائش بھی سخت ہوتی ہے اور جو دین میں ڈھیلا ہوتا ہے، اس کی آزمائش اسی حساب سے ہوتی ہے، بندہ کی آزمائش ہوتی رہتی ہے، یہاں تک کہ اس کے سارے گناہ مٹ جاتے ہیں“ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ تم لوگ اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی ایذا رسانی کی باتیں سنو گے، لیکن تمہیں دل گرفتہ نہیں ہونا ہے بلکہ صبر سے کام لینا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ بات جنگ بدر سے پہلے کہی تھی کہ ابھی وہ صبر سے کام لیں، ابھی یہود اور منافقین کو چھیڑنے کا موقع نہیں آیا ہے اس سلسلہ میں امام بخاری نے اسامہ بن زید (رض) کی ایک روایت بھی نقل کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن ایک گدھے پر سوار ہو کر یہود و مشرکین اور مسلمانوں کی ایک مشترکہ مجلس کے پاس سے گذرے۔ عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک پر چادر ڈال کر کہا کہ تم لوگ ہماری مجلسوں میں غبار نہ اڑاؤ، جب آپ نے اس کے سامنے قرآن کی تلاوت کی اور دعوت اسلام دیا، تو کہنے لگا کہ تم لوگ ہماری مجلسوں کی فضا مکدر نہ کرو، تمہارے پاس جو جائے اسے ہی اپنی باتیں سنایا کرو، عبداللہ بن رواحہ (رض) بھی مجلس میں موجود تھے، انہوں نے کہا، یا رسول اللہ ! آپ ہمیں اپنی بات ضرور سنائیں، اس کے بعد مسلمانوں اور یہود و مشرکین نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا شروع کردیا، اللہ کے رسول نے سب کو خاموش کرایا، جب آپ سعد بن عبادہ (رض) کے پاس آئے جن کی عیادت کے لیے آپ نکلے تھے، تو ان سے ساری باتیں بتائی، انہوں نے کہا، یا رسول اللہ ! آپ اس (عبداللہ بن ابی) کو معاف کردیجئے۔ اسے لوگوں نے اپنا بادشاہ بنانا چاہا تھا کہ اللہ نے اپنا دین بھیج دیا، جو اس کے حلق کا کانٹا بن گیا یہ سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے معاف کردیا۔ اس زمانے میں دوسرے یہود و منافقین کے ساتھ بھی آپ کا یہی رویہ رہا۔ جب میدانِ بدر میں سردارانِ قریش مارے گئے، تو عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اب تو یہ دین غالب ہو رہا ہے، اس لیے آؤ محمد کے ہاتھ پر اسلام کا اعلان کردیں۔ معلوم ہوا کہ جو کوئی اسلام کی دعوت دے گا، خیر کی طرف بلائے گا، اور شر سے روکے گا اسے اذیتیں برداشت کرنی پڑیں گی۔ آل عمران
187 125۔ یہاں سیاق کلام علمائے یہود و نصاری سے متعلق ہے، اللہ نے ان سے عہد لیا تھا کہ وہ تورات و انجیل کے تمام احکام اور تمام باتیں لوگوں کو بتائیں گے اور کوئی بات نہیں چھپائیں گے۔ ان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات بھی تھیں اور یہ حکم بھی کہ وہ ان پر ایمان لائیں گے، لیکن انہوں نے ان تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا، اور دنیاوی حقیر فائدوں کی خاطر اللہ کے کلام کو بدل دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں علماء پر یہ واجب قرار دیا ہے کہ وہ حق کو کھول کھول کر بیان کریں، اور کسی دنیاوی مفاد کی خاطر اللہ کے دین کی صحیح باتوں کو امت سے نہ چھپائیں، بہت سے لوگ جو عالم دین کہلاتے ہیں، اور کسی فقہی مسلک کے لیے اندھی عصبیت کی وجہ سے صحیح احادیث کو چھپاتے ہیں، یا وہ لوگ جو اپنے پیٹ یا کرسی کی خاطر امت میں ایسی بدعتوں کو رواج دیتے ہیں، جن کا کوئی ثبوت قرآن وسنت سے نہیں ملتا، یا وہ دنیا دار علماء جو کسی حاکم وقت کو خوش کرنے کے لیے شرعی مسائل کو بدل دیتے ہیں، حالانکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں سب قرآن و سنت کے خلاف ہے، اس قسم کے تمام نام نہاد علمائے دین اس آیت میں بیان کردہ وعید میں شامل ہیں َ آل عمران
188 126 ل۔ اس آیت کریمہ میں ایسے تمام لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو ریاکاری اور نام و نمود کی خاطر کام کرتے ہیں، اور جتنا کرتے نہیں اس سے زیادہ کا اظہار کرتے ہیں، یا جو خوبی ان کے اندر نہیں ہوتی اسے اپنی طرف منسوب کرتے ہیں امام احمد اور امام مسلم کی روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس نے اپنے بارے میں کوئی جھوٹا دعوی کیا تاکہ لوگوں کے سامنے بڑا بنے، تو اللہ تعالیٰ اس کا وقار گھٹا دیتا ہے، ایک دوسری حدیث ہے جو صحیحین میں مروی ہے کہ جو شخص کسی ایسی خوبی کا دعوی کرے جو اللہ نے اسے نہیں دیا ہے، وہ جھوٹ اور فریب کے دو کپڑے پہننے والے کی مانند ہے۔ علمائے تفسیر نے اس آیت کا شان نزول بیان کرنے کے لیے بخاری اور مسلم کی یہ روایت نقل کی ہے، کہ مروان نے اپنے دربان رافع سے کہا کہ ابن عباس پاس جاؤ اور پوچھوں کہ اس آیت کے بموجب ہر وہ آدمی جو اپنے پاس موجود شے پر خوش ہوتا ہے، اور پسند کرتا ہے کہ جو اس نے نہیں کیا ہے اس پر اس کی تعریف ہو، عذاب دیا جائے گا، تو کیا ہم سب کو عذاب ہوگا؟ ابن عباس (رض) نے سن کر کہا کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ پھر انہوں نے واذ اخذ اللہ میثاق الذین اوتوا الکتاب والی آیت پڑھی، اور کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود مدینہ سے تورات کی کوئی بات پوچھی، تو انہوں نے اسے چھپا دیا اور بدل کر دوسری بات بتا دی، اور جب وہاں سے چلے تو خوش ہو کر چلے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جواب بھی دے دیا اور صحیح بات چھپا بھی دی، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ بخاری اور مسلم نے ابو سعید الخدری (رض) سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ میں جاتے تو منافقین پیچھے رہ جاتے، اور اپنی اس چالاکی پر خوش ہوتے، اور جب رسول اللہ کی واپسی کے بعد ان کے پاس جاتے تو حلفیہ عذر پیش کرتے، اور چاہتے کہ انہوں نے جو خیر کا کام نہیں کیا ہے اس پر ان کی تعریف ہو، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت فنحاص اور اشیع علمائے یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ان سبھی واقعات کے پیش نظر یہ آیت نازل ہوئی ہو، کیونکہ آیت کا مضمون سب پر منطبق ہوتا ہے۔ اس کے بعد اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ وہ عذاب سے بچ جائیں گے، بلکہ ایک دردناک عذاب ان کا انتظار کر رہا ہے آل عمران
189 آل عمران
190 127۔ گذشتہ آیتوں میں یہود کی بدباطنی اور اللہ کے ساتھ استہزاء کا بیان ہوا، حتی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو فقیر تک کہا، آنے والی آیتوں میں انہیں اور دیگر انسانوں کو بتایا جا رہا ہے کہ اللہ تو سب کا رب، خالق، مالک اور معبود ہے، ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور ہر چیز اس کے تصرف میں ہے، وہ فقیر کیوں کر ہوسکتا ہے؟ ساری کائنات اس کی محتاج ہے، آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور لیل و نہار کی گردش میں اللہ اور اس کی قدرت مطلقہ پر ایمان لانے کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں لیکن یہ باتیں وہ اصحاب عقل و دانش سمجھتے ہیں، جن کی صفات مندرجہ ذیل آیت میں بیان کی گئی ہیں۔ آل عمران
191 128۔ وہ لوگ اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور کبھی بھی اس کی یاد سے غافل نہیں ہوتے، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بارے میں غور و فکر کر کے اس یقین تک پہنچ جاتے ہیں کہ ان سب کا کوئی خالق ضرور ہے جو قادر، مطلق اور مدبر اور حکیم ہے۔ ابن ابی الدنیا نے کتاب التوکل والاعتبار میں ابو سلیمان دارانی کا قول نقل کیا ہے کہ میں جب اپنے گھر سے نکلتا ہوں اور میری نظر کسی چیز پر پڑتی ہے، تو اسے اپنے لیے اللہ کی نعمت اور اس میں ایک عبرت پاتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات میں غور کرنے کی دعوت دی ہے، گویا خالق کے بارے میں غور کرنے سے منع فرمایا ہے، اس لیے کہ اللہ کی ذات و صفات کی کنہیات کو کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ جب عقل والے اس حقیقت کو پالیتے ہیں کہ ہمارا اور ساری کائنات کا کوئی رب ضرور ہے، تو انتہائے خشوع و خضور اور بے پایاں تعظیم کے ساتھ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! تو نے انہیں بے کار نہیں پیدا کیا ہے، تو تمام عیوب سے پاک ہے، تو ہمیں عذاب نار سے بچا دے آل عمران
192 129۔ یہاں اہانت سے مراد روز محشر تمام اہل موقف کے سامنے تذلیل و اہانت ہے، جس دن ظالموں کو ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دیا جائے گا، اور ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا، اصحاب عقل و دانش اس دن کی ذلت و رسوائی سے پناہ مانگتے ہیں آل عمران
193 130۔ دعا کا یہ انداز اللہ تعالیٰ کے لیے کمالِ خشوع و خضوع، اور قبولیت دعا کے لیے انتہائے رغبت کے اظہار کے لیے ہے اور منادی سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات ہے، اور لفظ منادی کا استعمال اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پکار پکار کر اسلام کی دعوت، پوری تندہی اور جانفشانی کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کردی۔ آل عمران
194 131۔ اے اللہ ! رسولوں کی زبانی، تو نے جو وعدہ کیا تھا، کہ جو تجھ پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لے آئے گا، انہیں تو اچھا بدلہ دے گا، اور تیرا یہ بھی وعدہ تھا، یوم لا یخزی اللہ النبی والذین امنوا معہ، کہ اللہ قیامت کے دن اپنے نبی کو اور مومنوں کو رسوا نہیں کرے گا تو آج میری دعا قبول فرما لے، اور قیامت کے دن مجھے رسوا نہ کر۔ آل عمران
195 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ان مومنوں کی دعا اللہ نے قبول کرلی، اور انہیں بشارت دی کہ میں اپنے کسی نیک بندے کا عمل ضائع نہیں کرتا، چاہے مرد ہو یا عورت۔ ترمذی، حاکم اور سعید بن منصور نے ام سلمہ (رض) سے روایت کی ہے، انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! ہجرت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کا نام نہیں لیا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : انی لا اضیع عمل عامل منکم من ذکر او انثی بعضکم من بعض۔ کہ مرد ہو یا عورت میں کسی کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ فالذین ھاجروا سے آخرت آیت تک عامل کے عمل کی تفصیل ہے۔ آل عمران
196 133۔ گذشتہ آیات میں مسلمانوں کی حالت بیان کی گئی کہ وہ ہر حال میں اللہ کی یاد میں مشغول رہتے ہیں، کوئی چیز انہیں اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی، اور اللہ تعالیٰ ان کے نیک اعمال کو قبول کرتا ہے، اور وہ کسی کے عمل کو ضائع نہیں کرے گا، اور ان کا مقام جنت ہوگا، جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ اس آیت کریمہ میں کافروں کی حالت بیان کی گئی ہے، کہ وہ اللہ کی یاد سے غافل ہو کر دنیا کے گوشے گوشے میں تجارتی سفروں میں جاتے ہیں، تاکہ خوب دولت اکٹھا کریں، اللہ نے کہا کہ اس سے آپ کو اور مسلمانوں کو دھوکے میں نہ پڑنا چاہئے، یہ تو عارضی فائدہ ہے، جو ثوابِ آخرت کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا، اور آخر کار ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ آل عمران
197 آل عمران
198 اس آیت میں بیان کیا گیا کہ ان کے برعکس متقیوں کو اللہ تعالیٰ جنت میں جگہ دے گا، جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، صحیحین کی روایت میں ہے کہ ایک بار حضرت عمر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چٹائی پر لیٹے ہوئے دیکھا، ان کے پہلو پر چٹائی کا نشان دیکھ کر رونے لگے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو؟ حضرت عمر نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! کسری اور قیصر تو عیش کی زندگی گذاریں، اور اللہ کے رسول کا یہ حال ہوا !! تو آپ نے فرمایا کہ تو آپ نے فرمایا کہ کیا تم یہ پسند نہ کروگے کہ ان کے لیے دنیا ہو، اور ہمارے لیے آخرت۔ معلوم ہوا کہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے، اور وہ مسلمانوں کے لیے ہے، کافر اس دن جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے۔ آل عمران
199 134۔ اس آیت کریمہ میں اللہ نے یہ بیان کیا ہے کہ بعض اہل کتاب میں دین داری ہوتی ہے، وہ دوسرے عام اہل کتاب کی مانند نہیں ہوتے ہیں، جن کے شرمناک اعمال کا ذکر اوپر گذر چکا ہے، اور آئندہ بھی آئے گا، یہ لوگ سابقہ آسمانی کتابوں پر ایمان کے ساتھ، اللہ پر اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل شدہ دین و قرآن پر بھی ایمان لاتے ہیں، اللہ کے لیے خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متعلق بشارتوں اور نشانیوں کو نہیں چھاپتے۔ ان اچھی صفات کے لوگ یہودیوں میں کم پائے گئے، جیسے عبداللہ بن سلام اور بعض دیگر علمائے یہود جن کی تعداد دس سے کم ہی تھی، لیکن نصاری میں اچھے لوگ زیادہ ہوئے جن میں سے بہتوں نے اسلام کی دعوت کو قبول کرلیا، انہی مسلمان اہل کتاب کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں، اور کئی دوسری آیتوں میں اجر و ثواب کا وعدہ کیا ہے۔ امام احمد نے ہجرت حبشہ سے متعلق ایک طویل حدیث روایت کی ہے، جس میں آیا ہے کہ جعفر بن ابی طالب نے جب نجاشی کے سامنے سورۃ مریم کی تلاوت کی، تو وہ اس کے پاس بیٹھے ہوئے دیگر علمائے نصاری اس طرح روئے کہ آنسو سے ان کی داڑھیاں بھیگ گئیں۔ اس آیت کے شان نزول میں صحیحین کی روایت آتی ہے کہ جب حبشہ کے بادشاہ نجاشی کا انتقال ہوا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو خبر دی اور میدان میں جا کر صحابہ کے ساتھ اس کے جنازہ کی نماز پڑھی، اور صحابہ سے کہا کہ اپنے بھائی کے لیے مغفرت کی دعا کرو، تو بعض منافقین نے کہا کہ محمد ہمیں ایک کالے موٹے حبشی کے لیے دعائے مغفرت کا حکم دیتا ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ آل عمران
200 آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو تین باتوں کی نصیحت کی ہے جو ہر طرح کی سعادت و نیک بختی کا ذریعہ ہیں۔ پہلی نصیحت صبر کی ہے، کہ بندہ مومن گناہوں سے اجتناب کرے، مصائب پر صبر کرے، اور ان اوامر کے بجا لانے اور نواہی سے اجتناب میں صبر کرے جن کا اللہ نے حکم دیا ہے، اور صبر کی اس صفت پر مداومت برتے۔ دوسری نصیحت یہ ہے کہ اللہ کے دین اور مسلمانوں سے دفاع کے لیے مورچہ بند رہے اور تیسری نصیحت یہ ہے کہ ہر حال میں اللہ سے ڈرتا رہے۔ آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ کامیابی اور فلاح دارین کا یہی ذریعہ ہے، احادیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تہجد کے لیے رات کو اٹھتے تو سورۃ آل عمران کی آخری دس آیتیں پڑھتے تھے۔ بخاری و مسلم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ میں ایک رات اپنی خالہ میمونہ کے پاس سویا، جب رات کا ایک تہائی حصہ رہ گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اٹھ کر بیٹھ گئے، اور آسمان کی طرف دیکھ کر یہ آیت پڑھی، ان فی خلق السماوات والارض واختلاف اللیل والنہار لایات لاولی الباب۔ پھر وضو کیا اور گیارہ رکعت نماز پڑھی، ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے آل عمران کی دس آیتیں پڑھیں، حافظ ابن مردویہ نے بھی ابن عباس (رض) سے یہی حدیث روایت کی ہے۔ آل عمران
0 تفسیر سورۃ النساء نام : اس سورت کا نام سورۃ النساء اس لیے ہے کہ عورتوں کے مسائل اس میں دیگر سورتوں کی بہ نسبت زیادہ ہیں۔ زمانہ نزول : ابن عباس، عبداللہ بن زبیر اور زید بن ثابت (رض) سے مروی ہے کہ یہ سورۃ مدنی ہے، قرطبی نے لکھا ہے کہ صرف ایک آیت فتح مکہ کے سال مکہ میں عثمان بن طلحہ الحجی کے بارے میں نازل ہوئی، وہ آیت ان اللہ یامرکم ان تؤدوا الامانات الی اھلہا ہے، بخاری نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ النساء نازل ہوئی تو میں رسول اللہ کے پاس تھی، یعنی ام المومنین کی حیثیت سے اور اس بات پر سارے علماء کا اتفاق ہے کہ عائشہ رضی اللہ شادی کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس رخصت ہو کر مدینہ میں گئی تھیں، اس کے علاوہ اس سورت میں بیان کردہ مسائل پر غور کرنے کے بعد بالکل یقین ہوجاتا ہے کہ یہ مدنی سورت ہے۔ فضیلت : حاکم نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ النساء میں پانچ ایسی آیتیں ہیں جن کے بدلے میں دنیا و مافیہا کو قبول نہیں کروں گا، عبدالرزاق نے ان سے روایت کی ہے کہ سورۃ النساء میں پانچ ایسی آیتیں ہیں جو میرے نزدیک پوری دنیا سے زیادہ محبوب ہیں۔ دونوں روایتوں میں مندرجہ ذیل آیتوں کا ذکر ہے۔ 1۔ ان اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ۔ الایۃ۔ (40) 2۔ ان تجتنبوا کبائر ما تنھون عنہ۔ الایۃ (31) 3۔ ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ۔ الایہ (48) 4۔ ولو انہم اذ ظلموا انفسہم۔ الایہ (64) 5۔ ومن یعمل سوءا او یظلم نفسہ ثم یستغفر اللہ یجد اللہ غفورا رحیما۔ الایہ (110) النسآء
1 (1)۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتدا میں تمام بنی نوع انسان کو چاہے وہ مومن ہوں یا کافر، یہ حکم دیا ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتے رہیں اور دنیا میں رحم کے ذریعہ جو رشتہ داریاں قائم ہیں، ان کا خیال رکھیں، اور ان اسباب کو بیان کیا ہے، جو دونوں کے وجوب و لزوم کا تقاضا کرتے ہیں۔ اللہ سے اس لیے ڈرتے رہنا ہے کہ وہی انسان کا رب ہے، اسی نے اسے پیدا کیا ہے، وہی اسے روزی دیتا ہے، اور اس پر اس کے بے شمار احسانا ہیں، اسی نے انسان کو آدم سے پیدا کیا، اور آدم ہی کی بائیں پسلی سے اس کی بیوی حوا کو پیدا کیا تاکہ انسان کی بیوی اس کے مناسب حال ہو، اس کی قربت سے اسے سکون و راحت ملے، اور اللہ کی نعمت اس پر تمام ہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواج لتسکنوا الیہا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ۔ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہیں سے تمہاری بیویوں کو پیدا کیا، تاکہ ان سے تم سکون حاصل کرو، اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت کا جذبہ پیدا کیا۔ (الروم :21) اللہ سے اس لیے بھی ڈرتے رہنا ہے کہ آدمی اللہ کا نام لے کر ہی اپنی کوئی حاجت کسی کے سامنے رکھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ مسئول کے دل میں اللہ کی کبریائی اور عظمت کا جو تصور ہے، اس کے پیش نظر اس کی مانگ ضرور پوری کرے گا، اللہ کی اس عظمت و کبریائی کا تقاضا ہے کہ آدمی اس کی عبادت کرے اور اس سے ڈرتا رہے۔ صلہ رحمی کی اہمیت کو آدمی کے دل میں بٹھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ رحم کے حق کو جوڑ دیا، تاکہ معلوم ہو کہ جس طرح اللہ کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے، اسی طرح رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنا بھی واجب ہے، اور جو شخص رشتہ میں جتنا قریب ہوگا، اتنا ہی اس کے حق کی اہمیت بڑھتی جائے گی۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے حقوق کی اہمیت بتانے کے لیے بندوں کو اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد بغیر کسی تاخیر کے والدین کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا، اللہ نے فرمایا ا۔ آیت الا تعبدوا الا ایاہ وبالوالدین احسانا (الاسراء :23)۔ دوسری جگہ فرمایا، آیت وعبداو اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا و بالوالدین احسان او بذی القربی۔ (لنساء : 36)۔ صحیحین میں عائشہ (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، رِحم کو کاٹنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ اللہ تمہارے احوال و اعمال سے واقف ہے، اس سے ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ہے، اس لیے آدمی کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی اس طرح گذارے کہ اس کے دل و دماغ میں یہ بات ثبت ہو کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے، اور میرے تمام اعمال اس کی نگاہ میں ہیں۔ النسآء
2 2۔ اوپر کی آیت میں تقوی کی زندگی اختیار کرنے کا اللہ نے جو حکم دیا ہے، اسی کی اب تفصیل بیان کیا جا رہی ہے۔ یتیموں کے حقوق کی حفاظت کو دیگر احکام پر مقدم کر کے اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق کی اہمیت کا احساس دلایایا ہے، لفظی طور پر یتیم ہر اس آدمی کو کہتے ہیں جس کا باپ وفات پا چکا ہو، لیکن شرعی اصطلاح میں یہ لفظ اس بچے کے لیے خاص ہوگیا ہے جس کے سن بلوغت کو پہنچنے سے پہلے اس کا باپ مر گیا ہو۔ ابو داود نے علی بن ابی طالب (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، بلوغت کے بعد یتیمی باقی نہیں رہتی۔ آیت میں یتیموں سے مراد وہ نوجوان ہیں جو ابھی ابھی سن بلوغت کو پہنچے ہوں، اور ان پر ہوشمندی کے آثار ظاہر ہوچکے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے اولیاء اور اصیاء کو حکم دیا ہے کہ ان کا مال انہیں دینے میں ٹال مٹول نہ کریں۔ اس کے بعد اللہ نے کہا کہ یتیموں کا مال اپنے مال سے نہ بدل لیا کرو، کیوں کہ ان کا مال تمہارے لیے حرام اور خبیث ہے، اور تمہارا مال تمہارے لیے حلال اور طیب ہے، لہذا تم تھوڑے سے فائدہ کے لیے حلال اور طیب دے کر حرام اور خبیث کو نہ قبول کرو، زمانہ جاہلیت میں لوگ ایسا کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ اس کے بعد اللہ نے مسلمانوں کو ایک اور فعلِ منکر سے منع کیا، جس کا ارتکاب زمانہ جاہلیت میں لوگ کرتے تھے کہ اپنے مال کے ساتھ یتیموں کا مال ملا لیا کرتے تھے، تاکہ اخراجات میں وسعت پیدا ہوجائے، اللہ نے کہا کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ لیکن اگر نیت یتیموں کے ساتھ بھلائی کی ہو تو کوئی حرج نہیں، جیسا کہ اللہ نے سورۃ بقرہ میں فرمایا، وان تخالطوھم فاخوانکم، الایہ، 220۔ (تفصیل کے لیے اس آیت کی تفسیر کا مطالعہ کیجیے) النسآء
3 3۔ یہاں، یتامی سے مراد یتیم لڑکیاں ہیں، آیت کا معنی یہ ہے کہ اے یتیم بچیوں کے اولیاء اگر تمہیں ڈر ہو کہ ان یتیم بچیوں کے ساتھ نکاح کر کے ان کے ساتھ انصاف کا معاملہ نہ کرسکوگے، یا تو مہر کم کردوگے یا ان کے ساتھ اچھا برتاؤ نہ کروگے تو ان کے علاوہ دوسری غیر رشتہ دار لڑکیوں سے شادی کرلو، دنیا میں لڑکیوں کی کمی نہیں ہے، اور پھر ایک نہیں چار بیویاں بیک وقت رکھ سکتے۔ امام بخاری نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی کی ولایت میں ایک یتیم لڑکی تھی، جس کے پاس کھجور کا ایک باغ تھا، اس باغ کی لالچ میں اسے نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے شادی کرلی، نہ اس کے پاس جاتا تھا اور نہ اسے چھوڑتا تھا، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت عائشہ (رض) کی ہی ایک دوسری روایت ہے جسے بخاری، مسلم ابو داود اور نسائی نے روایت کی ہے کہ آیت میں مراد ایسی یتیم بچی ہے جو اپنے ولی کے پاس پلتی ہے، اور اس کے مال میں شریک ہوتی ہے، اور خوبصورت بھی ہوتی ہے۔ اس کا ولی اس سے شادی کرلینا چاہتے ہیں لیکن مہر مثل نہیں دیتا۔ ایسے آدمی کو حکم دیا گیا ہے کہ یا تو مناسب مہر دے کر شادی کرے یا پھر دوسری لڑکیوں سے شادی کرے۔ ایک تیسری روایت حضرت عائشہ (رض) ہی سے بخاری نے روایت کی ہے کہ آیت میں مراد ایسی یتیم بچی ہے جو اپنے ولی کے پاس پلتی ہے اور اس کے مال میں شریک ہوتی ہے، لیکن اس کا ولی اس سے شادی کرنا نہیں چاہتا، اور نہ یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی شادی کسی اور سے کردے، اس ڈر سے کہ اس کا شوہر مال میں اس کے ساتھ شریک ہوجائے گا، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک سے فعل سے منع فرمایا ہے۔ آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنی پسند کی دوسری عورتوں سے شادی کرلیں، اور انہیں چار بیویوں تک سے شادی کرنے کا اختیار دیا ہے، اور چار سے زیادہ بیویاں رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت اسی پر دلالت کرتی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ کسی کے لیے چار سے زیادہ بیویاں رکھنا جائز نہیں، اسی پر امت کا اجماع ہے، صرف بعض شیعوں نے چار سے زیادہ کو جائز کہا ہے۔ علمائے امت نے چار سے زیادہ کی حرمت پر غیلان ثقفی کے واقعہ سے استدلال کیا ہے جن کے پاس دس بیویاں تھیں۔ جب اسلام لائے تو اللہ کے رسول نے ان سے کہا کہ چار کے علاوہ باقی کو طلاق دے دو۔ اس حدیث کو ابن عمر (رض) سے احمد، ترمذی، ابن ماجہ، دارقطنی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کی ہے، اور علامہ البانی سے اس کی تصحیح کی ہے۔ دوسرا واقعہ نوفل بن معاویہ کا ہے جن کے پاس اسلام لانے کے وقت پانچ بیویاں تھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا چار کو رکھ لو اور ایک کو چھوڑ دو، اسے امام شافعی نے اپنی مسند میں روایت کی ہے۔ تیسرا واقعہ قیس بن حارث اسدی کا ہے جن کے پاس آٹھ بیویاں تھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا کہ چار کو رکھ لو اور باقی کو چھوڑ دو، اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ اور علامہ البانی اس کی تصحیح کی ہے۔ چوتھا واقعہ عمیر اسدی کا ہے جن کے پاس بھی آٹھ بیویاں تھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا کہ ان میں سے چار کو چن لو، اسے ابو داود اور ابن اجہ نے روایت کی ہے، اور علامہ البانی نے صحیح ابن ماجہ میں اس کی تصحیح کی ہے۔ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ امت کا اجماع اسی پر ہے کہ چار سے زیادہ بیویاں رکھنا امت کے کسی فرد کے لیے جائز نہیں یہ چیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص تھی۔ البتہ قرآن کریم اور صحیح احادیث کی روشنی میں چار بیویاں رکھنے کے جواز میں کوئی شبہ نہیں۔ قرآن کریم نے تو اس کی حلت کی صراحت کردی، بلکہ امر کا صیغہ استعمال کیا ہے، جو بظاہر وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ لیکن صیغہ امر کے بعد اللہ تعالیٰ نے ماطاب کا لفظ استعمال کیا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ یہاں امر وجوب کے لیے نہیں ہے، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک سے زیادہ بیوی رکھنا حلال ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا، اور آج تک ہر دور میں مسلمان اس کے قائل رہے ہیں، اور اس کے مطابق عمل کرتے رہے ہیں۔ اور یہ جو قرآن نے کہا ہے کہ اگر تمہیں خوف ہو کہ ان کے درمیان تم عدل و انصاف سے کام نہ لے سکو گے تو ایک ہی بیوی رکھو، تو یہ ایسی شرط ہے جس کا تعلق ہر آدمی کے دل سے ہے، اگر شادی کرنے والا جانتا ہے کہ وہ انصاف نہیں کرسکے گا تو بہتر یہی ہے کہ ایک بیوی رکھے، اس کا تعلق تشریع اور قانون سازی سے نہیں ہے۔ تعدد ازواج کے بعض منکرین نے قرآن کی آیت (ولن تستطیعوا ان تعدلوا بین النساء ولو حرصتم) سے استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ اللہ نے خود نفی کردی ہے کہ کوئی آدمی عدل و انصاف نہیں کرسکتا ہے۔ لیکن انہوں نے اسی آیت کا اس کے بعد کا حصہ قصداً چھوڑ دیا، اللہ نے کہا فلا تمیلوا کل المیل فتذروھا کالمعلقۃ، کہ تم پورے طور پر تو انصاف نہیں کرسکتے، لیکن کسی ایک طرف بالکل نہ جھک جاؤ، معلوم ہوا کہ اگر کسی ایک کی طرف پوری طرح جھکاؤ نہ ہو تو جائز ہوگا۔ 4۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ اگر کوئی آدمی اپنی طرف سے بے انصافی سے ڈرے تو ایک ہی بیوی رکھے، یا پھر لونڈی سے ہی گذارا کرے، جس میں نہ عدد کی شرط ہے، اور نہ ان کے درمیان بالکل ٹھیک ٹھیک عدل و انصاف کی۔ اس کے بعد اللہ نے کہا کہ ایک پر اکتفا کرنا، یا لونڈیوں سے کام چلا لینا، اس اعتبار سے زیادہ مناسب ہے کہ تم سے بے انصافی کا ارتکاب نہ ہوگا۔ بعض دوسرے مفسرین نے الا تعولوا کا معنی یہ کیا ہے تاکہ تمہاری اولاد زیادہ نہ ہو، اور پھر ان کے اخراجات مہیا کرنے کے لیے یتیموں کے مال پر دست درازی کرتے پھرو، زید بن اسلم، سفیان بن عیینہ اور امام شافعی سے یہی تفسیر منقول ہے، عائشہ، ابن عباس، مجاہد، عکرمہ اور حسن وغیرہم سے پہلی تفسیر منقول ہے، اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسی کو ترجیح دیا ہے۔ بہرحال، پہلی اور دوسری دونوں ہی تفسیروں کے مطابق آیت سے اتنی بات ضرور سمجھ میں آتی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بارے میں ڈرتا ہے کہ وہ انصاف نہ کرسکے گا تو ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا بہتر ہے، لیکن اس آیت سے یہ بات ہرگز سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک سے زیادہ بیوی صرف ناگزیر حالت میں ہی رکھنا چاہئے، اور بغیر ناگزیر حالت کے ایسا کرنا نا مناسب اور خطرناک ہے، جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ یہ ایسی تفسیر ہے جس کی یہ آیت متحمل نہیں ہے۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے کسی قول و فعل سے یہ بات مترشح نہیں ہوتی کہ صرف ناگزیر ضرورت کے پیش نظر ہی دوسری بیوی رکھنی جائز ہے۔ قرآن کریم، احادیثِ نبویہ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کی حیاتِ طیبہ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ ایک مسلمان کے لیے ایک سے زیادہ بیوی رکھنا جائز ہے، اور اس میں کسی طرح کی کوئی دینی یا اخلاقی قباحت نہیں پائی جاتی ہے۔ النسآء
4 5۔ آیت میں کلمہ نحلہ کا معنی عائشہ نے فریضہ کیا ہے، اور ابن زید نے واجب کیا ہے، یعنی شادی کے وقت عورت کا مہر مقرر کرنا واجب ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ امت کے کسی فرد کے لیے بغیر مہر کے شادی کرنا جائز نہیں ہے اور مہر کی تعیین کے وقت نیت بھی صحیح ہونی چاہئے کہ یہ عورت کا حق ہے جو اسے ملنا چاہئے ، زمانہ جاہلیت میں لوگ عورتوں کا مہر خود لے لیتے تھے اور انہیں کچھ بھی نہیں دیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کے اسی فعل شنیع کی تردید کی، اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ شادی کے وقت عورتوں کا مہر ضرور متعین کریں، اور ان کا حق ان کو ضرور دیں، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر بیوی طیب نفس کے ساتھ مہر کا کچھ حصہ شوہر کو دے دے، تو اس کا استعمال جائز ہوگا، آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر بیوی حیا کی وجہ سے، یا شوہر کی بد اخلاقی یا برے برتاؤ کے ڈر سے ایسا کرتی ہے، اور شوہر اسے قبول کرلیتا ہے، تو یہ قرآنی تعلیم کی خلاف ورزی ہوگی۔ النسآء
5 6۔ آیت میں سفہاء سے مراد کون لوگ ہیں، اس بارے میں علماء کی تین رائیں ہیں : پہلی رائے یہ ہے کہ ان سے مراد کم عقل اور نابالغ ایتام ہیں۔ ان کے اولیاء کو منع کیا گیا ہے کہ ان کا مان ان کے حوالے کردیں۔ اس لیے کہ وہ اپنی ناسمجھی اور کم عقلی کی وجہ سے اسے ضائع کردیں گے۔ اور مال کی نسبت اولیاء کی طرف اس لیے کی گئی ہے، تاکہ انہیں احساس دلایا جائے کہ ان کے رشتہ دار یتیموں کا مال انہی کا مال ہے، اور اس کی حفاظت ان پر اپنے مال کی حفاظت کی طرح واجب ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ ان سے مراد عورتوں اور بچے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنا مال اپنی عورتوں اور بچوں کو دینے سے منع فرمایا ہے کہ آدمی اپنا مال انہیں دے کر خود ان کا محتاج بن جائے اور ان کا منہ تکتا رہے، اور ان کے لیے سفہاء کا لفظ اللہ تعالیٰ نے استعمال کیا ہے، یہ اشارہ ہے اس طرف کہ وہ اپنی کم عقلی کی وجہ سے مال کی حفاظت نہیں کر پائیں گے، بلکہ ضائع کردیں گے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ ان سے مراد ہر وہ آدمی ہے جس کے پاس مال کی حفاظت کے لیے کافی عقل نہ ہو۔ اس رائے کے مطابق آیت کا حکم عورتوں، بچوں، یتیموں اور ان تمام لوگوں کو شامل ہوگا جو کم عقل اور نادان ہوں گے حافظ ابن کثیر (رح) نے لکھا ہے کہ نادانوں پر مالی معاملات کرنے کی پابندی لگانا اسی آیت سے ماخوذ ہے، یہ پابندی کئی اسباب سے لگتی ہے، کبھی کم سنی کی وجہ سے، کبھی جنون کی وجہ سے، کبھی کم عقلی یا بے دینی کی وجہ سے، جس کے زیر اثر آدمی مال کو ضائع کرے، اور کبھی مفلس آدمی پر پابندی لگا دی جاتی ہے، تاکہ اس کا مال بیچ کر اس کے قرضداروں کا قرض ادا کیا جائے۔ 7۔ اس میں مال کی حفاظت کی ترغیب دلائی گئی ہے، اس لیے کہ آدمی کے دنیاوی حالات بغیر مال کے متوازن نہیں رہتے۔ زمخشری نے سلف کا قول نقل کیا ہے کہ ” مال مومن کا ہتھیار ہے“ سفیان ثوری کے پاس ایک سامان تھا، اسے وہ الٹتے پلٹتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر یہ نہ ہوتا تو بنی عباس مجھے اپنے ہاتھ کا رومال بنا لیتے۔ اس کے بعد اللہ نے نصیحت کی کہ ان یتیموں کو یا اپنی عورتوں اور اپنے بچوں کو کھانے اور کپڑے کا خرچ دیتے رہو، ان پر تنگی نہ کرو، ایک معنی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس مال سے تجارت کرو، اور ان نادانوں کا خرچ نفع کے مال سے دو، تاکہ اصل مال ختم نہ ہوجائے، اور ان سے نرمی کے ساتھ بات کرو، اور انہیں کہو کہ جب تم سمجھ دار ہوجاؤ گے تو تمہارا مال تمہارے حوال کردیں گے، باپ بیٹے سے کہے کہ میرا مال تمہارا ہی مال ہے، جب بڑے ہوجاؤ گے اور زندگی کا تجربہ ہوجائے گا تو تمہیں مال دیا کروں گا۔ النسآء
6 8۔ اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے اولیاء کو حکم دیا ہے کہ کبھی کبھار کچھ مال دے کر عقلی اور مالی معاملات میں ان کی ذہنی صلاحیت کا امتحان لیتے رہو، اور جب بالغ ہوجائیں یعنی انہیں احتلام ہونے لگے، یا ان کی عمر پندرہ سال ہوجائے، اور تمہارے مشاہدے میں یہ بات آجائے کہ ان میں نیکی ہے، اور مالی امور میں سمجھدار اور ہوشیار ہیں، تو ان کا مال بغیر تاخیر ان کے حوالے کردو۔ آیت کریمہ کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ جو یتیم دینی یا مالی اعتبار سے نااہل ثابت ہوگا، مثال کے طور پر فضول خرچ ہوگا، یا ذہنی اور عقلی طور پر کمزور ہوگا، یا دینی اعتبار سے قابل اعتماد نہ ہوگا، تو اس کا مال اس کے حوالے نہیں کیا جائے گا۔ اس کے بعد اللہ نے اولیاء کو نصیحت کی ہے کہ یتیموں کے مال میں فضول خرچی نہ کرو، اور تمہاری یہ نیت نہ ہو کہ ان کے بڑے ہونے سے پہلے ان کا مال بے جا خرچ کرو، اس ڈر سے کہ بڑا ہونے کے بعد وہ اپنا مال تم سے لے لیں گے، اور اگر یتیم کا ولی مالدار ہے، تو اسے اس کا مال کھانے سے پرہیز کرنا چاہئے، کیونکہ وہ مال اس کے لیے مردے اور خون کی مانند حرام ہے اور اگر غریب ہے، اور یتیم کے مال کی دیکھ بھال اور اس میں کاروبار کی وجہ سے اپنے بچوں کے لیے دوسرا کام نہیں کرسکتا، اور دیکھ بھال نہ کرنے سے یتیم کا مال ضائع ہوجائے گا، تو اپنی ضرورت اور اپنی محنت کی مناسب مزدوری لے لے۔ حافظ ابن کثیر نے فقہاء کا قول نقل کیا ہے کہ وہ اپنی مزدوری اور اپنی ضرورت میں سے جو کم ہوگا وہ لے گا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جب سن بلوغ کو پہنچنے اور عقل و سمجھ کا یقین ہونے کے بعد، یتیم کا مال اس کے حوالے کرو تو گواہ بنا لو، تاکہ بعد میں کوئی تمہیں متہم نہ کرے، اور کوئی جھگڑا نہ کھڑا ہوجائے، اور اللہ تو سب سے بڑا گواہ اور تمہارے ظاہر و باطن کو جاننے والا ہے، اس لیے یتیم کا مال پوری امانت کے ساتھ اس کی طرف منتقل کردو۔ النسآء
7 9۔ یتیموں کے مال کا حکم بیان کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ نے میراث کے احکام، اور ورثہ کے درمیان اس کی تقسیم کی کیفیت بیان کرنی شروع کی ہے۔ آیت میں عورتوں کا نام مستقل طور پر لینے سے مقصود زمانیہ جاہلیت کی اس قبیح عادت کی تردید ہے کہ لوگو عورتوں اور بچوں کو وراثت میں سے حصہ نہیں دیتے تھے، اور اس طرح بھی اشارہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کے حصوں میں فرق ہے، اور لفظ قرابت سے وراثت کی علت کی طرف اشارہ مقصود ہے اور نصیبا مفروضا کا مطلب یہ کہ اللہ کے یہ احکام واجب ہیں، اور حصوں میں تفاوت کے باوجود اصل وراثت میں تمام لوگ برابر ہیں۔ النسآء
8 10۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے وراثت سے متعلق ایک ضمنی حکم بیان کیا ہے، کہ جب وراثت کا مال تقسیم ہو رہا ہو، اور وہاں ایسے رشتہ دار جو وراثت کے حقدار نہ ہوں اور یتیم اور غریب لوگ آجائیں تو مال تقسیم کرنے سے پہلے بطور صدقہ اور ان کا دل رکھنے کے لیے انہیں کچھ مال دے دینا چاہئے۔ اس آیت کے بارے میں دو رائے ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ یہ محکم ہے، منسوخ نہیں ہے، امام بخاری نے ابن عباس (رض) سے یہی روایت نقل کی ہے اور صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کی بھی یہی رائے ہے کہ ورثہ پر یہ حکم واجب ہے، لیکن اس کی کوئی حد مقرر نہیں۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس آیت کا حکم احکام وراثت کے ذریعہ منسوخ ہوچکا ہے، عکرمہ، ابو الشعثاء اور قاسم بن محمد کی یہی رائے ہے، اور ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء کا یہی مذہب ہے، البتہ مال میں وصیت کا حکم غیر وارثوں کے لیے باقی ہے۔ صاحب مال اپنی زندگی میں ایک تہائی مال میں بذریعہ وصیت تصرف کرسکتا ہے، جیسا کہ سعد بن وقاص (رض) کی حدیث سے ثابت ہے جسے بخاری اور مسلم نے روایت کی ہے، کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ایک تہائی مال میں بطور وصیت تصرف کرنے کا حق دیا تھا۔ بعض لوگوں نے پہلی رائے کو ترجیح دیا ہے، اور کہا ہے کہ آیت کو منسوخ ماننے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ مال کی تقسیم کے وقت اگر کچھ رشتہ دار موجود ہوں اور وہ محتاج بھی ہوں، تو صلہ رحمی کا جذبہ رکھنے والے ورثہ یہی مناسب سمجھیں گے کہ انہیں بھی کچھ دے دیا جائے، تاکہ جہاں ان کے کسی رشتہ دار کا مال تقسیم ہو رہا ہے وہاں سے وہ محروم نہ واپس جائیں۔ اور خاص طور سے وہ یتیم بچے، جن کے باپ کا انتقال دادا کے ہوتے ہوئے ہوگیا ہو اور وراثت سے محروم ہوگئے ہوں اور پھر ان کے دادا کے انتقال کے بعد وراثت تقسیم ہو رہی ہو، اور ان کے چچا اور پھوپھیاں وراثت کا مال پا کر خوش ہو رہی ہوں اور یہ بچے ان کا منہ تک رہے ہوں اور ان کے حصہ میں کچھ نہ آرہا ہو، صرف اس لیے کہ ان کے والد کا انتقال دادا سے پہلو ہوچکا ہے، تو ان کی محرومی کا کیا عالم ہوگا، ایسے بچوں کے حق میں تو یہ آیت آب حیات کے مترادف ہے، اور خاص طور پر اگر دادا کی جائداد بڑی ہو، اور ورثہ ان یتیموں کے حال پر رحم کریں تو ان کے حصہ میں بھی اچھی خاصی جائداد آسکتی ہے، اور ان کی غرب دور ہسکتی ہے، النسآء
9 11۔ علمائے تفسیر نے اس آیت کی کئی توجیہات بیان کی ہیں۔ پہلی توجیہہ یہ ہے کہ اس میں یتیموں کے اوصیاء کو کہا گیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کریں جیسا وہ چاہتے ہیں کہ ان کی وفات کے بعد ان کے چھوٹے بچوں کے ساتھ لوگ کریں۔ دوسری توجیہہ یہ ہے کہ یہ حکم مریض کی عیادت کرنے والوں کے لیے ہے، کہ اگر مریض اپنے مال میں بے جا تصرف کی وجہ سے اپنی اولاد کو نقصان پہنچا رہا ہو تو اسے روکیں۔ تسری توجیہہ یہ ہے کہ یہ حکم ورثہ کے لیے ہے، کہ تقسیم وراثت کے وقت جو کمزور رشتہ دار، ایتام ومساکین موجود ہوں تو ان کا خیال کریں، یہ سوچ کر کہ اگر ان کی وفات کے بعد ان کے چھوٹے بچے ہوتے تو کیا وہ چاہتے کہ کوئی انہیں صدقہ و احسان سے محروم کردے۔ چوتھی توجیہہ یہ ہے کہ وصیت کرنے والا ورثہ کا خیال رکھے اور وصیت میں حد سے تجاوز نہ کرے،۔ جیسا کہ حدیثِ سعد بن وقاص میں آیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں ایک ثلث سے زیادہ مال کی وصیت کی اجازت نہیں دی۔ ابن جریر، ابن کثیر، اور رازی وغیرہم نے پہلی توجیہہ کو ترجیح دی ہے، اور کہا ہے کہ سیاق و سباق کی آیتیں اسی رائے کی تائید کرتی ہیں۔ النسآء
10 12۔ اس میں یتیموں کے مال کی حفاظت کی مزید تاکید کی گئی ہے، اور بتایا گیا ہے کہ وارث یا ولی یا حاکم کوئی بھی اگر یتیموں کا مال ناجائز طور پر کھاتا ہے، وہ گویا اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتا ہے، اور قیامت کے دن اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ ابو داود، نسائی اور حاکم وغیرہم نے ئ روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی، تو جن کے پاس ایتام تھے، انہوں نے ڈر کے مارے ان کا کھانا پینا الگ کردیا، اور جو کھانا بچ جاتا، یا تو اسے یتیم کھاتا، یا خراب ہوجاتا، یکہ چیز ان پر بڑی شاق گذری، تو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا تو سورۃ بقرہ کی آیت 220 ویسالونک عن الیتامی قل اصلاح لہم خیر وان تخالطوہم فاخوانکم الایہ نازل ہوئی۔ جس کا خالصہ یہ ہے کہ اگر نیت اصلاح کی ہو تو یتیموں کے کھانے کے ساتھ کھانا ملانے میں کوئی حرج نہیں۔ النسآء
11 13۔ یہاں سے احکام میراث کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ یہ آیت اور اس کے بعد والی آیت اور اس سورت کی آخری آیت ان سے اور ان کی تفسیر کے طور پر جو حدیثیں آئی ہیں ان سے اور ان کی تفسیر کے طور پر جو حدیثیں آئی ہیں ان سے علم فرائض مستنبط ہے۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کی میراث کے بارے میں یہ حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، یعنی اگر کوئی شخص ایک لڑکا ایک لڑکی اور تین دینار چھوڑ کر مرتا ہے تو لڑکے کو دو دینا اور لڑ کی کو ایک دینار ملے گا اور گر دو یا زیادہ لڑکیاں ہوں اور کوئی لڑکا نہ ہو، تو لڑکیوں کو دو تہائی ملے گا، اور باقی مال عصبہ میں تقسیم ہوگا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آخری آیت میں دو بہنوں کا حصہ دو تہائی مال بتایا ہے، تو دو لڑکیاں بدرجہ اولی دو تہائی مال کی حقدار ہوں گی، اور امام احمد، ابو داود، ترمذی اور بن ماجہ نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد بن ربیع کی دو لڑکیوں کے لیے دو تہائی مال کا فیصلہ کیا، اور ان دونوں کی ماں کے لیے آٹھویں حصہ کا، اور جو بچ گیا وہ عصبیہ کو دے دیا۔ اگر لڑکی ایک ہوگی تو آدھا مال لے گی، اور باقی عصبہ کو ملے گا، اولاد کے ساتھ باپ اور ماں بھی ہوں، تو باپ کو چھٹا حصہ اور ماں کو چھٹا حصہ ملے گا، اور باپ کو دوسرا چھٹا حصہ عاصب ہونے کی حیثیت سے ملے گا، اگر ورثہ میں صرف باپ اور ماں ہوں، تو ماں کو تیسرا حصہ ملے گا، اور باقی مال باپ کو ملے گا، اور اگر باپ اور ماں کے ساتھ، شوہر یا بیوی ہو، تو شوہر آدھا مال لے گا، اور بیوی کو چوتھائی، اور ماں کو باقی مال کا تیسرا حصہ ملے گا، جمہور علماء اور ائمہ اربعہ کا یہی قول ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ ماں کو پورے مال کا تیسرا حصہ ملے گا، لیکن یہ قول ضعیف ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اگر بیوی ہے تو اسے چوتھا حصہ ملے گا، اور ماں کو پورے مال کا تیسرا حصہ، اور اگر شوہر ہے تو شوہر کو پورے مال کا آدھا، اور ماں کو باقی مال کا تیسرا حصہ ملے گا، لیکن راجح پہلا قول ہے۔ باپ اور ماں کی تیسری حالت یہ ہے کہ ان دونوں کے ساتھ بھائی بھی ہوں چاہے سگے، یا باپ کی طرف سے، یا ماں کی طرف سے، تو بھائیوں کو باپ کے ساتھ کچھ بھی نہیں ملے گا، لیکن ایسی حالت میں ماں کو تہائی مال کے بجائے چھٹا حصہ ملے گا، اور اگر باپ اور ماں کے علاوہ کوئی دوسرا وارث نہ ہوگا تو باقی مال باپ کو ملے گا، جمہور کے نزدیک دو یا دو سے زیادہ بھائیوں کا ایک ہی حکم ہے، اور اگر بھائی صرف ایک ہے، تو ماں کو تہائی مال ملے گا۔ اہل علم کا خیال ہے کہ بھائیوں کی موجودگی میں ماں کو صرف چھٹا حصہ اس لیے ملتا ہے کہ ان کا باپ ہی ان کی شادی اور دیگر اخراجات کا متحمل ہوتا ہے، اس لیے ماں کے چھٹے حصہ کے بعد باقیمال باپ کو مل جائے گا، تاکہ ان بھائیوں کی پرورش و پرداخت پر خرچ کرے۔ 14۔ تمام علمائے امت کا اجماع ہے کہ قرض کی ادائیگی وصیت کی تنفیذ پر مقدم ہے، اور آیت میں وصیت کو اس لیے مقدم رکھا گیا ہے، تاکہ لوگ اس کی تنفیذ میں سستی نہ کریں، اور یہ آیت اس بات کی بھی دلیل ہے کہ قرض کی ادائیگی اور وصیت کی تنفیذ کے بعد ہی وراثت کی تقسیم ہوگی۔ امام احمد اور ابن ماجہ نے سند صحیح کے ساتھ سعد بن الاطول سے ایک حدیث روایت کی ہے کہ ان کا بھائی تین سو درہم چھوڑ کر مرا، انہوں نے اسے ان کے ان کے بال بچوں پر خرچ کرنا چاہا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمہارا بھائی قرض میں گھرا ہوا ہے، اس لیے پہلے اس کا قرض ادا کرو۔ 15۔ میراث کے یہ حصے اللہ تعالیٰ نے مقرر کیے ہیں اور وہی حکمتوں کو زیادہ بہتر جانتا ہے، تم نہیں جانتے کہ ورثہ میں سے کون تمہارے لیے زیادہ نفع بخش ہے، اگر وراثت کی تقسیم تمہارے اوپر چھوڑ دی جاتی تو تم بغیر حکمت جانے اس کی تقسیم کرتے، جو تمہارے لیے اور ورثہ کے لیے کسی طرح بھی مناسب نہیں ہوتا۔ النسآء
12 16۔ اللہ نے شوہروں کو خطاب کر کے فرمایا کہ اگر تمہاری بیویاں مال چھوڑ کر مریں اور ان کی کوئی اولاد نہ ہو، تو تمہیں آدھا مال ملے گا، اور اگر ان کی کوئی اولاد ہوگی تو تمہیں چوتھا حصہ ملے گا، لیکن وراثت کی یہ تقسیم قرض کی ادائیگی اور وصیت کی تنفیذ کے بعد ہی ہوگی۔ اور اگر تمہاری کوئی اولاد نہ ہو، تو تمہارے ترکہ کا تمہاری بیویوں کو چوتھا حصہ ملے گا، اور اگر تمہاری کوئی اولاد ہوگی، تو انہیں تمہارے ترکہ کا آٹھواں حصہ ملے گا، اور یہ ترکہ انہیں قرض کی ادائیگی اور وصیت کی تنفیذ کے بعد ہی ملے گا، 18۔ اگر کوئی ایسا مرد یا عورت مر جائے جس کا نہ باپ ہو نہ دادا اور نہ کوئی لڑکا، نہ پوتا نہ پرپوتا، نہ کوئی لڑکی، نہ پوتی نہ پرپوتی، اور ماں کی طرف سے اس کا کوئی بھائی یا بہن ہو، تو دونوں میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، اور اگر ایک سے زیادہ ہوں گے تو سب تہائی مال میں شریک ہوں گے، اور یہ ترکہ انہیں قرض کی ادائیگی اور وصیت کی تنفیذ بعد ہی ملے گا۔ قرآن کی اصطلاح میں (کلالہ) اس آدمی کو کہتے ہیں، جس کی نہ کوئی اولاد ہو اور نہ باپ، ابوبکر، عمر، علی، ابن مسعود، ابن عباس اور زید بن ثابت (رض) سے یہی مروی ہے، اور جمہور علمائے سلف و خلف کا یہی قول ہے۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ماں کی جانب سے بھائی بہن، باقی ورثہ سے تین باتوں میں مختلف ہوتے ہیں۔ 1۔ جس کے ذریعہ میت سے ان کا رشتہ قائم ہوتا ہے، اس کے ساتھ (یعنی ماں کے ساتھ) وراثت کے حقدار بن جاتے ہیں۔ 2۔ ان کے مرد اور عورت وراثت میں برابر ہوتے ہیں۔ 3۔ یہ لوگ اسی حالت میں وارث بنتے ہیں جب کہ میت کی اولاد یا باپ یا دادا نہ ہو۔ 18۔ لفظ کلالہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ میت کی شاخیں (یعنی بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، پرپوتا، اور پرپوتی وغیرہ) اور اس کے مذکور اصول (یعنی باپ، دادا اور پردادا وغیرہ) ماں کی اولاد کو ساقط کردیتے ہیں۔ 19۔ آیت کا یہ حصہ دلالت کرتا ہے کہ اگر کوئی عورت، شوہر، ماں، سگے بھائی اور ماں کی طرف سے بھائی چھوڑ کر مرے، تو شوہر کو آدھا، ماں کو چھٹا حصہ اور ماں کی طرف سے بھائیوں کو تہائی ملے گا، اور سگے بھائی ساقط ہوجائیں گے، اس لیے کہ اللہ نے تہائی حصہ انہی کے لیے بتایا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ ماں کی طرف سے بھائیوں کا حصہ مقرر کردیا گیا ہے، جبکہ سگے بھائی عصبہ ہیں، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جن کے حصے اللہ نے مقرر کردئیے ہیں پہلے انہیں دو، اس کے بعد جو بچ جائے، وہ سب سے قریبی مرد رشتہ دار کو دے دو۔ 20۔ غیر مضار یعنی صاحب مال وصیت کرتے وقت عدل و انصاف کو ملحوظ رکھے، ایسا نہ ہو کہ کسی وارث کو محروم کردے یا کم دے، یا اپنی طرف سے کسی کا حصہ بڑھا دے، نسائی اور ابن جریر وغیرہ نے ابن عباس سے موقوفا روایت کی ہے کہ وصیت کے ذریعہ کسی وارث کو نقصان پہنچانے کی نیت کرنا کبیر گناہ ہے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح حدیث ہے کہ وارث کے لیے وصیت صحیح نہیں ہے۔ اسی لیے اگر کوئی آدمی مرنے سے قبل کسی وارث کے لیے کسی حق کا اعتراف کرے، یا اپنے ذمہ کسی کے قرض کا اعتراف کرے، تو راجح قول یہی ہے کہ اس کا اعتراف قابل قبول نہیں ہوگا، اور اگر واقعی اس نے اس اعتراف کے ذریعہ بعض ورثہ کو نقصان پہنچانا چاہا ہے تو یہ بالاجماع حرام ہوگا۔ النسآء
13 21۔ آیات 13، 14 میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ میراث کے احکام اللہ کے فرض کیے ہوئے ہیں اس لیے ان سے تجاوز کرنا جرم ہے اور جو شخص وراثت کی تقسیم اور دیگر امور میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، اللہ اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، وہاں نہ انہیں موت لاحق ہوگی، اور نہ ہی وہاں سے نکالے جائیں گے اور جو اللہ کے ان حدود کو تجاوز کرے گا اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ النسآء
14 النسآء
15 22۔ وراثت کے احکام بیان کرنے کے بعد یہاں اللہ تعالیٰ نے عورتوں سے متعلق بعض دوسرے احکام بیان کیے ہیں۔ سدی، قتادہ اور ابن جریر وغیرہم نے کہا ہے کہ ابتدائے اسلام میں ایسی شادی شدہ عورت کے بارے میں جس سے زنا کا ارتکاب ہوجاتا اور چار مرد گواہوں کی گواہی سے ثابت ہوجاتا، تو حکم یہ تھا کہ اسے گھر میں بند کردیا جاتا اور نکلنے نہ دیا جاتا یہاں تک کہ اس کی موت آجاتی، اور علماء تفسیر نے لکھا ہے کہ زانی مردوں کے ساتھ بھی یہی برتاؤ ہوتا تھا، اس کے بعد غیر شادی شدہ کو کوڑے لگانے اور شادی شدہ کو رجم کیے جانے کے حکم کے ذریعہ یہ حکم منسوخ ہوگیا، جیسا کہ امام احمد، مسلم اور اصحابِ سنن نے عبادہ بن صامت (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب وحی اترتی تو آپ پر اس کا اثر ہوتا تھا، آپ مارے دباؤ کے تھک جاتے اور آپ کے چہرہ پر اس کے آثار ظاہر ہوتے، ایک دن آپ پر وحی نازل ہوئی، اور جب آپ کو سکون ہوگیا تو فرمایا، مجھ سے یہ حکم لے لو، زانیہ عورتوں کے لیے اللہ نے راستہ نکال دیا ہے، اگر زنا کا مرتکب مرد یا عورت شادی شدہ ہے تو سو کوڑے اور رجم کرنا ہے، اور اگر غیر شادی شدہ ہے تو سو کوڑے اور ایک سال کے لیے شہر بدر کرنا ہے۔ امام احمد کا قول اسی حدیث کے مطابق ہے۔ لیکن جمہور کے نزدیک شادی شدہ زانی کو صرف رجم کیا جائے گا، اس لیے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماعز اسلمی، غامدیہ عورت، اور دو یہودیوں کو صرف رجم کیا تھا، انہیں کوڑے نہیں لگائے تھے۔ النسآء
16 23۔ ابتدائے اسلام میں اگر زنا کے مرتکب (مرد اور عورت) غیر شادی شدہ ہوتے، تو ان کے بارے میں یہ حکم تھا کہ انہیں برا بھلا کہا جاتا، عار دلایا جاتا اور کچھ زد و کو ب بھی کیا جاتا، تاکہ اپنے کیے پر نادم ہوں، اور جب توبہ کرلیتے اور اپنی اصلاح کرلیتے، تو خاموشی اختیار کرلی جاتی اور زدو کو ب بند کردیا جاتا۔ اس لیے کہ گناہ سے تائب اس آدمی کی مانند ہوجاتا ہے، جس نے گناہ نہ کیا ہو، جب سورۃ نور کی آیت 2 الزانیۃ والزانی فاجلدوا کل واحد منہما مئۃ جلدۃ۔ کہ زانی اور زانیہ کو سو کوڑے مارو، نازل ہوئی تو یہ حکم بھی گذشتہ حکم کی طرح منسوخ ہوگیا، اور جمہور کے نزدیک ان کے حق میں صرف کوڑے لگانے کا حکم باقی رہ گیا۔ گذشتہ دونوں آیتوں میں بیان کردہ حکم کے بارے میں دوسری قول یہ ہے کہ پہلی آیت میں صرف عورتیں مراد ہیں، چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ، یعنی انہیں حبس دوام کی سزا دی جاتی، اور دوسری آیت میں صرف مرد مراد ہیں، شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ، کہ انہیں زد و کو ب کیا جاتا اور ایذا پہنچائی جاتی۔ ابن نحاص نے ابن عباس (رض) سے اور قرطبی نے مجاہد وغیرہ سے یہی قول نقل کیا ہے تیسری رائے یہ ہے کہ حبس دوام صرف عورت کے ساتھ خاص تھا، اس لیے پہلی آیت میں صرف عورت کا ذکر آیا، اور ایذا پہنچانے کا حکم دونوں کے بارے میں تھا، اس لیے دوسری آیت میں دونوں کو جمع کردیا گیا، لیکن تینوں آراء کے مطابق بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا، اور شادی شدہ مرد و عورت کے حق میں رجم کا حکم، اور غیر شادی شدہ کے حق میں کوڑے لگانے کا حکم باقی رہ گیا۔ مجاہد نے کہا ہے کہ دوسری آیت ایسے دو مردوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو آپس میں لواطت کریں۔ اصحاب سنن نے ابن عباس (رض) سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ عمل لوط کے فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردیا جائے۔ النسآء
17 24۔ آیات 17، 14 میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ بندہ کی توبہ کب قبول ہوتی ہے؟ اور کب رد کردی جاتی ہے؟ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو کوئی نادانی اور بے وقوفی میں کسی گناہ کا ارتکاب کرلے، اور پھر جلد ہی اس پر نادم ہو اور اللہ کے حضور توبہ کرلے، تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ ضرور قبول کرتا ہے، لیکن جو آدمی گناہ پر گناہ کرتا رہتا ہے اور اپنے گناہوں پر کبھی نادم نہیں ہوتا، اور جب اس کی آنکھوں کو موت نظر آنے لگتی ہے اور زندگی سے مایوس ہوجاتا ہے، تو کہتا ہے کہ اے اللہ ! میں توبہ کرتا ہوں، تو ایسی توبہ کی اللہ کے نزدیک کوئی قیمت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب فرعون نے اپنی آنکھوں سے موت کو دیکھ لیا اور کہا کہ میں اس اللہ پر ایمان لایا جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے۔ اور اعلان کرتا ہوں کہ میں مسلمانوں ہوں، تو اللہ تعالیٰ نے اسے جواب دیا کہ اب تک تو تم نافرمانی کرتے رہے ہو اور زمین میں فساد پھیلاتے رہے ہو، اور اب جب موت نے آ دبوچا ہے تو ایمان کا اعلان کرتے ہو، اب تمہاری توبہ کا کوئی فائدہ نہیں۔ امام احمد، ترمذی، اور ابن ماجہ نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ حلق میں آخری سانس اٹکنے سے پہلے تک قبول کرتا ہے۔ امام احمد، ترمذی، اور ابن ماجہ نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ حلق میں آخری سانس اٹکنے سے پہلے تک قبول کرتا ہے۔ ان آیات اور احادیث سے معلوم ہا کہ اگر توبہ کرنے والا ابھی اپنی زندگی کی امید رکھتا ہے تو اس کی توبہ مقبول ہوگی، لیکن روح جب حلق میں آکر اٹک جائے اور فرشتے کو اپنی آنکھوں کے سامنے پائے اور سانس کا زیر و بم بگڑ جائے، تو اس وقت کی توبہ اللہ کے نزدیک مقبول نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص حالت کفر و شرک میں مرجاتا ہے، تو ایسے آدمی کی توبہ اور ندامت بھی کسی کام کی نہیں۔ امام احمد اور حاکم نے ابو ذرغفاری (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسی وقت تک بندہ کی توبہ قبول کرتا ہے یا اسے معاف کردیتا ہے، جب تک حجاب نہ واقع ہوجائے، لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ ” حجاب“ کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ حالت شرک میں ہی جان نکل رہی ہو۔ النسآء
18 النسآء
19 25۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ عورتوں کے ساتھ جو ظلم وزیادتی کیا کرتے تھے اسی کی اس آیت میں تردید آئی ہے، امام بخاری نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ (زمانہ جاہلیت میں) جب کوئی آدمی مر جاتا تھا، تو اس کے ورثہ اس کی بیوی کے زیادہ حق دار تھے، اور چاہتے تو اس کی شادی نہیں کرتے، اور اس کے شوہر کے ورثہ اس کے خاندان والوں سے زیادہ اس کے حقدار ہوتے تھے، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ 26۔ یہاں خطاب شوہر سے ہے اور عورتوں سے متعلق ایک دوسرا حکم بیان کیا جا رہا ہے، کہ ایک آدمی کسی وجہ سے اپنی بیوی سے نفرت کرنے لگے، اور اس کے ذمہ اس کا مہر باقی ہو، تو اسے تنگ کرنے لگے اور نقصان پہنچا نے لگے تاکہ بیوی مہر کی پوری رقم یا اس کا کچھ حصہ چھوڑ دے، اور اس کے بدلے میں اس سے طلاق لے لے۔ اللہ تعالیٰ نے شوہر کے لیے اسے حرام قرار دیا ہے، ہاں، اگر عورت زنا کا ارتکاب کرتی ہے یا کھلم کھلا نافرمانی یا بدزبانی پر تل جاتی ہے، تو شوہر کے لیے یہ جائز ہے کہ جو مہر اس نے دیا تھا وہ لوٹا لے، اور اگر بیوی دینے سے انکار کرے تو اسے مجبور کرے۔ 27۔ اللہ تعالیٰ نے بیویوں کے ساتھ قول وفعل کے ذریعہ اچھے برتاؤ کا حکم دیا ہے، اس لیے کہ بسا اوقات برا برتاؤ تعلقات میں کشیدگی، غیروں سے تعلقات، نافرمانی اور بد اخلاقی کا سبب ہوتا ہے۔ حافظ سیوطی نے (الاکلیل) میں لکھا ہے کہ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا واجب ہے۔ شوہر پر لازم ہے کہ اس کا پورا مہر ادا کرے، اخراجات اور باری کی تقسیم میں انصاف کرے، اس کے ساتھ نرم گفتگو کرے، اور بے سبب نہ اسے مارے اور نہ سختی کا برتاؤ کرے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر بالفرض تمہیں بیوی سے نفرت ہوگئی ہے، تو صبر اور برداشت سے کام لینا چاہئے، اس لیے کہ آدمی بسا اوقات کسی چیز کو نہیں چاہتا، حالانکہ اس میں اس کے لیے کوئی خیر پوشیدہ ہوتی ہے۔ مثلاً اللہ اسے اس کے بطن سے نیک اولاد عطا فرمائے، اور صبر کرنے اور اس پر خرچ کرنے کے بدلے آخرت میں اچھا بدلہ دے۔ مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کوئی مومن مرد کسی مومنہ عورت سے نفرت نہ کرے، اگر اس کی ایک خصلت اسے بری لگے گی تو دوسری کوئی خصلت اچھی لگے گی۔ اسلام میں بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی بڑی ہی تاکید آئی ہے۔ ایک تو یہی آیت ہے جس کا ابھی آپ مطالعہ کر رہے ہیں۔ نیز نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہتر ہے، اور میں اپنی بیویوں کے لیے تم سب سے اچھا ہوں۔ اس حدیث کو الفاظ کے تھوڑے فرق کے ساتھ، عائشہ، ابن عباس اور معاویہ (رض) سے ترمذی، ابن ماجہ، طبرانی اور حاکم وغیرہم نے روایت کی ہے۔۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا برتاؤ اپنی بیویوں کے ساتھ غایت درجہ اچھا تھا، ہمیشہ ان کے ساتھ ہنستے چہرہ کے ساتھ بات کرتے، ان کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے، اور ام المومنین عائشہ کے ساتھ دوڑ لگاتے تھے، ہر رات ان سب کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے، اور سونے سے پہلے اپنی بیوی کے ساتھ تھوڑی دیر تک بات کرتے تھے۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مبارک ذات ان کی امت کے افراد کے لیے نمونہ ہے، اس لیے مسلمانوں کو بھی اپنی بیویوں کے ساتھ ایسا ہی حسن سلوک کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ، کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات تمہارے لیے اچھا نمونہ ہے النسآء
20 28۔ آیات 20، 21 میں اللہ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو صرف اس لیے طلاق دینا چاہتا ہے تاکہ کسی دوسری عورت سے شادی کرے، تو اس کے لیے یہ کسی طرح بھی حلال نہیں ہے کہ اس نے جو مہر دیا ہے، اس میں سے کچھ واپس لینے کے لیے ایسے حالات پیدا کرے، کہ بیوی مجبور ہو کر طلاق لینے کے لیے مہر کا کچھ پیسہ واپس کردے۔ اللہ نے اسے کھلا ظلم اور بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ مزید تاکید کے طور پر اللہ نے فرمایا کہ مہر واپس لینے کو تم کیسے حلال سمجھتے ہو، حالانکہ تم نے اس کے ساتھ ہمبستری کی ہے، اور وہ عقد زواج کے ذریعہ تمہاری زوجیت میں آئی ہے۔ مذکورہ بالا دونوں آیتوں سے یہ شرعی فائدہ مستنبط ہے کہ مہر میں بڑی رقم دینا جائز ہے، کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر تم نے اپنی بیوی کو مال کثیر بطور مہر دیا، تو اس میں سے کچھ بھی کسی طرح واپس نہ لو، اگرچہ مہر کم رکھنا ہی بہتر ہے۔ ابو داود اور حاکم نے عقبہ بن عامر (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اچھا مہر آسان مہر ہوتا ہے، اور مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، ایک صحابی سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ کتنے مہر کے بدلے میں شادی کی ہے؟ اس نے کہا : چار اوقیہ، تو آپ نے اسے زیادہ سمجھا، النسآء
21 النسآء
22 29۔ یہاں سے اللہ تعالیٰ نے شادی کے محرمات کو بیان کرنا شروع کیا ہے، سب سے پہلے باپ کی منکوحہ کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ اے مسلمانو ! تم اس سے شادی نہ کرو، اور جس کسی نے زمانہ جاہلیت میں ایسا کیا اور اسلام لانے کے بعد فوراً اس سے باز آگیا، تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردے گا، باپ کی منکوحہ سے شادی کرنا بدترین خصلت ہے، اس لیے کہ یہ ماں سے شادی کرنے کی مانند ہے، اور یہ حرکت اللہ اور اس کے مروت والے بندوں کے نزدیک بہت ہی مبغوض، اور بہت ہی برا چلن ہے، اس لیے کہ یہ باپ کی عزت سے کھلواڑ ہے۔ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ ایسی حرکت کرنے والا، اسلام سے مرتد مانا جائے گا، اس لیے اسے قتل کردیا جائے گا، اور اس کا مال بیت المال میں دے دیا جائے گا۔ امام احمد نے براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے چچا حارث بن عمرو کو ایک ایسے آدمی کو قتل کردینے اور اس کے مال پر قبضہ کرلینے کے لیے بھیجا، جس نے اپنے باپ کی بیوی سے شادی کرلی تھی۔ النسآء
23 30۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نسبی، رضاعی، اور سسرالی محرمات کو بیان کیا ہے، سب سے پہلے نسبی محرمات کو ذکر کیا جو مندرجہ ذیل ہیں : مائیں بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھائی کی بیٹیاں اور بہن کی بیٹیاں اور صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ عورت اور اس کی پھوپھی، اور عورت اور اس کی خالہ کو نکاح کے ذریعہ جمع کرنا حلال نہیں ہے۔ اس کے بعد رضاعی محرمات کا ذکر ہے، جو مندرجہ ذیل ہیں۔ رضاعی مائیں، رضاعی نانیاں، رضاعی بہنیں، رضاعی خالائیں، رضاعی باپ کی بیٹیاں رضاعی باپ کی بہنیں، اور رضاعی باپ کی مائیں، قرآن کریم میں اگرچہ صراحتا، صرف رضاع ماں اور رضاعی بہن کا ذکر آیا ہے، لیکن آیت کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ نسب کے ذریعہ محرمات کی تمام ہی صورتیں رضاعت کے ذریعہ بھی ثابت ہیں، اور اس کی تائید نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث سے بھی ہوتی ہے، آپ نے فرمایا ہے کہ رضاعت کے ذریعہ وہ تمام حرمتیں ثابت ہوتی ہیں جو نسب کے ذریعہ ثابت ہوتی ہیں (متفق علیہ) مدت رضاع اور مقدار رضاعت پر سیر حاصل بحث سورۃ بقرہ آیت 233 کی تفسیر کے ضمن میں آچکی ہے، اسے دوبارہ پڑھ لینا مناسب ہوگا۔ اس کے بعد سسرالی محرمات کا ذکر آیا ہے، جو مندرجہ ذیل ہیں بیویوں کی مائیں (بیویوں کے ساتھ صرف عقد کرنے سے ہی ان کی مائیں حرام ہوجاتی ہیں) اور بیویوں کے پہلے شوہر کی لڑکیاں، جن کی بیویوں کے ساتھ ان کے شوہر ہمبستری کرچکے ہوں (اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو جماع سے پہلے ہی طلاق دے دے یا مر جائے، تو اس کے پہلے شوہر کی بیٹی سے شادی کرنا جائز ہے) بیٹوں کی بیویاں (رضاعی بیٹوں کی بیویوں کا بھی یہی حکم ہے) اور دو بہنوں کو بذریعہ نکاح اکٹھا کرنا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی نے زمانہ جاہلیت میں دو بہنوں کو بذریعہ نکاح اپنے پاس جمع کیا تھا اور اب اس سے باز آگیا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کردے گا، اللہ بڑا معاف کرنے والا بے حد رحم کرنے والا ہے۔ النسآء
24 31۔ جو اجنبی عورتیں شادی شدہ ہوں گی، ان سے شادی حرام ہوگی، جب تک کہ ان کے پہلے شوہر طلاق نہ دے دیں یا وہ مر نہ جائیں، اور وہ عورتیں طلاق یا وفات کی عدت نہ گذار لیں، چاہے وہ عورتیں آزاد ہوں یا لونڈی اور چاہے مسلمان ہوں یا کتابیہ، تاکہ دو مردوں کا نطفہ مل کر بچے کا نسب ضائع نہ ہوجائے۔ لیکن اگر وہ شادی شدہ اجنبی عورتیں جہاد فی سبیل اللہ کی جنگی قیدی بن کر مسلمان کے پاس آجائیں، تو ممکن ہے کہ ان کے شوہر جنگ میں نہ مرے ہوں، لیکن چونکہ دار الحرب میں شوہر اور خاندان سے ان کا تعلق ختم ہوگیا، اور وہ لونڈی بن گئیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر رحم کرتے ہوئے، ان کے مسلمان مالکوں کو ایک ماہوار گذر جانے کے بعد ان کے ساتھ ہمبستری کرنے کی اجازت دی ہے مسلم، ابو داود، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے ابوسعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ واقعہ اوطاس کے بعد (جو جنگ حنین کے بعد پیش آیا) کچھ ایسی عورتیں ہماری قید میں آگئیں جن کے شوہر زندہ تھے، تو ہم نے ان کے شوہروں کے ہوتے ہوئے ان کے ساتھ ہمبستری کو برا سمجھا، چنانچہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے بارے میں سوال کیا تو یہ آیت نازل ہوئی، اور ہم نے ان کے ساتھ ہمبستری کو حلال جانا۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اگر لونڈی کی ملکیت بیع، وراثت، یا کسی اور وجہ سے دوسرے آدمی کی طرف منتقل ہوجائے، تو اس کا عقد نکاح منقطع ہوجائے گا، ابن جریر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے، کہ لونڈی کی طلاق چھ طرح سے واقع ہوتی ہے، اسے بیچ دیا جائے، آزاد کردی جائے، ہدیہ کردی جائے، ایک حیض گذر جائے، اس کا شوہر اسے طلاق دے دے، یا اس کا غلام شوہر بیچ دیا جائے، لیکن جمہور کی رائے یہ ہے کہ لونڈی کو بیچ دینا طلاق کے مترادف نہیں، اور اس کی دلیل بریرہ (رض) کا مشہور واقعہ ہے، جسے عائشہ (رض) نے خرید کر آزاد کردیا تھا، تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اختیار دیا کہ چاہے تو وہ اپنے شوہر (مغیث) کے ساتھ رہے، اور چاہے تو نکاح کو فسخ کرالے۔ 32۔ علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ اس حکم عام کی بھی دیگر چند محرمات کے ذریعہ تخصیص ہوچکی ہے، وہ محرمات مندرجہ ذیل ہیں۔ عورت اور اس کی پھوپھی یا اس کی خالہ کو عقد نکاح کے ذریعہ جمع کرنا، عدت گذارنے والی عورت، آزاد بیوی کے ہوتے ہوئے لونڈی سے شادی کرنا، آزاد عورت سے شادی کی قدرت ہوتے ہوئے لونڈی سے شادی کرنا، چار بیویوں کے ہوتے ہوئے پانچویں بیوی، نیز لعان کرنے والی عورت ہمیشہ کے لیے لعان کرنے والے مرد پر حرام ہوجاتی ہے۔ 33۔ جن عورتوں سے شادی کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، ان کے علاوہ کسی بھی عورت سے ایک مسلمان عقد زواج کے شرعی شروط کو ملحوظ رکھتے ہوئے بیک وقت ایک سے چار تک شادیاں کرسکتا ہے۔ اور لونڈی تو جتنی چاہے رکھ سکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس بیوی کا مہر مقرر ہو اور ایجاب و قبول کے ذریعہ شادی تمام پائے، اور اعلانیہ یا چھپے طور پر زنا کرنا مقصود نہ ہو۔ آیت کا یہ حصہ دلیل ہے کہ شادی میں مہر دینا اللہ نے واجب قرار دیا ہے، بغیر مہر کے شادی شریعت میں جائز نہیں ہے 34۔ اگر کسی آدمی نے کسی عورت سے شادی کی اور اس کے ساتھ ہمبستری بھی کرلی، تو اسے پورا مہر دینا ہوگا، اور اگر ہمبستری نہیں کی ہے، تو آدھا مہر دینا ہوگا، اور اگر پہلے سے مہر مقرر نہیں کیا گیا تھا، اور ہمبستری بھی نہیں کی، اور طلاق ہوگئی تو اسے کچھ مال دے دیا جائے گا۔ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے اس آیت کے عموم سے نکاحِ متعہ کے جواز پر استدلال کیا ہے، نکاح متعہ یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی عورت سے ایک مدت معینہ تک کے لیے نکاح کرلے۔ مثال کے طور پر ایک رات، یا دو رات، یا ایک ہفتہ کے لیے شادی کرے، اور اپنی ضرورت پوری کرلینے کے بعد اسے چھوڑ دے، ابن عباس اور صحابہ کرام کی ایک جماعت نے ضرورت کے تحت اس کو مباح کہا ہے۔ لیکن ابن عباس رضٰ اللہ عنہما سے بعد میں رجوع ثابت ہے۔ امام احمد سے بھی یہ منقول ہے۔ ابن عباس، ابی بن کعب، سعید بن جبیر اور سدی نے اس آیت کو یوں پڑھا ہے، فما استمتعتم بہ منھن فاتوھن الی اجل مسمی، کہ جن عورتوں سے تم ایک مدت معینہ تک کے لیے فائدہ اٹھاؤ تو انہیں ان کا مقرر شدہ مہر دو، مجاہد کا قول ہے کہ یہ آیت نکاحِ متعہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ لیکن جمہور کی رائے اس کے خلاف ہے، وہ کہتے ہیں اس میں شک نہیں کہ متعہ ابتدائے اسلام میں جائز تھا، لیکن اس کے بعد قیامت تک کے لیے حرام کردیا گیا۔ ان کی دلیل بخاری و مسلم کی علی بن ابی طالب (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کے دن نکاحِ متعہ اور پالتو گدھوں کے گوشت سے منع کردیا تھا، اور مسلم نے سبرہ بن معبد الجہنی عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی (اب سن لو کہ) اللہ نے اسے قیامت تک کے لیے حرام کردیا ہے، جس کسی کے پاس کوئی ایسی عورت ہو اسے چھوڑ دے، اور تم نے انہیں جو رقم دی ہے اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو، 35۔ جب شوہر مہر کی پور رقم بیوی کو ادا کردے، اس کے بعد بیوی اگر کوئی رقم شوہر کو واپس کردے، یا موخر کردے، یا اسے ہدیہ کردے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اس لیے کہ مہر کی رقم اس کی ملکیت میں آجانے کے بعد جسے چاہے وہ دے سکتی ہے النسآء
25 36۔ جو لوگ غربت اور محتاجی کی وجہ سے آزاد مسلمان عورتوں سے شادی نہیں کرسکتے اور انہیں ڈر ہو کہ کہیں زنا کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں، انہیں اللہ تعالیٰ نے مسلمان لونڈی سے شادی کرنے کی اجازت دی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ اس کا مالک اس کی اجازت دے، اس لیے کہ لونڈی کا ولی اس کا مالک ہوتا ہے، اور مہر مقرر ہو، نیز شرعی نکاح کے دیگر تمام شروط ملحوظ ہوں، اور اعلانیہ یا چھپا کر اس سے زنا کرنا مقصود نہ ہو، اور اس لونڈی کا بظاہر مسلمان ہونا بھی ضروری ہے، باطن کی خبر تو صرف اللہ کو ہے، اس لیے کہ ایمان کی حقیقت کو تو وہی زیادہ جانتا ہے، چونکہ ایمان دوسرے تمام امتیازات کو مٹا دیتا ہے، اس لیے اگرچہ وہ لونڈی ہے، لیکن کوئی حرج نہیں کہ اس کے مالک کی اجازت سے مہر مقرر کر کے اس سے شرعی شادی کی جائے، بشرطیکہ اعلانیہ یا چھپا کر اس کے ساتھ زنا کرنے کی نیت نہ ہو۔ اگر شادی کے بعد لونڈیاں زنا کرلیں تو انہیں آزاد غیر شادی شدہ عورت کے آدھا یعنی پچاس کوڑے مارے جائیں گے، اور چونکہ رجم کو آدھا نہیں کیا جاسکتا، اس لیے لونڈیوں سے رجم ساقط ہوجائے گا۔ لونڈی سے شادی کرنے کا جواز اس کے لیے ہے جسے ڈر ہو کہ اس سے کہیں زنا کا ارتکاب نہ ہوجائے، لیکن بہرحال صبر کرنا اور لونڈی سے شادی نہ کرنا زیادہ بہتر ہے، اس لیے کہ اس سے جو اولاد ہوگی وہ سب کی سب لونڈی کے مالک کی مملوک بن جائے گی۔ النسآء
26 37۔ گذشتہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے شادی کی حلت و حرمت سے متعلق جو احکام بیان فرمائے، آیت 26، 27، 28 میں انہی کے فوائد اور حکمتوں پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ مسلمان نفع بخش چیزوں کو اپنائیں اور نقصان دہ چیزوں کو چھور دیں، اور ان سے پہلے جو نیک لوگ گذرے ہیں ان کا طیرقہ اختیار کریں، دور جاہلیت کی گمراہی کو چھوڑ کر اسلام کی رہنمائی کو اپنا لیں، تاکہ طہارت و پاکیزگی ان کا شعار بن جائے۔ دوسری آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ مسلمان فسق و فساد کے بجائے پاکیزگی اپنائیں۔ لیکن خواہشاتِ نفس کی اتباع کرنے والے زناکار، یہود و نصاری، اور دین کی ڈگر سے ہٹ جانے والے چاہتے ہیں کہ مسلمان بھی انہی کی طرح دنیاوی لذتوں اور خواہشات میں ڈوب جائیں تیسری آیت میں اللہ نے بتایا ہے کہ جو غریب مسلمان آزاد عورتوں سے شادی نہیں کرسکتے، اللہ نے حال پر رحم کرتے ہوئے لونڈیوں سے شادی کی اجازت دے دی ہے، تاکہ کہیں اپنی جنسی خواہش سے مغلوب ہو کر زنا کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں۔ النسآء
27 النسآء
28 النسآء
29 اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو خطاب کر کے فرمایا کہ اے ایمان والو ! تم لوگ ایک دوسرے کا مال چوری، دھوکہ دہی، جوا، سود اور دیگر حرام طریقوں سے نہ کھایا کرو، ہاں، جو مال تمہیں آپس کی رضا مندی سے تجارت کے ذریعہ ملے وہ حلال ہے، اور اے مسلمانو ! تم لوگ نہ خود کشی کرو، اور نہ ایک دوسرے کو قتل کرو، کیونکہ جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کردے گا، اللہ اسے جہنم میں ڈال دے گا، اور اللہ کے لیے ایسا کرنا بہت ہی آسان ہے النسآء
30 النسآء
31 اللہ تعالیٰ کا مومنوں سے وعدہ ہے کہ جو شخص کبیرہ گناہوں سے بچے گا، اللہ اس کے صغیرہ گناہوں کو معاف کردے گا، اور اسے جنت میں داخل کرے گا، صحیح مسلم میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح حدیث ہے، کہ پانچوں فرض نمازیں، جمعہ سے جمعہ تک اور رمضان سے رمضان تک، یکہ سب اعمال صالحہ اپنے درمیان کے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں، بشرطیکہ آدمی کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرے گناہ کبیرہ کی تعریف میں صحابہ کرام اور دیگر علمائے اسلام کے مختلف اقوال آئے ہیں، ابن عباس (رض) نے کہا ہے کہ کبیرہ ہر وہ گناہ ہے جس کی سزا آگی، غضبِ الٰہی، لعنت یا عذاب الٰہی بتایا گیا ہے، سعید بن جبیر کا قول ہے، کہ ہر وہ گناہ جس کی سزا اللہ نے آگ بتائی ہے وہ گناہ کبیرہ ہے، اور علمائے اصول کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ کبیرہ ہر وہ گناہ ہے جس پر اللہ نے کوئی حد مقرر کی ہو، یا اس پر کوئی وعید آئی ہو، جن کبیرہ گناہوں کا ذکر صحیح احادیث میں آیا ہے، ان کی تعداد کے بارے میں بھی کئی اقوال ہیں، کسی نے سات کسی نے ستر اور کسی نے سات سو کہا ہے۔ بعض علمائے اسلام نے کبائر سے متعلق کتابیں بھی لکھی ہیں۔ اس سلسلے میں حافظ ذہبی کی کتاب الکبائر اور ابن حجر ہیثمی کی الزواجر عن اقتراف الکبائر مشہور ہیں۔ لیکن ان کتابوں میں بہت تساہل اور توسع سے کام لیا گیا ہے۔ اور اس تساہل کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اپنے اجتہاد سے بہت گناہوں کو کبیرہ قرار دیا ہے۔ جب کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے ان گناہوں کے بارے میں صڑاحت نہیں آئی ہے کہ وہ کبیرہ گناہ ہیں، واللہ اعلم بالصواب۔ النسآء
32 40۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ وہ تمنا کرے کہ اللہ نے دوسروں کو جو دیا ہے وہ اسے مل جائے اس لیے کہ اس طرح کی خواہش اللہ کی تقدیر سے عدم رضا کی دلیل ہے۔ اور اگر اس خواہش کے ساتھ یہ تمنا بھی شامل ہوجائے کہ دوسروں سے اللہ وہ نعمت چھین لے تو یہ حسد ہوگا، جس سے اللہ نے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے اس آیت کے شان نزول میں امام احمد اور ترمذی کی ام سلمہ (رض) سے روایت بیان کی جاتی ہے، انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! مرد جہاد کرتے ہیں، اور ہم عورتیں جہاد نہیں کرتیں، اور ہمیں مردوں کا آدھا میراث لتا ہے، ایسا کیوں؟ تو یہ آیت نازل ہوئی، طبری اور ابن لمنذر وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا کہ آدمی اس طرح تمنا نہ کرے کہ کاش اسے فلاں کا مال اور اس کے اہل و عیال مل جاتے، اس لیے کہ اللہ نے اس سے منع فرمایا ہے، بلکہ آدمی کو چاہئے کہ اللہ کا فضل مانگے اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت دونوں میں الگ الگ صلاحیت ودیعت کی ہے، اور ہر ایک کو اس کے ساتھ زندہ رہنا چاہئے کہ اللہ ہی حکمتوں کو زیادہ جانتا ہے۔ اور ہر ایک کو اللہ سے اس کا فضل و کرم مانگنا چاہئے، نیز دعا میں خوب الحاح سے کام لینا چاہئے تاکہ اللہ دعا کو قبول کرلے اور اپنے فضل و کرم سے نواز دے۔ النسآء
33 41۔ اس آیت کریمہ کے پہلے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ مرد ہو یا عورت، ہر ایک کے ورثہ اور رشتہ دار ہوتے ہیں، جو اس کے مرنے کے بعد اس کے مال کے وارث بنتے ہیں، جیسا کہ صحیحین میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، میراث کے حصے ان کے حقداروں کو دو، اس کے بعد جو بچ جائیے وہ عصبہ یعنی سب سے قریبی مرد رشتہ دار کو دے دو۔ آیت کے دوسرے حصہ والذین عقدت ایمانکم کا مفہوم یہ ہے کہ تم نے حلف یا معاہدہ کسی کے ساتھ کیا تھا تو اس کا حصہ اسے دو، اس آیت کی تفسیر میں علماء کے کئی اقوال ہیں۔ ان تمام اقوال کو جمع کرنے اور ان پر غور کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ آیت جب نازل ہوئی تو ایک سابق حکم کے لیے ناسخ تھی، اور کچھ دنوں کے بعد ایک دوسری آیت کے ذریعہ اس میں موجود حکم بھی منسوخ ہوگیا، اس اجمال کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔ مہاجرین جب مدینہ منورہ آئے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر مہاجر کی ایک انصاری کے ساتھ اخوت قائم کردی، چنانچہ وہ مہاجر اپنے انصاری بھائی کا وارث ہوتا تھا، اس کے رشتہ دار اس کے وارث نہیں ہوتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو سابق حکم منسوخ ہوگیا اور ہر انصاری کے قریبی رشتہ دار ہی اس کے وارچ ہونے لگے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس (رض) سے یہ روایت نقل کی ہے۔ اس کے بعد مہاجرین اور انصار کے درمیان تعاون، مدد اور آپس میں ایک دوسرے کی خیر خواہی کا تعلق رہ گیا، اور ایک تہائی مال میں وصیت کی گنجائش رہ گئی، اور وراثت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ لیکن قبل از اسلام لوگوں کے درمیان حِلف اور معاہدے ہوا کرتے تھے۔ دو آدمی آپس میں معاہدہ کرلیتے تھے کہ وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔ جب اسلام آیا تو اس طرح کے لوگ موجود تھے اور وہ اسلام بھی لے آئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے معاہدوں کو باقی رکھا اور فرمایا کہ اسلام نے جاہلیت کے ہر حلف میں تاکید و شدت پیدا کردی ہے۔ البتہ آئندہ کسی نئے حلف کی نفی کردی اور فرمایا لا حلف فی الاسلام، یعنی اسلام میں کوئی حلف نہیں۔ اس طرح کے مسلمانوں کو ان کے حلیف مسلمانوں کے مرنے کے بعد وراثت کا چھٹا حصہ ملتا رہا۔ یہاں تک کہ سورۃ انفال کی آیت واولوا لارحام بعضہم اولی ببعض، نازل ہوئی اور حلفاء کے وارث بننے کا حکم بھی منسوخ ہوگیا، اور صرف قریبی رشتہ دار ہی میت کے وارث کی حیثیت سے باقی رہ گئے اور غیر رشتہ دار حلفاء کے درمیان والذین قدت ایمانکم فاتوھم نصیبھم کے بموجب ان کے آپس کا تعاون، مدد، اور خیر خواہی باقی رہ گئی، جو بہر حال اسلام میں مطلوب ہے۔ ابن جریر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے دو آدمی آپس میں اس بات کا معاہدہ کرتے تھے کہ ان میں جو پہلے مر جائے گا دوسرا اس کا وارث ہوگا، جب اللہ تعالیٰ نے واولوالارحام بعضہم اولی ببعض فی کتاب اللہ من المومنین والمہاجریننازل فرمایا تو غیر رشتہ دار کا وارث ہونا ممنوع قرار پا گیا۔ ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ اس آیت کے بعد حلفاء کے لیے صرف وصیت کا دروازہ کھلا رہ گیا، جو میت اپنے مرنے سے پہلے کسی بھی غیر وارث آدمی کے لیے کرسکتا ہے۔ ابن عباس (رض) کے علاوہ دیگر کئی علمائے سلف نے کہا کہ یہ آیت، سورۃ انفال کی آیت واولو الارحام کے ذریعہ منسوخ ہوچکی ہے۔ النسآء
34 42۔ اس آیت کا شان نزول یہ بیان کی جاتا ہے کہ ایک انصاری صحابی ایک عورت کو لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اس عورت نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میرا شوہر فلاں بن فلاں انصاری ہے، اس نے مجھے مارا ہے، اور میرا چہرہ زخمی کردیا ہے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اسے یہ حق نہیں پہنچتا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا کہ میں نے تو کچھ اور ارادہ کیا تھا اور اللہ نے کچھ اور چاہا، اسے ابن جریر نے روایت کی ہے، اور ابن ابی حاتم نے کئی سندوں سے اسے مرسل روایت کی ہے۔ اور سیوطی نے لکھا ہے کہ اس روایت کے کئی شواہد ہیں جو اسے قوی بناتے ہیں۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت کا حاکم، نگراں اور امیر بنایا ہے، اس لیے کہ مرد عورت سے عقل و فہم میں زیادہ ہوتا ہے، اس کی نگاہ دور رس ہوتی ہے، ملک و قوم کی قیادت، جہاد، اذان، خطبہ، گواہی، نکاح میں ولی بننا، طلاق، رجعت، تعددِ ازواج، وراثت میں دوگنا حصہ لینا، اور عصبہ ہونا یہ اور اسی طرح کی اور بھی صفات ہیں جو مردوں کے ساتھ خاص ہیں۔ اس کے علاوہ وہ نکاح کے وقت مہر ادا کرتا ہے، اور شادی کے بعد ازدواجی زندگی کے سارے اخراجات برداشت کرتا ہے، اس کی حفاظت کرتا ہے اور عورت میں اس کے زیر سایہ سکون و اطمینان کی زندگی بسر کرتی ہے۔ مرد کے اندر ان تمام صلاحیتوں اور خوبیوں کا پایا جانا، اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ازدواجی زندگی میں قیادت شوہر کے ہاتھ میں رہے، اپنی بیوی کی تربیت اور اصلاح کی کوشش کرتا رہے، اور اگر کبھی ضرورت پڑجائے تو اصلاح کی خاطر ہلکی پٹائی بھی کردے، لیکن اگر بیوی اچھی ہے، نیک اور صالحہ ہے، تو اسلام شوہر سے تقاضا کرتا ہے کہ اس کا خیال رکھے، اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ نے صالحہ بیویوں کی یہاں تعریف کی، اور کہا کہ صالحہ بیویاں اپنے شوہر کی فرمانبردار ہوتی ہیں، اور شوہر کی عدم موجودگی میں اللہ کی مدد سے شوہر کی عزت اور مال کی حفاظت کرتی ہیں (اس لیے ایسی بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ ہونا چاہیے) اس کے بعد اللہ نے یہ بتایا کہ اگر بیوی نافرمانی کرے اور شوہر کے ساتھ بدسلوکی کرے، تو شوہر اسے اپنے حقوق یاد دلائے، اللہ کی ناراضگی اور اس کے عذاب سے ڈرائے، اور اسے بتائے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اگر میں کسی کو کسی انسان کا سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی کو کہتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ اور پٹٓئی اور طلاق کی طرف بھی اشارہ کرے، اگر اچھی ہوگی تو یہی نصیحت کافی ہوگی، ورنہ ایک بستر پر سونے کے باوجود اس سے بات کرنا اور ہمبستری بند کردے، اور صبر کرے، یہاں تک کہ وہ نافرمانی سے باز آجائے، اور یہ برتاؤ ایک ماہ سے زیادہ کے لیے نہ ہو، جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حفصہ (رض) کے ساتھ کیا تھا، جب انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک خفیہ راز عائشہ (رض) کو بتا دیا تھا، یہ برتاؤ ایلاء کی طرح چار ماہ کے لیے نہیں ہوگا، اگر یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہو تو اس کی پٹائی کرے، لیکن یہ پٹائی ایسی نہ ہو جس سے جسم کا کوئی حصہ ٹوٹ جائے یا کوئی عضو بد شکل ہوجائے صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجۃ الوداع میں عورتوں کے بارے میں کہا کہ ان کے بارے میں اللہ سے ڈرو، اس لیے کہ یہ تمہارے پاس قیدی کی مانند ہیں، اور ان پر تمہارا یہ حق ہے کہ تمہاری عزت سے کسی کو نہ کھیلنے دیں اور اگر ایسا کریں تو انہیں مارو لیکن مار ایسی نہ ہو جس سے زخم لگ جائے ان طریقوں میں سے کوئی بھی طریقہ بتدریج اپنانے کے بعد اگر عورت راہ راست پر آجائے، تو شوہر اسے اذیت پہنچانے کے لیے بہانے نہ تلاش کرے اور اپنی طاقت کے زعم میں خواہ مخواہ اس کی پٹائی نہ کرتا پھرے، یا اس سے قطع تعلق نہ کرے اور اس کے ذہن میں یہ بات رہے کہ اللہ اس سے بڑا ہے اور زیادہ طاقت والا ہے۔ اس کے بعد آیت 35 میں اللہ تعالیٰ نے ازدواجی زندگی سے متعلق ایک اور حکم بیان کیا کہ اگر شوہر اور بیوی کے درمیان اختلاف کی خلیج حائل ہوجائے، ناچاقی اس قدر بڑھ جائے کہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں، تو ایسی صورت میں بیوی اور شوہر دونوں کے رشتہ دار اپنی طرف سے ایک ایک حکم یعنی فیصلہ کرنے والا بھیجیں، دونوں شوہر اور بیوی سے مل کر قضیہ کو سمجھیں۔ اختلاف کے اسباب کو جاننے کی کوشش کریں، اور ان کے درمیان مصالحت کی کوشش کریں، اگر (اللہ نہ کرے) اس راہ کی تمام کوششیں ناکام ہوجائیں تو شوہر اور بیوی کی منظوری لینے کے بعد دونوں میں جدائی کردیں۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں۔ علماء کا اس پر اجماع ہے کہ دونوں فیصلہ کرنے والوں کو شوہر اور بیوی کو ملانے اور جدا کرنے کا حق ہے۔ آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی کہا ہے کہ دونوں فیصلہ کرنے والوں کی نیت صحیح ہوگی تو اللہ تعالیٰ میاں بیوی میں اتفاق کی سبیل نکال ہی دے گا۔ تمام اختلافات دور ہوجائیں گے اور دوبارہ دونوں الفت و محبت سے بھری ازدواجی زندگی گذارنے لگیں گے۔ النسآء
35 النسآء
36 43۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاذ بن جبل (رض) سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پرا للہ کا کیا حق ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ صرف اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں۔ پھر آپ نے کہا کیا تم جانتے ہو کہ اگر بندے ایسا کریں تو ان کا اللہ پر کیا حق ہے؟ کہ اللہ انہیں عذاب نہیں دے گا۔ اس کے بعد اللہ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی نصیحت کی اس لیے کہ دنیا میں کسی کے وجود میں آنے کا ذریعہ والدین ہی ہوتے ہیں۔ اطاعت و الدین کی اہمیت کے پیش نظر ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی کئی آیتوں میں اپنی عبادت اور والدین کے ساتھ احسان و سلوک کو ایک ساتھ ذکر کیا ہے۔ اللہ نے فرمایا ان اشکر لی ولوالدین کہ میرا شکر ادا کرو اور والدین کا۔ اور فرمایا و قضی ربک الا تعبدو الا ایاہ و بالوالدین احسانا۔ یعنی اللہ نے یہ فیسلہ کردیا کہ تم لوگ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔ اس کے بعد اللہ نے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ مسکین کو صدقہ دینا صدیقہ ہے اور رشتہ دار کو صدقہ دینا صدقہ اور صلہ رحمی ہے (مسند احمد ترمذی، ابن ماجہ، نسائی) اور یتیموں کے ساتھ اچھے برتاؤ کا حکم دیا، اس لیے کہ ان کے باپ جو ان کی دیکھ بھال کرسکتے تھے دنیا میں موجود نہیں ہیں۔ اور مسکینوں کے ساتھ جو اپنی ضرورتیں پوری کرنے کی مالی استعداد نہیں رکھتے، اور رشتہ دار اور غیر رشتہ دار پڑوسیوں کے ساتھ۔ (امام احمد نے عبداللہ بن عمر رضیا للہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جبرئیل پڑوسی کے بارے میں مجھے ہمیشہ نصیحت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ عنقریب ہی اسے وارث بنا دیا جائے گا) اور پہلو سے لگے ہوئے ساتھی کے ساتھ جیسے بیوی، سفر کا ساتھی، کام کا ساتھی وغیرہ اور مسافر کے ساتھ اور غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ، اس لیے کہ غلامی سے بڑھ کر انسان کی اور کوئی کمزور نہیں ہوسکتی۔ اسی لیے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مرض الموت میں فرمایا کہ اے مسلمانو دیکھو نماز کا خیال رکھنا اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کا، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ وہ متکبر کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک حقیر اور لوگوں کی نگاہوں میں مبغوض اور قابل نفرت ہوتا ہے۔ النسآء
37 44۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بخیلوں کی مذمکت کی ہے کہ خود بھی بخل کرتے ہیں، اور لوگوں کو بھی بخل کی تلقین کرتے ہیں، اور اللہ نے انہیں جو نعمتِ مال دی ہے اسے چھپاتے ہیں، ان پر نعمت کا اثر ظاہر ہی نہیں ہوتا، آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ ہم نے کافروں کے لیے رسوا کن عذاب تیار کر کھا ہے۔ یہ گویا اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ بخل کافروں کی صفت ہے، چنانچہ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ آیت یہود مدینہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی، اور یہ ساری صفات انہی کے اندر پائی جاتی تھیں۔ وہ بخیل بھی ہوتے تھے، اور انصار کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے منع کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر خرچ کرو گے تو فقیر ہوجاؤ گے۔ النسآء
38 45۔ اس آیت کریمہ میں منافقین کا حال بیان کیا گیا ہے جو لوگوں کے دکھلاوے کے مال خرچ کرتے ہیں، ان کا ساتھی شیطان ہوتا ہے جو انہیں کفر پر اکساتا ہے، اس لیے وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے، اور نہ اللہ کے لیے خرچ کرتے ہیں، بلکہ صرف اس لیے خرچ کرتے ہیں تاکہ لوگ ان کی مذمت نہ بیان کریں۔ النسآء
39 46۔ اس میں بھی منافقین کے رویہ کی نکیر کی گئی ہے اور انہیں ایک طرح کی ڈانٹ پلائی گئی ہے کہ اگر وہ لوگا للہ اور رسول پر ایمان لے آتے اور اللہ کی مرضی کے لیے اپنا مال خرچ کرتے، تو ان کا کیا نقصان ہوتا، یہ ایک طرح کی ربانی دعوت ہے کہ ان منافقین کو چاہئے کہ اپنے ایمان کی تصھیح کریں اور نفاق سے تائب ہو کر اسلام میں خلوص قلب کے ساتھ داخل ہوجائیں۔ آیت کے آخر میں ایک قسم کی دھمکی ہے کہ اگر انہوں نے اپنی حالت نہ بدلی تو اللہ کی گرفت کا انتظا کریں۔ النسآء
40 47۔ گذشتہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت، اور والدین اور دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا، اپنی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دلائی، اور بخل کبر اور دیگر کئی بری صفات سے منع فرمایا، تو موقع و مناسبت کا تقاضا تھا کہ خیر و شر کے جزا و سزا کا بھی ذکر ہو۔ اسی لیے اس آیت کریمہ میں اللہ نے بندوں کو خبر دی ہے کہ وہ قیامت کے دن حساب کے وقت کسی پر ایک ذرہ کے برابر بھی ظلم نہ کرے گا، بلکہ ایک ایک نیکی کو کئی کئی گنا بڑھائے گا، اور ایسے لوگوں کو اپنے پاس سے بھی اجر عظیم دے گا۔ صحیحین میں ابو سعید خدری (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حدیث شفاعت میں روایت کی ہے کہ اللہ کہے گا جاؤ، جس کے دل میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ملے اسے آگ سے نکال دو۔ ایک روایت میں ہے کہ جس کے دل میں ایمان کا ادنی ترین ذرہ بھی ہو اسے جہنم سے نکال دو۔ چنانچہ بہت سے لوگ جہنم سے نکل جائیں گے۔ ابو سعید نے کہا کہ چاہو تو قرآن کی یہ آیت ان اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ، پڑھو، لیکن کافروں کو ان کی نیکیوں کا بدلہ دنیا ہی میں مل جائے گا۔ آخرت میں ان کی کوئی نیکی ان کے کام نہیں آئے گی (مسلم، ابو داود، طیالسی) النسآء
41 48۔ اس آیت میں گذشتہ آیت کے مضمون کی مناسبت سے، قیامت کی ہولناکیوں اور اس دن کی پریشانیوں کا ذکر ہوا کہ اہل کفر اور اہل شر و فساد کا اس دن کیسا حاسل ہوگا، جب ہر امت کے گواہ کی حیثیت سے اس کے رسول کو بلایا جائے گا جو گواہی دے گا کہ انہوں نے کیا اعمالِ صالحہ کیے، یا کیسے کیسے کفر و سکرشی کا ارتکاب کیا، تاکہ اس شہادت کے مطابق ان کا حساب ہو، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی امت کے گواہ کی حیثیت سے بلایا جائے گا، تاکہ مومن و کافر اور موحد و مشرک کا پتہ چلے، اور تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گواہی دیں کہ انہوں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا، اور جو امانت ان کے سپرد کی گئی تھی اسے بے کم و کاست ادا کردیا تھا۔ بخاری ومسلم نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ تو میں نے کہا میں آپ کو سناؤ اور آپ ہی پر نازل ہوا ہے، آپ نے کہا، ہاں، میں دوسروں سے قرآن سننا پسند کرتا ہوں۔ تو میں نے سورۃ نساء پڑھناشروع کیا، یہاں تک کہ اس آیت پر پہنچا فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشہید وجئنا بک علی ھؤلاء شہیدا، تو آپ نے کہا کہ اب بس کرو، تو میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھا۔ امام مسلم کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ میں گواہ رہا، جب تک ان کے درمیان رہا۔ النسآء
42 49۔ یہاں قیامت کی ہولناکی کی ایک مثال بیان کی گئی ہے کہ اس کا دن اہل کفر اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرنے والے تمنا کریں گے کہ کاش انہیں مٹی بنا کر زمین میں ملا دیا جاتا، تاکہ حساب نہ دینا پڑتا اور جہنم میں نہ ڈالے جاتے، اور اس دن ان کا حال یہ ہوگا کہ وہ اللہ سے کوئی بات نہ چھپا سکیں گے، ان کا انگ انگ بولے گا اور ان کے خلاف گواہی دے گا، جیسا کہ اللہ نے سورۃ یس میں فرمایا ہے۔ الیوم نختم علی افواہہم و تکلمنا ایدیہم و تشہد ارجلہم بما کانوا یکسبون۔ کہ آج ہم ان کی زبانوں پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے، اور ان کے پاؤ گواہی دیں گے کہ انہوں نے دنیا میں کیا کیا کرتوت کیے تھے۔ النسآء
43 اس آیت کے شان نزول کے بارے میں ابو داود، نسائی اور ترمذی وغیرہم نے حضرت علی (رض) سے (الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ) روایت کی ہے کہ عبدالرحمن بن عوف نے شراب حرام ہونے سے پہلے کچھ مہاجرین و انسار کی دعوت کی، انہوں نے کھایا پیا اور شراب بھی پی، جب نماز کا وقت آیا، تو عبدالرحمن بن عوف نے نماز پڑھائی اور نشہ کی حالت میں لا نافیہ کو حذف کردیا جس سے آیتوں کا معنی بالکل بدل گیا، تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ مسلمانو ! تم جب نشہ کی حالت میں ہو تو نماز نہ پڑھا کرو، انتہی۔ چنانچہ مسلمانوں نے نماز کے اوقات میں شراب پینا بند کردیا، اس کے کچھ دنوں کے بعد سورۃ مائدہ کی آیت 90، 91، یا ایہا الذین امنوا انما الخمر و المیسر والانصاب، سے، فہل انتم منتہون، تک نازل ہوئی۔ اور شراب ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئی۔ 51۔ جنبی کے لیے مسجد میں جانا ممنوع ہے، البتہ اگر اس کا راستہ مسجد سے گذرتا ہو تو گذرنا جائز ہے۔ ابن جریر و غیرہ نے روایت کی ہے کہ بعض صحابہ کے مکانات کے دروازے مسجد نبوی میں کھلتے تھے، اور انہیں مسجد سے گذرنا پڑتا تھا، انہی کے بارے میں آیت کا یہ حصہ نازل ہوا، کہ حالت جنابت میں مسجد سے ہو کر گذرنا ان لوگوں کے لیے جائز ہے جن کے گھر کے دروازے مسجد میں کھلتے ہوں۔ 52۔ اگر بیماری کی وجہ سے پانی کے استعمال سے مرض میں اضافہ کا خطرہ ہو، یا کوئی آدمی سفر میں ہو، یا پیشاب یا قضائے حاجت کی وجہ سے وضو جاتا رہے، یا بیوی کے ساتھ ہمبستری کرے، یا شہوت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے، اور غسل یا وضو کے لیے پانی میسر نہ ہو، تو ایسی حالتوں میں اللہ تعالیٰ نے تیمم کو غسل اور وضو کے بدلے میں کافی قرار دیا ہے۔ اور تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ پاک مٹی پر دونوں ہاتھوں کو ایک ساتھ مارے، پھر انہیں اپنی دونوں ہتھیلیوں اور چہرہ پر پھیر لے۔ اس کی دلیل عمار بن یاسر (رض) کی وہ حدیث ہے جسے احمد، بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا، تیمم کے لیے ایسا کرنا کافی تھا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں ہاتھوں کو زمین پر ایک بار مارا، پھر انہیں اپنی دونون ہتھیلیوں اور چہرہ پر پھیر لیا۔ حافظ ابن لقیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیمم کے لیے ایک ہی بار دونوں ہتھیلیوں اور چہرہ پر ہاتھ پھیرتے تھے، کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ آپ نے تیمم کے لیے مٹی پر دوبارہ ہاتھ مارا، یا کہنی تک ہاتھ پھیرا، النسآء
44 53۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے الدلائل میں ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے رفاعہ بن زید بن تابوت بڑے شیطان یہودیوں میں سے تھا، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات کرتا تو اپنی زبان مروڑ کر باتیں کرتا تاکہ افلاظ کے معانی بدل جائیں، اور اپنی مجلسوں میں ہمیشہ اسلام کی بدگوئی کرتا رہتا تھا، تو یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ یہود ہدایت کے بدلے گمراہی خریدتے ہیں، اور دنیاوی مفاد کی خاطر ان کے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں جو علم ہے اسے چھپاتے ہیں، اور چاہتے ہیں کہ مسلمان بھی انہی کی طرف کافر بن جائیں۔ النسآء
45 آیات 45 64 میں اللہ نے بیان کیا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور وہ مسلمانوں کا دوست اور مددگار ہے، اسی لیے ان کے دشمنوں سے آگاہ کر رہا ہے، یہود اللہ کے کلام (تورات) کو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے بدل دیتے تھے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفر و عناد میں کہتے کہ ہم نے تیری بات سنی اور تیری نافرمانی کی، اور یہ بھی کہتے کہ اللہ کرے کہ تو ہماری بات نہ سنے اور جب وہ راعنا کہتے جس کا ظاہر معنی ہے ہمارا خیال کیجئے تو اپنی زبان مروڑتے تاکہ اس کا معنی بدل کر چرواہا یا احمق ہوجائے اللہ تعالیٰ نے انہی یہودیوں کے خبث باطن کو بیان کرتے ہوئے نصیحت کی کہ اگر وہ کہتے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت بھیج دی تھی۔ اس لیے وہ صرف نام کے لیے ایمان لاتے تھے۔ النسآء
46 النسآء
47 54۔ اس آیت کریمہ میں یہود مدینہ کو ان کے پاس جو علم تھا، اس کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ تم لوگ اس قرآن پر ایمان لے آؤ جو تمہاری کتاب کی تصدیق کرتا ہے، قبل اس کے کہ تمہیں ہمارا عذاب آگھیرے، اور ہم تمہاری آنکھ، ناک اور منہ کو غائب کر کے تمہارے چہروں کو بگاڑ دیں، اور انہیں تمہاری پیٹھ کی طرف کردیں، یا ان پر لعنت بھیج کر مسخ کلی کے ذریعہ تمہاری صورت ہی بدل دیں، جیسا کہ ہم نے ہفتہ کے دن والوں کے ساتھ کیا تھا النسآء
48 55۔ یہاں صراحت کردی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک کو بغیر توبہ کبھی بھی معاف نہیں کرے گا، اس کے علاوہ، تمام چھوٹے بڑے گناہوں کو اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہے گا، معاف کردے گا، دوسری جگہ اللہ نے فرمایا من یشرک باللہ فقد حرم اللہ علیہ الجنۃ کہ اللہ نے مشرک پر جنت کو حرام کردیا ہے۔ اور صحیین میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے انہوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! کون سا گناہ سب سے بڑٓ ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ، حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ النسآء
49 56۔ اس آیت کریمہ میں یہود و نصاریٰ کی مذمت کی گئی ہے، جو ہمیشہ اپنی پاکی بیان کرتے رہتے تھے۔ کہتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں اور یہ کہ جنت میں یہود و نصاری کے علاوہ دوسرے لوگ داخل نہیں ہوں گے اور یہود نے یہ بھی کہا کہ ہم آگ میں صرف چند دن کے لیے ڈالے جائیں گے، اسی طرح کے اور بھی بزعم خود اچھے ہونے کے دعوے کرتے رہتے تھے اللہ نے ان لوگوں کا رد کیا کہ اپنا تزکیہ خود کرلینے سے آدمی اچھا نہیں بن جاتا، اللہ جسے چاہتا ہے، پہلے اسے ایمان و عمل صالح کی توفیق دیتا ہے، پھر اس کے نتیجہ میں اس کا تزکیہ کرتا ہ۔ بخاری نے ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو کسی کی بہت زیادہ تعریف کرتے سنا، تو آپ نے فرمایا،، کہ تم نے اس آدمی کی پیٹھ توڑ دی۔ النسآء
50 57۔ یہاں حیرت و استعجاب کے طور پر کہا گیا ہے کہ یہ لوگ اللہ کے بارے میں جھوٹی باتیں بیان کرنے میں کتنے جری ہیں اور اس سے بڑا اور کھلا گناہ اور کیا ہوسکتا ہے؟ النسآء
51 58۔ ابن جریر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ کعب بن اشرف یہودی کفار قریش کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے مکہ گیا، تو قریش نے اس سے کہا کہ تم اہل مدینہ میں سب سے معزز اور ان کے سردار ہو، ذرا اس حقیر و ذلیل آدمی کو دیکھ تو سہی، جو اپنی قوم سے بھی الگ ہوگیا ہے، اور اس زعم میں مبتلا ہے کہ وہ ہم سے بہتر ہے، حالانکہ حاجیوں کی خدمت کرنا، انہیں پانی پلانا، اور بیت اللہ کی نگرانی کرنا ہمارا کام ہے، یہ سن کر کعب نے کہا کہ تم لوتگ اس سے بہتر ہو، تو اللہ نے ان شانئک ھو الابتر، اور یہ آیت نازل فرمائی اور کعب بن اشرف اور اس جیسے اللہ اور رسول کے دیگر دشمنوں کا راز فاش کیا، اور ان کا کفر واضح کردیا، اس واقعہ کو امام احمد نے محمد بن عدی سے، اور ابن حبان نے اپنی کتاب الصحیح میں روایت کی ہے۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ کعب بن اشرف اور حیی بن اخطب غزوہ احد کے بعد مکہ مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف ایک بڑی فیصلہ کن جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے گئے تھے۔ جبت سے مراد بت، کاہن جادوگر، جادو اور ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جائے، اسی طرح طاغوت سے مراد کاہن، شیطان ہر گمراہ کن شے، بت سردارانِ یہود، اور ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی ہے، اہل کفر سے مراد مشرکین مکہ ہیں۔ النسآء
52 59۔ یہود اللہ کی لعنت کے مستحق اس لیے ہوئے کہ انہوں نے بت پرستوں کو مسلمانوں پر فوقیت دی، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے تھے اور دین اسلام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کا علم رکھتے ہوئے، ایسی بات اس لیے کہی تاکہ مشرکینِ مکہ ان کا ساتھ دیں، چنانچہ بظاہر ان کی سازش کامیاب رہی، اور مکہ اور اطراف و جوانب کے کفار مسلمانوں کے خلاف ٹوٹ پڑے، اور غزوہ احزاب کے لیے جمع ہوگئے، اور مسلمانوں اور شہر مدینہ کو اتنا بڑا خطرہ لاحق ہوگیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کافروں سے بچاؤ کے لیے مدینہ منورہ کے اردگرد خندق کھودنا پڑا، لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی حفاظت فرمائی، اور محض اپنے رحم و کرم سے دشمنوں کو مار بھگایا، النسآء
53 60۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے بخل کا حال بیان کیا ہے کہ اگر ان کے پاس حکومت ہوتی تو شدت بخل کی وجہ سے کھجور کی گٹھلی کے شگاف کے برابر بھی کوئی چیز کسی کو نہ دیتے النسآء
54 61۔ یہود کی صفت بخل کے بیان کے بعد، ان کی ایک دوسری بری خصلت حسد کو بیان کیا جا رہا ہے اور الناس سے مراد، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین ہیں، اور فضلہٖ میں فضل سے مراد، نبوت، قرآن کریم، رشد و ہدایت اور روز بروز اللہ کی مدد اور عزت و شرف میں اضافہ ہے آیت کا مفہوم یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے یہودیوں کا حسد، غایت درجہ غیر منصفانہ اور بے جا ہے، اس لیے کہ اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ابراہیم کی اولاد کو بھی جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسلاف اور ان یہودیوں کے خاندانی لوگ تھے صحائف ابراہیم تورات زبور اور انجیل جسی کتابیں دیں، اور انبیاء کی سنتیں دیں جو انہیں اللہ سے بذریعہ وحی ملی تھیں اور داود و سلیمان علیہما السلام کو عظیم بادشاہی عطا کی تھی تو پھر ان گذشتہ لوگوں سے کیوں حسد نہیں کرتے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے کیوں حسد کرتے ہیں۔ النسآء
55 62۔ گذشتہ مضمون کی تکمیل ہے کہ آل ابراہیم کو نبوت و رسالت کی صورت میں جو کچھ انعاماتِ الٰہی ملے، ان پر بنی اسرائیل میں سے کوئی تو ایمان لے آیا، اور کسی نے انکار کردیا، اور دوسرے لوگوں کو بھی اس سے روکا، حالانکہ ان کا تعلق بھی خاندان ابراہیمی سے ہی تھا، تو آپ سے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ لوگ یقینا زیادہ ہی حسد کریں گے، اور آپ کی تکذیب زیادہ شد و مد کے ساتھ کریں گے، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ ان کے اس کفر و عناد کی وجہ سے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ان کا انتظار کر رہی ہے النسآء
56 63۔ ان کافر جہنمیوں کو آگ میں اس طرح عذاب دیا جائے گا کہ جب بھی ان کی کھالیں پک جائیں گے، اللہ ان کی کھالوں کو بدل دے گا، فخر الدین رازی لکھتے ہیں کہ ممکن ہے اس میں عذاب کے دوام اور عدمِ انقطاع کی طرف اشارہ ہو، ابن جریر وغیرہ نے صحابہ کرام اور تابعین وغیرہم سے روایت کی ہے کہ جہنمیوں کے چمڑے دن یا گھنٹے میں کئی کئی بار بدلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر جہنم کی آگ کو حرام کردے۔ آمین یا ارحم الراحمین النسآء
57 64۔ اس آیت کریمہ میں نیک بختوں کے مآل و انجام کا ذکر ہے کہ جو لوگ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، قرآن کریم، اور جملہ آسمانی کتابوں اور رسولوں پر ایمان لے آئیں گے، اور عمل صالح کریں گے، تو اللہ انہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اور جن میں وہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے، اور وہاں انہیں پاکیزہ بیویاں ملیں گی، اور وہ گھنی چھاؤں کے نیچے آرام کریں گے، بخاری و مسلم میں ابو سعید خدری (رض) کی مرفوع روایت ہے کہ جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کے نیچے ایک گھوڑ سوار سو سال تک چلے گا اور اس کی مسافت طے نہیں کر پائے گا النسآء
58 65۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تاکید کی ہے کہ وہ امانتوں کی سختی سے حفاظت کریں، اور ان کی ادائیگی میں ذرا بھی کوتاہی نہ کریں، ابو داود ترمذی اور دارمی وغیرہم نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا امانت والے کی امانت ادا کرو، اور جو خیانت کرے، اس کے ساتھ خیانت نہ کرو۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ کلمہ امانت تمام قسم کی امانتوں کو شامل ہے، چاہے وہ اللہ کے حقوق ہوں، جیسے نماز زکاۃ اور روزہ وغیرہ اور چاہے بندوں کے آپس کے حقوق ہوں جو انہیں دنیا میں ادا نہیں کرے گا، تو مسلم و احمد کی روایت کردہ ایک صحیح حدیث کے مطابق انہیں قیامت میں ادا کرے گا، یہاں تک کہ بے سینگ کی بکری کا قصاص سینگ والی بکری سے لیا جائے گا۔ بہت سے مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت عثمان بن ابی طلحہ کے بارے میں فتح مکہ کے موقع سے نازل ہوئی، جس کے پاس خانہ کعبہ کی چابی ہوتی تھی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب خانہ کعبہ کے پاس پہنچے تو عثمان کو بلا کر چابی لے لی اور کعبہ کا دروازہ کھلوا کر داخل ہوئے اور جب نکلے تو یہی آیت پڑھی، اور عثمان کو بلا کر چابی اس کے حوالے کردی، حافظ سیوطی کہتے ہیں کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت آپ پر اس وقت نازل ہوئی جب آپ کعبہ کے اندر تھے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے عدل و انصاف کی تعریف فرمائی اور کہا کہ یہ بڑی اچھی چیز ہے جس کے برتنے کی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تلقین کر رہا ہے، چاہے وہ حکام ہوں یا رعایا، اس لیے کہ پرامن اور شریفانہ زندگی کا دار و مدار اسی پر ہے کہ مسلم سوسائٹی میں انصاف کا چلن اور عدل کا دور دورہ ہو۔ النسآء
59 66۔ گذشتہ آیت میں حکام اور رعایا سبھی کو عدل و انصاف کا حکم دینے کے بعد، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رعایا کو چاہے وہ فوج کے افراد ہوں یا عام لوگ، انہیں اپنی، اپنے رسول اور حکام کی اطاعت کا حکم دیا ہے، الا یہ کہ حکام اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں، تو ان کی بات نہیں مانی جائے گی؟ اس لیے کہ جہاں خالق کی نافرمانی ہو رہی ہو، وہاں مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ بخاری کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، جس نے میری اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی، اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی، اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی، اس نے میری نافرمانی کی۔ بخاری نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ آیت عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ امام احمد نے علی بن ابی طالب (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک انصاری کی قیادت میں ایک فوجی دستہ بھیجا، دستہ کے امیر کسی بات پر لوگوں سے ناراض ہوگئے تو انہوں نے ایک آگ جلوائی اور لوگوں کو اس میں کودنے کے لیے کہا، دستہ کے ایک نوجوان نے لوگوں سے کہا کہ ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان اس لیے لائے ہیں تاکہ آگ سے بچیں، اس لیے ہم لوگ جلدی نہ کریں یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھ لیں جب انہوں نے واپس آنے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تو آپ نے کہا کہ اگر تم لوگ اس میں کود جاتے تو اس سے کبھی نہ نکلتے، امیر یا قائد کی اطاعت بھلائی کے کام میں ہوتی ہے طیبی نے لکھا ہے کہ واطیعوا الرسول میں فعل کا اعادہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رسول کی اطاعت مستقل ہے اور واولی الامر میں فعل کا عدم اعادہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی اطعت مشروط ہے۔ اگر ان کا حکم قرآن و سنت کے مطابق ہوگا تو اطاعت کی جائے گی، ورنہ نہیں۔ ابن عباس (رض) کے نزدیک اولی الامر سے مراد اہل فقہ و دین ہیں۔ اور مجاہد، عطا اور حسن بصری و غیرہم کے نزدیک اس سے مراد علماء ہیں، لیکن بظاہر حق یہ ہے کہ تمام اہل حل و عقد امراء اور علماء مراد ہیں 67۔ مجاہد اور دوسرے علمائے سلف نے کہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو سے مقصود قرآن و سنت ہے۔ آیت کے اس حصہ میں مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ کسی بھی مسئلہ میں ان کے درمیان اختلاف ہو تو اس کا فیصلہ قرآن و سنت کے مطابق ہونا چاہیے، اللہ اور آخرت پر ایمان کا تقاضا یہی ہے۔ معلوم ہوا کہ جو شخص بھی کسی اختلافی مسئلہ میں قرآن و سنت کا حکم نہیں مانے گا، وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والا نہیں مانا جائے گا، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ قرآن و سنت کی طرف رجوع میں ہی ہر خیر ہے، اور انجام کے اعتبار سے بھی یہی عمل بہتر ہے النسآء
60 68۔ ابن اسحاق، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم وغیرہم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جلاس بن صامت، مقصب بن قشیر اور رافع بن زید منافقین کو ان کی قوم کے بعض مسلمانوں نے ایک قضیہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چلنے کو کہا، تو انہوں نے کاہنوں کے پاس جانا پسند کیا، جس کے بعد یہ آیت الا احسانا و توفیقا تک نازل ہوئی۔ آیت میں ایسے ہی منافقین کے حال پر تعجب کا اظہار کیا گیا ہے، کہ دعوی تو ایمان کا کرتے ہیں اور فیصلہ طاغوت اور شیطان کا چاہتے ہیں، جس سے اللہ نے اعلان براءت کا حکم دیا ہے۔ 69۔ آیت 60 61 سے مندرجہ ذیل فوائد ماخوذ ہیں۔ 1۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر انبیاء پر نازل شدہ کتابوں پر ایمان کا دعوی کرتے ہوئے، قرآن و سنت کے علاوہ کسی اور کو حکم بناتے ہیں، اللہ نے اس آیت میں ان کے ایمان کی نفی کی ہے 2۔ کسی طاغوت کو فیصل بنانا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ پر راضی نہ ہونا کفر ہے 3۔ جو شخص اللہ یا اس کے رسول کے کسی امر کا انکار کردیتا ہے، وہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے النسآء
61 النسآء
62 70۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشارت دی جارہی ہے کہ ان منافقین کو مصیبتیں لاحق ہوں گی، اور آپ کے پاس آکر اپنے اخلاص و ایمان کا اظہار کریں گے، اور قسمیں کھائیں گے کہ ان کا مقصد دونوں فریقوں میں صلح کرانا تھا النسآء
63 71۔ انہی منافقین کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اللہ ان کے دلوں کے نفاق کو جانتا ہے، لیکن مصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ ابھی انہیں کوئی سزا نہ دیں، اور صرف اشارے کے ذریعہ دھمکی اور نصیحت پر ہی اکتفا کریں، اور انہیں کوئی ایسی بات کہہ جائیں جو ان کے دلوں ُر اثر انداز ہو، جو انہیں مغموم بنا دے، اور ان کے دلوں میں خوف سما جائے، مثلاً یہ کہئے کہ نفاق کا انجام بہت برا ہوتا ہے، اور کبھی قتل تک کی نوبت آجاتی ہے، اور یہ کہ ان کے اور مشرکین کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے النسآء
64 72۔ گذشتہ آیتوں میں منافقین کا ایک بڑا جرم بیان کرنے کے بعد کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بجائے کاہنوں کے پاس فیصلہ کے لیے گئے، یہاں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کی مزید تاکید فرمائی ہے کہ ہم کسی رسول کو اسی لیے بھیجتے ہیں کہ اس کی اطاعت کی جائے، اور یہ چیز بغیر توفیق الٰہی کے حاصل نہیں ہوتی، معلوم ہوا کہ رسول اکی اطاعت فرض ہے، اور اس کی فرضیت کا انکار کفر ہے۔ 73۔ اللہ نے فرمایا کہ ان منافقین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بجائے کاہنوں اور طاغوتوں کو اپنا فیصل مان کر اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا، کہ نفاق کے عذاب کے ساتھ ایک اور عذاب الٰہی کے مستحق بنے۔ اس عذاب سے بچنے کا ایک ہی راستہ تھا کہ اپنے نفاق اور اس جرم عظیم سے تائب ہو کر آپ کے پاس آتے، اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے، اور آپ بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے، تو اللہ ان کے گناہوں کو معاف کردیتا آیت کا تعلق منافقین کے ایک خاص واقعہ سے ہے جس کا اوپر بیان ہوچکا کہ نفاق کی بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بجائے کاہنوں کو اپنا فیصل مانا، ورنہ عام حالات میں توبہ کے لیے یہ شرط نہیں تھی کہ مسلمان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے اور ان کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے۔ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں ایسا اور کوئی واقعہ نہیں ملتا۔ بعض مبتدعہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر کے پاس آکر طلب مغفرت کی دعا کرنا، ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ کی زندگی میں آپ کے پاس آکر مغفرت طلب کرنا تھا، اس لیے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قبر میں ایسا ہی زندہ سمجھتے ہیں، جیسے موت سے پہلے تھا، کہتے ہیں کہ صرف ایک حجاب حائل ہوگیا ہے، اور اسی آیت سے استدلال کرتے ہیں، قرآن کریم میں یہ تحریف معنوی ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بارے میں قرآن و سنت کے سراسر خلاف عقیدہ ہے النسآء
65 74۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھا کر کہا ہے کہ کوئی آدمی اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا، جب تک اپنے تمام امور میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فیصل نہیں مان لیتا، اس لیے کہ آپ کا فیصہ وہ ربانی فیصلہ ہے، جس کے برحق ہونے کا دل میں اعتقاد رکھنا ضروری ہے، اور عمل کے ذریعہ بھی اس پر ایمان رکھنے کا ثوت فراہم کرنا ضوری ہے۔ اسی لیے اللہ نے اس کے بعد فرمایا یہ ضروری ہے کہ لوگوں کا ظاہر وباطن اسے تسلیم کرلے۔ اور اس کی حقانیت کے بارے میں دل کے کسی گوشے میں بھی شبہ باقی نہ رہے اس کے شان نزول کے سلسلہ میں امام بخاری نے عروہ بن زبیر (رض) سے روایت کی ہے زبیر (رض) کا حرہ کے پانی کے بہؤ کے بارے میں ایک انصاری سے اختلاف ہوگیا اور معاملہ رسول اللہ تک پہنچا، تو آپ نے کہا کہ اے زبیر ! زمین سیراب ہوجانے کے بعد اپنے پڑوسی کی طرف پانی کھول دو، تو انصاری نے کہا، یا رسول اللہ ! کیا آپ نے ایسا فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ زبیر آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں؟ اس پر آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، اور کہا کہ اے زبیر ! زمین کو سیراب کرو اور پانی کو روک رکھو، یہاں تک کہ پانی تمہاری زمین کی دیوار سے لگ جائے، اس کے بعد اپنے پڑوسی کی طرف پانی کھول دو۔ جب انصاری نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ناراض کردیا تو آپ نے زبیر کو صراحت کے ساتھ ان کا پورا حق دیا، حالانکہ پہلے آپ نے دونوں کو ایسا مشورہ دیا تھا جس میں انصاری کی رعایت کی گئی تھی۔ بعد میں زبیر کہا کرتے تھے کہ میں سمجھتا ہوں یہ آیتیں اسی واقعہ سے متعلق نازل ہوئی تھیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس آیت کے شان نزول کے بارے میں کلبی کی تفسیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک منافق اور ایک یہودی کے درمیان جھگڑا تھا، یہودی نے کہا کہ ہم لوگ محمد کے پاس چلیں، اور منافق نے کہا کہکعب بن اشرف کے پاس چلیں۔ پھر پورا قصہ بیان کیا، جس میں آتا ہے کہ عمر (رض) نے منافق کو قتل کردیا اور یہی ان آیتوں کے نزول کا سبب تھا اور عمر کا لقب فاروق پڑ گیا اس کی سند اگرچہ ضعیف ہے۔ لیکن مجاہد نے اس کی تائید کی ہے، اور طبری نے اسے ترجیح دی ہے، تاکہ ان تمام کا تعلق ایک ہی سبب سے ہوجائے حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ ممکن ہے زبیر اور ان کے پڑوسی کا قضیہ بھی انہی دنوں پیش آیا ہو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث مبارکہ کی اہمیت کو ذہن نشیں کرنے کے لیے بعض علمائے اسلام کے اقوال ملاحظہ کرلیں، 1۔ فخرالدین رازی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھا کر کہا ہے کہ کوئی آدمی مومن ہو ہی نہیں سکتا، جب تک کہ اس کے اندر مندرجہ ذیل شرطیں نہ پائی جائیں الف۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ سے راضی ہونا ب۔ دل میں اس بات کا یقین رکھنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ ہی برحق ہے ج۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلہ کو قبول کرنے میں ذرا سا بھی تردد سے کام نہ لینا اس کے بعد لکھا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہر صحیح حدیث اس آیت کے ضمن میں آتی ہے، اور ہر وہ شخص جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے، اس پر واجب ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہر صحیح حدیث کو قبول کرے، اور مذہبی تعصب کی وجہ سے کسی حدیث کو رد نہ کرے، ورنہ اس آیت میں مذکور وعید اس کو بھی شامل ہوگی۔ 2۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اعلام الموقعین میں لکھا ہے کہ تم بہتوں کو دیکھو گے کہ جب کوئی حدیث اس امام کے قول کے موافق ہوتی ہے جس کی وہ تقلید کرتا ہے، اور اس کے راوی کا عمل اس کے خلاف ہوتا ہے، تو وہ کہتا ہے کہ دلیل راوی کی روایت ہے، اس کا عمل نہیں اور جب راوی کا عمل اس کے امام کے قول کے موافق ہوتا ہے اور حدیث اس کے مخالف ہوتی ہے، تو وہ کہتا ہے کہ راوی نے اپنی روایت کی مخالفت اس لیے کی ہے کہ یہ حدیث اس کے نزدیک منسوخ ہوگئی ہے، ورنہ اس کی یہ مخالفت اس کی عدالت کو ساقط کردیتی، اس طرح وہ لوگ اپنے کلام میں ایک ہی جگہ اور ایک ہی باب میں بدترین ٦ تناقض کے مرتکب ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارا ایمان یہ ہے کہ صحیح حدیث آجانے کے بعد امت کے لیے اسے چھوڑنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ 3۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن، سنت اور اجماع کے ذریعہ یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اللہ نے بندوں پر اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کو فرض کیا ہے، اوامر و نواہی میں اللہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ اس امت پر کسی کی اطاعت کو فرض نہیں کیا ہے۔ اسی لیے ابوبکر صدیق (رض) (جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد امت کے سب سے افضل انسان تھے) کہا کرتے تھے کہ میں جب تک اللہ کی اطاعت کروں، تم لوگ میری اطاعت کرو، اور اگر میں اللہ کی نافرمانی کروں تو تم لوگ میری اطاعت نہ کرو، تمام علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ کوئی معصوم نہیں، اسی لیے بہت سے ائمہ کرام نے کہا ہے کہ ہر آدمی کی کوئی بات لی جائے گی اور کوئی چھوڑ دی جائے گی، سوائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ک، اور یہی وجہ تھی کہ فقہی مذاہب کے چاروں مشہور اماموں نے لوگوں کو ہر بات میں اپنی تقلید کرنے سے منع فرمایا تھا النسآء
66 75۔ اس آیت کا تعلق بھی گذشتہ آیتوں سے ہے، نفاق سے تائب ہو کر اللہ کے لیے اخلاص اختیار کرنے کی نصیحت کے بعد، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ہم لوگوں کے ساتھ سختی کرتے، اور انہیں حکم دیتے کہ تم لوگ اپنے آپ کو قتل کرو یا اپنا گھر بار چھوڑ کر باہر چلے جاؤ تو بہت تھوڑے لوگ اس پر عمل کرتے اور اکثر لوگوں کافر و عناد کھل کر سامنے آجاتا، لیکن ہم نے اپنے بندوں پر رحم کھاتے ہوئے ایسا نہیں کیا، اور آسان احکام جاری کیے، اس احسان و نرمی کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ان احکام کو پورے اخلاص کے ساتھ قبول کرتے، اور سرکشی چھوڑ دیتے النسآء
67 76۔ آیات 67 68 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر یہ منافقین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتے تو ہم انہیں جنت جیسی نعمت دیتے، اور دنیا میں دین اسلام پر ثبات عطا کرتے النسآء
68 النسآء
69 77۔ اس آیت میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا ثمرہ بتایا گیا ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کو انبیاء صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے گا، اور یہ لوگ بہت ہی اچھے ساتھی ہوں گے۔ اس آیت کے شان نزول کے بارے میں ابن جریر طبری نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے روایت کی ہے کہ ایک انصاری رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پاس مغموم بیٹھے تھے، آپ نے پوچھا کہ تم مغموم کیوں ہو؟ تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے نبی ! میں ایک بات سوچ رہا ہوں، آپ نے پوچھا کیا؟ تو انہوں نے کہا کہ آج ہم آپ کے پاس صبح و شام آتے ہیں، آپ کا چہرہ دیکھتے ہیں، اور آپ کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ کل جنت میں آپ انبیاء کے ساتھ ہوں گے تو ہم آپ کے پاس نہیں پہنچ پائیں گے۔ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا، تو جبرئیل یہ آیت لے کر آئے آپ نے ان صحابی کو بلا بھیجا اور انہیں خوشخبری دی۔ یہ روایت دیگر کئی تابعین سے بھی مروی ہے، لیکن سعید بن جبیر والی روایت کی سند زیادہ اچھی ہے۔ جنت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت کے سلسلہ میں کئی صحیح حدیثیں آئی ہیں۔ ان میں بعض کا ذکر یہاں مناسب ہوگا، صحیح مسلم میں ربیعہ بن کعب اسلمی رضٰ اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سویا ہوا تھا، وضو اور قضائے حاجت کے لیے پانی لایا، تو آپ نے کہا کہ کچھ پوچھو یا مانگو، تو میں نے کہا کہ میں جنت میں آپ کی رفاقت چاہتا ہوں، آپ نے فرمایا، اور کوئی چیز؟ تو میں نے کہا بس یہی، تو آپ نے کہا کہ پھر سجدوں کی کثرت سے میری اس سلسلہ میں مدد کرو۔ ترمذی نے ابو سعید (رض) سے روایت کی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سچا امانت دار تاجر انبیاء صدیقین اور شہداء کے ساتھ رہے گا ابن کثیر کہتے ہیں کہ ان سب سے بڑی خوشخبری تو وہ ہے جو صحیح احادیث میں صحابہ کی ایک جماعت سے ثابت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو کسی قوم سے محبت کرتا ہے، لیکن ان سے ابھی جا کر ملا نہیں ہے؟ تو آپ نے فرمایا (قیامت کے دن) آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا رہا ہے، انس (رض) کہتے ہیں کہ مسلمان اس حدیث کو سن کر بہت زیادہ خوش ہوئے النسآء
70 78۔ اس آیت کریمہ میں اللہ نے فرمایا ہے کہ جنت میں انبیاء صدیقین اور شہداء کی رفاقت اللہ کے فضل و کرم سے ملے گی، عبادتوں کی وجہ سے نہیں، عبادتیں تو ایک بہانہ ہوں گی، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اللہ سب کچھ اچھی طرح جانتا ہے۔ النسآء
71 79۔ اس آیت کریمہ میں مومنین مخلصین کو خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلنے سے پہلے خوب اچھی طرح تیاری کرلو، اسلحہ اور دیگر سامانِ جنگ کے اعتبار سے بھی، اور مجاہدین کی تعداد کے اعتبار سے بھی مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت فتحِ مکہ سے پہلے نازل ہوئی تھی، اور اس سے مقصود مسلمانوں کو ہر طرح سے اس کے لیے تیار کرنا تھا، تاکہ دشمن کے مقابلہ میں کمزور نہ پڑ جائیں النسآء
72 80۔ یہاں منافقین مراد ہیں، جو نفاق کی وجہ سے جہاد کے لیے نہیں نکلتے تھے، اور دوسروں کی ہمت بھی پست کردیتے تھے، عبداللہ بن ابی بن سلول کی تو یہ خاص عادت تھی، غزوہ غزوہ احد کے موقع سے اسی نے لوگوں کو بھڑکایا تھا، اور منافقین کی جماعت کو لے کر راستہ سے واپس چلا گیا تھا، جہاد میں مسلمانوں کو جب تکلیف پہنچتی تو منافقین کہتے کہ اچھا ہوا کہ ہم لوگ ان مسلمانوں کے ساتھ نہیں تھے، اور جب غلبہ نصیب ہوتا، اور مال غنیمت ہاتھ آتا، تو اس طرح اظہار افسوس کرتے کہ جیسے مسلمانوں سے ان کی پہلے سے کوئی شناسائی ہی نہیں تھی، اور کہتے کہ کاش ہم بھی ان کے ساتھ ہوتے تو مال غنیمت ہاتھ آتا النسآء
73 النسآء
74 81۔ دشمن سے چوکنا رہنے اور جہاد کی تیاری کا حکم دینے کے بعد، اب مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دلائی جا رہی ہے، کہ جو لوگ دنیا دے کر آخرت خریدنا چاہتے ہیں، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں، اور جو لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں، تو چاہے شہید ہوجائیں یا غلبہ حاصل کر کے گھر کو لوٹیں، دونوں ہی حال میں اللہ انہیں اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ بخاری اور مسلم نے ابوہریرہ رضہ اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلتا ہے اللہ اس کا ضامن ہوتا ہے، اور کہتا ہے کہ اگر وہ میری راہ میں جہاد کی نیت سے نکلا ہے، مجھ پر ایمان رکھتا ہے، اور میرے رسولوں کی تصدیق کرتا ہے تو میں اس کا ضامن ہوں کہ یا تو اسے جنت میں داخل کروں یا اسے اجر و غنیمت کے ساتھ اس کے گھر بار میں واپس پہنچا دوں النسآء
75 82۔ اس آیت میں مسلمانوں کو جہاد فی سبیل اللہ پر اکسایا جا رہا ہے، تاکہ مکہ میں موجود ان کمزور مسلمان مردں، عورتوں اور بچوں کو قریش کے ظلم و ستم سے نجات دلایا جا سکے۔ جنہیں مشرکین نے ہجرت کرنے سے روک دیا تھا، بخاری نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ان دنوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز میں رکوع سے سر اٹھاتے تو کچھ کمزور مسلمانوں کے نام لے لے کر مشرکینِ مکہ سے ان کی نجات کے لیے دعا کرتے تھے آیت میں قریۃ سے مراد مکہ، اور الظالم اھلہا سے مراد وہاں کے مشرکین ہیں اور ولی سے مراد اللہ کا کوئی ایسا بندہ جس کے ذریعہ ان کمزور مسلمانوں کے دین کی حفاظت ہو اور نصیرا سے مراد کوئی ایسا آدمی جو دشمنوں سے انہیں نجات دلا سکے۔ چنانچہا للہ نے ان کی دعا سن لی، ان میں سے کچھ تو نکل کر مدینہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے، اور کچھ وہیں رہے، یہاں تک کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کو فتح کیا، اور اللہ نے وہاں کے باقی ماندہ مسلمانوں کو ذلت کے بعد عزت عطا کی النسآء
76 83۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مزید ہمت افزائی کر رہا ہے اور جہاد کی ترغیب دلا رہا ہے کہ ایمان والے اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے جہاد کرتے ہیں، اور اہل کفر شیطان کی بندگی کے لیے قتال کرتے ہیں۔ کافروں کو اولیاء الشیطان کہا گیا ہے، گویا یہ اشارہ ہے کہ مسلمان اولیاء اللہ ہیں اور اس میں ایک قسم کی مسلمانوں کی ہمت افزائی بھی ہے، اس کے بعد اللہ نے خبر دی کہ شیطان کی چال بہت ہی کمزور ہوتی ہے، اور اللہ کی قدرت کاملہ کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ النسآء
77 84۔ اس آیت کے سبب نزول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ صحابہ کی ایک جامعت کے سلسلہ میں نازل ہوئی، جنہوں نے مکی زنگی میں مشرکین کے ظلم و ستم سے تنگ آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قتال کی اجازت مانگی تھی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ابھی مجھے اللہ کی طرف جنگ کرنے کی اجازت نہیں ملی ہے، ابھی نماز اور صدقات و خیرات کے ذریعہ غریب مسلمانوں کی مدد کرنے پر اکتفا کرنا چاہیے، لیکن جب مدنی زندگی میں جہاد فرض ہوا تو ان ہی میں سے ایک جماعت موت کے ڈر سے جنگ سے کترانے لگی تو یہ آیت نازل ہوئی ، بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت یہود مدینہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی، اور بعض دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ آیت ان منافقین کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے جہاد فرض ہونے کے قبل اسلام کا اعلان کردیا تھا، اور جب جہاد فرض ہوا، تو مارے ڈر کے ان کی جان مصیبت میں پڑگئی، امام شوکانی کہتے ہیں کہ یہی تیسرا قول آیت کے سیاق کے زیادہ قریب ہے، اس لیے کہ ان لوگوں نے کہا تھا اے اللہ تو نے ہمارے اوپر جہاد کیوں فرض کیا؟ نیز اللہ نے ان لوگوں کی یہ صفت بیان کی کہ اگر انہیں بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، اور اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے ہیں۔ کہ یہ سب تمہاری وجہ سے ہے، اور اس طرح کے اقوال صحابہ کرام سے صادر نہیں ہوسکتے تھے۔ صاحب محاسن التنزیل نے بھی اسی رائے کو ترجیح دی ہے، اور کہا ہے کہ ابن عباس (رض) کی جو روایت نقل کی جاتی ہے کہ یہ مکی زندگی میں صحابہ کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی، تو وہ سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے اور مکی زندگی میں جبکہ مسلمان نہایت درجہ کمزور تھے، اسلام کا اعلان کرنے سے ڈرتے تھے، یہ بات بعید از عقل معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے جنگ کرنے کی اجازت مانگی ہوگی، اور آیت میں ان لوگوں کی یہ صفت بتائی گئی ہے کہ وہ لوگوں سے اس طرح ڈرتے ہیں جس طرح اللہ سے ڈرنا چاہئے، یا اس سے بھی زیادہ، یہ صفت کافر یا منافق کی ہوسکتا ہے، مسلمان کی نہیں۔ آیت کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کا قول اور موت سے ان کے خوف و دہشت کا ذکر کیا، اس کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ دنیاوی لذتیں چند ہی دنوں میں ختم ہوجانے والی ہیں۔ اور نیک اعمال اور جہاد فی سبیل اللہ کا اجر و ثواب ہمیشہ باقی رہے گا۔ النسآء
78 85۔ اس آیت کریمہ میں اللہ نے فرمایا ہے کہ وہ موت جس کے ڈر سے تم جہاد سے کترا رہے ہو، جب اس کا وقت آجائے گا تو وہ کہیں بھی تمہیں آ دبوچے گی، اس کے بعد اللہ نے منافقین کی ایک صفت بیان کی کہ جب ان کے مال میں برکت ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور ہمیں اچھا جان کر ہی یہ سب کچھ دیا ہے، اور اگر قحط سالی اور مال و اولاد میں کمی ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ اے محمد ! یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے، تم ہی جب سے مدینہ میں آئے ہو یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے، اور اس بات میں تو یہود بھی منافقین کے ساتھ شریک تھے، کہتے تھے کہ جب سے یہ آدمی (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے اصحاب یہاں آئے ہیں، ہمارے اناجوں اور پھلوں میں کمی آگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ ان کے زعم باطل کی تردید کرتے ہوئے آپ کہئے کہ اے منافقو ! نعمت یا مصیبت سب کا تعلق اللہ سے ہے، لیکن بات در اصل یہ ہے کہ تم جہالت و عناد میں مبتلا ہو تمہیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ النسآء
79 86۔ یہاں اللہ نے فرمایا ہے کہ اے ابن آدم ! اگر تمہیں کوئی بلائی ملتی ہے تو یہ اللہ کا فضل و کرم ہوتا ہے، اور اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو تمہارے کسی گناہ کا نتیجہ ہوتا ہے، ترمذی نے ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بندہ کو چھوٹی یا بڑی کوئی بھی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے گناہ کی وجہ سے پہنچتی ہے، اور اللہ تو اکثر گناہوں کو معاف کردیتا ہے، پھر آپ نے یہی آیت پڑھی، اس کے بعد اللہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے فرمایا کہ ہم نے آپ کو لوگوں کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے، تاکہ آپ اللہ کی شریعت اور اس کے اوامر و نواہی ان تک پہنچا دیں، اور اللہ گواہ ہے کہ اس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے النسآء
80 87۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اطاعت رسول کی اہمیت بیان کی ہے، اور بتایا ہے کہ کوئی شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کر کے اللہ کا فرمانبردار نہیں بن سکتا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی خلاف ورزی کر کے اللہ کی بندگی نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ ابھی کچھ ہی دیر پہلے آیت 59 کی تفسیر کے ضمن میں اس کی تفصیل آچکی ہے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جو لوگ آپ کی اطاعت سے روگردانی کرتے ہیں انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجئے، آپ کی ذمہ داری تو صرف ہمارا پیغام ان تک پہنچا دینا تھا، وہ آپ نے کردیا، اب جو شخص آپ کی اتباع کرے گا، وہ نیک بخت ہوگا اور جہنم سے نجات پا جائے گا اور جو روگردانی کرے گا، وہ دنیا و آخر میں خسارہ پائے گا النسآء
81 88۔ اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے منافقین کے خبث باطن کی خبر دی ہے، کہ جب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہوتے تو کہتے کہ ہمارا کام تو آپ کی اطاعت کرنا ہے، لیکن جب آپ کے پاس سے چلے جاتے تو رات کی تاریکی میں سردرانِ منافقین، آپ میں آپ کی نافرمانی اور سرکشی کے عہد کی تجدید کرتے، اس کے بعد اللہ نے ان منافقین کو دھمکی دی ہے کہ اللہ اپنے فرشتوں کے ذریعہ ان کے تمام کرتوت لکھ رہا ہے، اور ان کی اپنی منافقتوں اور خباثتوں کا پورا پورا بدلہ مل کر رہے گا، پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان کے ساتھ عفو و درگذر سے کام لیجئے ان کی حقیقت لوگوں سے چھپا کر ہی رکھئے اور ان سے ڈرئیے بھی نہیں۔ اور اللہ پر بھروسہ رکھئے کیونکہ جو اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے، اللہ اس کے لیے کافی ہوتا ہے النسآء
82 89۔ منافقین ہی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ لوگ قرآن کریم کو غور سے سنتے، اس کے معانی و مضامین میں تدبر کرتے، تو انہیں معرفت تامہ حاصل ہوجاتی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برحق ہیں اور جو دین لے کر آئے ہیں وہ بھی برحق ہے، اور اس نفاق سے نجات مل جاتی جس نے ان کے دلوں کو فاسد، اور ان کے افکار کو متفن بنا رکھا ہے اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ یہ قرآن برحق ہے اور اللہ کا کلام ہے، اگر غیر اللہ کا کلام ہوتا تو اس میں اختلاف و اضطراب، اور تعارض ہوتا، خاص طور سے غیبی امور میں، لیکن اس میں ایسی کوئی بات نہیں، سیکڑوں غیبی امور سے متعلق تفاصیل ہیں اور مرور زمانہ کے ساتھ ان کی تصدیق و تائید ہی ہوتی جا رہی ہے اس لیے منافقین کو اپنا نفاق چھوڑ کر اس قرآن پر ایمان لے آنا چاہئے، النسآء
83 90۔ اس میں بھی منافقین ہی کا ذکر شر ہے کہ انہیں جب جہادی دستوں کے بارے میں غلبہ یا شکست کی کوئی خبر ملتی ہے، تو لوگوں میں اسے بغیر تحقیق کیے فوراً پھیلانا شروع کردیتے ہیں جس سے مسلم سوسائٹی کو کئی طرح کے نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں، اس لیے کہ عام طور پر بغیر تحقیق شدہ خبروں میں بہت سی جھوٹ باتیں ملی ہوتی ہیں، اگر وہ خبریں مسلمانوں کے غلبہ کے بارے میں ہوتیں اور مبالغہ سے کام لیا گیا ہوتا، اور سچی نہ نکلتیں تو بہتوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت میں شبہ ہونے لگتا تھا، اس لیے کہ منافقین ان خبروں کی نسبت آپ ہی کی طرف کر کے بیان کرتے تھے اور اگر وہ خبریں مسلمانوں کی شکست کے بارے میں ہوتی تھیں، تو بہت سے کمزور ایمان کے مسلمان فتنہ میں پڑجاتے تھے، ان خبروں کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا تھا کہ مسلمانوں کی جنگ تیاریوں کی خبر بڑی تیزی کے ساتھ کافروں کو ہوجاتی تھی، اور اگر خبر خوف و ہراس والی ہوتی تو کمزور مسلمان خائف ہوجاتے تھے، انہی خرابیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے خبروں کی تشہیر سے منع فرمایا اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ ان خبروں کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اصحاب بصیرت صحابہ کرام کی رائے کا انتظار کرلیتے تو انہیں حقیقت حال معلوم ہوجاتی، اور یہ بھی معلوم ہوجاتا کہ کس خبر کو مشہور کرنا چاہئے، اور کسے چھپانا چاہئے، مسلمانوں کی ذہنی تربیت ہی کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ جو کچھ سنے اسے بیان کرے۔ (مسلم) اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور قرآن کے نزول کے ذریعہ اللہ کا فضل و کرم نہ ہوتا، تو اے مسلمانو ! سوائے چند دیدہ ور صحابہ کرام کے تم سبھی شیطان کے پیروکار بن جاتے، اور ان جھوٹی خبروں کی تصدیق کرنے لگتے النسآء
84 91۔ گذشتہ آیتوں کی طرح اس آیت کا تعلق بھی عہد نبوی میں جنگی سیاست سے ہے، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اگر منافقین آپ کی اطاعت نہیں کرتے تو نہ کریں، آپ اللہ کی راہ میں جہاد کیجئے، آپ اپنی ذات کے ذمہ دار ہیں، اللہ آپ کی مدد کرے گا فوج کے افراد نہیں۔ اگر اللہ چاہے گا تو آپ اکیلے ہوں گے، اور دشمنوں پر آپ کو اللہ غلبہ دے گا، اور مسلمانوں کو جہاد پر ابھارئیے (جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میدانِ بدر میں مجاہدین کی صفیں درست کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اس جنت کو پانے کے لیے کھڑے ہوجاؤ جس کی کشادگی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ (مسلم) اس کے بعد اللہ نے وعدہ کیا کہ وہ مسلمانوں پر کفار مکہ کے ظلم و ستم کا سلسلہ ختم کرنے کے لیے اپنے رسول اور مسلمانوں کو ان پر مسلط کردے گا، انہیں شکست ہوگی اور وہ تتر بتر ہوجائیں گے، چنانچہ اللہ کا وعدہ ورا ہوا، اور جزیرہ عرب اور مرور زمانہ کے ساتھ فارس اور روم کی سرزمین پر اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا۔ النسآء
85 92۔ مسلمانوں کا کافروں کے خلاف جہاد کی ترغیب دلانا، اللہ کے نزدیک مسلمانوں کے حق میں خیر خواہی اور شفاعت حسنہ ہے۔ اسی مناسبت سے یہاں اچھی اور بری شفاعت کا بیان آیا ہے۔ اچھی شفاعت کی تعریف کی گئی ہے اور اللہ کے وعدہ کا ذکر ہے کہ شفاعت کرنے والے کو بھی اللہ اچھا بدلہ دے گا، اور بری شفاعت یعنی حاکم وقت کے پاس جا کر لوگوں کی شکایتیں کرنے والے کو اس بدکرداری کا برا بدلہ ضرور ملے گا۔ شفاعت حسنہ کی فضیلت کے بیان میں کوئی صحیح حدیثیں وارد ہوئی ہیں صحیحین میں ابو موسیٰ اشعری (رض) سے مراوی ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اشفعوا توجروا کہ شفاعت کرو، اس کا تمہیں اجر ملے گا مجاہد، حسن، کلبی اور ابن زید نے کہا ہے کہ یہ آیت لوگوں کی آپس کی سفارشات کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جائز سفارش شفاعت حسنہ ہوتی ہے اور ناجائز سفارش شفاعت سیئہ۔ سفارشات کے بدلے میں ہدیہ قبول کرنے کی بڑی مذمت آئی ہے۔ ابو داود کی حدیث ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کے لیے سفارش کی، جس کے بدلہ میں اس نے اسے ہدایہ دیا اور اس نے قبول کرلیا، تو وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں میں سے ایک بڑے دروازے میں داخل ہوگیا۔ النسآء
86 93۔ جہاد سے متعلق آیتوں کے درمیان سلام و تحیہ کا ذکر شاید اس مناسبت سے ہے کہ ابھی چند ہی آیتوں کے بعد آیت 94 میں یہ حکم بیان کیا جائے گا کہ اگر کوئی کافر میدان کارزار میں تمہیں سلام کرے اور اس بات کا شارہ دے کہ وہ مسلمان ہے تو یہ کہہ کر رد نہ کردو کہ تم مسلمان نہیں ہو، اور مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے اسے قتل نہ کردو۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ اگر کوئی السلام علیکم کہے تو اس کے جواب میں وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ یا کم از کم اسی جیسے کلمات استعمال کریں۔ اس آیت سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ سلام کا جواب مسلمان اور کافر سب کو دینا واجب ہے۔ حسن بصری سے مروی ہے کہ وہ کافر کے سلام کا جواب وعلیکم السلام کے ذریعے دیتے تھے، اور رحمۃ اللہ کا اضافہ نہیں کرتے تھے۔ اور شعبی نے ایک نصرانی کے سلام کا جواب دیتے ہوئے وعلیک السلام ورحمۃ اللہ کہا، ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو جواب دیا کہ کیا وہ اللہ کی رحمت کے زیر سایہ زندہ نہیں ہے۔ لیکن صحیحین میں انس (رض) سے مرفوعاً روایت ہے کہ اگر اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو وعلیکم کہو، البتہ ایک دوسری حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مجلس کے پاس سے گذرے جس میں مسلمان، یہود اور بت پرست سبھی تھے اور آپ نے انہیں سلام کیا مسلمانوں کے درمیان سلام کو عام کرنے کی فضیلت بہت سی صحیح حدیثوں سے ثابت ہے، اور قرآن کریم کی متعدد آیات میں سلام کے دونوں صیغے سلام عیلیم اور السلام علیکم آئے ہیں۔ لیکن زیادہ تر نکرہ یعنی بغیر الف لام کے آیا ہے، اس لیے سلام علیکم، السلام علیکم سے زیادہ بہتر ہے۔ْ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں تمام علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ سلام کرنا سنت ہے، اور جواب دینا فرض ہے، ان حضرات نے اسی آیت سے استدلال کیا ہے، اور اس کا سبب یہ بھی ہے کہ سلام کا جواب نہ دینے میں مسلمان کی اہانت ہے، جو حرام ہے۔ حسن بصری اور سفیان ثوری وغیرہما کا یہی قول ہے۔ النسآء
87 94۔ اس آیت میں اللہ نے خبر دی ہے کہ تمام مخلوقات کا معبود صرف اللہ ہے، اس کے بعد اللہ نے قسم کھا کر کہا ہے کہ قیامت کے دن وہ تمام بنی نوع انسان کو ضرور جمع کرے گا، اور ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ چکائے گا، پھر کہا کہ اللہ کی بات سے بڑھ کر کس کی بات سچ ہوسکتی ہے النسآء
88 95۔ اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ اس آیت میں منافقین سے مراد عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھی ہیں، جو غزوہ احد کے موقع سے میدانِ جنگ کی طرف جاتے ہوئے راستہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ چھوڑ کر واپس آگئے تھے۔ بخاری مسلم، احمد اور ترمذی نے زید بن ثابت (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب غزوہ احد کے لیے نکلے، تو کچھ لوگ جو آپ کے ساتھ نکلے تھے، راستہ سے واپس ہوگئے، ان کے بارے میں صحابہ کرام کی دو رائے ہوگئی، کچھ لوگوں نے کہا نہیں وہ مسلمان ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور ان منافقین کا نفاق ظاہر کیا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا کہ یہ طیبہ شہر ہے، زنگ اور گندگی کو اس طرح الگ کردیتا ہے جیسے لوہار کی بھاتی لوہے کا زنگ الگ کردیتی ہے اس آیت کے سبب نزول کے بارے میں مسند احمد میں عبدالرحمن بن عوف (رض) سے ایک دوسری روایت بھی مروی ہے کہ کچھ عرب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مدینہ منورہ آئے، اور مسلمان ہوگئے، لیکن وہ مدینہ منورہ کے مشہور بخار میں مبتلا ہوگئے، تو اسلام سے برگشتہ ہو کر وہاں سے نکل پڑے، راستہ میں کچھ صحابہ کرام نے ان سے پوچھا کہ تم لوگ کیوں واپس جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ مدینہ کی بیماری سے ہم تنگ آگئے تھے، صحابہ نے کہا کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے لیے بہترین نمونہ نہیں تھے؟ پھر ان کے بارے میں صحابہ کا اختلاف ہوگیا، کسی نے کہا یہ لوگ منافق مدینہ، اور دیگر منافقین عرب سبھوں کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے، صحابہ کرام کے درمیان اختلاف ہوا ہو، اور اختلاف نے شدت پکڑ لیا ہو، تو یہ آیت نازل ہوئی النسآء
89 گذشتہ آیت میں مذکور منافقین کی یہاں مزید تفصیل بیان کی جا رہی ہے، کہ وہ تمنا کرتے ہیں کہ ان کی طرح تم لوگ بھی کافر ہوجاؤ، اور کفر و گمراہی میں ان کے برابر ہوجاؤ، اس لیے تم انہیں دوست نہ بناؤ، یہاں تک کہ وہ اللہ کی راہ میں دار الکفر سے ہجرت کر جائیں، اور تمہیں ان کے ایمان کا یقین ہوجائے، اور اگر وہ ہجرت کرنے سے انکار کریں، تو اگرچہ وہ اسلام کا اظہار کریں، ان کے ساتھ کافروں جیسا برتاؤ کرو، کیونکہ دار الکفر چلے جانے کے بعد ان کا کفر کھل کر سامنے آگیا، اس لیے انہیں گرفتار کرو، اور حل و حرم جہاں پاؤ انہیں قتل کرو، اور انہیں اپنا دوست اور مددگار نہ بناؤ النسآء
90 97۔ منافقین کے سلسلے میں اوپر جو حکم بیان ہوا اس سے دو قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مستثنی کردیا ہے، اور کہا ہے کہ انہیں نہ قید کریں اور نہ ان سے قتال کریں، ایک تو وہ منافقین جو کسی ایسی قوم کے پاس جا کر پناہ لے لیں، جن کے ساتھ مسلمانوں کو صلح و امن کا معاہدہ ہو، تو وہ انہی کے حکم میں ہوجائیں گے، ورنہ جنگ چھڑ جائے گی اور نقض میثاق ہوجائے گا، اور دوسرے وہ لوگ جو اپنی صلح جوئی کی وجہ سے نہ مسلمانوں سے جنگ کرنا چاہتے ہیں اور نہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر اپنی قوم سے جنگ کرنا چاہتے ہیں ابن ابی حاتم اور حافظ ابن مردویہ نے حسن بصری سے موقوفاً روایت کی ہے کہ بدر و احد کے غزوات کے بعد سراقہ بن مالک مدلجی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ خالد بن ولید کو میری قوم بنی مدلج پر چھاپہ مارنے کے لیے بھیجنا چاہتے ہیں، میری رائے ہے کہ آپ ان سے صلح کرلیں، اور جب آپ کی قوم اسلام لے آئے گی تو وہ لوگ بھی اسلام لے آئٰں گے، اور اگر وہ اسلام نہیں لائیں گے تو مناسب نہیں کہ آپ اپنی قوم کو ان پر غالب کریں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی بات سن کر خالد کا ہاتھ پکڑا، اور کہا کہ اس کے ساتھ جاؤ اور جیسے چاہتا ہے ویسے کرو، چنانچہ خالد نے ان کے ساتھ اس شرط پر صلح کرلی کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ان کے دشمنوں کی مدد نہیں کریں گے، اور جب قریش اسلام لے آئیں گے تو وہ بھی اسلام لے آئیں گے، تو اللہ تعالیٰ نے الا الذین یصلون الی قوم، الایہ نازل فرمایا۔ ولو شاء اللہ سے آگے تک ان کافروں کی قوت کی طرف اشارہ ہے کہ انہیں چھیڑنا ان کی پوشیدہ قوت کو ظاہر کرنے پر انہیں مجبور کرنا ہے، اس لیے اگر وہ اپنی قوت کے باوجود مسلمانوں سے قتال نہیں کرتے، اور صلح و آشتی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، تو انہیں نہ قید کیا جائے اور نہ قتل کیا جائے، اس لیے کہ اسلام کو ان سے کوئی نقصان نہیں ہے، اور ان سے قتال کرنا ان کی قوت کو ظاہر کرنا ہے النسآء
91 98۔ اس آیت کریمہ میں ایک تیسرے قسم کے لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے، جو بہت ہی بدترین قسم کے منافقین تھے اور ان کی نیت مذکورہ بالا جماعت منافقین و کفار سے مختلف تھی، یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے سامنے اسلام کا اظہار کرتے تھے، تاکہ مسلمانوں کی جانب سے ان کی جان، مال اور ان کی اولاد محفوظ رہے، اور اندر اندر کافروں کے ساتھ دوستی رکھتے تھے، اور ان کے بتوں کی پوجا کرتے تھے، تاکہ ان کی مخالفت مول نہ لیں۔ ابن جریر نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ یہ آیت اہل مکہ میں سے ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جو دوغلی پالیسی پر عمل کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں گرفتار کرنے اور قتل کرنے کا حکم دیا۔ امام رازی نے لکھا ہے، بہتوں کے نزدیک یہ آیت دلیل ہے کہ جو کفار صلح کی خواہش کا اظہار کریں اور مسلمانوں کو ایذ انہ پہنچائیں تو ان سے قتال کرنا جائز نہیں ہے۔ النسآء
92 99۔ منافقین کے ساتھ قتال کا حکم بیان کرنے کے بعد صادق الایمان مومن کے قتل کا حکم بیان کرنا مناسب معلوم ہوا، سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کیا کہ مسلمان کے لیے کسی طرح بھی مناسب اور جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو قتل کرے، ہاں اگر غلطی سے بغیر قصد کے ایسا ہوجائے تو دوسری بات ہے، جیسے کوئی کسی کافر پر گولی چلائے اور غلطی سے کسی مسلمان کو لگ جائے، یا کسی پر کافر سمجھ کر گولی چلائے اور وہ مسلمان نکل آئے۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم، اور ابن المنذر وغیرہم نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ یہ آیت عیاش بن ابی ربیعہ کے بارے میں نازل ہوئی، جنہوں نے حارث بن یزید کو کافر سمجھ کر مدینہ میں قتل کردیا تھا، حارث اور اجہل مکہ میں عیاش کو سزا دیتے رہے تھے، بعد میں حارث مسلمان ہو کر مدینہ آگئے، عیاش نے ان کو مدینہ میں دیکھا تو سمجھا کہ ابھی کافر ہی ہیں۔ چنانچہ اپنی تلوار سے انہیں قتل کردیا۔ جب انہیں ان کے اسلام کا علم ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، جس میں قتل خطا کا حکم بیان ہوا۔ اگر کوئی شخص غلطی سے کسی مسلمان کو قتل کردیتا ہے، اور مقتول کے ورثہ دیت معاف کردیتے ہیں تو دیت ساقط ہوجائے گی، لیکن اللہ کا حق یعنی ایک مسلمان غلام یا لونڈی کو آزاد کرنا واجب ہوگا، تاکہ اس کے ہر عضو کے بدلے قاتل کا ہر عضو جہنم کی آگ سے آزاد ہوجائے، اگر مقتول کے ورچہ معاف نہیں کرتے تو دیت دینا واجب ہوگا، جس کی مقدار عمرو بن حزم اور جابر سے مروی صحیح احادیث کے مطابق سو اونٹ، دو سو گائیں، دو ہزار بکریاں، ہزار دینار، یا بارہ ہزار درہم ہے، جسے قاتل کے آبائی رشتہ دار ادا کریں گے، اور اگر مقتول ایسی کافر قوم کا فرد ہو جو مسلمانوں کے دشمن ہوں، البتہ وہ مسلمان تھا جس کے اسلام کا پتہ نہ چل سکا تھا، تو ایک مسلمان غلام یا لونڈی کو آزاد کرنا ہوگا، اور دیت ساقط ہوجائے گی، اس لیے کہ اس کی قوم کے لوگ کافر اور مسلمانوں کے دشمن ہیں، اس لیے اس کے اور اس کے رشتہ داروں کے درمیان وراثت ثابت نہیں ہوگی۔ اور اگر مقتول ایسی کافر قوم کا فرد ہے جس کا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ ہے، تو مقتول کے ورثہ کو دیت دینی ہوگی، اور ایک مسلمان غلام یا لونڈی بھی آزاد کرنا ہوگا، اور اگر غلام یا لونڈی دستیاب نہیں ہوتی جسے آزاد کیا جا سکے تو بطور توبہ مسلسل دو ماہ تک روزے رکھنے ہوں گے النسآء
93 100۔ اس آیت میں قتل عمد کا حکم بیان کیا گیا ہے، کہ کوئی شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردیتا ہے، تو اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہوگی، اور قیامت کے دن اللہ نے اس کے لیے ایک بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے قتلِ عمد اتنا بڑا گناہ ہے کہ اللہ نے متعدد آیات میں اسے شرک باللہ کے ساتھ بیان کیا ہے، جیسا کہ سورۃ الفرقان آیت 68 میں ہے والذین لا یدعون مع اللہ الہا اخر ولا یقتلون النفس التی حرم اللہ الا بالحق، اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے، اور کسی نفس کو قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ۔ اور احادیث میں بھی اس کی بڑی وعید آئی ہے۔ جیسا کہ ترمذی نے ابو سعید خدری (رض) اور ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ اگر آسمان و زمین کے تمام رہنے والے ایک مومن کے قتل میں شریک ہوجائیں، تو اللہ ان سب کو جہنم میں ڈال دے گا۔ کسی مومن کو قصداً قتل کرنے والے کی توبہ قبول کی جائے گی یا نہیں، اس کے بارے میں صحابہ کا اختلاف رہا ہے۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اس کی توبہ نہیں قبول ہوگی۔ بخاری نے سعید بن جبیر سے ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت آخری دنوں میں نازل ہوئی، اور کسی دوسری آیت نے اسے منسوخ نہیں کیا ہے۔ مسلم، نسائی اور ابو داود نے ایک دوسری اسی معنی کی حدیث ابن عباس (رض) ہی سے روایت کی ہے، جس کے آخر میں ہے کہ اس آیت کے بعد کوئی دوسری آیت نازل نہیں ہوئی جو اسے منسوخ کرے، زید بن ثابت، ابوہریرہ، عبداللہ بن عمرو، حسن اور قتادہ وغیرہم کی یہی رائے ہے۔ اور جمہور علمائے امت کا قول ہے کہ قاتل عمد کی اس کے اور اس کے رب کے درمیان توبہ ہے، اگر توبہ کرلے، اور عمل صالح کے ذریعہ اپنی حالت درست کرلے، تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا، اور مقتول کو اس کی مظلومیت کا اچھا بدلہ عطا کر کے اسے خوش کردے گا، سورۃ الفرقان کی جو آیت ابھی گذری ہے، اس میں شرک باللہ قتل عمد اور زنا جیسے جرائم کا ذکر کرنے کے بعد اللہ نے فرمایا ہے، الا من تاب و امن و عمل عملا صالحا فاولئک یبدل اللہ سیئاتہم حسنات وکان اللہ غفورا رحیما۔ کہ جو شخص توبہ کرلے گا، اور ایمان لے آئے گا، اور عمل صالح کرے گا، تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا، اور بے شک اللہ غفور رحیم ہے۔ اللہ نے سورۃ الزمر آیت 53 میں فرمایا ہے قل یا عبادی الذین اسرفوا علی انفسہم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا۔ آپ کہہ دیجئے کہ اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، بے شک اللہ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، ان دونوں آیتوں میں تمام گناہوں کے بارے میں حکم عام ہے کہ صدق دل سے توبہ کرنے سے اللہ انہیں معاف کردیتا ہے۔ اور اگر فرض بھی کرلیا جائے کہ قتل عمد کا مرتکب جہنم میں ضرور داخل ہوگا، یا تو اس لیے کہ ابن عباس (رض) وغیرہ کے قول کے مطابق اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی، یا جمہور کے قول کے مطابق کہ اس کے پاس کوئی عمل صالح نہیں، تو بھی وہ جہنم میں ہمشیہ کے لیے نہیں رہے گا، اس لیے کہ آیت میں خلود فی النار سے مراد لمبی مدت ہے، جیسا کہ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ جس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی ایمان ہوگا، وہ جہنم سے نکال دیا جائے گا۔ یہاں ایک سوال اور رہ جاتا ہے کہ امت کا اجماع ہے کہ توبہ کے ذریعہ کسی کا حق ساقط نہیں ہوجاتا ہے، اس لیے توبہ کرنے کے بعد بھی مقتول کا حق قاتل کی توبہ قبول کرلے گا، تو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ مقتول کو اس کی مظلومیت کا اتنا اچھا بدلہ دے گا کہ وہ خوش ہوجائے گا اور قاتل کی توبہ قبول ہوجانے کی وجہ سے وہ بھی اللہ کے فضل وکرم سے جنت میں بھیج دیا جائے گا فائدہ : دنیا میں مقتول کے اولیاء کو اختیار ہے، چاہیں تو قصاص لیں، چاہیں تو معاف کردیں، اور چاہیں تو دیت مغلظہ لے لیں، یعنی سو اونٹنیاں، اس اجمال کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں موجود ہے، لیکن اگر مقتول کے اولیاء اسے معاف کردیں، یا دیت لینے پر راضی ہوجائٰں، تو کیا اسے کفارہ بھی دینا ہوگا؟ بہت سے علماء کہتے ہیں کہ ہاں، اسے کفارہ دینا ہوگا، اس لیے کہ جب قتل خطا میں کفارہ واجب ہے، تو قتل عمد میں بدرجہ اولی واجب ہوگا۔ النسآء
94 101۔ اس آیت کے سبب نزول کے بیان میں امام احمد اور بخاری نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنو سلیم کا ایک آدمی اپنی بکریاں چرا رہا تھا، کچھ صحابہ کا اس کے پاس سے گذر ہوا، تو اس نے سلام کیا، لیکن صحابہ نے کہا کہ یہ شخص اپنی جان اور بکریاں بچانے کے لیے ہمیں سلام کر رہا ہے، چنانچہ اسے قتل کردیا۔ اور اس کی بکریں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے کر آئے تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی حافظ ابوبکر بزار نے ابن عباس (رض) ہی سے ایک اور روایت نقل کی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقداد بن اسود کو ایک فوجی دستہ کا کمانڈر بنا کر کسی قبیلہ پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا، جب مسلمان وہاں پہنچے تو سارے لوگ بھاگ گئے، صرف ایک آدمی رہ گیا جس کے پاس بہت سارا مال تھا۔ اس کے کلمہ شہادت پڑھ لیا لیکن اس کے باوجود مقداد نے اسے قتل کردیا۔ ایک صحابی نے کہا کہ آپ نے ایک ایسے آدمی کو قتل کردیا ہے جس نے کلمہ شہادت پڑھ لیا تھا، میں یہ واقعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ضرور بیان کروں گا۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقدار کو بلا کر پوچھا اور کہا کہ قیامت کے دن کلمہ لا الہ الا اللہ کا تم کیا کرو گے؟ تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اسی روایت میں آتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقداد سے کہا کہ تم بھی تو مکہ میں اپنا ایمان چھپاتے تھے، آیت کے اگلے حصہ میں اسی طرف اشارہ ہے کہ اے مسلمانو ! مکی زندگی میں تم بھی تو اپنا ایمان چھپاتے تھے۔ النسآء
95 102۔ گذشتہ آیتوں میں مومنوں کو جہاد کی ترغیب دلائی گئی ہے، اب ان کے درجات کا بیان ہورہا ہے، اور یہاں وہ مجاہدین مراد ہیں جنہوں نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی، اور وہ لوگ جو کسی مجبوری کی وجہ سے اسے میں شریک نہ ہوسکے تھے۔ بخاری نے براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید بن ثابت کو بلایا، اور انہیں املاء کرایا، عبداللہ بن ام مکتوم نابینا صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے کھڑے تھے، انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ ! اللہ کی قسم اگر میں جہاد کرسکتا تو ضرور کرتا، تو فورا غیر اولی الضرر نازل ہوا۔ اس پر مزید روشنی انس بن مالک (رض) کی اس حدیث سے پڑتی ہے جسے احمد، بخاری اور ابوداود نے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ تبوک سے واپس ہوتے ہوئے راستہ میں فرمایا کہ مدینہ میں کچھ ایسے لوگ رہ گئے ہیں جو تمہارے ساتھ پورے سفر میں رہے ہیں، صحابہ نے پوچھا کہ یارسول اللہ ! اگرچہ وہ مدینہ میں رہ گئے ہیں؟ آپ نے کہا، ہاں، جنہیں کسی عذر نے آنے سے روک دیا ہے النسآء
96 103۔ اس آیت میں مجاہدین کے لیے جو اجر عظیم ہے اسی کی تفصیل ہے، بخاری و مسلم نے ابوسعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں 100 درجے ہیں، جنہیں اللہ نے مجاہدین کے لیے تیار کیا ہے، ہر دو درجوں کے درمیان آسمان اور زمین کی مسافت ہے علماء نے اسی آیت جہاد سے استدلال کر کے کہا ہے کہ جہاد فرضِ عین نہیں ہے، اگر فرض عین ہوتا تو پھر بیٹھنے والوں کے لیے کسی فضیلت کا ذکر نہ ہوتا، آیت میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جہاد ان تمام اعمال سے افضل ہے جو جہاد میں شرکت نہ کرنے والے لوگ کرتے رہتے ہیں۔ سیوطی نے الاکلیل میں لکھا ہے کہ اس آیت میں مجاہدین کو تمام دوسرے لوگوں پر فضیلت دی گئی ہے، اور یہ بھی بیان کردیا گیا ہے جو لوگ واقعی جہاد میں شرکت کرنے سے معذور ہوتے ہیں ان کا درجہ بھی مجاہدین ہی کا ہے۔ النسآء
97 104۔ اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جنہوں دار الکفر (مکہ) اور اس کے گرد و نواح سے دار السلام (مدینہ) کی طرف ہجرت نہیں کی، دشمن کی طرف سے ہر ظلم و ستم کو برداشت کیا، اور اللہ کی جیسی عبادت کرنی چاہئے تھی ویسی عبادت نہیں کی، انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ پر ظلم کرنے والا بتایا ہے فرشتے ایسے لوگوں سے ان کی روح قبض کرتے وقت پوچھیں گے کہ تم لوگوں نے یہاں سے ہجرت کیوں نہیں کی؟ تو وہ لوگ یہ عذر پیش کریں گے کہ ہم کمزور تھے، فرشتے کہیں کہ کیا اللہ کی زمین میں تم لوگوں کے لیے کشادگی نہیں تھی، جہاں تم ہجرت کر کے چلے جاتے، اور اللہ کی عبادت آزادی کے ساتھ کرتے؟ اللہ نے اس آیت میں ان کا ٹھکانا جہنم بتایا ہے۔ اس آیت کا پس منظر اور سبب نزول ابن عباس (رض) کی روایت کے مطاب جسے بخاری، ابن المنذر اور ابن جریر وغیرہم نے الفاظ کے کچھ اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے، یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مہاجرین کے مدینہ ہجرت کرجانے کے بعد مکہ میں کچھ ایسے لوگ باقی رہ گئے جو دل سے مسلمان تھے، لیکن کافروں کے ڈر سے انہوں نے اپنے اسلام کا اعلان نہیں کیا تھا اور تکلیف و آزمائش کے ڈر سے ہجرت بھی نہیں کی، جب جنگ بدر ہوئی تو کافروں کے ساتھ ایسے لوگ بھی گئے، ان میں سے کچھ لوگ مسلمانوں کے تیروں اور نیزوں کے سے مارے گئے، مسلمانوں نے ان کے بارے میں کہا کہ یہ لوگ تو مسلمان تھے اور مجبوراً میدانِ جنگ تک آئے تھے، اور ان کے لیے دعائے مغفرت بھی کی، تو یہ آیت نازل ہوئی، اور آخرت میں ان کا انجام بتا دیا گیا، البتہ اس انجام سے ان مردوں، عورتوں اور بچوں کو مستثنی قرار دیا گیا جو واقعی معذور تھے، جیسے کوئی اندھا تھا، کوئی لنگڑا تھا، کوئی بوڑھا ضعیف تھا، اور ان کی عورتیں، اور ان کے بچے، ہجرت کرنے سے مجبور تھے، ان کے بارے میں اللہ نے آیات 98، 99 میں بتایا کہ اللہ انہیں معاف کردے گا۔ حافظ سیوطی نے الاکلیل میں لکھا ہے کہ یہ آیت دار الکفر سے ہجرت کے وجوب کی دلیل ہے، اس سے صرف وہ شخص مستثنی ہوگا جو معذور ہوگا۔ حافظ بن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ اسلام میں دو قسم کی ہجرت واقع ہوئی ہے، ایک تو دار الکفر سے دار الامن کی طرف، جیسا کہ مصیبت زدگان مکہ کی حبشہ کی طرف دو بار ہجرت، اور مکہ سے مدینہ کی طرف مسلمانوں کی ابتدائے اسلام میں ہجرت، دوسری دار الکفر سے دار الایمان کی طرف ہجرت، یعنی جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور بہت سے مہاجرینِ مکہ مدینہ منورہ میں قیام پذیر ہوگئے، اس کے بعد مزید مسلمانوں کی مدینہ کی طرف ہجرت ہوئی۔ اس وقت ہجرت صرف مدینہ کے ساتھ خاص تھی۔ جب مکہ فتح ہوگیا، تو یہ خصوصیت ختم ہوگئی، اور کسی دار الکفر سے کسی دار الاسلام کی طرف ہجرت کا حکم قیامت تک کے لیے باقی رہ گیا۔ النسآء
98 النسآء
99 النسآء
100 105۔ اس آیت کریمہ میں ہجرت کی ترغیب دلائی گئی ہے، اور یہ بیان ہوا ہے کہ مومن جب اپنے گھر سے اپنے دین کی حفاظت کی خاطر ہجرت کی نیت کر کے نکل پڑتا ہے، تو اللہ کی سرزمین میں اسے سر چھپانے کی جگہ مل ہی جاتی ہے، اور روزی بھی ملتی ہے، اور یہ کہ ہجرت کرتے ہوئے منزل مقصود پر پہنچنے سے پہلے اگر اس کی موت آجاتی ہے تو اس کے لیے ہجرت کا اجر و ثواب لکھ دیا جاتا ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ عمل کا دار و مدار نیت پر ہے اس آیت کے سبب نزول کے بارے میں ابن ابی حاتم اور ابو یعلی وغیرہ نے سند جیّد کے ساتھ ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حمزہ بن جندب اپنے گھر سے ہجرت کی نیت سے نکلے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ جو شخص اپنے گھر سے ہجرت کی نیت سے نکلا، اور اپنی سواری سے گر کر مر گیا، تو اس کا اجر اللہ کے نزدیک ثابت ہوگیا النسآء
101 106۔ چونکہ ہجرت بغیر سفر کے ناممکن تھی، اسی لیے ہجرت کے احکام کے ساتھ سفر میں نماز کا حکم بیان کرنا مناسب ہوا، کہ مسلمان جب سفر میں ہوں تو چار رکعت والی نمازیں دو رکعت پڑھیں اور آیت میں فلیس علیکم جناح یعنی تمہارے لیے کوئی حرج نہیں ہے سے جمہور نے استدلال کیا ہے کہ سفر میں قصر کرنا سنت ہے، واجب نہیں، مسلم، احمد، ابو داود اور ترمذی نے یعلی بن امیہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر رضٰ اللہ عنہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت کے بارے میں پوچھا کیا امن ہوجانے کے بعد بھی نماز قصر پڑھی جائے گی؟ تو آپ نے فرمایا یہ اللہ کا صدقہ ہے، مسلمان اسے قبول کریں، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل بھی یہی تھا کہ سفر میں آپ نے بغیر حالت خوف کے قصر کیا، اسی لیے علماء نے کہا ہے کہ ان خفتم اگر خوف ہو تو قصر کرو، کی قید اس زمانہ میں مسلمانوں کا حال بیان کرنے کے لیے ہے، ورنہ قصر ہر سفر میں جائز ہے۔ ترمذی، نسائی اور ابن ابی شیبہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ سے سفر کے لیے نکلے، اور انہیں رب العالمین کے علاوہ کسی کا خوف نہیں تھا، اور آپ نے دو دو رکعت نماز پڑھی اور بخاری اور دوسرے محدثین نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے روانہ ہوئے، اور آپ دو دو رکعت نماز پڑھتے رہے، یہاں تک کہ ہم مدینہ لوٹ کر آگئے۔ النسآء
102 107۔ اس میں اور اس کے بعد والی آیت میں، حالت خوف میں نماز ادا کرنے کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ احمد، ابو داود اور نسائی وغیرہم نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام مکہ جاتے ہوئے مقام عسفان میں تھے کہ مشرکین نے آپس میں کہا، یہ لوگ ابھی کچھ ہی دیر بعد ایک اور نماز پڑھیں گے جو انہیں بہت ہی محبوب ہے، تو ہم ان پر حملہ کردیں گے، تو یہ آیت نازل ہوئی، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام نے حالت خوف کی نماز پڑھی، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ خوف کی نماز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص تھی، اس لیے کہ اللہ نے صلاۃِ خوف کے لیے آپ کا ہونا شرط قرار دیا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ آپ کے بعد صحابہ کرام نے حالت خوف میں نماز پڑھی اور آپ کی سنت پر عمل کیا۔ احادیث میں اس نماز کی ایک صورت یہ آئی ہے کہ مسلمانوں کی فوج دو جماعتوں میں بٹ جائے گی، ایک جماعت دشمنوں کے سامنے کھڑی ہوگی اور دوسری جماعت فوج کے قائد کے ساتھ ایک رکعت پڑھے گی، اس کے بعد امام اپنی جگہ پر کھڑا رہے گا اور نماز پڑھنے والی جماعت دوسری رکعت پڑھ کر سلام کے بعد دشمنوں کے مقابلہ میں کھڑی ہوجائے گی، اور دوسری جماعت امام کے پیچھے آجائے گی، امام انہیں اپنی دوسری رکعت پڑھائے گا، اور سلام پھیر دے گا، اور دوسری جماعت اپنی دوسری رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے گی، دونوں حالتوں میں مسلمانوں کے ہتھیار ان کے پاس رہیں گے، تاکہ دشمن انہیں خالی ہاتھ سمجھ کر حملہ نہ کردے۔ امام شوکانی کہتے ہیں کہ احادیث میں صلاۃِ خوف کی متعدد صورتیں آئی ہیں، اور تمام ہی صورتیں صحیح ہیں، کسی بھی صورت پر عمل کرنا جائز ہے۔ جن لوگوں نے کسی ایک صورت کو اختیار کیا ہے، اور باقی دوسری صورتوں کو چھوڑ دیا ہے، انہوں نے غلطی کی ہے النسآء
103 108۔ اس آیت میں مومنوں کو ہر حال میں اللہ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور خاص طور سے جب وہ حالت جنگ میں ہوں، اس لیے کہ روحانی قوت مادی قوت پر بہرحال غالب ہو کر رہتی ہے، اس لیے مجاہدین ااسلام صرف نماز میں ہی ذکر الٰہی پر اکتفا نہ کریں بلکہ ہر حال میں اللہ کی یاد سے اپنی زبان کو تر رکھیں اس کے بعد اللہ نے کہا کہ جب امن ہوجائے تو مسلمان پوری نمازیں پڑھیں النسآء
104 109۔ یعنی اپنے دشمن کا پیچھا کرنے میں کمزوری اور سستی نہ دکھلاؤ، اس لیے کہ اگر تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو انہیں بھی تکلیف پہنچتی ہے، یہ تکلیف تمہارے ساتھ خاص نہیں ہے، اور مومنوں کو جنگ میں زیادہ صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے، اس لیے کہ وہ اللہ کی قربت اور اس کی جنت کی امید رکھتے ہیں، جس کی کافر امید نہیں رکھتے النسآء
105 110۔ آیت 105 سے لے کر 109 تک کا تعلق ایک خاص واقعہ سے ہے، مجاہد، عکرمہ، قتادہ اور سدی وغیرہم نے ذکر کیا کہ یہ آیتیں بنی ابیرق کے چور کے بارے میں نازل ہوئی تھیں، جس کا نام طعمہ بن ابیرق تھا، اس نے ایک آدمی کا (زرہ) چوری کرلیا۔ اور جب اس کا نام لیا جانے لگا، تورات کو چپکے سے اسے ایک یہودی کے گھر میں ڈال آیا۔ اور وہ اور اس کے بھائی کہنے لگے کہ فلاں یہودی نے زرہ چوری کیا ہے۔ اور تمام بھائی مل کر قسم کھا گئے کہ طعمہ نے چوری نہیں کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو سچ سمجھا، اور یہودی کا ہاتھ کاٹنا چاہا، تو یہ آیتیں نازل ہوئیں، اور طعمہ کا جھوٹ کھل کر سامنے آیا، چنانچہ اس نے اپنے ارتداد کا اعلان کردیا اور مکہ کی طرف بھاگ گیا، جہاں اس کے سر پر چوری کرتے ہوئے ایک دیوار گر گئی اور کفر کی حالت میں مرگیا، بما اراک اللہ، یعنی اللہ نے جس کا علم آپ کو بذریعہ وحی دیا ہے۔ ولا تکن للخائنین خصیما، میں دلیل ہے کہ جب تک کسی کے سچا اور حق پر ہونے کا یقین نہ ہوجائے اس کا ساتھ نہیں دینا چاہئے۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک قسم کا عتاب بھی ہے کہ آپ کو خیانت کرنے والوں کی طرف سے دفاع نہیں کرنا چاہئے۔ اسی لیے اللہ نے آپ سے فرمایا کہ اللہ سے مغفرت طلب کیجئے کہ آپ نے بے گناہ یہودی کا ہاتھ کاٹنا چاہا تھا۔ آیت میں ان لوگوں کے خلاف سخت دھمکی ہے جو بغیر تحقیق کیے دوسروں کا ساتھ دیتے رہتے ہیں۔ ان اللہ لا یحب من کان خوانا اثیما۔ میں خوان مبالغہ کا صیغہ استعمال ہوا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا تھا کہ طعمہ بہت بڑا خائن اور بہت بڑا گناہ گار ہے۔ چنانچہ حالات نے اس کی تصدیق کردی کہ وہ مرتد ہو کر مکہ بھاگ گیا، اور کفر پر اس کی موت ہوگئی۔ النسآء
106 النسآء
107 النسآء
108 یَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰہِ میں منافقین کے بد باطن ہونے کی عکاسی کی گئی ہے کہ یہ عار سے بچنے کے لیے لوگوں سے اپنے برے اعمال چھپانا چاہتے ہیں، اور اللہ کو دکھا کر کرتے رہتے ہیں، اللہ سے انہیں حیا نہیں آتی جو سارے بھیدوں کا جاننے والا ہے۔ اسی لیے اللہ نے اس کے بعد فرمایا کہ یہ لوگ جب سازش کرتے ہوتے ہیں اس وقت اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اے وہ لوگو جو دنیا میں ان خیانت کرنے والوں کا ساتھ دے رہے ہو، قیامت کے دن اللہ کے مقابلہ میں کون ان کی طرف سے دفاع کرے گا۔ النسآء
109 النسآء
110 111۔ آیت 110 سے 113 تک کا تعلق بھی طعمہ بن ابیرق ہی کے واقعہ سے ہے، جن لوگوں نے چوری کی اور جنہوں نے ابن ابیرق کا ساتھ دیا اور اس کا دفاع کیا، اگر وہ اللہ کے حضور توبہ و استغفار کریں تو اللہ ان کے گناہوں کو معاف کردے گا، کیونکہ وہ غفور رحیم ہے۔ اور چونکہ قرآن کریم میں ہمیشہ اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے خصوص کا نہیں۔ اس لیے یہ حکم سب کے لیے ہے، اور جو کوئی کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے، تو اس کا وبال اسی کے سر پر ہوتا ہے، اس کی وجہ سے کسی دوسرے کا مواخذہ نہیں ہوگا، اور جو کوئی کسی غلطی یا گناہ کا ارتکاب کر کے کسی دوسرے کے سر ڈال دیتا ہے، جیسا کہ بنی ابیرق نے یہودی کو متہم کردیا، حالانکہ وہ بری تھا، تو اس نے بہتان دھرا اور عظیم گناہ کا ارتکاب کیا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر اپنے احسانات یاد دلائے ہیں کہ اگر اللہ اپنے فضل و کرم سے بذریعہ وحی بتا نہ دیتا کہ چور یہودی نہیں بلکہ ابن ابیرق ہے، تو آپ نے بے گناہ کا ہاتھ کاٹ لیا ہوتا، اور اس کذب بیانی کا وبال انہی جھوٹوں کے سر ہوگا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا نقصان نہیں پہنچے گا، اس لیے کہ آپ کو حقیقت حال کا علم نہیں تھا، اللہ کا اپنے رسول پر یہ بھی احسان ہے کہ اس نے آپ کو قرآن کریم اور سنت جیسی نعمت عطا کی، اور دین و شریعت کے وہ امور سکھائے جنہیں آپ پہلے سے بالکل نہیں جانتے تھے۔ فخر الدین رازی نے لکھا ہے : یہ آیت دلیل ہے کہ علم سے بڑھ کر کوئی نعمت، کوئی شرف اور کوئی منقبت نہیں۔ النسآء
111 النسآء
112 النسآء
113 النسآء
114 112۔ اس آیت کریمہ کا تعلق بھی بنی ابیرق ہی کے واقعہ سے ہے کہ اصل چور کو سزا اور عار سے بچانے کے لیے اس کے حمایتی آپس میں سرگوشیاں کرتے تھے۔ لیکن تفسیر کے قاعدے کے مطابق آیت کا حکم اور معنی عام ہے، کہ عام طور پر لوگوں کی سرگوشیوں میں کوئی خیر اور بھلائی نہیں ہوتی، بھلائی صرف اس سرگوشی میں ہوتی ہے جس سے مقصود کوئی خیر کا کام کرنا ہو، جس کی صراحت یہاں اللہ تعالیٰ نے بطور استثناء کردی ہے ہی کہ اگر کوئی شخص لوگوں سے چھپا کر صدقہ کرنے کے لیے یا لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے کے لیے، یا کسی اور کار خیر کے لیے سرگوشی کرے تو خیر ہے۔ آیت میں ابتغاء مرضات اللہ دلیل ہے کہ ان اعمال کا اجر و ثواب پانے کے لیے شرط یہ ہے کہ ان کاموں سے مقصود اللہ کی رضا حاصل کرنا ہو، ترمذی ابن ماجہ اور حافظ ابن مردویہ نے ام حبیبہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، ابن آدم کی ہر بات اس کے سر پر بوجھ ہوتی ہے، اس کے لیے مفید نہیں ہوتی، سوائے اس کے کہ اللہ کو یاد کرے، کسی بھلائی کا حکم دے یا کسی برائی سے روکے۔ النسآء
115 113: اس آیت کریمہ کا تعلق بھی بنی ابیرق کے واقعہ سے ہے، اس لیے کہ طعمہ کو اس بات کا یقین تھا کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور اسلام دین برحق ہے، اس کے باوجود اس نے صحابہ کرام کے بجائے کافروں کی راہ اختیار کی، اور مرتد ہو کر کافروں سے جا ملا لیکن اس آیت کا حکم بھی عام ہے جیسا کہ اوپر والی آیت کے بارے میں کہا گیا، چنانچہ جو کوئی بھی حق واضح ہوجانے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرے گا، اور مسلمان کی راہ یعنی دین اسلام کے علاوہ کسی دوسری راہ کو اپنائے گا، تو اللہ تعالیٰ اسے اسی مخالفت رسول اور عدم اتباع اسلام کی راہ پر چھوڑ دے گا، بلکہ اس کی نگاہوں میں اس کی اس روش کو خوبصورت اور عمدہ بنا دے گا یہاں تک کہ جہنم میں جا گرے گا۔ یہ آیت دلیل ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت آدمی کو کفر تک پہنچا دیتی ہے، اور اس پر بھی دلیل ہے کہ مسلمانوں کے اجماع کی مخالفت بھی کبیرہ گناہ ہے، اور یہ کہ اجماع قرآن و سنت کی طرح دلیل ہے، امام شافعی رحمہ اللہ نے اسی آیت سے اجماع کے حجت ہونے پر استدلال کیا ہے، اور کہا ہے کہ چونکہ مومنوں کے طریقہ کی مخالفت کا انجام جہنم بتایا گیا ہے، اس لیے یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ ان کی اتباع کرنا فرض ہے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ قرآن وسنت میں دین کے تمام امور بیان کردئیے گئے ہیں، اور امت کا اجماع بذات خود حق ہے، اس لیے کہ امت گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی، انہوں نے قرآن کریم کی متعدد آیتوں سے استدلال کیا، ہے، اور آخر میں کہا ہے کہ امام شافعی نے اسی آیت سے اجماع کی حجیت پر استدلال کیا ہے، اس کے بعد کہا ہے کہ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ مومنوں کی راہ کی اتباع نہ کرنے والا وعید کا مستحق ہے، ورنہ اس وصف کو الگ سے بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ آگے چل کر لکھا ہے کہ کوئی بھی ایسا مسئلہ نہیں پایا جاتا جس پر علماء کا اجماع ہوگیا ہو، اور اس کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سے دلیل موجود نہ ہو، لیکن کبھی وہ دلیل بعض لوگوں کو معلوم نہیں ہوپاتی، اور علماء کے اجماع کا علم ہوجاتا ہے تو اسی سے استدلال کرتے ہیں النسآء
116 114۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر آیت 48 میں گذر چکی ہے، تکرار سے مقصود یا تو شرک کی خطرناکیوں کی مزید تاکید ہے، یا طعمہ کے قصہ کی تکمیل، جو مرتد ہو کر مشرکوں سے جا ملا اور حالت شرک میں ہی مر گیا۔ ترمذی نے علی بن ابی طالب (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ پورے قرآن میں اس آیت سے زیادہ میرے نزدیک اور کوئی آیت محبوب نہیں ہے اور وجہ بظاہر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں امید دلائی ہے کہ وہ شرک کے علاوہ تمام گناہوں کو جس کے لیے چاہے گا معاف کردے گا النسآء
117 115۔ اس آیت کریمہ میں شرک کی انتہا درجہ کی پلیدگی، اور مشرکین کی انتہا درجہ کی خست اور حماقت بیان کی گئی ہے، کہ وہ ایسے بتوں کی پوجا کرتے ہیں جنہیں انہوں نے عورتوں کے نام دے رکھے ہیں (منات، عزی، لات اور اسی قسم کے دیگر بہت سے بت، جن کی وہ پوجا کرتے تھے ان کے نام عورتوں جیسے تھے) اور ابلیس کی عبادت کرتے ہیں، یعنی اس کی اطاعت کرتے ہیں، تو گویا اس کی عبادت کرتے ہیں۔ النسآء
118 116۔ آیت کا تعلق شیطان مرید سے ہے، کہ اللہ نے ابلیس پر لعنت بھیج دی، تو اس نے کہا کہ میں تیرے بندوں کی عبادت سے اپنا حصہ ضرور نکالوں گا، یعنی وہ غیر اللہ کی عبادت کریں گے یا عبادت میں ریاکاری کریں گے یا عبادت کر کے اس پر فخر کریں گے یا عبادت تو کریں گے لیکن لوگوں پر ظلم کر کے اسے برباد کریں گے یا عبادت کے بعد کفر کا ارتکاب کریں گے۔ النسآء
119 117۔ ابلیس ہی کا قول بیان کیا جا رہا ہے کہ میں انہیں راہ راست سے بھٹکاؤں گا، انہیں لمبی چوڑی تمناؤں کے ذریعہ بہکاؤں گا، جیسے کہ ابھی لمبی عمر پڑی ہے اور بڑی بڑی امیدوں کے ذریعہ بہکاؤں گا، انہیں تیرے حکم کے خلاف حکم دوں گا کہ وہ جانوروں کے کان میں سوراخ کر کے، انہیں حرام قرار دے دیں، جنہیں تو نے حلال کیا ہے (زمانہ جاہلیت کا طریقہ تھا کہ جب اونٹنی پانچواں بچہ مذکر دیتی تو اس کا کان چھید کر آزاد چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ کسی پانی یا چراہ گاہ اسے اسے روکتے) اور انہیں حکم دوں گا پس وہ اللہ کی تخلیق کو بدلیں گے، اس تبدیلی خلق کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد خصی کرنا، آنکھ پھوڑ دینا اور کان کاٹ دینا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد شمس و قمر، پتھروں اور دیگر مخلوقات کی پرستش ہے، کہ اللہ نے تو انہیں کسی اور کام کے لیے پیدا کیا تھا مگر مشرکوں نے انہیں معبود بنا لیا، بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنانا ہے، کسی نے کہا ہے کہ اس سے مراد عورت کی مشابہت اختیار کرنی ہے، اور کسی نے کہا ہے کہ اس سے مقصود دین اسلام کو بدل دینا ہے حافظ سیوطی نے الاکلیل میں لکھا ہے کہ یہ آیت خصی کرنے، گودنا کروانے، اضافی بال جورنے، دانتوں کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے اور چہرے کے بال اکھاڑنے کی حرمت پر دلیل ہے بیضاوی نے لکھا ہے کہ خلق اللہ سے مراد انسان کا چہرہ، صورت اور صفت ہے۔ اور آزاد کردہ نر اونٹ کی آنکھ پھوڑ دینا، غلاموں کو خصی کرنا، گودنا کروانا اور گال پر زینت کے لیے نشان بنوانا، لواطت، سحاق (دو عورتوں کا آپس میں جنسی خواہش پوری کرنا) شمس و قمر کی عبادت، اسلام میں تبدیلی لانا، اور اعضاء و جوارح کو غیر مفید کاموں میں استعمال کرنا جس سے انسان کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہو، یہ سبھی صورتیں اس آیت کے ضمن میں آتی ہیں۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ علماء کی ایک جماعت نے جانوروں کے خصی کرنے کو اس غرض سے جائز کہا ہے کہ وہ موتے ہوں اور ان کے گوشت میں اضافہ ہو، بعض علماء نے اسے مکروہ جانا ہے، البتہ انسان کو خصی کرنا تمام علماء کے نزدیک حرام ہے۔ قرطبی لکھتے ہیں، اس بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ انسان کا خصیہ نکال دینا حرام ہے اور ایسا کرنا اللہ کی تخلیق کو بدل دینا ہے النسآء
120 118۔ ابلیس کے وعدوں کی حقیقت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابلیس ان سے وعدے کرتا ہے، اور انہیں بڑی تمناؤں کے خواب دکھلاتا ہے، حالانکہ اس کا وعدہ سوائے دھوکہ اور گمراہی کے کچھ نہیں ہوتا، ابلیس کے ان دوستوں کا ٹھکانا جہنم ہے، جس سے نکل کر وہ کہیں نہیں جا سکیں گے۔ النسآء
121 النسآء
122 119۔ شیطان کی عبادت کرنے والے مشرکین کا انجام بیان کرنے کے بعد رحمن کی عبادت کرنے والے اہل توحید کا انجام بیان کیا جا رہا ہے اور مشرکوں کے ساتھ شیطان کے جھوٹے وعدوں کے مقابلہ میں موحدین کے لیے اللہ تعالیٰ کے سچے وعدوں کا ذکر کیا جا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ سے زیادہ سچا وعدہ کس کا ہوسکتا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب خطبہ دیتے تھے تو کہتے تھے، ان اصدق الحدیث کلام اللہ و خیر الہدی ھدی محمد کہ سب سے سچی بات اللہ کی بات ہے، اور سب سے اچھی ہدایت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایت ہے (مسلم، نسائی) النسآء
123 120۔ آیات 123، 124 کے سبب نزول کے بارے میں ابن جریر اور ابن ابی حاتم وغیرہ نے مسروق سے روایت کی ہے کہ نصاری اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کے مقابلہ میں اپنی اپنی خوبیوں پر فخر کیا، اور دونوں نے کہا کہ ہم لوگ تم لوگوں سے افضل ہیں، تو یہ آیت نازل ہوئی کہ اے مسلمانو ! اور اے اہل کتاب ! کسی کے افضل ہونے کا تعلق اس کی خوش کن تمناؤں سے نہیں ہے، اپنے منہ میاں مٹھو بننے سے کوئی اچھا نہیں ہوجاتا، انسان کے اچھا یا برا ہونے کا تعلق اس کے عمل سے ہے، جس کے اعمال برے ہوں گے، شرک اور دوسرے گناہوں کا مرتکب ہوگا، اسے اس کا بدلہ ملے گا، اور جو شخص عمل صالح کرے گا، موحد ہوگا اور عبادتوں میں زندگی گذارے گا، تو اس کا شمار نیک لوگوں میں ہوگا، اور جنت اس کا مقام ہوگا۔ امام احمد نے ابوبکر بن ابوزہیر سے روایت کی ہے کہ ابوبکر (رض) نے پوچھا، اے اللہ کے رسول ! اس آیت کے بعد اب کون نجات و فلاح کی امید کرسکتا ہے، کہ ہر برائی کا بدلہ مل کر رہے گا؟ تو آپ نے فرمایا : اے ابوبکر اللہ آپ کی مغفرت فرمائے، کیا آپ بیمار نہیں ہوتے، کیا آپ کو غم لاحق نہیں ہوتا، کیا آپ کو کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی؟ ابوبکر نے کہا، ہاں، تو آپ نے فرمایا کہ یہ بھی تو بدلہ ہی ہے، بخاری و مسلم نے ابو سعید خدری اور ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، مسلمان کو جب بھی کوئی تکلیف مصیبت، بیماری غم یا پریشانی لاحق ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ النسآء
124 النسآء
125 121۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی دیگر تمام ادیان پر فضیلت بیان کی ہے، کہ اس آدمی کے دین سے بہتر کس کا دین ہوسکتا ہے، جس نے اپنی جبینِ نیاز اللہ کے سامنے جھکا دی، اس کے سوا کسی کو اپنا رب نہیں مانا، اور اپنی ازندگی میں عمل صالح کرتا رہا، اور اس ابراہیم کی ملت کی اتباع کرتا رہا، جس نے شرک سے پورے طور پر بیزار ہو کر حق پرستی کو اپنی زندگی کا شعار اول بنا لیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اسلام کی فضیلت دو باتوں کے ذریعہ بیان کی ہے پہلی بات یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد اعتقاد اور عمل دو چیزوں پر ہے۔ اسلام آدمی سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب سمجھے اور اسکے لیے کمال عبودیت اور خشوع و خضوع کا اظہار کرے، جس کی طرف اسلم وجہہ للہ میں اشارہ کیا گیا ہے اور ایمان کے ساتھ اپنی زندگی میں عمل صالح بھی کرتا رہے دوسری بات یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کے دین کے دین کی طرف دعوت دی، اور یہ بات سب کو معلوم تھی کہ ابراہیم نے انسانوں کو صرف ایک اللہ کی طرف بلایا، اور ان کا دین سب کے نزدیک مقبول تھا، اس لیے عقل کا تقاضا یہ تھا، کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین سب کے نزدیک مقبول ہوتا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا، کہ اللہ نے ابراہیم کو اپنا خلیل بنالیا تھا، اس میں انسانوں کو ایک قسم کی ترغیب دلائی جا رہی ہے کہ جب ابراہیم اللہ کے خلیل تھے تو ان کے دین (دین اسلام) کو قبول کرنا چاہئے امام ابن القیم رحمۃ الہ علیہ نے اپنی کتاب الجواب الکافی میں لکھا ہے کہ کلمہ خلۃ جس سے خلیل بنا ہے، اس کا معنی کمال محبت اور انتہائے محبت ہے کہ جس کے بعد دل میں کسی دوسرے کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ رہے، اور یہ منصب عظیم صرف ابراہیم و محمد علیہما السلام کے لیے خاص تھا۔ مسلم اور حاکم نے جندب بن عبداللہ بجلی (رض) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وفات کے قبل کہتے سنا، اللہ نے مجھے اپنا خلیل بنا لیا ہے، جیسے ابراہیم کو اپنا خلیل بنا لیا تھا النسآء
126 122۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے مشہور اور ثابت شدہ حقیقت کو بیان کیا ہے کہ آسمان و زمین کی ہر شے اللہ کی ملکیت ہے، اس کے قبضہ و قدرت سے کوئی چیز خارج نہیں ہے، اس لیے وہ مالک کل سب کو اس کے اعمال کا بدلہ ضرور چکائے گا بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں منشا یہ بیان کرنا ہے کہ اللہ نے ابراہیم کو جو اپنا خلیل بنایا تو اس وجہ سے نہیں کہ اللہ نے ابراہیم کی دوستی کا محتاج تھا، بلکہ یہ تو اللہ کی طرف سے ابراہیم کی غایت درجہ کی تکریم تھی اور بعض نے یہ لکھا ہے کہ مقصود یہ بیان کرنا تھا کہ ابراہیم کا خلیل اللہ ہونا انہیں دائرہ عبودیت سے خارج اور اس سے اونچا نہیں بنا دیتا النسآء
127 123۔ اس آیت کریمہ کا سبب نزول یہ ہے کہ بعض صحابہ کرام نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عورتوں کے بارے میں سوال کیا کہ میراث اور دیگر امور میں ان کے کیا حقوق ہیں؟ تو یہ آیت نازل ہوئی، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے فرمایا، آپ کہہ دیجئے کہ عورتوں سے متعلق جو مسائل بیان نہیں کیے گئے ہیں، ان کے بارے میں تمہیں اللہ فتوی دیتا ہے، اور جو مسائل پہلے سے گذشتہ آیتوں میں بیان کیے جا چکے ہیں تو وہ آیتیں تمہیں فتوی دیتی ہیں، جس کی تلاوت تم پہلے سے اسی سورت کی ابتدا میں کر آئے ہو، یعنی اللہ کا فرمان، وان خفتم الا تقسطوا فی الیتامی فانکحوا ما طاب لکم من النساء اور اس کے بعد والی آیتیں۔ امام بخاری نے کتاب التفسیر میں عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے عائشہ (رض) سے وان خفتم الا تقسطوا کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ یتیم لڑکی کے بارے میں ہے، جو اپنے ولی کی زیر نگرانی ہو، اور اس کے مال میں شریک ہو، اور اس کا وہ ولی اس کے مال و جمال کی وجہ سے اس سے شادی کرنا چاہے، لیکن اسے مناسب مہر نہ دینا چاہے، اللہ تعالیٰ نے اسے منع فرمایا کہ وہ اس کے مہر میں انصاف کیے بغیر اس سے شادی نہ کرے۔ عروہ کہتے ہیں، عائشہ (رض) نے کہا کہ لوگوں نے اس آیت کے بعد بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا تو آیت ویستفتونک فی النساء نازل ہوئی۔ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ اللہ کا فرمان و ترغبون ان تنکحوہن اس یتیم لڑکی کے بارے میں ہے جس کا ولی اس کے خوبصورت نہ ہونے کی وجہ سے اس سے شادی نہ کرنا چاہے، اور نہ کسی دوسرے مرد سے اس کی شادی کرنے پر آمادہ ہو، کیونکہ وہ ڈرتا ہے کہ دوسرا آدمی اس کے مال میں شریک ہوجائے گا، اس لیے اسے زندگی بھر کے لیے شادی سے روک دیتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں جس طرح عورتوں کو وراثت میں حصہ نہیں ملتا تھا، اسی طرح چھوٹے بچوں کو بھی حصہ نہیں ملتا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کمزور بچوں کو بھی ان کا حصہ دو، جیسا کہ اللہ نے ابتدائے سورت میں فرمایا ہے یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین۔ اولاد کے بارے میں اللہ کا حکم یہ ہے کہ مذکور موث کے دوگنا دیا جائے، اور یتیموں کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرو، جیسا کہ اللہ نے ابتدائے سورت میں فرمایا ہے۔ واتوا الیتامی اموالہم کہ یتیموں کو ان کا مال دے دو۔ النسآء
128 124۔ اس آیت کریمہ میں شوہر اور بیوی سے متعلق ایک حکم بیان کیا گیا ہے، کہ اگر بیوی اپنے شوہر کی طرف سے بے رخی کا اندازہ لگار رہی ہو، مثال کے طور پر اس کے ساتھ ایک بستر میں سونا چھوڑ دے یا اس کے اخراجات میں کمی کر دے، یا اس کے ساتھ بیٹھنا اور بات چیت کرنا بند کردے، تو دونوں کے لیے مناسب یہ ہے کہ آپس میں بیٹھ کر صلح کرلیں اور اس بات پر اتفاق کرلیں کہ شوہر اس کا حق ادا کرے جیسا کہ اسلام کا تقاضا ہے، اور اگر ایسا ممکن نظر نہ آئے اور بیوی چاہتی ہو کہ ازدواجی زندگی قائم رہے، تو مہر یا اخراجات کا کچھ حصہ چھوڑ دے یا شوہر کو کچھ اور مال دے دے، یا اگر اس کے پاس کوئی دوسری بیوی ہے جسے وہ زیادہ چاہتا ہے تو اپنی باری کے کچھ ایام اس کو دے دے اور شوہر اسے طلاق نہ دے، اور اگر یہ دونوں ہی صورت ممکن نہ ہو تو پھر شوہر طلاق دے دے، لیکن صلح میں ہر بھلائی ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنی چیز کسی کو نہ دینا، اس معاملہ میں بخل سے کام لینا ہر انسان کی فطرت میں داخل ہے، اس لیے بیوی کو چاہئے کہ شوہر کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے اپنے بعض حقوق سے دست بردار ہوجائے، اسی طرح شوہر کے طبع بخل کو مد نظر رکھتے ہوئے، اس کی جانب سے کم ہی پر راضی ہوجائے، اور مال کثیر کا مطالبہ کر کے اسے زیر بار نہ کرے، تاکہ صلح کو عملی جامہ پہنانا ممکن ہوسکے۔ امام بخاری (رح) نے عائشہ رضیا للہ عنہا سے روایت کی ہے کہ یہ آیت ایسی عورت کے بارے میں ہے جس کا شوہر اب اسے نہیں چاہتا، اسے طلاق دے کر کسی دوسری عورت سے شادی کرنی چاہتا ہے، بیوی کہتی ہے کہ مجھے طلاق نہ دو اور دوسری شادی کرلو، اور میں اپنے نان و نفقہ اور اپنی باری سے دست بردار ہوتی ہوں۔ حاکم نے عروہ کے واسطے سے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا کہ اے میرے بھانجے ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باری کے معاملہ میں ہم میں سے کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دیتے تھے، اور تقریباً ہر دن ہم سب کے پاس آتے تھے ہر بیوی کے قریب ہوتے لیکن چھوتے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ جس کی باری ہوتی اس کے پاس پہنچتے، اور وہاں رات گذارتے، سودہ بنت زمعہ (رض) بوڑھی ہوگئی تھیں اور انہیں ڈر ہوگیا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں چھوڑ دیں گے، انہوں نے کہا، یا رسول اللہ ! میں اپنی باری عائشہ کو دیتی ہوں، تو آپ نے اسے قبول کرلیا۔ عائشہ (رض) کہتی ہیں ہم لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ اور اسی طرح کے دیگر حالات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (و ان امرۃ خافت من بعلہا نشوزا الایۃ) علماء نے لکھا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا اس لیے کیا تاکہ امت کے لیے آپ کا عمل نمونہ بنے اس کے بعد اللہ نے شوہروں کو خطاب کر کے فرمایا کہ اگر تم لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کروگے، اور ان کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو گے، تو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو اچھی طرح جانتا ہے، اس کا تمہیں اچھا بدلہ دے گا۔ النسآء
129 125۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی حقیقت کو بیان کیا ہے کہ اے لوگو ! تم ہزار کوشش کے باجود اپنی بیویوں کے درمیان پوری طرح مساوات نہیں برت سکتے۔ ابن عباس مجاہد اور حسن بصری وغیرہم نے یہی تفسیر بیان کی ہے، مسند احمد میں عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بیویوں کے درمیان باری کی تقسیم میں پورا انصاف برتتے، پھر کہتے کہ اے اللہ ! جس چیز کا مالک میں ہوں اسے میں نے تقسیم کردیا، اور جس کا مالک تو ہے میں نہیں، (یعنی دل) اس کے جھکاؤ کے بارے میں مجھے ملامت نہ کرنا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نصیحت کی ہے کہ اگر کسی ایک بیوی کی طرف تمہارا میلان ہو، تو اس میں تمہیں حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے کہ دوسری کو آسمان و زمین کے درمیان لٹکی ہوئی چھوڑ دو، اصحاب سنن نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک طرف پورے طور پر جھک جائے، تو قیامت کے دن اس کا ایک دھڑ گرا ہوا ہوگا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر تم لوگ اپنے امور کی اصلاح کرلو گے، باری کی تقسیم میں عدل سے کام لوگے، اور ہر حال اللہ سے ڈرتے رہو گے، تو اللہ تعالیٰ بڑا معاف کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے النسآء
130 126۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اگر شوہر اور بیوی میں ہر ممکن کوشش کے باوجود صلح نہ ہوسکے، اور دونوں ایک دوسرے خوش اسلوبی کے ساتھ الگ ہوجائیں، تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے دونوں کو ایک دوسرے سے مستغنی کردے گا، اور اس سے اچھے رشتہ کا انتظام کردے گا، اللہ تعالیٰ بہت وسیع فضل والا اور بڑی حکمتوں والا ہے النسآء
131 127۔ آیات 131، 132، 133 میں اللہ تعالیٰ نے تین باتوں کے بیان کے ساتھ تینوں بار اپنے لیے آسمانوں اور زمین کی ملکیت کا ذکر کیا ہے، اور اپنی قدرت مطلقہ اور مکمل بے نیازی ثابت کی ہے۔ آیت 130 میں شوہر اور بیوی دونوں کو خوش اسلوبی کے ساتھ جدا ہونے کی صورت میں استغناء اور دوسرے اچھے رشتہ کا وعدہ کیا ہے، اس لیے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اسی کی ملکیت ہے، آیت 131 میں اللہ نے فرمایا کہ ہم نے گذشتہ اہل کتاب کو تقوی کی وصیت کی تھی، اور اے مومنو ! تمہیں بھی وصیت کرتے ہیں کہ اللہ سے ڈرو، اور کفر کر کے تم اس کا کچھ نہ بگار لوگے، اس لیے کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اسی کی ملکیت ہے، وہ ہر چیز سے کامل طور پر بے نیاز ہے، آیات 132 133 میں سہ بارہ اللہ نے فرمایا کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اس کی ملکیت ہے، اس لیے اگر اللہ چاہے تو تمہیں فنا کے گھاٹ اتار دے اور کسی دوسری قوم کو لے آئے یا انسان کی جگہ کسی دوسری مخلوق کو لے آئے، اے انسانو ! تمہاری نافرمانیوں کے باوجود اللہ نے جو تمہیں زندہ باقی رکھا ہے تو اس لیے نہیں کہ وہ تمہیں فنا کرنے سے عاجز ہے، وہ تو تمہیں کسی وقت بھی یکسر نیست و نابود کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے، اس نے تمہیں اس لیے زندہ چھوڑ رکھا ہے کہ وہ تمہاری بندگی سے مکمل طور پر بے نیاز ہے، اور تمہاری نافرمانی سے اس کی عزت و شان میں کوئی نقص نہیں واقع ہوتا ہے۔ النسآء
132 النسآء
133 النسآء
134 128۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حصول آخرت کی ترغیب دلائی ہے کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو صرف دنیاوی فائدوں کی خاہش کرتے ہیں، جیسے مجاہد جہاد کے ذریعہ حصول غنیمت کی نیت کرے، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے پاس دنیاوی فائدوں کے ساتھ اخروی فائدہ بھی ہے، تو بندہ کیوں نہ دونوں طلب کرے، یا ان میں سے افضل کو طلب کرے، قرآن کریم میں اس معنی کی اور بھی آیتیں آئی ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ جو شخص اللہ سے صرف دنیا چاہتا ہے اسے اللہ دنیا دیتا ہے، اور جو دنیا و آخرت دونوں چاہتا ہے، اسے اللہ دونوں دیتا ہے النسآء
135 129۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ دنیا میں انصاف پرور بن کر رہیں، اور اگر ان کے پاس کوئی گواہی ہے تو اسے اللہ کی رضا کے لیے ادا کریں، چاہے اس کی ضرب خود انہی پر کیوں نہ آتی ہو، یا وہ گواہی ان کے والدین اور دیگر قریبی رشتہ داروں کے خلاف کیوں نہ پڑتی ہو، اور چاہے جس کے خلاف گواہی دی جا رہی ہو وہ کوئی مالدار آدمی کیوں نہ ہو، جس کی خوشنودی کی خاطر عام طور پر لوگ اس کے خلاف گواہی نہیں دیتے، یا کوئی غریب آدمی کیوں نہ ہو، جس پر رحم کھاتے ہوئے لوگ اس کے خلاف گواہی نہیں دیتے، اس لیے کہ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ ان کی مصلحت گواہی کے گذر جانے میں ہے۔ اور ذاتی غرض، عصبیت، اور آپس کی عداوت کی وجہ سے انصاف کا دامن نہ چھوڑ بیٹھیں، نہ اس میں اپنی زبان کے ذریعہ تحریف پیدا کریں اور نہ اسے چھپانے کے لیے اس سے اعراض کریں، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے تمام اعمال سے باخبر ہے، ان کا انہیں بدلہ دے کر رہے گا مسند احمد میں عبداللہ بن رواحہ (رض) کی روایت ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں خیبر کے یہودیوں کے پھلوں اور اناجوں کا اندازہ لگانے کے لیے بھیجا، تو یہودیوں نے انہیں رشوت دینی چاہی تاکہ ان کے ساتھ نرمی کریں، تو انہوں نے کہا، اللہ کی قسم، میں تمہارے پاس اپنے محبوب ترین شخص کا بھیجا ہوا آیا ہوں، اور تم لوگ میرے نزدیک بندروں اور سوروں سے بھی زیادہ مبغوض ہو، لیکن اس ذات کی محبت، اور تم لوگوں سے میری نفرت مجھ سے بے انصافی نہیں کراسکتی، تو یہودیوں نے کہا کہ آسمان و زمین کی بنیاد اسی عدل و انصاف پر ہے النسآء
136 130۔ یہاں خطاب عام مومنوں سے ہے، انہیں کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ایمان میں مزید قوت اور ثبات پیدا کریں اور ہر حال میں اس پر سختی سے کاربند رہیں۔ آیت میں کتاب کا لفظ دو بار استعمال ہوا ہے، پہلے سے مراد قرآن کریم، اور دوسرے سے مراد تمام آسمانی کتابیں ہیں، قرآن کریم کے لیے نزل کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس لیے کہ قرآن تئیس سال میں بتدریج نازل ہوا، اور دوسری کتابوں کے لیے انزل کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس لیے کہ وہ کتابیں ایک بار پوری اترا کرتی تھیں۔ دونوں لفظوں کے لغوی معنی میں یہی فرق ہے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ، اس کے فرشتے، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت کا انکار کرے گا وہ راہ حق سے بھٹک جائے گا، اور کھلم کھلا گمراہی میں مبتلا ہوجائے گا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا انکار تو کفر ہے ہی فرشتوں، کتابوں، رسولوں اور یوم آخرت کا انکار بھی کفر ہے، کیونکہ ان پر ایمان لائے بغیر، اور اس ایمان کے بموجب عمل کیے بغیر ایمان باللہ کا تصور نہیں کیا جاسکتا النسآء
137 131۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے بارے میں خبر دی ہے جو پہلے ایمان لائے پھر کفر کو قبول کرلیا، پھر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے، اور کفر میں بڑھتے ہی گئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف نہیں کرے گا، اور نہ حق و صداقت کی طرف ان کی رہنمائی کرے گا، کیونکہ یہ بات بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے لیے مخلص اور مومن صادق بن جائیں گے، اس لیے کہ کبھی ایمان کا دعوی کرنا، اور پھر اس کا انکار کردینا، اور بار بار اپنے ماضی کی طرف لوٹ جانا، اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ انہوں نے دین کو کھلونا بنا رکھا ہے، ان کی نیت صحیح نہیں ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان سے مراد یہود ہیں جو پہلے تو موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے، پھر بچھڑے کی پوجا کر کے کفر و شرک کا ارتکاب کیا۔ پھر موسیٰ کی واپسی کے بعد ان پر ایمان لے آئے، لیکن پھر عیسیٰ علیہ السلا کے زمانہ میں کفر کے مرتکب ہوگئے، اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے تو ان کا انکار کر کے اپنے کفر کی تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی۔ اور تادم حیات اس کفر پر جمے رہے۔ آیت میں منافقین یا یہود کے اسی تذبذب ایمانی کا بیان ہے، عام کفار مراد نہیں ہیں، اس لیے کہ کافر اگر ایمان لے آئے اور اللہ کے لیے مخلص اور صادق الایمان بن جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کا وعدہ کرتا ہے، اور اسلام گذشتہ کفر کو ختم کردیتا ہے النسآء
138 132۔ آیات 138، 139 میں انہی منافقین کا انجام بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا، اس لیے کہ انہوں نے مومنوں کے بجائے کافروں کو اپنا دوست بنا لیا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ کیا کافروں کی دوستی سے ان کا مقصد قوت و غلبہ حاصل کرنا ہے؟ تو یہ ان کی خام خیالی ہے، اس لیے کہ عزت و وقوت کا مالک تو صرف اللہ ہے، وہ جسے چاہتا ہے عزت اور کامیابی عطا کرتا ہے، کفار اللہ کی مرضی کے بغیر ان کی کیا مدد کرسکتے ہیں۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس آیت سے مقصود لوگوں کو اس بات پر ابھارنا ہے کہ وہ صرف اللہ کے بندگانِ عاجز بن کر رہیں، اور اسی کی جناب میں عزت تلاش کریں۔ النسآء
139 النسآء
140 133۔ مشرکینِ مکہ اپنی مجلسوں میں قرآن کریم کا مذاق اڑاتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے ساتھ بیٹھنے سے منع فرمایا، اور سورۃ الانعام کی آیت 28 نازل کی، واذا رایت الذین یخوضون فی ایاتنا فاعرض عنہم حتی یخوضوا فی حدیث غیرہ واما ینسینک الشیطان فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظالمین۔ جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیتوں میں عیب جوئی کرتے ہیں، تو ان سے کنارہ کش ہوجائیے، یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں، اور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھئے۔ چنانچہ اس آیت کے نزول کے بعد مسلمانوں نے کافروں کے ساتھ بیٹھنا بند کردیا۔ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو یہود اور منافقین کے ساتھ ان کی مجلسوں میں بیٹھنا شروع کردیا، جہاں یہود قرآن کریم کا مذاق اڑاتے تھے، تو یہ آیت نازل ہوئی، جس میں مسلمانوں کو یاد دلایا گیا کہ اس کے قبل قرآن میں اللہ کا حکم آچکا ہے کہ جن مجلسوں میں کفار قرآن کریم کا مذاق اڑایا کریں، ان میں نہ بیٹھو، اس لیے کہ تمہارا ان کے ساتھ بیٹھنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی آیتوں کے انکار کیے جانے اور ان کا مذاق اڑائے جانے پر تم راضی ہو، پھر کفر اور عذاب جہنم کے مستحق ہونے میں تم انہی کی مانند ہوجاؤ گے، جیسا کہ اللہ نے آگے فرمایا کہ اللہ منافقین اور کفار کو جہنم میں اکٹھا کردے گا۔ حاکم کہتے ہیں کہ جو علمائے اسلام ملحدین اور مخالفین اسلام کے ساتھ مناظرہ کرنے کے لیے ان کی مجلسوں میں جاتے ہیں، ان کے لیے کوئی ممانعت نہیں، بلکہ انہیں اجر و ثواب ملے گا، اور اگر کسی مجلس میں اللہ، رسول یا دین اسلام کا مذاق اڑایا جا رہا ہو، تو جو شخص اس سے راضی ہوگا، وہ کافر ہوجائے گا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے انکم اذا مثلہم یعنی تم بھی انہی جیسے ہوجاؤ گے، ابن جریر نے ضحاک کا قول نقل کیا ہے کہ ہر وہ آدمی جو دین میں کوئی نئی بات پیدا کرتا ہے، اور قیامت تک ہر بدعتی اس آیت کے ضمن میں آئے گا۔ امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ چونکہ قرآن کریم میں خصوصِ سبب کا نہیں بلکہ عمومِ لفظ کا اعتبار ہوتا ہے، اس لیے ہر وہ مقام و موقف جہاں دلائل شرعیہ کا مذاق اڑایا جا رہا ہو اس سے اجتناب کرنا واجب ہے، مثال کے طور پر اسیران تقلیدِ شخصی جو قرآن و سنت کے بدلے میں لوگوں کے آراء کو قبول کرتے ہیں، اور جب کسی عالم کو اس مسئلہ پر قرآن و سنت سے استدلال کرتے دیکھتے ہیں، تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں، اور لوگوں کو باور کراتے ہیں کہ اس نے ان کے امام مذہب کی مخالفت کر کے، جس کو انہوں نے معلم شریعت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام دے رکھا ہے، کسی بہت بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے، ایسے لوگوں کی مجلسوں سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ النسآء
141 134۔ اس میں منافقین کی ایک دوسری صفت بیان کی گئی ہے جو مسلمانوں کو ان سے نفرت کرنے پر مجبور کرتی ہے، یہ منافقین ہر وقت مسلمانوں کی فتح یا شکست کا انتظار کرتے رہتے ہیں، اور دونوں حال میں انہیں صرف اپنا فائدہ مقصود ہوتا ہے، اگر اللہ کی طرف سے مسلمانوں کو فتح و نصرت ملتی ہے، تو فوراً کہنے لگتے ہیں کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے، تمہاری فتح میں ہمارا بھی دخل ہے، اس لیے مال غنیمت میں ہمارا بھی حصہ ہونا چاہئے، اور اگر پاسا پلٹ جاتا ہے، اور کافروں کا وقتی طور پر غلبہ ہوجاتا ہے، جیسا کہ جنگ احد میں ہوا، تو وہی منافقین کافروں کے پاس جا کر کہتے ہیں کہ کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے، کیا ہم تمہیں قتل نہیں کرسکتے تھے، اور قید و بند سے نہیں گذار سکتے تھے، لیکن ہم نے یہ سب کچھ نہیں کیا، بلکہ مسلمانوں کی ہمت پست کرتے رہے، یہاں تک کہ تم ان پر غالب آگئے، ورنہ تم تو حادثات کا شکار ہوچکے ہوتے۔ اللہ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا یعنی منافقین اس سے دھوکے میں نہ آجائیں کہ زبان سے کلمہ شہادت پڑھ لینے کی وجہ سے اگر دنیا میں ان کی جان بچی ہوئی ہے تو قیامت کے دن بھی وہ جان بر ہوجائیں گے قیامت کے دن ان کی یہ ظاہر داری ہرگز ان کے کام نہیں آئے گی اور دنیا میں منافقین کی یہ تمنا کبھی پوری نہ ہوگی کہ مسلمانوں کا وجود ہی ختم ہوجائے، اللہ تعالیٰ کافروں کو مسلمانوں پر کبھی بھی ایسا غلبہ نہیں دے گا، کہ انہیں بالکل ختم کردے۔ النسآء
142 135۔ اس آیت میں بھی منافقین کے بعض اعمال قبیحہ کو بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ منافقین اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، اپنی زبان سے تو ایمان کا اظہار کرتے ہیں لیکن دل میں کفر چھپائے ہوتے ہیں، اور اپنی کم عقلی اور نادانی کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ جس طرح دنیا میں مسلمانوں کو دھوکہ دے رکھا ہے اور ان کی جان و مال محفوظ رہے، اسی طرح آخرت میں بھی عذاب سے بچ جائیں گے، تو اللہ تعالیٰ بھی ان کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرتا ہے، کہ دنیا میں ان کی رسی ڈھیل دیتا ہے، اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے، اور اس طرح ان کی جان اور ان کا مال محفوظ رہتا ہے تاکہ دھوکہ میں پڑے رہیں، اور ااخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم کی سب سے نچلی کھائی ہوگی۔ ان کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ جب نماز کے لیے آتے ہیں تو بوجھل جسم کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جیسے کسی نے انہیں اس کام پر مجبور کیا ہو، اس لیے کہ ان کی نیت نماز کی نہیں ہوتی، اور نہ اس پر ان کا ایمان ہوتا ہے، اور نہ ہی نماز کے ارکان و اعمال پر وہ غور و خوض کرتے ہیں۔ ان کا مقصد تو لوگوں کو دکھلانا ہوتا ہے تاکہ انہیں مسلمان سمجھا جائے، وہ اپنی نمازوں میں بہت کم اللہ کو یاد کرتے ہیں، نہ وہ خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں، اور نہ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ زبان سے کیا پڑھ رہے ہیں۔ حافظ ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ یہ بات بری ہے کہ آدمی نماز میں سست کھڑا ہو، بلکہ اسے خوش و خرم اور شاداب چہرے کے ساتھ نماز پڑھنی چاہئے، اس لیے کہ بندہ نماز میں اپنے رب کے ساتھ سرگوشی کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے، اور جب اسے پکارتا ہے تو اس کی پکار سنتا ہے حاکم کہتے ہیں، یہ آیت دلیل ہے کہ نماز میں سستی کرنا منافق کی نشانی ہے، صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، منافقین پر سب سے بھاری نماز عشاء اور فجر کی نماز ہے۔ اور امام مالک نے مؤطا میں انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ منافقین کی نماز ہے وہ منافقین کی نماز ہے کہ آدمی بیٹھا رہے اور جب آفتاب زرد ہوجائے اور شیطان کی دو سینگوں کے درمیان پہنچ جائے تو اٹھے اور چار ٹھوکریں مار لے اور ان میں اللہ کو بہت ہی کم یاد کرے النسآء
143 136۔ منافقین کی حالت نفاق پر مزید روشنی ڈالی گئی ہے کہ وہ ایمان و کفر کے درمیان حیران اور مضطرب ہوتے ہیں، کھل کر نہ مومنوں کے ساتھ ہوتے ہیں، اور نہ کافروں کے ساتھ اور ان میں سے بعض کو شک لاحق ہوجاتا ہے، تو کبھی ادھر مائل ہوتا ہے اور کبھی ادھر، بخاری و مسلم نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، منافق کی مثال دو بکروں کے درمیان حیران بکری کی ہے، کبھی ایک کی طرف جاتی ہے تو کبھی دوسرے کی طرف، وہ فیصلہ نہیں کرپاتی کہ کس کے پیچھے ہولے النسآء
144 137۔ آیت 139 میں منافقین کی یہ صفت بتائی گئی ہے کہ وہ کافروں کو اپنا دوست بناتے ہیں، اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اس صفت منافقین سے مسلمانوں کو روکا ہے، کہ اے ایمان والو ! کافروں کو اپنا دوست نہ بناؤ، اور انہیں مسلمانوں کا راز نہ دو، اگر تم لوگ ایسا کرو گے تو اپنے خلاف اللہ کے نزدیک حجت قائم کرو گے اور عذاب کے مستحق بنو گے۔ حاکم کہتے ہیں، یہ آیت دلیل ہے کہ کافر کی دوستی حرام ہے۔ زمخشری نے لکھا ہے کہ صعصعہ بن صوحان نے اپنے بھتیجے سے کہا، مومن کے ساتھ مخلصانہ برتاؤ کرو، اور کافر اور فاجر کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ، فاجر تمہارے اچھے اخلاق سے راضی ہوجائے گا، اور مومن کا تم پر حق ہے کہ اس کے ساتھ مخلصانہ برتاؤ کرو۔ النسآء
145 138۔ منافقین کا انجام بتایا گیا ہے کہ وہ جہنم کی سب سے نچلی کھائی میں ہوں گے، آیت 146 میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے انجام بد سے ان لوگوں کو مستثنی قرار دیا ہے جنہوں نے نفاق سے توبہ کر کے عمل صالح کی راہ اختیار کرلی، کافروں کی دوستی چھوڑ کر اللہ سے اپنا رشتہ استوار کرلیا، اور اپنے دین میں اللہ کے لیے مخلص ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ آخرت میں مومنوں کے ساتھ جنت میں قیام پذیر ہوں گے۔ حاکم نے مستدرک میں، بیہقی نے شعب الایمان میں، اور ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں معاذ بن جبل (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کرلو، تمہیں تھوڑا عمل بھی کافی ہوگا۔ النسآء
146 النسآء
147 139۔ یہاں مقصود یہ بتانا ہے کہ عذاب کا دار و مدار کفر پر ہے کسی اور چیز پر نہیں۔ اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا، وہ تو بے نیاز ہے، عذاب تو صرف تمہارے کفر کا نتیجہ ہے۔ اس لیے اگر ایمان و شکر کے ذریعہ کفر کی نفی ہوجائے گی تو عذاب بھی باقی نہیں رہے گا، اس لیے کہ جو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے، اور دل سے ایمان لے آتا ہے، تو اللہ کو اس کا علم ہوتا ہے، اس لیے اسے اس کا بہترین اجر عطا کرتا ہے۔ النسآء
148 140۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ آدمی اپنی زبان سے بری باتیں لوگوں کے سامنے بیان کرتا پھرے جیسے گالی گلوچ، غیبت، چغل خوری، خواہ مخواہ کسی کو بدعا دینا، بد زبانی اور فسق و فجور کے کلمات زبان پر لاتے رہنا، اس سے مستثنی صرف وہ شخص ہے جس پر ظلم ہوا ہو، تو اسے حق پہنچتا ہے کہ حاکم کے سامنے اپنی مظلومیت بیان کرے یا ظالم کے لیے بد دعا کرے، ابن عباس (رض) سے یہی تفسیر منقول ہے۔ علماء نے ظلم کی بہت سی صورتیں بتائی ہیں، آیت میں وہ تمام صورتیں مراد ہیں۔ اس معنی کی مزید وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے جسے ابو داود اور حافظ ابو بکر بزار نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، کہ ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا کہ میرا ایک پڑوسی مجھے ایذا پہنچاتا ہے، آپ نے اس سے کہا کہ تم اپنا سامان نکال کر راستہ پر بیٹھ جاؤ، اس آدمی نے ایسا ہی کیا، جب کوئی وہاں سے گذرتا ہے تو اس سے پوچھتا کہ کیا بات ہے؟ وہ کہتا ہے کہ میرا پڑوسی مجھے ایذا پہنچاتا ہے، تو ہر آدمی کہتا کہ اے اللہ ! تو اس پر لعنت بھیج دے، اے اللہ ! تو اسے رسوا کر، آخر کار وہ آڈمی اور کہا کہ اپنے گھر میں چلے جاؤ، اللہ کی قسم اب میں تمہیں کبھی بھی نہیں ستاؤں گا مجاہد کہتے ہیں کہ یہ آیت ایک ایسے آڈمی کے بارے میں نازل ہوئی تھی جس کے پاس کوئی مہمان آیا تو اس نے اس کا خیال نہیں کیا، اس لیے وہ کسی دوسرے کے پاس چلا گیا اور اس کی بری خصلت لوگوں سے بیان کرنے لگا، اس کے لیے ایسا کرنا جائز قرار دیا گیا۔ ایک دوسری روایت میں مزید صراحت ہے کہ یہ آیت ایسے آدمی کے بارے میں ہے، جس کے پاس کوئی مہمان آئے اور وہ اس کا خیال نہ کرے، تو وہ وہاں سے نکل کر لوگوں سے کہے کہ فلاں آدمی نے میرا خیال نہیں کیا اور میرے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا۔ حضرت علی (رض) سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ کلمہ کفر یا اور کوئی بری بات زبان پر لانے کو اللہ پسند نہیں کرتا، صرف مظلوم و مجبور کے لیے جائز ہے، اور اس کی مثال ابتدائے اسلام میں مکہ کے وہ مسلمان ہیں جن پر کفار قریش ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتے تھے، اور انہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دینے پر مجبور کرتے تھے چنانچہ عمار (رض) نے ایسا ہی کیا تو انہیں کفار نے چھور دیا، اور ان کے ساتھی کو سولی پر چڑھادیا، عمار (رض) اور ان کے ساتھی کے بارے میں ہی سورۃ نحل کی آیت 106 نازل ہوئی تھی، جس میں ان کے ایمان کی شہادت دی گئی ہے، معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص صادق الایمان ہے اور اپنی جان بچانے کے لیے زبان سے کوئی کلمہ کفر ادا کرتا ہے تو کوئی حرج نہیں، جیسا کہ عمار (رض) نے کیا تھا، اور قرآن نے ان کے ایمان کی گواہی دی۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ الا من ظلم کے عموم میں مذکورہ بالا تمام صورتیں داخل ہیں النسآء
149 141۔ جس پر زیادتی ہوئی ہو اس کے لیے یہ جائز قرار دیا گیا کہ وہ اپنا قضیہ حاکم کے سامنے پیش کرے، لیکن اس آیت کریمہ میں اس سے بہتر اور افضل بات کی طرف رہنمائی کی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے ساتھ برائی کرے، اور تم اسے معاف کردو، تو تمہارے ذہن میں یہ بات رہنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو معاف کرتا ہے، حالانکہ وہ انتقام لینے پر قادر ہے، اس لیے اگر تم بھی قدرت ہونے کے باوجود معاف کردیتے ہو، تو یقین رکھو کہ اللہ کھلے اور پوشیدہ سب کچھ کو جانتا ہے، وہ تمہیں کبھی ضائع نہیں کرے گا، اور تمہیں اس کا اچھا سے اچھا بدلہ دے گا۔ امام احمد اور امام مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ مال صدقہ کرنے سے کم نہیں ہوتا، اور جو شخص دوسروں کو معاف کردیتا ہے اللہ اس کو عزت دیتا ہے، اور جو شخص اللہ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے، اللہ اسے رفعت و بلندی عطا کرتا ہے النسآء
150 142۔ ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ یہ آیت کعب بن اشرف اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ حافظ ابن کثیر اور شوکانی وغیرہما کا خیال ہے کہ اس آیت میں اہل کفر سے مراد یہود و نصاری ہیں، جو بعض انبیاء پر ایمان لے آئے اور بعض کا بغیر کسی حجت و برہان کے انکار کردیا۔ یہود نے عیسیٰ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور نصاری نے خاتم النبیین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کیا۔ اس سے مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ جس نے بعض انبیاء کا انکار کیا، تو گویا اس نے تمام کا انکار کردیا، اس لیے کہ اللہ کے تمام ہی انبیاء پر ایمان لانا ضروری ہے، جو شخص حسد، عصبیت، یا اپنی خواہش نفس کی وجہ سے ایک نبی کا بھی انکار کردے گا، اس نے ظاہر کردیا کہ جن انبیاء پر اس نے ایمان کا اظہار کیا تھا وہ اللہ کے لیے نہیں تھا، بلکہ عصبیت، خواہشِ نفس اور کسی دنیاوی غرض کی خاطر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو اس آیت کریمہ میں تین بار صفت کفر سے متصف کیا ہے النسآء
151 143۔ انہیں اہل کفر کو ان کے کفر کے نتیجہ میں عذاب الیم کی دھمکی دی گئی ہے النسآء
152 144۔ اس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کی صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہر کتاب اور نبی مرسل پر ایمان رکھتے ہیں۔ اسی لیے اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ان کا پورا پورا بدلہ دے گا، اور ان سے اگر کوئی تقصیر ہوئی ہوگی تو اسے معاف کردے گا، اور ازروئے رحمت ان کی نیکیوں کو کئی گنا بڑھا دے گا۔ النسآء
153 145۔ محمد بن کعب القرظی، سدی اور قتادہ کا قول ہے، یہودیوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کیا کہ جس طرح موسیٰ پر پوری تورات لکھی ہوئی نازل ہوئی تھی، اسی طرح آسمان سے ہمارے لیے کوئی کتاب اترنی چاہئے، تاکہ ہم تمہارے اوپر ایمان لے آئیں، یہ بات انہوں نے ہٹ دھرمی اور کفر کی وجہ سے کہی تھی، ورنہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کے لیے تورات میں بیان کردہ دلائل و براہین کے بعد انہیں کسی دلیل کی ضرورت نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ ان کے اس مطالبہ پر حیرت نہ کریں، انہوں نے تو موسیٰ (علیہ السلام) سے اس بھی بڑا سوال کیا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں اللہ کو ان ظاہری آنکھوں سے دکھا دو، تو آسمان سے ایک آگ اتری، جس نے ان کے عناد و استکبار کی وجہ سے، انہیں اپنی گرفت میں لے لیا، اور سب کے سب ہلاک ہوگئے، انہوں نے جب بھی کوئی نشانی دیکھی تو اپنے زمانہ کے نبی سے اس سے بڑی نشانی کا مطالبہ کردیا، اور اس وقت تک خاموش نہیں ہوئے، جب تک کوئی ایسا نشانی نہیں دیکھ لی، جس نے انہیں ایمان لانے پر مجبور کردیا، اور جس کے بعد ایمان کا کوئی فائدہ نہ رہا، یہ لوگ کبھی بھی دل سے ایمان نہیں لائے، ہمیشہ کفر کو اپنے دل میں بسائے رکھا، چنانچہ جب اللہ نے ان کے حال پر رحم کرتے ہوئے انہیں دوبارہ زندہ کیا تو اپنی فطرت کی کجی اور دل میں چھپے ہوئے کفر کی وجہ سے بچھڑے کو اپنا معبود بنا کر اس کی پرستش شروع کردی، جس کی تفصیل سورۃ اعراف اور سورۃ طہ وغیرہ میں موجود ہے۔ اور جب موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور سے واپس آئے اور دوبارہ انہیں توحید کی دعوت دی اور شرک پر ان کی سرزنش کی تب انہوں نے توبہ کی، اور اللہ نے انہیں پھر معاف کردیا۔ النسآء
154 146۔ بنی اسرائیل نے تورات کے احکام پر عمل کرنے سے انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے عہد لینے کے لیے ان کے سروں پر طور پہاڑ کو لا کھڑا کیا، تو مارے ڈر کے سجدہ میں گر گئے، اور پہاڑ کی طرف دیکھنے لگے کہ کہیں ان کے اوپر نہ گر پرے، جیسا کہ سورۃ اعراف کی آیت 171 میں بیان ہوگا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا کہ بیت المقدس میں سجدہ کرتے ہوئے اور حطۃ کہتے ہوئے داخل ہوں (یعنی اے اللہ ! ہم نے جہاد چھوڑ کر، اور تیرے حکم سے سرتابی کر کے جن گناہوں کا ارتکاب کیا ہے، تو انہیں معاف کردے) تو انہوں نے دونوں باتوں کی مخالفت کی، نہ سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوئے اور نہ ہی حطۃ کہا، بلکہ سرین کی طرف سے داخل ہوئے اور حنطۃ کہا، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انہیں ہفتہ کے دن مچھلی کا شکار کرنے سے منع فرمایا، اور اس پر کاربند رہنے کے لیے ان سے بہت ہی سخت قسم کا عہد و پیمان لیا، لیکن انہوں نے اس حکم کی بھی مخالفت کی اور حیلہ سازی کر کے ہفتہ کے دن مچھلیوں کو بند رکھا اور اتوار کے دن ان کا شکار کرلیا، اس کی تفصیل سورۃ اعراف آیت 163 میں آئے گی۔ النسآء
155 147۔ آیت 155 سے لے کر 158 تک یہود کے ان جرائم کا بیان ہے جن کی وجہ سے وہ اللہ کی لعنت کے مستحق بنے : 1۔ اللہ سے کیے گئے تمام عہود و مواثیق کو توڑ ڈالا۔ 2۔ اللہ کے بھیجے گئے دلائل و براہین اور معجزات کا انکار کیا۔ 3۔ انبیاء کرام کی ایک کثیر تعداد کو قتل کیا۔ 4۔ استکبار میں آ کر کہا کہ ہمارے دل پر پردے پڑے ہیں، ان میں انبیاء کی باتیں داخل نہیں ہوتیں تو ہمارا کیا قصور ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کردی اور کہا کہ بات بالکل برعکس ہے، اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، اس لیے اب حق بات قبول کرنے کی استعداد تقریباً ختم ہوچکی ہے 5۔ مریم علیہا السلام پر زنا کی تہمت دھری اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو ولد الزنا بتایا 6۔ دعوی کیا کہ انہوں نے عیسیٰ بن مریم کو قتل کردیا تھا اور بطور استہزاء تو کہا کہ دیکھو ہم نے اللہ کے رسول کو قتل کردیا۔ (اللہ تعالیٰ نے ان کے اس دعوی کی تردید کی، اور کہا کہ انہوں نے عیسیٰ کو نہ قتل کیا اور نہ پھانسی دی، بلکہ وہ شبہ میں ڈال دئیے گئے) اسی لیے اللہ نے کہا کہ جن لوگوں نے عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کیا ہے، در اصل وہ شک میں مبتلا ہوگئے ہیں، ان کے پاس اس بارے میں کوئی صحیح علم نہیں ہے، وہ تو محض ظن و گمان سے ایک بات کہتے ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا، بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف بلا لیا تھا۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے قتل اور ان کے پھانسی پر چڑھائے جانے کے بارے میں جو تفصیلات ابن عباس (رض) سے روایت کی جاتی ہیں، قرآن و سنت سے ان کا ثبوت نہیں ملتا۔ حافظ ابن کثیر نے بھی تفسیر کی کتابوں میں موجود ان واقعات کی تلخیص کر کے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے، جن میں تناقض پایا جاتا ہے، کیونکیہ ان روایات کے مطابق جب عیسیٰ (علیہ السلام) کے ماننے والوں نے ان کی گرفتاری کے وقت ان کو کہتے سنا کہ کون ہے جو میری شبیہ بنان پسند کرے گا، اور وہ جنت میں میرا ساتھی ہوگا، ان میں سے ایک نے یہ مرتبہ قبول بھی کرلیا تو پھر کیسے یہود کی طرح وہ بھی گمان کرتے ہیں کہ عیسیٰ کو پھانسی دے دی گئی صحیح بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں قرآن کریم میں جو خبر دی ہے، صرف اسی پر (تفصیل میں داخل ہوئے بغیر) ایمان رکھنا چاہئے، یہ جاننا ضروری نہیں کہ اللہ نے یہودیوں کو کس طرح شبہ میں ڈال دیا اور عیسیٰ کا شبیہ کسے بنایا گیا۔ النسآء
156 النسآء
157 النسآء
158 النسآء
159 148۔ اس آیت کے معنی میں علمائے تفسیر کے دو اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ ہر یہودی و نصرانی اپنی موت سے پہلے جب حالت نزاع میں ہوگا تو عیسیٰ (علیہ السلام) پر ضرور ایمان لے آئے گا، لیکن اس وقت کا ایمان کام نہ آئے گا، محمد بن الحنفیہ، عکرمہ، مجاہد اور محمد بن سیرین وغیرہم کا یہی قول ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) آخری زمانہ میں آسمان سے نازل ہوں گے اور دجال کو قتل کریں گے تو اس دور کا ہر یہودی و نصرانی ان کی وفات سے پہلے اس بات پر ایمان لے آئے گا، کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو یہودیوں نے نہ قتل کیا تھا اور نہ پھانسی دی تھی۔ اس وقت دین اسلام کے علاوہ تمام ادیان ختم ہوجائیں گے، اور تمام یہود و نصاری عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح دین اسلام کی پیروی کریں گے، ابن جریر کہتے ہیں کہ یہی قول زیادہ صحیح ہے۔ ابن کثیر نے بھی اسی قول کی تائید کی ہے۔ بخاری و مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عنقریب ابن مریم تمہارے پاس انصاف اور فیصلہ کرنے والے کی حیثیت سے آئیں گے، صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ کو ساقط کردیں گے (یعنی صرف اسلام کو قبول کریں گے) اور مال کی اس قدر بہتات ہوجائے گی کہ کوئی آدمی صدقہ قبول نہیں کرے گا، اس زمانہ میں ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگا۔ ابو ہریرہ (رض) نے نے کہا اگر چاہو تو یہ آیت پڑھو (اور پھر یہی آیت پڑھی) مسند احمد میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس زمانہ میں اسلام کے علاوہ دیگر تمام ادیان کو ختم کردے گا، اور عیسیٰ (علیہ السلام) چالیس (دن، مہینہ یا سال) زندہ رہیں گے، اس کے بعد ان کا انتقال ہوجائے گا، اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے، صحیح مسلم میں نواس بن سمعان کی روایت ہے کہ وہ دمشق میں مشرقی مینارہ کے پاس اتریں گے۔ حافظ ابن کثیر نے بہت سے صحابہ کرام سے متعدد احادیث نقل کی ہے جن میں عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کی صفت اور جگہ کا ذکر آیا ہے کہ وہ دمشق میں مشرقی مینارہ کے پاس فجر کی نماز کے وقت اتریں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت کے دن (عیسی علیہ السلام) اہل کتاب کے بارے میں ان کے ان اعمال کے مطابق گواہی دیں گے جن کا انہوں نے آسمان پر اٹھائے جانے سے پہلے مشاہدہ کیا تھا اور جن کا مشاہدہ زمین پر دوبارہ اترنے کے بعد کریں گے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ عیسیٰ شہادت دیں گے کہ انہوں نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا، اور اللہ کے لیے اپنی عبودیت کا اقرار کریں گے۔ النسآء
160 149۔ یہاں ظلم سے مراد وہ بڑے بڑے گناہ ہیں جن کا ارتکاب یہودیوں نے کیا تھا، اور جن کا ذکر آیت 155 156 157 میں آچکا ہے، ان گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر بعض حلال چیزوں کو حرام کردیا، جو پہلے سے ان کے لیے حلال تھیں۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس تحریم سے مراد یا تو یہ ہے کہ یہودیوں نے خود تورات میں تحریف کر کے اپنے اوپر کچھ حلال چیزوں کو حرام بنالیا، تو گویا تقدیر میں اللہ نے ایسا ہی ہونا لکھا تھا، یا اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تورات میں کچھ ایسی حلال چیزوں کو حرام کردیا جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں، اور یہ ان کے گناہوں کی وجہ سے ہوا، انہوں نے اللہ کے بہت سے بندوں کو صراط مستقیم سے روکا، سود کھایا، جبکہ انہیں اس سے روکا گیا تھا، اور لوگوں کا مال ناجائز راستوں سے کھایا، مثال کے طور پر علمائے یہود نے یہودیوں کو ان کی خواہش کے مطابق فتوے دئیے اور ان سے رشوت لی النسآء
161 النسآء
162 150۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ یہ آیت عبداللہ بن سلام، ثعلبہ بن سعید، زید بن سعید اور اسد بن عبید کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جنہوں نے یہودیت سے تائب ہو کر اسلام کو قبول کرلیا تھا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بحیثیت آخری رسول تسلیم کرلیا تھا۔ راسخ فی العلم پر سورۃ آل عمران کی آیت 7 کے ضمن میں تفصیل کے ساتھ لکھا جا چکا ہے اور مومنون سے مراد یا تو اہل کتاب کے مومنین ہیں یا مہاجرین و انصار یا وہ تمام لوگ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے۔ النسآء
163 151۔ محمد بن اسحاق وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سکین اور عدی بن زید نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اے محمد ! ہم نہیں جانتے کہ اللہ نے موسیٰ کے بعد کسی دوسرے انسان پر کوئی وحی نازل کی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور بتایا کہ اگر اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل کی ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، اس سے پہلے بھی بہت سے انبیاء پر اس نے وحی نازل کی تھی۔ اللہ نے نوح (علیہ السلام) کے نام سے اس لیے ابتدا کی، کیونکہ وہ پہلے نبی تھے جنہیں اللہ نے شریعت دے کر بھیجا تھا اور زبور اس کتاب کا نام ہے جو داود (علیہ السلام) پر اتاری گئی تھی۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ان پچیس انبیاء کے نام ذکر کیے ہیں، جن کے نام اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کیے ہیں، اکثر و بیشتر انبیاء کے نام معلوم نہیں ہیں۔ ایک حدیث میں ان کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار بتائی گئی ہے۔ ابن حبان نے اپنی کتاب الصحیح میں اسے روایت کی ہے۔ لیکن ابن الجوزی نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔ النسآء
164 152۔ اس آیت کے آخر میں اللہ نے فرایا ہے کہ اللہ نے موسیٰ سے بات کی یعنی اللہ تعالیٰ بغیر کسی واسطہ کے موسیٰ (علیہ السلام) سے مخاطب ہوا اور یہ اللہ کی طرف سے موسیٰ (علیہ السلام) کی انتہائے تکریم تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے لیے صفت کلام کو ثابت کیا ہے۔ جہور سلف اور اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جسے اس نے اپنے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا، اور یہ غیر مخلوق ہے۔ اس لیے کہ یہ اللہ کی صفت ہے۔ معتزلہ اور بعض دوسرے گمراہ فرقوں نے اس کا انکار کیا ہے، انہیں معتزلہ میں سے ایک آدمی کے بارے میں ابوبکر بن عیاش کو معلوم ہوا کہ اس نے اس آیت میں تحریف کر کے وکلم اللہ موسیٰ تکلیما پڑھا یعنی کلمہ اللہ کو مفعول بنا دیا تاکہ معنی یوں ہوجائے کہ موسیٰ نے اللہ سے بات کی، یعنی اللہ نے موسیٰ سے بات نہیں کی، تو ابو بکر نے کہا کہ اس طرح ایک کافر ہی پڑھے گا۔ اسی لیے بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ لوگ قرٓان کی آیت ولما جاء موسیٰ لمیقانا وکلمہ ربہ کو کیا کریں گے، اس میں تو فاعل رب ہے، اور یہاں تحریف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ النسآء
165 153۔ اس میں انبیائے کرام کی بعثت کا مقصد بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس لیے مبعوث کیا تاکہ وہ ایمان والوں کو جنت کی خوشخبری دیں اور کافر کو عذاب نار سے ڈرائیں، تاکہ قیامت کے دن انسانوں کے پاس اللہ کے سامنے احتجاج کرنے کے لیے کوئی بہانا باقی نہ رہے، کہ اے اللہ تو نے ہماری ہدایت کے لیے رسول کیوں نہیں بھیجا تھا۔ صحیحین میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے زیادہ کسی کو (بندوں کا) معذرت کرنا پسند نہیں، اسی لیے اس نے جنت کی خوشخبری دینے اور جہنم سے ڈرانے کے لیے انبیاء مبعوث کیے، تاکہ لوگ انبیاء کی تعلیمات کو اپنا کر اور اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر اللہ کی رضا کے حقدار بن جائیں۔ النسآء
166 154۔ ابن اسحاق اور بن جریر نے اور بیہقی نے الدلائل میں ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ کچھ یہودی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے، آپ نے ان سے کہا، اللہ کی قسم ! مجھے معلوم ہے کہ تمہیں میرے رسول ہونے کا علم ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں اس کا علم نہیں، تو یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر یہ لوگ آپ کی رسالت کی گواہی نہیں دیتے ہیں تو نہ دیں، اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ قرآن اس نے آپ پر اتارا ہے، اسے اس کا علم ہے اور فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں، اور اللہ کی گواہی کافی ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علہ وسلم کو ایک قسم کی تسلی دی گئی ہے۔ النسآء
167 155۔ آیات 167، 168، 169 میں ان لوگوں کا انجام بتایا گیا ہے جو کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، اور دوسروں کو بھی اللہ کا دین قبول کرنے سے روکتے ہیں کہ اللہ نہ انہیں معاف کرے گا، اور نہ راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرے گا، بلکہ ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا جس میں وہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے۔ النسآء
168 النسآء
169 النسآء
170 156۔ اس آیت کریمہ میں تمام بنی نوع انسان کے لیے اعلان عام ہے کہ خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، اور آپ دین حق لے کر دنیا والوں کی ہدایت کے لیے آئے ہیں، اللہ نے فرمایا، اے لوگو ! تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ تم ان پر ایمان لے آؤ، اور اگر تم کفر کی راہ اختیار کرو گے، تو جان لو کہ آسمان و زمین اسی کی ملکیت ہے، اور وہ تمہیں عذاب دینے پر قادر ہے، بعض علماء نے اس کی تفسیر یوں کی ہے کہ اگر تم کفر کرو گے تو جان لو کہ وہ تم سے بے نیاز ہے، نہ تمہارے کفر سے اسے کوئی نقصان پہنچے گا، اور نہ تمہارے ایمان سے کوئی فائدہ۔ النسآء
171 157۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کو دین میں غلو کرنے سے منع فرمایا ہے، اس لیے کہ ہر دور میں یہ برائی ان کے اندر دوسروں کی بہ نسبت زیادہ پائی گئی، انہوں نے دین میں رہبانیت اور عورتوں سے کنارہ کشی کو ایجاد کیا، اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا مقام دیا، بلکہ اپنے علماء اور راہبوں تک کو اپنا معبود بنا لیا، جیسا کہ اللہ نے فرمایا، اتخذوا احبارہم ورھبانہم اربابا من دون اللہ، کہ انہوں نے انے علماء اور راہبوں کو معبود بنا لیا۔ بخاری نے عمر بن خطاب (رض) سے روایت کی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری تعریف میں حد سے زتجاوز نہ کرو، جیسا کہ نصاری نے ابن مری کے سلسلہ میں کیا، میں اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو، اس حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت مسلمہ کو تنبیہ کی ہے کہ جس بیماری میں نصاری مبتلا ہوئے، اس میں وہ مبتلا نہ ہوں، ناری نے عیسیٰ بن مریم کو مقام نبوت سے اٹھا کر مقام الوہیت تک پہنچا دیا، اور انہیں اللہ کا بیٹا بنا دیا، حالانکہ اللہ نے انہیں مریم کے طبن سے بغیر باپ کے حضرت آدم کی طرح پیدا کر کے اپنی قدرت کاملہ کی ایک نشانی بنائی تھی، وہ اللہ کے بندہ اور رسول تھے، اس سے زیادہ ان کی حیثیت نہیں تھی، لیکن ان کے ماننے والوں نے انہیں اپنا معبود بنا لیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو آگاہ کیا ایسا نہ ہو کہ وہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معاملہ میں حد سے تجاوز کر جائیں، اور انہیں مقام رسالت سے اٹھا کر مقام الوہیت تک پہنچا دیں۔ افسوس ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس بات سے ڈرتے تھے وہی ہوا۔ بہت سے اسلام کا دعوی کرنے والوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا مقام دے دیا اور آپ کو حاجت روا، مشکل کشا اور وہ سب کچھ سمجھنے لگے جو اللہ کی قدرت اور اس کی صفات میں داخل ہیں اور نعوذ باللہ نقل کفر کفر نہیں ہوتا، پکار اٹھ کہ وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہوکر اتر پڑا ہے مدینہ میں مصطفی ہو کر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے حال پر رحم کرے، انہیں خالص توحید کی راہ پر ڈال دے اور قرآن و سنت کا سچا متبع بنا دے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی نہ کرو، اسے ایسی صفات کے ساتھ متصف نہ کرو جن کے ساتھ اس کا متصف ہونا محال ہے، جیسے یہ اعتقاد رکھنا کہ اللہ اپنی مخلوقات میں حلول کیے ہوئے ہے، نیز اللہ اور بندے میں فی الواقع کوئی فرق نہیں، اس لیے کہ وہ اپنے بندوں خے ساتھ متحد ہے، یا یہ اعتقاد رکھنا کہ اللہ کی بیوی یا اس کا بیٹا ہے، اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اس کے علاوہ کوئی رب نہیں، اسی لیے عیسیٰ بن مریم کے بارے میں عیسائیوں کے عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ عیسیٰ بن مریم صرف اللہ کے رسول تھے، اللہ نے انہیں بغیر باپ اور بغیر نطفہ کے صرف کلمہ کن سے پیدا کیا، جس اس نے مریم بنت عمران تک جبرئیل (علیہ السلام) کے پھونک کے ذریعہ پہنچادیا اور عیسیٰ ایک روح تھے، جسے اللہ نے دیگر تمام مخلوق روحوں کی طرح پیدا کیا تھا، اور روح کی نسبت اللہ نے اپنی طرف عیسیٰ (علیہ السلام) کی تکریم کے لیے کی ہے۔ بعض علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ روح سے مراد مریم کی گریبان میں جبرئیل (علیہ السلام) کی وہ پھونک ہے جس کی وجہ سے اللہ کے حکم سے مریم کو حمل قرار پا گیا، اور اس پھونک کو روح اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ ایک ہوا تھی جو روح سے خارج ہوئی اور اس کی نسبت اللہ نے اپنی طرف اس وجہ سے کی کہ وہ اللہ کے حکم سے پائی گئی تھی اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جب عیسیٰ کی پیدائش کی حقیقت معلوم ہوگئی اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ اللہ کے رسول تھے، تو پھر ایمان رکھو کہ اللہ اکیلا ہے، اس کی بیوی یا بیٹا نہیں، اور عیسیٰ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے، اس لیے یہ نہ کہو کہ اللہ (اللہ مسیح اور مریم) تینوں کے مجموعہ کا نام ہے حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ نصاری کے کفر کی کوئی حد نہیں اور نہ ان کی گمراہیوں کی کوئی انتہا ہے ان میں سے کچھ لوگ عیسیٰ کو اللہ کا بیٹٓ قرار دیتے ہیں، عیسائیوں کے بہت سے گروہ ہیں، جن کی مختلف رائیں اور متناقض اقوال ہیں، ان کے انہی فکری تناقض و تباین کی وجہ سے، بعض متکلمین نے کہا ہے کہ اگر دس نصرانی ایک جگہ جمع ہوجائیں تو ان کے آپس میں اختلاف کی وجہ سے گیارہ مختلف اقوال پیدا ہوں گے۔ علمائے اسلام نے عیسائیوں کے اس عقیدہ تثلیث کی تردید کی ہے، اور ثابت کیا ہے کہ یہ عقیدہ عقل و منطق کے خلاف ہے، اس وقت امریکہ اور برطانیہ وغیرہ میں ایسے بہت سے عیسائی پائے جاتے ہیں جو عیسیٰ (علیہ السلام) کو معبود حقیقی نہیں مانتے، بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ معبود حقیقی صرف ایک اللہ ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں کو خطاب کر کے کہا کہ تم لوگ عقیدہ تثلیث سے باز آجاؤ، اسی میں تمہارے لیے ہر بھلائی ہے، اس لیے کہ معبود صرف ایک اللہ ہے، وہ اس عقیدہ سے برتر و بالا اور پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو، کیونکہ آسمان اور زمین کی ہر چیز اس کی ملکیت ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کا مملوک و مخلوق اس کا ایک جزو بن جائے؟ تمام مخلوقات کے معاملات اللہ کے حوالے ہیں، اور وہ ان سب سے بے نیاز ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنا لے، بیٹا تو اس کا ہوتا ہے جو عاجز، کمزور اور محتاج ہوتا ہے، تاکہ وہ اس کا قائم مقام بن سکے۔ النسآء
172 158۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے عیسائیوں کے باطل عقیدہ کے برعکس عظیم شہادت ہے کہ انہیں اللہ کا بندہ ہونے سے کب انکار ہوسکتا ہے، اللہ کے لیے عبودیت تو وہ عزت و شرف ہے جس پر انہیں ناز ہے، یہی شہادت اللہ تعالیٰ نے مقرب فرشتوں کے لیے بھی دی ہے کہ انہیں بھی اللہ کے لیے اپنی عبودیت پر ناز ہے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جو اللہ کی عبادت سے منہ موڑے گا اور کبر و غرور سے کام لے گا، تو اللہ انہیں قیامت کے دن حسب و عدہ جمع کرے گا اور ان کے بارے میں اپنا عادلانہ فیصلہ صادر فرمائے گا۔ النسآء
173 159۔ گذشتہ آیت میں اللہ کی عبادت سے منہ موڑنے والے کو ایک قسم کی دھمکی دی گئی ہے، تو اس آیت میں ایمان اور عمل صالح کرنے والون کو یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ اللہ ان کی نیکیوں کا پورا پورا بدلہ دے گا، اور آیت کے آخر میں اللہ عبادت سے منہ موڑنے والوں کے انجام کی صراحت کردی گئی ہے کہ اللہ انہیں سخت عذاب دے گا، اور اس دن اللہ کے مقابلہ میں ان کا کوئی یار و مددگار نہ ہوگا۔ النسآء
174 160۔ کافروں کے تمام گروہوں کے عقائد کی تردید کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی، اور کہا کہ ان کی نبوت کی صداقت پر حجت تمام ہوچکی اور حق کو واضح کرنے والا نور (قرآن کریم) آچکا۔ اب جو لوگ اللہ پر ایمان لے آئیں گے اور اپنے تمام امور میں اسی پر بھروسہ کریں گے تو اللہ ان کے حال پر رحم کرے گا، انہیں جنت میں داخل کرے گا اور ان کے درجات بلند کرے گا اور صراط مستقیم کی طرف ان کی رہنمائی کرے گا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ مومنوں کی دنیا و آخرت میں یہ امتیازی شان ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں عیقدہ و عمل میں راہ راست پر گامزن ہوتے ہیں، اور آخرت میں اللہ تعالیٰ انہیں اس راہ راست پر ڈالے گا جو جنت کی طرف جا رہی ہوگی۔ النسآء
175 النسآء
176 161۔ اس آیت کریمہ میں کلالۃ کے میراث کی تفصیل بیان کی گئی ہے، جمہور علماء کے نزدیک کلالہ اس میت کو کہتے ہیں جس کی نہ کوئی اولاد ہو اور نہ والد، اس کی تشریح اسی سورت کی آیت 12 کی تفسیر کے ضمن میں گذر چکی ہے۔ اس آیت کے سبب نزول کے بارے میں آتا ہے کہ یہ فتوی جابر بن عبداللہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا، جیسا کہ بخاری و مسلم نے روایت کی ہے، انہوں نے کہا کہ میں مریض تھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے، آپ نے وضو کا پانی مجھ پر ڈالا تو مجھے ہوش آگیا، میں نے کہا کہ نہ میری کوئی اولاد ہے، اور نہ میرے والد زندہ ہیں، میری میراث کا کیا حکم ہوگا؟ تو یہ آیت نازل ہوئی۔ فوائد : 1۔ مسند احمد میں ہے کہ زید بن ثابت (رض) سے شوہر اور بہن کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے شوہر اور بہن کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے شوہر کو نصف اور بہن کو صف دیا اور کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی فیصلہ کیا تھا۔ 2۔ اگر کوئی شخص ایک بیٹی اور ایک بہن چھوڑ کر مرے گا، تو جمہور کے نزدیک بیٹی کو نصف (فرض کی حیثیت سے) اور بہن کو نصف (عاصب ہونی کی حیثیت سے) ملے گا۔ ابن عباس اور ابن زبیر (رض) کے نزدیک بہن کو کچھ بھی نہیں ملے گا، اس لیے کہ اس آیت میں بہن کے وارث ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ میت کی اولاد نہ ہو۔ 3۔ اگر کوئی شخص ایک بیٹی، ایک پوتی، اور ایک بہن چھوڑ کر مرے تو بیٹی کو نصف، پوتی کو چھٹا حصہ، اور باقی ایک تہائی بہن کو ملے گا، عبداللہ بن مسعود (رض) نے یہی فیصلہ کیا اور کہا کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی فیصلہ کیا ہے (بخاری) 4۔ اگر کسی عرت کو اولاد یا والد نہیں، اور اس کا بھائی ہے تو بھائی اس کی تمام جائداد کا وارث ہوگا 5۔ اگر عورت کا شوہر یا اس کی ماں کی طرف سے کوئی بھائی ہے تو وہ اپنا حصہ پائے گا، اور باقی مال سگے بھائی کو ملے گا۔ 6۔ اگر میت کی دو یا زیادہ بہنیں ہوں تو انہیں دو تہائی مال ملے گا جمہور نے دو بیٹیوں کی وراثت کا حکم اسی سے اخذ کیا ہے جیسے بہنوں کی وراثت کا حکم سورۃ النساء کی آیت (11) سے اخذ کیا گیا ہے جس میں بیٹیوں کی وراثت کا حکم بیان ہوا ہے۔ آیت یہ ہے فان کن نساء فوق اثنتین فلہن ثلثا ما ترک، پس اگر دو سے زیادہ عورتیں ہوں تو انہٰں ترکہ کا دو تہائی ملے گا۔ 7۔ اگر میت کے بھائی اور بہن دونوں ہوں تو مرد کو عورت کے دوگنا ملے گا، آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے مسلمانو ! اللہ نے یہ احکام اس لیے بیان کردئیے ہیں، تاکہ تم ان مسائل میں حق بات چھوڑ کر اپنی طرف سے کوئی غلط فیصلہ نہ کر بیٹھو۔ النسآء
0 تفسیر سورۃ المائدہ : نام : اس سورت کا نام المائدہ ہے، آیت 114 میں اس لفظ کا ذکر آیا ہے، چونکہ مائدہ سے متعلق قصہ اس سورت میں مذکور امور میں سب سے عجیب و غریب ہے، اسی لیے سورت کا یہی نام رکھ دیا گیا۔ زمانہ نزول : اس میں ایک سو بیس آیتیں ہیں، اور بالاجماع مدنی سورت ہے۔ ترمذی نے عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ المائدہ اور سورۃ الفتح زمانہ نزول کے اعتبار سے آخری سورتیں ہیں، اور حاکم نے جبیر بن نضیر سے روایت کی ہے کہ میں نے حج کیا تو عائشہ (رض) کے پاس گیا، انہوں نے کہا کہ اے جبیر، کیا تم سورۃ المائدہ پڑھتے ہو؟ میں نے کہا، ہاں ! تو انہوں نے کہا یہ آخری سورت ہے جو نازل ہوئی تھی، اس میں جو چیزیں حلال بتائی گئی ہیں انہیں حلال جانو، اور جو حرام بتائی گئی ہیں انہیں حرام جانو، حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث شیخین کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔ امام احمد، عبد بن حمید، ابن جریر، طبرانی اور بیہقی وغیرہم نے اسماء بنت یزید سے، اور ابوعبید نے محمد بن کعب قرظی (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ المائدہ حجۃ الوداع میں مکہ اور مدینہ کے درمیان نازل ہوئی (اسماء بنت یزید کی روایت کی سند کو علامہ شاکر نے صحیح بتایا ہے) 1۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں مومنوں کو خطاب کر کے پانچ اہم احکام بیان کیے ہیں۔ 1۔ عقود و عہود کا پاس و لحاظ 2۔ جانوروں کے گوشت کی حلت 3۔ کچھ جانوروں کی حرمت، جن کا بیان آگے آئے گا 4۔ محرم کے لیے اور حدود حرم میں شکار کی حرمت 5۔ غیر محرم کے لیے اور غیر حرم میں شکار کی حلت لفظ عقود عام ہے، اس سے مراد وہ تمام احکام ہیں جو اللہ نے بندوں پر فرض کیے ہیں، اور وہ تمام عقود و عہود جو انسانوں کے درمیان دنیوی معاملات کے بارے میں طے پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندون کو ان تمام عقود و عہود کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے، کیونکہ ایمان کا یہی تقاضا ہے کہ مومن اللہ کا نافرمان نہ ہو، اور نہ اپنی اجتماعی زندگی میں خائن، بد عہد یا دھوکہ دینے والا بنے، المآئدہ
1 2۔ بہیمۃ سے مراد چوپائے ہیں اور انعام نعم کی جمع ہے، نعم اونٹ، گائے اور بکری کو کہتے ہیں، ابن عباس (رض) اور حسب بصری کا یہ قول ہے یعنی تمہارے لیے ان جانوروں کا گوشت کھانا حلال کردیا گیا ہے۔ خطرناک اور شکار کرنے والے جانور مثلاً شیر اور چیتا اور ناخن والے جانور انعام میں داخل نہیں ہیں۔ جن دیگر جانوروں کی خطرناک اور شکار کرنے والے جانور مثلا شیر اور چیتا، اور ناخن والے جانور انعام میں داخل نہیں ہیں۔ جن دیگر جانوروں کی حلت قرآن و سنت کے صریح نصوص سے ثابت ہے ان کا کھانا بھی حلال ہے، مثلا ہر نی اور جنگلی گدھا وغیرہ۔ اللہ نے سورۃ انعام آیت 145 میں فرمایا ہے قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ الا ان یکون میتۃ، آپ کہہ دیجئے کہ جو کتاب مجھے بذریعہ وحی دی گئی ہے، اس میں کسی کھانے والے کے لیے کوئی چیز حرام نہیں پاتا ہوں سوائے اس ککے کہ کوئی مردار جانور ہو، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے، یحرم کل ذی ناب من السبع و مخلب من الطیر (مسلم، احمد، ترمذی)۔ ہر دانت والا درندہ اور ہر چنگل والی چڑیا حرام ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ان کے علاوہ جانوروں کا کھانا حلال ہے بعض صحابہ کرام نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے مذبوحہ جانور کے پیٹ کے بچے کا بھی کھانا حلال قرار دیا ہے۔ 3۔ یعنی اس حلت سے وہ جانور مستثنی ہیں جن کے کھانے کی حرمت قرآن یا سنت میں بیان کردی گئی ہے۔ جیسے سورۃ مائدہ کی آیت 3 حرمت علیکم المیتۃ الایۃ میں جو کچھ بیان ہوا ہے، یا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ قول جو ابھی گذرا ہے کہ ہر ناخن والے جانور اور ہر پنجہ والی چڑیا کا کھانا حرام ہے۔ آیت کے اس حصہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہر سنت کتاب اللہ میں داخل ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن جانوروں اور چڑیوں کا کھانا حرام قرار دیا ہے، وہ سب باتفاق علماء الا ما یتلی علیکم میں داخل ہیں۔ اس کی ایک دلیل وہ مزدور والی حدیث بھی ہے جس کے باپ نے آ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ یارسول اللہ ! میرا یہ لڑکا فلاں کے یہاں مزدوری کرتا تھا، اور اس کی بیوی کے ساتھ زنا کیا ہے، اس بارے میں فیصلہ کردیجئے، تو آپ نے فرمایا : لاقضین بینکما بکتاب اللہ کہ میں تم دونوں کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا، حالانکہ رجم قرآن کریم میں منصوص نہیں ہے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا غیر محلی الصید، یعنی حالت احرام میں شکار کرنا حرام ہے، اور شکار کے علاوہ جانور حرام اور غیر احرام دونوں حالتوں میں حلال ہوگا، اس کے بعد فرمایا کہ اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے، کیونکہ وہ مالک کل ہے اسی لیے اس نے زمانہ جاہلیت میں عربوں میں رائج احکام کے خلاف حکم دیا ہے۔ المآئدہ
2 4۔ ابن عباس (رض) کے نزدیک شعائر سے مراد حج کے مناسک ہیں، دوسرے کے نزدیک اس سے مراد اللہ کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا کہ ان محرمات کا لحاظ رکھیں اور انہیں اپنے لیے حلال نہ بنا لیں، اسی طرح اس حکم میں حالت احرام کے محرمات اور حدود حرم کے محرمات سبھی شامل ہیں۔ شہر حرم سے مراد وہ چار مہینے ہیں جن میں قتال کرنا حرام تھا، یعنی ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب کے مہینے، ابتدائے اسلام میں ان مہینوں میں قتال کرنا حرام تھا، اس کے بعد یہ حکم قرآن کریم کی آیت (فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموہم) اور ان دیگر آیتوں کے ذریعہ منسوخ ہوگیا جن میں کفار سے قتال کا عام حکم دیا گیا ہے، چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل طائف سے ذی القعدہ میں جہاد کیا تھا، جمہوری علماء کا یہی مسلک ہے، ھدی سے مراد وہ جانور ہے جسے اللہ کے گھر کے لیے ہدیہ بھیج دیا جاتا تھا۔ قلائد سے مراد وہ جانور ہیں جنہیں جوتے وغیرہ کا ہار پہنا کر بیت اللہ کی طرف لے جایا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان جانوروں کو نہ چھیڑا جائے اور نہ انہیں غصب کیا جائے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جو لوگ حج یا عمرہ یا مکہ بغرض تجارت یا سکونت پذیر ہونے کے لیے جائیں تو انہیں روکا نہ جائے۔ شروع میں یہ حکم مسلمانوں اور مشرکوں سبھوں کے لیے عام تھا۔ لیکن جب سورۃ توبہ کی آیت 28 انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامہم ھذا۔ نازل ہوئی تو مشرکین کے حق میں یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ اسی لیے 9 ھ میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کو حجاج کا امیر بنا کر بھیجا تو حضرت علی (رض) کو بھی بھیجا، انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نیابت کرتے ہوئے مشرکین سے براءت کا اعلان کردیا، اور یہ کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا، اور کوئی ننگا بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا، بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ آیت صرف مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی، اس لیے یہ پہلے بھی محکم تھی اور اب بھی محکم ہے اس آیت کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد حرام میں ارتکاب معاصی اور شر پھیلانے کی نیت سے داخل ہونا چاہتا ہو تو حرم کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ اسے روک دیا جائے۔ جیسا کہ اللہ نے سورۃ حج کی آیت 25 میں فرمایا ہے ومن یرد فیہ بالحاد بظلم نذقہ من عذاب الیم، کہ جو بھی وہاں ظلم کے ساتھ الحاد کا ارادہ کرے گا، ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے اوپر جو حکم دیا تھا کہ حالت احرام میں اور حدود حرم میں شکار نہ کرو، اس کا مفہوم مخالف یہ تھا کہ جب احرام کھل جائے تو شکار کرنا جائز ہے اور حدود حرم کے باہر شکار کرنا جائز ہے۔ اسی حکم کی یہاں تصریح کردی گئی ہے۔ 6۔ 6 ھ میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو مشرکین مکہ نے انہیں عمرہ ادا کرنے کے لیے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ بعض مسلمانوں کے دلوں میں مدینہ پہنچنے کے بعد ان کے اس برے برتاؤ کی وجہ سے عام مشرکین سے انتقام کا جذبہ پیدا ہوا کہ کیوں نہ ان مشرکین کو حرم کی طرف جانے سے روکا جائے جو مدینہ کے قریب سے گذر کر مکہ جاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اس ارادہ کی تردید کی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ امانت، امانت والے کو پہنچا دو، اور خائن کے ساتھ خیانت نہ کرو، (ابو داود) 7۔ زیادتی اور حد سے تجاوز کرنے سے منع کرنے کے بعد مزید تاکید کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ مسلمان کا شیوہ زیادتی کرنا نہیں، بلکہ بھلائی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہے، مسلمان آپس میں گناہ اور ظلم و تعدی کے کامون میں تعاون نہیں کرتے، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ دیکھو، ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے، ان سے بچتے رہو، کیونکہ جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے، اور محرمات کے ارتکاب کی جرات کرتا ہے، اللہ نے ایسے لوگوں کے لیے بڑا شدید عذاب تیار کر رکھا ہے۔ المآئدہ
3 8۔ ان محرمات کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کی طرف ابتدائے سورت میں الا ما یتلی علیکم میں اشارہ ہوچکا ہے اور مردہ خون، خنزیر کا گوشت اور جو جانور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے گئے ہوں، ان کی حرمت کا بیان سورۃ بقرہ کی آیت 173 میں گذر چکا ہے المیتۃ سے مراد ہر وہ جانور ہے جو بغیر ذبح کیے یا بغیر شکار کیے از خود مرگیا ہو، اور الدم سے مراد وہ خون ہے جو جانور کو ذبح کرتے وقت تیزی سے اس کے جسم سے خارج ہوتا ہے، جسے فقہ اسلام کی اصطلاح میں دم مسفوح کہا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے سورۃ انعام میں فرمایا ہے او دما مسفوحا یعنی اللہ تعالیٰ نے جن ماکولات کو حرام قرار دیا ہے ان میں تیزی سے نکلنے والا خون بھی ہے اور الخنزیر سے مراد پالتو اور جنگلی دونوں قسم کے سور ہیں۔ اور اس کے گوشت سے مراد اس کے جس کے تمام اجزاء ہیں، اس میں چربی بھی شامل ہے۔ منخنقۃ سے مراد ہر وہ جانور ہے جو گھلا گھٹ جانے سے مر جائے۔ چاہے کوئی اس کا گلا گھونٹ دے یا از خود پھند لگنے سے اس کا گلا گھٹ جائے۔ موقوذۃ اس جانور کو کہتے ہیں جسے لکڑی یا ڈنڈے سے مار مار کر ہلاک کردیا گیا ہو۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ بکری کو ڈنڈے سے مار مار کر ہلاک کردیتے تھے، پھر اس کا گوشت کھاتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے عدی بن حاتم (رض) سے روایت کی ہے، کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! میں شکار کو چورے تیر سے مارتا ہوں، اور اسے لگ جاتا ہے (تو اس کا کیا حکم ہے؟) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر اس کی نوک شکار کو لگے تو اسے کھاؤ، اور اگر چوڑائی کی طرف سے اسے لگے تو وہ وقیذ ہے، یعنی جسے لکڑی سے مار کر ہلاک کردیا گیا ہو، اسے نہ کھاؤ، امام شوکانی نے اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بندوق سے شکار کیے ہوئے جانور کا گوشت حلال قرار دیا ہے، اس لیے کہ اس کی گولی جانور کے جسم کو پھاڑ کر دوسری جانب نکل جاتی ہے۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ اگر شکار کو کسی عریض تیر سے مارو اور وہ اس کے جسم کو پھاڑ دے تو اسے کھاؤ۔ متردیۃ وہ جانور ہے جو پہاڑ سے نیچے گر کر یا کنواں میں گر کر مرگیا ہو۔ نطیحۃ وہ جانور ہے جسے کسی دوسرے جانور نے کھالیا ہو اور وہ جانور مر گیا ہو، اہل جاہلیت ایسے جانوروں کا گوشت کھاتے تھے۔ 9۔ مذکورہ بالا جانور اگر مرنے سے پہلے اللہ کا نام لے کر ذبح کردئیے جائیں، تو ان کا کھانا جائز ہوگا۔ ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ اگر مذکورہ جانوروں میں روح باقی ہو، اور انہیں ذبح کردیا جائے، تو ان کا کھانا جائز ہوگا، علی بن ابی طالب رضٰ اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگر موقوذۃ، متردیہ، اور نطیحہ جانور ہاتھ یا پاؤں ہلا رہے ہوں، اور انہیں ذبح کردیا جائے تو ان کا کھانا جائز ہوگا۔ طاؤس، حسن، قتادہ اور ضحاک وغیرہم کا یہی قول ہے، اور جمہور فقہاء کا بھی یہی مذہب ہے 10۔ مشرکینِ مکہ نے بیت اللہ کے ارد گرد بہت سے پتھر نصب کر رکھے تھے، جن پر جانوروں کو ذبح کرتے، اور ان کے گوشت کے ٹکڑے بناتے تھے، وہ لوگ ان پتھروں کی تعظیم کرتے تھے، اور ذبح کے ذریعہ ان پتھروں کے تقرب کی نیت کرتے تھے انہی پتھروں کو انصاب کہا جاتا تھا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اللہ نے مسلمانوں کو ایسا کرنے سے منع فرمایا اور ان ذبائح کو حرام قرار دیا، چاہے ذبح کے وقت ان پر اللہ کا نام لیا گیا ہو، اس لیے کہ ایسے پتھروں کے پاس ذبح کرنا شرک باللہ ہے، جسے اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے۔ وما اھل لغیر اللہ، میں تقریبا یہی حکم بیان کیا گیا ہے، لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ وما ذبح علی النصب میں ان جانوروں کا حکم بیان کیا گیا ہے جنہیں بتوں کے لیے ذبح کیا گیا ہو، اور وما اھل لغیر اللہ میں ان جانوروں کا جنہیں انبیاء و اولیاء کے لیے ذبح کیا گیا ہو۔ اسلام میں تو اللہ کے لیے بھی ایسی جگہ ذبح کرنا جائز نہیں، جہاں غیر اللہ کے لیے ذبح کیا جاتا ہو ابو داود نے ثابت بن ضحاک (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے بوانہ کے مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی، اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا، تو آپ نے دریافت کیا کہ کیا زمانہ جاہلیت میں وہاں کسی بت کی پوجا ہوتی تھی؟ لوگوں نے کہا، نہیں، آپ نے پوچھا، کیا وہاں جاہلیت کی کوئی عید منائی جاتی تھی ؟ لوگوں نے کہا نہیں، تو آپ نے اس آدمی سے کہا کہ اپنی نذر پوری کرو، اللہ کی نافرمانی کر کے نذر نہیں پوری کی جائے گی، اور نہ ایسی نذر جس کا آدمی مالک نہ ہو۔ 11۔ زمانہ جاہلیت میں عربوں کا دستور تھا کہ وہ تیروں کے ذریعہ خیر و شر کا فیصلہ جاننے کی کوشش کرتے تھے۔ بیت اللہ میں تین قسم کے تیر رکھے ہوتے تھے۔ ایک پر لکھا ہوتا تھا کہ کرد دوسرے پر لکھا ہوتا تھا کہ نہ کرو اور تیسرا خالی ہوتا تھا۔ بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ ایک پر لکھا ہوتا تھا کہ میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے۔ دوسرے پر لکھا ہوتا تھا کہ میرے رب نے مجھے روک دیا ہے۔ اور تیسرا خالی ہوتا تھا جب کوئی آدمی سفر یا شادی وغیرہ کا ارادہ کرتا۔ تو بیت اللہ کے نگہبانوں کے پاس آتا، اور کہتا کہ میرے لیے ایک تیر نکال دو، نگرانِ کعبہ تیروں کو خوب گھمانے کے بعد ایک تیر نکال لیتا۔ اگر حکم و اجازت والا تیر ہوتا تو اس کام کو کر گذرتا، اگر نہی اور منع والا ہوتا تو اپنے ارادہ سے باز آجاتا۔ اور اگر خالی تیر ہوتا تو تیروں کے گھمانے اور ایک تیر نکال لینے کے عمل کو دہرایا جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو فسق کہا اور حرام قرار دیا، اس لیے کہ یہ علم غیب میں مداخلت ہے جسے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ اس کے علاوہ اس میں غیر اللہ کے ذریعہ ایک قسم کا طلب مدد ہے، جو بہرحال شرک ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو استخارہ کی تعلیم دی، تاکہ کوئی کام کرنے سے پہلے اللہ سے خیر کی دعا کرلیں۔ امام احمد، بخاری اور اصحاب سنن نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں تمام امور میں اللہ تعالیٰ سے استخارہ کی اسی طرح تعلیم دیتے تھے جیسے ہمیں سورۃ فاتحہ کی تعلیم دیتے تھے 12۔ اس معنی کی وضاحت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے مسلم نے جابر (رض) سے روایت کی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شیطان اس بات سے ناامید ہوگیا ہے کہ جزیرہ عرب میں نماز پڑھنے والے اس کی عبادت کریں، لیکن وہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرتا رہے گا۔ 13۔ اللہ تعالیٰ نے امت اسلامیہ پر اپنی عظیم نعمت اور عظیم احسان کا ذکر کیا ہے کہ اللہ نے انہیں ایک مکمل دین عطا کیا ہے، انہیں اب نہ کسی دوسرے دین کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی دوسرے نبی کی۔ امام احمد اور بخاری و مسلم وغیرہم نے طارق بن شہاب (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک یہودی عمر بن خطاب (رض) کے پاس آیا اور کہا کہ اے امیر المومنین ! آپ لوگ اپنی کتاب میں ایک ایسی آیت پڑھتے ہیں کہ اگر وہ ہم پر نازل ہوئی ہوتی، تو اس دن کو ہم یوم عید بنا لیتے۔ انہوں نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے؟ تو یہودی نے کہا الیوم اکملت لکم دینکم الایۃ تو حضرت عمر (رض) نے کہا کہ اللہ کی قسم، میں اس دن اور اس وقت کو خوب جانتا ہوں جب یہ آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی تھی، یہ آیت جمعہ کے دن عرفہ کی شام میں نازل ہوئی تھی۔ 14۔ اس کا تعلق مذکورہ بالا محرمات سے ہے، بیچ کا حصہ بطور جملہ معترضہ ہے، جس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ ان محرمات کا استعمال فسق اور حرام ہے، اور ان اشیاء کی حرمت دین کامل کا ایک حصہ اور اتمام نعمت ہے، یہاں یہ حکم بیان کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی جان بچانے کے لیے ان حرام چیزوں میں سے کسی کے استعمال کرنے پر مجبور ہوجائے، اور ضرورت سے زیادہ استعمال نہ کرے، اور اس کا مقصد کسی پر زیادتی کرنا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیں گے۔ المآئدہ
4 15۔ مذکورہ بالا آیت میں کبائث کا بیان ہونے کے بعد جن کا کھانا انسان کے لیے نقصان دہ ہے، اب یہاں طیب اور حلال چیزوں کا بیان ہورہا ہے طبرانی، حاکم بیہقی اور ابن جریر وغیرہم نے ابو رافع (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا، تو لوگوں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! ہمارے لیے کن چیزوں کا کھانا حلال ہے؟ تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے کہ قبیلہ طائی کے عدی بن حاتم اور زید بن مہلہل (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ ہم لوگ کتوں اور بازوں کے ذریعہ شکار کرتے ہیں تو یہ آیت نازل ہوئی آیت میں طیبات سے مراد ہر وہ چیز ہے جو خبیث نہیں ہے، اور ہر وہ چیز خبیث نہیں ہے جس کی حرمت قرآن و سنت میں وارد نہیں ہوئی ہے۔ جوارح سے مراد وہ جانور ہیں جنہیں آدمی شکار کرنے کے لیے سدھا لیتا ہے، جیسے کتا، چیتا، چیل، باز اور شاہین وغیرہ۔ آیت میں کلمہ مکلبین حرف لام پر زیر اور زبر دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ حرف لام پر زیر کی صورت میں معنی یہ ہوگا کہ ان جانووں کو اس فن کے ماہرین نے تربیت دی ہو، اور زبر کی صورت میں معنی یہ ہوگا کہ ان سدھائے ہوئے جانوروں کے شکار کردہ جانور کے حلال ہونے کی شرط یہ ہے کہ انہیں خوب اچھی طرح تربیت دی گئی ہو، اور ایسے لوگوں نے تربیت دی ہو جو اس فن کے ماہر ہوں۔ 16۔ یعنی وہ سدھائے ہوئے جانور جن جانوروں کا شکار کریں، اور اس کا کچھ حصہکھایا نہ ہو تو ان کا کھانا جائز ہے، چاہے انہیں مار دیا ہو 17۔ یعنی سدھائے ہوئے جانوروں کو شکار چھوڑنے سے پہلے بسم اللہ کہہ لیا کرو۔ امام بخاری نے کتاب الذبائح و الصید میں عدی بن حاتم (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا اگر تم اپنے سکھائے ہوئے کتے کو چھوڑو، اور بسم اللہ کہہ لو تو جس شکار کو وہ تمہارے لیے پکڑ رکھے اسے کھاؤ، چاہے اسے مار ڈالے۔ معلوم ہوا کہ ایسے شکار کے حلال ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ سدھائے جانور کو چھوڑنے سے پہلے بسم اللہ کہہ لیا ہو، اور دوسری شرط یہ ہے کہ شکار کردہ جانور کا کوئی حصہ سدھائے ہوئے جانور نے نہ کھایا ہو۔ امام احمد اور ابوداود نے عدی بن حاتم (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تم کسی کتا یا باز کو سدھار کر شکار پر چھوڑو، اور بسم اللہ کہہ لو تو جس شکار کو وہ تمہارے لیے پکڑ رکھے اسے کھاؤ، عدی نے کہا، چاہے اسے مار دیا ہو؟ تو آپ نے فرمایا کہ اگر اسے مار دیا ہو اور اس کا کوئی حصہ کھایا نہ ہو، تو گویا اس نے اسے تمہارے لیے پکڑ رکھا تھا۔ امام بخاری نے عدی بن حاتم (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا، تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم اپنے سکھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑو، اور وہ اسے قتل کردے تو اسے کھاؤ، اور اگر اس کا کچھ حصہ کھا لے تو نہ کھاؤ، اس لیے کہ اس نے اپنے لیے پکڑا تھا، میں نے کہا کہ میں اپنا کتا چھوڑتا ہوں تو اس کے ساتھ ایک دوسرا کتا ہوجاتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ نہ کھاؤ، اس لیے کہ تم نے اپنے کتا کے لیے بسم اللہ کہا تھا، دوسرے کے لیے نہیں۔ امام بخاری نے عدی بن حاتم (رض) سے ہی کتاب الذبائح و الصید میں روایت کی ہے کہ میں نے کہا، اے اللہ کے رسول ! ہم سکھائے ہوئے کتوں کو شکار پر چھوڑتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا جس شکار کو وہ تمہارے لیے پکڑ کر رکھیں، اسے کھاؤ۔ میں نے پوچھا کہ چاہے انہیں مار دیا ہو؟ تو آپ نے فرمایا، چاہے انہیں مار دیا ہو، میں نے پوچھا کہ ہم لوگ چوڑے تیر سے شکار کرتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ اگر اس کی نوک اس کے جسم میں داخل ہوجائے تو کھاؤ اور اگر چوڑائی کی طرف سے شکار کو لگے تو نہ کھاؤ المآئدہ
5 18۔ مزید تاکید کے طور پر اللہ کے نے فرمایا کہ اچھی چیزوں کے تمہارے لیے حلال کیا گیا ہے۔ اس کے بعد یہود و نصاری کے ذبیحوں کا حکم بیان کیا گیا ہے، ابن عباس، مجاہد اور سعید بن جبیر وغیرہم سے مروی ہے کہ یہاں اہل کتاب کے کھانے سے مراد ان کے ذبائح ہیں۔ علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ ان کے ذبائح مسلمانوں کے لیے حلال ہیں۔ اس لیے کہ وہ لوگ بھی مسلمانوں کی طرح غیر اللہ کے لیے ذبح کو حرام سمجھتے ہیں، اور اگرچہ وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتے ہیں، لیکن ذبح کرتے وقت اللہ کا ہی نام لیتے ہیں۔ اما شوکانی کہتے ہیں، یہ آیت دلیل ہے کہ اہل کتاب کے تمام کھانے (چاہے وہ گوشت ہو یا اس کے علاوہ کوئی اور کھانا) مسلمانوں کے لیے حلال ہیں، اس کے بعد ان کے ان ذبائح کے بارے میں جنہیں بسم اللہ کہہ کر ذبح نہ کیا گیا ہو، یا کسی اور کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو علمائے اسلام کا اختلاف بیان کی اہے، اور علی، عائشہ اور ابن عمر (رض) وغیرہم کا قول نقل کیا ہے کہ اگر کتابی نے ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیا ہے تو اسے نہ کھاؤ۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ اگر اس بات کا علم نہ ہو کہ اس نے ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیا تھا تو ال کیا طبری اور ابن کثیر نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے ایسے ذبیحہ کے کھانے کی حلت پر علمائے اسلام کا اجماع نقل کیا ہے۔ اور اس حدیث کی بنیاد پر جسے بخاری نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بھنی ہوئی بکری کا گوشت کھایا جو یہودیہ نے آپ کے لیے بھیجا تھا اور عبداللہ بن مغفل (رض) کی اس حدیث کی بنا پر جسے بخاری و مسلم نے روایت کی ہے کہ خیبر کے دن انہیں چربی کا ایک تھیلا ملا جسے انہوں نے اپنے لیے رکھ لیا اور کہا کہ اس میں سے کسی کو نہ دوں گا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سن کر ہنسنے لگ۔ محمد الدلیمی السوسی المالکی نے اپنے فتاویٰ میں ابن العربی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر کوئی نصرانی مرغی کی گردن اڑا دے تو مسلمان کے لیے اس کا کھانا حلالا ہوگا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کھانے ہمارے لیے حلال کیے ہیں اور اگر وہ لوگ اپنے دین کے مطابق کسی جانور کو ذبح کرتے ہیں، تو ہمارے لیے اس کا کھانا حلال ہوگا، یہ کوئی ضروری نہیں کہ وہ ہماری طرح ذبح کریں، اس لیے کہ یہ اللہ کی طرف سے رخصت اور آسانی دی گئی ہے اس سے وہی چیزیں مستثنی ہوں گی جنہیں اللہ نے واضح طور پر حرام قرار دیا ہے۔ 19۔ مسلمانوں کے ذبائح اہل کتاب کے لیے حلال ہیں، یعنی مسلمانوں کے لیے یہ حلال ہے کہ وہ اہل کتاب کو اپنا ذبیحہ کھلائیں 20۔ محصنات سے مراد پاکدامن مسلمان عورتیں ہیں، جنہوں نے زنا کا ارتکاب نہ کیا ہو ابن جریر نے علمائے سلف کی ایک جماعت کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اس سے مراد ہر پاکدامن کتابیہ ہے چاہے وہ آزاد ہو یا لونڈی، بعض لوگوں نے محصنات سے مراد آزاد کتابیہ عورتیں لی ہیں، ان کے نزدیک کتابیہ لونڈی سے شادی کرنی جائز نہیں ہے۔ بیہقی، عبدالرزاق اور ابن جریر وغیرہم نے حضرت عمر (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ مسلمان نصرانی عورت سے شادی کرے گا، لیکن نصرانی مرد کسی مسلمان عورت سے شادی نہیں کرے گا۔ بہت سے صحابہ کرام نے نصرانی عورتوں سے شادی کی تھی، اور ان پر کسی نے نکیر نہیں کی۔ حضرت عثمان رضٰ اللہ عنہ نے نائلہ سے شادی کی تھی جو نصرانیہ تھی۔ طلحہ بن عبید اللہ (رض) نے ایک یہودیہ سے شادی کی تھی۔ ابن عمر رضٰ اللہ عنہما نے اسے مکروہ جانا اور کہا کہ اس سے بڑھ کر شرک کیا ہوسکتا ہے کہ کوئی عیسیٰ کو اپنا رب سمجھے۔ 22۔ کتابیہ عورتوں سے شادی کے جواز کے لیے شرط لگا دی گئی کہ ان کا مہر ادا کردیا گیا ہو، اور مقصود شادی کرنا اور عفت حاصل کرنا ہو، اعلانیہ یا چھپا کر زنا کی نیت نہ ہو حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ پاکدامنی جس طرح عورت میں شرط ہے اسی طرح مرد میں بھی شرط ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے غیر مسافحین کہا، یعنی شادی کرنے والے مرد کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ زانی نہ ہو۔ 23۔ ایمان سے مراد اسلام کے احکام ہیں۔ اور مقصود اللہ کے حلال کردہ اور حرام کردہ امور کی عظمت شان جتانا، اور ان لوگوں کو تنبیہ کرنی ہے جو ان احکامِ الٰہی کی مخالفت کرتے ہیں۔ المآئدہ
6 24۔ نماز کے لیے کھڑے ہونے سے پہلے وضو کے وجوب یا استحباب کے بارے میں علماء کے کئی اقوال ہیں : کسی نے ہر نماز کے لیے وضو کو ضروری قرار دیا ہے، چاہے آدمی کا وضو باقی ہو یا ٹوٹ گیا ہو۔ بعض دوسروں نے کہا ہے کہ آیت میں ہر نماز سے قبل وضو کا حکم استحباب کے لیے ہے۔ ایک تیسری جماعت نے کہا ہے کہ اس آیت کے مطابق ہر نماز سے پہلے وضو کرنا ضروری تھا۔ لیکن فتح مکہ کے وقت یہ حکم منسوخ ہوگیا، جمہور اہل علم کی رائے ہے کہ وضو صرف اس پر واجب ہے، جس کا وضو ٹوٹ گیا ہو، امام شوکانی نے اسی رائے کو ترجیح دیا ہے۔ بعض علمائے کرام نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے وضو میں نیت کو واجب قرار دیا ہے، اس لیے کہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جب نماز کے لیے کھڑے ہونے کا ارادہ کرو تو اپنے چہرے کو دھو لو۔ وضو شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ کہنا ضروری ہے۔ احمد، ابوداود اور ابن ماجہ وغیرہم نے ابوہریرہ رضی اللہ سے روایت کی ہے کہ جس نے وضو کے پانی پر بسم اللہ نہیں پڑھا، اس کا وضو نہیں ہوگا (شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے ارداء الغلیل میں حسن قرار دیا ہے۔ برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے دونوں ہاتھوں کا دھونا مستحب ہے، اور سو کر اٹھنے کے بعد ایسا کرنا ضروری ہے، اس لیے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے، جب تم میں سے کوئی نیند سے اٹھے، تو ہاتھ کو تین بار دھونے سے پہلے پانی میں نہ ڈالے، اس لیے کہ وضو میں چہرہ دھونا واجب ہے، اور وہ سر کا بال اگنے کی جگہ سے ٹھڈی کے آخر تک اور کان سے کان تک کی جگہ ہے۔ اگر داڑھی گھنی ہو تو اس میں انگلی ڈال کر خلال کرنا مستحب ہے، امام احمد نے شقیق سے روایت کی ہے کہ عثمان (رض) نے تین بار داڑھی میں خلال کیا اور کہا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا ہی کرتے دیکھا تھا۔ دونوں ہاتھوں کا دھونا بھی واجب ہے، اور جمہور کے نزدیک ہاتھ میں کہنی بھی داخل ہے، امام مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے دایاں اور بایاں ہاتھ کہنی کے اوپر بازو تک دھویا، اور وضو سے فارغ ہونے کے بعد کہا کہ ایسے ہی میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے جمہور کی رائے ہے کہ دائیں کو بائیں پر مقدم کرنا سنت ہے۔ اگر کوئی شخص اس کے خلاف کرے گا تو اسے سنت کی فضیلت حاصل نہیں ہوگی، لیکن وضو صحیح ہوگا۔ جمہور اہل علم کا مسلک ہے کہ زخم یا ٹوٹی ہوئی ہڈی پر بندھی ہوئی پٹی پر مسح کرنا صحیح ہے۔ ابو داود اور دارقطنی نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کے لیے یہ کافی تھا کہ تیمم کرلیتا اور زخم پر پٹی باندھ کر اس پر مسح کرلیتا اور باقی جسم کو دھو لیتا۔ سر پر مسح کرنا واجب ہے صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض حالات میں سر کے بعض حصہ پر مسح کرنا ہی کافی ہوتا ہے۔ امام مسلم نے مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پیشانی اور عمامہ پر مسح کیا، اور دونوں موزوں پر مسح کیا۔ امام شوکانی نے لکھا ہے، سنت سے یہی ثابت ہے کہ سر کے بعض حصہ پر مسح کرنا کافی ہے، یہ بھی لکھا ہے کہ پورے سر کے مسح کی افضیلت میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن اسے واجب کہنے کی کوئی صریح دلیل نہیں ہے۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے زد المعاد میں لکھا ہے کہ کسی ایک حدیث سے بھی یہ بات ثابت نہیں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف سر کے بعض حصہ کا مسح کیا، بلکہ اگر آپ پیشانی پر مسح کرتے تو عمامہ پر مسح کی تکمیل کرتے۔ 25۔ ابن عباس (رض) نے وارجلکم کو لام کے نصب کے ساتھ پڑھا ہے، جمہور اہل اسلام کا مذہب یہی ہے کہ سر کے مسح کے بعد دونوں پاؤں کا دھونا واجب ہے۔ اور اسی قرات کی بنا پر جمہور نے وضو میں ترتیب کو واجب قرار دیا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ترتیب شرط نہیں ہے، یعنی اگر کوئی پہلے دونوں قدموں کو دھوئے پھر سر کا مسح کرے، پھر دونوں ہاتھ دھوئے، پھر چہرہ دھوئے، تو وضو صحیح ہوگا، لیکن راجح جمہور کا مسلک ہے، اور ترتیب وضو کی صحت کے لیے شرط ہے۔ صحیحین اور احادیث کی دوسری کتابوں میں جو صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں، ان سے یہی ثابت ہے کہ دونوں پاؤ ٹخنوں تک دھونا وضو کی صحت کے لیے شرط ہے۔ شیعہ حضرات دونوں پاؤں کے مسح کے قائل ہیں اور ان کی دلیل، وارجلکم میں لام پر زیر والی قرات ہے، جو بہرحال صحیح اور ثابت شدہ احادیث کے خلاف ہے، ابن العربی کہتے ہیں کہ وضو میں دونوں پاؤں دھونے کے وجوب پر امت کا اتفاق ہوچکا ہے، میرے علم کے مطابق فقہائے اسلام میں سے صرف طبری نے اس کی مخالفت کی ہے، اور روافض شیعہ نے۔ 26۔ اگر خروج منی اور شوہر بیوی کی شرمگاہوں کے مل جانے سے جناب لاحق ہوجائے تو غسل کرنا واجب ہے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کرنا واجب ہے، ایسی صورت میں تیمم غسل کے قائم مقام ہوگا۔ 27۔ اگر آدمی جنبی یا مریض ہو یا حالت سفر میں ہو یا پاخانہ سے فراغت حاصل کرے، یا کوئی اپنی بیوی سے جماع کرے اور طہارت حاصل کرنے کے لیے اسے پانی نہ ملے، تو پاک مٹی سے تیمم کرے، اور اپنے چہرہ اور دونوں ہاتھوں پر مسح کرلے (سورہ نساء میں اس آیت کی تفسیر گذر چکی ہے)۔ نماز کے لیے طہارت یا تیمم کے حکم سے مقصود بندوں کو تکلیف اور تنگی میں ڈالنا نہیں، بلکہ اللہ اپنے بندوں کو گناہوں سے پاک کرنا، اور اپنی نعمت کو ان پر تمام کرنا چاہتا ہے، اس نے ہر حال میں ان کے لیے اپنی عبادت کے اسباب مہیا کیے اور پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کے ذریعہ طہارت حاصل کرنے کی اجازت دی، تاکہ اللہ کے نیک بندے ان نعمتوں اور آسانیوں پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ المآئدہ
7 28۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو حکم دیا کہ نعمت ایمان پر اس کا شکر ادا کریں، اور اس عہد و میثاق کو یاد رکھیں جو اللہ نے ان سے کلمہ توحید کے اقرار کے ذریعہ لیا تھا کہ وہ اپنے رب کی اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے۔ صحابہ کرام نے نے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر ہر حال میں سمع و طاعت کی بیعت کی، تو زبان قال سے کہا کہ اے اللہ کے رسول, ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی، اور مسلمانوں نے جب اللہ کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کا اقرار کیا تو وہی بات زبان حال سے کہی، آیت میں اس کے بعد اللہ نے مسلمانوں کو تقوی کی زندگی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، اس لیے کہ اللہ دلوں کے بھید کو جاننے والا ہے۔ المآئدہ
8 29۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا کہ وہ اس کے تمام حقوق ادا کرتے رہیں، حق کی گواہی دیتے رہیں، اور کسی قوم کی عداوت انہٰں ناانصافی پر آمادہ نہ کرے، اس کے بعد اللہ نے عدل و انصاف کا حککم دیا، کیونکہ یہ بات تقوی کے زیادہ قریب ہے، اور نصیحت کی کہ وہ اللہ سے ڈرتے رہیں، اس لیے کہ اللہ بندوں کے تمام کرتوتوں کی خبر رکھتا ہے۔ المآئدہ
9 30۔ اس آیت میں اللہ نے اہل ایمان اور عمل صالح کرنے والوں کو خوشخبری دی ہے کہ اللہ ان کے گناہوں کو معاف کردے گا اور جنت میں مقام عطا فرمائے گا۔ اس کے بعد والی آیت میں قرآن کریم کے عام طریقہ کے مطابق اللہ نے یہ بتایا کہ جو شخص کفر کی راہ اختیار کرے گا اور اللہ کی آیتوں کو جھٹلائے گا، اللہ اسے جہنم میں داخل کرے گا۔ المآئدہ
10 المآئدہ
11 31۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کا اس کی نعمتوں پر شکر ادا کیا جائے اور اس پر مداومت برتی جائے۔ اس آیت کریمہ میں اسی بات کی نصیحت کی گئی ہے۔ اس آیت کے شان نزول کے بارے میں کئی روایتیں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک روایت امام بخاری، عبدالرزاق، ابن جریر اور بیقہی وغیرہم نے جابر (رض) سے روایت کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک سفر میں کسی مقام پر اترے۔ لوگ درختوں کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے بکھر گئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی تلوار درخت سے لٹکا دی، ایک دیہاتی نے اچانک آکر تلوار لے لی اور اسے سونت کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ آپ نے فرمایا اللہ دیہاتی نے دو یا تین بار یہی کہا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر بار جواب دیا کہ اللہ آخر کار دیہاتی نے تلوار کو میان میں رکھ دیا، تو آپ نے صحابہ کرام کو آواز دی اور دیہاتی کے رویہ کی خبر دی، جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بغل میں بیٹھا ہوا تھا، اور آپ نے اسے سزا نہیں دی۔ یہود اور مشرکین کی طرف سے بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنے کی مختلف سازشیں ہوئیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر بار آپ کی حفاظت فرمائی۔ المآئدہ
12 32۔ اس آیت کریمہ میں بنی اسرائیل کی بعض خیانتوں اور نقض میثاق کا ذکر کیا گیا ہے، اور مقصود مومنوں کو تنبیہ کرنی ہے کہ اللہ نے ان سے جو عہد و میثاق لیا ہے، اس کا پاس رکھیں، اور جس طرح بنی اسرائیل نے ان سے لیے گئے مواثیق کو توڑ دیا اس طرح نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کے بارہ قبائل سے بارہ نمائندے چنے اور انہیں قوم جبارین کا حال اور ان کی قوت و شوکت کا اندازہ کرنے کے لیے بھیجا، جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہ بہت ہی عظیم قوت کے مالک ہیں، اور ان کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا، انہوں نے آپس میں طے کرلیا کہ بنی اسرائیل کو یہ بات نہیں بتائیں گے، صرف موسیٰ (علیہ السلام) کو بتائیں گے، لیکن واپس آنے کے بعد ان میں سے دس نے خیانت کی اور اپنے اپنے رشتہ داروں کو بتادیا اور خبر پھیل گئی اور ان سے جنگ کرنے کا معاملہ سرد خانے میں پڑگیا، اور بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ تم اور تمہارا رب جا کر ان سے لڑے۔ حافظ ابن کثیر نے آیت کی تفسیر میں نقیب کا معنی عریف کیا ہے۔ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیی کے حکم سے بنی اسرائیل کے بارہوں قبائل سے بارہ عریف چنا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے اپنے قبیلہ کے لوگوں سے اللہ، اس کے رسول اور اس کی کتاب کی اطاعت کی بیعت لیں۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ ابتدائے اسلام میں مکہ مکرمہ میں عقبہ کی رات میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار سے بیعت لی تو ان کی تعداد بھی بارہ تھی تین قبیلہ اوس کے اور نو خزرج کے تھے، انہی لوگوں نے مدینہ آ کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے لوگوں سے بیعت لی تھی۔ اور امام بخاری و مسلم نے جابر بن سمرہ (رض) سے ایک حدیث روایت کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلفائے اسلام کی تعداد بھی بارہ ہوگی، لیکن یہ وہ وہ بارہ ائمہ نہیں ہوں گے جن کا رافضی شیعہ باطل اعتقاد رکھتے ہیں جس کی کوئی دلیل قرآن و سنت میں موجود نہیں ہے۔ 33۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے کہا کہ اگر تم نماز پڑھو گے، زکاۃ دو گے، میرے رسولوں پر ایمان لے آؤ گے ان کا ساتھ دو گے، اور فرض زکاۃ کے علاوہ اپنے مال سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تو میری نصرت و حمایت تمہارے ساتھ ہوگی، نیز میں تمہارے گناہوں کو معاف کردوں گا، اور تمہیں جنتوں میں داخل کروں گا۔ المآئدہ
13 34۔ اس آیت کریمہ میں بھی یہود کے خبث باطن کو بیان کیا گیا ہے، موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں ان سے عہد لیا گیا تھا کہ وہ تورات پر عمل کریں گے، اور کنعانیوں سے جنگ کر کے انہیں بیت المقدس سے نکال باہر کریں گے، لیکن انہوں نے اپنے اس عہد کا پاس نہیں رکھا، اس لیے اللہ نے ان پر لعنت بھیج دی، اور ان کے دل سخت بنا دئیے، جس کے نتیجہ میں انہوں نے اللہ کے کلام میں تحریف کیا، اور عیسیٰ اور محمد علیہما الصلاوۃ والسلام کی نبوت پر دلالت کرنے والی آیتوں کو بدل ڈالا، اور اللہ کی طرف سے جاری شدہ بہت سے احکام و شرائع کو پس پشت ڈال دیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ ان میں خیانت کرنے والی ایک جماعت کو ہمیشہ پائیں گے، سوائے ان چند افراد کے جنہوں نے اسلام کو قبول کرلیا جیسے عبداللہ بن سلام وغیرہ، اس لیے فی الحال آپ انہیں معاف کردیجئے اور درگذر فرمائیے، اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ المآئدہ
14 35۔ نصاری کا حال بھی یہود سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا۔ اللہ نے ان سے بھی عہد و پیمان لیا تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائیں گے، اور اس کی شریعت پر عمل کریں گے، لیکن انہوں نے بہت سے احکام الہی کو قصداً فراموش کردیا جس کے نتیجہ میں اللہ نے دنیا میں انہیں یہ سزا دی کہ وہ آپس میں عداوت اور بغض و حسد کرنے لگے۔ مختلف جماعتوں میں بٹ گئے اور ان کی آپس کی عداوت انتہا کو پہنچ گئی، اور ان کا یہ حال قیامت تک رہے گا، اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں ان کے شر و فساد اور ان کے برے کرتوتوں کی خبر دے گا، اور ان کی روحوں کی خباثت اور بد اعمالیوں کے مطابق انہیں بدلہ دے گا۔ المآئدہ
15 36۔ آیت 15، 16 میں اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاری کے حال پر رحم کھاتے ہوئے انہیں دین اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دی ہے، اور کہا ہے کہ بہت سی باتیں جو تم لوگ چھپاتے تھے، مثال کے طور پر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت، تورات میں رجم والی آیت، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت، تو اب ہمارے رسول بذریعہ وحی وہ باتیں بیان کر رہے ہیں، اور بہت سی باتوں کو نہیں بیان کرتے ہیں تاکہ تمہاری حد سے زیادہ فضیحت نہ ہوجائے، دیکھو، تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور کھلی کتاب آگئی ہے، جس کے ذریعہ اللہ اپنی رضا کے طلب گاروں کی آخرت کے عذاب سے سلامتی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور کفر کی تاریکی سے نکال کر نور ایمان کی توفیق دیتا ہے، اور دین حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ المآئدہ
16 المآئدہ
17 37۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں نصاری کے غلو، اور اللہ تعالیٰ کے حق میں ان کی انتہا درجہ کی زیادتی کو بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر فرمایا کہ جن لوگوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابن مریم کا نام ہے وہ کافر ہوگئے، اس لیے کہ انہوں نے اللہ کے ایک بندہ کو اللہ بنا دیا جسے اللہ نے پیدا کیا تھا۔ اس کے بعد اللہ نے اپنے رسول صلی الہ علیہ وسلم کو نصاری پر حجت قائم کرنے کا طریقہ بتایا کہ فرض کرلو اگر اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم، ان کی ماں، اور سارے جہان والوں کو ہلاک کردینے کا فیصلہ کرلے تو اسے کون روک سکے گا؟ اس کا جواب قطعی طور پر یہی ہوگا کہ کوئی نہیں، تو پھر اللہ کا ایک بندہ کیسے اللہ ہوسکتا ہے، یا معبود ہونے میں اس کا شریک کیسے بن سکتا ہے؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آسمان و زمین اور ان دونوں کے درمیان ہر شے کی ملکیت اللہ کے لیے ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے اس نے آڈم کو مٹی سے اور حوا کو آدم سے پیدا کی، اسی طرح اگر اس نے عیسیٰ کو مریم سے بغیر باپ کے پیدا کیا، تو عقلی یا شرعی طور پر کیسے ضروری ہوگیا کہ وہ اللہ ہوجائیں۔ المآئدہ
18 38۔ اس آیت کریمہ میں یہود و نصاریٰ کی ایک دوسری گمراہی بیان کی گئی ہے، وہ کہتے تھے کہ ہم تو اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب لوگ ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کی اور کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر اللہ تمہارے گناہوں کی وجہ سے تمہیں عذاب کیون دے گا، کہیں باپ اپنے بیٹے کو اور کوئی محب اپنے حبیب کو عذاب دیتا ہے، حالانکہ تم خود اپنی زبان سے اعتراف کرتے ہو کہ ہمٰں صرف چالیس دن کے لیے آگ میں ڈالا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ تمہارا یہ زعم جس کے سہارے تم جی رہے ہو سراسر باطل ہے، تم تو انسان ہو، اللہ تعالیٰ کا تم سے تعلق، خالق کا مخلوق سے اور مالک کا بندہ سے ہے جو ایمان لائے گا اور عمل صالح کرے گا اللہ اسے بخش دے گا اور جو کفر کرے گا اور برے اعمال کا ارتکاب کرے گا، اسے عذاب دے گا، اس پر کوئی اعتراض نہیں، کیونکہ ہر چیز کی ملکیت اسی کے لیے ہے۔ المآئدہ
19 39۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب پر ایک نئی حجت قائم کی ہے، اور انہیں خبر دی ہے کہ ان کے پاس اللہ رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسولوں کا سلسلہ ایک مدت تک منقطع ہونے کے بعد آچکے ہیں (اس لیے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان پر اٹھائے جانے کے تقریبا پانچ سو ستر سال کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے) تاکہ تم اپنے کفر و شرک اور شر و فساد کے لیے عذر لنگ پیش کرتے ہوئے یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس تو کوئی نبی آیا ہی نہیں، تو تمہارے اتمام حجت کے لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگئے ہیں، اب ان پر ایمان لے آؤ اور ان کی اتباع کرو تاکہ نجات حاصل کرو، ورنہ عذاب آخرت تمہارا انتظار کر رہا ہے، اس لیے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے تو وہ تمہیں دوبارہ زندہ کرنے اور عذاب دینے پر یقینا قادر ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الانبیاء میں ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں ابن مریم کا زیادہ حقدار ہوں اس لیے کہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں۔ المآئدہ
20 40۔ ذیل میں مذکور سات آیتوں میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک قسم کی تسلی دی گئی ہے، نیز اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی ہے کہ اگر آپ کے زمانہ کے یہود آپ کے خلاف سازشیں کرتے ہیں اور آپ پر ایمان نہیں لاتے، تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں، کیونکہ ان کے اسلاف نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کیا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ نے تم پر جو انعامات کیے ہیں انہیں یاد کرو، تم میں انبیاء مبعوث کیے اور تمہیں بادشاہوں کی حیثیت دی، کہ تم پر کسی دوسری قوم کی حکومت نہیں چلتی، اور تمہیں ایسی نعمتوں سے نوازا جو تمہارے زمانے کی دوسری قوموں کو نہیں ملیں۔ پھر کہا، اے میری قوم ! تم لوگ مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ، جس میں اللہ نے تمہارے لیے سکون و قرار رکھا ہے، تم لوگ شہر کا دروازہ کھول کر اچانک دشمن پر حملہ کردو، اور انہیں مغلوب بنالو، اور شکست خودرہ ہو کر پیچھے مڑ کر نہ بھاگو، لیکن انہیں نے ایک بات نہ مانی اور موسیٰ (علیہ السلام) کو جواب دیا کہ اے موسیٰ ! اس شہر میں تو جبابرہ لوگ رہتے ہیں، ہم تو وہاں نہیں جائیں گے، جب تک وہ لوگ اس شہر سے نکل نہیں جاتے۔ اور ان کی اس ذہنی شکست کی وجہ یہ تھی کہ ان کے دس نقیبوں نے عمالقہ کے بارے میں اپنے قبائل کو ڈرایا تھا، صرف یوش بن نون اور کالب بن یوحنا نے راز کی حفاظت کی تھی، جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ دو آدمی جو اللہ سے ڈرنے والے تھے اور جن پر اللہ کا فضل تھا انہوں نے کہا کہ اگر تم لوگ اچانک شہر کے دروازے میں داخل ہوجاؤ گے تو غالب آجاؤ گے، اگر تم لوگ اہل ایمان ہو تو تمہیں اللہ پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ لیکن انہوں نے پوری خست و دناءت کے ساتھ جواب دیا کہ جب تک وہ لوگ وہاں موجود ہوں گے ہم لوگ ہرگز داخل نہ ہوں گے، تم اور تمہارا رب جا کر ان سے جنگ کرے، ہم تو یہیں رہیں گے، تب موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے اعلان برات کرتے ہوئے کہا کہ اے میرے رب ! میں اور میرے بھائی ہارون اپنی اپنی ذات کے مالک ہیں (اس قوم سے ہم عاجز آگئے) اب ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ کردے۔ تو اللہ نے کہا کہ ہم نے چالیس ال تک کے لیے سرزمین مقدس کو ان پر حرام کردیا، یہ لوگ اب اسی صحرائے سینا میں بھٹکتے رہٰں گے، آپ ان فاسق لوگوں کے بارے میں کوئی افسوس نہ کریں۔ لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ صحابہ کرام کا معاملہ بالکل ہی مختلف رہا، امام بخاری نے عبداللہ بن مسعود رضٰ اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ مقداد بن الاسود بدر کے دن مشرکین پر بددعا کرتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا اللہ کی قسم، اے اللہ کے رسول ! ہم وہ نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ سے کہا کہ تم اور تمہارا رب جا کر جنگ کرے، ہم تو یہیں بیٹھیں گے ہم تو آپ کے دائیں، بائیں اور آپ کے آگے پیچھے جنگ کریں گے، ابن مسعد (رض) کہتے ہیں کہ میں دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چہرہ اس بات سے چمکنے لگا۔ المآئدہ
21 المآئدہ
22 المآئدہ
23 المآئدہ
24 المآئدہ
25 المآئدہ
26 المآئدہ
27 41۔۔ ذیل میں مذکورہ تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے آدم کے بیٹے ہابیل و قابیل کا واقعہ بیان کر کے حسد و سرکشی کا انجام بیان کیا ہے اور یہود کو یہ بتانا چاہا ہے کہ اگر وہ بھی حسد و سرکشی پر مصر رہے تو ان کا انجام بھی دنیا و آخرت میں بہت برا ہوگا۔ علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ ہابیل بکریاں پالتا تھا، اور قابیل کھیتی کرتا تھا، ہابیل نے اللہ کی رضا کے لیے ایک تندرست اور موٹی بکری ذبح کی، اور قابیل نے گھٹیاں قسم کا اناج اللہ کی راہ میں نکالا، ہابیل کا صدقہ قبول ہوگیا، اور قابیل کی بدنیتی کی وجہ سے اس کا صدقہ قبول نہیں کیا گیا، جس کے نرتیجہ میں قابیل حسد کا شکار ہوگیا۔ بعض دوسرے مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ نسل آدم کی افزائش کے لیے اللہ نے حضرت آدم کے دین میں یہ جائز قرار دیا تھا کہ حوا کے ایک حمل سے پیدا شدہ لڑکے اور لڑکی کی شادی ان کے دوسرے حمل کے لڑکے اور لڑکی سے ہو۔ ہابیل کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی وہ بدصورت تھی، اس لیے قابیل نے اپنی ہی بہن سے شادی کرنی چاہی، جھگڑا ختم کرنے کے لیے حضرت آدم (علیہ السلام) نے دونوں سے کہا کہ تم لوگ اللہ کی رضا کے لیے قربانی کرو، ہابیل کی قربانی قبول ہوگئی، اور قابیل کی رد کردی گئی، جس پر وہ حسد میں مبتلا ہوگیا، اور ہابیل سے کہا کہ میں تمہیں قتل کردوں گا، ہابیل نے کہا کہ اللہ اہل تقوی کی قربانی قبول کرت اہے، اگر تمہاری قربانی قبول نہیں ہوئی تو اپنے آپ کو کوسو میرا اس میں کوئی قصور نہیں، تو پھر مجھے کیوں قتل کرو گے؟ اگر تم بطور ظلم مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ بڑھاؤ گے تو میں اپنے دفاع میں تمہیں قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا۔ مجھے تو اللہ کا ڈر ہے جو سارے جہاں کا رب ہے۔ بخاری و مسلم نے ابوبکر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ف رمایا جب دو مسلمان اپنی اپنی تلوار لے کر ایک دوسرے کے مقابل آجائیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول ! قاتل کے بارے میں بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن مقتول کیوں جہنم میں جائے گا؟ آپ نے فرمایا کہ چونکہ وہ اپنے مقابل کے قتل کے لیے پوری طرح کوشاں تھا۔ المآئدہ
28 المآئدہ
29 42۔ ہابیل نے کہا کہ میں تمہارے سامنے اس لیے جھک رہا ہوں، اور تمہیں اس لیے نقصان نہیں پہنچانا چاہتا ہوں کہ قیامت کے دن جب تم اللہ کے حضور کھڑے ہو تو تمہارے سر میرے قتل کا گناہ اور وہ گناہ بھی ہو جو تم نے میرے قتل سے پہلے کیا تھا، یا جس کی وجہ سے تمہاری قربانی قبول نہیں ہوئی، اور ان دونوں گناہوں کی وجہ سے تمہارا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ المآئدہ
30 43۔ بھائی کے قتل کی صراحت سے مقصود اس فعل کی شدت قباحت کو بیان کرنا ہے۔ قابیل دین و دنیا دونوں ہی اعتبار سے بد قسمت بن گیا۔ دینی اعتبار سے کافر ہوگیا اور قیامت تک ہونے والے قتل کے گناہوں کا سزاوار ہوا، اور دنیاوی اعتبار سے اللہ کی مخلوق کی نگاہ میں مبغوض بن گیا۔ امام بخاری اور دوسروں نے عبداللہ بن مسعود رضٰ اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ کوئی بھی شخص مظلومانہ طور پر قتل کیا جائے گا، تو پہلے ابن آدم کے سر اس کے خون کا گناہ ضرور ہوگا، اس لیے کہ وہ پہلا شخص تھا جس نے قتل کی ابتدا کی تھی۔ المآئدہ
31 44۔ قابیل قتل کردینے کے بعد شدید حیرت میں پڑگیا کہ اب اپنے بھائی کی لاش کو کیا کرے، تو اللہ نے کوا کو بھیج دیا جو اپنی چونچ اور اپنے پاؤں سے زمین کو گہرا کھودنے لگا۔ سدی نے بعض صحابہ کرام سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو کو وں کو بھیج دیا جنہوں نے لڑنا شروع کردیا، پھر ایک نے دوسرے کو قتل کردیا، اور زمین کھود کر اس میں ڈال دیا اور اور اور اوپر سے مٹی ڈال دی المآئدہ
32 45۔ کسی کو ناحق قتل کرنا اللہ کی نگاہ میں جرم عظیم ہے، اور اس کی وجہ سے شر و فساد کا جو خطرناک دروازہ کھل جاتا ہے، اس کا بند کرنا مشکل ترین کام ہوتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے یہ حکم جاری کردیا کہ جو کوئی کسی کو ناحق قتل کردے گا، یا زمین میں فساد برپا کرنے کے لیے ایسا کرے گا تو گویا وہ تمام بنی نوع انسان کے قتل کا مرتکب ہوگا، اور جو عفو و درگذر یا کسی اور طریقہ سے کسی کی زندگی کی بقا کا سبب بنے گا، تو وہ گویا تمام لوگوں کی زندگی کا سبب بنے گا۔ ابن جریر نے روایت کی ہے، حسن بصری سے پوچھا گیا کہ کیا اس آیت میں موجود حکم بنی اسرائیل کی طرح ہمارے لیے بھی ہے؟ تو انہوں نے کہا، ہاں، اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، ان کے خون کو کس چیز نے ہمارے خون سے زیادہ قیمتی بنا دیا؟ امام شاطبی رحمہ اللہ نے موافقات میں لکھا ہے کہ قرآن کریم میں گذشتہ انبیائے کرام کی شریعتوں کے جو احکام بیان ہوئے ہیں، اور یہ نہیں بتایا گیا کہ ان امتوں نے ان احکام میں افترا پردازی سے کام لیا تھا، تو وہ سارے احکام برحق ہیں 46۔ آیت کے اس حصہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ کے زمانہ کے یہود نے آپ کے خلاف سازشیں کی، اور آپ کو قتل کرنا چاہا تو آپ اس سے ملول خاطر نہ ہوں، کیونکہ شر و فساد ہمیشہ سے ان کی فطرت کا لازمہ رہا ہے، اور انہوں نے قتل کی جو بھی سازش کی اور جب بھی جنگ کی آگ بھڑکانی چاہی تو جہالت و نادانی کی وجہ سے نہیں، بلکہ اللہ کی شریعت کو جانتے ہوئے، اور اس کی طرف سے واضح نشانیاں آنے کے بعد ایسا کرتے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زمین پر شر و فساد پھیلانا اور ظلم و زیادتی کرنا ان میں سے بہتوں کی سرشت میں داخل رہا ہے۔ المآئدہ
33 47۔ آیات 33، 34 آیات محاربہ کہلاتی ہیں، محاربہ کا لغوی معنی مخالفت ہے، اور اصطلاح شرع میں اس کا اطلاق کفر، ڈاکہ زنی، لوٹ مار اور دہشت گردی پر ہوتا ہے۔ ابو داود اور نسائی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ آیات مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی تھیں، ایسا کرنے والا اگر گرفتار کیے جانے سے پہلے توبہ کرلے گا تو بھی اس پر حد قائم کی جائے گی۔ بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ عرینہ یا عکل کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مدینہ آ کر اسلام قبول کرلیا، لیکن مدینہ کی آب و ہوا انہیں ناموافق پڑی، اس لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے کہا کہ وہ صدقہ کے اونٹوں کی جگہ چلے جائیں، اور ان کا پیشاب اور دودھ پئیں، انہوں نے وہاں جا کر ایسا ہی کیا اور جب صحت مند ہوگئے تو کچھ دنوں کے بعد اونٹوں کے چرواہوں کو قتل کردیا اور اونٹﷺں کو ہنکا کرلے گئے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں پکڑنے کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجا، جب وہ پکڑ کر لائے گئے تو ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے گئے، اور ان کی آنکھیں پھوڑ دی گئیں، اور ان کے زخموں کو بغیر داغے ہوئے چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ مرگئے، امام مسلم کی انس (رض) سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ ان لوگوں نے چرواہوں کی آنکھیں پھوڑ دی تھیں، اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی بھی آنکھیں پھوڑ دیں۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ آیت مشرکین اور غیر مشرکین سب کے بارے میں عام ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عکل یا عرینہ والوں کو جو سزا دی گئی تھی وہ اس آیت کے ذریعہ منسوخ ہوگئی ہے، اور اب محاربہ کرنے والوں کو وہی سزا دی جائے گی جس کا بیان اس آیت میں آیا ہے۔ ظاہر آیت دلالت کرتی ہے کہ آیت میں مذکور جس سزا کو امام وقت جس کے لیے مناسب سمجھے گا نافذ کرے گا، آیت کا تممہ ذلک لہم خزی فی الدنیا ولہم فی الاخرۃ عذاب عظیم، دلالت کرتا ہے کہ محاربین کو دنیا اور آخرت دونوں جگہ سزا ملے گی، دنیا میں ھد قائم کردینے سے وہ پاک نہیں ہوجائیں گے، چاہے وہ مسلمان ہوں، حافظ سیوطی اور شعرانی وغیرہم کی یہی رائے ہے۔ المآئدہ
34 آیت 34 دلالت کرتی ہے کہ محاربین اگر ہاتھ آنے سے پہلے توبہ کرلیں گے تو آیت میں مذکور حد ساقط ہوجائے گی اگر وہ کافر ہوں گے تو اسلام لانے کے بعد یہ حد ساقط ہوجائے گی، اور اگر مسلمان ہوں گے تو بھی آیت میں مذکور تمام انواع حدود ساقط ہوجائیں گے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ صحابہ کا اسی پر عمل رہا ہے، لیکن بعض اہل علم کا خیال ہے کہ گرفتار کیے جانے سے پہلے توبہ کرلینے سے قصاص اور دوسرے انسانی حقوق ساقط نہیں ہوں گے۔ المآئدہ
35 48۔ یہاں وسیلہ سے مراد قربت ہے، یعنی اے اہل ایمان ! اللہ سے قربت کی کوشش میں لگے رہو، ابن عباس مجاہد، عطاء اور سفیان ثوری وغیرہم نے یہی تفسیر بیان کی ہے۔ قتادہ نے اس کی مزید توضیح کرتے ہوئے آیت کی تفسیر یوں کی ہے کہ اللہ کی بندگی اور اس کی رضا کے کاموں کے ذریعہ اس سے قربت حاصل کرو، وسیلہ جنت میں اعلی مقام کا نام بھی ہے، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقام اور جنت میں ان کا گھر ہوگا۔ یہ مقام رب العالمین کے عرش سے سب سے قریب ہے۔ امام مسلم نے عبداللہ بن عمرو بن العاص عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرایا، جب مؤذن کو اذان دیتے سنو تو جیسے وہ کہتا ہے ویسے ہی کہو، پھر مجھ پر درود بھیجو، اس لیے کہ جو مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا اللہ اس پر دس بار درود بھیجے گا پھر میرے لیے اللہ سے وسیلہ مانگو، جو جنت میں ایک ایسا مقام ہے جس کا حقدار اللہ کا صرف ایک بندہ ہوگا، اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ میں ہوں گا، تو جو شخص میرے لیے اللہ سے وسیلہ کا سوال کرے گا، اس کے لیے میری شفاعت حلال ہوجائے گی۔ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو تقوی کا حکم دیا ہے، اور تقوی کے ساتھ اگر طاعت و بندگی کا حکم بھی ہو تو اس سے مراد محرمات اور منہیات سے باز رہنا ہوتا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کتاب الوسیلہ کی بہت ہی مفید توضیح کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وسیلہ اور توسل تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ 1۔ واجبات و مستحبات کی ادائیگی کے ذریعہ اللہ کی قربت حاصل کرنا، جس کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت اور سورۃ اسراء کی آیت 57 میں آیا ہے، وسیلہ کا یہ معنی فرض ہے، اور اس کے بغیر مسلمان کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ 2۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ کے حضور دعا اور شفاعت کروانا توسل کا یہ معنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں پایا گیا کہ صحابہ کرام (رض) نے مختلف موقعوں سے آپ سے دعائیں کروائیں، اور قیامت کے دن آپ اپنی امت کے لیے شفاعت کریں گے۔ 3۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے ذریعہ توسل، یعنی اللہ تعالیٰ کو آپ کی ذات کی قسم دلانا، اور ان کی ذات کے ذریعہ سوال کرنا۔ توسل کی یہ قسم صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے، نہ آپ کی زندگی میں اور نہ آپ کی وفات کے بعد، نہ آپ کی قبر کے پاس اور نہ کسی اور جگہ، اور نہ یہ چیز صحابہ کرام سے ثابت شدہ دعاؤں میں پائی جاتی ہے۔ بعض ضعیف احادیث میں اس کا ذکر آیا ہے اور بعض ایسے لوگوں کی رائے ہے جن کی رائے اسلام میں حجت نہیں۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب نے توسل کی اس قسم کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ مخلوق کے توسل سے سوال کرنا جائز نہیں، اور نہ یہ کہنا جائز ہے کہ اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے انبیاء کے حق کے طفیل میں سوال کرتا ہوں۔ بعض لوگوں نے صحیح بخاری کی حضرت عمر (رض) والی حدیث کا غلط مفہوم سمجھا ہے، جس کی تفصیل یوں ہے کہ جب مدینہ میں قحط سالی ہوئی تو حضرت عمر (رض) نے کہا کہ اے اللہ ! پہلے جب قحط سالی ہوتی تھی تو ہم تیرے نبی کے وسیلہ سے دعا کرتے تھے تو بارش ہوتی تھی، اب ہم تیرے نبی کے چچا کے وسیلہ دعا کرتے ہیں۔ اس حدیث میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ توسل کا مفہوم آپ سے دعا کرانا ہے، نہ کہ آپ کی ذات کے ذریعہ وسیلہ حاصل کرنا، یہی وجہ ہے کہ عمر بن خطاب (رض) نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد آپ کے چچا عباس بن عبدالمطلب (رض) سے دعا کروائی، اگر مقصود آپ کی ذات کے ذریعہ توسل ہوتا تو حضرت عباس (رض) کی ذات کے ذریعہ توسل کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ معلوم ہوا کہ حضرت عمر (رض) کے نزدیک توسل کا مطلب دعا کروانا تھا۔ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد ناممکن ہوگیا، اسی لیے انہوں نے حضرت عباس (رض) سے دعا کروائی۔ 49۔ اطاعت و بندگی اور ترک محرمات کا حکم دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اپنی راہ میں جہاد کا حکم دیا، اور اس کا بدلہ آخرت کی کامیابی بتائی جو ابدی سعادت ہوگی، ایسی سعادت جس کا تصور دنیا میں نہیں کیا جاسکتا۔ المآئدہ
36 50۔ آیات 36، 37 میں قیامت کے دن کافروں کا حال بیان کیا گیا ہے، اور اس سے مقصود مسلمانوں کو اللہ کی اطاعت و بندگی کی ترغیب دلائی ہے تاکہ ان کا انجام بھی کافروں جیسا نہ ہو المآئدہ
37 المآئدہ
38 51۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود (رض) فاقطعوا ایمانہما پڑھتے تھے، یعنی چور اور چورنی کا دایاں ہاتھ کاٹ لو، یہ قراءت اگرچہ شاذ ہے، لیکن تمام علماء کے نزدیک ایدیہما سے مراد دایاں ہاتھ ہی ہے، جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث سے مستفاد ہے۔ بعض فقہائے ظاہریہ نے کہا ہے کہ چور چاہے زیادہ چوری کرے یا کم، عموم آیت کے پیش نظر اس کا ہاتھ کاٹ لیا جائے گا، ان لوگوں نے مال مسروق کے نصاب تک پہنچنے یا محفوظ جگہ سے چور کرنے کا اعتبار نہیں کیا ہے، لیکن جمہور علماء نے نصاب کا اعتبار کیا ہے، البتہ نصاب کی تحدید میں ان کے درمیان اختلاف ہوا ہے، صحیح احادیث کی روشنی میں جو بات راجح معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر چوری کا مال ایک چوتھائی دینار یا تین درہم کے برابر ہوگا تو ہاتھ کاٹا جائے گا۔ المآئدہ
39 52۔ آیت میں ظلم سے مراد چوری ہے، اور مفہوم یہ ہے کہ توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلے گا اور اسے آخرت میں اس چوری کے بدلے میں سزا نہیں دے گا، لیکن دنیا میں چوری کی حد اس سے ساقط نہیں ہوگی، جیسا کہ صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایسے لوگ تائب ہو کر آتے تھے جن پر حد واجب ہوتی تھی، تو آپ ان پر حد جاری کرتے تھے۔ دارقطنی، حاکم اور عبدالرزاق وغیرہم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک چور رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کے پاس لایا گیا تو آپ کے حکم سے اس کا ہاتھ کاٹا گیا، اس کے بعد آپ نے اس سے کہا کہ توبہ کرو، تو اس نے کہا کہ میں اللہ کے حضور توبہ کرتا ہوں تو آپ نے فرمایا اللہ نے تیری توبہ قبول کرلی، معلوم ہوا کہ توبہ کرلینے سے حد ساقط نہیں ہوتی، لیکن قیامت کے دن اس کی وجہ سے اسے سزا نہیں دی جائے گی البتہ صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ اگر چور کا معاملہ حاکم تک پہنچنے سے پہلے اسے معاف کردیا جاتا ہے تو اس سے حد ساقط ہوجائے گی۔ المآئدہ
40 آیت 40 میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ چونکہ آسمانوں اور زمین کی ملکیت اللہ کے لیے ہے، اس لیے وہ جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور چور اور چورنی کا ہاتھ کاٹتا ہے اور جسے چاہے گا توبہ کرلینے کے بعد قیامت کے دن اس گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دے گا۔ المآئدہ
41 53۔ اس آیت کریمہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے اور انہیں نصیحت کی گئی ہے کہ کفار اگر اپنے کفر میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں تو آپ ملول خاطر نہ ہوں، اللہ تعالیٰ آپ کو تنہا نہیں چھوڑ دے گا، بلکہ وہ ضرور آپ کی مدد فرمائے گا۔ 54۔ یہاں مراد منافقین ہیں، اور یہودیوں سے مراد بنو قریظہ کے یہود ہیں۔ 55۔ علمائے یہود جو جھوٹی باتیں پھیلاتے ہیں انہیں سننے اور قبول کرنے میں یہود بڑے تیز ہیں، یا مراد یہ ہے کہ وہ تمہاری خبریں سننے اور جمع کرنے میں بڑی دلچسپی رکھتے ہیں تاکہ ان میں حذف و اضافہ کے بعد اپنی مرضی کے مطابق ڈال لیں اور مسلم سوسائٹی میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے انہیں بیان کریں۔ 56۔ ان سے مراد خیبر کے یہود ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے انتہائے عداوت کی وجہ سے انہیں دیکھنا گوارہ نہیں کرتے تھے، اس لیے آپ کی مجلسوں میں شریک نہیں ہوتے تھے 57۔ علمائے یہود یہودیوں کو سمجھاتے تھے کہ ہم نے جو (تحریف شدہ) حکم تمہیں بتایا ہے، اگر وہی حکم تمہیں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بتاتا ہے تو قبول کرلو ورنہ چھوڑ دو۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ مدینہ کے دو یہودی مرد اور عورت نے زنا کیا، تو یہود نے آپس میں مشورہ کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پا جایا جائے اگر وہ فیصلہ کرتا ہے کہ دونوں کو سو کوڑے مارے جائیں اور ان کے چہرے سیاہ کر کے گدھے پر الٹے بیٹھا کر شہر میں گھمایا جائے تو ٹھیک ہے (جو انہوں نے تورات میں تحریف کر کے اور رجم کو ساقط کر کے اپنا من مانا حکم وضع کرلیا تھا) تاکہ ہم اللہ کے یہاں یہ کہہ سکیں کہ اللہ کے ایک نبی بھی یہی فیصلہ کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو بذریعہ وحی ان کی اس سازش سے آگاہ کردیا، اس واقعہ کی تفصیل امام مالک نے مؤطا میں ابن عمر (رض) سے اور امام احمد اور مسلم وغیرہم نے براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے۔ المآئدہ
42 58۔ اس آیت میں گذشتہ آیت کے مضمون کی تاکید ہے، اور یہود کی ایک دوسری صفت (رشوت خوری) بیان کرنا مقصود ہے، رشوت لینا اور مختلف طریقوں سے لوگوں کے مال کھانا یہودیوں کی سرشت میں داخل ہے۔ المآئدہ
43 59۔ یہود کی اس بات پر اظہار تعجب ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لانے کے باوجود ایک خاص مقصد کے لیے انہیں فیصل قرار دیتے ہیں۔ اگر ان کا مقصد اللہ کے حکم پر عمل کرنا ہوتا تو وہ حکم تورات میں پہلے سے موجود ہے۔ تورات میں اس خاص حکم کا پایا جانا اس بات کے منافی نہیں ہے کہ اس میں بہت سی تحریف کردہ باتیں بھی موجود ہیں۔ اسے تورات تو عرف عام یا اس کی اصل کے اعتبار سے یا اس اعتبار سے کہا گیا کہ اس میں حقیقی تورات کی بہت سی باتیں موجود ہیں۔ المآئدہ
44 60۔ اس آیت کریم میں یہود کی یہ حالت بیان کی گئی ہے کہ انہوں نے اللہ کی نازل کردہ تورات کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ اس میں تحریف کیا اور انبیائے کرام سے روشنی اور ہدایت حاصل کرنے کے بجائے انہیں قتل کیا۔ 61۔ یعنی وہ انبیائے کرام فیصلہ کریں گے جو موسیٰ (علیہ السلام) سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) تک مبعوث ہوئے اور جو مسلمان تھے اور یہ فیصلے یہود کے ساتھ خاص ہوں گے، نیز اس زمانے کے اللہ والے اور صالح علماء فیصلے کریں گے، اور تورات کے ان احکام کی بنیاد پر فیصلے کریں گے جن کے بارے میں انہیں پورا علم ہے کہ یہ احکام تحریف سے محفوظ ہیِں، اور منسوخ بھی نہیں ہوئے ہیں۔ 62۔ حکام کو منع کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں سے نہ ڈریں، بلکہ اللہ سے ڈرتے ہوئے احکام شریعت کو نافذ کریں، اور یہاں پر خطاب اگرچہ یہود کے رؤساء اور علماء کے لیے ہے، لیکن حکم عام ہے اور مسلمانوں کو بھی شامل ہے۔ 63۔ امام مسلم نے براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے کہ قرآن کریم میں اس معنی کی تینوں آیتیں کفار کے بارے میں ہیں۔ ابو داود نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ آیتیں بنو قریظہ اور بنو نضیر کے یہودیوں کے بارے میں ہیں، لیکن ان میں بیان کردہ حکم مسلمانوں کو بھی شامل ہے، اس لیے کہ قرآن کریم میں بیان کردہ احکام میں ہمیشہ اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے خصوص سبب کا نہیں۔ یعنی اگرچہ ان میں بیان کردہ احکام کفار یا یہود کے بارے میں نازل ہوئے، لیکن وہ احکام اب مسلمانوں کو بھی شامل ہیں۔ المآئدہ
45 64۔ اس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہودیون کو ڈانٹ پلائی ہے، اس لیے کہ تورات میں یہ نص موجود ہے کہ جان کے بدلے جان لی جائے گی، لیکن انہوں نے جان بوجھ کر اس کی مخالفت کی اور نضری کے بدلے میں قرظی کو قتل کیا، اور قرظی کے بدلے میں صرف دیت پر اکتفا کیا، اسی طرح شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کا حکم تورات میں پہلے سے موجود تھا لیکن انہوں نے تورات میں تحریف کے کر کوڑے لگانے، منہ کالا کرنے اور گدھے پر بٹھا کر تشہیر کرنے پر اکتفا کیا اور یہی وجہ ہے کہ رجم والی آیت کی تحریف کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ جو اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کرے گا وہ کافر ہوگا، اس لیے کہ وہاں انہوں نے جان بوجھ کر اللہ کے حکم کا انکار کردیا تھا اور یہاں انہیں ظالم کہا گیا، اس لیے کہ انہوں نے مظلوم کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ 2۔ فقہاء اور علمائے اصول فقہ نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ گذشتہ شریعتوں کے جو احکام قرآن میں بیان کیے گئے ہیں اور انہیں منسوخ نہیں قرار دیا گیا ہے، وہ ہمارے لیے بھی واجب العمل ہیں۔ تمام علمائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے 3۔ تمام ائمہ کرام نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرد کو عورت کے بدلے میں قتل کیا جائے گا (نسائی)۔ 4۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے اسی آیت کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ کافر ذمی کے بدلے مسلمان کو، اور غلام کے بدلے آزاد کو قتل کیا جائے گا۔ لیکن جمہور علماء نے ان دونوں مسائل میں ان کی مخالفت کی ہے، اس لیے کہ صحیحین میں علی بن ابی طالب (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مسلمان کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح ائمہ سلف کے متعدد آثار ہیں کہ غلام کے بدلے آزاد کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ امام شافعی (رح) نے ائمہ اسلام کا اس کے بارے میں اجماع نقل کیا ہے۔ 65۔ یہاں مراد ایسے زخم ہیں جن کا قصاص لینا ممکن ہوجیسے زبان، ہونٹ، چہرہ اور جسم کے باقی حصے کا زخم، جن زخموں کا قصاص لینے سے عضو کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو، یا جن کی مقدار گہرائی، چوڑائی یا لمبائی میں معلوم کرنا ممکن نہ ہو ان میں قصاص نافذ نہیں کیا جائے گا۔ 66۔ اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ جو معاف کردے گا اللہ اس کے گناہوں کو درگذر فرمائے گا، اور دوسرا معنی یہ بتایا گیا ہے کہ اگر صاحب حق معاف کردے تو زیادتی کرنے والے سے قصاص اور دوسرے حقوق ساقط ہوجائیں گے۔ 67۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے، انہیں یہاں ظالم اس لیے کہا گیا ہے کہ انہوں نے مظلوم کے ساتھ انصاف نہیں کیا، اور اللہ کے عادلانہ حکم کے خلاف فیصلہ کیا المآئدہ
46 68۔ تورات سے متعلق حکم بیان کرنے کے بعد اب انجیل سے متعلق حکم بیان کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل کی رہنمائی کے لیے بہت سے انبیاء بھیجے ان سب کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے جن کو اللہ نے انجیل عطا کیا، اور جنہوں تورات کی تصدیق کی، اور اس کے احکام کو انجیل میں نازل شدہ آیات کے ذریعہ منسوخ قرار دیا۔ المآئدہ
47 69۔ اہل انجیل کو یہ حکم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے دیا گیا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد یہ حکم منسوخ ہوگیا اور تمام بنی نوع انسان کو صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے، اور قرآن کریم کو فیصل قرار دینے کا حکم دیا گیا۔ اس آیت میں اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والوں کو فاسق کہا گیا ہے، یعنی ایسے لوگ اپنے رب کی اطاعت اور حق کی راہ چھوڑ کر باطل کی طرف مائل ہونے والے ہیں المآئدہ
48 70۔ تورات و انجیل کی فضیلت و اہمیت بیان کرنے کے بعد اب قرآن کریم کی عظمت و اہمیت اور سابقہ سب کتابوں پر اس کی فوقیت بیان کی جا رہی ہے۔ قرآن کریم کو دیگر تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والا، اور ان سب پر غالب اور ان سب کا نگراں و نگہبان قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن کریم تمام آسمانی کتابوں کی منزل من جانب اللہ ہونے کی تائید کرتا ہے، ان کے غیر منسوخ احکام کی توثیق کرتا ہے اور منسوخ احکام کی وضاحت کرتا ہے، ان میں موجود اصول و مبادی کی حفاظت کرتا ہے، اور ان سب کتابوں پر غالب ہے، اس لیے کہ محکم اور منسوخ احکام کا اب صرف قرآن ہی مرجع ہے اور ان سب کا امین اور نگراں ہے، اس لیے کہ اب صرف قرآن بتاتا ہے کہ ان سابقہ آسمانی کتابوں کے کون سے احکام قابل عمل ہیں اور کون سے ترک کردئیے گئے ہیں۔ اس لیے (اے میرے رسول !) آپ ان کے درمیان صرف قرآن کے ذریعہ فیصلہ کریں، اور حق سے منحرف ہو کر گذشتہ اہل ادیان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ 71۔ اس میں گذشتہ امتوں کے بارے میں خبر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی رہنمائی کے لیے انبیاء و رسل بھیجے جنہیں ان امتوں کے حالات کے تقاضے کے مطابق مختلف شریعتیں دی گئیں، لیکن عقیدہ توحید میں وہ سبھی ادیان متفق تھے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضٰ اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہم انبیاء آپس میں علاتی بھائی ہیں، ہمارا دین ایک ہے، یعنی ہم سب دعوت توحید کے لیے دنیا میں بھیجے گئے ہیں (علاتی بھائی ان کو کہتے ہیں جن کے باپ ایک ہوں اور مائیں مختلف ہوں) اس میں گویا اہل تورات اور اہل انجیل کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اب صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کریں، اور قرآن آجانے کے بعد تورات و انجیل کو چھوڑ دیں، اس لیے کہ یہ دونوں کتابیں ان امتوں کے لیے واجب الاتباع تھیں جو اس دنیا میں ان دونوں کے منسوخ ہونے سے پہلے تھیں۔ 72۔ یعنی اگر اللہ چاہتا تو تمام بنی نوع انسان کے لیے ایک ہی دین، ایک ہی کتاب اور ایک ہی رسول بھیج دیتا، لیکن چونکہ مقصود انہیں آزمانا تھا اسی لیے مختلف زمانوں میں مختلف انبیاء ورسل اور متعدد ادیان نازل کیے، تاکہ اللہ دیکھے کہ کون اس کی مشیت کے مطابق اپنے زمانے کی شریعت پر عمل پیرا ہوتا ہے، اور کون اپنی خواہشات کی اتباع کرتا ہے۔ المآئدہ
49 73۔ اس کا تعلق گذشتہ آیت سے ہے، یعنی ہم نے آپ پر قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ یہود و نصاری کے درمیان اللہ کی نازل کردہ وحی کے مطابق فیصلہ کریں اور ان کی خواہشات کی اتباع نہ کریں، اور اس بات سے ڈرتے رہیں کہ کہیں وہ آپ کو بعض احکام الٰہیہ سے منحرف نہ کردیں۔ اور اگر وہ لوگ اللہ کے حکم کے علاوہ کچھ اور چاہتے ہیں، تو آپ جان لیجئے کہ اللہ انہیں ان کے دیگر بہت سے گناہوں کے ساتھ اس نافرمانی کے گناہ میں بھی مبتلا کرنا چاہتا ہے، اور بہت سے لوگ کفر میں بڑھے چڑھے اور حد سے متجاوز ہوتے ہیں (جیسا کہ ان کا حال ہے) المآئدہ
50 74۔ ان لوگوں کی تردید ہے جو اللہ کی شریعت کو چھوڑ کر جس میں ہر بھلائی ہے، انسانوں کے وضع کردہ افکار و نظریات اور قوانین و احکام کی پیروی کرتے ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ جو لوگ دستور و قانون کی کوئی کتاب اپنی طرف سے وضع کر کے اس پر عمل کرتے ہیں اور اللہ کی کتاب اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کو پس پشت ڈال دیتے ہیں، وہ کافر ہیں۔ ان کے خلاف جنگ کرنی واجب ہے۔ امام بخاری (رح) نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ تین قسم کے لوگ اللہ کے نزدیک مبغوض ترین ہیں۔ حدود حرم میں الحاد کو پسند کرنے والا، اسلام کے بعد دور جاہلیت کے طریقے کو اپنانے والا، اور وہ انسان جو ناحق کسی دوسرے کا خون بہانا چاہتا ہو۔ المآئدہ
51 75۔ ابن جریر، ابن ابی حاتم اور بیہقی وغیرہم نے اس آیت کے شان نزول کے بارے میں روایت کی ہے کہ بعض یہود مدینہ عبادہ بن صامت انصاری اور عبداللہ بن ابی بن سلول کے حلیف تھے۔ میدانِ بدر میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو فتح ہوئی تو یہود بہت چراغ پا ہوئے اور اپنی بدنیتی کا اظہار کرنے لگے۔ عبادہ بن صامت (رض) نے ان کا یہ حال دیکھ کر اپنے حلیفوں سے براءت و علیحدگی کا اعلان کردیا، اور اللہ، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کی دوستی اور محبت پر راضی ہوگئے، لیکن عبداللہ بن ابی نے انکار کردیا، اسی بارے میں یہ آیت نازل ہوئی، اور اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو یہود و نصاری کی دوستی سے منع فرمایا جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں، اور مسلمانوں کی عداوت ان کے درمیان قدر مشترک ہے۔ اس کے بعد اللہ نے یہ فیصلہ سنایا کہ جو بھی ان سے دوستی کرے گا ان میں سے ہوجائے گا، چاہے وہ اس زعم باطل میں مبتلا ہو کہ ان کا دین الگ ہے المآئدہ
52 76۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہوتی ہے وہی لوگ یہود و نصاری سے دوستی کرتے ہیں اور اس معاملہ میں ان کی انتہائے سرعت و تیزی اور انتہائے رغبت کو بتانے کے لیے اللہ نے (ان کی دوستی میں تیزی کرتے ہیں) کے بجائے (ان میں مل جانے کے لیے تیزی کرتے ہیں) کے الفاظ استعمال کیے، گویا کہ وہ انہی میں سے ہوجانا چاہتے ہیں، اور اس کی علت یہ بتاتے ہیں کہ ہم ڈرتے ہیں کہ حالات بدلیں اور ان کے محتاج ہوجائیں، اسی لیے ہم ان کے شر سے بچنے کے لیے پہلے سے ہی احتیاط کرتے ہیں، حالانکہ انہیں یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ بہت ممکن ہے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح و نصرت دے، اور یہود و نصاری پر جزیہ واجب کردیا جائے، تو اس وقت ان (منافقین) کو اپنے کیے پر ندامت ہوگی، اور اس وقت ان کی بدباطنی کھل کر سامنے آجائے گی، اور مسلمان تعجب کریں گے کہ کس طرح یہ لوگ ایمان کا دعوی کرتے تھے اور قسمیں کھایا کرتے تھے، اور کہا کرتے تھے کہ ہم تو مسلمانوں کے ساتھ ہیں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا، حقیقت یہ ہے کہ ان (منافقین) کے سارے اعمال ضائع ہوگئے، اپنی دنیا بھی برباد کی اور آخرت بھی۔ سورۃ آل عمران کی آیات 28 اور 118 میں غیر مسلموں کو اپنا دوست اور رازداں بنانے سے متعلق تفصیل گذر چکی ہے اس مضمون کو مزید سمجھنے کے لیے ان دونوں آیتوں کی تفسیر میں جو کچھ لکھا گیا ہے، اسے دیکھ لیا جائے۔ حاکم نے لکھا ہے کہ غیر مسلموں سے مدد لینی جائز نہیں ہے۔ انتہی، لیکن یہ حکم علی الاطلاق صحیح نہیں معلوم ہوتا، اس لیے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش اور غیر قریش سے جنگ کرنے کے لیے یہود مدینہ سے معاہدہ کیا تھا، جسے انہوں نے غزوہ احزاب کے موقع سے توڑ دیا تھا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خزاعہ کے ساتھ بھی معاہدہ کیا تھا جو فتحِ مکہ کا پیش خیمہ بنا، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منافقین سے بھی مدد لی تھی۔ معلوم ہوا کہ جنگی حالات میں بشرطِ ضرورت کافروں سے مدد لینی ان سے دوستی کے مترادف نہیں۔ المآئدہ
53 المآئدہ
54 77۔ یہود و نصاری سے دوستی کی ممانعت کے بعد اب دین اسلام سے ہر زمانے میں مرتد ہونے والوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے، کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے، اللہ اپنی قدرت مطلقہ سے ایسے لوگوں کو ہر زمانے میں لائے گا جو اس کے دین کی تائید کریں گے، اور شریعت کو نافذ کریں گے، اور ان کی صفت یہ ہوگی کہ اللہ ان سے محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے، مسلمانوں کے لیے تواضع اختیار کریں گے اور کافروں کے لیے سخت ہوں گے، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے، اور کسی کی پرواہ نہ کریں گے۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ آیت میں قوم سے مراد ابوبکر صدیق اور وہ صحابہ کرام اور تابعین ہیں جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد دین اسلام سے برگشتہ ہونے والوں سے جنگ کی تھی، اور ان کے بعد وہ تمام مسلمان مراد ہیں جنہوں نے کسی بھی زمانے میں مرتد ہونے والوں سے جنگ کی یا مستقبل میں قیامت تک کریں گے۔ علمائے محققین نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعہ غیب کی ایک ایسی خبر دی ہے جو بعد میں ظاہر ہونے والے حقائق کے مطابق پوری ہوئی اور یہ دلیل ہے اس بات کی کہ قرآن کلام الٰہی ہے، چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے قبل اور بعد میں گیارہ قسم کے لوگ اسلام سے مرتد ہوئے، جن کے خلاف ابوبکر رضی اللہ عن اور صحابہ کرام (رض) نے جنگ کی، اور انہیں دوبارہ اسلام کی طرف لوٹنے پر مجبور کیا اور اس آیت میں مذکورہ اوصاف کریمہ کے مستحق ہوئے۔ المآئدہ
55 78۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت و رہنمائی ہے کہ مسلمانوں کو کن سے دوستی کرنی چاہئے المآئدہ
56 79۔ اللہ اس کے رسول اور مسلمانوں سے دوستی کرنے والوں کو (اللہ کی جماعت) کے نام سے موسوم کیا گیا، اور ان سے اللہ کا وعدہ بتایا گیا کہ وہی بالآخر کامیاب اور فائز المرام ہوں گے، چنانچہ صحابہ کرام کے ساتھ ایسا ہی ہوا، اللہ تعالیٰ نے انہیں غالب بنایا، اور یہود کو قید و بند، قتل و جلاوطنی اور جزیہ کے ذریعہ ذلیل و رسوا کیا، اور قیامت تک ان کا یہی حال رہے گا، ان کا عارضی اور ظاہری غلبہ ان کی حقیق ذلت و رسوائی کو دور نہیں کرسکتا۔ المآئدہ
57 80۔ اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو بطور تاکید دیگر اقسام کے دشمنان اسلام کی دوستی سے بھی روکا گیا ہے، ان سے کہا گیا ہے کہ جو یہود و نصاری اور مشرکین شریعت اسلامیہ کا مذاق اڑاتے ہیں اور اسے کھلونا بھی سمجھتے ہیں ان سے مسلمان دوستی نہ کریں، اور اس بارے میں اللہ سے ڈرتے رہیں، کیونکہ ایمان کا یہی تقاضا ہے المآئدہ
58 81۔ اس میں کفار و مشرکین کی اسلام سے دشمنی اور اس کا مذاق اڑانے کی ایک دوسری شکل کو بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان جب نماز کے لیے اذان دیتا ہے، تو وہ لوگ اس سے نقالی کرتے ہیں اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس بارے میں امام احمد، محمد بن اسحاق اور ابن جریر وغیرہم نے بعض نصاری اور مشرکین کے واقعات بیان کیے ہیں جنہوں نے اذان کا مذاق اڑایا تھا، اور وہ لوگ اللہ کی گرفت میں آگئے تھے، کیونکہ یہ شیطان کے متبعین کی صفت ہے، بخاری و مسلم کی روایت ہے کی شیطان اذان سن کر گوز کرتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ اذان نہ سن پائے اور اذان ختم ہونے کے بعد پھر واپس آجاتا ہے۔ الحدیث۔ امام زہری کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اذان کا ذکر قرآن کریم میں کیا ہے اور یہ آیت پڑھی۔ زمخشری نے لکھا ہے یہ آیت دلیل ہے کہ اذان نص قرآن سے ثابت ہے۔ المآئدہ
59 82۔ دین اسلام کا مذاق اڑانے والوں کی دوستی سے ممانعت کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ اہل کتاب کو ان کی ان کافرانہ حرکتوں کے اسباب خود ہی بتا دیں۔ تاکہ ان کا کفر مزید کھل کر سامنے آجائے، اور انہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ اور اس کی نازل کردہ وحی پر ایمان لانا کوئی عیب کی بات نہیں، آیت میں ان اکثرکم فاسقون کا عطف ان امنا باللہ پر ہے۔ اس لیے معنی یہ ہوگا کہ ہم ایمان لائے کہ تم میں سے اکثر لوگ راہ راست سے ہٹے ہوئے ہیں۔ المآئدہ
60 83۔ عیب کیا ہے؟ اور کس میں پایا جاتا ہے؟ اسے اس آیت میں بیان کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا، آپ کہہ دیجئے کیا میں تمہیں بتا دوں کہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک بدترین بدلہ کسے ملے گا؟ وہ تم لوگ ہوگے جن کی صفات یہ ہیں کہ اللہ نے ان پر لعنت بھیج دی، ان پر اس کا ایسا غضب نازل ہوا کہ پھر وہ کبھی بھی ان سے راضی نہ ہوگا، ان میں بہتوں کو بندر اور سور بنا دیا، اور بالآخر حالت بایں جا رسید کہ انہوں نے شیطان کی پرستش شروع کردی۔ حقیقت یہ ہے کہ تم سے زیادہ برے ٹھکانے والا اور تم سے زیادہ راح حق سے برشتہ کون ہوسکتا ہے؟ المآئدہ
61 84۔ مراد یا تو یہود ہیں یا منافقین اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے بارے میں خبر دی کہ جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں تو اپنے دل میں کفر چھپائے ہوتے ہیں، اور واپس جاتے ہیں تو اپنے کفر پر قائم رہتے ہیں، آپ کی مبارک علمی مجلسوں میں جو کچھ سنتے ہیں اس سے کچھ بھی استفادہ نہیں کرتے۔ المآئدہ
62 85۔ بہت سے یہود کی صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ کذب بیانی، ارتکاب معصیت اور ظلم و زیادتی اور حرام خوری میں، اللہ اور انسانوں سے شرم کیے بغیر تیزی سے آگے بڑھنے والے ہیں۔ المآئدہ
63 86۔ ابن جریر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ قرآن کریم میں ڈانٹ اور پھٹکار سے متعلق اس سے زیادہ شدید کوئی آیت نہیں ہے، ابن ابی حاتم نے یحیی بن معمر سے روایت کی ہے کہ علی بن ابی طالب (رض) نے خطبہ میں کہا کہ اے لوگو ! تم سے پہلے کے لوگ ارتکاب معاصی کو وجہ سے ہلاک ہوگئے، جب وہ گناہوں میں آگے بڑھتے گئے، اور ان کے علماء و ارباب حل و عقد نے انہیں نہیں روکا، تو وہ اللہ کی گرفت میں آگئے، اس لیے تم لوگ بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو قبل اس کے کہ تمہارا انجام وہی ہو جو ان کا ہوا المآئدہ
64 87۔ طبرانی اور ابن اسحاق نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ شاس بن قیس نامی یہودی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا، تمہارا رب تو بخیل ہے، خرچ نہیں کرتا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اور ابو الشیخ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ آیت یہود بنی قینقاع کے سردار فنکاص کے بارے میں نازل ہوئی، جس نے کہا تھا کہ اللہ تو فقیر ہے، اور ہم لوگ مالدار ہیں، جس پر ابوبکر صدیق (رض) نے اسے مارا تھا، اس کی تفصیل سورۃ آل عمران کی آیت 181 میں گذر چکی ہے اس کا پھر سے مطالعہ کرلیجئے۔ ” اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں“ یعنی وہ بخیل ہے۔ اللہ نے ان کی اس خباثت کا یہ جواب دیا کہ اس بدترین صفت کے مالک اب ہمیشہ کے لیے وہی لوگ رہیں گے، اور ان پر ان کے اس مذموم قول کی وجہ سے لعنت بھیج دی گئی، چنانچہ ان کا حال ایسا ہی ہے کہ بخل، حسد، بزدلی اور ذلت ان کی قسمت بن گئی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تو بڑا ہی فضل و کرم اور بڑا ہی جو دو سخا والا ہے، اس کے پاس تو ہر چیز کا خزانہ ہے مخلوق کے پاس جو بھی نعمت پائی جاتی ہے، اسی کی طرف سے ہے، اس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی نے ہر چیز کو ہمارے لیے پیدا کیا ہے بل یداہ مبسوطتان، بلکہ اللہ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ اس سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دو ہاتھ ہیں، لیکن مخلوق کے مشابہ نہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں فرمایا لیس کمثلہ شیء وھو السمیع البصیر، (الشوری :11) اس جیسی کوئی چیز نہیں (نہ ذات میں اور نہ صفات میں) اور وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ یہی سلف صالحین اور ائمہ کرام کا مذہب ہے۔ اللہ کے ہاتھوں کی تاویل قدرت، یا نعمت یا احسان سے کرنا جیسا کہ بعض گمراہ فرقے کرتے ہیں درست نہیں۔ نیز یہ آیت ان کا دندان شکن جواب ہے۔ یہاں پر ذکر کردہ تینوں تاویلات میں کوئی تاویل قطعی طور پر مستقیم نہیں ہوسکتی۔ 88۔ یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ نے آپ کو قرآن اور اسلام کی جو نعمت دی ہے وہ آپ کے دشمنوں (یہود اور غیر یہود) کے حق میں مصیبت بن گئی ہے۔ مومنین تو قرآن کریم سے ایمان، عمل صالح اور علم نافع حاصل کرتے ہیں، اور کفار جو مسلمانوں سے حسد کرتے ہیں کفر و طغیان میں بڑھتے جا رہے ہیں۔ 89۔ اسی وجہ سے وہ لوگ کبھی بھی کسی بات پر متفق نہیں ہوتے۔ شہرستانی نے لکھا ہے کہ اہل کتاب بہتر فرقوں میں بٹ گئے۔ علماء نے لکھا ہے کہ یا تو مراد یہ ہے کہ ہم نے یہود و نصاری کے درمیان عداوت ڈال دی یا خاص طور پر یہودی فرقوں کے درمیان۔ 90۔ یعنی جب بھی یہودیوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جنگ کی آگ بھڑکانی چاہی اور کوئی شر پھیلانا چاہا تو اللہ نے خود ان کے درمیان اختلاف پیدا کردیا اور ان کے شر کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دور کردیا، یا مراد یہ ہے کہ انہوں نے جب بھی کسی کے خلاف جنگ کی تو مغلوب و مقہور ہوئے، اور اللہ کی نصرت انہیں کبھی بھی حاصل نہیں ہوئی۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں، مسلم سوسائٹی میں فتنے پھیلانا، اور لوگوں کو دعوت اسلام سے روکنا ان کا وطیرہ رہا، حقیقت یہ ہے کہ فساد پھیلانا ان کی سرشت بن گئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔ المآئدہ
65 91۔ ان کے ان تمام سیئات و معاصی کے باوجود اگر وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان پر نازل شدہ قرآن پر ایمان لے آتے، اور آئندہ کے لیے کبیرہ گناہوں سے باز آجاتے، تو اللہ ان کے گناہوں کو معاف کردیتا، اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ انہیں جنت میں داخل کرتا۔ یہ آیت یہود و نصاری کے کثرتِ معاصی اللہ کی رحمت واسعہ، اور ہر گناہ گار کے لیے توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا رہنے کی دلیل ہے، اور اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اسلام حالت کفر کے تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے، اور یہ کہ اہل کتاب جب تک اسلام کو قبول نہیں کریں گے جنت میں داخل نہیں ہوں گے، اور یہ کہ آخرت میں نجات و سعادت کے لیے ایمان کے ساتھ تقوی اور عمل صالح بھی ضروری ہے۔ المآئدہ
66 92۔ اقامت تورات و انجیل کا مفہوم یہ ہے کہ ان کے احکام و حدود کو نافذ کرتے، اور نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو اوصاف ان دونوں میں مذکور ہیں ان پر ایمان لے آتے، جو ان کے اسلام میں داخل ہونے پر منتج ہوتا، اور قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے پر ایمان لے آتے، تو اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین سے اپنی برکتوں کے دروازے ان پر کھول دیتا، اور روزی کے تمام اسباب مہیا کرتا اور درختوں کے پھل اور غلے زیادہ ہوجاتے۔ یہ آیت دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی و اطاعت روزی میں وسعت کا سبب ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ اعراف آیت 96 میں فرمایا ہے ولو ان اھل القری امنوا واتقوا لفتحنا علیہم برکات من السماء والارض، اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور تقوی کی راہ اختیار کرتے تو ہم ان کے اوپر آسمان و زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔ 93۔ اہل کتاب میں سے جو لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے، جیسے عبداللہ بن سلام، نجاشی اور سلمان الفارسی وغیرہم انہیں اللہ تعالیٰ نے ایسی جماعت میں شمار کیا جو ایمان لائی اور سیدھی راہ پر گامزن ہوگئی، لیکن ان کی تعداد تھوڑی تھی، ان میں سے اکثر و بیشتر نے برے اعمال کا ارتکاب کیا، حق کو بدل دیا، اس سے اعراض کیا، اور اسلام اور مسلمانوں کی عداوت میں حد سے تجاوز کر گئے۔ المآئدہ
67 94۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لفظ الرسول کے ساتھ اس لیے مخاطب کیا تاکہ انہیں اس بات کی یاد دہانی کرائی جائے کہ منصبِ رسالت اس امر کا متقاضی ہے کہ انہیں جس پیغام کے پہنچانے کا مکلف کیا گیا ہے، اسے پوری ذمہ داری سے ادا کریں، اس میں کوئی تقصیر نہیں ہونی چاہئے۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ بلغ ما انزل الیک کے عموم سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ کی طرف سے واجب تھا کہ ان پر جو کچھ وحی ہو رہی ہے لوگوں تک بے کم و کاست پہنچائیں، اس میں سے کچھ بھی نہ چھپائیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے دین کا کوئی حصہ خفیہ طور پر کسی خاص شخص کو نہیں بتایا جو اوروں کو نہ بتایا ہو، اسی لیے صحیحین میں عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ جو کوئی یہ گمان کرے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی کا کوئی حصہ چھپا دیا تھا وہ جھوٹا ہے، صحیح بخاری میں ہی ابوجحیفہ وہب بن عبداللہ السوانی کی روایت ہے کہ میں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس وحی کا کچھ حصہ ہے جو قرآن میں موجود نہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں، اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور ہوا کو پیدا کیا، سوائے اس فہم قرآن کے جو اللہ کسی بدنے کو دیتا ہے اور جو کچھ اس صحیفہ میں ہے۔ راوی کہتے ہیں میں نے کہا اس صحیفہ میں کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ دیت کے احکام، قیدی کو آزاد کرانا اور یہ کہ کافر کے بدلے مسلمان کو قتل نہ کیا جائے۔ آیت سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ اگر وحی کا کوئی بھی حصہ آپ چھپا دیتے تو ادائے رسالت کی ذمہ داری پوری نہ ہوتی، اور حجۃ الوداعی میں شریک تمام صحابہ کرام نے اس بات کی شہادت دی کہ آپ نے اللہ کا پیغام بے کم و کاست لوگوں تک پہنچا دیا، اور امانت کو پورے طور پر ادا کیا جیسا کہ امام مسلم نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے خطبہ کے دوران لوگوں سے پوچھا، اور سب نے گواہی دی کہ ہاں آپ نے پیغام پہنچا دیا ، واللہ یعصمک من الناس، میں اللہ کا وعدہ کا ہے کہ وہ اپنے رسول کی حفاظت کرے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا، اللہ تعالیٰ نے ہر قدم پر ان کی حفاظت فرمائی۔ بخاری اور مسلم اور ابن ابی حاتم وغیرہم نے عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ اس آیت کے نزول کے قبل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نگرانی کی جاتی تھی، جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے خیمہ سے سر نکال کر کہا کہ اے لوگو ! واپس چلے جاؤ اب میری حفاظت اللہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت مکہ کے مشرکین سے کی، چنانچہ ہزار دشمنی کے باوجود وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بال بھی بیکا نہ کرسکے۔ شروع میں ان کے چچا ابوطالب کے ذریعہ حفاظت کروائی جو قریش کے مانے ہوئے سردار تھے، ابوطالب کے مرنے کے بعد مشرکین نے کچھ اذیت پہنچائی، لیکن اللہ نے انصارِ مدینہ کو آپ کی حفاظت کے لیے تیار کردیا، جنہوں نے آپ کی ہر طرح مدد کی، اور اپنی جانوں پر کھیل کر آپ کی حفاظت کی، اہل کتاب یا مشرکین میں سے جب بھی کسی نے آپ کو نقصان پہنچانا چاہا تو اللہ نے ان کی چالوں کو ناکام بنا دیا، یہودیوں نے جادو کیا تو اللہ نے معوذتین بطور دوا و علاج نازل فرما دیا، اور خیبر کے یہودیوں نے جب گوشت میں زہر ڈال کر کھلانا چاہا تو بذریعہ وحی اللہ نے آپ کو خبر کردی اور ان کے شر سے بچا لیا ماوردی نے اپنی کتاب اعلام النبوۃ میں نبی کریم کی عصمت و حفاظت کے زیر عنوان ایسے واقعات درج کیے ہیں جن میں دشمنوں نے آپ کو قتل کرنا چاہا، لیکن اللہ نے آپ کی حفاظت کی۔ اس ضمن میں ابوجہل، معمر بن یزید اور کلاہ بن اسد کے واقعات کا ذکر کیا ہے جنہوں نے آپ کو قتل کرنا چاہا، لیکن اللہ نے کہیں ان دیکھے بھیانک ازدہا اور کہیں خطرناک اونٹ کے ذریعہ ان دشمنوں کو ایسا مرعوب کردیا کہ انہیں بھاگنے کے لیے راستہ نہ ملا۔ المآئدہ
68 95۔ علمائے تفسیر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ کچھ یہود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا کہ کیا تم اس بات کا اقرار نہیں کرتے کہ تورات اللہ کی کتاب ہے؟ آپ نے کہا کہ ہاں تو انہوں نے کہا کہ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں، اور اس کے علاوہ کا انکار کرتے ہیں، تو یہ آیت نازل ہوئی کہ اے میرے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب ! تم کسی دین پر بھی نہیں ہو جب تک تم تورات و انجیل میں موجود اللہ کے اوامر و نواہی پر عمل نہ کرو، جن میں یہ حکم سر فہرست ہے کہ تم لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کرو گے، اور قرآن پر بھی عمل کرو گے۔ یہ مضمون پہلے بھی گذر چکا ہے مزید تاکید کے لیے یہاں اسے دہرایا گیا ہے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے کبر و عناد میں ان کی زیادتی، اور بلیغ دعوت سے ان کا عدم استفادہ بیان کیا ہے کہ جوں جوں قرآن کریم آپ پر اترتا جائے گا، ان کا کفر و عناد بڑھتا جائے گا آیت 64 میں بھی یہ بات گذر چکی ہے کہ مومنین تو قرآن کریم سے ایمان، عمل صالح اور علم نافع حاصل کرتے ہیں، اور کافر جو مسلمانوں سے حسد کرتے ہیں کفر و طغیان میں بڑھتے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ بنی اسرائیل کی آیت 82 میں فرمایا ہے وننزل من القرآن ما ھو شفاء و رحمۃ للمومنین و لا یزید الظالمین الا خسارا۔ کہ یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں، مومنوں کے لیے تو سراسر شفا اور رحمت ہے، ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا۔ المآئدہ
69 96۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ مذکور ہے کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے گا، اور عمل صالح کرے گا اسے قیامت کے دن کوئی خوف اور کوئی غم لاحق نہیں ہوگا، لیکن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد یہ وعدہ اس رط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ تمام لوگ اور وہ تمام جماعتیں جن کا ذکر اس آیت میں آیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں، دین اسلام کو قبول کریں اور شریعت اسلامیہ کے مطابق عمل کریں۔ سورۃ بقرہ کی آیت 62 میں یہ مضمون گذر چکا ہے، دوبارہ اس کا مطالعہ مفید ہوگا۔ المآئدہ
70 المآئدہ
71 97۔ آیات 70، 70 میں بنی اسرائیل کی تاریخ بیان کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ نے ان سے عہد و پیمان لیا کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں گے، اور اوامر و نواہی میں صرف اسی کی اطاعت کریں گے، اور ان کے حال پر رحم کرتے ہوئے ان کی ہدایت کے لیے انبیاء بھیجے، اور انہیں حکومت و سلطنت سے نوازا، چنانچہ یوش بن نون کے زمانے میں ان کی حکومت قائم ہوئی۔ لیکن انہوں نے مرورِ زمانہ کے ساتھ بتوں کی پرسش شروع کردی اور انبیاء میں سے بعض کی تکذیب کی، اور بعض کو قتل کردیا، اور گمان کرلیا کہ ان کا مواخذہ نہیں ہوگا، اس لیے حق کو قبول کرنے سے اندھے اور بہرے ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر بابل کے بادشاہ بخت نصر کو مسلط کردیا، جس نے انہیں غلام بنا لیا اور بیت المقدس شہر کو برباد کردیا۔ اس کے بعد اللہ نے تقریبا ستر سال کے بعد ان پر پھر رحم کھایا اور انہیں دوبارہ بیت المقدس شہر پہنچا دیا، اور ان کی ہدایت کے لیے بعض انبیاء بھیجے، جن کی دعوت سے متاثر ہو کر انہوں نے دوبارہ اللہ کی عبادت شروع کردی۔ لیکن مرور زمانہ کے ساتھ ان کی دینی حالت بگڑتی گئی، یہاں تک کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ نے مبعث کیا تو وہ حق کو قبول کرنے سے پھر اندھے اور بہرے ہوگئے اور انہیں قتل کرنے کی سازش کی، تو اللہ نے اپنے نبی عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھا لیا، اور رومانیوں کے ہاتھوں ان کو تباہ و برباد کردیا۔ المآئدہ
72 98۔ اس آیت کریمہ میں نصاری کی ان جماعتوں پر کفر کا حکم لگایا گیا ہے جنہوں نے کہا کہ اللہ عیسیٰ کی ذات میں داخل ہوگیا، اور دونوں متحد ہوگئے ہیں، اس کے بعد ان کی تردید عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے کرائی کہ اے بنی اسرائیل ! اس اللہ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے، یعنی میں اللہ کا ایک بندہ ہوں، میں اللہ کیسے ہوسکتا ہوں؟ عیسیٰ (علیہ السلام) جب اپنی ماں کی گود میں تھے تو کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، اور جب بڑے ہوئے اور اللہ نے انہیں نبوت سے نوازا تو بھی یہی بات کہی اور لوگوں کو اللہ کی عبادت کی طرف بلایا، اور کہا کہ جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اس پر جنت حرام ہے، اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے، مشرک پر اللہ کی جنت حرام ہے، اللہ نے اس مضمون کو سورۃ اعراف کی آیت 50 میں بھی بیان کیا ہے۔ فرمایا ونادی اصحاب النار اصحاب الجنۃ ان افیضوا علینا من الماء او مما رزقکم اللہ قالوا ان اللہ حرمہما علی الکافرین۔ اور دوزخ والے جنت والوں کو پکاریں گے کہ ہمارے اوپر تھوڑا پانی ہی ڈال دو یا اور کچھ دے دو جو اللہ نے تم کو دے دے رکھا ہے تو جنت والے کہیں گے کہ اللہ ت عالیٰ نے دونوں چیزوں کو کافروں پر حرام کردیا ہے۔ اور بخاری و مسلم نے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں منادی کردے کہ جنت میں صرف مسلمان آدمی داخل ہوگا۔ المآئدہ
73 99۔ یہاں ان نصاری کی تکذیب کی جا رہی ہے جو اقانیم ثلاثہ کا عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ تین کے مجموعے میں سے ایک ہے، یعنی باپ بیٹا اور روح القدس، یا باپ بیٹا اور ماں تینوں مل کر ایک معبود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا عقیدہ رکھنے والوں کو کافر ٹھہرایا، اور کہا کہ معبود تو صرف ایک ہے۔ انجیل، تورات اور تمام آسمانی کتابوں میں صراحت موجود تھی کہ ایک اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اسی لیے اللہ نے انہیں دھمکی دی کہ اللہ کی وحدانیت پر قطعی دلائل ہونے کے باوجود اگر وہ اپنی افترا پردازی اور کذب بیانی پر اڑے رہے تو قیامت کے دن انہیں آگ کا عذاب دیا جائے گا۔ المآئدہ
74 100۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم اور اپنے بندوں کے ساتھ فضل و رحمت کا معاملہ ہے کہ اس گناہ عظیم اور افک مبین کے باوجود انہیں توبہ و استغفار کی طرف بلاتا ہے، اور وعدہ کرتا ہے کہ جو توبہ کرے گا اللہ اسے معاف کردے گا، اور اس کے حال پر رحم کرے گا۔ المآئدہ
75 101۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تردید کی ہے کہ معجزات عیسیٰ اور کراماتِ مریم علیہما السلام ان کے معبود ہونے کی دلیل ہیں، بلکہ ان سے زیادہ سے زیادہ عیسیٰ کا نبی اور مریم کا ولی ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مسیح بن مریم دیگر رسولوں کی طرح ایک رسول تھے۔ جس طرح ان انبیاء کو اللہ نے معجزات دئیے، اسی طرح انہیں معجزات دئیے۔ اگر ان کے ذریعہ اللہ نے ابرص کو شفا دی اور مردوں کو زندہ کیا، تو موسیٰ کے ذریعہ لاٹھی کو زندگی دی، اور اسے سانپ بنا کر دوڑا دیا، اور سمندر کے دو حصے کردئیے، یہ زیادہ تعجب خیز امر تھا، اگر انہیں اللہ نے بغیر باپ کے پیدا کیا تو آدم کو بغیر باپ اور ماں کے پیدا کیا، اور یہ زیادہ تعجب انگیز تخلیق تھی، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں، یہ آیت دلیل ہے کہ مریم بنت عمران (ام عیسی) نبی نہیں تھیں، جیسا کہ ابن حزم وغیرہ کا خیال ہے کہ ام اسحاق، ام موسیٰ اور ام عیسیٰ کو اللہ نے نبی بنایا تھا، وہ کہتے ہیں کہ فرشتے سارہ اور مریم علیہما السلام سے مخاطب ہوئے تھے اور اللہ نے قرآن میں صراحت کی ہے کہ ہم نے ام موسیٰ کو وحی بھیجی کہ تم اسے دودھ پلاؤ لیکن جمہور کی رائے یہ ہے کہ انبیاء صرف مرد ہوئے ہیں اللہ نے سورۃ یوسف آیت 109 میں فرمایا ہے وما ارسلنا من قبلک الا رجالا نوحی الیہم من اہل القری، کہ آپ سے قبل ہم نے جتنے بھی انبیاء بھیجے، سبھی شہر کے رہنے والوں میں سے مرد تھے جن پر ہم وحی نازل کرتے تھے، ابو الحسن اشعری نے اس رائے پر امت کا اجماع نقل کیا ہے۔ 102۔ یہ صریح دلیل ہے کہ عیسیٰ اور ان کی ماں دونوں تمام انسانوں کی طرح انسان تھے، اس لیے کہ جو شخص غذا کھانے، اس کے ہضم ہونے، اور پھر اس کے اخراج کا محتاج ہوتا ہے، وہ گوشت پوست، ہڈی اعصاب اور دیگر اجزاء سے مرکب تمام اجسام کے مانند ایک جسم ہوتا ہے، معبود کیسے ہوسکتا ہے؟ المآئدہ
76 103۔ یہ عقیدہ نصاری کے بطلان کی ایک دوسری دلیل ہے۔ آیت میں ما اسم موصول ہے، جس سے مراد عیسیٰ اور ام عیسیٰ ہیں کہ یہ دونوں نہ کچھ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان، سب کچھ کا اختیار صرف اللہ کو حاصل ہے۔ اگر مخلوق کو کوئی قدرت حاصل ہے تو اللہ کی دی ہوئی ہے، اس لیے عیسیٰ اور ام عیسیٰ بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ اور اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے قرآن میں من کے بجائے ما استعمال کیا گیا ہے جو غیر ذی روح کے لیے استعمال ہوتا ہے، یعنی ان دونوں کی حیثیت دیگر تمام اشیاء کی مانند ہے جن کے اندر کوئی قدرت نہیں ہوتی ہے۔ صاحب فتح البیان نے لکھا ہے کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) کی یہ حیثیت تھی (جو نبی تھے) تو اولیاء کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے ظاہر ہے المآئدہ
77 104۔ عقائد نصاری کے بطلان کی توضیح کے بعد انہیں حق کی اتباع اور باطل میں غلو سے دور رہنے کی نصیحت کی جا رہی ہے کہ اے اہل کتاب ! حد سے تجاوز نہ کرو، اور جن کی تعظیم کا تمہیں حکم دیا گیا ہے ان کے بارے میں تنا غلو نہ کرو کہ انہیں مقام نبوت سے ہٹا کر مقام الوہیت تک پہنچا دو، جیسا کہ تم نے مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ کیا، اور اپنے ان گمراہ علماء کی اتباع نہ کرو جو خود گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی راہ حق سے بھٹکا دیا۔ یہ آیت دلیل ہے کہ دین میں غلو جائز نہیں ہے، جیسا کہ بہت سے لوگ طہارت میں غلو کرتے ہیں، اور شریعت میں جو کچھ ثابت ہے اس سے آگے بڑھ جانا تقوی سمجھتے ہیں اور جیسا کہ بہت سے لوگ صالحیں اور ان کی قبروں کے سلسلے میں غلو کرتے ہیں اور بتوں کی طرح ان کی پرستش کرتے ہیں۔ امام احمد، نسائی اور ابن ماجہ وغیرہم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، تم لوگ دین میں غلو کرنے سے بچو، اس لیے کہ تم سے پہلے کے لوگ دین میں غلو کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے، اور امام بخاری نے عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری تعریف میں حد سے آگے نہ بڑھو، جیسا کہ نصاری نے ابن مریم کے ساتھ کیا، میں تو اللہ کا ایک بندہ ہوں اس لیے مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔ المآئدہ
78 105۔ آیات 78، 79 میں خبر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمانہ قدیم سے بنی اسرائیل کے کافروں پر داود اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی لعنت بھیج دی ہے، اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور حد سے تجاوز کر گئے، انبیاء کو قتل کیا اور سیئات و معاصی کو اپنے لیے حلال سمجھا اور ایک بڑا گناہ یہ بھی کیا کہ انہوں نے ایک دوسرے کو ارتکاب معاصی سے روکنا چھوڑدیا، ان کے اس فعل بد پر مزید نکیر کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ ان کے کرتوت بڑے ہی برے تھے۔ ان دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل کے کافروں پر لعنت بھیجنی جائز ہے اور یہ کہ نہی عن المنکر، یعنی برے اعمال سے لوگوں کو روکنا واجب ہے، اسی لیے حاکم نے کہا ہے کہ نہی عن المنکر نہ کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا) اسلام کا اہم ترین قاعدہ اور عظیم ترین شرعی فریضہ ہے۔ اسی لیے اسے چھوڑ دینے والا گناہ کرنے والوں کا شریک، اور اللہ کے غضب و انتقام کا مستحق ہوتا ہے، جیسا کہ ان یہودیوں کے ساتھ ہوا جنہوں نے ہفتہ کے دن کے بارے میں فرمانِ الٰہی کا پاس نہیں رکھا، تو اللہ نے ان لوگوں کی بھی صورت مسخ کردی، جو اس عمل میں شریک نہیں تھے، اس لیے کہ انہوں نے ان پر نکیر نہیں کی، چنانچہ سبھی کی شکلیں بندروں اور سوروں جیسی ہوگئییں۔ امام احمد، ابو داود، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہم نے اس آیت کی تفسیر میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، بنی اسرائیل نے جب گناہوں کا ارتکاب کیا تو ان کے علماء نے منع کیا، لیکن وہ نہ مانے اور وہ علماء ان کی اس حرکت کے باوجود ان کی مجلسوں میں شریک ہوتے رہے، ان کے ساتھ کھاتے پیتے رہے تو اللہ نے ان کے دلوں میں اختلاف پیدا کردیا، اور داود اور عیسیٰ علیہما السلام کی زبانی ان پر لعنت بھیج دی، یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور حد سے تجاوز کر گئے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت کے بیان میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بہت ساری حدیثیں ہیں۔ یہاں میں صرف ایک حدیث کے ذکر پر اکتفا کرتا ہوں۔ امام احمد اور ترمذی نے حذیفہ بن الیمان سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم لوگ بھلائی کا حکم دو گے، اور برائی سے روکو گے، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تم پر اپنی جانب سے کوئی عذاب بھیج دے، پھر تم لوگ اللہ سے دعا کروگے، تو وہ قبول نہیں کرے گا۔ المآئدہ
79 المآئدہ
80 المآئدہ
81 106۔ یہ آیت یہود مدینہ کے بارے میں ہے کہ وہ مکہ کے مشرکین اور مدینہ کے منافقین کے ساتھ دوستی گانٹھتے ہیں، اور ان کی مدد کرتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ وہ لوگ تورات کی تعلیمات کے مطابق کافر ہیں اور ان سے دوستی کرنا حرام ہے، اسی لیے اللہ نے ان کے اس فعل شنیع کا انجام یہ بتایا کہ اللہ ان سے ناراض ہوگیا، اور روز قیامت و دائمی عذاب میں ہوں گے۔ اس کے بعد اللہ نے ان کے فعل شنیع پر مزید نکیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر وہ اپنے ایمان میں صادق ہوتے تو کافروں اور منافقوں کو اپنا دوست نہ بناتے۔ المآئدہ
82 107۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی ہے کہ یہود اور مشرکین دوسرے لوگوں کی بہ نسبت مسلمانوں کی عداوت میں زیادہ سخت ہیں۔ یہود نے ان سے اس لیے عداوت کی کہ مسلمان عیسیٰ (علیہ السلام) اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں پر ایمان لے آئے، اور اس لیے کہ حق کا انکار اور دعاۃ اور دعوت الی اللہ سے دشمنی انہیں وراثت میں ملی تھی، بہت سے انبیاء کو قتل کیا، اور کئی بار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی کہ اسلام آنے کے بعد عظیم یہودی سلطنت کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔ اور مشرکین نے اس لیے دشمنی کی کہ مسلمانوں نے اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا، اور انبیائے کرام کی نبوتوں پر ایمان لے آئے، جبکہ وہ کفر و شرک کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹکتے رہے۔ اور مسیح (علیہ السلام) کے ماننے والوں میں سے جو لوگ اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں، اور انجیل کے منہج کے مطابق اپنی زندگی گذارتے ہیں وہ مجموعی طور پر اپنے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دلوں میں نرمی ہوتی ہے اور یہود کی بہ نسبت ان کے دلوں میں حقد و حسد کم ہوتا ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں، اس کا سبب یہ ہے کہ دین مسیح پر قائم رہنے کی وجہ سے ان کے دلوں میں نرمی اور ہمدردی کا جذبہ ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ حدید آیت 27 میں فرمایا ہے وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ ورحمۃ، کہ ہم نے مسیح کے ماننے والوں کے دلوں میں ہمدردی اور رحمت کا جذبہ رکھا ہے، انجیل میں ہے کہ جو تمہارے دائیں گال پر تھپڑ مارے تم اس کے سامنے اپنا بایاں گال پیش کردو۔ اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جنگ کرنا دین مسیح میں مشروع نہیں تھا، اس کے برعکس مذہب یہود میں ہے کہ جو تمہارے دین کا مخالف ہو اسے نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرو، ابن مردویہ نے ابوہریرہ (رض) سے مرفوعا روایت کی ہے کہ جب بھی کوئی یہودی کسی مسلمان کو تنہائی میں پاتا ہے تو اسے قتل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نصاری مسلمانوں سے زیادہ قریب اس لیے بھی ہیں کہ ان کے اندر حصول علم اور زہد فی الدنیا کی رغبت پائی جاتی ہے۔ اور جس آدمی کے اندر یہ دونوں چیزیں پائی جائیں گی اس میں بغض و حسد کا مادہ کم ہوتا ہے، اسی کی طرف آیت کے آخر میں اشارہ ہے کہ ان میں علماء اور عباد و زہاد ہوتے ہیں جو تواضع اختیار کرتے ہیں، اور یہودیوں کی طرح کبر و غرور میں مبتلا نہیں ہوتے، اور نصاری کی صفت یہ بھی ہے کہ جب وہ اللہ کا کلام سنتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتا ہے، اس لیے کہ اس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت موجود ہے، اور دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! ہمیں ان لوگوں میں لکھ دے جو اس کے صحیح ہونے کی شہادت دیتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں۔ ان آیات میں عیسائیوں کی نرمی کا جو ذکر آیا ہے وہ اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ مسلمانوں سے دشمنی نہیں رکھتے۔ اسی لیے قرآن نے اشد الناس عداوۃ کے کلمات استعمال کیے ہیں کہ نصاری بھی دشمن ہیں، لیکن یہود و مشرکین عداوت میں بڑھے چڑھے ہیں، گذشتہ زمانے میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جو جنگیں ہوئیں ان کی وجہ عداوت بھی تھی، اور یہودیوں کی سازشوں کی وجہ سے بھی ایسا ہوا، یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ بسا اوقات دلوں میں نرم گوشے ہونے کے باوجود ذاتی یا قومی مفادات کی خاطر بھائیوں، رشتہ داروں، قبیلوں اور قوموں میں جنگیں ہوجایا کرتی ہیں۔ مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس سورت کی آیت 82 اور ساتویں پارہ میں اسی سورت کی آیات 83، 84 اور 85 نجاشی اور اس کے ساتھیوں کا ایمان اور ان کی صفات بیان کرنے کے لیے نازل ہوئی تھیں، ابن ابی حاتم نے سعید بن مسیب، ابوبکر بن عبدالرحمن اور عروہ بن زبیر سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عمرو بن امیہ ضمری کو ایک خطر دے کر نجاشی کے پاس بھیجا اور نجاشی نے خط پڑھ کر جعفر بن ابی طالب اور ان کے ساتھ موجود دیگر مہاجرین کو بلا بھیجا، اور اپنے علماء اور زاہدوں کو بلا لیا، جعفر رضی الہ عنہ نے سورۃ مریم کی تلاوت کی تو نجاشی اور اس کے تمام ساتھی قرآن پر ایمان لے آئے، اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ انہی لوگوں کی حالت اور ایمانی کیفیت بیان کرنے کے لیے مدنی زندگی میں یہ آیتیں نازل ہوئی تھیں۔ محمد بن اسحاق نے ام المومنین ام سلمہ (رض) سے ایک طویل روایت نقل کی ہے، جس میں انہوں نے مسلمانوں کے حبشہ کی طرف ہجرت کا واقعہ بیان کیا ہے، اور یہ کہ کفار قریش نے عبداللہ بن ابی ربیعہ اور عمرو بن العاص کو بہت سارے ہدیے اور تحائف دے کر حبشہ روانہ کیا، جنہوں نے وہاں جا کر نجاشی اور حبشہ کے پادریوں کو مسلمانوں کے خلاف بہت زیادہ ورغلایا کہ کسی طرح مسلمان مہاجرین کفار قریش کے حوالے کردئیے جائیں۔ لیکن جب جعفر بن ابی طالب نے اسلام کی تشریح کی، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات بیان کیں، اور مسیح بن مریم کے بارے میں اسلام کا صحیح عقیدہ پیش کیا، تو نجاشی بہت زیادہ متاثر ہوا اور مشرف بہ اسلام ہوگیا۔ انتہی۔ حافظ ابن القیم (رح) نے زاد المعاد میں تحریر کیا ہے کہ حبشہ کی طرف مسلمانوں کی ہجرت 5 نبوی میں ہوئی تھی۔ انتہی۔ بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نجاشی کی موت کی خبر پہنچی تو آپ نے صحابہ کرام (رض) سے فرمایا کہ حبشہ میں تمہارے بھائی نجاشی کا انتقال ہوگیا اس کی نماز جنازہ پڑھو، چنانچہ تمام صحابہ کے ساتھ آپ نے صحرا میں جا کر اس کی نماز جنازہ ادا کی۔ المآئدہ
83 (108) دیکھئے اسی سورت کا حاشیہ نمبر (107) المآئدہ
84 المآئدہ
85 المآئدہ
86 المآئدہ
87 (109) ترمذی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا کہ جب میں گوشت کھاتاہوں تو عورت کی خواہش ہوتی ہے اور میری شہوت ابھر آتی ہے اس لئے میں نے اپنے اوپر گوشت کو حرام کرلیا ہے یہ آیت نازل ہوئی۔ صحیحین میں انس (رض) سے مروری ہے کہ بعض صحابہ کرام نے امہات المومین سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خفیہ اعمال صالحہ کے بارے میں دریافت کیا، اور ان میں سے کسی نے کہا، گوشت نہیں کھاؤں گا۔ اور کسی نے کہا میں شادی نہیں کروں گا، اور کسی نے کہا میں بستر پر نہیں سوؤں گا، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا : کچھ لوگ ایسا ایسا کہتے ہیں، حالانکہ میں روزہ رکھتاہوں اور افطار کرتاہوں اور جاگتاہوں اور گوشت کھاتاہوں، اور شادی کرتاہوں، جو شخص میرے سنت سے اعراض کرے گا وہ مجھ میں سے نہیں ہوگا " امام شافعی رحمتہ اللہ اور جمہور علماء کا مذہب ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اوپر کھانے پہنے کی چیز یا لباس یا کسی اور چیز کو حرام کرلیتا ہے، تو وہ حرام نہیں ہوجاتی اور نہ اس پر کوئی کفارہ ہے۔ (علماء نے عورت کی تحریم کو اس سے مستثنی قرار دیا ہے) اس لئے کہ آیت کا حکم مطلق ہے اور اس لئے کہ جس صحابی نے (ترمذی کی گذستہ روایت کے مطابق) اپنے اوپر گوشت کو حرام بنا لیا تھا، اسے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفارہ کا حکم نہیں دیا۔ امام ابو حنیفہ اور امام احمد رحمہا اللہ کا مذہب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلیتا ہے تو وہ چیز حرام ہوجائے گی، اور اسے کھانے سے کفارہ لازم ہوگا، امام شوکانی کہتے ہیں کہ یہ مذہب اس آیت کے خلاف ہے، اور صحیح احادیث کے بھی خلاف ہے۔ المآئدہ
88 المآئدہ
89 (110) ابن جریر نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب آیت نازل ہوئی تو جب صحابہ کرام نے اپنے لئے عورت اور گوشت کو حرام بنا لیا تھا انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ ہم لوگ اس بارے میں اپنی قسموں کا کیا کریں ؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، اور لغو قسم اور دل سے کھائی ہوئی قسم کا حکم بیان فرمایا۔ یہ آیت دلیل ہے کہ لغو قسم پر اللہ تعالیٰ مواخذ نہیں کرے گا، اور نہ ہی اس کا کفارہ ہے، لغو قسم وہ ہے جسے آدمی بغیر کسی نیت کے یو نہی زبان پر بطور عادت لاتا رہتا ہے جیسے کوئی کہے : اللہ کی قسم، رب کی قسم، اپنے پیدا کرنے والے کی قسم اس کی کوئی نیت نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی شخص کسی بات پردک کی نیت کے ساتھ قسم کھاتا ہے اور اسے پوری نہیں کرتا، تو اسے اس کا کفارہ ادا کرناہو گا، جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ دس مسکینوں کو کھانا کھلانے کی تحدید کے بارے میں صحابہ اور تابعین کے کئی اقوال ہیں : علی بن ابی طالب (رض) کا قول ہے کہ دوپہر اور رات دونوں وقت کا کھانا کھلانا ہوگا، حسن بصری اور محمد بن قاسم الحسنیفہ کہتے ہیں کہ صرف ایک بار ورٹی اور گوشت کھلانا کافی ہوگا، عمر، عائشہ اور بعض تابعین کا خیال ہے کہ ایک آدمی کو نصف صاع ( تقریبا سو کیلو) گہیوں کا کھجور دینا کافی ہوگا، چونکہ آیت میں اس کی کوئی تحدید نہیں ہے اس لئے راجھ یہی معلوم ہوتا ہے کہ دس مسکینوں کو پیٹ بھر کھانا کھلادینا کافی ہوگا، اسی طرح لباس کی بھی تحدید نہیں آئے ہے اس لئے وقت اور حالات کے مطابق رائج لباس دینا کافی ہوگا غلام یا لو نڈی کے بارے میں ابو حنیفہ کا قول ہے کہ مسلم اور کافر کوئی بھی کافی ہوگا، لیکن شافعی اور دوسروں کا خیال ہے کہ مسلمان ہونا ضروری ہے، جیسا کہ معاویہ بن الحکم السلمی کی روایت میں آیا ہے، جسے مسلم اور امام مالک وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ انہیں ایک آزاد کرنا تھا، وہ ایک لونڈی لے کر آئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہے ؟ اس نے کہا : آسمان میں پھر پوچھا میں کون ہوں ؟ تو اس نے کہا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ اسے آزاد کردو، یہ مسلمان ہے۔ (111) اس میں دلیل ہے کہ قسم نہ توڑنا افضل ہے، الایہ کہ قسم توڑدینے میں کوئی زیادہ بڑی بھلائی ہو۔ المآئدہ
90 (112) پہلے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے منع کیا کہ وہ اس کی حلال کی ہوئی چیزوں کو اپنے لئے حرام نہ بنائیں، اب اللہ کی حرام کی ہوئی چیزیں بیان کی جارہے ہیں تاکہ اس سے بچیں۔ اس آیت کریمہ میں شراب اور جوا کی حرمت کو بطور تاکید بیان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کئی اسباب اختیار کئے ہیں : انما" کا لفظ ابتدائے جملہ میں استعمال کیا، بتوں کی پرستش کے ساتھ دونوں کا ذکر کی، دونوں کو رجس یعنی گندی چیز کا ذکر کیا۔ سورۃ بقرہ کی آیت (219) کی تفسیر میں بیان کی جاچکا ہے کہ شراب تین مراحل سے گذر کر سورۃ مائدہ کی اس آیت کے نزول کے بعد قطعی طور پر حرام ہوگئی۔ وہاں شراب اور جوا کی خرابیاں بھی بیان کردی گئی ہیں اس آیت میں شراب اور جوا کے ساتھ ساتھ بتوں کی پرستش اور قر عہ کے تیروں کے ذریعے قسمت معلوم کے عمل کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔ آیت میں شراب اور جوا کے دینی اور نیوی مفاسد کو بھی بیان کردیا گیا ہے، کہ دونوں چیزین مسلمانوں کے درمیان عداوت پیدا کرتی ہیں اور نماز اور ذکر الہی سے روکتی ہیں پھر آخر میں "فھل انتم منتھون " کے ذریعہ زجرو توبیح کی انتہا کردی گئی ہے کہ اب بھی تم لوگ ان کے استعمال سے رک جاؤ گے، یا کسی اور حکم کا انتظار کروگے، چنانچہ حضرت عمر اور دیگر صحابہ نے کہا ہے کہ اے اللہ ! ہم رک گئے (مسند احمد) امام رازی نے لکھا ہے کہ یہ آیت بطور نص صریح دلالت کرتے ہیں کہ نشہ پیدا کرنے والی ہم چیز حرام ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ن شراب کی حرمت کا سبب وہ دنیوی نقصانات بتائے ہیں جو شراب میں پائے جاتے ہیں اور یہ نقصانات اس نشہ کی وجہ سے ہوتے ہیں جو شراب میں پایا جاتا ہے اس لئے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوگئی کہ ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے جیسا کہ امام مسلم نے ابن عمر (رض) سے ررایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے :" ہر نشہ والی چیز شراب ہے اور ہر نشہ پیدا کرنے والی چیز حرام ہے "۔ انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں ابو طلحہ کے گھروں میں میں لوگوں کو شراب پلارہا تھا ( ان دنوں شراب کھجور کی بنی ہوتی تھی) کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ اعلان کردیا کہ شراب حرام کردی گئی، ابو طلحہ (رض) نے مجھ سے کہا کہ جاؤ باہر جاکر اسے بہا دو، میں نے باہر جاکر اسے بہادیا او وہ مدینہ کی گلیوں میں بہنے لگی، بعض لوگوں نے کہا کہ کچھ لوگ اس حال میں مر گئے ہیں کہ شراب ان کے پیٹ میں تھی، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (بخاری وترمذی) المآئدہ
91 المآئدہ
92 المآئدہ
93 اس آیت کریمہ میں ءاللہ تعالیٰ نے کھا نے پینے کی تمام چیزوں کو حلال قرار دیا ہے لیکن اس استناء کے ساتھ کہ وہ نص صریح کے ذریعہ حرام کی ہوئی چیزوں سے بچیں، اللہ پر ایمان لائیں اور عمل صالح کریں دوسرے :"اتقوا کا عطف پہلے اتقوا پر ہے یعنی جو لوگ ادیان سابقہ کی حلال اشیاء میں سے اسلام میں حرام کی ہوئی چیزوں سے بچے، اور ان کی حرمت پر ایمان لائے، تیسرے "اتقوا کا عطف دوسرے اتقوا پر ہے یعنی جنہوں نے تیسری بار ادیان سابقہ میں حلال چیزوں میں سے اسلام میں حرام کی ہوئی چیزوں سے اجتناب کی اور عمل صالح کیا بعض لوگوں نے کہا ہے کہ آیت میں تکرار سے مقصود یہ ہے کہ آدمی اللہ کے عذاب کے ڈر سے محرمات سے بچنا چاہیئے، اور حرام میں پڑنے کے ڈر سے شہبات سے بچنا چاہئے۔ اور اپنے آپ کو خست اور ذالت سے دور رکھنے کے لیے بعض مباح چیزوں سے بھی بچنا چاہیے۔ المآئدہ
94 (114) اس آیت کریہا میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کے خطاب کرکے فرمایا ہے کہ وہ انہیں آزمائے گا، تاکہ فرمانبردار اور غیر فرمانبردار دونوں طرح کے لوگوں کا پتہ لگ جائے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے اوپر حالت احرام میں شکار کرنے کو حرام قرار دیا ہے پھر حالت ایسی کردی کہ چھوٹے بڑے شکار ان کے دائیں بائیں پھر نے لگے تاکہ اللہ دیکھ لے کہ کون اس کا حکم مان کر انہیں نہیں چھڑتا، اور کون اس کی نافرمانی کرتا ہے۔ ابن حبان نے لکھا ہے کہ یہ آیت عمرہ حدیبیہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جب جنگلی جانور، چڑیا اور شکار کے دوسرے جانور ان کے خیمہ کے پاس اس کثرت سے آنے لگے کہ انہوں نے ایسا کبھی بھی نہیں دیکھا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے بطور آزمائش حالت احرام میں انہیں قتل کرنے سے منع فرما دیا۔ المآئدہ
95 (115) اگر کوئی شخص حالت احرام میں کسی جانور یا شکار کو قتل کردے تو اس پر کیا حکم مرتب ہوگا، اس آیت میں یہی بیان کیا گیا ہے، ابن عباس، امام احمد اور داؤد ظاہری نے آیت سے استدالال کرتے ہوئے کہا ہے کہ غلطی یا بھول کر کسی شکار یا جانور قتل کرنے پر کوئی کفارہ نہیں۔، ابن عمر، حسن، نخعی، زہر ی، ابو حنیفہ، مالک اور شافعی وغیر ہم کا خیال ہے کہ کفار ہر حالت میں واجب ہوگا، اور آیت میں "متعمدا" کا لفظ عام حالت کو بیان کرنے کے لیے آیا ہے، شرط نہیں ہے ابن عباس کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ کفار اس شخص پر واجب ہوگا جو حالت احرام کو بھول گیا ہو اور قصد اشکار کرلیاہو مجاہد کا بھی یہی قول ہے ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر حالت احرام کے یاد رہتے ہوئے ایسا کرے گا تو اس کا احرام کھل جائے گا اس لیے کہ اس نے احرام کے خلاف فعل کا ارتکاب کیا جیسا کہ کوئی شخص نماز میں بات کرنے لگے یا ہو خارج کردے۔ (116) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک قیمت میں مماثلت مراد ہے، اور مالک شافعی، احمد اور جمہور فقہاء کے نزدیک خلقت میں مما ثلت مراد ہے، شو کانی نے دوسرے رائے کی تائید کی ہے اس لیے کہ من النعم یعنی اونٹ، گائے اور بکرے کی صراحت اور ھدیا بالغ الکعبتہ یعنی وہ فدیہ جانور ہو جو کعبہ تک پہنچایا جائے سے اسی قول کی تائید ہوتی ہے امام ابو حنیفہ کا یہ بھی قول ہے کہ مماثلت جانور کے ہوتے ہوئے قیمت دینا جائز ہے اور محرم کو اخیتار ہے۔ (117) ایسے دو آدمی جو مسلمانوں میں نیکی اور عدالت میں مشہور ہوں امام ابو حنیفہ کے نزدیک شکار کو قتل کرنے والا ان دونوں میں سے ایک نہیں ہو اور امام شافعی کے ایک قول کے مطابق وہ شخص ان دونوں میں سے ایک ہو سکتا ہے۔ علماے نے شکار کے ہر جانور کا مما ثل متعین کیا ہے شتر مرغ اونٹ کے مشابہ ہے، جنگلی گائے شہری گائے کے مشابہ ہے۔ اور جمہور علماء کا خیال ہے کہ حالت احرام میں شکار کو قتل کرنے والے کے لیے کفارہ کے تینوں اقسام کے درمیان اختیار حاصل ہے اور ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ کھانا کھلانا، اور روزہ رکھنا، فدیہ کے جانور نہ ملنے کی صورت میں ہی جا ئز ہے۔ یعنی زمانہ جایلیت میں اگر کسی نے ایسا کیا تھا تو وہ معاف ہے، معاف ہے بعض نے اس مفہوم یہ بیان کیا کہ کفار کا حکم نازل ہونے سے پہلے اگر کسی نے ایسا کیا تھا تو وہ معاف ہے۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس حکم سے صرف پانچ جانور مستثنی ہیں جیسا کہ صحیحین میں عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پانچ قسم کے جانور بدکار ہیں، انہیں حدود حرم میں بھی قتل کردیا جائے گا کوا، چیل، بچھو، چوہا، اور کاٹنے والاکتا "زید بن اسلم اور ابن عیینہ کہتے ہیں کہ " کاٹنے والا کتا "تمام خطرناک جانوروں کو شامل ہے اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب عتبہ بن ابو لہب کے لیے بد دیا کی تو کہا اے اللہ ! تو اس پر اپنا کتا مسلط کردے، تو مقام زرقاء پر جنگلی جانوروں نے اسے چیر پھاڑ کر ختم کردیا۔ المآئدہ
96 (119) حالت احرام میں شکار کی حرمت اور اس کا کفارہ بیان کرنے کے بعد اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بطور احسان یہ بتایا ہے کہ محرم کے لیے سمندر کی زندہ مچھلیوں کا شکار اور ان مردہ مچھلیوں کا کھانا بھی حلال ہے جو موجوں کی زد میں آکر ساحل سمندر پر آجاتی ہیں۔ جمہور علماء نے اسی آیت سے سمندر کی مردہ مچھلیوں کا کھانا حلال قرار دیا ہے اس کے علاوہ جابر (رض) کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جسے مالک، بخاری اور مسلم وغیرہم نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو عبیدہ بن الجراح کی قیادت میں تین سو افراد کا ایک لشکر ساحل سمندر کی طرف بھیجا، ان کا زاد سفر ختم ہوگیا تو سمندر کے کنارے انہیں ایک بہت بڑی مردہ مچھلی ملی، جس کا گوشت انہوں نے اٹھارہ دن تک کھایا، بعض روایتوں میں ہے کہ صحابہ کرام اس کا کچھ حصہ مدینہ بھی لائے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس میں کھا یا اسی طرح ابو ہریرہ (رض) کی روایت سے استدلال کیا ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ یارسول اللہ ! ہم لوگ سمندر کا سفر کرتے ہیں، ہمارے پاس پای کم ہوتا ہے اگر اس سے وضو کرلیں تو بیا سے رہ جائیں، کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کرلیں ؟ تو آپ نے فرمایا : اس پانی پاک ہے اور اس مردہ حلال ہے (مالک شافعی احمد اور اصحاب سنن) ایک اور روایت میں ہے جسے امام احمد اور ابن ماجہ نے ابن عمر رضی اللہ عنامی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہمارے لیے دو مردے اور دو خون حلال کرد ئیے گئے ہیں ؛ دو مردے یعنی مچھلی اور ٹڈی اور دو خون کلیجی اور تلی"اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے بعض فقہا نے کہا ہے کہ سمندر کے تمام جانوروں کا کھانا بغیر استثناء جا ئز ہے، اور بعض حضرات نے مینڈک کو مستثنی قرار دیا ہے اس لئے کہ ابو عبدالرحمن التیمی کی روایت ہے جسے امام احمد اور ابوداؤد نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مینڈک کو مارنے سے منع فرمایا ہے۔ (ا 120) حالت احرام میں خشکی کے جانوروں کا شکار حرام ہے، آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ محرم کے لیے بری شکار کا گوشت کرنا ہوگا، ورنہ حلال ہوگا۔، اور بعص لوگوں کا خیال ہے کہ محرم کے علاہ کسی دوسرے کا شکار کیا ہوا جانور مطلقا حلال ہوگا۔ المآئدہ
97 ( 121) آیت کریمہ میں الناس سے دور جاہلیت کے عرب مراد ہیں، اللہ تعالیٰ کے کعبہ کو جو "بیت حرام"ہے عربوں کے لیے دنیوی اور دینی فوائد ومصالح کا بہت بڑا ذریعہ بنایا تھا، حدود حرم میں داخل ہوجانے والا ہر خوف سے امن میں آجاتا ہے تھا وہاں کمزور کی مدد کی جاتی تھی، ان کی تجارت میں نفع ہوتا تھا اور عبادت گذار وہاں سکون قلب کے ساتھ عبادت میں لگا رہتا تھا اور ہر قسم کے پھل دوسرے شہروں سے وہاں پہنچتے تھے۔ شہر حرام سے مراد رجب ذی القعدہ، ذیالحجہ اور محرم چار مہینے ہیں، ان مہینوں میں عرب اپنے اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کے لیے قتال نہیں کرتے تھے ان مہینوں کی حرمت کا پاس رکھتے تھے اور ھدی کے جانور اور قلادہ پہنائے ہوئے ااونٹوں کو بھی اللہ نے ان کے لیے امن کا ذریعہ بنا دیا تھا، اس لیے کہ جو شخص ھدی " کا عام جانور یا قلادہ پہنا ہوا اونٹ لے کر یا خود اپنی گردن میں قلادہ ڈال کر حرم کی طرف روانہ ہوتا تھا وہ مامون ہوجاتا تھا راستہ میں کوئی اس سے تعرض نہیں کرتا تھا، اللہ تعالیٰ نے عربوں کو فائدہ پہنچانے اور ان سے ضرر اور نقصان کو دور کرنے کے لیے یہ سارے اسباب اس وقت مہیا کیے تھے جبکہ ان کی کوئی حکومت نہیں تھی نہ کوئی نطم ونسق تھا، ہر شخص اور ہر قبیلہ بے لگام تھا، یہ اس بات کی یقینی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان وزمین کی تمام اشیاء کو ان کے وقوع پذیر ہونے کے پہلے سے جانتا ہے اور جو کچھ قیامت تک ہوگا اسے بھی جانتا ہے المآئدہ
98 (122) اللہ کی حرمتوں کی پامال کرنے والوں کے لیے عقاب شدید کی وعید اور ان کی حفاظت کرنے والوں کے لیے رحمت وغفران کا وعدہ ہے۔ المآئدہ
99 (123) یعنی ہمارا رسول پیغام پہنچا دینے کے بعد اپنی ذمہ داری سے عہدہ بر آہو گیا اور حجت تمام ہوگئی، اب تمہارے لیے اللہ کی عدم اطاعت کے لیے کوئی عذر نہیں باقی رہ گیا اور اللہ سے کوئی خیر و شر چھپا نہیں ہے، وہ تمہیں اس کا بدلہ دے کر رہے گا۔ المآئدہ
100 (124 اللہ کی نگاہ میں اشخاص، اعمال اور اموال میں اچھے اور برے برابر نہیں ہوسکتے، اس لیے ہمیشہ صالح اعمال اور حلال مال کے حصول کی کو شش میں لگے رہنا چاہئیے خبیث کی کثرت اگرچہ بعض اوقات انسان کو نتا ثر کرتی ہے لیکن اللہ کے نزدیک ہمیشہ اعتبار صالحیت اور عمدگی کا ہوتا ہے، قلت وکثرت کا نہیں، اگر افراد، یا مال، یا عمل، صالح ہے تو تھوڑا بھی مذموم وخبیث کی کثرت سے ہزار درجہ بہتر ہے اس لیے مومنین کی کو شش یہ ہونی چاہیے کہ خبیث سے احتراز کریں اور طیب و صالح کو ترجیح دیں چاہے وہ کم ہو۔ المآئدہ
101 (اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک تشریعی ادب کی تعلیم دی ہے، اور انہیں ایسے سوالات کے نے سے منع فرمایا ہے جن میں بظا ہر کوئی فائدہ نہ ہو اور خواہ مخواہ کی کرید سے منع کیا ہے اس لیے کہ بسا اوقات ایسے غیر ضروری سوالات کے جواب میں ایسی باتیں سننی پڑتی ہیں جن سے آدمی کو تکلیف ہوتی ہیں، ورایات میں آتا ہے کہ بعض صحابہ کرام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے غیر ضروری سوالات کرتے تھے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ذہنی تکلیف ہوتی تھی، اس آیت کریمہ میں اس قسم کے تمام سوالات سے منع کیا گیا ہے بخاری و مسلم نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک بار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دے رہے تھے، ایک آدمی نے پوچھا کہ میرا رب کون ہے ؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا : فلاں آدمی تع یہ آیت نازل ہوئی بعض روایتوں میں آیا ہے کہ اس صحا بی کا نام عبداللہ بن حذافہ تھا۔ امام احمد، ترمذی، اور ابن ماجہ وغیر ہم نے علی بن ابی طالب (رض) سے روایت کی ہے کہ جب نازل ہوئی، جس میں اللہ تعالیٰ نے حج کی فرضیت کا اعلان کیا ہے۔ تو بعض لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! کیا یہ حکم ہر سال کے لیے ہے؟ تو آپ خاموش رہے، ان لوگوں نے دوبارہ پوچھا کہ کیا یہ حکم ہر سال کے لیے ہے ؟ تو آپ نے کہا کہ نہیں لیکن اگر میں ہاں کہہ دیتا تو یہ حکم ہر سال کے لیے واجب ہوجاتا اور جب واجب ہوجاتا تو تم لوگ اس پر عمل نہ کرپاتے اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔ صحیحین میں سعد بن وقاص (رض) سے مروی ہے کہ مسلمان میں سب سے بڑا مجرم وہ ہے جس نے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جو پہلے سے حرام نہیں تھی، اور اس کے اس سوال کرنے کی وجہ سے حرام کردی گئی ایک دوسری حدیث صحیحین میں ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں جب تک تمہیں چھوڑے رکھوں تم لوگ بھی مجھے چھوڑے رکھو، کیونکہ تم سے پہلے کے لوگوں کو ان کے کثرت سوال اور انبیاء کی مخالفت نے ہلاک کیا تھا۔ (126) اللہ تعالیٰ نے غیر ضروری سوالات سے منع فرمانے کے بعد یہاں یہ بات کہی ہے کہ اگر قرآن کی کوئی آیت اترنے کے بعد تمہارے ذہنوں میں اس سے متعلق سوال آئے تو ہمارے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا جواب دیں گے او آیت کی تشریح کریں گے حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے یہ مفہوم بیان کیا ہے اور اس سے یہ شبہ بھی زائل ہوجاتا ہے کہ مطلق سوال سے منع کردیا گیا تھا یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انقباع وحی کے بعد کسی ایسی وحی کا نزول توبند ہوگیا جس سے سوال کرنے والوں کے تکلیف ہو، لیکن خواہ مخواہ کے سوالات کرنا اسلام میں اچھی بات نہیں مانی گئی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ آدمی کے اسلام میں اچھا ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ غیر ضروری باتوں سے پر ہیز کرے۔ (ترمذی ابن ماجہ) عفا اللہ "عنھا" یعنی ماضی میں جو کچھ بیان نہیں کیا ہے انہیں اللہ نے معاف کردای ہے اگر اللہ چاہتا تو انہیں بھی بیان کرکے تم پر واجب کردیتا۔ المآئدہ
102 (127) گذشتہ امتوں نے اپنے رسولوں سے غیر ضروری اور اذیت پہنچانے والے سوالات کیے اور جب ان سوالات کی وجہ سے ان پر احکام وفرائض عائد کیے گئے تو انہوں نے انہیں بجالانے سے انکار کردیا اور کفر کے مرتکب ہوئے۔ المآئدہ
103 128 گذشتہ آیتوں میں اللہ نے حلال اور پاک چیزوں کو حرام بنانے سے منع کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ اللہ نے جو حلال اور پاک روزی دی ہے اس کھاؤ۔ اس کے بعد کھانے پینے کی چیزوں، بربی اور بحری شکارر، بدی کے جانور اور قلادہ پہنائے ہوئے ان اونٹوں کا ذکر آیا ہے جو اللہ کے نام پر حرم کی طرف لے جاتے ہیں اور حدود حرم انہیں اللہ رضا کے لیے ذبح کیا جاتا ہے اسی منازبت سے اب ان جانوروں کا بیان ہو رہا ہے جنہیں اہل عرب کے بجائے بتوں کے نام پر چھوڑدیتے تھے، اور ان کا کھانا اپنے لیے حرام قرار دیتے تھے۔"بحیرہ " اس اونٹنی کو کہتے تھے، جس نے پانچ بار بچے دیئے ہوں اور آخری بار نر جنی ہو، تو اس کا کان چھید کر آزاد کردیتے تھے، نہ اس پر سوال ہوتے تھے نہ ذبح کرتے تھے، اور نہ اسے حامل ہونے دیتے تھے اور اسے کسی پانی کی جگہ اور چراہ گاہ سے روکتے نہیں تھے، اگر کوئی تھکا ماندہ بغیر سواری کا آدمی بھی اسے دیکھتا تو اس پر سوار نہ ہوتا تھا۔"سائبہ" اس اونٹنی کو کہتے تھے، جسے زمانہ جاہلیت میں بطور نذرانہ یا بتوں کے نام پر چھوڑدیا جاتا تھا نہ اس پر سوار ہوتے تھے اور نہ اس پر برادری کا کام لیتے تھے، اس کا ایک دوسرا معنی یہ بھی بتایا گیا کہ جو اونٹنی دس بار بچے جنتی تھے اور ان میں نر نہیں ہوتا تھا، تو اسے چھوڑ دیا جاتا تھا نہ اس پر سوار ہوتے تھے نہ اس کا بال کاٹتے تھے، اور نہ ہی سوائے اس کے بچے اور مہمان کے کوئی اس کا دودھ پیتا تھا، ایک تیسرا مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب کوئ دور کے سفر سے آتا، یا کسی بیماری سے شفا یاب ہوتا، یا اس کا چوپایہ کسی مشکل یا جنگ سے بچ جاتا، تو کہتا کہ میری اونٹنی آزاد ہے۔"وصیلتہ" اس بکری کو کہتے تھے جو چھ بار دو دو مادہ بچے جنتی، اور ساتویں بار مادہ اور ایک نر بچہ دیتی، تو لوگ کہتے کہ مادہ نے اپنے بھائی کا ملالیا، اس لیے نر کو اپنے معبودوں کے لیے ذبح نہیں کرتے تھے۔"حام" اس اونٹ کو کہتے تھے جس کے مادہ اونٹنی پر جست لگانے کی تعداد مقرر کردی جاتی تھی، اس کے بع اس کے جسم پر مور کے پر باندھ دیتے اور اسے بتوں کے لیے چھوڑدیتے بعض کے نزدیک "حام :" اس اونٹ کو کہا جاتا تھا جس کے صلب سے دس بار اونٹنی نے بچہ جنا ہو، پھر اسے چھوڑدیا جاتا تھا۔ ان چار قسموں کے جانوروں کی تشریح میں اور بھی اقوال آئے ہیں، لیکن ان کے درمیان کوئی منافات نہیں، اس لیے کہ اہل جاہلیت کی گمراہیاں ناگوں تھیں، جنہیں اللہ نے مشروع نہیں کیا تھا، بلکہ مشرکین نے اپنی طرف سے ایجاد کرلیا تھا۔ صحیحین میں ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ بنی صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں عمر بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی ابتڑیاں گھسیٹ رہا تھا، وہ پہلا شخص تھا جس نے بحیرہ اور سائبہ " جانور چھوڑاتھا اور دین اسماعیل کو بد دیا تھا"مسند احمد میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ""ابو خزاعہ عمر بن عامر پہلا شخص تھا جس نے بحیرہ "اور"سائبہ"جانور چھوڑاتھا، اور میں نے اسے دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا تھا " المآئدہ
104 (129) جو مشرکین مختلف شرکیہ اعمال میں مبتلاء تھے، ان سے جب کہا جاتا کہ تم لوگ اپنے باپ دادوں کی تقلید چھوڑدو جنہوں نے اللہ کے بارے میں افترا پردازی سے کام لیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول جو کہتے ہیں اس پر عمل کرو، تو وہ فورا بول اٹھتے کہ ہم تو اپنے باپ دادوں ہی کی تقلید کریں گے اس کا جواب اللہ نے دیا کہ کیا باپ دادوں کی تقلید ان کے لیے کافی ہوگی چاہے ان کے وہ باپ دادے حق کو جانتے اور پہچانتے نہ ہوں۔ المآئدہ
105 (130) اندھی تقلید اومہلک بد عت کی خطر ناکیوں کو بیان کرنے بعد بھی دلا یا جاتاکہ آدمی اگر راہ ہدایت پر گامزن ہے اور امر بالمعروف اور نہی عنالمنکر کا فریضہ المقدوراداکررہا ہے، تو دوسرے کی گمراہی کا بال اس کے سر نہیں آئے گا اس لیے کہ روز قیامت کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور ہر شخص کو اس کے اپنے کیے کا بدلہ ملے گا۔ دوسروں کا گناہ اس کے سر نہیں ڈالا جائے گ ا، اس آیت کریمہ میں اسی مفہوم کو واضح کیا گیا ہے، لیکن اس کا یہ ہرگز مفہوم نہیں ہے کہ مسلمان پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب نہیں ہے۔ اصحاب سنن نے روایت کی ہے کہ ابو بکر (رض) نے حمد وثنا کے بعد کہا : اے لوگو ! تم یہ آیت پڑھتے ہو، اور اس کا غلط مفہوم سمجھتے ہو میں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ برائی کو دیکھیں گے اور اسے نہیں بد لیں گے تو قریب ہے کہ اللہ کا عذاب ان سب کو آدبو چے گا۔ ابو ثعلہ خشی کی ایک اور روایت سے (جسے ترمذی نے روایت کی ہے) ثابت ہوتا ہے کہ اس آیت سے مراد وہ مسلمان ہیں جو آخری زمانہ میں آئیں گے، کہ جب ہر شخص اپنی خواہش کا بندہ ہوگا، دنیا کو دین پر ترجیح دے گا اور ہر آدمی اپنی رائے پر خوش ہوگا، رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ کے ملمانوں کو نصیحت کی ہے کہ جب ایسا زمانہ آجائے تو عوام الناس کو چھوڑکر اپنی فکر میں لگ جاؤ، اس آیت کی ابتداء میں ہے کہ ابو ثعلہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں، بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو، یہاں تک کہ وہ زمانہ آجائے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ المآئدہ
106 (131) اس آیت کریمہ میں وصیت کا ایک اہم حکم بیان کیا گیا ہے، عوفی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ حکم منسوخ لیکن اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ یہ آیت محکم ہے آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے مسلمانو ! جب تم حالت سفر میں ہو، اور تمہاری وفات کے آثار ظاہر ہونے لگیں، اور تمہارے پاس مال واثاثہ ہو، تو اللہ کا حکم یہ ہے کہ مسلما نوں یا غیر مسلموں میں سے دو اصحاب عدل وصدق کو اس پر گواہ بنادو۔ اگر ان دونوں گواہوں کے بارے میں میت کے ورثہ کو شبہ ہوجائے کہ شاید انہوں نے خیانت کی ہے اور میت کا کچھ مال چھپا لیا ہے تو انہیں عصر کی نماز کے بعد حلف اٹھا نے کے لیے روک لیا جائے گا۔ پھر وہ اللہ کی قسم کھائیں گے اور کہیں گے کہ ہم مال کی وجہ سے اللہ کی جھوٹی قسم نہیں کھائیں گے، چاہے جس کے لیے ہم قسم کھارہے ہیں وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو اور جس گواہی کا اللہ نے حکم دیا ہے اس چھپاکر ہم گنا گار نہیں ہوں گے، اور اگر ان دونوں کے قسم کھالینے کے بعد پتہ چل جائے کہ انہوں نے خیانت کی ہے، تو میت کے رشتہ داروں میں سے دو قریبی رشتہ دار آگے بڑھیں گے اور حلف اٹھائیں گے کہ ہم دونوں کی گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ قابل قبول ہے کہ انہوں نے خیانت کی ہے اور کذب بیانی سے کام لیا ہے اور یہ کہ ہم نے جو ان پر خیانت کی تہمت دھری ہے تو اس میں ہم نے ان پر زیادتی نہیں نہیں کہ ہے اگر ہم زیادتی کی ہوگی تو ظالموں میں ہوں گے اور اللہ کی ناراضگی اور اس کے عذاب کے مستحق ہونگے۔ اس کے بعد اللہ انے اس طرح حلف لینے کی حکمت و مصلحت بیان کی کہ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ گواہان آخرت کے عذاب سے ڈرتے ہوئے، امر واقعہ میں بغیر کوئی تبدیلی لائے ہوئے گواہی دے گے اور خیانت کا شبہ ہونے کی صورت میں دو قرینی رشتہ داروں سے حلف لینے کی حکمت یہ ہے کہ حالت سفر کے گواہان ڈریں گے کہ اگر ہم نے کذب بیانی کی تو ہماری قسم رد کردی جائے گی اور قریبی رشتہ دار قسم کھائیں گے، اور ہمارا جھوٹ لوگوں کے سامنے ظاہر ہوجائے گا۔ اس واقعہ کے شان نزول میں ابن ابی حاتم نے تمیم الداری سے ایک مفصل روایت نقل کی ہے۔ اور ترمذی ابن عباس (رض) سے اسے اختصار کے ساتھ روایت کی ہے کہ بنی سہم کا ایک آدمی تمیم الداری اور عدی بن بداء کے ساتھ سفر میں گیا، اور ایسی جگہ اس کی موت آگئی جہاں کوئی مسلمان شخص نہیں تھا، جب وہ دونوں اس کا متروکہ سامان لے کر آئے، تو اس کے ورثہ نے اس میں چاندی ایک جام نہیں پایا جس پر سونے کا خول چڑھا ہوا تھا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں سے حلف لیا، اور انہوں نے حلف اٹھا لیا، اس کے بعد وہ جام مکہ میں پایا گیا، اور پوچھے جانے پر معلوم ہوا کہ انہوں نے اسے تمیم اور عدی سے خریدا تھا، چناچہ سہمی کے دو رشتہ داروں نے حلف اٹھا یا کہ ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی سے زیادہ صحیح اور حق کے قریب ہے، اور یہ کہ جام ہمارے رشتہ دار کا ہے، اسی واقعہ سے متعلق یہ آیت نازل ہوئی، اسے امام بخاری اور ابو داؤد نے بھی روایت کی ہے۔ المآئدہ
107 المآئدہ
108 المآئدہ
109 (132) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو قیامت کی ہو لنا کیوں سے ڈرایا ہے اس دن اور تو انبیاء کرام کا حال یہ ہوگا کہ جب اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ ان کی قوموں کی طرف سے انہیں کیا جواب ملا۔ تو رعب ودہشت کا یہ عالم ہوگا کہ ان کا جواب جانتے ہوئے بھی اس کا علم اللہ کے حوالے کردیں گے، اور جب انبیاء ورسل کا یہ حال ہوگا، تو دوسروں کا کیا حال ہوگا، اور دوسرے کب جرات کریں گے کہ وہ اللہ سے بات کریں، علماء نے لکھا ہے کہ" ماذا اجبتم " مجہول کا صیغہ ہے استعمال کیا گیا ہے یعنی "تمہیں کیا جواب دیا گیا "اللہ نے یہ نہیں کہا کہ " ان قوموں نے تمہیں کیا جواب دیا " اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ انہتائی درجہ غضبناک ہوگا، صحیح بخاری کی روایت ہے کہ میرا رب اس دب اتبا غضبناک ہوگا کہ نہ اس سے پہلے کبھی اتنا ہوا تھا اور نہ اس کے بعد۔ فخرالدین رازی لکھتے ہیں : قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا طریقہ ہے کہ مختلف قسم کے شرائع واحکام بیان کرنے کے بعد عقائد والہیات، احوالانبیاء، یا احوال قیامت کی بات کرتا ہے، اور اس سے مقصود ان مذکورہ احکام وشرائع کی تاکید وہ توفیق ہوتی ہے، اس آیت کریمہ کی بھی یہی حثیت ہے کہ مختلف الانواع احکام و شرائع بیان کرنے کے بعد اللہ نے قیامت کی ہولناکیوں کو بیان کرنا شروع کیا ہے المآئدہ
110 133۔ میدان محشر میں جب تمام بنی نوع انسان اللہ حضور سرخم کئے ہوں گے اس وقت اللہ تعالیٰ عیسیٰ بن مریم سے بالخصوص ہم کلام ہوگا، اس لیے کہ دنیا کی دو بڑی امتیں ان کے سلسلے میں گمراہی میں مبتلا ہوئیں۔ یہود یوں نے کے کہا کہ عیسیٰ جادوگر اور ابن الزناتھے، اور نصرانیوں کے دعوی کیا ہے کہ وہ اللہ اور ابن اللہ تھے اللہ تعالیٰ ان سے مخاطب ہوگا اور میدان محشر کے لوگ سنے گے، تاکہ مجرمین یہود ونصاری کی حسرت وندامت میں اضافہ ہو، اور انہیں اپنے کبر وعناد اور ضلالت و گمراہی کا یقین ہوجائے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی ماں مریم بنت عمران پر اللہ کا احسان یہ تھا کہ اس نے انہیں پاکیزہ بنایا، اور سارے جہان کی عورتوں میں سے انہیں چن لیا۔ ( 134) یعنی انسان کی سب سے کمزور اور سب سے قوی دونوں حالتوں میں ایک طرح کی بات کروگے بچپن جوانی میں کوئ فرق نہ ہوگا۔ حافظ ابن کیثر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : آیت کا مفہوم یہ ہے کہ میں نے تمہیں بچپن اور جوانی دونوں حالتوں میں اللہ کی طرف بلانے والا نبی بنایا، میں نے تمہیں بچپن میں جب ماں کی گویائی دی، تو تم نے اپنی ماں کی ہر عیب سے برائت کی گواہی دی، اور میرے لیے اپنی عبدیت کا اعتراف کیا، اور لوگوں کی خبر دی کہ میں نے تمہیں رسول بنایا ہے، اور لوگوں کی میری عبادت کی دعوت دی۔ (135)"کتاب"سے مراد خط و کتابت اور ظاہر علم ہے جو لکھا جاتا ہے اور" حکمتہ" سے مراد فہم وادراک اور وہ باطنی علم ہے جو لکھا نہیں جاتا۔ (136) اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو چار معجزے دئیے تھے جن کا ذکر یہاں آیا ہے، اور ہر معجزے کے ذکر کے ساتھ "باء ذنی "کا کلمہ آیا ہے یعنی عیسیٰ علیہ اسلام کے ہاتھ پر اس معجزے کا ظہور اللہ کے حکم سے اور اس کی قدرت سے ہوتا تھا، اس میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی ذاتی قدرت کا کوئی دخل نہیں تھا، اور یہ دلیل ہے کہ اس بات کی کہ انبیاء اور غیر اور انبیاء کسی کے اختیار میں کچھ نہیں ے ۔ (137) یہودیوں نے معجزات دیکھنے کے باوجود کہا کہ کہ تو کھلا جادو ہے، اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنا چاہا اور سولی پر چڑھانا چاہا، تو اللہ نے ان کی سازش کو ناکام بنادیا اور انہیں اپنی طرف اٹھالیا اور ہر قسم کی نجاست و آلائش سے پاک کردیا المآئدہ
111 (138) یہاں وحی سے مراد الہام اور دل میں القاء ہے۔ اور اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) پر اپنے ایک احسان کا ذکر کیا ہے کہ اللہ نے انہیں انصار و مددگار عطا کیا تھا، اور عندالناس انہیں محبوب و مقبول بنایا تھا۔ المآئدہ
112 (139) آئندہ آنے والی چار آیتوں میں "مائدہ" کا قصہ بیان کیا گیا ہے، اس اسی مائدہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے اس سورت کا نام "مائدہ "ہے نزول مائدہ بھی اللہ تعالیٰ کا عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایک احسان تھا، کہ یہ چیز ان کی نبوت وصداقت پر ایک قطعی دلیل تھے، بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ انجیل میں مذک کور نہیں ہے، اور نصاری نے مسلمانوں کے ذریعہ اسے جانا تھا۔ واقعہ کی نویت یہ تھی کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے اپنے ابتدائے اسلام کے زمانے میں ان سے مطالبہ کیا کہ اللہ ان کے لیے آسمان سے انواع واقسام کے کھانوں کا ایک دستر خوان اتارے، تاکہ وہ اسے کھائیں اور ان کی دل میں مزید اطمینان اور یقین حاصل ہو۔ حواریوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی اب کے نام سے پکارا اور ان کی نسبت ان کی ماں کی طرف کی، تاکہ کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ وہ لوگ عیسیٰ (علیہ السلام) کی الو ہیت کے معتقد تھے، اللہ تعالیٰ حواریوں کا یہ قول نقل کیا ہے کہ " ہم ایمان لائے اور آپ (عیسی علیہ السلام) گواہ رہئے کہ ہم لوگ مسلمان ہیں "نیز اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ان کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ "کیا تمہارے رب ہمارے لیے آسمان سے دسترخوان اتار سکتا ہے " اور اللہ تعالیٰ کے مقام کو ابھی پورے طور پر نہیں سمجھا تھا، اور بھی ممکن ہے کہ کہ بعض ان حواریوں نے یہ بات کہی ہو جن کا علم و فہم عام لوگوں جیسا رہاہو، اور مزید اطمینان ویقین حاصل کرنے کے لیے یہ بات کہی ہو۔ المآئدہ
113 (140) حواریوں نے طلب مائدہ کا سبب یہ بتایا ہے کہ ہم اس میں کھائیں، اور ہمارے دلوں کو مزید اطمینان و یقین ہو حاصل ہو۔ اور ہمیں معلوم ہوجائے کہ آپ دعوائے نبوت اور اس دعوء میں سچے ہیں کہ اللہ ہمیں جنت میں نعمتیں دے گا اور بنی اسرئیل کے جو لوگ موجود نہیں ہیں، ہم ان کے سامنے نزول مائدہ کی گوہی دیں تاکہ ان کے ایمان میں بھی اصافہ ہو، اور ان میں سے جو لوگ اب تک ایمان نہیں لائے وہ ایمان لے آئیں۔ جب عیسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم ہوگیا کہ ان کے مقاصد صحیح ہے، اور اپنے سوال پر مصر ہیں، تو انہوں نے بھی اللہ سے اس کے لیے دعا کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا۔ اور نہا یت خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ! ہمارے لیے آسمان سے ایک دستر خوان اتار دے جس میں اس جنت کی نعمتیں ہوں جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے اور وہ دن ہمارے لیے اور ہمارے بعد آنے والی نسلوں کے لیے عید کا دن ہو، اور تیری کمال قدرت، صدق وعدہ، اور تیری طرف سے میری نبوت کی تصدیق کی نشانی ہو، اے اللہ ! ہم تجھ سے جو سوال کیا ہے سے پوراکردے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم تمہاری دعا قبول کرتے ہوئے اسے تمہارے لیے اتاریں گے، لیکن اس کے بعد اگر اب سے کسی نے کفر کا ارتکاب کیا تو اسے میں تمام جہان والوں سے برھ کر عذاب دوں گا۔ اہل علم کا اختلاف رہا ہے کہ آسمان سے مائدہ"نازل ہوا تھا یا نہیں، حسن بصری اور مجاہد کی رائے ہے کہ مائدہ نازل نہیں ہوا تھا، حسن کہا کرتے تھے کہ جب اللہ نے الخ کہا۔ تو ان لوگوں نے کہا کہ پھر ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے جناچہ مائدہ نازل نہیں ہوا، مجاہد کہتے ہیں کہ وہ ایک مثال تھی جسے اللہ نے اس لیے بیان کیا تھا کہ انبیاء کرام سے ان کی قومیں نشا نیوں کا مطالبہ نہ کریں۔ حافط ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس رائے کی تقویت اس سے ملتی ہے کہ نصاری اس نہیں جانتے اور ان کی کتابوں میں اس کا ذکر نہیں آتا، اگر ایسا ہوتا تو ان لوگوں نے اسے بیان کیا ہوتا، اور ان کی کتابوں میں موجود ہوتا ہے۔ لیکن جمہور یہ ہے کہ "مائدہ" نازل ہو اتھا، اس لیے کہ اللہ توالی نے کہا ہے، اور اللہ کا وعدہ بر حق ہوتا ہے اور ضرور پورا ہوتا ہے اور سلف کے اخبارو آثار سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ترمذی نے عمار بن یاسر (رض) سے روایت کی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :"آسمان سے مائدہ نازل ہو جس میں روٹی اور گوشت تھا، اور انہیں حکم دیا گیا کہ نہ وہ خیانت کریں اور نہ کل کے لیے جمع کریں، لیکن انہوں نے خیانت کی اور جمع کرکے کل کے لیے رکھ چھوڑا، تو بندروں اور سوروں میں بدل دیئے گئے۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس (رض) سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جب عیسیٰ بن مریم نے دعا کی تو فرشتے آسمان سے مائدہ لے کر نازل ہوئے، ابن جریر نے عبداللہ بن عمروبن العاص (رض) سے روایت کی ہے کہ قیامت کے دن سب سے شدید عذاب تین قسم کے لوگوں کو ہوگا، منافقین، اصحاب مائدہ اور آل فرعن کو، حافظ ابن کثیرنے اسی رائے کر ترجیح دی ہے کہ واقعی آسمان سے ما ئدہ نازل ہو اتھا۔ المآئدہ
114 المآئدہ
115 المآئدہ
116 (141) یہاں بھی خطاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ہے، اور یہ خطاب قیامت کے دن ان نصاری کے سامنے ہوگا جنہوں نے عیسیٰ اور ان کی ماں مریم کو اللہ کے بجائے معبود بنا لیا تھا، اور اس سے مقصود ان کی تو بیخ وملامت ہوگی، اور یہ اس وجہ سے ہوگا کہ دیگر قوموں کا جرم اس حدتک محدود تھا کہ انہوں نے انبیاء پر طعن وتشنیع کیا، لیکن ملحدین نصاری نے تو اللہ کے جالال اور اس کی کبریائی پر کلام کیا اور اسے ایسی صفات کے ساتھ متصف کیا جو کسی طرح اس کے لائق نہ تھی۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا اور ان کی ماں کو اس کی بیوی ٹھرایا، اسی لئے روز قیامت تمام انبیاء ورسل کے سامنے اللہ تمام حاضرین محشر کے سامنے سوال کرے گا تاکہ وہ خود اپنی زبان سے اپنی عبودیت اور اس بات کا اعلان کریں کہ انہوں نے اپنی امت کو اللہ کی بندگی کا حکم دیا تھا۔ تاکہ ان کی عبادت کرنے والوں کی تکذیب ہو اور ان کے خلاف حجت قائم ہوجائے۔ اور اللہ نے یہ اسلوب بیان اس لیے اختیار کیا ہے تاکہ رسول اللہ صلیا للہ علیہ وسلم کے زمانے کے نصاری کو تنبیہ کی جائے اور انہیں بتایا جائے کہ ان کا عقیدہ کتنا فاسد اور ان کا مذہب کس قدر بے بنیاد ہے (142) عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے قول یا عدم قول کے علم کی نسبت اللہ کی طرف کردی، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ انہوں نے یہ بات نہیں کی تھی اس طرح ثابت ہوگیا کہ یہ عیسیٰ علیہ اسلام کا قول نہی ہے۔ اس کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے گذشتہ قول کی علت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اللہ ! میرے دل میں جو کچھ چھپا ہوا ہے تو اسے جانتا ہے، اس لیے اگر میں کوئی بات ایسی کہی ہوگی تو تجھے یقیننا اور بدرجہ اولی اس کی خبر ہوگی۔ اور تیرے علم کے خزانے میں کیا کچھ چھپا ہوا ہے اسے میں نہیں جانتا، توہی غیب کی تمام باتوں کو جاننے والا ہے۔ اس کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) سے مخاطب ہو کر کہیں گے کہ میں نے ان سے وہی بات کہی تھی جس کا تبلیغ کا تو نے مجھے حکم دیا تھا۔ کہ اے لوگو ! تم سب اللہ کی بندگی کرو جو میرا اور تم سب کا رب ہے۔ آیت کے اس حصہ میں میں عیسیٰ علیہ السلام المآئدہ
117 (143) ”قرآن کریم"وفاہ"کا لفظ تین معنوں میں استعمال ہوا ہے : موت کے معنی ہیں : جیسا کہ اللہ نے فرمایا (الزمر :42) نیند کے معنی ہیں : جیسا کہ اللہ نے فرمایا : ( الانعام :60) اور اٹھا لینے کے معنی ہیں جیسا کہ اس آیت کریمہ میں آیا ہے، اور آل عمران کر آیت (55) میں آیا ہے معلوم ہوا کہ یہاں وفاہ" بمعنی "رفع" کے ہیں یعنی "جب تو نے مجھے آسمان پر اٹھالیا "موت کے معنی میں نہیں ہے اسلیے کہ (جیسا کہ آل عمران میں بیان کیا جا چکا ہے) صحیح احادیث سے یہی ثابت ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو موت لاحق نہیں ہوئی، بلکہ وہ آسمان پر اسی حال میں موجود ہیں جس حال میں دنیا میں تھے، یہاں تک کہ آخری زمانے میں دوبارہ زمین پر اتریں گے، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاء کرام جب اپنی دنیاوی عمر پوری کر کے عالم بززخ کی طرف منتقل ہوجاتے ہیں۔ تو انہیں اپنی امتوں کی احوال واعمال کا پتہ نہیں ہوتا۔ امام بخاری نے اپنی کتاب "الصحیح" کے کئی ابواب میں ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ کیا اور فرمایا کہ قیامت کے دن میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے، جنہیں بائیں طرف لے جا یائے گا، تو میں کہوں گا : اے رب یہ لوگ تو میرے ساتھی ہیں، تو آپ سے کہا جائے گا۔ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئی باتیں پیدا کی تھیں تو میں اللہ کے نیک بندے (عیسی) کی طرح کہوں گا : تو ان پھر کہا جائے گا کہ یہ لوگ آپ کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ہر لمحہ پیچھے ہوتے رہے۔ المآئدہ
118 (144) یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کی مشیت میں کوئی دخل اندازی نہیں ہو سکتا۔ وہ اپنے بندوں کے بارے میں جو چاہے فیصلہ کرے اس پر اعتراض کا کسی کا کوئی حق نہیں، اگر وہ عذاب دے تو اس کے بندے ہیں اور اگر معاف کردے تو یہ کسی عاجزی کے وجہ سے نہیں اور نہ اس میں کوئی قباحت ہے اس لیے کہ وہ ثواب وعقاب دونوں پر قادر ہے، اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں اور نہ اس کا کوئی کام غلط قرار دیا جاسکتا ہے اسی لیے اللہ نے سورۃ انبیاء آیت :23) میں فرمایا ہے کہ "اللہ سے اس کے کاموں کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا، اور بندوسے ان کے کرتوتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا "اس آیت کریمہ میں نصاری سے عیسیٰ (علیہ السلام) کی براءت کا اعلان بھی ہے جنہوں نے اللہ اور رسول کے بارے میں کذب بیانی سے کام لیا اور بندوں کو اللہ کا شریک اور اس کی بیوی اور بیٹا ٹھرایا۔ حافظ ابن کثیررحہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس آیت کی بڑی شان اور اس کے بارے میں ایک عجیب خبر ہے۔ امام احمڈ نے ابوذر (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک رات نماز پڑھی، تو ایک آیت کو صبح تک دہراتے رہے : جب صبح ہوگئی تو میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! آپ اسی آیت کو پڑھتے رہے، یہاں تک کہ صبح ہوگئی آپ اسی رکوع کرتے رہے اور اسی کے ساتھ سجدہ کرتے رہے، تو آپ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے اپنی امت کے لیے شفا مانگی ہے اور اس نے مجھے وہ چیز دے دی ہے، اور انشاء اللہ وہ ہر اس آدمی کو حاصل ہوگی جو کسی کو اللہ کا شریک نہیں بنائے گا اس حدیث کو نسائی نے روایت کی ہے۔ ایک اور حدیث امام مسلم نے عبداللہ بن عمروبن العاص (رض) سے روایت کی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں اللہ کے اس قول کی تلات کی : اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے اس قول کی بھی تلاوت کی پھر ہاتھ اٹھا یا اور کہا اے اللہ ! میری امت میری امت اور ورنے لگے تو اللہ نے فرمایا اے جبرائیل ! محمد کے پاس جاؤ (اور تیرا رب زیادہ جاننے والا ہے) اور بوچھا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ تو اللہ نے کہا۔ اے جبرائیل ! تم محمد کے پاس جاؤ اور ان سے کون کہ ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں میں خوش کردیں گے اور آپ کو تکلیف نہیں پہنچائیں گے۔ المآئدہ
119 (145) یہ اللہ تعالیٰ کا عیسیٰ (علیہ السلام) کو جواب ہے جب انہوں نے ملحدین نصاری سے اپنی براءت کا اظہار کردیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی صداقت کی گواہی دی اور انہیں صادقین میں شمار کی، اور کہا کہ روز قیامت وہ دن ہوگا جب سچوں کو ان کی سچائی کام آئے گی اور انہیں ایسی جنت ملیں گی جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوگی جن میں ہمیشہ کے لیے رہیں گے، اور اللہ ان سے راضی ہوگا اور وہ اللہ سے راضی ہوں گے، اور یہی عظیم کامیابی ہوگی۔ المآئدہ
120 (146) اس آیت کریمہ میں نصاری کی کذب بیانی اور عیسیٰ اور ان کی ماں کے بارے میں فساد عقیدہ پر تنبیہ کی گئی ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی مالک نہیں، اس لیے اس کا کوئی شریک کیسے ہوسکتا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے اور ہر چیز اس کی ملکیت ہے، اور اس کے قبضہ قدرت ومشیت میں ہے۔ اس کا کوئی نطیر ودزیر نہیں۔ نہ اس کے علاہ کوئی معبود ہے اور نہ کوئی رب۔، المآئدہ
0 تفسیر سورۃ الا نعام نام : انعام کے معنی چوپائے کے ہیں، اس سورت میں چوپایوں کسے متعلق حلت وحرمت کے اکثر وبیشتر احکام بیان کیے کئے ہیں۔، نیز مشریکن کی جہالتوں اور بتوں سے تقرب حاصل کرنے کے لیے جانوروں غیر اللہ کے نام پر چھوڑے جانے کے مشرکانہ عقائد بیان کئے گئے ہیں اس لیے اسی سورت کا نام الانعام "رکھا گیا۔ زمانہ نزول : ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ سورت الانعام مکہ میں نازل ہوئی ابن عباس (رض) کی ایک دوسری روایت ہے کہ چھ (6) آیتوں کے علاوہ پوری سورت مکی ہے ایک ہی باررات کو نازل ہوئی تھی، اور صحابہ کرام نے پوری سورت رت کو ہی لکھ لی تھی۔ فضیلت سدی نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ جب سورۃ انعام نازل ہوئی تو ستر ہزار فرشتے اس ارد گرد تھے حاکم نے جابر سے روایت کی ہے کہ جب سورۃ الانعام نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تسبیح پڑھی اور کہا کہ اس سورت کے نزول کے وقت اس کے ارگرد اتنے فرشتے تھے کہ آسمان کا افق بھر گیا تھا حاکم نے کہا ہے یہ حدیث امام مسلم کی شرط کے مطابق ہے فخرالدین رازی نے علمائے عقائد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اس سورت کو دو فضیلت حاصل ہے ایک یہ کہ ایک ہی بار نازل ہوئی اور دوسری یہ کہ اسے ستر ہزار فرشتے لے کر نازل ہوئے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں توحید، نبوت، عدل الہی اور آخرت کا تذکرہ ہے اور منکرین توحید اور ملحدین کے عقائد وافکار کی تردید کی گئی ہے اور اس سے اسلام کے بنیادی عقائد کیا اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ سنن الدارمی میں حضرت عمر (رض) سے مروی ہے کہ سورت الا نعام قرآن کالب لباب ہے۔ الانعام
1 (1) اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتدا الحمد سے کی تاکہ ہر کافرو مسلم سامع کو یہ معلوم ہوجائے کہ تمام قسم کی تعریفیں صرف اللہ کے لیے ہیں اور ان لوگوں پر حجت قائم ہوجائے جو اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بناتے ہیں سورۃ الفاتحہ کی تفسیر میں اس پر مفصل بحث ہوچکی ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ آسمانوں اور زمین کا تنہاوہی پیدا کرنے والا ہے اس لیے صرف وہی تمام تعریفوں کا مستحق ہے اس لیے کہ جس ذات نے ازمین و آسمان جیسی چیزوں کو پیدا کیا ہے درحقیقت صرف وہی حمد و ثناکا سزاوار ہے اور اللہ تعالیٰ نے تاریکی اور نور کو بنایا علماء نے ظلمت ونور کا معنی بیان کرنے میں اختلاف کیا ہے، اس کاسب سے بہتر مفہوم یہ ہے کہ "ظلمت "میں ہر وہ چیز داخل ہے جس پر ظلمت کا اطلاق ہوتا ہے اور "نور"میں ہر وہ چیز داخل ہے جس پر نور کا اطلاق ہوتا ہے تو جس ذات نے ظلمت ونور جیسی چیزیں پیدا کی ہیں یقیننا وہی تمام تعریفوں کا حقدار ہے۔ ) 2) علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ یہاں"ثم"کا لفظ اس وضاحت کے لے آیا ہے کہ ان تمام کا ئناتی دلائل کے باوجود جو اللہ تعالیٰ کے تنہا خالق و مالک ہونے پر دلالت کرتے ہیں شرک کرنا عقلی طور پر بھی مستبعد ہے لیکن ان مشر کوں کا حال یہ ہے کہ وان قطعی کا ئنات دلائل کے باجود اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بناتے ہیں۔ الانعام
2 (3) شرک باللہ کا بطلان کرنے کے بعد بعث بعد الموت کا انکار کی تردید کی جارہی ہے، اگرچہ آسمان وزمین کی تخلیق پر قادرہونا بعث بعد الموت پر قادر ہونے کی بڑی دلیل ہے لیکن چونکہ نزاع انسان کا دوبارہ زندہ کیا جانا ہے، اسی لیے ان کی ابتدائی تخلیق سے استدلال کرنا زیادہ مباسب ہے رہا، اور یہاں بنی نوع انسان کی تخلیق مٹی سے بتائی گئی ہے، اس اتعبار سے کہ تمام انسان حضرت آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے تھے، تو گویا ہر انسان کی تخلیق میں آدم کی تخلیق کا جز وموجود ہے، یا اس اعتبار سے کہ وہ نطفہ جس سے انسان وجود میں آتا ہے وہ مٹی سے بنا ہوا ہوتا ہے۔ آیت میں پہلے' اجل "سے مراد موت، اور دوسرے "اجل"سے مراد روزے قیامت ہے اور "عندہ "سے مراد یہ ہے کہ روز قیامت کا علم صرف اللہ کو ہی ہے۔ (4 یعنی اپنی ابتدائے تخلیق اور انتہائے تخلیق کا مشاہدہ کرنے کے باجود، بعث بعد الموت کے عقیدہ میں کیسے شبہ کرتے ہو۔ الانعام
3 (5) آسمانوں اور زمین میں صرف وہی ذات باری تعالیٰ عبادت کے لائق ہے، وہ دلوں میں کھٹکنے والی باتوں اور اعضاء وجوارح کے تمام اعمال کی خبر رکھتا ہے، اور انسان جو بھی خیر وشر کرتا ہے، وہ ان سب کو جانتا ہے۔ سورۃ زخرکی آیت (84) میں بھی اسی مفہوم کو بیان کیا گیا ہے۔ جیمہ نے اس آیت سے اسدلال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے۔ لیکن اکثر مفسرین نے اس قول کی تردید کی ہے، اور کہا ہے کہ اللہ عرش پر اس کیفیت کے ساتھ مستوی ہے جو اس کی عظمت وجلال کے لائق ہے البتہ اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے وہ اپنے علم کے ذریعہ ہر جگہ ہے۔ اس آیت کا صحیح معنی بیان کرنے میں اہل سنت مفسرین کے کئی اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں صرف اسی کی عبادت کی جاتی ہے اسی کو "اللہ" کہا جاتا ہے، اور سوائے کافر جن وانس کے سبھی اسی کو خوف ور جا کی میں پکارتے ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ وہ اللہ ہے جو آسمان کا اور زمین کی ہر چیز کے ظاہر و باطن کو جانتا ہے۔ اور تیسرا قول یہ ہے کہ آسمانوں میں صرف وہی (اللہ) ہے اس کے بعد نیا جملہ ہے کہ وہ زمین میں تمہارے ظاہر وباطن کو جانتا ہے۔ الانعام
4 (6) کفامکہ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ جب بھی کوئی نشانی اللہ کی طرف سے آئی، جیسا کہ ابھی کچھ نشا نیوں کا ذکر آیا، تو انہوں نے ان سے عبرت حاصل کرنے اور استفادہ کرنے کے بجائے اعراض و انکار سے کام لیا۔ الانعام
5 (7) حق سے مراد یا تو قرآن کریم ہے، یا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مبارک ذات، اس آیت میں کفار مکہ کے لیے تہدید وعید ہے کہ اگر وہ حق کو جھٹلاتے ہیں تو جان لیں کہ اس کی تکذیب کا انجام وہ پاکر رہیں گے، جناچہ میدان بدر میں وہ لوگ گاجر مولی کی طرح کاٹ دیئے گئے الانعام
6 (8) کفار مکہ کو مزید نصیحت کی جارہی ہے اور انہیں دھمکی دی جا رہی ہے کہ کیا ان لوگوں نے ان قوموں کا حال نہیں جانا ہے جو ان سے پہلے گذر چکی ہیں، کہ جب وہ اللہ کے ساتھ سر کشی پر آمادہ ہوگئیں تو اس نے کس طرح انہیں ہلاک کردیا جبکہ وہ قومو میں کفار مکہ سے شان وشوکت، جاہ حشم اور قوت کے ساتھ سرکشی پر آمادہ ہوگئیں تو اس نے کس طرح انہیں ہلاک کردیا، جبکہ وہ قومیں نعمتوں کا بارش کی، مال ودولت آل دادلاد، جنودو عسا کر اور دنیاوی اعتبار سے بڑا مقام عطا کیا بارش کی کثر ہوگئی اور ان کے لیے نہر جاری کردیں اور جب اب نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے گناہوں میں آگے بڑھتے گئے تو بلا آخر اللہ نے ان کے گناہوں کو وجہ سے انہیں پکڑ لیا اور ہلاک کردیا اور دوسری قوم کو موقع دیا، مقصد یہ ہے کہ جب ان قو موں کا یہ حال ہوا تو اللہ کفار مکہ کو ہلاک کرسکتا ہے۔ الانعام
7 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کے شدت استکبار کو ایک محسوس مثال کے ذریعہ واضح کیا ہے کہ کفر میں ان کی سختی کا حال یہ ہے کہ اگر اللہ اپنے رسول پر کاغذ پر لکھی ہوئی ایک کتاب نازل کردے جسے وہ اپنے ہاتھوں سے چھوکر جان لیں کہ یہ واقعی کاغذ پر لکھی ہوئی کتاب ہے تو بھی کبر وعباد میں آکر یہی کہیں گے کہ یہ تو کھلا جادو ہے، ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے لکھی ہوئی کتاب اتاردے ! حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ محسوس دلائل کو دیکھ لینے کے باوجود ان کا یہ استکبار ویسا ہی ہے، جیسا کہ اللہ نے ان کے باریں میں سورۃ حجرت (14/15) میں فرمایا ہے کہ " ہم پر آسمان سے جادو کردیا گیا ہے "اور سورۃ طور آیت :44) میں فرمایا ہے : اور اگر وہ آسمان سے گرتا ہوا ٹکڑا بھی دیکھ لیں تو کہیں گے تہہ بہ تہہ بادل ہیں " یعنی ان کے کبر وعناد کا حال یہ ہے کہ غادیت درجہ کھلی نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود ان کی اپنی کوئی من مانی تاویل کرلیں گے، لیکن انہیں اللہ کی طرف سے رشد وہدایت کے دلائل مان کر اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لائیں گے، الانعام
8 (10) اس آیت کریمہ میں کافروں کے ایک نئے قسم کے کبر وعناد کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی ہے، تو اللہ نے ایک فرشتہ کیوں نہ آسمان سے اتاریا جسے ہم دیکھتے اور جو ہمیں بتاتا کہ یہ نبی ہیں تاکہ ہم اس پر ایمان لے آتے ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دا اور فرشتہ نہ بھیجنے کا سبب بیان کہا کہ یہ تو اپنی موت تلاش کرنے اور اپنے ہاتھ سے قبر کھودنے کے مترادف ہے، کیونکہ فرشتہ کا اس کا اصل شکل میں اتر آنا سب سے کھلی اور آخری نشانی ہوگی اور اگر اس کے بعد بھی ایمان نہ لائے، تو انہیں اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچاسکتا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ حجر آیت (8) میں فرمایا ہے : ہم فرشتوں کو حق کے ساتھ اتارتے ہیں اور اس وقت وہ ملہت دیئے گئے نہیں ہوتے "اور سورۃ فرقان آیت (22) میں فرمایا : کہ وہ لوگ جس دن فرشتوں کو دیکھ لیں گے، اس دن ان مجرموں کو کوئی خوشی نہ ہوگی " الانعام
9 (11) کافروں کے سوال کا دوسرا جواب ہے کہ اگر فرشتے کو اس کی اصل شکل میں نہیں دیکھ سکتا، اور آدمی کی شکل میں بھیجنے کی صورت میں کافر کہتے کہ یہ فرشتہ نہیں ہے یہ آدمی ہے اور دوبارہ اسی شبہ میں پڑجاتے جس میں پہلے سے واقع تھے، اور اس سے کہتے کہ تم تو آدمی ہو، فرشتہ نہیں، اور اگر وہ اپنے فرشتہ ہونے پر قرآن یا کسی اور معجزہ سے استدلال کرتا، تو اسے دوبارہ جھٹلا دیتے جیسا کہ انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلا دیا۔ الانعام
10 (12) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جارہی ہے کہ اگر آپ کو قوم آپ کا مذاق اڑاتی ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے آپ سے پہلے انبیاء کے ساتھ ان کی قوموں نے ایسا ہی برتاؤ کیا تھا، تو دنیا میں ذلت ورسوائی کے ساتھ ہلاک کردیئے گئے، اور آخرت میں درد ناک عذاب ان کا انتظار کررہا ہے۔ الانعام
11 اس آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں کے لیے دنیا میں نصرت وفتحیابی کا وعدہ، اور آخرت میں اچھے انجام کی خوشخبری بھی ہے چناچہ ایسا ہی ہوا کہ ذلت ورسوائی اور قتل وہلاکت کفار مکہ کی قسمت بن گئی اور نبی کر یم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے عزت وغلبہ نصیب ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہا کہ اگر کفار مکہ قرآن مجید میں مذکور ہلاک شدہ قوموں کے واقعات میں شبہ کرتے ہیں تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ زمین میں گھوم کر انبیاء کو جھٹلانے والی قوموں کا حال معلوم کرلو کہ کس طرح اللہ نے ہلاک کردیا۔ گذشتہ آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو تسلی دی گئی ہے اس کا تتمیہ ہے اور اس بات کی تاکید ہے کہ ان کافروں کا انجام بھی پہلوں جیسا ہوگا، چناچہ اللہ کا یہ وعدہ بدر میں پورا ہوا۔ الانعام
12 (14) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ کافروں سے پوچھئے کہ آسمانوں اور زمین کا مالک کون ہے، اور اس سوال کا مقصد ڈانٹ اور پھٹکارہے، پھر اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ خود ہی جواب دے دیجئے کہ اللہ کے علاہ اور کون ہوسکتا ہے اور یہ جواب کافروں کو بھی معلوم ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ (15) یہ جملہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی ادا کیا گیا یعنی آپ یہ بھی کہہ دیجئے کہ اللہ اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے، توبہ واستغفار کو قبول کرتا ہے، اور سزا دینے میں جلدی نہیں کرتا، اور عقاب وغضب کے احکام قرآن میں بیان ہوئے ہیں ان کا تعلق بندوں کے اعمال سے ہے، اور اسی صفت رحمت کا تقاضا تھا کہ اللہ نے انسانوں کو فطرت سلیم دیا، اپنی معرفت وتوحید کی طرف ان کی وہنمائی کی، انبیاء بھیجے اور کتابیں نازل کیں صحیحین کی روایت ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ بے شک میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے "(16) اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال الوہیت اور کمال رحمت بیان کرنے کے بعد، آیت کے اس حصہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی یہ خبر دی ہے کہ رحمت الہی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اللہ انہیں دنیا میں مہلت دے گا اور انہیں بالکل نہیں ختم کرے گا لیکن قیامت کے دن ان سب کو اکھٹا کرے گا اور ان کرتوتوں پر ان کا محاسبہ کرے گا۔ (17) یہ جملہ اللہ تعالیٰ کی زبانی ہے اور اس میں کافروں ج کی بدترین حالت کو بیان کیا گیا ہے کہ جب لوگوں نے اپنی پونجی ضائع کردی جن کی فطرت مسخ ہوگئی اور جنہوں نے عقل سلیم کھودی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حیات بابرکات اور نزول وحی سے فائدہ نہیں اٹھا یا ایسے لوگ قیامت پر ایمان نہیں لائیں گے اور نہ اس دن کے برے انجام سے وہ ڈریں گے۔ الانعام
13 (18) گذشتہ آیت میں بتایا گیا ہے کہ آسمانوں اور ازمین کا مالک صرف اللہ ہے اور اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ دلیل و نہار میں جو کچھ پایا جاتا ہے اس کا ما لک صرف اللہ ہے اور معلوم ہے کہ آسمان و زمین کے علاوہ کوئی مکان نہیں اور دلیل ونہار کے علاہ کوئی زمان نہیں اس لیے معلوم ہوا کہ مکان اور اس کے تمام موجودات اور زمان اور اس میں وقوع پذیر ہونے والے تمام حوادث کا مالک صرف اللہ ہے۔ وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے اس سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ الانعام
14 (19) مشر کین مکہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتوں کی پر ستش کرنے کو کہا، تو اللہ نے ان سے کہا کہ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ کیا میں اللہ کے علاہ کسی او کو اپنا معبود بنا لوں جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والاہے، اور جو تمام مخلوقات کو روزی دینے والاہے اور وہ ان کا محتاج نہیں ہے آپ کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں وہ پہلا شخص بنوں جو اللہ کے سامنے مخلصانہ طور پر اپنا سر جھکا سے تاکہ دوسروں کے لیے خیر کا نمونہ بنوں اور مجھ سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ تم مشر کوں میں سے نہ بنو، اور آپ یہ بھی کہہ دیجئے کہ اگر میں نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو قیامت کے دن مجھے خائف کر رہا ہے۔ اس سے جو آدمی اس دن بچالیا جائے گا، گو یا اللہ اس پر رحم کردیا اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے سورۃ آل عمران آیت (185) میں اللہ نے فرمایا ہے کہ جو جہنم کی آگ سے دور کردیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ کامیاب ہوگیا۔ الانعام
15 الانعام
16 الانعام
17 (20) یہ ایک دوسری دلیل ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اس لیے کہ نفع اور نقصان کا مالک صرف وہی ہے، وہ اپنی مخلوقات میں جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتا ہے نہ کوئی اس کے فیصلہ کو چیلنج کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی اسے روک سکتا ہے صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا کرتے تھے۔ اے اللہ ! تو جسے دے اسے کوئی منع نہیں کرسکتا اور تو جسے منع کردے اسے کوئی نہیں دے سکتا، اور کسی صاحب حثیت کو اس کی حثیت تیرے مقابلہ میں نفع نہیں پہنچا سکتی الانعام
18 "آسمانوں اور زمین میں تمام مخلوقات کی گر دنیں اسی کے لیے جھکی ہوئی ہیں، وہ ہر چیز پر غالب ہے تمام مخلوقات اس کی عظمت وجلال اور قہر وجبروت کی معترف اور اس کے فیصلہ کے سامنے مجبور ہیں۔ الانعام
19 (22) مشر کین مکہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ کسی ایسے آدمی کو لاؤ جو تمہاری نبوت کی شہادت دے، اس لئے کہ اہل کتاب نے تو اس کی شہادت دینے سے انکار کردیا توا للہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ ان کافروں سے کہئے کہ اللہ سے بڑھ کر کون گواہ ہو سکتا ہے، اس لیے کہ اللہ کی خبر میں جھوٹ کا احتمال نہیں ہوسکتا اور یہ قرآن بھی میری نبوت کی تصدیق کرتا ہے جس کے مانند تم لوگ لانے سے عاجز ہے اور یہ قرآن اس لیے نازل کیا گیا ہے تاکہ اے اہل مکہ ! میں تمہیں اور تمام بنی نوح انسان کو ڈراؤں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ مشرکین کے شرک کا انکار کریں اور کہیں کہ تم لوگ تو اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کے ہونے کی گواہی دیتے ہو لیکن میں ان کا انکار کرتاہوں اس کے بعد اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ وہ صرف اللہ کی واحدانیت کا اعلان کریں اور جھوٹے معبودوں سے براءت کا اظہار کریں۔ الانعام
20 (23) گذشتہ آیتوں میں نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق اور مشرکین مکہ کی تردید میں جو بات کہی گئی ہے اسی کی تفصیل ہے'کہ تم لوگ جو کہتے ہو کہ اہل کتاب نے میرے نبی کی گواہی نہیں دی ہے تو یہ ان اہل کتاب کی کذب بیانی اور بد قسمتی ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے انکار کر رہے ہیں وہ تومیرے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح وہ اپنی صلمی اولاد کو پہچانتے ہیں، اس لیے کہ تمام انبیاء نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات ان کا ملک ان کا دارالبحرت اور، اور ان کی نبوت پر جان بوجھ کر وہی لوگ ایمان نہیں لائیں گے جن کی قسمت میں نقصان و خسارہ لکھ دیا گیا ہے اور ان کا ایمان نہ لانا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی نہیں ہیں۔ الانعام
21 مشرکین مکہ اور اہل کتاب کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان سے بڑا ظالم کون ہو سکتا ہے مشرکین کا اپنے بتوں کے بارے میں اعتقاد تھا کہ یہ اللہ کے نزدیک ہمارے سفارشی ہیں۔ اس لیے ان کی عبادت کی، اور اہل کتاب نے قرآن مجید اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کیا تو گویا یہ سبھی لوگ توحید اور اسلام کے خلاف اپنے معاندا رویہ کی وجہ سے بڑے ظالم ہیں اور ظالم کبھی فائز المرام نہیں ہوسکتا۔ الانعام
22 (25) اللہ قیامت کے دن مشرک و کافر انسانوں، جنوں، اور شیطانوں کو جمع کرے گا، اور ان سے ان بتوں اور غیر اللہ کے بارے میں پوچھے گا۔ جنہیں وہ اللہ کے ساتھ شریک بناتے تھے کہ کہا گئے وہ جنہیں تم اللہ کا شریک سمجھتے تھے۔ اور اس سوال کا مقصد مشرکین کو ذلیل ورسوا کرنا ہوگا۔ الانعام
23 (26) پہلے اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے احوال اور ان کے دام شرک میں پھنس جانے کا ذکر کیا، اور اب یہ خبر دے رہا ہے کہ جب وہ قیامت کے دن مشکل ترین حقائق کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں گے تو شرک سے اپنی براءت کا اعلان کردیں گے اور اپنے اس جھوٹ پر قسم کھا جائیں گے اس قول کے مطابق "فتنہ "سے مراد کفر ہے، ایک قول یہ ہے کہ "فتنہ " سے مراد ان کا جواب ہے یعنی روز قیامت مشرکین کا جواب شرک کا انکار اور اس سے براءت کا اظہار ہوگا اور دونوں ہی قول کے مطابق ان کا عذر ایک دسرا گناہ ہوگا جو ان کے مشرک ہونے کی مزید تائید کررہا ہوگا۔ الانعام
24 (27) اللہ تعالیٰ کہے گا ذرا دیکھو تو سہی، کس طرح یہ لوگ علام الغیوب کے سامنے اپنے مشرک ہونے کی نفی کرکے اپنے آپ کو جھٹلا رہے ہیں۔ اور کس طرح شرکاء کے بارے میں ان کی امیدیں خاک میں مل گئیں نہ وہ سفارشی بن سکے، اور نہ ہی ان کی مدد کرسکے۔ الانعام
25 (28) دنیا میں بعض مشرکین کا کرتوت بیان کیا گیا ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کریم کی تلاوت کررے تو وہ بظاہر سنتے، لیکن اس سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا اس لیے کہ وہ اس میں غور وفکر سے کام نہیں لیتے تھے اور نہ ان کی نبوت رشد وہدایت حاصل کرنے کی ہوتی تھی، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیا تھا، تاکہ وہ قرآن کو سمجھ نہ سکیں، اور ان کے کانوں میں ڈاٹ ڈال دیا تھا، تاکہ خیر کی باتوں کو سنیں ہی نہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کچھ ان کے بارے میں کہا گیا ہے وہ قران ہی کے ساتھ خاس نہیں ہے بلکہ تمام نشانیاں دیکھ لینے کے بعد بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے اور یہی کہیں گے کہ یہ سب جادو گری ہے اس لیے ان کے اندر نہ قوت فہم ہے اور نہ مائدہ انصاف، اور اللہ کی نشانیاں اور حق کو جھٹلانے میں تو وہ اس قدر آگے ہیں کہ وہ باطل کا ہر سہارا لے کر آپ سے منا ظرہ کرتے ہیں ،، اور کہتے ہیں کہ یہ ماضی بعید کے لوگوں کی اٹکل پچو باتیں ہیں۔ ( الانعام
26 (29) مشرکین مکہ قرآن کریم کی صرف تکذیب پر ہی اکتفا نہیں کرتے ہیں بلکہ لوگوں کو اس کے پڑھنے اور سننے سے بھی روکتے ہیں کہ کہیں اس سے متاثر نہ ہوجائیں اور خود بھی غایت درجہ کی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اس سے دور رہتے ہیں اور اس سے بنی کریم صلی الہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو کچھ نقصان نہیں پہنچاسکیں گے اس لیے کہ اللہ اپنے نور کو مکمل اور اپنے دین کو غالب کر کے رہے گا جسا کہ اس کا وعدہ ہے، یہ لوگ خود اپنے آپ کو ہلاکت کے دہانے پر لے جارہے ہیں۔ لیکن انہیں اس کا احساس نہیں ہورہا ہے الانعام
27 ۔ (30) مشرکین مکہ اپنے آپ کو کس طرح ہلاک کر رہے ہیں اس کی کیفت بیان کی جارہی ہے وہ دنیا میں تو قرآن کریم کی تکذیب کرتے ہیں، لیکن آخرت میں انہیں اپنے اس فعل بد پر ندامت اور شدید افسول ہوگا اور تمنا کریں گے کہ کاش ہم دوبارہ دنیا کی طرف لوٹا دیئے جاتے تو قرآن کی تکذیب نہ کرتے بلکہ اس پر ایمان لے آتے۔ الانعام
28 (31) ان کی یہ تمنا عزم صادق اور خلوص اعتقاد کی بنیاد پر نہیں ہوگی بلکہ ان کے دلوں میں پوشیدہ کفروشرک ظاہر ہوجائے گا، اور نہیں یقین ہوجائے گا کہ وہ اپنے شرک کی وجہ سے ہلاک ہو کر رہیں گے، اس لیے پریشان کے عالم میں اپنی جھوٹی تمنا کا اظہار کریں گے، لیکن اللہ جانتا ہے کہ اگر وہ دوبارہ دنیا کی طرف لوٹا دیئے جائیں، اور عذاب آخرت کا جو منظر ابھی ان کی آنکھوں کے سامنے ہے وہ پس منظر میں چالا جائے توہ پھر کفرو شرک کی طرف لوٹ جائیں گے، اس لیے کہ ہر حال میں جھوٹ بولنا ان کی فطرت میں داخل ہے الانعام
29 ۔ (32) یعنی اگر فرض کرلیا جائے کہ وہ لوگ بعث بعد الموت اور قیامت کے منا ظر دیکھ لینے کے بعد دوبارہ دنیا میں بھیج دیئے جائیں، تو اللہ جانتا ہے کہ وہ اپنے تمر دو عصیان کی وجہ سے یہی کہیں گے کہ اس دنیا زند گی کے بعد اب کوئی دوسری زندگی نہیں ہے اور موت کے بعد ہم دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔ الانعام
30 (33) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے کہا جارہا ہے کہ جب ان مشرکین کی ان کے رب کے سامنے پیشی ہوگی، تو آپ کے سامنے ایک عظیم اور مہیب منظر ہوگا جب اللہ ان سے بطور زجروتوبیخ پوچھے گا کہ اب بتاؤبعث بعد الموت بر حق ہے کہ نہیں ؟ تو وہ رب کی قسم کھا کر کہیں گے ہاں، یہ تو بر حق ہے۔ الانعام
31 (34) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے خسارے کا حال بیان کیا ہے جو اللہ کے حضور جواب دہ ہونے اور بعث بعد الموت کا انکار کرتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر خسارہ اور گھاٹ کی بات اور کیا ہو سکتی ہے اور وہ اسی حال میں رہیں گے یہاں تک کہ جب اچانک موت انہیں آدبوچے گی، تو بلند آواز سے اپنی حسرت و ندامت کا اعلان کریں گے افسوس صد افسوس ہم دنیاوی زندگی میں تقصیر سے کام لیتے رہے اور آج حقیقی خسارہ کا منہ پڑ رہا ہے، اور اس پر مستزاد یہ ہوگا کہ وہ اپنے گناہوں کو اپنی پشت پر ڈھو رہے ہوں گے علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو ایک بد شکل انسان کی صورت دے دے، جسے کافر میدان محشر میں اپنی پیٹھ پر ڈھوئے پھرے گا، جیسا کہ بعض روایتوں میں آیا ہے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک تمثیل ہوجس کے ذریعہ روز قیامت کافروں اور مشرکوں کا احوال واقعی بیان کرنا مقصد ہو۔ الانعام
32 (35) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بے ثباتی، اور آخرت کی کامیابی کے لیے کو شش کرنے کا درس دیا ہے کہ اے اللہ کے بندو ! دنیا کی زندگی لہو ولعب سے زیادہ کچھ بھی نہیں اس لیے اس کی لذتوں کے اسیر نہ بنو، اور اپنی آخرت کو کامیاب بنانے کو کو شش میں لگے رہو، اس لیے کہ اصل کامیابی آخرات کی کامیابی۔ الانعام
33 (36) اہل مکہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرتے، اور کفر وعناد میں حد سے تجاوز کرتے تو آپ کو بہت زیادہ تکلیف ہوتی اور غم وحزن میں مبتلا ہوجاتے اللہ تعالیٰ نے آپ کا یہ حال دیکھ کر اس آیت میں تسلی دی ہے۔ اور اللہ کے نزدیک آپ کا جو عظیم مقام ہے، اسے بتایا ہے، کہ اہل کفر جو کچھ آپ کے ساتھ برامعاملہ کررہے ہیں، تو درحقیقت وہ اللہ کے ساتھ برا معاملہ کررہے ہیں، اور ان سے شدید ترین انتقام لے کر رہے گا، علامہ ابو السعود نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنا بلند وبالا ہے کہ اس کے بعد کوئی مقام نہیں، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی تکذیب کو اپنی آیتوں کی تکذیب قرار دیا بلکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کی نفی کردی اور اپنی آیتوں کی تکذیب ثابت کی۔ الانعام
34 (37) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مزید تسلی دی جارہی ہے کہ جب مصیبت عام ہوتی ہے، تو اس کا برداشت کرنا آسان ہوتا ہے۔ آپ کو نصیحت کی گئی ہے کہ جس طرح گذشتہ رسولوں نے اپنی قوموں کی گو ناگوں ایذار سانیوں پر صبر کیا، آپ بھی صبر کیجئے اس میں ضمنی طور پر اللہ کی طرف سے نصرت وکامرانی کا وعدہ بھی ہے۔ الانعام
35 (38) اس آیت میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک تیسرے طریقہ سے تسلی دی جارہی ہے کہ اگر کافروں کا ایمان نہ لانا آپ پر گراں گذرہا ہے، تو آپ زمین کے کسی سرنگ سے، یا سیڑھی گا کر آسمان سے ان کے لیے کوئی ایسی نشانی لے آیئے جو انہیں ایمان لانے پر مجبور کردے۔ لیکن آپ ایسا نہیں کرسکتے، اس لیے کہ اللہ نے آپ کو ایسی قدرت نہیں دی ہے کہ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو پھر ایمان لانا ضروری ہوجاتا لیکن ایسا ایمان ان کے لیے غیر نافع ہوتا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر وہ چاہتا تو تمام انسانوں کے راہ ہدایت پر جمع کردیتا، لیکن اس کی مشیت نے عایت قہر اور غایت لطف و مہر بانی کے اظہار کی غرض سے ایسا نہیں کیا، اس لیے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کے ایمان کی شدید تمنا، یا ان کی مانگ پوری کرنے شدید خواہش کرکے ان نادانوں میں سے نہ بن جا یئے جنہیں اللہ کی مشیت یا اس کی حکمت ومصلحت کے تقاضوں کا پتہ نہیں۔ الانعام
36 (39) آیت (25) میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی یہ صفت بتائی تھی کہ ان کے دلوں پر پردہ پڑا ہے، اس لیے قرآن کریم سنتے بھی ہیں تو اس سے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، اسی کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دوسرے انداز میں بیان کیا ہے کہ یہ مشرکین مردوں کے مانند ہیں، ان سے ایمان کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے ؟ ایمان تو وہ لوگ لائیں گے جو زندہ ہوں گے اور جو اللہ اور اس کی باتیں غور سے سنیں گے اور ان سے عبرت حاصل کریں گے، انہیں حیوانوں کی زندگی تو ملی ہے، لیکن ان کے دل فاسدہ اور اخلاق رذیلہ کے زہر سے مرچکے ہیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کفار چونکہ نہ سنتے ہیں اور نہ جواب دیتے ہیں اس لیے مردہ ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دو بارہ اٹھائے گا، اور اس کے سامنے پیش کئے جائیں گے اس وقت وہ ان کے اعمال کا بد لا چکائے گا۔ الانعام
37 (40) مشر کین مکہ کی ایک اور ہٹ دھرمی بیان کیا جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایسی ایسی کھلی نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود جنہیں دیکھ کر پہاڑ جھک جائیں وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کوئی مافوق العادہ نشانی کیوں بھیج دیتا ؟ اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ اللہ بے شک ایسی مشانی اتار نے پر قادر ہے لیکن ایسا مطا لبہ کرنا جہالت ونادانی ہے۔ کیونکہ اس کے بعد بندے کا وہ اختیار ختم ہوجاتا ہے جو شرعی احکام وفرائض کی بنیاد ہے اور ایسی نشانی کے انکار کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قوم پھر یکسر ہلاک کردی جاتی ہے۔ الانعام
38 (41) اس آیت سے مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کو محیط ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے اور اس کی نگرانی۔ حفاظت کی نگرانی سے متعلق اس کی حکمت اس سے مانع ہے۔، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمام چوپائے جو زمین پر چلتے ہیں۔ اروتمام چڑیاں جو اپنے دو پروں کے ذریعہ اڑتی ہیں سب اللہ کی مخلوقات کی الگ الگ قسمیں ہیں ان تمام کے احوال سے اللہ تعالیٰ واقف ہے وہ کسی بھی چیز سے غافل نہیں ہے سب کی نگرانی کرتا اور سب کو روزی اور نگرانی سے بھی غافل نہیں ہے، اور قیامت کے دن سبھی اللہ کے حضور جمع ہوں گے، اور سب کے ساتھ انصاف ہوگا، یہاں تک کہ صحیح احادیث کے مطابق بے سینگ کی بکری کا حق سینگ والی بکری سے لیا جائے گا۔ الانعام
39 (42) جو لوگ اللہ تعالیٰ کو جھٹلاتے ہیں انکی مثال جہالت، عدم فہم اور فکر و نظر کی زبوں حالی میں اس بہرے اور گونگے آدمی کی ہے جسے تاریکیوں میں بھٹتے رہنے کے لیے چھوڑدیا جائے، ایسا آدمی کبھی بھی سیدھی راہ نہیں پاسکتا اور تاریکیوں سے کبھی بھی نہیں نکل سکتا، اللہ تعالیٰ نے قران کریم میں اہل کفر کے لے یہ تشبیہ بہت سی آیتوں میں بیان کی ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ وہ جہالت میں پورے طور پر ڈوبے ہوئے ہیں اور فہم وادراک کے تمام راستے ان کے لیے کلی طور پر بند ہیں اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ وہ اپنی مخلوقات کے بارے میں جیسا چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے کفر میں بھٹکتا چھوڑ دیتا ہے۔ الانعام
40 43) یعنی اگر اللہ کا عذاب تمہیں آگھیرے یا قیامت آجائے، تو اس عذاب کو ٹالنے کے لیے تم اپنے معبودوں کو نہیں بلکہ اللہ کو پکارو گے، اور ان جھوٹے معبودوں کو بھول جاؤ گے، اس لیے کہ تمہیں معلوم ہے کہ اللہ ہی اگر چاہے گا تو اس عذاب کا ٹال دے گا الانعام
41 الانعام
42 (44) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لے کہا جارہا ہے کہ پہلی امتوں کے پاس بھی ہم نے انبیاء بھیجے جن کو انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کو سختی، قحط سالی، امراض اور جان ومال کے خسارہ میں مبتلا کیا، تاکہ شاید وہ ان آزمائشوں کے بعد اللہ کی طرف رجوع کریں لیکن ان کے دل کی سختی کا حال یہ تھا کہ بھر بھی انہوں نے اللہ کے سامنے گریہ دزاری نہیں کی، اور اپنے گناہوں سے تائب نہیں ہوئے بلکہ شیطان نے ان کے شر کیہ اعمال کو ان کے لیے مزید خوبصورت اور مزین بنادیا۔ الانعام
43 الانعام
44 (45) ان قوموں نے جب تکلیف ومصیبت والی آزمائشوں سے عبرت حاصل نہیں کی، تو پھر اللہ تعالیٰ نے دنیاوی نعمتوں سے انہیں مالا مال کردیا، اور یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ڈھیل اور ایک خطر ناک آزمائش تھی، یہاں تک کہ جب وہ اپنے شرکیہ اعمال کے ساتھ ان نعمتوں میں ڈوب گئے اور خوشی میں مگن ہوگئے، توا للہ تعالیٰ نے انہیں اچانک پکڑ لی ا، اور ان کا وجود ہی ختم کردیا۔ اور جو کچھ ان کے ساتھ ہوا اس پر اللہ کا شکرہی ادا کرنا چاہیئے، کیونکہ کافروں اور اللہ کے سر کش بندوں کے فاسد عقائد واعمال سے اہل زمین کا نجات پانا ایک بڑی نعمت ہے۔ امام احمد نے عقبہ بن عامر (رض) سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ حدیث روایت کی ہے کہ جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندہ کو اس کے گناہوں کے باجود اس کی خواہش کے مطابق دنیاسی نعمتیں دے رہا ہے تو سمجھ لو کہ اس کی رسی ڈھیل دی گئی ہے، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہی آیت پڑھی۔ الانعام
45 الانعام
46 (46) مشر کین مکہ کے نئے انداز میں زجروتوبیخ کی جا رہی ہے اور ان کے مشرکانہ اعمال کے فساد کو بیان کیا جا رہا ہے، کہ اے میرے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اللہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھ لے لے، اور تمہارے دلوں پر مہر لگادے تو کیا للہ کے سوا کوئی ہے جو انہیں دو بارہ لو ٹا دے ؟! آیت میں مذ کور تینوں اعضاے جسم انسانی کے اشرف اعضاء ہیں جب وہ بے کار ہوجاتے ہیں تو جسم انسانی کا نظام مختل ہوجاتا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انہی تینوں کا ذکر کیا، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ آپ دیکھ لیجئے کہ کس طرح ہم نشا نیوں کو مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں، لیکن یہ مشر کین انہیں دیکھنے کے باوجود اعراض کرتے ہیں اور حسد و عناد اور کبروغرار کی وجہ سے ان میں غور نہیں کرتے۔ یہاں "آیات"سے مراد یا تو مطلق دلائل ہیں، یا مطلق قرآنی دلاءل جو ابتدائے سورت سے لے کر یہاں تک بیان کیے گئے ہیں، یا عقلی دلائل جو آسمانوں اور زمین کے بنانے والے اور اس کی وحدا نیت پر دلالت کرتے ہیں۔ الانعام
47 (47)"بغتتہ" سے رمراد وہ عذاب ہے جو اچانک اور کسی سابق اطلاع کے بغیر آئے اور "جھرہ"سے مراد وہ جو کسی سابقہ اشارہ اور اطلاع کے بعد آئے، یا ان دونوں سے مراد رات اور دن ہے اس لیے کہ کافر قوموں کو ہلاک کرنے والا عذاب یا تو رات کو اچانک یا پھر دن میں کھلے عام آتا ہے، اور القوم الظالمون" میں عذاب کے سبب کی طرف اشارہ ہے کہ ان کی ہلاکت کا سبب ان کا ظلم وطغیان اور اللہ سے سرکشی ہے۔ الانعام
48 (48) انبیاء ورسل کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اللہ کی طرف لوگوں کو بلائیں، جنت کی خوشخبری دیں اور جہنم سے ڈرائیں، ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ کافروں کی خواہش اور ان کی منشا کے مطابق اللہ سے نشا نیاں بھیجنے کی دعا کرتے رہیں، تو جو شخص انبیاء رسل کی اتباع کرتے ہوئے ایمان لائے گا اور عمل صالح کرے گا اس کا ٹھکانا جنت ہوگا نہ انہیں ماضی کا کوئی غم ہوگا اور نہ مستقبل کا کوئی خوف، اور اللہ کی آیتوں کی تکذیب کرے گا، اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اور یہ اللہ سے ان کی سرکشی کا نجام ہوگا۔ الانعام
49 الانعام
50 (49) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کہا کہ مشرکین مکہ آپ سے کبھی نشانیاں طلب کرتے ہیں، کبھی کوئی سوال کرتے ہیں، تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ نے روزی کے خزانے میرے حوالے نہیں کردیئے ہیں، کہ میں تمہاری خواہش کے مطابق تمہیں دیتا رہوں، اور پہاڑ کو سونے میں بدلتا رہوں۔ اور نہ میں غیب جانتا ہوں کہ قیامت یا نزول عذاب وغیرہ کا وقت بتا دوں، اور نہ میں فرشتہ ہوں کہ مافوق العا دہ کرتبوں کا مظاہرہ کرتارہوں، میں صرف اس وحی کی تباع کرتاہوں جو اللہ کی طرف سے مجھ پر نازل ہوتی ہے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ نابینا اور بینا، یعنی گمراہ اور ہدایت برابر نہیں ہو سکتے، اس لیے اے مشرکین مکہ ! تم لوگ اللہ کی نشانیوں میں غور کرکے رشد وہدایت کیہ راہ کیوں نہیں اختیار کے لیتے ؟! کلمہ "وحی "جس طرح قرآن کریم کو شامل ہے۔ اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث مبارکہ کو بھی شامل ہے، اللہ تعالیٰ سورۃ نجم کی آیات (3/4) میں فرمایا ہے میرے رسول اپنی خواہش کے مطابق نہیں بولتے، بلکہ وہی کچھ کہتے ہیں جو بذریعہ وحی ان پر نازل ہوتا ہے "اور سورۃ انعام آیت (50) میں فرمایا ہے : کہ میں تو صرف وحی کی اتباع کرتا ہوں "اور سورۃ نحل (44) میں فرمایا ہے : تاکہ آپ لوگوں کے سامنے اس وحی کو بیان کردیں جو آپ پر نازل ہوتی ہے، اور صحیح حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے " مجھے قرآن کریم کا اور اسی کے مانند (یعنی حدیث) دی گئی ہے الانعام
51 "(50) گذشتہ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی کہ مشرکین بہرے، گونگے، اور اندھے آدمی کے مانند ہیں، بلکہ مردے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے روز روشن کی طرح واضح نشانیوں سے کوئی عبرت حاصل نہیں کی، اب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ ان لوگوں کو تبلیغ کیجئے جو اللہ کی وحی سے متا ثر اور مستفید ہوتے ہیں۔ الانعام
52 (51) امام مسلم نے سعد بن ابی وقاص (رض) سے، اور امام عبداللہ بن مسعود رضی اللہ رنہ سے اس آیت کریمہ کے شان نزول کے بارے میں روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں کچھ ضعیف اور کمزور قسم کے صحا نہ مو جود تھے (روایتوں میں سعد بن وقاص، عبد اللہ بن مسعود۔ بلال، صہیب، عمار اور خباب ر ضی اللہ عنہم وغیر ہم کے نام آئے ہیں) وہاں سے قریش کے کچھ لوگوں کا گذر ہوا، تو انہوں نے کہا اے محمد ! کیا تم نے اپنی قولم کے بدلے انہیں کو اپنا لیا ہے، کیا اللہ نے ہمیں چھوڑ کر ان پر احسان کردیا ہے، کیا ہم ان کے تابع بن جائیں ؟ اگر تم انہیں مجلس سے نکال دو تو شاید ہم تمہاری اتباع کریں۔ تو یہ آیت ناز ہوئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غریب اور کمزور مسلمانوں کو اپنی مجلس سے اس لالچ میں بھگانے سے منع کیا کہ قریش کے بڑے لوگ آپ کی مجلس میں آئیں گے، اور آپ کی باتیں سن کر متا ثر ہوں گے اور ایمان لائیں گے۔ سعید بن مسیب وغیرہ نے "صبح وشام "سے فرض نمازیں مراد لی ہیں، آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ اگر آپ نے ان کمزور صحابہ کو اپنی مجلس سے بھگا دیا تو ظالموں میں سے ہوجائیں گے۔ الانعام
53 (52) اس آیت کریمہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ابتدائے اسلام میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اکثر و بیشتر ایمان لانے والے کمزور مرد، عورتیں، غلام اور لونڈیاں تھیں، شرفائے قریش میں سے بہت کم لوگوں نے اسلام قبول کیا، جیسا کہ قوم نوح نے نوح (علیہ السلام) سے کہا تھا : کہ ہم تو دیکھ رہے ہیں کہ تمہاری اتباع صرف حقیر لوگ کرتے ہیں۔ (ہود :27) اور جیسا کہ ہر قل نے ابو سفیان سے پوچھا تھا کہ اس کی ابتاع شرفاء لوگ کرتے ہیں یا کمزور لوگ؟ ابو سفیان نے کہا کہ کمزور لوگ۔ تو ہر قل نے کہا کہ رسولوں کی اتباع ایسے ہی لوگ کرتے ہیں، مشرکین مکہ ان کمزور مسلمانوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے، انہیں عذاب دیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ کیا اللہ نے ہمیں چھوڑ کر ان پر احسان کیا ہے ؟ تو اللہ نے اس کے جواب میں یہاں فرمایا کہ کیا اللہ شکر کرنے والوں کو زیادہ نہیں جانتا ؟ بے شک اللہ ان کے اقوال وافعال اور دلوں کی پوشیدہ باتوں کو بھی جانتا ہے، اس لیے انہیں توفیق دیتا ہے راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے، ظلمتوں اور تا ریکیوں سے نکال کر ایمان واسلام کی روشنی میں پہنچا دیتا ہے، امام مسلم نے ابو ہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ اللہ تمہاری صورتوں اور تمہارے رنگوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔ الانعام
54 (53) بہت سے مفسرین کا خیال ہے کہ اس آیت کریمہ میں انہی مومنین کا ذکر ہے جنہیں بھگا دینے کی بات شر فائے قریش نے کی تھی، تو اللہ نے انہیں یہ مقام عطا فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ انہیں سلام کرنے میں پہل کریں یا انہیں اللہ کی طرف سے سلام پہنچا دیں، اور انہیں وسعت رحمت الہی کی بشارت دے دیں، امام احمد اور شیخین نے ابو ہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ": جب اللہ تعال نے مخلوقات کے بارے میں فیصلہ کیا تو اپنی کتاب میں لکھ دیا (جو اس کے عرش پر موجود ہے) کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے "اس کے بعد والی آیت میں اللہ نے فرمایا کہ جس طرح ہم نے گذشتہ آیتوں میں بہت سے دلائل بیان کردیئے ہیں اسی طرح ہمیشہ اپنی آیتیں ان لوگوں کے لیے تفصیل سے بیان کرتے ہیں جو بیان کے محتاج ہوتے ہیں اور اراکہ معلوم ہوجائے کہ مجرمین کون سے راہ اختیار کرتے ہیں۔ الانعام
55 الانعام
56 (54) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا، آپ کہہہ دیجئے کہ اللہ کے علاہ جن غیروں کی تم عبادت کرتے ہو، میں ان کی عبادت نہیں کرسکتا، اور اس بارے میں ان کی امید کو قطعی طور پر ختم کردینے کے لیے فرمایا : آپ کہہ دیجئے کہ میں تمہاری خواہش کے مطابق بتوں کی بوجا نہیں کرسکتا اور نہ غریب و کمزور مسلمانوں کو اپنے پاس سے بھگا سکتا ہوں، مفسر بیضاوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس آیت میں مشرکین کی گمراہی کا سبب خواہش جفس کی اتباع بتایا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ جس پر قائم ہیں وہ اللہ کی ہدایت نہیں بلکہ خواہش نفس کی عبادت ہے اور حق کے متاشی کو تلقید آباءچھوڑ کر دلیل وحجت سے ثابت حقائق پر عمل کرنا چاہیئے الانعام
57 ۔ (55) مشرکین مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بطور استہزاء کہتے تھے کہ اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب جس سے ہمیں ڈراتے ہو آکیوں نہیں جاتا؟ اسی کے جواب میں اللہ تعا لیے نے کہا : اے میرے رسول ! آپ کہہ دیجئے کہ اللہ نے بذریعہ وحی جو شر یعت میرے پا بھیجی ہے، اس کی حقانیت کا مجھے پورا یقین ہے، اور تم لگ اسے جھٹلارہے ہو، تم جس عذاب کے لیے جلدی کررہے ہو وہ میری قدرت وہ اختیار میں نہیں ہے، کہ میں اسے فورا لے آؤں اس میں تعجیل یا تاخیر کا تعلق اللہ کے فیصلہ سے ہے اس نے کسی عظیم حکمت کے پیش نظر ہی اسے مؤخر کردیا ہے، لیکن اس کا واقع ہونا ضروری ہے۔ الانعام
58 (56) مزید تاکید کے طور پر کہا گیا کہ اے مشرکین مکہ ! تم جس عذاب کے لے جلدی کررہے ہو اگر وہ میرے اختیار میں ہوتا تو میں نے بھی جلدی کی ہوتی اور اللہ کے حکم سے تم پر عذاب نازل ہوچکا ہوتا، اللہ تعالیٰ ظالموں کو خوب جانتا ہے اور ان کی رسی اس لیے ڈھیل دی گئی ہے تاکہ کفر وشرک میں اور آگے بڑھتے جائیں اور شدید عذاب کے مستحق بنیں۔ بخاری ومسلم نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عقبہ کے دن ابن عبد یا لیل کو اسلام کی دعوت دی لیکن اس نے انکار کردیا، تو آپ کو بہت زیادہ ملال ہوا، اور غم سے نڈھال ہو کر ایک طرف چل پڑے جب قرن منازل پہنچے (جو مکہ سے ایک دن ایک رات کی مسافت پر واقع ہے) تو جبرائیل آئے اور کہا کہ آپ کی قوم نے آپ کو جو تکلیف پہنچائی ہے اس کی وجہ سے اللہ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا، آپ چاہیں تو وہ مشرکین مکہ کو دو پہاڑوں کے درمیان کچل ڈالے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا میں امید کرتاہوں کہ اللہ ان کی اولاد میں صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے والوں کی پیدا کرے گا۔ اس حدیث کا اس آیت سے کوئی تعارض نہیں ہے، اس لیے کہ آیت میں یہ ہے کہ اگر عذاب نازل کرنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اختیار میں ہوتا تو جس وقت مشرکین عذاب کے لیے جلدی کر رہے تھے، عذاب آہی جاتا، اور حدیث میں یہ نہیں ہے کہ عبد یا لیل اور دیگر مشرکین نے جلدی عذاب آجانے کا سوال کیا تھا، بلکہ پہاڑوں کے فرشتہ نے پیش کش کی تھی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ سے ان کے لیے نرمی چاہی، اور مید ظاہر کی کہ اللہ ان کی اولاد میں موحدین کو پیدا کرے گا۔ الانعام
59 (57) اللہ تعال نے غیبی امورکو ان قیمتی اور اہم اشیاء سے تشبیہ دیا ہے جنہیں صندوقوں میں بند کرکے غایت احتیاط کے طور پر پر تالا ڈال دیا جاتا ہے، ان غیبی امو کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے، آیت کا مفہوم یہ ہے کہ تم لوگ جس عذاب کے لیے جلدی کررہے ہو وہ میری قدرت سے باہر کی بات ہے، اور نہ مجھے اس کا علم ہی ہے کہ میں تمہیں اس کے آنے کا وقت بتاؤں۔ اساتعلق اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے علم سے ہے اس کی مشیت جب چاہے گی عذاب آئے گا۔ اس کے بعد اللہ نے بعض مشاہدات کا ذکر کے مزید تاکید فرمائی کہ تمام غیبی امور کا علم اللہ کو ہے، نچانچہ فرمایا کہ بحروبر میں جو کچھ ہے اس کا علم صرف اللہ کو ہے، اور اس حقیقت کے بیان میں مزید مغالبہ کے طور پر کائنات کی ان گنت جزائیات کے بارے میں فرمایا کہ ان سب کا علم صرف اللہ کو ہے، صاحب"فتح البیان"نے لکھا ہے کہ اس آیت سے کاہنوں، نجومیوں اور غیب کی باتیں بے انے والوں کی تردید ہوتی ہے، جو کشف والہام کا جھوٹا دعوی کرتے ہیں مسند احمد میں ابو ہریرہ (رض) کی رعایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو کسی کاہن یا نجومی کے پاس گیا، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتاری گئی کتاب کا انکار کردیا، عبداللہ بن مسعود (رض) کا قول ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غیبی امور کی چابیوں کے علاوہ سب کچھ دیا گیا تھا، ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ مفاتح"الغیب " سے مراد تقدیر اور روزی ہے صحیح بخاری میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا "مفا تح الغیب " پانچ چیزیں ہیں جب کا علم اللہ کے سوا کسی کو بھی نہیں ہے : کل کیا ہوگا، رحم میں کیا ہے ؛ کوئی بھی آدمی کل کیا کمائے گا، آدمی کو موت کہا آئے گی، اور بارش کب ہوگی "ایک روایت میں کہ قیا مت کب آئے گی۔ الانعام
60 (58) نیند کو موت سے تعبیر کیا گیا ہے، اس لیے کہ دونوں میں احساس اور قوت تمیز جاتی رہتی ہے اور موت کی مناسبت سے بیداری کو بعث" سے تعبیر کیا گیا ہے انسان نیند کا محتاج ہوتا ہے، پھر بیدار ہوتا ہے، اسی طرح اس کی زندگی کے ایام گذر جاتے ہیں، یہاں تک کہ اس کی دنیاوی زندگی کی عمر پوری ہوجاتی ہے اور اسے موت آدبوچتی ہے، جب قیامت آئے گی تو ہر انسان اپنے خالق ومالک کے حضور پیش ہوگا، اور زندگی جو کچھ بھی عمل کیا ہوگا اس کا بدلا دیا جائے گا، آیت الانعام
61 آیت (61) میں اللہ نے فرمایا کہ بندوں کے امور میں صرف اللہ تصرف کرتا ہے، وہ ان کے ساتھ جیسا چاہتا ہے معاملہ کرتا ہے۔"حفظتہ"سے مراد وہ فرشتے ہیں جو انسان کے آگے پیچھے ہمہ وقت لگے رہتے ہیں اور ہر قسم کی آفت و مصیبت سے اللہ کے حکم سے بچاتے ہیں، ابن العز نے " شرح الطحا دیہ " میں لکھا ہے کہ ان کی تعداد چار ہے دو دن میں رہتے ہیں اور دو رات میں۔ یہ اس وقت تک حفاظت کرتے رہتے ہیں جب تک انسان کا اجل محتوم نہ آجائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ رعد آیت (11) میں فرمایا ہے : ہر ایک کے لے یکے بعد دیگرے آنے والے فرشتے مقرر ہیں ج جو اس کے آگے اور پیچھے لگ ہوتے ہیں اور جو اللہ کے حکم کے مطابق اس کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان میں وہ فرشتے بھی داخل ہیں جو بندوں کے اعمال گنتے اور لکھتے ہیں۔ اس طرح اس آیت میں فرشتوں کی تین قسموں کو بیان کیا گیا ہے، کہاں تک کہ جب موت کا وقت آجائے گا تو روح قبض کرنے والا فرشتہ اور دوسرے مددگار فرشتے آکر بغیر ادنی تاخیر کے اس کی روح قبض کرلیں گے، اور اللہ کے حکم کے مطابق اگر نیک روح ہوگی تو "علیین " میں ارر فاجر ہوگی تو سحبین "میں محوظ کردیں گے۔ الانعام
62 اس کے بعد آیت (62) میں اللہ نے فرمایا کہ قیامت کے دب تمام روحوں کی پیشی اللہ کے حضور ہوگی اور وہ ان کے بارے میں اپنے فیصلے صادر فرمائے گا ،۔ اور غایت سرعت کے ساتھ مخلوقات کا حساب لے گا۔ الانعام
63 (59) اب بھی سیاق کلام مشرکین مکہ ہی سے متعلق ہے خشکی کی تایکیوں سے مراد مختلف قسم کی مصیبتیں، دشمن کا خوف اور راستہ بھٹک جاتا ہے، اور سمندر کی تایکی سے مراد موجوں کا ڈر، آندھی کا خوف اور راہ بھٹک جانا ہے، یہاں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کی فطرت کی کجی بیان کی ہے کہ جب انہیں کوئی خوف لاحق ہوتا ہے تو اللہ کے سامنے گریہ وزاری کرتے ہیں، اور چھپ چھپ کر دعائیں کرتے ہیں اور اللہ سے وعدہ کرتے ہیں کہ اگر اس نے مصیبت سے نجات دے دی تو ہم اس کے شکر گذار بندے بن جائیں گے اور شک نہیں کریں گے۔ آیت (64) میں گذشتہ سولا کا جواب دیتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ آپ کہہ دیجئے کہ اس مصیبت سے اور ہر مصیبت سے صرف اللہ نجات دیتا ہے لیکن ان کی فطرت کی کجی اور مشرکانہ عادت کا نتیجہ دیکھئے کہ نجات پا جانے کے بعد وہ اپنے وعدے بھول جاتے ہیں اور اپنا دہندہ کسی اور کو بتانے لگتے ہیں۔ الانعام
64 الانعام
65 (60) یعنی اے میرے رسول صلی اللہ علیہ جن مشر کین نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مصیبت سے نجات پانے کے بعد اللہ کے شکر گزار بندے بن جائیں گے، لیکن اپنا وعدہ بھول گئے اور پھر شرک کرنے لگے ،۔ آپ ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اللہ کے عذاب سے امان محسوس کرنے کی کوئی وجہ نہیں، اس لیے کہ وہ تو ہر وقت اور ہر حال میں مختلف قسم کے عذاب میں مبتلا کرنے پر قادر ہے، وہ چاہے گا تو آگ یا پتھروں کی بارش بر سا دے گا، یا آسمان کو ہی تمہاری سر پر گرادے گا، یا چاہے گا تو کوئی طوفان بھیج دے گا یا زمین میں دھنسا دے گا یا تمہیں مختلف ٹولیوں میں بانٹ دے گا، اور پھر تم آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرتے رہوں گے۔ بخاری نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بعد جب آیت کا یہ حسہ نازل ہوا تو آپ نے دبارہ کہا پھر جب نازل ہو اتو آپ نے کہا : یہ زیادہ آسان ہے۔ مسلم نے سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک دن ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک قریبی بستی سے آرہے تھے، تو بنی معاویہ کی مسجد کے پاس سے گذرے، آپ نے مسجد میں داخل ہو کر دورکعت نماز پڑھی، اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی، آپ نے بڑ لمبی دعا کی، پھر ہماری طرف مڑکر فرمایا میں نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگی تھیں تو اس نے مجھے دو عطا کیا اور ایک کو روک دیا، میں نے اپنے رب سے منگا کہ میری امت کو قحط سا لی سے ہلاک نہ کرے، تو اس نے مجھا دیا، اور میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت آپس میں ایک دوسے کے درپے نہ ہو، تو اس دعا کو روک دیا ، الانعام
66 (61) اس کے بعد آیت (67) میں فرمایا گیا کہ اللہ ککے ہر فیصلہ کے وقوع پذیر ہونے کا ایک وقت مقرر ہے، اور میں نے تمہیں قرآن اور رسول کی تکذیب اور شرک کا نجام بتادیا ہے کہ تمہیں ایک دن عذاب آدپو چے گا، چناچہ میدان بدر میں اس خبر کی تصدیق ہوگئی۔ الانعام
67 الانعام
68 (62) ابتدائے اسلام میں مشرکین مکہ صحابہ کرام کو قرآن پڑھتے دیکھتے تو مذاق اڑاتے، اور باتیں بناتے، انہی حالات کے مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو منع کیا کہ کفار جب قرآن کا مذاق اڑارہے ہوں تو ایسی مجلسوں سے اٹھ جائیں، یہاں تک کہ وہ لوگ کوئی اور بات کرنے لگیں۔ اور جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو وہاں کے بھی کفار اور منافقین کا ایسا ہی رویہ تھا کہ وہ لوگ قرآن کریم میں آیا ہے، اور اللہ قرآن کریم میں تمہارے لیے بتا چکا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیتوں کا انکار کیا جارہا ہے، اور اس کا مذاق اڑیا جارہا ہے، اور ان کے ساتھ نہ بیھٹو، یہاں تک کہ اس کے علاوہ کوئی اور بات کرنے لگیں، اور نہ تم انہی کے جیسے ہوجاؤ گے، مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ حکم عام ہے، اور امت مسلمہ کے ہر فر دا کا فرض ہے کہ جہاں کہیں بھی اسلام کا یا قرآن وسنت وغیرہ کا مذاق اڑایا جا رہا ہو، یا بد عت و خرافات کی طرف دعوت دی جا رہے ہو اس مجلس کا با ئیکاٹ کرے، ورنہ اس پر بھی حکم لگے گا جس کا بیان ابھی سورۃ نساء کے آخر میں گذرا کہ تم بھی ان کے مانند ہوجاؤ گے الانعام
69 "۔ (63) اس آیت کی تفسیر دو طرح کی گئی ہے، ایک یہ ہے کہ جب کفار اللہ کی آیتوں کا مذاق اڑارہے ہوں، اس وقت اگر اللہ سے ڈرنے والے مسلمان ان مجلسوں سے بچیں گے، تو کفار کا گناہ ان کو لاحق نہ و گا، لیکن یہ بات یاد رہے کہ ایسی مجلسوں سے الگ رہنے کے حکم سے امر لمعروف اور نہی عن المنکر کا وجوب سادقظ نہیں ہوجاتا، دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے لوگ اگر کسی مجبوری سے ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں کا مذاق اڑاتے ہیں تو ان کا گناہ ان کو لاحق نہیں ہوگا، لیکن ایسی مجلسوں میں جانے کی اجازت سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا وجوب سا قط نہیں ہوتا، علمائے تفسیر نے کہا ہے کہ ایسی مجلسوں میں شرکت کی اجازت ابتدائے اسلام میں تھی، جب مسلمان اپنا ایمان چھپائے پھر تے تھے، لیکن مدنی زندگی میں جب سورۃ نساء والی آیت نازل ہوئی جس کا ذکر ابھی اوپر آچکا تو یہ اجازت منسوخ ہوگئی۔ الانعام
70 (64) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جو لوگ دین اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں، آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجئے، انہیں تو نیا کی زند گی نے دھو کہ میں ڈا رکھا ہے، وہ مطمئن ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس زندگی کے بعد کوئی زندگی نہیں، اور ہر سعادت دنیا کی لذتوں میں ہے، آپ ان کے جھٹلانے کی پرواہ نہ کیجئے اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجئے، یہ لوگ بڑے عذاب کی طرف بڑھتے چلے جارہے ہیں، اور اس قرآن کے ذریعہ لوگوں کو خوف دلاتے رہئے کہ کہیں وہ اپنے برے اعمال کی بدولت روز قیامت ہلاک وبر باد نہ کردیئے جائیں، جس دن ان کا اللہ کے سوانہ کوئی ولی ہوگا جو طاقت کے زریعہ ان کی مدد کرے اور نہ کوئی سفا رشی جو بذریعہ سفارش اللہ کا عذاب ٹال سکے، اور اس دب اگر وہ تمام قسم کے فدے بھی دینا چاہیں گے تو قبول نہ ہوگا، اللہ کے دین کا مذاق اڑانے والے اپنے برے اعمال اور حرام شہوتوں میں ڈوبے رہنے کی وجہ سے ہلاک کردیئے جائیں گے، اس دن پینے کے لے انہیں گرم پانی دیا جائے گا جو ان کے پیٹ میں گڑگڑائے گا اور ان کی آبتوں کو کاٹ باہر کرے گا، اور ان کے کفر کی وجہ سے انہیں آگ کا درد ناک عذاب دیا جائے گا جو آگ ان کے جسموں میں ہمیشہ مشتعل رہے گی (اللہ تعالیٰ ہمارے جسموں پر جہنم کی آگ حرام کردے )، الانعام
71 (65) سدی نے لکھا ہے کہ مشر کین مکہ نے مسلمانوں سے کہا کہ ہماری راہ پر چلو اور دین محمد کو چھوڑ دو، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم دیا کہ آپ پوری شت کے ساتھ ان کی بات کی تردید کردیں۔ (66) جو آدمی توحید کی دعوت قبول کرلینے کے بعد پھر شرک میں مبتلا ہوجا تا ہے، اور بتوں کی پر ستش کردیتا ہے اللہ تعالیٰ نے ایسے آدمی کی یہاں مثال بیان کی ہے کہ جیسے کوئی آدمی اپنے ساتھیوں کے ساتھ سی صحراہ سے گذر رہاہو، اور شیاطین جنوں کے نرغے میں آجائے، جو اسے راہ راست سے بھٹکا کر کسی اور طرف لے جائیں، اور وہ حیران وہ پریشان نہ سمجھ سکے کہ کیا کرے، اور اس کے ساتھی اسے پکار رہے ہوں کہ ہماری طرف آجاؤ، سید ھی راہ ادھر ہے، لیکن وہ شطیانوں کے چرک میں ایسے بھنس گیا ہے کہ نہ وہ اپنے ساتھیوں کی پکار کا جواب دیتا ہے اور نہ ان کی طرف جاتا ہے۔ ابن حاتم نے ابن عباس رضی الہ عنہما سے روایت کی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے باطل معبودوں اور دعاہ الی اللہ کی حالت بیان کرنے کے لیے ذکر کہا ہے۔ اور شیظان سے مراد جنات ہیں وہ لوگوں کو ان کے اور ان کی آباء اجداد کے نام لے کر پکار تے ہیں، تو ان کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور ان کی پیروی شروع کردتیے ہیں، اور سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ صحیح بات پر قائم، ہیں یہاں تک کہ وہ ہلاکت میں پڑجاتے ہیں۔ اور بسا اقات وہ شیا طین انہیں کھا جاتے ہیں، یا کسی ایسی جگہ ڈال دتیے ہیں یہاں پیاس کے مارے مرجا تے ہیں یہی مثال ان لوگوں کی ہے جو اللہ کو سوا دیگر معبودوں کی عبادت کرتے ہیں۔ (جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے )۔ الانعام
72 (67) اس کا تعلق گذشتہ آیت سے ہے، یعنی آپ کہہ دیجئے کہ جو دین اللہ نے اپنے رسولوں کے ساتھ بھیجا ہے وہی صحیح دین ہے، اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ رب العالمین کے سامنے سر تسلیم خم کریں، اور نماز قائم کریں اور اللہ سے ڈرتے رہیں، اور اس یقین کے ساتھ زندگی گذاریں کہ قیامت کے دن سب کو اسی کے سامنے جمع ہونا ہے۔ الانعام
73 (68) جس باری تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کریں، اسی نے آسمانوں اور زمین کو عدل وحکمت کے ساتھ پیدا کیا ہے، وہی ان دونوں کا اور ان میں موجود تمام مخلوقات کا مالک و مدبر ہے، اور قیامت کے دن انہیں میدان حشر میں کلہ "کن :" کے ذریعے جمع کرنے پر قادرہے، اس کی مراد اور خواہش اس کے امر اور حکم سے مؤخر نہیں ہو سکتی، اس کا قول وحکم بہراحال نافذ اور واقع ہے، علماء تفسیر نے لکھا ہے کہ " کے بعد اس آیت کو لانے سے مقصود اس بات پر دلیل قائم کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعث بعد الموت پر قادر ہے، اور ان مشرکین کی تردید کرنی ہے جو اس کے منکر ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ یاسین آیات (18/82) میں فرمایا ہے : کہ وہ ذات جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، کہا اس پر قادر نہیں ہے کہ ان کے جیسا پیدا کرے؟ ہاں، وہ قادر ہے، اور وہ بڑا پیدا کرنے والال ہے وہ جب کبھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، اس کے لیے اتنا کہہ دینا کافی ہوتا ہے کہ ہوجا، وہ چیز اسی وقت ہوجاتی ہے :۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس دن قیامت کا صور پھو نکا جائے گا، اس دن اسی کی بادشاہت ہوگی، اور اپنے مطیع وفرنبردار اور عاصی و گناہ گار بندوں کے ساتھ ان کے اعمال کے مطابق بر تاؤ کرے گا، اور"صور" سے مراد وہ چیز ہے جس میں اسرافیل (علیہ السلام) پھونک ماریں گے جیسا کہ مسند احمد میں ابو سعید خدری (رض) سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کرتے تھے ،"میں آرام کیسے محسوس کروں، جبکہ صوروالے (فرشتے) نے صور منہ میں لیا ہے ہے، اور پیشانی جھکائی ہوئی ہے، اور انتظار میں ہے کہ کب اسے حکم ملے کہ اس میں پھونک مارے۔"مسند اح‏د میں عبد اللہ بن عمرو (رض) سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سے صور کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : وہ ایک سینگ ہے جس میں پھونک مارا جائے گا "اس حدیث کو ابوداؤد، ترمذی اور حاکم نے بھی روایت کی ہے۔ الانعام
74 (69) اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ جو مشرکین دین اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں، انہیں بتا دیجئے کہ براہیم (علیہ السلام) جن کی محبت کا وہ دم بھر تے ہیں اور جن کی طرف اپنی نسبت پر فخر کرتے ہیں، انہوں نے تو اللہ کی خاطر اپنے مشرک باپ کی بھی پر واہ نہیں کہ، اور اس کے مشرکانہ کردار و اعمال کا بر ملا انکار کیا۔ یہ آیت اس پر قطعی دلیل ہے کہ " آزر" ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ کا نام تھا، اور اس کی تا ئید بخاری کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے، جسے ابو ہریرہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ قیامت کے دن ابراہیم (علیہ السلام) اپنے باپ آزر سے ملیں گے تو آزر کے چہر پر غبار اڑ رہا ہوگا، اور پر یشانی طاری ہوگی، ابراہیم اس سے کہیں گے کہ میں نے تم سے کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کرو۔ تو ان کا باپ کہے گا کہ آج میں تیری نافرمانی نہیں کروں گا، ابرا ہیم کہیں گے، اے رب ! تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ قیامت کے دن مجھے رسوا نہیں کرے گا، اور اس سے بڑھ کر رسوائی کی اہو سکتی ہے کہ میرا باپ تیری رحمت سے دور کردیا جائے ؟ تو اللہ کہے گا کہ میں جنت کو کافروں پر حرام کردیا ہے، پھر کہا جائے اے ابراہیم ! اپنے پاؤں کے نیچے دیکھو، وہ دیکھیں گے تو انہیں خون میں لت پت ایک جسم ملے گا، جس کے پاؤں کو پکڑ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ ( الانعام
75 (70)"ملکوت"بروزن رہیوت و جبروت، مبالغہ کے وزن پر مصدر ہے، اس کا معنی "ملک عظیم " ہے بعض نے کہا 9 ہے کہ اس سے مراد آومانوں اور زمین میں مو جود `وغجا ئب و غرائب ہیں، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی ہر چیز ان کے سامنے کھول کر رکھ دی، اور انہوں نے عرش تک اور زمین کی آخری تہ تک سب کچھ کا مشاہدہ کیا، مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی خلقت اور ان میں موجود عجائب وغرائب میں غور کرکے اپنی وحدانیت پر استدلال کرنے کی دعوت دی، تاکہ توحید باری تعالیٰ پر ان کا یقین مزید مستحکم ہوجائے۔ الانعام
76 (71) مذکورہ بالا اجمال کی یہ تفصیل ہے، اور اس بات کا بیان ہے کہ کس طرح ابراہیم (علیہ السلام) نے آیات وبراہیں سے استدلال ککے کے یقین کا رتبہ حاسل کی ا، مفسرین نے لکھا ہے کہ ابراہیم کا باپ اور اس کی قوم اصنام، شمس و قمر اور ستاروں کی پر ستش کرتے تھی، ابراہیم نے چاہا کہ ان کی اس دینی غلطی کو واضح کردیں کہ جب باطل معبودوں کو پر ستش وہ کرتے ہیں ان میں سے کوئی بھی معبود بننے کا مستحق نہیں ہے، اسی لیے ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ میں ڈوب جانے والے اور غائب ہوجانے والے کو پسند نہیں کرتا، اس لیے کہ ایسی حقیر صفت اللہ کی نہیں ہو سکتی۔ الانعام
77 (72) اس قوم ابراہیم کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جو آدمی چاند کو اپنا معبود بنا لے وہ یقینا گمراہ ہے، اور یہ کہ راہ حق کی طرف ہدایت اللہ کی توفیق اور اس کے لطف کرم سے ملتی ہے، اس آیت میں ابرا ہیم (علیہ السلام) نے پہلے اپنی قوم کی گمراہی کی طرف اشارہ کی ا، اور جب ستارہ ڈوب گیا تو کہا میں میں ڈوب جانے والوں سے محبت نہیں کرتا ہوں اور جب ان کے دل میں ان کے عقیدہ کے باطل ہونا کا شبہ پیدا کردیا، اور چاند بھی ڈوب گیا، تو دوسری بارصراحت سے کہہ دیا کہ تم لوگ گمراہ ہو، اس لیے کہ چاند جو ڈوب جا یا کرتا ہے، وہ معبود نہیں ہو سکتا ہے۔ الانعام
78 (73) لیکن ابھی سورج کے معبود ہونے کی تر دید کرنی باقی تھی، اس لیے سورج کے اچھی طرح طلوع ہونا کا انتظار کیا، اور جب طلوع ہوچکا تو اپنی مشرک قول کو مخاطب کرکے کہا کہ شاید یہ میرا رب ہو، یہ سب سے بڑا ہے، اور قصود مناظر انہ انداز میں اس کی تردید کرنی تھی، چناچہ کچھ ہی گھنٹوں کے کے بعد وہ بھی ڈوب گیا،، اور قوم نے ان کے ساتھ اس کے ڈوب جا نے کا نظارہ کرلی ا، اور اس کے ضعیف اور ناقص ہونے کا یقین کرلی ا، تو ان کو دوبارہ مخاطب کرکے کہا کہ اے میری قوم ! ذرابتاؤتو سہی کہ ایسی بے ثبات اور حقیر چیز معبود کیسے ہو سکتے ہے ؟ میں تمہارے شر کیہ اعمال اور جھوٹے معبووں سے براءت کا اعلان کرتاہوں۔ الانعام
79 ۔ (74) ابرا ہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ اب میں نے اپنی نیت اور اپنی ہر عبادت اور عمل صالح کو اللہ کے لے خالص کردیا ہے، اور اپنے قلب وروح کی گہرائیوں میں اسی محبت کو بسا لیا ہے، اس ذات پاک کی محبت جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔ اور تمام ادیان باطلہ اور عقائد فاسدہ سے دوری اختیار کرتے ہوئے اعلان کرتا ہوں کہ میں مشرک نہیں ہوں۔ الانعام
80 (75) ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے اپنے مشرکانہ عقائد کی تائید اور ان کی دعوت توحید کی تردید میں بھی انہیں دھمکی دیے اور کبھی لچر دلیلوں کے ذریعہ اپنی بات منوانی چاہی، تو ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم مجھ سے اس بارے میں منا ظرہ کرنا چاہتے ہو کہ اللہ کا کوئی شر یک و مثیل نہیں ؟ توحید باری تعالیٰ پر تو حجت قائم کرچکا، اور اس بات کی قطعی طور پر نفی ہوچکی کہ اللہ کے سوا کوئی دوسرا بھی لائق عبدت ہے، اس لیے کہ کامل صرف اللہ کی ذات ہے، اور اس کے علاہ تمام چیزیں ناقص ہیں، اور کوئی معبود نہیں ہوسکتا۔ (76) مشر کوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کے یہ کہہ کر خوف دلایا کہ انہیں ان کے معبودوں کا غضب نہ ان پر نازل ہوجائے، اور وہ کیسی مصیبت میں نہ مبتلا ہوجائیں، تو ان کے جواب میں ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ کہا کہ میں تمہارے معبودوں سے نہیں ڈرتا، کیونکہ وہ تو بے جان جمادات ہیں، وہ نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ تمہارے قول کے باطل ہونے کی یہ دلیل یہ ہے کہ یہ بالکل نے اثر ہیں، اس لیے میں ان سے نہ ڈرتا ہوں اور نہ ہی ان کی پرواہ کرتا ہوں، اگر ان کے بس میں کچھ ہے تو گذریں اور مجھے مہلت نہ دیں، اس کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ ہاں، اگر میرا رب چاہے گا ان کی جانب سے کوئی تکلیف پہنچ سکتی ہے جو محض اللہ کی جانب سے ہوگا، تمہارے معبودوں کا اس میں دخل نہ ہوگا۔ الانعام
81 (77) ابراہیم (علیہ السلام) نے کہ ا : یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں ان اصنام سے ڈروں جو نہ نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان، اور جو خالق ہیں نہ رازق، اور تم اس اللہ سے نہ ڈرو جس کے ساتھ تم نے بہت سے معبودوں ان باطل کو بغیر دلیل و بر ہان شریک بنا رکھا ہے، حالانکہ وہ تنہا خالق ورزق ہے اور ہر نفع و نقصان کا صرف وہی مالک ہے، اس کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) نے کہ کہ میرا معبود اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اور تمہارے معبود ان مٹی کے ڈھیر ہیں، تو ذرا سوچو توسہی کہ امن و سکون کے حقدار تم مشرکین ہو یا ہم ایمان ؟ اگر تمہارے پاس علم کا شائبہ بھی ہوتا تو یقینا تمہارے جواب یہ ہوتا کہ بے شک اہل ایمان ہی امن سلامتی کے مستحق ہیں۔ الانعام
82 (78) اوپر جو بات بیان کی جا چکہ ہے کہ امن اور عدم خوف کے حقدار اہل ایمان ہیں اسی کی مزید تو ضیھ کی گئی ہے، یہاں "ظلم "سے مراد شرک ہے، اور مقصود ان لوگوں کی تردید کرنی ہے جو اس زعم باطل میں مبتلا ہوتے ہیں کہ وہ بھی اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور بتوں کی عبادت اسی ایمان باللہ کا تقاضی ہے، تاکہ وہ اللہ کے حضور سفارشی بنیں اور انہیں اللہ سے قریب کردیں، جیسا کہ اللہ نے سورۃ زمر آیت (3) میں فرمایا ہے : کہ ہم تو ان بتوں کی پرستش اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہیں اللہ کے قریب کردیں "اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے امن انہیں کو نصیب ہوگا، جنہوں نے کرکیہ اعلمال کے ذریعے اپنے ایمان کو فاسد نہیں بنایا ہوگا، اور دنیا میں بھی وہی لوگ اہل حق ہیں امام احمد نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں پر بڑا شاق گذرا، چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ یا رسول اللہ ! ہم میں سے کون ہے جو اپنے آپ پر ظلم نہیں کرتا یعنی کوئی گناہ نہیں کرتا، تو آپ نے فرمایا کہ آیت کا وہ مطلب نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو، کہا تم لوگوں نے اللہ کے نیک بندوں (لقمان) کا قول نہیں سنا : کہ اے میرے بیٹے ! اللہ کا کسی کو شریک نہ بناؤ بے شک شرک ظلم عظیمی ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔ ابن ابی حاتم لکھتے ہیں کہ تمام صحابہ کرام اور تابعین عظام نے (ظلم) کا معنی شرک ہی بتایا ہے۔ الانعام
83 (79) اس آیت کریمہ میں "حجت " سے مراد وہ دلائل ہیں جو آیت (74) سے یہاں تک بیان کیے گئے ہیں۔ جن کی تردید نہیں کی جاسکتی، اور جن کی اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل ابراہیم (علیہ السلام) کو بغیر کسی معلم کے واسطہ کے رہنمائی کی تھی، تاکہ وہ تنہا پوری قوم پر غالب آجائیں، اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا ہے خزانہ علم وحکمت کے درواز کھول دیتا ہے، اور دیگر لوگوں پر فوقیت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی حکمتوں کو جاننے وا لاہے۔ الانعام
84 (80) ذیل میں تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی فضیلت اور ان کا مقام بیان فرمایا ہے کہ جب انہوں نے اللہ کی رضا کی خاطر اپنی پوری قوم اور ان کے معبودوں سے براءت کا اعلان کردیا، تو اللہ نے انہیں اور ان کی بیوی ساتہ کو بطور جزائے خیر بڑ ھا پے میں " اسحاق " اور اسحاق کے بیٹے کی بشارت دی۔ نیز یہ بشارتے دی کہ بیٹا اور پوتا دونوں نبی ہوں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ ہود آیت (71) میں فرمایا ہے : کہ ہم نے سارہ کو اسحاق کی، اور اسحاق کے بعد یعقوب کی بشارت دی "یعنی تم دونوں کی زندگی میں ہی اللہ تعالیٰ تمہارے بیٹے اسحاق کو یعقوب جیسا بیٹا عطا کرے گا، جسے دیکھ کر تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی، جیسا کہ اسحاق کی پیدا ئش سے تمہاری ٹھنڈی ہوئی تھیں، اللہ تعالیٰ نے سورۃ مریم کی آیت (49) میں اسی کو بایں الفاظ بیان فرمایا ہے : اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ابرا ہیم کے قبل نوح کو بھی ہدا یت کبری یعنی نبوت سے نوازا، اور یہ بات بھی ابرہیم کے لیے بعث شرف ہے کہ ان کے باپ نوح بھی نبی تھے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نوح اور ابراہیم (علیہ السلام) ہر دو کو ایک عظیم خصوصیت عطا کی تھی، اللہ نے جب نوح اور ان پر ایمان لانے والوں کے علاوہ سب کو غرقاب کردیا، تو زمین پر صرف ان کی ذریت باقی رہ گئی، اور ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد جتنے انبیاء پیدا ہوئے سب ان کی اولاد سے تھے، انتہی۔ اس لیے اکثر لوگوں ککی رائے ہے کہ ومن ذریتہ " سے مراد ابراہیم کی اولاد ہے، اور لوط (علیہ السلام) ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجا تھے، اس لیے ان کی ذریت میں شمار ہوئے، اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو ذریت ابراہیم میں شمار کیا گیا۔ حالا نکہ وہ مر یم علیہما السلام کے بطن سے بغیر باپ کے پیدا کیے گئے تھے، یہ دلیل ہے اس بات کی کہ لڑکیوں کی اولاد آدمی کی ذریت میں داخل ہے۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حسن بن علی (رض) کے بارے میں فرمایا : میرا بیٹا سردار ہوگا۔ اور جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجران کے عیسائیوں سے مبادہلہ کرنا چاہا تو آیت کریمہ کے بمو جب حسن اور حسین کو اپنے ساتھ لے گئے۔ ابن ابی حاتم نے روایت کی ہے کہ حجاج بن یوسف نے یحیی بن معمر کو پیغام بھیجا کہ میں نے سنا ہے تم حسن وحسین کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذریت میں شمار کرتے ہو، میں نے پورا قرآن پڑھ ڈالا، کہیں بھی یہ چیز نہیں ملی تو یحیی نے کہلا بھیجا کہ کیا تم نے سورۃ انعام کی ایت نہیں پڑھی ؟ اس نے کہاں کہ ہاں، تو کہا کہ کیا اس آیت میں عیسیٰ "کو ابراہیم کی ذریت میں شمار نہیں کیا گیا ہے کہ حالانکہ ان کا باپ نہیں ہے ؟ تو اس نے کہا کہ تم نے سچ کہا۔ حافظ ابن کیثر رحمہ اللہ کہتے ہیں۔ یہی وجہ کہ جب کوئی آدمی اپنی "ذریت " کے لیے وصیت کرے گا یا وقف کرے گا، یا انہیں کچھ ہبہ کرے گا تو لڑکیوں کی اولاد بھی شامل ہوگی، اس آیت کے ضمن میں ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ اسماعیل کو اسحاق کے ساتھ اس لیے نہیں ذکر کیا گیا کہ یہاں مقصود انبیاء بنی اسرائیل کا ذکر ہے جو اسحاق و یعقوب کی اولاد سے تھے، اسماعیل (علیہ السلام) کے صلب سے صرف سے خاتم النبین پیدا ہوئے جو علی الاطلاق افضل الا نبیاء تھے وار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر اس لیے نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں انہی کو حکم دیا ہے کہ وہ اقوام عرب کے خلاف شرک کی نفی پر ابر ہیم کے عمل سے حجت قائم کریں۔ الانعام
85 الانعام
86 الانعام
87 (80) اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء کرام کو نبوت سے سرفراف کیا، اور ان کے آباء واخوان اور ان کی اولاد میں سے بہت سی جماعتوں کو چن لیا، اور انہیں خالص کی ہدایت دی، اور اچھے اخلاق واعمال کی تو فیق بخشی، اور چونکہ یہ سبھی ذریت ابراہیم میں سے تھے اس لیے یہ سارے خصائص و فضائل ابرا ہیم کے لیے باعث عزوافتخار بنے، اور ان کے درجات دنیا و آخرت میں بلند سے بلند تر ہوتے گئے۔، الانعام
88 (82) ان انبیاء کرام نبی اور رسول ہونے کا جو شرف حاصل ہوا وہ محض اللہ کے فضل و کرم سے حاصل ہوا اور اسی ذات باری تعالیٰ نے انہیں دین خالص کی ہدا یت دی، اور اگر وہ ان عظمتوں کے باوجود شرکا ارتکاب کر بیٹھے، تو ان کے سارے اعمال صالحہ ضائع ہوجاتے۔ تو اگر دوسرے لوگ شرک کا سرتکاب کریں گے تو ان کا کیا حال ہوگا، حافظ ابن کیثیر لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں شرک کی ہیت ناکی اور اس کی خطر ناکی کی کو بیان کیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ زمر آیت (65) میں فرمایا ہے : کہ آپ کو اور آپ سے پہلے تمام انبیاء کرام کو بذریعہ وحی بتایا گیا ہے کہ اگر آپ نے شرک کیا تو آپ کا عمل ضائع ہوجائے گا ، الانعام
89 (83) اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء کر آسمانی کتابیں دیں، اور علم و نبوت کی نعمت سے نوازا۔ مفسر ابو السعود نے لکھا ہے کہ یہیاں آسمانی کتابیں دینے، سے مراد ان میں موجود حقائق کی تفہیم اور تمام بڑے امور کا احاطہ ہے۔ اس لیے کہ ان میں سے بعض پر کوئ متعین کتاب نازل ہوئی تھی، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر کفار قریش رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کا انکار کرتے ہیں تو وہ گو یا گذشتہ تمام انبیاء اور آسمانی کتابوں کا انکار کرتے ہیں، اور ان کے اس انکار کی اللہ کو کوئ پرواہ نہیں، کیونکہ اس نے تو ان دونوں پر ایمان لانے کے لیے صحابہ کرام اور مومنینی کی جماعت کو پیدا کردیا ہے، جو ان پر ایمان لے آئے ہیں، اور ان پر اور دین اسلام پر جان نثار کرنے کے لیے ہمہ دم تیار رہتے ہیں۔ الانعام
90 (84) اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کو آسمانی کتابیں دیں، اور علم نبوت کی نعمت سے نوزا، مفسر ابو السعود نے لکھا ہے کہ یہاں آسمانی کتابیں دینے سے مراد ان میں حقائق کی تفہیم اور تمام بڑے امور کا احاطہ ہے اس لیے ان میں سے بعض پر کوئی متعین کتاب نازل نہیں ہوئی، تھی اس کے بعد اللہ نے فرمایا اگر کفار قریش رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کا انکار کرتے ہیں تو وہ گویا گذشتہ انبیاء اور آسمانی کتابوں کا انکار کرتے ہیں، اور ان کے اس انکار کی اللہ کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔ کیونکہ اس نے تو ان دونوں پر ایمان لانے کے لیے صحابہ کرام اور مومنین کی جماعات کو پیدا کردیا ہے۔ جو ان پر ایمان لے آئے ہیں۔ اور ان پر دین اسلام پر جان نثار کرنے کے لیے ہمہ دم تیار رہتے ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرکے کہا جارہا ہے کہ آپ انہی مذکورہ بالا انیاء کی اقتدا کریں، کیونکہ اللہ نے انہیں ایمان باللہ توحید خالص، اخلاق حمیدہ اور اللہ کی راضی کرنے والے اعمال کی تو فیق دی تھی۔ شوکانی لکھتے ہیں : یہ آیت سلیل ہے کہ ابتدائے اسلام میں جن معاملات کے بارے میں قرآن میں کوئی نص نازل نہیں ہو اتھا، ان کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ گذشتہ انبیاء کی پیروی کریں، اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا کہ آپ کفار قریش سے کہہ دیجئے کہ میں تم لوگوں سے قرآن کریم کی تعلیم پر کوئی اجرت نہیں مانگتا ہوں۔ کیونکہ یہ تو رہتی دنیا تک تمام جہان کے لیے اللہ کی طرف سے نصیحت کا خزانہ ہے۔ علمائے تفسیر نے لکھا ہے : یہ آیت دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہوسلم تمام جنوں اور انسانوں کے لیے رسول بناکر بھیجے گئے تھے۔ اور فقہا سے استدلال کیا ہے کہ تعلیم اور تبلیغ احکام پر اجرت لینی جا ئز ہے، اور صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس (رض) سے اس آدمی کا قصہ مروی ہے جسے سانپ نے ڈس لیا تھا، اور جس پر ایک صحابی نے ت سورۃ فاتحہ پڑھ کر پھونکا تو اس کا زہر اتر گیا تھا، اس وقعہ میں یہ بھی مروی ہے کہ جب انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بتایا کہ اس آدمی کے قبیلہ والوں نے صحابہ کرام کو بکریاں دی ہیں، تو آپ نے فرمایا : سب سے اچھا کام جس پر تم اجرت لو اللہ کی کتاب ہے تم نے اچھا کیا، حصہ لگاؤ اور میرا حصہ بھی رکھو، امام شوکانی لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کا یہ قول وعام ہے جو تعلیم قرآن، تلاوت قرآن، حسب طلب قران پڑھ کردم کرنے اور اس ہدیہ کو شامل ہے جو قاری قرآن کو اس لیے دیا جاتا ہے کہ وہ قاری ہے۔ الانعام
91 (85) ابن عباس (رض) اور مجاہد کہتے ہیں کہ کہ یہ آیت کفار قریش کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ انتہی جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر نزول قرآن کا بطور مبالغہ انکار کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے کسی انسان پر کوئی چیز نہیں اتاری، اور کہ اللہ کے خلاف ان کی جرات کی انتہا تھی کہ بعث انبیاء ورسل کا بالکل ہی انکار کردیا، اور بعض دوسروں کا خیال ہے کہ یہ آیت یہویوں کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی تھی، ایسی صورت میں یہ آیت مدنی ہوگی، جو مکہ آیتوں کے درمیان رکھے گئی ہے، دونو ہی قول کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان کا الزامی جواب بصورت سوال دیا کہ اے میرے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ذرا ان سے پو چھئے تو سہی کہ وہ تورات جو موسیٰ پر نازل ہوئی اور جو لوگوں کے لیے نور ہدایت اور حق و باطل کے درمیان تفریق کرنے والی کتاب تھی، اسے کس نے اتارا تھا ؟ وہ تورات جسے یہود اپی خواہش کے مطابق ٹکڑوں میں بانٹ کر کچھ ظاہر کرتے ہیں اور جو ان کی خواہش کے مطابق نہیں ہوتا اسے چھپاتے ہیں۔ پہلے قول کے مطابق یہ الزامی جواب اس لیے صحیح ہوگا کہ عرب کے لوگ یہود کے ذریعہ تورات کی باتیں سب کر اس کا اعتراف کرتے تھے، اور ان کی تصدیق کرتے تھے، اور دوسرے قول کے مطابق جواب واضح ہوا، جنہیں تم پہلے سے نہیں جانتے تھے، وہ کیسے حاصل ہوا ؟ اس کے بعد اللہ نے خود ہی اس کا جواب دیا۔ آپ کہہ دیجئے کہ موسیٰ پر تورات اللہ نے نال کی تھی، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ علوم ومعارف اللہ کی طرف سے بذریعہ وحی ملے ہیں۔ اور جب یہ بات ثابت ہوگئی تو پھر رسولوں پجر بالعموم اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بالخصوص نزول وحی کا تم کیسے انکار کرسکتے ہو ؟! اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تبلیغ اسلام اور اقامت حجت کے بعد اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہہ دیا کہ انہیں اپنے باطل عقائد و اعمال کی تاریک وادی میں بھٹکتا چھوڑ دیجئے۔ الانعام
92 (87) جب نزول وحی کے انکار کی نفی اور تورات کے منبزل من اللہ کتاب ہونے کا اثبات ہوچکا، تو اب قرآن کریم کا ذکر کیا گیا جو تورات اور دیگر تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، اور جس میں دنیا و آخرت کی تمام بھال ئیاں، زمانہ گذشتہ و پیو ستہ کے تمام علوم اور نبی نوع انسان کے لیے ہر قسم کے فوئد منافع بیان کردیئے ہیں، مکہ مکرمہ کو "ام القری "اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ پہلا گھر ہے جسے انسانوں کے لیے اللہ کے حکم سے بنایا گیا، اور جو اہل جہان کا قبلہ اور ان کے حج کی جگہ ہے۔ یہ آیت دلیل ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام جہان والوں کے لیے نبی بنا کر بھیجے گئے تھے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ اعراف آیت (158) میں فرمایا ہے : کہ آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو ! میں تم سب کے لیے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اور سورۃ فرقان کی آیات (1) میں فرمایا : بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل فرمایا تاکہ سارے جہان کو (اللہ کے عذاب سے) صحیحین میں جابر عبد اللہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر نبی اپنی قوم کے لیے خاص طور پر بھیجا جاتا تھا، اور میں تمام نبی نوع انسان کے لیے بھیجا گیا ہو ‏ ۔ (88) ایمان بالآخرت کا تقا ضا ہے کہ آدمی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر ایمان لائے، اس لیے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا مقصد ہی یہ تھا کہ آپ بنی نوع انسان کو آخرت میں عذاب نار سے بچنے اور حصول جنت کے لیے عمل کرنے کی دعوت دیں۔ آخرت پر ایمان رکھنے والوں کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، اور نماز کا ذکر بالخصوص اس لیے کیا گیا کہ ایمان باللہ کے بعد سب سے اہم اور اشرف عبادت ہی ہے، اسی لی سوربقرہ کی آیت (143) میں نماز کو ایمان سے تعبیر کیا گیا فرمایا : یہاں ایمان سے ایمان سے مراد نماز ہے، اسلام میں نماز کی اہمیت کا اندازہ از سے لگا جاسکتا ہے کہ ترک نماز پر کفر کا اطلاق ہو اہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑدی، وہ کافر ہوگیا، اس حدیث کو طبرانی نے انس (رض) سے المعجم الاسط میں رویایت کی ہے۔ الانعام
93 (89) اس آیت کریمہ میں تین قسم کے لوگوں کا ذکر کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ ان سے زیادہ اپنے حق میں ظالم کون ہو سکتا ہے، ایک تو وہ لوگ جو افتر پردازی کرکے غیروں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں۔ یاجو اپنی طرف سے حلال وہ حرام کے احکام وضع کرتے ہیں، اور دوسرے لوگ جو نبوت کا جھوٹا دعوی کرتے ہیں اور کہتے کہ ہم پر اللہ کی جانب سے وحی نازل ہوتی ہے، اور تیسرے وہ لوگ جو دعوی کرتے ہیں کہ وہ قرآن جیسا کلام پیش کرسکتے ہیں۔ یہ ظالمانہ اعمال و حر کات انہی سے سر زد ہو سکتے ہیں کو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جو نہیں جانتے کہ آخرت میں ظالموں کا انجام کیا ہوگا، جسے اللہ تعالیٰ نے آگے بیان کیا ہے کہ ایسے لوگ جب موت کی شد توں اور سکرات میں مبتلا ہوں گے، تو فرشتے اپنا ہاتھ پھیلائے انہیں عذاب دے رہے ہوں گے، اور ان سے نہایت سختی کے ساتھ کہیں گے کہ بھاگتے کہاں ہو۔ نکالو اپنی جانوں کو۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ کافروں کی جان کنی کا جب وقت آتا ہے اور فرشتے انہیں عذاب نار اور غضب رحمان کی خبر دیتے ہیں، تو ان کی روحیں بھاگنے لگتی ہیں اور باہر نکلنے سے انکار کرتی ہیں، فرشتے مارنے لگتے ہیں تاکہ ان کی روحیں ان کے جسم سے باہر نکلیں اس وقت فرشتے کہتے ہیں کہ اپنی روحوں کو اپنے جسموں سے نکالو، تم جو اللہ کے بارے میں ناحق باتیں بناتے تھے، آج ان کے بدلے میں تمہیں ذلت و رسوائی کا عذاب دیا جائے گا۔ الانعام
94 (90) میدان محشر میں بنی نوع انسان کی حالت کی مظر کشی کی گئی ہے کہ جب حساب وجزاء کے لیے اللہ کے سامنے ان کی پیشی ہوگی تو وہ بالکل تنہا ہوں گے، نہ ان کا مال ساتھ ہوگا نہ اولاد، اور نہ وہ اصنام اور ان کے وہ جھوٹے معبود ساتھ ہوں گے جنہیں وہ اپنا سفارشی گمان کرتے تھے، پیدا ئش کے وقت ان کی جو حالت تھی اسی حال میں اٹھائے جائیں گے، ابن جریر طبری نے عا ئشہ (رض) سے ورایت کی ہے کہ انہوں نے جب یہ آیت پڑھی تو کہا، یا رسول اللہ ! کیسی رسوائی کی بات ہوگی کہ میدان حشر میں مرد اور عورتیں ایک دسرو کی شرمگاہوں کو دیکھ رہے ہوں گے ؟ تو رسول اللہ اصلیا للہ علیہ وسلم نے کہا کہ اس دن ہر آدمی اپنے حال میں گم ہوگا، کوئی کسی طرف نہیں دیکھ رہا ہوگا۔ الانعام
95 (91) باری تعالیٰ کی توحید کا بیان ہوجانے کے بعد اس کی قدرت تخلیق اور اس کی کچھ مثالیں بیان کی جا رہی ہیں جو اس کے علم وحکمت اور کمال کدرت پر دلالت کرتی ہیں اس لیے کہ اصلی مقصود اللہ تعالیٰ کو اس کی تمام صفات و افعال کے ذریعہ پہچاننا اور یہ جاننا ہے کہ تمام اشیاء کا خالق صرف اسی کی ذات ہے، اور اس علم و ایمان کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ عبادت کی تمام قسموں کا مستحق بھی صرف اسی کو ماناجائے، اور ان اصنام اور باطل معبودوں کو قدموں کے نیچے روندا جائے جنہیں مشر کین اللہ کے ساتھ شریک بناتے ہیں اور انہیں اپنا ملجا وماعی سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ زمین کے اندر دانے کو پھاڑ کر ہرا بھرا پودا، اور کھجور کی گٹھلی کو پھاڑ کر لہلہاتا درخت نکالتا ہے، اس کی قدرت کی کاریگری دیکھئے کہ مردہ سے زندہ کو نکالتا ہے، جیسے نطفہ سے حیوان، اور خشک دانے سے سر سبز و شاداب پودے نکالتا ہے، اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے، یعنی حیوان نطفہ اور پودا سے دانہ نکالتا ہے، یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے جو عظیم الشان قدرتوں کا مالک اور عبادت کی تمام قسموں کا تنہا مستحق ہے، پھر کہ کیسی عجیب بات ہے کہ انسان اس ذات باری تعالیٰ کے بجائے دوسروں کی عبادت کرنے لگتات ہے۔ الانعام
96 92۔ اللہ تعالیٰ رات کی تاریکی کے پردے سے صبح کی روشنی کو نکالتا ہے، اور اس نے رات کی تاریکی کو انسان کے لیے وجہ سکون بنایا، کہ دن بھر کی تھکن کے بعد رات کو سوتا اور آرام کرتا ہے۔ اور آفتاب و ماہتاب کو دن مہینہ اور سال کے حساب کا ذریعہ بنایا، جو گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے، یہ سب اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان قدرت کی دلیلیں ہیں۔ الانعام
97 (93) اللہ تعالیٰ نے ستاروں کو پیدا کیا، جن کے ذریعہ بری اور بحری راستوں پر سفر کرنے والے رات کی تاریکیوں میں راستہ پہچانتے ہیں۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ ستاروں کی تخلیق کا ایک مقصد تو یہ ہے جو یہان بیان ہوا، دورا مقصد ان کے ذریعہ مردود شیاطین کو مانا ہے، جو آسمان کی باتیں سننا چاہتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ سے سورۃ صاففات کی آیت (7) میں فرمایا ہے : اور سورۃ ملک کی آیت (5) میں فرمایا ہے : تیسرا مقصد آسمان کی زینت ہے، اس کے بعد کہا کہ جو ان فوائد کے علاوہ ستاروں کے بارے ہیں کسی اور بات کا اعتقاد رکھے گا وہ اللہ تعالیٰ پر افتر پر درازی کرے گا۔ الانعام
98 (94) اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان قدرت تخلیق کی ایک اور مثال بیان کی گئی ہے، تاکہ اس کے کمال قدرت کا اثبات ہو، باری تعالیٰ نے انان کو صرف آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا ہے، اور وہ اس طرے ھ باپ کی پیٹھ میں نطفہ کو پیدا کیا، اور پھر اسے ماں کے رحم میں پہنچا یا، جہاں وہ تخلیق و نمو کے مختلف مراحل سے گذر تا ہے، اور پھر انسان بن کر پیدا ہوتا ہے۔ الانعام
99 (95) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال قدرت کی ایک عظیم دلیل پیش کی ہے ک، اور انسانوں کے لیے ایک بہت بڑی نعمت کا ذکر فرمایا ہے، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات پر رحم کرتے ہیں ہوئے بادل سے پانی برساتا ہے، اس اپنی کے زریعہ انوع واقسام کے پودے پیدا کرتا ہے، پھر اس پودے کو ترو تازہ اور سبزر درخت بناتا ہے، پھر ان درختوں میں گچھوں کی شکل میں ڈھیر سارے دانے پیدا کرتا ہے، جیسے گیہوں، جو اور چاول کے خوشے، اور کھجور کے درختوں میں گچھے پیدا کرتا ہے، جو بالتد ریج خوشے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، اور جو ایک دوسے کے قریب ہوتے ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ پانی کے ذریعہ انگوروں کے باغ کو بسا دیتا ہے، اور زیتون اور انگور پید کرتا ہے، جن میں بعض تو شکل و ہیت اور رنگ و ذائقہ میں ایک دوسرے کے مشابہ ہوتے ہیں، اور بعض مشابہ نہیں ہوتے، اور ذرا ان میں سے ہر ایک کو دیکھوں تو سہی کہ جب پھل نکلتا ہے تو کیسا کمزرو اور بے کار سا ہوتا ہے، اور جب وہ پک جاتا ہے تو کیسا نفع بخش اور لذیذ ہوتا ہے، یقینا ان سب چیزوں پر نگاہ عبرت انسان کو دعوت دیتی ہے کہ وہ ان کے پیدا کرنے والے کی عظیم قدرت پر ایمان لے آئے۔ الانعام
100 (96) جب علم علوی اور سفلی سے اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت و حکمت پر دلائل پیش کردیئے گئے اور اس کی دی ہوئی انواع اقسام کی نعمتوں کا ذکر ہوچکا اور یہ ثابت کردیا گیا کہ عبادت کا مستحق صرف اسی کی ذات ہے، تو اب مشر کین کی زجرو توبیخ اور ان کے شرکیہ اعمال کی تر دید کی جا رہی ہے،، چونکہ مشرکین نے بتوں کی پرستش جنوں کے حکم سے کی اس لیے انہوں نے گویا جنوں کی عبادت کی، حالانکہ جب اللہ کے علاوہ کوئی خالق نہیں، تو بلاشبہ وہی بلاشرکت غیرے ہر قسم کی عبادت کا مستحق ہے، آیت میں عزیر (علیہ السلام) کو انصاری عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا سمجھتے تھے، اور مشر کین عرب فرشتوں کے بارے میں اعتقاد رکھتے تھے کہ وہ اللہ کی بیٹاں ہیں، اللہ تعالیٰ اس قسم کے تمام حادث و ناقص صفات سے یکسر پاک ہے۔ الانعام
101 (97) جن لوگوں اللہ کے لیے بیتا یا بیٹی ثابت کرنے کی جرات کی، ان کی تر دید کی جا رہی ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو بغیر مادہ کے پیدا کیا ہے، وہ فاعل اور مؤثر مطلق ہے، وہ کسی چیز کا اثر قبول نہیں کرتا ہے، اور باپ بیٹے کا عنصر ہوتا ہے اور منفعل ہو کر اثر قبول کرتا ہے، تب بیٹے کا مادہ اس سے منتقل ہوتا ہے، اس لیے اللہ کا کوئی بیٹا نہیں ہوسکتا، اور اس لیے بھی اس کا کوئی بیٹا نہیں ہوسکتا کہ اس کی کوئی بیوی نہیں، اور بغیر دوہم جنسوں کے ملاپ کے لڑکا نہیں ہوتا۔ اور اللہ کا کوئی ہم جنس نہیں، اور اس لیے بھی اس کا کوئی بیٹا نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے، اور انہی میں سے وہ بھی ہے جسے لوگ اللہ کا بیٹا بتاتے ہیں۔، اور مخلوق خالق کا بیٹا نہیں ہو سکتا، اور اس لیے بھی اس کو کوئی بیٹا نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ کا علم تمام معلومات کو محیط ہے، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں، اگر اس کا بیٹا ہوتا تو وہ بھی اس کی صفات کے ساتھ متصف ہوتا وہ بھی ہر چیز کا علم رکھتا، جبکہ یہ صفت غیر اللہ سے بالا جماع منفی ہے الانعام
102 ،(98) جس ذات پاک کی اوپر صفات بیان کی گئی ہیں، وہ اللہ ہے جو تمام مخلوقات کا رب ہے، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے، اسی لیے اس نے بندوں کو حکم دیا کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں، وہی سب کا نگراں محافظ مدبر اور روزی رساں ہے۔؛ الانعام
103 (99) اس آیت کریمہ کا یک معنی علماء تفسیر نے بیان کیا ہے کہ گذشتہ آیت کے آخری حصہ میں جو بات بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کی نگرانی کررہا ہے، اسی معنی کو بطور تاکید بیان کیا گیا ہے، کہ وہ تمام چیزوں کو دیکھ رہا ہے، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ہے، اور مقصود بندوں کو خوف دلا تا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اگرچہ ظاہر نگا ہیں نہیں دیکھ رہی ہیں، لیکن وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے، اس لیے اس کی گرفت سے بچ کررہنا چاہیئے، اور دوسرامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اہل دنیا کی آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی دنیاوی وجود رکھنے والے شخص کو اس کا بیٹا قرار دیا جائے ؟! آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کوئی نہیں دیکھ سکتا، حدیث سے بھی یہی ثابت ہے، بخاری ومسلم نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جو تمہیں یہ کہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا تھ، تو وہ جھوٹا ہے، اس کے بعد انہوں نے یہی آیت پڑھی، لیکن یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے کہ مومنین اللہ تعالیٰ کو میدان محشر اور جنت میں دیکھیں گے، بخاری ومسلم نے جریر بن عبد اللہ بجلی (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے تھے، کہ آپ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر کہا کہ تم لوگ اپنے رب کو اسی طرح دیکھوں گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ الانعام
104 (100) یہاں بصیرت سے مراد وہ دالائل اور نشانیاں ہیں جنہیں اللہ نے قرآن کریم میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی سنت مبارکہ میں بیان فرمایا ہے، جو شخص ان دلائل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حق کا عترف کرلے گا، اور اس پر ایمان لے آئے گا تو اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا، اور جو آنکھوں پر پٹی باندھ لے گا، اور حق کو قبول نہیں کرے گا تو اس کے انجام بد سے اسی کو نقصان پہنچے گا، اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی کہا گیا کہ میں تمہارا نگراں اور نگہبان نہیں کہ تمہیں گمراہی سے بچالوں، میں تو صرف ڈرانے اوالا ہوں تمہاے اعمال کو تو اللہ تعالیٰ ریکارڈ کرہا ہے، اور تمہیں اس کا بدلہ دے گا۔ الانعام
105 (101) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آیتوں اور دالئل کو مختلف انداز میں متعدد وجوہ بیان کیا ہے، اس کے بارے میں مشر کین باتیں بنا تے تھے کہ قرآن ایک ہی بات کو باربار کیوں بیان کرتا ہے ؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اپنی آیتوں کو مختلف انداز میں اس لیے بیان کرتا ہے تاکہ مخالفین پر پورے طور سے حجت قائم ہوجائے، اور تاکہ مشرکین اور کفار یہ نہ کہیں کہ اے محمد ! تو نے یہ سب کچھ اہل کتاب سے سیکھا ہے، ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اہل مکہ کو قرآن پڑھ کر سناتے م تو وہ کہتے تم نے یہ سب "یسار اور خیر "دورومی غلاموں سے سیکھا ہے، اور دعوی کرتے ہو کہ یہ اللہ کا کلام ہے، اللہ تعالیٰ اپنی آتیوں کو مختلف انداز میں اس لیے بھی بیان کرتا ہے تاکہ حق کے طلب گاروں کے لے اس قرآن کو کھول کھول کر بیان کردے تاکہ وہ حق کی اتباع کریں اور باطل سے اجتناب کریں۔ الانعام
106 (102) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل کی تقویت اور ان کی حزن وملال کے ازالہ کے لیے انہیں حکم دیا جا رہا ہے کہ آپ اپنی راہ پر ثابت قدمی کے ساتھ چلتے رہئے، اور مشرکین کی باتوں کا خیال نہ کیجئے۔ الانعام
107 (103) مشرک و کافر کو گمراہ کرنے کی حکمت اللہ ہی جانتا ہے، اگر وہ چاہتا تو تمام بنی نوع انسان کے راہ ہدایت پر کٹھا کردیتا، لیکن وہ انی مشیت اور حکمت کے تقاضے کے مطابق جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے، اللہ سے اس کے افعال کے بارے میں نہیں پو چھا جائے گا، البتہ بندوں سے ان کے اعمال کا حساب لیا جائے گا، اور نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ انسانوں کے اعمال واقوال کا ریکارڈ رکھتے، اور نہ ان کی روزی اور دیگر امور کے ذمہ دار تھے، ان کا کام تو اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچادینا تھا، سو انہوں نے بدرجہ اتم انجام دیا۔ الانعام
108 (104) اس آیت کریمہ میں مو منوں کو اللہ کے ساتھ غایت تاوب کی تعلیم دی گئی ہے، انہیں مشر کین کے جھوٹے معبودوں کے گالی دینے سے اس لیے منع کیا گیا کہ مشر کین غصہ میں آکر اللہ تعالیٰ کو گا لی دیتے ہیں۔ عبدالرزاق نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ مسلمان کافروں کے بتوں کو گالیاں دیتے تھے، تو انہیں روکا گیا، تاکہ وہ اللہ کو گالی نہ دینے لگیں۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم وغیر ہما نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ مشرکین نے کہا اے محمد ! تم ہمارے معبودوں کا گالی دینے سے باز آجاو، ورنہ ہم بھی تمہارے رب کی برائی بیان کریں گے۔ تو اللہ نے بتوں کا گالی دینے سے مو منوں کو منع کردیا، اس لیے کہ جہاں کسی بری برائی کا دروازہ کھل جانے کا اندیشہ ہو، وہاں چھوٹی نیکی کو نظر انداز کردیا جائے گا، بخاری نے عبداللہ بن عمر ورضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ کبیرہ گنا ہوں میں سے کی یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت بھیجے، لوگوں نے پوچھا کہ آدمی اپنے والدین پر کیسے لعنت بھیجے گا۔ (105) اللہ تعالیٰ نے جس طرح گذشتہ زمانوں میں اپنے نزدیک معلوم حکمتوں کے پیش نظر بہت سی گمراہ قوموں کے اعما کو ان کی نگا ہوں میں خوبصورت اور مزین بنایا تھا، اسی طرح اس نے مشرکین مکہ کو دلوں میں بھی بتوں کی محبت ڈال دی ہے، اس لیے وہ ان کی وکالت و حمایت کرتے اور انہیں اپنا معبود بتا تے ہیں۔ لیکن قیامت کے دن جب اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے تو انہیں ان مشرکانہ اعمال کا بد لہ دیا جائے گا۔ الانعام
109 (106) مشرکین مکہ نے اپنی عادت کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی ایک نشانی کا مطالبہ کیا، اور قسم کھاکر کہا اگر یہ نشانہ آگئی تو ہم لوگ ضرور ایمان لائیں، لیکن ان کا مقصد ایمان لانا نہیں بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اللہ کی آتیوں کا مذاق اڑانا تھا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ ان کے جواب میں انہیں کہہ دیں کہ آیتیں اونشانیاں اللہ کے پاس بہت ہیں۔ لیکن تمہاری مرضی کے مطابق ان کا لانا میرے اختیار میں نہیں ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تم جو چاہتے ہو کہ یہ مشرکین مکہ ایمان لے آئیں، تو تمہیں کیا معلوم کہ اگر مانگ کے مطابق اللہ تعالیٰ نشانیاں بھیج دے گا تو بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ الانعام
110 (107) انہی مشر کین مکہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو حق کا ادراک کرنے سے محورم کردیا ہے۔ اسلیے وہ حق بات کو سمجھتے ہی نہیں، اور ان کی آنکھوں کو بصیرت سے محروم کردیا ہے، اس لیے راہ حق کو دیکھنے ہی نہیں، اس لے جس طرح وہ لوگ پینے ایمان نہیں لائے اب بھی ایمان نہیں ہلائیں گے، اور اللہ انہیں کفر میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دے گا۔ الانعام
111 (108) مشرکین مکہ قسمیں کھاکھا کر کہتے تھے کہ اب جو ہم نے نشانی مانگی ہے اگر آگئی تو ایمان لے آئیں گے، اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کی بہت ہی شدت کے ساتھ تکذیب کی ہے کہ یہ لوگ ایک نشانی کی بات کرتے ہیں، اگر ہم ان کے پاس فرشتے بھی بھیج دیں جیسا کہ وہ اس سے پہلے مطالبہ کرچکے ہیں کہ۔ (الفرقان :21)، اور قبروں سے مردے اٹھ کر ان سے بات بھی کرنے لگیں، جیسا کہ وہ اس سے پہلے سوال کرچکے ہیں کہ (الدخان :36) ان کے سامنے دنیا کے تمام حیوانات، نبا تات اور جمادات کو بطور نشانی جمع کردیں تو بھی یہ لوگ اپنے تمرد اور سر کشی کی وجہ سے ایمان نہیں لائیں گے مہاں اگر اللہ چاہے گا تو ایاطن لے آئیں، لیکن اکثر لوگ نادان ہیں، جانتے نہیں کہ ایمان کی دولت اللہ کی مشیت سے ملتی ہے، خلاف عادت نشانیوں کے ظہور سے نہیں، علا مہ قاشانی نے لکھا ہے کہ ایسے ایمان کا اللہ کے نزیک اعتبار بھی نہیں جو عادات کے خلاف نشانیوں کو دیکھ کر لا یا جائے ، الانعام
112 (109) مشرکین مکہ کی عداوتوں سے کبھی کبھار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دل برداشتہ ہوجاتے تھے تو اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی ان کی دل دہی کرتا تھا، اس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعال نے اپنے نبی کریم صلی اللہ وعلیہ وسلم کو خطاب کرکے فرمایا : ہم نے جس طرح آپ کے دشمن پیدا کئے ہیں جو آپ کی مخالفت کے درپے ہیں، اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے کے تمام انبیاء کے بھی دشمن پیدا کئے تھے، جو انسانوں اور جنوں کے اشرار ہوتے تھے، اور جو لوگوں کو دھو کہ دینے کے لیے ناحق کو حق بنا کر پیش کرتے تھے، اس لیے آپ پر یشان نہ ہوں، اگر اللہ چاہتا تو یہ شیاطین جن وانس آپ کی اوارگذشتہ انبیاء کی مخالفت نہ کرتے، آپ انہیں چھوڑ کدیجئے تاکہ مزید افترا پردازی کرتے رہیں، انہیں عنقریب اپنا انجام بد معلوم ہوجائے گا۔ مسند احمد میں ابو مامہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا "اے ابوذر ! اللہ کے ذریعہ جب و انس کے شیاطین کے شر سے پناہ مانگو، ابو ذر (رض) نے کہا، اے اللہ کے نبی۔، کیا انسانوں کے بھی شیا طین ہوتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا ہا انس و جن کے شیا طین ایک دوسرے کو ملمع کو ہوئی بات لوگوں کہ دھوکہ دینے کے لے پہنچاتے ہیں رہتے ہیں۔ الانعام
113 (110) شیا طین انس وجن اس لیے بھی ملمع شازی سے کام لیتے ہیں۔ تاکہ جو لوگ یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل ان کی طرف مائل ہوجائیں اور نہیں اپنا امام اور پیشوا مان لیں اور اپنی خوہشات نفس کے مطابق جو چاہیں کرتے رہیں۔ الانعام
114 (111) یہ استفہام انکار ہے، بعض مشرکین مکہ کی تردید کرنے کے لیے سوالیہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے، آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ مشرکوں سے کہہ دیجئے کہ میں کیسے گم، گشتہ راہ بن جاؤں، اور اللہ کے علاوہ کسی اور کو اپنے اور تمہارے درمیان فیصلہ کرنے والا مان لوں؟! دراصل یہ جواب تھا کہ کفار قریش کے سوال کا کہ اے محمد ! ہم اپنے بتوں پر تمہاری تنقیدوں سے تنگ آچکے ہیں، اس لیے ہمارے اور تمہارے درمیان حکم اور فیصل بناؤ جو ہمارا فیصلہ کرے، تو اللہ نے اپنے نبی سے کہا، آپ انہیں جواب دیں کہ کیا میں اللہ کے علاوہ کسی اور طاغوت کو اپنا حکم مان لوں، جبکہ اللہ نے تمہاری ہدا یت کے لے وہ قرآن اتارا ہے جس میں حق وباطل اور حرام سب کچھ بیان کردیا گیا ہے۔ اور اہل کتاب تو خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ کتاب منزل من اللہ ہے، اس لیے کہ تمام انبیاء نے اس قرآن کی بشارت دی ہے، اور اس لیے کے کہ قرآن، تورات و انجیل کی تصدیق کرتا ہے، اس لیے اے نبی ! کفارقریش کے انکار کیوجہ سے آپ اس قرآن کے منزل من اللہ ہونے میں شبہ نہ کریں۔ الانعام
115 (112) یہاں” کلمات "سے مراد اللہ تعالیٰ سے بھیجی گئی خبریں، احکام، وعدے اور وعید ہیں ،، وہ تمام خبریں اور وعدے اور وعید غایت درجہ سچے ہیں۔ اور وہ تمام احکام واوامر عدل و نصاف کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں، اللہ تعاک احکام اور ادامر ونواہی کے بعد شخص کی قدرت میں نہیں (چاہے دنیا میں یا آخرت میں) کہ وہ اپنے احکام اور ادامر ونوہی کو نافذ کر سے، وہی ذات پاک اپنے بندوں کے تمام اقوال کو سننے والا اور ظاہر ومخفی جا ننے والا ہے ، الانعام
116 (113) اس ایت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑی خطرماک حقیقت کی خبر دی ہے کہ زمین پر رہنے والے اکثر و بیشتر لوگ پہلے بھی گم گشتہ راہ رہے، اور رہتی دنیا تک یہی حال رہے گا حق کو پانے والے اور اس پر قائم رہنے والے ہمیشہ ہی کم رہے ہیں۔ اس لیے افراد کی کثرت حق وصداقت کی کبھی دلیلی نہیں رہی ہے، جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر رہے گی جو لوگ ان سے الگ ہوجائیں گے، وہ انہیں نقصان نہ پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ تک کہ قیامت آجائے گی، اور وہ اپنے حال پر با قی رہیں گے، اس حدیث کو مسلم نے جابر بن عبد اللہ (رض) سے روایت کی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس ایت کریمہ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو متنبہ کیا ہے کہ کثرت آپ کے نزدیک حق کی دلیل نہیں ہونی چاہیے، اور کثرت کی بنیاد پر آپ کو اہل زمین کو اتباع کرنی چاہیے، ورنہ آپ راہ حق سے ہٹ جائیں گے، یہ کفار جو کثیر تعداد میں ہیں اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ ان کے آباءاجداد حق پر تھے، اس لیے ان کی تقلید کرتے ہیں، ان کے پاس اس کے سوا کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ لوگوں کی اکثریت اسی دین پر قائم ہے جو ان کا بھی دین ہے، یہ لوگ اللہ کے بارے میں اٹکل پچو باتیں کرتے ہیں۔ کبھی کسی کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں، تو کبھی بتوں کو اللہ کے پاس اپنا سفارشی بتاتے ہیں، اور کبھی مردہ اور غیر اللہ کے نام پر چھوڑ گئے جانوروں کو حلال قرار دیتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے نبی ! آپ کارب خوب جانتا ہے کون اس کی راہ سے بھٹک جائے گا، اس لیے اس کے حال پر چھوڑدتیا ہے اور کون اس کی راہ کو اختیار کرے گا، تو اس کے لیے اس راہ پر چلنا آسان کردتیا ہے ، الانعام
117 الانعام
118 الانعام
119 (114) اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گمراہ کافروں کی اتباع سے منع فرمایا ہے، ان کی ایک گمراہی یہ تھی کہ وہ اپنی طرف سے حلال وحرم کا حکم لگا یا کرتے تھے، اور مسلمانوں سے جھگڑتے تھے کہ اللہ جسے ذبح کردیتا ہے اسے تو تم لوگ نہیں کھاتے ہو۔ اور اپنا ذبح کیا ہوا کھاتے ہو۔ جیسا کہ نسائی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے، اس آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ تم لوگ کافروں کی بات میں آکر مردے جانور کھانا شروع نہ کردو، بلکہ وہی جانور کھاؤ جس کا کھانا حلال ہو اور جسے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو، آیت (119) میں مسلماموں کو جانوروں کے کھانے کی دوبارہ ترغیب دلائی گئی ہے جنہیں اللہ کے نام سے ذبح کیا گیا ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جنب چیزوں کا کھانا "حرام ہے اللہ نے اس بیان کردیا ہے، بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ سورۃ مائدہ کی آیت (3) کی طرف اشارہ ہے، لیکن یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا، اس لیے کہ مائدہ " آخری مدنی سورت ہے، اور انعام "مکہ سورت ہے، بلکہ شاید اشارہ اسی سورت کی آیت (145) کی طرف ہے، یا مقصود یہ ہے کہ پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ احکام بیان کئے، اس کے بعد قران کریم میں ان سے متعلق آیت نازل ہوئی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اضطراری حالتوں میں جان بچانے کے لیے حرام چیز کو بقدر حاجت کھا لینا جا ئز ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بہت سے لوگ دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں اور بغیر کسی شرعی دلیل کے اپنی خواہشات وشہوات کے مطابق حلال و حرام کا حکم جاری کرتے رہتے ہیں۔ الانعام
120 (115) محرمات کی تفصیل کی بعد اب ان گناہوں کا بیان ہو را ہے جنہیں یکسر چھوڑدینا واجب ہے، ظاہر اور پوشیدہ گناہ کی تفسیر میں علماء کے کئی اقوال ہیں : مجاہد کے نزدیک اس سے مراد کھلے اور پوشیدہ گناہ ہیں ل۔ قتادہ کے نزدیک کم یا زیادہ نیز پوشیدہ اور کھلے گناہ مراد ہیں۔ سدی نے نزدیک "ظاہر "سے مراد طوئفوں کے ساتھ زنا، اور باطن سے پوشیدہ داشتاؤں کے ساتھ زنا مراد ہے، عکرمہ کے نزدیک ظاہر سے مراد ان عورتوں سے شادی جن سے شادی کرنا حرام ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں صحیح یہ ہے کہ آیت کا مفہوم عام ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے : آپ کہہ دیجئے کہ میرے رب نے ظاہر وباطن فواحش کر حرام کردیا ہے، آیت کا جو حصہ اس کے بعد آیا ہے وہ بھی اس معنی کی تائید کرتا ہے فرمایا کہ جو لوگ گناہ کریں گے انہیں اس کا بدلہ دیا جائے گا، یعنی وہ گناہ چاہے ظاہر ہو یا باطن، امام احمد اور مسلم نے نواس بن سمعان (رض) سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گنا کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا، گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے، اور تمہیں پسند نہ ہو کہ لوگوں کو اس کی اطلاع ہوجائے۔ الانعام
121 (116) اس آیت کے شان نزول میں اصحاب سنن نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ کچھ لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا کہ جس جانور کو ہم قتل کرتے ہیں ( یعنی ذبح کرتے ہیں) اسے تو کھاتے ہیں۔ اور جسے اللہ قتل کرتا ہے (مرجاتا ہے) اسے نہیں کھاتے تو سے تک نازل ہوئی نسائی میں ہے کہ مشرکین نے مسلمانوں کے ساتھ جھگڑا کیا کیہ اللہ کے ذبح کئے ہوئے جانور کو تم لوگ نہیں کھاتے، اور جو خود ذبح کرتے ہو اسے کھاتے ہو، انتہی۔ جو جانور اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا جائے اس کی حلت کے بارے میں علماء کے تین مشہور اقوال ہیں : پہلا قول : داؤد ظاہری، ابوثور، ابن عمر (رض)، نافع، شعہی، ابن سیرین اور ایک روایت کے مطابق مالک اور احمد کا ہے کہ جو جانور بسم اللہ پڑھ کر ذبح نہیں کیا گیا ہے، اس کا کھانا جا ئز نہیں ہے، چاہے قصدا نہ پڑھا ہو یا بھول گیا ہو :1۔ ان حضرت نے اسی آیت کے ظاہری الفاظ سے استدلال کیا ہے، 2۔ اور سورۃ مائدہ کی آیت (4) کہ جب جانوروں کی شکاری جانوروں نے تمہارے لیے پکڑ رکھا ہو انہیں نہیں کھا !۔ اور اس پر بسم اللہ پرھ لیا کرو۔3۔ اور ان احادیث سے بھی استدلال کیا ہے جن میں ذبح اور شکار کرتے وقت بسم اللہ کہنے کا حکم آیا ہے، جیسا کہ صحیحین میں مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عدی بن حاتم اور ابو ثعلبہ (رض) سے کہا : اگر تم اپنے سکھائے ہوئے کتے کو بسم اللہ کہہ کر چھوڑ دو تو اس کا شکار کھاؤ۔ اور صحیحین ہی میں رافع بن خدیج (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو آلہ ذبح کرتے وقت خون نکال دے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اسے کھاؤ، اور دانت اور ناخن سے ذبح کرو، اور صحیح مسلم میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے مرعی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنوں سے فرمایا " تمہارے لیے ہر وہ ہڈی کھانا جائز ہے جس پر ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہو، اور صحیحین میں جندب بجلی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ذبح نہیں کیا ہے وہ بسم اللہ پڑھ کر ذبح کرے اور حضرت عائشہ (رض) کی حدیث ہے کچھ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ لوگ ہمیں گوشت دیتے ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے ذبح کرتے وقت بسم اللہ کہا تھا کہ نہیں، تو آپ نے فرمایا "بسم اللہ کہو، اور کھاؤ۔ یعنی صحابہ کرام جانتے تھے کہ ذبح کرتے وقت بسم اللہ کہنا ضروری ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت بسم اللہ کہنا مسلمانو کے لیے شرط نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے، اس لیے کہ اگر کوئی مسلمان قصدا یا بھول کر بسم اللہ چھوڑ دیتا ہے تو کوئی نقصان کی بات نہیں ہے یہ قول امام شافعی اور ان کے اصحاب کا ہے، اور ایک روایت کے مطابق امام مالک اور امام احمد کا بھی یہی قول ہے، ابن عباس، ابو ہریرہ اور عطاء سے بھی یہی مروی ہے، ان حضرات نے آیت کریمہ کو غیر اللہ کے لیے ذبح کئے گئے جانور پر محمول کیا ہے، اس لیے کہ فسق وہی جانور ہوگا جسے غیر اللہ کے نام سے زبح کیا گیا ہے م اس کے نزدیکک اس مفہوم کی تائید بعد میں آنے والی آیت ؛ سے ہوتی ہے، کہ وہ جانور حرام ہے جو شرک کے طور پر غیر اللہ کے نام سے چھوڑا گیا ہو۔ ابن ابی حاتم نے عطاء سے روایت کی ہے کہ یہ آیت ان جانوروں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہیں قریش اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے، اور ان جانوروں کے بارے میں جنہیں مجوسی ذبح کریں، اور ابوداؤد نے اپنے " مراسیل " میں صلت سدوسی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے، چاہے بسم اللہ پڑھے یا نہ پڑھے، اگر وہ نام لے گا تو صرف اللہ کا لے گا، اور اس کی تائید ( ان کے نزدیک) ابن عباس (رض) کا قول سے ہوتی ہے جسے دار قطنی نے روایت کی ہے کہ اگر مسلمان ذبح کرے اور اللہ کا نام لے تو اسے کھائے اس لیے کہ مسلمان کے اندر اللہ کے ناموں میں ایک نام ہے، اور عائشہ (رض) کی گذشتہ حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نئے مسلمان کے دیئے ہوئے گوشت کے بارے میں فرمایا کہ تم لوگ بسم اللہ کہو اور کھاؤ، یہ لوگ کہتے ہیں کہ بسم اللہ کہنا شرط ہوتا تو جب تک ذبح کرتے وقت اسے کہنے کا یقین نہ ہوجاتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو کھا نے کی اجازت نہ دیتے۔ اما خطابی کہتے ہیں یہ حدیث دلیل ہے کہ بسم اللہ پڑھنا ذبیحہ کے حلال ہونے کے لیے شرط نہیں ہے، اس لیے کہ اگر شرط ہوتا تو مشکوک حالت میں ذبیحہ کا کھانا حلال نہیں ہوتا، ان حضرات نے قرآن کریم کی آیت : اور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے، سے بھی استدلال کیا ہے، اس لیے کہ یہ شک بہر حال باقی رہتا ہے کہ انہوں نے بسم اللہ کہا ہے یا نہیں۔ تیسرا قول امام ابو حنیفہ، ان کے اصحاب اور اسحاق بن راہو یہ کا ہے، اور امام مالک اور امام احمد کا بھی قول یہی ہے کہ اگر ذبح کرنے والا بسم اللہ کہنا بھول گیا ہے تو کوئی حرج نہیں، اور اگر قصدا بسم اللہ نہیں پڑھا ہے تو کھانا جا ئز نہیں ہوگا، علی، ابن عباس، سعید بن المسیب، عطا، طاؤس، حسب بصری، ابو مالک، ابن ابی لیلی، جعفر بن محمد اور ربیعہ بن ابی عبدالرحمن کا یہی قول ہے، ان حضرات نے ابن عباس (رض) کی ررایت سے استدلال کیا ہے، جسے بیہقی نے مرفوعات روایت کی ہے کہ مسلمان کا نام کافی ہے، اگر ذبح کرتے وقت بسم اللہ کہنا بھول جائے تو اللہ کا نام لے اور کھا لے، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ ابن عباس (رض) کا قول ہے، حدیث مرفوع نہیں ہے، البتہ ان کی دلیل قرآن کی آیت ہو سکتی ہے : کہ اے اللہ ! اگر ہم بھول جائیں تو ہمارا مواخذہ نہ کر"اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : میری امت سے غلطی اور بھول کو درگزر کردیا گیا ہے۔ (ابن ناجہ، طبرانی) امام شوکانی نے بظاہر رائے کو ترجیح دی ہے کہ اور حافظ ابن کثیر نے دوسری رائے کو، یعنی ان کے نزدیک بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے شرط نہیں، صاحب محاسن التنزیل نے بھی اسی رائے کو ترجیح دی ہے، لیکن احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اگر ذبح کرنے والے نے قصدا بسم اللہ نہیں کہا ہے تو اسے نہ کھا یا جائے، کیونکہ قرآن کریم کے ظاہری الفاظ اسی پر دلالت کرتے ہیں (کہ جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے نہ کھاؤ، ایسے جانور کا کھانا فسق ہے) ہاں، اگر مسلمان ذبح کرنے والا بسم اللہ کہنا بھول گیا ہے تو قرآن و سنت میں موجود ان دلائل کے پیش نظر اس کا کھانا جا ئز ہوگا، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے امت مسلمہ سے غلطی اور بھول چوک کو درگزر کردیا ہے، اور یہ قرآن کریم میں آیا ہے کہ اہل کتاب کا ذبیحہ کھانا حلال ہے تو یہ الیک الگ حکم ہے جسے مسلمان کے ذبیحہ کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہیئے۔ (117) ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ وحی کی دو قسمیں ہیں : ایک اللہ کی وحی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور دوسری شیطان کی وحی اپنے ماننے والوں پر۔ ابو داؤد، ابن ماجہ ابی حاتم نے سند صحیح کے ساتھ ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ شیاطین اپنے ماننے والوں کو سکھاتے ہیں، تو ہو کہتے ہیں کہ اے مسلمانوں ! تم لوگ اللہ کے ذبح کیے ہوئے کو نہیں کھاتے، اور جسے خود ذبح کرتے ہو کھاتے ہو ؟ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا : کہ جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اسے نہ کھا ؤ"۔ (118) آیت کا یہ حصہ دلیل ہے کہ جو کوئی اللہ کی حرام کردہ کسی شے کو اپنی طرف سے حلال کرے گا یا کسی حلال کو حرام کرے گا، وہ مشرک ہوگا، ترمذی نے کی تفسیر میں عدی بن حاتم (رض) سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اہل کتاب نے اپنے احبارو رہبان کی عبادت تو نہیں کی کی؟ تو آپ نے فرمایا کہ احبارو رہبان کے حلال اور حرام کو حلال بنایا، اور لوگوں نے ان کی اتباع کی یہی ان کی عبادت تھی۔ الانعام
122 (119) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مومن اور کافر کی مثال بیان کی ہے، اور مقصود مو منوں کو کافروں کی اتباع سے نفرت دلا نا ہے، انسان کفر وضلالت میں بھٹک رہا تھا، اور گویا وہ مردہ تھا تو اللہ نے اس کے دل کو ایمان کے ذریعہ زندہ کیا اور وہ مومن بن گیا، لیکن جسے اللہ ایمان کی تو فیق نہیں دیتا وہ کفر و شرک کی تاریکیوں میں بھٹکتا رہتا ہے،، اور گو یا وہ زندہ ہوتے ہوئے مردہ ہوتا ہے، کیونکہ اصل زندگی ایمان کی زندگی ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی متعدد آیات میں " ایمان "کو زندگی اور روشنی سے اور کفر کو موت اور تاریکی سے تعبیر کیا ہے۔ الانعام
123 (120) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ جس طرح ہم نے مکہ میں کچھ بڑے (مجرمین) پیدا کئے ہیں، جو اپنے پیرو کار کو دھوکا دینے کے لیے باطل کو بنا سنوار کر پیش کرتے ہیں، اور حق کو چھپاتے ہیں۔ اسی طرح آپ سے پہلے بھی ہو اس بستی میں جس کی ہدایت کے لیے اللہ نے کسی نبی کو بھیجا کچھ بڑے مجرمین پیدا کیے، جنہوں نے حق کا نکار اور باطل کو خوش رنگ بنا کر عام لوگوں کے سامنے پیش کیا، اور انہیں دھوکہ میں ڈال کر اللہ کے نبی کے اتباع سے روکا۔ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں، کہ مکر" سے مراد یہی ہے کہ ان مجرمین نے اپنے ماننے وا لوں کو چکنی چیڑی باتوں کے ذریعہ کمرا ہی کی دعوت دی، اور انبیاء ورسل کو آزمائشوں میں مبتلا کیا، لیکن بلآ خر انبیاء کو اللہ کی نصرت حاصل ہوئی اور ان مجرموں کی سازشیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ الانعام
124 (121) ولید بن مغیرہ کے بارے میں مروی ہے اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اگر نبوت سچی چیز ہوتی تو اس کا حقدار میں ہوتا، اس لیے کہ میں عمر میں بڑا اور زیادہ مالدار ہوں اور ابو جہل کے بارے میں مروی ہے، اس نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم اس کو نہ مانیں گے اور نہ اس کی اتباع کریں۔ الایہ کہ ہم پر بھی وحی نازل ہوجیسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کو ترید کرتے ہوئے فرمایا کہ نور نبوت سے اللہ تعالیٰ ہر کسی کو سرفراز نہیں کرتا، اللہ جانتا ہے کہ اس کا اہل کون ہے، اور اس امانت کی حفاظت کون کرسکتا ہے، مسند احمد اور صحیح مسلم میں واثلہ بن الا سقع (رض) سے مروی ہے کہ رسو اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اللہ نے آپ کو پہلے اولاد ابراہیم سے چنا پھر بنی اسرائیل سے، پھر کنانہ سے، پھر قریش سے، اور پھر ہاشم سے چنا، مسند احمد کی ایک دوسری حدیث ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام مخلوقات، تما قبائل اور تمام خاندان سے چنا اور پھر نبی بنایا۔ (122) چونکہ مکرو فریب دہی اس قسم کی خفیہ سازش ہوتی ہے اسی لیے اللہ کے بندوں کو بذریعہ سازش اس کی بندگی سے روکنے ت والوں کو قیامت کے دن بڑے عذاب اور سخت سزا کی خبر دی گئی ہے۔ صحیح بخاری کو روایت ہے کہ قیامت کے دن ہر دھوکہ دینے والے کی پیٹھ پر ایک جھنڈا گاڑدیا جائے گا، اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی دھوکہ دہی کا جھنڈا ہے۔ الانعام
125 (123) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو خبر دی ہے کہ ہدایت و گمراہی اس کے اختیار میں ہے، جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے ہدایت دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے تقاضائے عدل کے مطابق گمراہ کردیتا ہے، اور ہدایت و گمراہی ہر دور کا ایک مقرر نظام ربانی ہے، جو ہدایت چاہتا ہے اور اس کی طلب صادق ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کے راستوں کو آسان بنا دیتا ہے ،، اور تمام اسباب مہیا کردیتا ہے، اور قبول ایمان اور اتباع اسلام کے لیے دروازوں کو کھول دیتا ہے، اور اس کا دل تنگ ہوجاتا ہے کہ ایمان کے داخل ہونے کے لیے اس میں گنجائش باقی نہیں رہتی، اور اس کی حالت اس آدمی جیسی ہوتی ہے جو ہتکلف تمام آسمان کی طرف چڑھنا چاہتا ہے، لیکن وہ ایسا نہیں کر پاتا یعنی توحید اور ایمان اس کے دل میں داخل نہیں ہو پاتا۔ (124) ابن عباس (رض) کہتے ہیں، یہاں"رجس " سے مراد شیطان ہے، یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ کافروں کا دل تنگ بنا دیتا ہے اور اس میں نور ایمان داخل نہیں ہو پاتا اسی طرح اللہ تعالیٰ اس پر شیطان کو بھی مسلط کردیتا ہے م جو اسے ہمیشہ گمراہ کرتا رہتا ہے اور راہ حق سے روکتا ہے۔ الانعام
126 (125) یہاں اشارہ دین اسلام، قرآن کریم اور توحید و ایمان کی طرف، اللہ تعالیٰ نے گم گشتہ راہ لوگوں کو حال اور ان کا طور طریقہ بیان کرنے کے بعد دین اسلام اور راہ حق کی فضیلت بیاب کی ہے۔ الانعام
127 (126) دارالسلام سے مراد جنت ہے، یعنی دین اسلام پر چلنے والوں کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جنت دے گا، اور انہیں اپنی محبت سے نوازے گا، اور ان کا حافظ و ناصر ہوگا۔ الانعام
128 (127) مومنوں کے لیے انعام واکرام کا بیان ہوجانے کے بعد اب کافر جن وانس کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیجئے کہ جس دن ہم شیطان جنوں اور ان کے پیروکار انسانوں کو جمع کریں گے جو ان کی عبادت کیا کرتے تھے اور ان کی پناہ ڈھو نڈھتے تھے، اس دن ہم شیطان کو کہیں گے کہ تم نے انسانوں کو بہت گمراہ کیا تھا اور ان میں سے بہتوں کو اپنا تابع بنا لیا تھا تو آج تم سب کا انجام تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے، اس کے جواب میں اس کے ماننے والے انسان اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہیں گے اے ہمارے رب ! دنیا میں ہم سب نے ایک دوسرے سے فائدہ اٹھا یا تھا انسان جنوں کے ذریعے برائیوں اور مصیبتوں سے پناہ مانگتا تھا، اور اس کے عوض جنوں کی تعظیم کی جاتی تھی تو اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ صادر فرمائے گا، کہ آج تم سب کا ٹھکانا جہنم ہے۔ (128) یعنی اہل جہنم ہر وقت جہنم میں رہیں گے سوائے اس وقت جب اللہ تعالیٰ انہیں اس میں رکھنا نہیں چاہے گا، بعض نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ سوائے ان بعض اوقات کے جب اللہ انہیں آگ کے علاوہ کوئی عذاب دینا چاہے گا، مثال کے طور پر جب زمہر یر یعنی، شدید ترین ٹھنڈک کا عذان دینا چاہے گا۔ العیاذباللہ۔ اور بعض کا خیال ہے کہ اس سے مقصود محض اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا اظہار ہے کہ اگر اللہ چاہے تو کافر کو عذاب نہ دے اس کی مرضی میں کون داخل دے سکتا ہے۔ الانعام
129 (129) یعنی جس طرح ہم نے کافر جنوں اور انسانوں کو ایک دوسرے کا دوست اور چاہنے والا بنا دیا کہ انسانوں نے جنوں کے ذریعہ پناہ حاصل کرنا چاہا۔ اور اس کے بدلے میں جنوں کی تعظیم کی گئی ہے، اور جب عذاب کی گھڑی آن پہنچی تو ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگے، ہم ظالموں کے ساتھ ہمیشہ ان کے کفر وعدو ان کی وجہ سے ایسا ہی بر تاؤ کرتے ہیں کہ پہلے تو انہیں کفر وطغیان میں ایک دوسرے کا دوست بنا تے ہیں، اور جب اللہ کا عذاب انہیں آدبو چتا ہے، تو ایک دوسرے سے اظہار براءت کرنے لگتے ہیں۔ ایک دوسرا معنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہم ظالموں جنوں کو ظالم انسانوں پر مسلظ کردیتے ہیں۔ اس تیسرے تفسیر کے مطابق اس آیت میں ظالموں کے لیے ایک دھمکی ہے کہ جو شخص ظلم و بر بریت سے باز نہیں آتا اس پر اللہ تعالیٰ اس سے بڑے ظالم کو مسلظ کردیتا ہے ، الانعام
130 (130) اوپر کی آیت میں جنوں کو ڈانٹ پلائی گئی کہ انہوں نے انسا نوں کو گمراہ کیا، اور قیامت کے دن کسی کافر جن وانس کا انکار جرائت نہیں ہوگی اور سبھی اپنے اپنے کفر کا اعتراف کریں گے، اب اس آیت کریمہ میں یہ بیان کیا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن دونوں گروہوں سے مزید رجر وتوبیخ کے طور پر پوچھے گا کہ کیا تمہارے پاس ہمارے انبیاء ورسل نہیں آئے تھے۔ ؟ ضاک بن مزاحم نے اسی آیت سے استدلال کیا ہے اور کہا ہے کہ جنوں میں انبیاء ورسل ہوئے ہیں لیکن جمہور ائمہ سلف وخلف کا مذہب یہ ہے یہ انبیاء ورسل صرف انسانوں میں ہوئے ہیں، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے : آپ سے پہلے ہم نے بستی والوں میں جتنے رسول بھیجے ہیں سب مرد انسان تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے، اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء ورسل صرف انسان مرد ہوا کئے ہیں۔ وللہ علم۔ (131) قیامت کے دن کافر اقرار کریں گے کہ اللہ نے انبیاء ورسل بھیج کر حجت تمام کردی تھی، تب اللہ تعالیٰ کہے گا کہ کافروں کو ان کی دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا تھا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے کافروں کی ایک دوسری شہادت نقل کی ہے وہ خودہی گواہی دیں گے کہ انہوں نے انبیاء اور ان کی نبوتوں کا انکار کیا تھام اور کفر کی راہ اختیار کی تھی۔ قیامت کے دن کافروں کا یہ قول بھی قرآن میں منقول ہے کہ ہم اپنے رب کی قسم کھاکر کہتے ہیں کہ ہم نے شرک نہیں کیا تھا۔ امام شوکانی نے اس کی توجہیہ کی ہے کہ کفار اپنی غادہت درجہ کی پر یشانی اور عقل وخرد گم ہوجانے کی وجہ سے کبھی کچھ کہیں گے اور کبھی کچھ۔ الانعام
131 (132) اانبیاء ورسل کی بعث کاسبب بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی رہنمائی کے لیے انبیاء اس لیے مبعوث کیے، تاکہ قیامت کے دن کفارو مشرکین نہ کہیں کہ ان کے پاس نہ انبیاء آئے، نہ کتابیں اتریں، اور نہ ہی کسی نے انہیں اللہ کا خوف دلا یا پھر آج انہیں کیوں عذاب دیا جا رہا ہے۔ الانعام
132 الانعام
133 (123) اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے بے نیاز ہے، نہ ان کی عبادت کا محتاج ہے، نہ ان کا ایمان اسے نفع پہنچا تا ہے، اور نہ ان کا کفر سے نقصان پہنچاتا ہے، لیکن اس کمال نے نیازی کے باوجود وہ اپنے بندوں پر رحم کرنے والا ہے، اس کی بے نیازی ان پر رحم کرنے سے مانع نہیں ہے، اگر وہ چاہے تو اپنے نافرمان بندوں کو یکسر ہلاک کر دے اور ایک ایسی قوم کو لے آئے جو مطیع وفرمانبردار ہوجیسا کہ وہ گذشتہ زمانوں میں قوموں کو ختم کر کے دوسری قوموں کو لاتا رہا ہے ،۔ الانعام
134 (134) اس سے مراد قیامت اور اس کے احوال ہیں، اور مقصود ان لوگوں کی تردید کرنی ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آدمی مرنے کے بعد سڑگل جاتا ہے، اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے۔ الانعام
135 (135) اس آیت کریمہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی کافروں کے لیے ایک قسم کی دھمکی ہے کہ تم لوگ اپنے کفر وشرک پر جمے رہو، مجھے بھی تمہارے کفر کی کوئی پر وہ نہیں، میں بھی اسلام پر ثابت قدم رہوں گا، تم لوگ عنقریب ہی جان لو گے کہ حق پر کون ہے اور باطل پر کون ،۔ اور فتح و نصرت اور عزت وغلبہ تمہارا نصیب ہوگا یا ہمارا، چنانچہ اللہ نے اپنے رسول اسے کیا ہوا وعدہ پورا کیا، مکہ فتح ہو، دشمنان اسلام کو منہ کی کھانی پڑی اور آپ کی زندگی میں ہی پورا جزیرہ عرب حلقہ بگوش اسلام ہوگیا اور آپ کی وفات کے بعد خفاء کی زندگی میں فتوحات کا سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ فارس وردم اور اس کے بععد برصغیر ہند وپاک کی سرزمین اسلام کی شعاعوں سے منور ہونے لگی۔ الانعام
136 (136) مشر کین کی ایجاد کردہ بدعات، کفر وشرک، اور اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں بتوں کی جو اہمیت ان کے دل ودماغ میں تھی، انہی باتوں کو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے، مشر کین اپنے زرعی پیداواروں اور جانووں کا ایک حصہ اللہ کے لیے اور دوسرا حصہ اپنے بتوں اور معبودوں کے لیے قرار دیتے تھے، بتوں کا حصہ پر وہتوں اور سادھووں پر خرچ کرتے، اور جب وہ پورا خرچ ہوجاتا تو اللہ کا حصہ بھی بتوں کے لے خاص کردیتے، اور کہتے کہ اللہ تو مالدار ہے، تو جو حصہ بتوں کا ہوتا وہ تو اللہ کو بہر حال پہنچتا ہی نہیں تھا (یعنی صدقہ اور صلہ رحمی وغیرہ پر خرچ نہیں ہوتا تھا،) اور جو حصہ اللہ کا ہوتا اس بھی بتوں پر خرچ کردیتے تھے۔ آیت کا ایک دوسرامعنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب اللہ کے حصہ کا جانور ذبح کرتے تو بتوں کا نام لیتے، اور جب بتوں کے حصہ کا جانور ذبح کرتے تو اس پر اللہ کا نام نہیں لیتے۔ الانعام
137 (137) یعنی جس طرح گذشتہ تقسیم میں شیا طین نے شرک کو خوبصورت بنا کر ان کے سامنے پیش کیا، اور انہوں نے اسے قبول کرلیا، اسی طرح ان شیاطین نے ایک اور بڑے مجرم کو مشرکین کو نگا ہوں میں م خوبصورت اور جا ئز بناکر پیش کیا، تنگی رزق کے خوف سے اولاد کا قتل۔، اور ننگ وعار کے ڈر سے بیٹوں کا در گور کرنا روا کردیا، اور مشر کین نے شیطا نوں کی اتباع کرتے ہوئے اسے قبول کرلیا، اور اس طرح شیطان نے مشرکین کو شرک اور قتل اولاد کا مرتکب بنا کر انہیں ہلاکت کی طرف دھکیل دیا، اور باطل افکار ونظریات کی تر ویج کرکے انہیں اس دین حق سے بر گشتہ بنا دیا جس پر ان کے پیش رو بزرگ اسماعیل (علیہ السلام) قائم تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر اللہ چاہتا تو وہ لوگ ایسا نہ کرتے، یعنی انہوں نے ایسا اللہ کی مشیت کے مطابق کیا، اس لیے آپ نے کی ہلاکت وبربادی پر غم نہ کریں اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ الانعام
138 (138) مشرکین عرب کی عادت تھی کہ وہ بہت عقائد واعمال کو اپنے درمیان رواج دے دیتے اور انہیں اللہ کی طرف منسوب کردیتے اس آیت کریمہ میں مشر کین کے انہی بعض عقائد اعمال کو بیان کیا گیا ہے، کبھی ایسا کرتے کہ بعض جانوروں اور زرعی پیدا واروں کے بارے میں بزعم خود کہہ دیتے کہ یہ صرف ہمارے بتوں کے لیے ہیں دوسروں کے لیے ان کا کھانا ممنوع ہے، انہیں صرف وہی لوگ کھائیں گے جنہیں ہم چاہیں گے، اور ان کا نقصد یہ ہوتا ہے انہیں صرف بتوں کے خدمت گار ہی کھائیں گے، اور کبھی کچھ جانوروں کو اپنے بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے، اور کہتے کہ ان پر سواری کرنا ممنوع ہے، قرآن کریم نے سورۃ مائدہ آیت (103) میں انہی جانوروں کو بحیرہ، سائبہ۔ وصیلہ اور حام کے نام سے ذکر کیا ہے، ( اس آیت کی تفسیر دوبارہ دیکھ لی جائے) اور کبھی کچھ جانوروں کو بتوں کے نام سے ذبح کرتے اور اللہ کا نام نہ لیتے اور اللہ پر افترا پردازی کرتے ہوئے کہتے کہ یہی اللہ کی شریعت ہے، اللہ نے ان کے اعمال پر فرمایا کہ وہ ان کی ان افتراپردازیوں کا بدلہ انہیں عنقریب ہی دے گا۔ الانعام
139 (139) اس آیت کریمہ میں مشرکین عرب کی ایک اور گمراہی بیان کی گئی ہے کہ جب جانوروں کو وہ اپنے بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے، جن کا ذکر اوپر آچکا، ان کے بارے میں میں یہ شریعت ایجاد کرلی تھی کہ ان کا دودھ پینا، اور ان کے بچوں کا گوشت کھانا صرف مردوں کے لیے حلال ہے عورتوں کے لیے نہیں، چناچہ عورتیں نہ ان کا دودھ پیتیں اور نہ ان کے بچوں کا گوشت کھا تیں، ہاں اگر کوئی بچہ مردہ پیدا ہوتا تو اس گوشت مرد اور عورتیں سبھی کھاتے، یہ ان کی خود ساختہ شریعت تھی جسے انہوں نے اللہ کی کی طرف منسوب کر رکھا ہے تھا، جس پر نکیر کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا، کہ اللہ تعالیٰ انہیں عبقرین اس کا بد لہ دے گا ،، الانعام
140 (140) مشر کین عرب نے تنگی رزق کے ڈر سے بیٹوں کو اور ننگ وعار کے خوف سے بیٹیوں کو قتل کیا، اور اللہ تعالیٰ نے جن جانوروں کا گوشت کھانا ان کے لیے حلال بتایا تھا اپنی خود ساختہ شریعت کے ذریعہ انہیں اپنے لیے حرام بنا لیا، اور اس طرح دنیا وآخرت کے ہر خسارے کے مستحق بنے، دنیا میں اولاد کھوئی اور اللہ کی نعمتوں سے محروم رہے، اور آخرت میں اللہ پر افترا پردازی کی وجہ سے عذاب الیم کے مستحق بنیں گے۔ الانعام
141 (141) آگے آنے والی آیتوں میں مختلف جانوروں کے گوشت کی حلت وحرمت سے متعلق احکام کا بیان ہے، یہ آیت کریمہ انہیں تفصیلات کی تمہید ہے، قرآن کہتا ہے کہ وہ اللہ کی ذات ہے جس نے چھپروں اور زمینوں پر پھیلنے والے درختوں اور بیلوں کے باغات کھجور کے درخت، مختلف الا نواع زراعتیں، زیتون اور انار کے درخت پیدا کئے ہیں، زمین ایک ہوتی ہے مٹی ایک ہوتی ہے، لیکن کھیتوں کے پھل رنگ، مزہ، بو اور حجم میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، اسی طرح زیتوں اور انار کے درختوں کے پتے رنگ اور شکل میں ایک جیسے ہوتے ہیں، لیکن مزے میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، یہ سب اللہ کی قدرت کی کاریگری ہے اس ذات باری تعالیٰ کے علاوہ کون ان پر قادر ہے ؟! اس کے بعد اللہ نے فریا ہے کہ جب یہ دانے اور پھل پک جائیں تو انہیں کھاؤ ہم نے تمہارے لیے ہی انہیں پیدا کیا ہے، علماء نے لکھا ہے کہ اس سے مقصود ان کے کھانے کی اباحت بیان کرنا ہے، بعض نے کہا ہے کہ مال میں سے اللہ کا حق نکالنے سے پہلے اس میں سے کھا نے کی اباحت بیان کرنی مقصود ہے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ پھل اور کاشت کاٹنے کے دن اس میں سے غریبوں اور ان لوگوں کا حق نکال دو جو وہاں موجو دہوں، عطاء کے نزدیک اس سے مراد زکات نہیں، بلکہ کاٹنے کے وقت جو لوگ آجائیں انہیں کچھ دینا اس لیے کہ یہ سورت مکی، اور زکات مدینہ میں فرض ہوئی تھی، حسن بصری کا بھی تقریبا یہی قول ہے، اور ابن عباس، انس بن مالک، طاؤس وقتادہ اور ابن جریر وغیر ہم کا قول ہے کہ اس سے مراد زکات ہے، تیسراقول یہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں کاشت کاٹنے کے وقت مناسب حال غریبوں کو دینا واجب تھا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے عشر (یعنی دسواں حصہ اگر زمین بارش سے سیراب ہوتی ہو) یا نصف عشر ) ( یعنی بیسواں حصہ اگر کنویں یا نہر وغیرہ کے پانی سے سیراب کی جاتی ہو) واجب کر کے اس کے حکم کو منسوخ کردیا، ابن جریر نے ابن عباس اور ابراہیم نخفی کا یہی قول نقل کیا ہے، اور اسی کو ترجیح دیا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسراف اور فضول خرچی سے منع کیا ہے، اس کا ایک معنی یہ ہوسکتا ہے کہ صدقہ دینے میں ایسی فضول خرچی سے کام نہ لیا جائے آدمی اس کے فقیر ہوجائے، اور دوسرا معنی یہ ہوسکتا ہے کہ کھانے میں اسراف وفضول خرچی سے بچاجائے، کیونکہ اس سے حس اور عقل دونوں کو نقصان پہنچتا ہے، جیسا کہ اللہ تعا نے سورۃ اعراف آیت ،(31) میں فرمایا ہے : کہ کھاؤ پیو اور فضول خرچی سے کام نہ لو، اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب اللباس، میں تعلیقا روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ": کھاؤ پیوں اور پہنو اور صدقہ کرو، بغیر فضول خرچی اور بغیر کبر وغرورکے"۔ الانعام
142 (142) اس کا تعلق اوپر کی آیت سے ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی حلت وخرمت کے بارے میں مشر کین کے خود ساختہ احکام کی تر دید کی ہے جانوروں کئی قسم کے ہوتے ہیں، بعض بوجھ اٹھاتے ہیں اور بعض کو ذبح کرنے کے لیے زمین پر لٹا دیا جاتا ہے، "فرش" کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے بال اور اون سے بستر تیار کیا جاتا ہے، ابن عباس رضی للہ عنہ کے نزدیک "حمولتہ" سے مراد وہ بڑتے جانور ہیں جو بار برداری کے لیے ہوتے ہیں، اور : فرش" سے مراد چھوٹے چھوٹے جانور ہیں جن کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ ج اس نے انواع واقسام کے پھل، زرعی پیداوار اور جانور تمہیں بطور رزق دیئے ہیں، انہیں تم اپنے جسم وجان کی حفاظت کے لیے کھاؤ اور دیکھو، ان کی حلت وحرمت کے بارے میں شیطان کے اوامر احکام کی ابتاع نہ کرو، اس لیے کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ الانعام
143 (143) اس کا تعلق بھی گذشتہ آیت سے ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے انسا نون کے کھانے کے لیے آٹھ قسم کے چوپائے پیدا کئے ہیں، ان میں سے چار، دو مذکر، ومونث بھیڑ اور دو مذکر و مونث بکری ہیں، اور ان سب کا کھانا حلال قرار دیا ہے، لیکن مشرکین نے اپنی خودساختہ شریعت کے ذریعہ ان میں سے میں بعض اقسام کو ( جب کا ذکر اوپر آچکا ہے، اور جنہیں قرآن کریم نے بحیرہ اور وصیلہ وغیرہ کے نام دیئے ہیں) اپنے اوپر حرام بنا لیا تھا، اللہ تعالیٰ انہی کی تردید کرتے ہوئے یہاں فرمایا کہ ذرا بتاؤ تو سہی کہ ان بھیڑوں اور بکریوں میں سے اللہ نے دونوں مذکروں کو حرام کیا ہے یا دونوں مونثوں کو، یا ان بچوں کو جو دونوں مؤ نثوں کے پیٹ میں پرورش پا رہے ہیں، کوئی ایسی بات تو بتاؤ جس کی بنیاد علم ویقین پر ہو ؟! الانعام
144 (144) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دو اونٹ مذکر ومؤنث اور دو گائے پیدا کئے ہیں ( جن کی مجموعی تعداد آٹھ ہوتی ہے) اور ان سب کا کھانا حلال قرار دیا ہے، لیکن مشرکین نے ان سے بعض اقسام کا کھانا اپنے لیے حرام کرلیا تھا، اللہ تعالیٰ نے دوبارہ ان کے اس قبیح عمل کی تردید کی اور ان کی کذب بیانی کو وضح کیا، اور اس تردید و انکار کی مزید تاکید کو طو پر فرمایا کہ جب اللہ نے تمہیں حکم دیا تھا کہ تم اپنی من مانی شریعت کے ذریعہ بعض کو حلال اور بعض کو حرام قرار دو گے، تو کیا تم لوگ اس وقت موجود تھے؟ تم نے اپنی من گھڑت شریعت کے ذریعہ کبھی کسی کو حرام بنادیا تھا، تو کبھی کسی اور کو۔ الانعام
145 (145) جانوروں کی تحلیل وتحریم کے بارے میں مشرکین عرب کی خودساختہ شریعت اور ان کی افتر پردازی کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہو سلم کو حکم دیا کہ اب وہ ان اشیاء کو بیان کردیں جنہیں اللہ نے بندوں کے لیے حرام بنایا ہے، اس کے بعد اللہ نے چار چیزوں کا ذکر فرمایا مردہ جانور" جو موت کی وجہ سے فاسد اور باپاک ہوجاتا ہے، بہنے والا خون، سورکا گوشت جو (نجاستوں کے کھانے کی وجہ سے) ناپاک ہوجاتا ہے، اور وہ جانور جسے بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا ہو، اور غیر اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو، قرآن کریم نے ایسے جانورکو "فسق" کے نام سے اس لیے تعبیر کیا ہے کہ فسق کا معنی قرآن کریم کی اصطلاح میں اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، اور غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنے سے آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اضطراری حالت میں اپنی جاب بچانے کے لیے ان محرمات میں سے صرف بقدر ضرورت استعمال کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کا مواخذہ نہیں کرے گا۔ اس آیت سے معلوم ہو تو ہے کہ مکی زندگی کے اس دورتک محرمات صرف یہی چار چیزیں تھیں، اس کے بعد مدینہ میں سورۃ مائدہ نازل ہوئی، جس ،، میں منخنقہ، موقوذہ، متردیہ اور نطیحہ، کو حرام بتایا گیا، جن کی تفصیل مذکورہ بالا سورت کی تفسیر میں گذ چکی ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہو سلم کی صحیح احادیث کے ذریعہ ناخن والے جانوروں، پنجے والی چڑیوں، پالتوں گدھوں اور کتوں وغیرہ کی حرمت ثابت ہوئی، اس لیے اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد جو مکی ہے قرآن کریم یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کے ذریعہ جن جانوروں کی حرمت ثابت ہوئی، ہو بھی اسلام میں حرام ہیں۔ امام شوکانی کہتے ہیں کہ ابن عباس، ابن عمر اور عائشہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا قول ہے کہ حرام صرف وہی چیزیں ہیں جن کا ذکر اس آیت میں آیا ہے امام مالک کا بھی یہی قول ہے، لیکن یہ قول لائق اعتبار نہیں ہے، کیونکہ اس سے بغیر کسی دلیل کے قرآن کریم کی ان آیتوں کا اہمال واسقاط لازم آتا ہے جو اس کے بعد نازل ہوئیں۔ اور ان احادیث کا بھی جو مدنی زندگی میں وارد ہوئیں ، اور جابر بن عبداللہ (رض) کا یہ قول کہ علم کے سمندر ابن عباس (رض) نے اسی آیت کے مد نظر پالتو گدھوں کو حلال قرار دیا ہے، جسے امام بخاری نے روایت کی ہے، تو یہ بات لائق اعتناء نہیں ہے اس لیے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث سے حرمت ظابت ہوگئی تو صحابی کے قول پر عمل کرنا بے سمجھی اور بے انصافی ہے۔ الانعام
146 (146) مسلمانوں کے لیے جو چیزیں حرام کی گئی ہیں ان کا بیان ہوجا نے کے بعد اب ان چیزوں کو بیان کیا جا رہا ہے جو صرف یہود پر حرام `کی گئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے یہود پر ہر ناخن والے جانور کو حرام کردیا تھا۔ ناخن والے مراد ہر وہ جانور ہے جس کی انگلیا بھٹی ہوئی نہ ہوں۔ اس تعریف کے مطابق اس میں ہر وہ جانور داخل ہوجائے گا جو کھر پنجے والا ہوگا، اس لیے اونٹ، گائے، بکری، شتر مرغ، بطخ، اور ہر چڑیا داخل ہوگی جس کے پنجے ہوں گے ام تمام جانوروں کا گوشت یہود پر حرام تھا، ان کے لیے جانوروں کا گوشت حلال تھا، جن کی انگلیا پھٹی ہوئی تھیں جیسے مرغی اور گوریا وغیرہ۔ اور سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے لیے گائے اور بکری کا گوشت بطور خاص حلال کردیا گیا تھا۔ صرف ان کی چربی حرام کردی گئی تھی، سوائے اس چربی کے جو ان کی پیٹھ سے لگی ہو، یا جو ان کی آنتوں سے چپکی ہوئی ہو، یا جو ہڈی کے ساتھ ملی ہوئی ہو، جیسے وہ چربی جو دم پاؤں، پسلی، سر اور آنکھ کے ساتھ چپکی ہوتی ہے او یہ سب کچھ ان کی سر کشی اور اللہ کے احکام کی نافرمانی کی وجہ سے ہوا تھا، اور اللہ کا ان کے ساتھ یہ بر تاؤ بڑا ہی عادلانہ تھا۔ ابن جریر نے اس کی تفسیر یوں لکھی ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے جو آپ کو یہ خبر دی ہے کہ مذکورہ چیزوں کو ان پر ہم نے حرام کیا تھا یہی صحیح ہے، ان کا یہ گمان باطل ہے کہ خود یعقوب نے اپنے اوپر انہیں حرام کرلیا تھا، اور یہ لوگ ان کی اتباع میں انہیں نہیں کھاتے، بخاری و مسلم نے ابو ہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کہ اللہ کی مار ہو یہود پر جب چربی ان کے لیے حرام کردی گئی، تو اسے پگھلاکر بیج دیا اور اس کی قیمت کھا گئے۔ الانعام
147 (147) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ اگر مشر کین اور یہود آپ کی تکذیب کریں اور کہیں کہ تحلیل وتحریم سے متعلق تم نے جن احکام کی نسبت اللہ کی طرف کی ہے ان میں تم صادق نہیں ہو، تو آپ کہہ دیجئے کہ اللہ بڑا ہی رحم کرنے والا ہے کہ تمہاری نافر مانیوں پر تمہیں عذاب دینے میں جلد دی نہیں کر رہا ہے، لیکن یہ بات تمہاری ذہنوں سے غائب نہیں ہونی چاہیے۔ کہ عذاب میں تاخیر کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جرم کرنے والی قوموں سے اللہ کا عذاب ٹل جائے گا، اللہ کے علم کے مطابق جب اس کا وقت آجائے گا تو اسے کوئی ٹال نہیں سکے گا، یا یہ مراد ہے کہ اگر دنیا میں عذاب نہیں آتا تو آخرت میں مجرموں سے عذاب کو کوئی نہیں ٹال سکے گا۔ الانعام
148 (148) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مشر کین کے ایک شبہ کی تر دید کی ہے، وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے کہ ہم جو (تمہارے خیال میں) شرک کارتکاب کرتے ہیں۔ اور بعض چیزوں کو اپنی طرف سے حرام قرار دیتے ہیں تو اس کا علم اللہ کو ہے، وہ ہماری حالت بدل کیوں نہیں دیتا، اور ہمارے دلوں میں ایمان کو داخل کیوں نہیں کردتیا، جب اللہ ایسا نہیں کرتا تو معلوم ہوا کہ سب کچھ اس کی مشیت اور ارادہ کے مطابق ہے، اور وہ ہم سے راضی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسی شبہ کی وجہ سے بہت سے لوگ پہلے بھی گمراہ ہوئے، اور یہ نہایت ہی لچر دلیل ہے، اگر تمہاری بات صحیح ہوتی تو اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب میں کیوں مبتلا کرتا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے فرمایا کہ آپ مشرکین سے کہئے کہ اگر تمہارے پاس کچھ ایسی معلومات ہیں جب کی بنا پر تم کہتے ہو کہ اللہ تمہارے حال پر راضی ہے تو اسے ظاہر کرو، اس کے بعد اللہ نے خود ہی فرمایا کہ اے اہل شرک ! تمہارے پاس وہم وخیال اور اعتقاد فاسد کے علاوہ کچھ بھی نہیں، تم یو نہی اللہ کے بارے میں جھوٹ بولتے ہو۔ الانعام
149 (149) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے کہا جارہا ہے کہ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اس کے حکمت تامہ اور اسباب کو اس کے علاہ کوئی نہیں جانتا، اگر وہ چاہتا تو تمام بنی نوع انسان کو ہدایت کی راہ پر ڈال دیتا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ انعام کی آیت (35) میں فرمایا ہے : اور اگر اللہ چاہتا تو سب کو راہ ہدایت پر جمع کردیتا "۔ ضحاک کا قول ہے کہ اللہ کی نافرمانی کرنے والوں کے پاس کوئی حجت نہیں ہوتی، لیکن اللہ کے پاس اپنے بندوں کے بارے میں غایت درجہ کی حجت ہے۔ الانعام
150 (150) اس آیت کریمہ میں مشرکین کو لاجواب کرنے کا اسلون اختیار کیا گیا ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جارہا ہے آپ ان سے کہئے کہ تم لوگ اپنے گواہوں کو پیش کرو کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو حرام کیا ہے، جنہیں تم حرام سمجھ رہے ہو (حالانکہ اللہ جانتا ہے کہ ان کے پاس کوئی گواہ نہیں) اگر بفرض محال کوئی ان کی تائید میں گواہی دیتا ہے جو محض کذب اور تعصب کی بنیاد پر ہوگا تو آپ ان کی تصدیق نہ کیجئے، اور نہ ہی ان لوگوں کی خوہشات کی اتباع کیجئے جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتے ہیں اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں، اور بتوں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں۔ الانعام
151 (151) اوپر کی آیتوں میں مشرکین کے اس دعوی کی تردید کی گئی کہ وہ اور ان کے آباء اجداد اللہ کے ساتھ دوسروں کو جو شریک بناتے رہے ہیں، اور کئی چیزوں کو حرام کہتے رہے ہیں تو یہ سب کچھ اللہ کے حکم اور اس کی مشیت کے مطابق ہوتا رہا ہے۔ اب اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ وہ ان محرکات کا ذکر آیا ہے، پہلی آیت میں پانچ محرمات کا ذکر آیا ہے۔ جنہیں یہاں با لتر تیب بیان کیا جاتا ہے۔ 1۔ اللہ کے ساتھ غیر و کو شریک بنانا : مسند احمد ترمذی اور دارمی وغیرہ میں ابو ذر (رض) سے حدیث قدسی مروی ہے کہ اللہ کہتا ہے، اے ابن آدم تم اگر مجھے پکاروگے اور مجھ سے امید رکھو گے تو تمہیں معاف کر دوں گا، چاہے تم سے جو بھی گناہ سرزد ہوا ہو اور پر واہ نہیں کروں گا، اور اگر تم زمین بھر کر گناہ لے کر آؤگے تو اسی کے برابر میں تجھے مغفرت سے نوازوں گا، بشر طیکہ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ 2۔ والدین کی نافرمانی : جس تحریم اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کے ساتھ احسان کا حکم دے کر واضح کردیا ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی کئی آیتوں میں اپنی اطاعت وبندگی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کو ایک ساتھ بیان کیا ہے۔ صحیحین میں ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا، کون سا عمل سب سے اچھا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا : وقت پر نماز پرھنا، میں کے کہا پھر کون سا ؟ تو آپ نے فرمایا : والدین کے ساتھ حسن سلوک، میں نے کہا پھر کون سا ؟ تو آپ نے فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ 3۔ اولاد کا قتل : جو کسی حال میں جا ئز نہیں ہے، دور جا ہلیت میں عرب کے لوگ غربت ومحتاجی کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل کردیا کرتے تھے، اور بچیوں کو ننگ وعار کے خوف سے زندہ درگور کردیتے تھے۔ صحیحین میں ابن مسعود (رض) سے مروی ہے۔ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا تم اللہ کا کسی کو شریک بناؤ، حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے، میں نے کہا پھر کون سا؟ تو آپ نے فرمایا کہ تم اپنی اولاد کو اس ڈر سے مارڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گی، الحدیث، اور اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ میں فرمایا کہ تمہیں اور انہیں ہم روزی دیتے ہیں، اس لیے کہ غلاموں کی روزی ان کے آقا ومولی کے ذمہ ہوتی ہے۔ 4۔ فحش گناہ کا ارتکاب : مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے بالخصوص زنا مراد ہے صحیحین میں مغیرہ شعبہ (رض) سے مروی ہے سعد بن عبادہ (رض) نے کہا ہے اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی اجنبی کو دیکھ لوں تو اسے تلوار سے قتل کر دوں گا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا : کیا لوگ سعد کی غیرت پر تعجب کرتے ہو ؟ اللہ کی قسم میں سعد سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھے سے زیادہ باغیرت ہے اس لیے تو اس نے ظاہر وپوشدہ زنا اور فواحش کی تمام قسموں کو حرام کردیا ہے۔ 5۔ کسی بے گناہ کا قتل : صحیحین میں ابن مسعود (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ؛ کسی مسلمان آدمی کا خون حلال نہیں جو شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، سوائے تین قسم کے انسانوں کے شادی شدہ زانی جان کے بدلے جان اور اللہ کا دین چھوڑ کر جماعت سے جدا ہوجا نے والا : الانعام
152 ) 152) اس آیت کریمہ میں چار مزید محرمات کا ذکر آیا ہے : 1۔ یتیم کا مال میں ناجائز تصرف کرنا، یتیم کے نگراں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اس کے مال کی حفا ظت کرے اور تجارت کے ذریعہ اس میں اضافہ کی سعی کرے، اور جب بالغ ہوجائے تو اس کا مال اس کے حوالے کر دے۔ 2۔ ناپ تول میں کمی کرنا : اللہ تعالیٰ نے سورۃ مطففین میں فرمایا ہے : کم تولنے والوں کو ویل ہے ہلاکت و بر بادی ہے، اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ میں فرمایا کہ ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بنا تے، یعنی اگر کوئی شخص حق کی ادائیگی اور اپنا حق لینے میں عدل وانصاف کی پوری کو شش کرے اور اس کے بعد بھی اس سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کا مواخذہ نہیں کرے گا۔ 3۔ قول وحکم میں زیادتی یا نقصان : اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء کی آیت (135) میں فرمایا ہے : کہ اے ایمان والو ! عدل وانصاف پر مظبوطی سے جم جانے والے اور خو شنودی مولی کے لے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ اگرچہ وہ خود تمہارے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ یا رشتہ دار عزیزوں کے اللہ تعالیٰ ہر وقت اور ہر حال میں اور ہر قول اور ہر فعل میں عدل وانصاف کا حکم دیتا ہے۔ اور چاہے اس کا تعلق کسی قریبی رشتہ دار سے ہو یا کسی دور کے آدمی سے۔ الانعام
153 153۔ اس آیت کریمہ میں دسویں حرام چیز کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ کہ اسلام کے علاوہ دوسرے ادیان ومذاہب اور افکار ونظریات کی اتباع کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ دین اسلام پر چلیں کیونکہ یہی اس کی سیدھی راہ ہے، امام احمد اور حا کم نے عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے سامنے ایک لکیر شیطان کھینچی اور کہا کہ یہ اللہ کی راہ ہے، پھر اس کے دائیں اور بائیں لکیریں کھنچیں اور فرمایا کہ ان راستوں میں سے ہر ایک پر ایک شیطان کھڑا ہے جوک اس پر چلنے کی دعوت دے رہا ہے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں اسلام کے لیے سبیل مفردآیا ہے۔ اور دیگر مذاہب اور فرقوں کے لیے سبیل جمع آیا ہے اس لیے کہ حق ایک ہے اور تقلید مذاہب اور عقادی فرقے متعدد اور گونا گوں ہیں۔ ابن عطیہ کہتے ہیں کہ "سبیل "کا لفظ یہود یت، نصرانیت، مجوسیت اور دیگر تمام ملتوی، بددعتوں اور گمراہیوں کو شامل ہے جنہیں اہل ہوا ہوس نے پیدا کیا ہے، اسی طرح علم کلام کے وہ تمام فرقے اس لپیٹ میں آجاتے ہیں جو خوامخواہ کی تفصیلات میں داخل ہوتے ہیں، قتادہ کہتے ہیں جان لو کہ راستہ صرف ایک ہے اور اہل ہدایت کی جماعت اور اس کا انجام جنت ہے اور ابلیس نے مختلف راستے پیدا کردیئے ہیں جو گمراہوں کی جماعتیں اور ان کا انجام جہنم ہے۔۔ یہ آیت دلیل ہے اس بات کی کہ امت اسلامیہ کا اتحاد صرف ایک ہے صورت میں وجود میں آسکتا ہے کہ وہ سارے فرققن اور مذاہب کو چھوڑ کر صرف صحیح اسلام کی متبع بن جائے، جو صرف قرآن وسنت کا نام ہے، اس کے بغیر مسلمانوں کو متحد ہونا محال ہے جیسا کہ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ امت کسی بھی زمانے میں اسی راہ پر چل کر اصلاح پذیر ہو سکتی ہے۔ جسے اپناکر صحابہ کرام اصلاح پذیر ہوئے۔ مندرجہ ذیل بالا تینوں آتیوں میں جن دس محرمات کا ذکر آیا ہے، درحقیقت یہ اسلام کے دس وصایا ہیں، جن پر اسلام کا دارومدار ہے اور جن پر عمل کر کے انسان دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرسکتا ہے اسی لیے عبد اللہ بن مسعود (رض) کہا کرتے تھے کہ جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس وصیت کو دیکھنا چاہتا ہے جس پر ان کی مہر لگی ہوئی ہے تو یہ تینوں آیتیں پڑھے : تک۔ الانعام
154 154) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بسا اوقات جب قرآن کا ذکر کرتا ہے تو تورات کا بھی ذکر کرتا ہے، اسی لیے گذشتہ آیت میں جب کے ذریعہ قرآن کریم کا ذکر آیا تو اسے لیے کذشتہ آیت میں جب کے ذریعے قرآن کریم کا ذکر آیا تو اب تورات اور اس کے رسول موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر آیا۔ گو یا اس آیت کا تعلق اوپر کی آیت سے ہے، یعنی اے ہمارے نبی ! آپ بذریعہ تلاوت اپنے رب کی یہ بات بھی ان کو بتا دیجئے س کہ ہم نے موسیٰ کی ایک کتاب دی تھی جس کے ذریعے ہم نے اپنی نعمت کو ان پرتمام کردی تھی اور جس میں بنی اسرائیل کے لیے عقائدو عبادات اور دیگر تمام خاص وعام احکام کی تفصیل موجودتھی جو ہدایت کا ذریعہ اور باعث رحمت کا تھی، اور عدل وانصاف کی دعوت دیتی تھی۔ الانعام
155 (155) اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اگرچہ تورات میں وہ صفات تھیں جن کا ذکر اوپر آیا، لیکن قرآن اس سے زیادہ جلیل لقدر، عظیم المرتبت اور دنیاوی واخری منافی کے اعتبار سے زیادہ بابرکت کتاب ہے، اس لیے اے مسلمانو ! اب اسی کی ابتاع کرو اور اس کی مخا لفت سے بچو۔ الانعام
156 (156) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن نازل فرمایا، اور لوگوں تک اسے پہنچا دینے کا حکم دیا تاکہ کفار عرب قیامت کے دن یہ کہیں کہ اللہ کی کتاب تو یہود ونصاری پر نازل ہوئی تھی، ہم تو جانتے بھی نہ تھے کہ ان دونوں کتابوں میں کیا ہے، کیونکہ وہ ان کی زبانوں میں تھیں یا یہ نہ کہیں کہ اگر ہم پر بھی اللہ کتاب نازل ہوئی ہوتی تو ہم ان یہود ونصاری سے زیادہ ہدایت یافتہ سرچشمہ اور سراپا رحمت ہے۔ الانعام
157 الانعام
158 (157) اللہ تعالیٰ نے دین اسلام آنے کے بعد اپنی وحدانیت، شرک کے بطلان اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر حجت قائم کردی، دلائل بھیج دیئے اور آیتیں نازل کردیں۔ اس کے باجود بتوں کے پجاری اگر دین اسلام اور خاتم النبین کی مخا لفت کرتے ہیں تو کیا اب اس کا انتظار کرتے ہیں کہ فرشتے ان کی روح قبض کرلیں، یا اللہ تعالیٰ قیامت بر باکر دے اوان سے نمٹنے کے لیے ان کے سامنے آجائے، یا قیامت کی بعض نشانیاں ہی ظہور پزیر ہوجائیں وہ نشا نیاں جن کے ظاہر ہوجا نے کے بعد تو بہ کا درواز بند ہوجائے گا، اور کوئی ایمان وعمل کام نہ آئے گا۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں ابو ہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تک آفتاب مغرب سے طلوع نہیں ہوگا قیامت نہیں آئے گی، جب لوگ اسے دیکھ لیں گے تو تمام اہل زمین ایمان لے آئے گے، اور یہی وقت ہوگا جب کسی ایسے آدمی کا ایمان اس کے لے نفع بخش نہیں ہوگا جو پہلے سے مومن نہیں ہوگا۔ مسلم اور ترمذی نے ابو ہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، تین چیزوں کا جب ظہور ہوجائے گا تو کسی کا ایمان نفع بخش نہیں ہوگا جو پہلے ایمان نہیں لایا تھا مغرب سے طلوع آفتاب، دجال اور زمین کا جانور۔ طبری نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اگر کوئی کافر مغرب سے طلوع آفتاب کے قبل ایمان نہیں لایا ہوگا تو اس کے بعد کا ایمان ان کے لے نفع بخش نہیں ہوگا، اور اگر کوئی مومن اس کے قبل نیک عمل نہیں ہوگا تو اس کے بعد کا نیک عمل اس کے کام نہیں آئے گا۔ مسلم نے ابو ہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ،: جو شخص مغرب کی طرف سے طلوع آفتاب کے قبل توبہ کرلے گا اللہ اس کی توبہ قبول کرلے گا۔ آیت کے آخری میں کافروں کے لیے زبر دست دھمکی ہے، اور سخت وعید ہے ان لوگو کے لے جو ایمان اور توبہ کو اس وقت تک موخر کردیں گے جب نہ ایمان کام آئے گا اور نہ توبہ، اور وہ مغرب سے طلوع آفتاب کا وقت ہوگا۔ الانعام
159 (158) مشرکین کا حال بیان کئے جانے کے بعد اب اہل کتاب کا حال بیان کیا جارہا ہے، بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت تمام کافروں اور ہر شخص کوشامل ہے جس نے دین میں کوئی نئی بات ایجاد کی جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا ہے۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ صحیح یہی ہے کہ اس حکم میں اہل کتاب اور مشرکین کی تمام جماعتیں اور مسلمانوں کو وہ سبھی جماعتیں داخل ہیں جنہوں اسلام میں بدعتوں کو ایجاد کی اور مختلف فرقوں اور جماعتوں میں تقسیم ہوگئے، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس آیت میں ہر وہ شخص داخل ہے کس نے اللہ کے دین کو چھوڑ دیا اور اس کی مخالفت کی، اللہ کا دین ایک ہے اس میں کوئی اختلاف و افتراق نہیں جن لوگوں نے اختلاف پیدا کیا اور مختلف فرقوں میں بٹ گئے۔ جیسا کہ مبتد عہ اور گمراہ فرقوں نے کیا اللہ نے اپنے رسول کو ان سے بری قرار دیا ہے۔ ابوداؤد نے معاویہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا "اہل کتاب بہتر (72) فرقوں میں بٹ گئے تھے، اور یہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، بہتر (72) کا ٹھکانہ جہنم اور ایک کا جنت ہوگا، اور یہ وہ جماعت ہوگی۔ اور ترمذی عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! وہ کون لوگ ہوں گے ؟ تو آپ نے فرمایا : جو لوگ اس راہ پر ہونگے جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں :۔ الانعام
160 (159) گذشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ کے اوامر کی مخالفت کرنے والوں کو دھمکی دی گئی ہے، اسی لیے اب اللہ کی اطاعت کرنے والوں کے لیے اجر عظیم بیان کیا جا رہا ہے اور یہ اجر انہیں قیامت کے دن ملے گا، اور یہاں کم ازکم اجر مراد ہے، اس لیے کہ احادیث میں بعض اعمال کا اجر ستر گنا اور بعض کا سات گنا اور بعض کا بے حساب بتایا گیا ہے۔ امام احمد اور مسلم نے ابو ذر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جو نیکی کرے گا اسے دس گنا یا زیادہ اجر ملے گا، اور جو برائی کرے گا، اسے ویسے ہی ملے گا یا میں اسے معاف کر دوں گا۔، اور جو مجھ سے پالشت قریب ہوگا میں میں اس سے دونوں ہاتھوں کی لمبائی کے برابر قریب ہوں گا، اور جو میری طرف چل کر آئے گا میں اس کی طرف دوڑ کر آؤں گا۔ الحدیث۔ الانعام
161 160) اس آیت کریمہ یمہ میں مشرکین مکہ اور یہود ونصاری کی تردید کی گئی ہے جو اس زعم باطل میں تھے کہ وہ دین ابراہیمی پر قائم ہیں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تمہارا دعوی غلط ہے، دین ابراہیم تو دین اسلام ہے جسے اللہ نے انے مخلص بندو‏ں کے لے پسند فرمایا ہے، اور جس پر میں قائم ہوں۔ امام احمد نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ کون سا دین اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے ؟ تو آپ نے فرمایا "دین حنفی جس میں تنگی نہیں ہے ( یعنی دین اسلام) امام احمد نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ٹھڈی اپنے دونوں کندھوں پر رکھ دی تاکہ میں حبشہ والوں کا کھیل دیکھ سکوں، یہاں تک کہ میں خود ہی تھک کر واپس ہوگئی، عائشہ (رض) نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دن فرمایا یہود جان لیں کہ ہمارے دین میں وسعت ہے، میں دین حنفی دے کر بھیجا گیا ہو جس میں وسعت ہے۔ الانعام
162 (161) اوپر کی آیت میں دین کی بنیادی بات کی طرف اشارہ ہے، اور اس آیت میں بعض جز ئیات کا ذکر کیا گیا ہے، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ مشرکین کو بتا دیں جو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور غیروں کے نام پر ذبح کرتے ہیں کہ وہ ان کی تمام شرکیہ باتوں میں ان کے مخالف ہیں۔ اور ان کی نماز، ان کی قربانی اور ان کی زندگی اور ان کی موت، سب رب العالمین کے لیے مخصوص ہے، اور آخرری نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا کہ میں اس امت کا پہلا مسلمان ہوں۔ آپ سے پہلے تمام انبیاء نے اسلام ہی کی دعوت دی جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور صرف اس کی عبادت پر ہے۔ نوح، ابراہیم، یعقوب، یوسف، موسی، اور عیسیٰ علیہم السلام سب نے اپنی زبان سے شہادت دی کہ میں مسلمان ہوں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اسی باری تعالیٰ کے لیے ہے اور گذشتہ شریعتیں ایک دوسرے کے ذریعے منسوخ ہوتی رہیں یہاں تک کہ اسلام کے ذریعہ وہ تمام سابقہ شر یعتیں منسوخ ہوگئیں اور اب شریعت محمدی قیامت تک باقی رہے گی۔ الانعام
163 الانعام
164 (162) مشرکین نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے بتوں کی عبادت کی دعوت دی تو اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا آپ ان سے کہہ دیجئے کہ کیا میں اللہ کے سو اپنا کوئی اور رب بنا لوں جسے اللہ کی عبادت میں شریک کروں، میں اللہ کو سوا کسی اور پر توکل کروں گا اور نہ ہی کسی اور کی طرف رجوع کروں گا، اس لیے کہ اللہ ہی ہر چیز کا خالق و مالک ہے، اسی کے ہاتھ میں سب کچھ ہے ۔ (163) قیامت کے دن کی صورت حال بیان کی گئی ہے کہ اس دن تمام انسان کو ان کے اعمال کا بد لہ دیا جائے گا، دنیا میں جس اور اسی نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں کئی درجہ بلندی عطا کی، تاکہ جو کچھ تمہیں دیا ہے، اس کے ذریعہ تمہیں آزمائیں، بے شک آپ کا رب جلد سزا دینے والاہے اور وہ بے شک بڑا ہی مغفرت کرنے والا، نہایت مہر بان ہے۔ نے نیک اعمال کئے ہوں گے اسے اچھا بدلہ ملے گا، اور جس نے برے اعمال کیے ہوں گے اسے برا بدلہ ملے گا، کسی کا گناہ دوسرے پر نہیں ڈالا جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ طحہ آیت (112) میں فرمایا ہے : یعنی قیامت کے دن کسی پر ایسا ظلم نہیں ہوگا کہ دوسرے کا گناہ اس کے سر تھوپ دیا جائے، یا اس کی نیکیوں میں سے کم کردیا جائے۔ الانعام
165 (164) اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو زمین پر بھیجا، تاکہ وہ اسے یکے بعد دیگرے آباد کریں، اور ایک مر جائے تو دوسرا اس کا وارث ہو، اور جب وہ مرجائے تو اس کی اولاد اس کا رارث بنے، اور ان کے درمیان فرق مراتب رکھا، اور ایک دوسرے پر مختلف اعتبار سے فوقیت دی، تاکہ انہیں آزمائے مالدار سے قیامت کے دن سوال کرے کہ کیا اس نے شکر ادا کیا، اور فقیر سے پوچھے کہ کیا اس نے صبر سے کام لیا۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنی معصیت سے ڈراتے ہوئے اپنی بندگی کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا کہ بے شک تیرا رب بہت جلد سزا دیتا ہے ان لوگوں کو جو اس کی نافرمانی اور اس کے رسول کی "مخا لفت کرتے ہیں۔ اور جو اس کی اواس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے اس کی مغفرت فرماتا ہے اور اس پر رحم کرتا ہے۔ الانعام
0 تفسیر سورت الآعراف نام : سورت کی آیت (46) میں قیامت کے دن مقام اعراف اہل عراف کا ذکر آیا ہے اسی مناسبت سے اس کا نام "الاعراف رکھا گیا ہے۔ زمانہ نزول : آٹھ آیتوں کے علاوہ پوری سورت مکی ہے وہ آٹھ آیتیں تک ہیں، ابو داؤد اور نسائی نے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے مغرب کی دورکعتوں میں پڑھا کرتے تھے۔ الاعراف
1 (1) ان حروف کے ذریعے اس طرف اشارہ ہے کہ یہ قران کریم انہی جیسے حروف سے مرکب ہے، لیکن تم لوگ اس جیسا کلام لانے سے عاجز ہو، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے جو اس نے بذریعہ وحی اپنے رسول پر نازل کیا ہے، اس لیے اے انسانوں ! تم لوگ اس پر ایمان لے آؤ۔ الاعراف
2 (2) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جا رہا ہے کہ یہ کتاب آپ کے رب کی طرف سے اتاری گئی ہے، اس لیے آپ اس خوف سے تنگ دل نہ ہوں کہ یہ مشرکین آپ کو جھٹلائیں گے، آپ کی بات نہیں نانیں گے اور آپ کو تکلیف پہنچائیں گے، آپ صبر و استقامت سے کام لیں اللہ ہر حال میں آپ کا حامی و نا صر ہے، ایک دوسرے مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے دل میں قران کریم کے کلام الہی ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں گذرنا چاہیئے، یہ قرآن اس لیے نازل کیا گیا ہے، تاکہہ آپ مشرکوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں۔ الاعراف
3 (3) اللہ تعالیٰ نے سارے علم کو خطاب کر کے فرمایا کہ اے لوگو ! تم لوگ اس چیز کی اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری لیے اتاری گئی، اور قران سنت ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ انجم کی آیت (3/4) میں فرمایا ہے : یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی خواہش نفس کے مطابق نہیں بولتے، بلکہ کوہ تو وحی ہے جو ان پر نازل ہوتی ہے، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اے لو گو ! اللہ کے علاوہ دوسروں کو اپنے اولیاء نہ بناؤجو تمہیں بتوں کی پرستش، اور بدعتوں اور خوہشات کی اتباع پر ابھارتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔ اللہ کا بر حق دین چھوڑ کرہوا وہویں اور باطل ادیان ونظریات کی تباع کرتے ہو۔ الاعراف
4 (4) جو لوگ اللہ کی طرف سے نازل شدہ کتاب و سنت کی اتباع کرتے انہیں دھمکی دی گئی ہے، کہ تم سے پہلے بھی بہت سی بستیوں والوں نے ہمارے رسولوں مخالفت کی اور ان کی تکذیب کی، تو ہمارے عذاب نے انہیں رات کو سونے کی حالت میں ( جیسا کہ قوم لوط کے ساتھ ہوا) یادن میں دوپہر کو آرام کرتے وقت (جیسا کہ قوم شعیب کے ساتھ ہوا) آدبوچا، اس وقت انہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے خود اپنے اپنے اوپر ظلم کیا ہے، اور ہم اس عذاب کے حقدار ہیں۔ الاعراف
5 الاعراف
6 (5) اللہ تعا جب قیامت کے دن تمام امتوں کو یہ فیصلہ کے لیے جمع کرے گا، تو وہ ہر امت ہر گروہ اور ہر فرد سے پوچھے گا کہ انہوں نے انبیاء ورسل کی دعوت کو کہاں تک قبول کیا، کیا وہ اس دین اور اس کتاب پر ایمان لائے تھے، جو انبیاء لے کر آئے تھے، کیا انہیوں نے توحید اور اللہ کی اطاعت وبندگی کے بارے میں ان کا پیغام قبول کیا تھا ؟ اور رسولوں سے بھی پوچھا جائے گا کہ کہا انہوں نے اللہ کا پیغام من وعن اور بے کم وکاست پہنچا دیا تھا؟۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان سب کو ان کے ظاہری اور پوشیدہ اعمال کی خبر دے گا، اور وہ لوگ کچھ بھی چھپا سکیں گے، اس لیے کہ اس سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے، وہ تو آنکھوں کی خیانت اور سینوں کے پوشیدہ راز تک کو جانتا ہے، اللہ تعالیٰ کا سوال ان پر صرف حجت قائم کرنے اور اظہار عدالت کے لیے ہوگا، اور کافروں اور سرکشوں کو جہنم میں داخل کرنے سے پہلے زجر وتوبیخ کے لیے ہوگا۔ الاعراف
7 الاعراف
8 (6) انبیاء و رسل اور افراد اور جماعتوں سے سوال کئے جانے، اور انہیں ان کے اعمال کی خبر دینے کے بعد اللہ تعالیٰ قیامت کے دن میزان (ترازو) قائم کرے گا تاکہ بندوں کے اعمال وزن کرے، جس کی نیکیوں کا پلڑا بھا ری ہو کر جھک جائے گا وہ جہنم سے نجات پائے گا اور جنت میں داخل ہوگا، اور جس کا پلڑا نیکیوں کی کمی اور گناہوں کی کثرت کی وجہ سے ہلکا ہو کر اوپر اٹھ جائے گا اسے ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اس آیت کریمہ میں اور دیگر کئی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ قیامت کے دن بندوں کے اعمال کو وزن کرے گا، اور اس کا قول برحق ہے، اس لیے معتز لہ کے علاوہ جمہور امت کا اس پر ایمان ہے، لیکن وزن کی کیفیت کے بارے میں اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ اعمال کے صحیفے حقیقی معنوں میں وزن کئے جائیں گے، جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے، کہ لا الہ الااللہ" کا پر چہ ننانوے رجسٹروں سے بھاری ہوجائے گا، اس حدیث کو امام احمد ابن ماجہ اور حاکم وغیر ہم نے روایت کی ہے، شوکانی نے اسی کر ترجیح دیا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ خود اعمال وزن کئے جائیں گے اگر وہ بغیر جسم کے ہوں گے تو اللہ انہیں اس دن جسم دے دے گا تاکہ ان کا وزن ہو دسکے جیسا کہ قرآن کریم کے بارے میں سنن ابن ماجہ میں مروی صحیح حدیث میں آیا ہے، کہ وہ قیامت کے دن خوبصورت نوجوان کی شکل میں آئے گا، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ خود صاحب اعمال کا وزن ہوگا، جیسا کہ صحیح بخاری میں ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ قیامت کے دن ایک موٹے آدمی کو لایا جائے گا جو اللہ کے نزدیک مچھر کے ایک پر کے برابر بھی نہیں ہوگا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں، بہت ممکن ہے کہ وزن کی یہ ساری صورتیں صحیح ہوں۔ کبھی اعمال کا وزن ہوگا، تو کبھی صحیفوں کا اور کبھی خود صاحب اعمال کا، اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، اور پیمائش ووزن کے جدید سائنسی وسائل وذرائع کو مد نظر رکھتے ہوئے اب تو انسانی عقل اس کو قبول کرنے کے لیے بالکل تیار ہے، اب تو ہواؤں، فضاؤں اور غیر مرئی اشیاء کو وزن کیا جا رہا ہے تو خالق کا ئنات اور قادر مطلق کے لیے یہ کون سا تعجب کی بات ہے کہ وہ قیامت کے دن ہر چیز کو وزن کرے اور بندوں کو ان کے نیک اعمال کا حساب چکائے۔ الاعراف
9 الاعراف
10 (7) اللہ تعا نے اپنی گو نا گوں نعمتوں کی یاد دلا کر بندوں کو اپنے اوامر کی اتباع اور نو ہی سے اجتناب کی تر غیب دلائی ہے۔ خالق کائنات نے زمین کو انسانوں کے لیے سکون وقرار کی جگہ بنائی ہے، اس پر پہاڑ بسائے نہریں جاری کیں، شاندار رہائشی مکانات بنانا سکھایا، زمین پر پائی جا نے والی چیزوں اور جانوروں سے استفادہ کو مباح قرار دیا۔ اور کھانے اور پینے کی مختلف اشیاء کو مہیا کردیا، ان نعمتوں کا تقاضا یہ تھا کہ انسان اللہ کا خوب شکر ادا کرتا اور اس کی خوب عبادت کرتا، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اکثر وبیشتر انسان اللہ کا کم شکر ادا کرتے ہیں ، الاعراف
11 (8) اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی قدرو منزل اور ان کی فضیلت بیان کرنے کے بعد بنی آدم کو تنبیہ کی ہے کہ ان کا سب سے بڑا دشمن ابلیس ہے جو آدم کی ابتدائے آفر ینش سے ہی ان کے اور ان کی اولاد کے خلاف حسد کی آگ میں جلتا رہا ہے، اور انہیں دینی اور دنیاوی طور پر نقصان پہنچا نے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا ہے، اس لیے اس سے بچنا لازم ہے۔ آیت میں : خلقنا کم "جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اور مراد آدم (علیہ السلام) ہیں، جمع صیغہ اس اعتبار سے ہے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کے باپ ہیں، اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اپنے ہاتھ سے مٹی سے بنایا اور انسان کی شکل دے کر اس میں روح پھو نکی، تو تمام فرشتوں کو (رب العالیمن کی تعظیم شان کے لیے) اس کا سجدہ کرنے کا حکم دیا، چنا چہ سب نے بات مانی اور اطاعت کی، لیکن ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ نے سوال کیا کہ میں جب تجھے سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا تو کس چیز نے تجھے روک دیا تو ابلیس لعین نے ( عذر گناہ کے طور پر) کہا کہ میں تو اس سے افضل ہوں، تو مجھ کو اسے سجدہ کرنے کا حکم کیسے دیتا ہے ؟! مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے، اور آگ مٹی سے اشرف ہوتی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ابلیس نے آگ اور مٹی کو عناصر پر نظر رکھی اور بھول گیا کہ اللہ نے آدم کو اپنے ہاتھ سے بنایا ہے اور اس میں اپنی روح پھونکی ہے، اس نے صریح کہ تم لوگو اس کے لیے سجدہ میں گر جاؤ، کے مقابلے میں قیاس فاسد سے کام لیا۔ اور سجدہ کا منکر ہوگیا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کردیا گیا، اور اس کا یہ دعوی بھی غلط تھا کہ آگ مٹی سے اشرف ہے، کیونکہ مٹی کی فطرت میں سنجیدگی، بردباری، سوچ اور ٹھراؤ ہے مٹی میں انواع وقسام کے پودے اگتے ہیں، اس میں انسانوں اور حیوانات کی روزی پیدا ہوتی ہے، اس کے برعکس آگ چیزوں کو جلادیتی ہے، اور اس میں طیش اور تیز کی صفت پائی جاتی ہے ؛، اور یہی وجہ ہے کہ ابلیس کو آگ نے دھوکہ دیا، اور آدم (علیہ السلام) نے مٹی سے بنے ہونے کی وجہ سے) اللہ کے سامنے خشوعو خضوع سے کام لیا، اور اپنے گناہ کا اعتراف کر کے توبہ واستغفار کی راہ اختیار کی۔ الاعراف
12 الاعراف
13 (9) اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو مخاطب کر کہا کہ چونکہ تو نے میرے حکم کی مخالفت کی ہے اس لیے تو جنت سے نکل جا، یہ جگہ اللہ کے نافرمانوں کے لے نہیں ہے، بعض لوگوں نے اس کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ تو جس مقام پر اب تک تھا ذلیل وخوار ہو کر اب اس سے نیچے چلا جا۔ اب وہ مقام تجھے نہیں مل سکتا، اس لیے کہ وہ اطاعت کرنے والے اور خشوع اختیار کرنے والے کا مقام ہے۔ الاعراف
14 الاعراف
15 (10) ابلیس نے کہا، اے رب ! مجھے مہلت دے اور اس دن تک موت نہ دے جب آدم اور اس کی اولاد قبروں سے اٹھائی جائے گی، تو اللہ تعالیٰ نے اسے دنیا کے فنا ہونے کے دن تک کی مہلت دے دی جیسا کہ سورۃ حجر آیات (37/38) میں آیا ہے : یہاں : وقت معلوم ہے " سے فنائے دنیا مراد ہے ، ابلیس کا مقصد اولاد آدم کی کثیر ترین تعداد کو گمراہ کرنا تھا تاکہ آدم (علیہ السلام) سے نتقام لے سکے جن کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کردیا گیا اور جب اللہ نے اس کی طلب مان لی تو عناد وتمرد میں اور آگے بڑھ کر کہا کہ جب تو نے مجھے گمراہ کر ہی دیا ہے تو اب ان انسانوں کو میں چین سے نہیں رہنے دوں گا، ان کے درپے ہوجاؤں گا، اور انہیں تیری سیدی راہ ( دین اسلام) سے گمراہ کروں گا انہیں ہر طرف سے گھیر لوں گا، بھلائی سے روکوں گا، اور برائی کو خوبصورت بناکر پیش کروں گا۔ تاکہ وہ سرکشی پر اتر آئیں۔ اور پھر نتیجہ یہ ہوگا کہ ان میں سے اکثر لوگ نا شکری کریں گے، تیری عبادت نہیں کریں گے، اور عقیدہ توحید پر قائم نہیں رہیں گے، اور حکمت الہی دیکھیئے کہ ابلیس کا یہ ظن اور وہم واقعہ کے مطابق ہوگیا کہ اکثر و بیشتر انسانوں نے اس کی اتباع کی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ سبا کی آیت (20) میں فرمایا ہے : اور ابلیس نے بنی آدم کے بارے میں اپنا گمان سچ کر دکھا یا، پس مومنوں کی ایک جماعت کے سوا سب اس کی پیروی کی، اسی لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شیطان سے تمام جہات سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے،، امام احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن حبان اور حاکم نے عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) درج ذیل دعا صبح وشام کبھی بھی نہیں چھوڑ تے تھے۔ الاعراف
16 الاعراف
17 الاعراف
18 (11) اللہ تعالیٰ نے شیطان پر مزید لعنت اور رحمت سے دوری کا اعلان کرتے ہوئے دوبارہ کہا کہ تو یہاں سے ذلیل ورسوا ہو کر نکل جا، اور یہ بات تو اور تیری پیروی کرنے والے جان لیں کہ اگر وہ لوگ تیری اتباع کریں گے تو میں تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔ الاعراف
19 (12) آدم و حوا کی یہ پوری کہانی سورۃ بقرہ میں گذر چکی ہے م چونکہ قرآن کریم تئیس سال میں نازل ہو اہے، اور اس میں مدت میں اطراف عالم سے مختلف وفود آتے رہے، اسی لیے قرآن نے ایک ہی واقعہ کو کئی مقام پر مختلف انداز میں بیان کیا ہے، تاکہ سننے والے س سے حسب موقع عبرت حاصل کرتے رہیں۔ اللہ نے ابلیس کو جنت سے یا فرشتوں کے زمرے سے نکال دیا، اور آدم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی حوا کے لیے جنت کی تمام نعمتوں اور پھلوں کے حلال بنا دیا، صرف ایک درخت کے کھانے سے انہیں روک دیا، اور تنبیہ کردی کہ دیکھو اگر اس کے قریب جاؤ گے تو اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہوجاؤ گے، شیطان نے جب انہیں اس حال میں دیکھا تو اس کے حسد کی آگ بھڑک اٹھی اور ان کے ساتھ مکرو فریب کی سوچ لی، تاکہ وہ جب نعمتوں سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔، اور جو خوبصورت لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں ان سے چھن جائے اس نے اللہ کو خلاف افتراپردازی کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے رب نے تمہیں اس درخت سے اس لیے روکا ہے کہ اسے کھالوگے تم تم فرشتے بن جاؤ گے، پھر کھا نے پینے کی متاجی نہیں رہے گی یا تمہیں موت لا حق نہیں ہوگی اور جنت میں ہمیشہ کے لیے رہوگے، اور ابلیس نے انہیں اپنی صداقت کا یقین دلانے کے لیے ذات باری تعالیٰ کی قسم کھاکر کہا کہ میں تم دونوں کا انتہائی خیر خواہ ہوں جبھی یہ راز تمہیں بتا دیا ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ابلیس نے اللہ کی قسم کھا کر آدم وحوا کو دھوکہ دیا، اس لیے کہ مومنین اللہ کا نام سے دھوکہ کھا جاتا ہے۔ الاعراف
20 الاعراف
21 الاعراف
22 (13) شیطان نے دونوں کو دھوکہ دے کر بلندی سے پستی میں پہنچا دیا، اس کی تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ اس نے ان دونوں کو ارتکاب معصیت کی ہمت دلائی، چناچہ جب انہیوں نے اس شجرہ ممنوعہ کو شیطان کے دھو کے میں آکر کھالیا، تو اس نافرمانی کا انجام فوراہی ان کے سامنے آگیا کہ ان کے لباس ان کے جسموں سے الگ ہوگئے، اور انہیں اپنی شرمگا ہیں نظر آنے لگیں، تو جنت کے درختوں کے پتے لے لے کر اپنے جسموں پر چپکانے لگے تاکہ اپنی پردہ پوشی کریں، تب اللہ نے بطور عبات ان سے کہا، کہا میں تمہیں اس درخت کے کھانے سے نہیں روکا تھا، اور کہا نہیں تھا کہ شیطان تم دونوں کا کھلا دشمن ہے ؟ اس وقت انہوں نے اپنی غلطی کا اللہ کو حضور ااعتراف کیا، اور اللہ نے انہیں سکھایا کہ اپنی غلطی کی معافی کے لیے یہ دعا کریں : بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ آدم (علیہ السلام) کے اندر پانچ خوبیاں پائی گئیں : انہوں نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا، اس پر نادم ہوئے، اپنے نفس کی ملامت کی، فورا توبہ کی، اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہوئے۔ اور ابلیس میں پانچ برائیا پائی گئیں : اپنے گناہ کا اعتراف نہیں کیا، اس پر نادم نہیں ہوا، اپنے نفس کی ملامت نہیں کی، بلکہ اپنے رب پر اعتراض کیا، اور توبہ نہیں کی، اور اللہ کی رحمت سے ناامید ہوگیا۔ الاعراف
23 الاعراف
24 (14) اللہ نے آدم وحوا کی توبہ قبول کرلی، لیکن ان سے کہا کہ ارتکان معصیت کے بعد اب جنت میں تمہارے لیے جگہ نہیں رہی، ابلیس نے سجدہ سے انکار کیا، اور تم اور تمہاری ذریت اور ابلیس اور اس کی ذریت کے درمیان عداوت چلتی رہے گی، تم سب زمین پر ہی رہوگے اور دنیا کی عارضی نعمتوں سے موت آنے تک فائدہ اٹھاتے رہو گے، وہیں زندہ رہو گے، وہیں مرو گے، اور قیامت کے دن وہیں سے اٹھائے جاؤ گے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مفسرین غیر موثوقہ اور اسرائیلی روایات سے استفادہ کرتے ہوئے ان جگہوں کا ذکر کیا ہے جہاں آدم، حوا، ابلیس اور سانپ میں سے ہر ایک زمین پر اترا تھا، اگر ان کے ذکر کرنے میں کوئی فائدہ ہوتا تو اللہ اپنی کتاب میں یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضرور ان کا ذکر کرتے۔ الاعراف
25 الاعراف
26 (15) اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین میں رہنے کی جگہ اور کھانے پینے کی مختلف چیزیں دیں، اور جنت کا لباس چھن جانے کے بعد لباس دیا جس کے ذریعہ ستر پوشی کرتا ہے، اور زیب وزینت اختیار کرتا ہے، ان نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اللہ پر ایمان لائے، شرک و معاصی سے تائب ہو اور تقوی کی راہ پر گامزن ہو، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد فرمایا کہ آدمی اگر تقوی لباس زیب وتن کرے، یعنی ایمان وعمل صالح کی زندگی اختیار کرے، اور ہر حال میں اللہ کا خشیت اس کے دل ودماغ پر طاری ہو رہے تو یہ اس کے لیے ہر طرح سے بہتر ہے۔ الاعراف
27 (16) اللہ تعالیٰ نے دوبارہ انسانوں کو مخاطب کیا تاکہ انہیں دوبارہ شیطان لعین کے شر سے ڈرائے، اور اس کی سازشوں میں گرفتار ہونے سے خوف دلائے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ "ابلیس اور اس کا لشکر تمہیں دیکھ رہا ہے اور تم سے نہیں دیکھ رہے ہو۔ اور اس سے مقصود انسانوں کو مزید تنبیہ کرنی ہے اس لیے کہ انہیں ایسے دشمن سے پالا پڑا ہے جو دکھائی نہیں دیتا، اور ایسا دشمن بڑاہی خطرناک ہوتا ہے،، اور اس سے بچنا بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے، مالک بن دینار کہ کرتے تھے کہ ایسا دشمن جو تمہیں دیکھ رہا ہے اور تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو، بڑا ہی بھاری دشمن ہے اور اس سے نمٹنا بڑا مشکل کام ہے، اس کے شر سے وہی بچ سکتا ہے جسے اللہ بچالے۔ آیت کے اس حصہ میں بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ شیطان کو نہیں دیکھا جاسکتا، لیکن صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ انسان سے کبھی دیکھ سکتا ہے، اس لیے آیت کا مفہوم یہ ہوگا بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ شیطان انسان کو دیکھتا ہے اور انسان سے نہیں دیکھ پاتا، لیکن کبھی سے دیکھ بھی سکتا ہے، اس کے بعد اللہ نے مزید تنبیہ کے طو پر کہا کہ اللہ تعالیٰ شیطان کو کافر انسانوں پر مسلط کر دتیا ہے جو ان کو دلوں سے نور ایمان سلب کرلیتے ہیں، شر وفساد ان کی فطرت بن جاتی ہے، ان کی آنکھوں پر پٹی بندھ جاتی ہے۔ انہیں نیکیوں سے وحشت اور معاصی وسیئات سے انس ہوجاتا ہے، اور ہو شیطان کے گہرے دوست بن جاتے ہیں۔ الاعراف
28 (17) مشر کین عرب میں شیطا فتنہ کا ایک نمونہ یہ تھا کہ قریش کے علاوہ تمام مشرکین (مرد عورت) بیت اللہ کا طواف ننگا کیا کرتے تھے، اللہ کی عبادت میں غیروں کو شریک بنا تے تھے، اور دوسرے بڑے بڑے گناہ کرتے تھے، اور کہا کرتے تھے کہ ہم نے اپنے آباء اجداد کو ایساہی کرتے دیکھا ہے، اور اللہ نے ہمیں ایسا ہی کرنے کا حکم دیا ہے، اگر اللہ کو یہ اعمال پسند نہ ہوتے تو ہمارے دلوں سے ان کی رغبت نکال دیتا، مشرکین کی یہ دونوں ہی دلیلیں صحیح نہیں تھیں، اس لیے اللہ کہ پہلی دلیل جاہلوں کی تقلید ہے، اور تقلید کبھی بھی گناہ اور بری بات کا حکم نہیں دیتا، وہ تو اچھے اخلاق وکردار کا حکم دیتا ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں بہت بڑی ڈانٹ اور پھٹکار ہے ان لوگوں کے لیے جو راہ حق کو چھوڑ کر اپنے آباء اجداد کی تقلید کرتے ہیں۔ اس لیے یہ ہل حق کی بجائے اہل کفر ؛ کی اتباع ہے۔ کافر ہی کہا کرتے تھے، بے شک ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقہ پر پایا تھا اور ہم انہی کے نقش قدم پر چلیں گے (الزخرف :22) اور یہ بھی کہتے تھے، کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو اسی راہ پر پایا ہے، اور اللہ نے ہمیں اسی پر چلنے کا حکم دیا ہے۔ (الاعرف :28) اگر مقلد بھی اس زعم باطل میں مبتلا نہ ہوتا کہ ہمارے آباء اجداد اسی پر قائم تھے، اور اللہ نے اسی کا حکم دیا ہے، تو وہ تقلید پر مصر نہ ہوتا، اور اسی بری خصلت کی وجہ سے یہودی اپنی یہودیت پر اور بدعتی پر اڑارہتا ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر دین سے غفلت اور حق سے اعراض کیا ہوسکتا ہے کہ یہ مقلد حضرات کی کتان اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہوتے ہوئے لوگوں کے اقوال وآراء کی ابتاع کرتے ہیں۔ الاعراف
29 (18) اللہ تعالیٰ بری باتوں کا حکم نہیں دیتا جیسا کہ مشر کین کہا کرتے تھے، اور جس کی تر دید گذشتہ آیت میں ہوچکی، وہ تو ایمان باللہ ایمان بالر سول اور عبادتوں میں توحید باری تعالیٰ کا حکم دیتا ہے، حاظ بن کثیر رحمہ اللہ کے نز دیک قسط سے مراد انبیاء کرام کی اتباع اور ان کی شریعتوں کی پابندی ہے، اور وہ اس بات کا حکم دیتا ہے، کہ آدمی جب بھی اور جہاں بھی نماز پڑھے اس کی رضا کے لیے پڑھے اور اس کا رخ قبلہ کی طرف ہو، اور عبادت اور دعا کی تمام صورتوں تو اللہ کے لیے خاص کرے، اس لیے کہ کوئی بھی عمل اللہ کے نزدیک جبھی قابل قبول ہوتا ہے، جب وہ شریعت نبوی کے مطابق ہو اور شرک سے پاک صاف ہو۔ (19) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے کے کئے معانی بیان کئے ہیں، ارآخر میں ابن عباس (رض) کی تفسیر کو راجح قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرح ابتدا میں ابن آدم کو مومن و کافر پیدا کیا۔ جیسا کہ اللہ نے دوسری جگہ فرمایا ہے اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے پس تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن (لتغابن :2) اسی طرح قیامت کے دن انہیں مومن و کافر اٹھائے گا، اس کے بعد اس تفسیر کی تائید میں کئی احادیث سے استدلال کیا ہے جب کا مفہور یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آدمی کو شروع سے ہی جنتی یا جہنمی پیدا کرتا ہے۔ اور جیسا اس کی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے، اسی پر اس کا خاتمہ ہوتا ہے، اور اسی کے مچابق وہ مسلم یا کافر کی حشیت سے دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ لیکن چونکہ صحیحین وغیرہ میں حدیثیں آئی ہیں، کہ ہر بچہ فطر پر پیدا ہوتا ہے، بعد میں اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ اس لیے دونوں قسموں کی آیات و احادیث کے درمیان تطبیق یوں دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو پیدا ہی اس طرح کیا ہے کہ اس کی فطرت میں یہ بات رچی بسی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، لیکن اس کے ساتھ اس نے یہ بھی مقدر کیا ہے کہ ان میں سے کوئی شقی اور کوئی سعید اور کوئی کافر اور کوئی مومن ہوگا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد فرمایا : اللہ نے ایک جماعت کو ہدایت دی، اور ایک دوسری جماعت کی قسمت میں گمراہی آئی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی علت بیان کی اور فرمایا ایسا اس لیے ہوا کہ انہوں نے اللہ کے بجائے شیاطین کو اپنا آقا و مددگار بنا لیا تھا، اور گمان کرتے تھے کہ وہ حق پر ہیں۔ الاعراف
30 الاعراف
31 (20) اس آیت کریمہ میں ان مشرکین عرب کی تردید کی گئی ہے جو بیت اللہ کا طواف ننگے ہو کر کرتے تھے۔ مسلم نسائی اور ابن ماجہ وغیر ہم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ مرد اور عورت سبھی لوگ بیت اللہ کا طواف ننگے ہو کر کرتے تھے۔ مرد دن میں اور عورتیں رات میں، تو اللہ تعالیٰ یہ آیت نازل فرمائی، اس آیت اور اس کی ہم معنی احادیث کے پیش نظر نماز کے وقت اچھا لباس پہننا مستحب ہے، خاص طور پر جمعہ اور عید کے دن، اور خوشبو لگانا اس لیے کہ یہ زینت میں داخل ہے، اور مسواک کرنا اس لیے کہ اس کے ذریعہ زینت کی تکمیل ہوتی ہے، اور سب سے افضل سفید لباس ہے م جیسا کہ صحیح احادیث میں آیا ہے۔ (21') اللہ تعالیٰ نے بندوں کو کھانے اور پینے کا حکم دیا ہے اس لیے کہ اس کے بغیر آدمی زندہ نہیں رہ سکتا اور انہیں حد سے تجاوز کرنے سے منع کیا ہے، آیت میں " اسراف" سے اکل حرام، فضول خرچی اور کھانے پینے میں بد احتیاطی سبھی مراد ہیں، فضول خرچی اللہ کے نزدیک مغبوض صفت ہے، اور انسان کو محتاجی تک پہنچا دیتی ہے اور کھا نے پینے میں بد احتیاطی تمام بیماریوں کی جڑ ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آدمی اپنے پیٹ سے زیادہ کوئی برا برتن نہیں بھرتا ہے، ابن آدم کے لیے چند لقمے کافی ہیں، جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں۔ اور اگر اتنا ہی ضرور ہو تو ایک تہائی کھانے کے لے ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے۔ (مسند احمد، نسائی، ترمذی) کہتے ہیں کہ ہارون رشید کا ایک نصرانی طبیب تھا، اس نے زین العابدین علی بن الحسین سے کہا کہ آپ لوگ کی کتاب (قرآن )، میں علم طب کی کوئی بات نہیں ہے، حالانکہ علم کی دو قسمیں ہیں : علم ادیان اور علم ابداب، تو زین العابدین نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پورا طب قرآن کی آدھی آیت میں جمع کردیا ہے، اس نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے ؟ انہوں نے کہا اللہ کا فرمان ہے : کھاؤ اور پیو اور حد سے تجاوز نہ کرو۔ الاعراف
32 (22) اس آیت کریمہ میں ان مشرکین کی تردید ہے جو اپنی خواہش نفس کے مطابق کھانے پینے کی چیزوں کو حلال وحرام بنا تے تھے،، ابن ابی حاتم اور طبرانی وغیر ہمانے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ قریش والے ننگے بیت اللہ کا طواف کرتے اور سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے، تو یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمان کو لباس پہننے کا حکم دیا گیا، آیت میں" زینتہ سے مراد ہر وہ مباح چیز ہے جسے انسان خوبصورتی حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، اور طیبات " سے مراد کھانے اور پینے کی ہر وہ چیز ہے جسے اللہ نے بندوں کے لیے مباح کیا ہے۔ ابن جریر طبری لکھتے ہیں کہ جس نے روئی اور کتان کا لباس چھوڑ کر بال اور اون کا لباس اختیار کرلیا اس نے بہت بڑی غلطی کی اور جس نے گیہوں کی روٹی چھوڑ کر سبز یا اور دال کھانا شروع کردیا اور جس نے شہوت کے خوف سے گوشت کھانا چھوڑ دیا اس نے بہت بری خطا کی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نعمتیں اور کھا نے پینے کی اچھی چیزیں دراصل مومنوں کے لیے ہیں۔ کفار ان کے تابع کی حثیت سے ان میں شریک ہوجاتے ہیں، اور قیامت کے دن تو ساری نعمتیں صرف اہل ایمان کے لیے ہوں گی، کفار ان کے ساتھ شریک نہیں ہوں گے اس لیے اللہ تعالیٰ نے کافروں پر جنت حرام کردی ہے۔ الاعراف
33 (23) اس آیت کریمہ میں اسا سی محر مات اور بنیادی گناہوں کی حرمت بیان کی گئی ہے، : فواحش" مراد وہ بڑے گناہ ہیں جن کا تعلق شرمگا ہوں سے ہوتا ہے، اور "اثم " سے مراد ہر گناہ ہے اور "بغیی" سے مراد لوگوں پر ظلم اور زیادتی ہے اور اللہ تعالیٰ پر افترپردازی یہ ہے کہ کسی کو اس کا بیٹا بنایا جائے ی احلت وحرمت کے خود ساختہ احکام کو اللہ کی طرف منسوب کیا جائے۔ الاعراف
34 (24) اللہ تعالیٰ نے ہر قوم اور ہر زمانے کے رہنے والوں کی موت وہلاکت کا ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جب وہ گھڑی آجائے گی تو اسے کوئی ٹال نہیں سکے گا، کبھی اللہ کسی سرکش قوم کو دنیا میں عذاب دے کر ہلاک کردیتا ہے اور کبھی کسی کو چھوڑ دیتا ہے یہاں تک کہ اس کے افراد طبعی موت مر جاتے ہیں، اور ان کا عذاب آخرت کے لیے اٹھا رکھا جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا میں نافرمان امتوں اور قوموں کی ہلاکت ان کے گنا ہوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ الاعراف
35 (25) اللہ تعالیٰ نے ابتدائے آفر ینش سے بن آدم کو خبر دی ہے کہ وہ اپنے انبیاء ورسل کو ان کے پاس بھیجا کرے گا، جو اس کی آیتیں انہیں سنا یا کریں گے، تو جو کوئی تقوی اور اصلاح کی راہ اختیار کرے گا قیامت کے دن اسے کوئی خوف وغم لاحق نہیں ہوگا، اور جو کوئی اس کی آیتوں کو جھٹلائے گا، اور کبر وعناد سے کام لے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ الاعراف
36 الاعراف
37 (26) اللہ پر افتراپردازی کرنے والوں اور اس کی آیتوں کو جھٹلانے والوں کا مزید حال بیان کیا جا رہا ہے کہ ان سے بڑا کوئی ظالم نہیں ہے، لیکن اس کے باوجود ان کے لیے دنیا میں جو عمر، روزی اور اعمال خیر وشر لکھ دیئے گئے ہیں انہیں وہ اللہ کی طرف سے ضرور پائیں گے پھر جب ان کی موت کا وقت آجائے گا اور فرشتے ان کی روحوں کو قبض کر کے جہنم کی طرف لے جائیں گے تو بطور زجرو توبیخ ان سے کہیں گے کہ کہاں ہیں تمہارے وہ معبود جن کی تم عبادت کرتے تھے آج وہ تمہیں اس عذاب نار سے کیوں نہیں بچالیتے ؟ تو وہ جواب دیں گے کہ وہ غائب ہوگئے ہیں اب تو ہمیں ان سے کوئی امید نہیں ہے، اور اپنے بارے میں اعتراف کریں گے کہ واقعی ہم دنیا میں کافر تھے۔ الاعراف
38 (27)"امم "امت کی جمع ہے، اور یہاں گذ شتہ قوموں کے کفار مراد ہیں جب بھی کوئی قوم جہنم میں داخل ہوگی تو ان لوگوں پر لعنت بھیجے گی جو پہلے سے جہنم میں ہوں گے اور کہے گی کہ ہمارے گمراہی کا سبب تم ہی تو تھے، آیت میں "اولی" سے مراد، وہ کافر جن وانس ہیں جن کی لوگ کفرو شرک میں پیروی کرتے تھے۔ اور اخری"سے مراد ان کے ماننے والے ہیں، سر ادار ان کفر وشرک اپنے ماننے والوں سے کہیں گے کہ تم لوگوں نے کفر وگمراہی کو چھوڑ تو نہیں دیا تھا کہ ہمارے مقابلے میں تمہارا جرم ہلکا ہوگیا، تم بھی ویسے ہی گمراہ ہوئے جیسے ہم ہوئے، اس لیے ہماری طرح تم بھی عذاب کے مستحق ہو، تو لو اپنے کئے کی پاداش میں جہنم کا عذاب چکھوں۔ الاعراف
39 الاعراف
40 (28) کافروں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے، بعض مفسرین نے کہا ہے کہ جب ہر مریں گے تو ان کی روحوں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھو لے جائیں گے، کسی نے کہا، ان کے اعمال کے لیے اور کسی نے کہا، ان کی دعاؤں کے لیے، لیکن راجح یہی ہے کہ سبھی مراد لیے جائیں گے، جیسا کہ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ نہ ان کا عمل صالح آسمان کی طرف اٹھا یا جائے گا اور نہ ان کی دعا اور جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ خبیث روح کے لیے آسمان کا دروازہ نہیں کھولا جائے گا، اس کے بعد اللہ نے فرمایا، کہ جیسے اونٹ کا سوئی کے سوراخ سے گذر نا محال ہے اسی طرح کافر کا جنت میں داخل ہونا محال ہے۔ الاعراف
41 الاعراف
42 (29) اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بالعوم جہنم اور اہل جہنم کے ذکر کے بعد جنت اور اہل جنت کا ذکر کرتا ہے، اور یہی حال برعکس بھی ہوتا ہے، یہاں بھی جہنمیوں کے بعد جنتیوں کا ذکر آیا ہے، اور جملہ معتر ضہ کے ذریعہ اللہ نے اس بات سے آگاہ کیا ہے کہ اللہ پر ایمان لانا اور زندگی میں عمل صالح کرنا مشکل نہیں ہے اس لیے کہ اللہ کا نظام ہے کہ بندوں کو ان کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا۔ الاعراف
43 (30) جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ جنتیوں کے دلوں سے کینہ وحسد اور بغض وعداوت کو یکسر نکال دے گا، اس لیے کہ اگر وہاں بھی دنیا کی طرح ان کے دل آپس میں صاف نہیں ہوں گے تو جنت کی نعمتیں کامل نہیں ہوگی، اور جنتی اللہ کا شکر ادا کریں گے اور کہیں گے اے اللہ ! تو نے ہم پر احسان کیا ہے کہ ہمیں ایمان وعمل صالح کی تو فیق دی جس کے سبب آج ہم جنت کی بہاروں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ (31) کلمہ "میراث" میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جنت عمل صالح کے بدلے میں انہیں ملے گی، بلکہ وہ ایک سبب ہوگا، جس طرح وراثت بغیر کسب و محنت کے ملتی ہے اور نسب اس کا سبب ہوتا ہے، اسی لیے یہ آیت صحیحین کی اس حدیث سے معارض نہیں ہے جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کسی آدمی کا عمل اسے جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ آیت کے اس حصہ کی تفسیر میں امام مسلم نے ابوا داؤد سعید اور ابو ہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، جب اہل جنت میں داخل ہوجائیں گے تو ایک منادی ندا پکارے گا، کہ بے شک اب تم لوگ زندہ رہوگے کبھی نہ مروگے، اور بے شک تم لوگ صحت مند رہو گے کبھی بھی بیمار نہیں ہو گے اور بے شک تم لوگ جواب رہو گے کبھی بھی بورھے نہیں ہوگے۔ اور بے شک تم لوگ عیش کی زندگی گذار وگے کبھی بھی پریشان حال نہ ہو گے، اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ یہی ہے اللہ کا قول الاعراف
44 (32) جب جنتی اور جہنمی سبھی اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچ جائیں گے تو جنتی جہنمی کی حسرت ویاس بڑھانے کے لیے انہیں پکار کر یہ بات کہیں گے، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میدان بدر میں کافر ومقتولین کو پکار کریہی بات کہی تھی، رؤسائے کفر کا نام لے لے کر کہا کہ تمہارے رب نے تم سے جو وعدہ کیا تھا کیا وہ تمہیں مل گیا، جو میرے رب نے مجھے سے وعدہ کیا تھا، اور حضرت عمر (رض) نے جب اس پر حیرت کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ قسم وہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں، لیکن جواب دینے سے عاجز ہیں، اس کے بعد انہیں مزید ذہنی تکلیف پہنچاے کے لیے اللہ کی طرف سے ایک منادی ندا پکار کر کہے گا کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو جو اپنے آپ کو اور غیروں کو اللہ کے دین سے روکتے تھے، اور اس میں تحریف پیدا کرتے تھے اور یوم آخرت کے منکر تھے۔ الاعراف
45 الاعراف
46 (33) جنت اور جہنم کے درمیان ایک دیور حائل ہوگی، جسے قرآن کریم میں "سور"سے تعبیر کیا گیا ہے، اس کے اندر کی طرف اللہ کی رحمت اور جنت ہوگی، اور باہر کی طرف جہنم اور اس کا عذاب، اسی حجاب کو ' اعراف کہا گیا ہے جو عرف کی جمع ہے جس کا اطلاق ہر اونچی جگہ پر ہوتا ہے اس لیے اعراف سے مراد جنت و جہنم کے درمیان کی دیور کی انچی جگہ ہے۔ اصحاب اعراف کے بارے میں مفسرین نے صحابہ وتابعین سے کئی اقوام نقل کئے ہیں ؛ کسی نے کہا ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے، جن کی نیکیاں اور برئیابرابر ہوں گی، ابن مسعود، حذیفہ بن الیمان اور ابن عباس (رض) ہم وغیر ہم کا یہی قول ہے، اور بعض حدیثیں اس قول کی تائید کرتے ہیں، اور کسی نے کہا ہے کہ ہو مومنو میں افضل لوگ ہوں گے، کسی نے شہداء، کسی نے انبیاء اور کس نے ان لوگوں کو بتایا ہے جو اللہ کی راہ میں ستائے گئے ہوں گے، یہ لوگ اہل جنت اور اہل جہنم سب کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گے، اور ان لوگوں کو سلام کریں گے جنہیں جنت کی بشارت دی جا چکی ہوگی ابھی اس میں داخل نہیں ہوئے ہو گے لیکن اس کی خواہش ان کے دلوں میں کروٹ لے رہی ہوگی۔ اصحاب اعراف جب جہنم کی طرف نظر اٹھاکر دیکھیں گے تو ان جہنمیوں کو پہچان لیں گے جنہیں دنیا میں انہوں نے کفر وہ شرک اور اللہ سے بغاوت وسر کشی کرتے دیکھا ہوگا۔ تو مارے خوف کے جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے پکار اٹھیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں ظالموں کے ساتھ جہنم میں داخل نہ کر۔ الاعراف
47 الاعراف
48 (34) اصحاب اعراف سرداران کفر وشرک کو پکا کر کہیں گے (جنہیں ان کی نشا نیوں سے پہچان لیں گے) کہا گئی تمہاری جماعت اور تمہارا خاندان وقبیلہ اور کہا ہے آج تمہارا استکبار؟ پھر جنت کی طرف دیکھیں گے تو وہاں ان کمزور لوگوں کو دیکھیں گے جنہیں کفار دنیا میں رذیل وذلیل سمجھتے تھے اور گمان کرتے تھے کہ اللہ اپنی رحمت سے انہیں چھوڑ کر ان رذیلوں کو کیسے نوازے گا، انہیں مخاطب کرکے کہیں گے کہ تم لوگ اب جنت میں داخل ہوجاؤ، وہیں ہمیشہ کے لیے رہو اب تمہیں کوئی غم وخوف لاحق نہیں ہوگا۔ الاعراف
49 الاعراف
50 (35) اس سے مقصود اہل جہنم کی انتہائی رسوائی بیان کرنی ہے کہ دنیا میں تو کمزور مسلمان کو ذلیل وحقیر سمجھتے تھے، اور کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں چھوڑ کر انہیں کیوں کر اپنی رحمت سے نوازے گا، لیکن اب حال یہ ہے کہ اپنی انتہائی نے بسی کے عالم میں بطور رحمت تمہیں عطا کیا ہے، تاکہ ہم آگ کی تپش اور پیاس کی شدت سے نجات پائیں، یا تمہیں جو کھا نے اور پینے کی چیزیں ملی ہیں ان میں سے کچھ دے دو، تو جنتی کہیں گے، کہ اللہ نے ان دونوں ہی چیزوں کو جہنمیوں پر حرام کردیا ہے، جنہوں نے اللہ کے دین کو کھیل اور مذاق بنا لیا تھا، اور دنیا اور اس کی زینتوں پھنس کر آخرت سے غافل ہوگئے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ کہیں گے کہ آج ہم بھی ان کے ساتھ آدمی جیسا معا ملہ کریں گے جو انہیں بھول گیا ہو انہیں ہمیشہ کے لیے جہنم میں چھوڑ دیں گے جس طرح انہوں نے آج کے دن کی ملاقات کو فراموش کردیا تھا، اور جس طرح وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے۔ ترمذی نے ابو سعید اور ابو ہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا تو اللہ اس سے پوچھے کا کہ کیا میں نے تمہیں کان، آنکھ، مال اور اولاد نہیں دی تھی، کیا تمہارے لیے چوپایوں اور کھیتوں کو مسخر نہیں کردیا تھا۔ اور کیا میں نے تمہیں ریاست اور چودھر راہٹ نہیں دی تھی، کیا تم سمجھتے نہیں تھے کہ آج کا دن دیکھوں گے ؟ تو کہے گا نہیں تو اللہ کہے گا، میں نے تمہیں آج اسی طرح فرموش کردیا ہے، جس طرح تم نے مجھ فروموش کردیا تھا۔ الاعراف
51 الاعراف
52 (36) اللہ تعالیٰ انہی جہنمیوں کے بارے میں بتا رہا ہے کہ یہ جو کچھ ہوا ان کے اپنے برے کرتوتوں کا نتیجہ ہے، ورنہ اللہ نے تو انبیاء بھیج کر کتابیں نازل کرکے انہیں اعتقاد ات، احکام اور تمام اخروی امور کی خبر دے دی تھی۔ الاعراف
53 (37) نبی کریم صلی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعث اور قرآن کریم کے نزول کے بعد بھی جب اہل مکہ ایمان نہیں لائے تو اللہ نے فرمایا کہ اب یہ لوگ اس عقاب وانجام کا انتظار کر رہے ہیں، جس کے بارے میں قرآن میں خبر دی جا چکی ہے ؟ اس کے بعد فرمایا جب قیامت کا دن آجائے گا تو جو لوگ اسے اپنی دنیاوی زندگی میں فراموش کرچکے ہوں گے اب اپنے کفر کا اعتراف کرلیں گے، اور کہیں گے کہ ہمارے رب کے انبیاء نے تو تمام برحق باتوں کو کھول کھول کر بیان کردیا تھا۔ الاعراف
54 (38) کفارکے کفر وشرک کاجب بیان ہوچکا تو اب اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم مخلوقات کا ذکر کر کے یہ بتایا جا رہا ہے کہ جس ذاتواحد نے انہیں پیدا کیا ہے، اس کو سوا کوئی عبا دت کے لا ئق نہیں،، اس آیت کے علاہ قرآن کریم کی دیگر کئی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات بتائی ہے کہ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کو اتوار سے جمعہ تک چھ دنوں میں پیدا کیا ہے، کسی نے کہا ہے کہ ہر دب دنیا کے دنوں کے برابر تھا، اور ابن عباس (رض) سے مرویہ ہے کہ ہر دن ہزار سال کے برابر تھا۔ اور اللہ تعالیٰ تو اس بات پر قادر تھا کہ کلمہ "کن"کے ذریعہ ان تمام چیزوں کو ایک لمحہ میں پیدا کردیتا، لیکن اپنے معاملات میں نرمی اور غور وفکر کی تعلیم دینے کے لیے ایسا کیا، اور بعض نے لکھا ہے کہ اللہ کے نزدیک ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے۔ (39) کا معنی و مفہوم بیان کرنے میں لوگوں کے بہت سے اقوال ہیں جن کی تفصیل یہ مقام نہیں ہے، سلف صالحین کا ہر دور میں یہی مسلک رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر اس طرح مستوی ہے جس طرح اس کے مقام اعلی اور عظمت کے لائق ہے، نہ اس کا انکار کیا جاسکتا ہے، نہ اسے تشبیہہ دی جاسکتی ہے، اور نہ ہی اس کی کیفیت ہی بیان کی جاسکتی ہے۔ صحیح احادیث میں اللہ تعالیٰ کے عرش کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ آسمانوں زمین، اور ان کے درمیان اور اوپر کی ہر چیز کو میط ہے، امام بخاری کے استاد نعیم حماد کا قول ہے کہ جس نے اللہ کو مخلوق کے ساتھ تشبیہہ دیا وہ کافر ہوگیا، اور جس نے کسی ایسی صفت کا انکار کیا جو اللہ نے اپنے لیے بیان کیا ہے وہ کافر ہوگیا، اور اللہ نے اپنے لیے جو صفت بیان کی ہے یا اس کے رسول نے بیان کیا ہے اس میں مخلوقات ساتھ مشابہت نہیں ہے اس لیے جس نے اللہ کے لیے ان صفات کو جن کا ذکر قرآنی آیات اور صحیح احادیث میں آیا ہے اسی طرح ثابت کی جس طرح اس کی ذات کے لائق ہے اور اس کی ذات کو تمام نقائص وعیوب سے پاک سمجھا تا وہ راہ راست پر باقی رہا۔ (40) یعنی رات کی تاریکی دن کی روشنی کے ذریعہ اور دن کی روشنی رات کی تاریکی کے ذریعے غائب ہوجاتے ہے، ہر ایک دوسرے کے پیچھے لگا ہوتا ہے کسی حال میں بھی دونوں کی رفتار میں تاخیر نہیں ہوتی۔ (41) اللہ تعالیٰ نے سورج چاند اور ستاروں کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ ان سے ہر ایک اللہ کی مرضی اور اس کے ارادہ کا پابند ہے، ایک بال کے برابر بھی اپنی مقررہ حرکات وسکنات سے روگردانی نہیں کرسکتا ہے، اسی لیے اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ بے شک اسی نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے، وہی سب کا مالک ہے، اور ہر چیز پر اسی کا حکم نافذ العمل ہے۔ الاعراف
55 (42) جب اللہ تعالیٰ قادر مطلق، خالق کائنات اور حکیم ہے تو اس کے بندوں کا یہ فرض ہے کہ صرف اسی کی عبادت کریں اور ظاہر وپوشیدہ ہر حال میں صرف اسی کو پکاریں اور اسی کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔ اس آیت کریمہ میں دعا کی دو شرطیں بیان کی گئی ہیں، ایک تو یہ کہ بندہ اپنے رب کے سامنے عاجزی اور انکساری کا اظہار کرے، حافظ سیوطی نے" الا کلیل "میں لکھا ہے کہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا عجزوانکساری ہے، حافظ بزارنے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عرفات کے میدان میں ہاتھ اٹھاکر دعا کرتے رہے، اور دوسری شرط یہ ہے کہ ریاکاری سے بچے بغیر آواز بلند کئے دعا کرے۔ صحیحین میں ابو موسیٰ اشعری (رض) سے مروی ہے کہ لوگ اونچی آواز سے دعا کرنے لگے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگو ! ذرا آہستگی اور نرمی سے کام لو، تم کسی گونگے بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو۔ جس ذات کو تم پکار رہے ہو وہ بڑی سننے والی اور قریب ہے حسن بصری کا قول ہے کہ پہلے مسلمان دعا کرنے میں خوب محنت کرتے تھے، اور ان کی آواز نہیں سنائی دیتی تھی، وہ لوگ خفیہ دعا کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اور زکریا (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا ہے : جب انہوں نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا' اس لیے اللہ تعالیٰ نے آیت کے آخر میں فرمایا کہ وہ حد سے تجاوز کروالوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔ الاعراف
56 (43) اللہ تعالیٰ نے زمین میں فساد پھیلانے سے منع کیا اور اگر وہ فساد زمین کی اصلاح کے بعد ہو تو بندوب کے لیے زیادنقصان دہ ہے،، اس لیے اللہ نے اس سے روکا ہے اور بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ زمین پر اللہ کے متوضع اور اصلاح پسندبندے بن کر رہیں، اسی کی عبادت کریں اور اس کے عقاب سے ڈرتے ہوئے اور جنت کی امید لیے صرف اسی کو پکاریں۔ الاعراف
57 (44) اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا خالق ہے ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے ہر حال میں اسی حکم نافذ العمل ہے جب یہ سب کچھ بیان کیا جا چکا اور بندوں کو نصیحت کی جاچکی ہے کہ وہ اسی ذات باری تعالیٰ کو پکاریں تو اب اس آیت میں بیان کیا جا رہا ہے کہ وہی ذات واحد روزی دینے والا ہے اور وہ قیامت کے دن مردوں کو اسی طرح زندہ کرے گا جس طرح بارش کے پانی کے ذریعہ مردہ زمین میں زندگی ڈالتا ہے، اور طرح طرح کے پھل اوپودے پیدا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جب بارش برسانا چاہتا ہے تو بادصاکو حکم دیتا ہے کہ وہ بادل کو حرکت میں لائے اور شمالی ہوا اسے جمع کرتی ہے، اور جنوبی ہوا کے زیر تاثیر بارش ہوتی ہے، اور ایک دوسرے ہوا اسے تقسیم کرتی ہے، اس بارش کے پانی سے اللہ تعالیٰ مختلف ملکوں میں مختلف پھل اور پودے پیدا کرتا ہے حالانکہ پانی ایک ہوتا ہے لیکن ہر زمین کی خاصیت اور ہر علاقے کی ضرورت کے مطابق پھلوں اور زراعتوں کی قسمیں بدلتی رہتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم قیامت کے دن مردوں کو بھی اسی طرح زندہ کریں گے۔ الاعراف
58 (45) جو زمین ذرخیز ہوتی ہے اسی میں اللہ کے حکم سے پودے اچھے اور نفع بخش نکلتے ہیں، اور جوخراب ہوتی ہے جیسے کالے پتھروں والی یا بنجر زمین اس میں اچھے پودو نہیں پیدا ہوتے اور جو پیدا ہوتے ہیں وہ نفع بخش نہیں ہوتے، ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مثال کے ذریعہ مومن و کافر کا حال بیان کیا ہے، قتادہ کہتے ہیں کہ مومن قرآن کریم سن کر اسے یاد کرتا ہے اور اس کے معانی کو اپنے دل میں جگہ دیتا ہے، اور اس سے مستفید ہوتا ہے اس زرخیز زمین کی مانند جس میں بارش ہونے بعد پودے اگتے ہیں، لیکن کافر کی حالت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ صحیحین میں ابو موسیٰ اشعری (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ ؛ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے جو ہدایت او علم دے کر بھیجا ہے اس کی مثال مو سلادھار بارش کی ہے، اچھی زمین اسے قبول کرلیتی ہے، پھر اس میں پودے اور بہت ساری سبزیاں اگتی ہیں، اور خشک اور سخت زمین پانی کو روک لیتی ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھا تے ہیں، پیتے ہیں جا نوروں کو سیراب کرتے ہیں، اور چیٹل اور تھلی زمین میں نہ پانی رکتا ہے، اور نہ کوئی گھاس اگتی ہے یہ مثال آدمی کی ہے جس نے اللہ کے دین کو سمجھ کر حاصل کیا اور اس چیز سے مستفید ہوا جو اللہ نے مجھے دے کر بھیجا چناچہ اس سے علم حاصل کیا اور دوسروں کو تعلیم دے اور یہ مثال اس آدمی کی ہے جس نے کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھایا اور نہ اس ہدایت کو قبول کیا جسے دے کر میں بھیجا گیا ہوں۔ الاعراف
59 (46) اس سورت کی ابتدا میں آدم (علیہ السلام) کا قصہ تفصیل کے ساتھ گذر چکا ہے، اب یہاں سے دیگر چھ مشہور انبیاء رسل کے قصے بیان کئے جا رہے ہیں، اور وہ نو ح، ہود، صالح، لوط، شعیب، اور موسیٰ علیہم السلام ہیں، اس سے مقصود یہ ہے کہ کفار قریش کو مختلف انداز میں اللہ کی طرف ملایا جائے انہیں بتایا جائے کہ جس طرح گذشتہ انبیاء کرام آئے تو جن لوگوں نے ان کی دعوت کو قبول کیا اللہ نے انہیں نجات دی اور کافروں کو ہلاک کردیا اگر تم بھی ایمان لاؤ تے تو اللہ کی جانب سے عزت واکرام کے مستحق بنو گے ورنہ تمہیں بھی ہلاک کردیا جائے گا اور اللہ تمہاری پرواہ نہیں کرے گا۔ ان وقعاے کے بیان کرنے کا ایک دوسرافائدہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تصدیق ہے، وہ اس طرح کہ وہ اللہ کی نبی ہیں جبھی تو اللہ نے انہیں بذریعہ وحی باتیں بتائی ہیں ورنہ انہیں کہاں سے ان باتوں کی خبر ہوتی، مندرجہ ذیل آیتوں میں نوح (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ عبد اللہ بن عباس اور دیگر تفسیر سے مروی ہے کہ نوح (علیہ السلام) کی بعت سے پہلے جب ؛ کوئی نیک آدمی مرجا تا تو لوگ اس قبر پر مسجد بنا دیتے اور اس کی تصویر اس لٹکا دیتے، پھر مرور زمانہ کے ساتھ لوگ ان بزرگوں کے مجسمے بنا کر ان کی پوجا کرنے لگتے، اور جب ان کا شرک حد سے آگے بڑھ گیا، تو اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو بھیجا تاکہ پھر سے انہیں ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دیں، چنا چہ جب انہوں اپنی دعوت کا اعلان کیا تو ان کی قوم کے سرداروں نے انہیں سخت گمراہ قرار دیا، حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ہر دور میں فاسقوں اور فاجروں کا یہی حال رہا ہے کہ وہ نیک لوگوں کو بے وقوف اور گمراہ سمجھتے رہے ہیں۔ نوح (علیہ السلام) نے کہا کہ میں گمراہ نہیں بلکہ اللہ کا رسول ہوں اور تمہیں اس کا پیغام پہنچا رہا ہوں اور میں تمہارے لیے مخلص ہوں اور اللہ کی جانب سے میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جاتنے۔ لیکن ان کی قوم ان کی تکذیب ومخالفت میں تیز تر ہوتی گئی، تو اللہ نے انہیں اور ان کی مومن ساتھیوں کو پچالیا اور ان کے دشمنوں کو طوفان کے ذریعہ ہلاک کردیا۔ الاعراف
60 الاعراف
61 الاعراف
62 الاعراف
63 الاعراف
64 الاعراف
65 (47) آیت (65) سے (72) تک ہود (علیہ السلام) اور ان کی قوم (قوم عاد) کا قصہ بیان کیا گیا ہے، یہ لوگ عاد بن ارم بن عوص، بن سام بن نوح کی اولاد سے تھے، زبر دست جسمانی قوت کے مالک تھے اور بتوں کی پوجا کرتے تھے، ان کا مسکن عمان اور حضرموت کے درمیان ریگستانی علاقہ تھام ہود (علیہ السلام) اسی قوم کے ایک شریف خاندان سے تھے، جنہیں اللہ نے ان کی ہدایت کے لیے نبی بنا کر بھیجا تھا لیکن جس طرح وہ لوگ جسمانی طور پر بڑے سخت لوگ تھے، اسی طرح ان کے دل بھی بہت سخت تھے، انہوں نے ہود (علیہ السلام) کو احمق اور بے وقوف قرار دیا، اور جھوٹابتایا، اور ہزار کو ششوں کے باوجود راہ راست پر نہ آئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کردیا، قرآن کریم میں کئی جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ نے انہیں طوفانی ہوا کے ذریعہ ہلاک کیا تھا جو آٹھ دن اور سات رات تک مسلسل چلتی رہی تھی۔ الاعراف
66 الاعراف
67 الاعراف
68 الاعراف
69 الاعراف
70 الاعراف
71 الاعراف
72 الاعراف
73 (48) آیت (73) سے (79) تک صالح (علیہ السلام) اور ان کی قوم (قوم ثمود) کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، ثمود عربوں کا ایک قبیلہ تھا، یہ لوگ ثمود بن عامر بن ارم بن سام بن نوح (علیہ السلام) کی اولاد سے تھے، ان کا زمانہ ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے اور قوم عاد کے بعد تھا ان کا مسکن حجاز اور شام کے درمیان وادی قری اور اس کے ارد گرد تھا اور بہت ہی طاقت ور لوگ تھے م اپنی جسمانی طاقت اور قوت بازو کے زور سے پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر اپنے مکانات بنایا کرتے تھے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 9 ھ میں تبوک جاتے ہوئے ان کی بستیوں سے گذرے تھے جنہیں مدائن صالح کہا جاتا ہے۔ صحیحین اور مسند احمد اعبد اللہ بن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بتوک جاتے ہوئے قوم ثمود کے گھروں کے پاس رکے تو لوگوں نے ان کے کنوؤں کا پانی پیا، اور آٹا گوندھ کر کھا نہا پکانے لگے، لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں حکم دیا کہ اپنی ہانڈ یاں انڈیل دیں اور گوند ھا ہو آٹا اونٹوں کھلا دیں، پھر وہاں سے چل کر اس کنواں کے پاس آئے، جس سے صالح (علیہ السلام) کی انٹنی پیتی تھی، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ؛ لو گو کو قوم ثمود کے گھروں میں داخل ہونے سے منع فرمایا، اور کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں تمہیں وہ عذاب اپنی گرفت میں نہ لے لے۔ صالح (علیہ السلام) اسی قوم کے ایک شریف خاندان سے تھے، اللہ نے انہیں اس قوم کی ہدایت کے لیے نبی بناکر بھیجا تھا، انہوں نے اپنی قوم کو تمام انبیاء کی طرح توحید کی دعوت دی، لیکن بہت کم اور کمزرور لوگوں نے ان کی بات مانی جب صالح (علیہ السلام) نے انہیں مزید ڈرایا اور اللہ کا خوف دلا یا تو انہوں نے ایک نشانی کا مطالبہ کی، اور کہا کہ وہ نشانی ایک اونٹنی ہو جو پہاڑ سے نکل کر سامنے آجائے چنانچہ ایسا ہی ہوا لیکن پھر بھی بہت ہی کم لوگ ایمان لائے اور اکثر وبیشتر تمرد اور سر کشی کی راہ اختیار کی اور اس اونٹنی کو قتل کردیاتو صالح (علیہ السلام) نے کہا کہ اب تم لوگ اللہ کے عذاب کا انتظار کرو، اللہ نے انہیں بدھ، جمعرات اور جمعہ تین دن کی مہتلت دی، جیسا کہ سورۃ ہود کی آیت (65) میں آیا ہے : پس صالح نے کہا کہ تم لوگ تین دن تک اپنے گھروں میں فائدہ اٹھا لو، اور سنیچر کے دن صبح کے وقت ایک عظیم فرشتہ نے ان کے درمیان ایسی چیخ ماری کہ ان کے دل اور ان روحیں ہل گئیں اور سب کے سب مرگئے اس کے بعد صالح علیہ السلا نے لاشوں کے درمیان کھڑا ہو کر کہا کہ اے میری قوم ! میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا اور تمہاری خیر خواہی کوئی کمی نہیں کی تھی لیکن تم لوگوں نے اپنے خیر خواہی کو کبھی بھی پسند نہیں کیا پھر وہاں سے چلے گئے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ بدر کے بعد مقتولین قریش کے سامنے جب کی لاشیں کنویں میں ڈال دی گئی تھیں ایسا ہی کہا تھا، اور عمر بن خطاب (رض) کے حیرت واستعجاب پر کہا تھا اللہ کی قسم وہ تم سے زیادہ اچھی طرح سن رہے ہیں، لیکن جواب نہیں دے سکتے۔ الاعراف
74 الاعراف
75 الاعراف
76 الاعراف
77 الاعراف
78 الاعراف
79 الاعراف
80 (49) آیت (80 سے (84) تک لوط (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ لوط (علیہ السلام) ہا رون بن آزر کے بیٹے اور ابرہیم (علیہ السلام) کے بھتیجا تھے، ان پر ایمان لانے کے بعد ہجرت کر کے ان کے ساتھ شام چلے گئے تھے، لیکن بعد میں وادی اردن کی بستی، "سدوم" میں سکونت اختیار کرلی تھی، اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی بستی والوں کے لیے نبی بناکر بھیجا تھا، کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد چالیس لاکھ تھی، اور کفر وشرک کے علا وہ لواطت جیسی خبیث ترین اخلاقی بیماری میں مبتلا تھے جو بیماری ان سے پہلے دنیا میں نہیں پائی گئی تھی، عمرو بن دینا کہتے ہیں کہ قوم لوط سے پہلے دنیا میں کسی مرد نے مرد کے ساتھ اپنی خواہش پوری نہیں کی تھی۔ خلیفہ اموی ولید بن عبدلملک بانی جامع ومشق کا قول ہے کہ اگر اللہ نے قوم لوط کا واقعہ بیان کیا ہوتا تو میں گمان بھی نہیں کرسکتا تھا کہ کوئی مرد کسی مرد سے اپنی خواہش پوری کرتا ہے، لوط (علیہ السلام) نے انہیں توحید کی دعوت دی اور اس مہلک اخلاقی مرض سے بھی نجات دلانے کی کو شش کی، لیکن انہوں نے ان کی ایک نہ سنی اور ان کا مذاق اڑایا اور اپنے خبث ظاہر و باطن پر اصرار کی اور لوط (علیہ السلام) کو اس بستی پر آگ کی بارش سے نکال دینے کی دھمکی دی ،، تو اللہ تعالیٰ کا عذاب ان پر واجب ہوگیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سدوم اور عمورہ بستیوں پر آگ کی بارش کردی اور پھر انہیں الٹ دیا، اور اس طرح تمام کے تمام لوگ ہلاک ہو گے ناسی جگہ کو آج کل بحرمیت کہا جاتا ہے، صرف لوط (علیہ السلام) اور ان کے ساتھ چند مومن بچ گئے جو اللہ کے حکم سے پہلے ہی اس بستی سے نکل گئے تھے۔ اسلام کی نظر میں لواطت ایک بہت ہی بڑا گناہ ہے، حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں گنا ہوں میں سے صرف شری، زنا، اور لواطت کو نجس اور خبیث سے تعبیر کیا ہے ک، ایک دوسری جگہ لکھا ہے کہ زنا اور لواطت کی نجاست دوسری نجاستوں سے بڑھ کر ہے، انتہی، لوط کی دنیاوی سزا کے بارے میں احمد، ابو داؤد، ترمذی، ابن ما جہ حاکم اور بیہقی وغیر ہم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اگر تم لوگ کسی کو لواطت کرتے پاؤ تو فاعل اومفعول دونوں کو قتل کر دو، ابن القصارکا قول ہے، صحابہ کرام کا اجماع ہے کہ لوطی کو قتل کردیا جائے گا، ان کے درمیان صرف قتل کی کیفیت میں اختلاف رہا ہے، امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ لوطی کو پہاڑ سے نیچے گرا دیا جائے گا، اس کے بعد اس پر پتھروں کی بارش کردی جائے گی، امام شافعی کا ایک قول ہے کہ اسے رجم کردیا جائے گا، چاہے شادہ شدہ ہو یا غیر شادہ شدہ، بعض دوسروں نے کہا ہے کہ اس کا حکم زانی کا حکم ہے، یعنی اگر شادی شدہ ہوگا تو رجم کردیا جائے گا ورنہ سو (100) کوڑے لگائیں جائیں۔ عورتوں کے "دبر"میں خواہش پوری کرنا بھی لواطت کی ایک قسم ہے اور یہ فعل تمام علماء کے نزیک حرام ہے۔ الاعراف
81 الاعراف
82 الاعراف
83 الاعراف
84 الاعراف
85 (50) آیت (85) سے (93) تک شعیب (علیہ السلام) اور ان لوگوں کا واقعہ مذکور ہے جن کی طرف اللہ نے انہیں نبی بنا کر بھیجا تھا، مدین قبیلہ کا نام تھا جس کی نسبت مدین ابراہیم خلیل کی طرف تھی، اور شعیب (علیہ السلام) اسی قبیلہ کے ایک فرد تھے م ان کے والد کا نام میکیل بن یشجر بن مدین تھا، ان شہر حجاز کے راستہ میں "معان"کے قریب واقع تھا۔ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں، کہ انہی کو قرآن نے اصحاب ایکہ بھی کہا ہے لیکن عکرمہ اور سدی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے شیعب (علیہ السلام) کو دو قوموں کو طرف بھیجا تھا، اصحاب مدین کی طرف جنہیں اللہ نے چیخ کے ذریعے ہلا کردیا اور دوبارہ اصحاب ایکہ کی طرف جنہیں ایک بادل کے ذریعے ہلا کیا جس میں آگ کے شرارے تھے۔ شعیب (علیہ السلام) کی قوم شرک باللہ کے علاوہ دوسری سماجی گھناونی بیماریوں میں مبتلا تھی یہ لوگ ناپ تول میں کمی پیشی کرتے تھے، راستے میں لوگوں کو ڈرادھمکار ان کا مال چھیل لیتے تھے، ان سے جبری طور پر ٹیکس وصول کرتے تھے، اور جو لوگ شعیب (علیہ السلام) کی باتیں سننے کے لیے آنا چاہتے تھے انہیں راستے میں روک کر طرح طرح سے بہکا تے تھے۔ شعیب (علیہ السلام) انہیں توحید کی طرف بلایا اور شرک سے ڈرایا، اور جو دوسری اخلاقی اور اجتماعی بیماریاں ان میں پائی جاتی تھیں ان کی برائی بیان کر کے ان سے باز آجا نے کی ترغیب دلائی اور انہیں اللہ کی یہ نعمت یاد لائی کہ ان کی تعداد بہت کم تھی، تو اللہ نے ان کی نسل میں برکت دی اور وہ کثیر تعداد میں ہوگئے۔ الاعراف
86 الاعراف
87 الاعراف
88 (51) شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے ان کی دعوت توحید و اصلاح قبول کرنے سے انکار کردیا، اور انہیں اور مسلمانوں کی شہر بدر کردینے کی دھمکی دی، تو انہوں نے ان کی طرف سے ناامید ہو کر اللہ سے دعا سے دعا کی اے اللہ ! تو ہمارے اور ان کے درمیان اب فیصلہ کردے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کرنے کے لیے ایک ایسی بارش بھیجی جس میں آگ کے شرارے تھے، اور اس کے ساتھ آسمان سے ایک جیخ اٹھی، اور ان کے قدموں تلے زمین ہلنے لگی، اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی روحیں پر واز ہوگئیں اور ان کے جسم ڈھیر ہوگئی، اور ایسے ہوگئی جیسے وہاں پہلے ان کا وجود بھی نہیں تھا، جبکہ پہلے استکبار میں آکر اسی سرزمین سے انہوں نے شعیب اور مسلمانوں کو نکالنے کی دھمکی دی تھی، عذاب آجانے اور ان سب کے ہلاک ہوجا نے کے بعد جب شعیب (علیہ السلام) وہاں سے گذرے تو ان کی لاشوں کو مخاطب کر کے کہا کہ اے میری قوم ! میں تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا، اور تمہاری ساتھ خیر خواہی کا جو تقاضا تھا وہ پورا کردیا تھا، لیکن تم نے کفر کی ہی راہ اختیار کی، اس لیے اب مجھے تمہارا یہ انجام دیکھ کر کوئی افسوس نہیں ہے، اور شعیب (علیہ السلام) کا ان مردوں سے یہ خطاب ویسا ہی تھا جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنگ بدر میں کفار قریش کے مقتولین کو خطاب کر کے کہا تھا، جب لاشوں کو ایک کنواں میں ڈال دیا گیا تھا، اور عمر بن خطاب (رض) سے کہا تھا کہ یہ لوگ تم سے زیادہ سن رہے ہیں، لیکن جواب نہیں دے سکتے ہیں۔ الاعراف
89 الاعراف
90 الاعراف
91 الاعراف
92 الاعراف
93 الاعراف
94 (52) پانچ انبیاء کرام اور ان کی امتوں کے واقعات اور انجام کار بیان کرنے کے بعد یہاں اللہ تعالیٰ نے گذشتہ قوموں کا مجموعی احوال واقعی بیان کیا ہے کہ جب بھی اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کی ہدایت کے لیے کسی نبی کو بھیجا، اور انہوں نے اس کی تکذیب کی اور شرک وگمراہی پر اصرار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں کلی طور پر ہلاک کرنے سے پہلے محتاجی، تبگدستی اور بیماری وغیرہ میں مبتلا کیا، کہ اللہ کی طرف رجوع کریں، لیکن جب وہ اپنے کفر وشرک پر مصر رہے تو اللہ نے ان کی تنگدستی کو فراخی رزق اور بیماری ومصیبت کو عافیت صحت مندی میں بدل دیا، پھر ان کا حال یہ ہوگیا کہ نعمت کی فراوانی نے ان کی آنکھوں پر پٹی اور ان کے دلوں پر مہر لگا دی، اور کہنے لگے یہ کوئی اللہ کی جانب سے آزمائش نہیں بلکہ دستور زمانہ ہے کہ لوگوں کو حالات ایک جیسے نہیں رہتے، ہمارے آباء اجداد کو پر یشانی لاحق ہوئی لیکن وہ اپنے دین پر قائم رہے، اب ہمیں آسانیاں میسر ہوئی ہیں، تو ہم بھی انہی کی طرح اپنے ذہن پر قائم رہیں گے، چنانچہ ان کا کفر واستکبار اور بھی بڑھتا گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اچانک ہلاک کردیا، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ آیت میں کافروں اور اللہ سے غافل لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ لیکن مومنوں کا حال اس کے بر عکس ہوتا ہے، وہ نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، اور جب کوئی مصیبت آتی ہے تو اس صبر کرتے ہیں، جیسا کہ مسلم میں روایت ہے کہ مومن کا معاملہ عجیب ہے، اس کی ہر بات خیر لیے ہوئے ہو، اور یہ مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے، اگر اسے خوشی ملتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے، اور یہ اس کے لیے بہتر ہے، اور اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور یہ اس کے لیے بہتر ہے۔ الاعراف
95 الاعراف
96 (53) مندر جہ ذیل چار آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان ہلاک کی جانے والی قوموں کی قلت ایمانی کا حال بیان کیا ہے کہ وہ لوگ ایمان وتقوی سے عاری تھے، اگر وہ اپنے زمانے کے انبیاء پر ایمان لائے ہوتے اور محرمات سے اجتناب اور اعمال صالحہ کا لتزام کیا ہوتا تو اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین سے اپنی برکتوں کے دوروازے ان کے لیے کھول دیتا، لیکن انہوں نے رسولوں کی تکذیب کی تو اللہ نے ان کے کفر ومعاصی کی وجہ سے انہیں پکڑلیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو اپنے اوامر کی مخالفت پر ڈراتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کا عذاب تو کسی وقت بھی آسکتا ہے، اللہ کی گرفت کا خوف وہ لوگ اپنے دلوں سے نکال دیتے ہیں جو عقل سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔ حسن بصری کا قول ہے کہ مومن نیکیاں کرتا رہتا ہے اور اللہ سے خائف رہتا ہے، اور فاجر انسان گناہ کرتا رہتا ہے اور پھر بھی اپنے آپ کو مامون سمجھتا ہے۔ الاعراف
97 الاعراف
98 الاعراف
99 الاعراف
100 54۔ آیت کریمہ میں بنی نوع انسان کے لیے ایک بری نتبیہ ہے کہ اس دنیا میں اللہ کے عذاب سے ہمیشہ ڈرتے رہنا چایئے اور ان قوموں کے انجام بد سے عبرت حاصل کرنا چاہیئے جو پہلے گذر چکی ہیں۔ کہ جس طرح اللہ نے ان کے گنا ہوں کی وجہ سے انہیں گرفت میں لے لیا، اسی طرح ممکن ہے ان لوگوں کو بھی اللہ ان کے گناہ کی وجہ سے پکڑلے اور ان کے دلوں پر، مہر لگا دے جو ان ہلاک کی گئی قوموں کے بعد آئے ہیں، اور اسی سرزمین پر انہی کی طرح گناہ بھی کر رہے ہیں جس پر گذشتہ قومیں آباد تھیں۔ الاعراف
101 (55) ذیل کی دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کہا ہے کہ ہم نے ابھی آپ کو پانچ انبیاء کرام اور ان کی امتوں کے وقعات اور ان کے انجام مہائے بد سنائے ہیں تاکہ آپ کی قوم عبرت حاصل کرے اور ایمان لے آئے اور تاکہ آپ کو تسلی ہو کہ مشر کین کی جانب سے آپ کو جو تکلیف پہنچ رہی ہے، وہ آپ ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ گذشتہ زمانوں میں دیگر انبیاء کو بھی ایسی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دوبارہ ان ہلاک شدہ قوموں کی بعض برائیوں کو بیان کیا ہے کہ حق کی تکذیب ان کا شیوہ بن گیا تھام، جب حق آیا تو انہوں نے اسے جھٹلا نا اور ازل میں انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اس کی خلاف ورزی کرنا ان کی عادت بن گئی تھی، اور اللہ تعالیٰ کے سرکش ونافرمان بندے ہوگئے تھے، اسی لیے اللہ نے انہیں ہلاک کردیا۔ الاعراف
102 الاعراف
103 (56) اس آیت کریمہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون اور قوم فرعون کی ہدایت کے لیے نشانیاں دے کر مبعوث کیا، لیکن انہوں نے ان نشانیوں کا انکار کردیا، اور اپنے کفرو استکبار پر اڑے رہے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں سمندر میں ڈبو دیا، اس لیے اللہ نے فرمایا کہ اے محمد ! آپ دیکھ لیجئے کہ زمین میں کفر وشرک کے ذریعہ فساد پھیلانے والوں کا انجام کیسا ہوتا ہے ؟ الاعراف
104 (57) موسیٰ (علیہ السلام) اپنی دعوت لے کر فرعون کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ میں اللہ کا بھیجا ہو ارسول ہوں، اور میں تمہیں اللہ کی طرف سے حق بات بتانے آیا ہوں، اور اپنی صداقت کی نشانی لے کر آیا ہوں قرآن کریم کی دیگر آیات بتابی ہیں کہ اس موقع موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان مکا لمہ ہوا فرعون نے کہا ہے اے موسیٰ تم دونوں کا رب کون ہے ؟ اور موسیٰ (علیہ السلام) کا جواب سننے کے بعد دوبارہ کہا کہ رب العالمین کون ہوتا ہے ؟ الخ، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے یہ بھی کہا کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ ان کے وطن واپس جانے دو، فرعون نے انہیں اپنا غلام بنا رکھا تھا اور وہاں سے نکلنے سے روک رکھا تھا۔ فرعون نے کہا کہ اگر تم سچے ہو تو جس نشانی کا ابھی ذکر کیا ہے اسے دکھاؤ، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دے جو ایک عطیم ومہیب سانپ میں بد گئی، اور اپنا ہاتھ اپنی جیب یا بغل کے نیچے سے نکا لا تو سفید وشفاف بن گیا، اور اس سے خوبصور روشنی پھوٹ کر نکلنے لگی جسے ہر آدمی دیکھنے لگا۔ الاعراف
105 الاعراف
106 الاعراف
107 الاعراف
108 الاعراف
109 (58) جب قوم فرعون کے سرادروں نے لا ٹھی کو سانپ کی شکل میں، اور ہاتھ کو بغیر کسی بیماری کے سفید زشفاف دیکھ لیا، تو کہنے لگے کہ یہ تو کوئی بہت بڑا جادو گر ہے (جادو اس لیے کہا تاکہ عوام کے دل و دماغ پر ان معجزات کا اثر نہ ہو) یہ تو تمہیں ملک مصر سے اپنے جادو کے ذریعہ نکالر خود اس پر قابض ہونا چاہتا ہے، سورۃ شعراء میں آیا ہے کہ یہ بات فرعون نے کہی تھی، شوکانی کہتے ہیں کہ یہ بات سب نے کہی تھی، اس لیے کوئی تعارض نہیں ہے۔ اس کے بعد فرعون سے کہا کہ موسیٰ اس کے بھائی ہارون کو بند کر دیجئے، اور لوگوں کو پورے ملک میں بھیج کر ماہر جادو گروں کو جمع کیجئے، اس زمانے میں سرزمین مصر میں جا دو کا بہت زیادہ چرچا تھا، اور جادو گروں کی بڑی اہمیت تھی، اسی لیے ان لوگوں نے سمجھا کہ موسیٰ کا کارنامہ بھی جا دو کے قبیل سے ہے، اور بڑے جادوگر ہی اس کی کاٹ کرسکتے ہیں، چناچہ ملک کے تمام جادو گر جمع ہوگئے اور فرعون سے یہ شرط کرائی کہ اگر وہ موسیٰ پر غالب آجائیں گے تو انہیں اس کا مناسب انعام ملے گا، فرعون نے کہا کہ ہاں اگر وہ غالب آگئے تو وہ درباریوں اور معزز لوگوں میں داخل کرلیے جائیں گے۔ الاعراف
110 الاعراف
111 الاعراف
112 الاعراف
113 الاعراف
114 الاعراف
115 (59) جادو گروں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اختیار دیا کہ چاہو تو تم ہی پہلے اپنا کار دکھاؤ، یا ہم اپنا کام دکھائیں گو یا انہیں اپنے اوپر بھر اعتماد تھا کہ غلبہ انہی کو حاصل ہوگا، چاہے بعد میں ہی اپنا کرتب دکھلائیں، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ پہلے تم ہی لوگ اپنی قوت کا مظاہرہ کرو، اور اس میں حکمت یہ تھی کہ جب لوگ ان کے کار نامون کو دیکھ لیں گے یا پھر معجزہ الیی کا ظہور ہوگا، اور اپنی، پوری قوت کے ساتھ دیکھنے والوں کے دل ودماغ پر اثر ڈالے گا، بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس میں ایک قسم کی دھمکی تھی کہ ہاں پہلے تم ہی اپنی جادو گری دکھلاؤ پھر دیکھ لو گے کہ کیسی ذلت کا تمہیں سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ جادو معجزہ پر کبھی بھی غالب نہیں آسکتا چنانچہ انہوں نے لوگوں کی آنکھوں کو مسحور کردیا، لوگ سمجھنے لگے کہ واقعی ان کے سامنے سانپ دوڑ رہا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ طہ آیات (66۔69) میں فرمایا ہے : یعنی موسیٰ کو یہ خیال گذرنے لگا کہ ان کی رسیاں اور لکڑیاں ان کے جادو کے زور سے دوڑ بھاگ رہی ہیں۔ چنانچہ موسیٰ اپنے دل ہی دل میں ڈرنے لگے ہم نے کہا کچھ خوف نہ کر، یقینا تو ہی غالب اور برتر رہے گا، تیرے دائیں ہاتھ میں جو لاٹھی ہے اسے زمین پر ڈال دے تاکہ وہ ان کی تمام کاریگری کو نگل جائے، انہوں نے جو کچھ بتایا ہے یہ جادو گروں کے کرتب ہیں، اور جادوگر کہیں بھی جائے کامیاب نہیں ہوتا۔ الاعراف
116 الاعراف
117 (60) اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے موسیٰ (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی حکم دیا اب تمہارے دائیں ہاتھ میں جو لاٹھی ہے اسے ڈال دو، انہوں نے ایسا ہی کیا، اور وہ لاٹھی جادو گروں کے تمام جھوٹے سانپوں کو نگلنے لگی یہ دیکھ کر فرعوب، اس کے کارکنان اور اس قوم کے لوگ ذلیل ورسوا اپنے گھروں کو لوٹنے لگے اور جادوگر کہتے ہوئے سجدہ میں گر گئے۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ وہ لاٹھی ان کی رسیوں اور لکڑیوں کو نگلتی چلی گئی، یہ منظر دیکھ کر جا دوگر سمجھ گئے کہ یہ آسمانی معجزہ ہے، کوئی جادو نہیں، چنانچہ تمام جادو گر اللہ کے لیے سجدہ میں گر گئے، اور پکار اٹھے کہ ہم رب العالمین پر ایمان لے آئے جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے، علمائے تفسیر لکھتے ہیں کہ انہوں نے رب موسیٰ وھارون کی قید اس لیے لگائی تاکہ فرعون کو اپنا معبود سمجھنے والے یہ نہ گمان کریں کہ انہوں نے فرعون کے لے سجدہ کیا ہے۔ الاعراف
118 الاعراف
119 الاعراف
120 الاعراف
121 الاعراف
122 الاعراف
123 (61) جب حق واضح ہوگیا اور تمام جادوگر موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے تو فرعون نے اپنی ذلت ورسوائی پر پردہ ڈالنے کے لیے کہا کہ تم لوگ میری اجازت کے بغیر موسیٰ پر ایمان لے آئے ہو، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم یہاں آنے سے پہلے موسیٰ کے ساتھ مل گئے تھے، اور ایک رچی رچاءی سازش کے مطابق یہاں آئے ہو کہ پہلے تم لوگ موسیٰ کے خلاف بظاہر اپنی تیزی دکھاؤ گے، اور پھر اس کے سامنے جھک جاؤ گے، تاکہ تم سب مل کر قبیطوں کو یہاں سے نکال دو اور ان کی جگہ تم لے لو، موسیٰ تمہارا بادشاہ بن جائے اور تم لوگ اس کے ساتھ رہنے لگو تو عنقریب تم لوگ اپنے انجام کو پہنچ جاؤ گے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ بھی فرعون کی سازش تھی، اس لیے کہ موسیٰ (علیہ السلام) تو مدین سے آتے ہی فرعون کے پاس پہنچے تھے اور اپنی دعوت پیش کی تھی اور اس کے مطالبہ پر معجزات پیش کیا تھا، انہیں جادو گروں سے ملنے کا کب موقع ملا تھا ،؟ اور جادوگر تو مختلف علاقوں سے جمع کئے گئے تھے، اور ان کی بھر پور خواہش تھی کہ وہ غالب آجاتے، موسیٰ (علیہ السلام) ان میں سے کسی کو بھی نہیں جانتے تھے اور فرعون سب کچھ جانتا تھا لیکن اس نے اپنی رعایا کو بیوقوف بنانا چاہا جیسا کہ اللہ نے سورۃ زخرف کی آیت (54) فرمایا ہے : فرعون نے اپنی قوم کو بہلایا اور پھسلا یا اور پھسلا یا تو انہوں نے اس کی بات مان لی، اور اس قوم سے برھ کر جاہل اور گمراہ کون ہوسکتا ہے جس سے فرعون جن کہ میں تمہارا اب سب سے بڑا رب ہوں، تو اس کی بات مان لی؟! الاعراف
124 (62) اوپر فرعون نے جا دو گروں کو جو دھمکی دی تھی، اسی کی تفصیل ہے۔ الاعراف
125 (63) یعنی اگر آج تم ہمارے ساتھ ایسا معاملہ کروگے، تو اللہ تمہیں نہیں چھوڑے تا، تمہارے کرتوت کا بدلہ تمہیں ضرور دے گا، اور ہمیں اس کی راہ میں جو تکلیف پہنچے گی اس کے بدلے میں ہم پر احسام کرے گا مفسرین لکھتے ہیں کہ فرعون نے انہیں عذاب دنیا کی دھمکی دی تو انہوں نے اسے عذاب آخرت کی دھمکی دی۔ الاعراف
126 (64) یعنی تمہارے نزدیک ہمارا عیب ہے، وہی سب سے بڑی خوبی ہے، اس کے بعد جادوگروں نے اپنے لیے ثابت قدمی اور خاتمہ بالخیر کی دعا کی اور فرعون سے کہا : یعنی اب تو جو کچھ کرنے والا ہے کر گزر، تیرا حکم صرف اسی دنیاوی زندگی میں چلے گا، ہم تو اس امید میں اپنے پروردگار پر ایمان لائے ہیں کہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے گا، اور جو کچھ ہم سے زبر دستی کرا یا ہے وہ تو جادو ہے اور اللہ ہی بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہ، (طہ :72/73) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں ( اللہ کی مشیت دیکھئے کہ) صبح کو وہ لوگ جادوگر تھے، اور دشام کو اللہ کے نیک اور شہید بندے بن گئے۔ الاعراف
127 (65) موسیٰ (علیہ السلام) کی کا میابی اور جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بنی اسرائیں کے چھ لاکھ آدمی موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے حالات کے اس انقلاب نے فرعون اور اس کے درباریوں کو ہلا دیا، اسی لیے درباریوں نے فرعون کو موسیٰ (علیہ السلام) اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا، اور کہاہ کہ اگر انہیں اسی طرح آزاد چھوڑ دیا گیا، تو یہ لوگ آپ کی رعایا کو خراب کریں گے، اور ملک میں فساد بر پا کریں گے اور آپ کے معبودوں کو چھوڑ کر موسیٰ کے رب کی عبادت کی دعوت دیں گے۔ حسن بصری کہتے ہیں کہ فرعون کا ایک معبود تھا جس کہ وہ چھپ کر عبادت کیا کرتا تھا، فرعون نے ان کی بات مان کر کہا کہ ہم ان کے لڑکوں قتل کردیں گے اور ان کی عورتوں کو اپنی خدمت کے لیے زندہ رکھیں گے، نبی اسرائیل کو فرعونیوں کے ہاتھوں دو مرتبہ قتل اور موت کا سامنا کرنا پڑا پہلی بار موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے قبل جب فرعون نے حکم دے دیا تھا کہ بن اسرائیل میں پیدا ہونے والا ہر بچہ قتل کردیا جائے گا تاکہ وہ جود میں نہ آسکے جس کے ہوتھو نجومیوں کی اطلاع کے مطابق فرعون کی بادشاہت کا خاتمہ ہونا تھا، لیکن موسیٰ پیدا ہوئے اور اللہ نے ان کی حفاظت کی اور فرعون کی چال دھری کی دھری رہ گئی، اور دوسری باراب جبکہ اسے اور اس کی بادشاہت کو دوبارہ وہی خطرہ ہو اجو پہلے لا حق ہو اتھا، اس لیے اس نے بنی اسرائیل کو بچوں کو قتل کردینے کا حکم جاری کردیا، لیکن اس بار اللہ نے بنی اسرائیل کو عزت دی اور اسے اور اس کی فوج کی ذلیل کر کے سمندر میں ڈبو دیا۔ الاعراف
128 (66) جب فرعون نے بن اسرائیل کے بچوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا فیصلہ کرلیا ؛ اور موسیٰ (علیہ السلام) کو اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے اپی قوم کو اللہ کی کی طرف رجوع کرنے، اس سے مدد مانگے اور اسی پر بھروسہ کرنے اور صبر کرنے کی نصیحت کی، اس لیے کہ ہر حال میں مومن کا لگاؤ اللہ سے ہوتا ہے اس کا یقین کامل ہوتا ہے کہ جس کا معین ومدد گار اللہ ہوتا ہے، اس کا کوئی بال بیکار نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو اشارہ کے ذریعہ بشارت دی کہ بالآ خر غلبہ تمہیں ہی حاصل ہوگا، اور زمین کے سردار آل فرعون نہیں بلکہ تم ہو گے، اس لیے کہ زمین کا مالک اللہ ہے، وہ جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا تا ہے۔ الاعراف
129 (67) بن اسرا ئیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اس سرزمین پر ہم تو پریشان ہی رہے ہیں آپ کی ولادت سے پہلے ہمارے بچوں کو اس لیے قتل کیا گیا کہ کہیں موسیٰ نہ پیدا ہوجائے جس کے ہاتھوں فرعون کی مملکت کا خاتمہ ہونا تھا، اور اب جب آپ نبی مرسل بن کر آئے ہیں تب بھی ہمارے بچوں کو قتل کیا جا رہا ہے، تاکہ ہمارا وجود ہی ختم کردیا جائے، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے پہلے جس بشارت کی طرف اشارہ کیا تھا، اس کی صراحت کردی کہ اللہ تعالیٰ عنقریب ہی تمہارے دشمنوں کو ہلاک کرے گا، اور تمہیں زمین کی سیادت عطا کرے گا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس وعدے کو سچ کر دکھا یا، داؤد وسلیمان مصر کے بادشاہ ہوئے، اور یوشع بن نون کی قیادت میں بیت المقدس فتح ہوا اور اللہ نے فرعون اور اس کی قوم کو سمندر میں ڈبو دیا، اور اسرائیلیوں کو انب سے نجات دلائی۔ الاعراف
130 (68) جادوگروں نے شکست کھاجانے ت اور ان کے ایمان لے آنے کے بعد فرعون کے لیے یہ بات آفتاب کی طرف واضح ہوچکی تھی کہ موسیٰ اللہ کے نبی ہیں، اور دنیا وآخرت کی بھلائی اسی میں تھی کہ ان پر ایمان لے آتا، لیکن غرور ونخوت اور جھوٹی معبود دیت کے زعم میں کفر وعناد پر مصر رہا، تو اللہ تعالیٰ نے پہلے اسے اور اس کی قوم کو قحط سالی میں مبتلا کیا کہ اب بھی شاید تو بہ کی توفیق ہوجائے، لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں خوشحالی اور امن وعافیت کی کڑی آزمائش میں مبتلا کیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے استکبار میں آگے ہی بڑھتے گئے، جب قحط سالی آئی تو کہنے لگے کہ یہ سب موسیٰ اور بنی اسرائیل کی وجہ سے ہو رہا ہے اور جب خوشحالی آئی تو کہنے لگے کہ ہم تو اس کے حقدار ہیں ہی، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ تمام امور کا مدبر اور ہر چیز کا خالق صرف اللہ ہے، اور خوشحالی اور قحط سالی سب اسی کے اختیار میں ہے، موسیٰ اور بنی اسرائیل کے وجود سے بد شگونی لینا تمہارے کفر کا نتیجہ ہے۔ الغرض ان کبر وغرور بڑھتا ہی گیا یہاں تک کہ موسیٰ سے کہا کہ چاہے تم کوئی بھی نشانی لاؤ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے، جب ان کا کفر وعناد اس انتہا کو پہنچ گیا، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اللہ سے دعا کی اے اللہ ! فرعون کی سر کشی حد سے آگے بڑھ گئی ہے، اور فرعونیوں نے کسی عہد وپیمان کا پاس نہیں رکھا ہے اس لیۓ اب تو انہیں ایسی سزا دے کہ یہ لوگ میری قوم کے لیے اور بعد میں آنے والوں کے لیے نشان عبرت بن جائیں، چناچہ اللہ نے ان کی دعا قبول کرلی، اور شدید طوفان آیا، اور قریب تھا کہ اس سے ہلاک ہوجاتے کہ وہ لوگ دوڑے ہوئے موسیٰ کے پاس آئے اور ان سے دعا کی درخواست کی تاکہ یہ عذاب ٹل جائے، اور وعدہ کیا کہ اگر عذاب ٹل گیا تو ایمان لے آئیں گے، اور بن اسرائیل کو ان کے ساتھ جانے دیں گے لیکن عذاب ٹل گیا اور مودی (علیہ السلام) نے ان کا وعدہ یاد لایا، تو انکار کر گئے اور اپنے کفر پر مصر رہے، تو اللہ تعالیٰ نے ٹڈی کو فوج بھیجی جس نے ان کی کھیتوں درختوں اور پھلوں کو تباہ کرنا شروع کردیا، جب یہ حال دیکھا تو پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس دوڑے آئے اور پہلے کی طرح ایمان لانے کا وعدہ کیا، لیکن عذاب ٹل جانے کے بعد پھر انکار کر گئے، اسی طرح اللہ نے مسلسل جوؤں، مینڈکوں اور خون کے عذاب میں مبتلا کیا، اور ہر بار تو بہ کا وعدہ کرتے رہے اور عذاب ٹل جانے کے بعد ایمان لانے سے انکار کرتے رہے، اور ان کا یہ وطیرہ اس لیے رہا کہ وہ لوگ واقعی اہل جرائم فساد تھے، اور ہر خیر سے محروم تھے۔ ایت (133) میں طوفان سے مراد شدید موسلادھار بارش تھی جس نے کھیتوں اور پھلوں کو تباہ کردیا اور انسانوں میں اموت ہونے لگیں"جراد"سے مراد مشہور ٹڈی ہے جس نے ان کی کھیتوں کو تباہ کرنا شروع کردیا، اسلام میں اس کا کھان جائز ہے، لیکن رسو اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے نہیں کھاتے تھے، جس طرح "ضب : سانڈا نہیں کھاتے تھے"قمل" سے مراد کھن ہے جو گیہوں اور ان کے دوسرے دانوں وغیرہ میں لگ گیا تھا، بعض لوگوں اس کے دوسرے معانی بھی بیان کئے ہیں، "ضفدع"مینڈک کو کہتے ہیں، ان کے گھروں میں، کھانوں، میں غلوں میں اور بستروں میں ہر جگہ مینڈک ہی مینڈک نظر آنے لگے، اور "دم "سے مراد یہ ہے کہ ان کی نہروں اور کنوؤں کا پانی خون میں بد گیا، مچھلیا مر گئیں اور نہروں کا پانی بدبودار ہوگیا، بعض لوگوں نے اس سے نکسیر کی بیماری مراد لی ہے۔ آیات (134/135) میں "رجز" یعنی عذاب سے مراد طاعون کی بیماری ہے کہا جاتا ہے کہ اس بیماری سے ستر ہزار فرعونی ہلاک ہوگئے تھے۔ الاعراف
131 الاعراف
132 الاعراف
133 الاعراف
134 الاعراف
135 الاعراف
136 (69) ان تمام آزمائشوں گذ رنے کے بعد جب انہیں ایمان کی توفیق نہیں ہوئی تو اللہ تعالیٰ کا آخری عذان آگیا، جس نے ان کا وجود ہی ختم کردیا، کہا جاتا ہے کہ جب فرعون نے ملک مصر پر اللہ تعالیٰ کا یکے بعد دیگر کئی عذاب دیکھا تو بالآخر موسیٰ اور ان کی قوم بن اسرائیل کو مصر سے کوچ کرنے کی اجازت دے دی، چنانچہ بن اسرائیل رات کے وقت عجلت میں نکل پڑے اور اپنے ساتھ اپنے جانوروں کو بھی لے گئے، انہوں نے عین شمس سے سکوت جانے کے لیے بحر احمر کا ساحلی راستہ اختیار کیا۔ فرعون نے جب سنا کہ وہ لوگ روانہ ہوگئے تو اپنے فیصلے پر نادم ہوا، اور فورا ہی اپنا لشکر لے کر ان کا پیچھا کیا اور انہیں بحر احمرکے ساحل پر جا لیا بنی اسرائیل ڈرگئے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے اپنی پریشانی کا اظہار کرنے لگے، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ مت ڈرو اللہ ہمارے ساتھ ہے پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے پانی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اللہ کے حکم سے سمندر کا پانی دو حصو میں تقسیم ہوگیا، اور ایک کشادہ راستہ بن گیا جس سے بنی اسرائیل پار کر گئے، فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ ان کا پیچھا کیا، جب بیچ سمندر میں پہنچا تو موسیٰ نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور اللہ کے حک سے سمندر کا پانی تیزی کے ساتھ دونوں طرف سے برھا اور فرعوں اور اس کی فوج کو غرقاب کردیا، اور تھوڑی ہی دیر بعد ان کی لاشیں سطح سمندر پر تیر نے لگیں اور ساحل پر آگئیں، اور بنی اسرائیل نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ الاعراف
137 (70) اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد بنی اسرائیل کو زمین کی سیادت عطا کی، مصر وشام کے علاقے ان کے نزدیک زیر تصرف آگئے، یہ وہی لوگ تھے جنہیں فرعون نے اپنا غلام بنا رکھا تھا اور جن کے ہزاروں بچوں قتل کروادیا تھا، لیکن جب وہ موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور مصائب وآلام پر صبر وستقامت سے کام لیا، تو اللہ تعا نے انہیں زمین کا مالک بنا دیا اور فرعون کے محلوں اور باغات کو تاراج کردیا، اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ قصص آیات (5/6) میں بیان کیا ہے، : یعنی پھر ہماری چاہت ہوئی کہ ہم ان پر کرم فرمائیں نہیں زمین میں بہت کمزور کردیا گیا تھا، اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ دکھائیں جس سے وہ ڈر رہے تھے۔ فرعونیوں کی ہلاکت وبربادی اور ان کی تباہی کا حال سورۃ دخان (25/26/27/28) میں اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کیا ہے : یعنی وہ بہت سے باغات اور چشمے چھوڑ گئے، اور کھیتون اور آرام دہ مکانات اور انواع واقسام کی نعمتیں، جن میں وہ عیش کر رہے تھے، سب دھری کی دھری رہ گئیں، اور اہم نے ان سب کا وارث دوسری قوم کو بنا دیا۔ الاعراف
138 (71) گذشتہ آیت کے اختتام پر سے ساتھ موسیٰ علیہ السلام، اور فرعون اور قطیبوں کے واقعات ختم ہوگئے، اب اس آیت کریمہ میں موسیٰ (علیہ السلام) اور نبی اسرائیل کے واقعات کی ابتدا ہو رہی ہے جو فرعون کی غلامی سے آزاد ہونے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ سمندر پار کرنے کے بعد جزیرہ تمائے سینا کے علاقے کی طرف روانہ ہوئے، راستہ میں ان کا گذر ایسی قوم کے پاس سے ہوا جو بتوں کی پرستش کرتے تھی، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ کنعانی لوگ تھے بعض کہتے ہیں کہ وہ لوگ قبیلہ لخم کے تھے اور "رقہ"میں قامت مذیر تھے، یہ لوگ گائے کے مجسموں کی پر ستش کیا کرتے تھے، انہیں دیکھ کر بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ ہمیں بھی ایک ایسا ہی بت چاہئیے جس کے سامنے جھکیں۔ مفسر بغوی لکھتے ہیں، کہ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت میں کوئی شبہ نہیں تھا، بلکہ انا کا مقصود یہ تھا کہ ان بت پرستوں کی طرح ان کے لیے بھی کوئی ایسا چیزہونی چاہئے، جس کی تعظیم کرکے اللہ کا تقرب حاصل کریں، اپنی شدت جہالت کی وجہ سے سمجھ بیٹھے تھے کہ اس سے ان کے دین و ایمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، انتہی، اسی لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کی شان وعظمت سے بالکل ناواقف ہو، عبادت کی تمام قسمیں صرف اللہ کے ساتھ خاص ہیں، ان بت پرستوں کا شرک ان کے لیے مہلک اور ان کا عمل سراسر باطل ہے۔ امام ترمذی، امام احمد، اور ابن جریر وغیر ہم نے ابو واقداللیثی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب غزوہ حنین کے لیے نکلے تو ایک درخت کے پاس سے گذرے جس پر مشر کین اپنے ہتھیار لٹکا یا کرتے تھے، اس لیے اسے " ذات انواط"کہا کرتے تھے، تو صحا بہ میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! ہمارے لیے بھی ایک ایسا ہی "ذات انواط"نبا دیجئے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم لوگ گذشتہ قوموں کی راہ پر ضرور چلو گے۔ یہی وجہ ہے کہ عمر بن خطاب (رض) نے مقام حدیبیہ کے اس درخت کو کٹوادیا تھا جس کے نیچے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے بعیت لی تھی، جسے بیعتہ الرضوان کہا جاتا اہے، امام ابو بکر طرطوش مالکی لکھتے ہیں کہ اگر تم کوئی ایسا درخت دیکھوجس کی لوگ زیارت اور تعظیم کرتے ہوں اسے شفا یابی کا سبب مانتے ہوں، اور اس میں کیلیں ٹھو کتے ہوں اور اکپڑوں کے ٹکڑے لٹکا تے ہوں تو اسے کاٹ دو، کیونکہ وہ "ذات انواط ہے۔ الاعراف
139 الاعراف
140 (72) موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے یہ بھی کہا کہ تم کیسی بہکی بات کرتے ہو کیا میں تمہارے لیے اللہ کے علاوہ کوئی اور معبود لا دوں؟ اور اس نے جو تمہارے اوپر احسانات کئے ہیں اور دنیا والوں پر تمہیں جو فضیلت دی ہے ان سب کو فراموش کر جاؤں؟ اور کیا تم بھول گئے کہ ابھی کچھ ہی دنوں قبل اللہ نے تمہیں فرعونیوں کے عذاب اور ان کی غلامی سے نجات دلایا ہے، اگر آیت ،(141) میں مخاطب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے یہود یوں کو مان لیاجائے تو معنی یہ ہوگا کہ اللہ نے تمہارے آباء اجداد کو فرعو نیوں سے نجات دی تھی، اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ اولاد اور اہل کی مصیبت آدمی کے ذاتی مصیبت کے مترادف ہوتی ہے۔ الاعراف
141 الاعراف
142 (73) بن اسرائیل جب طور سینا کے قریب ایک جگہ آباد ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایک شریعت نازل کرنی چاہی تاکہوہ اس کے مطابق اپنی زندگی اللہ کی اطاعت وبندگی میں گذارسکیں اسلی لیے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ طور کی چوٹی پر جا کر چالیس دن تک عبادت وبندگی میں گذاریں تاکہ وحی الہی کی عظیم ذمہ داری اٹھانے کے قابل بن سکیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ چالیس دن کی مدت ذولقعدہ کے تیسک دن اور ذی للحجہ کے دس دن تے ابن عباس وغیرہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) سے چالیسویں دن یعنی دسویں ذی لحجہ کو ہم کلام ہوا تھا، موسیٰ (علیہ السلام) نے نے کوہ طور کی جانب روانیگ سے قبل بن اسرائیل کی تعلیم وتربیت کے لیے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو اپنا خلیفہ بنا دیا، اور انہیں ان کے ساتھ ہمدردی اور اصلاح واخلاص کی نصیحت کی، اور اہل فساد ومعاصی کی اتباع کرنے سے منع کیا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ انہوں نے یہ بات شدت احتیاط کی وجہ سے کہی تھی ورنہ ہارون خود اللہ کے نبی تھے، ان سے فساد برپا کرنے کی توقع کیسے ہو سکتے تھی؟۔ الاعراف
143 (74) جب موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کے ساتھ ہم کلامی کا شرف ہوا تو شدت شوق اور غادیت محبت میں اللہ تعالیٰ کی دید کا سوال کردیا، تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ اس دنیا میں آپ مجھے نہیں دیکھ سکتے ہیں، اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو مطمئن کرنے کے لیے کہا کہ اس پہاڑ کو دیکھئے، اگر وہ میری تجلی کی تاب لے آئے اور اپنی جگہ باقی رہ جائے تو آپ مجھ دیکھ سکیں گے، چنانچہ اللہ کی تجلی پہاڑ پر ظاہر ہوئی تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے، اور اپنی جگہ پر باقی نہ رہ سکا، اور موسیٰ (علیہ السلام) اس منظر کی تاب نالاکر بے ہوش ہوگئے تو اللہ کی پاکی بیان کی اور دوبارہ ایسا سوال کرنے سے تو بہ کیا۔ معتزلہ اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دنیا اور آخرت کہیں بھی نہیں دیکھا جاسکتا، لیکن عیہ قول بالکل ہی ضعیف ہے، اس لیے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی متو تر احادیث سے ثابت ہو ہے کہ مومنین اللہ تعالیٰ کو قیامت کے دن دیکھیں گے ،، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ قیامہ آیات (22/23) میں فرمایا ہے، کہ اس دن بہت سے چہرے شاداب ہوں گے اور اپنے رب کو دیکھ کر رہے ہوں گے "۔ الاعراف
144 (75) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی تکریم کے طور پر انہیں خوشخبری دی کہ میں اپنا رسول بنانے اور آپ سے ہم کلام ہونے کے لیے آپ کو اوروں کے مقابلے میں چن لیا ہے، اس لیے اس نعمت کو قبول کیجئے اور اللہ کا شکر ادا کیجئے۔ آیت میں کلمہ "الناس"سے مراد صرف موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے کے لوگ ہیں، یعنی ہم نے موسیٰ کو ان کے زمانے کے لوگوں پر فضیلت دی تھ، اس لیے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے تمام بن آدم کا سردار بنایا ہے، وہ خاتم الا نبیاء المرسلین ہیں ان کی شریعت قیامت تک نافذ العمل رہے گی ان پر ایمان لانے والے دیگر انبیاء کے پیروکاروں سے زیادہ ہوں گے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کا درجہ ہے اور تیسرے نمبر پر موسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ الاعراف
145 (76) یہ تورات کی تختیاں تھیں م جن میں بنی اسرائیل کی دینی اور دینوی رہنمائی وبھلائی کی ہر بات نوشتہ تھی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ قصص آیت (33)، میں فرمایا ہے : اور ہم نے گذشتہ قوموں کو ہلاک کرنے کے بعد موسیٰ کو کتاب "تورات"دی جو لوگوں کے لیے نصیحتوں کا مجموعہ ہدایت کا ذریعہ اور اللہ کی رحمت تھی، ایک دوسرا قول یہ ہے کہ یہ تختیاں موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات سے پہلے دی گئی تھیں، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ ان تختیوں کو وہ اس عزم کے ساتھ لیں کہ اس میں موجود احکام پر عمل پیراہوں اور نواہی سے اجتناب کریں، رخصت کے بجائے عزمیت فوافل کے ساتھ لیں کہ اس میں موجود احکام پر عمل پیراہوں اور نواہی سے اجتناب کریں، رخصت کے بجائے عزیمت اور نوافل سے پہلے فرائض کا اہتمام کریں، اور غیروں کی اذیت پر صبر کریں۔ (77) یعنی جو لوگ میرے اور امر کو ٹھکرائیں گے اور میری بندگی سے اعراض کریں گے، تم عنقریب ہی دیکھ لو گے کہ ہلاکت وبر بادی ان کا انجام ہوگا ؛، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ "دارالفاسقین"سے مراد سرزمین شام وبیت المقدس ہے، وہاں کے رہنے والے عمالقہہ اللہ کے نافرمان ہوگئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے وعدہ کیا کہ عنقریب کوہی وہ لوگ ان علاقوں پر قابض ہوجا ءئیں گے چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد یوشع بن نون کی قیادت میں بنی اسرائیل نے عمالقہ سے جنگ کی اور ان علاقوں پر قابض ہوگئے، علماء تفسیر لکھتے ہیں کہ آیت کے اس آحصہ میں بنی اسرائیل کے لیے ایک قسم تنبیہ ہے کہ اگر وہ تورات میں موجود احکام وشرائع پر عمل پیرا نہیں رہیں گے اور اسے پس پشت ڈال دیں گے تو وہ بھی فاسق ہوجائیں گے، اور دنیا میں ذلیل خوار ہوں گے اور آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا، اور تفسیر کے قاعدہ کے مطابق یہ حکم ان تمام لوگوں کے بارے میں عام ہے جس کسی بھی دور میں اللہ کے احکام وشرائع سے روگردانی کریں گے۔ الاعراف
146 (78) اللہ کے نزدیک کبر وغرور سے بد ترین کوئی صفت نہیں، اسی لیے اس کا انجام بھی بدترین بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ متکبر کے دل کی روشنی چھیل لیتا ہے، وہ تمام دلائل وبراہین دیکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی کبرایائی اور اس کی عظمت پر ایمان نہیں لاتا، اس کی شریعت پر عمل پیرا نہیں ہوتا، حق کا راستہ روز روشن کی طرح واضح ہونے کا باوجود اسے اختیار نہیں کرتا، اور ہر گمراہی کی طرف تیزی کے ساتھ لپکتا ہے۔ الاعراف
147 79۔ متکبر انسان اللہ کی آیتوں کو جھٹلاتا ہے، اور ان میں غور و فکر نہیں کرتا، اور جو کوئی اللہ کی آیتوں اور قیامت کے دن کو جھٹلائے گا، اور اسی پر قائم رہے گا یہاں تک کہ اس کی موت آجائے گی، تو روز قیامت اس کے کفر و معاصی کی وجہ سے اس کے سارے اعمال ضائع ہوجائیں گے۔ الاعراف
148 (80) جب موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے حکم کے مطابق چالیس دن کے لیے کوہ طور پر چلے گئے تو شیطان نے بنی اسرائیل کو شرک میں مبتلا کردی امعلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ مصر کے دور غلامی میں غیر اللہ کی عبادت اور شرکیہ اعمال کے ایسے عادی ہوگئے تھے کہ فر عون سے نجات پانے کی بعد بھی جب بھی کوئی موقع آتا فورا ہی شرک کی طرف لپکتے تھے، جبھی تو انہوں نے کوہ سینا کی طرف آتے ہوئے راستہ میں ایک قوم کو بت پرستی کرتے دیکھا تو موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ ہمارے لیے بھی کوئی معبود بنا دو۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے گئے تو شیطان کے بہکاوے میں آگئے، اور اس بچھڑے کی پرستش شروع کردی جو سامری ( بنی اسرائیل کا ایک فر د) نے قطیبوں کے زیورات سے ان کے لیے بنایا تھا، یہ زیورات بنی اسرئیل کے پاس عاری آگئے تھے، لیکن قطیبوں کے ہلاک ہونے کے بعد ان کے مالک بن گئے تھے م سامری اس بچھڑے میں وہ مٹی ڈال دی جو جبرئیل کے گھوڑے کے کھر کے نیچے اس نے لے لی تھی، جس کی وجہ سے اس میں سے گائے کی آواز نکلتی تھی، چنانچہ سامری نے انہیں دھوکہ دیا اور کہا کہ یہی ہمارو معبود ہے جس نے ہمیں فرعون سے نجات دلائی تھی، سب نے اس کی بات مان لی اور ہارون (علیہ السلام) کے لاکھ سمجھانے کے باوجود اس بچھڑے کی عبادت کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی اس بت پرستی کی خبر کوہ طور پر ہی دے دی تھی، جب مدت پوری ہونے کے بعد واپس آئے تو مارے غصہ کے اللہ کی طرف سے دی گئی تختیوں کو زمین پر ڈال دیا، اور ہارون (علیہ السلام) کے سر کے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے اور ان کی زجر وتوبیخ کرنے لگے کہ آپ رہتے ہوئے ایسا کیوں ہوا؟ تو انہوں نے اپنی مجبوری بتائی کہ ان کی ہزار کوششوں کے باوجود بنی اسرائیل کے لوگ شرک پر جمے رہے، بلکہ ان کی سر کشی کا عالم یہ ہوگیا کہ قریب تھا سب مل کر مجھے قتل کردیتے، اس آیت کریمہ میں چھ آیتوں تک بنی اسرائیل کی اسی گمراہی کو بیان کیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کی آنکھوں پر جہا لت اور گمراہی کی پٹی بندھ گئی تھی جبھی تو انہیں یہ سوچنے کی تو فیق ہی نہیں ہوئی کہ بچھڑا نہ ان سے باتیں کرتا ہے اور نہ کسی خیر کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے، پھر خالق ارض وسماوات کے بجائے وہ ان کا معبود کیسے ہوجائے گا ؟۔ الاعراف
149 (81) موسیٰ (علیہ السلام) کی نئی جدوجہد کے بعد جب بنی اسرائیل کو اپنی گمرا ہی کا احساس ہوا اور اپنی غلطی پر نادم ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے رحم ومغفرت کی دعا کی۔ الاعراف
150 (82) انہوں نے کوہ طور سے واپسی کے بعد دیکھا کہ کچھ کے علاہ سارے بنی اسرائیل بچھڑے کے ارد گرد جمع ہیں اور اس کی عبادت میں لگے ہوئے ہیں تو اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) اور دیگر مومنوں سے کہا کہ تم لوگوں نے میری بڑی بری نیابت کی ہے، چالیس دن تک بھی راہ راست پر قائم نہیں رہ سک اور بت کی پرستش شروع کردی اور اللہ اور اس کے دین کی خاطر فرط عضب میں تختیوں پر پٹخ دیا کہتے ہیں کہ وہ تختیاں پتھر کی تھیں، ٹوٹ گئیں، انہوں نے سمجھا کہ ہارون (علیہ السلام) سے تقصیر ہوئی ہے، اسی لیے ان کے سر کے بال پکڑ کر کھینچنے لگے، لیکن جب انہوں نے اپنا عذر پیش کیا کہ میں نے تو پوری کوشش کی کہ انہیں راہ راست پر رکھوں لیکن انہوں نے میری ایک نہ سنی اور بچھڑے کی پوجا کرنے لگے۔ الاعراف
151 (83) جب انہیں ہارون (علیہ السلام) کی براءت کا یقین ہوگیا تو اللہ سے اپنی اور اپنے بھائی کی مغفرت کے لیے دعا کی۔ الاعراف
152 ( 84) ان کی دعا کا اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی عبادت کی وہ اللہ تعالیٰ کے غضب سے نہیں بچ سکیں گے، چنانچہ اللہ نے ان کی تو بہ یہ مقرر کی کہ ان کے موحد بچھڑے کی پو جا کرنے والوں کو قتل کریں، جیسا کہ سورۃ بقرہ میں آچکا ہے، اور دنیاوی زندی میں ذلت ورسوائی کبھی ان کا ساتھ نہیں چھو ڑے گی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پر افتراپردازی کرنے والے کو ہمیشہ ایسا ہی بدلہ کرتا ہے، یہ وجہ ہے کہ بد عت کی ذلت ورسوائی بدعتی کے ساتھ لگی رہتی ہے، جیسا کہ حسن بصری کا قول ہ اور سفیان بن عیینہ کا قول ہے کہ ہر صاحب بدعت ذلیل ہوتا ہے۔ الاعراف
153 (85) اللہ تعالیٰ ہر توبہ کرنے والے کی تو بہ قبول کرتا ہے، چاہے اس نے جیسا بھی گناہ کیا ہو اس لیے کہ وہ بڑاہی مغفرت کرنے والا ہے اور بڑاہی مہر بان ہے۔ الاعراف
154 (86) موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ جب فردہوا اور انہیں خیال آیا کہ حالت عضب میں انہوں نے اللہ کی طرف سے دی گئی تختیاں زمین پر پٹخ دی تھیں، تو انہیں فورا اٹھا لیا، کیونکہ وہ تو اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت و رحمت کا سرچشمہ تھیں۔ الاعراف
155 (87) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی حکم دیا کہ معافی کے لیے بنی اسرائیل کے ستر (70) منتخب آدمیوں کو لے کر کوہ پر جائیں، اور بنی اسرا ئیل نے جو بچھڑے کی پرستش کی ہے اس کی معافی کے لیے اللہ کے سامنے تو بہ واستغفار کریں جب وہ لوگ مقرر جگہ پر پہنچے تو ان سب پر اچانک ایک شدید کپکپی طاری ہوگئی اور سب کے سب ہلاک ہوگئے، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے روروکر دعا کی کہ اے اللہ اگر تو چاہتا تو پہلے بھی ہلاک کرسکتا تھا۔ ہمارے نادانوں نے کچھ کیا اس کی وجہ سے ہمیں ہلاک نہ کر یہ تو تیری ہی طرف سے ایک آزمائش تھی جس میں تو نے انہیں ڈال دیا تھا حقیقت میں گمراہی اور ہدایت تو تیری اختیار میں ہے، اس کی دعا کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں دبارہ زندہ کردیا۔ الاعراف
156 (88) پہلے موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے گنا ہوں کی معافی مانگی اور اس کے بعد آخرت کی ہر بھلائی مانگی، اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کا یہ جواب دیا کہ میں گناہ گاروں میں سے جسے چاہتا ہوں عذاب دیتا ہوں، اور اس کی حکمت کو میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا اور اس کی بنیادی عدل وانصاف پر ہوتی ہے، اور جسے چاہتا ہوں معاف کردیتا ہوں لیکن میری رحمت تو ہر نیک وبد اور تمام مخلوقات کے لے عام ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک اصل چیز عذاب وغضب نہیں بلکہ رحمت ہی اسی حقیقت کو بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حاملین عرش فرشتوں کو زبانی فرمایا : کہ اے ہمارے رب ! تیری رحمت ہر شے کو شامل اور تیرا رعلم ہر چیز کو محیط ہے "۔ احمد، مسلم، اور ابو داؤد نے جندب الجبلی سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سو حصے ہیں، اس میں سے صرف ایک حصہ رحمت کے ذریعہ تمام مخلوق آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتے ہے، اور وحشی جانور اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اور ننانوے حصہائے رحمت قیامت کے دن کے لیے مؤخر کردیئے گئے ہیں۔ (89 (دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز کے لیے عام ہے اسی رحمت عامہ کی وجہ سے دنیا میں ہر جاندارف کو رزی ملتی ہے، دنیاوی نعمتوں میں ہر نیک وبد شریک ہے، لیکن آخرت کی نعمت جسے رحمت خاص سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، وہ صرف اللہ کی کے ان بندوں کے لیے خاص ہوگی جو اس دنیاوی زندگی میں گنا ہوں سے بچیں گے وکاہ دیں گے اور جو اللہ کی آتیوں پر ایمان لائیں گے اور ان پر عمل کریں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی آیت (32) میں فرمایا ہے : کہ دنیا کی زینت اور حلال روزی مومنوں کو دنیا میں ملے گی، اور آخرت میں انہی کے لیے خاص ہوگی۔ الاعراف
157 (90) کلام رخ ان بنی اسرائیل کی طرف موڑ دیا گیا ہے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں تھے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت خاصہ کو پانے کے لیے جو شراط موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں تھیں وہی اب بھی ہیں لیکن ان تمام شرائط کی بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ نبی کر یم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئیں اور ان کی اتباع کریں اور یہ بنی اسرائیل انہیں خوب اچھی طرح پہچا نتے ہیں اس لیے کہ ان کے نام اور انکی صفات تورات وانجیل میں بیان کردی گئی ہیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات تمام آسمانی کتابوں میں بیان کی گئی تھیں، اور تمام انبیاء کرام نے اپنی امتوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی خوشخبری دی تھی، اور انہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کا حکم دیا تھا، تورات وانجیل میں بالخصوص وہ صفات باقی رہیں اور ان کے عالموں کو ان کا خوب علم تھام کعب الا حبار وغیرہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو صفات قرآن کریم میں بیان کی گئیں ہیں وہی صفات تورات میں پائی جاتی تھیں، جیسا کہ تفسیر طبری اور مسند احمد میں مروی عطاء بن یسار کی روایت سے معلوم ہوتا ہے، یہاں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک صفت بیان کی گئی ہے اس لیے کہ آپ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، اور یہ آپ کے لیے ایک معجزہ اور کمال فخر کی بات تھی کہ لکھنا پڑھنا نہ جاننے کے باجود قرآن کو اللہ کی طرف سے بذریعہ وحی حاصل کیا اور آپ کا سینہ علوم وحکم کے خزانوں سے بھرا ہوا تھا۔ گذشتہ آسمانی کتابوں میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ صفت بھی بیان کی گئی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھلائی کا حکم دیں گے برائی سے روکیں گے اور اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو لوگوں کے لیے حلال کریں گے جو پہلے ان پر حرام تھیں، جیسے چربی اور وہ جانور جنہیں مشرکین نے اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا اور خرید وفروخت اور تجارت کی وہ تمام قسمیں جو حرام خوری سے خالی ہوں اور گندگی اور نقصان دہ چیزوں کو ان کے اوپر حرام کریں گے جیسے سور کا گوشت سود اور وہ تمام محرمات جنہیں اللہ نے حرام بنایا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت تو بھی ہوگی کہ ان کا دین آسان ہوگا، جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، کہ مجھے دعوت توحید اور آسان دین دے کر بھیجا گیا ہے، (مسند احمد) اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاذ اور ابو موسیٰ اشعری (رض) کو دعوت اسلام کے لیے یمن تو فرمایا کہ تم دونوں لوگوں کو خو شخبری دینا، دین سے نفرت نہ دلانا، ان کے لیے آسانی پیدا کرنا انہیں سختی اور پریشانی میں نہ ڈلنا (بخاری) چنانچہ اسلام نے بہت سے مشکل اور تکلیف دہ احکام کو منسوخ کردیا ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے دین میں پائے، جیسے جان کے بدلے جان (دیت یا معافی نہیں تھی) سینچر کے دن کام کرنا حرام تھا ہر ساتوں سال کھیتی حرام تھی اگر کوئی اپنے والدین کو مارتا یا گالی دیتا تو اسے قتل کردیا جاتا وغیرہ۔ (91) اللہ تعالیٰ کا یہ کریمانہ وعدہ ہے کہ جو اہل کتاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں ان کی تعظیم وتوقیر کریں گے ان کی مدد کریں گے اور قرآن کریم کی اتباع کریں گے اللہ تعالیٰ انہیں دنیا وآخرت میں فائزالمربنائے گا یہاں قرآن کو "نور"سے اس لیے تعبیر کیا گیا کہ اس کی عل لمتاب روشنی خود اس کے معجزہ الہی ہونے کی روشن دلیل ہے اور اس لیے بھی کہ وہ رہتی دنیا تک بنی نوع انسان کے لیے روشنی کامیناررہے گا، اور زند گی کے ہر گوشے میں اس کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ الاعراف
158 (92) مندرجہ ذیل بالا آیتوں میں موسیٰ (علیہ السلام) مناقب وفضائل بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں، اس لیے کے زہن میں یہ بات آسکتی ہے کہ انبیا ءورسل میں سب اعلی مقام انہیں کا ہے، اسی لیے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر جمیل چھیڑ دیا تاکہ معلوم ہو سکے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبیوں میں سب سے افضل ہیں، اور اب دنیا تک کے لیے تمام بنی نوع انسان کے لیے آپ ہی ہادی اور ہبر رہیں گے، اور رہیں گے، اور ضمنی بور پر یہود نصاری کو خبر دی گئی ہے کہ اب تمام ادیان سابقہ منسوخ ہوگئے اور جو کوئی بھی آخرت میں جہنم سے نجات چاہتا ہے اسے اسلام قبول کرناہو گا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں، جو مجھ پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا ہوں، مجھے سرخ اور سیاہ تمام نبی نوع انسان کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا ہے، الحدیث، اور مسلم نے ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مات کے جس کسی کو بھی میری خبر دی گئی ہوگی چاہے وہ یہودی ہو یا نصرانی اور مجھ پر ایمان نہیں لائے گا، تو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ _93) یہود نصاری سمیت انسان کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ نبی امی پر ایمان لائیں، اور ان کی اتباع کریں جیسا کہ ان کی بشارت گذشتہ آسمانی کتابوں میں دی جا چکی ہے یہاں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت امی خاص طور پر سے اس لیے لائی گئی ہے، تا اہل کتاب توجہ اس طرف مبذول کرائی جائے جہ یہ وہی نبی ہیں جن کی صفت امی تورات میں مذکور ہے۔ الاعراف
159 (94) سلسلئہ کلام انہی بنی اسرائیل سے متعلق ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں تھے، جب سامری اور اس کے پیروکاروں کا زکر آیا تو شبہ ہوسکتا ہے کہ ان میں کوئی بھی مومن اور اچھا آدمی نہیں تھا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو خود حق پر قائم تھے اور دوسروں کو بھی اس کی طرف بلاتے تھے، اور لوگوں کے درمیان عدل وانصاف کے ساتھ فیصلے کرتے تھے۔ الاعراف
160 (95) یعقوب (علیہ السلام) کے بارہوں بیٹوں کی اولاد، اور ان کی اولاد کی اولا میں اللہ تعالیٰ نے بڑی برکت دی ان کی تعداد کثرت سے بڑھتی گئی، اور ان کے طبائع وعادات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے گئے، اسی لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ انہیں مختلف جماعتوں میں تقسیم کردیا جائے، اور ہر جماعت کا ایک نگراں مقرر کردیا جائے تاکہ ہر جماعت اپنے الگ الگ نظم ونسق کے مطابق زندگی گزارے اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کرے، بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کا یہ ایک احسان تھا۔ (96) یہاں سے آخر آیت تک اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کرے بنی اسرائیل پر اپنے دیگر تین احسانات کا ذکر کیا ہے، پہلا احسان یہ کہ اللہ نے بارہوں قبائل کے لیے پانی کا انتظام کیا، دوسرا احسان یہ کہ دھوپ سے بچنے کے لیے ان کے پڑاؤ کے اوپر بادل کو لاکر ٹھرادیا، اور تیسرا حسان یہ کہ ان کے کھانے کے لیے آسمان سے من سلوی بھیج دیا، یہ سب باتیں تفصیل کے ساتھ ورہ بقرہ آیت (57) سے لے کر آیت (60) تک بیان کی جا چکی ہیں۔ الاعراف
161 (97) بنی اسرائیل کی اخلاقی حالت اتنی پست ہوچکی تھی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے مذکورہ بالاتمام احسانات کو فراموش کردیا، اور سرکشی اور نافرمانی ان کا شیوہ بن گئی اور اللہ کے احکام کا مذاق اڑا نا ان کی فطرت ثانیہ بن گئی، جب بھی اللہ انہیں حکم دیتا اس کی نافرمانی کرتے اور اس کے ساتھ حقارت آمیز معاملہ کرتے، ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان کی اس قسم کی ایک دوسری اخلاقی اور دینی گراوٹ کو بیان کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ وہ بیت المقدس میں " حطتہ "کہتے ہوئے داخل ہوئے اور 'حطتہ کے بجائے "حنطتہ کہا، جس کے پاداش میں اللہ تعالیٰ انہیں طاعون کی بیماری میں مبتلا کردیا اور ہزاروں کی تعداد میں ہلاک ہوگئے، یہ مضمون سورۃ بقرہ آیات (58/59) میں بیان کیا جا چکا ہے۔ الاعراف
162 الاعراف
163 (98) یہاں ان کی ایک تیسری نافرمانی اور اخلاقی ودینی پستی کو بیان کیا گیا ہے م جس کا ذکر سورۃ بقرہ کی آیت (65) میں آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ساحل بحر قلزم پر واقع ایک یہودی بستی والوں کے لیے سینچر کے دب مچھلی کا شکار حرام کردیا تھا، اور ان کی آزمائش کے لیے اللہ کے حکم سے سنیچر کے دن مچھلیاں خوب آتی تھیں اور سطح سمندر پر تیر نے لگتی تھیں اور دوسرے دنوں میں مچھلیاں غائب ہوجاتی تھیں، وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس آزمائش میں پورے نہیں اترے اور ایسا طریقہ اختیار کیا کہ سنیچر کے دن مچھلیاں پانی کی طرف واپس نہ جا سکیں گی، تاکہ اتوار کے دن ان کا شکار کرلیں اللہ تعالیٰ نے انہیں اس آزمائش میں ان کے سابقہ گناہوں کی وجہ ڈالا تھا، تاکہ ان کی سرکشی کھل کرسا منے آجائے ک، اور عذاب کے مستحق بن جائیں۔ الاعراف
164 (99) ابن عباس (رض) کہتے ہیں، اس بستی کا نام "ایلات "تھا جو بحر قلزم کے کنارے پر آبادتھی، آج کل یہاں پر اسرائیل کی نبدرگاہ ہے، جمہور مفسرین کا خیال ہے کہ اس بستی کے رہن والے اسرائیلی لوگ مچھلی کے شکار کے بارے میں تین جماعتوں میں بٹ گئے، تھے، ایک جماعت نے ( جن کی تعداد ستر (70) ہزار تھی) نافرمانی کی اور شکار کیا، دوسری جماعت نے نہ نافرمانی کی اور نہ دوسروں کو منع کیا، تیسری جماعت نے شکار نہیں کیا اور دسروں کو بھی منع کیا اوشکار کرنے والی جماعت سے الگ ہوگئی، دوسری جماعت نے تیسری جماعت سے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کر رہے ہو، جنہیں اللہ یا تو ہلاک کرنے والا ہے، یا عذاب دینے والا ہے ؟ اور یہ بات انہوں نے گمان غالب کی بنیاد پر کہی تھی، اس لیے کہ بالعموم ایسا ہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانوں کو یا ہلاک کردیتا ہے یا انہیں کسی عذاب میں مبتلا کردیتا ہے، تیسری جماعت نے کہا کہ ہم ایسا اس لیے کر رہے ہیں تاکہ، اللہ کے نزدیک ہمارا عذر ثابت ہوجائے اور ممکن ہے کہ وہ لوگ راہ راست پر آجائیں لیکن نافرمانوں نے ان نیک لوگوں کی ایک نہیں سنی اور اپنے گناہوں پر مصر ہے، تو اللہ تعالیٰ نے ان صالحین کو بچالیا، اور ظالم نافرموں ان کے گناہوں کی وجہ سے شد ید عذاب میں مبتلا کردیا، اور ان کے کبر اور معاصی پر اصرار کی وجہ سے ان کی صورتیں مسخ کر کے بندر بنادیا۔ شوکانی کہتے ہیں کہ قرآن کے ظاہری الفاظ یہی بتاتے ہیں کہ عذاب سے صرف وہی لوگ بچ سکے جنہوں نے منع کیا تھا، اور صورتیں انہی کی مسخ ہوئیں جنہوں نے نافرمانی کی تھی، دوسری جماعت یعنی جن لوگوں نے نہ نافرمانی کی اور نہ دوسروں کو منع کیا ان کے بارے میں علمائے تفسیر کا اختلاف ہے، کسی نے کہا ہے کہ وہ بھی ہلاک کردیئے گئے اور کسی نے کہا کہ وہ لوگ ہلاک نہیں کیے گئے، ابن عباس کی رائے یہی تھی کہ وہ لوگ ہلاک کردیئے گئے، لیکن عکرمہ نے جب انہیں بتایا کہ ان لوگوں میں پہلی جماعت کے فعل کو برا سمجھا تھا اور ان کی مخالفت کی تھی، تو ان کی رائے بدل گئی تھی۔ حافظ ابن القیم رحمتہ اللہ نے اپنی کتاب "اغاثتہ اللھفان"میں دین میں حلیہ سازی کی حرمت پر اس آیت سے استدلال کیا ہے، لکھتے ہیں، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شیطان کی ایک فریب کاری دین میں حیلہ مکر اور دھوکہ دہی کو راہ دینا ہے، جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں کو حلال بنایا جاتا ہے، فرائض کو ساقط کیا جاتا ہے اور اوامر ونواہی کو نظر انداز کردیا جاتا ہے اور یہی وہ باطل رائے ہے جس کی مذمت پر سلف صالحین کا اتفاق ہے، آگے چل کر لکھتے ہیں کہ حیلہ کی ایک قسم کے ذریعہ واجبات کو ساقط کردیا جاتا ہے، اور محرمات کو حلال کردیا جاتا ہے یہی وہ حیلہ ہے جسے تمام سلف صالح نے مذموم قرار دیا ہے، اور ایسے تمام یلہ سازوں کی خلاف آواز اٹھائی ہے اس کے سنیچر والے یہودیوں کے بارے میں لکھا ہے کہ جب انہوں نے سنیچر کے دن مچھلی کے شکار کی حرمت کو حیلہ سازی سے حلال بنا لیا تو اللہ نے ان کی صورتیں مسخ کر کے بندر بنا دیا دین میں حیلہ سازی کو راہ دینے والوں کو برے انجام سے ڑرتے رہنا چا ئیے۔ الاعراف
165 الاعراف
166 الاعراف
167 (100) سرکشی، اللہ کے اوامر کی مخالفت اور حیلہ کے ذریعہ حرام کو حلال بنانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے ذلت ورسوائی بنی اسرائیل کی قسمت بنادی، اور یہ فیصلہ کردیا کہ دنیا کہ دوسری قومیں انہیں ہمیشہ ابتلاء وآزمائش اور طرح طرح کی مصیبتوں میں ڈالے رکھیں، گی کہا جاتا ہے، کہ سب سے پہلے خود موسیٰ (علیہ السلام) نے سات سال تک ان سے ٹیکس وصول کیا۔ سلیمان (علیہ السلام) کے بعد بابل کے بادشاہ بخت نصرنے ان کے ملک کو تہ وتاراج کردیا، مردوں کو قتل کیا اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا، اور ان پر جزیہ نافذ کردیا، اور ان میں بہتوں کو بابل کی طرف جلاوطن کردیا، جہاں وہ ستر (70) سال تک بھٹکتے رہے، اس کے بعد بھی مختلف یونانی، کشدانی اور کامد انی بادشاہوں نے انہین اپنا غلام بنادیا اور ذلت ورسوائی کا یہ دور چلتا رہا، یہاں تک کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے اکہتر (71) سال بعد ان کے ملک پر رومانیوں کا قبضہ ہوگیا جنہوں نے انہیں وہاں سے نکال دیا، اور دنیا کے مختلف حصوں میں ذلیل وخوار بن کر تتربتر ہوگئے، ان دونوں جو ان کی بظاہر ایک حکومت سرزمین فلسطینی پر قائم ہوگئی ہے تو یہ قرآن کریم کی اس خبر کے خلاف نہیں ہے، بلکہ سورۃ آل عمراب کی آیت (112) کے مطابق امریکہ اور دیگر غیر مسلم حکومتوں کے بل بوتے پر قائم ہے، اگر یہ حکومتیں اپنا ہاتھ کھینچ لیں تو اسرائیلی حکومت باقی نہیں رہ سکے گی، اور اب بھی جو حکومت قائم ہے، اس میں اللہ کی کوئ مصلحت ہے، ورنہ ان کی ذلت کا عالم یہ ہے کہ یہودیوں کو وہاں ایک دن کے لیے بھی سکون حاصل نہیں ہے۔ الاعراف
168 (101) جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کر دنیا میں تتر بتر کردیا، تاکہ قیامت تک انہیں کوئی شان و شوکت نہ حاصل ہو، اور یو نہی ذلیل ورسوا ہو کر دردر کی ٹھوکریں کھاتے پھریں۔ (102) ہر زمانہ میں ان میں کچھ لوگ نیک ہوئے جو اپنے زمانے کے انبیاء پر ایمان لائے، انہی میں وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ پایا اور مشرف بہ اسلام ہوئے، اور کچھ لوگ ایسے ہوئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی اوارمر کی مخالفت کی اور ایمان نہیں لائے ان گناہ گاروں کو اللہ تعالیٰ نے مختلف قسم کی آزمائشوں میں ڈالا کبھی ان پر خیرات وبرکات کا دروازہ کھول دیا تو کبھی اتنی تنگدستی میں مبتلا کیا، اور مقصد یہ تھا کہ شاید وہ اپنے گنا ہوں سے تائب ہوں اور ایمان لے آئیں۔ الاعراف
169 (103) بنی اسرائیل کا ہر دور میں یہی حال رہا، یہاں تک کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ آگیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں جو یہودی تھے، انہی کا حال بیان کیا گیا ہے کہ وہ نہایت ناخلف لوگ تھے کہ ہر خوبی ان سے رخصت ہوگئی تھی، اور تورات کے احکام کو بدل کر دنیا کمانا ان کا پیشہ ہوگیا تھا، رشوت لے کر تورات کے خلاف فیصلے کرتے تھے، اور اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے لیے کہتے تھے کہ اللہ ان کا مواخذہ نہیں کرے گا، انہیں معاف کردے گا، حالا نکہ وہ اپنے دل میں اس بات پر مصر ہوتے تھے کہ اگر کسی نے دوبارہ بھی رشوت دی تو اسے لے لیں گے، اور دل سے تائب نہیں ہوتے تھے، ان کی دینی اور اخلاقی پستی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی، اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان کا تحکمانہ انداز کہ وہ انہیں معاف کردے گا، اللہ پر افتراپردازی تھی، اور اس پر عہد ومیثاق کے خلاف بات تھی، جو ان سے لیا گیا تھا کہ وہ اللہ کے بارے میں صدق بیانی سے کام لیں گے، اور انہیں تورات کے مطالعہ سے اس عہد کا علم بھی تھا ایسا نہیں تھا کہ وہ اسے جانتے نہیں تھے، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ آخرت کی کامیابی، دنیاوی حقیر مفادات سے زیادہ بہتر ہے۔ الاعراف
170 (104) بنی اسرائیل میں کچھ لوگ تورات کا علم رکھتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کے اوامر نواہی سے خوب واقف تھے لیکن ان پر عمل نہیں کرتے تھے، ایسے لوگوں کا اوپر ذکر آچکا، اور ان میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے، جو دینی امور میں تورات کے احکام کی پابندی کرتے تھے اور ان کی اس پابندی نے انہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے پر مجبور کیا اور بلآخر وہ مسلمان ہوگئے اس آیت کریمہ میں اللہ نے انہی پابند تورات اور پابند نماز لوگوں کو خوشخبری دی ہے کہ اللہ ان کا اجر ضائع نہیں کرے گا۔ الاعراف
171 (105) اس واقعہ کا ذکر سورۃ بقرہ آیت (63) اور (93) اور سورۃ نساء آیت (154) میں گذر چکا ہے یہ کوہ طور کے دامن میں اس وقت پیش آیا تھا جب موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر وہاں گئے تھے تاکہ اللہ تعالیٰ ان سے تورات پر عمل کرنے کا عہد وپیمان لے اور مقصود یہ تھا کہ ان کے دلوں پر باری تعالیٰ کی ہیبت طاری ہو اور اس عہد وپیمان کا احساس ان کے دلوں میں ہمیشہ باقی رہے۔ الاعراف
172 (106) مذکورہ بالا آیت کے اختتام پر موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے واقعات کا تسلسل ختم ہوجاتا ہے، اور اب روئے سخن عام انسا نوں اور بالخصوص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے لوگوں کی طرف ہے اور انہیں بتایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف بنی اسرائیل سے ہی عہد نہیں لیا تھا بلکہ یہ عہد تو اس نے ہر فرد سے لیا ہوا ہے، جس کی تفصیل آئندہ آیت میں آرہی ہے۔ آیت کا ظاہری مفہور یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی آدم کی تمام اولاد کی (جو قیامت تک پیدا ہوگی) ازل میں ان کے آباء کی پیٹھوں سے نکالا اور ان سے اس بات کی گواہی لی کہ وہی ان کا رب اور ان کا خالق ومالک ہے، شوکانی نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ صحیح مرفوع اور موقوف احادیث سے اسی کیا تائید ہوتی ہے۔ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ اللہ نے روحوں کو جسموں سے پہلے پیدا کیا اور شہادت انہی روحوں نے دی۔ کچھ دوسرے مفسرین نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ اللہ نے ازل میں ان سب کو اکٹھا نہیں کیا تھا بلکہ ابن آدم کی تخلیق اس بات کی گوا ہی دیتی ہے کہ ان کا خالق اللہ ہے، آیت میں مثال کے ذریعہ اسی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے اس قول کے مطابق کا مفہوم یہ ہوگا کہ انسان کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی کمال کاریگری کے جو آثار ہیں، ان ہی کے پیش نظر گویا انسانوں نے کہا ہے کہ ہاں ہے ہمارے اللہ ! توہی ہمارا رب ہے، اس لیے کہ شہادت کبھی زبان قال سے ادا ہوتی ہے اور کبھی زبان حال سے اسی بات کو گواہی دے رہی ہے کہ ان کا خالق اللہ ہے اور اس کی علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، ان کی فطرت اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ ان کا خالق اللہ ہے اور اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، ان کی فطرت میں یہ بات ودیعت کردی گئی ہے کہ وہ پکار پکار کر کہہ رہا ہیں اے اللہ ! توہی ہمارا رب ہے ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں اور قیامت کے دن بھی وہ اس کا انکار کرسکیں گے۔ حافظ ابن کثیر نے تقریبا اسی رائے کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ سلف وخلف میں سے ایک جماعت کا یہی کہنا ہے کہ بنی آدم کی ذریت کو گواہ بنانے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے ان کو اپنی توحید کی فطرت پر پیدا کیا ہے، اور جو روایتیں یہ بتاتی ہیں کہ اللہ آدم کی ذریت کو ان کی پیٹھ سے نکالا، اور ان سے بات کی اور انہوں نے جواب دیا تو اس طرح کی روایتیں صحیح نہیں ہیں، اور اگر بعض صحیح ہیں تو ان کی عبادت آیت کے الفاظ سے ملتی جلتی ہیں، جن حتمی طور پر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اللہ نے واقعی آدم کی ذریت کو ان کی پیتھ سے نکالا تھا اور تیسری بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر روایتیں ابن عباس پر موقوف ہیں۔ یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں ہیں۔ اس فطری عہد کے بعد اب کوئی فرد بشر قیامت کے دن نہیں کہہ سکے گا کہ ہمیں تو پیغام پہنچا ہی نہیں تھا، یا یہ کہ ہم تو اپنے آباء اجداد کے نقش قدم پر چلتے رہے، اس لیے ہمارا موخذ کیوں ہو رہا ہے، جب ایک فرد بشر کی فطرت پکارپکار کر توحید باری تعالیٰ کی گو اہی دے رہی ہے اور اللہ کے سامنے نہ جھکنے یا اس کے علاوہ غیروں کے سامنے جھکنے کا انکار کررہی ہے، تو قیامت کے دن کسی مشرک و کافر کے پاس کون سا عذر باقی رہے گا، وباللہ التوفیق۔ الاعراف
173 الاعراف
174 الاعراف
175 (107) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے آدمی کی خبر دی ہے جسے اللہ نے آسمانی کتاب علم دیا تھا، جس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اس میں موجود دلائل وبراہین سے ستفادہ کر کے اللہ سے اپنا رشتہ استوار کرتا، اور اصلاح وتقوی کی زندگی اختیار کرتا، لیکن معاملہ برعکس رہا، اس نے دنیاعی عارضی مفاد کی خاطر اللہ کا انکار کردیا اور اس کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا، اور دامن جھاڑ کر اس سے ایسا الگ ہوگیا جیسے کوئی سانپ اپنے چمڑے کے خول سے نکل کر باہر چلا جاتا ہے، اور جب وہ اس حال کو پہنچ دیا، اللہ تعالیٰ فرمایا کہ اگر ہم چاہتے تو اس آسمانی کتاب کی بدولت اسے اوج ثریا پر پہنچا تیے لیکن وہ اس کا اہل نہیں تھا، اس نے دنیاوی فائدوں کو تر جیح دیا اور اپنے نفس کا غلام بنارہا، اور دنیا اس کا منتہائے مقصود رہی کبھی قانع نہیں ہوا ایک فائدہ حاصل ہوا تو دوسرے کے پیچھے دوڑ نے لگا، اور اسی حصول دنیا میں حیران اوپریشان رہا اسے کبھی سکون نہ ملا اس کتے کی طرح جو ہر حال میں زبان نکالے ہانپتا رہتا ہے، چاہے وہ دوڑ رہا ہو یا بیٹھا ہو، تو جو شخص آسمانی کتاب کا علم رکھتے ہوئے اس ایمان وعمل صالح کا فائدہ نہیں اٹھاتا، اسے پس پشت ڈال دیتا ہے اور کفر کی راہ اختیار کرتا ہے اس کی مثال ہر دور میں سانپ کی ہے جو اپنے چمڑے کے خول سے نکل کر باہر چلا جاتا ہے اور اس کتے کی ہے جو ہر حال میں زبان نکالتے ہا نپت رہتا ہے۔ عبد اللہ بن مسعود (رض) کی روایت کے مطابق جسے امام شوکانی نے کتب احادیث کے دس حوالوں سے نقل کیا ہے یہ آیت بلعم بن عور کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں بنی اسرائیل کا ایک فرد تھا اور جو تورات کا علم رکھتا تھا، لیکن دنیاوی مصالح کی خاطر اس کا انکار کردیا اور کفر کی راہ اختیار کرلی۔ ایک دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت میہ بن ابی الصلت کے بارے میں نازل ہوئی تھی جسے آسمانی کتابوں کا علم تھا اور جانتا تھا کہ عنقریب ہی ایک رسول آنے والا ہے اور امید کرتا تھا کہ وہ خود ہی رسول ہوگا اسی لیے جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے تو اس نے ایمان لانے سے انکار کردیا اور کفر کی حالت میں مرگیا۔ ایک تیسر قول یہ ہے کہ آیت ابو عامر کے بارے میں نازل ہوئی تھی جس نے زمانہ جاہلیت میں رہبا نیت کی زندگی اختیار کرلی تھی لیکن اسلام آنے کے بعد شام چلا گیا اور قیصر کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف بھرکاتا رہا اور وہیں مرگیا، اسی نے منافقین کو مدینہ منورہ میں مسجد ضرار بنانے پر ابھارا تھا۔ بہر حال آیت کے نزول کا سبب جو بھی ہو اس کا حکم عام ہے اور اس میں بہت بڑی وعید ہے ان علمائے سو کے لیے جو دنیا کی عارضی لزتوں کی خاطر آخرت کو فراموش کردیتے ہیں، اور دنیاہی کے پیچھے لگ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ تمام علمائے اسلام کو اس آیت کا مصداق بننے سے محفوظ رکھے۔ الاعراف
176 الاعراف
177 الاعراف
178 (108) آیت (176) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ وہ یہ وقعہ کرار قریش کو سنائیں، شاید کہ وہ عبرت حاصل کریں، اور کفر وعناد چھوڑ کر ایمان کی راہ اختیار کریں، یہاں یہ بتایا گیا ہے، کہ وعظ ونصیحت ہدایت پانے کے صرف ظاہری اسباب ہیں۔۔ ہدایت تو دراصل اللہ کی طرف سے ملا کرتے ہے، وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اسلیے آدمی کو چاہیے کہ اللہ سے ہر وقت توفیق کی دعا کرتارہے اس کے سامنے دست سوال پھیلا کر نہایت عجزی وانکساری کے ساتھ یہ کہے کہ اے اللہ ! تو اپنے فضل وکرم سے مجھے اپنے دین پر قائم رکھ اپنی رضا کے کام لیتا رہ، اور خاتمہ بالخیر نصیب فرما۔ الاعراف
179 (109) ہدایت وگمراہی اور اللہ کی تو فیق وعدم تو فیق کو جو بات ابھی گذری ہے، اسی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے یہاں خبر دی ہے کہ اس نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اپنی عقل وبصیرت سے کامل لے کر اپنے معبود حقیقی کو پہچانیں اور اسی کی عبادت کریں اور اسی کے احکام اوامر کے مطابق زندگی گذاریں، بہت سے جنوں اور انسانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کے دین کا انکار کرتے ہیں۔ اور ان کا حال ایسا ہوتا ہے، کہ ان کے دل ان کی آنکھیں اور ان کے کان بیکار ہوجاتے ہیں کوئی بھی خیر کی بات قبول کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی توحید باری تعالیٰ اور اطاعت وبندگی کے اللہ ہی کے لیے مختص ہونے کے سارے دلائل وبراہین اس کے سامنے پیش کردیئے جاتے ہیں، لیکن ان سے وہ مستفید نہیں ہوتا بلکہ اس کا کبر وغرور بڑھتا جاتا ہے، اس کی "حالت جانوروں سے بدتر ہوجاتی ہے، لیکن کار ومتکبر جن وانسان خیر وشر کے درمیان تمیز کی صلاحیت ہی کھودیتا ہے تو گو یا اس کی حالت ایسی ہوجاتی ہے، کہ جیسے اللہ نے اسے جہنم کے لیے پیدا کیا ہے، وہ جہنم کی راہ پر آگے بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کی موت آجاتی ہے، اور جہنمی بن جاتا ہے، اور یہ بات اللہ کے علم ازلی میں ہے کہ کون حق کی دعوت کو قبول کرے گا اور کون انکار کردے گا، کسے خیر کی تو فیق ہوگی اور کسے نہیں ہوگی، کون جنت کی راہ پر لگے گا اور کون جہنم کی راہ پر۔ الاعراف
180 (110) آیت (178) یہ بیان کیا گیا ہے، کہ اللہ جس کو چاہتا ہے صراط مستقیم پر چلنے کی تو فیق دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے۔ اور آیت (179) میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ کبر وغرور کی راہ اختیار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق نہیں مانگتے ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، یہ آیت کریمہ دوباتون کی طرف اشارہ کرتی ہے یاک تو یہ کہ بندہ ہر وقت اللہ کے سامنے گریہ وزاری کرتا رہے، دنیا وآخرت کی ہر بھلائی اسی سے مانگتا رہے، اسی سے لولگائے رکھے، کیونکہ سب کچھ کا مالک وہی ہے، صحیح حدیث میں آیا ہے کہ دعا عبادت کا مغز ہے اور صحیح حدیث میں آیا ہے کہ جو بندہ اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس سے ناراض ہوجاتا ہے، اور دوسری بات جو اس آیت سے سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کو اس کے اچھے ناموں کے ساتھ پکارنے کے بعد جو دعا کی جاتی ہے وہ قبول ہوتی ہے، آیت میں اللہ نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ اس کہ ناموں میں الحاد سے کام نہ لیا جائے یعنی اسے بدلا نہ جائے جیسا کہ مشرکین نے اللہ سے لات عزیز سے عزی اور منان سے منات بنا لیا تھا، اور نہ بھگوان ایشور اور انگریز گاڈ وغیرہ نام ایجاد کرلیے ہیں اور نہ اللہ کا قرآن وسنت سے کوئی ثابت شدہ نام حذف کردیا جائے اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ناموں کی تاویل کر کے ان ظا ہری معانی کو بدل دینا یا ان کا کوئی معنی ہے مراد نہ لینا یا انہیں مخلوق کے ناموں کے ساتھ تشبیہ دینا، یہ سب اللہ تعالیٰ کے ناموں میں الحاد کی صورتیں ہیں۔ صحیحین میں ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے (99) نام ہیں جو شخص انہیں گنے گا وہ جنت میں داخل ہوگا، اس کا مفہوم یہ ہے کہ جو اللہ کے ننا وے نام یاد کرے گا وہ جنت کا حقدار ہوگا، اس کا یہ مفہوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے صرف نناوے ہی نام بلکہ اللہ کے نام اس سے زیادہ ہیں جن کی تعداد اللہ ہی جانتا ہے جیسا کہ ابن مسعود کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے جسے احمد ابوعوانہ، ابو یعلی اور بزار نے روایت کی ہے، جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کو ایک عظیم دعا سکھائی ہے۔ اس میں آیا ہے کہ میں تجھ سے تیرے ہر اس نام کے ذریعہ مانگتاہوں جو تو نے اپنے لیے رکھا ہے، یا جسے تو نے اپنے پاس علم غیب میں چھپا رکھا ہے، امام نودی نے علماء کا اتفاق نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک ہزار نام ہیں۔ الاعراف
181 (111) یہاں "امتہ " سے امت محمدیہ کی ایک مراد ہے جن کی صفت یہ ہے کہ وہ حق بات بولتے ہیں دوسروں کو حق کی دعوت دیتے ہیں اور خود اس پر عمل کرتے ہیں اور لوگوں کے درمیان اس کے مطا بق فیصلے کرتے ہیں اور یہ لوگ ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحیحین میں معاویہ (رض) سے مروی ایک حدیث میں خبر دی ہے کہ میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی یہاں تک کہ قیامت آجائے گی علمائے سلف نے لکھا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن وسنت پر کسی چیز کو مقدم نہیں کرتے چاہے وہ کسی امام کا قول ہو یا کسی پیر ومرشد کے راۓ یا خواب یا کوئی ایسا اجتہاد جو دونوں کے موافق نہ ہو، یا عبادات وتسبیحات اور ذکر الہی کے وہ تمام طریقے جب کے جواز پر قرآن وسنت سے صریح دلیل نہیں ملتی وباللہ لتوفیق۔ الاعراف
182 (112) جماعت صالحین کے ذکر کے بعد اس آیت میں اللہ کی آیتوں کو جھٹلانے والوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے روزی کے تمام دروازے کھول دیتا ہے یہاں تک کہ وہ دھوکے میں پڑجاتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ اللہ ان سے خوش ہے پھر وہ اللہ کا شکر ادا کرنا بالکل بھول جاتے ہیں اور مقرر وقت پر اللہ کا عذاب انہیں آلیتا ہے۔ الاعراف
183 (113) یہاں مراد ابو جہل اور دیگر کفار ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ڈھیل دے دی تھی، یہاں تک کہ میدان بدر میں سب کے سب مارے گئے۔ الاعراف
184 (114) کفار قریش رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بچپن سے اچھی طرح جانتے تھے، انہیں پتہ تھا کہ آپ عقلی اور اخلاقی اعتبار سے ان میں سب سے اعلی وارفع ہیں۔ لیکن جب دعوت اسلام لے کر ان کے سامنے آئے تو کہنے لگے کہ یہ تو مجنون ہے جبھی تو اس قسم کی باتیں کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کی اور کہا کہ محمد نہ تو مجنون ہیں جیسا کہ کفار قریش انہیں بچپن سے جانتے ہیں، اور نہ جو باتیں بتاتے ہیں وہ کسی پاگل کی بڑ ہے، بلکہ وہ تو اللہ کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ الاعراف
185 (115) کفار قریش کو دعوت فکر و نظر دی جا رہی ہے تاکہ اللہ کی وحدانیت اور اس کی خالقیت پر ایمان لے آئیں اروحلقہ بگوش اسلام ہوجائیں انہیں کہا جا رہا ہے کہ وہ شمس وقمر ستاروں اور بادل، سمندر اور پہار، چپایوں اور دیگر مخلوقات کے بارے میں غور وفکر کیوں نہیں کرتے تاکہ دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے ایمان لے آئیں اور آخرت میں سرخروہوں، انہیں قرآن جیسی معجزہ اور جامع کتاب کس کے بعد کس معجزہ کا انتظار ہے جسے دیکھ کر ایمان لے آئیں گے ؟ الاعراف
186 116۔ یہاں پھر وہی اللہ کی توفیق والی بات آگئی کہ اللہ کی مخلوقات میں فکر و نظر بھی اسی کے لیے مفید ہے جسے اللہ توفیق دے، اور جسے اللہ توفیق نہیں دے گا وہ سرکشی و گمراہی میں بھٹکتا ہی رہے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ مائدہ آیت 41 میں فرمایا، ومن یرد اللہ فتنۃ فلن فتنتہ فلن تملک لہ من اللہ شیئا، کہ جسے اللہ فتنہ میں ڈالنا چاہے گا، اسے آپ کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے۔ الاعراف
187 (117) بعض کفار قریش نے وقوع قیامت کو مستبعد سمجھتے ہوئے اور قرآن اور سول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی ؟ تو یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھا جائے تو کہہ دیجئے کہ اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔، آسمان اور زمین میں رہنے والے اس کا علم نہیں رکھتے اور قیامت بالکل اچانک آئے گی، صحیح احادیث سے بھی اس کا تائید ہوتی ہے، دوبارہ مزید تاکید کے طور پر اللہ نے فرمایا یہ لوگ قیامت کے بارے میں آپ سے اس طرح پوچھتے ہیں کہ جیسے آپ کو اس کا علم ہے، آپ کہہ دیجئے کہ قیامت کا علم صرف اللہ کو ہے۔ الاعراف
188 (118) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ اللہ کے لیے اپنی عبودیت کا اعلان کردیں اور اپنے بارے میں لوگوں کو بتا دیں کہ آپ غیبی امور کی کوئی چیز نہیں رکھتے۔، آپ کو صرف وہی باتیں معلوم ہیں جن کی خبر اللہ نے آپ کو بذریعہ وحی دی ہے، سورۃ یونس آیات (48/49) میں بھی یہی بات کہی گئی ہے، مزید تاکید کے طور پر کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غیب کا علم نہیں تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کی زبان میں فرمایا کہ اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تو پہلے سے ہی اسباب مہیا کر کے اپنے لیے فوائد ومنا فع جمع کرلیتا مثلا قحط سالی کے زمانے کے لیے زرخیزی اور خوشحالی کے ایام میں ہی تیار کرلیتا تو مجھے کوئی تکلیف نہ لاحق ہوتی لیکن ایسا نہیں کرسکتا دلیل اس بات کی کہ میں غیب کا علم نہیں رکھتا ہوں میں تو اللہ کی وحی کے مطابق اللہ پر ایمان رکھنے والوں کو صرف اس کا پیغام پہنچانے آیا ہوں۔ الاعراف
189 (119) اللہ تعالیٰ نے ہل کفر اور اہل شرک کو ان کی جاہلانہ جرات پر تنبیہہ کی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیروں کو شریک بنانے کی جرات کیسے کرتے ہیں ؟ اور ان کی عقل اسے کیسے قبول کرلیتے ہے؟ اس لیے کہ ان کا خالق اللہ ہے جس نے انہیں آدم سے پیدا کیا، اور آدم سے ان کی بیوی حواکو اور پھر ہر مرد کے لیے اسی کے جنس سے اس کی بیوی کو پیدا کیا، تاکہ اس کی قربت سے اسے سکون حاصل ہو، اس لیے کہ اگر بیوی ہم جنس نہ ہوتی تو دونوں ایک دوسرے سے انس نہیں نہیں حاصل کر پاتے، تو جس اللہ نے انہیں اور ان کی بیوی کو پیدا کیا وہی ذات واحد عبادت کے لائق ہے، پھر مشرک کی ایک اور حالت یہ ہے کہ جب وہ اپنی بیوی سے ہم بستری کرتا ہے، اور حمل قرار پاجا تا ہے اور کئی مراحل سے گذ کر جب پیٹ میں بچہ حرکت کرنے لگتا ہے تو دونوں میاں بیوی مل کر دعا کرتے ہیں کہ اگر اللہ نے صحیح سالم بچہ دیا تو اللہ کا خوب شکر ادا کریں گے، لیکن صحیح سالم ہونے کے بعد دونوں کہنا شروع کرتے ہیں کہ یہ تو ہمارے بتون اور معبودوں کی دین ہے، جیسا کہ ہر زمانے میں مشر کین کرتے آئے ہیں کہ اولاد دینے والا اور روزی رساں اللہ کے سوا غیر کو مانتے رہے ہیں۔ بہت سے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں ٹھو کر کھائی ہے اور وہیات روایات وآثار کی بنیاد پر اس آیت کا مصداق آدم وحوا کو قرار دیا ہے، جو صحیح نہیں ہے، ابن جریر، حافظ ابن کثیر اور صاحب محاسن التنزیل وغیر ہم نے اس پر سخت نکیر کی ہے، اور آیت کی وہی تفسیر بیان کی ہے جو ابھی اوپر گذر ری ہے، حسن بصری سے بھی یہی تفسیر منقول ہے۔ الاعراف
190 الاعراف
191 (120) یہ کیسی عجیب بات ہے کہ مشرکین اللہ کو اس کا شریک بتاتے ہیں جو ایک بھی پیدا نہیں کرسکتے، جیسا کہ سورۃ حج آیت (73) میں آیا ہے۔ الاعراف
192 121) اور نہ وہ خود اپنی مدد کرسکتے ہیں اور نہ اپنے عبادت گذاروں کی مدد کرسکتے ہیں، جیس کہ اللہ نے سورۃ حج آیتا (73) میں فرمایا ہے کہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے، تو اسے بھی وہ واپس نہیں لے سکتے الاعراف
193 (122) اور مشر کین اگر اپنے اصنام کو رشد وہ ہدایت کی دعوت دیں گے تو وہ ان کی پیروی کریں گے اس لیے کہ نے جان بتوں کے لیے ہدایت وگمراہی دونوں برابر ہے۔ الاعراف
194 الاعراف
195 (123) بتوں کی نہایت درجہ تحقیر وتذلیل ہے اور بت پرستوں کی عقلوں پر ماتم کہ وہ ایسی چیزوں کو عبادت کرتے ہیں، جو کلی طوپر ان کا جواب دینے سے عاجز ہیں۔ (124) مشر کین کی مزید مذمت اور ان کی عقلوں پر بار بار ماتم کے طور پر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ مشرکین سے کہئے کہ جن بتوں کو تم اللہ کا شریک ٹھراتے ہو، انہیں میرے خلاف اپنی مدد کے لیے بلا لو اور تم سب مل کر مجھے مہلت بھی نہ دو تو کیا میرا مال بھی بیکا کرسکو گے ہرگز نہیں، اس لیے کہ تمہیں اپنے بتوں کے کلی طور پر عاجز ہونے کا پتہ ہے۔ الاعراف
196 (125) اور میں تو تمہاری اور تمہارے معبو دوں کی قطعا پرواہ نہیں کرتا ہوں کیو کہ میرا حامی وناصر تو وہ اللہ ہے جس نے مجھے پر قران نازل کیا ہے، اور وہ ہمیشہ اپنے نیک بندوں کا حامی وناصر ہوتا ہے۔ الاعراف
197 (126) تمہارے معبود اور تمہارے پتھر کے اصنام تمہاری کچھ بھی نصرت وحمایت نہیں کرسکتے ہیں۔ الاعراف
198 (127) وہ تمہاری پکار کو نہیں سنتے ہیں، اس لیے کہ ان کے کان نہیں ہیں، اگرچہ تم نے اپنے ہاتھون سے ان کے کان بنا دیئے ہیں، وہ جماد ہیں م تمہیں دیکھتے نہیں ہیں اگرچہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی پتھریلی آنکھوں سے تمہیں دیکھ رہے ہیں، پھر بتاؤ تو سہی کہ میں ان پر پتھروں کے معبودوں کی کیا پرواہ کروں؟! الاعراف
199 (128) اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم دیا ہے کہ غصہ ہونے کے بجائے لوگوں کے ساتھ عفو و درگزر کا معاملہ کریں، اس لیے کہ وعظ ونصیحت میں یہی طریقہ سود مند ہے اور لوگوں اچھے اور مستحسن کاموں کا حکم دیں جنہیں انسان بطیب خاطر قبول کرلیتا ہے اور نادانوں کے ساتھ سختی کا معاملہ نہ کریں اور اگر آپ کے ساتھ وہ بد سلو کی کریں تو نظر انداز کر جائیں اور تحمل سے کام لیں۔ امام جعفر صادق رحتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ پورے قرآن میں اس سے بڑھ کر کوئی آیت نہیں ہے جس میں اعلی اخلاق قدروں کو بیان کیا گیا ہو۔ الاعراف
200 (129) اور اگر شیطان آپ کو ان کی نادانی اور بد سلوکی پر ان کے خلاف ابھارے اور غصہ دلائے اور دل میں سوسہ پیدا کرے کہ عفو و درگزر اور نیکی کی راہ چھوڑ دیجئے تو فو را اللہ کے ذریعہ مردود شیطان سے پناہ مانگئے اور دعا کیجیئے کہ اللہ اسے آپ سے دور کر دے کیونکہ شیطان کے فتنوں سے بچنے کا یہی ایک راستہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجائے۔ الاعراف
201 (130) اللہ سے ڈرنے والوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب انہیں کوئی شیطان وسوسہ لاحق ہوتا ہے تو انہیں یاد آتا ہے کہ فورا اعوذ باللہ من الشیطان الر جیم پڑھنا چا ہئے، اور اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے چنانچہ ایسا کرنے سے انہیں اپنی غلطیاں سمجھ میں آتی ہیں اور شیطان کی سازشوں کا پتہ چل جاتا ہے اور اللہ کے فضل وکرم سے ان سازشوں سے محفوظ ہوجاتے ہی۔ الاعراف
202 لیکن جو اللہ سے نہیں ڈرتے، اور شیطان کے بھائی ہوتے ہیں، انہیں اللہ کے ذریعہ شیطان کے وسوسوں سے پناہ مانگنا یاد نہیں آتا اور شیاطین ان کے دل و دماغ میں کثرت سے شہبات پیدا کرتے ہیں، گناہوں کے ذریعہ شیطان کو وسو سوں سے پناہ مانگنا یاد نہیں آتا اور شیاطین ان کے دل ودماغ میں کثرت سے شہبات پیدا کرتے ہیں گناہوں کی خو شنما بنا کر پیش کرتے ہیں اور انہیں کر گذر نے کو ان کے لیے آسان بنا دیتے ہیں آخر کار وہ لوگ ان معاصی کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں، اور مستقبل میں اسی راہ پر چل پڑتے ہیں۔ الاعراف
203 (132) مشرکین کی بہت ساری گمراہیوں میں سے ایک گمراہی یہ بھی تھی کہ وہ قتافوقتا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مخصوص نشانیوں کے مطالبہ کرتے اور مقصود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پر یشان کرنا اور ان کا مذاق اڑانا ہوتا تھا ورنہ سب سے عظیم معجزہ قرآن کریم تو رات دن ان کے سامنے اتر تا ہی رہتا تھا، اور اس کی آیتیں اہل ایمان کی آنکھیں کھو لنے کے لے کافی تھیں جب مشرکین کیسی نشانی کا مطالبہ کرتے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کے سامنے پیش نہیں کرتے تو بطور استہزاء کہتے کہ تم اسے اپنی طرف سے گھر کیوں نہیں لیتے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا آپ کہہ دیجئے کہ میں اللہ کا بندہہ اور اس کا رسول ہوں میں اللہ پر افترپردازی نہیں کرتا مجھے تو بذریعہ وحی میں جو کچھ بتایا جاتا ہے اس کی اتباع کرتا ہوں اور یہ قرآن عظیم تو دل کی آنکھوں کو کھولتا ہے، اور اسے بصیرت عطاکر تا ہے اور بھلائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور و عذاب نار سے بچنے کے لیے اللہ کی رحمت ہے۔ علمائے تفسیر لکھتے ہیں یہ آیت دلیل ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہر قول وفعل وحی الہی کے مطابق ہوتا تھا اور جب تک اللہ کی طرف سے حکم نہ مل جاتا آپ اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کرتے تھے۔ الاعراف
204 (133) اوپر کی آیت میں قرآن کریم کے فضائل وخصائص بیان کئے گئے کہ یہ کتاب عظیم دل کی آنکھوں کو کھولتی ہے اور اسے بصیرت عطا کرتی ہے، اور بھلائی کی طرف رہنمائی کرتے ہے، اور عذاب نار سے بچنے کا ذریعہ ہے، اسی مناسبت سے یہاں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہو تو اسے غور سے سنو، تاکہ اس کے معانی کو سمجھو اور اس میں جو پنونصائح ہیں ان سے مستفید ہو سکو کفار قریش کی طرح نہ کرو جو اپنے ساتھیوں سے کہا کرتے تھے، کہ جب محمد قرآن پرھنا شروع کرے تو تم لوگ اسے نہ سنو اور تشویش پیدا کرو تو کہ کوئی اس پر کان نہ دھرسکے۔ (فصلت :26) اس آیت کے ظاہری الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی تلاوت چاہے نماز میں ہو رہی ہو یا کسی اور وقت میں اسے غور سے سننا اور خاموشی اختیار کرنا واجب ہے، امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن جنبل کا یہی مسلک ہے، ان حضرات نے اس آیت کے علاہ صحیح مسلم کو انس، عائشہ اور ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جس میں آیا ہے کہ امام اس لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے جب تکبیر کہو، اروجب قرات کرے تو خاموش رہو، اور مسند احمد اور کتب سنن میں ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ دوسری حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جس میں آیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سلام پھیر نے کے بعد فرمایا کہ قرآن پڑھنے میں میرے ساتھ کیوں جھگڑا جاتا ہے، یعنی میں بھی پڑھتا ہوں اور تم لوگ بھی پڑھتے ہو۔ لیکن دوسری صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کر یم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن پر قرآن کریم نازل ہوا) سورۃ فاتحہ کی قرات کو اس حکم عام سے مستثنی قرار دیا ہے اور اس کا پڑھنا ہر مقتدی کے لیے واجب قرار دیا ہے، جیسا کہ ابو داؤد اور ترمذی نے عبادہ بن صامت (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز سے سلام پھر نے کے بعد پوچھا کہ کیا تم لوگ امام کے پیچھے پڑھتے ہو تو صحابہ نے کہا کہ ہاں اے اللہ کے رسول ! تو آپ نے فرمایا کہ ام القرآن) فاتحہ) کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھو اس لیے کہ جو سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی، ایک روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب میں جہری قرات کرو‏ں تو ام القرآن کے علاوہ کچھ نہ پڑھو، اسے ابوداؤد، نسائی اور دارقطنی نے روایت کی ہے، اور اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ ابن حبان نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کیا تم لوگ جب امام قرات کر رہا ہوتا ہے تو اس کے پیچھے پڑھتے ہو ؟ ایسا نہ کرو اور تمہیں سورۃ فاتحہ اپنے دل میں پڑھ لینا چاہیئے امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری نے اسی کو تر جیح دیا ہے اور ہر نماز میں چاہے سری ہو یا جہر سورۃ فاتحہ کی قرات کو واجب قرار دیا ہے، دیگر محدثین کا بھی یہی مسلک رہا ہے حیرت ہے کہ امام احمد بن جنبل رحتہ اللہ سے جو اپنے ج زمانے میں محد ثین کے امام تھے کیسے چوک ہوگئی اور کیوں ان احادیثکو نظر انداز کر گئے سبحان من لاینسی یہ بحث سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں گذر چکی ہے اسے دوبارہ دیکھ لینا مفید رہے گا۔ الاعراف
205 (134) یہ حکم معراج کی رات کو پنجگانہ نمازوں کی فرضیت سے پہلے کا ہے، اس وقت مسلمانوں کو یہ حکم تھا کہ صبح وشام اللہ تعالیٰ کو یاد کیا کریں، نمازوں کی فرضیت کے بعد اس آیت کا حکم عام باقی رہ گیا اگرچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے، لیکن اس میں تمام مسلمان داخل ہیں اس آیت سے ذکر الہی کے مندرجہ ذ یل آداب مستفاد ہیں : 1۔ ذکر الہی کی اصل یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کو دل سے یاد کرے یعنی اگر دل غافل ہے اور زبان چل رہی ہے تو اسے ذکر الہی نہیں کہیں گے اور اللہ کو چپکے چپکے یاد کرے تاکہ ریاکاری کا شبہ نہ ہو اور اخلاص کے زیادہ قریب ہو۔ 2۔ اللہ کے حضور خوب گریہ وزاری اختیار کرے اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی خشیت دل پر طاری ہو کہ عمل کی زندگی میں تفصیر کی وجہ سے کہیں اللہ کی گرفت نہ ہوجائے۔ 4۔ آواز اونچی نہ کرے جیسا کہ صحیحین میں ابو موسیٰ اشعری کی روایت آئی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے لوگو تم لوگ کسی گونگے اور غائب کو نہیں پکار تے ہو جس ذات کو تم پکارتے ہو وہ بہت زیادہ سننے والا اور بہت قریب ہے۔ 5۔ زبان دل کا ساتھ دے۔ 6۔ ذکر الہی صبح شام ہو، اس آیت سے ان دونوں وقتوں میں ذکر الہی کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلما نوں کو نصیحت کی کہ وہ کبھی بھی اللہ کی یا د سے غافل نہ ہوں۔ الاعراف
206 (135) یہی وہ ذکر الہی ہے جس میں فرشتے رات دن خشوع وخضوع کے ساتھ مشغول رہتے ہیں، اور کبھی بھی نہیں تھکتے، اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں، اور اس کے حضور سجدہ کرتے رہتے ہیں، اور اس سے مقصود مومنوں کو ترغیب دلانا ہے کہ وہ بھی فرشتوں کی طرح کثرت سے اللہ کو یاد کرتے رہیں، تسبیح وتہلیل میں مشغول رہیں، نماز پڑھیں اور سجدہ کرتے رہیں۔ اس آیت کی تلاوت کے بعد قاری اور غور سے سننے والے دونوں کے لیے قبلہ رخ ہو کر سجدہ کر مشروع ہے، اور افضل یہ ہے کہ سجدہ کرنے والا باوضو ہو، قرآن کریم میں یہ پیلا سجدہ ہے۔ صحیحین میں عبد اللہ بن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب غیر حالت نماز میں کوئی سجدہ والی سورت پڑھتے تو سجدہ کرتے اور ہم لوگ بھی سجدہ کرتے اور ازودحام کی وجہ سے لوگ اپنی پیشانی کے لیے جگہ نہیں پاتے تھے۔ احادیث میں اللہ کے لیے سجدہ کرنے کی بڑی فضلیت آئی ہے امام مسلم نو ثوبان سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا اللہ کے لیے کثرت سے سجدہ کیا کرو، اگر اللہ کے لیے ایک سجدہ کروگے تو اللہ تمہارا مقام ایک درجہ بلند کرے گا، اور ایک گناہ مٹادے گا۔ الاعراف
0 تفسیر سورۃ الا نفال نام : اس کا نام "الانفال " سورت کی پہلی آیت سے ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول : پوری سورت مدنی ہے امام بخاری اور دیگر محدثین نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ غزوہ بدر کے درمیان مقام بدر میں نازل ہوئی اس میں پچہتر آیتیں ہیں۔ الانفال
1 (1) جنگ بدر میں مسلمانوں کو اللہ کی غیبی مدد کے ذریعہ فتح مبین ملی بڑے بڑے صنادید قریش مارے گئے اور جو قتل ہونے سے بچ گئے ان میں سے ستر (70) آدمی سلا سل کرلیے گئے اور باقی مکہ کی طرف بھاگنے میں کامیاب ہوگئے، یہ تمام مقتولین قیدی اور بھاگنے والے کفار اپنے پیچھے بہت سارے ہتھیار اودوسرے اموال غنیمت چھوڑ گئے، کچھ مسلما نوں نے انہیں جمع کیا اور کچھ مسلمانوں نے دشمنوں کا پیچھا کیا، اور کچھ جانبازوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گرد گھیر اڈالے رکھا تاکہ دشمن ان پر حملہ نہ کردے رات کے وقت جب سبھی اکٹھا ہوئے تو ان غنائم کے بارے میں آپس میں باتیں کرنے لگے اور ہر ایک نے اموال غنیمت کے سلسلے میں دور جاہلیت کے باقی ماندہ سماجی اور اخلاقی اثرات کے تحت اپنی اپنی محنت وجا نفشانی کے مطابق اپنا اپنا حق جتانا شروع کیا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرماکر مسلما نوں کو بتایا کہ میدان جنگ میں جو اموال غنیمت ہاتھ آئے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں، رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم اللہ کے حکم کے مطابق ان میں تصرف کریں گے، ان اموال کو اللہ نے نفل کے لفظ سے تعبیر کیا، اس لیے کہ نفل اضافی اور زائد چیز کو کہتے ہیں گویا مسلمانوں کو ذہن میں ی بات بٹھانی چاہی کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا اصل مقصد تو اللہ کی رضا اور جنت حاصل کرنا ہوتا ہے وہ انشاء اللہ ملے گا یہ اموال غنیمت اضافی چیزیں ہیں، اللہ نے بطور احسان انہیں تمہارے لیے حلال بنادیا ہے، جب کہ پہلے امتوں کے لیے حرام تھے، اس لیے مسلمانوں کو ان کے حصول کے لیے آپس میں اختلاف نہیں کرنا چاہیئے اور جاہلیت کے عادات واطوار سے بلند ہو کر اعلی اسلامی اخلاقی کا ثبوت دینا چا یئے۔ تقسیم غنائم کے سلسلے میں اس آیت میں موجود اجمال کی تفصیل اللہ تعالیٰ نے اسی سورت کی آیت (41) میں بیان کردی ہے چنانچہ اموال غنیمت کا پانچو اں حصہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس رہا جس میں انہوں نے اپنی مرضی کے مطابق تصرف کیا اسی میں بعض صحابہ کو اپنی طرف سے تشجیعی انعامات دیئے اور باقی چارحصے مجاہدین کے درمیان تقسیم کردیئے۔ آیت میں غنائم کا حکم بیان کرنے کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے مسلما نوں کی دینی اور اخلاقی تربیت کے پیش نظر تقوی آپس میں الفت ومحبت اور اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کی بھی نصیھت کی ہے کیونکہ ایمان باللہ کا یہی تقاضا ہے اور درپردہ انہیں یہ نصیحت بھی کی ہے کہ دور جاہلیت کے عادات واطوار سے انہیں کلی طور پر دور ہوجا نا چاہیے اس لیے اسلام مسلمانوں کے لیے دینی اور اخلاقی پستی کو گوارہ نہیں کرتا۔ ابن جریر کہتے ہیں کہ آیت میں انفال سے مراد ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض مجاہدین کو ان کے حصے کے علا وہ دیا تھا جیسا کہ نبی کریمک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد بن ابی وقاص (رض) کو سعید بن العاص کی تلوار دے دی تھی۔ الانفال
2 (2) اوپر والی آیت میں جب مومنین کا ذکر آیا ہے اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل دو آیتوں میں انہی کے اوصاف بیان فرمائے ہیں پہلی صفت یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا ذکر کسی بھی حثیت سے آتا ہے تو عظمت وہیت باری تعالیٰ کو تصور سے ان پر رعب طاری ہوجاتا ہے، اور مارے خوف کے ان کے رونگٹے کھڑ ہوجاتے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم سے اللہ کی نافرمانی ہوگئی ہو اور اس کی گرفت میں آجائیں۔ ان کی دوسری صفت یہ ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت ہوتی ہے تو ان کے ایمان ویقین میں اضافہ ہوجاتا ہے، اور ان کے دلوں کو سکون واطمینان حاصل ہوتا ہے۔ یہ آیت اس بارے میں بالکل صریح ہے کہ مومن کا کا ایمان گھٹتا بڑھتا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الا یمان میں ابو عبیدہ القاسم بن سلام کے حوالہ سے ایک سو چھتیس علمائے کرام کے نام ذکر کئے ہیں جن کا عقیدہ تھا کہ ایمان گھٹتا بڑھتا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں ایک ہزار سے زائد علماء سے ملا قات کی ان سب کا یہی عقیدہ تھا ائمہ کرام مالک، شافعی اور احمد رحمہم اللہ کا بھی یہی عقیدہ تھام امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اس مسئلہ میں چوک ہوئی ہے ان کا خیال تھا کہ ایمان میں کمی زیادتی نہیں ہوتی ہے جو اس صریح آیت کے خلاف ہے۔ ان کی تیسری صفت یہ ہے کہ وہ ہر حال میں صرف اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں نہ غیر اللہ سے کو ئیامید رکھتے ہیں، نہ ہی ڈرتے ہیں اور نہ غیر اللہ کے حوالے اپنے معاملات کرتے ہیں۔ ان مومنین کی چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ اپنی فرض نمازیں اول وقت میں تمام ارکان ووجبات کا لحاظ کرتے ہوئے ادا کرتے ہیں۔ اور ان کی پانچویں صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کی دی ہوئی روزی میں سے اس کی راہ پر خرچ کرتے ہیں مو منوں کے اندر مندر جہ ذیل بالا صفات ہوں گی اللہ تعالیٰ نے چوتھی آیت میں انہیں سرٹفیکیٹ دے دیا ہے ان کے ایمان میں کوئی شبہ نہیں ہے، اور جنت میں انہیں بلند فرجات ملیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف کردے گا اور جنت میں انہیں انواع وقسام کی نعمتیں ملیں گی۔ الانفال
3 الانفال
4 الانفال
5 (3) یہ اور اس کے بعد آنے عالی آیتیں جب کا تعلق غزوہ بدر سے ہے، انہیں اچھی طرح سمجھنے کے لیے اس غزوہ کا پس منظر معلوم ہونا ضروری ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام پر جب قریش نے عرصہ حیات تنگ کردیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہجرت کا حکم دے دیا، اور مسلمان مشکل ترین حالات کے پیش نظر اور کفار مکہ کے خوف سے اپنا سب کچھ چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، اور کفار مکہ نے مہاجرین کے مال ودولت پر قبضہ کرلیا 2 ھ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوا کہ قریش کا یاک تجاری قافلہ مال ودولت سے بھرپور ابو سفیان کی قیادت میں شام سے مکہ کی طرف جا رہا ہے آپ نے صحابہ کرام کی جمع کیا اور کہا کہ ہمیں ان کا پیچھا کرنا چایئے اور اس تعاقب سے مقصود کفار قریش کو ذہنی طور پر زک پہنچا نا اور انہیں یہ باور کرانا تھا کہ مسلمان اب کفرو شرک کا قلع قمع کرنے کے لیے تیار ہوچکے ہیں اس کے ساتھ ہی یہ بھی مقصد تھا کہ جس طرح کفار قریش نے مسلمانوں کی دولت ارمال وجائداد پر ہجرت کے وقت قبضہ کرلیا اب آگیا ہے کہ ہم ان کا مال کے عوض چھین لیں، چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین سوار کچھ صحابہ کرام کو لے کر سمندر کے کنارے کنارے بدر کے طرف روانہ ہوئے جو شام سے مکہ جانے کا راستہ تھا۔ ابو سفیان کو معلوم ہوگیا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قافلہ کا پیچھا کر رہے ہیں، ابو سفیان نے فوراضمضم بن عمرو کو مکہ روانہ کیا تاکہ اہل مکہ کو اس کی خبر دے، اہل مکہ فوراہی تقریبا ایک ہزار کا لشکر لے کر قافلہ کے حفاظت اور مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے روانہ ہوگئے ابو سفیان قافلہ لے کر دائیں طرف ساحل سمندر کی طرف نکل گئے اور قریش کا لشکر مقام بدر میں پہنچ گیا، اور اللہ تعالیٰ نے بغیر سابقہ میعاد کے مسلمانوں اور کافروں کو ایک دوسرے کے مقا بلہ میں لاکھڑا کیا تاکہ حق و باطل کا فیصلہ ہوجائے اور مسلمانوں کوں اللہ ان کے اولین جانی دشمنوں پر غلبہ عطا فرمائے، اسلام کی یہ پہلی جنگ 17 رمضان المبارک بروز جمعہ لڑی گئی تھی، اللہ تعالیٰ نے کافروں کاشکست فاش دی (ستر (70) سے زیا دہ کفار ماے گئے، اور تقریبا اتنے ہی قید کرلیے گئے ،۔ حافظ ابن مردویہ نے ابو ایوب انصاری (رض) سے روایت کی ہے کہ جب صحابہ کرام نے قافلہ قریش کا پیچھا کرتے ہوئے ایک یا دو دن کا راستہ طے کرلیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے کہا کہ ممکن ہے تمہیں کفار قریش سے جنگ کرنی بڑے تو صحابہ نے کہا کہ دشمن سے مقابلہ کی ہمارے اند طاقت نہیں ہے ( اس لیے ہم جنگ کی تیاری کرنے نہیں نکلے ہیں) ہمارا ارادہ تو صرف قافلہ والوں سے نمٹنا تھا، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوبارہ دہرا یا، اور صحابہ نے پہلاہی جیس جواب دیا تو مقد داد بن عمرو نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم آپ کو ویسا ہی جواب نہیں دیں گے جیسا قوم موسیٰ نے دیا تھا ابو ایوب انصاری کہتے ہیں کہ جب انصار نے مقداد کی یہ بات سنے تو ان میں سے ہر شخص نے تمنا کی کہ کاش ہم نے یہ بات کہی ہوتی، اسی پس منظر کو بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی آیت (5) نازل فرمائی۔ اس پس منظر کو سمجھ لینے کے بعد اس آیت کا صحیح مفہوم سمجھنا آسان ہوگیا، اجس کی تعیین میں (آیت کی ابتدا میں حرف کاف آنے کی وجہ سے) ائمہ تفسیر کے کئی اقوال آئے ہیں، آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جس طرح تم لوگوں نے امول غنیمت کی تقسیم میں اختلاف کیا، اور کچھ اخلاتی پستی کا مظاہرہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے رسول کے حوالہ کردیا اور انہوں نے عدل وانصاف کے ساتھ تقسیم کیا، اور بالآ خر پتہ چلا کہ مسلمانوں کی مصلحت اسی میں تھی، اسی طرح اللہ نے اپنے رسول کو ان کے گھر یعنی مدینہ سے اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر نکالا، جسے اللہ ہی جانتا تھا، حالانکہ مسلمانوں کی ایک جماعت پر یہ بات بہت ہی گراں گذری، کہ نکلے تھے قافلہ سے نمٹنے کے لیے اور اب ان سے لشکر قریش سے جنگ کرنے کے لیے کہا جارہا ہے چنانچہ جنگ ہوئی اور اللہ نے مسلمانوں کو فتح ونصرت اور مال غنیمت سب کچھ سے نوازا۔ الانفال
6 آیت (6) میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانون کی اسی ذہنی کیفیت کو بیان کیا ہے، اور یہ کیفیت ان کی ایمانی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی خستہ حالی اور جنگ کے لے کسی مادی تیاری نہ ہونے کی وجہ سے تھی، جبکہ مشرکین کی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی اور پو ری طرح سے جنگ کی تیاری کر کے آئے تھے۔ الانفال
7 (4) اللہ چاہتا تھا کہ مسلمانوں کی مڈ بھیڑ لشکر قریش سے ہوجائے اور حق وباطل کا فیصلہ ہوجائے اور اللہ کی نصرت کے ذریعہ قافلہ قریش سے آمنا سامنا ہو، جن کی تعداد چالیس کے قریب تھی۔ الانفال
8 (5) اس آیت کریمہ میں اللہ نے لشکر قریش سے مڈ بھیڑ ہونے کی حکمت ومصلحت بیان کی ہے کہ اللہ چاہتا تھا باطل کی کمر توڑ دے اور دین حق کے پاؤں ہمیشہ کے لے جم جائیں۔ الانفال
9 (6) امام مسلم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے انہوں نے کہا کہ مجھ سے عمر بن خطاب (رض) نے بیان کیا کہ غزوہ بدر کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ مشرکین کی تعداد ایک ہزار ہے اور صحابہ صرف تین سو دس اور کچھ ہیں تو قبلہ کی طرف رخ کر کے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے شروع کی کہ اے اللہ ! مجھ سے جو وعدہ کیا تھا اسے آج پورا کردے اے اللہ ! مجھ سے جو وعدہ کیا تھا عطا فرما اے اللہ ! اگر مسلمان کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین میں تیری عبادت کون کرے گا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چادر آپ کے کندھے پر لوٹا دی اور کہا کہ اے اللہ کے نبی اب بس کیجئے اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا، تو اللہ تعالیٰ یہ آیت نازل فرمائی انتہی، اور مسلمان کو خوشخبری دی گئی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا قبول ہوگئی اور اللہ ایک ہزار فرشتوں کے ذریعہ مسلمانوں کہ مدد کرے گا، اور یہ خوشخبری مسلمانوں کے اطمینان خاطر کے لیے تھی ورنہ اللہ تو بغیر کسی بغیر ظاہر اسباب کے اپنے بندوں کی مدد پر پوری طرح قادر ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن فرمایا یہ جبرائیل ہیں اپنے گھوڑے کا سر پکڑے ہوئے ہیں، اور جنگ کا اسلحہ لیے ہوئے ہیں۔ الانفال
10 الانفال
11 (7) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام پر اپنے انعام کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے جنگ سے پہلی والی رات میں مسلمانوں پر گہری نیند طار کردی جس سے انہیں سکون مل گیا اور اللہ کے دلوں سے دشمن کا رعب نکال دیا بعض لوگوں نے کہا کہ مسلمانوں پر یہ اونگھ میدان جنگ میں طاری ہوئی تھی۔ ایک دوسرے انعام جو مسلمانوں پر بدر کے دن ہوا وہ یہ تھا کہ اللہ تعا نے بارش بھیج دی جس سے ریتلی زمین سخت ہوگئی، غباردب گیا، اوزمین ایسی ہوگئی کہ مجاہدین کے لیے جنگی کروفر آسان ہوگیا نیز ان کے دلوں سے شیطان کا یہ وسوسہ جاتا رہا کہ ریتلی زمین پر جنگ کرسکیں گے؟ الانفال
12 (8) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک پوشیدہ انعام کی طرف اشارہ کیا ہے تاکہ مسلمان اس پر اپنے اللہ کا شکر ادا کریں، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بتایا کہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہوں اس لیے تم لوگ انہیں ثابت قدم رکھنے کی کو شش میں لگے رہو ان کے دلوں سے وسو سہ کو نکا لتے رہو، ان کے ساتھ مل کر کافروں سے لڑتے رہو، میں عنقریب ہی کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا، اور ان کے ہر اس عضو پر کاری ضرب لگاؤ جو ان کی موت کا سبب بنے، علماء نے لکھا کہ یہ آیت صریح دلیل ہے کہ فرشتوں نے میدان بدر میں مسلمانوں کے شانہ بشانہ جنگ کی تھی۔ الانفال
13 (9) اللہ تعالیٰ کفار قریش کو دینا میں یہ عذاب اس لیے ددیا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف بغاوت کی اور آخرت میں جہنم ان کا ٹھکانہ ہوگا۔ الانفال
14 الانفال
15 (10) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے میدان جہاد کا ایک بہت ہی اہم حکم بیان کیا ہے کہ مسلمان جب کافروں سے برسر پیکار ہوں تو میدان چھوڑ کربھاگ کھڑا ہونا حرام ہے، جو شخص ایسا کرے گا وہ اللہ کے غضب کا مستحق ہوگا اور اجہنم اس کا ٹھکا نا ہوگا، اس لیے کہ کبھی ایک سپاہی کی بزدلی پوری فوج کی شکست کا سبب بن جاتی ہے، صحابہ کی ایک جماعت نے فرار کی اس حرمت کو غزوہ بدر کے ساتھ خاص بتایا ہے، یعنی اہل بدر کے لیے میدان چھوڑ کر بھاگنے کی کوئی گنجائش نہیں تھی لیکن جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ حکم عام ہے اور میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہونا ہر حال اور ہر زمانہ میں حرام ہے، اس رائے کی تا ئید صحیحین کی اس روایت سے ہوتی ہے جسے ابو ہریرہ نے روایت کی ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سات کبیرہ گناہوں سے بچو اور ان میں سے ایک میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہونے کو بھی بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی صرف ایک صورت کو جا ئز بتایا ہے، وہ یہ ہے کہ سپاہی دوسرے اہم دستہ کی مدد کرنا چاہتا ہو، یا اس کی مدد لینا چاہتا ہو، یا دشمن کو دھوکہ دینے کے لیے ایسا کر رہا ہو تاکہ اچانک پلٹ کر اس پر حملہ کردے علماء نے لکھا ہے کہ فرار کی یہ حرمت اس شرط کے ساتھ خاص ہے کہ دشمنوں کی تعداد ایک مسلمان کے مقابلہ میں دو سے زیادہ نہ ہو اگر دو سے زیادہ ہوگی تو فرار حرام نہیں ہوگا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی سورت کی آیت (66) میں فرمایا ہے کہ اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کردیا، وہ خوب جانتا ہے کہ تم میں ناتوانی ہے پس اگر تم میں سے ایک سو صبر کرنے والے ہوں گے تو وہ سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم ایک ہزار ہوں گے تو وہ اللہ کے حکم سے دوہزار پر غالب رہیں گے، یعنی دو کے مقابلہ میں ایک کا بھاگنا حرام ہے اور اگر دشمن کا نتاسب اس سے زیادہ ہوگا تو حرمت ساقط ہوجائے گی۔ الانفال
16 الانفال
17 (11) غزوہ بدر میں مسلمانوں کو ان کی قلت وبے سرومانی کی باوجود اس لیے فتح حاصل ہو کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعہ ان کی مدد کی اور ان کی دلوں کو مظبوط کیا اور کافروں کا ذلیل ورسوا کیا اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی دعا کرنے کے بعد خیمہ سے نکل کر مٹھی مٹی ایک بڑے لشکر کی آنکھوں تک انسانی طاقت کے ذریعہ نہیں پہنچ سکتی تھی، وہ اللہ تعالیٰ کی ذات تھی، جس کی قدرت کی یہ کاریگری تھی محمد بن اسحاق وغیرہ نے روایت کی ہے کہ بدر کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مٹھی مٹی لے کر مشر کین کی طر پھینکا اور کہا کہ برے ہوں ان کافروں کے چہرے تو اللہ کی قدرت سے وہ کافروں کی آنکھوں اور ناکوں تک پہنچ گئی اس کے بعد آپ نے صحابہ کرام کو حملہ کرنے کا حکم دیا، اور اللہ کی تو فیق سے کافروں کو شکست ہوئی محمد بن اسحاق نے عردہ بن الزبیر سے کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر جو احسان کیا تھا، اسے ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ کس طرح اس نے دشمنوں کی کثرت اور مسلمانوں کی قلت کے باوجود مسلمانوں کو کا میابی دی تاکہ مسلما نوں کے دلوں میں یہ بات اچھی طرح بیٹھ جائے کہ فتح ونصرت کثرت عدد سے نہیں بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے غلبہ عطا کرتا ہے۔ الانفال
18 (12) مسلمانوں کے لیے ایک بشارت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ مستقبل میں بھی کافروں کی چالوں کو نام بنائے گا اور تباہی وبربادی ان کی قسمت ہوگی، چنانچہ ایسا ہی ہوا اسی لیے یہ آیت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے معجزہ کی حثیت رکھتی ہے۔ الانفال
19 (13) امام احمد نسائی اور حاکم وغیر ہم نے عبد اللہ بن ثعلبہ سے روایت کی ہے کہ ابو جہل نے میدان بدر میں کہا ہے کہ اے اللہ ! ہم میں جو رحم کو کا ٹنے والا اور ایسی بات لا نے والا ہے جسے لوگ نہیں جانتے اسے تو آج کے دن ہلا کر یئے تو اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا سن لی اور اسے اس کی فوج کو ہلاد کردیا، اس لیے کہ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مکہ کے دیگر مسلما نوں کے ساتھ صلہ رحمی کا بر تاؤ نہیں کیا تھا اور اسی نے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی پرستش کی تھی، ابرا ہیمی میں ایک نئی بات تھی، اس آیت میں ابو جہل کی اس دعا کی طرف اللہ نے اشارہ کیا ہے تم نے فیصلہ کن بات کی دعا کی تھی تو لو اللہ کا فیصلہ آگیا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہا اگر تم وشرک اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دشمنی سے باز آجاؤ گے تو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ اور اگر تم ان سے دوبارہ جنگ کروگے تو ہم دوبارہ ان کی مدد کریں گے اور تمہاری کثرت تمہیں کوئی کام نہ آئے کی، اس لیے کہ اللہ مومنوں کے ساتھ ہے۔ الانفال
20 الانفال
21 (14) یہاں منافقین اور مشر کین مراد ہیں جو قرآن کریم کو سنتے تو تھے، لیکن گویا کہ دل سے نہیں سنتے تھے، اس میں غور وفکر نہیں کرتے تھے اور نفاق یا شرک سے تائب ہونے کے لیے اس سے نصیحت نہیں حاصل کرتے تھے۔ الانفال
22 (15) انہی کافروں اور منافقوں کی ایک بری مثال بیان کی گئی ہے کو جو لوگ حق بات غور سے نہیں ستنے اور دل سے اس کا اقرار نہیں کرتے وہ زمین پر ہنے والے بدترین جانور ہیں اس لیے کہ جب وہ عقل وفہم رکھنے کے باجود ایمان نہیں لاتے ہیں تو ان جانو روں سے بدترین ہیں جنہیں اللہ نے عقل کی نعمت سے محروم رکھا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ اعراف آیت (179) میں فرمایا ہے یعنی یہ کافر جانوروں کے مانند ہیں بلکہ ان سے زیادہ گمراہ ہیں۔ الانفال
23 (16) انہی کافروں اور منافقوں کی حالت زارک اور کم مائیگی پر مزید روشنی ڈالی جا رہی ہے کہ ان میں کوئی خیر نہیں ہے اگر کوئی خیر ہوتی تو اللہ کے لیے مواعظ ونصائح سننے کے مواقع فراہم کرتا اور چونکہ ان میں کوئی خیر نہیں اس لیے اگر انہیں سننے کا موقع دیتا بھی تو حق سے عراض کر بیٹھتے اور ایمان نہ لاتے۔ الانفال
24 (17) اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں ایسی چیز کی طرف بلائیں جو تمہارے لیے زندگی کے مترادف ہو تو ان کی بات مان جاؤ کیونکہ ان کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور ان کی بات ماننے ہی میں ہر بھلائی ہے آیت میں سے کس چیز کی طرف اشارہ ہے جو مسلمانوں کو زندگی دیتی ہے ؟ اس بارے میں میں علماء کے کئی اقوال ہیں : کسی نے اس سے قرآن کریم مراد لیا ہے اس لیے کہ اسی جہاد کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ذلت کے بعد عزت دی اور ان دشمنوں سے نجات دلائی جنہوں نے مکہ میں ان کی زندگی اجیرن بنا رکھی تھی، جہاد فی سبیل اللہ ہر دور میں مسلمانوں کے لیے زندگی کے مترادف رہے گا، مسلمانوں نے جب بھی اس سے پہلو تہی کی ذلت ورسوائی ان کا نصیب بن گئی اور جب بھی انہوں نے جہاد کیا آواز پر لبیک کہا، فتح وکامرانی نے ان کے قدم چومے، جہاد ہی وہ عمل صالح ہے کہ اگر کوئی مسلمان شہید ہوجاتا ہے تو اسے ابدی زندگی مل جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : کہ درحقیت آخرت کی زندگی ہی دائمی زندگی ہے، معلوم ہوا کہ جہاد فی سبیل اللہ دنیاوی اور اخری ہر اعتبار سے مسلمانوں کے لیے زندگی کے مترادف ہے۔ (18) اللہ تعالیٰ نے انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے، اس کے کئی معانی بیان کیے گئے ہیں : 1۔ ایک تو بہ کہ اللہ تعالیٰ انسان کے دل میں دل میں جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتا ہے، اگر ہدایت دینا چاہتا ہے تو اس کے اور کفر کے درمیان حائل ہوجاتا ہے، اور اگر گمراہ کرنا چاہتا ہے تو اس کے اور ایمان کے درمیان حائل ہوجاتا ہے، اسی وجہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کثرت سے دعا کرتے تھے کہ اے لوگوں کے پھیر نے والے ! میرے دل کو اپنے دین پر قائم وثابت رکھ، صحابہ کرام نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! ہم آپ پر دین اسلام پر ایمان لے آئے تو کیا آپ پھر بھی ہمارے بارے میں ڈرتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں انسا نوں کے دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتے ہیں وہ جیسے چاہتا ہے، انہیں الٹتا پھیر تا ہے۔ (مسلم، حاکم، مسند احمد ترمذی ) دوسرا معنی یہ ہے کہ آیت کے اس حصہ میں موت آنے سے پہلے طاعت وبندگی کی ترغیب دلائی گئی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ جب اپنے بندہ کو موت دے دتیا ہے تو عمل صالح کا ہر دروازہ بند ہوجاتا ہے اس لیے زندگی کو غنیمت جانو اور اللہ اور رسول کی اطاعت میں اخلاص پیدا کرو۔ 3۔ تیسرا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بہت ہی زیادہ قریب ہے، جیسا کہ اللہ نے سورۃ ق آیت (16) میں فرمایا ہے ہے کہ ہم انسان سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دلوں کو چھپی باتوں کو جانتا ہے اس لیے بندہ کو اپنے اللہ سے کبھی بھی غافل نہیں ہونا چایئے۔ الانفال
25 (19) اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی سو سائٹی میں گناہ پر خاموش نہ رہیں، ورنہ اس کی وجہ سے عذاب آئے گا وہ نیک وبد کے درمیان تفریق نہیں کرے گا۔ آیت میں خطاب اگرچہ صحا بہ کرام کو ہے لیکن اس کا حکم ہر زمانے کے لیے عام ہے امام احمد نے جریر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، جب کسی قوم کے بعض لوگ گناہوں کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں اور اس قوم کے اکثر اور معزز لوگ انہیں نہیں روکتے تو اللہ تعالیٰ پوری قوم کو عذاب میں مبتلا کر دتیا ہے۔ الانفال
26 (20) مکہ میں جب لوگوں نے اسلام کے پہلے پہل قبول کیا وہ بڑی آزمائش سے گذرے ان کی تعداد تھوڑی تھی، ڈرتے تھے کہ کہیں اعدائے ت اسلام ایک ہی حملہ میں انہیں ختم نہ کردیں تو اللہ تعالیٰ نے آہستہ آہستہ ان کی تعداد بڑھائی انہیں مدینہ میں پناہ دی انہیں قوت عطا کی اور میدان بدر میں فرشتوں کے ذریعہ ان کی مدد فرمائی اور مال غنیمت کو ان کے لیے حلال بنا کر ان کی تنگد ستی دور کی آیت میں صحابہ کرام کے انہی حالات کی طرف اشارہ ہے تاکہ وہ انہیں یاد کر کے اللہ کا احسان مانیں اور اس کا شکر ادا کریں۔ قتادہ بن دعامہ سیدوسی نے اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں کہا ہے کہ عرب والے سب سے ذلیل تھے، سب سے زیادہ بھوکے تھے سب سے زیادہ ننگے تھے اور سب سے زیادہ گمراہ تھے، اللہ کی قسم اہل زمین میں ان سے زیادہ گھٹیا اور کوئی قوم نہیں تھی، یہاں تک کہ اسلام آیا جس کے ذریعہ اللہ نے انہیں اپنے وطن میں قرار دیا اور ان کی روزی میں وسعت دی اور انہیں لوگوں کا باشاہ بنادیا، اے عرب کے لوگو ! یہ سب کچھ تمہیں اسلام کے ذریعہ ملا ، اس لیے کہ تم لوگ اللہ کا شکر ادا کرو اس لیے کہ تمہارا رب منعم ہے اور شکر کو پسند کرتا ہے اور جو شکر ادا کرتا ہے اللہ اسے اور دیتا ہے۔ الانفال
27 (21) اس آیت کے شان نزول میں کئی اقوال ہیں، لیکن سند کے اعتبار سے زیادہ قول یہ ہے کہ یہ آیت ابو لبا بہ بن عبد المنذر کے بارے میں نازل ہوئی تھی جن سے قریظہ کے یہودیوں نے مشورہ کیا تھا کہ وہ سعد رضی اللہ کو ثالث کی حثیت سے قبول کرلیں، تو انہوں نے اپنی گردن کی طرف اشارہ کر کے کہا وہ تمہیں ذبح کروادیں گے ابو لبا بہ کہتے ہے کہ ابھی میرے قدم ہلے بھی نہیں تھے کہ میں جان لیا کہ مجھ سے اللہ اور رسول کے حق میں خیانت ہوگئی ہے۔ ان کا قصہ مشہو رہے کہ پھر انہوں نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ دیا اور جب اللہ ان کی توبہ قبول کرلی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے انہیں کھلو دیا، اسے عبدالرزاق نے مصنف میں اور اسعید بن منصور نے اپنی کتاب السنن میں روایت کی ہے /۔ آیت میں لفظ خیانت تمام چھوٹے اور بڑے گنا ہوں کو شامل ہے، فرائض میں سستی اللہ کے حدود سے تجاوز کرنا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کا انکار اور مسلمانوں کا راز کافروں کو بتا نا یہ اور اسی طرح کے دوسرے سبھی گناہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت میں داخل ہیں، امانتوں میں خیانت یہ ہے کہ کوئی آدمی مال غنیمت میں سے کچھ چوری کرلے یا اگر کسی مسلمان نے اپنے مال اہل وعیال اور اپنے رازوں کا اس کو امانت دار بنایا ہے تو اس میں خیانت کرے اس کا مال ہڑپ جائے یا اس کی بیوی پر نگاہ بد ڈالے اسے برائی پر ورغلائے یا اس کی رازوں کو طشت ازبام کرے اور لوگوں میں بیان کرتا پھرے۔ الانفال
28 (22) مال ااولاد کی محبت میں آمی بہت سے گناہ کر بیٹھتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے مسلمانوں کے لیے امتحان اور آزمائش کا سبب بنایا ہے اور دیکھنا ہے کہ کون ان کو وجہ سے خیانتوں کا مرتکب ہوتا ہے اور کون شیطان کے فریب میں نہیں آتا اللہ کی نافرمانی نہیں کرتا اور اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا اسی لیے اللہ نے آیت کے آخر میں فرمایا ہے کہ جو اللہ کی رضال کو مال ودولت کی ہوس اور اولاد کی محبت پر ترجیح دے گا اللہ اسے اجر عظیم فرمائے گا۔ الانفال
29 (23) اہل ایمان کو بشارات دی گئی ہے کہ اگر وہ مال اور اولاد کی وجہ سے گنا ہوں کا ارتکاب نہیں کریں گے اور اپنی زندگی میں اللہ کے اوامر کی اتباع اور نواہی سے اجتناب کریں گے تو اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں ان کی ہیبت وعزت بیٹھا دے گا، اور کوئی شخص ان کے اہل وعیال، مال ودولت اور عزت وناموس پر دست درازی کرنے کی جرات کرے گا ،، بعض مفسرین نے فرقان کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی نیک شہرت کو چہا ردانگ عالم میں عام کر دے گا اس کا معنی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں حق وباطل کی تمیز دے گا، اور شہبات سے دور رکھے گا سدی نے اس کا معنی نجات بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے کامیابی سے ہمکنار کرے گا اور دنیا وآخرت کی مصیبتوں سے نجات دے گا جیسا کہ اللہ نے سورتہ طلاق آیت (2) میں فرمایا ہے کہ جو اللہ سے ڈرے گا، اس کے لیے راستے نکالے گا۔ الانفال
30 (24) آیت (26) میں اللہ تعالیٰ نے عام صحابہ کرام کے ساتھ جو احسان کیا تھا اس کا ذکر تھا تاکہ وہ اللہ کا شکر ادا کریں اب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ کا جو خصوصی احسان ہوا اس کا ذکر ہو رہا ہے، کہ کس طرح اللہ نے قریش کی خطر ناک سازش سے ان کو نجات دی تاکہ آپ اس احسان عظیم پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ محمد بن اسحاق، امام احمد، حاکم اور بیہقی وغیر ہم نے کفار قریش کی اس سازش سے متعلق جو روایتیں اپنی کتابوں میں نقل کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ جب انصار مدینہ اسلام لے آئے اور اسلام کی روشنی ہر طرف پھیلنے لگی تو کفار قریش کے دل خوف کے مارے دہل گئے چنانچہ سبھی رؤسائے قریش دارالندوہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں آخری رائے پر متفق ہونے کے لیے جمع ہوئے، ابو البختری بن ہشام نے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ محمد کو تم لوگ ہاتھ پاؤں باند کر ایک گھر میں بند کر دو۔ صرف ایک سوراخ رکھو جس سے اس کو کھانا پانی دیتے رہو یہاں تک کہ اس کی موت آجائے آیت میں لیثبتوک سے اسی طرف اشارہ ہے لیکن شیطان ( جس نے ایک نجدی بوڑھے کی شکل اختیار کر رکھے تھی) نے اس رائے کو نہیں سراہا، تو ہشام بن عمر و نے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ تم لوگ محمد کو شہر بدر کردو پھر یہ کچھ نہیں کر پائے گا آیت میں ایخرجوک سے اسی طرف اشارہ ہے، نجدی بوڑھے نے اس رائے پر اعتراض کیا تو ابو جہل نے کہا، میری رائے یہ ہے کہ تم لوگ ہر خاندان سے ایک جوان لو، اور وہ سب مل کر ایک ساتھ تلوار سے حملہ کر کے اسے قتل کردیں بنی ہاشم تمام اہل قریش سے جنگ نہیں مو لیں گے اور اگر دیت طلب کریں گے تو ہم سب مل کر دیت دے دیں گے اس طرح محمد سے نجات پاجائیں گے آیت میں او یقتلوک سے اسی طرف اشارہ ہے بوڑھے نجد نے اس رائے کی تائید کی چنانچہ سب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل کردینے پر متفق ہوگئے جبرائیل (علیہ السلام) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سازش کی اطلا عدے دی اور کہا آج کی رات اپنے بستر پر نہ سویئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی ہجرت کی اجازت دے دی اپ نے علی (رض) کو اپنے بستر پر سونے کا حکم دیا اور کہا کہ میری چادر اوڑھ لینا وہ تمہیں کو گز ند نہیں پہنچا سکیں گے، پھر آپ نے ایک مٹھی مٹی لی اور کافروں کے سروں پر ڈالتے ہوئے اور سورۃ یسین پڑھتے ہوئے وہاں سے نکل گئے اور دشمن آپ کو نہ دیکھ سکے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی شازش کو ناکام بنا دیا۔ الانفال
31 (25) یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو رسو اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے فارس چلا گیا تھا اور وہاں سے رستم واسفند کے واقعات پر مشتمل کتاب لے کر آیا تھا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجلس سے اٹھ جاتے تو یہ ملعون وہیں بیٹھ کر اس کتاب سے واقعات سناتا اور کہتا کہ بتاؤ تو سہی کس کی بات زیادہ دلچسپ ہے یہ شخص غزوہ بدر میں مقد اد بن اسود (رض) کے ہاتھوں پابند سلاسل ہوگیا اور پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے اس کی گردن ماردی گئی۔ آیت میں جمع کا صیغہ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ تمام کفار قریش زبان قال اور زبان حال سے وہی کہتے تھے جو نضر کہتا تھا کہ اگر ہم چاہیں تو ایسا قرآن لا سکتے ہیں، یہ ان کا غرور باطل تھا اس لیے کہ قرآن نے تو انہیں کتنی بار چیلنج کیا تھا، اور کوئی اس کا جواب نہ دے سکا تھا۔ الانفال
32 26۔ کفار قریش اپنے کبر و غرور اور اسلام اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت میں کلی طور پر عقل کے اندھے ہوگئے تھے۔ اسی لیے انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ اگر یہ قرآن واقعی تیری بھیجی ہوئی کتاب ہے تو تو ہمارے اوپر پتھروں کی بارش کر کے ہمیں ہلاک کر دے یا کسی اور عذاب میں مبتلا کر دے امام بخاری نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ بات ابو جہل نے کہی تھی، اور عطاء مجاہد بن جبیر کا قول ہے کہ نصر حارث نے ہی یہ بات کہی تھی اور تمام کفار قریش زبان حال سے یہی کہتے تھے اگر ان کے پاس عقل سلیم ہوتی تو کہتے اے اللہ اگر کہ قرآن واقعی تیری کتاب ہے تو ہمیں ہدایت کی راہ پر ڈال دے اور اس پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرما۔ الانفال
33 (27) اللہ تعالیٰ نے کفار قریش کی دعا اس لیے قبول نہیں کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے درمیان موجودتھے جب آپ مسلمانوں کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ منورہ چلے گئے تو میدان بدر میں اللہ تعالیٰ نے تمام صنادید قریش کو اپنے عذاب کی زد میں لے لی ا۔ ترمذی نے ابو موسیٰ اشعری سے روایت کی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے مجھ پر دو امان نازل کیا ہے، کہ جب تک آپ ان کے درمیان ہوں گے اللہ انہیں عذاب نہیں دے گا اور جب تک وہ اللہ سے مغفرت طلب کرتے رہیں گے اللہ انہیں عذاب نہیں دے گا، جب میں دنیا سے رخصت ہوجاؤں گا تو ان کے لیے دوسرا ذریعہ امان استغفار قیامت تک باقی رہے گا۔ الانفال
34 (28) کفار قریش جب معاصی اور جرائم کا ارتکاب کرتے تھے ان کا تقاضا یہ تھا کہ انہیں فورا ہی عذاب میں مبتلا کردیتا، لیکن جیسا اوپر بیان کیا گیا کہ ان کہ درمیان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود تھے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، جس میں انہیں عذاب کی دھمکی دے دی گئی چنانچہ اللہ نے اپنے رسول کو مکہ فتح کرنے کی اجازت دے دی اور مسلمانوں کے ہوتھوں کفار قریش پر وہ عذاب نازل ہوا جس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔ میں مشرکین قریش کے اس زعم باطل کی تردید ہے کہ بیت اللہ کے والی اہل تقوی ہوں گے گو یا اس آیت میں یہ بشارت ہے کہ مکہ فتح ہوگا اور کافروں کے بجائے مسلمان بیت اللہ کے والی بنیں گے۔ الانفال
35 (29) مشرکین مکہ بیت اللہ کے پاس جمع ہو کر سیٹیا اور تالیاں بجاتے تھے تاکہ مسلمان خشوع وخضوع کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکیں زہر کہتے ہیں کہ سیٹی اور تالی بجاکر مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے، اور مجاہد کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز شروع کرتے تو مشر کین سیٹیان اور تالیاں بجانا شروع کرتے تھے۔ حافظ ابن القیم نے اپنی کتاب اغاثتہ اللمفان میں لکھا ہے کہ تالیاں اور سیٹیاں بجاکر اللہ کی قربت حاصل کرنے والے۔ اور نمازیوں ذکر کرنے والوں اور قرآن کی تلاوت کرنے والوں کو تشویس میں مبتلا کرنے والے انہی مشر کین مکہ کے مانند ہیں، شیخ الاسلام امام ابن تیمہ لکتھے ہیں کہ تالی بجانا ڈھول اور تاشے پیٹنا اور بانسر وغیرہ بجانا اللہ کے دین کا حصہ اور اس کی قربت کا ذریعہ ہرگز نہیں ہوسکتا دین اسلام سے ان باتوں کا کوئی تعلق نہیں ہے نہ نبی کر یم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان باتون کو مشروع قرار دیا نہ خلفائے اربعہ نے اور نہ کسی امام نے اور نہ ہی تعداد انہیں گناہوں میں مبتلا ہے اور گمان کرے ہیں کہ وہ قص وغناء کے ذریعہ اللہ کی قربت حاصل کرتے ہیں یقینا یہ لوگ مشرکین مکہ سے کم نہیں ہیں۔ الانفال
36 30) محمد بن اسحاق نے زھرہ سے روایت کی ہے کہ جب قریش کے کچھ لوگ میدان بدر سے بھاک کر مکہ واپس پہنچے اور ابو سفیان کا قافلہ بھی پہنچا تو جن کے رشتہ دار لوگ مارے گئے تھے انہوں نے ابو سفیان اور دوسرے ان لوگوں سے بات کی جب کا مال تجارت شام سے آیا تھا، کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دوبارہ جنگ کی تیاری کے لیے مال کے ذریعہ مدد کریں تو ان تاجروں نے اس غرض کے لیے مال اکٹھا کیا انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں ان کے انجام کی خبر دی گئی چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ذلیل ورسوا ہوئے مارے گئے اور آخرت میں ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا ضحا کی رائے ہے کہ جب بارہ مشرکین قریش نے میدان بدر میں لشکر کفر کو باری باری اونٹ کا گوشت اور کھانا کھلا یا تھا ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی، بہت حال آیت کا حکم عام ہے، اور اسلام وکفر کی جنگ میں جو شخص بھی اپنے مال کے ذریعہ کافروں کی مدد کرے گا وہ آیت میں مذکور ودنیاوی اور اخروی عذاب کا مستحق ہوگا۔ الانفال
37 (31) اس آیت کا تعلق اوپر والی آیت سے ہے اور معنی یہ ہے کہ تمام اہل کفر جہنم میں جمع کئے جائیں گے تاکہ اللہ تعالیٰ کافروں کو مومنوں سے الگ کردے یا اس کا معنی یہ ہے کہ اہل کفر اپنامال اسلام کے خلاف کاروائی میں خرچ کریں گے وہ ان کے لیے دنیا اور آخرت میں حسرت کا باعث بنے گا اور مسلمان جو مال نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت کے لیے خرچ کریں گے اللہ تعالیٰ قیامت کے دب جزا کے اعتبار سے اسے مشرکوں کے مال سے الگ کردے گا جو وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت اور ان کے خلاف جنگ پر صرف کریں گے اور آخرت میں اللہ تعالیٰ تمام کافروں کو جہنم میں اس طرح اکٹھا کر دے گا کہ مارے ازدحام کے ایک دوسرے پر لدے ہوں گے۔ الانفال
38 (32) اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے حق میں کتنا بڑا رؤف ورحیم ہے کہ ان کا کفر وعباد لوگوں کو راہ حق کی طرف بلانے سے اس کے لیے نع نہیں بنتا اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ابو فیان اور ان کے ساتھیوں کو بالخصوص اور تمام کفار کو بلعموم کہا ہے کہ اگر وہ کفر اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے جنگ کرنے سے باز آجائیں گے تو اللہ ان کے گزشتہ گنا ہوں کی معاف کر دے دے گا جیسا کہ مسند احمد میں ہے کہ کہ اسلام گذشتہ گنا ہوں کو مٹا دیتا ہے، اور تو بہ بھی سابق گنا ہوں کو مٹا دیتی ہے اور وہ اگر دوبارہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنگ کریں گے تو یہ اللہ کی سنت رہے ہے کہ وہ اپنے رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کے دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑتی ہے جیسا کہ میدان بدر میں کفار کا انجام ہوا۔ الانفال
39 (33) اللہ نے مسلمانوں کے خطاب کرکے فرمایا کہ تم لوگ اہل کفر وشرک سے جنگ کرو یہاں تک کہ مشرک کا خاتمہ ہوجائے یا کافروں کی جانب سے مسلمانوں کی آزمائش کا دور ختم ہوجائے اور ایک اللہ کی عبادت عام ہوجائے اس کے علا وہ کسی کی عباد نہ کی جائے اور اگر مشر کین کفر ومعاصی سے ظاہر طور پر باز آجائیں گے تو تم لوگ بھی جنگ کرنے سے رک جاؤ ان کی باطنی اعمال کو اللہ جانتا ہے، وہی ان کا حساب کرے گا اور ان کے کیے کے مطابق انہیں بدلہ دے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبہ آیت (5) میں فرمایا ہے کہا گر تو بہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکاہ دیں تو انہیں چھوڑدو۔ صحیحین کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا ہے یہاں تک کو وہ لا الہ الا اللہ کہہ دیں جب وہ کلمہ پرھ لیں گے تو ان کا خون اور مال محفوظ ہوجائے گا، سوائے اس کے کہ اس پر کوئ شرعی حق ہو اور قیامت کے دن اللہ ان سے حساب لے گا اور صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت ہے کہ جب اسامہ بن زید (رض) نے ایک آدمی کو اس کے لا الہ الا اللہ کہنے بعد قتل کردیا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا کہ قیامت کے دن کلمہ لا الہ الا اللہ کا کیا کروگے؟ تو اسامہ نے کہا یا رسول اللہ اس صرف جان بچانے کے لیے ایسا کیا تھا تو آپ نے فرمایا کہ اس کا دل چیر کر کیوں نہیں دیکھ لیا تھا اور بار بار کہتے رہے کہ قیامت کے دن لا الہ الا اللہ کا کیا کر وگے ؟ اسامہ کہتے ہیں کہ میں نے تمنا کی کہ کاش میں اج ہی اسلام میں داخل ہوتا،۔ الانفال
40 (34) مسلما نوں کو ہی خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ اگر کفار ومشرکین ایمان نہیں لاتے اور کفر ومعاصی سے باز نہیں آتے تو تم لوگ اس یقین کے ساتھ زندہ رہو کہ تمہارا حامی وناصر اللہ ہے اور جس کا حامی ومدد گار اللہ ہو اسے کون مٹاسکتا ہے ؟!! الانفال
41 (35) اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت کو امت محمدیہ کے لیے حلال بنا دیا ہے، غنیمت اس مال کو کہتے ہیں جو کافروں سے جنگ کرنے کے بعد ہاتھ آئے اور فئ اس مال کو کہتے ہیں جو بغیر جنگ کے حاصل ہوجیسے وہ مال جو مسلمانوں اور کافروں کے درمیان مصالحت کے نتیجہ میں حاصل ہو یا کوئی ذمی مال چھوڑ کر مر جائے اور اس کا کوئی وارث نہ ہو اور وہ مال جو جزیہ اور خراج کے طور پر حاصل ہو اس آیت کریمہ کے مطابق مال غنیمت کو پانچ حصے کئے جائیں گے ایک حصہ اللہ، رسول اللہ اور آیت میں مذ کور لوگوں کے لیے ہوگا اور باقی چار حصے جنگ میں شریک ہونے والوں پر عدل وانصاف کے ساتھ تقسیم کردیئے گائیں گے پیدل مجاہد کے لیے ایک حصہ اور گھوڑسوار کے لیے تین حصہ اس کے لیے اور وہ دو حصے اس کے گھوڑے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ خیبر کا مال اسی طرح تقسیم کیا تھا۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے زادالمعاد میں لکھا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنگ کے بعد تمام اموال غنیمت جمع کرنے کا حکم دیتے تھے پھر جو مجاہد کسی کافر سے کوئی چیز چھینے ہوتا تھا وہ اسے دے دیتے تھے اس کے بعد پانچواں حصہ الگ کردیتے تھے اور اپنے رشتہ داروں، یتیموں مسکینوں اور ضرورت مند مسافروں پر خرچ کرنے کے بعد جو بچ جاتا اس اسلام اور مسلمانوں کے مصالح عامہ میں خرچ کرتے تھے اور اور باقی مال کا کچھ حصہ ان عورتوں اور بچوں اور غلا موں دیتے تھے جن کا مال غنیمت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا تھا، اس کے بعد باق مال اس جنگ میں شریک ہونے والے مجاہد مسلمانوں کے درمیان عدل وانصاف کے ساتھ برابر برابر تقسیم کردیتے تھے، انتہی۔ ذوالقر بی سے مراد نبی ہاشم اور نبی مطلب ہیں اور یتامی میں (راجح کے مطابق) مالدار اور فقیر سبھی داخل ہیں اور مساکین سے مراد وہ اصحاب حاجت ہیں جو اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے مال نہیں رکھتے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد ان اک اور ان کے رشتہ داروں کا حصہ ابو بکر وعمر جہاد کی تیاریوں پر خرچ کرتے رہے، ابر بکر علی قتادہ وغیر کی یہی رائے تھی امام مالک اور سلف صالحین میں اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ مال غنیمت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پانچواں حصہ امام وقت کے زیر تصرف ہوگا، اور وہ اسے اسلام اور مسلمانوں کے مصالح عامہ پر خرچ کرے گا شیخ الا سلام ابن تیمیہ نے اسی رائے کر تر جیح دی ہے، نسائی نے عبادہ بن صامت سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ میرے لیے ہے اور وہ بھی تم مسلمانوں پر ہی خرچ ہوگا۔ (36) یعنی اگر تمہارے ایمان اللہ پر ہے اور ان آیات فرشتوں اور نصرمبین پر جو ہم نے بدر کے دن اپنے بندہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتارا تھا تو پھر غنائم کی تقسیم کے سلسلہ میں ہم نے جو حکم نازل کیا ہے اس کی اتباع کرو۔ الانفال
42 (37) میدان بدر کی یاد دلائی جارہی ہے جہاں اللہ کی عظیم نشانیاں ظاہر ہوئیں اور مسلما نوں کو ان کی قلت عدد بے سروسامانی اور بظاہر ناموافق جنگی حالات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے نصر مبین عطا کیا، مفسرین نے لکھا ہے کہ مشرکین جہاں قیامت پذیر تھے وہاں پانی تھا زمین ایک حد تک منا سب گی جس میں پاؤں نہیں دھستا تھا اور جہاں مسلمان قیام پذیر تھے وہاں پانی نہیں تھا اور زمین نا مناسب گی ریتلی زمین ہو کی وجہ سے اس پر پاؤں نہیں ٹکتا تھا چلنا دشوار تھا اور ابو سفیان کا قافلہ دشمن کے پیچھے تھا نیز ایک بہت بری فوج اس کی حفاظت کر ہی تھی، اور مسلمان نکلے تھے ایک تجارتی قافلہ کا پیچھا کرنے کے لیے اور اللہ کی موضی سے ایک بڑے لشکر سے مڈ بھیڑ ہوگئی ان نامساعد حالات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مسلمانو کو فتح دی تاکہ اللہ جو چاہتا تھا کہ اس کا دین غالب ہو اس کا کلمہ بلند ہو وہ ہو ر کر رہے اور تاکہ اب اس کے بعد اسلام نہ قبول کرنے کی کوئی حجت کسی کے پاس باقی نہ رہے جو کفر پہ ہلاک ہو تو ہلاک ہونے سے پہلے اسے معلوم رہے کہ وہ جان بوجھ کر استکبار کی راہ اختیار کر رہا ہے اور کفر پر مر رہا ہے، اور جو اسلام لانا چاہے وہ اس ایمان ویقین کے بعد اس دین کو قبول کرے کہ یہی دین برحق ہے اور اسی کو اختیار کرنے میں دنیا وآخرت کی بھلائی ہے۔ الانفال
43 (38) مجاہد کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں دکھلا کہ کافروں کی تعداد تھوڑی ہے آپ نے صحابہ کرام کو جب اس کی اطلاع دی تو ان کی ہمت بڑھ گئی اور ایک گونہ اطمینان حاصل ہوا اگر دشمن کی تعداد زیادہ نظر آتی تو مسلمانوں کی ہمت پست ہوجاتی اور آپس میں اختلاف کر بیٹھتے کوئی کہتا جنگ کرنے چایئے اور کوئی کہتا ہم اتنی بڑی فوج کا مقابلہ نہیں کرسکتے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی تائید وحکمت کے ذریعہ انہیں پست ہمتی اور اختلاف دونوں سے محفوظ رکھا اور جب دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو اللہ نے مزید یہ کیا کہ مسلمانوں کی ظاہری آنکھوں کے سامنے کافروں کی تعداد کم کردی تاکہ انہیں مزید تقویت حاصل ہو اور کافروں کی نگاہ میں مسلمان کو کم کر دکھا یا تاکہ جنگ پر کافروں کی آمادگی میں اضافہ ہوجائے اور جنگ چھڑ گئی تو اچانک مسلمانوں کی تعداد کافروں کی نگاہ میں دوگنی کردی تاکہ ان پر ہیت طاری ہوجائے اور اللہ کے عذاب کی زد میں آجائیں جیسا کے سورۃ آل عمران آیت (13) میں اللہ نے فرمایا ہے کہ کافر اپنی ظاہری آنکھوں سے مسلمانوں کو اپنے آپ سے دوگنا دیکھ رہے تھے، اور یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے اس لیے ہوا تاکہ اللہ کا دین غالب ہو اس کے مومن بندے فاتح کی حثیت سے دنیا میں ابھریں اور اللہ کے دشمن ذلیل ورسوا ہوں ان کا غرور ٹوٹے اور کفر وشرک کا چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ جائے۔ الانفال
44 الانفال
45 (39) مو قو محل کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے مند رجہ ذیل تین آیتوں میں مسلمانوں کو چند اہم جنگی تعلیمات دی ہیں تاکہ کفارومشر کین سے جنگ میں انہیں فتح و کامرانی ملے : 1۔ جب میدان جنگ میں مسلمانوں کا کافروں سے آمنا سامنا ہوا تو صبر واستقامت سے کام لیں اور شمن کے سامنے چٹان کی طرح اڑجائیں اس لیے کہ بزدلی فرار اور دشمن کے سامنے جزع فزع شکست فاش کا سبب ہوتا ہے صحیحین میں عبد اللہ بن ابی اوفی سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جنگ کے موقع سے مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا اے لوگو دشمن تلواروں کے سا یہ میں ہے۔ 2۔ میدان جنگ اور حالات جنگ میں اللہ کو کثرت سے یاد کریں کبھی بھی اس کی یاد سے غافل نہ ہوں اس لیے کہ ذکر الہی کی برکت سے اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے مصیبتیں چھٹ جاتی ہیں اور فتح وکامرانی مسلمانوں کے قدم چومتی ہے سو رہ بقرہ میں طالوت جالوت کا واقعہ گذر چکا ہے جب طالوت مسلمانوں کے ساتھ جالوت کے خلاف میدان کارزار میں آئے تو سب نے مل کر اللہ سے دعا کی اے رہمارے رب ! ہمیں صبر عطا فرما، اور ثابت قدمی دے، اور قوم کفار کے خلاف ہماری نصرت فرم ( البقرہ"250) اور نبی کر یم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معر کہ بدر سے پہلے اللہ کے سامنے اتنی منا جات اور اتنی دعائیں کیں کہ آپ کی چادر آپ کے کندھوں سے گر گر جاتی تھی، اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ رعد آیتا (28) میں فرمایا ہے کہ اللہ کی یاد سے دلوں کو سکون ملتا ہے، اور مجاہد کو میدان جنگ میں سب سے زیادہ اطمینان قلب کی ضروت ہوتی ہے 3۔ ہر حال میں لشکر اسلام کے مد نظر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہو جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ مجاہدین اپنے قائد کی اطاعت کو ضرور سمجھیں گے۔ 4۔ لشکر اسلام میں پھوٹ نہ پڑنے پائے ورنہ مسلمان کی قوت بکھر جائے گی اور دشمن غالب آجائیں گے۔ 5۔ مسلما نوں کی جنگ صرف اللہ کی رضا کے لے ہوتی ہے اس لیے مجاہدین کے پیش نظر کوئی دنیاوی مقصد مثلا ریاکاری یا اظہار شجاعت وغیرہ نہ ہو ور نہ اللہ کی تائید حاصل نہیں ہو تگی جیسا کہ ابو جہل اور دیگر کفار قریش نے کیا کہ میدان بدر میں ان کے پہنچنے سے پہلے ابو سفیان کے قاصد نے آکر ان سے کہا کہ اب تم لوگ لوٹ جاؤ کیونکہ ہمارا قافلہ اب مسلمانوں کی زد سے باہر نکل گیا ہے تو انہوں نے انکار کردیا اور کہا کہ ہم ندر تک ضرور جائیں گے وہاں پراؤ ڈالیں گے خوب گوشت کھائیں گے اور شراب پئیں گے اور رقص وسرور کی محفلیں جمائیں گے تاکہ عرت کے لوگوں کو ہمارے شان وشوکت کو پتہ چلے اور ہمیشہ کے لیے ہمارا رعب ان کے دلوں پر بیٹھ جائے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں اور فرشتوں کے ہاتھوں انہیں موت کا تلخ جام پینا پڑا اور ان کی ماؤں اور بہنوں نے ان پر نو حہ خانی کی آیت (47) میں ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کی طرف اشارہ ہے۔ الانفال
46 الانفال
47 الانفال
48 (40) شیطان نے مشرکین قریش کے دل ودماغ میں یہ بات بٹھا دی کہ تمہارا ارادہ بہت ہی اچھا ہے کیونکہ اس طرح محمد اور اس کے ساتھیوں کی کمر ٹوٹ جائے گی اور یقین کرلو کہ آج تم غالب ہو کر رہو گے اور محمد اس کے ساتھیوں بھاگنے کی بھی جگہ ملے گی اور میں تمہارا معین ومدد گار ہوں گا لیکن جب دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں اور شیطان نے فرشتوں کو مسلمانوں کی مدد کے لے آسمان سے اترتے دیکھا تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور کہنے لگا میں تمہارے عہد جوار سے براءت کا اظہار کرتا ہوں میں تو فرشتوں کو آسمان سے اترتے دیکھ رہا ہوں جنہیں تم نہیں دیکھ رہے ہو اور مجھے ڈر ہے کہ اللہ اس عذاب میں مجھے بھی نہ گرفتار کردے۔ حسن بصری اور اصم کا خیال ہے کہ شیطان نے بغیر انسان کی شکل اختیار کئے کافروں کے دلوں میں وسو سہ ڈالا تھا، اور بن عباس (رض) سے مروی ہے کہ شیطان سراقہ بن مالک للکنانی کی شکل میں کافروں کی فوج کے سامنے آیا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف جنگ پر ابھارا اور جب فرشتوں کو دیکھا تو پیٹھ پھیر کر بھاگا، سراقہ کو بھاگتے دیکھ کر ابو جہل ڈرا کہ کہیں قریش کے لشکر میں بھکد ڑنہ مچ جائے اس لیے فو را آگے بڑھا اور ان سے کہا کہ سراقہ محمد اور اس کے ساتھیوں سے ملا ہوا تھا اسی لیے ہمیں دھگوکہ دے کر بھاگ رہا ہے پھر کہا لات وعزی کی قسم ہم محمد اور اس کے ساتھیوں کے رسیوں میں باندہ کر ساتھ لے جائیں گے اس لیے ان کو قتل نہ کرو بلکہ ان کو زندہ گرفتار کرو۔ الانفال
49 (41) ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ جب دونوں فوجیں ایک دوسرے سے قریب ہوئیں اور دونوں کو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کی نگاہ میں کم دکھایا تو مشر کین نے کہا کہ ان مسلمانوں کے ان کے دین نے دھوکہ میں ڈال دیا ہے اسی لیے اتنی کم تعداد میں ہونے باوجود اس خام خیالی میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ یہ ہمیں شکست دے دیں گے۔ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ جب مسلمان مدینہ سے بدر کی طرف روانہ ہوئے تو ان کی تعداد بہت ہی کم تھی اور ان کے پاس کوئی سامان جنگ بھی نہیں تھا تو منافقین اور یہود نے ان کا یہ حال دیکھ کر یہ بات کہی تھی اور اللہ تعالیٰ نے ان کا جواب دیا کہ جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور نہ اسے کوئی ذلیل رسوا کرسکتا ہے۔ الانفال
50 (42) اس کا تعلق بھی انہی کفار قریش سے ہے جو میدان بدر میں مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہوئے تھے لیکن بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں کافروں سے مراد وہ ہیں جو میدان میں قتل نہیں ہوئے تھے اور بھاگ کر مکہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ یعنی جب ان کی موت آئی تو فرشتے ان کے چہروں اور پیٹھو پر کوڑے بر سارہے تھے اور ایک رائے یہ ہے کہ ایسا قیامت کے دن ہوگا جب کفار جہنم کی طرف ہنکائے جائیں گے، حافظ بن کثیر کہتے ہیں کہ اگرچہ اس آیت کا تعلق واقعہ بدر سے ہے لیکن یہ حکم تمام کافروں کو شامل ہے جیسا کہ اللہ نے سورۃ انعام آیت (93) میں فرمایا ہے کہ فرشتے اپنے رب کے حکم سے انہیں مار ہے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا یہ تمہارے ہی کئے کا نتیجہ ہے۔ الانفال
51 الانفال
52 (43) اللہ نے غزوہ بدر میں شریک ہونے والے کافروں کا انجام بد بیان کرنے کے بعد اب یہاں یہ بتایا ہے کافر قموں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ اور ہر دور میں یہی برتاؤ رہا ہے جس طرح ان کافروں کا انجام بد ہوا اسی طرح ان سے پہلے فرعونیوں اور دوسرے کافروں کا انجام براہو تا رہا ہے۔ الانفال
53 (44) اس عذاب کی طرف اشارہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کافرو مشرک قوموں کو مبتلا کرتارہا ہے اور اس کا سبب بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم سے اپنی نعمتیں اس وقت چھیل لیتا ہے جباس کی دینی حالت خراب ہوجاتی ہے اس کا عقیدہ فاسد ہوجاتا ہے، اور قول وعمل کسی بھی اعتبار سے ان نعمتوں کا حقدار نہیں ہوتی جیساکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ رعد آیت (11) میں فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے یعنی جب کوئی قوم گناہ میں لوث ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے اپنی نعمت چھین لیتا ہے۔ الانفال
54 (45) اس کا تعلق اوپر کی آیت سے ہے یعنی جیساکہ فرعونیوں اور ان سے پہلے کے کافروں نے کیا کہ انہوں نے اپنے رب کی آیتوں کی تکذیب کی اور اس کی دی ہوئی نعمتوں کا غلط استعمال کر کے گناہوں کے مرتکب ہوئے تو اللہ نے ان سے وہ نعمتیں چھین لی اور انہیں ہلاک کردیا اور فرعونیوں کو سمندر میں ڈبو دیا۔ الانفال
55 (46) کافروں کے اندر کفر عدم ایمان اور خیانت جیسی تین بری صفات پائی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ نہ وہ اللہ کے کسی عہد پر قائم رہتے ہیں اور نہ اپنی کسی بات میں سچے ہوتے ہیں اس لیے وہ اللہ کی نگاہ میں گدھوں اور کتوں سے بدتر ہوتے ہیں، ان کے اندر کوئی خیر نہیں ہوتی ہے اس لیے اگر وہ جنگ میں پکرے جائیں تو انہیں سخت عذاب دیا جائے تاکہ وہ دوسروں کے لیے عبرت بن جائیں۔ سعید بن جبیر اور مجاہد سے مروی ہے کہ یہ آیتیں یہود مدینہ بالخصوص بنو قریضی کے بارے میں نازل ہوئی تھیں اور چونکہ گذشتہ آیتوں میں دعوت اسلامی کے دشمنوں ( کفار قریش) کا ذکر ہو رہا تھا اس یے ضمنا بنو قریظہ کا ذکر آگیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بدترین جانور قرار دیا اور ان کے بارے میں خبر دی کہ وہ کبھی بھی ایمان نہیں لائیں گے، یہی وجہ ہے کہ جب ان کے قلعوں کا محاصر کیے جانے کے بعد پکڑے گئے تو صحابہ کرام نے ان میں سے ایک ایک سے کہا ہے اسلام قبول کرلو تاکہ قتل نہ کیے جاؤ لیکن انہوں نے قتل کیے جانے کو اسلام لانے پر ترجیح دی ان کی تیسری خاص صفت یہ تھی کہ انہوں نے جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہو سلم کے ساتھ معاہدہ کیا تو اس پر قائم نہیں رہے، ایک بار معاہدہ کیا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جنگ کریں گے اور نہ کسی کی ان کی خلاف مدد کریں گے تو اس پر قائم نہیں رہے اور قریش کی ہتھیاروں کے ذریعہ مدد کی اور جب ان کی بدعہدی کا پتہ چل گیا تو اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور معذرت پیش کی اور دوبارہ عہد کی تجدید کی لیکن پھر غزوہ احزاب کے موقع سے بدعہدی کردی اور ان کے ایک سراد کعب بن الا شرف نے مکہہ جاکر کفار قریش کو مسلما نوں کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ کیا۔ الانفال
56 الانفال
57 (47) انہی یہو دی بنو قریظہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ اگر یہ لوگ جنگ میں پکڑ لیے جائیں تو انہیں کاری ضرب لگا یئے اور ایسی سزا دیجئے کہ جو دوسرے دشمنان اسلام گھات لگائے بیٹھے ہیں وہ ڈر کے مارے تتر بتر ہوجائیں اور یہ یہود ان کے لیے نشان عبرت بن جا ئیں الانفال
58 (48) بنو قریظہ کی بد عہدی اور خیانت کا جب ذکر آیا تو موقع کی منا سبت سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک بہت ہی اہم جنگی اصول بتایا وہ یہ کہ اکر کسی نے مسلمانوں کے ساتھ جنگ بندی اور صلح کا معاہدہ کہا ہو، لیکن کچھ علامتیں ایسی ظاہار ہو رہی ہوں جن سے مسلمانوں کو پتہ چل جائے کہ یہ لوگ ایک نہ ایک دن خیانت کر ہی بیٹھیں گے تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ ان سے کہہ دیں کہ اب ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی عہد باقی نہیں رہا لیکن ان سے جنگ کرنے میں پہل نہ کریں، تاکہ کفار مسلما نوں کو خیانت اور بدعہدی کا ساتھ متہم نہ کرسکیں اس لیے کہ بد عہدی بہت ہی مذموم صفت ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ یہ تو اس صورت میں ہے کہ کافروں کی خیانت کھل کر سامنے نہ آئی ہو، اگر ان کی بدعہدی ظاہر ہوگئی ہو تو پھر مسلمانوں کی طرف سے نقض عہد کے اعلان کی کوئی ضروت باقی نہیں رہتی جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل مکہ کے ساتھ کیا کہ جب انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلیف قبیلہ خزاعہ والوں کو قتل کر کے اپنی بد عہدی کا اعلان کردیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسلمانوں کی فوج لے کر ان کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوگئے اور کفار قریش کو ان کی آمد کا پتہ چلا جب وہ ( مراظہران) پہنچ گئے جو مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہے۔ الانفال
59 ) 49) یہاں وہ کفار قریش مراد ہیں جو میدان بدر سے جان بچا کر نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ وہ ہرگز نہ سمجھیں کہ اللہ کی گرفت سے نکل گئے ہیں اللہ کی گرفت سے کون نکل سکتا ہے اسے کون عاجز بنا کرسکتا ہے ؟ الانفال
60 (50) کفار قریش معرکہ بدر میں شکست فاش کے بعد جب مکہ پہنچے تو ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف آگ لگی ہوئی تھی وہاں پہنچتے ہی انہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہو سلم سے دوبارہ جنگ کرنے کی تیاری شروع کردی تاکہ مسلمانوں سے اپنے مقتولین کا انتقام لے سکیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے موقع کی مناسبت سے مسلمانوں کو تنبیہ کی کہ دشمنوں سے منٹنے کے لے مسلمانوں کو ہر حال اور ہر زمانہ میں بھر پور جنگی تیاری کرنی چاہیئے اس میں ایک قسم کا لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جنگ بدر میں مسلمانوں نے کوئی جنگی تیاری نہیں کی تھی وہ تو اللہ کا خاص انعام ؛ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہوسلم کی دعاؤں کے نتیجہ میں اور دین اسلام کو دنیا میں باقی رکھنے کے لیے مسلمانوں کو فتح دی لیکن ایسا ہر وقت ہر حال میں نہیں ہوسکتا فتح ونصرت حاصل کرنے کے لیے اللہ کی تائید بعد اہم چیز زمانے کے تقاضے کے مطابق فوجی طاقت اسلحہ ٹینکوں اور جدید اسباب جنگ کی فراہمی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو صریح طور پر حکم دیا ہے کہ وہ دشمنان دین کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری جنگی تیاری کریں اور اس بارے میں کبھی بھی غافل نہ ہوں اور اس کی عظیم حکمت یہ بتائی ہے جب دشمنان اسلام کو معلوم ہوگا کہ مسلمان پوری طرح تیار ہیں اور اگر جنگ کی نوبت آگئی تو وہ ہمارا صفایا کردیں گے تو ان پر رعب طاری رہے گا اور مسلمانوں پر دست درازی سے باز رہیں گے اور چونکہ جنگی تیاری اور جدید ترین اسلحہ کی صنعت بغیر کثیر کے وجود میں نہیں آسکتی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس راہ کے اخراجات کو انفاق فیی سبیل اللہ سے تعبیر کیا اور بتایا کہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اسے پورا بدلہ دے گا۔ امام مسلم، ابوداؤد اور ابن ماجہ نے عقبہ بن عامر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منبر پر یہ آیت پرہی اور فرمایا : اصل طاقت تیراندازی ہے اصل طاقت تیر انداسی ہے امام احمد اور اصحاب سنن نے عقبہ بن عامر (رض) سے ہی ایک اور حدیث روایت کی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تیر چلاؤ اور سواری کرو اور تیر چلانا گھوڑے پر سوار ہونے سے بہتر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حدیث میں پھینکنے کا لفظ استعمال کیا ہے جو اس زمانے کے ہر اس ہتھیار پر صادق آئے گا جسے دشمن کی طرف سیکڑوں میل کی مسافت سے پھینکا جارہا ہے اور دشمن کی صفوں اور ان کے شہروں میں تباہی لائی جا رہی ہے اس لیے مسلما نوں کو اس آیت کریمہ اور مذکورہ بالا احادیث کے پیش نظر جنگی تیاری پر پورا دھیان دینا چاہئے۔ آج مسلمان ذلت ومغلوبیت کا شکار ہیں تو اس کاسبب جہاں ایمان وعمل کی کمی ہے وہا‏ یہ سبب بھی ہے کہ وہ اسلحہ سازی اور جنگی تیاریوں میں دنیا کی دوسری قوموں کے مقابلہ میں بہت ہی پیچھے جا چکے ہیں ہر مسلمان ملک ہتھیاروں کے لیے کاسئہ گدائی لے کر دوسری قوموں کے پیچھے دوڑ رہا ہے اور وہ قومیں انہیں صرف دفاعی ہتھیار دینے پر راضی ہوتی ہیں اس لیے کہ الکفرہ ملتہ واحدہ کے مطابق وہ کبھی بھی نہیں چاہتیں کہ مسلمان اس پوزیشن میں آجائیں کہ وہ اللہ اور رسول کے ان شمنوں پر حملہ کرسکیں جنہوں نے بہت سے ممالک میں مسلانوں عرصئہ حیات تنگ کر رکھا ہے آیت میں سے مراد منافقین ہیں جو مدینہ میں پائے جاتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ توبہ آیت (101) میں فرمایا ہے کہ اہل مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو نفاق کی انتہا کو پینچے ہوئے ہیں انہیں آپ نہیں جانتے ہم جانتے ہیں الانفال
61 (51) بھرپور جنگی تیاری کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ دشمن مرعوب ہو کر صلح کی پیش کش کریں گے اگر ایسا موقع آئے تو جنگی صلاحیت ہونے کے باوجود مسلمانوں صلح پر آمادہ ہونے کی نصیحت کی گئی ہے اس لیے کہ ممکن ہے اس طرح وہ ایمان لانے کے سوچیں اور حلقہ بگوش اسلام ہوجائیں اور مسلمان صلح کرتے ہوئے اللہ پر بھروسہ کریں تاکہ کافروں کے مکروفریب سے اللہ مسلمانوں کو محفوظ رکھے بعض علمائے کرام نے کافروں کے ساتھ صلح کی جواز کی شرط یہ لگائی ہے کہ مسلمان کمزور ہوں اگر مسلمان قوی اور غالب ہوں تو صلح کرنی جا ئز نہیں ہے اور انہوں نے سورۃ محمد کی آیت (35) سے استدلال کیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا پس تم بودے بن کر صلح کی درخواست پر نہ اتر آؤ جبکہ تم ہی بلندی وغالب رہو گے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے لیکن راجح پہلی رائے معلوم ہوتی ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، ایسی صورت میں اس آیت کو اس محمول کیا جائے گا کہ مسلمانوں کو غالب گمان کے مطابق کافروں سے خیانت کا ڈرہو، واللہ اعلم۔ الانفال
62 ( 52) اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر کافر صلح کے ذریعہ مسلمانوں کو دھوکہ دینا چاہیں گے تو اللہ مسلمانوں کے لیے کافی ہوگا جیسا کہ اس نے میدان بدر میں فرشتوں کے ذریعہ مدد کی تھی۔ الانفال
63 (53) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نصیحت کی کہ وہ مسلمانوں کے درمیان محبت والفت پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں اور پھر اشارہ کیا کہ یہ کام بھی بغیر توفیق الہی کے نہیں ہوسکتا جیسا کہ اسلام سے پہلے عربوں کا حال تھا ہر مادی قوت لگا کر ان کے درمیان الفت ومحبت پیدا نہیں کی جاسکتی تھی وہ تو اللہ نے اپنے دین کے ذریعہ اور اپنی تو فیق سے ان کے دلوں کو جوڑ دیا تھا ، صحیحین میں عبد اللہ بن زید بن عاصم (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب غزوہ حنین کے اموال غنیمت کی تقسیم کے وقت ان کے سامنے تقریر کی تو فرمایا کہ کیا تم لوگ گمراہ نہیں تھے تو اللہ نے میری ذریعہ تمہیں ہدایت دی اور کیا تم محتاج نہیں تھے تو اللہ نے میرے ذریعہ تمہیں مالدار بنادیا اور کیا تم ٹولیوں میں بٹے ہوئے نہیں تھے تو اللہ نے میر ذریعہ تمہارے درمیان الفت پیدا کردی ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہو سلم کی ہر بات کے جواب میں انصار کہتے تھے اللہ اور اس کے رسول زیادہ احسان کرنے والے ہیں۔ الانفال
64 (54) آیت (62) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشارت دی تھی کہا گر معاہدہ کے بعد دشمن آپ کو دھوکہ دیں گے تو اللہ آپ کے لیے کافی ہوگا، اس آیت میں اس بشارت کو تمام امور اور تمام حالات کے لیے عام کردیا گیا ہے حافظ یابن القیم رحمہ اللہ نے زادالمعاد کے مقد میں اس آیت کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ اکیلا اللہ آپ کے لیے اور آپ کے پیر وکار مومنوں کے لیے کافی ہے اب اللہ کے علاوہ آپ کو کسی کی ضرورت نہیں پڑے گی، آگے لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے اس آیت کی تفسیر میں بڑی زبر دست ٹھوکر کھائی ہے اور کہا ہے کہ اللہ اور مومنین آپ کے لیے کافی ہیں یہ معنی سراسر غلط ہے، اس لیے کہ توکل تقوی اور عبادت کی طرح (کفایت) بھی اللہ کے ساتھ خاص ہے جہاں تک تائید کا تعلق ہے تو اللہ اپنے نبی کی تائید کبھی خود کرتا ہے اور کبھی مومنوں کے ذریعہ کراتا ہے، اسی لیے آیت (62) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے یعنی آپ کے لیے صرف اللہ کافی ہے اس کے بعد فرمایا یعنی اللہ نے آپ کی تائید خود بھی کی اور مومنوں کے ذریعہ بھی کرائی اور یہی وجہ ہے کہ اللہ کے جن اہل توحید اور اہل توکل بندوں نے صرف اللہ کو اپنے لیے کافی مانا اللہ نے سورۃ آل عمران کی آیت (173) میں ان کی تعریف کی اور فرمایا وہ لوگ جن سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے پر لشکر جمع کرلیے ہیں تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے ان کا ایمان بڑھادیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کار ساز ہے اللہ کے ان نیک بندوں نے حسبنا اللہ روسولہ یعنی اللہ اور اس کا رسول ہمارے لیے کافی ہے نہیں کہا بلکہ یہ کہا کہ صرف ہمارے لیے کافی ہے۔ الانفال
65 (55) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہو سلم کو حکم دیا کہ مومنوں کو دشمنوں کے خلاف جنگ پر ابھاریں اما مسلم نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے میدان بدر میں جب آپ نے دیکھا کہ کفار قریش مکہ سے اپنی پوری طاقت لے آگئے ہیں تو آپ نے مجاہدین اسلام کو مخاطب کر کے فرمایا کہ بڑھو اس جنت کی طرف جس کی کشادہ گی آسمانوں اور زمین کو محیط ہے، الحدیث، اور اللہ نے یہ وعدہ کیا کہ بیس مجاہدین اسلام صبر وثبات قدمی کے ساتھ دوسو پر اور ایک سے ایک ہزار کافروں پر غالب آجائیں گے۔ یہ آیت غزوہ بدر کے مقع سے نازل ہوئی تھی اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا تھا کہ دس کافروں کے مقابلہ میں ایک مسلمان ڈٹ جائے اور بھاگے نہیں امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو دس کے مقابلہ میں ایک اور دو سو کے مقابلہ میں بیس کے لیے ڈٹ جا نا واجب ہوگیا اور فرار حرام ہوگیا اس کے بعد آیت (66) نازل ہوئی جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے اس حکم میں تخفیف کردی اور دوسو کے مقابلہ میں ایک سو اور دوہزار کے مقابلہ میں میں ایک ہزار کا ڈٹ جانا واجب ہوگیا اور فرار ناجائز ہوگیا، بعض علماے نے کہا ہے کہ پہلی آیت دوسری آیت کے ذریعہ منسوخ ہوگئی اور بعض نے لکھا ہے دوسری آیت کے ذریعہ سابق حکم منسوخ نہیں ہوا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس میں تخفیف کردی ہے۔ الانفال
66 الانفال
67 (56) اس آیت تعلق معرکہ بدر کے بعد کے حالات سے ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے اس جنگ میں ستر (70) کفار قریش مارے گئے اور دوسرے ستر (70) قید کرلیے گئے تو سوال یہ پیدا ہوا کہ ان قیدیوں کے ساتھ کیسا برا برتاؤ کیا جائے؟ امام مسلم اور امام احمد نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ نے صحابہ کرام سے مشہورہ کیا توعمر بن خطاب (رض) سے مشورہ دیا کہ انہیں قتل کردیا جائے ،، ابو بکر (رض) نے مشورہ دیا کہ فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر کی رائے پر عمل کیا اور فدیہ لے ان کو آزاد کریا۔ امام مسلم نے کتاب الجہاد میں ابن عباس (رض) سے بھی اسی طرح ایک غیر مرفوع حدیث روایت کی ہے جس کیے آخر میں "آتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابو بکر (رض) بیٹھے رورہے تھے کہ عمر (رض) پہنچے اور وجہ دریافت کی تو آپ صلی اللہ علیہو سلم نے فرمایا کہ بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے کی وجہ سے مسلمانوں سے عذاب الہی اس درخت سے بھی زیادہ قریب ہوگیا تھا، اور ایک درخت کی طرف اشارہ کیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی جس میں قیدیوں سے فدیہ لینے کو اچھا نہیں بتایا ہے اور کہا گیا کہ غزوہ بدر کے قیدوں کا قتل کیا جا نا فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دینے سے زیادہ بہتر تھا اور آئندہ کے لیے نصیحت کی کہ ہونا تو یہ چاہئے کہ جب مسلمان کافروں پر غالب آئیں تو انہیں خوب قتل کریں تاکہ فر سرنگوں ہو اسلام اور مسلمانوں کا رعب ودبدبہ کافروں کے دلوں پر بیٹھ جائے اس کے بعد بھی اگر میدان جنگ میں کچھ لوگ باقی رہ جائیں تو انہیں گرفتا کرلیا جائے، میدان بدر میں صحابہ کرام نے کفار کو اس امید میں بھی پابند سلاسل کیا تھا تاکہ ان سے مال لے کر انہیں آزاد کردیں گے، اور اس طرح مسلمانوں کی مالی زبوں حالی میں کچھ کمی آئے گی اسی کی طرف آیت میں اشارہ ہے کہ تم لوگوں نے دنیاوی دفائدہ کے پیش نظر ایسا کیا حالانکہ اللہ تمہارے لیے آخرت کی بھلائی چاہتا ہے۔ الانفال
68 (57) یہاں کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات پہلے سے تھی جو لوح محفوظ میں بھی لکھی ہوئی تھی کہ امت اسلامیہ کے لیے مال غنیمت حلال کردیا جائے گا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے معاف کردیا ورنہ فدیہ لے کر کفار قریش کو آزاد کرنے پر اللہ کا عذاب مسلمانوں پر آہی جاتا۔ الانفال
69 (58) اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے مال غنیمت حلال کردیا اس کی تائید صحیحین کی جابر بن عبد اللہ (رض) سے مروی حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ میرے لیے مال غنیمت حال کردیا گیا ہے مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال نہی کیا گیا اس آیت کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام کو اطمینان ہوا اور فدیہ کے طور پر جو مال قیدیوں سے لیا تھا اسے استعمال کیا۔ ابو داؤدنے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ارسول اللہ صلی اللہ علیہو سلم نے بدر کے قیدیوں سے چار سو فی کس فدیہ لیا تھا۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ جمہور علماء کے نزدیک قیدیوں کے بارے میں ہر دور میں یہی حکم جاری رہا ہے اور امام وقت کو اختیار رہا حالات کے تقاضے کے مطابق چاہ اتو قتل کیا جیساکہ بنو قریظہ کے مقاتلین کو قتل کردیا گیا، اور چاہا تو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جیسا کہ کہ برد کے قیدیوں کے ساتھ کیا گیا اور کبھی مسلمان قیدیوں کے بد لے میں چھوڑدیا جیسا کہ ایک لونڈی اور اسکی لڑکی کو جسے سلمہ بن الاع نے قید کیا تھا کچھ مسلمان قیدیوں کے بدلے میں آزاد کردیا گیا اور کبھی کسی کو غلام بنالیا۔ الانفال
70 (59) حاکم اور بیہقی وغیر ہما کی روایتوں کے مطابق یہ آیت عباس بن عبدالمطلب (رض) کے بارے میں نازل ہوئی تھی، واقعہ بدر کے بعد ابوالیسر کعب بن عمرو نے انہیں قید کرلیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ کو آپ کے اسلام کا زیادیہ علم ہے اگر سچے ہیں تو اللہ آپ کو اس کا اجر دے گا لیکن ظاہر حالات کے مطابق آپ اپنی اور اپنے دونوں بھتیجوں نوفل وعقیل کی طرف سے فدیہ ادا کیجئے تو انہوں نے فدیہ دیا اور یہ آیت نازل ہو ئی (60) ابن سعد اور حاکم نے ابو موسیٰ اشعری سے روایت کی ہے کہ ابو العلاء حضر نے بحرین سے اسی (80) ہزار کی رقم بھیجی اس سے پہلے اس سے زیادہک مال آپ کے پاس نہیں آیا تھا آپ نے لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کردیا عباس (رض) آئے اور کہا کہ میں نے جنگ بدر کے بعد اپنا اور اپنے بھتیجوں کا فدیہ دیا تھا اس لیے مجھے اس مال میں سے دیجئے آپ نے انہیں بہت سارا مال دیا، یہاں تک کہ بوجھ سے اٹھ نہیں پارہے تھے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکرانے لگے عباس (رض) نے جاتے ہوئے کہا کہ اللہ کے دو وعدوں میں سے ایک پورا ہوا دوسرے کا معلوم نہیں کہ آخرت میں کیا ہوگا اسے مام بخاری نے بھی صیغہ تعلیق کے ساتھ روایت کی ہے۔ الانفال
71 (61) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہا جارہا ہے کہ اگر یہ مشرکین فدیہ دے کر جان چھڑا لیں اور ابظاہر اسلام کا علان کر کے آپ کو دھو کہ دینا چاہیں اور مکہ پہنچ کر کفر کی طرف لوٹ جائیں تو آپ اس کی پرواہ نہ کیجئے اور ڈرایئے نہیں انہوں نے پہلے بھی کفر وشرک کا ارتکاب کر کے اللہ کے ساتھ خیانت کی تھی اللہ نے انہیں آپ کا قیدی بنا دیا اگر پھر ایسا کیا تو دوبارہ ان کا نجام ایسا ہو ہوگا اور انہیں کفر کی ذلت کے ساتھ قید وبنند کی ذلت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ الانفال
72 (62) معر کہ بدر سے متعلق حالات اور واقعات کے اختتام پذیر ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس دور کے مسلمانوں کو دینی مراتب کے اعتبار سے تین قسموں میں تقسیم کیا ہے ایک تو وہ جہوں نے اللہ کی راہ میں اپنی جان ومال کے ذریعہ جہاد کیا اور دوسرے انصار مدینہ جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مہا جرین کو پنا دی ان دونوں قسموں کے مسلمانوں کا اللہ کی نگاہ میں بہت اوانچا مقام ہے ان کے بارے میں اللہ نے کہا ہے کہ یہ لوگ مدد دوستی اور وراثت میں ایک دوسرے کے حقدار ہیں بعد میں کے ذریعہ وراثت کا حکم منسوخ ہوگیا اور تیسرے وہ مسلمان ہیں جنہوں کافروں کے ساتھ مکہ میں ہی رہنا پسند کیا اور ہجرت نہیں کہ یہ لوگ اللہ کی نگاہ میں ناقص الا یمان لوگ تھے ان کے اور اول ودوم درجے کے مسلمانوں کے درمیان کوئی دوستی اور وراثت اللہ نے ثابت نہیں کی جب تک کہ ہجرت کر کے مدینہ نہ آجائیں ہاں اگر یہ لوگ ان کافروں کے خلاف اپنے دین کی حفاظت کے لیے مدد طلب کریں اور مسلمانوں اور ان کافروں کے درمیان پہلے سے کوئی معاہدہ نہ ہو تو ان کی مدد کرنے ضروری ہے۔ الانفال
73 (63) اس آیت میں مسلما نوں کو اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ وہ کافروں کو اپنا دوست بنائیں چاہے وہ قریبی رشتہ دار ہی کیونہ ہوں اس لیے کہ کافر دوست کافر ہی ہوتا ہے، اسی آیت سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ مسلمان اور کافر ایک دوسرے کے ورث نہیں ہو سکتے ہیں، بخاری نے اسامہ بن زید سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دودین والے آپس میں وارث نہیں ہوں گے۔ (64) یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو دوست نہیں رکھیں گے اور کافرور سے قطع تعلق نہیں کریں گے تو بہت بڑے فتنے وفساد دکا دروازہ کھل جائے گا جو مسلمان کمزرو ہوں گے وہ کافروں کا ساتھ مل جائیں گے اور ممکن ہے کہ مرتد ہوجائیں اور اگر مرتد نہ بھی ہوں تو بھی عقیدہ وعمل اور عادات واطوار میں کافروں کا اثر قبول کرلیں گے اسی طرح اگر مسلمان اس آیت کے بموجب آپس میں متحد ہوں گے تو کفار ان کے خلاف سازش کر کے ان پر حملہ آور ہوجائیں گے اور ان کے علاقوں پر قابض ہوجائیں گے اس کے بر عکس اگر آپس میں متحد رہیں گے تو ان کی قوت بڑھتی جائے گی اور دوسرے مذاہب کے لوگ دین اسلام میں داخل ہوتے جائیں گے اور فتنہ فساد کے بہت سے دروازے ازخود بند ہوتے چلے جائیں گے۔ الانفال
74 (65) آیت (72) میں جب قسم اول کے مسلمانوں کا ذکر آچکا ہے انہی کا دوبارہ ذر کر ہو رہا ہے تاکہ اللہ کے نز دیک ان کا مقام ومرتبہ بیان کیا جائے اور اللہ کی طرف سے انہیں جو اجر عظیم ملے گا اس کی انہیں خوشخبری دی جائے مہاجرین وانصار کی اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے علاوہ قرآن کریم کی کئی آیتوں میں تعر یف کی ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا بڑا مقام ہے۔ الانفال
75 (66) یعنی جو لوگ ہجرت کے بعد مسلمان ہوئے اور ہجرت کرکے مدینہ آگئے اور مسلما نوں کے ساتھ مل کر جہاد کیا تو وہ بھی سابق مہاجرین وانصار کی طرح مناصرت وموالات کے مستحق ہیں وہ بھی حقیقی مومن ہیں اور آخرت میں ان پر بھی اللہ تعالیٰ عفو ومغفرت کی چادر ڈال دے گا، اور جنت کی نعمتوں سے نوازے گا۔ (67) اس مراد وہ تمام رشتہ داریا ہیں جو رحم کے ذریعہ قائم ہوتی ہیں ابن عباس، مجاہد، عکرمہ اور حسن وغیر ہم نے کہا کہ یہ آیت معاہدہ حلف اور اخوت ودوستی کے ذریعہ وراثت کے حکم کے لیے ناسخ ہے اس آیت کے بعد وراثت کا حکم صرف قرابت آبائی نسب اور سسرال رشتوں کے ذریعہ با قی رہ گیا اور معاہدہ حلف صرف اپس کے تعاون، ایک دوسرے کی مدد اور حسب معاہدہ دیگر امور واحکام کے لیے جاری وساری ہے۔ ابو داؤ د نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ پہلے لوگ حلف ومعاہدہ کے ذریعہ بغیر کسی خاندانی رشتہ داری کے ایک دوسرے کے وارث بنتے تھے تو سورۃ انفال کی اس آیت نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ ابو دا ؤد طیا لسی طبرانی اوار ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) ہی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہو سلم نے اپنے صحا بہ کے درمیان بھاءی چارگی قائم کردی تھی جب کے مطا بق وہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی رشتہ دار لوگ ایک دوسے کے زیادہ حقدرا ہیں، تو لوگ صرف نسب کے ذریعہ ایک دوسرے کے وارث بننے لگے اور دیگر اسباب کا اعتبار نہ رہا آیت میں (کتاب اللہ) سے مراد اللہ کا حکم یا لوح محفوظ یا قرآن کریم ہے۔ الانفال
1 تفسیر سورۃ التو بہ نام ؛ بعض مفسرین نے اس کے چودہ نام بتائے ہیں، ان میں دونام زیادہ مشہور ہیں ک" التوبہ اور براءہ" اس لیے کے سی لفظ کے ذریعے اس سورت کی ابتدا ہوئی ہے اور اس سورت کے اکثر وبیشتر مضامین کا تعلق مشرکین سے اعلان براءت سے ہے اور توبہ اس لیے کہ اس سورت میں آٹھ سے زیادہ بار توبہ کا ذکر آیا ہے۔ زمانئہ نزول : یہ سورت مدنی ہے اس میں ایک سوانتیس آیتیں ہیں امام بخاری نے براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ براءت آخری سورت ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی۔ اس سورت کی آیتوں کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ان تاریخی حقائق وواقعات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے جن کے پیش نظر یہ سورت نازل ہوئی تھی، رمضان 8 ھ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ فتح کرلیا جودیار عرب سے شرک وکفر کے خاتمہ کا ابتدائی اعلان تھا اس کے بعد ہی غزوہ حنین واقع ہوا جس میں قبیلہ ہو ازن نے اپنی پوری قوت جھونک دی اور شروع میں مسلمانوں کی پسائی کے باوجود بالآخر ہو ازن کے قدم اکھڑ گئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مسلمانوں کو فتح دی اس غزوہ کے بعد مشر کین عرب کی رہی سہی قوت کچل دی گئی، اس کے قبل جمادالا ولی 8 ھ میں عربوں کو شمالی علاقہ میں (مؤتہ) کے مقام پر مسلما نوں کی تین ہزار فوج ایک لاکھ رومیوں سے ٹکڑا کر داد شجاعت دے چکی تھی اور اس علاقہ کے کافروں اور اہل کتاب کی نگاہوں میں اسلام اور مسلمانوں کا رعب ودبدبہ بہت حد تک بیٹھ چکا تھا، اور جب رجب 9 ھ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیس ہزار کی فوج لے کر قیصر کا مقابلہ کرنے کے یلے شام کی طرف روانہ ہوئے اور تبوک کے مقام پر خیمہ زب ہوئے اور قیصر مقابلہ کرنے سے پہلے ہی بھاگ کھڑا ہوا اور آس پاس کے چھوٹے چھوٹے عرب ملوک وامراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہو سلم کے پاس آکر اسلام کا علان کرنے لگے نیز نصاری جو اسلام نہ قبول کرنے کی صوت میں جز یہ دینے پر رضامندی ظاہر کرنے لگے تو عرب کا نقشہ ہی بدل گیا اور پورا علاقہ سمجھ گیا کہ اب اس علاقہ سے شرک کا خاتمہ ہوچکا اب صرف اس کا دستور اعلان باقی ہے اور جو منافقین مدینہ اسلام کی خلاف ریشہ دوانیاں کرتے رہے وہ بھی سمجھ چکے تھی کہ اب ان کا دور ختم ہوگیا یہ پوری سورت انہی حالات وظروف کے ارد گرد گھومتی ہے۔ حافظ ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے رایت کی ہے میں نے علی بن ابی طالب (رض) سے پوچھا سورۃ "براءت " کے شروع میں بسم اللہ کیوں نہیں لکھی گئی ہے تو انہوں نے کہا کہ بسم اللہ میں اللہ کی طرف سے امان ہے اور یہ سورت مشرکوں اور کافروں کے خلاف اعلان جنگ ہے نمبر دو غیرہ نے اس کی جو تو جہیہ بیان کی ہے وہ بھی تقریبا اسی رائے کی تا ئید کرتے ہے ان کا کہنا ہے کہ عربوں میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی قبیلہ کسی دوسرے قبیلہ کے ساتھ کئے گئے سابقہ معادہ کو پڑھ کر لوگوں کو سنایا۔ (1) امام احمد نے ابو ہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول للہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی بن ابی طالب کو اہل مکہ کی طرف اعلان براءت دے کر بھیجا تو میں ان کے ساتھ تھا، ہم لوگ حجاج کے درمیان گھوم گھوم کر) اعلان کرتے تھے کہ کافر جنت میں داخل نہیں ہوگا اور ننگا آدمی بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا نیز جس کسی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہو سلم کے ساتھ کوئی معاہدہ ہے تو اس کی مدت اب سے چارماہ تک رہے گی اس مدت کے گذر جانے کے بعد اللہ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکوں سے بری ہیں، اور اس سال کے بعد ان کوئی مشرک بیت اللہ کا حج نہیں کرے گا قرآن کے اس اعلان براءت کے بعد تمام مسلمانوں پر کافروں کی طرف نقص عہد کی وجہ سے جب بری ہوگئے تو مسلمانوں کے لے ہرگز جا ئز نہیں رہا کہ مشرکوں کے ساتھ کیا گیا کوئی سابقہ معاہدہ با قی رکھیں۔ التوبہ
2 (2) مشر کوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے صرف چار ماکی مہلت دی گئی، جس کی ابتدا 10 ذی الحجہ سے ہوئی اور 10 ربیع الثانی کو ختم ہوگئی، ان سے کہا گیا کہ اس مدت میں چاہیں تو اسلام لے آئیں جو ان کے لیے ہر طرح بہتر ہے یا چاہیں تو جزیرہ عرب سے نکل جائیں، اور اگر باقی رہ جائیں گے تو انہیں بکڑ لیا جائے گا اور قتل کردیئے جائیں گے اور یہ چارماہ کی مدت انہیں دی گئی جن کے معاہد کی مدت اس سے کم تھی لیکن جو قبائل نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ چارماہ سے زیادہ مدت کے یے معاہدہ کیا تھا وہ مدت ابھی باقی تھی تو انہیں ان کی پوری مدت دی گئی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ابن جریر نے اسی رائے کو تر جیح دی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ مہلت مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے نہیں دی گئی بلکہ اس میں حکمت یہ ہے کہ شاید تم تو بہ کر کے صدق دل سے اسلام کو قبول کرلو اور نہ تم لوگ کبھی بھی اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہو اور اگر تم اپنے کفر پر باقی رہے تو اللہ تمہیں رسوکر کے رہے گا۔ التوبہ
3 پہلی آیت میں اور اس آیت کے معنی میں فرق یہ ہے کہ پہلی آیت میں مشرکوں سے براءت ثابت ہوجا نے کی خبر دی گئی ہے جبکہ آیت اور اس آیت کے معنی میں فرق کے اعلان کو واجب بتایا گیا ہے اسی طرح براءت کا تعلق ان مشرکوں سے تھا جن کے ساتھ مسلمانوں کا کوئی معاہدہ تھا اور اعلان براءت تمام لوگوں کے لیے عام تھا تاکہ سب کو خبر ہوجائے۔ التوبہ
4 (4) جن مشر کین کے معاہدوں کی مدت چار ماہ سے کم تھی یا جب کا معاہدہ معین مدت تک کے لیے تھا انہیں چارماہ کی مہلت دی گئی جیسا کہ اوپر گذر چکا لیکمن جن مشرکین کے معاہدوں کی مدت چارماہ سے زیادہ تھی اور انہوں نے معاہدوں کی شرط کی پابندی کی تھی انہیں ان کی پوری مدتک کے لے مہلت دی گئی اسی حکم کو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ التوبہ
5 (5) اکثر لوگوں کی رائے یہ ہے کہ اس آیت میں اشھر حرم سے مراد وہ چار مہینے کی مدت ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کو اعلان براءت کی بعد بطور مہلت دی تھی اور جن کی ابتدا دس ذی الحجہ سے ہوئی تھی اور دس ربیع الثانی کو ختم ہوگئی تھی، ایک روایت کے مطابق ابن عباس (رض) کی یہی رائے ہے اور ان مہینوں کو محرم اس اعتبار سے کہا گیا کہ اس کی مدت میں مشرکین سے قتال کو حرام کردیا گیا تھا۔ کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ یہاں اشھر حرم سے رمراد وہی مشہور چار مہینے ہیں جن میں پہلے سے جنگ کرنا حرام تھا اور وہ رجب ذی لقعدہ ذی الحجہ اور محرم کے مہینے ہیں ایک روایت کے مطابق ابن عباس (رض) کی یہی رائے ہے، اور ابن جریر نے اس کو تر جیح دی ہے حافظ ابن القیم رحمہ اللہ پہلی رائے کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو لگا تار چار مہینے کی مہلت دی تھی ابن کثیر نے بھی اسی رائے کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ مشہور چار حرام مہینوں کا حکم اسی سورت میں اس کے بعد آئے گا۔ چار ماہ کی مدت گذر جانے کے بعد مشرکین کے لیے جزیرہ عرب میں کوئی امان نہیں رہا، اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ اس مدت کے بعد مشر کین کو جہاں پاؤ یا تو قتل کر دوہ یاچا ہو تو قید کرلو ان کا ہر جگہ محاصرہ کرو اور انہیں تنگ کرو یہاں تک کہ اسلام لے آئیں یا پھر قتل کردیئے جائیں۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ آیت حرم میں حرمت قتال والی آیت کے ذریعہ مخصص ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مسجد حرام کے پاس مشرکوں سے قتال نہ کروں یعنی مشرکوں کو قتل کرنا چار مہینے کی مدت گذر جا نے کے بعد حرم کے علاہ وہ جگہوں میں جائز قرار دیا گیا تھا۔ (6) اگر مشرکین اسلام قبول کرلیں نماز پڑھنے لگیں اور زکاہ دینے لگیں تو پھر انہیں قتل نہیں کیا جائے گا اس لیے کہوہ مسلمان ہوگئے ابو بکر (رض) نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد مانعین زکاہ کے خالف جنگ کا اعلان کیا تھا۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ براءت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ کاہل کتان دشمنان اسلام سے جنگ کریں یہاں تک کہ اسلام قبول کرلیں یا جزیہ پر راضی ہوجائیں اور دیگر کفار و مشرکین کے ساتھ سختی کا بر تاؤ کریں اور یہ بھی حکم دیا کہ کافروں کے ساتھ تمام سابقہ معاہدوں سے براءت کا اعلان کردیں چنانچہ کافروں نے نقض عہد کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے خلاف جنگ کیا اور جن کے معاہدے مقررہ مدت کے لیے تھے اور انہوں نے قض عہد نہیں کیا ان کے معاہدوں کی مدت پوری کی اور جن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں تھا اور انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگ نہیں کی یا جنکے ساتھ غیر معینہ مدت کے لیے معاہدہ تھا ان کو چارماہ کی مہلت دی ان تمام کا روئیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ معاہدے کی مدت یا چار ماہ کی مدت پور ہونے سے پہلے ہی اکثر وبیشتر مشرکین مسلمان ہوگئے اور جو اہل کتاب حلقہ بگوش اسلام نہیں ہوئے انہوں نے جزیہ دینا قبول کرلیا۔ جبکہ منافقین کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ ان کا ظاہر اسلام قبول کرلیں اور ان کا باطن اللہ کے حوالہ کردیں اور ان کے ساتھ قول وعمل کا معاملہ کریں نیز اسلام کے احکام ان تک پہنچاتے رہیں اور اگر وہ مر جائیں تو ان پر نماز پڑھیں اور ان کی قبروں کے پاس کھرے ہو کر ان کے لیے دعا نہ کریں۔ التوبہ
6 (7) اوپر کی آیت میں حکم عام تھا کہ چار ماہ کی مدت معاہدہ گذر جانے کے بعد جو مشرک بھی پکڑا جائے اور جب حال میں بھی قتل ہوا سے قتل کیا جائے اسی حکم کی تخصیص کی طور پر یہاں کہا جا ہا ہے کہ اگر کوئی مشرک مدت معاہد یا چار ماہ کی مدت گذر جانے کے بعد مسلمانوں سے امان چاہے تاکہ اسے قرآن کر یم سننے اور سمجھنے کا موقع ملے اور اسلام کا بغو مطالعہ کرسکے تو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اسے یہ موقع فراہم کیا جائے اس لیے کہ بہت ممکن ہے کہ اس کا کفر پر قائم رہنا جہالت اور اسلام کی خو بیوں کو نہ جاننے کی وجہ سے ہو یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی موقع سے قریش نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس طالب ہدایت یا پیغام رساں کی حثیت سے آتا تھا تو آپ اسے امان دیتے تھے صلح حدیبیہ کہ موقع سے قریش کے کئی افراد آپ کے پاس آئے جن میں عروہ بن مسعود کا نام زیادہ مشہور ہے انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جب مسلمانوں کی عقیدت ومحبت کا مشاہدہ کیا تو بہت زدیاہ متاثر ہوئے اور واپس جا کر کفار قریش کی محفلوں میں بیان کیا جس کا اثر یہ ہوا کہ اس کے بعد بہت سے کفار قریش نے اسلام قبول کرلیا۔ اگر مسلمانوں کے درمیان رہنے قرآن کریم سننے اور سمجھنے اور اسلام کا مطالعہ کرنے کے بعد مشرف باسلام ہوجاتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ اسے اس کو امان کی جگہ پہنچا دیا جائے تاکہ کفار مسلمانوں کو خائن نہ کہیں۔ امام بخاری نے اپنی کتاب التاریخ میں اور نسائی نے سنن میں روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے کسی آدمی کو پناہ دی اور پھر اسے قتل کردیا تو میں ایسے قاتل سے بری ہوں چاہے مقتول کافر ہو۔ اس کے دارالفکر پہنچ جانے کے بعد اگر مسلمان اس علاقہ پر حملہ کریں اور وہ مارا جائے تو مسلمان کو کو ءی گناہ لاحق نہی ہوگا۔ التوبہ
7 (8) اس آیت میں مشر کین سے اعلان براءت اور انہیں صرف چارماہ کی مہلت دیئے جانے کی حکمت بیان کی گئی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرکین کو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے امان کس بنیاد پر دیا جائے ؟ نہ تو وہ ایمان لائے اور نہ ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت پہنچانے میں کوئ کسر اٹھا رکھی حق کے خلاف جنگ کی باطل کی تائید کی اور زمین میں فساد بر پا کیا اس لیے اللہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں ہاں بنہ بکربن کنانہ کے جن لوگوں کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلح حدبیہ کے موقع سے حرم کے پاس معاہدہ کرلیا تھا ان کے معاہدے کا خیال کیا جائے اگر وہ بھی اس کی پاسداری کریں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ غدروخیانت کو پسند نہیں کرتا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام ذی القعدہ 6 ھ میں حدیبہ کے مقام پر اہل مکہ کے ساتھ کیے گئے معاہدہ صلح پر قائم رہے یہاں تک کہ خود قریش نے نقض عہد کر کے اور بنو بکر کے ساتھ مل کر قبیلہ خزاعہ والو کو حرم میں قتل کردیا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلیف تھے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان 8 ھ میں مکہ کے مشرکین پر حملہ کردیا اور بلد حرام کو مشرکوں سے پاک کردیا اس وقعہ کے بعد تقریبا دوہزار مشرکین مکہ اسلام لے آئے کچھ لوگ اپنے کفر پر بفاقی رہے اور مکہ سے بھاگ کھڑ ہوئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں چار ماہ کی مہلت ید انہی لوگوں میں صفوان بن امیہ اور درعکرمہ بن ابی جیہل وغیرہ تھے بعد میں ان لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ التوبہ
8 (9) مزید تاکید کے طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرکین کے لیے اللہ کی جانب سے پروانہ امان کیسے مل سکتا ہے ؟ جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر وہ مسلمانوں پر غالب آجائیں تو بالکل رحم نہ کریں اور اللہ کے خوف کو بالائے طاق رکھ کر انہیں سخت عذاب دیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ جب یہ مشرکین تم خوف کھائے ہوتے ہیں اس وقت ان کا جو برتاؤ تمہارے ساتھ ہوتا ہے اس سے دھوکہ میں نہ پڑجاؤ یہ تصرف اپنی منافقانہ میٹھی باتوں سے تمہیں خوش کرنے کی کو شش کرتے ہیں ان کے دل تمہارے خلاف بغض وعداوت سے بھرے ہوتے ہیں ان میں سے اکثر وبیشتر لوگ دیانت ومروت سے کو سوں دور ہیں انہوں نے دنیا کی حقیر متاع کو اللہ اور رسول پر ایمان لانے پر تر جیح دیا اور خود کو اور دوسروں کو اللہ کی سیدھی راہ پر چلنے سے روکا اور اللہ اور رسول کے ساتھ اس عداوت کی وجہ سے وہ کسی مسلمان کے سلسلہ میں کسی معاہدہ وغیرہ کا کوئ خیال نہیں رکھتے۔ التوبہ
9 التوبہ
10 التوبہ
11 (10) اس آیت کے سیاق وسباق میں مسلمانوں کو ایک نصیحت کی گئی ہے کہ تمہارے دوستی اور دشمنی کی بنیاد صرف اللہ کی رضا ہونی چا ہیئے کوئی خواہش نفس نہیں اس لیے اگر کوئی تمہارے دین کا مؤید ہے تو اسے اپنا دوست سمجھو اگر وہ مشرکین اپنے شرک سے تائب ہوجائیں اور ایمان لے آئیں نماز پڑھیں اور زکاہ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اس کے ساتھ بھائیوں جیسا برتاؤ کرو اور پرانی عداوت کو بھول جاؤ۔ التوبہ
12 (11) اوپر بیان کیا گیا ہے کہ اگر مشرکین معاہد کی پاسداری کریں تو تم ان کے ساتھ کیے گئے معاہدہ کا خیال رکھو یہاں اسی بات کی تکمیل ہے کہ اگر وہ معاہد پر قائم نہ رہیں یا تمہارے خلام دشمنوں کی مدد کریں اور تمہارے دین کو عیب جوئی کریں تو ان روسائے کفر سے بالخصوص اور تمام مشرکین سے بالعموم جنگ کرو کیونکہ بد عہدی ان کی گھٹی میں پڑی ہے انن پر کسی حال میں بھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا آیت میں ائمہ الکفر کا بالخص ص ذکر اس لیے آیا ہے کہ دراصل یہی لوگ ہر دور میں داعیان حق کی خلاف سازشیں کرتے ہیں عوام تو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور دینن کی عیب جوئی سے مراد ہر وہ بات ہے جو اللہ یا اس کے رسول کے خلاف یا قرآن و حدیث کے خلاف کہی جائے اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں اللہ کے نزدیک وہ کافروں کے سرغنہ ہوتے ہیں۔ التوبہ
13 (12) مسلمانوں کو بار بار مشر کین مکہ کے خلاف پر ابھا راجا رہا ہے اور ان کے وہ اوصاف بیان کیے جارہے ہیں جنہیں سن کر مسلمانوں کا غیظ وغضب بھڑکے اور ان خلاف ساتھ کیے گئے اپنے معاہدہ کا پاس نہیں رکھا تھا اور اپنے حلیف بنی بکر کی خزاعہ کی خلاف مدد کی تھی جو رسول للہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حلیف تھے اور جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہو سلم کو شہر مکہ سے نکالنے کی دارا لندوہ میں سازش کی تھی حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ لوگ اللہ کے رسول کا احترام کرتے قو آپ کا مقام پہچانے اور غزوہ بدر کے موقع سے قتال کی ابتدا انہی کی طرف سے ہوئی کہ تجارتی قافلہ کو بچانے کے لیے مکہ سے چلے تھے اور قافلہ بچ یکر نکل بھی گیا لیکن انہوں نے کبر وغرو میں آکر مسلمانوں سے جنگ کی ٹھانی اور مقام حدیبیہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کیے گئے معاہدہ صلح کو توڑ نے میں بھی پہل کی یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی سرکوبی کے لیے مکہ پر چڑھائی کرنی پڑی۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ ان مشر کین سے ڈر کر جہاد فی سبیل اللہ پہلو تہی نہ کرو اگر تم مومن ہو تو میرے عذاب اور میرے جبروت سے ڈرو۔ التوبہ
14 (13) اللہ تعالیٰ تو قادر ہے کہ آن واحد میں دشمنان دین کو ہلاک کردے لیکن اس نے ایسا نہ کر کے جہاد کا حکم دیا اس لیے کہ وہ اپنے مومن بندوں کے ہاتھوں ان مشر کین کو سزا دینا چاہتا ہے انہیں رسواکر ان چاہتا ہے انہیں رسوا کرنا چاہتا ہے اور ان کے خلاف مومنوں کو مدد کر کے کافروں کو بتانا چاہتا ہے کہ اللہ مومن بندوں کے ساتھ ہوتا ہے اور مشروعیت جہاد کی دوسری علت یہ ہھ کہ اللہ اپنے مسلمان بندوں کے ہاتھوں ان کافروں کا صفا یا کروا کر ان کے دلوں کو ٹھنڈا کرنا چاہتا ہے اس لیے کہ انہیں ان مشر کین کے ہاتھوں بڑی اذتیں پہنچی ہیں اور بڑا غم اٹھا یا ہے جب اپنے ہاتھوں انہیں قتل کریں گے تو ان کے سل کا بوجھ ہلکا ہوگا۔ مفسرین لکھتے ہیں یہ آیت دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں سے محبت کرتا ہے اور ان کی خوشی کا خیال رکھتا ہے جبھی تو اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ان کے دل کا بوجھ ہلکاہو۔ التوبہ
15 التوبہ
16 (14) اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم دینے کے بعد مسلمانوں سے بطور تاکید فرمایا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہیں ایسی آزمائش میں نہیں ڈالا جائے گا جس کے ذریعہ صادق وکاذب اور مومن اور منافق کے درمیان تمیز ہوجائے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جاننا چاہتا ہے جو اللہ کا حکم بلند کرنے کے لیے جہاد کرتے ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے علاوہ کسی کا فرکو اپنا دوست نہیں بناتے، قرآن کریم کی کئی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ مشرعیت کا یاک اہم مقصد یہ ہے کہ اللہ کے فرمانبردار اور نافرمانبر داربندے پہچانے جائیں ،۔ سورۃ عنکبوت آیت (2) میں فرمایا ہے : اور سورۃ بقرہ آیت (214)، میں فرمایا ہے : ان آیتوں میں یہی بات کہی گئی ہے کہ اللہ اپنے مومن بندوں کے ضرور آز ماتاکہ مخلص وغیرہ مخلص مومون اور صادق وکاذب میں فرق ہوسکے۔ التوبہ
17 (15) مشرکین قریش کو اس بات کا بڑا زعم تھا کہ وہ مسجد حرام کی دیکھ بھال کرنے والے اور اسے آباد رکھنے والے ہیں اس لیے وہ اپنے آپ کو اوروں سے ارفع واعلی تصور کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے اس آتی میں ان کے اس زعم باطل کی نفی کی اور کہا وہ کیسے دعوی کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے گھروں کو آباد رکھنے والے ہیں جبکہ وہ خود اپنے کفر کا اعتراف کرتے ہیں اور جانتے ہوئے اس پر مصر ہیں ایسے لوگوں کا تو کوئ بھی قابل قبول نہیں ہے اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے مسجدوں کو آباد کرنے کی شرط یہ ہے کہ آدمی اللہ اس کے رسول اور یوم آخرت پر ایمان رکھے اور حلقہ بگوش اسلام ہو کر نماز قائم کرے زکاہ دے اور اللہ کے علاہ کسی کے خوف کو اپنے دل میں جگہ نہ دے معلوم ہوا کہ جو مومن نہیں ہوگا وہ مسجد کو آباد کرنے والا نہیں ہوگا اور مسجد کو وہی آباد کرتا ہے جو مومن ہوتا ہے اس لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جو صبح وشام مسجد کی طرف جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے (بخاری ومسلم) اور یہ بھی فرمایا کہ جب تم کسی آدمی کو مسجد جانے کا عادی پاؤ تو اس کے لیے ایمان کی گواہی دو اس کے بعد والی آیت پڑھی (ترمذی ) التوبہ
18 التوبہ
19 ( 16) ابن ابی حاتم اور حافظ ابن مردیہ نء ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ مشرکین مکہ نے بیت اللہ کو آباد کرنا اور حاجیوں کو پانی پلانا ان لوگوں کے اعمال سے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لائے اور جہاد کیا اور انہیں اس بات پر فخر تھا اور بڑے کبر میں حاجیوں کو پانی پلانا ان لوگو کو اعمال سے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لائے اور جہاد کیا اور انہیں اس بات پر فخر تھا اور بڑے کبر میں مبتلا تھے کہ وہ اہل حرم ہیں اور سے آباد کرتے ہیں تو اللہ نے اس آیت کے ذریعہ اللہ پر ایمان پر ایمان اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے ساتھ جہادفی سبیل اللہ کو مشرکین کے ان اعمال پر ترجیح دی جن کا ذکر اوپر آیا ہے اور صراحت کردی کہ حرم کی دیکھ بھال اور حاجیوں کو پانی پالا نا شرک ہوتے ہوئے بے کار ہیں اور قیامت کے دن کے لیے نفع بخش نہیں ہوں گے ، امام مسلم نے نعمان بن بشیر سے روایت کی ہے کہ میں منبر رسول کے پاس بیٹھا تھا تو ایک آدمی نے کہا کہ اسلام لانے کے بعد یہی کافی ہے کہ مسجد حرام کو آباد کروں دوسرے نے کہا جہاد فرسبیل الہ اس سے بہتر ہے جو تم نے کہا ہے توعمر نے انہیں ڈانٹا اور کہا ہے کہ تم لوگ منبر رسول کے پاس جمعہ کے دن اپنی آوازیں بلند نہ کرو میں جمعہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس بارے میں پوچھو گا تو اللہ نے یہ آیت ناازل کی اور بتایا کہ ایمان بااللہ اور جہاد فی سبیل اللہ حاجییوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی دیکھ بھال سے کئی گنازیادہ افضل ہے اس لیے کہ ایمان دین کی اصل اور بنیاد ہے بغیر اس کے اعمال قبول نہیں ہوتے اور جہاد فی سبیل اللہ دین کا سب سے اونچا عمل ہے اللہ تعا کے ذریعہ دین اسلام کی حفاظت کرتا ہے اور باطل کو سرنگوں کرتا ہے۔ التوبہ
20 (17) اوپر جو ایما باللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت بیان کی گئی ہے اسی کو مزید صراحت کے ساتھ اللہ نے اس آیت میں بیان کردیا ہے کہ اللہ پر ایمان لانا اس کی رضا کی خاطر ملک ووطن اور مال ودولت چھوڑ کر ہجرت کرنا اور اللہ کی راہ میں جان ومال سے جہاد کرنا للہ کے نزدیک زیاسہ اونچا مقام کھتا ہے اللہ ایسے لوگوں پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے گا ان سے ہمیشہ کے لیے خوش ہوجائے گا اور انہیں لازوال نعمتوں والی جنتوں میں داخل کرے گا جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے ،۔ التوبہ
21 التوبہ
22 التوبہ
23 (18) اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو مشرکوں کی دوستی سے منع فرمایا ہے چاہے وہ قریب تریب رشتہ دارہی کیوں نہ ہوں بیہقی نے عبد الہ بن شوزب سے رایت کی ہے یہ آیت ابوعبیدہ بن الجراح (رض) کے بارے میں نازل ہوئی جب میدان بدر میں ان کے باپ جراح نے انہیں قتل کرنے کی کئی بار کو شش کی اور ابو عبیدہ اس کی زد میں انے یا سے قتل کرنے سے بچتے رہے لیکن ءجب وہ بار بار اسی کو شش میں لگا رہا تو ابوعبیدہ نے اسے قتل کردیا تو سورۃ مجادلہ کی آیت (22) نازل ہوئی جس سے آیت کے معنی ومفہوم کو تائید ہیوتی ہے۔ التوبہ
24 (19) اس آیت میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دھمکی دی ہے اللہ کے مقابلہ میں اپنے اہل وعیال اور رشتہ داروں کو ان کے کفر وشرک کے باوجود ترجیح دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول سے حقیقی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی محبت کو ہر شے کی محبت پر مقدم رکھا جائے باپ ہو یا بیٹا بھائی ہو یا بیوی، یا خاندان کا کوئی فرد یا مال ودولت جس آدمی اپنی کدو کاوش سے حاصل کرتا ہے یا انواع واقسام کے اموال تجارت یا بلند وبالا محلات اور کو ٹھیاں ان سب کی اللہ اور رسول کے مقابلہ میں میں مومن کے دل میں کوئی حثیت نہیں ہوتی جس کے نز دیک یہ چیزیں اللہ اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب ہوں گی وہ فاسق اور اپنے حق میں ظالم ہوگا۔ علمائے تفسیر لکھتے ہیں کہ یہ آیت سب سے بڑی دلیل ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنا ایمان کا جزو اور ان کی محبت کو ہر شے کی محبت پر مقدم کرنا واجب ہے اور جو ایسا نہیں کر گا وہ اللہ کی نگاہ میں بہت بڑا گناہ گار ہوگا، اور اسے عذاب الہی کا انتظا کرا چاہیئے اور اسے پہچاننے کی کسوٹی یہ ہے کہ اگر اس کے سامنے دوچیزیں آئیں ایک وہ جسے اللہ اور اس کے رسول پسند کرتے ہیں اس میں آدمی کا بظاہر کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہے اور دوسری وہ ہے جسے اس کا نفس چاہتا ہے لیکن اسے اپنا نے سے کوئ ایسی چیز فوت ہوجاتی جسے اللہ اور اس کے رسول چاہتے ہیں اگر وہ اپنی خواہش نفس کو موافق شے کو اس شے پر ترجیح دے دیتا ہے جسے اللہ اور اس کے رسول چاہتے ہیں تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اپنے حق میں ظالم ہے۔ التوبہ
25 (20) مندرجہ ذیل تین آیتوں میں غزوہ حنین کا ذکر ہے جس اجمالی ذکر اس سورت کی ابتدا میں چکا ہے یہ جنگ شوال 8 ھ میں وادی حنین میں ( جو کہ اور طائف کے درمیان وقع ہے (قبیلہ ہوازن اور اس علاقہ کے کچھ دوسرے مشر کین کے ساتھ لڑی گئی تھی، مشر کین عرب کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پہلی جنگ بدر تھی، اور آخری جنگ حنین اور دونوں ہی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی مٹھی میں مٹی لے کر مشرکین کی طرف پھینکا تھا، غزوہ بدر میں مشر کین عرب کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب بیٹھا دیا اور ان کے مزاج کی تیزی میں کمی پیدا کردی اور غزوہ حنین نے ان کی کمر توڑ دی مشرکین کے ترکش کا آخری تیر بھی چل چکا، اور اللہ نے مشرکین کو ذلیل کیا اور اس کے بعد تمام قبائل عرب جوق درجوق اسلام میں داخل ہونے لگے کیوں کہ ان کے لیے اب اس کے علا ہو کوئی چارہ نہیں رہا اسلام کا علم بلند ہوچکا تھا اور کفر وشرک ہمیشہ کے لیے سرنگوں ہوچکا تھا، غزوہ بدر اور غزوہ حنین اور ہر سریہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح و کامرانی دی اور اسلام معزز ہوتا چلا گیا یہ تما کامیابیاں اور یہ عزت وغلبہ جو مسلمانوں کو حاصل ہو وہ محض اللہ تعالیٰ تائید ومدد سے حاصل ہوا ان کامیابیوں میں انسانی قوت اور مادی وسائل حالات کے مطابق کبھی کم کبھی زیادہ استعمال ہوئے لیکن فتح ونصرت کا تعلق ان وسائل سے نہیں بلکہ محض توفیق باری تعالیٰ سے تھا۔ بسا اوقات مسلمان انسان ہونے کے ناطے شیطان کے دھوکہ میں آجاتا ہے صحابہ کرام انسان تھے ان میں سے بعض حضرات کے ذہنوں میں کبھی کبھار یہ بات آجاتی رہی ہوگی کہ یہ فتح وکامرانی ہمنے اپنے زور بازو سے حاص کیا ہے جو مسلمانوں کے دین و ایمان کے لیے بہرحال زہر ہلاہل ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی اور تمام مسلمانوں کی ذہنی تربیت کے لیے یہ بات غزوہ حنین کے ذکر کے موقع سے ان کے ذہن نشیین کرما چاہا کہ وہ اللہ کی ذات تھی جس نے غزوہ حنین ( جب مسلمانوں کو اپنی کثرت تعداد پر غرور تھا) اور دیگر تمام مواقع پر تمہاری مدد کی تمام کا میابیاں اسی ذات واحد کی نصرت وتائید سے حاصل ہوتی رہی ہیں تمہاری تعداد تمہاری جنگی تیاریوں کا اس میں کوئی دخل نہیں تھا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب رمضان 8 ھ میں مکہ فتح کرلیا تو انہیں معلوم ہوا کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ آپس سے جنگ کرنے کے لیے جمع ہو رہے تھے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شوال 8 ھ میں بارہ ہزار کی فوج لے کر ( جس میں دس ہزار مدینہ سے آئے ہوئے مجاہدین تھے اور دہ ہزار فتح مکہ کے بعد اسلام لانے والوں میں سے تھے) ان سے نمٹنے کے لیے روانہ ہوگئے بعض مسلمانوں کو اس موقع پر اپنی کثرت تعداد غرور ہوگیا جب دونوں فوجیں جمع ہوئیں تو ہوازن نے اپنی کمین گاہوں سے نکل کر یک بارگی ایسا حملہ کیا کہ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور بھاگ کھڑے ہوئے صرف سو (100) کے قریب مجاہدین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارد گرد رہ گئے اور مشر کین سے جنگ کرتے رہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا خچر (دلدل) مشرکین کی طرف بڑھاتے اور کہتے کہ میں نبی ہوں یہ کوئی جھوٹی بات نہیں ہے میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں اور عباس بن عبدالمطلب ( جن کی آواز بہت اونچی تھی) کو حکم دیا کہ وہ انصار کو اور باقی مسلمانوں کا آوازدیں جب انہوں نے آواز سنی تو یکبارگی پکٹے اور مشر کین پر ایسے جھپتے کہ وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور مسلمانوں ان کی عورتوں بچوں اور مال ودولت سب کچھ پر قبضہ کرلیا تقریبا چھ ہزار آدمی پابند سلاسل ہوئے جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعد میں آزاد کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں اکثروبیشتر لوگ مسلمان ہوگئے، غزوہ حنین کے انہی واقعات واحوال کو ان آیتوں میں بیان کیا گیا ہے، وباللہ التوفیق۔ میں غزوہ بدر، قریظہ، بنونضیر، حدیبہ، خیبر، فتح مکہ اور دیگر غزوات اور فوجی دستوں کی طرف اشارہ ہے جن کی تعداد صحیحین کی زید بن ارقم سے مروی ایک حدیث میں انیس بتائی گئی ہے۔ التوبہ
26 التوبہ
27 التوبہ
28 (21) یہ آیت 9 ھ میں نازل ہوئی اس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ مشرکین کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روک دیں جیسا کہ اوپر بیان ہوا اسی سال ذی لقعدہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو بکر (رض) کے پیچھے روانہ کیا جنہوں نے دس ذدالحجہ کو تمام قبائل عرب کے سامنے جو حج کے لیے آئے تھے یہ اعلان کیا کہ اب آئندہ سا سے کوئ مشرک عمرہ یاحج کی نیت سے حرم میں داخل نہ ہو سکے گا اور کوئی ننگا بیت اللہ کا طواف نہ کرے گا۔ آیت میں مشر کین کو نجس یعنی ناپاک بتایا گیا ہے جمہور کے نزدیک اس سے مرا دان کی باطنی ناپاکی ہے ان کے جسموں کی ناپاکی نہیں اسی لیے یہود ونصاری کا ذبح حلال ہے اور کتابیہ عورتوں سے شادی جائز ہے اور اگر کسی مشرک کا بدن کسی مسلمان کے بدن سے چھوجائے تو دھونا یا نہانا ضروری نہیں بعض اہل ظاہر نے آیت کے ظاہر الفاظ سے استدلال کرتے ہوئے ان کے بدن کو بھی ناپاک بتایا ہے لیکن ان کے عقائد واعمال کی نجاست ان کے بدن کی نجاست سے باتفاق علماء زیادہ خبیث چیز ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ انہیں آئندہ مسجد حرام میں داخل ہونے سے روک دیں چنانچہ اس کے بعد مشر کوں کا حرم میں داخلہ ہمیشہ کے لیے ممنوع قرار دیا گیا۔ (22) مذکورہ بالا حکم کے نازل ہونے کے بعد مکہ کے بعض مسلمانوں نے کہا کہ اب تو ہمارے بازار سنسان ہوجائیں گے اور ہماری تجارت ٹھپ پڑجائے گی اور ہمارا بہت نقصان ہوگا تو اللہ تعالیٰ نے آیت کا یہ حصہ نازل فرمایا اور مسلمانوں کو اطمینان دلایا کہ اس کی وجہ سے تمہیں محتاجی سے نہیں ڈرنا چاہئے روزی دینے والا اللہ ہے وہ اگر روزی کا یک دروازہ بند کرے گا تو دسیوں دوسرے دروازے کھول دے گا اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہوگا، اموال غنیمت حاصل ہوں گے جزیہ کا مال آیا کرے گا۔ اور دور دور سے لوگ بحثیت مسلمان اس گھر کی زیارت کے لیے آئیں گے اور اب سے زیادہ تمہیں روزی ملا کرے گی۔ التوبہ
29 (23) اوپر کی آیتوں میں مشرکین سے متعلق احکام بیان کیے گئے اور آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ ان سے اور ان کے معاہدوں سے اظہار براءت کردیں اور اظہار براءت کے چارماہ بعد انہیں جزیرہ عرب میں نہ رہنے دیں اور جنگ کرکے انہیں قتل کریں نیز مسجد حرام میں ان کا داخلہ ممنوع کردیں۔ اس آیت کریمہ سے اہل کتاب کے متعلق احکام کا آغاز ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو ھکم دیا کہ مشر کین کے تصیفہ کے بعد اس علاقہ میں رہنے والے اہل کتاب سے جنگ کی جائے یہاں تک کہ وہ یا تو اسلام قبول کرلیں یا جزیہ دینے پر راضی ہوجائیں مجاہد کا قول ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اہل روم سے جنگ کرنے کا حکم دیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اور آپ غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہوگئے کلبی کا قول ہے کہ یہ آیت بنوقریظہ اور بنو نضیر کے بارے میں نازل ہوئی اور آپ نے ان کے ساتھ جزیہ لینے کی شرط پر مصا لحت کرلی اور یہ پہلا جزیہ تھا جو مسلما نوں کو ملا اور مسلمانوں کے ہاتھوں اہل کتاب کی پہلی ذلت ورسوائی تھی۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ پہلی ایت ہے جو 9 ھ میں اہل کتاب یعنی یہود ونصاری سے جنگ کرنے کے بارے میں نازل ہوئی نازہوئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام مسلما نوں کو اہل روم سے جنگ کی تیاری کا حکم دیا اور اطراف مدینہ کے قبائل عرب کو بھی فوج میں شریک ہونے کا حکم دیا تقریبا تیس ہزار افراد جمع ہوگئے منافقین مدینہ سے بعض شریک نہیں ہوئے وہ زمانہ خشک سالی اور شدید گرمی کا تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل روم سے جنگ کی نیت سے شام کی طرف روانہ ہوئے یہاں تک کہ تبوک پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر بیس دن قیام کیا پھر اللہ کے حکم سے مدینہ واپس آگئے اس سورت کی ابتدا میں بتایا جاچکا ہے کہ جب قیصر روم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہو سلم کے آنے کی خبر ہو تو میدان چھوڑ کر اپنی فوف کی ساتھ بھاگ کھڑا ہو اور جنگ نہیں ہوئی لیکن اس جنگ کا جو مقصد تھا وہ پورا پورا حاصل ہوا اور وہ تمام علاقے مسلمانوں زیر تصر آگئے۔ جزیتہ " مال کو کہتے ہیں جو اہل کتاب اور دیگر کفار سالانہ مسلمانوں کو اس عوض میں دیتے ہیں کہ مسلمان ان سے قتال نہیں کریں گے اور مسلمانوں کے درمیان انہیں رہنے کی اجازت دی جائے گی ان کی جانیں اور ان کا مال محفوظ رہے گا اور اس کی مقدار مالدار متوسط اور فقیر کے اعتبار سے گھٹتی بڑھتی ہے جس کی تعین مسلمان حاکم یا اس کا نمائندہ کرے گا۔ علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ جزیہ صرف اہل کتاب سے ہی لیا جائے گا یا دوسرے کافروں بھی سے بھی۔ ابو حنیفہ، شافعی احمد اور سفیا ثوری کا خیال ہے کہ اہل کتاب کے علاوہ کسی سے جزیہ قبول نہیں کا جائے گا یہ لوگ مجوس کو بھی اہل کتاب میں شمار کرتے ہیں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا اور مالک اور اوزعی کے رائے ہے کہ تمام کافروں سے جزیہ لیاجائے گا۔ التوبہ
30 (24) یہود ونصاری کے مشرکانہ عقائد بیان کیئے جارہے ہیں تاکہ مسلمان انہیں جان کر ان کے خلاف جنگ پر آمادہ ہوں جاہل اور غلو کرنے والے یہودیوں نے عزیر (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قراف دیا جب کا زمانہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے تقریبا ساڑھے پانچ سو سال پہلے کا ہے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بکھر ہوئے تورات کو اکھٹا کیا اور عبرانی زبان میں لکھی ہوئی تمام اسرائیلی کتابوں کو جمع کر کے بنی اسرائیل کے لیے قانون کی ایک عظیم کتاب تیار کی جس سے متاثر ہو کر یہودیوں نے اللہ کا مجازی بیٹا کہنا شروع کردیا جو توحید باری تعالیٰ کی شان کے خلاف تھا۔ اور گمراہ نصار میں سے کسی نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا کسی نے ان کو بعینہ اللہ اور کسی نے انہیں تین میں سے ایک معبو قرار دیا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی مقامات پر ان کے عقائد تفصیل کے ساتھ بیان کئے ہیں اللہ تعالیٰ اس آیت میں کہا ہے کہ محض ان لوگوں کی اللہ کے بارے میں افترپردازی ہے یہ لوگ گذشتہ زمانہ کے کافروں کی طرح مشرکانہ باتیں کررہے ہیں اور جیسے وہ گمراہ ہوئے انہوں نے بھی گمراہی اختیار کرلیے ہے اللہ کی ان پر لعنت ہو کس طرح یہ لوگ حق سے روگردانی کر کے باطل کی طرف دوڑے جا رہے ہیں۔ التوبہ
31 (25) عیسائیوں کا ایک مجرمانہ فعل یہ بھی تھا کہ انہوں نے اپنے عالموں اور راہبوں کو اللہ کے بجائے اپنا معبود بنا لیا، یعنی جب ان کے دنیا دار عالموں نے حرام کو حلال اور حلال کو حرام بنایا تو انہوں نے انے کی پیروی کی امام احمد، ترمذی اور ابن جریر وغیر ہم نے عدی بن حاتم (رض) سے راوایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان کی گردن میں چاند کا صلیب لٹک رہا تھا ( انہوں نے جاہلیت کے زمانہ میں عیسائیت کو قبولو کرلیا تھا) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی تو میں نے کہا کہ عیسائیوں نے اپنے عالموں کی عبادت تو نہیں کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں انہوں نے حلال کیا حرام اور حرام کو حلال بنایا تو لوگوں ان کی بات مانی اور ان کی پیروی کی یہی ان کی عبادت ہے۔ انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اللہ کے بجائے اپنا معبود بنالیا حالا نکہ انہیں حکم یہ دیا گیا تھا کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ التوبہ
32 (26) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہودونصاری کی ایک اور قسم کی گمرالی کو بیان کیا ہے یعنی ولوگ اپنے جھوٹے اقوال اور باطل مناظروں کے ذریعہ اللہ کے آخری دین دین اسلام کی تکذیب کرتے ہیں اور لوگوں کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ یہ اللہ کا دین نہیں ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے آخری نبی ہیں تو ان کی مثال اس آدمی کی ہے جو آفتات یا چاند کی روشنی کی اپنی پھو نکوں سے ختم کرنا چاہتا ہو جس طرح اس آدمی کو یہ حرکت مجنونانہ ہے اور وہ آفتاب یا ماہتاب کی روشنی کو کو ءی نقصن نہیں پہنچا سکتا ہے اسی طرح یہ یہود ونصاری اپنی پھونکوں سے اسلام کی کی شمع ہدایت کو نہیں بھاج سکتے اس لیے کہ اللہ چاہتا ہے کہ چہار دانگ عالم میں اس دین کی روشنی پھیل جائے اور کافروں کے ہزار نہ چاہئے کے باجود ایسا ہو کر رہے گا۔ التوبہ
33 (27) گذشتہ آیت میں جو بات کہی گئی ہے اسی کو مزید تاکید کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے آیت میں ھدی سے مراد قرآن کریم یا وہ براہین ومعجزات ہیں جو اللہ تعا لیءنبی کر یم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا کیا تھا اور دین الحق سے مراد دین اسلام یا عقیدہ توحید ہے اور گذشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی حفاظت اور سے پوری دنیا میں پھیلا نے کا جو وعدہ کیا تھا اسی کو یہاں پھر دہرایا ہے اللہ تعالیٰ اس دین کو تمام ادیان کے مقابلے میں شہرت ومقبولیت دے کر رہے گا۔ مسند احمد صحیح مسلم اور سنن ابو داؤد کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین کو میرے لیے سکیڑ دیا اور میری امت کی حکو مت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک زمین میرے لیے سکیڑ دی گئی ہے امام احمد نے مقداد بن اسود (رض) سے روایت کی ہے انہوں نے کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہوسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ سرزمین پر کوئی ایسا گھر نہیں ہوگا جس میں اسلام کی دعوت نہیں پہنچے گی۔ التوبہ
34 (28) اس آیت کریمہ میں یہود ونصاری کے عالموں اور راہبوں کا حال کا حال بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کا مال ناجائز طریقوں سے کھاتے ہیں رشوت لے کے ان کی مرضی کے مطابق فتوے دیتے ہیں اور تورات وانجیل میں موجود احکام ومسائل کو بدل دیتے ہیں اور اپنی افتر پردازیوں کو اللہ کی شریعت بتاتے ہیں دورجاہلیت میں علمائے یہود کا برامقام تھا انہیں لوگوں کی طرف سے خوب پیسے ملتے تھے اور مختلف قسم کے ہدیے ان کے پاس پہنچتے تھے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے تو انہیں یقین ہوگیا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں لیکن اپنی کرسی اور دنیاوی فائدوں کی خاطر اسلام نہیں لائے تو اللہ نے ان کی عزت وریاست کو ذلت ورسوائی سے بدل دیا۔ یہاں مقصود مسلمانوں کو ان کے علمائے سوء گمراکن عابدوں کی طر سے متنبہ کرنا ہے سفیا بن عینہ کا قول ہے جو مسلمان عالم گمراہ ہوجاتا ہے علمائے یہود کے مشابہ ہوجاتا ہے اور جو مسلمان عابد گمراہ وجا تا ہے وہ عباد نصاری کے مشابہ ہوجاتا ہے، صحیح بخاری کی روایت ہے کہ نبی کر یم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے مسلمانون تم لوگ گذشتہ قوموں کے طریقوں کو ضرور اپنا ؤگے اور اس ان کے نقش قدم پر پورا چلو گے لوگوں نے پوچھا کیا مراد یہو دونصاری ہیں، تو آپ نے فرمایا اور کون لوگ ہو سکتے ہیں ؟ ایک روایت میں ہے فارس اور روم کے لوگ۔ (29) علمائے اور عباد کے حالات بیان کرنے کے بعد آیت کے اس حصہ میں ایسے لوگوں کا ذکر ہے جو سونا اور چاندی اکھٹا کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ جہنم کا درد ناک عذاب ان کا انتظار کررہا ہے اور یہ حکم عام ہے، اس میں یہود ونصاری کے وہ علماء اور عباد شامل ہیں جو سونا چاندی جمع کرتے تھے اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تھے اور وہ مسلمان بھی شامل ہیں جو اپنے مال کی زکات نہیں ادا کرتے ہیں ابو داؤد اور حاکم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام کو بڑی مشکل پیش آئی عمر بن خطاب (رض) نے کہا کہ میں تم لوگوں کی مشکل آسان کر تو ہوں اور جا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ کے صحابہ کو اس آیت سے بڑی مشکل پیش آگئی ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ نے زکات اسی لیے فرض کیا ہے کہ تمہارے باقی مال کو پاک بنادے اور تمہارے مال میں قانون وراثت کو اسی لیے جاری کیا ہے تاکہ تمہارے بعد والوں کو مال ملے تو عمر (رض) نے اللہ اکبر کہا الحدیث اس لیے جہہور علماء کی رائے ہے کہ جس مال کی زکات ادا کر دے جائے گی وہ کنز نہیں ہوگا طبرانی اور بیہقی کی روایت ہے کہ نبی کر یم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس مال کی زکات دے دے جائے اے کنز نہیں کیا جائے گا ابن عمر (رض) کی رائے ہے اس آیت میں کنز پر جو وعید آئی ہے وہ زکات کے حکم کے ذریعہ منسوخ ہوچکی ہے ان سے ایک موقوف حدیث بھی مروی ہے جس مال کی زکات دے دی جائے چاہے وہ سات زمین کے نیچے ہو وہ کنز نہیں کہلائے گا لیکن جس مال کی زکاہ نہ دی جائے اس پر بڑی وعید آئے ہے صحیح مسلم میں ابو ہر یرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو آدمی اپنے مال کی زکات نہیں دیتا قیامت کے دن آگ کی تختیوں سے اس کا پہلو اس کی پیشانی اور اس کی پیٹھ داغی جائے گی الحدیث۔ التوبہ
35 التوبہ
36 (30) اہل کتاب کے کچھ حالات وکوئف بیان کئے جا نے کے بعد دوبارہ مشرکین عرب کے کچھ دوسرے جرابیان کئے جارہے ہیں اللہ تعالیٰ نے جب سے آسمانوں اور زمین کو پیدا کی امہینوں کو تعداد بارہ مقرر کردی اور ان کے نام بھی رکھ دیئے اور ان مہینوں کے متعلق احکام بھی بیان کردیئے جن ذکر تما آسمانی کتابوں میں آیا ہے ان میں سے ایک خاص حکم یہ ہے کہ اللہ نے سال کے چار مہینوں ( رجب، ذی القعدہ، ذی الحجہ، اور محرم) کو خاص اہمیت دی ہے ان کا احرات لازم قرار دیا ہے اور ان میں جنگ کو حرام کردیا ہے لیکن زمانہ جاہلیت میں بعض عربوں نے اس حکم کا کحاظ نہیں کیا اور اپنی خواہش کے مطابق مہینوں کے آگے پیچھے کرنا شروع کردیا کبھی حج ذی لحجہ میں رکھتے اور کبھی مؤخر کر کے محرم میں لے جاتے۔ اسی طرح اگر کبھی کسی قبیلہ کو دوسرے قبیلہ پر محرم کے مہینہ میں حملہ کرنا ہوتا تو اسے حلال کرلیتے اور اس کے بد لے صفر کے مہینہ کو حرام بنا لیتے اس لیے کہ بہت سے قبائل لوٹ کے مال پر ہی زندگی گذارتے تھے اور مسلسل تین مہینے حرام ہونے کی وجہ سے انہیں فاقہ کشی کی نوبت آجاتی تھی اس لیے ان مہینوں میں سے کسی کو حلال بنا لیتے اور اس کے بدلے دوسراے کو حرام بنادیتے اسی کو قرآن نے نسئی کہا ہے یعنی مہینوں کو آگے پیچھے کرلینا اس کا نتیجہ یہ ہواک مہینے آپس میں خلط ملط ہوگئے چنانچہ رسول اللہ صلی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجتہ الواع میں اعلان کیا کہ تمام مہینے اپنی جگہوں پر لوٹ گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حج ذی الحجہ میں ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں آیتوں میں مشر کین عرب کے اسی تلاعب کو بیان کیا ہے اور ان کی تردید کی ہے کہ سال کے مشہور بارہ مہینے اور ان میں چار حرام کے مہینے اور ان سے متعلق احکام اللہ کی جانب سے مقرر کردیہ ہیں کسی کے بدلنے سے یہ احکام بدل نہیں جائیں گی اس لیے اے مشرکین عرب ان حرام کے مہینوں کی حرمت کا پامال کر کے اپنے آپ پر ظلم نہ کرو اس لیے کہ ایس کرنا اللہ کے محرمات کو حلال اور حلال کو حرام بنانا ہے جو تمہارے کفر حقیقی کے بعد کفر میں اضافہ ہے۔ (31) آیت کا یہ حصہ دلیل ہے کہ مشرکوں سے قتال کرنا واجب ہے اور اگر مسلمانوں کا ایک گروہ اس وجوب کی ادائیگی میں سستی کرے گا تو امت کے ہر فرد پر واجب ہوجائے گا۔ علماء نے اشہر خرم (حرام کے چارمہینے) میں قتال کی حرمت کے بارے میں اختلاف کیا ہے مشہور یہی ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے اس لیے کہ اللہ نے اشہر حرم کا ذکر کرنے کے بعد ہی مشرکوں سے قتال کا عام حکم دیا ہے اگر ان مہینوں میں قتال کرنا ممنوع ہوتا تو اسے ضرور بیان کیا جا تا۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل طائف کا محاصرہ ذی القعدہ کے مہینہ میں کیا تھا جیسا کہ صحیحین میں مروی حدیث سے ثابت ہے اور دسرا قول یہ ہے کہ حکم منسوخ نہیں ہے اور اشہر حرم میں قتال حرام ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (المائد :2) اور اسی سورت کی آیت (5) میں فرمایا ہے ان دونوں آیتوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اشہر حرم کی حر مت باقی ہے منسوخ نہیں ہوئی ہے اور اس لیے کہ شہر حرام میں مشرکین سے قتال کو اس وقت جائز قرار دیا گیا ہے جب اس کی ابتداء مشرکوں کی طرف سے ہو اللہ نے فرمایا یعنی مسلمانوں کے لیے یہ جا ئز نہیں کہ اشہر حرم میں اپنی طرف سے قتال کی ابتدا کریں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل طائف کا محاصرہ ذی القعدہ میں نہیں بلکہ شوال میں کیا تھا جو با قی رہا یہاں تک کہ ذی القعدہ کا مہینہ آگیا۔ (فائدہ) اسلام میں شرعی احکام کا تعلق عربی مہینوں سے ہے جو قمری مہینے ہیں اور جس کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے اسلام سے پہلے مہینہ اور سال کی تعین کے لیے عام الفیل کا اعتبار ہوتا تھا اور ابتدائے اسلام میں سال کی ابتدا ربیع الاول سے ہوتی تھی اس کے بعد عمر بن خطاب (رض) نے قمری مہینوں کی ابتدا محرم کے مہینے سے کی ہے جس پر امت اتفاق ہوگیا۔ التوبہ
37 التوبہ
38 (32) اس سورت کی ابتدا میں بتایا جا چکا ہے کہ اس کی مرکزی مضامین میں سے ایک مضمون غزوہ تبوک اور اس متعلق حالات وواقعات اور احکام ہیں یہ آیات کریمہ غزوہ تبوک کے موقع سے نازل ہوئی تھیں اور ان میں ان منافقین اور ضیعف الا ایمان مسلمانوں کی زجر وتوبیخ کی گئی ہے جو اس جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ فتح مکہ کے ایک سال بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع کہ ہر قل شاہ روم مسلمانوں سے جنگ کی تیاری کر رہا ہے چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شوال 9 ھ میں مسلمانوں کی جنگی تیاری کا حکم دے دیا زمانہ سخت گرمی کا تھا پھلوں کے پکنے کا وقت تھا مسلمان عام تنگد ستی میں تھے لیکن پھر بھی مخلص مسلمانوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز پر لبیک کہا اور لشکر کی تیاری میں دامے درمے قدمے سخنے حصہ لیا اور جنگ کے لیے روا نہ ہوگئے ہر قل کو جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے کی خبر ملی تو پیچھے ہٹ گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لشکر اسلام کے ساتھ تبوک کے مقام پر بیس دن تک قیام کرنے کے بعد واپس ہوئے اسی کو غزوہ تبوک کہا جاتا ہے اگرچہ جنگ نہیں ہوئی لیکن جیسا کہ سورت کی ابتدا میں بتایا گیا ہے کہ اس کے نتائج بہت ہی دور رس نکلے اس غزوہ میں بعض صعیف الا یمان مسلمان اور بہت سے منافقین گرمی کی شدت کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے یہ آیتیں اسی پس منظر میں نازل ہوئی تھیں، آیت (38) میں دنیاوی مال ومتاع کی حقارت اور اخروی زند گی کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے، امام احمد اور مسلم نے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دنیا کی حثیت آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہی ہے جیسے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈال کر نکالے الحدیث۔ آیت (40) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کا اطمینان ویقین دلا یا گیا ہے کہ ظاہری اسباب کے ذریعہ آپ کی مدد تو آپ کے اطمینان کے لیے ہے ورنہ اللہ کسی ظاہر سبب کا محتاج نہیں اگر لوگ آپ کی مدد نہیں کرتے ہیں تو نہ کریں وہ تو ہر حال میں اپنے نبی کی مدد کرتا رہے گا اور کبھی بھی اسے تنہا نہیں چھوڑے گا اور اس کی مثال ہجرت کے وقت کے حالات ہیں جب اہل مکہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کردینا چاہا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوبکر (رض) کے ساتھ مکہ سے چھپ یکر نکلے اور تین دن تک غار ثور میں چھپے رہے دشمنوں نے ان کا پیچھا کیا اور انہیں پالینے کی ہر انسانی تدبیر کر ڈالی لیکن اللہ نے اپنے نبی کی حفاظت کی اور بحفاظت تمام مدینہ منورہ پہنچایا۔ ثانی اثنین سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابوبکر (رض) ہیں امام احمد اور بخاری ومسلم نے ابو بکر (رض) سے ورا یت کی ہے کہ جب ہم غار میں تھے تومیری نظر مشر کین کے قدموں پر پڑی جبکہ وہ ہمارے سروں پر کھڑے تھے میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! اگر دشمنوں میں سے کوئی اپنے قدموں پر نظر ڈالے گا تو ہمیں دیکھ لے گا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ابو بکر ! آپ کا ان دو کے بارے میں کیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر سکون واطمینان نازل کیا اور فرشتوں کے ذریعہ ان کی مدد کی جو غار میں آپ کی حفاظت کرتے رہے اور کفر وشرک مغلوب ہوا اور توحید کو غلبہ حاصل ہوا۔ التوبہ
39 التوبہ
40 التوبہ
41 (33) اس آیت کریمہ میں اللہ تعا کی راہ میں جہاد کے لیے نکلنے کا صریح حکم ہے کہ مسلمان جس حال میں بھی ہوں قوی ہوں یا ضعیف، مالدار ہوں یا فقیر، جوان ہوں یا بوڑھے سوارہ ہوں یا پیدل جہاد کے لیے نکل کھرے ہوں بہت سے صحابہ کرام اسی آیت کے پیش نظر کسی بھی غزوہ سے غیر حاضر نہیں رہے لیکن جہاد کے اس حک عام میں کمزور اور میض شامل نہیں ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی سوررت کی آیت (91) میں فرمایا ہے اور نہ اندھے اولنگڑے شامل ہیں جیسا کہ سورۃ نور آیت (61) میں فرمایا ہے اس کے بعد اللہ کی راہ میں جان ومال کے ذریعے جہاد کی ترغیب دلائی گئی ہے تاکہ فقراء اپنی جانوں کے ذریعہ اور مالدار اپنی جانوں اور مال ودولت کے ذریعہ جہاد کریں اس لیے کہ جہاد اسلام کا ایک عظیم ترین فریضہ ہے اور عام حالات میں یہ فرض کفایہ ہے لیکن اگر حالات ایسے پید اہو جائیں کہ دشمن کے مقابلے کے لیے تمام مسلمانوں کا نکل کھڑا ہونا ضروری ہوجائے تو فرض عین ہوجاتا ہے، التوبہ
42 (34) جو منافقین غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہوئے انہی کی دینی اور اخلاقی گراوٹ بیان کی گئی ہے کہ آخرت ان کی نگاہوں سے اوجھل ہے ان کا مطمح صرف دیناوی مفاد ہے اگر تبوک کا نہیں کسی قریب کی جگہ کا سفر ہوتا اور کوئی فوری دنیاوی فائدہ نظر آتا تو ضرور آپ کے پیچھے ہو لیتے لیکن راستہ طویل گرمی کا زمانہ اور کوئی ظاہری دنیاوی فائدہ سامنے نہیں اسی لیے انہوں نے جھوٹی قسمیں کھائیں بہانے کیے اور جہاد میں جانے سے پیچھے رہ گئے اور اللہ کی نارضگی اور اپنی ہلاکت وبربادی کا سامان کیا۔ التوبہ
43 (35) نبی کریم صلی للہ علیہ وسلم کو محبت بھرے انداز میں عتاب ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو معاف کرے آپ نے انہیں اجازت نہ دی ہوتی ہو اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جھوٹوں کا پول کھل جاتا اور سچوں کا پتہ چل جاتا اس لیے کہ مجاہد کے قول کے مطابق یہ آیت ایسے ہی لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہوں نے کہا تھا کہ ہم محمد سے اجازت مانگیں گے اگر مل گئی توبہتر ہے ورنہ پھر بھی نہیں جائیں گے۔ اسی لیے آیت (44) میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ مومنین صادقین نے آپ سے اجازت نہیں مانگی تھی اور آیت (45) میں خبر دی ہے آپ سے اجازت صرف منافقین نے مانگی تھی جن کے دلوں میں نفاق رچ بس گیا ہے۔ یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہوسلم عفودرگذر کا ذکر انہیں عتاب کرنے سے پہلے اس لیے آیا ہے تاکہ عتب پر آپ کو کوئی حزن وملال نہ ہوا اور معلوم ہوجائے کہ اگر یہ منافقین کو اجازت دے دینا منا سب نہیں تھا لیکن اللہ نے اسے درگذر فرمادیا۔ قتادہ کہتے ہیں کہ اس آیت کے بعد سورۃ نور کی آیت (62) نازل ہوئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی ہے گئی وہ جسے چاہین کسی بات یا کام کی اجازت دے سکتے ہیں۔ امام شوکانی نے دونوں آیتوں میں اس طرح تطبیق دی ہے اس آیت کر یمہ میں پو ری طرح چھان بین کرنے سے پہلے اجازت دے دینے کی بات کی گئی جو اللہ کے نزدیک معلوم مصلحت کے خلاف تھی اور سورۃ نور والی آیت بتاتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس آیت کے نازل ہونے کے پہلے سے ہی اللہ کی طرف سے اختیار تھا کہ آپ چھان بین کرنے کے بعد جس کو چاہیں اجازت دیں۔ التوبہ
44 التوبہ
45 التوبہ
46 (36) منافقین اپنا بیان کرنے میں قطعی جھوٹے ہیں اگر ان کا ارادہ آپ کے ساتھ نکلنے کا ہوتا تو ہتھیار زاد سفر اور سواری کی تیاری کرتے لیکن ان کا ایسا اور ادہ ہی نہیں تھا اس لیے اگر انہیں اجازت مل بھی جاتی تو بھی آپ کے ساتھ جاتے اللہ نے بھی نہیں چاہا کہ وہ آپ کے ساتھ جائیں اس لیے کہ اگر وہ جاتے تو انہی جیسے کچھ دوسرے لوگ جو آپ کے ساتھ گئے تھے انہیں خراب کرتے (جنہیں قرآن نے سماعون یعنی منافقین کے جواسیس بتایا ہے اسی لیے اللہ نے ان کے دل میں یہ بتا بٹھا دی ہے کہ وہ آپ کے ساتھ نہ جائیں) اور مسلمانوں کی صفوں میں صفوں میں فساد پربا کرنے کی کو شش کرتے محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ پیچھے رہ جانے والوں میں عبداللہ بن ابی بن سلول اور الجد بن قیس جیسے لوگ تھے اگر یہ لوگ فوف میں ہوتے تو ان تمام لوگوں کے ذہنو کو خراب کرتے جن سے ان کا تعلق تھا اور جو ان کے دنیاوی مقام وجاہ کی وجہ سے ان کی بات مانتے تھے۔ التوبہ
47 التوبہ
48 (37) منافقوں کانبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ابتدائے اسلام سے یہی رویہ رہا ہمیشہ ہی شر پھیلانے اور صحابہ کرام کو آپ سے برگشتہ کرنے کی کو شش کی جیسا کہ عبداللہ بن ابی بن سلول نے جنگ احد کے موقع سے کیا کہ راستہ سے ہی اپنے ساتھیوں کو کے کر واپس ہوگیا جن کی تعداد ایک تہائی لشکر اسلام کے قریب تھی اور منافقین پوری مدنی زندگی میں اسلام اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازش ہی کرتے رہے جس کی تفصیل سے سیرت کی کتابیں بھری پڑی ہیں اس لیے اگر غزوہ تبوک کے موقع سے بھی انہوں نے سازش کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہیں گئے اور دوسروں کی بھی ہمت پست کی تو کوئی تعجب کی بات نہیں لیکن ان کی ہزار سازشوں کے باوجود اللہ کا دین غالب ہو کر رہا۔ حافظ ابن کثیر لکتے ہیں کہ جب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ آگئے تو سار عرب نے ان کی خلاف محاذ کھول دیا اور مدینہ میں رہنے والے یہود اور منافقین نے بھی پوری قوت کے ساتھ مخالفت شروع کر ید جب اللہ نے آپ کو میدان بد میں فتح ونصرت عطافر مائی اور اسلام غالب ہوا تو عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ اب یہ دیبن آگے چل نکلا چنانچہ وہ لوگ بظاہر وطا فرمائی اور اسلام میں داخل ہوگئے لیکن اللہ نے جب بھی السلام اور مسلمانوں کو عزت دی ان منافقین پر غیظ وغضب کے مارے موت طاری ہوتی رہی۔ التوبہ
49 (38) محمد بن اسحاق نے زہری مجاہد اور ابن عباس وغیر ہم سے روایت کی ہے کہ یہ آیت الجد بن قیس کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو بنو سلمہ کا سردار تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب غزوہ تبوک کی تیاری کر رہے تھے تو ایک دن ان سے کہا کہ تم اہل روم کی دودھ دینے والی انٹنیوں میں غبت رکھتے ہو ؟ تو اس نے کہا اے اللہ کے رسول ! آپ مجے مدینہ میں رہنے کی اجازت دے دیجئے اور فتنہ میں نہ ڈالئے مجھے ڈر ہے کہ اگر میں ان عورتوں کی دیکھ لیا تو مجھ سے صبر نہ ہو سکے گا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی طرف منہ پھیر لیا اور کہا کہ میں نے تجھے اجازت دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے اجاززت لینے لیے جو غیر مؤدبانہ اسلون اختیار کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہیں گیا تو اس سے بڑھ کر اور کیا فتنہ ہو سکتا ہے کہ غیر مؤدبانہ جھوٹا عذر پیش کیا اور جہاد سے پیچھے رہ گیا التوبہ
50 (39) منافقین کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے عداوت کیئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی، مسلمانوں کی ہر خوشی سے انہیں تکلیف ہوتی تھی، اور ان کی ہر تکلیف پر خوش ہوتے تھے، اور کہتے تھے کہ ہم نے تو پہلے سے ہی احتیاط کرلیا تھا اور جنگ کے لیے نہیں نکلے تھے، اسی لی تو آج اوروں کی طرح قتل نہیں کیے گئے ہیں اور انہوں نے ہماری بات نہیں مانی تو یہ دن دیکھنا پڑا۔ التوبہ
51 40۔ اللہ تعالیٰ نے منافقین کی بکواس کا جواب دیا ہے کہ اے میرے رسول ! آپ ان سے کہئے کہ ہمیں دنیا میں اگر کوئی خوشی ملتی ہے تو اللہ کا انعام ہوتا ہے، اور اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ کی مشیت سے، ہمیں جو بھی تکلیف پہنچتی ہے اسے اللہ نے ہماری تقدیر میں لکھ رکھا ہے۔ تمہیں اپنے قتل نہ ہونے پر خوش نہیں ہونا چاہیے، جب تمہاری باری آجائے گی تو کوئی تدبیر تمہیں بچا سکے گی، اور ہم تو مسلمان ہیں۔ ہمارا آقا تو اللہ ہے، ہم تو ہر حال میں اللہ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ آیت 52 میں منافقین کو مزید ذہنی اذیت پہنچانے کے لیے اللہ نے کہا کہ اے میرے رسول ! آپ ان سے کہئے کہ تم ہمارے بارے میں اللہ کی جانب سے دو عظیم بھلائیوں میں سے ایک کے سوا اور سوچ ہی کیا سکتے ہو، یا تو ہمیں دشمنوں پر فتح ملے گی یا اللہ کی راہ میں شہادت اور ہم تمہارے بارے میں انتظار کر رہے ہیں کہ کب اللہ تم پر کوئی عذاب بھیج دے، یا ہمارے ہاتھوں تمہارا صفایا کروادے، اس لیے تم بھی انتظار کرلو، ہم بھی انتظار کرلیتے ہیں، عنقریب تم ہماری خوشیوں کا مشاہدہ کرلو گے اور ہم تماہرے غم و آلام کے قصے غیروں سے سن لیں گے۔ التوبہ
52 التوبہ
53 41۔ منافقین چاہے اپنی خوشی سے خرچ کریں، یا قتل کے خوف سے اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں کرے گا، اس لیے کہ وہ اللہ کے نافرمان بندے ہیں، اس سبب کی مزید توضیح آیت 54 میں کردی گئی کہ اللہ کی راہ میں ان کا خرچ اس لیے قابل قبول نہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں، نماز کو بہت بڑا بوجھ سمجھتے ہیں، اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو جرمانہ سمجھتے ہیں۔ نسائی نے ابو امامہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے، اللہ اسی عمل کو قبول کرتا ہے جو اللہ کے لیے خالص ہو اور اسی کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا گیا ہو، اور سورۃ مائدہ میں اللہ نے فرمایا ہے انما یتقبل اللہ من المتقین، کہ اللہ صرف تقوی والوں کا عمل قبول کرتا ہے۔ التوبہ
54 التوبہ
55 42۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہا جا رہا ہے کہ منافقین کے مال و دولت، اولاد اور ان کی دنیاوی چمک دمک کی وجہ سے آپ دھوکے میں نہ آجائیں، یہ تو انہیں ڈھیل دی گئی ہے تاکہ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر مال و دولت حاصل کریں، اس کی حفاظت کے لیے دن کا چین اور رات کا سکون کھو بیٹھیں، اور اللہ کی طرف سے اس سلسلے میں مصائب و شدائد کو برداشت کریں، اور بالآخر ان کی موت کفر پر ہوجائے۔ التوبہ
56 43۔ منافقین کو کسی حال میں بھی چین نہیں۔ ایک طرف تو میدانِ جہاد میں قتل کا خوف، اور دوسری طرف یہ خوف کہ کہیں ان کا نفاق مسلمانوں پر کھل نہ جائے، اسی لیے قسمیں کھا کھا کر مسلمانوں کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ بھی مخلص مسلمان ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں گواہی دیتا ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہیں، وہ تو قسم صرف اس ڈر سے کھاتے ہیں کہ کہیں قتل نہ کردئیے جائیں۔ التوبہ
57 44۔ مسلمانوں سے ان کے خوف اور نفرت کا حال یہ ہے کہ اگر انہیں کوئی پناہ گاہ، یا کوئی غار یا اور کوئی داخل ہونے کی جگہ مل جاتی تو وہاں چلے جاتے تاکہ مسلمانوں سے دور ہوتے، اور اسلام اور مسلمانوں کی کامیابی اور ان کے فتح و غلبہ کی باتیں سن سن کر ان کے دل پر جو چرکے لگتے ہیں اس سے نجات مل جاتی۔ التوبہ
58 45۔ بعض منافقین نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صدقات کی تقسیم کے بارے میں نکتہ چینی کرتے تھے اور کہتے تھے کہ محمد عدل و انصاف سے کام نہیں لیتا، اپنے چہیتوں کو زیادہ دیتا ہے اور ہمیں کم، اللہ نے فرمایا کہ ایسا سوچنا ان کی دنیا پرستی اور نفاق کا نتیجہ تھا، اگر وہ مخلص مسلمان ہوتے تو اللہ اور رسول کی تقسیم پر راضی رہتے اور کہتے کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور اللہ آئندہ اپنے فضل و کرم سے مزید دے گا، اور ہمارا مقصود حیات تو یہ ہے کہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے۔ بخاری و مسلم نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مال غنیمت تقسیم کر رہے تھے کہ بنی تمیم کے ذوالخویصرہ نامی شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسول انصاف سے کام لیجئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمہاری بربادی ہو، اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو کون کرے گا؟ عمر (رض) نے کہا اے اللہ کے رسول ! آپ مجھے اجازت دیجئے کہ اس کی گردن اڑا دوں، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کے کچھ ایسے ساتھی ہیں جن کی نماز اور روزے کے مقابلے میں تم لوگ اپنی نماز اور روزے کو حقیر جانو گے، وہ لوگ قرآن پڑھتے ہیں، لیکن ان کی گردنوں سے آگے نہیں بڑھتا، وہ لوگ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے، راوی کہتے ہیں کہ اسی کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔ التوبہ
59 التوبہ
60 46۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تقسیم صدقات پر منافقین کی نکتہ چینی بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں یہ بتایا ہے صدقات کی صحیح تقسیم اور ان کے حقداروں کی تعیین خود اللہ تعالیٰ نے کردی ہے، جو عین انصاف ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو صرف اللہ کے بتائے ہوئے حکم کے مطابق حقداروں تک پہنچا دیتے ہیں، جیسا کہ ابوداود نے زیاد بن الحارث (رض) سے روایت کی ہے کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی، تو ایک آدمی آیات اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہنے لگا کہ مجھے صدقہ کے مال میں سے دیجئے، آپ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ صدقات کی تقسیم کے سلسلے میں کسی نبی یا غیر نبی کے فیصلے پر راضی نہیں ہوا، بلکہ اس نے خود ہی اس بارے میں فیصلہ کیا، اور اس کے آٹھ حصے کردئیے، اگر تم ان لوگوں میں سے ہوگے تو تمہارا حق دوں گا۔ معلوم ہوا کہ اس آیت میں ان لوگوں کی تردید کی گئی ہے جنہوں نے تقسیم صدقہ کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نکتہ چینی کی تھی۔ آیت میں جن آٹھ قسم کے لوگوں کے لیے زکاۃ کے جواز کی تحدید کردی گئی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔ 1۔ فقیر، یعنی وہ مسلمان جن کے پاس اپنے اخراجات کے لیے کچھ مال ہو۔ 2۔ مسکین، جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، بعض نے فقیر و مسکین میں امتیاز اس طرح پیدا کیا ہے کہ دونوں ہی کے پاس کچھ نہیں ہوتا، لیکن فقیر دوسروں سے نہیں مانگتا ہے، اور مسکین دوسروں سے مانگتا ہے۔ 3۔ زکاۃ کے ملازمین، ان کی تنخواہیں اسی مال سے دی جائیں گی۔ 4۔ ایسے نو مسلموں کا دل جیتنے کے لیے جن سے اسلام اور مسلمانوں کو فائدہ کی امید ہو، اسی طرح وہ غیر مسلم جس کے بارے میں توقع ہو کہ وہ اسلام لانے کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے لیے نافع ہوگا۔ 5۔ غلاموں اور لونڈیوں کے لیے تاکہ وہ اپنے آپ کو آزاد کراسکیں۔ 6۔ قرضدار جو اپنے اور اپنے بال بچوں پر جائز اخراجات کی وجہ سے مقروض ہوگیا ہو، اور اس کے پاس قرض کی ادائیگی کے لیے نقدی یا کوئی جائداد وغیرہ نہ ہو۔ 7۔ اللہ کی راہ میں، اس سے جہاد فی سبیل اللہ بدرجہ اولی مراد ہے۔ فخرالدین رازی کا خیال ہے کہ اس سے صرف مجاہدین ہی مراد نہیں ہیں۔ قفال نے اپنی تفسیر میں بعض فقہاء کا قول نقل کیا ہے کہ خیر کے تمام کاموں میں زکاۃ کا مال خرچ کرنا جائز ہے، جیسے مردوں کی تجہیز و تکفین، مسلمانوں کے لیے قلعوں اور مساجد کی تعمیر، اس لیے کہ فی سبیل اللہ میں سارے کام داخل ہیں۔ ابن الاثیر کہتے ہیں کہ فی سبیل اللہ کا کلمہ عام ہے، جس کا اطلاق ہر اس نیک پر ہوتا ہے جس سے مقصود اللہ کی قربت حاصل کرنی ہو، ابو داود کی ایک روایت کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کو سبیل اللہ میں شمار کیا ہے۔ سعودی عرب کے دار الافتاء کا فتوی ہے کہ سلامی مدارس، جمعیات اور دعوتی مراکز سبیل اللہ میں داخل ہیں۔ اس لیے ایسی بلڈنگوں کی تعمیر، ان کے ملازمین کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات زکاۃ سے دینا جائز ہے، اسی طرح دعوتی کتابوں اور پمفلٹوں کی طباعت بھی زکاۃ کے مال سے جائز ہے، کیونکہ یہ سارے کام اللہ کی راہ میں اور اس کا کلمہ بلند کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ 8۔ مسافر، جس کا زاد سفر ختم ہوجائے یا چوری ہوجائے تو اسے زکاۃ کا مال دیا جائے گا، چاہے وہ اپنے شہر میں مالدار ہی کیوں نہ ہو۔ امام شافعی وغیرہ کا خیال ہے کہ زکاۃ کی رقم آٹھوں قسم کے لوگوں پر تقسیم کرنا ضروری ہے، انہوں نے اسی آیت سے استدلال کیا ہے اور کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب آٹھوں اقسام کا ذکر تحدید کے ساتھ کیا ہے تو سب پر تقسیم لازم ہے اور ابو داود کی زیاد بن حارث (رض) سے مروی حدیث سے استدلال کیا ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسل نے فرمایا ہے اللہ نے زکاۃ کی تقسیم کی تحدید آٹھ قس کے لوگوں میں کردی ہے، اور اماممالک اور امام ابوحنیفہ اور جمہور اہل علم کی رائے ہے کہ اگر آٹھوں میں سے بعض قسم کے لوگوں کو زکاۃ کی پوری رقم دے دی جائے تو زکاۃ ادا ہوجائے گی، اس لیے کہ آیت سے مقصود یہ نہیں ہے کہ زکاۃ تمام قسموں پر ضرور تققسیم کی جائے۔ بلکہ مقصود یہ بتانا ہے کہ زکاۃ انہی لوگوں کے جائز ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا فریضۃ من اللہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو اپنے بندوں پر فرض کردیا ہے اور اس سے تجاوز کرنے سے منع فرمایا ہے۔ التوبہ
61 47ْ۔ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جو منافقین مسلمانوں کے پاس آکر قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ بھی مخلص مسلمان ہیں، انمیں سے بعض ان نکتہ چیں منافقوں سے بھی بد تر ہیں جن کا ذکر اوپر آچکا، کہتے ہیں کہ محمد بہت ہی سیدھا اور بے بصیرت آدمی ہے کہ وہ ہر شخص کی بات مان لیتا ہے ہم بھی جب اس کے سامنے قسم کھا لیتے ہیں تو ہماری بات بھی مان لیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کی کہ ہاں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سنتے تو ہیں، لیکن وہی باتیں جو مسلمانوں کے لیے مفید ہوتی ہیں اور جو ان کے لیے باعث رحمت ہوتی ہیں، اس لیے کہ وہ نرم خو ہیں، اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، اور مومنینِ صادقین کی خیر و صلاح سے متعلق باتوں کو مان لیتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جو لوگ ایسی باتوں کے ذریعہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا پہنچاتے ہیں انہیں دردناک عذاب دیا جائے گا۔ التوبہ
62 48۔ منافقین جب اپنی خلوتوں میں ہوتے تو مسلمانوں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر طعنہ زنی کرتے، اور جب اس کی خبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو ہوتی، اور ان سے پوچھا جاتا تو قسمیں کھا کر کہتے کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا تھا، کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر مسلمان ان سے خوش رہیں، ان کے اسی نفاق اور اخلاقی گراوٹ پر قرآن کریم نے ماتم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ حقدار تھے کہ وہ لوگ انہیں راضی کرتے اور نفاق سے تائب ہوجاتے۔ آیت 63 میں ان کے نفاق کا انجام بد بتایا گیا ہے کہ کیا انہیں پتہ نہیں کہ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے اس کا بدلہ جہنم کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ کے لیے رہے گا۔ التوبہ
63 التوبہ
64 49۔ ابن ابی شیبہ اور ابن المنذر وغیرہما نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ منافقین آپس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے خلاف جب کوئی بات کرتے تو ڈرتے کہ کہیں ایسا نہ ہو اللہ ہماری بات محمد کو بتا دے، ایک اور روایت ہے کہ ایک منافق نے کہا کہ کاش ہمیں سو کوڑے لگائے جاتے اور ہمارے بارے میں قرآن نہ نازل ہوتا جو ہمارا پردہ فاش کردیتا ہے تو یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ نے انہیں دھمکی دی کہ خوب اسلام اور مسلمانوں کا مذاق اڑا لو، لیکن یہ جان لو کہ اللہ تمہاری تمام خباثتوں اور منافقوں کو طشت از بام کر کے رہے گا۔ التوبہ
65 50۔ ابو نعیم نے حلیہ میں شریح بن عبید سے اور ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ وغیرہم نے عبداللہ بن عمر (رض) سے اس آیت کے شان نزول کے بارے میں جو روایت نقل کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک آدمی (اور وہ غالبا عبداللہ بن ابی بن سلول تھا) نے غزوہ تبوک کے موقع سے ایک مجلس میں کہا کہ ہم نے ان قراء سے زیادہ جھوٹا اور بزدل نہیں دیکھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی خبر ہوگئی اور قرآن نازل ہوا، تو وہ آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی کی مہار پکڑ کر دوڑ رہا تھا اور لوگ اسے پتھر سے مار رہے تھے اور کہتا تھا کہ یا رسول اللہ ! ہم یونہی گپ شپ کر رہے تھے، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے جا رہے تھے کہ کیا تم لوگ اللہ، اس کی آیتوں اور اس کے رسول کا مذاق اڑا رہے تھے۔ آیت 66 میں اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کو مخاطب کر کہا کہ ابھی کوئی عذر قابل قبول نہیں، تمہارا کفر ظاہر ہوچکا۔ البتہ جو لوگ توبہ کرلیں گے اور اپنی اصلاح کرلیں گے تو ہم انہیں معاف کردیں گے، لیکن جو لوگ اپنے نفاق پر اصرار کریں گے، اور اسی طرح قرآن اور اسلام کا مذاق اراتے رہیں گے، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا پہنچاتے رہیں گے تو ان جرائم کی پاداش میں ہم انہیں ضرور سزا دیں گے۔ التوبہ
66 التوبہ
67 51۔ آیت 56 میں گذر چکا ہے کہ منافقین قسمیں کھا کر مسلمانوں کو باور کراتے تھے کہ وہ بھی انہی کی طرح مخلص مسلمان ہیں۔ اس آیت میں انہی منافقین کی تردید کی گئی ہے کہ منافقین چاہے مرد ہوں یا عورتیں نفاق، خست، دناءت اور عدم ایمان میں سبھی ایک جیسے ہیں، اور سب کے حالات مومنوں کے حالات سے بالکل مختلف ہیں، برائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے روکتے ہیں، صلہ رحمی، جہاد اور کسی بھی خیر کے کام میں خرچ نہیں کرتے ہیں، اور اللہ کی یاد سے قطعی طور پر غافل ہوتے ہیں اس لیے آخر کار اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا، اور اپنی رحمت سے محروم کردیا، اور اس لیے بھی کہ منافقین اپنے کفر و سرکشی میں انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔ آیت 68 میں ان کا اخروی انجام بتایا گیا کہ جہنم ان کا ٹھکانا ہوگا اور یہ سزا ان کے لیے کافی ہوگی، اور ان پر اللہ کی لعنت برس رہی ہوگی، اور جس عذاب میں وہ مبتلا ہوں گے وہ دائمی ہوگا کبھی ختم نہ ہوگا۔ العیاذ باللہ۔ التوبہ
68 التوبہ
69 52۔ اس آیت میں خطاب منافقین کو ہے کہ تمہارا حال ان قوموں جیسا ہے جو تم سے پہلے گذر چکی ہیں، ان پر بھی اللہ تعالیٰ نے تمہاری ہی طرح انعام کیا، وہ جسمانی قوت، مال و دولت اور اولاد کے اعتبار سے تم سے زیادہ اچھی حالت میں تھے، اور انہوں نے ان دنیاوی نعمتوں سے خوب فائدہ اٹھایا، خوب مزے کیے اور کبر و غرور میں مبتلا ہو کر تمہاری ہی طرح اللہ کے دین اور اس کے رسول کے خلاف سازشیں کیں اور ان کا مذاق اڑایا تو اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آگئے، دنیا میں ذلیل و رسوا ہوئے اور آخرت تو ان کی برباد ہے ہی، تو اے منافقو ! تم بھی خوب مزے اڑا رہے ہو اور آخرت سے غافل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کی ایذا رسانی کے درپے ہو، اس لیے تمہارا بھی انجام انہی لوگوں جیسا ہوگا۔ التوبہ
70 53۔ گذشتہ آیت میں اجمالی طور پر بتایا گیا کہ منافقین کا حال ان گذشتہ قوموں جیسا ہے جو پہلے ہلاک کی جا چکی ہیں۔ یہاں انہی قوموں میں سے چھ کے حالات نام لے کر بیان کیے جارہے ہیں اور منافقین سے کہا جا رہے کہ کیا انہوں نے ان قوموں کے بارے میں نہیں سنا کہ جب انہوں نے اللہ سرکشی کی تو ان کا انجام کیا ہوا، قوم نوح کو طوفان کے ذریعہ ہلاک کردیا گیا، قوم عاد کو تیز و تند ہوا کے ذریعہ، قوم ثمود کو زلزلہ اور چیخ کے ذریعہ، قوم اباہیم کے بادشاہ نمرود کو مچھر کے ذریعہ جو اس کی ناک کے ذریعہ دماغ تک پہنچ گیا اور اس کی ہلاکت کا سبب بنا، قوم مدین یعنی قوم شعیب کو زلزلہ اور آگ کی بارش کے ذریعہ، اور قوم لوط کی بستیاں الٹ دی گئیں اور پھر ان پر پتھروں کی بارش کردی گئی، ان قوموں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اللہ کی طرف سے ان پر ظلم نہیں تھا، بلکہ ان کے کفر، انبیاء کی تکذیب اور اللہ تعالیٰ کی ناشکری کی وجہ سے ہوا۔ التوبہ
71 54۔ آیت 67 میں منافقین اور منافقات کی مذموم صفات بیان کرنے کے بعد اب یہاں مومنین اور مومنات کی صفات حمیدہ بیان کی جا رہی ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے دل سے محبت کرتے ہیں، اسلیے کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا یہی تقاضا ہے، لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہیں، جس میں سر فہرست توحید باری تعالیٰ اور صرف اسی کی عبادت کی دعوت دینی ہے۔ اور برائی سے روکتے ہیں، اور ذکر الٰہی میں مشغول رہنے کے لیے نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور منافقوں کی طرح اپنے ہاتھوں کو سمیٹے نہیں رہتے، بلکہ اگر اللہ مال دیتا ہے تو اس کی زکاۃ ادا کرتے ہیں، اور راہ سرکشی نہیں اختیار کرتے ہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ اور ان خوبیوں کی وجہ سے دنیا میں ان پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ آیت 72 میں بتایا گیا کہ آخرت میں انہیں ایسی جنتیں ملیں گی جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور جناتِ عدن میں اچھے مکانات ملیں گے، اور ان سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ ان سے ہمیشہ کے لیے خوش ہوجائے گا۔ امام مالک اور بخاری و مسلم نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ جنتیوں سے پوچھے گا کیا تم لوگ خوش ہوگئے؟ تو وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہم کیوں نہ خوش ہوں، تو نے تو ہمیں وہ کچھ دے دیا ہے جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیا ہے تو اللہ کہے گا کہ کیا میں تجھے اس سے بھی افضل چیز نہ دوں؟ تو وہ پوچھیں گے یا اللہ ! اس سے افضل کیا چیز ہوسکتی ہے؟ تو اللہ کہے گا کہ میں تم سے خوش ہوگیا، اب کبھی بھی میں تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔ التوبہ
72 التوبہ
73 55۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ وہ کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کریں، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد تاقیامت یہ حکم مسلمانوں کے لیے بھی ہے۔ اور کافروں سے جہاد یہ ہے کہ ان سے جنگ کی جائے، یہاں تک کہ اسلام لے آئیں، یا اگر یہود و نصاری ہیں اور اسلام نہیں لاتے تو ذلت و رسوائی کے ساتھ جزیہ دیں، جیسا کہ اسی سورت کی آیت 29 میں گذر چکا ہے۔ اور منافقین سے جہاد یہ ہے کہ دلائل و براہین کے ذریعہ ان کے خلاف حجت قائم کی جائے یہاں تک کہ تائب ہو کر اسلام میں داخل ہوجائیں۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ مسلمانو ! کفار و منافقین کے ساتھ نرمی کا برتاؤ نہ کرو، بلکہ ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ۔ التوبہ
74 56۔ علمائے تفسیر نے اس آیت کا شان نزول بیان کرنے کے لیے جو واقعات بیان کیے ہیں، ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ غزوہ تبوک کی تیاری کے دوران، اس غزوہ کے سفر میں، مقام تبوک میں قیام کے دوران، اور واپسی کے بعد منافقین کی زبان سے متعدد کفریہ کلمات نکلے، اور جب بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی خبر ہوجاتی اور ان سے پوچھا جاتا تو جھوٹ بول دیتے اور قسمیں کھا کر باور کراتے کہ وہ تو مخلص مسلمان ہیں، اس لیے اس سورت میں غزوہ تبوک کے موقع سے منافقین کے حالات بیان کرتے ہوئے کئی بار اس بات کا ذکر آیا ہے کہ منافقین قسیں کھا کر اپنے جھوٹ پر پردہ ڈالنا چاہتے۔ ان میں سے دو واقعات زیادہ مشہور ہیں۔ ایک عبداللہ بن ابی بن سلول کا ہے جس نے انصار کو غیر انصار کے خلاف ابھارنا چاہا تھا اور کہا تھا کہ یہ تو ایسا ہی ہے کہ کتے کو کھلا کر موٹا کرو تاکہ تمہیں کھا جائے، اور کہا تھا کہ مدینہ واپسی کے بعد باعزت آدمی ذلیل آدمی کو نکال باہر کرے گا۔ اور باعزت سے اپنے آپ کو اور ذلیل سے (خاکم بدہن) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مراد لیا تھا اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر ہوئی اور اس سے پوچھا تو قسم کھا گیا کہ اس نے یہ بات نہیں کہی ہے۔ اور دوسرا واقعہ جلاس بن سوید کا ہے، جس نے منافقین سے کثرتِ نزول قرآن سے تنگ آکر کہا تھا کہ اگر یہ آدمی (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچا ہے تو ہم لوگ گدھوں سے بھی زیادہ برے ہیں۔ اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے دریافت کیا تو قس کھا گیا کہ اس نے یہ بات نہیں کہی تھی۔ کہتے ہیں کہ بعد میں جلاس تائب ہوگیا تھا۔ 57۔ امام مسلم نے الصحیح میں اور بیہقی نے دلائل النبوۃ میں حذیفہ بن الیمان (رض) سے روایت کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مقام تبوک میں قیام کے دوران بارہ آدمیوں نے رات کے وقت منہ پر نقاب ڈال کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کرنا چاہا تھا، آیت کے اس حصہ میں اسی طرف اشارہ ہے۔ 85۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے اہل مدینہ بڑی تنگی میں زندگی گزارتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ تشریف لانے کے بعد ان کی اقتصادی حالت اچھی ہوگئی۔ جب بھی مال غنیمت ہاتھ آتا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے درمیان تقسیم کرتے اور دوسرے اموال کے ذریعہ بھی ان کی ضرورتیں پوری کرتے رہتے۔ اور جلاس کا ایک غلام قتل کردیا گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے اس کی دیت دی جس کی وجہ سے وہ مالدار ہوگیا۔ گویا اللہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے اور ان کے ذریعہ انہیں خوب نوازا۔ اس احسان کا بدلہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ وہ آپ کا شکریہ ادا کرتے، لیکن اس کے برعکس منافقین نے آپ کو قتل کردینا چاہا۔ سچ کہا ہے جس نے بھی کہا ہے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے ڈرتے رہو۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے توبہ کی دعوت دی ہے کہ اگر وہ توبہ کرلیں گے تو ان کے لیے بہتر ہے، اور گر منہ پھیر لیں گے تو اللہ انہیں دنیا و آخرت دونوں جگہ سخت عذاب دے گا۔ التوبہ
75 59۔ تاریخ و سیر کی کئی کتابوں میں آیا ہے کہ یہ آیت ثعلبہ بن حاطب الانصاری کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ لیکن یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ نیز ثعلبہ بن حاطب بدری صحابی تھے، اور بدری صحابیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا بہت عظیم وعدہ ہے، بہت ممکن ہے کہ ثعلبہ نامی کوئی اور آدمی آرہا ہو اور نام میں مشابہت ہونے کی وجہ سے روایت میں غلطی ہوگئی ہو۔ واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا، یار سول اللہ ! آپ میرے لیے روزی میں برکت کی دعا کردیجئے، اگر اللہ مجھے روزی دے گا تو اس کے حقوق ادا کرتا رہوں گا، لیکن جب اللہ نے اس کی روزی میں خو برکت دی تو اس کی نیت بدل گئی اور صدقہ و خیرات کرنے اور زکاۃ دینے سے انکار کردیا۔ ثعلبہ والی روایت میں آتا ہے کہ جب یہ آیات نازل ہوئی اور اسے خر ہوئی تو وہ اپنی زکاۃ لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا، لیکن آپ نے لینے سے انکار کردیا، آپ کے بعد ابو بکرہ، عمر اور عثمان (رض) نے بھی اس کی زکاۃ نہیں لی اور عثمان رضٰ اللہ عنہ کے دوریں وہ مر گیا۔ ضحاک کا قول ہے کہ یہ آیت ایک نہیں کوئی معروف منافقین کے بارے میں نازل ہوئی تھی جن کا حال وہی تھا جو آیت میں بیان کیا گیا ہے، آیات 76، 77، 78 میں انہی منافقین کے حالات بیان کیے گئے ہیں کہ جب انہوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان کے نفاق میں اور اضافہ کردیا۔ التوبہ
76 التوبہ
77 التوبہ
78 التوبہ
79 60۔ منافقین ہر حال میں مسلمانوں میں عیب لگاتے تھے، اگر کوئی زیادہ مال اللہ کی راہ میں دیتا تو کہتے کہ یہ ریا کار ہے، اور اگر کوئی مزدور اپنی مزدوری لا کر صدقہ کے مال میں جمع کردیتا تو کہتے کہ اللہ کو اتنے تھوڑے مال کی کیا ضرورت تھی، محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ کی ترگیب دلائی تو عبدالرحمن بن عوف نے چار ہزار صدقہ کیا، اور عاصم بن عدی نے ایک سو وسق کھجور صدقہ کیا، تو منافقین نے طنز کیا کہ یہ محض ریا کاری ہے، اور ابو عقیل نے اپنی مزدوری ایک صاع کھجور کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے منافقین کا یہ انجام بتایا کہ وہ اپنے مومن بندوں کے استہزاء کا انتقام ضرور لے گا، منافقین کو رسوا کرے گا، اور اپنے مومن بندوں کو اونچا کردکھائے گا، اور آخر میں ان منافقین کو دردناک عذاب ملے گا۔ التوبہ
80 61۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی ہے کہ منافقین اللہ کی مغفرت کے اہل نہیں ہیں۔ اس لیے آپ چاہے ان کے لیے مغفرت طلب کریں تو اللہ منافقوں کو معاف کردے گا۔ مسند احمد اور صحیحین کی روایت ہے، ابن عباس کہتے ہیں، میں نے عمر بن خطاب سے نا ہے کہ جب عبداللہ بن ابی مر گیا تو اس کے جنازہ کی نماز پڑھنے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا گیا، آپ جب نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو میں نے کہا کہ کیا آپ اللہ کے دشمن عبداللہ بن ابی پر نماز پڑھیں گے، جس نے ایسا اور ایسا کہا تھا اور میں واقعات گناتا رہا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکراتے رہے، جب میں نے زیادہ اصرار کیا تو آپ نے فرمایا اے عمر ! الگ ہٹ جاؤ، مجھے اختیار دیا گیا ہے۔ استغفرلہم او لا تستغفر لہم الایۃ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ ستر بار سے زیادہ دعا کرنے سے اسے معاف کردیا جائے گا تو میں ایسا کروں گا، پھر آپ نے اس کے جنازہ کی نماز پڑھی اور اس کی قبر کے پاس گئے، تھوڑی ہی دیر کے بعد یہ دو آیتیں نازل ہوئیں، ولا تصل علی احد منہم مات ابدا ولاتقم علی قبر، کہ آپ منافقین میں سے کسی نماز جنازہ کبھی نہ پڑھیے اور اس کی قبر کے پاس نہ جائیے۔ تو اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تک زندہ رہے کسی منافق کے جنازہ کی نماز نہ پڑھی۔ عبدالرزاق نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں ستر سے زائد بار طلب مغفرت کروں گا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا سواء علیہم استغفرت لہم ام لم تستغفرلہم لن یغفر اللہ لہم۔ کہ آپ چاہے ان کے لیے مغفرت کی دعا کریں یا نہ کریں اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کہا ہے کہ ممکن ہے دونوں آیتیں ایک ساتھ نازل ہوئی ہوں، اور آپ کو منافقین کی نماز جنازہ سے روک دیا گیا اور یہ خبر بھی دے دی گئی کہ منافقین کے لیے آپ کی دعائے مغفرت ہرگز کام نہ آئے گی۔ التوبہ
81 62۔ جو منافقین غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی غزوہ کے لیے روانگی کے بعد خوش ہوئے کہ انہیں جانا نہ پڑا، اور دوسروں کو بھی روکا کہ گرمی میں کہا جاؤ گے، انہی کا حال اور آخرت میں ان کا انجام بد بیان کیا جا رہا ہے اور آیت 82 میں انہیں دھمکی دی جارہی ہے کہ آج وہ تھوڑا سا ہنس لیں آخرت میں اپنے اس برے کردار کی وجہ سے انہیں بہت رونا پڑے گا۔ التوبہ
82 التوبہ
83 63۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ جب آپ کو اللہ تعالیٰ مدینہ واپس پہنچا دے اور غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونے والے منافقین میں سے ایک جماعت آپ کے پاس آئے اور کہے کہ ہمیں آئندہ غزوات میں شریک ہونے کی اجازت دے دیجئے، تاکہ ہماری جو رسوائی ہوئی ہے اسے دور کرسکیں تو آپ انہٰیں اجازت نہ دیجئے اور کہئے کہ تمہیں آئندہ ہمارے ساتھ نکلنے اور دشمن سے جنگ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔ جب تم غزوہ تبوک کے موقع سے بیٹھے رہ گئے تو اللہ کی نظر سے گر گئے اس لیے اب تم ہمیشہ کے لیے عورتوں اور بچوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔ قتادہ کہتے ہیں کہ ان کی تعداد بارہ تھی۔ اور آیت میں طائفۃ کا لفظ دلیل ہے کہ جو لوگ جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے وہ سبھی منافق نہیں تھے۔ مثال کے طور پر کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارۃ ابن الربیع العامر مخلص مسلمان تھے، التوبہ
84 64۔ آیت 80 کی تفسیر میں گذر چکا ہے کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبداللہ بن ابی بن سلول کی نماز جنازہ پڑھی تھی اور اس کی قبر کے پاس گئے تھے۔ اس کا حکم ہر اس شخص کے بارے میں عام ہے جس کا نفاق ظاہر ہوچکا ہو۔ مسند احمد میں ابو قتادہ (رض) سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہو سلم کسی کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے بلائے جاتے تو مرنے والے کے بارے میں پوچھتے تھے، اگر خیر کے ساتھ اس کا ذکر کیا جاتا تو اس کی نماز پڑھتے، ورنہ اس کے رشتہ داروں سے کہہ دیتے کہ تم لوگ جیسا چاہو کرلو، اور اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے تھے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے حافظ سیوطی نے الاکلیل میں لکھا ہے کہ کافر کی نماز جنازہ پڑھنی اور اس کی قبر کے پاس کھڑا ہونا حرام ہے التوبہ
85 65۔ یہ آیت الفاظ میں تھوڑے اختلاف کے ساتھ اوپر گذر چکی ہے، دیکھئے اسی سورت کی آیت 55 التوبہ
86 66۔ جہاد سے پیچھے رہ جانے والے منافقین کے حالات پر مزید روشنی ڈالی جا رہی ہے کہ جب بھی قرآن کریم میں کوئی سورت نازل کی جاتی ہے جس میں حکم دیا جاتا ہے کہ اللہ پر ایمان لاؤ اور رسول کے ساتھ جہاد کرو، تو مالدار منافقین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت مانگنے لگتے ہیں اور جھوٹے عذر پیش کر کے عورتوں اور بچوں کے ساتھ بیٹھے رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے اس نفاق کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے اور ان کی عقل پر پردے پڑگئے ہیں۔ التوبہ
87 التوبہ
88 67۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اگر منافقین جہاد میں شریک نہیں ہوئے تو کیا ہوا، اس ذمہ داری کو تو مسلمانوں نے بطریق احسان نباہا ہے جو ان سے ہر اعتبار سے بہتر ہیں، اور جن کی نیتیں خالص ہیں۔ جان و مال کے ذریعہ جہاد کا ذکر اوپر گذر چکا، اور جہاد کے ذریعہ دنیا و آخرت کے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں، اور آخرت میں اللہ تعالیٰ مجاہد کو جنت دے گا، جو اس کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی۔ التوبہ
89 التوبہ
90 68۔ منافقین مدینہ کے احوال بیان کرنے کے بعد اب بادیہ نشین منافقین کے حالات پر روشنی ڈالی جا رہی ہے، ان میں سے کچھ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر غزوہ تبوک کے لیے جانے سے عذر پیش کیا، کچھ تو جھوٹے تھے اور ان کا عذر باطل تھا، اور کچھ نے ایس اعذر پیش کیا کہ ممکن ہے وہ صادق رہے ہوں، اور ان بادیہ نشینوں میں کچھ صریح منافق تھے، وہ اپنے خیموں میں بیٹھے رہ گئے اور سچ یا جھوٹ کوئی عذر پیش نہیں کیا ان تمام لوگوں میں جو منافق تھے ان پر اللہ نے کفر کا حکم لگایا اور انہیں دردناک عذاب کی دھمکی دی۔ التوبہ
91 69۔ اس آیت میں وہ اعذار بیان کیے گئے ہیں جن کی موجودگی میں مسلمان جہاد میں شرک نہ کرنے سے اللہ کے نزدیک معذور سمجھا جائے گا۔ 1۔ وہ کمزور لوگ جو دوڑنے اور مشقت برداشت کرنے سے عاجز ہوں جیسے بوڑھا، بچہ، عورت اور ناتواں۔ 2۔ وہ معذور جو کسی بیماری کی وجہ سے جہاد نہ کرسکتا ہوِ، جیسے اندھا، لنگڑا اور اپاہج 3۔ وہ صحت مند مسلمان جس کے پاس نہ زاد سفر ہو اور نہ ہتھیار خریدنے کے لیے پیسے ہوں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سب کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ اللہ اور رسول کے لیے مخلص ہوں مسلمانوں میں خوف و دہشت نہ پھیلائیں، مجاہدین کو غذائی کمک پہنچائیں اور ان کے غائبانہ میں ان کے گھروالوں کی دیکھ بھال کریں اور ان کی ضرورتیں پوری کریں۔ مزید تاکید کے طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے مخلص و معذور مسلمانوں کے لیے کوئی حرج کی بات نہیں۔ التوبہ
92 70۔ حافظ ابن مردویہ اور عوفی رحمہما اللہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو غزوہ تبوک کے لیے روانگی کا حکم دیا تو کچھ صحابہ آئے جن میں سر فہرست عبداللہ بن مغفل المزنی تھے، انہوں نے کہا، اے اللہ کے رسول ! ہمیں سواری دیجئے، آپ نے کہا کہ اللہ کی قسم میرے پاس تم لوگوں کے لیے سواریاں نہیں ہیں، تو وہ لوگ روتے ہوئے واپس چلے گئے، جب اللہ نے ان کا یہ اخلاص دیکھا تو ان کا عذر قرآن میں بیان کردیا۔ اسی لیے صحیحین میں انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، مدینہ میں ایسے لوگ رہ گئے ہیں جو ہر جگہ تمہارے ساتھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا حالانکہ وہ مدینہ میں ہیں؟ تو آپ نے فرمایا، ہاں کسی مجبوری نے انہیں آنے سے روک دیا ہے۔ التوبہ
93 71۔ عتاب و عقاب ان کے لیے ہے جنہوں نے مالدار ہوتے ہوئے جھوٹا عذر پیش کر کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لے لی، اور عورتوں اور بچوں کے ساتھ رہنا گوارہ کیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی اور نفع و نقصان میں تمیز کرنے کی صلاحیت ان سے چھین لی۔ التوبہ
94 (٧٢) جو مالداری منافقین بغیر کسی صحیح عذر کے غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہوئے، انہی کے بارے میں خبر دی جارہی ہے کہ جب آپ جنگ سے واپس ہوں گے تو آپ کے پاس آکر جھوٹے اعذار پیش کریں گے، آپ کہہ دیجیے کہ تم لوگ بہانے نہ کرو، ہم تمہاری کوئی بات نہیں مانیں گے، اس لیے کہ اللہ نے ہمیں تمہارے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے، اور آئندہ اللہ اور اس کے رسول تمہارا عمل دیکھیں گے، اس لیے کہ عمل ہی انسان کی کسوٹی ہے صرف باتوں سے کام نہیں چلتا ہے، پھر مرنے کے بعد تم اللہ کے سامنے حاضر ہوگے جو غائب و حاضر کا جاننے والا ہے، وہ تمہارے اعمال کی تمہیں خبر دے گا، یعنی بدلہ دے گا۔ التوبہ
95 آیت (٩٥) میں اللہ نے خبر دی ہے کہ یہ منافقین آپ کے پاس آکر قسمیں کھائیں گے تاکہ آپ انہیں کچھ نہ کہیں، تو آپ ان کی زجر و توبیخ نہ کریں اور نہ انہیں کوئی سزا دیں، یہ تو ناپاک اور خبیث لوگ ہیں، یہ اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان کی پرواہ کی جائے، ان کے لیے یہی کافی ہے کہ جہنم ان کا ٹھکانا ہے۔ التوبہ
96 آیت (٩٦) میں بتایا گیا ہے کہ ان کے قسمیں کھانے کا صرف یہی مقصد نہیں ہے کہ آپ انہیں کچھ نہ کہیں، بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ آپ ان سے خوش رہیں جیسے کہ انہوں نے کھچ کیا ہی نہیں ہے، لیکن مسلمانو یہ مناسب نہیں ہے کہ جن سے اللہ راضی نہیں ہے ان سے تم راضی ہوجاؤ، بلکہ کسی سے تمہاری خوشی اور ناراضگی اس سے اللہ کی خوشی اور ناراضگی کے تابع ہونی چاہیے۔ التوبہ
97 (٧٣) بادیہ نشیں منافقین کے باریں میں بتایا جارہا ہے کہ ان کا کفر و نفاق دوسروں سے زیادہ سخت ہوتا، اس لیے کہ ان کے مزاج میں سختی اور وحشت ہوتی ہے اور علماء مجالس سے دور ہونے کی وجہ سے قرآن و سنت کی تعلیمات سے بے بہرہ ہوتے ہیں، امام احمد ابو داؤد اور ترمذی وغیرہم نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جو بادیہ نشیں ہوجاتا ہے اس میں سختی آجاتی ہے۔ التوبہ
98 (٧٤) ان بادشیہ نشین منافقین کا حال یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں صرف ریاکاری کے لیے کرتے ہیں، اس لیے اسے جرمانہ ہی سمجھتے ہیں اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کب حالات بدلیں اور مسلمانوں پر کوئی مصیبت آئے تاکہ ان سے نجات ملے اور اپنا مال انہیں نہ دینا پڑے، اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ مصیبت انہی پر آئے گی اور حالات انہی کے حق میں بد سے بدتر ہوتے جائیں گے۔ التوبہ
99 (٧٥) سبھی بادیہ نشین ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں ان میں کچھ مخلص بھی ہوتے ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں، اور اس امید میں خرچ کرتے ہیں کہ رسول اللہ ان کے لیے دعائے خیر کریں گے، اللہ تعالیٰ نے اسی سورت کی آیت (١٠٣) میں فرمایا (وصل علیھم ان صلواتک سکن لھم) کہ آپ مومنوں کے لیے دعا کیجیے آپ کی دعا ان کے لیے باعث سکون و اطمینان ہے۔ چنانچہ جب کوئی صحابہ صدقہ کرتے تو نبی کریم ان کے لیے دعا کرتے تھے۔ صحیحین کی روایت ہے کہ جب ابو اوفی (رض) نے صدقہ کیا تو آپ نے ان کے اہل و عیال کے لیے خیر و برکت کی دعا کی اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کی۔ (٧٦) اللہ تعالیٰ نے بطور تاکید خبر دی ہے کہ مخلص بادیہ نشین مسلمانوں کا صدقہ اللہ کے نزدیک مقبول ہے اور اس کی قربت کا ذریعہ ہے ان منافقین کے برعکس جنہوں نے صدقہ و زکوۃ کو جرمانہ سمجھا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قربت کی توضیح کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ انہیں اپنی جنت میں داخل کرے گا۔ التوبہ
100 (٧٧) بادیہ نشین مخلص مسلمانوں کے بعد اب ان نفوس قدسیہ کا ذکر ہورہا ہے جو اللہ کے نزدیک ان بادیہ نشینوں سے کئی گنا برتر و بالا اور افضل و اعلی ہیں۔ سابقین اولین کی تفسیر میں علماء کے کئی اقوال ہیں کسی نے کہا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، کسی نے کہا : جنہوں نے غزوہ بدر میں شرکت کی، کسی نے کہا : جو لوگ ہجرت سے پہلے اسلام لائے تھے، اور جو لوگ ان کے بعد آئے سے مراد وہ سات انصاری مسلمان ہیں جنہوں نے عقبہ اولی کے پاس رسول اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور پھر وہ ستر مسلمان جنہوں نے دوسرے سال رسول اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، اور وہ تمام انصار جنہوں نے مصعب بن عمیر کی تبلیغ سے متاثر ہو کر ہجرت سے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ لیکن راجح یہ ہے کہ سابقین اولین میں وہ تمام مہاجرین داخل ہیں جنہوں نے ہجرت کرنے میں پہلے کر کے رسول اللہ کا دل مضبوط کیا اور دوسروں کے لیے نمونہ بنے اور وہ تمام انصار جنہوں نے ہجرت سے پہلے اسلام قبول کرلیا تھا اور جب رسول اللہ مدینہ تشریف لائے تو آپ کا ساتھ دیا۔ ابو منصور بغدادی کا قول ہے کہ ہمارے اصحاب کا اس پر اجماع ہے کہ سب سے افضل خلفائے اربعہ ہیں، پھر غزوہ بدر میں شریک ہونے والے پھر احد میں شریک ہونے والے، پھر مقام حدیبیہ میں رسول اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے جسے بیعت الرضوان کہا جاتا ہے، اور جو لوگ ان کے بعد آئے، سے مراد تمام متاخرین صحابہ، تابعین اور وہ تمام لوگ ہیں جو قیام تک اقوال و افعال میں سابقین اولین کے نقش قدم پر چلتے رہیں گے۔ التوبہ
101 (٧٩) منافقین کے حالات پر مزید روشنی ڈالی جارہی ہے، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو خبر دی کہ مدینہ کے گرد و نواح میں جو بادیہ نشین ہیں ان میں اور اہل مدینہ میں بھی منافقین پائے جاتے ہیں، اور اپنے نفاق پر پردہ ڈالنے میں ایسے طاق ہیں کہ آپ اپنی ہزار ذہانت و بصیرت کے باوجود انہیں نہیں جانتے ہیں، وہ اپنا کفر چھپانے میں اتنے ماہر ہیں کہ صرف اللہ ہی ان کی خبر رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں پہلے اسی دنیا میں دوبارہ سزا دے گا، ذلت و رسوائی ہوگی اور اسلام اور مسلمانوں کی کامیابیوں پر ان کے دلوں میں آگ لگی رہے گی اور آخرت کا عذاب تو ان کا انتظار کر ہی رہا ہے۔ رسول اللہ بعض منافقین کو ان کے ناموں سے جانتے تھے، اور یہ ثابت ہے کہ آپ نے حذیفہ بن یمان کو چودہ یا پندرہ منافقین کے نام بتائے تھے، لیکن تمام منافقین کو نہیں جانتے تھے، امام احمد بن جبیر بن مطعم سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا، یا رسول اللہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہم نے مکہ میں جو عمل کیا تھا اس کا ہمیں اجر نہیں ملے گا، تو آپ نے فرمایا کہ تمہارا اجر تمہیں مل کر رہے گا چاہے تم لومڑی کے بل میں رہو، پھر آپ نے اپنا سر میرے کان کے قریب لاکر کہا کہ میرے صحابہ میں منافقین ملے ہوئے ہیں جو جھوٹی باتیں پھیلاتے ہیں۔ التوبہ
102 (٨٠) اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو مخلص مسلمان تھے، منافق نہیں تھے، لیکن سستی کی وجہ سے غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہوئے، اور جب غزوہ میں شریک نہ ہونے والے منافقین کے بارے میں آیتیں نازل ہوئیں تو انہیں اپنی غلطی کا شدید احساس ہوا، اور فکر دامن گیر ہوئی کہ اب کیا کیا جائے؟ اور اس کی تلافی کیسے ہو؟ ابن عباس کی روایت کے مطابق ان کی تعداد دس تھی ان میں سے سات نے طے کیا کہ وہ اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ دیں گے اور اسی حال میں رہیں گے یہاں تک کہ رسول اللہ انہیں معاف کردیں اور اپنے ہاتھ سے انہیں کھول دیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، جب رسول اللہ نے انہیں دیکھا اور ان کے بارے میں دریافت کیا تو انہیں سبب بتایا گیا آپ نے فرمایا کہ انہیں اسی حال میں رہنے دو یہاں تک مجھے اللہ کی طرف سے انہیں کھول دینے کا حکم ملے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے انہیں کھول دیا، اور باقی تین کعب بن مالک، مرارہ بن الربیع، اور ہلال بن امیہ کا قصہ مشہور ہے کہ رسول اللہ نے ان کا سماجی بائیکاٹ کردیا، ان کی بیویوں کو ان سے الگ کردیا، یہاں تک کہ سورۃ التوبہ کی آیت (١١٨) (وعلی الثلاثۃ الذین خلفوا) نازل ہوئی، اور اللہ نے ان کی بھی توبہ قبول کرلی۔ انہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ انہوں نے جہاد میں شرکت نہ کرکے اپنے سابقہ اعمال صالحہ کے ساتھ گناہ کو ملا دیا تھا، لیکن جب انہوں نے صدق دل سے توبہ کیا تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی۔ التوبہ
103 (٨١) ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہم نے روایت کی ہے کہ جن سات صحابہ نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ دیا تھا، جب ان کی توبہ قبول ہوگئی تو وہ اپنا مال لے کر رسول اللہ کے پاس آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ اسی مال کی وجہ سے ہم پیچھے رہ گئے تھے، اس لیے یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے، تو آپ نے فرمایا کہ مجھے اسے لینے کا حکم نہیں دیا گیا ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی، جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو حکم دیا دیا کہ ان سے صدقہ لیجیے جو ان کی طہارت اور تزکیہ نفس کا ذریعہ بنے گا، اور ان کے لیے دعائے خیر و برکت کیجیے، اس لیے کہ آپ کی دعا مسلمانوں کے لیے سکون و اطمینان کا باعث ہے۔ چنانچہ نبی کریم نے ان کے مال کا ایک تہائی حصہ بطور صدقہ لے لیا، اور باقی انہیں واپس کردیا۔ علماء نے لکھا ہے کہ یہ آیت اگرچہ مذکور بالا صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی، لیکن وجوب زکوۃ کے بارے میں اس کا حکم عام ہے، اور مسلمان حکمرانوں کا فرض ہے کہ تمام مسلمانوں سے زکوۃ وصول کریں، اور اللہ کے بتائے ہوئے حکم کے مطابق مسلمانوں میں تقسیم کریں۔ التوبہ
104 (٨٢) اس آیت کریمہ میں توبہ اور صدقہ کی ترغیب دلائی گئی ہے اس لیے کہ ان کے ذریعہ بندوں کے گناہ مٹتے ہیں، اور اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ جو بندہ توبہ کرتا ہے اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے، اور جو حلال مال کا صدقہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتا ہے اور پھر اپنے بندہ کے لیے اسے کئی گنا بڑھاتا ہے، یہاں تک کہ ایک کھجور احد پہاڑ کے مانند ہوجاتی ہے۔ التوبہ
105 (٨٣) یہ اللہ کی جانب سے ایک قسم کی دھمکی اور خوف دلانے والا اسلوب ہے، کہ اے لوگو تمہارا کوئی عمل اللہ اس کے رسول اور مسلمانوں سے مخفی نہیں ہے، اس لیے خیر کا کام کرو، اور صرف اللہ کی رضا کے لیے کرو، اور اس میں عمل صالح کرنے کی ترغیب بھی ہے، اس لیے کہ آدمی کو جب یقین ہوگا کہ اس کا ہر عمل اللہ کے نزدیک لکھا جارہا ہے تو برے کام سے بچے گا اور خیر کے کام کرے گا، اس کے بعد وعید شدید کے طور پر فرمایا کہ دیکھو ! تم سب اس اللہ کے سامنے کھڑے ہوگے جو غائب و حاضر سب کو جانتا ہے، پھر وہ برے کو برا اور اچھے کو اچھا بدلہ دے گا۔ التوبہ
106 (٨٤) اس سے مراد وہ تین مخلص مسلمان ہیں جو سستی کی وجہ سے غزوہ میں شریک نہیں ہوئے، اور رسول اللہ کے سامنے منافقین کی طرح جھوٹا عذر پیش کر کے معافی بھی نہیں مانگی، ان کا معاملہ معلق رہا، اور رسول اللہ نے مسلمانوں سے ان کا سماجی بائیکاٹ کردیا، اور زمین اپنی ہزار وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہوگئی، انہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یا تو وہ انہیں عذاب دے گا یا ان کی توبہ قبول کرلے گا، چنانچہ اللہ کی رحمت اس کے غضب پر غالب آگئی اور ان کی توبہ قبول ہوئی جس کا ذکر اسی سورت کی آیت (١١٨) میں آئے گا۔ التوبہ
107 (٨٥) (١٠٧) سے (١١٠) تک کا تعلق ان منافقین سے ہے جنہوں نے مسجد قبا کے قریب مسجد کے نام سے ایک عمارت بنائی تھی، جس کا مقصد اسلام کے خلاف سازش اور مسلمانوں کے درمیان تفریق پیدا کرنا تھا، حافظ ابن کثیر نے ابن اسحاق اور ابن مردویہ وغیرہما سے ان آیتوں کے شان نزول کے سلسلہ میں جو روایتیں نقل کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ مدینہ میں قبیلہ خزرج کا ابو عامر الراہب نامی ایک شخص تھا، جو زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہوگیا تھا، اس کا خزرج والوں میں بڑا مقام تھا، جب رسول اللہ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو اسے دعوت اسلام دیا لیکن اس نے انکار کردیا، اور غزوہ بدر کے بعد مکہ جاکر کفار قریش کو رسول اللہ کے خلاف ابھارا، اور غزوہ احد میں کافروں کی صف میں آگے آکر انصار کو مخاطب کر کے اپنی نصرت و تائید کی دعوت دی جس پر انصار نے اسے بہت زیادہ برا کہا، اس کے بعد اس نے روم جاکر وہاں کے بادشاہ ہر قل کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا، اور وہیں سے مدینہ میں اپنے منافق دوستوں کو لکھا کہ وہ ایک مسجد بنائیں جس کا مقصد مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنا ہو اور جب وہ مدینہ واپس آئے گا تو اسے اپنے لیے کمین گاہ کے طور پر استعمال کرے گا جب منافقین نے وہ عمارت بنا لی تو رسول اللہ کے پاس آئے اور کہا کہ ہم نے کمزوروں، بیماروں اور بارش اور سردی کے لیے ایک مسجد بنائی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ آپ وہاں تشریف لے چلیں اور اس میں نماز پڑھیں، رسول اللہ اس وقت غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہورہے تھے، آپ نے کہا کہ واپسی کے بعد چلوں گا، واپسی میں آپ مدینہ سے کچھ فاصلہ پر تھے تو وحی نازل ہوئی اور اس عمارت کی حقیقت معلوم ہوئی، چنانچہ آپ نے دو صحابہ کو بھیجا جنہوں نے اس مکان کو جلا دیا، جسے اللہ تعالیٰ نے مسجد ضرار کا نام دیا، یعنی وہ مسجد جو قبا والوں کو نقصان پہنچانے کے لیے بنائی گئی تھی۔ التوبہ
108 (٨٦) اس سے مراد مسجد قبا ہے حدیث میں اس مسجد کی بڑی فضیلت آئی ہے، صحیحین کی روایت ہے کہ نبی کریم کبھی پیدل اور کبھی سواری پر اس مسجد کی زیارت کے لیے جاتے تھے اور اس میں دورکعت نماز پڑھتے تھے بہت سے صحابہ کرام کی رائے ہے کہ اس سے مراد مسجد نبوی ہے، اور ابو سعید خدری کی ایک صحیح حدیث سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے کہ دو شخصوں کے درمیان اس کے بارے میں اختلاف ہوا کہ وہ کون سی مسجد ہے جس کی بنیاد روز اول سے تقوی پر رکھی گئی ہے، تو نبی کریم نے فرمایا کہ وہ میری مسجد ہے، اس حدیث کو مسلم، نسائی اور ترمذی نے روایت کی ہے، لیکن ایک اور حدیث ہے جسے امام ابو داؤد اور طبرانی نے عویم بن ساعدہ انصاری سے روایت کی ہے کہ نبی کریم مسجد قبا میں تشریف لائے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کی مسجد کے واقعہ میں تمہاری طہارت کی تعریف کی ہے، تو تم لوگ کس طرح طہارت حاصل کرتے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ہم اپنی شرمگاہ اور نجاست کی جگہ کو پانی سے دھوتے ہیں، اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مسجد قبا ہے۔ اسی لیے حافظ ابن کثیر نے کہا ہے کہ وہ جب مسجد قبا وہ مسجد ہے جس کی بنیاد طہارت پر رکھی گئی ہے تو مسجد نبوی بدرجہ اولی وہ مسجد ہے۔ التوبہ
109 (٨٧) اس آیت کریمہ میں مومن اور منافق کی نیت اور عمل میں جو بنیادی فرق ہے اسے بیان کیا گیا ہے، مومن جب بھی کوئی کام کرتا ہے تو اس کی نیت میں اللہ کی رضا اور حصول جنت ہوتا ہے، اس کے برعکس منافق کی نیت میں کھوٹ ہوتا ہے، اس لیے اس کی مثال اس آدمی کی ہوتی ہے جو مٹی کے کسی ایسے تودے پر مکان تعمیر کرے جو اندر سے کھوکھلا ہو، اور مکین کو لیے ہوئے گرتا ہوا جہنم میں پہنچ جائے۔ التوبہ
110 (٨٨) منافقین نے جو مسجد بنائی اس نے ان کے نفاق میں اضافہ کردیا اور اسے ان کے دلوں میں مزید مستحکم بنا دیا، شوکانی لکھتے ہیں کہ مسجد بنانے والے تو تھے ہی منافقین، جب رسول اللہ کے حکم سے اسے جلا دیا گیا تو ان کا نفاق اور بڑھ گیا، اور اسلام کے خلاف ان کی دشمنی میں اور اضافہ ہوگیا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ ان کی یہی حالت رہے گی یہاں تک کہ انہیں موت آجائے گی۔ حافظ ابن القیم نے زاد المعاد میں غزوہ تبوک کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جن جگہوں میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی جارہی ہو انہیں جلا دیا جائے گا اور منہدم کردیا جائے گا، جیسا کہ رسول اللہ نے مسجد ضرار کو جلا دینے اور اسے منہدم کرنے کا حکم دیا، اور جب مسجد ضرار کے ساتھ ایسا کیا گیا تو وہ جگہیں بدرجہ اولی منہدم کردی جائیں گے جن میں اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک کیا جارہا ہو۔ آگے لکھتے ہیں کہ وہ وقف جس سے مقصود اللہ کی رضا اور قربت حاصل کرنی نہ ہو صحیح نہیں ہوگی، جس طرح مسجد ضرار کا وقف رسول اللہ کی نظر میں صحیح نہیں تھا، اس لیے قبر پر بنی مسجد گرا دی جائے گی، اور اگر کوئی شخص مسجد میں دفن کیا جائے گا تو اس کی لاش وہاں سے نکال کر دوسری جگہ منتقل کردی جائے گی، اس لیے کہ دین اسلام میں مسجد اور قبر دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتیں، جو چیز پہلے سے ہوگی اسے باقی رکھا جائے گا، اور جو بعد میں وجود میں آئے گی اسے ختم کردیا جائے گا۔ التوبہ
111 (٨٩) جہاد فی سبیل اللہ سے پیچھے رہ جانے والوں کے حالات جب بیان کیے جاچکے تو جہاد کی فضیلت بیان کر کے مومنوں کو اس کی ترغیب دلائی جارہی ہے، اور ان سے کہا جارہا ہے کہ اللہ نے تم سے تمہاری جان اور مال کا سودا کرلیا ہے تاکہ ان کے بدلے تمہیں جنت دے، سستی چیز لے کر بہت ہی قیمتی چیز تمہیں دی ہے، اور چاہے تم دشمنوں کو قتل کرو یا قتل کردیے جاؤ، اللہ کا وعدہ ہر حال میں ثابت ہے، جیسا کہ امام بخاری نے عبداللہ بن ابی اوفی سے روایت کی ہے کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے، اور اللہ کا یہ پختہ وعدہ تورات اور انجیل میں بھی موجود ہے۔ التوبہ
112 (٩٠) انہی مومنین کی کچھ دوسری نیک صفات بیان کی جارہی ہیں جن سے اللہ نے جنت کے بدلے ان کی جان و مال کا سودا کرلیا ہے، سائحون سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک روزہ دار ہیں، بعض نے اس سے مراد مہاجرین لیا ہے، اور بعض نے طلاب علم مراد لیا ہے، حافط ابن کثیر کہتے ہیں کہ ایک حدیث دلالت کرتی ہے کہ آیت میں سیاحت سے مراد سے مراد جہاد ہے، ابو داؤد نے ابو امامہ سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے کہا، یا رسول اللہ مجھے سیاحت کی اجازت دیجیے تو آپ نے فرمایا : میری امت کی سیاحت جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ سیاحت سے مراد یہ نہیں ہے کہ آدمی دنیا سے کنارہ کش ہو کر عبادت کی نیت سے پہاڑوں، غاروں اور صحراؤں میں چلا جائے، اسلیے کہ یہ ریبانیت ہے، جس کی اللہ کے رسول نے ممانعت فرمائی ہے، ہاں اگر زمین فتنوں سے بھر جائے اور آدمی کے لیے اپنے دین پر چلنا مشکل ہورہا ہو تو ایسی صورت میں جائز ہے کہ شہر اور بستی چھوڑ کر پہاڑوں پر چلا جائے، جیسا کہ صحیح بخاری کی عبداللہ بن ابی اوفی سے مروی ایک حدیث سے ثابت ہے کہ فتنوں کے زمانہ میں اپنی بکریاں لے کر پہاڑوں پر چلا جانا بہتر ہوگا۔ اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں، سے مراد نماز پڑھنے والے ہیں، اس لیے کہ نماز کے افعال میں یہ دونوں زیادہ اہم ہیں، اس کے بعد اللہ نے نبی کریم سے فرمایا کہ جو لوگ مومن کامل و صادق ہیں انہیں آپ اللہ کی جانب سے دنیا میں فتح و کامرانی اور آخرت میں جنت کی خوشخبری دے دیجیے۔ التوبہ
113 (٩١) اس سورت کی ابتدا میں اور اس کے بعد والی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین اور منافقین سے کنارہ کشی اور ان سے دوری اختیار کرنے کو دینی ضرورت قرار دیا ہے، اس آیت میں اسی کی مزید تاکید کی گئی ہے کہ مشرکین کا شرک و کفر جب ظاہر ہوجائے تو ان سے دوری اختیار کرنا ایمان کا تقاضا ہے، چاہے وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ اسی لیے آیت (١١٤) میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا کہ ابراہیم نے اپنے کافر باپ آزر کے لیے اس لیے طلب مغفرت کیا تھا کہ انہوں نے اپنی دعوت کے ابتدائی عہد میں اس سے وعدہ کردیا تھا کہ وہ اللہ سے اس کے لیے طلب مغفرت کریں گے، لیکن بعد میں جب اہیں یقین ہوگیا کہ آزر اللہ کا دشمن ہے تو اس سے کلی طور پر اعلان برات کردیا، اس لیے جائز نہیں کہ ابراہیم کے اس عمل کو دلیل بنا کر مشرکین کے لیے طلب مغفرت کرے۔ بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ ان کے پاس گئے، وہاں پہلے سے ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ موجود تھے، آپ نے کہا چچا ! آپ لا الہ الا اللہ کہہ دیجیے تاکہ آپ کے لیے میں اللہ کے یہاں سفارش کرسکوں، تو ابوجہل اور ابن ابی امیہ نے کہا، ابو طالب ! کیا تم عبدالمطلب کے دین سے دستبردار ہوجاؤ گے؟ رسول اللہ بار بار ان کے سامنے اپنی بات دہراتے رہے، لیکن ابو طالب نے آخر میں یہ کہا کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں، اور لا الہ الا اللہ کہنے سے انکار کردیا، تو رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم، میں جب تک اللہ کی طرف سے روک نہ دیا جاؤں آپ کے لیے طلب مغفرت کرتا رہوں گا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ التوبہ
114 التوبہ
115 (٩٢) اللہ نے جب مشرکین کے لیے طلب مغفرت کی ممانعت کردی تو جن لوگوں نے اپنے مشرکین رشتہ داروں کے لیے پہلے طلب مغفرت کیا تھا انہیں اللہ کے عذاب کا خوف لاحق ہوا، تو یہ آیت نازل ہوئی کہ جو مسلمان پہلے سے راہ راست پر گامزن ہیں اس نادانستہ غلطی پر ان کا مواخذہ نہیں ہوگا، اس لیے کہ اللہ کی طرف سے مواخذہ اس کا ہوتا ہے جو حق واضح ہوجانے کے بعد بھی باطل پر جما رہے۔ التوبہ
116 (٩٣) جب اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے، زندگی اور موت اسی کے اختیار میں ہے تو پھر اس کے علاوہ کسی کی پرواہ نہیں کرنی ہے کسی سے ڈرنا نہیں ہے، اور دنیا کا بڑا سے بڑا انسان بھی اگر اللہ کا دشمن ہے تو اس سے دوری اختیار کرنا واجب ہے، اس ایمان و یقین کے ساتھ کہ مومن کا اللہ کے سوا نہ کوئی دوست ہے اور نہ مددگار، اور اللہ کی مشیت کے بغیر کوئی اس کا ایک بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ التوبہ
117 (٩٤) اوپر بتایا جاچکا ہے کہ غزوہ تبوک سے کچھ ایسے لوگ بھی پیچھے رہ گئے تھے جو مخلص مسلمان تھے، لیکن سستی کی وجہ سے نبی کریم کے ساتھ نہ جاسکے تھے، جب منافقین کے بارے میں قرآن کریم کی آیتیں نازل ہونے لگیں تو انہیں اپنی غلطی کا شدید احساس ہوا، اسی لیے ان میں سے کچھ نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ دیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا، اور ان مخلص مسلمانوں میں سے تین حضرات نے رسول اللہ کے سامنے جاکر اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا اور منافقین کی طرح جھوٹا عذر نہیں پیش کیا، لیکن انہوں نے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں سے نہیں باندھا، اور اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کردیا، وہ تینوں کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور ہر ارہ بن الربیع تھے، ان تینوں حضرات کو رسول اللہ نے کہا کہ تمہارا فیصلہ اللہ کرے گا، اور تمام مسلمان مدینہ کو ان سے بات کرنے سے روک دیا، اور جب چالیس دن گزر گئے تو انہیں رسول اللہ کا پیغام ملا کہ وہ اپنی بیویوں سے بھی الگ ہوجائیں، بالآخر پچاس دنوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی، اس پچاس دن کی مدت میں وہ تینوں جن ذہنی پریشانیوں سے گزرے، اور زمین اپنی ہزار وسعت کے باوجود جس طرح ان پر تنگ ہوگئی، انہی احوال و کوائف کی طرف آیت (١١٨) میں اشارہ کیا گیا ہے، اور انہی کو امام احمد اور بخاری و مسلم نے پوری تفصیل کے ساتھ کعب بن مالک کی زبانی روایت کی ہے۔ ان حضرات کے قبول توبہ کے ذکر سے پہلے نبی کریم اور مہاجرین و انصار کے قبول توبہ کا ذکر انہیں یہ یقین دلانے کے لیے کیا گیا کہ ان کی توبہ قبول کرلی گئی، جس طرح نبی کریم اور ان بڑے صحابہ کرام کی توبہ قبول کرلی گئی، اور وہ لوگ بھی اللہ کے مقبول بندوں میں شامل کرلیے گئے، اور یہ کہ اللہ کا ہر بندہ چاہے وہ نبی ہو یا ولی، ہر دم اور ہر حال میں توبہ و استغفار کا محتاج ہے، اور یہ کہ توبہ کرتے رہنا انبیاء و صالحین کی صفت ہے۔ آیت (١١٧) میں (ساعۃ العسرۃ) سے مراد غزوہ تبوک کا سفر ہے، ابن عرفہ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے جیش کو جیش العسرۃ (لشکر تنگ حالی) کہا گیا، اس لیے کہ نبی کریم نے اس فوج کو اس وقت سفر کا حکم دیا تھا جب صحابہ شدید تنگ حالی کے دور سے گزر رہے تھے، نہ سواری تھی نہ زاد سفر اور نہ پانی، سخت گرمی اور قحط سالی کا زمانہ تھا۔ اس واقعہ سے مسلمانوں کو بہت سی نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں، سب سے بڑی نصیحت یہ ملتی ہے کہ سچائی میں ہر خیر ہے اور کذب بیانی دنیا و آخرت کی تمام ناکامیوں کی اساس ہے جن منافقین نے رسول اللہ کے سامنے کذب بیانی سے کام لیا، اللہ تعالیٰ نے ان کا پردہ فاش کیا، اور آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم بتایا، اور ان تینوں حضرات نے جرائم ایمانی سے کام لیتے ہوئے سچائی کو اپنایا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی، اور اس کا اعلان رہتی دنیا تک کے لیے قرآن کریم میں کردیا۔ (آیت ١١٩) میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ عبداللہ بن مسعود نے اس آیت کی تلاوت کی اور کہا کہ جھوٹ بولنے کی اجازت کسی کے لیے کسی بھی حال میں نہیں ہے۔ صحیحین میں عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے، وہ اللہ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ التوبہ
118 التوبہ
119 التوبہ
120 (٩٥) نبی کریم کے ساتھ غزوہ میں نکلنے کی مزید تاکید کی گئی ہے اور ان لوگوں کو عتاب کیا گیا ہے جو غزوہ تبوک میں شریک نہیں تھے، مدینہ کے اردگرد رہنے والے بادیہ نشینوں سے مراد مزینہ، جہینہ، اشجع، اسلم اور غفار وغیرہ بقائل ہیں، ان قبائل کو خصوصی طور پر اس لیے عتاب کیا گیا کہ انہیں غزوہ کے لیے روانگی کا حکم نبوی پہنچ چکا تھا، اور اس لیے بھی کہ ایمان صادق اور قرب و جوار کا تقاضا تھا کہ رسول اللہ کا ساتھ دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتے، اور اپنی جان دے کر ان کی جان کی حفاظت کرتے، اور ہر قدم پر اور ہر تکلیف پر جو انہیں اس راہ میں پہنچتی اور اللہ کی راہ میں ہر خرچ کے عوض اجر وثواب حاصل کرتے۔ التوبہ
121 (٩٦) مسند احمد میں عبداللہ بن امام احمد نے عبدالرحمن حباب سلمی سے روایت کی ہے کہ عثمان بن عفان نے غزوہ تبوک کی فوجی تیاری کے لیے ایک ہزار دینار اور تین سو اونٹ مع سازو سامان صدقہ کیا تھا، جس پر رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ آج کے بعد کچھ بھی کریں کوئی حرج نہیں، اور بار بار یہ جملہ داہرتے رہے۔ (ولا یقطعون وادیا) کی تفسیر کرتے ہوئے قتادہ کہتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا، اپنے اہل و عیال سے جتنا دور ہوتا جاتا ہے اتنا ہی اللہ سے قریب ہوتا جاتا ہے۔ التوبہ
122 (٩٧) جب اسی سورت کی آیت کریمہ (٤١) (انفروا خفافا و ثقالا) نازل ہوئی جس میں تمام مسلمانوں کو جہاد میں نکلنے کی ترغیب دلائی گئی اور وہ آیتیں بھی نازل ہوئیں جن میں غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونے والوں کو شدید عتاب کیا گیا، تو عام صحابہ نے سمجھا کہ جہاد کے لیے بہرحال تمام لوگوں کو نکلنا ہے، اور کسی حال میں پیچھے نہیں رہنا ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی کہ جہاد کے لیے نکلنے کا حکم عام مدنی زندگی کے آغاز میں تھا جب مسلمانوں کی تعداد کم تھی، اب مسلمانوں کی تعداد اچھی خاصی ہوگئی ہے، اس لئیے مصحلت کا تقاضا یہ ہے کہ مدینہ اور دیگر مسلمان بستیوں کو خالی کر کے سبھی لوگ نہ چلے جائیں، بلکہ ہر بڑی جماعت سے ایک گروہ جہاد کے لیے نکلے، جن سے جہاد کی ضرورت پوری ہو، اور کچھ لوگ اپنے شہر اور بستی میں بھی رہیں تاکہ مجاہدین کے گھر والوں کی دیکھ بھال کریں، ان کی ضرورتیں پوری کریں اور شہر اور بستی کی بھی نگرانی کرتے رہیں، اور جو لوگ رسول اللہ کے ساتھ جہاد کے لیے جائیں وہ جہاد کی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ ان کی صحبت سے علمی فائدہ اٹھائیں، قرآن و سنت کا علم حاصل کرتے رہیں اور جب اپنی اپنی بستیوں اور شہروں میں واپس پہنچیں تو جو کچھ اس سفر میں رسول اللہ سے سیکھا ہے، باقی مانندہ لوگوں کو سکھلائیں۔ التوبہ
123 (٩٨) اللہ تعالیٰ نے جہاد کے سلسلہ میں یہ حکم دیا کہ پہلے ان کافروں سے جنگ کی جائے جو مدینہ کے قریب رہتے ہیں اور جب وہ حلقہ بگوش اسلام ہوجائیں تو آگے بڑھا جائے، اور ان کے بعد رہنے والے کافروں سے جنگ کی جائے، رسول اللہ نے اسی اصول کو برتا، چنانچہ آپ کی جہادی کوششوں کے نتیجہ کے طور پر آپ کی زندگی کے آخری ایام میں جزیرہ عرب مشرکین سے پاک ہوگیا، تو اہل کتاب تک دعوت اسلام پہنچانے کے لیے تبوک تک گئے اور وہاں بیس دن رہنے کے بعد واپس ہوئے اور اس غزوہ سے اسلام کو عظیم فوائد حاصل ہوئے جن کی کچھ تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔ نبی کریم کی وفات کے بعد خلفائے راشدین نے اپنے اپنے دور میں جہاد کی تحریک کو جاری رکھا یہاں تک کہ اردن، شام، عراق اور فارس کے علاقے اسلام کے زیر نگیں ہوگئے اسلام کا جھندا ہر طرف لہرانے لگا اور دیگر ذرائع سے دولت کی ریل پیل ہوگئی۔ آیت کے آخرت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ کافروں کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے کسی قسم کی نرمی کا مظاہرہ نہ کریں، ورنہ اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، مسلمان اپنے مسلمان بھائی کے لیے نرم اور کافروں کے لیے سخت ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس کی تاکید فرما دی ہے۔ التوبہ
124 (٩٩) جیسا کہ اوپر کی آیتوں کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ اس سورت میں منافقین کی ظاہری اور باطنی خباثتوں کے بہت سے احوال و کوائف بیان کیے گئے ہیں، اسی لیے اس سورت کا ایک نامہ فاضحہ بھی ہے، یعنی ایسی سورت جو منافقین کے عیوب کو بیان کرتی ہے، مندرجہ ذیل چار آیتیں اسی سلسلہ کی آخری کڑی ہیں۔ قرآن کریم کی جب کوئی نئی سورت منافقین کے غائبانے میں نازل ہوتی اور انہیں خبر ہوتی تو آپس میں بیٹھ کر مذاق اڑاتے اور کہتے کہ بھئی اس سورت کے نزول کے بعد تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ ہوا ہے؟ شوکانی لکھتے ہیں کہ آیت کا ایک معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ منافقین یہ بات بعض مسلمانوں سے ہی کہا کرتے تھے کہ یہ جو نئی سورت نازل ہوئی ہے، تو کونسا تمہارے ایمان میں اضافہ ہوگیا ہے، اور ان کا مقصد انہیں اسلام سے برگشتہ کرنا ہوتا تھا، یعنی یہ کوئی ایسا دین نہیں ہے جس کی خاطر آدمی دن کا چین اور رات کا سکون کھوئے اور اپنی جان جوکھم میں ڈالے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس استہزاء اور استخفاف کا یہ جواب دیا کہ ہاں، قرآن کی یہ آیتیں اور یہ سورتیں اہل ایمان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں، اس لیے کہ ہر سورت اور ہر آیت میں کوئی ایسی مفید بات اور نصیحت ہوتی ہے جو انہیں پہلے سے معلوم نہیں ہوتی ہے، اور وہ اپنے ایمان و اخلاص کی وجہ سے ان دنیاوی اور دینی فوائد و مصالح کو پاکر دل سے خوش ہوتے ہیں۔ جمہور محدثین کی رائے یہی ہے کہ مومن کے ایمان میں زیادتی ہوتی ہے، اگر یہ کہا جائے کہ عمل صالح ایمان میں داخل ہے تو بات بالکل واضح ہے کہ آدمی جتنا زیادہ عمل کرتا جاتا ہے اس کا ایمان بڑھتا جاتا ہے، اور اگر بالفرض مان لیا جائے کہ ایمان صرف تصدیق قلبی کا نام ہے، تو بھی بات واضح ہے اس لیے کہ انبیائے کرام اور صحابہ رسول کا ایمان عام مسلمانوں کے ایمان سے یقینا زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن منافقین کا حال مومنوں سے بالکل مختلف ہوتا ہے جب جب قرآن کی کوئی سورت نازل ہوتی ہے ان کا نفاق بڑھتا جاتا ہے، اس سے بڑھ کر ان کی بدبختی اور کیا ہوسکتی ہے کہ جو چیز اہل ایمان کے دلوں کو زندگی دیتی ہے وہی ان کے دلوں کو اور مردہ بنا دیتی ہے اور بالآخر ان کی موت کفر پر ہوتی ہے۔ التوبہ
125 التوبہ
126 (١٠٠) اللہ تعالیٰ کی جانب سے مومنوں کے لیے دعوت تعجب ہے کہ ذرا کوئی ان منافقین کی کم عقلی تو دیکھے کہ ہر سال ایک یا دو بار ان کی منافقتوں کا پردہ فاش ہوتا رہتا ہے، ہر سال ایک یا دو بار رسول اللہ اور مومنین جہاد کرتے ہیں، اور انہیں فتح و کامرانی حاصل ہوتی ہے، اور منافقوں کے دلوں پر چرکے لگتے رہتے ہیں، لیکن پھر بھی وہ کوئی نصیحت حاصل نہیں کرتے اور تائب ہو کر صدق دل سے اسلام قبول نہیں کرتے۔ التوبہ
127 (١٠١) اور جب کوئی سورت منافقین کی موجودگی میں نازل ہوتی ہے تو بطور استہزاء اور وحی آسمانی کا انکار کرتے ہوئے آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ہم سے برداشت نہیں ہورہا ہے، ہنسی ضبط کر کے تھک گئے، ڈر ہے کہ ہمیں کوئی ہنستا نہ دیکھ لے، اس لیے دیکھو تو سہی اگر ہمیں کوئی مسلمان نہیں دیکھ رہا ہے تو جلدی سے یہاں سے نکل چلیں، چنانچہ وہ وہاں سے کفر و نفاق کی مزید آلائشوں کے ساتھ اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں، اس ظالمانہ اور غیر منصفانہ رویہ کا انجام بد انہیں یہ دیکھنا پڑا ہے کہ دلوں کے مالک اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو قبول حق سے یکسر محروم کردیا ہے۔ التوبہ
128 (١٠٢) نبی کریم کی ذات گرامی امت اسلامیہ پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے، اس سورت کا اختتام اسی نعمت عظمی کے ذکر خیر پر کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے تمام قبائل عرب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اس نے اپنی پیغام رسانی کے لیے تم پر مہربانی کرتے ہوئے ایک ایسے انسان کو چنا ہے جو تم ہی میں سے ہیں اور تمہاری زبان بولتے ہیں، ابن عباس کہتے ہیں کہ نبی کریم کا ہر قبیلہ عرب سے خاندانی تعلق ہے۔ صحیح مسلم اور سنن ترمذی کی روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے کنانہ کو اولاد اسماعیل سے چن لیا، اور قریش کو اولاد کنانہ سے اور بنی ہاشم کو قریش سے، ایک روایت میں ہے : میں تمام اچھوں میں اچھا ہوں۔ رامہر مزی نے اپنی کتاب المحدث الفاصل میں علی بن ابی طالب سے بسند متصل روایت کی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : میں نکاح کے ذریعہ پیدا ہوا ہوں، آدم سے لے کر میرے باپ ماں تک میری پیدائش میں زنا داخل نہیں ہوا۔ اسے ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں اور دیلمی نے مسند الفردوس میں روایت کی ہے، اور علامہ البانی نے صحیح الجامع میں اسے حسن کہا ہے۔ نبی کریم کی دوسری صفت یہ بتائی گئی کہ آپ پر ہر وہ بات شاق گزرتی ہے جس سے امت مسلمہ کو تکلیف پہنچتی ہے۔ آپ کی تیسری صفت یہ ہے کہ آپ دل سے تمنا کرتے ہیں کہ آپ کی امت جہنم میں نہ ڈال دی جائے اور یہ بھی تمنا کرتے ہیں کہ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی کی طرف اپنی امت کی رہنمائی کردیں۔ اور چوتھی صفت یہ ہے کہ آپ مومنوں کے لیے بہت ہی رحم دل ہیں، اسی وجہ سے چاہتے ہیں کہ وہ عمل صالح کریں اور گناہوں کا ارتکاب نہ کریں تاکہ اللہ کی جنت کے حقدار بنیں۔ التوبہ
129 آیت (١٢٩) میں نبی کریم کو مخاطب کر کے اللہ نے فرمایا کہ آپ کی ان تمام خوبیوں کے باوجود اگر عرب کے لوگ آپ کی دعوت کو قبول نہ کریں، تو آپ کہہ دیجیے کہ میں تمہارے کرتوتوں سے بری ہوں، اور اپنا اور تمہارا معاملہ اللہ کے حوالے کرتا ہوں، جو ہر حال میں میرے لیے کافی ہے۔ سنن ابی داؤد میں بسند صحیح ابو دردا سے (موقوفا) روایت ہے کہ جو آدمی ہر دن صبح و شام حسبی اللہ علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم سات بار پڑھ لیا کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کی تمام مشکلات کو آسان کردے گا اور اس کی حاجتوں کو پوری کرے گا۔ التوبہ
0 سورۃ یونس مکی ہے اس میں ایک سو نو آیتیں اور گیارہ رکوع ہیں۔ نا : اس سورت کی آیت ٩٨ میں یونس (علیہ السلام) کا نام آیا ہے، اسی مناسبت سے اس کا نام سورۃ یونس رکھا گیا ہے۔ زمانہ نزول : آیت ٤٠ اور ٩٤، ٩٥، کے علاوہ پوری سورت مکی دور میں نازل ہوئی تھی، عقیدہ توحید، وحید، بعث بعد الموت، کفار مکہ کا کفر و عناد، اور ان قضایا سے متعلق ان کے ذہنوں میں موجود شبہات کا ازازلہ یہی وہ مرکزی مضامین ہیں جن کے گرد پوری سورت گھومتی ہے۔ یونس
1 (١) حروف مقطعات کے بارے میں سورۃ بقرہ کی ابتدا میں لکھا جاچکا ہے کہ جمہور محدثین کے نزدیک بہتر رائے یہی ہے کہ اس کا صحیح مفہوم اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ کتاب حخم سے مراد قرآن کریم ہے اور ھذہ اسم اشارہ قریب کے بجائے تلک اسم اشارہ بعید کے استعمال سے مقصود قرآن کریم کی عظمت شان بیان کرنا ہے۔ قرآن کریم کی صفت حکیم اس اعتبار سے لائی گئی ہے کہ یہ وہ کتاب محخم ہے جس میں حلال و حرام اور حدود و احکام تفصیل کے ساتھ بیان کردئے گئے ہیں، یا یہ کہ حکیم بمعنی حاکم ہے اس لیے کہ قرآن لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہے یا حکیم معبنی محکوم فیہ ہے، اس لیے کہ اللہ نے اس میں پورے عدل و انصاف کے ساتھ تمام امور میں فیصلے صادر فرمائے ہیں۔ یونس
2 (٢) مشرکین مکہ اس بات پر حیرت کرتے تھے کہ انہی جیسا ایک آدمی ان کی رہنمائی کے لیے بھیجا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کی اس حیرت پر نکیر کی ہے کہ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں بلکہ اگر وہ رسول فرشتہ یا جن ہوتا تو حیرت کی بات تھی، اس لیے کہ بنی نوع انسان یا تو اسے دیکھ نہیں پاتے، یا اگر دیکھ پاتے تو اس سے مانوس نہیں ہوتے، کیونکہ انسان اپنے ہی جیسے جسد خاکی رکھنے والے انسان کے ساتھ مانوس ہوتا ہے، اس لیے نبی کریم کا مبعوث ہونا فطرت اور عقل کے تقاضے کے مطابق تھا، اور جب مبعوث ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی حکم دیا کہ آپ لوگوں کو آخرت کے دن کے عذاب سے ڈرائیں، اور مومنوں کو خوشخبری دیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے ایمان اور عمل صالح کا اچھا سے اچھا بدلہ دے گا، اور شافع محشر محمد ان کے لیے شفاعت فرمائیں گے۔ لیکن کفار قریش نے آپ کی دعوت کو قبول نہیں کیا، اور جب ان سے کچھ نہ بن پڑا، تو کہنے لگے کہ یہ آدمی تو صریح جادوگر ہے، اور یہ قرآن کھلا جادو ہے جو انسانوں کو مسحور کردیتا ہے، یہ آسمان سے نازل شدہ اللہ کی کوئی کتاب نہیں ہے۔ یونس
3 (٣) مشرکین قریش کے تعجب کی تردید ہے کہ جو ذات باری تعالیٰ ایسی عظیم ترین قدرتوں کا مالک ہو جن کے تصور و ادراک سے عقلیں عاجز ہوں، کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لیے انہی میں سے ایک رسول بھیج دے؟ اس آیت کی تفسیر (ثم استوی علی العرش) تک سورۃ اعراف آیت ٥٤ میں گزر چکی ہے، امام بخاری نے اپنی کتاب الصحیح میں (استوی علی العرش) کے مسئلہ میں جہمیہ پر رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ استوی کا معنی ابو العالیہ نے ارتفع اور مجاہد نے علا کیا ہے، یعنی استوا کی بغیر کوئی مثال اور بغیر کوئی کیفیت بیان کیے ہوئے، اس کے بعد لکھا ہے کہ عرش وہ جسم ہے جو تمام کائنات کو محیط ہے اور تمام مخلوقات سے عظیم تر ہے، اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام مخلوقات کی دیکھ بھال کرتا ہے، ان کے لیے اپنے اوامر صادر فرماتا ہے، اور اپنی معلوم حکمتوں کے مطابق ان میں تصرف کرتا ہے۔ (٤) مشرکین مکہ کے معروف عقیدہ باطلہ کی تردید ہے کہ ان کے اصنام اللہ کے یہاں ان کے سفارشی بنیں گے، اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے : (من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ) کہ اس کی اجازت کے بغیر کون اس کی جناب میں سفارش کرسکتا ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ آیت کا یہ حصہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ تنہا اللہ کی ذات تمام امور دو جہاں کا مختار کامل ہے۔ آسمانوں اور زمین میں ایک پتہ بھی اس کی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرسکتا۔ (٥) وہی ذات واحد جو مذکورہ بالا عظیم قدرتوں کا مالک ہے، وہی اللہ ہے اور وہی تمہارا رب ہے، اس لئیے تم لوگ اسی کی عبادت کرو، اور ان بے جان بتوں، پتھروں، درختوں اور جمادات کی عبادت نہ کرو جو نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں، اور نہ نفع پہنچا سکتے ہیں، نہ نقصان۔ یونس
4 (٦) ہر شخص اپنی دنیاوی زندگی گزارنے کے بعد موت کی راہ سے گزر کر قیامت کے دن اللہ کے سامنے ضرور حاضر ہوگا، یہ اس کا برحق وعدہ ہے جو بدل نہیں سکتا، اللہ تعالیٰ انسان کو نطفہ سے پیدا کرتا ہے، پھر اس کی مدت عمر پوری ہونے کے بعد اس پر موت طاری کردیتا ہے، اور جب قیامت آئے گی تو اسے دوبارہ زندہ کرے گا۔ (٧) یہاں سے آخر آیت تک موت کے بعد دوسری زندگی کی علت بیان کی گئی ہے، یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ آدمی کو اس کے اچھے یا برے عمل کا بدلہ نہ ملے، جب اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو عمل کی جگہ بنایا ہے، تو لازم تھا کہ اس عل کے جزا و سزا کی جگہ ہوتی۔ اسی لیے اللہ نے آخرت کی زندگی بنائی تاکہ ہر شخص کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے، اور یہ کوئی بعید از عقل بات بھی نہیں کہ اللہ اس مکافات عمل کے لیے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرے، کیونکہ جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا ہے وہ یقینا انہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے۔ یونس
5 (٨) اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو بہت سی عام و خاص نعمتوں سے نوازا ہے، انہی عام اور اہم نعمتوں میں سے سورج اور چاند بھی ہیں، اس آیت کریمہ میں ان دونوں کی تخلیق اور ان کے عظیم منافع کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت، قدرت اور علم و حکمت کے مزید دلائل پیش کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آفتاب کی تیز شعاعوں کو دن کی روشنی اور چاند کی دھیمی شعاعوں کو رات کی روشنی کا ذریعہ بنایا، اور آفتاب کے بارہ برج اور چاند کے اٹھائیس منازل بنائے، تاکہ انسان اپنی دنیاوی زندگی میں سالوں، مہینوں، دنوں اور گھنٹوں کے حساب جان سکے، اللہ نے انہیں بے کار اور عبث نہیں پیدا کیا ہے، اگر اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لیے شمس و قمر کو پیدا نہ کیا ہوتا، تو انسانوں کے بہت سے دنیاوی اور دینی مصالح ضائع ہوجاتے، کہاں سے معلوم ہوتا کہ سال بارہ مہینوں کا، اور مہینہ تیس یا انتیس دن کا، اور دن چوبیس گھنٹوں کا ہوتا ہے، اور ان حسابات سال و ماہ اور روز سے انسانوں کی جن ضروریات کا تعلق ہے وہ کیسے پوری ہوتیں؟ یونس
6 (٩) رات اور دن کا ایک دوسرے کے بعد پورے انتظام کے ساتھ آتے رہنا، اور کبھی اس میں کوئی خلل نہ واقع ہونا، دونوں کا کبھی چھوٹا اور بڑا ہونا، رات کی تاریکی اور دن کی روشنی، فضا میں تیرتے کواکب و سیارات، ہوائیں اور بارش، انسان اور حیوان خشی اور تری، پہاڑ اور وادیاں اور شجر و حجر یہ سب یقینا اللہ تعالیٰ کے وجود اس کے کمال قدرت اور اس کی عظیم ترین سلطنت پر دلالت کرتی ہیں، اور اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ انسان صرف اس کی عبادت کرے، اسی سے غائت درجہ کی محبت رکھے، اسی سے ڈرے، اسی سے امید رکھے اور ہر حال میں اس کا شکر گزار رہے۔ یونس
7 (١٠) ذکر یوم آخرت کے بعد اس کے منکرین اور پھر اس پر یقین رکھنے والوں کے حالات بیان کیے جارہے ہیں، جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے ہیں اور دنیا کی زندگی پر ہی شاداں و فرحاں ہیں، اور اللہ کی نشانیوں میں غور و فکر نہیں کرتے، ان کا ٹھکانا اللہ نے جہنم بتایا ہے، اور جو لوگ ایمان اور عمل صالح کی راہ اختیار کرتے ہیں، اللہ انہیں ان کے ایمان کی بدولت جنتوں تک پہنچا دے گا، جن میں ان کے قدموں تلے نہریں جاری ہوں گی۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اہل جنت کی دعا اللہ کی تسبیح و تقدیس ہوگی، اس لیے کہ جب وہاں انہیں ہر قسم کی نعمتیں مل جائیں گی اور امروز فردا کے اندوہ و غم سے یکسر آزاد ہوجائیں گے، تو اللہ تعالیٰ کے شکر کے طور پر اللہ کی پاکی اور تعریف بیان کرتے رہیں گے، اور ایک دوسرے کو سلام کرتے پھریں گے، اور اپنی دعا کے اختتام پر الحمدللہ رب العالمین کہا کریں گے، کہ دنیاو آخرت میں اور ہر حال میں اور ہر وقت وہی ذات واحد ہر قسم کی تعریف اور ہر قسم کی عبادت کا مستحق ہے۔ یونس
8 یونس
9 یونس
10 یونس
11 (١١) مکی زندگی کے جس دور میں یہ سورت نازل ہوئی ہے اس وقت مشرکین مکہ کا عجیب حال تھا شدت استکبار اور ذہنی بوکھلاہٹ میں بار بار رسول اللہ سے کہتے کہ اگر تم اتنے ہی سچے ہو اور ہم اللہ کے نزدیک اتنے مبغوض ہیں تو جس عذاب کی بات تم بار بار کرتے ہو ہم پر کیوں نہیں نازل ہوجاتا؟ یہ کفار مکہ کی غفلت کی انتہا تھی کہ جب بھی رسول اللہ ان سے کوئی خیر کی بات کرتے تو جلد عذاب آجانے کا مطالبہ کر بیٹھتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کھاتے ہوئے ایسا نہیں کیا، بلکہ انہیں توبہ کی مہلت دی اور انہیں ہلاک نہیں کیا کہ شاید ان کی ذریت میں ایسے لوگ پیدا ہوں جو اللہ پر ایمان لے آئیں، آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان میں جو لوگ ظالم ہوں گے اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں لائیں گے، اللہ انہیں کفر و طغیان میں یونہی بھٹکتا ہوا چھوڑ دے گا۔ یونس
12 (١٢) ان کافروں کا حال بھی عجیب ہے کہ جب رسول اللہ انہیں اللہ کی طرف بلاتے ہیں تو استکبار میں آکر عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں، اور اگر اللہ کبھی انہیں گرفت میں لے لیتا ہے تو اٹھتے بیٹھتے اور سوتے جاگتے ہر حال میں اللہ کو یاد کرنے لگتے ہیں، اور جب اللہ ان کی تکلیف دور کردیتا ہے تو دعا اور گریہ و زاری کو ایسا بھول جاتے ہیں کہ جیسے کبھی اللہ کو پکارا ہی نہیں تھا۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ یہ حالت کافروں کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے، بہت سے مسلمانوں کا حال بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت آن پڑتی ہے تو خوب دعائیں کرتے ہیں اور اللہ کے حضور گریہ و زاری کرتے ہیں، اور جب وہ مصیبت ٹل جاتی ہے تو دعا اور گریہ و زاری سے غافل ہوجاتے ہیں، اور اللہ کی نعمت اور اس کے احسان کا شکریہ ادا کرنا بھول جاتے ہیں۔ یونس
13 (١٣) مشرکین مکہ کو دھمکی دی جارہی ہے کہ گزشتہ زمانوں میں جن قوموں نے اللہ کے رسول کو جھٹلایا، اللہ نے انہیں ہلاک کردیا، تو کوئی بعید نہیں کہ تمہارا انجام بھی انہی جیسا ہو۔ یونس
14 (١٤) آیت میں خطاب ان مشرکین عرب سے ہے جو رسول اللہ کے زمانہ میں موجود تھے، کہ گزشتہ اقوام کے بعد اللہ نے تمہیں زمین کا مکین بنایا، تاکہ تمہیں بھی آزمائے اور دیکھے کہ اللہ کے ساتھ تمہارا معاملہ کیسا رہتا ہے، اگر نیک عمل کرو گے تو اللہ تمہیں اچھا بدلہ دے گا اور اگر برا عمل کرو گے تو تمہیں ویسا ہی برا بدلہ دے گا۔ یونس
15 (١٥) نبی کریم جب مشرکین کے سامنے قرآن کریم کی ان آیتوں کی تلاوت فرماتے جن میں توحید باری تعالیٰ کا اثبات اور شرک باللہ کی تردید ہوتی، تو قیامت اور جزا و سزا کا انکار کرنے والے مشرکین بطور چیلنج یا بطور استہزا آپ سے کہتے کہ اس قرآن کے علاوہ کوئی اور قرآن لاؤ جس میں ہمارے بتوں کی عیب جوئی نہ ہو، یا ان آیتوں کے بدلے جن سے ہمیں تکلیف پہنچتی ہے دوسری آیتیں لے آؤ جنہیں سن کر ہمیں تکلیف نہ پہنچے، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے جواب میں یہ کہنے کا حکم دیا کہ میں اس میں اپنی طرف سے ایک حرف کی تبدیلی نہیں لاسکتا ہوں، میں تو اللہ کا حکم بجا لانے والا ایک بندہ اور محض پیغامبر ہوں، میں تو صرف اللہ کی جانب سے نازل شدہ وحی کی اتباع کرتا ہوں، اگر میں نے اللہ کی نافرمانی کی تو قیامت کے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ یونس
16 آیت (١٦) میں مذکورہ بالا مضمون کی تاکید کے طور پر فرمایا کہ تمہارے سامنے قرآن کریم کی تلاوت میں اللہ کے ارادے اور اس کی مشیت کے مطابق کرتا ہوں، اگر اللہ چاہتا کہ نہ کروں تو میں نہیں کرسکتا تھا، اور میری زبانی اس کا علم تمہیں حاصل نہیں ہوتا، اور پیدائش سے لے کر بعثت تک پورے چالیس سال تک میں تمہارے درمیان رہا ہوں، میری صداقت و امانت کے چرچے تم میں سے ہر ایک کی زبان پر ہیں، اور مجھے پڑھنا لکھنا بھی نہیں آتا ہے، لیکن جب اللہ نے مجھے اپنا رسول بنا کر بھیجا تو اس کا نازل کردہ قرآن تمہیں سنانے لگا ہوں، کیا ان تمام دلائل و قرائن سے تم اس نتیجہ پر نہیں پہنچے کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے، میری یا کسی اور کی من گھڑت بات نہیں ہے۔ یونس
17 (١٦) یہ بھی مشرکین کی گزشتہ استہزا آمیز بات کی تردید کا ایک حصہ ہے کہ اس آدمی سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو نبوت کا جھوٹا دعوی کرے، جیسے کہ مسیلمہ کذاب، سجاح اور اسود عنسی وغیرہم نے کیا تھا، یا جب اللہ کے سچے رسول کے ذریعہ اس کی آیتیں اس تک پہنچیں تو ان کی تکذیب کرے۔ یونس
18 (١٧) مشرکین عرب کی کم عقلی کا ماتم کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے بجائے ان بتوں کی پوجا کرتے ہیں جو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع، اور ان کے بارے میں گمان کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے نزدیک ان کے سفارشی بنیں گے تاکہ وہ انہیں عذاب نہ دے، یا یہ مراد ہے کہ ان کی سفارش کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان مشرکین کی دنیاوی حالت ٹھیک کردے، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو ان کا جواب اس طرح دینے کو کہا کہ کیا تم اس بات کی خبر دے رہے ہو کہ اللہ کی اجازت کے بغیر تمہارے کچھ سفارشی ہیں، حالانکہ اللہ کو اس کی خبر نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں رہنے والی اس کی مخلوقات میں سے کوئی اس کا شریک یا اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے حضور سفارش کرنے والا ہے۔ یونس
19 (١٨) اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو ان کی ابتدائے آفرینش میں صرف دین توحید کا متبع بنایا تھا، پھر مرور زمانہ کے ساتھ انہی میں سے کچھ لوگوں نے دین فطرت کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی اتباع شروع کردی اور بتوں کی پرستش کرنے لگے اور مختلف جماعتوں میں بٹ گئے، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کھاتے ہوئے انبیاء مبعوث کیے، جنہوں نے انہیں توحید کی دعوت دی، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اگر اللہ کا پہلے سے یہ فیصلہ نہ ہوتا کہ وہ کسی کو بغیر حجت تمام ہوئے عذاب نہیں دیتا، اور یہ کہ اللہ نے جزا و سزا کو قیامت کے دن موخر کردیا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو اس دنیا میں ہی کافروں کو ہلاک کردیتا۔ یونس
20 (١٩) مشرکین مکہ نے نبی کریم سے کبر و عناد میں کہا کہ قرٓان اور دیگر معجزات کے بجائے کوئی ایسی نشانی لاؤ جس کا ہم مطالبہ کرتے ہیں، مثال کے طور پر مردہ کو زندہ کرو، یا پہاڑ کو سونا بنا دو، یا آسمان سے تمہارے لیے کوئی مزین و مزخرف گھر اتار دیا جائے، تاکہ ہم تمہاری نبوت کی تصدیق کرسکیں، تو اللہ تعالیٰ نبی کریم سے کہا کہ آپ ان کے جواب میں کہیں کہ کسی نشانی کا نازل ہونا غیبی بات ہے، جس کا علم صرف اللہ کو ہے، مجھے یا تمہیں یا کسی اور مخلوق کو اس کا علم نہیں ہے، تو میں تمہاری مرضی کے مطابق کیسے کوئی نشانی لاسکتا ہو؟ البتہ تم بھی انتظار کرو اور میں بھی انتظار کرتا ہوں کہ اللہ کس کے حق میں فیصلہ کرتا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ ان کا یہ سوال صرف کبر و عناد کی بنیاد پر تھا، اگر اللہ کے علم میں ہوتا کہ وہ اپنے سوال میں مخلص ہیں تو ان کی خواہش کے مطابق نشانی ضرور بھیج دیتا۔ یونس
21 (٢٠) جو مشرکین مکہ کفر و عناد کی وجہ سے اپنی من مانی نشانی کا مطالبہ کرتے ہیں، ان کے خبث باطن اور اللہ کے ساتھ ان کی بد عہدی کا حال یہ ہے کہ جب قحط سالی اور تنگی رزق کے بعد اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرتے ہوئے آسمان سے بارش بھیجتا ہے اور ان کی روزی میں وسعت دیتا ہے، تو اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اپنے بتوں کے سامنے سربسجود ہوجاتے ہیں، اور اللہ کی آیتوں کے بارے میں طرح طرح کی باتیں بنانے لگتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم سے کہا، آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کا عذاب تمہارے مکر و فریب سے زیادہ تیز ہے، فرشتے تمہاری سازشوں کو لکھ رہے ہیں، کوئی چیز ان سے مخفی نہیں ہے، اور جب ان سے مخفی نہیں تو اللہ سے تمہاری سازشیں کیسے مخفی رہ سکتی ہیں، تمہیں ان کی سزا مل کر رہے گی۔ یونس
22 (٢١) اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشرکین کی بدعہدی کی ایک دوسری شکل یہ ہے کہ وہ کشتیوں میں سوار ہو کر موافق ہواؤں کے سہارے اپنی منزل کی طرف رواں ہوتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ اچانک طوفان کی زد میں آجاتے ہیں اور موج انہیں ہر طرف سے گھیرے میں لے لیتی ہے، تو پورے اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارنے لگتے ہیں، اور دل میں اللہ سے وعدہ کرتے ہیں کہ اگر انہیں موت سے نجات مل گئی تو اللہ کے شکر گزار بندے بن جائیں گے، لیکن جب انہیں اس بھنور سے نجات مل جاتی ہے تو پھر سے کبر و عناد کرنے لگتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں مخاطب کر کے کہا کہ تمہاری سرکشی تمہارے علاوہ کسی اور کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔ اور یہ کہ دنیا کی زندگی چندہ روزہ ہے، پھر تمہیں اللہ کے پاس ہی لوٹ کر جانا ہے، جہاں اللہ تمہیں تمہارے کرتوتوں کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ یونس
23 یونس
24 (٢٢) دنیا کی بے ثباتی کو ایک دوسری مثال کے ذریعہ بیان کیا جارہا ہے کہ جس لہلہاتے پودے کچھ ہی دنوں کے بعد مرجھا جاتے ہیں اور پھر خشک ہو کر اپنی تازگی اور خوبصورتی کھو بیٹھتے ہیں وہی حال دنیا کا ہے کہ یہ اپنی عارضی رونق سے لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیتی ہے، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے زندگی کے ایام ختم ہوجاتے ہیں اور موت آدبوچتی ہے اور سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاتا ہے اور آدمی دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔ یونس
25 (٢٣) دنیا کی بے ثباتی بیان کرنے کے بعد اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اس جنت کو حاصل کرنے کی ترغیب دلائی ہے جو امن و سلامتی کا گھر ہے، جہاں اہل جنت کو کوئی پریشانی اور کوئی مصیبت لاحق نہیں ہوگی۔ یونس
26 (٢٤) اسلام کی دعوت آنے کے بعد لوگ دو جماعتوں میں بٹ گئے، ایک جماعت نے اس دعوت کو قبول کیا، دنیا کی رنگینیوں اور خواہشات نفس سے ہٹ کر اللہ کی رضا جوئی کو اپنا مقصد حیات بنایا، اور اس کی اس طرح عبادت کی کہ جیسے وہ اللہ کو دیکھ ہے ہوں، ایسے مومنین مخلصین کو اللہ تعالیٰ نے جنت کی خوشخبری دی ہے اور اس سے بھی عظیم تر نعمت دیدار کا وعدہ کیا ہے، امام احمد اور امام مسلم نے صہیب رومی سے روایت کی ہے کہ آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی اور کہا کہ جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں داخل ہوجائیں گے، تو ایک منادی آواز لگائے گا کہ اے اہل جنت ! اللہ نے تم سے ایک وعدہ کیا تھا، جسے اب پورا کرنا چاہتا ہے، وہ لوگ کہیں گے کہ کیا اللہ نے ہمارے ترازوں کو بھاری نہیں بنا دیا، کیا ہمارے چہروں کو روشن نہیں کردیا اور ہمیں جہنم سے ہٹا کر جنت میں داخل نہیں کردیا، اب اور کیا چیز باقی ہے؟ تو اللہ ] پردہ ہٹا دے گا، اور جنتی اسے دیکھنے لگیں گے، اللہ کی قسم، اس نعمت دیدار سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہوگی، اور اس سے بڑھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والی کوئی شے نہیں ہوگی۔ اور دوسری جماعت نے دعوت سلام کو ٹھکرا دیا، دنیا کی رنگینیوں میں کھو گئے اور شرک و معاصی کا ارتکاب کیا، ایسے لوگوں کو اللہ نے جہنم کی خوشخبری دی ہے، جس سے بڑح کر کوئی ذلت و رسوائی نہیں ہوگی، اور اللہ کے اس عذاب سے کوئی انہیں نہیں بچا سکے گا۔ یونس
27 یونس
28 (٢٥) جن لوگوں نے دعوت اسلام کو ٹھکرا دیا، اور شرک باللہ کی راہ کو اختیار کیا، جب میدان محشر میں اپنے شرکاء کے ساتھ اکٹھا کیے جائیں گے، تو اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا کہ تم سب اپنی اپنی جگہ ٹھہرے رہو، یہاں تک کہ تمہیں اپنے شرک کا انجام معلوم ہوجائے، اس کے بعد مشرکین اور ان کے شرکاء کے درمیان کے تمام تعلقات ختم کردیے جائیں گے، مشرکین کو اپنے شرکاء سے کسی شفاعت کی امید باقی نہیں رہے گی، اور شرکاء اپنا دامن جھٹک کر کہہ پڑیں گے کہ تم ہماری نہیں بلکہ شیطان کی عبادت کرتے تھے۔ اور اللہ شاہد ہے کہ نہ ہم نے تمہیں اپنی عبادت کا حکم دیا تھا اور نہ ہم نے ایسا چاہا تھا اور نہ ہمیں اس کا کچھ علم ہے، اس وقت مشرکین کی بے بسی اور حسرت و یاس کا کیا عالم ہوگا، اس کا تصور اس جہاں میں نہیں کیا جاسکتا، ان شرکاء میں انسان، جن، فرشتے اور پتھر کے بنے بت سبھی ہوں گے، فرشتے، انبیاء اور نیک لوگ تو اپنی زبانوں سے اعلان برات کردیں گے، اور وہ دنیا میں بھی ان شرکیہ اعمال سے راضی نہیں تھے، اور جو پتھر کے بنے بت ہوں گے انہیں بھی اللہ تعالیٰ اس دن قوت گویائی دے گا تاکہ مشرکوں سے اعلان برات کردیں، بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ قول مجازی ہوگا، یعنی وہ بت اپنی زبان حال سے اعلان برات کر رہے ہوں گے۔ یونس
29 یونس
30 (٢٦) میدان محشر میں جب نفسی نفسی کا عالم ہوگا اور ہر آدمی پر خوف طاری ہوگا، ہر ایک شخص اپنے اچھے اور برے اعمال کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوگا، کچھ لوگوں کے اعمال رد کئے جارہے ہوں گے، تو کچھ کے قبول کیے جارہے ہوں گے، کچھ کے نیک اعمال بہت ہی اچھی شکل میں ان کے سامنے آئیں گے اور کچھ کے برے اعمال بہت بدشکل ہوں گے، اور ہر آدمی اپنے دنیاوی اعمال کا مزہ اپنے کام و دہن اور دل و دماغ میں محسوس کررہا ہوگا، اس وقت تمام جھوٹے معبود غائب ہوچکے ہوں گے، اور تمام بنی نوع انسان اپنے مولائے حقیقی کے روبرو ہوں گے جو بلا شرک غیرے انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ یونس
31 (٢٧) میدان محشر میں مشرکین کا حال زار بیان کرنے کے بعد ان کے شرک کے خلاف دلائل و براہین پیش کئے جارہے ہیں، اور انہیں دعوت فکر و نظر دی جارہی ہے، کہ جب تم اعتراف کرتے ہو کہ وہی ذات واحد سب کا روزی رساں ہے، اسی نے سننے اور دیکھنے کی صلاحیت دی ہے، وہی زندہ کر مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے، یعنی پھل کو گٹھلی سے اور گٹھلی کو پھل سے، مومن کو کافر سے اور کافر کو مومن سے، انڈے کو مرغی سے اور مرغی کو انڈے سے نکالتا ہے اور وہی سارے جہاں کا تنہا مدبر ہے، تو پھر تمہیں کیسے ڈر نہیں لگتا ہے کہ اسے چھوڑ کر غیروں کی پرستش کرتے ہو؟ آیت (٣٢) میں اسی مضمون کو مزید تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ جو اللہ سارے جہاں کا پالنے والا ہے، اور جو ان تمام امور کا فاعل حقیقی ہے جن کا اوپر ذکر ہوا ہے وہی تمہارا معبود حقیقی ہے، اور حق و باطل کے درمیان کوئی تیسری راہ نہیں ہے، اس لیے اس کے علاوہ کوئی بھی معبود نہیں ہے، تو اے مشرکین تم توحید باری میں اللہ تعالیٰ کی راہ چھوڑ کر کیوں شرک کی راہ پر چلے جارہے ہو۔ یونس
32 یونس
33 (٢٨) مشرکین نے اللہ تعالیٰ کے لیے صفات ربوبیت کا اعتراف کرنے کے باوجود جب شرک پر اصرار کیا اور اللہ کے بجائے غیروں کی عبادت کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ کا ان کے بارے میں فیصلہ صادر ہوگیا کہ وہ لوگ بدبخت جہنمی ہیں، اب کبھی بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ یونس
34 (٢٩) مشرکین کے خلاف مزید حجت قائم کی جارہی ہے، کہ اے میرے نبی ذرا ان مشرکین سے پوچھیے تو سہی کہ کیا تمہارے شرکاء میں کوئی ہے جو انسان کو نطفہ سے پیدا کرے، پھر ایک مدت مقررہ کے بعد اس پر موت طاری کردے، اور پھر قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرے ؟ آپ کہہ دیجیے کہ یقینا جواب یہی ہے کہ کوئی نہیں ہے وہ صرف اللہ ہے جو اس پر قادر ہے، تو پھر تم کیسے اس کے سوا غیروں کی عبادت کرتے ہو؟ یونس
35 (٣٠) ان مشرکین کے خلاف ایک اور حجت قائم کی جارہی ہے، کہ اے میرے نبی ذرا سن سے یہ بھی تو پوچھیے کہ کیا تمہارے شرکاء میں کوئی ہے جو بھٹکتے ہوئے انسانوں کی رہنمائی کرے؟ آپ کہہ دیجیے کہ یقینا جواب یہی ہے کہ کوئی نہیں ہے، وہ صرف اللہ ہے جو اس پر قادر ہے، تو پھر عبادت صرف اسی کی ہونی چاہیے نہ کہ ان بتوں کی جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے میں بھی دوسروں کے محتاج ہیں، یہ کیسی تمہاری کم عقلی ہے اور کیسا جائرانہ فیصلہ ہے؟ یونس
36 (٣١) یہ مشرکین جو بتوں کو اپنا معبود سمجھتے ہیں، تو ان کے پاس اوہام و خیالات اور قیاس فاسد کے علاوہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور معلوم ہے کہ اوہام و خیالات سے حقائق نہیں بدل جاتے ہیں، اس لیے یہ مشرکین جان رکھیں کہ اللہ ان کے تمام مشرکانہ اعمال کو ریکارڈ میں لارہا ہے جن کا بدلہ قیامت کے دن انہیں ضرور دے گا۔ یونس
37 (٣٢) گزشتہ آیتوں میں توحید باری تعالیٰ کو دلائل و براہین کے ذریعہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور اب نبی کریم کی صداقت اور وحی الہی کی حقانیت کی بات کی جارہی ہے، اس موضوع پر کچھ روشنی اس سورت کی ابتدا میں بھی ڈالی جاچکی ہے، دیکھیے آیت (١، ٢) کی تفسیر۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ قرآن کریم جو فصاحت و بلاغت کی اس حد کو پہنچا ہوا ہے جو انسان کی سوچ سے بالا تر ہے، جس میں بنی نوع انسان کی دنیاوی اور اخروی بھلائی کے لیے تمام ممکن معانی و مضامین موجود ہیں، وہ اللہ کے بجائے کسی انسان کا گھڑا ہوا کلام نہیں ہوسکتا، یہ تو وہ کلام ربانی ہے جو تمام سابقہ کتب سماویہ کی تصدیق و تائید کرتا ہے، اور ان میں جو تحریفات کی گئی ہیں انہیں کھول کر بیان کرتا ہے، اور حلال و حرام اور دیگر تمام احکام جن کا تعلق انسانی زندگی سے ہے انہیں اس تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ کسی صاحب عقل کے دل میں شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے۔ یونس
38 (٣٣) اللہ تعالیٰ نے مشرکین عرب کو اس قرآن کے سلسلے میں تین مراحل میں چیلنج کیا، ابتدا میں پورے قرآن جیسا لانے کا چیلنج کیا، چنانچہ سورۃ الاسراء آیت (٨٨) میں فرمایا : (قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القرآن لا یاتون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظھیرا) اور جب اہل عرب اپنی تمام لسانی فصاحتوں اور بلاغتوں کے دعووں کے باوجود ایسا کرنے سے عاجز رہے تو اللہ تعلای نے قرآن کریم جیسی دس ہی سورتیں لانے کا چیلنج کیا، جیسا کہ سورۃ ہود آیت (١٣) میں فرمایا : (ام یقولون افتراہ قل فاتوا بعشر سورمثلہ مفتریات وادعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صادقین) اور جب اس پر بھی خاموش رہے اور ان کے لسانی غرور کا صنم ان ہی کے قدموں میں چکنا چور ہوگیا، تو قرآن کریم نے ان کے کبر و غرور کے تابو میں آخری کیل ٹھوک دی، اور کہا کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ قرآن محمد کا خود ساختہ کلام ہے تو تم بھی انہی جیسے انسان ہو، ذرا قرآن جیسی ایک سورت لاکر دکھا دو، اور اپنی مدد کے لیے جسے چاہو بلا لو، اس چیلنج کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی یہ آیت نازل فرمائی : (ام یقولون افتراہ قل فاتوا بسورۃ مثلہ وادعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صادقین) لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اس چیلنج کا جواب آج تک کوئی نہ دے سکا، اور نہ قیامت کے دن تک کوئی دے سکے گا، اس لیے کہ یہ قرآن اللہ کا معجزہ ہے، کوئی انسان اس جیسا کلام نہیں لاسکتا۔ یونس
39 (٣٤) جب کفار عرب کی جانب سے اس چیلنج کا کوئی جواب نہیں ملا، اور نہ ہی ملنا تھا، اور ان کے پاس قرآن کریم اور نبی کریم کی نبوت کے انکار کا کوئی عقلی اور نقلی جواز باقی نہ رہا، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کافروں نے قرآن کریم کو کبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی، چونکہ ان کی خواہش کے مطابق نہیں تھا اس لیے بغیر سوچے سمجھے انکار کردیا، اور اس میں ہدایت اور نور حق کی جو بات ہے اس سے محروم رہے۔ آیت (٤٠) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو خبر دی ہے کہ یہ قرآن تو اللہ کا بنی نوع انسان کے لیے عظیم انعام ہے، اللہ تعالیٰ جن پر رحم کرے گا وہی اس پر ایمان لے آئیں گے اور اس نور حق سے مستفید ہوں گے اور جو شقی ہوں گے وہ آپ کی ہزار کوششوں کے باوجود ایمان نہیں لائیں گے، اور اللہ کو معلوم ہے کہ کون ہدایت کا مستحق ہے اور کون گمراہی کا۔ یونس
40 یونس
41 (٣٥) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو حکم دیا کہ اگر مشرکین عرب آپ کی تکذیب پر مصر رہیں تو ان سے اعلان برات کردیجیے، اس لیے کہ آپ نے ان کے لیے کوئی عذر باقی نہیں چھوڑا ہے۔ آیات (٤١، ٤٢، ٤٣) میں بتایا گیا ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگ چکی ہے، ان سے ایمان کی توقع نہیں کی جاسکتی، جب آپ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو وہ بظاہر سنتے تو ہیں، لیکن اس سے کوئی استفادہ نہیں کرتے، اس لیے کہ وہ بہرے ہیں اور عقل سے بھی محروم ہیں، اور آپ کی طرف وہ بظاہر دیکھتے بھی ہیں، لیکن اس سے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، اس لیے کہ وہ بصارت اور نور بصیرت دونوں سے محروم ہیں۔ اس کے بعد آیت (٤٤) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن کریم پر ان کا ایمان نہ لانا، ان کے شامت اعمال کا نتیجہ ہے، جب انہوں نے کبر و غرور میں آکر حق کا انکار کردیا اور باطل پر اصرار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے ایمان و عمل کی توفیق چھین لی، اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے۔ امام مسلم نے ابو ذر غفاری سے حدیث قدسی روایت کی ہے کہ اے میرے بندو ! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کردیا ہے، اور تمہارے آپس میں بھی اسے حرام کردیا ہے، اس لیے ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو، اس کے بعد فرمایا : اے میرے بندو ! تمہارے اعمال کو میں گن رہا ہوں، پھر میں تمہیں پورا کا پورا لوٹا دوں گا، تو جو کوئی اچھا نتیجہ پائے وہ اللہ کا شکر ادا کرے اور جو برا نتیجہ پائے وہ اپنے آپ کو کوسے۔ یونس
42 یونس
43 یونس
44 یونس
45 (٣٦) اس آیت کریمہ میں قیامت کی ہولناکیوں کی منظر کشی کی گئی ہے، کہ جب لوگ اپنی قبروں سے نکل کر میدان محشر میں جمع ہوں گے، تو مارے دہشت کے دنیا کی لذتوں کو بھول جائیں گے اور کہیں گے کہ ہم تو بہت تھوڑی دیر دنیا میں رہے تھے، اور دنیا میں جتنے لوگ ایک دوسرے کو جانتے پہچانتے تھے وہ سبھی وہاں بھی ایک دوسرے کو پہچان لیں گے، لیکن کچھ ہی دیر کے بعد ان میں سے ہر ایک اپنے حال میں مشغول ہوجائے گا، اور کوئی کسی میں دلچسپی نہیں لے گا، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جو لوگ یوم آخرت کی تکذیب کرتے ہیں، ان کا خسارہ بڑا خسارہ ہے، اور وہ کبھی بھی راہ ہدایت پر گامزن نہیں ہوسکتے ہیں، اس لیے کہ بعث بعد الموت اور آخرت پر ایمان ہی راہ راست پر چلنے کا بڑا سبب ہے۔ یونس
46 (٣٧) نبی کریم کو خطاب کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ان کافروں سے جو کہہ رکھا ہے کہ آپ کا دین غالب ہو کر رہے گا اور مسلمان انہیں یا تو قتل کریں گے یا پابند سلاسل بنائیں گے، تو ممکن ہے کہ آپ یہ سب کچھ اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں، اور اگر اس کے پہلے ہی اللہ نے آپ کو اٹھا لیا، تو وہ لوگ ہم سے بچ کر کہاں جائیں گے، آخر تو انہیں مرنے کے بعد ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے، اور ہم ان کے کرتوتوں کو دیکھ رہے ہیں، اور ان کے خلاف اپنی شہادتیں جمع کر رہے ہیں، تو وہاں آخرت میں ہم انہیں ضرور عذاب دیں گے، اور آپ اپنی آنکھوں سے انہیں اس حال زار میں دیکھ لیں گے۔ چنانچہ میدان بدر اور دوسری جنگوں میں ان میں سے بہت سے مارے گئے، اور بہت سے قیدی بنائے گئے، وار ان کے کبر و غرور کا بت پاش پاش ہوگیا، اور رسول اللہ نے اپنی آنکھوں سے انہیں ذلیل و رسوا ہوتے دیکھ لیا، اور اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ سے کیا ہوا اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ یونس
47 (٣٨) گزشتہ زمانوں میں اللہ تعالیٰ ہر قوم کی رہنمائی کے لیے ایک رسول بھیجتا رہا ہے، اور رسول آجانے کے بعد جس قوم نے بھی اسے جھٹلایا، تو اللہ تعالیٰ نے عدل و انصاف کے ساتھ ان کے درمیان فیصلہ کردیا، کہ رسول اور اس کے پیروکاروں کو نجات دے دی، اور اس کے جھٹلانے والوں کو عذاب میں مبتلا کردیا، اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب ہر قوم کا نبی میدان محشر میں اپنی قوم کے سامنے آجائے گا تو اللہ تعالیٰ ان کا فیصلہ عدل و انصاف کے ساتھ کردے گا۔ یونس
48 (٣٩) نبی کریم جب بھی کفار قریش کو عذاب کی دھمکی دیتے تو وہ لوگ آپ کا مذاق اڑاتے اور کہتے کہ اگر تم اپنے دعوے نبوت میں سچے ہو تو کہاں ہے تمہارا وعدہ، کیوں نہیں عذاب اتر جاتا ہم پر؟ تو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو یہ جواب دینے کے لیے کہا کہ میں تو خود اپنی ذات کے لیے کسی حصول نفع یا دفع ضرر کا اختیار نہیں رکھتا سوائے اس کے جو مجھے اس کی مرضی سے حاصل ہوتا ہے، تو پھر میں تمہاری مرضی کے مطابق تم پر اللہ کا عذاب کیسے لاسکتا ہوں؟ بس اتنی بات جانتا ہوں کہ ہر امت کا ایک وقت مقرر ہے جب وہ وقت آجائے گا تو ایک لمحہ نہ پیچھے ہوگا نہ آگے۔ امام شوکانی نے لکھا ہے کہ یہ آیت صریح دلیل ہے کہ کسی مصیبت کے وقت رسول اللہ کو پکارنا اور ان سے مدد طلب کرنا شرک اکبر ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی دوسری ذات اس پر قادر نہیں ہے، چاہے وہ کوئی نبی ہو یا ولی یا اللہ کا کوئی نیک بندہ۔ یونس
49 یونس
50 (٤٠) جو کفار مکہ نبی کریم سے بطور استہزا عذاب آجانے کی جلدی کرتے تھے، انہی کو نبی کریم کی زبانی دوسرا جواب دیا جارہا ہے کہ ذرا تم لوگ بتاؤ تو سہی کہ اگر اللہ کا عذاب رات کو خواب غفلت کی حالت میں یا دن کو کام کاج میں مشغولیت کے وقت آجائے تو کیا تم لوگ اسے برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہو؟ جب ایسی بات نہیں ہے تو اے مجرمو ! تم عذاب کی جلدی کیوں مچائے ہوئے ہو۔ یہ کوئی ایسی چیز تو نہیں ہے جس کے لیے جلدی کی جائے، کیا تم لوگ اپنے کفر و عناد پر اڑے رہنا چاہتے ہو، یہاں تک کہ جب عذاب آجائے تو ایمان لے آؤ۔ یاد رکھو ایسا ایمان تمہارے کام نہیں آئے گا، اس وقت تو اللہ تم سے کہے گا کہ اب ایمان لے آئے ہو، حالانکہ اس کے پہلے تو تم بطور استہزا و انکار عذاب کی جلدی مچائے ہوئے تھے۔ آیت (٥٢) میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن ان ظالموں کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ اب ہمیشہ کے لیے اپنے کرتوتوں کے بدلے عذاب کا مزا چکھتے رہو۔ یونس
51 یونس
52 یونس
53 (٤١) کفار مکہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا بار بار اور مختلف انداز میں مذاق اڑاتے تھے، جیسا کہ ابھی اوپر گزر چکا ہے، اور ان کا جواب بھی دیا جاچکا ہے، اسی قسم کا ان کا یہ سوال بھی تھا جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ اے محمد ! تم جو عذاب کی بات کرتے ہو، تو کیا واقعی سچ ہے؟ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو انہیں جواب دینے کو کہا کہ ہاں، میرے رب کی قسم، یہ بات بالکل صحیح ہے، اور تم اللہ کو اس سے روک نہیں سکو گے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ نبی کریم نے اللہ کے حکم سے اس کے نام کی قرآن میں تین جگہ قسم کھائی ہے۔ ایک اس آیت میں کافروں کو عذاب الہی کی یقین دہانی کرانے کے لیے، دوسری سورۃ سبا آیت (٣) (وقال الذین کفروا لا تاتین الساعۃ قل بلی وربی لتاتینکم) میں قیامت کی یقین دہانی کراتے ہوئے اور تیسری سورۃ تغابن آیت (٧) (زعم الذین کفروا ان لن یبعثوا قل بلی وربی لتبعثن ثم لتنبون بما عملتم وذلک علی اللہ یسیر) میں موت کے بعد کی زندگی کے اثبات کے لیے۔ یونس
54 (٤٢) اس آیت میں قیامت کے دن کی منظر کشی کی گئی ہے، کہ اس دن ظالم لوگ چاہیں گے کہ کاش وہ پوری دنیا دے کر اللہ کے عذاب سے اپنی جان کا چھٹکارا کرالیتے، اور وہ اپنے کیے پر دل میں افسوس کریں گے، اور ان کے حق میں اللہ کا فیصلہ پورے عدل و انصاف کے ساتھ صادر ہوگا۔ یونس
55 (٤٣) آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اس کا مالک صرف اللہ ہے، وہ جس طرح چاہتا ہے ان میں تصرف کرتا ہے، اس لیے جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جس پر چاہتا ہے رحم کرتا ہے، اس پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا، اور جان لو کہ اللہ نے کافروں سے عذاب کا جو وعدہ کر رکھا ہے وہ بالکل حق ہے، لیکن اکثر لوگ اس کا یقین نہیں رکھتے ہیں، اسی لیے کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں اور وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، اس لیے کافروں کو بھی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا اور ان کے کیے کا انہیں بدلہ چکائے گا۔ یونس
56 یونس
57 (٤٤) عقیدہ توحید، نبی کریم کی صداقت، اور بعث بعد الموت کی حقانیت ثابت کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے عرب و عجم کے تمام بنی نوع انسان کو قرآن کریم کی عظمت کا احساس دلایا ہے، اور اس کی عظیم ترین خوبیوں کو بیان کر کے گویا انہیں دعوت دی ہے کہ جب قرآن ان گنت خوبیوں والی کتاب ہے، تو اس پر ایمان لاکر اپنی دنیا و آخرت کیوں نہیں سدھار لیتے؟ قرآن کریم میں انسانوں کے لیے ہر قسم کی نصیحت ہے، اس کے ذریعہ شک و شبہ اور کفر و نفاق کی بیماریوں سے شفا ملتی ہے، اور یہ مومنوں کے لیے ہدایت اور باعث رحمت ہے۔ آیت (٥٨) میں قرآن کریم کو اللہ کے فضل اور اسلام کو اس کی رحمت سے تعبیر کیا گیا ہے اور ان دونوں کو دنیا و مافیہا سے بہتر بتایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ مومنوں کو ان دونوں نعمتوں کے حصول پر خوشی منانی چاہیے، نہ کہ دنیا کی فانی اشیاء پر، ابن عباس (رض) سے یہی تفسیر منقول ہے۔ یونس
58 یونس
59 (٤٥) نبی کریم کی نبوت کی تصدیق و تائید کے لیے کہا جارہا ہے کہ اے کفار مکہ ! تم جو بعض چیزوں کو حلال اور بعض کو حرام کہتے ہو، اگر یہ فیصلے تمہاری خواہش نفس کے ہیں تو کسی بھی عقلمند آدمی کے نزدیک قابل قبول نہیں ہیں، اور اگر یہ سمجھتے ہو کہ یہ اللہ کا فیصلہ ہے، تو بھی غلط ہے، کیونکہ اللہ کے اوامر و احکام کا علم تو صرف انبیاء کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے، اور تمہارے زمانے کے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، اس لیے اللہ کے نزدیک حلال و حرام اشیاء کا علم انہی کے ذریعہ ہوسکتا ہے۔ آیت (٦٠) میں ان لوگوں کے لیے زبردست دھمکی ہے جو اللہ پر افترا پردازی کرتے ہوئے کچھ چیزوں کو حلال اور کچھ کو حرام بناتے ہیں، اور ان سے کہا جارہا ہے کہ قیامت کے دن ان کے ساتھ کیا کیا جائے گا؟ اس بارے میں ان کا کیا خیال ہے؟ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اس کا لوگوں پر بڑا فضل و احسان ہے کہ ان کی دینی اور دنیوی خیر خواہی کرتے ہوئے قرآن نازل کیا اور حلال و حرام کو بیان کیا۔ یونس
60 یونس
61 (٤٦) نبی کریم کو خبر دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے، وہ ذات باری تعالیٰ آپ، آپ کی امت، اور تمام مخلوقات کے حالات سے ایک ہی وقت میں باخبر رہتا ہے، اس لیے صرف وہی عبادت کے لائق ہے، بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس میں ان لوگوں کی تردید کی گئی ہے جو یہ گمان کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ جزئیات کی خبر نہیں رکھتا ہے۔ یونس
62 (٤٧) جب اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے تو وہ اپنے دشمنوں اور دوستوں کو بھی جانتا ہے، اوپر کی آیتوں میں اس کے دشمنوں یعنی کفار و منافقین کا ذکر تفصیل سے آچکا، تو اب مندرجہ ذیل تین آیتوں میں اس کے دوستوں کا ذکر کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اس کے دوستوں کو نہ ماضی کا غم لاحق ہوگا اور نہ مستقبل کا کوئی خوف۔ آیت (٦٤) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہیں دنیا اور آخرت دونوں جگہ اپنی رحمت، رضامندی اور جنت کی خوشخبری دی ہے۔ امام احمد، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہم نے ابو الدرداء اور عبادہ بن صامت سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : دنیاوی زندگی میں بشارت سے مراد نیک خواب ہے جو مسلمان آدمی دیکھتا ہے۔ اور قرآن و سنت سے یہ بھی ثابت ہے کہ فرشتے موت سے پہلے اللہ کے نیک بندوں کو جنت کی خوشخبری دے دیتے ہیں۔ آیت میں اولیاء سے مراد وہ مخلص اہل ایمان ہیں جو اللہ کی بندگی اور گناہوں سے اجتناب کی وجہ سے اس سے قریب ہوجاتے ہیں۔ یہاں ان کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اہل ایمان ہوتے ہیں اور گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں۔ ولی کا معنی قریب ہے، یعنی مومن جب ایمان اور عمل صالح پر کاربند ہوتا ہے اور شرک اور دوسرے گناہوں سے دور رہتا ہے تو اللہ سے قریب ہوجاتا ہے، علماء نے لکھا ہے کہ ولایت کی ایک نشانی یہ ہے کہ ولی مستجاب الدعوات ہوتا ہے، یعنی اس کی دعا اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے، اور مسند بزار میں ابن عباس سے مروی ہے کہ ایک شخص نے پوچھا، اے اللہ کے رسول ! اللہ کے اولیاء کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا : جنہیں دیکھ کر اللہ یاد آئے۔ آیت (٦٤) کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ اس کا وعدہ کبھی بھی بدل نہیں سکتا، یعنی وہ اپنے نیک بندوں کو جنت میں ضرور داخل کرے گا اور اس سے بڑھ کر کونسی کامیابی ہوسکتی ہے۔ یونس
63 یونس
64 یونس
65 (٤٨) نبی کریم کافروں کی استہزا آمیز باتوں سے کبھی دل برداشتہ ہوجاتے تھے، تو اللہ نے فرمایا کہ آپ کافروں کی جھوٹی باتوں کی پرواہ نہ کریں اور غم نہ کھائیں، اس لیے کہ آسمان و زمین کی مملکت میری ہے، اور میں ہر چیز پر ہر حال میں غالب ہوں، اس لیے یہ کفار آپ پر کبھی بھی غالب نہیں آسکیں گے، عزت و غلبہ آپ ہی کو ملے گا۔ یونس
66 (٤٩) آسمانوں و زمین کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے، لیکن اس کے باوجود مشرکین ان بتوں کی پوجا کرتے ہیں، جن کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے، اور مشرکین کے پاس بتوں کی عبادت کے جواز میں سوائے خیالات و اوہام کے کوئی دلیل بھی نہیں ہے۔ آیت (٦٧) میں اللہ تعالیٰ نے اپنے قادر مطلق ہونے کی ایک اور دلیل پیش کی ہے کہ رات کو سکون کے لیے اور دن کی روشنی کام کرنے کے لیے اسی نے بنائی ہے، تو پھر اس کے علاوہ کون عبادت کا حقدار ہوسکتا ہے؟ یقینا وہی ذات واحد ہر قسم کی بندگی اور خشوع و خضوع کا مستحق ہے۔ یونس
67 یونس
68 (٥٠) مشرکین کی ایک نہایت ہی دل آزار بات یہ تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد ثابت کرتے تھے، کہتے تھے کہ یہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں، اسی طرح یہود کہتے تھے کہ عزیر اللہ کے بیٹا ہیں، اور نصاری کہتے تھے کہ عیسیٰ اللہ کے بیٹا ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول باطل کی تردید کی اور کہا کہ وہ اس بہتان سے یکسر پاک ہے، اس لیے کہ وہ غنی ہے کسی چیز کا محتاج نہیں ہے، اولاد تو اس کی ہوتی ہے جو محتاج ہوتا ہے، اور وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، اور اولاد تو اسے چاہیے جسے ختم ہوجانا ہے، تاکہ لڑکا اس کی جگہ لے سکے، اور اس لیے کہ آسمان و زمین کی ہر شے کو اسی نے پیدا کیا ہے، اور اسی کی ملکیت ہے، تو پھر یہ کیوں کر ممکن ہے کہ آقا اپنے ایک غلام کو اپنا بیٹا بنا لے، اور اس لیے بھی کہ مشرکین کے پاس اس باطل دعوی کی کوئی دلیل نہیں ہے، محض کم عقلی اور جہالت کی بنیاد پر ایسی باتیں کرتے ہیں۔ اس کے بعد آیات (٦٩، ٧٠) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم سے فرمایا کہ آپ مشرکین سے کہہ دیجیے کہ یہ اللہ پر افترا پردازی ہے، اور مفتری کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا، اور اگر وقتی طور پر ان کا کوئی مقصد حاصل ہو بھی جائے تو وہ دنیاوی حقیر سا فائدہ ہوگا، بالاخر انہیں مرنے کے بعد اللہ کے پاس جانا ہے، جہاں وہ ان کے کفر اور افترا پردازی کی سخت سزا دے گا۔ یونس
69 یونس
70 یونس
71 (٥١) چونکہ مشرکین عرب کا حال کفر و شرک میں قوم نوح جیسا تھا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو حکم دیا کہ انہیں قوم نوح کا واقعہ سنا دیجیے، جب ان لوگوں نے اپنے کفر و شرک پر اصرار کیا اور نوح (علیہ السلام) کی ہزار کوشش کے باوجود اسلام نہیں لائے تو اللہ نے انہیں طوفان کے حوالے کردیا، تو اے مشرکین عرب ! کہیں کفر و سرکشی اور شرک پر تمہارے اصرار کی وجہ سے تمہارا انجام بھی انہی جیسا نہ ہو، نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر تمہارے ساتھ میرا رہنا، اور دعوت الی اللہ کا کام کرنا تم پر بہت زیادہ گراں ہوگیا ہے تو میں نے بھی اب اپنی طرف سے دفاع کے لیے اللہ پر بھروسہ کرلیا ہے، تم اور تمہارے شرکاء مجھے ہلاک کرنے کی جو چاہو تدبیر کرلو، اور دیکھو ! بالکل کھل کر تدبیر کرو، کوئی کسر نہ اٹھا رکھو، پھر قتل یا شہر بدر کرنے کی جو بھی کوشش کرنی چاہتے ہو کر گزرو، اور مجھے ایک لمحے کی مہلت نہ دو۔ میں نے آج تک تمہیں راہ راست پر لانے کی جتنی بھی کوشش کی اس کا مقصد کوئی دنیاوی حقیر فائدہ حاصل کرنا نہیں تھا، اور نہ میں نے تم سے اس کام کی کبھی کوئی اجرت مانگی ہے، کہ تم لوگ مجھے متہم کرو۔ میرا اجر و ثواب تو مجھے میرا اللہ دے گا، چاہے تم ایمان لاؤ یا انکار کردو، اور مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں ہر حال میں اللہ کا مطیع و فرمانبردار رہوں، جب ان تمام تر کوششوں اور نصیحتوں کے باوجود ان کی قوم نے انہیں جھٹلا دیا، تو اللہ نے انہیں اور ان کے ماننے والوں کو کشتی میں سوار کر کے طوفان سے بچا لیا، جن کی اولاد کے ذریعہ پھر سے دنیا آباد ہوئی، اور اللہ کی آیتوں کو جھٹلانے والے سبھی لوگ ڈبو دیئے گئے۔ یونس
72 یونس
73 یونس
74 (٥٢) اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کے بعد ہود، صالح، ابراہیم، لوط اور شعیب علیہم السلام کو ان کی قوموں کی طرف معجزے اور شریعتیں دے کر مبعوث کیا، لیکن چونکہ کفار کی فطرت میں کجی تھی، اور حق و صداق کو جھٹلانا ان کی دیرینہ عادت تھی، اسی لیے جب اللہ نے خاص طور سے ان میں سے ہر ایک کے لیے نبی بھیجا تو انہوں نے اس کی تکذیب کردی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم اللہ کے حدود سے تجاوز کرنے والوں کے دلوں پر اسی طرح مہر لگا دیتے ہیں۔ یعنی بندہ جب گناہ کرتا جاتا ہے اور توبہ نہیں کرتا، تو گناہ کرنا اس کی طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے اور اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے، پھر اسے ایمان و عمل صالح کی توفیق نہیں ہوتی اور اس کے دل میں خیر و شر کی تمیز باقی نہیں رہتی۔ یونس
75 (٥٣) موسیٰ اور ہارون کی جلالت شان اور فرعون کے ساتھ عقیدہ توحید کے سلسلے میں ان کا جو مناظرہ ہوا اس کی خاص اہمیت کے پیش نظر ان کا ذکر مستقل طور پر کیا گیا ہے، جب موسیٰ اور ہارون علیہما السلام دعوت توحید لے کر فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کے پاس گئے تو انہوں نے استکبار سے کام لیا، اور اسے قبول کرنے سے انکار کردیا، اس لیے کہ ان کے سابقہ جرائم کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگ چکی تھی، اور جب آسمانی معجزوں کے آگے اپنے آپ کو بے بس پایا تو کہنے لگے کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں جواب دیا کہ کیا تم اللہ کی طرف سے بھیجے گئے حق کو جادو کہتے ہو؟ یہ جادو کیسے ہوسکتا ہے؟ اگر جادو ہوتا تو تمہارے ماہر جادوگروں پر میں کیسے غالب آجاتا، اور ان کے جادو کو میں کیسے یکسر ناکام بنا دیتا، جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا، جب فرعون نے اس قطعی دلیل کے سامنے اپنے آپ کو بالکل عاجز پایا تو کہنے لگا کہ کیا تم ہمیں ہمارے آباء و اجداد کے دین سے برگشتہ کرنا چاہتے ہو؟ اور کیا تم چاہتے ہو کہ ہم تمہیں اپنا حاکم و آقا مان لیں؟ ایسا نہیں ہوسکتا ہم تم پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ اسی دنیاوی بڑائی اور کرسی کی محبت نے ہر دور میں کتنوں کو قبول حق سے روک دیا، اور اپنے آپ کو باطل پر سمجھتے ہوئے، اس پر اصرار کیا، اسی بیماری کی وجہ سے کتنے کفر پر، کتنے بدعت پر، اور کتنے صحیح حدیث ہونے کے باوجود اپنی فاسد رائے پر جمے رہے۔ یونس
76 یونس
77 یونس
78 یونس
79 (٥٤) جب فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی کو اژدھا بن کر زمین پر حرکت کرتے اور ان کے ہاتھ سے نور کی شعاعوں کو پھوٹتے دیکھا، تو سمجھا کہ یہ بھی کوئی جادو ہے، اس لیے اس نے اپنے لوگوں سے کہا کہ ملک کے تمام بڑے جادوگروں کو جمع کرو، موسیٰ نے ان جادوگروں سے کہا کہ پہلے تم لوگ اپنی قوت کا مظاہرہ کرو۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ فرعون کی عزت کی قسم، بیشک ہم ہی لوگ غالب آنے والے ہیں، اور اپنی رسیوں اور لاٹھیوں کو زمین پر ڈال دیا، موسیٰ نے کہا کہ یہ جادو ہے، اللہ کا معجزہ نہیں ہے، اللہ عنقریب معجزے کی قوت سے اسے زائل کردے گا، اللہ تعالیٰ زمین میں فساد پھیلانے والوں کے عمل کو کامیاب نہیں بناتا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دی، وہ اژدھا بن کر ان کے جادو کے سانپوں کو نگل گئی، اور فرعون کے نہ چاہنے کے باوجود حق غالب ہو کر رہا، موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ واقعہ اس سورت کے علاوہ سورۃ اعراف (١١٦) سورۃ طہ آیات (٧١، ٧٢) اور سورۃ شعراء آیت (٤٩) میں بھی آیا ہے۔ یونس
80 یونس
81 یونس
82 یونس
83 (٥٥) موسیٰ (علیہ السلام) کی اس عظیم کامیابی اور فرعونیوں کی رسوا کن شکست کے بعد بنی اسرائیل کے نوجوان فرعونیوں سے ڈر اور خوف کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے، اور فرعون سے ان کے ڈرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ نہایت متکبر اور ظالم شخص تھا۔ آیات (٨٤، ٨٥، ٨٦) میں ہے کہ جب بنی اسرائیل پر خوف کے آثار ظاہر ہوئے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ اے میری قوم ! اگر تم لوگ اللہ پر ایمان لے آئے یہو، تو پھر اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ اسی پر بھروسہ کرو، تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے اللہ پر بھروسہ کرلیا، اور دعا کی کہ اے ہمارے رب ! ظالم فرعونیوں کو ہم پر مسلط نہ کر، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ہمیں عذاب دے کر دین کی طرف سے آزمائش میں ڈال دیں، اور اپنے رحم و کرم سے ہمیں ان کافروں سے نجات دے۔ یونس
84 یونس
85 یونس
86 یونس
87 (٥٦) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کے لیے مصر میں ہی الگ بستی بسائیں، کیونکہ فرعونیوں کی شکست اور بنی اسرائیل کے اسلام لانے کے بعد مسلمانوں سے فرعونیوں کی دشمنی اور سخت ہوگئی تھی، اور ان کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہوگیا تھا، ایک تو فرعونیوں کا ظلم و استبداد بڑھ گیا تھا اور دوسر یہ کہ مومن صادق اور کافر کا ایک جگہ رہنا ویسے بھی ناممکن ہوتا ہے، اہل کفر فرعون اور بتوں کے پجاری تھے، اور بنی اسرائیل اللہ کی عبادت کرنے والے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ تم لوگ اپنے گھروں کو مساجد کے طور پر استعمال کرو، اور اندر ہی نماز پڑھ لیا کرو، تاکہ فرعون کے کارندے تمہیں باہر مسجدوں میں نماز پڑھتے دکھ کر ایذا نہ پہنچائیں، اور اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ مسلمانوں کو خوشخبری دیدیں کہ اللہ انہیں دنیا میں عزت و غلبہ دے گا اور آخرت میں جنت عطا کرے گا۔ یونس
88 (٥٧) موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ ان کی ہزار کوشش کے باوجود فرعون اور اس کے سرداروں کے کبر و غرور میں کمی نہیں آئی، اور ان کا کفر و عناد بڑھتا ہی جارہا ہے، اور ان کے ایمان لانے کی کوئی امید باقی نہیں رہی ہے، تو انہوں نے ان پر بددعا کردی اور کہا کہ اے ہمارے رب ! تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو اس لیے تو اسباب زینت اور مال و دولت نہیں دی تھی کہ وہ لوگوں کو تیری راہ سے روکیں، اے اللہ ! تو ان کی دولت کو تاراج کردے اور ان کے دلوں کو سخت کردے تاکہ اب وہ اسلام لانے کی سوچیں ہی نہیں، یہاں تک کہ تیرا سخت عذاب انہیں آدبوچے، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ بدعا اللہ اور اس کے دین کی خاطر ناراضگی کے سبب اس یقین کے بعد تھی کہ اب فرعونیوں میں کوئی خیر نہیں ہے۔ یونس
89 (٥٨) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ میں نے تمہاری دعا قبول کرلی، تم دونوں حق پر قائم رہو اور جلدی نہ کرو، جب اللہ کا مقرر کردہ وقت آجائے گا تو عذاب آہی جائے گا، جلدی مچانا اور اللہ کے وعدے کا یقین نہ کرنا نادانوں کا طریقہ ہے یہاں دعا کی نسبت موسیٰ اور ہارون دونوں کی طرف کی گئی ہے، اس لیے کہ ممکن ہے کہ دعا دونوں نے کی ہو، لیکن اوپر والی آیت میں اس کی نسبت صرف موسیٰ کی طرف اس لیے کی گئی کہ صاحب رسالت دراصل وہی تھے، ہارون ان کے تابع تھے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہارون نے موسیٰ کی دعا پر آمین کہا ہو، تو دوسری آیت میں انہیں بھی دعا کرنے والا مان لیا گیا ہو۔ یونس
90 (٥٩) موسیٰ (علیہ السلام) مسلمانوں کے ساتھ جب سمندر کے پاس پہنچے، تو دیکھا کہ فرعون اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ان کا پیچھا کرتا ہوا ان کے قریب آگیا ہے اور قریب ہے کہ انہیں آلے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی لاٹھی پانی پر ماریں، انہوں نے جونہی ایسا کیا، سمندر کا پانی دو حصوں میں بٹ کر دو پہاڑوں کے مانند کھڑا ہوگیا، زمین خشک ہوگئی، اور موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ساتھ سمندر پار کر گئے، فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ (جس کی تعداد قرطبی کے قول کے مطابق پچیس لاکھ سے زیادہ تھی) موسیٰ اور بنی اسرائیل کا پیچھا کیا (جن کی تعداد تقریبا چھ لاکھ بیس ہزار تھی) اور جب بیچ سمندر میں پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے سمندر کا کھڑا پانی ان پر لوٹا دیا اور سب کے سب ہلاک ہوگئے، فرعون نے جب اپنی موت کو اپنی آنکھوں کے سامنے رقص کرتے دیکھا تو کہنے لگا کہ میں ایمان لاتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل کے لوگ ایمان لائے ہیں، اور میں اب مسلمان ہوں تو اللہ تعالیٰ نے اس کے ایمان کو رد کردیا اور کہا کہ اب ایمان کا کوئی فائدہ نہیں ہے جبکہ اس لمحہ سے پہلے تک تم نافرمانی کرتے رہے ہو، اور زمین میں فساد پھیلاتے رہے ہو، اور آج میں تمہارے جسم کو ایک اونچی زمین پر ڈال دوں گا تاکہ تم آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنے رہو، اور تاکہ لوگ جان لیں کہ تو ایک حقیر بندہ تھا اللہ اور معبود نہیں تھا۔ یونس
91 یونس
92 یونس
93 (٦٠) فرعون سے نجات دلانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر بڑے احسانات کیے، لیکن انہوں نے ان نعمتوں کا شکر ادا نہیں کیا، فرعون کی ہلاکت کے بعد پورے مصر پر بنی اسرائیل کی حکومت ہوگئی، لیکن ان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ بیت المقدس لوٹ کر جاتے جو ان کے جد اعلی ابراہیم (علیہ السلام) کا ملک تھا، اور جس پر ان دنوں عمالقہ قابض تھے، موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں عمالقہ سے جہاد کرنے کو کہا، لیکن انکار کر گئے جس کی وجہ سے اللہ نے انہیں چالیس سال تک میدان تیہ میں بھٹکتا چھوڑ دیا، پہلے ہارون اور پھر موسیٰ اسی میدان تیہ میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ بالآخر یوشع بن نون (علیہ السلام) کی قیادت میں انہوں نے عمالقہ سے جہاد کیا اور فلسطین میں داخل ہوگئے، پھر کچھ دنوں کے لیے اس پر بخت نصر قابض ہوگیا، لیکن دوبارہ بنی اسرائیل غالب آگئے، اس کے بعد ایک طویل مدت تک یونانی بادشاہوں کے قبضہ میں رہا، انہی کے زمانہ میں عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے، جن کے ساتھ یہودیوں نے سازش کر کے عیسیٰ کے شبیہ کو پھانسی دلوائی، عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان پر اٹھائے جانے کے تقریبا تین سو سال بعد یونانی بادشاہ قسطنطین دین مسیح کو خراب کرنے کے لیے حیلہ کر کے اس میں داخل ہوگیا، اور اس کے بعد نصرانیوں کا ملک شام جزیرہ اور بلاد روم پر قبضہ رہا، یہاں تک کہ امیر المومنین عمر بن الخطاب کے زمانہ میں صحابہ کرام نے ان کے ہاتھوں سے بیت المقدس کو آزاد کرایا۔ جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے کہ اس آیت میں بنی اسرائیل پر اللہ کے بے شمار احسانات کا ذکر کر کے کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے رب کی ناشکری کی، اور مرور زمانہ کے ساتھ ان کے پاس تورات کا علم ہونے کے باوجود جماعتوں میں بٹ گئے، اس کی ایک دوسری تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ نبی کریم کی بعثت سے پہلے یہود آپ کی بعثت کا انتظار کرتے تھے، لیکن آپ جب مبعوث ہوئے اور ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو اکثر یہود نے ان پر اور قرآن پر ایمان لانے سے انکار کردیا، صرف گنے چنے چند افراد اسلام میں داخل ہوئے۔ یونس
94 (٦١) یہاں مخاطب نبی کریم ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو وحی کی صداقت میں کوئی شک تھا، بلکہ یہ قرآن کا ایک اسلوب ہے جس سے مقصود آپ کی قوت یقین اور دل کے اطمینان میں اضافہ کرنا ہے، جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا تھا (بلی ولکن لیطمعئن قلبی) یعنی میں چاہتا ہوں کہ میرے اطمینان قلب میں اضافہ ہوجائے۔ عبدالرزاق اور ابن جریر نے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے فرمایا : مجھے نہ ذرہ برابر شک ہے اور نہ ہی میں کسی سے پوچھوں گا، جو لوگ کتاب پڑھتے ہیں، سے مراد یہود و نصاری ہیں۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے خود گواہی دی ہے کہ یہ قرآن برحق کتاب ہے جسے اللہ نے نازل کیا ہے، اس لیے میرے نبی، آپ کو، آپ کی امت کو، اور تمام سامعین کو اس کی حقانیت میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں ہونا چاہیے، اور نہ ان لوگوں میں ہونا چاہیے جو اللہ کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں، اس لیے کہ اس کا انجام دنیا اور آخرت میں خسارہ کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ یونس
95 یونس
96 (٦٢) اللہ تعالیٰ اپنے علم ازلی کے مطابق ہر انسان کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ اپنے اختیار و ارادہ سے کافر ہوگا یا مومن، خیر کی راہ اختیار کرے گا یا شر کی، اور اس علم کی بنیاد پر اس نے ہر شخص کی تقدیر میں لکھ دیا ہے کہ وہ ایمان لائے گا یا کفر کی راہ اختیار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کے اسی علم ازلی کو اس آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن کی قسمت میں لکھ دیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے وہ کسی حال میں بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ آیت (٩٧) میں اسی مضمون کی مزید تاکید آئی ہے کہ جن کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے کہ وہ جہنمی ہوں گے، ان کے سامنے اللہ کی تمام نشانیاں بھی آجائیں گی تو بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے، البتہ جب وہ اللہ کا عذاب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تب ایمان لائیں گے، جیسا کہ فرعون نے جب اپنے آپ کو ڈوبتا دیکھا تو کہا کہ میں موسیٰ و ہارون کے رب پر ایمان لے آیا، تو مشرکین مکہ بھی جب تک اللہ کا عذاب دیکھ نہیں لیں گے ایمان نہیں لائیں گے، لیکن اس وقت کا ایمان ان کے کام نہیں آئے گا۔ یونس
97 یونس
98 (٦٣) مشرکین مکہ کو عذاب آنے سے پہلے ایمان لانے کی کی ترغیب دلائی جارہی ہے، اور وہ اس طرح کہ ان کے سامنے ان بستیوں کی مثال پیش کی جارہی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس لیے ہلاک کردیا کہ ان کے رہنے والوں نے عذاب آنے سے پہلے ایمان کا اعلان نہیں کیا، جیسا کہ فرعونیوں کے ساتھ ہوا کہ جب انہوں نے اپنے آپ کو ڈوبتے دکھا تو کہا کہ ہم ایمان لے آئے، اگر انہوں نے عذاب آنے سے پہلے ایمان کا اعلان کیا ہوتا تو ان کا ایمان ان کے کام آتا، اللہ تعالیٰ نے اس حکم سے یونس (علیہ السلام) کی قوم کو مستثنی قرار دیا ہے، اس لیے کہ انہوں نے عذاب آنے سے پہلے اس کے آثار دیکھتے ہی فورا توبہ کرلی تھی، تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی اور عذاب کو ٹال دیا تھا، بعض علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ یہ جملہ نفی کے معنی میں ہے، گویا یوں کہا گیا ہے کہ یونس (علیہ السلام) کی قوم کے علاوہ ہلاک ہونے والی بستیوں میں سے کوئی بستی بھی ایمان نہیں لائی۔ ائمہ تفسیر نے عبداللہ بن مسعود، قتادہ اور سعید بن جبیر وغیرہم سے یونس (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے بارے میں جو روایتیں نقل کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ موصل شہر کے رہنے والے تھے، اللہ نے انہیں نینوی شہر والوں کے لیے نبی بنا کر بھیجا تھا، جسے اشور بن نمرود نے بسایا تھا، جو نوح (علیہ السلام) کے بیٹوں کی اولاد سے تھا، یہ شہر دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے، اس وقت اس کی آبادی چھ لاکھ تھی، اس زمانے میں اشوریوں کی قوت اتنی بڑھ گئی تھی کہ ایشیا کے اکثر علاقے ان کے زیر تصرف آگئے تھے، اسی وجہ سے وہ کبر و غرور میں مبتلا ہوگئے تھے اور اللہ سے سرکشی کرنے لگے تھے، انہی کی ہدایت کے لیے اللہ نے یونس (علیہ السلام) کو مبعوث کیا، لیکن جب وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے، تو یونس (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ اب تم لوگ اللہ کے عذاب کا انتظار کرو جو چالیس دن کے بعد تمہیں آلے گا، خود وہاں سے نکل کر صحرا کی طرف چلے گئے، جب اشوریوں کے امیر کو پتہ چلا تو ڈر گیا، اور پوری قوم کے ساتھ اللہ کے سامنے تائب ہوتا، جب اللہ نے دیکھا کہ وہ لوگ اپنی توبہ میں صادق ہیں تو عذاب کو ٹال دیا۔ یونس
99 یونس
100 (٦٤) اگر اللہ چاہتا تو تمام اہل زمین ایمان لے آتے، لیکن اس حکمت الہیہ کی وجہ سے جس پر تمام تشریعی احکام کی بنیاد ہے، اللہ نے ایسا نہیں چاہا، اس لیے نبی کریم کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کریں، اس میں آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ اگر مشرکین ایمان نہیں لاتے ہیں تو آپ پریشان نہ ہوں، اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت (٢٧٢) میں فرمایا ہے : (لیس علیک ھداھم ولکن اللہ یھدی من یشاء) یعنی انہیں ہدایت دینا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے، اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اسی لیے آیت (١٠٠) میں اللہ نے فرمایا کہ کوئی بھی آدمی محض اللہ کی توفیق سے ہی ایمان لاتا ہے، اس لیے آپ دعوت کا کام کیے جایئے، لیکن کسی کے ایمان نہ لانے پر پریشان نہ ہوا کیجیے، اور رسوائی اور ذلت تو ان لوگوں کے لیے لکھ دی گئی ہے جو اللہ کے بھیجے گئے دلائل میں غور و فکر نہیں کرتے ہیں۔ یونس
101 (٦٥) اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی بات آئی ہے، اسی مناسبت سے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو حکم دیا ہے کہ آپ مشرکین مکہ کو آسمانوں اور زمین کی مخلوقات میں غور و فکر کرنے کی دعوت دیجیے، تاکہ وہ اللہ پر ایمان لے آئیں، اور انہیں یقین ہوجائے کہ اس کے علاوہ کوئی بندگی کے لائق نہیں ہے، اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جن کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے انہیں نشانیوں اور انبیاء کی نصیحتوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ آیت (١٠٢) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا مشرکین چاہتے ہیں کہ ان پر گزشتہ قوموں کی طرح اللہ کا عذاب آجائے؟ تو آپ ان سے کہہ دیجیے کہ پھر تم لوگ انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ اس عذاب کا انتظار کرتا ہوں، جس کے ذریعہ اللہ صرف ظالموں اور مشرکوں کو ہلاک کرتا ہے، اسی لیے آیت (١٠٣) میں فرمایا کہ جب اللہ کے باغیوں پر ہمارا عذاب آتا ہے تو ہم اپنے رسولوں اور اہل ایمان کو اس سے بچا لیتے ہیں، اس لیے کہ ہم نے اپنے اوپر اس بات کو واجب کردیا ہے کہ اہل ایمان کو عذاب سے بچا لیں گے۔ یونس
102 یونس
103 یونس
104 (٦٦) نبی کریم کی زبانی تمام کفار عرب سے کہا جارہا ہے کہ دین اسلام کی صداقت میں تمہارے شبہ کی وجہ سے میں اللہ کو چھوڑ کر تمہارے معبودوں کی عبادت نہیں کروں گا، میں تو اس اللہ کی عبادت کروں گا جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے، اور مجھے تو حکم دیا گیا ہے کہ میں مومن بن کر رہوں، اور اپنی پیشانی موحد بن کر صرف اسی کے سامنے جھکاؤں، اور کسی حال میں بھی اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤں، اور اس کے علاوہ کسی کو بھی نہ پکاروں جو نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، اس لیے کہ ایسا کرنے سے میں ظالموں میں سے ہوجاؤں گا، اس کے برعکس اگر اللہ مجھے کسی تکلیف میں مبتلا کردے تو اس کے علاوہ کوئی اسے دور نہیں کرسکتا اور اگر وہ مجھے کوئی بھلائی پہنچانا چاہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا ہے، اس لیے کہ وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ یونس
105 یونس
106 یونس
107 یونس
108 (٦٧) یہاں بھی نبی کریم کی زبانی تمام بنی نوع انسان کو بتایا جارہا ہے کہ لوگو ! تمہارے رب کی جانب سے برحق قرآن نازل ہوچکا ہے، جو دین برحق دین اسلام کی مکمل ترجمانی کر رہا ہے، اب اگر کوئی اس ہدایت کو قبول کرتا ہے تو اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا، اور اگر کوئی اس کے بعد بھی گمراہ ہوجاتا ہے تو اس کی سزا اسی کو بھگتنی پڑے گی، اور میں تمہاری ہدایت کا ذمہ دار نہیں ہوں، میرا کام تو صرف پیغام پہنچا دینا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی آخری آیت میں آپ کو تاکید کی کہ آپ پر جو وحی نازل ہوتی ہے اسی کی اتباع کیجیے، یعنی کسی دوسرے قول کی اتباع نہ کیجیے، اور دعوت کی راہ کٹھن ہوتی ہے، اس لیے اس راہ میں کفار و مشرکین کی جانب سے آپ کو جو بھی تکلیف پہنچے اس پر صبر کیجیے، یہاں تک کہ مشرکین کے بارے میں اللہ کا کوئی فیصلہ آجائے۔ چنانچہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو جہاد کا حکم دیا، اور میدان بدر اور دیگر جنگوں میں ان میں سے کچھ تو قتل ہوئے اور کچھ پابند سلاسل کرلیے گئے، یہاں تک کہ پورا جزیرہ عرب حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔ یونس
109 یونس
0 سورۃ ہود مکی ہے، اس میں ایک سو تئیس آیتیں اور دس رکوع ہیں۔ نام : چونکہ اس سورت میں ہود (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اسی مناسبت سے اس کا نام سورۃ ہود رکھا گیا ہے، اگرچہ اس میں دیگر انبیاء علیہم السلام کے واقعات بھی بیان ہوئے ہیں۔ زمانہ نزول : یہ مکہ میں سورۃ یونس کے بعد نازل ہوئی تھی، اس کی صرف تین آیتیں (١٢، ١٧، ١١٤) مدینہ میں نازل ہوئی تھیں جو اس کے ساتھ ملا دی گئی ہیں۔ اس سورت میں مذکور موضوعات و مضامین کی اہمیت کا اندازہ نبی کریم کی اس حدیث سے ہوتا ہے جسے ترمذی، حاکم اور ابو یعلی وغیرہم نے ابوبکر (رض) سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ بوڑھے ہوگئے، تو آپ نے فرمایا کہ مجھے ہود، مرسلات، عم یتسائلون اور اذا الشمس کورت نے بوڑھا کردیا ہے، انتہی۔ اس لیے کہ اس میں گزشتہ قوموں کے واقعات ان کا باغیانہ رویہ اور پھر اس کی پاداش میں ان پر دنیا میں عذاب الہی کا نزول اور آخرت میں عذاب نار کی وعید، اور اسی کے مشابہ مضامین بیان کئے گئے ہیں اور مشرکین مکہ کو ان سے عبرت حاصل کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ انداز بیان میں عام مکی سورتوں سے زیادہ گھن گرج اور زیادہ شدید دھمکی ہے، اس لئیے رسول اللہ جب اس کی تلاوت فرماتے تھے تو آپ کے دل و دماغ پر اس کا کچھ زیادہ ہی اثر پڑتا تھا، اور مکی زندگی میں مکہ والوں کی سرکشی، اللہ سے بغاوت اور قرآن اور دین اسلام کا مذاق اڑانا دیکھ دیکھ کر انہیں خوف ہوتا تھا کہ کہیں اللہ کا عذاب اہل مکہ پر نازل نہ ہوجائے۔ ھود
1 (١) الر جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ ان حروف مقطعات کے بارے میں مفسرین کی بہترین رائے یہی ہے کہ ان کا مقصود حقیقی اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے۔ کتاب سے مراد قرآن کریم ہے، جس کی یہاں دو صفتیں بیان کی گئی ہیں، پہلی صفت کا تعلق قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت اور اس کی معجز بیانی سے ہے، یعنی قرآن کریم کے حروف و الفاظ اور جملوں اور آیتوں کا نظم و نسق اور ان کی ترتیب و ترکیب اتنی عظیم الشان اور ایسی بے بدل ہے جو انسانی قدرت سے یکسر بالا تر ہے، اور دوسری صفت کا تعلق قرآن میں مذکور دلائل توحید، احکام و واجبات، واقعات اقوام اور مواعظ و نصائح سے ہے، کہ ان کی مثال ان موتیوں کی ہے جنہیں ہار میں پرویا جاتا ہے، اور ان کے درمیان جگہ جگہ کچھ دوسرے رنگ و حجم کے موتیوں کے ذریعہ خوبصورتی پیدا کی جاتی ہے، قرآن کریم کی ہر آیت اور ہر سورت اپنے اندر بنی نوع انسان کے لیے کوئی نہ کوئی خیر لیے ہوئے ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو، یہ کتاب اس ذات واحد کی نازل کردہ ہے جس کا ہر فعل حکمت پر مبنی ہوتا ہے اور جو ہر بات کی خبر رکھتا ہے۔ ھود
2 (٢) زمخشری نے کہا ہے کہ (الا تعبدوا) فصلت فعل کا مفعول لہ ہے اور معنی یہ ہوگا کہ قرآن کریم میں موجود احکام اور دیگر امور کو تفصیل کے ساتھ اس لیے بیان کردیا گیا ہے کہ تاکہ تم اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرو، ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ پہلی آیت سے الگ نبی کریم کی زبانی ایک مستقل کلام ہے، ایسی صورت میں معنی یہ ہوگا کہ نبی کریم نے کفار قریش سے کہا کہ اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو اور یہ میں اللہ کی جانب سے تمہیں عذاب نار سے ڈرانے والا اور جنت کی خوشخبری دینے والا ہوں۔ ھود
3 (٣) یہ بھی نبی کریم کی زبانی ایک کلام کا حصہ ہے، یہاں طلب مغفرت اور توبہ کا ذکر آیا ہے، اور دونوں تقریبا ایک ہی معنی میں مستعمل ہیں، اس لیے مقصود توبہ کرنا اور اس میں اخلاص پیدا کرنا ہے، اور ایسے استغفار و توبہ پر اللہ نے دو چیزوں کا وعدہ کیا ہے، پہلی چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ان مخلص بندوں کو دنیا کی نعمتوں سے ایک طویل مدت تک مستفید ہونے کا موقع دے گا، ان کی روزی میں برکت عطا فرمائے گا اور دیگر نعمتوں سے بھی خوب نوازے گا، اللہ تعالیٰ نے اپنے اسی وعدے کو سورۃ النحل کی آیت (٩٧) میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے : (من عمل صالحا من ذکر او انثی وھو مومن فلنحیینہ حیاۃ طیبۃ) کہ جو مومن (مرد یا عورت) عمل صالح کرے گا، ہم اسے اچھی زندگی عطا کریں گے، اور دوسری چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نیک نیتی اور عمل صالح کے جزا کے طور پر آخرت میں جنت دے گا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کی ہی زبانی ان لوگوں کو دھمکی دی جو توبہ و استغفار اور عبادت میں اخلاص سے اعراض کرتے ہیں کہ انہیں قیامت کے دن کے عذاب سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ ھود
4 (٤) گزشتہ آیت میں آخرت کے دن کے عذاب کی جو بات آئی ہے اسی کی تاکید ہے۔ ھود
5 (٥) کفار مکہ کے بارے میں خبر دی جارہی ہے کہ کوئی بھی دھمکی اور دنیا و آخرت کی بھلائیوں کی کوئی بھی ترغیب ان کی حالت کفر و شرک کو نہ بدل سکی، بلکہ ان کی سرکشی بڑھتی ہی گئی۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ بعض کفار مکہ رسول اللہ کی بات سننے سے اعراض کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ ان کے اس اعراض کا علم اللہ یا اس کے رسول کو نہ ہو۔ (الا حین یستغشون ثیابھم) میں گزشتہ معنی کی تاکید ہے، کفار مکہ کہا کرتے تھے کہ جب ہم اپنے دروازے بند کرلیں گے اور کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانک لیں گے، اور اپنے سینوں میں محمد کی عداوت کو چھپائے رکھیں گے تو کسے خبر ہوگی؟ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ کفار مکہ حقیقت معنوں میں ایسا کرتے تھے کہ جب رسول اللہ ان کے پاس سے گزرتے تو اپنا منہ پھیر لیتے اور آپ کی طرف پیٹھ کرلیتے اور کپڑے سے اپنا منہ ڈھانک لیتے تاکہ آپ کی کوئی بات ان کے کان میں نہ پڑجائے۔ (یعلم ما یسرون وما یعلنون) میں انہی کفار کو بتایا جارہا ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول سے اپنی حقیقت چھپانے کی ہزار کوشش کرو، کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس لیے کہ اللہ تو سب کچھ جانتا ہے، وہ تو سینوں کے تمام رازوں کو جانتا ہے۔ امام بخاری نے اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ صحابہ کرام میں کچھ لوگ قضائے حاجت یا بیوی سے ہمبستری کرتے وقت اپنی شرمگاہ کھولتے ہوئے شرماتے کہ اللہ انہیں دیکھ رہا ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ ایک دوسری روایت ہے کہ یہ اخنس بن شریق کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جو رسول اللہ سے جب ملتا تو چکنی چپڑی باتیں کرتا اور دل میں آپ کی عداوت چھپائے رکھتا، اکثر مفسرین نے آیت کی پہلی تفسیر کو ہی ترجیح دی ہے۔ واللہ اعلم۔ ھود
6 (٦) اوپر گزر چکا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کی باتوں تک کو جانتا ہے، اسی مفہوم کی تائید کے طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ زمین پر چلنے والے جتنے جاندار ہیں، وہ ان سب کو ان کی تخلیق و تکوین کے مطابق روزی پہنچاتا ہے، یہ اس کا اٹل وعدہ ہے، جو بطور منت و احسان پورا کرتا رہتا ہے، جب وہ ایک ایک جاندار کو روزی پہنچاتا ہے، دنیا میں ان کی جگہوں کو اور موت کے بعد ان کے ٹھکانوں کو جانتا ہے، تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ ان کے اقوال و افعال اور ان کے دیگر تمام احوال و کوائف سے بے خبر رہے؟ اسے سب کچھ کی خبر ہے، اور لوح محفوظ میں ہر بات لکھی ہوئی ہے۔ ھود
7 (٧) اس آیت میں بھی گزشتہ مفہوم کی تاکید ہے کہ اللہ تعالیٰ عظیم ترین قدرتوں کا مالک ہے، اور اس کی دلیل آسمان و زمین کی تخلیق ہے، اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو (اتوار سے جمعہ) چھ دنوں میں پیدا کیا ہے، یہ مضمون سورۃ الاعراف آیت (٥٤) اور سورۃ یونس آیت (٤) میں گزر چکا ہے۔ اور الحدید آیت (٤) الفرقان آیت (٥٩) السجدہ آیت (٤) اور ق آیت (٣٨) میں بھی آئے گا۔ یہ دن یا تو دنیا کے دنوں کے مانند ہوں گے، یا ہر ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہوگا، جیسا کہ سورۃ الحج آیت (٤٧) میں آیا ہے۔ (وان یوما عند ربک کالف سنۃ مما تعدون) یعنی تمہارے رب کا ایک دن تمہارے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ آسمان و زمین کی تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا، یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پانی کو پیدا کیا، اس کے بعد عرش کو پیدا کیا وار ان دونوں کے بعد آسمان و زمین کو پیدا کیا۔ امام احمد اور ترمذی نے ابو رزین العقیلی صحابی سے روایت کی ہے کہ میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے ہمارا رب کہاں تھا؟ تو آپ نے فرمایا : ایسی جگہ جس کے نیچے ہوا تھی اور اوپر بھی ہوا تھی، اس کے بعد اللہ نے عرش کو پیدا کیا، اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو اس لیے پیدا کیا، تاکہ اس کے بندے زمین پر سکونت پذیر ہوں، اس کی گوناگوں نعمتوں سے مستفید ہوں، اور ایک اللہ کی عبادت کریں، نیز نیکی اور خیر کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں، تاکہ روز قیامت اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دے۔ آیت کے اس حصہ میں اللہ تعالیٰ نے (احسن عملا) کہا ہے۔ اکثر عملا نہیں کہا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک حسن عمل کا اعتبار ہے، کثرت عمل کا نہیں، اور کوئی بھی عمل اللہ کی نگاہ میں احسن اسی وقت ہوگا، جب وہ اللہ کی رضا کے لیے کیا گیا ہو، اور رسول اللہ کی سنت و شریعت کے مطابق ہو، یعنی اگر دونوں شرطوں میں سے ایک بھی مفقود ہوگی تو وہ عمل اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہوگا۔ (٨) چونکہ اوپر اچھے اور برے اعمال، اور قیامت کے دن ان کی جزا و سزا کا ذکر آیا ہے، اسی مناسبت سے یہاں موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کی بات آئی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے نبی ! اگر آپ کفار مکہ سے کہیں گے کہ تم لوگ موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جاؤ گے، تاکہ ہر شخص کو اس کے اچھے یا برے اعمال کا بدلہ دیا جائے، تو وہ کہیں گے کہ اے محمد ! تم جو کچھ کہہ رہے ہوجادو کی طرح بے بنیاد اور باطل فکر ہے، جس پر یقین نہیں کیا جاسکتا ہے، اور اگر آیت میں اشارہ قرآن کی طرف مانا جائے، تو معنی یوں ہوگا کہ یہ قرآن جو موت کے بعد اٹھائے جانے کا تصور پیش کرتا ہے کھلا جادو ہے۔ ھود
8 (٩) ان کافروں کی فطرت میں ہی کجی واقع ہوئی ہے، قرآن کریم اور اللہ کے رسول کو جھٹلانا، اور اللہ کی جانب سے بھیجی گئی ہر خبر میں شک کرنا ان کی عادت ہے، اللہ تعالیٰ اگر ایک مدت معینہ تک عذاب کو ان سے ٹال دیتا، تو رسول اللہ کو فورا جھٹلانے لگتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اے محمد ! تم جس عذاب کی بات کرتے تھے اسے کس چیز نے موخر کردیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ان کا جواب دیا کہ جلدی نہ کرو، جب وہ تم پر نازل ہوجائے گا تو کوئی طاقت اسے ٹال نہیں سکے گی۔ ھود
9 (١٠) یہ اور اس کے بعد کی دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی بالعموم ایک مذموم صفت کو بیان کیا ہے، اور اس سے ان مومنین کو مستثنی قرار دیا ہے جو اپنی زندگی میں کسی بھی حال میں صبر کا دامن نہیں چھوڑتے اور عمل صالح کرتے رہتے ہیں۔ وہ مذموم صفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی انسان کو نعمت دے کر پھر کسی سبب سے اس سے چھین لیتا ہے تو فورا ہی اس کی رحمت سے ناامید ہوجاتا ہے اور ناشکری اور اللہ کی برائی بیان کرنے پر اتر آتا ہے، اور اگر اسے بیماری اور تکلیف کے بعد صحت، اور محتاجی کے بعد خوشحالی سے نوازتا ہے تو کہنے لگتا ہے کہ اب کیا ہے، اب تو آرام و راحت ہے اور عیش و خوشحالی ہے، اور اس خوشحالی میں ایسا مگن ہوجاتا ہے کہ اس نعمت پر اپنے خالق و رازق اور آقا و مالک کا شکریہ ادا کرنے کا خیال بھی اس کے دل و دماغ میں نہیں گزرتا، لیکن جو مومنین تکلیف کی حالت میں صابر اور آرام کی حالت میں اپنے رب کے شاکر ہوتے ہیں، اور ہر حال میں عمل صالح کرنا ان کا شیوہ ہوتا ہے، وہ نہ تو مصیبت کے و قت جزع فزع کرتے ہیں اور نہ ہی عیش و آرام کی حالت میں اس طرح ترنگ میں آتے ہیں کہ اللہ کو ہی بھول جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے ان نیک بندوں سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے۔ اس معنی کی تائید میں نبی کریم کریم نے فرمایا ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مومن کو کوئی حزن و ملال لاحق ہوتا ہے، کوئی تکلیف پہنچتی ہے، حتی کہ اگر اسے کوئی کانٹا چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔ (مسند احمد) اور صحیحین میں ایک دوسری حدیث ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ مومن کے بارے میں ہر فیصلہ اس کے حق میں خیر لیے ہوتا ہے، اگر اسے کوئی خوشی ملتی ہے اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تو یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے، اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور اس پر صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے، اور یہ شرف و عزت مومن کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے۔ ھود
10 ھود
11 ھود
12 (١١) کفار مکہ نبی کریم سے بار بار کہتے تھے کہ تمہاری صداقت کی گواہی دینے کے لیے آسمان سے کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتر آتا، یا اللہ تمہارے لیے کوئی خزانہ کیوں نہیں بھیج دیتا، یا کوئی باغ ہی کیوں نہیں اگا دیتا؟ یہ اور اسی طرح کے دیگر معاندانہ سوالوں سے رسول اللہ کبھی دل برداشتہ ہوجاتے تھے، تو اللہ نے انہیں تسلی دی اور کہا کہ ایسا گزشتہ انبیاء کے ساتھ بھی ہوتا رہا ہے، ان کی قوموں نے بھی انہیں جھٹلایا تو انہوں نے صبر کیا، اس لیے آپ بھی صبر سے کام لیجیے اور دل برداشتہ ہو کر اور کافروں کا دل رکھنے کے لیے قرآن کریم کی ان آیتوں کی تبلیغ سے رک نہ جایے، جنہیں کفار سننا نہیں چاہتے، آپ کا کام تو پیغام الہی کو من و عن پہنچا دینا ہے، آسمان سے نشانیاں نازل کرنا تو صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ ھود
13 (١٢) جب کفار مکہ نے وحی الہی کا انکار کردیا اور رسول اللہ پر اتہام دھرا کہ قرآن ان کا کلام ہے اللہ کا نہیں، تو اللہ نے چیلنج کردیا کہ اگر یہ اللہ کا کلام نہیں ہے، محمد کا کلام ہے تو پھر تم اس جیسی دس سورتیں ہی لاکر دکھاؤ، سورۃ یونس آیت (٣٩) کی تفسیر میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عربوں کو قرآن کریم جیسا کلام لانے کا چیلنج کئی مراحل میں کیا تھا، پہلے کہا کہ اگر تم یہ کہتے ہو کہ یہ قرآن محمد کا کلام ہے تو اس جیسا تم بھی پیش کرو، جب عاجز و ساکت رہے تو اس آیت میں کہا کہ اگر پورا قرآن نہیں تو اس جیسی کم از کم دس سورتیں ہی پیش کردو، جب اس سے بھی عاجز رہے تو سورۃ یونس والی آیت میں کہا کہ کم از کم ایک ہی سورت اس جیسی لے آؤ، اور سورۃ طور آیت (٣٤) میں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دعوے زبان دانی کی تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی، جب کہا کہ اگر تم سچے ہو تو قرآن جیسی ایک بات بھی لا دو، اور عربوں کے تمام فصحاء و بلغاء اور ادباء و شعراء پرگنگ طاری رہی، اور آج تک کوئی اس چیلنج کا جواب نہ دے سکا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آیت (١٤) میں فرمایا کہ مسلمانو ! اگر کفار عرب تمہارے اس چیلنج کا جواب نہ دے سکیں، تو تمہارے علم و یقین میں اضافہ اور پختگی آجانی چاہیئے کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے ہیں، اس لیے کہ اس قرآن کا معجزانہ نظم اور اس کی ترتیب کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے، اور اس میں جن غیبی امور کی خبر دی گئی ہے انہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا ہے، اور تمہیں اس بات کا بھی پختہ یقین ہونا چاہیے کہ یہ اس اللہ کا کلام ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور یہ کہ غیروں کو اس کا شریک بنانا ظلم عظیم ہے۔ ھود
14 ھود
15 (١٣) چونکہ کفار قریش کا عناد اور ان کی سرکشی کا سب سے بڑا سبب دنیاوی زندگی کا عیش و آرام اور ریاست و قیادت کی خواہش تھی، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیتوں میں دنیاوی فائدوں کی حقارت اور ان لوگوں کا انجام بیان کیا ہے جو صرف انہی کے طالب ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اعمال صالحہ کے بدلے میں جس کا مطمح نظر صرف دنیا کی زندگی اور اس کا عیش و آرام اور ٹھاٹھ باٹھ ہوتا ہے، تو اللہ اسے ان اعمال کا بدلہ اس کی نیت کے مطابق دیتا ہے، اس میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے، لیکن آخرت میں انہیں ان اعمال صالحہ کا کوئی اچھا بدلہ نہیں ملے گا، بلکہ نفاق اور ریا کاری کی وجہ سے جہنم میں ڈال دیے جائیں گے، قرآن کریم نے اس مضمون کو سورۃ الاسرء آیات (١٨، ١٩، ٢٠) میں اور سورۃ الشوری آیت (٢٠) میں بھی بیان کیا ہے کہ جو آدمی نیک کاموں کے ذریعے دنیاوی فائدوں کا طلبگار ہوتا ہے، اللہ اسے اس کی نیت کے مطابق اس کا بدلہ دنیا میں چکا دیتا ہے، لیکن آخرت میں اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، اور جو آدمی آخرت کا طلبگار ہوتا ہے، اللہ اسے جنت عطا کرے گا۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ہزار کوشش کے باوجود آدمی کی دنیاوی خواہش پوری نہیں ہوتی ہے، اسی لیے قرطبی نے لکھا ہے کہ اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت اور سورۃ شوری کی آیت (٢٠) اور سورۃ آل عمران کی آیت (١٤٥) مطلق آیتیں ہیں، جن کی تفسیر سورۃ الاسراء کی آیت (١٨) سے ہوتی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (من کان یرید العاجلۃ عجلنا لہ فیھا ما نشاء لمن نرید) کہ جو آدمی دنیا کا عارضی فائدہ چاہتا ہے تو ہم جسے چاہتے ہیں اور جتنا چاہتے ہیں دیتے ہیں، انتہی۔ یعنی اللہ کسی کو نہیں بھی دیتا ہے۔ یہ آیت کریمہ مسلمانوں کے لیے خطرہ کی گھنٹی بھی ہے کہ آدمی نیک عمل کرتا ہے، لیکن اگر اس میں اخلاص اور للہیت نہیں ہے تو وہ قیامت کے دن اس کے لیے وبال جان بن جائے گا، اور جہنم اس کا ٹھکانا ہوگا۔ امام مسلم نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ روز قیامت جب حساب شروع ہوگا تو اللہ تعالیٰ سب سے پہلے ایک ایسے آدمی کو بلائے گا جو بظاہر اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے قتل ہوا تھا، اس سے پوچھے گا کہ تو نے کیا عمل کیا تھا؟ تو وہ کہے گا کہ اے اللہ ! میں نے تیری راہ میں جہاد کیا یہاں تک کہ قتل کردیا گیا، تو اللہ تعالیٰ کہے گا کہ تو نے جہاد اس لیے کیا تھا کہ لوگ تجھے مجاہد کہیں، سو یہ بدلہ تجھے دنیا میں مل گیا، پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا، اسی طرح ریا کار عالم، ریا کار قاری اور ریا کار مالدار کو بلایا جائے گا اور سبھوں کو گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ ھود
16 ھود
17 (١٤) طالب دنیا اور طالب آخرت برابر نہیں ہوسکتے ہیں، طالب دنیا کا حال گزر چکا، یہاں طالب آخرت کا حال بیان کیا جارہا ہے۔ آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس پر ایمان لائے گا اور نبی کریم کی اتباع کرے گا وہ اس کی نگاہ میں اس آدمی کے مانند ہرگز نہیں ہوسکتا جس کا منتہائے مقصود دنیا کا عیش و آرام ہو، ایک دوسری تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ نبی کریم جنہیں اللہ نے قرآن جیسا معجزہ اور برہان قاطع دیا ہے، اور جن کے لیے جبریل (علیہ السلام) کو بطور شاہد متعین کیا ہے، اور جن کی بشارت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کی گئی کتاب تورات میں مذکور ہے جو اس زمانہ کے لوگوں کے لیے رہنما اور رحمت تھی، کیا وہ اللہ کی نگاہ میں اس آدمی کے مانند ہوجائیں گے جس کا منتہائے مقصود دنیا کا عیش و آرام ہے؟ (اولئک یومنون بہ) میں اشارہ ان مومنین صادقین کی طرف ہے جو اللہ کے نازل کردہ دین اسلام پر قائم ہوں، ان کے بارے میں خبر دی گئی ہے کہ وہ لوگ نبی کریم کی تصدیق کرتے ہیں، یا قرآن کریم پر ایمان لاتے ہیں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ اور دیگر تمام کفار عالم کے بارے میں فرمایا کہ جو کوئی نبی کریم یا قرآن پر ایمان نہیں لائے گا، اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا، صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس امت کا کوئی بھی شخص جسے میری خبر ہوجائے گی، چاہے وہ یہودی ہو یا نصرانی، اور مجھ پر ایمان نہیں لائے گا تو اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ (١٥) نبی کریم کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کسی قسم کا شک کرنے سے معصوم بنایا تھا، اس لیے مقصود صحابہ کرام اور دیگر مسلمان ہیں، انہیں نصیحت کی جارہی ہے کہ وہ قرآن کے کلام الہی ہونے میں ذرہ برابر بھی شبہ نہ کریں۔ ھود
18 (١٦) ان لوگوں سے بڑھ کر اللہ کے نزدیک ظالم و مجرم کون ہوسکتا ہے جو افترا پردازی کرتے ہوئے کہیں کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں، اور ان کے تراشتے ہوئے بت اللہ کے شریک ہیں، اور قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے۔ قیامت کے دن ایسے لوگ نہایت ذلت و رسوائی کے ساتھ اللہ کے سامنے پیش کئے جائیں گے، اور فرشتے، انبیائے کرام، دعاۃ و مبلغین اور خود ان مجرموں کے اعضاء و جوارح گواہی دیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں افترا پردازی کی تھی، تو اللہ تعالیٰ کہے گا کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو، جو لوگوں کو اللہ کی سیدھی راہ سے روکنے کے لیے اس میں طرح طرح کے شبہات پیدا کرتے تھے، اور وہ ایسا کیوں نہ کرتے انہیں تو آخرت پر ایمان تھا ہی نہیں، کیونکہ جو آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہی سیدھی راہ اختیار کرتا ہے، اور دوسروں کو بھی اس پر چلنے کی دعوت دیتا ہے۔ آیت (٢٠) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اس بات سے عاجز نہیں ہے کہ ان افترا پرداز کافروں اور مشرکوں کو قیامت آنے سے پہلے دنیا میں ہی عذاب دے، اور ان کا کوئی یارو مددگار نہ ہو جو اس عذاب کو ان سے ٹال سکے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا میں انہیں اس لیے عذاب نہیں دیا گیا تاکہ آخرت میں انہیں دوگنا عذاب دیا جائے، اس لیے کہ دین اسلام سے ان کی نفرت و عداوت اس قدر شدید تھی کہ نہ حق بات سننے کی تاب لاتے تھے اور نہ اللہ کی آیتوں میں غوروفکر سے کام لیتے تھے۔ ھود
19 ھود
20 ھود
21 آیات (٢١، ٢٢) میں انہی کفار و مشرکین کے بارے میں کہا گیا کہ ان لوگوں نے اللہ کے بجائے باطل معبودوں کی بندگی کر کے بڑے ہی خسارے کا سودا کیا ہے، وہ جھوٹے معبود ان کے کچھ بھی کام نہ آئیں گے، اور آخرت میں ان سے بڑھ کر کوئی خسارہ اٹھانے والا نہیں ہوگا کہ جہنم ان کا ٹھکانا ہوگا، جہاں ایک لمحہ کے لیے بھی ان کے عذاب میں تخفیف نہیں ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم پر جہنم کی آگ کو حرام کردے۔ آمین۔ ھود
22 ھود
23 (١٧) آیات (١٥، ١٦، ١٧) میں بیان کیا جاچکا ہے کہ طالب دنیا اور طالب آخرت برابر نہیں ہوسکتے ہیں، یہاں آیت (١٨) سے لے کر (٢٤) تک اسی بات کو دوسرے انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ پہلے افترا پرداز کفار و مشرکین کا حال بیان کیا گیا ہے، اور اب اہل ایمان کا ذکر خیر ہورہا ہے، اور آیت (٢٤) میں اندھے اور بہرے اور آنکھ اور کان والے کی مثال دے کر بتایا جارہا ہے کہ جس طرح یہ لوگ برابر نہیں ہوسکتے ہیں، اسی طرح طالب دنیا اور طالب آخرت ہرگز برابر نہیں ہوسکتے ہیں۔ ھود
24 ھود
25 (١٨) اس آیت کریمہ سے پانچ انبیائے کرام اور ان کی قوموں کے واقعات کی ابتدا ہورہی ہے اور مقصود یہ ہے کہ کفار و مشرکین کو انداز بدل کر اسلام کی دعوت دی جائے، اور انہیں ڈرایا جائے کہ اگر انہوں نے بھی حق سے اعراض کیا تو ان کا انجام بھی انہی قوموں جیس ہوسکتا ہے، نیز نبی کریم کو بھی تسلی دینی مقصود ہے کہ آپ سے پہلے بہت سے انبیائے کرام آئے اور انہیں ان کی قوموں نے جسمانی اور ذہنی اذیتیں پہنچائیں، لیکن انہوں نے صبر سے کام لیا اور اللہ کا دین پہنچاتے رہے، یہاں تک کہ ان قوموں کے بارے میں اللہ کا فیصلہ آگیا، تو اے نبی ! آپ بھی صبر سے کام لیں اور پیغام حق لوگوں تک پہنچاتے رہیں اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں۔ سب سے پہلا واقعہ نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قوم کو دعوت اسلام دینے کے لیے نبی بنا کر بھیجا تھا، کہا جاتا ہے کہ ان کے کفر و شرک اور شر و فساد سے زمین بھر گئی تھی، نوح (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرانے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ لوگو ! اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت نہ کرو ورنہ مجھے ڈر ہے کہ اللہ کا دردناک عذاب تمہیں اپنی گرفت میں لے لے گا۔ ھود
26 ھود
27 (١٩) نوح (علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں نے ان کی دعوت کو رد کردیا، اور ان کے نبی ہونے میں تین قسم کے شبہات کا اظہار کیا، پہلا شبہ یہ ظاہر کیا کہ تم ہماری ہی طرح انسان ہو، تو ہمارے بجائے تم نبوت کے کیسے حقدار بن گئے؟ ان کا دوسرا شبہ یہ تھا کہ قوموں کے سرداروں میں سے ایک نے بھی تمہاری اتباع نہیں کی ہے، صرف گھٹیا قسم کے لوگوں نے تمہاری پیروی کی ہے، جو کم عقل اور بے وقوف ہیں اور اچھی اور گہری سوچ سمجھ نہیں رکھتے ہیں، اگر تم نبی ہوتے تو سرداران قوم تم پر ایمان لاتے، اور تیسرا شبہ یہ تھا کہ تم میں اور تمہارے پیروکاروں میں کوئی ایسی خوبی نظر نہیں آتی جو ہم میں نہ ہو، تو پھر تم نبی کیسے ہوگئے؟ حافظ ابن کثیر نے ان شبہات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ باتیں قوم نوح کی جہالت اور کم عقلی کی دلیل تھی، اس لیے کہ حق حق ہوتا ہے، چاہے اس کی اتباع شرفائے قوم کریں یا غریب لوگ کریں، اور تاریخ یہی بتاتی ہے کہ حق کو ماننے والے ہمیشہ زیادہ کمزور لوگ ہوئے ہیں۔ ہر قل شاہ روم نے ابو سفیان سے جب نبی کریم کی صفات کے بارے میں سوالات کیے، تو اس کا ایک سوال یہ تھا کہ اس کے ماننے والے سرداران قوم ہیں یا کمزور لوگ؟ ابو سفیان نے کہا : کمزور لوگ، تو ہر قل نے کہا کہ ہمیشہ انبیاء کی پیروی کرنے والے ایسے ہی لوگ ہوا کیے ہیں، اور یہ جو انہوں نے کہا کہ تمہارے ماننے والے زیادہ گہری فکر والے نہیں ہیں، تو یہ بھی کوئی قابل توجہ بات نہیں ہے، اس لیے کہ اگر حق واضح ہو، اور دل کا آئینہ روشن ہو، تو آدمی ایک لمحہ کے لیے بھی شک و شبہ میں نہیں پڑتا اور حق کو فورا قبول کرلیتا ہے، رسول اللہ نے جب اپنی رسالت کا اعلان کیا تو ابوبکر (رض) نے بغیر کسی توقف کے آپ کی آواز پر لبیک کہا اور اسلام میں داخل ہوگئے۔ ھود
28 (٢٠) نوح (علیہ السلام) نے ان کی کافرانہ بات سن کر کہا : اے میری قوم کے لوگو ! اللہ تعالیٰ نے تو مجھے اپنے نبی ہونے کا برہان قاطع عطا فرمایا ہے، صفت بشریت میں میرا تمہارے ساتھ برابر ہونا اس بات سے ہرگز مانع نہیں ہے کہ وہ مجھے مقام نبوت سے نوازے۔ اسی طرح میرے ماننے والوں کا مالی اعتبار سے کمزور ہونا بھی نبوت سے مانع نہیں ہے، اس لیے کہ بشریت اور عقل و فہم میں وہ تمہاری طرح ہیں، اور یہ نبوت تو اللہ کی رحمت اور اس کا فضل ہے جو اس نے مجھے دیا ہے، اگر تمہاری بصیرت ختم ہوگئی ہے اور تم حق کو نہیں دیکھ پارہے ہو تو میں تمہیں اسے قبول کرنے پر مجبور تو نہیں کرسکتا ہوں، میرا کام تو صرف دعوت دینا ہے۔ ھود
29 (٢١) نوح (علیہ السلام) نے ان سے یہ بھی کہا کہ میں دعوت و تبلیغ کے کام پر تم سے کوئی معاوضہ بھی تو نہیں مانگتا ہوں کہ تمہیں شبہ ہو کہ میں دنیا طلبی کے لیے ایسا کر رہا ہوں، اور تم جو میرے پیروکاروں کو گھٹیا کہتے ہو، اور مجھ سے مطالبہ کرتے ہو کہ میں انہیں اپنے پاس سے بھگا دوں تاکہ تم لوگ آکر میری بات سنو، تو میں ایسا بھی نہیں کروں گا، اس لیے کہ ایمان لانے کے بعد اللہ کے نزدیک ان کا مقام بلند ہوگیا ہے، اور جب وہ اللہ سے ملیں گے تو مجھ سے جھگڑیں گے کہ اے رب ! انہوں نے ہمیں اپنی مجلس سے نکال دیا تھا، اے میری قوم کے لوگو ! حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ نہایت ہی نادان ہو، جبھی تو سوچتے ہو کہ اگر ایمان لے آؤ گے تو ہمارے کمزور و ضعیف پیروکاروں کے برابر ہوجاؤ گے۔ اے لوگو ! میں تمہیں دوبارہ بتائے دیتا ہوں کہ اگر میں نے ان کمزور مسلمانوں کو اپنی مجلس سے نکال دیا، تو مجھے اللہ کے عقاب سے کوئی نہیں بچا سکے گا، اس لیے کہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے کے بعد اللہ کے نزدیک ان کا مقام بلند ہوگیا ہے، اور انہیں صرف اس لیے بھگا دینا کہ وہ غریب اور کمزور ہیں سراسر ظلم ہوگا۔ ھود
30 ھود
31 (٢٢) اس آیت کریمہ میں نوح (علیہ السلام) نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اے لوگو ! میں تمہاری طرح بشر ہوں، لیکن اللہ نے مجھے رسالت اور وحی سے نوازا ہے، میں ایسی باتوں کا دعوی نہیں کرتا ہوں جو میرے اختیار سے باہر ہیں، میں دعوی نہیں کرتا ہوں کہ اللہ کی روزی کے خزانوں کا مالک ہوں اور نہ علم غیب کا دعوی کرتا ہوں اور نہ ہی فرشتہ ہونے کا دعوی کرتا ہوں، جب میں خود ایسا دعوی نہیں کرتا ہوں تو پھر میرے اندر ان صفات کے مفقود ہونے پر میری نبوت کا کیوں انکار کرتے ہو؟ اور جن غریب مسلمانوں کو تم حقیر جانتے ہو، ان کے بارے میں تمہاری طرح یہ نہیں کہتا کہ اللہ انہیں دنیا و آخرت کی بھلائیوں سے ان کی غربت کی وجہ سے محروم رکھے گا۔ ان کے اندر جو خوبیاں پائی جاتی ہیں انہیں اللہ تعالیٰ مجھ سے اور تم سے زیادہ جانتا ہے۔ اگر میں ایسا کہوں گا تو میں ان کے حق میں ظالم ہوں گا، اس لیے کہ میں نے ان کی قدرومنزلت نہیں پہچانی اور ان کی شان کے خلاف بات کی۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت کے آخری حصہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ کافروں نے غریب مسلمانوں کی تحقیر کر کے ظلم و تعدی کا ارتکاب کیا تھا۔ ھود
32 (٢٣) جب قوم نوح کے پاس کفر و عناد پر قائم رہنے کی کوئی دلیل نہیں رہی، اور نوح (علیہ السلام) کے دلائل و براہین کے آگے انہوں نے اپنے آپ کو یکسر عاجز پایا، تو کہنے لگے کہ اے نوح ! ہم تمہارے مناظروں سے تنگ آگئے ہیں، اگر تم سچے ہو تو جس عذاب کا وعدہ کرتے آئے ہو اسے لا کر دکھا دو، تو نوح (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ یہ میرے اختیار میں نہیں ہے، جب اللہ چاہے گا عذاب آئے گا، اور اس وقت تم اسے عاجز نہ بنا سکو گے، اور آیت (٣٤) میں نوح (علیہ السلام) نے کہا کہ اگر اللہ تمہیں گمراہ اور ہلاک کرنا چاہے گا، تو میرا تمہیں توحید کی طرف بلانا اور عذاب سے ڈرانا کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ ھود
33 ھود
34 ھود
35 (٢٤) قوم نوح کے اس قول کی تردید ہے کہ نوح (علیہ السلام) پر اللہ کی طرف سے کوئی وحی نازل نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ آپ ان کافروں سے کہیے کہ اگر میں نے اللہ پر افترا پردازی کی ہے تو اس کی سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں، اور اگر میں سچا ہوں اور تم لوگ مجھے جھٹلا رہے ہو تو تم لوگ اس کی تکذیب کی سزا پانے کے لیے تیار رہو، اور یہ جان لو کہ میں تمہارے جرائم سے یکسر بری ہوں۔ ھود
36 (٢٥) اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو خبر دے دی کہ جو لوگ اب تک ایمان لاچکے ہیں، ان کے علاوہ اب کوئی ایمان نہیں لائے گا، حسن بصری کا قول ہے کہ جب اللہ نے نوح (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی خبر دے دی تو وہ ان کے ایمان لانے سے ناامید ہوگئے اور ان کے حق میں بددعا کردی کہ اے اللہ اب کسی کافر کو زمین پر نہ رہنے دے۔ ھود
37 (٢٦) جب عذاب کا آنا یقینی ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو کشتی بنانے کا حکم دیا اور اس کی تعلیم دی، تاکہ وہ اور ان کے ماننے والے مسلمان طوفان سے بچ سکیں، اور کافروں کی نجات کے لیے شفاعت کرنے سے منع فرما دیا، اس لیے کہ ان کے بارے میں اللہ کا فیصلہ صادر ہوچکا تھا کہ انہیں طوفان کی نذر ہوجانا ہے۔ صاحب فتح البیان کہتے ہیں کہ اعین عین کی جمع تعظیم اور مبالغہ کے لیے استعمال کیا گیا ہے، نہ کہ کثرت کے لیے، اور عین یعنی آنکھ بھی اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے جس کی کیفیت ہم نہیں جانتے ہیں، لیکن اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ ھود
38 (٢٧) نوح (علیہ السلام) کو کشتی بناتے دیکھ کر کفار کہنے لگے کہ نبی ہونے کے بعد اب بڑھئی ہوگئے، کہا جاتا ہے کہ یہ کام وہ پانی سے بہت دور ایک میدان میں سخت گرمی کے زمانے میں کرتے تھے۔ اسی لیے کافروں نے ان سے پوچھا کہ یہ تم کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے پہلے سے کشتی نہیں دیکھی تھی، تو انہوں نے کہا یہ ہمیں لے کر پانی پر چلے گی، تو وہ ہنسے اور مذاق اڑانے لگے، انہوں نے کہا کہ اگر آج تم میرا مذاق اڑا رہے ہو تو اڑا لو، کل طوفان میں تمہارے ڈوبنے کا نظارہ ہم سب مسلمان کریں گے۔ آیت (٣٩) میں کہا کہ اس وقت تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ دنیا میں رسوا کن عذاب اور آخرت میں دائمی عذاب نار کا کون مستحق ہے۔ ھود
39 ھود
40 (٢٨) جب قوم نوح کی ہلاکت کا حکم آگیا اور پانی پوری شدت کے ساتھ ابلنے لگا تو اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ زمین پر پائے جانے والے تمام جانوروں اور چڑیوں وغیرہ کے جوڑے کشتی میں رکھ لیں، اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ اپنے صڑف ان رشتہ داروں کو سوار کرلیں جو ان پر ایمان لائے ہیں۔ قتادہ اور ابن جریر کے قول کے مطابق ان کی تعداد آٹھ تھی، نوح، ان کی بیوی، ان کے تین بیٹے اور ان کی بیویاں، ان کا بیٹا کنعان اور ان کی بیوی ام کنعان مومن نہیں تھے، اسی لیے ان کے ساتھ کشتی پر سوار نہیں ہوئے۔ اور ابن عباس کے قول کے مطابق ان کی تعداد اسی (٨٠) تھی، ان میں نوح کے بیٹے سام، حام، یافث اور ان تینوں کی بیویاں تھیں، انہی مسلمانوں میں سے ایک شخص جرہم بھی تھا، جس کے نام سے قبیلہ جرہم مشہور ہوا جو ہاجرہ اور اسماعیل کے بعد مکہ مکرمہ میں آکر آباد ہوگیا تھا۔ ھود
41 (٢٩) نوح (علیہ السلام) نے جب طوفان کو امڈتے دیکھا تو اپنے مسلمان ساتھیوں سے کہا کہ کشتی میں سوار ہوجاؤ، یہ اللہ کے نام سے چلے گی اور اسی کے نام سے اس کی مرضی کے مطابق رکے گی، بیشک میرا رب مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے، وہ ہمیں ضرور اس طوفان سے نجات دے گا۔ علماء نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کشتی یا جانور پر سوار ہوتے وقت بسم اللہ کہنے کو مستحب کہا ہے، نبی کریم کی سنت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ھود
42 (٣٠) جب نوح اور ان کے مسلمان ساتھی بسم اللہ کہہ کر سوار ہوگئے، تو کشتی پہاڑوں کے مانند اونچے موجوں کے درمیان چلنے لگی، اس وقت نوح نے اپنے بیٹے کو پکارا جو کافر ہونے کی وجہ سے کشتی میں سوار نہیں ہوا تھا، کہ اے میرے بیٹے ! اب بھی موقع ہے کہ ہمارے دین میں داخل ہوجاؤ اور ہمارے ساتھی کشتی میں سوار ہوجاؤ اور کافروں کا ساتھ چھوڑ دو۔ ھود
43 (٣١) اس نے جواب دیا کہ میں کسی پہاڑ پر جاکر پناہ لے لوں گا اور ڈوبنے سے بچ جاؤں گا، تو نوح نے کہا کہ آج اللہ کے عذاب سے صرف وہی بچ سکے گا جس پر اللہ اپنا رحم و کرم فرمائے گا، اور اس کا رحم آج صرف مومنوں کے ساتھ خاص ہے، باپ بیٹے کے درمیان اس گفتگو کے بعد ایک بڑی ہیبت ناک موج اٹھی جس نے کنعان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ڈوب کر ہلاک ہوگیا۔ ھود
44 (٣٢) جب تمام اہل زمین ڈوب گئے اور کوئی کافر زندہ نہ رہا تو اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ جو پانی اوپر ابل آیا تھا اسے فورا پی جائے، اور آسمان کو حکم دیا کہ بارش برسانا روک دے۔ چنانچہ پانی خشک ہوگیا اور اللہ کا فیصلہ پورا ہوگیا، جس کو بچانا چاہا بچا دیا، اور جسے ہلاک کرنا چاہا ہلاک کردیا۔ جب پانی کم ہونے لگا اور پہاڑوں کی چوٹیاں ظاہر ہونے لگیں تو کشتی جودی پہاڑ پر جا کر ٹھہر گئی، جو موصل شہر کے قریب واقع ہے، اور اللہ کی جانب سے اعلان ہوگیا کہ اب ظالموں سے زمین پاک ہوگئی (خس کم جہاں پاک)۔ عبدالرحمن بن خلدون نے لکھا ہے کہ، اہل علم کا اتفاق ہے کہ طوفان کی وجہ سے زمین پر رہنے والے سبھی لوگ ہلاک ہوگئے تھے، اور جو مسلمان نوح کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے تھے، ان کی بھی کوئی اولاد نہیں ہوئی، صرف نوح کے تینوں بیٹوں سے نسل چلی، اسی لیے نوح (علیہ السلام) آدم ثانی کہلائے۔ مقریزی نے اپنی کتاب الخطط میں بھی تمام اہل ادیان کا اسی پر اتفاق نقل کیا ہے۔ ھود
45 (٣٣) نوح (علیہ السلام) نے شفقت پدری سے متاثر ہو کر اپنے رب سے دعا کی، اور کہا کہ اے میرے رب ! میرا بیٹا میرے گھر والوں میں سے ہے، اور تیرا وعدہ برحق ہے تو نے کہا کہ اپنے گھر والوں کو بھی کشتی پر سوار کرلو تاکہ سب طوفان سے بچ جائیں، تو آج تو سے توفیق دے دے کہ ایمان لے آئے اور ہمارے ساتھ کشتی میں سوار ہوجائے۔ ھود
46 (٣٤) اللہ تعالیٰ نے پھر نوح کو اپنا حتمی فیصلہ بتا دیا کہ اے نوح ! وہ ایمان نہیں لائے گا، اس لیے کہ وہ آپ کے گھر والوں میں سے نہیں ہے، آپ کے گھر والے تو دین و شریعت کے پابند اور اہل صلاح ہیں اور وہ صالح نہیں ہے، اس لیے وہ طوفان سے نہیں بچے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کو تنبیہ کی کہ جس مقصد کے پورے طور پر صائب ہونے کا آپ کو علم نہ ہو اس کا اللہ سے سوال نہ کیجیے، اس لیے کہ ایسا کرنا نادانوں کا شیوہ ہوتا ہے، علماء نے اسی سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس بات کے مطابق شرع ہونے کا آدمی کو علم نہ ہو اس کی دعا نہیں کرنی چاہیے۔ ھود
47 (٣٥) جب نوح (علیہ السلام) کو اس بات کا علم ہوگیا کہ اللہ سے ان کا سوال شریعت کے مطابق نہیں تھا، اور یہ محض ان کا وہم تھا کہ ممکن ہے کنعان مسلمان بن کر کشتی پر سوار ہوجائے گا، تو اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور اللہ سے مغفرت و رحمت طلب کی۔ ھود
48 (٣٦) جب کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہر گئی تو اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) سے کہا کہ اب آپ سلامتی کے ساتھ کشتی سے زمین پر اتر جایئے، آپ پر اور آپ کے کچھ ساتھی مسلمانوں پر اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا سایہ رہے گا، اور ان میں سے کچھ کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو آگے چل کر کفر کی راہ اختیار کرلیں گے، اور ان کا منتہائے مقصود دنیا کا عیش و آرام ہوجائے گا، تو ہم انہیں اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیں گے، لیکن انجام کار انہیں دردناک عذاب سے دوچار کردیں گے۔ ھود
49 (٣٧) اس آیت کریمہ سے نبی کریم کی رسالت کی تصدیق ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے واقعات کی خبر آپ کو اور آپ کی قوم کو بالکل نہیں تھی، یہ ساری تفصیلات آپ کو بذریعہ وحی معلوم ہوئی ہیں، اور یہ دلیل ہے اس بات کی کہ آپ اللہ کے نبی اور رسول تھے، اس کے بعد تعالیٰ نے نبی کریم کو نصیحت کی کہ دعوت و تبلیغ کی راہ میں آپ کو جو تکلیف پہنچے اس پر نوح (علیہ السلام) کی طرح صبر سے کام لیجیے، اور اس یقین کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کیے جائیے کہ دنیا میں فتح و کامرانی اور آخرت میں نعمت ابدی ہم اپنے انہی بندوں کو دیں گے جو تقوی کی راہ اختیار کریں گے۔ ھود
50 (٣٨) یہاں سے اللہ کے دوسرے نبی ہود (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا واقعہ کا آغاز ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کی ہدایت کے لیے ہود (علیہ السلام) کو مبعوث کیا تھا، جو انہی میں سے تھے، یہ لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے، ان کا واقعہ سورۃ الاعراف آیات (٦٥) سے (٧٥) تک تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے۔ ہود (علیہ السلام) نے ان سے کہا، اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی عبادت کرو جس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، اور تم جو اسے چھوڑ کر بتوں کی پرستش کرتے ہو تو یہ بہت بڑی افترا پردازی ہے، اس لیے کہ اللہ نے تمہیں کبھی نہیں کہا کہ اس کے بجائے اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کی عبادت کرو۔ ھود
51 (٣٩) اور اے میری قوم کے لوگو ! اس دعوت و تبلیغ کے کام پر میں تم سے کوئی اجرت بھی نہیں مانگتا ہوں کہ تمہیں شبہ ہو کہ میں کسی دنیاوی غرض کی خاطر تمہیں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں، میرا اجر تو وہ اللہ دے گا جس نے مجھے پیدا کیا ہے، کیا تمہیں اتنی بات بھی سمجھ نہیں آتی ہے کہ میری بے لوث دعوت، میری صداقت کی دلیل ہے۔ ھود
52 (٤٠) دعوت توحید کے بعد ہود (علیہ السلام) نے انہیں اللہ کے حضور توبہ و استغفار کی دعوت دی، اور کہا کہ اگر تم لوگ شرک سے توبہ کرلو گے اور اللہ کے دین پر عمل پیرا ہوجاؤ گے تو وہ تمہارے کھیتوں اور باغات کے لیے خوب بارش برسائے گا، اور مال و اولاد کے ذریعہ تمہاری قوت میں مزید اضافہ کرے گا۔ یہ لوگ کھیتوں اور باغات والے تھے اور بڑی زبردست جسمانی قوت کے مالک تھے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں کثرت باراں اور زیادتی قوت کا وعدہ کر کے ایمان کی ترغیب دلائی، اس کے بعد کہا کہ دیکھو اگر تم لوگ میری دعوت سے اعراض کرو گے اور اپنے کفر پر اصرار کرو گے تو اللہ کی نگاہ میں تم بڑے مجرمین میں سے ہوجاؤ گے۔ ھود
53 (٤١) لیکن انہوں نے کبر و عناد کی وجہ سے تمام دلائل و براہین کا یکسر انکار کردیا اور دانستہ جھوٹ بولتے ہوئے کہا کہ اے ہود ! چونکہ تم اپنی صداقت پر اب تک کوئی دلیل نہیں پیش کرسکے، اس لیے ہم صرف تمہاری باتوں میں آکر اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے ہیں اور تم پر ایمان نہیں لاسکتے ہیں۔ ھود
54 (٤٢) انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ تم جو ہمارے معبودوں کی عیب جوئی کرتے رہتے ہو، اسی لیے ہمارے کسی معبود نے تمہیں جنون میں مبتلا کردیا ہے، جس کے نتیجے میں تم ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو۔ ہود (علیہ السلام) نے انہیں ایسا جواب دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ان کافروں کی باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کی اور کہا کہ ان کا اعتماد صرف اللہ پر ہے، وہی ان کی حفاظت کرے گا، اور وہ سب ملکر بھی ان کا بال بیکا نہ کرسکیں گے، اس کے بعد کہ : میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم لوگ بھی گواہ رہو کہ میں تمہارے شرک سے بالکل بری ہوں، اب تم لوگ اپنی پوری طاقت لگا دو اور میرے خلاف جو سازش کرنا چاہو کرو، اور مجھے کوئی مہلت نہ دو۔ ھود
55 ھود
56 (٤٣) انہوں نے اپنی بات دہراتے ہوئے کہا کہ میں نے تو اس اللہ پر بھروسہ کرلیا ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے، اس لیے تم مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکو گے، زمین پر پائے جانے والے ہر ذی روح کا وہی مالک ہے، وہ ہر ایک پر قدرت رکھتا ہے، جس طرح چاہتا ہے ان میں تصرف کرتا ہے، اور میرا رب اپنے ملک و سلطنت میں بڑے عدل و انصاف کے ساتھ تصرف کرتا ہے، اور میں نے اسی کی جناب میں پناہ لے لی ہے، اور وہ ظلم کو گوارہ نہیں کرتا ہے، اور تم ظالم ہو، اس لیے وہ تمہیں مجھ پر غالب نہیں ہونے دے گا۔ ھود
57 (٤٤) ہود (علیہ السلام) نے ان سے مزید کہا کہ میں نے تمہیں دعوت توحید پہنچا دی ہے، اس لیے اگر تم لوگوں نے اعراض سے کام لیا تو اب تمہارے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہا، اللہ تعالیٰ تمہیں ہلاک کردے گا، اور کسی دوسری قوم کو لائے گا جو تمہارے اراضی اور اموال کا مالک بن جائے گی، اور تمہارے کفر و عناد، یا تمہاری ہلاکت سے اللہ کی سلطنت و حکومت میں کوئی کمی نہیں آجائے گی، جو کچھ نقصان ہوگا تمہارا ہوگا، اور میرا رب تو ہر چیز کی نگرانی کر رہا ہے، کوئی چیز بھی اس کے احاطہ علم سے خارج نہیں ہے، اس لیے تمہارے سارے اعمال اس کی نگاہ میں ہیں، اور وہ تمہیں ان کی سزا ضرور دے گا۔ ھود
58 (٤٥) چنانچہ اللہ کا عذاب ایک ایسی شدید اور خوفناک آندھی کی شکل میں آیا جس میں کوئی خیر نہیں تھی، اور جو سات رات اور آٹھ دن تک چلتی رہی، تمام کفار ہلاک ہوگئے، اور اللہ نے ہود اور ان کے مسلمان ساتھیوں کو بچا لیا، اور قیامت کے دن انہیں عذاب نار سے بھی نجات دے گا۔ ھود
59 (٤٦) یہ لوگ قوم عاد کے نام سے جانے جاتے تھے، انہوں نے کفر باللہ کا ارتکاب کیا تھا، اور آفاق و انفس میں موجود ان نشانیوں کا انکار کردیا تھا جو اللہ کی وحدانیت پر دلیل تھیں، اور مشرکانہ اعمال میں اپنے ان متکبر سرداروں کی پیروی کی تھی جو اللہ کے بندوں کو رسولوں کی تکذیب پر ابھارتے تھے۔ ھود
60 (٤٧) اور چونکہ انہوں نے اپنے متکبر و مغرور سرداروں کی پیروی میں کفر و شرک کی راہ اختیار کی تھی، اس لئیے اللہ تعالیٰ نے بطور سزا ان پر اس دنیا میں لعنت بھیج دی، اور آخرت میں بھی دائمی لعنت کے طور پر جہنم کے سپرد کردیے جائیں گے، گویا لعنت اور اللہ کی رحمت سے دوری ان کے لیے ہر حال میں لازم ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت بھیج دینے کا سبب بیان کرتے ہوئے دوبارہ فرمایا کہ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ انہوں نے اپنے رب کا انکار کردیا تھا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر ہمیشہ کے لیے ہلاکت و بربادی کی بددعا بھیج دی، مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت خبر دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ قوم عاد سے غایت درجہ غضبناک تھا، اور ان سے اس کی نفرت انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ ھود
61 (٤٨) اس آیت کریمہ سے صالح (علیہ السلام) اور ان کی قوم ثمود کا واقعہ شروع ہوتا ہے۔ یہ واقعہ سورۃ الاعراف میں آیات (٧٣) سے (٧٩) تک گزر چکا ہے۔ یہ لوگ مدائن حجر میں رہتے تھے جو تبوک اور مدینہ منورہ کے درمیان واقع تھا، صالح (علیہ السلام) ہود (علیہ السلام) کے سو سال کے بعد مبعوث ہوئے تھے اور دو سو اسی (٢٨٠) سال زندگی پائی تھی، ہود (علیہ السلام) کی طرح انہوں نے بھی اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ تم لوگ صرف اللہ کی عبادت کرو جس کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، جس نے تم سب کو مٹی سے پیدا کیا ہے (آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے بنایا اور جو قطرہ منی انسان کی پیدائش کا ذریعہ ہے اس کے اجزائے ترکیبی میں مٹی ہی بنیادی عصر ہے) اور تمہیں زمین میں آباد کیا، اور اسے آباد رکھنے کی تمہارے اندر صلاحیت ودیعت کی، اس لیے تم لوگ شرک سے توبہ کرو اور اللہ کی طرف رجوع کرو، اللہ بڑا ہی قریب ہے اور اپنے بندوں کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔ ھود
62 (٤٩) صالح (علیہ السلام) کی دعوت توحید کو ان لوگوں نے رد کرتے ہوئے کہا کہ اے صالح ! بچپن سے تمہارے عادات و اطوار کو دیکھ کر ہم نے امید لگا رکھی تھی کہ تم ہمارے سردار بنو گے اور ہمیں تم سے فائدہ پہنچے گا، اپنے انفرادی و اجتماعی امور میں تم سے مشورے لیا کریں گے، لیکن تمہاری باتیں سن کر ہماری امیدوں پر پانی پڑگیا اور ہمیں یقین ہوگیا کہ تمہارے اندر کوئی خیر نہیں ہے، جبھی تو تم ہمیں ان معبودوں کی عبادت سے روکتے ہو جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے آئے ہیں، تم جس توحید کی دعوت ہمیں دے رہے ہو اس کی صداقت کے بارے میں ہمارے دلوں میں بڑا قوی شک و شبہ پایا جاتا ہے۔ ھود
63 (٥٠) صالح (علیہ السلام) نے کہا، اے میری قوم کے لوگو ! میں اپنے رب کی جانب سے نازل کیے گئے دین حق پر قائم ہوں، اور اس نے مجھے نبوت سے نوازا ہے، اب ذرا بتاؤ تو سہی کہ اگر تمہیں خوش کرنے کے لیے اس کی نافرمانی کروں، تو مجھے اس کے عذاب سے کون بچائے گا؟ تم جو میری ہمت پست بنا رہے ہو اور چاہتے ہو کہ دعوت کا کام چھوڑ دوں، تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کیا ہوگا کہ میں خائب و خاسر ہوجاؤں گا اور اللہ کے عقاب کا مستحق ہوجاؤں گا۔ ھود
64 (٥١) اس آیت کی تفسیر سورۃ الاعراف آیت (٧٣) میں گزر چکی ہے۔ صالح (علیہ السلام) نے جب انہیں دعوت توحید دی تو انہوں نے کہا کہ اگر تم واقعی اللہ کے نبی ہو تو اللہ سے کہو کہ بطور نشانی اس پہاڑ سے ایک اونٹنی نکال دے، انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، اللہ نے ان کی دعا قبول کرلی اور پہاڑ سے اونٹنی نکل آئی، تب انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ اللہ نے بطور معجزہ تمہارے مطالبہ کے مطابق اونٹنی بھیج دی ہے، تم لوگ اسے نہ چھیڑو، یہ اللہ کی زمین میں جہاں چاہے گی جائے گی، کھائے گی، پیے گی، کوئی اسے نہ چھیڑے اور نہ تکلیف پہنچائے، ورنہ تم پر بہت جلد اللہ کا عذاب آجائے گا۔ ھود
65 (٥٢) لیکن ان بدبختوں نے ان کی ایک نہ سنی، اور اس اونٹنی کو قتل کردیا، اور ان کی سرکشی انتہا کو پہنچ گئی، تو صالح (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے ان سے کہا کہ اب تم لوگ تین دن تک اپنے گھروں میں رہ کر اپنے انجام کا انتظار کرو، یہ اللہ تعالیٰ کا قطعی اور حتمی فیصلہ ہے، انہوں نے اونٹنی کو بدھ کے قتل کیا تھا، اس کے بعد (جمعرات، جمعہ اور ہفتہ) تین دن تک زندہ رہے، اتوار کے دن صبح کے وقت اللہ کا عذاب ان پر نازل ہوگیا۔ ھود
66 (٥٣) اللہ تعالیٰ نے صالح (علیہ السلام) اور ان کے مسلمان ساتھیوں کو اس عذاب سے بچا لیا۔ ھود
67 (٥٤) وہ ہیبت ناک اور خطرناک چیخ تھی جو آسمان سے آئی تھی، جس کی شدت تاثیر سے تمام کافروں کے جسموں پر کپکپی طاری ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سبھی موت کے گھاٹ اتر گئے۔ ھود
68 (٥٥) اور ان کی بستیاں ایسی ویران و سنسان ہوگئیں کہ جیسے پہلے سے وہاں کوئی رہتا ہی نہیں تھا، اور ان کے ساتھ ایسا اس لیے ہوا کہ انہوں نے اپنے رب کا انکار کردیا تھا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر ہمیشہ کے لیے لعنت و بربادی مسلط کردی۔ یہ آیت خبر دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ قوم عاد کی طرح، قوم ثمود سے بھی غایت درجہ غضبناک تھا اور ان سے اس کی نفرت انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ ھود
69 (٥٦) اس آیت کریمہ سے لوط (علیہ السلام) اور ان کی قوم کے واقعہ کا آغاز ہوتا ہے، اور یہ واقعہ ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے، لوط علیہ السلام، ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے، قوم لوط کی بستیاں شام کے علاقے میں تھیں اور ابراہیم (علیہ السلام) فلسطین میں قیام پذیر تھے، اللہ تعالیٰ نے جن فرشتوں کو قوم لوط کو ہلاک کرنے کے لیے بھیجا تھا، وہاں جانے سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس گئے، تاکہ انہیں بیٹا اسحاق اور پوتا یعقوب کی خوشخبری دیں، یہ فرشتے جبرئیل، میکائیل اور اسرافیل تھے، بعض کا خیال ہے کہ ان کی تعداد نو تھی، اور بعض کا خیال ہے کہ ان کی تعداد گیارہ تھی، انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) سے اپنے کلام کا آغاز سلام سے کیا یعنی سلام علیکم کہا، ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے سلام کا بہتر جواب دیا، اور انہیں مہمان سمجھ کر بہت خوش ہوئے، اور کھانے کے لیے بھچڑے کا بھنا ہوا گوشت پیش کیا۔ ھود
70 (٥٧) لیکن جب دیکھا کہ وہ کھانے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھا رہے ہیں، تو دل میں ان کے بارے میں شبہ ہونے لگا اور کسی انجانے خطرے کی آمد سے ڈر گئے، اس لیے کہ اس زمانے میں دستور یہ تھا کہ مہمان جب کسی برائی کی نیت سے آتا تو میزبان کا کھانا نہیں کھاتا تھا، تب ان فرشتوں نے کہا کہ اے ابراہیم ! آپ نہ ڈریے، ہم اللہ کے فرشتے ہیں اور قوم لوط کو ہلاک کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ ھود
71 (٥٨) ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی بیوی دونوں ہی مہمان کی خدمت میں لگے ہوئے تھے، ابراہیم بیٹھے تھے اور سارہ کھڑی تھیں، کھانے کی چیزیں مہمانوں کے سامنے لاکر رکھ رہی تھیں، جب انہوں نے دیکھا کہ ہم نے تو مہمان کی خاطر اتنا سب کچھ کیا ہے، اور یہ کیسے مہمان ہیں کہ ہمارا کھانا نہیں کھا رہے ہیں تو وہ بھی ڈر گئیں، لیکن جب انہوں نے اپنی حقیقت بتا دی تو ان کے دل سے بھی خوف جاتا رہا اور خوشی اور حیرت کی وجہ سے ہنس پڑیں، کہ جنہیں وہ انسان سمجھ رہی تھیں وہ فرشتے نکلے، اور خوش ہوئیں کہ یہ لوگ کسی شر کی نیت سے ان کے پاس نہیں آئے ہیں، بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ اس خبر پر خوش ہوئیں کہ یہ لوگ قوط لوط کو ہلاک کرنے کے لیے آئے ہیں جن کا شر و فساد انتہا کو پہنچ گیا تھا، جب ابراہیم اور ان کی بیوی سارہ کو معلوم ہوگیا کہ یہ لوگ اللہ کے فرشتے ہیں تب اللہ نے ان فرشتوں کے ذریعہ سارہ علیہا السلام کو اسحاق کی اور اسحاق کے بیٹے یعقوب کی خوشخبری دی۔ ھود
72 (٥٩) اس وقت سارہ کی عمر نوے سال تھی اور ایک قول کے مطابق ننانوے سال تھی، اور ابراہیم (علیہ السلام) ایک سو، یا ایک سو بیس سال کے تھے، جب اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو ہاجرہ علیہا السلام کے بطن سے اسماعیل عطا کیا تو سارہ نے تمنا کی، کاش انہیں بھی بیٹا ہوتا، لیکن اپنی کبر سنی کی وجہ سے ناامید تھیں، اس وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور انہیں بیٹے کی خوشخبری دی تو سارہ نے غایت تعجب کی وجہ سے ان فرشتوں سے کہا کہ مجھے لڑکا کیسے ہوسکتا ہے، میں تو نوے سال کی بڑھیا ہوں اور میرے شوہر بھی بوڑھے ہیں، یہ تو بڑی عجیب و غریب بات ہوگی کہ بوڑھے اور بوڑھی کے ملاپ سے لڑکا پیدا ہو۔ ھود
73 (٦٠) فرشتوں نے سارہ کی حیرت و استعجاب دیکھ کر کہا کہ تم تو نبی کی بیوی ہو، تم سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے تو پھر یہ تعجب کیسا؟ اللہ تعالیٰ کا یہی فیصلہ اور یہی حکم ہے، تم لوگ نبی کے گھرانے والے ہو، تم پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے، اور اللہ تو ہمیشہ اپنے بندوں پر نعمتوں کی بارش کرتا رہتا ہے، تاکہ وہ اس کی تعریف بیان کریں اور اس کا شکر ادا کریں اور وہ ہمیشہ ہی اپنے بندوں پر احسان کرتا رہتا ہے۔ ھود
74 (٦١) جب ابراہیم کے دل سے ڈر نکل گیا، اور انہیں بیٹے اور پوتے کی خوشخبری مل گئی، تو قوم لوط کی ہلاکت کے بارے میں فرشتوں سے کہنے لگے کہ وہاں لوط اور کچھ دیگر مسلمان بھی ہیں، ان کا کیا حال ہوگا، اور ان کا مقصد یہ تھا کہ اسی بہانے اللہ قوم لوط سے عذاب کو ٹال دے، اس لیئے کہ ابراہیم بڑے ہی بردبار اور بڑے ہی رحم دل تھے برا کرنے والوں سے انتقام لینے میں جلدی نہیں کرتے تھے، اور ہر دم اللہ سے لو لگائے رہتے تھے۔ ھود
75 ھود
76 (٦٢) فرشتوں نے ابراہیم (علیہ السلام) سے کہا کہ اب آپ اس موضوع پر کوئی بات نہ کیجیے۔ اللہ کا فیصلہ صادر ہوچکا ہے، اور ان پر عذاب آکر رہے گا، کوئی دعا اور کوئی سفارش سے ٹال نہیں سکتی ہے۔ بعض مفسرین نے مذکورہ بالا آیات کی تفسیر کے ضمن میں لکھا ہے کہ معلوم ہوا کہ اولاد نرینہ اللہ کی نعمت ہے، اور اللہ کے نافرمانوں کا ہلاک ہونا بھی نعمت ہے، اور جب کسی کو کوئی خوشخبری ملے تو اسے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اصم نے روایت کی ہے کہ فرشتے ابراہیم کے پاس اس وقت آئے جب وہ کھیت میں کام کر رہے تھے، کام سے فارغ ہوتے ہی اپنی کدال زمین پر رکھ دی اور دو رکعت نماز پڑھی، اور سلام کرنا جائز ہے اور اس کا بہتر جواب دینا سنت ابراہیمی ہے، اس لیے کہ ابراہیم نے جواب میں سلام کہا جو افضل جواب پر دلالت کرتا ہے، اور بیوی آدمی کے اہل بیت میں داخل ہے اس لیے نبی کریم کی بیویاں (امہات المومنین) آپ کے اہل بیت میں شامل ہیں۔ ھود
77 (٦٣) جب وہ فرشتے ابراہیم (علیہ السلام) سے رخصت ہو کر لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے تو وہ خوبصورت کم عمر نوجوانوں کی شکل میں تھے، لوط انہیں اس حال میں دیکھ کر پریشان خاطر ہوئے، اور دل میں سوچا کہ آج کا دن تو بڑا ہی مشکل دن ہے، میں ان مہمانوں کو بدمعاشوں سے کیسے بچا سکوں گا؟ ھود
78 (٦٤) قوم لوط کو ان خوبصورت مہمانوں کے آنے کی اطلاع ملی، تو ان کے ساتھ لواطت کی نیت سے بہت ہی تیزی کے ساتھ دوڑتے ہوئے لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچ گئے، اس لیے کہ پہلے سے ہی مردوں کے ساتھ بدفعلی کرنی ان کی خبیث عادت چلی آرہی تھی اور شرم و حیا نام کی کوئی چیز ان کے اندر باقی نہیں رہ گئی تھی۔ جب انہوں نے ان مہمانوں کی طرف دست درازی کرنی چاہی، تو لوط نے مہمانوں کا دفاع کرتے ہوئے اور بدمعاشوں کو خیر کی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو ! یہ میری بیٹیاں یعنی قوم کی بچیاں موجود ہیں، تم لوگ ان سے شادی کرلو، دنیاوی اور اخروی ہر اعتبار سے یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ اور اچھی رہیں گی۔ دیکھو ! اللہ سے ڈرو اور زنا سے بھی خبیث لواطت کا ارتکاب کر کے اس کی نافرمانی نہ کرو، اور مہمانوں پر دست درازی کر کے مجھے رسوا نہ کرو، کیا تم میں کوئی بھی ایسا آدمی نہیں ہے جو اس فعل قبیح سے باز آجائے، اور نیکی کی راہ اختیار کرے؟ ھود
79 (٦٥) ان بدبختوں نے لوط (علیہ السلام) کی نصیحت پر کوئی دھیان نہیں دیا، اور انتہائی بے حیائی کے ساتھ اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے ہوئے کہا اے لوط ! تم پہلے سے جانتے ہو کہ ہم عورتوں کی خواہش نہیں رکھتے ہیں، تمہیں خوب معلوم ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں، ہمیں اپنی شہوت کی آگ بجھانے کے لیے وہ کم عمر خوبصورت لڑکے چاہیے جو تمہارے پاس موجود ہیں۔ ھود
80 (٦٦) جب لوط (علیہ السلام) کو یقین ہوگیا کہ وہ بدبخت ان کے مہمانوں پر ضرور دست درازی کریں گے تو کہا، کاش ! مجھ میں قوت ہوتی یا میرے خاندان کے لوگ یہاں موجود ہوتے تو میں ضرور تمہیں مار بھگاتا، اور اپنے مہمانوں کی حفاظت کرتا۔ امام ابن حزم نے اپنی کتاب الملل والنحل میں لکھا ہے : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جو صحیح حدیث میں نبی کریم نے فرمایا ہے کہ اللہ لوط پر رحم کرے، وہ کسی قوی چیز کا سہارا ڈھونڈتے تھے، یہ لوط (علیہ السلام) پر رسول اللہ کا اعتراض تھا، تو یہ بات صحیح نہیں ہے، بلکہ لوط (علیہ السلام) نے خاندان یا مسلمان پیروکاروں کے ذریعہ فوری مدد چاہی تھی، تاکہ اپنی قوم کو فعل لواطت سے روک سکیں، ان کے دل و دماغ سے یہ بات ایک لمحہ کے لیے بھی غائب نہیں ہوئی تھی کہ اللہ کا سب سے قوی سہارا انہیں ہر حال میں حاصل ہے۔ اور لوط نے اگر لوگوں کا سہارا ڈھونڈا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ (ولولا دفع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الارض) کہ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ دور نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا۔ (البقرہ : ٢٥١) اور خود نبی کریم نے انصار و مہاجرین سے مدد مانگی تھی تاکہ اللہ کا دین دوسروں تک پہنچا سکیں، تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رسول اللہ نے لوط (علیہ السلام) پر ایسے فعل کے بارے میں اعتراض کیا ہو جو انہوں نے خود کیا تھا؟ اس لیے حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ نبی کریم نے لوط (علیہ السلام) کے بارے میں خبر دی ہے کہ انہیں اللہ کی جانب سے بھیجے گئے فرشتوں کا سہارا حاصل تھا، جس کی انہیں ابتدا میں خبر نہیں تھی۔ ھود
81 (٦٧) جب فرشتوں نے ان کی یہ درد بھری بات سنی اور دیکھا کہ ان کی قوم کے بدمعاش لوگ ان پر چڑھ آئے ہیں، اور وہ مہمانوں کا دفاع کرنے سے عاجز ہوگئے ہیں، تو اپنی حقیقت ظاہر کردی اور کہا کہ اے لوط ! ہم آپ کے رب کے فرشتے ہیں، یہ لوگ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے، آپ آخری پہر رات میں جب لوگ خواب غفلت میں مبتلا ہوں اپنے مسلمان ساتھیوں کو لے کر یہاں سے نکل جایے، تاکہ کوئی کافر آپ لوگوں کو یہاں سے نکل جانے سے روک نہ سکے، اور جب ان پر عذاب نازل ہورہا ہو اور آپ لوگ ان کی چیخ و پکار سنیں تو مڑ کر نہ دیکھیے، تاکہ کہیں اس عذاب کا اثر آپ تک نہ پہنچ جائے، لیکن آپ کی بیوی پر وہ عذاب ضرور نازل ہوگا، اس لیے کہ وہ مومن نہیں ہے، کہا جاتا ہے کہ صبح کے وقت روانہ ہونے والے مسلمانوں کے ساتھ وہ بھی تھی، لیکن جب اس نے چیخ و پکار سنی تو مڑ کر دیکھنے لگی، اچانک آسمان سے ایک پتھر آیا اور اسے ہلاک کردیا، ایک روایت کے مطابق لوط (علیہ السلام) کے پاس مہمانوں کی اطلاع بدمعاشوں کو اسی نے دی تھی۔ ھود
82 (٦٨) جب عذاب کا وقت موعود آگیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبریل (علیہ السلام) نے اپنا پر قوم لوط کی پانچوں بستیوں کے نیچے داخل کر کے انہیں زمین کی سطح سے بہت ہی اوپر اٹھا دیا، اور پھر انہیں الٹ کر زمین پر دے مارا، اس کے بعد ان پر لگاتار پتھروں کی بارش کردی، جن پر اللہ کی جانب سے ہر کافر کے نام لکھے تھے۔ مفسر مہایمی لکھتے ہیں کہ چونکہ ان کا عمل زانیوں کے عمل کے مشابہ تھا، اسی لیے ان پر پتھروں کی بارش کردی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ بستیاں مکہ کے مشرکین سے کچھ زیادہ دور نہیں ہیں، جب وہ شام کے سفر پر روانہ ہوتے ہیں، تو ان بستیوں کے بھولے بسرے آثار کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، انہیں دیکھ کر عبرت حاصل کریں کہ کہیں انہیں بھی قوم لوط کی طرح اللہ کا عذاب پکڑ نہ لے، ان بستیوں کی جگہ اب کھارے پانی کا سمندر پایا جاتا ہے، جسے بحر میت کہتے ہیں، اس لیے کہ اس کا پانی کوئی جاندار نہیں پی سکتا ہے، اسے بحیرہ لوط بھی کہتے ہیں، اور اس کے آس پاس کی زمین بنجر ہے جو کچھ بھی نہیں اگاتی ہے۔ ھود
83 ھود
84 (٦٩) اس آیت کریمہ سے شعیب (علیہ السلام) اور ان کی قوم اہل مدین کے واقعہ کا آغاز ہوتا ہے، یہ واقعہ سورۃ الاعراف میں آیات (٨٥) سے (٩٣) تک تفصیل کے ساتھ گزر چکا ہے، شعیب (علیہ السلام) اپنے حسن خطابت کی وجہ سے خطیب الانبیاء کہلاتے تھے، انہوں نے پہلے اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی، اس کے بعد ناپ تول میں کمی کرنے سے منع کیا، جو کفر کے بعد ان کی دوسری بری صفت تھی، جب کسی سے کوئی چیز خریدتے تو بڑا پیمانہ اور بڑا سیر استعمال کرتے، اور جب کوئی چیز بیچتے تو چھوٹا پیمانہ اور چھوٹا سیر استعمال کرتے، پھر کہا کہ تمہیں اللہ تعالیٰ نے گوناگوں نعمتوں سے نواز رکھا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے گناہوں کی وجہ سے یہ نعمتیں تم سے چھن جائیں، اور کوئی مہلک اور دردناک عذاب تمہیں اپنی گرفت میں لے لے۔ ھود
85 (٧٠) پہلے ناپ تول میں کمی کرنے سے منع فرمایا، اب اسی کی تاکید کے طور پر کہا کہ جب لوگوں کے ساتھ خریدوفروخت کا معاملہ کرو تو عدل و انصاف کو ملحوظ رکھتے ہوئے پورا ناپو اور تولو۔ اس کے بعد مزید تاکید کے طور پر کہا کہ لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں کمی نہ کرو، چاہے وہ ناپ تول میں ہو یا کوئی اور معاملہ ہو، اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ، اور فساد میں ہر وہ عمل داخل ہے جس سے اللہ کی نافرمانی ہوتی ہو (جیسے شرک باللہ کا ارتکاب کرنا، اور اس کی طرف غیروں کو بلانا، اور اللہ کے دین سے لوگوں کو روکنا) یا بندوں کے حقوق پامال ہورہے ہوں جیسے چوری کرنا، ڈاکہ ڈالنا، اور ناپ تول میں کمی کرنا وغیرہ۔ ھود
86 (٧١) آخر میں شعیب (علیہ السلام) نے انہیں نہایت مخلصانہ نصیحت کی کہ لوگوں کے حقوق عدل و انصاف کے ساتھ ادا کرنے کے بعد، تمہارے پاس اللہ کا دیا ہوا جو حلال مال بچ جائے وہ اس مال سے زیادہ بابرکت ہے جو ناپ تول میں کمی، لوگوں کے حقوق مار کے، اور چوری اور ڈاکہ زنی کے ذریعہ حاصل کیا جائے، اس کے بعد ان سے کہا کہ میں تو اللہ کے دین کا مبلغ ہوں، اپنی ذمہ داری پوری کر رہا ہوں، تم پر نگراں مقرر نہیں ہوں کہ تمہیں زبردستی برے اعمال سے روک دوں۔ ھود
87 (٧٢) شعیب (علیہ السلام) کثرت سے نماز پڑھتے تھے اور ذکر الہی میں مشغول رہتے تھے، اسی لیے کافروں نے ان کی دعوت کو ٹھکراتے ہوئے کہا کہ اے شعیب ! کیا تمہاری نمازیں تمہیں حکم دیتی ہیں کہ ہم ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے تھے، یا اپنے مال کے بڑھا دے کے لیے جو کچھ ہم کرتے آئے ہیں اسے چھوڑ دیں، تم تو خاندان اور قوم میں بہت ہی سوجھ بوجھ والے سمجھے جاتے تھے، پھر یہ بہکی بہکی باتیں کیوں کرتے ہو؟ ھود
88 (٧٣) شعیب (علیہ السلام) نے ان کے کفر و عناد اور استہزا کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ لوگو ! اللہ نے مجھے علم و نبوت کی نعمت سے نوازا ہے، اور میری حلال روزی میں خوب وسعت عطا فرمائی ہے، تو کیا میرے لیے یہ مناسب ہے کہ صرف تمہیں خوش رکھنے کے لیے اللہ کی وحی میں خیانت کروں، لوگوں کو شرک و ظلم سے روکنا اور اصلاح نفس کی دعوت دینا چھوڑ دوں؟ اور میں نہیں چاہتا کہ جن کاموں سے تمہیں روکتا ہوں وہی کام میں خود کروں، تمہیں تو بتوں کی عبادت سے منع کروں اور خود اس پر عمل نہ کروں، اور میں نے جو تمہیں خیر کے کام کرنے کی دعوت دی ہے اور برائی سے روکا ہے، تو میرا مقصود تمہاری اصلاح ہے اور مجھے ہر خیر کی توفیق دینے والا اللہ ہے، میرا اعتماد صرف اسی پر ہے اور خوشی اور غم ہر حال میں میرا ملجا و ماوی صرف وہی ہے۔ ھود
89 (٧٤) انہیں کفر و عناد سے ڈراتے ہوئے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو ! میری دشمنی اور مخالفت کی وجہ سے اپنے کفر و فساد انگیزی پر اصرار نہ کرو، ورنہ تم پر بھی اللہ کا عذاب اسی طرح نازل ہوجائے گا، جس طرح قوم نوح، قوم ہود، قوم صالح اور قوم لوط پر تم سے پہلے نازل ہوچکا ہے، اور قوم لوط کا زمانہ اور ان کا علاقہ تم سے کچھ زیادہ دور نہیں ہے اور ان پر اللہ تعالیٰ کا جو عذاب آیا وہ تمہیں معلوم ہے اور اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ انہوں نے کفر و عناد پر اصرار کیا اور لوط (علیہ السلام) کی بات کو ٹھکرا دیا تھا۔ ھود
90 (٧٥) عذاب سے ڈرانے کے بعد انہیں نصیحت کی کہ وہ بتوں کی عبادت سے تائب ہوجائیں، اللہ سے مغفرت طلب کریں، توحید باری تعالیٰ پر عمل پیرا ہوجائیں اور ناپ تول میں کمی کرنے سے باز آجائیں، تو اللہ بڑا ہی مہربان ہے اور اپنے بندوں سے بڑا ہی محبت کرنے والا ہے، وہ یقینا انہیں معاف کردے گا اور ان پر رحم کرے گا۔ ھود
91 (٧٦) انہوں نے حقارت آمیز انداز میں کہا کہ اے شعیب ! تمہاری ابتیں تو ہمیں سمجھ میں نہیں آتیں، تم غیبی امور کی باتیں کرتے ہو، موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے، توحید باری تعالیٰ اور مال میں حلال و حرام کی باتیں کرتے ہو، یہ سب باتیں قابل قبول نہیں ہیں، اور تم اپنی انہی باتوں کی وجہ سے سب سے کٹ کر تنہا رہ گئے ہو تمہاری کوئی حیثیت نہیں رہ گئی ہے، اگر تمہاری قوم کا خیال نہ ہوتا تو ہم تمہیں پتھروں سے مار مار کر ہلاک کردیتے، اور تم ہماری نظر میں کسی حیثیت سے بھی معزز نہیں ہو کہ تمہیں رجم نہ کرتے، یہ صرف تمہاری قوم کا خیال آتا ہے کہ تمہیں اب تک چھوڑ رکھا ہے، اس لیے کہ وہ لوگ ہمارے دین پر ہیں۔ ھود
92 (٧٧) شعیب (علیہ السلام) نے کہا کہ میرا خاندان تمہاری نظر میں اللہ سے زیادہ معزز ہے، تم لوگوں نے اس کے دین اس کے حکم اور اس کی وحی کو ٹھکرا دیا ہے، اور میرے خاندان کے کافروں کا لحاظ کر کے مجھ پر احسان جتا رہے ہو، بیشک میرا رب تمہارے تمام کرتوتوں کو خوب جانتا ہے، اور وہ تمہیں اس کی سزا ضرور دے گا۔ ھود
93 (٧٨) جب شعیب (علیہ السلام) ان کی طرف سے بالکل ناامید ہوگئے، تو کہا اے میری قوم کے لوگو ! تم لوگ اپنے کفر و سرکشی کی راہ پر چلتے جاؤ اور جو کرنا چاہو کیے جاؤ، میں بھی صبر و استقامت کے ساتھ اپنی راہ پر گامزن رہتا ہوں، تم لوگ عنقریب ہیہ جان لو گے کہ اللہ کا رسوا کن عذاب کسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور کون جھوٹا ہے اور اب تم لوگ اپنی ہلاکت و بربادی کا انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔ ھود
94 (٧٩) جب اللہ کا عذاب قوم شعیب پر نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے شعیب (علیہ السلام) اور ان کے مسلمان ساتھیوں کو اپنے فضل خاص سے ان کے ایمان کی بدولت اس عذاب سے بچا لیا، اور جن لوگوں نے کفر و عناد کی وجہ سے اپنے آپ پر، اور لوگوں کا مال ناجائز طور پر لے کر دوسروں پر ظلم کیا تھا، انہیں اللہ کے عذاب نے اپنی گرفت میں لے لیا، وہ عذاب جبریل (علیہ السلام) کی ایک شدید شیخ تھی جس کے اثر سے ان کی روحیں ان کے جسموں سے پرواز کر گئیں، سورۃ الاعراف اور سورۃ العنکبوت میں آیا ہے کہ شدید زلزلہ آیا جس سے متاثر ہو کر تمام لوگ ہلاک ہوگئے، یہ زلزلہ جبریل (علیہ السلام) کی شدید چیخ کا ہی نتیجہ تھا اور یہ عذاب شعیب (علیہ السلام) کی بستی والوں پر آیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے شعیب (علیہ السلام) کو ایکہ والوں کے لیے بھی نبی بنا کر بھیجا تھا، انہوں نے بھی نافرمانی کی تو اللہ نے انہیں ایک آگ کے ذریعہ ہلاک کردیا تھا جو آسمان سے آئی تھی۔ جبریل (علیہ السلام) کی چیخ کا یہ اثر ہوا کہ وہ تمام لوگ اپنے گھروں میں ہی مر گئے، اور اس طرح ختم ہوگئے جیسے وہاں کبھی وہ لوگ آباد تھے ہی نہیں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر ہمیشہ کے لیے ہلاکت و بربادی مسلط کردی، جس طرح قوم ثمود پر اس سے پہلے مسلط کردی تھی، اس لیے کہ ان کے علاقے ایک دوسرے کے قریب تھے، کفر و سرکشی اور ڈاکہ زنی میں بھی ایک جیسے تھے، اور دونوں ہی قومیں دیہات میں رہتی تھیں۔ ھود
95 ھود
96 (٨٠) اس آیت کریمہ سے آیت (٩٨) تک موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا واقعہ بہت ہی اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اور یہ ساتواں واقعہ ہے جو اس سورت میں انبیائے کرام اور ان کی قوموں کے واقعات کے ضمن میں بیان ہوا ہے۔ آیات اور (سلطان مبین) کے معنی کی تعیین میں مفسرین کے کئی اقوال آئے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ آیات سے مراد وہ نو نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دی تھیں اور (سلطان مبین) سے مراد عصائے موسوی ہے، جو اگرچہ نو نشانیوں میں شامل ہے، لیکن چونکہ اس کی ایک خاص حیثیت تھی، اسی لیئے اس کا ذکر مستقل طور پر کیا گیا ہے، اور فرعون کے ساتھ صرف سرداران قوم کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ عوام اپنے تمام امور میں انہی سرداروں کی پیروی کرتے تھے، اور سرداران اپنے کفر و عناد میں فرعون کی پیروی کرتے تھے، جس کا ہر معاملہ ضلالت و گمراہی لیے ہوئے تھا۔ ھود
97 ھود
98 (٨١) قیامت کے دن فرعون جہنم کی طرف جاتے ہوئے اپنی قوم کے آگے آگے چلے گا، جس طرح دنیا میں ضلالت و گمراہی کی راہوں پر چلنے میں ان سے پیش پیش رہتا تھا، یہاں تک کہ ان سب کو جہنم میں پہنچا دے گا۔ آیت میں فرعون کو اس پہلے جانور سے تشبیہ دیا گیا ہے جو تالات سے پانی پینے کے لیے جاتے وقت سب جانوروں سے آگے ہوتا ہے، اور اس کے پیروکاروں کو پیچھے پیچھے آنے والے باقی جانوروں سے، اور جہنم کی آگ کو تالاب کے پانی سے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد فرمایا کہ جہنم کی آگ بڑا ہی برا گھاٹ ہوگا جہاں وہ لوگ پہنچیں گے، اس لیے کہ پانی سے پیاس بجھتی ہے، کلیجہ ٹھنڈا ہوتا ہے، اور آگ تو سینہ کو جلا دیتی ہے اور انتڑیوں اور جگر کو کاٹ کر باہر نکال دیتی ہے، العیاذ باللہ۔ ھود
99 (٨٢) جہنم جیسے بدترین ٹھکانے کا حال بیان کرنے کے بعد بدقسمت فرعونیوں کا حال بیان کیا جارہا ہے، کہ اللہ کی لعنت ان پر اس دنیا میں تو بھیج ہی دی گئی تھی، آخرت میں بھی ان پر لعنت برسے گی یعنی وہ جہاں بھی ہوں گے اللہ کی رحمت سے دور ہوں گے۔ رفد بخشش اور عطا کو کہتے ہیں، یہاں لعنت کو بخشش سے تعبیر کر کے فرعونیوں کی غایت درجہ کی اہانت اور ہتک عزتی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ھود
100 (٨٣) اللہ تعالیٰ نے سات انبیائے اکرام اور ان کی قوموں کے واقعات بیان کرنے کے بعد نبی کریم سے فرمایا کہ ہم یہ واقعات اس لیے بیان کر رہے ہیں تاکہ آپ کفار مکہ کو سنا دیں، شاید کہ وہ ان کے انجام سے عبرت حاصل کریں، ان بستیوں میں سے بعض کے کھنڈرات اب تک باقی ہیں، اور بعض کا نشان تک مٹ چکا ہے۔ ھود
101 (٨٤) ان قوموں کو ہلاک کر کے اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا، بلکہ کفر و معاصی کا ارتکاب کر کے انہوں نے خود اپنے لیے ہلاکت و بربادی کا سامان مہیا کیا، اور جب ان پر عذاب نازل ہوا تو ان کے جھوٹے معبود ان کے کچھ بھی کام نہ آئے، بلکہ درحقیقت دنیا و آخرت میں وہی ان کی بربادی کا سبب بنے۔ ھود
102 (٨٥) اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہ سنت رہی ہے کہ وہ ظالموں کا ضرور مواخذہ کرتا ہے، اس لیے ظالموں کو برے انجام سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ ھود
103 (٨٦) جو واقعات اقوام و امم اور ان کا دردناک انجام اس سورت میں بیان کیا گیا ہے، ان میں ان لوگوں کے لیے عبرت ہے جو عذاب آخرت سے ڈرتے ہیں کیونکہ ان سے فائدہ وہی لوگ اٹھائیں گے اور وہ دن ایسا ہوگا جب تمام بنی نوع انسان میدان محشر میں جمع کیے جائیں گے، اور حساب و کتاب کے بعد اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کے کیے کی جزا یا سزا دے گا۔ ھود
104 ھود
105 (٨٧) قیامت کے دن کوئی شخص بھی اللہ کی اجازت کے بغیر ایک کلمہ نہ اپنے دفاع کے لیے اپنی زبان سے نکالے گا اور نہ ہی کسی کی سفارش میں بولے گا، لیکن سورۃ النحل آیت (١١١) میں آیا ہے کہ ہر آدمی اس دن اپنی نجات کے لیے جھگڑا کرے گا۔ (یوم تاتی کل نفس تجادل عن نفسھا) اور سورۃ الانعام آیت (٢٣) میں آیا ہے کہ مشرکین کہیں گے : (ربنا ما کنا مشرکین) کہ اے ہمارے رب ! ہم لوگ مشرک نہیں تھے۔ اس لیے علمائے تفسیر نے ان دونوں قسم کی آیتوں کے درمیان اس طرح تطبیق دی ہے کہ میدان محشر میں لوگوں کے حالات مختلف ہوں گے، کبھی تو کسی کی زبان گنگ ہوگی، اور کبھی کوئی اپنی نجات کے لیے جھگڑ رہا ہوگا۔ وعلی ہذا القیاس۔ قیامت کے دن کچھ لوگ ایسے بدبخت ہوں گے جن کا ٹھکانا جہنم ہوگا، اور کرب و غم کے مارے ان کے سینوں سے آہیں اٹھ رہی ہوں گی، وہاں ہمیشہ کے لیے رہیں گے، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی کو محض اپنے فضل و کرم سے اس میں نہ ڈالے، یا یہ کہ نافرمان توحید پرستوں کو ایک مدت کے بعد جہنم سے نکال دے، ایسی صورت میں (فاما الذین شقوا) کی عبارت کافروں اور مسلمان گناہ گاروں سب کو شامل ہوگی۔ اور یہ بات تو متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ اہل توحید جہنم سے بالآخر نکال دیئے جائیں گے، اور اس دن کچھ لوگ خوش قسمت ہوں گے جنہیں ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل کردیا جائے گا، جس کی نعمتیں کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ ھود
106 ھود
107 ھود
108 ھود
109 (٨٨) آیت میں خطاب نبی کریم کو ہے، لیکن مقصود دوسرے لوگ ہیں، جن کے دل و دماغ میں بتوں اور دیگر معبودان باطل کے جھوٹے معبود ہونے میں کسی قسم کا شک ہو، اس لیے کہ آپ اس قسم کے شک سے قطع طور پر پاک تھے، آیت کا معنی یہ ہے کہ آپ کفار کے معبودوں کے باطل ہونے میں بالکل شبہ نہ کریں، ان کے معبود بھی ان کے باپ دادوں کے معبودوں کے مانند جھوٹے اور باطل ہیں، اور ہم ان کے باپ دادوں کی طرح انہیں بھی عذاب دیں گے اور اس میں کوئی کمی نہیں کریں گے۔ ھود
110 (٨٩) نبی کریم کو تسلی دی جارہی ہے کہ ہم نے موسیٰ کو تورات دیا تھا، تو لوگ اس کے بارے میں دو جماعتوں میں بٹ گئے، کچھ لوگ اس پر ایمان لائے، اور کچھ لوگوں نے اس کا انکار کردیا، اسی طرح کچھ لوگوں نے اس میں موجود احکام پر عمل کیا، اور کچھ لوگوں نے عمل نہیں کیا، تو اے میرے نبی قرآن کریم کے سلسلے میں بھی کفار کا رویہ دیکھ کر آپ کبیدہ خاطر نہ ہوں، اگر پہلے سے اللہ کا فیصلہ نہ ہوتا کہ قیامت کے دن تک کے لیے عذاب کو ان سے موخر کردیا جائے، تو فورا ہی ان کا فیصلہ کردیا جاتا۔ آیت کا ایک دوسرا معنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کی رحمت اس کے غضب پر سبقت کرگئی ہے، اسی لیے اللہ نے انہیں ڈھیل دے دیا ہے، اور عذاب میں جلدی نہیں کی ہے، حقیقت یہ ہے کہ کفار قرآن کریم کے بارے میں بہت ہی گہرے شک میں مبتلا ہیں۔ ھود
111 (٩٠) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اگلی اور پچھلی تمام امتوں کو جمع کرے گا، ہر ایک کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا، اگر اچھا عمل ہوگا تو اچھا بدلہ دے گا، اور اگر برا عمل کیا ہوگا تو برا بدلہ دے گا، ان کا کوئی عمل بھی اللہ سے مخفی نہیں ہے، چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، اچھا ہو یا برا، آیت کے اس حصہ میں نیک عمل کرنے والوں کے لیے جنت کا وعدہ اور برا عمل کرنے والوں کے لیے جہنم کی دھمکی ہے۔ ھود
112 (٩١) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور دیگر مومن بندوں کو دین حق پر ہر حال میں ثابت قدم رہنے کا حکم دیا ہے، اس لیے کہ دشمنان دین پر غالب آنے کا یہی سب سے بڑا ذریعہ ہے، اور اللہ کے خلاف بغاوت و سرکشی سے منع کیا ہے، اس لیے کہ ہلاکت و بربادی کا یہی پیش خیمہ ہے۔ حسن بصری کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ نے فرمایا : تیار ہوجاؤ، تیار ہوجاؤ، اس کے بعد آپ ہنستے ہوئے نہیں دیکھے گئے، مفسر ابو السعود کہتے ہیں کہ استقامت تمام اصولی و فروعی احکام اور تمام نظری اور عقلی خوبیوں کو شامل ہے۔ اور اس ضمن کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا انتہائی مشکل کام ہے، اسی لیے نبی کریم نے فرمایا تھا کہ مجھے سورۃ ہود نے بوڑھا بنا دیا۔ (ترمذی) اور بغاوت و سرکشی سے مراد ظلم و زیادتی، اللہ نے جو حدود مقرر کیے ہیں ان سے تجاوز کرنا، عبادتوں میں غلو کرنا، اور گناہوں کا ارتکاب ہے۔ ھود
113 (٩٢) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ان لوگوں کی طرف مائل نہ ہوں جنہوں نے شرک و معاصی کا ارتکاب کر کے ظلم کی راہ اختیار کرلی ہے، اس لیے کہ یہ ان کے مشرکانہ اعمال سے راضی ہونے کی دلیل ہوگی، ظلم کرنے والوں کو تقوی ملے گی اور حق پر رہنے والے کمزور ہوتے جائیں گے۔ ائمہ تفسیر نے اس آیت کے بارے میں اختلاف کیا ہے کہ یہاں ظلم سے مراد صرف شرک اور ظلم کرنے والوں سے مراد صرف مشرکین ہیں، یا ظلم سے مراد ہر وہ فعل ہے جس پر ظلم کا اطلاق ہوتا ہے اور ظلم کرنے والوں سے مراد مشرک اور غیر مشرک سبھی ہیں۔ عوفی نے ابن عباس سے پہلا قول نقل کیا ہے، اور شوکانی اور صاحب فتح البیان کہتے ہیں کہ آیت کا مفہوم عام ہے اور مشرک اور غیر مشرک سب کو شامل ہے، اس لئیے کہ اگرچہ آیت کا سبب نزول مشرکین ہیں لیکن مفسرین کے نزدیک ہمیشہ عموم لفظ کا اعتبار ہوتا ہے، نہ کہ خصوص سبب کا، لیکن ایسی صورت میں اشکال یہ پیش آتا ہے کہ نبی کریم کی متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ مسلمان حکمران کی اطاعت کرو، چاہے وہ حبشی کیوں نہ ہو جس کا سر کشمکش کی مانند ہو، دوسری صحیح احادیث میں ہے کہ جب تک وہ نماز قائم کریں، صریح کفر کا ارتکاب نہ کریں، اور اللہ کی نافرمانی کا حکم نہ دیں ان کی اطاعت واجب ہے۔ اب اگر کوئی شخص ان حادیث کے پیش نظر کسی ظلم کرنے والے حکمران کی بات مانتے ہوئے اس کی حکومت میں دینی مناصب کو قبول کرتا ہے، حدود کو قائم کرنے میں اس کے ساتھ تعاون کرتا ہے اور مسلمانوں کے مصالح خاصہ اور مصالح عامہ کو مد نظر رکھتے ہوئے دیگر امور مملکت کے سنبھالنے اور چلانے میں اس کا ساتھ دیتا ہے، تو کیا وہ اس آیت میں مذکور وعید کا مستحق ہوگا؟ علماء نے اس کی نفی کی ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ دل سے اس کے ظالمانہ اعمال کی تائید نہیں کرتا ہے، تو مذکورہ بالا احادیث اور اس معنی کی دیگر متواتر احادیث کے پیش نظر اس آیت میں مذکور وعید کا مستحق نہیں ہوگا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ظلم سے ممانعت اور اس پر اللہ کی طرف سے دھمکی کی بڑی دلیل ہے، اس لیے کہ جب ظلم کرنے والوں کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھنے والوں کی سزا جہنم بتائی گئی ہے، تو ان کا حال کیا ہوگا جن کی زندگی مشرکانہ اعمال اور ظلم و بربریت میں ڈوبی ہوئی ہو۔ ھود
114 (٩٣) آیت (١١٢) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم اور مسلمانوں کو دین پر استقامت کا حکم دیا ہے، چونکہ نماز ایمان کی جڑ اور استقامت کا اہم ترین مظہر ہے، اسی لیے یہاں اس کا ذکر خصوصی طور پر آیا ہے، اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو حکم دیا ہے کہ وہ دن کے شروع اور آخر میں اور آخری پہر رات میں نماز پڑھا کریں، ابن جریر کے نزدیک اس سے مراد فجر، مغرب اور رات کی آخری پہر کی نماز ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ممکن ہے یہ آیت پنجگانہ نمازوں سے پہلے نازل ہوئی ہو، جب طلوع شمس اور غروب شمس کے قبل صرف دو نمازیں واجب تھیں، اور قیام اللیل آپ اور تمام مسلمانوں پر واجب تھا، اس کے بعد عام مسلمانوں سے قیام اللیل کا وجوب ساقط ہوگیا اور آپ کے لیے اس کا وجوب باقی رہا، پھر کچھ دنوں کے بعد ایک قول کے مطابق آپ سے بھی اس کا وجوب ساقط ہوگیا۔ واللہ اعلم۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں، اور چونکہ نیکیوں میں نماز کا درجہ بہت ہی اونچا ہے، اس لیے یہ یقینا برائیوں کو مٹا دیتی ہے۔ امام احمد اور اصحاب سنن نے علی بن ابی طالب سے روایت کی ہے کہ جب کسی مومن سے کسی گناہ کا ارتکاب ہوجاتا ہے اور وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھ لیتا ہے تو اس کا وہ گناہ معاف کردیا جاتا ہے۔ اس آیت کے شان نزول میں امام بخاری و مسلم وغیرہ نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ کے پاس آیا اور کہا کہ میں شہر کے مضافات میں ایک عورت کا علاج کر رہا تھا، تو اسے بغیر چھوئے مجھ سے گناہ کا ارتکاب ہوگیا یعنی میں نے اس کا بوسہ لے لیا، جیسا کہ بعض روایتوں میں اس کی صراحت آئی ہے، آپ میرے بارے میں اپنا حکم صادر فرما دیں، آپ خاموش رہے وہ آدمی جانے لگا، تو آپ نے اسے بلا لیا اور یہی آیت تلاوت فرمائی۔ یعنی اس گناہ کے بعد تم نے جو نیک عمل کیا ہے اس نے اس گناہ کو ختم کردیا ہے۔ یہ دیکھ کر ایک صحابی نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا یہ حکم اسی کے ساتھ خاص ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے، امام مسلم نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : آدمی جب تک کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے گا اس کی ہر دو نمازیں ان کے درمیان کے گناہوں کے لیے کفارہ بنتی رہیں گی۔ آیت (١١٥) میں نبی کریم کو ان تمام مشقتوں پر صبر کی بالعموم تلقین کی گئی ہے جو دعوت و تبلیغ کی راہ میں پیش آئیں، اور بالخصوص ان مشقتوں پر جو نمازوں کی پابندی اور محدود اوقات میں ان کی ادائیگی کے لیے اٹھانی پڑے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ طہ آیت (١٣٢) میں فرمایا ہے ( واصطبر علیھا) کہ آپ نمازوں کی ادائیگی پر صبر کریں اور اس پر جمے رہیں۔ ھود
115 ھود
116 (٩٤) یہاں دوبارہ ان گزشتہ امتوں کی ہلاکت کا سبب بیان کیا جارہا ہے جن کے واقعات تفصیل کے ساتھ اوپر بیان کیے جاچکے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں اس لیے جڑ سے کاٹ دیا اور صفحہ گیتی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا کہ جب ان میں گناہ عام ہوگیا تو ہلاک ہونے والوں میں کوئی بھی ایسا آدمی نہ تھا، جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا، سوائے ان چند افراد کے جن کو اللہ نے اس عذاب سے نجات دیا، ان ظالموں کو اللہ تعالیٰ نے جو سامان تعیش دیا تھا اس میں ایسا ڈوب گئے کہ عیش پرستی ان کی زندگی کا مقصد بن گئی، آخرت سے یکسر غافل ہوگئے اور دینی، اخلاقی اور سماجی گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کر کے اللہ کی نگاہ میں مجرم بن گئے، تو ان اعمال مجرمانہ کے سبب ہلاک کردئے گئے۔ ھود
117 (٩٥) اس آیت کریمہ کی تفسیر دو طرح سے بیان کی گئی ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ اگر کوئی مشرک قوم آپس میں ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتی ہے اور آپس میں ظلم و زیادتی نہیں کرتی، قوی کمزور کا حق غصب نہیں کرتا، تو محض شرک کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے ہلاک نہیں کرتا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کا قول ہے کہ حکومت کفر کے ساتھ تو باقی رہتی ہے، لیکن ظلم کے ساتھ باقی نہیں رہتی۔ جب کوئی قوم یا کوئی حکومت ظالم بن جاتی ہے تو اللہ اسے ختم کردیتا ہے، دوسری تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ جب تک کوئی قوم بھلائی کا حکم دیتی اور برائی سے روکتی ہے اللہ تعالیٰ محض شرک کی وجہ سے اسے ہلاک نہیں کرتا ہے، اس لیے کہ کسی قوم میں تمام برائیوں کی جڑ یہ ہے کہ اس کے اصحاب عقل و خرد لوگوں کو بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا بند کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران کی آیت (١٠٤) میں فرمایا ہے (ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر ویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر و اولئک ھم المفلحون) کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے، اور یہی لوگ فلاح و نجات پانے والے ہیں، اور نبی کریم کی صحیح حدیث ہے کہ اگر لوگ برائی کو دیکھ کر خاموش رہیں گے اور اسے بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے، تو بہت ممکن ہے کہ اللہ کا عذاب ان کو پکڑ لے۔ ھود
118 (٩٦) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ اس بات پر کامل قدرت رکھتا ہے کہ تمام بنی نوع انسان کو کفر یا ایمان کی صرف ایک راہ پر اکٹھا کردے، سب کو کفر پر جمع کردے، یا سب کو اسلام پر جمع کردے، لیکن اس نے ایسا نہیں چاہا، اس لیے ایسا نہیں ہوا۔ اور لوگ ہمیشہ ہی آپس میں عقیدہ و دین کے بارے میں اختلاف کرتے رہیں گے، کوئی یہودی ہوگا تو کوئی نصرانی، اور کوئی مجوسی و مشرک ہوگا تو کوئی مسلمان، یہاں تک کہ قیامت آجائے گی، البتہ ان میں سے جن کے حال پر اللہ نے رحم کیا، وہ اپنے عہد کے نبی کے صحیح دین پر قائم رہے، اور نسلا بعد نسل اسی پر عمل پیرا رہے، یہاں تک کہ نبی کریم اللہ کا آخری دین لے کر دنیا میں تشریف لائے، تو انہوں نے ان کی پیروی کی، ان پر ایمان لے آئے، اور ان کا ساتھ دیا، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا و آخرت کی سعادتوں سے نوازا، اور یہی لوگ فرقہ ناجیہ کہلائے۔ اور اجب تک جو بھی قرآن و سنت کی اس راہ پر گامزن رہے گا، اس کا شمار فرقہ ناجیہ میں ہوگا، اور وہ ان لوگوں میں سے ہوگا جن کے حال پر اللہ نے رحم کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے انسانوں کو اسی لیے پیدا کیا ہے کہ عقائد و ادیان کے اختلاف کے نتیجہ میں ان کی ایک جماعت جنت میں جائے اور ایک جہنم میں، اس لیے کہ اللہ کا یہ فیصلہ قطعی ہے کہ وہ نافرمان جنوں اور انسانوں کے ذریعہ جہنم کو ضرور بھرے گا۔ ھود
119 ھود
120 (٩٧) گزشتہ انبیائے کرام اور ان کی قوموں کے حالات بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ نبی کریم کی ہمت افزائی کی جائے، اور انہیں بتایا جائے کہ کفار مکہ آپ کے ساتھ جیسا برتاؤ کر رہے ہیں اس پر آپ دل برداشتہ نہ ہوں، گزشتہ امتوں نے بھی اپنے انبیاء کے ساتھ ایسا ہی کچھ کیا، لیکن بالآخر اللہ نے اپنے رسول کی مدد کی اور ان کو کافروں پر غالب بنایا، تو آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا، کفار مکہ کو منہ کی کھانی پڑے گی اور آپ کو اللہ معزز و مکرم بنائے گا اور دین اسلام غالب ہو کر رہے گا۔ ھود
121 (٩٨) مذکور ذیل دونوں آیتوں میں مشرکین مکہ کو سخت دھمکی دی جارہی ہے کہ اگر تم دعوت اسلام کو قبول نہیں کرتے ہو اور اپنے کفر پر تمہیں اصرار ہے تو ٹھیک ہے، پھر تم اپنی جگہ جو چاہو کیے جاؤ، ہم بھی اپنی جگہ اسلام پر کار بند رہتے ہیں، اور تم بھی اپنے انجام بد کا انتظار کرلو، ہم بھی اللہ کی جانب سے فتح و نصرت کا انتظار کرلیتے ہیں۔ ھود
122 ھود
123 (٩٩) اس آیت کریمہ میں بھی نبی کریم کو تسلی، اور کفار قریش کو دھمکی دی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے، اس لیے اے میرے نبی ! آپ اللہ پر بھروسہ کیجیے اور اس کی عبادت میں لگے رہیے، اور کافروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجیے، اللہ ان کے تمام کرتوتوں کو دیکھ رہا ہے اور ان کی انہیں سزا دے کر رہے گا۔ وباللہ التوفیق۔ ھود
0 نام : اس کا نام سورۃ یوسف اس لیے رکھا گیا کہ اس کی اکثر و بیشتر آیتوں کا تعلق یوسف (علیہ السلام) سے ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت بالاتفاق مکی ہے، ابن الجوزی نے اس پر ائمہ کرام کا اجماع نقل کیا ہے، اسے سورۃ ہود کا تتمہ بھی کہا جاتا ہے، اس لیے کہ سورۃ ہود میں مذکور سات انبیائے کرام اور ان کی قوموں کے واقعات بیان کیے جانے کے بعد اس سورت میں یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، اور اس کے بھی مرکزی مضامین تقریبا وہی ہیں جو مکی سورتوں کا خاصہ ہیں، یعنی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دعوت دینا، اور نبی کریم کی ہمت افزائی کرنی اور انہیں تسلی دینی کہ انبیائے کرام ہمیشہ ہی آزمائشوں سے گزر کر اپنی دعوت میں کامیابی سے ہمکنار ہوتے رہے ہیں، اور یہ کہ جس طرح یوسف (علیہ السلام) غریب الدیاری، قید و بند اور عزت و ناموس میں شدید آزمائشوں سے گزرنے کے بعد بالآخر مصر کی حکومت کے مالک بن بیٹھے، اور ان کے بھائیوں کو ان کی جناب میں ہی پناہ لینی پڑی، اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد کو بھی بالاخر کفار قریش پر غلبہ دے گا، اور انہیں آپ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے، اور تاریخ شاہد ہے کہ ایسا ہی ہوا، فتح مکہ کے بعد کفار قریش آپ کے سامنے جمع کیے گئے تو آپ نے ان سے سوال کیا کہ تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو؟ میں تمہارے ساتھ کیسا برتاؤ کروں گا؟ انہوں نے کہا کہ اخ کریم وابن اخ کریم کہ آپ ہمارے کریم النفس بھائی ہیں، اور کریم النفس بھائی کے بیٹے ہیں، تو آپ نے فرمایا کہ میں آج تمہیں وہی کہتا ہوں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کو کہا تھا کہ آج تم پر کوئی پابندی نہیں، جاؤ، تم سب آزاد ہو۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ کفار قریش نے یہودیوں کے ایماء پر نبی کریم سے یعقوب اور ان کی اولاد کے بارے میں سوال کیا، اور ان کا خیال تھا کہ وہ جواب نہ دے سکیں گے تو یہ سورت نازل ہوئی، لیکن یہ روایت صحیح نہیں ہے، اور اس تکلف کی ضرورت بھی نہیں ہے، بات وہی صحیح ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔ یوسف
1 (١) حروف مقطعات کے بارے میں کہا جاچکا ہے کہ ان کا مقصود اصلی صرف اللہ جانتا ہے، اس بارے میں ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ قرآن انہیں حرف سے مرکب ہے جن سے انسان کا کلام مرکب ہوتا ہے، لیکن اہل عرب میں سے کوئی بھی ایسا کلام نہ لاسکا، یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔ (کتاب مبین) سے مراد قرآن کریم ہے، یہ اللہ کی وہ کتاب ہے جو حلال و حرام، شریعت کے حدود، اور ان تمام امور کو بیان کرتی ہے جو بنی نوع انسان کو زندگی میں پیش آتے ہیں۔ یوسف
2 (٢) اللہ تعالیٰ نے اس کتاب مبین یعنی قرآن کریم کو عربی زبان میں اس لیے نازل فرمایا کہ اس کے مخاطب اول عرب تھے، اگر کسی دوسری زبان میں نازل ہوا ہوتا تو حجت تمام نہیں ہوتی اور عرب کہتے کہ یہ ہماری زبان میں نہیں ہے، اس لیے ہم اس کے مخاطب نہیں ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ فصلت آیت (٤٤) میں فرمایا ہے : (ولو جعلناہ قرآنا اعجمیا لقالوا لو لا فصلت آیاتہ) کہ اگر ہم نے اس قرآن کو کسی عجمی زبان میں نازل کیا ہوتا تو اہل عرب کہتے کہ اس کی آیتوں کو ہماری زبان میں کیوں نہیں بیان کیا گیا ہے۔ اور اس لیے بھی یہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا کہ یہ دنیا کی وہ فصیح ترین زبان ہے جو اپنے اندر گہرائی اور گیرائی لیے ہوئے ہے، اس کے دامن میں ان تمام افکار و معانی کے لیے وسعت ہے جو انسانی دل و دماغ میں پائے جاسکتے ہیں۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ دنیا کی اشرف کتاب اشرف زبان میں، معزز ترین رسول پر، معزز ترین فرشتہ کے واسطے سے، اشرف زمین پر، اشرف مہینہ یعنی ماہ رمضان میں نازل ہوئی، اس لیے اس کتاب عظیم کو ہر اعتبار سے کمال شرف حاصل ہوا۔ یوسف
3 (٣) قرآن کریم کی اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے جو واقعہ بیان کیا ہے اسے (احسن القصص) اس لیے کہا ہے کہ اس کا انداز نہایت ہی بلیغ اور اس کا اسلوب غایت درجہ فصیح ہے، اور اس مضمون میں جو خبریں بیان کی گئی ہیں وہ بالکل سچی ہیں، اور جو نصیحتیں اور علم و حکمت کے جو موتی اس میں بکھیرے گئے ہیں وہ بڑے ہی کام کے اور بڑے قیمتی ہیں، نبی کریم اس واقعہ سے متعلق آپ پر وحی نازل ہونے سے پہلے کچھ بھی نہیں جانتے تھے، اسی عدم علم کو یہاں آپ کی عظمت شان کے پیش نظر غفلت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یوسف
4 (٤) یوسف (علیہ السلام) نے اپنے باپ یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام سے اپنا خواب اس لیے بیان کیا کہ وہ ان کے کمال علم کے معتقد تھے، اور ان کی غایت درجہ کی شفقت پدری اپنے لیے عیاں پاتے تھے، تو سوچا کہ اپنا خواب بیان کرتا ہوں، اگر اس میں میرا کوئی نقصان ہوگا تو وہ اس سے بچنے میں میری مدد کریں گے، یہاں گہارہ ستاروں سے مراد یوسف (علیہ السلام) کے گیارہ بھائی اور شمس و قمر سے مراد ان کے ماں باپ ہیں، جیسا کہ آگے معلوم ہوگا کہ اس خواب کے چالیس سال بعد جب اللہ تعالیٰ نے ملک مصر میں ان کے والدین اور بھائیوں کو جمع کیا تو یوسف (علیہ السلام) کی تعظیم میں سبھوں نے ان کے سامنے سجدہ کیا، جو یعقوب (علیہ السلام) کے دین میں جائز تھا۔ یوسف
5 (٥) یعقوب (علیہ السلام) کے لیے اس خواب کی تعبیر بالکل واضح تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس بیٹے کو بڑا مقام عطا کرے گا، اور ان کے تمام بھائی ان سے مقام میں کمتر ہوں گے، اور ایک دن ان سب کو ان کے سامنے جھکنا پڑے گا، اسی لیے ڈرے کہ اگر اس خواب کا ان کے سوتیلے بھائیوں کو پتہ چل گیا تو انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے، اسی لیے انہیں نصیحت کی کہ یہ خواب اپنے بھائیوں کے سامنے بیان نہ کریں، کیونکہ شیطان انسان کا بڑا کھلا دشمن ہے، اس کی پوری کوشش ہوگی کہ ان کے بھائیوں کو ان کے خلاف اکسائے اور انہیں کسی ایسی بات پر آمادہ کرے جو یوسف (علیہ السلام) کے لیے نقصان دہ ہو۔ مفسر ابن العربی لکھتے ہیں کہ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ بھائی اور دوسرے رشتہ دار حسد کرتے ہیں، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یعقوب (علیہ السلام) خواب کی تعبیر جان گئے تھے، اور ان پر اس کا اچھا اثر پڑا، اس لیے کہ ہر آدمی چاہتا ہے کہ اس کا لڑکا اس سے اچھا ہو، لیکن بھائی اپنے بھائی کے لیے ایسا نہیں چاہتا۔ یوسف
6 (٦) یعنی تمہارے اس عظیم خواب کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا نبی بنائے گا، اور تمہارے عہد کے اپنے تمام بندوں پر تمہیں فوقیت دے گا، اور انہیں تمہارے لیے اسی طرح مسخر کردے گا جس طرح تم نے ستاروں اور شم و قمر کو اپنے سامنے سجدہ کرتے دیکھا ہے، اور تمہیں تعبیر رویا کا علم عطا فرامائے گا۔ چنانچہ قرطبی نے لکھا ہے کہ یوسف علی السلام تعبیر رویا میں تمام لوگوں پر سبقت لے گئے تھے اور تمہیں بادشاہت کے ساتھ علم نبوت بھی دے گا، یا تمہیں دونوں جہان کی بھلائیاں دے گا، اور ملک ونبوت کی نعمتیں تمہارے بھائیوں تمہاری اولاد اور بعد میں آنے والی تمہاری نسلوں کو بھی دے گا، جس طرح اس نے اس سے پہلے تمہارے دادا اسحاق اور پردادا ابراہیم کو نبوت و رسالت اور دوسری بیش بہا نعمتوں سے نوازا تھا، اسحاق کو نبوت دی اور یعقوب جیسا بیٹا اور یوسف جیسا پوتا عطا کیا، اور ابراہیم کو اپنا خلیل بنایا اور آگ سے نجات دی۔ یوسف
7 (٧) یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے اس قصہ کے بارے میں اہل مکہ کچھ بھی نہیں جانتے تھے، اور نہ نبی کریم کو ہی اس کی کوئی خبر تھی، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی خبر دینے کے لیے قرآن میں یہ سورت نازل فرمائی۔ اور آپ نے پھر اہل مکہ کے سامنے اس کی تلاوت کی تو وہاں کے لوگوں کو اس کا علم ہوا۔ یہ اس بات کی قطعی دلیل تھی کہ کہ آپ اللہ کے نبی تھے۔ (آیات للسائلین) میں اسی طرح اشارہ ہے۔ مفسر قاشانی کہتے ہیں کہ اس واقعہ سے تین اہم باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ نبوت و رسالت کا تعلق محض اللہ کی مشیت سے ہے، وہ جسے چاہتا ہے یہ نعمت عطا کرتا ہے، دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ اگر کسی کو کوئی نعمت دینا چاہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا، اور اللہ تعالیٰ جس کی حفاظت کرے اس کا کوئی ایک بال بھی بیکا نہیں کرسکتا، اور تیسری بات یہ کہ شیطان کے مکرو فریب سے انبیاء بھی محفوظ نہیں ہوتے ہیں، اسی لیے وہ ہر وقت اس کے نرغوں سے بچنے کے لیے اللہ سے دعا کرتے رہتے ہیں۔ یوسف
8 (٨) انہوں نے کہا کہ یوسف اور اس کا سگا بھائی بنیامین ہمارے باپ کی نگاہ میں ہم سے زیادہ محبوب ہیں، حالانکہ ہماری تعداد زیادہ ہے، ہم زیادہ طاقتور ہیں، اور باپ کی زیادہ خدمت کرسکتے ہیں اس لیے ہم ان دو چھوٹے بچوں سے زیادہ محبت کے حقدار ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ہمارے باپ کی رائے بالکل ہی غلط اور بعید از عقل ہے، بھائیوں کو حسد کی وجہ سے یہ سوچنے کی توفیق ہی نہیں ہوئی کہ یوسف سے اس درجہ محبت کا سبب نجابت و سعادتمندی کے وہ آثار تھے جو ان میں نمایاں تھے اور وہ خواب تھا جو یوسف نے دیکھا تھا اور جس کی خبر بھائیوں کو ہوگئی تھی، اور بنیامین سے اس لیے محبت کرتے تھے کہ وہ یوسف کے سگے بھائی اور یعقوب (علیہ السلام) کے سب سے چھوٹے لڑکے تھے، اور آدمی ہمیشہ چھوٹے بچے کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے۔ یوسف
9 (٩) بھائیوں کو خواب کی خبر ملی تھی کہا جاتا ہے کہ یوسف نے بچپن کی سادگی میں آکر خود ہی ان لوگوں سے بیان کردیا تھا۔ چنانچہ ان کے حسد کی آگ بھڑک اٹھی اور ان کے خلاف سازش کرنے لگے، انہوں نے شاید یہ بات یوسف کا مذاق اڑاتے ہوئے بھی کہی تھی کہ دیکھتے ہیں اس کا خواب کیا کرشمہ دکھلاتا ہے، ان کا گمان تھا کہ جب وہ یوسف کو قتل کردیں گے یا کسی ایسی نامعلوم جگہ میں اسے ڈال دیں گے جس کا علم ان کے باپ کو نہیں ہوگا، اور نہ یوسف وہاں سے خود واپس آسکیں گے تو ان کے باپ یوسف کے بجائے انہیں اپنی پوری محبت دینے لگیں گے، اور وہ لوگ بعد میں اپنے گناہ سے اللہ کے سامنے تائب ہوجائیں گے، ابن اسحاق کہتے ہیں کہ ان کا یہ ظالمانہ فیصلہ کئی بڑے گناہوں کا پیش خیمہ تھا، انہوں نے قرابت و صلہ رحمی کا کوئی خیال نہیں رکھا، والدین کی نافرمانی کی، چھوٹے بچے پر رحم نہیں کھایا جس نے کوئی غلطی نہیں کی تھی، اور بوڑھے باپ کے جذبات کی قدر نہیں کی، اور ان کے چھوٹے بچے کو ان سے بے رحمی کے ساتھ جدا کردینا چاہا، اللہ انہیں معاف کرے۔ یوسف
10 (١٠) کہا جاتا ہے کہ یہ کہنے والا ان کا بڑا بھائی تھا، اور یوسف کا نام اس نے اس لیے لیا تھا کہ بھائیوں کو ان پر کچھ رحم آئے اور انہیں قتل نہ کریں، اس نے کہا کہ اگر تمہیں یوسف کو اس کے باپ سے جدا کرنے پر اصرار ہے تو تم لوگ اسے کسی ایسے گہرے کنویں میں ڈال دو جس میں پتھر نہیں ہوتا، کوئی قافلہ وہاں سے گزرے گا، اور پانی کے لیے جائے گا تو انہیں یوسف مل جائے گا جسے وہ غلام بنا لیں گے اور اپنے ساتھ لے جائیں گے، اس طرح مقصد حل ہوجائے گا کہ یوسف اپنے باپ کے پاس دوبارہ نہیں آسکے گا۔ یوسف
11 (١١) اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) نے ان کی آنکھوں میں شر کو دیکھ لیا تھا اور بھانپ گئے تھے کہ وہ لوگ یوسف کے بارے میں کچھ اچھا نہیں سوچ رہے ہیں۔ یوسف
12 (١٢) اس لیے کہ اگر آپ نے یوسف کو اسی طرح ایک جگہ بند رکھا، تو اس کے اندر نشاط اور زندگی نہیں پیدا ہوگی، اور دیگر نوجوانوں کی طرح قوی اور صحت مند نہیں ہوگا۔ یوسف
13 (١٣) یعقوب (علیہ السلام) نے ان کے سامنے دو عذر پیش کیے، ایک تو یہ کہ یوسف کی جدائی انہیں غمگین بنا دے گی، اور دوسرا یہ کہ ممکن ہے وہ لوگ کھیل کود اور کھانے پینے میں لگ جائیں اور اچانک بھیڑیا آکر یوسف کو اٹھا لے جائے۔ یوسف
14 (١٤) چونکہ دوسرے عذر کا تعلق یوسف کی زندگی سے تھا، اسی لیے انہوں نے اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے جواب دیا۔ْ یوسف
15 (١٥) وہ لوگ یوسف کو لے تو گئے تھے یہ کہہ کر کہ اس کا خیال کریں گے، اور یوسف ان کے ساتھ سیر و تفریح کر کے خوش ہوں گے، لیکن خفیہ طور پر انہوں نے اس بات پر اتفاق کر رکھا تھا کہ انہیں ایک گہرے کنواں میں ڈال دیں گے، سدی اور دیگر مفسرین نے لکھا ہے کہ جوں ہی وہ لوگ یعقوب کی آنکھوں سے اوجھل ہوئے، انہیں مارنا پیٹنا اور گالی دینا شروع کیا، پھر اس کنواں کے پاس لائے جس میں انہیں ڈال دینا پہلے سے طے کر رکھا تھا، پھر رسی میں باندھ کر اس میں پھینک دیا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یوسف کو بذریعہ الہام اطمیان دلایا، تاکہ ان کی پریشانی کچھ دور ہو، اور انہیں بتا دیا کہ وہ انہیں بھائیوں کی اس سازش سے نجات دے گا، اور وقت آئے گا کہ وہ اپنی زبان سے یہ سارا ماجرا انہیں سنائیں گے۔ یوسف
16 (١٦) انہوں نے اپنے باپ کو دھوہ دینے کے لیے یہ عذر پیش کیا، تاکہ انہیں یقین ہوجائے کہ یوسف اس دنیا سے رخصت ہوگئے، اور آہستہ آہستہ ان کے دل سے یوسف کی محبت نکل جائے، اور ان کے بھائیوں کی پوری محبت دینے لگیں، اور رات کے وقت یعقوب کے پاس اس لئے آئے تاکہ دن کی روشنی میں ان کی جھوٹی معذرت کا بھرم نہ کھل جائے، ان کی آنکھوں میں جھوٹ کو نہ پڑھ لیں اور رو کر انہوں نے یہ باور کرانا چاہا کہ یوسف سے انہیں بے حد محبت تھی، تاکہ یعقوب کے دل میں ان کے بارے میں کوئی شبہ نہ گزرے۔ یوسف
17 (١٧) یعنی جیسا کہ آپ ڈر رہے تھے، جب ہم آپس میں دوڑ کا مقابلہ کر رہے تھے، اور یوسف ہمارے کپڑوں اور کھانے پینے کے سامانوں کے پاس بیٹھا تھا، واقعی بھیڑیا آیا اور اسے ہلاک کردیا، اور ہم جانتے ہیں کہ اگر ہم آپ کے نزدیک سچے بھی ہوتے تو ایسی حالت میں ہماری بات نہیں مانتے، تو اب ہماری بات آپ کیسے مانیں گے جبکہ آپ پہلے سے ہی یوسف کے بارے میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ یوسف
18 (١٨) انہوں نے یوسف کی قمیص کو ایک بکرے کے خون میں لت پت کردیا، اور اسے اپنے باپ کے سامنے رکھ کر کہا کہ یہ دیکھیے یوسف کی قمیص جو اس کے ہلاک ہوجانے کے بعد ہمیں ملے ہے، لیکن یعقوب نے ان کی بات نہیں مانی اور کہا کہ یہ کہانی تم نے اپنی طرف سے گھڑ لی ہے، تمہارے کہنے کے مطابق تو بھیڑیا بڑا ہی عقلمند تھا کہ یوسف کو کھا گیا اور اس کی قمیص کو نہیں پھاڑا، اب میرے لیے اس کے سوا اور کیا چارہ کار ہے کہ اللہ کی تقدیر پر صبر جمیل سے کام لوں، اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگوں کہ وہ تمہارے جھوٹ کا پردہ فاش کردے اور یوسف کا صحیح سالم زندہ پایا جانا ظاہر کردے۔ یوسف
19 (١٩) ایک قافلہ جو شام سے مصر کی طرف جارہا تھا وہاں سے گزرا اور کنواں کے آس پاس پڑاؤ ڈالا، قافلہ والوں کے لیے پانی مہیا کرنا جن افراد کی ذمہ داری تھی، انہوں نے جب اپنا ڈول کنواں میں ڈالا، تو یوسف نے اسے پکڑ لیا، انہوں نے جھانک کر دیکھا تو وہ ایک لڑکا تھا، بہت خوش ہوئے اور یوسف کو سامان تجارت بنا لیا اور قافلہ والوں سے کہا کہ ہم نے کنواں والوں سے اسے خریدا ہے، انہی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اللہ نے آیت کے آخر میں دھمکی کے طور پر فرمایا کہ یوسف کے ان تمام حالات سے گزرنے کا جو لوگ سبب تھے اللہ انہیں خوب جانتا ہے، کہ کس طرح انہوں نے کریم بن کریم بن کریم بن کریم کو طوق غلامی پہنا دیا۔ یوسف
20 (٢٠) کہتے ہیں کہ تاجروں کا وہ قافلہ مدین سے آیا تھا، ان کی ملاقات ایک دوسرے قافلے سے ہوئی جو مصر جارہا تھا، انہوں نے یوسف کو اس قافلہ والوں کے ہاتھ صرف بیس درہم میں بیچ دیا، جیسا کہ امام احمد، طبرانی اور حاکم نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے، اور چونکہ یوسف انہیں بغیر قیمت کے مل گئے تھے اور وہ نہیں جانتے تھے کہ مستقبل کے کس عظیم انسان کو وہ بیچ رہے ہیں، اسی لیے انہوں نے قیمت کی پرواہ کیے بغیر چند ٹکوں میں بیچ دیا، مذکورہ بالا روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ جب یعقوب اپنے خاندان والوں کے ساتھ مصر پہنچے تو ان کی تعداد تین سو نوے تھی، اور جب موسیٰ کے ساتھ وہاں سے نکلے تو ان کی تعداد چھ لاکھ ستر ہزار تھی۔ یوسف
21 (٢١) اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم یوسف کے شامل حال تو ہر وقت رہا کہ بے رحم بھائیوں کے پنجے سے نکالا، پھر کنواں سے نکال کر نئی زندگی دی، اور اب اس کا لطف خاص دیکھئے کہ مصر کے خزانوں کا وزیر (عزیز مصر) انہیں خرید کر اپنے گھر لایا اور اپنی بیوی زلیخا سے کہا کہ اس کے کھانے پینے اور اس کی رہائش کا اچھا انتظام کرو، تاکہ ہم سے جلدی مانوس ہوجائے اور اپنے آپ کو اپنوں کے درمیان محصوس کرنے لگے، کیونکہ میں اس کی پیشانی میں خیرو برکت کے آثار پارہا ہوں، مجھے امید ہے کہ یہ ہمارے کام آئے گا، یا ہم اسے اپنا بیٹا بنا لیں گے، اس لیے کہ ہماری کوئی اولاد نہیں ہے اور بڑا ہو کر میری جگہ حاصل کرلے گا، اور امور وزارت سنبھال لے گا۔ کہتے ہیں کہ یوسف جو کام کرتے اس میں کامیاب ہوتے اور جب سے عزیز مصر کے گھر میں قدم رکھا اس کی کھیتی اور مال و تجارت میں خوب برکت ہونے لگی۔ یوسف کے ساتھ شروع سے لے کر اب تک جو کچھ ہوا، اللہ کی مرضی سے ہوا، اور اس لیے ہوا تاکہ اللہ انہیں عزیز مصر کے گھر پہنچا دے، پھر وہ کچھ واقع ہوا جو زلیخا کی جانب سے ہوا، یوسف جیل جائیں، اور اللہ انہیں خواب کی تعبیر سکھائے، اور پھر وہ بادشاہ کے خواب کی تعبیر بتا کر وزارت کی کرسی پر پہنچ جائیں، یہ اللہ کا فیصلہ تھا جسے بہرحال ہونا تھا، لیکن اکثر لوگ اس حقیقت پر یقین نہیں رکھتے ہیں، کہ اللہ کے فیصلے میں کوئی دخل انداز نہیں ہوسکتا ہے۔ یوسف
22 (٢٢) ابن عباس کے قول کے مطابق جب وہ تینتیس سال کے ہوگئے اور عکرمہ کے قول کے مطابق پچیس سال کے، اور ایک تیسرے قول کے مطابق چالیس سال کے تو اللہ نے انہیں حاکم مصر بنا دیا اور عقل و فہم اور فقہ و نبوت سے نوازا۔ ابن جریر طبری کہتے ہیں کہ آیت کے آخری حصے (وکذلک نجزی المحسنین) میں اگرچہ ہر بھلائی کرنے والے کے لیے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں وہ اچھا بدلہ دے گا، لیکن یہاں مقصود نبی کریم ہیں کہ انہیں اللہ مشرکین مکہ سے نجات دے گا اور ان پر غلبہ عطا کرے گا۔ یوسف
23 (٢٣) جملہ معترضہ کے بعد اب پھر یوسف کے ساتھ عزیز مصر کے گھر میں جو کچھ پیش آیا اسے بیان کیا جارہا ہے، عزیز مصر کی بیوی نے یوسف سے فعل بد کا مطالبہ کیا، اور اس عورت کے نام کی صراحت اس لیے نہیں کی گئی تاکہ اس کا راز افشا نہ ہوجائے، اور عزیز مصر کی بیوی کے بجائے، اللہ نے کہا کہ یوسف کو گناہ پر اس عورت نے اکسایا جس کے گھر میں وہ رہتے تھے، تاکہ اندازہ لگایا جاسکے کہ یوسف کے لیے وہ کتنی مشکل گھڑی تھی اور وہ عفت و پاکدامنی کی کس بلندی کو چھو رہے تھے کہ اس گھر میں رہنے کی وجہ سے زلیخا کا بار بار سامنا ہوتا رہا ہوگا اور وہ اپنے حسن و جمال کا مظاہرہ کرتی رہی ہوگی، تاکہ انہیں اپنی ذات میں دلچسپی لینے پر اکسائے، لیکن یوسف پر ان تمام ہتھکنڈوں کا رائی کے دانے کے برابر بھی اثر نہیں ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے ایسا کرنے سے پہلے شدت خوف اور غایت احتیاط کی وجہ سے سات دروازے بند کیے، تاکہ وہاں تک کسی کے پہنچنے کا گمان بھی نہ ہوسکے، یوسف کی پاکدامنی کی یہ بھی ایک عظیم دلیل ہے کہ زلیخا نے انسانوں سے خوف کھانے کا ایک بھی عذر باقی نہیں رکھا تھا، اس کے باوجود ان کے دل میں گناہ کا خیال تک نہیں گزرا، یوسف نے اس کے جواب میں کہا کہ میں تمہاری اس دعوت گناہ سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، اس لیے کہ یہ تو زنا، جرم عظیم، امانت میں خیانت اور محسن کشی ہے، اور اسے اس گناہ عظیم سے باز رکھنے کے لیے اس خیانت کی شدید ترین قباحت بیان کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ مجھے کس کے خلاف خیانت پر ابھار رہی ہو؟ وہ میرا آقا عزیز مصر ہے جس نے ہر طرح میرا خیال کیا ہے، تو اب میرے لیے یہ کس طرح مناسب ہے کہ اس کی عزت سے کھیلوں، ایک دوسری تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ انہ کی ضمیر اللہ کے لیے ہے، یعنی میرے رب نے تو مجھ پر بڑا احسان کیا ہے، مجھے نئی زندگی دی ہے اور عزیز مصر کے پاس پہنچا کر میری تمام پریشانیوں کو دور کردیا ہے، اگر میں نے ایسا کیا تو میں ظالم ہوں گا اور ظالم کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ یوسف
24 (٢٤) عربی زبان میں ھم دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے، ایک ایسا قصد و ارادہ جس کے ساتھ گناہ کے کر گزرنے کا عزم ہو اور دل سے ایسا کرنا چاہتا ہو، یہ مذموم ہے۔ اور اس پر مواخذہ ہوگا، اور دوسرا وہ خیال جو انسان کے ذہن میں پیدا تو ہو، لیکن اس کے کر گزرنے کا عزم نہ پایا جائے، ایسے خیال پر انسان کا مواخذہ نہیں ہوگا۔ بخاری و مسلم اور اہل سنن نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لیے اس خیال کو معاف کردیا ہے جو اس کے دل میں گزرتا ہے، جب تک کہ اسے اپنی زبان پر نہ لائے یا اسے کر نہ گزرے۔ آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ زلیخا نے جب دروازے بند کر کے یوسف کو دعوت گناہ دی تو اس نے یوسف کے ساتھ چمٹ جانے کا پختہ ارادہ کرلیا تھا، اور اگر یوسف نے بھی اپنے رب کے برہان کا ایمانی مشاہدہ نہ کیا ہوتا اور زنا کی قباحت و شناعت ان کے دل و دماغ میں اس حد تک نہ بیٹھی ہوتی کہ گویا وہ اس کی بد ترین شکل کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے تھے، تو وہ بھی ویسا ہی ارادہ کرلیتے، لیکن ان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہی نہیں۔ آیت کریمہ اسی پر دلالت کرتی ہے، اس لیے کہ لو لا کا جواب محذوف ہے، جس پر سابقہ عبارت دلالت کرتی ہے۔ فخر الدین رازی اور مفسر ابو السعود کہتے ہیں کہ بشری تقاضے اور فطری رجحان کے مطابق یوسف کا میلان زلیخا کی طرف ہوا تھا، لیکن دل میں ارادہ نہیں پیدا ہوا تھا، اور ایسے فطری میلان سے نبی کی عصمت میں کوئی فرق نہیں آتا، جیسے کوئی روزہ دار شدید گرمی میں پانی دیکھ کر پینے کی خواہش کرتا ہے تو اس کا دین اس سے روک دیتا ہے۔ لیکن میرے نزدیک یہ رائے مرجوح ہے اور قابل اعتناء نہیں ہے اس لیے کہ قرآن کی عبارت سے وہی بات سمجھ میں آتی ہے جس کا میں نے ابھی اوپر ذکر کیا ہے کہ اگر یوسف نے پہلے سے اللہ کے برہان کا ایمانی مشاہدہ نہ کیا ہوتا تو ان کے دل میں بھی گناہ کا خیال پیدا ہوجاتا۔ صاحب محاسن التنزیل، شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا ابو الاعلی مودودی وغیرھم نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے، اور ابھی آگے آئے گا کہ یوسف نے اپنے آپ کو اس گناہ سے بچانے کے لیے دروازے کی طرف بھاگنا شروع کیا، اور جس انداز میں بھاگے وہ کیفیت اس آدمی کی نہیں ہوسکتی جس کے دل میں عورت کی طرف میلان پیدا ہوگیا ہو، قرآن میں ایک کلمہ بھی ایسا نہیں ہے جس سے ادنی سا اشارہ ہوتا ہو کہ یوسف کے دل میں زلیخا کی طرف میلا پیدا ہوا تھا۔ اور نبی کو ایسا ہی ہونا چاہیے، اگر اس کے دل میں بھی گناہ کا خیال گزر جائے تو پھر اس میں اور غیر نبی میں کیا فرق ہوگا حق تو یہ ہے کہ اس طرح کی بحث چھیڑنا نبی کی عظمت شان پر کلام کرنے کے مترادف ہوگا، جو ایک مخلص مسلمان کو زیب نہیں دیتا، اور یہ جو بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اگر بشری تقاضے کے مطابق انبیاء کے دل میں گناہ کا میلا نہ ہو پیدا ہو تو پھر انہیں اجر کس بات کا ملے گا، تو یہ بات بھی صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ جب وہ اپنی حلال بیویوں اور باندیوں کے پاس ہوتے تھے تو ان کی فطری رغبت جاگتی تھی، تو انہیں اجر اس بات کا ملتا تھا کہ فطری قوت ہونے کے باوجود محرمات کے سامنے ان کے دل میں گناہ کا خیال نہیں گزرتا تھا۔ وباللہ التوفیق یوسف
25 (٢٥) دونوں ہی دروازے کی طرف دوڑے، اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنا چاہا، یوسف باہر نکل جانے کے لیے اور زلیخا انہیں روکنے کے لیے، یہاں باب مفرد استعمال ہوا ہے، اس لیے کہ اس سے مراد وہ خارجی دروازہ ہے جس سے نکل جانے کے بعد یوسف کو نجات مل جاتی۔ یوسف جب بھاگ رہے تھے تو زلیخا نے پیچھے سے ان کی قمیص پکڑ لی، اور دونوں طرف سے کھینچ تان میں قمیص پھٹ گئی، جب دونوں دروازے پر پہنچے تو عزیز مصر کو آتا دیکھا، عورت نے فورا پینترا بدلا اور کہا کہ جو آدمی تمہاری بیوی کے ساتھ برائی کی نیت کرے اسے یا تو جیل میں ڈال دینا چاہیے یا کوئی اور سخت سزا دینی چاہیے۔ یوسف
26 (٢٦) یوسف نے اس کی تکذیب کرتے ہوئے کہا کہ اسی نے مجھ سے گناہ کا مطالبہ کیا تھا، تو میں نے انکار کردیا اور بھاگ پڑا، عزیز مصر کے لیے معاملہ کی حقیقت تک پہنچنا مشکل ہوگیا، تو یوسف کی برات کے لیے اللہ نے اس عورت کے ایک رشتہ دار بچے کو جو ابھی گود میں تھا، قوت گویائی دی، اس نے کہا کہ اگر یوسف کی قمیص آگے سے پھٹی ہے تو عورت سچی ہے اور وہ جھوٹا ہے، اور اگر اس کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہے تو عورت جھوٹی ہے اور یوسف سچا ہے، جب عزیز نے دیکھا کہ قمیص پیچھے سے پھٹی ہے تو معاملہ کی تہہ تک پہنچ گیا کہ اس کی بیوی نے ہی یوسف کو گناہ پر مجبور کرنا چاہا تھا۔ بعض علماء نے اس آیت کے ضمن میں لکھا ہے کہ میں عورتوں سے شیطان کی بہ نسبت زیادہ ڈرتا ہوں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کے بارے میں کہا ہے : (ان کیدا الشیطان کان ضعیفا) کہ شیطان کی سازش کمزور ہوتی ہے، اور عورت کے بارے میں کہا ہے : (ان کیدکن عظیم) کہ عورتوں کی سازش خطرناک ہوتی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ شیطان چھپ کر دل میں وسوسہ ڈالتا ہے اور عورت تو سامنے سے مردوں پر حملہ کرتی ہے۔ یوسف
27 یوسف
28 یوسف
29 (٢٧) عزیز مصر چونکہ معاملہ کو پوری طرح سمجھ چکا تھا، اسی لیے یوسف کے ساتھ نہایت نرمی کا اسلوب اختیار کیا اور کہا کہ اے یوسف ! تمہارے ساتھ جو زیادتی ہوئی ہے اسے نظر انداز کردو اور حادثہ پر پردہ ڈال دو اور کسی سے بیان نہ کرو، اس کے بعد اپنی بیوی سے مخاطب ہوا اور کہا کہ ساری غلطی تمہاری ہے، تم نے اس نوجوان کو ورغلانا چاہا تھا، اور اب اسی پر تہمیت دھرنے کی کوشش کر رہی ہو، اس لیے اپنے گناہ کی معافی مانگو۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس نے اپنی بیوی کو اس لیے معذور جانا کہ کسی عورت کے لیے یوسف کا جمال دیکھ کر صبر کرنا نہایت مشکل کام تھا۔ کرخی کہتے ہیں کہ عزیز میں غیرت کی کمی تھی، شہاب کہتے ہیں یہ یوسف کے ساتھ کرم فرمائی تھی (اس لیے کہ اگر عزیز غضبناک آدمی ہوتا تو یوسف کو نقصان پہنچ سکتا تھا) ابو حیان کہتے ہیں کہ سر زمین مصر کی یہی خاصیت تھی۔ یوسف
30 (٢٨) یوسف اور عزیز مصر کی بیوی کا واقعہ کسی طرح شہر میں پھیل گیا، عورتیں کہنے لگیں کہ وہ یوسف کو گناہ پر اکساتی ہے وہ اس کی محبت میں گرفتار ہوگئی ہے، اور عقل و ہوش کھو چکی ہے، علماء لکھتے ہیں کہ آیت کے آخری حصے میں عورتوں نے یہ بھی کہنا چاہا کہ ہم نے زلیخا جیسی غلطی نہیں کی ہے۔ یوسف
31 (٢٩) عزیز مصر کی بیوی کو جب معلوم ہوا کہ شہر کی کچھ عورتیں اپنی مجلسوں میں یوسف پر اس کی فریفتگی کو موضوع سخن بنا رہی ہیں، تو اس نے ایک روایت کے مطابق شہر کی چالیس معزز عورتوں کو اپنے گھر میں دعوت دی، ان میں وہ عورتیں بھی شامل تھیں جو اس کے بارے میں باتیں کرنے میں پیش پیش تھیں۔ انہیں ایک ایسی مجلس میں بٹھایا جس میں گاؤ تکیے لگے ہوئے تھے، اور ہر ایک کے ہاتھ میں ایک چھرے دے دی، تاکہ اپنے سامنے رکھے ہوئے گوشت اور پھل کاٹ کر کھائیں، اس کے بعد یوسف سے ان کے سامنے آنے کو کہا، عورتیں انہیں دیکھ کر ان کے غیر معمولی حسن و جمال سے ایسا متاثر ہوگئیں کہ اپنا ہوش و خرد کھو بیٹھیں اور پھلوں کے بجائے اپنے ہاتھ زخمی کرلیے، اور حیرت و استعجاب کی انتہا کو پہنچتے ہوئے پکار اٹھیں کہ ہمارے سامنے کوئی انسان نہیں، بلکہ آسمان سے کوئی نہایت حسین و جمیل فرشتہ اتر آیا ہے، جس کا غیر معمولی حسن ہماری آنکھوں کو خیرہ کیے دے رہا ہے، اور ہمارے ہوش ٹھکانے نہیں رہے ہیں۔ عزیز کی بیوی نے یہ انتظام اس لیے کیا تھا تاکہ شہر کی عورتوں کو معلوم ہوجائے کہ جس نوجوان کو اس نے ورغلانے کی کوشش کی تھی وہ کوئی معمولی انسان نہیں ہے، بلکہ وہ ایک ایسا پیکر حسن و جمال ہے جسے دیکھ کر کسی بھی عورت کا صبر کرجانا اور اپنے آپ پر قابو پالینا ناممکن سی بات ہے۔ یوسف
32 (٣٠) زلیخا نے ان عورتوں سے کہا کہ یہی وہ پیکر حسن ہے جس کے بارے میں تم عورتیں مجھے کو ستی تھیں، اور جب اسے یقین ہوگیا کہ وہ تمام عورتیں یوسف کے حسن سے مسحور ہوگئی ہیں اور اسے معذور سمجھنے لگتی ہیں تو اپنا دل کھول کر ان کے سامنے رکھ دی اور کہا کہ ہاں میں نے اسے ورغلایا تھا، لیکن اس نے قطعی طور پر انکار کردیا ہے، اور ذرا اسی بھی لچک نہیں دکھائی ہے، اس کے بعد اس نے شرم و حیا کی چادر ایک طرف پھینک دی اور عشق و سرمستی کی آخری حدوں کو چھوتی ہوئی کہا کہ میرا اس سے جو مطالبہ ہے اگر اس نے پورا نہیں کیا تو اسے جیل میں ڈال دیا جائے گا، اور اسے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یوسف
33 (٣١) جب یوسف نے اس کی یہ بات سنی تو سمجھ گئے کہ اس نے ایسا کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا ہے اور اس کا شوہر اس کی ہر بات مانتا ہے، اسی لیے اپنے رب سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ اے میرے اللہ ! جس قید و بند کی یہ عورت مجھے دھمکی دے رہی ہے وہ میرے نزدیک اس بدکاری سے زیادہ قابل قبول ہے جس کی یہ مجھے دعوت دے رہی ہے، اس لیے کہ جیل کی مصیبت عارضی اور ختم ہوجانے والی ہے، لیکن یہ گناہ عظیم تو دنیا و آخرت کی ہر بھلائی کا خاتمہ کردے گی، اس کے بعد اللہ کی جناب میں پناہ طلب کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ ! اگر تو نے ان عورتوں کی سازشوں سے مجھے نہیں بچایا تو بشری تقاضے کے مطابق میں ان کی طرف مائل ہوجاؤں گا، اور اس فعل قبیح کا مرتکب ہو کر جاہل ونادان بن جاؤں گا۔ یوسف
34 (٣٢) اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرلی اور انہیں گناہ میں پڑنے سے بچا لیا، اس آیت کریمہ سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ کی حفاظت اور اس کے لطف و کرم کے بغیر کوئی شخص گناہ سے نہیں بچ سکتا ہے۔ عزیز مصر نے یوسف کی بے گناہی کے تمام شواہد و دلائل کے باوجود مشیر کاروں اور اپنی بیوی سے مشورہ کرنے کے بعد مصلحت اسی میں سمجھا کہ انہیں ایک مدت کے لیے جیل میں ڈال دے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یوسف کو جیل میں بند کردیا گیا۔ یوسف
35 یوسف
36 (٣٣) انہی دنوں یوسف کے ساتھ جیل میں دو نوجوان بھی داخل کیے گئے، ایک بادشاہ کا ساقی اور دوسرا نانبائی۔ کہتے ہیں کہ ان دونوں نے بادشاہ کے کھانے میں زہر ڈالا تھا، یوسف نے ان دونوں کو ایک دن مغموم دیکھا تو سبب دریافت کیا، انہوں نے کہا ہم دونوں نے الگ الگ خواب دیکھا ہے جس نے ہمیں مغموم بنا دیا ہے، یوسف نے کہا کہ تم دونوں اپنا اپنا خواب بیان کرو۔ ساقی نے کہا میں نے دیکھا ہے کہ انگور نچوڑ رہا ہوں، اور دوسرے نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ سر پر روٹی ہے جس میں سے چڑیا کھا رہی ہے، اس کے بعد دونوں نے کہا کہ ہم میں سے دونوں کے خواب کی تعبیر بتا دو، ہم سمجھتے ہیں کہ تم خواب کی تعبیر کا علم رکھتے ہو۔ یوسف
37 (٣٤) یوسف نے ان کے خوابوں کی تعبیر بتانے سے پہلے انہیں یہ بتانا چاہا کہ وہ ان عام لوگوں میں سے نہیں ہیں جو محض اپنے گمان سے خواب کی تعبیر بتاتے ہیں جو بسا اوقات غلط ہوتی ہے، بلکہ وہ تو غیب کی بھی بعض باتیں بتاتے ہیں، اور اپنی بات میں مزید زور پیدا کرنے کے لیے کہا کہ تم دونوں کا کھانا آنے سے پہلے بتا دوں گا کہ کھانے کے لیے کیا آرہا ہے، اور یہ علم مجھے اللہ کی جانب سے بذریعہ الہام ملا ہے، اس میں کہانت اور علم نجوم کا کوئی دخل نہیں ہے، اور یہ بات یوسف (علیہ السلام) نے اس لیے کہی تاکہ آئندہ جو دعوت توحید ان کے سامنے پیش کرنے والے تھے اسے دونوں آسانی سے قبول کرلیں۔ یوسف
38 (٣٥) انہوں نے ان دونوں کو یہ بھی بتانا چاہا کہ مجھے جو یہ رتبہ بلند ملا ہے، اور یہ الہامی علم حاصل ہوا ہے، تو اس کا سبب یہ ہے کہ میں نے ان لوگوں کے دین کو قبول نہیں کیا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، بلکہ میں اپنے آباؤ اجداد ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کے دین پر ایمان لے آیا جو اللہ کے انبیاء تھے، اور اس تفصیل سے ان کا مقصد انہیں یہ بھی بتانا تھا کہ میں خانوادہ نبوت کا چشم و چراغ ہوں، تاکہ جب ان کے سامنے اپنی دعوت رکھیں تو وہ غور سے سنیں، اور (وما کان لنا) میں یوسف (علیہ السلام) نے جمع کی ضمیر اپنے ساتھ ان دونوں کا بھی اعتبار کر کے استعمال کیا، اس لیے کہ بظاہر انہیں یقین ہو چلا تھا کہ وہ دونوں ان کی دعوت کو قبول کرلیں گے اور (ان نشرک باللہ من شیئ) میں من شیئ شرک کے عموم نفی کی تاکید کے لیے لایا گیا ہے کہ چاہے کوئی چھوٹی چیز ہو یا کوئی حقیر شے، بت ہو یا فرشتہ، یا کوئی جن ہو یا کوئی اور چیز، سے اللہ کا شریک بنانا حرام ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کی وحدانیت کا اقرار اور کسی کو اس کا شریک نہ بنانا موحد مسلمانوں کے لیے بہت بڑی نعمت ہے، لیکن اکثر لوگ اللہ کے ناشکرے بندے ہوتے ہیں، اسی لیے نہ اس پر ایمان لاتے ہیں، نہ ہی اس کی توحید کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں، اور نہ اس کی شریعت پر عمل کرتے ہیں۔ یوسف
39 (٣٦) دونوں کے سامنے اپنا عقیدہ بیان کرنے کے بعد اب نہایت ہی حکمت و دانائی کے ساتھ ان کی قوم کے مشرکانہ عقیدہ کی خرابی بیان کرنے کے لیے انہی سے سوال کیا کہ اے جیل کے میرے دونوں ساتھی ! انسانوں کے لیے کئی معبود بہتر ہیں یا ایک اللہ جس پر کوئی غالب نہیں آسکتا؟ تم لوگ اللہ کے سوا جن بتوں کی عبادت کرتے ہو، تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے بغیر کسی حجت و برہان کے ان کے نام معبود رکھ لیے ہیں، مالک اور حاکم تو اللہ ہے، دین و عبادت کے معاملے میں اسی کا حکم چلتا ہے اور اس نے تو تمہیں یہ حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو، اس لیے کہ عبادت غایت خشوع و خضوع کو کہتے ہیں، جس کا حقدار وہ اللہ ہے جو حقیقی عظمت والا ہے، اور یہی توحید باری تعالیٰ جو اس کی کمال عظمت پر دلالت کرتی ہے، صحیح اور برحق دین ہے، لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے ہیں، اسی لیے اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بناتے ہیں۔ یوسف
40 یوسف
41 (٣٧) جب یوسف (علیہ السلام) نے انہیں اپنا علمی مقام بتا دیا، اور توحید کی دعوت ان کے سامنے پیش کردی، تو اب ان کے خوابوں کی تعبیر بتانا شروع کیا، اور چونکہ ان کے سوال کے بعد یوسف علی السلام کی دعوتی گفتگو طویل ہوگئی تھی، اسی لیے انہوں نے دوبارہ ان دونوں کو مخاطب کیا اور کہا کہ اے جیل کے میرے دونوں ساتھی ! تم میں سے ایک جیل سے نکل کر پہلے کی طرح بادشاہ کا ساقی بحال ہوجائے گا اور دوسرا قتل کردیا جائے گا اور سولی پر لٹکا دیا جائے گا اور چڑیاں اس کے سر کا گوشت کھائیں گی، جو سوال تم دونوں نے کیا ہے اس کے بارے میں اللہ کا یہی فیصلہ ہوچکا ہے۔ یوسف
42 (٣٨) جس آدمی کو یوسف (علیہ السلام) نے بتایا کہ وہ جیل سے نکل جائے گا اور قتل نہیں ہوگا، اس سے کہا کہ جب تمہاری ملاقات تمہارے آقا سے ہو، تو اس سے میرا حال بیان کرنا اور بتانا کہ مجھے اللہ نے خواب کی تعیر کا علم دیا ہے اور یہ کہ میں بے گناہ ہوں، مجھے جیل میں ڈال کر مجھ پر زیادتی کی گئی ہے، لیکن جیل سے نکلنے کے بعد شیطان نے اس کی یادداشت سے یہ بات نکال دی، تاکہ یوسف (علیہ السلام) جیل سے نہ نکل سکیں، طبری نے ابن عباس سے ایک مرفوع حدیث روایت کی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : اگر یوسف ساقی سے مدد طلب نہ کرتے تو لمبی مدت تک جیل میں نہ رہتے۔ حافظ ابن کثیر نے کہا ہے کہ یہ حدیث بہت کمزور ہے اس لیے قابل قبول نہیں ہے۔ یوسف
43 (٣٩) جب یوسف (علیہ السلام) کی رہائی کا دن قریب آیا تو مصر کے بادشاہ ریان بن ولید نے خواب دیکھا کہ ایک خشک نہر سے سات موٹی گائیں نکلیں، ان کے پیچھے سات دبلی گائیں نکلیں اور موٹی گایوں کو کھا گئیں، اس نے یہ بھی دیکھا کہ سات ہری بالیوں کو سات خشک بالیوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، اور انہیں کھا گئیں، اس نے سرداران قوم سے اس کی تعبیر دریافت کی، اور مصر کے تمام جادوگروں اور داناؤں کو بلا کر ان سے بھی اس کی تعبیر معلوم کی۔ یوسف
44 (٤٠) سب نے یہ جواب دیا کہ اس خواب کی کوئی حیثیت نہیں ہے، محض وہم اور شیطان کا وسوسہ ہے، اور ہم لوگ ایسے پراگندہ خیالات کی تعبیر نہیں جانتے ہیں، تعبیر تو سچے خوابوں کی ہوتی ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں، ممکن ہے کہ ان جادوگروں اور حکماء نے علم تعبیر رویا سے اپنی ناواقفیت کا اعتراف کیا ہو، جیسا کہ بادشاہ کا ان کے بارے میں پہلے سے ہی گمان تھا، اسی لیے اس نے کہا تھا کہ اگر تم لوگ خواب کی تعبیر بتا سکتے ہو تو بتاؤ۔ یوسف
45 (٤١) اب ساقی کو یوسف (علیہ السلام) کی بات یاد آئی۔ کہتے ہیں کہ اسے جیل سے نکلے ہوئے دو سال کا عرصہ گزر چکا تھا، اس نے بادشاہ سے کہا کہ اس خواب کی تعبیر میں آپ کو بتاؤں گا، لیکن اس شخص سے پوچھ کر جس کے پاس اس کا علم ہے، آپ مجھے حکم دیجیے اور جیل میں یوسف کے پاس جانے دیجیے، چنانچہ وہ جیل میں ان کے پاس پہنچا۔ یوسف
46 (٤٢) انہیں صدیق کے نام سے خطاب کیا، اس لیے کہ جیل میں ان کے ساتھ تھا تو ان کی سچائی اور پاکیزی اخلاق اور طہارت طبع کا تجربہ کرچکا تھا، اور خواب کی جو تعبیر انہوں نے اور اس کے مقتول ساتھی کو بتائی تھی وہ بالکل سچی ثابت ہوئی تھی، اس کے بعد بادشاہ کا خواب اسی کے الفاظ میں بیان کیا اور اس کی تعبیر پوچھی اور افتنا میں جمع کی ضمیر یہ بتانے کے لیے استعمال کیا کہ خواب کسی اور کا ہے، جس کا تعلق عوام سے ہے، اور (لعلھم یعلمون) میں اسی طرف اشارہ ہے کہ بادشاہ جب آپ کے علم و فضل کو جانے گا، تو ممکن ہے کہ جیل سے آپکو رہائی دے دے گا۔ یوسف
47 (٤٣) یوسف (علیہ السلام) نے اس کی تعبیر بتاتے ہوئے سات موٹی گایوں اور سات ہری بالیوں کو سات زرخیز سالوں سے اور سات دبلی گایوں اور سات خشک بالیوں کو سات خشک سالوں سے تعبیر کیا، یعنی سات زرخیز سالوں کے بعد سات خشک سال آئیں گے، اور پھر انہیں تعلیم دی کہ انہیں کیا کرنا ہوگا، تاکہ قحط سالی کے زمانے کے لیے غلہ فراہم کیا جاسکے، اس کے بعد انہیں خوشخبری دی کہ سات خشک سالوں کے بعد خوب بارش ہوگی، اللہ کی رحمت کا نزول ہوگا، اور ملک میں پھل، انگور، زیتون اور دودھ وغیرہ کی کثرت ہوگی۔ یوسف
48 یوسف
49 یوسف
50 (٤٤) جب ساقی خواب کی تعبیر لے کر بادشاہ کے پاس پہنچا، تو سن کر اسے بڑا تعجب ہوا اور اس کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اس کے خواب کی یہی تعبیر ہے اور اسے اس بات کا بھی یقین ہوگیا کہ یوسف کوئی غیر معمولی انسان ہیں، اور خوابوں کی سچی تعبیر کا علم ملک میں ان سے زیادہ کسی کے پاس نہیں ہے، اور یہ کہ وہ نہایت ہی اخلاق مند اور انسان دوست آدمی ہیں کہ جیل کی مصیبتوں سے دوچار ہونے کے باوجود خواب کی تعبیر کے ساتھ قحط سالی کے برے آثار سے بچنے کی تدبیر بھی بتائی ہے۔ چنانچہ اس نے حکم دیا کہ انہیں جیل سے فورا نکال کر اس کے پاس لایا جائے، جب بادشاہ کا پیغامبر ان کے پاس آیا تو انہوں نے جیل سے نکلنے میں جلدی نہیں کی اور کہا کہ تم اپنے آقا کے پاس واپس جاؤ اور اس سے پوچھو کہ جن عورتوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے، ان کے بارے میں اس کے پاس کیا خبر ہے؟ اور ان کا مقصد یہ تھا کہ پہلے ان کی عفت اور گناہ سے برات کا اعلان ہوجائے، پھر جیل سے باہر جائیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) میں غایت درجہ کا تحمل اور حلم و بردباری پائی جاتی تھی، جو عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے، بخاری و مسلم نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : اگر میں جیل میں اتنی مدت رہتا جتنی مدت یوسف رہے تو قاصد کی بات مان کر اس کے ساتھ جیل سے نکل کر بادشاہ کے پاس فورا چلا جاتا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یوسف (علیہ السلام) نے عزیز کی بیوی کے بجائے دوسری عورتوں سے پوچھنا اس لیے بہتر سمجھا کہ وہ عورت کہیں کوئی نیا فتنہ نہ کھڑا کردے اور اس امید میں بھی کہ ممکن ہے کہ وہ عورتیں عزیز کی بیوی کے اعتراف کی گواہی دیں اور بادشاہ کو بتائیں کہ اسی نے یوسف کو گناہ کی دعوت دی تھی اور خود انہوں نے بھی یوسف کو عفت و پاکدامنی کی جس بلندی پر پایا اس کی بھی گواہی دیں۔ یوسف
51 (٤٥) جب بادشاہ نے ان عورتوں کو بلا کر پوچھا کہ انہوں نے یوسف کو کیسا پایا؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے یوسف میں بدکرداری کا شائبہ تک نہیں پایا، اور عزیز کی بیوی نے بھی اپنی غلطی اور یوسف کی عفت و پاکدامنی کا اعتراف کرلیا۔ یوسف
52 (٤٦) اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ (طویل جملہ معترضہ کے بعد) یہ بھی یوسف (علیہ السلام) کا قول ہے، یعنی جیل سے نکلنے سے پہلے انہوں نے عورتوں سے اور عزیز کی بیوی سے اس لیے ان کی غلطیوں کا اعتراف کروانا چاہا تاکہ عزیز مصر کو معلوم ہوجائے کہ انہوں نے پوشیدہ طور پر اس کے ساتھ خیانت نہیں کی ہے، آخر میں اس طرف اشارہ ہے کہ زلیخا کا مکرو فریب اس کے کام نہ آیا، اور اپنے شوہر کے ساتھ اس کی خیانت اس کی ذلت و رسوائی کا سامان بن گئی، اور خود عزیز مصر کی طرف اشارہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کی برات اس کے سامنے ظاہر ہوجانے کے باوجود زلیخا کے اشارہ پر اس صدق و صفا اور امانت و دیانت کے پیکر کو جیل میں ڈال دیا۔ یوسف
53 (٤٧) اس آیت کریمہ سے تیرہویں پارہ کی ابتدا ہورہی ہے، اس میں یوسف (علیہ السلام) نے اللہ کے لیے اپنی غایت خشوع و خضوع کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ میں اپنے نفس کا تزکیہ نہیں کرتا ہوں، انسان کا نفس تو برائی پر اکساتا ہی رہتا ہے، سوائے ان نفوس قدسیہ کے جن پر اللہ کا خاص فضل و کرم ہوتا ہے، اس لیے وہ برائی کا حکم ہیں دیتے ہیں، اور میرا رب تو بڑا معاف کرنے والا اور بے حد مہربان ہے۔ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ یہ زلیخا کے قول کا حصہ ہے، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی بھی یہی رائے ہے، ایسی صورت میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ میں نے اپنی غلطی اور یوسف کی عفت و پاکدامنی کا اعتراف اس لیے صراحت کے ساتھ کرلیا ہے تاکہ میرا شوہر جان لے کہ میں نے پوشیدہ طور پر اس کے ساتھ خیانت نہیں کی، اور میں اپنے نفس کی پاکی کا دعوی نہیں کرتی ہوں، انسان کا نفس تو گناہ پر ابھارتا ہی رہتا ہے، جبھی تو میں نے یوسف کو گناہ پر ابھارا تھا۔ یوسف
54 (٤٨) اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو ان کے صبر و استقامت اور عفت و طہارت کی وجہ سے بہت ہی اونچا مقام عطا فرمایا، مقام نبوت سے سرفراز فرمایا، اور شاہ مصر کا خلیفہ اور نائب بنا دیا، جب بادشاہ کو ان کی عفت، طہارت نفس اور وسعت علم کی خبر ہوئی تو انہیں اپنے پاس لے آنے کا حکم دیا تاکہ انہیں اپنا خاص مشیر کار بنا لے، اور جب ان سے بات کرنے کے بعد اسے تمام باتوں کا یقین ہوگیا اور جان گیا کہ یہ وہ گوہر نایاب ہے جو کسی کو قسمت سے ملا کرتا ہے، تو فورا یوسف (علیہ السلام) سے کہا کہ میں تمہیں اپنی حکومت میں اعلی منصب پر متعین کرتا ہوں اور اپنی طرف سے ہر چیز کا ذمہ دار اور امانت دار بناتا ہوں۔ چنانچہ انہیں اپنے بعد سرزمین مصر کا سب سے بڑا حاکم بنا دیا، اور پورے ملک میں اس کا اعلان کروا دیا، اور عظمائے مملکت میں سے ایک کی بیٹی سے ان کی شادی کردی۔ یوسف
55 (٤٩) جب بادشاہ نے انہیں اپنا نائب بنا لیا تو انہوں نے اپنی اہلیت و قابلیت اور ملک کی ضرورت کو پیش نظر بادشاہ سے کہا کہ مجھے سرزمین مصر کے خزانوں کا ذمہ دار بنا دیا جائے، تاکہ علم و امانت کی روشنی میں قحط سالی کے زمانے میں عوام کو غذا بہم پہنچانے کے لیے ابھی سے تیاری شروع کردوں جو خوشحالی کے سات سالوں کے بعد آنے والا ہے۔ یوسف
56 (٥٠) اس طرح اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کو سرزمین مصر کا مالک بنا دیا، جس طرح چاہتے تھے اس میں تصرف کرتے تھے، جہاں چاہتے تھے جاتے تھے، بستی ہو یا شہر ہر جگہ انہی کا حکم چلتا تھا، اور تمام لوگ انہی کے اشاروں پر حرکت کرتے تھے۔ یوسف
57 (٥١) اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ثواب آخرت ثواب دنیا سے زیادہ بہتر ہے، مطلب یہ ہے کہ آدمی کو آخرت کی کامیابی کے لیے اصل کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ دنیا کا جاہ و جلال اور عزت و شہرت سب عارضی ہے اور آخرت کی نعمتیں ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں۔ یوسف
58 (٥٢) اب یوسف کا خواب پورا ہوتا نظر آرہا ہے، سرزمین مصر میں سات سال تک خوب بارش ہوئی، زمین کی زرخیزی کئی گنا بڑھ گئی، کہا جاتا ہے کہ ملک میں سمندر کی ریت کی مانند غلے کی کثرت ہوگئی، یوسف (علیہ السلام) کے حکم سے ہر شہر کے اردگرد کے غلے اس شہر میں جمع کیے جاتے رہے، سات سال کے بعد مصر و شام اور گرد و نواح میں زبردست قحط سالی شروع ہوگئی، لوگ دور دور سے آنے لگے تاکہ اپنے لیے اور اپنے بال بچوں کے لیے غلہ حاصل کریں، کیونکہ انہوں نے سن رکھا تھا کہ مصر کے خزانوں کے انچارج نے غلے کی بہت بڑی مقدار جمع کر رکھی ہے، انہی آنے والوں میں یوسف کے بھائی بھی تھے، جنہیں ان کے باپ یعقوب (علیہ السلام) نے فلسطین سے بھیجا تھا، ان کا قافلہ دس افراد پر مشتمل تھا، ان لوگوں نے یوسف (علیہ السلام) کو نہیں پہچانا، لیکن انہوں نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا، انہوں نے سلام کیا اور ان کا تعظیمی سجدہ کیا تو انجام بن کر پوچھا کہ تم لوگ کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے کہا کنعان سے، یوسف نے کہا، تم لوگ جاسوس معلوم ہوتے ہو، یہاں جاسوسی کی غرض سے آئے ہو، انہوں نے کہا کہ اللہ کی پناہ، ہم تو آپ کے غلام ہیں اور غلہ کے لیے آئے ہیں، ملک میں قحط کی وجہ سے ہماری حالت غیر ہوگئی ہے، اور ہم سب بھائی ہیں، ایک ہی باپ کی اولاد ہیں، یوسف (علیہ السلام) نے پوچھا کہ تم لوگ کتنے بھائی ہو؟ انہوں نے کہا ہم بارہ بھائی تھے، ایک مرگیا، یوسف نے پوچھا کہ یہاں تم لوگ کتنے ہو؟ انہوں نے کہا دس، یوسف نے پوچھا گیارہواں بھائی کہاں ہے؟ کہا باپ کے پاس، کہا میں جاننا چاہتا ہوں کہ تم سچے ہو، اس لیے ایک بھائی بطور رہن یہاں رہے اور باقی غلہ لے جائیں اور چھوٹے بھائی کو لے کر آئیں ورنہ آئندہ تم لوگوں کو غلہ نہیں ملے گا۔ چنانچہ شمعون کو روک لیا، اور باقی کو اجازت دے دی اور انہیں زاد سفر دینے کا حکم صادر کیا۔ آیات (٦٠۔ ٥٩) میں انہی باتوں کی طرف اشارہ ہے۔ یوسف
59 یوسف
60 یوسف
61 (٥٣) یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹوں نے خازن مصر کی دھمکی سن کر کہا کہ اگر تم لوگ اس بھائی کو نہ لائے تو میرے ملک میں دوبارہ نہ آنا، انہوں نے کہا کہ ہم اپنی طرف سے اس کے باپ کو راضی کرنے کی پوری کوشش کریں گے، اور مزید تاکید کے طور پر کہا کہ ہم یقینا اسے لے کر آئیں گے۔ یوسف
62 (٥٤) یوسف (علیہ السلام) نے تولنے والوں سے کہا کہ جو رقم انہوں نے ادا کی ہے، اسے ان کے سامان میں رکھ دو، تاکہ واپسی کے بعد انہیں اپنی رقم ملے گی تو دوبارہ آئیں گے۔ یوسف
63 (٥٥) واپس جاکر اپنے باپ یعقوب (علیہ السلام) سے کہا کہ اگر ہم اپنے بھائی بنیامین کو لے کر نہیں جائیں گے تو ہمیں غلہ نہیں ملے گا، اس لیے اسے ہمارے ساتھ جانے دیجیے تاکہ ہمیں غلہ مل سکے، اور یقین کیجیے کہ ہم اس کی پوری طرح حفاظت کریں گے۔ یوسف
64 (٥٦) یعقوب (علیہ السلام) نے کہا کہ جو عہد و پیمان میں نے تم لوگوں سے یوسف کی حفاظت کے لیے لیا تھا، کیا اس سے بھی زیادہ کوئی سخت عہد و پیمان ہوتا ہے جو میں تم لوگوں سے بنیامین کے لیے لوں، اس کے باوجود تم نے یوسف کے بارے میں میرے ساتھ خیانت کی، اس لیے اب میں تم لوگوں پر بھروسہ نہیں کرسکتا ہوں، میں اس کی حفاظت کا معاملہ اللہ کے حوالے کرتا ہوں جو سب سے بڑا محافظ ہے اور والدین اور بھائیوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، یہ یعقوب (علیہ السلام) کی طرف سے اشارہ تھا کہ وہ بنیامین کو لے جانے کی اجازت دے دیں گے۔ یوسف
65 (٥٧) کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک نے راستہ میں اپنے سواری کے جانور کو چارہ دینے کے لیے اپنا سامان کھولا تو اسے باقی رقم بوری کے منہ پر ہی مل گئی۔ اس نے یہ بات اپنے بھائیوں سے بتائی، اور جب کنعان پہنچ کر سب نے غلے کی اپنی اپنی بوری کھولی تو ہر ایک کو اس کی رقم بوری کے منہ پر ہی ملی، سبھی بہت زیادہ خوش ہوئے، اللہ کا شکر ادا کیا، اور سب نے بیک زبان اپنے باپ یعقوب (علیہ السلام) سے کہا کہ اب ہمیں کیا چاہیے، عزیز مصر نے بے حد تکریم کی، غلہ دیا، زاد سفر دیا، اور ہمارے پیسے بھی واپس کردیئے، اور ان کا مقصود اس گفتگو سے یہ تھا کہ یعقوب (علیہ السلام) بنیامین کو جانے کی اجازت دے دیں، اور ہم اگر اس کی بات مان لیں گے اور بھائی بنیامین کو ساتھ لے جائیں گے تو اپنے اہل و عیال کے کھانے کے لیے غلہ لائیں گے، اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے، اور بھائی کی وجہ سے ایک اونٹ کا غلہ لائیں گے، جو بادشاہ پر گراں نہیں گزرے گا۔ یوسف
66 (٥٨) یعقوب (علیہ السلام) نے کہا کہ میں اسے تمہارے ساتھ اسی صورت میں بھیج سکتا ہوں کہ تم لوگ اللہ کی قسم کھا کر مجھ سے اس بات کا عہد کرو کہ تم لوگ ہر حال میں اسے واپس لاؤ گے، الا یہ کہ دشمن تم سب کو چاروں طرف سے گھیر لیں اور تم مغلوب ہوجاؤ اور اس کی جان نہ بچا سکو، جب ان لوگوں نے پختہ عہد کرلیا تو یعقوب (علیہ السلام) نے انہیں ان کا عہد یاد دلاتے ہوئے اور نقض عہد کے انجام بد سے ڈراتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے اس بات پر اللہ کو گواہ بناتے ہیں۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ انہوں نے اجازت اس لیے دے دی کہ غلہ حاصل کرنے کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ یوسف
67 (٥٩) یعقوب (علیہ السلام) کے سبھی بیٹے صحت مند اور خوبصورت تھے اور اچھا لباس بھی زیب تن کرتے تھے، اس لیے انہیں ڈر ہوا کہ اگر سبھی ایک ہی دروازے سے داخل ہوں گے تو کہیں کسی کی نظر بد نہ لگ جائے، اسی لیے انہیں نصیحت کی کہ سب ایک دروازے سے شہر میں داخل نہ ہوں، بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہوں، کہتے ہیں کہ اس وقت مصر کے چار دروازے تھے، لیکن اس کے بعد ہی فورا یہ کہا کہ میں اپنے اس تدبیر کے ذریعہ اللہ کی قضا و قدر کو نہیں ٹال سکتا ہوں، اس لیے کہ احتیاط تقدیر کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی ہے۔ مفسر ابو السعود لکھتے ہیں کہ یعقوب (علیہ السلام) کا مقصد یہ نہیں تھا کہ احتیاط بے کار چیز ہے، اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں فرمایا ہے : (ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ) اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (البقرہ : ١٩٥) نیز فرمایا ہے : (خذوا حذرکم) احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دو۔ (النساء : ١٠٢) ان کا مقصد یہ بتانا تھا کہ احتیاط ہی مقصود اصلی نہیں ہے، بلکہ محض تدبیر ہے جسے مفید بنانا اللہ کا کام ہے، اور تدبیر تقدیر کو نہیں ٹال سکتی ہے، وہ اللہ سے مدد حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے اور اس سے بھاگ کر اسی کی جناب میں پناہ لینے والی بات ہے، اس کے بعد انہوں نے کہا کہ تمام فیصلے اللہ کے اختیار میں ہیں، ان میں کسی اور کا دخل نہیں ہے، اس لیے میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور تمام لوگوں کو صرف اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ ابن عباس، مجاہد، قتادہ اور جمہور مفسرین کی رائے یہی ہے کہ یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو مختلف دروازوں سے جانے کی نصیحت اس لیے کی تھی تاکہ انہیں کسی کی نظر نہ لگ جائے، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، لیکن معتزلہ نے بغیر کسی حجت و دلیل کے نظر لگنے کا انکار کیا ہے۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نظر حق ہے رسول اللہ اور بعض صحابہ کو نظر لگی تھی، بخاری و مسلم نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ نظر لگنا حق ہے۔ اور حافظ ابن القیم نے اپنی کتاب زاد المعاد میں اس موضوع پر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، اور صحیحین اور دوسری کتابوں سے اس کے ثبوت میں صحیح احادیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ عربوں کے نزدیک یہ بات قدیم زمانے سے ثابت ہے کہ نظر لگ جاتی ہے، اسی لیے قرآن و سنت کو دین کا مرجع ماننے والوں کا اجماع ہے کہ بعض انسانوں کی نظر دوسرے انسانوں بلکہ جانوروں تک کو لگ جاتی ہے اور کتنے لوگ نظر لگنے سے ہلاک ہوجاتے ہیں، ایسے لوگوں کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ اللہ کی مخلوق کو ان کی نظر کے شر سے بچانے کے لیے انہیں یا تو حبس و دوام دے دیا جائے گا یا شہر بدر کردیا جائے گا۔ یوسف
68 (٦٠) باپ کے کہنے کے مطابق مختلف دروزوں سے ان کا داخل ہونا اللہ کی تقدیر کو نہیں ٹال سکتا تھا، اور نہ یعقوب کا ایسا خیال تھا، یہ تو ان کی شفقت پدری تھی جس کا انہوں نے اس طرح اظہار کیا تھا، انہیں اللہ نے نبی بنایا تھا اور آسمانی علم و حکمت سے نوازا تھا، انہیں معلوم تھا کہ تدبیر تقدیر کو نہیں ٹال سکتی ہے، اور اللہ کے فیصلے کو بہرحال وقوع پذیر ہوتا ہے، لیکن بہت سے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ اسباب میں تاثیر ہوتی ہے، جو ان کی خام خیالی ہے اور تقدیر پر ایمان لانے کے مخالف عقیدہ ہے۔ یوسف
69 (٦١) جب یوسف کے پاس بنیامین کو لے کر پہنچے، تو انہوں نے ان سب کی خوب خاطر مدارت کی، اور بنیامین کو کسی بہانے سے الگ بلا کر سارا ماجرا سنا دیا اور بتایا کہ میں تمہارا بھائی یوسف ہوں، اور کہا کہ جو کچھ میرے سوتیلے بھائیوں نے کیا تھا اس کا غم نہ کرو اور ابھی راز کو افشا نہ کرو، اور میں تمہیں کوئی سبب پیدا کر کے اپنے پاس روک لوں گا، تاکہ عزت و آرام کے ساتھ میرے پاس رہ سکو۔ یوسف
70 (٦٢) چنانچہ انہوں نے اپنے اہل کاروں کو سکھا دیا کہ جب یہ لوگ اپنا سامان سفر باندھ رہے ہوں تو بادشاہ کا چاندی کا پیالہ بنیامین کے سامان میں رکھ دیں، انہوں نے ایسا ہی کیا، اور جب وہ واپس جاتے ہوئے کچھ دور چلے گئے، تو پیچھے سے ان کے آدمی دوڑتے ہوئے گئے اور کہا کہ تم لوگ چور ہو، انہوں نے پوچھا کہ تمہاری کیا چیز گم ہوگئی ہے؟ تو اعلان کرنے والے نے کہا کہ بادشاہ کا پیالہ چوری ہوگیا ہے، اور جس نے اسے لیا ہے اگر از خودلوٹا دے گا تو اسے ایک اونٹ کا غلہ دیا جائے گا اور میں اس بات کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ یوسف
71 یوسف
72 یوسف
73 (٦٣) بھائیوں نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ ہم کنعان سے یہاں چوری کرنے یا کسی بری نیت سے نہیں آئے تھے، ہم تو غلہ کے لیے آئے تھے، اور اس سے پہلے بھی آئے تھے اور چوری کا الزام ہم نہیں لگایا گیا تھا، اور نہ کبھی ہم نے زندگی میں ایسا کام کیا ہے۔ تو یوسف کے لوگوں نے کہا کہ اگر تم لوگ جھوٹے نکلے تو چور کو کیا سزا ملنی چاہیے؟ انہوں نے کہا کہ جس کے سامان میں پیالہ ملے اسے بادشاہ اپنا غلام بنا لے، چوری کرنے والوں کو ایسی ہی سزا ملنی چاہیے۔ یوسف
74 یوسف
75 یوسف
76 (٦٤) اعلان کرنے والے نے بنیامین کے سامان سے پہلے بھائیوں کے سامان میں تلاش کیا، پھر بنیامین کے سامان سے پیالہ نکال لیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یوسف کی غرض پوری کرنے کے لیے ہم نے یہ تدبیر کی تھی، اس لیے کہ شاہ مصر کے قانون و دستور کے مطابق یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائی بنیامین کو نہیں لے سکتے تھے، البتہ یعقوب (علیہ السلام) کے دین و شریعت میں یہ تھا کہ چور کو غلام بنا لیا جاتا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود ان بھائیوں کی زبان سے ان کے باپ کے دین کے مطابق کہلوایا کہ جو چور ہوگا وہ بادشاہ کا غلام بنا لیا جائے گا، ان کا یہ کہنا اللہ کی مشیت کے مطابق تھا تاکہ یوسف اپنے بھائی بنیامین کو اپنے پاس روک سکیں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس طرح ہم نے علم کے ذریعہ یوسف کو بلند مقام دیا، اسی طرح ہم جسے چاہتے ہیں علوم و معارف دے کر اس کے ہم عصروں میں اسے عالی مقام بنا دیتے ہیں اور ہر علم والے سے بڑا علم والا ہوتا ہے، اسی لیے حسن بصری کہا کرتے تھے کہ ہر علم والے سے بڑا علم والا ہے، یہاں تک کہ یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ پر ختم ہوجاتا ہے، اس سے بڑا کوئی عالم نہیں اور اس کا علم بحر بے کنار ہے۔ یوسف
77 (٦٥) جب پیالہ بنیامین کے سامان سے برآمد ہوگیا تو ان کے بھائیوں نے (عزیز کے سامنے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ ہم لوگ اس جیسے چور نہیں ہیں) کہا کہ اگر یہ چور نکلا تو اس کا بھائی بھی چور تھا، یوسف علی السلام نے ان کے اس جھوٹ پر ضبط سے کام لیا اور اپنے تاثرات کو ظاہر نہیں ہونے دیا اور دل میں کہا کہ تم کتنے برے لوگ ہو کہ خود یوسف کو اس کے باپ سے دھوکہ دے کرلے گئے تھے اور کنواں میں ڈال دیا تھا اور آج اس مظلوم و بے گناہ پر چوری کی تہمت دھرتے ہو، تم جو کچھ کہہ رہے ہو اسے اللہ خوب جانتا ہے۔ یوسف
78 (٦٦) جب انہی کی رائے کے مطابق یہ بات طے پاگئی کہ اب بنیامین کو مصر میں ہی رہنا ہے، تو انہوں نے عزیز مصر سے رحم کی اپیل اس طرح کی کہ آپ ہم میں سے کسی ایک کو بنیامین کے بدل لے لیں اور اسے چھوڑ دیں اس لیے کہ اس کے والد بہت ہی بوڑھے ہیں اور اس سے بڑی محبت کرتے ہیں اور اسے دیکھ کر ہی گمشدہ بیٹے کا غم غلط کرتے ہیں، اور آپ نے پہلے ہم پر بہت احسانات کیے ہیں اس لیے یہ احسان عظیم بھی ہم پر کیجیے۔ یوسف
79 (٦٧) عزیز مصر نے ان کی درخواست رد کردی، اور کہا کہ قصور وار کے بدلے بے گناہ کو لے لینا ظلم و زیادتی ہوگی، اور ایسے گناہ کے ارتکاب سے اللہ کی پناہ مانگی، تاکہ ان کے بھائیوں کی امید بالکل ختم ہوجائے۔ یوسف
80 (٦٨) جب کوئی امید باقی نہ رہی تو لوگوں سے الگ ہو کر آپس میں سر جوڑ کر غور و خوض کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے، تو بڑے بھائی نے (جس کا نام غالبا روبین تھا) کہا کہ تم سب کو پتہ ہے کہ ہمارے باپ نے اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہم سے بڑا سخت عہد و پیمان لیا ہے کہ ہم ان کے لڑکے کو بحفاظت تمام ان کے پاس واپس پہنچائیں گے، اور ہم لوگ اس کے پہلے یوسف کے سلسلے میں جس عدم اہتمام کا مظاہرہ کرچکے ہیں وہ سب کو معلوم ہے، اس لیے اب میں مصر سے اسی وقت کنعان جاؤں گا جب میرے باپ مجھے اجازت دیں گے، یا اللہ تعالیٰ مصر سے میری روانگی کا فیصلہ کردے یا میرا بھائی بنیامین کسی طرح آزاد کردیا جائے اور اللہ بہرحال بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ یوسف
81 (٦٩) بھائیوں سے کہا کہ تم لوگ والد کے پاس جاؤ اور انہیں سارا ماجرا سناؤ اور کہو کہ آپ کے بیٹے بنیامین کی طرف عزیز مصر کے پیالے کی چوری منسوب کی گئی ہے اور ہم نے دیکھا کہ اس کے سامان سے پیالہ نکالا گیا، ہم اس کی گواہی دیتے ہیں، اور چونکہ ہم غیب کا علم نہیں رکھتے ہیں، اس لیے حقیقت امر کا پتہ نہیں کہ کیا واقعی بنیامین نے چوری کی ہے یا کوئی اور بات ہے، ایک دوسرا مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب ہم نے اسے اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت مانگی تھی تو ہمیں معلوم نہیں تھا کہ وہ چوری کرے گا اور ہماری رسوائی کا سبب بنے گا۔ یوسف
82 (٧٠) اور یہ بھی کہو کہ آپ کسی کو مصر بھیج کر حقیقت حال کا پتہ چلا لیجیے، اور اس قافلہ والوں سے بھی پوچھ لیجیے جو ہمارے ساتھ وہاں سے آئے ہیں اور آپ یقین کیجیے کہ ہم لوگ سچے ہیں۔ یوسف
83 (٧١) جب وہ لوگ کنعان پہنچے تو اپنے باپ سے وہی کچھ کہا جو ان کے بڑے بھائی نے سکھایا تھا، تو انہوں نے کہا کہ یہ بات کہ میرے بیٹے نے چوری کی ہے، تمہارے ذہن کی ایک پیداوار ہے اس نے حقیقت میں چوری نہیں کی ہے، بعض مفسرین نے اس کا مفہوم یہ بتایا ہے کہ بنیامین کو کنعان سے مصر لے جانا، تم لوگوں نے پہلے سے سوچی ہوئی سازش تھی تاکہ اسے بھی یوسف کی طرح غائب کردو، اب تو میرے لیے صبر کرنا ہی بہتر ہے۔ اور یعقوب (علیہ السلام) کے مقام نبوت کے لائق یہی بات تھی، بخاری و مسلم نے انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : صبر یہ ہے کہ آدمی پہلی چوٹ کو خاموشی کے ساتھ برداشت کرجائے۔ اس کے بعد یعقوب (علیہ السلام) نے کہا کہ مجھے امید ہوچکی ہے کہ میرا اللہ میرے تینوں بیٹوں (یوسف، بنیامین اور روبین) کو مجھ سے ملا دے گا، انہیں پہلے سے کچھ اندازہ تھا کہ یوسف زندہ ہیں، لیکن مفقود الخبر ہیں، یہ کہہ کر انہوں نے اپنے بیٹوں سے منہ پھیر لیا، اور یوسف کی گمشدگی پر شدید حزن و ملال کا اظہار کرنے لگے، اس لیے کہ ان کی مصیبتوں کی ابتدا انہی کی گمشدگی سے ہوئی تھی، وہ گم ہوئے، پھر بنیامین غلام بنا لیے گئے، اور بڑے بیٹے نے بنیامین کے حادثے سے متاثر ہو کر مصر میں ہی غریب الوطنی کی زندگی اختیار کرلی، اور باپ کو منہ دکھانا پسند نہیں کیا۔ یعقوب یوسف کے گم ہونے کے بعد گھٹ گھٹ کر اتنا روئے کہ مسلسل آنسو بہتے رہنے سے آنکھیں سفید ہوگئیں، مفسرین لکھتے ہیں کہ کسی مصیبت یا کسی چہیتے کی موت یا گمشدگی پر غم کرنا حرام نہیں ہے۔ حرام یہ ہے کہ آدمی چیخ پکار کرے، گریبان پھاڑے اور ایسی باتیں کرے جو صبر و استقامت کے خلاف ہوں، نبی کریم نے اپنے بیٹے ابراہیم کی موت پر کہا تھا، آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل مغموم ہے، اور ہم کوئی ایسی بات نہیں کہیں گے جس سے اللہ ناراض ہو، اور اے ابراہیم ! ہم تیری جدائی پر غمگین ہیں۔ آیت کے آخری حصہ (فھو کظیم) میں اشارہ ہے کہ ان کا دل غم سے متاثر تھا اس کا اظہار نہیں کرتے تھے۔ یوسف
84 یوسف
85 (٧٢) یعقوب (علیہ السلام) کا حال زار دیکھ کر ان کے بیٹوں کو ان پر بڑا رحم آتا تھا، اور جب ان کی حالت دن بدن غیر ہونے لگی اور ڈرے کہ کہیں یوسف کا غم ان کے دل کو نہ کھا جائے، اور ان کی موت کا سبب نہ بن جائے، تو انہوں نے ان سے کہا کہ اللہ اللہ کی قسم ! آپ یوسف کو اسی طرح ہمیشہ یاد کرتے رہیں گے یہاں تک کہ آپ عقل و ہوش کھو بیٹھیں گے اور آپ کا جسم گھل جائے گا، کہیں یہ غم آپ کی زندگی کا ہی خاتمہ نہ کردے۔ یوسف
86 (٧٣) یعقوب (علیہ السلام) نے کہا کہ میں اپنا درد و غم اور حال زار کسی انسان سے نہیں بلکہ اللہ سے بیان کرتا ہوں، اور اسی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں، اسی سے التجا کرتا ہوں اس لیے تم لوگ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو، مجھے وہ کچھ معلوم ہے جو تمہیں معلوم نہیں ہے، میں جانتا ہوں کہ میرا بیٹا یوسف زندہ ہے اس کا خواب سچا تھا اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے ملا دے گا۔ اور صبر کے ساتھ جب مصیبت بھی بڑھتی جاتی ہے تو عام طور پر آسانی کا وقت بھی قریب ہونے لگتا ہے۔ یوسف
87 (٧٤) انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ وہ مصر جائیں اور یوسف اور اس کے بھائی بنیامین کے بارے میں پتہ لگائیں اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوں، اس لئیے کہ اس کی رحمت سے صرف کافرو لوگ ناامید ہوتے ہیں۔ یوسف
88 (٧٥) باپ کے حکم کے مطابق باقی ماندہ بھائیوں نے تیسری بار مصر کا سفر کیا، اور عزیز مصر کے دربار میں حاضری دی اور کہا کہ جناب عالی ! ہم اور ہمارے بال بچے قحط اور خشک سالی کی وجہ سے بہت پریشان ہیں، اور بہت ہی تھوڑی رقم لے کر آئے ہیں (انہوں نے یہ انداز بیان بادشاہ کے دل میں اپنے لیے ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے اختیار کیا تھا) لیکن آپ اپنے جود و سخا سے ہمیں اناج پہلے کی طرح پورا دیجیے اور رقم کم ہونے یا اس کے بے وقعت ہونے کا خیال نہ کیجیے، اللہ تعالیٰ صدقہ اور بھلائی کرنے والوں کو ضرور اچھا بدلہ دیتا ہے۔ یوسف
89 (٧٦) اپنے کاندان والوں کی غربت و پریشانی اور اپنے باپ کے درد و غم کا حال جان کر یوسف (علیہ السلام) کا دل بھر آیا، اور ان کی آنکھیں نم ہوگئیں، اب قصہ کو مزید طول دینے کی تاب نہ لاسکے، اور اپنے بھائیوں کو اپنی درد بھری داستان یاد دلاتے ہوئے کہا کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی بنیامین کے ساتھ نادانی کی وجہ سے ماضی میں جو ظلم و زیادتی کی تھی کیا وہ تمہیں یاد ہے؟ (یوسف کے ساتھ انہوں نے جو برتاؤ کیا تھا اس کی تفصیل گزر چکی ہے اور ان کے بھائی بنیامین کو ان کے فراق کا غم دیا، اور ہمیشہ ان کے ساتھ حقارت آمیز معاملہ کرتے رہے) یوسف (علیہ السلام) نے اپنے باپ یعقوب کا ذکر نہیں کیا، حالانکہ یوسف کی جدائی سے سب سے زیادہ انہی کو غم پہنچا تھا، مفسرین لکھتے ہیں کہ ان کا ذکر ان کی جلالت قدر کی وجہ سے نہیں کیا، اور اس لیے کہ یوسف کو معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی آزمائش اس لیے ہورہی تھی تاکہ ان کا مقام بلند ہو۔ یوسف
90 (٧٧) بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کے اس سوال سے انہیں پہچان لیا، اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ یوسف کا واقعہ ان کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا تھا، اور بے حد حیرت و استعجاب کا اظہار کرتے ہوئے کہا، کیا آپ ہی یوسف ہیں؟ یقینا آپ ہی یوسف ہیں، تو انہوں نے کہا کہ ہاں میں یوسف ہوں اور یہ میرا سگا بھائی بنیامین ہے، اللہ نے ہم پر احسان کیا ہے کہ آزمائشوں کا دور ختم ہوگیا، ایک مدت کی جدائی کے بعد دونوں بھائی مل گئے ہیں، اور ذلت کے بعد عزت اور وحشت و تنہائی کے بعد انس و قربت نصیب ہوئی ہے، اس کے بعد انہوں نے سبب بیان کرتے ہوئے کہا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ہر حال میں ڈرتا رہتا ہے، اور تکلیفوں پر صبر کرتا ہے، تو اللہ ایسے اچھے لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتا ہے، آیت میں اشارہ ہے کہ متقی اور صابر انسان ہی اللہ کے نزدیک صفت احسان کا مستحق ہوتا ہے۔ یوسف
91 (٧٨) بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) کے مقام و مرتبہ اور ماضی میں ان کے حق میں اپنے خطرناک جرم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہم سب پر فضیلت دی ہے، اور آپ کو آپ کے تقوی اور صبر کی وجہ سے بڑا اونچا مقام عطا کیا ہے، اور ہم آپ کے حق میں بڑے گناہ گار و خطا کار تھے۔ مفسرین کہتے ہیں کہ ان کے اس اعتراف گناہ میں اشارہ ہے کہ انہوں نے فورا اللہ سے معافی مانگی اور توبہ کیا۔ یوسف
92 (٧٩) یوسف (علیہ السلام) نے کہا جاؤ، آج میں نے تمہیں معاف کردیا، ماضی کی غلطی پر تمہارا مواخذہ نہیں کروں گا، اللہ بھی تمہیں معاف کردے، اور وہ تو بے حد رحم کرنے والا ہے۔ یوسف
93 (٨٠) اب وقت آگیا تھا کہ یعقوب (علیہ السلام) کے درد و الم کا دور ختم ہو، ان کے صبر کا نتیجہ ظاہر ہو، یوسف (علیہ السلام) نے اللہ کی طرف سے وحی کے مطابق بھائیوں سے کہا کہ تم لوگ میری یہ قمیص لے کر جاؤ اور میرے باپ کے چہرے پر اسے ڈالو، اللہ کے حکم سے ان کی بینائی واپس آجائے گی، اور تم لوگ اپنے خاندان کے تمام افراد کو لے کر یہاں آجاؤ، کہتے ہیں کہ ان کی تعداد ستر یا ترانوے تھی۔ یوسف (علیہ السلام) نے انہیں یہ بھی بتایا کہ قحط سالی کے دو سال گزر چکے ہیں ابھی مزید پانچ سال باقی ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین میں مجھے تم سے پہلے اس لیے پہنچا دیا تاکہ تم سب یہاں آجاؤ سب کی جان بچ جائے۔ یہ ساری باتیں باپ کو بتاؤ، اور اپنے تمام بال بچے، مویشی اور جو کچھ تمہارے پاس ہے سب لے کر یہاں آجاؤ، ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اور شاہ مصر نے انہیں ملک کے سب سے زرخیز علاقے دے دیئے، اور یوسف (علیہ السلام) نے اپنے باپ ماں اور بھائیوں کی خوب خاطر مدارت کی، خوب نوازا، کھانے کے لیے بہترین اناج، پہننے کے لیے عمدہ لباس اور دیگر اخراجات کے لیے بہت سارے پیسے دیئے۔ یوسف
94 (٨١) جب بھائیوں کا قافلہ مصر سے کنعان کی طرف روانہ ہوا، تو یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے پوتوں اور دیگر افراد خانہ سے کہا کہ مجھے یوسف کی خوشبو آرہی ہے، لیکن تم لوگ تو یہی کہو گے کہ بڑھاپے کی وجہ سے میری عقل متاثر ہوگئی ہے، یہ وحی الہی کے ذریعہ ان کے لیے اشارہ تھا کہ یوسف ابھی زندہ بخیر ہیں، اور یہ امید تو ان کے دل میں ہمیشہ ہی رہی، یوسف کے خواب کی تعبیر کا یہی تقاضا تھا، اسی لیے انہوں نے اپنے بیٹوں کو بھی اللہ کی رحمت سے ناامید ہونے سے منع کیا تھا، جب مصیبت کے دن ختم ہونے والے ہوتے ہیں تو اللہ کے نیک بندوں کو اس کا احساس ہونے لگتا ہے۔ یوسف
95 (٨٢) پوتوں نے کہا یہ تو آپ کی وہی فرسودہ باتیں ہیں، آپ تو ہمیشہ یوسف کی محبت میں اس طرح کی باتیں کرتے رہے ہیں، اور ان کی دید کی خواہش لیے جیتے رہے ہیں، حالانکہ وہ مرچکے ہیں اس لیے آپ کو ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیے۔ یوسف
96 (٨٣) کہتے ہیں کہ وہ یہودا تھا، جس کے سپرد یوسف (علیہ السلام) نے اپنی قمیص کی تھی جب اس نے وہ قمیص یعقوب (علیہ السلام) کے چہرے پر ڈالی تو ان کی بینائی واپس آگئی، تب انہوں نے سب سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں نے تم لوگوں سے کہا نہیں تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ہو۔ یوسف
97 (٨٤) بھائیوں نے اپنے باپ سے کہا کہ ہم نے یوسف اور آپ کے حق میں جو غلطیاں کی تھیں ان کی اللہ سے ہمارے لیے مغفرت طلب کردیجیے، تو یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے اس کا وعدہ کیا اور کہا کہ میں تمہارے لیے اللہ سے دعا کروں گا، اور وہ تو بہت بڑا معاف کرنے والا اور بے حد رحم کرنے والا ہے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کی مغفرت کے لیے صبح کے وقت دعا کی تھی، دعا و استغفار کے لیے افضل اوقات کا اختیار کرنا سنت سے ثابت ہے، جیسے صبح کا وقت، فرض نمازوں کے بعد، حج کے دوران، سجدہ کی حالت میں، اذان کے وقت، اذان اور اقامت کے درمیان، روزے سے افطاری کے وقت، ان اوقات میں دعا کی قبولیت کی اللہ سے زیادہ امید ہوتی ہے۔ یوسف
98 یوسف
99 (٨٥) یعقوب (علیہ السلام) اپنے تمام بال بچوں، جانوروں اور سازو سامان کے ساتھ کنعان سے سرزمین مصر کی طرف روانہ ہوگئے، ان کا بیٹا یوہدا پہلے گیا تاکہ یوسف (علیہ السلام) اسے وہ جگہ بتا دیں جہاں ان سب کو آباد ہونا تھا، اور جس نام جاسان تھا، یوسف (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے شہر سے باہر نکل کر ملاقات کی، جب یعقوب نے انہیں دیکھا تو ان کی گردن سے چپک کر بہت دیر تک روتے رہے۔ یوسف (علیہ السلام) بھی اپنے باپ اور ماں سے گلے مل مل کر روتے رہے اور چونکہ انہوں نے شہر سے باہر اپنے والدین، بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں کا استقبال کیا تھا اسی لیے ابتدائی ملاقات کے بعد اپنے ماں باپ کو ان کا مناسب مقام عطا کیا، ان کی خوب دلجوئی کی اور اپنی خاص سواری پر بٹھا کر شہر کی طرف روانہ ہوئے، اور سب رشتہ داروں سے کہا کہ اب آپ لوگ پورے امن و امان کے ساتھ شہر میں داخل ہوجائیں۔ یوسف
100 (٨٦) جب یوسف (علیہ السلام) اپنے باپ ماں کو لے کر دار السلطنت پہنچے تو انہیں اپنے ساتھ شاہی تخت پر بٹھایا اس وقت ان کے والدین اور گیارہوں بھائی ان کی تعظیم میں سجدہ میں گر گئے، تب یوسف (علیہ السلام) نے کہا ابا جان ! میرے گزشتہ خواب کی یہی تعبیر ہے، جسے اللہ نے سچ کر دکھایا ہے، اور اس نے مجھ پر یہ احسان کیا کہ مجھے جیل سے نجات دی، (اور کنواں سے اپنے نکالے جانے کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ بھائیوں کو شرمندگی نہ ہو، جنہیں پہلی ملاقات میں کہہ چکے تھے کہ ماضی کی غلطی پر تمہارا مواخذہ نہیں کیا جائے گا) اور اس کا یہ بھی احسان ہے کہ آپ سب کو بادیہ سے یہاں پہنچا دیا (کہتے ہیں کہ ان کا پیشہ مویشی پالنا تھا) اور شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان حسد کی جو آگ لگائی تھی وہ بجھ گئی اور ہم سب ایک ہوگئے۔ یوسف
101 (٨٧) اللہ تعالیٰ نے جب اپنی نعمت یوسف (علیہ السلام) پر تمام کردی، والدین اور بھائیوں کو ان کے پاس پہنچا دیا، اور انہیں علم نبوت، علم تعبیر رویا، اور مصر کی عظیم بادشاہت سے نوازا تو انہوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ اے اللہ ! تو میری باقی عمر تک ان نعمتوں کی حفاظت فرما اور جب موت آئے تو اسلام پر آئے اور مجھے نیک لوگوں میں شامل کردے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے موت کی تمنا کی تھی، اور اس دعا کے بعد وفات پاگئے، لیکن جمہور اہل علم کی رائے یہ ہے کہ انہوں نے اس دعا کے ذریعہ موت کی تمنا نہیں کی تھی، بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ جب موت آئے تو اسلام پر آئے۔ اور مجھے نیک لوگوں میں شامل کردے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے موت کی تمنا کی تھی، اور اس دعا کے بعد وفات پاگئے، لیکن جمہور اہل علم کی رائے یہ ہے کہ انہوں نے اس دعا کے ذریعہ موت کی تمنا نہیں کی تھی، بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ جب موت آئے تو اسلام پر آئے۔ مسند احمد اور صحیحین میں انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : تم میں سے کوئی کسی تکلیف و مصیبت کی وجہ سے موت کی تمنا نہ کرے، اگر نیک آدمی ہوگا تو اس کا اجر و ثواب میں اضافہ ہوگا، اور اگر برا ہوگا تو ممکن ہے کہ اسے توبہ کی توفیق مل جائے، اسے اس طرح کہنا چاہیے کہ اے اللہ ! جب تک میری زندگی میرے لیے بہتر ہے، مجھے زندہ رکھ، ایک دوسری روایت میں ہے کہ اگر موت میرے لیے بہتر ہے تو مجھے موت دے دے۔ یعقوب (علیہ السلام) جب مصر پہنچے تو ان کی عمر ایک سو تیس سال تھی، یوسف (علیہ السلام) نے انہیں اور ان کے بیٹوں کو شاہ مصر سے ملایا، اس نے ان کی خوب تکریم کی اور عین شکس کا علاقہ جو سب سے زیادہ زرخیز مانا جاتا ہے، ان کے نام لکھ دیا۔ مصر میں اقامت پذیر ہونے کے بعد سترہ سال زندہ رہے اور جب وفات پائی تو ان کی وصیت کے مطابق ان کے بیٹوں نے ان کی لاش پر مومیا مل کر محفوظ کرلیا، اور کنعان لے جاکر اس جگہ دفن کیا جو الخلیل کے نام سے جانا جاتا ہے، اور جہاں پہلے سے ابراہیم، سارہ، اسحاق ان کی بیوی اور یعقوب کی بیوی مدفون تھیں، یوسف (علیہ السلام) اس کے بعد طویل مدت تک زندہ رہے، دعوت الی اللہ اور امور سلطنت کی ذمہ داریوں کے ساتھ اپنے خاندان والوں کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ وفات کے بعد ان کی اولاد نے انہیں سنگ مرمر کے ایک صندوق میں دریائے نیل کے بالائی علاقے میں دفن کردیا، اس وقت ان کی عمر ایک سو دس سال تھی، اور ان کی عظیم بادشاہت کی کہانی ختم ہوگئی، اور اللہ کی بادشاہت باقی رہی جو ہمیشہ سے رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ چار سو سال کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا تابوت وہاں سے نکالا اور کنعان لے جاکر ان کے آباو اجداد کے پہلو میں دفن کردیا۔ سرزمین مصر میں آل یعقوب نے خوب ترقی کی اور ان کی نسل بھی بہت تیزی کے ساتھ بڑھتی گئی یہاں تک کہ ایک پوری قوم بن گئی، اور ایک بڑے علاقے میں پھیل گئی، جب ان میں موسیٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تو انہیں دوبارہ ان کے آباواجداد کے وطن شام واپس لے گئے۔ یوسف
102 (٨٨) نبی کریم کو خطاب کر کے کہا جارہا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کا قصہ غیب کی باتیں تھیں، جو آپ کو بذریعہ وحی بتائی گئی ہیں، تاکہ آپ کے مخالفین اسے سن کر عبرت حاصل کریں، اور سمجھیں کہ اگر آپ نبی نہ ہوتے اور آپ پر وحی نازل نہ ہوتی تو کہاں سے اس قصے کی تمام تفصیلات کا علم ہوتا، جب یوسف کے بھائی انہیں کنواں میں ڈالنے کی سازش کر رہے تھے اور انہیں اپنے ساتھ چلنے پر طرح طرح سے ورغلا رہے تھے، تو آپ ان کے پاس موجود نہیں تھے کہ آپ کو ان کی اس سازش کا پتہ چل جاتا، اور نہ کسی ایسے آدمی سے آپ کا کبھی تعلق رہا جو اس واقعہ کو جانتا تھا، اور جس نے آپ نے سکھلا دیا، آپ کو جو کچھ معلوم ہوا وحی کے ذریعہ معلوم ہوا۔ یوسف
103 (٨٩) لیکن ان تمام کھلی نشانیوں کے باوجود کہ آپ اللہ کے نبی ہیں اور آپ کی حد درجہ خواہش کے باوجود کہ لوگ ایمان لے آئیں، اکثر و بیشتر لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ نبی کریم سمجھتے تھے کہ کفار قریش یوسف (علیہ السلام) کا قصہ سن کر ایمان لے آئیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ کفر پر ان کا اصرار اور بڑھ گیا، اس آیت میں اسی طرح اشارہ ہے۔ یوسف
104 (٩٠) آپ قریش والوں کو قرآن پڑھ کر سناتے ہیں اور انہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں، تو ان سے اس کا کوئی معاوضہ نہیں مانگتے ہیں اگر وہ عقلمند ہوتے تو آپ کی دعوت کو قبول کرلیتے اور قرآن پر ایمان لے آتے جو سارے جہان کے لیے عبرتوں اور نصیحتوں کا خزانہ ہے۔ یوسف
105 (٩١) مکہ کے کافروں کا بالخصوص اور عام انسانوں کا بالعموم حال یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں موجود توحید باری تعالیٰ کے بہت سے دلائل ان کی نگاہوں کے سامنے سے گزرتے ہیں، لیکن ان میں غور وفکر نہیں کرتے ہیں اور انہیں ان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے، یہ آسمان جو بغیر ستونوں کے ہمارے سروں پر رکا ہوا ہے، اور یہ متحرک اور ٹھہرے ہوئے ستارے، جو آسمان میں جگمگاتے رہتے ہیں اور یہ زمین، اس پر پہاڑوں کے سلسلے، چٹیل میدان، سمندر، پودے اور حیوانات ان میں سے ہر ایک اللہ کی وحدانیت کی دلیل ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ وہی ان کا خالق و رازق ہے، وہی مارتا اور زندہ کرتا ہے اس کے علاوہ کوئی نہیں، اس کا ساجھی کوئی نہیں، لیکن اکثر و بیشتر لوگ ایسی غفلت کا شکار ہوتے ہیں کہ ان دلائل و براہین سے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے، انہیں ان میں غور و فکر کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ یوسف
106 (٩٢) اکثر و بیشتر انسانوں کا حال یہ بھی ہے کہ وہ اپنی زبان سے تو اللہ کے وجود اور اس کے خالق و مالک ہونے کا اقرار کرتے ہیں، لیکن عمل کی زندگی میں مشرک ہوتے ہیں، اللہ کے بجائے غیروں کی پرستش کرتے ہیں، انسانوں کو اللہ کے بیٹے اور فرشتوں کو اس کی بیٹیاں کہتے ہیں، جو شرک اکبر ہے، اور جس کا شرک ہونا واضح اور جلی ہے، شرک کی ایک دوسری قسم شرک خفی ہے، جس میں اکثر لوگ مبتلا ہوجاتے ہیں اور انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے۔ حسن بصری اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ وہ منافق ہے جو لوگوں کے دکھلاوے کے لیے نیک کام کرتا ہے، وہ مشرک ہے اس لیے کہ اس نے عبادت میں اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بنایا، وہ اگرچہ اللہ کی وحدانیت کا اعتقاد رکھتا ہے، لیکن اللہ کے لیے اپنی عبودیت میں مخلص نہیں ہوتا ہے، بلکہ حصول دنیا یا جاہ و منزل کی خاطر نیک عمل کرت ہے، یہی وہ شرک ہے جس کے بارے میں نبی کریم نے فرمایا کہ اس امت میں شرک چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی طور پر پایا جائے گا (صحیح ابن حبان) معلوم ہوا کہ جو نیک کام بھی لوگوں کے دکھلاوے کے لیے کیا جائے گا وہ شرک ہوگا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ شرک کی ایک قسم شرک خفی ہے، جس کا مرتکب عام طور پر اس کا احساس نہیں کرپاتا ہے۔ حذیفہ بن الیمان سے عروہ نے روایت کی ہے کہ وہ ایک مریض کے پاس گئے تو اس کے بازو پر ایک دھاگا بندھا ہوا دیکھا، انہوں نے اسے کاٹ دیا اور یہ آیت پڑھی، اور ابو داؤد اور ترمذی نے عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ جس نے غیر اللہ کے نام کی قسم کھائی، اس نے شرک کیا، اور امام احمد، ابو داؤد وغیرہ نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جھاڑ پھونک، گنڈا تعویذ اور دھاگے باندھنا شرک ہے، اور امام احمد نے عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو بدشگونی کی وجہ سے کسی کام سے رک گیا، اس نے شرک کیا۔ معلوم ہوا کہ بعض مسلمانوں میں ایمان حقیقی اور شرک خفی اصغر کا اجتماع ہوسکتا ہے، جس طرح زمانہ جاہلیت کے لوگوں میں ایمان باللہ اور شرک اکبر دونوں بیک وقت پائے گئے، اور شرک خفی اصغر ایمان حقیقی کے منافی نہیں ہے، اور اس کا کفاریہ یہ ہے کہ آدمی اللہ کے ذریعہ شرک سے پناہ مانگے۔ یوسف
107 (٩٣) اس آیت کریمہ میں مشرکین کے لیے بہت بڑی دھمکی ہے کہ کوئی بعید نہیں اللہ کا ایسا عذاب آجائے جو انہیں ہر طرف سے اپنی گرفت میں لے لے، یا قیامت ہی اچانک آجائے اور وہ اپنے شرک کی وجہ سے جہنم کے سپرد کردئے جائیں۔ یوسف
108 (٩٤) نبی کریم سے کہا جارہا ہے کہ آپ مشرکین سے کہہ دیجیے کہ ایمان باللہ اور توحید باری تعالیٰ کی طرف لوگوں کو بلانا میرا طریقہ، میرا مسلک اور میری سنت ہے، میں اور میرے ماننے والے مومنین واضح دلیل و برہان کی بنیاد پر لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلاتے ہیں، اور میرا ایمان ہے کہ اللہ کی ذات ہر عیب و نقص سے پاک ہے، اس کا نہ کوئی شریک ہے، نہ مقابل، نہ اس کا کوئی بیٹا ہے نہ بیوی، وہ ان تمام عیوب و نقائص اور تمام کمزوریوں سے یکسر پاک ہے اور میں مشرکوں کے دین پر نہیں ہوں، اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ اسلام کی دعوت دلیل و حجت کی بنیاد پر ہے۔ قرآن کریم نے اسی کی تعلیم دی ہے، نبی کریم اور صحابہ کرام اسی منہج پر قائم رہے، انہوں نے لوگوں کو دلائل کے ذریعہ قانع کرنے کی کوشش کی، یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم کے ماننے والے ہر دور میں اللہ کی مخلوق کو اس کی توحید و عبادت کی دعوت دیتے رہیں گے، اور دعوت میں حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ گفتگو مخاطب کی عقل و سمجھ کے مطابق ایسی صاف ستھری ہو کہ وہ آسانی کے ساتھ قرآن و سنت کی دعوت کو سمجھ لے، اور داعی الی اللہ کا فرض ہے کہ جب تک زندہ رہے بھلائی کا حکم دیتا رہے اور برائی سے روکتا رہے، اس لیے کہ اس کی خاموشی دنیا میں فساد کو پھیلنے کا موقع دے گی، بھلائی دب جائے گی اور برائی سر اٹھا کر دندناتی پھرے گی۔ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ یوسف
109 (٩٥) مشرکین مکہ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے آسمان سے فرشتے کیوں نہیں بھیج دیئے، تو اللہ نے ان کی تردید میں کہا کہ اے ہمارے نبی ! ہم نے آپ سے پہلے بھی جتنے انبیاء بھیجے سبھی شہروں میں رہنے والے مرد تھے، جنہیں ہم بذریعہ وحی دین و حکمت کی تعلیم دیتے رہے، اس آیت کے مطابق جمہور علماء کی رائے ہے کہ کوئی عورت نبی نہیں ہوئی ہے۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ آیت میں قری سے مراد شہر ہے بادیہ نہیں، جہاں کے رہنے والے عام طور پر بداخلاق اور سخت مزاج ہوتے ہیں۔ مشہور یہی ہے کہ شہروں کے رہنے والے دیہاتیوں کی بہ نسبت نرم خو اور خوش مزاج ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ آیت (٩٧) میں فرمایا ہے ( الاعراب اشد کفرا و نفاقا) کہ دیہات کے رہنے والے کفر و نفاق میں دوسروں سے زیادہ آگے ہوتے ہیں۔ قتادہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اپنے انبیاء شہروں میں سے اختیار کیے، اس لیے کہ وہ علم و حلم میں دیہاتیوں سے اچھے ہوتے ہیں، حسن بصری کہتے ہیں کہ اللہ کا کوئی نبی نہ بدوی ہوا نہ جن اور نہ کوئی عورت۔ (٩٦) جو مشرکین مکہ نبی کریم کی رسالت کا انکار کرتے تھے انہیں کہا جارہا ہے کہ وہ لوگ ان علاقوں میں جاکر عبرت کیوں نہیں حاصل کرتے، جہاں انہی کی طرح ماضی میں قومیں آباد تھیں، اور بہت ہی ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ رہتی تھیں، لیکن جب انہوں نے انبیاء کا مذاق اڑایا اور اللہ کے دین کو قبول نہیں کیا، تو کس طرح اللہ نے کافروں کو ہلاک کردیا، اور مومنوں کو نجات دی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس طرح ہم نے اپنے مومن بندوں کو دنیا کے عذاب سے بچایا، اسی طرح آخرت میں انہیں اس جنت میں داخل کریں گے جو دنیا کی تمام نعمتوں اور آسائشوں سے بہتر ہے۔ یوسف
110 (٩٧) دعوت الی اللہ کی راہ میں ہر زمانے کے لوگوں نے انبیاء کو تکلیفیں پہنچائیں، لیکن بالآخر غلبہ اور کامیابی انبیاء ہی کو حاصل ہوئی، اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ انبیائے کرام لمبی مدت تک دعوت و تبلیغ کا کام کرتے رہتے تھے، لیکن پھر بھی ان کی قومیں راہ راست پر نہیں آتی تھیں، تو ایک قسم کی ناامیدی ان کے دل میں آجاتی تھی اور وہ قومیں بھی سمجھنے لگتی تھیں کہ ان رسولوں نے ان سے جس عذاب کا وعدہ کیا تھا وہ جھوٹا تھا یا وہ جو دعوی کرتے تھے کہ اللہ اپنے انبیاء کی مدد کرے گا وہ جھوٹا دعوی تھا۔ آیت کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ انبیاء گمان کرنے لگے کہ ان کا دل ان سے غلط کہا کرتا تھا کہ کافروں کے خلاف اللہ کی جانب سے ان کی مدد کی جائے گی، تو اچانک ہماری مدد ان تک آپہنچی، وہ قومیں ہلاک کردی گئیں، اور جن کو ہم نے چاہا انہیں نجات مل گئی، اور جب ہمارا عذاب کسی مجرم پر نازل ہوجاتا ہے تو اسے کوئی ٹال نہیں سکتا ہے۔ یوسف
111 (٩٨) انبیاء اور ان کی قوموں کے قصوں میں عقل والوں کے لیے عبرت و نصیحت ہے، بعض لوگوں نے اس سے یوسف اور ان کے بھائیوں کا قصہ مراد لیا ہے، اس لیے کہ اس قصہ میں کئی قصے اور مختلف خبریں جمع ہوگئیں ہیں، اور کبھی جمع کا اطلاق ایک پر بھی ہوتا ہے، تو اگرچہ یہاں قصس استعمال کیا گیا ہے جو جمع ہے، لیکن وہ مفرد کے معنی میں ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ قرآن کوئی ایسا کلام نہیں ہے جسے محمد نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے، بلکہ یہ اللہ کا کلام ہے، جو گزشتہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے ان میں جو صحیح باتیں رہ گئی ہیں ان کی تائید کرتا ہے اور انسانوں کی جانب سے تحریف کردہ احکام کا انکار کرتا ہے، اور کچھ احکام کو منسوخ قرار دیتا ہے۔ اور اس قرآن کریم میں ہر وہ بات بیان کردی گئی ہے جو انسان زندگی میں پیش آسکتی ہے، یہ بنی نوع انسان کی راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور مومنوں کے لیے رحمت ہے کہ اس کی تصدیق و اتباع کر کے عذاب نار سے نجات پائیں گے۔ یوسف
0 نام : اس کا نام آیت (١٣) (ویسبح الرعد بحمدہ والملائکۃ من خیفتہ) سے ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول : اس کے زمانہ نزول کی تحدید میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، نحاس نے اپنی کتاب الناسخ میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی تھی، سعید بن جبیر، حسن، عکرمہ اور عطاء وغیرہم کی یہی رائے ہے۔ اور عبداللہ بن زبیر، کلبی اور مقاتل کی رائے ہے کہ یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی تھی، تیسرا قول یہ ہے کہ یہ سورت مدنی ہے، صرف آیت (٣١) مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ فضیلت : اس سورت کی فضیلت میں ابن ابی شیبہ اور مروزی نے کتاب الجنائز میں جابر بن زید سے روایت کی ہے کہ جب وہ کسی کو جان کنی کی حالت میں دیکھتے تو اس کے پاس سورۃ الرعد پڑھنا بہتر سمجھتے تھے اور کہتے ہیں کہ یہ سورت مرنے والے کی تکلیف کو کم کرتی ہے اور روح قبض کیے جانے کو آسان بناتی ہے۔ اس کا مرکزی مضمون قرآن کریم، دین اسلام اور نبی کریم کی نبوت کی تصدیق ہے اور جیسا کہ مکی سورتوں کا خاصہ ہے، اس میں بھی توحید و رسالت اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے اور حساب و کتاب کا بیان ہے تاکہ کفار قریش اپنے کفر سے تائب ہو کر مسلمانوں کے زمرے میں داخل ہوجائیں۔ نیز نبی کریم اور صحابہ کرام کو جابجا تسلی بھی دی گئی ہے تاکہ ان کے پائے استقامت میں تزلزل نہ آئے۔ الرعد
1 (١) المر : حروف مقطعات کے بارے میں بارہا لکھا جا چکا ہے کہ ان کا مقصود اصلی صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی جس سورت کی بھی ابتدا حروف مقطعات سے ہوئی ہے، اس سے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ قرآن اللہ کی برحق کتاب ہے، جس کی حقانیت و صداقت میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں ہے، اسی لیے تو اس جیسا کلام کوئی انسان نہیں لاسکتا ہے۔ تلک سے اشارہ اس سورت کی آیتوں کی طرف ہے اور کتاب سے مراد قرآن کریم ہے اور (الذی انزل الیک) سے بھی مراد قرآن کریم ہی ہے، اور مقصود نبی کریم کو مخاطب کر کے یہ بتانا ہے کہ آپ پر آپ کے رب کی جانب سے جو قرآن کریم نازل ہوا ہے وہ برحق ہے اور اس میں جو کچھ بھی بیان کیا گیا ہے وہ سچ ہے، اور انسانی ضروریات و حالات کے عین مطابق ہے اور اس میں موجود اوامر و نواہی پر عمل کر کے ہی انسان اپنی دنیا و آخرت سنوار سکتا ہے، لیکن اکثر لوگ کفر و نفاق کی وجہ سے اس برحق کتاب پر ایمان نہیں لاتے ہیں۔ الرعد
2 (٢) چونکہ اوپر اللہ اور اس کی کتاب پر عدم ایمان کی بات آئی ہے، اس لیے آیت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی خالقیت کی دلیل پیش کی گئی ہے، نیز یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ جو باری تعالیٰ آسمانوں کو بغیر ستونوں کے قائم رکھنے پر قادر ہے اور جس نے شمس و قمر اور دیگر سیاروں کو اپنے علم و قدرت کے مطابق مسخر کر رکھا ہے، اسی نے یہ قرآن کریم اپنے بندے اور رسول محمد پر نازل فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو اپنی قدرت کاملہ کے ذریعہ بغیر ستونوں کے سہارے زمین سے اوپر اٹھا رکھا ہے، جن کی اونچائی کا ادراک نہیں کیا جاسکتا ہے، یہی قول راجح ہے۔ مجاہد اور عکرمہ کہتے ہیں کہ ستون تو ہیں، لیکن ہم انہیں دیکھ نہیں پاتے ہیں، ایاس بن معاویہ کہتے ہیں کہ آسمان زمین کے اوپر قبہ کے مانند ہے، زمین اور اس کی تمام اشیا کو اپنے احاطہ میں لیے ہوئے ہے۔ استوا علی العرش کی تفسیر سورۃ الاعراف میں گزر چکی ہے، اور اس بارے میں سلف صالحین کا عقیدہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے لیے استوا علی العرش کو ثابت کیا ہے، تو اس پر ایمان رکھا جائے، نہ اس کی کوئی کیفیت بیان کی جائے، نہ کسی دوسری شے کے ساتھ تشبیہ دی جائے اور نہ اس کی تاویل کر کے قرآن میں ثابت لفظ کو بیکار بنا دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے آفتاب و ماہتاب کو مخلوقات کے منافع اور بندوں کے مصالح و فوائد کے لیے مسخر کر رکھا ہے، اللہ کی مرضی سے ایک رائی کے دانے کے برابر بھی ادھر ادھر نہیں کرسکتے ہیں اور اپنی اسی رفتار پر اللہ کے حکم کے مطابق چلتے رہیں گے یہاں تک کہ دنیا فنا ہوجائے گی اور قیامت برپا ہوجائے گی، وہی باری تعالیٰ آسمانوں اور زمین کے تمام امور میں اپنی مرضی اور منشا کے مطابق تصرف کرتا ہے، اس نے اپنی کمال قدرت اور ربوبیت و خالقیت کی نشانیاں قرآن کریم میں تفصیل کے ساتھ بیان کردی ہیں، تاکہ لوگ ان نشانوں میں غور کر کے اس بات پر ایمان لے آئیں کہ وہ قادر مطلق یقینا لوگوں کو دوبارہ زندہ کرنے اور میدان محشر میں جمع کر کے ان کے اعمال کا حساب چکانے پر قادر ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخر میں فرمایا کہ ممکن ہے تم ان نشانیوں میں غور و فکر کے بعد اپنے رب کی ملاقات کا یقین کرلو۔ الرعد
3 (٣) اپنی قدرت و خالقیت اور علم و حکمت کے آسمانی دلائل بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں انہی حقائق پر زمین اور اس پر پائی جانے والی اشیا کے ذریعہ استدلال کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے زمین کو طول و عرض میں اتنا پھیلا دیا ہے کہ آدمی کی نگاہ اس کی انتہا کو نہیں پاسکتی ہے، تاکہ انسانوں کے قدم اس پر ٹھہر سکیں اور حیوانات اس پر بآسانی چل پھر سکیں، اور زمین پر بڑے بڑے پہاڑ قائم کردیئے تاکہ زمین اپنی جگہ ثابت رہے، اور اس پر نہریں جاری کردیں جن میں مخلوق کے لیے گوناگوں فوائد ہیں، اور جتنے پھل زمین پر پائے جاتے ہیں، اللہ نے ان سب کی دو دو قسمیں بنائی ہیں، رنگوں یا مزا کے اعتبار سے یا حجم یا کیفیت کے اعتبار سے، ہر قسم میں الگ الگ فائدے ہوتے ہیں، اس طرح ہر قسم ایک مستقل نعمت ہوتی ہے، فرا کا قول ہے کہ اس سے مراد ہر پھل کا مذکر و مونث ہے۔ اللہ تعالیٰ دن کے بعد رات لاتا ہے، اور دن کی روشنی اور سفیدی کے بعد رات کی گھٹا ٹوپ تاریکی آجاتی ہے، اور جب رات لمبی ہوتی ہے تو سردی کا زمانہ آجاتا ہے، اور جب لمبا ہوتا ہے تو گرمی کا زمانہ آجاتا ہے، اور دن اور رات دونوں میں سے ایک کے معتدل ہونے سے موسم خزاں آجاتا ہے، اور دوسرے کے معتدل ہونے سے موسم بہار کی آمد ہونے لگتی ہے۔ بیشک زمین کی کشادگی اور اس پر پائی جانے والی مذکورہ بالا اشیا میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے کھلی نشانیاں ہیں کہ یقینا ان کا پیدا کرنے والا اللہ کی ذات ہے جو صاحب قدرت اور صاحب حکمت ہے اور جو اپنے بندوں کی جانب سے محبت و بندگی کا مستحق ہے۔ آیت کریمہ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جس ذات واحد نے اپنی مخلوق کے لیے ان گنت نعمتیں پیدا کی ہیں، اس کی ایک عظیم نعمت یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی دنیوی اور اخروی سعادت کے لیے انبیء بھیجے اور کتابیں نازل کیں۔ الرعد
4 (٤) زمین پر پائی جانے والی مزید نشانیوں کا ذکر ہے جو اللہ کی قدرت و حکمت پر دلالت کرتی ہیں، زمین کے حصے ایک دوسرے سے ملے ہوتے ہیں، لیکن ان کی طبیعتوں میں اختلاف ہوتا ہے، کوئی حصہ زرخیز ہوتا ہے تو کوئی شور، کوئی سخت ہوتا ہے تو کوئی نرم، یا مفہوم یہ ہے کہ زمین کے ٹکڑے ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں، مٹی ایک ہوتی ہے، پانی ایک ہوتا ہے، لیکن ان میں پید اہونے والے دانے اور پھل مختلف ہوتے ہیں، کوئی میٹھا ہوتا ہے تو کوئی کھٹا، کوئی عمدہ اور لذیذ ہوتا ہے تو کوئی بدمزا، اور بعض زمینوں میں ایک پھل ہوتا ہے دوسرا نہیں ہوتا۔ یہ تمام نشانیاں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی کمال قدرت پر دلالت کرتی ہیں، جو صاحب عقل بھی ان میں غور و فکر کرے گا وہ ایمان لے آئے گا کہ جو ذات واحد ان سب پر قادر ہے، وہ یقینا بنی نوع انسان کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے، بلکہ دوبارہ پیدا کرنا اس کے لیے زیادہ آسان ہے۔ الرعد
5 (٥) نبی کریم کو خطاب ہے کہ اگر آپ کو اس بات پر تعجب ہے کہ کفار مکہ آپ کی تکذیب کرتے ہیں، حالانکہ بچپن سے وہ آپ کو صادق و امین کے نام سے پکارتے رہے، تو اس سے بھی تعجب خیز بات آپ اور آپ کے صحابہ کے لیے یہ ہونی چاہیے کہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کا انکار کرتے ہیں، اس لیے کہ جو ذات واحد ان عظیم قدرتوں کا مالک ہے جن کا بیان اوپر ہوچکا ہے، اس کے لیے انسان کو دوبارہ پیدا کرنا بہت ہی آسان ہے، اس لیے بعث بعد الموت کا انکار بڑی عجیب سی بات ہے، قیامت کے دن ان کافروں کی گردن میں رسی باندھ کر جہنم کی طرف گھسیٹا جائے گا۔ اور ہمیشہ کے لیے اس میں ڈال دیے جائیں گے۔ الرعد
6 (٦) نبی کریم اور قرآن کریم کی تکذیب کرنے والے آپ کا مذاق اڑاتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر تم سچے ہو تو جس عذاب کی بات کرتے ہو وہ آ کیوں نہیں جاتا، یعنی بجائے اس کے کہ وہ اللہ سے عافیت اور سلامتی مانگتے، عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں، حالانکہ ان سے پہلے ایسی قومیں گزر چکی ہیں جنہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تو اللہ نے ان پر عذاب نازل کردیا، پھر وہ لوگ ان کے انجام سے عبرت کیوں نہیں حاصل کرتے ہیں اور ڈرتے کیوں نہیں کہ کہیں انہیں بھی عذاب الہی اپنی گرفت میں نہ لے لے۔ (٧) اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو شخص گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد اللہ کی جناب میں تائب و نادم ہوگا، وہ اسے معاف کردے گا، بعض لوگوں نے یہاں مغفرت سے مراد قیامت کے دن تک سزا کی تاخیر لیا ہے، اور الناس سے وہ کفار و مشرکین مراد لیے ہیں جو عذاب کی جلدی کرتے تھے، اور کہتے ہیں کہ آیت کا آخری حصہ (وان ربک لشدید العقاب) اسی معنی کی تائید کرتا ہے یعنی قیامت کے دن آپ کا رب اگر چاہے گا تو انہیں بڑی سخت سزا دے گا۔ الرعد
7 (٨) کفار مکہ کی آنکھوں پر کفر و عناد کی ایسی پٹی بندھی ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی قدرت و خالقیت کی تمام نشانیاں دیکھنے کے باوجود ان میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تھی اور ان نشانیوں سے انہیں کوئی ایمانی فائدہ نہیں پہنچتا تھا اور کہتے تھے اگر محمد اللہ کا پیغامبر ہے تو موسیٰ اور عیسیٰ کی طرح نشانیاں کیوں نہیں پیش کرتا، یا ہم جن نشانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں انہیں کیوں نہیں لے آتا، مشرکین کبھی کہتے کہ اے محمد ! اگر تم اللہ کے نبی ہو تو صفا پہاڑی کو سونا بنا دو، یا پہاڑوں کو ہٹا کر ان کی جگہ نہریں جاری کردو، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم سے فرمایا کہ آپ کا کام صرف پیغام پہنچانا ہے، کافروں کی مرضی کے مطابق نشانیاں پیش کرنا نہیں، اور یہ کام آپ نے بدرجہ اتم کیا اپنی پوری زندگی لگا دی اور کوئی کسر نہیں چھوڑی، اللہ تعالیٰ آپ کو امت امت اسلامیہ کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے ہر قوم کی رہنمائی کے لیے ایک نبی بھیجا، اور ان انبیاء کو حالات اور زمانے کے مطابق مختلف نشانیاں دیں جو ان کے نبی ہونے پر دلالت کرتی تھیں، نبی کریم کو قرآن جیسا معجزہ عطا کیا، اس لیے کفار قریش کا یہ کہنا کہ موسیٰ و عیسیٰ جیسی نشانیاں لائیں یا ان کی مرضی کی نشانیاں پیش کریں، کفر و ضلالت پر ان کی ہٹ دھرمی تھی، بعض مفسرین نے اس کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ آپ کا کام تو صرف ڈرانا ہے، قوموں کو ہدایت دینا تو ہمارا کام ہے، ہم جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔ الرعد
8 (٩) مشرکین مکہ کی خواہش کے مطابق اس لیے نشانی نہیں بھیجی گئی کہ تمام امور کی حکمتوں کو صرف اللہ جانتا ہے اسی کے علم میں ہے کہ کیا چیز دنیا میں کب وقوع پذیر ہونی چاہیے، وہ کفار کے جاہلانہ افکار و خیالات کا پابند نہیں ہے، اسی مفہوم کو بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ صرف وہ جانتا ہے کہ ہر مادہ کے پیٹ میں کیا ہے، مذکر ہے یا مونث، خوبصورت ہے یا بدصورت، نیک بخت ہے یا بدبخت، اور اس میں کسی عضو کی کمی ہے یا زیادتی، یا بچہ نو مہینے کے بعد پیدا ہوگا یا اس کے پہلے یا اس کے بعد، اس کے بعد فرمایا کہ اس نے ہر چیز کی ایک حد مقرر کردی ہے، جس سے وہ نکل نہیں سکتی ہے، وہ ہر غائب و حاضر اور ہر معدوم و موجود کی خبر رکھتا ہے، وہ عظیم ہے، ہر چیز اس کے نیچے ہے اور وہ اپنی قدرت و عظمت کے ذریعہ ہر چیز پر غالب ہے۔ الرعد
9 الرعد
10 (١٠) اس کے لیے ظاہر و مخفی سب برابر ہے، اور چاہے کوئی رات کی تاریکی میں چھپا کر کوئی کام کرے یا دن کی روشنی میں لوگوں کو دکھا کر، سب کچھ اس کے علم میں ہے۔ الرعد
11 (١١) اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ کچھ فرشتے لگا رکھے ہیں جو ہر جانب سے اس کا احاطہ کیے ہوتے ہیں اور اس کے حکم کے مطابق اس کے ایک ایک قول و عمل کو لکھتے ہیں۔ بخاری و مسلم نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : اللہ کے فرشتے تمہارے ساتھ ہوتے ہیں، کچھ فرشتے رات میں ہوتے ہیں اور کچھ دن میں، اور صبح و عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں، رات کے فرشتے جب اوپر جاتے ہیں تو اللہ ان سے پوچھتا ہے کہ تم نے میرے بندے کو کس حال میں پایا (حالانکہ وہ خوب جانتا ہے) تو فرشتے کہتے ہیں کہ ہم جب ان کے پاس پہنچے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان سے رخصت ہوئے تو بھی نماز پڑھ رہے تھے۔ (١٢) اللہ تعالیٰ کسی قوم سے اپنی نعمتوں کو اس وقت زائل نہیں کرتا جب تک وہ اپنی حالت بدل نہیں لیتی، یعنی خیر و صلاح کی راہ سے منحرف ہوجاتی ہے اور معاصی اور گناہوں کا ارتکاب کرنے لگتی ہے، اور آدمی کبھی دوسروں کے گناہوں کی وجہ سے عذاب و مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ بخاری نے زینب بنت جحش سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ سے پوچھا کہ کیا ہمارے درمیان نیک لوگوں کے ہونے کے باوجود ہم ہلاک کردیئے جائیں گے، تو آپ نے فرمایا کہ ہاں جب گناہ کی کثرت ہوجائے گی۔ الرعد
12 (١٣) اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال قدرت و عظمت اور جلال و جبروت کو ظاہر کرنے کے لیے بجلی، بادل کی گرج اور صاعقہ یعنی آسمان سے اترنے والی آگ کی تفصیلات کو بیان کیا ہے۔ فرمایا : وہ اللہ کی ذات ہے جو آسمان میں بجلی کی چمک پیدا کرتا ہے تو بعض دفعہ آدمی کو صاعقہ (یعنی آگ والی بجلی) کا خوف ہوتا ہے اور کبھی اسے امید ہوتی ہے کہ بارش ہوگی، وہی بارش سے بھرے بادل کو پیدا کرتا ہے، نیز فرمایا کہ بجلی کی کڑک اس کی تسبیح بیان کرتی ہے اور یہ اس کی قدرت سے کوئی بعید بات نہیں ہے، بعض کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ جن کے کان میں بجلی کی کڑک کی آواز جاتی ہے وہ سبحان اللہ والحمدللہ کہتے ہیں اور فرشتے اللہ کے خوف سے تسبیح پڑھتے رہتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ صاعقہ بھیج کر جسے چاہتا ہے ہلاک کردیتا ہے، اس کے بعد فرمایا کہ کفار (جن کی ضلالت و حقارت کو اوپر بیان کیا جاچکا) اللہ کے بارے میں رسول اللہ سے جھگڑتے ہیں، بعث بعد الموت کا انکار کرتے ہیں، کبر و عناد کی وجہ سے عذاب آجانے کی جلدی مچاتے ہیں، قرآن کریم اور رسول کا مذاق اڑاتے ہیں اور اپنی من مانی نشانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں اور اس بات سے قطعا غافل ہوتے ہیں کہ اللہ کی تدبیر اور اس کی گرفت بہت ہی شدید ہوتی ہے، جب اس کی گرفت میں آجائیں گے تو کوئی طاقت انہیں نجات نہیں دلا سکے گی۔ الرعد
13 الرعد
14 (١٤) دعا و عبادت کی تمام قسمیں، خشوع و خضوع، جھکنا اور سر جھکانا، اللہ کے لیے خاص ہے، اس لیے کہ مضطر و پریشان حال کی پکار کو وہی سنتا ہے، وہی ان کی تکلیفوں کو دور کرتا ہے، اس لیے صرف اسی کی عبادت کی جانی چاہیے، اسی کے سامنے گریہ و زاری کرنی چاہیے، اور جو لوگ بتوں کی پرستش کرتے ہیں ان کی مثال اس آدمی کی ہے جو اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف بڑھائے تاکہ اس کے منہ تک پہنچ جائے، لیکن پانی اس کی پیاس کو محسوس نہیں کرتا اور نہ ہی دیکھ پاتا ہے کہ کوئی اپنے ہاتھ اس کے سامنے پھیلائے ہوئے ہے، اس لیے نہ وہ اس کی فریاد سن پاتا ہے اور نہ اس کے منہ تک پہنچتا ہے، بتوں کا حال بھی ایسا ہی ہے وہ اپنی عبادت کرنے والوں کی ادنی مانگ بھی پوری نہیں کر پاتے ہیں۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ کافروں کی عبادت اور بتوں سے ان کی فریاد طلبی ان کے کسی کام نہیں آئے گی، بلکہ وبال دین و ایمان بن جائے گی۔ الرعد
15 (١٥) آسمانوں اور زمین میں جتنی چیزیں ہیں، سب اللہ کے ارادہ و مشیت اور اس کے حکم کے تابع ہیں، کوئی بھی اس کے حکم سے ایک ذرہ کے برابر سرتابی نہیں کرسکتا، جو کفار اللہ کو سجدہ نہیں کرتے، وہ بھی اس کے ارادہ و مشیت کے مطابق کبھی صحت مند ہوتے ہیں تو کبھی بیمار، ان میں کوئی مالدار ہوتا ہے تو کوئی فقیر، انہیں بھی ایک محدود وقت تک زندہ رہنے کے بعد موت لاحق ہوتی ہے، اہل ایمان اللہ کے سامنے برضا و رغبت جھکتے ہیں، اور کافر اللہ کے اوامر کو قبول کرنے پر مجبور ہیں، ایک دوسری رائے یہ ہے کہ یہاں سجدہ سے مراد حقیقی سجدہ ہے، یعنی اللہ کی تعظیم کے لیے زمین پر پیشانی ٹیکنا، تو اہل ایمان انس و جن اور فرشتے فی الواقع صبح و شام یعنی ہمیشہ اللہ کو سجدہ کرتے رہتے ہیں، اور اہل کفر حالت اضطرار میں اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں، جیسا کہ اللہ نے سورۃ العنکبوت آیت (٦٥) میں فرمایا ہے : (فاذا رکبوا فی الفلک دعوا اللہ مخلصین لہ الدین) کہ جب کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پورے اخلاص کے ساتھ پکارتے ہیں۔ اسی طرح انسان اور دیگر تمام مخلوقات کے سائے بھی اللہ کو سجدہ کرتے ہیں، جب کوئی اللہ کو سجدہ کرتا ہے تو اس کا سایہ بھی اس کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکتا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ کوئی بعید بات نہیں کہ سایہ بھی حقیقی معنوں میں اللہ کو سجدہ کرتا ہوجیسا کہ پہاڑ اللہ کی تسبیح میں مشغول ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النحل آیت (٤٨) میں فرمایا ہے : (اولم یرو الی ما خلق اللہ من شی یتفیا ظلالہ عن الیمین والشمائل سجدا للہ وھم داخرون) یعنی کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے جتنی چیزیں پیدا کی ہیں ان کے سائے دائیں اور بائیں سے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے ڈھلتے ہیں، اور وہ اللہ کے لیے عاجزی اور انکساری اختیار کیے ہوتے ہیں۔ الرعد
16 (١٦) کفار مکہ کا یہ عقیدہ تھا کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، اسی ثابت شدہ حقیقت اور ان کے اعتراف کو یہاں بیان کرنے کے بعد ان سے کہا گیا ہے کہ جب تم جانتے ہو کہ اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا خالق و مالک ہے تو پھر اس کے علاوہ دوسروں کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا کیوں مانتے ہو، جو خود اپنی ذات کو نہ کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ کسی نقصان کا ازالہ کرسکتے ہیں وہ تمہارے حاجت روا اور مشکل کشا کیسے بن جائیں گے؟ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک مثال کے ذریعہ موحد مسلمان اور کافر کے درمیان فرق واضح کیا، کہ کافر اپنے دین کے معاملہ میں اندھے کے مانند ہے، اور موحد مسلمان آنکھ والے کے مانند، کافر اپنے کفر کی تاریکی میں بھٹکتا رہتا ہے اور موحد ایمان و توحید کا مشعل لیے منزل کی طرف بڑھتا رہتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ کفر کی تاریکی اور ایمان کا نور دونوں برابر نہیں ہوسکتے ہیں، کفار و مشرکین کی کم عقلی اور نادانی کو مزید اجاگر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن باطل معبودوں کو وہ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں، کیا انہوں نے اللہ کی طرح آسمان، زمی، شمس و قمر، پہاڑ، سمندر اور جن و انس کو پیدا کیا ہے، جنہیں دیکھ کر مشرکوں کو شبہ ہوگیا ہے کہ وہ شرکاء بھی معبود ہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے، بلکہ انہوں نے اپنی جہالت و نادانی کی وجہ سے ان چیزوں کو اپنا معبود بنا رکھا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو حکم دیا کہ حق بات بیان کردیں اور کہہ دیں کہ ہر چیز کا خالق اللہ ہے اس لیے عبادت کا بھی مستحق صرف اسی کی ذات ہے۔ الرعد
17 (١٧) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حق اور باطل کے درمیان ایک نئی مثال کے ذریعہ فرق بیان کیا ہے، حق اور اہل حق کی مثال اس بارش کی ہے جسے اللہ آسمان سے برساتا ہے اور جس سے وادیاں بھر جاتی ہیں، لوگ اس سے خوب مستفید ہوتے ہیں، خود پیتے ہیں، جانوروں کو پلاتے ہیں اور اپنی زمینوں کو سیراب کرتے ہیں اور کچھ پانی زمین کے اوپر ٹھہرا رہتا ہے اور کچھ اندر پہنچ کر چشموں اور کنووں کی شکل اختیار کرلیتا ہے، اور حق اور اہل حق کی مثال اس معدن (دھات) کی بھی ہے جس سے لوگ زیورات، برتن اور مختلف قسم کے آلات بناتے ہیں، یہ معدنیات بھی ایک مدت مدید تک باقی رہتے ہیں اور لوگ ان سے مستفید ہوتے ہیں اور باطل کی مثال جھاگ اور زنگ کی ہے جو کسی کام کا نہیں ہوتا اور تھوڑی دیر کے لیے اوپر اٹھنے کے بعد جلد ہی اپنا وجود کھو بیٹھتا ہے، ان دونوں مثالوں کا خلاصہ یہ ہے کہ حق کو ثبات و دوام حاصل ہوتا ہے، اور باطل زوال پذیر ہوتا ہے، جلد ہی ختم ہوجاتا ہے۔ الرعد
18 (١٨) اہل حق اور اہل باطل کا انجام بیان کیا گیا ہے، کہ جن اہل حق نے اللہ کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے اسے ایک جانا انبیائے کرام کی تصدیق کی اور اس کی نازل کردہ شریعت پر عمل کیا، ان کی منزل جنت ہوگی اور جن لوگوں نے اس کی دعوت کو قبول نہیں کیا قیامت کے دن وہ کسی طرح بھی جان بر نہ ہوسکیں گے اور جہنم میں دھکیل دیئے جائیں گے۔ الرعد
19 (١٩) کافر اور مامن کی ایک مثال بیان کی گئی ہے، کہ جو آدمی یقین رکھتا ہے کہ قرآن اللہ کی طرف سے نبی کریم پر نازل کردہ کتاب ہے، وہ اس کے مانند نہیں ہوسکتا جو اس ایمان سے محروم ہے، بلکہ وہ اندھا ہے خیر و شر میں تمیز نہیں کرپاتا ہے، دونوں کے درمیان ایسا ہی فرق ہے جیسا پانی اور جھاگ اور عمدہ زنگ آلود معدنیات کے درمیان۔ الرعد
20 (٢٠) ایمان والوں کی صفات اور ان کا انجام بیان کیا جارہا ہے۔ ١۔ وہ اللہ اور بندوں کے ساتھ کیے گئے عہد و پیمان کے پابند ہوتے ہیں۔ ٢۔ اللہ اور بندوں کے ان تمام حقوق کی حفاظت کرتے ہیں جن کا اللہ نے حکم دیا ہے، تمام انبیائے کرام اور آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں اور رسول اللہ اور مسلمانوں کے ساتھ ایمان کے سبب جو رشتہ قائم ہے اس کا بھی لحاظ رکھتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (انما المومنون اخوۃ) کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، اور اپنے دوستوں، خادموں، پڑوسیوں اور رفقائے سفر کی دلجوئی کرتے ہیں۔ ٣۔ خشیت الہی ان پر غالب رہتی ہے، اسی لیے اللہ کے اوامر کو بجا لاتے ہیں اور محرمات اور نواہی سے بچتے ہیں۔ ٤۔ قیامت کے دن کے حساب سے ڈرتے ہیں اس لیے اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہیں۔ ٥۔ اللہ کے دین پر عمل کرنے میں جو تکلیف پہنچتی ہے اس پر صبر کرتے ہیں، آلام و مصائب پر بھی صبر کرتے ہیں۔ ٦۔ پانچوں وقت کی نماز بر وقت خشوع و خضوع کے ساتھ اور سنت کے مطابق ادا کرتے ہیں۔ ٧۔ اللہ کی دی ہوئی روزی میں سے اس کی راہ میں پوشیدہ طور پر اور دکھلا کر خرچ کرتے ہیں۔ ٨۔ برائی کا جواب بھلائی سے دیتے ہیں، گناہ کے بعد نیکی کرتے ہیں، کوئی ظلم کرتا ہے تو معاف کردیتے ہیں، جو قطع تعلق کرتا ہے اس سے تعلق قائم کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آخرت میں ایسے ہی لوگوں کا انجام اچھا ہوگا اور جنت ان کی منزل ہوگی، اور ان کے ساتھ ان کے آبا و اجداد بیویوں اور اولاد میں سے وہ سب بھی جنت میں داخل ہوں گے جو دنیا میں صلاح و تقوی کی راہ اختیار کریں گے۔ مجاہد نے یہاں صلاح سے مراد ایمان لی ہے، ابن عباس کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا رشتہ داروں میں سے جو لوگ بھی مومن ہوں گے، اللہ تعلای مومنین صالحین کا اکرام کرتے ہوئے انہیں بھی جنت میں داخل کردے گا۔ واحدی نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے اور جب جنت میں داخل ہوجائیں گے تو فرشتے ان کے پاس آئیں گے اور انہیں سلام کریں گے اور کہیں گے کہ یہ دائمی سلامتی کی جگہ اللہ نے تمہیں اس بدلے میں دی ہے کہ تم دنیا میں صبر و استقامت کے ساتھ اس کے دین پر عمل کرتے رہے۔ الرعد
21 الرعد
22 الرعد
23 الرعد
24 الرعد
25 (٢١) اب غیر اہل ایمان کی صفات اور ان کا انجام بیان کیا جارہا ہے کہ جو لوگ اللہ سے کیے گئے عہود و مواثیق کا خیال رکھتے اور جن اوامر و نواہی حکم دیا گیا ہے ان پر عمل پیرا نہیں ہوتے، اور جن تعلقات، رشتوں اور قرابتوں کو جوڑے رکھنے کی انہیں نصیحت کی گئی ہے ان کے پاس نہیں رکھتے، اور کفر و معاصی کے ارتکاب کے ذریعہ زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، ایسے لوگ اللہ کی لعنت کے مستحق بن جاتے ہیں اور قیامت کے دن ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ الرعد
26 (٢٢) اللہ تعالیٰ کافر کی روزی میں وسعت دیتا ہے، گویا اس کی رسی ڈھیل دی جاتی ہے تاکہ کفر و معاصی میں اور آگے بڑھتا چلا جائے، اور بندہ مومن کی روزی میں تنگی پیدا کردیتا ہے اور مقصود اس سے اس کی آزمائش ہوتی ہے اور اس لیے بھی تاکہ اس کے گناہ دنیا ہی میں مٹ جائیں، روزی میں وسعت اللہ کی جانب سے کافر کے اعزاز و اکرام کی دلیل نہیں ہوتی اور نہ تنگی رزق مومن کی تذلیل و اہانت کی، اس کے بعد مشرکین مکہ کے بارے میں کہا گیا کہ وہ اپنی دنیاوی زندگی پر نازاں و فرحاں ہیں، حالانکہ آخرت کی کامیابی اور حصول جنت کے مقابلہ میں دنیا کی لذتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ مفسرین نے اسی سے استدلال کیا ہے کہ دنیاوی کامیابیوں پر اترانا اور مگن رہنا حرام ہے۔ ترمذی نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے کہ ایک دن رسول اللہ چٹائی پر سو گئے تو ان کے پہلو میں اس کا نشان پڑگیا، صحابہ کرام نے کہا، ہم آپ کے لیے نرم بستر بنا دینا چاہتے ہیں، تو آپ نے فرمایا کہ مجھے دنیا سے کیا مطلب، دنیا میں میری مثال اس مسافر سوار کی ہے جو ایک ہل کسی درخت کے سائے میں ٹھہرتا ہے پھر چل دیتا ہے۔ اور مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے مستورد (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : دنیا کی مثال آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے جیسے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈال کر نکال لے، اس کی انگلی میں پانی کا کون سا حصہ آجائے گا۔ اور آپ نے اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا۔ الرعد
27 (٢٣) کفار مکہ رسول اللہ کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ اگر محمد اللہ کا نبی ہے تو موسیٰ و عیسیٰ کی طرح اللہ اس کے لیے بھی کوئی نشانی کیوں نہیں بھیج دیتا، اور ان کا مقصد محض کبر و عناد ہوتا تھا، ان کی نیت یہ نہیں ہوتی تھی کہ اسے دیکھ کر ایمان لے آئیں، یہاں بھی انہوں نے وہی سوال دہرایا، تو اللہ نے انہیں جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے چاہے وہ ہزار نشانیاں دیکھ لے اور جو گناہوں سے تائب ہو کر اس کی طرف رجوع کرتا ہے اسے ہدایت دیتا ہے چاہے وہ کوئی بھی نشانی نہ دیکھے، اس کی مشیت میں کسی کا کوئی دخل نہیں ہے، اس لیے تمہیں رسول اللہ سے نشانیوں کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اللہ کے دین کو قبول کرلینا چاہیے اور اس سے اپنا تعلق استوار کرنا چاہیے تاکہ تمہیں مزید توفیق کی نعمت سے نوازے۔ الرعد
28 (٢٤) اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں کی صفت بیان کی جارہی ہے جو نعمت ہدایت سے سرفراز ہوتے ہیں، کہ وہ اللہ اس کے رسول اور اس کی کتاب پر ایمان لاتے ہیں، اللہ کی یاد سے ان کے دلوں کو سکون ملتا ہے اور اس کے سوا کسی کو اپنا یارومددگار نہیں سمجھتے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو سکون قلب حاصل کرنے کا ایک نسخہ کیمیا بتایا کہ زبان و قلب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے سے ہی انسان کو سکون حاصل ہوتا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، اس لیے اس کے دل کو صرف اس کی یاد سے ہی سکون مل سکتا ہے۔ تسبیح و تحمید اور تکبر و توحید، ذکر الہی کے مسنون و معروف طریقے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ذکر کہا ہے، اسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت، اسے سننا اور اس میں غور و فکر کرنا، ذکر الہی کے بہت ہی مفید طریقے ہیں۔ الرعد
29 (٢٥) اہل ایمان اور عمل صالح کرنے والوں کا انجام بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ انہیں جنت دے گا اور وہاں وہ ایسی اچھی حالت میں ہوں گے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے، ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں ایک درخت عطا کرے گا جس کا نام طوبی ہے، اور وہ ایسی نعمت ہوگی جس کی خوبیاں الفاظ میں نہیں بیان کی جاسکتیں۔ الرعد
30 (٢٦) نبی کریم کی نبوت کی تصدیق و تائید کے طور پر کہا گیا ہے کہ جس طرح ہم نے پہلے بہت سے انبیاء مبعوث کیے، اب آپ کو مبعوث کیا ہے، تاکہ آپ کفار قریش اور دیگر لوگوں کو وہ قرآن پڑح کر سنائیں جو آپ کے لیے اللہ کا سب سے بڑا معجزہ، اور بنی نوع انسان کے لیے اللہ کی رحمت ہے، لیکن کفار اس ذات باری تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں جس کی ایک صفت رحمن بھی ہے اور جس نے اپنی اسی صفت رحمت کے تقاضے کے مطابق انسانوں کی ہدایت کے لیے قرآن کریم نازل فرمایا ہے، اور آپ کو رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانبیاء آیت (١٠٧) میں فرمایا ہے : (وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین) کہ ہم نے آپ کو سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ کفار قریش نے نعمت وحی کا شکر نہیں ادا کیا، اور اس طرف بھی اشارہ ہے کہ رحمن اللہ کا نام اور اس کی ایک عظیم صفت ہے جس کا کفار انکار کرتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر کہا تھا کہ ہم رحمن کو نہیں جانتے، تو رسول اللہ نے اس کی جگہ اللہ لکھنے پر اکتفا کیا تھا۔ (بخاری) صحیح مسلم میں ابن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : اللہ کے نزدیک سب سے اچھے نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔ الرعد
31 (٢٧) حافظ ابن کثیر کی رائے کے مطابق اس آیت سے مقصود قرآن کریم کی عظمت شان بیان کرنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی کتابیں نازل کی ہیں، اگر ان میں کوئی ایسی ہوتی جس کی تلاوت کرنے کے بعد پہاڑ اپنی جگہ سے چل پڑتا، یا زمین کے ٹکڑے ہوجاتے، یا مردے بول پڑتے، تو وہ قرآن کریم ہوتا، لیکن کافروں کا حال یہ ہے کہ اس آیت عظمی اور معجزہ کبری کے ہوتے ہوئے موسیٰ اور عیسیٰ کی نشانیاں جیسی کسی نشانی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اور امام شوکانی لکھتے ہیں کہ یہ کفار قریش کے سوال کا جواب ہے، انہوں نے آپ سے کہا کہ وہ مکہ کے پہاڑوں کو ہٹا دیں تاکہ شہر کشادہ ہوجائے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے فساد رائے اور قرآن کریم کی عظمت شان بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر قرآن کریم کی تلاوت کے ذریعہ پہاڑ چل پڑے یا زمین کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں یا مردے بول پڑیں تو بھی کفار اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آئیں گے اور ایمان نہیں لائیں گے۔ (٢٨) اگر اللہ چاہتا تو قرآن کے ذریعہ وہ کچھ ہوتا جس کا بیان اوپر آیا، لیکن اس نے ایسا نہیں چاہا، اس لیے کہ ایمان کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہے، اگر وہ چاہتا تو کفار قریش بغیر نشانیاں دیکھے بھی ایمان لے آتے، لیکن اس نے ایسا نہیں چاہا، اس لیے پہاڑوں کا چلنا، زمین کا ٹکڑے ٹکڑے ہونا، مردوں کا بول پڑنا اور دوسری نشانیاں ان کی حالت نہیں بدل سکیں گی۔ (٢٩) آیت کے اس حصہ میں کافروں کے لیے بالعموم یا کفار مکہ کے لیے بالخصوص بہت بڑی وعید ہے کہ ان کے کفر اور رسولوں کی تکذیب کے نتیجے میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی مصیبت انہیں لاحق ہوتی رہے گی، قتل کیے جائیں گے یا قید کرلیے جائیں گے یا قحط سالی میں مبتلا ہوں گے یا اور کوئی عذاب انہیں آلے گا، یا ان کے قریب رہنے والوں پر کوئی عذاب نازل ہوگا جسے دیکھ کر ان کے دل ہل جائیں گے اور ان کا سکون چھن جائے گا۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ تحل کی ضمیر نبی کریم کے لیے ہے، یعنی آپ ان کے علاقے کے قریب رہنے والی کسی قوم کا محاصرہ کریں گے جسے دیکھ کر ان کی جان مصیبت میں رہے گی جیسا کہ طائف والوں کا حال ہوا، اور ان کی یہی کیفیت رہے گی، یہاں تک کہ انہیں موت آجائے گی، اور اللہ کے وعدے کے مطابق جہنم کا عذاب انہیں آدبوچے گا۔ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ (وعد اللہ) سے مراد کافروں سے جہاد کرنے کی اجازت ہے، یعنی جب جہاد کی اجازت مل جائے گی تو رسول اللہ اور ان کے اہل ایمان ساتھی میدان کار زار میں ان کے کفر کا انہیں مزا چکھائیں گے۔ الرعد
32 (٣٠) نبی کریم کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ سے پہلے بھی میرے بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا گیا، تو میں نے ان کافروں کو کچھ دنوں کی مہلت دی، خوب چین و سکون کے ساتھ رہے، پھر اچانک میں نے انہیں پکڑ لیا اور میرا عذاب بہت ہی سخت ہوتا تھا۔ الرعد
33 (٣١) اس استفہام سے مقصود کفار کی زجر و توبیخ ہے کہ کیا وہ معبود برحق جو ایک ایک انسان کی نگرانی کررہا ہے، جس سے ان کا کوئی عمل مخفی نہیں، ان بتوں کے مانند ہے جن کی وہ عبادت کرتے ہیں، جو نہ سنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں، نہ سمجھتے ہیں، اور نہ ہی کسی نفع و نقصان کی قدرت رکھتے ہیں۔ گزشتہ مضمون ہی کی مزید تاکید کے طور پر کہا جارہا ہے کہ ذرا تم اپنے ان باطل معبودوں کی صفات تو بیان کرو اور غور کرو تو سہی کہ کیا وہ تمہاری عبادت کے مستحق ہیں، کیا وہ اس کے اہل ہیں کہ انہیں اللہ کا شریک بنایا جائے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جھوٹے معبود کا دعوی کر کے کیا تم اللہ کو ایسی بات کی خبر دیتے ہو جس کا اسے علم نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تمہارا یہ قول حقیقت کے عین خلاف ہے، ویسا ہی جیسے کوئی جہالت و نادانی میں آکر کسی کالے حبشی کا نام کافور رکھ دے۔ الرعد
34 (٣٢) جن کافروں کا حال اوپر بیان کیا گیا ہے، انہی کا انجام بتایا جارہا ہے کہ انہیں دنیا میں مسلمانوں کے ہاتھ عذاب دیا جائے گا، یا مفہوم یہ ہے کہ کافر کو کفر کی وجہ سے کبھی سکون میسر نہیں آتا، اور آخرت کا عذاب تو بڑا ہی دردناک ہوگا۔ الرعد
35 (٣٣) کافروں کا انجام بتانے کے بعد مومنوں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت دے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اس میں کھانے پینے کی بے شمار نعمتیں اور درختوں کے دائمی سائے ہوں گے۔ الرعد
36 (٣٤) اس آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ کتاب سے مراد تورات و انجیل، اور خوش ہونے والوں سے مراد وہ یہود و نصاری ہیں جو مسلمان ہوگئے تھے، دوسرا قول یہ ہے کہ عام یہود و نصاری مراد ہیں جو قرآن کریم کی ان آیتوں کو سن کر خوش ہوتے تھے جن سے تورات و انجیل کے احکام کی تائید ہوتی تھی۔ پہلے قول کے مطابق احزاب سے مراد وہ یہود و نصاری ہوں گے جنہوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا تھا، اور دوسرے قول کے مطابق مشرکین مکہ اور دیگر کفار ہوں گے یا بعض یہود و نصاری جو قرآن کا انکار اس لیے کرتے تھے کہ اس کے ذریعہ ان کی شریعتیں منسوخ ہوگئی تھیں۔ (٣٥) نزول قرآن کے بارے میں یہود و نصاری کا موقف واضح کرنے کے بعد رسول اللہ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ کافروں کو بتا دیں کہ آپ صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں ور کسی کو اس کا شریک نہیں بناتے، اور یہ وہ بنیادی عقیدہ ہے جس پر تمام ادیان سماویہ کا اتفاق ہے۔ الرعد
37 (٣٦) قرآن کریم کے بعض فضائل کا ذکر، اور اس سے اعراض پر دھمکی دی جارہی ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو عربی زبان میں نازل فرمایا ہے، اور اس میں شریعت اسلامیہ کے تمام اصول بیان کردیئے ہیں، نبی کریم کو مخاطب کیا گیا ہے کہ اگر آپ قرآن جیسا علوم و معارف کا خزانہ ملنے کے بعد بھی یہود و نصاری کی خواہشات کی پیروی کریں گے تو اللہ کے سوا آپ کا کوئی مددگار نہیں ہوگا اور اس کی گرفت سے آپ کو کوئی نہیں بچا سکے گا۔ الرعد
38 (٣٧) بعض کفار رسول اللہ کے بارے میں کہتے تھے کہ اگر محمد نبی ہوتا تو شادی نہیں کرتا، نبوت کے کاموں میں لگا رہتا، تو یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ سے پہلے انبیائے کرام دنیا میں آتے ہے ہیں انہوں نے بھی شادیاں کی تھیں اور ان کی بھی اولاد تھی ہم نے کسی فرشتہ کو کبھی نبی بنا کر نہیں بھیجا۔ (٣٨) ان کافروں کی تردید کی گئی ہے جو رسول اللہ سے بار بار موسیٰ و عیسیٰ جیسی نشانی لانے کا مطالبہ کرتے تھے کہ اللہ کا رسول اس کی مرضی کے بغیر کوئی نشانی نہیں لاسکتا، اللہ تعالیٰ نے وقت اور حالات کے تقاضے کے مطابق ہر وقت کے لیے ایک فیصلہ کر رکھا ہے، جب وہ وقت آتا ہے تو اس کا ظہور ہوتا ہے ان فیصلوں کا تعلق کافروں کی خواہش سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور اس کی مشیت سے ہے۔ الرعد
39 (٣٩) اللہ تعالیٰ لوح محفوظ سے جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے، اور جس حکم اور فیصلہ کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے۔ ہر انسان کے بارے میں لوح محفوظ میں نوشتہ ہے کہ وہ نیک ہوگا یا بد، اس کی روزی، عمر اور اس سے متعلق خیر و شر کی ہر بات لکھی ہوئی ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنی مرضی اور ارادہ و مشیت کے مطابق اس میں تبدیلی کرتا ہے اس کی مشیت میں کسی کا دخل نہیں ہے۔ عمر بن الخطاب، ابن مسعود اور ابن عباس وغیرھم کی یہی رائے ہے۔ محو و اثبات کی تفسیر میں اور بھی اقول آئے ہیں۔ لیکن راجح وہی ہے جو ابھی ذکر کیا گیا ہے۔ اور یہ جو حدیث میں آیا ہے، نبی کریم نے فرمایا کہ (قلم خشک ہوگیا) تو لوح محفوظ میں محو اثبات بھی اللہ تعالیٰ کے قضا و قدر میں داخل ہے۔ حضرت عمر کو حالت طواف میں یہ کہتے سنا گیا کہ اے اللہ ! اگر تو نے میرے لیے بدبختی یا کوئی گناہ لکھ دیا ہے تو اسے مٹا دے، تو جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے، تیرے ہی پاس لوح محفوظ ہے، اے اللہ ! تو میرے لیے نیک بختی اور مغفرت لکھ دے۔ عبداللہ بن مسعود سے بھی اس طرح کی دعا منقول ہے۔ اور حاکم نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اور اسے صحیح کہا ہے کہ احتیاط تقدیر کے مقابلے میں نفع نہیں پہنچا سکتی، لیکن اللہ تعالیٰ دعا کے ذریعہ تقدیر کی جس بات کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے۔ الرعد
40 (٤٠) نبی کریم کو تسلی دی جارہی ہے کہ آپ نے اپنی ذمہ داری پوری کردی، اب اگر کوئی آپ کی دعوت قبول نہیں کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے حساب لے گا۔ اور دنیا میں آپ کے دشمنوں کو ممکن ہے کہ اللہ آپ کی زندگی ہی میں ذلیل و رسوا کرے، یا ہوسکتا ہے کہ آپ کی وفات کے بعد ان کے ساتھ ایسا ہو، بہرحال آپ نے اپنی ذمہ داری پوری کردے۔ الرعد
41 (٤١) کفار مکہ کو اس بارے میں کیوں شبہ ہے کہ اللہ انہیں عذاب نہیں دے گا اور ذلت و رسوائی میں مبتلا نہیں کرے گا، کیا وہ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ وہ سرزمین مکہ کو ان کے چاروں طرف سے تنگ کرتا جارہا ہے، اور ہر سال مسلمان کچھ علاقوں کو فتح کرتے ہوئے مکہ کی طرف بڑھ رہے ہیں، اور کفار مکہ کے لیے زمین تنگ ہوتی جارہی ہے، اللہ جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے، کسی کو اٹھاتا ہے تو کسی کو گراتا ہے، کسی کو مارتا ہے تو کسی کو زندگی دیتا ہے، اس کے فیصلوں میں کوئی دخل اندازی نہیں کرسکتا ہے، اور وہ تو بڑا جلد انتقام لینے والا ہے، دنیا میں تو تو قید و بند وار قتل کی شدید آزمائش میں گرفتار ہیں ہی عنقریب ہی آخرت میں بھی اللہ ان کا حساب لے گا اور ان کے برے کرتوتوں کا انہیں مزا چکھائے گا۔ الرعد
42 (٤٢) اس آیت میں بھی نبی کریم کو تسلی دی جارہی ہے کہ کفار مکہ سے پہلے بھی جو کفار دنیا میں گزرے ہیں انہوں نے اپنے انبیاء کے خلاف سازشیں کیں، لیکن وہ سازشیں ان کے کسی کام نہ آئیں بلکہ ان کے لیے وبال جان بن گئیں، اس لیے کہ کامیاب تدبیر تو صرف اللہ کی تدبیر ہوتی ہے۔ وہ اپنے سرکش اور نافرمان بندوں کو جب وہ خواب غفلت میں ہوتے ہیں اچانک پکڑ لیتا ہے۔ وہ ہر فرد کے اچھے اور برے اعمال سے باخبر ہے، اور کافروں کی ان چالوں سے بھی واقف ہوتا ہے جو وہ انبیاء کے خلاف چلتے ہیں، اور ان چالوں کے کامیاب ہونے سے پہلے ہی انہیں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، آیت کے آخر میں کافروں کو دھمکی دی گئی ہے کہ وہ عنقریب جان لیں گے کہ دنیا میں یا آخرت میں یا دونوں جگہ اچھا انجام کس کا نصیب ہوگا۔ الرعد
43 (٤٣) مشرکین مکہ کہا کرتے تھے کہ اے محمد ! تم اللہ کے رسول نہیں ہو، تو اللہ تعالیٰ نے آپ سے انہیں یہ جواب دینے کو کہا کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ بحیثیت گواہ کافی ہے، وہ میرے نبی ہونے کی صداقت اور تمہاری کذب بیانی کو خوب جانتا ہے، اور وہ یہود و نصاری بھی جانتے ہیں جنہیں پہلے آسمانی کتابیں دی جاچکی ہیں۔ مشرکین عرب یہود و نصاری سے رسول اللہ کے بارے میں پوچھا کرتے تھے، اسی لیے یہاں ان کا بھی حوالہ دیا گیا ہے کہ وہ بھی اپنی کتابوں کے ذریعہ جانتے ہیں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ چنانچہ عبداللہ بن سلام، سلمان فارسی اور تمیم داری وغیرہم نے اسلام لانے کے بعد اس کی شہادت دی کہ تورات و انجیل میں رسول اللہ کے خاتم النبیین ہونے کی صراحت موجود ہے، جیسا کہ سورۃ الاعراف کی آیت (١٧٥) میں آیا ہے : (الذی یجدونہ مکتوبا عندھم فی التوراہ والانجیل) کہ وہ نبی کریم کا ذکر جمیل تورات و انجیل میں بصراحت پاتے ہیں، اور سورۃ الشعرا آیت (١٩٧) میں ہے : (اولم یکن لھن آیۃ ان یعلمہ علماء بنی اسرائیل) یعنی کیا ان کے لیے یہ نشانی کافی نہیں ہے کہ بنی اسرائیل کے علماء خوب جانتے ہیں کہ محمد اللہ کے نبی ہیں۔ الرعد
0 نام : ابراہیم (علیہ السلام) نے خانہ کعبہ بنانے کے بعد اپنے رب سے کچھ دعائیں کی تھیں، جو امت اسلامیہ کے ظہور کے بعد پوری ہوئیں جیسے بیت اللہ کا حج اور کعبہ کا مسلمانوں کے لیے قبلہ بنایا جاتا، ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی انہی دعاؤں کی مناسبت سے اس سورت کا نام ابراہیم رکھا گیا ہے۔ زمانہ نزول : ابن عباس، عکرمہ، حسن، جابر بن زید اور قتادہ وغیرہھم کے نزدیک دو یا تین آیتوں (٣٠، ٢٩، ٢٨) کے سوا پوری سورت مکی ہے، اس سورت میں بھی عام مکی سورتوں کی طرح نبی کریم کی نبوت پر استدلال کیا گیا ہے۔ کفار قریش کو قرآن اور آپ کی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے، اور ان کے کفر و عناد کے نتیجے میں مختلف قسم کی دنیوی اور اخروی سزاؤں کی دھمکی دی گئی ہے۔ ابراھیم
1 (١) الر، یہ حروف مقطعات ہیں، ان کا معنی اللہ ہی جانتا ہے۔ کتاب سے مراد قرآن کریم ظلمات سے کفر و ضلالت اور بدعت و جہالت کی تاریکی اور نور سے ایمان و ہدایت اور قرآن وسنت کی روشنی ہے، یعنی نبی کریم قرآن کریم میں مذکور تعلیمات الہیہ کی روشنی میں انسانوں کو اللہ کے حکم اور اس کی مشیت کے مطابق کفر کی تاریکی سے نکال کر دین اسلام کی روشنی تک پہنچا دیتے ہیں۔ ہدایت دینے والا اللہ ہے، یہاں اس کی نسبت رسول اللہ کی طرف اس لیے کی گئی ہے کہ داعی اور رہنما وہی ہیں۔ اسی لیے (باذن ربھم) کہا گیا ہے، یعنی اللہ کی مرضی اور اس کی مشیت سے ہی کسی کو ہدایت ملتی ہے۔ امام رازی لکھتے ہیں کہ ظلمات بلفظ جمع اور نور بلفظ مفرد اس بات کی دلیل ہے کہ کفر و بدعت کی راہیں بہت اور حق کا راستہ صرف ایک ہے۔ انتہی۔ اللہ کا راستہ مجسم نور ہے جسے اختیار کر کے آدمی ہمیشہ رہنے والی جنت تک پہنچ جاتا ہے، ور اس راہ کی نسبت اللہ کی طرف ہونے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس راہ کا مسافر بھٹکتا نہیں اور اللہ کی توفیق سے منزل مقصود کو پالیتا ہے۔ ابراھیم
2 (٢) دین اسلام اس اللہ کا راستہ ہے جو آسمانوں اور زمین کے درمیان ہر چیز کا مالک ہے، اس لیے دنیا میں ہلاکت و بربادی اور قیامت کے دن عذاب نار ہے ان کافروں کے لیے جو نبی کریم کی دعوت کو قبول نہیں کرتے اور کفر کی تاریکی سے نکل کر ایمان و سلام کی روشنی میں داخل نہیں ہوجاتے۔ ابراھیم
3 (٣) انہی کافروں کے اوصاف بیان کئیے گئے ہیں کہ وہ آخرت کی زندگی کو فراموش کردیتے ہیں، اور دنیا کی زندگی کو کامیاب بنانے میں منہمک ہوجاتے ہیں، اور اللہ کے بندوں کو راہ حق پر چلنے سے روکتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ صحیح راستہ نہیں ہے، یا چاہتے ہیں کہ لوگ اسلام سے برگشتہ ہوجائیں، یا اللہ کا دین ان کی خواہش نفس کے مطابق ہو، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ گمراہی کی راہ پر بہت دور جاچکے ہیں اور اولئک ضالون کے بجائے (اولئک فی ضلال) کہنے سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ گمراہی ان کی فطرت ثانیہ بن گئی ہے۔ ابراھیم
4 (٤) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نازل کرکے اور نبی کریم کو مبعوث کر کے عربوں پر اپنے احسان کی تکمیل یوں کی کہ رسول اللہ عربی تھے، ان کی زبان عربی تھی تاکہ آپ امور شریعت کو انہی کی زبان میں ان کے سامنے بیان کریں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ فصلت آیت (٤٤) میں فرمایا ہے : (ولو جعلناہ قرآنا اعجمیا لقالوا لو لا فصلت آیاتہ) اگر ہم قرآن کو عجمی زبان میں اتارتے تو وہ کہتے کہ اس کی آیتیں قابل فہم کیوں نہیں بنائی گئیں ہیں۔ نبی کریم پوری دنیا والوں کے لیے اور تمام جن و انس کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے، لیکن چونکہ آپ عربی تھے، اور عربی زبان دنیا کی سب سے گہری اور وسیع زبان ہے، اسی لیے قرآن عربی زبان میں نازل ہوا، اور دوسری قوموں تک قرآن کا پیغام بذریعہ ترجمہ پہنچا، ان قوموں نے اسلام لانے کے بعد حفظ قرآن اور فہم قرآن کے لیے خوب محنت کی، تراجم تیار کیے، تفسیریں لکھیں، عربی زبان میں دسترس حاصل کیا اور قرآن و سنت کو ان کی اصل زبان میں سمجھا اور اسلام کی دعوت کو اسی طرح سمجھا جس طرح عرب مسلمانوں نے سمجھا۔ چونکہ قرآن بطور معجزہ کبری عربی زبان میں نازل ہوا ہے، ور اللہ نے اس کی حفاظت کی ضمانت لی ہے، اسی لیے ابتدائے اسلام سے لے کر اب تک دنیا کی کوئی طاقت اس میں ایک نقطہ کی بھی تبدیلی نہیں کرسکی اور نہ کرسکے گی، اور اس کی دعوت عربی اور غیر عربی زبانوں میں عام ہوتی رہے گی یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔ نبی کریم نے اللہ کی دعوت لوگوں تک پہنچا دی، لیکن کسی کو راہ راست پر لانا ان کی ذمہ داری نہیں تھی، اور نہ انہیں اس کا اختیار حاصل تھا، اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنے لطف و کرم سے ہدایت دیتا ہے۔ ابراھیم
5 (٥) تمام انبیاء کی بعثت کا مقصود یہ تھا کہ وہ اپنی امتوں کو راہ راست پر چلنے کی دعوت دیں، ان انبیاء میں موسیٰ (علیہ السلام) ایک بڑے نبی اور رسول تھے، جن کا واقعہ یہاں بطور مثال بیان کیا گیا ہے اور ایام اللہ سے مراد ان قوموں کی ہلاکت کے واقعات ہیں جو قوم موسیٰ سے پہلے گزر چکی تھیں جیسے قوم نوح اور قوم لوط وغیرہ۔ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ اس سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو اللہ نے قوم موسیٰ کو دی تھیں، اور سر فہرست یہ نعمت کہ انہیں فرعون کے ظلم و طغیان سے نجات دی تھی اور (صبار شکور) سے مراد وہ مومنین ہیں جو مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں اور نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور جب گزشتہ قوموں کی بربادی یا ان پر اللہ کی نعمتوں کی بارش کی داستانیں سنتے ہیں تو فورا چوکنا ہوتے ہیں، اپنا محاسبہ کرتے ہیں اور صبر و شکر کی زندگی اختیار کرتے ہیں۔ ابراھیم
6 (٦) اس آیت کی تفسیر سورۃ البقرہ آیت (٤٩) اور سورۃ الاعراف آیت (١٤١) میں تفصیل کے ساتھ گزر چکی ہے (سوء العذاب) سے مراد یہ ہے کہ فرعون اور اس کے اہل کار ان سے غلاموں جیسا معاملہ کرتے تھے اور مشکل ترین کام لیتے تھے، ان کے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور عورتوں کو ذلیل و رسوا کرنے کے لیے زندہ چھوڑ دیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قوم موسیٰ کے لیے فرعونیوں کے اس ظالمانہ برتاؤ میں اللہ کی جانب سے بڑی آزمائش تھی، ایک دوسری رائے یہ ہے کہ ذلک سے اشارہ نجات کی طرف ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نعمت دے کر بھی آزماتا ہے، بلکہ یہ آزمائش زیادہ سخت ہوتی ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ آزمائش نعمت اور مصیبت دونوں کے ذریعہ ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانبیاء آیت (٣٥) میں فرمایا ہے : (ونبلوکم بالشر والخیر فتنۃ) کہ ہم تمہیں خیر و شر کے ذریعہ آزمائیں گے۔ ابراھیم
7 (٧) موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے یہ بھی کہا کہ تمہارے رب نے مجھے خبر دی ہے کہ اگر تم اس کی نعمتوں کا ایمان خالص اور عمل صالح کے ذریعہ شکر ادا کرو گے تو وہ تمہیں اور زیادہ روزی دے گا، اور دنیا میں معزز و مکرم بنائے گا، سفیان ثوری اس کی تفسیر یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ تمہیں مزید طاقت اور بندگی کی توفیق دے گا اور اگر ناشکری کرو گے تو وہ نعمتیں تم سے چھین لے گا اور سخت عذاب میں مبتلا کردے گا۔ ابراھیم
8 (٨) موسیٰ نے یہ بھی کہا کہ اگر تم اور زمین میں رہنے والے سبھی لوگ اللہ کے ناشکرے ہوجاؤ گے تو اس کا نقصان تمہیں ہی پہنچے گا، وہ تمہارے شکر کا محتاج نہیں ہے، تمہاری ناشکری سے اس کی ذات و صفات میں کوئی کمی لاحق نہیں ہوگی۔ غالبا انہوں نے یہ بات اس وقت کہی ہوگی جب دیکھا ہوگا کہ ان کی قوم کفر و عناد پر مصر ہے، اور ترغیب و ترہیب کا کوئی اسلوب ان پر اثر انداز نہیں ہورہا ہے۔ امام مسلم نے ابو ذر سے حدیث قدسی روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے میرے بندو ! اگر تم تمام اول و آخر اور انس و جن تم میں سے صالح ترین انسان کے مانند ہوجاؤ، تو اس سے میری بادشاہت میں کوئی اضافہ نہیں ہوجائے گا۔ میرے بندو ! اگر تم تمام اول و آخر اور انس و جن تم میں سے سب سے بدکار انسان کے مانند ہوجاؤ تو اس سے میری بادشاہت میں کوئی کمی نہیں آجائے گی، میرے بندو ! اگر تم تمام اول و آخر اور انس و جن ایک جگہ اکٹھے ہو کر مجھ سے مانگو، اور میں سب کی مراد پوری کروں تو اس سے میرے خزانے میں کوئی کمی نہیں آئے گی، ویسے ہی جیسے کوئی سوئی سمندر میں ڈال کر نکال لی جائے۔ ابراھیم
9 (٩) ابن جریر کے نزدیک یہ بھی موسیٰ کے قول کا حصہ ہے۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ چونکہ عاد و ثمود کے قصے تورات میں مذکور نہیں ہیں، اس لیے بظاہر یہ اللہ تعالیٰ کا امت محمدیہ سے خطاب ہے، اللہ تعالیٰ نے قوم نوح، عاد و ثمود اور دیگر قوموں کے واقعات بیان کیے ہیں، جنہوں نے اپنے انبیاء کو جھٹلایا تھا، اور ایسی قومیں دنیا میں ان گنت ہوئی ہیں جن کی تعداد صرف اللہ جانتا ہے، ان رسولوں نے جب دلائل کی روشنی میں اللہ کا دین ان کے سامنے پیش کیا تو انہیں بات کرنے سے منع کردیا، اور کہا کہ ہم تم سے ایک کلمہ بھی مزید نہیں سننا چاہتے ہیں، اپنی بات اپنے منہ میں ہی رہنے دو، ہم تمہاری دعوت کا انکار کرتے ہیں اور جس بات کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو ہمارے دل میں اس کے سچ ہونے میں گہرا شک و شبہ ہے۔ ابراھیم
10 (١٠) انبیائے کرام نے اپنی قوموں کے کفر اور آسمانی رسالت و دعوت کے انکار پر غایت درجہ حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی وحدانیت اور اس کے معبود حقیقی ہونے میں شبہ ہے، حالانکہ آسمان و زمین کا وجود اس بات پر شاہد قاطع ہے اور کسی شک کی گنجائش نہیں چھوڑتا ہے، کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، وہی ہر چیز کا خالق و مالک اور معبود ہے، اور وہی تمہیں ہم پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے، ہم لوگ از خود تمہیں اس کی طرف نہیں بلا رہے ہیں، اگر تم ہماری تصدیق کرتے ہوئے اللہ پر ایمان لے آؤ گے، تو وہ تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا، اور ایک وقت معین تک دنیاوی زندگی سے مستفید ہونے دے گا، کافروں نے انبیاء کی دعوت کو دوبارہ رد کردیا، اور کہا کہ تم تو تہمارے ہی جیسے انسان ہو، کھاتے پیتے ہو، تمہیں ہم پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے اور نہ تم فرشتہ ہو، بس تمہارا مقصد یہ ہے کہ ہمیں ہمارے آباء و اجداد کے معبودوں کی عبادت سے روک دو، اس لیے ہم تمہاری بات اسی وقت مانیں گے جب کوئی واضح اور صریح نشانی لاؤ کہ واقعی تم اللہ کے نبی ہو۔ یہ ان کا محض عناد اور ہٹ دھرمی تھی ورنہ ہر نبی نے ایسے معجزات اور نشانیاں پیش کیں جو قوموں کی اس یقین دہانی کے لیے کافی تھیں کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے نبی ہیں۔ ابراھیم
11 (١١) رسولوں نے کہا کہ ہاں، ہم تمہارے ہی جیسے انسان ہیں، لیکن اللہ نے ہمیں بحیثیت نبی چن لیا ہے، اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان کرتا ہے اور اسے اپنا نبی بنا لیتا ہے، اور ہم کوئی نشانی اپنی مرضی سے نہیں لاسکتے ہیں، اللہ جب چاہتا ہے بھیجتا ہے اور اس نے اس وقت نہیں چاہا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے بعد اپنے مومن ساتھیوں کو خطاب کر کے کہا کہ مومنوں کو صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے، اور ان کا مقصد سب سے پہلے اپنے آپ کو نصیحت کرنی تھی کہ ہمیں قوموں کی جانب سے جو بھی تکلیف دعوت کی راہ میں پہنچ رہی ہے اس پر صبر کرنے کے لیے اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے اور اسی سے مدد مانگی چاہیے، اسی لیے آیت (١٢) میں کہا کہ اللہ پر بھروسہ نہ کرنے کے لیے ہمارے پاس کیا عذر باقی رہ گیا ہے جبکہ اس نے ہم میں سے ہر ایک کو راہ راست پر ڈال دیا اور اس پر استقامت کو واجب کردیا ہے، اور چونکہ کافروں کی اذیت دہانی سے پائے استقلال میں تزلزل آنے کا خطرہ ہوتا ہے، اس لیے اپنی قوت ارادہ اور عزم صمیم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اے لوگو ! ہم دعوت کی راہ میں تمہاری اذیتوں پر صبر کریں گے، اور بھروسہ کرنے والوں کو صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ داعی الی اللہ کو ہر حال میں صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے، کیونکہ ہر قوت و عزیمت کا سر چشمہ صرف اللہ ہے۔ ابراھیم
12 ابراھیم
13 (١٢) جب کافروں نے دیکھا کہ انبیاء صبر کا پہاڑ بنے مصیبتوں کو جھیل رہے ہیں اور اللہ پر ان کا ایسا زبردست بھروسہ ہے کہ دعوت کی راہ میں انہیں کسی بات کی پرواہ نہیں، تو انہوں نے علی الاعلان دھمکی دے دی کہ یا تو تم ہمارے دین میں دوبارہ واپس آجاؤ گے یا تمہیں اپنا گھر بار اور وطن چھوڑنا پڑے گا۔ امام رازی لکھتے ہیں کہ اہل حق پر زمانے میں کم ہوا کیے ہیں اور اہل باطل کی کثرت رہی ہے اور حق کا چراغ بجھانے کے لیے ہمیشہ آپس میں تعاون کرتے رہے ہیں، اسی لیے انہوں نے کبر و غرور میں انبیاء کو ایسی دھمکی دی، تو اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کو اطمینان دلایا اور کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں، ہم ظالموں کو ہلاک کردیں گے اور زمین کا مالک آپ ہی کو بنائیں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الصافات آیات (١٧٣، ١٧٢، ١٧١) میں فرمایا ہے : (سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین۔ انھم لھم المنصورون۔ وان جندنا لھم الغالبون) یعنی ہمارا وعدہ پہلے ہی اپنے رسولوں کے لیے صادر ہوچکا ہے کہ وہ مظفر و منصور ہوں گے اور ہمارا ہی لشکر غالب اور برتر رہے گا۔ ابراھیم
14 ابراھیم
15 (١٣) انبیاء نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ ! ہمیں ہمارے دشمنوں پر غلبہ نصیب فرمایا ہمارے اور ان کے درمیان آخری فیصلہ کردے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور انہیں ان کے دشمنوں پر غالب کردیا، اور سرکش و نافرمان کو منہ کی کھانی پڑی، اور جہنم بھی ان کا پیچھا کر رہا ہے، جہاں انہیں پینے کے لیے جہنمیوں کا پیپ ملے گا جسے پیتے وقت ان کی جان بلا میں رہے گی، اور موت ہر چہار جانب سے انہیں گھیرے رہے گی لیکن وہ مریں گے نہیں اور سخت اور نہ ختم ہونے والا عذاب ان کے پیچھے لگا رہے گا۔ ابراھیم
16 ابراھیم
17 ابراھیم
18 (١٤) کفار مکہ جو اعمال بتوں کی رضا کے لیے کرتے تھے یا جن سے مقصود ریا کاری ہوتی تھی، مثلا شہرت اور نام و نمود کے لیے مال خرچ کرتے تھے، یا مہمانوں کے لیے کئی کئی اونٹ ذبح کرتے تھے، تاکہ لوگ کہیں کہ فلاں شخص بڑا سخی اور بڑا مہمان نواز ہے ایسے اعمال کو اللہ تعالیٰ نے راکھ سے تشبیہ دی ہے جسے تیز آندھی اڑا کرلے جاتی ہے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفرقان آیت (٢٣) میں فرمایا ہے : (وقدمنا الی ما عملوا من عمل فجعلناہ ھباء منثورا) یعنی انہوں نے جو اعمال کیے تھے ہم نے ان کی طرف متوجہ ہو کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کردیا، اور سورۃ آل عمران آیت (١١٧) میں فرمایا : (مثل ما ینفقون فی ھذہ الحیاۃ الدنیا کمثل ریح فیھا صر اصابت حرث قوم ظلموا انفسھم فاھلکتہ) کہ یہ کفار جو خرچ کرتے ہیں اس کی مثال یہ ہے کہ ایک تند ہوا چلی جس میں پالا تھا، جو ظالموں کی کھیتی پر پڑا اور اسے تہس نہس کردیا، اس سے بڑھ کر ان کی گمراہی کیا ہوسکتی ہے کہ قیامت کے دن ان کے اعمال برباد ہوجائیں گے اور انہیں ان کا کوئی اجر و ثواب نہیں ملے گا۔ ابراھیم
19 (١٥) آیت میں خطاب نبی کریم سے ہے، اور مراد ان کی امت ہے، یا کافروں کے ہر فرد سے خطاب ہے اور مقصود یہ بتانا ہے کہ جس ذات باری تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کو پیدا کیا ہے وہ یقینا اس بات پر قادر ہے کہ قیامت کے دن انسانوں کو دوبارہ زندہ کرے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ یسین آیت (٨١) میں فرمایا ہے : (اولیس الذی خلق السماوات والارض بقادر علی ان یخلق مثلھم بلی وھو الخلاق العلیم) یعنی جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے کیا وہ ان جیسوں کے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، بیشک قادر ہے اور وہی تو پیدا کرنے والا دانا بینا ہے۔ نیز مشرکین کو یہ بھی بتانا مقصود ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتے ہیں گر وہ اس کے اوامر کی اسی طرح خلاف ورزی کرتے رہے تو بہت ممکن ہے کہ انہیں ہلاک کردے اور ان سے اچھے لوگوں کو پیدا کرے جو اس کے مطیع و فرمانبردار ہوں گے۔ اس لیے کہ قادر مطلق کے لیے کوئی بات مشکل نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء آیت (١٣٣) میں فرمایا ہے : (ان یشا یذھبکم ایھا الناس و یات باخرین وکان اللہ علی ذلک قدیرا) یعنی اگر اسے منظور ہو تو اے لوگو ! وہ تم سب کو فنا کردے اور دوسروں کو لے آئے اور اللہ تعالیٰ اس پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ ابراھیم
20 ابراھیم
21 (١٦) قیامت کے دن جب مجرمین میدان محشر میں جمع ہوں گے تو آپس میں خوب جھگڑیں گے اور ایک دوسرے سے اعلان برات کریں گے، دنیا میں جو مجرمین کمزور تھے اور اپنے سرداروں اور مالداروں کی پیروی کرتے ہوئے اللہ کے دین کا انکار کردیا تھا، وہ ان سرداروں سے کہیں گے کہ ہم دنیا میں تمہاری بات مانتے رہے تھے، تو کیا آج ہمارا عذاب کچھ ہلکا کرسکتے ہو؟ تو وہ کہیں گے کہ اگر اللہ نے ہمیں ہدایت دی ہوتی تو تمہیں بھی اس راہ پر لے چلے ہوتے، مطلب یہ کہ ہر ایک اپنی بے بسی کا اظہار کرے گا اور عذاب نار کے مزے چکھے گا جس سے چھٹکارا ملنے کی کوئی امید نہ ہوگی۔ (العیاذ باللہ) کافروں کے اسی جزع و فزع کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ سبا آیت (٣١) میں یوں بیان فرمایا ہے : (ولو تری اذا الظالمون موقوفون عند ربھم یرجع بعضھم الی بعض القول یقول الذین استضعفوا للذین استکبروا لو لا انتم لکنا مومنین) یعنی اے دیکھنے والے ! کاش کہ ان ظالموں کو اس وقت دیکھتا جب کہ یہ اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوئے ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہوں گے، اور ادنی درجے کے لوگ بڑے درجے کے لوگوں سے کہیں گے اگر تم نہ ہوتے تو ہم مسلمان ہوتے، اور سورۃ غافر آیت (٤٧) میں فرمایا ہے : (واذ یتحاجون فی النار فیقول الضعفاء للذین استکبروا انا کنا لکم تبعا فھل انتم مغنون عنا نصیبا من النار) اور جبکہ دوزخ میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے تو کمزور لوگ تکبر کرنے والوں سے، جن کے یہ تابع تھے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے پیروکار تھے، تو کیا اب تم ہم سے اس آگ کا کوئی حصہ ہٹا سکتے ہو؟ مذکورہ بالا آیات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مجرمین محشر میں جہنم میں جانے سے پہلے آپس میں جھگڑیں گے اور جہنم میں جانے کے بعد بھی۔ ابراھیم
22 (١٧) جب اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ فرما دے گا جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں بھیج دیئے جائیں گے، تو شیطان جہنمیوں سے کہے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کی زبانی تم سے سچا وعدہ کیا تھا کہ اگر تم اس کی اتباع کرو گے تو اللہ کے عذاب سے نجات پاؤ گے، ورنہ جہنم میں ڈال دیئے جاؤ گے، چنانچہ آج اس نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا، اور میں نے تم سے جھوٹ کہا تھا کہ موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے اور جزا و سزا کا عقیدہ غلط ہے، اور اگر بالفرض اسے صحیح مان لیا جائے تو تمہارے اصنام تمہارے لیے سفارشی بنیں گے، اور میں نے بغیر دلیل و حجت تمہیں اپنی اتباع کی دعوت دی تھی تو تم نے قبول کرلیا تھا، اور رسولوں نے اپنی اور اپنی دعوت کی صداقت پر دلائل پیش کیے تھے، لیکن تم نے ان کی بات ٹھکرا دی تھی، اس لیے آج جو کچھ تمہارے ساتھ ہورہا ہے اس پر مجھے نہیں بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو، میں تمہیں نجات نہیں دلا سکتا ہوں، اور نہ تم میرے کام آسکتے ہو، آج میں اس بات کا قطعی طور پر انکار کرتا ہوں کہ کسی بھی حیثیت سے میں اللہ کا شریک ہوں اور تم سے ہر طرح برات کا اعلان کرتا ہوں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ظالموں کو اس دن بڑا دردناک عذاب دیا جائے گا۔ زمخشری نے لکھا ہے : قیامت کے دن شیطان جو کچھ کہے گا، اللہ تعالیٰ نے اسے اس لیے نقل کیا ہے، تاکہ سامعین قیامت کے دن اپنے انجام کے بارے میں غور کریں اور ابھی سے اپنی نجات کے لیے تیاری کریں، جب شیطان اپنے تمام پیروکاروں سے اپنی برات کا اعلان کردے گا۔ ابراھیم
23 (١٨) جہنمیوں کا انجام بیان کیے جانے کے بعد اب اہل جنت کا انجام بیان کیا جارہا ہے۔ فرشتے اہل جنت کی تعظیم کریں گے اور انہیں سلام کریں گے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ الزمر آیت (٧٣) میں فرمایا ہے : (وقال لھم خزنتھا سلام علیکم) کہ جنت کے خازن فرشتے اہل جنت کو سلام کریں گے، اور سورۃ الرعد آیات (٢٤، ٢٣) میں فرمایا ہے : (والملائکۃ یدخلون علیھم من کل باب۔ سلام علیکم) کہ فرشتے ہر دروازے سے ان کے پاس آکر سلام کریں گے۔ ابراھیم
24 (١٩) مندرجہ ذیل آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مثال کے ذریعہ کفر و شرک اور حق و باطل کے درمیان فرق واضح کیا ہے، کلمہ اسلام لا الہ الا اللہ کو کلمہ طیبہ اور کلمہ شرک کو کلمہ خبیثہ کہا ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ کلمہ طیبہ سے ہر کلمہ خیر اور کلمہ خبیثہ سے ہر کلمہ شر مراد ہے۔ کلمہ طیبہ کی مثال اس ہرے بھرے لہلہاتے خوبصورت درخت کی ہے جس سے بھینی بھینی خوشبو پھوٹتی ہے، جس کے پھل بہت ہی لذیذ اور مفید ہوتے ہیں اور جس کی جڑیں زمین میں اتنی گہری ہوتی ہیں کہ اس کے اکھڑنے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا، ایسے درخت کو دیکھ دیکھ کر اس کے مالک کو بڑی خوشی ہوتی ہے، اور جس کی شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں گویا وہ ہر طرح سے ایک مکمل اور مفید درخت ہوتا ہے، اس کا پھل عمدہ اور مفید ہوتا ہے اور ہر موسم میں تیار ہوتا رہتا ہے، کبھی بھی ختم نہیں ہوتا۔ اور کلمہ خبیثہ کی مثال اس بد باطن درخت کی ہے جس کی زمین میں نہ کوئی بنیاد ہوتی ہے اور نہ جڑ، اسی لیے زمین کے اوپر ٹھر نہیں پاتا جیسے کوئی ایسا درخت جسے زمین سے اکھاڑ دیا گیا ہو، اس میں کوئی خیر نہیں ہوتی، یہی مثال کفر و شرک کی ہے۔ ابراھیم
25 ابراھیم
26 ابراھیم
27 (٢٠) القول الثابت سے مراد کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔ بخاری و مسلم اور اہل سنن نے براء بن عازب سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : مسلمان سے جب قبر میں سوال ہوتا ہے تو وہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یوں کہا ہے : (یثبت اللہ الذین امنوا بالقول الثابت فی الحیاۃ الدنیا وفی الاخرۃ) ایک دوسری رائے یہ ہے کہ آیت سے مقصود کلمہ حق اور دین اسلام پر ثبات قدمی ہے، جن کے دلوں میں ایمان بس جاتا ہے، آزمائشوں کے وقت ان کے پائے استقلال میں تزلزل نہیں آتا، اور قیامت کے دن بھی جب ان سے ان کے دین و عقیدہ کے بارے میں سوال ہوگا تو میدان محشر کی ہولناکیوں سے متاثر ہو کر ان کی زبان نہیں لڑکھڑائے گی۔ بعض کا خیال ہے (حیاۃ الدنیا) سے مراد قبر میں سوال کا وقت اور آخرۃ سے مراد قیامت کے دن حساب کا وقت ہے، اور مقصود اس آیت سے یہ ہے کہ جب مومنوں سے قبر میں یا قیامت کے دن سوال ہوگا تو بلا جھجک کلمہ شہادت اپنی زبان پر لائیں گے اور دنیا میں دین اسلام پر قائم رہنے کی بات کریں گے، اور جنہوں نے کفر و شرک کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا ہوگا، کلمہ شہادت ان کی زبان پر نہ قبر میں آئے گا اور نہ ہی قیامت کے دن حساب کے وقت۔ بعض مفسرین نے (یضل اللہ الظالمین) کے ضمن میں لکھا ہے کہ ہر شخص جو دلائل و براہین کے باوجود سے اعراض کرتا ہے وہ آزمائشوں کے وقت دین حق پر ثابت قدم نہیں رہتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، کسی کو حق پر ثابت قدمی کی توفیق دیتا ہے تو کسی کو اس نعمت سے محروم کردیتا ہے، اس کے ارادہ و مشیت میں کسی کا کوئی دخل نہیں ہے۔ ابراھیم
28 (٢١) رسول اللہ کو خطاب کر کے کفار مکہ کی حالت پر اظہار تعجب ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حالت زار پر رحم کھاتے ہوئے محمد کو نبی بنا کر بھیجا، تو اس نعمت پر انہیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے تھا، لیکن انہوں نے ناشکری کی اور ان کی رسالت اور دین اسلام کا انکار کردیا، اور سرداران قریش خود تو ڈوبے ہی، پوری قوم کو لے ڈوبے، ہمیشہ عوام کی نظر میں کفر کو خوبصورت بنا کر پیش کیا اور انہیں اسلام میں داخل نہیں ہونے دیا، اور اس طرح جہنم میں پہنچا دیا جس سے بڑھ کر ہلاکت و بربادی کی جگہ اور کیا ہوسکتی ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کو دھمکی دی کہ دنیا کی لذتوں سے خوب لطف اندوز ہولو، اور لوگوں کو گمراہ کرتے رہو، لیکن جان رکھو کہ تمہارا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ ابراھیم
29 ابراھیم
30 ابراھیم
31 (٢٢) گذشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے والوں اور اس کے ساتھ غیروں کو شریک بنانے والوں کے بارے میں اللہ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ وہ انہیں بتا دیں کہ ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا، اسی لیے قرآن کریم کے طریقہ کے مطابق اب اللہ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ مومنین کو کہہ دیں کہ تم لوگ نماز قائم کرو اور اللہ نے جو روزی دی ہے اس میں سے چھپا کر اور دکھلا کر اللہ کی راہ میں خرچ کرو یعنی زکاۃ ادا کرو، رشتہ داروں پر خرچ کرو اور غیروں کی بھی مدد کرو، اس دن کے آنے سے پہلے جب کسی کی جانب سے کوئی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا، کہ کوئی معاوضہ دے کر اللہ کے عذاب سے جانبر ہوجائے، اور نہ کوئی دوستی کام آئے گی کہ کوئی دوست اپنے دوست کے لیے اللہ کے یہاں سفارش کرے اور اسے عذاب سے نجات دلا دے۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیاوی زندگی میں راہ خیر میں خرچ کرنے کا حکم دیا ہے جب آدمی خرچ کرنے پر قادر ہوتا ہے، اس قیامت کے دن سے قبل جب وہ اس پر قادر نہیں ہوگا بلکہ وہاں کسی کے پاس مال ہی نہیں ہوگا، اور آیت کے آخری حصے : (من قبل ان یاتی یوم لا بیع فیہ ولا خلال) میں گزشتہ حکم کی تاکید ہے۔ صاحب فتح البیان لکھتے ہیں کہ اس آیت میں قیامت کے دن دوستی کی نفی کی گئی ہے اور سورۃ الزخرف آیت (٦٧) (الاخلاء یومئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین) میں اس دن دوستی کو ثابت کیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ کی خاطر دوستی کو ثابت کی گئی ہے، یعنی صرف متقیوں کے لیے ثابت کی گئی ہے اور دوسروں سے اس کی نفی کی گئی ہے، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ قیامت کے دن مختلف حالات ہوں گے، بعض حالات میں ہر دوست اپنے دوست کو پہچاننے سے انکار کردے گا، اور بعض حالات میں مومنین صالحین اپنے ہی جیسے مومن و صالح دوستوں سے اظہار ہمدردی کریں گے۔ ابراھیم
32 (٢٣) مندرجہ ذیل تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے لیے اپنی بعض نعمتوں کا ذکر کیا ہے جو اس کی وحدانیت اور علم و قدرت پر دلیل ہیں، آسمانوں اور زمین کو بغیر کوئی سابق نمونہ دیکھے پیدا کیا، اور ان میں بہت سی دیگر اشیا کو پیدا کیا، آسمان کو مخلوقات کے لیے قابل اطمینان چھت اور زمین کو ان کے لیے بچھاون بنا دیا، تاکہ آسمان کے نیچے سکون و اطمینان کے ساتھ زمین پر اپنی زندگی بسر کرسکیں، اور ان دونوں کے درمیان ایسی مخلوقات پیدا کیں جو انسانوں کے لیے گوناگوں فوائد و منافع کا سبب ہیں۔ یہ سب اس بات پر دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ خالق و مالک ہے اور ہر بات پر قادر ہے، آسمان سے بارش نازل کیا جس کے ذریعہ انواع و اقسام کے پھل اور غلے پیدا کیے جو بنی نوع انسان کے لیے روزی کا کام دیتے ہیں، اور کشتیوں کو اس طرح مسخر کیا کہ وہ ان کی مرضی کے مطابق اللہ کے حکم سے پانی کی سطح پر چلتی رہتی ہیں اور انہیں اور ان کا سامان تجارت لے کر ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہوتی رہتی ہیں، اور نہروں کو مسخر کیا جو زمین کو چیر کر ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ تک پہنچ جاتی ہیں، جن کا پانی لوگ خود پیتے ہیں، جانوروں کو پلاتے ہیں اور اس سے اپنی زمینیں سیراب کرتے ہیں یہ نہریں اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ اور آفتاب و ماہتاب کو مسخر کیا جن کی روشنی سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے اور ان دونوں کی روشنی اور ان کی رفتار اور ایک دوسرے کے بعد آنے اور جانے میں عظیم فوائد ہیں جن کا احاطہ اللہ ہی کرسکتا ہے، ان سے زمین پر اگنے والے تمام پودے اور اس پر رہنے والے تمام حیوانات مستفید ہوتے ہیں، تاریکی دور ہوتی ہے، آفتاب کے ذریعہ سال کے مختلف موسموں کا پتہ چلتا ہے، اور ماہتاب کی چال سے مہینوں کی ابتدا و انتہا معلوم ہوتی ہے، ان دونوں کی یہ معہود و معروف رفتار قیامت تک باقی رہے گی کسی حال میں منقطع نہیں ہوگی، اور رات اور دن کو مسخر کیا، رات آرام کے لیے اور دن روزی حاصل کرنے کی راہ میں تگ و دو کے لیے بنایا۔ سورۃ القصص آیت (٧٣) میں فرمایا : (ومن رحمتہ جعل لکم اللیل والنھار لتسکنوا فیہ ولتبتغوا من فضلہ) کہ اس نے اپنی رحمت سے رات اور دن بنایا تاکہ تم اس میں آرام کرو اور اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو، اور بندوں کو جس چیز کی بھی ضرورت ہوسکتی ہے اسے اللہ نے ان کے لیے فراہم کردیا، گویا انہوں نے زبان حال سے ان چیزوں کو اپنے لیے اللہ سے مانگا تھا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے بندو ! اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو گے تو نہیں کرسکو گے کیونکہ ان کی کوئی انتہا نہیں ہے، اور آخر میں یہ بتایا کہ جو آدمی ایمان و یقین اور اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے محروم ہوتا ہے وہ اللہ کی ناشکری کر کے اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے اور وہ بہت ہی بڑا ناشکرا ہوتا ہے، اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتا ہے ور قول و عمل کے ذریعہ اللہ کا شکر ادا کرنے کی توفیق اس سے چھین لی جاتی ہے۔ ابراھیم
33 ابراھیم
34 ابراھیم
35 (٢٤) مفسرین لکھتے ہیں کہ یہاں ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کے ذکر سے مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ کفار قریش نے اللہ تعالیٰ کی عام نعمتوں کی ہی ناشکری نہیں کی، بلکہ اس کی خاص نعمت یعنی مکہ میں بسائے جانے کی بھی ناشکری کی اور اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی نافرمانی کی، کیونکہ انہوں نے مکہ میں اپنی اولاد کو اس لیے بسایا تھا تاکہ نماز قائم کریں، بتوں کی عبادت نہ کریں، اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کریں، انہوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ وہ مکہ کو امن و آشتی کا شہر بنا دے، وہاں کے رہنے والوں کے لیے انواع و اقسام کے پھل مہیا کردے، اور شہر مکہ کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دے تاکہ اس کی طرف کھنچے چلے آئیں، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرلی، اور اہل مکہ کو ساری نعمتوں سے نوازا، لیکن انہوں نے اللہ کی ناشکری کی اور بلد حرام کو بلد کفر بنا دیا اور اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک ٹھہرایا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ کلمہ طیبہ کی مثال کے طور پر ذکر کیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مقصود لوگوں کو توحید کی دعوت دینی اور بتوں کی پرستش سے روکنا ہے۔ صاحب فتح البیان کہتے ہیں کہ یہ واقعہ ابراہیم (علیہ السلام) کے آگ میں ڈالے جانے کے بعد کا ہے، وہاں انہوں نے اپنے رب سے کوئی سوال نہیں کیا اور نہ کوئی دعا کی، اور یہاں اللہ کے حضور خشوع و خضوع کے ساتھ دعا کی ہے، اور مقام دعا مقام سکوت و ترک دعا سے اعلی و ارفع ہے تو معلوم ہوا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے جب یہ دعا کی تھی اس وقت وہ درجہ کمالات میں عروج کو پہنچ چکے تھے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے آٹھ بیٹے تھے، ان میں سے کسی نے بھی بت کی پرستش نہیں کی۔ ابراھیم
36 (٢٥) ابراہیم علی السلام نے اپنی دعا کی علت بیان کی ہے کہ انہی بتوں کی وجہ سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں، یہاں انہوں نے اپنے دینی بھائیوں کو اپنی ذات کا مقام دیا ہے اور اپنی نافرمانی کرنے والوں کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا ہے، علماء نے لکھا ہے کہ یہاں معصیت سے مراد شرک کے علاوہ دوسرے گناہ ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ یہاں اللہ کی مغفرت شرک سے توبہ کے ساتھ مقید ہے، یعنی اگر وہ شرک سے توبہ کرلیں گے تو اللہ بڑا مغفرت کرنے والا ہے۔ ابراھیم
37 (٢٦) یہاں ابراہیم (علیہ السلام) کی بعض ذریت سے مراد اسماعیل (علیہ السلام) اور ان کی اولاد ہے، اور مسجد حرام کو بیت حرام اس لیے کہا گیا کہ دوسری جگہوں میں جو کام کرنا حلال ہے، وہاں اسے کرنا حرار قرار دے دیا گیا ہے، اور ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنی اولاد کو بیت حرام کے پاس بسانے کا مقصد یہ تھا کہ ان کی اولاد وہاں نماز قائم کرے، اور نماز کا بالخصوص ذکر اس کی غایت درجہ اہمیت کے پیش نظر کیا اور ربنا کا دوبارہ ذکر نماز ہی کی اہمیت بتانے کے لیے کیا، اور لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف پھیرنے کی دعا اس لیے کی تاکہ وہ ان سے انس و الفت حاصل کریں، آپس میں متعارف ہوں اور گوناگوں منافع سے مستفید ہوں۔ اور انواع و اقسام کے پھلوں کی جو دعا کی تو اس میں ان کی اولاد اور وہ تمام لوگ شامل ہیں جو مکہ میں آکر رہیں گے۔ ابراھیم
38 (٢٧) زمخشری نے اس آیت کی تفسیر یہ کی ہے (جو ابن جریر کی رائے کے قریب ہے) کہ اے ہمارے رب ! تو ہمارے حالات اور ہماری ضرورتوں سے خوب واقف ہے کیا چیز ہمارے لیے مفید ہے اور کیا نقصان دہ ہے اسے تو خوب جانتا ہے، تو ہم سے زیادہ ہم پر رحم کرنے والا ہے، اس لیے دعا و طلب کی ضرورت نہیں ہے، ہم تو تیرے حضور اظہار بندگی اور تیری جناب میں اظہار خشوع و خضوع کے لیے تجھے پکارتے ہیں، ہم اس لیے دعا کرتے ہیں کہ تیرے کرم کے محتاج ہیں اور تیرے فضل و کرم کے لیے ہمارے دل میں جلدی ہے، ہمارا حال اس غلام کا ہے جو اپنے مالک کے حضور خوب چاپلوسی کرتا ہے تاکہ وہ مزید اپنی نعمتوں سے اسے نوازے، اور مالک بھی ایسا جو اپنے غلاموں کے ادنی طلب پر نعمتوں کی بارش کرتا رہتا ہے۔ ابراھیم
39 (٢٨) ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے بڑھاپے میں انہیں دو بیٹوں سے نوازا، تاکہ ان کے بعد دعوت الی اللہ کا کام کرتے رہیں، لوگوں کو توحید کی طرف بلائیں اور نماز قائم کریں۔ کہتے ہیں کہ اسماعیل (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت ان کی عمر ننانوے سال تھی اور اسحاق علی السلام کی پیدائش کے وقت ان کی ایک سو یا ایک سو بارہ یا ایک سو بیس سال تھی۔ ابراھیم
40 (٢٩) انہوں نے اپنے رب سے یہ دعا بھی کی کہ وہ انہیں اور ان کی اولاد کو نماز کا پابند بنا دے، اور ان کی تمام دعاؤں کو بالعموم اور ان دعاؤں کو بالخصوص قبول فرما لے۔ بعض مفسرین نے یہاں دعا سے مراد عبادت لی ہے، اور اللہ سے یہ بھی طلب کیا کہ وہ انہیں اور ان کے ماں باپ کو اور دیگر تمام مسلمانوں کو قیامت کے دن معاف کردے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ والدین کے لیے انہوں نے یہ دعا اس وقت کی تھی جب نہیں جانتے تھے کہ وہ دونوں اللہ کے دشمن ہیں، ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کی ماں مسلمان ہوگئی تھیں ایک قرات میں والدی آیا ہے، یعنی دعا میں صرف اپنے والد کو مراد لیا تھا، ایک دوسری قرات میں ولدی آیا ہے، یعنی میرے دونوں بیٹوں اسماعیل اور اسحاق کو بھی معاف کردے۔ ابراھیم
41 ابراھیم
42 (٣٠) یہاں مخاطب اگرچہ نبی کریم ہیں، لیکن مقصود ان کی امت ہے، اور ظالمون سے مراد مکہ کے مشرکین ہیں، یعنی اگر اللہ نے انہیں مہلت دے دی ہے اور عذاب کو ان سے موخر کردیا ہے تو اس سے انہیں اس غلط فہمی میں نہیں پڑنا چاہیے کہ وہ ان سے غافل ہے، یا انہیں درگزر کردیا ہے، بلکہ وہ ان تمام گناہوں کو ایک ایک کر کے ان کے نامہ اعمال میں جمع کر رہا ہے، اور جب وہ دن آجائے گا جب مارے دہشت کے لوگوں کی آنکھیں اٹھی کی اٹھی رہ جائیں گی، تو وہ سارے اعمال بد ان کے سامنے پیش کردیئے جائیں گے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت میں نبی کریم کو تسلی دی گئی ہے اور نصرت و کامرانی کا وعدہ کیا گیا ہے اور کفار مکہ کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر انہوں نے اپنی حالت نہیں بدلی تو برے انجام کا انتظار کریں۔ ابراھیم
43 (٣١) جب قیامت برپا ہوگی تو مردے اپنی قبروں سے نکل کر میدان محشر کی طرف بڑی تیزی میں دوڑیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المعارج آیت (٤٣) میں فرمایا ہے : (یوم یخرجون من الاجداث سراعا) کہ اس دن لوگ اپنی قبروں سے نکل کر خوب تیزی سے دوڑیں گے، اپنے سر اوپر کی طرف اٹھائے ہوں گے اور آنکھیں کھلی ہوں گی، پلکوں میں حرکت بھی نہیں ہوگی اور مارے گھبراہٹ کے ان کے دل ہوا ہو رہے ہوں گے۔ ابراھیم
44 (٣٢) یہاں بھی خطاب نبی کریم سے ہے اور الناس سے مراد یا تو عام لوگ ہیں یا اہل مکہ ہیں، پہلا قول راجح ہے اس لیے کہ قیامت کے دن سے ڈرایا جانا مسلم و کافر سب کو شامل ہے، کفار موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کا انکار کرتے تھے، اور جب کوئی داعی الی اللہ ایسی بات کرتا تو قسمیں کھا کر کہتے کہ دوسری زندگی کا عقیدہ باطل ہے، سورۃ النحل آیت (٣٨) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (واقسموا باللہ جھد ایمانھم لا یبعث اللہ من یموت) کہ وہ لوگ بڑی بھاری قسمیں کھا کر کہا کرتے تھے کہ جو آدمی مرجائے گا اللہ اسے دوبارہ زندہ نہیں کرے گا۔ ابراھیم
45 (٣٣) یعنی تم ان بستیوں کو دیکھ چکے ہو جن کے رہنے والوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا تھا، جیسے عاد و ثمود کی بستیاں، اللہ نے ان پر جو عذاب نازل کیا تھا اس کے آثار اب تک باقی ہیں ور اس کی خبریں تواتر کے ساتھ تم تک پہنچ چکی ہیں اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا جس کی وجہ سے وہ اس انجام بد کو پہنچے، وہ ساری باتیں تمہیں معلوم ہیں پھر بھی تم میں کوئی ایسا نہ ہوا جو عبرت حاصل کرتا اور اپنی اصلاح کی کوشش کرتا۔ ابراھیم
46 (٣٤) اہل مکہ نبی کریم اور دعوت اسلامیہ کے خلاف بڑی زبردست سازشیں کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی وہ تمام سازشیں لکھی جارہی ہیں جن کا بدلہ انہیں مل کر رہے گا، اور وہ سازشیں اتنی ہیبت ناک تھیں کہ پہاڑوں کو اکھاڑ پھینکتیں اور انہیں تہہ و بالا کردیتیں، لیکن اللہ اپنے نبی اور دین اسلام کی حمایت کرتا رہا اور ان کی چالیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ ابراھیم
47 (٣٥) دین اسلام اور نبی کریم کی حمایت کے وعدہ کی تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو نصر مبین عطا فرمائے گا۔ قرآن کریم میں اس کی صراحت کئی جگہ آئی ہے۔ سورۃ غافر آیت (٥١) میں ہے : (انا لننصر رسلنا) کہ ہم اپنے رسولوں کی ضرور مدد کریں گے، سورۃ المجادلہ آیت (٢١) میں اللہ نے فرمایا ہے : (کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی) یعنی اللہ نے یہ بات لکھ دی ہے کہ میں اور میرے انبیاء ضرور غالب رہیں گے، اور سورۃ النور آیت (٥٥) میں فرمایا ہے : (وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنھم فی الارض) کہ اللہ نے تم میں سے اہل ایمان اور عمل صالح کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ انہیں زمین کا وارث بنائے گا۔ ابراھیم
48 (٣٦) آیت (٤٤) میں قیامت کے دن کا ذکر اایا ہے، اسی کا یہاں دوبارہ ذکر ہورہا ہے کہ اس دن زمین و آسمان کا نقشہ ہی بدلا ہوگا، پہاڑوں کے گالے کے مانند اڑ رہا ہوگا، سمندر کا پانی پھوٹ پڑے گا اور زمین ہموار ہوجائے گی، آسمان کے ستارے بکھر جائیں گے اور شمس و قمر بے نور ہوجائیں گے، اور لوگ اپنی قبروں سے نکل کر اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونے کے لیے دوڑ رہے ہوں گے تاکہ وہ انہیں ان کے اعمال کا بدلہ چکائے۔ ابراھیم
49 (٣٧) اور مجرموں کی حالت یہ ہوگی کہ ان میں سے ہر ایک قسم کے مجرمین کو الگ الگ جمع کیا جائے گا، اور ان کے ہاتھوں اور پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر ان کی گردنوں کے ساتھ باندھ دیا جائے گا۔ ابراھیم
50 (٣٨) اور ان کے لباس گندھک کے ہوں گے اور ان کے چہروں پر آگ لپک رہی ہوگی، اللہ تعالیٰ نے جہنمیوں کی شکل و صورت کی قباحت اور ان کی بدترین حالت بیان کرنے کے لیے انہیں اس خارش زدہ اونٹ سے تشبیہ دیا ہے جس کے جسم سے پیپ نکل رہی ہو اور بدبو آرہی ہو، اور علاج کے لیے اس کے سارے جسم پر گندھک مل دیا گیا ہو، جس کی بدبو بہت ہی شدید اور جس کا منظر بڑا ہی قبیح ہوتا ہے۔ زمخشری نے لکھا ہے کہ جہنمیوں کے جسموں پر گندھک ڈال دیا جائے گا جو قمیص کی مانند انہیں ڈھانک لے گا جس سے چار قسم کے آثار مرتب ہوں گے، گندھک کی کٹن اور اس کی جلن اور آگ تیزی کے ساتھ ان کے جسموں کو جلائے گی اور ان کا رنگ خوفناک ہوگا، اور تیز بدبو ان کے جسموں سے پھوٹے گی، اور دنیا کے گندھک اور جہنم کے گندھک میں وہی فرق ہوگا جو دونوں جگہوں کی آگ میں ہوگا اور ہر وہ عذاب جہنم جس کی اللہ تعالیٰ نے دھمکی دی ہے اس میں اور اس جیسے دنیاوی عذاب میں جو فرق ہوگا اس کا ہم اندازہ نہیں کرسکتے ہیں گویا کہ اس دنیا میں ان کے صرف نام ہی مستعمل ہیں، اللہ تعالیٰ اپنی ناراضگی سے ہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔ ابراھیم
51 (٣٩) قیامت کے دن اہل جرائم کے ساتھ جو کچھ ہوگا اس لیے ہوگا تاکہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے کیے کا بدلہ چکائے۔ ابراھیم
52 (٤٠) یہ سورت نصیحت اور سیدھی راہ کی طرف رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کافی ہے، اور جو شخص اس میں مذکور احکام و نصائح پر عمل پیرا ہوگا اسے دنیا و آخرت کی نیک بختی حاصل ہوگی، اور اللہ کی وحدانیت پر دلالت کرنے والے جو دلائل اس میں بیان ہوئے ہیں، ان میں غور و فکر کرنے سے اسے یقین ہوجائے گا کہ اللہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، بعض لوگوں نے یہاں قرآن کریم کی طرف اشارہ مراد لیا ہے، اس لیے کہ پورا قرآن کریم ہدایت و رہنمائی کا سرچشمہ ہے، اور باری تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرنے والے دلائل و براہین سے پر ہے اس دوسرے قول کی تائید اس سورت کی پہلی آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (الر کتاب انزلناہ الیک لتخرج الناس من الظلمات الی النور) یعنی یہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جسے ہم نے آپ پر نازل کیا ہے، تاکہ آپ لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے ظلمتوں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائیں۔ وباللہ التوفیق ابراھیم
0 نام : آیت (٨٠) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (ولقد کذب اصحاب الحجر المرسلین) اور آیت (٨٤) تک انہی اصحاب حجر کا کفر و عناد اور پھر ان کے انجام بد کو بیان کیے گئے ہیں، اس سورت کا نام انہی (اصحاب حجر) کے نام سے ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی نے ائمہ تفسیر کا اس پر اتفاق نقل کیا ہے کہ یہ سورت مکی ہے، اور مضامین پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سورۃ ابراہیم کے بعد نازل ہوئی ہوگی، جب رسول اللہ کو مکہ والوں کے سامنے اپنی دعوت پیش کرتے ہوئے کئی سال گزر چکے تھے۔ اس سورت میں بھی مکی سورتوں کی طرح عقیدہ توحید، نبوت و رسالت اور بعث بعد الموت جیسے بنیادی موضوعات پر بحث کی گئی ہے، کفار مکہ کو نصیحت سے آگے بڑھ کر ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے دھمکی دی گئی ہے، اور نبی کریم کو بار بار تسلی دی گئی ہے کہ آپ گزشتہ انبیاء و رسل کی طرح صبر و استقامت سے کام لیں، بالاخر غلبہ آپ ہی کو حاصل ہوگا۔ الحجر
1 (١) الر، یہ حروف مقطعات ہیں ان کا معنی اللہ ہی جانتا ہے، تلک سے اشارہ اس سورت کی آیت یا پورے قرآن کی آیتوں کی طرف ہے اور کتاب سے مراد یا تو قرآن کریم ہے یا عام آسمانی کتابیں جن میں قرآن بھی داخل ہے۔ الحجر
2 (٢) اس آیت کریمہ میں نبی کریم کے لیے بشارت ہے کہ آپ کا دین غالب ہو کر رہے گا اور ایک دن ایسا آئے گا کہ کفار تمنا کریں گے کہ کاش وہ پہلے ہی مسلمان ہوچکے ہوتے تو انہیں بھی آج وہ مقام حاصل ہوتا جو ان کبار صحابہ کو حاصل ہے، جنہوں نے ابتدا میں ہی اسلام کی دعوت پر لبیک کہا، اللہ تعالیٰ نے سابقین اولین کے اسی مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سورۃ الحدید آیت (١٠) میں فرمایا ہے : (لا یستوی منکم من انفق من قبل الفتح وقاتل اولئک اعظم درجۃ) کہ جنہوں نے فتح مکہ سے قبل اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور جہاد کیا ان کا مقام بہت ہی اونچا ہے، دوسرے لوگ ان کے برابر نہیں ہوسکتے ہیں۔ اس بشارت کے ضمن میں نبی کریم کی ہمت افزائی بھی کی جارہی ہے کہ آپ دعوت کے کام میں صبر و استقامت کے ساتھ لگے رہیں کیونکہ انجام کار غلبہ آپ کو حاصل ہوگا، صاحب محاسن التنزیل نے یہی تفسیر بیان کی ہے لیکن ابن کثیر اور شوکانی وغیرہما نے لکھا ہے کہ کفار یہ تمنا یا تو موت کے وقت کریں گے یا قیامت کے دن۔ جب حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی اور انہیں اپنے دین و عقیدہ کے باطل ہونے کا یقین ہوجائے گا تب یہ تمنا کریں گے، ابن عباس اور انس سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب مشرکین اور گناہ گار مسلمانوں کو جہنم میں اکٹھا کردے گا، تو مشرکین مسلمانوں سے کہیں گے کہ تمہاری توحید تمہیں کام نہیں آئی، تو اللہ تعالیٰ غضبناک ہو کر اپنے فضل و رحمت سے مسلمانوں کو جہنم سے نکال دے گا اس وقت مشرکین ایسا کہیں گے۔ الحجر
3 (٣) نبی کریم کو خطاب کر کے کفار مکہ کو تنبیہ کی جارہی ہے اور انہیں دھمکی دی جارہی ہے کہ وہ جانوروں کے مانند خوب کھائیں پئیں، خوب مزے کریں، اپنی شہوتوں کو پوری کریں اور ان کی جھوٹی امید کہ ان کا انجام بخیر ہوگا، انہیں توبہ و استغفار اور زکر الہی سے غال بنائے رکھے، وہ عنقریب قیامت کے دن اپنے برے انجام کو پہنچ جائیں گے اور جہنم ان کا ٹھکانا ہوگا۔ الحجر
4 (٤) اللہ تعالیٰ جب کسی بستی کو گناہوں پر اصرار کی وجہ سے ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس کا ایک وقت مقرر کردیتا ہے تاکہ اس کے پہلے اس بستی والوں کو اسباب ہلاکت پر خوب غور وفکر کرنے کا موقع مل جائے، شاید کہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں، کوئی بھی ظالم قوم اس کے وقت مقرر سے پہلے ہلاک نہیں ہوتی، اور جب وہ وقت آجاتا ہے تو ایک لمحہ کی تاخیر بھی نہیں ہوتی، کیونکہ حجت پوری ہوچکی ہوتی ہے اور اسے معذور سمجھے جانے کا کوئی سبب باقی نہیں رہ جاتا۔ الحجر
5 الحجر
6 (٥) کفار مکہ کا غایت استکبار و عناد بیان کیا جارہا ہے کہ وہ نبی کریم پر پھبتیاں کستے تھے اور کہتے تھے کہ ارے اس بات کا دعوی کرنے والے کہ تم پر قرآن اترتا ہے تم تو نرے پاگل ہو کہ ہم سے اپنے آپ کو رسول منوانے کی بات کرتے ہو، اور دعوی کرتے ہو کہ آسمان سے تم پر وحی نازل ہوتی ہے۔ الحجر
7 (٦) کفار مکہ نے رسول اللہ سے کبر و عباد میں آکر کہا کہ اگر تم سچے ہو تو آسمان سے فرشتوں کو کیوں نہیں اتار لاتے جو تمہاری صداقت کی گواہی دیتے، اور تبلیغ و دعوت کے کام میں تمہاری مدد کرتے، قرآن کریم نے ان کی اسی بات کو اس طرح بھی بیان کیا ہے کہ (لو لا انزل الیہ ملک فیکون معہ نذیرا) یعنی اس کے لیے کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیج دیا گیا ہے جو اس کے ساتھ مل کر تبلیغ و انذار کا کام کرتا۔ الفرقان : ٧) اور فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں کہا تھا : (فلو لا القی علیہ اسورۃ من ذھب او جاء معہ الملائکۃ مقترنین) کہ اس کے لیے سونے کے کنگن کیوں نہیں اتار دیئے گئے ہیں یا اس کے ساتھ صف باندھ کر فرشتے کیوں نہیں آئے ہیں۔ (الزخرف : ٥٣) اللہ تعالیٰ نے آیت (٨) میں ان کے اس کبر و عناد کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ فرشتے تبلیغ و دعوت کے لیے تو نہیں آتے، البتہ گناہ گار قوموں پر اللہ کا عذاب نازل کرنے کے لیے آتے ہیں اور اس وقت انہیں مہلت نہیں دی جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفرقان آیت (٢٢) میں فرمایا ہے : (یوم یرون الملائکۃ لا بشری یومئذ للمجرمین و یقولون حجرا محجورا) کہ جس دن یہ لوگ فرشتوں کو دیکھ لیں گے اس دن ان گنہگاروں کو کوئی خوشی نہ ہوگی اور فرشتے ان سے کہیں گے کہ آج جنت اور اس کی نعمتیں تم پر حرام کردی گئی ہیں۔ الحجر
8 الحجر
9 (٧) اس آیت کریمہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر کفار مکہ نے اس قرآن کا انکار کردیا ہے تو کیا ہوتا ہے اس کے خلاف ان کی کوئی سازش کارگر نہ ہوگی، کیونکہ وہ اللہ کا کلام ہے، اسی نے اسے اپنے رسول پر اتارا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرتا رہے گا، اس میں نبی کریم کے لیے تسلی کا سامان بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لیے بہت بڑی خوشخبری ہے، کہ اس مشعل ہدایت کو کوئی بجھا نہ سکے گا، اس کا نور عالمتاب قیامت تک انسانوں کو راہ دکھاتا رہے گا، آندھیاں چلیں گی، طوفان اٹھیں گے، بڑی بڑی شازشیں ہوں گی، لیکن جب تک قیامت نہیں آجاتی، یہ قرآن بغیر کسی ادنی تغیر و تحریف کے باقی رہے گا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت میں دوسرا جملہ (وانا لہ لحافظون) دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سا قرآن کی قیامت تک حفاظت کرتا رہے گا۔ الحجر
10 (٨) یہاں بھی نبی کریم کو تسلی دی جارہی ہے کہ اگر کفار قریش آپ کی تکذیب کرتے ہیں اور آپ کا مذاق اڑاتے ہیں تو اس سے آپ کو دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے، یہ تو ہمیشہ سے قوموں کا شیوہ رہا ہے کہ جب بھی کوئی رسول کسی قوم کے پاس آیا تو انہوں نے اس کا مذاق اڑایا۔ الحجر
11 الحجر
12 (٩) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس طرح ہم نے ان گزشتہ مجرموں کے دلوں میں گمراہی کو داخل کردیا تھا، کفار مکہ کے دلوں میں بھی کفر و ضلالت کو پیوست کردیں گے، پھر وہ اس قرآن پر ایمان نہیں لائیں گے، اور ہمیشہ سے اللہ کی یہی سنت جاری ہے کہ وہ ایسی قوموں کو ہلاک کرتا رہا ہے اور اپنے رسولوں اور ان پر ایمان لانے والوں کو غالب بناتا رہا ہے۔ الحجر
13 الحجر
14 (١٠) ان دونوں آیتوں سے مقصود کفار قریش کے خلاف حجت قائم کرنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم کو ان کے دلوں میں اس طرح داخل کردیا ہے جس طرح ان مومنوں کے دلوں میں، جنہوں نے قرآن کی تصدیق کی، لیکن کافروں نے جان بوجھ کر اس کی تکذیب کی اور مومنوں نے اس کی تصدیق کی، دونوں ہی نے اپنا اپنا کام علم و فہم کے بعد کیا، تاکہ کافروں کے پاس کوئی حجت باقی نہ رہے کہ انہوں نے تو قرآن کی معجزانہ قدروں کو سمجھا ہی نہیں تھا جس طرح مسلمانوں نے سمجھا تھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں ابھی سے (جبکہ مہلت ایمانی باقی ہے) یہ بتا دیا کہ انہوں نے جان بوجھ کر معاندانہ طور پر قرآن کا انکار کیا ہے، اسی لیئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ولو فتحنا علیھم) کہ اگر اللہ تعالیٰ انہیں صاف اور روشن راہ پر ڈال دے جس کے آثار و مظاہر کے مشاہدے کا تقاضا یہ ہو کہ آدمی فورا ایمان لے آئے، یعنی ان کے لیے آسمان کا دروازہ کھول دیا جائے اور وہ چڑھتے جائیں اور اللہ تعالیٰ کے عجائب و غرائب کا مشاہدہ بھی کرلیں جس کا لازمی نتیجہ ایمان ہونا چاہیے تب بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے اور کہیں گے کہ محمد نے ہماری آنکھوں کو مسحور کردیا ہے، جس کی وجہ سے حقائق ہمارے سامنے بدل کر آرہے ہیں۔ الحجر
15 الحجر
16 (١١) مندرجہ ذیل آیتوں میں اللہ نے اپنے عجائب قدرت اور غرائب تخلیق کے کچھ مظاہر بیان فرما کر اپنی وحدانیت پر استدلال کیا ہے۔ یہاں بروج سے مراد آفتاب و ماہتاب اور سات متحرک سیاروں کے وہ منازل ہیں جن کی تعداد تجربہ کے مطابق بارہ ہے۔ عربوں کے نزدیک زمانہ قدیم سے ستاروں کے منازل کا علم بڑا مفید مانا گیا ہے، انہی کے ذریعہ راستوں، وقتوں اور زرخیزی و قحط سالی وغیرہ کا پتہ چلاتے رہے ہیں، اس علم والوں کا خیال ہے کہ آسمان کے بارہ برج ہیں ان میں سے ہر تین برج عناصر اربعہ (آگ، پانی، مٹی، ہوا) میں سے ایک کے مزاج کے مطابق واقع ہوئے ہیں۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بارہوں برج اٹھائیس منازل میں منقسم ہیں، ہر برج کی دو اور ایک تہائی منزل ہے، اور آسما کے یہی بارہوں برج ساتوں متحرک سیاروں کے منازل ہیں۔ انہی سیاروں اور ان کے منازل میں ان کی گردش سے موسم کی تبدیلی، سردی، گرمی، خزاں، بہار اور بہت سی مفید معلومات حاصل کی جاتی ہیں، آفتاب و ماہتاب اور ستارے آسمان کی زینت بھی ہیں، اور اہل نظر کے لیے فکر و نظر کا سامان بھی مہیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو مردود و شیطان کی رسائی سے محفوظ کر رکھا ہے تاکہ ملا اعلی کی باتیں نہ سن سکیں، اور اگر ان میں سے کوئی تمرد اختیار کرتا ہے اور آگے بڑھ کر سننے کی کوشش کرتا ہے، تو آگ کا انگارہ اس کا پیچھا کر کے اسے ختم کردیتا ہے حسن بصری وغیرہ کی ہی رائے ہے کہ قبل اس کے کہ وہ ملا اعلی کی کوئی سنی ہوئی بات اپنے پیچھے والے جن کو بتائے، شہاب ثاقب اسے قتل کردیتا ہے، لیکن صحیح بکاری کی ابو ہریرہ سے مروی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کبھی تو وہ اپنے پیچھے والے جن کو سنی ہوئی بات بتا دیتا ہے، پھر شہاب ثاقب اس کا پیچھا کر کے اسے قتل کردیتا ہے، اور کبھی وہ بات بتانے سے پہلے ہی شہاب اسے قتل کردیتا ہے، لیکن امام شوکانی نے حسن بصری کے قول کو ہی ترجیح دی ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ آسمان کی خبریں انبیاء و رسل کے علاوہ دوسروں کو نہیں ملتی ہیں اور اسی لیئے کہانت کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ الحجر
17 الحجر
18 الحجر
19 (١٢) اللہ تعالیٰ کے مظاہر قدرت کا بیان ابھی جاری ہے کہ زمین کو انسانوں کے لیے فرش بنا کر پھیلا دیا، اور بڑے بڑے پہاڑوں کو اس کے اوپر جما دیا تاکہ حرکت نہ کرے، اور اپنی حکمت کے تقاضوں کے مطابق اس پر پودے اگائے، بایں طور کہ ان چیزوں میں کوئی شخص نہ کمی لاسکتا ہے اور نہ زیادتی، اور جس ہیئت و کیفیت میں انہیں پیدا کیا ہے اس سے عمدہ کوئی کیفیت نہیں ہوسکتی ہے۔ الحجر
20 (١٣) اور انسانوں کے کھانے پینے، پہننے کی چیزیں اور دیگر جتنی ضروریات زندگی ہوسکتی ہیں ان سب کو زمین پر مہیا کیا، اور جانوروں چوپایوں اور دیگر تمام مخلوقات کے لیے روزی فراہم کیا، اور اپنی قدرت و خالقیت پر استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کے پاس ہر چیز کا خزانہ ہے، وہ جب چاہے اور جتنا چاہے ظاہر کردے، لیکن وہ آسمان سے زمین پر اپنے بندوں کے لیے اتنا ہی اتارتا ہے جس کا اس کی مشیت تقاضا کرتی ہے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشوری آیت (٢٧) میں فرمایا ہے : (ولو بسط اللہ الرزق لعبادہ لبغوا فی الارض ولکن ینزل بقدر ما یشاء) کہ اگر اللہ اپنے بندوں کے لیے روزی کو خوب کشادہ کردیتا، تو وہ زمین پر سرکشی کرنے لگتے، لیکن اپنی مشیت کے مطبق جتنی چاہتا ہے اتنی دیتا ہے۔ الحجر
21 الحجر
22 (١٤) اور ٹھنڈی ہواؤں کے ذریعہ بادل کو (جو محض بھاپ ہوتی ہے) بارش کے پانی میں بدل دیتا ہے، پھر اسے زمین پر برساتا ہے جس سے انسان خود بھی سیراب ہوتا ہے اور اپنی زمینوں اور جانوروں کو بھی سیراب کرتا ہے، انسان اس بارش کے ایجاد کرنے اور اسے زمین پر برسانے سے بالکل عاجز ہے اور نہ ہی اسے وادیوں، پہاڑوں، چشموں اور کنووں تک پہنچا کر آئندہ کے لیے محفوظ کرنے کی قدرت رکھتا ہے، وہ تو اللہ تعالیٰ ہے جو ان تمام باتوں پر قادر ہے وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے، اور تمام مخلوقات کی ہلاکت کے بعد صرف اسی کی ذات باقی رہے گی۔ الحجر
23 الحجر
24 (١٥) اللہ تعالیٰ اگلے اور پچھلے تمام انسانوں کی خبر رکھتا ہے، آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کے وقت سے جتنے لوگ دنیا میں آئے اور گزر گئے اور جتنے لوگ قیامت تک پید اہوں گے سب کی خبر رکھتا ہے، کون انبیاء پر ایمان لایا، کس نے اللہ کی بندگی کی، اور کس نے نافرمانی کی، کوئی بات بھی اس سے مخفی نہیں ہے، اور یہ حقیقت جس طرح اس کے کمال قدرت کی دلیل ہے اسی طرح اس کے کمال علم کی بھی دلیل ہے، اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اول و آخر تمام انسانوں کو ان کی کثرت کے باوجود میدان محشر میں جمع کرے گا، اور اپنے علم و حکمت کے مطابق ان سے معاملہ کرے گا، کس آدمی کے اندر کون سی بری صفات پوشیدہ ہیں اس سے کچھ بھی مخفی نہیں ہے، سب کو ان کے اعمال و اخلاق کے مطابق بدلہ دے گا۔ الحجر
25 الحجر
26 (١٦) ان دونوں آیتوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال قدرت پر استدلال کیا ہے، اور بعث بعد الموت کے عقیدہ پر عقلی دلیل قائم کی ہے کہ جس مٹی کے گارے نے آدم کی تخلیق کے وقت تکوینی عمل اور روح کو قبول کیا، وہ یقینا اللہ کے حکم سے دوبارہ ان باتوں کو قبول کرے گا اور زندہ ہو کر میدان محشر کی طرف دوڑے گا۔ صلصال اس مٹی کو کہتے ہیں جو ایسی خشک ہو کہ ذرا سی ٹھوکر سے اس میں کھنک کی آواز پیدا ہو اور حما جو سڑ کر کالی ہوگئی ہو، اور مسنون حما کی صفت ہے، جس کا لغوی معنی بدلی ہوئی اور سڑی ہوئی ہے، اور سموم کا معنی ایسی شدید گرم ہوا ہے جو شدت حرارت کی وجہ سے رگ و پے میں گھس جاتی ہے۔ الحجر
27 الحجر
28 (١٧) آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ان کی تخلیق کے وقت جو عزت بخشی اسی کا ذکر ہورہا ہے، کہ فرشتوں کو انہیں سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا، تو سب ان کی تعظیم کے لیے سجدہ میں گر گئے، لیکن ابلیس نے کفر و عناد اور حسد و استکبار کی وجہ سے اس حکم سے سرتابی کی، اور اللہ سے کہا کہ میں آدم کو سجدہ نہیں کروں گا جسے تو نے سڑی ہوئی مٹی کے گارے سے پیدا کیا ہے، جبکہ مجھے آگ سے پیدا کیا ہے جو مٹی سے برتر و بالا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ لفظ صلصال کو بار بار دہرانے سے مقصود حضرت انس کو اس کی اصل کی یاد دہانی کراتے رہنا ہے، تاکہ کبر و نخوت میں پڑ کر تمرد و سرکشی کی زندگی نہ اختیار کرے۔ الحجر
29 الحجر
30 الحجر
31 الحجر
32 الحجر
33 الحجر
34 (١٨) منھا کی ضمیر سے مراد معزز و مکرم فرشتوں کی جماعت ہے اور رجیم سے مراد ہر خیر اور ہر عزت و تکریم سے محروم کیا گیا ہے۔ مفسر ابو السعود لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس جواب میں ابلیس کے شبہ کا جواب بھی ہے کہ جو شخص قیاس کے مقابلے میں نص کا انکار کردیتا ہے وہ اللہ کی نگاہ میں مردود و ملعون ہوتا ہے۔ علماء لکھتے ہیں کہ (قیامت کے دن تک) سے مراد یہ نہیں ہے کہ اس دن کے بعد اللہ تعالیٰ کی لعنت ابلیس سے منقطع ہوجائے گی، بلکہ اس سے مراد دائمی اور غیر منقطع لعنت ہے۔ الحجر
35 الحجر
36 (١٩) ابلیس نے جب قیامت کے دن تک اپنے اوپر لعنت کی بات سنی تو سمجھا کہ اس کا عذاب اس وقت تک ٹال دیا گیا ہے، اسی لیے اس نے اللہ سے طلب کیا کہ اسے اس دن تک موت نہ آئے، گویا اس نے یہ طلب کیا کہ اسے کبھی بھی موت نہ آئے، اس لیے کہ قیامت کے دن کے بعد کسی کو موت نہیں آئے گی، تو اللہ تعالیٰ نے اسے مہلت دے دی، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ آیت (٣٨) میں وقت معلوم سے مراد قیامت آنے سے پہلے کا وقت ہے، یعنی قیامت آجانے کے بعد ابلیس بھی مرجائے گا، اور دوسرے جنوں اور انسانوں کی طرح دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ الحجر
37 الحجر
38 الحجر
39 (٢٠) یعنی تو نے جو مجھے گمراہ کردیا ہے، تو میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جب تک آدمی کی اولاد دنیا میں رہے گی، میں دنیا کو ان کے سامنے خوبصورت بنا کر پیش کروں گا، اور انہیں گناہوں پر ابھاروں گا، لیکن جو تیرے مخلص بندے ہوں گے اور اپنے دین و اعمال کو اللہ کے لیے خالص کریں گے ان پر میرا داؤ نہیں چلے گا، تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ مجھ تک پہنچنے کی یہی سیدھی راہ ہے، جو اس پر چلتا رہے گا وہ تمہارے دام فریب میں نہیں آئے گا، ہاں جو لوگ راہ حق سے بھٹکے ہوئے ہوں گے اور گمراہی جن کی طبیعت ثانیہ بن چکی ہوگی، وہ تمہاری سازش کا شکار ہوجائیں گے، ایسے تمام لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہوگا، جس کے سات دروازے ہوں گے، ہر دروازے سے جہنمیوں کی ایک متعین تعداد اپنے اپنے برے اعمال کے مطابق داخل ہوگی، علی بن ابی طالب اور عکرمہ سے مروی ہے کہ سات دروازوں سے مراد جہنم کے سات طبقے ہیں، اور ابن عباس کی روایت کے مطابق ان کے اور ان میں داخل ہونے والوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں : جہنم جو سب سے اوپر کا طبقہ ہے، اہل توحید کے لیے جو اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد اللہ کی رحمت خاص سے جہنم سے نکال کر جنت میں بھیج دیئے جائیں گے، لظی یوہد کے لی، حطمہ نصرانیوں کے لیے، سعیر بے دینوں کے لیے، سقر مجوسیوں کے لیے، جحیم مشرکوں کے لیے اور ہاویہ مفاقوں کے لیے، جو سب سے نیچے کا طبقہ ہے۔ الحجر
40 الحجر
41 الحجر
42 الحجر
43 الحجر
44 الحجر
45 (٢١) قرآن کریم اپنے معروف طریقہ کے مطابق، جہنم اور اہل جہنم کا حال بیان کرنے کے بعد، اب اہل جنت کا حال بیا کر رہا ہے۔ جمہور صحابہ اور تابعین کے نزدیک یہاں سے مرد شرک باللہ سے بچنے والے ہیں اور ایک قول کے مطابق ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو تمام گناہوں سے بچتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے جس کی خبر اس آیت میں دی گئی ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے کہے گا کہ تم لوگ پوری سلامتی کے ساتھ وار تمام آفات و بلیات سے محفوظ و مامون، جنت میں داخل ہوجاؤ۔ الحجر
46 الحجر
47 (٢٢) اللہ تعالیٰ اہل جنت کے سینوں میں کوئی ایسا جذبہ نہیں رہنے دے گا جو ان کی خوشیوں کو پامال کرے اور ان کے دل و دماغ میں تکدر پیدا کرے، اس لیے ان کے سینوں سے بغض و عداوت اور حسد و کینہ کو یکسر نکال دے گا، اور جب ان کے سینے ایسے جذبوں سے پاک ہوجائیں گے تو آپس میں بھائی بن کر آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھیں گے، وہاں انہیں کوئی تھکن اور کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوگی، اس لیے کہ جنت میں کوئی ایسی بات نہیں ہوگی جو تکلیف کا باعث ہو، وہاں تو خوشیاں ہی خوشیاں اور راحت ہی راحت ہوگی، اہل جنت جس چیز کی بھی خواہش کریں گے از خود ان کے پاس آجائے گی، اور اہل جنت وہاں سے کبھی بھی نہیں نکالے جائیں گے۔ الحجر
48 الحجر
49 (٢٣) گزشتہ آیتوں میں جنت و جہنم کی جو بات آئی ہے یہ دونوں آیتیں اسی کا تتمہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو خطاب کر کے کہا ہے کہ آپ میرے بندوں کو اس بات کی خبر دے دیجیے کہ جو اپنے گناہوں سے تائب ہوگا اور ایمان و عمل صالح کی زندگی اختیار کرے گا، اس کے گناہوں کو میں معاف کردوں گا اور اس کے حال پر رحم کروں گا، اور جو شخص اپنے کفر و عصیان پر مصر رہے گا تو اسے جان لینا چاہیے کہ میرا عذاب بڑا ہی دردناک ہے۔ امام بخاری نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب رحمت کو پیدا کیا، تو اسے سو حصوں میں تقسیم کردیا، نناوے حصوں کو اپنے پاس محفوظ رکھا اور ایک حصہ کو اپنی تمام مخلوقات میں تقسیم کردیا، اللہ کے پاس رحمت کا جو خزانہ ہے، اگر اس کا علم کافر ہوجائے تو کبھی اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو، اللہ کے پاس عذاب کی جو مقدار ہے اگر سے مومن جان لے تو جہنم کی آگ سے کبھی اپنے آپ کو مامون نہ سمجھے۔ معلوم ہوا کہ مومن کو امید و ناامیدی اور خوف و رجاء کے درمیان جو معتدل راہ ہے اسے اختیار کرنا چاہیے، نہ اللہ کی رحمت پر بھروسہ کر کے ایمان و عمل کی راہ کو چھوڑ دے، اور نہ ہی اس کی رحمت سے ناامید ہو کر بیٹھ جائے۔ الحجر
50 الحجر
51 (٢٤) جن فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کی قوم کو ہلاک کرنے کے لیے بھیجا تھا، وہ پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس گئے تھے، اور انہیں اسحاق (علیہ السلام) کی خوشخبری دی تھی، چونکہ اس واقعہ میں خوف و رجاء، خوشخبری اور ضمنی طور پر قوم لوط کی ہلاکت کی خبر تھی، اس لیے اس سے گزشتہ آیت کے مضمون کی تائید ہورہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکوں کے لیے غور رحیم ہے اور ظالموں کے لیے اس کا عذاب بہت ہی دردناک ہے۔ یہ واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ سورۃ ہود میں گزر چکا ہے، فرشتے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس انسانوں کی شکل میں مہمان بن کر آئے اور سلام کیا تو وہ بہت خوش ہوئے، لیکن جب انہوں نے کھانے اور گوشت کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا، تو ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے بارے میں شبہ ہوا اور ڈرے کہ شاید ان کی نیت اچھی نہیں ہے، تو فرشتوں نے انہیں فورا بتایا کہ ہم اللہ کے فرشتے ہیں، آپ خائف نہ ہوں اور ہم آپ کو ایسے بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں جو بڑا عالم ہوگا، ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ مجھے تم بڑھاپے کے باوجود ایسی خوشخبری دے رہے ہو یہ کیسی عجیب بات ہے؟ اور کیسی انہونی خوشخبری دے رہے ہو؟ فرشتوں نے مزید تاکید کے طور پر کہا کہ ہم نے آپ کو ایسی یقینی بات کی خوشخبری دی ہے جس کے نہ ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے، اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور اس کا وعدہ ہے، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، آپ ناامید نہ ہوں، تو ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ میں ہرگز ناامید نہیں ہوں، ناامید ہونا تو گمراہوں کا طریقہ ہے، میں تو تمہاری خوشخبری کے مطابق امید کرتا ہوں کہ اللہ مجھے بیٹا دے گا، مجھے تو حیرت صرف اس لیے ہوئی ہے کہ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا ہے۔ الحجر
52 الحجر
53 الحجر
54 الحجر
55 الحجر
56 الحجر
57 (٢٥) ابراہیم (علیہ السلام) نے سمجھ لیا تھا کہ فرشتے صرف انہیں بیٹے کی خوشخبری دینے کے لیے آسمان سے نہیں اترے ہیں، ضرور کوئی اور بات بھی ہے، اسی لیے انہوں نے پوچھا کہ تماہری آمد کا دوسرا مقصد کیا ہے؟ تو انہوں نے بتای کہ ہم ایک مجرم و گناہگار قوم کو ہلاک کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں، پھر فورا ہی آل لوط کو مستثنی قرار دی جو مجرم نہیں تھے اور تاکید کے طور پر کہا کہ ہم آل لوط کو یقینا نجات دیں گے۔ اور آل لوط سے مراد ان پر ایمان لانے والے تھے، اسی لیے لوط (علیہ السلام) کی بیوی کے بارے میں فورا ہی کہا گیا کہ وہ کافروں کے ساتھ رہ جائے گی اور ضرور ہلاک کی جائے گی، اس لیے کہ وہ ایمان نہیں لائی تھی۔ الحجر
58 الحجر
59 الحجر
60 الحجر
61 (٢٦) جب فرشتے خوبصورت نوجوانوں کی شکل میں لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے، تو انہوں نے کہا کہ میں تمہیں نہیں پہچان رہا ہوں، اور نہ تمہاری آمد کی غرض مجھے معلوم ہے، کہیں تم لوگ کسی بری نیت سے تو نہیں آئے ہو؟ تو فرشتوں نے کہا کہ ہم وہ عذاب لے کر آئے ہیں جس میں آپ کی قوم کے لوگ شک کرتے تھے اور آپ کو جھٹلاتے تھے، ہم وہ امیر یقینی لے کر آئے ہیں جس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور جو خبر ہم آپ کو دے رہے ہیں اس میں ہم بالکل سچے ہیں۔ الحجر
62 الحجر
63 الحجر
64 الحجر
65 (٢٧) آپ رات کے آخری پہر میں اپنے مسلمان ساتھیوں کو لے کر یہاں سے نکل جایئے، اور آپ ان کے پیچھے رہیے، تاکہ انہیں تیز چلنے پر ابھارتے رہیئے، اور خیال رکھیے کہ کوئی پیچھے نہ رہ جائے اور نہ کوئی پیچھے مڑ کر دیکھے، اور شام کے اس علاقے میں چلے جایئے جہاں جانے کا آپ لوگوں کو حکم دیا گیا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ لوگ مصر چلے گئے، ایک تیسرا قول ہے کہ الخلیل شہر کی طرف چلے گئے اور کسی نے کہا ہے کہ قوم لوط کی ایک دوسری بستی کی طرف چلے گئے۔ الحجر
66 (٢٨) اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی اس عذاب کی خبر پہلے ہی دے دی تھی کہ صبح کے وقت تمام کفار ہلاک ہوجائیں گے اور ان میں سے کوئی نہیں بچے گا۔ جب (سدوم) شہر والوں کو خوبصورت نوجوانوں کی آمد کی اطلاع ملی تو خوش ہونے لگے کہ آج ارتکاب لواطت کا اچھا موقع ہاتھ آیا ہے۔ لوط (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ یہ میرے مہمان ہیں اللہ کے لیے ان کے ساتھ بدکاری کر کے مجھے رسوا نہ کرو، اس لیے کہ مہمان کی رسوائی میزبان کی رسوائی ہوتی ہے، اور ان کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اور مجھے ذلیل نہ کرو، تو ان لوگوں نے کہا، کیا ہم نے تمہیں بارہا نہیں کہا ہے کہ جب ہم کسی کے ساتھ بدکاری کرنا چاہیں تو ہمیں روکا نہ کرو۔ ایک قول یہ ہے کہ انہوں نے لوط (علیہ السلام) کو پہلے سے منع کر رکھا تھا کہ وہ لوگوں کو اپنا مہمان نہ بنایا کریں؟ لوط (علیہ السلام) نے کہا، اگر تمہیں اپنی خواہش پوری کرنی ہے تو یہ ہماری بیٹیاں ہیں، ان سے تم لوگ شادی کرلو (سورہ ہود کی تفسیر میں اس کے بارے میں تفصیل کے ساتھ لکھا جاچکا ہے) الحجر
67 الحجر
68 الحجر
69 الحجر
70 الحجر
71 الحجر
72 (٢٩) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کی باقی زندگی کی قسم کھا کر کہا کہ سدوم بستی کے رہنے والے بیشک اپنی گمراہیوں میں بھٹک رہے تھے، قاضی عیاض نے مفسرین کا اس پر اتفاق نقل کیا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کی زندگی کی قسم کھائی ہے، لیکن ابن العربی کہتے ہیں کہ اس بات سے کون سی چیز مانع ہے کہ اللہ تعالیٰ لوط (علیہ السلام) کی زندگی کی قسم کھائے، اور جب اللہ لوط کی زندگی کی قسم کھا سکتا ہے، تو نبی کریم کی زندگی کی قسم بدرجہ اولی کھا سکتا ہے، قرطبی نے بھی اس رائے کی تائید کی ہے ور کہا ہے کہ لوط (علیہ السلام) کے قصہ کے درمیان نبی کریم کی زندگی کی قسم کھانا جملہ معترضہ ہوجائے گا۔ حافظ ابن القیم نے اپنی کتاب اقسام القرآن میں جمہور مفسرین کی رائے کی تائید کی ہے، بلکہ یہاں حیاۃ لوط مراد لینے کو باطل قرار دیا ہے۔ ابو الجوزاء نے اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کی زندگی کے علاوہ کبھی کسی دوسرے کی زندگی کی قسم نہیں کھائی ہے۔ قوم لوط پر اللہ تعالیٰ کا عذاب ایک زبردست چیخ کی شکل میں صبح کے وقت نازل ہوا، اس کے بعد فرشتوں نے پوری بستی کو الٹ دیا، اور ان پر پتھروں کی بارش کردی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یقینا ان باتوں میں غور کرنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں، اور وہ بستی مدینہ سے شام جانے والوں کے راستوں میں واقع ہے، اس راہ کا ہر مسافر اس کے باقی ماندہ آثار کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے، یقینا ایمان والوں کو اس سے بڑی عبرت و نصیحت ملتی ہے۔ الحجر
73 (٣٠) حافظ سیوطی نے الاکلیل میں لکھا ہے کہ یہ آیت کریمہ علم فراست کے لیے دلیلہے، ترمذی نے ابو سعید سے مرفوعا روایت کی ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو، اس لیے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے، پھر انہوں نے یہی آیت پڑھی، اس حدیث کو اگرچہ شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (الضعیفہ ١٨٢١) لیکن اس کا مفہوم بہت حد تک صحیح ہے۔ علم فراست یہ ہے کہ انسانوں کی ہیئت کذائی، ان کی شکلوں، رنگوں اور اقوال سے ان کے اخلاق اور فضائل و رذائل پر استدلال کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت (٢٧٣) میں بھیک نہ مانگنے والے غریب مسلمانوں کے بارے میں نبی کریم کو خطاب کر کے فرمایا ہے : (تعرفھم بسیماھم) کہ آپ انہیں ان کے چہروں سے پہچان لیں گے، اور سورۃ محمد آیت (٣٠) میں منافقین کے بارے میں فرمایا ہے : (ولتعرفنھم فی لحن القول) کہ آپ انہیں ان کے انداز گفتگو سے ہی پہچان لیں گے، معلوم ہوا کہ علم فراست ایک حقیقت ہے، جس کا قرآن اعتراف کرتا ہے، ور انسانوں کے ظاہری احوال کے ذریعہ ان کے بہت سے باطنی اخلاق اور خصلتوں کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔ الحجر
74 الحجر
75 الحجر
76 الحجر
77 الحجر
78 (٣١) اصحاب ایکہ سے مراد شعیب (علیہ السلام) کی قوم ہے، یہ لوگ ایک ایسے علاقہ کے رہنے والے تھے جہاں کثرت سے درخت پائے جاتے تھے ان کا ظلم یہ تھا کہ وہ اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک ٹھہراتے تھے راہ چلتے مسافروں کو لوٹ لیتے تھے، اور ناپ تول میں کمی کرتے تھے، تو اللہ نے شعیب (علیہ السلام) کو ان کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا، لیکن انہوں نے ان کی تکذیب کی، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کرنے کے لیے ایسا ایسا بادل بھیج دیا جس میں آگ تھی جس نے انہیں جلا کر خاکستر کردیا، قوم لوط اور قوم شعیب کی بستیاں شاہراہ پر ایک دوسرے کے قریب تھیں۔ الحجر
79 الحجر
80 (٣٢) اصحاب حجر سے مراد قوم ثمود ہے، حجر مدینہ منورہ اور شام کے درمیان ایک مشہور وادی ہے جہاں یہ لوگ رہتے تھے، بلاد شام کے حجاج کا گزر اس وادی سے ہوا کرتا ہے، ان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے صالح (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا تھا، جن کی انہوں نے تکذیب کی تھی، اور مرسلین جمع کا صیغہ اس لیے آیا ہے کہ جو ایک نبی کی تکذیب کرتا ہے گویا وہ سارے نبیوں کی تکذیب کردیتا ہے، انہوں نے صالح (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ اگر وہ نبی ہیں تو پہاڑ سے اونٹنی نکال کر دکھلائیں، صالح (علیہ السلام) نے دعا کی اور اللہ کے حکم سے پہاڑ سے اونٹنی نکل آئی، لیکن جن کے دلوں پر اللہ کفر کی مہر لگا دے انہیں کب ہدایت مل سکتی ہے، انہوں نے اس اونٹنی کو ہلاک کردیا اور ایمان نہیں لائے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں تین دن مہلت دی اور اس کے بعد انہیں ایک انتہائی شدید اور خطرناک چیخ کے ذریعہ ہلاک کردیا، اور ان کی دولت اور پہاڑوں کو کھود کر بنائے گئے مکانات انہیں اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے، ان ایک صفت یہ بھی تھی کہ کبر و غرور کی وجہ سے اپنی طاقت کے اظہار کے لیے بغیر ضرورت پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر مکانات بناتے تھے۔ بخاری و مسلم نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ نبی کریم تبوک جاتے ہوئے وہاں سے جب گزرے تو اپنا سر جھکا لیا اور تیزی کے ساتھ گزر جانے کے لیے سواری کو مہمیز لگائی اور صحابہ کرام سے کہا کہ عذاب دی گئی قوموں کے گھروں میں روتے ہوئے داخل ہو اور اگر رونا نہ آئے تو روتی شکل بنا لو، اس ڈر سے کہ کہیں تمہیں بھی انہیں جیسا عذاب نہ لاحق ہوجائے۔ الحجر
81 الحجر
82 الحجر
83 الحجر
84 الحجر
85 (٣٣) اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کو بے مقصد و بے کار نہیں پیدا کیا ہے، بلکہ اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ انہیں دیکھ کر ان کے خالق کو یاد کیا جائے اور اس کا شکر ادا کیا جائے، اس لیے جو اس کی ناشکری کرے گا اور کفر کی راہ اختیار کرے گا وہ اسے ہلاک کردے گا، جیسا کہ مذکورہ بالا قوموں کا انجام ہوا کہ جب انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی اور اس کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر گزار نہیں ہوئیں تو اللہ نے انہیں ہلاک کردیا، ایسی نافرمان قوموں کا یہ انجام بد دنیا میں ہوتا ہے اور آخرت میں تو انہیں بڑا ہی دردناک عذاب دیا جائے گا، جس کی آمد میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ اپنی قوم کے ساتھ عفو و درگزر سے کام لیجیے، اور ان کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے میں عجلت سے کام نہ لیجیے۔ سورۃ الزخرف آیت (٨٩) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (فاصفح عنھم وقل سلم فسوف یعلمون) کہ آپ انہیں معاف کردیجیے اور سلام کہہ کر رخصت ہوجایئے، پس وہ عنقریب جان لیں گے۔ الحجر
86 (٣٤) اوپر قیامت کے برپا ہونے کی جو بات کی گئی ہے اسی کی مزید تاکید کے طور پر کہا جارہا ہے کہ رب العالمین ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے، کوئی شے اسے عاجز نہیں کرسکتی ہے، وہ ان تمام اجسام کی خبر رکھتا ہے جو مر کر اور مٹی میں گل سڑ کر ختم ہوگئے ہیں۔ سورۃ یسین آیت (٨١) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (اولیس الذی خلق السماوات والارض بقدار علی ان یخلق مثلھم بلی وھو الخلاق العلیم) کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے کیا وہ ان جیسوں کے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، بیشک قادر ہے اور وہی بہت بڑا پیدا کرنے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ الحجر
87 (٣٥) نبی کریم کو کفار قریش کی اذیتوں پر صبر کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ آپ کو تو اللہ نے بے شمار عظیم نعمتوں سے نواز رکھا ہے، جن میں سب سے بڑی نعمت سورۃ الفاتحہ اور پورا قرآن کریم ہے، اس لیے آپ دل چھوٹا نہ کیجیے اور پیغام رسانی کے کام میں لگے رہیے، کیونکہ آدمی جب اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں کو یاد کرتا ہے تو دعوت کی راہ کی مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں۔ الحجر
88 (٣٦) سورۃ الفاتحہ اور قرآن کریم جیسی نعمتوں کے مقابلے میں دنیا کی ہر شے حقیر ہے، اس لیے اس نعمت عظمی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیے، اور اہل دنیا کو ہم نے جو عارضی نعمتیں دے رکھی ہیں ان کی خواہش نہ کیجیے، وہ نعمتیں ہم نے انہیں اس لیے دی ہیں تاکہ ہم انہیں آزمائیں اور جو اس آزمائش میں کامیاب نہیں ہوگا، اس کے لیے وہ نعمتیں وبال جان بن جائیں گی، اور کفار قریش اگر ایمان نہیں لاتے ہیں تو غم نہ کیجئیے اور جو غریب اور کمزور مسلمان آپ کے ساتھ ہیں ان کے ساتھ تواضع اختیار کیجیے، انہیں اپنے آپ سے قریب کیجیے اور روسائے قریش کے کفر و عناد کی پرواہ نہ کیجیے۔ الحجر
89 (٣٧) اور کفار قریش سے کہہ دیجیے کہ میں اللہ کی طرف سے لوگوں کو ایسے دردناک عذاب سے ڈرانے والا ہوں جیسا عذاب اللہ نے قوم صالح کے ان کافروں پر نازل کیا تھا جنہوں نے ان کی مخالفت اور تکذیب کی تھی اور انہیں قتل کرنے کی آپس میں قسم کھائی تھی۔ سورۃ النمل آیت (٤٩) میں اللہ تعالیٰ نے انہی کافروں کے بارے میں فرمایا ہے : (قالوا تقاسموا باللہ لنبیتنہ واھلہ ثم لنقولن لولیہ ما شھدنا مھلک اھلہ وانا لصادقون) انہوں نے آپس میں بڑی قسمیں کھا کھا کر عہد کیا کہ رات ہی کو صالح اور اس کے گھر والوں پر ہم چھاپہ ماریں گے اور اس کے وارثوں سے صاف کہہ دیں گے کہ ہم اس کے اہل کی ہلاکت کے وقت موجود نہ تھے اور ہم بالکل سچے ہیں۔ فراء کا قول ہے کہ مقتسمون سے مراد وہ سولہ کفار قریش ہیں جنہیں ولید بن مغیرہ نے مکہ میں داخل ہونے کے راستوں پر متعین کیا تھا، تاکہ وہ ہر آنے والے کو اسلام اور رسول اللہ سے برگشتہ کریں۔ ایک تیسرا قول یہ ہے کہ ان سے مراد کفار قریش کے وہ لوگ ہیں جو قرآن کریم کا مذاق اڑانے کے لیے اس کی سورتوں کو آپس میں بانٹتے تھے، اور کہتے تھے کہ یہ سورت میری ہے اور یہ تیری چوتھا قول یہ ہے کہ ان سے مراد قریش کے وہ لوگ ہیں جو قرآن کریم کی تقسیم کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اس کا بعض حصہ شعر، بعض جادو اور بعض گزشتہ قوموں کے واقعات ہیں، پانچواں قول یہ ہے کہ ان سے مراد یہود و نصاری ہیں، جنہوں نے قرآن کریم کے بعض حصہ کی تصدیق کی اور بعض کا انکار کردیا۔ الحجر
90 الحجر
91 (٣٨) پہلے قول کے مطابق یہاں قرآن سے مراد وہ آسمانی کتاب ہوگی جس کی اتباع کا قوم صالح کو حکم دیا گیا تھا کہ انہوں نے اس آسمانی کتاب کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے اور ان کے قتل کی سازش کی، باقی اوال کے مطابق قرآن سے مراد قرآن کریم ہوگا جو نبی کریم پر نازل ہوا تھا۔ الحجر
92 (٣٩) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام کافروں کے اعمال کا محاسبہ کرے گا جو وہ دنیا میں کرتے رہے تھے، ایک دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں مومن و کافر تمام بنی نوع انسان مراد ہیں، اس قول کی تائید قرآن کریم کی ان آیتوں سے ہوتی ہے جن میں تمام بنی نوع انسان سے پوچھے جانے کی صراحت آئی ہے۔ مثلا سورۃ الغاشیہ کی آیات (٢٥، ٢٦) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (ان الینا ایابھم ثم ان علینا حسابھم) بیشک ہماری طرف ان کا لوٹنا ہے، پھر ان سے حساب لینا ہمارے ہی ذمہ ہے۔ صاحب محاسن التنزیل کی رائے ہے کہ ( عما کانوا یعملون) سے مراد کفار قریش کا قرآن کریم کے بارے میں عمل تقسیم ہے کہ اس کا بعض حصہ شعر، بعض جادو اور بعض گزشتہ اقوام کے واقعات ہیں انہی کافروں کو اس آیت میں دھمکی دی گئی ہے۔ الحجر
93 الحجر
94 (٤٠) واحدی نے مفسرین کا قول نقل کیا ہے کہ اس آیت کے نزول سے قبل نبی کریم لوگوں کو اسلام کی طرف پوشیدہ طور پر بلاتے رہے۔ جب اس آیت میں آپ کو حکم دیا گیا کہ وہ کھل کر لوگوں کے سامنے آئیں اور اسلام کی دعوت پیش کریں اور مشرکوں کی پرواہ نہ کریں تو آپ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ باہر نکل کر لوگوں کو اسلام کی طرف بلانے لگے۔ الحجر
95 (٤١) اس آیت کریمہ کے ذریعہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ضمانت دے دی کہ جو رسائے قریش آپ کا مذاق اڑاتے ہیں ہم ان سے نمٹ لیں گے، وہ آپ کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکیں گے، ابن اسحاق نے عروہ بن زبیر سے روایت کی ہے کہ آپ کا مذاق اڑانے والے کافروں میں پانچ بڑے مشہور تھے۔ ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، اسود بن مطلب بن حارث بن زمعہ، اسود بن عبد یغوث اور حارث بن طلاطلہ، اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ایک ہی دن ہلاک کردیا۔ عبداللہ بن مسعود کی ایک رویت سے معلوم ہوتا ہے جسے امام بخاری نے کتاب الوضو میں روایت کی ہے کہ وہ کفار قریش ابو جہل، عتبہ، شیبہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط تھے، جو میدان بدر میں بری طرح قتل کردیئے گئے، اور دیگر مقتولین کے ساتھ ایک کنواں میں ڈال دیئے گئے۔ انہی لوگوں نے کچھ دیگر کافروں کے ساتھ مل کر رسول اللہ کے کندھے پر کعبہ کے سامنے نماز پڑھنے کی حالت میں اونٹ کی اوجھڑی ڈال دی تھی، تو آپ نے بددعا کردی تھی کہ اے اللہ ! تو اہل قریش اور ان بدمعاشوں سے نمٹ لے، الحجر
96 الحجر
97 (٤٢) اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی ہے کہ کفار قریش کی استہزا آمیز باتوں سے آپ کو جو تکلیف پہنچتی ہے اس کی اللہ کو خبر ہے، انسانی فطرت کا یہی تقاضا ہے، لیکن آپ صبر سے کام لیں اور تسبیح و تحمید میں مشغول رہیں اور نماز پڑھا کریں، تو آپ کا غلم ہلکا ہوجائے گا اور ذہنی اذیت کم ہوجائے گی، اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت (٤٥) میں فرمایا ہے : (واستعینوا بالصبر والصلاۃ) کہ آپ صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ سے مدد مانگیں۔ اور سورۃ الرعد آیت (٢٨) میں فرمایا ہے : (الا بذکر اللہ تطمئن القلوب) کہ آگاہ رہو ! اللہ کی یاد سے ہی دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔ الحجر
98 الحجر
99 (٤٣) حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلیل ہے کہ نماز اور دوسری عبادتیں انسان پر اسی وقت تک واجب ہیں جب تک اس کی عقل کام کرتی رہے، اور اس سے ملحدین کی اس رائے کی بھی تردید ہوتی ہے کہ یقین سے مراد معرفت ہے اور جب کوئی آدمی مقام معرفت تک پہنچ جائے گا تو تمام عبادات و اعمال اس سے ساقط ہوجائیں گے۔ یہ کفر و ضلالت اور جہالت ہے، اس لیے کہ انبیائے کرام اور ان کے صحابہ اللہ کا مقام تمام انسانوں سے زیادہ پہچانتے تھے، اور اس کے حقوق و صفات کی معرفت تمام لوگوں کی بہ نسبت انہیں زیادہ حاصل تھی اس کے باوجود وہ تمام لوگوں سے زیادہ اللہ کی عبادت کرتے اور اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک نیک کاموں کی پابندی کرتے تھے۔ الحجر
0 سورۃ النحل مکی ہے، اس میں ایک سو اٹھائیس آیتیں اور سولہ رکوع ہیں۔ نام : اس کا نام آیت (٦٨) (واوحی ربک الی النحل ان اتخذی من الجبال یوتا ومن الشجر ومما یعرشون) سے ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول : حسن، عکرمہ، عطا اور جابر بن عبداللہ کے نزدیک پوری سورت مکی ہے، ابن عباس اور ابو زبیر کے نزدیک تین آیتوں کے سوا پوری سورت مکی ہے، وہ آیتیں آیت (٩٥) (ولا تشتروا بعھد اللہ ثمنا قلیلا) سے (یعملون) تک ہیں۔ قتادہ کے نزدیک پانچ آیتوں (١١، ١٢٦، ١٢٧، ١٢٨ اور ا ٤١) کے علاوہ پوری سورت مکی ہے۔ اس سورت میں بھی عام سورتوں کی طرح اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بنانے کی تردید کی گئی ہے اور اللہ کی وحدانیت پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے، اور نبی کریم پر ایمان نہ لانے پر زجر و توبیخ اور اس کے برے نتائج بیان کیے گئے ہیں۔ النحل
1 (١) قرآن کریم کی مختلف آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ نبی کریم کے وعدہ کے مطابق قیامت آجانے یا انہیں ہلاک کیے جانے کی بڑی جلدی مچاتے تھے، اور اس سے مقصود آپ کا مذاق اڑانا اور قیامت کی تکذیب کرنی ہوتی تھی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانفال کی آیت (٣٢) میں نضر بن حارث کا قول نقل کیا ہے : (اللھم ان کان ھذا ھو الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السماء اوئتنا بعذاب الیم) چنانچہ چند ہی سال کے بعد وہ میدان بدر میں مارا گیا اور جہنم رسید ہوا، اس آیت کریمہ میں ایسے ہی کافروں سے کہا گیا ہے کہ تم سے جس قیامت کا وعدہ کیا گیا ہے اس کا وقوع پذیر ہونا ایسا امر یقینی ہے کہ گویا وہ آچکی، اس لیے تمہیں اس کے جلد آجانے کی تمنا نہیں کرنی چاہیے، جب وہ آجائے گی تو اللہ کا دردناک عذاب تمہیں اپنے گھیرے میں لے لے گا اور تم ہرگز اس سے جان بر نہ ہوسکو گے۔ آیت کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے بتوں اور جھوٹے معبودوں سے اپنی برات اور برتری بیان کی ہے، جن کی محبت میں پڑ کر وہ لوگ روز قیامت اللہ کے سامنے حاضر ہونے کی تکذیب کرتے تھے۔ النحل
2 (٢) نبی کریم نے جب مشرکین کو قرب قیامت اور اس کے امر یقینی ہونے کی خبر دی اور اس بارے میں عجلت نہ کرنے کی نصیحت کی تو ان کے ذہنوں میں اللہ کے ساتھ نبی کریم کے ذریعہ اتصال (یعنی وحی) کی صداقت کے بارے میں شک و شبہ پیدا ہوا، اس آیت میں اسی شبہ کا ازالہ کیا جارہا ہے، کہ وہ ذات برحق فرشتوں کو وحی دے کر اپنے بندوں میں سے جس کے پاس چاہتا ہے بھیجتا ہے، تاکہ وہ بنی نوع انسان کو ڈرائیں اور انہیں بتائیں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے، اس لیے صرف اسی سے ڈرنا چاہیے، اس آیت کریمہ اور کئی دیگر آیتوں میں (وحی) کو روح سے تعبیر کیا گیا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مردہ دلوں کو زندگی بخشتا ہے۔ النحل
3 (٣) آیت (٣) سے آٹھویں آیت تک اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین، انسانوں اور بہائم اور انسانوں کے لیے کئی مفید اشیاء کی تخلیق کا ذکر کر کے اپنی وحدانیت پر دلیل قائم کی ہے، اس لیے کہ جب ان چیزوں کو اس کے علاوہ کسی اور نے پیدا نہیں کیا ہے تو یقینا اس کا کوئی ساجھی نہیں ہے اور عبادت بھی صرف اسی کی ہونی چاہیے، اس نے آسمانوں اور زمین کو اور اشرف المخلوقات انسان کو ایک قطرہ حقیر سے اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ یہ سب اس کی قدرت اور وحدانیت پر دلالت کریں، لیکن یہ انسان بڑا ہونے کے بعد اپنے پیدا کرنے والے کی مخالفت پر آمادہ ہوجاتا ہے، اور اس کی وحدانیت کا انکار کردیتا ہے، اور اس کے رسولوں کے خلاف محاذ آرائی کرنے لگتا ہے، حالانکہ اس نے اسے اس لیے پیدا کیا تھا تاکہ اس کا مخلص و مطیع بندہ بن کر رہے۔ اللہ نے انسانوں کے فائدے کے لیے چوپایوں کو پیدا کیا ہے، جن کے بال اور اون سے آدمی کپڑا تیار کر کے سردی سے بچتا ہے، ان کے دودھ پیتا ہے، ان پر سواری کرتا ہے، ان کے گوشت کھاتا ہے، اور اپنی فطرت کے مطابق ان جانوروں کو اپنی ملکیت میں دیکھ کر خوش ہوتا ہے کہ اس کے پاس یہ جائیداد بھی ہے، اور اونٹوں پر بوجھ لاد کر ایسے شہروں تک اسے منتقل کرتا ہے، جہاں بغیر ان کے اپنا سامان منتقل نہیں کرسکتا تھا، اور اللہ نے گھوڑے، خچر اور گدھے پیدا کیے ہیں جنہیں انسان بطور سواری استعمال کرتا ہے، اور ان جانوروں کی موجودگی سے آدمی کی دنیاوی زینت و زیبائش میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ مالک، ابو حنیفہ اور ان دونوں کے اصحاب اور اوزاعی و مجاہد وغیرھم نے آیت (٨) سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ خچر اور گدھے کی طرح گھوڑے کا گوشت بھی حرام ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں آیتوں کی منفعت صرف سواری کرنا بتایا ہے، اور اس لیے بھی کہ ان کا ذکر حلال جانوروں سے الگ کیا ہے، اگر اس کا گوشت کھانا جائز ہوتا تو دیگر چوپایوں سے الگ اس کا ذکر نہ کیا جاتا، لیکن جمہور فقہا و محدثین کے نزدیک گھوڑے کا گوشت حلال ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں اس کے منافع میں سے سواری کا ذکر کرنا اس کے گوشت کی حلت کے منافی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ صحیح احادیث سے اس کی حلت ثابت ہے، بخاری و مسلم نے اسماء سے روایت کی ہے کہ ہم نے رسول اللہ کے زمانے میں ایک گھوڑا ذبح کر کے اس کا گوشت کھایا، اور ترمذی، نسائی وغیرھم نے جابر سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے ہمیں گھوڑے کا گوشت کھلایا اور پالتو گدھوں کے گوشت سے منع کیا۔ اور بخاری و مسلم نے جابر سے روایت کی ہے کہ رسول للہ نے ہمیں پالتو گدھوں کے گوشت سے منع کیا اور گھوڑے کے گوشت کی اجازت دی۔ النحل
4 النحل
5 النحل
6 النحل
7 النحل
8 النحل
9 (٤) اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر مذکورہ بالا تمام احسانات سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے راہ مستقیم (یعنی دین اسلام) کو ان کے لیے بیان کردیا، جس پر چل کر وہ اس کی رضا کو حاصل کرسکتے ہیں، اور اس کے عقاب و عذاب سے بچ سکتے ہیں اس کے علاوہ جتنے بھی ادیان و مذاہب ہیں چاہے وہ یہودیت ہو یا نصرانیت، مجوسیت ہو یا ہندوازم، سب کے سب راہ راست سے ہٹے ہوئے ہیں، ان پر چل کر اللہ کی رضا کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ آیت میں (ومنھا جائر) سے یہی باطل مذہب مراد ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام بنی نوع انسان کو راہ راست پر لاکھڑا کردیتا، اس کی قدرت سے یہ بات بعید نہیں تھی لیکن اس نے ایسا نہیں چاہا، بلکہ خیر و شر کی دونوں راہوں کو بیان کردیا اور انسان کو اختیار دے دیا کہ جو راہ راست پر چلے گا اسے وہ ہدایت دے گا اور جو گمراہ ہونا چاہے گا اسے اس کے حال پر چھوڑ دے گا۔ النحل
10 (٥) بندوں پر اللہ تعالیٰ کے گوناگوں احسانات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ آسمان سے بارش نازل کرتا ہے جسے آدمی پیتا ہے اس کے ذریعہ پاکی حاصل کرتا ہے اور جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ انواع و اقسام کے درخت اور پودے اگاتا ہے، وہ گھاس اور پودے جانوروں کے لیے چراگاہ ہوتے ہیں، اور جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کھیتوں کو اور زیتون، کھجور، انگور اور تمام اقسام کے پھل اور سبزیوں کو اگاتا ہے۔ بارش کا اس طرح آسمان سے نازل ہونا، اور اس کے ذریعہ ان تمام فوائد و منافع کا حاصل ہونا جن کا ذکر اوپر آچکا، یقینا اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی قدرت، اس کے علم، اس کی حکمت اور اس کی رحمت کے واضح دلائل ہیں، اور اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے، لیکن یہ تمام دلائل و براہین ان کے لیے مفید ہیں جو غور و فکر سے کام لیں اور عبرت حاصل کریں، جو لوگ بہایم کے مانند زندگی گزارتے ہیں اور خیر و شر کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہوتے ہیں، انہیں ان دلائل سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔ النحل
11 النحل
12 (٦) اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر یہ بھی احسان ہے کہ اس نے رات کو سکون و راحت حاصل کرنے کے لیے اور دن کو جہد و عمل اور طلب معاش کے لیے ایک مسلسل و منظم حرکت کا پابند بنا رکھا ہے، کبھی بھی اس کی خلاف ورزی نہیں کرتے ہیں، اور آفتاب و ماہتاب بھی اس کی مرضی کے تابع ہیں، آفتاب سے روشنی اور حرارت ملتی ہے اور ماہتاب کی روشنی سے دنوں، مہینوں اور سالوں کا حساب معلوم ہوتا ہے، اور ستارے بھی اس کے حکم و ارادہ کے پابند ہیں تاکہ ان کے ذریعہ بحر و بر میں راستوں کا پتہ لگایا جاسکے۔ اور یہ ستارے آسمان دنیا کے لیے زینت بھی مہیا کرتے ہیں، رات اور دن آفتاب اور ماہتاب اور ستاروں کی تسخیر اللہ تعالیٰ کی خالقیت اور صرف اسی کے لائق عبادت ہونے کے واضح دلائل ہیں، لیکن یہ دلائل ان کے لیے مفید ہیں جو اپنی عقلوں سے کام لیتے ہیں اور ان مخلوقات کے اسرار و حقائق میں غور و فکر کر کے ان کے خالق تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، جو لوگ بہائم کے مانند ہیں، یا پاگلوں کے مانند جو اپنی عقلیں کھو چکے ہوتے ہیں انہیں ان دلائل سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔ النحل
13 (٧) اور اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر یہ بھی احسان ہے کہ اس نے زمین پر ان کے فائدے کے لیے بہت سے حیوانات اور انواع و اقسام اور رنگ برنگ کے نباتات، جمادات اور معدنیات پیدا کیے، جن میں گوناگوں منافع اور خاصیتیں ہوتی ہیں، یہ عجائب و غرائب خالق کائنات کے وجود پر صاف اور صریح دلائل ہیں اور بنی نوع انسان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں، لیکن یہ دلیلیں انہی کے لیے مفید ہیں جو نصیحت حاصل کریں اور اپنے رب کی سیدھی راہ پر گامزن رہیں اس کے احکام کی پابندی کریں اور برائیوں اور گناہوں سے بچیں، اور اس طاعت و بندگی کے نتیجے میں دنیا و آخرت کی سعادت و نیک بختی حاصل کریں۔ النحل
14 (٨) خشکی کی نعمتوں کے بعد اب سمندر کی نعمتوں کا ذکر کیا جارہا ہے، اللہ تعالیٰ نے سمندر کو اس طرح مسخر کیا کہ اس میں غوطہ لگانے کو آسان بنا دیا، اور کشتیاں بسہولت تمام اس پر دوڑتی رہتی ہیں، اور انسانوں اور ان کی ضروریات زندگی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی رہتی ہیں، ان سمندروں کو اللہ نے اس لیے مسخر کیا ہے، تاکہ لوگ مختلف ذرائع استعمال کر کے مچھلیوں کا شکار کریں اور ان کا تازہ گوشت کھائیں۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے تازہ گوشت اس لیے کہا گیا ہے کہ مچھلی جب تزہ ہو اسی وقت اسے کھایا جائے کیونکہ وہ بہت جلد خراب ہوجاتی ہے، اور پرانی ہونے کے بعد نقصان دہ ہوتی ہے، اور ان سمندروں کو اس لیے بھی مسخر کیا ہے تاکہ غوطہ لگا کر موتی اور دیگر قیمتی جواہرات نکالیں جو ان کے لیے اور ان کی عورتوں کے لیے زیور کا کام دیں، اور تسخیر سمندر کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس میں کشتیاں چلتی رہیں جن کے ذریعہ انسان بے خوف و خطر بھاری تجارتی سامان اور اسباب رزق لے کر تھوڑی مدت میں ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ملک سے دوسرے ملک چلا جاتا ہے، اور روزی حاصل کرتا ہے۔ یہ سب اللہ کا فضل و کرم ہے، بندوں کو چاہیے کہ اللہ کے ان احسانات کو یاد کریں اور اس کے شکر گزار بندے بن کر رہیں۔ النحل
15 (٩) اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر یہ بھی احسان ہے کہ اس نے زمین پر بڑے بڑے بسا دیئے تاکہ زمین میں حرکت نہ پیدا ہو اس لیئے کہ اگر زمین ہلتی تو اس پر انسان کا جینا دو بھر ہوجاتا، اور زمین پر اللہ نے نہریں جاری کردیں جو مختلف زمینوں سے گزرتی اور انہیں سیراب کرتی ہیں اور انسانوں کی روزی کا سبب بنتی ہیں، اور زمین پر مختلف راستے بنا دیئے جن پر چل کر انسان ایک شہر سے دوسرے شہر جاتا اور اپنی ضروریات زندگی حاصل کرتا ہے اور زمین میں اللہ نے ایسی نشانیاں رکھ دی ہیں جن کے ذریعہ لوگ سفر میں اپنے راستے پہچانتے ہیں اور منزل کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں، اور بحر و بر میں رات کی تاریکی میں ستاروں کی مدد سے لوگ صحیح سمت میں چلتے رہتے ہیں، کشتیوں اور جہازوں کی رہنمائی کے لیے اب جن آلات کا استعمال ہوتا ہے ان کی بناوٹ میں ستاروں کی روشنی سے ہی مدد لی جاتی ہے۔ النحل
16 النحل
17 (١٠) یہ مشرکین مکہ کے لیے ایک الزامی قول اور ڈانٹ اور پھٹکار ہے کہ جس ذات واحد نے مذکورہ بالا عظیم مخلوقات کو پیدا کیا ہے، کیا اس کے مانند وہ اصنام اور جھوٹے معبود ہوسکتے ہیں جو کچھ بھی پیدا کرنے کی قدرت نہیں رکھتے ہیں۔ النحل
18 (١١) بحر و بر کی گوناگوں نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اس کی نعمتیں بے شمار ہیں اور اس کے احسانات ان گنت ہیں، آدمی انہیں پوری زندگی گنتا رہے تو نہیں گن سکتا، اور جب انہیں گن نہیں سکتا تو ان کا شکر کیسے ادا کرسکتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آیت کے آخر میں فرمایا ہے کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے، اگر بندے سے ادائے شکر میں تقصیر ہوتی ہے تو اپنی بخشش و کرم فرمائی کو روک نہیں دیتا، بلکہ معاف کردیتا ہے اور توبہ کی مہلت دیتا ہے۔ النحل
19 (١٢) اس سورت میں اللہ کی قدرت، اس کے علم وحکمت اور اس کی نعمتوں کے مظاہر کی آخری کڑی یہ آیت کریمہ ہے کہ وہ ان کی تمام ظاہر اور پوشیدہ باتوں اور ان کی حاجتوں اور ضرورتوں کو جانتا ہے، اس لیے انہیں اسی کے سامنے سر جھکانا چاہیے، اور اسی کی عبادت کرنی چاہیے تاکہ وہ ان کی ضرورتوں کو پوری کرتا رہے اور اس کی نعمتوں کا تسلسل باقی رہے، نیز چونکہ سیاق کلام مشرکین مکہ سے متعلق ہے اس لیے اس آیت میں انہیں دھمکی بھی دی گئی ہے کہ رسول اللہ کے خلاف ان کی سازشیں اللہ سے مخفی نہیں ہیں، کسی دن یہ سازشیں خود انہی کے گلے کا پھندا بن جائیں گے۔ النحل
20 (١٣) کفار قریش کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ جن بتوں کو یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ تو کچھ بھی پیدا نہیں کرسکتے ہیں، بلکہ پوجنے والوں نے ہی اپنے ہاتھوں سے انہیں بنایا ہے، گویا وہ اپنے پجاریوں سے بھی زیادہ عاجز اور کمزور ہیں، جیسا کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا تھا : (اتعبدون ما تنحتون) کہ کیا جنہیں تم اپنے ہاتھوں سے پتھروں کو کاٹ کر بناتے ہو انہی کی عبادت کرتے ہو؟ (الصافات : ٩٥) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مزید تاکید کے طور پر فرمایا کہ وہ تو مردہ ہیں نہ کبھی زندہ تھے اور نہ مستقل میں انہیں زندگی ملے گی اور انہیں شعور بھی نہیں کہ وہ کبھی اٹھائے جائیں گے، تو پھر وہ اللہ کے سوا معبود کیسے ہوسکتے ہیں؟ النحل
21 النحل
22 (١٤) اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت پر متعدد دلائل پیش کرنے کے بعد اب نتیجہ بیان کردیا اور مقصود حقیقی کی صراحت کردی کہ اے انسانو ! تمہارا معبود صرف ایک اللہ ہے، جو خالق ہے، رازق ہے، آسمانوں اور زمین کے امور کا مدبر ہے، زندہ کرنے والا اور مارنے والا ہے، اور تمام اسمائے حسنی اور صفات علیا اسی کے لیے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے کافروں کے کفر و عناد اور ان کے استکبار کی علت یہ بیان کی کہ وہ آخرت کے دن پر ایمان نہیں رکھتے، اگر وہ جزا و سزا کے دن پر ایمان رکھتے تو راہ راست پر چلتے اور اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرتے۔ آیت (٢٣) میں انہی منکرین قیامت اور باری تعالیٰ کی وحدانیت کا انکار کرنے والوں کو دھمکی دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے تمام خفیہ اور ظاہر اعمال کو اچھی طرح جانتا ہے، اور وہ ان جیسے تکبر کرنے والوں کو بالکل پسند نہیں کرتا ہے، ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ غافر آیت (٦٠) میں فرمایا ہے : (ان الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جھنم داخرین) کہ جو لوگ کبر کی وجہ سے میری عبادت سے منہ پھیرتے ہیں وہ ذلت و رسوائی کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے۔ النحل
23 النحل
24 (١٥) مفسرین نے لکھا ہے کہ اس کا قائل نضر بن حارث تھا، جو قرآن کریم کا مذاق اڑانے کے لیے مسلمانوں سے ایسی باتیں کرتا تھا، دوسرا قول یہ ہے کہ اس کے قائل وہ مشرکین مکہ ہیں جو باہر سے اسلام کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے آنے والوں سے کہتے تھے کہ یہ قرآن اگلے زمانے کے واقعات کا مجموعہ ہے، اور تیسرا قول یہ ہے کہ مسلمان جب قرآن کریم کے بارے میں مشرکین مکہ کی رائے معلوم کرتے تو وہ کہتے کہ یہ تو گزشتہ قوموں کی کہانیوں کا مجموعہ ہے، اللہ تعالیٰ نے ایسے تمام لوگوں کا انجام یہ بتایا کہ وہ قیامت کے دن اپنے کندھوں پر اپنے سارے گناہ اٹھائے ہوئے ہوں گے، اور ان لوگوں کے گناہ بھی اٹھائے ہوں گے جن کو وہ اپنی جہالت و نادانی کی وجہ سے گمراہ کرتے رہے تھے، یا جنہیں وہ ان کی جہالت و نادانی کی وجہ سے گمراہ کرتے رہے تھے، جن گناہوں کو وہ ڈھوئے پھر رہے ہوں گے وہ بڑی ہی بری چیز ہوگی، جو انہیں جہنم رسید کردے گی۔ النحل
25 النحل
26 (١٦) امام شوکانی اور صاحب فتح البیان نے اکثر مفسرین کی رائے نقل کی ہے کہ اس آیت میں مکر کرنے والے سے مراد نمرود بن کنعان ہے جس نے بابل میں ایک بہت ہی لمبی عمارت بنا کر آسمان پر چڑھنا چاہا تھا، تاکہ اہل آسمان سے جنگ کرے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک شدید آندھی کے ذریعہ اسے گرا دیا جس کے نیچے دب کر نمرود اور اس کے ماننے والے ہلاک ہوگئے، اسی نمرود نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈال دیا تھا اور وہ اپنے زمانے کا سب سے بڑا ظالم و جابر اور متکبر انسان تھا لیکن مفسرین کے قاعدے کے مطابق آیت کا یہ حکم ہر زمانے کے باطل پرستوں اور اللہ کے دین کے خلاف سازش کرنے والوں کو عام اور شامل ہے۔ اسی لیے اس آیت کریمہ میں ان مشرکین مکہ کے لیے دھمکی ہے جنہوں نے بعثت سے پہلے رسول اللہ کی زندگی اجیرن بنا دی تھی۔ انبیاء کے خلاف سازش کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہی ایسا شدید انتقام لیا کہ انہیں بیخ و بن سے ختم کردیا، اور ان پر اس طرح اچانک عذاب مسلط کردیا کہ انہیں سوچنے کا بھی موقع نہیں ملا، یہ تو ان کا دنیا میں حال ہوا، اور قیامت کے دن اللہ انہیں مزید ذلیل و رسوا کرے گا اور کہے گا کہ بتاؤ، کہاں ہیں میرے وہ شرکاء جنہیں معبود ثابت کرنے کے لیے تم لوگ مومنوں سے جھگڑتے تھے تو وہ کچھ بھی نہ بول سکیں گے، ان کی زبانیں گنگ ہوں گی، لیکن انبیاء اور علماء جن سے مشرکین جھگڑتے تھے، کہیں گے کہ آج کی ذلت و رسوائی اور دردناک عذاب ان کافروں کے لیے ہے جو اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بناتے تھے۔ النحل
27 النحل
28 (١٧) شرک و معاصی کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ان کافروں کی جان نکالنے کے لیے جب فرشتے آتے ہیں، اور موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں، تو اللہ کے لیے اپنی طاعت و بندگی کا اظہار کرنے لگتے ہیں اور مجسم عجز و انکساری بن جاتے ہیں اور مارے دہشت کے شرک کا انکار کر بیٹھتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں کہ ہم نے تو شرک کا ارتکاب کیا ہی نہیں تھا، تو فرشتے ان کی بات کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہاں تم نے شرک کا ارتکاب کیا تھا، اور اللہ تمہارے کرتوتوں کو خوب جانتا ہے، اس لیے جھوٹ بولنے وار انکار کرنے سے تم جان بر نہ ہوسکو گے، اب تم لوگ اپنے اپنے گناہوں اور شرکیہ اعمال کے مطابق جہنم کے مختلف طبقات میں ان کے دروازوں سے دخل ہوجاؤ اور ہمیشہ کے لیے اسی میں جلتے رہو، جو اللہ کی عبادت سے منہ پھیرنے والوں کے لیے بدترین ٹھکانا ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ کفار کی روحیں موت کے بعد ہی جہنم میں داخل ہوجاتی ہیں اور قبروں میں جہنم کی آگ کی سوزش ان کے جسموں تک پہچنتی رہتی ہے، قیامت کے دن ان کی روحیں ان کے اجسام میں دوبارہ داخل کردی جائیں گی اور وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں بھیج دیئے جائیں گے۔ النحل
29 النحل
30 (١٨) آیت (٢٤) میں گزر چکا ہے کہ جب بدبخت کافروں سے قرآن کریم کے بارے میں پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا نازل کیا ہے، تو وہ اللہ کی رحمت کا انکار کرتے ہیں اور کفران نعمت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ تو گزشتہ قوموں کے واقعات کا مجمعہ ہے، اور وہاں ان کا انجام بد بھی بتا دیا گیا ہے، اب یہ بتایا جارہا ہے کہ ان کے برعکس جب اہل تقوی مسلمانوں سے یہی سوال کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے رب نے قرآن کریم نازل فرمایا ہے جو ہمارے لیے مجسم خیر و برکت ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے اس وعدے کا ذکر فرمایا ہے جو اس نے اپنے ان بندوں سے کر رکھا ہے جو دنیا میں عمل صالح کرتے ہیں کہ وہ انہیں دنیا میں اچھا بدلہ دے گا اور آخرت میں انہیں جو ملے گا وہ تو اللہ کی عظیم ترین نعمت (جنت) ہوگی جو متقیوں کے لیے بہت ہی اچھا گھر ہوگا، اللہ تعالیٰ نے اسی سورت کی آیت (٩٧) میں فرمایا ہے : (من عمل صالحا من ذکر او انثی وھو مومن فلنحیینہ حیاۃ طیبۃ ولنجزینھم اجرھم باحسن ما کانوا یعملون) کہ جو شخص نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو اسے یقینا نہایت بہتر زندگی عطا کریں گے اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے۔ النحل
31 (١٩) اس جنت کی صٖت بیان کی گئی ہے جو اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے کہ اس میں درخت ہوں گے، نہریں جاری ہوں گی، حور و قصور ہوں گے، اور کھانے پینے کی ہر لذیذ چیز ہوگی، اور اللہ کی جانب سے انتہائے اکرام یہ ہوگا کہ وہاں ہر وہ شے ہوگی جس کی اہل جنت خواہش کریں گے، آیت کے آخرت میں فرمایا گیا کہ اللہ اہل تقوی کو ایسے ہی اچھے بدلے دیا کرتا ہے۔ النحل
32 (٢٠) ان اہل تقوی کا جو کفر و معاصی کے ذریعہ اپنے آپ پر ظلم نہیں کیے ہوتے ہیں، موت کے وقت حال یہ ہوتا ہے کہ جب فرشتے ان کے پاس پہنچتے ہیں تو ان کے احترام و محبت میں انہیں سلام کرتے ہیں اور خوشخبری دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم لوگ اپنے نیک اعمال کے بدلے ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہوجاؤ۔ سورۃ فصلت آیت (٣٠) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیھم الملائکۃ الا تخافوا ولا تحزنوا وابشروا بالجنۃ التی کنتم توعدون) بیشک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے، پھر اسی پر قائم رہے، ان کے پاس فرشتے یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو، بلکہ اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ النحل
33 (٢١) رخ سخن پھر مشرکین کی طرف پھیر دیا گیا ہے اور مقصود ان کی تنبیہ ہے کہ دنیاوی زندگی کے دھوکے میں نہ پڑے رہیں اور اپنے کفر و عناد میں آگے نہ بڑھتے جائیں ورنہ برے انجام کے لیے تیار رہیں۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ گویا اب انہیں صرف اس بات کا انتظار ہے کہ موت کے فرشتے آکر ان کی روحوں کو عذاب دیتے ہوئے قبض کرلیں، یا ان پر ایسا عذاب آجائے جو ان کا وجود ہی ختم کردے، یا قیامت برپا ہوجائے اور اس کی روح فرسا خوفناکیوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے لگیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان سے پہلے کی قوموں نے بھی انہی کی طرح اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بنایا تھا اور اپنے رسولوں کا مذاق اڑایا تھا، تو اللہ کے عذاب نے انہیں آدبوچا تھا، اور ان کے ساتھ جو کچھ ہوا اللہ کی طرف سے ظلم نہیں تھا، بلکہ انہوں نے خود ہی اپنے آپ پر ظلم کیا تھا جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا تھا، تو گویا ان کے برے کرتوت ہی ان کے گلے کا پھندا بن گئے، اور جس عذاب کا مذاق اڑایا کرتے تھے اسی نے انہیں آگھیرا۔ النحل
34 النحل
35 (٢٢) مشرکین مکہ اپنے کفر و شرک کے لیے اللہ کی تقدیر کو دلیل بناتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر ہم اللہ کے سوا غیروں کی عبادت کرتے ہیں اور اپنی طرف سے کچھ جانوروں کو حرام کہتے ہیں اور ہمارے آباؤ اجداد بھی ایسا کرتے رہے ہیں تو اس میں ہمارا اور ان کا کوئی قصور نہیں ہے، یہ تو اللہ کی مشیت کے مطابق ہے اگر اس کی مرضی نہ ہوتی جیسا کہ محمد کا گمان ہے تو ہم ایسا نہ کرتے، تو گویا ہمارا اس کی مرضی کے مطابق ایسا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ محمد جھوٹا ہے اور اللہ کی طرف غلط بات منسوب کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان سے پہلے کے مشرکین بھی اسی طرح کے ذہنی شبہ میں مبتلا ہوتے رہے اور انہی جیسی جھوٹی بات اللہ کی طرف منسوب کرتے رہے ہیں، پھر ان کے شبہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارا یہ گمان صحیح نہیں ہے کہ اس نے تمہارے شرک و کفر کی تردید نہیں کی، بلکہ اس نے اس کا شدید انکار کیا ہے اور انتہائی سختی کے ساتھ اس سے روکا ہے اور ہر زمانے اور ہر قوم کے لیے انبیاء بھیجے ہیں جنہوں نے صرف اللہ کی عبادت کی طرف بلایا اور غیروں کی عبادت سے روکا۔ آدم (علیہ السلام) کے زمانے سے لیکر نبی کریم تک تمام انبیاء کی ایک ہی دعوت تھی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، صرف وہی عبادت کے لائق ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں آیت (٣٦) میں بیان فرمایا ہے کہ ہم نے ہر قوم کے لیے ایک رسول بھیجا جس نے انہیں اس بات کی تعلیم دی کہ اللہ کی عبادت کرو اور شیطان اور بتوں کی عبادت سے دور رہو، اس لیے کسی مشرک کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم غیروں کی عبادت نہ کرتے، اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو خیر و شر وار جنت و جہنم کے دونوں راستے بتا دیئے، خیر کی راہ پر چلنے کا حکم دیا اور شر کی راہ سے منع فرمایا، بلکہ اس سے زیادہ یہ کیا کہ مشرکوں کو دنیا میں ان کے شرک کی سزا دی، تاکہ انہیں معلوم ہو کہ اللہ ان کے شرکیہ اعمال سے راضی نہیں ہے، آیت (٣٦) کے آخر میں یہی بات کہی گئی ہے، خیر و شر کی اس وضاحت و صراحت کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب اور مشیت کونی کے مابق جسے چاہا خیر کی توفیق دی اور جسے چاہا بھٹکتا چھوڑ دیا۔ النحل
36 النحل
37 (٢٣) اگر اللہ تعالیٰ کسی کو اپنی مشیت کونی کے مطابق گمراہ چھوڑ دے تو نبی کریم کی ہزار خواہش کے باوجود وہ راہ راست پر نہیں آسکتا ہے، اور نہ عذاب الہی کو کوئی اس سے ٹال سکتا ہے، اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں بیان فرمایا ہے۔ سورۃ یوسف کی آیات (٩٦، ٩٧) میں فرمایا ہے : (ان الذین حقت علیھم کلمۃ ربک لا یومنون۔ ولو جائتھم کل آیۃ حتی یروا العذاب الالیم۔) یقینا جن لوگوں کے حق میں آپ کے رب کی بات ثابت ہوچکی ہے وہ ایمان نہیں لائیں گے، چاہے ان کے پاس تمام دلائل پہنچ جائیں، جب تک کہ وہ دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں۔ النحل
38 (٢٤) کفار قریش کے کفر اور کبر و عباد کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ وہ قیامت کے دن کا انکار کرتے تھے اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کو ایک امر مستحیل سمجھتے تھے اور قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ایسا ممکن نہیں ہے کہ جو مرجائے گا اللہ اسے دوبارہ زندہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تکذیب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہاں، ایسا ہو کر رہے گا، یہ اللہ کا ایسا وعدہ ہے جسے پورا ہونا ہے، لیکن اکثر لوگ اپنی نادانی کی وجہ سے اس کا انکار کرتے ہیں، حالانکہ یہ کام اللہ تعالیٰ کے لیے نہایت آسان ہے اور حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ لوگ دوبارہ زندہ ہوں تاکہ دنیا میں اپنے کیے کی پاداش پائیں، عمل صالح کرنے والے جنت میں داخل کیے جائیں اور برا کرنے والے اپنے کیے کی سزا پائیں۔ آیات (٣٩، ٤٠) میں یہی کچھ بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن کافروں کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ جھوٹے تھے اور انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے نہایت آسان ہے، وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرلیتا ہے تو ہوجا کہتا ہے اور وہ چیز ہوجاتی ہے، ممکن نہیں کہ کوئی شے اللہ کے اس قول کے بعد وجود میں نہ آئے، اور لوگوں کا دوبارہ زندہ کیا جانا اللہ کی مذکورہ بالا قدرت سے خارج نہیں ہے، اس لیے ممکن نہیں کہ اللہ چاہے اور مردے دوبارہ زندہ نہ ہوں، وباللہ التوفیق۔ النحل
39 النحل
40 النحل
41 (٢٥) اس آیت کریمہ میں اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کا دنیاوی اور اخروی اجر بیان کیا گیا ہے، اس آیت کے شان نزول کے بارے میں دو اقوال ہیں، ایک قول تو یہ ہے کہ آیت میں مذکور مہاجرین سے مراد مکہ کے وہ مسلمان ہیں جو اپنی قوم کی ایذا رسانی سے عاجز آکر اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے نبی کریم کے حکم سے حبشہ چلے گئے تھے، ان کی تعداد چھوٹے بچوں کے علاوہ تراسی (٨٣) تھی، اسلام آنے کے بعد اللہ کی راہ میں مسلمانوں کی یہ پہلی ہجرت تھی، اس قول کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ یہ سورت مکی ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ ان سے مراد مہاجرین مدینہ ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہجرت سے پہلے ہی اجر عظیم کی خوشخبری دے دی تھی، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت مدنی ہے جسے مکی سورت میں جگہ دی گئی ہے، اللہ تعالیٰ نے ان مہاجرین کو دنیا میں عزت و منزلت، عمدہ روزی اور فتح و نصرت کی خوشخبری دی ہے اور اس کے بعد کہا ہے کہ آخرت میں انہیں جو اجر ملے گا وہ تو بڑا ہی عظیم ہوگا، جس کا تصور بھی انسان اس دنیا میں نہیں کرسکتا ہے، اس آیت میں ان مسلمانان مکہ کو ہجرت کی ترغیب بھی دی گئی ہے جو کسی دنیاوی وجہ سے ہجرت کرنے میں دیر کر رہے تھے، اور جس اجر کا اوپر ذکر ہوا ہے وہ مہاجرین کو اس لئے ملے گا کہ انہوں نے مشرکین مکہ کی ایذا رسانی پر صبر کیا اور اللہ پھر بھروسہ کرتے ہوئے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کر گئے۔ عمر بن خطاب سے مروی ہے کہ جب وہ کسی مہاجر مسلمان کو اس کا حصہ دیتے تو کہتے، اپنا حصہ لے لو، اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں برکت دے، یہ وہ مال ہے جس کا اللہ نے تم سے دنیا میں وعدہ کیا تھا، اور قیامت کے دن تمہیں جو ملے گا وہ تو اس سے کہیں زیادہ اچھا ہوگا۔ آیت (٤٢) سے یہ بھی مستفاد ہے کہ صبر اور توکل داعی الی اللہ کی دو اہم ترین صفات ہیں ان کے بغیر وہ اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہوسکتا ہے۔ النحل
42 النحل
43 (٢٦) مشرکین مکہ کو تعجب ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک انسان (مرد) کو کیسے اپنا نبی بنا دیا؟ ان کے اسی شبہ کی تردید کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ سے پہلے جتنے بھی انبیاء ہم نے بھیجے سبھی انسان مرد تھے، ایک بھی نبی فرشتہ نہیں تھا، اور مشرکین مکہ سے کہا کہ اس بات کی تصدیق کے لیے یہود و نصاری سے پوچھ لو جنہیں تم بھی اہل علم و دانش سمجھتے ہو، وہ بھی تمہیں اپنی کتابوں کے حوالے سے یہی بتائیں گے کہ انبیائے کرام ہمیشہ انسان مرد ہوا کیے ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ ان کی صداقت کے واضح دلائل اور انسانوں کی ہدایت کے لیے کتابیں دے کر بھیجتا رہا ہے۔ تقلید شخصی کے قائلین نے اس آیت سے استدلال کیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے جن کے پاس علم نہ ہو انہیں حکم دیا ہے کہ وہ اہل علم سے پوچھ لیں، تو اس کا جواب یہ ہے کہ آیت کا سیاق و سباق دلالت کرتا ہے کہ یہ آیت ایک خاص موضوع کے بارے میں سوال کرنے سے متعلق ہے، جس کا تقلید شخصی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے، ابن جریر، بغوی اور اکثر مفسرین کی یہی رائے ہے۔ سیوطی نے اپنی تفسیر (در منثور) میں اسے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اور اگر فرض کرلیا جائے کہ آیت کریمہ سے مراد عام سوال ہے تو اھل ذکر سے سوال کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور کلمہ ذکر سے مراد صرف اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہے، یعنی ان لوگوں سے پوچھا جائے جو قرآن و سنت والے ہوں، اور جن سے پوچھا جائے وہ جواب میں اللہ کا قول یا رسول اللہ کا قول بیان کردیں اور سوال کرنے والا اس پر عمل کرے۔ ایسی صورت میں یہ آیت مقلدین کے خلاف حجت بن گئی، اس لیے کہ ان کا دعوی یہ ہے کہ لوگوں کے اقوال بغیر دلیل مانگے قبول کرلیے جائیں، جبکہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن و سنت کا علم رکھنے والے سوال کرنے والوں کو قرآن کی آیت یا رسول اللہ کی حدیث بتا دیں، اور اگر کوئی مقلد اپنے امام کا مذہب نہیں بلکہ قرآن و سنت کا سوال کرتا ہے تو وہ مقلد نہیں رہتا، بلکہ وہ قرآن و سنت کا متبع ہوجاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ آیت تقلید شخصی کی نہیں بلکہ اتباع قرآن و سنت کی دلیل ہے اور تقلید شخصی کے قائلین کے خلاف دلیل و حجت ہے۔ باللہ التوفیق۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کی نبوت کی مزئد تائید و تصدیق کے طور پر فرمایا کہ ہم نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے جو لوگوں کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلاتا ہے اور انہیں خواب غفلت سے بیدار کرتا ہے، اور آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ آپ بحیثیت رسول ان اوامر و نواہی اور وعدہ و وعید کو لوگوں کے لیے بیان کردیں جو اس قرآن میں موجود ہیں، اور لوگوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ قرآن کی آیات میں غور و فکر کر کے ہدایت کی راہ گامزن ہوں اور فلاح دارین حاصل کریں۔ النحل
44 النحل
45 (٢٧) مشرکین مکہ کو ڈرایا جارہا ہے تاکہ شرک سے توبہ کریں اور نبی کریم کی نبوت، روز قیامت اور جزا و سزا پر ایمان لائیں، آیت کریمہ میں سیئات سے مراد وہ تمام معاسی ہیں جن کا اہل مکہ ارتکاب کیا کرتے تھے، ان میں سر فہرست نبی کریم کے قتل کی سازش، کمزور مسلمانوں کو ایمان سے برگشتہ کرنے کے لیے روح فرسا سزائیں دینی، اور اسلام کی بیخ کنی کی سازشیں کرنی تھیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ مشرکین مکہ جو شرک کا ارتکاب کرتے رہے ہیں اور نبی کریم کی نبوت اور روز قیامت کا انکار کرتے رہے ہیں اور اسلام اور رسول اللہ کے خلاف بدترین سازشیں کرتے رہے ہیں کیا نہیں اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ اللہ عالی انہیں زمین میں دھنسا دے یا اچانک کسی عذاب میں مبتلا کردے، یا کوئی طوفان آجائے، یا کوئی وبا یا قحط سالی جو انہیں محتاج و فقیر بنا دے، یا جب تجارت کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر جارہے ہوں تو اچانک اللہ تعالیٰ انہیں ہلاک کردے؟ اور ایسا کرنے سے وہ اللہ تعالیٰ کو روک نہیں سکتے ہیں، یا انہیں یکے بعد دیگرے ہلاک کرے، یہاں تک کہ ان کا ایک فرد بھی باقی نہ رہے، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے بڑا ہی مہربان اور رحم کرنے والا ہے، اس لئیے اس نے اہل مکہ کے ساتھ ایسا برتاؤ نہیں کیا بلکہ انہیں تائب ہونے اور حق کی طرف رجوع کرنے کی مہلت دی۔ النحل
46 النحل
47 النحل
48 (٢٨) مشرکین مکہ کو اوپر جو دھمکی دی گئی ہے اسی کی مزید تاکید کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت و جلال اور کبریائی بیان کی ہے کہ یہ بات تم سے وہ اللہ کہہ رہا ہے جس کی بارگاہ میں جن و انس، حیوانات و جمادات اور فرشتے سبھی سجدہ ریز ہیں، حقی کہ ہر چیز کا سایہ بھی صبح و شام نہایت عجز و انکساری کے اتھ اس کو سجدہ کرتا ہے اور اس کی مرضی سے سر مو انحراف نہیں کرتا ہے۔ آیات (٤٩، ٥٠) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آسمانوں میں رہنے والے تمام فرشتے اور زمین پر چلنے والے تمام چوپائے، سب اس کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں، سبھی سا کے منشا اور ارادہ کے پابند ہیں، حیات و موت اور صحت ہر شے میں اس کے فیصلہ کے پابند ہیں، بالخصوص فرشتے اس کی عبادت اور اس کے سامنے سجدہ کرنے سے کبھی بھی انکار نہیں کرتے ہیں، اور اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں، جو ہر عظمت و کبریائی والا ہے اور تمام مخلوق اس کے نیچے ہے، اور اللہ کی جانب سے جو احکام و اوامر ان کے لیے صادر ہوتے ہیں انہیں پورے جذبہ بندگی کے ساتھ بجا لاتے ہیں۔ آیت (٥٠) سے علمائے سلف نے اللہ تعالیٰ کے لیے فوقیت اور علو کی صفت ثابت کی ہے جس کی کیفیت معلوم نہیں ہے اور جو بندوں کی صفت فوقیت و علو کے مشابہ نہیں ہے۔ النحل
49 النحل
50 النحل
51 (٢٩) جب آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کیے ہوئے ہیں اور اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ صرف اسی کی ذات عبادت کے لائق ہے، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، تو جن و انسان کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ بھی عملی طور پر اس کا ثبوت بہم پہنچائیں اور ایک اللہ کے سوا دو یا زیادہ معبودوں کا انکار کردیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں اس آیت میں حکم دیا ہے کہ وہ اپنے لیے دو جھوٹے معبود نہ بنائیں، اس لیے کہ معبود حقیقی صرف ایک ہے، وہی عبادت کے لائق ہے، اور صرف اسی سے ڈڑنا چاہیے، اس کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرنا چاہیے، اس لیے کہ سب کچھ اسی کے اختیار میں ہے، کسی دوسرے کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے، وہی مارنے والا، زندہ کرنے والا اور نفع و نقصان پہنچانے والا ہے، اس کے علاوہ سبھی بالکل عاجز ہیں اور کوئی قدرت نہیں رکھتے۔ النحل
52 (٣٠) مذکورہ بالا مضمون کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہی آسمان و زمین کی ہر چیز کا مالک ہے، اور ہر حال میں اور ہر وقت اسی کی طاعت و بندگی واجب ہے، ور اس کے علاوہ کسی سے ڈرنا اس کی وحدانیت، خالقیت اور رازقیت پر ایمان لانے کے منافی ہے، نیز فرامیا کہ تم لوگ اللہ کے سوا غیروں سے ڈرتے ہو، حالانکہ تمہارے پاس جتنی نعمتیں ہیں وہ تمام کی تمام اللہ کی دی ہوئی ہیں اور جب تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اسی کی جناب میں گریہ و زاری کرتے ہو، اس لیے کہ تم جانتے ہو کہ اس کے علاوہ کوئی اسے دور نہیں کرسکتا اور تمہارے حال پر رحم کھاتے ہوئے جب وہ اس تکلیف کو دور کدیتا ہے تو تم میں سے کچھ لوگ اس کے ساتھ غیروں کو شریک بنانے لگتے ہیں اور کہنے لگتے ہیں کہ یہ ہمارے معبودوں کا کرشمہ ہے، انہی کی بدولت ہماری یہ تکلیف دور ہوئی ہے، اور اس طرح وہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کر بیٹھتے ہیں اور کفر و عناد میں مبتلا ہوجاتے ہیں، ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے دھمکی دی ہے وار کہا کہ کچھ دنوں کے لیے مزے اڑا لو، عنقریب قیامت کے دن تمہیں اپنے انجام اور ٹھکانے کا پتہ چل جائے گا۔ النحل
53 النحل
54 النحل
55 النحل
56 (٣١) مشرکین مکہ کو ایک دوسرا عیب اور ان کی باطل پرستی یہ بھی ہے کہ جن جمادات و شیاطین کے بارے میں وہ کچھ بھی نہیں جانتے، انہی کو اپنا معبود بناتے ہیں، اور ان کا تقرب حاصل کرنے کے لیے اللہ کی دی ہوئی روزی کا ایک حصہ خرچ کرتے ہیں، ان پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں، ان کے نام کی نذریں مانتے ہیں، اور جانوروں کو ان کے نام سے ذبح کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام آیت (١٣٦) میں فرمایا ہے : (وجعلوا للہ ما ذرا من الحرث والانعام نصیبا) کہ اللہ نے جو کھیتیاں اور جانور پیدا کیے ہیں ان کا ایک حصہ انہوں نے اللہ کے لیے مقرر کردیا، اور بزعم خود کہتے ہیں کہ یہ تو اللہ کا ہے اور یہ ہمارے معبودوں کا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھا کر ان سے کہا کہ قیامت کے دن اپنی ان افترا پردازیوں کے بارے میں پوچھے جاؤ گے۔ النحل
57 (٣٢) اور ان کے مشرکانہ جرائم میں سے ایک جرم یہ ہے کہ انہوں نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتایا، حالانکہ اس سے نہ کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے وہ تو تمام عیوب و نقائص سے یکسر پاک ہے، اور ان کی خست و رذالت کی انتہا یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے لیے بیٹیاں ثابت کیں جنہیں وہ خود اپنے لیے پسند نہیں کرتے ہیں بلکہ اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النجم آیات (٢١، ٢٢) میں فرمایا ہے : (الکم الذکر ولہ الانثی۔ تلک اذا قسمۃ ضیزی) کیا تمہارے لیے لڑکے اور اللہ کے لیے لڑکیاں ہیں، یہ تو بڑی بے انصافی کی تقسیم ہے۔ اور سورۃ الصافات آیات (١٥٣، ١٥٤) میں فرمایا ہے : (اصطفی البنات علی البنین۔ مالکم کیف تحکمون) کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دی ہے، تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسا حکم لگاتے پھرتے ہو؟ النحل
58 (٣٣) مشرکین عرب کی اس بات کی مزدی شناعت و بشاعت واضح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ خود ان کا حال یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی کے گھر لڑکی پیدا ہوجاتی ہے تو مارے شرم و خجالت کے اس کا چہرہ کالا ہوجاتا ہے، ور کرب و الم سے اس کی حالت غیر ہوجاتی ہے کہ اب وہ لوگوں کو کیسے منہ دکھائے گا، اور دو حالتوں کے درمیان حیران و پریشان ہوتا ہے کہ اسے اپنے پاس رہنے دے اور ذلت و رسوائی برداشت کرے، یا زندہ درگور کردے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کا یہ فیصلہ کتنا برا ہے کہ جس لڑکی کو وہ اپنے لیے باعث ننگ و عار سمجھتے ہیں اسے اللہ کے لیے ثابت کرتے ہیں اور اپنے لیے اس سے بہتر یعنی لڑکا پسند کرتے ہیں۔ النحل
59 النحل
60 (٣٤) اہی مشرکین عرب کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ذلت و حقارت کی تمام صفات سے وہی لوگ متصف ہیں وہی اولاد کے محتاج ہیں، وہی لڑکیوں کو ناپسند کرتے ہیں اور بخالت کی وجہ سے انہیں زندہ درگور کرتے ہیں، اور ان کے لیے جمع کی ضمیر استعمال کرنے کے بجائے (للذین لا یومنون بالاخرۃ) یہ بتانے کے لیے کہا کہ ان کے اندر مذکورہ بالا تمام بری صفات انکار آخرت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں، اور اللہ کے لیے تو تمام اعلی ترین صفات ثابت ہیں، وہ تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے، وہ سارے جہاں کا پالنے والا اور سب کا مالک ہے، ساری بھلائیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، نہ کوئی اس کا مقابل ہے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے، اور وہ بڑا زبردست اور بڑی حکمت والا ہے۔ النحل
61 (٣٥) بنی نوع انسان کے شرک و کفر اور معاصی کو بیان کرنے کے بعد، یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنا انتہائے کرم، عفو و درگزر اور حلم و بردباری بیان فرمائی ہے، کہ اگر وہ لوگوں کا ان کے گناہوں پر مواخذہ کرتا تو زمین پر کسی ذی روح کو باقی نہ چھوڑتا، لیکن ان پر رحم کرتے ہوئے موت کے وقت تک انہیں مہلت دیتا ہے، تاکہ جو کوئی مغفرت طلب کرے اسے معاف کردے اور جو اپنے گناہوں پر اصرار کرے اس کے عذاب میں زیادتی کردے، اور جس کا وقت مقرر آجائے گا اسے ایک لمحہ کی بھی مہلت نہیں دی جائے گی، اور نہ وقت مقرر سے پہلے اسے موت آئے گی۔ النحل
62 (٣٦) آیات (٥٦، ٥٧) میں مشرکین مکہ کے جس بدترین جرم کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بناتے ہیں، اور فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے ہیں، ور اس پر اللہ تعالیٰ نے جو شدید نکیر کی ہے اسی کی مزید تاکید اور مشرکین کی زجر و توبیخ کے طور پر کہا جارہا ہے کہ وہ خود تو گوراہ نہیں کرتے کہ کوئی ان کے مال و جائیداد میں ان کا شریک بن جائے، اور اللہ کے لیے غیروں کو شریک بناتے ہیں، اور جن لڑکیوں کی نسبت اپنی طرف کرنا اپنے لیے معیوب سمجھتے ہیں، انہی کی نسبت اللہ کی طرف کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ پر اس افترا پردازی کے باوجود کہتے ہیں کہ اگر بالفرض قیامت آئے گی تو ہمارا انجام اچھا ہی ہوگا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ فصلت آیت (٥٠) میں منکرین قیامت کا قول نقل کیا ہے۔ (ولئن رجعت الی ربی ان الی عندہ للحسنی) کہ اگر میں اپنے رب کی طرف لوٹا دیا گیا تو یقینا مجھے اس کی جانب سے اچھا انجام ملے گا۔ اور سورۃ الکہف آیت (٣٦) میں فرمایا ہے : (وما اظن الساعۃ قائمۃ ولئن رددت الی ربی لاجدن خیرا منھا منقلبا) یعنی میں نہیں سمجھتا کہ قیامت آئے گی اور اگر مجھے اپنے رب کے پاس جانا ہی پڑا تو اس (دنیاوی باغ) سے بہتر انجام وہاں ملے گا۔ یعنی بد عملی کرتے ہیں اور اللہ سے ناممکن نتیجہ کی تمنا کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے اس زعم باطل اور جھوٹی تمنا کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا ٹھکانا جہنم کے سوا کہیں نہیں ہوگا، اور اس میں وہ بہت جلد ڈال دیئے جائیں گے۔ النحل
63 (٣٧) نبی کریم کو مکی زندگی میں کفار قریش کی جانب سے جو صبر آزما تکلیفیں اور اذیتیں پہنچتی تھیں اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعہ انہیں ان پر صبر کرنے کی نصیحت کرتا اور مختلف انداز میں انہیں تسلی دیتا تھا تاکہ آپ دل ہار نہ بیٹھیں، قرآن کریم میں اس قسم کی آیتیں بہت ہیں، یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے گزشتہ انبیائے کرام کی مثال دے کر آپ کو تسلی دینی چاہی ہے، کہ آپ سے پہلے گزشتہ امتوں کے پاس بھی ہم انبیاء بھیجتے رہے ہیں اور شیطان ان کے کفر و شرک کو ان کی نگاہوں میں خوبصورت بنا کر پیش کرتا رہا ہے، ور ان کی دوستی کا دم بھرتا رہا ہے، تو وہ آج اپنے آپ کو ان کا دوست ظاہر کرلے، اور انہیں خوب گمراہ کرلے، اور مشرکین بھی اس کی آج بندگی کرلیں، لیکن قیامت کے دن کا دردناک عذاب ان مشرکوں کا انتظار کر رہا ہے، جس سے وہ جان بر نہ ہوسکیں گے، اور اگر الیوم سے مراد روز قیامت لیا جائے، تو آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ کہاں ہے ان کا وہ دوست آج اپنی دوستی کا ثبوت دے اور ان کی مدد کر دکھائے۔ النحل
64 (٣٨) آپ کو مزید تسلی دینے کے لیے اور یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ آپ ایک عظیم رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے آپ پر قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ توحید و شریک اور ہدایت و گمراہی جیسے مسائل کو کھول کر بیان کردیں جن میں لوگ آپس میں اختلاف کرتے ہیں، اور یہ کتاب عظیم ہدایت کا سرچشمہ اور رحمت باری تعالیٰ کا منبع ہے، اس میں صحیح عقیدہ، عبادت کے طریقے، اسلامی آداب و اخلاق اور انسانی زندگی کے تمام ضروری امور بیان کردیئے گئے ہیں، اور ہدایت و رحمت کے ان خزانوں سے وہی لوگ مستفید ہوں گے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائیں گے، غیر مومنین ان سے محروم رہ جائیں گے۔ النحل
65 (٣٩) جس طرح اللہ تعالیٰ وحی و رسالت کے ذریعہ کفر وشرک کی بیماری سے مردہ دلوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے، اسی طرح وہ اپنی عظیم قدرت کے ذریعہ آسمان سے بارش نازل کرتا ہے اور مردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے اور مختلف قسم کے نباتات اگتے ہیں، یقینا یہ باتیں دلیل ہیں کہ اللہ ایک ہے اور مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے، لیکن ان دلائل سے انہی لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے جو آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور قرآن کریم کی آیات میں غور و فکر کرتے ہیں اور ان موجود عبرتوں اور نصیحتوں سے مستفید ہوتے ہیں۔ النحل
66 (٤٠) اور اس ذات باری تعالیٰ نے اپنی عظیم قدرت کے ذریعہ اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ کو پیدا کیا ہے، ان کی تخلیق سے ایک بڑی عبرت ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے پیٹ سے، گوبر اور خون کے درمیان سے ان کے تھنوں میں سے دودھ جاری کرتا ہے جو خون کی سرخی اور گوبر کی گندگی سے بالکل پاک و صاف ہوتا ہے۔ حالانکہ تینوں ایک برتن میں جمع ہوتے ہیں، چوپایہ جب چارہ کھاتا ہے تو اس کا ایک حصہ معدہ میں چلا جاتا ہے جو گوبر کہلاتا ہے، اور ایک حصہ خون بن کر رگوں میں دوڑنے لگتا ہے، دونوں کے بیچ کا حصہ دودھ بن کر تھنوں میں پہنچ جاتا ہے، جو مفید و لذیذ ہوتا ہے اور پینے والے کے حلق میں نہیں اٹکتا، حق تو یہ ہے کہ انسان کو اس سے بہت بڑی نصیحت ملتی ہے اور اللہ کی ایسی معرفت حاصل ہوتی ہے کہ بندہ اس سے بے پناہ محبت کرنے اور اس کی اطاعت و بندگی پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے۔ النحل
67 (٤١) اور اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم قدرت کے ذریعہ کھجور اور اور انگور کے پھل پیدا کیے ہیں جن کے رس سے شراب اور کھانے کی دیگر عمدہ چیزیں بنتی ہیں، مثلا پھل، کھجور کا رس، کشمش اور سرکہ وغیرہ، جمہور مفسرین کے نزدیک یہاں سکر سے مراد شراب ہے اور یہ آیت شراب حرام ہونے سے پہلے نازل ہوئی تھی، ایک دوسرا قول یہ ہے کہ سکر سے مراد میٹھا اور حلال رس ہے، جسے اگر چھوڑ دیا جائے تو نشہ آور بن کر حرام ہوجاتا ہے، یقینا ان باتوں میں عقل والوں کے لیے بڑی نشانی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کے علم اور اس کے رحم و کرم پر دلالت کرتی ہیں اور انسان کو دعوت دیتی ہیں کہ وہ صرف اسی کی عبادت کرے۔ النحل
68 (٤٢) اور اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کی ایک نشانی شہد کی مکھی بھی ہے جس کی تفصیل اس آیت کریمہ میں بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کے دماغ میں یہ بات ڈال دی کہ وہ اپنا عجیب وغریب گھر جو چھ متساوی اضلاع پر منقسم ہوتا ہے، پہاڑوں، درختوں اور لوگوں کے گھروں میں بنائے، اور اس کے دماغ میں یہ بات بھی ڈالی کہ چراگاہوں میں گھوم پھر کر اپنی غذا حاصل کرنے سے پہلے اپنا گھر بنائے، اسی لیے شہد کی مکھی پہلے اپنا گھر بناتی ہے، پھر روزی کی تلاش میں نکلتی ہے، اور انواع و اقسام کے پھلوں کے رس چوس کر اپنے گھر کی طرف لوٹیت ہے، اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ان رسوں کا شہد بناتی ہے۔ (فاسلکی سبل ربک ذللا) میں سبل سے مراد شہد بنانے کے طریقے ہیں۔ یا اس سے مراد راستے ہی ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کے اندر یہ بات ودیعت کردی ہے کہ پھلوں کا رس چوسنے کے لیے چاہے وہ کتنی ہی دور چلی جائے، لیکن پھر بآسانی اپنے گھر کو لوٹ آتی ہے اور راستہ نہیں کھوتی، ان مکھیوں کے پیٹ سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے جسے شہد کہا جاتا ہے، اور غذا کے رنگ اور اس کے مزاج کے اختلاف سے اس کا بعض قسم سفید، بعض زرد اور بعض سرخ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے بہت سے امراض کے لیے شافی بنایا ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ تمام امراض کے لیے شافی ہے، اور کچھ دوسروں کی رائے ہے کہ یہ بعض امراض کے لیے شافی ہے، اور ان کی دلیل یہ ہے کہ شفا نکرہ ہے جو یہاں عموم پر دلالت نہیں کرتا ہے۔ امام شوکانی لکھتے ہیں : علم طب کے قوانین اور تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شہد کو اگر مفرد استعمال کیا جائے تو بعض امراض کے لیے شافی ہوتا ہے، اور دیگر دواؤں کے ساتھ ملانے کے بعد بہت سے امراض کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے، بہرحال شہد ایک ایسی چیز ہے جو غذا اور دوا دونوں اعتبار سے بہت ہی عظیم المنفعت ہے، اور یہ دونوں باتیں شہد کے علاوہ کسی دوسری چیز میں کم ہی پائی جاتی ہیں۔ شہد کی افادیت کا اندازہ ابو سعید خدری کی روایت سے کیا جاسکتا ہے جسے بخاری و مسلم نے روایت کی ہے کہ ایک آدمی کو اسہال کی شکایت تھی، اللہ کے رسول نے اس کے بھائی سے کہا کہ اسے شہد پلائے، وہ شہد پلاتا گیا اور اس کا اسہال بڑھتا گیا اور ہر بار آپ نے کہا اللہ سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے، جاؤ اسے شہد پلاؤ، چنانچہ تیسری بار کے بعد اس کا اسہال رک گیا اور وہ شفا یاب ہوگیا۔ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب اس کے پیٹ سے تمام فاسد مادہ نکل گیا تو اس کی بیماری ختم ہوگئی، بیشک ان تمام تفاصیل میں اہل فکر و نظر کے لیے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی عظیم قدرت کی دلیل پائی جاتی ہے۔ النحل
69 النحل
70 (٤٣) مفسر ابو السعود لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ آیتوں میں پانی، پودوں چوپایوں اور شہد کی مکھیوں میں پائے جانے والے عجائب و غرائب کو بیان کرنے کے بعد اس آیت میں انسان کی تخلیق سے متعلق عجائب کو بیان کیا ہے کہ وہ ابتدائے آفرینش سے آخری عمر تک چار مراحل سے گزرتا ہے، پہلا مرحلہ نشو ونما کا ہوتا ہے، دوسرا جوانی کا، تیسرا ادھیڑ عمر کا جس میں آدمی اپنی عمر اور صحت کے اعتبار سے زوال پیذیر ہونے لگتا ہے۔ اور چوتھا بوڑھاپے کا، جب کمزوری اور ناتوانائی اس کا لازمہ بن جاتی ہے اور جوں جوں اس کی عمر زیادہ ہوتی جاتی ہے اس کی تمام جسمانی صلاحیتیں کمزور ہوتی جاتی ہیں، اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بالکل بچہ کے مانند ہوجاتا ہے اس کی عقل جاتی رہتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ التین آیات (٤، ٥) میں فرمایا ہے : (لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۔ ثم رددنہ اسفل سافلین) یقینا ہم نے انسان کو بہترین صفت میں پیدا کیا، پھر اسے نیچوں سے نیچا کردیا۔ النحل
71 (٤٤) اس آیت کریمہ میں مشرکین کے لیے ایک مثال بیان کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے روزی میں بعض کو بعض پر فوقیت دی ہے، کوئی فقیر ہوتا ہے اور کوئی مالدار، کوئی آقا ہوتا ہے اور کوئی غلام، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے درمیان عقل و علم، فہم و دانائی، اخلاق اور قوت و توانائی اور صحت و بیماری کے اعتبار سے فرق رکھا ہے، اور جس کی روزی میں اللہ نے وسعت دی ہے وہ اپنی دولت اپنے غلاموں کو نہیں دے دیتا تاکہ وہ اس کے برابر ہوجائیں۔ تو جب تم اپنے ہی جیسے انسان غلاموں کو اپنے برابر دیکھنا نہیں گوارہ کرتے، تو اللہ کے غلاموں کو اس کے برابر کیسے بناتے ہو؟ اور ان کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الروم آیت (٢٨) میں اسی حقیقت کو بیان کیا ہے : (ضرب لکم مثلا من انفسکم ھل لکم من ما ملکت ایمانکم من شرکاء فیما رزقنکم فانتم فیہ سواء) اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایک مثال خود تمہاری ہی بیان فرمائی، جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے، کیا اس میں تمہارے غلاموں میں سے بھی کوئی تمہارا شریک ہے، کہ تم اور وہ اس میں برابر درجے کے ہو۔ النحل
72 (٤٥) اللہ تعالیٰ نے یہاں انسانوں کی ایک دوسری حالت بیان کر کے شرک اور غیر اللہ کی عبادت کی نکیر کی ہے، کہ اس نے انہی کے جنس سے اور انہی کی شکل و صورت کی ان کی بیویاں بنائیں تاکہ ان کے درمیان انس و محبت پیدا ہو، اور پھر ان بیویوں سے لڑکے، لڑکیاں، پورتے اور نواسے پیدا کیے جو ان کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہوتے ہیں، اور ان کی خدمت کے لیے ہمہ دم ان کے اشارے کے منتظر رہتے ہیں، اور اس پر مستزاد یہ کہ اس نے انہیں کھانے اور پینے کے لیے عمدہ روزی عطا کی، لیکن مشرکوں کے کفران نعمت کا حال یہ ہے کہ وہ ان تمام نعمتوں کو اپنے بتوں کی طرف منسوب کرتے ہیں، اور اللہ کے سوا ان معبودوں کی پرستش کرتے ہیں جو ان کی روزی کے مالک نہیں ہیں۔ چونکہ اس سے بڑھ کر احسان فراموشی نہیں ہوسکتی کہ آدمی کھائے کسی کا اور گائے کسی کا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے آدم کے بیٹو ! کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ، اور اس کے لیے مثالیں نہ بیان کرو کہ جس طرح وزیر امیر کے دربار میں لوگوں کی سفارش کرتا ہے، اسی طرح تمہارے یہ جھوٹے معبود اللہ کے دربار میں تمہاری سفارش کریں گے، تمہارے یہ مشرکانہ اعمال کس قدر قبیح اور برے ہیں اس کا علم صرف اللہ کو ہے، تمہیں کچھ بھی معلوم نہیں، اگر تمہیں اس کا صحیح اندازہ ہوجاتا ہے تو ان کے ارتکاب کی جرات نہ کرتے۔ النحل
73 النحل
74 النحل
75 (٤٦) عوفی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہ کافر اور مومن کی مثال ہے، یعنی دونوں کے درمیان موازنہ کر کے مومن کی برتری ظاہر کرنی مقصود ہے، اور مجاہد کی رائے ہے کہ یہ بتوں اور اللہ تعالیٰ کی مثال ہے، شوکانی صاحب فتح البیان اور جمال الدین قاسمی وغیرھم نے دوسری رائے کو ترجیح دی ہے۔ امام ابن القیم نے بھی اعلام الموقعین میں اسی کی تائید کی ہے کہ جس طرح غلام جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اور اپنے آقا کے مال میں اس کی بغیر اجازت کے تصرف کرنے سے بالکل عاجز ہوتا ہے، اس آزاد انسان کے برابر نہیں ہوسکتا جسے اللہ تعالیٰ نے خوب مال و دولت سے نوازا ہے اور پوری آزادی اور فراوانی سے دن اور رات خرچ کرات ہے، حالانکہ اللہ کی مخلوق اور انسان ہونے میں دونوں برابر ہیں، لیکن دونوں کے حالات برابر نہیں ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ جو سارے جہان کا پالنہر ہے اس کے برابر پتھر کے تراشے ہوئے بت کیسے ہوسکتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ساری تعریفیں صرف اللہ کے لیے ہیں اس لیے کہ تمام نعمتیں اس کی دی ہوئی ہیں، پتھروں کے بنے ہوئے اصنام کیسے کسی حمد و ثنا کے مستحق ہوسکتے ہیں، لیکن اکثر لوگ (جو شرک کرتے ہیں) اس بات کو نہیں سمجھتے نہیں۔ النحل
76 (٤٧) اس دوسری مثال کے ذریعہ بھی بتوں اور اللہ تعالیٰ کے درمیان فرق واضح کیا گیا ہے، کہ ایک آدمی گونگا اور بہرا ہے، اپنا مافی الضمیر ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی کسی مفید قول و عمل کی قدرت تکھا ہے، اور اپنے رشہ داروں پر یکسر بوجھ بنا ہوا ہے، کسی بھی حیثیت سے نہ اپنے کام کا ہے اور نہ دوسروں کے کام کا، ایسا آدمی اس شخص کے برابر کیسے ہوسکتا ہے جو گفتگو کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے، ہوش و خرد کا مالک ہے، لوگوں کو اچھی باتوں کا حکم دے کر انہیں نفع پہنچاتا ہے، اور اچھے اخلاق والا اور صاحب دین ہے، اور اپنا مقصد آسان اور سیدھے راستوں سے حاصل کرلیتا ہے؟ جس طرح یہ دونوں آدمی برابر نہیں ہوسکتے اسی طرح اللہ تعالیٰ جو خالق کائنات ہے اس کے برابر وہ پتھر کے بت کیسے ہوسکتے ہیں جنہیں بت پرست ایک جگہ سے دوسری جگہ ڈھوتا پھرتا ہے اور وہ اس کے لیے بوجھ بنے ہوئے ہیں، نہ اسے نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان؟ النحل
77 (٤٨) اس آیت کریمہ میں یا تو مشرکین مکہ کا جواب دیا گیا ہے جو قیامت آنے کی بڑی جلدی مچاتے تھے، یا اللہ تعالیٰ نے اپنا کمال علم و قدرت بیان فرمایا ہے اور دونوں صورتوں میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مشرکوں کے جھوٹے معبود غیب کی کوئی خبر نہیں رکھتے، اور قیامت کب اور کیسے آئے گی؟ ان باتوں کا انہیں کوئی علم نہیں ہے۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں بندوں سے متعلق جتنی باتیں، فیصلے اور احکام پوشیدہ ہیں ان سب کا علم صرف اللہ کو ہے، اسی ضمن میں قیامت کا علم بھی ہے اور جب اس کا وقت آجائے گا تو پلک جھپکتے آجائے گی، یا اس سے بھی تیزی کے ساتھ واقع ہوجائے گی، اس لیے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ النحل
78 (٤٩) مفسر ابو السعود لکھتے ہیں کہ آیت (٦٥) (واللہ انزل من السماء) سے توحید باری تعالیٰ کے جن دلائل کے بیان کی ابتدا ہوئی ہے اور جو آیت (٧٠) (واللہ خلقکم) اور آیت (٧١) (واللہ فضل بعضکم علی بعض) اور آیت (٧٢) (واللہ جعل لکم من انفسکم ازواجا) میں بیان کئیے گئے ہیں انہی دلائل میں سے ایک دلیل یہ بھی ہے جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ آدمی کو جب اس کی ماں کے پیٹ سے نکالتا ہے تو سے کسی بات کی خبر نہیں ہوتی ہے، اللہ اسے کان، آنکھ اور دل دیتا ہے اور بچپن سے لے کر بڑا ہونے تک ان قوتوں کو بڑھاتا ہے تاکہ وہ ان نعمتوں کو یاد کر کے اس کا شکر ادا کرے، اس کی وحدانیت کا اعتراف کرے اور اسی کی عبادت کرے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ نعمتیں اس لئیے دی ہیں تاکہ ان کی مدد سے اس کے سامنے زندگی بھر جھکتا رہے۔ النحل
79 (٥٠) اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کی ایک دلیل چڑیوں کی تخلیق بھی ہے جو فضا میں بغیر کسی مادی سہارے کے اطمینان کے ساتھ ہر چہار طرف اڑتی رہتی ہیں وہ اللہ کی ذات جس نے ان کے اندر یہ قدرت ودیعت کی ہے اور جو انہیں فضا میں روکے رکھتی ہے، چڑیوں کے لیے اس کام کے لائق پر بنانا اور انہیں کھولنا اور بند کرنا سکھانا جیسے کوئی پانی میں تیرتا ہے، وار فضا اور ہوا کی اس طرح تسخیر میں یقینا اہل ایمان کے لیے بڑی نشانیاں ہیں، جن میں غور و فکر کر کے وہ اپنے خالق کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں اور صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ النحل
80 (٥١) یہاں سے ان نعمتوں کا ذکر ہورہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہیں تاکہ ان میں غور و فکر کر کے اس کی وحدانیت کا اقرار کرے، اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پتھروں، بالوں اور دیگر چیزوں کے ذریعہ بنے ہوئے گھر دیئے، تاکہ ان میں سکون و راحت حاصل کرسکیں، یہ اللہ کی نعمت ہے، اگر اللہ چاہتا تو انہیں آسمانی سیاروں کی طرح ہر دم حرکت کرتا ہوا زمین کی طرح ساکن و جامد بنا دیتا، انہیں چوپایوں کے چمڑے سے بھی بنے ہوئے گھر دیئے، جنہیں وہ سفر و حضر میں اٹھائے پھرتے ہیں، اور ان چوپایوں کے بالوں اور اون سے بنے ہوئے سامان، بستر اور کمبل وغیرہ دیئے جن سے لوگ ایک مدت تک استفادہ کرتے رہتے ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سایہ حاصل کرنے کے دوسرے بہت سے ذرائع پیدا کیے ہیں تاکہ اگر کسی کے پاس خیمہ یا مکان نہیں ہے یا حالت سفر میں ہے تو ان ذرائع کو استعمال کرے مثلا درخت، دیوار یا چھتری سے سایہ حاصل کرے۔ اور اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں میں غاروں بنائے ہیں جنہیں انسان بہت سے مواقع پر نہایت مفید اغراض کے لیے استعمال کرتا ہے، مثلا سفر کرتا ہوا انسان کبھی ان میں اپنے دشمن، بارش، سردی اور گرمی سے پناہ لیتا ہے، اس زمانے میں پہاڑوں میں سرنگیں بنا کر فوج، ہوائی جہاز اور اسلحہ جات کے لیے مامون جگہ بنائی جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اون، روئی اور کتان وغیرہ کے بنے ہوئے لباس مہیا کیے، تاکہ ان کے زریعہ سردی اور گرمی سے بچا جائے، اور لوہے سے بنے ہوئے زرہ، خود اور بکتر بند گاڑیاں دیں تاکہ انہیں جنگوں میں استعمال کر کے تلواروں، نیزوں، توپوں، راکٹوں اور میزائلوں سے اپنے آپ کو بچائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ تمام نعمتیں اور اسی طرح کی دوسرے بہت سی ایسی دینی اور دنیاوی نعمتیں انسانوں کو دی ہیں، جن میں آدمی غور کرے تو دین اسلام کو قبول کرلے اور اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کردے۔ آیت (٨٢) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ گر ان تمام نعمتوں کو گنائے جانے اور حق کو اس وضاحت کے ساتھ بیان کے جانے کے باوجود اسلام سے روگردانی کرتے ہیں، تو آپ نے اپنی ذمہ داری پوری کردی، اور اب ان کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہا۔ آیت (٨٣) میں فرمایا کہ مشرکین مکہ جانتے ہیں کہ مذکورہ بالا تمام نعمتوں کا خالق اللہ ہے، لیکن کہتے ہیں کہ یہ ہمیں ہمارے معبودوں کی سفارشات سے ملی ہیں، اور اس طرح ان میں سے اکثر لوگ اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں اور کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔ بعض مفسرین کی رائے ہے کہ یہاں نعمت سے مراد نبی کریم کی نبوت ہے، کفار مکہ جانتے تھے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں، لیکن کبر و عناد کی وجہ سے انکار کرتے تھے۔ النحل
81 النحل
82 النحل
83 النحل
84 (٥٢) کفار و مشرکین کا قیامت کے دن کیا حال ہوگا اسے یہاں بیان کیا جارہا ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ ہر قوم کے نبی کو ان کے سامنے لائے گا، جو ان کے حق میں یا تو ایمان و یقین کی شہادت دے گا، یا ان کے خلاف کفر و عناد کی گواہی دے گا، اور اس دن کافروں کو کوئی معذرت پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اور نہ انہیں موقع دیا جائے گا کہ وہ اپنے رب کی ناراضگی کو دور کریں، اس لیے کہ آخرت دار عمل نہیں ہوگی، اور نہ ہی دنیا کی طرف واپس بھیجے جائیں گے کہ اپنے گناہوں سے توبہ کرلیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المرسلات آیات (٣٥، ٣٦) میں فرمایا ہے : (ھذا یوم لا ینطقون۔ ولا یوذن لھم فیعتذرون) کہ آج کے دن (کفار) نہ ایک کلمہ اپنی زبان سے بول سکیں گے اور نہ انہیں اجازت دی جائے گی کہ (اللہ کے حضور) اپنی معذرت پیش کرسکیں گے۔ النحل
85 (٥٣) جب مشرکین عذاب جہنم کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو ان کی ہزار تمنا ہوگی کہ کس طرح یہ عذاب ان سے ٹل جائے، لیکن ٹلنا تو دور کی بات ہوگی اس میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی، اور نہ ہی انہیں توبہ کی مہلت دی جائے گی، اور جب مشرکین ان معبودوں کو دیکھیں گے جنہیں وہ دنیا میں اللہ کا شریک بناتے تھے (اور بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مشرکین کے ساتھ ان کے بتوں کو بھی زندگی دے گا اور مشرکین سے کہا جائے گا کہ ہر شخص اپنے معبود کے پیچھے لگ جائے) تو پکار اٹھیں گے کہ اے ہمارے رب ! یہی معبود ہیں جن کی ہم تیرے سوا عبادت کرتے تھے۔ ابو مسلم اصفہانی کہتے ہیں کہ مشرکین یہ بات اس امید سے کہیں گے کہ شاید اس طرح ان سے عذاب ٹل جائے گا یا کم از کم ہلکا ہوجائے گا، تو اللہ تعالیٰ مشرکین کو ذلیل و رسوا کرنے کے لیے اس دن بتوں کو زبان دے دے گا، جو ان کی تکذیب کریں گے اور کہیں گے کہ ہم نے تو تمہیں نہیں کہا تھا کہ ہماری عبادت کرو، اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحقاف آیت (٦) میں فرمایا ہے : (واذا حشر الناس کانوا لھم اعداء وکانوا بعبادتھم کافرین) کہ جس دن لوگ میدان محشر میں جمع ہوں گے تو اصنام ان کے دشمن بن جائیں گے اور ان کی عبادت کا انکار کردیں گے۔ آیت (٨٧) میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن مشرکین اللہ کے عذاب کے سامنے سپر ڈال دیں گے اور مجسم عاجزی اور انکساری بن جائیں گے، اور دنیا میں جنہیں اللہ کا شریک بناتے رہے تھے سبھی ایک ایک کر کے ان سے چھٹ جائیں گے۔ النحل
86 النحل
87 النحل
88 (٥٤) جو لوگ اس دنیا میں کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی راہ حق پر چلنے سے روکتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں قیامت کے دن دوہرا عذاب دے گا، ایک تو ان کے کفر کی وجہ سے اور دوسرا اس لیے کہ وہ اللہ کے بندوں کو گمراہ کرتے رہے تھے، سورۃ الانعام آیت (٢٦) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (وھم ینھون عنہ ویناون عنہ) اور یہ لوگ اس سے دوسروں کو بھی روکتے ہیں، اور خود بھی دور رہتے ہیں، یہ آیت دلیل ہے کہ جہنم میں کافروں کے عذاب کے درجات ہوں گے، جس طرح جنت میں مومنوں کے درجات اور مقامات ہوں گے۔ النحل
89 (٥٥) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو خطاب کر کے فرمایا ہے کہ آپ اس دن کو یاد کریں جب ہم ہر قوم کے نبی کو بحیثیت شاہد اور گواہ ان کے سامنے پیش کریں گے، اور کافروں کے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہے گا، اس لیے کہ ہم نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے جس میں ہر بات کھول کر بیان کردی گئی ہے اور وہ مسلمانوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ، رحمت کا ذریعہ اور جنت کی خوشخبری لیے ہوئے ہے، اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء آیت (٤١) میں بھی بیان کیا ہے : (فکیف اذا جعنا من کل امۃ بشھید وجئنا بک علی ھولا شھیدا) پس کیسا ہوگا وہ منظر جب ہم ہر ایک امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور آپ کو (اے رسول) ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے، وہاں اس مضمون کی بہت عمدہ تشریح کی گئی ہے۔ النحل
90 (٥٦) چونکہ اوپر کی آیت میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم پر قرآن کریم نازل فرمایا جس میں ہر بات کھول کر بیان کردی گئی ہے، اسی لیے اس کے بعد یہ آیت لائی گئی ہے جس میں اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ہر ضرور اور بنیادی بات بیان کردی گئی ہے، یہاں عدل اور احسان کے مفسرین کرام نے مختلف معانی بیان کیے ہیں، لیکن امام شوکانی کے نزدیک عدل کا سب سے بہتر اس کا لغوی معنی ہے یعنی افراط و تفریط کے درمیان کا راستہ، یعنی دینی امور میں نہ غلو ہونا چاہیے اور نہ ہی اس میں کوئی کمی ہونی چاہیے، اسی طرح احسان کا سب سے بہتر اس کا لغوی معنی ہے، یعنی وہ عمل صالح جو واجب نہ ہوجیسے نفلی صدقہ، اور عبادات جو بندوں پر واجب نہیں ہیں، احسان کا ایک معنی وہ بھی جسے حدیث جبریل میں بیان کیا گیا ہے، کہ اللہ کی عبادت اس کی جائے کہ جیسے بندہ اپنے اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ آیت میں اللہ تعالیٰ نے قرابت داروں کو ان کی ضروریات کے مطابق دینے کا حکم دیا ہے، کیونکہ صلہ رحمی کا یہی تقاضا ہے، نیز فحش اور بڑے گناہوں سے اور ہر برے کام سے اور اللہ کے خلاف سرکشی اور بغاوت اور لوگوں پر ظلم و زیادتی سے منع فرمایا ہے۔ امام شوکانی نے احادیث کی کئی کتابوں کے حوالے سے عبد الملک بن عمیر سے روایت کی ہے کہ جب حکیم عرب اکثم بن صیفی کے سامنے یہ آیت پڑھی گئی تو اس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا، میں دیکھ رہا ہوں کہ محمد اخلاق عالیہ کا حکم دے رہا ہے اور برے اخلاق سے روک رہا ہے، پس تم لوگ اس دین کو قبول کرنے میں آگے بڑھ کر حصہ لو اور سردار بن جاؤ، پیچھے رہنے والے نہ بنو۔ قتادہ کہتے ہیں کہ دور جاہلیت کے لوگوں میں اچھے اخلاق کی جو بات بھی پائی گئی، اس کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حکم دیا ہے، اور برے اخلاق کی جن باتوں کے ذریعہ ایک دوسرے کو عار دلاتے تھے ان سب سے اس میں منع کیا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے ہر گھٹیا اور برے اخلاق سے روکا ہے۔ النحل
91 (٥٧) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے عہد و پیمان کو پورا کرنے اور قسموں کو نہ توڑنے کی نصیحت کی ہے، بعض لوگوں نے اس عہد سے اسلام قبول کرنے کے لیے نبی کریم کے ہاتھ پر کی گئی بیعت مراد لی ہے، لیکن عہد کی اضافت اللہ کی طرف ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے ہر عہد و پیمان مراد ہے، جو انسان اللہ اس کے رسول اور دوسرے انسان کے ساتھ کرتا ہے، اور اللہ کے نام کی جو قسم بھی کھائی جائے اس کا توڑنا ممنوع ہے، البتہ جن قسموں میں تاکید پیدا کی گئی ہوتی ہے ان کا توڑ دینا زیادہ بڑا گناہ ہوتا ہے، لیکن صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر قسم کھانے کے بعد آدمی کو پتہ چلے کہ اس کا پابند نہ رہنا ہی دینی اعتبار سے بہتر ہے، تو قسم توڑ دے اور وہ کرے جو بہتر ہے، اور قسم کا کفارہ ادا کرے۔ صحیحین کی روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا ہے : اللہ کی قسم ! اگر اللہ نے چاہا تو میں کوئی بھی قسم کھاؤں گا اور پھر اس کے بجائے دوسری بات کو بہتر سمجھوں گا، تو میں بہتر کام کو کروں گا، اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کروں گا۔ النحل
92 (٥٨) اس آیت کا تعلق گزشتہ آیت سے ہے، یعنی اللہ کے نام پر کئے گئے وعدوں کو پورا کرو اور اپنی قسموں کو نہ توڑو، اس لیے کہا گر تم نے ایسا کیا تو تمہاری مثال اس احمق اور پاگل عورت کی ہوجائے گی جو مضبوط اور پائیدار دھاگے بانٹی ہو اور پھر اسے کھول کر بکھیر دیتی ہو۔ کہتے ہیں کہ مکہ میں ربطۃ بنت عمر نام کی ایک عورت تھی جو ایسا کرتی تھی، اس مثال میں اس طرح اشارہ ہے کہ عقل و ہوش والے مرد اپنی قسمیں نہیں توڑتے ہیں، اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ احمق اور نا سمجھ عورتوں کے زمرے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد اہل ایمان کو اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ وہ اپنی قسموں کو دھوکہ دہی اور زمین میں فساد پھیلانے کا ذریعہ بنائیں، مثال کے طور مسلمان کسی جماعت یا قبیلہ کے ساتھ معاہدہ کرلیں اور پھر اس قائم نہ رہیں اور اس جماعت یا قبیلہ کی مخالف جماعت یا قبیلہ کے ساتھ صرف اس لیے معادہ کرلیں کہ یہ لوگ پہلے والوں سے زیادہ طاقتور یا جتھ والے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے حالات پید اکر کے وہ تمہیں آزمانا چاہتا ہے کہ تم اپنے عہد و پیمان پر باقی رہتے ہو، یا دنیا کو آخرت پر ترجیح دے کر نقض عہد کر بیٹھتے ہو۔ اگر عھد سے نبی کریم کے ہاتھ پر بیعت مراد لی جائے تو مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ مکی دور کے مسلمانوں کو آزمانا چاہتا ہے کہ وہ نبی کریم کے ساتھ اپنے عہد و ] پیمان پر قائم رہتے ہیں یا قریش والوں کی کثرت تعداد اور قوت و جائیداد اور مسلمانوں کی قلت عدد اور محتاجی و کمزوری کی وجہ سے دھوکے میں پڑجاتے ہیں اور اسلام سے برگشتہ ہوجاتے ہیں، اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حق و باطل کو واضح کردے گا اور آج جو لوگ حق پر قائم رہیں گے اور قریش کی کثرت و طاقت کے دھوکے میں نہیں پڑیں گے، اس دن انہیں اجر عظیم عطا فرمائے گا اور ان کے درجات بلند کرے گا، اور جن کے قدموں میں لغزش آجائے گی اور اسلام سے برگشتہ ہوجائیں گے انہیں عذاب میں مبتلا کرے گا۔ النحل
93 (٥٩) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو مومن اور کافر تمام لوگوں کو دین حق پر جمع کردیتا، لیکن اس کی حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ جسے حق کی جستجو ہو اور اسے قبول کرنے کی جس میں رغبت ہو اسے ہدایت دے، اور جو گمراہ ہونا چاہے اور گمراہی پر اصرار کرے اسے بھٹکتا چھوڑ دے، اور دنیا میں انسان جو کچھ کرتا ہے اس کے بارے میں اس سے قیامت کے دن ضرور پوچھا جائے گا۔ اور اس سوال سے مقصود زجر و توبیخ ہوگا نہ کہ استفسار اور دریافت کرنا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تو سب کچھ جانتا ہے، اس سے کچھ بھی مخفی نہیں۔ النحل
94 (٦٠) آیت (٩٢) میں جس بات سے ضمنی طور پر منع کیا گیا ہے اسی سے یہاں صراحت کے ساتھ منع کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ اللہ کے نام کی قسم اس لیے کھائیں تاکہ کسی کو دھوکہ دیں اور کوئی دنیاوی مقصد حاصل کریں، اس لیے کہ یہ حق و صداقت پر ثبات قدمی کے خلاف ہے، اور جو لوگ ایسا کریں گے انہیں اللہ کی طرف سے دنیا میں ہی اس کا برا انجام مل جائے گا، کیونکہ ایسا کرنے سے دعوت اسلامی کو بہت بڑا نقصان پہنچے گا، اور جن لوگوں کے ساتھ ایسا معاملہ ہوگا وہ مسلمانوں کی جانب سے بد عہدی اور بے وفائی دیکھ کر اسلام سے برگشتہ ہوجائیں گے، اور دوسرے لوگ بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے اسلام کو قبول نہیں کریں گے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے آخرت میں بھی بڑے عذاب کی دھمکی دی ہے۔ النحل
95 (٦١) قریش کے لوگ کمزور مسلمانوں کو لالچ دیتے تھے کہ اگر وہ اسلام کو چھوڑ دیں گے تو وہ انہیں مال و متاع سے نوازیں گے، اللہ تعالیٰ نے ایسے مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا کہ اللہ کے ساتھ کیے گئے عہد و پیمان اور رسول اللہ کے ہاتھ پر کی گئی بیعت کے بدلے تم لوگ دنیا کی متاع حقیر کو قبول نہ کرو، اس کے بعد کہا کہ نصرت و فتح، مال غنیمت اور رزق کثیر اور آخرت میں جنت جیسی لازوال نعمت اس عارضی متاع سے زیادہ بہتر ہے جس کی قریش لالچ دیتے ہیں۔ آیت (٩٦) میں مزید تاکید کے طور پر فرمایا کہ تمہارے پاس دنیا کی جو بھی نعمت ہے وہ ختم ہوجائے گی اور اللہ کی جنت ہمیشہ باقی رہے گی، اس کے بعد مکی دور کے ہی مسلمانوں کو ملحوظ رکھ کر فرمایا کہ جو لوگ آج مشرکین کی اذیتوں پر صبر کریں گے اور اسلام پر ثابت قدم رہنے کے لیے تکلیفیں جھیلیں گے، اللہ تعالیٰ ان کے صبر و استقامت کا کئی گنا اچھا بدلہ دے گا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہر اس مسلمان کے لیے ہے جو کسی بھی زمانے میں اپنے ایمان و اسلام پر ثابت قدم رہے گا اور دنیا کی حقیر فائدوں کی خاطر اپنے دین کو داؤ پر نہیں لگائے گا۔ النحل
96 النحل
97 (٦٢) اس آیت کریمہ میں ہر مسلمان (مرد و عورت) کو خوشخبری دی گئی ہے کہ ایمان لانے کے بعد جو کوئی بھی قرآن و سنت کے مطابق عمل کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے اس دنیا میں راحت و سعادت اور وسیع رزق حلال عطا کرے گا، اور قیامت کے دن ان کے اعمال صالحہ کا کئی گنا بہتر بدلہ دے گا۔ النحل
98 (٦٣) چونکہ قرآن کریم اللہ کی برحق کتاب ہے، اور حق کا جنوں اور انسانوں کے شیاطین میں سے ایک دشمن اور مخالف ضرور ہوتا ہے جو اس کے خلاف لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کرتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو حکم دیا کہ جب آپ قرآن کی تلاوت کریں تو اللہ کے ذریعہ مردود و شیطان کے وسوسوں سے پناہ مانگیں۔ شوکانی کہتے ہیں کہ جب قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے شیطان کے شر سے پناہ مانگنا ضروری ہوا، تو دوسرے نیک اعمال کرنے سے پہلے اس کے شر سے پناہ مانگنا بدرجہ اولی ضروری ہوا۔ آیات (٩٩، ١٠٠) میں بیان فرمایا کہ جو لوگ اہل ایمان ہوتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں، اور راہ حق میں اذیتوں پر صبر کرتے ہیں، ان پر شیطان کے وسوسوں کا اثر نہیں ہوتا، وہ لوگ اس کی تمناؤں کو خاک میں ملا دیتے ہیں اور اس کی سازشوں کو ناکام بنا دیتے ہیں، اس کے وسوسوں کا اثر ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اس کی پیروی کرتے ہیں، اور اسے اللہ کا شریک بناتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔ النحل
99 النحل
100 النحل
101 (٦٤) مشرکین مکہ کا قرآن کریم سے متعلق ایک شبہ بیان کیا گیا ہے اور اس کی تردید کی گئی ہے، قرآن کریم میں بعض جگہوں میں ایسا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک آیت نازل فرمائی، پھر مخلوق کی مصلحت کے پیش نظر اس آیت کو منسوخ کردیا اور اس کی جگہ دوسرے حکم نے لے لی۔ مشرکین اپنی کم عقلی اور قلت ایمانی کی وجہ سے کہتے ہیں کہ محمد جھوٹا ہے، ہر روز اپنی طرف سے ایک نئی بات پیدا کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تبدیلی اللہ کی جانب سے ہے۔ سورۃ البقرہ آیت (١٠٦) (ما ننسخ من آیۃ او ننسھا نات بخیر منھا) کی تفسیر میں اس بارے میں تفصیل کے ساتھ لکھا جاچکا ہے۔ وہاں یہ بتایا جاچکا ہے کہ قرآن کے بارے میں یہ شبہ یہود پھیلاتے تھے اور یہاں مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ شبہ مشرکین مکہ پھیلاتے تھے، معلوم ہوتا ہے کہ تمام کافروں کا یہ شیوہ تھا اور آج بھی ملحدین اور دشمنان اسلام کا یہی طریقہ ہے۔ ان سب کے اسی شبہ کا ازالہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی اپنے بندوں کی مصلحت کی خاطر ایک آیت نازل فرماتا ہے، پھر اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق اسے منسوخ کردیتا ہے، اور اس کی جگہ دوسرا حکم لے آتا ہے۔ محمد اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتے، بلکہ جبریل اپنے رب کے حکم سے اسے آپ کے پاس لے کر آتے ہیں، تاکہ مومنوں کے ایمان و ایقان میں اضافہ ہو، جیسے بارش کا پانی جب زمین پر پڑتا ہے تو اسے زندہ کردیتا ہے، اسی طرح نزول قرآن سے مومنوں کے دلوں کو زندگی ملتی ہے۔ قرآن ہدایت کا سرچشمہ ہے، اور مسلمانوں کو فلاح دارین کی خوشخبری دیتا ہے۔ (وھدی و بشری للمسلمین) میں اس اشارہ ہے کہ یہ قرآن مسلمانوں کے برعکس دشمنان اسلام کے کفر کو اور بڑھا دیتا ہے اور ان کے غم میں اضافہ کردیتا ہے۔ النحل
102 النحل
103 (٦٥) مشرکین مکہ کہتے تھے کہ یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل کردہ نہیں ہے، بلکہ محمد کسی آدمی سے سیکھ کر لوگوں کو سناتا ہے، اور دعوی کرتا ہے کہ اس پر اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے۔ مفسرین نے اس آدمی کے کئی نام بتائے ہیں زیادہ مشہور یہ ہے کہ اس کا نام جبر تھا جو روم کا نصرانی تھا اور اس نے اسلام قبول کرلیا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کی افترا پردازی کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ جس آدمی کے بارے میں کفار کہتے ہیں کہ اس سے نبی کریم سیکھتے ہیں وہ تو عجمی ہے اور قرآن فصیح و بلیغ عربی زبان میں ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عجمی آدمی اعلی عربی زبان میں ایسی حکمت کی باتیں کرے اور محمد کو ان کی تعلیم دے۔ النحل
104 (٦٦) رسول اللہ کی طرف افترا پردازی کی نسبت کی تردید کرنے کے بعد کہا جارہا ہے کہ جو لوگ اللہ کی آیتوں کی تصدیق نہیں کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ حق کی طرف ان کی رہنمائی نہیں کرتا ہے، اور آخرت میں انہیں دردناک عذاب ملے گا۔ اور نبی کریم کی صداقت کی بشارت دیتے ہوئے آیت (١٠٥) میں فرمایا کہ جھوٹ وہ لوگ بولتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے، جھوٹ بولنا کافروں کی لازمی صفت اور ان کی عادت ہے (اور کفار قریش اس زمرے میں بدرجہ اولی داخل ہیں) اور اس سے بڑھ کر جھوٹ کیا ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ کی آیتوں کی تکذیب کرتے ہیں، رسول اللہ تو مومنوں کے سردار ہیں اور سب سے سچے، سب سے نیک اور ایمان و عمل کے اعتبار سے سب سے اچھے انسان ہیں وہ کیسے جھوٹ بول سکتے ہیں۔ موطا امام مالک کی روایت ہے نبی کریم سے پوچھا گیا کہ کیا مومن جھوٹ بولتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا : نہیں، پھر آپ نے یہی آیت پڑھی۔ النحل
105 النحل
106 (٦٧) چونکہ اوپر کی آیتوں میں اسلام پر ثابت قدم رہنے والوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے، اسی لیے اب ان لوگوں کے لیے وعید شدید بتائی جارہی ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد کسی عارضی تکلیف و مصیبت کی وجہ سے دوبارہ کفر کی طرف لوٹ جاتے ہیں، اس حکم سے ان لوگوں کو مستثنی کردیا گیا ہے جو ظلم و ستم سے تنگ آکر جان بچانے کے لیے کفر کا کوئی کلمہ اپنی زبان پر لے آتے ہیں، لیکن دل سے کفر کو قبول نہیں کرتے ہیں، جو لوگ دل سے دوبارہ کفر کو قبول کرلیتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ ان پر اللہ کا غضب ہوگا، اور قیامت کے دن بڑے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے، اس لیے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی، اور کفر کی راہ اختیار کرلینے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت بھی نہیں دے گا، اور ان کے دلوں، کانوں اور آنکھوں پر مہر لگا دے گا، اور انہیں غفلت میں مبتلا کردے گا اور ان پر خیر و صلاح کے سارے دروازے بند کردے گا۔ اور معلوم ہوا کہ دنیا میں مومن کی حیثیت تاجر کی ہے جو اپنی نیکیوں کے ذریعہ آخرت کی سعادت خریدتا ہے، لیکن جب کسی انسان میں محرومی کے مذکورہ بالا تمام اسباب جمع ہوجائیں گے تو اسے خسارے کے سوا کچھ نہیں ملے گا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آیت (١٠٩) میں فرمایا کہ آخرت میں درحْیقت یہی لوگ خسارہ پانے والے ہوں گے۔ حدیث کی متعدد کتابوں میں ابن عباس سے مروی ہے کہ یہ آیت عمار بن یاسر کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جب مشرکین مکہ نے انہیں عذاب دے دے کر مجبور کردیا تھا کہ وہ نبی کریم کر برا کہیں اور ان کے معبودوں کی تعریف کریں جب انہوں نے رسول اللہ سے اپنا واقعہ بیان کیا، تو آپ نے پوچھا کہ تم اپنے دل کو کیسا پاتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں اپنے ایمان سے پورے طور پر مطمئن ہوں، تو آپ نے فرمایا کہ اگر دوبارہ تمہارے ساتھ ویسا برتاؤ کریں تو تم دوبارہ ویسے ہی کلمات استعمال کرو۔ اسی لیے قرطبی نے لکھا ہے کہ مفسرین اور اہل علم کا اتفاق ہے کہ جو شخص اپنی جان بچانے کے لیے کلمہ کفر زبان پر لے آئے گا اس کو کوئی گناہ نہیں ہوگا، اور ابن کثیر نے لکھا ہے کہ جو شخص کفر کرنے پر مجبور کیا جائے گا اس کے لیے ظاہری طور پر کفر کا اظہار کرنا جائز ہوگا، اور یہ بھی جائز ہے کہ انکار کردے، جیسا کہ بلال نے کیا تھا کہ ہر تکلیف برداشت کرتے رہے اور احد احد کا نعرہ لگاتے رہے، بلال کہتے ہیں کہ اگر مجھے کوئی اور کلمہ معلوم ہوتا جو کافروں کو زیادہ غصہ دلاتا تو میں وہ ضرور کہتا۔ النحل
107 النحل
108 النحل
109 النحل
110 (٦٨) مکہ میں کچھ ایسے کمزور مسلمان تھے جو نبی کریم کے ساتھ ہجرت نہیں کرسکے تھے، اور جب ہجرت کرنا چاہا تو قریش نے انہیں روک دیا اور زبان سے کلمہ کفر کہنے پر مجبور کیا، لیکن دل سے کفر کو ایک لمحہ کے لیے بھی قبول نہیں کیا، اور کچھ دنوں کے بعد جب انہیں ہجرت کا موقع ملا تو مدینہ پہنچ گئے اور رسول اللہ کے ساتھ جہاد کیا اور صبر و استقامت کا ثبوت بہم پہنچایا، اللہ تعالیٰ نے انہی مسلمانوں کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن معاف کردے گا اور ان کے حال پر رحم کرے گا۔ جب ہر آدمی کو صرف اپنی فکر ہوگی اور اس کوشش میں لگا ہوگا کہ اسے عذاب نار سے نجات مل جائے، اور دنیا میں ہر آدمی جو بھی خیر و شر کیے ہوگا اس کا اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہوگا۔ النحل
111 النحل
112 (٦٩) اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ یہاں قریۃ سے مراد مکہ ہے، وہاں کے لوگ سکون کی زندگی گزارتے تھے اور ہر چہار جانب سے اللہ کی روزی وہاں پہنچتی تھی، لیکن جب انہوں نے اللہ کی ناشکری کی اور رسول اللہ پر ایمان لانے سے انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دونوں حالتیں بدل دیں اور نبی کریم نے ان کے لیے بد دعا کردی کہ اے اللہ ! انہیں یوسف کے زمانے کے قحط کی مانند قحط میں مبتلا کردے۔ چنانچہ مکہ میں ایسا قحط پڑا کہ ہر چیز ختم ہوگئی اور مردے کا گوشت کھانے کی نوبت آگئی، اور نبی کریم کے مدینہ کی طرف ہجرت کرجانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے آہستہ آہستہ ان کے دل و دماغ پر لشکر اسلام کا ایسا رعب مسلط کردیا کہ ان کا امن و سکون چھن گیا، یہاں تک کہ مکہ فتح ہوگیا، اور سب کچھ ان کے ہاتھ سے جاتا رہا۔ مفسرین کہتے ہیں خہ اگر قریۃ سے مراد مکہ ہی مان لیا جائے تب بھی اس آیت کا حکم ہر اس قوم کو شامل ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے نعمتوں سے نوازا، اور مرور زمانہ کے ساتھ نعمت کے نشے میں ایسا مت ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کنے لگے اور سرکشی ان کی سرشت بن گئی، تو اللہ نے ان پر اپنا عذاب مسلط کردیا۔ مذکورہ بالا مثال کی تکمیل کے طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرکین مکہ کی ہدایت کے لیے انہی میں سے ایک رسول آیا جس کے حسب و نسب کو وہ لوگ جانتے تھے، اس رسول نے انہیں بھلائی کا حخم دیا اور برائی سے روکا، تو انہوں نے اس کی تکذیب کی اور کہا کہ تم رسول نہیں ہو، تو اللہ کے عذاب نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا اور وہ لوگ بڑے ہی ظالم تھے کہ اپنے لیے ابدی عذاب کا سبب بنے اور دوسروں کو بھی راہ حق سے روکا۔ النحل
113 النحل
114 (٧٠) جمہور مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں خطاب مسلمانوں کے لیے ہے، ان سے کہا جارہا ہے کہ تم جب ایمان لے آئے ہو اور کفر کو چھوڑ دیا ہے تو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے جو مال غنیمت ہاتھ آئے اسے کھاؤ وہ تمہارے لیے حالال ہے اور خبائث یعنی مردہ اور خون وغیرہ کھانا چھوڑ دو، اور اگر واقعی تم صرف اللہ کی عبادت کرتے ہو تو اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو اور اس کے حق کو پہچانو۔ النحل
115 (٧١) یہ آیت گزشتہ آیت کے مضمون کی تکمیل کرتی ہے تاکہ طیب اور خبیث کے درمیان تمیز ہوجائے، ان محرمات کا ذکر البقرہ، المائدہ اور الانعام میں آچکا ہے، بار بار بیان کرنے سے مقصود مسلمانوں کے ذہنوں میں ان کی حرمت کی شدت کو بٹھانا ہے، سورۃ البقرہ میں اور یہاں چار محرمات کا ذکر آیا ہے، جبکہ سورۃ المائدہ میں دس محرمات کا ذکر ہے، اس لیے کے بنیادی محرمات یہی چار ہیں۔ باقی چھ ان کے تابع ہیں۔ منخفقہ، موقوذۃ، متردیہ، نطیحہ اور جس کا کچھ حصہ جانور نے کھالیا ہو، میتۃ کے تابع ہیں، اور جسے بتوں پر ذبح کیا گیا ہو، وہ غیر اللہ پر ذبح کیے گئے جانور کے تابع ہے، اگر کسی شخص کو بھوک کی شدت سے موت کا خطرہ لاحق ہوجائے تو اس کے لیے بقدر ضرورت ان محرمات میں سے کھا کر اپنی جان بچا لینا جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے معاف کردے گا۔ النحل
116 (٧٢) کسی انسان کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی طرف سے کسی چیز کو حلال اور کسی کو حرام بنا لے، ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی ہے، اس نے جس چیز کو چاہا حلال بنایا اور جسے چاہا حرام بنایا، لیکن مشرکین عرب کا دستور تھا کہ وہ بعض جانوروں کو اپنی طرف سے حرام قرار دیتے تھے۔ جیسے بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حامی وغیرہ جانور، جنہیں وہ اپنے بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے اور ان کا گوشت کھانا حرام سمجھتے تھے، انہی مشرکین کو خطاب کر کے کہا گیا ہے کہ اللہ کے بارے میں جھوٹ نہ بولا کرو اور اپنی طرف سے چیزوں اور جانوروں پر حلال اور حرام کا حکم نہ لگایا کرو، یہ اللہ تعالیٰ کے خلاف افترا پردازی ہوگی کہ اس نے تو ایک چیز کو حلال بنایا اور تم سے حرام کہتے ہو اور جو اللہ کے بارے میں جھوٹ بولے گا وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا، اور اگر ایسے لوگ دنیا میں کھا پی رہے ہیں اور ظاہری طور پر ٹھاٹھ کر رہے ہیں تو اس سے کسی کو دھوکہ نہیں ہونا چاہیے، کہ وہ بڑے کامیاب ہیں۔ یہ دنیا تو بالکل عارضی چیز ہے مرنے کے بعد دردناک عذاب ان کا انتظار کر رہا ہے، ابن ابی حاتم نے ابو نضرہ کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے جب سے سورۃ النحل کی یہ آیت پڑھی ہے فتوی دینے سے ڈرتا ہوں۔ صاحب فتح البیان نے ان کا یہ قول نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ انہوں نے سچ کہا ہے، اللہ ان پر رحم کرے، اس لیے کہ یہ آیت کریمہ ہر اس مفتی کو شامل ہے جو اللہ کی کتاب یا رسول اللہ کی سنت کے خلاف فتوی دے، جیسا کہ بہت سے وہ لوگ کرتے ہیں جو کسی امام کی رائے کو رسول اللہ کی حدیث پر ترجیح دیتے ہیں یا وہ لوگ جو قرآن و سنت کے علم سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔ النحل
117 النحل
118 (٧٣) شریعت اسلامیہ میں محرمات کا ذکر کیے جانے کے بعد یہود کی شریعت میں محرمات کا ذکر کیا جارہا ہے اور مقصود یہ بتانا ہے کہ مشرکین عرب نے جن جانوروں کو اپنی طرف سے حرام بنا رکھا ہے، ان کی حرمت آسمانی دین میں ثابت نہیں ہے، یہ محض ان کی افترا پردازی ہے۔ نیز یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہود پر جن سابقہ حلال چیزوں کو حرام کردیا تھا جیسا کہ سورۃ الانعام آیت (١٤٦) اور سورۃ النساء آیت (١٦٠) میں آیا ہے، تو یہ تحریم ان کے گناہوں کی وجہ سے ہوئی تھی، اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا تھا۔ النحل
119 (٧٤) اس سورت کی اب تک جتنی آیتیں گزری ہیں ان سب کا عام موضوع شرک کی تردید اور ان کافروں کی زجر و توبیخ رہا ہے جو نبی کریم کی نبوت اور دوبارہ زندہ کیے جانے کا انکار کرتے تھے اسی لیے اب جبکہ یہ سورت ختم ہونے والی ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر رحم کرتے ہوئے توبہ کا دروازہ کھول دیا کہ جو لوگ اب تک نادانی اور جہالت کی وجہ سے شرک کا ارتکاب کرتے رہے ہیں اور وحی و رسالت اور بعث بعد الموت کا انکار کرتے رہے ہیں وہ اگر اپنے گناہوں سے توبہ کریں، اللہ تعالیٰ وحدانیت، رسول اللہ رسالت اور دوبارہ زندہ کیے جانے پر ایمان لائیں اور اپنی نیت اور اپنے اعمال و احوال کی اصلاح کریں تو اللہ تعالیٰ ان کے حال پر رحم کرے گا اور ان کے گناہوں کو معاف کردے گا۔ گویا قرآن کریم کی زبان میں کفار مکہ کے لیے یہ ایک بہت بڑی خوشخبری تھی۔ النحل
120 النحل
121 (٧٥) مشرکین مکہ کہتے تھے کہ وہ اپنے جد اعلی ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر ہیں جنہوں نے اللہ کا گھر بنایا تھا، حج کے اعمال بیان کیے تھے اور خانہ کعبہ اور اس کے ارد گرد کے علاقے کو حرم قرار دیا تھا، یہود و نصاری بھی دعوی کرتے تھے کہ وہ لوگ بھی ملت ابراہیمی کے پیروکار ہیں اور سب نے دین اسلام کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا جو فی الحقیقت وہی دین ہے جسے ابراہیم (علیہ السلام) لے کر آئے تھے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں ابراہیم (علیہ السلام) کی روحانی اور دینی زندگی کو بیان کر کے مشرکین اور یہود و نصاری کو آئینہ دکھایا ہے، تاکہ ان میں سے ہر جماعت اپنا چہرہ دیکھ کر پہچانے کہ کیا وہ واقعی دین ابراہیمی پر قائم ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابراہیم ایک صالح، تمام خوبیوں کے مالک اور لائق اقتدا امام تھے، اور وہ اپنے رب کے بڑے ہی فرمانربدار تھے، اور اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک نہیں بناتے تھے، اور اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے، یعنی اس کی رضا کے کاموں میں ان نعمتوں کا استعمال کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رسالت ور اپنی دوستی کے لیے چن لیا تھا، اس لیے کہ جب انہوں نے ہر چیز سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کی تو ان کے دل میں اس کی محبت پیوست کرگئی اور کسی دوسرے کی محبت کے لیے اس میں جگہ باقی نہ رہی، اور اللہ نے ان کی سیدھی راہ یعنی دین اسلام کی طرف رہنمائی کی، اور دنیا میں انہیں اچھائی دی یعنی ان کا ذکر جمیل تمام اہل ادیان کی زبانوں پر ہمشیہ کے لیے ثبت ہوگیا، اور آخرت میں وہ صالحین کی جماعت کے ساتھ جنت میں اعلی مقام پر فائز ہوں گے۔ اور نبی کریم کی جلالت قدرو منزلت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ ابراہیم کی ملت کی پیروی کریں جو اللہ کی خاطر تمام مشرکین سے الگ ہوگئے تھے، معلوم ہوا کہ ابراہیم کی طرف اپنی نسبت کرنے کے حقدار مشرکین اور یہود و نصاری نہیں بلکہ موحد مسلمان ہیں، جنہوں نے تمام باطل معبودوں کو ٹھکرا کر صرف ایک اللہ کی بندگی کو اپنا لیا، اور جنہوں نے اپنی عبادت اور اپنا جینا اور مرنا صرف اللہ رب العالمین کے لیے خاص کردیا۔ النحل
122 النحل
123 النحل
124 (٧٦) اس آیت کریمہ کا ماقبل والی آیت سے یہ تعلق ہے کہ یہود کہتے تھے کہ سینچر کے دن کی تعظیم ابراہیم (علیہ السلام) کے دین کا حصہ تھا، انہی کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نہ ابراہیم کے دین کا حصہ تھا نہ ہی کسی اور نبی کے دین کا، اسے اللہ تعالیٰ نے ان یہود پر فرض کردیا تھا جنہوں نے اس میں اختلاف کیا تھا ان کے اس اختلاف کی تفصیل یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ جمعہ کا دن افضل ہے، تو انہوں نے عناد میں آکر کہا کہ سینچر کا دن افضل ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے کہا کہ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے، دوسرا قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاری کو حکم دیا کہ وہ ہفتہ میں کسی ایک دن کی تعظیم کریں تو انہوں نے آپس میں اختلاف کیا اور یہود نے سینچر کا دن پسند کیا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اسی دن تمام مخلوقات کی تخلیق سے فارغ ہوا تھا، اور نصاری نے اتوار کا دن پسند کیا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی دن تمام مخلوقات کو پیدا کرنا شروع کیا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے دونوں کے لیے ان کے پسند کیے ہوئے دن کی تعظیم کو لازم کردیا، اور اس امت کے لیے اس نے اپنے فضل و کرم سے جمعہ کا دن پسند کیا جو ان کے لیے ہر طرح بابرکت دن ثابت ہوا۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ قیامت کے دن انہیں دین میں اختلاف کرنے زمین میں فساد پھیلانے اور راہ حق سے برگشتہ ہونے کا بدلہ ضرور دے گا۔ النحل
125 (٧٧) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو حکم دیا کہ وہ مخلوق کو اس کے دین کی طرف حکمت اور دانائی کے ساتھ بلائیں۔ ابن جریر کہتے ہیں کہ حکمت سے مراد قرآن و سنت ہے، یعنی دعوت کا طریقہ ان ہی دونوں کی روشنی میں متعین کریں۔ صاحب فتح البیان کہتے ہیں کہ حکمت سے مراد ایسی صحیح اور صریح بات ہے جو حق کو واضح کردے ور ہر شک و شبہ کا ازالہ کردے۔ اور موعظۃ سے مراد ایسی اچھی گفتگو ہے جسے سننے والا پسند کرے اور اس سے فائدہ اٹھائے، لیکن اگر داعی الی اللہ کا واسطہ کبھی سخت اور جھگڑلو مخالف سے پڑجائے تو اس کے سامنے حق کو بیان کرنے کے لیے مناظرانہ اسلوب اختیار کرے۔ (وجادلھم بالتی ھی احسن) میں اسی طرح اشارہ ہے یعنی نرمی کے ساتھ ایسی مدلل بات کرے کہ اس کا شر دب جائے، ور حق کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوجائے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص حق کی دعوت کو قبول نہیں کرتا تو آپ پریشان نہ ہوں، اس لیے کہ ہدایت دینا آپ کا کام نہیں ہے۔ اللہ زیادہ جانتا ہے کہ گمراہی پر کون باقی رہے گا اور کون ہدایت کو قبول کرے گا اور قیامت کے دن ہر ایک کو اس کی ہدایت یا گمراہی کے مطابق بدلہ دے گا۔ آپ کو دعوت کا حکم صرف اس لیے دیا گیا ہے تاکہ حجت پوری ہوجائے اور کافروں کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے۔ النحل
126 (٧٨) داعیان اسلام کو حکم دیا گیا ہے کہ اگر ان کا واسطہ غیر مسلموں سے پڑے تو پہلے انہیں حق قبول کرنے کی دعوت دیں اور اگر انکار کریں اور جزیہ بھی نہ دیں تو ان سے قتال کریں، اگر دشمنوں سے بدلہ لینے کی نوبت آئے تو زیادتی نہ کریں، ابن جریر کہتے ہیں کہ یہ آیت اس بارے میں نازل ہوئی ہے کہ اگر کوئی مظلوم ظالم کو پالے اور اس سے بدلہ لینے پر قادر ہوجائے تو بدلہ لینے میں زیادتی نہ کرے۔ اور بہرحال بہتر یہی ہے کہ جس پر زیادتی ہوتئی ہے وہ صبر کرے اور عفو درگزر سے کام لے۔ جمہور کی رائے ہے کہ یہ آیت محکم ہے اس لیے کہ اس میں انتقام نہ لینے کی نصیحت کی گئی ہے اور صبر کرنے والوں کی تعرفی کی گئی ہے۔ اور بعض لوگوں کی رائے ہے کہ یہ آیت ان آیات کے ذریعہ منسوخ ہوگئی ہے جن میں کافروں سے قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ شوکانی کہتے ہیں اس قول کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس آیت کے شان نزول میں محدثین نے ابی بن کعب سے روایت کی ہے کہ جنگ حد میں چونسٹھ انصاری اور چھ مہاجرین کام آگئے، ان میں حمزہ بھی تھے کافروں نے ان مقتول صحابہ کا مثلہ کیا، یعنی ان کی شکل و صورت بگاڑ دی تھی، انصار نے کہا کہ جس دن ہمیں موقع ملے گا، ان کے ساتھ ایسا ہی کریں گے۔ جب مکہ فتح ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ چنانچہ آپ نے کہا کہ ہم صبر کریں گے اور انتقام نہیں لیں گے۔ صحابہ سے کہا کہ تم لوگ سوائے چار آدمی کے کسی اور سے تعرض نہ کرو۔ (ترمذی، زوائد مسند احمد اور حاکم، محدث البانی نے اس کی تصحیح کی ہے) النحل
127 (٧٩) نبی کریم کو دعوت اسلامیہ کی راہ میں جو تکلیفیں پہنچتی تھیں اللہ نے انہیں ان پر صبر کرنے کی نصیحت کی ہے اور کہا ہے کہ اگر مشرکین مکہ اسلام قبول نہیں کرتے ہیں تو آپ غم نہ کھائیں اور ان کی سازشوں کو سوچ سوچ کر تنگ دل نہ ہوں، اللہ آپ کے لیے کافی اور آپ کا حامی و ناصر ہے، کیونکہ وہ ہمیشہ اپنے ان بندوں کا معین و مددگار ہوتا ہے جو خیر کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں، ان کی حفاظت کرتا ہے اور انہیں ان کے دشمنوں پر غلبہ دیتا ہے۔ مفسر ابو السعود کہتے ہیں کہ اس حکم میں نبی کریم بدرجہ اولی داخل ہیں، ہرم بن حیان سے ان کی جان کنی کے وقت کہا گیا کہ آپ کوئی وصیت کیجیے، تو انہوں نے کہا کہ وصیت مال کی ہوتی ہے اور میرے پاس مال نہیں ہے، البتہ میں تمہیں سورۃ النحل کی آخری آیتوں کو یاد رکھنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ وباللہ التوفیق النحل
128 النحل
0 سورۃ بنی اسرائیل مکی ہے، اس میں ایک سو گیارہ آیتیں اور بارہ رکوع ہیں۔ نام : اس کا نام (بنی اسرائیل) اس کی آیت (٤) (وقضینا الی بنی اسرائیل فی الکتاب لتفسدن فی الارض مرتین ولتعلن علوا کبیرا) سے ماخوذ ہے اسے سورۃ اسراء، اور سورۃ سبحان بھی کہتے ہیں۔ زمانہ نزول : ابن عباس کے خیال میں پوری سورت مکی ہے۔ ابن الزبیر کا بھی یہی قول ہے، لیکن انہوں نے تین آیتوں (ان ربک احاط بالناس) الاسرا : ٦٠۔ اور (وان کادوا لیستفزونک) الاسراء : ٧٦۔ اور (وقل رب ادخلنی مدخل صدق) الاسرا : ٨٠۔ کو مدنی بتایا ہے۔ مقاتل نے آیت (١٠٧) (اوتو العلم من قبلہ) کو بھی مدنی ہے۔ اس کی پہلی آیت بتاتی ہے کہ یہ سورت واقعہ معراج کے بعد نازل ہوئی تھی، اور صحیح احادیث کی رو سے یہ بات ثابت ہے کہ معراج نبی کریم کی ہجرت مدینہ سے صرف ایک سال پہلے واقع ہوا تھا گویا یہ سورت مکی دور کے آخر میں نازل ہوئی تھی، اسی لیئے اس میں جہاں عام مکی سورتوں کی طرح مشرکین کو ایمان باللہ اور رسالت و آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے وہیں یہود کو بھی مخاطب بنا کر انہیں رسول اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے، جن سے عنقریب مدنی زندگی میں سابقہ پڑنے والا تھا، اور اسلام کی دعوت کو مشرکین عرب کے دائرہ سے نکال کر یہود و نصاری کے سامنے پیش کیا جانا تھا، اور چونکہ اسلام انسانوں کو ایک مکمل ضابطہ حیات دینے کے لیے آیا تھا، اسی لیے اس سورت میں جو مدنی زندگی شروع ہونے سے کچھ ہی دنوں پہلے نازل ہوئی تھی، عام اخلاق، تمدن اور اجتماعی زندگی کے احکام بھی بیان کیے گئے ہیں، ور داعیان سلام کو صبر و استقامت اور نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور اس طرح اشارہ کیا گیا ہے کہ حالات عنقریب بدلنے والے ہیں کفر کا زور ٹوٹے گا اور اسلام بلند و بالا ہوگا۔ الإسراء
1 (١) عربی زبان میں سبحان سبح یسبح کا مصدر ہے جس کا معنی پاکی بیان کرنا ہے، قرآن کریم میں یہ لفظ کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور تمام عیوب سے اس کی پاکی بیان کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی کبرائی بیان کرنے کے لیے آیا ہے، اس کی ذات ایسی چیزوں پر قادر ہے جس پر کوئی دوسرا قادر نہیں ہے اور اس کا مظہر اسراء اور معراج کا واقعہ ہے کہ وہ اپنے بندے کو رات کے صرف ایک پہر میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گیا جو مسافت عام حالات میں ایک مسافر چالیس راتوں میں طے کرتا ہے، اس آیت کریمہ میں جمہور مفسرین کے نزدیک عبد سے مراد رسول اللہ ہیں، اہل علم کہتے ہیں کہ گر آپ کے لیے عبد یعنی بندہ سے بہتر کوئی نام اللہ کے نزدیک ہوتا تو اس آیت میں جبکہ آپ کا عظیم مقام بیان کیا جارہا ہے ضرور اس نام سے آپ کو دیا کیا جاتا۔ آیت بتاتی ہے کہ معراج کی رات نبی کریم کو مسجد حرام سے لے جایا گیا۔ لیکن مفسری لکھتے ہیں کہ آپ کو ام ہانی کے گھر سے لے جایا گیا تھا اس لیے کہ بعض احادیث میں صڑاحت اائی ہے کہ اس رات رسول اللہ کو ان ہی کے گھر سے لے جایا گیا تھا۔ اور نماز فجر سے پہلے وہاں واپس آگئے تھے، اسی لیے بہت سے مفسرین نے لکھا ہے کہ آپ کو ام ہانی کے گھر سے خانہ کعبہ کے پاس لے جایا گیا، وہاں آپ کے دل کو آب زمزم سے دھویا گیا اور اسے ایمان و حکمت سے بھر دیا گیا، اور پھر آپکو وہاں سے مسجد اقصی لے جایا گیا، اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصی میں تمام انبیاء کو جمع کردیا تمام انبیاء نے آپ کی امامت میں نماز پڑھی اور اس طرح آپ تمام نبیوں کے امام ہوگئے، آیت میں مسجد اقصی کی صفت (الذی بارکنا حولہ) بیان کی گئی ہے، یعنی دور دراز کی وہ مسجد جس کے ارد گرد اللہ تعالیٰ نے دین و دنیا کی بے شمار برکتیں رکھی ہیں، جہاں بڑے بڑے اولوالعزم انبیا مبعوث ہوئے جو بے شمار اولیا و صالحین کا مسکن رہا ہے اور جس سرزمین میں انواع و اقسام کے پھل اور کھانے کی چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ اور اس (اسراء و معراج) کا مقصد آیت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو اپنی عظیم آیات اور نشانیوں کا مشاہدہ کرانا چاہا، جیسے آپ کا رات کے صرف ایک پہر میں چالیس راتوں کی مسافت طے کرنا، بیت المقدس کا مشاہدہ، انبیائے کرام کا آپ کے سامنے آنا اور ان کی امامت کرانی، اور ان انبیائے کرام کے بلند و بالا مقامات کا مشاہدہ، اور پھر آسمانوں کے دروازوں کا کھولا جانا اور جنت و جہنم وغیرہ کا مشاہدہ کرنا۔ اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ معراج کا واقعہ ہجرت سے ایک سال قبل واقع ہوا تھا۔ زہری اور ابن سعد وغیرہ کا بھی یہی خیال ہے۔ امام نووی کے نزدیک یہی صحیح ہے، امام ابن حزم نے تو مبالغہ سے کام لیا ہے اور اس پر اجماع کیا ہے اور کہا ہے کہ معراج ماہ رجب ١٢ نبوی میں واقع ہوا تھا، حافظ عبدالغنی مقدسی نے ستائیس رجب کی تاریخ کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ لوگوں کا اسی پر عمل ہے۔ اکثر و بیشتر علمائے سلف و خلف کی رائے ہے کہ نبی کریم جسم و روح دونوں کے ساتھ بیت المقدس اور پھر آسمان پر تشریف لے گئے تھے، ابن عباس، جابر، انس، حذیفہ، عمر، ابو ہریرہ، مالک بن صعصعہ، ابو حبہ البدری، ابن مسعود، ضحاک، سعید بن جبیر، قتادہ، سعید بن المسیب، ابن شہاب، ابن زید، حسن، مسروق، مجاہد، عکرمہ اور ابن جریج کا یہی قول ہے۔ طبری، احمد بن حنبل اور اکثر متاخرین فقہا اور محدثین اور متکلمین و مفسرین کا بھی یہی قول ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ معراج صرف روحانی واقع ہوا تھا، اور انہوں نے اس سورت کی آیت (٦٠) (وما جعلنا الرویا التی اریناک) سے استدلال کیا ہے کہ قرآن نے صراحت کردی ہے کہ وہ ایک خواب تھا، اور ابن اسحاق نے عائشہ اور معاویہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ کا جسم مبارک اپنی جگہ سے مفقود نہیں پایا گیا۔ اور رسول اللہ نے خود فرمایا ہے : بینا انا نائم۔ کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو میں سویا ہوا تھا۔ اور تیسرا قول یہ ہے کہ بیت المقدس تک کا سفر جسم کے ساتھ طے کیا اور وہاں سے آسمان کی طرف آپ نے روحانی سفر کیا۔ اس لیے کہ آیت میں اسراء کی تحدید مسجد اقصی تک کردی گئی ہے۔ قاضی عیاض نے اپنی کتاب الشفا میں لکھا ہے کہ حق اور صحیح انشا اللہ یہی ہے کہ معراج کا واقعہ آپ کے جسم و روح دونوں کے ساتھ پیش آیا تھا۔ آیت کریمہ صحیح احادیث اور غوروفکر سے یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ اور ظاہری معنی چھوڑ کر تاویل کی راہ اس وقت اختیار کی جاتی ہے جب ظاہری معنی مراد لینا ناممکن ہو۔ اور جسم کے ساتھ حالت بیداری میں معراج کا وقوع پذیر ہونا اللہ کی قدرت سے بعید بات نہیں ہے، اگر روحانی سفر ہوتا تو اللہ تعالیٰ بعبدہ کے بجائے بروح عبدہ کہتا، اور گر خواب کا سفر ہوتا تو اس میں نہ کوئی نشانی ہوتی نہ ہی کوئی معجزہ، اور نہ کفار اسے اپنی عقل سے بعید بات سمجھتے اور نہ اس کا انکار کرتے۔ حدیث معراج میں ہے کہ آپ نے انبیا کو بیت المقدس میں نماز پڑھائی، جبریل (علیہ السلام) براق لے کر آئے، آپ آسمان کی طرف چڑھے، آپ کے لیے آسمانوں کے دروازوں کھولے گئے، اور جبریل سے پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے، تو انہوں نے کہا : محمد، ان آسمانوں پر آپ کی ملاقات انبیائے کرام سے ہوئی، انہوں نے آپ کو مرحبا کہا، آپ کی امت پر نماز فرض کی گئی اور آپ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اس بارے میں مشورے کیے، بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جبریل نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے کر آسمان کی طرف چڑھے، پھر چڑھتے رہے، یہاں تک کہ میں اس جگہ پر پہنچ گیا جہاں سے میں قلم سے لکھے جانے کی آوز سن رہا تھا۔ پھر آپ سدرۃ المنتہی تک پہنچے، جنت میں داخل ہوئے اور وہاں اشخاص و اشیا کا مشاہدہ کیا، ابن عباس کہتے ہیں کہ آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، حالت خواب میں نہیں، قاضی عیاض آگے لکھتے ہیں کہ اگر یہ سب کچھ حالت خواب میں ہوا ہوتا تو اسری کا لفظ استعمال نہ ہوتا اس لیے کہ خواب کے لیے یہ لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ الإسراء
2 (٢) نبی کریم اور معراج کے ذکر کے بعد موسیٰ کلیم اللہ اور ان کی کتاب تورات کا ذکر کرنا مناسب ہوا۔ اس لیے کہ بسا اوقات قرآن کریم میں نبی کریم اور موسیٰ (علیہ السلام) اور قرآن و تورات کا ذکر ایک ساتھ آیا ہے۔ رزای کہتے ہیں کہ پہلی آیت میں چونکہ نبی کریم اور معراج کا ذکر آیا ہے، اس لیے مناسب رہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر آتا اور بتایا جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے پہلے انہیں تورات جیسی آسمانی کتاب دی تھی، دونوں ہی کتابوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو یہی حکم دیا تھا کہ وہ اس کے علاوہ کسی کو اپنا دوست اور معبود نہ بنائیں۔ آیت (٣) میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو نوح کی ذریت کے لفظ سے تعبیر کر کے انہیں یہ احساس دلانا چاہا ہے کہ اس نے تمہارے جد اعلی کو سمندر میں ڈوبنے سے بچا لیا تھا اس احسان کا تقاضا ہے کہ تم لوگ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، آیت کے آخرت میں نوح (علیہ السلام) کو کو شکر گزار بندہ بتایا گیا ہے اس لیے کہ انہوں نے اللہ کی نعمتوں کی قدر کی اور اس کا شکر گزار بندہ بن کر دنیا میں رہے، اور اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ان کے شکر ہی کی وجہ سے اللہ نے انہیں غرق ہونے سے بچا لیا تھا اس لہیے ان کی ذریت کو انہی کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ الإسراء
3 الإسراء
4 (٣) اللہ تعالیٰ نے تورات میں بنی اسرائل کے بارے میں یہ خبر دی تھی کہ وہ لوگ گناہوں کا ارتکاب کر کے زمین میں فساد پھیلائیں گے اللہ کے قوانین کی نافرمانی کریں گے اور لوگوں پر ظلم کریں گے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور زمین کو ظلم و فساد سے بھر دیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کردیا جو بہت ہی زیادہ طاقتور اور ظلم و جور والے تھے، انہوں نے ان کے گھروں میں گھس کر خوب قتل و غارتگری کی اور انہیں غلام بنا لیا۔ جب انہوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ اولاد اور مال و دولت سے نوازا اور ان کی ذریت میں خوب برکت دی، یہاں تک کہ ان کی بہت بڑی تعداد ہوگئی۔ آیت (٧) میں اوپر کہی گئی بات کی علت بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا اس لیے کیا تاکہ بنی اسرائیل کو معلوم ہوجائے کہ اگر وہ توبہ کریں گے اور اپنے اعمال کی اصلاح کریں گے تو اس کا اچھا نتیجہ انہی کو ملے گا اور اگر اپنے گناہوں پر اصڑار کریں گے تو اس کا برا انجام انہی کو ملے گاس۔ جیسا کہ اب تک ہوا ہے کہ جب وہ اچھے تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نعمتوں سے نوازا اور جب تمرد اور سرکشی کی زندگی اختیار کرلی تو اللہ نے اپنے طاقتور بندوں کو ان پر مسلط کردیا اور اپنی نعمتیں چھین لیں، اور جب دوبارہ خراب ہوگئے تو اللہ نے ان پر دوبارہ ان کے دشمنوں کو مسلط کردیا، جنہوں نے ان پر خوب ظلم کیا اور انہیں قید و بند کی زندگی سے گزارا، مسجد اقصی کو منہدم کیا اور ہر چیز کو تباہ و برباد کردیا۔ آیت (٨) میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا ان کے برے اعمال کا نتیجہ تھا اور اس لیے ہوا تاکہ وہ دوبارہ اللہ کی طرف رجوع کریں اپنے گناہوں سے تائب ہوں اور تورات کے مطابق اپنی زندگی گزاریں، اس لیے کہ اب تو انہیں معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب گناہوں کی وجہ سے آتا ہے، اور نجات توبہ کے ذریعہ ملتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بنی اسرائل اپنی توبہ پر قائم نہیں رہے اور سہ بارہ تمرد اور سرکشی کی زندگی اختیار کئی تو اللہ تعالیٰ نے سہ بارہ ان پر ان کے دشمنوں کو مسلط کردیا۔ قرآن کریم کے اس اجمال کو سمجھنے کے لیے تھوڑی تفصیل کی ضرورت ہے جو مندرجہ ذیل ہے : کہتے ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے تقریبا نو سو سال پہلے، سلیمان (علیہ السلام) کی موت کے بعد ان کے لڑکے نے زمام حکومت سنبھالی جس نے اپنی قوم کے لیے بتوں کی عابدت کو جائز قرار دے دیا۔ چناچنہ مصر کے بادشاہ نے بیت المقدس پر حملہ کر کے ہیکل سلیمجانی یعنی مسجد اقصی کے خزانے لوٹ لئے، اور حالت بایں جارسید کہ ملک کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ ایک کا نام مملکت یہوذا پڑا جو یہوذا اور بنیامین کی اولاد پر مشتمل تھی، اور دوسرے کا نام مملک اسرائیل پڑا جو یعقوب (علیہ السلام) کے دوسرے دس بیٹوں کی اولاد سے بنی تھی۔ مملکت اسرائیل کا پہلا بادشاہ یربعام بنا جس نے سونے کے دو بچھڑے بنا کر اپنی رعایا کو ان کی عبادت کا حکم دیا، تاکہ انہیں بیت المقدس نہ جانا پڑے، اس لیے کہ اسے ڈر تھا کہ وہاں جاکر کہیں مملکت یہوذا کے بادشاہ سلیمان کے بیٹے کی تائید نہ کرنے لگیں، ان لوگوں نے ڈھائی سو سال تک حکومت کی، اس بیچ میں ان کے بعض بادشاہوں نے بت پرستی کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن پھر پہلی حالت عود کر آئی تھی۔ جب ان کے گناہ بہت زیادہ بڑھ گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اشور کے بادشاہ کو مسلط کردیا جس کے ہاتھوں مملکت اسرائیل کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد مملکت یہوذا بیس سال سے کچھ زیادہ دونوں تک باقی رہی۔ بالاخر ان کا بادشاہ ایک بڑا ہی خبیث اور مشرک اڈمی بنا جس کے گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر بابل کے بادشاہ بخت نصر کو مسلط کردیا، جس نے ان میں سے بتوں کو غلام بنا لیا۔ یہ ان کی پہلی ذلت و رسوائی تھی جس کی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے۔ اس کے بعد اس کا بیٹا بادشاہ بنا جو اپنے باپ ہی کے مانند تھا چنانچہ آٹھ سال کے بعد دوبارہ بخت نصر نے پھر ان پر چڑھائی کی اور خوب لوٹ مار کیا اور بہتوں کو غلام بنا لیا، یہ ان کی دوسری ذلت و رسوائی تھی۔ ان کا آخری بادشاہ تمام اگلے بادشاہوں سے برا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے سہ بارہ شاہ بابل کو ان کے خلاف فوج کشی پر ابھارا، اس نے بیت المقدس کا محاصرہ کیا اس بادشاہ کو پابند سلاسل کیا، شہر اور ہیکل سلیمانی کو جلا کر خاکستر کردیا، اور کچھ مسکینوں کے علاوہ تمام قوم یہوذا کو غلام بنا لیا، اور انہیں جانوروں کی طرح ہانک کر بابل لے گیا، اور مملکت یہوذا کا خاتمہ ہوگیا، یہ ان کی تیسری ذلت و رسوائی تھی۔ ستر سال کے بعد جب غلامی سے آزاد کیے گئے تو دوبارہ آکر فلسطین میں آباد ہوئے، لیکن اس کے بعد ہمیشہ کسی نہ کسی کے زیر اثر ہی رہے۔ فارس و یونان اور روم کے بادشاہوں نے انہیں کبھی بھی چین سے نہ رہنے دیا، یہاں تک کہ عمر بن خطاب نے بیت المقدس کو فتح اور صخرہ سے قبلہ کی جانب مسجد تعمیر کی جسے دوبارہ ولید بند عبدالملک نے بونائی جو اب تک باقی ہے۔ الإسراء
5 الإسراء
6 الإسراء
7 الإسراء
8 الإسراء
9 (٤) اس آیت کریمہ میں قرآن کریم کی وہ خوبی بیان کی گئی ہے جس کے سبب وہ تمام دیگر آسمانی کتابوں پر فائق ہوگیا ہے۔ کلمہ اقوم کے بعد عبارت محذوف ہے جس کا معنی یہ ہے کہ قرآن سب سے بہتر حالت یا سب سے بہتر ملت یا سب سے عمدہ راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور وہ راہ دین اسلام کی راہ ہے جس کی اتباع میں انسانوں کے لیے دنیا و آخرت کی ہر بھلائی ہے۔ اور یہ قرآن ان لوگوں کو جنت کی خوشخبری دیتا ہے جو اپنے ایمان میں مخلص ہوتے ہیں، عمل صالح کرتے ہیں اور گناہوں سے پرہیز کرتے ہیں اور جو لوگ بعث بعد الموت اور آخرت میں جزا و سزا پر ایمان نہیں رکتھے، انہیں اس بات کی خبر دیتا ہے کہ اللہ نے ان کے لیے آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ الإسراء
10 الإسراء
11 (٥) مفسر ابو السعود لکھتے ہیں کہ قرآن جو ہادی ہے اس کا حال بیان کرنے کے بعد اب انسان جو مہتدی ہے اس کا حال بیان کیا جارہا ہے، اور ان دونوں کے درمیان جو تباین پایا جاتا ہے اسے اجاگر کیا جارہا ہے، اور انسان سے مراد جنس انسان ہے جس کے بعض افراد کا حال یہاں بیان کیا گیا ہے یا بعض اوقات میں اس کی جو حالت ہوتی ہے اسے یہاں بیان کیا گیا ہے۔ پہلی صورت میں آیت کا معنی یہ ہوگا کہ قرآن انسان کو اس بھلائی کی طرف بلاتا ہے جس سے بڑھ کو کوئی بھلائی نہیں ہے اور اس شر (یعنی عذاب الیم) سے ڈراتا ہے جس کے بعد کوئی شر نہیں اور کافر جو انسان ہوتا ہے اپنے لیے برائی چاہتا ہے یا تو اپنی زبان کے ذریعہ یا اپنے اعمال کے ذریعہ۔ اور دوسری صورت میں معنی یہ ہوگا کہ قرآن تو انسان کو بھلائی کی طرف بلاتا ہے لیکن وہ خود بعض اوقات جب غصہ میں ہوتا ہے تو اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال کے لیے بد دعائیں کرتا ہے اور دونوں ہی حالتوں میں انسان بڑا ہی جلد باز ہوتا ہے، صبر سے کام نہیں لیتا اور حالات بدل جانے کا انتظار نہیں کرتا۔ الإسراء
12 (٦) چونکہ اوپر قرآن کریم کی خوبیوں کا ذکر آیا ہے اسی مناسبت سے یہاں بعض ان نشانیوں کا ذکر کیا جارہا ہے جنہیں اللہ عالی نے پوری تفصیل کے ساتھ قرآن میں بیان کردیا ہے اور لوگوں کو فکر و نظر کی دعوت کی ہے تاکہ اس کی وحدانیت پر ایمان لے آئیں اور رسول اللہ کی نبوت کی تصڈیق کرتے ہوئے اسلام میں داخل ہوجائیں۔ رات اور دن کی ہیئت ان کا ایک دوسرے کے پیچھے آنا جانا، اور چھوٹا بڑا ہونا، دو ایسی نشانیاں ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ان کا ایک خالق ہے جو بڑی حکمتوں والا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے رات کے لیے چاند کو بنایا ہے جس کی روشنی دھیمی ہوتی ہے اور دن کے لیے سورج کو بنایا ہے جس کی روشنی تیز ہوتی ہے، تاکہ آدمی معاش کی تلاش میں بآسانی حرکت کرسکے۔ اور ان دونوں کا بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ انہی کے آنے جانے، گھٹنے بڑھنے اور مسلسل حرکت کے ذریعہ دن اور رات کے گھنٹوں، اوقات، ہفتوں، مہینوں اور سالوں کا حساب معلوم کیا جاتا ہے، اگر اللہ نے انہیں پیدا نہ کیا ہوتا تو یہ حسابات معلوم ہیں ہوتے اور لوگوں کے معاملات ٹھپ پڑجاتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی عظمت ذہنوں میں مزید بٹھانے کے لیے فرمایا کہ ہم نے قرآن میں ہر وہ بات بیان کردی ہے جس کی انسان کو دین و دنیا کی سدھار کے لیے ضرورت پڑ سکتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النحل آیت (٨٩) میں فرمایا ہے : (ونزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شیئ) کہ ہم نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے جس میں ہر چیز کی تفصیل موجود ہے۔ الإسراء
13 (٧) جب اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہر چیز بیان کردی ہے تو کسی کے پاس راہ ضلالت اختیار کرنے کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہا، اسی لیے اس آیت میں اللہ نے فرمایا کہ ہر آدمی اپنی مرضی اور اختیار سے جو بھی اچھے یا برے اعمال کرتا ہے اس سے وہ چھٹکارا نہیں پاسکتا ہے اس کا عمل اس کے ساتھ ایسا ہی لگا ہوتا ہے جیسے کسی کی گردن کا طوق، اس سے کسی حال میں بھی الگ نہیں ہوتا ہے۔ اور اس عمل کے مطابق سعادت و نیک بختی یا شقاوت و بدبختی بھی اس کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔ اس سے وہ چھٹکارا نہیں پاسکتا ہے، اگر بدبخت ہوگا تو جہنم اور نیک بخت ہوگا تو جنت اس کا ٹھکانا ہوگا۔ اور قیامت کے دن ہر آدمی اپنا نامہ اعمال اپنے آگے پھیلا ہوا پائے گا۔ اور اس سے کہا جائے گا کہ اپنا نامہ اعمال پڑھو جس میں تمہارے چھوٹے بڑے تمام اعمال درج ہیں، اور آج تم خود ہی اپنے اعمال کا حساب لگاؤ گے اور گواہ بنو گے کہ تم نے ان کا ارتکاب کیا تھا۔ الإسراء
14 الإسراء
15 (٨) اوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے ہر آدمی کو یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ جو شخص آج راہ ہدایت کو اختیار کرے گا اللہ اس کے رسول، یوم آخرت اور جنت و جہنم پر ایمان لائے گا، عمل صالح کرے گا، اور شرک و معاصی سے اجتناب کرے گا تو اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا، عذاب سے نجات پائے گا اور جنت کا مستحق بنے گا، اور جو شخص گمراہ ہوگا، قرآن کریم اور نبی کریم کو جھٹلائے گا اور شرک و معاصی کا ارتکاب کرے گا تو اس کا نقصان اسی کو پہنچے گا، اور جہنم اس کا ٹھکانا ہوگا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت کے دن کوئی شخص کسی دوسرے آدمی کے گناہوں کا ذمہ دار نہیں ہوگا۔ (٩) آیت کے اس حصہ میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے اپنا فضل و کرم اور ان کے ساتھ اپنا عدل و انصاف بیان فرمایا ہے کہ وہ کبھی بھی کسی قوم کو اپنا رسول بھیجنے سے پہلے عذاب نہیں دیتا۔ جب اپنا رسول بھیج کر حق و باطل کو ان کے لیے آشکارا کردیتا ہے اور پھر بھی ایمان نہیں لاتے تو ان پر اپنا عذاب نازل کردیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ طہ آیت (١٣٤) میں فرمایا ہے : (ولا انا اھلکناھم بعذاب من قبلہ لقالوا ربنا لو لا ارسلت الینا رسولا فنتبع آیاتک من قبل ان نذل ونخزی) کہ اگر ہم اس سے پہلے ہی انہیں عذاب سے ہلاک کردیتے تو یقینا یہ کہہ اٹھتے کہ اے ہمارے پروردگار ! تو نے ہمارے پاس رسول کیوں نہ بھیجا، کہ ہم تیری آیتوں کی تابعداری کرتے اس سے پہلے کہ ہم ذلیل و خوار ہوتے، اس کے علاوہ بھی قرآن کریم میں بہت سی آیات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب تک اپنا رسول بھیج کر حجت تمام نہیں کردیتا نہ دنیا میں کسی قوم کو ہلاک کرتا ہے اور نہ ہی آخرت میں کسی کو عذاب دے گا۔ الإسراء
16 (١٠) جس عذاب کا اوپر ذکر آیا ہے اسی کا سبب بیان کیا جارہا ہے اور اس طرف اشارہ ہے کہ اس سے مراد دنیاوی عذاب ہے، آیت کا معنی یہ ہے کہ جب ہم کسی قوم کو عذاب کے ذریعہ ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اس کے عیش پرستوں اور ناز و نعم میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو اپنے رسول کی زبانی طاعت بندگی کا حکم دیتے ہیں، لیکن وہ لوگ ہمارے حکم کی مخالفت کرتے ہیں اور سرکشی اور تمرد ان کا شیوہ بن جاتا ہے، تو ان پر عذاب کا نزول واجب ہوجاتا ہے، پھر ہم انہیں یکسر تباہ و برباد کردیتے ہیں، جیسا کہ بیت المقدس والوں کے ساتھ ہوا کہ جب یہود نے اللہ کے دین کو پس پشت ڈال دیا تو ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کردیا۔ آیت کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب ہم کسی قوم کو عذاب کے ذریعہ ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اس میں فاسقوں اور فاجروں کی تعداد بڑھا دیتے ہیں جو کثرت کے ساتھ فسق و فجور کا ارتکاب کرتے لگتے ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اگرچہ اللہ کا حکم تمام لوگوں کو شامل ہوتا ہے لیکن یہاں عیش کوشوں کا ہی ذکر اس لیے آیا ہے کہ دنیا میں شر و فساد پھیلانے والے درحقیقت یہی لوگ ہوتے ہیں پھر دوسرے لوگ ان کی پیروی کرنے لگتے ہیں۔ الإسراء
17 (١١) گزشتہ قوموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہی طریقہ رہا ہے کہ جب انہوں نے کفر و سرکشی کی راہ اختیار کی تو اللہ نے انہیں ہلاک کردیا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت میں کفار مکہ کے لیے ایک قسم کی دھمکی ہے کہ اگر وہ بھی اپنے کفر پر جمے رہے تو کوئی بعید نہیں کہ اللہ کا عذاب ان پر نازل ہوجائے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو خطاب کر کے فرمایا کہ آپ کا رب اپنے بندوں کے گناہوں سے خوب واقف ہے، اس لیے انہیں ڈر کر رہنا چاہیے، کہ کہیں ان کا گناہ ان کی ہلاکت کا سبب نہ بن جائے، اس لیے کہ قوموں کی ہلاکت کی بات آنے کے بعد گناہوں کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کسی قوم کو اس کے گناہوں کی وجہ سے ہی ہلاک کیا جاتا ہے۔ الإسراء
18 (١٢) آیت (١٣) میں آچکا ہے کہ ہر آدمی کا عمل چاہے اچھا ہو یا برا، اس کا لازمہ بن جاتا ہے اس سے وہ کسی حال میں چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتا ہے، اور اسی کے مطابق قیامت کے دن کی نیک بختی یا بدبختی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں تقریبا اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ جس آدمی کی زندگی کا مقصد دنیا طلبی ہوتی ہے وہ گویا اپنے لیے شومی قسمت کو دعوت دیتا ہے اور جس کا مقصد حیات آخرت کی تیاری ہوتی ہے وہ اپنے لیے سعادت و نیک بختی کو اختیار کرلیتا ہے۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ جو شخص دنیا کے عارضی فائدے کی طلب میں لگا رہتا ہے اس کی کوشش کا منتہائے مقصود دنیا کی کامیابی ہوتی ہے، آخرت پر اس کا ایمان نہیں ہوتا، اس لیے مرنے کے بعد اسے اللہ سے نہ ثواب کی امید ہوتی ہے اور نہ ہی سزا کا ڈر، ایسے لوگوں میں سے کسی کے لیے تو اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق دنیاوی منافع کے دروازے کھول دیتا ہے اور کسی پر ان دروازوں کو تنگ کردیتا ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ انہیں کسی فوری عذاب کے ذریعہ ہلاک کردیتا ہے اور آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور اللہ کے ناشکرے بندے ہونے کی وجہ سے اس کی نگاہ میں برے اور اس کی رحمت سے دور ہوں گے، اور جو لوگ ایمان لانے کے بعد طلب آخرت کے لیے کوشاں ہوں گے اور ان کی زندگی کا منتہائے مقصود اللہ کی رضا حاصل کرنی ہوگی، قیامت کے دن انہیں ان کے نیک اعمال کا بہترین بدلہ دیا جائے گا۔ الإسراء
19 الإسراء
20 (١٣) جہاں تک دنیاوی زندگی کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت و مہربانی اس کے تمام ہی بندوں کو شامل ہے، چاہے وہ مومن ہوں یا کفر، وہ دونوں قسم کے لوگوں کو زندگی کے آخری لمحہ تک روزی پہنچاتا ہے۔ البتہ موت کے بعد دونوں کے احوال مختلف ہوجائیں گے جس کا مقصد حیات صرف دنیا طلبی ہوگی، اسے جہنم کی طرف ہانک کرلے جایا جائے گا، اور جو آخرت کا طلبگار ہوگا اسے جنت میں جگہ ملے گی، دنیا میں کسی کافر کا کفر اور کسی نافرمان کی نافرمانی اللہ کی روزی سے محرومی کا سبب نہیں بنتی ہے۔ آیت (٢١) میں نبی کریم کو مخاطب کر کے تمام بنی نوع انسان سے کہا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کی نعمتوں کی تقسیم میں اپنی حکمت کی بنیاد پر ایک کو دوسرے پر فوقیت دیتا ہے، کسی کو زیادہ دیتا ہے اور کسی کو کم، کوئی قوی ہوتا ہے اور کوئی کمزور، کوئی صحت مند ہوتا ہے اور کوئی بیمار، لیکن آخرت میں درجات کی کمی بیشی اور ایک کا دوسرے پر فوقیت پانا، زیادہ واضح ہوگا، خاص طور پر مومن و کافر کے درمیان یہ تفریق زیادہ کھل کر سامنے آجائے گی، کہ مومن اللہ کے فضل و کرم سے جنت میں داخل کردیا جائے گا اور کافر کو جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔ آیت (٢٢) میں آخرت کی کامیابی اور جنت میں اعلی مقام حاصل کرنے کا بنیادی عمل یہ بتایا گیا کہ آدمی شرک سے دوری اختیار کرے اور ایمان باللہ کے تقاضوں کو پورا کرے اس لیے کہ جو شخص عبادت میں اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک کرتا ہے وہ اس کا بدترین بندہ ہوتا ہے اور وہ اسے انہی جھوٹے معبودوں کے سپرد کردیتا ہے اور اس کی نصرت و تائید سے اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔ سورۃ آل عمران آیت (١٦٠) میں ہے : (وان یخذلکم فمن ذا الذی ینصرکم من بعدہ) کہ اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے۔ الإسراء
21 الإسراء
22 الإسراء
23 (١٤) شرک سے ممانعت کے بعد یہاں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو مخاطب کر کے صراحت کے ساتھ توحید کا حکم دیا اور اس کے بعد ہی والدین کے ساتھ اچھا معاملہ کرنے کا حکم دے کر انسان کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھانی چاہی کہ توحید باری تعالیٰ اور اس کے حقوق کی ادائیگی کے بعد، دنیا میں والدین کے حقوق سے بڑھ کو کوئی حق نہیں اور اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کا خالق و موجود ہے، اس لیے اس کی عبادت ضروری ہوئی اور رحم مادر میں باپ کا نطفہ قرار پانے کے بعد ماں اس کا بوجھ نو ماہ تک ہزار تکلیفیں برداشت کر کے ڈھوتی رہتی ہے اور جب اللہ کی قدرت سے ماں کے پیٹ سے بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ بالکل عاجز و کمزور ہوتا ہے اس میں حرکت کرنے کی بھی صلاحیت نہیں ہوتی، اس وقت سے ماں اور باپ اللہ کے بعد اس کا سہارا بنتے ہیں اس کی حفاظت کی خاطر دن کا چین اور رات کا سکون کھو دیتے ہیں اور ہر جتن کر کے اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں، اسے اپنی نگاہ شفقت کے زیر سایہ پالتے ہیں، تو گویا اس کے وجود و بقا کے لیے اللہ کی قدرت و ربوبیت کے بعد انہی دونوں کی شفقت و محبت کام کرتی ہے، اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کا جو طریقہ سکھلایا ہے اس سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو اپنے والدین کی تعظیم و تکریم اور خدمت کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھنی چاہیے، جب دونوں یا ان میں سے ایک بوڑھے ہوجائیں تو ان پر نگاہ شفقت و محبت ڈالے، ان کی خدمت کر کے قلبی راحت محسوس کرے اور ان کی خدمت کرتے ہوئے اگر کوئی تکلیف پہنچے تو اف تک نہ کرے اور ان کے ساتھ غایت محبت و اکرام کا معاملہ کرے، ان کے سامنے اپنے آپ کو جھکا کر رکھے، سخت لہجہ میں بات نہ کرے، آواز اونچی نہ کرے ان کی خدمت کو دنیا و آخرت کی سعادت و نیک بختی کا سبب سمجھے، اس لیے کہ آج وہ دونوں اس شخص کی مدد کے محتاج ہوگئے ہیں جو پیدائش کے بعد سے ان کی مدد کا محتاج ترین فرد تھا، یہاں تک کہ ان کے سایہ عاطفت میں پل بڑھ کر جوان ہوگیا۔ قفال نے (واخفض لھما جناح الذل) کے تحت لکھتا ہے کہ جس طرح چڑیا غایت حفاظت کے پیش نظر اپنے چوزوں کو اپنے پر سے ڈھانک لیتی ہے اور جب پرواز سے فارغ ہو کر زمین پر اترنا چاہتی ہے تو اپنے پر سمیٹ لیتی ہے اسی طرح لڑکا جب جوان ہوجائے اور والدین بوڑھے ہوجائیں تو ہر دم ان کی حفاظت کرتا رہے اور ان کے سامنے نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ رہے۔ آیت کے اس حصہ میں تواضع اور انکساری کی طرف ایک بلیغ اشارہ ہے۔ سعید بن جبیر نے اس کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ اے انسان ! تو اپنے والدین کے لیے اس طرح تواضع اور انکساری کا اظہار کر جس طرح غلام اپنے سخت مزاج اور سخت گیر آقا کے سامنے کرتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے گویا یہ کہنا چاہا ہے کہ والدین کے لیے اپنی عارضی شفقت و محبت پر اکتفا نہ کرو، بلکہ جب تک زندہ رہو روزانہ کم از کم پانچوں نمازوں میں ان کے حق میں دعا کرو کہ اللہ ان پر دائمی رحمت کرے، ان کی مغفرت فرما وے اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے جس طرح انہوں نے غایت شفقت و محبت کے ساتھ تمہاری پرورش کی تھی جب تم چھوٹے تھے اور حرکت نہیں کرسکتے تھے۔ الإسراء
24 الإسراء
25 (١٥) دلوں کے بھید اور احوال کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ کون جانتا ہے؟ جو شخص والدین کے لیے نیک جذبات رکھتا ہے اللہ اسے خوب جانتا ہے اور اگر کوئی شخص ان کے لیے نفرت کا جذبہ رکھتا ہے اور انہیں بوجھ سمجھتا ہے تو اسے بھی اللہ خوب جانتا ہے اور دونوں قسم کے آدمی کے ساتھ اس کی نیت کے مطابق اللہ معاملہ کرے گا، آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اچھی نیت اور عام حالات میں والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کے باوجود اگر کبھی کوئی تقصیر ہوجائے اور اس پر آدمی نادم ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کردے گا اور عذاب نہیں دے گا۔ الإسراء
26 (١٦) والدین کے بعد دیگر رشتہ داروں، فقیروں اور مسافروں کا خیال کرنے کی نصیحت کی گئی ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت میں قریب کے بجائے ذو القربی سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ اگر کسی کے ساتھ ادنی سی بھی قرابت ہے تو اس کا خیال رکھا جانا چاہیے، اور صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ اقارب کو صدقہ دینے میں صلہ رحمی کا بھی اجر ملتا ہے۔ آخر میں فضول خرچی سے منع کیا گیا ہے جیسے کوئی آدمی اپنا مال ناجائز کاموں میں خرچ کرے، یا ان لوگوں پر خرچ کرے جو شرعی اصولوں کے مطابق مستحق نہ ہوں، زمخشری نے کشاف میں لکھا ہے کہ دور جاہلیت میں لوگ اونٹ ذبح کر کے اپنی مالداری کا اظہار کرتے، اور فخرو ریاکاری کے دوسرے کاموں میں اپنا مال خرچ کرتے اور اپنے اشعار میں اس کا ذکر کرتے تھے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنا مال ایسے کاموں پر خرچ کریں جو انہیں اللہ سے قریب کرے۔ آیت (٢٧) میں اوپر کے حکم کی علت بیان کی گئی ہے کہ فضول خرچی کرنے والے لوگ ناشکری میں شیطان کے مانند ہیں، اور یہ انسان کی غایت خدمت ہے کیونکہ شیطان سے زیادہ کوئی برا نہیں ہے، یا مفہوم یہ ہے کہ فضول خرچی کرنے والے لوگ جہنم میں شیطان کے ساتھی ہوں گے۔ آیت کے آخر میں گزشتہ علت کی تکمیل ہے کہ شیطان سے بڑھ کر اللہ کا کوئی ناشکرا بندہ نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جتنی صلاحتیں دی ہیں ان سب کو اس نے ارتکاب معاصی، زمین میں فساد پھیلانے، لوگوں کو گمراہ کرنے اور کفر کی طرف بلانے میں لگا دیا ہے، اسی طرح اگر کوئی آدمی اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو اللہ کی بندگی کے بجائے ناجائز کاموں پر خرچ کرتا ہے تو گویا وہ شیطان کے مانند ہے۔ الإسراء
27 الإسراء
28 (١٧) اس آیت کریمہ میں نصیحت کی گئی ہے کہ جن لوگوں کا اوپر ذکر آیا ہے، اگر ان میں سے کوئی کسی کے سامنے اپنی ضرورت پیش کرے اور اس کے پاس اس کو دینے کے لیے مال نہ ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ مانگنے والے کو مایوس نہ کرے اس سے سخت لہجہ میں بات نہ کرے اور اس وعدے کے ساتھ اسے واپس کرے کہ اللہ تعالیٰ جب وسعت دے گا تو اس کی مدد کرے گا۔ الإسراء
29 (١٨) اس آیت کریمہ میں بخیل کو اس آدمی سے تشبیہ دی گئی ہے جس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ باندھ دیئے گئے ہوں، کہ ان ہاتھوں سے وہ نہ کسی چیز کو پکڑ سکتا ہے اور نہ ہی ان کے ذریعہ کسی کو کوئی چیز دے سکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو مخاطب کر کے مومنوں کو نصیحت کی ہے کہ جن لوگوں پر خرچ کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے ان پر خرچ کرنے میں بخل سے کام نہ لیں، اور نہ خرچ کرنے میں اتنی فضول خرچی سے کام لیں کہ سب کچھ لٹا دیں، بال بچوں کے لیے کچھ بھی نہ چھوڑیں اس لیے کہ بخل کی صورت میں لوگ ملامت کریں گے کہ مال رہتے ہوئے ان کی مدد نہیں کی، اور فضول خرچی کی وجہ سے سارا مال ضائع ہوجائے گا تو باقی عمر کف افسوس ملتے ہوئے گزارے گا، اور دوسروں کا دست نگر رہے گا، اور اس کی حالت اس اونٹ کی ہوگی جو راستہ چلتے چلتے تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے، آگے نہیں چل سکتا تو اس کا مالک اسے وہیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ الإسراء
30 (١٩) بندوں کی روزی میں وسسعت اور تنگی، اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے، وہ ان کے ظاہر و باطن کو خوب جانتا ہے، اور اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق جس کو چاہتا ہے روزی بڑھا دیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے گھٹا دیتا ہے۔ الإسراء
31 (٢٠) اللہ تعالیٰ روزی رساں ہے وہ ہر ایک کی روزی کا ضامن ہے اس لیے اولاد کو فقر و محتاجی کے ڈر سے مارنے سے منع کیا گیا، عہد جاہلیت میں بعض قبائل والے اپنی اولاد کو محتاجی کے ڈر سے قتل کردیا کرتے تھے، اللہ نے کہا کہ انہیں اور تمہیں سب کو ہم روزی دیتے ہیں، اس لیے بھوک اور محتاجی کے ڈر سے انہیں قتل نہ کرو، ایسا کرنا گناہ عظیم ہے اس لیے کہ یہ نسل انسانی کے ختم ہوجانے کا سبب بن سکتا ہے۔ الإسراء
32 (٢١) قتل اولاد سے منع کرنے کے بعد اس آیت کریمہ میں زنا سے منع کیا گیا ہے جو نسب کے خلط ملط ہونے اور بالآخر نسل انسانی کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے، زنا وہ بدترین فعل ہے جو فطرت سلیم، عقل اور شریعت ہر اعتبار سے گناہ عظیم ہے، اور سوسائٹی پر اس کے نہایت خطرناک اور برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، مسلمان مردوں اور عورتوں کی عزت محفوظ نہیں رہتی ان کا نسب اور ان کی نسل خطرے میں پڑجاتی ہے اور پاک صاف سوسائٹی انکار کی کا شکار ہوجاتی ہے، اور جو اس فعل بد کا مرتکب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق آخرت میں اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ الإسراء
33 (٢٢) قتل اولاد اور زنا سے ممانعت کے بعد اس آیت کریمہ میں کسی بھی بے گناہ آدمی کے قتل سے منع کیا گیا ہے، سوائے اس شخص کے جس کا شرعی طور پر قتل کرنا ضروری ہوجائے، جیسے کوئی مرتد ہوجائے، یا شادی کرنے کے بعد زنا کا مرتکب ہو، یا کسی آدمی کو ناحق قتل کردے، اور اگر کوئی کسی کو جان بوجھ کر ناحق قتل کردے، تو اس کے ولی کو پورا اختیار ہے چاہے تو قاتل سے حاکم وقت کے ذڑیعہ قصاص کا مطالبہ کرے یا دیت لے لے یا چاہے تو اللہ کے لیے معاف کردے، اور قصاص لینے میں حد سے تجاوز نہ کرے، قاتل کے علاوہ دوسرے کو قتل نہ کرے، اگر قاتل ایک ہے تو دو یا دو سے زیادہ کو قتل نہ کرے، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں ہوتا تھا کہ ایک کے بدلے کئی کو قتل کردیتے تھے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قصاص واجب کر کے مقتول کے اولیا کی مدد فرما دی ہے اور جو مناسب بدلہ ہونا چاہیے اسے مقرر کردیا ہے اس لیے اللہ کے حکم سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ الإسراء
34 (٢٣) جان کی حفاظت کا حکم دینے کے بعد اب مال کی حفاظت کا حکم دیا جارہا ہے، اور چونکہ یتیم کا اللہ کے علاوہ کوئی مضبوط سہارا نہیں ہوتا، اس لیے اس کے مال پر بد نیت لوگوں کی نگاہ لگی رہتی ہے، اسی لیے سب سے پہلے اس کے مال کی حفاظت کا حکم دیا گیا اور اس بارے میں انتہائی احتیاط کی تعلیم دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ، ہاں اگر نیت یہ ہو کہ اس کی دیکھ بھال کی جائے، تجارت کر کے اسے ترقی دی جائے تو پھر اس میں تصرف کرنا جائز ہے، یہاں تک کہ یتیم بالغ ہوجائے اور عقلی طور پر اپنے مال میں صحیح تصرف کرنے کے قابل بن جائے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگوں کے ساتھ تماہرے جو عقود اور معاہدے ہوں ان کی پابندی کرو اور دھوکہ نہ دو، اس لیے کہ قیامت کے دن بندوں سے عہود و مواثیق کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا اور اگر کسی نے بے سبب نقض عہد کیا ہوگا تو اس دن اس کی سزا اسے بھگتنی ہوگی۔ الإسراء
35 (٢٤) اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ناپ تول میں کمی نہ کریں، جب کسی کے لیے ناپیں تو پورا ناپیں اور وزن کریں تو صحیح ترازو سے وزن کریں، ڈنڈی نہ ماریں اور دوکہ نہ دیں، اسی میں ہر بھلائی ہے، اور انجام کے اعتبار سے یہی بہتر ہے، اس لیے کہ معاملات میں سچائی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کی روزی میں برکت دے گا اور قیامت کے دن کوئی مظلوم اس سے اپنے حق کا مطالبہ نہیں کرے گا۔ الإسراء
36 (٢٥) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے آدمی کو ایسی بات کہنے سے منع فرمایا ہے جس کا اسے علم نہ ہو۔ شوکانی کہتے ہیں کہ یہ آیت قاعدہ کلیہ ہے جس کے ضمن میں وہ تمام اقوال و افعال داخل ہیں جن کی صداقت و حقانیت کا آدمی کو علم نہ ہو، مثلا جھوٹٰ گواہی دینی، بغیر ثبوت کے کسی کی مذمت کرنی، پاکدامن مردوں اور عورتوں پر بہتان دھرنا، بغیر دلیل شرعی کے کسی چیز کو حلال اور کسی کو حرام ٹھہرنا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس ممانعت کی علت یہ بیان کی کہ قیامت کے دن انسان سے اس کے کان، آنکھ اور دل سب کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا، اس کا ایک دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعضاء کو قوت گویائی عطا کرے گا اور ان سے پوچھے گا کہ ان کے ذریعہ کن کن گناہوں کا ارتکاب کیا گیا تھا۔ الإسراء
37 (٢٦) اللہ تعالیٰ نے انسان کو نصیحت کی ہے کہ وہ زمین میں کبر و غرور کے ساتھ اکڑ کر نہ چلے، اس لیے کہ ایسا کرنے سے وہ اونچا نہیں ہوجاتا ہے، جیسا پہلے تھا ویسا ہی رہتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد فرمایا کہ کبر و غرور کی وجہ سے زمین کو روند کر چلنے سے وہ زمین میں سوراخ نہیں کرسکتا ہے، اور نہ ہی اکڑ کر چلنے پہاڑ کے مانند اونچا ہوجاتا ہے، اس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ تواضع اور انکساری اختیار کرے کیونکہ کبر و غرور حماقت اور کم عقلی کی نشانی ہے۔ آیت (٣٨) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مذکورہ بالا آیتوں میں جن بری باتوں سے روکا گیا ہے وہ سب نہایت برے اعمال ہیں، آدمی کو چاہیے کہ اپنی زندگی میں ان سے اجتناب کرے، اور جن اچھی باتوں کا حکم دیا گیا ہے ان پر عمل پیرا رہے۔ آیت (٣٩) میں نبی کریم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا کہ گزشتہ آیتوں میں جن اخلاق حمیدہ کا حکم دیا گیا ہے اور جن بری صفات سے منع کیا گیا ہے، حکمت کی یہ ساری باتیں اللہ نے آپ کو بذریعہ وحی بتائیں ہیں۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے شرک سے منع فرمایا ہے نصیحتوں کا آغاز اسی دعوت توحید سے ہوا تھا، اور اب بات اسی پر ختم کی جارہی ہے یہ احساس دلانے کے لیے تمام حکمتوں کی اصل اور بنیاد توحید باری تعالیٰ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ مشرک کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا، اس وقت وہ اپنے آپ کو ملامت کرتا پھرے گا اور اللہ تعالیٰ اور اس کی تمام مخلوقات بھی اسے ملامت کرے گی اور وہ رحمت باری تعالیٰ سے ہمیشہ کے لیے دور کردیا جائے گا۔ الإسراء
38 الإسراء
39 الإسراء
40 (٢٧) اس آیت کریمہ میں ان مشرکین عرب کی تردید ہے جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے تھے اور ان کی عبادت کرتے تھے، حالانکہ وہ تو اللہ کے بندے ہیں جنہیں اللہ نے اپنی تسبیح و تحمید اور دیگر کارہائے عالم کے لیے پیدا کیا ہے، اللہ نے فرمایا کہ کیا اس نے تمہارے لیے سب سے اچھی اولاد یعنی لڑکا پسند کیا ہے اور اپنے لیے کم تر اولاد یعنی بیٹیاں پسند کی ہیں جنہیں تم اپنے لیے گوارہ نہیں کرتے ہو، بلکہ زندہ درگور کردیتے ہو؟ یہ کتنی عقل و حکمت کے خلاف بات ہے کہ آقا اپنے غلاموں کو تو سب سے اچھی چیز دے اور اپنے لیے گھٹیا چیز پسند کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ بندوں کے منہ سے اپنے خالق و مالک کے بارے میں یہ بات بہت ہی بری ہے، کہ ایک تو اللہ کے لیے اولاد ثابت کرتے ہیں اور وہ بھی ایسی اولاد جنہیں وہ اپنے لیے پسند نہیں کرتے ہیں۔ الإسراء
41 (٢٨) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سے دلائل اور مثالوں کے زریعہ حق بات کو بیان کردیا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں اللہ کی طرف رجوع کریں اور شرک کے تمام اقسام سے اس کے پاک ہونے کا عقیدہ رکھیں، لیکن کافروں کا حال یہ ہے کہ قرآن سن کر بدکتے ہیں اور حق سے اعراض کرتے ہیں۔ الإسراء
42 (٢٩) نبی کریم کو خطاب کر کے کہا جارہا ہے کہ آپ مشرکین سے کہہ دیجیے کہ ان کے کہنے کے مطابق اگر اللہ کے علاوہ کئی اور معبود ہوتے جو انہیں اللہ سے قریب کرتے ہیں تو وہ معبود بھی عرش والے صاحب جلال و کمال اللہ کی رضا کی جستجو میں لگے ہوتے جو سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں اور اگر ایسا ہوتا تو وہ معبود نہ ہوتے، اس لیے معلوم ہوا کہ آسمان و زمین میں اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، جس کی بندگی کی جائے اور جو اللہ اور بندوں کے درمیان واسطہ بنیں، اسی لیے اللہ نے آیت (٤٣) میں فرمایا کہ وہ تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے، اور مشرکین جو کچھ اس ذات واحد کے بارے میں کہتے ہیں اس سے وہ بلند و بالا ہے، اور آیت (٤٤) میں فرمایا کہ تمام آسمان و زمین اور ان میں پائے جانے والی مخلوقات اللہ کی پاکی بیان کرتی ہیں اور ان تمام نقائص و عیوب سے اسے بلند و بالا سمجھتی ہیں جنہیں مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں اور سب کی سب اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ صفت ربوبیت و الوہیت میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ مزید تاکید کے طور پر اللہ نے فرمایا کہ ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے، حیوانات، نباتات، اور جمادات سبھی اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں، لیکن لوگ ان کی تسبیحات کو نہیں سمجھتے ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اور راغب اصفہانی نے اپنی کتاب المفردات میں اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ بڑا ہی حلیم ہے، کفر و تمرد کے باوجود عذاب نازل کرنے میں جلدی نہیں کرتا ہے اور وہ بڑا ہی معاف کرنے والا ہے کہ جو اس کے حضور عاجزی کرتا ہے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے اسے معاف کردیتا ہے۔ الإسراء
43 الإسراء
44 الإسراء
45 (٣٠) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ نبی کریم جب قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں تو جو مشرکین روز قیامت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں اس سے کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں کرتے ہیں، ان کے کفر و تمرد اور قرآن سے تغافل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ رسول اللہ اور ان کے درمیان ایک پردہ حائل کردیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ رسول اللہ کو نہیں دیکھ پاتے ہیں۔ حافظ سیوطی نے لکھا ہے کہ یہ آیت ان مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جو رسول اللہ کو قتل کرنا چاہتے تھے، جیسے ابوجہل اور بو لہب کی بیوی ام جمیل وغیرہ اور یہاں قرآن سے مراد یا تو مطلق قرآن ہے، یا سورۃ النحل، الکہف اور الجاثیہ کی مشہور تین آیتیں۔ (اولئک الذین طبع اللہ علی قلوبھم) النحل : ١٠٨ (وجعلنا علی قلوبھم اکنۃ ان یفقھوہ) الکہف : ٥٧۔ (افرایت من اتخذ الہہ ھواہ واضلہ اللہ علی علم۔ الجاثیہ : ٢٣) خطیب نے لکھا ہے کہ ان آیتوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ نبی کریم کو مشرکین کی نگاہوں سے اوجھل کردیتا تھا، قرطبی نے ان آیتوں کے ساتھ سورۃ یسین کی ابتدائی آیتوں کا (فھم لا یبصرون) تک اضافہ کیا ہے، اس لیے کہ روایات سے ثابت ہے کہ ہجرت کی رات اپنے گھر سے نکلتے وقت آپ انہی آیتوں کی تلاوت کرتے رہے اور دشمنوں کے سروں پر مٹی ڈالتے ہوئے نکل گئے اور کسی نے آپ کو نہیں دکھا۔ الإسراء
46 (٣١) اور اللہ تعالیٰ کافروں کے دلوں پر بہت دبیز پردہ ڈال دیتا ہے تاکہ وہ قرآن کو نہ سمجھ پائیں اور ان کے کانوں کو بہرا کردیتا ہے تاکہ وہ قرآن کو نہ سن پائیں، کافروں کی ایک بدترین خصلت یہ بھی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے بتوں کا ذکر بھی سننا چاہتے تھے، اسی لیے جس مجلس میں صرف اللہ کا نام لیا جاتا اسے پسند نہیں کرتے تھے اور وہاں سے چل دیتے تھے، آیت کے دوسرے حصہ میں ان کی یہی بات بیان کی گئی ہے۔ الإسراء
47 (٣٢) مشرکین اگر کبھی قرآن سنتے بھی ہیں تو آپس میں بیٹھ کر اس کا مذاق اڑانے کے لیے ان کا مقصد علم و معرفت کا حصول اور حق کو پانا نہیں ہوتا ہے، وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ محمد کو جادو کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے اسے جنون لاحق ہوگیا ہے اور بہکی بہکی باتیں کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے اس قول پر حیرت و استعجاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ان ظالموں کو دیکھیے کہ وہ آپ کو شاعر، ساحر اور مجنون کہتے ہیں اور راہ حق سے بالکل برگشتہ ہوئے ہیں اور حق تک پہنچنے کے لیے کوئی راستہ نہیں پارہے ہیں، یا مفہوم یہ ہے کہ یہ لوگ آپ میں کوئی ایسا عیب نہیں نکال پار ہے ہیں جسے دنیا مان لے۔ الإسراء
48 الإسراء
49 (٣٣) توحید و رسالت کے سلسلے میں مشرکین مکہ کے شبہات کی تردید کرنے کے بعد اب بعث بعد الموت کے بارے میں ان کے شبہات کی تردید کی جارہی ہے، وہ کہتے تھے کہ آدمی جب مرجاتا ہے تو اس کی ہڈیاں گل سڑ کر مٹی میں مل جاتی ہیں، یہ بات بعید از عقل ہے کہ سابق جسم کے اجزا دوبارہ جمع ہوجائیں اور ان میں زندگی عود کر آئے؟ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا کہ مردہ بدن کو دوبارہ بنا کر اس میں زندگی دوڑا دینا، ہمارے لیے بہت ہی آسان ہے چاہے اس بدن سے زندگی کے آثار پتھر یا لوہے کی طرح کیوں نہ ناپید ہوگئے ہوں، یا کسی اور چیز کی طرح جس کا زندہ ہونا تمہارے نزدیک ناممکن ہو، اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اسے زندہ کردے گا اور کوئی چیز اس سے مانع نہیں بنے گی۔ مشرکین اس جواب پر کوئی اعتراض نہ کرسکے تو کہنے لگے کہ ہمیں کون زندہ کرے گا؟ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم سے فرمایا آپ کہہ دیجیے کہ جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے وہ یقینا دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے اس جواب پر کفار حیرت و استعجاب اور استہزا آمیز انداز میں اپنا سر ہلانے لگے کہ ایسا کب ہوگا؟ تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ وہ دن قریب ہے جب وہ تمہیں بلائے گا تو تم لوگ فورا اس کا جواب دو گے، یعنی مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے میں اللہ کو دیر نہیں لگے گی۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ فی الواقع مردوں کو آواز دے گا تو وہ اٹھ بیٹھیں گے جیسا کہ سورۃ ق آیت (٤١) میں آیا ہے (یوم یناد المناد من مکان قریب) کہ جس دن پکارنے والا قریب سے پکارے گا۔ اور مردے جب زندہ ہوں گے تو اللہ کی تعریف اور اس کی پاکی بیان کر رہے ہوں گے اور مارے دہشت کے قبروں میں رہنے یا دنیاوی زندی کی مدت کو بہت کم سمجھیں گے۔ الإسراء
50 الإسراء
51 الإسراء
52 الإسراء
53 (٣٤) مسلمانوں کا مشرکین مکہ کے ساتھ کبھی کبھار توحید و شرک اور رسالت و آخرت کے مسئال پر تکرار ہوجاتا، تو مسلمان کوئی سخت لفظ استعمال کرجاتے مثلا جہنم کی دھمکی دے دیتے، اس اسلوب کلام سے کافروں کی عداوت مزید بھڑک اٹھتی، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو خطاب کر کے فرمایا کہ آپ مسلمانوں کو نصیحت کریں کہ وہ کافروں کو دعوت اسلام دیتے وقت گفتگو کا انداز اچھا رکھیں اور سخت کلامی سے پرہیز کریں، کیونکہ شیطان تو گھات لگائے بیٹھا رہتا ہے کہ کب اسے لوگوں کے درمیان شر پھیلانے کا موقع مل جائے، اس کے بعد مشرکین قریش کو خطاب کر کے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے حقائق سے خوب واقف ہے، اگر چاہے گا تو تم پر رحم فرمائے گا اور تم حلقہ بگوش اسلام ہو کر اس کی جنت کے حقدار بن جاؤ گے، اور اگر چاہے گا تو تمہیں دولت ایمان سے محروم کردے گا، تمہارے موت شرک پر ہوگی اور تم قیامت کے دن عذاب کے مستحق ہوگے۔ آیت کے آخر میں نبی کریم کو خطاب کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے آپ کو کافروں کی ہدایت کا ذمہ دار بنا کر نہیں مبعوث کیا ہے کہ آپ انہیں بہرحال ایمان لانے پر مجبور کریں، آپ تو ہمارے رسول ہیں، پیغام پہنچا دینے کے بعد آپ کی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے۔ الإسراء
54 الإسراء
55 (٣٥) آسمانوں اور زمین میں جتنی چیزیں ہیں اللہ تعالیٰ انہیں خوب جانتا ہے ان کے احوال اور ضرورتوں سے اچھی طرح واقف ہے کون نیک بخت ہے اور کون بدبخت، کون ایمان کو اختیار کرے گا اور کون کفر کو، یہ ساری باتیں اللہ تعالیٰ کے لیے بالکل عیاں ہیں۔ اس لیے اے میرے رسول اور میرے مسلمان بندو، تم لوگ کافروں کے ایمان نہ لانے کا غم نہ کرو، اور جو تمہارے اختیار میں نہیں ہے اس کے لیے ملول خاطر نہ ہو، دعوت اسلامیہ کے سلسلے میں تم پر زمہ داری ہے اسے پوری کرو، اور اسے قبول کرنے یا رد کردینے کی بات اللہ کے حوالے کردو۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں پر رحم کرتے ہوئے ان کی ہدایت کے لیے انبیا و رسل کو مبعوث کرتا ہے اور اس ذمہ داری کے لیے جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے، وہی جانتا ہے کہ مقام نبوت پر سرفراز ہونے کا کون اہل ہے، اور پھر اس نے ان انبیا پر ان کی فوقیت دی اور نبی کریم کو قرآن کریم جیسی عظیم المرتبت کتاب عنایت فرمائی اور اس کی بدولت انہیں اپنے تمام نبیوں پر فضیلت بخشی۔ اور زبور کا ذکر بطور خاص اس لیے آیا ہے کہ اس میں نبی کریم کی صفات بیان کی گئی ہیں اور اس سے اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے داؤد کو زبور دے کر انہیں اس دور کے تمام انسانوں پر فوقیت دی اسی طرح اس نے عربوں میں سے محمد کو اپنے آخری نبی کے طور پر چن لیا جو اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ صاحب عقل و کمال تھے، اور جن کی صداقت و امانت کا چرچا پوری دنیائے عرب میں تھا۔ الإسراء
56 (٣٦) اس آیت کریمہ میں ان مشرکین کی تردید کی گئی ہے جو فرشتوں کے مجمسوں کی پوجا کرتے تھے اور ان اہل کتاب کی بھی تردید کی گئی ہے جو عزیز، عیسیٰ اور مریم کے معبود ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو خطاب کر کے فرمایا کہ آپ ان تمام مشرکین اور اہل کتاب سے کہہ دیجیے جو اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہیں کہ تم پر جب کوئی مصیبت آئے تو ذرا اپنے ان معبودوں کو پکار کر دیکھو تو سہی کیا وہ تمہاری تکلیف کو دور کردیتے ہیں یا دوسروں کی طرف اسے پھیر دیتے ہیں؟ جواب معلوم ہے کہ وہ اس کی قطعی طور پر قدرت نہیں رکھتے، کیونکہ نفع اور نقصان پر قادر تو صرف اللہ ہے۔ آیت (٥٧) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام، عزیر علیہ السلام، فرشتے، جن اور دیگر صالحین، جنہیں یہ مشرکین پکارتے ہیں یہ سب تو خود اعمال صالحہ کے ذریعہ اللہ کی جناب میں قربت چاہتے ہیں، اللہ کی رحمت امید لگائے رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں اس لیے کہ اس کا عذاب وہ عذاب ہے جس سے تمام ارباب عقل و خرد پناہ مانگتے ہیں تو جو خود اپنے انجام سے واقف نہیں اور جو اللہ کی رضا کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں وہ معبود کیسے ہوسکتے ہیں؟ ان کی عبادت کیسے کی جاسکتی ہے؟ (ویرجون رحمتہ ویخافون عذابہ) میں اس طرف اشارہ ہے کہ عبادت کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ نیک اعمال کرے گا اور جب اس کے عذاب سے ڈرے گا تو گناہ کرنے سے پرہیز کرے گا۔ الإسراء
57 الإسراء
58 (٣٧) اس آیت کریمہ میں اہل کفر کی بستیوں کا انجام بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن سے پہلے یا تو اللہ انہیں موت دے کر ہلاک کردے گا یا ان پر کوئی شدید عذاب نازل کرے گا۔ اور قیامت کے دن سے پہلے کی قید اس لیے لگائی کہ اس دن تو دنیا کی عمر ختم ہوجانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمام ہی بسیتوں کو ختم کردے گا اللہ تعالیٰ نے سورۃ ہود آیت (١٠١) میں فرمایا ہے : (وما ظلمنا ھم ولکن ظلموا انفسھم) کہ ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا تھا۔ اور سورۃ الطلاق آیات (٨، ٩) میں فرمایا ہے : (وکاین من قریۃ عتت عن امر ربھا ورسلہ فحاسبنھا حسابا شدیدا وعذبناھا عذابا نکرا۔ فذاقت وبال امرھا وکان عاقبۃ امرھا خسرا) کہ بہت سی بستیوں والے نے اپنے رب کے حکم سے اور اس کے رسولوں سے سرتابی کی تو ہم نے بھی ان سے سخت حساب کیا اور ان دیکھی آفت ان پر ڈال دی، پس انہوں نے اپنے کرتوت کا مزہ چکھ لیا اور انجام کار ان کا خسارہ ہی ہوا۔ الإسراء
59 (٣٨) امام احمد اور نسائی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اہل مکہ نے نبی کریم سے مطالبہ کیا کہ وہ صفا پہاڑی کو سونا میں بدل دیں اور مکہ کے پہاڑوں کو ان کی جگہ سے ہٹا دیں تاکہ کھیتی کریں، تو آپ سے (بذریعہ جبریل) کہا گیا کہ اگر آپ چاہیں تو اور انتظار کرلیں، اور چاہیں تو ان کا مطالبہ پورا کردیا جائے، لیکن اس کے بعد اگر وہ کفر پر باقی رہے تو گزشتہ قوموں کی طرح انہیں بھی ہلاک کردیا جائے گا۔ آپ نے فرمایا کہ میں انتظار کروں گا، یہ آیت کریمہ اسی موقع پر نازل ہوئی، اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اہل قریش کی مطلوبہ نشانیاں ہم اس لیے نہیں بھیجتے ہیں کہ وہ بھی گزشتہ قوموں کی طرح ان نشانیوں کو جھٹلائیں گے اور انجام کار انہیں یکسر ختم کردیا جائے گا۔ اور ہمارا فیصلہ ہے کہ ان کے ساتھ ایسا نہ ہو اس امید میں کہ شاید وہ ایمان لے آئیں، یا ان کی نسلوں میں ایسے لوگ آئیں جو ایمان لے آئیں۔ اس کے بعد قوم صالح کا ذکر بطور نمونہ کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اونٹنی بطور نشانی دی، جسے انہوں نے ہلاک کردیا تو سنت الہیہ کے مطابق انہیں بالکل ختم کردیا گیا آگے فرمایا گیا کہ ہم یہ نشانیاں لوگوں کو ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا انجام ہلاکت و بربادی ہوگی۔ الإسراء
60 (٣٩) نبی کریم کو خطاب کر کے کہا جارہا ہے کہ ہم نے آپ کو بذریعہ وحی بتا دیا ہے کہ آپ کے رب سے لوگوں کی کوئی بات مخفی نہیں ہے، ان کا کفر و عناد اور آپ کی تکذیب سب اس کے علم میں ہے، آپ نے انہیں اپنے آسمان پر بلائے جانے اور جہنم میں پیدا ہونے والے زقوم کے درخت کی خبر دی تو انہوں نے آپ کا مذاق اڑایا ہے، یہ خبر لوگوں کے لیے ایک بڑی آزمائش تھی۔ اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ آیت میں رویا سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو اللہ کے رسول نے معراج کی رات دیکھی تھیں، جب آپ نے معراج سے واپسی کے بعد لوگوں سے وہ نشانیاں بیان کیں تو کچھ لوگوں نے انکار کردیا اور آپ کو جھٹلایا، لیکن مخلص مسلمانوں کا ایمان قوی تر ہوگیا، ابن جریر طبری نے حسن بصری سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ رسول اللہ کو عشاء کے وقت بیت الحرام سے بیت المقدس لے جایا گیا، جہاں انہوں نے نماز پڑھی، اس کے بعد اللہ نے اپنی نشانیاں دکھائیں، پھر صبح کے وقت آپ مکہ آگئے اور لوگوں کو معراج کی خبر دی تو کافروں نے کہا کہ اے محمد ! کیا تم شام کو بیت المقدس میں تھے اور صبح کو ہمارے پاس آگئے ہو؟ اس بات سے انہیں اتنی حیرت ہوئی کہ ان کی باتوں سے متاثر ہو کر کچھ ضعیف الایمان مسلمان مرتد ہوگئے۔ کچھ دوسرے لوگوں کی رائے ہے کہ رویا سے مراد نبی کریم کا یہ خواب ہے کہ آپ مکہ میں بحیثیت فاتح داخل ہورہے تھے۔ چنانچہ صلح حدیبیہ کے سال آپ صحابہ کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوگئے، لیکن چونکہ ابھی فتح مکہ کا وقت نہیں آیا تھا اس لیے آپ کو واپس آنا پڑا، تو بعض لوگوں نے کہا کہ ہم لوگوں سے تو کہا تھا کہ مکہ میں داخل ہوں گے تو پھر کیوں نہ داخل ہوسکے۔ یہ واقعہ ان کے لیے آزمائش بن گیا، جب دوسرے سال مکہ فتح ہوا تو اللہ تعالیٰ نے (لقد صدق اللہ رسولہ الرویا بالحق) نازل فرمایا۔ اس قول کے ماطبق یہ آیت مدنی ہوگی جو مکی سورت میں داخل کردی گئی ہے۔ جمہور مفسرین کے نزدیک آیت میں (شجرۃ ملعونۃ) سے مراد زقوم کا درخت ہے جس کا ذکر سورۃ الصافات آیات (٦٢، ٦٣، ٦٤) میں آیا ہے : (اذلک خیر نزلا ام شجرۃ الزقوم۔ انا جعلناھا فتنۃ للظالمین۔ انھا شجرۃ تخرج فی اصل الجحیم) کیا یہ مہمانی اچھی ہے یا زقوم کا درخت، جسے ہم نے ستمگاروں کے لیے سخت سزا بنا رکھا ہے جو جہنم کی جڑ میں سے نکلتا ہے۔ طبری، ابن اسحاق اور ابن ابی حاتم وغیرہم نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ نے کفار قریش کو ڈرانے کے لیے شجر زقوم کا ذکر کیا، تو ابو جہل نے کہا، اے اہل قریش ! وہ شجرہ زقوم جس سے تمہیں محمد ڈراتا ہے، جانتے ہو وہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا : نہیں، تو اس نے کہا : وہ یثرب کی عجوہ کھجور ہے جسے مکھن کے ساتھ کھایا جاتا ہے، اللہ کی قسم ! اگر ہمیں وہ مل جائے تو اسے خوب کھائیں، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور یہاں ملعونۃ درخت کی صفت آئی ہے۔ لیکن اس سے مراد اس کا کھانے والا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الدخان آیات (٤٣، ٤٤) میں فرمایا ہے : (ان شجرۃ الزقوم۔ طعام الاثیم) زقوم کا درخت گناہگاروں کا کھانا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم کفار قریش کو ان باتوں اور انہی جیسی دوسری باتوں کے ذریعہ ڈرانا چاہتے ہیں تاکہ ایمان لے آئیں، لیکن نتیجہ الٹا ہوتا ہے اور ان کی سرکشی اور بڑھ جاتی ہے۔ الإسراء
61 (٤٠) چونکہ کفار و مشرکین کی سرکشی ابلیس لعین کی پیروی کا نتیجہ ہوتی ہے، اسی لیے اب شیطان کی سرکشی بیان کی جارہی ہے اور بتایا جارہا ہے کہ اللہ کی نافرمانی اور حق کا انکار شیطان اور اس کے پیروکاروں کا شیوہ رہا ہے، اور ان سب کا ٹھکانا جہنم ہوگا، ابلیس اور اس کی سرکشی کا یہ واقعہ البقرہ، الاعراف، الحجر، بنی اسرائیل، الکہف، طہ اور ص، سات سورتوں میں بیان کیا گیا ہے۔ یہاں یہ واقعہ پانچ آیتوں میں ذکر کیا گیا ہے، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ہمارے نبی ! آپ اس وقت کو یاد کیجیے جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم لوگ آدم کی تکریم و احترام میں اس کا سجدہ کرو، تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا اس نے کفر و تمرد کی راہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ تو نے جو اسے مجھ پر فوقیت دی ہے اور مجھے اس کے سجدہ کرنے کا حکم دیا ہے، تو ایسا کیوں کیا ہے؟ اگر تو نے مجھے قیامت کے دن تک مہلت دی تو سوائے چند مخلص مسلمانوں کے میں سب کو گمراہ کر کے ہلاک کردوں گا، یا میں جدھر چاہوں گا انہیں بہکا کرلے جاؤں گا، تو اللہ تعالیٰ نے اس سے کہا کہ تم جو کرنا چاہتے ہو کرو، جو لوگ تمہاری پیروی کریں گے ان کا اور تمہارا ٹھکانا جہنم ہوگا، جو تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ ہوگا تو اب ان میں سے جسے آواز دے کر اپنی یروی پر ابھار سکتے ہو ابھارو اور انہیں دھوکہ دو، (بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد لہو و لعب اور غنا اور موسیقی ہے) اور انہیں اپنا پیرو کار بنانے کے لیے تمام حربے اور تمام ذرائع استعمال کرو، مکر و فریب کی جتنی صورتیں ہوسکتی ہیں سب کو اختیار کرو، اور ان کے مال و دولت اور اولاد میں شریک بن جاؤ، بایں طور کہ وہ حرام ذرائع سے دولت حاصل کریں، غصب کریں، چوری کریں، سود کھائیں اور حرام کاموں پر خرچ کریں، جانوروں کو بتوں کے نام پر چھوڑیں اور ناجائز طریقوں سے اولاد حاصل کریں۔ عبداللات اور عبدالعزی وغیرہ ان کے نام رکھیں، صلاح و تقوی کے مطابق ان کی تربیت نہ کریں اور انہیں ملحد، زندیق اور کافر بنائیں اور ان سے وعدہ کرو کہ وہ دوبارہ زندہ نہیں کیے جائیں گے یا یہ کہ ان کا انجام ہمیشہ اچھا ہوگا اور ہر دم غلبہ انہی کو ملے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شیطان کا وعدہ ہمیشہ فریب پر مبنی ہوتا ہے، پھر شیطان سے کہا کہ میرے جو مخلص بندے ہوں گے ان پر تمہاری ایک نہیں چلے گی، تم انہیں گمراہ نہیں کرسکو گے، تمہارا رب ان کا حامی ہوگا، وہ اپنے رب پر بھروسہ کریں گے اور تمام امور میں اسی کی جناب میں پناہ لیں گے اور وہ ان کے لیے کافی ہوگا۔ الإسراء
62 الإسراء
63 الإسراء
64 الإسراء
65 الإسراء
66 (٤١) یہاں سے آیت (٧٠) تک اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت و الوہیت کی چند نشانیاں بیان کی ہیں، اس نے بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تمہارا رب وہ ہے جو کشتیوں کو سمندر میں ہواؤں کے سہارے چلاتا ہے تاکہ تم اپنی مرضی کے مطابق جہاں چاہو تجارت کی غرض سے جاؤ، اور اللہ کی پیدا ہوئی روزی حاصل کرو، یقینا وہ تم پر بہت مہربان ہے کہ سمندر تک کو تمہارے لیے مسخر کردیا، تاکہ تم اسے اپنے سفر اور تجارت کے لیے بآسانی استعمال کرسکو، اور جب تم کشتی میں سوار ہوتے ہو اور بیچ سمندر میں تمہیں کوئی بیماری یا پریشانی لاحق ہوجاتی ہے یا راستہ کھو بیٹھتے ہو یا کسی بھنور میں پھنس جاتے ہو اور کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو تم اپنے تمام باطل معبودوں کو یکسر بھول جاتے ہو اور فطرت کے تقاضے کے مطابق صرف ایک اللہ کو پکارنے لگتے ہو، جس کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے، لیکن جب وہ تمہیں خیر و خوبی کے ساتھ ساحل پر پہنچا دیتا ہے تو اس کی یاد سے غافل ہوجاتے ہو اور پھر اپنے جھوٹے معبودوں کو پکارنے لگتے ہو اس لیے کہ انسان طبعی طور پر پڑا احسان فراموش واقع ہوا ہے۔ آیت (٦٨) میں اس ناشکری پر دھمکی دیتے ہوئے اور ڈراتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تمہیں ڈر نہیں لگتا کہ سمندر سے نکل کر جس حصہ زمین پر اترے ہو، اللہ تعالیٰ اس کو دھسا دے اور تم زمین کے نیچے چلے جاؤ، یا کسی شدید آندھی کو بھیج دے جو تم پر پتھروں کی بارش کردے، اور تمہیں ہلاک کردے، اور کوئی تمہاری مدد کے لیے نہ آئے، یا تم اس بات سے نہیں ڈرتے ہو کہ وہ تمہیں دوبارہ سمندر میں پہنچا دے اور پھر کسی شدید طوفان کی زد میں ڈال کر کفر و تمرد کی وجہ سے فرعونیوں کی طرح ڈبو دے، اور تمہارا کوئی ساتھ دینے والا نہ ہو جو پوچھ سکے کہ ہم نے تمہیں عذاب کیوں دیا؟ جب اللہ کے سوا کوئی تماہرا سہارا نہیں کوئی تمہاری مدد کرنے والا نہیں تو کیوں نہیں تم اس پر دل سے ایمان لاتے ہو؟ کیوں نہیں سارے جھوٹے معبودوں کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے اس کی غلامی اور بندگی کا عہد کرلیتے ہو؟ اور کیوں نہیں صرف اسی کے ہوجاتے ہو؟ آیت (٧٠) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آدم کی اولاد کو قوت گویائی،، عقل و ہوش، علم و معرفت، اچھی شکل و صورت اور زمین پر پائی جانے والی تمام اشیا سے استفادہ کرنے کی قوت دے کر، انہیں بڑی عزت دی ہے، ہم نے ان کے لیے خشکی اور پانی میں سفر کرنے کے تمام ذرائع آسان کردیئے ہیں، اور انواع و اقسام کی روزی دی ہے اور انہیں جنوں اور تمام جانوروں پر فضیلت دی ہے اور ان کے خاص افراد کو فرشتوں تک پر فضیلت دی ہے۔ لیکن آدمی جب کفر کی راہ اختیار کرتا ہے عبادت میں اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک کرتا ہے اور اسے چھوڑ کر دوسروں سے محبت کرنے لگتا ہے تو وہ اللہ کی بدترین مخلوق بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البینہ آیت (٦) میں فرمایا ہے : (ان الذین کفروا من اھل الکتاب والمشرکین فی نار جھنم خالدین فیھا اولئک ھم شر البریۃ) بیشک جو لوگ اہل کتاب میں سے کافر ہوئے اور مشرکین دوزخ کی آگ میں جائیں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے یہی لوگ (اللہ کی) بدترین مخلوق ہیں۔ الإسراء
67 الإسراء
68 الإسراء
69 الإسراء
70 الإسراء
71 (٤٢) قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیے جانے اور جزا و سزا کے عقیدہ کو انسانوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم سے فرمایا کہ آپ اس دن کو یاد کیجیے جب ہم تمام لوگوں کو ان کے اماموں کے نام کے ساتھ پکاریں گے۔ مفسرین نے امام کے کئی معنی بیان کیے ہیں۔ بعض نے اس سے مراد نبی لیا ہے، بعض نے ہر زمانے کا دینی پیشوا، بعض نے وہ کتاب الہی جو ہر قوم کے لیے نازل ہوئی تھی، بعض نے اس سے دین مراد لیا ہے۔ ابن عباس، حسن، قتادہ اور ضحاک وغیرہم نے اس سے مراد ہر آدمی کا نامہ اعمال لیا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے اسی کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے کہ اسی کی تائید سورۃ الانشقاق کی آیت (٧) سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (فاما من اوتی کتابہ بیمینہ) اور سورۃ یسین آیت (١٢) میں فرمایا ہے : (وکل شیء احصینہ فی امام مبین) اور سورۃ الجاثیہ آیت (٢٨) میں فرمایا ہے : (کل امۃ تدعی الی کتابھا) ہر اکو اس کے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا۔ صاحب محاسن التنزیل لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اصحاب الحدیث کے لیے بہت بڑا شرف بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن کے جب سارے انسان اپنے اپنے اماموں اور پیشواؤں کے ناموں سے پکارے جائیں گے تو اصحاب حدیث نبی کریم کے نام سے پکارے جائیں گے اس لیے کہ ان کے امام اور پیشوا وہی ہیں۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ جن کا نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ اسے پڑھیں گے اور اس میں اپنے اعمال صالحۃ کو دیکھ کر نہایت خوش ہوں گے، اور ان کے اجر و ثواب میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں کی جائے گی، یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جیسا کہ سورۃ مریم آیت (٦٠) میں آیا ہے : (ولا یظلمون شیئا) کہ عدل و انصاف والے اللہ کی جانب سے ان پر قطعی ظلم نہیں ہوگا۔ الإسراء
72 (٤٣) جو بد نصیب انسان اس دنیا میں بصیرت سے محروم ہو کر حق کو قبول نہیں کرے گا اور صراط مستقیم پر گامزن نہیں ہوگا، وہ آخرت میں بھی راہ نجات کو نہیں پائے گا اور کشاں کشاں جہنم میں گر جائے گا۔ الإسراء
73 (٤٤) مشرکین عرب نے ایک کسر نہیں اٹھا رکھی کہ نبی کریم کو جادہ حق سے برگشتہ کردیں، انہیں تکلیفیں دیں اور ظلم و تشدد کا ہر طریقہ اختیار کیا تاکہ آپ توحید کی دعوت سے باز آجائیں، شرک پر نکیر نہ کریں ان کے ساتھ باطل کی تائید پر مصالحت کرلیں اور ان کے جھوٹے معبودوں کے بارے میں ان کی مرضی کی بات کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ ایسا کرتے تو مشرکین بظاہر آپ کو اپنا دوست بنا لیتے اور لوگوں سے کہ تے کہ محمد نے ہمارے کفر کی تائید کردی ہے اور ہمارے شرک سے راضی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی مشرکین کی تمام سازشوں کے باوجود آپ محض اللہ کی تائید سے حق پر قائم رہے اور ان کی طرف نہ جھکے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ آیت (٧٤) دلیل ہے کہ نبی کریم کے دل میں کافروں کی طرف میلان کا شائبہ بھی پیدا نہیں ہوتا۔ قتادہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی کریم نے فرمایا : اللھم لا تکلنی الی نفسی طرفۃ عین۔ کہ اے میرے اللہ ! مجھے ایک لمحہ کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کر۔ الإسراء
74 الإسراء
75 (٤٥) اس آیت کریمہ میں بہت بڑی دھمکی گئی ہے کہ آپ نے اللہ کی تائید سے ایسا کیا تو نہیں، لیکن اگر ایسی غلطی آپ سے ہوجاتی تو اپنے حق میں بہت ہی برا کرتے کہ ہم عذاب دنیا اور عذاب آخرت دونوں ہی کو آپ کے لیے دوگنا کردیتے اور آپ کا کوئی نجات دہندہ نہ ہوتا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ دو گنا عذاب اس لیئے ہوتا کہ اللہ تعالیٰ انبیائے کرام کو اپنی خصوصی نعمتوں سے نوازتا ہے، اس لیے ان کے گناہ بھی بڑے شمار کیے جاتے اور ان کی سزا بھی اسی اعتبار سے بڑی ہوتی۔ الإسراء
76 (٤٦) نبی کریم کو ان کی دعوت توحید سے روکنے کی جب تمام شیطانی چالیں ناکام ہوگئیں تو کافروں نے آپ کو پریشان کرنا شروع کردیا، تاکہ آپ تنگ آکر مکہ سے باہر چلے جائیں، اسی کی طرف اس آیت کریمہ میں اشارہ ہے کہ اگر مشرکین آپ کو نکال دیتے تو آپ کے بعد وہ لوگ کچھ ہی دن زمین پر زندہ رہتے، اس لیے کہ اللہ کی سنت یہی ہے کہ جب بھی کسی قوم نے اپنے نبی کو شہر بدر کیا، اللہ نے انہیں ہلاک کردیا، یا جب بھی اللہ نے کسی قوم کو ہلاک کرنا چاہا تو پہلے اپنے نبی کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ لیکن اللہ نے ان کے دلوں سے یہ بات نکال دی، چنانچہ انہوں نے آپ کو مکہ سے نکال دینے کا ارادہ ترک کردیا، اس کے بعد آپ خود ہی اللہ کے حکم کے مطابق ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے۔ الإسراء
77 الإسراء
78 (٤٧) روز قیامت اس دن کے جزا و سزا اور مشرکین عرب کی بعض سازشوں کو بیان کرنے کے بعد اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے جو سب سے اہم عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کا سب سے بہتر طریقہ ہے، جیسا کہ اللہ نے سورۃ البقرہ آیت (٤٥) میں فرمایا ہے : (واستعینوا بالصبر والصلوۃ) کہ اے مسلمانو ! تم لوگ صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ سے مدد مانگو، مفسرین کا اجماع ہے کہ اس سے مراد نماز پنجگانہ ہے جس کی ادائیگی ان کے محدود اوقات میں فرض ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ (دلوک الشمس) کا معنی زوال آفتاب ہے جو ظہر اور عصر کی نماز پر دلالت کرتا ہے۔ اور (غسق اللیل) سے مراد رات کی تاریکی ہے جو مغرب اور عشا کے درمیان مشترک ہے۔ اور (قرآن الفجر) سے مراد نماز فجر ہے۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ نبی کریم کی متواتر قولی اور فعلی سنتوں کے ذریعہ ان اوقات کی تفصیل بیان کی جاچکی ہے، اور ابتدائے اسلام سے آج تک امت اس پر عمل پیرا ہے۔ مفسر ابو السعود لکھتے ہیں کہ جبریل (علیہ السلام) نے ہر نماز کا وقت بیان کردیا اور نبی کریم نے ہر نماز کی تعداد رکعات بیان فرما دی۔ ابن سیرین، ابن المنذر، اور کچھ دیگر ائمہ کرام نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ کبھی کبھار بغیر خوف و بیماری اور بگیر بارش کے ظہر و عصر اور مغرب و عشا کو جمع کر کے پڑھنا جائز ہے۔ بخاری و مسلم نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ نبی کریم نے مدینہ میں سات آٹھ دن تک ظہر و عصر اور مغرب و عشا کی نمازیں جمع کر کے پڑھیں۔ اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ایسا آپ نے بغیر خوف اور بغیر سفر کے کیا، لیکن بہت سے راویوں نے آپ کے اس فعل کو برسات کی رات پر محمول کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ (ان قرآن الفجر کان مشھودا) سے مراد فجر کی نماز کا وقت ہے جب رات اور دن کے فرشتے جمع ہوجاتے ہیں، بخاری شریف کی ابو ہریرہ سے مروی حدیث سے یہ ثابت ہے اور جمہور مفسرین کی یہی رائے ہے۔ الإسراء
79 (٤٨) نماز پنجگانہ کے بعد اس آیت کریمہ میں آپ کو نماز تہجد کا حکم دیا گیا ہے، یہ نماز آپ پر اس لیے واجب کی گئی تھی تاکہ آپ کے درجات بلند ہوں ورنہ آپ کے تو اگلے پچھلے سبھی گناہ معاف کردیئے گئے تھے، دیگر مسلمانوں کے لیے یہ نماز مستحب ہے، نماز پنجگانہ اور نوافل کی ادائیگی پر اللہ تعالیٰ نے نبی کریم سے یہ کریمانہ وعدہ کیا ہے کہ ان کا رب انہیں مقام محمود یعنی شفاعت کبری کی اجازت مرحمت فرمائے گا۔ جس کے بموجب آپ قیامت کے دن مخلوق کے لیے اللہ کے حضور سفارش کریں گے، تاکہ ان کے بارے میں اللہ اپنا فیصلہ صادر فرمائ، جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں بھیج دیئے جائیں اور مخلوق کو میدان محشر کے طویل قیام اور اس کی صعوبتوں سے نجات مل جائے، صحیح احادیث سے مقام محمود کا یہی معنی ثابت ہے۔ ابن جریر اور اکثر مفسرین کی یہی رائے ہے۔ الإسراء
80 (٤٩) امام احمد اور ترمذی نے ابنع باس سے روایت کی ہے کہ یہ آیت مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم آنے سے پہلے نازل ہوئی۔ اس میں آپ کو تعلیم دی گئی ہے کہ نماز اور غیر نماز میں یہ دعا پڑھا کریں گویا یہ بشارت تھی کہ عنقریب ہی ہجرت کا حکم صادر ہونے والا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ اپنی دعا میں یوں کہا کیجیے کہ میرے رب ! مجھے مدینہ میں داخل کردے جو میرا دار الہجرۃ( اور جہاں مجھے کوئی تکلیف نہیں دے گا اور مجھے مکہ سے نکال دے، بایں طور کہ میرے دل میں دوبارہ وہاں لوٹ کر جانے کا جذبہ باقی نہ رہے، اور اپنی جانب سے میرا کوئی معین و مددگار تیار کردے جو تیرے دین کے دشمنوں کے خلاف میری مدد کرے۔ الإسراء
81 (٥٠) اس آیت میں آپ کو بشارت دی گئی ہے کہ مکہ فتح ہوگا اور آپ اس میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوں گے، کعبہ کے اردگرد رکھے ہوئے تین سو ساٹھ بتوں کو توڑیں گے اور اپنی زبان مبارک سے کہیں گے کہ اب حق آپہنچا اور باطل کی کمر ٹوٹ گئی اور حق کی جولانیوں کے سامنے باطل کب ٹھہر سکتا ہے۔ بخاری مسلم حافظ ابو یعلی اور دیگر محدثین نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ جب نبی کریم مکہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت تھے، آپ انہیں ایک لکڑی سے ٹھوکر لگا کر گراتے رہے، اور (جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا) پڑھتے رہے۔ الإسراء
82 (٥١) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو مومنوں کے لیے شفاعت اور رحمت بتایا ہے اور اس کے ذڑیعہ مومنوں کو روحانی اور جسمانی دونوں قسم کی شفا ملتی ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت کرنے اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے ضلالت و گمراہی، شکوک و شبہات، شیطانی وسوسوں اور تمام برے اخلاق و عادات سے نجات ملتی ہے اور اسے پڑح کر دم کرنے سے جسمانی امراض سے بھی شفا ملتی ہے، جیسا کہ امام بخاری کی ابو سعید خدری سے مروی حدیث سے ثابت ہے کہ سورۃ الفاتحہ سات بار پڑھ کر دم کرنے سے سانپ کا زہر اتر گیا، اور اس کے عوض صحابہ کو تیس بکریاں ملیں۔ امام ابن القیم نے زاد المعاد میں ادویہ و اغذیہ کے ضمن میں لکھا ہے کہ قرآن کے ذریعہ تمام قلبی اور بدنی بیماریوں سے مکمل شفا ملتی ہے اور دنیا وا آخرت کی بھی تمام بیماریوں سے شفا ملتی ہے، لیکن ہر آدمی اس سے مستفید ہونے اور اس کے ذریعہ شفا حاسل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اور یہ قرآن مومنوں کے لیے رحمت بھی ہے کہ وہ قرآن کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرتا ہے اور کفار چونکہ اس پر ایمان نہیں رکھتے، اس لیے جوں جوں قرآن نازل ہوتا جاتا ہے ان کے کفر و طغیان میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور قدم بہ قدم جہنم کی کھائی کی طرف بڑھتے جاتے ہیں۔ الإسراء
83 (٥٢) اس آیت کریمہ میں اس کافر انسان کی حالت بیان کی گئی ہے جو نور ایمان سے محروم ہوتا ہے اور دنیا کی محبت فکر آخرت پر غالب ہوتی ہے، ایسا انسان اللہ کا بڑا ہی ناشکر گزار ہوتا ہے، جب اللہ تعالیٰ اسے ہلاکت سے نجات دے دیتے ہیں تو ناشکری پر اتر آتا ہے اور اسے پکارنا بھول جاتا ہے اور جب اسے کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے، خوف مرض یا بھوک میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ پر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے یاس و ناامیدی کے گہرے بادل اس پر چھا جاتے ہیں، اس کے برعکس مومن نعمت پاکر سراپا شکر بن جاتا ہے اور مصیبت کے وقت صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ سورۃ ہود کی آیات (٩، ١٠، ١١) میں اللہ تعالیٰ نے اسی حقیقت کو بیان فرمایا ہے، اور مومنوں کو مستثنی قرار دیا ہے جو صبر سے کام لیتے ہیں اور عمل صالح کرتے ہیں، یعنی جب انہیں نعمت ملتی ہے تو شکر ادا کرتے ہیں اور اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتے ہیں۔ الإسراء
84 (٥٣) اس آیت کریمہ میں مومن کی تعریف اور کافر کی مذمت بیان کی گئی ہے کہ ہر انسان اپنے مذہب و طریقہ اور اخلاق و کردار کے مطابق عمل کرتا ہے، کافر اپنے طریقہ پر چلتا ہے اور مومن اپنے طریقہ پر اور ہر شخص دعوی کرتا ہے کہ وہ حق پر ہے، لیکن ہدایت یافتہ کون ہے اس کا صحیح علم صرف اللہ کو حاصل ہے اور قیامت کے دن وہ ہر ایک کو اس کے عمل اور کردار کے مطابق بدلہ دے گا۔ الإسراء
85 (٥٤) بخاری و مسلم اور امام احمد وغیرہم نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ یہود مدینہ نے رسول اللہ سے روح کے بارے میں سوال کیا تو یہ آیت نازل ہوئی، اور ابن اسحاق نے روایت کی ہے کہ یہود مدینہ نے قریش کو کہلا بھیجا کہ وہ محمد سے اہل کہف، ذوالقرنین اور ورح کے بارے میں پوچھیں، اگر وہ دور کے بارے میں بتائے اور تیسری چیز کے بارے میں خاموشی اختیار کرے تو وہ نبی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکہف نازل کی جس میں اصحاب کہف اور ذوالقرنین کا واقعہ ہے اور یہ آیت نازل کی جس میں روح کا تذکرہ ہے۔ روح کا اطلاق عظیم فرشتہ جبریل (علیہ السلام) اور اس پوشیدہ چیز پر ہوتا ہے جو پورے جسم انسانی میں پھیلی ہوتی ہے اور جس کے سبب انسان کا جسم زندہ رہتا ہے، یہاں یہی دوسرا معنی مراد ہے، جس کی حقیقت کسی انسان کو نہ معلوم ہوئی ہے اور نہ ہوگی، وہ ایک ایسی شے ہے جس کی حقیقت کا علم صرف اللہ کو ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے انسانو ! تمہیں تو بہت ہی معمولی سا علم دیا گیا اس لیے اس کرید میں نہ پڑو کہ روح کی حقیقت کیا ہے ؟ اس آیت کریمہ سے اس بات کی ممانعت ثابت ہوتی ہے کہ آدمی روح سے متعلق غیر ضروری اور غیر مفید بحث میں پڑے جیسا کہ بہت سے لوگوں کا ماضی میں شیوہ رہا ہے، لیکن نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا اور بات وہیں کی وہیں رہ گئی کہ روح کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔ الإسراء
86 (٥٥) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر قرآن کریم جیسی عظیم ترین نعمت کا احسان جتا رہا ہے جو مومنوں کے ہر درد کا درماں اور مجسم رحمت ہے، اگر وہ چاہتا تو اسے آپ کے سینے اور صفحہ قرطاس سے مٹا دیتا اور ایک آیت بھی باقی نہ رہتی اور کوئی ہستی ایسی نہ ہوتی جو اللہ تعالیٰ کو اس سے روک سکتی ہے، لیکن اس کا یہ فضل و کرم ہے کہ اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ وہ قرب قیامت تک اس کی حفاظت فرمائے گا اور آپ کی نبوت کی صداقت پر دلیل و حجت بنا کر اسے باقی رکھے گا۔ آپ پر اللہ کا صرف یہی فضل و کرم نہیں ہے بلکہ اس کے احسانات آپ پر بے شمار ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاتم الانبیاء بنایا، آسمان کی زیارت کرائی، معراج کی رات بیت المقدس میں آپ نے انبیاء کی امامت کرائی اور قیامت کے دن اللہ آپ کو شفاعت عظمی کی اجازت دے گا۔ الإسراء
87 الإسراء
88 (٥٦) ابن اسحاق، ابن جریر اور ابن ابی حاتم وغیرھم نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ کفار قریش نے رسول اللہ سے کہا، اگر ہم چاہیں تو تمہارے قرآن جیسا کلام لاسکتے ہیں اور اس وقت تمہارا یہ دعوی باطل ہوجائے گا کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور تمہاری نبوت کی صداقت کی دلیل ہے، تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا، آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اگر تمام انسان اور جن جمع ہو کر کوشش کریں کہ وہ قرآن جیسا کلام لے آئیں، تو وہ ایسا نہیں کرسکیں گے اس لیے کہ یہ اللہ کا کلام ہے جو اس نے بذریعہ وحی اپنے بندے اور رسول محمد پر نازل کیا ہے۔ اور زمانہ گواہ ہے کہ چودہ صدی گزر گئی اور کوئی شخص قرآن جیسا کلام نہیں لاسکا۔ الإسراء
89 (٥٧) اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے اس قرآن کریم میں ہر وہ بات اور مثال بیان کردی ہے جس میں غور و فکر انہیں راہ راست پر لاکھڑا کردے، لیکن بنی نوع انسان کا حال عجیب رہا ہے کہ اکثر لوگوں نے اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا، بلکہ کفر کی راہ اختیار کرلی اور قرآن کی تکذیب کی، اور یہ اس قضائے الہی کے مطابق ہوا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ لشکر ابلیس سے جہنم کو بھردے گا۔ الإسراء
90 (٥٨) کفار قریش جب قرآن جیسا کلام نہیں لاسکے اور اس دلیل کے سامنے اپنے آپ کو بالکل بے بس پایا تو دوسری نشانیوں کا مطالبہ کرنے لگے، جن میں سے بعض کا ذکر مندرجہ ذیل آیتوں میں آیا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری دعوت توحید پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے اور روز قیامت اور تمہاری نبوت کی اس وقت تک تصدیق نہیں کریں گے جب تک تم کوئی نشانی نہ پیش کرو یا تو زمین میں کوئی ایسا چشمہ جاری کردو جس کا پانی ہمیشہ جاری رہے یا تمہارے لیے کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ وجود میں آجائے جن کے درمیان نہریں جاری کردو، یا اپنے گمان کے مطابق آسمان کو ہی بطور عذاب ہمارے سروں پر گرا دو، یا اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آؤ جو تمہاری صداقت کی گواہی دیں یا تمہارے لیے سونے کا کوئی گھر ہی اچانک نکل آئے یا سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھو، اور دیکھو تمہارے صرف آسمان پر چڑھ جانے سے ہی ہم ایمان نہیں لائیں گے بلکہ ضروری ہے کہ وہاں سے ایک کتاب لے کر آؤ جس میں ہمیں حکم دیا گیا ہو کہ تم پر ایمان لے آئیں، اور تمہاری پیروی کریں، اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا : آپ ان کافروں سے کہیے کہ میں تو ایک انسان ہوں جسے اللہ نے اپنا رسول بنایا ہے، ایک بندہ مامور ان باتوں پر کہاں قادر ہوتا ہے جن کا تم نے ذکر کیا ہے یہ سب باتیں تو صرف اللہ کے اختیار میں ہیں۔ الإسراء
91 الإسراء
92 الإسراء
93 الإسراء
94 (٥٩) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار قریش کا ایک شبہ بیان کیا ہے جسے قرآن کریم میں بار بار دہرایا گیا ہے۔ وہ یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھے کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اپنا رسول بنا سکتا ہے، اور ان کا یہی شبہ رسول اللہ پر ایمان لانے سے مانع تھا۔ سورۃ یونس آیت (٢) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (اکان للناس عجبا ان اوحینا الی رجل منھم ان انذر الناس) کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک آدمی پر وحی نازل کی ہے اور اسے حکم دیا ہے کہ آپ لوگوں کو اللہ کا خوف دلایئے۔ الإسراء
95 (٦٠) ان کے شبہ کی تردید کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ یہ تو اس کا فضل و کرم ہے کہ بندوں کی رہنمائی کے لیے انہی جیسا رسول بھیجا، تاکہ اس کی بات سمجھیں اور اس کی زندگی ان کے لیے مشعل راہ بنے، اگر زمین پر رہنے والے فرشتے ہوتے تو حکمت کا تقاضا یہی ہوتا کہ ان کی رہنمائی کے لیے انہی جیسا کوئی فرشتہ رسول بنا کر بھیجا جاتا، تاکہ وہ ان کی باتوں کو سمجھتا اور اس کی زندگی ان کے لیے مشعل راہ بنتی، اس لیے اے کفار مکہ ! نبی کریم کی نبوت کا انکار بعید از عقل و قیاس بات ہے، بعثت انبیاء کی اسی حکمت کو بیاں فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت (١٥١) میں مسلمانوں سے کہا ہے : (کما ارسلنا فیکم رسولا منکم یلتوا علیکم آیاتنا ویزکیکم ویعلمکم الکتاب والحکمۃ ویعلمکم ما لم تکونوا تعلمون) یعنی جیسا کہ ہم نے تمہاری رہنمائی کے لیے تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ہماری آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور قرآن و سنت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ کچھ سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔ الإسراء
96 (٦١) اس آیت کریمہ میں کفار مکہ کے لیے ایک قسم کی دھمکی ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ان سے کہہ دیجیے میں نے بحیثیت رسول، اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے اور میری صداقت و امانت پر خود اللہ گواہ ہے جو اپنے بندوں کے تمام احوال سے باخبر ہے اور انہیں دیکھ رہا ہے اور قیامت کے دن ہر ایک کو اپنے عدل و انصاف کے ساتھ اس کے اعمال کا بدلہ چکائے گا۔ اس لیئے اے کفار مکہ ! تمہارے لیے خیر اسی میں ہے کہ میری نبوت پر ایمان لے آؤ، اور دین اسلام کو قبول کرلو۔ الإسراء
97 (٦٢) رشد و ہدایت اور ضلالت و گمراہی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے، وہ جسے ہدایت دینا چاہتا ہے وہی راہ راست پر آلگتا ہے اور جسے خود اس کے غلط راہ کو اختیار کرنے کی وجہ سے گمراہ کردیتا ہے اسے نہ کوئی راہ راست پر لاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے قہر و غضب سے بچا سکتا ہے۔ آیت کریمہ میں ہدایت پانے والے کے لیے مفرد کی ضمیر استعمال ہوئی ہے (فھو المھتد) اور گمراہوں کے لیے جمع کی ضمیر (فلن تجد لھم) مفسرین لکھتے ہیں کہ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ حق کا راستہ ایک ہے اور اسے اختیار کرنے والے کم ہوتے ہیں اور کفر و ضلالت کی راہیں متعدد ہیں اور گمراہوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن کافروں کو ہم ان کے چہروں کے بل گھسیٹیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ القمر آیت (٤٨) میں فرمایا ہے : (یوم یسحبون فی النار علی وجوھھم) جس دن کفار جہنم میں اپنے چہروں کے بل گھیسٹے جائیں گے اور چونکہ وہ دنیا میں اپنی آنکھوں سے راہ حق کو نہیں دیکھ پاتے تھے اپنی زبانوں سے کلمہ حق ادا نہیں کرتے تھے، اور کانوں سے حق بات سننا گوارہ نہیں کرتے تھے، اس لیے قیامت کے دن اندھے، گونگے اور بہرے اٹھائے جائیں گے ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا، جس کی لپک اور تپش جب بھی کم ہوگی اللہ اسے اور زیادہ تیز کردے گا۔ زمخشری نے لکھا ہے کہ چونکہ انہوں نے بعث بعد الموت کا انکار کردیا تھا اسی لیے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے جسموں پر آگ کو مسلط کردے گا جو ان کو کھا جائے گی تو اللہ انہیں دوبارہ بنا دے گا، اور اسی طرح فنا ہونے اور دوبارہ بنائے جانے کا عمل جاری جاری رہے گا تاکہ دنیا میں بعث بعد الموت کے انکار کی وجہ سے اس دن ان کی حسرت میں اضافہ ہوتا رہے۔ آیت (٩٨) میں مذکورہ بالا مفہوم کی تائید ہے کہ ایسا برتاؤ ان کے ساتھ اس لیے ہوگا کہ انہوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کردیا تھا اور کہتے تھے کہ ہم جب مر کر صرف ہڈیاں اور راکھ ہوجائیں گے تو کیا ہمیں نئے سرے سے پیدا کر کے اٹھایا جائے گا؟ الإسراء
98 الإسراء
99 (٦٣) کافروں کے مذکور بالا شبہ کی تدید کی جارہی ہے کہ انہیں آخر بعث بعد الموت پر کیوں حیرت ہے کیا وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اس بات پر قادر نہیں ہے کہ قیامت کے دن ان جیسا انسان دوبارہ پیدا کرے؟ اس دلیل کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں بیان کیا ہے، سورۃ یسین آیت (٨١) میں فرمایا ہے : (اولیس الذی خلق السموات والارض بقادر علی ان یخلق مثلھم بلی وھو الخلاق العلیم) کہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے وہ ان جسموں کو پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے؟ بیشک وادتر ہے اور وہ بڑا پیدا کرنے والا، بڑا علم والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ قبروں سے اٹھانے اور زندہ کرنے کی ایک مدت مقرر کر رکھی ہے، جس میں کوئی شبہ نہیں ہے، اور جب وہ گھڑی آجائے گی تو سارے لوگ زندہ ہو کر میدان محشر میں جمع ہوجائیں گے، لیکن جو لوگ اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں ان کا شیوہ کفر ہی ہوتا ہے وہ تمام کھلی اور روشن نشانیوں کے باوجود ایمان نہیں لاتے ہیں۔ الإسراء
100 (٦٤) مشرکین مکہ رسول اللہ سے مطالبہ کرتے تھے کہ وہ جبل صفا کو سونے میں اور مکہ کے اردگرد کی زمینوں کو باغوں اور نہروں میں بدل دیں، اسی کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں نبی کریم کی زبانی دیا ہے کہ اگر تم میرے رب کی رحمت کے تمام خزانوں کا مالک بن جاتے تو بھی تمہارا بخل دور نہ ہوتا اور اس ڈر سے خرچ نہ کرتے کہ کہیں یہ خزانے ختم نہ ہوجائیں، اس لیے کہ بخل انسان کی فطرت میں داخل ہے، جمہور کا یہ قول ہے کہ یہاں انسان سے مراد تمام انسان ہیں اور حسن بصری کا خیال ہے کہ اس سے مراد مشرکین ہیں، البتہ اس سے وہ لوگ مستثنی ہیں جن کی صفات سورۃ المعارج آیات (١٩) سے (٣٤) تک میں بیان کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (18؀اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا 19؀ۙاِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا 20؀ۙوَّاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا 21؀ۙاِلَّا الْمُصَلِّیْنَ 22؀ۙالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَاتِہِمْ دَاۗیِٕمُوْنَ 23 ؀۽وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ 24؀۽لِّلسَّاۗیِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ 25؀۽وَالَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ 26؀۽وَالَّذِیْنَ ہُمْ مِّنْ عَذَابِ رَبِّہِمْ مُّشْفِقُوْنَ 27؀ۚاِنَّ عَذَابَ رَبِّہِمْ غَیْرُ مَاْمُوْنٍ 28؀وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ 29؀ۙاِلَّا عَلٰٓی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ 30؀ۚفَمَنِ ابْتَغٰی وَرَاۗءَ ذٰلِکَ فَاُولٰۗیِٕکَ ہُمُ الْعٰدُوْنَ 31؀ۚوَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ 32؀۽وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِشَہٰدٰتِہِمْ قَاۗیِٕمُوْنَ 33؀۽وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَاتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ) بیشک انسان بڑے کچے دل والا بنایا گیا ہے جب اسے مصیبت پہنچتی ہے تو ہڑ بڑا اٹھتا ہے اور جب راحت ملتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے مگر وہ وہ نمازی جو اپنی نماز پر ہمیشگی کرنے والے ہیں اور جن کے مالوں میں مقرر حصہ ہے، مانگنے والوں کا بھی اور سوال سے بچنے والوں کا بھی اور جو انصاف کے دن پر یقین رکھتے ہیں، اور جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں، بیشک ان کے رب کا عذاب بے خوف ہونے کی چیز نہیں، اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی (حرام سے) حفاظت کرتے ہیں ہاں اکی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں جن کے وہ مالک ہیں انہیں کوئی ملامت نہیں، جو کوئی اس کے علاوہ راہ ڈھونڈھے گا تو ایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہوں گے، اور جو اپنی امانتوں کو، اپنے قول و قرار کو ہر آن ملحفوظ رکھتے ہیں اور جو اپنی گواہیوں پر سیدھے اور قائم رہتے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ روزی کے خزانوں کا مالک صرف اللہ ہے اور وہ بڑا ہی جود و سخا والا ہے، اس نے جب سے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، خرچ کر رہا ہے اور اس کے دائیں ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ ختم نہیں ہوا ہے جیسا کہ بخاری و مسلم کی ایک روایت سے ثابت ہے۔ الإسراء
101 (٦٥) کفار قریش نے رسول اکرم سے جب ان چھ نشانیوں کا مطالبہ کیا جن کا ذکر بھی آیات (٩٠) سے (٩٣) میں گزر چکا ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، جس سے مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو جو نو نشانیاں دی گئی تھیں وہ انہی مطلوبہ نشانیوں کے برابر تھیں، لیکن پھر بھی فرعون اور اس کے پیروکار ایمان نہیں لائے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کردیا اہل مکہ کے مطالبہ کے مطابق نشانیاں اس لیے نہیں بھیجی جارہی ہیں کہ اگر ان کے وجود میں آجانے کے بعد بھی وہ ایمان نہیں لائیں گے تو انہیں ہلاک کردیا جائے گا، اور اللہ انہیں یکسر ختم نہیں کرنا چاہتا ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک موسیٰ (علیہ السلام) کو دی گئی نو نشانیاں مندرجہ ذیل ہیں : ید بیضا، عصائے موسی، خون، سمندر کے پانی کا دو حصہ ہوجانا، آل فرعون کے مال و دولت کی بربادی، طوفان، ٹڈی، جوئیں، مینڈک، ان تمام نشانیوں کو دیکھ لینے کے بعد بھی فرعون ایمان نہیں لایا اور کہنے لگا کہ اے موسیٰ میں سمجھتا ہوں کہ تمہاری عقل میں جادو کی وجہ سے خلل واقع ہوگیا ہے کہ ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو، بعض حضرات نے مسحور کا معنی ساحر کیا ہے کہ تم جادو کے زور سے خلاف عادت چیزیں پیش کر رہے ہو، سورۃ النمل آیات (١٣، ١٤) میں اللہ تعالیٰ نے اسی واقعہ کو یوں بیان فرمایا ہے : (فلما جائتھم آیاتنا مبصرۃ قالوا ھذا سحر مبین۔ وجحدوا بھا واستیقنتھا انفسھم ظلما و علوا فانظر کیف کان عاقبۃ المفسدین) پس جب آنکھیں کھول دینے والے ہمارے معجزے پہنچے تو وہ کہنے لگے یہ تو صریح جادو ہے اور انہوں نے انکار کردیا، حالانکہ ان کے دل یقین کرچکے تھے، صرف ظلم و تکبر کی بنا پر پس آپ دیکھ لیجیے کہ فساد برپا کرنے والوں کا کیسا انجام ہے۔ الإسراء
102 (٦٦) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا، تمہیں معلوم ہے کہ یہ نشانیاں اس اللہ نے نازل کی ہیں جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور سیدھے دل سے اللہ کی ہدایت طلب کرنے والوں کے لیے ان میں بڑی عبرتیں ہیں، لیکن تم اپنے کبر و عناد کی وجہ سے ان کا انکار کر رہے ہو اور انہیں جادو کا اثر بتا رہے ہو۔ اے فرعون میرا خیال ہے کہ تم اللہ کی رحمت سے دور کردیئے گئے ہو اور بالآخر تم ہلاک کردیئے جاؤ گے۔ الإسراء
103 الإسراء
104 (٦٧) فرعون نے جب اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ نشانیوں کے سامنے مجبور پایا تو موسیٰ اور بنی اسرائیل کے خلاف اپنی مادی طاقت استعمال کرنے پر تل گیا اور انہیں سرزمین مصر سے جلاوطن کرنے کا فیصلہ کرلیا، یا سب کو قتل کردینا چاہا، لیکن اللہ تعالیٰ پر کون غالب آسکتا ہے؟ چنانچہ اللہ نے فرعون اور اس کے لشکر کو غرقاب کردیا، اور بنی اسرائیل کو موسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی حکم دیا کہ وہ شام و فلسطین کی سرزمین میں اقامت پذیر ہوجائیں اور مرور زمانہ کے سامنے ایک وقت ایسا آجا جب بنی اسرائیل کے لوگ فرعون کی سرزمین اس کے مال و دولت اور زمین وجائیداد کے مالک بن گئے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں جو مکہ مکرمہ ہجرت سے پہلے نازل ہوئی تھی، نبی کریم کو فتح مکہ کی بشارت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح بنی اسرائیل کو بالآخر سرزمین مصر کا مالک بنا دیا، اسی طرح اگرچہ آج آپ مکہ میں کمزور ہیں اور یہاں سے آپ کو نکل جانا پڑے گا، لیکن ایک وقت آئے گا کہ آپ یہاں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ کو مکہ سے کافروں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر نکل جانا پڑا، لیکن چند ہی سال بعد آپ وہاں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور اہل مکہ آپ کے قبضے میں آگئے جنہیں آپ نے اپنے حلم و کرم کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھوڑ دیا۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب قیامت قریب ہوگی تو اچھے اور برے تمام لوگ ایک ساتھ زندہ کیے جائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ ان کے درمیان اپنا فیصلہ صادر فرمائے گا اور نیک بختوں اور بد بختوں کو ان کے اعمال کے مطابق بدلہ دے گا۔ الإسراء
105 (٦٨) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فمرایا کہ اس نے قرآن کریم میں جو احکام اور اوامر و نواہی بیان کیے ہیں وہ اس کے علم کا ایک حصہ ہیں اور قرآن ایسی برحق کتاب ہے جو تمام شبہات سے بالاتر ہے نہ اس میں انسانوں کی طرف سے کوئی زیادتی ہوئی اور نہ ہی کوئی کمی، جیسا کہ سورۃ فصلت آیت (٤٢) میں آیا ہے : (لا یاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ) جس کے قریب باطل پھٹک بھی نہیں سکتا، نہ اس کے آگے سے نہ اس کے پیچھے سے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو خطاب کر کے فرمایا کہ ہم نے آپ کو یہ قدرت دے کر نہیں مبعوث کیا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کردیں، آپ کا کام تو صرف دعوت و تبلیغ ہے، اللہ کی اطاعت کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری دیدیں، اور نافرمانی کرنے والوں کو جہنم سے ڈرائیں۔ آیت (١٠٦) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے قرآن کریم کو تئیس سال میں کسی حکمت کے تقاضے کے مطابق نازل کیا ہے، اور اس لیے ایسا کیا ہے تاکہ آپ بتدریج اس کی تعلیم صحابہ کو دیتے رہیں، اور لوگوں کے احوال و مصالح کے مطابق بتدریج احکام الہی نازل ہوتے جائیں اور ان کے دل و دماغ میں ثبت ہوتے جائیں۔ الإسراء
106 الإسراء
107 (٦٩) نبی کریم کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ کافروں کو احساس دلائیں کہ اللہ اور رسول کی نگاہ میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے نہ ان کا ایمان لانا کوئی بڑی اہم بات ہے اور نہ ہی ان کے کفر و عناد سے کسی اور کو کوئی نقصان پہنچے گا، اگر وہ اللہ پر ایمان نہیں لائیں گے اور قرآن کریم کو اس کی کتاب تسلیم نہیں کریں گے، تو کیا ہوتا ہے ان سے بہت ہی اچھے لوگ، یعنی اہل کتاب کے نیک علما مثلا عبداللہ بن سلام، سلمان فارسی اور نجاشی وغیرہم اسے اللہ کی کتاب اور نبی کریم کو وہی رسول مان چلے ہیں جن کی بشارت تورات و انجیل میں دی جاچکی ہے، اور ان علمائے صالحین کا حال یہ ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے اپنی ٹھڈیوں اور سروں کے بل سربسجود ہوجاتے ہیں کہ اس نے ان پر یہ احسان کیا کہ انہوں نے نبی کریم کا زمانہ پایا، اور ان پر اور قرآن کریم پر ایمان لے آئے، اور اس کی عظمت اور پاکی بیان کرتے ہیں کہ اس نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا اور نبی کریم کو دنیا والوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے مبعوث کردیا، اور وہ کہ تے ہیں کہ ہمارے رب کا ہر وعدہ پورا ہو کر رہتا ہے۔ اور قرآن کریم میں مذکور وعظ و نصیحت کو سن کر شدت تاثیر سے اپنی ٹھڈیوں کے بل سجدے میں گر کر روتے ہیں اور اللہ کے لیے ان کی عاجزی و انکساری میں اضافہ ہوتا ہے۔ الإسراء
108 الإسراء
109 الإسراء
110 (٧٠) ابن جریر اور ابن مردویہ نے ابن عباس سے راویت کیا ہے کہ نبی کریم نے ایک دن مکہ میں نماز پڑھی تو دعا میں یا اللہ یا رحمان کہا، کافروں نے سن کہر کہا کہ اس بے دین کو دیکھو، ہمیں تو دو معبودوں کو پکارنے سے روکتا ہے اور خود اس پر عمل نہیں کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، اللہ کے بہت سے اچھے نام ہیں اسے ان ناموں میں سے جس نام سے چاہو پکارو۔ بخاری و مسلم نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ (ولا تجھر بصلاتک) اس وقت نازل ہوئی جب رسول اللہ مکہ میں چھپ کر عبادت کرتے تھے، اور جب صحابہ کے ساتھ نماز پڑھتے تو بلند آواز سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے، مشرکین سن کر قرآن اور اس کے نازل کرنے والے کو گالی دیتے، آپ کو حکم دیا گیا کہ اپنی آواز زیادہ اونچی نہ کریں تاکہ مشرکین نہ سن لیں اور نہ اتنی پست آواز سے تلاوت کریں کہ صحابہ سن نہ سکیں، یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا بعد میں سنت یہ قرار پایا کہ فجر، مغرب اور عشا کی پہلی دو رکعتوں میں بلند آواز سے قرآن کی تلاوت کی جائے۔ الإسراء
111 (٧١) اس آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو حکم دیا ہے کہ وہ اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے کہیں کہ وہی ذات واحد ہر حمد و ثنا کا مستحق ہے جس کی نہ کوئی اولاد ہے جیسا کہ بعض عربوں نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا، اور یہود نے عزیر (علیہ السلام) کو اور نصاری نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا قرار دیا، نہ ہی دو جہان کی بادشاہت میں اس کا کوئی شریک ہے، جیسا کہ مشرکین عرب حج میں تلبیہ پکارتے ہوئے کہتے کہ : لبیک لا شریک لک لبیک الا شریکا ھو لک۔ کہ اے اللہ ! تیرا کوئی شریک نہیں مگر وہ جو تیرا شریک ہے۔ اور نہ ہی اس میں ذلت اور عاجزی پائے جانے کی وجہ سے اس کا کوئی ولی اور دوست ہے۔ جیسا کہ بے دین اور مجوس کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ کے اولیا نہ ہوتے تو اللہ کو ذلت لاحق ہوتی۔ (العیاذ باللہ) مذکورہ بالا مضمون کی مزید تاکید کے طور پر اللہ نے اپنے نبی سے فرمایا آپ یہ بیان کردیں کہ میرا رب اس سے بلند و بالا تر ہے کہ اسے کوئی نقص، عیب، محتاجی یا عاجزی لاحق ہو۔ الإسراء
0 نام : اس کا نام آیت : (١٠) (اذ اوی الفتیۃ الی الکہف) سے ماخوذ ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اصحاب کہف کے قصے میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے بہت سے فوائد بیان کیے گئے ہیں۔ زمانہ نزول : قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ سورت تمام مفسرین کے نزدیک مکی ہے۔ ابن عباس کا یہی قول ہے اور آیتوں کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت اس وقت نازل ہوئی جب مسلمانوں پر اہل مکہ کا ظلم و ستم انتہا کو پہنچ رہا تھا، تاکہ اصحاب کہف کا واقعہ سنا کر مسلمانوں کی ہمت افزائی کی جائے اور انہیں بتایا جائے کہ ان سے پہلے مسلمانوں پر اس سے زیادہ ظلم کیا گیا، لیکن ان کے پاس استقامت میں تزلزل نہیں آیا، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی ابتدائی آیتیں (ایک تا آٹھ) اور آیت (٢٨) اور آیات (١٠٧) سے (١١٠) تک مدنی ہیں۔ فضیلت : امام احمد، مسلم، ابو داؤد، ترمذی اور نسائی وغیرہم نے ابو درداء سے روایت کی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : جس نے سورۃ الکہف کی ابتدائی دس آیتیں حفظ کرلی وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ وہگیا، اور حاکم نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : جو شخص جمعہ کے دن سورۃ الکہف کی تلاوت کرے گا اس کے لیے دونوں جمعوں کے درمیان ایک نور روشنی کیے ہوگا۔ الكهف
1 (١) اللہ تعالیٰ نے بہت سی سورتوں کی ابتدا اور انتہا میں اپنی تعریف بیان کی ہے اور اس اسلوب کلام سے اس جانب اشارہ مقصود ہوتا ہے کہ وہ ذات باری تعالیٰ ہر حال میں لائق حمد و ثنا ہے، اور بندوں کو یہ تعلیم بھی مقصود ہوتی ہے کہ ہر مہتم بالشان چیز کی ابتدا اور انتہا اللہ کی ہی حمد و ثنا سے ہونی چاہیے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ نے اپنی بڑائی اس بات پر بیان کی ہے کہ اس نے بندوں کی ہدایت کے لیے قرآن کریم نازل فرمایا جو اس کی عظیم ترین نعمت ہے۔ اور نبی کریم کو صفت عبدیت کے ساتھ اس لیے ذکر کیا گیا ہے تاکہ آپ کی اور قرآن کریم کی عظمت ظاہر ہو، اور یہ بھی ظاہر ہو کہ آپ اللہ کے بندے ہیں اور یہی آپ کا اعلی مقام ہے، نہ یہ کہ انہیں اللہ کا بیٹا کہا جائے، جیسا کہ نصاری عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں گمان رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں۔ اور قرآن کریم میں نہ لغوی اعتبار سے کوئی نقص ہے نہ ہی اس کے معانی میں تضاد ہے، اور نہ لوگوں کو حق و صداقت کی طرف بلانے کے علاوہ اس کا کوئی اور پیغام ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آیت (٢) میں قرآن کو قیم کہا، یعنی یہ قرآن نہایت ہی معتدل کتاب ہے، ہر افراط و تفریط سے پاک اور تمام سابقہ آسمانی کتابوں پر غالب ہے، جس بات کو وہ حق بتاتا ہے وہ حق ہے اور جسے باطل قرار دیتا ہے وہ باطل ہے، جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے۔ قرآن کریم کا مشن یہ ہے کہ یہ اہل شرک و معاصی کو اللہ کے دنیاوی اور اخروی عذاب سے ڈراتا ہے، اور مومنین صالحین کو جنت کی خوشخبری دیتا ہے جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اور جس میں وہ لوگ ہمیشہ رہیں گے۔ آیت (٤) میں بتایا گیا ہے کہ یہ قرآن بطور خاص ان یہود و نصاری اور مشرکین عرب کو ڈراتا ہے جو اللہ پر افترا پردازی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ کا کوئی بیٹا ہے۔ اور آیت (٥) میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ ایسی جھوٹی بات ہے جس کی بنیاد جہالت، توہم پرستی اور باپ دادوں کی اندھی تقلید پر ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی انتہا درجہ کی برائی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے اللہ رب العالمین کے خلاف اپنے منہ سے ایسی غلط بات نکالی ہے جس کا حقیقت و واقعہ سے ذرہ برابر بھی تعلق نہیں ہے، یہ محض افترا پردازی ہے۔ الكهف
2 الكهف
3 الكهف
4 الكهف
5 الكهف
6 (٢) اس آیت کریمہ میں آپ کو تسلی دی گئی ہے اور نصیحت کی گئی ہے کہ اگر مشرکین مکہ آپ پر اور قرآن پر ایمان نہیں لاتے تو آپ کو اس پر اتنا غمگین نہیں ہونا چاہیے کہ اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال لیں، آپ کو صبر سے کام لینا چاہیے، اور اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیے کہ وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے، اس کے فیصلے میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا۔ الكهف
7 (٣) یہ دنیا دار الامتحان ہے دار القرار نہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے زمین پر مختلف قسم کے حیوانات پیدا کیے اور اسے درختوں، نہروں اور پھلوں پتیوں سے زینت بخشی اور انواع و اقسام کی نعمتوں سے اسے بھر دیا، تاکہ دیکھے کہ کون رنگ رلیوں میں پھنس کر رہ جاتا ہے، اور کون شہوتوں اور خواہشات پر غالب آکر اللہ کی اطاعت و بندگی کو ترجیح دیتا ہے، اور ایک دن ایسا آئے گا کہ زمین اور اس پر موجود تمام اشیاء یکسر ختم ہوجائیں گی، اور زمین بے آب و گیاہ میدان بن جائے گا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ ان دونوں آیتوں میں بھی نبی کریم کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ پریشان نہ ہوں اور گم نہ کریں اس لیے کہ جس دنیا اور اس کی لذتوں اور شہوتوں کی خاطر آپ سے کفار عداوت کرتے ہیں اسے بہرحال ختم ہوجانا ہے اور سب کو ہمارے پاس لوٹ کر آنا ہے، تاکہ ان کے اعمال کا انہیں بدلہ چکایا جائے۔ الكهف
8 الكهف
9 (٤) اس آیت کریمہ سے اصحاب کہف کے واقعہ کی ابتدا ہورہی ہے، اور یہ ان تین سوالوں میں سے ایک کا جواب ہے جو مشرکین مکہ نے یہود مدینہ کے ایما پر رسول اللہ سے کیا تھا کہ اگر محمد نبی ہوگا تو ان کا جواب دے سکے گا، ورنہ نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر وحی نازل فرمائی اور اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے کہ اصحاب کہف کا واقعہ اس کی سب سے بڑی نشانی نہیں ہے، اس کی تو بے شمار بڑی بڑی نشانیاں ہیں، جو باری تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور جو دن رات کو ایک دوسرے کے بعد لاتا رہتا ہے، اور جس نے شمس و قمر اور ستاروں کو مسخر کر رکھا ہے اس کی قدرت کے نزدیک اصحاب کہف کا واقعہ کوئی بڑی بات نہیں، وہ تو ہر چیز پر قادر ہے، وہ تو اس سے بھی عظیم ترین نشانیاں لاسکتا ہے۔ الكهف
10 (٥) غار میں پناہ لینے والے کچھ نوجوان مسلمان تھے اور ان کے ساتھ ان کا ایک کتا تھا، ان کے ملک کا بادشاہ بت پرست تھا، اور لوگوں کو بت پرستی پر مجبور کرتا تھا اور جو لوگ اس کی بات نہیں مانتے تھے انہیں سخت سزا دیتا تھا، ان نوجوانوں نے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کی خاطر اپنا شہر چھوڑ دیا اور ایک غار میں پناہ گزیں ہوگئے جو مقام ایکہ کے قریب رقیم نامی وادی میں واقع تھا، ان نوجوانوں کو جب ذرا سکون ملا تو اپنے رب سے دعا کی کہ اے ہمارے رب ! ہم نے جو شرک اور مشرکین سے کنارہ کشی اختیار کی ہے تو اپنی رحمت کو ہم پر سایہ فگن کردے، اور اپنے دین کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑا ہے تو ہر گام پر ہماری رہنمائی فرما اور کافروں سے ہمیں نجات دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی ان کے کانوں پر ایک پردہ ڈال دیا جس کے سبب غار سے باہر کی آواز ان تک آنی بند ہوگئی، اور اللہ نے انہیں ایسا سکون عطا فرمایا اور وہ دشمنوں سے اس طرح امن میں آگئے کہ تین سو نو سال تک سوئے رہے۔ اس طویل مدت کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں نیند سے بیدار کیا تاکہ وہ اس بات کا مشاہدہ کرے کہ ان کی نیند کی مدت کا جن دو گروہوں نے اندازہ لگایا تھا ان میں سے کس کا اندازہ حقیقت سے زیادہ قریب تھا، اور تاکہ اس کے دیگر بندے اس طویل مدت تک ان نوجوانوں کے بغیر طعام و شراب کے رہنے کے بارے میں غور وفکر کر کے اللہ کی وحدانیت اور اس کی قدرت مطلقہ پر ایمان لائیں۔ الكهف
11 الكهف
12 الكهف
13 (٦) واقعہ اصحاب کہف کی اب امر واقع کے مطابق تفصیل بیان کی جارہی ہے، یہ نوجوان اپنی مشرک قوم کے برعکس اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لے آئے تھے، اور اللہ نے انہیں اپنے عقیدہ میں ایسی پختگی دی کہ انہوں نے اپنے دین کی حفاظت کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کی راہ اختیار کرلی اور تمام دنیاوی آرام و آسائش سے منہ موڑ کر غار میں رہنا گوارہ کیا۔ حافظ ابن کثیر نے (انھم فتیۃ) سے استنباط کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بوڑھوں کے مقابلہ میں نوجوان حق کو جلد قبول کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قریش کے اکثر بوڑھے اپنے کفر پر جمے رہے، ان میں سے بہت کم لوگوں نے اسلام قبول کیا، اور (وزدناھم ھدی) اور اس معنی کی دیگر قرآنی آیتوں سے امام بکاری اور دیگر ائمہ کرام نے استدلال کیا ہے کہ ایمان میں کمی اور زیادتی ہوتی ہے۔ ان نوجوانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے دین پر قائم تھے، لیکن حافظ ابن کثیر نے اس کی تردید کی ہے، اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اگر وہ لوگ نصرانی ہوتے تو یہود مدینہ ان کی خبروں سے دلچسپی نہیں رکھتے اور کفار مکہ کو نہ سکھاتے کہ وہ ان کے بارے میں رسول اللہ سے پوچھیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اہل کتاب کی کتابوں میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کے پہلے سے موجود تھا۔ الكهف
14 (٧) اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ نوجوان سردارن قوم کے بیٹے تھے، ایک دن بتوں کی پوجا کے لیے اپنے گھر والوں کے ساتھ نکلے، لیکن ان کی فطرت سلیم نے بت پرستی کا انکار کردیا، اور ایک اللہ کی عبادت کے عقیدہ پر اکٹھا ہوگئے، جب بادشاہ وقت کو ان کی خبر ہوئی تو انہیں اپنے دربار میں بلایا اور بتوں کی پرستش سے انکار کا سبب پوچھا، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں استقامت عطا کی اور بادشاہ کے سامنے کھڑے ہو کر اس بات کا اعلان کیا کہ ہمارا رب تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے اس لیے کسی حال میں بھی ہم اس کے علاوہ کسی کو اپنا معبود نہیں بنائیں گے، اگر ہم نے ایسا کیا تو اس سے بڑھ کر جھوٹ، بہتان اور اللہ پر افترا پردازی اور کوئی نہیں ہوگی۔ الكهف
15 (٨) ان نوجوانوں نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہماری قوم نے اللہ کے علاوہ دوسرے بہت سے معبودبنا لیے ہیں جن کی وہ پوجا کرتے ہیں، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان یہ عمل صحیح ہے تو انہیں اپنے دعوی کی صداقت پر واضح اور صریح دلیل پیش کرنی چاہیے، اس لیے کہ دین بغیر دلیل و حجت کے ثابت نہیں ہوتا ہے، پھر خود ہی مشرکوں کے دعوی کی تردید کرتے ہوئے کہا، واقعہ یہ ہے کہ غیروں کو اللہ کا شریک بنانا اللہ پر محض افترا پردازی ہے، کیونکہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور جو اللہ پر افترا پردازی کرے گا اس سے بڑھ کر ظالم کوئی نہیں ہوگا۔ الكهف
16 (٩) بادشاہ (دقیانوس) نے ان کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا، ان سے زینت کے لباس اترا والیے اور دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ بتوں کے بارے میں وہ اپنے موقف پر نظر ثانی کریں، انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لیے وہاں سے بھاگ نکلے، اور آپس میں مشورہ کیا کہ چونکہ ہم لوگوں نے بت پرستوں اور ان کے جھوٹے معبودوں سے اعلان برات کردیا ہے اور دین و ایمان کی حفاظت کے لیے اپنا وطن چھوڑ دیا ہے اس لیے ہمارے لیے مناسب یہ ہے کہ ہم غار میں چھپ جائیں، تاکہ ہم پکڑ نہ لیے جائیں اور ہمیں یقین ہے کہ ہمارا رب ہمیں ضائع نہیں کرے گا، وہ اپنی رحمتوں کے سائے تلے ہمیں ڈھانک لے گا، ہمارے کھانے پینے کا انتظام کرے گا اور دشمنوں سے نجات دے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ان کے دشمن ہزار کوشش کے باوجود ان کا سراغ نہ لگا سکے، اور اللہ تعالیٰ نے ان پر لمبی نیند طاری کردی، اور اللہ نے ان کے لیے جس غار کو چنا تھا وہ عجیب و غریب غار تھا جس کی تفصیل آئندہ آیت میں آرہی ہے۔ بعض لوگوں نے اصحاب کہف کے غار میں روپوش ہونے سے عبادت کے لیے عزلت نشینی پر استدلال کیا ہے، جو صحیح نہیں ہے، اس سے تو صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ جب آدمی کے دین و ایمان کو کسی ظالم کی جانب سے خطرہ لاحق ہوجائے تو اس جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہوجانا چاہیے تاکہ وہاں سکون کے ساتھ اللہ کی عبادت کرسکے، اور اس کا دین خطرہ سے محفوظ ہوجائے۔ امام غزالی نے بھی ایسے لوگوں کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اصحاب کہف ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوئے تھے، بلکہ کافروں کے ظلم و استبداد سے فرار کی راہ اختیار کی تھی، حافظ ابن کثیر نے بھی اس رائے کی تردید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عزلت اور لوگوں سے کنارہ کشی صرف اسی صورت میں جائز ہوگی کہ آدمی کے دین و ایمان کو خطرہ لاحق ہوجائے۔ الكهف
17 (١٠) یہ آیت کریمہ بتاتی ہے کہ دھوپ صبح و شام اس غار میں داخل ہوتی تھی لیکن ان کے جسموں پر نہیں پڑتی تھی اس لیے کہ اس کا دروازہ بائیں جانب سے کھلتا تھا، جب آفتاب چڑھتا تھا تو دھوپ دائیں جانب ہوجاتی تھی اور غروب کے وقت بائیں طرف ہوجاتی تھی، اور ان کے اجسام غار کے کشادہ حصے میں آفتاب کی شعاعوں سے مامون و محفوظ تھے۔ نیز یہ آیت اس پر بھی دلالت کرتی ہے کہ ان صالحین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ ایک کرامت تھی، کہ غار میں ہوا اور دھوپ پہنچتی تھی لیکن دھوپ ان کے جسموں پر نہیں پڑتی تھی تاکہ دھوپ کی تمازت ان کے جسموں کو جلا نہ دے، الغرض اللہ تعالیٰ نے انہیں اس غار میں پناہ دے کر ان کے دشمنوں سے بھی بچا لیا اور ان کے جسموں اور رنگوں کو سردی یا گرمی سے متاثر ہونے سے بھی محفوظ رکھا، یقینا ان صالحین کا یہ حال اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نشانی ہے۔ لیکن یہ اور اس طرح کی دیگر نشانیوں سے ہدایت وہی حاصل کرتا ہے جسے اللہ توفیق دیتا ہے، اور جسے وہ گمراہ کردینا چاہے اس کا کوئی یارومددگار نہیں ہوتا جو اسے سیدھی راہ پر ڈال دے۔ الكهف
18 (١١) اس آیت کریمہ میں ان صالحین کی ایک اور عجیب و غریب کیفیت بیان کی گئی ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے ان پر گہری نیند طاری کردی تھی، لیکن ان کی آنکھیں اس طرح کھلی تھیں کہا گر کوئی کوئی انہیں دیکھتا تو انہیں بیدار سمجھتا، اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کے اجسام دائیں اور بائیں الٹتے پلٹتے رہتے تھے تاکہ زمین انہیں نقصان نہ پہنچائے، اور ان کا کتا غار کے دہانے پر اپنے بازو پھیلائے بیٹھا تھا، ان کے ان تمام حوال و کوائف سے ایک ایسی کیفیت پیدا ہوگئی تھی کہ اگر کوئی قوی آدمی بھی انہیں دیکھتا تو اس پر رعب طاری ہوجاتا اور مارے ڈر کے بھاگ پڑتا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اللہ نے ان کی ایسی کیفیت اس لیے بنادی تھی تاکہ کوئی ان کے قریب نہ جائے اور نہ کوئی انہیں چھوئے، یہاں تک کہ اللہ کے علم کے مطابق ان کی نیند کی مدت پوری ہوجائے۔ الكهف
19 (١٢) تین سو نو سال تک سوئے رہنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں جب بیدار کیا تو ان کے اجسام اور تمام اعضا و جوارح حسب سابق بالکل صحیح و سالم تھے، ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی، تاکہ وہ اور انہیں دیکھنے والے دوسرے لوگ اس بات کا ادراک کرسکیں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو مارنے اور دوبارہ زندہ کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے اور تاکہ وہ صالحین ایک دوسرے سے اپنی نیند کی مدت کے بارے میں سوال کریں اور اللہ نے ان کے ساتھ جیسا اچھا معاملہ کیا اور جس طرح طویل مدت تک ان کی حفاظت کی ان سب پر غور کر کے عبرت حاصل کریں، اللہ کی عظیم قدرت پر ان کا ایمان بڑھ جائے اور اس کا شکر بجا لائیں۔ ان میں سے ایک نے پوچھا کہ بھائیو ! ہم لوگ کتنی دیر ہوئے ہیں؟ تو ان میں سے بعض نے جواب دیا کہ ہم لوگ یا تو ایک دن سوئے رہے ہیں یا دن کا کچھ حصہ۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ غالبا وہ لوگ غار میں صبح کے وقت داخل ہوئے تھے اور جب جاگے تو دن کا آخری پہر تھا، اسی لیے انہوں نے کہا کہ شاید ہم لوگ دن کا کچھ حصہ سوئے رہے ہیں، انتہی۔ لیکن بعض دوسرے نے اپنی لاعلمی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اللہ ہی زیادہ جانتا ہے کہ ہم کتنی دیر اس حال میں رہے ہیں۔ پھر انہوں نے روئے سخن دوسری طرف پھیرتے ہوئے کہا کہ ہم میں سے ایک آدمی ہمارے پاس موجود چاندی کا سکہ لے کر شہر جائے اور عمدہ اور حلال کھانا خرید کر لائے، اور خوب محتاط رہے تاکہ اپنی کسی حرکت سے لوگوں کو اپنی حقیقت کا پتہ نہ دیدے، اس لیے کہ اگر مشرکین کو ہماری اطلاع ہوجائے گی تو ہمیں سنگسار کر کے ہلاک کردیں گے، یا اپنا مشرکانہ دین قبول کرنے پر مجبور کریں گے، اور اگر ہم ایسا کر بیٹھے تو عذاب نار سے کبھی بھی نجات نہیں پاسکیں گے، اور کبھی بھی اللہ کی جنت میں داخل نہیں ہوسکیں گے۔ الكهف
20 الكهف
21 (١٣) جب ایک طویل مدت تک سوئے رہنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ بیدار کیا، تو حالات ایسے پیدا کیے کہ شہر کے لوگوں کو ان کی تفصیلات معلوم ہوگئیں انہیں پتہ چلا کہ یہ لوگ تو تین سو نو سال تک سوئے رہنے کے بعد جاگے ہیں اور ان کے اجسام حسب سابق ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں آیا ہے، اس سے انہیں معلوم ہوا کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے کہ وہ تمام انسانوں کو قیامت برپا ہونے کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا، اور یہ کہ قیامت آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے، اس لیے کہ حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ ہر آدمی کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ سلف صالحین کی ایک جماعت نے ذکر کیا ہے کہ یہ واقعہ اس لیے پیش آیا تھا کہ اس دور کے لوگوں کے ذہنوں میں بعث بعد الموت اور قیامت کے دن میں شبہ پیدا ہوگیا تھا، چنانچہ ان نوجوانوں میں سے ایک جب شہر پہنچا اور بازار والوں نے اس کے پاس اس قدیم زمانے کا سکہ دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا اور اس کا معاملہ بادشاہ تک پہنچایا تو اس نے چھان بین شروع کردی، بالاخر ان نوجوانوں کی ساری تفصیلات معلوم ہوئیں۔ اور اس زمانے کے لوگ جس بعث بعد الموت کے منکر تھے، اس پر جب اللہ کی جانب سے دلیل قائم ہوگئی تو ان نوجوانوں کو موت آگئی، ان کے مرنے کے بعد لوگوں نے طے کیا کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور غار کا دروازہ بند کردیا جائے، شہر کے بااثر لوگوں نے کہا کہ ہم ان کی یادگار کے طور پر ان کی قبروں کے اوپر مسجد بنائیں گے اور ان کے جسموں اور ان کی اس جگہ سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس میں نماز پڑھیں گے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ گزشتہ قوموں میں شرک باللہ اور توسل بغیر اللہ کا دروازہ اسی طرح کھلتا رہا ہے، اسی لیے نبی کریم نے شدت کے ساتھ اس کی تردید فرمائی اور کہا کہ یہود و نصاری پر اللہ کی لعنت ہو، جنہوں نے اپنے انبیاء اور صالحین کی قبروں پر مسجدیں بنا دیں، اور یہ بھی فرمایا کہ جب ان کا کوئی نیک آدمی مرجاتا تھا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے تھے اور اس میں ان کی تصویریں آویزاں کردیتے تھے، وہی لوگ قیامت کے دن بدترین لوگ ہوں گے۔ (صحیحین) الكهف
22 (١٤) نبی کریم کے زمانے میں جو اہل کتاب موجود تھے اور جنہوں نے اہل مکہ کو آپ سے اصحاب کہف کے بارے میں پوچھنے پر اکسایا تھا، انہیں اس کا تو علم تھا کہ کسی زمانے میں یہ واقعہ ہوا تھا، لیکن ان نوجوانوں کی صحیح تعداد کا انہیں علم نہیں تھا، کچھ لوگ کہتے تھے کہ وہ تین آدمی تھے اور ان کے ساتھ چوتھا کتا تھا، بعض لوگوں کا خیال تھا کہ وہ پانچ آدمی تھے اور ان کے ساتھ چھٹا کتا تھا، لیکن کسی بات کا انہیں یقین نہیں تھا، یونہی اٹکل پچو باتیں کرتے تھے، کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ان کی تعداد سات تھی، اور ان کے ساتھ آٹھواں کتا تھا۔ مفسرین کا خیال ہے کہ قرآن کے سیاق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ آخری رائے حقیقت امر کے زیادہ قریب ہے، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم سے فرمایا، آپ اس بارے میں اختلاف کرنے والوں سے کہہ دیجیے کہ ان کی تعداد کا بہتر علم اللہ کو ہے، اور بہت کم لوگ ان کی صحیح خبر رکھتے ہیں۔ ابن عباس کہا کرتے تھے کہ میں ان کم لوگوں میں سے ہوں جنہیں ان کی تعداد کا صحیح علم ہے ان کی تعداد سات تھی۔ اس کے بعد آپ سے کہا گیا کہ اس کے بارے میں اہل کتاب کے ساتھ جھگڑا نہ کریں، بلکہ آپ کو جتنی بات بذریعہ وحی بتائی گئی ہے وہ ان کے سامنے پیش کردیں، اور ان کی رائے نہ معلوم کریں، اس لیے کہ انہیں حقیقت کا کچھ بھی پتہ نہیں ہے، صرف اپنے ظن و گمان کے مطابق بات کرتے ہیں، اور آئندہ اگر کوئی کام کرنا چاہیں تو انشاء اللہ کہے بغیر نہ کہیں کہ میں یہ کام کروں گا۔ آیت کے اس حصہ کا پس منظر یہ ہے کہ جب قریش والوں نے یہود کے اشارے پر آپ سے تین سوالات کیے، تو آپ نے وحی کی امید میں ان سے کہا کہ میں کل تمہارے سوالات کا جواب دوں گا، اور انشاء اللہ نہیں کہا، اس کے بعد پندرہ دن تک وحی نہیں آئی، پھر یہ آیت نازل ہوئی جس میں آپ کو اپنے کے ساتھ حق ادب سکھایا گیا کہ آئندہ جب بھی کسی کام کا ارادہ کریں تو کہیں کہ اگر اللہ نے چاہا تو میں یہ کام کروں گا۔ نیز آپ سے یہ بھی کہا گیا کہ جب آپ کبھی انشاء اللہ کہنا بھول جائیں تو یاد آجانے پر کہہ لیا کریں۔ اور آپ لوگوں سے یہ بھی کہہ دیں کہ مجھے امید ہے کہ میرا رب میری نبوت کی صداقت ثابت کرنے کے لیے اصحاب کہف کی خبر سے بھی بڑی نشانیاں اور اہل دلائل پیش کرے گا، اور نبی کریم کی یہ امید پوری ہوئی کہ اللہ نے آپ کو بذریعہ وحی گزشتہ انبیائے کرام اور ان کی قوموں کے واقعات کی خبر دی جو آپ کی صداقت کے بہت ہی روشن اور واضح دلائل تھے۔ الكهف
23 الكهف
24 الكهف
25 (١٥) حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اس پوری مدت کی خبر دی ہے جس میں اصحاب کہف سوئے رہے تھے وہ شمسی حسات سے تین سو سال اور قمری حساب سے تین سو نو سال کی مدت تھی، اس لیے کہ ہر شمسی سول سال، قمری ایک سو تین سال کے برابر ہوتا ہے، یہ ان کے سوئے رہنے کی مدت تھی، لیکن بیدار ہونے کے بعد انہیں موت آنے تک یا نزول قرآن تک کتنی مدت تھی اس کا علم صرف اللہ کو ہے، اس لیے کہ آسمانوں اور زمین کی غیبی باتوں کا علم صرف اسی کو ہے، وہ ہر چیز کو خوب دیکھ رہا ہے اور ہر آواز کو خوب سن رہا ہے اس کے علاوہ بندوں کا کوئی حقیقی یارومددگار نہیں، اس نے سارے جہان کی تخلیق اور اس کی تدبیر میں کسی کو اپنا شریک نہیں بنایا ہے، نہ اس کا کوئی وزیر ہے نہ ہی کوئی مشیر، وہ تمام نقائص سے برتر و بالا اور پاک ہے۔ الكهف
26 الكهف
27 (١٦) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو حکم دیا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تلاوت کریں اور اس میں موجود اوامر و نواہی کو بجا لائیں، اور اس میں بیان کردی حلال و حرام کے پابند رہیں ورنہ آپ بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہوجائیں گے، اس لیے کہ جو بھی اس قرآن کی مخالفت کرے گا قیامت کے دن اس کا انجام جہنم ہوگا، اہل معاصی اور قرآن کی مخالفت کرنے والوں سے متعلق اس کے فیصلے کو کوئی نہیں بدل سکتا۔ مزید تاکید کے طور پر اللہ نے فرمایا کہ اگر آپ نے اس کی تلاوت نہیں کی اور اس پر عمل پیرا نہیں ہوئے، تو اللہ کی وعید آپ کو بھی اپنے گھیرے میں لے لے گی، اور اس کی جناب کے علاوہ کوئی جائے پناہ آپ کو نہیں ملے گی، اس لیے کہ اس کی قدرت آپ کو اور تمام مخلوق کو محیط ہے، کوئی شخص اللہ کے کسی فیصلے سے راہ فرار اختیار نہیں کرسکتا۔ الكهف
28 (١٧) ابن جریر نے روایت کی ہے کہ اہل جاہ و مرتبہ کفار مکہ نے نبی کریم سے مطابلہ کیا کہ وہ غریب و نادار مسلمانوں کو اپنی مجلس سے نکال دیں، تاکہ وہ لوگ آپ کی مجلس میں شریک ہوں اور آپ کی باتیں سنیں، تو یہ آیت نازل ہوئی جس میں آپ کو حکم دیا گیا کہ ایسا نہ کریں، بلکہ غریب مسلمانوں کا خیال کریں اور انہیں اپنی مجلس سے نہ نکالیں، جن کی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی رضا کی خاطر صبح و شام نمازیں پڑھتے ہیں اور اسے یاد کرتے رہتے ہیں اور آپ ان غریب مسلمانوں کو اس لیے نظر انداز نہ کیجیئے تاکہ مکہ کے مالداروں اور سرداروں کے ان کا دل رکھنے کے لیے بیٹھ سکیں، اور آپ اس شخص کی پیروی نہ کیجیے جس کے دل پر ہم نے مہر لگا دی ہے جس کے نتیجہ میں وہ ہماری یاد سے غافل ہوگیا ہے، اور اپنی خواہش نفس کا بندہ ہوگیا ہے اور ہلاکت و بربادی اس کی قسمت بن گئی ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ (ولاتطع من اغفلنا قلبہ) امیہ بن خلف جحمی کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو غریب مسلمانوں کو نبی کریم کی مجلس سے نکالنے کی تحریک میں پیش پیش تھا، امام مسلم نے سعد بن ابی وقاص سے روایت کی ہے کہ ہم چھ آدمی نبی کریم کے پاس بیٹھے تھے، تو مشرکین نے آپ سے کہا کہ تم انہیں اپنی مجلس سے نکال دو تاکہ یہ ہمارے خلاف جری نہ ہوجائیں۔ سعد کہتے ہیں کہ وہ چھ آدمی ہیں، ابن مسعود، قبیلہ ہذیل کا ایک آدمی، بلال اور دوسرے آدمی تھے جن کے نام میں بھول گیا ہوں۔ چنانچہ آپ کے دل میں یہ بات آگئی، تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام کی آیت (٥٢) (ولاتطرد الذین یدعون ربھم) نازل فرمائی، کہ جو لوگ اپنے رب کا پکارتے ہیں انہیں آپ نہ بھگائیں۔ الكهف
29 (١٨) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم سے فرمایا، آپ لوگوں سے کہہ دیجیے کہ تمہارے رب کا دین برحق آچکا ہے، جس کی صداقت میں کوئی شبہ نہیں ہے، اور کسی کے لیے عذر باقی نہیں رہا ہے، اب ہر آدمی کو اختیار ہے چاہے تو ایمان لے آئے اور بہانے نہ بنائے، اور چاہے تو اس کا انکار کردے اور اس کا انجام بھگتنے کے لیے تیار رہے، اور مزید دھمکی دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے ظالموں کے لیے ایسی آگ تیار کر رکھی ہے جس کی لپک انہیں گھیر لے گی، اور جب اپنے جلتے ہوئے دل کی آگ بجھانے کے لیے پانی مانگیں گے تو انہیں پگھلے ہوئے لوہے کے مانند پانی دیا جائے گا جو منہ کے قریب ہوتے ہی ان کے چہروں کو جھلس دے گا۔ وہ بڑا ہی برا پانی ہوگا اور جہنم بڑی ہی بری جگہ ہوگی، اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور عمل صالح کریں گے، اللہ تعالیٰ ان کا اجر ضائع نہیں کریں گے اور انہیں جنت دے گا۔ آیات (٣٠، ٣١) میں اسی اجر عظیم اور جنت کا ذکر آیا ہے۔ الكهف
30 الكهف
31 الكهف
32 (١٩) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو حکم دیا ہے کہ مذکور بالا کبر و نخوت والے مشرکین مکہ کی عبرت کے لیے بنی اسرائیل کے دو شخصوں کی مثال بیان کردیجئے جن میں سے ایک کافر تھا، اس کے پاس انگوروں کے دو باغ تھے، جنہیں کھجور کے درختوں نے ہر چہار جانب سے گھیر رکھا تھا، اور دونوں باغوں کے درمیان کھیتی تھی، گویا اللہ نے اسے انواع و اقسام کے پھل اور کھانے کی چیزیں دے رکھی تھیں، دونوں باغوں میں ہر سال خوب پھل آتا تھا، کبھی کمی نہیں ہوتی تھی اور دونوں کے درمیان اللہ نے نہر بھی جاری کردی تھی، اور اس کافر کے پاس دونوں باغوں کے علاوہ دیگر اموال بھی تھے، اس نے مسلمان اسرائیلی سے دوران گفتگو کہا کہ میں تم سے زیادہ مالدار ہوں اور جاہ حشم اور اولاد و خدم بھی میرے پاس تم سے زیادہ ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس نے مسلمان کا ہاتھ پکڑا اور باغ میں داخل ہو کر اپنے کفر و استکبار کا اظہار کرتے ہوئے گھومنے لگا اور اس کی خوبیاں بیان کرنے لگا، اور چونکہ وہ زمانے کی ابدیت کا قائل تھا اس لیے کہنے لگا کہ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ میرے یہ باغ ختم ہوجائیں گے اور چونکہ وہ آخرت اور وہاں کے حساب و کتاب کا قائل نہیں تھا، اس لیے کہا کہ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ جسے لوگ قیامت کہتے ہیں وہ کبھی آئے گی، اور اگر بالفرض مان بھی لوں کہ قیامت آئے گی تو وہاں مجھے ان باغوں سے بہتر باغ ملے گا، اس لیے کہ اللہ کینگاہ میں میرا مقام اعلی ہونے کی وجہ سے ہی مجھے یہاں یہ سب کچھ ملا ہے، اس لیے اس زندگی میں مجھے بدرجہ اولی اس سے اچھی نعمتیں ملیں گی، اس کی یہ بات سن کر مسلمان اسرائیلی نے اس سے کہا، کیا تم اپنے اس خالق کا انکار کر رہے ہو جس نے تمہارے باپ آدم کو مٹی سے اور تمہیں نطفہ سے پیدا کیا ہے اور مرد کی شکل میں تمہیں مکمل انسان بنایا ہے؟ مفسر ابو السعود لکھتے ہیں کہ آیت کے اس حصہ میں بعث بعد الموت کی دلیل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جس کی تصریح سورۃ الحج آیت (٥) (یا ایھا الناس ان کنتم فی ریب من البعث فانا خلقنکم من تراب) میں کردی گئی ہے کہ اے لوگو ! اگر تمہیں بعث بعد الموت میں شبہ ہے، تو سوچو کہ ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ہے، اور سورۃ البقرہ آیت (٢٨) میں آیا ہے : (کیف تکفرون باللہ وکنتم امواتا فاحیاکم) کہ تم اللہ کا کیسے انکار کرتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے تو اس نے تمہیں زندگی دی، مسلمان اسرائیلی نے مزید کہا کہ میں تمہاری جیسی بات نہیں کرتا ہوں میں تو اعتراف کرتا ہوں کہ اللہ ایک ہے، وہی سب کا رب ہے، اور میں اس کی مخلوقات میں سے کسی کو اس کی عبادت میں شریک نہیں بناتا ہوں۔ الكهف
33 الكهف
34 الكهف
35 الكهف
36 الكهف
37 الكهف
38 الكهف
39 (٢٠) کفر اور اللہ کی ناشکری پر کافر کی زجر و توبیخ کرتے ہوئے مسلمان نے کہا کہ جب تم باغ میں داخل ہوئے اور اس کے حسن و جمال کو دیکھ کر خوش ہوئے، تو اللہ کی نعمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کیوں نہیں کہا کہ یہ باغ اللہ کی مشیت اور اس کے فضل وکرم سے حاصل ہوا ہے، اگر وہ چاہے گا تو اسے آباد رکھے گا، اور چاہے گا تو خرابات میں بدل دے گا۔ اللہ کے بغیر کسی کو کوئی قوت حاصل نہیں ہے، ہر قوت کا سرچشمہ صرف اللہ کی ذات ہے، مسلمان نے کافر سے یہ بھی کہا کہ تم جو مجھے غربت اور فقیری کا طعنہ دے رہے ہو تو کوئی بعید بات نہیں کہ اللہ تعالیٰ حالات کو برعکس کردے اور مجھے تمہارے باغ سے بہتر عطا فرمائے اور تمہارے باغ پر کوئی آسمانی آفت نازل کردے جو اسے یکسر ختم کردے اور ایسا چٹیل میدان بنا دے جس پر قدم نہ جمے، یا اس کا پانی زمین کی تہوں میں چلا جائے اور کسی طرح اسے دوبارہ حاصل کرنا ممکن نہ رہے۔ الكهف
40 الكهف
41 الكهف
42 (٢١) چنانچہ ویسا ہی ہوا جیسا کہ مسلمان اسرائیلی نے کہا تھا۔ اچانک کافر کا باغ اور اس کے دوسرے املاک آفت کی زد میں آگئے، اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ تباہ و برباد ہوگیا، ل تو شدت حسرت و یاس سے کف افسوس ملنے لگا کہ ہائے جو کچھ خرچ کیا تھا سب ختم ہوگیا اور انگور کا باغ زمین پر ڈھیر ہوگیا، اور پھر مسلمان اسرائیلی کی بات یاد کر کے کہنے لگا کہ کاش ! میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، اسے یقین ہوگیا کہ اس کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اس کے کفر و شرک اور کبر و سرکشی کی وجہ سے ہوا ہے۔ اور اس نے فخر و مباہات کے طور پر جو کہا تھا کہ اس کے پاس جاہ و حشم اور اولاد وخدم بھی مسلمان سے زیادہ ہیں، تو اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آیت (٤٣) میں فرمایا کہ جب اس پر مصیبت آئی تو اللہ کے مقابلے میں کوئی بھی اس کی مدد کے لیے نہیں آیا، اور نہ وہ خود ہی اللہ کے انتقام سے اپنے آپ کو بچا سکا، اس لیے کہ جبس کسی پر اللہ کا عذاب نازل ہوجاتا ہے، تو اس کی ذات کے علاوہ کوئی یارو مددگار نہیں ہوتا۔ آی (٤٤) میں یہی بات بیان کی گئی ہے۔ اس آیت کا ایک دوسرا مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ایسے ہی مقام پر اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کی مشرکوں کے خلاف مدد کرتا ہے اور ان سے انتقام لے کر مومنوں کے سینوں کو ٹھنڈک پہنچاتا ہے، جیسا کہ اس مثال میں اللہ نے کافر کے خلاف مومن کی مدد کی اور اس کی بات کو سچ کر دکھلایا، اور اس مفہوم کی تائید آیت کے آخری حصہ سے ہوتی ہے کہ وہ اپنے مومن بندوں کو اچھا بدلہ دیتا ہے اور اس کا انجام اچھا کرتا ہے برعکس کافر کے، جس کے دنیاوی شرف و جاہ کی وجہ سے عذاب الہی اس سے نہیں ٹل جاتا، بلکہ اللہ اسے عذاب دے کر اس پر مومن کی فوقیت ثابت کرتا ہے۔ الكهف
43 الكهف
44 الكهف
45 (٢٢) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دنیا اور اس کی نعمتوں کی بے ثباتی کو مثال سے واضح کیا ہے کہ دنیا اپنی خوش رنگی اور زوال پذیر ہونے میں بارش کے اس پانی کے مانند ہے جسے اللہ تعالیٰ آسمان سے نازل کرتا ہے اور جس کی وجہ سے زمین کے پودے لہلہا اٹھتے ہیں اور کثرت شادابی سے ایک دوسرے میں گتھ جاتے ہیں، پھر کچھ ہی دنوں کے بعد وہ پودے خشک ہو کر اور ٹوٹ پھوٹ کر بھس بن جاتے ہیں جنہیں ہوائیں ہر چہار جانب اڑائے لیے پھرتی ہیں، دنیا اور اس کی پرستش کرنے والوں کی یہی مثال ہے کہ انہیں یہاں جو بھی مقام و جاہ حاصل ہوتا ہے اس پودے کے مانند ہے جو لہلہا کر اچانک خشک ہوجاتا ہے اور بالاخر بھس بن جاتا ہے چونکہ دنیا کی بے ثباتی اس مثال سے بہت زیادہ واضح ہوتی ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اسے کئی مقام پر بیان کیا ہے۔ سورۃ یونس آیت (٢٤) میں فرمایا ہے : (انما مثل الحیوۃ الدنیا کماء انزلناہ من السماء فاختلط بہ نبات الارض مما یاکل الناس والانعام) بیشک دنیاوی زندگی کی مثال اس پانی کی ہے جسے ہم آسمان سے بھیجتے ہیں جو زمین کے ان پودوں کے ساتھ مل جاتا ہے جنہیں لوگ اور چوپائے کھاتے ہیں۔ اور سورۃ الزمر آیت (٢١) میں فرمایا ہے : (الم تر ان اللہ انزل من السماء ماء فسلکہ ینابیع فی الارض ثم یخرج بہ زرعا مختلفا الوانہ) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی اتارتا ہے اور اسے زمین کی سوتوں میں پہنچاتا ہے پھر اسی کے ذریعہ مختلف قسم کی کھیتیاں اگاتا ہے۔ الكهف
46 (٢٣) دنیاوی نعمتوں کی بے ثباتی سے متعلق اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا کہ مال اور اولاد تو صرف حیات دنیا کی زینت ہے، انسان ان دونوں نعمتوں سے صرف یہاں کی زندگی میں مستفید ہوتا ہے اور عزت و شرف حاصل کرتا ہے، آخرت میں تو صرف نیک اعمال کام آئیں گے وہاں انہی کے درجات بلند ہوں گے اور وہی لوگ سرخرو ہوں گے، اور انہی لوگوں کو جنت جیسی ابدی نعمت ملے گی جو دنیاوی زندگی میں صحیح عقائد اور اخلاق حسنہ کے حامل ہوں گے، اسلام پر پورے طور پر عمل پیرا ہوں گے اور اعمال صالحہ کی طرف سبقت کرنے والے ہوں گے۔ الكهف
47 (٢٤) دنیا کی بے ثباتی، اور قیامت میں اعمال صالحہ کا اجر و ثواب بیان کرنے کے بعد آخرت کے کچھ احوال بیان کرنا مناسب رہا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ اس دن کو یاد کیجئے جب ہم پہاڑوں کو ان کی جگہ سے اکھاڑ کر فضا میں چلائیں گے یا انہیں گرد و غبار بنا کر فضا میں اڑائیں گے، سورۃ النمل آیت (٨٨) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (وتری الجبال تحسبھا جامدۃ وھی تمر مر السحاب) اور آپ پہاڑوں کو اپنی جگہ جمے ہوئے خیال کریں گے، لیکن وہ بھی بادل کی طرح اڑتے پھریں گے۔ اور سورۃ الواقعہ آیات (٥، ٦) میں فرمایا ہے : (وبست الجبال بسا۔ فکانت ھباء منبثا) اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے پھر وہ مانند پراگندہ غبار کے ہوجائیں گے اور زمین چٹیل میدان ہوجائے گی، اس پر نہ کوئی عمارت ہوگی، نہ پہاڑ، نہ درخت اور نہ کوئی اور چیز اور اللہ تعالیٰ تمام جن و انسان کو میدان محشر میں جمع کرے گا، کوئی ایک فرد بھی نہیں چھوٹ سکے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الواقعہ آیات (٤٩، ٥٠) میں فرمایا ہے : (قل ان الاولین والاخرین۔ لمجموعون الی میقات یوم معلوم) آپ کہہ دیجیے کہ سب اگلے پچھلے ضرور جمع کیے جائیں گے ایک مقرر دن کے وقت۔ الكهف
48 (٢٥) تمام حاضرین محشر اللہ کے سامنے صف باندھے کھڑے ہوں گے، اور اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا کہ جس طرح ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا آج دوبارہ زندہ کر کے اپنے سامنے لا کھڑا کیا ہے، حالانکہ اے بعث بعد الموت کا انکار کرنے والو ! تم تو سمجھ رہے تھے کہ ہم نے تمہیں دوبارہ زندہ کرنے اور تمہارے حساب و کتاب اور جزا و سزا کا کوئی وقت نہیں مقرر کر رکھا ہے، اسی لیے دنیا میں اپنی من مانی کرتے رہے اور ہمارے اطاعت و بندگی سے غافل رہے۔ الكهف
49 (٢٦) بندوں کے اعمال کی کتابیں اللہ کے سامنے لائی جائیں گی اور ہر شخص کو اس کا نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں دیا جائے گا، مومن کو اس کے دائیں ہاتھ میں، اور کافر کو بائیں ہاتھ میں، دنیا میں جرائم و معاصی کا ارتکاب کرنے والے اپنے صحیفوں میں برے اعمال کو دیکھ کر مارے ڈر کے کا نپیں گے اور کہیں گے اے ہماری بد نصیبی ! اس صحیفہ کو کیا ہوگیا ہے کہ اس نے چھوٹے بڑے کسی گناہ کو بھی نہیں چھوڑا ہے، ہر گناہ اس میں درجہ ہے، انہوں نے دنیا میں جو کچھ کیا ہوگا اسے پوری تفصیل کے ساتھ اپنے سامنے پائیں گے اور ان اعمال کے مطابق انہیں بدلہ دیا جائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کسی پر بھی ظلم نہیں کرے گا، نہ کسی کا گناہ بڑھا کر لکھ دے گا اور نہ ہی کسی کی کوئی نیکی ضائع کی جائے گی اور بالاخر جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں بھیج دیئے جائیں گے۔ الكهف
50 (٢٧) اس آیت کریمہ میں بتایا گیا ہے کہ شیطان کی اطاعت ہی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور کفر و معصیت کا سبب ہوتی ہے اور شیطان آدم (علیہ السلام) اور ان کی ذریت کا سب سے بڑا دشمن اور اللہ کا سب سے بڑا نافرمان ہے، اس لیے اس کی اطاعت دنیا و آخرت میں ہر نامرادی کا ذریعہ اور اس کی مخالفت اور اس سے دشمنی ہر خیر و فلاح کا سبب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم سے فرمایا کہ آپ اس وقت کو یاد کیجئے جب ہم نے تمام فرشتوں سے کہا کہ تم لوگ آدم کی تکریم میں اس کا سجدہ کرو، تو اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے تمام فرشتوں نے سجدہ کیا، صرف ابلیس نے استکبار میں آکر سجدہ کرنے سے انکار کردیا، اس لیے کہ وہ نافرمان اور سرکش جنوں میں سے تھا، اس لیے اپنے رب کی اطاعت کا منکر ہوگیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے حال پر اظہار تعجب کیا ہے جو ابلیس کی اطاعت کرتے ہوئے کفر و معاصی کا ارتکاب کرتے ہیں اور اللہ کے اوامر کی مخالفت کرتے ہیں، فرمایا کہ اے لوگو ! کیا تم اسے اور اس کی اولاد اور پیروکاروں کو میرے بجائے اپنے دوست بناتے ہو، ان کی اطاعت کرتے ہو اور میرے بدلے انہیں اختیار کرتے ہو، حالانکہ وہ سب تمہارے دشمن ہیں اور تمہاری بربادی چاہتے ہیں۔ ظالموں کا اللہ کے بجائے ابلیس کو اپنا آقا بنانا اور اس کی اطاعت کرنی انجام کے اعتبار سے بہت ہی برا ہے۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ سورۃ یسین آیات (٥٩) سے (٦٢) میں اللہ تعالیٰ نے قیامت اور اس کی ہولناکیوں اور نیک بختوں اور بدبختوں کا انجام بیان کرنے کے بعد یہی بات کہی ہے۔ ذیل میں ان آیتوں کا ترجمہ ملاحظہ کیجئیے : اے اولاد آدم ! کیا میں نے تم سے قول و قرار نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی تابعدار نہ کرنا، وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے، اور میری ہی عبادت کرنا، سیدھی راہ یہی ہے، شیطان نے تو تم میں سے بہت ساری مخلوق کو بہکا دیا، کیا تم عقل نہیں رکھتے؟ الكهف
51 (٢٨) ابلیس اور اس کی اولاد اس بات کا مستحق نہیں ہیں کہ اللہ کے بجائے انہیں ولی اور دوست بنایا جائے اور اللہ کے ساتھ انہیں عبادت میں شریک ٹھہرایا جائے، اللہ تعالیٰ نے اس پر دلیل دیتے ہوئے فرمایا کہ جب میں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تو ابلیس اور اس کی اولاد کو اپنی مدد کے لیے نہیں بلایا تھا، اور نہ جب میں نے خود انہیں پیدا کیا تھا تو ان میں سے بعض کو بعض کی پیدائش کے وقت مدد کے لیے بلایا تھا بلکہ میں نے تنہا بغیر کسی معین و مددگار کے ہر چیز کو پیدا کیا ہے، اس لیے کس دلیل سے اب تم انہیں میرے ساتھ شریک بناتے ہو؟ اسی مفہوم کی مزید تاکید کے طور پر آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ جن کا کام بنی نوع انسان کو گمراہ کرنا ہے، انہیں میں کیسے اپنا مددگار بنا سکتا ہوں، اور جب مجھے ان کی مدد کی ضرورت نہیں تھی تو عبادت میں میرے ساتھ کیسے شریک ہوجائیں گے؟ سورۃ سبا آیت (٢٢) میں اسی دلیل کو اللہ تعالیٰ نے یون بیان کیا ہے : (ومالھم فیھما من شرک ومالہ منھم من ظھیر) اور نہ (زمین و آسمان کی تخلیق میں) ان کا کوئی حصہ ہے اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے۔ الكهف
52 (٢٩) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو حکم دیا ہے کہ وہ مشرکین سے اس دن کا حال بیان کردیں جب وہ انہیں مخاطب کر کے کہے گا کہ جنہیں تم دنیا میں میرے ساتھ عبادت میں شریک ٹھہراتے تھے انہیں اپنی مدد کے لیے پکارو تاکہ آج وہ تمہیں عذاب نار سے بچا لیں اور یہ بات اللہ ان سے بطور زجر و توبیخ کہے گا، تو وہ انہیں نام لے لے کر پکاریں گے لیکن وہ معبود ان کی پکار کا جواب نہیں دیں گے، اس لیے کہ اس دن کوئی شخص جس کی دنیا میں عبادت کی گئی ہوگی، اپنی زبان پر یہ بات لانے کی جرات نہیں کرے گا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تب ہم کافروں اور ان کے معبودوں کے لیے ایک مشترک ہلاکت گاہ بنا دیں گے، یعنی سب کو جہنم میں دھکیل دیں گے۔ موبق کا ایک دوسرا معنی عداوت اور دشمنی بھی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کافروں اور ان کے معبودوں کے درمیان ایسی شدید عداوت پیدا کردے گا کہ میدان محشر میں ایک دوسرے کو دیکھنا اور ملنا گوارہ نہیں کریں گے۔ سورۃ مریم آیات (٨١، ٨٢) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (واتخذوا من دون اللہ الھۃ لیکونوا لھم عزا۔ کلا سیکفرون بعبادتھم ویکونون علیھم ضدا) یعنی انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بن رکھے ہیں تاکہ وہ ان کے لیے باعث عزت ہوں، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوگا وہ تو ان کی پوجا سے منکر ہوجائیں گے اور الٹے ان کے دشمن ہوجائیں گے۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ مفسرین کی ایک جماعت کے نزدیک موبق ایک گہری وادی کا نام ہے جسے اللہ تعالیٰ مومنوں اور کافروں کے درمیان حائل کردے گا۔ الكهف
53 (٣٠) میدان محشر میں جب کفر و شرک جیسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے سامنے جہنم کو لایا جائے گا تو دور ہی سے اسے دیکھ کر انہیں یقین ہوجائے گا کہ یہی ان کا ٹھکانا ہے اور اس سے فرار کی کوئی صورت نہیں ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ جہنمیوں کو جہنم میں داخل ہونے سے پہلے ہی جو عظیم حزن و ملال لاحق ہوگا اسی کی طرف یہاں اشارہ ہے۔ الكهف
54 (٣١) اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے قرآن کریم میں بہت سی مثالیں، گزشتہ قوموں کے واقعات اور توحید باری تعالیٰ کے دلائل بیان کیے ہیں، نیز بے شمار مقامات پر نیک لوگوں کے لیے خوشخبری اور بدکاروں کو جہنم کی دھمی دی ہے اور ان تمام اسالیب دعوت و ارشاد کا مقصود یہ ہے کہ آدمی ان میں غور وفکر کر کے اللہ پر ایمان لے آئے اور سیدھی راہ اختیار کرے، لیکن انسان بڑا ہی جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ ہمیشہ باطل دلائل کے ذریعہ حق کا انکار کرنے کی کوشش کرتا ہے، زجاج نے اسی سورت کی آیت (٥٦) (ویجادل الذین کفروا بالباطل) سے استدلال کرتے ہوئے کہ ہے کہ یہاں انسان سے مراد کافر ہے۔ شوکانی کہتے ہیں کہ بظاہر عام انسان مراد ہے۔ الكهف
55 (٣٢) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ اور ہر زمانے کے کافروں کا حال بیان کیا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ہی تمد کی راہ اختیار کی اور ہزار دلائل و براہین کے باوجود حق کو جھٹلانے کی کوشش کی اور سب نے یہی مطالبہ کیا کہ جس عذاب کی انہیں دھمکی دی جارہی ہے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ یعنی کفار ایمان و استغفار پر اس وقت آمادہ ہوتے ہیں جب دنیا میں عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں، یا جب آخرت میں جہنم کو دیکھ لیں گے اور دونوں ہی حالتوں میں ان کا ایمان و استغفار کسی کام کا نہیں۔ الكهف
56 (٣٣) اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کو دنیا میں اس لیے مبعوث کیا تاکہ وہ ایمان اور عمل صالح والوں کو جنت کی بشارت دیں اور کافروں اور بدکاروں کو جہنم سے ڈرائیں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اللہ نے کسی قوم کو دعوت و ارشاد کے عمل سے پہلے ہی عذاب میں مبتلا کردیا، لیکن اہل کفر کا ہمیشہ ہی یہ شیوہ رہا ہے کہ انہوں نے بے بنیاد دلائل کے ذریعہ حق کا انکار کیا اور اللہ کی نشانیوں اور اس عذاب کا مذاق اڑٓیا جس سے انہیں ڈرایا گیا۔ الكهف
57 (٣٤) جن اہل کفر نے اللہ کی آیتوں کا مذاق اڑایا، انہی کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان سے بڑھ کر اپنے حق میں ظالم کون ہوسکتا ہے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی مختلف الانواع نشانیوں کے ذریعہ راہ حق کی طرف رہنمائی کرنی چاہی، لیکن انہوں نے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا اور اپنے کفر و معاصی سے تائب نہیں ہوئے اور یہ اس لیے ہوا کہ جب انہوں نے کفر کو ایمان پر اور گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دے دی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر ہزار پردے ڈال دیئے اور ان کے کانوں میں ڈاٹ لگا دیئے، تاکہ قرآن کے مقاصد و معانی کو نہ سمجھ پائیں، اور حق بات سننے سے محروم کردیئے جائیں، اسی لیے اس کے بعد نبی کریم سے کہا گیا ہے کہ اگر آپ ان کافروں کو حق کی دعوت دیں گے تو وہ کبھی بھی قبول نہیں کریں گے۔ الكهف
58 (٣٥) آپ کا رب بڑا مغفرت کرنے والا اور نہایت مہربان ہے، اسی لیے ان کافروں کے کفر و معاصی پر ان کا مواخذہ نہیں کرتا ہے ونہ ان کے جیسے جرائم ہیں، ان پر جلد ہی عذاب آجانا چاہیے تھا اور اس تاخیر عذاب کے سبب ان میں سے بعض کو اللہ تعالیٰ نے اسلام لانے کی توفیق دے دی، اور جو اپنے حال پر باقی رہے، ان کو ان کے کفر و عناد کے مطابق سزا دینے کا ایک وقت مقرر ہے جسے کوئی ٹال نہیں سکتا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس دن سے مراد یا تو یوم آخرت ہے یا یوم بدر۔ الكهف
59 (٣٦) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے عاد و ثمود اور انہی جیسی دیگر نافرمان قوموں کی ہلاکت کا سبب بیان کیا ہے کہ انہیں ان کے کفر و طغیان کی وجہ سے ہلاک کیا گیا تھا اور کفار قریش کو تنبیہ کی ہے کہ ان قوموں کی ہلاکت کا ایک وقت مقرر تھا جب وہ وقت آگیا تو عذاب نے انہیں آدبوچا اور کوئی انہیں نہ بچا سکا۔ اس لیے تم بھی عذاب میں تاخری ہونے کی وجہ سے دھوکہ میں نہ پڑو اور یہ نہ سمجھو کہ تم سے عذاب الہی ٹل گیا، اس کا تو ایک وقت مقرر ہے جب وہ وقت آجائے گا تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں اس عذاب سے نہ بچا سکے گی۔ الكهف
60 (٣٧) مفسرین نے یہاں اس واقعہ کے بیان کرنے کا سبب بیان کیا ہے کہ جب یہود نے اہل قریش کو سکھایا کہ وہ محمد سے اصحاب کہف کے بارے میں پوچھیں اگر وہ ان کے بارے میں خبر دیتا ہے تو سچا نبی ہوگا ورنہ نہیں، تو اللہ نے واقعہ اصحاب کہف کے بعد، واقعہ موسیٰ و خضر کو بیان کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ نبی کریم کو دنیا میں اب تک وقوع پذیر تمام واقعات کی خبر ہو۔ تم نے اصحاب کہف کے بارے میں پوچھا تھا تو لو میں تمہیں اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب واقعہ سناتا ہوں جس کی خبر میں نے اپنے نبی کو بذریعہ وحی دی ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم ہوا کہ جس جگہ بحر فارس اور بحر روم ملتے ہیں وہاں اللہ کا ایک بندہ ہے جو ان سے زیادہ علم رکھتا ہے تو ان کو اللہ کے اس بندہ سے ملنے کی خواہش ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے یوشع بن نون سے کہا (جو یوسف (علیہ السلام) کے پرپوتے تھے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے زیر تربیت تھے اور جو ان کے بعد اللہ کے نبی ہوئی) کہ ان سے ملنے کے لیے سفر میں ان کا ساتھ دیں تاکہ مطلوبہ جگہ پہنچ سکیں اور ان سے ملاقات ہوجائے، یا پھر ایک طویل مدت تک چلتے رہیں، یہاں تک کہ یقین ہوجائے کہ میرا ان سے ملنا اللہ کے نزدیک مقدر نہیں ہے۔ امام بخاری نے اس ضمن میں ابن عباس سے روایت کی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے اس سفر کا سبب یہ تھا کہ ایک دن موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے سامنے وعظ کر رہے تھے تو ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ اس دور کا سب سے بڑا عالم کون ہے؟ تو انہوں نے کہا میں، تو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی انہیں خبر دی کہ دونوں سمندروں کے ملنے کی جگہ پر میرا ایک بندہ رہتا ہے جو آپ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ چنانچہ ان کو اللہ کے اس بندے خضر سے ملنے کا شوق پیدا ہوا، اس سفر میں اور دونوں کی ملاقات کے بعد جو کچھ پیش آیا، قرآن نے ان باتوں کو آئندہ آیتوں میں بیان کیا ہے۔ الكهف
61 (٣٨) موسیٰ (علیہ السلام) جب سفر کے لیے روانہ ہوئے تو اللہ کے حکم سے ایک مچھلی تھیلی میں رکھ کر یوشع بن نون کے حوالے کردی اور کہا کہ اسے دیکھتے رہنا، اور جہاں یہ تھیلی سے نکل کر غائب ہوجائے تو مجھے خبر کرنا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے خضر سے ملنے کی جگہ وہی بتائی تھی جہاں مچھلی غائب ہوجائے گی، لیکن اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ جب دونوں ساحل سمندر کے قریب ایک چٹان سے ٹیک لگائے سو رہے تھے تو مچھلی زندہ ہو کر سمندر میں چلی گئی، اور جہاں سے گزری وہاں کا پانی منجمد ہو کر ایک سرنگ کی شکل اختیار کرگیا۔ دونوں نیند سے بیدار ہونے کے بعد دوبارہ سفر پر روانہ ہوگئے۔ ایک لمبی مسافت طے کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو بھوک لگی اور کھانے کے لیے مچھلی مانگی تو یوشع بن نون نے کہا کہ میں تو مچھلی کی بات آپ کو بتانا بھول ہی گیا تھا، ہمیں اس چٹان کے پاس لوٹ کر جانا چاہیے جہاں رکے تھے، وہ مچھلی غائب ہوئی ہے وہ آدمی جس کی ہمیں تلاش ہے وہیں ملے گا، چنانچہ دونوں قدم بہ قدم اسی راستہ سے واپس ہوئے جس سے گئے تھے، تاکہ مطلوبہ جگہ پر پہنچ جائیں، وہاں ان کی ملاقات خضر سے ہوئی، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے نوازا تھا اور اپنا ولی بنایا تھا اور بعض غیبی امور کا علم دیا تھا جو موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس بھی نہیں تھا، اکثر لوگوں کی یہی رائے ہے، ابن عباس نے آیت میں رحمۃ سے مراد نبوت لیا ہے۔ چنانچہ کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ خضر نبی تھے، واللہ اعلم بالصواب۔ عام محدثین اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا قول یہ ہے کہ خضر کا انتقال ہوچکا ہے، اگر زندہ ہوتے تو نبی کریم کے پاس آکر ان پر ایمان لانا واجب ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانباء آیت (٣٤) میں فرمایا : (وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد افان مت فھم الخالدون) آپ سے پہلے کسی بھی انسان کو ہم نے ہمیشگی نہیں دی، کیا اگر آپ مر گئے تو وہ ہمیشہ کے لیے رہ جائیں گے۔ اور اس کے بعد والی آیت میں مزید تاکید کے طور پر فرمایا : (کل نفس ذائقۃ الموت) ہر جان دار موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔ اور نبی کریم نے فرمایا : ارایتکم لیلتکم ھذہ فان علی راس مائۃ سنۃ منھا لا یبقی ممن ھو علی ظھر الارض احد۔ اس رات کو یاد کرلو اس لیے کہ زمین پر آج جتنے بھی انسان زندہ ہیں، ان میں سے کوئی بھی سو سال کے بعد باقی نہیں رہے گا۔ (مسلم) اور مسلم ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے : (واقسم باللہ ما علی الارض من نفس منفوسۃ تاتی علیھا مائۃ سنۃ۔ اللہ کی قسم ! زمین پر آج جتنے بھی جان دار ہیں ان پر سو سال گزر نہیں سکتا۔ مذکورہ بالا دلائل سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ خضر انتقال فرما چکے ہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب ان سے ملے تو کہا کہ میں آپ سے علم حاصل کرنے کے لیے آیا ہوں، تو خضر نے کہا آپ کے لیے کیا یہ کافی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تورات دیا اور آپ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ میرے پاس جو علم ہے اس کا حاصل کرنا آپ کے لیے مناسب نہیں ہے اور آپ کے پاس جو علم ہے اس کا حاصل کرنے میرے لیے مناسب نہیں ہے، پھر ایک چڑیا نے سمندر میں چونچ مارا تو خضر نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میرا اور آپ کا علم اللہ کے علم کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے جیسا اس چڑیا نے سمندر میں چونچ ماری ہے۔ یہاں ایک بہت ہی اہم بات کا جان لینا ضروری ہے کہ خضر کے پاس جو علم تھا وہ اللہ کا محض مخصوص عطیہ تھا جیسا کہ آیت (٦٥) میں اس کی صراحت آگئی ہے، اس لیے بعض گمراہ لوگوں کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ انبیا کے علاوہ بعض دوسروں کو علم لدنی دیتا ہے جو ظاہری علم شریعت سے مختلف ہوتا ہے، گمران کن رائے ہے اور شریعت سے آزادی حاصل کرنے کا بہانہ ہے، اللہ نے خضر کو بعض غیبی امور کا علم دیا تو قرآن میں اس کی صراحت کردی، اگر کوئی اور شخص خود سے علم لدنی کا دعوی کرے گا تو اس کی بات نہیں مانی جائے گی، اس لیے کہ اس کے پاس خضر کی طرح قرآن سے دلیل موجود نہیں ہے کہ اللہ نے اسے کوئی مخصوص علم لدنی دیا ہے۔ وباللہ التوفیق۔ الكهف
62 الكهف
63 الكهف
64 الكهف
65 الكهف
66 (٣٩) موسیٰ (علیہ السلام) نے غایت ادب کے ساتھ خضر سے کہا کہ انہیں ان سے علم حاصل کرنے کی اجازت دیں، تاکہ انہیں حق بات کا پتہ چلے اور نور ہدایت حاصل ہو۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ خضر موسیٰ (علیہ السلام) سے افضل تھے، اس لیے کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بڑا علم و مرتبت والا اپنے چھوٹے سے کوئی خاص علم حاصل کرتا ہے جو اس بڑے کے پاس نہیں ہوتا، موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے تورات دی تھی جس میں احکام شریعت کے ساتھ دیگر بہت سے علوم تھے، اور ان پر وحی نازل ہوتی تھی اور خضر کو تو اللہ نے صرف ایک خاص قسم کا علم غیب عطا کیا تھا جس سے مقصود موسیٰ (علیہ السلام) کو تنبیہ کرنی تھی کہ سب سے بڑا علم والا صرف اللہ ہے، وہ اپنے جس بندے کو چاہتا ہے اس میں سے اپنی حکمت کے مطابق دیتا ہے۔ صاحب فتح البیان لکھتے ہیں، بہت سے گمراہوں نے اس آیت کو بنیاد بنا کر کہا ہے کہ ولی نبی سے افضل ہوتا ہے اس لیے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو جو نبی تھے حکم دیا کہ وہ خضر سے علم حاصل کریں، یہ کفر صریح ہے، اور اکی بات کا جواب وہی ہے جو امام شوکانی نے لکھا ہے کہ کبھی کوئی بڑے علم و حکمت والا آدمی بھی کسی چھوٹے سے کوئی خاص علم حاصل کرتا ہے۔ الكهف
67 (٤٠) خضر نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے علم جو دے رکھا ہے جب میں اس کا عملی مظاہرہ کروں گا تو آپ برداشت نہیں کرسکیں گے اور مجھ پر اعتراض کریں گے اس لیے کہ اللہ نے مجھے جن بعض غیبی امور کا علم دیا ہے اس کی تائید اس علم وحی سے نہیں ہوتی جو اللہ نے آپ کو دیا ہے، اور چونکہ آپ صاحب شریعت رسول ہیں اس لیے ایسے کام کو دیکھ کر آپ کے لیے سکوت جائز نہیں ہوگا جو آپ کے علم کے مطابق ناجائز اور منکر ہے۔ الكهف
68 الكهف
69 (٤١) موسیٰ (علیہ السلام) نے چونکہ طلب علم کا مصمم ارادہ کرلیا تھا اس لیے کہا کہ میں انشاء اللہ آپ کے ساتھ صبر کروں گا، اور اپنی رائے کے خلاف ہونے کے باوجود آپ کے کسی فیصلہ کی مخالفت نہیں کروں گا۔ الكهف
70 (٤٢) خضر نے کہا کہ اگر آپ نے طلب علم کے لیے میرے ساتھ چلنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو میری نصیحت ہے کہ جب آپ دیکھیں کہ میں ایسے کام کر رہا ہوں جن کی تائید آپ کے علم وحی سے نہیں ہوتی ہے تو مجھ پر اعتراض نہ کریں اور انتظار کریں یہاں تک کہ میں خود ہی آپ کو ان کے اسباب و علل بتاؤں۔ الكهف
71 (٤٣) صحیح بخاری میں ہے کہ دونوں ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ کشتی کی تلاش میں روانہ ہوئے، ایک کشتی نظر آئی تو اس کے مالک سے بات کی اس نے خضر کو پہچان لیا اور بغیر کرائی لیے کشتی میں سوار کرلیا، تھوڑی دیر کے بعد خضر نے کشتی کو عیب دار بنانے کے لیے اس کی دیوار میں سوراخ کردیا، موسیٰ نے کہا آپ نے تو کشتی میں سوراخ کر کے کشتی والوں کو ڈبو دینا چاہا ہے، آپ نے تو بہت بڑی غلطی کی ہے کہ کشتی کو خراب کیا، بہت سے بے گناہ کو ہلاک کردینا چاہا، اور احسان فراموشی کی ہے۔ الكهف
72 (٤٤) خضر نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی شرط یاد دلائی کہ میں نے تو آپ سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ میرے کسی فعل پر اعتراض نہیں کریں گے، اس لیے کہ آپ کو اس کا سبب معلوم نہیں ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ مجھ سے بھول گئی ہے، اس لیے اس پر میرا مواخذہ نہ کیجیے اور اتنی شدت نہ برتیئے کہ مجھے اپنا ساتھ چھوڑنے پر مجبور کردیجیے، بلکہ میری غلطی کو نظر انداز کردیجیے۔ الكهف
73 الكهف
74 (٤٥) کشتی کا سفر طے کرنے کے بعد دونوں خشی کے راستہ پر چل پڑے، ایک جگہ کچھ لڑکے کھیل رہے تھے، خضر نے ان میں سے ایک کو جو ان کے علم کے مطابق کافر تھا، الگ کر زمین پر لٹا دیا اور چھری سے ذبح کردیا۔ مسلم ابو داؤد اور ترمذی نے ابی بن کعب سے روایت کی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : جس لڑکے کو خضر نے قتل کیا تھا وہ پیدائشی کافر تھا، بالغ ہو کر اپنے والدین کو بھی کفر پر مجبور کرتا، موسیٰ (علیہ السلام) سے برداشت نہیں ہوا اور ان کے اس فعل پر نکیر کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ایک بے گناہ آدمی کو قتل کردیا جس نے کسی کو قتل نہیں کیا تھا، یہ تو آپ نے کشتی میں سوراخ کرنے سے بھی زیادہ برا کام کیا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) شدت تاثر کی وجہ سے یہ سوچنا بھول گئے کہ خضر نے کسی ایسے سبب کی بنا پر اس کا قتل کرنا حلال سمجھا ہے جو انہیں معلوم نہیں ہے۔ الكهف
75 (٤٦) صاحب محاسن التنزیل نے زمخشری سے نقل کرتے ہوئے لکھا کہ آیت (٧٥) میں (الم اقل) کے بعد لک کا اضافہ عتاب میں مزید سختی پیدا کرنے کے لیے کیا گیا ہے کہ ایک بار تو غلطی کی اور نظر انداز کردیا، اب پھر دوبارہ آپ اس غلطی کو دہرا رہے ہیں اور بے جانے بوجھے مجھ پر سخت نکیر کر رہے ہیں۔ الكهف
76 (٤٧) موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ اگر میں اس کے بعد آپ سے کسی چیز کے بارے میں پوچھوں تو مجھے اپنی صحبت سے الگ کردیجیے اور اس کے لیے آپ معذور ہوں گے کہ ایک بار نہیں بلکہ دوبارہ آپ نے میرا عذر قبول کیا اور مجھے اپنے ساتھ رہنے کا موقع دیا۔ الكهف
77 (٤٨) دونوں پھر آگے چل پڑے، یہاں تک کہ رات کے وقت ایک شہر میں پہنچے، وہاں دونوں نے شہر والوں سے کھانا مانگا تو کسی نے انہیں مہمان نہیں بنایا، اس شہر میں ایک دیوار تھی جو گرنے ہی والی تھی، خضر نے اس پر ہاتھ پھیرا اور وہ سیدھی ہوگئی، موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ آپ کو اس کام کی اجرت لینی چاہیے اس لیے کہ ہمیں پیسوں کی ضرورت ہے اور ان لوگوں نے ہماری میزبانی بھی نہیں کی ہے۔ الكهف
78 (٤٩) خضر نے کہا کہ آپ اپنے وعدہ کے مطابق میرا ساتھ چھوڑ دیں، اور میں اب آپ کو اپنے ان افعال کی تاویل بتاتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کرسکے تھے، صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : اللہ موسیٰ پر رحم کرے کاش کہ وہ صبر کرتے تاکہ دونوں حضرات کی مزید خبریں ہمیں معلوم ہوتیں۔ الكهف
79 (٥٠) خضر نے کہا کہ وہ کشتی جس میں میں نے سوراخ کردیا تھا، اور جس پر آپ نے مجھے عتاب کیا تھا سات نادار آدمیوں کی تھی جس کے ذریعہ وہ لوگوں کو سمندر کے ایک ساحل سے دوسرے ساحل پہنچایا کرتے تھے اور اس سے اپنی روزی کماتے تھے اس علاقہ کا بادشاہ ایک ظالم آدمی تھا جو ہر عمدہ اور صحیح سالم کشتی کو لے لیا کرتا تھا، میں نے اسے عیب دار بنا دینا چاہا تاکہ وہ اسے نہ لے، اور وہ لڑکا جسے میں نے قتل کردیا تھا، اس کے والدین ایمان والے تھے، اور وہ پیدائشی طور پر کافر تھا، مجھے ڈر ہوا کہ بڑا ہو کر اپنے والدین کو بھی کفر و سرکشی کی راہ پر نہ ڈال دے، اس لیے میں نے چاہا کہ اللہ تعالیٰ اس کے ولادین کو اس کے بدلے میں ایک ایسا لڑکا دے جو نیکی، صلاح اور گناہوں سے پاکی میں اس سے بہتر ہو اور اپنے والدین کا مطیع و فرمانبردار ہو۔ بعض اہل علم نے صرف اس سبب کی وجہ سے لڑکے کے قتل کو جائز نہیں سمجھا ہے تو اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ وہ بالغ تھا اس لیے کفر کی وجہ سے قتل کردیا گیا ایک رائے یہ ہے کہ وہ ڈاکو اور لٹیرا تھا اس لیے قتل کیے جانے کا حقدار تھا اور اگر وہ لڑکا نابالغ تھا تو اللہ نے خضر کو ایسا علم دیا تھا جس کے بموجب انہوں نے جان لیا تھا کہ وہ بڑا ہو کر کافر ہوگا اور اپنے مسلمان باپ کو گمراہ کرے گا اس لیے خضر نے اللہ کے حکم سے اسے قتل کردیا۔ اور وہ دیوار جسے میں نے سیدھی کردی تھی شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی جس کے نیچے ان کا خزانہ مدفون تھا اور ان کا باپ نیک آدمی تھا، اس لیے آپ کے رب نے ان پر فضل و کرم کرتے ہوئے چاہا کہ دیوار کھڑی رہے تاکہ دونوں بڑے ہو کر اسے نکالیں اور مستفید ہوں، اور جو کچھ میں نے کیا ہے اللہ کے حکم سے کیا ہے اپنی رائے اور اپنی مرضی سے نہیں کیا ہے، آپ میری جن باتوں کو برداشت کرسکے تھے ان کی یہی تاویل ہے۔ اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ باپ کی نیکی اولاد کی جانی اور مالی حفاظت کا سبب بنتی ہے، بعض کہتے ہیں کہ ان دونوں یتیموں کے باپ نے ہی وہ مال دفن کیا تھا، بعض کا خیال ہے کہ ان کے ساتویں یا دسویں پردادا نے مال دفن کیا تھا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی کئی پشتوں تک کی اولاد کی حفاظت فرماتا ہے۔ ترمذی اور ابن مردویہ نے جابر سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ صالح آدمی کی اولاد اس کی اولاد کی اولاد، اس کے خاندان والوں، اور اس کے اردگرد کے خاندانوں کی حفاظت فرماتا ہے۔ وہ ان کے درمیان جب تک ہوتا ہے، سبھی اس کی وجہ سے اللہ کے حفظ و امان میں ہوتے ہیں۔ قرطبی نے سورۃ الاعراف کی آیت (١٩٦) (ان ولیی اللہ الذی نزل الکتاب وھو یتولی الصالحین) سے اس معنی پر استدلال کیا ہے جس کا ترجمہ ہے کہ بیشک میرا حامی و ناصر وہ اللہ ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے وہ نیک لوگوں کی مدد کرتا ہے۔ الكهف
80 الكهف
81 الكهف
82 الكهف
83 (٥١) سورۃ الاسراء میں روح سے متعلق لکھتے وقت بتایا جاچکا ہے کہ کفار قریش نے یہود مدینہ کے اشارے پر نبی کریم سے روح، اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے بارے میں سوال کیا تھا، روح سے متعلق سورۃ الاسراء آیت (٨٥) میں لکھا جا چکا ہے، اور اصحابہ کہف کا واقعہ تفصیل کے ساتھ اس سورت کی ابتدا میں آچکا ہے اب ذوالقرنین کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے۔ ذوالقرنین کون تھا؟ اس کے بارے میں مفسرین اور مورخین کے بہت سارے اقوال ہیں : ایک قول یہ ہے کہ وہ اسکندر بن فیلقوس یونانی تھا جس نے پوری دنیا کو فتح کیا تھا اور جس نے اسکندریہ شہر آباد کیا تھا، قرطبی نے سہیلی سے نقل کیا ہے کہ اسکندر نام کے دو شخص گزرے ہیں، ایک ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں تھا جس نے ان کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کیا تھا اور دوسرا اسکندریہ مقدونی یونانی تھا جس کا زمانہ عیسیٰ (علیہ السلام) سے تین سو سال پہلے بتایا جاتا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے ازرقی وغیرہ کا قول نقل کیا ہے کہ قرآن میں مذکور ذوالقرنین وہ ہے جو ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں پایا گیا تھا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب الرد علی المنطقیین میں لکھا ہے کہ اسکندر بن فیلبس یونانی وہ نہیں ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں ذوالقرنین کے نام سے آیا ہے، اس لیے کہ یہ مشرک تھا اور اس کا وزیر ارسطو اور اس کی پوری قوم مشرک تھی، اور ذوالقرنین اللہ کا نیک اور مومن و موحد بندہ تھا اور اس کا زمانہ بہت پہلے کا ہے۔ حافظ ابن القیم نے اغاثۃ اللھفان میں فلاسفہ پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے بادشاہوں میں سے ایک اسکندر مقدونی تھا جو فیلبس کا بیٹا تھا اور یہ وہ اسکندر ذوالقرنین نہیں تھا جس کا قصہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کیا ہے بلکہ دونوں کے درمیان کئی صدی کا فرق ہے اور دونوں کے دین میں بھی بہت زیادہ تباین تھا۔ ذوالقرنین کا ایک نیک، صالح اور موحد بندہ تھا اور زندہ بھر بت پرستوں کے خلاف جنگ کرتا رہا اور اس مقصد کے لیے زمین کے مشرق و مغرب کنارو تک پہنچ گیا، اسی نے یاجوج ماجوج کو روکنے کے لیے دیوار بنائی تھی، بعض لوگوں نے اسے نبی بتایا ہے، اور اسے ذوالقرنین اس لیے کہا گیا کہ وہ فارس و روم دونوں کا بادشاہ تھا، یا اس لیے کہ اس کے سر پر بال کی دو چوٹیاں تھیں، یا اس لیے کہ اس نے مشرق و مغرب پر حکمرانی کی تھی اور اسکندر مقدونی مشرک تھا اور بتوں کی پرستش کرتا تھا اور اس کی مملکت کے لوگ بھی مشرک تھے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ کفار قریش آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں تو آپ کہہ دیجیے کہ میں اس کے بارے میں قرآن کریم کی وہ آیتیں تمہیں سناتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کی ہیں۔ الكهف
84 (٥٢) یہاں سے ان باتوں کا بیان شروع ہے جو اللہ نے ذوالقرنین کے بارے میں رسول کریم کو بذریعہ وحی بتائی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے فوجی طاقت، مال و دولت، فکر و نظر اور عظیم شہرت و دبدبہ دیا تھا، اور ہر چیز کو حاصل کرنے کا ذریعہ عطا کیا تھا، یعنی، علم، طاقت، آلات و اسلحہ اور دیگر تمام وسائل اسے مہیا تھے، اور ان تمام وسائل و ذرائع کو استعمال کر کے انتہائے مشرق و مغرب تک پہنچ گیا تھا۔ الكهف
85 الكهف
86 (٥٣) انتہائے مغرب میں اس نے دیکھا کہ آفتاب ایک ایسے چشمہ میں جاکر غروب ہوجاتا تھا جس کی مٹی کالی اور گرم تھی۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اس چشمہ سے مراد بحر اٹلانٹک ہے جس کے ساحل پر جاکر ذوالقرنین رک گیا اور جہاں غروب آفتاب کے وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اسی سمندر میں غروب ہورہا ہے ورنہ آفتاب تو چوتھے آسمان پر ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ کوئی بعید بات نہیں کہ ذوالقرنین اس سمندر کو پار کر کے انتہائے زمین تک پہنچ گیا ہو جہاں آفتاب غروب ہوجاتا تھا، وہاں اسے ایک قوم ملی جس پر اللہ تعالیٰ اسے غالب و حاکم بنا دیا انہیں اس نے دین ابراہیمی کی دعوت دی، تو کچھ لوگوں نے قبول کیا اور کچھ نے انکار کردیا، اللہ نے کہا کہ اے ذوالقرنین ! تم چاہو تو انکار کرنے والوں کو عذاب میں مبتلا کرو اور چاہو تو عفو و درگزر سے کام لو، اور حق کی طرف انہیں بلاتے رہو۔ جن لوگوں نے کہا کہ ذوالقرنین نبی تھا، انہوں نے اسی آیت سے استدلال کیا ہے اور جو لوگ اس کے نبی ہونے کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ بات بذریعہ الہام بتائی تھی۔ الكهف
87 (٥٤) ذوالقرنین نے کہا جو شرک و کفر کے ذریعہ دنیا میں فساد پھیلاتا رہے گا اور دوسروں کو گمراہی کی دعوت دے گا اسے ہم قید و بند سے گزاریں گے اور قتل کریں گے اور موت کے بعد قیامت کے دن جب اپنے رب کے پاس جائے گا تو وہ اسے انتہائی سخت عذاب دے گا اور جو میری دعوت کو قبول کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لے آئے گا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گا اور نیک عمل کرے گا اسے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بطور جزائے خیر جنت دے گا اور اسے آج ہم نہ کوئی سخت بات کہیں گے اور نہ ہی کسی ایسے کام کا حکم دیں گے جو اس پر شاق گزرے۔ الكهف
88 الكهف
89 (٥٥) انتہائے مغرب تک پہنچ جانے کے بعد ذوالقرنین نے مشرق کی طرف واپسی کا راستہ اختیار کیا اور راہ میں جتنی قومیں آئیں انہیں دین ابراہیمی کی دعوت دی، جن لوگوں نے اس کی دعوت کو قبول کیا انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا اور جنہوں نے انکار کیا انہیں ذلت و رسوائی سے دوچار کیا، ان کے مال و دولت پر قبضہ کرلیا، اور ان قوموں میں سے ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ کرلیا جن کے ذریعہ دوسری قوموں پر غلب حاصل کرنے میں مدد لی، یہاں تک کہ آفتاب طلوع ہونے کی جگہ یعنی انتہائے مشرق تک پہنچ گیا، وہاں اس نے ایک ایسی قوم کو پایا جو تمدن سے بالکل ہی دور ننگ دھڑنگ رہتی تھی، نہ ان کے مکافات تھے اور نہ وہاں کوئی درخت تھا جو انہیں آفتاب کی تمازت سے بچاتا۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ وہ لوگ سرخ رنگ کے پستہ قد لوگ تھے جو غاروں میں رہتے تھے اور مچھلیاں کھاتے تھے۔ الكهف
90 الكهف
91 (٥٦) اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو دنیا میں بہت ہی اونچا مقام اور بڑی ہی عظیم سلطنت دی تھی جس کا کچھ حال اوپر بیان ہوا اس کی قوت، فوج کی کثرت تعداد اور دیگر مادی اور روحانی اسباب و وسائل کا صحیح اندازہ صرف اللہ کو ہی تھا۔ الكهف
92 (٥٧) انتہائے مشرق تک پہنچ جانے کے بعد ذوالقرنین نے مشرق و مغرب کے درمیان شمال و مغرب کا راستہ اختیار کیا اور چلتا ہوا انتہائے شمال مغرب میں ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں دونوں طرف دو اونچے اور لمبے پہاڑ تھے اور دونوں کے درمیان ایک جگہ خالی تھی، وہاں انسانوں کی ایک ایسی جماعت رہتی تھی جو کوئی بھی بات نہیں سمجھ پاتی تھی اس لیے کہ ان کی زبان عجیب و غریب تھی، اور ان کے اندر سمجھنے کی صلاحیت بھی کم تھی، مذکور بالا دونوں پہاڑوں کے بارے میں لوگوں کے کئی اقوال ہیں : کسی نے کہا ہے کہ وہ ارمینیا اور آذربیجان کے علاقہ میں دو پہاڑ ہیں۔ کسی نے لکھا ہے کہ وہ ٹرکی کا مشرقی علاقہ ہے جہاں ٹرکی کی سرحد ختم ہوجاتی ہے۔ امام ابن حزم نے اپنی کتاب الملل والنحل میں لکھا ہے کہ وہ جگہ انتہائے شمال میں دنیا کے آخری کنارے پر ہے۔ رازی نے لکھا ہے کہ بظاہر وہ جگہ شمال میں واقع ہے۔ اسکندر نے دونوں پہاڑوں کے درمیان اس کھلی جگہ کو بند کردیا تھا جس کی لمبائی سو فرسخ تھی اور جسے یاجوج و ماجوج آبادی کی طرف آنے کے لیے بطور راستہ استعمال کرتے تھے۔ قرآن بتاتا ہے کہ وہ لوگ دونوں پہاڑوں کے پیچھے رہتے ہیں اور ان کی سرزمین بہت کشادہ ہے اور بحر اٹلانٹک تک پھیلی ہوئی ہے۔ الكهف
93 الكهف
94 (٥٨) ان لوگوں نے ذوالقرنین سے کہا کہ دونوں پہاڑوں کے پیچھے یاجوج و ماجوج کی قوم رہتی ہے انہیں جب بھی موقع ملتا ہے دونوں پہاڑوں کے درمیان راستہ سے ہماری طرف آجاتے ہیں اور قتل و غارتگری کرتے ہیں اور لوٹ کھسوٹ کے بعد واپس چلے جاتے ہیں۔ تو کیا آپ ہم سے معاوضہ لے کر ہمارے اور ان کے درمیان کوئی رکاوٹ کھڑی کردیں گے؟ ذوالقرنین نے اثبات میں جواب دیا اور کہا کہ مجھے تم لوگوں سے کسی معاوضہ کی ضرورت نہیں ہے، اللہ نے جو مال و دولت اور ملک و سلطنت مجھے دیا ہے وہ اس معاوضہ سے کہیں بہتر ہے جو تم لوگ مجھے دینا چاہتے ہو۔ تم لوگ صرف مزودروں، صنعت کاروں اور ضروری آلات سے میری مدد کرو تاکہ میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط رکاوٹ کھڑی کردوں، یعنی اس ورہ کو بند کردوں جس سے ہو کر وہ لوگ تمہاری طرف آجاتے ہیں، مجھے لوہے کے ٹکڑے دو، جب دونوں پہاڑوں کی درمیانی جگہ میں لوہے کی اینٹوں کی دو متوازی دیوار بنا دی تو ان لوگوں سے کہا کہ اب دونوں دیواروں کے درمیان آگ پھونکو یہاں تک کہ لوہا تپ کر آگ بن جائے۔ جب لوہا آگ بن گیا تو ذوالقرنین نے ان سے کہا کہ اب مجھے پگھلایا ہوا تانبا دو تاکہ اسے گرم لوہے پر انڈیل دوں اور وہ لوہے سے چپک جائے۔ وہ رکاوٹ اتنی اونچی اور چکنی تھی کہ اس کے بعد یاجوج و ماجوج کا آنا بند ہوگیا، اور وہ اتنی موٹی اور سخت تھی کہ ان کے لیے اس میں سوراخ کرنا ناممکن ہوگیا، ذوالقرنین نے کہا کہ یہ دیوار یہاں رہنے والوں کے لیے میرے رب کی رحمت ہے کہ اب یاجوج و ماجوج کے لوگ اس راہ سے آکر ان پر ظلم و ستم ڈھائیں گے، لیکن جب قیامت کے قریب یاجوج و ماجوج کے نکلنے کا وقت آجائے گا تو اللہ تعالیٰ اس رکاوٹ کے ریزے ریزے کردے گا اور زمین برابر ہو کر پہلے کی طرح راستہ بن جائے گا۔ اللہ کا وعدہ برحق ہے کہ قیامت آئے گی اور انسانوں کو ان کے اعمال کے مطابق وہ جزا و سزا دے گا۔ فائدہ : یاجوج و ماجوج دو عجمی نام ہیں، کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ یافث بن نون کی اولاد سے ہیں اور ٹرکی کے لوگ انہی میں سے ہیں، بعض کہتے ہیں کہ یاجوج ترکوں میں سے اور ماجوج دحیل اور دیلم سے ہے، بعض لوگوں نے انہیں پست قد اور بعض نے لمبے قد کا بتایا ہے۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ داغستان کے علاقہ میں کوہ قاف کے پیچھے دو قبیلے رہتے تھے جن کے نام آقوق اور ماقوق تھے۔ عربوں نے تعریب کے ذریعہ انہیں یاجوج و ماجوج بنا دیا، بہت سے دیگر قبائل والے انہیں جانتے تھے اور ان کا ذکر اہل کتاب کی کتابوں میں آیا ہے انہی دونوں قبیلوں کے کثرت تناسل سے شمال اور مشرق کی قومیں وجود میں آئیں اور روس اور ایشیا کے ممالک میں پھیلتی گئیں۔ بہرحال یاجوج و ماجوج جو لوگ بھی ہوں، اتنی بات تو صحیح احادیث سے ثابت شدہ ہے کہ قرب قیامت کے وقت ذوالقرنین کی بنائی ہوئی رکاوٹ پاش پاش ہوجائے گی اور یاجوج و ماجوج کی فوج امڈ پڑے گی۔ امام احمد، ترمذی اور حاکم وغیرہم نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے اور محدث البانی نے اس کی تصحیح کی ہے کہ وہ لوگ تمام کنوؤں کا پانی پی جائیں گے، اور لوگ ان کے ڈر سے قلعوں میں بند ہوجائیں گے۔ اپنا تیر آسمان کی طرف چلائیں گے تو وہ خون سے لت پت ان کے پاس واپس آجائے گا، تو وہ کہیں گے کہ ہم نے زمین والوں کو مغلوب کرلیا اور آسمان والوں سے زیادہ بلند مقام والے ہوگئے، تب اللہ تعالیٰ ان کی گدیوں میں ایک بیماری پیدا کردے گا جس کی وجہ سے تمام کے تمام ہلاک ہوجائیں گے۔ رسول اللہ نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے کہ زمین کے چوپائے ان کے گوشت کھا کر موٹے ہوجائیں گے اور اللہ کا شکر ادا کریں گے۔ الكهف
95 الكهف
96 الكهف
97 الكهف
98 الكهف
99 (٥٩) یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے، یعنی دجال کی موت کے بعد جب یاجوج و ماجوج نکلیں گے تو شدت ازدحام کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ مل جائیں گے اور ہر طرف مار دھاڑ اور ظلم و ستم کرنے لگیں گے۔ صاحب فتح البیان لکھتے ہیں کہ اس وقت عیسیٰ (علیہ السلام) مومنوں کو لے کر جبل طور کی طرف بھاگ پڑیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کی ناکوں میں ایک کیڑا پیدا کردے گا جس سے سب کے سب مرجائیں گے اور مکہ مدینہ اور بیت المقدس میں داخل نہ ہوسکیں گے اور نہ ان لوگوں تک پہنچ سکیں گے جو ذکر الہی کرتے رہیں گے، آیت کا ایک دوسرا مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن جن و انس آپس میں گڈ مڈ ہوجائیں گے، اور اسرافیل (علیہ السلام) صور پھونک دیں گے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ دوسرا صور ہوگا جس کے بعد اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کو دوبارہ زندہ کردے گا اور میدان محشر میں حساب و جزا کے لیے جمع کردے گا۔ الكهف
100 (٦٠) اس دن اللہ تعالیٰ جہنم کو کافروں کے سامنے لے آئے گا، وہ اسے دیکھیں گے اور اس کی غیظ و غضب بھری آواز سن کر شدید حزن وملال میں مبتلا ہوجائیں گے۔ یہ وہ کفار ہوں گے جن کی آنکھوں پر دنیا میں پردہ پڑگیا تھا اور جن کی قوت سماعت یکسر جاتی رہی تھی، اسلیے نہ ان دلائل و براہین سے انہیں کوئی فائدہ پہنچا جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرتی تھیں، اور نہ انہیں قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی آیات میں غور وفکر کی توفیق ہوئی، اور ان کی قوت سماعت ایسی معدوم ہوگئی تھی کہ حق و ہدایت کی بات سننے سے بالکل ہی محروم ہوگئے تھے۔ الكهف
101 الكهف
102 (٦١) اس آیت کریمہ میں مشرکین مکہ کے شکر کی تردید کی گئی ہے اور زجر و توبیخ کرتے وہئے ان سے کہا گیا ہے کہ کیا وہ اس گمان میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ میرے جن بندوں کو انہوں نے میرے سوا اپنا معبود بنا لیا ہے، وہ انہیں نفع پہنچا سکیں گے؟ یہ ان کی خام خیالی ہے وہ جھوٹے معبود ان کے کسی کام نہیں آئیں گے اور ہم نے تو ایسے کافروں کی ضیافت کے لیے جہنم کو تیار کر رکھا ہے۔ سورۃ مریم آیات (٨١، ٨٢) میں اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے : (واتخذوا من دون اللہ الھۃ لیکونوا لھم عزا۔ کلا سیکفرون بعبادتھم ویکونون علیھم ضدا) انہوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کے لیے باعث عزت ہوں، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوگا وہ تو ان کی پوجا کے منکر ہوجائیں گے اور الٹے ان کے دشمن بن جائیں گے۔ الكهف
103 (٦٢) حقیقی معنی میں خسارہ اٹھانے والے کون ہیں۔ مندرجہ ذیل چار آیتوں میں انہی کی صفات بیان کی گئی ہیں اور پھر قیامت کے دن ان کا انجام بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو خطاب کر کے فرمایا ہے، آپ کافروں سے پوچھیئے کیا میں تمہیں بتا دوں کہ سب سے زیادہ کون خسارہ پانے والا ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کی دنیاوی زندگی کی تمام کوششیں رائیگاں ہوگئیں، حالانکہ وہ سمجھتے رہے کہ وہ اپنے حق میں بہت ہی اچھا کر رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کی آیتوں، بعث بعد الموت اور حساب و جزا کا انکار کردیا، جس کے نتیجہ میں ان کے اعمال بالکل ہی بے کار ہوگئے، اور قیامت کے دن اللہ کی نگاہ میں ان کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں ہوگی، بلکہ حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیئے جائیں گے اس لیے کہ اللہ کے نزدیک صرف نیک اعمال کا اعتبار ہے جب ان کی جھولی میں اعمال صالحہ رہے ہی نہیں تو حقیر ترین بندے بن گئے، اللہ تعالیٰ نے مزید تاکید کے طور پر فرمایا کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور اس لیے کہ انہوں نے میری آیتوں اور میرے رسولوں کا مذاق اڑیات تھا۔ الكهف
104 الكهف
105 الكهف
106 الكهف
107 (٦٣) کافروں کا انجام بیان کیے جانے کے بعد اب ان لوگوں کا حال و مآل بیان کیا جارہا ہے جو اس دنیا میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئیں گے، نبی کریم پر نازل کردہ کتاب کی تصدیق کریں گے، اور زندگی میں نیک اعمال کرتے رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی میزبانی کے لیے فردوس برین کو تیار کر رکھا ہے، جہاں ہمیشہ کے لیے رہیں گے، اور کبھی اور کسی حال میں بھی وہاں سے نکلنا نہیں چاہیں گے۔ صحیحین کی روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا ہے : تم لوگ جب اللہ سے جنت مانگو تو فردوس مانگو جو جنت کا مرکزی اور اعلی مقام ہے، جنت کی ساری نہریں وہیں سے نکلتی ہیں۔ وہ جنت اتنی اچھی ہوگی کہ وہاں کا رہنے والا جنتی اسے چھوڑ کر کبھی بھی دوسری جگہ جانا نہیں چاہے گا۔ اے اللہ ! میں آپ سے جنت الفردوس کا سوال کرتا ہوں اپنے لیے، اپنے والدین کے لیے، اپنے اہل و عیال، بہن بھائیوں اور قرآن و سنت پر عمل پیرا تمام مسلمان بھائیوں کے لیے۔ آمین یا رب العالمین۔ الكهف
108 الكهف
109 (٦٤) یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ازلی ہے، وہ جب اور جس سے چاہتا ہے کلام کرتا ہے، اس کے کلمات کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اگر اللہ کے علوم و حکم کے کلمات لکھے جائیں اور سمندر کا پانی بطور روشنائی استعمال کیا جائے، تو کلمات الہی ختم نہ ہوں گے اور سمندر کا پانی ختم ہوجائے گا، اور اگر اسی سمندر جیسا دوسرا سمندر بھی بطور روشنائی استعمال کیا جائے، تو وہ بھی ختم ہوجائے گا اور اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ جب قریش نے یہود کے سکھانے پر رسول اکرم سے روح کے بارے میں سوال کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا : (وما اوتیتم من العلم الا قلیلا) تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہے، اور یہود مدینہ کو اس آیت کا پتہ چلا تو کہنے لگے کہ تورات میں تمام چیزوں کا علم موجود ہے، تو ان کے رد میں آیت نازل ہوئی کہ اللہ کے علم کی کوئی انتہا نہیں ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔ الكهف
110 (٦٥) اللہ نے نبی کریم کو مخاطب کر کے فرمایا، آپ ان مشرکین سے جو آپ کی رسالت کی تکذیب کرتے ہیں کہہ دیجیے کہ میں تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہوں مجھ میں اور تم میں فرق صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر وحی نازل فرماتے ہیں، قرآن بھی اللہ نے مجھے بذریعہ وحی دیا ہے۔ یہ میرا کلام نہیں ہے، اگر تم میں سے کوئی شخص میری تکذیب کرتا ہے تو وہ قرآن جیسا کلام لاکر دکھادے، میں نے تمہیں زمانہ ماضی کے جو واقعات سنائے ہیں وہ بھی مجھے اللہ نے بذریعہ وحی بتائے ہیں، مجھے غیب کا کوئی علم نہیں ہے، میں تمہیں یہ بھی خبر دیتا ہوں کہ جس اللہ کی عبادت کی تمہیں دعوت دیتا ہوں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے تو جو کوئی ایمان رکھتا ہے کہ اسے اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے، اسے شریعت محمدیہ کے مطابق عمل صالح کرنا چاہیے اور چاہیے کہ وہ کسی بھی حال میں اللہ کی عبادت میں دوسروں کو شریک نہ کرے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : یہ آیت دلیل ہے کہ اللہ کے نزدیک عمل مقبول ہونے کی دو شرطیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ شریعت محمدیہ کے مطابق ہو، اور دوسری یہ کہ اس سے مقصود صرف اللہ کی خوشنودی ہو، شہرت، نام و نمود، ریاکاری یا کوئی اور دنیاوی غرض مقصود نہ ہو۔ وباللہ التوفیق۔ الكهف
0 سورۃ مریم مکی ہے، اس میں اٹھانوے آیتیں اور چھ رکوع ہیں۔ نام : اس کا نام آیت (١٦) (واذکر فی الکتاب مریم اذا انتبذت من اھلھا مکانا شرقیا) سے ماخوذ ہے۔ صاحب فتح البیان لکھتے ہیں کہ پورے قرآن میں مریم علیہا السلام کے علاوہ کسی دوسری عورت کا نام نہیں آیا ہے۔ ان کا نام قرآن میں تیس بار دہرایا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کے ہجرت حبشہ سے پہلے نازل ہوئی تھی، محمد بن اسحاق نے اپنی کتاب السیرۃ میں ام سلمہ سے اور امام احمد بن حنبل نے مسند میں ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ جب مہاجرین حبشہ میں نجاشی کے سامنے پیش ہوئے اور اس نے جعفر بن ابی طالب سے قرآن کا کوئی حصہ سنانے کو کہا تو انہوں نے اسی سورت کی ابتدائی آیتوں کی قرات کی تھی جن سے متاثر ہو کر نجاشی اتنا رویا تھا کہ اس کی داڑھی آنسوؤں سے بھیک گئی تھی، اس کے دربار کے دوسرے علمائے نصاری بھی رونے لگے تھے، اور نجاشی نے کہا تھا کہ یہ کلام اور عیسیٰ جو کلام لے کر آئے تھے دونوں ایک ہی مصدر سے آئے ہیں، اس میں زکریا، یحی، عیسی، ابراہیم اور دیگر انبیاء علیہم السلام کے واقعات بیان کیے گئے ہیں، اور مشرکین مکہ کی سوسائٹی سے نکل کر یہود و نصاری کے سامنے دعوت اسلام پیش کرنے کے لیے زمین ہموار کی گئی ہے، اور انہیں یہ باور کرایا گیا ہے کہ نبی کریم کوئی نیا اور اجنبی دین لے کر نہیں آئے ہیں، بلکہ یہ وہی دین ہے جو تمام گزشتہ انبیائے کرام نے اپنی قوموں کے سامنے پیش کیا تھا، اور جس کا لب لباب یہ ہے کہ یہ زمین اللہ کی ہے اور اس نے تمام انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ وباللہ التوفیق مريم
1 (١) یہ حروف مقطعات ہیں ان کا معنی اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ مريم
2 (٢) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے زکریا (علیہ السلام) پر اپنے فضل و کرم کا ذکر کیا ہے، جو بنی اسرائیل کے بہت ہی عظیم المرتبت نبی، اور یحی (علیہ السلام) کے والد تھے، صحیح بخاری میں ہے کہ وہ پیشہ کے اعتبار سے بڑھئی تھے اور اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے، انہوں نے رات کی تاریکی میں جب دنیا سو رہی تھی، اپنے رب سے خفیہ طور پر دعا کی اور کہا کہ اے میرے رب ! میری ہڈیاں کمزور ہوچکی ہیں اور سر کے بال بالکل سفید ہوگئے ہیں اور اس سے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ تو نے میری دعا قبول نہ کی ہو۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ اللہ کی جناب میں ایک قسم کا توسل تھا کہ اے اللہ ! میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری حالت قابل رحم ہوچکی ہے، اور اس سے پہلے تو میری دعائیں قبول کرتا رہا ہے، اس لیے اس بار بھی میری دعا قبول کرلے اور مجھے ناامید نہ کر۔ اور میرے بعد میری قوم کی باگ ڈور میرے جن رشتہ داروں کے ہاتھ میں جائے گی وہ اس لائق نہیں ہیں کہ ان پر بھروسہ کیا جائے، ان میں کوئی ایسا نہیں جو دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھ سکے، مجھے ڈر ہے کہ وہ لوگ میری دعوت الی اللہ کے کاز کو نقصان پہنچائیں گے۔ اور میری بیوی جوانی کے زمانے سے ہی بانجھ ہے، اس لیے تو محض اپنے فضل و کرم سے مجھے ایک لڑکا عطا فرما جو علم و نبوت اور دعوت و تبلیغ کے کاموں میں میرا اور خاندان یعقوب کے دیگر انبیاء کا وارث بنے، اور اے میرے رب ! تو اسے بلند اخلاق و کردار والا بنا۔ سورۃ آل عمران آیت (٣٨) اور اس کے بعد کی آیتوں میں زکریا (علیہ السلام) کا یہ واقعہ گزر چکا ہے کہ جب انہوں نے مریم علیہا السلام کے پاس محرام میں انواع و اقسام کے پھل دیکھے تو اللہ کی قدرت سے غایت درجہ متاثر ہو کر اپنے بڑھاپے اور اپنی بیوی کی بانجھ پن کے باوجود اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ! مجھے ایک لڑکا عطا کر، تو اللہ نے ان کی دعا قبول کرلی اور انہیں لڑکے کی خوشخبری دے دی۔ اور انہوں نے صالح لڑکے کی تمنا اس لیے کی تاکہ ان کے بعد ان کی دعوت و تبلیغ کا کام جاری رہے۔ مريم
3 مريم
4 مريم
5 مريم
6 مريم
7 (٣) اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمالی اور کہا اے زکریا ! ہم آپ کو ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحی وہگا، اور جس مثیل و شبیہ ہم نے اس کے قبل پیدا نہیں کیا ہے۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ بانجھ عورتوں نے ان کے قبل ان جیسا بچہ نہیں جنا تھا، ایک روایت یہ بھی ہے کہ انہوں نے کبھی کوئی گناہ نہیں کیا اور نہ گناہوں کا ارادہ کیا۔ مريم
8 (٤) زکریا (علیہ السلام) نے یہ خوشخبری پاکر ظاہر حالات کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت پر حیرت کا اظہار کیا اور کہا، میرے رب ! مجھے لڑکا کیسے ہوگا میری بیوی بانجھ ہے اور میں بڑھاپے کے اس مرحلے میں داخل ہوچکا ہوں، جس کے بعد کوئی تدبیر اور کوئی علاج مفید نہیں ہوتا، ایک دوسری رائے ہے کہ انہوں نے خوشخبری پانے کے بعد اپنی بیوی کی حالت مد نظر رکھتے ہوئے بچہ پیدا ہونے کی کیفیت جاننی چاہی۔ مريم
9 (٥) اللہ تعالیٰ نے فرمایا جیسا آپ نے چاہا ویسا ہی ہوگا، پھر ان کی حیرت و استعجاب دور کرنے کے لیے مزید کہا، آپ کا رب کہتا ہے کہ ایسا کرنا یعنی بہت ہی بوڑھے باپ اور ہمشیہ سے بانجھ ماں سے بچہ پیدا کرنا میرے لیے آسان ہے، اور میری قدرت مطلقہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اس میں حیرت کی آپ کے لیے کوئی بات نہیں ہونی چاہیے، میں تو خود آپ کو اس سے پہلے ایک نطفہ حقیر کے ذریعہ عدم سے وجود میں لاچکا ہوں، ماں اور باپ کے ذریعہ پیدا کرنا تو زیادہ آسان ہے۔ مريم
10 (٦) زکریا (علیہ السلام) نے کہا، میرے رب ! مجھے کوئی نشانی بتا دے تاکہ جان سکوں کہ واقعی حمل قرار پا گیا ہے، اور میرے دل کو مزید اطمینان حاصل ہو، شوکانی لکھتے ہیں کہ اس سوال سے مقصود یہ تھا کہ جب حمل قرار پا جائے تو انہیں پتہ چل جائے اس لیے کہ بشارت دیتے وقت اس کا کوئی معین وقت نہیں بتایا گیا تھا۔ ابن الانباری کہتے ہیں کہ خوشخبری سن کر ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اب جلد ہی ان کے گھر بیٹا مولود ہو، اسی لیے انہوں نے چاہا کہ اللہ کی جانب سے ان پر جو احسان ہونے والا ہے اس کی کوئی فوری نشانی بتا دے جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ کے لیے نشانی یہ ہوگی کہ زبان و جسم کے بالکل صحیح سالم ہونے کے باوجود تین دن اور تین رات کسی سے بات نہ کرسکیں گے۔ یہاں تین رات کا ذکر آیا ہے اور سورۃ آل عمران آیت (٤١) میں تین دن کا۔ اس لیے مراد تین دن اور تین رات ہے، جب زکریا (علیہ السلام) کی آواز بند ہوگئی تو محرام سے نکل کر فورا اپنی قوم کے پاس آئے اور ان سے اشارہ کی زبان میں کہا کہ تم لوگ صبح و شام اللہ کی تسبیح و تحمید میں مشغول ہوجاؤ۔ یہاں اوحی کا معنی اشارہ کیا ہے۔ جیسا کہ سورۃ آل عمران میں رمزا کا لفظ اایا ہے، جس کا معنی اشارہ کرنا ہوتا ہے، مجاہد کہتے ہیں کہ انہوں نے زمین پر لکھ کر لوگوں سے بات کی تھی۔ عربی زبان میں وحیی لکھے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مريم
11 مريم
12 (٧) زکریا (علیہ السلام) کے گھر وہ لڑکا پیدا ہوگیا اس کا نام خود اللہ تعالیٰ نے یحی رکھا، اور جب اس نے ہوش سنبھالا تو اللہ نے اس سے کہا، اے یحی ! تورات کا علم اچھی طرح حاصل کرو، اس لیے کہ بنی اسرائیل کے لوگ تورات ہی پڑھتے تھے، اور موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد تمام انبیائے بنی اسرائیل اور علما و احبار لوگوں کے درمیان اسی کی تعلیمات کے مطابق فیصلہ کرتے تھے۔ اس لیے ضروری تھا کہ وہ تورات کو اچھی طرح پڑھتے اور اس میں موجود احکام و شرائع کا فہم حاصل کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے یحی (علیہ السلام) کو بچپن ہی میں علم و حکمت، فہم تورات اور اعمال صالحہ کی توفیق دے دی تھی، ان کے اندر اپنے والدین، رشتہ داروں، غیروں اور اللہ کی تمام مخلوق کے لیے رحمت و شفقت کا بے پایاں جذبہ پایا جاتا تھا۔ (حنانا من لدنا) کا ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کی شفقت و رحمت ہمیشہ ان کے شامل حال تھی۔ وہ گناہوں سے یکسر پاک اور ایسے نیک تھے کہ گناہ کا کبھی سوچا ہی نہیں اور اپنے ماں باپ کے ایسے مطیع و فرمانبردار تھے کہ کبھی بھی ان کے سامنے کسی بات پر نہیں اکڑے اور نہ ان کی نافرمانی کی (عصیا) کا ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ اپنے رب کے نافرمان بندے نہیں تھے، اور اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام آفات و بلیات سے امن و سلامتی کی خبر دے دی، اور ان کے لیے سلام و تحیہ بھیج دیا، جس دن وہ پیدا ہوئے اس دن شیطان کے چونکا لگانے سے امان میں رہے اور جب وفات پائی تو قبر کے فتنوں سے محفوظ رہے، اور جب دوبارہ اٹھائے جائیں گے تو انہیں کوئی گھبراہٹ لاحق نہیں ہوگ، یہ اللہ تعالیٰ کا یحی پر انعام خاص اور انتہائے عنایت تھی کہ ان تینوں حالات میں انہیں اللہ کا امن و امان حاصل رہا، جب آدمی شدید غربت و وحشت محسوس کرتا ہے اور ضرور محسوس کرتا ہے کہ کوئی اس کے ساتھ ہو۔ مريم
13 مريم
14 مريم
15 مريم
16 (٨) چونکہ یحی (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش میں ایک گونہ مشابہت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یحی (علیہ السلام) کو نہایت بوڑھے باپ اور بالکل بانجھ ماں سے پیدا کیا اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے پیدا کیا اور دونوں کی پیدائش میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کا اظہار ہے، اسی لیے سورۃ آل عمران، اس سورت اور اسوہ الانبیا میں دونوں کا ذکر ایک دوسرے کے بعد ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ اس قرآن میں مریم کا واقعہ پڑھیئے اور لوگوں کو سنیائے۔ مریم بنت عمران داؤد (علیہ السلام) کی نسل سے بنی اسرائیل کے ایک دیندار اور شریف گھرانے کی لڑکی تھیں، ان کی ولادت کا قصہ سورۃ آل عمران میں گزر چکا ہے۔ پیدا ہونے کے بعد انہوں نے اپنے خالو زکریا (علیہ السلام) کے گھر میں پرورش پائی اور ہوش سنبھالنے کے بعد بہت بڑی زاہدہ، عابدہ اور شب زندہ دار بن گئیں، جب اللہ تعالیٰ نے ان کے بطن سے عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا کرنا چاہا تو مسجد اقصی سے ذرا ہٹ کر مشرق کی جانب چلی گئیں، بعض مفسرین نے کہا ہے کہ وہاں لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو کر گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر عبادت کے لیے گئی تھیں، کیس نے کہا ہے کہ ان کو ماہواری آئی تھی اور وہاں پردے میں طہارت حاصل کرنے کے لیے گئی تھیں۔ وہاں جبریل (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے ان کے سامنے ایک مکمل آدمی کی شکل میں آئے۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ اہل کتاب پر بھی خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا واجب تھا، لیکن مریم علیہا السلام کے اسی عمل کیو جہ سے انہوں نے جہت مشرق کو اپنا قبلہ بنا لیا اور مطلع آفتاب کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے لگے۔ جب مریم علیہا السلام نے دیکھا کہ ایک اچھا خاصا آدمی ان کے پردے کا لحاظ کیے بغیر ان کے سامنے آگیا ہے، تو ان کے ذہن میں شبہ ہوا کہ کہیں یہ آدمی کسی بری نیت سے تو نہیں آیا ہے۔ اسی لیے اپنی انتہائی عفت و پاکدامنی کے زیر اثر کہنے لگیں کہ اے آدمی ! اگر تجھے اللہ کا خوف ہے تو میں بے حد رحم کرنے والے اللہ کے ذریعہ تجھ سے پناہ مانگتی ہوں، تو میرے قریب نہ آ۔ جبریل (علیہ السلام) نے فورا ان کے دل سے خوف دور کرنے اور حقیقت حال بیان کرنے کے لیے کہا، میں تمہارے اسی رب کا پیغامبر ہوں جس کے ذریعہ تم نے پناہ مانگی ہے، مجھے اسی نے تمہارے پاس بھیجا ہے تاکہ تمہارے گریبان میں پھونک مار کر اللہ کی جانب سے بطور عطیہ ایک لڑکا دیئے جانے کا سبب بنوں جو گناہوں سے پاک ہوگا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ التحریم آیت (١٢) میں فرمایا ہے : (ومریم ابنت عمران التی احصنت فرجھا فنفخنا فیہ من روحنا) اور سورۃ الانبیا آیت (٩١) میں فرمایا ہے : (والتی احصنت فرجھا فنفخنا فیھا من روحنا) دونوں آیتوں میں یہی بتایا گیا ہے کہ اللہ نے اپنی طرف سے بذریعہ وحی ان کے رحم میں عیسیٰ کی روح پھونک دی۔ ایک دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ میں تمہارے رب کا پیغامبر ہوں اس لیے آیا ہوں تاکہ تمہیں تمہارے بطن سے ایک لڑکا مولود ہونے کی خبر دوں جو گناہوں سے پاک ہوگا۔ ایک قرات میں لیھب لک آیا ہے، یعنی میں تمہارے رب کا پیغامبر ہوں تمہارے پاس یہ خبر لے کر اایا ہوں کہ وہ تمہیں ایک ایسا لڑکا دے گا جو گناہوں سے پاک ہوگا۔ مريم
17 مريم
18 مريم
19 مريم
20 (٩) مریم علیہا السلام کو اس خبر سے بہت زیادہ تعجب ہوا کہنے لگیں کہ مجھے لڑکا کیسے ہوگا، نہ میرا کوئی شوہر اور نہ ہی میں کوئی بدکار عورت ہوں؟ جبریل نے کہا ہاں ایسا ہی ہوگا، اگرچہ تمہار کوئی شوہر نہیں اور تم کوئی بدکار عورت نہیں، اس لیے کہ تمہارا رب ہر چیز پر قادر ہے، وہ کہتا ہے ایسا کرنا میرے لیے بہت ہی آسان ہے، اس نے آدم کو بغیر ماں باپ کے پیدا کیا، اور حوا کو صرف مرد سے پیدا کیا اور باقی ذریت آدم کو ماں باپ کے ذریعہ پیدا کیا، سوائے عیسیٰ کے جنہیں اللہ نے بغیر باپ کے پیدا کیا، اور اس طرح تخلیق انسانی کے چاروں طریقے اختیار کر کے اللہ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنی عظیم قدرت اور بے مثال عظمت کی قطعی دلیل پیش کردی، اور اللہ نے عیسیٰ کو ان کی قوم کے لیے رحمت بنایا تھا، جیسا کہ ہر نبی اپنی قوم کے لیے رحمت ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی قوم کو توحید الہی اور صرف ایک اللہ کی عبادت کی تعلیم دینے لگے۔ آخر میں جبریل نے مریم سے کہا کہ ایسا ہونا اللہ کے علم میں مقدر ہوچکا ہے ایسا ہو کر رہے گا، ایک رائے یہ بھی ہے کہ ممکن ہے (وکان امر مقضیا) اللہ کا کلام نبی کریم سے ہو، کہ عیسیٰ کا بغیر باپ کے پیدا ہونا اللہ کے علم میں پہلے سے مقدر تھا۔ مريم
21 مريم
22 (١٠) مفسرین لکھتے ہیں کہ جب جبریل (علیہ السلام) نے انہیں اللہ کا فیصلہ سنا دیا تو راضی برضائے الہی ہوگئیں اور ایک گونہ اطمینان محسو کرنے لگیں، تو جبیل نے ان کے قریب آکر ان کے گریبان میں پھونک دیا، ایک قول یہ ہے کہ ان کے دامن میں پھونک ماری اور ایک تیسری روایت ہے کہ ان کے منہ میں پھونک ماری، بہرحال پھونک کا اثر ان کے رحم تک پہنچ گیا۔ اور اللہ کے حکم سے حمل قرار پاگیا، اس کے بعد وہ لوگوں کی باتوں کے ڈر سے اپنی قوم سے دور پہاڑ کے پیچھے یا وادی میں چلی گئیں۔ مريم
23 (١١) مریم علیہا السلام کے حمل کی مدت کے بارے میں کئی اقوال آئے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ حمل اور وضع حمل کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں تھا، لیکن جمہور کا قول یہ ہے کہ مدت حمل نو ماہ تھی، بہرحال حمل کی مدت جو بھی ہو روایات سے اتنی بات سمجھ میں ااتی ہے کہ ظہور حمل کے بعد جب لوگوں کی چہ میگوئیوں کا انہیں در ہوا تو بیت المقدس اور اپنی قوم سے دور بیت لحم نام کی بستی چلی گئی جو بیت المقدس سے صرف آٹھ میل دور تھی جہاں وہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوگئیں، تاکہ ان کے طعنوں سے بچی رہیں۔ بالاخر ولادت کا وقت قریب آگیا اور درد کی شدت بڑھ گئی تو ایک کھجور کے درخت کے پاس چلی گئیں تاکہ ولادت کے وقت اس کا سہارا لے سکیں اور جب انہیں لوگوں کے عار دلانے کا خیال آیا تو بشری تقاضے کے مطابق کہنے لگیں، کاش ! مجھے اس سے پہلے موت آگئی ہوتی، میں ایک بھولی بسری کہانی بن گئی ہوتی۔ فراء کہتے ہیں کہ نسی حیض سے ملوث چیتھڑے کو کہتے ہیں، یعنی کاش ! میں حیض کا وہ کپڑا ہوتی جسے پھینک دیا جاتا ہے۔ مريم
24 (١٢) مریم علیہا السلام ایک ٹیلہ پر تھیں اور جبریل (علیہ السلام) ٹیلے کے نیچے تھے، جب انہوں نے مریم کی غم سے بھری بات سنی تو انہیں پکار کر کہا کہ اے مریم ! غم نہ کر اللہ نے تجھے ایک ایسا بچہ دیا ہے جو سردار قوم صاحب عزوشرف اور رفیع المرتبت ہوگا۔ ایک دوسرا قول یہ ہے کہ سری چھوٹی نہر کے معنی میں ہے، یعنی اللہ نے تیرے قدموں میں بطور معجزہ نہر جاری کردی ہے۔ مريم
25 (١٣) کھجور کی شاخ کو پکڑ کر ہلاؤ اس سے تمہارے لیے تازہ کھجوریں گریں گی، کھجور کھاؤ، نہر کا تازہ پانی پیو، اور پیارے بچے کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو اور غم نہ کرو اور جب تم کسی آدمی کو دیکھو جو تم سے بچے کے بارے میں سوال کرے تو اشارہ کی زبان میں کہہ دو کہ میں نے اللہ کے لیے خاموش رہنے کی نذر مانی ہے آج میں کسی انسان سے بات نہیں کروں گی۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ انہیں یہ حکم اس لیے دیا گیا تاکہ نادانوں سے بات کرنے کی انہیں نوبت نہ آئے، اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی گفتگو ہی ان کی برات و پاکدامنی کی دلیل قاطع بن کر سب کو خاموش کردے۔ مريم
26 مريم
27 (١٤) جب مریم علیہا السلام نفاس سے فارغ ہوگئیں اور اللہ کے انعامات و اکرامات کو دیکھ کر ایک گونہ اطمینان حاصل ہوا تو اپنے بچے عیسیٰ علی السلام کو گود میں اٹھائے اپنی قوم کے پاس آئیں، لوگوں نے ان کی گود میں بچہ دیکھ کر غم و حیرت سے ملے جلے جذبہ کا اظہار کیا، کیونکہ مریم بہت ہی بڑے دینی خاندان کی بیٹی تھیں۔ لوگوں نے ان پر نکیر کرتے ہوئے کہا، اے مریم ! تو نے بہت برا کیا ہے کہ ناجائز بچہ اٹھائے چلی آرہی ہو، مزید ڈانٹ پھٹکار کرتے ہوئے کہا، اے ہارون کی بہن ! تیرا باپ تو کوئی بدکار آدمی نہیں تھا اور نہ تیری ماں ہی زانیہ عورت تھی، آیت میں (ہارون) سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی ہارون ہیں، اس لیے کہ مریم ان ہی کی نسل سے تھیں، یا اس لیے کہ لوگ مریم کو ہارون (علیہ السلام) کی طرح عابدہ اور صالحہ سمجھتے تھے اسی لیے ان کا نام لے کر انہیں عار دلایا۔ ایک دوسرا قول یہ ہے کہ اس نام کا ان کا ایک بھائی تھا جو نیکی اور صلاح میں مشہور تھا۔ صحیح حدیث سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔ امام احمد، مسلم، ترمذی اور نسائی وغیرہم نے مغیرہ بن شعبہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے انہیں نجران کے عیسائیوں کے پاس بھیجا، انہوں نے کہا کہ تم لوگ اپنے قرآن میں مریم کے بارے میں (یاخت ہارون) پڑھتے ہو حالانکہ موسیٰ عیسیٰ سے سینکڑوں سال پہلے گزرے ہیں، واپس آکر انہوں نے رسول اللہ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : تم نے ان سے کیوں نہیں کہا کہ لوگ اپنے بچوں کے نام انبیاء و صالحین کے نام پر رکھتے تھے، یعنی ہارون مریم کے بھائی کا نام تھا۔ مريم
28 مريم
29 (١٥) مریم علیہا السلام نے بچہ کی طرف اشارہ کر کے لوگوں سے کہا کہ اسی سے پوچھ لو، تو لوگوں نے کہا کہ ہم لوگ گود کے بچہ سے کیسے بات کریں؟ عیسیٰ (علیہ السلام) ان کی ابت سن کر بول پڑے، اور کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے ازل میں فیصلہ کیا ہے کہ وہ مجھے انجیل دے گا اور مجھے نبی بنائے اور میں جہاں بھی رہوں گا اس نے مجھے صاحب خیر و برکت اور صاحب دعوت بنایا ہے، میں اپنے رب کا پیغام لوگوں تک پہنچاتا رہوں گا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے پہلی بار بات کی تو اپنے آپ کو اللہ کا بندہ بتایا، اور اس کا بیٹا ہونے کا انکار کیا، اور کلام جاری رکھتے ہوئے کہا، اور مجھے وصیت کی ہے کہ تادم حیات نماز پڑھوں اور زکوۃ ادا کروں، اور اپنی ماں کا مطیع و فرمانبرادر رہوں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے اعتراف و اعلان تھا کہ اللہ نے انہیں بغیر باپ کے پیدا کیا ہے، عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی کہا : اور اللہ نے مجھے متکبر اور گناہ گار نہیں بنایا ہے، اور اللہ کی جانب سے امن و سلامتی میرے شامل حال رہی ہے اس دن جب میں پیدا ہوا اور اس دن بھی رہے گی جب میری موت آئے گی اور جب میں دوبارہ زندہ اٹھایا جاؤں گا، کہا جاتا ہے کہ اس کلام صریح کے بعد پھر عیسیٰ (علیہ السلام) نے جب تک بات کرنے کی عمر کو نہ پہنچ گئے کوئی بات نہیں کی۔ مريم
30 مريم
31 مريم
32 مريم
33 مريم
34 (١٦) یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے کہ اب تک جو کچھ عیسیٰ کے بارے میں بیان ہوا اور جو انہوں نے خود اپنی زبان سے اپنے بارے میں کہا، یہی کچھ ان کی حقیقت ہے اور یہی وہ قول حق ہے جس میں لوگ اختلاف کرتے ہیں، عیسیٰ وہ نہیں ہیں جو ان کے بارے میں یہود کہتے ہیں کہ وہ جادوگر تھے اور یوسف نجات کے بیٹے تھے اور نہ وہ ہیں جو ان کے بارے میں نصاری کی ایک جماعت کہتی ہے کہ وہ اللہ تھے اور دوسری جماعت کہتی ہے کہ وہ اللہ کے بیٹے تھے، اور تیسری جماعت کہتی ہے کہ وہ تین معبودوں میں سے ایک تھے، ان میں سے جن لوگوں نے کہا کہ وہ اللہ کے بندے اس کے رسول اس کی روح اور اس کا کلمہ تھے وہ لوگ مسلمان ہوگئے۔ مريم
35 (١٧) اللہ تعالیٰ کے لیے یہ بات کسی طرح بھی درست نہیں کہ وہ اپنے لیے کوئی لڑکا بنائے، وہ جاہلوں اور نادانوں کی اس بات سے بالکل پاک ہے وہ تو جب کسی چیز کا فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہوجا اور وہ چیز ہوجاتی ہے۔ اور جس ذات باری تعالیٰ کی یہ صفت ہے، اس کے لڑکا کیسے ہوسکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران آیات (٥٩، ٦٠) میں فرمایا : (ان مثل عیسیٰ عند اللہ کمثل آدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون۔ الحق من ربک فلا تکن من الممترین) اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ کی مثال ہو بہو آدم کی مثال ہے، جسے مٹی سے بنا کر کہہ دیا کہ ہوجا، پس ہوگیا، آپ کے رب کی طرف سے حق یہی ہے، خبردار شک کرنے والوں میں نہ ہویئے۔ مريم
36 (١٨) یہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے کلام کا تتمہ ہے کہ بیشک اللہ ہی میرا اور تمہارا رب ہے اس لیے اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھی راہ ہے جو اس پر چلے گا رشد و ہدایت پائے گا اور جو اس کی مخالفت کرے گا وہ گمراہ ہوجائے گا۔ مريم
37 (١٩) اہل کتاب نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی حقیقت کے بارے میں سب کچھ واضح ہوجانے کے بعد اختلاف کیا، جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا، کہ یہود نے انہیں جادوگر اور ان کی ماں کو زانیہ کہا، اور نصاری ان کے بارے میں اتنے طبقوں میں بٹ گئے کہ انہیں شمار نہیں کیا جاسکتا، اور ان کافرانہ عقائد کی وجہ سے سبھی اللہ کی نگاہ میں کافر ہوگئے، اسی لیے اللہ نے دھمکی دی اور کہا کہ قیامت کے دن جب وہ اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے تو ہلاکت و بربادی ان کی قسمت بن جائے گی اور جہنم میں دھکیل دیئے جائیں گے۔ بخاری و مسلم نے عبادہ بن صامت سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، اور عیسیٰ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کا کلامہ ہیں جو اس نے مریم پر ڈال دیا تھا اور اس کی جانب سے ایک روح ہیں اور جنت حق ہے اور جہنم حق ہے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کردے گا چاہے اس کا عمل جو بھی ہو۔ مريم
38 (٢٠) قیامت کے دن کافروں کا جو حال ہوگا اسی کی اللہ تعالیٰ خبر دے رہا ہے کہ جب وہ لوگ حساب و جزا کے لیے میدان محشر میں آئیں گے تو ان کی قوت سماعت و بصر حیرت انگیز حد تک تیز ہوگی، جبکہ دنیا میں ان کا حال یہ تھا کہ نہ وہ حق بات سنتے تھے اور نہ ہی حق کی راہ انہیں نظر آتی تھی، اس لیے کہ انہوں نے حق سمجھنے کے لیے کبھی اللہ کی آیات اور نشانیوں میں غوروفکر کی کوشش نہیں کی، اللہ تعالیٰ نے سورۃ السجدہ آیت (١٢) میں فرمایا ہے : (ولو تری اذا المجرمون ناکسو روسھم عند ربھم ربنا ابصرنا وسمعنا) مجرمین اپنے رب کے سامنے سر جھکائے ہوئے کہیں گے، اے ہمارے رب ! ہم نے اچھی طرح دیکھ اور سن لیا، لیکن اس دن کا دیکھنا اور سننا انہیں کوئی کام نہ آئے گا۔ مريم
39 (٢١) نبی کریم کو خطاب کر کے کہا جارہا ہے کہ آپ لوگوں کو اس دن سے ڈرایئے جس دن سب لوگ حسرت کر ہے ہوں گے، گناہ گار اپنے گناہوں کو یاد کر کے اور نیک آدمی یہ سوچ کر کہ اس نے اور زیادہ نیک کام کیوں نہیں کیے تھے، اس دن تمام امور کا فیصلہ ہوجائے گا حساب ہوچکے گا، نامہ ہائے اعمال لپیٹ کر رکھ دیئے جائیں گے، اہل جتن جنت میں اور اہل جہنم جہنم میں بھیج دیئے جائیں گے، لیکن آج حال یہ ہے کہ لوگوں پر شدید غفلت طاری ہے آخرت میں ان کا انجام کیا ہوگا اس کی فکر ہی نہیں بلکہ اکثر و بیشتر لوگ تو آخرت پر ایمان ہی نہیں رکھتے ہیں۔ بخاری و مسلم اور دوسرے محدثین نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جب جنتی جتن میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو موت کو لایا جائے گا جو سفید و سیاہ رنگ کے مینڈھے کے مانند ہوگی، اسے جنت و جہنم کے درمیان کھڑا کردیا جائے گا، پھر کہا جائے گا، اے اہل جنت ! کیا تم لوگ اسے پہچانتے ہو؟ تو وہ لوگ گردن اٹھا کر دیکھیں گے، پھر کہیں گے ہاں یہ موت ہے، اور اسے تمام جنتی دیکھیں گے پھر پکارا جائے گا، اے اہل جہنم کیا تم لوگ اسے پہنچاتے ہو؟ تو وہلوگ گردن اٹھا کر دیکھیں گے پھر کہیں گے ہاں یہ موت اور اسے تمام جہنمی دیکھیں گے، پھر حکم دیا جائے گا تو اسے ذبح کردیا جائے گا، اور کہا جائے گا اے اہل جنت ! ہمیشہ کے لیے یہاں ریو، اب تمہیں موت نہیں آئے گی، اور اے اہل جہنم ! ہمیشہ کے لیے یہاں رہو، اب تمہیں موت نہیں آئے گی، پھر آپ نے یہ آیت (وانذھم یوم الحسرۃ) آخر تک پڑھی اور ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا کہ دنیا والے غفلت میں ہیں۔ مريم
40 (٢٢) اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ زمین پر موجود تمام مخلوقات فنا کے گھاٹ اتار دی جائے گی، کوئی باقی نہیں رہے گا، صرف اللہ تعالیٰ کی ذات رہ جائے گی، وہی زمین اور اپنی تمام مخلوقات کا تنہا وارث ہوگا، اور پھر سب کے سب دوبارہ زندہ ہو کر اسی کے پاس آئیں گے اور اس کے حضور کھڑے ہو کر اپنے اعمال کا حساب چکائیں گے اور اچھا یا برا بدلہ پائیں گے۔ مريم
41 (٢٣) یہاں سے ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے کافر باپ آزر کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے، نبی کریم کو کہا گیا ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو ابراہیم کی اولاد کو کہتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں، ذرا انہیں آپ قرآن کریم میں ان کا وہ واقعہ سنا دیجیے جو انہیں اپنے باپ آزر کے ساتھ پیش آیا تھا جو مکہ کے بت پرستوں کی طرح بت پرست تھا اور ابراہیم بہت بڑے صدق و صفا والے اور اللہ کے نبی تھے، ابراہیم نے اپنے باپ کو بت پرستی سے روکنے کے لیے غایت درجہ حسن ادب کے ساتھ کہا، اے میرے ابا ! آپ ایسے بت کی کیوں پوجا کرتے ہیں جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے اور نہ آپ کو کوئی نفع یا نقصان پہنچانے کی قدرت رکھتا ہے، یعنی عبادت تو بہت بڑی تعظیم ہے، یہ بے جان اصنام تو اس لائق بھی نہیں کہ کوئی صاحب عقل انسان انہیں کوئی حیثیت دے، پھر آپ کیوں ان کی عبادت کرتے ہیں؟ اس آیت میں اور ذیل میں آنے والی تین آیتوں میں یہ بات قابل غور ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کو ہر نصیحت پیش کرنے سے پہلے (اے میرے ابا) کہا ہے، اس سے مقصود غایت درجہ کی نرمی اور محبت کا اظہار کر کے ان کے دل کو اپنی طرف مائل کرنا تھا، اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنا تھا کہ بیٹے کو بہرحال اپنے باپ کا احترام کرنا ہے۔ مريم
42 مريم
43 (٢٤) انہوں نے دوبارہ نہایت نرمی اور ادب کے ساتھ اپنے باپ کو حق کی طرف بلایا، اور کہا، ابا جان ! میرے پاس کچھ ایسا علم ہے جو آپ کے پاس نہیں ہے، اس لیے ناراض نہ ہویے اور میری بات مان لیجیے تاکہ میں آپ کو اس راہ پر لے چلوں جو اعتدال کی راہ ہے نہ اس میں یہ افراط ہے کہ جو عبادت کا مستحق نہیں ہے اس کی عبادت کی جائے اور نہ تفریط ہے کہ جو عبادت کا مستحق ہے اس کی عبادت چھوڑ دی جائے۔ اور یہی حال اخلاق و اعمال کے باب میں بھی ہے، کہ یہ راہ ہر اچھے اخلاق و اعمال کی طرف لے جاتی ہے اور برے اخلاق و اعمال سے دور رکھتی ہے، اور یہ بھی سکھاتی ہے کہ اگرچہ عرف عام میں بیٹا باپ کی پیروی کرتا ہے، لیکن حق یہ ہے کہ حق کی اتباع کی جائے اور جو محتاج ہدایت ہے وہ انسان کامل کی پیروی کرے۔ و باللہ التوفیق مريم
44 (٢٥) تیسری بات بھی انہوں نے اپنے باپ کو نرمی اور ادب کے ساتھ ہی مخاطب کیا لیکن جس بت پرستی میں وہ مبتلا تھا اس کی قباحت کو انہوں نے کھول کر بیان کیا اور اس سے روکنے کی کوشش کی، کہا ابا جان ! آپ شیطان کی عبادت نہ کیجیے، یعنی انسان بت کی پوجا شیطان کے حکم سے ہی کرتا ہے اور شیطان ہی اس کام کو اس کی نظر میں اچھا بنا کر پیش کرتا ہے اس لیے بت کی پوجا درحقیقت شیطان کی پوجا ہوتی ہے، اور اس نہی و انکار میں تاکید پیدا کرنے کے لیے ابراہیم (علیہ السلام) نے مزید کہا کہ شیطان تو اللہ کا سرکش و نافرمان بندہ ہے اس لیے اس کی پیروی تو بہرحال اللہ کی نافرمانی ہے۔ مريم
45 (٢٦) چوتھی بار بھی انہوں نے اپنے باپ کو حسن ادب کے ساتھ پکار کر بت پرستی کے برے انجام سے ڈرایا اور کہا کہ اگر اس نے ان کی بات نہ مانی، تو ڈر ہے کہ اللہ کا کوئی عذاب اس پر نازل ہوجائے، اس لیے کہ جو اللہ کی نافرمانی کرے گا اور اس کے دشمن کو اپنا دوست بنائے گا اسے وہ اپنی رحمت سے دور کردے گا جیسا کہ شیطان کے ساتھ ہوا ہے پھر وہ عذاب و لعنت میں شیطان کا ساتھی اور اس کا شریک ہوجائے گا۔ مريم
46 (٢٧) آزر نے ان پیغمبرانہ نصیحتوں کا کوئی اثر قبول نہیں کیا اور نہایت ہی سختی کے ساتھ توحید کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور دھمکی دیتے ہوئے کہا اے ابراہیم ! کیا تمہیں میرے معبودوں سے نفرت ہے کہ تم ان کی عیب جوئی کر رہے ہو؟ یاد رکھو ! اگر تم انہیں برا کہنے سے باز نہ آئے، اور اپنی نصیحتیں بند نہیں کیں تو میں تمہیں پتھر سے مار مار کر ہلاک کردوں گا۔ ایک دوسرا مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ پھر میں بھی برے اور قبیح الفاظ کے ساتھ تمہیں پوری قوم میں مشہور کردوں گا۔ اور دیکھو بہتر یہ ہے کہ تم مجھ سے دور ہوجاؤ قبل اس کے کہ تمہارے صحیح سالم جسم کو میری جانب سے نقصان پہنچے۔ مريم
47 (٢٨) ابراہیم اپنے کافر باپ کا انتہائی شدید جواب سن کر بھی حد ادب سے نہیں نکلے اور اس کے لیے سلامتی کی دعا کی، گویا یہ کہنا چاہا کہ اگرچہ آپ مجھے سنگسار کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں، لیکن مجھ سے آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی، میں اپنے رب سے آپ کی مغفرت کی دعا کروں گا، وہ مجھ پر بہت ہی کرم فرما ہے، مجھے ناامید نہیں کرے گا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے برائی کا جواب بھلائی سے دیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کا وصف بیان کرتے ہوئے سورۃ الفرقان آیت (٦٣) میں فرمایا ہے : (وذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلاما) جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہو (یعنی میں تم سے جھگڑنا نہیں چاہتا ہوں۔ مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ ابراہیم کا اپنے باپ سے یہ وعدہ کہ وہ اللہ سے اس کے لیے مغفرت طلب کریں گے، اس توقع کی بنیاد پر تھا کہ وہ اسلام لے آئے گا، اور کفر پر نہیں مرے گا۔ چنانچہ ایک طویل مدت تک وہ اس کے لیے طلب مغفرت کرتے رہے، شام کی طرف ہجرت کرجانے، مسجد حرام بنانے، اور اسحاق و اسماعیل کی ولادت کے بعد بھی اس کے لیے دعا کرتے رہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ ابراہیم آیت (٤١) میں فرمایا ہے : (ربنا اغفرلی ولوالدی وللمومنین یوم یقوم الحساب) اے ہمارے رب ! قیامت کے دن مجھے معاف کردینا اور میرے ماں باپ کو اور تمام مومنوں کو بھی۔ لیکن جب انہیں یقین ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے اپنی برات کا اعلان کردیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ آیت (١١٤) میں فرمایا ہے : (وما کان استغفار ابراہیم لابیہ الا عن موعدۃ وعدھا ایاہ فلما تبین لہ انہ عدو للہ تبرا منہ ان ابراہیم لاواہ حلیم) اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت مانگنا صرف اس وعدے کے سبب تھا جو انہوں نے اس سے کر رکھا تھا، پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اس سے اظہار برات کردیا، واقعی ابراہیم بڑے نرم دل اور بردبار تھے۔ مريم
48 (٢٩) ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا : آپ کا یہ گھر بار اور شہر چھوڑ کر کہیں اور جارہا ہوں، اور اللہ کے سوا جن معبودوں کی آپ لوگ عبادت کرتے ہیں میں ان سے اپنی دوری کا اعلان کرتا ہوں اور میں صرف اپنے رب کی عبادت کروں گا مجھے امید ہے کہ میرا رب میری دعا کو ضائع نہیں کرے گا، اور مجھے اہل و عیال عطا کرے گا جو غربت میں میرے انس و سکون کا باعث بنیں گے۔ مريم
49 (٣٠) ابراہیم (علیہ السلام) جب اللہ کی خاطر اپنے خاندان، گھر بار اور شہر کو چھوڑ کر بیت المقدس چلے گئے تو اللہ نے انہیں اسحاق جیسا بیٹا اور یعقوب جیسا پوتا عطا کیا، دونوں ہی ان کی زندگی میں نبی ہوئے، اور جنہیں پاکر ان کی تنہائی دور ہوئی اور آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہوئی، اور سب کو یعنی ابراہیم، اسحاق، اور یعقوب علیہم السلام کو اللہ نے اپنے فضل و کرم اور اپنی رحمت کا وافر حصہ عطا کیا، نبوت دی اولاد صالح دی، روزی دی اور بیت المقدس کی سرزمین کا مالک بنایا، اور اقوام عالم میں ان سب کو نیک نامی دی، چنانچہ تمام اصحاب ملل و ادیان ابراہیم اور اولاد ابراہیم کی تعریف کرتے ہیں، اور ان کی جانب اپنی نسبت کرتے ہیں۔ بخاری و مسلم کی صحیح حدیث ہے نبی کریم سے پوچھا گیا کہ سب سے اچھے لوگ کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا یوسف نبی اللہ بن یعقوب نبی اللہ بن اسحاق نبی اللہ بن ابراہیم خلیل اللہ۔ ایک دوسری روایت میں ہے : کریم بن کریم بن کریم بن کریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم ہیں۔ مريم
50 مريم
51 (٣١) ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد اب موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر خیر ہورہا ہے، جن کا مقام بھی اللہ کی نگاہ میں بہت اونچا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو خطاب کرکے فرمایا کہ آپ قرآن کریم میں مذکور موسیٰ بن عمران سے متعلق آیتوں کی بھی لوگوں کے سامنے تلاوت کیجیے، اس لیے کہ ہم نے انہیں بھی اپنی پیغامبری کے لیے چن لیا تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاعراف آیت (١٤٤) میں فرمایا ہے : ( انی اصطفیتک علی الناس) میں نے آپ کو لوگوں کے مقابلے میں چن لیا ہے، اور اگر مخلص کو لام کی زیر کے ساتھ پڑھا جائے تو مفہوم یہ ہوگا کہ انہوں نے بھی اپنی عادت کو ہمارے لیے خالص کردیا تھا، اور اپنی جبین نیاز صرف ہمارے سامنے جھکائی تھی، اور وہ بھی ہمارے رسول اور نبی تھے، ہم نے ان کے اندر بھی دونوں صفتیں جمع کردی تھیں وہ بھی پانچ بڑے اور اولو العزم رسولوں میں سے تھے جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں : نوح، ابراہیم، موسی، عیسیٰ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔ علماء نے لکھا ہے کہ رسول وہ ہوتا ہے جسے کتاب دی گئی ہے اور نبی وہ ہوتا ہے جس پر وحی نازل ہوتی ہے اور اللہ کی طرف سے اپنی امت کو پیغام پہنچاتا ہے لیکن اسے کوئی الگ اور مستقل کتاب نہیں دی جاتی۔ مريم
52 (٣٢) موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے واپسی میں طور پہاڑ کے پاس سے گزرے، وہاں انہیں آگ کی ضرورت پڑی، دیکھا کہ پہاڑ کی طرف ایک درخت تھا جس کے درمیان سے آواز آئی کہ اے موسیٰ ! میں اللہ ہوں، اللہ نے انہیں قریب کیا اور ان سے سرگوشی کی اور بغیر واسطہ وحی کے اللہ ان کی بات سن رہا تھا، اور وہ اللہ کی بات سن رہے تھے، اللہ، اللہ قربان جایئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی اس خوش بختی اور ان کی اس عظمت پر۔ مريم
53 (٣٣) موسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا احسان یہ کیا کہ ان کی دعا قبول کر کے ان کے بڑے بھائی ہارون کو نبی بنا دیا۔ سورۃ طہ آیات (٢٩، ٣٠) میں ان کی دعا یوں نقل کی گئی ہے : (واجعل لی وزیرا من اھلی۔ ھارون اخی) اور میرا وزیر میرے کنبے میں سے متعین کردے، یعنی میرے بھائی ہارون کو، تو اللہ نے ان کی دعا قبول کرلی اور فمرایا : (قد اوتیت سولک یاموسی) اے موسیٰ تیری مانگ پوری کردی گئی۔ (طہ : ٣٦) مريم
54 (٣٤) نبی کریم سے کہا جارہا ہے کہ جس طرح آپ نے مریم، عیسی، ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام سے متعلق قرآنی آیتوں کی تلاوت کر کے لوگوں کو سنایا ہے، اب اسماعیل بن ابراہیم سے متعلق آیتوں کی بھی تلاوت کیجیے، اس لیے کہ وہ وعدہ کے بہت ہی سچے انسان تھے۔ جب بھی کسی انسان سے کوئی وعدہ کرتے تو بہرحال اسے پورا کرتے، اور سب سے بڑا اور خطرناک وعدہ اپنی جان کی قربانی سے متعلق اپنے باپ ابراہیم سے کیا اور کہا : (ستجدنی انشاء اللہ من الصابرین) آپ مجھے انشاء اللہ صبر کرنے والا پائیں گے۔ (الصافات : ١٠٢) تو اس وعدے کو ایسی نیاز مندی کے ساتھ پورا کیا کہ رہتی دنیا تک کے لیے سپردگی اور فدائیت کا اولین نمونہ بن گئے، اور وہ موسیٰ کے مانند رسول اور نبی تھے اور اپنے اہل و عیال کو نماز و زکوۃ اور دیگر نیک کاموں کا حکم دیتے تھے، تاکہ دوسروں کے لیے اچھی مثال بنیں (اور اس لیے بھی کہ ان کے اہل و عیال دوسروں کی بہ نسبت دینی خیر خواہی کے زیادہ حقدار تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم سے فرمایا ہے : (وانذر عشیرتک الاقربین) آپ اپنے زیادہ قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے۔ (الشعرا : ٢١٤) اور فرمایا : (وامر اھلک بالصلوۃ) آپ اپنے اہل کو نماز کا حکم دیجیے۔ (طہ : ١٣٢) اور فرمایا : (قوا انفسکم واھلیکم نارا) (مومنو) اپنے آپ کو اور اپنے بال بچوں کو آگ سے بچاؤ (التحریم : ٦) اور وہ اپنے رب کی نگاہ میں بڑے پاکباز نیک سیرت اور صالح انسان تھے۔ مريم
55 مريم
56 (٣٥) نبی کریم سے کہا جارہا ہے کہ آپ ادریس سے متعلق قرآنی آیتوں کی بھی تلاوت کر کے لوگوں کو سنایئے، اس لیے کہ وہ بھی اپنے قول و عمل میں بہت ہی سچے آدمی تھے، اور نبی تھے، اور ہم نے انہیں بہت ہی اونچا مقام پر فائز کیا تھا، شرف نبوت سے نوازا تھا اور اپنے مقرب ترین بندوں میں سے بنایا تھا، ایک دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے انہیں زندہ اٹھا کر ایک بلند مقام یعنی چوتھے آسمان پر پہنچا دیا، جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہے کہ وہ چوتھے آسمان پر ہیں، ادریس (علیہ السلام) شیث کے بیٹا اور اور آدم (علیہ السلام) کے پوتا تھے، کہا جاتا ہے کہ آدم کے بعد وہ پہلے رسول تھے۔ مريم
57 مريم
58 (٣٦) زکریا (علیہ السلام) سے لے کر ادریس (علیہ السلام) تک جن انبیائے کرام کا اس سورت میں ذکر آیا ہے انہیں کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سی دنیوی اور دینی نعمتیں دی تھیں یہ انبیائے کرام، آدم، ابراہیم اور یعقوب علیہم السلام کی اولاد سے تھے، ان سب کو اللہ نے راہ حق کی طرف ہدایت دی تھی، اور نبوت جیسے عظیم ترین مقام و مرتبہ کے لیے چن لیا تھا، اور یہ لوگ جب اللہ کا کلام سنتے تھے جس میں توحید کے دلائل اور نصیحت کی دیگر باتیں ہوتی تھیں، تو اللہ کے سامنے سربسجود ہوجاتے تھے اور شدت خشوع و خضوع کی وجہ سے روتے تھے، حافظ ابن کثیر کہتے ہیں علماء کا اجماع ہے کہ ان انبیائے کرام کی اتباع میں اس آیت کی تلاوت کے بعد سجدہ کرنا مشروع و مستحب ہے۔ مريم
59 (٣٧) یہاں تک انبیائے کرام کے فضائل و محاسن کا ذکر ہوا، تاکہ لوگ ان کی اتباع کریں اور ان کی راہ کو اپنائیں۔ اب ان لوگوں کا ذکر ہورہا ہے جو انبیاء کے بعد آئے اور ان کے نقش قدم پر نہیں چلے، ان کی دعوت کو پس پشت ڈال دیا، اور نماز کو ضائع کردیا، یعنی وقت گزر جانے کے بعد پڑھی، یا اس کا کوئی ضروری رکن، یا کوئی شرط چھوڑ دی، اور جس شخص نے نماز پڑھنی بالکل چھوڑ دی، یا اس کا انکار کردیا، وہ تو بدرجہ اولی اس آیت کے حکم میں داخل ہے۔ مفسرین کے درمیان اختلاف ہے کہ اس آیت کریمہ میں نماز ضائع کرنے والوں سے کون لوگ مراد ہیں۔ کسی نے کہا : یہود مراد ہیں اور کسی نے کہا ہے : نصاری مراد ہیں اور مجاہد نے کہا ہے ان سے مراد امت محمدیہ کے وہ لوگ ہیں جو آخری زمانہ میں آئیں گے۔ جانوروں کے مانند سڑکوں پر جمع ہوں گے، نہ انسانوں سے شرمائیں گے اور نہ ہی اللہ سے ڈریں گے، اپنی خواہشات نفس کی اتباع کریں گے، گناہوں میں ڈوب جائیں گے، شراب پئیں گے، جھوٹی گواہی دیں گے، حرام کھائیں گے، لہو و لعب میں مشغول ہوں گے، اور فسق و فجور کا ارتکاب کریں گے، یہی لوگ بدترین جانشین ہوں گے، ان کا انجام بہت ہی برا ہوگا، ایک رائے یہ ہے کہ غی جہنم میں ایک کنواں یا ایک وادی ہے یعنی قیامت کے دن ایسے لوگ جہنم کے اسی کنواں یا وادی میں ڈال دیئے جائیں گے۔ مريم
60 (٣٨) ان برے جانشینوں میں سے جو لوگ تائب ہوجائیں گے نماز کی حفاظت کریں خواہشات کی غلام ترک کردیں گے، اور عمل صالح کی زندگی اختیار کریں گے، اللہ تعالیٰ انہیں ان کے سلف صالحین کے ساتھ جنت میں داخل کرے گا اور ان کے اعمال صالحہ کا معمولی سا اجر بھی ضائع نہیں کرے گا اس لیے کہ توبہ تمام سابقہ گناہوں کو ختم کردیتی ہے اور وہ جن جس میں وہ لوگ داخل ہوں گے اس کا نام جنت عدم ہے، جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں سے کر رکھا ہے جو اس ذات برحق پر بے دیکھے ایمان رکھتے ہیں۔ مزید تاکید کے طور پر اللہ نے فرمایا کہ اللہ کا یہ وعدہ پورا ہو کر رہے گا، اس میں شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اور اس جنت میں رہنے والے جنتی کوئی فضول اور لغو بات نہیں سنیں گے، بلکہ فرشتے انہیں سلام کریں گے، یا آپس میں ایک دوسرے کو سلام کیا کریں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الواقعہ آیات (٢٥، ٢٦) میں فرمایا ہے : (لا یسمعون فیھا لغوا ولا تاثیما۔ الا قیلا سلما سلما) نہ وہاں بکواس سنیں گے اور نہ گناہ کی بات، صرف سلام ہی سلام کی آواز ہوگی، اور ہر کھانے کے وقت ان کا من چاہا کھانا انہیں ملتا رہے گا۔ مريم
61 مريم
62 مريم
63 (٣٩) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ وہ جنت ہوگی جو ہم اپنے ان بندوں کو دیں گے جو اہل تقوی ہوں گے، خوشی اور غم ہر حال میں ہمارے فرمانبرداری ہوں گے، غصہ کو دبائیں گے اور لوگوں کو درگزر کریں گے۔ جیسا کہ اللہ نے سورۃ المومنون کی ابتدائی آیتوں میں مومنوں کی صفات بیان فرماتے ہوئے کہا ہے : (قد افلح المومنون) اور آخر میں فرمایا : (اولئک ھم الوارثون۔ الذین یرثون الفردوس ھم فیھا خالدون) جن مومنین کی مذکورہ بالا آیتوں میں صفات بیان کی گئی ہیں وہی لوگ فردوس کے وارث بنیں گے جہاں وہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے۔ مريم
64 (٤٠) اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ کچھ دنوں کے لیے وحی کا نزول بند ہوگیا، تو رسول اللہ پریشان ہوئے، اس کے بعد جب جبریل (علیہ السلام) آپ کے پاس تشریف لائے، تو آپ نے ان سے کہا کہ آپ کثرت سے کیوں نہیں آتے؟ تو یہ آیت نازل ہوئی، امام احمد، امام بخاری اور دیگر ائمہ حدیث نے ابن عباس سے یہی روایت کی ہے، آیت کا مفہوم جبریل کی زبان یہ ہے کہ اے محمد ہم فرشتے زمین پر یا ایک آسمان سے دوسرے آسمان پر، آپ کے رب کے حکم کے بغیر نہیں اترتے ہیں، اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے، کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے، ایک ذرہ بھی اس کی نظر سے اوجھل نہیں ہے، ہم کوئی کام اس کی اجازت کے بعد ہی کرتے ہیں، اس لیے میرا آپ کے پاس نہ آنا، اس کا حکم نہ ہونے کی وجہ سے تھا، اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ اللہ آپ کو بھول گیا تھا، یا آپ کو چھوڑ دیا تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الضحی میں فرمایا ہے : (ما وعدک ربک وما قلی) نہ تو آپ کے رب نے آپ کو چھوڑا ہے اور نہ وہ آپ سے بیزار ہوگیا ہے۔ مريم
65 (٤١) آپ کا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے، اور ان کے درمیان جتنی مخلوقات ہیں ان سب کا رب ہے، اس ذات باری تعالیٰ کے بارے میں یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ غفلت اور بھول چوک اس پر طاری ہوسکتی ہے، اس لیے اے میرے نبی ! آپ اسی کی عبادت کیجیے اور تادم حیات اس پر ثابت قدم رہیے کیا آپ کے علم میں آپ کے رب کا کوئی شبیہ و مثیل اور کوئی مد مقابل ہے، جس کی طرف آپ التفات کریں، تاکہ وہ آپ کی حاجت پوری کردے؟ جب ایسی بات نہیں ہے تو اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ اسی کے سامنے سر تسلیم خم کیا جائے، اسی کی عبادت کی جائے اور اس راہ پر پیش آنے والی ہر تکلیف پر صبر کیا جائے۔ مريم
66 (٤٢) مذکورہ ذیل آیات میں بعث بعد الموت اور حساب و جزا کے عقیدہ کو ثابت کیا گیا ہے، دوبارہ زندہ کیے جانے اور قیامت کا منکر کہتا ہے کہ کیا میں مرجانے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا؟ تو اللہ نے اس کے اس کافرانہ عقیدے کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : کیا وہ بھول گیا ہے کہ میں نے اسے جب پہلی بار پیدا کیا تو اس کے قبل وہ موجود نہیں تھا، تو کیا میں اسے دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہوں؟ اس کے بعد اللہ نے اپنی ذات کی قسم کھا کر کہا، اے میرے نبی ! ہم ان تمام منکرین قیامت اور شیاطین کو میدان محشر میں جہنم کے گرد جمع کریں گے، درآنحالیکہ وہ مارے دہشت کے ذلیل و خوار گھٹنوں کے بل بیٹھے جہنم کو دیکھ رہے ہوں گے، کھڑے ہونے کی ان کے اندر طاقت ہی نہیں ہوگی، جیسا کہ اللہ نے سورۃ الجاثیہ آیت (٢٨) میں فرمایا ہے : (وتری کل امۃ جاثیہ) اور آپ دیکھیں گے کہ ہر امت گھٹنوں کے بل گری ہوگی، مفسرین نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذلیل ترین مخلوق شیاطین کے ساتھ ان کا حشر، ان کی حقارت ظاہر کرنے کے لیے کرے گا، نیز اس طرف بھی اشارہ مقصود ہوگا کہ ان کا شرک و کفر شیاطین کی اتباع کا نتیجہ تھا، اس لیے تابع و متبوع دونوں کو جہنم میں اکٹھا کردیا جائے گا۔ مريم
67 مريم
68 مريم
69 (٤٣) پھر ان تمام جماعتوں میں سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو الگ کرے گا جو دنیا میں زیادہ سرکش اور متکبر تھے اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتے تھے اور احکام الہی کو درخور اعتناء نہیں سمجھتے تھے، اللہ تعالیٰ کہتے ہیں ہم زیادہ جانتے ہیں کہ وہ جہنم میں جلائے جانے کے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ پہلے انہیں جہنم میں ڈالا جائے گا پھر دوسرے جہنمی ڈالے جائیں گے۔ مريم
70 مريم
71 (٤٤) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک حتمی فیصلہ سنایا ہے کہ مومن ہو یا کافر، ہر ایک کو بہرحال جہنم سے واسطہ پڑے گا، پھر اللہ اپنے فضل و کرم سے اہل تقوی کو اس سے نجات دے گا اور جن لوگوں نے دنیا میں کفر و استکبار کی زندگی گزاری ہوگی اور بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کیا ہوگا، جہنم میں شدید عذاب جھیلنے کے لیے چھوڑ دیئے جائیں گے۔ علمائے تفسیر کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیت میں ورود سے کیا مراد ہے، ایک رائے یہ ہے کہ نیک اور بد سبھی جہنم میں داخل ہوں گے، لیکن نیکوں کے لیے آگ ٹھنڈی بنا دی جائے گی اور پھر اس سے نکال دیئے جائیں گے، اور جو لوگ جہنم کے عذاب کے مستحق ہوں گے، اسی میں چھوڑ دیئے جائیں گے اور آگ نہ پہلے ان کے لیے ٹھنڈی ہوگی اور نہ اہل تقوی کے اس میں سے نکل جانے کے بعد اس رائے کے قائلین نے ورود کا معنی دخول کیا ہے اور جابر بن عبداللہ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں نبی کریم نے فرمایا ہے کہ ہر نیک و بد جہنم میں داخل ہوگا، لیکن مومن کے لیے آگ ٹھنڈی ہوجائے گی اور سلامتی بن جائے گی۔ دوسری رائے یہ ہے کہ ورود سے مراد مرور یعنی گزرنا ہے، یعنی مومن و کافر، نیک و بد سبھی اس پل پر گزریں گے جو جہنم پر رکھا جائے گا، نیک لوگ اپنے اپنے اعمال کے مطابق تیز یا آہستہ گزر جائیں گے اور جو جہنم کے عذاب کے حقدار ہوں گے اس میں اللہ کے حکم سے گرجائیں گے۔ قرآنی آیات اور صحیح احادیث کی روشنی میں یہی رائے راجح معلوم ہوتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانباء آیت (١٠١) میں فرمایا ہے : (ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولئک عنھا مبعدون) بیشک جن کے لیے ہماری طرف سے پہلے ہی بھلائی ٹھہر چکی ہے وہ سب جہنم سے دور ہی رکھے جائیں گے۔ اور امام احمد، ترمذی، حاکم اور بیہقی وغیرہم نے اس آیت کی تفسیر میں ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : سبھی لوگ جہنم پر وارد ہوں گے، پھر اپنے اپنے اعمال کے مطابق اس کے اوپر سے گزر جائیں گے۔ الحدیث۔ اور یہ حدیث جابر بن عبداللہ والی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اور مسلم نے ام مبشر سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو بدر اور حدیبیہ میں شریک ہوئے ان میں سے کوئی جہنم میں داخل نہیں ہوگا، تو حفصہ نے کہا، یا کیا اللہ نے نہیں کہا ہے : (وان منکم الا واردھا) تم میں سے ہر ایک اس پر وارد ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا : کیا اس کا یہ قول نہیں سنا ( ثم ننجی الذین اتقوا) پھر ہم اہل تقوی کو نجات دے دیں گے۔ واللہ اعلم بالصواب مريم
72 مريم
73 (٤٥) کفار قریش کا حال بیان کیا جارہا ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن کریم کی ان آیات کی تلاوت کی جاتی ہے جو توحید و رسالت، بعث بعد الموت اور حساب و جزا کو کھول کر بیان کرتی ہیں اور مومنوں کے لیے جنت کے وعدے اور کافروں کے لیے جہنم کی وعید کا ذکر کرتی ہیں تو وہ لوگ اپنا اندرونی درد و الم چھپانے کے لیے کہتے ہیں کہ ہم دنیاوی اعتبار سے محمد کے پیروکاروں سے اچھی حالت میں ہیں، ہمارے مکانات اچھے ہیں، ہماری مجلسیں آباد ہیں، لوگوں کی بھیڑ لگی ہے، کوئی آرہا ہے، کوئی جارہا ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم تو گمراہ ہوں اور جو لوگ دار ارقم میں چھپے ہوئے ہیں وہ ہدایت یافتہ ہوں؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان کا جواب دیا کہ جس دنیاوی مال و متاع کی وجہ سے وہ لوگ غرور میں مبتلا ہیں وہ باقی نہیں رہے گا، ان سے پہلے بھی بہت سی قومیں گزری ہیں جو مال و متاع اور ظاہری حسن و جمال میں ان سے بڑھ کر تھیں۔ لیکن ان کے کفر وجہ سے ہم نے انہیں ہلاک کردیا۔ مريم
74 مريم
75 (٤٦) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو حکم دیا ہے کہ وہ دنیاوی مال و متاع اور جاہ و حشم پر فخر کرنے والے کافروں کو یہ جواب دیں کہ جو لوگ کفر و شرک اور کبر و عباد کو اپنا شیوہ بنا لیتے ہیں، اللہ کا ایسے لوگوں کے بارے میں یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ ان کی رسی ڈھیل دیتا ہے اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہے یہاں تک کہ مہلت ختم ہوجاتی ہے اور ان کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہتا، تو اللہ انہیں پکڑ لیتا ہے، یا تو مومنوں کے ہاتھوں قید و بند سے گزرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں یاس اسی حال میں انہیں موت آجتی ہے تو قیامت کے دن ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا، اور تب دونوں ہی حالتوں میں انہیں معلوم ہوجائے گا کہ وہی لوگ بدترین ٹھکانا والے اور نہایت ذلیل و خوار لوگ تھے۔ مريم
76 (٤٧) اور جو لوگ ہدایت کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں جب ان کے سامنے قرآن کریم کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور ہدایت کی راہ پر زیادہ تیز گام ہوجاتے ہیں، اس کے بعد نبی کریم اور مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ کافروں کو دنیاوی مال و متاع تو بالکل عارضی شے ہے، حقیقی متاع تو نیک اعمال ہیں جن کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ جنت دے گا۔ مريم
77 (٤٨) بخاری و مسلم نے اس آیت کے شان نزول میں خباب بن الارت سے روایت کی ہے کہ میں لوہار کا کام کرتا تھا، اور العاص بن وائل کے ذمہ میرا قرض تھا، میں نے مطالبہ کیا تو اس نے کہا، اللہ کی قسم ! جب تک تم محمد کی نبوت کا انکار نہیں کرو گے، تمہارے پیسے نہیں دوں گا۔ تو میں نے کہا اللہ کی قسم ! میں اس دن تک محمد کی نبوت کا انکار نہیں کروں گا جب تم دوبارہ اٹھائے جاؤ گے، تو اس نے کہا، میں جب مر کر دوبارہ اٹھایا جاؤں گا اور میرے پاس مال اور اولاد ہوگی تو آنا، تمہارے پیسے ادا کردوں گا، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ کیا اسے غیب کی خبر ہے کہ قیامت کے دن اس کے پاس مال اور اولاد ہوگی، یا اس نے اللہ سے کوئی عہد و پیمان لے رکھا ہے؟ ہرگز نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے، ہم اس کی زبان درازی اور کذب بیان کو لکھ رہے ہیں اور قیامت کے دن اس کے سبب اس کے عذاب میں اضافہ کردیں گے، اور موت کے ذریعہ اس سے تمام دنیاوی مال و متاع اور اولاد چھین لیں گے، اور وہ میدان محشر میں تنہا اور خالی ہاتھ آئے گا، کچھ بھی اس کے پاس نہیں ہوگا۔ مريم
78 مريم
79 مريم
80 مريم
81 (٤٩) مشرکین نے اللہ کے سوا اپنے لیے دوسرے معبود بنا لیے تاکہ وہ اللہ کے نزدیک سفارشی بن کر ان کی عزت کا سبب بنیں، لیکن قیامت کے دن معاملہ ان کے خیال و گمان کے برعکس ہوگا، وہ جھوٹے معبود ان کی عبادت کا انکار کرردیں گے اور ان کے دشمن بن جائیں گے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحقاف آیت (٦) میں فرمایا ہے : (واذا حشر الناس کانوا لھم اعداء و کانوا بعبادتھم کافرین) جب لوگ میدان محشر میں جمع ہوں گے تو ان کے شرکا ان کے دشمن بن جائیں گے اور ان کی عبادت کا انکار کردیں گے۔ مريم
82 مريم
83 (٥٠) نبی کریم کو خطاب کر کے کہا جارہا ہے کہ کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں یہ بات تو بہت ہی واضح ہے کہ ہم نے جنوں اور انسانوں کے شیاطین کو کافروں پر مسلط کردیا ہے جو انہیں شہوتوں کی غلامی اور جرائم و معاصی کے ارتکاب پر شدت کے ساتھ ابھارتے ہیں، اسی لیے تو وہ لوگ شر و فساد کی طرف بہت تیزی کے ساتھ بڑھتے ہیں، لیکن آپ اس بات کی جلدی نہ کریں کہ انہیں جلد ہلاک کردیا جائے تاکہ زمین ان سے پاک ہوجائے، ہم ان کے اعمال کیا، ان کی سانسوں تک کی گنتی کر رہے ہیں اور جب ان کا مقرر وقت آجائے گا تو ان کے اعمال کا بدلہ انہیں چکا دیں گے۔ مريم
84 مريم
85 (٥١) قیامت کے دن اہل تقوی اللہ تعالیٰ کے سامنے وفد کی شکل میں پہنچیں گے۔ عربی زبان میں وفد کا معنی شاہوں اور عظمائے قوم کے سامنے انعامات و مکافات حاصل کرنے کے لیے آنا ہوتا ہے۔ گویا آیت کریمہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ جل جلالہ کے دربار میں اس کے اہل تقوی بندے معزز و مکرم پہنچیں گے، اس کی جانب سے انعامات و مکافات پائیں گے، اور حسین و جمیل اونٹوں پر سوار ہو کر جنت کے دروازے پر پہنچ جائیں گے، اور جو مجرمین ہوں گے وہ نہایت اہانت آمیز پیاسے جانوروں کے مانند جہنم کی طرف ہانک دیئے جائیں گے۔ مريم
86 مريم
87 (٥٢) حافظ ابن کثیر نے اس آیت کا تعلق گزشتہ آیت سے بتایا ہے اور مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ مومنین ایک دوسرے کی شفاعت کریں گے لیکن جن مجرموں کی طرف ہانک کرلے جایا جائے گا ان کا کوئی سفارشی نہیں ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشعراء آیات (١٠٠، ١٠١) میں فرمایا ہے : (فما لنا من شافعین۔ ولا صدیق حمیم) اب تو ہمارا کوئی سفارشی بھی نہیں اور نہ کوئی سچا غم خوار دوست۔ اور آیت کے دوسرے حصہ (الا من اتخذ عند الرحمن عھدا) کے بارے میں لکھا ہے کہ اس میں استثناء منقطع ہے، اس لیے اس سے مراد وہ مومنین ہیں جو لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتے ہیں اور اس کے مطابق دنیاوی زندگی میں عمل کرتے ہیں، یہی لوگ دوسرے مومنوں کی شفاعت کریں گے اور ان کے لیے دوسرے مومنین کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ مريم
88 (٥٣) اس آیت کریمہ میں یہود و نصاری اور بعض قبائل عرب کی تردید کی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد ثابت کرتے تھے، یہود عزیر (علیہ السلام) کو اور نصاری عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کا بیٹا، اور عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ تم لوگوں نے ایک بدترین گناہ کا ارتکاب کیا ہے کہ اللہ کے لیے اولاد ثابت کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت کرنا ایسی بری بات ہے کہ مقام ربانی کے لیے شدت غیرت کے سبب، قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں، زمین میں شگاف پڑجائے، اور پہاڑ پاش پاش ہوجائیں، اس لیے کہ یہ بات کسی طرح مناسب ہی نہیں کہ اللہ کی کوئی اولاد ہو، وہ تو تمام مخلوقات کا خالق و موجد ہے اولاد تو مخلوق کی ہوتی ہے اور جب قیامت ہوگی تو آسمان و زمین میں پائے جانے والے تمام انس و جن اور فرشتے اپنی عبودیت کا اظہار کرتے ہوئے نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ اس کے حضور کھڑے ہوں گے، اس کے لیے اولاد کا ہونا خلاف عقل ہے، وہ تو اپنی تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے، اولاد تو مخلوق کی ہوتی ہے جو اپنے لیے دنیاوی زندگی میں یارو مددگار کا محتاج ہوتا ہے۔ مريم
89 مريم
90 مريم
91 مريم
92 مريم
93 مريم
94 (٥٤) اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین میں پائی جانے والی تمام مخلوقات کا کلی طور پر احاطہ کر رکھا ہے اور ایک ایک کو گن رکھا ہے اگر ان میں کوئی معبود ہوتا یا اللہ کا بیٹا ہوتا تو اسے یقینا اس کی خبر ہوتی، اور قیامت کے دن ان مخلوقات کا ایک ایک فرد اللہ کے حضور تنہا آئے گا، ان کا نہ کوئی یارومددگار ہوگا اور نہ ہی کوئی سفارشی۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت (٩٥) میں ان کفار کی تردید کی گئی ہے جو اپنے استکبار کی وجہ سے کہتے تھے کہ اگر بالفرض قیامت آئے گی تو اس دن بھی ہمارے پاس غریب و بدحال مسلمانوں سے زیادہ مال و اولاد ہوگی۔ مريم
95 مريم
96 (٥٥) قرآن کریم کے مالوف طریقے کے مطابق، کفار و مشرکین کے بعد اب اللہ کے نیک بندوں کا ذکر ہورہا ہے کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں اور عمل صالح کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی محبت اپنے نیک بندوں کے دلوں میں جاگزیں کردیتا ہے۔ بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل سے کہتا ہے کہ میں فلاں سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو تو جبیل اس سے محبت کرتے ہیں، پھر آسمان میں اعلان کردیتے ہیں کہ اللہ فلاں سے محبت کرتا ہے، تم سب بھی اس سے محبت کرو، تو اہل آسمان اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر اہل زمین کے دلوں میں اس کی محبت ڈال دی جاتی ہے۔ الحدیث صاحب محاسن التنزیل نے مفسر ابو مسلم کے حوالے سے آیت (٩٦) کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ نیک بندوں سے اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کا تعلق قیامت کے دن سے ہے، یعنی جنت میں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو ان کی محبوب چیزیں دے گا۔ اور اس کی توجیہ یہ بیان کی ہے کہ دنیا میں تو مرد صالح کفار اور بہت سے مسلمانوں کی نگاہ میں مبغوض ہوتا ہے، نیز دنیاوی محبت ان کے نیک اعمال کا نیتجہ ہوتا ہے، اور آیت کریمہ میں تو عطائے ربانی کا وعدہ ہے جو اخروی منافع و فوائد کے ذریعہ پورا ہوگا۔ مريم
97 (٥٦) صاحب کشاف نے لکھا ہے کہ سورت کے آخرت میں اللہ تعالیٰ نے گویا یوں کہا ہے کہ اے میرے نبی آپ اس قرآن کو لوگوں تک پہنچا دیجیے، یا انہیں قرآن کی آیتیں سنا کر جنت کی خوشخبری اور جہنم سے ڈرا دیجیے، اس لیے کہ ہم نے اسے آپ کی زبان میں اتار کر اس کی قرات اور اس کی تفہیم و توضیح آسان بنا دی ہے، تاکہ اللہ کے عقاب سے ڈرنے والوں کو آپ جنت کی خوشخبری دیں اور کفار قریش کو جو بدترین جھگڑالو ہیں عذاب نار کا خوف دلائیں۔ مريم
98 (٥٧) اس آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو مخاطب کر کے کفار قریش کو نصیحت کی ہے کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کردیا جنہوں نے ہمارے رسولوں کی تکذیب کی اور ہماری دعوت کے خلاف سازشیں کیں، اب ان کا وجود باقی نہیں ہے، ان کے نام و نشان ایسے مٹ گئے کہ وہ بھولی بسری یاد بن گئی ہیں تو آپ کی قوم ان لوگوں کے انجام سے عبرت کیوں نہیں حاصل کرتی اور اللہ کے حضور شرک و معاصی سے تائب ہو کر مسلمان کیوں نہیں ہوجاتی؟ مريم
0 سورۃ طہ مکی ہے اس میں ایک سو پینتیس آیتیں اور آٹھ رکوع ہیں۔ نام : سورۃ کی ابتدا کلمہ طہ سے ہوئی ہے، یہی اس کا نام ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی کہتے ہیں کہ تمام مفسرین کے نزدیک اس کا زمانہ نزول مکی دور ہے، سیوطی نے الاتقان میں صرف ایک آیت (فاصبر علی ما یقولون) کو مستثنی قرار دیا ہے۔ سنن دار قطنی میں انس بن مالک سے عمر بن خطاب کے اسلام لانے کا واقعہ مروی ہے، اس میں مذکور ہے کہ جب وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے اسلام لانے کی خبر سن کر ان کے گھر پہنچے تو ان کی خوب زدو کو ب کی، اور اپنی بہن کے سر سے خون نکلتا دیکھ کر اور ان کی جرات ایمانی سے متاثر ہو کر (کہ تمہیں جو کرنا ہو کرلو، ہم اسلام کو اب نہیں چھوڑیں گے) کہا کہ ذرا مجھے بھی وہ کلام دکھاؤ جو تم لوگ پڑھ رہے تھے، اس روایت میں آتا ہے کہ وہ لوگ سورۃ طہ کی تلاوت کر رہے تھے اور اسے ہی سن کر عمر اسلام لانے کے لیے تیار ہوگئے تھے، اور خباب بن الارت (جو ان کی بہن اور بہنوئی کو قرآن پڑھا رہے تھے) کہ ساتھ رسول اللہ کے پاس جاکر اپنے اسلام کا اعلان کردیا تھا۔ اس واقعہ سے یہ بات بصراحت ثابت ہوتی ہے کہ یہ سورت عمر کے مسلمان ہونے سے پہلے نازل ہوچکی تھی، اس زمانے میں کفار قریش مسلمانوں پر مصیبتوں کے پہاڑ ڈھار ہے تھے، کچھ مسلمان ان کے ظلم و ستم سے تنگ آکر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے اور جو لوگ مکہ میں نبی کریم کے ساتھ رہ گئے تھے ان کی زندگی اجیرن ہوگئی تھی۔ انہی حالات کے پیش نظر ابتدئے سورت میں نبی کریم کو تسلی دی گئی ہے کہ یہ قرآن آپ پر اس لیے نازل نہیں ہوا کہ آپ اور آپ کے اصحاب شقاوت و بدبختی میں مبتلا ہوں۔ آپ صبر و شکیبائی سے کام لیجیے، بالاخر غلبہ اور عزت آپ ہی لوگوں کو حاصل ہوگی۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کر کے آپ کی مزید ہمت بڑھائی گئی ہے کہ وہ بھی آپ ہی کی طرح پہلے تن تنہا دعوت توحید لے کر فرعون اور اسکے پیروکاروں کے سامنے گئے تھے، ان کے پاس کوئی مادی وسیلہ نہیں تھا، کوئی طاقت نہیں تھی ان کے بھائی کے سوا کوئی نہیں تھا جو ان کی مدد کرتا، لیکن بالاخر غلبہ انہی کو نصیب ہوا اور اللہ نے فرعون کو اس کی فوج کے ساتھ بحر قلزم (بحر احمر) کی موجود کے حوالے کردیا۔ اس کے علاوہ اس سورت میں دیگر موضوعات بھی قرآن کے معروف دعوتی طریقہ کے مطابق بیان کیے گئے ہیں جن کا ذکر اور ان کے مناسبتوں کا بیان انشاء اللہ آگے آئے گا۔ وباللہ التوفیق طه
1 (١) لفظ طہ کے بارے میں شوکانی اور صاحب فتح البیان نے اہل علم کے نو اقوال نقل کیے ہیں ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ ایک دوسرا قول یہ ہے کہ یہ نبی کریم کا ایک نام ہے، اور مفسر واحدی نے اکثر مفسرین کا یہ قول نقل کیا ہے کہ یہ یا رجل یعنی اے شخص کے معنی میں ہے، اور اس سے مراد نبی کریم کی ذات گرامی ہے۔ ابن عباس، حسن بصری، عکرمہ، سعید بن جبیر، ضحاک، قتادہ اور مجاہد وغیرہم کا یہی قول ہے۔ ابن کثیر نے ضحاک سے اور صاحب فتح البیان نے ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ جب قرآن نازل ہوا تو آپ اور صحابہ کرام نے اس کے اوامر و نواہی پر عمل کرنا شروع کردیا، یہ دیکھ کر نضر بن حارث اور دیگر کفار مکہ کہنے لگے کہ یہ قرآن تو ان مسلمانوں کے لیے مصیبت بن گیا۔ آیات (٢، ٣) میں نبی کریم کو مخاطب کر کے انہی کافروں کی تردید کی گئی ہے، کہ یہ قرآن آپ اور آپ کے صحابہ کے لیے شقاوت و بدبختی کا سبب نہیں ہے، بلکہ یہ تو اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے اپنی آیتوں میں موعظت و نصیحت لیے ہوئے ہے، تاکہ وہ اس سے استفادہ کرتے ہوئے خلوص نیت کے ساتھ اللہ کی بندگی کریں، اور اس راہ میں کفار و مشرکین کی جانب سے جو بھی تکلیف پہنچے اسے خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کریں۔ آیت (٤) میں قرآن کریم کی عظمت شان کو بیان کیا گیا ہے کہ اے میرے نبی ! یہ قرآن آپ پر آپ کے رب کی جانب سے نازل ہوا ہے جس نے زمین اور اونچے آسمان پیدا کیے ہیں، مخلوقات میں سے زمین و آسمان کا بطور خاص اس لیے ذکر آیا کہ بندے اللہ کی ان عظیم مخلوقات کا ہر وقت مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ طه
2 طه
3 طه
4 طه
5 (٢) خالق ارض و سما دنیا و آخرت میں رحم کرنے والا، وہ اللہ ہے جو عرش پر مستوی ہے، اللہ کی صفت (استوا کے بارے میں سورۃ الاعراف آیت (٥٤) اور سورۃ یونس آیت (٣) میں لکھا جاچکا ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ قرآن و سنت میں اللہ تعالیٰ کی جو صفات ثابت ہیں ان کے سلسلے میں سلف کا مسلک یہی رہا ہے کہ انہیں اسی طرح بغیر تاویل و تحریف، تشبیہ و تمثیل اور بغیر کوئی کیفیت بیان کیے ہوئے مان لیا جائے۔ طه
6 (٣) آسمان اور زمین میں اور ان کے درمیان اور ساتوں زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ کی ملکیت ہیں، سب اللہ کے زیر سلطنت ہیں ان میں سے کوئی بھی چیز اللہ کی مرضی کے بغیر نہ حرکت کرتی ہے نہ سکون پذیر ہوتی ہے، نہ بدلتی ہے اور نہ قرار پاتی ہے۔ طه
7 (٤) یعنی اگر آپ بآواز بلند اللہ کو یاد کرتے ہیں اور دعا و مناجات کرتے ہیں، تو جان لیجیے کہ اللہ اس سے بے نیاز ہے، کیونکہ وہ تو چھپے ہوئے رازوں کو جانتا ہے، بلکہ رازہائے سربستہ سے بھی زیادہ مخفی باتوں کو جانتا ہے جنہیں ابن آدم نہیں جانتا ہے جن کا علم صرف علام الغیوب کو ہوتا ہے۔ شوکانی کہتے ہیں کہ اس میں اونچی آواز سے ذکر الہی کی ممانعت پائی جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاعراف آیت (٢٠٥) میں فرمایا ہے : (واذکر ربک فی نفسک تضرعا و خیفۃ) آپ اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی اور خوف کے ساتھ یاد کیجیے، اور صاحب فتح البیان لکھتے ہیں کہ اس آیت میں گویا اس پر تنبیہ کی گئی ہے کہ بلند آواز سے ذکر اکہی اور دعا اللہ تعالیٰ کو سنانے کے لیے نہیں ہونی چاہیے، بلکہ مقصود ذکر الہی کو دل میں راسخ کرنا، وسوسوں کو دور کر کے ذہن میں یکسوئی پیدا کرنا ہو، اور غایت درجہ کا اظہار عجز و تواضع ہو۔ آیت (٨) میں فرمایا گیا کہ مذکورہ بالا طریقہ عبادت کا مستحق وہ اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تمام پاکیزہ ناموں کا صرف وہی سزاوار ہے، جن کی تعداد کے بارے میں امام نووی نے علما کا اتفاق کیا ہے کہ اللہ کے ایک ہزار نام ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۃ الاعراف آیت (١٨٠) کی تفسیر۔ طه
8 طه
9 (٥) اوپر توحیدباری تعالیٰ کا ذکر ہوا ہے، اب یہ بیان کیا جارہا ہے کہ تمام انبیائے کرام کی دعوت کا مقصود یہی توحید باری تعالیٰ تھی۔ چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) جو ایک بڑے نبی اور رسول تھے ان سے جب اللہ تعالیٰ کوہ طور پر ہمکلام ہوئے تو انہیں ان کے رسول ہونے کی خبر دینے کے بعد جو پہلی بات کہی وہ یہی تھی کہ اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ہے۔ اس آیت کریمہ سے موسیٰ (علیہ السلام) پر نزول وحی کی ابتدا اور اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کے ذریعہ نبی کریم کو تسلی دی گئی ہے کہ پیغام سانی کی راہ میں آپ کو جو مشقیں اٹھانی پڑ رہی ہیں، یہ کچھ آپ ہی کے ساتھ نہیں ہے، ایسا تو تمام انبیائے کرام کے ساتھ ہوا ہے، موسیٰ (علیہ السلام) مدین میں دس سال گزار کر اپنی بیوی کے ساتھ مصر کی طرف روانہ ہوئے، تو مصلحت الہی کے مطابق کوہ طور کے قریب راستہ کھو بیٹھے، موسم سرما کی سرد اور اندھیری رات تھی، انہیں روشنی اور آگ دونوں کی ضرورت تھی، کوہ طور کی طرف سے انہیں آگ کی روشنی نظر آئی تو اپنی بیوی سے بطور خوشخبری کہا کہ تم یہیں رکی رہو میں تمہارے لیے آگ لے کر آتا ہوں، شاید وہاں کوئی آدمی مل جائے جو ہماری رہنمائی کرے، موسیٰ (علیہ السلام) جب آگ کے قریب پہنچے تو وہاں معاملہ ہی دوسرا تھا۔ وہاں وادی کے داہنے جانب ایک درخت تھا جو بقعہ نور بنا ہوا تھا، وہاں سے آواز آئی، اے موسیٰ ! میں آپ کا رب ہوں اور آپ سے مخاطب ہوں اور آپ اس وقت مقدس وادی طوی میں کھڑے ہیں، اپنے رب کے لیے تعظیم و تواضع اور ادب کا اظہار کرتے ہوئے جوتا اتار دیجیے، یا مفہوم یہ ہے کہ اپنے جوتے اتار دیجیے تاکہ وادی مقدس کی برکات قدموں کے راستے آپ کے جسم میں سرایت کرجائیں۔ اور میں نے آپ کو اس زمانے کے تمام لوگوں کے درمیان سے چن لیا ہے اور اپنی پیغامبری کے لیے اختیار کرلیا ہے، اس لیے اب آپ پر جو وحی نازل ہونے جارہی ہے اسے غور سے سنیے، اور اس کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار ہوجایے، میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، اس لیے صرف میری عبادت کیجیے اور مجھے یاد کرنے کے لیے نماز قائم کیجیے۔ مفسرین لکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جو نماز نہیں پڑھتا وہ اللہ کو یاد کرنے والا نہیں کہلاتا، بلکہ اس کا منکر ہوتا ہے۔ طه
10 طه
11 طه
12 طه
13 طه
14 طه
15 (٦) قیامت کا وقوع پذیر ہونا امر یقینی ہے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کا وقت محدد تمام انس و جن سے اتنا پوشیدہ رکھا ہے کہ قریب تھا اس کا ذکر ہی نہیں کرتا، اسے صیغہ راز میں رکھتا، یہاں تک کہ اچانک واقع ہوجاتی لیکن اپنے مومن بندوں پر رحم کرتے ہوئے انہیں عمل صالح کی ترغیب دلانے کے لیے اور تاکہ غیر مومنوں کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے، اس کا اجمالی طور پر ذکر کردیا، اس دن باری تعالیٰ تمام انسانوں کو ان کے نیک و بد اعمال کا بدلہ چکائے گا جو انہوں نے دنیا میں اپنے اختیار اور مرضی سے کیا ہوگا۔ اس لیے (جیسا کہ آیت ١٤ میں گزر چکا ہے) اس دن کی گرفت سے بچنے کے لیے اللہ کی عبادت کرنا اور نماز قائم کرنا واجب ہوا۔ طه
16 (٧) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نصیحت کی، کہیں ایسا نہ ہو کہ منکرین آخرت اور خواہشات کی اتباع کرنے والے آپ کو آخرت پر ایمان لانے سے روک دیں، یعنی آپ ایسے لوگوں کی پیروی نہ کیجیے جو آخرت کا انکار کرتے ہیں، اور جن کی ندگی کا مقصد حصول لذت دنیا ہے وہ حصول رضائے مولی سے بالکل غافل ہیں۔ طه
17 (٨) موسیٰ (علیہ السلام) کو جو معجزات دیئے جانے والے تھے ان ہی متعلق کلام کی ابتدا ہو رہی ہے اور سوال سے مقصود یہ ثابت کرنا تھا کہ ان کے ہاتھ میں خشک لکڑی کی ایک لاٹھی ہے، جسے اللہ تعالیٰ بطور معجزہ ایک زندہ اور متحرک سانپ بنا دے گا، اور اس معجزے کا اظہار انہیں فرعون اور فرعونیوں کے سامنے کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا کہ آپ کے دائیں ہاتھ میں وہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے جس پر میں ٹیک لگاتا ہوں اور اس کے ذریعہ میں اپنی بکریوں کے کھانے کے لیے درختوں سے پتے گراتا ہوں اور میں اسے دیگر کاموں کے لیے استعمال کرتا ہوں، مثال کے طور پر میں اس پر اپنا زاد سفر اور پانی لٹکا کر اپنے کندھے پر ڈھوتا ہوں۔ طه
18 طه
19 (٩) اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اے موسیٰ آپ اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دیجیے انہوں نے اسے زمین پر ڈل دیا، تو اللہ نے اس کے اوصاف بدل کر اسے ایک لمبے چوڑے مہیب سانپ کی شکل دے دی جو تیزی کے ساتھ ڈراونی حرکتیں کرنے لگا اور پتھروں کو نگلنے لگا، موسیٰ نے جب اپنی لاٹھی کا یہ حال دیکھا تو ڈر کر بھاگنے لگے، اللہ نے ان سے کہا کہ آپ اسے پکڑ لیجیے اور ڈریے نہیں، ہم اسے پہلے کی طرح لاٹھی بنا دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا تو وہ لاٹھی بن گئی جو ان کے ہاتھ میں پہلے سے تھی۔ طه
20 طه
21 طه
22 (١٠) موسیٰ (علیہ السلام) کو دیئے گئے دوسرے معجزے کا ذکر ہے۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں جناح سے مراد گریبان ہے، جیسا کہ اس کی صراحت دوسری آیتوں میں آئی ہے، ان کی مراد سورۃ النمل کی آیت (١٢) (وادخل یدک فی جیبک) اور سورۃ القصص کی آیت (٣٢) (اسلک یدک فی جیبک تخرج بیضا من غیر سوء) ہے، ان دونوں آیتوں میں جیب (گریبان) کی صراحت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ آپ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر نکالیے، وہ بغیر برص کی بیماری کے خوبصورت چمکتا ہوا ہوگا۔ یہ آپ کی نبوت کی صداقت پر دلالت کرنے والا دوسرا معجزہ ہوگا۔ اور حق تو یہ تھا کہ یہ دونوں نشانیاں فرعون کے سامنے ظاہر کی جاتیں، لیکن ہم نے آپ کو پہلے ہی اس لیے دکھا دیا ہے تاکہ آپ کا دل مضبوط ہو اور فرعون کا چیلنج قبول کرتے وقت اطمینان رہے کہ آپ کے پاس ہمارے عطا کردہ معجزات ہیں جن کے ظاہر ہوتے ہی اس کا مکر و فریب سب پر عیاں ہوجائے گا، اور آپ غالب ہوں گے۔ طه
23 طه
24 (١١) موسیٰ (علیہ السلام) کو معجزات دیے جانے کا مقصود بیان کیا جارہا ہے کہ اے موسیٰ ! معجزات لے کر ہمارے رسول کی حیثیت سے آپ فرعون کے پاس جایے جو اپنی حد سے تجاوز کر کے معبود ہونے کا دعوی کر بیٹھا ہے، اسے اس کی حیثیت یاد دلایے اور میری عبادت کا حکم دیجیے۔ طه
25 (١٢) جب انہیں فرعون کے سامنے دعوت توحید رکھنے کا حکم ملا تو سوچا کہ ان کے سر ایک عظیم ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ ایک طرف بحیثیت انسان انہیں اپنی کم مائیگی اور بے سروسامانی یاد آرہی تھی تو دوسری طرف فرعون جیسے عظیم شاہ مصر کی قوت و جبروت اور اس کا جاہ وجلال ان کی آنکھوں میں گھوم رہا تھا، اور اس کے کبر و غرور اور کفر و سرکشی کا عالم یہ تھا کہ اس نے اللہ کا انکار کردیا تھا اور خود معبود ہونے کا دعوی کر بیٹھا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی پیغامبری کے لیے چن لیا تھا اور انہیں بہرحال یہ کام کرنا تھا، اسی لیے انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ! میرا سینہ کھول دے اور مجھ پر جو ذمہ داری ڈالی ہے اسے آسان کردے، اس لیے کہ تیری نصرت و اعانت کے بغیر اتنی بڑی ذمہ داری میرے ناتواں کندھے برداشت نہیں کرسکیں گے۔ اور میری زبان کی لکنت کو دور کردے تاکہ میں جب فرعونیوں کے سامنے تیری دعوت پیش کروں تو وہ میری بات سمجھ سکیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ بچپن میں انہوں نے اپنے منہ میں چنگاڑی ڈال لی تھی جس کی وجہ سے ان کی زبان میں لکنت پیدا ہوگئی تھی۔ جب رسالت کی ذمہ داری ان کے سر آئی تو سوچا کہ اس کام کے لیے فصیح اور قادر الکلام آدمی کی ضرورت ہے، اسی لیے انہوں نے اپنے رب سے دعا کی تو وہ لکنت جاتی رہی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کے جواب میں فرمایا ہے : (قد اوتیت سولک یاموسی) اے موسیٰ ! آپ کی مانگ پوری کی گئی۔ اور جو انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ ! میرے بھائی ہارون کو بھی اس ذمہ داری کے اٹھانے میں میرا شریک بنا دے، کیونکہ وہ مجھ سے زیادہ فصیح و بلیغ تقریر کرسکتے ہیں تو یہ امر اس بات سے ہرگز مانع نہیں کہ ان کی لکنت جاتی رہی، لکنت نہ ہونے کے باوجود بھی ایک آدمی دوسروں کے مقابلے میں کم فصیح ہوسکتا ہے۔ طه
26 طه
27 طه
28 طه
29 (١٣) اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی، اے میرے رب ! میرے خاندان والوں میں سے میرے بھائی ہارون کو رسالت کی ذمہ داری اٹھانے میں میرا شریک و مددگار بنا دے، تاکہ ہم تیری خوب تسبیح بیان کریں اور تجھے خوب یاد کریں۔ تو ہمارے تمام حالات سے باخبر ہے اور جانتا ہے کہ میں نے تجھ سے جو مانگا ہے وہ ہمارے لیے مفید ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیات (٣٣، ٣٤) تسبیح و ذکر الہی کی فضیلت کی بہت بڑی دلیل ہیں، اس لیے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو علم تھا کہ اللہ تعالیٰ کو یہ عمل بہت زیادہ پسند ہے، اسی لیے انہوں نے اپنی دعا کی مقبولیت کے لیے اسے وسیلہ بنایا۔ طه
30 طه
31 طه
32 طه
33 طه
34 طه
35 طه
36 (١٤) اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمالی، ان کا شرح صدر فرما دیا، ان کی نصرت و اعانت کا وعدہ کردیا، ان کی لکنت جاتی رہی، اور ان کے بھائی ہارون کو جو ان سے عمر میں بڑے تھے، نبی بنا کر فرعون کے سامنے دعوت پیش کرنے کی ذمہ داری میں ان کا شریک و مددگار بنا دیا۔ آیت (٣٧) میں موسیٰ (علیہ السلام) کے دل کو مزید اطمینان بخشنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تو اس کے قبل بھی آپ کی طلب و دعا کے بغیر آپ کو بہت سی نعمتوں سے نواز چکا ہوں، اب جبکہ آپ مجھ سے مانگ رہے ہیں تو زیادہ حقدار ہیں کہ آپ کی مانگ پوری کروں۔ صاحب فتح البیان نے ان نعمتوں کا بالترتیب ذکر کیا ہے جو اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر مانگے بچپن سے لے کر نبی ہونے کے زمانے تک دیا تھا۔ ١۔ ان کی ماں کو بذریعہ الہام حکم دیا کہ بچے کو صندوق میں رکھ کر سمندر کے حوالے کردیں۔ ٢۔ اللہ نے بچپن میں ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دی تھی، جو بھی انہیں دیکھتا تھا ان سے محبت کرنے لگتا تھا۔ ٣۔ ان کی پرورش اللہ تعالیٰ کی حمایت میں ہوتی رہی۔ ٤۔ انہیں ان کی ماں کے پاس دوبارہ پہنچا دیا۔ ٥۔ بارہ سال کی عمر میں غلطی سے ایک قبطی کو قتل کردیا تھا، تو اللہ نے فرعونیوں سے انہیں بچا لیا اور ان کا گناہ معاف کردیا۔ ٦۔ رسول ہونے سے پہلے جب بھی کسی آزمائش میں پڑے، اللہ نے انہیں اس سے نجات دی۔ ٧۔ ایک قول کے مطابق بیس سال اور ایک دوسرے قول کے مطابق اٹھائیس سال مدین کے مرد صالح شعیب کے پاس رہے اور ان کی لڑکی سے شادی کی۔ ٨۔ اللہ نے انہیں نبی و رسول بنایا تاکہ بنی اسرایل تک اللہ کا پیغام پہنچائیں۔ طه
37 طه
38 (١٥) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کو بذریعہ الہام حکم دیا کہ وہ اپنے بچے کو ایک صندوق میں رکھ کر اپنے خالق و مالک پر بھروسہ کرتے ہوئے سمندر میں ڈال دیں، تاکہ سمندر اللہ کے حکم کے مطابق اس صندوق کو اس جگہ پہنچا دے جہاں فرعون نہایا کرتا تھا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، صندوق تیرتا ہوا اس نہر تک پہنچ گیا جو سمندر سے نکل کر فرعوسن کے محل تک پہنچتا تھا۔ جب اللہ اور اس کے رسول موسیٰ کے دشمن فرعون نے وہ صندوق دیکھا تو اسے نکالنے کا حکم دیا، اس میں بچہ کو پاکر اللہ کی مشیت کے مطابق فرعون بہت خوش ہوا، اللہ نے اس کے اور دوسروں کے دل میں موسیٰ کی محبت پیوست کردی، تاکہ اللہ کے حفظ و امان میں فرعون کے گھر میں ہی ان کی پرورش و پرداخت ہو۔ طه
39 طه
40 (١٦) موسیٰ (علیہ السلام) جب فرعون کے گھر پہنچ گئے تو وہ اور اس کی بیوی ان سے خوب محبت کرنے لگے، لیکن مشیت الہی کے مطابق وہ کسی بھی دودھ پلانے والی دایہ کا دودھ پینے سے منہ بند کرلیتے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ القصص آیت (١٢) میں فرمایا ہے : (وحرمنا علیہ المراضع) ہم نے پر دایاؤں کا دودھ حرام کردیا تھا۔ ان کی بہن مریم بنت عمران نے جو لمحہ بہ لمحہ ان کی خبر لے رہی تھی جب سنا کہ فرعون اور اس کی بیوی آسیہ کسی دایہ کی تلاش میں ہیں، تو کہا کیا میں آپ لوگوں کو ایک دایہ کا پتہ دوں جو اس بچے کو دودھ پلائے گی اور اس کی پرورش و پرداخت کرے گی؟ انہوں نے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ تو کہا کہ وہ میری ماں ہے جن کی گود میں اس وقت میرا ایک سال کا بھائی ہارون ہے۔ چنانچہ جب انہیں بلایا گیا تو موسیٰ فورا ان کا دودھ پینے لگے، اس طرح اللہ نے انہیں ان کی ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ ان کی ماں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور بچے کو سمندر میں ڈال دینے کی وجہ سے انہیں جو غم لاحق ہوا تھا اس کا ازالہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) پر ایک احسان یہ بھی کیا کہ انہوں نے فرعون کے گھر میں بڑے ہو کر ایک قبطی کو غلطی سے قتل کردیا تو سبھی فرعونی ان کے قتل کے درپے ہوگئے، موسیٰ وہاں سے جان بچا کر بھاگ نکلے، اور اللہ نے ان کا یہ گناہ معاف کردیا۔ اور نبی ہونے سے پہلے گونا گوں آزمائشوں سے گزرے اور ہر بار اللہ نے ان کی مدد کی، اور جب فرعونیوں کے ڈر سے بھاگ کر مدین پہنچے تو مرد صالح شعیب نے سارا ماجرا سن کر کہا کہ اب تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں، یہاں آکر ظالموں سے تم نجات پاچکے ہو۔ چنانچہ وہاں بیس یا اٹھائیس سال شعیب کے زیر تربیت رہے، اور پھر حکمت الہی کے تقاضے کے مطابق وہاں سے اپنی بیوی کو لے کر چلے، اور کوہ طور کے پاس پہنچے تو اللہ نے انہیں پیغمبری عطا کی اور ان سے ہم کلام ہوا۔ اللہ کے دین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال۔۔۔ گئے تھے آگ کو پیمبری عطا کردی کوہ طور تک اس وقت ان کا پہنچنا اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے سے مقدر تھا جس کی انہیں کوئی خبر نہیں تھی۔ آیت (٤١) میں اللہ نے موسیٰ سے فرمایا کہ میں نے آپ کو اپنی رسالت کے لیے چن لیا ہے اور مختلف مراحل سے گزار کر اس کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے قابل بنایا ہے، تاکہ میرا پیغام فرعون اور بنی اسرائیل تک پہنچائے، فرعون کو میری عبادت کی دعوت دیجیے اور بنی اسرائیل کو بھی مجھ پر ایمان لانے اور عمل صالح کی دعوت دیجیے تاکہ انہیں دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل ہو۔ طه
41 طه
42 (١٧) آپ اور آپ کے بھائی ہارون جن کے لیے آپ نے دعا کی ہے میرے دونوں معجزات لے کر جن کا ظہور میری قدرت سے آپ کے سامنے ہوچکا ہے، دعوت کے لیے آگے بڑھیے، اور آپ دونوں پر اب تک میں جو احسانات و انعامات کیے ہیں، انہیں یاد رکھیے، اور تبلیغ رسالت میں تندہی سے کام لیجیے۔ آیات (٤٣، ٤٤) میں مذکور بالا اجمال کی تفصیل ہے کہ آپ دونوں میرا پیغام لے کر فرعون کے پاس جایے جس نے سرکشی کی راہ اختیار کرلی ہے اور اپنے آپ کو ایک بندہ عابد و عاجز ثابت کرنے کے بجائے رب اور معبود ہونے کا دعوی کربیٹھا ہے اور دیکھیے آپ دونوں کا اسلوب بیان نرم ہونا چاہیے، اس لیے کہ نرم گفتگو بڑے ظالموں اور سرکشوں کو بھی بسا اوقات موم بنا دیتی ہے۔ (جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النحل آیت ١٢٥ میں فرمایا ہے :) (ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتی ھی احسن) اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجیے۔ شاید کہ آپ دونوں کی باتیں اسے غور و فکر پر مجبور کردیں، اور وہ ایمان و ہدایت کی راہ اپنا لے، یا ڈرے کہ اگر کفر و ظلم پر مصر رہا تو اللہ کا عذاب اسے اپنی گرفت میں لے لے گا۔ طه
43 طه
44 طه
45 (١٨) دونوں بھائیوں نے اللہ کا یہ حکم پانے کے بعد جب حالات پر غور کیا اور اپنی بے کسی اور فرعون کے قہر و جبروت کا تصور کیا تو انسانی فطرت کے مطابق ڈرے، اور اس کا اپنے رب سے اظہار کرتے ہوئے کہا، اے ہمارے رب ! ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں فرط غضب میں وہ ہمیں قتل نہ کردے یا کوئی سخت سزا دے دے، یا اس کی سرکشی اور بڑھ جائے اور تیری شان و عظمت کے خلاف کوئی بات نہ کر بیٹھے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اطمینان دلایا، اور کہا کہ ڈرنے کی ایسی کوئی بات نہیں، میں آپ دونوں کے ساتھ رہوں گا آپ دونوں اور اس کے درمیان جو گفتگو ہوگی اور جو کچھ وقوع پذیر ہوگا اسے میں سنوں گا اور دیکھوں گا اور آپ دونوں کی حفاظت کرتا رہوں گا، اس لیے آپ دونوں اس کے پاس جایئے، اور اس سے کہیے کہ ہم دونوں تمہارے رب کے پیغامبر ہیں، تمہارے پاس اس لیے بھیجے گئے ہیں تاکہ تم بنی اسرائیل کو قید و بند سے آزاد کردو، انہیں عذاب دینا بند کردو اور ہمارے ساتھ انہیں ہمارے وطن فلسطین جانے دو، اور یہ بھی کہیے کہ ہمارے پاس تمہارے رب کی جانب سے ہمارے رسول ہونے کی دلیل یعنی معجزے موجود ہیں، حکیمانہ اسلوب اختیار کرتے ہوئے اس سے کہیے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی تصدیق کرتے ہوئے اس کے بھیجے ہوئے دین کی اتباع کرے گا وہ اللہ کے عذاب سے محفوظ رہے گا اور جو اس کی نشانیوں کی تکزیب کرے گا اور اس کے دین سے روگردانی کرے گا وہ اس کے عذاب کا مستحق ہوگا۔ طه
46 طه
47 طه
48 طه
49 (١٩) فرعون نے ان دونوں کی پوری تقریر سننے کے بعد کہا، اے موسیٰ ! تم دونوں کا رب کون ہے؟ مفسرین لکھتے ہیں کہ چونکہ وہ اللہ کا منکر اور اپنے رب ہونے کا دعوی دار تھا، اسی لیے اس نے کہا میرے سوا تم دونوں کا رب کون ہے؟ تو موسیٰ علی السلام نے کہا کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر ایک مخلوق کو اس کی مخصوص شکل و صورت میں پیدا کیا ہے، اور ہر عضو میں ایک مخصوص فائدہ رکھا ہے، پھر ہر ایک کو طلب رزق کے طریقے سکھائے اور ان کی نسلوں کی بقا کے وسائل و اسباب دے کر انہیں استعمال کرنے کا طریقہ سکھایا ہے۔ طه
50 (٢٠) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو بتایا کہ ان کا رب وہ ہے جس نے ساری مخلوقات کو پیدا کیا ہے، انہیں روزی دی ہے، اور انہیں زندگی گزارنے کا طریقہ سکھا دیا ہے تو وہ لاجواب ہوگیا اور شکست خوردہ ہو کر کہنے لگے پھر ان اقوام گزشتہ کے بارے میں تم کیا کہو گے جو بتوں کی پوجا کرتی تھیں، جیسے نوح، ہود، لوط اور صالح کی قومیں جو ایک اللہ پر ایمان نہیں لائیں اور بتوں کی پرستش کرتی ہوئی دنیا سے رخصت ہوگئیں؟ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ ان تمام قوموں کے اعمال کا اللہ کو پورا علم ہے، ان کا ہر قول و عمل ان کے نامہ ہائے اعمال میں محفوظ ہے اور وہ روز قیامت انہیں ان کا بدلہ چکائے گا۔ میرے رب کا دائرہ علم سے کوئی ادنی چیز بھی خارج نہیں ہے، اور نہ ہی اس پر نسیان طاری ہوتا ہے، میرا رب ان دونوں عیوب اور دیگر تمام نقائص سے یکسر پاک ہے، میرا رب وہ ہے جس نے زمین کو تمہارے لیے فرش بنا دیا ہے تاکہ تم اس پر زندگی گزار سکو اور میرا رب وہ ہے جس نے زمین پر تمہارے لیے راستے ہموار کردیئے ہیں تاکہ تم ایک جگہ سے دوسری جگہ جاسکو، اور میرا رب وہ ہے جو آسمان سے بارش نازل کرتا ہے جس سے نہریں بنتی ہیں اور کنویں بھرتے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا جواب ختم ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو اپنی وحدانیت پر ایمان لانے کی نصیحت کے طور پر فرمایا کہ ہم ہی اس پانی کے ذریعہ انواع و اقسام کے پودے، پھل اور درخت وغیرہ پیدا کرتے ہیں جو رنگ، مزا بو اور دیگر اوصاف و خصائص میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، اس لیے عقل تقاضا کرتی ہے کہ تم ہم پر ایمان لے آؤ، اور ان پودوں اور پھلوں میں سے جو تمہارے کھانے کے ہیں انہیں خود کھاؤ، اور جو تمہارے جانوروں کے لیے ہیں انہیں کھلاؤ، مذکور بالا تمام اعمال اس بات کی دلیل ہیں کہ ہم ہر بات پر قادر ہیں، ہمارا علم ہر شے کو محیط ہے اور ہماری رحمت تمام مخلوقات کو شامل ہے، اس لیے صرف ہم ہی عبادت کے مستحق ہیں لیکن ان دلائل سے صرف اہل عقل و دانش ہی مستفید ہوتے ہیں۔ طه
51 طه
52 طه
53 طه
54 طه
55 (٢١) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے بنی نوع انسان ! ہم نے تمہیں اسی مٹی سے پیدا کیا ہے، جس سے نباتات و حیوانات کو پیدا کیا ہے، آدم کو مٹی سے اور اس کی اولاد کو اس نطفہ سے پیدا کیا ہے، جو زمین میں پیدا شدہ غذا سے تیارہوتا ہے، اور موت دے کر اسی مٹی میں لوٹا دیں گے جیسے پودوں، پھلوں اور درختوں کی بیج زمین میں ڈالی جاتی ہے اور روز قیامت پھر دوبارہ تمہیں تمہاری قبروں سے زندہ کر کے نکالیں گے اور تمہارے اعمال کا بدلہ تمہیں چکائیں گے۔ طه
56 (٢٢) یہاں آیات سے مراد وہ نو نشانیاں ہیں جو اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دی تھیں اور جن کا ذکر سورۃ الاسرا آیت (١٠١) میں آیا ہے، (ولقد اتینا موسیٰ تسع آیات) ہم نے موسیٰ کو نو نشانیاں دی تھیں، وہ نشانیاں مندرجہ ذیل ہیں : لاٹھی، ید بیضا، قحط سالی، پھلوں کی کمی، طوفان، ٹڈی، جویں، مینڈک اور خون۔ موسیٰ (علیہ السلام) بیس سال تک فرعون کو دعوت توحید ربوبیت دیتے رہے اور اس طویل مدت میں اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا نشانیاں بھیج کر اسے راہ دکھائی، لیکن وہ کبر و غرور میں سب کو جھٹلاتا رہا اور ایمان لانے سے انکار کرتا رہا، اور موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ مصر والوں کو اپنے جادو کے زور سے اس وہم میں مبتلا کرنا چاہتے ہو کہ تمہیں اللہ نے اپنا نبی بنا کر بھیجا ہے تاکہ ہماری سلطنت اور ملک مصر پر قابض ہوجاؤ اور ہمیں یہاں سے نکال دو۔ تو سن لو کہ ہم تمہارے جادو کا توڑ اس سے زیادہ قوی جادو سے کریں گے، تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ تم نبی نہیں بلکہ جادوگر ہو، اس لیے تم خود ہی ہمارے درمیان مقابلے کا ایک وقت مقرر کردو جس کی ہم میں سے کوئی خلاف ورزی نہ کرے اور اس کے لیے ایک ایسی جگہ تحدید کرودو جہاں کھڑے ہو کر سبھی لوگ مقابلہ دیکھ سکیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس انداز کلام میں فرعون کی جانب سے اس بات کا اظہار تھا کہ موسیٰ نے جادو دکھایا ہے اور ویسا جادو دکھانے پر وہ پوری طرح قادر ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ہمارے درمیان مقابلے کا وقت عید کا دن رہا، اور لوگ مقابلہ دیکھنے کے لیے صبح کے وقت جمع ہوجائیں تاکہ دن کی پوری روشنی میں اسے دیکھ سکیں، اس گفتگو کے بعد فرعون نے اپنی مجلس پر برخواست کردی، اور موسیٰ (علیہ السلام) کو مغلوب کرنے کے لیے اپنی سازش کے تانے بانے درست کرنے شروع کردیئے اور ملک کے تمام بڑے جادوگروں کو جمع کر کے مقابلہ جیتنے کے لیے سارے کیل کانٹے ٹھیک کرلیے۔ طه
57 طه
58 طه
59 طه
60 طه
61 (٢٣) جب جادوگر وقت مقرر پر موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے آئے تو انہوں نے ان سے از راہ خیر خواہی کہا کہ تم لوگ اللہ کے بارے میں افترا پردازی نہ کرو، اور اپنے جادو کے ذریعہ محض خیالی چیز پیش کر کے لوگوں کو دھوکہ نہ دو، اگر تم ایسا کرو گے تو ایک دردناک عذاب کے ذریعہ اللہ تمہیں نیست و نابود کردے گا، اور جان لو کہ افترا پرداز ہمیشہ گھاٹے میں رہتا ہے۔ موسیٰ کی بات سن کر جادوگروں کے درمیان اختلاف ہوگیا اور آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے کہ یہ کوئی جادوگر ہے یا واقعی اللہ کا رسول ہے۔ بالاخر ان کی یہی رائے ہوئی کہ یہ دونوں جادوگر ہی ہیں، اپنے جادو کے ذریعہ فرعون اور ہمیں سرزمین مصر سے نکال کر خود سلطنت پر قابض ہوجانا چاہتے ہیں اور ہماری جگہ اپنی قوم کو یہاں بسانا چاہتے ہیں، اور ہمارے اچھے بھلے دین اور اخلاق کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہم لوگ ایک بات پر متفق ہوجائیں اور صف بنا کر آگے بڑھیں، تاکہ دیکھنے والوں پر ہمارا رعب پڑے، اور پھر آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ آج جو غالب ہوگا وہ فرعون اور فرعونیوں کی جانب سے خود دادو دہش پائیے گا۔ طه
62 طه
63 طه
64 طه
65 (٢٤) جب جادوگروں کے درمیان اتفاق ہوگیا کہ مقابلہ کیسے کیا جائے، تو انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا کہ پہلے تم اپنی لاٹھی زمین پر ڈالو گے، یا ہم ڈالیں؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ پہلے تم ہی ڈالو، اور انہوں نے ایسا اس لیے کہا کہ جب جادوگر اپنا کرتب دکھلا چکیں گے اور ان کے خیالی سانپوں کو موسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی نگل جائے گی، تو معجزہ نبوی زیادہ واضح شکل میں درس عبرت بن کر لوگوں کے سامنے آئے گا، جادوگروں نے جب اپنی رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر ڈالیں، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے دکھا کہ وہ جادو کے اثر سے دوڑ رہی ہیں، موسیٰ (علیہ السلام) بحیثیت انسان ان سانپوں سے ڈر گئے، یا اس بات سے ڈر گئے کہ کہیں لوگ جادوگروں کے کرتب سے متاثر نہ ہوجائیں، اس لیے کہ ان کی لاٹھیاں اور رسیاں بھی موسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی کی مانند سانپ بن کر لوگوں کے سامنے دوڑ رہی تھیں، تو اللہ نے ان سے فرمایا کہ آپ ڈریے نہیں، بہرحال غلبہ آپ ہی کو نصیب ہوگا اور معجزہ الہی کے سامنے ان کی ایک نہیں چلے گی، آپ کے دائیں ہاتھ میں جو لاٹھی ہے اسے زمین پر ڈال دیجیے، انہوں نے ایسا ہی کیا، اور وہ لاٹھی ایک مہیب و عظیم اژدھا بن کر جادوگروں کی لاٹھیوں اور رسیوں کو نگلنے لگی، اور تمام لوگ اور جادوگر اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھتے رہے، یہاں تک کہ میدان میں ایک سانپ بھی باقی نہ رہا، اور جادو شکست کھا گیا اور اللہ کا معجزہ غالب آگیا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ انہوں نے جو کچھ بنایا تھا وہ جادوگروں کا کرتب تھا، اور جادوگر کوئی بھی چال چلے کامیاب نہیں ہوسکتا۔ طه
66 طه
67 طه
68 طه
69 طه
70 (٢٥) جب جادوگروں نے تمام ماجرا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، تو جادوگری کے تمام علوم و فنون سے واقفیت کی وجہ سے انہیں یقین ہوگیا کہ موسیٰ کے ہاتھوں انہوں نے ابھی جو کچھ دیکھا ہے وہ کوئی جادو نہیں ہے، وہ تو وہ حق ہے جس کی حقانیت میں کوئی شبہ نہیں ہے، اور یہ سب کچھ اس اللہ کی قدرت سے ہوا ہے جو کہتا ہے کہ ہوجا تو وہ چیز ہوجاتی ہے۔ اس لیے تمام جادوگر اللہ کے لیے سجدے میں گر گئے اور پکار اٹھے کہ ہم ہارون و موسیٰ کے رب پر ایمان لے آئے۔ اسی لیے ابن عباس کا ان کے بارے میں قول ہے کہ وہ ستر جادوگر تھے، صبح کے وقت جادوگر تھے اور شام کے وقت شہدا بن گئے۔ فرعون نے جب دیکھا کہ ان جادوگروں نے تمام لوگوں کے سامنے اپنے ایمان لانے کا اعلان کردیا اور اسے ڈر ہوا کہ کہیں دوسرے لوگ بھی ان کی پیروی نہ کرنے لگیں اپنی طاقت کے غرور میں ان سے کہا کہ میری اجازت کے بغیر تم لوگ موسیٰ پر ایمان لے آئے ہو، مجھے یقین ہوگیا کہ یہی موسیٰ وہ بڑا جادوگر ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے، اور تم سب نے مل کر سازش کر رکھی ہے تاکہ اہل مصر کو تم ان کے ملک سے نکال دو، ان کی اسی بات کو قرآن کریم نے سورۃ الاعراف آیت (ّ١٢٣) میں یون بیان کیا ہے : (ان ھذا لمکر مکرتموہ فی المدینۃ لتخجروا منھا اھلھا فسوف تعلمون) یہ یقینا ایک سازش ہے جو تم لوگوں نے شہر میں اس غرض سے کی ہے تاکہ اس کے رہنے والوں کو یہاں سے نکال دو۔ پس تم عنقریب جان لو گے کہ تمہارا انجام کیا ہوتا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس اتہام سے فرعون کا مقصود لوگوں کے دلوں میں معجزہ کی صداقت کے بارے میں شبہ ڈالنا تھا، تاکہ وہ بھی جادوگروں کی طرح ایمان نہ لے آئیں، ورنہ اسے معلوم تھا کہ موسیٰ ان کے استاد نہیں تھے، فرعون نے ان نئے مسلمانوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ میں تم سے ہر ایک کا ایک ہاتھ اور دوسری جانب کا ایک پاؤں کاٹ دوں گا اور کھجوروں کے درختوں پر سولی دے کر لٹکا دوں گا، تب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ میرا عذاب زیادہ شدید اور دائمی ہے یا موسیٰ کے رب کا، جس کے ڈر سے تم موسیٰ پر ایمان لے آئے ہو۔ طه
71 طه
72 (٢٦) ان جادوگر مسلمانوں پر اس کی دھمکی کا کوئی اثر نہیں ہوا، سچ ہے کہ ایمان صادق کے سامنے دنیا کی کوئی طاقت پاؤں نہیں جما سکتی، اس کے سیل رواں میں ہر مادی قوت خس و خاشاک کی مانند بہہ جاتی ہے، انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے جن معجزات الہیہ کا ظہور ہوچکا ہے ان پر اس ذات برحق پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہے ہم تمہیں ہرگز ترجیح نہیں دیں گے، اس لیے تمہیں جو کرتا ہو کر ڈالو، تمہارے فیصلے اور احکامات صرف اسی دنیا میں چلیں گے جو محض ایک عارضی ٹھکانا ہے، ہماری زندگی کا مقصد تو اب صرف آخرت کی کامیابی ہے۔ مفسر ابو السعود لکھتے ہیں کہ اگرچہ تفسیر کی بعض کتابوں میں آیا ہے کہ فرعون نے ان مسلمانوں کو سولی دے دی تھی، لیکن قرآن کریم یا رسول اللہ کی صحیح سنت سے ثبوت نہیں ملتا کہ فرعون نے اپنے قول پر عمل کر دکھایا تھا اور انہیں سولی دے دی تھی۔ طه
73 (٢٧) جادوگر مسلمانوں نے فرط جوش ایمانی میں بلا خوف و خطر کہا کہ ہم اپنے رب پر ایمان لے آئے ہیں تاکہ وہ ہمارے سابقہ گناہوں کو معاف کردے، اور موسیٰ و ہارون کا مقابلہ کرنے کے لیے جس جادوگری پر تم نے ہمیں مجبور کیا تھا اسے بھی معاف کردے اور ایمان و عمل صالح والوں کے لیے اللہ کا ثواب بہتر ہوتا ہے، اور نافرمانوں کے لیے اس کے عذاب کی مدت لمبی ہوتی ہے۔ طه
74 (٢٨) مفسر نسفی کہتے ہیں آیات (٧٤، ٧٥، ٧٦) جادوگر مسلمانوں کا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے جس میں کافر و مومن کا انجام بیان کیا گیا ہے کہ جس موت کفر پر ہوگی اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا، جہاں نہ اسے موت آئے گی کے عذاب سے چھٹکارا پالے اور نہ ایسی زندگی ہوگی جس میں اسے سکون میسر ہو، وہاں وہ زندہ ہوتے ہوئے عذاب نار سے ایسی شدید تکلیف اٹھائے گا کہ ہر دم اس پر موت کی کیفیت طاری رہے گی، اور جو اس دنیا میں ایمان و عمل صالح والی زندگی گزارے گا، قیامت کے دن اس کے درجات بلند ہوں گے اس کا ٹھکانا وہ جنت عدن ہوگی جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، وہاں وہ ہمیشہ کے لیے رہیں گے اور یہ بدلہ اس کو ملے گا جس نے دنیا میں اپنے آپ کو کفر و معاصی کی آلائشوں سے پاک رکھا ہوگا، احمد و مسلم نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے، رسول اللہ نے خطبہ دیا اور جب یہ آیت پڑھی تو فرمایا : جو لوگ جہنمی ہوں گے جہنم میں انہیں نہ موت آئے گی نہ ہی زندہ رہیں گے، اور ابو داؤد نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جنت میں بلند مقامات والوں کو ان کے نیچے والے اس طرح دیکھیں گے جیسے تم لوگ روشن ستارے کو آسمان میں دیکھتے ہو، اور ابوبکر و عمر انہیں میں سے ہوں گے اور کیا ہی خوب مقام ہوگا دونوں کا۔ طه
75 طه
76 طه
77 (٢٩) موسیٰ (علیہ السلام) ایک طویل مدت تک فرعون اور فرعونیوں کو دعوت اسلام دیتے رہے لیکن وہ اپنے کفر پر مصر رہے، تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو لے کر سرزمین مصر سے نکل جائیں اس واقعہ کی تفصیل سورۃ البقرہ، سورۃ الاعراف اور سورۃ یونس میں گزر چکی ہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرایل کے ساتھ بحر قلزم کی طرف جانے لگے تو فرعون نے اپنی فوج کے ساتھ ان کا پیچھا کیا، اور اللہ کے فیصلہ کے مطابق سمندر کے کنارے پر مڈ بھیڑ ہوگئی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے اپنی لاٹھی پانی پر ماری، پانی دو طرف ہوگیا اور خشک راستہ بن گیا، موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو لے کر بے خوف و خطر چل پڑے، اور پیچھے پیچھے فرعون اور اس کا لشکر بھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کے ساتھ دوسرے کنارے پر پہنچ گئے، اور فرعون اپنے لشکر کے ساتھ جب بیچ میں پہنچا تو پانی نے انہیں ہر طرف سے آگھیرا اور سبھی اس میں غرق ہوگئے، فرعون نے اپنے کفر و استکبار کی وجہ سے اپنی قوم کو ہلاکت میں ڈال دیا، اور راہ راست کی طرف ان کی رہنمائی نہیں کی۔ طه
78 طه
79 طه
80 (٣٠) بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں دی تھیں اور ان پر جو احسانات کیے تھے انہی کا ذکر ہورہا ہے، اور انہیں نصیحت کی جارہی ہے کہ وہ اللہ کا شکر بجا لائیں تاکہ وہ نعمتیں باقی رہیں اور ناشکری نہ کریں تاکہ اللہ کے عذاب و غضب سے بچے رہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے دشمن فرعون سے نجات دی، پھر ان کی دینی رہنمائی کے لیے انہیں حکم دیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کوہ طور کے پاس جائیں، تاکہ اللہ جب ان سے ہم کلام ہو تو اس منظر کو دیکھ کر ان کا ایمان راسخ ہو، اور تورات لے کر موسیٰ کے ساتھ واپس آکر اس پر عمل کریں۔ اللہ نے ان پر یہ بھی احسان کیا کہ میدان تیہ میں انہیں کھانے کے لیے من و سلوی عطا کیا، اور نصیحت کی کہ ہماری دی ہوئی حلال روزی کھاؤ اور حد سے تجاوز نہ کرو، ورنہ ہمارے غیظ و غضب کے مستحق ہوجاؤ گے، اور جس پر ہمارا غضب نازل ہوجاتا ہے وہ ہلاک ہوجاتا ہے اور جو کفر وشرک اور معصیت و نفاق سے توبہ کرتا ہے ایمان و عمل صالح کی زندگی اختیار کرتا ہے اور اس پر ثابت قدم رہتا ہے ہم اسے معاف کردیتے ہیں۔ طه
81 طه
82 طه
83 (٣١) فرعون کی ہلاکت کے بعد جب موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر آگے بڑھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو لے کر جبل طور کے پاس جائیں اور وہاں چالیس دان اور رات کا کا روزہ رکھیں، تاکہ اللہ انہیں تورات عطا کرے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب سے ہم کلام ہونے کے شوق میں عجلت سے کاملیا اور اکیلے کوہ طور کی طرف روانہ ہوگئے، اور اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو کہا کہ وہ بنی اسرائیل کو لے کر اطمینان سے آئیں، ان کی روانگی کے بعد سامری نے بنی اسرائیل کو فتنہ میں ڈال دیا، اس نے فرعونیوں کے چھوڑے ہوئے زیورات سے ایک بچھڑا بنایا، اور اس میں جبریل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے کھر کے نیچے کی ایک مٹھی مٹی ڈال دی جس کی وجہ سے اس سے ایک آواز نکلنے لگی، اور بنی اسرائیل اس سے متاثر ہو کر اس کی عبادت کرنے لگے، اور موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس نہیں گئے، جب چالیس دن کی مدت پوری ہوگئی تو اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی بنی اسرائیل کی گمراہی کی خبر دی۔ اس آیت کریمہ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے، اور موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی عجلت پر عتاب ہے کہ آپ نے بنی اسرائیل کو چھوڑ کر تنہا آنے کی کیوں عجلت کی جبکہ آپ کو حکم یہ تھا کہ انہیں ساتھ لے کر آتے؟ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ وہ لوگ میرے پیچھے آرہے ہیں، اور میں نے شدت شوق میں جلدی کی تھی تاکہ تیرے حکم کی بجا آوری میں مجھ سے ذرا بھی تاخیر نہ ہو، اور تو مجھ سے راضی ہوجائے، تب اللہ نے انہیں بتایا کہ ہم نے آپ کی روانگی کے بعد آپ کی قوم کو آزمائش میں ڈال دیا ہے، اور سامری نے انہیں گمراہ کردیا ہے، یہ سن کر موسیٰ (علیہ السلام) بہت ہی ناراض ہوگئے اور بنی اسرائیل کے حال پر کف افسوس ملنے لگے، اور واپس آکر ان سے باز پرس ہوئے اور انہیں اللہ کا وعدہ یاد دلایا کہ اس نے تو مجھے کوہ طور کے اس پاس لیے بلایا تھا کہ تمہیں تورات دے، لیکن تم احسان فراموش نکلنے، اور چند دن بھی میرا انتظار نہ کرسکے، اور مجھ سے عقیدہ توحید پر ثابت قدمی کا جو وعدہ کیا تھا اس کی خلاف ورزی کر کے اللہ کے غضب کو دعوت دے دی۔ طه
84 طه
85 طه
86 طه
87 (٣٢) بنی اسرائیل نے کہا کہ ہم نے اپنی مرضی سے آپ سے کیے گئے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کی ہے، بلکہ ہوا یہ کہ ہماری عورتوں کے پاس فرعونیوں کے جو زیورات تھے جب آپ کی واپسی میں تاخیر ہوئی تو سامری نے ہم سے کہا کہ یہ تاخیر اس لیے ہورہی ہے کہ تمہارے پاس فرعونیوں کی عورتوں کے جو زیورات ہیں وہ تمہارے لیے حلال نہیں ہیں، اس لیے تم لوگ ان سے چھٹکارا حاصل کرلو۔ چنانچہ ہم نے تمام زیورات کو ایک گڈھے میں پھینک دیا، پھر سامری نے ان زیورات سے ایک بچھڑا بنا لیا جس سے ایک آواز نکلنے لگی، تو سامری اور اس کے ساتھیوں نے لوگوں سے کہا کہ یہی ہمارا اور موسیٰ کا رب ہے، موسیٰ نے غلطی کی ہے کہ اپنے رب کی تلاش میں کوہ طور کی طرف گئے ہیں۔ آیت (٨٩) میں اللہ تعالیٰ نے انہی بچھڑے کے پچجاریوں کی عقل پر ماتم کیا ہے کہ کیا وہ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ وہ بچھڑا نہ ان کی کسی بات کا جواب دیتا ہے اور نہ ہی ان کا کوئی نفع و نقصان اس کے اختیار میں ہے، پھر اس کی عبادت کیوں کرتے ہیں؟ طه
88 طه
89 طه
90 (٣٣) ہارون (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو تنبیہ کی تھی کہ تم لوگ بچھڑے کو اپنا معبود بنا کر گمراہ ہوگئے ہو، تمہارا رب وہ اللہ ہے جس کی صفت رحمن ہے، اس لیے میری بات مانو اور اسی کی عبادت کرو، تو ان گمراہوں نے جواب دیا کہ موسیٰ کے واپس آنے تک ہم اپنے اسی معبود کی عبادت کریں گے۔ ہارون (علیہ السلام) نے جب اس بت پرستی پر ان کا اصرار دیکھا تو ان بارہ ہزار افراد کو لے کر الگ ہوگئے، جنہوں نے بچھڑے کی پوجا نہیں کی تھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) جب واپس پہنچے اور لوگوں کو بچھڑے کے گرد ناچتے اور گاتے دیکھا تو اپنے بھائی ہارون سے کہنے لگے کہ جب آپ نے ان کو گمراہ ہوتے دیکھا تو آکر مجھے خبر کیوں نہیں کی، آپ نے میرے حکم کی کیسے مخالفت کی، شدت ناراضگی میں ان کے سر اور داڑھی کے بال پکڑ کر کھینچنے لگے، تو ہارون (علیہ السلام) نے کہا، میرے بھائی ! میری داڑھی اور سر کے بال نہ کھینچو، میں نے تو یہ سوچا کہ اگر میں صرف موحدین کو لے کر تمہارے پاس آجاتا ہوں اور بچھڑے کی عبادت کرنے والوں کو چھوڑ دیتا ہوں تو تم کہو گے کہ آپ نے بنی اسرائیل کو دو حصوں میں بانٹ دیا اور میری بات کا خیال نہیں کیا کہ میری عدم موجودگی میں ان کی دیکھ بھال کیجیے گا۔ قرطبی لکھتے ہیں : امام ابوبکر طرطوشی سے ایسے لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا، جو ذکر اللہ اور ذکر رسول کے لیے جمع ہوتے ہیں، ڈھول بجاتے ہیں، اور ناچتے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ صوفیا کا مذہب بے کاری، جہالت اور گمراہی کا مجموعہ ہے، اس لام قرآن و سنت کا نام ہے، عبادت کے لیے رقص و سرود کا استعمال سب سے پہلے سامری نے کیا تھا، اسی نے بچھرا بنا کر لوگوں کو اس کی عبادت کی دعوت دی تھی، اور اس کے گرد رقص و سرود کی محفلیں جمائی تھی۔ معلوم ہوا کہ یہ کافروں کا اور بچھڑے کی عبادت کرنے والوں کا دین ہے، اور ڈھول کا استعمال سب سے پہلے زندیقیوں یعنی بے دینوں نے کیا جن کا مقصد مسلمانوں کو قرآن کریم کی تلاوت سے دور رکھنا تھا۔ نبی کریم اور صحابہ کرام کی مجلس تو ایسی ہوتی تھی کہ گویا ان کے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہوں، اس لیے کسی مسلمان کے لیے ایسی مجلسوں میں شریک ہونا حلال نہیں ہے، جو عبادت کے نام پر رقص و سرود کے لیے منعقد کی گئی ہوں۔ ائمہ کرام مالک، ابو حنیفہ، شافعی اور حمد بن حنبل وغیرہم کا یہی مذہب ہے۔ طه
91 طه
92 طه
93 طه
94 طه
95 (٣٤) سامری درحقیقت منافق تھا اور بظاہر اسلام قبول کرنے سے پہلے گائے کی پوجا کرتا تھا، اس لیے جو نہی اسے موقع ملا اپنے کفر کی طرف لوٹ گیا، اور لوگوں کو بچھڑے کی عبادت کی دعوت دینے لگا، موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا اور لوگوں کو بچھڑے کی عبادت کی طرف کیوں بلایا؟ تو جواب دیا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے وہ چیز دیکھ لی تھی جو تمہاری قوم نے نہیں دیکھی تھی، جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سامری کو فتنہ میں ڈالنا چاہا، اس لیے اس نے جبریل کو ایک گھوڑے پر سوار دیکھا اور دیکھا کہ جہاں گھوڑے کی ٹاپ پڑی اس جگہ پودے اگ گئے، سامری دیکھ کر سمجھ گیا کہ اگر جبریل کے گھوڑے کے کھر کی مٹی کسی جماد پر ڈال دی جائے گی تو اس میں زندگی آجائے گی، اسی لیے اس نے اس مٹی کو محفوظ کرلیا اور جب بچھڑا بنایا تو اس کے اندر وہ مٹی ڈال دی جس کے اثر سے اس سے بچھڑے کی آواز آنے لگی۔ طه
96 طه
97 (٣٥) موسیٰ (علیہ السلام) نے سامری کی زبانی تفصیلات سننے کے بعد، اللہ کے حکم سے اسے شہر بدر کردیا اور بنی اسرائیل کو حکم دیا کہ کوئی آدمی بھی اس سے بات نہ کرے اور ہر شخص اس سے قطع تعلق کرلے، ایک مفہوم تو یہ ہے اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انہوں نے اسے اللہ کا یہ فیصلہ سنا دیا کہ اسے ہمیشہ کے لیے چھوت کی بدترین بیماری لگ گئی، وہ اب جب تک زندہ رہے گا اس کا حال یہ ہوگا کہ کسی کو اپنے قریب نہ آنے دے گا، اور ہر شخص سے کہے گا کہ میرے قریب نہ آؤ (لا مساس) کا لغوی معنی یہ ہے کہ مجھے کوئی نہ چھوئے، اور میں کسی کو نہ چھوؤں۔ علمائے تفسیر نے اس کا سب سے بہتر مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سامری پر لوگوں کی قربت کو حرام کردیا، وہ جب بھی کسی کو چھوتا دونوں کو شدید بخار آجاتا، اس لیے کسی آدمی کو اپنے سے قریب ہوتے دیکھ کر بھاگ پڑتا اور چیخنے لگتا کہ میرے قریب نہ آؤ۔ چنانچہ وہ شہر سے نکل کر جنگل میں چلا گیا اور جانوروں کی سی زندگی گزارنے لگا اور اسی حال میں مرگیا، قرآن کے ظاہری الفاظ اسی مفہوم کی تائید کرتے ہیں، اس نے جبریل کے گھوڑے کے کھر کی مٹی چھو کر بنی اسرائیل کو گائے کی عبادت پر لگا دیا تھا، اسی لیے اللہ نے اسے یہ سزا دی کہ اس کے بعد زندگی بھر وہ کسی آدمی کو نہ چھو سکا۔ یہ دنیاوی سزا تھی جو سامری کو اللہ کی جانب سے ملی، اور عذاب آخرت کے بارے میں اسے بتایا گیا کہ اس کے لیے ایک وقت مقرر ہے جب وہ وقت آجائے گا تو تمہیں اسے بھگتنا پڑے گا، کسی حال میں بھی تم اس سے بچ نہ سکو گے۔ (٣٦) موسیٰ (علیہ السلام) نے سامری سے کہا کہ تم اپنے جس معبود کے سامنے ہر دم جھکے رہتے تھے، ہم اسے جلا کر خاکستر بنا دیں گے، اور اس کی راکھ سمندر میں بکھیر دیں گے تاکہ اس کا کوئی نشان باقی نہ رہے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، ان کا مقصد سامری اور دیگر بت پرستوں کے سامنے ان کے اس جھوٹے اور حقیر معبود کی حقارت کا اظہار تھا۔ طه
98 ٣٧۔ سامری کے مشرکانہ عقیدے اور بت پرستی کی تردید کے بعد، موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے عقیدہ توحید کو بیان کیا ہے کہ تم سب کا معبود اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، نہ کہ وہ بچھڑا جس کے ذریعہ سامری نے تم سب کو گمراہ کردیا تھا، پھر کہ کہ اس ذات واحد کا علم ہر چیز کو محیظ ہے، اور اس کے سوا ہر شخص کا علم ناقص اور اس کی قدرت ناقص ہے، اس لیے اس کے سوا کوئی دوسرا معبود کیسے ہوسکتا ہے؟ طه
99 (٣٨) ٣٨۔ نبی کریم سے کہا جارہا ہے کہ جس طرح ہم نے آپ کے لیے مذکورہ بالا آیتوں میں موسیٰ و فرعون اور موسیٰ و بنی اسرائیل کے واقعات بیان کیے ہیں، اسی طرح آئندہ بھی گزشتہ قوموں کے عبرت آموز واقعات سنائیں گے اور ہم نے آپ کو خاص طور سے قرآن جیسی عظیم کتاب دی ہے جس میں مومنوں کے لیے نصیحتیں اور عبرت آموز خبریں ہیں، ایسی کامل و جامع کتاب کسی بھی نبی کو نہیں دی گئی، جو اس سے اعراض کرے گا اس پر ایمان نہیں لائے گا اور اس پر عمل نہیں کرے گا وہ اپنے کفر کی وجہ سے میدان محشر میں بہت سارے گناہوں کے ساتھ آئے گا جو اس کے ناتواں کندھے پر بہت بھاری بوجھ ہوں گے، جنہیں لیے وہ جہنم میں چلا جائے گا۔ طه
100 طه
101 طه
102 ٣٩۔ یہاں مراد دوسرا صور ہے جس کے پھونکے جانے کے بعد تمام لوگ زندہ ہو کر میدان محشر کی طرف چل پڑیں گے، اور اس کی دلیل آیت کا دوسرا حصہ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے صراحت کردی ہے کہ اس دن ہم مجرموں کو جمع کریں گے اس حال میں کہ ان کے چہرے مارے رعب و دہشت کے سیاہی لیے زرد ہوں گے، اور ایک دوسرے سے چپکے چپکے کہیں گے کہ دنیا میں ہماری عیش پرستی کی زندگی دس دن سے زیادہ کی نہیں تھی۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آخرت کی ہولناکیوں کو دیکھ کر دنیا میں گزارے ہوئے خوشیوں کے ایام چند روزہ لگیں گے، اور افسوس کریں گے کہ کاش ہم نے صلاح و تقوی کی زندگی گزاری ہوتی تو اس ابدی زندگی میں ذلت و رسوائی اور عذاب و عقاب کا منہ نہ دیکھنا پڑتا۔ طه
103 طه
104 ٤٠۔ ان مجرمین میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کی رائے دنیاوی زندگی اور اس کی خوش رنگیوں کے بارے میں حقیقت کے زیادہ قریب ہوگی، ان پر قیامت کی ہولناکیوں کا ایسا اثر ہوگا کہ وہ مجرمین کی مذکورہ بالا بات کی تردید کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہماری دنیاوی زندگی تو صرف ایک دن سے عبارت تھی۔ آیت سے مقصود نیا کی زندگی کی حقارت اور بے مائیگی ثابت کرنی ہے، اور یہ کہ یہ بات مجرمین کی زبانوں پر قیامت کے دل کھل کر آئے گی اور کف افسوس ملتے ہوئے کہیں گے کہ اے کاش ! ہم نے اس چند روزہ زندگی کے عیش میں مشغول ہو کر آخرت کی تیاری کو فراموش نہ کیا ہوتا۔ طه
105 ٤١۔ مشرکین مکہ نے رسول اللہ سے پوچھا کہ قیامت کے دن ان پہاڑوں کا کیا حال ہوگا؟ تو اللہ نے آپ سے فرمایا آپ انہیں جواب دے دیجیے کہ میرا رب انہیں جڑ سے اکھاڑ کر ریت بنا دے گا، پھر روئی کے گالے کی طرح انہیں فضا میں اڑا دے گا اور ان کی جگہیں برابر اور چکنی ہوجائیں گی جن میں نہ کوئی پودا ہوگا اور نہ کوئی عمارت اور نہ زمین کا کوئی حصہ اونچا نیچا ہوگا۔ طه
106 طه
107 طه
108 ٤٢۔ اس دن تمام لوگ دائمی محشر کے پیچھے پڑیں گے کوئی بھی اس کی راہ سے ادھر ادھر نہیں ہوگا، اور اللہ تعالیٰ کے رعب و دبدبہ سے پورے میدان محشر پر سکوت طاری ہوگا، کوئی دھیمی آواز بھی نہیں سنائے گی۔ طه
109 ٤٣۔ قیامت کے دن اسی شخص کی شفاعت کسی دوسرے کے حق میں قبول ہوگی جس کو اللہ تعالیٰ شفاعت کرنے کی اجازت دے گا اور جس کی بات اس کی جناب میں قابل قبول ہوگی، اور اس کی شفاعت اسی شخص کے حق میں قبول ہوگی جس کے لیے شفاعت کی اجازت دی جائے گی اور جس کی خاطر شفاعت کرنے والے کی شفاعت قابل قبول ہوگی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانبیا آیت (٢٨) میں فرمایا ہے : (ولا یشفعون الا لمن ارتضی) وہ کسی کی سفارش نہیں کریں گے سوائے ان کے جن سے اللہ خوش ہو۔ مفسر بغوی لکھتے ہیں، یہ آیت دلیل ہے کہ غیر مومنوں کے لیے کوئی شفاعت نہیں ہوگی، صاحب فتح البیان لکھتے ہیں کہ یہ آیت بہت بڑی دلیل ہے کہ فاسقوں کے حق میں شفاعت ہوگی، اس لیے کہ کلمہ شہادت یقینا ایسا قول ہے جو اللہ کو پسند ہے۔ طه
110 ٤٤۔ اہل مھشر کے بارے میں کیا فیصلہ ہوگا کون جنت میں داخل کیا جائے گا اور کسے جہنم میں دھکیل دیا جائے گا، اور ان سب نے دنیا میں کیا اچھے یا برے اعمال کیے تھے، ان تمام باتوں کا علم صرف اللہ کو ہے، اس لیے قیامت کے دن اس کا فیصلہ یقینا عدل و انصاف کے مطابق ہوگا، اور اس کی رحمت ہر حال میں عذاب پر غالب ہوگی، مخلوق کا علم اس کی ذات و صفات اور اس کے علوم و احکام کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ طه
111 ٤٥۔ قیامت کے دن تمام اہل محشر کی گردنیں اللہ کے سامنے جھکی ہوں گی جس کی صفت حی ہے، یعنی جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اور جس کی صفت قیوم ہے، یعنی جسے کبھی نیند نہ آئی اور اور نہ کبھی آئے گی، جو ہر چیز کا محافظ و مدبر ہے وہ اپنی ذات و صفات میں کامل ہے اور ہر شے اس کی محتاج ہے۔ طه
112 ٤٦۔ دنیا میں جس کی موت شرک پر ہوگی وہ آخرت میں بہت بڑا خسارہ اٹھانے والا ہوگا اور جو حالت ایمان میں عمل صالح کر کے دنیا سے رخصت ہوگا نہ اس کے گناہوں میں زیادتی کی جائے گی اور نہ ہی اس کی نیکیاں کم کی جائیں گی۔ طه
113 ٤٧۔ چونکہ قیامت کا آنا اور نیکی بدی کا بدلہ پانا یقینی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو فصیح و بلیغ عربی زبان میں نازل فرمایا، تاکہ وہ انسانوں کو جنت کی خوشخبری دے اور جہنم سے ڈرائے، اس میں مختلف قسم کی دھمکیاں ہیں تاکہ لوگ کفر و معاصی سے بچیں، اور اس میں گزشتہ اقوام کی ہلاکتوں کے واقعات بھی ہیں تاکہ انہیں سن کر اپنی اصلاح کی کوشش کریں۔ طه
114 ٤٨۔ اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی بلند و عظیم نہیں ہے، اس کے قبضہ قدرت سے کوئی چیز خارج نہیں ہے اور اس کے ارادہ و مشیت میں کوئی دخل انداز نہیں ہوسکتا ہے اور اس سے زیادہ کوئی عدل پرور نہیں ہے، وہ ہر ایک کو اس کا پورا پورا حق دیتا ہے۔ ٤٩۔ جب جبریل (علیہ السلام) نبی کریم کو قرآن پڑھاتے، تو شدت احتیاط کی وجہ سے ہر حرف اور ہر کلمہ ان کے ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے، اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا کہ ایسا نہ کیجیے بلکہ انتظار کیجیے تاکہ آپ آیتوں کو اچھی طرح سن اور سمجھ لیجیے، اور پھر انہیں یاد کیجیے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ القیامہ آیات (١٦، ١٧) میں فرمایا ہے : (لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ۔ ان علینا جمعہ و قرآنہ) اے نبی ! آپ قرآن کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیجیے، اس کو جمع کرنا اور آپ کی زبان سے اس کو پڑھوانا ہمارے ذمہ ہے۔ آیت کریمہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نصیحت کی ہے کہ آپ اپنے رب سے زیادہ علم کی دعا کرتے رہیں۔ صاحب فتح البیان لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو علم کے سوا کسی چیز میں زیادتی طلب کرنے کی نصیحت نہیں کی۔ طه
115 ٥٠۔ اس آیت کریمہ میں نبی کریم کو تسلی دی گئی ہے، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم و حوا کو جب جنت میں ٹھہرایا تو ان سے عہد لیا کہ وہ ایک مخصوص درخت کا پھل نہیں کھائیں گے اور شیطان کے کسی بہکاوے میں نہیں آئیں گے، لیکن وہ اس عہد پر قائم نہیں رہے اور شیطان کی بات مان کر انہوں نے ممنوع درخت کا پھل کھالیا، آدم (علیہ السلام) کے بعد ان کی اولاد کا بھی یہی حال رہا، وہ بھی اپنے باپ کی طرح عہد فراموش رہی اور اپنے دشمن شیطان کی اطاعت کرتی رہی، اور اللہ کے احکام کو پس پشت ڈالتی رہی، اس لیے اے میرے نبی اگر آپ کی قوم بھی شیطان کی اتباع کرتی ہے اور ایمان نہیں لاتی تو آپ کو غمگین نہیں ہونا چاہیے۔ طه
116 ٥١۔ اللہ سے عہد کرنے کے بعد آدم نے عزم کیا تھا کہ وہ اس کے ہر حال میں پابند رہیں گے، لیکن شیطان ان کے پیچھے لگا رہا، یہاں تک کہ ان کے عزم کی پختگی جاتی رہی۔ مذکور ذیل آیتوں میں اسی کی تفصیل ہے : اللہ نے نبی کریم سے فرمایا کہ آپ لوگوں کو یہ واقعہ سنا دیجیے، جب ہم نے فرشتوں کو آدم کے لیے اظہار تعظیم کے طور پر سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا، تو تمام فرشتوں نے حکم کی تعمیل کی، لیکن ابلیس جو جنوں میں سے تھا اس نے کبر وغرور میں آکر سجدہ کرنے سے انکار کردیا، تو ہم نے آدم سے کہا کہ یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، ایسا نہ ہو کہ تم دونوں اس کی بات مان لو اور تمہیں جنت سے نکل جانا پڑے، اور دنیا میں جاکر اپنے اور اپنی بیوی کے کھانے کے لیے کھیتی اور محنت مزدوری کرنی پڑے، جو تمہاری پریشانی کا باعث ہو۔ یہ واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ سورۃ البقرہ میں گزر چکا ہے۔ طه
117 طه
118 ٥٢۔ اللہ نے یہ بھی کہا : اے آدم ہم نے تمہیں بہت بڑٰ نعمت دی ہے اس کی حفاظت کرنا، کوئی ایسا کام نہ کرنا یہ نعمت تم سے چھن جائے، یہ وہ جنت ہے جس میں تمہیں نہ بھوک لگے گی نہ اس میں کپڑوں کی ضرورت ہوگی، نہ پیاس لگے گی اور نہ دھوپ کی تمازت تمہیں تکلیف دے گی۔ طه
119 طه
120 ٥٣۔ لیکن شیطان جو گھات میں لگا تھا، اس نے آدم کے دل میں وسوسہ پیدا کرنا شروع کیا اور کہا اے آدم ! کیا میں تمہیں ایک ایسا درخت بتاؤں جسے کھانے کے بعد تم دونوں جنت سے کبھی نہ نکلو گے، اور ہمیشہ کے لیے یہاں تمہارا راج رہے گا؟ دونوں اس کے بہکاوے میں آگئے اور اس ممنوع درخت کا پھل کھالیا، جس کے نتیجہ میں دونوں ننگے ہوگئے، تو درختوں کے پتے توڑ توڑ کر پردہ پوشی کرنے لگے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کی طبیعت میں یہ بات ودیعت کردی تھی کہ وہ ننگا رہنا گوارہ نہیں کریں گے۔ آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور شیطان کی بات مان کر ممنوع درخت کا پھل کھالیا تو گمراہی کی راہ پر پڑگئے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ ان سے اس غلطی کا ارتکاب مقام نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے ہوا تھا، اس غلطی کی انہوں نے اپنے رب سے مغفرت طلب کی تو اللہ نے انہیں معاف کردیا اور اپنی پیغامبری کے لیے انہیں چن لیا۔ طه
121 طه
122 طه
123 ٥٤۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اھبطا سے مراد ابلیس و آدم ہیں اور حوا اپنے شوہر آدم کے تابع ہے، اور بعض دوسرو کا خیال ہے کہ اس سے مراد آدم و حوا ہیں، اس لیے کہ باقی انسان انہی دونوں سے وجود میں آئے ہیں، اس کے بعد جمع کے صیغہ سے وہ دونوں اور ان کی اولاد سبھی مراد ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آدم و حوا اور ابلیس سے کہا کہ تم لوگ جنت سے نکل کر زمین پر چلے جاؤ، جہاں تم لوگ ایک دوسرے کے دشمن ہوگے، ابلیس انسانوں کا دشمن ہوگا اور انسان آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے، وہاں جب تمہارے پاس میرا کوئی رسول آئے اور میرا پیغام پہنچائے تو جو شخص میرے بھیجے گئے دین کی پیروی کرے گا نہ وہ دنیا میں گمراہ اور نہ آخرت میں بدبخت ہوگا۔ طه
124 ٥٥۔ جو شخص اللہ کے دین سے اعراض کرتا ہے اور قرآن کریم کی تلاوت اور اس پر عمل کرنا ترک کردیتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے اس عمل بد کا یہ بدلہ دیتا ہے کہ ہر چہار جانب سے اسے تنگی گھیر لیتی ہے اور روزی کی کشادگی کے باوجود اس کا سکون و اطمینان چھن جاتا ہے، اور مرنے کے بعد اس کی قبر بھی اس پر تنگ ہوجاتی ہے، اور اس کی برزخ کی طویل زندگی شقاوت و بدبختی سے عبادرت ہوتی ہے، اور قیامت کے دن اسے اندھا اٹھایا جائے گا اور جب اپنی اس حالت پر تعجب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے سوال کرے گا کہ میرے رب ! تو نے مجھے اندھا کیوں بنا دیا ہے میں تو دنیا میں اور قبر سے اٹھنے تک آنکھوں والا تھا؟ تو اللہ اس سے کہیں گے کہ تم دنیا میں اسی طرح آنکھیں رکھنے کے باوجود دل کے اندھے تھے اور ہماری آیتوں کو ٹھکراتے تھے اس لیے آج تم جہنم میں ڈال دیئے جاؤ گے، اور کوئی تمہارا پرسان حال نہ ہوگا۔ آیت (١٢٧) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ اپنی شہوتوں میں منہمک ہو کر اللہ کے دین کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اللہ انہیں دنیا و آخرت میں ایسا ہی بدلہ دیتا ہے اور آخرت کا عذاب بڑا ہی دردناک اور بہت ہی طویل ہوگا۔ طه
125 طه
126 طه
127 طه
128 ٥٦۔ مشرکین قریش کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ کیا ہماری کتاب اور ہمارے رسول کو جھٹلانے والے ان کافروں کی عبرت کے لیے بہت سی اقوام گزشتہ کی ہلاکتوں کے قصے کافی نہیں ہیں، وہ تو عاد و ثمود اور لوط کی بستیوں سے گزرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اب ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں ہے۔ بیشک عقل سلیم رکھنے والوں کے لیے ان واقعات میں بڑی عبرت آموز باتیں ہیں۔ سورۃ الحج آیت (٤٦) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ( افلم یسیروا فی الارض فتکون لھم قلوب یعقلون بھا او اذان یسمعون بھا فانھا لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور) کیا انہوں نے زمین میں سیرو سیاحت نہیں کی جو ان کے دل ان باتوں کو سمجھنے والے ہوتے یا کانوں سے ہی ان واقعات کو سن لیتے، بات یہ ہے کہ صرف آنکھیں ہی اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ طه
129 ٥٧۔ قاشانی لکھتے ہیں کہ اس امت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ اسے یکسر تباہ و ہلاک نہیں کرے گا اس لیے کہ نبی کریم سراپا رحمت ہیں، یہی وجہ ہے کہ مشرکین مکہ کے ہزار کفر و سرکشی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل نہیں کیا، بلکہ ان کا معاملہ آخرت کے دن تک کے لیے اٹھا رکھا ورنہ ان کا کفر و استکبار تو ایسا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب انہیں اسی دنیا میں ہی اپنی گرفت میں لے لیتا۔ طه
130 ٥٨۔ نبی کریم کو تسلی دی جارہی ہے کہ یہ کفار جو آپ کو جادوگر، شاعر، کاہن اور کذاب وغیرہ کہا کرتے ہیں تو آپ ان باتوں کا خیال نہ کیجیے، ان کو عذاب دیئے جانے کا جو وقت مقرر ہے اس وقت انہیں کوئی نہیں بچا سکے گا، آپ صبر و سکون کے ساتھ اپنے رب کی حمد و ثنا میں لگے رہیے، طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے اپنے رب کی تعریف بیان کرنے کے لیے تسبیح پڑھیے، یعنی فجر و عصر کی نمازوں کا خوب اہتمام کیجیے اور رات کے اوقات میں بھی اپنے رب کی پاکی بیان کیجیے، یعنی مغرب و عشا کی نمازوں کا بھی خیال کیجیے اور دیکھیے دن کے دونوں کناروں میں اپنے رب کی پاکی بیان کرنے کا زیادہ خیال کیجیے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس سے مراد فجر اور عصر کی نمازیں ہیں ان کا دوبارہ ذکر خصوصی اہتمام کے لیے کیا گیا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد ظہر کی نماز ہے، اور بعض اس سے دن کے مختلف اوقات میں نفل نمازیں مراد لیتے ہیں آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ اس پر عمل کیجیے گا تو آپ کو اپنے رب کی جانب سے ایسا اجر ملے گا کہ آپ خوش ہوجایے گا۔ بخاری و مسلم نے جریر بجلی سے روایت کی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : تم لوگ اپنے رب کو دیکھو گے، جیسے اس چاند کو دیکھتے ہو، اس کی دید سے تمہیں کوئی چیز نہ روک سکے گی، اگر تم سے ہوسکے تو طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے کی نمازوں کی ادائیگی میں اپنے نفس سے مغلوب ہو کر سستی نہ کرو، پھر آپ نے یہی آیت پڑھی۔ طه
131 ٥٩۔ اہل کفر و شرک کو دنیا کی زندگی میں آرام و آسائش کے جو اسباب دیئے گئے ہیں وہ دینی اعتبار سے کوئی اچھی چیز نہیں ہے، بلکہ ان کے لیے آزمائش اور فتنہ کا باعث ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو ان کی خواہش کرنے سے منع فمرایا اور بتایا کہ آپ کا رب نیک عمل کرنے والوں کو آخرت میں جو اجر و ثواب دے گا وہ بہت ہی بہتر اور دائمی ہوگا۔ ایک دوسرا معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ نے آپ کو جس منصب رسالت پر فائزہ کیا ہے اور جو آخری دین، دین اسلام دے کر بھیجا ہے وہ ان دنیاوی نعمتوں سے کہیں زیادہ بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے جو مشرکین کو دیا گیا ہے دونوں کے درمیان دور کی بھی مناسب نہیں ہے، اس لیے کہ دین اسلام دنیا و آخرت کی نیک بختی کا ذریعہ ہے، اور انہیں جو چیز ملی ہے وہ کچھ ہی دنوں کے بعد ختم ہوجانے والی ہے۔ بزار، ابو یعلی، اور ابن ابی شعیبہ وغیرہم نے ابو رافع سے روایت کی ہے اور علامہ البانی نے صحیح الجامع الصغیر میں ذکر کیا ہے کہ ایک دن رسول اللہ کے پاس ایک مہمان اایا، آپ کے گھر میں کوئی چیز نہیں تھی، تو آپ نے مجھے ایک یہودی کے پاس بھیجا کہ وہ ماہ رجب کا چاند نکلنے تک کے وعدے پر آٹا ادھار دے دے، اس نے رہن کا مطالبہ کیا، واپس آکر میں نے آپ کو خبر دی تو آپ نے فرمایا، اللہ کی قسم ! میں آسمان میں امین ہوں اور زمین میں بھی، اگر وہ مجھے ادھار دے دیتا تو میں ضرور اس کے پیسے ادا کردیتا، میرا لوہے کا زرہ لے کر اسے دے دو، میں ابھی وہاں سے واپس بھی نہ ہوا تھا کہ یہ آیت نازل ہوئی، جس میں آپ کو دنیا کی لالچ نہ کرنے کی نصیحت کی گئی ہے۔ طه
132 ٦٠۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں پوری امت مراد ہے، یعنی سب لوگ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں، آپ اس حکم میں بدرجہ اولی داخل ہیں۔ آپ سے کہا گیا ہے کہ آپ نماز کی پابندی کیجیے اور امور دنیا میں مشغول ہو کر اس سے غافل نہ ہوجایے۔ ابن المنذر، طبرانی، اور بیہقی وغیرہم نے عبداللہ بن سلام سے روایت کی ہے جس کی سند کو حافظ سیوطی نے صحیح کہا ہے کہ نبی رکیم کے گھرانے کو جب کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو آپ انہیں نماز پڑھنے کا حکم دیتے اور (وامر اھلک بالصلاۃ) پوری آیت پڑھتے۔ اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ ہم آپ سے یہ نہیں کہتے ہیں کہ اپنے لیے اور بال بچوں کے لیے روزی کی فکر میں لگ جایئے اور نماز سے غافل ہوجایئے، آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو روزی ہم دیں گے، اور اچھا انجام تقوی والوں کے لیے ہے، شوکانی لکھتے ہیں، آیت کا یہ حصہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ تقوی ہی تمام بھلائیوں کی جڑ ہے۔ طه
133 ٦١۔ کفار مکہ کہا کرتے تھے کہ محمد اگر نبی ہے تو گزشتہ انبیا کی طرح اپنی صداقت کی کوئی نشانی کیوں نہیں پیش کرتا، یا ہم لوگ جن نشانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں ان میں سے کوئی نشانی کیوں نہیں لاتا؟ اللہ تعالیٰ نے ان کا جواب دیا کہ کفار مکہ گزشتہ آسمانی کتابوں کا اعتراف کرتے ہیں اور ان میں نبی کریم کی بشارت اور نشانیاں موجود ہیں، تو پھر کون سی بات ان پر ایمان لانے سے مانع ہے۔ جواب کا دوسرا مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ جن قوموں نے اپنے انبیا سے نشانیوں کا مطالبہ کیا تھا وہ قومیں نشانیاں آنے کے بعد بھی ایمان نہ لانے کی وجہ سے ہلاک کردی گئی تھیں، اگر یہ لوگ بھی ایمان نہ لائے تو انہیں عذاب الہی سے کون بچا سکے گا۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ آیت میں بینۃ سے مراد قرآن کریم ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے نبی کریم کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہے، اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ العنکبوت آیات (٥٠، ٥١) میں یون بیان فرمایا ہے : (وقالوا لولا انزل علیہ آیات من ربہ قل انما الایات عنداللہ وانما انا نذیر مبین۔ اولم یکفھم انا انزلنا علیک الکتاب یتلی علیھم ان فی ذلک لرحمۃ و ذکری لقوم یومنون) انہوں نے کہا، اس پر کچھ نشانیاں اس کے رب کی طرف سے کیوں نہیں اتاری گئیں؟ آپ کہہ دیجیے کہ نشانیاں تو سب اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں، میں تو صرف کھلم کھلا آگاہ کرنے والا ہوں، کیا ان کے لیے یہ کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل فرما دی جو ان کے سامنے پڑھی جارہی ہے اس میں رحمت اور نصیحت ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان والے ہیں۔ طه
134 ٦٢۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو بھیج کر ور قرآن کریم نازل کر کے اب کسی مشرک و کافر کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رکھا ہے، یہی بات اس آیت کریمہ میں بیان کی گئی ہے کہ اگر ہم لوگوں کو بعثت نبی اور نزول کتاب سے پہلے ہلاک کردیتے تو وہ کہتے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں ہلاک و برباد کرنے سے پہلے ہمارے پاس اپنا رسول کیوں نہیں بھیج دیا تھا، تاکہ ہم ایمان لے آتے، لیکن اب جبکہ ہم نے اپنا آخری رسول بھیج دیا ہے اور اپنی آخری کتاب نازل کردی ہے، تو ایمان لانے سے اب ان کے لیے کون سی چیز مانع ہے۔ آیت (١٣٥) میں نبی کریم کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ سرکش کافروں سے کہہ دیجیے کہ ہم اور تم سبھی اپنے انجام کے منتظر ہیں، انتظار کرلو، جب مسلمانوں کو عنقریب فتح و نصرت حاصل ہوگی تو جان لو گے کہ کون دین اسلام پر قائم تھا، کسے اللہ نے راہ نجات کی طرف ہدایت دی اور کون گمراہ ہو کر ہلاک و برباد ہوا۔ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا، مسلمان آہستہ آہستہ غالب ہوگئے گئے اور کفار و مشرکین جزیرہ عرب سے ناپید ہوگئے۔ فللہ الحمد طه
135 طه
0 سورۃ الانبیاء مکی ہے، اس میں ایک سو بارہ آیتیں اور سات رکوع ہیں۔ نام : چونکہ اس سورت میں کئی انبیائے کرام کے فضائل و واقعات بیان کیے گئے ہیں اسی لیے اس کا نام سورۃ الانبیا رکھا گیا ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی کہتے ہیں کہ تمام مفسرین کے نزدیک یہ سورت مکی ہے۔ امام بخاری وغیرہ نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے کہ بنی اسرائیل اور الکہف اور مریم اور طہ اور الانبیا وہ سورتیں ہیں جنہیں میں نے مکی دور کے شروع میں حاصل کیا تھا۔ جیسا کہ تمام مکی سورتوں کا خاصہ ہے، اس میں بھی نبی کریم اور قرآن کریم کی صداقت پر دلیل پیش کی گئی ہے، عقیدہ توحید اور بعث بعد الموت پر کفار مکہ کو ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے، اور گزشتہ انبیائے کرام کی تاریخ دعوت اور ان کی قوموں کا حال بیان کر کے کفار مکہ کو باور کرایا گیا ہے کہ خاتم النبیین جو دین تمہارے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ کوئی نیا دین نہیں ہے، اور نبی کریم کو تسلی دی گئی ہے کہ کفار مکہ نے آپ کے ساتھ جو روش کر رکھی ہے اور دعوت توحید کی راہ میں آپ کو جو مصیبیں جھیلنی پڑ رہی ہیں یہ کوئی باعث تعجب بات نہیں ہے، آپ سے پہلے جتنے انبیا کرام دنیا میں انسانوں کی ہدایت کے لیے آئے ہیں انہیں بھی ایسے ہی حالات سے دوچار ہونا پڑا اور بالاخر ان کے دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی اور غلبہ انبیا کو حاصل ہوا۔ الأنبياء
1 (١) اس آیت کریمہ میں عام انسانوں یا کفار مکہ کا حال بیان کیا گیا ہے کہ وہ ہر دن قیام قیامت سے قریب ہوتے جارہے ہیں، اور اس طرح گویا وہ میدان محشر میں اللہ کے حضور اپنے اعمال کا حساب چکانے سے قریب ہوتے جارہے ہیں، اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ نبی کریم پر ایمان لاکر اس دن کی کامیابی کے لیے تیاری کرتے، لیکن معاملہ بالکل برعکس ہے کہ وہ حساب اور جزا و سزا سے بالکل غافل ہیں اور فکر آخرت سے بہت دور چند روزہ دنیا کے عیش و آرام کو اپنا مقصد حیات بنا رکھا ہے، حساب کا دن اس لیے قریب ہے کہ ہر آنے والی چیز قریب ہی ہوتی ہے، چاہے وہ ایک مدت کے بعد ہی کیوں نہ آئے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ المعارج آیات (٦، ٧) میں فرمایا ہے : (انھم یرونہ بعیدا۔ ونراہ قریبا) وہ لوگ بیشک قیامت کو دور سمجھ رہے ہیں، اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں، اور اس لیے بھی قریب ہے کہ ہر آدمی کی موت ہی درحقیقت اس کی قیامت کا وقت ہوتا ہے اور اس لیے بھی کہ دنیا کی باقی ماندہ عمر اس کی گزشتہ عمر سے کم رہ گئی ہے۔ الأنبياء
2 (٢) قرآن کریم بدستور نازل ہوتا رہا، ایک آیت کے بعد دوسری آیت، ایک سورت کے بعد دوسری سورت، اس مسلسل تنبیہ و نصیحت کا تقاضا تو یہ تھا کہ کفار مکہ کے دل اسلام کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوجاتے، لیکن انہوں نے استکبار کی وجہ سے ہمیشہ ہی قرآن کا مذاق اڑایا، اپنی لہو و لعب والی زندگی میں مگن رہے اور ان کے دل قرآنی آیات میں غور و فکر کرنے سے غافل رہے۔ الأنبياء
3 (٣) کفار مکہ کا خیال تھا کہ اللہ کا رسول کوئی فرشتہ ہی ہوسکتا ہے اس لیے اگر کوئی آدمی نبوت کا دعوی کرے گا اور اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر کوئی معجزہ پیش کرے گا تو وہ جادوگر ہوگا اور اس کا معجزہ دراصل جادو ہوگا، اسی لیے انہوں نے لوگوں کو اسلام سے دور رکھنے کے لیے آپس میں سرگوشی کی اور پھر لوگوں سے کہا کہ محمد تمہارے ہی جیسا انسان ہے اور اس کی باتیں جادو کے قبیل کی ہیں، پھر کیوں تم لوگ اس کی پیروی کرتے ہو۔ مفسر ابو السعود لکھتے ہیں : کافروں کے ذہن سے یہ بات جاتی رہی کہ تشریعی حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ انسان کی رہنمائی کے لیے انسان کو ہی رسول بنا کر بھیجا جائے۔ الأنبياء
4 (٤) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو ان کی سرگوشی کی اطلاع دی اور کہا آپ ان کافروں کو بتا دیجیے کہ میرا رب ہر اس بات کو جانتا ہے جو آسمان و زمین میں واقع ہوتی ہے، اسی لیے دعوت اسلامیہ کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لیے تم نے جو سرگوشی کی ہے اسے اس کی خبر ہے۔ الأنبياء
5 (٥) کفار مکہ نے قرآن کریم کے بارے میں لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے، بلکہ جادو، جھوٹے خواب، اللہ کے خلاف افترا پردازی اور شاعری کا مجموعہ ہے، اور اگر محمد کو اصرار ہی ہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے تو گزشتہ انبیا کی طرح کوئی نشانی لا کر دکھائے، جیسے صالح نے اونٹنی نکلا کر دکھا دی اور موسیٰ اور عیسیٰ نے دوسرے معجزات پیش کیے۔ بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ ان کا یہ سوال خبث و شرارت اور کفر و عناد پر مبنی تھا، اس لیے کہ قرآن کریم کی آیتیں اور نبی کریم کے ذریعہ دیگر معجزات کا وقتا فوقتا ظہور، ایمان لانے کے لیے کافی تھا اور اگر اللہ کے علم میں ہوتا کہ وہ گزشتہ انبیا جیسی نشانیاں دیکھ کر ایمان لے آئیں گے تو اللہ ویسی نشانیاں بھی بھیج دیتا، لیکن ان کا یہ انداز گفتگو صرف حق کا انکار کرنے کے لیے تھا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے فمرایا کہ جو کافر قومیں ان سے پہلے دنیا میں گزر چکی ہیں انہوں نے بھی انہی کی طرح نشانیوں کا مطالبہ کیا تھا اور ان نشانیوں کے آجانے کے بعد ایمان نہیں لائیں، تو ہم نے انہیں مزید مہلت دیئے بغیر ہلاک کردیا، ہمیں معلوم ہے کہ یہ کفار مکہ بھی ایسا ہی کریں گے اور ہم نہیں چاہتے ہیں کہ انہیں ہلاک کردیا جائے، اسی لیے ان کے اصرار کے باوجود ان کا مطالبہ پورا نہیں کیا جارہا ہے۔ الأنبياء
6 الأنبياء
7 (٦) آیت (٣) میں کفار مکہ کا یہ شبہ بیان کیا گیا ہے کہ انسان اللہ کا رسول نہیں ہوسکتا اس آیت میں اسی کا جواب دیا گیا ہے کہ آدم سے لے کر اب تک جتنے انبیا گزرے ہیں سبھی انسان ہی تھے، جن تک اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی اپنا پیغام پہنچاتا تھا جن یہود و نصاری کو تم علم و فہم میں اپنے سے زیادہ سمجھتے ہو ان سے پوچھ لو، وہ بھی اس بات کی تصدیق کردیں گے۔ بعض حضرات نے اس آیت سے تقلید شخصی کے جواز پر استدلال کیا ہے جو صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ یہاں اھل الذکر سے مراد یہود و نصاری ہیں، اور اگر بالفرض اسے عام بھی مان لیا جائے تو مقصود قرآن و سنت کے نصوص پوچھنا ہے، نہ کہ کسی انسان کی رائے جسے قرآن وسنت سے بغیر دلیل مانگے مان لیا جاتا ہے۔ سورۃ النحل آیت (٤٣) کی تفسیر کے ضمن میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھا جاچکا ہے۔ آیت (٨) میں مذکور بالا مضمون کی مزید تاکید کے طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انبیا ہمیشہ گوشت پوست والے انسان ہوا کیے ہیں، جنہیں زندہ رہنے کے لیے کھانے کی ضرورت پڑتی رہی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفرقان آیت (٢٠) میں فرمایا ہے : (وما ارلنا من قبلک من المرسلین الا انھم لیاکلون الطعام) ہم نے آپ سے پہلے جتنے انبیا بھیجے سب کھانا کھاتے تھے۔ اور وہ انبیا دنیا میں ایک متعین مدت تک زندہ رہنے کے بعد مرجاتے رہے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی سورت کی آیت (٣٤) میں فرمایا ہے : (وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد) ہم نے آپ سے پہلے کسی بھی انسان کو ہمیشگی کی زندگی نہیں دی ہے۔ الأنبياء
8 الأنبياء
9 (٧) جن گزشتہ قوموں نے نشانیوں کا مطالبہ کیا، اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف بھیجے گئے رسولوں سے کہا کہ اگر نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود ایمان نہیں لائیں گے تو انہیں ہلاک کردیا جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا نشانیاں آئیں، اور وہ قومیں ایمان نہیں لائیں تو اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، انبیا اور ان پر ایمان لانے والوں کے علاوہ سب کو ہلاک کردیا۔ الأنبياء
10 (٨) قرآن کریم کی عظمت بیان کر کے کفار قریش پر احسان جتایا گیا ہے کہ یہ کتاب تمہاری زبان میں تم ہی میں سے ایک فرد پر نازل ہوئی ہے، یہ بات یقینا تماہرے لیے عزت و شرف کا باعث ہے، اور اس قرآن میں تمہارے لیے نصیحت کی باتیں ہیں جن پر اگر تم عمل کرو گے تو تمہاری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائے گی۔ الأنبياء
11 (٩) مفسرین و مورخین کہتے ہیں کہ یہاں قریۃ سے مراد یمن کی ایک بستی ہے، اللہ نے ان کی ہدایت کے لیے شعیب بن مہدم نامی ایک نبی کو مبعوث کیا، جو ابن عباس کے قول کے مطابق قبیلہ حمیر سے تعلق رکھتے تھے۔ جب ان کی قوم نے انہیں جھٹلایا اور ان پر ایمان لانے سے انکار کردیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی سرکوبی کے لیے بخت نصر کو بھیج دیا جس نے انہیں تلواروں سے گاجر مولی کی طرح قتل کرنا شروع کردیا، جب انہوں نے اپنا یہ حال دیکھا تو اپنے گناہوں کا اعتراف کیا، لیکن اس وقت ان کی توبہ ان کے کام نہ آئی۔ آیات (١١) سے (١٥) تک اسی بستی والوں کا حال بیان کیا گیا ہے، کہ جب ان لوگوں نے اللہ کی آیتوں کی تکذیب کی اور کفر کی راہ اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بہتوں کو بخت نصر کے ہاتھوں قتل کروا دیا، اور ان کی جگہ ایک دوسری قوم کو لے آیا جو دین و اخلاق کے اعتبار سے ان سے اچھی تھی ان پر جب عذاب آنے کے آثار ظاہر ہوئے اور وہ اپنی بستی سے بھاگنے لگے، تو فرشتوں نے ان سے استہزا کے طور پر کہا کہ بھاگو نہیں، بلکہ اپنے ناز و نعم میں پڑے رہو، تم تو بڑے لوگ ہو، لوگوں کو تمہاری ضرورت ہے وہ تمہارے پاس اپنے مسائل میں صلاح و مشورے کے لیے آئیں گے جب انہوں نے دیکھا کہ عذاب الہی نے انہیں بخت نصر کی فوجوں کی شکل میں ہر چہار جانب سے گھیر لیا تب اپنے جرائم کا اعتراف کر کے کف افسوس ملنے لگے اور چیخ و پکار کرتے رہے، یہاں تک کہ بخت نصر کی فوجوں نے انہیں بیخ و بن سے ختم کردیا۔ الأنبياء
12 الأنبياء
13 الأنبياء
14 الأنبياء
15 الأنبياء
16 (١٠) اللہ تعالیٰ مشرک اور کافر قوموں کو ان کے کفر و معاصی کی وجہ سے ہلاک کردیتا ہے، یہ دلیل ہے کہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان پائی جانے والی مخلوقات کو اس نے بے کار اور عبث نہیں پیدا کیا ہے، بلکہ ان تمام کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ اس کے بندے اس کی گوناگوں نعمتوں سے بہرہ ور ہوں، اس کا شکر ادا کریں اور اسے یاد کرتے رہیں، اسی لیے جو قومیں اس کے ذکر و شکر سے روگردانی کرتی ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں عذاب میں مبتلا کردیتا ہے۔ آیت (١٧) میں گزشتہ مضمون کی تاکید ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ہم لہو و لعب کی نیت سے کسی کو اپنی بیوی اور کسی کو اپنا بیٹا بناتے، جیسا کہ مشرکین عرب کہا کرتے ہیں کہ اللہ نے جن سے ازدواجی تعلق قائم کیا تو فرشتے اس کی بیٹیاں پیدا ہوئیں، اور جیسا کہ نصاری کہتے ہیں کہ اللہ نے مریم کو اپنی بیوی بنا لیا جس سے عیسیٰ پیدا ہوئے، اگر ہم بفرض محال ایسا چاہتے تو حوروں اور ہماری عبادت میں مشغول فرشتوں کو اپنی اولاد بنا لیتے، لیکن ہم نے ایسا نہیں چاہا، اور نہ ہمارے لیے یہ بات مناسب ہے، ہم تو آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کے مالک ہیں سب ہمارے غلام ہیں، کیا کبھی کوئی آدمی اپنی باندی کو بیوی اور غلام کو بیٹا بنا لیتا ہے، جب انسان ایسا نہیں کرتا ہے تو خالق کائنات کے بارے میں ایسی بات کیوں کر سوچی جاتی ہے؟ آیت (١٨) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن کریم میں مذکور دلائل و براہین کے ذریعہ یہ باطل عقائد و نظریات پاش پاش ہوجاتے ہیں، اس لیے اے مشرکین مکہ ! اگر تم قرآن کریم کے نزول کے بعد بھی شرک باللہ سے باز نہیں آتے ہو تو تم اپنی بردباری و بتاہی کا انتظار کرو۔ آیات (١٩، ٢٠) میں گزشتہ مضمون کی تاکید ہے کہ جو باری تعالیٰ آسمان و زمین کی تمام موجودات کا مالک ہے، وہ اس سے بالکل بے نیاز ہے کہ اس کی بیوی یا اس کا کوئی لڑکا ہو، تمام فرشتے اس کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں نہ اس کی عبادت کا انکار کرتے ہیں اور نہ ہی اس سے تھکتے ہیں، شب و روز اس کی تسبیح پڑھتے رہتے ہیں، جس طرح آدمی ہر حال میں سانس لیتا رہتا ہے، اور ہر لمحہ اس کی پلک جھپکتی رہتی ہے، اور جب تک زندہ رہتا ہے کبھی بھی ان دونوں کاموں سے نہیں تھکتا، اسی طرح فرشتے ہر حال میں تسبیح پڑھتے رہتے ہیں۔ ایک لمحہ کے لیے بھی انقطاع نہیں ہوتا، اور یہ بات ان کے لیے ایسا امر طبیعی ہے کہ کبھی بھی اس سے تھکن نہیں محسوس کرتے۔ الأنبياء
17 الأنبياء
18 الأنبياء
19 الأنبياء
20 الأنبياء
21 (١١) ذیل میں آنے والی آیتوں میں مشرکین مکہ کے شرک کی تردید کی گئی ہے، اور عبادت میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ثابت کیا گیا ہے۔ آیت (٢١) میں کہا گیا ہے کہ مشرکین کے تراشے ہوئے اصنام کیا مردوں کو زندہ کرسکتے ہیں؟ جواب معلوم ہے کہ وہ ایسا نہیں کرسکتے ہیں، اور مشرکین کو بھی اس کا اعتراف ہے، اس لیے وہ کسی حال میں بھی عبادت کے مستحق نہیں بن سکتے ہیں۔ آیت (٢٢) میں اس حقیقت پر دلیل پیش کی گئی ہے کہ ایک اللہ کے سوا چند معبودوں کا ہونا عقلی طور پر محال ہے، اگر ایسا ہوتا تو آسمان و زمین کا پورا نظام مختل ہوجاتا، ہر معبود اپنی مرضی چلانا چاہتا، نتیجہ یہ نکلتا کہ ان کے آپس میں اختلاف واقع ہوجاتا اور پورا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المومنون آیت (٩١) میں فرمایا ہے : (وما کان معہ من الہ اذا لذھب کل الہ بما خلق ولعلا بعضھم علی بعض) اس کے ساتھ اور کوئی معبود نہیں ہے، ورنہ ہر معبود اپنی مخلوق کو لیے پھرتا اور ہر ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتا۔ چونکہ چند معبودوں کا پایا جانا ناممکن ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے شرک سے اپنی پانی بیان کی ہے اور آیت (٢٣) میں ربوبیت و الوہیت کو اپنے لیے مطلق طور پر ثابت کیا ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، کوئی نہیں جو اس کے کسی فعل پر اعتراض کرے، اور اس کے سوا جتنے جن و انس ہیں سب سے ان کے اعمال کا حساب لیا جائے گا، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سب اس کے بندے اور غلام ہیں اور وہی سب کا اللہ ہے سب کا آقا اور سب کا معبود ہے۔ آیت (٢٤) میں مشرکین مکہ کے شرک کی دوبارہ تردید کی گئی ہے اور رسول کریم سے کہا گیا ہے کہ آپ ذرا ان سے پوچھیے تو سہی کہ تم جو اللہ کے سوا دوسروں کو معبود بناتے ہو، تو اپنے دعوی کی صداقت پر دلیل بھی تو پیش کرو، یعنی تمہارے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ پھر کہا کہ یہ قرآن کریم ہے جو مسلمانوں کی کتاب ہے اور تورات و انجیل بھی کسی نہ کسی حال میں موجود ہے، ان میں سے کسی بھی کتاب میں اللہ کا کسی کو شریک نہیں ثابت کیا گیا ہے، تو پھر تم کس دلیل کی بنیاد پر ایسی خطرناک بات اپنی زبان پر لاتے ہو، حقیقت یہ ہے کہ تمہیں قرآن کریم کی عظمت کا احساس ہی نہیں ہے، اسی لیے توحید الوہیت سے متعلق اس میں بیان کردہ دلائل و براہین سے تم اعراض کر رہے ہو۔ آیت (٢٥) میں بھی مذکور بالا مضمون یعنی توحید باری تعالیٰ کی مزید تاکید بیان کی گئی ہے کہ آدم (علیہ السلام) کے زمانے سے لے کر نبی کریم کے زمانے تک جتنے انبیا مبعوث ہوئے اور جتنی آسمانی کتابیں نازل ہوئیں ان سب کا ایک ہی پیغام تھا، کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نیہں، اس لیے صرف اسی کی عبادت ہونی چاہیے، اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی بہت ساری آیتوں میں بیان کیا ہے۔ انہی میں سے سورۃ الزخرف کی آیت (٤٥) (واسال من ارسلنا من قبلک من رسلنا اجعلنا من دون الرحمن الھۃ یعبدون) اور سورۃ النحل کی آیت (٣٦) ( ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولا ان اعبدوا اللہ واجتنبوا الطاغوت) ہے۔ ان دونوں آیتوں میں یہی بات بیان کی گئی ہے کہ تمام انبیا کی بعثت کا مقصد ابن آدم کو یہ تعلیم دینی تھی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور صرف وہی ہر قسم کی عبادت کا مستحق ہے۔ الأنبياء
22 الأنبياء
23 الأنبياء
24 الأنبياء
25 الأنبياء
26 (١٢) خزاعہ، جہنہ، بنو سلمہ اور بنس ملیح کے قبائل کہتے تھے کہ ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ یہود کا عقیدہ تھا، اور صحیح یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ عام ہیں اور اس ضمن میں ہر وہ شخص یا گروہ داخل ہے جو اس زمانے میں اللہ کے لیے اولاد ثابت کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نقص سے اپنی پاکی بیان کی اور فرشتوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ تو اللہ کے مکرم بندے ہیں، اپنے کمال عبودیت کی وجہ سے اللہ کے بارے میں اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتے، اور اللہ کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہیں، اس کے حکم سے سر مو بھی روگردانی نہیں کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا علم ان فرشتوں کے اگلے پچھلے تمام احوال و کوائف کو محیط ہے، ان کی کوئی بات اس سے مخفی نہیں ہے اور وہ فرشتے قیامت کے دن اللہ کے حضور صرف انہی کی سفارش کریں گے جن کے لیے اللہ تعالیٰ سفارش کیا جانا پسند کرے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت (٢٥٥) میں فرمایا ہے : ( من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ) اور سورۃ سبا آیت (٢٣) میں فرمایا ہے : ( ولا تنفع الشفاعۃ عندلہ الا لمن اذن لہ) دونوں آیتوں کا مفہوم یہی ہے کہ قیامت کے دن اللہ کی اجازت کے بغیر انبیائے کرام، فرشتے یا اللہ کے دیگر نیک بندے کسی کی شفاعت نہیں کریں گے۔ اور وہ فرشتے اللہ کی مرضی کے بغیر کیسے کسی کی شفاعت کریں گے، وہ تو خود ہی اللہ تعالیٰ کے قہر و جبروت سے شدید خائف ہوں گے۔ آیت (٢٩) میں بتایا گیا ہے کہ فرشتوں کی تمام مذکور بالا خوبیوں کے باوجود، اگر بفرض محال یہ مان لیا جائے کہ ان میں سے کوئی معبود ہونے کا دعوی کر بیٹھے گا تو اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا، اس لیے مشرکین کا یہ کہنا محض افترا پردازی ہے کہ ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں اور ان کی عبادت اس لالچ سے کرنا کہ وہ اللہ کے نزدیک سفارشی بنیں گے، ظلم عظیم ہے۔ الأنبياء
27 الأنبياء
28 الأنبياء
29 الأنبياء
30 (١٣) ذیل میں مذکور آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی وحدانیت اور الوہیت کے چھ آفاقی دلائل پیش کیے ہیں جن میں مشرکین نے غور وفکر نہیں کیا، اس لیے شرک کے دلدل سے نہیں نکل سکے : ١۔ آسمان و زمین کی تخلیق سے پہلے ایک بند اور مسدود مادہ پایا جاتا تھا، آسمان سے نہ بارش ہوتی تھی اور نہ زمین پو کوئی پودا اگتا تھا اللہ تعالیٰ نے اسی مادہ سے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور انہیں ہوا کے ذریعہ الگ الگ کیا، آسمان کو اوپر اٹھایا اور زمین کو اس کی جگہ پر رہنے دیا، اور آسمان سے بارش نازل کیا اور زمین میں پودے اگائے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پانی بھیجا، اس کے ذریعہ تمام حیوانات و نباتات کو زندگی دی، اللہ تعالیٰ نے سورۃ الروم آیت (١٩) میں فرمایا : (ویحیی الارض بعد موتھا) اور وہ زمین کو اس کے مرجانے کے بعد دوبارہ زندہ کرتا ہے۔ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ یہاں ماء سے مراد نطفہ ہے، شوکانی کہتے ہیں کہ اکثر مفسرین کی یہی رائے ہے، یعنی اللہ نے ہر زندہ چیز کو قطرہ منی سے پیدا کیا ہے۔ سورۃ النور آیت (٤٥) میں اللہ نے فرمایا ہے : (واللہ خلق کل دابۃ من ماء) اللہ نے ہر چوپائے کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ ٣۔ زمین پر بڑے اور اونچے پہاڑوں کو کھڑا کردیا تاکہ زمین حکرت نہ کرے۔ ٤۔ زمین پر کشادہ راستے بنا دیئے تاکہ لوگ ان پر چل کر حصول معاش اور دیگر مقاصد کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جاسکیں۔ ٥۔ آسمان کو زمین کے لیے چھت بنایا اور اسے زمین پر گرنے سے محفوظ رکھا۔ سورۃ ق آیت (٦) میں اللہ نے فرمایا ہے : (افلم ینظروا الی السماء فوقوھم کیف بنیناھا وزیناھا وما لھا من فروج) کیا انہوں نے آسمان کو اپنے اوپر نہیں دیکھا کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا ہے اور زینت دی ہے اور اس میں کوئی شگاف نہیں۔ ٦۔ رات اور دن اور شمس و قمر کو پیدا کیا، اور شمس و قمر میں سے ہر ایک کا ایک مخصوص دائرہ بنایا جس میں وہ اللہ کے حکم کے مطابق گردش کرتا رہتا ہے، کوئی ایک دوسرے سے نہیں ٹکراتا اور اپنے محدود دائرے سے باہر نہیں ہوتا۔ سورۃ الانعام آیت (٩٦) میں اللہ نے فرمایا ہے : (فالق الاصباح وجعل اللیل سکنا والشمس والقمر حسبانا ذلک تقدیر العزیز العلیم) وہ صبح کا نکالنے والا ہے اور اسی نے رات کو راحت کی چیز بنائی ہے اور سورج اور چاند کو حساب سے رکھا ہے، یہ بات اس ذات کی ٹھہرائی ہوئی ہے جو زبردست بڑے علم والا ہے، یہی حال تمام دیگر سیاروں کا بھی ہے، ہر ایک اپنے مخصوص دائرے میں گھومتا رہتا ہے، اور سر مو بھی اس سے باہر نہیں ہوتا، ورنہ نظام عالم درہم برہم ہوجاتا، تمام سیارے آپس میں ٹکرا جاتے اور سارا عالم ہلاک و برباد ہوجاتا، یقینا قدرت الہیہ کے یہ تمام مظاہر اس بات کی دلیل ہیں خہ اللہ ایک ہے اور صرف وہی عبادت کا مستحق ہے۔ الأنبياء
31 الأنبياء
32 الأنبياء
33 الأنبياء
34 (١٤) مشرکین مکہ کا گمان تھا کہ نبی کریم جلد ہی دنیا سے رخصت ہوجائیں گے، اور ان کے بعد دعوت اسلامیہ کا شیرازہ بکھر جائے گا، اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ان کی اسی حاقدانہ خواہش کی تردید کی ہے کہ اس دنیا میں کسی کو بھی دوام حاصل نہیں ہوا ہے۔ آپ کے ان دشمنوں کو بھی دوام حاصل نہیں ہے، سب کو موت کا مزا چکھنا ہے، اس لیے اگر آپ وفات پا جائیں گے، تو اس میں حیرت کی کون سی بات ہے، لیکن اللہ کا دین تو قیامت تک باقی رہے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحجر آیت (٩) میں فرمایا ہے : (انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون) ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ آیت (٣٥) میں گزشتہ مضمون کی تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے کہ ہر مخلوق نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے، تاکہ دنیا میں اس نے جو اچھے یا برے اعمال کیے ہیں قیامت میں ان کا اسے بدلہ دیا جائے، اسی لیے اللہ نے اس کے بعد فرمایا ہے کہ وہ اس دنیا میں انسانوں کو خوشی اور غم، اسیری اور فقیری، صحت اور بیماری اور روزی میں کشادگی اور تنگی کے ذریعہ آزماتا ہے، تاکہ صابر و شاکر اور کافر و ناشکر گزار کا فرق واضح ہو اور جب موت کے بعد اللہ کے سامنے حاضر ہو تو اس کے مطابق اسے جزا و سزا ملے۔ الأنبياء
35 الأنبياء
36 (ّ١٥) ابو جہل اور دیگر مشرکین قریش نبی کریم اور ان کی دعوت کا مذاق اڑاتے تھے، ان بدبختوں کو آپ کے مقام و مرتبہ کا کچھ بھی اندازہ نہیں تھا، ان کے اس جاہلانہ تصرف سے اللہ تعالیٰ کو بھی بہت تکلیف پہنچتی تھی، جسکا اظہار اس آیت کریمہ میں ہوا ہے اور اسی تکلیف کا اظہار سورۃ الفرقان آیت (٤١) میں یوں کیا گیا ہے : (واذا راوک ان یتخذونک الا ھزوا اھذا الذی بعث اللہ رسولا) تمہیں جب کبھی دیکھتے ہیں تو تم سے مسخرا پن کرتے لگتے ہیں کیا یہی وہ شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے، کافروں کے اس جملہ میں رسول اللہ کی جو تحقیر پائی جاتی ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ نبی کریم ان کے جھوٹے معبودوں کے بارے میں جب کہتے ہیں کہ یہ بے جان ہیں اور تمہیں کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچائیں گے، تو اس پر چیں بجیں ہوتے ہیں اور خود ان کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ خالق کون و مکاں کی وحدانیت کا انکار کرتے ہیں یا اس کے قرآن کا انکار کرتے ہیں اور دندناتے پھر تے ہیں جیسے کسی جرم کا ارتکاب ہی نہیں کیا ہے۔ الأنبياء
37 (١٦) نضر بن حارث جو رسول اللہ کا بہت بڑا دشمن تھا، وہ اور دیگر مشرکین مکہ عذاب آجانے کی جلدی کرتے اور رسول کریم اور مسلمانوں سے کہتے کہ اگر تم سچے ہو تو پھر کہاں ہے وہ عذاب جس کی تم لوگ دھمکی دیتے رہتے ہو، ان کی اسی عجلت پسندی کی طرف اللہ تعالیٰ نے یہاں اشارہ کیا ہے کہ انسان طبعی طور پر جلد باز واقع ہوا ہے، وہ اپنی نشانیاں عنقریب ہی دکھلائے گا، انہیں جلدی نہیں کرنی چاہیے، چنانچہ جنگ بدر میں سرداران قریش نہایت ذلت کے ساتھ مارے گئے، اور قیامت کا عذاب بھی قریب ہی ہے مرنے کے بعد اس کا نقشہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہوگا۔ آیت (٣٩) کا تعلق گزشتہ مضمون سے ہی ہے کہ اگر اہل کفر کو روز قیامت کا یقین ہوجاتا جب وہ جہنم کی آگ سے اپنے چہروں اور اپنی پیٹھوں کو نہیں بچا سکیں گے اور نہ ہی کوئی ان کی مدد کرسکے گا، تو عذاب آجانے کی جلدی نہ مچاتے، جہنم کی ہیبت ناکیاں قرآن کریم کی بہت ساری آیتوں میں بیان کی گئی ہیں، سورۃ الزمر آیت (١٦) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (لھم من فوقھم ظلل من النار ومن تحتھم ظلل) انہیں نیچے اوپر سے آگ کے شعلے مثل سائبان کے ڈھناک رہے ہوں گے۔ اور سورۃ الاعراف آیت (٤١) میں فرمایا ہے : (لھم من جھنم مھاد و من فوقھم غواش) ان کے لیے آتش دوزخ کا بچھونا ہوگا اور ان کے اوپر اس کا اوڑھنا ہوگا، اللہ تعالیٰ ہم سب پر جہنم کی آگ کو حرام کردے۔ آیت (٤٠) میں وقوع قیامت کے بارے میں ہر شک و شبہ کا ازالہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت آئے گی اور ایسی اچانک آئے گی کہ وہ پھر کسی کو مہلت توبہ و عمل نہیں دے گی۔ الأنبياء
38 الأنبياء
39 الأنبياء
40 الأنبياء
41 (١٧) نبی کریم کو تسلی دی گئی ہے کہ اگر کفار مکہ آپ کا مذاق اڑاتے ہیں تو آپ صبر سے کام لیجیے اور ان کے انجام کا انتظار کیجیے اس لیے کہ اہل کفر کا ہر دور میں یہی شیوہ رہا ہے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کا مذاق اڑایا، اور انجام کار جس عذاب کا انہوں نے مذاق اڑایا وہ ان پر مسلط کردیا گیا۔ آیت (٤٢) میں نبی کریم سے کہا گیا ہے کہ آپ ذرا ان مذاق اڑانے والوں سے پوچھیے تو سہی کہ جس عذاب کے تم مستحق ہو، اگر اللہ تم پر وہ عذاب اتارنا چاہے تو تمہیں کون بچا سکے گا؟ اس کے بعد فورا ہی ان کے حال پر ماتم کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ وہ قبول حق سے اتنا دور جاچکے ہیں کہ ان نصیحتوں کا ان پر کوئی مفید اثر پڑنے والا نہیں ہے۔ آیت ٤٣) کا تعلق گزشتہ مضمون سے ہی ہے کہ کیا مشرکین مکہ جھوٹے معبود اس عذاب سے انہیں بچا سکیں گے؟ حالانکہ ان کے اندر اتنی بھی قدرت نہیں ہے کہ وہ کود اپنی مدد کرسکیں، یا کوئی اور ہے جو ان کافروں کو ہمارے عذاب سے بچا سکے؟ جواب ظاہر ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ انہیں عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو آسمان و زمین میں کوئی نہیں جو انہیں اس سے بچا سکے۔ الأنبياء
42 الأنبياء
43 الأنبياء
44 (١٨) بتوں کی بے بسی بیان کرنے کے بعد یہاں یہ کہا جارہا ہے کہ مشرکین کو جو دنیاوی عیش و آرام حاصل ہے وہ بھی اللہ کی جانب سے ہے، اس لیے اگر وہ انہیں ہلاک کرنا چاہے تو کوئی بچا نہیں سکتا۔ مدت مدید سے اللہ کی نعمتوں سے بہرہ ور ہونے کی وجہ سے انہیں دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیے کہ ان کی نعمتیں ہمیشہ باقی رہیں گی اور کوئی آفت انہیں لاحق نہیں ہوگی، یہ ان کی بیجا خوش فہمی ہے، کیا وہ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ جزیرہ عرب کے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوتے جارہے ہیں اور اب ان کے شہر کی باری آنے والی ہے، تو کیا ان سب مشاہدات کے باوجود بھی وہ سمجھتے ہیں کہ ہم پر غلبہ حاصل کرلیں گے۔ آیات (٤٥، ٤٦) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو مشرکین سے یہ کہنے کا حکم دیا ہے کہ میں جو تمہیں عذاب سے ڈڑا رہا ہوں تو یہ میری بات نہیں ہے بلکہ اللہ نے مجھے بذریعہ وحی اس بات کا حکم دیا ہے، لیکن دل کے بہروں کو کوئی کیسے سنا سکتا ہے،۔ قرآن میں مذکور وعدوں اور وعیدوں سے فائدہ اٹھانے کی تمہاری اندر اہلیت ہی نہیں ہے، شرک اور جھوٹے معبودوں سے محبت نے تمہارے دل کی آنکھوں کو اندھا کردیا ہے، اس لیے تم لوگ میری اور قرآن کی تکذیب کرتے ہو اور کسی دھمکی کی پر اہ نہیں کرتے ہو، اور تمہاری بد عقیدگی کا حال یہ ہے کہ اگر کوئی ہلکی سی تکلیف بھی تمہیں لاحق ہوتی ہے تو فورا واویلا کرنے لگتے ہو اور بتوں کو چھوڑ کر اللہ کے حضور اپنے گناہوں کا برملا اعتراف کرنے لگتے ہو۔ آیت (٤٧) میں اسی قیامت کا حال بیان کیا گیا ہے جس سے مشرکوں کو اوپر کی آیتوں میں ڈرایا گیا ہے اور جس کی وہ تکزیب کرتے رہے تھے کہ اس دن اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کے اعمال کو پورے عدل و انصاف کے ساتھ وزن کرے گا، کس پر کوئی ظلم ہیں ہوگا اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کسی کا کوئی عمل ہوگا تو اللہ اسے سامنے لائے گا اور اس کے دیگر اعمال کے ساتھ اس کا وزن کرے گا۔ اور اللہ سے بڑھ کر حساب میں کون دقیق ہوسکتا ہے؟ اس لیے کہ اس سے زیادہ بندوں کے اچھے اور برے اعمال کو کون جانتا ہے؟ یہ آیت اس پر بھی دلیل ہے کہ قیامت کے دن اعمال کا وزن ہوگا، سورۃ الاعراف آیت (٨) کی تفسیر کے ضمن میں وزن اعمال پر تفصیل کے ساتھ لکھا جاچکا ہے، سورۃ الکہف آیت (١٠٥) میں بھی مجمل طور پر اس کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ یہاں ایک بات یہ بتانی ہے کہ انبیائے کرام اور فرشتوں کے اعمال کا وزن نہیں ہوگا، کیونکہ ان کا حساب ہی نہیں ہوگا، اسی طرح ان تمام لوگوں کے اعمال وزن نہیں کیے جائیں گے، جنہیں اللہ بے حساب و کتاب جنت میں داخل کرے گا۔ صرف انہی جنوں اور انسانوں کے اعمال کا وزن ہوگا جن کا میدان محشر میں حساب ہوگا اور جن کے اعمال اللہ کے سامنے سے گزارے جائیں گے۔ الأنبياء
45 الأنبياء
46 الأنبياء
47 الأنبياء
48 (١٩) یہاں سے دس انبیائے کرام کے واقعات کی ابتدا ہوئی ہے اور آیات (٧، ٨، ٩) میں جو بات اجمالی طور پر بیان کی گئی ہے اسی کی تفصیل بیان کی جارہی ہے، انبیائے کرام کے قصے بیان کرنے سے مقصود نبی کریم کو تسلی دینی اور ان کے دل کو تقویت پہچانی ہے، اس لیے کہ تمام ہی قصوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ ہے کہ جن لوگوں نے ان انبیا کی دعوت کو ٹھکرا دیا اللہ نے انہیں ہلاک کردیا اور انبیا اور ان کے مسلمان ساتھیوں کو بچالیا، اس لئیے آپ اطمینان رکھیں کہ بالآخر غلبہ آپ کو اور اس دین کو حاصل وہگا جس کی تبلیغ کے لیے آپ مکلف کیے گئے ہیں اور مشرکین مکہ کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ آیات (٤٨، ٤٩) میں فرقان سے مراد تورات ہے جو حق و باطل کے درمیان تفریق کرتی تھی، جہالت کی تاریکیوں میں مشعل کا کام دیتی تھی، اور بنی اسرائیل کے وہ اہل تقوی اس کی تعلیمات سے نصیحت حاصل کرتے تھے جو اپنے رب کے ان دیکھے عذاب سے ڈرتے تھے اور روز قیامت کے تصور سے خوف کھاتے تھے کہ کہیں اعمال صالحہ میں تفریط پر اس دن مواخذہ نہ ہوجائے، اور عذاب کے سزاوار نہ ٹھہرا دیئے جائیں۔ آیت (٥٠) میں مخاطب کفار مکہ ہیں جو تورات کو آسمانی کتاب سمجھتے تھے کہ جب تم اس کے کلام الہی ہونے کے معترف ہو تو اس مبارک کتاب کا کیوں انکار کرتے ہو جسے ہم نے تورات کی طرح اپنے رسول محمد پر نازل کیا ہے۔ الأنبياء
49 الأنبياء
50 الأنبياء
51 (٢٠) اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بچپن ہی میں شمس و قمر اور دیگر ستاروں میں غور وفکر کر کے توحید ربوبیت اور توحید الوہیت کو سمجھنے اس پر ایمان لانے اور اپنے باپ آذر اور اس کی قوم کے سامنے اس عورت کو پیش کرنے کی توفیق دی تھی، اس لیے کہ اللہ جانتا تھا وہ اس عقیدہ کو قبول کرنے اور پھر اسے دوسروں کے سامنے پیش کرنے کی پوری اہلیت و صلاحیت رکھتے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر اور اس کی قوم نمرود اور اس کے ماننے والوں سے پوچھا کہ اینٹ، پتھر اور لکڑٰ کے بنے ان حقیر اور بے جان مجسموں کی کیا حقیقت ہے کہ تم لوگ ان کی عبادت کرتے ہو، نہ یہ نفع پہنچاتے ہیں نہ نقصان، یہ خود تمہارے ہی ہاتھوں کے بنے ہوئے بے جان مجسمے ہیں کس عقل کا تقاضا ہے کہ ان کی عبادت کی جائے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے آباو اجداد ان کی عبادت کرتے آئے ہیں اس لیے ہم بھی ان کی عبادت کرتے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔ آبا واجداد کی اندھی اور جاہلانہ تقلید کے علاوہ ان کے پاس اپنے مشرکانہ اعمال کی کوئی عقلی دلیل نہیں تھی، ابراہیم نے کہا تم اور تمہارے باپ دادے سبھی کھلی گمراہی میں بھٹکتے رہے ہیں۔ کیا اس سے بھی بڑھ کر بے عقلی ہوسکتی ہے کہ انسان ایسے بتوں کی پرستش کرے جو نہ نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان اور جو نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ سن سکتے ہیں۔ نفسی لکھتے ہیں کہو وہ اور ان کے باپ دادے سبھی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔ کافروں نے ان کی یہ بات سن کر کہا کہ اے ابراہیم ! جو کچھ تم ہم سے کہہ رہے ہو سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہے ہو یا یونہی ہم سے مذاق کر رہے ہو، اور تمہاری گفتگو کا کوئی مطلب نہیں ہے؟ تو ابراہیم نے اپنی داعیانہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں اپنی گفتگو میں بالکل سنجیدہ ہوں اور تمہیں بتاتا ہوں کہ تماہرا رب آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے انہیں پیدا کیا ہے اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اس کے سوا نہ کوئی معبود ہے اور نہ کوئی رب،۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ جب قوم ابراہیم کی عید کا دن آیا تو انہوں نے ابراہیم سے کہا کہ اگر تم ہمارے ساتھ عید کی خوشیوں میں شریک ہوگے تو ہمارا دین تمہیں پسند آئے گا، ابراہیم نے معذرت کردی اور دل میں کہا کہ اگر تم دعوت توحید کو میری زبان سے سن کر قبول نہیں کرتے ہو، تو اب میں تمہیں عملی طور پر سمجھاؤں گا کہ ان بتوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اور جب تم ان کی پوجا کر کے اپنے گھروں کو چلے جاؤ گے تو میں اس منکر کو اپنے ہاتھے سے بدلنے کی کوشش کروں گا۔ چنانچہ ابراہیم نے کلہاڑی سے تمام بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے، صرف بڑے بہت کو چھوڑ دیا اور اس کی گردن میں کلہاڑی لٹکا دی، تاکہ جب واپس آئیں اور اپنے معبودوں کا یہ حال دیکھیں اور بڑ؁ بت کی گردن میں کلہاڑی لٹکتا دیکھیں تو اس سے کچھ پوچھنا چاہیں، اور جب وہ اپنی زبان حال سے اپنی عاجزی اور درماندگی کا اعلان کرے تو مشرکوں کو کچھ تو سمجھ میں آئے کہ ان کے چھوٹے معبود کیا، بڑا معبود بھی تکنا عاجز و بے بس ہے کہ انہیں کچھ پتا بھی نہیں سکتا، تو پھر یہ معبود کیسے ہوسکتے ہیں؟ واپس آنے کے بعد جب انہوں نے بتوں کا یہ حال دیکھا تو کہنے لگے کہ جس نے ہمارے معبودوں کے ساتھ ایسی اہانت آمیز حرکت کی ہے، اس نے بہت ہی برا کام کیا ہے کہ جن بتوں کی ہم پرسش کرتے تھے ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے ہیں تو انہی میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ ایک نوجوان جس کا نام ابراہیم ہے، ہمارے معبودوں کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہوئے سنا گیا تھا، لوگوں نے کہا کہ پھر اسے ہم سب کے سامنے لایا جائے، اور ایسی عبرت ناک سزا دی جائے کہ دوسروں کے لیے عبرت بن جائے، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) یہی تو چاہتے تھے کہ پوری قوم کے سامنے انہیں دعوت توحید پیش کرنے اور بتوں کی بے بسی بیان کرنے کا موقع ملے۔ الأنبياء
52 الأنبياء
53 الأنبياء
54 الأنبياء
55 الأنبياء
56 الأنبياء
57 الأنبياء
58 الأنبياء
59 الأنبياء
60 الأنبياء
61 الأنبياء
62 (٢١) ابراہیم علیہ السلا بھری محفل میں لائے گئے اور ان سے پوچھا گیا کہ اے ابراہیم ! کیا تم نے ہمارے بتوں کا یہ حال بنا دیا ہے؟ تو انہوں نے بت پرستوں کے خلاف حجت قائم کرنے کے لیے اور ان کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے کہا کہ جب یہ بڑا بت تمہارا سب سے بڑا معبود ہے اور اسے تم نافع و ضار مانتے ہو تو پھر اسی نے کیا ہوگا، اور اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہوگا کہ اس کے علاوہ دیگر چھوٹے بتوں کی تم لوگ کیوں پوجا کرتے ہو۔ ابراہیم کا مقصود اپنی طرف جھوٹ کی نسبت کرنا ہرگز نہیں تھا، اس لیے کہ اس سے بڑھ کر کم عقلی اور کیا ہوسکتی تھی کہ وہ ایک پتھر سے تراشتے مجسمہ کی طرف توڑ پھوڑ کو سنجیدگی کے ساتھ منسوب کرتے، اور عقیدہ بت پرستی پر ایک کاری ضرب لگانے کے لیے مزید کہا کہ اگر یہ بت معبود حقیقی ہیں تو ان کے اندر کم از کم بولنے کی صلاحیت تو ضرور ہوگی، انہی سے پوچھ لو کہ کس نے ان کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا ہے۔ ابراہیم کا بتوں کے بارے میں یہ استہزا آمیز اور مبنی بر حقیقت جواب سن کر مشرکین لاجواب ہوگئے اور آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ان بے روح جمادات کی عبادت کر کے درحقیقت ہم ہی اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہیں اور خواہ مخواہ ابراہیم کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں، لیکن کچھ ہی دیر کے بعد ان کا کبر و عناد سر اٹھا کر پھر سامنے آگیا، اس لیے کہنے لگے : تمہیں معلوم ہے کہ یہ اصنام بات نہیں کرسکتے ہیں تو کیوں کہتے ہو کہ ہم ان سے پوچھ لیں، ان کے اس جواب سے ابراہیم کا مقصد پورا ہوگیا کہ جب تم خود اعترا کرتے ہو کہ یہ بولنے کی بھی طاقت نہیں رکھتے ہیں تو پھر کیوں ان کے سامنے جبہ سائی کرتے ہو۔ الأنبياء
63 الأنبياء
64 الأنبياء
65 الأنبياء
66 (٢٢) ابراہیم (علیہ السلام) نے انہیں لاجواب کرتے ہوئے نہایت حقارت آمیز انداز میں کہا کہ پھر تم اللہ کو چھوڑ کر ایسے بتوں کی کیوں عبادت کرتے ہو جو تمہیں نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں۔ تف ہو تم پر اور تمہارے معبودوں پر کیا تمہیں اتنی بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ تمہارا یہ فعل کتنا برا اور عقل سے کس قدر بعید ہے کہ کود اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہوئے پتھروں کے سامنے جھکتے ہو اور انہیں اپنا معبود سمجھتے ہو۔ جب مشرکین کو ابراہیم کے استدلال نے عاجز بنا دیا، تو جیسا کہ ہمیشہ باطل پرستوں کا شیوہ رہا ہے کہ حق پرستوں کی دلیل سے بے بس ہو کر طاقت کا استعمال کرتے ہیں اور ظلم و استبداد کی طرح ڈالتے ہیں، انہوں نے آپس میں رائے کی کہ اب ابراہیم کو خاموش کرنے کی ایک ہی شکل رہ گئی ہے کہ ہم لوگ اپنے معبودوں کی عظمت برقرار رکھنے کے لیے اسے بھڑکتی آگی میں ڈال دیں تاکہ دنیا اس کی بے بسی کا نظارہ کرے اور ہر شخص جان لے کہ جو شخص ہمارے معبودوں کی عزت نہیں کرتا اسے ہم ایسی ہی درناک سزا دیتے ہیں۔ انہوں نے ایک زبردست آگ جلائی، اور ابراہیم کو منجنیق کے ذریعہ دور سے اس آگ میں پھینک دیا، فخر الدین رازی اور ابو السعود نے لکھا ہے کہ ابراہیم اس آگ میں چالیس یا پچاس دن تک رہے، اس وقت ان کی عمر سولہ سال تھی، ماوردی لکھتے ہیں کہ اس وقت وہ چھبیس سال کے تھے، ابراہیم جو نہی آگ میں پھینکے گئے اللہ نے اسے حکم دیا کہ وہ ابراہیم کے لیے ٹھنڈی بن جائے، اور ٹھنڈی بھی اس قدر ہو کہ نقصان نہ پہنچائے بلکہ سکون و سلامتی کا باعث ہو۔ چنانچہ وہ ٹھنڈی اور آرام دہ بن گئی۔ امام احمد، ابن ماجہ اور ابن حبا وغیرہم نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جب ابراہیم آگ میں ڈالے گئے تو چھپکلی کے علاوہ تمام چوپایوں نے آگ بجھانے کی کوشش کی تھی چھپکلی آگ میں پھونک مارتی تھی اسی لیے رسول اللہ نے اسے مارنے کا حکم دیا ہے وہ زہریلی اور برص والی ہوتی ہے۔ محدث البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ابن ابی شیبہ اور ابن المنذر نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ ابراہیم جب آگ میں ڈالے گئے تو پہلا کلمہ جو زبان پر آیا حسبنا اللہ ونعم الوکیل تھا ہمارا اللہ ہمارے لیے کافی ہے، اور وہ بڑا کارساز ہے۔ آیت (٧٠) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بت پرستوں نے تو ابراہیم کے خلاف سازش کی کہ انہیں جلا کر خاکستر کردیں لیکن اللہ نے ان کی سازش کو انہی کی طرف پھیر دیا، ان کی کوشش ضائع ہوئی، مال کا خسارہ ہوا اور مقصد حاصل نہیں ہوا، اور دیا نے جان لیا کہ ابراہیم حق پر ہیں اور وہ سراسر باطل پر۔ الأنبياء
67 الأنبياء
68 الأنبياء
69 الأنبياء
70 الأنبياء
71 (٢٣) ابراہیم (علیہ السلام) آگ سے نکلنے کے بعد لوگوں کے سامنے توحید کی دعوت پیش کرتے رہے اور دن بدن ان کے خلاف بت پرستوں کی عداوت بڑھتی ہی گئی، یہاں تک کہ اللہ نے انہیں اپنا ملک چھوڑ کر سرزمین شام کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا تو وہ اپنے بھتیجا لوط (جو ان کے بھائی ہاران اصغر کے بیٹے تھے) اور اپنی بیوی سارہ (جو ان کے چچا ہاران اکبر کی بیٹی تھیں) کے ساتھ ملک شام کی طرف روانہ ہوگئے جو اپنی زرخیزی، درختوں، نہروں اور پھلوں کی کثرت کی وجہ سے مشہور تھا، اور جو بہت سے انبیا کی جائے پیدائش تھا اور اسی لیے اللہ نے اسے مومن و کافر سب کے لیے مبارک کہا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی تھی کہ ( رب ھب لی من الصالحین) اے میرے رب ! مجھے نیک لڑکا عطا فرما۔ (الصافات : ١٠٠) تو اللہ نے ان کی دعا قبول کرلی تھی، چنانچہ سارہ علیہا السلام کے بطن سے اسحاق پیدا ہوئے، اور اللہ نے اپنی طرف سے فضل و کرم کرتے ہوئے اسحاق کو ابراہیم کی زندگی میں ہی یعقوب جیسا بیٹا دیا جو اپنے دادا اور باپ کی طرح نبی ہوئے، اور ان تینوں ہی حضرات کو اللہ تعالیٰ نے صالح کا لقب دیا، اس لیے کہ انہوں نے اپنے خالق و مالک کا حق عبادت پورے طور سے ادا کیا اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں بھی کمی نہیں کی، اور ان سب کو اللہ تعالیٰ نے رشد و ہدایت کا امام بنایا تھا، آسمانی وحی کے مطابق لوگوں کی بھلائی کی طرف رہنمائی کرتے تھے اور خود بھی نیک کام کرتے تھے، نماز کی پابندی کرتے تھے، زکوۃ دیتے تھے اور اپنے رب کی عبادت میں لگے رہتے تھے۔ الأنبياء
72 الأنبياء
73 الأنبياء
74 (٢٤) اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کو نبوت علم شریعت اور حکمت و دانائی سے نوازا تھا، اور لوگوں کے درمیان صحیح فیسلہ کرنے کی صلاحیت عطا کی تھی، وہ اہل سدوم، اہل عمورہ اور آس پاس کی بستیوں میں تبلیغ دین کا کام کرتے رہے، لیکن ولگوں کی حالت نہیں بدلی اور جن خبیث اعمال کا ارتکاب کرتے تھے انہیں ترک نہیں کیا، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ وہ مسلمانوں کو لے کر وہاں سے نکل جائیں، اور ان بستیوں والوں کو ان کے فسق و فجور، فعل لواطت اور مجلسوں میں گوز کا مقابلہ کرنے کی وجہ سے ہلاک کردیا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ ان شہروں کی تعداد سات تھی، جبریل نے ان میں سے چھ کو الٹ دیا اور صرف (زغر) نام کی ایک بستی کو لوط (علیہ السلام) اور ان کے اہل و عیال کے لیے چھوڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آیت (٧٥) میں فرمایا کہ ہم نے ولط کو ان کے صلاح و تقوی کی وجہ سے اپنی رحمت میں داخل کردیا۔ معلوم ہوا کہ صالحیت اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سبب ہوتی ہے اور فسق و فجور اس کی رحمت سے محرومی کا باعث بنتا ہے، اور اللہ کے نیک بندوں میں سب سے زیادہ اصھاب صلاح و تقوی انبیائے کرام ہوتے ہیں۔ سلیمان (علیہ السلام) نے دعا کی تھی : (وادخلنی برحمتک فی عبادک الصالحین) مجھے اپنی رحمت سے اپنے صالح بندوں میں داخل کردے۔ (النمل : ١٩) الأنبياء
75 الأنبياء
76 (٢٥) نوح (علیہ السلام) بھی اللہ کے بڑے انبیا میں سے تھے، انہیں چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی، اس کے بعد سے نو سو پچاس سال تک اپنی قوم میں دعوت کا کام کرتے رہے، لیکن وہ لوگ اپنے کفر و استکبار پر اڑے رہے، تو نوح (علیہ السلام) نے ان پر بددعا بھیج دی اور اپنے رب سے کہا : (انی مغلوب فانتصر) اے میرے رب ! میں مغلوب ہوں تو میری مدد فرما۔ (القمر : ١٠) اور کہا : (رب لا تذر علی الارض من الکافرین دیارا) میرے رب زمین پر کسی کافر کا گھر نہ چھوڑ۔ (نوح : ٢٦) تو اللہ تعالیٰ نے طوفان کے ذریعہ نوح اور مسلمانوں کے سوا تمام کافروں کو ہلاک کردیا، نوح (علیہ السلام) طوفان کے بعد ساٹح سال تک زندہ رہے، اس طرح ان کی مجموعی عمر ایک ہزار پچاس سال ہوتی ہے۔ الأنبياء
77 الأنبياء
78 (٢٦) داؤد اور سلیمان علیہما السلام بھی ان انبیا صالحین میں سے تھے جن پر اللہ نے اپنا خاص فضل و کرم فرمایا تھا، دونوں کو نبوت اور حکمت و دانائی سے نوازا تھا، ایک بار ایسا ہوا کہ قوم داؤد کے ایک شخص کی بکریاں رات کے وقت کسی کے انگور کے باغ میں گھس گئیں اور پوری کھیتی کو تہس نہس کردیا۔ مقدمہ داؤد کے پاس پہنچا انہوں نے فیصلہ کیا، کھیت والا بکریاں لے لے، اس لیے کہ خسارہ بکریوں کی قیمت کے برابر تھا، جب دونوں وہاں سے باہر آئے تو سلیمان (علیہ السلام) کو فیصلے کا علم ہوا، انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ فیصلہ تو صحیح ہے لیکن دونوں کے لیے اس سے زیادہ مفید فیصلہ یہ ہوگا کہ بکریوں کا مالک کھیتی کی دیکھ بھال کرے یہاں تک پہلے کی طرح ہوجائے اور کھیت والا بکریوں کے دودھ اور اون وغیرہ سے مستفید ہو یہاں تک کہ اس کا کھیت پہلی حالت میں لاکر واپس کردیا جائے۔ آیات (٧٨، ٧٩) میں اسی واقعہ کا ذکر ہے اور اس بات کی صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے باپ بیٹا دونوں کو حکمت و دانائی دی تھی، لیکن اس قضیہ میں سلیمان کا فیصلہ زیادہ بہتر تھا، جمہور مفسرین کی رائے ہے کہ دونوں کے فیصلے اجتہادی تھے اور صحیح تھے لیکن سلیمان (علیہ السلام) کا فیصلہ زیادہ مناسب حال تھا۔ آیت (٧٩) کے آخر میں بعض ان انعامات الہیہ کا ذکر ہے جو داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ خاص تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے پہاڑوں اور چڑیوں کو مسخر کردیا تھا جب وہ اپنی سریلی آواز میں تسبیح پڑھتے اور زبور کی تلاوت کرتے تو پہاڑوں سے ویسی ہی آواز آنے لگتی اور چڑیاں فضا میں ٹھہر جاتی اور ان کی سر میں سر ملا کر اللہ کی تسبیح پڑھنتے لگیں۔ سورۃ ص آیات (١٧، ١٨، ١٩) میں ہے : (واذکر عبدنا داود ذا الاید انہ اواب۔ انا سخرنا الجبال معہ یسبحن بالعشی والاشراق۔ والطیر محشورۃ کل لہ اواب) اور ہمارے بندے داؤد کو یاد کیجیے جو بڑی طاقت والے تھے، یقینا وہ بہت رجوع کرنے والے تھے ہم نے پہاڑوں کو ان کے تابع کر رکھا تھا کہ ان کے ساتھ شام کو اور صبح کو تسبیح پڑھیں، اور پرندوں کو بھی، سب کے سب جمع ہو کر اس کے زیر فرمان رہتے۔ یہ باتیں اللہ کے عجائبات قدرت میں سے تھیں اور وہ تو ان سے بھی زیادہ عجیب و غریب باتوں پر قادر ہے، وہ تو ہر چیز پر قادر ہے، کوئی چیز اسے عاجز نہیں بنا سکتی۔ آیت (٨٠) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اسلحہ سازی کا علم دیا تھا، اور ان کے ہاتھ میں لوہا آتے ہی نرم ہوجاتا تھا، تاکہ اس سے بآسانی جو ہتھیار بنانا چاہیں بنالیں، سورۃ سبا آیات (١٠، ١١) میں ہے : ٠ والنا لہ الحدید۔ ان اعمل سابغات وقدر فی السرد) اور ہم نے ان کے لیے لوہا نرم کردیا کہ آپ پوری پوری زرہیں بنایئے اور جوڑوں میں اندازہ رکھیے (تاکہ چھوٹی بڑی نہ ہوں، یا سخت یا نرم نہ ہوں)۔ اور سلیمان (علیہ السلام) کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہوا کو مسخر کردیا تھا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ تیز و تند ہوا ان کے تخت کو اڑائے پھرتی تھی۔ صبح کے وقت اس پر بیٹھ کر جہاد کے لیے ایک ماہ کی مسافت تک جاتے اور شام تک اپنے ملک (شام) واپس آجاتے۔ سورۃ سبا آیت (١٢) میں اللہ نے فرمایا ہے : (ولسلیمان الریح غدوھا شھر و رواحھا شھر) اور ہم نے سلیمان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا کہ صبح کی منزل اس کی مہینہ بھر کی ہوت اور شام کی منزل بھی، یعنی صبح سے لے کر شام تک دو ماہ کی منزل طے کرتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جنوں کو بھی مسخر کردیا تھا، جو سمندر میں غوطے لگا کر ان کے لیے قیمتی موتی اور جواہر نکالتے تھے، اور دوسرے کام بھی ان کے حکم سے کرتے تھے، عمارتیں، مجسمے، قلعے اور کشتیاں وغیرہ بناتے تھے۔ سورۃ سبا آیت (١٣) میں اللہ نے فرمایا ہے : (یعملون لہ ما یشاء من محاریب وتماثیل وجفان کالجواب) جو کچھ سلیمان چاہتے وہ جنات تیار کردیتے مثلا قلعے، اور مجسمے اور حوضوں کے برابر لگن۔ اور اللہ تعالیٰ کا ان پر خاص کرم یہ تھا کہ وہ ان تمام چیزوں کی حفاظت کرتا تھا تاکہ کوئی شیطان بنانے کے بعد انہیں بگاڑ نہ دے۔ الأنبياء
79 الأنبياء
80 الأنبياء
81 الأنبياء
82 الأنبياء
83 (٢٧) ان انبیائے صالحین میں سے ایوب (علیہ السلام) بھی تھے، کہتے ہیں کہ ان کا زمانہ ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد کا تھا اور ان کا علاقہ بحر میت کے جنوب شرق میں تھا، وہ اللہ کے بڑے ہی شاکر و صابر بندے تھے، اللہ نے انہیں خوب مال و دولت اور اولاد و جاہ سے نوازا تھا، اس لیے اپنے رب کا خوب شکر کرتے تھے، اس کے بعد اللہ نے انہیں بیماری میں مبتلا کردیا اور اولاد و دولت سب جاتی رہی تو اپنے رب کی رضا کے لیے بہت ہی صبر سے کام لیتے رہے، اور دل میں شکوہ کو جگہ نہیں دی، جب ان کی تکلیف حد سے بڑھنے لگی اور اسی حال میں اٹھارہ سال کا زمانہ گزر گیا تو انہوں نے اپنے رب سے دعا کی اللہ نے ان کی دعا قبول کرلی، ان کی بیماری جاتی رہی اور اللہ نے اپنے فضل و کرم سے انہیں پہلے سے بھی زیادہ مال و دولت اور اولاد و جاہ سے نوازا۔ اس واقعہ سے نصیحت ملتی ہے کہ صبر کا انجام ہمیشہ اچھا ہوتا ہے اور اسمائے حسنی اور صفات علیا کے واسطے سے اللہ کے حضور دعا اور گرزیہ و زاری سے مصیبت دور ہوتی ہے اور دنیا کی مصیبت و تکلیف اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ بندہ اپنے رب کی نگاہ میں ذلیل و بدبخت ہے اور ایمان و اخلاص کے ساتھ صبر کرنے سے اللہ تعالیٰ پہلے سے کئی گنا زیادہ دیتا ہے۔ الأنبياء
84 الأنبياء
85 (٢٨) اسماعیل اور ادریس اور ذو الکفل بھی انبیائے کرام میں سے تھے، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اسماعیل سے مراد ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے ہیں، ان کا اور ادریس کا ذکر سورۃ مریم میں آچکا ہے، باقی رہے ذوالکفل تو آیت کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبی تھے، جبھی ان کا ذکر انبیا کے ضمن میں آیا ہے، انتہی۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ ذوا الکفل سے مراد حزقیل (علیہ السلام) ہیں۔ ان تینوں انبیا کو اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے والا بتایا ہے، یعنی اللہ کی بندگی میں جو تکلیف ہوتی تھی اس پر صبر کرتے تھے، گناہوں سے بچتے تھے اور قضا و قدر کے مطابق زندگی میں انہیں جو تکلیف و مصیبت لاحق ہوتی تھی اس پر بھی صبر کرتے تھے اور تینوں کو اللہ تعالیٰ نے منصب نبوت پر فائز کیا تھا، اس لیے کہ وہ صلاح تقوی میں درجہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔ الأنبياء
86 الأنبياء
87 (٢٩) ذوالنون سے مراد یونس بن متی (علیہ السلام) ہیں۔ نون مچھلی کو کہتے ہیں چونکہ مچھلی نے انہیں اللہ کے حکم سے نگ لیا تھا، اسی لئیے اللہ نے اس لقب کے ساتھ ان کا ذکر فرمایا ہے۔ انہیں موصل کے علاقے میں نینوی والوں کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا تھا، تاکہ لوگوں کو توحید بار تعالیٰ، عدل و انصاف اور اخلاق حسنہ کی دعوت دیں، لیکن انہوں نے ان کی دعوت کو قبول نہیں کیا، بلکہ دن بدن ان کی شر انگیزی بڑھتی ہی گئی۔ آخر کار ان کے کفر سے تنگ آکر انہیں دھمکی دی کہ اگر وہ ایمان نہیں لائیں گے تو ان پر اللہ کا عذاب آکر رہے گا، اور خود وہاں سے نکل کر بیت المقدس آگئے، اور پھر وہاں سے یافاکی طرف روانہ ہوگئے، اور ترشیش کی طرف جانے والی ایک کشتی میں سوار ہوگئے، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ تیز آندھی چلنے لگی اور کشتی کو خطرہ لاحق ہوگیا، تو لوگوں نے کشتی کا بوجھ کم کرنے کے لیے اپنا سمندر میں پھینک دیا، اس کے بعد بھی خطرہ نہیں ٹلا تو انہوں نے سوچا کہ کشتی میں ضرور کوئی یسا آدمی ہے جس کی وجہ سے خطرہ لاحق ہے۔ چنانچہ قرعہ اندازی کی تو یونس (علیہ السلام) کا نام قرعہ نکلا، اس لیے لوگوں نے انہیں سمندر میں پھینک دیا تو طوفان رک گیا، اللہ نے ایک مچھلی کو بھیجا جس نے انہیں نگل لیا، تین دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہے، پھر دعا کی تو اللہ نے قبول کرلی اور مچھلی نے ساحل پر آکر اپنے پیٹ سے انہین باہر کردیا۔ ترمذی، نسائی اور حاکم وغیرہم نے سعد بن ابی وقاص سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : یونس کی دعا جب وہ مچھلی کے پیٹ میں تھے : لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین۔ تھی، جب بھی کوئی مسلمان اپنے رب سے کسی حاجت کے لیے یہ دعا کرے گا قبول کی جائے گی۔ محدث البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے، احمد حاکم اور ترمذی نے ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ آیت میں ظلمات یعنی تاریکیوں سے مراد رات کی تاریکی، مچھلی کے پیٹ کی تاریکی، اور سمندر کی تاریکی ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یونس (علیہ السلام) کی ناراضگی اللہ کے لیے اپنی قوم کے کفر کی وجہ سے تھی، لیکن ان سے بھول یہ ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر نینوی سے چلے گئے تھے، اسی لیے جب دعا کی تو اپنے آپ کو ظالم کہا، یونس (علیہ السلام) کے نینوی سے چلے جانے کے بعد جب ان کی قوم کو عذاب کا یقین ہوگیا تو انہوں نے فورا توبہ کرلی، اور ایمان لے آئے، تو اللہ نے عذاب کو اٹھا لیا جس کی تفصیل سورۃ یونس آیت (٩٨) میں گزر چکی ہے۔ الأنبياء
88 الأنبياء
89 (٣٠) جن انبیائے کرام کی زندگی نبی کریم اور مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے، ان میں سے زکریا (علیہ السلام) بھی ہیں، انہوں نے بڑھاپے میں اپنے رب سے دعا کی کہ وہ انہیں ایک بیٹا عطا کردے جو ان کے بعد دعوت الی اللہ کا کام سنبھالے، یہ واقعہ سورۃ آل عمران آیات (٣٨) سے (ّ٤١) اور سورۃ مریم آیات (٣) سے (١٥) میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاچکا ہے۔ انہوں نے اپنی دعا میں کہا، میرے رب مجھے تنہا نہ چھوڑ دے، ایک لڑکا دے جو نبوت اور علم و حکمت میں میرا اور آل یعقوب کا وارث بنے اور تو تو سب سے اچھا وارث اور سب سے زیادہ اپنے بندوں پر رحم کرنے والا ہے، تو اللہ نے ان کی دعا قبول فرما لی اور ان کی بیوی کو لڑکا پیدا کرنے کے قابل بنا دیا، جن کے بطن سے یحیی پیدا ہوئے۔ الأنبياء
90 (٣١) مذکور بالا انبیائے کرام کا فردا فردا ذکر کرنے کے بعد اب ان تمام کی مجموعی صفت یہ بتائی جارہی ہے کہ یہ حضرات بھلائی کے کاموں کی طرف سبقت کرتے تھے اور امید و خوف دونوں حالتوں میں اپنے کو پکارتے تھے، اور ہر حال میں اس کے لیے خشوع و خضوع اختیار کرتے تھے، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ تینوں صفات زکریا، ان کی بیوی اور ان کے بیٹے یحی کی بیان کی گئی ہیں۔ ترمذی نے عمر بن خطاب سے روایت کی ہے کہ نبی کریم جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تو ختم کرتے وقت دونوں ہاتھوں کو اپنے چہرہ پر پھیر لیتے، اور ترمذی نے ہی انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : جب اللہ سے مانگو تو اپنی ہتھیلیوں کے ذریعہ مانگو، ان کی پشت کے ذریعہ نہ مانگو اور انہیں اپنے چہرے پر پھیر لو، اور ابن عباس سے مروی ہے کہ دونوں ہاتھوں کو سینہ تک اٹھانا دعا ہے، اور انہیں سر سے اوپر اٹھانا گڑ گڑانا ہے۔ الأنبياء
91 (٣٢) اگرچہ مریم علیہا السلام نبی نہیں تھیں، لیکن چونکہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی ماں تھی اور دونوں کے قصے میں اللہ تعالیٰ کے عجائبات قدرت کی عظیم نشانیاں پائی جاتی تھیں، اسی لیے یہاں ان کا ذکر مناسب رہا۔ مریم علیہا السلام نے کبھی حرام نہیں کیا، بلکہ حلال سے بھی اپنی شرمگاہ کو بچایا، انہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی عابدت کے لیے کلی طور پر فارغ کرلیا تھا اس لیے بلوغت کے بعد کبھی شادی کا خیال بھی ان کے دل و دماغ میں نہیں گزرا، اللہ تعالیٰ نے جب عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کے بطن سے بغیر باپ کے پیدا کرنا چاہا تو جبریل نے ان کے گریبان یا دامن میں پھونک مارا اور اللہ کے حکم سے عیسیٰ (علیہ السلام) ان کے بطن میں وجود میں آگئے۔ مریم علیہا السلام اور ان کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) دونوں کے حالات و واقعات میں دنیا والوں کے لیے بڑی عبرت و نصیحت کی باتیں ہیں۔ مریم کے پاس محراب میں سردی کا پھل گرمی میں اور گرمی کا پھل سردی میں اللہ کے حکم سے آتا تھا، عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے وقت کھجور کے خشک درخت میں پھل آگیا، اور مریم کے قدموں کے نیچے چشمہ جاری ہوگیا، اور عیسیٰ (علیہ السلام) نے ماں کی گود میں لوگوں سے بات کی، اور نبی ہونے کے بعد اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کیا اور گنجے اور برص والے کی بیماری دور کردی۔ الأنبياء
92 (٣٣) یہاں امۃ سے مراد دین وملت ہے، اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ مذکورہ بالا آیتوں میں جن انبیائے کرام کا ذکر آیا ہے ان کے علاوہ بھی حضرت آدم سے لے کر نبی کریم تک جتنے انبیا گزرے ہیں۔ سبھوں کا عقیدہ اور دین ایک ہی تھا، سبھی عقیدہ توحید پر قائم اور اس کی دعوت دینے والے تھے، ہر نبی نے اپنے عہد کے لوگوں کو توحید باری تعالیٰ کی دعوت دی، شرک سے ڈرایا اور انہیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام مخلوقات کا رب ہے، اس لیے صرف اسی کی عبادت کرنی چاہیے۔ لیکن تمام انبیائے کرام کے دنیا سے گزر جانے کے بعد ان کی امتیں مرور زمانہ کے ساتھ اسل توحید سے برگشتہ ہوتی چلی گئیں، اور مختلف جماعتوں اور فرقوں میں بٹتی گئی کسی نے اپنا نام یہودی رکھ لیا، کسی نے نصرانی اور کسی نے بت پرست اور اصل دین دین اسلام کا نام ان کے ذہنوں سے محو ہوگیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان سب گروہوں کو ہامرے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے، تو ان میں سے جو لوگ موحد ہوں گے اور حالت ایمان میں عمل صالح کیا ہوگا، اللہ ان کی محنت کو رائیگاں نہیں کرے گا، وہ اپنے فرشتوں کے ذریعہ بندوں کے تمام اعمال کو لکھ رہا ہے۔ اسی مفہوم کو اللہ نے سورۃ الاسرا آیت (١٩) میں یوں بیان کیا ہے : (ومن اراد الاخرۃ وسعی لھا سعیھا وھو مومن فاولئک کان سعیھم مشکورا) جس کا ارادہ آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اس کے لیے ہونی چاہیے وہ کرتا بھی اور وہ بایمان بھی ہو، پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے یہاں پوری قدر دانی کی جائے گی۔ آیت (٩٥) میں فرمایا کہ صالحین و موحدین کے مقابلے میں جو لوگ کافر و مشرک ہوں گے اور ان کے کفر و شرک کی وجہ سے اللہ انہیں دنیا میں ہلاک کردے گا تو قیامت کے دن وہ ضرور اپنے رب کے حضور جزا و سزا کے لیے لائے جائیں گے۔ اس بات کو اللہ نے قطعی طور پر حرام کردیا ہے کہ وہ قیامت کے دن اس کے پاس لوٹ کر نہ آئیں، آیت کا ایک دوسرا مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو قوم اپنے گناہوں کی وجہ سے دنیا میں ہلاک کردی جاتی ہے، اسے دوبارہ دنیاوی زندگی نہیں دی جاتی ہے۔ تیسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ جس قوم کے بارے میں دنیاوی یا اخروی عذاب کا فیصلہ ہوجاتا ہے وہ توبہ کر کے ایمان و عمل صالح کی زندگی ہرگز اختیار نہیں کرتی ہے۔ الأنبياء
93 الأنبياء
94 الأنبياء
95 الأنبياء
96 (٣٤) جس قیامت کے بارے میں اوپر کہا گیا ہے کہ اس دن تمام جن و انس اللہ کے پاس ضرور لوٹ کر جائیں گے اس کے قریب ہونے کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ وہ رکاوٹ جو ذوالقرنین نے یاجوج و ماجوج کو روکنے کے لیے کھڑی کی تھی، ہٹا دی جائے گی اور وہ زمین میں تیزی کے ساتھ پھیل جائیں گے، اور جدھر سے گزریں گے ہر چیز کو تباہ و برباد کردیں گے، اور کوئی ان کا مقابلہ نہ کرسکے گا اس وقت قیامت بالکل قریب ہوگی جس کا وعدہ برحق اللہ نے بندوں سے کر رکھا ہے۔ اور اہل کفر جب قیامت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو مارے خوف و ہراس کے ان کی آنکھیں پتھرا جائیں گی اور کف افسوس ملتے ہوئے کہنے لگیں گے ہائے ہماری بد نسیبی، ہم تو اس دن کی کامیابی کے لیے تیاری کرنے سے بالکل ہی غافل تھے، ہمیں تو یقین ہی نہیں تھا کہ قیامت آئے گی، ہم نے تو اپنے آپ پر بڑا ہی ظلم کیا کہ آج یہ روز سیاہ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ لیکن اس وقت کا افسوس اور اس دن کی توبہ ان کے کسی کام نہ آئے گی۔ الأنبياء
97 الأنبياء
98 (٣٥) مشرکین مکہ کو بالخصوص اور تمام مشرکین عالم کو بالعموم خطاب کر کے کہا جارہا ہے کہ تم اور تمہارے وہ معبود جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو سبھی اس جہنم کا ایندھن بنو گے جس میں تم ضرور داخل ہوگے، اور اس وقت تمہیں یقین ہوجائے گا کہ اگر یہ اصنام تمہارے حقیقی معبود ہوتے تو تمہارے ساتھ جہنم کا ایندھن نہ بنتے، عابد و معبود سبھی اس جہنم میں ہمیشہ جلتے رہیں گے، علمائے تفسیر لکھتے ہیں کہ پتھر کے تراشے بتوں کو جہنم میں ان کے پجاریوں کی تذلیل و اہانت کے لیے ڈالا جائے گا، اور شدت عذاب اور شدت حزن و الم کی وجہ سے جہنمیوں کے منہ سے ایک کربناک چیخ نکلتی رہیے گی، اور جہنم کی چنگھاڑ اور جہنمیوں کی چیخ و پکار اور شدت عزاب کی وجہ سے جہنمی کچھ بھی نہ سن پائیں گے۔ اعاذنا اللہ من النار۔ الأنبياء
99 الأنبياء
100 الأنبياء
101 (٣٦) کافروں کے بعد اب مومنوں کا حال بیان کیا جارہا ہے کہ جن لوگوں کے لیے اللہ تالی نے ازل میں نیک بختی اور اعمال صالحہ کے لیے توفیق مقدر کردی ہے، انہیں جہنم سے دور رکھا جائے گا اور اس کی آواز بھی نہیں سنیں گے، وہ تو جنت کے باغوں میں ہوں گے اور اپنی من چاہی چیزیں کھا پی رہے ہوں گے اس میں ہمیشہ کے لئیے رہیں گے اور جب میدان محشر میں جمع ہونے کے لیے دوسرا صور پھونکا جائے گا تو ان پر کوئی گھبراہٹ طاری نہیں ہوگی، فرشتے ان کے استقبال کے لیے آگے بڑھ کر انہیں مبارکباد دیں گے اور کہیں گے کہ یہی وہ تمہاری خوشی کا دن ہے جس کا تم سے دنیا میں وعدہ کیا جاتا تھا۔ آج تمہیں تمہاری نیکیوں کا اچھا بدلہ دیا جائے گا۔ ابن جریر، طبری، طبرانی اور حاکم وغیرہم نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جب آیت (٩٨) نازل ہوئی کہ تم اور تمہارے معبود سبھی جہنم کا ایندھن بنیں گے تو عبداللہ بن الزبعری نے رسول اللہ سے کہا، اے محمد ! کیا تم نہیں کہتے ہو کہ عزیز نیک تھے، عیسیٰ نیک تھے، اور مریم نیک تھیں؟ آپ نے کہا، ہاں۔ تو اس نے کہا کہ فرشتے، عیسی، عزیر اور مریم سب کی عبادت کچھ لوگ کرتے ہیں تو کیا یہ سبھی جہنم میں جائیں گے؟ تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ جو لوگ نیک ہیں اور ان کی عبادت ان کی مرضی کے بغیر کی جاتی ہے وہ جہنم کا ایندھن نہیں بنیں گے۔ الأنبياء
102 الأنبياء
103 الأنبياء
104 (٣٧) قیامت کے جس دنا کا اوپر ذکر آیا ہے، اسی دن یہ بھی ہوگا کہ اللہ تعالیٰ آسمان کو اپنے دائیں ہاتھ سے اس طرح لپیٹ دے گا جس طرح کوئی لکھنے والا نوشہ مکتوب لپیٹ دیتا ہے، تمام ستارے ٹوٹ کر بکھر جائیں گے، آفتاب و ماہتاب مضمحل ہو کر اپنی اپنی جگہ چھوڑ دیں گے، اور پورا نظام عالم درہم برہم ہوجائے گای، اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو دوبارہ پیدا کرے گا، سب اپنی قبروں سے ننگے پاؤں، ننگے بدن اور غیر ختنہ شدہ اٹھیں گے، اللہ کا یہ وعدہ سچ ہے اور وہ ایسا کر کے رہے گا، اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ الأنبياء
105 (٣٨) زبور کا لغوی معنی کتاب ہے، یہاں اس سے رماد یا تو وہ (زبور) ہے جو داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی، یا تمام آسمانی کتابیں اور ذکر سے مراد لوح محفوظ ہے اور ارض سے مراد یا تو جنت ہے یا کافروں کی سرزمین اور نیک بندوں سے مراد یا تو نبی کریم کی امت کے نیک لوگ ہیں یا ہر امت کے نیک لوگ۔ اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں لکھنے کے بعد تمام آسمانی کتابوں میں بھی یہ بات لکھ دی ہے کہ جنت کے حقدار اس کے نیک بندے ہوں گے، سورۃ الزمر آیت (٧٤) میں آیا ہے : (و قالوا الحمدللہ الذی صدقنا وعدہ واورثنا الارض نتبوا من الجنۃ حیث نشاء) اور جنتی کہیں گے کہ اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ وپرا کیا اور ہمیں اس سرزمین کا وارث بنایا کہ جنت میں جہاں چاہیں مقام کریں۔ یا یہ بات لکھ دی ہے کہ زمین پر اقتدار اس کے نیک بندوں کو حاصل ہوگا، اکثر مفسرین کی یہی رائے ہے کہ اس آیت میں نبی کریم کی امت کے لیے بشارت ہے کہ وہ لوگ کافروں کے ممالک کو فتح کریں گے اور ان کے مالک و حاکم بن جائیں گے۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ ایسا ہی ہوا، قیصر و کسری کے جن علاقوں کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہاں مسلمان پہنچ پائیں گے، وہ سارے علاقے اسلام کے زیر نگیں آگئے۔ پھر جب مسلمانوں کی دینی حالت خراب ہوگئی تو زوال پزیر ہوگئے، اور قیامت تک جب کبھی یہ امت صلاح و تقوی کو اپنا شعار بنائے گی اور قرآن و سنت کی بنیاد پر متحد ہوجائے گی تو اللہ کا وعدہ اپنے آپ کو دہرائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور آیت (٥٥) میں فرمایا ہے : وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم) تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک اعمال کیے ہیں اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے۔ الأنبياء
106 (٣٩) یا تو اشارہ اس سورت میں مذکور انبیائے کرام کی خبروں اور دیگر پند و نصائح کی طرف ہے، یا قرآن کریم کی طرف۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ یہ پند و نصائح یا یہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی جنت کو پانے کے لیے ان لوگوں کے لے کافی ہے جو اس کی عبادت میں خشوع و خضوع کے ساتھ مشغول رہتے ہیں۔ ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ یہاں عبادت سے مراد پنج وقتہ نماز ہے، انس بن مالک سے ایک حدیث مروی ہے جسے ابن مردویہ، دیلمی اور ابو نعیم نے روایت کی ہے کہ پنج گانہ نمازیں عبادت میں مشغول رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ الأنبياء
107 (٤٠) اس آیت کریمہ میں نبی کریم کی تعریف بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے یعنی جس دین کے ساتھ وہ دنیا میں مبعوث ہوئے وہ جن و انس کے لیے سراپا رحمت ہے، دنیا و آخرت کی سعادت اسی کو قبول کرلینے میں ہے، اس لیے بطور مبالغہ نبی کریم کو (رحمت) کہا گیا ہے۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ۔ امام مسلم نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے، نبی کریم سے کہا گیا کہ آپ مشرکوں پر بددعا کردیجیے، تو آپ نے فرمایا : میں لعنت بھیجنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہوں، میں تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اسی لیے اس آیت کی تفسیر میں ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی کریم کی بعثت کے بعد جو ایمان لے آیا، اس کے لیے دنیا و آخرت دونوں جہان میں رحمت تمام ہوگئی، اور جو ایمان نہیں لایا وہ دنیاوی عذاب سے محفوظ ہوگیا جو گزشتہ قوموں پر مسخ صورت زمین کے دھنس جانے اور پتھروں کی بارش کی شکل میں آتا رہا ہے۔ الأنبياء
108 (٤١) نبی کریم جو رحمت لے کر دنیا میں مبعوث ہوئے وہ توحید باری تعالیٰ ہے، یہی دین اسلام اور تمام ادیان سماویہ کی اصل اور بنیاد ہے۔ اسی لیے نبی کریم کو رحم کا لقب دینے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا کہ آپ اہل مکہ سے کہہ دیجیے کہ مجھ پر جو وحی نازل وہتی ہے اس کا خلاصہ یہی ہے کہ تم سب کا معبود ایک ہے اور وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اس لیے تم لوگ اسی کے سامنے جھکو، اسی کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ عبادت میں کسی کو شریک نہ کرو۔ اگر اس بلاغ صریح کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اسلام کو قبول نہیں کرتے ہیں، تو پھر آپ ان سے برملا کہہ دیجیے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان صلح و آشتی کی اب کوئی صورت نہیں ہے، یہ بات تم میں سے سب کو معلوم ہونی چاہیے، اور آپ ان سے یہ بھی کہہ دیجیے کہ مجھے نہیں معلوم کہ وہ عذاب جو تم پر اللہ مسلمانوں کے ہاتھوں نازل کرنے والا ہے اس کا وقت ریب ہے یا بعید، لیکن اتنی بات یقینی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کا غلبہ ہوگا اور اللہ مسلمانوں کے ہاتھوں تمہیں عذاب دے گا۔ آیت (١١٠) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم جو اسلام، قرآن کریم اور نبی کریم کا برملا مذاق اڑاتے ہو، اور ان کی عیب جوئی کرتے رہتے ہو تو اللہ تعالیٰ کو سب معلوم ہے اور جو عداوت و دشمنی بغض و حسد اپنے دلوں میں چھپائے پھرتے ہو، اللہ انہیں بھی جانتا ہے، نہ تمہارا ظاہری خبث اللہ سے پوشیدہ ہے اور نہ دل میں چھپا ہوا، مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے کفار مکہ کے لیے زبردست دھمکی ہے۔ آیت (١١١) میں فرمایا کہ ہوسکتا ہے کچھ دنوں کے لیے عذاب الہی کا ٹل جانا تمہیں مزید آزمائش میں ڈالنے کے لیے ہو، اور ایک مقرر وقت تک کے لیے اللہ کی جانب سے کسی حکمت کے تقاضے کے مطابق تمہارے لیے چھوٹ ہو، اس لیے اس تاخیر و امہال سے تمہیں دھوکے میں نہیں پڑنا چاہئے۔ آیت (١١٢) میں جو اس سورت کی آخری آیت میں ہے، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کی دعا نقل کی ہے جو انہوں نے اللہ کی جانب سے مشرکوں کے خلاف اعلان جنگ کے بعد کی تھی کہ اے میرے رب ! تو میرے اور میری قوم کے درمیان اب فیصلہ کر ہی دے، جن کا شیوہ اسلام اور مسلمانوں سے عداوت کرنا بن گیا ہے۔ چنانچہ اللہ نے اپنے رسول کی دعا قبول فرمالی، کافروں کو مسلمانوں کے ہاتھوں میدان بدر میں کاری ضرب لگوائی، بہت سے قتل کردیئے گئے اور بہت سے پابند سلاسل بنا لیے گئے، دعا کے آخر میں آپ نے فرمایا کہ ہمارا رب اپنے بندوں پر بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے، اور اس کی ذات ایسی ہے جس سے تمام امور میں مدد مانگنی چاہیے۔ منجملہ ان امور کے کافروں کا یہ کہنا ہے کہ غلبہ انہی کو حاصل ہوگا، تو میں اللہ ہی سے مدد مانگتا ہوں کہ وہ ان کے دعوی کو جھوٹا کر دکھائے۔ وباللہ التوفیق۔ الأنبياء
109 الأنبياء
110 الأنبياء
111 الأنبياء
112 الأنبياء
0 سورۃ الحج مدنی ہے، اس میں اٹھتر آیتیں، اور دس رکوع ہیں۔ نام : آیت (٢٧) (واذن فی الناس بالحج یاتوک رجالا وعلی کل ضامر یاتین من کل فج عمیق) سے ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول : اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ یہ سورت مکی ہے یا مدنی۔ ابن عباس کا قول ہے کہ تین آیتوں کے علاوہ پوری سورت مدنی ہے، وہ تین آیتیں (ھذان خصمان) سے شروع ہوتی ہیں۔ قتادہ کا خیال ہے کہ چار آیتیں مکی ہیں، جن کی ابتدا (وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی) سے ہوتی ہے۔ جمہور مفسرین کا کہنا ہے کہ پوری سورت میں مکی اور مدنی آیتیں ملی ہوئی ہیں، جن آیتوں کی ابتدا (یا ایھا الناس) سے ہے، وہ مکی ہیں اور جن کی ابتدا (یا ایھا الذین امنوا) سے ہے وہ مدنی ہے۔ اس سورت میں حج کی فرضیت اس کے ارکان و واجبات اور دیگر شعائر حج کا بیان آیا ہے، اور اس کے ظاہری اور باطنی فوائد و منافع کا بھی ذکر آیا ہے۔ قرطبی نے عزیزی کا قول نقل کیا ہے کہ یہ سورت ان عجیب سورتوں میں سے ہے، جن کی آیتیں اوقات نزول کے اعتبار سے متعدد نوعیت کی ہیں۔ کوئی آیت رات میں نازل ہوئی ہے تو کوئی دن میں، کوئی سفر میں تو کوئی حضر میں، کوئی مکی ہے تو کوئی مدنی، کسی کا موضو جنگ ہے تو کسی کا صلح، کوئی ناسخ ہے تو کوئ منسوخ، اور کوئی محکم ہے تو کوئی متاشبہ۔ پوری سورت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ نزول کے متعدد ہونے کے اعتبار سے اس کے مضامین بھی متعدد ہیں۔ کچھ آیتوں کا تعلق مشرکین مکہ سے ہے، تو کچھ کا منافقین سے اور کچھ کا تعلق صادق الامین مسلمانوں سے ہے۔ الحج
1 (١) اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتدا میں عام انسانوں کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ تم لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارو، عمل صالح کرو اور برائیوں سے بچو، اس لیے کہ قیامت کا زلزلہ حادثہ عظیم ہوگا اور وہ اتنا دہشت ناک ہوگا کہ مارے خوف کے مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلانا بھول جائیں گی، حاملہ عورتوں کے حمل ساقط ہوجائیں گے اور ہر آدمی اپنا ہوش کھو بیٹھے گا اور ایسا معلوم ہوگا کہ جسے سب نے کوئی مدہوش کن چیز پی لی ہے، حالانکہ ایسی بات نہیں ہوگی، بلکہ شدت عذاب الہی کے تصور سے ان پر یہ کیفی طاری ہوگی۔ آیت (١) میں جس زلزلہ کا ذکر ہے وہ کب واقع ہوگا اس بارے میں مفسرین کی دو رائیں ہیں۔ پہلی رائے یہ ہے کہ یہ زلزلہ قیامت کی قریب ترین ایک نشانی ہے، یعنی قیامت سے پہلے دنیا کی زندگی میں واقع ہوگی، اس زلزلہ کے بعد آفتاب مغرب سے طلوع ہونے لگے گا، پہاڑ ریزے بن کر اڑنے لگیں گے زمین پر ایسا رعشہ طاری وہگا کہ کوئی چیز اپنی جگہ پر باقی نہیں رہے گی، مائیں اپنے بچوں کو بھول جائیں گی، حاملہ عورتوں کے حمل گر جائیں گے اور بچے بوڑھے ہوجائیں گے، یہ دراصل اللہ کا ایک عذاب ہوگا جس میں وہ اپنی بدترین مخلوق کو مبتلا کرے گا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس سے مراد وہ خوف و ہراس اور اضطراب و پریشانی ہے جو قیامت کے دن لوگوں کو قبروں سے نکلنے کے بعد میدان محشر میں لاحق ہوگی، ابن جریر نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے اور اس کی تائید میں کئی احادیث پیش کی ہے، ان میں سے ایک حدیث امام بخاری نے اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں روایت کی ہے کہ اس دن مارے خوف و دہشت کے حاملہ عورتوں کے حمل گر جائیں گے، اور بچے بوڑھے ہوجائیں گے، اور پھر آپ نے (تری ولناس سکارای وماھم بسکاری ولکن عذاب اللہ شدید) پڑھی۔ اکثر مفسرین نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے لیکن چونکہ بعض وہ حدیثیں بھی صحیح ہیں جن میں وقوع قیامت کے بعد کے حالات بیان کیے گئے ہیں اور ان میں بتایا گیا ہے کہ اس دن حاملہ کا حمل گر جائے گا اس لیے بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اگرچہ اس آیت میں وہی زلزلہ مراد ہے جو قیامت آنے سے پہلے واقع ہوگا، لیکن اسی کے مشابہ حالات میدان محشر میں بھی واقع ہوں گے جب ہر آدمی غایت درجہ اضطراب و پریشانی میں ہوگا، اور مارے رعب و دہشت کے سب کی حالت ویسی ہوگی جیسی حالت میں حاملہ شدت خوف سے قبل از وقت اپنا حمل ساقط کردیتی ہے۔ الحج
2 (٢) مفسرین کہتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جو بڑا جھگڑا لو تھا، اور اس بات کا منکر تھا کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت ولید بن مغیرہ اور عتبہ بن ربیعہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی، بہرحال آیت چاہے جس کے بارے میں بھی نازل ہوئی ہو، لیکن اس کا مفہوم عام ہے اور ہر اس آدمی کو شامل ہے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور نبی کریم کی نبوت کا انکار کرتا ہے، اللہ کے لیے اولاد ثابت کرتا ہے اور خیر و صلاح سے دور ہر شیطان کی اتباع کرتا ہے۔ آیت (٤) میں اللہ تعالیٰ نے بصراحت تمام فرما دیا کہ جو شخص بھی شیطان کو اپنا دوست بنائے گا، اور اس کی پیروی کرے گا، شیطان اسے راہ حق سے دور کردے گا، اور جہنم کی آگ تک پہنچا دے گا۔ الحج
3 الحج
4 الحج
5 (٣) قیامت کے بعض حالات بیان کیے جانے کے بعد اب کفار و مشرکین کے لیے بعث بعد الموت کا عقیدہ بیان کیا جارہا ہے، جس کا انکار ہی دراصل تمام بیماریوں کی جڑ ہے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کے عقیدے پر دو عقلی دلیلیں پیش کی ہیں۔ پہلی دلیل یہ ہے کہ اس نے سب سے پہلے حضرت آدم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر باقی انسان کو ماں اور باپ کی منی سے پیدا کیا ہے، باپ نطفہ ماں کے رحم میں پہنچا، اسے پہلے جامد خود بنا دیا، پھر اسے ایک لوتھڑا بنا دیا اور وہ لوتھڑا کبھی تو اللہ کی مرضی سے بچے کی شکل میں اختیار کرلیتا ہے اور کبھی اس میں جان نہیں پڑتی اور رحم سے ساقط ہوجاتا ہے، اور اللہ ایسا اس لیے کرتا ہے تاکہ انسان اس کی قدرت، علم اور حسن تدبیر پر ایمان لے آئے، اس کی عظمت کا اعتراف کرے اس سے محبت کرے اور اس کی بندگی کرے، پھر جو لوتھڑا بچے کی شکل اختیار کرلیتا ہے وہ ایک مدت معینہ تک رحم میں رہنے کے بعد پیدا ہوتا ہے تو نہایت ہی کمزور بچہ ہوتا ہے، پھر بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ بھرپور جوان ہوجاتا ہے اور کوئی بچہ بلوغت سے پہلے ہی مرجاتا ہے، اس لیے حکمت الہیہ کا یہی تقاضا ہوتا ہے اور کچھ لوگ لمبی عمر پاتے ہیں، یہاں تک کہ کھوسٹ ہوجاتے ہیں اور عقل و ہوش کھو بیٹھتے ہیں۔ آدم (علیہ السلام) کا مٹی سے اور ان کی ذریت کا قطرہ منی سے پیدا کیا جانا اس بات کی قطعی اور واضح دلیل ہے کہ جس باری تعالیٰ نے اہیں پہلی بار اس طرح پیدا کیا وہ انہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ بعث بعد الموت کی دوسری دلیل یہ ہے کہ زمین بے آب و گیاہ مردہ ہوتی ہے، اور جب بارش ہوتی ہے تو اس میں زندگی آجاتی ہے اور حرکت پیدا ہوجاتی ہے، اور پانی کے اثر سے مٹی پھول کر اونچی ہوجاتی ہے، اور پھر اس میں مختلف قسم کے خوبصورت پودے اگ آتے ہیں، مٹی کی حیثیت رحم مادر کی ہوتی ہے، اور بارش کا پانی نطفہ کے مانند ہوتا ہے، اور جس طرح نطفہ ماں کے رحم میں پرورش پاتا ہے، اسی طرح بیج بھی مٹی میں پرورش پاتی ہے اور کچھ دنوں کے بعد ایک زندہ پودا لہلہاتا ہوا اوپر آجاتا ہے اور پھر ایک مدت معینہ کے بعد جب کھیتی پک جاتی ہے تو انسان اسے کاٹ لیتا ہے، ویسے ہی جیسے انسان اپنی نوشتہ عمر گزار لینے کے بعد رخصت ہوجاتا ہے۔ الحج
6 (٤) تخلیق انسانی اور پودوں کی پیدائش سے متعلق جو بات بیان کی گئی ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ برحق ہے اور وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اور اس بات کی بھی قطعی دلیل ہے کہ قیامت آئے گی، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے، اور اللہ تعالیٰ مردوں کو قبروں سے دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے گا اور ان کے اعمال کا انہیں بدلہ دے گا۔ الحج
7 الحج
8 (٥) آیات (٣، ٤) میں ان جاہل گمراہوں کا حال بیان کیا گیا ہے جو خود تو علم نہیں رکھتے بلکہ دوسرے گمران کن علم کے دعویداروں کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھوٹی اور بے بنیاد باتیں کرتے ہیں، اس آیت کے بارے میں مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ ابو جہل کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو کفر اور کبر و نخوت کا مجسم نمونہ تھا اور لوگوں کو راہ حق سے دور رکھنے کی ہر کوشش کرتا تھا لیکن آیت کا مفہوم عام ہے اور کفر و بدعت کے تمام گمراہ کن سرغنوں کو شامل ہے جو اپنی خواہش کی اتباع میں اللہ اور رسول کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں جن کی عقل صحیح یا نقل صریح سے کوئی دلیل نہیں ملتی اور ایسے متکرب ہوتے ہیں کہ گردن اکڑا کر اور لوگوں کی طرف سے منہ پھیر کر چلتے ہیں، اور ان کا مقصد اللہ کے بندوں کو گمراہ کرنا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے تمام لوگوں کا انجام یہ بتایا کہ وہ انہیں دنیا میں رسوا کرتا ہے اور آخرت میں جہنم ان کا انتظار کر رہی ہے، اور اس دن ان سے کہا جائے گا کہ یہ ذلت و رسوائی اور یہ عذاب تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے، اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ہے۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ دونوں آیتوں میں ایک ہی قسم کے لوگ مراد ہیں، اور تکرار سے مقصود ایسے لوگوں کی مزید برائی بیان کرنی ہے، اس لئیے کہ دوسری آیت میں ان کافروں کے بارے میں مزید یہ کہا گیا ہے کہ ان کے پاس اپنے دعوی کی صداقت پر نہ کوئی عملی دلیل ہے، نہ عقلی، اور نہ ہی قرآن کریم کی کوئی آیت ہی ان کے قول کی تائید کرتی ہے۔ الحج
9 الحج
10 الحج
11 (٦) صریح اہل کفر کے بعد اس آیت کریمہ میں بعض ان منافقین کا ذکر ہورہا ہے جو صرف دنیاوی مصالح کی خاطر ظاہر کرتے تھے کہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں جب تک وہ مصالح حاصل ہوتے رہتے تھے اور کسی دکھ اور تکلیف میں مبتلا نہیں ہوتے تھے دین اسلام پر باقی رہتے تھے، اور جونہی انہیں کوئی تکلیف لاحق ہوتی تھی ان کا اصلی چہرہ سامنے آجاتا تھا اور کفر کی طرف لوٹ جاتے تھے، اور اپنی دنیا اور آخرت دونوں ہی برباد کر بیٹھے تھے، اور یہی کسی انسان کا کھلا خسارہ ہے کیونکہ اگر وہ لوگ اپنے ایمان میں مخلص ہوتے تو آخرت میں کامیاب ہوتے اور جو دنیاوی خسارہ ہوا تھا اللہ اسے بھی پورا کردیتا کہ پھر سے مال و اولاد سے نواز دیتا۔ صحیح بخاری میں ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں مروی ہے کہ بعض لوگ مدینہ آتے تھے (اور مسلمان ہونے کا اعلان کردیتے تھے) پھر اگر ان کی بیویاں لڑکے جنتیں اور ان کے مال میں بڑھاوا ہوتا تو کہتے کہ یہ اچھا دین ہے اور اگر ان کے یہاں لڑکے نہیں پیدا ہوتے اور ان کے مال میں اضافہ نہیں ہوتا تو کہتے کہ یہ برا دین ہے۔ آیت (١٢) میں انہی منافقین کے بارے میں مزید کہا جارہا ہے کہ وہ مرتد ہوجانے کے بعد اللہ کے سوا ان معبودوں کو پکارنے لگتے ہیں جنہیں اگر نہ پکاریں تو دنیا میں انہیں وہ معبود کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں، اور اگر انہیں پکاریں اور ان کی عبادت کریں تو وہ آخرت میں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکیں گے۔ آیت (١٣) میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جن بتوں کی وہ پوجا کرتے ہیں وہ انہیں فائدہ تو کیا پہنچائیں گے بلکہ ان سے نقصان ہی کی زیادہ توقع ہے، اس لیے کہ دنیا میں ان بے روح مجسموں کے سامنے سجدے کر کے اپنے آپ کو ذلیل کرتے ہیں اور آخرت میں شدید عذاب ان کا انتظار کر رہا ہے۔ مذکورہ بالا آیتوں میں کافروں اور منافقوں کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں وہی ہر دور کے کافروں اور منافقوں میں پائے گئے اور ایسے لوگوں کا ہر زمانے میں یہی حال رہا ہے اور جب تک دنیا قائم رہے گی ان کا یہی حال رہے گا۔ الحج
12 الحج
13 الحج
14 (٧) قرآن کریم اپنے معروف طریقے کے مطابق کافروں اور منافقوں کے احوال و انجام بیان کرنے کے بعد اس آیت میں ایمان اور عمل صالح والوں کا ذکر کر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ اپنی حکمتوں کے تقاضے کے مطابق جو چاہتا ہے کرتا ہے، اپنی اطاعت کرنے والوں کو اچھا بدلہ دیتا ہے اور نافرمانوں کو عذاب دیتا ہے۔ الحج
15 (٨) اس آیت کریمہ میں ان یہود و مشرکین اور منافقین کا ذکر ہے جو نبی کریم اور مسلمانوں کی ہر کامیابی و فتحیابی پر جل جاتے تھے اور ان کے سینے غیظ و غضب سے بھر جاتے تھے، انہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو دشمنان دین اس خام خیالی میں مبتلا تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین اسلام، اپنے نبی اور مسلمانوں کی مدد نہیں کرے گا اس لیے شک و نفاق میں پڑ کر ایمان نہیں لاتے تھے، جیسا کہ بنی اسد و غطفان نے کیا تھا، اور اب جبکہ اللہ کی مدد اپنے دین، اپنے رسول اور مسلمانوں کے لیے عیاں ہوچکی ہے، اور اس کی وجہ سے ان کا غیظ و غضب انتہا کو پہنچ چکا ہے، تو ہم اہیں اپنا غیظ و غضب دور کرنے کا ایک طریقہ بتاتے ہیں کہ وہ ایک رسی چھت کی لکڑٰ سے باندھ دیں اور پھر اسے اپنی گردن میں باندھ کر پوری طاقت سے کھینچیں یہاں تک کہ وہ رسی کٹ جائے اور گلا گھٹ کر ان کی موت واقع ہوجائے، پھر وہ اور دوسرے لوگ دیکھیں کہ کیا اس سے وہ سبب دور ہوگیا جس کی وجہ سے ان کا غیظ و غضب انتہا کو پہنچ گیا تھا؟ مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے غیظ و غضب میں مرتے رہیں، اللہ اپنے دین و نبی کی مدد کرتا رہے گا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المومنون آیت (٥١) میں فرمایا ہے : (انا لننصر رسلنا والذین امنوا فی الحیاۃ الدنیا ویوم یقوم الاشھاد) یقینا ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد دنیا کی زندگی میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے۔ الحج
16 (٩) قرآن کریم کی تعریف بیان کی جارہی ہے کہ یہ فصاحت و بلاغت اور عربی زبان کی تمام اعلی ترین خوبیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے، اس کی آیتیں اپنے معانی و مقاصد پر انتہائی درجہ صراحت و وضاحت کے ساتھ دلالت کرتی ہیں، اور اللہ تعالیٰ جس کے لیے ہدایت چاہتا ہے اسے ان آیات قرآنیہ میں غور و فکر کی توفیق دیتا ہے، تاکہ حق کو پہچانیں اور اسے قبول کریں۔ الحج
17 (١٠) نبی کریم کے زمانے میں حق و باطل کے درمیان جو جنگ جاری تھی اور ایمان والوں کے خلاف جو لوگ صف آرا تھے، اسی جنگ اور انہی باطل پرستوں کا ذکر کیا گیا ہے اور انہیں دھمکی دی گئی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں ان کی اس باطل پرستی کا بدلہ چکائے گا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اقوال و افعال سے پوری طرح واقف ہے، بلکہ ان کے دلوں کے بھیدوں کی خبر رکھتا ہے۔ صائبین سے مراد وہ لوگ ہیں جو ستاروں کی پوجا کرتے تھے اور مجوس سے مراد وہ لوگ ہیں جو آگ کی عبادت کرتے تھے اور روشنی اور تاریکی کے دو الگ الگ خالق ہونے کے قائل تھے۔ بعض کا خیال ہے کہ مجوس آفتاب و ماہتاب کی پرستش کرتے تھے۔ ایک تیسرا قول یہ ہے کہ انہوں نے یہودیت و نصرانیت دونوں سے کچھ باتیں لے لی تھیں، اور مشرکین سے مراد خاص طور پر کفار عرب ہیں جو بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ الحج
18 (١١) باری تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور ربوبیت و الوہیت میں اس کی وحدانیت بیان کی جارہی ہے کہ آسمان میں جتنے فرشتے رہتے ہیں اور زمین میں جتنے جن اور چوپائے پائے جاتے ہیں، سبھی اللہ کے لیے سربسجود ہیں اسی طرح شمس و قمر، ستارے پہاڑ، درخت، چوپائے اور بہت سے بنی نوع انسان، اپنے خالق و مالک کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں، اس کا حکم ماننے سے سر مو سرتابی نہیں کرتے ہیں۔ لیکن انسانوں میں بہت سے ایسے ہیں جو اس کے سامنے سر بسجود نہیں ہوتے ہیں، اس لیے ان کے حق میں عذاب لکھ دیا گیا ہے، اور یہ لوگ بھی اگرچہ اللہ کی بندگی کے لیے اپنا سر نہیں جھکاتے ہیں، لیکن اس کے قانون قدرت کے تو یہ بھی تابع ہیں، صحت و بیماری، مالداری و محتاجی اور زندگی و موت کا قانون ان پر بھی نافذ ہوتا ہے اور اللہ کی مرضی کے سامنے ان کی ایک نہیں چلتی ہے۔ الحج
19 (١٢) آیت (١٧) میں جن مومنوں اور کافروں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کرے گا، انہی کو اس آیت کریمہ میں دو فریق سے تعبیر کیا گیا ہے، ایک فریق مسلمان ہے اور دوسرا فریق گزشتہ پانچوں کافر جماعتوں پر مشتمل ہے، دونوں فریق دنیا میں اپنے رب اور اس کے دین و شرعیت کے بارے میں جھگڑتے رہے اور ہر فریق نے دعوی کیا کہ وہ حق پر ہے جب قیامت آئے گی تو اللہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا کہ کون حق پر ہے، اور کون باطل پر۔ پھر کافر جماعتوں کو جہنم میں داخل کردے گا، جہاں انہیں آگ کے کپڑے پہنائے جائیں گے اور ان کے سروں پر نہایت گرم پانی انڈیلا جائے گا، جس کی گرمی سے ان کے پیٹ کی انتڑیاں اور گوشت اور چربیاں پگھل کرباہر نکل جائیں گی، اور ان کے جسم کے چمڑے بھی کٹ کٹ کر الگ ہوجائیں گے اور جہنم میں ان کے لیے لوہے کے کوڑے ہوں گے جن سے انہیں مارا جائے گا، اور غم و اندوہ اور درد و الم سے بے چین ہو کر جب بھی نکلنا چاہیں گے، تو جہنم پر مامور فرشتے انہیں مار مار کر دوبارہ لوٹا دیں گے اور ایک لمحہ کے لیے انہیں نکلنے نہیں دیں گے اور کہیں گے کہ تم آگ کے عذاب کا مزا چکھتے رہو۔ الحج
20 الحج
21 الحج
22 الحج
23 (١٣) جو لوگ دنیا میں اہل ایمان ہوں گے اور انہوں نے عمل صالح کیا ہوگا، انہیں اللہ تعالیٰ اس دن ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور جنت میں انہیں سونے اور موتی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور وہ ریشمی لباس زیب تن کیے ہوں گے، اور آپس میں ایک دوسرے سے اچھی باتیں کریں گے، ایک دوسرے کو سلام کریں گے اور جنت جیسی نعمت کے حصول پر اللہ کا شکر ادا کرتے رہیں گے۔ الحج
24 الحج
25 (١٤) یہ آیت کریمہ ان مشرکین مکہ سے متعلق نززل ہوئی تھی جنہوں نے نبی کریم اور صحابہ کرام کو صلح حدیبیہ کے سال مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا اللہ تعالیٰ نے انہی کے فعل پر نکیر کی ہے اور خبر دی ہے کہ ہم انہیں دردناک عذاب چکھائیں گے لیکن اس کا یہ حکم ہر اس شخص کو شامل ہے جو کسی بھی زمانے میں کفر کرے گا اور لوگوں کو مسجد حرام سے روکے گا۔ سبیل اللہ سے مراد دین اسلام ہے المسجد الحرام سے مراد یا تو مسجد حرام ہے جیسا کہ قرآن کریم کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے یا وہ پورا علاقہ ہے جو حدود حرم میں داخل ہے اس قول کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ صلح حدیبیہ کے سال کافروں نے رسول اللہ اور صحابہ کرام کو صرف مسجد حرام سے نہیں بلکہ حرم کے حدود میں داخل ہونے سے روک دیا تھا یا اس سے مراد مکہ شہر ہے اس کی تائید اس کے بعد کی عبارت سے ہوتی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ مکہ میں مقیم اور باہر سے آنے والے دونوں ہی وہاں اقامت پذیر ہونے میں برابر ہیں۔ قرطبی لکھتے ہیں کہ اس بات پر تمام علما کا اتفاق ہے کہ مسجد حرام میں نماز پڑھنے، عبادت کرنے اور اس میں ٹھہر کر ذکر الہی کرنے میں سبھی برابر ہیں۔ کوئی کسی کو وہاں سے نکلنے پر مجبور نہیں کرسکتا ہے، البتہ مکہ شہر کے بارے میں اختلاف ہے : مجاہد : ابو حنیفہ اور مالک وغیرہم کی رائے ہے کہ مکہ کے گھروں سے استفادہ کرنے میں مقیم اور باہر سے آنے والے دونوں برابر ہیں، اور اس قول کا مفہوم یہ ہے کہ مکہ کی عمارتوں کی خریدوفروخت جائز نہیں ہوگی، ان حضرات نے آیت میں مسجد حرام سے مراد مکہ شہر لیا ہے اور متعدد مرفوع احادیث سے استدلال کیا ہے، جنہیں طبرانی، دار قطنی اور ابن مردویہ وغیرہم نے روایت کی ہے اور جن میں اس بات کی صراحت پائی جاتی ہے کہ مکہ کے گھروں کی خریدوفروخت جائز نہیں ہے۔ شافعی اور جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ مکہ شہر کی عمارتیں اور مکانات مسجد حرام کی مانند نہیں ہیں، ان لوگوں نے مسجد حرام سے مراد مسجد لہی ہے اور کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد نبی کریم نے اہل مکہ کے گھروں کی ملکیت ان کے لیے تسلیم کی تھی۔ چنانچہ فرمایا کہ جو شخص اپنے گھر کا دروازہ بند کرلے گا وہ مامون ہوجائے گا، اور جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے گا وہ مامون ہوجائے گا اور صحیحین کی حدیث ہے کہ جب نبی کریم سے پوچھا گیا کہ کیا وہ مکہ میں اپنے گھر میں قیام کریں گے؟ تو آپ نے فرمایا، کیا عقیل (ابو طالب کے بیٹا) نے ہمارے لیے کوئی گھر چھوڑ دیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے : (الذین اخرجوا من دیارھم) جو لوگ اپنے گھروں سے نکالے گئے، اس آیت میں گھر کی ملکیت لوگوں کے لیے ثابت کی گئی ہے، اور یہ بھی ثابت ہے کہ عمر بن خطاب نے صفوان بن امیہ کا گھر خرید کر اسے جیل خانہ بنا دیا تھا۔ انہی دلائل کی روشنی میں اب تقریبا تمام ہی علماء مکہ کی عمارتوں کی خریدوفروخت کو جائز قرار دیتے ہیں اور اس پر ایک قسم کا اجماع سکوتی ہوچکا ہے۔ واللہ اعلم۔ الحاد کا لغوی معنی انحراف اور ایک طرف ہونا ہے، اور ظلم سے مراد بعض کے نزدیک شرک، بعض کے نزدیک شرک اور قتل اور کسی کے نزدیک جھوٹی قسم ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد مکہ میں کسی بھی گناہ کا ارتکاب ہے۔ (ومن یرد فیہ بالحاد بظلم) سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ مسجد حرام میں اگر کوئی شخص گناہ کا ارادہ کرے گا تو اس پر اللہ کے نزدیک اس کا مواخذہ ہوگا۔ الحج
26 (١٥) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں مشرکین قریش کو ڈانٹ پلائی گئی ہے کہ جو گھر پہلے دن سے اس لیے بنایا گیا تھا تاکہ وہاں صرف ایک اللہ کی عبادت ہو، تم لوگوں نے اس میں سیکڑوں بت لا کر رکھ دیئے اور اللہ کو چھوڑ کر ان کی پوجا کرنے لگے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے ایک ہوا کے ذریعہ خانہ کعبہ کی جگہ کی تعیین کردی، یعنی ہوا نے اس جگہ کو صاف کردیا اور کہا کہ اسے بنانے کے بعد اس میں صرف اسی کی عبادت کیجیے اور اسے ہر قسم کی آلائشوں اور گندگیوں سے پاک رکھییے، تاکہ طواف کرنے والوں، نماز پڑھنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کو تکلیف نہ پہنچے، ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی اور مسجد حرام کو اپنے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کے ساتھ مل کر بنایا۔ الحج
27 (١٦) جب مسجد بن کر تیار ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو اس مسجد کی زیارت اور حج کرنے کے لیے پکاریں۔ مفسر واحدی نے دیگر مفسرین کے حوالے سے لکھا ہے، انہوں نے آواز لگائی کہ لوگو ! تمہارے رب نے تم پر مسجد حرام کا حج فرض کردیا ہے، اس لیے تم اس کی زیارت اور حج کرنے کے لیے یہاں آؤ، اللہ تعالیٰ نے ان کی ندا کو دنیا میں پھیلا دیا، اور جب تک دنیا رہے گی لوگ اس مسجد کی زیارت اور حج کے لیے پیدل چل کر اور سواریوں پر مشرق اور مغرب اور شمال و جنوب کے دور دراز علاقوں سے آتے رہیں گے۔ آیت (٢٨) میں حج کی غرض و غایت بتاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے حج میں بہت سے دینی اور دنیوی فوائد جمع کریدئے ہیں، دینی فوائد تو یہ ہیں کہ اللہ حاجیوں کے گناہوں کو معاف کرتا ہے ان کی دعائیں قبول فرماتا ہے اور وہ اپنے رب کی رضا و خوشنودی لے کر اپنے گھروں کو واپس ہوتے ہیں۔ اور دنیوی فوائد یہ ہیں کہ پورے سفر حج میں وہ تجارت کرتے ہیں، صنعت و حرفت سیکھتے ہیں، اور جو تجربات حاصل کرتے ہیں ان کے لیے آئندہ تجارتی زندگی میں مفید ہوتے ہیں۔ اور ایام تشریق (دس تاریخ سے تیرہ تاریخ تک) میں اللہ کا نام لے کر جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ زمخشری نے لکھا ہے کہ یہاں اللہ کا نام لینے سے مراد ذبح کرنا ہے، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اہل اسلام جب بھی قربانی کریں گے یا گوشت کھانے کے لیے جانور ذبح کریں گے تو اللہ کا نام ضرور لیں گے اس لیے کہ مقصود ہر حال میں اللہ کا نام لینا ہے، اور رازی نے اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ مقصود ان مشرکین کی مخالفت ہے جو بتوں کے نام پر جانور ذبح کرتے تھے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جس جانور کی قربانی کرو اس کا گوشت خود بھی کھاؤ اور ان محتاجوں کو کھلاؤ جنہوں نے قربانی نہ کی ہو۔ الحج
28 الحج
29 (١٧) قربانی کرنے کے بعد حجاج احرام کے کپڑے اتار دیں، بال منڈوا لیں، ناخن بڑھے ہوں تو انہیں تراش لیں، اور صاف ستھرے کپڑے پہن لیں، اور اگر نذر مانی تھی کہ حرم میں جانور ذبح کریں گے تو اسے پوری کریں اور مسجد حرام جاکر بیت اللہ کا طواف اضافہ (طواف زیارت) کریں جو حج کا رکن ہے، اور جو وقوف عرفہ اور دس تاریخ کو جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد کی جاتا ہے۔ الحج
30 (١٨) شوکانی لکھتے ہیں کہ حرمات حرمۃ کی جمع ہے، اور اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا ہر وہ حکم ہے جس کو بجا لانا ضروری ہے، چاہے وہ حج سے متعلق ہو یا کسی دوسری عبادت سے، مقصد یہ ہے کہ جو شخص گناہوں سے اجتناب کرے گا اور اپنے دل میں احساس رکھے گا کہ ان کا ارتکاب اللہ کے احکام کی بڑی خلاف ورزی ہے تو اللہ اسے اس کا اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ مسلمانو ! تمہارے لیے جانوروں کا گوشت کھانا حلال بنا دیا گیا ہے سوائے ان جانوروں کے جنہیں سورۃ المائدہ آیت (٣) (حرمت علیکم المیتۃ) کے ذریعہ مستثنی قرار دیے دیا گیا ہے۔ ترجمہ ملاحظہ فرمایئے : تم پر حرام کردیا گیا مردہ جانور اور خون اور سور کا گوشت اور جس پر غیر اللہ کا نام لیا جائے اور جس کا گلا گھٹ گیا ہو اور جو چوٹ کھانے سے مرگیا ہو، اور جو اوپر سے گر کر مرگیا ہو، اور جو کسی جانور کے سینگ مارنے سے مرگیا ہو اور جسے کسی درندہ نے لکھا لیاہو (ان میں سے) سوائے اس کے جسے تم نے (مرنے سے پہلے ذبح کرلیا ہو) اور وہ جانور بھی تم پر حرام کردیا گیا جسے کسی بت کے آستانے پر ذبح کیا گیا ہو، اس لیے تم لوگ اللہ کے حدود کا خیال رکھو، جنہیں اس نے حلال کیا ہے انہیں حرام نہ سمجھو اور جنہیں حرام کیا ہے انہیں حلال نہ بناؤ۔ اور بتوں کی عبادت سے بچو اور ہر جھوٹی اور باطل بات سے پرہیز کرو اور سب سے بڑا جھوٹ اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بنانا ہے۔ آیت (٣١) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنی اطاعت و بندگی کو صرف اللہ کے لیے خاص کردو، شرک و باطل سے منہ موڑ کر راہ توحید پر گامزن ہوجاؤ اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ اس کے بعد اللہ نے مشرک کی ایک مثال بیان کی جس کے ذریعہ اس کی ضلالت و گمراہی، ہلاکت و بربادی اور راہ حق سے انتہائی دوری کی عکاسی کی گئی ہے، فرمایا کہ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی غیر کو شریک بناتا ہے، اس کی مثال اس آدمی کی ہے جو آسمان سے گرے اور چڑیاں تیزی کے ساتھ اسے جھپٹ کر اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں یا یہ کہ گرتا جائے اور ہوا اسے بہت ہی دور دراز جگہ پھینک دے جہاں وہ ہلاک ہوجائے اور اس کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے۔ الحج
31 الحج
32 (١٩) شعائر شعیرہ کی جمع ہے، اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی نشانی ہو، اس لیے (شعائر اللہ) سے مراد اللہ کے دین کی نشانیاں ہیں، اور قربانی کے جانور اس میں بدرجہ اولی داخل ہیں، اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ قربانی کے لیے ایسے جانور حاصل کرنا چاہیے جو بڑے، خوبصورت، موٹے تازے اور قیمتی ہوں اور خریدتے وقت زیادہ مول تول نہ کرے۔ صحابہ کرام اور اسلاف عظام تین چیزیں خریدتے وقت زیادہ نہیں گھٹاتے تھے۔ ہدی قربانی کا جانور اور غلام آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کے دین کی علامتوں کی تعظیم دلوں کے تقوی پر دلالت کرتی ہے یعنی ایسا کرنا اہل تقوی کا کام ہے۔ آیت (٣٣) میں اللہ نے فرمایا کہ حاجیوں کے لیے ہدی کے جانوروں سے (انہیں قربانی کے دن حدود حرم میں ذبح کرنے سے پہلے تک) دیگر فوائد حاصل کرنا جائز ہے۔ بخاری و مسلم نے انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک اونٹ ہانکے جارہا ہے تو اس سے کہا کہ اس پر سورا ہوجاؤ اس نے کہا یہ تو ہدی کا اونٹ ہے، تو آپ نے اس سے پھر کہا کہ تمہارا بھلا ہو اس پر سوار ہوجاؤ۔ الحج
33 الحج
34 (٢٠) ابتدائے آفرینش سے جتنی قومیں دنیا میں ہوئیں اللہ کی طرف سے ان سب کے لیے قربانی کا ایک دن مقرر تھا، جس دن وہ جانوروں کو اللہ کے نام پر ذبح کرتے تھے۔ (من بھیمۃ الانعام) میں اشارہ ہے کہ قربانی صرف جانوروں کی ہی جائز ہے اور (لیذکروا اسم اللہ) میں اشارہ ہے کہ قربانی کا مقصد ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چونکہ تم سب کا معبود ہر زمانے میں ایک ہی رہا ہے اس لیے تم سب اسی کی بندگی کرو۔ اس کے بعد نبی کریم کو حکم دیا کہ آپ خشوع و خضوع اختیار کرنے والے اللہ کے مخلص بندوں کو اپنے رب کی جانب سے اچھے انجام کی خوشخبری دے دیجیے، جن کی خوبیاں یہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر آتا ہے تو اس کی بندگی میں تقصیر اور اس کی یاد میں غفلت کے احساس سے ان کے دل کانپ جاتے ہیں اور جب وہ کسی مصیبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں تو گھبراتے نہیں اور زبان پر کلمہ شکوہ نہیں لاتے، بلکہ صبر و شکیبائی سے کام لیتے ہیں، اور جو پانچوں وقت کی نمازیں مسجد میں مسلمانوں کے ساتھ تمام شروط و ارکان کا لحاظ کرتے ہوئے ادا کرتے ہیں اور اللہ نے انہیں جو روزی دی ہے اس میں سے اپنے اہل و عیال فقرا و مساکین اور اللہ کے دیگر بندوں پر خرچ کرتے ہیں۔ الحج
35 الحج
36 (٢١) اللہ تعالیٰ کا اپنے مومن بندوں پر یہ احسان ہے کہ اس نے اونٹ اور گائے کو ہدی کا جانور قرار دیا، جنہیں وہ اللہ کی نشانی کے طور پر خانہ کعبہ کے پاس ذبح کرنے کے لیے لے جاتے ہیں، ہدی اور قربانی کے ان جانوروں میں اللہ نے مسلمانوں کے لیے بڑے فوائد رکھے ہیں، سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بندہ اللہ کے نام پر قربانی کر کے اس کی قربت حاصل کرتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ان کا ایک بایاں پاؤں باندھ کر ان کی گردن پر چھری پھیرو تو بسم اللہ واللہ اکبر کہو، اور جب وہ زمین پر گر کر ٹھنڈے ہوجائیں تو خود بھی ان کا گوشت کھاؤ، اور محتاجوں اور ان لوگوں کو کھلاؤ جو ان دنوں تمہاری زیارت کے لیے آئیں۔ اس آیت سے قربانی کا یہ حکم استنباط کیا گیا ہے کہ قربانی کا گوشت تین حصوں میں کردینا چاہیے۔ ایک حصہ آدمی خود کھائے، ایک حصہ ہدیہ کردے اور ایک حصہ صدقہ کردے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مومنو ! ہم نے ان جانوروں کو تمہارے لیے مسخر کردیا ہے تم ان پر سوار ہوتے ہو، ان کا دودھ پیتے ہو، اور ان کا گوشت کھاتے ہو ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ تم اپنے قول و عمل کے ذریعہ اس کا شکر ادا کرو۔ الحج
37 (٢٢) زمانہ جاہلیت میں مشرکین عرب جب اپنے بتوں کے نام سے جانور ذبح کرتے تو اس کا گوشت ان بتوں پر ڈالتے اور ان پر اس کا خون چھڑکتے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اللہ کے نام سے ہدی یا قربانی کا جانور اس لیے ذبح کرتے ہو کہ وہ تمہارا خالق و رازق ہے، اس کا گوشت اور خون اللہ کو نہیں پہنچتا، اس لیے کہ وہ تو ہر چیز سے بے نیاز ہے، اللہ تو تمہاری نیت اور تمہارے اخلاص و تقوی کو دیکھتا ہے کہ تم نے کیا اس کی رضا کے لیے یہ کام کیا ہے؟ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اللہ نے ان جانوروں کو تمہارے لیے اس غرض سے مسخر کیا ہے تاکہ جب تم اللہ کی ہدایت کے مطابق انہیں ایام تشریق میں ذبح کرو تو بسم اللہ واللہ اکبر، کہو۔ آخر میں نبی کریم کو حکم دیا آپ ان لوگوں کو خوشخبری دے دیجیے جو اللہ کی شریعت کے مطابق اچھا عمل کرتے ہیں۔ الحج
38 (٢٣) یہ آیت جہاد فرض ہونے سے پہلے مدینہ میں نازل ہوئی تھیں، اس سے مقصود مسلمانوں کو خوشخبری دینی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہے، اور جب مشرکین مکہ کے خلاف جہاد کرنے کی نوبت آئے گی تو اللہ ان کی مدد کرے گا، اس لیے کہ مشرکین مکہ امانتوں میں خیانت کرنے والے، بد عہدی کرنے والے، اور اللہ و رسول کے منکر ہیں، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ انہیں پسند نہیں کرتا ہے، اس لیے اگر جنگ ہوگی تو ان کے خلاف اللہ مسلمانوں کی مدد کرے گا۔ الحج
39 (٢٤) ترمذی، نسائی اور طبری وغیرہم نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جب نبی کریم مکہ سے نکل جانے پر مجبور کردیئے گئے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ ابوبکر نے جب یہ آیت سنی تو کہا کہ اب جنگ ہوگی۔ مسند احمد کی ایک روایت میں ہے، ابن عباس نے کہا کہ جہاد سے متعلق یہ پہلی آیت نازل ہوئی تھی، مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کی تعداد کم اور مشرکین کی تعداد زیادہ تھی، اسی لیے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو صبر کی تلقین کرتا رہا۔ بیعۃ العقبۃ کی رات میں اہل مدینہ کی تعداد اسی سے زیادہ تھی، انہوں نے رسول اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد اجازت چاہی کہ منی میں موجود مشرکوں کو قتل کردیں، تو آپ نے فرمایا کہ مجھے اس کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ ہجرت کے بعد جب رسول اللہ اور مہاجرین مدینہ میں جمع ہوگئے اور مہاجرین اور انصار کی مجموعی تعداد سے مسلمانوں کی ایک اچھی خصی طاقت وجود میں آگئی، اور مدینہ میں ان کی چھاؤنی اور مسلمانوں کا دار السلام بن گیا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر کے جہاد کو مشروع کردیا۔ الحج
40 (٢٥) مکہ میں مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ہوا اور انہیں ان کے گھروں سے نکالا گیا تو ان کا کوئی قصور نہیں تھا، سوائے کہ انہوں نے اس بات کا اقرار کرلیا تھا کہ ان کا رب صرف اللہ ہے، اسی لیے مدینہ آنے کے بعد جب ان کی ایک طاقت وجود میں آگئی تو اللہ نے انہیں جہاد کی اجازت دے دی، تاکہ ان پر جو ظلم ہوا تھا اس کا بدلہ لے سکیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جہاد کی حکمت بیان فرمائی کہ اگر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو جہاد کی اجازت نہ دیتا اور مسلمانوں کے ذریعہ مشرکوں کو مار نہ بھگاتا تو ہر دور میں مشرکین اہل ادیان پر غالب آجاتے اور ان کی عبادت گاہوں کو منہدم کردیتے اور جو اللہ کے دین کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اللہ اس کی ضرور مدد کرتا ہے، اور اللہ پر کون غالب آسکتا ہے وہ تو نہایت قوی اور ہر حال میں غالب ہے وہ جس کی مدد کرنی چاہے ساری دنیا مل کر اسے مغلوب نہیں کرسکتی۔ آیت (٤١) میں اللہ کے دین کی مدد کرنے والوں کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ جب ان کے ہاتھوں میں حکومت آجاتی ہے تو نماز قائم کرتے ہیں، زکوۃ دیتے ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت کے دن تمام امور میں عدل و انصاف کے ساتھ وہی فیصلہ کرے گا، اس لیے اس سے ہر حال میں ڈرتے رہنا چاہیے۔ الحج
41 الحج
42 (٢٦) مشرکین کی جانب سے نبی کریم کو جو تکلیف پہنچتی رہی اس پر انہیں صبر کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اور تسلی دی گئی ہے کہ ہر دور کے کافروں کو اپنے انبیا کے ساتھ ایسا ہی معاملہ رہا ہے۔ سب نے اپنے انبیا کی تکذیب کی، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی رسی ڈھیل دی اور جب وہ کفر و سرکشی اور ظلم و عدوان کی انتہا کو پہنچ گئے تو اللہ نے انہیں اچانک اپنی گرفت میں لے لیا۔ اسی مفہوم کی تائید کے طور پر آیت (٤٥) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بہت سی بستیوں والوں نے جب شرک باللہ اور تکذیب رسول کے ذریعہ اپنے آپ پر ظلم کیا تو ہم نے ان بستیوں کو تباہ کردیا، ان کے تمام مکانات اپنی چھتوں کے بل زمین بوس ہوگئے وہ کنوئیں جن کا پانی پیتے تھے اب بے کار پڑے ہیں اور وہ قصور و محلات جن میں وہ داد عیش دیتے تھے ان میں اب ہود کا عالم ہے۔ آیت (٤٦) میں کفار قریش اور دیگر قبائل عرب سے کہا جارہا ہے کہ وہ زمین میں گھوم کر ہلاک کردہ قوموں کے آثار قدیمہ پر نگاہ عبرت کیوں نہیں ڈالتے، شاید کہ ان میں غور و فکر سے ان کے دل زندہ ہوجائیں اور ان کے کان خیر کی باتوں پر توجہ دینے لگیں، ابھی تو ان کی آنکھیں اور ان کے کان کسی کام کے نہیں ہیں، اس لیے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتی ہیں، بلکہ لوگوں کے دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔ الحج
43 الحج
44 الحج
45 الحج
46 الحج
47 (٢٧) یہ آیت کریمہ نضر بن حارث اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو عذاب کی جلدی مچاتے تھے اور کبر و عناد میں آکر رسول اللہ سے مطالبہ کرتے تھے کہ جس عذاب کی انہیں دھمکی دی جاتی ہے وہ ابھی اور اسی لمحہ کیوں نہیں آجاتا۔ سورۃ الانفال آیت (٣٢) میں ان کے اسی قول کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اے اللہ ! اگر یہ قرآن وقعی تیرا کلام ہے تو ہم پر تو آسمان سے پتھر برسا دے، یا ہم پر کوئی اور دردناک عذاب نازل کردے، اللہ تعالیٰ نے رسول کریم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ انہیں عذاب کی بڑی جلدی پڑی ہے، تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ہے اس کا عذاب آکر رہے گا، یہ تو اس کی غایت بردباری اور دشمنان اسلام سے انتقام لینے کی اس کی انتہائے قدرت کی وجہ سے ایسا ہورہا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ وہ جب چاہے گا انتقام لے لے گا اسی لیے لوگوں کا ہزار سال، اس کی بردباری کے پیش نظر گویا ایک دن کے مانند ہے، اسی لیے آیت (٤٨) میں اللہ نے فرمایا کہ اس نے بہت سی گناہگار بستیوں کو مہلت دی، لیکن جب وہ اپنے گناہوں سے باز نہیں آئیں تو انہیں اچانک اپنی گرفت میں لے لیا، اس لیے مشرکین کی جلد بازی کا کوئی معنی نہیں ہے۔ اگر دنیا کے عذاب سے بچ جائیں گے، تو انہیں بہرحال میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے، جہاں دائمی اور ابدی عذاب ان کا انتظار کر رہا ہے۔ فخر الدین رازی نے آیت (٤٧) کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ عقلمند انسان کو عذاب آخرت کی جلدی نہیں مچانی چاہیے، اس لیے کہ آخرت میں ایک دن کا عذاب، شدت کرب و الم کے اعتبار سے ایک ہزار سال کے عذاب کے برابر ہوگا، اگر لوگوں کو عذاب آخرت کی شدت کا اندازہ ہوتا تو جلدی نہ مچاتے۔ الحج
48 الحج
49 (٢٨) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا، آپ عذاب کی جلدی مچانے والوں سے کہہ دیجیے کہ اے لوگو ! میں تمہارا معبود اور رب نہیں ہوں، عذاب نازل کرنا یاکسی کو نوازنا میری قدرت سے باہر کی بات ہے میں تو اللہ کا ایک بندہ ہوں، مجھے صرف اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ نافرمانوں کو اللہ کے عذاب سے ڈراؤں اور فرمانبرداروں کو اس کی جنت کی خوشخبری دوں۔ آیات (٥٠، ٥١) میں اسی انجام نیک و بد کو بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ ایمان لائیں گے اور عمل صالح کریں گے، اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو درگزر فرمائے گا اور انہیں جنت میں داخل کردے گا اور جو لوگ اللہ کے بندوں کو اس کی آیتوں سے برگشتہ کرنے کے لیے کوشاں رہیں گے، اور اس گمان باطل میں مبتلا رہیں گے کہ وہ اللہ کو عاجز کردیں گے، تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کو کوئی مغلوب نہیں بنا سکتا اور ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ الحج
50 الحج
51 الحج
52 (٢٩) کفار و مشرکین کی جانب سے نبی کریم کو جب بھی کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ کو تسلی دی جاتی تاکہ آپ کی ہمت بندھی رہے اور اپنا مشن جاری رکھیں۔ ابھی آیت (٤١) میں آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ کفار اگر آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو دل برداشتہ نہ ہوں تمام انبیاء کے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہا ہے، اس آیت کریمہ میں بھی آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ قرآن پڑھ رہے ہوں، اور شیطان اپنی طرف سے مشرکوں کے کانوں تک کچھ کلمات پہنچا دے تو آپ پریشان نہ ہوں، اللہ تعالیٰ ان کلمات کو زائل کردے گا اور قرآن کی آیتوں کو محکم بنا دے گا۔ اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں جو واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ ایک دن خانہ کعبہ کے پاس نماز میں سورۃ النجم کی تلاوت کر رہے تھے تو مشرکین سن رہے تھے آپ نے جب (افرائتم الات والعزی۔ ومناۃ الثالثۃ الاخری) کی تلاوت کی تو شیطان نے ان کی زبان پر تلک الگرانیق العلا، وان شفاعتھن لترتجی یہ بلند مقام دیویاں، بیشک ان کی شفاعت کی امید کی جاتی ہے، جاری کردیا، جسے سن کر مشرکین بہت خوش ہوئے اس میں ان کے بتوں کی تعریف تھی یہ بالکل بے اصل اور بے بنیاد واقعہ ہے۔ بیہقی کہتے ہیں کہ یہ قصہ من گھڑت ہے۔ ابن خزیمہ نے لکھا ہے کہ یہ قصہ زنادقہ نے گھڑا تھا، قاضی عیاض اپنی کتاب الشفا میں لکھتے ہیں : امت کا اس پر اجماع ہے کہ نبی کریم نے اللہ کی جانب سے جو کچھ بھی پہنچایا اس میں قصدا یا غلطی سے یا بھول کر کسی طرح بھی ایک حرف کا اپنی طرف سے اضافہ نہیں کیا۔ رازی کہتے ہیں کہ یہ قصہ باطل ہے، قرآن نے آپ کے بارے میں بہت سی آیتوں میں جو کچھ کہا ہے کہ نہ وہ اپنی طرف سے کچھ کہتے ہیں اور بھولتے ہیں اس کے خلاف ہے۔ اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ نبی کریم نے کسی بھی حیثیت سے بتوں کی تعظیم کی اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔ محدث البانی نے بھی اس قصہ کو باطل قرار دیا ہے اور اس کی تردید میں ان کا ایک رسالہ بھی ہے، جو اہل علم کے درمیان مشہور ہے۔ البتہ حافظ ابن حجر تین صحیح مرسل روایتوں کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اتنی بات ثابت ہے کہ آپ نے جب سورۃ النجم کی تلاوت کی تو شیطان نے اپنی طرف سے مشرکوں کے کان میں ایسے کلمات ڈال دیئے جن میں بتوں کی تعریف تھی۔ رسول اللہ کی زبان پر وہ کلمات جاری نہیں ہوئے تھے۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے ہمارے نبی ! ہم نے آپ سے پہلے بھی جب کوئی رسول یا نبی بھیجا اور اس نے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کی تو شیطان نے اس کی تلاوت کے درمیان کچھ اپنی طرف سے مشرکوں کے کان تک پہنچا دیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہی شیطان کے القا کردہ کلمات کو زائل و باطل بنا دیا اور اپنی آیتوں کو محکم اور ثابت کردیا۔ ایسا اس لیے ہوتا رہا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کلمات کو منافقین و مشرکین کے لیے گمراہی اور حق سے دوری کا سبب بنا دے، اور اہل علم مومنوں کا ایمان مزید راسخ ہوجائے کہ قرآن کریم میں جو آیات ثابت ہیں وہی برحق ہیں اور ان پر ایمان لانا ضروری ہے، اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا رہا کہ ان کے دلوں کو سکون و اطمینان حاصل ہو اور ان کا ایمان اور بڑھ گیا۔ صاحب محاسن التنزیل نے اس کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ جب بھی کسی رسول یا نبی نے چاہا کہ اس کی دعوت پھیلے اور اس کی لائی ہوئی شریعت کو تیزی کے ساتھ سربلندی حاصل ہو، تو شیطان نے رکاوٹیں کھڑی کرنی چاہیں، اور لوگوں کو اس کی دعوت قبول کرنے سے روکنا چاہا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی چالوں کو ناکام بنا دیا اور اپنے دین اور اپنی آیتوں کو استحکام عطا کیا۔ آیت (٥٤) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اپنے مومن و متقی بندوں کی ہر حال میں سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور انہیں شیطان کے نرغے سے بچاتا ہے۔ آیت (٥٥) میں فرمایا کہ اہل کفر قرآن کی حقانیت میں ہمیشہ شک کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ یا تو اچانک قیامت آجائے گی یا کوئی اسیا دنیاوی عذاب انہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گا جس میں کوئی بھی خیر نہیں ہوگی۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ وہ جنگ بدر کا دن تھا جب ان میں سے بہت سے لوگ زلت و رسوائی کے ساتھ قتل کردئے گئے اور بہت سے قید کرلیے گئے اور تب انہیں معلوم ہوگیا کہ قرآن اور دین اسلام برحق ہے۔ الحج
53 الحج
54 الحج
55 الحج
56 (٣٠) قیامت کے دن بادشاہی صرف اللہ کی وہگی، وہی اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا جو لوگ دنیا میں ایمان لائے ہوں گے اور عمل صالح کیا ہوگا اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں داخل کرے گا اور جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہوگی اور اس کی آیتوں کی تکذیب کی ہوگی انہیں وہ رسوا کن عذاب میں مبتلا کرے گا، اور جن لوگوں نے اپنے رب کی رضا کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑ دیا ہوگا، پھر یا تو جہاد کرتے ہوئے قتل کردیئے گئے یا طبعی موت مرگئے، اللہ انہیں جنت میں بہت ہی اچھی روزی دے گا، اور قیامت کے دن انہیں ایسی رہائش گاہ عطا کرے گا جس سے وہ خوش ہوجائیں گے۔ الحج
57 الحج
58 الحج
59 الحج
60 (٣١) مقاتل بن حیان اور ابن جریر نے روایت کی ہے کہ یہ آیت صحابہ کرام کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی تھی جن کی محرم کے مہینہ میں مشرکوں کی ایک جماعت سے مڈبھیڑ ہوگئی تھی، اور مسلمانوں کی ہزار کوششوں کے باوجود کفار جنگ سے باز نہیں آئے، اور مسلمانوں پر چڑھ آئے تو مسلمانوں نے مجبورا ان سے جنگ کی اور اللہ نے ان کو غالب کیا۔ بعض مفسرین کا خیال ہے یہاں بغی سے مراد مشرکین مکہ کا مسلمانوں کو مکہ سے نکال دینا ہے۔ (لینصرنہ اللہ) میں انہی مہاجرین سے فتح و نصرت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ آیت کا ظاہری مفہوم واضح ہے کہ جو شخص ظالم سے اس کے ظلم کے مطابق انتقام لے لے، پھر ظالم دوبارہ اس پر ظلم کرے تو اللہ تعالیٰ اس مظلوم کی ضرور مدد کرے گا، آیت کے آخر میں عفو و درگزر کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ اللہ بڑا معاف کرنے والا اور بڑا مغفرت کرنے والا ہے، اس لیے اس کے بندوں کو بھی ان صفات کے ساتھ متصف ہونا چاہیے۔ الحج
61 (٣٢) اللہ تعالیٰ مظلوم کی ضرور مدد کرے گا اس لیے کہ وہ قادر مطلق ہے اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ دن اور رات میں سے ہر ایک کو چھوٹا کر کے دوسرے میں داخل کردیتا ہے، اور یہ عجیب و غریب کاریگری اس بات کی دلیل ہے کہ وہی مالک کل معبود برحق ہے، اس کا کوئی ساجھی اور کوئی مقابل نہیں، اور جن معبودوں کو مشرکین پکارتے ہیں وہ کسی قسم کی کوئی قدرت نہیں رکھتے، بلکہ انہیں خود ان کے پجاریوں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے، تو کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ لوگ اس قادرمطلق، معبود برحق اور نفع و نقصان پہنچانے والے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کی پوجا کریں۔ الحج
62 الحج
63 (٣٣) اللہ تعالیٰ کی عجیب و غریب کاریگری یہ بھی ہے کہ وہ آسمان سے بارش بھیجتا ہے تو زمین کھیتی اور پودوں سے ہری بھری ہوجاتی ہے، اور آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب کو اسی نے پیدا کیا ہے، سب کا وہی مالک ہے، وہ جس طرح چاہتا ہے ان میں تصرف کرتا ہے۔ اور اس کی قدرت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے زمین میں پائے جانے والے تمام جانوروں اور چوپایوں کو انسانوں کے فائدے کے لیے تیار کیا ہے، اور سمندروں کو بھی ان کے لیے مسخر کردیا ہے، جن میں بڑے اور چھوٹے جہاز ان کے اسباب معیشت لے کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے رہتے ہیں۔ اور اس کی قدرت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آسمان اس کی مشیت سے اپنی جگہ پر رکا ہوا ہے، زمین پر نہیں گرتا، اللہ کی یہ ساری نعمتیں انسان سے اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ وہ ہر وقت اس کا شکر ادا کرتا رہے، اور اس کے معبود برحق ہونے کی قطعی اور یقینی دلیل یہ ہے کہ اسی نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور جب ان کی دنیاوی زندگی کی عمریں پوری ہوجاتی ہیں تو انہیں موت دے دیتا ہے، اور جب قیامت آئے گی تو انہیں دوبارہ زندہ کرے گا اور ان کے اعمال کا انہیں بدلہ چکائے گا، لیکن انسان اتنا بڑا ناشکر گزار واقع ہوا ہے کہ جس خالق و مالک نے یہ نعمتیں دی ہیں اور جو ایسی عظیم قدرت والا ہے اسے چھوڑ کر دوسرے جھوٹے معبودوں کی پرست کرتا ہے۔ الحج
64 الحج
65 الحج
66 الحج
67 (٣٤) اللہ تعالیٰ نے زمان و مکان اور قوموں کے حالات کے مطابق متعدد شریعتیں نازل کیں، اور الگ الگ عبادت کے طریقے بتائے، تورات کو اس امت کے لیے اتارا جو موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کے وقت سے عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت تک تھی، اور انجیل کو اس کے لیے جو عیسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کے وقت سے نبی کریم کی بعثت تک تھی اور قرآن مسلمانوں کی کتاب ہے جو قیامت تک باقی رہے گی، اور جس کے آنے کے بعد تمام سابقہ شریعتیں منسوخ ہوگئیں، اس لیے یہود و نصاری کو رسول اللہ کے ساتھ جدال اور مناظرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان پر ایمان لے آنا چاہیے، اور دین اسلام کو قبول کرلینا چاہیے اور نہ نبی کریم کو ان کے جدال و مناظرہ سے متاثر ہو کر دین برحق سے پھر جانا چاہیے۔ چونکہ یہ دین اللہ کا آخری دین ہے اور اب اس کے سوا کوئی صحیح دین نہیں ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ وہ اپنے رب کی توحید و عبادت کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے رہیں۔ آیت (٦٨) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر دین حق کی توضیح کے بعد بھی کفار جدال و مناظرہ سے باز نہ آئیں، تو انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے اور ان سے کہہ دیجیے کہ تمہارے اعمال سے اللہ تعالیٰ خوب واقف ہے، وہ تمہیں ان کا بدلہ ضرور چکائے گا اور دین کی جن باتوں میں آج تم جھگڑتے ہو، قیامت کے دن وہ ان کے درمیان اپنا فیصلہ صادر فرمائے گا اور بتائے گا کہ حق پر کون تھا اور باطل پر کون۔ آیت (٧٠) میں نبی کریم کو خطاب کر کے فرمایا کہ جن باتوں میں آج کفار اختلاف کر رہے ہیں انہیں وہ کیوں نہیں جانے گا وہ تو وہ ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے دونوں کے درمیان پائے جانے والا ایک ذرہ بھی اس سے مخفی نہیں ہے، وہ تو تمام کائنات کی خبر اس وقت سے روکھتا ہے جب اس نے ابھی ان کو پیدا بھی نہیں کیا تھا، تمام چیزیں لوح محفوظ میں پہلے سے لکھی ہوئی ہیں، ان تمام کی خبر گیری کرنی اور سب کو اپنے احاطہ علم میں رکھنا اس ذات برحق کے لیے بڑا ہی آسان ہے۔ الحج
68 الحج
69 الحج
70 الحج
71 (٣٥) دین حق کی مخالفت کرنے والے کفار و مشرکین کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ لوگ اللہ کے سوا ان بتوں اور دیویوں کی پوجا کرتے ہیں، جن کے لائق عبادت ہونے کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری ہے، اور نہ ہی ان کے پاس اس کی کوئی عقلی دلیل ہے، عنقریب قیامت کے دن اس افترا پردازی پر ان کا حساب ہوگا اور اس کا انہیں بدلہ دیا جائے گا اور اس وقت اللہ کے مقابلے میں اپنے لیے کوئی یارومددگار نہیں پائیں گے۔ الحج
72 (٣٦) دین برحق کی مخالفت کرنے والے کفار و مشرکین کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن کریم کی وہ آیتیں پیش کی جاتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول اللہ کی صداقت پر واضح اور روشن دلیل ہوتی ہیں، تو ان کے چہرے بگڑ جاتے ہیں اور ان سے شر جھانکنے لگتا ہے، اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابھی وہ ان داعیان حق پر حملہ کر بیٹھیں گے جو انہیں قرآن پڑھ کر سنا رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم سے فرمایا، آپ ان سے کہہ دیجیے کہ جو شر اور برائی تم لوگ داعیان حق کے خلاف اپنے دلوں میں چھپائے بیٹحے ہو اور جس کے آثار تمہارے چہروں پر نمایاں ہیں، کیا میں تمہیں تمہارے لیے اس سے بھی برے انجام کی خبر دوں؟ وہ جہنم کی آگ ہے جس کا اللہ نے کافروں سے وعدہ کر رکھا ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہوگا۔ الحج
73 (٣٧) بتوں کی حقارت بیان کی جارہی ہے اور ان کے پجاریوں کی عقل پر ماتم کیا جارہا ہے کہ ذرا عقل کے ناخن تو لو، اور غور تو کرو کہ جن بتوں کی تم اللہ کے بجائے پوجا کرتے ہو وہ تمام اکٹھے ہو کر ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے ہیں، جو اللہ کی حقیر ترین مخلوق ہے اور وہ حقیر ترین مکھی اگر ان سے کوئی چیز چھین لے تو اسے وہ واپس نہیں لے سکتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ تمہارے بت اور مکھی دونوں ہی حقیر اور کمزور ہیں، بلکہ تمہارے معبود تو زیادہ حقیر اور کمزور ہیں کہ وہ اپنے آپ سے مکھی کو بھی نہیں بھگا سکتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آیت (٧٤) میں فرمایا ہے کہ کافروں اور مشرکوں نے اللہ کی قدرو منزلت کو جانا ہی نہیں، وہ تو وہ ہے جس نے اپنی قدرت سے سب کچھ پیدا کیا ہے اور جو ہر چیز پر غالب ہے، کوئی شے اسے مغلوب نہیں کرسکتی اور کوئی چیز اس کے حکم سے سرتابی نہیں کرسکتی۔ الحج
74 الحج
75 (٣٨) کفار مکہ نے رسول اللہ کے بارے میں کہا : (اانزل علیہ الذکر من بیننا) کیا ہمارے درمیان سے محمد پر قرآن اتارا گیا ہے۔ (سورہ ص : ٨) اور کہا : (قالوا ابعث اللہ بشرا رسولا) کیا اللہ نے انسان کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ (الاسرا : ٩٤) تو اللہ نے ان کے سوال کا جواب دیا اور کہا کہ وہ اپنی پیغامبری کے لیے جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے وہ فرشتوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنی پیغام رسانی کے لیے چن لیتا ہے، اور اسی طرح انسانوں میں سے بھی جسے چاہتا ہے اس کام کے لیے اختیار کرلیتا ہے۔ مفسر ابو السعود لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عبادت میں اپنی وحدانیت ثابت کرنے کے بعد گویا یہ کہنا چاہا ہے کہ اس کے کچھ برگزیدہ بندے ہیں جنہیں اس نے اپنی پیغام رسانی کے لیے اختیار کرلیا ہے، انہی کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اس کی عبادت کرنی لازم ہے۔ آیت (٧٦) میں فرمایا کہ وہ اپنے بندوں کے تمام امور و اعمال سے واقف ہے اس لیے اسے حق پہنچتا ہے کہ وہ جسے چاہے اپنی رسالت و پیغمبری کے لیے اختیار کرے، کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں پہنچتا ہے۔ الحج
76 الحج
77 (٣٩) توحید و رسالت اور بعث بعد الموت کا عقیدہ بیان کرنے کے بعد اہل ایمان سے کہا جارہا ہے کہ تم لوگ رکوع اور سجدہ کرو، یعنی نماز پڑھو، اس کا خاص اہتمام کرو، اور دیگر عبادات، جن کا اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے انہیں بھی بجا لاؤ اور بھلائی کے کاموں میں لگے رہو، صلہ رحمی کرو، یتیموں کی دلجوئی کرو، محتاجوں اور غریبوں کو کھانا کھلاؤ اور اپنے آپ کو اخلاق حسنہ کا پابند بناؤ، حصول جنت کا یہی طریقہ ہے۔ الحج
78 (٤٠) یہاں بھی خطاب مومنوں سے ہی ہے کہ اللہ کے لیے اپنی جان مال اور زبان کے ذریعہ جہاد کرو، تاکہ زمین سے شرک و کفر اور فتنہ انگیزی کا خاتمہ ہوجائے اور ہر طرف دین اسلام کا دور دورہ ہوجائے، اس نے تمہیں اپنے دین کی نصرت و تائید کے لیے چن لیا ہے اور جو دین اسلام تمہیں عطا کیا ہے اس میں کوئی تنگی نہیں ہے جو اعمال تمہاری طاقت سے زیادہ تھے ان کا یا تو تمہیں مکلف نہیں کیا، یا انہیں ہلکا بنا دیا تو بہ و استغفار کا دروازہ کھول دیا، تاکہ تم توبہ کرتے رہو اور وہ تمہارے گناہوں کو معاف کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ دین اسلام فطرت انسانی کے مطابق اور آسان دین ہے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ التغابن آیت (١٦) میں فرمایا ہے : (فاتقوا اللہ ماستطعتم) اپنی استطاعت بھر اللہ سے ڈرتے رہو، اور سورۃ البقرہ آیت (١٨٥) میں فرمایا ہے : (یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر) اللہ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے، تم پر سختی نہیں کرنا چاہتا۔ اور نبی کریم کی صحیح حدیث ہے۔ میں وہ دین دے کر بھیجا گیا ہوں جس کی بنیاد توحید پر ہے اور جو آسان ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ دین اسلام تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو مسلمانوں کا باپ اس لیے کہا گیا کہ وہ رسول اللہ کے باپ تھے، پھر فرمایا کہ تمہارا نام مسلمان اللہ نے رکھا ہے اور یہ نام گزشتہ آسمانی کتابوں میں مذکور ہے، اور قرآن میں بھی مذکور ہے، یعنی اللہ نے تمہیں اتنا باعزت نام دے کر گزشتہ امتوں پر فوقیت دی ہے۔ اور اللہ نے تمہیں اتنی اچھی، معتدل، صاحب خیر اور نیک نام امت اس لیے بنایا ہے تاکہ قیامت کے دن رسول اللہ کہہ سکیں کہ انہوں نے اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا تھا، اور تم گواہی دو کہ تمام رسولوں نے اپنی امتوں تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا، اس لیے کہ اس دن جب تمام امتیں امت مسلمہ کی سرداری اور فضیلت کا اعتراف کرلیں گی تو ان کی گواہی ان امتوں کے بارے میں قبول کی جائے گی۔ سورۃ البقرہ آیت (١٤٣) میں اللہ نے فرمایا ہے : (وکذلک جعلناکم امۃ وسطا لتکونوا شھدا علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا) ہم نے اس طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ اور رسول اللہ تم پر گواہ ہوجائیں۔ اور اس عظیم نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ تم لوگ اللہ کے شکر میں نماز قائم کرو، زکوۃ دو، اسی کی بارگاہ میں پناہ لو، اس لیے وہی تمہارا آقا ہے اور وہ کیا ہی خوب آقا، اور کیا ہی بہتر حامی و ناصر ہے، الحج
0 نام : پہلی آیت (قد افلح المومنون) سے ماخوذ ہے مفسر مہایمی نے لکھا ہے کہ چونکہ اس سورت کی ابتدا میں اور آیات (٥٧) سے (٦١) تک مومنوں کی عظیم صفات اور ان سے متصف ہونے کا نتیجہ بیان کیا گیا ہے، اسی لیے اس کا یہ نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی کہتے ہیں کہ یہ سورت سب کے نزدیک مکی ہے، امام احمد اور مسلم نے عبداللہ بن السائب سے روایت کی ہے کہ نبی کریم نے مکہ میں صبح کی نماز میں سورۃ المومنون پڑھی، یہاں تک کہ جب موسیٰ و ہارون اور عیسیٰ کا ذکر اایا تو آپ کو کھانسی شروع ہوگئی، اس لیے رکوع میں چلے گئے، انتہی۔ موسیٰ و ہارون کا ذکر آیت (٤٥) میں ہے۔ المؤمنون
1 ١۔ اللہ تعالیٰ نے پہلی آیت سے آیت (١١) تک مومنوں کی وہ صفات بیان کی ہیں جن سے متصف ہونے کی صورت میں ان سے فلاح اور کامیابی کا وعدہ کیا گیا ہے، اور اس فلاح سے مراد جہنم سے نجات اور حصول جنت ہے، جیسا کہ اس کی صراحت آیت (١١) میں آگئی ہے، سورۃ آل عمران آیت (١٨٥) میں بھی اصل کامیابی جہنم سے نجات اور حصول جنت کو بتایا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (فمن زحزح عن النار وادخل الجنۃ فقد فاز) جو شخص جہنم سے دور کردیا گیا اور جن میں داخل کردیا گیا وہ کامیاب ہوگیا۔ وہ صٖفات مندرجہ ذیل ہیں : پہلی صفت یہ ہے کہ وہ مومنین اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں، یعنی سکون و اطمینان کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں، ادھر ادھر نہیں جھانکتے ہیں ان کے دلوں پر رقت طاری ہوتی ہے اور بسا اوقات اللہ کے خوف سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتا ہے، نماز میں خشوع کی اسی اہمیت کے پیش نظر بعض علماء نے اسے فرض قرار دیا ہے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ طہ آیت (١٤) میں فرمایا ہے : (واقم الصلوۃ لذکری) میرے نبی ! مجھے یاد کرنے کے لیے نماز قائم کیجیے۔ اس لیے اگر کوئی شخص نماز میں خشوع نہیں اختیار کرتا ہے بلکہ اس کا دل غافل رہتا ہے تو اس نے نماز کی غرض و غایت پوری نہیں کی۔ دوسری صٖت یہ ہے کہ وہ ہر ایسی فکر اور ہر ایسے قول و عمل سے اعراض کرتے ہیں جس کی اللہ کی طرف سے اجازت نہ ہو، ان کی زندگی میں بیہودہ باتوں اور ناروا کاموں کے لیے فراغ نہیں ہوتا ہے۔ تیسری صٖت یہ ہے کہ وہ اپنے اموال کی زکوۃ ادا کرتے ہیں، بعض لوگوں نے اس سے شرک اور دوسرے معاصی سے نفس کی پاکی مراد لی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشمس آیت (٩) میں فرمایا ہے : (قد افلح من زکاھا) جس نے اپنے نفس کو گناہوں سے پاک کیا وہ کامیاب ہوگیا۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں ہوسکتا ہے کہ دونوں ہی معنی مراد ہو، یعنی وہ لوگ زکاۃ ادا کرتے ہیں اور اپنے نفس کو شرک اور گناہوں سے پاک رکھتے ہیں۔ چوتھی صٖت یہ ہے کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، یعنی وہ نہ ننگے ہوتے ہیں اور نہ حرام طریقوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ صرف اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے پاس جاتے ہیں، ایسا کرنے سے وہ قابل ملامت نہیں ہیں، اس لیے کہ اللہ نے ان کے لیے اسے جائز قرار دیا ہے، اور فعل زنا کی شدت قباحت کو واضح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ جو لوگ حلال کی حدوں کو پھلانگنے کی کوشش کریں گے وہ اللہ کی نگاہ میں ظالم ہوں گے۔ یہاں پر قابل توجہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کی فلاح و کامیابی کو شرمگاہ کی حفاظت کے ساتھ مشروط کردیا ہے، اور اس کی غایت درجہ اہمیت ظاہر کرنے کے لیے کہا کہ جو اپنی شرمگاہ کی حفاظت نہیں کرے گا فلاح نہیں پائے، گا، اور قابل ملامت ہوگا، نیز ظالموں میں سے ہوگا، اور عفت و پاکدامنی کی شدید اہمیت کے پیش نظر ہی اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو نگاہیں نیچی رکھنے اور شرمگاہ کی حفاظت کا حکم دیا ہے۔ پانچویں صفت یہ ہے کہ وہ لوگ امانتوں اور عہود و مواثیق کی حفاظت کرتے ہیں، چاہے وہ امانتیں اللہ کی ہوں یا بندوں کی، اور چاہے وہ عہود اللہ کے ساتھ ہوں یا بندوں کے ساتھ۔ چھٹی صفت یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، یعنی پانچوں فرض نمازیں وقت پر باجماعت ادا کرتے ہیں، شروط طہارت کو پوری کرتے ہیں، رکوع اور سجدے میں عجلت نہیں کرتے ہیں اور نماز کے دیگر سنن و آداب کا بھی لحاظ رکھتے ہیں۔ یہی وہ چھ صٖفات ہیں جو کسی انسان میں پائی جاتی ہیں تو وہ مومن کامل ہوتا ہے، کامیاب و کامران بنتا ہے اور فردوس بریں کا حقدار ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں انہی میں سے بنائے۔ آمین المؤمنون
2 المؤمنون
3 المؤمنون
4 المؤمنون
5 المؤمنون
6 المؤمنون
7 المؤمنون
8 المؤمنون
9 المؤمنون
10 المؤمنون
11 المؤمنون
12 (٢) اللہ تعالیٰ نے اپنی کمال قدرت اور غایت حکمت و ثابت کرنے کے لیے حضرت انسان کی تخلیق کے مدارج بیان کیے ہیں۔ فرمایا کہ ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا ہے یعنی مٹی پانی کے ساتھ ملی تو پودے پیدا ہوئے، جنہیں انسان نے کھایا تو خون بنا، اس خون سے ہم نے نطفہ بنایا، اور اس نطفہ کو رحم مادر میں پہنچایا جہاں جاکر اللہ کے حکم سے ٹھہر گیا، پھر اسے سرخ اور منجمد خون میں بدل دیا، پھر اسے گوشت کا ایک ٹکڑا بنا دیا، پھر اس ٹکڑے سے ہم نے انسانی جسم کا عمود فقری اور باقی ہڈیاں تیار کیں، اور پھر ان پر گوشت کی تہیں جمادیں، پھر دیگر اعجائے بنائے، اچھی شکل و صورت بنائی اور ایک انسان کامل بنا کر رحم مادرسے باہر لے آئے، یہ سب اس اللہ کی عظیم کاریگری ہے جو عظیم قدرت و حکمت والا ہے۔ المؤمنون
13 المؤمنون
14 المؤمنون
15 ٣۔ پھر آدمی کو اپنی عمر محدود گزر کر مرجانا ہے، لیکن اللہ کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ جس انسان کو اس نے اتنے اہتمام سے پیدا کیا اور زندگی دے کر عمل کی مہلت دی اسے یونہی ضائع نہ کردے، اسی لیے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسانوں کو قبروں سے دوبارہ زندہ کرے کے حساب و جزا کے لیے نکالے گا۔ المؤمنون
16 المؤمنون
17 ٤۔ قرآن کریم عام طور پر انسانوں کی پیدائش کا ذکر کرنے کے بعد آسمانوں اور زمین کی پیدائش کا ذکر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المومنون آیت (٥٧) میں فرمایا ہے : (لخلق السموات والارض اکبر من خلق الناس) آسمانوں اور زمین کی پیدائش یقینا انسان کی پیدائش سے بہت بڑا کام ہے، اور اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت کا اظہار ہوتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی انسان کی تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے ہیں، اور ہم اپنی مخلوقات سے غافل نہیں ہیں جبھی تو سارے عالم کا نظام بحسن خوبی چل رہا ہے، ورنہ فساد برپا ہوجاتا ہے اور ہر چیز تباہ و برباد ہوجاتی۔ المؤمنون
18 ٥۔ پانی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم آسمان سے انسانوں کی ضرورت کے مطابق بارش نازل کرتے ہیں، پھر اسے زمین کی تہوں میں ٹھہراتے ہیں اور حسب ضرورت و حکمت چشموں کے ذریعہ اسے اوپر لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الزمر آیت (٢١) میں فرمایا ہے : (الم تر ان اللہ انزل من السماء ماء فسلکہ ینابیع فی الارض) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی اتارتا ہے اور اسے زمین کی سوتوں میں پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا : اور ہم جب چاہیں اس پانی کو ختم کردیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ عظیم نعمت انسانوں سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ شکر ادا کرتے رہیں، اور ڈرتے رہیں کہ اگر شکر ادا نہ کیا تو نعمت چھینی جاسکتی ہے۔ آیت (١٩) میں فرمایا کہ ہم نے اس پانی کے ذریعہ تمہارے لیے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے ہیں، جن میں مختلف ذائقے اور رنگ کے پھل پیدا ہوتے ہیں، اور ان پھلوں میں سے بعض انواع کھانا کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ کھجور اور انگور کا ذکر بطور خاص اس لیے کیا گیا کہ اہل حجاز دوسرے پھلوں کی بہ نسبت ان دونوں پھلوں کو زیادہ جانتے تھے، دیگر ممالک میں اللہ نے دوسرے بہت سے لذیذ و نافع پھل پیدا کیے ہیں، جن کا شکر ادا کرنے سے ان ملکوں کے رہنے والے عاجز ہیں۔ آیت (٢٠) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ایک اور درخت پیدا کیا ہے جو طور سینا کے ارد گرد کے علاقوں میں کثرت سے ہوتا ہے، یعنی زیتون کا درخت، جس سے تیل نکلتا ہے، اور جسے کھانے والے سالن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ المؤمنون
19 المؤمنون
20 المؤمنون
21 ٦۔ چوپائے بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں اور ان میں انسان کے لیے بڑٰ عبرت آموذ باتیں ہیں انسان ان کی خلقت ان کی زندگی اور ان سے حاصل ہونے والے منافع میں گور و فکر کر کے اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی وحدانیت پر ایمان لے آتا ہے۔ نیسا پوری نے لکھا ہے کہ ممکن ہے یہاں انعام سے مراد اونٹ ہو اس لیے کہ عام طور پر بوجھ اسی پر لادا جاتا ہے، اور اس لیے بھی کہ اس کے ساتھ کشتیوں کا ذکر آیا ہے، جس طرح کشتیاں سمندر کے لیے ہوتی ہیں اسی طرح اونٹ بری سفر کے لیے ہوتا ہے۔ گوبر اور خون کے درمیان سے گزرتا ہوا جو دودھ جانوروں کے پیٹ سے نکلتا ہے انسان اسے پیتا ہے ان کا گوشت کھاتا ہے، ان کے بال اور اون سے جو کپڑے تیار ہوتے ہیں انہیں پہنتا ہے ان پر سواری کرتا ہے اور ان پر بوجھ لاد کر دور دراز شہروں تک جانے کے لیے بری راستے طے کرتا ہے اور بحری راستوں کے لیے کشتیاں استعمال کرتا ہے۔ یہ تمام نعمتیں انسانوں سے تقاضا کرتی ہیں کہ وہ اللہ کا شکر ادا کریں، اس کے احسانات کو یاد کریں اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائیں۔ المؤمنون
22 المؤمنون
23 ٧۔ دلائل توحید بیان کیے جانے کے بعد نبی کریم کی تسلی کے لیے اب کچھ انبیاء و رسول کے واقعات بیان کیے جارہے ہیں جن کی بعثت کا مقصد بنی نوع انسان کو توحید باری تعالیٰ کی دعوت دینی تھی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ہمارے رسول ! ہم نے آپ سے پہلے نوح کو نبی بنا کر بھیجا تھا، تو ان کی قوم نے ان کی تکذیب کی جس طرح آج آپ کی قوم آپ کے ساتھ کر رہی ہے انہوں نے اللہ کے اوامر کی مخالفت کی اور اس کے ساتھ غیروں کو شریک ٹھہرایا تو اللہ نے ان سے اپنا اور اپنے رسول کا انتقام لیا۔ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ عبادت میں کسی کو شریک نہ بناؤ، اس لیے کہ اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ہے تم جو اس کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کرتے ہو تو کیا تمہیں ڈر نہیں لگتا ہے کہ اس کا غضب تم پر نازل ہوجائے؟ یہ سن کر سرداران قوم نے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی اپنی قوم سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ (نوح) تو تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہے چاہتا ہے کہ تمہارا سردار بن بیٹھے، اسی لی نبوت کا جھوٹا دعوی کررہا ہے اور کہتا ہے کہ مجھ پر آسمان سے وحی آتی ہے، اگر اللہ اپنا پیغمبر بھیجنا چاہتا تو آسمان سے فرشتوں کو بھیجتا، ہم نے یہ نہیں سنا ہے کہ گزشتہ قوموں کے پاس اللہ نے کسی انسان کو اپنا نبی بنا کر بھیجا ہو سچ تو یہ ہے کہ اس آدمی کو جنون لاحق ہوگیا ہے، اس لیے لوگو ! ہمیں انتظار کرنا چاہیے ممکن ہے کہ اس کا جنون زائل ہوجائے یا اس کی موت آجائے اور اس سے نجات مل جائے۔ رازی لکھتے ہیں کہ یہ پانچوں شبہات جن کا مشرکین قوم نوح نے اظہار کیا تھا اتنے لچر تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بیان کردینا ہی کافی سمجھا، کیونکہ ہر عقلمند انسان انہیں سنتے ہی قوم نوح کی بیمار عقل پر ماتم کرنے لگے گا، اس لیے کہ انسانوں کا نبی انسان ہی ہونا چاہیے اور نبی کو اپنی فوقیت بھی ثابت کرنی چاہیے، تاکہ لوگ اس کی اتباع کریں اور قوم نے اگر نہیں سنا تھا کہ اللہ نے اقوام گزشتہ کے پاس انہی میں سے انبیا بھیجے تھے تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ واقعتا ان کے پاس انبیا نہیں آئے تھے، اور یہ جو کہا کہ اسے جنون لاحق ہے، تو یہ سراسر جھوٹ تھا اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ نوح ان میں کامل العقل انسان تھے۔ المؤمنون
24 المؤمنون
25 المؤمنون
26 ٨۔ نوح (علیہ السلام) ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کرتے رہے اور اس راہ کی ہر اذیت برداشت کرتے رہے، لیکن ان کی قوم کی سرکشی بڑھتی گئی بالاخر انہوں نے اپنے رب سے مدد مانگی اور کہا اے میرے رب ! اب تو میری مدد کر اور ان کی جانب سے میری مسلسل تکذیب کی وجہ سے انہیں ہلاک کردے، تو اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ آپ میری نگرانی میں اور میری تعلیمات کے مطابق کشتی بنایئے، اور جب تنور سے پانی ابلنے لگے تو تمام حیوانات کے مذکر و مونث جوڑے اور نباتات اور پھلوں کے درخت اور کشتی میں ڈال لیجیے اور اپنے اہل و عیال کو سوار کرلیجیے، سوائے ان کے جن کا ہلاک ہوجانا مقدر ہوچکا ہے (جیسے ان کا بیٹا اور ان کی بیوی) اور عذاب دیکھنے کے بعد آپ کو ان ظالموں پر رحم نہ آجائے اور سوچنے نہ لگئے کہ اب اگر عذاب ٹل جائے تو شاید یہ لوگ ایمان لے آئیں، اس لیے کہ میرا یہ فیصلہ ہے کہ انہیں کفر و شرک کی حالت میں ہی ڈوب جانا ہے، اور جب آپ اور دیگر اہل ایمان کشتی پر سوار ہوجائیں تو اللہ کا شکر بجا لایئے کہ اس نے آپ کو ظالموں سے نجات دے دی اور گریہ و زاری کے ساتھ دعا کیجے کہ اے میرے رب ! مجھے کسی مبارک جگہ اتار دے۔ آیت (٢٠) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مومنوں کی نجات اور کافروں کی ہلاکت میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں اور ہم اپنے بندوں کو خیر و شر کے ذڑیعہ اس لیے آزماتے ہیں تاکہ کافر و مومن اور عاصی و مطیع کا فرق واضح ہوجائے۔ المؤمنون
27 المؤمنون
28 المؤمنون
29 المؤمنون
30 المؤمنون
31 ٩۔ واقعہ نوح کے بعد اب قصہ ہود بیان کیا جارہا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ان کے بعد ایک دوسری قوم کو پیدا کیا، اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ (قرنا آخرین) سے مراد قوم عاد ہے، بعض لوگوں نے قوم ثمود مراد لیا ہے اس لیے کہ یہاں بتایا گیا ہے کہ اس قوم کو چیخ کے ذڑیعہ ہلاک کیا گیا تھا اور دوسری آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ چیخ کے ذڑیعہ قوم ثمود کو ہی ہلاک کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لیے انہی کے ایک فرد کو اپنا رسول بنا کر ان کے پاس بھیجا، جس نے انہیں ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی، اس لیے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور کہا کہ تم جو اس کے ساتھ دوسروں کو شریک بناتے ہو تو کیا تمہیں ڈر نہیں لگتا ہے کہ اس کا غضب تم پر نازل ہوجائے؟ تو سرداران قوم جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی تھی اور روز محشر میں اللہ کے سامنے حاضر ہونے کا انکار کیا تھا اور جو دنیا کے ناز و نعم میں مست تھے، انہوں نے کہا کہ یہ (ہود یا صالح) تو تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہے، تمہاری ہی طرح کھاتا پیتا ہے، پھر تم لوگ کیسے راضی ہوجاؤ گے کہ وہ تمہارا سردار بن بیٹھ، اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک آدمی کی اطاعت قبول کرلی تو اپنی عزت کھو بیٹھو گے اور بڑے خسارے میں رہو گے۔ پھر انہوں نے گفتگو کا رخ بدلتے ہوئے کہا، اس کی یہ بات کتنی تعجب خیز ہے کہ جب تم لوگ مر کر مٹٰ بن جاؤأ گے اور صڑف تمہاری ہڈیاں رہ جائیں گی تو دوبارہ تمہیں زندہ کیا جائے گا۔ یہ بڑی انہونی اور بعید از عقل بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری دنیاوی زندگی جب ختم ہوجائے گی تو ہم ووبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے، یہ آدمی اللہ کے بارے میں جھوٹ بول رہا ہے کہ اللہ تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا۔ اور تمہارے اعمال کا حساب لے کر تمہیں جزا و سزا دے گا، اس لیے ہم اس پر ایمان نہیں لائیں گے۔ جب انہوں نے اپنے پیغمبر کی کھلے عام تکذیب کدی اور اپنے کفر کا اعلان کردیا اور اللہ کے نبی ان کی جانب سے بالکل ناامید ہوگئے تو بالاخر انہوں نے اپنے رب سے مدد مانگی اور کہا اے میرے رب ! اب تو میری مدد فرما، اور ان کی جانب سے میری مسلسل تکذیب کی وجہ سے انہیں ہلاک کردے اتو اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ کچھ ہی دیر کے بعد یہ لوگ اپنے کفر و سرکشی پر نادم ہوں گے۔ چنانچہ ایک ورح فرسا چیخ نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا جس کے وہ حقدار تھے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ بظاہر جو عذاب ان پر مسلط کیا گیا تھا، وہ فرشتے کی چیخ اور شدید ٹھنڈی اور طوفانی ہوا دونوں پر مشتمل تھی، اس عذاب نے انہیں ایسا ہلاک کیا کہ وہ سیلاب کے کیڑے مکوڑوں کے مانند حیقر ترین شے بن گئے، اور ظالموں کا ان کے کفر و عناد اور اللہ کے رسول کی مخالفت کی وجہ سے ایسا صفٖایا ہوگیا کہ دنیا ان کے بدترین وجود سے پاک ہوگئی خس کم جہاں پاک۔ المؤمنون
32 المؤمنون
33 المؤمنون
34 المؤمنون
35 المؤمنون
36 المؤمنون
37 المؤمنون
38 المؤمنون
39 المؤمنون
40 المؤمنون
41 المؤمنون
42 ١٠۔ اللہ تعالیٰ نے قوم ہود کی ہلاکت کے بعد دوسری قوموں کو پیدا کیا بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں (قرونا آخرین) سے مراد صالح، لوط اور شعیب علیہم السلام کی قومیں ہیں، اور بعض کہتے ہیں کہ ان سے مراد بنی اسرائیل ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال علم و قدرت کے اظہار کے لیے فرمایا کہ جس کافر قوم کی ہلاکت و بربادی کا جو وقت مقدر ہے اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ یونس آیت (٤٩) میں فرمایا ہے : (اذا جاء اجلھم فلا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون) جب ان کا وقت مقرر آجائے گا تو ایک گھڑی نہ وہ پیچھے ہوسکیں گے اور نہ آگے۔ آیت (٤٤) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ قوموں کے پاس انبیاء و رسل مسلسل بھیجتا رہا، لیکن ان میں سے اکثر و بیشتر لوگ ان انبیاء کی تکذیب کرتے رہے جس کے نتیجے میں ہم پے در پے انہیں ہلاک کرتے رہے، یہاں تک کہ دنیا ان کے وجود سے پاک ہوگئی، اور آنے والی نسلوں کے لیے صرف ان کے عبرتناک قصے رہ گئے۔ المؤمنون
43 المؤمنون
44 المؤمنون
45 ١١۔ ان اقوام گزشتہ کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو نو نشانیاں دے کر جن میں عصائے موسیٰ کی حیثیت برہان قاطع کی تھی، فرعون اور فرعونیوں کو دعوت توحید دینے کے لیے بھیجا، لیکن کبر و نخوت میں آکر ان لوگوں نے موسیٰ و ہارون کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ ان کا جبر و استبداد حد سے تجاوز کر گیا تھا، انہوں نے کہا کہ کیا ہم اپنے ہی جیسے ود انسانوں پر ایمان لے آئیں اور وہ بھی ایسے دو انسان جن کی قوم ہشہت ہماری تابع فرمان رہی ہے۔ چنانچہ انہوں نے دونوں نبیوں کو جھٹلا دیا اور ان کی دعوت توحید کو ٹھکرا دیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دریا برد کردیا۔ آیت (٤٩) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فرعون اور فرعونیوں کی ہلاکت اور ان کی غلامی سے بنی اسرائیل کی آزادی کے بعد ہم نے موسیٰ کو تورات عطا کی، تاکہ بنی اسرائیل اس پر عمل کر کے رضائے الہی کی راہ پر گامزن رہیں۔ المؤمنون
46 المؤمنون
47 المؤمنون
48 المؤمنون
49 المؤمنون
50 ١٢۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش بھی اللہ کی عظیم قدرت کی نشانی ہے کہ بغیر باپ کے نطفہ کے ان کی ماں مریم کے رحم میں ان کا حمل قرار پا گیا، انسانی قدرت سے بالا تر یہ واقعہ بنی نوع انسان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اللہ کی وحدانیت پر ایمان لے آئیں، اور صرف اسی کی عبادت کریں۔ سورۃ الانبیاء آیت (٩١) (وجعلنا ھا وابنھا ایۃ للعالمین) کی تفسیر کے ضمن میں بھی اس باررے میں لکھا جا چکا ہے۔ صاحب فتح البیان لکھتے ہیں کہ اس زمانہ کے یہودی بادشاہ نے عیسیٰ اور ران کی ماں کو قتل کرنا چاہا تو مریم ان کو لے کر فلسطین شہر (رملہ) میں جاکر چھپ گئیں، اور بارہ سال تک وہاں چھپی رہیں، یہ شہر اونچائی پر واقع ہے اور اس کے ارد گرد کی زمین زرخیز ہے اور اس میں پانی کا چشمہ جاری ہے، جب یہودی بادشاہ نے دونوں ماں اور بیٹے کے خلاف سازش کی تو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام انہیں (رملہ) چلے جانے کا حکم دیا، تاکہ اس زرخیز اور پر فضا مقام پر دونوں زندگی بسر کریں۔ المؤمنون
51 ١٣۔ عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی ماں مریم کو اللہ تعالیٰ نے (رملہ) شہر میں جو نعمتیں دیں ان کا ذکر آجانے کے بعد یہ بتانا مناسب رہا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیائے کرام کو اکل حلال کا حکم دیا اور کہا کہ بشرط حلال اللہ کی تمام نعمتیں کھایئے اور ان سے فائدہ اٹھایئے، چنانچہ سبھی انبیاء نے اکل حلال کا شدید التزام کیا، کہا جاتا ہے کہ مریم علیہا السلام دھاگہ بانٹتی تھیں اور اس کی آمدنی سے دونوں ماں بیٹے کا گزر بسر ہوتا تھا۔ داؤد (علیہ السلام) اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے، اور صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم چند ٹکوں کے عوض اہل مکہ کی بکریاں چراتے تھے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت میں ان عیسائی راہبوں کی تردید مقصود ہے جو اچھی چیزیں کھانا زہد و تقوی کے خلاف سمجھتے تھے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے تمام ہی انبیاء کو عمل صالح کا حکم دیا، کیونکہ دنیا و آخرت کی کامیابی اور نیک بختی کا دارومدار نیک کاموں پر ہی ہے۔ المؤمنون
52 ١٤۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیائے کرام کو یہ بھی کہا کہ آپ سب کا دین ایک ہی ہے، وہ یہ ہے کہ لوگوں کو ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایئے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران آیت ١٩ میں فرمایا ہے : (ان الدین عنداللہ الاسلام) بیشک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اور تمام بنی نوع انسان کا رب بھی صرف میں ہو، اس لیے اگر انہوں نے میری وحدانیت کا انکار کر کے میرے ساتھ غیروں کو عبادت میں شریک بنایا تو پھر انہیں میرے عقاب و عذاب کا انتظار کرنا چاہیے۔ المؤمنون
53 المؤمنون
54 ١٥۔ اللہ تعالیٰ نے تو تمام انبیا کو ایک ہی دین دے کر بھیجا، جس کا ذکر اوپر آچکا ہے لیکن ان انبیا کے گزر جانے کے بعد لوگ مختلف جماعتوں اور فرقوں میں بٹ گئے، پہلے تو یہود و نصاری بنے، پھر ہر ایک کے بیسیوں فرقے بن گئے، اسی طرح جن لوگوں نے شرک کی راہ اختیار کی ان کی بھی مختلف جماعیں بنتی چلی گئیں، اور ہر جماعت بزعم کود خوش ہوتی رہی کہ وہی حق پر ہے اور دوسری جماعتیں گمراہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ انہیں ضلالت و گمراہی میں یونہی غلطاں و پیچاں چھوڑ دیجیے، ان کے اندر حق کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، اور اگر ان پر عذاب نازل نہیں ہوتا تو تنگ دل نہ ہوییے، کیونکہ اللہ کے یہاں پر چیز کا ایک وقت مقرر ہے۔ آیات (٥٥، ٥٦) میں فرمایا کہ ہم جو کافروں کے مال اور اولاد میں بڑھاوا دے رہے ہیں تو کیا وہ اس خوش فہمی میں پڑے ہوئے ہیں کہ ہم انہیں خیرات و برکات سے نوازنے میں جلدی کر رہے ہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ وہ جانوروں کے مانند عقل و شعور سے عاری ہیں اسی لیے تو وہ سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ درحقیقت ان کے لیے رسی ڈھیل دی گئی ہے تاکہ گناہوں کی طرف مزید پیش قدمی کرتے چلے جائیں۔ المؤمنون
55 المؤمنون
56 المؤمنون
57 ١٦۔ کافروں کے برعکس اللہ کی جانب سے خیرات و برکات کے حقدار وہ ہوتے ہیں جو مندرجہ ذیل چار صفات سے متصف ہوتے ہیں : پہلی صٖفت ہے کہ وہ اللہ کے عذاب کے خوف سے لرزاں رہتے ہیں۔ دوسری صفت یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی آیتوں اور دلیلوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ تیسری یہ ہے کہ وہ اپنے کا کسی کو شریک نہیں بناتے، اور چوتھی یہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہوئے خائف رہتے ہیں کہ معلوم نہیں صدقہ قبول ہوگا کہ نہیں اور انہیں یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ قیامت کے دن انہیں اللہ کے عذاب سے کیسے چھٹکارا ملے گا۔ آیت (٦١) میں کہا گیا ہے کہ یہی لوگ درحقیقت ہر خیر و برکت کی طرف سبقت کرنے والے ہیں۔ ترمذی، ابن ماجہ اور حاکم وغیرہم نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کا قول (والذین یوتون ما اتو و قلوبھم وجلۃ) کیا اس کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی چوری کرے، زنا کرے اور شراب پیے، اور اس کے باوجود اللہ سے ڈرتا رہے؟ تو آپ نے فرمایا : نہیں بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی روزہ رکھے، صدقہ کرے اور نماز پڑھے اور اس کے باوجود اللہ سے ڈرے کہ ایسا نہ ہو اس کا عمل قابل قبول نہ ہو۔ المؤمنون
58 المؤمنون
59 المؤمنون
60 المؤمنون
61 المؤمنون
62 ١٧۔ اعمال صالحہ کی طرف سبقت کرنے والوں کا جب ذکر آیا، تو یہ بتانا مناسب رہا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کو ان کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بنانا، انسان اپنی وسعت بھر کوشش کر کے اپنے رب کی رضا اور اس کی جنت کو پاسکتا ہے۔ اس کے بعد اللہ نے بھلائی کی طرف سبقت کرنے والوں کو بتایا کہ ان کے اعمال ایک ایسی کتاب میں لکھے جارہے ہیں جو کسی بھی نیکی یا بدی کو ضائع نہیں ہونے دیتی ہے، اس لیے ان کے ساتھ بے انصافی نہیں ہوگی، بلکہ ان نیکیوں کا انہیں پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الجاثیہ آیت (٢٩) میں فرمایا : (ھذا کتابنا ینطق علیکم بالحق انا کنا نستنسخ ما کنتم تعملون) یہ ہے ہماری کتاب جو تمہارے بارے میں سچ سچ بول رہی ہے، ہم تمہارے اعمال لکھواتے جاتے ہیں۔ المؤمنون
63 ١٨۔ روئے سخن کفار کی طرف پھیر دیا گیا ہے کہ مذکورہ بالا آیتوں میں بھلائی کی طرف سبقت کرنے والے مومنوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان سے یہ کفار کو سوں دور ہیں اور ان کے دلوں پر غفلت طاری ہے اور کفر و شرک کے علاوہ بھی انہوں نے بڑے گناہوں کا ارتکاب کیا ہے، جو ان کے نامہ اعمال میں نوشتہ ہیں، اور یہ سارے اعمال انہیں جہنم تک پہنچا کر رہیں گے۔ المؤمنون
64 ١٩۔ جن کفار قریش کو اللہ تعالیٰ نے مال و اولاد سے نوازا تھا اور جن کی رسی ڈھیل دی تھی تاکہ کفر و سرکشی میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جائیں، جب میدان بدر میں اللہ نے ان کی گرفت کی اور قید و بند اور قتل کی صورت میں اس کا عذاب ان پر مسلط ہوگیا یا جب رسول اللہ کی دعا کی وجہ سے اللہ نے انہیں قحط سالی میں مبتلا کردیا، تو چیخ و پکار کرنے لگے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ اب چیخ و پکار کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اب ہمارے عذاب سے نجات دلانے کے لیے تمہارا کوئی مددگار نہیں ہے، جب میری آیتیں تمہارے سامنے پڑھی جاتی تھیں اور کہا جاتا تھا کہ ان سے نصیحت حاصل کرو، تو تم منہ موڑ کر چل دیتے تھے اور اس غرور میں مبتلا تھے کہ تم لوگ اہل حرم ہو تو بھلا تم پر کون غالب آسکتا ہے؟ اور خانہ کعبہ کے گرد اپنی راتوں کی مجلس میں قرآن میں عیب نکالتے تھے کبھی اسے جادو بتاتے تھے تو کبھی شعر، تاکہ لوگ اس پر ایمان نہ لائیں۔ بعض مفسرین نے عذاب سے مراد عذاب آخرت لیا ہے، اور کہا ہے کہ کافروں کی چیخ و پکار قیامت کے دن عذاب جہنم کی وجہ سے ہوگ میدان بدر میں یا مکہ میں قحط سالی کی وجہ سے کافروں نے چیخ و پکار نہیں کی تھی۔ المؤمنون
65 المؤمنون
66 المؤمنون
67 المؤمنون
68 ٢٠۔ نبی کریم کی بعثت اور قرآن کریم کے نزول کے بعد، اہل قریش کا کفر پر اصرار قابل حیرت امر تھا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی زجر و توبیخ کی ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے قرآن میں صدق دل سے غور و فکر کیوں نہیں کیا، تاکہ یہ بات ان پر آشکارا ہوجاتی، یہ اللہ کی سچی کتاب ہے اور جن پر نازل ہوئی ہے وہ اس کے سچے رسول ہیں، اور ان کی یہ بات بھی قابل ملامت ہے کہ انہوں نے قرآن وار عقیدہ توحید کا اس لیے انکار کردیا کہ یہ ان کے آبا و اجداد کا عقیدہ نہیں تھا، اور ان کی یہ بات بھی قابل حیرت ہے کہ جس آدمی کو انہوں نے بچپن سے جانا پہچانا، زندگی بھر جس کی صداقت و امانت کی گواہی دی، جب انہوں نے اسلام کی دعوت پیش کی تو ان کے ساتھ ایسا کرنے لگے، جیسے پہلے سے ان کے اخلاق و کردار کو جانتے ہی نہیں تھے، اور اس سے بھی گھناؤنی بات ان کا یہ بہتان ہے کہ محمد کو جنون لاحق ہوگیا ہے، حالانکہ تمام کفار مکہ جانتے تھے کہ محمد ان میں سب سے زیادہ عقلمند اور سنجیدہ آدمی ہیں، اسی لیے اللہ نے اس کے بعد کہا، بات دراصل یہ ہے کہ کفار خوب جانتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، اور محمد ان سب سے زیادہ صادق و امین اور عاقل و سمجھ دار انسان ہیں اور جس دین کی طرف وہ انہیں بلا رہی ہیں وہ دین برحق ہے، لیکن ان میں اکثر لوگ اپنے کبر ونخوت اور کفر و سرکشی کی وجہ سے اس کا انکار کر رہے ہیں۔ المؤمنون
69 المؤمنون
70 المؤمنون
71 ٢١۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر و ضلالت کی مزید تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر دین اسلام ان کی خواہشات کی مطابق ہوتا تو نظام عالم درہم برہم ہوجاتا، اور آسمان اور زمین میں پائی جانے ولی تمام مخلوقات خواہشات نفس کی اتباع اور گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے تباہ و برباد ہوجاتیں، اس کے بعد قرآن نے ان کی عقل پر ماتم کیا ہے کہ قرآن اہل قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے، اور انہی میں سے ایک فرد پر نازل ہوا ہے، یہ بات ان کے لیے باعث فخر و عزت تھی، لیکن انہوں نے اپنے کبر و نخوت کی وجہ سے اس سے منہ موڑ لیا ہے۔ آیت (٧٢) میں ان کی حالت پر مزید اظہار تعجب کیا گیا ہے کہ آپ ان سے تبلیغ اسلام کا کوئی معاوضہ بھی تو نہیں مانگتے ہیں کہ ان پر یہ بات گراں گزر رہی ہے، آپ کو تو آپ کے رب کی جانب سے دنیا میں جو روزی مل رہی ہے اور آخرت میں جو اجر و ثواب ملے گا وہ ہر چیز سے بہتر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو سب سے بہتر روزی رساں ہے، اور آپ تو انہیں اس راہ کی طرف بلا رہے ہیں جو بالکل سیدھی راہ ہے اس میں کوئی کجی نہیں ہے، یعنی آپ انہیں دین اسلام کی طرف بلا رہے ہیں، اس لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ آپ کا احسان مانتے اور اسے فورا قبول کرلیتے، لیکن چونکہ وہ لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں اس لیے اس دین کو قبول کرنے سے اعراض کر رہے ہیں۔ المؤمنون
72 المؤمنون
73 المؤمنون
74 المؤمنون
75 ٢٢۔ اہل قریش کے کفر و طغیان پر مزید نکیر کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ ان کا باطن اس قدر سیاہ ہوچکا ہے کہ اگر ہم ان کے حال پر رحم کرتے ہوئے بھوک اور قحط سالی کی تکلیف کو دور بھی کردیں، تو بھٹکتے پھریں گے، اور ایمان نہیں لائیں گے، اور اس کا عملی تجربہ بھی ہوچکا ہے کہ ہم نے انہیں بھوک اور قحط سالی میں مبتلا کیا اور میدان بدر میں ان میں سے بہت قتل کیے گئے، اور جو باقی رہے وہ پابند سلاسل کرلیے گئے، لیکن انہیں اس کی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اپنے رب کے سامنے جھکتے اور گریہ و وزاری کرتے، بلکہ اپنے کفر پر اکڑ رہے۔ چنانچہ جب ان کی سرکشی حد سے بڑھ گئی تو ہم نے ان کے سامنے شدید عذاب کا ایک دروازہ کھول دیا جس کی سختیوں نے انہیں بھیانک یاس و ناامیدی میں مبتلا کردریا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس عذاب سے مراد یا تو عذاب آخرت ہے، یا معرکہ بدر میں ان کا قتل کیا جاتا ہے، یا وہ قحط جو رسول اللہ کی دعا کی وجہ سے واقع ہوا تھا، یا فتح مکہ، جس کے بعد ان کا غرور ٹوٹ گیا تھا اور ناامیدی کا گہرا سایہ ان کے دلوں پر پڑگیا تھا۔ المؤمنون
76 المؤمنون
77 المؤمنون
78 ٢٣۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر یقینا قادر ہے اس لیے کہ اس کی قدرت کا عالم یہ ہے کہ اس نے انسانوں کے مٹی سے بنے اجسام میں سننے اور دیکھنے کی صلاحیت پیدا کی ہے، گوشت کا ایک لوتھڑا پیدا کیا ہے جسے دل کہا جاتا ہے اور جس میں سوچنے کی قدرت رکھی ہے، ان نعمتوں سے مومن و کافر سبھی فائدہ اٹھاتے ہیں، لیکن مشرکین ان کا شکریہ ادا نہیں کرتے ہیں کیونکہ شکر کا عملی تقاضا یہ تھا کہ وہ ایمان لے آتے۔ المؤمنون
79 ٢٤۔ اور اس نے انسانوں کو پہلی بار بغیر کسی سابق نمونہ کے پیدا کیا، اور نظام تناسل کے ذریعہ ان کی تعداد بڑھا کر چہار دانگ عالم میں پھیلا دیا، اور جب قیامت آئے گی تو پھر وہ اپنی قبروں سے اٹھ اٹھ کر میدان محشر میں جمع ہوجائیں گے اور اس کے سامنے اپنے اعمال کا حساب چکائیں گے، تو جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا ہے وہ یقینا انہیں دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔ المؤمنون
80 ٢٥۔ اور وہی ہے جو قطرہائے منی کو زندگی دیتا ہے، خون کے لوتھڑے میں روح پھونکتا ہے، اور مختلف اطوار سے گزار کر ایک مکمل انسان کی شکل میں رحم مادر سے باہر نکالتا ہے، اور وہی ہے جو لیل ونہار کو گھٹاتا بڑھاتا ہے، ان تصرفات پر اس کے علاوہ کوئی دوسرا قادر نہیں ہے، تو اے اہل مکہ ! کیا تمہاری عقل میں اتنی سی بات نہیں آتی ہے کہ جس نے پہلی بار بغیر سابق نمونہ کے تمہیں پیدا کیا تھا وہ یقینا تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جس کے دل کی آنکھ اندھی ہوا سے کسی دلیل سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے، اسی لیے تم نے تمام دلائل و براہین سننے کے باوجود گزشتہ منکرین آخرت کی طرح یہی کہا کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے وار ہماری صرف ہڈیاں ہر جائیں گی تو کیا دوبارہ زندہ کر کے قبروں سے اٹھائے جائیں گے، اس سے پہلے بھی ہم سے اور ہمارے آباو اجداد سے ایسی بات کہی جاتی رہی ہے لیکن اب تک تو کچھ بھی نہیں ہوا ہے، اس لیے یہ پرانی کتابوں کی کہانیاں ہیں جنہیں لوگ بیان کرتے آرہے ہیں، حقیقت سے اس بات کا کوئی تعلق نہیں۔ المؤمنون
81 المؤمنون
82 المؤمنون
83 المؤمنون
84 ٢٦۔ بعث بعد الموت کے عقیدے پر مزید دلیل پیش کی جارہی ہے کہ اے میرے رسول ! اگر آپ ان کافروں سے پوچھیں گے کہ زمین اور اس پر موجود تمام مخلوقات کا مالک کون ہے، تو وہ کہیں گے کہ اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے اور وہی ان کا مالک ہے، تو پھر آپ ان سے کہیے کہ تم اتنی بات کا ادراک نہیں کرپاتے ہو کہ جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا ہے وہ انہیں دوبارہ پیدا کرنے پر یقینا قادر ہے۔ اور اے میرے رسول ! اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ ساتوں آسمان اور عرش عظیم کا رب کون ہے؟ تو وہ کہیں گے کہ اللہ ان کا رب ہے، پھر آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اگر تم لوگ یہ جاننے کے باوجود اس کے ساتھ کسی کو شریک بناتے ہو اور قرآن اور رسول کو جھٹلاتے ہو تو کیا تم اس کے عذاب سے ڈرتے نہیں ہو؟ اور اے میرے رسول ! اگر آْپ ان سے یہ پوچھیں گے کہ ہر چیز کا مالک کون ہے، اور کس کے ہاتھ میں ہر چیز کا خزانہ ہے، کون ہے وہ جو جسے چاہتا ہے پناہ دیتا ہے اور کوئی نہیں جو اسے روک دے، اور جسے وہ نقصان پہنچانا چاہے، کوئی نہیں جو اسے بچا لے؟ تو وہ کہیں گے کہ اللہ کے سوا کوئی ان باتوں پر قادر نہیں ہے تو پھر آپ ان سے کہہ دیجیے کہ یہ جانتے ہوئے کیوں دھوکہ کھاتے ہو اور کیوں بعث بعد الموت کا انکار کرتے ہو؟ المؤمنون
85 المؤمنون
86 المؤمنون
87 المؤمنون
88 المؤمنون
89 المؤمنون
90 ٢٧۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو قول برحق کی خبر دے ری ہے کہ اس کے سوا کوئ معبود نہیں ہے اور اس حقیقت کے اثبات کے لیے اس نے قطعی اور واضح دلائل پیش کریدئے ہیں، اس لیے کفار قریش جو اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بناتے ہیں، یہ محض ان کی افترا پردازی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی سورت کی آخری آیت میں فرمایا ہے : (ومن یدع مع اللہ الہ آخر لا برھان لہ بہ فانما حسابہ عند ربہ) جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے گا جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں ہے تو اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہوگا۔ المؤمنون
91 ٢٨۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی نہ کوئی اولاد بنائی ہے اور نہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا معبود ہے، اس لیے کہ اگر کئی معبود ہوتے تو ہر ایک اپنی مخلوقات میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرتا، اور نتیجہ یہ ہوتا کہ نظام عالم کو سنبھالنے میں ان کے د رمیان ٹکراؤ پیدا ہوتا، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے، پورے عالم کا نظام غایت درجہ منظم ہے اور ہر چیز ایک دوسرے سے ایک خاص نظام کے مطابق جڑی ہوئی ہے، نیز اگر کئی معبود ہوتے تو ہر ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کرتا، اور اگر دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں عاجز ہوتے تو معبود نہ ہوتے، اور اگر ایک غالب ہوتا اور دوسرا مغلوب، تو مغلوب معبود نہ ہوتا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (سبحان اللہ عما یصفون) اس کی ذات ظالم مشرکوں کے اس دعوی سے پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہے یا اس کا کوئی شریک ہے، وہ تو غائب و حاضر سب کا علم رکھتا ہے، اس لیے اس کی ذات اعلی صفات مشرکوں کی افترا پردازی سے بلند و بالا ہے۔ المؤمنون
92 المؤمنون
93 ٢٩۔ اس اسلوب کلام میں ان مشرکین مکہ کے لیے دھمکی ہے جنہوں نے بعثت محمد اور نزول قرآن سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا، اور اپنے کفر و شرک پر جمے رہے، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم سے کہا، آپ دعا کرتے رہیے کہ میرے رب ! اگر تو کافروں پر عذاب نازل کرتے وقت مجھے زندہ رکھے تو ان ظالموں کے ساتھ مجھ پر بھی عذاب نہ نازل کرنا۔ مفسرین لکھتے ہیں اس میں اشارہ ہے کہ وہ عذاب بڑا ہی شدید ہوگا اور کافروں کے اس استہزا کی تردید ہے کہ اگر عذاب کی بات صحیح ہے تو پھر جلد کیوں نہیں آجاتا۔ آیت (٩٥) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس عذاب کا ان سے وعدہ کیا جارہا ہے، ہم اسے کسی وقت بھی لانے پر قادر ہیں، لیکن حکمت کا تقاضا ہے کہ اسے اس کے وقت مقرر تک موخر رکھا جائے۔ المؤمنون
94 المؤمنون
95 المؤمنون
96 ٣٠۔ اللہ تعالیٰ نے اہل قریش سے جس عذاب کا وعدہ کر رکھا تھا، اس کا وقت آنے تک نبی کریم کو حکم دیا کہ مشرکین جو ان کا اور دین اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں اس پر صبر کریں، درگزر کریں اور جہاد کے حکم کا انتظار کریں، اسی لیے بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیت جہاد والی آیت کے ذریعے منسوخ ہوچکی ہے، بعض دوسرے مفسرین کا خیال ہے کہ کافروں کے بارے میں تو آیت جہاد کے ذریعہ اس کا حکم منسوخ ہوچکا ہے لیکن مسلمانوں کے آپس کے تعلقات کے سلسلے میں اس کا حکم باقی ہے، یعنی یہ آیت مسلمانوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ آپس میں عفو و درگزر سے کام لیں۔ آیت کے آخر میں کہا گیا ہے کہ مشرکین مکہ جو کچھ اللہ کے بارے میں کہتے ہیں اس کا کوئ شریک ہے، یا اس کا کوئی لڑکا ہے، یا وہ جو کچھ اس کے رسول کے بارے میں کہتے ہیں وہ جھوٹا ہے، یا قیامت اور بعث بعد الموت کی تکذیب کرتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ان ساری باتوں سے واقف ہے اور ان مشرکوں کو اس کا عذاب بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ المؤمنون
97 ٣١۔ مسلمانوں کو اہل کفر سے عفو و درگزر کرنے کی تعلیم دینے کے بعد، نبی کریم اور ان کی امت کو شیطان کے نرغوں اور وسوسوں سے محفوظ رہنے کا طریقہ سکھایا جارہا ہے، کہ وہ اللہ کے ذریعے شیطان مردود اور اس کے وسوسوں سے پناہ مانگتے رہیں۔ امام احمد، ابو داؤد، ترمذی اور نسائی وغیرہم نے عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صحابہ کرام کو سوتے وقت یہ دعا پڑھنے کی نصیحت کرتے تھے، تاکہ شیطان نیند کی حالت میں ڈرا نہ سکے۔ بسم اللہ اعوذ بکلمات اللہ التامۃ من غضبہ وعقابہ شر عبادہ ومن ھمزات الشیطان وان یحضرون،۔ میں اللہ کا نام لے کر سوتا ہوں، اللہ کے مکمل اور پورے کلمات کے ذریعہ اس کے غضب، اس کی سزا اس کے بندوں کے شر اور شیطان کے وسوسوں سے پناہ مانگتا ہوں اور اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔ راوی کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرو اپنے بالغ بچوں کو سوتے وقت یہ دعا پڑھنے کی تلقین کرتے تھے، اور نابالغوں کے گلے میں لکھ کر لٹکا دیتے تھے۔ مسند احمد میں ہے کہ خالد بن ولید نے نبی کریم سے کہا، یا رسول اللہ ! میں نیند میں ڈر جاتا ہوں، تو آپ نے ان سے کہا کہ جب اپنے بستر پر جاؤ تو یہ دعا پڑھ لو (جو ابھی گزری ہے) تو شیطان تمہارے قریب نہیں آئے گا، اور نقصان نہیں پہنچائے گا، اور ابو داؤأد و ترمذی نے روایت کی ہے کہ نبی کریم شیطان سے پناہ مانگتے تھے اور کہتے تھے : اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم من ھمزہ ونفخہ ونفثہ۔ میں اللہ کے ذریعہ جو بڑا سننے والا اور بڑا جاننے والا ہے، مردود شیطان سے پناہ مانگتا ہوں، یعنی اس کے وسوسہ سے، پھونک مارنے سے، اور منہ سے تھوکنے سے پناہ مانگتا ہوں۔ المؤمنون
98 المؤمنون
99 ٣٢۔ سلسلہ کلام مشرکین مکہ سے متعلق ہے کہ وہ اپنے کفر و ضلالت پر ہی جمے رہیں گے، یہاں تک کہ جب انہیں اپنی موت کے آثار آنے لگیں گے اور ان کے گناہوں کے سیاہ بادل ان کی آنکھوں کے سامنے منڈلانے لگیں گے، تو کہیں گے کہ میرے رب ! مجھے مہلت دے، تاکہ دنیا میں رہ کر نیک کام کروں، تو اللہ تعالیٰ ان کی طلب کو رد کردے گا اور کہے گا کہ اب ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ (کلا انھا کلمۃ ھو قائلھا) کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بات یونہی ان کی زبان سے نکل رہی ہے، اگر ایسا کر بھی دیا جائے تو بھی وہ اپنے کفر پر جمے رہیں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام آیت (٢٨) میں فرمایا ہے : (ولو ردوا لعادوا لما نھوا عنہ) اگر وہ دنیا کی طرف لوٹا بھی دیئے جائیں گے تو جس کفر و شرک سے انہیں روکا گیا تھا وہی دوبارہ کرنے لگیں گے۔ آیت (١٠٠) کے آخر میں فرمایا گیا کہ موت آجانے کے بعد ان کے اور دنیا کی طرف دوبارہ لوٹائے جانے کے درمیان دنیا کی باقی عمر حائل ہوجائے گی اور وہ عالم برزخ میں رہیں گے، یہاں تک کہ جب قیامت آئے گی تو وہ اپنی قبروں سے اٹھائے جائیں گے، لیکن وہ زندگی عمل کی نہیں بلکہ حساب و جزا کی زندگی ہوگی۔ المؤمنون
100 المؤمنون
101 ٣٣۔ یہاں دوسری بار صور پھونکا جانا مراد ہے، جس کے بعد تمام لوگ زندہ ہو کر میدان محشر میں جمع ہونے کے لیے دوڑنے لگیں گے۔ اس وقت لوگوں پر ایسی گھبراہٹ اور خوف و دہشت طاری ہوگی کہ ہر ایک کو اپنی ذات کے سوا کسی سے کوئی دلچسپی نہیں رہے گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ عبس آیات (٣٤) سے (٣٧) تک میں فرمایا ہے : (یوم یفر المرء من اخیہ۔ وامہ وابیہ۔ وصاحبتہ وبنیہ۔ لکل من امری منھم یومئذ شان یغنیہ) اس دن آدمی اپنے بھائی سے اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا، ان میں سے ہر ایک کو اس دن اپنی نجات کی ایسی فکر دامن گیر ہوگی جو اس کے لئے کافی ہوگی۔ اور سورۃ المعارج آیت (١٠) میں فرمایا ہے : (ولایسال حمیم حمیما) اس دن کوئی دوست اپنے کسی ودست کو نہیں پوچھے گا۔ اور سورۃ الصافات کی آیت (٢٧) اور سورۃ الطور کی آیت (٢٥) میں جو آیا ہے۔ (واقبل بعضھم علی بعض یتسائلون) اس دن لوگ ایک دوسرے سے پوچھیں گے، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں پر شدید گھبراہٹ قبروں سے نکلنے کے وقت ہوگی، اور ایک دوسرے سے پوچھنے والی بات کسی اور وقت ہوگی، اس لیے کہ آیات و احادیث کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ قیامت کا دن طویل ہوگا س۔ اور اس طویل مدت میں لوگ مختلف حالات سے گزریں گے۔ المؤمنون
102 ٣٤۔ قیامت کے دن جس کی نیکیوں کا پلڑا جھک جائے گا وہ جہنم سے نجات پا جائے گا اور جنت میں داخل کردیا جائے گا اور جس کی برائیوں کا پلڑا جھک جائے گا وہ جہنم میں دھکیل دیا جائے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، آگ اس کے چہرے کو جھلس دے گی اس کے ہونٹ جل جائیں گے اور اس کے دانت دکھائی دینے لگیں گے اور اس کی شکل بگڑ کر نہایت قبیح اور ڈراونی ہوجائے گی۔ المؤمنون
103 المؤمنون
104 المؤمنون
105 ٣٥۔ ان کے کرب و اذیت کو بڑھانے کے لیے ان سے زجر و توبیخ کے طور پر کہا جائے گا کہ کیا ہمارے رسول ہماری آیتیں تمہیں پڑھ کر سناتے نہیں تھے؟ لیکن تم انہیں جھٹلاتے رہے، تو ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوگا، بطور معذرت صرف یہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہماری بدبختی ہم پر غالب آگئی تھی کہ ہم دنیاوی لذتوں میں منہمک رہے، خواہشات نفس کی اتباع کرتے رہے اور راہ حق سے کو سوں دور رہے۔ المؤمنون
106 المؤمنون
107 ٣٦۔ پھر شدت کرب و بلا سے گھبرا کر کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں یہاں سے نکال کر دوبارہ دنیا میں بھیج دے اگر ہم نے پھر کفر و شرک کی راہ اختیار کی تو واقعی ہم ظالم ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ انہیں ٹھکرا دے گا اور اس طرح انہیں دھتکار کر چپ کردے گا جس طرح کتے کو دھتکار کر بھگا دیا جاتا ہے، اور اس کا سبب بیان کرتے ہوئے ان سے کہے گا کہ دنیا میں میرے مومن بندے اپنے ایمان و عمل کے وسیلہ سے مجھ سے مغفرت و رحمت طلب کرتے تھے تو تم ان کی عبادتوں اور دعاؤں کا مذاق اڑاتے تھے، آج میں نے انہیں ان کے صبر کے بدلے میں جنت دے دی ہے۔ المؤمنون
108 المؤمنون
109 المؤمنون
110 المؤمنون
111 المؤمنون
112 ٣٧۔ اس آیت کریمہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ کافر چند سالہ دنیاوی زندگی میں اللہ کی عبادت نہ کر کے آخرت میں بہت بڑا خسارہ اٹھائیں گے اگر انہوں نے بھی دنیا میں مومنوں کی طرح عمل صالح کیا ہوتا تو آج وہ بھی جنت کے حقدار ہوتے، اللہ تعالیٰ کافروں سے پوچھے گا کہ جس دنیاوی زندگی کے عیش و عشرت میں تم مگن رہے وہ کتنے دن کی زندگی تھی، تو وہ شدت کرب و الم کی وجہ سے دنیا کا عیش و آرام بھول جائیں گے اور انہیں ایسا معلوم ہوگا کہ جیسے دنیا میں انہوں نے صرف ایک دن یا اس سے بھی کم وقت گزارا تھا، اور پریشانی اور تکلیف و اذیت سے تنگ آکر کہیں گے کہ یا رب ! تیرے گننے والے فرشتے زیادہ جانتے ہیں کہ ہم کتنے دن رہے تھے، تو اللہ تعالیٰ پھر ان سے کہے گا کہ بہرحال تم لوگ دنیا میں کم ہی دن رہے تھے، اصل طویل زندگی تو اب شروع ہوئی ہے، اگر تم اس حقیقت پر ایمان لائے ہوتے اور فانی زندگی کو ابدی زنگی پر ترجیح نہ دی ہوتی اور صبر و استقامت کے ساتھ اللہ کی بندگی کی ہوتی تو مومنوں کی طرح آج تم بھی کامیاب اور فائز المرام ہوتے۔ المؤمنون
113 المؤمنون
114 المؤمنون
115 ٣٨۔ بعث بعد الموت کا انکار کرنے والے کافروں کو مزید ڈانٹ پلائی جارہی ہے کہ کیا تم لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ ہم نے تمہیں بغیر کسی مقصد کے اور بیکار پیدا کیا ہے، اور تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ ہمارے پاس لوٹ کر نہیں آنا ہوگا۔ اللہ کی ذات اس سے بہت ہی بلند و بالا ہے کہ وہ کسی چیز کو بے کار پیدا کرے، ہم نے تو تمہیں اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، اسی لیے اللہ نے اس کے بعد فرمایا کہ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کی بھی عبادت کرے گا جس کی کوئی دلیل نہیں ہے، تو اسے اس برے عمل کا اپنے رب کے حضور کھڑے ہو کر حساب دینا ہوگا، اور اسے اس برائی کا بدلہ مل کر رہے گا۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو سکھایا کہ وہ ہر حال میں اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرتے رہیں، اور اس سے مغفرت و رحمت کی دعا کرتے رہیں۔ المؤمنون
116 المؤمنون
117 المؤمنون
118 المؤمنون
0 سورۃ النور مدنی ہے، اس میں چونسٹھ آیتیں اور نو رکوع ہیں۔ نام : آیت (٣٥) (اللہ نور السموات والارض) سے ماخوذ ہے، صاحب محاسن التنزیل لکھتے ہیں کہ اس سورت میں اللہ کے نور کو ایک مثال کے ذریعہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اس سے بنی نوع انسان کو اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے، اسی لیے اس کا نام سورۃ النور رکھا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت مدنی دور میں غزوی بنی المصطلق کے بعد نازل ہوئی تھی، جو محمد بن اسحاق صاحب کتاب السیرۃ کی روایت کے مطابق شعبان ٦ ھ میں واقع ہوا تھا، اس کی دلیل یہ ہے کہ اسی غزوہ سے واپسی میں مدینہ منورہ پہنچنے سے پہلے مشہورواقعہ افک پیش آیا تھا، یعنی ام المومنین عائشہ کی عفت و پاکدامنی پر منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی بن سلول نے تہمت دھری تھی، جس کی تفصیل اس سورت میں موجود ہے۔ اس سورت میں پردہ، اور مسلمان مردوں اور عورتوں کی عفت و پاکدامنی کی حفاظت سے متعلق بہت سے مسائل بیان کیے گئے ہیں، جو اسلامی سوسائٹی کا طرہ امتیاز ہیں۔ النور
1 ١۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ کلمہ سورۃ کو نکرہ لانے سے مقصود نبی کریم اور مسلمانوں کو متنبہ کرنا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے، محمد یا کسی اور انسان کا کلام نہیں ہے، اور اس میں جو احکام بیان کیے گئے ہیں وہ بہت ہی اہم ہیں اور ان پر عمل کرنا فرض ہے، نیز وہ احکام بہت ہی واضح ہیں ان کے سمجھنے میں کوئی التباس نہیں پایا جاتا ہے، تاکہ امت مسلمہ بآسانی ان پر عمل کرے۔ النور
2 ٢۔ اس آیت کریمہ میں زانیہ اور زانی کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ زانی اور زانیہ اگر غیر شادی شدہ، آزاد، بالغ اور عاقل ہوں گے تو جیسا کہ اس آیت کریمہ میں آیا ہے، انہیں سو کوڑے لگائے جائیں گے، اور جمہور علماء کے نزدیک ایک سال کے لیے شہر بدر کردیئے جائیں گے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک شہر بدر کرنے کا تعلق حاکم وقت سے ہے، اگر وہ چاہے تو کرے، اور چاہے تو صڑف کوڑے لگانے پر اکتفا کرے۔ جمہور کی دلیل صحیحین کی ابو ہریرہ اور زید بن خالد جہنی سے مروی حدیث ہے، جس میں آیا ہے کہ ایک مزدور نے اس آدمی کی بیوی کے ساتھ زنا کیا جس کے پاس وہ کام کرتا تھا، تو آپ نے اسے سو کوڑنے لگانے اور ایک سال تک شہر بدر کرنے کا حکم دیا تھا۔ اگر وہ دونوں غلام اور باندی ہوں گے تو ان میں سے ہر ایک کو پچاس کوڑے لگائے جائیں گے، اس کی دلیل سورۃ النساء آیت (٢٥) ہے : (فان اتین بفاحشۃ فعلیھم نصف ما علی المحصنات من العذاب) اگر لونڈیاں زنا کریں تو انہیں آزاد عورتوں کی آدھی سزا دی جائے۔ یعنی پچاس کوڑے اور غلام کو بھی لونڈی پر قیاس کرتے ہوئے پچاس کوڑے لگائے جائیں گے۔ زانی اور زانیہ اگر آزاد، بالغ، عاقل اور شادی شدہ ہوں گے تو انہیں رجم کردیا جائے گا۔ صحیح اور متواتر سنت سے یہی ثابت ہے، اور اہل علم کا اسی پر اجماع ہے، اس لیے کہ قرآن کریم کی آیت (الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموھما البتۃ) کا لفظ اگرچہ منسوخ ہوچکا ہے، لیکن اس کا حکم باقی ہے۔ صحیحین کی روایت ہے، عمر بن خطاب نے خطبہ میں کہا، لوگ کہیں گے کہ رجم کا حکم کہاں سے آگیا، قرآن میں تو صرف سو کوڑے لگانے کا حکم ہے۔ حالانکہ رسول اللہ نے رجم کیا اور ان کے بعد ہم (خلفاء) نے رجم کیا ہے۔ اگر کوئی نہ کہتا کہ عمر نے قرآن میں اضافہ کردیا ہے تو رجم کا حکم جس طرح نازل ہوا تھا اسی طرح اس میں لکھ دیتا، اس معنی کی حدیثیں امام مالک، امام احمد اور نسائی وغیرہم نے بھی روایت کی ہیں۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ سورۃ النساء کی آیات (١٥، ١٦) میں زانی مردوں اور عورتوں سے متعلق قید کرنے اور سزا دینے کا جو حکم بیان کیا گیا ہے، وہ اس آیت کے ذریعہ منسوخ ہے، ان دونوں آیتوں کی تفسیر دیکھ لینا مناسب رہے گا۔ ایک اور قابل ذکر مسئلہ یہ ہے کہ جمہور کے نزدیک شادی شدہ زانی یا زانیہ کو صرف رجم ہی کیا جائے گا، کوڑے نہیں لگائے جائیں گے۔ اس لیے کہ رسول اللہ نے جن مردوں اور عورتوں کو اپنے عہد میں رجم کیا انہیں کوڑے نہیں لگوائے تھے۔ امام احمد کے نزدیک انہیں کوڑے بھی لگوائے جائیں گے ان کی دلیل مسلم، امام احمد وار اصحاب سنن اربعہ کی عبادہ بن صامت سے مردی حدیث ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : مجھ سے حاصل کرو، مجھ سے حاصل کرلو، اللہ نے ان کے لیے راستہ نکال دیا، غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کو ایک سو کوڑے لگائے جائیں گے اور ایک سال کے شہر بدر کردیا جائے گا، اور شادی شدہ زانی اور زانیہ کو ایک سو کوڑے لگائے جائیں اور سنگسار کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ مسلم سوسائٹی کو بدکاری و فحاشی سے پاک کرنے کے لیے زنا کا ارتکاب کرنے والے مردوں اور عورتوں پر قرآن و سنت سے ثابت شدہ حد کو ضرور نافذ کریں، اور شیطان کے ورغلانے میں آکر ان پر رحم کھاتے ہوئے شرعی حد کے نفاذ میں لیت و لعل سے کام نہ لیں۔ شیطان تو چاہتا ہے کہ مسلم سوسائٹی میں فحاشی اور بدکاری پھیلے، مسلمانوں کی نسلیں خراب ہوں، سوسائٹی میں ناجائز بچے وجود میں آئیں، اور امت مسلمہ کی اساس جس عفت و پاکدامنی اور طہارت و پاکیزگی پر ہے اس کا خاتمہ ہوجائے، جیسا کہ آج مغربی ممالک میں ہورہا ہے، کہ ان کی حکومتوں نے لواطت اور زنا کو قانونی درجہ دے دیا ہے، جس کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں بن بیاہی مائیں اور ناجائز بچے پائے جاتے ہیں، اور ان کی تعداد بڑھتی ہی جارہ ہے، اور لواطت کو جائز قرار دے دینے کی وجہ سے دن بدن ان کی فطرت مسخ ہوتی جارہی ہے، اور ظاہر میں چلتے پھرتے انسان، اندر سے سوروں سے بھی بدتر ہوگئے ہیں۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ زانی مرد اور زانیہ عورت پر لوگوں کے سامنے حد جاری کی جائے تاکہ دوسرے لوگ عبرت حاصل کریں۔ النور
3 ٣۔ اس آیت کریمہ سے مقصود زنا کی قباحت اور زانیوں کی حقارت و دنائت بیان کرنی ہے، اس لیے آیت کا معنی یہ ہوگا کہ زانی کی حرام رغبت و خواہش پوری کرنے پر زانیہ اور اللہ کی نافرمان بندی ہی تیار ہوگی، یا مشرک عورت تیار ہوگی جو زنا کو حرام نہیں سمجھتی ہے، اسی طرح زانیہ کی حرام رغبت و خواہش پوری کرنے پر زانی اور اللہ کا نافرمان بندہ ہی تیار ہوگا، یا مشرک آدمی جو زنا کو حرام نہیں سمجھتا ہے۔ ابن عباس سے یہی تفسیر منقول ہے اور مجاہد، عکرمہ، سعید بن جبیر اور عروہ بن الزبیر وغیرہم کی بھی یہی رائے ہے۔ زنا کا ارتکاب اور زانیہ عورتوں سے شادی کرنی، یا پاکدامن مسلمان عورتوں کی فاجروں کے ساتھ شادی کردینی، یہ ساری باتیں مسلمانوں کے لیے حرام کردی گئی ہیں۔ ابن عباس کی اس تفسیر کی تائید ان روایات سے بھی ہوتی ہے جنہیں امام احمد، ابو داؤد، نسائی اور ترمذی وغیرھم نے اس آیت کا شان نزول بتانے کے لیے روایت کی ہے، اور جن کا خلاصہ یہ ہے کہ بعض صحابہ نے بعض زانیہ عورتوں سے شادی کرنی چاہی، تو یہ آیت نازل ہوئی، اور رسول اللہ نے انہیں زانیہ عورتوں سے شادی کرنے سے منع فرما دیا۔ حافظ ابن کثیر اور امام شوکانی نے ان روایتوں کو ذکر کیا ہے۔ اسی لیے امام احمد بن حنبل کی رائے ہے کہ پاکدامن مرد کی شادی زانیہ عورت سے صحیح نہیں ہوگی، یہاں تک کہ وہ صدق دل سے توبہ کرے اسی طرح پاکدامن عورت کی شادی زانی و فاجر مرد سے صحیح نہیں ہوگی یہاں تک کہ وہ سچی توبہ کرے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایسا کرنا مومنوں کے لیے حرام کردیا گیا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے بھی اس رائے کی تائید کی ہے۔ النور
4 ٤۔ اس آیت کریمہ میں زنا کی تہمت لگانے والے کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی آزاد بالغ اور پاکدامن مسلمان مرد یا عورت پر زنا کی تہمت لگائے، تو شریعت اسلامیہ اس سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنے دعوی کی صداقت پر چار گواہ پیش کرے، اگر ایسا کرنے سے وہ قاصر رہے گا تو حاکم وقت اسی کوڑے لگائے گا اور اس کی عدالت ساقط ہوجائے گی ور اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی، یہاں تک کہ وہ توبہ کر کے اپنی حالت سدھار لے، ائمہ کرام مالک، شافعی اور احمد کا یہی مذہب ہے۔ یعنی توبہ کرلینے کے بعد اس کی گواہی قبول کی جائے گی اور یہی قول راجح ہے، اس لیے کہ توبہ تمام گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ توبہ کرلینے کے بعد فاسق نہیں رہے گا، لیکن اس کی گواہی کبھی قبول نہیں کی جائے گی، قاضی شریح اور ابراہیم نخعی وغیرہما کا بھی یہی خیال ہے، لیکن کوڑے لگانا کسی کے نزدیک کسی حال میں بھی ساقط نہیں ہوگا۔ البتہ جمہور علماء کی رائے ہے کہ غلام کو صرف چالیس کوڑے لگائے جائیں گے، اور ابن مسعود، عبداللہ بن عبدالعزیز اور قبیصہ وغیرہم کے نزدیک اسے بھی اسی کوڑے لگائے جائیں گے۔ اور علماء کا اجماع ہے کہ اگر کوئی آزاد غلام کسی غلام پر زنا کی تہمت لگاتا ہے تو اسے کوڑے کی سزا نہیں دی جائے گی۔ بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ جو شخص اپنے غلام پر زنا کی تہمت لگائے اس پر قیامت کے دن حد جاری کی جائے گی۔ النور
5 النور
6 ٥۔ اس آیت کریمہ میں اس آدمی کا حکم بیان کیا گیا ہے جو اپن بیوی پر زنا کی تہمت لگائے، اور اپنی سچائی پر چار گواہ پیش نہ کرسکے، ایسے آدمی کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ وہ اس عورت کو حاکم کے پاس لے جائے اور اس پر جو تہمت لگائی ہے اسے دہرائے۔ تو حاکم اس سے کہے گا کہ وہ چار بار گواہی دے کہ اس نے اپنی بیوی پر جو تہمت لگائی ہے اس میں سچا ہے، اور پانچویں بار کہے کہ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو، اس گواہی کے بعد وہ عورت امام شافعی اور بہت سے علماء کے نزدیک اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائے گی، اور اس عورت پر حد زنا واجب وہجائے گی۔ الا یہ کہ وہ عورت بھی چار بار گواہی دے کہ اس کے شوہر نے اس پر جو تہمت لگائی ہے اس پر بہتان ہے اور اس کا شوہر جھوٹا ہے، اور پانچویں بار کہے کہ اگر وہ سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو۔ آیت (١٠) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ تشریعی حکم اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے اس لیے کہ اس کے ذریعہ اس نے مسلمانوں کو ایک بہت بڑٰ اجتماعی مشکل کا حل بتایا اور جھوٹے کی فضیحت کے بجائے اس کی پردہ پوشی کردی کہ ممکن ہے مستقبل میں وہ اپنی حالت سدھار لے اور اللہ کے سامنے صدق دل سے تائب ہو کر اپنی عاقبت اچھی بنا لے، اس لیے کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا اور بڑی حکمتوں والا ہے۔ ان آیات کے شان نزول کے بارے میں محدثین کرام نے ہلال بن امیہ انصاری کا مشہور واقعہ بیا کیا ہے۔ امام احمد اور بخاری و مسلم وغیرہم نے ابن عباس سے جو روایتیں نقل کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ہلال بن امیہ ایک رات جب اپنے کھیت سے گھر واپس آئے تو اپنی بیوی کے پاس ایک اجنبی آدمی کو دیکھا، اور اپنے کان سے بھی دونوں کی باتیں سنیں۔ صبح کو رسول اللہ سے جو کچھ دیکھا تھا بیان کیا، تو آپ پر یہ بات گراں گزری اور سوچا کہ اگر ہلال بن امیہ چار گواہ نہیں پیش کرسکیں گے تو انہیں اسی کوڑے لگ جائیں گے، ہلال نے آپ کے چہرے میں یہ بات پڑھ لی اور کہا کہ یا رسول اللہ میں سچا ہوں اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مشکل کو حل ضرور کرے گا۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ نے ہلال بن امیہ سے کہا کہ اگر تم نے اپنے دعوی کی صداقت پر چار گواہ پیش نہیں کیے تو تمہیں کوڑے لگائے جائیں گے۔ چنانچہ تھوڑٰ دیر کے بعد ہی یہ آیتیں نازل ہوئیں، اور آپ نے اس عورت کو بلا بھیجا، اور اوپر لعان کا جو طریقہ بیان کیا گیا ہے اس کے مطابق ہلال نے اپنی سچائی کی گواہی دی، پھر عورت سے کہا گیا تو اس نے بھی چار بار اپنے شوہر کے جھوٹا ہونے کی گواہی دی، اور پانچویں بار سے پہلے رکی اور اعتراف زنا کرلینا چاہا، لیکن پھر یہ کہتے ہوئے کہ میں اپنے قبیلہ کو رسوا نہیں کروں گی، کہہ گزری کہ اگر میرا شوہر سچا ہے تو مجھ پر اللہ کا غضب ہو، اس کے بعد دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوگئے، لیکن جو بچہ اس عورت کے بطن سے پیدا ہوا وہ ویسا ہی تھا جیسا کہ رسول اللہ نے کہا تھا کہ اس کے اوصاف ایسے ایسے ہوں گے تو وہ ہلال بن امیہ کا نہیں ہوگا۔ جب رسول اللہ کو خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا اگر قسمیں نہ کھائی گئی ہوتیں تو آج عورت کے ساتھ میرا معاملہ کچھ اور ہوتا۔ النور
7 النور
8 النور
9 النور
10 النور
11 ٦۔ اس آیت کریمہ سے مشہور واقعہ افک کی ابتدا ہورہی ہے، جس میں منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی بن سلول نے ام المومنین عائشہ صدیقہ کے خلاف افترا پردازی کرتے ہوئے ان پر صفوان بن معطل انصاری کے ساتھ گناہ کا اتہام لگایا تھا۔ اس واقعہ کو بخاری و مسلم، اہل سنن وار دیگر محدثین نے یہاں مذکور اٹھارہ آیتوں کے شان نزول کے طور پر تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان عورتوں کے لیے پردہ کی فرضیت کے بعد نبی کریم ٦ ھ میں صحابہ کرام کے ساتھ غزوہ بنی مصطلق کے لیے رابغ کی طرف گئے جو مدینہ منورہ اور جدہ کے درمیان واقع ہے۔ واپسی میں ایک رات مدینہ منورہ کے قریب پڑاؤ ڈالا، اور صبح کو روانہ ہوگئے، روانگی سے قبل ام المومنین عائشہ صدیقہ قضائے حاجت کے لیے گئیں تو ان کا ہار ان کے گلے سے گرگیا ، جب انہیں پتہ چلا تو اسی کو تلاش کرنے لگیں، یہاں تک کہ قافلہ روانہ ہوگیا، اور لوگوں نے ان کا خالی ہودج اونٹ پر یہ سمجھ کر رکھ دیا کہ وہ اس کے اندر بیٹھی ہیں، جب واپس آئیں تو دیکھا کہ قافلہ جا چکا ہے، اس لیے اپنی چادر اوڑھ کر وہیں یہ سوچ کر بیٹھ گئیں کہ جب قافلہ والوں کو ان کی عدم موجودگی کا علم ہوگا تو واپس آئیں گے، صفوان بن معطل انصاری رسول اللہ کے حکم سے اس زمانے کے قاعدے کے مطابق وہیں رک گئے تھے، تاکہ صبح کی روشنی میں دیکھ لیں کہ قافلہ والوں کا کوئی سامان چھوٹ تو نہیں گیا ہے، جب انہوں نے عائشہ صدیقہ کو اچانک دیکھا تو (انا للہ وانا الیہ راجعون) پڑھا اور اپنا اونٹ ان کے قریب لا کر بٹھا دیا، عائشہ اس پر سوار ہوگئیں اور صفوان اونٹ کو ہانکتے ہوئے چل پڑے۔ جب قافلہ کے پاس پہنچے تو منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی نے فورا موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ آج یہ بچ کر نہیں آئی ہے، اور اس بات کو اس نے خوب ہوا دی، اور صحابہ و صحابیات سے چار آدمی اس کی اس افترا پردازی سے متاثر ہو کر اس کا ساتھ دینے لگے، جن کے نام یہ ہیں : زید بن رفاعہ، حسان بن ثابت، مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش۔ کچھ دوسرے لوگ بھی متاثر ہوئے، مدینہ آنے کے بعد یہ خب ر چاروں طرف پھیل گئی، رسول اللہ اہل بیت اور صحابہ کرام کے گھروں میں شدید اضطراب و پریشانی آگئی۔ رسول اللہ عائشہ اور ابوبکر بہت ہی زیادہ ملول خاطر ہوگئے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں عائشہ صدیقہ اور صفوان بن معطل کی برات اور پاکدامنی نازل کی، اور مدینہ کے سوگوار ماحول میں خوشیوں کی لہر دوڑ گئی۔ واقعے سے متعلق ضروری تفصیلات آیات کی تفسیر کے ضمن میں آئیں گی۔ آیت (١١) میں نبی کریم ابوبکر اور دیگر صحابہ کرام کو تسلی دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جن لوگوں نے اس افترا پردازی میں منافقوں کے سردار کے ساتھ حصہ لیا ہے وہ مسلمانوں ہی میں سے ہیں، اور اس بہتان تراشی سے اگرچہ تمہیں شدید تکلیف پہنچی ہے، لیکن مآل و انجام کے اعتبار سے اس سے تمہیں بھلائی ہی پہنچی ہے، وہ اس طرح کہ تم لوگوں نے جس صبر و شیکبائی کے ساتھ اسے جھیلا ہے، اس پر تمہیں بہت بڑا اجر ملے گا، اور دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ عائشہ صدیقہ کی برات اللہ تعالیٰ نے سات آسمان کے اوپر سے قرآن کریم میں نازل فرما دی، وار رہتی دنیا تک کے لیے ان کی عفت و پاکدامنی مسلمانوں کے دل و دماغ پر ثبت ہوگئی۔ اور عام مسلمانوں کے لیے اس حکم نے اللہ کی شریعت بن کر دوام حاصل کرلیا، سوائے ان روافضی شیعہ کے جو قرآن کریم کی تکزیب کرتے ہوئے عائشہ صدیقہ کے خلاف بہتان تراشی کرتے ہیں۔ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو۔ نیز اس واقعے کے ضمن میں منافقین اور شر پسندوں کو شدید دھمکی دی گئی ہے اور جن صحابہ کرام نے ابتدا سے ہی اس کی تکذیب کی ان کی تعریف کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن لوگوں نے اس بہتان تراشی میں حصہ لیا ان سب کو اس کا گناہ ملے گا جس نے اس کی ابتدا کی (یعنی عبداللہ بن ابی بن سلول) اور خوب بڑھ چڑھ کر اس کے پھیلانے میں حصہ لیا، اس کے لیے اللہ نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ ابن جریر طبری نے اسامہ بن زید سے روایت کی ہے کہ اس سے مراد عبداللہ بن ابی بن سلول ہے۔ بخاری، ابن المنذر، طبرانی اور بیہقی وغیرہم نے امام زہری سے یہی روایت کی ہے۔ طبری لکھتے ہیں کہ ان آیات کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ نے حسان، مسطح اور حمنہ بنت جحش کو کوڑے لگوائے، اور عبداللہ بن ابی کو چھوڑ دیا۔ علماء نے اس کی کئی توجیہات بیان کی ہیں، ایک توجیہ یہ ہے کہ جو مخلص مسلمان تھے آپ نے چاہا کہ حد قائم کر کے ان کے گناہ مٹ جائیں، اور عبداللہ بن ابی کا گناہ اس کے کفر و نفاق کے ساتھ اٹھا کر آخرت کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ امام العز بن عبدالسلام اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ نبی کریم نے کسی کو کوڑے نہیں لگوائے، اس لیے کہ حد جاری کرنے کے لیے دلیل کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے، یا تہمت لگانے والا اپنی زبان سے اس کا اقرار کرے، اور واقعہ افک میں دونوں میں سے کوئی بات نہیں پائی گئی تھی، بلکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو بذریعہ وحی اس کی خبر دی تھی، لیکن مسند احمد اور سنن کی روایات کے مطابق امام طبری کا مذکور بالا قول راجح ہے۔ النور
12 ٧۔ اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کی دینی اور اخلاقی تربیت کی گئی ہے اور انہیں احساس دلایا گیا ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور عورتیں ان کی بہنیں ہیں، اور اسلام ان سے تقاضا کرتا ہے کہ جس طرح ان میں کا ہر ایک اپنے آپ کو پاکدامن سمجھتا ہے، تو دوسروں کے بارے میں بھی ان کا ایسا ہی گمان ہونا چاہیے، اور اگر کوئی بدطینت منافق ان میں سے کسی کے خلاف کوئی افترا پردازی کرتا ہے تو اس کی تصدیق نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اسی وقت اس کی تردید کردینی چاہیے، اور کہہ دینا چاہیے کہ یہ ایک مسلمان بھائی یا بہن کے خلاف بہتان تراشی ہے، اور بالخصوص جو افترا پردازی نبی کریم کی طاہرہ اور پاکیزہ بیوی سے متعلق ہو اس کے لیے تو مسلمانوں کے دل و دماغ میں جگہ ہونی ہی نہیں چاہیے۔ النور
13 ٨۔ اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو ایک تشریعی حکم کی تعلیم دی گئی ہے کہ جب عبداللہ بن ابی نے یہ بات اپنی زبان سے کہی، تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ مسلمان اس سے چار گواہوں کا مطالبہ کرتے اور وہ چار کیا ایک گواہ بھی پیش نہ کرسکتا، تو اس کا جھوٹ اسی کی طرف لوٹ جاتا، اور اس پر بہتان تراشی کی حد جاری کی جاتی، لیکن مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا، اسی لیے اس آیت کریمہ میں ان کو ڈانٹ پلائی گئی ہے کہ تم لوگوں نے اس منافق کی تکذیب کیوں نہیں کی، مسلم سوسائٹی میں اسے شر پھیلانے کا موقع کیوں دیا؟ النور
14 ٩۔ اس آیت کریمہ میں بھی مسلمانوں کو عتاب کیا گیا ہے اور ان پر احسان بھی جتایا گیا ہے کہ اللہ نے محض اپنے فضل و کرم سے تمہیں درگزر کردیا، ورنہ جیسی غلطی تم لوگوں نے کی تھی، اللہ کا شدید عذاب تم پر نازل ہونا چاہیے تھا۔ آیت (١٥) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اخلاقی طور پر اس معاملے میں کتنے پست ہوگئے تھے کہ اس خبر کو سن کر بغیر تحقیق کیے دوسروں سے بیان کرتے رہے اور سمجھتے رہے کہ یہ کوئی بڑا گناہ نہیں ہے اور یہ افواہ لوگوں میں پھیلانے سے تم پر کوئی زمہ داری عائد نہیں ہوتی ہے، حالانکہ یہ بات اللہ کی نگاہ میں بہت بڑی تھی، اس کا تعلق رسول اللہ عائشہ، ابوبکر اور نبی کے گھرانے کی عزت و ناموس سے تھا۔ آیت (١٦) میں مزید فرمایا گیا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب تم لوگوں نے یہ بری بات سنی، اسی وقت اس کا انکار کردیتے، اور اپنی زبان پر ایک کلمہ بھی ایسا نہ آنے دیتے جس سے یہ افترا پردازی لوگوں میں پھیلتی، اور صاف کہہ دیتے کہ یہ نبی کی عزت و ناموس کے خلاف ایک سازش اور افترا پردازی ہے۔ النور
15 النور
16 النور
17 ١٠۔ ان دونوں آیتوں میں ان مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے جن سے یہ گناہ سرزد ہوا تھا کہ اگر تم لوگ مخلص ہوگے تو جب تک زندہ رہو گے دوبارہ کسی مسلمان مرد یا عورت کے بارے میں ایسے گناہ کا ارتکاب نہیں کرو گے۔ وار یہ تشریعی احکام اور اسلامی آداب اللہ نے اس لیے بیان کردیئے ہیں تاکہ تم لوگ نصیحت حاصل کرو اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلامی اخلاق و آداب کے مطابق گزارو۔ النور
18 النور
19 ١١۔ اس آیت کریمہ میں بھی مسلمانوں کو ایک اخلاقی تعلیم دی گئی ہے کہ مسلم سوسائٹی میں اگر ایک شخص کوئی بری بات سنے تو اس کا فرض ہے کہ اسے لوگوں سے بیان نہ کرے، اس لیے کہ اس سے کمزور ایمان والوں اور منافقوں کو مسلم سماج میں برائی پھیلانے کا موقع ملتا ہے، ایسے لوگوں کو جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان اخلاقی انارکی پھیلے، اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دنیا وآخرت میں شدید عذاب کی دھمکی دی ہے اور مسلمانوں سے کہا ہے کہ بری بات پھیلانے کے کیسے خطرناک اثرات مسلم سوسائٹی پر مرتب ہوتے ہیں، ان کا علم اللہ کو ہے، تم ان کا صحیح اندازہ نہیں کرسکتے ہو، اس لیے اللہ کی جانب سے تمہیں جو اخلاقی تعلیمات دی جارہی ہیں ان پرسختی کے ساتھ عمل کرو۔ آیت (٢٠) میں اللہ نے دوبارہ احسان جتایا ہے کہ اس نے محض اپنے فضل و کرم سے تمہیں فورا عذاب میں مبتلا نہیں کیا، ورنہ تمہارا گناہ تو بہت بڑا تھا۔ النور
20 النور
21 ١٢۔ مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ شیطان کے نقش قدم پر چلنے سے بچیں اس لیے کہ وہ تو ہمیشہ برے کاموں کا ہی حکم دیتا ہے، ہو تو چاہتا ہے کہ کچھ لوگ اس کے نقش قدم پر چل کر مسلمانوں کے درمیان برائی کو ہوا دیں، تاکہ مسلم سوسائٹی کی امتیازی صفت ختم ہوجائے اور اس میں برائی کا دوردورہ ہو۔ آیت کے دوسرے حصہ میں ان مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ جو محض اللہ کے فضل سے اس بہتان تراشی میں شریک نہیں ہوئے تھے کہ وہ اپنے آپ کو کامل اور بے گناہ سمجھ کر ہر دم ان مسلمانوں کو ملامت نہ کرتے رہیں جن سے یہ غلطی سرزد ہوئی تھی، بلکہ اللہ کے فضل کا اعتراف کریں کہ اس نے انہیں اس گناہ سے بچا لیا، اگر اللہ نہ چاہتا تو وہ بی اس گناہ میں مبتلا ہوجاتے، اس لیے کہ اللہ جس کے لیے خیر چاہتا ہے اسے شیطان کے نرغے میں پڑنے سے بچا لیتا ہے اور عمل صالح کی توفیق دیتا ہے۔ النور
22 ١٣۔ بخاری و مسلم، ترمذی، احمد اور طبری وغیرہم نے عائشہ صدیقہ سے واقعہ افک سے متعلق ایک طویل حدیث روایت کی ہے جس میں آتا ہے کہ ابوبکر مسطح بن اثاثہ کی کفالت کرتے تھے، جو ان کے خالہ زاد بھائی تھے، جب انہوں نے واقعہ افک کے موقع سے افترا پردازوں کی ہاں میں ہاں ملایا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائشہ کی برات آگئی، تو ابوبکر نے قسم کھالی کہ اب وہ مسطح کی کفالت نہیں کریں گے، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی، ابوبکر نے جب اسے سنا تو کہا اللہ کی قسم ! میں چاہتا ہوں کہ اللہ مجھے معاف کردے ور دوبارہ مسطح کی کفالت جاری کردی۔ النور
23 ١٤۔ اس آیت کے بارے میں ائمہ تفسیر کے درمیان اختلاف ہے۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ یہ ان سے متعلق ہے جنہوں نے عائشہ صدیقہ کے بارے میں کلام کیا تھا۔ مقاتل کہتے ہیں کہ یہ عبداللہ بن ابی کے بارے میں ہے، اور ضحاک اور کلبی کہتے ہیں کہ یہ آیت عائشہ صدیقہ اور دیگر امہات المومنین سے متعلق ہے، دوسری مسلمان عورتیں اور مرد اس میں داخل نہیں ہیں، لیکن راجح یہی ہے کہ اس آیت کا تعلق عبداللہ بن ابی سے ہے، ور علمائے تفسیر کے عام قاعدے کے مطابق اس کا حکم عام ہے کہ جو شخص کسی پاکدامن مسلمان عورت پر زنا کی جھوٹی تہمت لگائے گا وہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ اللہ کی رحمت سے دور کردیا جائے گا، اور دنیا میں اس پر حد جاری کی جائے گی، اور آخرت میں جہنم میں ڈال دیا جائے گا، اور اس دن ایسے لوگوں کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے برے کرتوتوں کی گواہی دیں گے، اور اللہ انہیں ان بد اعمالیوں کا پورا پورا بدلہ چکا دے گا، اور تب انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ کی ذات برحق ہے۔ صاحب فتح البیان لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں عائشہ صدیقہ پر تہمت لگائے جانے کی جس شدت کے ساتھ نکیر کی ہے، ویسی کسی گناہ پر نہیں کی ہے۔ کبھی مجمل طور پر اس کی تردید کی ہے تو کبھی مفصل طور پر، اور اس تردید و انکار کا بار بار اعادہ کیا ہے، تاکہ لوگوں کو اس گناہ کی قباحت و شناعت کا صحیح اندازہ ہوسکے۔ ابن عباس سے منقول ہے کہ اگر کوئی شخص گناہ کر کے تائب ہوجائے گا تو اس کی توبہ قبول کرلی جائے گی، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے عائشہ صدیقہ کی عفت و پاکدامنی پر کلام کیا تھا۔ النور
24 النور
25 النور
26 ١٥۔ عائشہ صدیقہ کی برات سے متعلق یہ آخری آیت ہے۔ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں خبیثات سے مراد برے کلمات اور خبیثون سے مراد برے لوگ ہیں، اسی طرح طیبات سے مراد اچھے کلمات اور طیبون سے مراد اچھے لوگ ہیں۔ یعنی خبیث عورتیں وار مرد ہمیشہ بری باتیں کرتے ہیں اور اچھی عورتیں اور مرد ہمیشہ اچھی باتیں کرتے ہیں۔ اس میں ان لوگوں کو خبیث کہا گیا ہے جنہوں نے عائشہ صدیقہ کی پاکدامنی کے خلاف بات بنائی تھی، اور جن صحابہ کرام نے ابتدا سے ہی اس بات کو نہیں مانی تھی انہیں اچھے لوگوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایک تفسیر یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ خبیث سے مراد عبداللہ بنا بی اور طیب اور طیبہ سے مراد رسول اللہ اور عائشہ صدیقہ ہیں۔ یعنی ابن بی خبیث کو ہی خبیث بیوی ملے گی، رسول اللہ تو طیب ہیں اس لیے ان کو عائشہ جیسی طیبہ (اچھی) بیوی ملی ہیں۔ آیت کے دوسرے حصے میں عائسہ اور صفوان بن معطل کی برات و پاکدامنی کی صراحت کردی گئی ہے کہ اللہ کے یہ نیک بندے عبداللہ بن ابی کی بہتان تراشی سے بالکل پاک ہیں۔ النور
27 ١٦۔ اوپر کی آیتوں میں زنا کی حرمت بیان کی گئی ہے، نیز پاکدامن مردوں اور عورتوں کو زنا کے ساتھ متہم کرنے کی حرمت اور مسلم سوسائٹی پر اس کے بد ترین اثرات کو بیان کیا گیا ہے، اسی مناسبت سے اس آیت کریمہ میں دوسروں کے گھروں میں بغیر اجازت داخل ہونے سے منع کیا گیا ہے، تاکہ مردوں اور عورتوں کے ناجائز اختلاط کو روکا جاسکے، جس سے فحاشی کا وسعی دروازہ کھلتا ہے اور تاکہ کسی پاکدامن عورت یا مرد کو زنا کے ساتھ متہم کرنے کا کسی کو موقع نہ ملے۔ ایک تیسرا فائدہ اس میں یہ ہے کہ بسا اوقات آدمی اپنے گھر میں ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا اس حال میں اسے دیکھے، اب اگر کوئی شخص بغیر اجازت اس کے گھر میں چل اجائے تو کئی قسم کی اخلاقی اور سماجی بیماریاں جنم لے سکتی ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان تمام خرابیوں کا سد باب کرنے کے لیے کسی کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونے کو ممنوع قرار دیا ہے۔ اگر کوئی مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کے گھر میں داخل ہونا چاہے، تو اسے چاہیے کہ اسلام علیکم کہے اور داخل ہونے کی اجازت ماگنے اور ایسا تین بار کرے، اگر اجازت مل جائے تو داخل ہو ورنہ واپس چلا جائے۔ آیت کریمہ میں (حتی تستانسوا) کا لفظ آیا ہے جس کا معنی اجازت لینا ہے اور اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اجازت لے کر داخل ہونا مانوس انسان کی خصوصیت ہے اور بغیر اجازت کے داخل ہونا وحشی جانور کا کام ہے کہ وہ کسی بھی گھر میں بغیر اجازت داخل ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ اس کے اس حکم پر عمل کرنے میں ہی ہر بھلائی ہے۔ آیت (٢٨) میں گزشتہ حکم کی تاکید کے طور پر کہا گیا ہے کہ آدمی جس گھر میں داخل ہونا چاہے اگر اس میں کوئی موجود نہ ہو تو بغیر اجازت نہ داخل ہو، اور اگر اندر سے کوئی آدمی کہے کہ ابھی واپس چلے جاؤ تو بغیر ناراض ہوئے واپس چلا جائے، اور یہ سمجھے کہ گھر والے کی کوئی مجبوری ہوگی جبھی اسے اجازت نہیں ملی ہے۔ مسلمانوں کے دلوں کی طہارت و پاکیزگی ایسا ہی کرنے میں ہے، اسی سے ان کی آپس کی محبت باقی رہے گی، زبردستی کسی گھر میں داخل ہونا رذالت اور کمینگی ہے اور مسلمان کی عزت نفس کے خلاف ہے۔ بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے، کہتے ہیں : میں انصار کی ایک مجلس میں بیٹھا تھا کہ ابو موسیٰ اشعری گھبرائے ہوئے داخل ہوئے، لوگوں نے سبب پوچھا تو بتایا کہ مجھے عمر بن خطاب نے بلا بھیجا تھا، جب گیا تو تین بار اجازت مانگی، لیکن مجھے اجازت نہیں ملی تو میں واپس چلا گیا، انہوں نے مجھے دوبارہ بلایا اور پوچھا کہ تم آئے کیوں نہیں تھے؟ میں نے کہا کہ میں آیا تھا اور تین بار اجازت مانگی تھی اور رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص تین بار اجازت مانگے، اور اسے اجازت نہ ملے تو واپس ہوجائے، اس لیے میں واپس ہوگیا، تو عمر نے کہا کہ تمہیں اس حدیث کی صداقت پر دلیل پیش کرنی ہوگی۔ ابو سعید کہتے ہیں، لوگوں نے کہا کہ ہم میں سب سے چھوٹی عمر کا آدمی جاکر اس کی گواہی دے دے۔ چنانچہ ابو سعید نے عمر کے پاس جاکر گواہی دی کہ بہت سے صحابہ نے رسول اللہ سے یہ حدیث سنی ہے۔ تو عمر نے ابو موسیٰ سے کہا کہ میں نے تمہیں متہم نہیں کیا تھا، لیکن رسول اللہ کی احادیث کا معاملہ بڑا شدید ہے (یعنی خوب تحقیق کرلینی چاہیے)۔ صحیحین اور دیگر کتب حدیث میں سہل بن سعد سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے مٹی کے ایک ڈھیلا سے اپنا سر کھجاتے ہوئے رسول اللہ کے کمرے میں ایک سوراخ سے جھانکا، بعد میں آپ کو جب معلوم ہوا تو فرمایا کہ اگر میں اسی وقت جان جاتا کہ تم جھانک رہے تھے تو اسی ڈھیلے سے تمہاری آنکھ پھوڑ دیتا، کسی گھر میں داخلے کی اجازت کا حکم اسی لیے ہے تاکہ کوئی کسی کے گھر میں نہ جھانکے۔ النور
28 النور
29 ١٧۔ مذکورہ بالا آیت میں جو حکم بیان کیا گیا ہے، اسی سے بطور استثناء اس آیت میں ان گھروں میں داخل ہونے کا حکم بیان کیا گیا ہے، جن میں کوئی آدمی رہائش پذیر نہ ہو، مثال کے طور پر شاہراہوں پر بنے ہوئے ہوٹل، دکانیں اور دیگر تجارتی جگہیں، ایسی جگہوں میں بغیر اجازت داخل ہونا جائز ہے، اس لیے کہ سب کو معلوم ہے کہ ایسی جگہوں میں لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ نہیں رہتے جن کی طرف دیکھنا حرام ہے، البتہ اگر کسی نے ہوٹل کا کوئی کمرہ کرائی پر لے لیا ہے، اور اس میں اپنی بیوی یا دیگر افراد خانہ کے ساتھ رہتا ہے تو اس کا حکم بھی گھر کا ہوگا، اور اس میں جھانکنا یا بغیر اجازت داخل ہونا ممنوع ہوگا۔ النور
30 ١٨۔ مسلمانوں کی روح کی طہارت و پاکیزگی کے لیے اور فحاشی و بدکاری کے دروازوں کو بند کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا ہے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اجنبی اور غیر محرم عورتوں کو نہ دیکھیں، اور اگر کبھی اچانک کسی غیر محرم عورت پر نگاہ پڑجائے تو فورا اپنی نظریں پھیر لیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، نہ بدکاری کریں ور نہ اپنی شرمگاہ کسی ایسے کے سامنے کھولیں جس کے لیے اس کا دیکھنا حرام ہے، ان دونوں باتوں پر عمل کرنے سے مسلمان کی روح پاکیزہ رہتی ہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ نوافل کی ادائیگی سے زیادہ نگاہ و دل کی حفاظت کرنے سے روح کی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ مسلم اور احمد نے جریر بجلی سے روایت کی ہے، انہوں نے نبی کریم سے اچانک کسی اجنبی عورت پر نظر پڑجانے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے ان سے کہا کہ اپنی نظر پھیر لو، اور ابو داؤد نے بریدہ سے روایت کی ہے، رسول اللہ نے علی سے کہا، اے علی ! ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالو، پہلی نظر تو معاف ہوجائے گی، لیکن دوسری نظر کی تمہیں اجازت نہیں ہے۔ حافظ ابن القیم نے اپنی کتاب الجواب الشافی میں نگاہ نیچی رکھنے کے دس فوائد بیان کیے ہیں۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ایسا کرنے میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کی اطاعت ہے۔ زہر آلود تیر کا اثر دل تک نہیں پہنچتا، اللہ تعالیٰ سے انس و محبت بڑھتی ہے، دل کو قوت و فرحت حاصل ہوتی ہے، دل کو نور حاصل ہوتا ہے، مومن کی عقل و فراست بڑھتی ہے، دل کو ثبات و شجاعت حاصل ہوتی ہے۔ دل تک شیطان کے پہنچنے کا راستہ بند ہوجاتا ہے، دل مطمئن ہو کر مفید اور کار آمد باتیں سوچتا ہے، نظر اور دل کا بڑا قریبی تعلق ہے، اور دونوں کے درمیان کا راستہ ہی مختصر ہے، دل کی اچھائی یا خرابی کا دارومدار نظر کی اچھائی یا خرابی پر ہے۔ جب نظر خراب ہوتی ہے تو دل خراب ہوجاتا ہے، اس میں نجاستیں اور گندگیاں جمع ہوجاتی ہیں، اور اللہ کی معرفت و محبت کے لیے اس میں گنجائش باقی نہیں رہتی ہے۔ النور
31 ١٩۔ اس آیت کریمہ میں مومن مردوں کی طرح مومن عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اجنبی اور غیر محرم مردوں کو نہ دیکھیں اور اگر کبھی اچانک کسی غیر محرم مرد پر نظر پڑجائے تو فورا اپنی نظر نیچی کرلیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، نہ بدکاری کریں اور نہ اپنے شوہر کے علاوہ کسی کے سامنے اپنی شرمگاہ کھولیں، ور اپنی زینت کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں۔ البتہ جو چیزیں کود ظاہر ہیں یا انہیں کبھی مجبورا ظاہر کرنا پڑتا ہے جیسے برقعہ اور اوڑھنی کا ظاہری حصہ، راستہ دیکھنے کے لیے دونوں آنکھیں اور ان کا سرمہ، کوئی چیز پکڑنے کے لیے دونوں ہاتھ اور ان میں انگوٹھی، تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ ( ولا یبدین زینتھن) میں اعضائے جسم کے بجائے ان کی زینت کے اظہار کی ممانعت سے مقصود یہ ہے کہ عورتیں اپنے جسموں کی غایت درجہ پردہ پوشی کریں، اعضا تو کیا ان پر موجود زینت کا بھی اظہار کسی حال میں نہ کریں، اور اپنے سروں کی اوڑھنیوں کو اپنی گردنوں پر لٹکا لیں، تاکہ ان کے بال، ان کی گردنیں ان کی بالیاں اور ان کے سینے سبھی چھپ جائیں۔ آیت کریمہ میں دوبارہ اظہار زینت کی ممانعت کا ذکر اس لیے آیا ہے تاکہ اس کے بعد ان لوگوں کا ذکر کیا جائے جن کے سامنے مسلمان عورت بغیر پردہ کیے جاسکتی ہے، وہ مندرجہ ذیل ہیں : عورت کا بیٹا، پوتا، اور پرپوتا، شوہر کے بیٹے، پوتے اور پرپوتے، سگا بھائی، باپ کی جانب سے بھائی، ماں کی جانب سے بھائی، اور ان کے بیٹے، پوتے اور پرپوتے، بھائی کا بیٹا، پوتا اور پرپوتا، بہن کا بیٹا، پوتا اور پرپوتا، اور بہن چاہے سگی ہو یا ماں کی جانب سے یا باپ کی جانب سے، اس لیے کہ یہ لوگ عورتوں کے محرم ہیں ان کی جانب سے کسی فتنہ کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ باپ تو ان کا ولی ہوتا ہے جو ان کی حفاظت کرتا ہے، اور شوہر کا باپ بھی اپنے بیٹے کی عزت کی حفاظت کرتا ہے، اور بیٹا تو اپنی ماں کا خادم ہوتا ہے، اسی نے اسے پیدا کیا ہے، اور شوہر کا بیٹا بھی اپنے باپ کی عزت کی حفاظت کرتا ہے، اور بھائی تو باپ کے بعد اس کا سہارا ہوتا ہے، اسی طرح بھائی کا بیٹا بھی اپنی پھوپھی کی عزت کی حفاظت کرتا ہے اور یہی حال بہن کے بیٹے کا بھی ہے۔ مسلمان عورت کافر اور مشرک عورت کے سامنے اپنی زینت ظاہر نہیں کرے گی۔ بعض لوگوں نے نسائھن سے مطلق عورت مراد لیا ہے یعنی مسلمان عورت کے لیے کسی بھی عورت کے سامنے اپنی زینت ظاہر کرنی جائز ہے۔ بعض لوگوں نے (او ما ملکت ایمانھن) سے مراد صرف مشرک لونڈی لی ہے، لیکن راجح یہی ہے کہ اس سے مراد غلام اور لونڈی دونوں ہیں۔ وہ افراد جو گھر والوں میں شامل ہوں اور جو عورتوں میں کوئی رغبت نہ رکھتے ہو، جیسے نہایت بوڑھا آدمی، نامرد، پاگل وغیرہ، اور وہ چھوٹے بچے جن کے اندر ابھی شہوت پیدا نہ ہوئی ہو۔ حافظ سیوطی نے الا کلیل میں لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے چچا اور ماموں سے پردہ ضروری قرار دیا ہے اس لیے کہ آیت کریمہ میں ان دونوں کا ذکر نہیں آیا ہے۔ شعبی اور عکرمہ کہتے تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں اپنے لڑکوں سے بیان کریں گے، اور حسن بصری کے نزدیک دونوں دیگر محرم مردوں کے مانند ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ مسلمان عورت کے لیے جس طرح لوگوں کی نگاہوں سے اپنی زینت چھپانا ضروری ہے اسی طرح ان کے کانوں تک بھی اپنے زیورات کی آواز نہیں پہنچنے دینا ہے۔ اگر کسی عورت نے پازیب پہن رکھا ہے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ پاؤں پٹخ کر چلے، تاکہ لوگ اس کے پازیب کی آواز سن کر سمجھیں کہ اس نے پازیب پہن رکھا ہے۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس ممانعت میں ہر وہ چھپی ہوئی زینت داخل ہے جو حرکت کرنے سے ظاہر ہو، اسی ضمن میں عورت کا خوشبو لگا کر باہر نکلنا بھی آتا ہے تاکہ لوگ اس کی خوشبو محسوس کریں، سنن ترمزی میں نبی کریم کی حدیث ہے کہ عورت جب خوشبو لگا کر کسی مجلس سے گزرتی ہے تو زانیہ ہوتی ہے، اور اسی ضمن میں عورت کا بیچ راستے سے چلنا ہے، نبی کریم کے زمانے میں عورتیں راستہ کے کنارے چلتی تھیں اور دیوار سے چپک جاتی تھیں۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے تمام مومنوں کو اللہ کے حضور صدق دل سے توبہ کرنے کی نصیحت کی ہے، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ان تمام برے اعمال سے تائب ہوجائیں گے جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے، اور ان تمام اچھے اعمال کو اپنائیں جنہیں وہ پسند کرتا ہے، اور ظاہر ہے کہ نگاہ نیچی رکھنا، شرمگاہ کی حفاظت اور عفت و پاکدامنی کا اہتمام نیک اعمال میں بدرجہ اولی داخل ہیں۔ النور
32 ٢٠۔ زنا اور اس کے اسباب و محرکات سے ممانعت کے بعد اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے شادی کرنے کا حکم دیا ہے، جس سے مقصود اصلی اگرچہ نسلی انسان کی حفاظت ہے، لیکن اس کا ایک دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ شہوت کی تیزی جاتی رہتی ہے، اور آنکھ اور شرمگاہ کی حفاظت کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو نصیحت کی ہے کہ ان میں جو مرد اور عورتیں غیر شادی شدہ ہوں ان کی شادی کردیں اور اپنے ان غلاموں اور لونڈیوں کی بھی شادی کردیں جن پر نیکی کے آثار ظاہر ہوں، تاکہ مسلم سوسائٹی اخلاقی انارکی سے محفوظ رہے۔ مفسر ابو السعود لکھتے ہیں کہ جو غلام اور لونڈی اچھے نہیں ہوں انہیں اپنے پاس نہیں رکھنا چاہیے۔ بعض لوگوں نے آیت میں والصالحین سے مراد وہ غلام اور لونڈی لی ہے جن کے پاس شادی کے لیے مالی اور جسمانی استعداد موجود ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے شادی کی مزید اہمیت بتانے کے لیے فرمایا کہ فقیری اور محتاجی شادی سے مانع نہیں ہونی چاہیے، اللہ کا وعدہ ہے کہ شادی کے بعد وہ محتاجی کو دور کردیتا ہے، عمر بن خطاب کہتے تھے، مجھے اس فقیر پر تعجب ہوتا ہے جو شادی کر کے اپنی محتاجی دور کرنے کا سامان نہیں کرتا۔ النور
33 ٢١۔ جو شخص کسی مجبوری کے سبب شادی نہ کرسکے اسے چاہیے کہ صبر سے کام لے، روزے رکھے اور نماز پڑھ کر اللہ سے دعا کرتا رہے کہ وہ شیطان کے نرغے میں نہ پڑجائے، اور اپنی عفت و پاکدامنی کی حفاظت کرے۔ (حتی یغنیھم اللہ من فضلہ) میں اللہ تعالیٰ نے پاکدامن مردوں اور عورتوں کو اپنے فضل و کرم کی امید دلائی ہے، تاکہ دلجمعی کے ساتھ اپنی عفت کی حفاظت کرتے رہیں، اس میں اشارہ ہے کہ پاکدامن لوگ اللہ کے فضل کے زیادہ مستحق ہیں۔ بعض لوگوں نے اس آیت کریمہ سے نکاح متعہ کی حرمت پر استدلال کیا ہے، نکاح متعہ یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی عورت سے ایک محدود مدت کے لیے ایک متعین رقم کے عوض شادی کرلے۔ ابتدائے اسلام میں یہ نکاح جائز تھا، پھر اللہ نے اس حکم کو منسوخ کردیا، اس لیے اب جمہور امت مسلمہ کے نزدیک یہ نکاح حرام ہے، شیعہ اسے جائز قرار دیتے ہیں، جس کی ان کے پاس قرآن اور صحیح سنت سے کوئی دلیل نہیں ہے۔ آیت کے دوسرے حصہ میں مسلمانوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ اگر ان کے غلام چاہیں کہ انہیں مال دے کر آزادی حاصل کرلیں تو انہیں اس پر رضا مند ہوجانا چاہیے اور اسے تحریر میں لے آنا چاہیے، تاکہ لکھی ہوئی شرط کے مطابق قسطوں میں مطلوبہ رقم ادا کر کے وہ آزاد ہوجائیں۔ (ان علمتم فیھم خیرا) میں صفت امانت و قوت کی طرف اشارہ ہے، تاکہ قسطیں ادا کرنے کے لیے چوری نہ کریں، بلکہ تجارت یا مزدوری کے مزدوری کے ذریعہ مطلوبہ مال حاصل کریں، اور اسلام کی نگاہ میں آزادی انسان کی اہمیت کے پیش نظر اللہ نے (مکاتب) کے آقا کو حکم دیا کہ وہ خود بھی مالی طور پر اس کی مدد کرے، یعنی اس کی کچھ قسطیں معاف کردے۔ آیت کے تیسرے حصہ (ولا تکرھوا فتیاتکم علی البغاء) میں لونڈیوں کو زنا پر مجبور کرنے سے روکا گیا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں کچھ لوگ مال کی خاطر اپنی لونڈیوں سے بدکاری کرواتے تھے، جو ایک قبیح ترین عادت تھی، چونکہ یہ کام انسانی مروت کے بالکل خلاف ہے، اسی لیے اللہ نے اس سے سختی سے منع فرمایا اور کہا کہ جو لونڈیاں ظلم و ستم کا نشانہ بنیں گی، اور ایسا کرنے پر مجبور کی جائیں گی اللہ ان کے گناہ معاف کردے گا۔ مسلم، سعید بن منصور، اور ابن ابی شیبہ وغیرہم نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن ابی کی دو لونڈیاں تھیں، ایک کا نام مسیکہ تھا اور دوسرے کا امیمہ، دونوں مسلمان ہوگئی تھیں، ابن ابی انہیں زنا کر کے پیسے کمانے پر مجبور کرتا تھا۔ دونوں نے رسول اللہ سے شکایت کی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن جریر اور ابن مردویہ نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی لونڈیوں کو زنا پر مجبور کرتے تھے اور ان سے پیسے لیتے تھے، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ جو آیت کریمہ میں آیا ہے کہ اگر وہ پاکدامنی چاہیں تو انہیں زنا پر مجبور نہ کرو، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر وہ پاکدانی نہ چاہیں تو ان سے زنا کروانا جائز ہے، بلکہ اس وقت کے حالات کی طرف اشارہ ہے کہ عام طور پر وہ بے چاری لونڈیاں مجبور کی جاتی تھیں، اسی طرح آیت کا یہ حصہ کہ دنیاوی فائدے کے لیے ایسا نہ کرو، اس کا مفہوم یہ ہرگز نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنی لونڈی کو کسی کے پاس مفت زنا کے لیے بھیج سکتا ہے، بلکہ اس زمانے میں عام طور پر لوگ مادی فائدے کے لیے ہی اپنی لونڈیوں سے بدکاری کرواتے تھے۔ النور
34 ٢٢۔ مذکورہ بالا احکام بیان کیے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں قرآن کریم کی تعریف بیان کی ہے کہ جس طرح ہم نے ان احکام کو کھول کو بیان کردیا ہے، قرآن کی تمام ہی آیات واضح ہیں اور اس میں بندوں سے متعلق تمام عبادات، معاملات اور آداب زندگی کو تفصیل کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے۔ اور اس قرآن کی دوسری خوبی یہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے گزشتہ قوموں کے عبرتناک واقعات بیان کر کے انسان کو تعلیم دی ہے کہ ان سے نصیحت حاصل کریں، اور جس طرح اس سورت میں عائشہ صدیقہ کا واقعہ تعجب خیز اور نصیحت آموز ہے، اسی طرح قرآن میں مذکور یوسف و مریم کے واقعات بھی تعجب انگیز اور عبرت آموز ہیں اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے یوسف و مریم کی برات ظاہر کی، اسی طرح عائشہ کی برات کا بھی قرآن میں اعلان کردیا۔ اور قرآن کی تیسری خوبی یہ ہے کہ پورا قرآن اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے نصیحت آموز ہے، اور جن کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہو اور آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہو، انہیں اس قرآن سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ النور
35 ٢٣۔ یہ آیت کریمہ ان آیات میں سے ہے جن سے متعلق علمائے کرام نے مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ امام غزالی کی کتاب مشکاۃ الانوار مشہور ہے، امام ابن القیم نے اپنی کتاب الجیوش الاسلامیہ میں اس آیت کے ضمن میں بہت ہی عمدہ اور مفید بات پیش کی ہے۔ (اللہ نور السموات والارج) میں نور سے مراد نور والا، یعنی اللہ تعالیٰ کی زات ہے، جس نے پوری کائنات کو شمس و قمر اور کواکب کے ذریعہ روشن و منور کر رکھا ہے۔ مفسر ابو السعود لکھتے ہیں کہ نور والے کو نور سے تعبیر کر کے روشنی کی انتہائی قوت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس طرف بھی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اللہ خود اپنی ذات کے ذریعہ ظاہر ہے اور اپنے سوا تمام موجودات کو اسی نے ظاہر کیا ہے، جس طرح روشنی بذات خود ظاہر ہوتی ہے اور دوسری چیزیں اس کے ذڑیعہ ظاہر ہوتی ہیں اور نور کی اضافت سماوات و ارض کی طرف کی گئی ہے، تاکہ معلوم ہو کہ اللہ کی ذات پوری کائنات کو روشن کیے ہوئے ہیں۔ صحیحین میں ابن عباس سے مروی ہے کہ رسول اللہ جب رات کو اٹھتے تو کہتے : اللھم لک الحمد، انت قیم السموات والارض انت نور السموات والارض ومن فیھن الحدیث۔ اس دعا میں رسول اللہ نے اللہ تعالیٰ کو آسمانوں اور زمین کا نور بتایا ہے۔ (مثل نورہ) وہ نور جو باری تعالیٰ کی ذات سے پھوٹتا ہے اور جو کائنات کی تمام چیزوں کو روشن کیئے ہوئے ہے، اس کی انتہائی قوت اور انتہائی روشنی کا تصور لوگوں کے ذہنوں میں بٹھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک مثال دی ہے کہ جیسے کسی دیوار میں ایک طاق ہو، اس طاق میں ایک چراغ رکھا ہو، اور وہ چراغ ایک بلوریں شیشے میں ہو، اور وہ شیشہ اتنا صاف و صفاف اور چمکدار ہو کہ جیسے موتی کے مانند چمکتا ہوا کوئی ستارہ، اور اس چراغ کا تیل زیتون کے ایسے درخت کا ہو جو بیچ باغ میں اونچی جگہ پر ہو، جس پر سارا دن دھوپ پڑتی رہتی ہو ( کیونکہ ایسے زیتون کا تیل نہایت عمدہ او صاف ہوتا ہے) جس کا تیل اتنا صاف شفاف ہو کہ چراغ کو آگ سے روشن کرنے سے پہلے خود تیل سے روشنی پھوٹ رہی ہو، یعنی وہ چراغ کیا ہے گویا نور ہی نور ہے، روشنی ہی روشنی ہے، اسی طرح اللہ کا نور بھی روشنی ہی روشنی ہے، وہاں ظلمت و تاریکی کا نام و نشان نہیں ہے۔ مفسر ابو السعود کہتے ہیں کہ اللہ کے اس نور سے مراد قرآن مبین ہے، جس کی بے پایاں روشنی نے تاریکی کا خاتمہ کردیا ہے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء آیت (١٧٤) میں فرمایا ہے : (وانزلنا الیک نورا مبینا) لوگو ! ہم نے تمہارے لیے نور مبین نازل کیا ہے، ابن عباس، حسن بصری، اور زید بن اسلم کا یہی خیال ہے کہ یہاں نور سے مراد قرآن کریم ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے مثالیں اس لیے بیان کرتا ہے تاکہ بات کو پوری طرح سمجھ لیں، جیسے اس مثال میں اللہ نے قرآن مبین کو طاق میں رکھے چراغ اور اس کی روشنی سے تعبیر کیا ہے۔ حافظ ابن القیم لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا نام نور رکھا ہے ور اپنی کتاب یعنی قرآن کو نور بنایا ہے، اپنے رسول کو نور بنایا ہے اور اپنے دین کو نور بنایا ہے، وہ اپنی مخلوق کی نگاہوں سے نور کے ذریعہ چھپ گیا ہے اس نے اپنے اولیا کا گھر نور سے بنایا ہے جو چمکتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (اللہ نور السموات والارض) اور نور کی تفسیر نور والے سے کی گئی ہے جس نے کائنات کو روشن کر رکھا ہے اور جو آسمانوں اور زمین والوں کی رہنمائی کرتا ہے، اس آیت میں نور اس کا فعل ہے اور جو نور اس کی صفت ہے وہ اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے۔ (مثل نورہ کمشکوۃ فیھا مصباح) کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ یہ بندہ مومن کے دل میں اللہ کے نور کی مثال ہے اور اللہ نے اپنے بندے رسول کو اس نور کا سب سے وافر حصہ دیا ہے۔ امام مسلم نے ابو موسیٰ اشعری سے ایک حدیث روایت کی ہے جس میں رسول اللہ نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں فرمایا ہے کہ اس کا حجاب نور ہے اگر وہ اسے ہٹا دے تو اس کے چہرے کے انوار ان تمام مخلوقات کو خاکستر کردیں، جہاں تک اس کی نگاہ پڑے، اور مسلم ہی نے ابو ذر سے روایت کی ہے کہ میں نے رسول اللہ سے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ تو آپ نے فرمایا : ایک نور دیکھا اسے کہا دیکھ سکتا تھا، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کہتے ہیں : اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں ایک نور تھا، جسے نور کے ایک حجاب کی وجہ سے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ النور
36 ٢٤۔ مفسر ابو السعود لکھتے ہیں : چونکہ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بارے میں فرمایا کہ اس میں تمام عبادات، معاملات اور آداب زندگی کو کھول کر بیان کردیا گیا ہے، ان احکام پر عمل کرنے والوں اور ان کا انکار کرنے والوں کا ثواب و عقاب بھی بیان کردیا گیا ہے، اس لیے اب انہی دونوں اچھی اور بری جماعتوں کے بعض اعمال کا ذکر کیا جارہا ہے۔ اچھی جماعت ان لوگوں کی ہے جو صبح و شام اللہ کی عبادت کے لیے بنائی گئی مسجدوں میں ذکر و تسبیح میں مشغول رہتے ہیں، جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد، اقامت نماز اور ادائیگی زکوۃ سے غافل ہیں کرتی ہے۔ اور دوسری جماعت ان لوگوں کی ہے جن کا ذکر آیات (٣٩، ٤٠) میں آیا ہے، کہ کافروں کے اعمال کی مثال اس سراب کی ہے جسے پیاسا آدمی پانی سمجھتا ہے، لیکن جب وہاں پہنچتا ہے تو اسے یاس و حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا، یعنی قیامت کے دن بغیر ایمان ان کے اعمال کی کوئی حقیقت نہیں ہوگی، اور اللہ ان کے کفر اور برے اعمال کا پورا پورا حساب انہیں چکا دے گا، یعنی جہنم میں دھکیل دے گا۔ کافروں کے کفر، عقیدہ باطل اور ان کے برے اعمال کی ایک دوسری مثال وہ گھٹا ٹوپ تاریکی ہے جو کالی رات میں گہرے سمندر میں ہوتی ہے جس میں یکے بعد دیگرے موجیں اٹھتی رہتی ہیں اور اوپر آسمان پر کالا بادل ہوتا ہے، گویا تاریکی ہی تاریکی ہوتی ہے، ایسی شدید اور بھیانک تاریکی ہوتی ہے کہ اس رات کا مسافر سمندر میں خود اپنا ہاتھ نہیں دیکھ پاتا ہے، اس دنیا میں کافر کا بھی یہی حال ہوتا ہے کہ اس کی زندگی میں کئی ظلمتیں جمع ہوجاتی ہیں، کفر کی ظلمت، برے اعمال کی ظلمت، باطل کی ظلمت، رب العالمین کو نہ پہچاننے کی ظلمت اور اپنے انجام سے بے خبر ہونے کی ظلمت، وہ انہی تاریکیوں میں بھٹکتا رہتا ہے یہاں تک کہ موت اسے آدبوچتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت (٤٠) کے آخر میں فرمایا کہ ان ظلمتوں کو دور کرنے کا علاج واحد اللہ کا دین، اس کا قرآن اور اس کے نبی کی اتباع ہے جسے یہ نور حاصل نہیں ہوگا اس کی تاریکی ہرگز دور نہیں ہوگی۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ پہلی مثال روسائے کفر کی ہے، جو کفر و ضلالت پر قائم رہتے ہیں اور دوسروں کو اس کی طرف بلاتے ہیں۔ اور دوسری مثال ان کافروں کی ہے جو بغیر سوچے سمجھے صرف اپنے روسا کی پیروی کرتے ہیں۔ النور
37 النور
38 النور
39 النور
40 النور
41 ٢٥۔ نبی کریم کو بالخصوص اور ہر صاحب عقل و نظر کو بالعموم مخاطب کر کے کہا جارہا ہے کہ آسمان اور زمین میں پائی جانے والی تمام مخلوقات چاہے وہ فرشتے ہوں یا بنی نوع انسان یا جن، یا حیوان، حتی کہ جمادات بھی اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں، چڑیاں فضا میں اڑتی ہوئی اپنے رب کی تسبیح بیان کرتی رہتی ہیں کائنات کی ہر چیز کو معلوم ہے کہ اسے اللہ کی تسبیح کیسے بیان کرنی ہے، اور رب العلامین کائنات میں وقوع پذیر ہونے والی ہر بات سے واقف ہے، سورۃ الاسراء آیت (٤٤) میں گزر چکا ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح پڑھتی ہے۔ آیت (٤٢) میں اللہ نے فرمایا ہے کہ آسمان اور زمین کی ہر چیز اسی کی ہے، اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر اسی کے پاس لوٹ جانا ہے۔ اس لیے ہر قسم کی عبادت کا صرف وہی ذات واحد مستحق ہے۔ النور
42 النور
43 ٢٦۔ قدرت الہیہ کے مزید مظاہر بیان کیے جارہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بادلوں کو ہانکتا ہے ان کے ٹکڑوں کو ایک جگہ جمع کرتا ہے، اور انہیں ایک دوسرے پر ڈھیر لگا دیتا ہے، پھر انہیں اس حال میں بناتا ہے کہ وہ بارش کے قطرے بن کر زمین پر برستے ہیں پہاڑوں کے مانند بڑے بڑے ٹکڑوں کی شکل میں زمین پر نہیں گرتے ورنہ ساری مخلوقات ہلاک ہوجاتی۔ قدرت الہیہ کا ایک دوسرا مظہر یہ ہے کہ اس نے فضا میں اولوں کے بڑے بڑے پہاڑ پیدا کیے ہیں ان کے ٹکڑے زمین پر اس کے حکم سے گرتے ہیں اور جسے وہ نقصان پہنچانا چاہتا ہے اس کی کھیتوں، جانوروں اور مویشیوں کو ہلاک و برباد کردیتے ہیں اور اللہ جسے نقصان نہیں پہنچانا چاہتا اس سے انہیں دور کردیتا ہے۔ قدرت الہیہ کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ فضا میں جو بجلی چمکتی ہے اس کی روشنی اتنی شدید اور قوی ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص اسے دیکھتا رہ جائے تو اس کی آنکھوں کی روشنی چلی جائے، باری تعالیٰ کی قدرت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ وہ رات اور دن کو الٹتا پھیرتا رہتا ہے، رات آتی ہے تو دن چھپ جاتا ہے اور دن نکلتا ہے تو رات ناپید ہوجاتی ہے، ان تمام مذکورہ بالا مظاہر قدرت الہیہ سے اہل عقل و نظر عبرت حاصل کرتے ہیں، اللہ کے جلال و کمال پر ایمان لے آتے ہیں، اور اس کی وحدانیت کا اقرار کر کے صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں۔ النور
44 النور
45 ٢٧۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت مطلقہ کا ایک عظیم تر مظہر یہ ہے کہ اس نے زمین پر پائے جانے والے ہر حیوان کو پانی سے پیدا کیا ہے، کسی کو نطفہ سے اور کسی کو پانی سے، اور ان حیوانات میں سے بعض اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں، جیسے سانپ اور مچھلیاں وغیرہ، بعض دو پاؤں پر چلتے ہیں، جیسے انسان اور چڑیاں، اور بعض چار پاؤں پر چلتے ہیں جیسے چوپائے اور بہائم۔ باری تعالیٰ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جیسے بعض جانوروں کے چار سے زیادہ پاؤں ہوتے ہیں، بہت سے جانوروں کی عجیب و غریب شکلیں ہوتی ہیں ان کے اعضا، ان کی صورتیں اور ان کی حرکتیں ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں، اور یہ سب باتیں دلیل ہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور ان باتوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی واضح اور صریح آیتوں میں بیان کردیا ہے، اور ان پر ایمان لانا اور ان کے مطابق عمل کرنا اس کی سیدھی راہ ہے، اور وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنی سیدھی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ النور
46 النور
47 ٢٨۔ جن گروہوں نے اللہ تعالیٰ کی سیدھی راہ کو اختیار نہیں کیا، ان میں منافقین پیش پیش تھے، اور ان سے اسلام کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ آیات (٤٧) سے (٥٠) تک انہی منافقین کی صفات بیا کی گئی ہیں، کہ وہ اپنی زبان سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا اقرار کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم ان کی اطاعت کرتے ہیں، لیکن جب مسلمانوں کی مجلس سے دور ہوتے ہیں تو اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کب محمد پر ایمان لائے تھے، اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے بارے میں یہی کہا کہ وہ کبھی بھی مومن نہیں تھے، اور ان کے جھوٹا ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جب کسی قضیہ میں انہیں قرآن و سنت کے مطابق فیصلہ کی دعوت دی جاتی ہے اور وہ حق پر نہیں ہوتے ہیں تو انکار کردیتے ہیں اور جب وہ حق پر ہوتے ہیں تو رسول اللہ کے پاس فیصلہ کروانے کے لیے جلدی آتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ بہر صورت حق کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آیت (٥٠) میں فرمایا کہ قرآن و سنت سے ان کا یہ اعراض کیا اس لیے ہے کہ ان کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے یا اس لیے ہے کہ وہ رسول اللہ کی نبوت میں شبہ کرتے ہیں، یا ان کا خبث باطن اس قدر بڑھ گیا ہوا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں بدگمانی رکھتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ ناانصافی کریں گے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کا اعراض ان ساری برائیوں کے ساتھ اس لیے ہے کہ ظلم جیسی بدترین صفت ان کے اندر پائی جاتی ہے وہ اپنے کفر و نفاق کی وجہ سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں، اور مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں کر کے ان پر بھی ظلم کرتے ہیں۔ النور
48 النور
49 النور
50 النور
51 ٢٩۔ منافقین کے برخلاف جن مومنوں نے اللہ کی سیدھی راہ کو اختیار کرلیا جب انہیں قرآن و سنت کی طرف بلایا جاتا ہے تو فورا سر نیاز خم کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو اللہ نے دنیاو آخرت میں کامیابی کی خوشخبری دے دی ہے اور مزید تاکید کے طور پر فرمایا ہے کہ جو اللہ ور رسول کی اطاعت کرے گا اور ظاہر و باطن میں اس سے ڈرتا رہے گا اور اس کے اوامر و نواہی کی مخالفت نہیں کرے گا، قیامت کے دن وہی لوگ عذاب نار سے بچالیے جائیں گے، اور انبیاء و صدیقین اور شہداء و صالحین کے ساتھ جنت میں بھیج دیئے جائیں گے۔ النور
52 النور
53 ٣٠۔ منافقین نبی کریم کو اپنے صدق ایمان کا یقین دلانے کے لیے اور اپنے نفاق پر ایک نہایت دبیز پردہ ڈالنے کے لیے بڑی بھاری قسمیں کھا کر کہتے کہ ہمیں تو آپ کے اشارے کا انتظار ہے، آپ جب اجازت دیں گے تو جہاد کے لیے ضرور نکلیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم سے فرمایا، آپ انہیں کہہ دیجیے کہ قسمیں نہ کھاؤ، بلکہ تم سے تو غیر مشکوک اطاعت و فرمانبرداری مطلوب ہے، جیسے مخلص مسلمانوں کا حال ہے۔ آیت کے آخر میں فرمایا کہ اللہ تو تمہارے سارے ظاہر و باطن اعمال کی خبر رکھتا ہے، تمہاری جھوٹی قسمیں، نفاق اور مسلمانوں کو دھوکہ دینا سب کچھ اسے معلوم ہے، اس لیے اس سے بچ کر کہاں جاؤ گے۔ آیت (٥٤) میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا، آپ منافقین سے کہہ دیجیے کہ اللہ اور رسول کے تمام اوامر و نواہی کو بجا لاؤ اور اگر انکار کرو گے تو رسول کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ اللہ کا پیغام پہنچا دیں، اور تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ تم ان کی فرمانبرداری کرو، اور جو کوئی بھی اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں کوتاہی کرے گا، وہ اللہ کی جانب سے اس کی سزا بھگتے گا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا : اگر تم لوگ رسول کی اطاعت کرو گے تو بالیقین راہ راست پر آجاؤ گے، بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس عظیم الشان جملہ کی صداقت پر اگر کوئی شخص قسم کھائے گا تو وہ صادق ہوگا، اس لیے ہر بھلائی نبی کریم کی اتباع میں مضمر ہے، اور آپ کی پیروی کرنے والا کبھی بھی گمراہ نہیں ہوتا۔ آخر میں اللہ نے فرمایا کہ رسول اللہ کا کام تو صرف پیغام پہنچا دینا ہے، دلوں کو حق کی طرف پھیرنا ان کا کام نہیں، اس لیے اگر تبلیغ دعوت کے بعد کوئی گمراہ ہوتا ہے تو رسول اللہ پر اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ النور
54 النور
55 ٣١۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کی امت کو زمین کا وارث بنائے گا اور خوف کی حالت بدل کر انہیں امن اور حکومت عطا کرے گا۔ جیسا کہ وہ گزشتہ زمانوں میں اپنے نیک بندوں کو اس زمین کا وارث بناتا رہا ہے (فلسطین سے جبابرہ کا خاتمہ کر کے بنی اسرائیل کو اس وارث بنا دیا تھا) اور ان کا دین سربلند ہوگا، اور اس کا جھنڈا مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں لہرانے لگے گا، اور وہ لوگ صرف اللہ کی عبادت کریں گے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو لوگ ان تمام انعامات و اکرامات کے باوجود کفر کی راہ اختیار کریں گے، وہی لوگ اس کے باغی اور اس کے عذاب و عقاب کے مستحق ہوں گے۔ چنانچہ اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا مسلمان ہجرت سے پہلے اور اس کے کچھ دنوں بعد تک، مشرکین کی جانب سے ہمیشہ خائف اور ہراساں رہتے تھے، گھروں سے کسی ضرورت کے لیے نکلتے تو ہتھیار لے کر نکلتے، صبح و شام ہر وقت انہیں ڈر لگا رہتا تھا کہ نہ جانے کب کفار انہیں نقصان پہنچا بیٹھیں گے، گویا ان کی دنیاوی زندگی اجیرن ہوگئی تھی، لیکن آہستہ آہستہ حالات نے پلٹا کھایا، مشرکوں کو اللہ نے ذلیل و رسوا کیا، مسلمانوں کی تعداد و قوت بڑھتی چلی گئی، اور یکے بعد دیگرے جزیرہ عرب کے تمام شہروں اور علاقوں پر ان کا قبضہ ہوتا چلا گیا۔ اور مرور زمانہ کے ساتھ انہوں نے مشرق و مغرب کے بہت سے ممالک فتح کرلیے، فارس اور روم کی حکومتوں کے ٹکڑے کردیئے اور دنیا کے بہت سے علاقے ان کے زیر سلطنت آگئے، اور حالت ایسی ہوگئی کہ ہر غیر مسلم مسلمانوں سے خوفزدہ رہنے لگا۔ فللہ الحمد والمنۃ۔ وہ جسے چاہتا ہے بادشاہی عطا کردیتا ہے، اور جس سے چاہتا ہے چھین لیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل و رسوا کردیتا ہے اسی کے ہاتھ میں ہر بھلائی ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ النور
56 ٣٢۔ صحابہ کرام کو بالخصوص اور مسلمانوں کو بالعموم مخاطب کر کے کہا جارہا ہے کہ تم اللہ کی بندگی کرو، نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو اور تمام معاملات زندگی میں رسول اللہ کی اطاعت کرو، ہر زمانے میں تمہاری کامیابی کا یہی راز ہے، اور ایسا ہی کرنے سے رحمت باری تعالیٰ تم پر سایہ فگن رہے گی۔ کفر و شرک، ہلاکت و بربادی اور ذلت و رسوائی لاتا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آیت (٥٧) میں نبی کریم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ یہ ہرگز نہ سمجھیں کہ اہل کفر اللہ سے بچ کر نکل جائیں گے، زمین اللہ کی ہے، کائنات کے ذرے ذرے پر اس کا قبضہ ہے، اس سے بھاگ کر وہ کہاں جائیں گے، اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں رسوا کرے گا اور آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو بدترین جگہ ہوگی۔ النور
57 النور
58 ٣٣۔ دلائل توحید بیان کرنے کے بعد دوبارہ گھروں میں داخل ہونے سے پہلے اجازت لینے کے مسائل بیان کیے جارہے ہیں، ابتدائے سورت میں غیروں سے متعلق حکم بیان کیا گیا ہے یہاں گھر کے افراد سے متعلق حکم بیان کیا جارہا ہے کہ غلام، باندیاں، خادم اور گھر کے چھوٹے بچے دن اور رات کے تین مخصوص اوقات میں کمروں میں بغیر اجازت نہ داخل ہوں، فجر سے پہلے جو رات میں سونے کا وقت ہوتا ہے، دوپہر کے وقت جب لوگ بالعموم آرام کرتے ہیں اور عشا کی نماز کے بعد جب لوگ دن کی محنت و مشقت کے بعد سوجاتے ہیں، اس لیے کہ ان تینوں اوقات میں بالعموم اپنی بیویوں کے ساتھ ہوتے ہیں کمروں کے اندر پردے کا زیادہ خیال نہیں رکھتے ہیں، اس لیے ان اوقات میں کسی کا اچانک کمرے میں داخل ہوجانا شدید ناگوار گزرتا ہے، اور بسا اوقات ان نوکروں اور بچوں کی نگاہیں پردے کی جگہوں پر پڑجاتی ہیں۔ اللہ نے فرمایا کہ ان کے علاوہ دوسرے اوقات میں وہ افراد خانہ بغیر اجازت داخل ہوسکتے ہیں، اس لیے کہ گھر کی ضرورتوں کے لیے ہر وقت ان کا آنا جانا لگا رہتا ہے، ہر بار ان کے لیے اجازت لینی بڑی پریشانی کا باعث ہوگا۔ النور
59 ٣٤۔ جن بچوں کو تین مخصوص اوقات کے علاوہ باقی وقتوں میں بغیر اجازت کمروں میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی جب وہ سن بلوغ کو پہنچ جائیں تو انہیں بھی دوسرے مردوں کی طرح ہر وقت اندر داخل ہونے کی اجازت لینی ہوگی۔ عطا کہتے ہیں کہ بالغ آدمی چاہے وہ آزاد ہو یا غلام بغیر اجازت داخل نہیں ہوگا۔ امام زہری کہتے ہیں کہ آدمی اپنی ماں کے کمرے میں بھی داخل ہونے سے پہلے اجازت لے۔ النور
60 ٣٥۔ وہ بوڑھی عورتیں جن کی ماہوراری ایک زمانے سے بند ہوگئی ہو، حمل اور ولادت کی کوئی امید باقی نہ رہی ہو، اور جن سے اب کوئی شادی نہ کرنی چاہے، ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ جائز قرار دیا ہے کہ وہ غیر محرموں کے سامنے اپنے سر کی اوڑھنی یا برقعہ اتار دیں، اس شرط کے ساتھ کہ وہ اپنے جسم کی پوشیدہ زینتوں کو ظاہر نہ کریں، جیسے ہاتھوں کا خضاب، کنگن اور پازیب وغیرہ، لیکن الہ تعالیٰ نے ایسی عورتوں کے لیے بھی بہتر یہی قرار دیا ہے کہ وہ غیروں کے سامنے اپنے سروں سے اوڑھنی اور اپنے جسم سے برقعہ نہ اتاریں، اسی میں ان کے لیے بھلائی ہے۔ نبی کریم نے بے پردہ اور بے حیا عورتوں کے لیے بڑی شدید وعید بیان کی ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : دو قسم کے جہنمیوں کو میں نے نہیں دیکھا ہے، ایسے لوگ جن کے پاس گائے کی دموں کی مانند کوڑے ہوں گے، جس سے وہ لوگوں کو مارا کریں گے اور ایسی عورتیں جو ایسا لباس پہنے ہوں گی کہ گویا ننگی ہوں گی، لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف لبھانے والی اور تکبر سے مٹک کر چلنے والی ہوں گی، ان کے سر اونٹوں کے کوہانوں کے مانند ایک طرف جھکے ہوں گے، ایسی عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوگی اور نہ اس کی خوشبو پائیں گی، حالانکہ اس کی خوشبو بہت دور سے محسوس کی جائے گی۔ النور
61 ٣٦۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علما کے کئی اقوال ہیں : ایک قول یہ ہے کہ صحابہ کرام جب جہاد کے لیے جانے لگتے تو اپنے گھر کی چابی اپنے بعض معذور رشتہ داروں یا دوستوں کو دے جاتے، تاکہ وہاں کھائیں پئیں اور آرام سے رہیں، ان معذوروں کو شبہ ہوتا کہ ایسا کرنا ان کے لیے جائز ہے یا نہیں تو یہ آیت نازل ہوئی کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ معذور صحابہ اپنے صحت مند رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ کھانے میں حرج محسوس کرتے کہ کہیں وہ لوگ برا نہ مانیں تو یہ آیت نازل ہوئی، عطا خراسانی اور عبدالرحمن بن زید بن اسلم کا خیال ہے کہ اس آیت سے مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ معذور لوگ اگر جہاد میں شریک نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ بعض صحابہ بعض معذور لوگوں کو اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے گھروں میں لے جاتے اور وہاں انہیں کھانا کھلاتے تو کھانے والوں اور کھلانے والوں کے دلوں میں شبہ پیدا ہوتا کہ ایسا کرنا صحیح ہے یا نہیں؟ تو یہ آیت نازل ہوئی۔ صاحب محاسن التنزیل لکھتے ہیں کہ آیت کریمہ مذکورہ بالا تمام ہی صورتوں پر صادق آتی ہے، اور سب سے شبہ اور حرج کا ازالہ کرتی ہے۔ اور مریض کے ساتھ کھانے کے بارے میں لکھا ہے : بہتر یہ ہے کہ ایک ہی دسترخوان پر سب الگ الگ پلیٹوں میں کھائیں، تاکہ اصولوں کے مطابق کسی کو اعتراض یا تکلیف نہ ہو۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ (ان تاکلوا من بیوتکم) میں اولاد کے گھر بھی داخل ہیں، یعنی آدمی اپنی اولاد کے گھروں میں بغیر اجازت کھا پی سکتا ہے، امام احمد اور ابن ماجہ نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے کہ تم اور تمہارا مال تمہارے باپ کا ہے، بہت سے لوگوں نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، اس کی تائید ایک دوسرے حدیث سے ہوتی ہے۔ جسے احمد، ابوداؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کی ہے اور جسے محدث البانی نے صحیح کہا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو آدمی اپنی کمائی سے کھاتا ہے اور اس کا بیٹا اس کی کمائی میں داخل ہے۔ علما نے یہ توجیہ بھی بیان کی ہے کہ جب آدمی اپنے باپ کے گھر میں بغیر اجازت کھا سکتا ہے تو اپنی اولاد کے گھروں سے بدرجہ اولی کھا سکتا ہے۔ مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ بیوتکم میں بیویوں کے گھر بھی داخل ہیں، یعنی شوہر اپنی بیوی کے گھر سے بغیر اجازت کھا سکتا ہے۔ (او ما ملکتم مفاتحہ) کے ضمن میں علما لکھتے ہیں کہ اس سے مراد وہ وکیل ہے جو گھر اور باغ یا چوپایوں کی حفاظت کرتا ہے۔ ایسا آدمی بغیر اجازت گھر کا کھانا، باغ کا پھل، اور جانوروں کا دودھ پی سکتا ہے۔ (او صدیقکم) سے مراد مخلص دوست ہے، جس کے بارے میں یقین ہو کہ اس کے گھر کا کھانا کھا لینے کے لیے اس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ بعض عرب بغیر مہمان کے کھانا نہیں کھاتے تھے، اور بعض لوگ دوسروں کے ساتھ کھانے میں حرج محسوس کرتے تھے کہ کہیں ساتھ کھانے والے کو تکلیف نہ پہنچے، اللہ تعالیٰ نے دونوں صورتوں کے بارے میں فرمایا کہ ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (لیس علیکم جناح ان تاکلوا جمیعا او اشتاتا) میں اسی حکم کو بیان کیا گیا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک اور اسلامی ادب سکھلایا ہے کہ جب کوئی شخص کسی ایسے گھر میں داخل ہو جس میں لوگ موجود ہوں تو انہیں سلام کرے اگر کوئی موجود نہ ہو تو امام بخاری نے الادب المفرد میں ابن عمر سے روایت کی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اللہ کے نیک بندوں یعنی فرشتوں کو سلام کرے اور السلام علینا وعلی عبادہ الصالحین کہے۔ ابن عباس نے آیت میں بیوتا سے مراد مساجد لیا ہے، یعنی مسجد میں داخل ہونے والا شخص اپنے ہی جیسے نمازیوں کو سلام کرے۔ ابن العربی کہتے ہیں کہ اس سے مراد عام مسلمانوں کے منازل و مکانات ہیں اور یہ حکم عام ہے کہ جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہو تو اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو سلام کرے۔ امام بخاری اور دیگر محدثین نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جب تم اپنے اہل و عیال کے پاس جاؤ توسلام کرو جو اللہ کی جانب سے تحیہ و سلام ہے، اور جب دوسرے کے گھروں میں داخل ہو تو ان گھروں والوں کو سلام کرو، اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ تعلیم اس لیے دی ہے کہ اسمیں بہت ساری برکتیں اور فوائد ہیں، جنہیں سلام کیا جاتا ہے ان کے دل خوش ہوتے ہیں، آپس میں وحشت ختم ہوجاتی ہے اور الفت و محبت بڑھتی ہے۔ النور
62 ٣٧۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو نبی کریم کی مجلسوں میں جانے اور وہاں سے رخصت ہونے کا ادب سکھلایا ہے کہ وہ مومنین جو اللہ اور رسول پر صدق دل سے ایمان رکھتے ہیں جب وہ نبی کریم کے ساتھ کسی اہم موقع پر ہوتے ہیں جیسے کسی جنگی مسئلہ میں رائے مشورہ، اسلام اور مسلمانوں کا دفاع یا کوئی اور اہم مسئلہ جس پر غور و خوض کرنے کے لیے تمام صحابہ کا ہونا ضروری ہوتا ہے تو وہ آپ کی اجازت کے بغیر مجلس سے اٹھ کر نہیں چلے جاتے، کیونکہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کا یہی تقاضا ہے۔ اسی لیے اس کے بعد اللہ نے صراحت کردی کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں وہی لوگ آپ سے اجازت مانگتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ منافقین آپ سے اجازت نہیں لیتے، یعنی اجازت لے کر جانا صدق ایمان کی دلیل ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا کہ اگر آپ کے صحابہ اپنی بعض ضرورتوں کے لیے اجازت مانگیں، تو حالات کے مطابق آپ جنہیں چاہیں اجازت دے دیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کی ضرورت اس بات کا تقاضا کرتی ہو کہ انہیں اجازت نہ دی جائے تو اجازت نہ دیجیے اور اللہ اور رسول پر ایمان کا تقاضا ہے کہ صحابہ اس حکم کو برضائے نفس قبول کرلیں، اور رسول اللہ کے حکم کو اپنی ضرورت پر ترجیح دیں، اور (واستغفرلھم اللہ) میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ صحابہ کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ آپ کی مجلس سے جانے کی نہ سوچیں اور اجازت نہ لیں۔ بیہقی نے دلائل النبوۃ میں عروہ اور محمد بن کعب القرظی سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت خندق کھودنے کے موقع سے نازل ہوئی تھی، جب منافقین رسول اللہ سے بغیر اجازت لیے چپکے سے اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے اور مخلص مسلمان آپ سے اجازت لے کر جاتے اور ضرورت پوری ہوتے ہی واپس آجاتے تھے۔ زجاج کہتے ہیں کہ ہر دور میں مسلمانوں کا اپنے اماموں کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ ہونا چاہیے کہ ان کی مخالفت نہ کریں اور ان کی اجازت کے بغیر ان کی اہم مجلسوں سے خاموشی کے ساتھ اٹھ کر غائب نہ ہوجائیں، حالات کے تقاضے کے مطابق امام اگر چاہے گا تو اجازت دے گا ورنہ جانے سے روک دے گا۔ النور
63 ٣٨۔ ابن الاثیر اور شوکانی وغیرہ کہتے ہیں کہ اس آیت کا تعلق اوپر کی آیت سے ہے، یعنی اس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ اگر تمہیں کسی ضرورت کے لیے بلائیں تو اسے اوروں کے بلانے پر قیاس نہ کرو، اور بغیر آپ کی اجازت کے مجلس سے اٹھ کر نہ جایا کرو (قد یعلم اللہ الذین یتسللون منکم لواذا) میں ان منافقین کی طرف اشارہ ہے جو آپ سے اجازت لیے بغیر یکے بعد دیگرے چپکے سے ان مجلسوں سے چلے جاتے تھے جہاں رسول اللہ کو صحابہ کی ضرورت ہوتی تھی۔ سعید بن جبیر اور مجاہد کہتے ہیں کہ آپ کا نام لے کر سخت لہجے میں نہ پکارو، بلکہ نرمی کے ساتھ یا رسول اللہ کہہ کر پکارو۔ بعض کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کو ناراض کر کے ان بدعا کے مستحق نہ بنو، اس لیے کہ آپ کی بد دعا قبول ہوجاتی ہے۔ صاحب محاسن التنزیل نے ابن ابی الحدید اور مہایمی وغیرہم کے حوالے سے لکھا ہے کہ آیت میں دعا سے مراد حکم ہے یعنی رسول اللہ کے حکم کو غیروں کے حکم پر قیاس نہ کرو۔ اور اس کی دلیل (فلیحذر الذین یخالفوان عن امرہ) ہے کہ جو لوگ آپ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیے کہ وہ کسی آزمائش میں نہ ڈال دیے جائیں، یا کوئی دردناک عذاب نہ انہیں اپنی گرفت میں لے لے۔ آزمائش سے مراد کسی نے قتل، کسی نے زلزلہ کسی نے ظالم حاکم کا تسلط اور کسی نے دل پر اللہ کی جانب سے مہر لیا ہے۔ (فلیحذر الذین یخالفوان عن امرہ) آیت کا یہ حصہ اس بات کی دلیل ہے کہ زندگی کے تمام امور کو نبی کریم کی لائی ہوئی شریعت اور ان کی سنت کی کسوٹی پر پرکھنا واجب ہے، جو چیز آپ کی سنت کے مطابق ہوگی اسے قبول کرلی جائے گی، او جو قول و عمل اس کے مخالف ہوگا اسے رد کردیا جائے گا، چاہے کہنے یا کرنے والا کوئی بھی انسان ہو۔ صحیح کی روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : جس کسی نے کوئی ایسا کام کیا جو ہماری سنت کے مطابق نہیں ہے وہ مردود اور ناقابل قبول ہے۔ فقہا نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا امر وجوب کے لیے ہوتا ہے اس لیے کہ یہاں آپ کے حکم کو ترک کردینے کا لازمی نتیجہ دو سزاؤں میں سے ایک کو بتایا گیا ہے کہ یا تو کوئی بلا نازل ہوگی یا کوئی دردناک عذاب، اس لیے جو لوگ نبی کریم کی سنت کی مخالفت کرتے ہیں، یا فاسد تاویلوں کے ذریعہ دوسروں کے اقوال کو اس پر ترجیح دیتے ہیں، انہیں اس آیت پر ضرور غور کرنا چاہیے اور رسول کریم کے مقام و محبت کا تصور کرتے ہوئے، کسی کے قول و عمل کو سنت کے مقابلے میں درخور اعتناء نہیں سمجھنا چاہیے۔ (ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء) یہ بھی اللہ کا فضل و کرم ہے جس سے وہ سب کو نہیں نوازتا۔ النور
64 ٣٩۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے، سب اسی کے مملوک اور غلام ہیں وہ جیسے چاہتا ہے ان میں تصرف کرتا ہے اور جو چاہتا ہے فیصلہ کرات ہے، اس کے فیصلوں میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا، اور اس نے اپنا رسول اس لیے بھیجا ہے تاکہ اس کی اتباع کی جائے، جو لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈر کر رہنا چاہیے کہ کہیں وہ اس کی گرفت میں نہ آجائیں، وہ ذات برحق انسانوں کے تمام ظاہر و باطن کو جانتا ہے، اور قیامت کے دن سب کو اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے، اس دن وہ انہیں ان کے تمام اقوال و اعمال کی خبر دے گا اور جو لوگ دنیا میں اس کے رسولوں کی مخالفت کرتے ہیں، انہیں دردناک عذاب میں مبتلا کرے گا۔ النور
0 سورۃ القرقان مکی ہے، اس میں ستہتر آیتیں اور چھ رکوع ہیں۔ نام : اس سورت میں فرقان کا لفظ تین بار آیا ہے جو قرآن کریم کی اہم ترین صفت ہے، اسی لیے اس کا یہی نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : جمہور اہل علم کے نزدیک یہ سورت مکی دور میں نازل ہوئی تھی۔ قرطبی نے قتادہ اور ابن عباس کے حوالے سے آیات (٦٨) سے (٧٠) تک کو مدنی بتایا ہے۔ مکی دور کی سورتوں کی طرح اس میں بھی قرآن کریم، رسول اکرم کی نبوت اور دین اسلام کی صداقت سے متعلق کفار مکہ کے شبہات کی تردید کی گئی ہے اور انہیں ایمان و اسلام کی دعوت دی گئی ہے۔ الفرقان
1 (١) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم پر قرآن کریم کو نازل کر کے تمام انس و جن کے لیے اپنی رحمتوں، برکتوں اور بھلائیوں کو عام کردیا ہے۔ اس آیت کریمہ میں انہی برکتوں اور بھلائیوں کی طرف اشارہ کر کے باری تعالیٰ نے اپنی ذات برحق کی تعریف بیان کی ہے کہ اس کی بھلائیاں اور برکتیں اس قدر زیادہ اور عام ہیں کہ کائنات کی ہر چیز پر چھا گئی ہیں اور وہ ذات یکتا و بے ہمتا اپنی تمام صفات اور افعال میں سب سے ارفع و اعلی ہے۔ یہ قرآن حق و باطل، توحید و شرک اور عدل و ظلم کے درمیان تفریق کرتا ہے، اسے اللہ نے اپنے بندے اور رسول محمد پر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعے تمام انس و جن کو کفر و شرک کے برے انجام سے ڈرائیں۔ یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ نبی کریم تمام جن و انس کے لیے پیغامبر بنا کر بھیجے گئے تھے، جیسا کہ اللہ نے سورۃ الاعراف آیت (١٥٨) میں فرمایا ہے : (قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا) آپ کہہ دیجیے اے لوگو ! میں بیشک تم سب کے لیے اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں، اور آپ نے فرمایا ہے کہ میں سرخ اور کالے تمام لوگوں کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ (مسلم) قرآن کریم جیسی عظیم نعمت نازل کرنے پر اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف سورۃ الکہف کی آیات (١، ٢) میں بھی فرمائی ہے۔ (الحمدللہ الذی انزل علی عبدہ الکتاب ولم یجعل لہ عوجا۔ قیما لینذر باسا شدیدا من لدنہ ویبشر المومنین الذین یعملون الصالحات ان لھم اجرا حسنا) تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن نازل کیا اور اس میں کوئی کجی نہیں رہنے دی، بلکہ ہر طرح سے ٹھیک ٹھاک رکھا تاکہ اپنے پاس کی سخت سزا سے ہوشیار کردے، اور ان مومنوں کو جو عمل صالح کرتے ہیں، خوشخبری دے دے کہ ان کے لیے بہترین بدلہ ہے۔ الفرقان
2 (٢) شوکانی لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اللہ نے اپنی چار صفتیں بیان کی ہیں : پہلی صٖت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کا وہی مالک ہے، اور ان میں پائی جانے والی تمام موجودات اپنے وجود و بقا کے لیے اس کی محتاج ہیں۔ دوسری صفت یہ ہے کہ اس کی کوئی اولاد نہیں، جیسا کہ یہود و نصاری کا باطل دعوی ہے۔ تیسری صفت یہ ہے کہ پوری کائنات کی بادشاہی میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے، جیسا کہ مشرکوں، بت پرستوں، دو معبودوں کے ماننے والوں اور شرک خفی کرنے والوں کا فاسد عقیدہ ہے۔ اور چوتھی صفت یہ ہے کہ اس نے تمام موجودات کو پیدا کیا ہے اور ہر ایک کو اس سے مطلوبہ مصلحت کے مطابق بنایا ہے۔ صاحب محاسن التنزیل اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انسان کو فہم و ادراک، غور و فکر، صنعت و حرفت اور مفید کام بجا لانے کی صلاحیت دی، اسی طرح ہر حیوان اور ہر جماد کو اس مصلحت کے مطابق بنایا جو اس سے مطلوب تھی۔ الفرقان
3 (٣) لیکن تعجب ہے کہ مشرکین اس معبود حقیقی اور مالک کل کو چھوڑ کر بتوں کو اپنا معبود تصور کرتے ہیں جو کوئی چیز نہیں پیدا کرسکتے ہیں، بلکہ انسانوں کے ہاتھوں سے بنائے ہوئے ہیں اور اپنے لیے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے ہیں، چہ جائیکہ وہ اپنی پوجا کرنے والوں کو نفع یا نقصان پہنچا سکیں اور نہ وہ کسی کو زندگی دے سکتے ہیں نہ موت، اور نہ مرجانے کے بعد دوبارہ کسی کو زندہ کرسکتے ہیں۔ ان سب قدرتوں کا مالک صرف اللہ ہے، اس لیے وہی عبادت کا مستحق ہے، مشرکین اپنی عقل پر ماتم کیوں نہیں کرتے کہ اتنی صاف ستھری بات ان کے دماغ میں نہیں آتی ہے۔ الفرقان
4 (٤) شوکانی لکھتے ہیں اثبات توحید باری تعالیٰ اور مشرکین کے باطل عقائد کی تردید کے بعد اب اللہ تعالیٰ اس دور کے منکرین رسالت محمدیہ کے شبہات کی تردید کر رہا ہے۔ مشرکین کہا کرتے تھے کہ محمد جھوٹا ہے، یہ قرآن اللہ کا کلام نہیں ہے، بلکہ وہ ابو فکیہ، عداس اور جبیر جیسے یہودیوں کی معاونت سے، خود ہی اسے گھڑ کر قرآن کے نام سے لوگوں کو سناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : یہ ظلم ہے کہ انہوں نے اللہ کے معجزانہ کلام کو جو نور و ہدایت کا سرچشمہ ہے، انسانی کلام کہا، اور یہ بہتان ہے کہ انہوں نے محمد جیسے صادق و امین کو جھوٹا بتایا۔ مشرکین کہا کرتے تھے یہ قرآن گزشتہ زمانوں کے قصے ہیں جنہیں محمد صبح و شام کچھ لوگوں کی مدد سے لکھواتا رہتا ہے، اور پھر انہیں قرآن کے نام سے سنا دیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ نضر بن حارث اس شبہ کے پھیلانے میں پیش پیش رہتا تھا، اللہ نے ان کی اس شبہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تو اس علام الغیوب کی نازل کردہ کتاب ہے جس سے آسمانوں اور زمین کا کوئی راز مخفی نہیں ہے اور وہ کتاب ایسے اسرار و معانی کو حاوی ہے جن تک انسانی عقلیں پہنچنے سے قاصر ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ تم ہزار مخالفت اور دشمنی کے باوجود اس جیسا کلام لانے سے عاجز ہو۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ چونکہ اللہ تعالیٰ بڑا معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے، اس لیے اس نے آیت کے آخری حصہ (انہ کان غفورا رحیما) میں مشرکین مکہ کو ان کی تمام افترا پردازیوں اور کفر و عناد کے باوجود توبہ کر کے اسلام قبول کرلینے کی دعوت دی ہے۔ الفرقان
5 الفرقان
6 الفرقان
7 (٥) مشرکین مکہ کو نبی کریم کے کردار کے خلاف بات بنانے کی جرات نہیں ہوتی تھی کیونکہ وہی لوگ تو انہیں نبوت سے پہلے صادق و امین کے لقب سے یاد کرتے تھے، اس لیے استہزا آمیز اسلوب میں کہتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے جو ہماری طرح کھانا کھاتا ہے اور طلب معاش کے لیے بازاروں کے چکر لگاتا ہے، اگر یہ واقعی رسول ہوتا تو آسمان سے ضرور کوئی فرشتہ اترتا جو ہر وقت اس کے ساتھ ہوتا اور اس کی مدد کرتا، یا آسمان سے اس کے لیے خزانہ بھیج دیا جاتا، تاکہ طلب معاش کے لیے اسے کد و کاوش نہ کرنی پڑتی، یا اس کے پاس کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہوتا جس کے پھل کھایا کرتا، اللہ تعالیٰ نے آیت (٨) کے آخر میں فرمایا ہے کہ ظالموں نے اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ رسول اللہ کو مسحور و مجنون کہا، اور صحابہ کرام سے کہا کہ تم لوگ تو ایک ایسے آدمی کے پیچھے لگ گئے ہو جس کی عقل جادو کے اثر سے ماری گئی ہے۔ آیت (٩) میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے ان باطل اقوال پر اظہار حیرت کرتے ہوئے اور اپنے رسول کی شان میں عظیم گستاخی تصور کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ذرا ان عقل کے مارے مشرکین کی جرات کافرانہ تو دیکھیے کہ کبھی آپ کو جاوگر کہتے ہیں، تو کبھی شاعر اور کبھی کاہن و مجنون کہتے ہیں، اور جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ راہ حق سے دور بھٹک گئے ہیں، ان کی ہدایت کی اب کوئی امید نہیں ہے۔ الفرقان
8 الفرقان
9 الفرقان
10 (٦) مشرکین مکہ کا جو شبہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ محمد اگر اللہ کا رسول ہے تو اسے خزانہ کیوں نہیں دے دیا جاتا ہے، یا اس کے لیے کوئی باغ ہی کیوں نہیں وجود میں آجاتا ہے، اسی کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو اطمینان دلایا ہے کہ وہ اللہ جو بے شمار برکتوں والا ہے، اگر چاہتا تو کفار جو کچھ بیان کرتے ہیں اس سے کہیں بہتر دنیاوی نعمتیں آپ کو عطا کرتا، ایسے باغات دیتا جن کے نیچے نہریں جاری ہوتیں، اور ایک محل کیا آپ کو بہت سے محل دیتا، لیکن اس نے آپ کے لیے ایسا نہیں چاہا، اس لیے کہ یہ دنیا آپ کے لیے عیش و آرام کی جگہ نہیں ہے، اور اس لیے بھی کہ کوئی اگر آپ پر ایمان لائے تو اس لیے کہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں اس لیے نہیں کہ آپ کے اس مال کثیر اور محلات و قصور ہیں۔ آیت (١١) میں ان کے کفر و سرکشی کی علت یہ بتائی گئی کہ چونکہ وہ بعث بعد الموت پر ایمان نہیں رکھتے، اسی لیے قرآن کریم اور آپ کی تکذیب کرتے ہیں اگر آخرت پر ان کا ایمان ہوتا تو وہاں کے عذاب سے بچنے اور جنت کی نعمتوں کے حصول کی فکر کرتے، اور آخرت کی تکذیب کرنے والوں کا ٹھکانا اللہ نے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ بنائی ہے جو جہنمیوں کو دور سے ہی دیکھ کر شدید غضبناک ہوجائے گی اور انہیں اپنی گرفت میں لینے کے لیے چیخنے لگے گی، جسے سن کر جہنمی کانپ اٹھیں گے، اور جب جہنمیوں کے ہاتھ اور پاؤں ان کی گردنوں کے ساتھ زنجیروں سے جکڑ کر جہنم کی ایک تنگ جگہ میں پھینک دیئے جائیں گے، تو مارے حسرت و یاس کے پکاریں گے کہ اے ہماری ہلاکت تو کہاں ہے، آ، ہمیں ہلاک کردے تاکہ اس عذاب سے چھٹکارا پا لیں۔ تو ان کے حزن و ملال اور غم و اندوہ کو مزید بڑھانے کے لیے ان سے کہا جائے گا کہ ایک ہی نہیں بہت سی ہلاکتوں کو پکارو۔ آج تم جس رسوا کن عذاب میں مبتلا ہو وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ تم بہت ساری ہلاکتوں کو اس سے نجات پانے کے لیے دعوت دو۔ آیت (١٥) میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کو ڈانٹ پلاتے ہوئے اپنے رسول کی زبانی کہا کہ یہ بھڑکتی ہوئی آگ اور زنجیروں سے جکڑے ہوئے حال میں تمہارا اس میں ڈالا جانا بہتر ہے، یا ہمیشہ کی وہ جنت جس کا اللہ نے اپنے اہل تقوی بندوں سے وعدہ کر رکھا ہے جو ان کے ایمان و عمل صالح کا بدلہ ہوگا اور جو ان کا ابدی ٹھکانا ہوگا وہاں وہ جس چیز کی بھی خواہش کریں گے، انہیں فورا ملے گی، یہ اللہ کا وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا۔ الفرقان
11 الفرقان
12 الفرقان
13 الفرقان
14 الفرقان
15 الفرقان
16 الفرقان
17 (٧) عقیدہ بعث بعد الموت کی تاکید کے طور پر اللہ نے فرمایا کہ جب وہ میدان محشر میں مشرکین اور ان کے معبودوں کو اکٹھا کرے گا، تو ان معبودوں سے وہ پوچھے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا، یا وہ خود ہی گمراہ ہوگئے تھے؟ تو وہ معبود کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! تو تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے جب ہمارے لیے یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں تھا کہ تیرے سوا کسی کو اپنا ولی اور دوست بناتے اور اس کی عبادت کرتے، تو پھر یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ ہم نے غیروں کو یہ حکم دیا ہوگا کہ تم لوگ اللہ کے سوا ہمیں ولی بنا لو اور ہماری عبادت کرو، بات یہ ہے کہ تو نے انہیں گونا گوں نعمتوں سے نوازا تھا، تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ تیرا شکر ادا کرتے اور تیرے سوا کسی کی عبادت نہ کرتے، لیکن نتیجہ الٹا رہا یعنی وہ شہوتوں میں ڈوب گئے اور تجھے بھول گئے، اور اس طرح ہلاکت و بربادی ان کی قسمت بن گئی۔ آیت (١٩) میں انہیں مشرکین کو مخاطب کر کے اللہ نے کہا کہ جنہیں تم اپنا معبود کہتے تھے اور جن کی عبادت کرتے تھے، انہیں معبودوں نے تمہیں جھٹلا دیا، اس لیے اب تم نہ عذاب کو اپنے آپ سے ٹال سکتے ہو اور نہ ہی کوئی تمہاری مدد کے لیے آگے بڑھے گا، آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ جو کوئی شرک کا ارتکاب کرکے اپنے آپ پر ظلم کرے گا وہ اسے بہت بڑے عذاب میں مبتلا کرے گا۔ الفرقان
18 الفرقان
19 الفرقان
20 (٨) اسی سورت کی آیت (٧) میں مشرکین کی یہ استہزا آمیز حیرت بیان کی گئی تھی کہ یہ کیسا رسول ہے جو ہماری طرح کھانا کھاتا ہے اور طلب معاش کے لیے بازاروں کے چکر لگاتا ہے ان کے اسی سفیہانہ قول پر نکیر کی جارہی ہے کہ ابتدائے آفرینش سے جتنے انبیاء و رسول آئے سبھی انسان ہوتے تھے، کھانا کھاتے تھے اور طلب معاش کے لیے بازاروں میں جاتے تھے، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انسانوں کی ہدایت کے لیے کسی فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہو۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمیشہ سے ہمارا یہ طریقہ رہا ہے کہ ہم اپنی مخلوق میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ آزمائش میں ڈالتے ہیں، مومن کو کافر کے ذریعہ، مالدار کو فقیر کے ذریعہ، صحت مند کو بیمار کے ذریعہ اور شریف کو رذیل کے ذریعہ، اس لیے اے میرے رسول ! آپ صبر سے کام لیجیے اور مشرکین کی جانب سے آپ کو جو تکلیف پہنچ رہی ہے اسے برداشت کیجیے اور یقین رکھیے کہ آپ کا رب سب کچھ دیکھ رہا ہے، کون صبر کرتا ہے اور کون جزع فزع سے کام لیتا ہے، اسے سب معلوم ہے اور قیامت کے دن وہ صبر کرنے والوں کو اچھا سے اچھا بدلہ دے گا۔ الفرقان
21 9۔ مشرکین مکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت میں شبہ کا اظہار یوں بھی کرتے تھے (جو در اصل ان کے کبر و نخوت اور بعث بعد الموت کے انکار کا نتیجہ تھا) کہ اگر محمد واقعی اللہ کا رسول ہے تو اللہ آسمان سے ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں بھیج دیتا جو اس کی نبوت کی گواہی دیں، یا ہمارا رب ہی کیوں نہیں ہمارے سامنے آ کر بتا دیتا ہے کہ محمد اس کا رسول ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ان کی یہ باتیں محض ان کے کبر و نخوت کا نتیجہ ہیں، وہ اپنے آپ کو بڑی شے سمجھ بیٹھے ہیں اور طریقہ نیاز مندی و بندگی کو چھوڑ کر سرکشی پر تل گئے ہیں، اسی لیے تو گردن اکڑا کر اور زبان اینٹھ کر کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ ان کے حضور جا کر انہیں بتائے کہ محمد اس کا رسول ہے۔ کیا قرآن جیسا عظیم معجزہ انہیں محمد کی نبوت کا یقین دلانے کے لیے کافی نہیں ہے؟ الفرقان
22 10۔ اللہ تعالیٰ نے کہا، فرشتے کافروں کے پاس اس لیے نہیں آئیں گے کہ ان کے سامنے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صداقت کی گواہی دیں بلکہ موت کے وقت یا قیامت کے دن فرشتے ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے غضب اور عذاب جہنم کی خوشخبری لے کر آئیں گے، اور ان سے کہیں گے کہ آج تمہارے لیے اللہ کی مغفرت یا کوئی خوشخبری نہیں ہے، بلکہ جنت تمہارے اوپر جنت حرام کردی گئی ہے۔ آیت (23) میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ ابراہیم آیت (18) میں فرمایا ہے مثل الذین کفرو بربہم اعمالہم کرماد انشتدت بہ الریح، جو لوگ اپنے رب کا انکار کرتے ہیں، ان کے اعمال مثل اس راکھ کے ہیں جس پر تیز ہوا آندھی والے دن چلے۔ اہل جنت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہائش کے لیے بہت ہی اچھی جگہ ملے گی، اور انہٰں بہت ہی عمدہ آرام گاہ دیا جائے اللہ تعالیٰ نے اسی سورت کی آیت (67) میں فرمایا ہے خالدین فیہا حسنت مستقرا ومقاما، اس میں جنتی ہمیشہ رہیں گے، وہ بہت ہی اچھی جگہ اور عمدہ مقام ہے۔ الفرقان
23 الفرقان
24 الفرقان
25 11۔ مظاہر قیامت اور منکرین آخرت کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ اس دن آسمان پھٹ جائے گا، ستارے غائب ہوجائیں گے اور پورا نظام عالم درہم برہم ہوجائے گا، اور فرشتے اتر کر تمام مخلوقات کو میدانِ محشر میں گھیر لیں گے، اس دن صرف اللہ کی بادشاہی رہ جائے گی رہ جائے گی، دنیا کے تمام بادشاہ عاجز بندوں کی حیثیت سے میدانِ محشر میں اکٹھا ہوں گے، اور عذاب کی سختی کا تصور کر کے کافروں کا بہت ہی برا حال ہوگا، مارے حسرت و ندامت کے دانتوں سے اپنی انگلیاں کاٹیں گے، اور کہیں گے، اے کاش ! دنیا میں ہم نے رسول کی بات مان لی ہوتی اور ان پر ایمان لے آئے ہوتے، اے کاش ! میں نے فلاں کافر شیطان کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتاجس نے مجھے قرآن پر ایمان لانے سے روکا، اور طرح طرح کے جھوٹے دلائل کے ذریعہ مجھے باور کرایا کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے۔ آیت 29 کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ شیطان کی تو صفت ہی یہ ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں سے جھوٹے وعدے کرتا ہے اور گمراہی کی راہ پر دور تک لے جاتا ہے، پھر بھٹکتا ہوا چھوڑ کر چل دیتا ہے الفرقان
26 الفرقان
27 الفرقان
28 الفرقان
29 الفرقان
30 12۔ قیامت کے دن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے حضور مشرکینِ مکہ کا شکوہ کریں گے۔ کہ اے میرے رب ! انہی لوگوں نے دنیا میں تیرے قرآن کے ساتھ بے اعتنائی برتی تھی، جب ان کے سامنے اس کی تلاوت ہوتی تھی تو یہ لوگ اس کا مذاق اڑاتے تھے، سیٹیاں بجاتے تھے اور مختلف قسم کی آوازیں نکالتے تھے، تاکہ لوگ غور سے نہ سن سکیں۔ اور یہ شکوہ اس لیے ہوگا تاکہ اللہ کا عذاب ان کے لیے بڑھا دیا جائے ایک دوسرا قول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہو سلم نے اپنے رب سے یہ شکوہ دنیا میں کیا تھا۔ امام ابن القیم (رح) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ھجر قرآن، یعنی قرآن کریم کو چھوڑ دینا کئی طرح سے ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص اسے غور سے نہ سنے اور اس پر ایمان نہ لائے، اس پر عمل نہ کرے، اپنے تمام معاملات میں اسے فیصل نہ مانے، اس میں غور و فکر نہ کرے، اور اپنے روحانی امراض کا علاج اس کے ذریعہ نہ کرے۔ حافظ سیوطی اور ابو السعود وغیرہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں ان لوگوں کے لیے دھمکی ہے جو قرآن کریم کی روزانہ تلاوت نہیں کرتے ہیں، کہ قیامت کے دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان کے خلاف اللہ سے شکوہ کریں گے۔ الفرقان
31 13۔ کفار مکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑاتے تھے، اور قدم قدم پر ان کی دعوت کے آڑے آتے تھے۔ تو ایک انسان ہونے کی حیثیت سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف ہوتی تھی اور کبھی کبھار دل برداشتہ ہوجاتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ سے پہلے جتنے انبیاء آئے، مجرمین قوم میں سے کوئی نہ کوئی ان کا بڑا پکا دشمن ہوتا تھا، جو ان کی ایذا رسانی کے درپے ہوتے تھا، اور لوگوں کو اپنے کفر کی طرف بلاتا تھا، اس لیے آپ دل برداشتہ نہ ہوں، اور یہ یقین رکھئے کہ جو بھی اللہ کی کتاب پر ایمان لائے گا اور آپ کی تصدیق کرے گا، اسے اللہ دنیا اور آخرت دونوں جہان میں ہدایت دے گا اور اس کی مدد فرمائے گا۔ سورۃ الانعام آیت 112 میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی بات کہی ہے وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا شیطاین الانس والجن، ہم نے اسی طرح انسانوں اور جنوں کے شیاطین میں سے ہر نبی کا ایک دشمن بنایا تھا۔ ابن عباس (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دشمن ابوجہل تھا، اور موسیٰ کا دشمن قارون تھا، قارون موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا الفرقان
32 14۔ مشرکین مکہ کبر و نخوت میں آ کر بغیر کسی معقول سبب کے کہتے تھے کہ جس طرح تورات اور انجیل و زبور ایک بار نازل ہوئے تھے، قرآن بھی ایک ہی بار کیوں نہ اتار دیا گیا، حالانکہ اس طرح کے سوالات کرنے کا انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا تھا، یہ محض ان کے کفر و عناد کا نتیجہ تھا، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے اس قسم کے اعتراضات سے تکلیف پہنچتی تھی، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں اطمینان دلانے کے لیے فرمایا کہ قرآن کریم آیتوں اور سورتوں کی شکل میں اس لیے نازل ہو رہا ہے تاکہ آپ کے دل کو اس سے تقویت پہنچتی رہے اور آپ کی ہمت افزائی ہوتی رہے۔ جیسے بارش کا پانی جب زمین پر پہنچتا ہے، تو اس میں نئی زندگی آجاتی ہے، اور انواع و اقسام کے پھول اور پھل نظر آنے لگتے ہیں اور قرآن کریم اس لیے بھی ٹکڑوں میں نازل ہو رہا ہے، تاکہ اس کا یاد کرنا، اسے سمجھنا اور اس پر عمل کرنا آسان ہو۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ بنی اسرائیل آیت 106 میں یوں بیان فرمایا ہے و قرانا فرقناہ لتقراہ علی الناس علی مکث و نزلناہ تنزیلا۔ قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے اس لیے اتارا ہے تاکہ آپ اسے مہلت کے ساتھ لوگوں کو سنائیں اور ہم نے اسے بتدریج نازل فرمایا ہے۔ الفرقان
33 15۔ اس آیت کریمہ میں بھی قرآن کریم کے تئیس سالوں میں نازل کیے جانے کی حکمت بیان کی گئی ہے، اور مشرکین مکہ کے اعتراض کا جواب دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے نبی ! اس کی حمت یہ ہے کہ کفار مکہ جب بھی کوئی کافرانہ اور معاندانہ اعتراض کریں گے، تو ہم بروقت انہیں ایسا مسکت جواب دیں گے کہ انہیں منہ کی کھانی پڑے گی آیت 34 میں انہی منکرین آخرت اور قرآن پر معاندانہ اعتراض کرنے والے مشرکین مکہ کا انجام بتایا گیا ہے کہ فرشتے انہٰں ان کے چہروں کے بل گھسیٹ کر جہنم کی طرف لے جائیں گے، اور کہیں گے یہ لوگ دنیا میں گمراہ تین لوگ تھے، اور آخرت میں اپنے انجام کے اعتبار سے بدترین لوگ تھے۔ الفرقان
34 الفرقان
35 16۔ یہاں سے چند انبیائے کرام اور ان کی قوموں کے واقعات بیان کیے جا رہے ہیں، تاکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جائے کہ کفار مکہ آپ کی جو تکذیب کر رہے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ گذشتہ مشرک قوموں نے بھی اپنے انبیاء کی اسی طرح تکذیب کی تھی۔ اس لیے آپ دل چھوٹا نہ کیجئے اور پیغام رسانی کے کام میں دلجمعی کے ساتھ لگے رہئے۔ نیز یہ واقعات اس لیے بھی بیان کیے جا رہے ہیں، تاکہ مشرکینِ مکہ ان سے عبرت حاصل کریں کہ اگر وہ بھی اپنے کفر و سرکشی پر اڑے رہے تو ان کا انجام بھی انہی قوموں جیسا ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات دی، اور ان کے بھائی ہارون کو ان کا مددگار بنایا، اور انہیں حکم دیا کہ وہ فرعون، ہامان اور قبطیوں کے سامنے توحید کی دعوت پیش کریں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، لیکن فرعون اور فرعونیوں نے اللہ کی آیتوں اور معجزات کو جھٹلا دیا اور موسیٰ و ہارون کی دعوت توحید قبول کرنے سے انکار کردیا، تو اللہ نے انہیں بحر قلزم (بحر احمر) میں غرق کردیا۔ الفرقان
36 الفرقان
37 17۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی بھی دعوت توحید دے کر ان کی قوم کے پاس بھیجا، لیکن ہزار کوشش کے باوجود وہ لوگ ایمان نہیں لائے، اور نوح (علیہ السلام) اور ان سے قبل کے تمام انبیاء کی تکذیب کردی، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں طوفان کے ذریعہ ہلاک کردیا، اور آنے والے لوگوں کے لیے ان کی ہلاکت کو درس عبرت بنا دیا، اور آخرت میں تو دردناک عذاب ان ظالموں کا انتظار کر رہا ہے قومِ عاد، قوم ثمود، اور (رس) کنواں کے قریب رہنے والوں نے بھی اپنے انبیاء کی تکذیب کی، اور دوسری بہت سی قوموں نے بھی اپنے انبیاء کی تکذیب کی تو اللہ تعالیٰ نے سب کو انبیاء کے ذریعہ مثالیں دے کر اور دوسری قوموں کے واقعات سنا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کی، لیکن جب ان کے حق میں کوئی دلیل و حجت مفید ثابت نہیں ہوئی اور اپنے کفر و عناد پر مصر رہے، تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ہلاک کردیا۔ اصحاب الرس، کنواں والوں کی تعیین میں علماء کے کئی اقوال ہیں، سدی کہتے ہیں کہ یہ انطاکیہ میں ایک کنواں تھا جس میں کافروں نے اس حبیب النجار کو قتل کر کے ڈال دیا تھا جس کا ذکر سورۃ یس آیت 20 قال یا قوم التبعوا المرسلین، میں آیا ہے، ابن جریر کے نزدیک راجح یہ ہے کہ ان سے مراد اصحاب الاخدود ہیں، جن کا ذکر سورۃ البروج میں آیا ہے۔ الفرقان
38 الفرقان
39 الفرقان
40 18۔ اس آیت کریمہ میں قوم لوط کی بستیوں (سدوم و عمورہ) کا ذکر ہے، جن کے رہنے والوں نے لوط (علیہ السلام) کو جھٹلایا، ان کی دعوت کو قبول نہیں کیا، اور فعل لواطت پر مصر رہے، تو اللہ نے انہیں ہلاک کردیا، مشرکینِ مکہ اپنے تجارت سفروں میں شام و فلسطین جاتے ہوئے ان بستیوں سے گذرتے تھے اور دیکھتے تھے کہ اب وہ بستیاں نشانِ عبرت بن گئی ہیں لیکن اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے تھے اس لیے کہ انہیں آخرت میں حساب اور جز و سزا پر یقین ہی نہیں تھا۔ الفرقان
41 19۔ مشرکین مکہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی مجلس میں یا راہ چلتے دیکھتے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اشارہ کر کے آپس میں نہایت حقارت آمیز انداز میں کہتے کہ یہی ہے وہ جسے اللہ نے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، یعنی اس کے علاوہ اور کسی پر اللہ کی نظر نہیں پڑی تھی، ہم تو بچ ہی گئے کہ اس کے جھانسے میں نہیں آئے اور اپنے دین پر قائم رہے، ورنہ ہمیں ہمارے معبودوں کی عبادت سے روک ہی دیتا آیت 42 کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ جب وہ لوگ اپنی آنکھوں سے دنیا یا آخرت میں عذاب کو دیکھ لیں گے، تو انہیں پتہ چل جائے گا کہ گم گشتہ راہ کون تھا، وہ یا اللہ کے رسول اور مومنین، دنیاوی عذاب کے اعتبار سے میدانِ بدر میں جس طرح کفار مکہ قتل کیے گئے اور جو رہ گئے قید کرلیے گئے، وہ اس بات کی بین دلیل تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے مقابلے میں وہی لوگ گمراہ تھے الفرقان
42 الفرقان
43 20۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مزید تسلی کے لیے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو اپنی خواہش نفس کا بندہ ہو کہ آج ایک پتھر کی عبادت کر رہا ہے اور کل اگر اسے کوئی دوسرا خوبصورت پتھر نظر آجاتا ہے تو پہلے کو چھوڑ کو دوسرے کو پوجنے لگتا ہے، کیا آپ ایسے گرے انسان کو راہ راست پر لا سکتے ہیں اگر ایسا نہیں کرسکتے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیجئے۔ آیت 44 میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے انہیں مشرکینِ مکہ کی انتہائی گری ہوئی حالت بیان کی جا رہی ہے کہ کیا آپ سمجھتے ہیں، ان سے جو کہا جا رہا ہے اسے وہ سن رہے ہیں اور جو مطالبہ کیا جا رہا ہے اسے سمجھ رہے ہیں؟ ہرگز نہیں، یہ تو جانوروں کے مانند ہیں، بلکہ جانوروں سے بد تر ہیں کہ جانور کم از کم آنے جانے کی راہ کو تو سمجھتا ہے، اور چرواہے کی آواز سن کر اس کے مطابق دائیں بائیں تو ہوتا ہے، لیکن یہ لوگ تو نہ اپنے رب کو پہچانتے ہیں، اور نہ اس کے رسول کی پکار کا جواب دیتے ہیں الفرقان
44 الفرقان
45 21۔ اس آیت کریمہ سے آیت 50 تک توحید باری تعالیٰ کے پانچ دلائل بیان کیے گئے ہیں، جن میں سے ہر دلیل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے۔ پہلی دلیل سایہ ہے، جو غروب آفتاب سے طلوعِ آفتاب تک پایا جاتا ہے، اس مدت میں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے سائے کو پوری کائنات پر پھیلا دیتا ہے، پھر جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو وہ سایہ آہستہ آہستہ سمٹنے لگتا ہے۔ اگر اللہ چاہتا تو اسے ساکن و ثابت بنا دیتا، لیکن اللہ اپنے بندوں کی مصلحت کے مطابق اسے سمیٹتا جاتا ہے، یہاں تک کہ دن چڑھ آتا ہے، اور کچھ دیر کے بعد آفتاب مغرب کی طرف مائل ہونے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ سایہ دوبارہ پھیلنے لگتا ہے، تاکہ دن کے مکتلف حصے اور نمازوں کے اوقات جانے جائیں، یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوجاتا ہے اور رات کی تاریکی آجاتی ہے۔ سائے کا اس طرح شام کے وقت بتدریج پھیلنا، اور صبح کے وقت بتدریج اس کا سمٹنا، اور بندوں کے بہت سے مصالح و منافع کا اس سے متلعق ہونا، اللہ کی قدرت، علم و حکمت اور بندون کے لیے اس کی رحمت عام کی دلیل ہے۔ دوسری دلیل رات اور دن ہے، اللہ تالیٰ نے رات کو لباس کے مانند پردہ کرنے والا اور نیند کو انسانی جسم کے لیے راحت کا ذریعہ بنایا ہے، اور دن کے وقت آدمی روزی حاصل کرنے کے لیے زمین میں پھیل جاتا ہے۔ تیسری دلیل۔ ہوا ہے، جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بادلوں میں پانی بھر دیتا ہے، جو ردہ زمین کو زندہ کردیتا ہے۔ سورۃ الاعراف آیت 57 میں اس آیت کی تفسیر گذر چکی ہے چوتھی دلیل : بارش کا پانی ہے جو میٹھا اور پاک کرنے والا ہوتا ہے، اسے انسان اور حیوانات پیتے ہیں، اور لوگ اس کے ذریعہ طہارت اور پاکیزگی حاصل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پانی کو پیدا کیا، اسے بارش کی شکل میں زمین پر برسایا، انسانوں اور حیوانات کے اجسام کو اس کا محتاج بنایا، اور پھر انہٰں اس کا پینا اور استعمال کرنا سکھایا، یہ ساری باتیں اس کے رب ہونے کی دلیل ہیں۔ یہ آیت اور سورۃ الانفال کی آیت 11 و ینزل علیکم من السماء ماء الیطہرکم بہ دلیل ہے کہ پانی کو اللہ نے پاک کرنے والا بنایا ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بے شک پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی ہے (ابو داود، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ) پانچویں دلیل۔ بارش کے پانی میں اللہ کا تصرف ہے کہ کبھی ایک علاقے میں بارش ہوتی ہے اور دوسرا علاقہ خشک رہتا ہے۔ اللہ اپنی حکمت کے تقاضوں کے مطابق اسے جہاں چاہتا ہے بھیجتا ہے، اور جہاں سے چاہتا ہے، اسے روک لیتا ہے، اس کی مرضی میں کوئی دخل نہیں دے سکتا۔ بہت سے مفسرین کے نزدیک صرفنا سے مراد وہ تمام نشانیاں ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ یعنی اللہ نے سایہ، بادل اور بارش کو قرآن اور دیگر آسمانی کتابوں میں بار بار اس لیے ذکر کیا ہے تاکہ لوگ ان میں غور و فکر کر کے اللہ کی توحید ربوبیت کے قائل ہوں، اور اس کے ساتھ عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں۔ آیت 50 کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ انسان، اللہ کی ان تمام نعمتوں سے مستفید ہوتا ہے، لیکن ان میں اکثر و بیشتر لوگ اس کے شکر گذار نہیں ہوتے ہیں، اور اسے چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرنے لگتے ہیں۔ الفرقان
46 الفرقان
47 الفرقان
48 الفرقان
49 الفرقان
50 الفرقان
51 22۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت اور فضیلت ظاہر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ہم چاہتے تو عرب و عجم کی ہر بستی کے لیے الگ الگ پیغمبر بھیج دیتے، جو انہیں ان کے خالق کی عبادت کی دعوت دیتے، لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا، بلکہ تمام انس و جن کے لیے اکیلا آپ کو نبی بنا کر بھیجا ہے، اس سے جہاں آپ کا مقام بہت اونچا ہوگیا ہے، اور آپ کا اجر و ثواب بڑھ گیا ہے، وہیں آپ کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہوگئی ہیں، اس لیے آپ صبر و ثبات سے کام لیجئے اور کسی بھی معاملے میں کافروں کی بات نہ مانئے، اور قرآن کریم کی دعوت ان تک پہنچانے میں پوری طرح کوشاں رہئے، ان کے سامنے اس کی تلاوت کیجئے اور اس میں جو اوامر و نواہی اور نصیحت و موعظت ہیں انہیں بتاتے رہئے، اور اس راہ میں کسی بھی ممکن کوشش سے باز نہ آئیے مفسر ابو السعود لکھتے ہیں کہ اس آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کافروں کے ساتھ دعوت و تبلیغ کی راہ میں مدارات اور نرمی کرنے سے روک دیا گیا ہے، اس لیے کہ ایسا کرنے سے حق کی آواز دب جائے گی، اور اسلام کے پھیلنے میں تاخیر ہوگی الفرقان
52 الفرقان
53 23۔ اللہ تعالیٰ کے رب اور یکتا و بے ہمتا ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس کے رحم اور اس کے قدرت سے دو دریا ساتھ ساتھ بہتے ہیں، ایک کا پانی نہایت میٹھا ہے، اور دوسرے کا نہایت کھارا، اور دونوں کے درمیان اس نے ایسی ایسی غیر مرئی دیوار کھڑی کردی ہے کہ دونوں دریا ایک ساتھ بہتے ہیں، لیکن میٹھا کھارے کے ساتھ ہرگز نہیں ملتا ہے۔ اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الرحمن آیات 19 20 میں بھی بیان فرمایا ہے۔ مرج البحرین یلقتقیان، بینھما برزخ لا یبغیان۔ اس نے دو دریا جاری کردئیے جو ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں۔ ان دونوں میں ایک آڑ ہے کہ اس سے بڑھ نہیں سکتے۔ الفرقان
54 24۔ اس کے خالق و رب اور یکتا و بے ہمتا ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے انسان کو ایک حقیر نطفہ سے پیدا کیا ہے، پھر وہ پل بڑھ کر بڑا ہوتا ہے اور ان میں سے کوئی مذکر اور کوئی مونث ہوتا ہے، اور ان سب کی نسبت اپنے باپ دادا کی طرف ہوتی ہے اور جب شادی کرتا ہے، تو بیوی کی طرف سے اس کے بہت سارے رشتہ دار ہوجاتے ہیں۔ کنبے کا یہ سارا پھیلاؤ ایک قطرہ منی سے وجود میں آتا ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت کی کرشمہ سازیاں ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آیت 54 کے آخر میں فرمایا وکان ربک قدیرا آپ کا رب ہر چیز پر قادر ہے۔ الفرقان
55 25۔ مذکورہ بالا دلائل توحید ربوبیت کا تقاضا تھا کہ مشرکینِ مکہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے، لیکن وہ ان بتوں کی پوجا کرتے ہیں جو ان کی عبادت کے بدلے میں نہ انہیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں، اور اگر وہ ان کی عبادت نہ کریں تو نہ انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں اور وہ ان بتوں کی نہیں بلکہ درحقیقت شیطان کی عبات کرتے ہیں جو انہیں بتوں کی عبادت پر ورغلاتا ہے تو گویا کافر اپنے رب کے خلاف شیطان کی مدد کرتا ہے، یعنی اسے مزید اللہ کی نافرمانی پر اکساتا ہے اور اس کی ہمت بڑھاتا ہے الفرقان
56 26۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ ہم نے تو آپ کو جنت کی خوشخبری اور جہنم سے ڈرانے کے لیے بھیجا ہے۔ تو آپ اپنا کام کرتے رہئے، اور اس فکر سے پریشان نہ ہوئیے کہ کون اسلام لے آیا اور کون کفر پر مصر رہا۔ اس لیے کہ ہدایت کی توفیق دینا ہمارا کام ہے، ہم جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں کفر و ضلالت میں بھٹکتا چھوڑ دیتے ہیں۔ اور اللہ کسے ہدایت دیتا ہے اور کسے نہیں، اس کی تفصیل بارہا گذر چکی ہے کہ جو اللہ سے ہدایت مانگتا ہے اور مسلسل مانگتا رہتا ہے، اللہ ہدایت دیتا ہے اور جو اپنے لیے گمراہی کو پسند کرتا ہے اور اس پر اصرار کرتا ہے، تو اللہ اسے گمراہ کردیتا ہے الفرقان
57 27۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی کہا کہ اے مشرکینِ مکہ ! میں جو تمہیں قرآن پڑھ کر سناتا ہوں اور ایک اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہوں، تو مجھے تم سے کسی مادی منفعت کی لالچ نہیں ہے۔ بلکہ میرا منشا تو یہ ہے کہ تم میں سے جو چاہے میری دعوت کو قبول کر کے اللہ پر ایمان لائے، اس کی بندگی کرے، اور اس کی قربت و رحمت کا حقدار بن جائے۔ الفرقان
58 28۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ اپنے تمام دعوتی اور غیر دعوتی امور میں صرف اللہ پر بھروسہ کیجئے جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا، ساری مخلوقات مر جائے گی اور وہ اکیلا زندہ رہے گا، اس لیے وہی اس لائق ہے کہ اس پر بھروسہ کیا جائے، اور دعوت الی اللہ کی راہ میں جو تکلیفیں اور صعوبتیں پیش آئیں، انہیں برداشت کرنے اور ثابت قدم رہنے کے لیے اللہ کی تسبیح بیان کیجئے، نماز پڑھیے، اور ذکر الٰہی میں مشغول رہئے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے خوب واقف ہے، اس لیے آپ کافروں اور مشرکوں کے کفر و شرک پر نہ کڑھیں، اللہ ان کے ایک ایک گناہ کو گن رہا ہے، اور ان کا بدلہ دیر یا سویر انہیں مل کر رہے گا۔ الفرقان
59 29۔ اوپر والی آیت سے متعلق ہے، یعنی آپ اس اللہ پر بھروسہ کیجئے جس کی صفت حی ہے اور جس نے آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان کی ساری چیزوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا، اور جس کی صفت رحمن ہے، پھر وہ عرش پر مستوی ہوگیا استوی علی العرش کی تفسیر سورۃ الاعراف آیت 54 اور سورۃ یونس آیت 3 اور سورۃ الرعد آیت 2 اور سورۃ طہ آیت 5 میں گذر چکی ہے۔ آخر میں اللہ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور استوی علی العرش وغیرہ کی تفصیل آپ باری تعالیٰ سے پوچھ لیجئے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور ان سے متعلق پورا علم رکھتا ہے۔ الفرقان
60 30۔ مشرکین مکہ رحمن کا معنی نہیں جانتے تھے، اور نہ جانتے تھے کہ یہ اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اس لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ان سے کہا کہ تم لوگ بتوں کے بجائے رحمن کو سجدہ کرو تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم کسی رحمن کو نہیں جانتے ہیں، صرف رحمن الیمامہ یعنی مسیلمہ کو جانتے ہیں، جس نے اپنا لقب رحمن رکھ لیا تھا کیا تم چاہتے ہو کہ تم ہمیں جس کی عبادت کا حکم دو اسی کی عبادت کریں، یعنی چاہتے ہو کہ بس ہم تمہاری ہر بات مانتے رہیں۔ تو ایسا نہیں ہوگا اور ہم رحمن کو سجدہ نہیں کریں گے، یعنی تکبر کی وجہ سے دین و ایمان سے ان کی نفرت اور بڑھ گئی۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ کافروں کے برعکس، مومنین اس اللہ کی عبادت کرتے ہیں جو رحمن اور رحیم ہے، اور اسی کے لیے سجدہ کرتے ہیں، نیز لکھتے ہیں، علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اس آیت کی تلاوت کرنے والے اور سننے والے کو سجدہ کرنا چاہیے الفرقان
61 31۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض ایسے مظاہر قدرت کو بیان کیا ہے کہ اگر رحمن کے لیے سجدہ نہ کرنے والے مشرکین ان میں غور و فکر کریں تو وجوب سجدہ کے قائل ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ کی بابرکت ذات نے آسمان میں سات متحرک سیاروں کے بارہ برج یعنی منازل بنائے ہیں۔ وہ سیارے اللہ کے حکم کے مطابق ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف منتقل ہوتے رہتے ہیں، اور ان کی اس منتقلی سے حالات و واقعات میں مختلف تبدیلی آتی رہتی ہے۔ بعض لوگوں نے بروج سے بڑے بڑے ستارے مراد لیے ہیں۔ شوکانی کے نزدیک پہلا قول راجح ہے۔ نیز اس بابرکت ذات نے آسمان میں آفتاب و ماہتاب بنائے ہیں۔ اور اسی نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے لگا دیا ہے۔ ہر ایک دوسرے کے بعد ضرور آجاتا ہے۔ جب سے اللہ نے دنیا بنائی ہے۔ اس نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، جیسا کہ سورۃ ابراہیم آیت (33) میں آیا ہے۔ و سخرلکم الشمس و القمر دائبین، اسی نے تمہارے لیے سورج اور چاند کو مسخر کردیا ہے کہ برابر ہی چل رہے ہیں، لی و نہار کے اس تعاقب سے اللہ کی عبادتوں کے اوقات کی تعیین ہے۔ اور اگر کوئی شخص دن کی کوئی عبادت بھول جاتا ہے تو اسے رات میں ادا کرلیتا ہے، اور رات کی عبادت دن میں ادا کرلیتا ہے۔ یہ سارے فائدے ان کو حاصل ہوتے ہیں جو اللہ کی عبادت کرنا چاہتا ہے اور اس کی نعمتوں کا شکر بجالانا چاہتا ہے، اور رات میں نمازیں پڑھتا ہے اور اللہ کے سامنے گریہ وزاری کرتا ہے، اور دن کے وقت روزے رکھتا ہے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے الفرقان
62 الفرقان
63 32۔ ان آیات کریمہ میں رحمن کے ان نیک بندوں کی نو صفات بیان کی گئی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے فضل و کرم سے جنت عطا کرے گا۔ ان کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ متکبر نہیں ہوتے، جب چلتے ہیں تو سکون و وقار کے ساتھ چلتے ہیں، اکڑ کر نہیں چلتے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ ریاکاری میں بیماری کی طرح چلتے ہیں، نبی کریم اس طرح چلتے تھے کہ جیسے اوپر سے نیچے اتر رہے ہوں اور جب نادان لوگ انہیں کوئی غیر مناسب بات کہہ دیتے ہیں تو برائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے، بلکہ ان کے شر سے بچنے کے لیے خاموشی اختیار کرتے ہیں یا کوئی ایسا جواب دیتے ہیں جس سے شر ٹل جائے۔ دوسری صفت یہ ہے کہ وہ راتوں میں اٹھ کر نمازیں پڑھتے ہیں، اور اپنے رب کے حضور گریہ و زاری کرتے ہیں۔ سورۃ الذاریات آیات 17 18 میں ہے کانوا قلیلا من اللیل ما یہجعون، و بالاسحار ھم یستغفرون۔ وہ لوگ راتوں کو بہت کم سوتے تھے، اور صبح کے وقت اللہ سے مغفرت مانگتے تھے۔ تیسری صفت یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی اللہ کی اطاعت و بندگی میں گذار نے کے باوجود جہنم کے عذاب سے شدید خائف ہوتے ہیں، اور دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے اللہ ! جہنم کے اس عذاب کو ہم سے ٹال دے جو کبھی ختم نہیں ہوگا، اور جو بدترین ٹھکانا ہوگا۔ چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ مال خرچ کرنے میں اعتدال کی راہ اختیار کرتے ہیں، نہ تو فضول خرچی کرتے ہیں، اور نہ ہی بخل کی وجہ سے اپنی ذات کو اور اپنے اہل و عیال کو تنگی میں ڈالتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سورۃ بنی اسرائیل آیت 29 میں اسی میانہ روی کا حکم دیا ہے۔ ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولا تبسطہا کل البسط۔ آپ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھئے اور نہ اسے بالکل کھول دیجئے کہ پھر آپ ملامت کیا ہو اور ماندہ بیٹھ جائیے۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے، آدمی کے سمجھدار ہونے کی دلیل یہ ہے کہ وہ اپنے اخراجات میں میانہ روی اختیار کرے، مسند احمد۔ نیز فرمایا ہے جو میانہ روی اختیار کرے گا وہ محتاج نہیں ہوگا (مسند احمد) پانچویں صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا معبود نہیں جانتے ہیں، اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے ہیں۔ چھٹی صفت یہ ہے کہ وہ کسی بے گناہ کو قتل نہیں کرتے ہیں (الا یہ کہ کوئی شخص اسلام سے پھر جائے، یا شادی کرنے کے بعد زنا کرے، یا کسی کو بے سبب قتل کردے) اور وہ لوگ زنا نہیں کرتے، اللہ ت عالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص ان تین گناہوں مٰن (جن کا ذکر پانچویں اور چھٹے نمبر میں آیا ہے) کوئی گناہ کرے گا وہ عذاب پائے گا، قیامت کے دن اس کا عذاب دوگنا کردیا جائے گا، اور ذلت و رسوائی کے ساتھ ہمیشہ اسی عذاب میں رہے گا۔ صحیحین میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تم کسی کو اللہ کا شریک بناؤ، حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے، اور یہ کہ تم اپنی اولاد کو محتاجی کے ڈر سے قتل کردو، اور یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرو، تو یہ آیت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث کی تائید میں نازل ہوئی۔ آیت 70 میں اللہ تعالیٰ نے اس ہمیشگی کے عذاب سے ان لوگوں کو مستثنی قرار دیا ہے جو صدق دل سے تائب ہوجائیں گے، اللہ رسول، آخرت اور دین اسلام پر ایمان لائیں گے اور اسلام کے فرائض خمسہ کی پابندی کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے گا، اس لیے کہ وہ بڑا مغفرت کرنے والا اور نہایت مہربان ہے، ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں کئی سال تک یضاعف لہ العذاب یوم القیامۃ ویخلد فیہ ہانا، پڑھتے رہے، پھر آیت 70 نازل ہوئی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتنا زیادہ خوش ہوئے کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنا خوش پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں، یہ آیت دلیل ہے کہ قاتل کی توبہ قبول کی جاتی ہے، اور اس آیت اور سورۃ النساء کی آیت 93 ومن یقتل مومنا متعمدا فجزاءہ جہنم خالدا فیہا، کے درمیان تعارض نہیں ہے۔ اس لیے کہ سورۃ النساء کی آیت اگرچہ مدنی ہے، لیکن مطلق ہے، اس لیے اسے اس آدمی پر محمول کیا جائے گا جو توبہ نہیں کرے گا، اور سورۃ الفرقان کی یہ آیت توبہ کے ساتھ مقید ہے۔ سورۃ النساء میں مذکورہ بالا آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے، میں اس موضوع پر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، اسے دیکھ لینا مفید رہے گا۔ آیت 71 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کے نزدیک وہی توبہ قابل اعتبار ہوگی جس کے بعد آدمی گناہوں سے بالکل دور ہوجائے، ان پر نادم ہو، اور عمل صالح کے ذریعہ اپنے صدق توبہ کی دلیل فراہم کرے، ساتویں صفت یہ ہے کہ وہ ایسی مجلس میں شریک نہیں ہوتے ہیں جن میں جھوٹ بولا جاتا ہے اور باطل کی تائید کی جاتی ہے، اور نہ وہ جھوٹی گواہی دیتے ہیں، ابن عباس (رض) کے نزدیک الزور سے مراد مشرکین کے ایام عید یعنی وہ مشرکین کی عیدوں میں شریک نہیں ہوتے ہیں، اور ابن مسعود (رض) کے نزدیک اس سے مراد گانا ہے یعنی موسیقی اور گانا نہیں سنتے ہیں، اور ایسے لوگ جب کسی بے جا اور لغو قول و عمل کی مجلس سے گذرتے ہیں، تو اپنی عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے دامن بچا کر نکل جاتے ہیں آٹھویں صفت یہ ہے کہ جب کوئی شخص قرآن کریم کی آیتیں پڑھ کر انہیں نصیحت کرتا ہے تو بہرے اور اندھے نہیں ہوجاتے ہیں (تاکہ نہ نصیحت سنیں اور نہ ان آیتوں کے اثرات کو دیکھ پائیں) بلکہ بہت ہی غور سے سنتے ہیں اور ان کے اثرات ان پر ظاہر ہوتے ہیں ان کی نویں صفت یہ ہے کہ وہ اپنے رب سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارے رب ! ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا، یعنی انہیں توفیق دے کہ وہ تیری بندگی کریں اور تیرے دین پر چلیں، تاکہ ان کی نیکی اور صالحیت سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ حسن بصری سے اس آیت کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بندہ مسلم اپنی بیوی، اپنے بھائی اور اپنے رشتہ داروں کو اللہ کا مطیع و فرمانبردار دیکھے، اس سے بڑھ کر اس کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کا سبب اور کیا ہوسکتا ہے، ابن جریج نے اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ وہ خویش و اقارب گناہوں اور جرائم کا ارتکاب کر کے ہمارے لیے ننگ و عار کا سبب نہ بنیں وہ یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمیں بھلائی کے کاموں میں لوگوں کا پیشرو اور سردار بنا، یعنی ہمیں اور ہماری اولاد کو بھلائی کے کاموں کی توفیق دے، اور ہمیں سردار بھی بنا، تاکہ لوگ خیر و صلاح کے کاموں میں ہماری اتباع کریں۔ نیسا پوری، قفال، سیوطی اور دیگر مفسرین نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ دینی امور اور بھلائی کے کاموں کے لیے سرداری طلب کرنا واجب ہے اللہ کے جن نیک بندوں کے اندر یہ صفات پائی جائیں گی، ان سے ان کے رب نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے گا، اس لیے کہ انہوں نے اپنے رب کی بندگی کی راہ میں تمام تکلیفیں گوارہ کیں اور حق پر قائم رہے، یہاں تک کہ جان، جان آفریں کے سپرد کردی۔ اس جنت میں فرشتے انہیں مبارکبادی دیں گے، اور ہمیشہ کے لیے امن و سلامتی اور سعادت و نیک بختی کا پیغام پہنچائیں گے، اللہ کے وہ نیک بندے اس جنت میں ہمیشہ کے لیے رہیں گے، اور وہ کیا ہی اچھی جائے رہائش ہوگی کہ جنہیں وہاں رہنا نصیب ہوجائے گا، وہ ہر آفات و بلیات سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائیں گے۔ الفرقان
64 الفرقان
65 الفرقان
66 الفرقان
67 الفرقان
68 الفرقان
69 الفرقان
70 الفرقان
71 الفرقان
72 الفرقان
73 الفرقان
74 الفرقان
75 الفرقان
76 الفرقان
77 33۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ جن و انس کی بندگی کا محتاج نہیں ہے، اس لیے کہ وہ اپنی تمام مخلوقات سے بے نیاز ہے، اس نے بندوں کی بھلائی کے لیے ان کے حال پر رحم کرتے ہوئے، انہیں طاعت و بندگی کا حکم دیا ہے، اور کفر و شرک کی راہ چھوڑ کر توحید کی راہ پر گامزن ہونے کی دعوت دی ہے، اس لیے جو لوگ اس کی دعوت کو ٹھکرا دیں گے، اس کے قرآن اور اس کے رسول کی تکذیب کریں گے، اور اس کے سوا غیروں کی عبادت کریں گے، انہیں لازمی طور پر عذاب دیا جائے گا۔ جمہور مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد میدانِ بدر میں کفار مکہ کا قتل کیا جانا اور باقی ماندہ کا گرفتار کیا جانا ہے۔ بعض لوگوں نے اس سے قیامت کے دن کا عذاب مراد لیا ہے، یعنی ان کے لیے قیامت کے دن دائمی عذاب لکھ دیا گیا ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ دنیاوی اور اخروی دونوں عذاب مراد لینے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے الفرقان
0 نام : آیت 224 والشعراء یتبعہم الغاوون سے ماخوذ ہے۔ صاحب محاسن التنزیل نے مفسر مہایمی کے حوالے سے لکھا ہے کہ مذکورہ بالا آیت میں رسولوں اور شعراء کے درمیان فرق بیان کر کے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقام کو شاعروں سے ارفع و اعلی ثابت کیا گیا ہے، اسی مناسبت سے اس اس سورت کا نام الشعراء رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول آیات 224 سے لے کر 227 تک، اور آیت 197 کے علاوہ باقی پوری سورت مکی دور میں نازل ہوئی تھی، دانی کہتے ہیں، یہ روایت بسند صحیح ثابت ہے کہ زمانہ جاہلیت میں دو شاعروں نے ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کی، اور دونون کی تائید دو گروہ نے کی، تو شعراء والی آیت نازل ہوئی، اس روایت کے مطابق پوری سورت مکی ہے۔ الشعراء
1 1۔ بارہا لکھا جا چکا ہے کہ قرآنی سورتوں کی ابتدا میں جو حروف مقطعات آے ہیں، کا معنی و مفہوم اللہ کو ہی زیادہ بہتر معلوم ہے۔ آیت 2 میں قرآن کریم کی عظمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اسی لیے اشارہ قریب ھذہ کے بجائے اشارہ بعید تلک استعمال کیا گیا ہے، اور اس کتاب عظیم کی تعریف بیان کی گئی ہے کہ یہ حق و باطل، اور ہدایت و گمراہی کے درمیان امتیاز پیدا کرتی ہے۔ الشعراء
2 الشعراء
3 2۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نصیحت کی گئی ہے کہ اگر مشرکین مکہ آپ پر اور قرآن کریم پر ایمان نہیں لاتے ہیں، تو اس غم میں اپنے آپ کو ہلاک نہ کرلیجئے، آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے، اسے آپ نے انجام دے دیا، ہدایت دینا آپ کا کام نہیں ہے، اور اگر ہم چاہتے کہ انہیں ایمان لانے پر مجبور کردیں، تو ہمارے لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی، ہم آسمان سے کوئی ایسی نشانی بھیج دیتے جسے دیکھ کر وہ ایمان لانے پر مجبور ہوجاتے، جیسے کسی پہاڑ یا کسی بڑے ستارے، یا کسی فرشتہ کو ان کے سروں کے اوپر لے آتے، اور مارے خوف و دہشت کے ان کی گردنیں جھک جاتیں کہ کب ان کے سروں پر گر کر انہیں ہلاک کردے، اور اپنے آپ کو اس حال میں پا کر مجبوراً ایمان لے آتے، لیکن ایسا ایمان ان کے کسی کام کا نہیں ہوگا۔ الشعراء
4 الشعراء
5 3۔ کفار کہ کے کفر و عناد اور ان کے تکبر اور ہٹ دھرمی کو بیان کیا جا رہا ہے کہ قرآن کریم بدستور نازل ہوتا رہا، ایک آیت کے بعد دوسری آیت اور ایک سورت کے بعد دوسری سورت، لیکن وہ لوگ قرآن کریم اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب ہی کرتے رہے، ان کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ سورۃ الانبیاء آیت 3 میں بھی تقریباً انہی الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کی قرآن کریم سے نفرت اور دوری بیان کی ہے۔ آیت 6 میں ان کے اس کافرانہ رویہ پر دھمکی دی گئی ہے کہ چونکہ انہوں نے قرآن کو جھٹلا دیا ہے اس لیے ان پر وہ عذاب آ کر رہے گا جس کا مذاق اڑاتے تھے۔ الشعراء
6 الشعراء
7 4۔ اگر مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت تخلیق پر غور کرتے تو انہیں یقین ہوجاتا کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ مثال کے طور پر زمین اور اس میں پیدا ہونے والے پودوں کو لو، کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے انواع و اقسام کے بے شمار مفید پودے اور پھل پیدا کیے ہیں، جو اس کے کمال قدرت کی دلیل ہیں، لیکن ایمان باللہ و عظیم ترین نعمت ہے جس کی توفیق اللہ ان لوگوں کو نہیں دیتا جو اس کی نشانیوں میں غور نہیں کرتے ہیں، اور جو اپنے اختیار سے کفر کو ایمان پر ترجیح دیتے ہیں آیت 9 میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ آپ صبر و ثبات قدمی کے ساتھ اپنی ذمہ داری پوری کرتے رہئے اور حزن و ملال نہ کیجئے، اللہ ان کافروں سے انتقام لینے پر پوری طرح قادر ہے، کیونکہ وہ ہر چیز پر غالب ہے، اور وہ اپنے نیک بندوں پر بڑٓ مہربان ہے الشعراء
8 الشعراء
9 الشعراء
10 5۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی اور مشرکین مکہ کی تنبیہ کے لیے ساتھ انبیائے کرام اور ان کی قوموں کے واقعات بیان کیے جا رہے ہیں۔ یہ واقعات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے باعث تسلی یوں تھے کہ جس طرح قریش نے آپ کو جھٹلا دیا تھا، اسی طرح طرح گذشتہ قوموں نے بھی اپنے انبیاء کی تکذیب کی تھی، اور انہوں نے دعوت کی راہ میں تکلیفوں پر صبر کیا تھا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان ظالم قوموں کو ہلاک کردیا تھا، اور مشرکین کے لیے تنبیہ اس طور پر تھی کہ کہیں فرعونیوں اور دیگر کافر قوموں کی طرح تمہیں بھی ہلاک نہ کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ کے رب نے موسیٰ کو کوہ طور کے پاس آواز دی (جس کی تفصیل سورۃ طہ آیت (11) اور اس کے بعد والی آیتوں میں گذر چکی ہے) اور کہا کہ آپ ظالم قوم، قوم فرعون کے پاس جائیے اور ان سے کہئے، کیا انہیں اللہ کے عذاب کا خوف نہیں ہے کہ کفر و سرکشی پر اصرار کر رہے ہیں، اور بنی اسرائیل پر ظلم و ستم ڈھا رہے ہیں؟ تو موسیٰ نے اس عظیم ذمہ داری کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی ناتوانی کا اظہار کیا، اور اللہ سے دعا کی کہ میرے رب ! مجھے ڈر ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلا دیں گے جس کے نتیجے میں میں تنگ دل ہوجاؤں گا، اور میری زبان میں جو لکنت پائی جاتی ہے، اس کے سبب پیغام رسانی کی ذمہ داری نہیں پوری کرسکوں گا، اس لیے میرے رب ! تو جبریل کو میرے بھائی ہارون کے پاس وحی دے کر بھیج دے، تاکہ وہ بھی تیرا رسول ہوجائے اور میری مدد کرے۔ سورۃ طہ آیات 29، 30 میں آیا وجعل لی وزیرا من اھلی ھارون اخی۔ میرے ھرانے سے میرا ایک وزیر مقرر کردے، میرے بھائی ہارون کو مقرر کردے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب نبی بنائے گئے تو وہ شام میں اور ہارون مصر میں تھے الشعراء
11 الشعراء
12 الشعراء
13 الشعراء
14 6۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی کہا اے میرے رب ! میں قبطیوں کے حق میں ماضی میں ایک گناہ بھی کیا ہے یعنی جب میں مصر میں تھا تو غلطی سے ایک قطبی میرے ہاتھوں مارا گیا، تو مجھے ڈر ہے کہ وہ لوگ مجھے کہیں قتل نہ کردیں اور پیغام رسانی کا کام نہ کرسکوں۔ اللہ تعالیٰ نے کہا، ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ وہ لوگ آپ کو قتل کردیں۔ آپ دونوں ہمارے معجزات لے کر جائیے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ اور فرعون کو دعوت توحید دیتے وقت آپ دونوں کی اس سے جو بات ہوگی اسے ہم سنتے رہیں گے۔ سورۃ طہ آیت 46 میں آیا اننی معکما اسمع واری بے شک میں تم دونوں کے ساتھ ہوں، سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہوں۔ اور اس اسلوب کلام سے مقصود موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کی ہمت افزائی اور اللہ کی جانب سے انہیں یقین دہانی تھی کہ وہ ان دونوں کی حفاظت کرتا رہے گا۔ الشعراء
15 الشعراء
16 الشعراء
17 7۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آپ دونوں فرعون کے پاس جائیے، اس سے کہیے کہ ہم دونوں رب العالمین کے پیغبر ہیں، قرطبی نے لکھا ہے کہ دونوں فرعون سے ملنے کے لیے روانہ ہوگئے، لیکن ایک سال تک انہیں اس کے دربار تک رسائی کی اجازت نہیں ملی اللہ نے فرمایا آپ دوں اس سے یہ بھی کہئے کہ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ ملک شام جانے کی اجازت دے دو، مفسرین لکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل کا مصر میں قیام چار سو 400 سال تک تھا۔ فرعون اور فرعونیوں نے انہیں غلام بنا رکھا تھا۔ اور جب وہاں سے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ روانہ ہوئے تو ان کی تعداد چھ لاکھ تھی۔ الشعراء
18 8۔ جابر و متکبر اور اپنے آپ کو معبود سمجھنے والا فرعون یہ کب گوارہ کرسکتا تھا کہ اسی کے گھر میں پروردہ ایک معمولی اسرائیلی بچہ بڑا ہو کر اس کے بالمقابل کھڑا ہو، رسول ہونے کا دعوی کرے اور بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کرے، اسی لیے اس نے نہایت حقارت آمیز انداز میں کہا کہ کیا تو وہی نہیں ہے جو میرے گھر میں پلا بڑھا تھا، اور ایک مدت تک ہمارے ساتھ رہا تھا ہماری روٹی کھاتا رہا تھا، اور تو نے تو ہمارے دربار کے ایک آدمی کو بھی قتل کردیا تھا، حقیقت یہ ہے کہ تو بڑا احسان فراموش ہے الشعراء
19 الشعراء
20 9۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے جواب میں کہا، میں نہیں سمجھتا تھا کہ ٹھوکر لگانے یا گھونسہ مارنے سے وہ آدمی مر جائے گا، میرا مقصد قتل کرنا ہرگز نہ تھا۔ میں تمہارے علاقے سے بھاگ کر مدین چلا گیا، اس ڈر سے کہ کہیں تم لوگ مجھے قتل نہ کردو۔ سورۃ القصص آیت 20 میں آیا ہے کہ آل فرعون کے ہی ایک مرد مومن نے موسیٰ (علیہ السلام) کو خبر دی تھی کہ فرعون کے دربار میں ان کے قتل کی سازش ہو رہی ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ وہ یہاں سے نکل کر کہیں اور چلے جائیں۔ چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) وہاں سے نکل کر مدین چلے گئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا مجھے اللہ نے حکمت و نبوت سے نوازا ہے، اور اپنا رسول بنایا ہے، اور مجھ پر اپنے جس احسان کا تم ذکر کر رہے ہو تو وہ لائق ذکر نہیں ہے، اس لیے کہ تم نے تو میری پوری قوم یعنی بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا رکھا ہے، مجھے تو تم نے اس لیے چھوڑ دیا تھا کہ تم نے اپنے گمان کے مطابق مجھے اپنا بیٹا بنانا چاہتا تھا، یہ بھی تمہاری خود غرضی تھی۔ آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ جس احسان کا تم ذکر کر رہے ہو، اس کا محتاج میں اس لیے ہوگیا تھا کہ تم نے بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا رکھا ہے، ان دنوں تم ان کے لڑکوں کو قتل کردیتے تھے۔ اگر تم یہ ظلم نہ کرتے تو میری ماں مجھے دریائے نیل میں ڈال دینے پر مجبور نہ ہوتی اور میں تمہارے گھر نہیں پہنچتا، اور آج تہارے یہ طعنے نہ سننے پڑتے الشعراء
21 الشعراء
22 الشعراء
23 10۔ فرعون نے پوچھا وہ رب العالمین جس کے تم دونوں رسول ہونے کا دعوی کر رہے ہو، وہ کون ہے اور اس کی کیا حقیقت ہے؟ مفسرین لکھتے ہیں کہ فرعون کے اس اسلوب کلام سے غایت درجہ کا تکبر اور اللہ تعالیٰ کی شان میں حد درجہ گستاخی عیاں تھی موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ وہ رب العالمین وہی ہے جو آسمان اور زمین اور ان دونوں کے درمیان کی ہر چیز کا رب ہے اور اگر تم کسی چیز پر یقین کرنا جانتے ہو تو یہ بات بدرجہ اولی یقین کرنے کی ہے، اس لیے کہ اس کے دلائل آفتاب کی طرح روشن ہے فرعون، ان کا یہ جواب سن کر سرداران قوم اور ارکان حکومت کی طرف متوجہ ہوا، اور کبر و غرور کے ساتھ کہنے لگا کہ ذرا تم لوگ اس کی بات تو سنو، میں اس سے اس کے رب کی حقیقت پوچھ رہا ہوں، اور وہ اس کے افعال بتا رہا ہے، یعنی میرے علاوہ کوئی رب العالمین ہے ہی نہیں تو وہ کیسے اپنے کسی دوسرے رب کی حقیقت بتا سکتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ وہ جان بوجھ کر اپنے آپ کو اور اپنی پوری قوم کو دھوکہ دے رہا ہے، اور حقیقت کا اعتراف کرنے سے کترا رہا ہے، تو اس کی اور حاضرین مجلس کی مزید آنکھیں کھول دینے کے لیے انہوں نے کہا کہ وہی جو تمہارا رب ہے اور تمہارے گذشتہ آباء و جداد کا رب ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے صراحت کردی کہ اے فرعون ! تم رب العالمین کا ایک حقیر بندہ ہو، رب نہیں، اور اے فرعون کے ماننے والو, تم رب العالمین کو چھوڑ کر اس کے ایک حقیر بندہ یعنی فرعون کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ فرعون جب بالکل لاجواب ہوگیا، تو اپنی قوم کو مطمئن کرنے کے لیے کہنے لگا کہ موسیٰ پاگل ہوگیا ہے، اور اس کی بات پاگلوں کی بڑ ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا کہ رب العالمین وہ ہے جو مشرق و مغرب اور ان دونوں کے درمیان کی ہر چیز کا رب ہے، اور یہ بات اتنی واضح ہے کہ تھوڑی سی عقل والا آدمی بھی اسے سمجھتا ہے، یعنی اے فرعون ! صرف تمہاری عقل ماری گئی ہے کہ اتنا صاف ستھری بات تمہیں سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے مشرق و مغرب کا رب ہونے کی بات اس لیے کی تاکہ فرعون کے درماغ میں یہ بات آسکے کہ آفتاب کو مشرق سے نکالنے اور مغرب میں ڈبونے پر ان کا معبود فرعون قادر نہیں ہے، تو پھر وہ معبود کیسے ہوسکتا ہے؟ اور تاکہ فرعون کو بتا سکیں کہ تم تو صرف ایک ملک کے بادشاہ ہو، دوسرے ملکوں پر تمہارا کوئی اختیار نہیں ہے، اور رب العالمین تو وہ ہے جس کی بادشاہی مشرق سے لے کر مغرب تک سارے عالم پر ہے الشعراء
24 الشعراء
25 الشعراء
26 الشعراء
27 الشعراء
28 الشعراء
29 11۔ فرعون جب موسیٰ (علیہ السلام) کی اس معقول اور مدلل گفتگو سے بالکل لاجواب ہوگیا، اور اسے یقین ہوگیا کہ موسیٰ اپنی دعوت کو پھیلانے کے لیے عزم صادق کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، تو ڈرانے اور دھمکانے والا طریقہ اختیار کیا جو ہمیشہ ان متکبروں کا طریقہ رہا ہے جن کے پاس اپنے دعوی کی صداقت کے لیے دلائل نہیں ہوتے اس نے کہا کہ اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو اپنا معبود بنایا تو میں تمہیں جیل کی اندھیر کوٹھڑی میں ڈال دوں گا جہاں مر کر سڑ گل جاؤ گے۔ کہتے ہیں کہ فرعون کی جیل قتل سے بد تر تھے، جہاں ہر آدمی کو زمین کے نیچے ایک تنگ اور گہری کھائی میں ڈال کر چھوڑ دیا جاتا تھا یہاں تک کہ وہیں مرجاتا تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کا یہ جواب سن کر سمجھ لیا کہ فرعون ان کے دلائل کے سامنے بالکل لا جواب ہوگیا ہے، اور اس میں ایک گونہ کمزوری آگئی ہے، اسی لیے انہوں نے نرم اسلوب کلام اختیار کرتے ہوئے کہا کہ کیا میں تمہارے سامنے اللہ تعالیٰ کا معجزہ پیش کروں جو ثابت کردے گا کہ میں اپنے دعوی میں صادق ہوں؟ تو فرعون نے کہا ہاں، اگر سچے ہو تو پیش کرو۔ الشعراء
30 الشعراء
31 الشعراء
32 12۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دی، تو ایک سچ مچ کا سانپ بن کر دوڑنے لگی، کہتے ہیں کہ وہ سانپ کچھ دیر کے بعد فرعون کی طرف بڑھنے لگا، تو اس نے ڈر کے مارے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ تمہارے اس رب کی قسم جس نے تمہیں بھیجا ہے، اسے پکڑ لو، موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے پکڑ لیا، تو وہ لاٹھی بن گیا، اور انہوں نے اپنے گریبان سے اپنا ہاتھ نکالا، تو وہ بغیر برص کی بیماری کے خوبصورت چمکتا ہوا نظر آنے لگا الشعراء
33 الشعراء
34 13 فرعون دونوں نشانی دیکھ کر تاڑ گیا کہ یہ کوئی مافوق العادۃ چیز ہے، لیکن اس نے اپنے ارد گرد فرعونیوں کو دھوکہ میں ڈالنے کے لیے کہا کہ یہ تو کوئی بہت بڑا جادوگر ہے، اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہاری سرزمین پر قابض ہوجائے اور تمہیں اس سے بے دخل کردے، اس نے یہ بات موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف ان کے دلوں میں نفرت پھیلانے کے لیے کہی، تاکہ لوگ ان کی بات نہ مانیں، فرعون نے کہا کہ اس کے بارے میں تم لوگوں کی کیا رائے ہے؟ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ وہی فرعون تھا جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا، اور اب جبکہ اس کی ربوبیت زوال پذیر تھی، اور اس کی قسمت کا ستارہ گردش میں تھا، تو وہ لوگوں کی تائید حاصل کرنے اور انہیں اپنی طرف مائل کرنے کے لیے، انہیں احساس دلا رہا تھا کہ وہ لوگ اس لائق ہیں کہ ان سے مشورہ کیا جائے فرعونیوں نے اس سے کہا کہ آپ ان دونوں بھائیوں کے بارے میں فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کیجئے، اور اپنا آرڈر دے دیجئے کہ ملک کے تمام ماہر جادوگروں کو اکٹھا کیا جائے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، اور اس کے حکم کے مطابق فرعونیوں کی عید کے دن صبح کے وقت سارے جادوگر جمع ہوگئے، اور تمام لوگوں کو وقت پر جمع ہوجانے کی خوب ترغیب دلائی گئی، تاکہ موسیٰ اور جادوگروں کا مقابلہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں، اور موسیٰ کی شکست کا نظارہ کریں اور اس پر ایمان نہ لے آئیں۔ لیکن ان کے اس جد و جہد سے موسیٰ (علیہ السلام) کی خواہش پوری ہوئی کہ جب اللہ کا معجزہ ظاہر و تو سب لوگ اسے دیکھیں، تاکہ حق و باطل ان کی آنکھوں کے سامنے عیاں ہوجائے۔ الشعراء
35 الشعراء
36 الشعراء
37 الشعراء
38 الشعراء
39 الشعراء
40 الشعراء
41 14۔ جب تمام جادوگر مقابلے کے میدان میں اکٹھا ہوگئے، تو انہوں نے فرعون کو اپنی حیثیت کا احساس دلانے اور موقع سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے، اس سے پوچھا کہ اگر ہم موسیٰ پر غالب آگئے تو کیا ہمیں داد و دہش سے نوازا جائے گا؟ تو فرعون نے جواب دیا کہ تمہیں تمہاری اجرت ملے گی، اور مزید برآں تمہیں دربار کے خاص لوگوں میں شامل کرلیا جائے گا۔ الشعراء
42 الشعراء
43 15۔ جادوگروں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا کہ پہلے تم اپنی جادو گری کا مظاہرہ کرو گے، یا ہم لوگ کریں ؟ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ پہلے تم ہی لوگ جو کرنا چاہتے ہو کرو، تو جادوگروں نے اپنی رسیاں اور اپنی لاٹھیاں میدان میں ڈال دیں، اور ڈالتے وقت فرعون کی عزت کی قسم کھا کر کہا کہ یقیناً میدان ہمارے ہاتھ رہے گا، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے پورا میدان سانپوں سے بھر گیا، اور موسیٰ (علیہ السلام) یہ خوفناک منظر دیکھ کر دل میں ڈر گئے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بذریعہ وحی حکم دیا کہ آپ اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دیجئے، لاٹھی کا زمین پر ڈالنا تھا کہ وہ ایک ہیبت ناک سانپ بن کر جادوگروں کے تمام جھوٹے سانپوں کو نگل گئی۔ الشعراء
44 الشعراء
45 الشعراء
46 16۔ جادوگر یہ منظر دیکھ کر فوراً ایمان لے آئے اور سجدے میں گر گئے، انہیں یقین ہوگیا کہ یہ کوئی جادو نہیں، بلکہ اللہ کا عطا کیا ہوا معجزہ ہے، اور موسیٰ جادوگر نہیں، بلکہ اللہ کے رسول ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ وہاں جو کچھ واقع ہوا، وہ اس بات کی دلیل تھی کہ جادو سے چیزوں کی حقیقت نہیں بدل جاتی، بلکہ آنکھوں کے سامنے ایک خیالی چیز پیش کی جاتی ہے۔ نیز یہ کہ ہر فن میں مہارت تامہ مفید ہے، جیسا کہ ان جادوگروں نے فن سحر میں مہارت رکھنے کی وجہ سے فوراً سجھ لیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے جو کچھ پیش کیا ہے وہ جادو نہیں بلکہ معجزہ ہے، جادوگروں نے کہا ہم رب العالمین پر ایمان لے آئے ہیں، جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے فرعون جادوگروں کے یکایک ایمان لے آنے سے ڈر گیا کہ کہیں پوری قوم نہ ایمان لے آئے، اور وہ تنہا رہ جائے، اس لیے اس نے دھمکی دیتے ہوئے جادوگروں سے کہا کہ تم لوگ میری اجازت کے بغیر موسیٰ پر ایمان لے آئے ہو، اب مجھے معلوم ہوا کہ موسیٰ ہی وہ بڑا جادوگر ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں فرعون اگرچہ کسی ایسی بات کا اعتراف نہیں کرنا چاہتا تھا جس سے موسیٰ کی بڑائی ثابت ہو، لیکن یہاں اس کا مقصد عام لوگوں کو یہ باور کرانا تھا کہ موسیٰ بھی ایک جادوگر ہے، اور اسی نے دوسروں کو جادو کی تعلیم دی ہے، یعنی یہ کوئی معجزہ نہیں ہے جو موسیٰ کے رب نے اسے عطا کیا ہے۔ فرعون نے کہا، تمہیں عنقریب اپنے کیے کا انجام معلوم ہوجائے گا، میں تم میں سے ہر ایک کا ایک ہاتھ اور دوسری جانب کا ایک پاؤں کاٹ دوں گا اور کھجور کے درختوں پر سولی دے کر لٹکا دوں گا۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ فرعون نے ان مسلمانوں کو سولی دے دی تھی، اور بعض کہتے ہیں کہ اس نے ایسا نہیں کیا تھا، اور قرآن میں کوئی ایسی آیت نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ اس نے اپنے کہے پر عمل کیا تھا مسلمان جادوگروں نے اس کے جواب میں کہا کہ دنیاوی سزا سے ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوگا، بلکہ اگر ہم قتل کردئیے جائیں گے تو اپنے رب کے پاس اجر عظیم لے کر جائیں گے، ہمیں امید ہے کہ ہمارا رب ہمارے کفر اور جادوگری کے گناہ کو اس وجہ سے معاف کردے گا کہ حق واضح ہوجانے کے بعد ہم لوگ پوری قوم سے پہلے ایمان لے آئے ہیں۔ الشعراء
47 الشعراء
48 الشعراء
49 الشعراء
50 الشعراء
51 الشعراء
52 17۔ اس عظیم کامیابی کے کئی سال بعد اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو لے کر رات کے وقت خشکی کے بجائے سمندر کی طرف چل پڑیں، اور انہیں بتا دیا کہ فرعون اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ آپ کا پیچھا کرے گا، لیکن آپ بڑھتے چلے جائیے گا وہ لوگ آپ لوگوں کو نہیں پکڑ سکٰں گے، فرعون کو جب خبر ہوئی تو اس نے اپنی فوجوں کو اکٹھا کرنے کا حکم دے دیا، اور بنی اسرائیل کو ان کی نگاہوں میں کمزور ظاہر کرنے کے لیے کہا کہ ان کی تعداد ہی کیا ہے، ان کی حرکتوں نے ہمیں ناراض کردیا ہے۔ واحدی کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کی تعداد چھ لاکھ تھی، اور ابن عباس (رض) کے قول کے مطابق فرعونیوں کی تعداد شمار میں نہیں آتی تھی، اور ابن مسعود (رض) کے قول کے مطابق ان کی تعداد چھ لاکھ ستر ہزار تھی، اور ان کا مقدمۃ الجیش ساتھ لاکھ پر مشتمل تھا۔ الشعراء
53 الشعراء
54 الشعراء
55 الشعراء
56 الشعراء
57 18۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے انہیں کشاں کشاں سرزمین مصر، اس کے باغات، نہروں، خزا نوں اور عیش کی جگہوں سے دور کر کے موسیٰ کے پیچھے لگا دیا، اور اس طرح ہم نے انہیں ان کے گھروں اور املاک اور جائدادوں سے الگ کردیا، اور بنی اسائیل کو ان تمام چیزوں کا وارث بنا دیا، حسن بصری کہتے ہیں کہ فرعونیوں کے غرق ہوجانے کے بعد بنی اسرائیل واپس آئے اور مصر کے مالک بن گئے، بعض کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل واپس نہیں آئے، اور یہاں وراثت سے مراد فرعونیوں کے زیورات ہیں جو بنی اسرائیل نے اللہ کے حکم سے ان سے ادھا رلیا تھا الشعراء
58 الشعراء
59 الشعراء
60 19۔ فرعون اور اس کی فوج کے لوگ طلوع آفتاب کے وقت، موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے قریب پہنچ گئے، جب دونوں گروہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوئے، تو موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ مارے ڈر کے کہنے لگے کہ اب تو ہم پکڑ لیے گئے، تو انہوں نے پورے ایمان ویقین کے ساتھ کہا کہ ہرگز نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا، میرا رب میرے ساتھ ہے، اور وہ راہ نجات کی طرف میری ضرور رہنمائی کرے گا۔ الشعراء
61 الشعراء
62 الشعراء
63 20۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو بذریعہ وحی حکم دیا کہ آپ اپنی لاٹھی سمندر کے پانی پر مارئیے، انہوں نے ایسا ہی کیا، اور آل یعقوب کے بارہ گروہوں کے لیے سمندر میں بارہ راستے بن گئے، اور پانی اونچے پہاڑ کی طرح دونوں کناروں پر کھڑا ہوگیا، اور اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ فرعون اور اس کی فوجوں کو سمندر کے قریب لاتا گیا، اور موسیٰ اور ان کے ساتھ سمندر میں بنے راستوں سے گذر کر دوسری طرف چلے گئے، فرعون نے بھی اپنی فوج کے ساتھ انہی راستوں سے گذرنا چاہا، اور جب وہ بیچ سمندر میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کی طرح کھڑے پانی کو ان پر لوٹا دیا، اور سب کے سب ڈوب گئے۔ آیت 67 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ موسیٰ اور فرعون کا یہ واقعہ بہت ہی عبرت انگیز ہے، اور اللہ کی عظیم قدرت کی دلیل ہے، نیز فرمایا کہ فرعونیوں میں سے صرف چند ہی ایمان لائے، جیسے حزقیل اور ان کی ایک بیٹی، فرعون کی بیوی آسیہ اور دیگر چند افراد، باقی سب فرعون ہی کی پیروی کرتے رہے، یہاں تک کہ غرقاب ہوگئے آیت 68 میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ کا رب ہر حال میں غالب ہے اور اپنے دشمنوں سے ضرور انتقام لیتا ہے، اور اپنے نیک بندوں پر رحم کرتا ہے اور انہیں تکلیف و مصیبت سے نجات دیتا ہے۔ الشعراء
64 الشعراء
65 الشعراء
66 الشعراء
67 الشعراء
68 الشعراء
69 21۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد اب ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا واقعہ پیش کیا جا رہا ہے، تاکہ قریش ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوتی زندگی کے حالات سن کر نصیحت حاصل کریں، اسلام لے آئیں، اور دنیا و آخرت کی رسوائی سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ مشرکین قریش کو ابراہیم کی داستان توحید سنا دیجئے، جب انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے پوچھا کہ تم لوگ کس چیز کی عبادت کرتے ہو؟ ابراہیم جانتے تھے کہ وہ لوگ بتوں کی پرستش کرتے ہیں، لیکن ان کا مقصد ان کے جواب سے یہ ثابت کرنا تھا کہ یہ بت اس لائق نہیں ہیں کہ ان کی عبادت کی جائے، ابراہیم کے باپ آزر اور ان کی قوم کے دیگر افراد نے فخر کے طور پر کہا کہ ہم بتوں کی پرستش کرتے ہیں، اور دن بھر ان کی عبادت میں لگے ہتے ہیں، یعنی رات کے وقت ستاروں کی، اور دن میں انہیں ستارون کے مجسموں کی پرستش کرتے ہیں۔ الشعراء
70 الشعراء
71 الشعراء
72 22۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے پوچھا کہ جب تم لوگ ان بتوں کو پکارتے ہو تو کیا یہ سنتے ہیں، یا تمہیں نفع پہنچا سکتے ہیں، یا اگر تم ان کی عبادت کرنی چھوڑ دو تو کیا یہ تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں اس سوال کا مقصد ان کے دین کا فساد ثابت کرنا تھا، اس لیے کہ اس کا جواب ان کے پاس اس کے سوا کچھ بھی نہیں تھا کہ واقعی یہ بت نہ ہماری پکار کا جواب دیتے ہیں اور نہ ہمیں نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان تو گویا ان کی عبادت لہو ولعب اور حماقت کے سوا کچھ بھی نہ تھی۔ اسی لیے مشرکین نے اپنے کفر و شرک پر اصرار کرتے ہوئے یہ جواب دیا کہ ہمارے باپ دادے ایسا ہی کرتے آئے ہیں، اس لیے ہم بھی ایسا ہی کریں گے اور اس پر سختی سے قائم رہیں گے۔ خازن نے آیت 74 کی تفسیر کے ضمن میں لکھا ہے کہ یہ آیت کریمہ دینی امور میں تقلید کے باطل ہونے پر دلالت کرتی ہے، اور صرف دلائل سے ثابت شدہ احکام کو قبول کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ الشعراء
73 الشعراء
74 الشعراء
75 23۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا تو پھر تم سب جان لو کہ جن بتوں کی تم اور تمہارے آباء و اجداد پرستش کرتے رہے ہیں، مجھے ان سب سے دشمنی ہے، سوائے رب العالمین کے جو دنیا و آخرت میں میرا آقا و مولی ہے۔ اس لیے میں صرف اسی کی عبادت کرتا ہوں۔ ابراہیم (علیہ السلام) یہ کہنا چاہتے تھے کہ یہ بت تمہارے دشمن ہیں، لیکن انہیں اپنا دشمن بتایا یعنی جس طرح یہ میرے دشمن ہیں تمہارے بھی دشمن ہیں، تاکہ مخاطب ان کی نصیحت کو بطیب خاطر قبول کرلے۔ الشعراء
76 الشعراء
77 الشعراء
78 24۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا، میں صرف اس رب العالمین کی عبادت کرتا ہوں جس نے مجھے پیدا کیا ہے، اور جو دین و دنیا کی ہر بھلائی کی طرف میری رہنمائی کرتا ہے، اور جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے، یعنی اس نے مجھے روزی دینے کے لیے تمام آسانی اور زمینی اسباب مہیا کیے، بادل بھیجا، پانی برسایا، زمین کو زندگی دی اور انواع وا قسام کے پھل اور غذائی مادے پیدا کیے، اور پانی کو صاف شفاف اور میٹھا بنایا جسے جانور اور انسان سبھی پیتے ہیں اور جب میں بیمار ہوتا ہوں، تو مجھ شفا دینے پر اس کے سوا کوئی قادر نہیں ہوتا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ادب کے طور پر بیماری کو اپنی طرف اور شفا کو اللہ کی طرف منسوب کیا، ورنہ معلوم ہے کہ بیماری اور شفا دونوں ہی اللہ کی جانب سے ہوتی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔ اس رب العالمین کی صفت یہ بھی ہے کہ وہی تمام انسانوں کو موت دیتا ہے، اور قرب قیامت کے وقت وہ سب کو دوبارہ زندہ کرے گا، اور اسی سے امید کی جاتی ہے کہ قیامت کے دن وہ میرے گناہوں کو معاف کردے گا مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت 82 میں خطیئۃ سے مراد وہ تین باتیں ہیں جنہیں ابراہیم (علیہ السلام) گناہ سمجھتے تھے، اور جنہیں یاد کر کے قیامت کے دن لوگوں کے لیے شفاعت کرنے سے گریز کریں گے۔ پہلی بات، بتوں کو تورنے کے بعد ان کا یہ کہنا کہ یہ کام سب سے بڑے بت نے کیا ہے۔ دوسری بات، ان کا یہ کہنا کہ میں بیاری ہوں، تاکہ اپنی قوم کے ساتھ عید کے کھیل کود میں شریک نہ ہوں، اور ان کے چلے جانے کے بعد بتوں کا صفایا کردیں۔ اور تیسری بات، ظالم بادشاہ کے سامنے سارہ کو اپنی بہن بتانا ہے، تاکہ وہ زبردستی انہیں اپنے پاس نہ رکھ لے۔ الشعراء
79 الشعراء
80 الشعراء
81 الشعراء
82 الشعراء
83 25۔ ابراہیم (علیہ السلام) جب اپنے رب کی تعریف، اس کی حمد و ثنا اور اس کی گوناگوں نعمتوں کو بیان کرچکے، تو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھا دئیے، اور نہایت عجز و انکساری کے ساتھ کہا، میرے رب ! مجھے علم و فہم میں کمال عطا فرمایا، اور انبیاء کی طرح عمل صالح کی توفیق دے، اور جنت میں ان کا مجھے ساتھی بنا، اور دوسروں کے لیے جھے خیر کا نمونہ بنا، اور آئندہ آنے والی نسلوں میں میرا ذکر خیر باقی رکھ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی، جس کے نتیجے میں تمام ادیان والے ان سے محبت کرتے ہیں، اور ان کی تعریف بیان کرتے ہیں۔ امام مالک نے اس آیت سے اور اسی جیسی دیگر آیتوں سے استدلال کیا ہے کہ اگر عمل صالح سے انسان کی نیت اللہ کی رضا حاصل کرنی ہو اور یہ بھی چاہے کہ دنیا والے اسے اچھا کہیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی دعا میں یہ بھی کہا، میرے رب ! مجھے بے شمار نعمتوں والی جنت کا وارث بنا۔ یعنی ان میں سے بنا جنہیں تو بغیر محنت و مشقت کیے جنت عطا فرمائے گا، جیسے انسان کو وراثت بغیر محنت کیے حاصل ہوتی ہے اور میرے رب ! میرے باپ کی مغفرت فرما دے، اس لیے کہ اس نے جہالت و نادانی کی وجہ سے تیرے ساتھ غیروں کو شریک بنایا ہے۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے لیے یہ دعا، اور سورۃ ابراہیم آیت 41 میں مذکور دعا، اس وقت کی تھی جب انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے، جیسا کہ سورۃ التوبہ آیت 114 میں گذر چکا ہے۔ ابراہیم نے اپنی دعا میں یہ بھی کہا کہ میرے رب ! جس دن لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے، اس دن لوگوں کے سامنے مجھے رسوا نہ کرنا، یا قیامت کے دن مجھے عذاب نہ دینا، جس دن نہ مال کام آئے گا اور نہ اولاد، صرف وہ آدمی جہنم کے عذاب سے بچ سکے گا جس کا دل دنیا میں کفر و شرک، نفاق اور دیگر مذموم اخلاق و عادات سے محفوظ ہوگا، ایسے ہی آدمی کا نیک عمل قیامت کے دن اس کے کام آئے گا۔ الشعراء
84 الشعراء
85 الشعراء
86 الشعراء
87 الشعراء
88 الشعراء
89 الشعراء
90 26۔ قیامت کے دن جنت نیک بختوں کے قریب کردی جائے گی جسے دیکھ کر وہ خوش ہوں گے، اور جہنم بدبختوں کے سامنے کردی جائے گی، جسے دیکھ کر غم و حسرت سے ان کے دل پارہ پارہ ہوں گے، اور جہنمیوں سے کہا جائے گا کہ جن معبودوں کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے تھے وہ کہاں چلے گئے، انہیں ہمارے سامنے لاؤ، کیا آج وہ تم سے یا اپنے آپ سے عذاب کو ٹال سکیں گے، یہاں معبود سے شیاطین اور جن و انس کے وہ مجرمین مراد ہیں جو دنیا میں اپنے لیے شرک کو گوارہ کرتے تھے۔ آیت 94، 95 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہیں اور ان کی عبادت کرنے والے گمراہوں کو منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا، جس میں لڑھکتے ہوئے اس کی آخری کھائی تک پہنچ جائیں گے، اور ان کے ساتھ ابلیس کے ان پیروکاروں اور مددگاروں کو بھی اس میں ڈال دیا جائے گا جو لوگوں کو شرک و معاصی اور زمین فساد اور ارتکاب جرائم پر ابھارتے تھے۔ الشعراء
91 الشعراء
92 الشعراء
93 الشعراء
94 الشعراء
95 الشعراء
96 27۔ مشرکین اپنے معبودوں کے ساتھ جہنم میں جھگڑیں گے، اور کہیں گے، اللہ کی قسم ! ہم جو تمہیں رب العالمین کے برابر سمجھتے تھے، اور تمہاری عبادت کرتے تھے، تو ہم کھلی گمراہی میں تھے، اور ہماری گمراہی کے ذمہ دار تم ہی مجرمین ہو، تم نے ہی ہمیں شرک و کفر اور گمراہی و سرکشی پر ابھارا، خود بھی ڈوبے اور ہمیں بھی لے ڈوبے۔ سورۃ الاحزاب آیت 67 میں اللہ تعالیٰ نے اہل شرک جہنمیوں کا قول نقل کیا ہے۔ وقالوا ربنا انا اطعنا سادتنا وکبراءنا فاضلوانا السبیلا، اے ہمارے رب ! ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی بات مانی جنہوں نے ہمیں راہ راست سے بھٹکا دیا۔ دنیا میں جنہیں ہم اپنا سفارشی اور مخلص دوست سمجھتے تھے، آج وہ سب کے سب غائب ہیں۔ مشرکین اپنے بتوں کے بارے میں اعتقاد رکھتے تھے کہ وہ اللہ کے دربار میں ان کے سفارشی بنیں گے، اور انسانوں کے کچھ شیاطین دنیا میں ان کے بڑے پکے دوست تھے۔ میدانِ محشر میں کوئی بھی ان کے کام نہیں آئے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الزخرف آیت 67 میں فرمایا ہے، الاخلاء یومئذ بعضہم لبعض عدو الا المتقین، اس دن گہرے دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے، سوائے پرہیز گاروں کے۔ الشعراء
97 الشعراء
98 الشعراء
99 الشعراء
100 الشعراء
101 الشعراء
102 28۔ مشرکین جہنم میں غایت حزن و ملال کے ساتھ کہیں گے، اے کاش ! ہم دوبارہ دنیا میں لوٹا دئیے جاتے تو اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آتے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناتے، اور رسول کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے، لیکن ان کی یہ ایسی تمنا ہوگی جو کبھی پوری نہ ہوگی۔ الشعراء
103 29۔ ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا جو واقعہ ابھی بیان کیا گیا ہے، اس میں صاحب بصیرت انسان کے لیے بڑی عبرت کی باتیں ہیں، انہوں نے کس خوش اسلوبی کے ساتھ لوگوں کے سامنے اپنی دعوت پیش کی، کس قدر تحمل و برباری سے کام لیا، اور مسئلہ توحید باری تعالیٰ کی کیسی عمدہ وضاحت کی، یہ اور ان کے علاوہ بہت سی مفید نصیحتیں اس واقعے سے حاصل ہوتی ہیں، لیکن دعوت ابراہیمی کی ان تمام خوبیوں کے باوجود، ان کی قوم کے بہت ہی کم لوگ ایمان لائے تھے۔ آیت 104 میں اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ کا رب ہر حال میں غالب ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جیسا چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے، اور اس کے بندے اگر اس کی طرف رجوع کریں اور اس کی عبادت میں مخلص ہوں، تو وہ نہایت مہربان ہے، انہیں بے شمار نعمتوں والی جنت میں داخل کرے گا۔ الشعراء
104 الشعراء
105 30۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد، اب نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے، تاکہ قریش اس سے نصیحت حاصل کریں، ایمان لے آئیں، اور دنیا و آخرت کی رسوائی سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نوح کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا، اس لیے کہ تمام انبیاء و رسل کی دعوت ایک تھی، سب نے شرک کی نفی کی، اور لوگوں کو توحید باری تعالیٰ کی طرف بلایا، اس لیے جس نے ایک نبی کو جھٹلایا اس نے گویا تمام انبیاء کو جھٹلا دیا، نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا، کیا تمہیں اللہ کا ڈر نہیں لگتا ہے کہ بتوں کی پرستش کرتے ہو، اور اس کے رسول کو جھٹلاتے ہو؟ اللہ نے مجھے تمہارے لیے پیغامبر بنا کر بھیجا ہے، اور جو کچھ مجھے بذریعہ وحی بتایا جاتا ہے، پوری امانت کے ساتھ تم تک پہنچاتا ہوں، اس لیے اللہ کے عقاب سے ڈرو، کفر کی راہ نہ اختیار کرو، میری تکذیب نہ کرو، جن باتوں کا میں تمہیں حکم دیتا ہوں ان پر عمل کرو، اللہ پر ایمان لے آؤ، شرک کرنا چھوڑ دو، اور اللہ کے نازل کردہ دین کے مطابق زندگی گذارو، اور میں جو تمہیں اللہ کے دین کی تبلیغ کرتا ہوں تو اس کی میں تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا ہوں۔ میں اپنے اجر و ثواب کی امید رب العالمین سے رکھتا ہوں، اس لیے اللہ کے عقاب سے ڈرو، اور میری بات مانو۔ الشعراء
106 الشعراء
107 الشعراء
108 الشعراء
109 الشعراء
110 الشعراء
111 31۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم نے ان کے اس دعوتی خطبے کا یہ جواب دیا کہ ہم تم پر کیسے ایمان لے آئیں؟ اور کیسے تمہاری پیروی کریں اور حالت یہ ہے کہ تمہاری پیروی صرف گرے پڑے لوگ کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک عزت و شرف کا معیار مال و جاہ تھا، نہ کہ بلند کردار اور اعلی اخلاق ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ مال و دولت والے دنیا داروں نے اللہ کے دین اور بلند اخلاق و کردار کی پرواہ نہ کی، اور غریبوں اور کمزوروں کو گھٹیا اور رذیل سمجھا، اور انہی کمزوروں نے آگے بڑھ کر اللہ کے دن کو گلے سے لگایا، اور اونچے کردار اور اچھے اخلاق کو مال و دولت پر ترجیح دی۔ تاریخ شاہد ہے کہ انبیاء کی پیروی کرنے والے زیادہ تر غریب اور کمزور لوگ ہوتے تھے اور دولت مند لوگ اپنے کبر و غرور کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے تھے، اور کہتے تھے کہ جس دین کی اتباع حقیر و فقیر لوگ کر رہے ہیں، وہ سچا اور برحق کیسے ہوسکتا ہے؟ نوح (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ مجھے لوگوں کے اعمال کو جاننے کا پابند نہیں بنایا گیا ہے کہ کون کیا کرتا ہے، کون مالدار ہے اور کون فقیر، اور کس کے دل میں کیا ہے، ان باتوں کا علم اللہ کو ہے، اور وہی اپنے بندوں کا حساب لے گا، مجھے تو صرف یہ حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں کو بغیر کسی امتیاز کے اللہ کے دین کی طرف بلاؤں۔ اے میری قوم کو لوگو ! اگر تمہیں ان باتوں کا شعور ہوتا تو تم لوگوں کی صنعت و حرفت اور ان کی مالداری اور غریبی کو حق و باطل کے درمیان امتیاز کا معیار نہ سمجھتے۔ اور میں تمہاری یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہوں کہ غریب مسلمان کو اپنے پاس سے بھگا دوں، میں تو تمہیں اللہ کے عذاب سے صرف کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں۔ الشعراء
112 الشعراء
113 الشعراء
114 الشعراء
115 الشعراء
116 32۔ جیسا کہ ہمیشہ سے کافر و مشرک قوموں کا شیوہ رہا ہے کہ جب انہیں اپنے دعوی کی صداقت کے لیے کوئی دلیل و حجت نہیں ملی تو متکبرانہ انداز گفتگو اور دھمکی پر تل گئے۔ انہوں نے کہا اے نوح ! اگر تم نے ہمارے دین کی عیب جوئی کی اور ہمارے معبودوں کو برا کہنا بند نہیں کیا، تو ہم تمہیں پتھر سے مار کر ہلاک کردیں گے۔ الشعراء
117 33۔ نوح (علیہ السلام) نو سو پچاس سال تک اپنی قوم کو دعوت توحید دیتے رہے، لیکن ظالم قوم اپنے کفر و شرک پر مصر رہی، تو بالآخر انہوں نے اپنے رب سے مناجات کرتے ہوئے کہا کہ میرے رب ! میری قوم نے مجھے یکسر جھٹلا دیا ہے، اب ان کی اصلاح کی کوئی امید باقی نہیں ہے، اس لیے میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کردے، اور مجھے اور میرے اہل ایمان ساتھیوں کو اس عذاب سے بچا لے جس کے ذریعہ تو ظالموں کو ہلاک کرے گا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ ان مومنوں کی تعداد اسی تھی۔ چالیس مرد اور چالیس عورتیں تھیں۔ الشعراء
118 الشعراء
119 34۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا سن لی۔ انہیں اور ان لوگوں کو نجات دے دی جو کشتی میں سوار ہوگئے تھے، اور باقی تمام لوگوں کو ہلاک کردیا، نوح اور ان کی قوم کے اس واقعہ سے بہت سی نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں، جن سے قوم نوح نے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا، اسی لیے ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لائے۔ آیت 122 میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ آپ کا رب ہر حال میں غالب ہے، وہ اپنے دشمنوں سے ضرور انتقام لیتا ہے اور اپنے نیک بندوں پر مہربان ہوتا ہے، اسی لیے انہیں عذاب نہیں دیتا ہے الشعراء
120 الشعراء
121 الشعراء
122 الشعراء
123 35۔ نوح (علیہ السلام) کے بعد، اب ہود (علیہ السلام) اور ان کی قوم، قوم عاد کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے، اس لیے کہ اس میں قریش کے لیے درس عبرت ہے، یہ واقعہ سورۃ الاعراف میں گذر چکا ہے اور وہاں بتایا جا چکا ہے کہ قبیلہ عاد کے لوگ عمان اور حضرت موت کے درمیان ریتیلے پہاڑوں کے دامن میں سکونت پذیر تھے، یہ علاقہ احقاف کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کا زمانہ قوم نوح کے بعد کا تھا۔ اللہ نے انہیں بڑا قوی، تنو مند اور ڈیل ڈول والا بنایا تھا، اور وہ لوگ بہت ہی سخت گیر قسم کے لوگ تھے۔ یہ علاقہ بڑا ہرا بھرا تھا، ہر قسم کے باغات پائے جاتے تھے، اور ان کی زمینوں کے درمیان نہریں جاری تھیں، گویا ہر طرح سے بھرے پڑے تھے، لیکن اللہ کے ناشکر گذار بندے تھے اور بتوں کی پرستش کرتے تھے۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر رحم کرتے ہوئے انہی میں سے ہود (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجا، جنہوں نے چار سو چونسٹھ سال کی عمر پائی تھی۔ وہ ایک طویل مدت تک قوم عاد کو ایمان کی دعوت دیتے رہے، لیکن وہ لوگ اپنے کفر و سرکشی پر اڑے رہے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کردیا۔ اسی واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے یہاں مجمل طور پر بیان کیا ہے کہ قوم عاد نے ہود (علیہ السلام) کی تکذیب کر کے گویا تمام انبیاء کی تکذیب کردی، اس لیے کہ سب کی دعوت ایک تھی۔ ان کے بھائی ہود نے ان سے کہا کہ کیا تمہیں اللہ کے عقاب کا ڈر نہیں لگتا ہے کہ اس کے غیروں کو شریک بناتے ہو، اور دیگر معاصی کا ارتکاب کرتے ہو؟ مجھے اللہ نے تمہارے پاس اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے تاکہ اس کا دین تم کو پہنچا دوں، اور میں اس بارے میں پورے طور پر امانت دار ہوں، اپنی طرف سے کچھ گھٹاتا بڑھاتا نہیں ہوں۔ اس لیے اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو، اور دیکھو، میں تبلیغ و دعوت کے کام کا تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا ہوں، مجھے اپنے اجر و ثواب کی امید رب العالمین سے ہے، اس لیے کہ اسی نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے، اور اسی نے مجھے یہ ذمہ داری سونپی ہے۔ ہود (علیہ السلام) نے تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا، تم آخرت سے کتنے غافل اور دنیا میں کس قدر منہمک ہوگئے ہو کہ آپس میں فخر و مباہات اور محض لہو ولعب کی نیت سے اونچی جگہوں پر اونچے اونچے مکانات اور محلات تعمیر کرتے ہو، اور وقت، قوت، جسمانی، اور اپنی دولت کا زیاں کرتے ہو، اور تمہاری کوتاہ بینی کا یہ حال ہے کہ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہو، جبھی تو اونچے اونچے مکانات و محلات بناتے ہو اور تمہاری کوتاہ بینی کا یہ حال ہے کہ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہو، جبھی تو اونچے اونچے مکانات و محلات بناتے ہو اور دل میں ہمیشگی کی زندگی کی امدی لگائے بیٹھے ہو، اور فکر آخرت اور اپنے انجام سے بالکل غافل ہو۔ اور تمہارے دل کی سختی کا یہ عالم ہے کہ دوسروں پر بے رحم ظالموں اور جابروں کی طرح چڑھ بیٹھتے ہو، کمزوروں اور ناتوانوں پر تمہیں رحم کرنا نہیں آتا ہے۔ اس لیے اگر تم دنیا و آخرت کی بھلائی چاہتے ہو تو ان قبیح اور برے اوساف سے اپنے آپ کو پاک کرو، ظلم و بربریت، تمرد و سرکشی اور کبر و غرور سے تائب ہوجاؤ، اللہ کی گرفت سے ڈرو، اور میری بات مانو، اس اللہ سے ڈرو، جس نے تمہیں وہ سب کچھ دیا ہے جن کا تمہیں علم ہے اس نے تمہیں اونٹ، گائے اور بکریاں دی ہیں، اولاد دی ہے، باغات دئیے ہیں، اور پانی کے چشمے دئیے ہیں جن کا پانی پیتے ہو، اس سے طہارت حاصل کرتے ہو، اور اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے ہو، اے میری قوم کے لوگو ! واقعہ یہ ہے کہ تمہارے شرک و معاصی کی وجہ سے میں تمہارے بارے میں دنیا اور آخرت کے عذاب سے ڈرتا ہوں، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ دنیا میں وہ لوگ ہلاک کردئیے گئے، اور آخرت کا عذاب ان کا انتظار کررہا ہے۔ الشعراء
124 الشعراء
125 الشعراء
126 الشعراء
127 الشعراء
128 الشعراء
129 الشعراء
130 الشعراء
131 الشعراء
132 الشعراء
133 الشعراء
134 الشعراء
135 الشعراء
136 36۔ ہود (علیہ السلام) کی اس طویل تقریر کا ان کی قوم پر کوئی مثبت اثر نہیں ہوا، اور جواب میں کہا کہ تم ہمیں چاہے نصیحت کرو یا نہ کرو، ہم اپنے دین و مذہب سے پھرنے والے نہیں ہیں۔ بتوں کی پرستش کرنا، اونچے مکانات بنانا اور ہماری دوسری عاتیں، ہمیں اپنے آباء واجداد سے ملی ہیں، ان کی وجہ سے ہم پر کوئی عذاب نہیں اترے گا، اور مرنے کے بعد دوسری زندگی کا ہم تصور کرنے سے عاجز ہیں الشعراء
137 الشعراء
138 الشعراء
139 37۔ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ قوم عاد نے ہود (علیہ السلام) کی یکسر تکذیب کردی، اور ان کی اصلاح کی کوئی امید باقی نہیں رہی تو اللہ نے انہیں ہلاک کردیا بے شک ان کی اس پوری کہانی میں مشرکین قریش کے لیے درس عبرت ہے کہ اگر وہ بھی اپنے کفر پر مصر رہے، اور نبی آخر الزماں کی تکذیب کرتے رہے تو کہیں ان کا انجام بھی قوم عاد جیسا نہ ہو۔ آیت 140 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ ہر حال میں غالب ہے، اسی لیے اس نے ظالموں کو پکڑ لیا اور انہیں دردناک عذاب کے ذریعہ ہلاک کردیا، اور وہ نہایت مہربان ہے، اسی لیے اس عذاب سے اس نے اپنے نیک بندوں کو نجات دے دی۔ الشعراء
140 الشعراء
141 38۔ ہود (علیہ السلام) کے بعد، اب صالح (علیہ السلام) اور ان کی قوم ثمود کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے، اس لیے کہ اس میں بھی قریش کے لیے درس عبرت ہے۔ یہ واقعہ بھی سورۃ الاعراف میں گذر چکا ہے۔ قوم ثمود کے لوگ وادی قری اور ملک شام کے درمیان حجر نامی جگہ میں سکونت پذیر تھے، جواب مدائن صالح کے نام سے جانا جاتا ہے، ان کا زمانہ قوم عاد کے سو سال بعد، اور ابراہیم خلیل اللہ علیہ وسلم کے قبل کا ہے، صالح (علیہ السلام) دو سو اسی سال (280) زندہ رہے، اور ایک طویل مدت تک قوم ثمود کو ایمان کی دعوت دیتے رہے، لیکن وہ لوگ اپنے کفر و سرکشی پر اڑے رہے، تو اللہ نے انہیں ہلاک کردیا۔ اسی واقعہ کو یہاں مجمل طور پر بیان کیا گیا ہے، کہ قوم ثمود نے صالح (علیہ السلام) کی تکذیب کر کے گویا تمام انبیاء کی تکذیب کردی، اس لیے کہ سب کی دعوت ایک ہی تھی، ان کے بھائی صالح نے ان سے کہا کہ تمہیں اللہ کے عذاب کا ڈر نہیں لگتا ہے کہ اس کے ساتھ غیروں کو شریک بناتے ہو، اور دیگر معاصی کا ارتکاب کرتے ہو مجھے اللہ نے تمہارے پاس اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، تاکہ تم تک اس کا دین پہنچاؤں، اور میں اس بارے میں پورے طور پر امانت دار ہوں، اپنی طرف سے کچھ گھٹاتا بڑھاتا نہیں ہوں، اس لیے اللہ سے ڈرو، اور میری بات مانو، اور دیکھو، میں تبیلغ و دعوت کے کام کا تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا ہوں، مجھے اپنے اجر و ثواب کی امید رب العالمین سے ہے، اس لیے کہ اسی نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ الشعراء
142 الشعراء
143 الشعراء
144 الشعراء
145 الشعراء
146 39۔ صالح (علیہ السلام) نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا : کیا تمہارا گمان ہے کہ تم ہمیشہ یونہی امن و سکون کے ساتھ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے ٹھاٹھ کرتے رہو گے؟ باغات چشموں، کھیتوں اور کھجوروں سے فائدہ اٹھاتے رہو گے؟ اور پہاڑوں کو کاٹ کر مکانات بناتے رہو گے؟ اور اپنی قوت بازو اور فن صناعی پر ناز کرتے رہو گے؟ یہ تمہاری بھول ہے، ہمیشہ کے لیے اس حال میں نہیں رہو گے، ایک دن آئے گا کہ موت تمہیں آ دبوچے گی، اور اس کے بعد قیامت آئے گی، جس دن ہر انسان کی طرح تمہیں اپنے کرتوتوں کا حساب چکانا ہوگا، اس لیے اللہ کی گرفت اور اس کے عذاب سے ڈرو، اور امیری بات مانو، اور ان لوگوں کی بات نہ مانو جو حد سے تجاوز کر گئے ہیں اور جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور بھلائی کا کوئی کام نہیں کرتے ہیں۔ الشعراء
147 الشعراء
148 الشعراء
149 الشعراء
150 الشعراء
151 الشعراء
152 الشعراء
153 40۔ صالح (علیہ السلام) کی اس طویل تقریر کا ان کی قوم پر کوئی مثبت اثر نہیں ہوا ہوا، اور جواب میں کہا کہ تم پر تو جادو کردیا گیا ہے، جس کے زیر اثر تمہاری عقل ماری گئی ہے، اور ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو۔ تم ہمارے ہی جیسے ایک انسان ہو، اور دعوی کر بیٹھے ہو کہ اللہ نے تمہیں ہمارے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے، اس لیے زبانی دعوی سے کام نہیں چلے گا، اپنی صداقت پر کوئی دلیل پیش کرو، مفسرین لکھتے ہیں کہ صالح (علیہ السلام) نماز پڑھتے رہے اور دعا کرتے رہے، اور لوگ دیکھتے رہے کہ اچانک پہاڑ پھٹا، اور اس سے ایک عظیم الخلقت اونٹنی برآمد ہوئی، تو صالح (علیہ السلام) نے لوگوں سے کہا کہ یہ اونٹنی میری صداقت کی دلیل ہے۔ اور چشمہ سے اس کے پانی پینے کا ایک دن مقرر ہے، اس دن تم لوگ اس چشمہ سے نہیں پئیو گے اور تمہارے پینے کا ایک دوسرا دن مقرر ہے، اس دن اس سے صررف تم لوگ پانی پئیوگے، اونٹنی نہیں پئے گی، اور تم لوگ اسے کوئی تکلیف نہ پہنچانا، نہ مارنا، نہ ذبح کرنا اور نہ اسے اس کے مقرر دن میں پانی پینے سے روکنا، اگر ان باتوں میں سے کسی ایک کی بھی خلاف ورزی کروگے تو تم پر اللہ کا بڑا عذاب نازل ہوجائے گا۔ الشعراء
154 الشعراء
155 الشعراء
156 الشعراء
157 41۔ قوم ثمود نے صالح (علیہ السلام) کی بات نہیں مانی، ان کو جھٹلا دیا، اور ان کی نافرمانی کرتے ہوئے پہلے اونٹنی کے پاؤں کاٹ دئیے اور جب بیٹھ گئی تو اسے ہلاک کردیا، تب صالح (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ اب تمہاری ہلاکت و بربادی یقینی ہوگئی، تین دن تک اپنے گھروں میں مزے کرلو، یہ سن کر اور عذاب کے آثار دیکھ کر لوگ اپنی ندامت کا اظہار کرنے لگے، لیکن ایسی ندامت کا اب کوئی فائدہ نہیں تھا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ انہوں نے نے اونٹنی کو بدھ کے دن ہلاک کیا تھا، اس کے بعد فوراً ہی ان کے چہرے زرد ہوگئے، پھر جمعرات کے دن سرخ ہوگئے، اور پھر جمعہ کے دن کالے ہوگئے، مقاتل کے قول کے مطابق ان کے جسموں پر دانے نکل آئے جو پہلے دن سرخ تھے، پھر زرد ہوگئے، اور تیسرے دن کالے ہوگئے، اور سنیچر یا اتوار کے دن جب ان کی ہلاکت کا وقت جب ان کی ہلاکت کا وقت بالکل قریب ہوا تو وہ دانے پھوٹ پڑے، اور جبریل (علیہ السلام) نے ایک شدید چیخ ماری اور دونوں کے اثر سے سب کے سب مر گئے۔ آیت 158 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس واقعہ سے درس عبرت ملتا ہے، اور قوم ثمود کے اکثر لوگ ایمان نہیں لائے۔ اور آیت 159 میں فرمایا کہ اے میرے نبی ! آپ کا رب ہر حال میں غالب ہے، اسی لیے اس نے ظالموں کو پکڑ لیا، اور وہ نہایت مہربان ہے، اسی لیے اس عذاب سے اس نے اپنے نیک بندوں کو بچا لیا۔ الشعراء
158 الشعراء
159 الشعراء
160 42۔ صالح (علیہ السلام) کے بعد، اب لوط علہ السلام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے، جن کے لیے وہ نبی بنا کر بھیجے گئے تھے، یہ واقعہ بھی سورۃ الاعراف میں پوری تفصیل کے ساتھ گذر چکا ہے۔ لوط (علیہ السلام) ہاران بن آزر کے بیٹے اور ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی میں ہی سدوم، عموریہ اور اس علاقے کی دوسری بستیوں کے لیے نبی بنا کر بھیجا تھا۔ لوط (علیہ السلام) بابل کے رہنے والے تھے، لیکن جب انہیں وہاں کے لیے نبی بنایا گیا، تو وہاں کے رہنے والوں کی طرف ان کی نسبت کردی گئی، لوط (علیہ السلام) ان لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے رہے، لیکن انہیں ان کی دعوت کا کوئی فائدہ نہیں پہنچا، بلکہ روز بروز ان کی سرکشی بڑھتی ہی گئی، اور لواطت جیسے بدترین فعل کے ارتکاب پر ان کا اصرار زیادہ ہوتا گیا، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کردیا، آیات 160 سے 164 تک کی تفسیر، ہود اور صالح علیہما السلام کے واقعات میں گذر چکی ہے۔ الشعراء
161 الشعراء
162 الشعراء
163 الشعراء
164 الشعراء
165 43۔ لوط (علیہ السلام) نے سدوم اور عموریہ والوں کو پہلے تو ان کے شرک و معاصی کی وجہ سے عذاب سے ڈرایا، اپنی اطاعت و اتباع کی دعوت دی، اور اپنے بے لوث جذبہ اصلاح کی وضاحت کی کہ انہیں کسی مادی منفعت کی لالچ نہیں ہے۔ اس کے بعد انہیں ان کے نہایت گھناؤنے گناہ (لواطت) کا عار دلایا اور کہا کہ تم انسانیت سے کتنے نیچے گر گئے ہو اور حیوانی شہوت نے کسی طرح تمہاری عقلوں پر پردہ ڈال دیا ہے کہ مردوں کے ساتھ بدفعلی کرتے ہو، اور اللہ نے تمہارے لیے جو بیویاں پیدا کی ہیں ان میں تمہارے اندر کوئی رغبت باقی نہیں رہی ہے۔ تمہاری فطرت مسخ ہوگئی ہے اور حق و باطل اور حلال و حرام کے درمیان پائے جانے والے تمام حدوں کو تم پھلانگ گئے ہو۔ الشعراء
166 الشعراء
167 44۔ لوط (علیہ السلام) کی اس تقریر کا ان لوگوں پر کوئی مثبت اثر نہیں ہوا، اور جواب میں کہا کہ اگر تم ہمیں برا کہنے سے باز نہیں آؤ گے، تو ہم تمہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے، اس لیے کہ ہمارے اور تمہارے مزاج میں مطابقت نہیں ہے۔ لوط (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ میں تمہاری اس بد فعلی کو غایت درجہ مبغوض جانتا ہوں، اس لیے میں خود ہی تمہاری بستی چھوڑ دینا چاہتا ہوں، کیونکہ تمہاری اس مجرمانی حرکت کا نتیجہ ہلاکت و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا، اور چونکہ انہیں یقین تھا کہ اللہ اس قوم پر اپنا عذاب ضرور نازل کرے گا، اسی لیے دعا کی کہ میرے رب ! مجھے اور میرے گھر والوں کو ان کے برے کرتوتوں کے انجام سے نجات دے دے۔ چنانچہ اللہ نے ان کی دعا قبول فرما لی، اور انہیں ان کے گھروالوں اور دیگر مسلمانوں کو اس عذاب سے بچالیا، جس کے ذریعہ وہ لوگ ہلاک کر دئیے گئے، البتہ لوط (علیہ السلام) کی بوڑھی بیوی جو کافروں کے فعل بد کی تائید کرتی تھی، اور کافر تھی، وہ بھی دیگر کافروں کے ساتھ ہلاک کردی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے تو ان بستیوں کو الٹ دیا، پھر ان پر پتھروں کی بارش کردی۔ الشعراء
168 الشعراء
169 الشعراء
170 الشعراء
171 الشعراء
172 الشعراء
173 الشعراء
174 الشعراء
175 الشعراء
176 45۔ لوط (علیہ السلام) کے بعد، اب شعیب (علیہ السلام) اور اصحاب مدین کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے، جن کے لیے وہ نبی بنا کر بھیجے گئے تھے، حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اصحاب ایکہ، اہل مدین ہی ہیں، اور شعیب (علیہ السلام) انہیں لوگوں میں سے تھے۔ چونکہ وہ لوگ ایکہ نام کے ایک گھنے درخت کی پرستش کرتے تھے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے شعیب (علیہ السلام) کا ذکر کرتے وقت اخوھم شعیب نہیں کہا، تاکہ بت پرستوں کی طرف ان کی نسبت نہ ہو، انتہی، اور سورۃ ہود میں والی مدین اخاہم شعیبا کہا ہے۔ اس لیے کہ وہ انہی لوگوں میں سے تھے، آیات (177) سے (180) تک کی تفسیر ہود، صالح اور لوط علیہم السلام کے واقعات میں گذر چکی ہے۔ الشعراء
177 الشعراء
178 الشعراء
179 الشعراء
180 الشعراء
181 46۔ شرک باللہ کے علاوہ اصحاب مدین ایک بڑا گناہ یہ کرتے تھے کہ ناپ تول میں کمی بیشی کرتے تھے۔ یعنی کسی کو دینے کے وقت کم اور کسی سے لیتے وقت زیادہ تولتے تھے، اور لوگوں سے ان کا مال قرض یا ادھار لیتے اور جب واپس کرتے تو حتی الامکان کم دینے کیکوشش کرتے، اور اس کے لیے ہزار طریقے اختیار کرتے، اور مسافروں اور راہ چلتے لوگوں کا مال و اسباب چھین لیتے تھے، ان کا یہ عمل ان کی دناءت و کمینگی، ان کی گھٹیا ذہنیت اور دنیا سے انتہا درجہ کی محبت پر دلالت کرتا تھا۔ شعیب (علیہ السلام) نے انہیں شرک باللہ سے منع کیا، توحید کی دعوت دی، اور ان کے مذکورہ بالا اعمال کی قباحت و شناعت بیان کر کے عدل و انصاف کی دعوت دی، اور انہیں نصیحت کی کہ جب دوسروں کے لیے ناپو تو پورا ناپو، ناپ تول میں کمی نہ کرو، عدل و انصاف کے ساتھ وزن کرو، قسطاس المستقیم کی تفسیر سورۃ الاسراء آیت 35 میں گذر چکی ہے۔ اور لوگوں کے حقوق و اموال واپس کرتے وقت کٹوتی نہ کرو، اور لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے ذریعہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ، اور اس اللہ سے ڈرتے رہو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اصحاب مدین اور شعیب (علیہ السلام) کا یہ واقعہ سورۃ الاعراف آیت 85 اور سورۃ ہود آیات 84 85 میں گذر چکا ہے۔ الشعراء
182 الشعراء
183 الشعراء
184 الشعراء
185 47۔ شعیب (علیہ السلام) کی اس طویل تقریر کا ان کی قوم پر کوئی اثر نہیں ہوا، اور جیسا کہ قوم ثمود نے صالح (علیہ السلام) سے کہا تھا، اصحاب مدین نے بھی شعیب (علیہ السلام) سے کہا کہ تم پر تو جادو کردیا گیا ہے، جس کی وجہ سے تمہاری عقل ماری گئی ہے، اور ایسی بہکی بہکی باتیں کرتے ہو، تم ہمارے ہی جیسے انسان ہو، اور دعوی کر بیٹھے ہو کہ اللہ نے تمہیں ہمارے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ تم جھوٹے ہو اس لیے زبان دعوی سے کام نہیں چلے گا، اگر تمہیں اپنی صداقت پر اصرار ہے تو آسمان کے ٹکرے ہمارے سروں پر گرا کر ہمیں ہلاک کردو۔ شعیب (علیہ السلام) نے ان کے اس کفر وعناد کا یہ جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے کفر اور دیگر معاصی سے خوب باخبر ہے، اور اسے خوب معلوم ہے کہ تم کس عذاب کے حقدار ہو، جب تمہارا نوشتہ وقت آجائے گا تو وہ اپنے علم کے مطابق تمہارے اعمال کا تمہیں بدلہ دے گا۔ الشعراء
186 الشعراء
187 الشعراء
188 الشعراء
189 48۔ جب انہوں نے اپنے نبی کی ہر بات کی تکذیب کردی، اور اپنے کفر و معاصی پر ان کا اصرار بڑھتا ہی گیا، تو اللہ کے عذاب نہیں اپنی گرفت میں لے لیا، جسے یہاں سایہ والے دن کے عذاب سے تعبیر کیا گیا ہے، اور بہت ہی خطرناک عذاب بتایا گیا ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اصحاب مدین کے ہلاک کیے جانے کا واقعہ قرآن کریم کی تین سورتوں میں بیان کیا گیا ہے۔ سورۃ الاعراف میں آیت 91 میں بتایا گیا ہے کہ زمین ان کے پاں کے نیچے پوری شدت سے ہلنے لگی اور ان کے جسموں پر رعشہ طاری ہوگیا، اور سورۃ ہود آیت 44 میں بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ ایک چیخ کے ذریعہ ہلاک کردئیے گئے، اور یہاں اس سورت میں ہے کہ انہوں نے شعیب (علیہ السلام) سے یہ مطالبہ کیا کہ آسمان کے ٹکڑے ان کے سروں پر گرا کر ہلاک کردئیے جائیں تو اللہ نے خبر دی کہ انہیں سایہ والے دن کے عذاب نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اللہ نے جب انہیں ہلاک کرنا چاہتا تو ان پر تینوں قسم کے عذاب مسلط کردئیے۔ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہنم کی سخت گرم ہوا بھیج دی جو سات دن تک وہاں چلتی رہی، جس کی گرمی سے ان کے بدن پد گئے، ان کے مکانات آگ بن گئے، کنووں اور چشموں کا پانی کھولنے لگا، تو اپنے گھروں سے بھاگ پڑے، جب باہر نکلے تو آفتاب کی شدید تمازت نے ان کے دماغوں کو کھولا دیا، اور ان کے قدموں کے نیچے کی زمین آگ بن گئے، یہاں تک کہ ان کے پاؤں جھلس گئے، پھر ایک سیاہ بادل ان کے سروں پر منڈلانے لگا، جس میں شروع میں ٹھنڈک تھی، اسی لیے تمام اصحاب مدین اس کے نیچے آ کر جمع ہوگئے، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر آگ کی بارش کردی، اور رعشہ و کپکپی، چیخ و پکار اور آگ کی بارش سے سبھی ہلاک ہوگئے۔ الشعراء
190 الشعراء
191 الشعراء
192 49۔ ابتدائے سورت کی آیت 5 میں قرآن کریم کا ذکر آچکا ہے کہ جب بھی اس کی کوئی آیت یا سورت نازل ہوتی ہے، تو مشرکین مکہ اس کا انکار کردیتے ہیں۔ انہی مشرکین کی عبرت و نصیحت کے لیے چند اقوام گذشتہ کی ہلاکتوں کے واقعات بیان کرنے کے بعد، اب دوبارہ روئے سخن قرآن کریم کی طرف موڑ دیا گیا ہے کہ وہ رب العالمین کی نازل کردہ کتاب ہے، اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے، جسے جبریل امین نے اللہ کے حکم سے نہایت ہی فصیح و بلیغ زبان میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر نازل کیا ہے، تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے پڑھ کر اہل قریش کو سنائیں اور انہٰں عذاب جہنم سے ڈرا کر اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دیں۔ اس قرآن کا ذکر گذشتہ آسمانی کتابوں میں بھی آیا۔ سورۃ البقرہ آیت 97 میں آیا ہے۔ قل من کان عدوا لجبریل فانہ نزلہ علی قلبک باذن اللہ مصدقا لما بین یدیہ، اے نبی ! آپ کہہ دیجئے کہ اگر جبریل کا دشمن ہے (تو اس سے کچھ نقصان نہیں) اس لیے ہ اس نے قرٓان آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے جو گذشتہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔ تورات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا میں بنی اسرائیل کے بھائیوں کے لیے یعنی عربوں کے لیے آپ ہی جیسا ایک نبی بھیجوں گا، جس کے منہ میں اپنا کلام ڈال دوں گا، پھر وہ انہیں میری وصیتیں اپنی زبان سے سنائیں گے، اور انجیل میں ہے، عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا، میں اللہ سے طلب کروں گگا کہ وہ تمہارے لیے ایک دوسرا رسول بھیج دے جو تمہارے ساتھ ہمیشہ کے لیے رہے، اور وہ تمہیں ہر بات سکھائے گا۔ آیت 197 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تورات و انجیل کے ذریعہ علمائے بنی اسرائیل کا، ان باتوں سے واقف ہونا کہ محمد اللہ کے آخری نبی ہوں گے، اور اللہ اپنا کلام ان کی زبان پر جاری کرے گا، اور تورات و انجیل میں مذکور تفصیلات کے مطابق نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مبعوث ہونا، اور قرآن کا نازل ہونا، کیا یہ سب باتیں کفار مکہ کے ایمان لانے کے لیے کافی نہیں تھیں۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم وغیرہم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن سلام بنی اسرائیل کے بہت ہی مشہور اور اچھے عالم تھے، انہوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھتے ہی یقین کرلیا کہ یہی وہ نبی ہیں جن کی بشارت تورات میں دی گئی ہے۔ الشعراء
193 الشعراء
194 الشعراء
195 الشعراء
196 الشعراء
197 الشعراء
198 50۔ اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کے انتہائے عناد اور ان کے شدت کفر کو بیان کو بیان کیا ہے کہ اگر ہم اس قرآن کو کسی عجمی رسول پر اتار دیتے، جس کی زبان عربی نہ ہوتی، اور وہ اسے پوری فصاحت کے ساتھ انہیں پڑھ کر سنا دیتا، تو بھی کفار مکہ ایمان نہ لاتے اور اپنے شدت عناد کی وجہ سے اس کی کوئی من مانی توجیہہ کرلیتے۔ آیات 200، 201 میں اللہ نے فرایا کہ جس طرح عجمی رسول کے پرھ کر سنانے کی صورت میں انکار کردیتے، اسی طرح یہ مجرمین محمد عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پڑھ کر سنانے کی صورت میں بھی قرآن کا انکار کرتے رہیں گے، کیونکہ گناہوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر پردہ پڑگیا ہے، وہ کسی حال میں بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ صرف ایک صورت میں قرٓان کی صداقت کا اعتراف کریں گے کہ جب اللہ کا غضب ان پر نازل ہوگا اور موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو اس وقت کف افسوس ملیں گے اور کہیں گے، واقعی قرآن نے سچی بات کہی تھی کہ اگر ہم ایمان نہیں لائیں گے تو اللہ کا عذاب ہم پر نازل ہوگا، بعض مفسرین نے اس عذاب سے قیامت کے دن کا عذاب مراد لیا ہے۔ الشعراء
199 الشعراء
200 الشعراء
201 الشعراء
202 51۔ کفار مکہ پر اللہ کا وہ عذاب ایسا اچانک آئے گا کہ انہٰں اس کی آمد کی خبر بھی نہیں ہوگی، اور اس وقت وہ تمنا کریں گے کہ کاش ان پر عذاب نازل نہ ہوتا اور انہیں ایمان و عمل صالح کی مہلت دے دی جاتی، جیسا کہ فرعون نے جب موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، تو کہا میں اس اللہ پر ایمان لے آیا جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور جس پر بنی اسرائیل کے لوگ ایمان لے آئیں۔ الشعراء
203 الشعراء
204 52۔ کفار مکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے تھے کہ اگر تمہاری بات صحیح ہے کہ ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے تو اللہ کا عذاب ہم پر نازل ہوجائے گا، تو پھر جلد ہی وہ عذاب ہم پر نازل ہوجائے۔ سورۃ الاعراف آیت 70 میں ان کا قول نقل کیا گیا ہے۔ فاتنا بما تعدنا، اے محمد ! ہم سے جس عذاب کا وعدہ کرتے ہو اسے ہم پر اتار دو، اور سورۃ الانفا (32) میں ہے فامطر علینا حجارۃ من السماء اوئتنا بعذاب الیم، ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش کردے، یا ہم پر کوئی اور دردناک عذاب بھیج دے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت 204 میں ان کے اسی استعجال پر نکیر کی اور انہیں دھمکی دی ہے کہ کیا تمہیں ہمارے عذاب کی جلدی ہے؟ تو انتظار کرلو۔ الشعراء
205 53۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ ہم نے دنیا میں انہیں لمبی عمریں دیں اور مال و اسباب سے نوازا جن سے وہ خوب متمتع ہوئے پھر جس عذاب کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا، اسنے انہیں اچانک اپنی گرفت میں لے لیا، تو اس لمبی عمر اور اس کی عیاشیوں کا کیا فائدہ ہوا، نہ اللہ کا عذاب ٹلا اور نہ ہلکا ہوا۔ الشعراء
206 الشعراء
207 الشعراء
208 54۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے عدل و انصاف کے تقاضے کے مطابق ہر قوم کے پاس اپنا رسول بھیجا، جس نے انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور ایمان باللہ کی دعوت دی، اور جب ان کے ایمان کی کوئی امید باقی نہ رہی تو اللہ نے انہیں ہلاک کردیا، اللہ کسی قوم پر بھی ظلم نہیں کرتا کہ نبی بھیجنے سے پہلے ہی انہیں ہلاک کردے۔ الشعراء
209 الشعراء
210 55۔ مشرکینِ مکہ کہتے تھے کہ جس طرح شیطاین، کاہنوں کو آسمان کی جھوٹی خبریں سناتے ہیں، اسی طرح وہ شیاطین ایک من گھڑت کلام محمد کی زبان پر جاری کردیتے ہیں، جسے محمد قرآن کا نام دیتا ہے، اسی زعم باطل کی یہاں تردید کی گئی ہے آیات 192، 193، 194 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ قرآن رب العالمین کا کلام ہے، اسے جبریل امین نے اللہ کے حکم سے نہایت فصیح و بلیغ زبان میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر اتارا ہے، اور یہاں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اسے شیاطین نے نہیں اتارا ہے، اس لیے کہ اولا تو یہ قرآن ان کی غرض و غایت نہیں ہے۔ قرآن اللہ کا نور اور انسان کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے، اور شیاطین کا کام تو اللہ کے بندوں کو گمراہ کرنا ہے، ثانیاً یہ کہ شیطان اس کے اہل نہیں بنائے گئے ہیں کہ قرآن کا بوجھ برداشت کرسکیں، جیسا کہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ہم اسے پہاڑ پر اتار دیتے تو وہ اللہ کے ڈر سے چکنا چور ہوجاتا، اور ثالثاً یہ کہ شیاطین کی رسائی اس قرآن تک نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ جب اللہ تعالیٰ اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل پر نازل کرتا ہے، اس وقت فرشتوں کا شدید پہرہ ہوتا ہے جو آگ کے انگاروں کے ذریعہ ہراس شیطان کو ماربھگاتے ہیں جو سننے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ قرآن پوری حفاظت کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک ہپنچ جائے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ الجن آیت 8 میں فرمایا ہے وانا لمسنا السماء فوجدناہا ملئت حرسا شدیدا و شہبا، اور ہم نے آسمان کو ٹٹول کر دیکھا تو اسے سخت چوکیداروں اور جلا دینے والے انگاروں سے بھرا پایا، الشعراء
211 الشعراء
212 الشعراء
213 56۔ قرآن کریم کی حقانیت ثابت کرنے کے بعد، بنوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ غیروں کو شریک نہ بنائیں۔ آیت میں مخاطب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں حالانکہ وہ معصوم تھے اور شرک سے یکسر پاک تھے، اسی لیے مفسرین نے اس کی توجیہہ یہ کی ہے کہ اگرچہ آپ اللہ کے معزز و مکرم ترین بندے ہیں، لیکن بفرض محال آپ سے ایسی غلطی ہوجاتی تو آپ عذاب سے نہیں بچ سکتے تھے، تو پھر دوسرے لوگ شرک کر کے اللہ کے عذاب سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ الشعراء
214 57۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دیں، اس لیے کہ قیامت کے دن صرف اللہ پر ایمان ہی کسی کی نجات کا سبب بنے گا۔ امام بخاری نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اے فاطمہ بنت محمد، اے صفیہ بنت عبد المطلب اور اے عبدالمطلب کے بیٹو ! میں اللہ کی طرف سے تمہارے لیے کوئی اختیار نہیں رکھتا ہوں تم لوگ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، اللہ نے آپ کو یہ بھی حکم دیا کہ آپ مومنوں کے ساتھ شفقت و رحم دلی کا برتاؤ کیجئے، تاکہ ان کے دلوں میں ایمان راسخ ہوجائے، اور اللہ کے جو بندے آپ کی نافرمانی کریں ان سے برات کا اعلان کردیجئے اور ہر حال میں اپنے اللہ پر بھروسہ کیجئے جو ہر چیز پر غالب ہے، اور جو اپنے مومن بندوں پر نہایت مہربان ہے، اور جو آپ کو ہر حال میں دیکھ رہا ہے، جب آپ رات کے وقت تہجد کے لیے اٹھتے ہیں تو وہ آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور جب لوگوں کو نماز پڑھاتے ہوئے قیام، رکوع اور سجدہ کرتے ہیں تو بھی وہ آپ کو دیکھ رہا ہوتا ہے، یعنی اللہ کی نگاہ کرم ہر حال میں آپ پر ہوتی ہے، اس لیے کہ وہ بڑا سننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ جب آپ کو شرک اور مشرکین سے اعلان براءت کا حکم دیا گیا تو لازم تھا کہ آپ کو اللہ پر بھروسہ کرنے کی نصیحت کی جاتی، کیونکہ اعلانِ براءت کے بعد تمام مشرکین نے آپ سے کھل کر دشمنی کرنا شروع کردی، ایسی حالت میں آپ ایک فرد و احد کی حیثیت سے اللہ کی نصرت و تائید اور اس کی مدد کے بغیر پوری قوم کا کیسے مقابلہ کرسکتے تھے۔ الشعراء
215 الشعراء
216 الشعراء
217 الشعراء
218 الشعراء
219 الشعراء
220 الشعراء
221 58، آیت 210 میں قرآن کریم کے بارے میں کفار مکہ کے جس زعم باطل کی تردید کی گئی تھی، اسی کی مزید تاکید کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ قرآن شیاطین کا کلام نہیں، جسے انہوں نے محمد کی زبان پر جاری کردیا ہے، یہ بات عقلی طور پر محال ہے، اس لیے کہ شیاطین اپنا کلام ان کاہنوں کی زبان پر جاری کرپاتے ہیں جو پرلے درجے کے جھوٹے اور بڑے ہی گناہ گار ہوتے ہیں، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی شہرت تو عام ہے، شیاطین ان کے قریب بھی پھٹک سکتے ہیں، ان پر تو اللہ کا سچا اور برحق کلام اترتا ہے جس میں کوئی شیطان کسی طرح بھی مداخلت نہیں کرسکتا ہے۔ آیت 223 کا ایک مفہوم یہ ہے کہ شیاطین آسمان کی باتیں چھپ کر سننے کی کوشش کرتے ہیں، اور پھر ایک میں اپنی طرف سے بہت سی جھوٹی باتیں ملا کر کاہنوں کا بتاتے ہیں، اور اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ کاہن لوگ شیطانوں سے جو کچھ سنتے ہیں، اس میں اپنی طرف سے بہت سی جھوٹی بایں ملا کر لوگوں کو بتاتے ہیں۔ پہلے مفہوم کے مطابق واکثرہم کاذبون، سے مراد شیاطین ہیں کہ ان کی اکثر باتیں جھوٹ ہوتی ہیں، اور دوسرے مفہوم کے مطابق اس سے مراد کاہن ہیں کہ شیاطین انہیں جو کچھ بتاتے ہیں ان میں بہت سی جھوٹی باتیں ملا کر لوگوں سنایا کرتے ہیں بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ بعض لوگوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کاہنوں کے بارے میں دریافت کیا، تو آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ کچھ بھی نہیں ہیں لوگوں نے کہا، یا رسول اللہ ! بعض اوقات وہ لوگ صحیح بات بتاتے ہیں، تو آپ نے فرمایا کہ جن چھپ کر اسے سن لیتا ہے، اور اپنے دوست کاہن کے کان میں ڈال دیتا ہے جس میں کاہن اپنی طرف سے سو سے زیادہ جھوٹ ملا دیتا ہے۔ الشعراء
222 الشعراء
223 الشعراء
224 59۔ بعض مشرکینِ مکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاعر کہتے تھے۔ ان کے قول کی تردید کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ جس طرح شیاطین اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مزاج میں منافات ہے، شیاطین ان کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتے ہیں، اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شاعر ہونا بھی عقلی طور پر ناممکن ہے، اسلیے کہ ان کے اور عام شاعروں کے مزاج میں شدید منافاقت ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق پسند، حق پرست، صاداق و امین اور پاکیزہ نفس و پاکیزہ نظر ہیں، جھوٹ مبالغہ آرائی، افترا پردازی اور لغو اور فحاشی سے ہزاروں کوس دور ہیں، جبکہ شعراء کا حال یہ ہے کہ ان کی پیروی وہ لوگ کرتے ہیں جو جادہ حق سے دور ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ خیالات کی دنیا میں بھٹکتے ہیں، جھوٹ بولے بغیر ان کی شاعری مکمل نہیں ہوتی، لوگوں کی عزتوں پر حملے کرنا، پاکدامن عورتوں سے اظہار عشق، امرد پرستی، سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کوسچ ثابت کرنا، لوگوں کو گناہ پر ابھارنا، بے کیے اچھے اعمال کی اپنی طرف نسبت کرنا، اور اسی قسم کی جتنی غلط باتیں ہوسکتی ہیں، ان کی شاعری کا موضوع ہوتی ہیں۔ اس لیے ثابت ہوا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاعر نہیں ہیں، اور ان کے لیے شاعر ہونا ہرگز مناسب نہیں ہے، وہ تو اللہ کے نبی اور رسول ہیں، تمام برے اوصاف سے پاک اور تمام اچھے اوصاف اور محاسن اخلاق کے ساتھ متصف ہیں۔ الشعراء
225 الشعراء
226 الشعراء
227 60۔ شعراء بالعموم ویسے ہی ہوتے ہیں جیسی ان کی مذکورہ بالا آیتوں میں صفات بیان کی گئی ہیں، لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اہل ایمان ہوتے ہیں، اور ان کی زندگی عمل صالح کرتے گذر جاتی ہے، اور اپنے اشعار میں اللہ، اس کے رسول اور دین اسلام اور اخلاق حسنہ کی باتیں کرتے ہیں، اور اگر کوئی دشمن اللہ یا اس کے نبی کی ہجو بیان کرتا ہے تو اس کا جواب دیتے ہیں۔ ایسے شعراء کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں عام شاعروں سے مستثنی قرار دیا ہے، جیسے عبداللہ بن رواحہ، حسان بن ثابت، کعب بن مالک اور کعب بن زہیر وغیرہم، جنہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دین اسلام کا دفاع کیا، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مختلف اوقات میں ان کی تعریف کی اور انہیں دعا دی۔ عبداللہ بن رواحہ سے کہا، اللہ کی قسم ! تمہارے اشعار کافروں پر تیر سے بھی زیادہ کاری ضرب لگاتے ہیں۔ (مسند احمد) اور حسان بن ثابت (رض) سے کہا : مشرکین کی ہجو بیان کرو جبریل تمہارے ساتھ ہیں (ابن سعد، ابن ابی شیبہ) ایک موقع سے کہا : اے اللہ احسان کی جبریل کے ذریعہ مدد فرما (مسند احمد، ابن سعد) اور یہ حکم قیامت تک باقی رہے گا، یعنی جو شعراء ایمان و عمل صالح کو اپنا شعار بنائیں گے، توحید کی راہ پر گامزن ہوں گے، بدعت و خرافات سے دور ہوں گے، اور ان شاعروں کی تردید کریں گے جو اسلام پر اوچھے حملے کریں گے، یا کفر و بدعت کو رواج دینے کی کوشش کریں گے، یا بھلائی سے روکیں گے اور برائی کی دعوت دیں گے، تو وہ حسان بن ثابت اور عبداللہ بن رواحہ جیسے شاعروں کے زمرے میں داخل ہوں گے۔ آیت کے آخر میں کفار مکہ کو دھمکی دی گئی ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی کاہن اور کبھی شاعر کہتے تھے اور قرآن کریم کو جادو اور شاعری کا نام دیتے تھے۔ الشعراء
0 نام : آیت 18 میں النمل کا لفظ آیا ہے۔ جس کا معنی چیونٹیاں ہے۔ یہی لفظ اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ صاحب محاسن التنزیل مفسر مہامیی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس آیت میں چیونٹیوں کی آپس کی گفتگو نقل کی گئی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حیواتات تک کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ انبیائے کرام اور ان کے اصحاب قصداً کسی کو تکلیف ہپنچانا گوارہ نہیں کرتے ہیں۔ اور جب وہ اس درجہ کے اعلی و ارفع انسان ہوتے ہیں تو ان پر ایمان لانا اور ان پر اعتماد کرنا، عقلی طور پر واجب ہوجاتا ہے، اسی مناسبت سے اس سورت کا نام اللنمل رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی لکھتے ہیں کہ یہ سورت سب کے نزدیک مکی ہے۔ انتہی، اور عام مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی (بعث بعد الموت) کے عقیدے پر مختلف پیرائے سے بحث کی گئی ہے، اور کفار مکہ کو آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے جو تمام دینی اور اخروی بھلائیوں کا سرچشمہ ہے۔ چند دیگر موضوعات بھی زیر بحث آئے ہیں، مثلاً قرآن کریم کی حقانیت، توحید باری تعالیٰ کا اثبات اور نماز و زکاۃ وغیرہ، لیکن مرکزی موضوع آخرت پر ایمان لانا ہی ہے۔ النمل
1 1۔ طس، حروف مقطعہ ہیں، اور جیسا کہ پہلے کئی بار لکھا جاچکا ہے، حروف مقطعات کا معنی اور مفہوم اللہ ہی بہتر جانتا ہے، البتہ ان حروف کے مختلف سورتوں کی ابتدا میں لانے سے اس طرف اشارہ ضرور ملتا ہے کہ یہ قرآن انہی حروف سے مرکب ہے۔ جن سے تمہار گفتگو بنتی ہے، لیکن تم اس جیسا کلام لانے سے یکسر عاجز ہو۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بطور معجزہ نازل ہوا ہے۔ ان آیات میں (آیات قرآنیہ کی) تین صفات بیان کی گئی ہیں : پہلی صفت یہ ہے کہ لوگ ان آیتوں کی تلاوت کیا کریں گے۔ دوسری صفت یہ ہے کہ یہ قرآن بھی دیگر آسمانی کتابوں کی مانند ایک کتاب ہے، جسے اللہ نے اپنے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا ہے اور تیسری صفت یہ ہے کہ یہ قرآن ایک واضح کتاب ہے، جس نے عقیدہ توحید، عبادات اور دیگر احکام شریعت کو کھول کر بیان کردیا ہے، قرٓان اپنے مذکورہ بالا صفات کے ساتھ ان مومنوں کے لیے کتاب ہدایت اور باعث رحمت و رضائے الٰہی ہے، جو ایمان لانے کے بعد اچھے اعمال کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکاۃ ادا کرتے ہیں، اور آخرت پر پورا یقین رکھتے ہیں، معلوم ہوا کہ جو لوگ ایمان اور عمل کی دولت سے محروم ہیں، انہیں، انہیں اس قرآن سے فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔ النمل
2 النمل
3 النمل
4 2۔ آخرت پر ایمان لانا ہی تمام بھلائیوں کی جڑ ہے، اور اس کا انکار تمام شر و فساد کا پیش خیمہ ہے۔ جو شخص آخرت کا منکر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی برائیوں کو اس کی نگاہ میں خوبصورت بنا دیتا ہے۔ اس کے دل سے جزا و سزا کا خوف نکل جاتا ہے، اور وہ شہوتوں اور گناہوں میں ڈوب جاتا ہے پھر تو اس کی حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ وہ انہی معاصی میں غوطہ زن رہتا ہے، اور اس کے اندر خیر و شر کی تمیز باقی نہیں رہتی۔ آیت 5 میں ایسے لوگوں کا انجام یہ بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں بدترین عذاب میں مبتلا کرے گا، جیسا کہ کفار مکہ کے ساتھ ہوا کہ جنگ بدر میں قتل کیے گئے اور جو باقی رہ گئے قید کرلیے گئے، اور آخرت میں سب لوگوں سے زیادہ خسارہ اٹھانے والے ہوں گے۔ یعنی انہیں آگ کا نہایت ہی سخت عذاب دیا جائے گا۔ النمل
5 النمل
6 3۔ اوپر کی آیتوں میں قرآن کریم اور اس کی بعض صفات کا ذکر آیا ہے، اسی لیے اس آیت میں آپ کو خبر دی جا رہی ہے کہ یہ قرآن آپ پر اس اللہ کی جانب سے نازل ہوا ہے جس کا کوئی حکمت سے خالی نہیں ہے اور جو تمام امور سے اچھی طرح واقف ہے، اس لیے اس قرآن کی صداقت میں کوئی شبہ نہیں ہے اور یہ آیت ان عجیب و غریب اخبار و واقعات کے لیے بطور تمہید بھی ہے جو اس کے بعد بیان کی جانے والی ہیں، یعنی کفار مکہ کو یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبریں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی بتائی ہیں، ورنہ یہ خبریں انہیں کہاں سے معلوم ہوتیں، اور یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں، اور یہ قرآن اللہ کا برحق کلام ہے۔ النمل
7 النمل
8 4۔ ان عجیب و غریب خبروں میں سے پہلی خبر موسیٰ (علیہ السلام) سے متعلق ہے، جب وہ مدین سے مصر جانے کے لیے اپنی بیوی بنت شعیب کے ساتھ روانہ ہوئے۔ جب رات کے وقت کوہ سیناء کے پاس پہنچے، اور زمانہ سردی کا تھا، تو دیکھا کہ پہاڑ کی جانب سے آگ کی روشنی آرہی ہے، انہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تم یہیں ٹھہرو، میں وہاں جا کر لوگوں سے راستے کا پتہ لگا تا ہے (اس لیے کہ وہ راستہ بھول گئے تھے) یا تھوڑی سی آگ ہی لے آتا ہوں تاکہ تم سردی کی اس رات میں کچھ گرمی حاصل کرو، جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ یہ تو آگ نہیں بلکہ نور ہے، جو ایک بہت ہی ہرے درخت سے پھوٹ کر نکل رہا ہے، اور اس نور کی تیزی اور اس درخت کا ہر اپن بڑھتا ہی جا رہا ہے، اور سر اٹھایا تو دیکھا کہ وہ نور آسمان کی طرف سے آرہا ہے اور حد نگاہ تک اس کا تسلسل قائم ہے، پھر آواز آئی کہ خیر و برکت ہے اس شخص کے لیے جو اس آگ میں کھڑا ہے جو درحقیقت اللہ کا نور ہے، اور ان لوگوں کے لیے جو اس نور کے ارد گرد رہنے والے ہیں، یعنی سرزمین شام و بیت المقدس والوں کے لیے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانبیاء آیت 71 میں سرزمین شام کو بابرکت کہا ہے۔ ونجیناہ ولطا الی الارض التی بارکنا فیہا للعالمین۔ اور ہم ابراہیم اور لوط کو بچا کر اس زمین کی طرف لے چلے جس میں ہم نے تمام جہان والوں کے لیے برکت رکھی تھی۔ چونکہ اس مقام کا تقاضا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو بندوں کے ساتھ ہر تشبیہ و مماثلت سے پاک مانا جائے اور موسیٰ علیہ السلا کو یہ بتایا جائے کہ ایسی بات نہیں کہ اللہ رب العالمین اس درخت پر بیٹھا ہے یا اس میں حلول کر گیا ہے، یا کوئی زبان حرکت کر رہی ہے جس سے یہ آواز نکل رہی ہے، اسی لیے اللہ نے فرمایا کہ وہ رب العالمین و چاہتا ہے کرتا ہے، کوئی مخلوق اس کے مشابہ نہیں ہے، کوئی چیز اس کا احاطہ کیے ہوئے نہیں ہے، وہ اکیلا اور بے نیاز ہے، اور تمام مخلوقات کی مماثلت و مشابہت سے یکسر پاک ہے۔ اس کے بعد اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو خبر دی کہ وہ اللہ ہے جو اس سے بات کر رہا ہے کوئی فرشتہ یا کوئی اور مخلوق نہیں ہے۔ اور جب موسیٰ (علیہ السلام) کے دل کو سکون حاصل ہوگیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا کہ آپ اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دیجئے۔ ڈالتے ہی لاٹھی ایک سانپ کی طرح تیزی کے ساتھ دوڑنے لگی۔ موسیٰ (علیہ السلام) یہ دیکھتے ہی ڈر کے مارے بھاگ پڑے، اور پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھنا چاہا، تو اللہ نے پکارا کہ اے موسیٰ ! آپ ڈرائیے نہیں، پیغمبر حضرات میرے پاس نہیں ڈرا کرتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ میری حفاظت میں ہوتے ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت میں موسیٰ (علیہ السلام) کو بشارت دے دی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا نبی اور رسول چن لیا ہے، اور ان کے دل سے خوف کو نکال دیا گیا تاکہ جس کے پاس انہیں دعوت اسلام لے کر جانا تھا، اس سے پوری جرات و صراحت کے ساتھ بات کرسکیں۔ النمل
9 النمل
10 النمل
11 5۔ بعض چھوٹے گناہ بغیر قصد و ارادے کے بعض انبیاء کرام سے صادر ہوئے، جس کی وجہ سے انہیں اللہ کا خوف لاحق ہوگیا، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے غلطی سے ایک قبطی کو قتل کردیا تھا، جس کا احساس انہیں ہر دم رہتا تھا۔ چنانچہ آپ نے دعا کی تھی، رب انی ظلمت نفسی فاغفر لی فغفر لہ، میرے رب ! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے، تو مجھے معاف کردے، تو اللہ نے انہیں معاف کردیا (القصص :16) اسی طرح اس آیت کریمہ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ آپ سے غلطی تو ہوئی تھی، لیکن اللہ نے آپ کے توبہ و استغفار اور نیک اعمال کی وجہ سے اسے معاف کردیا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اگر کسی نبی سے کبھی ایسا ہوا بھی تو فوراً توبہ و استغفار کیا اور نیک اعمال کیے، جس کے نتیجے میں اللہ نے انہیں معاف کردیا، ان کے حال پر رحم کیا، اور ان کی حفاظت کی، جیسا کہ اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی حفاظت کی، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں انسانوں کے لیے بہت بڑی بشارت ہے، کہ ایک آدمی اگر کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے پھر اس سے صدق دل سے تائب ہوجاتا ہے، تو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اسے معاف کردے گا، اور اس پر رحم فرمائے گا۔ النمل
12 6۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دوسرا معجزہ عطا کرنے کے لیے کہا کہ آپ اپنا ہاتھ اپنی قمیص کے گریبان میں ڈالئے، وہ بغیر کسی بیماری کے چاند کے مانند چمکتا ہوا نکلے گا، موسیٰ (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا، اور ان کا ہاتھ بغیر کسی بیماری کے نہایت ہی چمکدار بن کر آنکھوں کو چکا چوند کرنے لگا۔ آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کی صداقت کو ثابت کرنے اور فرعون کو راہ راست پر لانے کے لیے ہم آپ کو نو معجزات دیں گے۔ سورۃ بنی اسرائیل آیت 101 میں بھی اللہ تعالیٰ نے صراحت کردی ہے کہ ہم نے موسیٰ کو نو نشانیاں دی تھیں اور وہاں میں نے ان کی تفصیل بیان کردی ہے۔ النمل
13 7۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور فرعونیوں کا کافر و عناد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جب ہماری کھلی اور روز روشن کی طرح واضح نشانیاں ان کے سامنے پیش کردی گئیں، اور ان کے انکار کے لیے ان سے کچھ نہ بن پڑا تو کہنے لگے کہ یہ تو کھلا جادو ہے اور اپنے دلوں میں اس بات کا یقین رکھتے ہوئے کہ یہ اللہ کے معجزے ہیں، ظلم اور غرور کی راہ اختیار کی اور ان کا انکار کردیا۔ اس لیے آیت 14 کے آخر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے اللہ نے فرمایا۔ آپ دیکھ لیجئے کہ اللہ کی زمین میں فساد پھیلانے والوں کا کیا انجام ہوا، اللہ نے ان سب کو ایک ساتھ سمندر میں ڈبو دیا، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرنے والوں سے کہا جا رہا ہے کہ اگر تم بھی اپنے کفر و عناد پر اڑے رہے تو کہیں تمہارا انجام بھی فرعونیوں جیسا نہ ہو النمل
14 النمل
15 8۔ اس سورت میں مذکور انبیاء کرام اور ان کی قوموں کے عجیب و غریب قصوں میں سے دوسرا قصہ داود و سلیمان علیہما السلام کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے داود و سلیمان کو علم کثیر سے نوازا تھا۔ علم شریعت اور علم قضاء کے علاوہ اللہ نے داود (علیہ السلام) کو زبور عطا کیا، زرہ سازی کا علم دیا، لوہا ان کے ہاتھ میں پگھل جاتا تھا، دونو (رض) اپ بیٹا چڑیوں کی بولی بھی سمجھتے تھے۔ اور سلیمان (علیہ السلام) کے لیے جن و انس، چڑیاں، ہوا اور جانور و غیرہ مسخر کردئیے گئے تھے اور دونوں کو اللہ نے بادشاہی سے نوازا تھا۔ ان گوناگوں نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے دونوں نے کہا کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے بہت سے مومن بندوں پر ہمیں فضیلت دی ہے، یعنی یہ علم و نبوت اور یہ بادشاہی سب اللہ کا فضل اور اسی کا عطیہ ہے۔ اس نے محض اپنے فضل و کرم سے ہمیں ان نعمتوں سے نوازا ہے، ہم تو اس کے ناچیز بندے ہیں، ہم ان نعمتوں کو حاصل کرنے کی اپنے اندر کب قدرت رکھتے تھے۔ النمل
16 9۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ داود (علیہ السلام) کے انیس لڑکے تھے، ان میں سلیمان (علیہ السلام) سب سے چھوٹے تھے۔ یہاں وراثت سے مراد میراث علم و نبوت ہے، دنیاوی مال و متاع کی وراثت نہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے داود (علیہ السلام) کے علم و نبوت کا وارث ان کے بعد ان کے چھوٹے بیٹے سلیمان (علیہ السلام) کو بنایا تھا۔ سلیمان (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر بجالاتے ہوئے لوگوں سے کہا کہ ہمیں پرندوں کی بولیوں کا علم دیا گیا ہے، اور ہمیں ہمارے رب کی جانب سے ہر چیز دی گئی ہے، کسی چیز کی کمی نہیں ہے، بے شک اللہ کا ہم پر واضح فضل و کرم ہے۔ سلیمان (علیہ السلام) نے یہ بات فخر و مباہات کے لیے نہیں، بلکہ اللہ کے شکر کے طور پر کہی تھی النمل
17 10۔ سلیمان (علیہ السلام) کے ایک سفر کا ذکر ہے، جب وہ جنوں، انسانوں اور چڑیوں پر مشتمل اپنی ایک منظم و مرتب فوج کے ساتھ روانہ ہوئے۔ راستہ میں ان کا گذر ایک ایسی وادی سے ہوا جس میں چیونٹیاں پائی جاتی تھی۔ ایک چیونٹی نے اس لشکر جرار کو دیکھ کر دیگر چیونٹیوں سے کہا کہ تم سب جلد از جلد اپنی بلوں میں داخل ہوجاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کی فوج غیر شعوری طور پر تمہیں کچل دے۔ سلیمان (علیہ السلام) اس کی بات سن کر مسکرانے لگے اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے دعا کرنے لگے کہ میرے رب ! مجھے اس بات کی توفیق دے کہ تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر جن نعمتوں کی بارش کی ہے ان کا شکر ادا کروں، اور ایسے نیک کام کروں جنہیں تو پسند کرتا ہے، اور اپنے رحم و کرم سے مجھے اپنے نیک بندوں میں دخل کردے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ باپ ماں پر احسان گویا آدمی پر احسان ہوتا ہے، اس لیے اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرنے کی توفیق مانگی اور چاہا کہ دنیاوی نعمتوں کے ساتھ اللہ انہیں دینی نعمت سے نوازے، اسی لیے عمل صالح کی توفیق مانگی، اور چونکہ مرد مومن کا انتہائے مقصود آخرت کی کامیابی ہے، اسی لیے آخر میں دعا کی کہ اللہ انہیں قیامت کے دن اپنے نیک بندوں میں شامل کردے۔ یہاں شوکانہ نے اپنے لیے دعا کی ہے کہ اے اللہ ! میں بھی تجھ سے وہی مانگتا ہوں جو تیرے نبی کریم سلیمان نے تجھ سے مانگا تھا تو میری دعا قبول کرلے اور مجھ پر فضل فرما، اگرچہ میں عمل میں کوتاہ ہوں، لیکن جنت کے حصول کا سبب محض تیرا فضل و کرم ہے۔ انتہی۔ یہ بندہ عاجز و خطاوار بھی اپنے دونوں ہاتھوں کو ارحم الراحمین کے حضور پھیلا کر دعا کرتا ہے کہ میرے رب ! میں بھی تیرے نبی کریم سلیمان کی طرح تجھ سے تیری رضا اور عمل صالح کی توفیق مانگتا ہوں، اور میرے کریم ! بڑی عاجزی کے ساتھ تیرے سامنے سر بسجود ہو کر دعا کرتا ہوں کہ قیامت کے دن مجھے بھی اپنے رحم و کرم سے اپنے نیک بندوں میں شامل کردینا، اور میرے والدین، میرے بھائی بہن، میری بیوی، میرے بچے اور تمام بچیوں کو بھی اپنے فضل و کرم کے سائے میں جگہ دے دینا۔ آمین یا رب العالمین النمل
18 النمل
19 النمل
20 11۔ سلیمان (علیہ السلام) نے ایک دن دوان سفر چڑیوں کی حاضری لی، اور خاص طور پر ہدہد کے بارے میں دریافت کیا، تو وہ غائب تھا، حافظ ابن کثیر نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) جب کبھی چٹیل میدان میں ہوتے جہاں پانی کی ضرورت ہوتی تو ہدہد وہ جگہ بتا دیتا جہاں زمین کے نیچے پانی ہوتا، پھر جن اس جگہ کو کھود کر پانی نکال لیتے۔ ایسی ضرورت کے پیش نظر سلیمان (علیہ السلام) نے ہد ہد کو طلب کیا تو وہ نہیں ملا، انہوں نے ناراض ہو کر کہا کہ اگر اس نے معقول عذر نہیں پیش کیا تو میں اسے سخت سزا دوں گا، یا ذبح کردوں گا، لیکن کچھ ہی دیر کے بعد وہ سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے حاضر ہوگیا، اور اپنا عذر پیش کرتے ہوئے انہیں خبر دی کہ میں وہ کچھ دیکھ آیا ہوں جس کی آپ کو خبر نہیں ہے، میں یمن کے شہر سبا (جو اب مارب کہلاتا ہے) کی ایک بالکل سچی خبر لے کر آیا ہوں۔ میں نے وہاں ایک عورت کو دیکھا ہے جو بادشاہ ہے اور جسے اللہ نے ہر ساز و سامان اور اسباب و ثروت سے نواز رکھا ہے، اور اس کا ایک بہت عظیم تخت شاہی ہے جس پر بیٹھ کر حکومت کرتی ہے۔ مفسرین نے اس عورت کا نام بلقیس بتایا ہے، اور اس کی فوج، تخت شاہی اور حشم و خدم کی تفصیلات بیان کی ہیں، جن سے اس کی عظیم بادشاہت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہدہد نے کہا : میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ کے سوا آفتاب کو سجدہ کرتے دیکھا ہے، اور شیطان نے ان کے ان شرکیہ اعمال کو ان کی نگاہوں میں خوبصورت بنا دیا ہے، اور انہیں راہ حق کی اتباع سے روک دیا ہے، اسی لیے وہ لوگ بھٹک گئے ہیں اور اس اللہ کے لیے سجدہ نہیں کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کو نکالتا ہے۔ آسمان سے بارش بھیجتا ہے، اور زمین کے اندر سے نباتات کو نکالتا ہے، اور جو تمام پوشیدہ اور ظاہر کو جانتا ہے، وہ اللہ جس کے سوال کوئی معبود نہیں ہے، اور جو اس عرش عظیم کا رب ہے، جو آفتاب، تمام ستاروں اور ہر چیز کو محیط ہے، جس کی عظمت کے مقابلے میں اس عورت کے تخت شاہی کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اور جس اللہ کی قدرت کے مقابلے میں اس کا معبود یعنی آفتاب کتنا کمزور اور ناتواں ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ چونکہ ہدہد نے صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کی دعوت دی اور غیر اللہ کو سجدہ کرنے سے روکا اسی لیے اس کا قتل ممنوع ہے۔ امام احمد ابو داود اور ابن ماجہ وغیرہم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم نے چار جانداروں کو مارنے سے منع فرمایا ہے۔ چیونٹی، شہد کی مکھی، ہدہد اور لٹورا۔ النمل
21 النمل
22 النمل
23 النمل
24 النمل
25 النمل
26 النمل
27 12۔ سلیمان (علیہ السلام) نے ہدہد کی بات سن کر کہا، میں تمہارے امتحان لے کر دیکھوں گا کہ تم نے سچ بات کہی یا اپنی جان بچانے کے لیے میرے سامنے ایک جھوٹ گھڑ کر بیان کردیا ہے۔ میرا یہ خط لے کر جاؤ اور ان کے سامنے ڈال دو، اور پھر ہٹ کر چھپ جاؤ اور دیکھو کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ چنانچہ ہد ہد نے ایسا ہی کیا، اور ملکہ کی گود میں خط ڈال دیا، ملکہ نے خوفزدہ ہو کر اسے پڑھا اور اپنے دربار کے خاص لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ میرے پاس ایک بہت ہی لائق احترام خط بھیجا گیا ہے، یہ خط سلیمان کی جانب سے ہے، اور اس کی ابتدا اس اللہ کے نام سے ہے جو بے حد رحم کرنے والا نہایت مہربان ہے، اور اس کا مضمون یہ ہے کہ تم لوگ بادشاہوں کے عام طریقے کے مطابق کبر و نخوت سے کام نہ لو، اکڑو نہیں، اور جو دین دے کر میں بھیجا گیا ہوں، اس پر ایمان لاؤ اور میرے دربار میں حاضر ہوجاؤ۔ النمل
28 النمل
29 النمل
30 النمل
31 النمل
32 13۔ بلقیس نے جب خط پڑھ لیا، تو دربار میں موجود خاص لوگوں کو اس کا مضمون بتایا، اور ان سے کہا کہ تم لوگ اس بارے میں مجھے اپنی رائے دو، جب تک تم لوگوں کی رائے نہ معلوم کرلوں، صرف اپنی سمجھ پر بھروسہ کر کے کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتی ہوں۔ تو ان زعمائے قوم نے کہا کہ ہم فوجی طاقت اور جنگ کا اچھا تجربہ رکھتے ہیں۔ اور معرکہ کارزار میں دشمنوں کے چھکے چھڑا دیتے ہیں، اس لیے ہم اپنی جان و مال اور ملک و وطن سے دفاع کی پوری قدرت رکھتے ہیں، اب آپ خود ہی فیصلہ کیجئے، آپ کی دور اندیشی اور عقلمندی پر ہمیں پورا بھرسہ ہے، آپ کا جو حکم ہوگا اسے کر گذرنے کے لیے ہم تیار ہیں۔ بلقیس نے تمام حالات کا جائزہ لیا، سلیمان (علیہ السلام) کی قوت و ہیبت کا اندازہ اس سے لگایا کہ چریاں تک ان کی تابعِ فرمان ہیں۔ اور اس نتیجے پر فوراٍ پہنچ گئی کہ وہ اپنے دشمن کے مقابلے میں ببالکل کمزور ہے، اور بہتری اسی میں ہے کہ سلیمان سے صلح کرلی جائے، اسی لیے اس نے کہا کہ یہ بادشاہ حضرات جب کسی ملک میں قوت کے بل بوتے پر داخل ہوتے ہیں، تو اسے تہس نہس کرد یتے ہیں اور وہاں کے معزز لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں، قتل کرتے ہیں، قید کرلیتے ہیں اور مال و متاع لوٹ لیتے ہیں، اس لیے سلیمان اور اس کی فوج کے لوگ بھی یہاں یہی کچھ کریں گے۔ میں سلیمان اور اس کے عمائدین قوم کے لیے ہدیہ بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ میرے قاصد کیا جواب اور تاثر لے کر آتے ہیں، جب قاصد سلیمان (علیہ السلام) کے پاس بلقیس کا فقیمتی ہدیہ لے کر پہنچے، اور ان کی خدمت میں پیش کیا، تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ تم لوگ مجھے مال دے کر خوش کرنا چاہتے ہو، تاکہ تمہارے کفر و شرک کو نظر انداز کر جاؤں، اور تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ دوں مجھے تو اللہ نے تم لوگوں سے کہیں زیادہ اور بہتر عطا کیا ہے۔ علم و نبوت سے نوازا ہے، بادشاہی عطا کی ہے اور جنوں، انسانوں، پرندوں، جانوروں اور ہواؤں تک کو میرے لیے مسخر کردیا ہے۔ تم لوگ ہدیہ واپس لے جاؤ اور دنیا کی ان عارضی نعمتوں پر خوش ہوتے رہو، مجھے تمہارا ہدیہ قبول نہیں، اور اگر وہ لوگ مسلمان بن کر میرے پاس نہ آئے تو ایک ایسی فوج لے کر ان پر حملہ کر دوں گا جن کے مقابلے کی ان کے اندر طاقت نہیں ہے، اور سب کو شہر سبا سے ذلیل و خوار کر کے نکال دوں گا۔ جب قاصدین سلیمان (علیہ السلام) کا یہ پیغام لے کر بلقیس کے پاس واپس پہنچے، اور اسے یقین ہوگیا کہ سلیمان کوئی دنیاوی بادشاہ نہیں بلکہ اللہ کے نبی ہیں، تو ایمان لانے کے لیے روانہ ہوگئی۔ النمل
33 النمل
34 النمل
35 النمل
36 النمل
37 النمل
38 14۔ سلیمان (علیہ السلام) جنوں کے ذریعہ اس کی آمد کی خبر لیتے رہے، اور جب فلسطین سے بالکل قریب آگئی تو انہوں نے اپنے اعیان حکومت سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ تم میں سے کون اس کا تخت شاہی میرے پاس ان سب کے آنے سے پہلے لا سکتا ہے؟ مفسرین لکھتے ہیں کہ اگر بلقیس اور اس کی قوم کے لوگ ان کے پاس آکر اسلام کا اعلان کردیتے تو ان کے لیے اس تخت کا لینا جائز نہ ہوتا، اس لیے کہا کہ کون ان کے آنے سے پہلے اس کا تخت لا سکتا ہے؟ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ ان کا مقصد بلقیس کے سامنے اپنی نبوت کی دلیل پیش کرنی تھی کہ اللہ نے انہیں یہ قدرت نبوت کی نشانی کے طور پر دی ہے، کہ اس کا تخت فلسطین میں اس کے سامنے موجود ہے، بہت سے مفسرین نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ ان کی یہ بات سن کر ایک قوی ہیکل جن نے کہا کہ یہ کام میں انجام دے سکتا ہوں، اور آپ کی مجلس برخواست ہونے سے پہلے اسے لے آؤں گا، آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اس کی قدرت رکھتا ہوں اور اسے بحفاظت و امانت آپ تک لے آؤں گا۔ جن کی یہ بات سن کر آصف بن برخیا نے کہا جو بنی اسرائیل میں سے تھا اور سلیمان (علیہ السلام) کا وزیر تھا، اور جسے اللہ کا وہ اسم اعظم معلوم تھا جس کے ذریعہ اللہ سے مانگنے سے دعا قبول ہوتی ہے، اس نے کہا کہ میں پلک جھپکنے سے پہلے اسے آپ کی خدمت میں حاضر کروں گا۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ وہ خود سلیمان (علیہ السلام) تھے انہی کے پاس اللہ کی کتاب کا علم تھا، انہوں ہی جن سے کہا کہ اس سے پہلے تو میں اسے لے آؤں گا۔ شوکانی نے پہلے رائے کو ترجیح دی ہے۔ بہرحال پلک جھپکنے سے پہلے وہ عرش سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے آگیا، تو انہوں نے کہا کہ یہ محض اللہ کا فضل و کرم ہے، ورنہ میرے اندر اس کی طاقت کہاں تھی، اللہ مجھے آزمانا چاہتا ہے کہ میں طاعت و بندگی کے ذریعہ اس کا شکر ادا کرتا ہوں یا معصیت و نافرمانی کے ذریعہ اس کی ناشکری کرتا ہوں، اور جو کوئی اللہ کا شکر گذار ہوتا ہے تو اس کا فائدہ اسے ہی پہنچتا ہے کہ اس کی نعمت باقی رہتی ہے، اور جو ناشکری کرتا ہے، تو اللہ اپنے بندوں کے شکر سے یکسر بے نیاز ہے، اس کا محتاج نہیں ہے اور وہ کریم ہے کہ بندوں کے کفر کے باوجود اپنی نعمتیں ان سے نہیں چھینتا ہے۔ النمل
39 النمل
40 النمل
41 15۔ سلیمان (علیہ السلام) نے حکم دیا کہ اس تخت کے بعض اوصاف بدل دئیے جائیں، تاکہ دیکھیں کہ بلقیس اسے اپنے سامنے دیکھ کر کیا جواب دیتی ہے، اور اس کی عقل و فہم کا اندازہ ہوسکے، چنانچہ جب وہ اپنے تخت کے قریب پہنچی تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا تمہارا تخت شاہی ایسا ہی ہے، تو اس نے کہا کہ ہو بہو ایسا ہی ہے، مفسرین لکھتے ہیں کہ اس نے یہ نہیں کہ کہ میرا ہی تخت شاہی ہے، اور نہ یہ کہا کہ نہیں میرا تخت تو اور ہے اور یہ جواب اس کی عقلمندی کی دلیل تھی تاکہ پہلے جواب کی صورت میں کوئی اسے جھٹلائے نہیں اور دوسرے جواب کی صورت میں کوئی اسے جاہل نہ کہے۔ سلیمان (علیہ السلام) نے اس کی ذہانت کا اعتراف کیا اور اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے اگر اسے عقل و ذہانت سے نوازا ہے، تو ہمیں اس کے قبل اپنی ذات برحق اور دین اسلام کی صداقت کا علم دے رکھا ہے، اور اسی وجہ سے ہم مسلمان کی زندگی گذار رہے ہیں، اور اسے ایک اللہ کی عبادت سے اب تک اس بات نے روک رکھا ہے کہ اس کی پوری قوم کافر تھی اور غیر اللہ کی عبادت کرتی تھی، تو یہ بھی انہی کی پیروی کرتے ہوئے اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک کرتی تھی، امام شوکانی نے آیت 43 کو اللہ کا کلام قرار دیا ہے، جس میں سلیمان و بلقیس کی گفتگو کے بعد اللہ نے اس کے مشرک ہونے کا سبب بیان کیا ہے۔ النمل
42 النمل
43 النمل
44 16۔ سلیمان (علیہ السلام) کے پاس ایک ایسا محل تھا جس کا فرش چکنے شیشے کا بنا ہوا تھا، اور اس کے نیچے ایک بڑا تالاب تھا جس میں بہت سی مچھلیاں تھیں، اور پانی میں تموج پیدا ہوتا رہتا تھا، انہوں نے بلقیس اور اس کی قوم کو اپنی نبوت اور عظیم سلطنت کی ایک اور نشانی دکھانی چاہی، چنانچہ وہ اس محل میں جا کر بیٹھ گئے، اور ان کے ارد گرد انسانوں اور جنوں کا ایک بڑا لشکر جمع ہوگیا اور پھر اس سے کہا گیا کہ سلیمان (علیہ السلام) اس سے اس محل میں ملنا چاہتے ہیں، جب محل کے صحن میں پہنچی تو اس نے پانی سمجھ کر اپنی دونوں پنڈلیوں سے کپڑے اوپر اٹھا لیے، تو سلیمان (علیہ السلام) نے اس سے کہا یہ پانی نہیں، بلکہ چکنے شیشے کا فرش ہے۔ یہ آخری چیز تھی جس نے بلقیس کی آنکھیں کھول دی۔ پہلی چیز سلیمان (علیہ السلام) کا خط تھا، جسے چڑیا نے اس کی گود میں ڈال دیا تاھ، دوسری چیز اس کا ہدیہ تھا جسے انہوں نے رد کردیا تھا، تیسری چیز اس کے قاصدوں کا فلسطین سے واپس جانے کے بعد سلیمان (علیہ السلام) کی پاکیزہ زنگی کی گواہی تھی۔ اور اب اس آخری چیز نے ان کی نبوت پر ایمان لانے پر اسے مجبور کردیا کہ تمام دنیاوی آرام و آسائش کے اسباب مہیا ہونے کے باوجود سلیمان (علیہ السلام) کا سر رہر وقت شدت تواضع سے اللہ کے سامنے جھکا ہوا ہے۔ اسی لیے بے ساختہ پکار اٹھی کہ میں اب تک اللہ کے بجائے آفتاب کی پرستش کر کے اپنے آپ پر ظلم کرتی رہی ہوں، میں سلیمان کی پیروی کرتے ہوئے اللہ رب العالمین پر ایمان لاتیہوں، اور اپنے اسلام کا اعلان کرتی ہوں۔ النمل
45 17۔ اس سورت میں مذکور انبیائے کرام اور ان کی قوموں کے عجیب و غریب واقعت میں سے تیسرا واقعہ صالح (علیہ السلام) کا ہے، اور جیسا کہ اوپر موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے واقعہ میں بتایا گیا ہے کہ ان واقعات سے مقصود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینی، اور کفار مکہ کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی دلیل فراہم کرنی ہے کہ یہ عجیب و غریب واقعات آپ کو بذریعہ وحی بتائے جا رہے ہیں، ورنہ ایک ان پڑھ آدمی جس کا مکہ سے باہر کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں، اسے ان واقعات کی کیسے خبر ہوجاتی جو سیکڑوں سال قبل گذرے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے قوم ثمود کے پاس ان کے نسبی بھائی صالح کو نبی بنا کر بھیجا، جنہوں نے ان سے کہا کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو، تو ایک گروہ نے ان کی دعوت قبول کرلی اور ان پر ایمان لے آیا، اور دوسرے گروہ نے ان کی دعوت کو غھکرا دیا اور بتوں کی پرستش پر مصر رہا، جیسا کہ سورۃ الاعراف آیات 75 76 میں اس مخالفت و عداوت کی تفصیل گذر چکی ہے، اور صالح (علیہ السلام) سے کہا کہ اگر تم اپنے دعوی میں سچے ہو تو کوئی نشانی پیش کرو، چونکہ نشانی آجانے کے بعد اگر ایمان نہ لاتے تو ہلاک کردئیے جاتے، اسی لیے انہوں نے ان کے حال پر رحم کھاتے ہوئے کہا، بجائے اس کے کہ تم ایمان لا کر اللہ کی رحمت کے طالب ہوتے، عذاب طلب کرنے پر کیوں اصرار کر رہے ہو؟ کیوں نہیں اللہ سے مغفرت طلب کرتے ہو تاکہ وہ تم پر رحم فرمائے۔ لیکن صالح (علیہ السلام) کی اس تقریر کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا، اور جواب میں کہا کہ اے صالح ! ہم لوگ تو تم سے اور تمہارے ماننے والوں سے بد شگونی ہی لیتے ہیں، یعنی جب سے تم نے یہ نئی بات شروع کی ہے ہمیں نقصان ہی پہنچتا آیا ہے، صالح (علیہ السلام) نے جواب میں ان سے کہا کہ تمہیں جو بھی خیر و شر پہنچتا ہے وہ اللہ کی تقدیر سے پہنچتا ہے، وہ چاہتا ہے تو تمہیں روزی دیتا ہے، نہیں چاہتا ہے تو محروم رکھتا ہے، حقیقت یہ کہ تم پر تمہارے کفر اور گمراہی کا جادو چل گیا ہے، جو بات تمہاری خواہش نفس کے موافق ہوتی ہے اسے اپنے لیے اچھا سمجھتے ہو اور جو تمہاری مرضی اور خواہش کے موافق نہیں ہوتی اسے اپنے لیے بدشگونی سمجھتے ہو۔ النمل
46 النمل
47 النمل
48 18۔ قوم ثمود کے شہر (حجر) میں نو آدمی ایسے تھے جو پوری قوم کو خراب کرتے تھے اور صالح (علیہ السلام) کی تکذیب پر لوگوں کو بھارتے تھے۔ انہی کی سفارش کے نتیجہ میں قدار بن سالف نے (جو ان میں سے ایک تھا) صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کو ہلاک کردیا، اور خود انہیں بھی رات میں قتل کردینے کی سازش کی، اور اللہ کے نام کی قسم کھائی کہ ہم سب مل کر صالح اور اس کے ماننے والوں کو قتل کردیں گے اور ان کے رشتہ داروں سے کہہ دیں گے کہ ان کے قتل کیے جانے کی ہمیں کوئی خبر نہیں ہے، اور ہم اپنی بات میں سچے ہیں۔ آیت 50 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے ہمارے نبی اور ان کے پیروکاروں کے قتل کی ناکام سازش کی، اور ہم انہیں اس طرح کشاں کشاں ان کے مقتل کی طرف لے گئے۔ چنانچہ اے میرے نبی ! دیکھ لیجئے کہ ان کی سازش ان کے گلے کا پھندا بن گئی اور ہم نے ان تمام کو ان کے ظلم و کفر کی وجہ سے ایک ساتھ ہلاک کردیا، اور اب ان کے مکانات خالی اور گرے پڑے ہیں، کوئی نہیں جو انہیں آباد کرے، بے شک سمجھدار لوگوں کے لیے ان کے اس واقعہ میں بڑی عبرت کی باتیں ہیں، اور جو صالح پر ایمان لے آئے تھے اور تقوی کی راہ اختیار کی تھی، ہم نے انہیں اس عذاب سے بچا لیا (یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ اس سے پہلے الاعراف، ہود اور الشعراء میں گزر چکا ہے) النمل
49 النمل
50 النمل
51 النمل
52 النمل
53 النمل
54 19۔ چوتھا عجیب و غریب واقعہ، لوط (علیہ السلام) اور سدوم اور عموریہ میں رہنے والی قوم کا ہے، جس کی ہدایت کے لیے وہ مبعوث کیے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے نبی ! آپ لوط کا واقعہ بھی لوگوں سے بیان کردیجئے، انہوں نے اپنی قوم سے کہا، تمہاری اخلاقی گراوٹ انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ آپس میں بدکاری کرتے ہوئے سبھی ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے ہو، ایک دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اس فعل بد کی شناعت و قباحت کو جانتے ہوئے اس کا ارتکاب کرتے رہتے ہو۔ تم کتنے برے ہوگئے ہو کہ اپنی حیوانی شہوت پوری کرنے کے لیے عورتوں کے بجائے مردوں کے ساتھ بدفعلی کرتے ہو، تم تو حیوانوں سے بھی بد تر ہوگئے ہو، اور تم ایسا اس لیے کرتے ہو کہ نرے جاہل اور نادان ہو، تمہیں معلوم ہی نہیں کہ تمہارے پیدا کرنے والے کا تم پر کیا حق ہے، اور کفر و سرکشی کا کیسا برا انجام ہوتا ہے۔ النمل
55 النمل
56 20۔ لیکن لوط (علیہ السلام) کی اس تقریر کا ان پر کوئی مثبت اثر نہیں ہوا، اور سب نے مل کر کہا کہ لوگو ! لوط (علیہ السلام) اور اس کے ماننے والوں کو اپنی بستی سے نکال دو اور بطور استہزاء کہا کہ یہ بڑے نیک اور پاکیزہ لوگ ہیں، اور جب ان کی سرکشی اس حد تک بڑھ گئی، تو اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) اور مسلمانوں کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا، اور تمام اہل قریہ کو ہلاک کردیا جن میں لوط (علیہ السلام) کی بیوی بھی شامل تھی، اللہ نے ان پر پتھروں کی بارش کردی۔ النمل
57 النمل
58 النمل
59 21۔ مجرموں کی ہلاکت اور مومنوں کی نجات کی خبر دینے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ وہ اس نعمت پر اپنے رب کا شکر ادا کریں، اور امت محمدیہ کو تعلیم دی ہے کہ جب بھی انہیں اللہ کی کوئی نعمت حاصل ہو تو وہ اپنے رب کا شکر بجا لائیں جس نے اپنے فضل سے انہیں وہ نعمت دی ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ دعوت کے میدان میں جب سامعین کے سامنے کوئی تقریر کرنی چاہیں یا کوئی تحریر پیش کریں تو اللہ کی برکت حاصل کرنے کے لیے اس کا آغاز اللہ کی حمد و ثنا اور انبیائے کرام جو اللہ کے برگزیدہ بندے ہیں ان پر درود و سلام سے کریں۔ اسی لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے سے ہر دور میں علماء خطباء اور واعظین کا یہی طریقہ رہا ہے۔ نیز اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ وہ اللہ کی حمد و ثنا اور انبیائے کرام پر درود و سلام کے بعد، مشرکین مکہ سے پوچھیں کہ اللہ بہتر ہے، یا وہ معبودان باطل جنہیں وہ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں، ظاہر ہے کہ ان معبودانِ باطل میں کوئی خیر نہیں ہے، اور یہ بات کفار مکہ کو معلوم ہے، اور پھر بھی وہ انہی کی عبادت کرتے ہیں۔ یہ کیسی بے عقلی، کیسی جہالت اور کیسی نفس پرستی ہے؟ یہ جانتے ہوئے کہ ان میں کوئی بھلائی نہیں ہے، پھر بھی انہیں اپنا معبود مانتے ہیں، ان پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں، اور ان کے سامنے سر ٹیکتے ہیں۔ فللہ الحمد علی نعمۃ التوحید۔ النمل
60 (٢٢) معبودان باطل کی عمومی نفی کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت مطلقہ کی مثالیں دے کر مشرکین مکہ سے الزامی سوال کیا ہے کہ بتاؤ یہ کس کی قدرت کا کرشمہ ہے ان چیزوں کو کس نے پیدا کیا ہے یہ نعمتیں کس نے دی ہیں؟ اور جب ہر سوال کا جواب تمہارے پاس سوائے اس کے کچھ نہیں کہ یہ سب اللہ کی کرشمہ سازی ہے تو پھر تم اسے چھوڑ کر دوسروں کو اپنا معبود کیوں بناتے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ سے پہلا الزامی سوال یہ کیا کہ ان آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے اور آسمان سے تمہارے لیے بارش کس نے نازل کی ہے؟ جس کے ذریعہ ہم نے تمہارے لیے خوبصورت باغات اگائے ہیں، تم ان درختوں کو اگانے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ ظاہر ہے اس کے سوا کوئی جواب نہیں کہ یہ سارے کام اللہ کے ہیں۔ تو پھر تم کیوں اللہ کے سوا کسی اور کی پرستش کرتے ہو؟ دوسرا سوال یہ کیا کہ اس زمین کو تمہارے لیے قرار کی جگہ کس نے بنائی ہے کہ وہ الٹتی نہیں ہے اور تم آرام سے اس پر زندگی گزارتے ہو اور زمین پر نہریں کس نے جاری کی ہیں اور اس پر پہاڑ کس نے جما دیئے تاکہ حرکت نہ کرے، اور میٹھے اور کھارے پانی کے درمیان رکاوٹ کس نے کھڑی کی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے نہیں ملتے ہیں (سورہ الفرقان میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے) اس کے سوا تمہارے پاس کوئی جواب نہیں کہ یہ سب اللہ کی قدرت کے کرشمے ہیں، تو پھر تم کیوں اس کے سوا کسی اور کو اپنا معبود بناتے ہو؟ تیسرا سوال یہ کیا کہ جب انسان کو کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے کسی مرض میں مبتلا ہوتا ہے یا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجاتا ہے یا کسی ظالم کے ہتھے چڑھ جاتا ہے تو وہ بے تحاشا کسے پکارتا ہے اور کون ہے جو اس کی فریاد رسی کرتا ہے اور اس کی مصیبت کو دور کردیتا ہے؟ اور کون ہے جو کچھ کو موت دیتا رہتا ہے اور ان کی نسلوں کو زمین کا وارث بناتا رہتا ہے؟ جواب معلوم ہے کہ وہ اللہ ہے۔ تو اے مشرکین مکہ ! پھر کیوں تم اسے چھوڑ کر معبودان باطل کے سامنے سربسجود ہوتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔ مضطر کی دعا کی مناسبت سے حافظ ابن القیم نے اپنی کتاب الجواب الکافی میں لکھا ہے کہ اگر دعا کرتے وقت پورے طور حضور قلب حاصل ہو، اپنی حاجت و ضرورت کا شدید احساس ہو اور رب العالمین کے حضور انتہائی عاجزی و انکساری اور غایت درجہ کا خشوع و خضوع حاصل ہو اور دل پر رقت طاری ہو اور اس حال میں بندہ اپنے رب کے پاکیزہ ناموں اور اعلی صفات کو وسیلہ بنا کر دعا کرے تو ایسی دعا شاید ہی رد کی جاتی ہے۔ چوتھا الزامی سوال اللہ نے مشرکین سے یہ کیا کہ صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں تمہاری کون رہنمائی کرتا ہے، اور کون بارش برسانے سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے، جن سے لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ اب بارش ہوگی، کون ان باتوں پر قادر ہے؟ جواب معلوم ہے کہ وہ اللہ ہے تو پھر کیوں تم لوگ اس کے ساتھ غیروں کو شریک بناتے ہو، اللہ تمہارے ان جھوٹے معبودوں سے بہت ہی برتر و بالا ہے۔ پانچواں سوال یہ کیا کہ وہ کون ہے جس نے انسانوں کو پہلی بار پیدا کیا ہے اور قیامت سے پہلے پھر سے انہین دوبارہ زندہ کرے گا، اس کو جواب اس کے سوا کچھ بھی نہیں (تم چاہے مانو یا نہ مانو) کہ وہ اللہ کی ذات ہے جو انہیں دوبارہ زندہ کرے گا اور کون ہے جو آسمان سے بارش برسا کر اور زمین سے پودے اگا کر تمہیں روزی دیتا ہے؟ جواب معلوم ہے کہ وہ اللہ کی ذات ہے جو اس کی قدرت رکھتا ہے، تو پھر تم جو اس کے ساتھ غیروں کو شریک بناتے ہو اور دعوی کرتے ہو کہ تم سچے ہو تو اپنی صداقت کی کوئی عقلی یا نقلی دلیل پیش کر کے دکھاؤ۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ سے الزامی بات یہ کہی کہ غیبی امور کا علم آسمانوں اور زمین میں رہنے والی مخلوقات میں سے کسی کو نہیں ہے ان کا علم صرف اللہ کو ہے۔ جیسا کہ اللہ نے سورۃ الانعام آیت (٥٩) میں فرمایا ہے : (وعندہ مفاتح الغیب لا یعلمھا الا ھو) اور اللہ ہی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں، ان کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس لیے اس کی ذات معبود برحق ہے اور تمہارے معبود چونکہ غیب کا کوئی علم نہیں رکھتے ہیں اس لیے وہ معبود نہیں ہوسکتے، کیونکہ معبود برحق کو تمام غیبی امور کا علم ہونا چاہیے تاکہ وہ دونوں جہان اور ان میں پائی جانے والی تمام کائنات کی دیکھ بھال کرسکے۔ بخاری و مسلم اور ترمذی نے عائشہ سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا جس نے یہ دعوی کیا کہ وہ لوگوں کو کل کی خبر بتاتا ہے، اس نے اللہ پر بہت بڑی افترا پردازی کی، اللہ تو کہتا ہے : (قل لایعلم من فی السموات والارض الغیب الا اللہ) آسمانوں اور زمین میں رہنے والی مخلوقات میں سے کوئی بھی غیب کی باتیں نہیں جانتا، انہیں صرف اللہ جانتا ہے۔ اس الزامی بات کی ایک اہم کڑی یہ ہے کہ قیامت کب آئے گی اور قبروں سے مردے کب اٹھائے جائیں گے اس کا علم بھی اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے، جیسا کہ اللہ نے سورۃ الاعراف آیت (١٨٧) میں فرمایا ہے : (یسالونک عن الساعۃ ایان مرساھا قل انما علمھا عند ربی لا یجلیھا لوقتھا الا ھو) یہ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق سوالات کرتے ہیں کہ وہ کب واقع ہوگی، آپ فرما دیجیے کہ اس کا علم صرف میرے رب ہی کے پاس ہے، اس کے وقت پر سوا اللہ کے اسے کوئی ظاہر نہیں کرے گا۔ اور جن معبودوں کی تم پوجا کرتے ہو انہیں تو کچھ بھی خبر نہیں کہ قیامت کب آئے گی اور کب وہ اپنے خالق کے سامنے حساب کے لیے کھڑے ہوں گے، اس لیے وہ معبود کیسے ہوسکتے ہیں، اگر وہ معبود ہوتے تو انہیں قیامت کی خبر ضرور ہوتی۔ النمل
61 النمل
62 النمل
63 النمل
64 النمل
65 النمل
66 (٢٣) حافظ ابن کثیر نے (بل الدرک علمھم فی الاخرۃ) کا معنی یہ کیا ہے کہ لوگوں کا علم قیامت کا وقت جاننے سے عاجز ہوگیا، بعض لوگوں نے اسے (بل الدرک علمھم فی الاخرۃ) پڑھا ہے جس کا معنی یہ ہوگا کہ قیامت کے بارے میں تمام لوگوں کا علم برابر ہوگیا یعنی کوئی بھی اس کا وقت نہیں جانتا، اس کے بعد کلام کا رخ منکرین قیامت کی طرف پھیر دیا گیا ہے کہ یہ مشرکین قیامت کی آمد میں شک کرتے ہیں، بلکہ ان کے دل اندھے ہوگئے ہیں کہ اس کی تصدیق کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ بعض لوگوں نے ادارک کا معنی تکامل کیا ہے اور ماضی کو مستقبل کے معنی میں مانا ہے۔ یعنی قیامت کے دن جب مشرکین سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو آخرت پر ان کا یقین کامل ہوجائے گا، لیکن اس علم سے انہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا کیونکہ دنیا میں اس کے بارے میں شک میں تھے اور مختلف انداز میں اس کی تکذیب کرتے رہے تھے۔ زجاج وغیرہ نے کہا ہے کہ اس آیت میں انکار کا معنی پایا جاتا ہے اس لیے معنی یہ ہوگا کہ مشرکین کے علم نے آخرت کا ادراک نہیں کیا، بلکہ اس کے بارے میں ہمیشہ شک میں رہے، بلکہ دل کے اندھے ہونے کی وجہ سے انہیں اس کے بارے میں کوئی علم حاصل ہی نہیں ہوا۔ کئی مفسرین نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ و باللہ التوفیق۔ النمل
67 (٢٤) دل کے اندے ہونے کی وجہ سے ہی مشرکین نے آخرت کا یکسر انکار کردیا اور کہا کہ کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادے مرنے کے بعد گل سڑ کر مٹی ہوجائیں گے تو اپنی قبروں سے دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے؟ یہ انہونی بات ہے اور محمد سے پہلے اسی طرح کے دوسرے لوگ بھی گزشتہ زمانوں میں پیدا ہوئے، اور لوگوں سے یہی بات کہی، لیکن اب تک تو ایسا ہوا نہیں اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے اس قسم کے لوگ ہمیشہ جھوٹی باتیں لوگوں کو سناتے رہے ہیں۔ اللہ عالی نے ان کے اس کفر و عناد اور انکار آخرت کا جواب اپنے نبی کی زبانی یہ دیا کہ تم لوگ ذرا دنیا میں چل کر ان قوموں کا انجام دیکھ لو، جنہوں نے ہمارے انبیا کی اور آخرت کی تکزیب کی کہ ہم نے کس طرح انہیں ہلاک کردیا، اور اپنے انبیا اور ان پر ایمان لانے والوں کو بچا لیا۔ اگر وہ انبیا جھوٹے تھے تو پھر ان قوموں کو کیوں ہلاک کیا گیا، اور جس ذات برحق نے انہیں پہلے پیدا کیا تھا اور پھر انہیں ہلاک کردیا وہ یقینا انہیں دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔ النمل
68 النمل
69 النمل
70 (٢٥) نبی کریم کو تسلی دی جارہی ہے کہ اگر مشرکین مکہ آپ کی تکذیب کرتے ہیں اور ایمان نہیں لاتے ہیں تو غم نہ کیجیے عنقریب اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ظاہر کرے گا جو آپ پر ایمان لائیں گے، اور کفار خس و خاشاک کی مانند مٹ جائیں گے، اور یہ کفار آپ کے خلاف جو سازشیں کرتے ہیں ان سے بھی آپ تنگ دل نہ ہوں، اللہ آپ کی حفاظت کرے گا۔ النمل
71 (٢٦) اس کا تعلق مشرکین مکہ کی گزشتہ بات سے ہے کہ وعدہ آخرت کی کوئی حقیقت نہیں ہے، انہوں نے کہا اے محمد اور اس کے ماننے والو ! اگر تمہیں اپنے سچا ہونے کا دعوی ہے تو پھر بتاؤ تو سہی کہ وہ وقت کب آئے گا؟ مشرکین یہ بات نبی کریم کا مذاق اڑانے کے لیے کہتے تھے۔ تو اللہ نے اپنے نبی کی زبان ان کا جواب دیا کہ جس عذاب کی تمہیں جلدی ہے اس کا کچھ حصہ عنقریب ہی تم پر نازل ہونے والا ہے، چنانچہ میدان بدر میں گاجر مولی کی طرح کاٹے گئے اور جو باقی بچ گئے وہ قید کرلیے گئے۔ النمل
72 النمل
73 (٢٧) اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر کتنا بڑا فضل و کرم ہے کہ انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک نہیں کرتا ہے اور مومن و کافر سب کو روزی دیتا رہتا ہے، اور بندوں کا حال یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ اس کا شکر نہیں ادا کرتے ہیں بلکہ کفر کرتے ہیں اور آخرت کا انکار کرتے ہوئے عذاب آنے کی جلدی مچاتے ہیں، اس کے باوجود اللہ انہیں توبہ کی مہلت دیئے جاتا ہے۔ آیت (٧٤) میں نبی کریم کے لیے تسلی اور مشرکین کے لیے زبردست دھمکی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں اسلام اور اپنے نبی کے خلاف چھپی عداوت اور ان کے ظاہری کفر و شرک کو خوب جانتا ہے اور آسمان و زمین میں کہیں بھی کوئی چیز یا کوئی عمل مخلوقات کی نگاہوں سے چھپا ہے تو وہ لوح محفوظ میں نوشتہ ہے اور اللہ کو اس کا خوب علم ہے، اور جب قیامت آئے گی تو اللہ انہیں ان کے تمام کفر و عناد اور ایک ایک برے عمل کا انہیں بدلہ چکائے گا۔ النمل
74 النمل
75 النمل
76 (٢٨) اللہ تعالیٰ کے عالم الغیب ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ بنی اسرائیل اپنے جن تاریخی واقعات میں آپس میں شدید اختلاف کرتے تھے ان سے متعلق اس نے صحیح بات اپنے نبی امی کی زبانی قرآن کریم میں نازل فرما دیا ہے، اس سورت کے شروع میں انبیائے بنی اسرائیل اور ان کی قوموں کے جو واقعات بیان کیے گئے ہیں ان سے اس بات کی تائید ہوتی ہے اور انہیں ایمان کی دعوت دیتے ہیں۔ النمل
77 (٢٩) یہ قرآن ان لوگوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ اور سراپا رحمت ثابت ہوا جو اس پر ایمان لے آئے، ان میں عرب کے بکریوں اور اونٹوں کے چرواہے اور یہود و نصاری کے وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے اسلام کی دعوت کو قبول کیا، قرآن کریم کی دعوت کو قبول کرلینا ان کے لیے دنیا اور آخرت کی کامیابیوں کا سبب بنا اور وہی عرب جو لٹیروں کے نام سے جانے جاتے تھے روم اور فارس کے حکمران بن گئے۔ النمل
78 (٣٠) قرآن کریم کی عظمت بیان کرنے اور اس کی اہمیت جتانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ وہ قیامت کے دن اس قرآن پر ایمان لانے والوں اور اس کا انکار کرنے والوں کے درمیان عدل و حکمت کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ اور وہ ایسا غالب ہے کہ کوئی باطل پرست اس کے فیصلے سے بھاگ نہیں سکے گا، اور وہ ایسا علام الغیوب ہے کہ حق و ناحق کو خوب جانتا ہے اس کے فیصلے میں غلطی نہیں ہوسکتی ہے، اسی لیے آیت (٧٩) میں آپ کو کہا گیا کہ آپ اللہ پر بھروسہ کر کے دعوت و تبلیغ کا کام کیے جائیے، اور اس یقین کے ساتھ اپنا مشن جاری رکھیے کہ آپ ایسے واضح حق پر ہیں جس کی صداقت میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں اس آیت کریمہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ حق پرست کو اس بات کا یقین رکھنا چاہئیے کہ اللہ اس کی ضرور مدد کرے گا، اور باطل سرنگوں ہو کر رہے گا۔ نبی کریم کو مزید اطمینان دلانے کے لیے آیات (٨٠، ٨١) میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ دعوت اسلامیہ سے وہی لوگ مستفید ہوں گے جو قرآن کریم پر ایمان لائیں گے اور اللہ کے دین کو دل سے قبول کرلیں گے آپ اس فکر میں ہر دم پریشان نہ رہیں کہ سبھی لوگ آپ کی دعوت کو کیوں نہیں قبول کرلیتے ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ کفار مکہ قرآن کریم کو اپنے ظاہری کانوں سے سنتے تھے، لیکن ان پر اس کا رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی اثر نہیں ہوتا تھا، اسی لیے انہیں مردوں اور بہروں سے تشبیہ دیا گیا، اور ان کی گمراہی دائمی تھی، ان کے راہ راست پر آنے کی کوئی امید نہیں تھی، اسی لیے انہیں اندھوں سے تشبیہ دیا گیا اور ہر دور میں جن کے لیے ضلالت و گمراہی لکھ دی جاتی ہے اور جن کے دلوں پر کفر کی مہر لگا دی جاتی ہے ان کا ایسا ہی حال ہوتا ہے۔ النمل
79 النمل
80 النمل
81 النمل
82 (٣١) ابن جریر، ابن ابی حاتم، حاکم اور ابن مردویہ وغیرہم نے اس آیت کی تفسیر میں ابن عمر کا قول نقل کیا ہے کہ جب قیامت کا وقت قریب وہگا اور زمین میں کوئی بھلائی کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا باقی نہیں رہے گا، تو اللہ تعالیٰ زمین سے ایک جانور نکالے گا جو لوگوں سے کہے گا کہ تم لوگ ان آیتوں پر ایمان نہیں لاتے تھے جن میں قیامت کی خبر دی گئی ہے تو میں قریب قیامت کی نشانی ہوں مجھے اس اللہ نے یہ قوت گویائی دی ہے جو قیامت لانے پر قادر ہے۔ صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا : قیامت کی ابتدائی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ آفتاب مغرب سے طلوع ہوگا اور صبح کے وقت اچانک ایک جانور نکل کر لوگوں کے سامنے آجائے گا اور دونوں نشانیاں ایک دوسرے کے قریب ہوں گے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یا تو وہ جانور صرف ایک ہوگا، جو لوگوں سے مذکور بالا بات کرے گا یا مقصود جانور کی ایک قسم ہے، جس کی ایک بڑی تعداد یک نہ بیک زمین کے مختلف حصوں میں ظاہر ہوگی اور سبھی اللہ کے حکم سے وہی بات کریں گے جس کا اوپر ذکر آچکا ہے۔ وہ جانور کیسا ہوگا کہاں ظاہر ہوگا اور اس سے متعلق دوسری بہت سی تفصیلات کا ذکر ایسے اخبار و آثار میں آیا ہے جو قابل اعتبار نہیں اور نہ ہی اصل موضوع کو سمجھنے کے لیے ان کی ضرورت ہے، اسی لیے ان کے کر سے گریز کرنا ہی بہتر ہے۔ النمل
83 (٣٢) جو لوگ دنیا میں قرآن کریم کی تکذیب کرتے ہیں قیامت کے دن ان کا کیا حال ہوگا اور اللہ ان سے کہا کہے گا، اسی کو آیات (٨٣، ٨٤) میں بیان کیا گیا ہے کہ ان کی تعداد کثیر ہوگی اور ان سب کو ایک جگہ گھیر کر اکٹھا کیا جائے گا، اور اللہ تعالیٰ تمام اہل محشر کے سامنے انہیں ذلیل و رسوا کرنے کے لیے ان سے کہے گا کہ تم ہی لوگوں نے میری ان قرآنی آیات کی تکذیب کی تھی جن میں قیامت کی خبر دی گئی تھی؟ اور ان میں غور فکر کرنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی، تم نے سوائے فساد برپا کرنے اور لوگوں کو راہ راست سے روکنے کے دنیا میں کیا ہی کیا تھا۔ اسی لیے جیسا کہ آیت (٨٥) میں کہا گیا، ان کے لیے اللہ کا عذاب مقدر ہوگیا ہے اور وہ اپنے دفاع میں ایک کلمہ بھی اپنی زبان سے ادا نہ کر پائیں گے۔ النمل
84 النمل
85 النمل
86 (٣٣) منکرین قیامت کے دعوت غور و فکر دی جارہی ہے کہ اللہ نے رات بنائی ہے جس میں لوگ سکون حاصل کرنے کے لیے نیند کی گود میں چلے جاتے ہیں، جو موت کی ایک ہی قسم ہے اور دن کے وقت جاگ اٹھتے ہیں اور مصروف عمل ہوجاتے ہیں، یہ جاگنا موت کے بعد زندگی کی ایک قسم ہے، اور جب تک آدمی زندہ رہا ہے، نیند و بیداری اور موت و زندگی کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اور یہ سب اللہ کی قدرت سے وہتا ہے اگر ایک عقلمند آدمی اس میں غور کرے گا تو وہ یقینا موت کے بعد دوسری زندگی پر ایمان لے آئے گا کیونکہ جو اللہ نیند اور بیداری پر قادر ہے، وہ یقینا موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔ آیت کے آخر میں کہا گیا ہے کہ اس عمل خواب و بیداری میں ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں، کیونکہ انہی کے دل زندہ ہوتے ہیں اور وہی اس میں غور و فکر کے بعد بعث بعد الموت پر ایمان لے آتے ہیں، اور جن کے دل کفر کی وجہ سے مردہ ہیں، اہیں غور و فکر کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ النمل
87 (٣٤) نفخ صور سے متعلق سورۃ الانعام آیت (٧٣) الکہف آیت (٩٩) طہ آیت (١٠٢) اور المومنون آیت (١٠١) میں لکھا جاچکا ہے۔ بعض علما کا خیال ہے کہ اسرافیل (علیہ السلام) تین بار صور پھونکیں گے۔ اور بعض کا خیال ہے کہ صور دو بار ہی پھونکا جائے گا۔ ماوردی کہتے ہیں کہ اس آیت میں وہ صور مراد ہے جس کے بعد مردے قبروں سے اٹھ کر میدان محشر کی طرف دوڑ پڑیں گے۔ جب یہ صور پھونکا جائے گا تو آسمانوں اور زمین میں رہنے والے اللہ کے تمام بندے صور کی شدید آواز سے گھبرا جائیں گے اور سب پر دہشت طاری ہوجائے گی، مگر اللہ کے کچھ ایسے نیک بندے ہوں گے جنہیں اللہ تعالیٰ اس خوف و دہشت سے محفوظ رکھے گا۔ اللہ کے ان نیک بندوں کی تحدید کے بارے میں علما کے کئی اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد تمام اہل ایمان ہیں جیسا کہ اس کے بعد والی آیت (٨٩) دلالت کرتی ہے کہ مومنین اس دن کی گھبراہٹ سے مامون رہیں گے۔ النمل
88 (٣٥) نبی کریم کو مخاطب کر کے کہا جارہا ہے کہ نفخ صور کے بعد پہاڑ بظاہر اپنی جگہ پر جامد ہوں گے، لیکن وہ بادلوں کی سی تیزی کے ساتھ چل رہے ہوں گے، اکثر مفسرین نے اس آیت کی یہی تفسیر بیان کی ہے کہ ایسا قیامت کے دن اس وقت ہوگا جب اللہ تعالیٰ پوری کائنات کو ہلاک کردے گا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الطور آیت (١٠) میں فرمایا ہے : (وتسیر الجبال سیرا) اور سورۃ الکہف آیت (٤٧) میں فرمایا ہے : (ویون نسیر الجبال) دونوں آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پہاڑوں کو بہت تیزی کے ساتھ چلائے گا اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کی وجہ سے ہوگا جس نے ہر چیز کو ایک مخصوص حکمت کے مطابق پیدا کیا ہے، اور جو بندوں کے تمام اچھے اور برے اعمال سے باخبر ہے، اور قیامت کے دن انہیں ان کا بدلہ دے گا۔ اسی مفہوم کی مزید تاکید کے طور پر آیات (٨٩، ٩٠) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا میں جو ایمان و عمل کی زندگی گزارے گا اس دن اسے کوئی خوف و ہراس لاحق نہیں ہوگا، اور اللہ تعالیٰ اسے جنت عطا کرے گا، اور جو لوگ شرک و معاصی کے مرتکب ہوں گے انہیں ان کے منہ کے بل جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔ پھر بندوں کو خطاب کر کے فرمایا کہ اس دن جو کچھ ہوگا تمہارے اعمال کا نتیجہ ہوگا، کسی پر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں ہوگا۔ النمل
89 النمل
90 النمل
91 (٣٦) اوپر کی آیتوں میں قیامت کی کچھ نشانیاں اور اس کی بعض ہولناکیاں بیا کر کے کفار قریش کو اس پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ اور اب نبی کریم سے کہا جارہا ہے کہ وہ ان کافروں کے سامنے اپنا عقیدہ و عمل بیان کردیں اور اپنا موقف واضح کردیں، چنانچہ آپ نے قرآن کی زبان میں کافروں سے کہا کہ مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں صرف شہر مکہ کے رب کی عبادت کروں، اس کا کسی کو شریک نہ بناؤں، وہ مکہ جسے اللہ نے حرم اور جائے امن بنا دیا ہے، جہاں نہ کسی کو قتل کیا جاتا ہے نہ کسی پر ظلم ہوتا ہے، نہ اس کے جانوروں کا شکار کیا جاتا ہے اور نہ اس کے درخت کاٹے جاتے ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ شہر مکہ اور اس کے امن و سکون کو ذکر کرنے سے مقصود کفار قریش کو احساس دلانا ہے کہ ان نعمتوں کا تقاضا تو یہ تھا کہ جس اللہ نے تمہیں یہ نعمتیں دی ہیں ان کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرتے اور اس کے قرآن اور اس کے رسول پر ایمان لے آتے۔ آپ نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا : وہی اللہ ہر چیز کا خالق و مالک ہے اور مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اپنی جبین نیاز صرف اسی کے سامنے خم کروں، اور مجھے یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤں اور اس پر ایمان لانے کی تمہیں دعوت دوں، کیونکہ دونوں جہاں کی سعادت کا راز اسی میں ہے۔ تو جو شخص میری دعوت توحید کو قبول کرے گا اور شرک سے تائب ہوجائے گا اس کا نفع اسے ہی پہنچے گا اور جو شخص گمراہ ہوجائے گا اس کا وبال اسی کے سر ہوگا۔ میرا کام تو صرف پیغام حق لوگوں تک پوری صراحت کے ساتھ پہنچا دینا ہے۔ آیت (٩٣) میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ نعمت اسلام پر کفار قریش کے سامنے اپنے شکر کا اظہار کریں کہ ہم مسلمان تو اللہ کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمیں اس عظیم نعمت سے نوازا ہے اور آپ ان سے یہ بھی کہہ دیجیے کہ مستقبل میں ہمارا رب تمہیں اپنی نشانیاں دکھائے گا۔ چنانچہ اللہ نے انہیں اپنی پہلی نشانی میدان بدر میں دکھائی اور دوسری فتح مکہ کے دن اور آخری نشانی موت کے وقت دکھائے گا جب فرشتے ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پر ضربیں لگائیں گے اور کہیں گے کہ اب چکھو جہنم کا عذاب۔ آخر میں اللہ نے فرمایا کہ اے میرے نبی ! آپ کا رب لوگوں کے اعمال سے غافل نہیں ہے اور وہ ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ ضرور دے گا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس میں اللہ کی جانب سے تمام بنی نوع انسان کے لیے بہت بڑی دھمکی ہے۔ النمل
92 النمل
93 النمل
0 نام : آیت (٢٥) میں مرد مومن شعیب کے پاس موسیٰ کی آمد کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے (فلما جاءہ وقص علیہ القصص قال لاتخف نجوت من القوم الظالمین) اسی آیت سے یہ نام ماخوز ہے اور چونکہ دعوت الی اللہ کی تاریخ میں موسیٰ (علیہ السلام)، فرعون اور بنی اسرائیل کے قصوں کی بڑی اہمیت ہے اسی ان کی اہمیت کے پیش نظر اس سورت کا نام، القصص، رکھ دیا گیا یعنی وہ سورت جس میں بہت ہی اہم تاریخی اور دعوتی قصے وارد ہوئے ہیں۔ زمانہ نزول : ابن مردویہ اور بہیقی نے کتاب الدلائل میں ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ سورۃ القصص مکہ میں نازل ہوئی تھی طبرانی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آیات، ٥٢، ٥٣، ان اصحاب نجاشی کے بارے میں نازل ہوئی تھیں جو معرکہ احد میں شریک ہوئے تھے انتہی۔ اسی طرح آیت ٨٥ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ مقام جحفہ میں سفر ہجرت میں نازل ہوئی تھی۔ کفار مکہ کے ذہنوں میں نبی کریم کی نبوت سے متعلق جو شبہات پیدا ہوئے تھے مختلف اسالیب میں قرآن کریم نے انہی کے ازالہ کی کوشش کی ہے اور انہیں باور کرانا چاہا کہ محمد اللہ کے نبی برحق ہیں اور دنیا ودین کی ہر بھلائی ان کی اتباع میں ہی مضمر ہے۔ القصص
1 (١) یہ حروف مقطعہ ہیں، ان کا معنی ومفہوم اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ القصص
2 (٢) مفسرین لکھتے ہیں کہ، تلک، اسم اشارہ بعید لانے سے مقصود قرآن کریم کی عظمت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ ایک بہت ہی عظیم المرتبت کتاب کی آیتیں ہیں جو حق وباطل، خیر وشر اور ہدایت وگمراہی کو انسانوں کی خیرخواہی میں کھول کھول کر بیان کرتی ہیں۔ القصص
3 (٣) اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے کہہ رہا ہے کہ آئندہ آیتوں میں ہم آپ کو موسیٰ اور فرعون کا سچا واقعہ سناتے ہیں جو ایمان والوں کے لیے مفید رہے گا ان کے ایمان میں پختگی آئے گی اور اللہ کی نصورت وتائید کے وعدے سے ان کے دلوں کو تقویت ملے گی۔ القصص
4 (٤) قصے کا آغاز یوں ہورہا ہے کہ مصرکا بادشاہ ولید بن ریان جو فرعون کے لقب سے جانا جاتا تھا پنی حکومت وبادشاہت کی رعونت میں بہت آگے بڑھ گیا تھا حتی کہ رب اور معبود ہونے کا دعوی کربیٹھا اور بنی اسرائیل کو مختلف ٹولیوں میں بانٹ کر ان سے غلاموں کی طرح خدمت لیتا تھا ان کے لڑکوں کو قتل کردیتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے قبطی مشیرکاروں نے اس سے کہا تھا کہ بنی اسرائیل میں اگر یونہی افزائش نسل ہوتی رہی تو وہ دن بدن قوی ہوتے جائیں گے یہاں تک کہ ایک دن وہ مصر کی حکومت پر قابضہ وجائیں گے انہوں نے اس کو اپنے باپ دادوں کے حوالے سے ابراہیم کی یہ پیغمبرانہ خبر بھی سنائی تھی کہ فرعون کی حکومت کا خاتمہ ایک ایسے لڑکے ہاتھوں ہوگا جو ان کی نسل سے ہوگا، اسی لیے اس نے بنی اسرائیل کی افزائش نسل کو روکنے اور بچے کو ختم کرنے کے لیے جس کے ہاتھوں تخت فرعون کو تاراج ہونا تھا، اس نے غلامی کی زندگی بسر کرنے والے بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرناشروع کردیا اور ان کی عورتوں کولونڈیاں اور خادمائیں بنا کر انسے خدمت لینے لگا۔ القصص
5 (٥) آخر کار اللہ کی رحمت جوش میں آئی اسے اپنے ان ناتواں بندوں پر رحم آیا جو اس کے خلیل ابراہیم کی نسل سے تھے انہیں فرعون کی غلامی سے آزاد کرکے ایمان جیسی عظیم ترین نعمت سے نوازنا چاہا اور فرعون اور اس کے لشکر کو ہلاک کرکے انہیں سرزمین مصر کا وارث وحاکم بنانا چاہا جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورۃ الاعراف میں آیت ١٣٧ میں فرمایا (واورثنا الارض القوم۔۔۔ تا۔۔ وماکانو یعرشون) ہم نے ان لوگوں کو جو بالکل کمزور شمار کیے جاتے تھے اس سرزمین کے مشرق ومغرب کا مالک بنادیاجس میں ہم نے برکت رکھی ہے اور آپ کے رب کا نیک وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں ان کے صبر کی وجہ سے پورا ہوگا یا اور ہم نے فرعون اور اس کی قوم کے ساختہ پرداختہ کارخانوں کو اور جو کچھ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنواتے تھے سب کو درہم برہم کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون، ہامان، اور ان دونوں کی فوجوں کو وہ کچھ دکھانا چاہا جس کے خوف سے وہ لوگ اسرائیلی بچوں کو قتل کروارہے تھے یعنی انہیں اپنی ہلاکت وبربادی کانظارہ اپنی آنکھوں سے کرنا تھا یہ سب کچھ کیسے ہوا آئندہ آیتوں میں اللہ نے اسے بیان فرمایا ہے۔ القصص
6 القصص
7 (٦) چونکہ فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کروا دیتا تھا تاکہ وہ بچہ زندہ نہ رہے جس کے ہاتھوں میں اس کی حکومت کو ختم ہونا تاھ اسی لیے موسیٰ جب پیدا ہوئے تو ان کی ماں بہت پریشان ہوئی للہ نے انہیں بذریعہ فرشتہ اطمینان دلایا کہ اس کی حفاظت اللہ کرے گا اس لیے وہ بچے کو دودھ پلاتی رہیں اور جس دن وہ سمجھ لیں کہ اب فرعون کے جاسوسوں کو ان کے گھر میں لڑکا ہونے کی اطلاع ہوجائے گی تو اسے بے خوف وخطرے دریائے نیل میں ڈال دیں اور ان کے بارے میں نہ ڈریں اور نہ پریشان ہوں اللہ قادر مطلق ان کا بچہ ان کے پاس پھر پہنچا دے گا اور انہیں یہ خوشخبری سنا دی کہ ان کا وہ بچہ بڑا ہو کر نبی مرسل ہوگا، چنانچہ ایسا ہی ہوا موسیٰ کی ماں نے انہیں ایک مضبوط محفوظ ٹوکرے میں ڈال کر دریا میں ڈال دیا۔ القصص
8 القصص
9 القصص
10 القصص
11 (٧) انہوں نے اپنی دس بارہ سالہ بچی سے کہا کہ دور سے دیکھتی جا یہ ٹوکرا کہاں جاتا ہے بچی نے ایسا ہی کیا اور دیکھا کہ ٹوکرا اللہ کے فیصلے کے مطابق بہتا ہوا فرعون کے محل کے قریب سے گزرا اور فرعون کے خادموں نے بچے کو ٹوکرے سے نکال کر اس کے محل میں پہنچا دیا فرعون کی بیوی آسیہ نے بچے کو دیکھتے ہی کہا کہ یہ تو بہت ہی پیارا بچہ ہے یہ میری اور فرعون کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گا، اس لیے دوسرے بچوں کی طرح اسے ہرگز نہ قتل کیا جائے ممکن ہے ہم دونوں اسے اپنا بیٹابنالیں۔ ہوسکتا ہے کہ آئندہ ہمارے لیے یہ بچہ مفید ثابت ہو گویا اللہ کا فیصلہ تمام فیصلوں پر غالب آرہا تھا۔ القصص
12 (٨) موسیٰ (علیہ السلام) کو دودھ پلانے کے لیے فرعون کی بیوی آسیہ نے دایہ کو بلوابھیجا لیکن انہوں نے اس کا دودھ نہیں پیا تو کسی اور دایہ کو بلوایا اس کا دودھ بھی پینے سے انکار کردیا اسی طرح بہت سی دائیاں کو بلوایا گیا لیکن بچے نے کسی کا بھی دودھ پینے سے انکار کردیا، اور اللہ نے فرعون وآسیہ اور محل کے دیگر رہنے والوں کے دلوں میں ان کی ایسی شدید محبت ڈالدی کہ سبھی پریشان ہوگئے اور بات شدہ شدہ محل سے باہر نکل گئ ان کی بہن تو تمام حالات کا خاموشی سے جائزہ لے رہی تھی اسنے ہمت کی اور آگے بڑھ کر محل والوں سے کہا کہ مجھے ایک دایہ کا پتا ہے شاید بچہ اس کا دودھ پینے پر آمادہ ہوجائے اور وہ لوگ اتنے اچھے ہیں کہ بچے کی اچھی نگہداشت کریں گے محل والوں نے فورا اس دایہ کو بلایا جو موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں تھیں، بچہ نے ان کے گود میں جاتے ہی لپک کر ان کا دودھ پینا شروع کردیا اور اس طرح اللہ نے انہیں دریائے نیل سے نکال کر فرعون کے ذریعہ ان کی ماں کے اس پہنچا دیا جہاں وہ ان کی محبت کے زیر سایہ پرورش پانے لگے اور ان کی آنکھوں کوٹھنڈک پہنچانے لگے اور اللہ نے ام مومسی سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا پورا ہوگیا اور لوگوں کو اس کی کانوں کان خبر بھی نہیں ہوئی۔ القصص
13 القصص
14 (٩) جب موسیٰ (علیہ السلام) پورے شباب کو پہنچ گئے اور ان کے اندر پختگی آگئی تو اللہ تعالیٰ نے عمر کے ساتھ ساتھ انہیں حکمت ودانائی سے بھی نوازا اپنے باپ کے گھر میں رہ کر اپنے آباواجداد ابراہیم، اسحاق، یعقوب اور یوسف وغیرہم کی تاریخ دعوت وعزیمت سن سن کر ان کی روح کو بالید گی ملتی گئی اور قصر شاہی سے اتصال کی وجہ سے دنیاوی علوم وحکم سے بہرہ ور ہوتے رہے اور جس طرح صالحہ ماں کے صالح بیٹے کو اللہ نے اپنی نعمتوں سے نوازا اللہ اپنے نیک بندوں کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی برتاؤ کرتا ہے۔ القصص
15 (١٠) ایک دن موسیٰ صبح کے وقت یا دوپہر کے وقت جب لوگ آرام کررہے تھے یا مغرب وعشا کے وقت کے درمیان قصر شاہی سے نکل کرشہر میں آئے جہاں عام لوگ رہا کرتے تھے، اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک جگہ ایک اسرائیلی اور ایک قبطی آپس میں جھگڑ رہے تھے اسرائیلی مظلوم تھا اس نے موسیٰ کو دیکھ کر انہیں ظالم قبطی سے نجات دلانے کے لیے پکارا انہوں نے قبطی کو ایک گھونسا مار کرہٹانا چاہا، اللہ کی مشیت کہ اسی ایک گھونسا سے اس کی موت واقع ہوگئی، موسیٰ (علیہ السلام) دم بخود ہوگئے، اور فورا ان کے دماغ میں یہ بات آئی کہ جو کچھ ہوا یقینا ان کے خلاف شیطان کی سازش کا نتیجہ ہے جو انسان کو کھلا اور گمراہ کن دشمن ہے اور شدت تاثر کی وجہ سے اپنی اس غلطی کو، ظلم، سے تعبیر کیا اور اپنے رب سے مغفرت طلب کی تو اللہ نے ان کی اس غلطی کو معاف کردیا اور ان کے دل میں کسی خاص واسطہ یہ بات ڈال دی کہ اللہ نے انہیں معاف کردیا ہے تو انہوں نے دعا کی کہ میرے رب تو نے مجھ پر جو یہ احسان کیا ہے تو میں تجھ سے عہد کرتا ہوں کہ اب میں فرعون اور فرعونیوں کے ساتھ نہیں رہوں گا جن کا ظالمانہ رویہ اسرائیلوں کے خلاف تمام حدوں کو تجاوز کرگیا ہے اور نہ کسی اور مجرم کی کبھی مدد کروں گا۔ القصص
16 القصص
17 القصص
18 (١١) اس غیر ارادی اور اچانک قتل کے حادثہ کے بعد موسیٰ خوف زدہ ہوگئے کہ معلوم نہیں فرعون کو جب اس حادثہ کا علم ہوگا توان کے ساتھ کیا کرے گا ابھی یہ خوف لاحق ہی تھا کہ دوسرے دن پھر وہی اسرائیلی ایکدوسرے قبطی کے ساتھ لڑرہا تھا، اور موسیٰ کو دیکھتے ہی انہیں اپنی مدد کے لیے پکارنے لگا، موسیٰ نے اس سے کہا کہ تو بڑا جھگڑالو معلوم ہوتا ہے طاقت نہ رکھتے ہوئے سب سے جھگڑتا پھرتا ہے اور لوگوں کے لیے مصائب کاسبب بنتا ہے، پھر قبطی کو پکڑنے کے لیے دوڑے جو کافر تھا اور ان کا اور اس اسرائیلی کا دشمن تھا تو اس نے ان سے کہا کہ کل تم ایک قبطی کو قتل کرچکے ہو اور آج مجھے قتل کرنا چاہتے ہو تم سرزمین میں ظالم جابر بن کررہنا چاہتے ہو اصلاح پسند نہیں بنا چاہتے ہو۔ امام شوکانی اور جمال الدین قاسمی صاحب محاسن التنزیل نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے کہ اس بات کا قائل قبطی تھا، قرآن کی ظاہری عبارت اسی پر دلالت کرتی ہے نیز اس کیو کئی دلیل موجود نہیں ہے کہ گزشتہ دن کے قتل کا واقعہ کسی قبطی کو معلوم نہیں تھا بلکہ معلوم تھا اور اس کی خبر فرعون کو بھی ہوگئی تھی جبھی تو اس نے فوری طور پر اپنی مجلس منعقد کرکے موسیٰ کو قتل کروادینے کا فیصلہ صادر کردیا تھا اور جس کی خبر لے کر وہ اسرائیلی موسیٰ کے پاس آیا تھا جو خفیہ طور پر مسلمان تھا اور جو فرعون کی مجلس میں شریک ہوا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ موسیٰ کا چچازاد بھائی تھا اس نے ان سے کہا فرعون کی مجلس میں تمہاری قتل کی سازش ہورہی ہے اس لیے تم فورا کسی طرح اس شہر سے نکل جاؤ چنانچہ موسیٰ فورا ہی چھپتے چھپاتے وہاں سے نکلے، تاکہ کہیں پکر کر نہ لیے جائیں اور قتل نہ کردیے جائیں شہر سے نکلتے ہوئے انہوں نے دعا کی کہ میرے رب مجھے فرعون اور فرعونیوں اور ہر ظالم سے نجات دے اور انہیں مجھ تک پہنچنے نہ دے۔ القصص
19 القصص
20 القصص
21 القصص
22 (١٢) موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے نکل کر مدین کی طرف متوجہ ہوئے جو فرعون کے حدود سلطنت سے خارج تھا اور اپنے رب سے دعا کرتے رہے کہ راستہ میں ان کے دشمن انہیں نہ جالیں چنانچہ بحفاظت حدود مصر سے نکل کر مدین کے علاقہ میں پہنچ گئے اور چلتے چلتے ایک کنواں کے پاس پہنچ گئے تو دیکھا کہ لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے اور سب اپنے اپنے جانوروں کو پانی پلارہے ہیں اور دو لڑکیاں الگ کھڑی ہیں ان کے قریب گئے اور پوچھا کہ وہ دور کیوں کھڑی ہیں تو انہوں نے بتایا کہ جب سارے چرواہے اپنی اپنی بکریوں کو پانی پلا کر ہٹ جائیں گے تو ہم پلاسکیں گے اس لیے ہمارے والد بوڑھے ہیں اب ان سے یہ کام نہیں ہوسکتا ہے اور ہمارے گھر میں کوئی دوسرامرد بھی نہیں ہے اور ہم ان مردوں کے ساتھ مزاحمت نہیں کرنا چاہتے۔ ان دونوں کی بات سن کر موسیٰ (علیہ السلام) آگے بڑھے اور ان کی بکریوں کو پانی پلادیا اور پھر ایک درخت کے سائے میں جاکر بیٹھ گئے اور دعا کی کہ میرے رب روزی حاصل کرنے کاجوذریعہ ابھی میرے سامنے ظاہر ہوا ہے میں اس کا محتاج ہوں یعنی دونوں لڑکیوں کے باپ کو ایک مزدور کی ضرورت ہے اور مجھے روزی کی ضرورت ہے۔ القصص
23 القصص
24 القصص
25 (١٣) اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ جیسا کہ امام شوکانی نے لکھا ہے وہ دونوں شعیب (علیہ السلام) کی لڑکیاں تھیں جب دونوں عادت کے خلاف جلد ہی بکریوں کو پانی پلا کر گھر پہنچ گئیں تو ان کے باپ نے حیرت سے سبب پوچھا انہوں نے وجہ بتائی تو باپ نے دونوں میں سے ایک کو واپس بھیج دیا کہ جا کر اس نوجوان سے کہو میرے والد تمہیں تمہاری مزدوری دینے کے لیے بلارہے ہیں، لڑکی نہایت شرم وحیا کے ساتھ گھونگھٹ نکلاے، موسیٰ کے پاس آئی اور اپنے باپ کا پیام پہنچایا تو موسیٰ نے اپنی بے سروسامانی اور شدید ضرورت کی وجہ سے موقع کو غنیمت جانا اور اس کے ساتھ چل پڑے خود آگے اور لڑکی پیچھے سے انہیں راستہ بتاتی رہی، شعیب (علیہ السلام) کے پاس پہنچ کر جب انہیں زرا سکون میسر ہوا تو اپنا سارا ماجرا ان سے بیان کیا، انہوں نے اطمینان دلایا اور کہا کہ تم ظالموں کی سلطنت کے حدود سے باہر نکل آئے اب یہاں آرام سے رہو۔ القصص
26 (١٤) جب موسیٰ (علیہ السلام) کچھ دن وہاں رہ چکے اور شعیب (علیہ السلام) اور ان کے گھروالے ان کے چال چلن سے بہت حد تک واقف ہوگئے تو ایک دن دونوں لڑکیوں میں سے ایک نے اپنے باپ سے مشورہ کیا کہ وہ موسیٰ کو تنخواہ پر بکریاں چرانے اور گھر کے دوسرے کام کاج کے لیے ملازم رکھ لیں اس لیے کہ بہتر ملازم ہو ہوتا ہے جو طاقت ور اور امانت دار ہوتا ہے اور کنواں کے پاس پہلی ملاقات سے اب تک اس کو جوکردار ہمارے سامنے آیا ہے وہ یہی بتاتا ہے کہ یہ آدمی طاقت ور ہے اور امانت دار ہے کہ اب تک اس نے ہماری طرف آنکھ اٹھاکربھی نہیں دیکھا ہے۔ شعیب (علیہ السلام) بھی ان کے حالات، کردار، اور چال چلن کا جائزہ لیتے رہے اور آیت ١٤ میں گزرچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو حکمت ودانائی سے تیس سال کی عمر میں ہی نواز دیا تھا تو ظاہر ہے کہ اس حکمت ودانائی کے آثار بھی ان پر نمایاں رہے ہوں گے اسی لیے جب شعیب کو ان کی طرف سے اطمینان ہوگیا توایک دن ان سے کہا کہ میں اپنی ان دونوں بچیوں میں سے ایک کی تم سے شادی کردینا چاہتا ہوں اس عوض میں آٹھ سال تک تم میرے ملازم رہو اور بکریاں چراؤ اور اگر تم اپنی طرف سے مزید دو سال کام کروتوی میرے ساتھ تمہارا تعاون ہوگا یہ کوئی الزامی بات نہیں ہے اور تم مجھے انشاء اللہ اپنے وعدے کا پابند اور اچھابرتاؤ کرنے والا پاؤ گے موسیٰ نے جواب دیا کہ جو بات میرے اور آپکے درمیان طے ہوئی ہے اس کے ہم دونوں پابند رہیں گے اور دونوں مدتوں میں سے جس پربھی عمل کروں مجھے اختیار حاصل ہے نہ مجھ سے آٹھ سال سے زیادہ کا اور نہ ہی اس کا مطالبہ کیا جائے گا،(میری خواہش کے برخلاف) دس سال سے پہلے ہی انی بیوی کولے کریہاں سے چلاجاؤں گا اور ہم دونوں اللہ کو گواہ بناتے ہیں۔ امام شوکانی لکھتے ہیں یہ آیت کریمہ دلیل ہے ان کے دین میں اجرت پر ملازم رکھنا جائزتھا نیز یہ کہ باپ کسی نیک آدمی کو اپنی لڑکی سے شادی کرلینے کی پیشکش کرسکتا ہے صحابہ کرام کی یہ سنت رہی ہے اور عمربن خطاب کا واقعہ مشہور ہے کہ انہوں نے ابوبکر اور عثمان کو اپنی بیٹی حفصہ سے شادی کرنے کی پیشکش کی تھی اور ایک صحابیہ نے رسول اللہ کو اس سے شادی کرلینے کی پیشکش کی تھی یہ واقعات صحیح روایات سے ثابت ہیں۔ القصص
27 القصص
28 القصص
29 (١٥) موسیٰ (علیہ السلام) کی شادی دونوں لڑکیوں میں سے ایک سے ہوگئی ور عہدنامہ کے مطابق شعیب (علیہ السلام) کے گھر رہنے لگے ابن ابی شیبہ اور بخاری وغیرہما نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے ان کی خدمت دس سال تک کی، ابن جریر، حاکم اور ابن مردویہ وغیرہم نے یہی بات رسول اللہ سے روایت کی ہے۔ مدت پوری کرنے کے بعد جب اپنے اہل وعیال کولے کرمصر کی طرف روانہ ہوئے تو کوہ طور کے قریب رات کے وقت راستہ بھٹک گئے اور بالکل پہاڑ کے دامن میں پہنچ گئے سخت سردی پڑرہی تھی دیکھا کہ پہاڑکی جانب سے روشنی آرہی ہے سمجھا کہ وہاں کچھ لوگ ہیں جنہوں نے آگ جلارکھی ہے اس لیے اپنے بال بچوں سے کہا کہ تم سب یہیں ٹھہرو، میں راستہ پوچھ کر آتا ہوں یاکم ازکم تمہیں گرمی پہنچانے کے لیے آگ لے کر آتا ہوں وہاں جب پہنچے تو بات ہی کچھ اور تھی وہ جگہ تو تجلی الٰہی کے سبب ایک مبارک وادی بن چکی تھی جس کے دائیں جانب موجود ایک درخت کے درمیان سے آواز آئی کہ، اے موسی، میں ہی اللہ ہوں جو سارے جہاں کا پالنہار ہے آپ ہے آپ کے ہاتھ میں جو لاٹھی ہے اسے زمین پر ڈالیے ڈالتے ہی ایک ڈراؤنا سانپ بن کر تیزی کے ساتھ حرکت کرنے گی، موسیٰ یہ کیفیت دیکھ کر ڈر گئے اور پیچھے مڑ کر بھاگ پڑے اور واپس نہیں آنا چاہا تو آواز آئی کہ اے موسیٰ واپس آئے اور خوف نہ کھائیے آپ ہر شر وبلا سے مامون ہیں یہ سب سے بڑا معجزہ تھا جو انہیں عطا کیا گیا تھا حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں اس معجزے کے اظہار کا مقصد یہ بھی تھا کہ انہیں یقین ہوجائے کہ وہ اس اللہ سے ہم کلام ہیں جو کسی چیز کو کہتا ہے کہ ہوجا، تو وہ چیز وجود میں آجاتی ہے۔ واپس آکر جب پہلی جگہ کھڑے ہوئے تو پھر آواز آئی کہ آپ کے رب کی جانب سے یہ دو معجزے ہیں جو آپ کے نبی مرسل ہونے کی دلیل ہیں انہیں لے کر آپ فرعون اور فرعونیوں کے پاس جائیے جنہوں نے کفر وسرکشی کی راہ اختیار کی ہے میرے سوا غیروں کی عبادت کرتے ہیں اور انہوں نے بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنارکھا ہے۔ القصص
30 القصص
31 القصص
32 القصص
33 (١٦) موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کا یہ حکم سن کر کہا کہ میرے رب میں نے ایک قبطی کو قتل کردیا تھا اسلیے ڈرتا ہوں کہ وہاں کے لوگ مجھے قتل کردیں گے اور میرے بھائی ہارون مجھ سے زیادہ فصیح اور گفتگو کی زیادہ قدرت رکھتے ہیں اس لیے انہیں بھی اپنا رسول اور میرا معاون ومددگار بنادے اگر میں اکیلا گیا تو ڈر ہے کہ وہ لوگ مجھے جھتلادیں گے وہ میرے ساتھ ہوں گے تو میں جو کچھ فرعون سے کہوں گا اسے وہ اپنی فصیح زبان میں مزید شرح وبسط کے ساتھ اس کے سامنے بیان کریں گے۔ اللہ نے ان کی طلب منظور کرلی اور کہا کہ ہم آپ کے بھائی کو آپ کا معین ومددگار بناتے ہیں اور آپ دونوں ہمارے معجزات لے کر فرعون کے پاس جائیے بہرحال غلبہ آپ کو اور آپ کے پیروکاروں کوہی ہوگا۔ القصص
34 القصص
35 القصص
36 (١٧) موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی معجزات لے کر فرعون کے پاس پہنچے موسیٰ نے اس سے کہا کہ میں اللہ کانبی مرسل ہوں اور یہ معجزے میری صداقت کی نشانیاں ہیں اور پھر دونوں معجزات کا اس کے سامنے مظاہرہ کیا تو فرعون کہنے لگا کہ یہ موسیٰ تو کہیں سے جادو سیکھ کر آگیا ہے بڑا شعبدہ باز ہوگیا ہے اور اپنی شعبدہ بازی کے ذریعہ سے ہماری آنکھوں کو مسحور کردیا ہے اور لاٹھی کو سانپ اور ہاتھ کو روشن اور چمکتا ہوا ظاہر کررہا ہے ہم اور ہمارے باپ دادا نے آج تک ایسا جادو نہیں دیکھا تھا یا یہ نہیں سنا تھا کہ کوئی انسان نبوت کا دعوی کرتا ہے یا یہ کہ اس دنیا کا ہمارے سوا کوئی اور معبود بھی ہے جو انسانوں کو اپنے پیغامبر بناکر معجزات کے ساتھ انہیں جیسے انسانوں کے پاس بھیجتا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ فرعون نے محض کبر وعناد کی وجہ سے نبوتوں کا انکار کی اور جھوٹ بولا اس لیے کہ یوسف (علیہ السلام) تو ابھی کچھ ہی دنوں پہلے گزرے تھے اور یہ بات سب کو معلوم تھی کہ وہ نبی تھے یا یہ کہ وہ ان کی نبوت کا منکر تھا۔ القصص
37 (١٨) موسیٰ نے اس کی معاندانہ بات کاجوابدیتے ہوئے یہ نہیں کہا کہ تم گمراہ کافر اور جہنمی ہو بلکہ نہایت نرمی کے ساتھ اپنے بارے میں کہا کہ میرا رب زیادہ جانتا ہے کہ اس نے کسے تمہارے لیے اور تمہاری قوم کے لیے روشنی اور ہدایت دے کربھیجا ہے اور کس کا انجام بہتر ہوگا یعنی کسے موت کے وقت فرشتے رحمت ورضائے الہی اور جنت کی بشارت دیں گے اور وہ یہ بھی خوب جانتا ہے کہ کہ کفر وسرکشی کے ذریعہ سے اپنے آپ پر ظلم کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوں گے اور تاریخ شاہد ہے کہ موسیٰ پر ایمان لانے والوں کو اللہ نے دنیا میں عزت دی اور آخرت میں بھی ان کا انجام اچھا ہوگا اور فرعون اور فرعونیوں کے حصہ میں ذلت ورسوائی اور ہلاکت وبربادی آئی ہے۔ القصص
38 (١٩) شوکانی لکھتے ہیں کہ فرعون موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ پراثر تقریر سن کر ڈر گیا کہ لوگ اس پر ایمان نہ لے آئیں اس لیے جانتے ہوئے کہ اس کارب اللہ ہے محض اپنی قوم کودھوکہ دینے کے لیے کہنے لگا کہ مجھے تو نہیں معلوم کہ میرے سوا تمہارا کوئی معبود ہے جس کی بندگی واطاعت کی یہ شخص ہمیں اور تمہیں دعوت دے رہا ہے اور اپنے بر وجبروت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور لوگوں کو اپنے کمال قدرت کا یقین دلانے کے لیے اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ پختہ اینٹوں کا ایک بلند محل بناؤ جس پر چڑھ کر میں ذرا موسیٰ کے معبود کاسراغ لگاؤں، حالانکہ میں تو اسے ابھی سے جھوٹا سمجھتا ہوں۔ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا منکر تھا، اس لیے اس نے اپنی قوم کو باور کرانا چاہا کہ موسیٰ اپنے اس دعوی میں بالکل جھوٹا ہے کہ میرے سوا کوئی اور بھی معبود ہے اس کی یہی بات سورت الشعرا آیت ٢٩ میں یوں بیان کی گئی ہے (لئن اتخذت۔۔ تا۔۔ مسجونین) اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تجھے قید میں ڈال دوں گا اور سورۃ نازعات، آیات ٢٣، ٢٤، ٢٥، ٢٦، میں آیا ہے، ترجمہ۔ پھر اس نے (یعنی فرعون نے سب کو جمع کرکے پکارا تم سب کارب میں ہی ہوں تو اللہ نے آخرت اور دنیا کے عذاب میں گرفتار کرلیا بے شک اس میں اس شخص کے لیے عبرت ہے جوڈرے۔ القصص
39 (٢٠) اللہ تعالیٰ نے فرعون اور فرعونیوں کے بارے میں فرمایا بجائے اس کے کہ وہ اللہ کے عاجز ومتواضع بندے بن کررہتے انہوں نے سرزمین مصر میں اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے متکبر ومغرور اور بڑا بنا کر پیش کی، جس کے وہ کسی طرح اہل نہیں تھے اس لیے کہ ہر قسم کی کبریائی اور بڑائی تو صرف اللہ کے لیے ہے اور انہوں نے بعث بعدالموت اور قیامت کا انکار کردیا اور سمجھ بیٹھے کہ اس زندگی کے بعد اب کوئی زندگی نہیں ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان سب کو اپنی گرفت میں لے لیا اور سمندر میں ڈبودیا کہتے ہیں کہ ڈوبنے والوں کی تعداد سولہ لاکھ تھی۔ واللہ اعلم آیت ٤٠ کے آخر میں نبی کریم کو مخاطب کرکے کہا گیا کہ کفر کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے آپ دیکھ لیجئے آیت ١٤ میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں رہتی دنیا تک کے لیے کفر وسرکشی کرنے والوں کاسرغنہ بنادیا کہ ایسے لوگ ہر دو میں اور ہر جگہ انہی کے نقش قدم پر چلتے رہیں گے اور کفر وشرک اور گناہوں کا ارتکاب کرکے جہنم کے حقدار بنیں گے اور قیامت کے دن ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا بلکہ ذلت ورسوائی کے ساتھ جہنم میں ڈال دیے جائیں گے، آیت (٤٢) میں کہا گیا کہ ہم نے اس دنیا میں ان پر لعنت بھیج دی اور اپنی رحمت سے دور کردیا اور آخرت میں بھی وہ ہماری ہر خیر و رحمت سے دور کردیے جائیں گے اور عذاب نار کے ذریعہ ان کے چہرے بگاڑ دیے جائیں گے۔ القصص
40 القصص
41 القصص
42 القصص
43 (٢١) امام شوکانی نے لکھا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک، قرون اولی، سے مرادنوح وعاد ثمود اور ماضی کی دوسری قومیں ہیں اور ایک دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد فروعن اور اس کی کافر قوم ہے آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا کافر قوموں کو ہلاک کردیا یافرعون اور فرعونیوں کو ہلاک کردیا، تو اس نے موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل کی، ابن کثیر لکھتے ہیں کہ نزول تورات کے بعد کسی قوم کو یکسر ہلاک نہیں کیا گیا بلکہ مومنوں کو مشرکوں سے جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ابن جریر نے ابوسعید خدری (رض) کا قول نقل کیا ہے نزول تورات کے عبد اللہ نے کسی قوم کو آسمانی یا زمینی عذاب سے یکسر ہلاک نہیں کیا سوائے اس بستی والوں کے جن کی صورتوں کو مسخ کرکے بندر بنادیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس تورات کی صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ لوگوں کے لیے نور بصیرت ہے اور راہ حق کی طرف ہدایت دیتی ہے اور عمل صالح کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور یہ اس لیے نازل کی گئی تھی تاکہ اس زمانہ کے لوگ اس سے نصیحت حاصل کرتے اور اس کی تعلیمان پر عمل پیرا ہوتے۔ القصص
44 (٢) مندرجہ ذیل تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان کی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے رسول اور قرآن کریم اس کی نازل کردہ کتاب ہے اس لیے کہ موسیٰ (علیہ السلام)، اہل مدین اور قوم فرعون کے جو واقعات اوپر بیان کیے گئے ہیں ان کا علم یا تو مشاہدہ سے حاصل ہوسکتا تھا یاتاریخ کی ورق گردانی سے اور نبی کریم کو یہ دونوں ہی باتیں حاصل نہیں تھیں نہ سیکڑوں سال پہلے وقوع پذیر ہونے والے ان واقعات کے وقت آپ موجود تھے اور نہ آپ پڑھنا جانتے تھے کہ تاریخ کی کتابوں سے حاصل کرلیتے اس لیے ثابت ہوا کہ آپ کو یہ باتیں اللہ نے بذریعہ وحی بتلائیں ہیں۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ کوہ طور کے اس مغربی علاقہ یا مغربی وادی میں آپ موجود نہیں تھے جہاں اللہ موسیٰ (علیہ السلام) سے ہم کلام ہوا تھا اور انہیں نبی مرسل ہونے کی خبر دی تھی اس کے باوجود اس واقعہ کی صحیح خبر دینا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ آیتیں آپ پر اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔ موسیٰ کے بعد بہت سی قومیں پیدا ہوئیں اس طویل مدت میں وحی الہی کاسلسلہ منقطع رہالوگ اللہ سے کیے گے عہد کو بھول گئے اور راہ ہدایت کے آثار مٹ گئے اور گمراہی عام ہوگئی تو بنی نوع انسان پر اللہ کی رحمت کا تقاضا ہوا کہ آپ کو نبی بنا کربھیجا جائے تاکہ انہیں کفر وشرک کی تاریکیوں سے نکال کر یمان ویقین کی راہ دکھائیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا مدین جانا وہاں دس سال تک قیام کرنا اور شعیب کی بیٹی سے ان کی شادی، یہ سارے واقعات جب رو نما ہوئے اس وقت رسول اللہ وہاں موجود نہیں تھے پھر یہ باتیں انہیں کیسے معلوم ہوئیں، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان واقعات سے متعلق آیتیں نازل کیں، جن کے ذریعہ سے آپ کو ان کا علم ہوا، اگر آپ نبی نہ ہوتے تو یہ باتیں معلوم نہیں ہوتیں، کوہ طور کے پاس جب اللہ تعالیٰ موسیٰ (علیہ السلام) سے ہم کلامہوا اور انہیں ان کے نبی مرسل ہونے کی خبر دی اور حکم دیا کہ وہ اپنے بھائی ہارون کے ساتھ فرعون کے پاس توحید کا پیغام لے کرجائیں اس وقت رسول اللہ وہاں موجود نہ تھے اگر وہ نبی نہ ہوتے تو یہ باتیں انہیں کیسے معلوم ہوتیں۔ اسی لیے آیت ٤٦ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ باتیں آپ کو اس طرح معلوم ہوئیں کہ ہم نے بنی نوع انسان پر رحم کرتے ہوئے آپ کو اپنا رسول بناکربھیجا اور آپ پر قرآن نازل کیا جس میں مذکورہ بالا خبریں ہیں اور ان کے علاوہ دوسری بہت سی خبریں ہیں تاکہ اس کی آیتیں پڑھ کر آپ اہل مکہ اور تمام عربوں کو اللہ کے عذاب وعقاب سے ڈرائیں۔ القصص
45 القصص
46 القصص
47 (٢٣) کفار مکہ کے بارے میں کہا گیا کہ ان کا کفر وشرک اور ان کی سرکشی اتنی آگے جاچکی تھی کہ ان پر عذاب آجانا چاہیے تھا لیکن رسول اللہ کی بعثت سے پہلے ان پر کسی قسم کا عذاب اس لیے نازل نہیں ہوا کہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ اے اللہ تو نے عذاب نازل کرنے سے پہلے اپنا رسول کیوں نہیں بھیجا تاکہ ہم تیرے احکام کی اتباع کرتے اور تجھ پر ایمان لاتے اور اس عذاب سے بچ جاتے۔ چنانچہ اللہ نے اپنا رسول بھیج کر حجت تمام کردی اور کافروں کے لیے کوئی عذر باقی نہیں چھوڑا لیکن رسول آنے کے بعد ان کی حالت نہیں بدلی، بلکہ ہٹ دھرمی شروع کردی اور کہنے لگے کہ جس طرح موسیٰ کو معجزات دیے گئے تھے اگر محمد بھی رسول ہے تو اسے بھی اسی جیسے معجزات کیوں نہیں دیے گئے جن کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہم اس پر ایمان لے آتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس ہٹ دھرمی کا یہ جواب دیا کہ اگر ان کی یہ بات صحیح ہوتی کہ کفار معجزات دیکھنے کے بعد ایمان لے آتے تو پھر فرعونیوں نے معجزات دیکھنے کے باوجود کیوں کفر کی راہ اختیار کی وہ بھی توانہی کفار قریش جیسے انسان تھے اور اللہ کی، الوہیت کے منکر اور کفر اور سرکشی میں حد سے بڑھے ہوئے تھے اور موسیٰ وہارون کے بارے میں کہا تھا کہ یہ دونوں جادوگر ہیں اور لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں اور ایک دوسرے کے معاون ہیں اور ہم لوگ ان دونوں کی نبوت کا انکار کرتے ہیں، ایک دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر کفار قریش اپنی بات میں سچے ہیں تو پھر محمد سے پہلے موسیٰ پر کیوں نہیں ایمان لائے تھے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ کفار قریش نے یہود مدینہ کے پاس آدمی بھیج کر رسول اللہ کی صداقت کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں اس کے اوصاف تورات میں موجود ہیں اور وہ کذاب ودجال نہیں ہے تو کفار قریش نے تورات کا بھی انکار کردیا اور کہا کہ موسیٰ اور محمد دونوں ہی جادوگر ہیں اور جادو کے ذریعہ موسیٰ نے اپنے زمانہ کے لوگوں کو گمراہ کیا اور اب محمد بھی وہی کام کررہا ہے اس لیے ہم دونوں کی نبوت کا انکار کرتے ہیں۔ القصص
48 القصص
49 (٢٤) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کی زبانی کافروں سے فرمایا کہ اگر تورات و قرآن وانجیل جادو ہیں اللہ کی نازل کردہ کتابیں نہیں ہیں تو پھر تم لوگ اپنے علم کے مطابق اللہ کی نازل کردہ ان دونوں سے اچھی کوئی کتاب لے آؤ تاکہ میں اس پر عمل کروں اللہ نے فرمایا کہ اگر وہ ایسا نہ کریں، اور نہ ان دونوں کتابوں پر عمل کریں تو سمجھ لیجئے کہ وہ اپنی خواہشات کے بندے ہیں اور اس آدمی سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا جو اللہ کی نازل کردہ ہدایت کوچھوڑ کر اپنی خواہشات کی اتباع کرے۔ آیت ٥١ میں اللہ نے فرمایا کہ ہم نے تو ان کے اور یہود ونصاری کے حال پر رحم کرتے ہوئے نزول قرآن کا تسلسل قائم کردیا پے درپے آیتیں، وعدہ جنت، وعید، جہنم قصے، عبرت آمیز واقعات اور نصیحتیں نازل ہوتی رہیں تاکہ وہ ان میں غوروفکر کرکے آپ پر اور اس قرآن پر ایمان لے آئیں۔ القصص
50 القصص
51 القصص
52 (٢٥) یہاں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ یہود ونصاری کا ایک گروہ ایسا ہے جو قرآن کریم پر ایمان رکھتا ہے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اور جب ان کے سامنے اس کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تصدیق کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اور ہم اس کے نازل ہونے کے قبل سے موحد تھے اور اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ ایک دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہم تو نزول قرآن کے قبل سے محمد اور ان پر نازل ہونے والی کتاب اور دین اسلام پر ایمان رکھتے تھے کیونکہ ان کا ذکر تورات وانجیل میں موجود ہے اور ان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ آخری نبی ہوں گے اور ان پر اللہ اپنا قرآن نازل کرے گا۔ القصص
53 القصص
54 (٢٦) مذکورہ بالا گروہ یہودی ونصاری سے مراداہل کتاب ہیں جنہوں نے رسول اللہ کا زمانہ پایا اور ان پر قرآن کریم پر ایمان لائے جیسے عبداللہ بن سلام اور سلمان فارسی وغیرہ ان کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ انہیں دوگنا اجر ملے گا ایک اجراسلام سے قبل تورات وانجیل پر ایمان لانے اور ان پر عمل کرنے کا اور دوسرا اجر قرآن اور نبی پر ایمان لانے اور سلام پر عمل پیرا ہونے کا۔ بخاری ومسلم نے ابوموسی اشعری (رض) سے روایت کی ہے نبی کریم نے فرمایا کہ تین قسم کے لوگوں کو دوگنا اجرملے گا ان میں سے ایک اہلکتاب کا وہ شخص ہوگا جو اپنی پہلی کتاب پر اور پھر قرآن پر ایمان لایا۔ ان مومنین اہل کتاب کی صفات یہ بھی ہیں کہ وہ برائی کا جواب بھلائی سے دیتے ہیں یا گناہ کے بعد توبہ واستغفار اور نیک عمل کرتے ہیں اور اللہ نے انہیں جو روزی دی ہے اس کا ایک حصہ بھلائی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور محروموں اور محتاجوں کی مدد کرتے ہیں اور جب کسی جاہل ونادان کی زبان سے کوئی بے ہودہ اور لغو بات سنتے ہیں تو اس سے نہ الجھتے ہیں اور نہ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں بلکہ خاموشی کے ساتھ وہاں سے اپنے دل میں یہ کہتے ہوئے گذر جاتے ہیں کہ ہمیں ہمارے عمل کا اور انہیں ان کے عمل کا بدلہ ملے گا، ہم نہ انہیں چھیڑیں گے اور نہ ان کی بات کا جواب دیں گے، اس لیے کہ ہم نادانوں کے ساتھ الجھنا نہیں چاہتے سعید بن جبیر اور زہری وغیرہما سے مروی ہے یہ آیتیں حبشہ کے ان انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھیں جنہوں نے رسول اللہ کے پاس مکہ میں آکر اسلام قبول کیا تھا اور کافروں کے طنز اور بری باتوں کا جواب نہیں دیا تھا القصص
55 القصص
56 (٢٧) بخاری ومسلم وغیرہما نے مسیب بن حزن مخزومی اور ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ یہ آیت رسول اللہ کے چچا ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی تھی جب تک مجھے منع نہ کردیا جائے میں ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتارہوں گا تو سورۃ التوبہ کی آیت ١١٣ نازل ہوئی جس میں آپکو مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کرنے سے روک دیا گیا اور سورۃ القصص کی یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ القصص
57 (٢٨) مشرکین قریش نبی کریم کے سامنے اپنے اسلام نہ لانے کا عذر لنگ یہ پیش کرتے تھے کہ اگر ہم تمہاری بات مان لیں اور تم پر ایمان لے آئیں تو پوری دنیائے عرب ہمارے خلاف ہوجائے گی اور سب مل کر ہم پر حملہ کردیں گے اور ہمیں ہلاک کردیں گے۔ اس کا جواب اللہ نے یہ دیا کہ جسخالق وامالک نے ان کی سرزمین کو امن کا گہوارہ بنارکھا ہے اور ان کی روزی کے لیے انواع واقسام کے پھل پہنچتے رہتے ہیں کیا وہ اس پر قادر نہیں ہے کہ ان کے اسلام لانے کے بعد بھی ان کی حفاظت کرے لیکن بات یہ ہے کہ وہ اپنی شدید جہالت ونادانی کی وجہ سے غوروفکر کی صلاحیت کھوچکے ہیں۔ القصص
58 (٢٩) مشرکین قریش کوہی دھمکی دی جارہی ہے کہ ان سے پہلے انہی کی طرح بہت سی قوموں کو اللہ نے نعمتوں سے نوازا لیکن انہوں نے جب اللہ کاشکر ادا نہیں کیا اور ناشکری کی تو انہیں ہلاک کردیا گیا اور ان کے منازل اب تک خالی پڑے ہیں ان کے بعد کوئیان میں سکونت پذیر نہیں ہوا اگر اہل قریش کا بھی یہی حال رہا اور اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کرتے رہے تو کیا تعجب ہے کہ ان کا انجام بھی ویسا ہی ہو اور وہ بھی صفحہ ہستی سے مٹا دیے جائیں۔ القصص
59 (٣٠) اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اس کے پاس اپنا پیغمبر بھیجنے سے پہلے کبھی ہلاک نہیں کرتا جو انہیں حق وباطل اور خیر وشر کے درمیان فرق بتاتا ہے اور اللہ کے عقاب سے ڈراتا ہے اس کے بعد بھی اگر لوگ راہ راست پر نہیں آتے تو عذاب کے مستحق بن جاتے ہیں اور قریش کے لوگ جو کہتے ہیں کہ اگر ہم ایمان لے آئے تو قبائل عرب ہمیں اچک لیں گے تو درحقیقت یہ دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دینے والی بات ہے حالانکہ دنیاوی مال ومتاع بالکل عارضی شے ہے اور اہل ایمان کو آخرت میں جو نعمت ملنے والی ہے اور جو انہیں مرنے کے بعد ملے گی اور اس کا مقارنہ دنیا کی عارضی نعمتوں کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ نعمتیں تو موت کے ساتھ ہی منقطع ہوجائیں گی اور پھر ایمان واسلام پر انہیں ترجیح دینے والوں کاٹھکاننا جہنم ہوگی۔ القصص
60 القصص
61 القصص
62 (٣١) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مشرکوں کو ڈانٹ اور پھٹکار کے ساتھ پکارے گا کہ کہاں ہیں تمہارے معبودان باطلہ جنہیں تم میرا شریک بناتے تھے ؟ تو ان کے بجائے وہ سرداران کفر وضلالت جودنیا میں اللہ تعالیٰ کے اتھ معبود بنائے گئے تھے کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے انہیں گمراہ کرنا چاہا تو انہوں نے فورا ہی ہماری دعوت قبول کرلی اور گمراہی کی راہ پر چل پڑے یہ بھی گمراہ ہوئے اور ہم بھی گمراہ ہوئے ہم ان سے اپنی برات کا اعلان کرتے ہیں اور اسلیے کہ یہ ہماری نہیں بلکہ اپنی خواہشات کی عبادت کرتے تھے۔ القصص
63 القصص
64 (٣٢) مشرکین سے اللہ تعالیٰ دوبارہ کہے گا کہ بلاؤ اپنے معبودان باطلہ کو تاکہ وہ ذلت ورسوائی والے عذاب سے تمہیں بچالیں تو وہ اللہ کے حکم کے مطابق انہیں پکاریں گے لیکن وہ ان کی پکار کا جواب نہیں دیں گے اس لیے انس وجن کا کوئی فرداس دن ایسی بات کی جرات نہ کرسکے گا اور جب جہنم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور انہیں یقین ہوجائے گا کہ یہی ان کاٹھکانہ ہے تو اس وقت ان کا غم وافسوس انتہا کو پہنچ جائے گا اور کہیں گے اے کاش ہم نے دنیا میں اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت قبول کرلی ہوتی۔ القصص
65 (٣٣) اللہ تعالیٰ ان مشرکین سے یہ بھی پوچھے گا کہ جب ہمارے رسولوں نے تمہیں راہ ہدایت کی طرف بلایا اور نیک اعمال اور اچھے اخلاق کی دعوت دی تو تم نے کیا موقف اختیار کیا ان پر ایمان لائے یاان کو جھٹلایا ؟ تو ان سب کی زبانیں گنگ ہوجائیں گی۔ اور مارے خوف ودہشت کے آپس میں بھی کوئی بات نہیں کریں گے اس لیے کہ انہیں یقین ہوجائے گا کہ اب ان کا ٹھکانہ جہنم کے سوا کوئی دوسری جگہ نہیں ہے۔ القصص
66 القصص
67 (٣٤) جو مشرکین اس دنیا میں شرک سے توبہ کرلیں گے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کی تجدید کرلیں گے عمل صالح کریں گے، فرائض وواجبات کو ادا کریں گے اور گناہوں سے بچیں گے انہیں اللہ تعالیٰ جہنم سے بچالے گا اور اپنے فضل وکرم سے جنت میں داخل کردے گا۔ القصص
68 (٣٥) اس آیت کریمہ میں بندوں سے خلق واختیار کی نفی کی گئی ہے کہ نہ وہ کسی چیز کو پیدا کرسکتے ہیں اور نہ انہیں یہ اختیار حاصل ہے کہ اللہ کانبی بننے کے لیے وہ جسے چاہیں اختیار کریں اور جس کا چاہیں انکار کردیں بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنا نبی بناتا ہے اور نہ بندوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جس چیز کی چاہیں عبادت کریں اور جسے چاہیں عبادت کریں یہ حق اللہ خالق کائنات کا ہے کہ وہ صرف اپنی بندگی کا حکم دیتا ہے شرک سے منع کرتا ہے اور اپنی بندگی کا مشروع طریقہ بتاتا ہے بندوں کا کام صرف طاعات وبندگی ہے اسی لیے آیت کے آخر میں کہا گیا کہ اللہ کی ذات مشرکوں کے شرک سے پاک اور بلند وبالا ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت ولید بن مغیرہ کی تردید میں نازل ہوئی تھی جب اس نے کہا تھا کہ دونوں بستی والوں میں سے کسی بڑے آدمی کو کیوں نہ اللہ نے اپنا نبی بنایا، نیز عام مشرکوں کی تردید میں نازل ہوئی تھی جنہوں نے اپنی مرضی سے اللہ کے لیے شریک بنالیے اور گمان کربیٹھے کہ یہ معبودان باطل قیامت کے دن سفارشی بنیں گے۔ القصص
69 (٣٦) لوگوں کے دلوں میں جو کچھ چھپا ہوتا ہے اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں ان سب کا علم صرف اللہ کو ہوتا ہے اس لیے صرف وہی معبود حقیقی ہے اور کسی کو نبی بنانے حق بھی صرف اسی کو حاسل ہے انسان کو توک چھ بھی معلوم نہیں حتی کہ اس کے ساتھ رہنے والادوسرا آدمی اپنے سینے میں کیا چھپائے ہوئے ہے اسے معلوم نہیں پھر اسے یہ حق کیسے حاصل ہوسکتا ہے کہ وہ جسے چاہے اپنا معبود بنالے اور اللہ تعالیٰ کو مشورہ دیتا پھرے کہ اس نے فلاں کو اپنا نبی کیوں نہیں بنایا ہے۔ القصص
70 (٣٧) حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ہر قسم کی حمد وثنا کا دنیا وآخرت میں وہی تنہاسزاوار ہے اور اسلیے کہ دونوں جہانوں کی نعمتوں کا مالک وہی ہے اس کے سوا کوئی ایک ذرے کا بھی مالک نہیں ہے ہر چیز میں اسی کی مشیت اور اسی کا فیصلہ نافذ ہوتا ہے اور سب کو مرنے کے بعد اسی کے پاس لوٹ کرجانا ہے اسب ات کی بین دلیل یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ قیامت تک کے لیے رات کوہی ثابت کردے اور دن کو غائب کردے تو کیا کوئی اور معبود ہے جو انسانوں کے لیے دن کی روشنی کو واپس لادے یا اگر قیامت تک کے لیے دن کو ثابت کردے اور رات کو غائب کردے تو کیا کوئی اور معبود ہے جو رات کو واپس لادے جس میں لوگ سکون حاصل کرتے ہیں۔ اس کا جواب قطعی طور پر یہی ہے کہ کوئی نہیں جو اسکی قدرت رکھتا ہو تو پھر انسان اس میں غوروفکر کرکے صرف خالق کل اور الہ واحد کی پرستش پر کیوں نہیں جم جاتا کیوں اس کے ساتھ غیروں کو شریک بناتا پھرتا ہے یقینا وہ اللہ کی ذات ہے جسنے اپنی رحمت سے رات اور دن بنائے ہیں تاکہ آدمی رات میں آرام کرے اور دن میں اپنے لیے اپنے بال بچوں کے لیے روزی حاصل کرے۔ القصص
71 القصص
72 القصص
73 القصص
74 (٣٨) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مشرکین کو پھر پکارے گا اور کہے گا کہ کہاں ہیں تمہارے وہ معبودان باطل جنہیں تم میرا شریک بناتے تھے اور بار بار انہیں اس طرح پکارنے سے مقصود اس قبیح ترین عمل پر انہیں ڈانٹنا اور پھٹکارنا ہوگا۔ القصص
75 (٣٩) ہر امت کے نبی کو اللہ قیامت کے دن ان کے سامنے لائے گا جوگواہی دے گا کہ اس نے اللہ کا پیغام ان تک پہنچا دیا تھا تب اللہ تعالیٰ مشرکوں سے کہے گا کہ تم جو میرے سوا غیروں کی پرستش کرتے تھے اور انہیں پکارتے تو تمہارے پاس اس کی کیا دلیل تھی؟ تو وہ لاجواب ہوجائیں گے اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ بندگی تو صرف اللہ کا حق ہے اور یہ اعتقاد کہ اللہ کے کچھ شریک ہیں جواسی کی طرح بندگی کے حق دار ہیں جھوٹ اور اللہ کے خلاف افترپردازی ہے۔ القصص
76 (٤٠) مفسرین لکھتے ہیں کہ قارون وموسی (علیہ السلام) کا چچازاد بھائی تھا دوسری رائے یہ ہے کہ وہ ان کا چچا تھا اور تیسری رائے ہے کہ ان کا خالہ زاد بھائی تھا بہرحال وہ تھا بنی اسرائیل کا ایک فرد، لیکن کفر وسرکشی کی وجہ سے فرعون سے جاملا تھا اور اللہ نے کفر کے بالخصوص جن تین سرغنوں کی طرف موسیٰ کو نبی بناکربھیجا تھا ان میں سے ایک تھا دوسراہامان تھا جوفرعون کا قبطی وزیر تھا اور تیسرا راس الکفر فرعون تھا اس قارون کو اللہ نے بہت بڑا مالدار بنایا تھا اور یہی اس کے کفر وطغیان کا سبب تھا اور کبر کی انتہا کو پہنچ چکا تھا اور کہتا تھا کہ میں نے یہ دولت اپنے زور بازو سے حاصل کیا ہے کہتے ہیں کہ اس نے اظہار کبر کے لیے غیروں کے مقابلے میں اپنا کپڑا ایک بالشت لمبا بنالیا تھا۔ کفروسرکشی کے اس سرغنہ کا ذکر یہاں اہل قریش کی تنبیہ کے لیے کیا گیا ہے جنہوں نے مکہ میں اپنی سرداری، مال ودولت اور دنیاوی مال ومتاع کے ضائع ہونے کے خوف سے نبی کریم پر ایمان لانے سے انکار کردیا تھا اور کہتے تھے کہ اگر ہم نے محمد کی پیروی کی تو دنیائے عرب ہمیں اچک لے جائے گی اور ہمارا وجود ختم ہوجائے گا اور ہماری تجارت خطرے میں پڑجائے گی گویا کہ کفر واستکبار میں ان کی حالت قارون جیسی ہی تھی اس لیے اس کا واقعہ اور انجام بیان کرکے انہیں تنبیہ کی گئی کہ وہ اپنی دولت کے نشہ میں محمد کی دعوت نہ ٹھکرائیں جس طرح قارون نے موسیٰ کی دعوت کوٹھکرادیا تھا ورنہ ان کا انجام بھی اسی جیسا ہوگا۔ اس قارون کو اس کی قوم یعنی بنی اسرائیل کے مسلمانوں نے نصیحت کی کہ دنیا کی چمک دمک پر اتنا زیادہ اتراؤ مت کہ اللہ کی یاد سے غافل ہوجاؤ اللہ ایسی خوشی کو پسند نہیں کرتا جس کے سبب انسان آخرت سے غافل ہوجائے اور دنیا کوہی سب کچھ سمجھ بیٹھے کیونکہ ہر برائی اور ہرفساد کی جڑیہی ہے ور اللہ نے تمہیں دولت دی ہے اسے کارخیر میں خرچ کرکے آخرت کی کامیابی طلب کرو اور اس دولت سے اپنی ذات کو فائدہ پہنچانا نہ بھولو بغیر فضول خرچی کیے اور جس طرح اللہ نے تم پر احسان کیا ہے تم بھی اللہ کے بندوں کے ساتھ بھلائی کرنا نہ بھولو اور اس مال کے ذریعہ سے زمین میں فساد نہ پھیلاؤ اس لیے کہ اللہ فساد پھیلانے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔ القصص
77 القصص
78 (٤١) اس نصیحت سے اس سرکش ونافرمان قارون کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اور کہنے لگا کہ اللہ نے مجھے یہ مال اس علم کی بدولت دیا ہے جو میرے پاس ہے اور مجھے اس کا حقدار سمجھ کردیا ہے یا مفہوم یہ ہے کہ فن تجارت میں مہارت کے سبب میں نے یہ مال حاصل کیا ہے مجھ کسی کا احسان نہیں ہے کہ میں لوگوں پر اسے خرچ کرتا پھروں۔ اللہ نے اس کی کافرانہ بات کا یہ جواب دیا کہ اگر طالت اور مال اللہ کے نزدیک فضیلت کاسبب ہوتا تو گزشتہ زمانوں میں بہت سی قوموں کو اللہ ہلاک نہ کردیتا جو قارون سے زیادہ طاقت ور اور اس سے زیادہ مالدار تھیں کثرت معاصی اور کثرت جرائم کے سبب سے جب کسی قوم کو ہلاک کیے جانے کا فیصلہ ہوجاتا ہے تو انہیں مہلت نہیں دی جاتی ہے اور ان سے پوچھا نہیں جاتا کہ انہوں نے وہ گناہ کیوں کیے تھے اور ان کے پاس کیا عذر ہے۔ القصص
79 (٤٢) ایک دن قارون اپنی شان وشوکت اور جھوٹی کبریائی کی نمائش کے لی اپنے تمام جاہ حشم کے ساتھ خوبصورت ترین لباس زیب تن کیے شہر کے شاہراہ پر نکلا جب لوگوں نے اس کا یہ تزک واحتشام دیکھا تو ان کی آنکھیں چکاچوند ہوگئی اور دنیاوی زندگی کے خواہاں حضرات اس کا یہ ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر کہنے لگے کہ کاش ہمارے پاس بھی قارون جیسی دولت ہوتی اور ہم بھی اس کی طرح عیش وعشرت کی زندگی بسر کرتے یہ تو بڑی قسمت کا مالک ہے بنی اسرائیل کے علمائے صالحین نے ان کی یہ بات سن کر کہا کہ تمہاری نگاہوں سے آخرت اوجھل ہوگی ہے اور دنیا کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہو حالانکہ اللہ کی جنت کے مقابلے میں دناکی ان عارضی نعمتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور وہ جنت اسے ملے گی جو ایمان لائے گا اور عمل صالح کرے گا اور اس نصیحت سے وہی فائدہ اٹھائیں گے جوصبر واستقامت کے ساتھ اللہ کے دین پر قائم رہیں گے۔ القصص
80 القصص
81 (٤٣) اللہ تعالیٰ نے قارون کو اس کے کفر اور کبر غرور کی وجہ سے اس کے گھر بار کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا اس وقت اللہ کے مقابلے میں کوئی گروہ اس کی مدد کے لیے نہیں آیا اور نہ وہ خود اپنی مدد آپ کرسکا امام بخاری نے سالم سے اور انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی ہے نبی کریم نے فرمایا ایک آدمی کبر کی وجہ سے اپنی چادر زمین پر گھسیٹ رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلاجائے گا۔ جن لوگوں نے قارون کی تزک واحتشام دیکھ کر اس جیسی دولت کی تمنا کی تھی جب انہوں نے اسے اس کے گھربار کے ساتھ زمین میں دھنستے دیکھا تو اپنی تمنا پر نادم ہوئے اور کہنے لگے کہ اب ہمیں معلوم ہوگیا کہ اللہ اپنی حکمت ومشیت کے مطابق لوگوں میں روزی تقسیم کرتا ہے کسی کو خوب روزی دیتا ہے اور کسی پر اس کے دروازے تنگ کردیتا ہے روزی میں وسعت اور تنگی نیک بختی، یابدبختی کی دلیل نہیں ہے ورنہ آج قارون اپنے مال واسباب کے ساتھ زمین میں دھنسا نہ دیا جاتا اگر اللہ کا ہم پر احسان نہ ہوتا، اور ہم بھی قارون کی طرح کبر وغرور میں مبتلا ہوتے تو ہمیں بھی اسی کی طرح زمین میں دھنسا دیا جاتا ہمیں یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ جو لوگ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں کبر وغرور میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اللہ کے دین اور اس کے رسول کا انکار کرتے ہیں دنیاوآخرت میں نامرادی ان کی قسمت بن جاتی ہے۔ القصص
82 القصص
83 (٤٤) قارون اور نہی جیسے کافروں اور اللہ واحد کی عبودیت کا انکار کرنے والوں کی بدبختی ونامرادی بیان کرنے کے بعد قریم اپنے معہود طریقے کے مطابق اب ان لوگوں کانجام بیان کررہا ہے جو زمین میں کبر وغرور کی زندگی اختیار نہیں کرتے ہیں اور نہ کفر وشرک کے ذریعہ سے فساد پھیلاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جنت اور اس کی ابدی نعمتیں انہی لوگوں کو ملیں گی۔ القصص
84 (٤٥) اللہ تعالیٰ کی کریمی اور اس کی رحمتوں کا فیضان دیکھیے کہ اگر کوئی نیک بندہ ایک نیکی کرے گا تو قیامت کے دن اس کے بدلے اسے دس نیکیاں ملیں گی اور کبھی سات سو تک بڑھا دی جائیں گی اور اگر کوئی گناہ کرے گا تو اس کے نامہ اعمال میں ایک ہی گناہ لکھا جائے گا۔ القصص
85 (٤٦) اس آیت کریمہ میں لفظ معاد، کی تفسیر میں علما کے کئی اقولا ہیں جمہور مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد مکہ ہے امام بخاری نے ابن عباس سے بھی یہی روایت کی ہے اس کی تائید ابن مردویہ کی اس روایت سے ہوتی ہے جوانہوں نے علی بن حسین بن واقد سے روایت کی ہے کہ یہ آیت ہجرت کے وقت جحفہ کے مقم پر نازل ہوئی تھی۔ یعنی اللہ نے اپنے نبی کو ہجرت کے وقت ہی خوش خبری دے دی کہ اگرچہ آج آپ کو اپنے دین اور اپنی جان کی حفاظت کے لیے مکہ چھوڑنا پڑا ہے لیکن ایک دن آئے گا کہ آپ وہاں بحیثیت فاتح واپس جائیں گے۔ بعض لوگوں نے اس سے مراد جنت اور بعض نے قیامت کا دن مراد لیا ہے حافظ ابن کثیر نے یہی تفیسر بیان کی ہے صاحب محاسن التنزیل نے اس سے مراد مقام محمود لیا ہے جس کا اللہ نے اپنے نبی سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ قیامت کے دن نہیں وہ مقام عطا کرے گا۔ آیت کے دوسرے حصہ میں مشرکین مکہ کی تردید کی گئی ہے جونبی کریم کو گمراہ کہتے تھے اور کہتے تھے کہ محمد اپنے آباواجداد کا دین چھوڑ کر ایک نئے دین کا داعی بن گیا ہے اللہ نے اپنے نبی کی زبانی فرمایا اللہ خوب جانتا ہے کہ کون اللہ کا صحیح دین لے کرآیا ہے اور کون لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں یعنی مشرکین مکہ ہی گمراہ ہیں اور ان کی گمراہی ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے۔ القصص
86 (٤٧) اللہ نے اپنے نبی اور پوری انسانیت پر اپنے احسان عظیم کا ذکر کیا ہے کہ اس نے آپ کو نبی بنا کر دنیا میں مبعوث کیا بعثت سے پہلے آپ کو معلوم نہیں تھا کہ اللہ آپ کو اپنان بی بنائے گا اور اپنی آخری کتاب آپ پر نازل فرمائے گا یہ اس کی رحمت اور اس کا فضل وکرم ہے کہ اس نے اس نعمت عظمی کے لیے آپ کو چن لیا اس لیے اب آپ اپنے دل میں کافروں کے لیے کوئی جذبہ تعاون نہ رکھیے۔ شوکانی لکتے ہیں کہ اس میں امت محمدیہ کو بھی تعلیم دی گئی ہے کہ وہ بھی کافروں کے لیے معین ومددگار نہ بنیں کرمانی نے اپنی کتاب، الغرائب، میں اس کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ اب آپ ان کے درمیان نہ رہیں یعنی مکہ سے ہجرت کرجائیں اس نعمت عظمی کا یہ بھی تقاضا ہے کہ آپ قرآن کریم کی تلاوت اور اس پر عمل اور اس کی تبلیغ کسی حال میں نہ چھوڑیے اور لوگوں کو اپنے رب کی توحید اور اس کی شریعت پر عمل کرنے کی دعوت دیتے رہیے اور مشرکوں میں نہ شامل ہوجائیے اور اللہ کے ساتھ کسی کو کسی حیثیت سے بھی شریک نہ بنائیے کیونکہ اس کے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں ہے۔ آیت ٨٨ کے دوسرے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کی ذات کے سوا ہر چیز کو فنا لاحق ہوجائے گی مجاہد، ثوری، اور امام بخاری نے اس کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ ہر وہ عمل جس سے مقصود اللہ کی رضاطلبی نہیں ہوگی اور وہ رائگاں جائے گا اللہ کے نزدیک اس کی کوئی قیمت نہیں ہوگی اور تمام مخلوقات میں اللہ کا ہی حکم نافذ وجاری ہے اس کے فیصلوں کو کوئی نہیں بدل سکتا ہے اور سب کو دوبارہ اس کے پاس لوٹ کر جانا ہے جہاں حساب و کتاب ہوگا، نیکی اور بدی کا بدلہ چکایا جائے گا یعنی قیامت یقینا آئے گی اور اس میں کوئی شبہ نہیں ہے، وبااللہ التوفیق۔ القصص
87 القصص
88 القصص
0 نام : آیت ٤١(مثل الذین اتخذوا من دون اللہ اولیا کمثل العنکبوت) سے ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول : اس بارے میں علماء کے تین اقوال ہیں ایک قول یہ ہے کہ پوری سورت مکی ہے دوسرا قول یہ ہے کہ پوری سورت مدنی ہے اور تیسرا قول یہ ہے کہ شروع کی دس آیتوں کے سوا باقی پوری سورت مکی ہے اکثر لوگوں کی رائے یہی ہے کہ پوری سورت مکی ہے اور ابتدائے سورت میں نفاق اور منافقین کاجوذکر آیا ہے تو اس سے مراد مکی دور کے بعض وہ کمزور ایمان والے مسلمان ہیں جو کفار کے ڈر سے منافقانہ رویہ اختیار کرتے تھے۔ بعض علماء تفسیر نے لکھا ہے کہ یہ سورت ہجرت حبشہ سے پہلے نازل ہوئی تھی جب کفار نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا تھا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں مسلمانوں کو صبر واستقامت پر ابھارا ہے اور جو کمزور ایمان والے لوگ تکلیفوں اور اذیتوں کی وجہ سے تزلزل اور عدم استقامت کے شکار تھے ان کی سرزنش کی ہے اور کافروں کودھمکی دی ہے کہ اگر وہ مسلمانوں کے خلاف معاندانہ اور ظالمنہ روش سے باز نہ آئے تو ماضی میں ہلاک کی جانے والی قوموں کی طرح انجام بد کا انتظار کریں العنكبوت
1 (١) الم، یہ حروف مقطعات ہیں ان کا معنی اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے العنكبوت
2 (٢) ہجرت حبشہ سے پہلے مکہ مکرمہ میں مسلمان بہت سخت حالات سے گزر رہے تھے کہ کفار مکہ نے ان کی زندگی دوبھر کر رکھی تھی اور انسانی فطرت کے تقاضے کے مطابق مصیبتوں کی تاب نہ لاکر کبھی گھبرا جاتے اور آپس میں باتیں کرتے کہ اللہ ہماری مدد کب کرے گا ان مصیبتوں کا دور کب ختم ہوگا۔ امام بخاری نے خباب بن الارت سے روایت کیا ہے کہ پریشانوں کی تاب نہ لاکر ایک بار وہ یہی سوال رسول اللہ سے کربیٹھے جب آپ خانہ کعبہ کی دیوار کے سائے میں ٹیک لگائے تشریف فرماتے تھے تو آپ نے ان سے کہا کہ تم سے پہلے دوسری امتوں کے مومنوں کو اس سے زیادہ تکلیفیں دی گئیں انہیں آرے سے چیرا گیا لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت اتار لیے گئے لیکن وہ اپنے دین سے نہیں پھرے پھر آپ نے قسم کھاکر فرمایا، دین اسلام ہی غالب ہوکررہے گا یہاں تک کہ ایک مسافر صنعا سے حضرت موت جائے گا اور اللہ کے سوا اسے کسی کا خوف نہیں ہوگا لیکن تم لوگ جلدی کررہے ہو، اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں مکہ انہیں مسلمانوں سے کہا ہے کہ اگر تم مسلمان ہو تو تمہاری آزمائش ہوگی اور تمہیں صبر وثبات کے ساتھ ان سے گذر کر اپنی قوت ایمانی کا ثبوت دینا ہوگا اللہ کا ہمیشہ سے اپنے مومن بندوں کے ساتھ یہی دستور رہا ہے کہ انہیں آزماتا ہے تاکہ عملی طور پر ثابت ہوجائے کہ ان میں کون صادق الایمان اور کون جھوٹا اور منافق ہے، اس معنی ومفہوم کی قرآن کریم میں متعدد آیتیں آئی ہیں، سورۃ آل عمران آیت ١٤٢ میں آیا ہے (ام حسبتم ان تدخلوالجنۃ ولما یعلم اللہ الذین جاھدوا منکم ویعلم الصابرین) کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤگے حالانکہ اب تک اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو جانا ہی نہیں جنہوں نے جہاد کیا اور جنہوں نے صبر سے کام لیا، اور سورۃ البقرہ آیت ٢١٤ میں آیا ہے (ام حسبتم ان تدخلوا۔۔۔ تا۔۔۔۔ قریب) کیا تم سمجھتے ہو کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے، حالانکہ تم پر وہ حالات نہیں گزرے جو تم سے پہلے والے لوگوں کو پیش آئے انہیں سختیاں اور تکلیفیں لاحق ہوئیں اور اس طرح جھنجوڑ دیے گئے کہ اللہ کے رسول اور مومنین پکار اٹھے، کہ اللہ کی مدد کب آئے گی آگاہ رہو کہ اللہ کی مدد قریب ہے العنكبوت
3 العنكبوت
4 (٣) مومنوں کا ان کے ایمان کے مراتب ودرجات کے مطابق امتحان ہوگا اور جو لوگ اس امتحان میں کامیاب رہیں گے ان کا مقام جنت ہوگا اور جو لوگ اس دنیا میں کفر ومعاصی کی زندگی اختیار کریں گے وہ اس خام خیالی میں مبتلا نہ ہوں کہ وہ اللہ کے عذاب سے بچ کر نکلیں گے مولائے برحق ان کی بداعمالیوں کی انہیں سزا دینے پر پوری طرح قادر ہے وار وہ عذاب جہنم ہوجا جس سے سخت عذاب کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ العنكبوت
5 (٤) اس لیے جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کے سامنے انہیں کھڑا ہوکراپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا وہ اپنے زبانی دعوی پر اکتفا نہ کریں بلکہ شرک اور گناہوں سے اجتناب کریں اور عمل صالح کرتے رہیں تاکہ اس دن ذلت ورسوائی کا سامانا نہ کرناپڑے اور جنت ان کا مقام بنے۔ آیت ٦ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص بھی اس دنیا میں عمل صالح کرے گا تو اس کا اچھا بدلہ اسے ہی ملے گا اللہ اپنے بندوں کی عبادتوں سے قطعی طور پر بے نیاز ہے آیت ٧ میں مذکورہ بالا معنی کی تائید وتوثیق ہے کہ جو لوگ ایمان وعمل صالح کی زندگی اختیار کریں گے اور اللہ ان کے گناہوں کو معاف کردے گا اور ان کے نیک اعمال کا انہیں بہتر سے بہتر سے بدلہ دے گا۔ العنكبوت
6 العنكبوت
7 العنكبوت
8 (٥) امام احمد، مسلم، ابوداؤد، نسائی اور ترمذی وغیرہم نے روایت کیا ہے کہ یہ آیت سعد بن ابی وقاص زہری کے بارے میں نازل ہوئی تھی وہ نوجوان صحابہ کرام میں سے تھے جنہوں نے ابتدائے شباب میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا اس وقت ان کی عمر سترہ یا اٹھارہ سال تھی جب ان کی ماں حمنہ بنت سفیان بن امیہ کو معلوم ہوا کہ تو انہوں نے قسم کھالی جب تک وہ اسلام سے پھر نہیں جائیں گے وہ کھانا نہیں کھائیں گی، سعد نے جب ان کی یہ حالت دیکھی تو کہا کہ اگر آپ کے پاس سوروحین ہوتیں اور ایک ایک کرکے سب نکل جائیں تو بھی میں اپنا دین نہیں چھوڑتا آپ چاہے کھائیے یانہ کھائیے ان کی ماں یہ بات سن کرکفر کی طرف ان کے لوٹنے سے ناامید ہوگئیں بالآخر اسلام لے آئیں اور کھانے پینے لگیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسی واقعہ کی مناسبت سے یہاں فرمایا ہے ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی سخت تاکید ہے اس کے باوجود اگر دونوں اسے اللہ کے ساتھ شرک کرنے پر مجبور کریں، تو ان کی بات نہیں مانی جائے گی جیسا کہ سعد بن ابی وقاص نے نہیں مانی تھی آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ سب کواسی کے پاس لوٹ کرجانا ہے اور وہ سب کا حساب لے گا اور ان کے اعمال کا بدلہ دے گا اس لیے اس کی اطاعت والدین کی اطاعت پر مقدم ہے۔ العنكبوت
9 (٦) جو لوگ اللہ تعالیٰ کی توحید کی خاطر ماں اور باپ جیسے عزیز ترین رشتہ داروں کی بات بھی نہیں مانیں گے اور ایمان اور عمل صالح کی زندگی گذاریں گے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انہیں انبیائے کرام اور اولیائے عظام کے ساتھ اس جنت میں جگہ دے گا جس کی دعا انبیاکرام اپنے لیے کرتے رہے ہیں سلیمان (علیہ السلام) نے دعا کی (وادخلنی برحمتک فی عبادک الصالحین) میرے رب مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں شامل کردینا (النمل ١٩) اور اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں کہا (وانہ فی الاخرۃ لمن الصالحین) آخرت میں وہ نیک لوگوں میں شامل ہوں گے یعنی ان کے ساتھ جنت میں ہوں گے (النحل ١٢٢) العنكبوت
10 (٧) مسفرین نے ضحاک کا قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ مکہ مکرمہ میں ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے جب انہیں مشرکین کی جانب سے تکلیف پہنچی تو دوبارہ مشرک ہوگئے اللہ نے فرمایا کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے دلوں میں اسلام گھر نہیں کیے ہوتا اس لیے جب انہیں اللہ کی راہ میں تکلیف پہنچتی ہے تو دین سے برگشتہ ہوجاتے ہیں اور انسان کی طرف انہیں جو تکلیف پہنچتی ہے اسے جہنم کے عذاب جیسا سمجھ لیتے ہیں اور جب مسلمانوں کو اللہ کی جانب سے تائید ونصرت حاصل ہوتی ہے تو ان کے پاس جاکر کہتے ہیں کہ ہم بھی تمہارے ہی جیسے مسلمان ہیں لیکن کافروں کے ساتھ رہنے پر یا اظہار کفر پر ہم اپنی جان اور اوالد کی جان بچانے کے لیے مجبور تھے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ بات ان لوگوں کے بارے میں کہی گئی جو غزوہ بدر کے موقع پر کفار مکہ کے ساتھ گئے تھے لیکن جب کافروں کو شکست فاش ہوئی اور گاجر اور مولی کی طرح کاٹے گئے اور جو باقی رہے گرفتار کرلیے گئے تو ان منافقین مکہ نے مسلمانوں سے کہا کہ دراصل ہم بھی مسلمان ہیں لیکن اپنا ایمان چھپانے پر مجبور تھے، اللہ نے ان کے دعوی کی تردید کی اور کہا کہ انسانوں کے دلوں میں جو کچھ پوشیدہ ہوتا ہے اور وہ اس سے خوب واقف ہے اس لیے تمہارا عذر کاذب اب تمہارے کام نہیں آئے گا، آیت ١١ میں اسی مضمون بالا کی تائید وتوثیق ہے کہ اللہ مومن و منافق سب کو جانتا ہے اور ہر ایک کو ان کی نیت وعمل کا عادلانہ بدلہ چکائے گا مومنوں کو جنت میں اور منافقوں کو جہنم میں داخل کردے گا العنكبوت
11 العنكبوت
12 (٨) کفار قریش نے مسلمانوں کواسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے کیا کیا نہ جتن کیے ایذا رسانی کاہرحربہ استعمال کیا اور جب اس میں انہیں کوئی کامیابی نہیں ہوئی تو مسلمانوں سے کہنے لگے کہ آؤ ہمارے ساتھ مل جاؤ اور محمد کا دین چھوڑ دو اور اگر تمہارے کہنے کے مطابق موت کے بعد ہم دوبارہ زندہ ہوں گے اور جزاوسزا کرمرحلہ آئے گا تو تمہارے گناہوں کی ذمہ داری ہم اٹھالیں گے اور ان کی سزا ہم بھگت لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تکذیب کردی کہ وہ اس دن کے گناہوں کابوجھ بالکل نہیں اٹھائیں گے وہ تو نہایت جھوٹے لوگ ہیں اور قیامت کے دن اپنے گناہوں کابوجھ اور اپنی مذکور بالا افترا پردازی کابوجھ اپنے کندھوں پرلیے پھریں گے اور اس دن اللہ تعالیٰ ان سے اس جرات کافرانہ کے بارے میں سوال کرے گا اور ان کی متعدد الانواع سازشوں کا انہیں بدلہ چکائے گا۔ العنكبوت
13 العنكبوت
14 (٩) نوح (علیہ السلام) اور ابراہیم (علیہ السلام) کو ان دونوں کی قوم نے بڑی اذیت پہنچائی جس کا ذکر قرآن کریم میں بار بار آیا ہے، یہاں ان کا ذکر نبی کریم اور صحابہ کرام کو تسلی دینے کے لیے کیا گیا ہے نوح (علیہ السلام) کے بارے میں یہ بتایا کہ وہ ساڑھے نوسو سال تک اپنی قوم کو دعوت دیتے رہے اور ان کی جانب سے ہر اذیت وتکلیف برداشت کرتے رہے اور اس کے باوجود چند ہی لوگ مسلمان ہوئے، نبی کریم کی ہمت افزائی کی جاریہ ہے کہ آپ کو تو بہت تھوڑی مدت میں دعوت کے میدان میں بڑی کامیابی مل رہی ہے اور ہزار مخالفتوں کے باوجود لوگ اسلام میں داخل ہورہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے نوح کو ان کی قوم کے لیے نبی بنا کربھیجاوہ انہیں ساڑھے نو سو سال تک توحید کی دعوت دیتے رہے لیکن انہوں نے ان کی دعوت قبول نہیں کی اور اپنے بتوں کی پرستش کرتے رہے بالآخر نوح نے دعا کی کہ میرے رب میں مغلوب ہوں تو میری مدد فرماتوالہ نے ان کی دعا قبول فرمالی اور انہیں اور ان کے مسلمان ساتھیوں کو بچالیا اور کافروں کو طوفان میں ہلاک کردیا اور دنیاوالوں کے لیے انہیں مقام عبرت بنادیا۔ العنكبوت
15 العنكبوت
16 (١٠) ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی اللہ تعالیٰ نے اہل بابل کے لیے نبی بناکر بھیجا انہی میں سے ان کا باپ آزر بھی تھا انہوں نے انہیں صڑف اللہ کی بندگی کی دعوت دی، شرک ومعاصی سے ڈرایا اور کہا کہ تم لوگ للہ کے سوا جن بتوں کی پرستش کرتے ہو، اور افترپردازی کرتے ہوئے انہیں اپنا معبود سمجھتے ہو، تو یہ تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے، تمہاری روزی اور نفع ونقصان کا مالک تو صرف اللہ ہے اس لیے عبادت بھی صرف اسی کی کرو، اور اسی نے تمہیں بے شمار نعمتیں دی ہیں اس لیے شکر بھی صرف اسی کا ادا کرو اور یاد رکھو کہ مرنے کے بعد تمہیں اسی کے پاس لوٹ کرجنا ہے اپنے عمال کا حساب اسی کودینا ہوگا اس لیے صرف اسی کی عبادت کرو اور اسی کو راضی کرو، اور اگر تم مجھے جھٹلاؤ گے تو گذشتہ قوموں نے بھی اپنے انبیا کو جھٹلایا تھا اور ان کاجوانجام ہوا تھا تاریخ کے صفحات اس کے شاہد ہیں۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ آیت ١٨ میں مخاطب اہل مکہ ہیں، کہ اگر تم نبی کریم کی تکذیب کرو گے تو گذشتہ قوموں نے بھی اپنے انبیاء کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا، رسول الہ کا کام تو صرف اللہ کا پیغام پوری صراحت وضاحت کے سات پہنچا دینا ہے اگر ان کی دعوت کو قبول کرلو گے تو تمہارا بھلا ہوگا، اور اگر اپنے کفر ومعاصی پر جمے رہو گے تو تمہارا انجام بھی ویسا ہی ہوگا جیسا کہ گزشتہ کافر و مشرک قوموں کا ہوا تھا۔ العنكبوت
17 العنكبوت
18 العنكبوت
19 (١١) ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کی واحدانیت ثابت کرنے کے بعد اس آیت کریمہ میں بعث بعدالموت پر دلیل دیتے ہوئے کہا کہ جو اللہ انسان کو ایک نطفہ حقیر سے پیدا کرتا ہے ماں کے پیٹ میں اسے متعدد مراحل سے گزارتا ہے اس میں روح پھونکتا ہے اور اسے وہاں نکالتا ہے اور پھرا یک عمر کے بعد اسے موت کا مزہ چکھاتا ہے، اور یہی حال دیگر حیوانات اور نباتا کا بھی ہے کہ وہ انہیں زندگی دیتا ہے اور پھر انہیں فنا کے گھاٹ اتار دیتا ہے وہ باری تعالیٰ یقینا اسے دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے بلکہ یہ کام اس کے لیے بہت آسان ہے اس لیے کہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ہوجا اور وہ چیز وجود میں آجاتی ہے، اس آیت کریمہ کے بارے میں بھی بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل قریش کو مخاطب کرکے انہیں بعثت بعد الموت پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے، واللہ اعلم۔ العنكبوت
20 (١٢) اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو زمین میں چل پھر کر مختلف الانواع انسانوں کا مشاہدہ کرنے اور ان میں غوروفکر کی دعوت دیں کہ جس طرح اللہ نے گوناگوں انسان کو پیدا کیا ہے جن کے رنگ، طبائع، اور زبانیں الگ الگ ہیں اسی طرح قیامت کے دن انہیں دوبارہ پیدا کرے گا اس لیے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور وہ اس دن کافروں اور منکرین آخرت کو عذاب دے گا اور مومنوں اور اپنے اوامر ونواہی کی پیروی کرے نے والوں کو اپنے فضل وکرم سے جنت میں داخل کرے گا۔ آیت ٢١ کے آخر میں مذکورہ بالا عقیدہ بعث بعدالموت کی مزید تاکید وتوثیق کے طور پر فرمایا کہ اے انسانو تمہیں بہرحال اپنے خالق کے پاس ہی لوٹ کرجانا ہے۔ آیت ٢٢ میں اسی بات کو یوں کہا کہ اے انسانو تم اللہ کو کسی حال میں عاجز نہیں کرسکو گے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں، جہاں کہیں بھی تم ہوگے وہ تمہیں دوبارہ زندہ کرکے میدان محشر میں جمع کرے گا اور اس کے سوا تم اپنا کوئی یارومددگار نہیں پاؤ گے۔ آیت ٢٣ میں فرمایا کہ جو لوگ اسدنیا میں الہ کی ان آیتوں کا انکار کرتے ہیں جو اس نے اپنے انبیاء پر نازل کی ہیں اور قیامت کے دن اس کے حضور کھڑے ہو کر حساب دینے کا انکار کرتے ہیں وہ لوگ اس دن جب سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو اپنے کرتوتوں کو سوچ سوچ کر اللہ کی رحمت اور اس کی جنت سے بالکل ناامید ہوجائیں گے اور بالآخر ان کاٹھکانا جہنم ہوگی جس میں انہیں دردناک عذاب دیا جائے گا۔ العنكبوت
21 العنكبوت
22 العنكبوت
23 العنكبوت
24 (١٣) ابراہیم (علیہ السلام) کی اس وعظ ونصیحت اور اللہ کے عذاب سے ڈرانے دھمکانے کا ان کی قوم پر کوئی اثر نہیں ہوا اور انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس کی آئے دن کی ان نصیحتوں سے چھٹکارا پانے کے لیے اسے سب مل قتل کریں گے یا آگ میں جلادیں، چنانچہ انہیں آگ میں ڈال دیا گیا لیکن ان کے رب نے اس سے نجات دی اور وہ آگ ان کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی بن گئی، اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت، بے پایاں رحمت اور عظیم حکمت کے بڑے بڑے دلائل پائے جاتے ہیں لیکن ان نشانیوں سے وہی لوگ فائدہ اٹھائیں گے جو اہل ایمان ہوں گے، غیرمومنین تو مردوں کے مانند ہیں فکر ونظر سے محروم ہیں انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ العنكبوت
25 (١٤) ابراہیم (علیہ السلام) نے اہل بابل سے یہ بھی کہا کہ تم نے اگرچہ ان بتوں کو بظاہر اپنا معبود بنارکھا ہے لیکن اپنے دلوں میں اعتقاد نہیں رکھتے ہو کہ یہ واقعی معبود ہیں، بلکہ ان کی عبادت کے نام پر تم لوگ اپنے دنیوی مصالح ومقاصد کی خاطر اکٹھا ہوتے ہو، ڈرتے ہو کہ اگر ان کی عبادت چھوڑ دی تو تمہارے آپس کا تعلق ختم ہوجائے گا اور تمہارا شیرازہ بکھر جائے گا۔ اور یہ بات غیرمسلموں اور ہندووں کے بارے میں ڈھیر ہیں لیکن ان کی عبادت دیگر ہندوں کو دکھلانے کے لیے کرتے ہیں تاکہ آپس میں جڑے رہیں اور ان کے دنیاوی مصالح ومقاصد حاصل ہوتے رہیں بہت سے ہندو اس کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ قیامت کے دن میدان محشر میں جب وہ لوگ جمع ہوں گے تو دنیا میں معبودان باطل کی عبادت پر ان کا آپس میں اتحاد ختم ہوجائے گا اور ان کے سردار ان کفر اپنے پیروکار سے اظہار برات کردیں گے اور وہ پیروکار بھی ان سرداروں کی سرداری کا انکار کردیں گے اور ہر ایک دوسرے کو خوب لعن طعن کرے گا یہاں تک کہ سبھی جہنم میں ڈال دیے جائیں گے، اور کوئی ان کی مدد کے لیے آگے نہیں آئے گا، سورۃ الاعراف آیت ٣٨ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (کلما دخلت امۃ العنت اختھا) جب کوئی جماعت داخل ہوگی اپنی دوسری جماعت پر لعنت بھیجے گی، اور سورۃ الزخرف آیت ٢٧ میں فرمایا ہے (الاخلاء یومئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین) اس دن گہرے دوست بھی ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے سوائے پرہیزگاروں کے۔ العنكبوت
26 (١٥) ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت توحید کو ان کی قوم میں سے صرف ان کے بھتیجے لوط (علیہ السلام) اور ان کی بیوی سارہ نے قبول کیا اس کے بعد وہ اپنا وطن چھوڑ کر ملک شام کی طرف روانہ ہوگئے تاکہ وہاں پوری آزادی کے ساتھ اللہ ی عبادت کریں اور دوسروں کو اللہ کے دین کی طرف بلائیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی راہ میں اذیتیں برداشت کرنے اور پھر اس کی رضامندی کی خاطر ہجرت کے صلہ میں اسحق جیسا بیٹا اور یعقوب جیسا پوتا عطا کیا اور ہمیشہ کے لیے نبوت اور آسمانی کتابوں کانزول ان کی اوالد کے ساتھ خاص کردیا چنانچہ ان کے بعد تمام انبیاء انہی کی اولاد میں پیدا ہوئے اور تمام آسمانی کتابیں بھی انہی پر نازل ہوئیں تورات موسیٰ پر، زبور داؤد پر، انجیل عیسیٰ پر، اور قرآن کریم نبی کریم پر اور یہ سب اولاد ابراہیم سے تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں اولاد روزی اور اس بشارت سے نوازا کہ اب سارے انبیا انہی کی اولاد میں پیدا ہوں گے اور آخرت میں انہیں اکابرین صالحین کے ساتھ جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے گا۔ العنكبوت
27 العنكبوت
28 (١٦) لوط (علیہ السلام) کا واقعہ بھی نوح اور ابراہیم علیہما السلام کے واقعے کی طرح نبی کریم کو تسلی دینے کے لیے بیان کیا جارہا ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی سدوم، عموریہ اور آس پاس کی دیگر بستیوں کے لیے نبی بناکربھیجا تھا وہ لوگ شریک اور انکار آخرت کے علاوہ لواطت جیسے قبیح اور گھناؤنے گناہ کا ارتکاب کرتے تھے مسافروں پر چڑھ بیٹھتے، ان کے ساتھ زبردستی لواطت کرتے تھے ان کا مال واسباب لوٹ لیتے تھے اسی لیے لوگوں نے ان بستیوں سے گذرنا چھوڑ دیا تھا اور اپنی مجلسوں میں جمع ہو کر زور زور سے گوز کرتے، اپنے تہ بند اتار کرننگے ہوجاتے، اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ لواطت کرتے راہ چلنے والوں پر پتھر چلاتے، اور مینڈھے اور مرغے لڑاتے (مسند احمد، ترمذی، ابن مردویہ) لوط (علیہ السلام) نے انہیں توحید کی دعوت دی ان گناہوں سے روکا اور اللہ کے عذاب کا خوف دلایا لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہو بلکہ ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اگر تم اپنی بات میں سچے ہو کہ تم اللہ کی نبی ہو، اور یہ کہ ہم نے اگر اپنے اطوار نہ بدلے تو ہم پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا تو پھر ایسا کر ہی گذرو لوط (علیہ السلام) نے ان کے کفر پر اصرار کرنے اور ان کی بداعمالیوں سے تنگ آکر دعا کی کہ میرے رب ان ظالموں کے خلاف میری مدد کر، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرلی جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ العنكبوت
29 العنكبوت
30 العنكبوت
31 (١٧) اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کو ہلاک کرنے کے لیے جو فرشتے بھیجے انہیں اس کا بھی مکلف کیا کہ وہ ان تک پہنچنے سے پہلے ابراہیم کو بیٹے (اسحاق) اور پوتے (یعقوب) کی خوشخبری دیتے جائیں انہوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو خوش خبری دینے کے بعد یہ اندوہناک خبر دی کہ للہ نے انہیں قوم لوط کی بستیوں کو ان کے ظلم وکفر کی وجہ سے ہلاک کرنے کے لیے بھیجا ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے ان بستی والوں پر رحم کھاتے ہوئے اور اس امید میں کہ شاید وہ ایمان لائیں اور اپنے گناہوں سے تائب ہوجائیں کہا کہ لوط بھی وہاں رہتے ہیں پھر تم انہیں کیسے ہلاک کرو گے، فرشتوں نے جواب دیا ہم خوب جانتے ہیں کہ وہاں کون لوگ ہیں، ہم انہیں اور ان کے مسلمان رشتہ داروں کو بچالیں گے اور ان کی بیوی سمیت تمام کافروں کو ہلاک کردیں گے۔ العنكبوت
32 العنكبوت
33 (١٨) جب وہ فرشتے لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے تو انہیں دیکھ کر وہ بہت پریشان ہوئے اور نہایت کبیدہ خاطر ہوئے کہ اب کیا ہوگا ان خوبصورت نوجوانوں کو بدمعاش لوطیوں سے کیسے بچاؤں فرشتوں نے ان کی پریشانی بھانپ کر کہا کہ آپ ہمارے بارے میں نہ ڈریے اور آپ کے خاندان کے جو کفار ہلاک کردیے جائیں ان کا غم نہ کیجئے ہم آپ کو اور آپ کے مسلمان رشتہ داروں کو بچالیں گے سوائے آپ کی کافر بیوی کے جسے بہرحال کافروں کے ساتھ ہلاک ہوجانا ہے ہم اس بستی والوں پر ان کے فسق وفجور کی وجہ سے جسمانی عذاب نازل کرنے والے ہیں، چنانچہ جبرائیل نے ان پر پتھروں کی بارش کردی اور انہیں زمین سے اکھاڑکر اوندھے منہ الٹ دیا، جہاں اب، بحر میت، پایا جاتا ہے اور ان کی تاریخ کو عقل ہوش والوں کے لیے درس عبرت بنادیا۔ العنكبوت
34 العنكبوت
35 العنكبوت
36 (١٩) اللہ نے مدین والوں کو ہدایت کے لیے شعیب (علیہ السلام) کو نبی بناکر بھیجا یہ واقعہ سورۃ الاعراف اور سورۃ ہود میں گذرچکا ہے یہ لوگ ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے تھے شعیب نے توحید باری تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی اور ناپ تول میں کمی بیشی کرکے اور مسافروں کو لوٹ کر زمین میں فساد پھیلانے سے منع کیا لیکن انہوں نے ان کی دعوت قبول نہیں کی اور ان کو جھٹلایا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک شدید زلزلہ مسلط کردیا جس کے زیر اثر سبھی اپنے گھروں میں ہی گھٹنوں کے بل اوندھے منہ گر کرہلاک ہوگئے۔ العنكبوت
37 العنكبوت
38 (٢٠) گزشتہ کافر قوموں کی طرح اللہ تعالیٰ نے قوم عاد کو بھی ان کے کفر وسرکچی کی وجہ سے ہلاک کردیا جو حضرموت کے قریب، احقاف، نام کی بستی میں رہتے تھے، اور ان کی ہدایت کے لیے ہود (علیہ السلام) کو بھیجا گیا تھا اور قوم ثمود کو بھی ان کے کفر و طغیان کی وجہ سے ہلاک کردیا جو وادی قری کے قریب، حجر، نام کی بستی میں رہتے تھے اور جن کی ہدایت کے لیے صالح (علیہ السلام) کو مبعوث کیا گیا تھا۔ اللہ نے کفار مکہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ ان کے مکانوں کے کھنڈرات تمہیں اب بتادیں گے ہم نے انہیں ہلاک کردیا تھا شیطان نے ان کی بداعمالیوں کو ان کی نگاہوں میں خوبصورت بنادیا تھا وہ اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بناتے تھے زمین میں شروفساد پھیلاتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ اچھے ہیں اور ان کے اعمال اچھے ہیں اس لیے راہ حق کی اتباع کی بات انہوں نے سوچی ہی نہیں حالانکہ وہ بظاہر اصحاب عقل وخرد تھے اگر چاہتے تو انبیائے کرام کی تعلیمات میں غوروفکر کرکے راہ حق کو پاسکتے تھے۔ العنكبوت
39 (٢١) اللہ نے قارون، فرعون، اور ہامان کو بھی ان کے کفر واستکبار کی وجہ سے ہلاک کردیا، قارون کو زمین میں دھنسادیا اور فرعون وہامان کو سمندر کی موجوں کے حوالے کردیا، انکے پاس موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کی کھلی اور صریح نشانیاں لے کر آئے تھے توحید کی دعوت پیش کی، اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور اس کی بندگی کی طرف بلایا لیکن انہوں نے کبر کی راہ اختیار کی اور ایک اللہ کی بندگی کا انکار کردیا، تو وہ اللہ سے بچ کر کہاں جاسکتے تھے۔ العنكبوت
40 (٢٢) اللہ نے مذکورہ کافروں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کردیا قوم عاد کو ایک تیز اور ٹھنڈی ہوا کے ذریعہ جس نے ان پر کنکروں کی بارش کردی، اور ان میں سے ہر ایک کو اوپر اٹھا کر سر کے بل زمین پر دے مارا جس سے ان کے سرجسموں سے الگ ہوگئے اور اصحاب مدین اور قوم ثمود کوچیخ کے ذریعہ سے اور قارون کو زمین میں دھنسا دیا اور فرعون کو سمندر میں ڈبودیا اور جو کچھ ان کے ساتھ ہوا ان کے شرک وکفر اور گناہوں کی وجہ سے ہوا اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا۔ العنكبوت
41 (٢٣) تمام انبیائے کرام کی بعثت کا مقصد یہی تھا کہ وہ بنی نوع انسان کو صرف ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دیں گے اور انہیں غیروں کو اپنا معبود اور یارومددگار ماننے سے روکیں، مذکورہ بالا قوموں میں سب سے پہلی بیماری یہی پائی گئی کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک کیا جو دوسرے گناہوں کے ساتھ مل کر ان کی ہلاکت وبربادی کاسبب بنی اس لیے اس آیت کریمہ میں اللہ نے شرک کی شناعت وقباحت کو ایک مثال کے ذریعہ واضح کیا گیا کہ جو لوگ اللہ کے سوا غیروں کو اپنا یارومددگار مانتے ہیں اور ان کے سامنے سرجھکاتے ہیں ان کی مثال مکڑی اور اس کے جالے کی ہے مکڑی اپنا جالا اپنے اردگرد بن کرسمجھتی ہے کہ اب وہ سردی گرمی اور ہر دشمن سے محفوظ ہے لیکن وہ جالا کتنا کمزور ہوتا ہے اس کا علم سب کو ہے یہی حال مشرکوں اور ان کے اولیاء کا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اصنام ان کے کام آئیں گے حالانکہ ان کی عاجزی وبے بضاعتی کاجوحال ہے وہ سب کو معلوم ہے کہ اگر ایک مکھی بی ان بتوں پر بیٹھ جائے تو اسے بھگانے کی ان کے اندر سکت نہیں اور یہ بت اتنی واضح ہے کہ ادنی عقل کا انسان بھی اسے سمجھتا ہے لیکن شرک نے ان کی عقلوں پر پردہ ڈال دیا ہے اس لیے انہیں کچھ بھی سمجھ نہیں آتا ہے۔ اس لیے آیت ٤٢ میں اللہ تعالیٰ نے دھمکی دیتے ہوئے فرمایا کہ مشرکین اس کے سوا جن باطل معبودوں کی پرستش کرتے ہیں اسے ان (معبودوں) کا خوب علم ہے اور وہ غالب وحکیم ہے ان مشرکانہ اعمال کا بدلہ انہیں ضرور چکائے گا۔ آیت ٤٣ میں فرمایا کہ اس طرح کی مثالوں سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ لوگ توحید وشرک کے مسائل کو اچھی طرح سمجھ لیں لیکن اس کی توفیق بھی اللہ انہی کو دیتا ہے جو اللہ کی ذات وصفات کاراسخ علم رکھتے ہیں اور جو دلائل وبراہی ان کی نگاہوں سے گذرتے ہیں ان میں غوروفکر کرتے ہیں۔ العنكبوت
42 العنكبوت
43 العنكبوت
44 (٢٤) شرک کی تردید کرنے کے بعد اب یہاں یہ بتایا جارہا ہے کہ جس اللہ نے آسمان اور زمین کو ایک خاص مقصد کی خاطر پیدا کیا ہے یقینا وہی قادر مطلق عبادت کے لائق ہے لیکن اس حقیقت کا ادراک اہل ایمان ہی کرپاتے ہیں کافروں کی آنکھوں پر پٹی باندھی ہوتی ہے اور ان کے دلوں پر مہر لگی ہوتی ہے انہیں آسمان وزمین کی تخلیق اور ان کے خالق کے بارے میں غوروفکر کی کہاں توفیق ہوتی ہے۔ العنكبوت
45 (٢٥) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں کو قرآن کریم پڑھنے، اس میں غور و فکر کرنے اور لوگوں تک اس کا پیغام پہنچانے کا حکم دیا ہے اور آیت کے دوسرے حصہ میں نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے اس لئے کہ نماز ہر قسم کی برائیوں سے روکتی ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ یہاں نماز سے مراد پانچوں فرض نمازیں ہیں، انتہی اور اقامت نماز سے مراد یہ ہے کہ نماز ایسی ہو جس سے مقصود اللہ کی رضا ہو اور پورے حضور قلب کے ساتھ ہر نماز اس کے متعین وقت میں مسلمانوں کے ساتھ مسجد میں ادا کی جائے، اور تمام ارکان نماز کی رعایت کرتے ہوئے پورے خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی جائے، یہی وہ نماز ہے جو اس کے ادا کرنے والے کو برائیوں سے روکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قول برحق ہے کہ نماز یقیناً برائیوں سے روکتی ہے اب اگر کوئی شخص نماز پڑھتا ہے اور برائیوں میں بھی ڈوبا رہتا ہے تو ہمیں یقین کرلینا چاہئے کہ اس کی نماز وہ نماز نہیں ہے جسے اس آیت کریمہ میں فواحش و منکرات سے روکنے والی نماز کہا گیا ہے۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ اللہ کی یاد ہر چیز سے بڑی ہے، کیونکہ درحقیقت اللہ کی یاد ہی بندوں کو برائیوں سے روکتی ہے اور نماز اس لئے برائیوں سے روکتی ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ کو یاد کیا جاتا ہے اسی لئے نماز کو سورۃ الجمعہ آیت (٩) میں ” ذکر“ سے تعبیر کیا گیا ہے آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ وہ بندوں کے تمام اعمال سے خوب واقف ہے، کوئی بات اس سے مخفی نہیں، کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں، اس لئے جو یجسا کرے گا اس کا ویسا ہی بدلہ اسے مل کر رہے گا۔ العنكبوت
46 (٢٦) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو تعلیم دی ہے کہ آئندہ دعوتی زندگی میں جب آپ کا واسطہ اہل کتاب سے پڑے تو ان کے ساتھ بات کرتے وقت نرم اور شیریں انداز گفتگو اختیار کیجیے، تاکہ اسلام کی تعلیمات میں انہیں غو رو فکر کا موقع ملے اور اللہ توفیق دے تو ایمان لے آئیں۔ قتادہ وغیرہ نے کہا ہے کہ یہ ایٓت، قتال والی آیت کے ذریعہ منسوخ ہوچکی ہے، لیکن راجح یہی ہے کہ اس کا حکم باقی ہے اور قیامت تک ہر اس شخص کے لئے بای رہے گا جو دین اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرنا چاہے گا البتہ جو یہود و نصاریٰ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف معاندانہ رویہ اختیار کریں گے اور جزیہ دینے سے انکار کردیں گے، ان کے ساتھ طاقت کی زبان میں بات کی جائے گی اور ان سے قتال کیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ اپنا معاندانہ رویہ چھوڑ کر جزیہ دینے پر تیار ہوجائیں۔ اگر اہل کتاب ایسی خبریں باین کریں جن کے بارے میں نہیں معلوم کہ وہ سچی ہیں یا جھوٹی، تو ایسی خبروں کی نہ تصدیق کی جائے گی اور نہ تکذیب، بلکہ انہیں مجمل سا جواب دے دیا جائے گا کہ ہم لوگ اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ہے اور ان کتابوں پر بھی جو تم پر نازل کی گئی تھیں اور جو نزول قرآن کے ساتھ منسوخ ہوگئی ہیں اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کی اطاعت کرتے ہیں۔ امام بخاری نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ اہل کتاب عبرانی زبان میں لکھی ہوئی تورات پڑھ کر مسلمانوں کے لئے اس کی تشریح عربی میں کرتے تھے، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان کی نہ تصدیق کرو اور نہ تکذیب اور کہو کے ہم اس کتاب پر ایمان لے آئے جو ہم پر نازل ہوئی ہے اور ان پر بھی جو تم پر نازل ہوئی تھیں اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہے اور اور ہم اسی کی بندگی کرتے ہیں۔ العنكبوت
47 (٢٧) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ ہم نے جس طرح گزشتہ آسمانی کتابیں ان وقتوں کے انباء پر نازل کی تھیں، اسی طرح اس قرآن کو آپ پر نازل کیا ہے اور اہل کتاب میں سے بہت سے لوگ اس پر ایمان لے آئیں گے اور عربوں سے بھی بہت سے لوگ اس پر ایمان لے آئیں گے اور ہماری آیتوں کا انکار ان تمام گروہوں میں سے صرف وہی لوگ کریں گے جو ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنے کفر پر جمے رہیں گے مفسرین لکھتے ہیں کہ جیسا اللہ تعالیٰ نے یہاں غیب کی خبر دی ہے ویسا ہی ہوا، کچھ یہود اور بہت سے نصاریٰ اور اکثر و بیشتر قبائل عرب دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے اور نور اسلام نے ان کے دلوں کو روشن کردیا۔ العنكبوت
48 (٢٨) قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے پر استدلال کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اے میرے نبی ! نزول قرآن سے پہلے آپ کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا، آپ تو ان پڑھ تھے، اگر آپ لکھنا پڑھنا جانتے ہوتے تو آپ کی رسالت کے منکرین کو بہانہ مل جاتا اور کہتے کہ محمد کو کوئی پرانی کتاب مل گئی ہے، جس میں سے گزشتہ قوموں کے واقعات لکھ کر لوگوں کو سنا دیتا ہے۔ نحاس کہتے ہیں کہ یہ بات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچے نبی ہونے کی دلیل ہے اس لئے کہ آپ کو لکھنا پڑھنا نہیں آتا تھا، اور اہل کتاب کے ساتھ آپ کا ملنا ثابت نہیں ہے اور مکہ میں یہود و نصاریٰ نہیں پ ائے جاتے تھے، اسکے باوجود ایسی عظیم و بے مثل کتاب لوگوں لوگوں کے سامنے پیش کرنا آپ کی صداقت کی دلیل تھی اور اس بات کی دلیل تھی کہ یہ قرآن کلام اٰلٰہی ہے، اسی لئے آیت (٤٩) میں کہا گیا ہے کہ یہ قرآن اللہ کی نازل کردہ صریح آیتیں ہیں جو حفاظ قرآن کے سینوں میں ہر دور میں محفوظ رہیں گی، اور ان کا انکار حد سے تجاوز کرنے والے ہی کریں گے۔ العنكبوت
49 العنكبوت
50 (٢٩) مشرکین مکہ اپنے کفر و شرک پر اصرار کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اگر محمد اپنے دعویٰ نبوت میں صادق ہے تو گزشتہ نبیوں کی طرح اس کے رب نے اسے بھی کچھ مادی نشانیاں کیوں نہیں دی ہیں؟ تو اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی ان کا جواب دیا کہ معجزات کا مالک تو اللہ ہے، وہ اپنی مرضی سے جب اور جسے چاہتا ہے دیتا ہے کوئی دوسرا اس پر قادر نہیں ہے، میرا کام تو صرف لوگوں کے سامنے پوری صراحت و وضاحت کے ساتھ اللہ کے دین کو بیان کردینا ہے۔ آیت (٥١) میں اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کی ہٹ دھرمیوں کا مزید جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ قرآن جو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے اور جسے آپ انہیں پڑھ کر سناتے ہیں، کیا یہ علمی معجزہ ان کے ایمان لانے کے لئے کافی نہیں ہے؟ یقیناً کافی ہے اور آپ نے تو انہیں بارہا قرآن کی زبان میں چیلنج بھی کیا کہ اگر وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہق رآن کسی انسان کا کلام ہے تو اس جیسا کلام لا کر دکھلا دیں، یا کم از کم اس جیسی ایک ہی سورت پیش کردیں، لیکن وہ ایسا نہیں کرسکے اور وہ کر بھی کیسے سکیں گے، اللہ کے کلام جیسا کلام کہاں سے لا سکیں گے آیت کے آخر میں قرآن کریم کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ تو پوری دنیائے انسانیت کے لئے رحمت ہے اور اہل ایمان کے لئے اس میں بہت سی نصیحتیں ہیں۔ العنكبوت
51 العنكبوت
52 (٣٠) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی کفار مکہ کو کہا گیا ہے کہ میرے اور تمہارے درمیان، میری نبوت اور قرآن کریم کی صداقت سے متعلق جو باتیں ہوئی ہیں، قرآن کی زبان میں میں نے جو دلیلیں پیش کی ہیں اور تم لوگوں نے ڈھٹائی کے ساتھ انکار کردیا ہے، اللہ تعالیٰ ان سب باتوں کا گواہ ہے، اس لئے کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی بات بھی اس سے مخفی نہیں ہے، تو جو لوگ جھوٹے معبودوں کی پرستش کرتے ہیں اور اللہ کی وحدانیت والوہیت کا انکار کرتے ہیں، انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا و آخرت میں ان سے بڑھ کر گھاٹا اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔ العنكبوت
53 (٣١) کفار مکہ انتہائے کبر و عناد میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ جس عذاب کا تم بار بار ذکر کرتے ہو، وہ ہم پر نازل کیوں نہیں ہوجاتا؟ تو اللہ نے ان کا جواب دیا کہ ان کی سرکشی تو اتنی بڑھ چکی ہے کہ واقعی عذاب کو نازل ہوجانا ہی چاہئے تھا، لیکن چونکہ اس کا ایک وقت مقرر ہے، اس لئے وہ اپنے متعین وقت پر ہی نازل ہوگا اور وہ ایسا چانک آئے گا کہ اس کے آنے سے پہلے انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوگا۔ اے میرے نبی ! یہ کفار کتنے حقیقت نا آشنا ہیں کہ عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں، حالانکہ وہ تو انتہائی قریب ہونے کی وجہ سے جیسے انہیں ہر جانب سے اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہے، جب وہ دن آجائے گا اور جب وہ گھڑی آنپہنچے گی تو عذاب جہنم انہیں اوپر اور نیچے سے ڈھانک لے گا اور ان سے کہا جائے گا جیسا تم نے کیا تھا ویسا بھرو، اور اپنے کرتوتوں کا مزا چکھو۔ العنكبوت
54 العنكبوت
55 العنكبوت
56 (٣٢) قرطبی لکھتے ہیں کہ جب کفار مکہ کا مسلمانوں پر ظلم و ستم حد سے تجاوز کرنے لگا اور مکہ میں جینا دوبھر ہوگیا اور اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہوگئی، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مکہ سے مدینہ ہجرت کر جانے کی اجازت دے دی، تاکہ وہاں اللہ کی عبادت اطمینان و سکون سے کرسکیں، انتہی لیکن یہ حک مہر دور اور ہر جگہ کے لئے عام ہے۔ جب بھی اور جہاں کہیں بھی مسلمان ایسے حالات سے دوچار ہوں گے اور اللہ کی عبادت کرنے سے روک دیئے جائیں گے، انہیں وہاں سے ہجرت کر کے ایسی جگہ چلے جانا چاہئے جہاں آزادی کے ساتھ اللہ کی عبادت کرسکیں، اس لئے کہ انسانوں کی تخلیق کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ جب تک دنیا میں رہیں، اپنے خلاق و مالک کی عبادت کرتے رہیں اسی لئے کچھ مسلمان ہجرت سے پہلے قریش کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجازت سے ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تھے، جہاں کے بادشاہ نجاشی رحمتہ اللہ علیہ ان کی دکھ بھری کہانی سن کر بہت متاثر ہوئے اور انہیں اپنے ملک میں پوری آزادی کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی اور جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہجرت کی اجازت مل گی تو وہ بھی حبشہ سے مدینہ منورہ چلے گئے۔ العنكبوت
57 (٣٣) مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں ہجرت کے لئے مسلمانوں کی ہمت افزائی کی گئی ہے کہ کہیں موت کا خوف تمہیں اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے سے روک نہ دے، ہر شخص کی موت کا جو وقت مقرر ہے اس وقت پر اسے بہر حال مر جانا ہے، چاہے وہ اپنی پیدائشی جگہ پر رہے، یا کہیں اور چلا جائے، بعض مفسرین نے اس کی تفسیریوں بیان کی ہے کہ موت بہرحال برحق ہے اور ہر شخص کو یہ کڑوا جام پینا ہے، اس لئے اہم بات یہ ہے کہ آدمی وطن اور رشتہ داروں کی محبت سے بالاتر ہو کر اس ابدی زندگی کی کامیابی کے لئے کوشش کرے جو موت کے بعد شروع ہوتی ہے۔ العنكبوت
58 (٣٤) اللہ تعالیٰ نے اپنے ان نیک بندوں کا مقام بتایا ہے جو اس کی خاط راپنے گھر بار اور خویش واقارب کو چھوڑ کر ہجرت کر داتے ہیں اور ہر حال میں اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ العنكبوت
59 العنكبوت
60 (٣٥) اس آیت کریمہ میں مہاجرین کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ وہ جہاں بھی ہوں گے، ان کے لئے مقدر روزی پہنچتی رہے گی، روزی کا تعلق زمین سے نہیں، بلکہ اللہ سے ہے، وہ ہر جاندار کو روزی پہنچاتا ہے، چاہے وہ کمزور ہو جو اپنی روزی نہ ڈھو سکتا ہو، یا طاقتور ہو جو اپنی روزی اپنے ساتھ ڈھو سکتا ہو، اللہ تعالیٰ ہر ایک کو روزی پہنچاتا ہے، چاہے وہ دنیا کے جس گوشے میں بھی رہتا ہو۔ العنكبوت
61 (٣٦) مشرکین کی حالت پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا ہے کہ آپ جب ان سے پوچھیں گے کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے اور آفتاب و ماہتاب کو انسانوں کے فائدے کے لئے کس نے اپنا تابع فرمان بنا رکھا ہے، تو وہ فوراً کہیں گے کہ یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے ہیں، تو پھر اس اعتراف حقیقت کے باوجود وہ دوسروں کو اللہ کا شریک کیوں بناتے ہیں جو ان کے نفع یا نقصان کی قدرت نہیں رکھتے ہیں؟ العنكبوت
62 (٣٧) بعض مشرکین نے مسلمانوں سے کہا کہ اگر تم لوگ حق پر ہوتے اور اللہ تم سے راضی ہوتا تو محتاجی کے نیچے دبے نہ رہتے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا جواب دیا کہ روزی کا مالک صرف اللہ ہے اور وہ اپنی حکمتوں کے مطابق کسی کو زیادہ روزی دیتا ہے تاکہ دیکھے کہ وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے یا اس کی ناشکری کرتا ہے اور کسی کو کم دیتا ہے تاکہ دیکھے کہ وہ صبر سے کام لیتا ہے یا اللہ کی تقدیر پر ناراضگی کا اظہار کرتا ہے، دولت اور محتاجی دونوں میں سے کوئی بھی اللہ کی رضا یا اس کی ناراضگی کی دلیل نہیں ہے اور چونکہ اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے اس لئے روزی میں کمی اور بیشی کی حکمتوں کو صرف وہی جانتا ہے۔ العنكبوت
63 (٣٨) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی کہا گیا کہ آپ جب مشرکین سے پوچھیں گے کہ آسمانوں سے بارش کا پانی کس نے بھیجا ہے اور کون اس کے ذریعہ مردہ زمین کو زندہ کردیتا ہے؟ تو وہ فوراً جواب دیں گے کہ یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے ہیں، تو اے میرے نبی ! آپ اپنے رب کا شکر ادا کیجیے کہ وہ اپنی ہٹ دھرمی اور شدت عناد کے باوجود اعتراف حق پر اپنے آپ کو مجبور پا رہے ہیں اور خود اپنی زبان سے اپنے خلاف گواہی دے رہے ہیں کہ اللہ کی عبادت میں غیروں کو شریک کرنا ان کی جانب سے اللہ پر بہتان ہے، لیکن ان میں سے اکثر لوگ اس بات کو سمجھتے ہی نہیں ہیں، جبھی تو ان کے قول و عمل میں تضاد پایا جاتا ہے۔ العنكبوت
64 (٣٩) اس آیت کریمہ میں دنیا کی حقارت اور اس کی بے ثباتی بیان کی گئی ہے کہ جیسے بچے کھلونوں کے گرد جمع ہوتے ہیں، چند گھڑی ان سے جی بہلاتے ہیں، پھر انہیں وہیں چھوڑ کر اپنے گھروں کو چل دیتے ہیں اور سوائے تھکن کے انہیں کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا، یہی حال اس دنیائے دنی کا ہے، یہاں کی ہر چیز فانی اور آنی جانی ہے اس کے بجائے آخرت کی زندگی ہمیشہ رہنے والی ہے وہ زندگی زوال پذیر نہیں ہوگی، جنتی کو نہ تو بیماری اور موت لاحق ہوگی اور نہ وہ کسی درود و الم سے دوچار ہوگا، جنت لازوال خوشیوں کا نام ہے، آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر مشرکین کی سمجھ میں یہ بات آجاتی تو دنیا کی اس حقیر زندگی کو آخرت کی لازوال اور بے پایاں نعمتوں اور خوشیوں پر ترجیح نہ دیتے۔ العنكبوت
65 (٤٠) مشرکین کے قول و عمل میں تضاد اور تناقض کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ وہ جب کشتی میں سوار ہو کر سمندر میں سفر کرتے ہیں اور کشتی بھنور میں پھنس جاتی ہے اور بچنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی، تو فطرت کے تقاضے کے مطابق وہ صرف ایک اللہ کو پکارنے لگتے ہیں اور اپنے بتوں کو یکسر بھول جاتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس وقت موت کے منہ سے انہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ ان کے حال پر رحم کرتے ہوئے انہیں ڈوبنے سے بچا لیتا ہے، تو پھر اپنے بتوں کا گن گانے لگتے ہیں اور اللہ کے احسانات کی ناشکری کرنے لگتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اپنی اس مشرکانہ چال اور اس عظیم احسان فراموشی کا انجام بدعنقریب دیکھ لیں گے۔ العنكبوت
66 العنكبوت
67 (٤١) مشرکین مکہ اللہ کی کن کن نعمتوں کی احسان فراموشی کریں گے اور کب تک اپنے قلب و نظر کی راہوں کو صدائے لا الہ الا اللہ کے داخل ہونے سے بند رکھیں گے، کیا وہ اپنے اوپر اللہ کا یہ احسان عظیم نہیں دیکھتے کہ اس نے مکہ کو حرم اور پرامن بنا دیا ہے، جہاں وہ دیگر قبائل عرب کے مقابلہ میں بہت کم ہونے کے باوجود پرسکون زندگی گذار رہوے ہیں، ان کے خلاف قتل و غارتگری کا کوئی سوچتا بھی نہیں، جبکہ ان کے اردگرد رہنے والے قبائل ایک دوسرے پر چھاپے مارتے ہیں، قتل کرتے ہیں، مال و اسباب لوٹ لیتے ہیں اور بہتوں کو قیدی بنا لیتے ہیں، وہ کب تک اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی ناشکری اور بتوں کی پرستش کرتے رہیں گے۔ العنكبوت
68 (٤٢) اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو افترا پردازی کرتے ہئے کہتا ہے کہ اللہ کا کوئی شریک ہے، یا اس حق کو (یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کو) جھٹلاتا ہے، جسے اللہ نے انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے، ایسے لوگ اللہ کے نزدیک کافر ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ العنكبوت
69 (٤٣) جو لوگ اللہ کی خاطر نفس، شیطان، اور اللہ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرتے ہیں، انہیں خوشخبری دی گئی ہے کہ اللہ انہیں اعمال صالحہ کی توفیقف دیتا ہے، تاکہ ان کے ذریعہ اس کی قربت حاصل کریں، نیز ان سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اللہ کی نصرت و تائید انہیں ہمیشہ حاصل رہے گی۔ وباللہ التوفیق تفسیر سورۃ الروم نام : اس کا نام سورت کی دوسری آیت (غلبت الروم) سے ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی لکھتے ہیں کہ پوری سورت بلا اختلاف مکی ہے اور ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ مسلمان مورخین اس کا تاریخی پس منظر یہ بیان کرتے ہیں کہ ایران کے بادشاہ خسرو پرویز نے 613 ء 614 عیسوی میں ملک شام پر حملہ کر کے دمشق اور بیت المقدس پر قبضہ کرلیا، جو اس زمانے میں رومیوں کے مقبوضہ علاقوں میں شامل تھے، یہ زمانہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت مدینہ سے سات سال قبل کا ہے، جب کفار مکہ مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا رہے تھے اور کچھ مسملان حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے، مشرکین مکہ نے ایرانی آتش پرستوں کی فتح یابیوں کی خبریں سن کر خوشیاں منائیں اور مسلمانوں سے کہا کہ تم اور نصاریٰ اہل کتاب ہونے کا دعویٰ کرتے ہو اور ہم اور اہل فارس بت پرست ہیں اور جس طرح اہل فارس رومیوں پر غالب آرہے ہیں، ایک دن ہم بھی تمہیں مکہ کی سر زمین سے نکال باہر کریں گے اس وقت یہ سورت نازل ہوئی جس میں رومیوں کے مغلوب ہنے اور پھر چند ہی سال کے بعد انکے غالب ہونے کی خبر دی گئی ہے اور اسی طرح مسلمانوں کے غلبہ کی بھی بشارت دی گئی ہے، مشرکین نے جب یہ بات سنی تو ظاہری حالات کے مطابق اسے امر محال سمجھا اور ابی بن خلف نے ابوبر صدیق (رض) کے ساتھ شرط کی، جس میں اللہ کے فیصلے کے مطابق اس کی ہار ہوئی اور رومی فوجوں نے ہجرت نبوی سے ایک سال قبل 621 ء میں اہل فارس کے چھکے چھڑا دیئے اور 624 ء میں ایرانیوں کے سب سے بڑے آتش کدہ کو نیست و نابود کردیا اور اسی سال مسلمانوں کو میدان بدر میں کفار قریش کے مقابلے میں عظیم ترین فتح و کامیابی حاصل ہوئی اور قرآن کریم کی معجزانہ خبر حرف بحرف سچ ثابت ہوئی۔ العنكبوت
0 سورۃ الروم مکی ہے، اس میں ساٹھ آیتیں اور چھ رکوع ہیں الروم
1 (١) الم یہ حروف مقطعات ہیں، جن کا معنی اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ الروم
2 (٢) جیسا کہ اس سورت کے نزول کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے اوپر لکھا گیا ہے کہ ان آیات کریمہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت سے پہلے رومیوں کے اہل فارس کے ہاتھوں پہلے مغلوبیت اور پھر ان کے غالب آنے کی خبر دی گئی ہے، اسی طرح مسلمانوں کی فتحیبای اور اس سے ان کے خوش ہونے کی بشارت دی گئی ہے اور دونوں ہی باتیں سچ ثابت ہوئیں۔ اہل روم پہلے اپنے شامی مقبوضات سے نکالے گئے، لیکن کچھ ہی دنوں کے بعد حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ اہل فارس رومیوں کے ہاتھوں شکست پہ شکست کھاتے چلے گئے حتی کہ 624 ء میں ان کا سب سے بڑا آتش کدہ تباہ کردیا گیا۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کرام کے ساتھ ہجرت کر کے 622 ء میں مدینہ منورہ پہنچے اور اس کے صرف دو سال کے بعد ہی میدان بدر میں مسلمانوں کو کفار قریش کے خلاف فیصلہ کن غلبہ حاصل ہوا۔ (ادنی الارض) سے مراد اس زمانے میں رومیوں کا وہ علاقہ ہے جو اہل فارس کے علاقے سیق ریب تر تھا، یعنی دمشق اور بیت المقدس کا وہ علاقہ جس میں رومیوں کو شکست ہوئی، پھر دس سال کے اندر ہی حالات ایسے بدلے کہ اہل فارس شکست کھاتے چلے گئے اور رومیوں کو زبردست غلبہ حاصل ہوا۔ (للہ الامر) یعنی رومیوں کا پہلے مغلوب ہونا اور پھر چند ہی سالوں کے بعد ان کا غالب ہونا، اللہ کے فیصلے اور اس کے قضا و قدر کے مطابق تھا۔ دونوں حال کی حکمتوں اور مصلحتوں کو صرف وہی جانتا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آل عمران آیت (١٤٠) میں فرمایا ہے : (وتلک الایام نداولھا بین الناس) ” اور ہم ان دنوں کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔ “ (ویومئذیفرح المومنون) مسلمانوں کو دوہری خوشی نصیب ہوئی، ایک اس بات کی خوشی کہ اہل روم جو الہ کتاب تھے، انہیں مشرکین فارس پر غلبہ حاصل ہوا اور دوسری خوشی اس سال انہیں میدان بدر میں کفار قریش کی شکست فاش سے حاصل ہوئی، جس کی بشارت قرآن کریم انہیں پہلے دے چکا تھا اور اللہ اپنے بندوں میں سیجس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اس لئے کہ وہ بہر حال غالب ہے، ہر چیز پر قادر ہے اور اپنے نیک بندوں پر نہایت مہربان ہے اور اس کا وعدہ پورا ہو کر رہتا ہے، جیسا کہ رومیوں کے اہل فارس پر اور مسلمانوں کے کفار قریش پر غالب آنے کا وعدہ پورا کر دکھایا۔ الروم
3 الروم
4 الروم
5 الروم
6 الروم
7 (٣) اللہ تعالیٰ کے تمام افعال اور فیصلے اس کے نزدیک معلوم حکمت و مصلحت کے مطابق انجام پاتے ہیں، لیکن اکثر و بیشتر لوگ اپنی جہالت و نادانی اور کائنات میں غور و فکر کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے نہیں سمجھ پاتے ہیں جب کہ دنیاوی مفادات کو سمجھنے اور انہیں حاصل کرنے میں بڑے ماہر ہوتے ہیں جب کوئی مادی فائدہ انہیں نظر آتا ہے تو کبھی نہیں چوکتے، لیکن فکر آخرت سے یکسر غافل ہتے ہیں، انہیں یہ سوچنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی کہ قیامت آئے گی اور اس دنیا میں انسان کو اس لئے بھیجا گیا ہے تاکہ وہاں کی کامیابی کے لئے کوشش کرے اور آخرت سے ان کی اس غفلت کا سبب بعث بعد الموت پر عدم ایمان ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ لوگ اپنی ذات میں کیوں نہیں غور کرتے کہ جس خالق و مالک کل نے انہیں پہلی بار پیدا کیا اور پھر ایک محدود زندگی کے بعد انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا، کیا وہ انہیں دوبارہ پیدا کر کے ان کی دنیا کی زندگی کے اعمال کا حساب لینے پر قادر نہیں ہوگا ؟ اسی حقیقت کی مزید تاکید کے طور پر آگاہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کو معلوم مقصد کی خاطر پیدا کیا ہے اور ان کے بقاء کی مدت محدود ہے۔ جب وہ مدت پوری ہوجائے گی تو یہ ساری چیزیں فنا ہوجائیں گی اور تمام جن و انسان کو میدان محشر میں اللہ کے سامنے جمع ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا، لیکن اکثر و بیشتر لوگ اس حقیقت کے منکر ہیں۔ الروم
8 الروم
9 (٤) انہی بعث بعد الموت کے منکرین سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ان گزشتہ قوموں کے علاقوں میں جا کر عبرت کیوں نہیں حاصل کرتے جنہیں اللہ نے ان کے کفر و سرکشی اور انکار آخرت کی وجہ سے ہلاک کردیا تھا وہ لوگ بڑے طاقتور تھے، انہوں نے زمین کو ادھیڑ کر اسے خوب فائدہ اٹھایا تھا اس میں کاشت کی، اس سے قسم قسم کے معاون نکالے، بڑی بڑی عمارتیں بنائیں، مختلف قسم کی چیزیں ایجاد کیں اور دنیاوی زندگی سے خوب مستفید ہوئے، یہاں تک کہ اپنی شہوتوں کے غلام بن گئے، اپنے خالق کو یکسر بھول گئے اور آخرت ان کی آنکھوں سے اوجھل ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر رحم کرتے ہوئے ان کی ہدایت کے لئے رسولوں کو معجزات اور کھلی نشانیاں دے کر بھیجا، لیکن انہوں نے ان کی تکذیب کردی اور اپنے کفر و سرکشی پر جمے رہے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کردیا اور ان کا یہ انجام بد ان کے برے اعمال کا نتیجہ تھا، انہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا تھا اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا تھا یہ تو ان کے ساتھ دنیا میں ہوا اور آخرت میں ان کا انجام بدترین ہوگا کہ جہنم میں گھسیٹ کر ڈال دیئے جائیں گے، اس لئے کہ دنیا میں وہ لوگ اللہ کی آیتوں کی تکذیب کرتے تھے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ الروم
10 الروم
11 (٥) عقیدہ بعث بعد الموت کی مزید تائید کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ وہ اللہ جو آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام مخلوقات کا رب ہے، اسی نے انسانوں کو پہلی بار پیدا کیا ہے اور وہی انہیں دوبارہ زندہ کر کے حساب و جزا کے لئے جمع کرے گا۔ الروم
12 (٦) جو لوگ دنیا میں اللہ اس کے رسول اور اس کے دین کے سلسلے میں جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، جب میدان محشر میں سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے، تو اللہ کی رحمت سے یکسر ناامید ہوجائیں گے اور ایسے مبہوت ہوجائیں گے کہ ان کی زبگنیں گنگ ہوجائیں گی اور جن معبود ان باطل کی دنیا میں پرستش کرتے رہے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ اللہ کے نزدیک ان کے سفارشی بنیں گے، اس دن ان کے کسی کام نہ آئیں گے، اس لئے ان کی ناامیدی اور بڑھ جائے گی اور اسی ہجوم یاس و ناامیدی میں ان جھوٹے معبودوں کا انکار کریں گے، لیکن اس انکار کا انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچ گا۔ الروم
13 الروم
14 (٧) مرحلہ حساب سے گذرنے کے بعد مومن و کافر الگ الگ ہوجائیں گے، مومنوں کو جنت میں بھیج دیا جائے گا اور کافروں کو جہنم کے سپرد کردیا جائے گا، پھر کبھی جمع نہیں ہوں گے۔ اسی کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نیف رمایا کہ جو لوگ دنیا کی زندگی میں ایمان لائے ہوں گے اور عمل صالح کیا ہوگا وہ جنت کے باغات میں شاداں و فرحاں ہوں گے اور جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہوگی اور اللہ کی آیتوں اور یوم آخرت کو جھٹلایا ہوگا انہیں ایسے عذاب میں مبتلا کردیا جائے گا جو نہ ہلکا ہوگا اور نہ کبھی ختم ہوگا۔ الروم
15 الروم
16 الروم
17 (٨) اوپر کی آیتوں میں مومنوں اور کافروں کا انجام بیان کیا گیا، اس لئے اب حصول جنت اور عذاب جہنم سے نجات کا وسیلہ بیان کرنا مناسب رہا، واحدی نے مفسرین کا قول نقل کیا ہے کہ یہاں (فسبحان اللہ) ” صلوا للہ‘ یعنی ” اللہ کے لئے نماز پڑھو‘ کے معنی میں ہے۔ نحاس کا قول ہے کہ اس آیت کریمہ میں پانچوں نمازوں کا حکم دیا گیا ہے۔ ابن مردویہ، عبدالرزاق، ابن جریر اور حاکم وغیر ہم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ اس آیت کریمہ میں پانچوں نمازوں کے اوقات بیان کئے گئے ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ چونکہ نماز میں اللہ کی پاکی بیان کی جاتی ہے اور اس کی حمد و ثنا کی جاتی ہے، اسی لئے اسے تسبیح و تحمید سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (تمسون“ سے مغرب اور عشاء اور ” تصبحون“ سے فجر مراد ہے اور ” عشیاء“ سے عصر اور ” تظھرون“ سے نماز ظہر مراد ہے معلوم ہوا کہ حصول جنت اور عذاب جہنم سے نجات کا سب سے بڑا ذریعہ پانچوں وقتوں کی نمازوں کو ان کے اوقات میں ادا کرنا ہے۔ الروم
18 الروم
19 (٩) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی جانب سے تسبیح و تحمید اور اطاعت و بندگی کا مستحق اس لئے ہے کہ اس کی ذات قادر مطلق ہے، وہ ہر بات، ہر چیز اور ہر فعل پر بلاشبہ قادر ہے، وہی زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے، جیسے انسان کو نطفہ سے اور چڑیا کو انڈے سے نکالتا ہے اور نطفہ کو (جس میں بظاہر کوئی جان نہیں ہوتی ہے) انسان سے اور انڈے کو حیوان سے نکالتا ہے اور وہی خشک اور قحط زدہ زمین کو بارش کے پانی کے ذریعہ زندگی دیتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس میں پودے لہلہانے لگتے ہیں تو جو ذات برحق تمام چیزوں کی پیدائش اور تمہاری پیداء پر پہلی بار قادر ہے، وہی تمہیں تمہاری قبروں سے دوبارہ نکالنے پر یقیناً قادر ہے۔ الروم
20 (١٠) انسان کو دوبارہ زندہ کرنے پر اس کے قادر ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے اسے مٹی سے پیدا کیا ہے، یعنی آدم سے یا نطفہ سے جس کی اصل مٹی ہوتی ہے اور بظاہر مٹی اور انسان کی ذات و صفات کے درمیان کوئی مناسب نہیں معلوم ہوتی ہے، پھر وہ محض اللہ کی قدتر سے ناطق و متحرک انسان بن کر زمین میں پھیل گیا، اپنے وجود سے کرہ ارضی کو بھر دیا، قلعے بنائے، شہروں کو آباد کیا، خشکی اور تری کے راستے طے کئے، مال و دولت کے حصول کے لئے قریہ قریہ بستی بستی چھان مارا اور مختلف علوم و فنون ایجاد کئے، یہ ساری صلاحیتیں اور قدرتیں مٹی کے بنے جسم میں کس نے ودیعت کی، اس کا جواب یقیناً اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اللہ کی ذات ہے جو ہر چیز قادر ہے۔ الروم
21 (١١) انسان کو دوبارہ زندہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کے قادر ہونے کی یہ بھی دلیل ہے کہ اس نے اسی کے جنس سے اس کی بیوی کو پیدا کیا، تاکہ اس کے قریب و اتصال سے سکون و راحت حاصل کرے، اس لئے کہ مجانست، محبت و مؤانست کا باعث ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ہی کرشمہ ہے کہ جن دو مرد اور عورت میں کبھی کی ملاقات نہیں ہوتی، کوئی رشتہ داری نہیں ہوتی، ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے محبت موجزن ہوجاتی ہے اور رحمت و ہمدردی کے سوتے پھوٹ پڑتے ہیں اور ایک دوسرے پر جان نثار کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ سب محض اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ الروم
22 (١٢) اور اس کے قادر مطلق اور وحدہ لاشریک ہونے کی یہ بھی دلیل ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو اور ان میں پائی جانے والی تمام عجیب و غریب مخلوقات کو پیدا کیا ہے اس نے انسانوں کو ہزاروں قسم کی بولیاں اور زبانیں سکھائیں اور ہر زبان کو دوسرے سے ممبز بنایا کہ کبھی ایک زبان دوسرے کے ساتھ خلط ملط نہیں ہوتی اور اس کے قادر مطلق ہونے کی یہ بھی دلیل ہے کہ تمام بنی نوع انسان کی اصل ایک ہی ہونے کے باوجود، قوموں کے رنگ ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں، اور ہر فرد اپنے چہرے مہرے میں دوسرے سے لاگ ہوتا ہے، کوئی دو فرد بشر بھی بالکل ایک جیسے نہیں ہوتے۔ یہ تمام باتیں اللہ تعالیٰ کے قادر مطلق ہونے اور اس بات کی دلیل ہیں کہ وہ ذات برحق انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔ الروم
23 (١٣) اللہ تعالیٰ کے بعث بعد الموت پر قادر ہونے کی یہ بھی دلیل ہے کہ لوگ رات میں یا دن کے وقت آرام کرنے کے لئے سو جاتے ہیں اور پھر اٹھ بیٹھتے ہیں تاکہ حصول رزق کے لئے کوشش کریں، آدمی کا سو جانا موت کی ہی ایک قسم ہے اور پھر اللہ کی قدرت و مشیت سے جاگ جانا موت کے بعد زندہ ہونے کے مترادف ہے یقیناً اس میں غور و فکر کرنیوالوں اور حق کی آواز پر کان دھرنے والوں کے لئے کئی نشانیاں ہیں جو انہیں آخرت اور جزا و سزا پر ایمان لانے کی دعوت دیتی ہیں۔ الروم
24 (١٤) اور اس کے بعث بعد الموت پر قادر ہونے کی یہ بھی دلیل ہے کہ جب اس کی قدرت و مشیت سے فضا میں بجلی چمکتی ہے تو زمین پر رہنے والے انسان ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ بجلی اپنے اندر کوئی ” صاعقہ“ نہ چھپائے ہو جو گر کر ہمیں ہلاک کر دے اور امید بھی لگائے ہوتے ہیں کہ شاید باران رحمت کا پیش خیمہ ہے اور جب اللہ اپنی مخلوقات پر رحم و کرم کرتے ہوئے بارش بھیج دیتا ہے تو مردہ زمین میں جان آجاتی ہے، پودے لہلہا اٹھتے ہیں اور کھیتیاں آباد ہوجاتی ہیں یہ ساری باتیں عقل و خرد والوں کو دعوت فکر و نظر دیتی ہیں اور دلیل ہیں کہ اللہ انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔ الروم
25 (١٥) اور اس کی قدرت مطلقہ کی یہ بھی دلیل ہے کہ اس نے جب سے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، بغیر کسی ظاہری سہارے کے محض اللہ کے حکم سے دونوں اپنی اپنی جگہ قائم ہیں، قیامت تک نہ آسمان گر سکتا ہے اور نہ زمین نیچے جاسکتی ہے اور جب اللہ کے حکم سے اسرافیل (علیہ السلام) صور پھونکیں گے تو تمام انسان بغیر کسی توقف کے پوری تیزی کے ساتھ اپنی قبروں اور زمین کے گوشے گوشے سے نکل کر میدان محشر کی طرف دوڑ پڑیں گے۔ الروم
26 (١٦) آسمانوں اور زمین میں جتنی مخلوقات پائی جاتی ہیں سب اس کے بندے اور مملوک ہیں۔ اسی نے انہیں پیدا کیا ہے، وہ ان کا مالک ہے، اور جس طرح چاہتا ہے ان میں تصرف کرتا ہے۔ سب کی گردنیں اس کے حکم کے لئے جھکی ہوئی ہیں اور سب اس کے حکم کے لئے جھکی ہوئی ہیں اور سب اس کے لئے اپنی بندگی کے معترف ہیں اور وہ جس چیز کو چاہتا ہے بغیر کسی سابق نمونہ کے لفظ ” کن“ کے ذریعہ پیدا کرتا ہے اور اس کا وقت مقرر آجانے کے بعد اسے دنیا سے اٹھا لے گا اور پھر قیامت کے دن اسے دوبارہ زندہ کرے گا اور یہ کام اس کے لئے بہت ہی آسان ہے، کیونکہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی بار سے آسان ہوتا ہے اور یہ بات انسانی عقل و فہم کو مدنظر رکھتے ہوئے کہی جا رہی ہے، ورنہ اللہ کی قدتر میں کوئی چیز کسی دوسری چیز سے زیادہ آسان نہیں ہے، اس کے کلمہ ” کن“ کے ذریعہ ہر چیز بلاتاخیر وجود میں آجاتی ہے اور آسمانوں اور زمین میں سب سے اعلیٰ وارفع صفت و تعریف اللہ کے لئے ہے، کوئی مخلوق اپنی کسی صفت میں اس کے مانند نہیں ہو سکتی۔ (ولہ المثل الاعلی) کا ایک دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی بار سے زیادہ آسان ہے، تو یہ انسانوں کی عقل و فہم کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا گیا ہے، اللہ کی ذات تو اس سے زیادہ اعلیٰ و ارفع صفت والی ہے، اس کے نزدیک تو تمام چیزوں کا وجود میں آنا برابر اور یکساں ہے۔ الروم
27 الروم
28 (١٧) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے شرک کی تردید کے لئے انسانوں کے حالات زندگی سے ماخوذ ایک مثال پیش کی ہے، کہ تمہارے غلام جو تمہارے ہی جیسے انسان ہوتے ہیں، کیا تم پسند کرتے ہو کہ تمہاری دی ہوئی روزی میں وہ تمہارے شریک بن جائیں اور تمہارے برابر بن کر اس میں تمہاری طرف تصرف کریں اور ان سے تم اسی طرح ڈرنے لگو جس طرح آزاد انسان مال میں تصرف کرتے وقت اپنے دوسرے شریکوں سے ڈرتا ہے۔ جب یہ بات تمہیں پسند نہیں حالانکہ وہ غلام تمہارے ہی جیسے انسان ہوتے ہیں تو پھر یہ کیسے پسند کرتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اس کے بندوں کو عبادت میں شریک کرو، اور اللہ اس بات کو کیسے پسند کرے گا کہ اس کی مخلوق کے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں کو اس کا مدمقابل ٹھہرایا جائے اور اس کی عبادت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ عقل و ہوش والوں کے لئے اپنی وحدانیت کے دلائل یونہی کھول کر بیان کردیتا ہے، تاکہ ان میں غو رک رکے شرک سے تائب ہوں اور صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور ان تمام کھلی نشانیوں کے باوجود جو لوگ ایمان نہیں لاتے تو اس کی وجہ دلائل و براہین میں کوئی نقص اور کمی نہیں ہوتی بلکہ یہ خواہشات نفس کی اتباع کا نتیجہ ہوتا ہے اور جس کو اللہ اس کے کرتوتوں کی وجہ سے گمراہ کر دے اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ اور اس سے اللہ کے عذاب کو کون ٹال سکتا ہے؟ الروم
29 الروم
30 (١٨) جب اتنے سارے دلائل و براہین کے ذریعہ ثابت ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خلاق و مالک اور قادر مطلق ہے اور اس کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں، تو اے میرے نبی ! اور اے مسلمانو ! تم سب تمام باطل ادیان سے رخ موڑ کر پورے طور پر دین اسلام پر قائم ہوجاؤ جس کی بنیاد توحید اور عمل صالح پر ہے، اور جو اللہ کا وہ دین فطرت ہے جس پر اس نے تمام انسانوں کو پیدا کیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو عقیدہ توحید اور دین اسلام پر پیدا کتر اہے، لیکن خارجہ عوارض و موانع کے سبب بہت سے لوگ اس امر فطری سے برگشتہ ہوجاتے ہیں اور کفر و شرک کی راہ اختیار کرلیتے ہیں، جیسا کہ بخاری و مسلم کی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔“ اور ایک روایت میں ہے : اس ملت پر پیدا ہوتا ہے، لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی اور نصرانی اور مجوسی بنا دیت یہیں، جیسے مادہ چوپایہ ایک مکمل چوپائے کو جنتی ہے، کیا اس میں کوئی بچہ کان کٹا ہوتا ہے؟ پھر ابوہریرہ (رض) نے کہا، اگر چاہو تو یہ آیت پڑھو : (فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیھا لاتبدیل لخلق اللہ) اور ایک روات میں ہے کہ تم لوگ اس کا کان کاٹ دیتے ہو۔ اس حدیث کی تائید کئی دیگر صحیح احادیث سے ہوتی ہے، جن کا ذکر کرنا طوالت کا باعث ہوگا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (لاتبدیل لخلق اللہ) ” مسلمانو ! تم لوگ اس فطرت کو نہ بدلو“ بلکہ اپنی اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت کے ذریعہ اس فطرت کی نشو و نما کرو تاکہ بچہ جب بڑا ہو تو عقیدہ توحید پر گامزن ہو اور دین اسلام کا پیرو کار بنے اس لئے کہ یہی اللہ کا وہ سچا دنی ہے جس میں کوئی کجی نہیں ہے لیکن اکثر لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس صحیح اور سچے دین کو چھوڑ کر ضلالت و گمراہی کی وادیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں۔ الروم
31 (١٩) مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ دین اسلام پر ان کی ثبات قدمی پورے الخاص کے ساتھ ہو اور وہ ہر حال میں اللہ کی طرف رجوع کریں اور اس سے طلب مغفرت کرتے رہیں، اس سے ڈرتے رہیں اور اپنی نمازوں کی حفاظت کریں اور کسی حال میں بھی مشرکین میں سے نہ بنیں جنہوں نے دین فطرت (دین اسلام) کو چھوڑ کر سینکڑوں باطل ادیان و مذاہب ایجاد کرتے کر لئے، اور مختلف گروہوں میں بٹ گئے اور ہر گروہ یہ سوچ کر خوشی میں مگن رہنے لگا کہ اس کا دین سچا ہے، حالانکہ دین اسلام کے سوا کوئی بھی دین صحیح نہیں ہے، اس لئے اب جو شخص بھی راہ ہدایت پر گامزن ہونا چاہے گا، اس کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ تمام دیگر ادیان و مذاہب، باطل فرقوں اور بدعتوں اور خرافات سے دامن جھاڑ کر دین اسلام کو اختیار کرلے جو اللہ کی آخری کتاب اور خاتم النبین کی سنت کے مجموعے کا نام ہے۔ الروم
32 الروم
33 (٢٠) کفار مکہ اور دیگر اہل شرک کے سلوک و کردار میں عجیب تضاد پایا جاتا ہے کہ جب انہیں کوئی بیماری، پریشانی یا قحط سالی لاحق ہوتی ہے تو فوراً اللہ کے حضور رو رو کر دعائیں کرتے ہیں اور اپنے تمام باطل معبودوں کو بھول جاتے ہیں اور جب اللہ ان کے حال پر رحم کرتے ہوئے تکلیف کو دور کردیتا ہے، تو ان میں یک لخت حیرت انگیز تبدیلی رونما ہوجاتی ہے اور اللہ کو چھوڑ کر اپنے بتوں کو دوہائی دینے لگتے ہیں اور اللہ کے تمام احسانات و انعامات کو یکسر بھول جاتے ہیں اور اسکی ناشکری کرنے لگتے ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں دھمکی دیتے ہوئے کہا : (فتمتعوا افسوف تعلمون) ” اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے خوب مزے اڑا لو، تمہیں اپنی ناشکری اور شرکیہ اعمال کا انجام قیامت کے دن معلوم ہوجائے گا“ جب تم ننگے پاؤں اور ننگے بدن اللہ کے سامنے جواب دینے کے لئے کھڑے ہو گے اور اس کے مقابلے میں تمہارا کوئی یار ومددگار نہیں ہوگا۔ الروم
34 الروم
35 (٢١) مشرکین اپنے شرک پر کیوں اصرار کرتے ہیں اور ان کے کردار میں ایسا بین تضاد کیوں پایا جاتا ہے، کیا ہم نے ان کے پاس کوئی صریح اور واضح دلیل بھیج دی ہے جو انہیں شرک کی طرف بلاتی ہے؟ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ سوائے تقلید آباء اور کفر و عناد کے اور کوئی سبب نہیں ہے۔ الروم
36 (٢٢) بالعموم بنی نوع انسان کا حال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اسے صحت و روزی اور دیگر نعمتوں سے نوازتا ہے۔ تو لوگوں کے سامنے فخر کرنے لگتا ہے اور اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اسے اپنی عقل و دانش کا نتیجہ بتانے لگتا ہے اور جب اس کے کرتوتوں کی پاداش کے طور پر اس پر کوئی مصیبت آپڑتی ہے، تو اللہ کی رحمت سے یکدم ناامید ہوجاتا ہے، لیکن اہل ایمان عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں انہیں جب پریشانی لاحق ہوتی ہے تو صبر کرتے ہیں اور جب اللہ کی نعمت ملتی ہے تو نیک اعمال کی طرف مزید توجہ کرتے ہیں سورۃ ہود آیت (١١) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (الا الذین صبروا وعملوا الصلاحات) ” جو اہل ایمان صبر اور عمل صالح کو اپنا شیوہ بناتے ہیں“ وہ نہ فخر کرتے ہیں اور نہ ہی اللہ کی رحمت سے ناامید ہوتے ہیں، صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” مومن کا حال بھی عجیب ہے، اللہ کا ہر فیصلہ اس کے حق میں بہتر ہی ہوتا ہے اور یہ مرتبہ مومن کے سوا کسی دوسرے کو حاصل نہیں اگر اسے خوشی ملتی ہے اور شکر ادا کرتا ہے تو یہ اس کے لئے بہتر ہے اور اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور صبر کرتا ہے تو بھی اس کے لئے بہتر ہے۔ “ الروم
37 (٢٣) یہ استفہام انکاری ہے کہ جو لوگ اللہ کی رحمت سے ناامید ہوجاتے ہیں، کیا وہ دیکھتے نہیں کہ اللہ جس کی چاہتا ہے روزی بڑھا دیتا ہے، اس کی رحمت کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں اور جس کی چاہتا ہے گھٹا دیتا ہے، وہی مصلحتوں کو جانتا ہے اس لئے بندوں کو چاہئے کہ اس کی رحمت سے ناامید نہ ہوں، اور گناہوں سے تائب ہو کر اس سے طلب مغفرت کریں تاکہ وہ اپنی رحمت اور اپنے فضل و کرم کا دروازہ دوبارہ کھول دے۔ الروم
38 (٢٤) جب روزی دینے والا اللہ ہے اور اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں، تو بندے کو چاہئے کہ وہ بخل اور تنگ دلی سے کام نہ لے اور اس ایمان کے ساتھ زندگی گذارے کہ اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے، اس لئے اگر اللہ نے اسے روزی دی ہے تو اپنے رشتہ داروں، محتاجوں اور مسافروں کو فراموش نہ کرے۔ اس کے مال میں اللہ تعالیٰ نے جن رشتہ داروں کے حقوق واجب کئے ہیں، انہیں خوشدلی کے ساتھ ادا کرے اور ان واجب حقوق کے علاوہ بھی ان سب کا حسب مراتب ملای تعاون کرتا رہے۔ اسی طرح اس کے اردگرد جو محتاج و مسکین لوگ ہوں، ان کی ضرورتوں کا بھی حتی المقدور خیال رکھے اور اگر کسی مسافر کو زد راہ وغیرہ کی کمی ہوجائے تو اس کی بھی مدد کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسا کرنا اللہ کی رضا طلب کرنے والوں کے لئے بہت ہی بہتر ہے اور وہی لوگ دنیا و آخرت میں فائز المرام ہوں گے۔ الروم
39 (٢٥) ابن عباس (رض)، عکرمہ، مجاہد، ضحاک اور قتادہ وغیرہم نے اس آیت کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو اس نیت سے ہدیہ دیتا ہے کہ وہ اس کے بدلے میں اس سے بہتر کوئی چیز دے، تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسے اس کا کوئی ثواب نہیں ملے گا، لیکن دنیاوی طور پر اس کے لئے ایسا کرنا جائز ہے۔ ابن عباس اور عکرمہ کہتے ہیں کہ ربا کی دو قسمیں ہیں : ایک خرید و فروخت کی ربا، جو شرعاً حرام ہے اور دوسری کسی کو اس نیت سے ہدیہ دینا کہ وہ اسے اس سے بہتر بدلہ دے تو یہ جائز ہے۔ اور اگر کوئی شخص صدقہ و خیرات اللہ کی خوشنودی کے لئے کرتا ہے، تو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اسے اس کا بدلہ کئی گنا بڑھا کردیتا ہے اور بسا اوقات وہ بڑھ کر سات سو گنا زیادہ ہوجاتا ہے، جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ الروم
40 (٢٦) اللہ تعالیٰ نے اپنے مشرک بندوں کو خاطب کر کے زجر و توبیخ کے طور پر فرمایا کہ اللہ نے ہی تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہیں روزی دی ہے، وہی تمہیں ایک عمر مقرر گذار لینے کے بعد موت دے گا اور قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرے گا، تمہارے باطل معبودوں میں سے کوئی بھی ان باتوں کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔ تو پھر تم ایک اللہ کے بجائے ان بتوں کی کیوں پرستش کرتے ہو۔ اللہ تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے اور اس سے بہت ہی بالا و برتر ہے کہ جھوٹے معبود اس کے ساجھی بنائیے جائیں۔ الروم
41 (٢٧) بحر و بر میں سب سے بڑا شر و فساد یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بنایا جائے، اس کی شریعت کو بالائے طاق رکھ کر زندگی گذاری جائے، حلال و حرام کی تمیز اٹھا دی جائے جس کے نتیجے میں لوگوں کی جان، مال اور عزت محفوظ نہیں رہتی اور ان کے شامت اعمال کے طور پر اللہ تعالیٰ ان پر قحط سالی، مہنگائی، جنگ و جدل اور فتنہ و فساد کو مسلط کردیتا ہے اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ شاید ان دنیاوی سزاؤں سے متاثر ہو کر لوگ اللہ کی طرف رجوع کریں اور اپنے گناہوں سے تائب ہوں، گویا اس میں بھی اللہ کی رحمت ہی مضمر ہوتی ہے۔ الروم
42 (٢٨) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی کفار مکہ سے کہا جا رہا ہے کہ تم لوگ زمین میں گھوم کر ان قوموں کا انجام اپنی آنکھوں سے کیوں نہیں دیکھ لیتے جو تمہاری طرح مشرکین تھے اور اپنے انبیاء کی دعوت توحید کا انکار کردیا تھا، تو اللہ نے انہیں ہلاک کردیا تھا اور ان کی بستیوں کے کھنڈرات اب تک ان کی ذلت و رسوائی کی گواہی دے رہے ہیں۔ الروم
43 (٢٩) کفر و شرک کی تباہکاریوں کو بیان کرنے کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کی راہ نجات یعنی دین اسلام کی طرف رہنمائی کی گئی ہے اور انہیں نصیحت کی گئی ہے کہ دنیا و آخرت کی برباد یوں سے بچنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ وہ اسلام کو دین و شریعت کی حیثیت سے قبول کرلیں اور اپنی زندگی میں اس کے احکام کو جاری و ساری کرلیں، اس روز قیامت کے آنے سے پہلے جب فرصت عمل ختم ہوجائے گی اور لوگ دو جماعتوں میں بٹ جائیں گے، ایک جماعت جنت میں بھیج دی جائے گی اور دوسری جہنم کے شعلوں کے حوالے کردی جائے گی، جیسا کہ اسی سورت کی آیت (١٤) میں آیا ہے : (ویوم تقوم الساعۃ یومئذ یتفرقون) ” جس دن وہ ساعت برپا ہوگی، اس دن سب انسان گروہوں میں بٹ جائیں گے۔ “ الروم
44 (٣٠) یہ دنیا دارالاعمل ہے، یہاں انسان کو اس لئے بھیجا گیا ہے تاکہ آخرت کی کامیابی کے لئے کوشش کرے، تو جو شخص دین اسلام کو چھوڑ کر کفر کی راہ اختیار کرے گا، قیامت کے دن اسے اپنے کفر کا مزا چکھنا ہوگا، اس لئے کہ اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا ہے اور جو لوگ نیک عمل کریں گے وہ اپنے لئے جنت میں گھر بنائیں گے، تاکہ قیامت کے دن اللہ انہیں اپنے فضل و کرم سے وہاں بھیج کر ان کے ایمان و عمل صالح کا اچھا بدلہ دے، اور آدمی کو امید ہوجاتی ہے کہ اب جلد ہی بارش ہوگی، ہوا کو اس طرح چلانے پر صرف اللہ قادر ہے، تاکہ باران رحمت نازل کر کے لوگوں کے لئے ان کی روزی مہیا کرے اور تاکہ سمندر میں کشتیاں اس کے حکم سے ایک جگہ سے دوسری جگہ سامان تجارت لے کر منتقل ہوتی رہیں اور لوگ مختلف ممالک میں تجارتی سامانوں کی خرید و فروخت کے ذریعہ اپنی روزی حاصل کریں اور اپنے رب کا شکر ادا کریں۔ الروم
45 الروم
46 (31) اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور اس کی قدرت مطلقہ کی ایک دلیل ” ہوا“ ہے، جسے اللہ بارش بھیجنے سے پہلے بطور خوشخبری بھیجتا ہے ہے، اور آدمی کو امید ہوجاتی ہے کہ اب جلد ہی بارش ہوگی ہوا کو اس طرح چلانے پر صرف اللہ قادر ہے، تاکہ باران رحمت نازل کر کے لوگوں کے لئے ان کی روزی مہیا کرے اور تاکہ سمندر میں کشتیاں اس کے حکم سے ایک جگہ سے دوسری جگہ سامان تجارت لے کر منتقل ہوتی رہیں اور لوگ مختلف ممالک میں تجارتی سامانوں کی خرید و فروخت کے ذریعہ اپنی روزی حاصل کریں اور اپنے رب کا شکر ادا کریں۔ الروم
47 (32) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ ہم نے آپ سے پہلے بھی بہت سے انبیاء و رسل کو اپنی پیغام رسانی کے لئے مبعوث کیا تھا، جیسے نوح، ہود، صالح، ابراہیم، لوط اور شعیب علیہم السلام اور دیگر انبیائے کرام اور ان کی تائید و تصدیق کے لئے انہیں آیات و معجزات بھی دیئے تھے، تو جن قوموں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا ہم نے انہیں ہلاک کردیا اور جو لوگ ایمان لے آئے انہیں بچا لیا، اس لئے کہ مسلمانوں کی تائید و نصرت ہم نے اپنے اوپر فرض کرلی ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس میں کفار قریش کے لئے دھمکی ہے کہ اگر وہ بھی اپنے کفر و شرک سے تائب نہیں ہوئے تو ان کا انجام بھی انہی قوموں جیسا ہوگا اور ہر دور میں مومنوں کے لئے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں ضائع نہیں ہونے دیتا، بلکہ انہیں عزت و غلبہ دیتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران آیت (139) میں فرمایا ہے : (وانتم الاعلون ان کنتم مومنین) ” اگر تم مومن ہو گے تو تم ہی غالب رہو گے اور تم ہی کو برتری حاصل ہوگی۔ “ الروم
48 (33) آیات (50,49,48) میں بعث بعد الموت اور قیامت کے دن جزا و سزا کے عقیدے کو بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے ہوا کو بھیجتا ہے جو بادل کو حرکت دیتی ہے اور وہ بادل اس کے حکم سے فضا میں اس کی حکمت و مصلحت کے مطابق پھیل جاتا ہے، کہیں گہرا ہوتا ہے تو کہیں ہلکا، کہیں زیادہ ہوتا ہے تو کہیں کم، پھر اللہ تعالیٰ دوبارہ اس کے ٹکڑے بنا دیتا ہے جن کے درمیان سے بارش کی بوندیں نکل نکل کر سطح زمین پر گرتی ہیں اور لوگ باران رحمت پا کر خوشیاں منانے لگتے ہیں اور خشکی اور قحط سالی کی وجہ سے انہیں جو حزن و ملال لاحق ہوتا ہے وہ دور ہوجاتا ہے آیت (50) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس طرح وہ زمین کو باران رحمت کے ذریعہ زندگی دیتا ہے اور اس میں سبزے لہلہانے لگتے ہیں، اسی طرح وہ قیامت کے دن لوگوں کو دوبارہ زندگی عطا کرے گا، اس لئے کہ وہ ذات برحق ہر چیز پر قادر ہے۔ الروم
49 الروم
50 الروم
51 (34) اگر اللہ تعالیٰ کبھی لہلہاتی کھیتیوں پر بطور آزمائش تیز و تند گرم یا سرد ہوا بھیج دیتا ہے، جو انہیں نیست و نابود کردیتی ہے، تو کافر انسان اللہ تعالیٰ کی تمام سابقہ نعمتوں کو بھول جاتا ہے اور یکدم ناشکری پر اتر آتا ہے اور کہنے لگتا ہے کہ ہم نے کبھی خوشی دیکھی ہی نہیں، ہم تو ہمیشہ اللہ کی طرف سے آزمائش میں ہی رہے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ اہل ایمان کا حال ان سے مختلف ہوتا ہے۔ آیت (52) میں اللہ تعالیٰ نے انہی بعث بعد الموت کے منکرین کفار قریش کو مردوں اور بہروں سے تشبیہہ دی ہے، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ جس طرح مردے اور بہرے کسی کی پکار نہیں سنتے ہیں اسی طرح یہ لوگ بھی آپ کی دعوت حق کو نہیں قبول کریں گے، اور آپ کی نصیحتوں کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ (اذا ولوا مدبرین) میں کفار قریش کے شدت امتناع اور شدت اعراض کو بیان کیا گیا ہے کہ اگر کوئی رک کر پکارنے والے کی آواز سننی چاہے تو شاید وہ آواز اس کے دل پر اثر کر جائے، لیکن جو شخص اپنے کانوں کو بند کئے پیچھے مڑ کر بھاگتا ہی چلا جائے تو اس سے کہاں امید کی جاسکتی ہے کہ پکارنے والے کی آواز اس پر اثر انداز ہوگی، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے اعراض کرنے میں اہل قریش کی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی۔ آیت (53) میں اللہ تعالیٰ نے اہل قریش کی مزید ایمانی ابتری بیان کرنے کے لئے انہیں اندھوں سے تشبیہ دی ہے کہ ان کے دل کی آنکھیں اندھی ہوچکی ہیں اور گمراہی میں بہت دور نکل گئے ہیں، انہیں آپ سیدھی راہ پر نہیں لا سکتے ہیں۔ آپ کی دعوت حق کو وہ لوگ قبول کریں گے جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور حلقہ بگوش اسلام ہوچکے ہیں، کیونکہ انہی کے دل و دماغ آپ کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے تیار ہیں اور وہی ہماری نشانیوں میں غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔ الروم
52 الروم
53 الروم
54 (35) اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان و بالعموم اور کفار قریش کو بالخصوص مخاطب کر کے فرمایا کہ تم لوگ بعث بعد الموت کا کیسے انکار کرتے ہو؟ کیوں اس سوء ظن میں مبتلا ہو کر ہم انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ اگر تم لوگ اپنی تخلیق کے مراحل پر غور کرلیتے تو ایسی غلطی نہ کرتے۔ تمہارا جب کوئی وجود نہیں تھا تو ہم نے تمہیں ایک نطفہ حقیر سے پیدا کیا۔ پھر بچپن کے مرحلے سے گذار کر جوان بنایا، پھر بوڑھا بنایا اور اتنا بوڑھا بنایا کہ حسرت ویاس نے تمہارے چہروں پر ڈیرے ڈال دیئے اور کمزوری و ناتوانی کی تم ایک تصویر بن کر رہ گئے اور پھر موت نے تمہیں آدبوچا تو جو ذات برحق تمہیں عدم سے وجود میں لانے پر قادر ہے، کیا وہ تمہیں دوبارہ پیدا نہیں کرسکے گا؟ اس سے زیادہ بھونڈی اور بے عقلی کی اور کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ الروم
55 (36) قیامت کے دن کفر و شرک اور گناہوں کا ارتکاب کرنے والے مجرمین قسمیں کھا کر کہیں گے کہ ہم تو دنیا میں صرف ایک گھڑی رہے تھے۔ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ وہ لوگ جھوٹ بولیں گے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس طرح وہ لوگ دنیا میں اتباع دین حق سے محروم کردیئے گئے تھے، اسی طرح انہیں میدان محشر میں سچی بات زمانے پر لانے کی توفیق نہیں ہوگی۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ کفار میدان محشر میں اللہ کی قسم کھا کر یہ بات اس لئے کہیں گے تاکہ ان کے خلاف حجت نہ قائم ہو، گویا وہ یہ کہنا چاہیں گے کہ انہیں تو صرفت عمل ملی ہی نہیں تھی اس لئے انہیں معذور جانا جائے۔ الروم
56 (37) جو اہل ایمان علماء دنیا میں منکرین قیامت کو ایمان و عمل کی دعوت دیتے رہے تھے اور کوشش کرتے رہے تھے کہ وہ لوگ آخرت پر ایمان لے آئیں، ان کی کذب بیانی سن کر کہیں گے کہ تمہیں تو لوح محفوظ میں ثابت شدہ اللہ کے علم کے مطابق قیامت کے دن تک کی مہلت دی گئی تھی، آج وہی قیامت کا دن اور احتساب کی گھڑی ہے اور اللہ نے اپنے وعدے کے مطابق تمام بنی نوع انسان کو دوبارہ زندہ کر کے میدان محشر میں جمع کردیا ہے، جس کا تم دنیا میں انکار کرتے تھے۔ آیت (57) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس دن مشرکین، منکرین ربوبیت اور منکرین رسالت محمدیہ کا یہ عذر قابل قبول نہیں ہوگا کہ وہ اپنے جرائم کا ارتکاب جہالت و نادانی کی وجہ سے کرتے رہے تھے اور نہ انہیں دوبارہ مہلت دی جائے گی کہ توبہ اور عمل صالح کے ذریعہ گزشتہ گناہوں کی تلافی کرلیں۔ الروم
57 الروم
58 (38) بعث بعد الموت، قیامت کے دن کے حساب اور جزا و سزا اور دیگر مشاہد آخرت کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہم نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے اس قرآن میں بہت سی مثالیں بیان کردی ہیں جو توحید باری تعالیٰ، صداقت انبیاء اور بعث بعد الموت جیسی حقیقتوں کیپ وری وضاحت کرتی ہیں اور کوئی شک و شبہ نہیں چھوڑتی ہیں۔ لیکن اہل کفر و شرک کو ان سے کوء فائدہ نہیں پہنچتا ہے اور عناد و سرکشی کی وجہ سے موسیٰ و عیسیٰ جیسی نشانیوں کا مطالبہ کرتے ہیں، حالانکہ یہ اپنی سرکشی میں اس قدر آگے بڑھ گئے ہیں کہ اگر آپ انکے کہنے کے مطابق کوئی نشانی پیش بھی کردیں گے تو انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور کہیں گے کہ یہ بھی کوئی جادو اور دھوکہ دہی ہے۔ آیت (60,59) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ صدق نیت کے ساتھ حق کے طالب نہیں ہوتے، اللہ ان کے دلوں پر اسی طرح مہر لگا دیتا ہے اگر آپ ان کے سامنے ہزار نشانیاں پیش کردیں گے تب بھی ایمان نہیں لائیں گے، اس لئے میرے نبی ! آپ صبر و استقامت کے ساتھ اپنی ذمہ داری پوری کرتے رہئے اور یقین رکھئے کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے، وہ اپنے رسولوں کو تنہا نہیں چھوڑ دیتا ہے، ان کی مدد ضرور کرتا ہے اور بالاخر عزت و غلبہ انہی کو حاصل ہوتا ہے، جیسا کہ سورۃ الصافات آیات (173,172,171) میں فرمایا ہے : (ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین، انھم لھم المنصورون، وان جندنالھم الغالبون) ” اور البتہ ہمارا وعدہ پہلے ہی اپنے رسولوں کے لئے صادر ہوچکا ہے کہ یقیناً وہی مدد کئے جائیں گے اور ہمارا ہی لشکر غالب رہے گا۔ “ اے میرے نبی ! مشرکین کا عناد اور کفر پر ان کا اصرار اور آپ کے خلاف ان کی سازشیں کہیں آپ کو طیش عدم صبر اور عدم بردباری میں نہ مبتلا کردیں جو آپ کے شایان شان نہیں۔ آپ کے رب کا وعدہ برحق ہے، وہ آپ کی اور آپ کے مومن ساتھیوں کی ضرور مدد کرے گا اور انجام کار آپ ہی لوگ غالب رہیں گے۔ وباللہ التوفیق الروم
59 الروم
60 الروم
0 تفسیر سورۃ لقمان نام : اس سورت میں لقمان حکیم کا قصہ مذکور ہے، جن کی حکمت و دانائی کی باتوں اور ان کی نصیحتوں کو قرآن کریم نے بڑے اہتمام سے بیان کیا ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے سے کی تھی اسی مناسبت سے اس کا نام ” لقمان“ رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ بھی مکی سورت ہے، اس میں بھی شرک کی تردید اور توحید کا اثبات مختلف پیرائے میں کیا گیا ہے، جو مکی سورتوں کا خاصہ ہے، لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے انکار شرک پر خاص زور دیا تھا اور کہا تھا کہ شرک ظلم عظیم ہے۔ لقمان
1 (١) الم : جیسا کہ بارہا لکھا جا چکا ہے، حروف مقطعات کا معنی و مفہوم اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لقمان
2 (٢) اس آیت کریمہ کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں قرآن کریم کی عظمت و اہمیت بیٹھا نے کی کوشش کی گئی ہے۔” تلک“ سے اشارہ قرآن کریم کی آیتوں کی طرف کیا گیا ہے اور علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ اشارہ قریب کے بجائے اشارہ بعید استعملا کرنے سے مقصود قرآن کریم کی عظمت کا اظہار ہے۔ اور یہ کتاب عظیم نیک عمل کرنے والوں کے لئے ذریعہ ہدایت اور باعث رحمت ہے۔ مفسرین نے یہاں ” محسن“ کے دو معنی بیان کئے ہیں : ایک محض نیک عمل کرنے والا اور دوسرا وہ شخص جو اپنے رب کی عبادت اس طور پر کرتا ہے جسے حدیث جبرئیل میں ” احسان“ کی تعریف میں بیان کیا گیا ہے کہ بندہ اپنے رب کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ آیت (٤) میں ان عمل صالح کرنے والوں کی تین خصوصی صفات بیان کی گئی ہیں کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوۃ دیتے ہیں اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، مفسرین لکھتے ہیں کہ اس سے مقصود ان تینوں صفات کی اہمیت و عظمت بیان کرنی ہے۔ یعنی ان تینوں صفات کے بغیر صفت احسان کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اور آیت (٥) میں ان صفات والوں کا انجام بیان کیا گیا ہے کہ یہی لوگ درحقیقت اپنے رب کے صحیح راستے پر ہیں اور یہی جہنم سے نجات پا کر جنت کے حقدار بنیں گے۔ لقمان
3 لقمان
4 لقمان
5 لقمان
6 (3) اوپر کی ایٓتوں میں اللہ کے نیک بندوں کا ذکر ہوا ہے جن کی زندگی اللہ کی یاد میں گذرتی ہے اور ہر قسم کی لغویات سے دور رہ کر فکر آخرت میں لگے رہتے ہیں، ان کے برعکس کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو فکر آخرت سے غافل، لہو و لعب، رقص و سرود اور دنیا کی لذتوں میں ڈوبے ہوتے ہیں، اس آیت کریمہ میں انہی کا ذکر آیا ہے، کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ذکر الٰہی اور فکر آخرت کے بدلے کھیل کود، گانا بجانا، ہنسی مذاق، جھوٹے قصوں اور ہر اس امر منکر کو اپنا لیتے ہیں جو انہیں اور غیروں کو اللہ کی سیدھی راہ سے ہٹا کر شیطا نکی راہ پر ڈال دیتے ہیں اور وہ اپنے کئے کے انجام سے اور ذلت و عار اور عذاب نار سے بے خبر ہوتے ہیں جو موت کے بعد ان کا اتنظار کر رہے ہیں، قرطبی نے لکھا ہے کہ یہاں (لھوا الحدیث) سے مراد گانا اور موسیقی ہے صحابہ و تابعین کا یہی قول ہے، امام بخاری نے ” الادب المفرد‘ میں ابن عباس (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ (لھو الحدیث) سے مراد ہر ناحق بات ہے اور یہ آیت نضر بن حارث بن علقمہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو عراق و شام جا کر قیصر و کسریٰ کی حکایات کی کتابیں لایا تھا اور کفار قریش کو سنا کر قرآن سے انہیں دور رکھنے کی کوشش کرتا تھا، ابن مسعود (رض) نے قسم کھا کر کہا کہ (لھو الحدیث) سے مراد گانا ہے۔ نضر بن حارث نے لوگوں کو قرآن سے دور رکھنے کے لئے ایس لونڈیاں بھی خرید رکھی تھیں جو رقص و سرود میں ماہر تھیں جب اسے مکہ کے کسی اہم آدمی کے بارے میں معلوم ہوتا کہ وہ اسلام و قرآن سے متاثر ہو رہا ہے تو اس کے پیچھے اپنی کسی لونڈی کو لگا دیتا جو اسے اپنی محفلوں میں بلاتی اور اسلام کی طرف سے اس کی توجہ پھیر دیتی۔ حکایات و خرافات اور رقص و سرود کی ان محفلوں میں اسلام کا مذاق بھی اڑایا جاتا تھا تاکہ لوگ اس کی طرف سے بالکل ہی برگشتہ ہوجائیں اور ہر زمانے میں جب بھی کوئی شخص اسلام سے دور ہو کر شیطان کی راہ پر لگا اور اس نے رقص و سرود کی محفلیں جمائیں تو بالعموم ایسی محفلوں میں اسلام کا مذاق اڑایا جات رہا، اس پر پھبتیاں کسی جاتی رہیں اور طرح سرح کے اوچھے جملے چست کئے جاتے رہے، تاکہ لوگوں کو اسلام سے دور رکھا جائے، آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن انہیں رسوا کن عذاب دیا جائے گا۔ آیت (٧) میں ان لہو و لعب اور رقص و سرور کے دیوانوں کی ایک لازمی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے تو کبر و غرور کے مارے پیٹھ پھیر کر ایسا بھاگ پڑتے ہیں کہ جیسے انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں، جیسے ان کے دونوں کانوں میں ڈاٹ پڑی ہے اور بہرے ہوگئے ہیں کہ کچھ سنتے ہی نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ ایسے لوگوں کو درد ناک عذاب کی خوشخبری دے دیجیے۔ لقمان
7 لقمان
8 (4) ایمان اور عمل صالح والوں کو پہلے عمومی خوشخبری دی گئی کہ وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں اور یہاں ان سے صریح وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ گوناگوں نعمتوں والی جنتوں میں داخل کئے جائیں گے، جن میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ کا یہ وعدہ برحق ہے اور وہ ہر حال میں غالب اور اپنے تمام اقوال و افعال میں صاحب حکمت ہے۔ لقمان
9 لقمان
10 (٥) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم قدرت و حکمت کے چار مظاہر بیان کئے ہیں اور پھر آیت (١١) میں مشرکین مکہ کو دعوت فکر و نظر دی ہے کہ اللہ کے سوا جن باطل معبودوں کی تم لوگ پرستش کرتے ہو، انہوں نے تو کچھ بھی پیدا نہیں کیا، پھر کیوں تم انہیں اپنا معبود مانتے ہو، حقیقت یہ ہے کہ تم کھلی گمراہی میں مبتلا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو بغیر آنے والے ستونوں کے سہارے قائم کر رکھا ہے، اس نے محض اپنی قدرت سے نظام جاذبیت کے ذریعہ انہیں ان کی متعین جگہوں میں ثابت کردیا ہے۔ زمین پر پہاڑوں کے کھونٹے گاڑ دیئے ہیں تاکہ زمین ہلنے نہ پائے ورنہ کوئی چیز اپنی جگہ باقی نہ رہتی اور اس پر رہنے والے انسانوں اور یدگر حیوانات کو سکون و قرار حاصل نہیں ہوتا، ان کی زندگی دو بھر ہوجاتی اور اس نے مختلف قسم کے جانور پیدا کر کے انہیں زمین کے تمام گوشوں میں پھیلا دیا ہے اور اس نے آسمان سے بارش بھیجا جو انسانوں اور جانوروں کی زندگی کے لئے از بس ضرویر ہے اور اس کے ذریعہ زمین میں قسم قسم کی غذائیں اور دوائیں پیدا کیں جو انسانی زندگی کے لئے بہت ہی نافع ہیں ان تمام چیزوں کا خلاق صرف اللہ ہے، ان کاموں میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ اس لئے صرف وہی عبادت کے لائق ہے۔ لیکن ظالم مشرکین ضلالت و گمراہی کی مہیب وادیوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور انہیں توفیق نہیں ہوتی کہ وہ اللہ کی ان مخلوقات میں غور و فکر کر کے تمام باطل معبودوں سے رشتہ توڑ کر اپنی جبین نیاز اللہ کے سامنے جھکا دیں۔ لقمان
11 لقمان
12 (6) آیات (13,12) میں لقمان اور اس حکمت کا ذکر آیا ہے جو اللہ نے انہیں عطا کی تھی۔ جمہور مفسرین کا خیال ہے کہ لقمان نبی نہیں تھے، بلکہ ایک حکیم و دانا انسان تھے، جنہیں اللہ نے بذریعہ الہام حکمت و دانائی کی بہت سی مفید باتوں اور نافع افکار سے نوازا تھا، جن میں سرفہرست شرک باللہ کا انکار اور توحید ربوبیت و توحید الوہیت کا اعتراف تھا، بیشتر مفسرین کے قول کے مطابق یہ مصر کے سوڈانی علاقے کے رہنے والے تھے اور ایک قول کے مطابق داؤد (علیہ السلام) کے زمانے میں بنی اسرائیل کے لئے قاضی مقرر کئے گئے تھے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قوم عاد پر عذاب آنے کے بعد جو مسلمان بچ گئے تھے، انہی خاندانوں کے ایک فرد تھے بعد میں یہ لوگ یمن میں بس گئے تھے اور وہاں کے بادشاہ بن گئے تھے لقمان بھی انہی بادشاہوں میں سے ایک تھے بعض کا خیال ہے کہ وہ تو تھے سوڈان مصر کے کسی خاندان کے ایک فرد، لیکن مدین یعنی موجودہ عقبہ کے علاقے میں رہتے تھے جس کے سبب ان کی زبان عربی تھی اور ان کی حکمت کی باتیں عربوں میں مشہور ہوئیں۔ یہاں حکمت سے مراد دین کی سمجھ، صائب الرائے ہونا، ہر دم اللہ سے ڈرتے رہنا اور اسی کے ذکر و فکر میں لگے رہنا ہے مفسرین کے ایک قول کے مطابق ” حکمت“ سے مراد اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانا ہے گویا رأس الحکمتہ یہ ہے کہ بندہ ہر حال میں اپنے رب کا شکر گذار ہے۔ اس کی تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں کو یاد کر کے اپنے قول و عمل کے ذریعہ اس کا شکر ادا کرتا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو اپنے رب کا شکر گذار ہوتا ہے، اس کا فائدہ بہرحال اسی کو پہنچتا ہے، اس کا خالق و مالک اس سے خوش ہوتا ہے، اور اسے مزید دنیوی اور اخروی نعمتوں سے نوازتا ہے اور جو شخص کفران نعمت کرتا ہے تو اللہ بے نیاز اور محمود الصفات ہے، وہ کسی کی حمد و ثنا کا محتاج نہیں ہے، اس ناشکری کا نقصان اسی بندہ ناشکر گذار کو پہنچتا ہے کہ اللہ اس سے اپنی نعمتیں چھین لیتا ہے اور سب سے بڑی نعمت رضائے الٰہی ہے جس سے وہ محروم کردیا جاتا ہے۔ لقمان
13 (7) لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا، اے میرے بیٹے ! کسی کو اللہ کا ساجھی نہ بناؤ، کیونکہ شرک باللہ ظلم عظیم ہے، اللہ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ جب تک زندہ رہے صرف اسی کی عبادت کرے اس لئے اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہوگا کہ بندہ اپنے خالق کی مرضی کی مخالفت کرتے ہوئے غیروں کے سامنے سجدہ کرے، ہاتھ پھیلائے، مرادیں مانگے اور اپنی جھولیاں پھیلائے۔ امام بخاری نے عبد اللہ بن معسود (رض) سے روایت کی ہے کہ جب سورۃ الانعام کی آیت کریمہ (82) (الذین امنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم) نازل ہوئی، تو صحابہ کرام پر بڑا شاق گذرا، اور کہنے لگے کہ ہم میں سے کس نے اپنے آپ پر ظلم نہیں کیا ہے؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ظلم کا وہ معنی نہیں ہے جو تم سمجھتے ہو، ظلم سے مراد وہ ہے جو لقمان نے اپنے بیٹے کو بتایا تھا کہ اے میرے بیٹے ! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے۔ لقمان
14 (8) آیات (14,13) میں لقمان کی نصیحتوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کی بات ہے اور اس سے مقصود شرک باللہ کی نفی کی تاکید ہے جسکا لقمان کی نصیحت میں اوپر ذکر آچکا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے انسان کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے بالخصوص اپنی ماں کے ساتھ جو پوری مدت حمل اسے اپنے پیٹ میں ڈھوئے پھری، کئی طرح کی کمزوریوں اور تکلیفوں کو برداشت کیا، مدت حمل پوری ہونے کے بعد زچگی اور پھر دو سال تک رضاعت کی مصیبتوں کو جھیلا، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک صحابی نے دریافت کیا کہ میرے حسن سلوک کا زیادہ حقدار کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا : تمہاری ماں صحابی نے پوچھا : پھر کون؟ تو آپ نے فرمایا : تمہاری ماں صحابی نے پوچھا : پھر کون؟ تو آپ نے کہا : تمہاری ماں صحابی نے پھر پوچھا : پھر کون؟ تو آپ نے فرمایا : تمہارا باپ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں ” صرف اپنی عبادت اور اطاعت والدین“ کو ایک ساتھ بیان کیا ہے سورۃ الاسراء آیت (٢٣) میں فرمایا ہے : (وقضی ربک الاتعبدوالا ایاہ وبالوالدین احسانا) ” آپ کے رب نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تم لوگ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو“ اور یہاں لقمان کی شرک باللہ کی نفی کی نصیحت کے بعد فوراً فرمایا : (ووصینا الانسان بوالدذیہ) ” ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے“ اور اس وصیت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا : (ان اشکرلی ولوادلدیک“ ” میری طاعت و بندگی کرو اور زبان و دل سے میرا شکر ادا کرتے رہو، اور ماں باپ کا بھی شکر ادا کرتے رہو“ وہ یوں کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرو اور ان کی ہر اس بات کو مانو جس میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی نہ ہو اور آیت کے آخر میں فرمایا : (الی المصیر) ” تم سب کو میری پاس ہی لوٹ کر آنا ہے“ اس لئے اگر تم میرا اور اپنے والدین کا شکر بجا لاؤ گے تو اچھا بدلہ پاؤ گے اور اگر نافرمانی اور سرکشی کی راہ اختیار کرو گو تو برا بدلہ پاؤ گے۔ قاضی بیضاوی نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ مدت رضاعت دو سال ہے۔ ان کی دوسری دلیل سورۃ البقرہ کی آیت (٢٣٣) ہے : (والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین) ” مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں گی“ اور ابن عباس (رض) اور دیگر ائمہ نے مذکورہ بالا دونوں آیتوں اور سورۃ الاحقاف کی آیت (15) (وحملہ وفصالہ ثلامون شہراً) کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا ہے کہ کم از کم مدت حمل چھ ماہ ہے۔ آیت (15) میں اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر تمہارے والدین تمہیں شرک پر مجبور کریں تو ان کی بات نہ مانو اور جب تک دنیا میں تمہارا اور ان کا ساتھ رہے، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، اور ان لوگوں کی راہ پر چلو جو میرے نیک اور مخلص بندے ہیں اور لوگوں کو میری عبادت کی دعوت دیتے ہیں مفسرین لکھتے ہیں کہ ان سے مراد بدرجہ اولی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور پھر دیگر صالح مسلمان ہیں اللہ نے آگے فرمایا : پھر مر جانے کے بعد تمہیں میرے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے۔ اسی وقت میں تمہیں تمہارے تمام کرتوتوں کی خبر دوں گا اور ان کے مطابق اچھا یا برا بدلہ دوں گا۔ ابویعلی اور طبرانی وغیر ہم نے سعد بن وقاص (رض) سے اور طبی نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ آیت سعد بن وقاص اور ان کی ماں کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جب ان کی ماں نے ان کے اسلام لانے کے بعد کھانا پینا چھوڑ دیا تھا اور ہا تھا کہ تم جب تک اسلام سے برگشتہ نہیں ہو گے، میں کھانا نہیں کھاؤں گی، تو انہوں نے کہا کہ امی جان ! آپ کی اگر سو روحیں ہوتیں اور ہر ایک باری باری نکل جاتی تو بھی میں اپنا دین نہ چھوڑتا، اس لئے بہتر ہے کہ آپ کھایئے پیجیے اور مجھ سے امر مستحیل کا مطالبہ نہ کیجیے۔ چنانچہ وہ کھانے لگی۔ لقمان
15 لقمان
16 (9) جملہ معترضہ کے بعد دوبارہ لقمان کی نصیحتوں کا ذکر ہو رہا ہے لقمان نے کہا، میرے بیٹے ! اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کوئی عمل خیر یا شر ہوگا اور وہ کسی چٹان کے اندر یا آسمانوں یا زمین کے کسی مخفی گوشے میں ہوگا، تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ظاہر کر دے گا، اس کا حساب لے گا اور اس کے مطابق جزا یا سزا دے گا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے ہر دقیق و خفی اس کے لئے عیاں ہے اور ہر ایک کی وہ خبر رکھتا ہے۔ لقمان
17 (10) لقمان نے کہا، میرے بیٹے ! نماز قائم کرو یعنی اس کے تمام شروط ارکان اور واجبات و سنن کی رعایت کرتے ہوئے اسے ادا کرو، اور لوگوں کو اللہ کی بندگی اور بھلائی کا حکم دو اور انہیں شرک و بدعت برے قول و عمل اور ہر برائی سے روکو اور اس راہ میں تمہیں جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کرو یہ سارے امور اللہ کی جانب سے حتمی اور واجب العمل ہیں۔ شو کانی لکھتے ہیں کہ آیت میں مذکور اعمال کو بطور خاص اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ یہ تمام بھلائیوں کی اساس ہیں ابن جریر لکھتے ہیں : (ان ذلک من عزم الامور) کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مذکورہ بالا امور اعلیٰ ترین اخلاق اور حصول نجات کے لئے اہم ترین اعمال ہیں، قرطبی نے اس تفسیر کی تائید کی ہے۔ لقمان
18 (11) میرے بیٹے ! جب لوگوں سے بات کرو، یا وہ تم سے بات کریں، تو انہیں حقیر سمجھ کر اور تکبر کی وجہ سے ان سے منہ پھیر کر بات نہ کرو، بلکہ ان کے ساتھ نرمی، محبت اور خوش روئی کے ساتھ بات کرو، ترمذی نے کتاب البروالصلہ میں جابر بن عبدا للہ سے صحیح حدیث روایت کی ہے کہ ہر بھلائی صدقہ ہے اور یہ بھی نیکی کا کام ہے کہ تم پانے بھائی سے ہنستے چہرے کے ساتھ ملو اور زمین پر اکڑ کر نہ چلو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ متکبر اور دوسروں کے سامنے فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا ہے، جو اس خیال غلط میں مبتلا ہوتا ہے کہ اللہ اس سے محبت کرتا ہے جبھی تو اس نے اسے یہ نعمتیں دے رکھی ہیں، اس لئے کہ دنیا کی نعمتیں تو اللہ اپنے کافر بندوں کو بھی دیتا ہے۔ لقمان
19 (12) لقمان نے اپنی نصیحت جاری رکھتے ہوئے کہا : اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو، یعنی بغیر ضرورت نہ اتنا تیز چلو کہ خفیف العقل اور ہلکے بن جاؤ اور نہ مریل چال چلو، عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو یہودیوں کی اکھڑی تیز چال اور نصاریٰ کی چیونٹی جیسی چال سے روکا جاتا تھا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے مقصود ایک سیدھے سادھے معقول اور شریف آدمی کی ایسی چال ہے جس میں نہ کوئی اینٹھ ہو نہ اکڑ ہو، نہ مریل پن اور نہ ریاکارانہ زہد و انکساری نیز لقمان نے کہا : اپنی آواز پست رکھو، اس لئے کہ بغیر ضرورت آواز اونچی کرنے سے ہر سنجیدہ آدمی کو تکلیف ہوتی ہے، جس طرح گدھے کی بری آواز سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے اور اسے برا جانتے ہیں اور جب کسی کی بدترین کرخت آواز کی برائی بیان کرنی ہوتی ہے تو روز مرہ کے محاورے میں کہتے ہیں کہ فلاں گدھے کی طرح چیختا ہے معلوم ہوا کہ بغیر ضرورت چیخنا اچھے لوگوں کا شیوہ نہیں ہوتا۔ لقمان
20 (13) لقمان کی نصیحتوں میں سب سے پہلی نصیحت شرک باللہ کا انکار تھا، جو مخلوق کا اپنے خلاق کے خلاف بغاوت کے مترادف ہے، اسی لئے ان نصیحتوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر توحید و شرک کی بات چھیڑ دی ہے اور مشرکین مکہ کے لئے اپنی گوناگوں نعمتوں کا ذکر کر کے انہیں شرک سے توبہ کرنے اور صرف اپنی عبادت کی دعوت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے مشرکین مکہ ! کیا رات دن تمہارے مشاہدے میں یہ بات نہیں آتی کہ تمہارے فائدے کے لئے اللہ نے ان تمام چیزوں کو مسخر کردیا ہے جو آسمانوں میں ہیں، جیسے آفتاب و ماہتاب، ستارے اور بارش اور جو زمین میں ہیں جیسے درخت، نہر، پہاڑ، سمندر، حیوانات اور معدنیات وغیرہ اور اس نے اپنی نعمتوں کو تم پر تمام کردیا ہے، چاہے وہ ظاہری ہوں، جیسے اچھی شکل و صورت اور مناسب اعضائے جسمانی اور چاہے وہ باطنی ہوں، جیسے عقل و ادراک، علم و معرفت اور دیگر بے شمار نعمتیں جن کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا، لیکن صد حیف کہ تم ان تمام دلائل و براہین کے باوجود اللہ کی وحدانیت اور اس کے بلاشریک معبود ہونے کے باے میں بغیر کسی نقلی یا عقلی دلیل کے اور بغیر کسی آسمانی وحی کے صرف کبر و عناد کی بنیاد پر جھگڑتے ہو۔ لقمان
21 (14) اور جب ان مشرکین مکہ سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو دین و شریعت اور جو آسمانی کتاب نازل کی ہے، اس کی پیروی کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے باپ دادوں کی ہی راہ پر چلیں گے اور انہی کے بتوں کی پرستش کریں گے۔ اللہ نے فرمایا کہ کیا وہ انہی آباء و اجداد کی پیروی کریں گے، اگرچہ شیطان انہیں اس شرک و بت پرستی کی طرف بلا رہا ہو جو جہنم میں داخل ہونے کا سبب ہو اور جو آباء و اجداد کے ساتھ انہیں بھی وہیں پہنچا دے؟ لقمان
22 (15) مشرکین مکہ کی شرک باللہ پر زجر و توبیخ کے بعد، اب لوگوں کی راہ نجات کی طرف رہنمائی کی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے رب کی طرف پورے طور پر متوجہ ہوگیا اور کامل اخلاص کے ساتھ اس کے اوامرونواہی کو بجا لایا اس نے مضبوط ترین سہارے کو تھام لیا، اس آدمی کے مانند جو کسی اونچے پہاڑ پر چڑھنے کے لئے اس سے لٹکتے ہوئے مضبوط ترین سہارے کو تھام کر اس کی بلندی پر پہنچ جاتا ہے۔ لقمان
23 (16) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ جنہیں اپنے کفر پر اصرار ہے، ان کے کفر کا آپ غم نہ کیجیے، انہیں بہرحال ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے اور ہم انہیں ان کے برے اعمال کی خبر دیں گے اور انہیں ان کی سزا بھگتنی پڑے گی، اللہ تعالیٰ بندوں کے دلوں میں پوشیدہ تمام عقائد و افکار کو خوب جانتا ہے، اس لئے حساب بہت ہی دقیق اور جزا و سزا بالکل عادلانہ ہوگا۔ لقمان
24 (177) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم ان مشرکین کی گرفت میں عجلت نہیں کرتے ہیں، انہیں موت تک دنیا کی عارضی نعمتوں سے مستفید ہونے دیتے ہیں، پھر اس اس عذاب میں پہنچا دیں گے جو بڑا بھاری اور سخت ہوگا اور انسانوں کی قوت برداشت سے بالاتر ہوگا۔ لقمان
25 (18) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے نبی ! اگر آپ ان مشرکین سے پوچھیں گے کہ ان آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو وہ کہیں گے، اللہ آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کا شکر ہے کہ تمہارے خلاف حجت قائم ہوگئی، جب تم اعتراف کرتے ہو کہ وہی خالق و رازق اور مالک کل ہے، تو پھر تم کس دلیل کی بنیاد پر اس کے سوا دوسرے جھوٹے معبودوں کی پرستش کرتے ہو؟ اللہ نے خالق و رازق اور مالک کل ہے، تو پھر تم کس دلیل کی بنیاد پر اس کے سوا دوسرے جھوٹے معبودوں کی پرستش کرتے ہو؟ اللہ نے فرمایا : اکثر و بیشتر مشرکین کی عدم توفیق کا حال یہ ہے کہ ایسی کھلی حقیقت کو بھی نہیں سمجھ پاتے۔ لقمان
26 (19) اے میرے نبی ! آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اللہ کے مملوک اور اسی کے بندے ہیں، وہ ذات برحق سب سے بے نیاز اور محمود الصفات ہے، اس کو مشرکین یا غیر مشرکین کی عبادتوں کی ضرورت نہیں ہے، اس لئے آپ غم نہ کیجیے اور وہ عبادت کریں یا نہ کریں، پرواہ نہ کیجیے۔ لقمان
27 (20) محمد بن اسحاق نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے، علمائے یہود نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدینہ میں پوچھا کہ اے محمد ! تمہارا یہ قول : (وما اوتیتم من العلم الا قلیلا) ” تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے“ ہمارے بارے میں ہے یا تمہاری قوم کے بارے میں؟ تو آپ نے کہا : دونوں کے بارے میں تو انہوں نے کہا کیا تم اپنے قرآن میں نہیں پڑھتے ہو کہ ہمیں تو رات دی گئی ہے جس میں ہر چیز بیان کردی گئی ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ یہ اللہ کے علم کا تھوڑا حصہ ہے اس کے بعد یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں، آیت کا شان نزول دلیل ہے کہ یہ مدینہ میں نازل ہوئی تھی) جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جواب کی تائید تھی کہ اگر زمین کے سارے درخت کاٹ کر قلم بنائے جائیں اور بحر محیط اور اس جیسے دوسرے سات سمندروں کا پانی بطور روشنائی استعمال کیا جائے اور اللہ کا کلام لکھا جائے تو سارے درخت اور سارے سمندروں کا پانی ختم ہوجائے اور اللہ کا کلام ختم نہ ہو۔ لقمان
28 (21) مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ ابی بن خلف کی تردید میں نازل ہوئی تھی۔ اس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ اللہ نے انسان کو مختلف مراحل سے گذار کر پیدا کیا ہے اور پوری دنیا کے انسانوں کو صدیوں میں پیدا کیا ہے، پھر تم یہ کیسے کہتے ہو کہ وہ دوبارہ تمام انسانوں کو ایک دن میں پیدا کرے گا اور ان سے حساب لے گا اور ہر ایک کو اس کے اچھے یا برے اعمال کا بدلہ دے گا؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہ ایک آن میں کلمہ کن کے ذریعہ دوبارہ تمام انسانوں کو پیدا کرے گا اس کے لئے ایک جان کو پیدا کرنا اور تمام جانوں کو پیدا کرنا برابر ہے۔ کوئی چیز اس کے ارادے اور فیصلے کے پورا ہونے میں آڑے نہیں آسکتی۔ لقمان
29 (22) سورۃ آل عمران آیت (27) اور سورۃ الحج آیت (61) میں یہ مضمون بیان کیا جا چکا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے واسطے سے دیگر لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ تم دیکھتے نہیں، اللہ تعالیٰ رات اور دن کو ایک دوسرے میں داخل کرتا ہے یعنی ایک کو دوسرے کے پیچھے لگا دیتا ہے اور دونوں میں حکمت و مصلحت کے مطابق کمی بیشی کرتا رہتا ہے؟ اور اس نے آفتاب و ماہتاب کو اپنے حک مکا شدید پابند بنا رکھا ہے، جس سے وہ دونوں ایک بال کے برابر بھی انحراف نہیں کرسکتے ہیں۔ دونوں اللہ کے ارادے اور فیصلے کے مطابق نکلتے اور ڈوبتے رہیں گے یہاں تک کہ قیامت کا دن آجائے گا اور وہ ذات برحق بندوں کے تمام اعمال سے باخبر ہے، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ہے۔ جو اللہ ایسی عظیم قدرت اور بے پایاں علم والا ہے۔ یقیناً وہی معبود برحق ہے اور اس کے سوا جتنے معبودوں کی پرستش کی جاتی ہے، وہ سب جھوٹے اور باطل ہیں۔ اسی کی ذات سب سے اعلیٰ و ارفع اور سب سے بڑی ہے، وہی خالق و مالک اور سب کا رب ہے اور تمام عبادتوں کا صرف وہی مستحق ہے۔ لقمان
30 لقمان
31 (23) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور تم دیکھتے نہیں کہ سمندر میں کشتیاں محض اللہ کے فضل و کرم سے چلتی رہتی ہیں۔ آدمی جب ان جہازوں اور کشتیوں پر سوار ہو کر سمندر کے اتھاہ پانی میں پہنچتا ہے اور ان جہازوں کی حیثیت تنکے سے زیادہ نہیں ہوتی اور موجوں اور تھپیڑوں سے سابقہ پڑتا ہے، اس وقت ملحد اور دہریہ انسان بھی اپنے دل میں اس بات کا یقین کرلیتا ہے کہ صرف اللہ کی ذات ہے جو اس تنکے جیسے جہاز کو اس مہیب سمندر سے بحفاظت لوگوں کی منزل کی طرف لے جا رہا ہے جہازوں کا اس طرح سمندر کی موجوں کو چیرتے ہوئے منزل کی طرف رواں دواں رہنا اور اللہ کے فضل و کرم سے بحفاظت تمام منزل مقصود پر پہنچ جانا، اس میں اللہ کے ان بندوں کے لئے بڑی عبرت انگیز نشانیاں ہیں جو دشوار اور مشکل گھڑیوں میں صبر کا دامن نہیں چھوڑتے اور نعمتیں پا کر اتراتے نہیں بلکہ اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں۔ لقمان
32 (24) مشرکین کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ جب وہ جہاز میں سوار ہو کر سمندر میں سفر کر رہے ہوتے ہیں اور عظیم پہاڑ جیسی موجیں انہیں ہر چہار جانب سے گھیر لیتی ہیں تو وہ اپنے تمام جھوٹے معبودوں کو بھول جاتے ہیں اور پورے اخلاص کے ساتھ اللہ کو پکارنے لگتے ہیں تاکہ وہ انہیں اس مصیبت سے نجات دے اور جب اللہ ان کے حال پر رحم کرتے ہوئے بخیر و عافیت ساحل سمندر تک پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے بعض لوگ سطح سمندر پر اللہ سے کئے گئے عہد و پیمان پر قائم رہتے ہیں اور اس کے ساتھ غیروں کو شریک نہیں بناتے ہیں اور بعض اپنے سابق کفر و شرک کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہماری نشانیوں کا انکار بد عہد اور ناشکرے لوگ کرتے ہیں۔ (دیکھئے تفسیر شو کانی) حافظ ابن کثیر نے مجاہد کے حوالے سے ” مقتصد“ کی تفسیر کافر کی ہے۔ یعنی جب اللہ انہیں ساحل پر پہنچا دیتا ہے تو سطح سمندر پر کیا گیا عہد و پیمان بھول کر پھر کفر و شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ لقمان
33 (25) اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کے حال پر رحم کرتے ہوئے، انہیں ایمان باللہ صرف ایک اللہ کی عبادت اور صلاح و تقویٰ کی زندگی اختیار کرنے کی نصیحت کی ہے اور اس دن کے عذاب سے ڈرایا ہے جب کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا نہ باپ کو بیٹے کی فکر ہوگی اور نہ بیٹے کو باپ کی، ہر شخص اپنی نجات کی فکر میں ایسا مشغول ہوگا اور ایسی دہشت طاری ہوگی کہ کوئی کسی کو نہ پوچھے گا اس دن انسان کو صرف اس کا عمل صالح کام آئے گا۔ (الہ العالمین مجھے ان میں سے بنا جو تیرے سوا کسی سے امید نہیں رکھتے، اور تیرے علاوہ کسی سے آس نہیں لگاتے !) اور قیامت کے دن میں کوئی شبہ نہیں ہے، یہ اللہ کا وعدہ برحق ہے، وہ لامحالہ واقع ہو کر رہے گی، اس لئے دنیا کی زندگی کے دھوکے میں نہیں ہونا چاہئے، اور نہ شیطان کے نرغے میں پڑ کر فکر آخرت سے غافل ہونا چاہئے۔ لقمان
34 (26) مفسرین لکھتے ہیں، کفار مکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بار بار پوچھتے تھ کہ وہ قیامت جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو اور جس سے ہمیں ڈراتے ہو وہ آخر کب آئے گی؟ قرآن کریم نے ان کے اس استہزاء آمیز سوال کا جواب مختلف آیتوں میں اور مختلف انداز میں دیا ہے، یہ آیت کریمہ بھی ان کے اسی سوال کا جواب ہے اور اس جواب کے ساتھ اللہ نے دیگر چار چیزوں کا بھی ذکر کیا ہے، جن کا علم اس کے سوا کسی کو نہیں ہے بخاری و مسلم اور دیگر ائمہ حدیث نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پانچ باتوں کا تعلق غیبی امور سے ہے، انہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے کل کیا ہوگا ؟ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے، قیامت کب آئے گی؟ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے، رحم مادر میں کیا ہے؟ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے، بارش کب ہوگی؟ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ اس کی موت کہاں واقع ہوگی؟ صرف اللہ جانتا ہے، وما توفیقی الا باللہ لقمان
0 تفسیر سورۃ السجدہ سورۃ السجدہ مکی ہے، اس میں تین آیتیں اور تین رکوع ہیں نام : آیت (١٥) (انما یومن بایاتنا الذین اذا ذکروا بھا خرواسجداً) سے ماخوذ ہے۔ زمانہ ناول : بیہقی اور ابن مردویہ وغیرہ نے ابن عباسی (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ پوری سورت مکی ہے۔ ابن عباس (رض) کی ایک دوسری روایت کے مطابق 20/19/18 تین آیتیں مدنی ہیں۔ بخاری و مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن فجر کی نماز میں سورۃ السجدہ اور سورۃ الدہر پڑھا کرتے تھے اور ترمذی، نسائی اور حاکم وغیر ہم نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تک سورۃ السجدہ اور سورۃ تبارک الذی نہیں پڑھ لیتے تھے، سوتے نہیں تھے۔ جیسا کہ مکی سورتوں کا خاصہ ہے، اس میں بھی توحید، رسالت اور بعث بعد الموت جیسے موضوعات بیان کئے گئے ہیں اور کفار مکہ کو ان پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ السجدة
1 (١) یہ حروف مقطعات ہیں، ان کا معنی و مفہوم اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، البتہ علمائے تفسیر لکھتے ہیں کہ یہ حروف انہی سورتوں کی ابتدا میں آئے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان کیا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اسی نے اسے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ انہی حروف سے مرکب ہے جن سے عربوں کا کلام بنتا ہے لیکن وہ ہرگز ایسا کلام نہیں لا سکتے ہیں۔ السجدة
2 (٢) ” کتاب“ سے مراد قرآن کریم ہے اور آیت کا معنی یہ ہے کہ یہ کتاب جس کی تلاوت کی جا رہی ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور یہ رب العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے، یہ کسی انسان کا کلام نہیں جسے جھوٹ اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے نہ یہ جادو ہے نہ کہانت اور نہ اگلے وقتوں کی کہانیاں ہیں۔ السجدة
3 (٣) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا : کفار مکہ کہتے ہیں کہ اسے محمد نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے، یہ سراسر ان کی افترا پردازی ہے یہ تو آپ کے رب کا برحق کلام ہے، جسے اس نے آپ پر بذریعہ وحی نازل کیا ہے، تاکہ آپ اس کے ذریعہ ان مشرکین عرب کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں آیا تھا، تاکہ وہ اللہ پر ایمان لے آئیں، اس کی و حدانیت کا اقرار کریں اور دین حق کو قبول کر کے جہنم کی آگ سے نجات حاصل کریں اور جنت کے حقدار بنیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہاں ” قوم“ سے مراد تمام عرب ہیں، بعض کہتے ہیں کہ اس سے صرف ” اہل قریش“ مراد ہیں، اور کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو عیسیٰ (علیہ السلام) اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیانی وقفہ میں پائے گئے۔ السجدة
4 (٤) اس آیت کی تفسیر سورۃ الاعراف آیت (٤٥) میں گذر چکی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان کی تمام مخلوقات کو چھ دنوں میں پیدا کیا ہے، صرف وہی عبادت کے لائق ہے اور استوی علی العرش“ کا معنی و مفہوم بیان کرنے میں سلف صالحین کا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر اس طرح مستوی ہے جس طرح اس کے مقام اعلیٰ کے لائق ہے، نہ اس کا انکار کیا جاسکتا ہے نہ اسے مخلوق کی صفت کے ساتھ تشبیہ دی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس کی کیفیت بیان کی جاسکتی ہے۔ (مالکم من دونہ من ولی ولا شفیع) ” تمام انسانوں کا اللہ کے سوا کوئی حقیقی یار ومدگار نہیں ہے“ اگر وہ کسی کو رسوا کرنا چاہے تو کوئی اسے عزت نہیں دے سکتا اور اگر وہ کسی کو ہلاک و برباد کرنا چاہے تو کوئی اسے بچا نہیں سکتا اور اس کے سوا ان کا کوئی سفارشی نہیں ہے کہ اگر وہ ان کے شرک و معاصی کا انتقام لینا چاہئے تو اس کے حضور سفارش کر کے اس کے غضب سے انہیں بچا لے جب اللہ کے سوا کوئی خالق ارض و سماء نہیں اور نہ اس کے سوا کوئی یار ومددگار اور سفارشی ہے تو پھر انسانوں کو یہ بات کیوں نہیں سمجھ میں آتی کہ اس ذات برحق کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ السجدة
5 (٥) اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات سے متعلق تمام احکام و اواہر آسمان سے (جہاں عرش اور لوح محفوظ ہے) زمین کی طرف صادر فرماتا ہے اور فرشتے اسے نافذ کرتے ہیں زندگی اور موت، صحت و بیماری، بخشش و محرومی، مالداری و محتاجی، جنگ و صلح اور عزت و ذلت اور مخلوقات سے متعلق تمام فیصلے، اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر کرتا ہے، وہیں سے وہ تمام مخلوقات کی دیکھ بھال کرتا ہے اور کوئی شے اسے عاجز نہیں کرتی ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تمام آسمانوں کے اوپر سے اتر کر زمین کی آخری تہہ تک پہنچتا ہے جیسا کہ اللہ نے سورۃ الطلاق آیت (12) میں فرمایا : (اللہ الذی خلق سبع سماوات ومن الارض مثلھن یتنزل الامر بینھن) ” وہ اللہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے ہیں اور انہی کے مانند زمین بھی پیدا کی ہے اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے“ اور بندوں کے اعمال ” آسمان دنیا کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، اور زمین اور اس کے درمیان کی مسافت پانچ سو سال کی ہے اور آسمان کی موٹائی کی مسافت پانچ سو سال کی ہے مجاہد اور قتادہ وغیرہ کہتے ہیں کہ فرشتوں کے نزول کی مسافت پانچ سو سال کی اور ان کے طلوع کی مسافت پانچ سو سال کی ہوتی ہے جسے فرشتے ایک چشم زدن میں طے کرلیتے ہیں اور جب قیامت آجائے گی اور ہر چیز فنا ہوجائے گی، تو زمین کی طرف ان احکام و اوامر کے صادر ہونے کا سلسلہ ختم ہوجائے گا، اس لئے کہ نہ زمین رہے گی اور نہ اس پر کوئی چیز جس میں تصرف اور تدبیر کی ضرورت رہے گی۔ بعض مفسرین نے (ثم یعرج الیہ) کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ فرشتے اہل زمین کے تمام اعمال صحفیوں میں لکھتے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب دنیا اپنی انتہا کو پہنچ جائے گی تو وہ سارے صحائف اللہ کے سامنے پیش کردیئے جائیں گے اور وہ دن اگرچہ دنیا کا ایک دن ہوگا، لیکن آسمان اور زمین کے درمیان غیر فرشتوں کے طلوع و نزول کی مسافت کے اعتبار سے ایک ہزار سال کے برابر ہوگا۔ السجدة
6 (٦) جس ذات برحق کے وہ کام ہیں جن کا ذکر اوپر آیا، وہ تمام غائب و حاضر کا جاننے والا ہے وہ ہر حال میں اور ہر چیز پر غالب ہے، وہ اپنی مخلوقات کے بارے میں جو چاہتا ہے فیصلے کرتا ہے کوئی آڑے نہیں آسکتا ہے، اور وہ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے، اس کے فیصلے بہر حال ان کے لئے بھلائی اور رحمت لئے ہوتے ہیں۔ السجدة
7 (٧) اس نے جتنی چیزوں کو پیدا کیا ہے، ان کی تخلیق نہایت درجہ موزوں اور حکمت کے تقاضے کے مطابق ہے اور اس نے آدم کا ڈھانچہ پہلے مٹی سے تیار کیا اور اس کی نسل کی بنیاد ایک نطفہ حقیر کے ذریعہ رکھی، پھر ایک مکمل انسان کی شکل دے کر اس میں روح ڈال دی اور وہ ایک زندہ انسان بن گیا اور اس نے اپنی کمال قدرت کے ذریعہ نطفہ حقیر سے بنے انہی جسموں میں سننے اور دیکھنے کی صلاحیت پیدا کی اور ان میں دھڑکتے ہوئے دل رکھ دیئے، جن کے ذریعہ انسان سوچتا اور سمجھتا ہے اللہ تعالیٰ کی یہ مخیر العقول صناعی کہ گوشت کا ایک ٹکڑا سنتا ہے، دوسرا دیکھتا ہے اور تیسرا اور سب سے اہم (یعنی دل) سوچتا ہے، سمجھتا ہے، فیصلے کرتا ہے اور انسان کو قوت ارادی دیتا ہے، یہ ساری نعمتیں تقاضا کرتی ہیں کہ بندہ ہر وقت اپنے خالق کا شکر ادا کرتا رہے، لیکن وہ بالعموم ناشکر گذار رہی ہوتا ہے، بہتوں کو ان باتوں پر غور کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی ہے۔ السجدة
8 السجدة
9 السجدة
10 (٨) مشرکین مکہ جو بعث بعد الموت کے منکر تھے، حیرت و استعجاب کے ساتھ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھتے تھے کہ جب ہم گل سڑک کر مٹی میں مل جائیں گے اور ہمارا وجود ناپید ہوجائے گا، تو کیا ہم نئے سرے سے دوبارہ زندہ کئے جائیں گے؟ اللہ تعالیٰ نے ان کی بات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ منکرین بعث بعدالموت، درحقیقت قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے حاضر ہونے کا انکار کر رہے ہیں اور کفر کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ السجدة
11 (٩) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان ان منکرین قیامت سے کہا کہ جس فرشتہ موت کے ذمہ تمہاری روحوں کے قبض کرنے کا کام لگایا گیا ہے، جب تمہاری موت کی مقرر گھڑی آجائے گی تو وہ تمہاری روحوں کو قبض کرلے گا، اور تم دنیا سے رخصت ہوجاؤ گے پھر جب قیامت آئے گی تو اللہ تعالیٰ تم سب کو زندہ کرے گا اور میدان محشر میں حساب و جزا کے لئے لاکھڑا کرے گا۔ السجدة
12 10 جب منکرین قیامت اپنے آپ کو میدان محشر میں امر واقع کے روبرو پائیں گے، تو انتہائی ذلت و رسوائی کے سبب اپنے رب کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہوں گے اور عرق ندامت میں ڈوب بجائیں گے کہ دنیا میں انکار آخرت، شرک باللہ اور دیگر معاصی کا ارتکاب نہ کرتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا پھر کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! جن حقائق کو ہم دنیا میں جھٹلاتے تھے، اب ہم نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور جن باتوں کا ہم وہاں انکار کرتے تھ، اب ہم نے انہیں اپنے کانوں سے سن لیا، اب کوئی بات ہم سے پوشیدہ نہیں رہی، ہمیں ساری باتوں کا یقین ہوگیا ہے، اس لئے تو ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج دے تاکہ ہم تلافی مافات کرلیں، اور عمل صالح کر کے اپنی آخرت سدھار لیں۔ السجدة
13 (١١) اللہ تعالیٰ نے ان کی اس التجا کا جواب یہ دیا کہ ہم نے تو دنیا میں خیر و شر کے دونوں راستے بتا کر انسانوں کو اختیار دے دیا تھا کہ جو چاہے جنت کی راہ اختیار کرے اور جو چاہے جہنم کی راہ اور تم نے اپنی مرضی سے جہنم کی راہ اختیار کرلی۔ اب تمام حقائق کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر ایسا ایمان میرے نزدیک قابل قبول ہوتا تو میں اپنی مرضی سے تمام انسانوں کو راہ راست پر لاک کھڑا کردیتا۔ میرے نزدیک اعتبار اسی ایمان کا ہے جسے بندہ اپنی مرضی سے دنیا میں اختیار کرتا ہے۔ ہے۔ جو جن وانس دنیا میں اپنے اختیار سے ایمان نہیں لائیں گے ان سے میں جہنم کو بھردوں گا۔ السجدة
14 (12) پھر اللہ تعالیٰ ان منکرین قیامت سے مخاطب ہوگا اور بطور زجر و توبیخ کہے گا کہ تم دنیا میں قیامت کے دن کو فراموش کر بیٹھے تھے، میرا نبی جب اس دن کی تمہیں یاد دلاتا تھا تو اس کا مذاق اڑاتے تھے، تو چکھو اس انکار و استہزا کا مزا، اب ہم بھی تمہیں جہنم میں ڈال کر ہمیشہ کے لئے بھول جاتے ہیں، اب اپنے کئے کے بدلے جہنم کا دائمی عذاب جھیلتے رہو۔ السجدة
15 (13) منکرین قیامت کا انجام بدبیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مومنین مخلصین کا ذکر کیا ہے کہ ہماری آیتوں پر حقیقی معنوں میں وہی لوگ ایمان لاتے ہیں جنہیں قرآن کریم کی تلاوت کر کے جب نصیحت کی جاتی ہے تو اپنے دل کی طہارت اور فطرت کی پاکیزگی کی وجہ سے ان نصیحتوں کو فوراً قبول کرلیتے ہیں اور قرآن کریم کا ان پر ایسا اثر پڑتا ہے کہ نعمت اسلام پر شکر ادا کرنے کے لئے سجدہ میں گر جاتے ہیں، اپنے رب کی پاکی اور اس کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں اور اہل مکہ کی طرح اس کی عبادت سے قطعاً منہ نہیں موڑتے ہیں، بلکہ زندگی بھر اطاعت و بندگی کے جذبے اور نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ اس کی عبادت کرتے رہتے ہیں ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ یہ آیت نماز پنجگانہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی اور (وسبحوابحمد ربھم) سے مراد یہ ہے کہ وہ حالت سجدہ میں ’ دسبحان اللہ وبحمدہ“ یا ” سبحان ربی الاعلی وبحمدہ“ کہتے ہیں اور (وھم لایستکبرون) سے مراد یہ ہے کہ وہ مومنین دیگر مسلمانوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنے سے کبر و نخوت کی وجہ سے گریز نہیں کرتے ہیں۔ ان مومنین مخلصین کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ راتوں کو اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں اسی لئے جب اس کا وقت آتا ہے تو ان کے پہلوؤں کو بستروں سے دشمنی ہوجاتی ہے، فوراً اٹھ بیٹھتے ہیں اور وضو کر کے نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں اور سجدے میں جا کر اپنے رب سے دعا کرتے ہیں کہ اے الہ العالمین ! ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لے اور جنت میں داخل کر دے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے مرد عشاء کی نماز ہے صحابہ کرام عشاء کی نماز سے قبل نہیں سوتے تھے۔ لیکن مشہور قول یہی ہے کہ اس سے مراد تہجد کی نماز ہے اور ان مومنین مخلصین کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ انہیں جو روزی دیتا ہے اس میں سے بھلائی کے کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔ السجدة
16 السجدة
17 (14) جن مومنین کی مذکورہ بالا آیتوں میں صفتیں بیان کی گئی ہیں، انہی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کے رب نے ان کے لئے روز قیامت جو نعمتیں چھپا رکھی ہیں، جنہیں اس دن پاکر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی، ان نعمتوں کا اس دنیا میں وہ تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :” میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہے جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے اور نہ کسی کان نے سنا ہے، اور نہ کسی انسان کے دل نے اس کا تصور کیا ہے“ ابوہریرہ (رض) نے کہا : اگر چاہو تو تم لوگ یہ آیت پڑھو : (لاتعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین) آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسانی خیالات و تصورات سے بالا تر یہ نعمتیں انہیں ان نیک اعمال کی وجہ سے ملیں گی جو وہ دنیا کی زندگی میں کرتے رہے تھے۔ (آیت) (٨١) میں منکرین قیامت اور مومنین مخلصین کا فرق بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا مومن و فاسق اللہ کے نزدیک برابر ہو سکتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ بات اس کے قانون عدالت کے خلاف ہے۔ آیات (٩١/٠٢) میں گزشتہ باتوں کی تائید اور مومن و کافر کے مراتب کا بیان ہے کہ جو لوگ ایمان لائیں گے اور عمل صالح کریں گے، اللہ تعالیٰ انہیں بطور اجر و ثواب جنت عطا کرے گا جس میں وہ ہمیشہ کے لئے اقامت پذیر ہوجائیں گے اور جو لوگ اس دنیا میں فسق و معصیت کی زندگی اختیار کریں گے، ان کا ٹھکانا جہنم و گا جب بھی شدت غم اور انتہائے کرب و الم کی وجہ سے اس سے نکل کر بھاگنا چاہیں گے، جہنم کے فرشتے انہیں مار مار کر دوبارہ اس میں لوٹا دیں گے اور ان کی ذلت و رسوائی بڑھانے کے لئے ان سے کہیں گے کہ اب چکھو اس عذاب نار کا مزا جس کی تم دنیا میں تکذیب کرتے رہے تھے۔ السجدة
18 السجدة
19 السجدة
20 السجدة
21 (15) کفار مکہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ہم انہیں عذاب آخرت کا وقت آنے سے پہلے، یعنی قبل اس کے کہ موت انہیں کفر کی حالت میں ہی دبوچ لے، مختلف دنیاوی تکلیفوں میں مبتلا کریں گے قید و بند قتل اور قحط سالی کی مصیبتوں سے دوچار کریں گے، شاید کہ ہوش کے ناخن لیں، شرک اور دیگر گناہوں سے تائب ہو کر اپنی حالت کی اصلاح کریں اور بتوں کو چھوڑ کر ایک اللہ پر ایمان لے آئیں۔ السجدة
22 (16) جس آدمی کو قرآن کریم کی آیتیں پڑھ کر نصیحت کی جائے، جنت کی بشارت دی جائے اور جہنم سے ڈرایا جائے، لیکن کبرت و نخوت کی وجہ سے ایمان لانے کے بجائے، ان آیتوں سے منہ موڑے، وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بہت بڑا ظالم و مجرم ہے اور جو شخص قرآن کریم کی دعوت توحید پہنچنے کے باوجود اپنے کفر و شرک پر اڑا رہے گا، اللہ تعالیٰ ایسے مجموں سے ضرور انتقام لے گا، انہیں عذاب میں مبتلا کرے گا اور اپنے مومن پر متقی بندوں کو ان پر غلبہ عطا کرے گا۔ السجدة
23 (17) آیات (٢/٣) میں اس حقیقت کو آشکارا کیا گیا تھا کہ یہ قرآن کسی انسان کا نہیں، بلکہ رب العالمین کا کلام ہے، اسی نے اسے بذریعہ وحی اپنے بندے اور رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا ہے، پھر چند آیات میں معاد و آخرت، جنت و جہنم، نیک و بد اور ان کا انجام بیان کرنے کے بعد، اب دوبارہ اسی ابتدائی مضمون کی طرف کلام کا رخ پھیر دیا گیا ہے کہ اے میرے نبی ! اگر ہم نے آپ کو قرآن کریم جیسی عظیم ترین کتاب دی ہے تو اس میں اہل مکہ کے لئے حیرت و استعجاب کی کیا بات ہے؟ ہم نے اس سے پہلے اپنے بندے اور رسول موسیٰ کو بھی تو ایک عظیم کتاب دی ھی، جس کا علم کفار مکہ کو ہے اور اس کتاب کو ہم نے نبی اسرائیل کے لئے رشد و ہدایت کا ذریعہ بنایا تھا اور ان میں ایسے علماء پیدا کئے جو لوگوں کی ہمارے دین کی طرف رہنمائی کرتے تھے اور اس راہ میں انہیں جو تکلیف پہنچتی تھی اسے انگیز کرتے تھے، صبر کرتے تھے اور ہماری کتاب کی صداقت و حقانیت پر پورا یقین رکھتے تھے نہ ان کے صبر و استقامت میں فرق آتا تھا اور نہ ہی وہ ہماری آیتوں میں شک و شبہ کرتے تھے۔ اس لئے آپ کے دور کے لوگوں کو بھی چاہئے کہ قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے پر ایمان لے آئیں۔ اس میں بیان کردہ رشد و ہدایت سے فائدہ اٹھائیں، دوسروں کو ایمان و توحید کی دعوت دیں اور اس راہ میں جو تکلیف بھی اٹھانی پڑے اسے خندہ پیشانی سے برداشت کریں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس میں اہل اسلام کے لئے زبردست دھمکی ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل کے لوگ تورات کی تحریف، سچے دین سے انحراف اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دینے کی وجہ سے اللہ کی غضب کے مستحق بن گئے، اسی طرح اس امت کے جو لوگ قرآن و سنت سے انحراف کریں گے، بھلائی کا حکم دینا اور برائی سیر وکنا چھوڑ دیں گے، صبر واستقامت اور ایمان و یقین کی دولت سے محروم ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ قوم یہود کی طرح ان پر بھی ذلت و رسوائی مسلط کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ(الرعد آیت (١١) میں فرمایا ہے : (ان اللہ لایغیر مابقوم حتی یغیرو امابانفسھم) ” اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود اپنی حالت نہیں بدل لیتی ہے۔ “ السجدة
24 السجدة
25 (18) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انبیائے کرام اور ان کی امتوں اور مومنوں اور کافروں کے درمیان اپن افیصلہ صادر فرمائے گا اور تب ہر ایک کو پتہ چل جائے گا کہ دنیا میں حق پر کون تھا اور باطل کون اور اب کس کا کیا انجام ہوگا، چنانچہ اہل حق جنت میں داخل کردیئے جائیں گے اور اہل باطل جہنم میں دھکیل دیئے جائیں گے۔ السجدة
26 (19) کفار مکہ کو دعوت فکر و نظر دی جا رہی ہے کہ ہم ان سے پہلے بہت سی کافرو مشرک قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں اور یہ لوگ شام کا سفر کرتے ہوئے مدائن صالح، علاقہ مدین اور بحیرہ لوط کے قریب سے گذرتے ہیں اور ان کے باقی ماندہ آثار کا اپنی آنکھوں سے نظارہ کرتے ہیں تو ان نشانیوں پر نگاہ عبرت کیوں نہیں ڈالتے اور وہ کھنڈرات انہیں ان قوموں کی بربادی کے جو واقعات سناتے ہیں ان پر کان کیوں نہیں دھرتے، تاکہ عبرت حاصل کریں اور کفر و شرک سے تائب ہو کر قرآن کریم اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئیں۔ السجدة
27 (20) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم آسمان سے بارش نازل کرتے ہیں اور اسے قحط زدہ زمین تک پہنچاتے ہیں جو پانی کے بغیر مردہ ہوچکی ہوتی ہے پھر اس کے ذریعہ مختلف قسم کے پودے اگاتے ہیں جن میں سے بعض کو تو ان کے جانور کھاتے ہیں اور بعض پودوں کے دانے خود کھا کر زندہ رہتے ہیں۔ تو کفار مکہ عقل کے ناخن کیوں نہیں لیتے، کیوں نہیں سوچتے کہ جس اللہ نے اپنے کمال قدرت سے بارش برسایا پھر سا نے پودے اگائے اور ان میں سے سے بعض کو انسانوں کے لئے اور بعض دوسرے کو ان کے جانوروں کے استعمال کے قابل بنایا، وہی معبود حقیقی ہے، اسی کے سامنے سرجھکانا چاہئے؟ السجدة
28 (21) اہل ایمان جب کفار مکہ کے ظلم وجور سے تنگ آ کر کہتے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہمارے اور تمہارے درمیان قیامت کے دن فیصلہ کرے گا اور تمہارے کفر و عناد کا تمہیں مزا چکھائے گا تو ان کا مذاق اڑاتے، کیونکہ وہ قیامت کے منکر تھے اور کہتے کہ اگر تم واقعی سچے ہو تو ذرا جلدی کرو اور اپنے رب سے کہو کہ اب دیر نہ کرے اور وہ دن آہی جائے تو اللہ تعالیٰ نے آیت (٩٢) میں ان کا جواب یہ دیا کہ اس کی آمد میں کوئی شبہ نہیں ہے، اس لئے تم اس سے پہلے ایمان لے آؤ کیونکہ جب وہ دن آجائے گا تو پھر کسی کافر کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا اور نہ اسے مہلت دی جائے گی کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کر کے اسلام میں داخل ہوجائے فرصت عمل اور مہلت توبہ صرف اسی دنیا میں دی گئی ہے۔ السجدة
29 السجدة
30 (٢٢) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جا رہا ہے کہ آپ کفار مکہ کی سفیہمانہ باتوں اور ان کی کذب بیانیوں کا جواب نہ دیجیے اور پورے انہماک کے ساتھ دعوت و تبلیغ کے کام میں لگے رہئے اور اللہ کے فیصلے کا انتظار کیجیے، وہ یقیناً آپ کو فتح و نصرت دے گا اور آپ کے دشمنوں کو رسوا کرے گا، اگرچہ کفار مکہ بھی آپ کے بارے میں بری خبر سننے کا انتظار کر رہے ہیں اتکہ ان کے زعم باطل کے مطابق آپ کے دشمنوں کو رسوا کرے گا، اگرچہ کفار مکہ بھی آپ کے بارے میں بری خبر سننے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ ان کے زعم باطل کے مطابق آپ سے ان کو چھٹی مل جائے، لیکن اللہ کے فیصلے پر کس کا فیصلہ غالب آسکتا ہے۔ السجدة
0 سورۃ الاحزاب مدنی ہے، اس میں تہتر آیتیں اور نور کو ع ہیں تفسیر سورۃ الاحزاب نام : آیت (٠٢) (یحسبون الاحزاب لم یذھبواو ان بات الاحزاب یودو الوانھم بادون فی الاعزاب) سے ماخوذ ہے، واقعہ احزاب (جس کی تفصیل آگے آئے گی) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ایک معجزہ تھا کہ اللہ نے ہوا اور فرشتوں کے ذریعہ اپ کی مدد فرمائی۔ مسلمانان مدینہ کو کفار عرب کے حملے سے بچا لیا، اور مومنین و منافقین پہچانے گئے۔ زمانہ نزول : پوری سورت مدینہ منورہ میں نازل ہوئی تھی، ابن عباس اور ابن زبیر (رض) سے یہی مروی ہے۔ الأحزاب
1 (١) امام شوکانی نے واحدی کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس آیت کریمہ میں ” کافروں“ سے مراد ابوسفیان، عکرمہ اور ابوالاعور اسلمی ہیں، اور ” منافقوں“ سے مراد عبداللہ بن ابی اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ غزوہ احد کے بعد مشرکین مکہ کا ایک وفد ابوسفیان کی قیادت میں مدینہ آیا، اور عبداللہ بن ابی معتب بن قشیر اور طممہ بن ابیرق کے ساتھ مل کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کیا کہ وہ معبود ان قریش پر نکیر کرنا بند کردیں، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ” نبی“ کے لفظ کے ساتھ پکارا ہے، اس میں آپ کے لئے تعظیم اور آپ کی نبوت کا اعتراف واثبات ہے۔ آپ کو اور آپ کے پیروکار مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ تقویٰ کی راہ اختیار کریں، اللہ کی بندگی کریں اور گناہوں سے دور رہیں، اللہ کے اوامرونواہی کو بجا لائیں اور کافروں اور منافقوں کی بات کر دعوت توحید سے انحراف نہ کریں، اس لئے کہ وہ لوگ اللہ، اس کے رسول اور مسلمانوں کے دشمن ہیں ان کی تو خواہش ہوتی ہے کہ مسلمان اسلام سے برگشتہ ہوجائیں اور اپنا مشن چھوڑ کر انہی کی طرح مشرک و منافق بن جائیں۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ بڑا ہی علم و حکمت والا ہے، اس لئے اے نبی ! اس کے اوامر کی اتباع اور اس کے نواہی سے اجتناب میں ہی ہر بھلائی ہے۔ الأحزاب
2 (٢) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے پیرو کار مومنوں کو یہ بھی نصیحت کی گئی ہے کہ آپ پر بذریعہ وحی جو قرآن نازل ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ آپ کو جو احکام ملتے ہیں، انہی کی پیروی کیجیے، نہ مشرکوں اور منافقوں کے مشوروں پر کان دھریئے اور نہ ہی مجرد رائے پر اعتماد کیجیے آپ اور آپ کی امت کے لئے ہر خیر و برکت کا واحذ ذریعہ قرآن کریم کی اتباع ہے۔ آپ ہر حال میں اللہ پر بھروسہ کیجیے اس لئے کہ جو اس پر بھروسہ کرتا ہے وہ اس کو کافی اور اس کا حامی و ناصر ہوتا ہے۔ الأحزاب
3 الأحزاب
4 (٣) شوکافی لکھتے ہیں کہ اس آیت کا حصہ (ماجعل اللہ لرجل من قلبین فی جوفہ) ان قرآنی احکام کے لئے بطور تمہید آیا ہے، ج اس کے بعد بیان کئے گئے ہیں۔ صاحب محاسن التنزیل آیت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جس طرح اللہ کی حکمت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ ایک انسان کے جسم میں دو دل نہ پیدا کئے جائیں اس لئے کہ اگر دونوں ایک ہی بات کو چاہیں گے تو ایک بیکار ہوگا اور اگر دونوں دو مخالف باتوں کا حکم دیں گے تو ایک ہی انسان بیک وقت دو مخالف چیزوں کا چاہنے والا ہوگا، جو ہر شر و فساد کا باعث ہوگا اسی طرح اس کی حکمت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ ایک ہی عورت ایک مرد کی ماں اور بیوی نہ ہو اور ایک ہی آدمی کسی دوسرے انسان کا حقیقی اور منہ بولا بیٹا نہ ہو۔ آگے لکھتے ہیں کہ یہ مثال زید بن حارثہ کے بارے میں بیان کی گئی تھی، جنہیں لوگ ” زید بن محمد“ کہا کرتے تھے اور عربوں کے قدیم رواج کے مطابق منہ بولا بیٹا وارث بنتا تھا اور اس کی بیوی سے طلاق کے بعد شادی کرنا حرام سمجھا جاتا تھا اسی غلط رواج کو ختم کرنے اور اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا، یہ آیت نازل ہوئی۔ الأحزاب
5 (٤) زمانہ جاہلیت اور ابتدائے اسلام میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی طرح سمجھا جاتا تھا اور اسے منہ بولے باپ کی طرف منسوب کیا جاتا تھا اس آیت کریمہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس رواج کی تردید کردی اور حکم دیا کہ ہر ایک کو اس کے باپ کی طرف منسوب کیا جائے، اللہ کے نزدیک عدل و انصاف کا یہی تقاضا ہے اور اگر کسی شخص کے باپ کا علم نہ ہو تو بھائی یا دوست جیسے الفاظ کے ساتھ اسے پکارا جائے اور اگر کوئی شخص کسی کو غلطی سے اس کے غیر باپ کی طرف منسوب کر دے تو وہ اللہ کے نزدیک قابل مواخذہ نہیں ہے۔ مواخذہ اس پر ہوگا کہ کوئی شخص جان بوجھ کر کسی کو اس کے غیر باپ کی طرف منسوب کرے۔ بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے ابن عر (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آزاد کردہ غلام ” زید بن حارثہ“ (رض) کو ” زید بن محمد“ کہا کرتے تھے، یہاں تک کہ قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی، اور نہ بولے بیٹے کی مطلقہ عورت سے شادی جائز ہوگئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید بن حارثہ کی مطلقہ زینب بنت حجش سے شادی کرلی، تاکہ زمانہ جاہلیت کے مذکورہ بالا غلط رواج کا خاتمہ ہو، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی سورت کی آیت (٧٣) میں فرمایا ہے : (لکی لا یکون علی المومنین حرج فی ازواج ادھیانھم اذا قضوامنھن وطرا) ” تاکہ مسلمانوں پر اپنے لے پالکوں کی بیویوں کے بارے میں کسی طرح کی تنگی نہ رہے جبکہ وہ اپنی غرض ان سے پوری کرلیں۔ “ الأحزاب
6 (٥) اس آیت کریمہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت اور امہات المومنین کی قدر و منزلت بیان کی گئی ہے مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ تمام دینی اور ددنیاوی امور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی ذات پر مقدم رکھیں اپنے آپ سے زیادہ ان سے محبت کریں آپ کا حکم ان کی ذات پر ان کے اپنے حکموں سے زیادہ نافذ العمل ہو، آپ کے حقوق کو اپنے حقوق پر ترجیح دیں، اپنی ذات سے زیادہ آپ سے محبت کریں اور ان کی خاطر اپنی جانیں فدا کردیں اور ان کے ہر حکم کی اتباع کریں، کیونکہ دنیا و آخرت کی تمام نیک بختیوں کا یہی واحد سرچشمہ ہے۔ صحیح بخاری میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” میں ہر مومن کا دنیا و آخرت میں تمام لوگوں سے زیادہ حقدار ہوں“ ابوہریرہ (رض) نے کہا : اگر تم لوگ چاہو تو یہ آیت پڑھو : (النبی اولی بالمومنین من انفسھم) الحدیث صحیحین میں انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہوگا جب تک کہ وہ اپنی جان و مال، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ مجھ سے نہ محبت کرے۔ “ آیت کے دوسرے حصے میں یہ حکم بیان کیا گیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں تمام مسلمانوں کے لئے ماں کا مقام رکھتی ہیں ان کے لئے ان سے شادی کرنا حرام ہے اور ان کا احترام واجب ہے، ان کے ساتھ خلوت اور انہیں نظر اٹھا کر دیکھنا بھی جائز نہیں ہے۔ آیت کے تیسرے حصے میں یہ حکم بیان کیا گیا ہے کہ اہل قرابت ایک دوسرے کی میراث کے مہاجرین اور دیگر مومنین سے زیادہ حقدار ہیں شوکانی لکھتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں لوگ ہجرت، آپس کے بھائی چارہ اور معاہدوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کے وارث بنتے تھے جب یہ آیت نازل ہوئی تو یہ حکم منسوخ ہوگیا اور وراثت صرف قرابت داروں کے ساتھ مختص ہوگئی اور غیر قرابت دار مومنوں اور مہاجروں کے لئے صدقہ، ہدیہ اور وصیت جیسی صورتیں باقی رہ گئیں، آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ احکام لوح محفوظ میں پہلے سے نوشتہ ہیں۔ الأحزاب
7 (٦) اللہ تعالیٰ نے تمام انبیائے کرام سے بالعموم اور اولوالعزم انبیاء یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے بالخصوص یہ عہد و پیمان لیا گیا کہ وہ اللہ کا پیغام لوگوں تک ضرور پہنچائیں گے، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے، ایک دوسرے کی مدد کریں گے، آپس میں اتفاق کے ساتھ رہیں گے، اللہ کے دین کو قائم کریں گے اور اس میں اختلاف و افتراق نہیں پیدا کریں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران آیت (١٨) میں فرمایا : (واذاخذ اللہ میثاق النبین لما اتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جامک رسول مصدق لما معکم لتومنن بہ ولتنصرنہ قال فقررتمواخذتم علی ذلکم اصری قالو اقرر ناقال فاشھدو وانا معکم من الشاھدین) ” جب اللہ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت دوں، پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے فرمایا کیا تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے، فرمایا تو اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔ “ اس عہد و پیمان کی مزید تصریح سورۃ الشوریٰ آیت (٣١) میں آئی ہے : (شرع لکم من الدین ماوصی بہ نوحاوالذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم و موسیٰ و عیسیٰ ان اقیموا الدین ولاتتفرقوا فیہ) ” مومنو ! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کردیا ہے جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جو (بذریعہ وحی) ہم نے اے میرے نبی ! آپ کی طرف بھیج دی ہے اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔ “ آیت (٨) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ان صادق القول و العمل انبیاء سے ان کی امتوں کے سامنے پوچھا جائے گا کہ کیا انہوں نے اللہ کا پیغام اپنی امتوں کو پہنچا دیا تھا تو وہ کہیں گے کہ ہاں، اے ہمارے رب ! ہم نے تیرا پیغام انہیں پہنچا دیا تھا، تو اللہ انہیں اور ان کے پیروکار مومنوں کو اچھا بدلہ دے گا، اس سوال سے مقصود اہل کفر و شرک کو میدان محشر میں سب کے سامنے ملزمقرار دینا ہوگا ورنہ اللہ تو خوب جانتا ہے کہ ان رسولوں نے پوری امانت کے ساتھ پیغام رسانی کا کام انجام دیا تھا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آیت کے آخر میں فرمایا کہ اس نے کافروں کے لئے بڑا ہی درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے جس میں وہ انہیں ہمیشہ کے لئے ڈال دے گا۔ الأحزاب
8 الأحزاب
9 (٧) آیات (٩) سے (٢٧) تک غزوہ احزاب اور غزوہ بنو قریظہ کے حالات و واقعات بیان کئے گئے ہیں اور اس سے مقصود مومنوں کو اللہ کی ایک عظیم نعمت کی یاد دلا کر نصیحت کرنی ہے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کریں، جس کا عملی تقاضا یہ ہے کہ وہ صرف اللہ کی بندگی کریں، ہر حال میں اس کے رسول کی اتباع کریں اور اس کی بھیجی ہوئی شریعت پر کسی دوسری چیز کو مقدم نہ کریں۔ ان آیات کی تفسیر سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ امام ابن القیم کی کتاب (زاد المعاد) سے مدد لیتے ہوئے مذکورہ بالا دونوں غزوات پر اختصا رکے ساتھ روشنی ڈالی جائے، تاکہ ان آیات میں مذکور جزئیات کو سمجھنے میں سہولت ہو۔ غزوہ احد ٣ ھ سے واپسی کے وقت مشرکین مکہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دھمکی دی کہ آئندہ سال پھر ہمارا اور تمہارا مقابلہ ہوگا، لیکن خشک سالی کی وجہ سے دوسرے سال مشرکین مکہ جنگ کے لئے نہیں نکلے حیی بن اخطب یہودی نے اہل قریش کی اس دھمکی کو غنیمت جانا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے، شہر مدینہ سے بنو نضیر کی جلا وطنی کا اتنقام لینے کا موقع مناسب سمجھا اس لئے وہ کئی دیگر سردار ان یہود کو لے کر مکہ گیا اور کفار قریش کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا اور ان کے شانہ بشانہ جنگ کرنے کا وعدہ کیا اس کے بعد وہ لوگ قبیلہ غطفان اور دیگر قبائل عرب سے بھی جا کر ملے اور انہیں بھی اس جنگ میں شرکت کی دعوت دی، تاکہ سب مل کر مسلمانوں کا وجود ہی ختم کردیں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب ان حالات کا علم ہوا، تو دفاعی تدبیروں پر غور و فکر کرنے کے لئے صحابہ کرام کو جمع کیا اور سلمان فارسی (رض) کی رائے پر عمل کرتے ہوئے مسلح پہاڑی کے مشرق میں خندق کھودنے کا فیصلہ کیا، جدھر سے کافروں کے مدینہ پر حملہ آور ہونے کا ڈر تھا تقریباً ایک ماہ کی مدت میں خندق کی کھدائی پوری ہوجانے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تین ہزار مجاہدین کے ساتھ وہاں پہنچ گئے، جب کافروں کا لشکر وہاں پہنچا جن کی تعداد بارہ ہزار کے قریب تھی تو خندق دیکھ کر حیرت زندہ ہوگئے اور کہنے لگے کہ یہ جنگی چال تو عرب نہیں جانتے تھے اور اسی سے ان کی ہمت ایک گونہ پست ہوگئی۔ حیی بن اخطب یہودی سر دار بنی نضیر مکہ سے واپس آنے کے بعد بنو قریظہ کے پاس گیا اور بڑی کوششوں کے بعد انہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کئے گئے عہد و پیمان کو توڑنے پر آمادہ کرلیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب ان کے نقض عہد کی اطلاع ملی تو چند صحابہ کرام کو حقیقت حال دریافت کرنے کے لئے بھیجا جب انہوں نے واپس آکر اس خبر کی تصدیقف کردی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ اکبر ! مسلمانو ! تمہیں خوشخبری دیتا ہوں تب مسلمانوں کی آزمائش کی شدید گھڑی آن پہنچی اور منافقوں نے برملا اپنے نفاق کا اعلان کرنا شروع کردیا۔ قبیلہ بنی حارثہ کے بعض افراد نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہہ کر مدینہ واپس چلے جانے کی اجازت مانگی کہ ہمارے مکانات غیر محفوظ ہیں، اسی طرح قبیلہ بنی سلمہ نے بھی وہاں سے نکل جانے کا ارادہ کرلیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ثبات قدمی عطا کی۔ مشرکین نے وہاں ایک ماہ تک قیام کیا، لیکن خندق کی وجہ سے جنگ نہ ہوسکی، البتہ قریش کے چند گھوڑ سوار خندق کے ایک تنگ حصے سے گذر کر آگے بڑھے، جن میں عمرو بن عبدود قریشی پیش پیش تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے مقابل یکے لئے علی بن ابی طالب (رض) کو حکم دیا اور انہوں نے اسے قتل کردیا تو باقی گھوڑ سوار ڈر کے مارے واپس چلے گئے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب دیکھا کہ محاصرے کی مدت طویل ہوتی جا رہی ہے اور دشمن واپس جانے کا نام نہیں لے رہے ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیلہ غطفان کے دونوں سردار عسینیہ بن حصن اور حارث بن عوف سے مدینہ کے ایک تہائی پھلوں کے عوض صلح کی پیشکش کردی جب سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ سردار ان اوس و خزرج کو اس کی اطلاع ملی تو کہا کہ یا رسول اللہ ! اگر آپ کو اللہ نے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے تو سرتسلیم خم ہے اور اگر یہ آپ کی ذاتی تدبیر ہے تاکہ ہماری اور ہمارے بچوں کی حفاظت کریں تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے جب ہم اور وہ قبائل کفر و شرک پر تھے، تب تو انہوں نے کبھی ہم سے ایسی امید نہیں کی، اور اب جبکہ اللہ نے ہمیں نعمت اسلام سے نوازا ہے اور آپ کے ذریعہ ہمیں عزت دی ہے تو ہم کسی حال میں بھی اپنا مال انہیں نہیں دیں گے ہمارا اور ان کا فیصلہ تلوار کرے گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی بات سن کر خوش ہوئے، اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ یہی میری ذاتی تدبیر تھی جب میں نے دیکھا کہ سارے عرب مل کر ہم پر حملہ آور ہو رہے ہیں تو یہ بات ذہن میں آئی تھی۔ اس کے بعد اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ قبیلہ غطفان کا ایک شخص نعیم بن مسعود بن عامر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ! میں مسلمان ہوگیا ہوں۔، آپ مجھے جو چاہئے حکم دیجیے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جنگ دھوکے کا نام ہے۔ اس لئے تم کفار اور یہود کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کرو چنانچہ وہ صحابی پہلے بنو قریظہ کے پاس گئے جن کے ساتھ ان کا پہلے سے تعارف تھا اور کہا کہ اگر اہل مکہ کی شکست ہوئی تو وہ مکہ واپس چلے جائیں گے اور تم لوگ ” محمد“ کو اپنا دشمن بنا لو گے انہوں نے پوچھا کہ پھر کیا کیا جائے؟ نعیم نے کہا جب تک وہ لوگ اپنے کچھ افراد تمہارے پاس بطور رہن نہ رکھ دیں، ان کے ساتھ مل کر جنگ نہ کرو پھر قریش کے پاس گئے اور ان سے کہا تمہیں معلوم ہے کہ میں تمہارا دوست اور خیر خواہ ہیں مجھے خبر لمی ہے کہ بنو قریظہ والے محمد کے ساتھ اپنا عہد توڑنے پر نادم ہیں اور اس کے ساتھ یہ بات طے کرلی ہے کہ وہ تمہارے کچھ لوگوں کو تم سے بطور رہن لے کر اس کے حوالے کردیں گے اور اس کے ساتھ مل کر تم سے جنگ کریں گے، قبیلہ غطفان والوں سے بھی ایسی ہی بات کی۔ کفار مکہ نے سنیچر کے دن یہود بنی قریظہ کو خبر بھیجی کہ اب ہمارے لئے یہاں زیادہ دیر تک قیام کرنا مشکل ہے، اس لئے آؤ، آج ہی ہم سب ایک ساتھ مل کر محمد اور اس کے ساتھیوں پر حملہ کردیں یہودیوں نے کہا کہ آج تو سنیچر کا دن ہے اور تمہیں معلوم ہے کہ ہمارے آباؤ واجداد نے اس دن کی بے حرمتی کر کے اللہ کی کیسی سزا بھگتی تھی دوسری بات یہ ہے کہ تم لوگ جب تک ہمارے پاس اپنے کچھ افراد بطور رہن نہیں رکھو گے، ہم تمہارے ساتھ مل کر جنگ نہیں کریں گے قریش والوں نے ان کی یہ بات سن کر کہا کہ نعیم نے سچ کہا تھا اور اپنے کچھ افراد نہیں بطور رہن دینے سے انکار کردیا۔ یہودیوں نے ان کی یہ بات سن کر کہا کہ نعیم نے ٹھیک ہی کہا تھا چنانچہ قریش اور بنو قریظہ دونوں نے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ جنگ کرنے سے انکار کردیا۔ اللہ کا مسلمانوں پر یہ بھی کرم ہوا کہ شدید سردی والی رات میں تیز ہوا چلی، جس سے دشمنوں کے خیمے اکھڑ گئے، ہانڈیاں الٹ گئیں اور فرشتوں نے اللہ کے حکم سے ان کے دلوں میں شدید خفو و رعب پیدا کردیا اور انتہائی بے چینی اور پریشانی کے عالم میں وہاں سے جیسے تیسے بھاگ پڑے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حذیفہ بن الیمان (رض) کو حقیقت حال دریافت کرنے کے لئے بھیجا، انہوں نے آ کر آپ کو خبر دی کہ واقعی کفار وہاں سے کوچ کر رہے تھے، تو آپ کو اطمینان ہوا کہ اللہ نے تمام کفار عرب کو بغیر جنگ کے شکست دے دی۔ تھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام جب مدینہ واپس آئے تو ظہر کا وقت تھا اسی وقت جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور خبر دی کہ اللہ نے آپ کو یہودینی قریظہ کی طرف جانے کا حکم دیا ہے اور میں بھی انہی کیط رف جا رہا ہوں تاکہ ان کے دلوں میں خوف و رعب پیدا کروں، چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منا دی کرا دی کہ جو مسلمان بھی فرمانبردار ہے وہ عصر کی نماز بنو قریظہ کے پاس پڑھے اور مسلمانوں کا جھنڈا علی بن ابی طالب (رض) کے ہاتھوں میں دیا۔ پچیس دنوں کے محاصرے کے بعد بنو قریظہ والے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ ماننے کے لئے تیار ہوگئے، اور بالاخر اپنی خواہش کے مطابق ان کے زمانہ جاہلیت کے حلیف قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ (رض) کے فیصلے کے مطابق ان کے تمم بالغ مردقتل کردیئے گئے جن کی تعداد چھ یا سات سو تھی اور بچے اور عورتیں غلام اور لونڈی بنا لئے گئے اور ان کے اموال مال غنیمت کے طور پر مسلمانوں میں تقسیم کر دیئیگئے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب سعد بن معاذ کا یہ فیصلہ ان کی زبان سے سنا تو فرمایا کہ یہ وہ فیصلہ ہے جو اللہ نے سات آسمانوں کے اوپر کیا ہے۔ غزوہ احزاب اور غزوہ بنی قریظہ کے یہی وہ حالات و واقعات ہیں جن کی جزئیات آیت (٩) سے آیت (٧٢) تک بیان کی گئی ہیں اور ان دونوں غزووں کے نتیجے کے طور پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جو احسانات کئے، انہی کی طرف آیت (٩) میں اشارہ کیا گیا ہے اور جنود سے مراد کفار قریش اور قبائل عرب پر مشتمل وہ لشکر ہے جو مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے جمع ہوا تھا۔ ” ریع“ سے مراد وہ تیز ہوا ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے لشکر کفار کے خیمے اکھاڑ دیئے اور ان کی ہانڈیاں الٹ دی تھی اور (جنود الم تروھا) میں ” جنود“ سے مراد وہ فرشتے ہیں جنہیں اللہ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے اس دن بھیجا تھا اور جنہوں نے ان خیمے اکھاڑ پھینکے ان کی آگ بجھا دی انہیں تتر بتر کردیا اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ الأحزاب
10 (٨) (من فوقکم) سے مراد وادی کا بالائی علاقہ ہے، یعنی مدینہ کا مشرقی حصہ اس طرف سے عیینہ بن حصن کی قیادت میں قبیلہ غطفان، عوف بن مالک کی قیادت میں قبیلہ ہوازن اور طلیحہ بن خویلد اسدی کی قیادت میں نجد کے قبائل آئے اور ان کے ساتھ بنی نضیر کے یہود مل گئے اور (من اسفل منکم) سے مراد وادی کا نشینی علاقہ ہے یعنی مدینہ کا مغربی علاقہ اس طرف سے ابوسفیان بن حرب کی قیادت میں کفار قریش اور کچھ دوسرے لوگ آئے اور خندق کی سمت سے بنوقریظہ کے یہودی تھے جن کے ساتھی حیی بن اخطب یہودی اور عامر بن طفیل وغیرہ تھے۔ ہر چہار جانب سے دشمنوں کو آتا دیکھ کر مسلمانوں کی آنکھیں پتھرا گئیں کہ ہر طرف دشمن ہی دشمن نظر آرہے ہیں اور مارے خوف و دہشت کے ان کے دل باہر نکل جانے کے لئے ان کی گردنوں تک پہنچ گئے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں طرح طرح کے اوہام و خیالات ان کے دلوں میں پروشر پانے لگے کہ معلوم نہیں وہ ہماری مدد کرے گا یا ہمارے گناہوں کے سبب ہمیں ذلیل و رسوا کر دے گا۔ الأحزاب
11 (٩) اور حالت بایں جارسید کہ مومنین شدید ترین آزمائش میں پڑگئے، دشمن کا خوف، جنگ کی صعوبتیں، بھوک پیاس اور ہر چہار جانب سے دشمنوں کی وجہ سے جاں بلب ہوگئے اور شدید خوف و ہراس اور اضطراب و پریشانی میں مبتلا ہوگئے اور یہ سب اس لئے ہوا تاکہ مومن و منافق کا فرق واضح ہوجائے۔ الأحزاب
12 (١٠) منافقین سے مراد عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھی ہیں اور (والذین فی قلوبھم مرض) سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں شک و شبہ کی بیماری تھی اور جنہیں ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ان شدید حالات میں مخلص مسلمانوں کے خلاف اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے کا موقع مل گیا تھا ان تمام لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جس فتح و نصرت کا وعدہ کیا تھا وہ محض ایک دل بہلانے والی بات تھی مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ بات تقریباً ستر 70 منافقین نے کہی تھی اور اوپر کی آیت میں جس ” ظن“ کا ذکر آیا ہے، اس کی اس کے ذریعہ تشریح و تفسیر بھی ہوتی ہے کہ منافقوں نے اللہ کے بارے میں ایسی بدگمانی کی اور مومنوں نے اپنے رب سے فتح و نصرت اور اللہ کے دین کی سربلندی کی امید لگائی۔ الأحزاب
13 (١١) منافقین کی ایک جماعت نے مسلمانوں کے عزم و ثبات کو کمزور کرنے کے لئے کہا کہ خندق اور سطح پہاڑی کی درمیانی جگہ میں رہ کر تم لوگ اپنے بال بچوں کی حفاظت نہیں کرسکتے ہو، اس لئے تم لوگ مدینہ لوٹ جاؤ اور کچھ لوگوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہہ کر اپنے گھروں کو واپس جانے کی اجازت چاہی کہ ان کے مکانات بالکل غیر محفوظ ہیں اور ڈر ہے کہ دشمن حملہ کر کے ہمارے بچوں کو ہلاک کردیں گے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تکذیب کی اور کہا کہ ان کے اجازت مانگنے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کے مکانات غیر محفوظ ہیں، بلکہ وہ کسی بہانے میدان جنگ سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ الأحزاب
14 (١٢) انہی منافقین کا حال بیان کیا گیا ہے کہ اگر شہر مدینہ کے چاروں طرف سے دشمن حملہ کر دے اور لوٹ مار شروع کر دے، اور ان منافقین سے وہ دشمنان کہیں کہ تم لوگ اسلام کا انکار کر کے دوبارہ کفر و شرک کو قبول کرلو تو وہ لوگ ذرا بھی توقف سے کام نہیں لیے گے اور فوراً اپنے کفر کا اعلان کردیں گے۔ آیت (٥١) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے تو اللہ سے عہد و پیمان کر رکھا تھا کہ وہ دشمن کو اپنی پیٹھ نہیں دکھلائیں گے، ان سے مراد بنو سلمہ کے لوگ ہیں جو جنگ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے اور مسلمانوں کو وہاں جو فتح و نصرت حاصل ہوئی تھی اسے سن کر کہتے تھے کہ اگر آئندہ کوئی جنگ ہوگی تو ہم ضرور شریک ہوں گے لیکن غزوہ احزاب میں ان کا بھرم کھل گیا کہ ان کی باتوں کا صداقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ الأحزاب
15 الأحزاب
16 (١٣) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی ان کے نفاق اور ان کی بزدلی کا یہ جواب دیا کہ اگر تمہاری قسمت میں قتل ہونا لکھا ہوگا اور تمہاری موت کا وقت آچکے تو راہ فرار اختیار کرنے سے تم بچ نہیں جاؤ گے اور اگر تمہاری عمر کا کچھ حصہ باقی ہوگا تو وہ جلد ہی گذر جائے گا اور تم دنیا کی لذتوں سے بہت تھوڑا فائدہ اٹھا سکو گے اور بالاخر موت تمہیں آدبوچے گی۔ الأحزاب
17 (١٤) اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنے نبی کی زبانی یہ بھی کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں شکست دینا چاہے، تمہیں ہلاک کرنا چاہے یا کسی اور عذاب میں مبتلا کرنا چاہے، تو اس کے سوا تمہیں کون بچا سکے گا، یا اگر وہ تم پر رحم کرتے ہوئے زرخیزی و کامیابی اور عافیت و صحت سے نوازنا چاہے، تو اس کو کون منع کرسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا بندوں کا نہ کوئی یار ہے اور نہ مددگار ان کے لئے اس کی جناب کے سوا کوئی دوسری جائے پناہ نہیں ہے۔ الأحزاب
18 (١٥) منافقین کے کچھ افراد خفیہ طور پر مسلمانوں سے ملتے اور ایسی باتیں کرتے جن سے جنگ کرنے سے ان کی ہمت پست ہو، کہتے کہ محمد اور اس کے ساتھیوں کی ابوسفیان اور اس کے لشکر کے سامنے کیا حیثیت ہے، ان کی ایک جھڑپ بھی برداشت نہیں کرسکتے ہیں اس لئے اس کے ساتھ اپنی جان جوکھم میں نہ ڈالو اور ہمارے پاس آکر سایہ دار درختوں اور پھلوں کے مزے اڑاؤ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ لوگ موت کے ڈر سے جنگ کے قریب کم ہی پھٹکتے ہیں۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہود ایسی بات منافقین سے کہتے تھے اور انہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مخلص مسلمانوں کا ساتھ دینے سے روکتے تھے۔ الأحزاب
19 (١٦) منافقین مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ کرنے میں نہایت بخیل ہیں، نہ انہوں نے خندق کھودنے میں ان کی مدد کی، نہ ہی جہاد کے لئے اپنے مال کا کوئی حصہ خرچ کرتے ہیں اور جب جنگ کی وجہ سے انہیں موت کا خوف لاحق ہوتا ہے تو غایت بزدلی کی وجہ سے ان کی آنکھیں دائیں اور بائیں گھومنے لگتی ہیں، جیسے اس آدمی کی کیفیت ہوتی ہے جس پر موت طاری ہو اور جب جنگ کا خطرہ ٹل جاتا ہے تو مسلمانوں کی عیب جوئی اور مذمت کے لئے اپنی زبانیں دراز کرتے ہیں اور انہیں تکلیف پہنچاتے ہیں یہ لوگ بھلائی کے کاموں میں بڑے ہی بخیل ہیں اور اپنے ایمان میں غیر مخلص اور منافق ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے اگعمال کو رائیگاں اور بے سود بنا دیا اور ایسا کرنا اس کے لئے بڑا ہی آسان تھا۔ الأحزاب
20 (١٧) منافقین خوف اور بزدلی کی وجہ سے لشکر کفار کے واپس چلے جانے کے بعد بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ابھی وہ لوگ آس پاس ہی موجود ہیں اور ممکن ہے دوبارہ واپس آجائیں اور اگر واقعی دشمن واپس آجائے تو ان کی تمنا ہوگی کہ کاش وہ لوگ بادیہ نشینوں کے پاس چلے گئے ہوتے تاکہ جنگ میں شریک ہون کی نوبت نہ آتی اور وہیں سے آنے جانے والوں سے مسلمانوں کے بارے میں دریافت کرتے کہ لشکر کفار سے مڈبھیڑ میں ان کا انجام کیا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ مدینہ سے چلے بھی جاتے تو مسلمانوں کا کچھ نہ بگڑتا، اس لئے کہ اگر یہ لوگ ہوتے بھی تو صرف دکھلا دے کے لئے شریک ہوتے اور کوئی مفید کام انجام نہ دیتے۔ الأحزاب
21 (١٨) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی نیک صفات اور اچھے اخلاق و کردار میں مومنوں کے لئے بہتر نمونہ ہے۔ آپ مشکل گھڑیوں میں ہمیشہ ثابت قدم رہے، دکھ اور مصیبت پر صبر کیا اور کسی حال میں بھی آپ کے پائے استقامت میں لغزش نہیں پیدا ہوئی مکی زندگی میں قریشیوں نے آپ پر مصیبت کے پہاڑ ڈھائے اور آپ اور مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا لیکن آپ ایمان و عزیمت کے ساتھ سب کچھ جھیل گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہ اوصاف ان مومنوں کے لئے مشعل راہ میں جو رضائے الٰہی اور ثواب آخرت کی امید لگائے ہوتے ہیں ایسے لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے وقت بزدلی نہیں دکھاتے اور اللہ کو خوب یاد کرتے رہتے ہیں۔ الأحزاب
22 (١٩) غزوہ احزاب کے موقع سے یہود و منافقین کی حالت بیان کرنے کے بعد اب مومنین مخلصین کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے کہ جب انہوں نے لشکر کفار کو ہر طرف سے آتا دیکھا تو کہنے لگے کہ ہمارے رب نے تو ہمیں اس کی خبر پہلے سے دے رکھی ہے کہ جب ہم ہر طرف سے گھیر لئے جائیں گے اور ہمارا اضطراب اور ہماری پریشانی انتہا کو پہنچ جائے گی، اس وقت ہم اپنے رب سے مدد مانگیں گے اور اس کے سامنے گریہ وزاری کریں گے تو اس کی مدد آئے گی اور ہمیں فتح و نصرت حاصل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت (٤١٢) میں فرمایا ہے : (ام حسبتم ان تدخلوا الجنۃ ولمایا تکم مثل الذین خلوا من قبلکم) ” کیا تم یہ گمان کئے بیٹھے ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے، حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے“ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی خبر دی ہے کہ پہلے مسلمان آزمائے جائیں گے، پھر اللہ ان کی مدد کرے گا اور ان کو غلبہ حاصل ہوگا۔ اللہ اور اس کے رسول کی خبر کی صداقت ظاہر ہو کر رہی کہ دشمن کی فوج تتر بتر ہوگئی اور بغیر جنگ کے مسلمانوں کو فتح و نصرت حاصل ہوئی اور اس موقعہ سے مسلمانوں کو جو بھی پریشانیاں لاحق ہوئیں اور منافقوں کا گھناؤنا کردار سامنے آیا، ان ساری باتوں سے مسلمانوں کے ایمان میں اضافہ ہوا اور انہوں نے اللہ کی تقدیر کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اور صبر و شکیبائی کے ساتھ اسے بردشات کیا۔ الأحزاب
23 (٢٠) انمومنین مخلصین نے اللہ تعالیٰ سے جس صبر و ثبات قدمی کا وعدہ کیا تھا، اس میں سچے ثابت ہوئے، انہوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد کیا، عمل صالح کیا اور گناہوں سے بچتے رہے مفسرین لکھتے ہیں کہ ان سے مراد یا تو وہ انصار مدینہ میں جنہوں نے بیعتہ العقبہ میں ہر حال میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا، یا وہ صحابہ کرام ہیں جنہوں نے نذر مانی تھی کہ اگر انہیں رسول اللہ کے ساتھ مل کر جنگ کرنے کا موقع ملا تو ثابت قدم رہیں گے اور راہ فرار نہیں اختیار کریں گے۔ چنانچہ ان میں سے بعض تو جنگ احد میں کام آگئے جیسے حمزہ مصعب بن عمیر اور انس بن النضر اور اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی اور جو بچ گئے جیسے عثمان بن عفان، طلحہ اور زبیر وغیرہ ہم وہ اللہ کی فتح و نصرت اور اس کی راہ میں شہادت کا انتظار کرتے رہے اور انہوں نے اپنے رب سے جو عہد و پیمان کیا تھا اس میں کوئی تبدیلی نہیں لائی اور نہ ہی منافقوں کی طرح نقض عہد کیا، جس کی طرف اسی سورت کی آیت (٥١) میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ان منافقوں نے اس سے پہلے اللہ سے عہد کیا تھا کہ وہ میدان کار زار میں دشمن کو اپنی پیٹھ نہیں دکھلائیں گے۔ الأحزاب
24 (٢١) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ سب کچھ اس لئے ہوا تاکہ وہ سچوں کو ان کی سچائی کا اچھا بدلہ دے اور جنہوں نے نفاق کی راہ اختیار کی اور توبہ کر کے اپنی حالت کی اصلاح نہیں کی، اگر چاہے تو انہیں عذاب دے۔ الأحزاب
25 (٢٢) غزوہ احزاب کا باقی واقعہ اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ کا جو احسان ہوا، اسے بیان کیا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہوا اور فرشتوں کی فوج کے ذریعہ لشکر کفار کو اس طرح مار بھگایا کہ وہ مارے غیظ و غضب کے پھٹے پڑ رہے تھے اس لئے کہ ان کی جنگی تیاریاں اور تمام قبائل عرب کے ساتھ مدینہ پر دھاوا بول دینے کی زبردست سازش دھری کی دھری رہ گئی، نہ مدینہ پر حملہ کرسکے اور نہ کوئی مال غنیمت انہیں ہاتھ آیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تمام جنگی چالوں کو ناکام بنا دیا اور مسلمانوں کو جنگ کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اسی لئے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا کرتے تھے ” لا الہ الا اللہ وحدہ صدق وعدہ و نصر عبدہ و عزجندہ وھزم الاحزاب وحدہ، فلاشی بعدہ“ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، جس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور اسی نے اپنے بندے کی مدد کی اور اپنے لشکر کو عزت دی اور تمام لشکر کفار کو تنہا شکست دی اس لئے کہ اس کے اوپر کوئی چیز نہیں ہے۔“ (صحیحین) الأحزاب
26 (٢٣) غزوہ احزاب کے موقع سے یہود بنو قریظہ نے خیانت کی، نقض عہد کیا اور کفار عرب کے ساتھ مل گئے، انہی کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ چونکہ انہوں نے بدعہدی کر کے کفار عرب کی تائید کی تھی، اس لئے مسلمانوں نے غزوہ احزاب کے بعد ان کا محاصرہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈالا کہ وہ اپنے قلعوں کے دروازے کھول کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آگئے اور ہتھیار ڈال دیا تو جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے بالغ مردوں کو قتل کروا دیا، عورتیں اور بچے لونڈی اور غلام بنا لئے گئے اور ان کے اموال بطور مال غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کردیئے گئے۔ (آیت) (٧٢) میں اسی کی تفصیل بیان کی گئی ہے کہ مسلمان ان کے کھیتوں، باغات، مکانات، قلعوں، مویشی، ہتھیار، درہم و دینار اور دیگر تمام منقولہ جائیدادوں کے مالک بن گئے اور کچھ ہی دنوں کے بعد یہود خیبر کی زمینوں کے بھی مالک بنگئے۔ بعض مفسرین نے (ارضالم تطؤھا) سے مراد سر زمین مکہ اور بعض نے فارس و روم کے علاقے لئے ہیں ابن جریر طبری لکھتے ہیں کہ ممکن ہے تینوں ہی مراد ہوں۔ الأحزاب
27 الأحزاب
28 (٢٤) مفسرین لکھتے ہیں کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں نے دیکھا کہ انصار و مہاجرین کی بیویاں دنیاوی اعتبار سے ان سے اچھی حالت میں ہیں تو انہوں نے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے اخراجات میں اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس وقت ان کی تعداد نو (٩) تھی، عائشہ، حفصہ، ام حبیبیہ، سودہ، ام سلمہ، زینب بنت حجش، میمونہ، جویریہ، اور صفیہ ان کی بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک عائشہ نے پہنچائی، آپ چونکہ مالی طور پر اس کی قدرت نہیں رکھتے تھے، اس لئے آپ کو اس سے تکلیف ہوئی، اور اپنی تمامبیویوں سے ایک ماہ کے لئے الگ ہوگئے، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے حکم کے مطابق ان سب کو اختیار دے دیا، اور اس کی ابتداء عائشہ (رض) سے کی اور ان سے کہا کہ وہ اپنے باپ ماں سے مشورہ کرنے سے پہلے کوئی فیصلہ نہ کریں تو عائشہ (رض) نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا آپ کے بارے میں میں ان سے مشورہ کروں؟ اور انہوں نے اللہ اس کے رسول اور آخرت کی راحت و نعمت کو اختیار کرلیا، دیگر امہات المومنین نے بھی ایسا ہی کیا اور سب ن اللہ اس کے رسول اور آخرت کی خوشیوں کو دنیا کی راحتوں پر ترجیح دی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کی اس اچھی نیت اور عمل صالح کا یہ بدل دیا کہ اس سورت کی آیت (٢٥) نازل فرمائی : (لایحل للک النساء من بعدولا ان تبدل بھمن من ازواج ولواعجبک حسنھن الا ماملکت یمبنک وکان اللہ علی کل شی رقیباً) ” اس کے بعد اور عورتیں آپ کے لئے حلال نہیں اور نہ یہ درست ہے کہ ان کے بدلے دوسری عورتوں سے نکاح کیجیے اگرچہ ان کی صورت اچھی لگتی ہو سوائے ان عورتوں کے جو آپ کی مملوکہ ہوں، ان سے آپ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اللہ ہر چیز کا پورا نگہبان ہے۔ “ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے میرے نبی ! آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تمہیں دنیا کا عیش و آرام چاہئے، اچھا کھانا پینا، عمدہ کپڑے، زیورات اور دیگر سامان عیش چاہئے تو آؤ تمہیں طلاق دے دوں اور مطلقہ عورتوں کو ہر آدمی کے حسب حال جو مال و متاع دینا چاہئے وہ دے کر تمہیں آزاد کر دوں اور اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول کی رضا اور جنت چاہئے تو پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں اس یقین کے ساتھ زندگی گذارو کہ اللہ نے تم میں سے بھلائی کرنے والیوں کے لئے جنت میں میری معیت میں بہت ہی اونچا مقام تیار کر رکھا ہے۔ الأحزاب
29 الأحزاب
30 (٢٥) مذکورہ بالا آیت کے نزول کے بعد جب امہات المومنین رضی اللہ عنہن نے اللہ، اس کے رسول اور جنت کو اختیار کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ادب سکھانا چاہا کہ انہیں جو یہ شرف حاصل ہوا کہ وہ خاتمالنبین کی بیویاں بن گئیں تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہر ایسی بات سے گریز کریں جس سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھرانے کی بدنامی ہو اور دشمنان دین انگلیاں اٹھائیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دھمکی دی اور فرمایا کہ اے میرے نبی کی بیویو ! اگر تم میں سے کسی سے کوئی ایسی غلطی سر زد ہوگی جسے ازروئے عقل و شرع برا سمجھا جاتا ہے تو اسے دوسری عورتوں سے دوگنا عذاب دیا جائے گا، اس لئے کہ اس سے میرے رسول کو تکلیف ہوگی اور ان کی اور تمہاری عزت و شرف پر آنچ آئے گی۔ الأحزاب
31 (26) اللہ تعالیٰ نے امہات المومنین میں سے نیک، صالح اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والیوں کو خوشخبری دی ہے کہ اللہ انہیں دوہرا اجر دے گا، ایک تو طاعت و تقویٰ کی زندگی اختیار کرنے پر، اور دوسرا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوش رکھنے اور ان کے ساتھ حسن اخلاق اور اچھے برتاؤ پر اور یہ بھی خوشخبری دی ہے کہ دوہرے اجر کے علاوہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں عمدہ ترین روزی دے گا، مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت میں امہات المومنین کو جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ الأحزاب
32 (27) امہات المومنین کی مزید فضیلت بیان کرنے کے لئے اور انہیں اس بات کا احساس دلانے کے لئے کہ ان سے کوء ایسا قول یا فعل سر زد نہ ہو جس سے خاتم النبین کی عزت پر آنچ آئے اور دنیا والوں کو آپ کے گھرانے کے خلاف چہ میگوئیاں کرنے کا موقع ملے، اللہ تعالیٰ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ اے میرے نبی کی بیویو ! تم دنیا کی عام عورتوں سے مختلف ہو، تم بہت ہی معزز خواتین ہو، تمہارا مقام بڑا ہی اونچا ہے، تم خاتم النبین کی بیگمات ہو، تمہیں اپنی قدر و منزلت کا پاس رکھنا چاہئے، تم اپنے مقام کی حفاظت اسی صورت میں کرسکو گی کہ صلاح و تقویٰ کو اپنی زندگی کا شعار بنا لو گی، اس لئے اجنبی لوگوں سے باتیں کرتے وقت ایسا اسلوب اور اندازنہ اختیار کرو کہ جن کے دلوں میں فسق و فجور کی بیماری ہو، وہ تمہارے بارے میں غلط شبہ کرنے لگیں، صرف ایسا اسلوب اور انداز نہ اختایر کرو کہ جن کے دلوں میں فسق و فجور کی بیماری ہو، وہ تمہارے بارے میں غلط شبہ کرنے لگیں، صرف ضرورت کے مطابق بات کرو اور ایسا لہجہ اختیار کرو جو ہر شک و شبہ سے دور ہو۔ آیت (33) میں اللہ نے فرمایا : اور اپنے گھروں میں رہا کرو، صرف ضرورت سے ہی نکلا کرو اور جب نکلو تو ایام جاہلیت کی عورتوں کی طرح بن ٹھن کر بے پردہ نہ نکلا کرو۔ مفسرین نے ” تبرج“ کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ عورت مٹکتی ہوئی اور زینت کا اظہار کرتی چلے جس سے مردوں کی جنس خواہش بھڑکے، ایسے باریک اور عریاں لباس پہنے جس سے اس کے جسم کا پردہ نہ ہو، اور کوشش کرے کہ اس کی گردن، ہار اور بالیاں وغیرہ لوگوں کو دکھائی دیں۔ نیز فرمایا کہ تم سب نماز قائم کرو، یعنی تمام شروط، ارکان اور واجبات کا لحاظ رکھتے ہوئے، پورے خشوع و خضوع کے ساتھ، صحیح اوقات میں ساری نمازیں ادا کرو اور اگر اللہ مال دے تو زکاۃ دو اور اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام اوامرونواہی کی پابندی کرو، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ کیا کہ تمہیں جن اچھی باتوں کی نصیحت کی گئی ہے اور جن برائیوں سے روکا گیا ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ تمہیں ایسے گناہ اور گندگی سے دور رکھا جائے جو نبی کے گھرانے کے شایان شان نہیں ہے اور تمہیں ہر اس قول و فعل سے مکمل طور پر پاک کردیا جائے جس سے روح کی بالیدگی متاثر ہوتی ہے۔ یہ آیت اس بارے میں صریح ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات ” اہل بیت“ میں شامل ہیں، صحیح مسلم میں عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن صبح کے وقت کالے بال کی بنی ایک چادر اوڑھے نکلے حسن آئے تو انہیں اس میں داخل کرلیا، پھر حسین آئے تو انہیں اس میں داخل کرلیا، پھر فاطمہ آئیں تو انہیں اس میں داخل کرلیا، پھر علی آئے تو انہیں اس میں داخل کرلیا، پھر آپ نے فرمایا کہ اے اہل بیت ! اللہ تم سے گندگی کو دور کرنا چاہتا ہے اور تمہیں مکمل طور پر پاک کرنا چاہتا ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ چاروں افراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھرانے میں شامل ہیں۔ لیکن یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ ” اہل بیت“ کا اطلاق صرف انہی چاروں پر ہوگا۔ اسی لئے ارجح یہی ہے کہ نبی کریم کی ازواج مطہرات ” اہل بیت“ میں قرآن کی صریح نص کے ذریعہ داخل ہیں اور فاطمہ علی اور حسن و حسین صحیح حدیث کے مطابق حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ آیت اس بارے میں نص صریح ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج ” اہل بیت“ میں داخل ہیں، اس لئے کہ اس آیت کے نزول کا سبب یہی بیان کرتا ہے، اور جو بات آیت کے نزول کا سبب بہوتی ہے وہ آیت کے حکم میں بدرجہ اولیٰ داخل ہوتی ہے۔ آیت (34) میں امہات المومنین کو حکم دیا گیا ہے کہ ان کے گھروں میں قرآن کریم کی جن آیات کی تلاوت اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جن سنتوں کا ذکر ہوتا رہتا ہے جو خیر و برکت کا ذریعہ اور آداب و اخلاق عالیہ کا سرچشمہ ہیں، ان میں غور و فکر کرو اور ان سے نصیحت حاصل کرو، یا مفہوم یہ ہے کہ اس نعمت کو تم سب یاد کرتی رہو کہ اللہ نے تمہیں نبی کے گھر میں جگہ دی ہے، جہاں قرآن و سنت کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔ الأحزاب
33 الأحزاب
34 الأحزاب
35 (28) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھرانے والوں کی اللہ تعالیٰ کی زبانی تعریف سن کر یقیناً عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے دل میں یہ تمنا جاگی ہوگی کہ کاش اللہ تعالیٰ اپنی زبان سے کچھ ہمارے بارے میں بھی بیان کرتا، چنانچہ ترمذی نے ام عمارہ انصاریہ (رض) سے اور احمد و نسائی نے ام سلمہ (رض) سے اس آیت کا شان نزول یہ بیان کیا ہے کہ عورتوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کیا وجہ ہے کہ قرآن کریم میں مردوں کی طرح عورتوں کا ذکر نہیں کیا جاتا ہے، تو آیت نازل ہوئی۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان مردوں اور عورتوں سے دنیا میں گناہوں کی مغفرت اور آخرت میں اجر عظیم یعنی جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور ان صفات کا ذکر کیا ہے جو ان کی زندگی کا لازمہ ہوتی ہیں۔ وہ لوگ (مرد ہوں یا عورتیں) اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوتے ہیں، ایمان کے تمام ارکان پر دل سے یقین رکھتے ہیں اللہ کی عبادت و بندگی پر دوام برتتے ہیں، اپنے قول و عمل میں سچے ہوت یہیں، یعنی ریا کاری سے دور رہتے ہیں، حادثات و مصائب اور اللہ کی بندگی میں جو تکلیف ہوتی ہے اس پر صبر کرتے ہیں، ان کے دل اور ان کے اعضاء جوارح اللہ کے جلال اور اس کی کبریائی کے لئے ہمیشہ جھکے ہوتے ہیں، فقیروں اور محتاجوں پر خرچ کرتے ہیں جن کے پاس روزی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا، فرض اور نفلی روزے رکھتے ہیں جو تقویٰ کا باعث ہوتے ہیں اور ان کے دلوں میں بھوکوں اور پیاسوں کے لئے جذبہ رحمت کو جگاتے ہیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، یعنی نہ ننگے ہوتے ہیں اور نہ ہی زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور اپنے اللہ کو شب و روز اپنے دلوں میں اور اپنی زبانوں سے خوب یاد کرتے ہیں۔ الأحزاب
36 (29) اس آیت کریمہ سے زینب بنت حجش (رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپھی زاد) سے زید بن حارثہ (رض) کی شادی سے متعلق تفصیلات کی ابتدا ہو رہی ہے اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی حیثیت دینے کی قرآن کریم میں ممانعت کردی، جیسا کہ اسی سورت کی آیت (٤) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (وما جعل ادعیائکم ابنا کم) اور آیت (٥) میں فرمایا ہے : (ادعوھم لاباءھم) کہ اللہ نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو حقیقی بیٹوں کی حیثیت نہیں دے دی ہے اور انہیں ان کے باپوں کے نام سے پکارو، تو اس ضمن میں یہ احکامات بھی صادر ہوئے کہ منہ بولا بیٹا وارث نہیں ہوگا اور اس کی مطلقہ بیوی اس کے منہ بولے باپ کیلئے حرام نہیں ہوگی، لیکن عملی طور پر ان احکامات کو قبول کرنا ان لوگوں کے لئے آسان نہیں تھا جو زمانہ جاہلیت سے منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی حیثیت دیتے تھے۔ ضرورت تھی کہ کسی عملی مثال کے ذریعہ جاہلیت کی اس قبیح عادت پر کاری ضرب لگائی جاتی۔ چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زینب بنت حجش کو زید بن حارثہ سے شادی کا پیغام دیا، تو انہوں نے معذرت کردی کہ قریش کی ایک خاندانی عورت ایک آزاد کردہ غلام سے شادی نہیں کرسکتی، تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی، جیسا کہ ابن عباس (رض)، قتادہ اور مجاہد وغیرہ ہم نے اس آیت کا سبب نزول بیان کیا ہے، جب زینب کو اس کی خبر ہوئی تو فوراً شادی کی منظوری دے دی اور شادی ہوگئی لیکن زینب ذہنی طور پر اس شادی سے مطمئن نہیں تھیں، زید نے جب دیکھا کہ اس شادی کا کوئی فائدہ نہیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زینب کو طلاق دے دینے کی اجازت مانگی، لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں روکتے رہے حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بات جانتے تھے کہ زید کے طلاق دے دینے کے بعد، زینب سے خود شادی کرلیں گے، تاکہ زمانہ جاہلیت کی قبیح عادت پر کاری ضرب لگے، لیکن پھر بھی زید کو طلاق دینے سے منع کرتے تھے، جن کا ذکر آیت (٣٧) میں آیا ہے۔ آیت (٣٦) کا مفہوم یہ ہے کہ کسی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کا حکم صادر ہوجائے تو کسی مومن مرد یا عورت کے لئے یہ اختیار باقی نہیں رہتا کہ اس کی مخالفت کرے اور اپنی یا کسی اور کی رائے پر عمل کرے، اس لئے کہ ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول کی سراسر نافرمانی اور کھلم کھلا گمراہی ہوگی۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس آیت میں مذکور حکم تمام امور کو شامل ہے، یعنی کسی بھی معاملے میں جب اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم صادر ہوجائے، تو کسی کے لئے بھی اس کی مخالفت جائز نہیں ہے اور نہ کسی کے قول یا رائے کی کوئی حیثیت باقی رہ جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء آیت (٦٥) میں فرمایا ہے : (فلاوربک لایومنون حتی یحکموک فیما شجربینھم ثم لایجدوافی انفسھم حرجا مما قضیت ویسلموا تسلیما) ” آپ کے رب کی قسم ! وہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپ کو اپنے اختلافی امور میں اپنا فیصل نہ مان لیں، پھر آپ کے فیصلہ کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تکلیف نہ محسوس کریں اور پورے طور سے اسے تسلیم کرلیں۔ “ الأحزاب
37 (30) مذکورہ بالا ضروری تمہید کے بعد اللہ تعالیٰ نے زید بن حارثہ اور زینب بنت حجش کے درمیان طلاق و فراق کا واقعہ بیان کیا اور خبر دی کہ طلاق کے بعد خود اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شادی زینب بنت حجش سے کردی۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ زید بن حارثہ جنہیں اللہ نے اسلام اور اپنے نبی کی صحبت جیسی نعمتوں سے نوازا اور جن پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی احسان کیا کہ انہیں آزاد کردیا ان سے محبت کی اور اپنی پھوپھی زاد سے ان کی شادی کردی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہتے تھے کہ تم اپنی بیوی کو طلاق مت دو اور اس کے بارے میں اللہ سے ڈرو، اس لئے کہ طلاق اس کے لئے عار کا سبب بن جائے گی اور اسے ذہنی تکلیف ہوگی اور تم اپنا بھی خیال کرو، ایسا نہ ہو کہ اس کے بعد تمہیں اچھی بیوی نہ ملے، جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے، زینب ہمیشہ زید کو اپنی خاندانی شرافت کا احساس دلاتی تھیں، اور کڑوی کسیلی سناتی رہتی تھیں، اسی لئے زید نے انہیں طلاق دے دینا چاہا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں صبر و ضبط کی نصیحت کرتے تھے، حالانکہ آپ بذریعہ وحی اس بات سے خوب واقف تھے کہ طلاق ہوگی اور اللہ کے حکم کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زینب سے شادی ہوگی، لیکن لوگوں کے اس طعنہ کے ڈر سے کہ محمد نے اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے شادی کرلی ہے، زید کو طلاق دینے سے روکتے تھے اسی لئے تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ لوگوں کے طعنوں سے ڈرتے ہیں، حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں اور اس کے فیصلے کو جلد نافذ ہونے دیں۔ مزید وضاحت کے لئے اللہ نے فرمایا کہ جب زید نے زینب سے شادی کر کے اپنی ضرورت پوری کرلی، تو ہم نے بغیر ولی وگواہان اور بغیر مہر کے آپ کی شادی اس سے کردی، تاکہ ہمیشہ کے لئے یہ بات واضح ہوجائے کہ منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے ان کے شوہروں کی موت یا طلاق دے دینے کے بعد شادی کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے اور اللہ کے فیصلے کو بہرحال انجام پانا ہی تھا۔ الأحزاب
38 (31) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مزید اطمینان دلانے کے لئے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے اپنے نبی کے لئے جس شادی کو حلال کردیا ہے اور جسے اس نے انسانوں کے لئے آسمانی شریعت بنا دی ہے، اس میں آپ کے لئے نہ کوئی قباحت ہے اور نہ ہی کوئی گناہ کا کام ہے۔ تمام گزشتہ انبیائے کرام کے سلسلے میں بھی اللہ کی یہی سنت جاریہ رہی ہے کہ ان کے لئے ان کے رب کی جانب سے جو چیز مباح بنا دی گئی، اسے کر گذرنے میں شرعی اور اخلاقی طور پر کوئی حرج نہیں تھا، انہوں نے شادیاں کیں، لونڈیاں رکھیں اور مباح و حلال چیزیں کھائیں اور ان کا عمل ان کی امتوں کے لئے نقش راہ بنا۔ الأحزاب
39 (32) ان انبیائے کرام کی صفت یہ تھی کہ انہوں نے اللہ کے احکام اور اوامرونواہی کو اپنی امتوں تک پہنچایا، اور ہر حال میں اپنے رب سے ڈرتے رہے، اس کے سوا کسی سے نہ ڈرے، اور نفاذ شریعت کی راہ میں لوگوں کی باتوں اور ان کے ظالمانہ طعن و تشنیع کی پرواہ نہیں کی اور اس باب میں ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا درجہ سب سے اعلیٰ و ارفع ہے، آیت کے آخر میں فرمایا گیا کہ اللہ اپنے بندوں کے اعمال کو خوب اچھی طرح ریکارڈ میں لا رہا ہے، ان پر ان کا محاسبہ کرے گا اور ان کا انہیں بدلہ دے گا۔ الأحزاب
40 (33) منافقین اور بعض دیگر کمزور ایمان والے لوگ زینب سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شادی سے متعلق چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ محمد نے اپنے بیٹے زید کی مطلقہ سے شادی کرلی ہے اسی قول قبیح کی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تردیج کی ہے کہ یہ بات قابل التفات اس وقت ہوتی جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زید کے حقیقی باپ ہوتے، لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام میں سے کسی کے بھی باپ نہیں ہیں، تو زید کے بھی باپ نہیں ہیں اور پیار میں کسی کو بیٹا کہہ دینے سے وہ بیٹا نہیں ہوجاتا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو اللہ کے رسول ہیں، دنیا والوں کو اس کا پیغام پہنچاتے ہیں اور نبوت کا سلسلہ آپ پر ختم ہوگیا ہے، اس لئے کہ آپ کالا یا ہوا دین قیامت تک تمام انسانوں کے لئے کافی اور وافی ہے اور قرآن کریم نے انسانی زندگی سے متعلق تمام احکام و آداب بدرجہ اتم بیان کردیا ہے۔ الأحزاب
41 (34) اللہ تعالیٰ نے صادق الایمان مومنوں کو حکم دیا کہ وہ ہر وقت اور ہر حال میں اسے یاد کرتے رہیں، اس کی پاکی، اس کی حمد و ثنا اور اس کی بڑائی بیان کریں۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر جو بھی عمل واجب کیا تو اس کی ایک حد مقرر کردی اور عذر شرعی کی حالت میں اپنے بندے کو معذور جانا، سوائے ذکر الٰہی کے، اس کی کوئی حد مقرر نہیں کی اور اسے چھوڑ دینے والے کو معذور نہیں جانا، الایہ کہ کسی کی عقل ماری جائے، تو اللہ نے اسے اپنے ذکر سے معذور قرار دیا ہے۔ آیت (42) کی تفسیر کے ضمن میں مفسرین لکھتے ہیں کہ ’ دتسبیح“ ذکر میں داخل ہے، لیکن چونکہ ذکر الٰہی کے لئے اسے خصوصی حیثیت حاصل ہے اسی لئے اسے بطور خاص ذکر کیا گیا اور چونکہ صبح و شام تسبیح بیان کرنے کا خاص ثواب ہے اس لئے اس کی صراحت کردی گئی ہے۔ بعض مفسرین نے (کرھواصیلاً) سے فجر اور مغرب کی نماز، اور بعض نے فجر اور عصر کی نماز اور بعض نے تمام نمازیں مراد لی ہیں، اور لکھا ہے کہ یہ آیت نماز پنجگانہ کی اہمیت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ الأحزاب
42 الأحزاب
43 (35) اس آیت کریمہ میں ذکر الٰہی پر مداومت کی بہت زیادہ ترغیب دلائی گئی ہے کہ اللہ تمہیں یاد کرتا ہے، اس لئے تم لوگ بھی اسے یاد کرتے رہو اور یہاں ” اللہ کی صلاۃ“ سے مراد اس کی رحمت و مہربانی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ مومنوں پر رحم کرتے ہوئے انہیں ہر بھلائی کی طرف بلاتا ہے اور اپنے آپ کو خوب یاد کرنے کی نصیحت کرتا ہے اور نمازوں اور دیگر نیکیوں پر مداومت کی دعوت دیتا ہے اور ” فرشتوں کی صلاۃ“ سے مراد یہ ہے کہ وہ مومنوں کے لئے اللہ کے حضور دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں، تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں کرکفر و معاصی اور شبہات و الخقا سیسۂ کی ظلمتوں سے نکال کر ایمان و اتباع سنت اور اخلاق حسنہ کے نور سے بہرہ ور کرے اس لئے کہ وہ مومنوں پر بڑا ہی مہربان ہے۔ الأحزاب
44 (36) اہل ایمان جب جنت میں داخل ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰیا اس کے فرشتے انہیں ہمیشہ کے لئے امن و سلامتی کی خوشخبری دیں گے، یا مفہوم یہ ہے کہ خود اہل جنت ایک دوسرے کو امن و سلامتی کی مبارکباد دیں گے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے خوشخبری دی ہے کہ اس نے اپنے مومن بندوں کے لئے جنت جیسی عظیم نعمت تیار کر رکھی ہے، جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل نے اس کا تصور کیا ہے۔ الأحزاب
45 (37) اس آیت کریمہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ صفات بیان کی گئیں جو آپ کی پیغام رسانی کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شاہد بنا کر مبعوث کیا تھا، جو لوگ آپ کی تصدیق کریں گے اور آپ پر ایمان لائیں گے، قیامت کے دن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے لئے خیر کی گواہی دیں گے اور جو لوگ آپ کی تکذیب کریں گے اور آپ پر ایمان نہیں لائیں گے، ان کے خلاف آپ کفر و معصیت کی گواہی دیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنوں کو اللہ کی رحمت اور اجر عظیم کی بشارت دینے والے اور کافروں اور گناہگاروں کو جہنم کے عذاب سے ڈرانے والے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی وحی کے مطابق لوگوں کو اس کے دین اس کی بندگی اور اس کی وحدانیت کے اقرار کی دعوت دینے والے ہیں، آپ سیدھی را ہیک طرف لوگوں کی رہنمائی کے لئے اللہ کا روشن چراغ ہیں۔ الأحزاب
46 الأحزاب
47 (38) اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ جو لوگ ان پر ایمان لے آئیں اور عمل صالح کریں، انہیں اللہ کی جانب سے گناہوں کی مغفرت اور جنت کی بشارت دے دیں اور کافروں اور منافقوں کی باتوں میں آ کر دین کی تبلیغ میں سستی نہ کریں اور حق کی آواز بلند کرنے اور لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈرانے میں کوتاہی نہ کریں اور انکے فعل بد کی وجہ سے انہیں نقصان نہ پہنچائیں، بلکہ عفو و در گزر سے کام لیں اور اپنے تمام امور میں اللہ پر بھروسہ کریں، اس لئے کہ وہ بحیثیت وکیل و کار ساز ان کے لئے کافی ہے۔ الأحزاب
48 الأحزاب
49 (39) زید بن حارثہ اور زینب بنت حجش کے نکاح و طلطاق کا واقعہ اور اس کے ضمن میں متعدد احکام بیان کرنے کے بعد مناسب رہا کہ مسلمانوں کے لئے ایسی عورت کی عدت کا حکم بیان کردیا جائے جسے نکاح کے بعد اور مباشرت سے پہلے طلاق دے دی جائے۔ ایسی عورت پر عدت گذارنا واجب نہیں ہے، اس لئے کہ عورت عدت اس لئے گذارتی ہے اور اگر سا کا مہر مقرر کردیا گیا تھا تو اسے نصف مہر ملے گا اور کچھ مال بطور دلجوئی دے دینا مستحب ہے اور اگر اس کا مہر مقرر نہیں تھا تو شہر کی مالی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے کچھ مال دے دیا جائے گا اور بغیر اذیت پہنچائے اسے اس کے گھر والوں کے پاس جانے دیا جائے گا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ سے بہت سے احکام ماخوذ ہیں : ۔1 کبھی کلمہ نکاح بول کر صرف عقد مراد لیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اس معنی پر دلالت کرنے والی اس آیت سے زیادہ صریح کوئی آیت نہیں ہے۔ ۔2 مباشرت سے پہلے بیوی کو طلاق دینی جائز ہے۔ ۔3 ابن عباس، ابن المسیب، حسن بصری اور زین العابدین وغیرہم نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نکاح سے پہلے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ نکاح سے قبل طلاق نہیں ہے۔ ۔4 علماء کا اتفاق ہے کہ جس عورت کو مباشرت سے پہلے طلاق دے دی جائے اس پر کوئی عدت نہیں ہے۔ وہ طلاق کے بعد فوراً شادی کرسکتی ہے۔ البتہ مباشرت سے پہلے شوہر کا انتقال ہوجائے تو عوتر چار ماہ دس دن عدت گذارے گی۔ ۔5 آیت میں ” قصتموھن“ سے مراد یہ ہے کہ اگر ایسی عورت کا مہر مقرر ہوگا تو اسے نصف مہر ملے گا اور اگر اس کا کوئی مہر مقرر نہیں ہوگا تو اسے کچھ مال دے دیا جائے گا۔ الأحزاب
50 ۔40 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کے وہ اقسام بیان کئے ہیں جو اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے حلال کئے تھے، ان میں سب سے پہلے وہ امہات المومنین تھیں جن سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر متعین کر کے شادی کی تھی، چاہے مہر مقدم ہو یا مؤجل ان کے بعد وہ بیویاں جو مال غنیمت کے طور پر آپ کے حصے میں آئی تھیں، جیسے صفیہ اور جویریہ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں آزاد کر کے ان سے شادی کرلی تھی اور ریحانہ اور ماریہ قبطیہ ام ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے وہ عورتیں بھی حلال تھیں جو خریدی گئی ہوں، یا جن عورتوں نے اپنے آپ کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہبہ کردیا ہوجیسے میمونہ بنت الحارث، زینب بنت خزیمہ ام المساکین ام شریک بنت جابر اور خولہ بنت حکیم، آیت میں (مال غنیمت کے طور پر حاصل شدہ عورت) کی قید محض افضیلت بیان کرنے کے لئے ہے، یعنی ایسی عوتریں آپ کے لئے ان عورتوں سے افضل ہیں جو خریدی گئی ہوں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ان چچا زاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد اور خالہ زاد عورتوں سے شادی جائز تھی، جو ہجرت کر کے مدینہ آگئی تھیں۔ (خالصۃ لک من دون المومنین) میں اس بات کی صراحت کردی گئی ہے کہ بنی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ کسی کے لئے جائز نہیں کہ کسی ایسی عورت سے بغیر ولی اور مہر کے شادی کرلے جس نے اپنے آپ کو سا کے لئے ہبہ کردیا ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے مومنوں پر نکاح سے متعلق جو شروط عائد کئے ہیں ان کی پابندی لازم ہے اور جو باتیں اس بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص ہیں، وہ عام مسلمانوں کے لئے مثال نہیں بن سکتی ہیں، اس لئے ان کے لئے بیک وقت چار سے زیادہ عورتوں سے شادی جائز نہیں ہے اور نہ یہ جائز ہے کہ کوئی بغیر مہر، گواہان اور ولی کے کسی عورت سے شادی کرلے اور لونڈیوں سے متعلق شرط یہ ہے کہ وہ غزوہ کے بعد گرفتار کرلی گئی ہوں، کوئی ایسی عورت نہ ہو جسے گرفتار کرنا جائز نہ رہا ہو یا جس کی قوم کا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ رہا ہو۔ آیت کے آخر میں آپ سے کہا گیا ہے کہ نکاح کی مذکورہ بالا قسمیں آپ کے لئے اس لئے حلال کی گئی ہیں تاکہ آپ کوئی تنگی نہ محسوس کریں۔ الأحزاب
51 (41) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیویوں کے رکھنے، چھوڑنے اور ان کے درمیان باری کی تقسیم کے سلسلے میں پورا اختیار دے دیا تھا اور یہ سب کچھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اللہ کی انتہائے محبت کی دلیل تھی آپ کو اجازت دے دی گئی تھی کہ اپنی بیویوں میں سے جس سے چاہیں بغیر طلاق کے علیحدگی اختیار کرلیں اور جس کے پاس چاہیں رات گذاریں اور مباشرت کریں۔ شو کانی لکھتے ہیں کہ اس آیت کے نزول سے پہلے تمام بیویوں کے درمیان باری تقسیم کرنی واجب تھی، اس کے بعد آپ کے لئے وجوب منسوخ ہوگیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار حاصل ہوگیا کہ جس کے پاس چاہیں جائیں اور جسے چاہیں بغیر طلاق کے چھوڑ رکھیں چنانچہ عائشہ، حفصہ، ام سلمہ اور زینب کے درمیان باری تقسیم کردی اور سودہ، جویریہ، ام حبیبہ، میمونہ اور صفیہ کے پاس اگر کبھی چاہتے تو ان کے درمیان باری گا کر جاتے۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس آیت میں صرف ان عورتوں کا حکم بیان کیا گیا ہے جنہوں نے اپنے آپ کو بنی کریم کے لئے بغیر مہ رکے ہبہ کردیا تھا ان میں سے بعض کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چن لیا اور بعض کو چھوڑ دیا، پھر ان عورتوں نے دوسروں سے شادی نہیں کی اس قول کی تائید عائشہ (رض) کی اس حدیث سے ہوتی ہے جسے احمد اور بخاری نے روایت کی ہے کہ وہ ایسی عورتوں کو عار دلاتی تھیں، یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی تو عائشہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا : میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ کا رب آپ کی خواہش کی تکمیل میں جلدی کرتا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اس آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار دیا گیا ہے کہ آپ اپنی بیویوں میں سے جسے چاہیں طلاق دے دیں اور جسے چاہیں رکھیں۔ ان احکامات کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب آپ کی بیویوں کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ اختیارات آپ کو اللہ نے دیئے ہیں تو سب مطمئن ہوجائیں گیں اور جنہیں آپ نے چھوڑ رکھا ہے وہ غمگین نہیں ہوں گی اور آپ کی مرضی اور خواہش پر راضی ہوجائیں گی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ وہ تمہارے دلوں کی پوشیدہ باتوں کو بھی جانتا ہے تم اپنی بعض بیویوں کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہو اور بعض کی طرف کم، اسے یہ معلوم ہے اور اس نے بطور اعزاز و اکرام اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ اختیار دے دیا ہے جس کی تفصیل اوپر گذر چکی ہے۔ الأحزاب
52 (42) اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علماء کے کئی اقوال ہیں : ابن عباس، مجاہد اور ضحاک وغیرہم کا خیال ہے کہ یہ آیت محکم ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نو بیویوں کے علاوہ عورتوں سے شادی کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس آیت کا حکم آیت (51) کے ذریعہ منسوخ ہوگیا اور آپ کے لئے دوسری عورتوں سے شادی کرنا مباح ہوگیا، لیکن آپ نے امہات المومنین کا دل رکھنے کے لئے کسی اور سے شادی نہیں کی۔ شوکانی نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ ابی بن کعب اور عکرمہ وغیرہ کی رائے ہے کہ آیت (50) میں جن عورتوں کا ذکر آیا ہے، اس آیت کے نزول کے بعد ان کے علاوہ عورتیں آپ کے لئے حلال نہیں رہیں۔ صاحب محاسن التنزیل نے اسی رائے کی حمایت کی ہے اور اس کی تائید میں ابی بن کعب کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت (٥٠) میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے متعدد اقسام کی عورتوں سے شادی کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس آیت کا حکم آیت (51) کے ذریعہ منسوخ ہوگیا اور آپ کے لئے دوسری عورتوں سے شادی کرنا مباح ہوگیا، لیکن آپ نے امہات المومنین کا دل رکھنے کے لئے کسی اور سے شادی نہیں کی۔ شوکانی نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ ابی بن کعب اور عکرمہ وغیرہ کی رائے ہے کہ آیت (50) میں جن عورتوں کا ذکر آیا ہے، اس آیت کے نزول کے عبد ان کے علاوہ عورتیں آپ کے لئے حلال نہیں رہیں۔ صاحب محاسن التنزیل نے اسی رائے کی حمایت کی ہے اور اس کی تائید میں ابی بن کعب کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت (50) میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے متعدد اقسام کی عورتوں سے شادی کرنا حلال قرار دیا، پھر اس آیت میں کہا کہ مذکورہ بالا اقسام کی عورتوں کے علاوہ سے شادی کرنا آپ کے لئے جائز نہیں رہا۔ ترمذی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ اس آیت کے ذریعہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مومنہ مہاجرہ عورتوں کے علاوہ دوسری عورتوں سے شادی کرنے سے روک دیا گیا۔ چنانچہ مسلمان عورتوں کے علاوہ دوسری عورتیں آپ کے لئے حرام کردی گئیں۔ الأحزاب
53 (43) اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں امہات المومنین کا بہت ہی بلند مقام ہے، اسی لئے ابن عباس (رض) کے قول کے مطابق جب اللہ کی ان نیک بندیوں نے اس کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دنیا پر ترجیح دی تو اللہ نے ان کے لئے جزائے خیر کے طور پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ان کے علاوہ عورتوں سے شادی کو ممنوع قرار دے دیا اور اس آیت کریمہ میں عام مومنوں کو ان امہات المومنین کا احترام و ادب سکھایا اور ایسی باتوں سے منع فرمایا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امہات المومنین کے لئے ذہنی اذیت کا باعث ہو۔ یہ آیت ” آیت حجاب“ سے مشہور ہے اور انس (رض) سے مروی بخاری و مسلم کی روایت کے مطابق اس کا شان نزول یہ ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زینب بنت حجش سے شادی کے موقع سے دعوت ولیمہ کی، تو کچھ لوگوں نے کھانا کھانے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر سے واپس جانے میں کافی دیر کردی، جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ذہنی تکلیف ہوئی اور ان کے چلے جانے کے بعد آپ نے اپنے اور لوگوں کے درمیان پردہ ڈال دیا اور اندر چلے گئے، اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی جس میں صحابہ کرام کو آپ کے گھروں میں بغیر اجازت داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ (الا ان یوذن لکم الی طعام) سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بغیر دعوت کسی کے دستر خوان پر کھانا کھانے کے لئے نہیں پہنچ جانا چاہئے۔ حافظ ابن کثیر نے اسے حرام بتایا ہے صاحب محاسن التنزیل (غیر ناظرین اناہ) کا مفہوم یہ بتاتے ہیں کہ دعوت ہونے کے باوجود وقت سے پہلے نہیں پہنچ جانا چاہئے، اس لئے کہ اس سے دعوت دینے والے کو تکلیف ہوتی ہے، اور مہمان کے ساتھ بیٹھ کر غیر ضروری باتوں میں اس کا وقت ضائع ہوتا ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ دعوت کا جو وقت تمہیں بتایا جائے اسی وقت میزبان کے گھر میں داخل ہو۔ (فاذا طعمتم فانشروا) میں صحابہ کرام کو ادب سکھایا گیا ہے کہ کھانا کھانے کے بعد آپس میں باتیں کرنے کے لئے یا گھر والوں کی باتیں سننے کے لئے بیٹھے نہیں رہنا چاہئے، اس لئے کہ اس سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے گھر والوں کو تکلیف ہوتی ہے، اور آپ اپنے کمال اخلاق کی وجہ سے اپنی زبان سے نہیں کہہ پاتے ہیں، لیکن اللہ حق بات بیان کرنے سے نہیں شرماتا ہے۔ (واذا سالتمومھن متاعا) میں صحابہ کرام کو یہ ادب سکھایا گیا ہے کہ امہات المومنین سے اگر کوئی چیز مانگنی ہو، تو بے دھڑک ان کے سامنے نہ چلے جائیں، ان کے ساتھ ادب و احترام کا تقاضا یہ ہے کہ دروازے کے اوٹ سے اور پردہ کے پیچھے سے کوئی چیز ماگنی جائے، تاکہ ان کی بے پردگی نہ ہوجائے اور اس کا فائدہ یہ بتایا کہ اس سے تمہارے اور امہات المومنین کے دلوں کی پاکی محفوظ رہے گی اور شیطان کو ذہن میں برے خیالات پیدا کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ ابو داؤ دن یانس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے، عمر (رض) نے کہا کہ چار باتوں میں میری رائے میرے رب کی رائے کے موافق ہوئی ہے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ! بہتر ہو تاکہ آپ اپنی بیویوں کے لئے پردہ ضروری کردیتے، کیونکہ نیک و بدسبھی ان کے پاس چلے جاتے ہیں، تو اللہ نے (واذا سالتموھن) الآیۃ نازل فرمائی۔ ابن سعد نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ 5 ھ کا واقعہ ہے۔ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی (غالباً منافق تھا) نے کہا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد ان کی بعض بیویوں سے شادی کرلے گا، تو (وما کان لکم ان توذوا رسول اللہ) آلایۃ نازل ہوئی، اور اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد امہات المومنین سے شادی کو تمام مسلمانوں کے لئے حرام کردیا۔ آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ کسی کا ایسا سوچنا اور کرنا اس کے نزدیک ناقابل معافی جرم ہے، اس لئے کہ اس سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا احترام و ادب یکسر پامال ہوجائے گا۔ مفسر ابوالسعود لکھتے ہیں کہ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ کے نزدیک نبی کریم کا کتنا بڑا مقام تھا۔ اسی لئے آیت (54) میں بطور دھمکی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم چاہے کسی بات کو ظاہر کرو (جیسا کہ بعض منافقوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعض بیویوں سے شادی کی بات کی) یا اپنے دلوں میں چھپائے رکھو اسے سب کچھ کا پتہ ہے اور وہ ان تمام ظاہر و مخفی گناہوں کا بدلہ تمہیں ضرور دے گا۔ الأحزاب
54 الأحزاب
55 (44) یہاں ان رشتہ داروں کا ذکر ہے جن سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں اور دیگر مسلمان عورتوں کے لئے پردہ ضروری نہیں ہے اور جن سے بغیر پردہ کئے بات کرنا جائز ہے، باپ سے مراد باپ، دادا اور پردادا، بیٹوں سے مراد بیٹے اور ان کے بیٹے اور بیٹیوں کے بیٹے، اور بھائیوں کے بیٹوں اور بہنوں سے مراد پوتے بھی ہیں اور ” عورتوں“ سے مراد ایک رائے کے مطابق صرف مسلمان عورتیں ہیں اور دوسری رائے یہ ہے کہ (ولانساءھن) میں اضافت سے صرف جنس عورت کی طرف اشارہ ہے، اس لئے مسلمان اور اہل کتاب عورتوں سے مسلمان عورتوں کا پردہ نہیں ہے۔ (ولا ماملکت ایمانھن) سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ عورت کا غلام اس کا محرم ہے اور بعض کا خیال ہے کہ عورت کا غلام اس کے لئے اجنبی کی حیثیت رکھتا ہے اور یہاں صرف لونڈیاں مراد ہیں۔ علماء نے لکھا ہے کہ اس آیت کریمہ میں چچا اور ماموں کا ذکر اس لئے نہیں آیا ہے کہ وہ دونوں باپ کے برابر ہیں مذکورہ بالا احکام بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے امہات المومنین کو نصیحت کی کہ وہ ہر حال میں اللہ سے ڈرتی رہیں، ان کے لئے جو حدیں مقرر کی گئی ہیں ان سے تجاوز نہ کریں، غیروں کے سامنے اپنی زینت کا اظہار نہ کریں اور پردہ کرنا نہ چھوڑ دیں کہ غیر محرم مردوں کی نگاہیں ان پر پڑیں اور اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اور دیگر تمام انسانوں کے اعمال و حرکات کو دیکھ رہا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن وہ ان کے خلاف شاہد بن جائیں اور ہلاکت و بربادی ان کا انجام بن جائے۔ الأحزاب
56 (45) اس آیت کریمہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آسمان و زمین دونوں جگہ لائق صد احترام ہیں، آسمان میں اللہ تعالیٰ اور فرشتے ان پر درود بھیجتے ہیں اور زمین میں تمام اہل ایمان سے مطلوب ہے کہ ان پر درود و سلام بھیجتے رہیں۔ بخاری نے ابوالعالیہ سے روایت کی ہے کہ ” اللہ کے درود“ سے مراد، فرشتوں کی محفل میں آپ کا ذکر خیر ہے اور ” فرشتوں کے درود“ سے مراد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے برکت کی دعا ہے۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ” جلاء الافھام“ میں ” صلاۃ“ یعنی درود کا معنی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ بخاری نے کعب بن عجرہ (رض) سے اور احمد، ابوداؤد نسائی، ابن خزیمہ، ابن حبان اور حاکم نے ابو مسعود بدری (رض) سے روایت کی ہے، صحابہ کرام نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ ہم آپ کو سلام کرنا تو جانتے ہیں، درود کیسے بھیجیں، تو آپ نے کہا : کہو :” اللھم صل علی محمد و علی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی ابراہیم انک حمید مجید، اللھم بارک علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم و علی آل ابراہیم انک حمید مجید“ اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ نماز کے آخری تشہد میں درود پڑھنا واجب ہے، جو اسے جان بوجھ کر چھوڑ دے گا اس کی نماز صحیح نہیں ہوگی۔ امام احمد اور ابن راہویہ کی بھی یہی رائے ہے، لیکن جمہور کی رائے ہے کہ واجب نہیں بلکہ سنت مؤکدہ ہے اور اگر کوئی اسے چھوڑ دے گا تو اس کی نماز ہوجائے گی۔ قرطبی نے علمائے اسلام کا اس پر اتفاق نقل کیا ہے کہ ہر مسلمان پر عمر بھر میں ایک باردرود بھیجنا واجب ہے، باقی حالتوں میں مستحب ہے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر جب بھی آئے آپ پر درود بھیجنا واجب ہے تفصیل کے لئے دیکھیے۔ حافظ ابن القسیم کی ” جلاء الافہام“ اور حافظ ابن کثیر کی ” تفسیر القرآن العظیم“ الأحزاب
57 (46) مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ کو ایذا دینے سے مراد یہ ہے کہ کسی کو اس کا بیٹا یا شریک بتایا جائے، یا کسی بھی حیثیت سے اسے عاجز سمجھا جائے، یا حیوانات کا مجسمہ بنا کر صفت خلق میں اس کی مشابہت اختیار کی جائے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی گالی دے، آپ کی عیب جوئی کرے، آپ پر اور آپ کے گھرانے پر طنز و تعریض کرے۔ طبری نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہوں نے صفیہ (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شادی کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر طعن و تشنیع کیا تھا صاحب محاسن التنزیل لکھتے ہیں کہ اس آیت کا زینب بنت حجش کی شدای کے واقعے سے زیادہ تعلق ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ان سے شادی کی تو منافقین نے خوب باتیں بنائی تھیں کہ محمد نے اپنے بیٹے زید کی مطلقہ سے شادی کرلی ہے۔ الأحزاب
58 (47) مومن مردوں اور عورتوں کو بھی بغیر سبب شرعی ایذا پہنچانا حرام ہے اور اس میں ہر وہ بات اور کام داخل ہے جس سے مومنوں کو تکلیف پہنچے اگر کوئی کسی گناہ کا ارتکاب کرے جس کی وجہ سے اس پر حد جاری کی جائے یا تعزیری طور پر اسے سزا دی جائے تو یہ ایذائے مسلم میں داخل نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کو ایذا پہنچانے میں پہل کرے مثلاً گالی دے یا مارے اور بطور انتقام دوسرا شخص اسے گالی دے یا مارے تو یہ بھی ایذائے مسلم میں دخل نہیں ہے ابن ابی حاتم نے عائشہ (رض) سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی کسی مسلمان کی عزت کو حلال بنا لے فضیل بن عیاض کہتے ہیں کہ جب کتایا خنزیر کو ناحق تکلیف پہنچانا حرام ہے تو کسی مسلمان کو ایذا پہنچانا کیسے حلال ہوسکتا ہے؟! الأحزاب
59 (48) عہد نبوی میں مسلمان عورتیں رات کو قضائے حاجت کے لئے نکلتیں تو بعض منافقین انہیں لونڈیاں سمجھ کر یا اس بہانے سے ان پر آوازیں کستے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی اور انہیں حکم دیا کہ جب وہ نکلا کریں تو لمبی چادر سے اپنے آپ کو اوپر سے نیچے تک ڈھانک لیں تاکہ ایذا پہنچانے والے اور شرارت پسند نوجوان جان جائیں کہ یہ شریف گھرانوں کی آزاد عورتیں ہیں، لونڈیاں نہیں تو پھر اپنی شرارتوں سے باز رہیں گے۔ طبری نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے، اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ قضائے حاجت کے لئے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے سروں کے اوپر سے چادر ڈال کر چہرے چھپا لیا کریں اور ایک آنکھ کھلی رکھیں ابن ابی حاتم نے ام سلمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انصار کی عورتیں بہت ہی باوقار طور پر کالی چادریں اوڑھ کر نکلنے لگیں۔ الأحزاب
60 (49) منافقین کی ایذا رسانیوں اور ان کی ریشہ دوانیوں سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمان پر یشان تھے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں دھمکی دی کہ اگر وہ اپنی خبیث حرکتوں سے باز نہ آئے تو وہ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو ان کے خلاف برانگیختہ کر دے گا اور انہیں ان پر مسلط کر دے گا، جس کے نتیجہ میں وہ لوگ مدینہ سے نکال دیئے جائیں گے۔ قرطبی لکھتے ہیں کہ آیت میں مذکور تینوں صفات منافقین کی ہیں وہ لوگ اہل نفاق دل کے مریض اور مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیلانے والے تھے۔ آیت ١٦ میں بتایا گیا کہ وہ لوگ اللہ کی رحمت سے دور کردیئے گئے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کی نگاہوں میں مبغوض بنا دیئے گئے ہیں اللہ کی ان پر مار ہو۔ آیت ٢٦ میں کہا گیا ہے کہ افترا پرداز اور ایذارسان منافقوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ایسا ہی برتاؤ کیا ہے۔ الأحزاب
61 الأحزاب
62 الأحزاب
63 50 مشرکین مکہ بطور استہزاء اور یہود مدینہ بطور امتحان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ پوچھتے تھے کہ قیامت کب آئے گی، تو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی ان کا جواب دیا کہ اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے اس کی خبر اس نے نہ کسی نبی کو دی ہے، نہ ہی کسی فرشتے کو، اور ان سے بطور دھمکی کہا، تمہیں کیا معلوم کہ اس کا وقت قریب آگیا ہو اور تم اپنے انجام کو پہنچنے ہی والے ہو۔ الأحزاب
64 51 آیات (66,65,64) میں ان کافروں کا انجام بتایا گیا ہے جو قیامت اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تکذیب کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمت سے دور کردیا ہے اور ان کے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے جس میں داخل ہونے کے بعد اس سے کبھی نہیں نکلیں گے اور نہ وہاں اپنا کوئی یارومددگار پائیں گے جو اس مشکل ترین گھڑی میں ان کے کام آئے گا اور جب ان کے چہرے جہنم کی آگ میں الٹے پلٹے جائیں گے، جیسے گوشت کو آگ پر بھوننے کے لئے الٹا پلٹا جاتا ہے، اس وقت بلک بلک کر روئیں اور مارے حسرت ویاس کے کہیں گے کہ اے کاش ! ہم نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کی بات مانی ہوتی تو آج ہمارا یہ حال نہ ہوتا۔ الأحزاب
65 الأحزاب
66 الأحزاب
67 52 نیز کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! کفر و شرک میں جو ہمارے سردار تھے، ہم نے ان کی باتوں میں آ کر ان کی تقلید اور پیروی کی تو انہوں نے ہمیں گمراہ کردیا اس لئے تو انہیں آج دوگنا عذاب دے اور ان پر بہت بڑی لعنت بھیج دے اور شدید ترین اور رسوا کن عذاب میں مبتلا کر دے۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ رد تقلید کی بہت بڑی دلیل ہے اور ان کے لئے تازیانہ عبرت ہے جو قرآن و سنت سے دور، لوگوں کی تقلید کرتے ہیں اور گمراہی کو راہ راست سمجھتے ہیں۔ الأحزاب
68 الأحزاب
69 53 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کی طرح نہ ہوجائیں جنہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی عیب جوئی کر کے انہیں تکلیف پہنچائی تھی، تو اللہ تعالیٰ نے ظاہر کردیا کہ وہ لوگ ان میں جو عیب لگا رہے تھے اس سے وہ بالکل پاک تھے، یعنی اے مسلمانو ! تم بھی اپنے رسول کو ایذا نہ پہنچاؤ، جیسا کہ بعض منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں نے زید بن حارثہ اور زینب بنت حجش کی شادی، طلاق اور پھر زینب کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شادی کے واقعے کا ذکر کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر طعن و تشنیع کیا تھا۔ بنی اسرائیل کی جانب سے موسیٰ (علیہ السلام) کی ایذا رسانی کا واقعہ امام بخاری نے ابوہریرہ (رض) سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) بہت ہی شرمیلے انسان تھے، اپنے جسم کا بہت ہی سخت پردہ کرتے تھے، بنی اسرائیل کے لوگ سمجھتے تھے کہ موسیٰ کے جسم میں ضرور کوئی عیب ہے جس کی وجہ سے اپنے جسم کا اتنا سخت پردہ کرتے ہیں ایک دن نہانے کے لئے گئے، تو اپنا کپڑا ایک پتھر پر رکھ دیا۔ وہ پتھر اللہ کے حکم سے ان کا کپڑا لے کر بھاگتا گیا اور موسیٰ (علیہ السلام) اس کے پیچھے دوڑتے گئے، یہاں تک کہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت کے پاس پہنچ گئے لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو نہ برص کی بیماری تھی نہ ہی کوئی دوسرا جسمانی عیب۔ مفسرین لکھت ہیں کہ اس آیت میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ بنی اسرائیل کے لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو گونا گوں تکلیفیں پہنچائیں، ان کی عیب جوئی کی، ان کے ساتھ بے ادبی کی اور ان پر جھوٹے اتہامات لگائے تو رات کا مطالعہ کرنے سے ان باتوں کی تفصیلات ملتی ہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے تبلیغ و دعوت کی راہ میں ان تمام تکلیفوں کو برداشت کیا اسی آیت سے مشابہ سورۃ الصف کی آیت (٥) ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (واذقال موسیٰ لقومہ یقوم لم توذوننی وقد تعلمون انی رسول اللہ الیکم فلمازاغوا ازاغ اللہ قلوبھم واللہ لایھدی القوم الفاسقین) ” جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا، میری قوم کے لوگو ! تم مجھے کیوں ستا رہے ہو، حالانکہ تمہیں بخوبی معلوم ہے کہ میں تمہاری جانب اللہ کا رسول ہوں، پس جب وہ لوگ ٹیڑھے ہی رہے تو اللہ نے ان کے دلوں کو اور ٹیڑھا کردیا اور اللہ نافرمان قوم کو ہدایت نہیں دیتا ہے“ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں نے طرح طرح سے اذیتیں پہنچائیں۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر (خاکم بدہن) بدکاری کا اتہام دھرا، ایک بار مال غنیمت تقسیم کرتے وقت ایک انصاری نے کہہ دیا کہ یہ وہ تقسیم ہے جس سے اللہ کی خوشنودی مقصود نہیں ہے اور زید و زینب کا واقعہ اوپر گذر چکا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی دعوت و تبلیغ کی راہ میں ساری تکلیفیں گوارہ کیں تو اللہ نے آپ کا مقام اونچا کیا اور آپ کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کیا۔ فائدہ : ابن جریر طبری نے (وکان عنداللہ وجیھا) کی تفسیم کے ضمن میں لکھا ہے کہ موسیٰ اپنے رب سے جو کچھ مانگتے، ان کی سفارش قبول کی جاتی تھی، ان کا ان کے رب کے نزدیک طاعت و بندگی کی وجہ سے بڑا مقام تھا اور بڑے صاحب جاہ تھے، یعنی وہ اللہ سے اپنی قوم کے لئے جو کچھ ماگنتے اللہ اپن افضل اور اپنا عنایت کرتے ہوئے ان کی مانگ کو پوری کرتا تھا۔ صاحب محاسن التنزیل لکھتے ہیں کہ عامتہ الناس اور بہت سے علم کے جھوٹے دعویداروں نے، انبیائے کرام کا اپنے رب کے نزدیک صاحب جاہ ہونے کو بہانہ بنا کر ان سے قضائے حاجت کی دعا کو جائز قرار دیا ہے۔ اعتقاد رکھتے ہیں کہ نبی یا ولی کی خواہش کے مطابق اللہ کے ارادے اور اس کی مشیت میں تبدیلی آجاتی ہے اور اللہ کے نزدیک ان کا وسیلہ اختیار کرنا ایسا ہی ہے جیسے حکام دنیا کے پاس بڑے لوگوں سے سفارش کرائی جاتی ہے۔ یہ اعتقاد، عقیدہ توحید کے سراسر منافی ہے، کیونکہ اللہ کے سوا کوئی نفع یا نقصان پہنچانے والا نہیں ہے، اس لئے اس کے سوا کسی کو کسی بھی حیثیت میں پکارنا صحیح نہیں ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اللہ کے نزدیک تمام انبیاء سے اونچا مقام ہے، لیکن وہ انسانوں کے لئے نفع، نقصان اور رشد و ہدایت کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور صرف عمل صالح کا ہی وسیلہ جائز اور صحیح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (اللہ الصمد) ” صمد“ حاجت روا کو کہتے ہیں، جس کے پاس بندے مدد طلب کرنے کے لئے جاتے ہیں اور آیت میں خبر کا معرف بالام ہونا، حصر کا فائدہ دیتا ہے، یعنی صرف اللہ کی ذات حاجت روا ہے، اس کے سوا سب اس کے بندے اور غلام ہیں اس مضمون کی صراحت اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت 186 میں کردی ہے، فرمایا : (واذا سالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان) ” اگر میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو کہہ دیجیے کہ میں قریب ہوں پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ “ الأحزاب
70 54 زید بن حارثہ اور زینب بنت حجش کے واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دو باتوں کی نصیحت کی ہے، پہلی بات یہ کہ وہ اس کے عذاب و عقاب سے ڈریں، فرائض کو ادا کریں اور محرمات سے اجتناب کریں اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ ہر حال میں حق اور سچی بات کہیں اور ان دونوں کار ہائے خیر کا ثمرہ یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ ان کے نیک اعمال قبول کرلے گا اور ان کے گناہ معاف کر دے گا، اس لئے کہ نیکیاں گناہوں کو ختم کردیتی ہیں اور آخر میں انہیں خوشخبری دی کہ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اوامر کو بجالائے گا اور نواہی سے گریز کرے گا وہ بہت بڑی کامیابی حاصل کرے گا، اسے ہر خوف سے نجات ملے گی اور اس کی ہر نیک تمنا پوری ہوگی، جہنم سے نجات ملے گی اور جنت اس کی ابدی منزل ہوگی۔ الأحزاب
71 الأحزاب
72 55 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے (دین متین اور اس کے احکام) کی عظمت و اہمیت بیان کی ہے کہ اس عظیم امانت کو اس نے آسمانوں اور زمین پر پیش کیا کہ وہ اس بارگراں کو قبول کریں انہوں نے اللہ سے پوچھا کہ اس کا انجام کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ اگر تم اس پر عمل پیرا ہو گے تو اچھا بدلہ دوں گا اور اگر برا عمل کرو گے تو تمہیں عذاب دوں گا انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا پھر جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو اس امانت کو قبول کرنے کی انہیں پیشکش کی انہوں نے اسے قبول کرلیا، اور اپنے اوپر بڑا ظلم کیا کہ ایسی خطرناک ذمہ داری کو قبول کرلی اور بڑے نادان تھے کہ وہ اس کے انجام سے بے خبر تھے۔ علماء کی ایک جماعت نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں میں پہلے روح ڈالی، پھر ان سے سوال کیا۔ قفال اور کچھ دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ یہ ایک مثال ہے جس کے ذریعہ دین متین کے احکام کی اہمیت بیان کی گئی ہے کہ اگر ان عظیم اجسام والی مخلوقات کو بھی اللہ تعالیٰ احکام شرعیہ کا مکلف بناتا تو وہ اس بارگراں کو اٹھانے سے معذرت کردیتے امام ابن حزم اپنی کتاب ” الفصل“ میں لکھتے ہیں کہ کوئی آدمی نہیں جانتا کہ اس امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کرنے کی کیا کفیت تھی لیکن ہمارا یقین ہے کہ اللہ نے ان میں ایسی قوت پیدا کردی جس کے ذریعہ انہوں نے امانت کی اہمیت کا ادراک کیا۔ الأحزاب
73 56 مذکور بالا بار گراں کی خطرناکیوں کی خبر دی گئی ہے، جن کا علم صرف اللہ کو تھا کہ ان میں سے بعض لوگ ایسے ہوں گے جو اس ” امانت“ سے عہدہ برآ نہیں ہوں گے، یا تو اپنے ایمان و اسلام میں مخلص نہیں ہوں گے، یا کفر و شرک کی راہ اختیار کریں گے، تو اللہ انہیں عہد شکنی کی وجہ سے عذاب دے گا اور جو لوگ اپنے ایمان میں مخلص ہوں گے اگر ان سے گناہ سر زد ہوگا اور توبہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔ وباللہ التوفیق الأحزاب
0 سورۃ سبا مکی ہے، اس میں چون آیتیں، اور چھ رکوع ہیں تفسیر سورۃ سبا نام : آیت (٥١) (لقد کان لسبا فی مسکنھم آیۃ) سے ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول : ابن مردویہ نے اور بیہقی نے اپنی کتاب (الدلائل) میں ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ قرطبی لکھتے ہیں کہ یہ سورت سب کے نزدیکی مکی ہے، صرف آیت (٦) کے بارے میں اختلف ہے۔ بعض کے نزدیک یہ آیت مدنی ہے۔ سبأ
1 (١) ” الحمد“ سے مراد وہ تمام تعریفیں ہیں جو آسمانوں اور زمین کے درمیان ہو سکتی ہیں، ان سب کا حقدار صرف اللہ ہے جو آسمانوں اور زمین اور ان میں پائی جانے والی ہر چیز کا مالک ہے، وہ ان میں جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتا ہے اور وہ تمام نعمتیں جو رب العالمین نے بندوں کو دی ہیں، سب اسی کی پیدا کردہ ہیں، اس لئے آسمانوں اور زمین میں پائی جانے والی مخلوقات کے وجود پر اللہ کی تعریف بیان کرنا، گویا اس کی ان نعمتوں پر تعریف بیان کرتا ہے جو اس نے اپنے بندوں کو عطا کی ہیں۔ اور جس طرح دنیا کی زندگی میں صرف وہ مالک کل تمام تعریفوں کا حقدار ہے، آخرت کی زندگی میں بھی وہی تمام تعریفوں کا حقدار ہوگا اہل جنت جب اپنے رب کے فضل و کرم سے جنت میں بھیج دیئے جائیں گے، تو اس کا گن گائیں گے اس کی حمد و ثناء بیان کریں گے، کہیں گے :” تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا“ (الزمر :74) اور ہیں گے :” تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں اس راہ پر ڈالا“ (الاعراف :43) اور کہیں گے :” تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہم سے غم والم کو دور کردیا (فاطر :34) اور سج نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں اس جنت میں داخل کردیا ہے۔“ (فاطر 35) معلوم ہوا کہ رب العالمین جس طرح دنیا میں تمام تعریفوں کا مستحق ہے اسی طرح وہ آخرت میں بھی تمام تعریفوں کا مستحق ہے اور جس طرح وہ دنیا کا مالک کل ہے، اسی طرح وہ تنہا آخرت کا بھی مالک ہے اور وہ اپنے تمام امور میں حکمت والا ہے، اور اپنی مخلوقات کے اعمال و اسرار سے خوف واقف ہے۔ سبأ
2 2 اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے، وہ آسمانوں اور زمین کے درمیان کی ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ زمین کے اندر جو کچھ ہے، چاہے وہ پانی کے خزانے ہوں یا دوسری چیزوں کے اور زمین سے جو کچھ نکلتا ہے یعنی درخت، پودے، غلے اور حیوانات اور آسمان سے جو کچھ نازل ہوتا ہے یعنی بارش، برف، اولے، بجلیاں، بندوں کی روزی، فرشتے اور طحائف آسمانی اور جو کچھ آسمان کی طرف چڑھتا ہے یعنی فرشتے اور بندوں کے اعمال ان سب کا علم صرف اللہ کو ہوتا ہے اور وہ اپنے توبہ کرنے والے بندوں کے گناہوں کو معاف کرتا رہتا ہے۔ سبأ
3 3 مشرکین مکہ آخرت کا انکار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی ان کے اس باطل عقیدہ کی تردید کی ہے کہ یہ تمہاری خام خیالی ہے، اس رب کی قسم جو تمام غیبی امور کا جاننے والا ہے، قیامت آکر رہے گی، اس علام الغیوب سے آسمانوں اور زمین کے درمیان ایک ذرہ کے برابر بھی کوئی چیز مخفی نہیں ہے، اور نہ اس سے کوئی چھوٹی یا بڑی چیز ہر چیز اور ہر بات اس کے علم میں ہے اور لوح محفوظ میں درج ہے۔ انسانوں کی ہڈیاں اور ان کے جسموں کے ٹکڑے، جہاں بھی ہوں اور جتنے بھی بکھر گئے ہوں اسے ایک ایک ذرے کی خبر ہے اور روز قیامت ایک لفظ ” کن“ کے ذریعہ ان سب کو آن واحد میں جمع کر کے اسی طرح زندہ کر دے گا جس طرح اس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا تھا۔ سبأ
4 4 عقل و منطق کا یہی تقاضا ہے کہ جس اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور انہیں اپنی طاعت و بندگی کا مکلف کیا ہے، وہ انہیں دوبارہ زندہ کرے اور ان کے نیک و بداعمال کا بدلہ انہیں چکائے اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے آیات 5,4 میں بیان فرمایا ہے کہ جو لوگ ایمان لائیں گے اور دنیا کی زندگی میں نیک عمل کریں گے تو قیامت کے دن اللہ ان کے گناہوں کو معاف کر دے گا اور انہیں جنت میں داخل کر دے گا اور جو لوگ اس کی آیتوں کا انکار کریں گے ان میں شبہات پیدا کریں گے اور اس کے بندوں کو ان پر ایمان لانے سے روکیں گے اور اس گمان میں مبتلا رہیں گے کہ ہم انہیں دوبارہ پیدا کرنے سے عاجز ہیں، ایسے لوگ بدترین اور درد ناک عذاب سے دوچار ہوں گے۔ سبأ
5 سبأ
6 5 مشرکین مکہ تو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں لیکن اہل کتاب کے علمئا جیسے عبد اللہ بن سلام اور ان کے دیگر مومن رفقاء یقین رکھتے ہیں کہ قرآن کریم اللہ کی برحق کتاب ہے، کیونکہ تورات میں آخرت، بعث بعد الموت، تقدیر اور لوح محفوظ میں بندوں کے اعمال مدون کئے جانے سے متعلق جو خبریں بیان کی گئی ہیں وہی قرآن کریم میں بھی موجود ہیں اس لئے جب وہ قرآن کی آیتیں سنتے ہیں تو ان کا یقین بڑھ جاتا ہے کہ یہ بھی اللہ کی ہی کتاب ہے، جو اس کے دین و شریعت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ سبأ
7 6 کفار مکہ بعث بعد الموت اور قیامت کے دن جزا و سزا کا انکار مختلف انداز میں کرتے تھے ایک ادناز یہ بھی تھا کہ وہ خاتم النبین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑانے کے لئے بھی یہ موضوع چھیڑتے تھے اور اپنے ہی جیسے دیگر کافروں سے کہتے تھے کہ کیا تمہیں ایک ایسا آدمی دکھاؤں جو اپنے مجنونانہ افکار و خیالات میں اس حد کو پہنچ گیا ہے کہ کہتا پھرتا ہے کہ جب ہم لوگ مر کر مٹی میں گل سڑ جائیں گے، تو اللہ ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا مزید تبصرہ کرتے ہوئے کہتے کہ اگر اس کے پاس کچھ عقل و خرد ہے تو وہ اللہ پر افترا پردازی کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے اللہ نے یہ بات بذریعہ وحی بتائی ہے، یا پھر واقعی اسے جنون لاحق ہوگیا ہے جس کے زیر اثر اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے متعلق اس استہزاء آمیز بات اور انکار آخرت دونوں کا جواب ان کا انجام بتا کردیا، یعنی ان کی بات اس قابل ہے ہی نہیں کہ اس کے صدق و کذب سے متعلق بات کی جائے، بس انہیں جان لینا چاہئے کہ قیامت کے دن انہیں درد ناک عذاب دیا جائے گا، نیز اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں خبر دی کہ وہ اپنی گمراہی میں بہت دور جا چکے ہیں، جہاں سے راہ راست کی طرف ان کے لوٹ کر آنے کی اب کوئی توقع نہیں ہے۔ سبأ
8 سبأ
9 7 منکرین قیامت کے اندر یہ گمراہ کن جرأت اس لئے پیدا ہوئی کہ انہوں نے کبھی آسمان و زمین کی تخلیق کے بارے میں غور کیا ہی نہیں کہ جسے قادر مطلق نے ان عظیم و مہیب مخلوقات کو پیدا کیا ہے جو انسانوں کو ان کے آگے اور پیچھے سے بلکہ ہر چہار جانب سے گھیرے ہوئے ہیں، کیا وہ اس پر قادر نہیں ہے کہ ان سے نہایت چھوٹی مخلوق یعنی ابن آدم کو دوبارہ زندہ کرسکے۔ شو کافی لکھتے ہیں کہ اس آیت میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں : ایک یہ کہ جو اللہ آسمان اور زمین کی تخلیق پر قادر ہے وہ یقیناً اس پر قدرت رکھتا ہے کہ ان سے چھوٹی مخلوق یعنی انسان کو دوبارہ پیدا کرے سورۃ یس آیت 81 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اولیس الذی خلق السماوات والارض بقادر علی ان یخلق مثلھم بلی) ” کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، وہ انہی جیسا دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، وہ یقیناً اس پر قادر ہے“ اور دوسری بات یہ ہے کہ جس قادر مطلق نے ایسے مہیب آسمان و زمین پیدا کئے ہیں جو انسانوں کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں وہ اس پر بھی قادر ہے کہ منکرین قیامت پر جلد ہی کوئی عذاب نازل کر دے، چاہے تو قارون کی طرح انہیں زمین میں دھنسا دے اور چاہے تو آسمان سے عذاب کا کوئی ٹکڑا ان کے سروں پر دے مارے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آسمان و زمین کی تخلیق، ان کا انسانوں کو ہر چہار جانب سے گھیرے ہوئے ہونا، اور اللہ کی اس بات پر قدرت کا ملہ کہ وہ چاہے تو زمین یا آسمان کی جانب سے ان پر کوئی عذاب مسلط کر دے، ان سب اتوں میں غور و فکر سے اللہ کے ان بندوں کو عبرت ملتی ہے جو اپنے رب سے اپنا تعلق جوڑے رکھتے ہیں۔ سبأ
10 8 اوپر کی آیت میں اللہ سے تعلق جوڑنے والے اور اس کی طرف رجوع کرنے والے بندوں کا ذکر آیا ہے کہ وہی لوگ اللہ کی عظیم نشانیوں میں غور و فکر کرتے ہیں اور عبرت حاصل کرتے ہیں اسی مناسبت سے اس آیت میں اللہ نے اپنے دو ایسے بندوں اور انبیاء کا ذکر کیا ہے جن کی ایک بڑی صفت یہ تھی کہ وہ ہر حال میں اپنے رب کو یاد کرتے تھے اور توبہ و استغفار میں مشغول رہتے تھے وہ دونوں داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان علیہا السلام تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے داؤد کو اپنی طرف سے خاص فضل سے نوازا تھا، انیں نبوت، زبور اور بادشاہت دی تھی، پہاڑوں اور چڑیوں کو حکم دیا تھا کہ جب داؤد اپنے رب کی تسبیح بیان کریں تو وہ بھی ان کے ساتھ تسبیح بیان کریں، اور ہم نے ان کے لئے لوہے کو موم کے مانند نرم بنا دیا اور انہیں حکم دیا کہ اسے جس طرح چاہیں استعمال کریں اور کشادہ اور مناسب حلقوں والی زر ہیں بنائیں، اور انہیں اور ان کے اہل و عیال کو حکم دیا کہ وہ جب تک زندہ رہیں عمل صالح میں لگے رہیں، اس لئے کہ ہم تمہارے تمام اعمال کی خبر رکھتے ہیں اور قیامت کے دن ان کا تمہیں بدلہ چکائیں گے۔ سبأ
11 سبأ
12 9 اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہم نے سلیمان کے لئے ہوا کو بھی مسخر کردیا تھا، جس کے دوش پر سوار ہو کر ان کا لکڑی کا بنا سفینہ تمام ساز و سامان کے ساتھ صبح کے وقت ایک ماہ کی مساقت طے کرتا تھا اور شام کے وقت ایک ماہ کی، یعنی سلیمان ایک دن میں دو ماہ کی مسافت طے کرتے تھے۔ نیز فرمایا : اور ہم نے ان کے لئے تانبے کا چشمہ جاری کردیا تھا جس سے وہ قسم قسم کے آلات اور ضرورت کی چیزیں بناتے تھے اور قوی ہیکل جنوں کو ہم نے ان کا تابع فرماں بنا دیا تھا، جو ان کے اشاروں کے منتظر رہتے تھے اور ہر دم ان کے احکام کی تعمیل میں لگے رہتے تھے اور ہم نے ان جنوں کو خبر دے دی تھی کہ ان میں سے جو کوئی سلیمان کی عدول حکمی کرے گاہم اسے قیامت میں آگ کا عذاب دیں گے بعض کہتے ہیں کہ نافرماں جنوں کو دنیا میں ہی اآ کا عذاب دیا جاتا تھا۔ سدی کہتے ہیں کہ اللہ نے ایک فرشتے کو مکلف کردیا تھا جو نافرمان جن کو آگ کے کوڑے مارتا تھا جس سے وہ جل کر خاکستر ہوجاتا تھا۔ سبأ
13 10 وہ شیاطین سلیمان (علیہ السلام) کے لئے بلند و بالا محلات و منازل، مجسمے، حوض کے مشابہ کھانے کے برتن اور تانبے یا پتھر کی بڑی بڑی دیگیں بناتے تھے جو ہر وقت چولہوں پر رکھی ہوتی تھیں اور ان میں کھانے پکتے رہتے تھے، مفسرین لکھتے ہیں کہ مجسمے یا تو حیوانات کے علاوہ دوسری چیزوں کے ہوتے تھے، یا سلیمان (علیہ السلام) کی شریعت میں انبیاء اور صالحین کے مجسمے بنانا جائز تھا، تاکہ انہیں دیکھ کر لوگ نصیحت حاصل کریں اور اسلام نے اس جواز کو منسوخ کردیا لیکن راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ مجسمے غیر حیوانوں کے ہوتے تھے اس لئے کہ تورات کے نصوص سے یہی ثابت ہے کہ انسانی اور حیوانی تصویریں بنانا ان انبیاء کی شریعتوں میں بھی جائز نہیں تھا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ ہم نے سلیمان اور ان کے اہل و عیال کو حکم دیا کہ ہم نے تم پر جو احسانات کئے ہیں اور نعمتوں کی بارش کی ہے، ان کے شکر ادا کرنے کے لئے ہر وقت ہماری بندگی میں لگے رہو، نماز پڑھو، زکوۃ دو اور تمام اوامرو نواہی کو بجالاتے رہو، مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اشارہ ہے کہ عمل صالح کی ادائیگی اللہ کے احسانات و انعامات کے شکر کے طور پر ہونا چاہئے نہ کہ امید و بیم کی وجہ سے اور یہ کہ اللہ کا شکر ادا کرنا واجب ہے اور یہ کہ شکر عمل کے ذریعہ ادا ہوتا ہے نہ کہ صرف زبان سے اس کے بعد اللہ نے خبر دی کہ اس کے کم ہی بندے ایسے ہیں جو ہر وقت اپنے دل، زبان اور اعضاء کے ذریعہ اس کا شکر ادا کرتے ہیں۔ سبأ
14 (١١) ابن جریر اور ابن ابی حاتم وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے مرفوعاً روایت کی ہے کہ جب سلیمان (علیہ السلام) کو خبر دی گئی کہ اب ان کی موت کا وقت آچکا ہے تو انہوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ اے میرے رب ! میری موت کی خبر جنوں سے چھپا دے، تاکہ لوگ جان لیں کہ ” جن“ غیب کی کوئی بات نہیں جانتے، چنانچہ انہوں نے ایک لاٹھی پر ٹیک لگا کر نماز پڑھنی شروع کردی اور اسی حال میں ان کی موت آگئی اور جن کام کرتے رہے اور انہیں ایک مدت تک اس کی خبر نہ ہوئی، جب اللہ نے چاہا تو دیمک نے ان کی لاٹھی کو نیچے سے کھالیا اور سلیمان (علیہ السلام) کا جسم زمین پر گرگیا ، تب جنوں کو ان کی موت کی خبر ہوئی اور کہنے لگے کہ اگر انہیں غیب کا علم ہوتا تو ایک مدت سے عذاب میں نہ رہتے۔ مفسرین لکھتے ہیں، سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں لوگوں کا اعتقاد تھا کہ جن غیب کی باتیں جانتے ہیں۔ اس آیت میں اسی کی تردید کی گئی ہے۔ سبأ
15 12 اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ کے کچھ شکر گزار بندوں اور شکر کی بدولت ان پر اللہ کے جو احسانات ہوئے ان کا ذکر ہوا، اسی ضمن میں اب ایک ایسی قوم کا ذکر ہو رہا ہے جس پر اللہ نے بڑے احسانات کئے تھے، لیکن انہوں نے کفران نعمت کی راہ اختیار کرلی تو اللہ نے وہ نعمتیں ان سے چھین لیں اور انہیں فقر و فاقہ میں مبتلا کردیا۔ وہ قوم سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان کی اولاد تھی، جن کا علاقہ اب ” مارب“ کے نام سے جانا جاتا ہے اور صنعاء سے تین رات کی مسافت پر واقع ہے۔ ان کے مکانات وادی میں واقع تھے، جس کے دائیں اور بائیں دور دور تک گھنے پھلدار درختوں کے باغات تھے کہتے ہیں کہ عورت ان درختوں کے درمیان سے اپنے سر پر خالی ٹوکرالے کر گذرتی تھی اور بغیر کسی درخت کو ہاتھ لگائے ٹوکرا پھلوں سے بھر جاتا تھا اس وادی میں مچھر، مکھی، جویں، بچھو، سانپ اور دوسرے کیڑے مکڑوے نہیں پائے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰنے انہیں ان گوناگوں نعمتوں سے نوازا اور کہا کہ تم لوگ اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھاؤ اور اس کا شکر ادا کرو، نیک عمل کرو اور گناہوں سے بچو، اتنا اچھا، خوبصورت اور پاک و صاف شہر اور گناہوں کی مغفرت کرنے والا رب، تم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہر دم اپنے رب کا شکر ادا کرتے رہو۔ سبأ
16 13 لیکن اللہ کی بے شمار نعمتوں نے انہیں خراب کردیا، شکر کے بجائے اللہ کی ناشکری کرنے لگے، انہوں نے اللہ اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور راہ راست سے برگشتہ ہوگئے، تو اللہ نے ان سے بایں طور انتقام لیا کہ وہ مضبوط بند جو دو پہاڑوں کے درمیان بنا ہوا تھا اور جو بارش کے پانی کو روکے رکھتا تھا اور ضرورت کے مطابق اس بند میں بنے ہوئے سوراخوں سے نکل کر باغات تک پہنچتا تھا اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ وہ بند ٹوٹ گیا اور پانی کی شدید موجوں سے ان کے مکانات غرقاب ہوگئے اور آبدوشی کا نظام درہم برہم ہوگیا اور وہ لوگ وہاں سے جان بچا کر دوسری جگہ چلے جانے پر مجبور ہوگئے، جہاں یا تو ایسے درخت تھے جن کے پھل کڑوے اور ناقابل خوردنی تھے، یا بغیر پھلوں والے جنگلی درخت تھے اور کچھ بیری کے درخت تھے جو کسی کام کے نہیں تھے۔ آیت 17 میں اللہ نے فرمایا کہ ان کی ناشکری کا ہم نے انہیں ایسا بدلہ دیا، یہ اللہ کا نظام ہے کہ جو اس کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اس سے اپنی نعمتیں چھین لیتا ہے اور زحمتوں اور مصیبتوں میں مبتلا کردیتا ہے۔ سبأ
17 سبأ
18 14 اللہ تعالیٰ نے پہلے قوم سبا کو دی گئی اپنی نعمتوں کا ذکر کیا، پھر کفران نعمت کی وجہ سے انہیں جو پریشانیاں لاق ہوئیں ان کا بیان ہوا اب ان نعمتوں کا ذکر ہو رہا ہے جو انہیں اس زمانے میں اپنے علاقے سے باہر حاصل تھیں، ان کی بستیوں اور ملک شام کے درمیان شہروں اور بستیوں کا ایک سلسلہ قائم تھا اور ہر دو بستی کے درمیان کی مسافت آدھے دن کی تھی، جب وہ لوگ تجارت کے لئے مارب سے ملک شام کے لئے روانہ ہوتے تو رات ایک بستی میں گذارتے اور دوپہر دوسری بستی میں اور جہاں جاتے کھانے پینے کی ہر چیز انہیں فراوانی کے ساتھ ملتی تھی۔ اس طرح چار ماہ کی مسافت پورے امن و راحت کے ساتھ کھاتے پیتے طے کرتے تھے اور اپنے ساتھ زاد راہ نہیں ڈھوتے تھے کہتے ہیں کہ ان دنوں یمن و شام کے درمیان شہروں کی تعداد چار ہزار سات سو تھی۔ لیکن انہیں یہ نعمتیں بھی راس نہیں آئیں اور امن و عافیت کی قدر کرنا بھول گئے اور کبرو غرور میں آ کر کہنے لگے کہ یہ بھی کوئی سفر ہے کہ ہر تھوڑی مسافت کے بعد بستی پائی جاتی ہے، مزا تو جب آٹا کہ چٹیل میدانوں، جنگلات اور پر خطر وادیوں سے گذر ہوتا اللہ تعالیٰ کو ان کا اترانا پسند نہیں آیا اور ان بستیوں کو خرابات میں بدل دیا اور ان کی تاریخ لوگوں کے لئے کہانیاں بن گئیں جنہیں دنیا والے سن کر حیرت کرتے ہیں کہ کس طرح اللہ نے ان کے عیش و آرام کو سختی و تنگی میں اور ان کی جمعیت و وحدت کو انتشار و پریشانی میں بدل دیا، یہاں تک کہ وہ عربوں کے لئے ضرب المثل بن گئے کہ جب انہیں کسی قوم کے انتشار و افتراق کا حال بیان کرنا ہوتا ہے تو کہتے ہیں : ایسا بکھر گئے جیسے قوم سبا کی جماعت بکھر گئی، ان میں سے اوس و خزرج والے یثرب (مدینتہ الرسول) غسان کے لوگ شام، ازدوالے عمان اور خزاعہ کے لوگ تہامہ پہنچ گئے اور اس طرح پوری قوم سباتتر بتر ہوگئی اللہ تعالیٰ نے آیت کے آخر میں فرمایا کہ ان ساری تفصیلات میں اللہ کے صبر کرنے والے اور شکر کرنے والے بندوں کے لئے بہت ساری عبرت و نصیحت کی باتیں ہیں۔ سبأ
19 سبأ
20 15 مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کا تعلق اگر قوم سبا سے مانا جائے تو معنی یہ ہوگا کہ ابلیس نے ان کے بارے میں اپنے دل میں یہ گمان کیا کہ اگر اس نے انہیں گمراہ کیا تو وہ لوگ اس کی پیروی کریں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ انہوں نے شیطان کی باتوں میں آ کر اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کیا اور سرکشی کی راہ اختیار کی اور اگر اس کا تعلق عام انسانوں سے مانا جائے تو مفہوم یہ ہوگا کہ ابلیس نے تمام انسانوں کے بارے میں ایسا گمان کیا کہ اگر وہ انہیں اللہ کی نافرمانی کی طرف بلائے گا تو وہ لوگ اس کی بات مان جائیں گے اور اس کے پیچھے ہو لیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اکثر و بیشتر لوگوں نے اس کی پیروی کی اور اللہ کے احکام کو پس پشت ڈال دیا۔ سبأ
21 16 ابلیس کو انسان پر نہ کوئی مادی قوت حاصل ہے اور نہ معنوی، اسے تو اللہ کی جانب سے صرف اتنی اجازت ملی ہے کہ وہ انسان کے دل میں طرح طرح کے وسوسے پیدا کرے، گناہ کو اس کی نگاہ میں خوبصورت بنا کر پیش کرے اور اللہ کی نافرمانی کی طرف بلائے اور یہ اجازت اسے اس لئے ملی ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ کون آخرت پر ایمان لا کر اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق اپنی زندگی گذارتا ہے اور کون اس کے بارے میں شک و شبہ میں مبتلا ہو کر معصیت و سرکشی کی راہ اختیار کرتا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ کا رب ہر چیز اور ہر بات سے باخبر ہے، وہ اپنے بندوں کے اچھے اور برے اعمال کو گن رہا ہے، تاکہ قیامت کے دن ان کا حساب لے اور انہیں ان کا بدلہ دے۔ سبأ
22 17 اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبنی تمام کافروں سے بالعموم اور کفار مکہ سے بالخصوص فرمایا کہ جن بتوں کو اللہ کے سوا تم اپنا معبود سمجھتے ہو ذرا انہیں پکارو تو سہی، کیا وہ تمہاری پکار کا جواب دیتے ہیں؟ جواب یقیناً نفی میں ہوگا اس لئے کہ وہ پتھر کے بے جان صنم ہیں، آسمانوں اور زمین میں پائی جانے والی چیزوں میں سے ایک ذرہ کے بھی مالک نہیں ہیں، نہ ہی ان کی تخلیق و ملکیت میں وہ اللہ کے کسی بھی حیثیت سے شریک ہیں اور نہ کارہائے کائنات کے چلانے میں اللہ کو ان کی مدد کی ضرورت ہے، مفسرین لکھتے ہیں کہ جب ان کی عاجزی اور بے کسی اس حد کو پہنچی ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرح انہیں پکارنا اور ان سے امید لگانا کہاں کی عقلمندی ہے۔ سبأ
23 18 قیامت کے دن سفارشی اسی کی سنی جائے گی جسے اللہ تعالیٰ شفاعت کرنے کی اجازت دے گا اور سفارش اسی کے حق میں سنی جائے گی جس کے لئے شفاعت کرنے کی اللہ تعالیٰ کسی کو اجازت دے گا اللہ تعالیٰ نے اسی بات کو اس آیت کریمہ اور قرآن کریم کی دیگر کئی آیتوں میں بیان فرمایا ہے سورۃ النجم آیت 26 میں ہے : (٣ کم من ملک فی السماوات لاغنی شفاعتھم شییئا الامن بعد ان یاذن اللہ لمن یشاعویرضی) ” اور بہت سے فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی، مگر یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خوشی اور اپنی چاہت سے جس کے لئے چاہے اجازت دے دے۔“ اور سورۃ الانبیاء آیت 28 میں ہے : (ولایشفعون الا لمن ارتضی وھم من خشیتہ مشفقون) ” وہ کسی کی بھی سفارش نہیں کریں گے بجز ان کے جن سے اللہ خوش ہو، وہ تو خود ہیبت الٰہی سے لرزاں و ترساں ہوں گے۔ “ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت میں کفار کے اس قول کی تکذیب ہے کہ ان کے جھوٹے معبود ان کے لئے سفارشی بنیں گے۔ 19 میدان محشر میں تمام فرشتے اور انبیاء جن سے متعلق امید کی جائے گی کہ وہ دوسروں کے لئے سفارشی بنیں گے اور وہ تمام لوگ جو سفارش کے محتاج ہوں گے، انتہائی پریشانی کے عالم میں ہوں گے اور اللہ کی ہیبت سے نہایت خوفزدہ ہوں گے، کسی کو معلوم نہیں ہوگا کہ اللہ جل جلالہ اپنا کون سا حکم صادر فرمائے گا۔ سبھی اسی حال میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ شفاعت کی اجازت دے گا اور اہل محشر کا خوف ایک گنا جاتا رہے گا تو فرشتے اپنے اوپر والے ان فرشتوں سے پوچھیں گے جنہوں نے اذن شفاعت کی خبر دی تھی کہ تمہارے رب نے کیا حکم صادر فرمایا ہے؟ تو وہ کہیں گے کہ شفاعت کے حقداروں کے لئے شفاعت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ آیت کا آخری بند ہے کہ اللہ بہت اونچا اور بڑی کبریائی والا ہے، قیامت کے دن فرشتہ اور کوئی نبی اس کی اجازت کے بغیر دم نہیں مارے گا اور شفاعت اسی کے لئے کرے گا جس کے لئے اللہ شفاعت کی اجازت دے گا۔ سبأ
24 20 اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی کفار کی زجر و توبیخ کے لئے فرمایا کہ تمہیں آسمانوں سے بارش برسا کر اور زمین سے پودے اگا کر کون روزی دیتا ہے؟ ظاہر ہے کہ ان کے پاس اس کے سوا اور کیا جواب ہے کہ وہ اللہ ہے جو سب کاروزی رساں ہے۔ آیت کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ ن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ کافروں کو خبر دے دیں کہ وہ گمراہی پر ہیں، لیکن ایک ایسے اسلوب میں جس میں ان کے لئے دعوت فکر و نظر ہے، کہا کہ ہم دونوں جماعتوں میں سے ایک یقیناً راہ حق پر ہے اور دوسری جماعت گمراہ ہے ایک جماعت ان لوگوں کی ہے جو صرف اللہ کو خالق و رازق مانتے ہیں اور اسی کی عبادت کرتے ہیں اور دوسری جماعت ان لوگوں کی ہے جو پتھر کے تراشے بتوں کی پرستش کرتے ہیں جن میں کوئی قدرت نہیں ہے، ہر عقل و خرد والا یہی کہے گا کہ راہ حق پر وہ لوگ ہیں جو اس ذات برحق کی عبادت کرتے ہیں جو پیدا کرتا ہے، روزی دیتا ہے، اور نفع و نقصان کا مالک ہے اور گمراہ وہ لوگ ہیں جو بے جان بتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ سبأ
25 21 حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں مشرکین سے پرامن اعلان برأت ہے کہ جب تک تم ایمان نہیں لاؤ گے، ہمارا اور تمہارا کوء رشتہ اور تعلق نہیں ہو سکتا، ہم اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں اور تم اپنے اعمال کے، اگر ہم سے کوئی گناہ سر زد ہوگا تو تم اس کے بارے میں نہیں پوچھے جاؤ گے اور نہ تمہارے اعمال کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا اگر ایمان لے آؤ گے تو ہم سب بھائی بھائی ہوجائیں گے، ورنہ ہم تم سے بری ہیں اور تم ہم سے بری ہو، اللہ تعالیٰ نے سورۃ یونس آیت 41 میں فرمایا ہے : (وان کذبوک فقل لی عملی ولکم عملکم انتم بریؤن مما اعمل وانا بری عمما تعملون) ” اور اگر آپ کو جھٹلاتے رہیں تو یہ کہہ دیجیے کہ میرے لئے میرا عمل اور تمہارے لئے تمہارا عمل، تم میرے عمل سے بری ہو اور میں تمہارے عمل سے بری ہوں“ اور سورۃ الکافرون میں فرمایا ہے : (قل یایھا الکافرون، لا اعبد وماتعبدون، ولا انتم عابدون ما اعبد) ” آپ کہہ دیجیے کہ اے کافرو ! نہ میں عبادت کرتا ہوں اس کی جسم کی تم عبادت کرتے ہو، نہ تم عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ “ شو کانی لکھتے ہیں کہ یہ اور اس معنی کی دوسری آیتوں کا حکم جہاد و قتال والی آیتوں کے ذریعہ منسوخ ہوچکا ہے۔ سبأ
26 22 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ وہ مشرکین کو اس بات کی خبر دے دیں کہ آخرت آئے گی اور میدان محشر میں ہم اور تم سبھی اللہ کے حضور جمع ہوں گے اور وہاں وہ ہمارے درمیان حق و انصاف کے مطابق فیصلہ کرے گا، اور ہم میں سے ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس میں مشرکین کو عذاب آخرت کی دھمکی دی گئی ہے کہ اگر ہو اپنے کفر و شرک سے توبہ نہیں کریں گے تو عذاب آخرت کا انتظار کریں۔ سبأ
27 23 اس آیت کریمہ میں معبود ان مشرکین کے جھوٹے اور باطل ہونے کی ایک دلیل پیش کی گئی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے کہ ان سے پوچھیں کہ جنہیں تم اللہ کا شریک بتاتے ہو ذرا دکھاؤ تو سہی کہ ان میں کون سی خوبی پائی جاتی ہے، جس کی بنیاد پر تم نے انہیں اللہ کا شریک ٹھہرایا ہے؟ پھر اللہ نے خود ہی بطور رد و انکار شرک جواب دیا کہ وہ اپنے جھوٹے معبودوں میں کوئی بھی ایسی صفت ثابت نہیں کرسکتے ہیں کوئی بھی ایسا معبود نہیں دکھا سکتے ہیں جو اللہ کے سوا انہیں نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہو، وہ تو صرف اللہ تعالیٰ کی تنہا ذات ہے جو بڑی عزت والا ہر چیز پر غالب اور اپنے تمام اعمال میں حکیم و دانا ہے۔ سبأ
28 24 عقیدہ توحید بیان کرنے کے بعد اب عقیدہ رسالت بیان کیا جا رہا ہے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام بنی نوع انسان کے لئے رسول بنا کر بھیجا تھا، تاکہ آپ ان پر ایمان لانے والوں اور ان کی اطاعت کرنے والوں کو جنت کی بشارت دیں اور ان کی نافرمانی کرنے والوں کو جہنم کی آگ سے ڈرائیں۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ایک تلخ حقیقت کی خبر دی ہے جس سے مقصود آپ کو تسلی دینی ہے کہ اکثر لوگ رسولوں کی اہمیت اور ان کی دعوت کی افادیت سے ناواقف ہوتے ہیں، اسی لئے ان کی بتائی راہ چھوڑ کر کفر و ضلالت کی راہ اختیار کرتے ہیں، جیسا کہ کفار مکہ کا حال ہے کہ وہ کفر و شرک پر مصر ہیں اور آپ کے مقام نبوت سے بے خبر ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انسانوں کے لئے رسول تھے، اس عقیدے کو قرآن کریم کی کئی دوسری آیتوں میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ سورۃ الاعراف آیت 158 میں آیا ہے : (قل یایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعاً) ” آپ کہہ دیجیے کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں“ اور سورۃ الفقران آیت (١) میں ہے : (تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہ لیکون للعالمین نذیراً) ” بہت ہی بابرکت ہے وہ اللہ جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا، تاکہ وہ تمام لوگوں کے لئے آگاہ کرنے والے بن جائیں۔“ اور بخاری و مسلم نے جابر (رض) سے ایک حدیث روایت کی ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے :” ہر نبی اپنی قوم کے لئے بھیجا جاتا تھا اور میں تمام انسانوں کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں“ اور صحیح مسلم میں جابر (رض) سے ہی مروی ایک دوسری حدیث ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” میں کالے اور گورے سب کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ “ سبأ
29 25 کفار مکہ جو قیامت اور اس دن کے جزا و سزا کے منکر تھے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں سے استہزاء آمیز انداز میں پوچھتے تھے کہ وہ عذاب کب آئے گا جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو؟ تو اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا، آپ کہہ دیجیے کہ وہ دن اللہ کے علم میں مقرر ہے جب وہ آجائے گا تو تمہارے چاہنے کے باوجود نہ ایک لمحہ پیچھے ہوگا تاکہ تم اپنے کفر و شرک سے توبہ کرلو، اور نہ کسی کے کہنے سے ایک لمحہ آگے ہوگا۔ سبأ
30 سبأ
31 26 نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار مکہ سے توحید و رسالت اور آخرت کی بات کرتے ہوئے کبھی کہتے کہ قرآن کریم کی طرح تورات و انجیل نے بھی ان عقائد پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے، تو وہ کبر و عناد میں آ کر کہتے کہ ہم نے قرآن کو آسمانی کتاب سمجھتے ہیں اور نہ ان کتابوں کو جو اس سے پہلے نازل ہوئی تھیں۔ سبأ
32 27 میدان محشر اور اس کے بعد کے مواقف میں کفار کا کیا حال ہوگا، اسے بیان کر کے انہیں اسی دنیا میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے، شاید کہ ایمان لے آئیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ کافروں کی بے کسی کا کیسا منظر ہوگا جب وہ رب العالمین کے سامنے ذلیل و خار بن کر کھڑے ہوں گے اور اپنا تاریک انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ کر جب کچھ نہ بن پڑے گا تو آپس میں جھگڑیں گے اور دنیاوی مقام و مرتبہ کے اعتبار سے کمزور کفار جنہوں نے دنیا میں کفر کے سرغنوں کی پیروی کی تھی اور ایمان نہیں الئے تھے، ان سرغنوں سے کہیں گے کہ اگر تم نے ہمیں ایمان لانے سے نہ روکا ہوتا تو ہم نے اسلام کو قبول کرلیا ہوتا اور آج ہمارا یہ حال نہ ہوتا تو وہ سردار ان کفر ان کے دعوے کا انکار کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہم نے تمہیں اتباع حق سے کبھی نہیں روکا تھا، تم لوگ خود ہی اہل جرم و فساد تھے، اسی لئے جب ہم نے تمہیں اپنی پیروی کے لئے پکارا تو تم نے فوراً ہماری دعوت قبول کرلی اور اپنی خواہش کی اتباع کرتے ہوئے رسولوں کی دعوت کو ٹھکرا دیا، یہ سن کر پیروی کرنے والے کفار کہیں گے کہ بات وہی سہی ہے جو ہم نے کہی ہے تم لوگ تو رات دن اللہ اور اس کے رسول کے خلاف سازش کرتے رہے اور اپنی سرداری اور چودھراہٹ کا رعب گانٹھ کر ہمیں حکم دیتے رہے کہ اس کے دین کا انکار کردیں اور جھوٹے معبودوں کو اس کا شریک بنائیں۔ آیت 33 کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چھوٹے اور بڑے کافروں کے مذکور بالا تکرار کے بعد ان کے لئے تیار کردہ جہنم کا عذاب جب ان کے سامنے پیش کردیا جائے گا تو یاس و حسرت سے ان کے دل بھر جائیں گے، لیکن دشمنوں کی ہنسی کے ڈر سے ایک دوسرے سے اپنا اندرونی حال بیان نہیں کریں گے اور کافروں کی گردنوں میں زنجیریں ڈال کر ان کے ہاتھوں سمیت باندھ دیا جائے گا اور یہ سب کچھ ان کے اپنے کئے کا انجام ہوگا سرداران کفر اور ان کے پیروکاروں میں سے ہر ایک اپنے اپنے جرائم کے مطابق عذاب میں ڈال دیئے جائیں گے۔ سبأ
33 سبأ
34 28 ذیل میں آنے والی آیتوں میں گزشتہ قوموں کے عیش پرستوں اور انبیائے کرام کے ساتھ ان کے برے برتاؤ اور کفر و شرک پر ان کے اصرار کا حال بیان کر کے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ مشرکین قریش کے کفر و شرک سے آپ دل برداشتہ نہ ہوں، اس لئے کہ ہر دور کے سردار ان کفر اپنے انبیاء کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے جب بھی کسی بستی والوں کی ہدایت کے لئے کوئی نبی بھیجا تو ان کے سرداروں، عیش پرستوں اور فاسق و فاجر لیڈروں نے اس سے کہا کہ تم جس ایمان باللہ اور وحدانیت باری تعالیٰ کی بات کرتے ہو، ہم ان باتوں کا سراسر انکار کرتے ہیں اور اگر تھوڑی دیر کے لئے ہم مان بھی لیں کہ قیامت آئے گی اور کچھ لوگ عذاب دیئے جائیں گے تو ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہوں گے، اس لئے کہ جب اللہ نے ہمیں یہاں مال و اولاد سے نواز رکھا ہے، تو آخرت میں وہ ہمیں عذاب نہیں دے گا۔ اگر ہم اللہ کی نگاہ میں اچھے نہ ہوتے تو ہمیں یہاں اپنی نعمتوں سے نہ نوازتا اور ایمان کا دعویٰ کرنے والے اگر اس کی نگاہ میں بریے نہ ہوتے تو انہیں یہاں اپنی نعمتوں سے محروم نہ رکھتا۔ آیت 36 میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اسی گمان باطل کی تردید کرتے ہوئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی فرمایا ہے کہ رب العالمین اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتا ہے روزی بڑھا دیتا ہے اور جس کی چاہتا ہے گھٹا دیتا ہے اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی حکمت و مشیت سے ہے، اس ضمن میں اچھے اور برے سبھی آتے ہیں کسی کی روزی میں وسعت اس بات کی ہرگز دلیل نہیں ہے کہ وہ اللہ کا محبوب بندہ ہے اور نہ ہی کسی کی روزی میں تنگی اللہ کے نزدیک اس کے مبغوض ہونے کی دلیل ہے، لیکن اکثر لوگ اس بات کو نہیں سجھتے ہیں اور انہی میں سے وہ لوگ ہیں جو دنیا کی کامیابی پر آخرت کی کامیابی کو قیاس کرتے ہیں۔ سبأ
35 سبأ
36 سبأ
37 29 گزشتہ جواب کی مزید تاکید و توثیق کے طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہارے امال اور تمہاری اولاد اللہ سے قربت کا سبب نہیں بن سکتے ہیں اللہ کے نزدیک تو صرف ایمان اور عمل صالح کی قدر و قیامت ہے ایمان لانے کے بعد جو شخص جس قدر فرائض و واجبات کی پابندی کے گا اور نوافل اور دیگرک ارہائے خیر کا اہتمام کرے گا اسی قدر وہ اپنے رب سے قریب ہوتا جائے گا، اور انہیں ان کے اعمال صالحہ کا دوگنا، دس گنا اور اس سے زیادہ اجر ملے گا، اور وہ قیامت کے دن موت اور ہر شر سے مامن جنت کے بلند و بالا کمروں میں رہیں گے۔ اس آیت کا مضمون سورۃ المومنون آیات (56,55) میں یوں بیان کیا گیا ہے : (ایحسبون انما نمدھم بہ من مال و بنین نسارع لھم فی الخیر بل لایشعرون) ” کیا وہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم جو ان کے مال واولاد بڑھا رہے ہیں، ان کے لئے بھلائیوں میں جلدی کر رہے ہیں، نہیں ! بلکہ وہ سمجھتے ہی نہیں ہیں“ اور سورۃ التوبہ آیت 55 میں آیا ہے : فلاتغجبک اموالھم ولا اولادھم انما یرید اللہ لیعذبھم بھا فی الحیاۃ الدنیا و تزھق انفسھم وھم کافرون) ” اپس آپ کو ان کے مال و اولاد تعجب میں نہ ڈال دیں، اللہ یہ چاہتا ہے کہ اس سے انہیں دنیا کی زندگی میں ہی سزا دے اور کفر ہی کی حالت میں ان کی جانیں نکل جائیں۔ “ سبأ
38 30 آخرت میں مومنوں کا حال بیان کرنے کے بعد اب کافروں کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ جو لوگ ہماری آیتوں کا انکار کرتے ہیں اور ان کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے، ان کے لئے جہنم کا عذاب تیار کیا گیا ہے جس سے وہ چھٹکارا نہیں پا سکیں گے۔ سبأ
39 31 آیت 36 میں جو حقیقت بیان کی گئی ہے اسی کی یہاں دوبارہ تاکید و توثیق کی گئی ہے کہ کسی کی روزی میں تنگی نہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ کا مبغوض بندہ ہے اور نہ روزی میں وسعت اللہ کا محبوب بندہ ہونے کی دلیل ہے۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کے بندے اس کی راہ میں اور مباح کاموں میں چاہے جتنا بھی خرچ کریں گے اللہ تعالیٰ دنیا میں انہیں اتنا پھر دے دے گا اور آخرت میں اس کا اچھا اجر عطا کرے گا۔ بخایر و مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے حدیث قدسی روایت کی ہے، اللہ کہتا ہے :” اے ابن آدم ! خرچ کرو، تم پر خرچ کیا جائے گا“ اور انہوں نے ابوہریرہ (رض) ہی سے ایک دوسری حدیث روایت کی ہے کہ ” ہر دن صبح کو دو فرشتے اترتے ہیں، ایک کہتا ہے، اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو پھر دے دے اور دوسرا کہتا ہے، اے اللہ ! بخیل کا مال ضائع کر دے۔ “ سبأ
40 32 اس آیت کا تعلق آیت 31 میں (ولو تری اذا لظالمون موقوفون) سے ہے اور خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے اور مفہوم یہ ہے کہ آپ اس دن کو یاد کیجیے جب اللہ تعالیٰ تمام جنوں اور انسانوں کو میدان محشر میں اکٹھا کے گا، پھر کافروں کو ڈانٹنے اور پھٹکارنے کے لئے فرشتوں سے مخاطب ہو کر پوچھے گا (جنہیں مشرکین اللہ کی بیٹیاں مان کر ان کی عبادت کرتے رہے تھے) کہ اے فرشتوں ! کیا تم میری طرح معبود ہو، اور کیا یہ لوگ تمہاری عبادت کرتے تھے؟ تو فرشتے فوراً اللہ کے سوا معبود ہونے سے اپنی برأت کا اظہار کردیں گے اور اللہ کی پاکی بیان کرتے ہوئے کہیں گے کہ تو ہی ہمارا مولی ہے، ہم تیرے بندے ہیں اور تیری ہی عبادت کرتے ہیں ہم نے انہیں کبھی نہیں کہا کہ وہ ہماری عبادت کریں یہ لوگ درحقیقت ابلیس اور دیگر شیاطین کی عبادت کرتے تھے اور ان میں سے اکثر لوگ انہی کی بات مانتے تھے۔ یہاں فرشتوں کا ذکر بطور خاص مشرکین کے اس عقیدے کی وجہ سے کیا گیا ہے کہ ان کے اصنام درحقیقت اللہ کے مقرب فرشتوں کی شکل کے بنائے گئے ہیں، تاکہ وہ فرشتے ان کے سفارشی بنیں۔ سبأ
41 سبأ
42 33 مفسر ابوالسعود لکھتے ہیں کہ جب فرشتے میدان محشر میں معبود ہونے سے اپنی برأت کا اعلان کردیں گے، تو اللہ تعالیٰ مشرکین کی یاس و حسرت بڑھانے کے لئے اور اس بات کا اظہار کرنے کے لئے وہ فرشتے اس کے عاجز بندے ہیں، ان سے مخاطب ہو کر کہے گا کہ آج کے دن تم میں سے کوئی کسی کے لئے نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتا ہے اور پھر مشرکین سے کہے گا کہ اب چکھو جہنم کا وہ عذاب جسے تم دنیا میں جھٹلاتے رہے تھے۔ سبأ
43 34 دعوت اسلامیہ کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے مشرکین مکہ مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے تھے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب قرآن کریم نازل ہوتا اور آپ تازہ بہ تازہ اہل قریش کے سامنے اس کی تلاوت کرتے تاکہ ان کھلی آیتوں کو سن کر اللہ پر ایمان لے آئیں، تو ان پر اس کا الٹا اثر پڑتا اور آپس میں ایک دوسرے سے کہتے کہ یہ آدمی تمہیں تمہارے آباء و اجداد کے دین سے روکنا چاہتا ہے، یعنی تم لوگ اپنے باپ دادوں کے دین پر ہی ڈٹے رہو، اس لئے کہ یہ دین صحیح ہے اور محمد جس دین کی طرف تمہیں بلا رہا ہے وہ باطل ہے اور قرآن کریم کے بارے میں کہتے کہ یہ ایک جھوٹا کلام ہے جسے اللہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، اور جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت الی التوحید سے متعلق مؤثر بات سنتے اور دیکھتے کہ لوگ اثر قبول کر رہے ہیں اور جوق در جوق اسلام میں داخل ہوتے جا رہے ہیں، تو کہتے کہ لوگو ! اس کی بات کا اثر نہ لو، یہ تو کھلم کھلا جادو ہے اور محمد بہت بڑا جادو گر ہے۔ سبأ
44 35 مشرکین مکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور نزول قرآن سے پہلے کہا کرتے تھے کہ اگر یہود و نصاریٰ کی طرح ہمارے لئے بھی کوئی کتاب نازل ہوتی تو اس کی تعلیمات پر عمل کر کے اوروں کے مقابلے میں زیادہ راہ راست پر آجاتے اور جب اللہ نے ان پر احسان کیا اور قرآن نازل کیا تو اس کی تکذیب کردی اور اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے۔ سبأ
45 36 مشرکین مکہ کو اللہ نے دھمکی دی ہے کہ انہی کی طرح ان سے پہلے کی بہت سی قوموں نے اپنے رسولوں کو جھٹلایا تھا اور ہم نے کفار مکہ کے مقابلے میں انہیں بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا، ان کے پاس تو ان قوموں کا دسواں حصہ بھی اسباب زندگی نہیں ہے، لیکن ہم نے ان کو شدید عذاب میں مبتلا کیا اور اپنے رسولوں کی تکذیب کا ان سے بڑا سخت انتقام لیا تو اہل مکہ بھی ہوش میں آجائیں اور اپنی حالت بدل لیں، ایمان لے آئیں اور ہمارے قرآن و رسول کی تکذیب سے باز آجائیں، ورنہ ہمیں ان سے بھی انتقام لینے میں دیر نہیں لگے گی، سبأ
46 37 مشرکین مکہ کی تمام تر سرکشی اور اللہ اور اس کے رسول کی صریح تکذیب کے باوجود، اللہ نے انہیں گزشتہ قوموں کی طرح ہلاک نہیں کیا، بلکہ انہیں بار بار ایمان و عمل کی دعوت دی اور سول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی انہیں نصیحت کی کہ تم جو کہتے ہو کہ محمد مجنون ہے تو تم لوگ کبھی ایک ساتھ سر جوڑ کر اور کبھی تنہا تنہا ہی ہر قسم کے تعصب اور خواہش نفس سے بالاتر ہو کر اور نہایت اخلاص کے ساتھ اس کے موضوع پر غور کر کے تو دیکھو کہ کیا محمد تمہیں مجنون نظر آتے ہیں؟ وہ تو تمہارے درمیان جس بڑی عقل اور بے مثال ہو شمندی کے ساتھ مشہور ہیں ان کے سچا ہونے کے لئے کافی ہے۔ کیا ایسی عقل والا آدمی بغیر سوچے سمجھے کوئی ایسا دعویٰ کر بیٹھے گا جو اس کی ذلت و رسوائی کا سبب بنے، اور جو اسے ہلاکت و بربادی کے دہانے تک پہنچا دے۔ مزید برآں یہ کہ ان سے بہت سے ایسے معجزات کا بھی ظہور ہوچکا ہے جو اس بات کی قطعی دلیل ہیں کہ وہ اپنے دعویٰ نبوت میں سچے ہیں اور لوگوں کو ایک شدید عذاب سے ڈرانے کے لئے بھیجے گئے ہیں اسلئے اپنے مشرکین مکہ ! تمہارے لئے بھلائی اسی میں ہے کہ تم ایسی جاہلانہ باتوں سے باز آجاؤ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آؤ۔ سبأ
47 38 داعی الی اللہ کے بارے میں جب لوگوں کو شبہ ہوجاتا ہے کہ اس کا مقصد دنیا کمانا ہے تو اس کی بات اپنا اثر کھو دیتی ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ مشرکین مکہ کے سامنے اس بات کی صراحت کردیجیے کہ مجھے تم سے کسی دنیاوی مفاد کی لالچ نہیں ہے، میں اپنی دعوت میں نہایتط مخلص ہوں اور اپنے اجر و ثواب کی امید اللہ سے رکھتا ہوں، جو میری سچائی اور اخلاص سے خوب واقف ہے۔ اے میرے نبی ! آپ یہ بھی کہہ دیجیے کہ میرا رب اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے، اپنی نبوت کے لئے چن لیتا ہے اور اس پر اپنی وحی نازل کرتا ہے اور چونکہ وہ غیب کی تمام باتوں کو خوب جانتا ہے، اسی لئے وہی بہتر علم رکھتا ہے کہ کون رسالت و وحی کا بار گراں اٹھانے کا اہل ہے۔ آپ یہ بھی کہہ دیجیے کہ اسلام آچکا، دعوت توحید ظاہر ہوگئی اور باطل نے دم توڑ دیا اور ہمیشہ کے لئے رخصت ہوگیا۔ مشرکین آپ کے بارے میں کہتے ہیں کہ محمد اپنے باپ دادوں کا دین چھوڑ کر گمراہ ہوگیا، تو آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اگر میں اپنے نفس کا غلام بن کر گمراہ ہوگیا ہوں، تو اس کا وبال مجھ پر پڑے گا اور اگر میں نے اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت کو قبول کرلیا ہے اور راہ راست پر گامزن ہوگیا ہوں تو مجھ پر یہ اللہ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے مجھے اس کی توفیق بخشی، اور وہ بڑا سننے والا اور بہت ہی قریب ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت میں مذکور آخری بات کہ مجھے تو دعوت الی اللہ کا اجر صرف اپنے رب سے چاہئے، تمام داعیان حق کے لئے عام ہے، اس لئے جب اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (عظیم المرتبت نبی ہونے کے باوجود) یہ حکم دیا کہ اپنے بارے میں ایسی بات کہیں تو دوسرے لوگ بدرجہ اولیٰ اس حکم میں داخل ہیں۔ سبأ
48 سبأ
49 سبأ
50 سبأ
51 39 قیامت کے دن حسابو کتاب اور جزا و سزا کے فیصلے کے وقت مشرکین کے دل و دماغ خوف و دہشت سے پر ہوں گے، وہ کہیں بھاگ کر نہ جا سکیں گے اور عذاب نار سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی، انہیں بہت ہی قریب سے پکڑ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اس وقت وہ کہیں گے کہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (یا قرآن) پر ایمان لے آئے، لیکن اب وہ ایمان کو کہاں پا سکیں گے، وہ تو اس سے بہت دور، بہت دور جا چکے ہوں گے، وہ تو میدان محشر میں ہوں گے اور ایمان لانے کی جگہ تو دنیا تھی جب ایمان لانا مفید تھا، اور وہ نعمت ان سے بہت ہی قریب تھی، تو اس سے غافل تھے اور اب جبکہ وہ نعمت ان سے بہت دور ہوچکی ہے تو اس کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہیں اب وہ اسے ہرگز نہیں پا سکیں گے۔ آیت 53 میں مذکور بالا مضمون کی توثیق ہے کہ دنیا میں ان مشرکین نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کردیا تھا اور محض وہم و گمان کی بنیاد پر انہیں جادوگر، شاعر اور مجنوں کہا تھا، نیز موت کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا انکار کردیا تھا۔ سبأ
52 سبأ
53 سبأ
54 40 میدان محشر کا ایمان مشرکین کے کام نہیں آئے گا اور انہیں گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا، جیسا کہ ان سے پہلے انہی جیسے کافروں کا انجام ہوچکا ہوگا، یعنی ان کا بھی میدان محشر کا ایمان قبول نہیں کیا گیا تھا اور جہنم میں ڈال دیئے گئے تھے اور مشرکین مکہ کا یہ انجام اس لئے ہوگا کہ وہ دنیا کی زندگی میں توحید باری تعالیٰ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت اور بعث بعد الموت کے بارے میں ہمیشہ گہرے شک میں ہی مبتلا رہے، ایمان کے قریب بھی نہیں پھٹکے اور کفر و شرک کی حالت میں ہی ان کی موت آگئی۔ وباللہ التوفیق سبأ
0 سورۃ فاطر مکی ہے، اس میں پینتالیس آیتیں اور پانچ رکوع ہیں تفسیر سورۃ فاطر نام : سورت کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی صفت (فاطر السماوات ولارض) بتائی گئی ہے، اسی سے یہ نام ماخو ذ ہے۔ اس کا دوسرا نام ” الملائکہ“ بھی ہے، اس لئے کہ پہلی ہی آیت میں فرشتوں کی بعض صفات اور اللہ کی طرف سے ان پر عائد کردہ ذمہ داریوں کا ذکر آیا ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی لکھتے ہیں کہ یہ سورت سب کے نزدیک مکی ہے، امام بخاری وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ فاطر مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ فاطر
1 -1” الحمد“ سے مراد وہ تمام تعریفیں ہیں جو آسمانوں اور زمین کے درمیان ہو سکتی ہیں، ان سب کا حقدار وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بغیر سابق مثال و مادہ کے پیدا کیا ہے اور جس نے فرشتوں کو انبیاء کے پاس وحی دے کر بھیجا اور اپنے بعض دوسرے بندوں کے پاس انہیں الہام اور نیک خوابوں کے ذریعہ اپنا پیغام رساں بنا کر بھیجا اور دیگر کارہائے بے شمار کی ذمہ داری ان کو سونپی اور ان فرشتوں میں سے کسی کے دو، کسی کے تین اور کسی کے چار پر ہوتے ہیں اور کسی کے اس سے بھی زیادہ ہوتے ہیں، جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ معراج کی رات جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبرئیل (علیہ السلام) کو دیکھا تو ان کے چھ سو پر تھے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اپنی حکمت کے مطابق جس چیز کو جتنی تعداد میں چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، اس لئے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے، تمام رحمتوں، برکتوں، خیرات و ارزاق کے خزانوں کا وہ تنہا مالک ہے، کسی کا ان میں کوئی دخل نہیں ہے، وہ اگر کسی کو ان میں سے سے دینا چاہے تو کوئی روک نہیں سکتا اور اگر کسی کو ان سے محروم کرنا چاہے تو کوئی اسے دے نہیں سکتا۔ وہ صاحب عزت اور ہر چیز پر غالب ہے اور تمام امور میں حکمت و مصلحت کے مطابق تصرف کرتا ہے۔ فاطر
2 فاطر
3 2 اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو حکم دیا ہے کہ ان کے لئے اللہ کی نعمتوں کا جو فیضان عام ہے، اسے یاد کریں اور اس کا شکر ادا کرتے رہیں، تاکہ وہ نعمتیں باقی رہیں، تاکہ وہ نعمتیں باقی رہیں اور مزید نعمتوں کا تسلسل باقی رہے اور ان نعمتوں کو یاد کرنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جب بندہ یہ سمجھے گا کہ ان نعمتوں کا پیدا کرنے الا اور انہیں اس تک بھیجنے والا صرف اللہ سے تو لا محالہ ایک سلیم الفطرت آدمی کے ذہن میں یہ بات آئے گی کہ عبادت کا بھی وہی تنہا حقدار ہے اور اس سے بڑھ کر ناشکرمی کیا ہو سکتی ہے کہ کھلائے وہ مالک کل اور بندہ گائے کسی اور کا اسی لئے آیت کے آخر میں کہا گیا کہ جب اس کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں ہے، تو لوگ اس کی وحدانیت سے کیوں روگردانی کرتے ہیں؟! فاطر
4 3 نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ حق واضح ہوجانے کے باوجود بھی اگر مشرکین مکہ آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو آپ کو دل برداشتہ نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ اہل کفر و شرک کا ہر دور میں یہی وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی اللہ کا کوئی رسول آیا تو انہوں نے اس کی تکذیب کی۔ فاطر
5 4 اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ انسانوں کا دوبارہ زندہ کیا جانا، حساب و کتاب، جزا و سزا اور جنت و جہنم کی باتیں بالکل صحیح اور برحق ہیں، اس لئے وہ دنیا کی زندگی اور اس کے عیش و آرام میں پڑ کر آخرت کی کامیابی کے لئے عمل صالح کرنا بھول نہ جائیں، یہاں تک کہ موت آجائے اور اللہ کے حضور خالی ہاتھ پہنچیں اور اس وقت کف افسوس ملتے ہوئے کہیں کہ اے کاش ! میں نے اس زندگی کی کامیابی کے لئے عمل صالح کیا ہوتا اور ایسا نہ ہو کہ شیطان انہیں یہ کہہ کر بہکادے کہ اللہ کی رحمت بڑی وسیع ہے، اور اس کا فضل و کرم بڑا عام ہے، اس لئے یہاں خوب عیش کرلو، کبھی توبہ کرلینا وہ غفور رحیم تمہیں ضرور معاف کر دے گا۔ آیت 6 میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے انہیں تنبیہ کی کہ دیکھو شیطان تمہارا بہت بڑا دشمن ہے، تم اس بات کو ہر وقت یاد رکھو تاکہ اس کے دھوکے میں نہ پڑجاؤ، اس لئے کہ وہ اپنے پیروکاروں کو ایسے ہی اعمال کی دعوت دیتا ہے جن کا لازمی نتیجہ عذاب نار ہے۔ فاطر
6 فاطر
7 5 اللہ تعالیٰ نے اپنے نافرمان اور فرمانبردار بندوں کا انجام بتایا ہے کہ کافروں کو آخرت میں سخت عذاب دیا جائے گا اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور عمل صالح کریں گے، اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف کر دے گا اور انہیں جنت اور اس کی بیش بہا نعمتیں عطا کرے گا۔ فاطر
8 6 نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک گنا تسلی اور ان کی روح کو تقویت پہنچانے کے لئے کہا گیا ہے کہ اگر کافروں اور فاجروں کے برے اعمال کو شیطان اور خود ان کا نفس امارہ ان کی نگاہوں میں خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے ار وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے سارے اعمال درست ہیں توگ ویا اللہ انہیں گمراہ کردینا چاہتا ہے، کیونکہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اس لئے آپ کافروں کی گمراہی اور ایمان نہ لانے پر گھٹ گھٹ کر اپنے آپ کو ہلاک نہ کیجئے اللہ تعالیٰ ان کے کرتوتوں سے خوب واقف ہے اور وہی انہیں ان اعمال کا بدلہ چکائے گا۔ فاطر
9 7 اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں زمین کی موت اور پھر بارش کے بعد اس کی زندگی کی مثال دے کر انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر استدلال کیا ہے، رات دن کا مشاہدہ ہے کہ زمین بالکل خشک ہوتی ہے، اس میں ایک بھی ہرا پودا نہیں ہوتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ بارش بھیجتا ہے تو اسی زمین میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور جب کا شتکار اس میں بیج ڈالتا ہے تو کچھ ہی دنوں کے بعد اس میں پودے لہلہانے لگتے ہیں۔ اسی طرح انسان کی جب دنیاوی زندگی پوری ہوجاتی ہے تو وہ مر جاتا ہے اور قیامت سے پہلے جو لوگ موجود ہوں گے وہ سب بھی مر جائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو دوبارہ اسی طرح زندہ کرے گا جس طرح وہ بارش کے ذریعہ زمین کو زندہ کرتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس میں پودے لہلانے لگتے ہیں۔ فاطر
10 8 دنیا و آخرت دونوں جہان میں عزت طلبی کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی طاعت و بندگی میں لگا رہے، اس لئے کہ دنیا و آخرت کا وہی مالک ہے۔ ہر طرح کی عزت و آبرو اسی کے اختیار میں ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کردیتا ہے۔ قرآن کریم نے اس مضمون کو متعدد آیات میں بیان کیا ہے۔ سورۃ النساء آیت 139 میں ہے، (ایبتغون عندھم العزۃ فان العزۃ اللہ جمیعاً) اور سورۃ یونس آیت 65 میں ہے : (ولا یحزنک قولھم ان العزہ للہ جمیعاً) ان دونوں آیتوں میں یہی بتایا گیا ہے کہ عزت و آبرو صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ آیت میں (الکلم الطیب) سے مراد ہر وہ قول و عمل ہے جو ذکر الٰہی کے ضمن میں آتا ہے۔ بندہ جب اپنے رب کو یاد کرتا ہے تو فرشتے ان کلمات ذکر کو لے کر اللہ تعالیٰ تک پہنچاتے ہیں۔ امام شوکانی نے ایک مفہوم یہ بھی لکھا ہے کہ بندہ جب اپنے رب کو یاد کرتا ہے تو وہ اسے قبول کرتا ہے، اور اس کا اسے اچھا اجر دیتا ہے۔ اور ذکر الٰہی عمل صالح کے ذریعہ ہی اللہ تک پہنچتا ہے، اگر بندہ فرائض کی پابندی اور دیگر نیک اعمال کرتا ہے تو اس کے اذکار و اوراد کو پر لگ جاتے ہیں اور وہ اللہ تک پہنچ جاتے ہیں اور جو شخص فرائض کی پابندی نہیں کرتا، اس کے اذکار اس کے منہ پر مار دیئے جاتے ہیں۔ آیت کے آخر میں (یمکرون السیئات) سے مراد وہ لوگ ہیں جو شرک اور دیگر معاصی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ مجاہد اور قتادہ کہتے ہیں کہ یہاں ریا کار لوگ مراد ہیں ! ابوالعالیہ کا خیال ہے کہ ان سے مراد وہ کفار مکہ ہیں جنہوں نے دار الندوہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازش کی تھی، اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو سخت عذاب کی دھمکی دی ہے اور کہا ہے کہ ان کی سازشیں ناکام ہو کر رہیں گے اور ریا کار کی ریاکاری لوگوں کے سامنے ظاہر ہو کر رہے گی۔ فاطر
11 9 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بعث بعد الموت کی ایک دوسری دلیل پیش کی ہے، فرمایا کہ اس نے تمہیں پہلی بار تمہارے باپ آدم کی صورت میں مٹی سے پیدا کیا، پھر تمہیں اور تمہاری نسلوں کو تمہارے باپ دادوں کے نطفوں سے پیدا کیا، پھ رسا نے اپنے لطف و کرم سے تم میں سے بعض کو مذکر اور بعض کو مؤنث بنایا اور ہر عورت کا حاملہ ہونا اور بچہ جننا، سب کچھ اس کے علم میں ہوتا ہے کسی انسان کی عمر لمبی ہوتی ہے اور کسی کی مختصر یہ ساری باتیں لوح محفوظ میں ازل سے مکتوب ہیں اور یہ تمام افعال اللہ کے لئے بہت ہی آسان ہیں اس کا علم ہر چیز کو محیوط ہے اور اس کی قدرت سے کؤی چیز خارج نہیں ہے۔ فاطر
12 10 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمی قدرت وضاعی کی ایک مثال پیش کی ہے، کہ اس نے دو قسم کے سمندر پیدا کئے ہیں، دیکھنے میں دونوں کا پانی بالکل ایک جیسا ہے، لیکن ایک کا پانی میٹھا اور مزے دار ہے، حلق سے نیچے آسانی کے ساتھ اتر جاتا ہے اور دوسرے کا پانی نمکین اور کھارا ہے کوئی اسے حلق سے نیچے نہیں اتار سکتا ہے اور دونوں قسم کے سمندروں میں اللہ نے ایسی مچھلیاں پیدا کی ہیں جو کھانے میں بہت لذیذ ہوتی ہیں اور کھارے پانی والے سمندر میں لو لو اور مر جان پیدا ہوتے ہیں جنہیں عورتیں زینت کے لئے بطور زیور استعمال کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان سمندروں کا پانی ایسا بنایا ہے کہ ان میں کشتیاں نہیں ڈوبتیں اور بسہولت تمام تیرتی ہوئی ایک شہر سے دوسرے شہر چلی جاتی ہیں اور وہ انسانوں کے لئے تلاش رزق کا سبب اور ذریعہ بنتی ہیں۔ یہ نعمتیں اللہ نے اس لئے دی ہیں تاکہ اس کے بندے ان سے مستفید ہوں اور اس کا شکر ادا کریں۔ اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ اس مثال سے مقصود مومن و کافر اور ایمان و کفر کے درمیان فرق بتانا ہے کہ جس طرح دونوں سمندر دیکھنے میں یکساں ہیں، لیکن ذائقہ میں ایک کا پانی دوسرے سے مختلف ہے۔ اسی طرح مومن و کافر دیکھنے میں ایک ہی جیسے انسان ہیں، لیکن ایمان و کفر کی وجہ سے دونوں کے درمیان مشرق و مغرب کا فرق ہے۔ واللہ اعلم فاطر
13 ١١ ” اللہ تعالیٰ رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے“ اس کی تفسیم آل عمران آیت 27 الحج آیت 61 اور لقمان آیت 29 میں گذر چکی ہے کہ ذات باری تعالیٰ کے مظاہر قدرت مطلقہ میں سے یہ بھی ہے کہ کبھی وہ رات کو چھوٹی اور دن کو بڑا بنا دیتا ہے اور کبھی دن کو بڑا اور رات کو چھوٹی بنا دیتا ہے اور کبھی بالکل رات آجاتی ہے تو کبھی پورا دن نکل آتا ہے اللہ تعالیٰ نے آفتاب و ماہتاب کو بندوں کے مصالح و منافع کی خاطر ایک خاص نظام حرکت و جریان کا پابند بنا رکھا ہے، جس سے وہ دونوں تاقیامت سرموکے برابر انحراف نہیں کرسکتے ہیں۔ مذکورہ بالا مظاہر قدرت و علم و حکمت اور بندوں کے ساتھ اپنے لطف و کرم کے اعمال بیان کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے تمام جہان والوں کے لئے اعلان کردیا کہ وہی قادر مطلق سب کا رب اور مالک کل ہے اور مشرکین اس کے سوا جن معبودوں کو پکارتے ہیں وہ تو ایک تنکے کے بھی مالک نہیں وہ اگر انہیں پکاریں گے تو ان کی پکار کا جواب نہیں دیں گے، اس لئے کہ وہ بے جان ہیں اور اگر بفرض محال سن بھی لیں، تو تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے ہیں، کیونکہ وہ نفع و نقصان کی ایک ذرہ کے برابر بھی قدرت نہیں رکھتے، اور قیامت کے دن تو وہ اپنے معبود ہونے اور اس بات کا قطعی طور پر انکار کردیں گے کہ مشرکین ان کی پوجا کرتے تھے یا وہ ان کی عبادت پر راضی تھے۔ فاطر
14 فاطر
15 12 اوپر کی آیتوں میں مختلف الانواع دلائل کے ذریعہ یہ بات ثابت کردی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی سب کا رب ہے اور وہی عبادت کی تمام قسموں کا تنہا حقدار ہے اور اس نے بنی نوع انسان کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے، لیکن اس سے کسی کو اس غلط فہمی میں نہیں پڑتا چاہئے کہ وہ اپنے بندوں کی عبادتوں کا محتاج ہے، اسی بات کی وضاحت کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے لوگو ! تم اپنی زندگی کے ہر لمحہ اور سانس میں اس کی رحمت، لطف و کرم اور اس کی مدد کے محتاج ہو، اور وہ تو سب سے بے نیاز اور تمام تعریفوں کا حقیقی مستحق ہے۔ اس کی بے نیازی اور قادر مطلق ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اگر وہ چاہے تو تمہیں اس دنیا سے فنا کر دے اور تمہاری جگہ کسی اور مخلوق کو لے آئے اور یہ کام اس کے لئے نہایت ہی آسان ہے۔ فاطر
16 فاطر
17 فاطر
18 13” قیامت کے دن کوئی آدمی کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا“ یہ مضمون سورۃ الانعام آیت (31) اور سورۃ الاسراء آیت 15 میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا چکا ہے ہر آدمی سے صرف اسی کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کا یہی تقاضا ہے گناہوں کے بوجھ تلے دبا ہوا آدمی اس دن تمنا کرے گا کہ کاش کوئی اس کے گناہ بانٹ لیتا، لیکن کوئی اس کی مدد کے لئے آگے نہیں بڑھے گا، چاہے اس کا قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو یعنی ہر آدمی اپنے حال میں پریشان ہوگا کوئی کسی کا پرسان حال نہیں ہوگا ہر شخص کی بے کسی انتہا کو پہنچی ہوگی۔ اس دن صرف عمل صالح ہی لوگوں کے کام آئے گا۔ آیت کے دوسرے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ کی نصیحتوں سے وہی لوگ فائدہ اٹھائیں گے جو اپنے رب کے ان دیکھے عذاب سے ڈرتے ہیں سورۃ النازعات آیت 45 میں ہے : (انما انت منذرمن یخشاھا) ” آپ تو صرف ان لوگوں کو ڈرانے والے ہیں جو قیامت کے دن سے ڈرتے ہیں“ اور سورۃ یٰسین آیت (١١) میں آیا ہے : (انما تنذرمن اتبع الذکر و خشی الرحمٰن بالغیب) ” آپ کے ڈرانے سے صرف وہ شخص فائدہ اٹھائے گا جو نصیحت قبول کرتا ہے اور رحمٰن سے بے دیکھے ڈرتا ہے۔ “ آپ کی نصیحتوں سے فائدہ اٹھانے والوں کی دوسری صرفت اللہ نے یہ بتائی کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں اور کوئی چیز انہیں اس سے غافل نہیں کرتی ہے، نیز فرمایا کہ جو شخص شرک و معاصی سے تائب ہو کر ایمان و عمل کی راہ اختیار کرے گا، اس کا اچھا بدلہ اسے ہی ملے گا اور سب کو اللہ کے پاس ہی لوٹ کر جانا ہے۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں قیامت کے دن کی تین اہم ترین باتیں بیان کی گئی ہیں : اس دن کوئی کسی کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، آدمی کا قریب ترین رشتہ دار بھی اس کے کام نہیں آئے گا اور جو شخص اس دنیا میں نیک عمل کرے گا، قیامت کے دن اس کا اچھا بدلہ صرف اسے ہی ملے گا۔ فاطر
19 14 ذیل میں آنے والی چار آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مومن و کافر کے درمیان فرق بیان فرمایا ہے کہ جس طرح اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتے، اسی طرح کافرو مومن برابر نہیں ہو سکتے اور جس طرح تاریکی اور روشنی برابر نہیں، اسی طرح حق و باطل برابر نہیں ہو سکتے اور جس طرح سایہ اور دھوپ کی تمازت برابر نہیں اسیطرح جنت اور اس کی نعمتیں جہنم اور اس کے عذاب کے مانند نہیں ہو سکتیں، اور جس طرح زندہ لوگ مردوں کے برابر نہیں، اسی طرح حق و باطل برابر نہیں ہو سکتے۔ ابن قتیبہ کہتے ہیں کہ ” زندوں“ سے مراد اہل دانش اور مردوں سے مراد جاہل و نادان لوگ ہیں اور قتادہ کہتے ہیں کہ جس طرح مذکورہ بالا چیزیں آپ اس میں برابر نہیں ہو سکتی ہیں اسی طرح مومن و کافر برابر نہیں ہو سکتے ہیں۔ آیت ٢٢ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ جسے چاہتا ہے اپنی آیتوں کو سمجھنے اور ان سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق دیتا ہے اور جس طرح قبروں میں مدفون مردے سننے کی صلاحیت نہیں رکھتے اسی طرح وہ مردہ دل لوگ جو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور فہم قرآن کریم کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں کسید لیل و حجت اور کسی نصیحت سے مستفید نہیں ہوتے ہیں کفر پر اصرار کرنے والوں کو مردوں سے تشبیہ دے کر، ان کے ایمان سے قطعی طور پر نا امیدی کا اظہار کیا گیا ہے اور آیت (٢٣) میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا ہے کہ آپ کی ذمہ داری تو تبلیغ رسالت ہے، اگر کوئی قبول کرے گا تو اپنے لئے اور اگر کوئی شرک و کفر پر اصرار کرے گا تو اس کا وبال اسی کی جان پر پڑے گا۔ فاطر
20 فاطر
21 فاطر
22 فاطر
23 فاطر
24 15 نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا اعلان ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو منبع ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ آپ مومنوں کی جنتکی خوشخبری دیں اور کافروں اور نافرمانوں کو جہنم سے ڈرائیں نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور مومنوں کو خبر دی گئی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے نبی نہیں ہیں جسے اللہ نے انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے، اللہ تعالیٰ نے گزشتہ امتوں میں سے ہر امت کے پاس اپنا رسول بھیجا جس نے انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا پھر کفار قریش آپ کے نبی ہونے پر کیوں حیرت و استعجاب کا اظہار کرتے ہیں۔ آیت 25 میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے کہا گیا کہ اگر کفار قریش آپ کی تکذیب کر رہے ہیں اور آپ کی دعوت کو قبول نہیں کر رہے ہیں، تو آپ فکر مند نہ ہوں اور ہمت نہ ہاریئے، یہ تو پہلے سے ہوتا آرہا ہے کہ جب بھی کسی نبی کو کسی قوم کے پاس معجزات اور حق بیان کرنی والی آسمانی کتاب دے کر بھیجا گیا تو اس قوم نے اس کی تکذیب کی اور انجام کار اللہ نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا اور اس کی گرفت بڑی ہی سخت ہوتی تھی۔ فاطر
25 فاطر
26 فاطر
27 16 مذکور ذیل دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس کی تمام مخلوقات ایک جیسی نہیں ہے، ان کے درمیان اختلاف و تفاوت پیاا جاتا ہے، کوئی مومن ہوتا ہے تو کوئی کافر، کوئی نیک ہوتا ہے تو کوئی بد، ان کے رنگ بھی مختلف ہوتے ہیں وہ خالق کل ایک ہی پانی سے مختلف قسم کے پھل پیدا کرتا ہے جو مزے اور رنگ میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں بلکہ ایک ہی قسم کا پھل مختلف رنگوں کا ہوتا ہے جیسے کھجور، انگور، سبزیاں اور کئی دیگر پھل پہاڑوں میں رنگ برنگ کے پتھر پائے جاتے ہیں، انسانوں، چوپایوں اور جانوروں کے بھی مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ ایمان و کفر، نیکی و بدی اور رنگوں کا یہ اختلاف اللہ کی قدرت کے مظاہر ہیں، جن میں غور و فکر وہی لوگ کرتے ہیں، جنہیں اللہ علم جیسی بیش بہا دولت سے نوازتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آیت 28 کے دوسرے حصے میں فرمایا کہ اللہ کے بندوں میں سے علماء ہی اس سے حقیقی معنوں میں ڈرتے ہیں، اہل مکہ تو جاہل و نادان ہیں اسی لئے نہ اللہ سے ڈرتے ہیں، نہ ہی اس کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں حالانکہ اللہ ہر چیز پر غالب ہے وہ کسی وقت بھی انہیں ہلاک کرنے پر قادر ہے اور وہ توبہ کرنے والوں کے گناہوں کو معاف کرتا ہے، اس لئے اہل مکہ شرک و کفر پر اصرار نہ کریں اور تائب ہو کر اسلام کو قبول کرلیں۔ فاطر
28 فاطر
29 17 مذکورہ ذیل دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کچھ صفات بیان کی ہیں اور ان کی وجہ سے ان کے رب کا ان کے ساتھ جب احسان و اکرامکا معاملہ ہوگا اسے ذکر کیا ہے، فرمایا ہے کہ جو لوگ پابندی کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، اس کے حقائق و معانی کو سمجھنے کے لئے اس میں غور و فکر کرتے ہیں، نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں، ارکان، واجبات، سنن، اور خشوع و خضوع کا خاص خیال رکھتے ہیں اور اللہ نے انہیں جو روزی دی ہے، اس میں سے حالات کے تقاضے کے مطابق کبھی چھپا کر اور کبھی دکھا کر اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، ایسے لوگ قیامت کے دن اللہ سے ایسے اجر و ثواب کی امید کھتے ہیں جس کا حصول یقینی ہے اس دن اللہ تعالیٰ انہیں ان کا پورا پورا اجر دے گا، بلکہ اپنے فضل و کرم سے اتنا زیادہ دے گا جس کا انہوں نے پہلے سے تصور بھی نہیں کیا ہوگا، اس لئے کہ رب العالمین اپنے مومن و تائب بندوں کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے اور ان کے نیک اعمال کا بہت ہی اچھا بدلہ دیتا ہے۔ فاطر
30 فاطر
31 18 اس آیت کریمہ میں قرآن کریم کی عظمت و حقانیت کو بیان کیا گیا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا ہے، یہ کسی انسان کی گھڑی ہوئی کتاب نہیں ہے اور یہ وہ کتاب برحق ہے جو گزشتہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے، یعنی اس کا پیغام بھی وہی ہے جو تورات و انجیل وغیرہ کا تھا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور چونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حالات سے خوب واقف ہے، اسی لئے اس کے علم میں یہ بات تھی کہ انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے ایک ایسی کتاب کیضرورت ہے جو رہتی دنیا تک ان کجے لئے شمع ہدایت بن کر باقی رہے، چنانچہ اس نے اپنے آخری رسول پر قرآن کریم نازل کیا ہے۔ آیت 32 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے اس کتاب کا وارث امت محمدیہ کو بنایا، جنہوں نے صحابہ کرام کے زمانے سے ہر دور میں اسے پڑھا، سمجھا اور دنیا والوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔ لیکن عمل کے اعتبار سے یہ وارثین قرآن کریم تین طبقوں میں بٹ گئے ایک طبقہ نے اس پر عمل کرنے میں کوتاہی کی اور بعض کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا، دوسرے طبقہ نے واجبات ادا کئے، محرمات سے اجتناب کیا، لیکن بعض مکروہات کا ارتکاب کیا اور بعض مستحبات کی ادائیگی میں سستی کی، اور تیسرے طبقہ نے اللہ کی توفیق سے فرائض و نوافل ادا کئے اور کبائر و صغائر سے اجتناب کیا۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا فضل و کرم فرمائے گا اور سب کو جنت میں داخل کر دے گا، جس میں انہیں پہننے کے لئے سونے اور موتی کے زیرات اور ریشمی لباس ملیں گے، اور تب سب مل کر اپنے رب کی ان کرم فرمائیوں پر اس کا شکر ادا کریں گے جس نے ان کے دل سے ہمیشہ کے لئے حزن وملال دور کردیا اور کہیں گے کہ ہمارا رب بڑا معاف کرنے الا اور نیک اعمال کا بہت ہی اچھا بدلہ دینے والا ہے، اسی لئے تو اس نے گناہ گاروں کو معاف کردیا اور تھوڑی نیکی کرنے والوں کی نیکیوں کو قبول کرلیا اور سب کو جنت میں داخل کردیا۔ نیز کہیں گے : ساری تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے محض اپنے فضل و کرم سے ہمیں ہمیشہ باقی رہنے والی جنت میں داخل کردیا، جہاں ہمیں کبھی بھی تھکن اور پریشانی لاحق نہیں ہوگی۔ فاطر
32 فاطر
33 فاطر
34 فاطر
35 فاطر
36 19 اس کا تعلق آیت 30 میں بیان کردہ مضمون سے ہے، جس میں قرآن کریم کی تلاوت کرنے والوں اور نماز قائم کرنے والوں کا انجام بیان کیا گیا ہے۔ یہاں کفار اور منکرین قیامت کا انجام بیان کیا گیا ہے، فرمایا : جو لوگ اللہ، اس کی آیات اور یوم آخرت کا انکار کریں گے، وہ جہنم کی آگ میں ڈال دیئے جائیں گے، جہاں انہیں نہ موت آئے گی تاکہ غم والم سے چھٹکارا مل جائے اور نہ ایک لمحہ کے لئے ان سے عذاب کو ہلکا کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نافرمانوں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔ آیت 37 میں جہنمیوں کے درد و الم اور شدت عذاب کا حال یوں کیا گیا ہے کہ جب کچھ بھی نہ بن پڑے گا تو دھاڑیں مار مار کر روئیں گے اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں یہاں سے نکال کردینا میں دوبارہ پہنچا دے، تاکہ عمل صالح کر کے اپنی عاقبت سدھار لیں، تو ان سے اللہ تعالیٰ کہے گا کہ تم لوگ اب جہنم کی آگ سے نکل کر دوبارہ دنیا میں جانا چاہتے ہو، تاکہ عمل صالح کرو، کیا ہم نے تمہیں اتنی لمبی عمر نہیں دی تھی کہ تم میں سے جو چاہتا غور و فکر سے کام لیتا اور راہ راست کو اختیار کرتا؟ کیا تمہارے پاس ہمارے پیغامبر نہیں آئے تھے؟ اور انہوں نے تمہیں ہمارے عذاب سے ڈرایا نہیں تھا، لیکن تم لوگوں نے شرک اور گناہوں پر اصرار کیا، تو اب چکھو اپنے کئے کا انجام، آج ظالموں کا کؤی یار و مددگار نہیں ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اگر دنیا میں کوئی آدمی ایمان اور عمل صالح کی زندگی نہیں گذارتا ہے تو قیامت کے دن لمبی عمر اس کے خلاف حجت بن جائے گی، جیسا کہ اس آیت میں اس کی صراحت کردی گئی ہے۔ فاطر
37 فاطر
38 20 آسمانوں اور زمین میں جو کچھ پوشیدہ ہے، اللہ کو ان سب کی خبر ہے وہ دلوں کے بھیدوں تک سے واقف ہے اس لئے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اگر کفار و مشرکین دوبارہ دنیا میں بھیج دیئے گئے تو پہلے کی طرح کفر و شرک کا ہی ارتکاب کریں گے اور عمل صالح سے دور ہی رہیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام آیت (28) میں فرمایا : (ولوردو العادو المانھوا عنہ) ” اگر یہ لوگ دنیا میں لوٹا دیئے جائیں تو دوبارہ وہی کریں گے جس سے انہیں منع کیا گیا تھا۔ “ فاطر
39 21 اللہ تعالیٰ نے قیامت تک اس دنیا کو آباد کھنے کے لئے ابن آدم کے وجود کا ایک تسلسل قائم کردیا ہے کہ باپ کے بعد بیٹے اور بیٹیوں کے بعد پوتے پیدا ہوتے رہتے ہیں اور اس کی پیدا کردہ نعمتوں کے یکے بعد دیگرے وارث بنتے رہتے ہیں، یہ باتیں ابن آدم کو موقع فراہم کرتی ہیں کہ وہ غور و فکر کرے اور سوچے کہ اکرہ ارض پر کسی کو دوام حاصل نہیں ہے اور کامیاب وہی ہوگا جو توحید باری تعالیٰ پر ایمان لائے گا اور طاعت و بندگی کی راہ اختیار کرے گا اور جو کفر کیر گا اسے اس کا بدلہ مل کر رہے گا، کفر ایسی بری بلا ہے جو انسان کو اللہ کی رحمت سے ہمیشہ کے لئیدور کردیتی ہے، دنیا میں اس کے بغض شدید اور آخرت میں ہلاکت و بربادی کا سبب بنتی ہے۔ فاطر
40 22 آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان پائی جانے والی تمام مخلوقات کا خالق و مالک تنہا اللہ ہے، اس کا کوئی ساجھی نہیں ہے اسی حقیقت کو مشرکین قریش کے دل و دماغ میں عقلی دلیل کے ذریعہ اتارنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا : آپ ان مشرکین سے پوچھئے کہ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، کیا وہ زمین کے پیدا کرنے میں اللہ کے شریک رہے ہیں، یا آسمان کے پیدا کرنے میں کہ وہ تمہاری نظر میں عبادت کے مستحق بن گئے ہیں؟ یا اللہ کی کوئی نوشتہ تحریر تمہارے پاس ہے جس میں لکھا ہے کہ اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بنانا جائز ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : حقیقت یہ ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، بلکہ یہ ظالم لوگ اپنے آپ کو ایک دوسرے سے یہ کہہ کر دھوکہ دیتے ہیں کہ ہمارے یہ معبود اللہ کے نزدیک سفارشی بنیں گے اور ہمیں اس سے قریب کریں گے، اس لئے بغیر دلیل و برہان ان کی عبادت کرتے ہیں۔ فاطر
41 23 بتوں اور جھوٹے معبودوں کی انتہائی عجزی اور بے بسی بیان کرنے کے بعد اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظیم قدرت کی دلیل پیش کی ہے کہ صرف اس کی ذات ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو ان کی جگہوں میں ثبات کردیا ہے، ان کے اندر ایسی قوت پیدا کردی ہے کہ سارے آسمان اپنی جگہوں میں بغیر کسی مرئی سہارے کے قائم ہیں اور زمین بھی اپنی جگہ ثابت ہے، اس میں حرکت پیدا نہیں ہوتی ہے ورنہ آسمان انسانوں کے سروں پر گر کر انہیں تباہ کردیتا اور زمین ہل کر تمام مخلوقات کو تہہ و بالا کردیتی اور ان کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔ یہ سب محض اس قادر مطلق اور مالک کل کی طاقت و قدرت کے سہارے قائم ہیں جو نہایت بردبار اور گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ فاطر
42 24 نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے قبل جب کفار قریش کو معلوم ہوا کہ یہود و نصاریٰ نے موسیٰ اور عیسیٰ علیہا السلام کو جھٹلایا تھا، تو انہوں نے ان پر لعنت بھیجی اور قسم کھائی کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کے پاس اپنا کؤی نبی بھیجے گا تو وہ اہل کتاب سے اچھے ثابت ہوں گے، اس پر ایمان لے آئیں گے اور اس کی تکریم کریں گے، لیکن جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے تو انہوں نے ان سے شدید نفرت وعداوت کی، کبر و غرور کی وجہ سے ان پر ایمان نہیں لائے اور لوگوں کو اللہ کے دین سے برگشتہ کرنے کے لئے نوع بہ نوع سازشیں کیں، وہ نادان اس حقیقت سے نابلد تھے کہ ہر بری سازشیں بالاخر سازش کرنے والے ہی کے گلے کا پھندا بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان کے کردار سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اس انتظار میں ہیں کہ اللہ انہیں بھی گزشتہ ظالم قوموں کی طرح ہلاک کر دے، اگر انہوں نے اپنی حالت نہیں بدلی تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ کا قانن کبھی نہیں بدلتا ہے اور نہ ایسا ہوتا ہے کہ عذاب کا مستحق کوئی ہو اور نازل ہوجائے کسی اور پر اس لئے اہل مکہ کے لئے اس میں خیر ہے کہ عذاب کا وقت آنے سے پہلے توبہ کرلیں اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئیں۔ فاطر
43 فاطر
44 25 کفار مکہ کو غور و فکر کی دعوت دی جا رہی ہے کہ ہر عقلمند انسان اپنے جیسے دوسرے انسان کی حالت دیکھ کر عبرت و نصیحت حاصل کرتا ہے کہ اگر میں نے بھی اس جیسا کام کیا تو ایسے ہی انجام سے دیکھا ہے جو ان سے پہلے، ان کے قرب و جوار میں رہتی تھیں، اور ان سے زیادہ قوت کی مالک تھیں، لیکن جب انہوں نے اللہ سے سرکشی کی تو اس نے انہیں ہلاک کردیا اور انہیں کوئی نہیں بچا سکا، اس لئے کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اللہ کو عاجز بنا سکے اور اس سے راہ فرار اختیار کرلے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک مسنون دعا میں آیا ہے :” ولا ملجاً ولا منجاً منک الا الیک“” میرے رب تجھ سے بھاگ کر تیری ہی جناب میں پناہ و نجات مل سکتی ہے“ (بخاری، مسلم، ابوداؤد) آیت 45 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ آدمی کے ہر گناہ پر دنیا میں ہی اس کا مواخذہ کرتا اور اس پر عذاب نازل کردیتا تو کرہ ارض پر کوئی ذمی روح باقی نہیں رہتا، اس نے انسانوں کے حساب و کتاب کے لئے قیامت کا دن مقرر کر رکھا ہے جب وہ وقت آجائے گا تو وہ سمجھوں کو اکٹھا کرے گا اور ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزا و سزا دے گا اور وہ خوب واقف ہے کہ کون اس دن عذاب کا مستحق ہوگا اور کون اعزاز و اکرام کا وباللہ التوفیق۔ فاطر
45 فاطر
0 تفسیر سورۃ یٰسین نام : سورت کی ابتدا ہی میں یہ لفظ آیا ہے، یہی اس کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ سورت سب کے نزدیک مکی ہے صرف ایک آیت (ونکتب ماقدموا واثارھم) کے بارے میں بعض کا خیال ہے کہ یہ مدینہ میں نازل ہوئی تھی ابن عباس اور عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ یہ سورت مکی ہے۔ فضیلت : صاحب محاسن التنزیل نے لکھا ہے کہ اس سورت کی فضیلت سے متعلق جتنی حدیثیں مروی ہیں، سب موضوع، باطل یا ضعیف ہیں، دیگر مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی کفار قریش کو کفر و شرک، انکار رسالت اور انکار آخرت کے انجام سے ڈرایا گیا ہے۔ يس
1 1 کلمہ یٰسین کے بارے میں علمائے تفسیر کے مختلف اقوال ہیں ایک قول یہ ہے کہ یہ ” اے نسان“ کے معنی میں ہے سعید بن جبیر اور کچھ دور سے حضرات کا خیال ہے کہ یہ کلمہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک نام ہے اور اس کی دلیل اس کے بعد اللہ کا قول :’ انک لمن المرسلین) ہے یعنی اے یٰسین ! آپ یقیناً اللہ کے رسول ہیں، ابوبکر وراق نے کہا ہے کہ اس کا معنی ” یاسید البشر“ ہے۔ يس
2 -2 آگے جو بات کہی جانے والی ہے، اس کی تاکید و توثیق کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کی قسم کھائی ہے جو حکمتوں کا خزانہ ہے۔ يس
3 3 نقاش کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کسی دوسرے نبی کی نبوت کی توثیق کے لئے اپنی کتاب عزیز کی قسم نہیں کھائی ہے اور ایسا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم و تکریم کے لئے کیا گیا ہے کفار قریش آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کرتے تھے کہ تم اللہ کے پیغامبر نہیں ہوجیسا کہ سورۃ الرعد آیت 43 میں ان کا قول نقل کیا گیا ہے : (لسنت مرسلاً) اسی کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا ہے کہ آپ بے شک میرے بھیجے ہوئے رسول ہیں اور آپ میری سیدھی راہ (دین اسلام) پر گامزن ہیں اور یہ قرآن اس ذات برحق کا نازل کردہ ہے جو ہر حال میں سب پر غالب اور بے حد رحم کرنے والا ہے، اور یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس لئے نازل کیا گیا ہے تاکہ اسے پڑھ کر مشرکین قریش کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں جن کے پاس ایک طویل مدت سے یعنی اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد سے کوئی نبی نہیں بھیجا گیا ہے۔ اسی لئے وہ لوگ خالق و مخلوق کے حقوق کو بھول گئے ہیں اور کفر و فساد اور انکار آخرت جیسی برائیوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ يس
4 يس
5 يس
6 يس
7 -4 ابن جریر نے اس کا مفہوم یہب یان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے مطابق لوح محفوظ میں یہ بات لکھ دی ہے کہ اکثر وبیشتر کفار قریش ایمان نہیں لائیں گے اور پوری زندگی کفر پر اصرار کریں گے اور اسی حال میں ان کی موت آجائے گی بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں ’ دقول“ سے سورۃ ص آیت 85 (لاملان جھنم منک وممن تبعک) مراد ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو اس کے پیروکاروں کے بارے میں کہی تھی وہ بات ان کافروں کے حق میں (بحیثیت پیرو کار ان ابلیس) ثابت ہوگئی ہے کہ یہ لوگ جہنم کے ایندھن بنیں گے۔ يس
8 -5 مشرکین قریش کا جو حال اوپر بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے اور حالت کفر پر ہی ان کی موت ہوگئی، اسی بات کی مزید تاکید کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ انکار حق میں ان کا حال ان لوگوں جیسا ہے جن کے ہاتھوں میں بیڑیاں ڈال کر ان کی گردنوں سے باندھ دیا گیا ہو اور ان کے ہاتھ ٹھڈی کے نیچے گردنوں میں اسطرح اٹک گئے ہوں کہ ان کے سر بالکل اوپر کی طرف اٹھ گئے ہوں نہ نیچے کی طرف دیکھ پاتے ہوں اور نہ ہی ادھر ادھر دیکھ سکتے ہوں، تو جس طرح ایسے لوگ کبھی بھی نیچے کی طرف دیکھ کر راہ راست پر نہیں چل سکتے ہیں، اسی طرح مشرکین قریش بھی اللہ کی ہدایت سے لاکھوں کو اس دور ہیں، اور کبھی بھی حق کی طرف مائل نہیں ہو سکتے ہیں۔ قراء اور ضحاک کا خیال ہے کہ یہ ایک مثال ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتانا چاہا ہے کہ ہم نے کافروں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے روک دیا ہے، جیسا کہ سورۃ الاسراء آیت 29 میں آیا ہے : (ولاتجعل یدک مغلولۃ الی عنقک) ” آپ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھئے“ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے نہ رکئے۔ يس
9 -6 کفار قریش کی دوسری مثال ان لوگوں کی ہے جن کے آگے اور پیچھے رکاوٹیں کھڑی کردی گئی ہوں اور وہ کچھ بھی نہ دیکھ پاتے ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ان کے ایمان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں، اس لئے وہ کفر کے دلدل سے نکل کر دائرہ ایمان میں کبھی بھی داخل نہ ہو سکیں گے۔ ضحاک کہتے ہیں کہ ان کے آگے دنیا رکاوٹ بنی کھڑی ہے کہ وہ اس کے سوا کچھ بھی نہیں دیکھ پاتے ہیں اور ان کے پیچھے انکار آخرت کی رکاوٹ ہے وہ سمجھتے ہیں کہ قیامت نہیں آئے گی اس لئے انہیں توبہ کی توفیق نہیں ہوتی ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دین اسلام سے نفرت اور بغض کی پٹی باندھ دی ہے، اس لئے وہ دل بینا سے محروم ہوگئے ہیں وہ حق کو بالکل نہیں دیکھ پاتے ہیں۔ يس
10 -7 اکابر مجرمین مکہ کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی گئی ہے کہ آپ چاہے انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں، اس لئے آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے اور اپنی دعوت و تبلیغ کا رخ ان کی طرف پھیر دیجیے جن کے بارے میں امید ہو کہ وہ دعوت حق کو قبول کرلیں گے اور یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں اس کی آیات میں غور و فکر کرتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں اور دنیا کی زندگی میں اللہ کو بغیر دیکھ اس سے ڈرتے ہیں اور جب تنہائی میں ہوتے ہیں انہیں کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا ہے تب بھی اس سے ڈرتے ہوئے گناہ نہیں کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ ایسے لوگوں کو گناہوں سے مغفرت اور اجر کریم یعنی جنت کی بشارت دے دیجیے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الملک آیت 12 میں فرمایا ہے : (ان الذین یخشون ربھم بالغیب لھم مغفرۃ واجر کبیر) ” بے شک جو لوگ اپنے رب سے غائبانہ طور پر ڈرتے ہیں، ان کے لئے گناہوں سے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔ “ يس
11 يس
12 8 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں کہ وہ قیامت کے دن تمام مردوں کو زندہ کرے گا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ کافروں میں سے جن کے دلوں کو چاہتا ہے ایمان کے ذریعہ زندہ کردیتا ہے، جن پر گمراہی کی وجہ سے موت طاری ہوچکی تھی تو پھر وہ حق کو ققبول کرلیتے ہیں اور باری تعالیٰ اپنے بندوں کے تمام اچھے اور برے اعملا کو لکھ لیتا ہے اور ان کی ان اچھی اور بری سنتوں کو بھی لکھ لیتا ہے جو ان کے ذریعہ دنیا میں جاری ہوجاتی ہیں اور انہیں ان کا ثواب یا گناہ ملتا رہتا ہے۔ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کی رائے ہے کہ یہاں ” آثار“ سے مراد نماز کے لئے مساجد کی طرف جانے والوں کے قدموں کے آثار ہیں نحاس نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے، اس لئے کہ آیت کا سبب نزول یہی ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ چونکہ اعتبار عموم لفظ کا ہوتا ہے نہ کہ خصوص سبب کا، اس لئے ابن آدم کے تمام اچھے اور برے آثار داخل ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد فرمایا ہے کہ ہم نے لوح محفوظ میں ہر چیز اور ہر عمل کو گن رکھا ہے۔ بعض نے ” امام مبین“ سے انسانوں کے نامہ ہائے اعمال مراد لئے ہیں، یعنی آدمی کا ہر عمل اس کے صحیفہ اعمال میں درج کرلیا جاتا ہے۔ يس
13 9 نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا ہے کہ وہ کفار قریش کو ایک بستی والے کا قصہ سنا دیں، جہاں کے رہنے والوں نے کفر و شرک پر اسی طرح اصرار کیا تھا جس طرح یہ لوگ کر رہے ہیں اور اللہ کے رسولوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا تھا جیسا یہ لوگ آپ کے ساتھ کر رہے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں چیخ کے ذریعہ ہلاک کردیا کہیں ایسا نہ ہو کہ ان قریشیوں کا انجام بھی اسی بستی والوں جیسا ہو۔ قرطبی نے لکھا ہے کہ تمام مفسرین کے نزدیک وہ بستی ” انطاکیہ“ تھی اور مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ ” رسولوں“ سے مراد عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریین تھے، جنہیں انطاکیہ والوں کو دعوت توحید دینے کے لئے بھیجا گیا تھا، ابن عباس، قتادہ، عکرمہ، کعب الاحبار اور وہب بن منبہ وغیرہم سے یہی مروی ہے۔ لیکن بہت سے قدیم و جدید مفسرین کے نزدیک یہ رائے صحیح نہیں ہے۔ بلکہ عیسائیوں کی غیر مستند روایات سے ماخوذ ہے۔ ان میں سرفہرست حافظ ابن کثیر اور جمال الدین قاسمی ہیں، جن کا خیال ہے کہ وہ بستی انطاکیہ نہیں کوئی اور تھی جس کا نام اور زمانہ صحیح روایات سے معلوم نہیں ہے اس لئے کہ انطاکیہ وہ پہلا شہر ہے جہاں کے رہنے والے سب سے پہلے عیسیٰ علیہ اسلام پر ایمان لائے تھے اسی طرح قرآن کریم کے ظاہری الفاظ بتاتے ہیں کہ جو لوگ اس بستی والوں کو دعوت توحید دینے گئے تھے وہ اللہ کے رسول تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں ان لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے مبعوث کیا تھا۔ اگر وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے اصحاب ہوتے تو قرآن کریم کی عبارت اسی کے مطابق ہوتی اور ان کی بات رد کرتے ہوئے بستی والے یہ نہیں کہتے کہ تم تو ہمارے ہی جیسے انسان ہو، ان رسولوں نے بستی والوں سے کہا ہوگا کہ ہم اللہ کے رسول ہیں، تو کافروں نے ان کی بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ تم تو ہمارے ہی جیسے انسا نہو، یعنی تم نبی نہیں ہو۔ اس بستی کے رہنے والے کفر و شرک میں مبتلا تھے اور دیگر گناہوں کا ارتکاب کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدیات کے لئے پہلے دو نبی بھیجے، جنہیں انہوں نے مارا اور جیل میں ڈال دیا، تو ان کی تائید کے لئے تیسرا نبی بھیجا، کہا جاتا ہے کہ ان کے نام صادق، مصدوق اور شلزم تھے، ایک دوسرا قول ہے کہ ان کے نام سمعان، یحییٰ اور بولس تھے، بہرحال ان کے نام جو بھی رہے ہوں، ان تینوں نے اہل قریہ کو یقین دلانا چاہا کہ وہ واقعی اللہ کے رسول ہیں، تو لوگوں نے ان کی تکذیب کردی اور کہا کہ تم نبی کیسے ہو سکتے ہو، تم تو ہمارے ہی جیسے انسان ہو، اور اللہ نے کسی کو نبی بنا کر اس پر آسمان سے کبھی بھی کچھ نہیں اتارا ہے، یہ تمہاری افترا پردازی ہے۔ جب ان کا انکار بڑھا تو رسولوں نے اپنے کلام میں مزید زور پیدا کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا رب خوب جانتا ہے کہ ہم بلاشبہ تمہارے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں اور ہماری ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ ہم اللہ کا پیغام پوری صراحت و وضاحت کے ساتھ لوگوں تک پہنچا دیں۔ يس
14 يس
15 يس
16 يس
17 يس
18 10 کافروں نے رسولوں کی یہ بات سن کر کہا کہ ہم تو تمہاری آمد کو اپنے لئے بدشگونی سمجھ رہے ہیں جب سے تم لوگوں نے اس شہر میں قدم رکھا ہے بارش رک گئی ہے، مفسرین لکھتے ہیں کہ وہ تینوں رسول انہیں دس سال تک اللہ کے دین کی طرف بلاتے رہے، لیکن حق کی طرف مائل ہونے کے بجائے ان کا کبر و غرور بڑھتا گیا، اور ایک دن بستی والوں نے رسولوں سے کہا کہ اگر تم اپنی دعوت سے باز نہ آئے اور اپنی تحریک بند نہیں کی تو ہم لوگ تمہیں سنگسار کردیں گے اور تمہیں بہت ہی سخت سزا دیں گے۔ يس
19 11 رسولوں نے کہا کہ تمہار شامت اور پریشان حالی تمہارے کفر اور رسولوں کو جھٹلانے کی وجہ سے بارش کا رک جانا اور قحط سالی تمہارے گناہوں کی وجہ سے ہے کیا تم لوگ صرف اس لئے ہمارے وجود سے بدشگونی لے رہے ہو کہ ہم نے تمہیں اللہ کی طرف بلایا ہے اور اس کی وحدانیت کی دعوت دی ہے، حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ کفر و معاصی میں حد سے گزر گئے ہو۔ يس
20 12 اس بستی کے ایک کنارے پر ایک مرد صالح رہتا تھا جس کا نام حبیب بن موسیٰ نجار تھا جب اس نے سنا کہ بستی والے اللہ کے رسولوں کے خلاف قتل کی سازش کررہے ہیں تو وہ رسولوں اور بستی والے کے لئے خیر خواہی کرتے ہوئے بستی میں آیا اور کہا کہ تم لوگ اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں کے پیروکار بن جاؤ جو اپنی دعوت توحید پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتے ہیں اور وہ بڑے ہی ہدایت یافتہ، بااخلاق اور باکمال لوگ ہیں۔ يس
21 يس
22 13 پھر اس مرد مومن نے دعوت کے لئے غایت درجہ کا حکیمانہ اسلوب اختیار کرتے ہوئے جو بات لوگوں سے کہنی تھی، اس کا مخاطب اپنے آپ کو بتاتے ہوئے کہا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اس ذات برحق کی عبادت نہ کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے، یعنی کیا وجہ ہے کہ تم لوگ اس اللہ کی وحدانیت کے قائل نہیں ہوتے ہو جو تمہارا خالق ہے، اور مرنے کے بعد جس کے پاس تمہیں لوٹ کر جانا ہے کیا یہ بات کسی طرح عقل میں آتی ہے کہ میں اس خالق و مالک کل کو چھوڑ کر ایسے بے جان بتوں کی پرستش کروں، کہ اگر اللہ مجھے کسی تکلیف میں مبتلا کر دے تو وہ میرے کسی کام نہ آئیں گے، نہ وہ اللہ کے پاس سفارشی ہی بن سکتے ہیں اور نہ ہی خود اس تکلیف کو دور کرسکتے ہیں، یعنی یہ کتنی بڑی حماقت آمیز بات ہوگی کہ جن بتوں کو میں اپنے ہاتھوں سے تراشوں، انہی کے سامنے سجدہ ریز ہوجاؤں، اگر میں ایسا کروں گا تو کھلم کھلا گمراہی میں مبتلا ہوجاؤں گا لوگو ! سن لو کہ میں تمہارے رب پر ایمان لے آیا جو ہم سب کا خلاق و رازق اور مالک کل ہے، یعنی گواہ رہو کہ میں رب العالمین پر ایمان رکھتا ہوں اور بتوں کا انکار کرتا ہوں۔ يس
23 يس
24 يس
25 يس
26 14 مفسرین لکھتے ہیں کہ جب اس نے یہ بات کہی تو سب نے مل کر یکبارگی اس پر حملہ کردیا اور اسے قتل کردیا، بعض نے لکھا ہے کہ اسے ایک خندق میں زندہ گاڑ دیا اور بعض نے لکھا ہے کہ جب انہوں نے اسے مارنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے اسے آسمان پر اٹھا لیا پھر اسے جنت میں داخل کردیا جب اس نے جنت اور اس کی نعمتوں کا مشاہدہ کیا تو کہا اے کاش ! میری قوم ایمان باللہ اور عقیدہ توحید کو سمجھ جاتی اور اسے اپنا لیتی جس کے سبب اللہ نے میرے تمام گناہوں کو معاف کردیا ہے اور مجھے جنت میں شہداء اور صالحین کا مقام دے کر معزز و مکرم بنایا ہے، تاکہ وہ بھی اسی راہ پر چل کر جنت میں اعلیٰ مقام حاصل کرلیتے۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اس مرد مومن نے اپنی قوم کے لئے زندگی میں اخلاص و محبت کا ثبوت دیا کہ انہیں رسولوں پر ایمان لانے کی نصیحت کی اور مرنے کے بعد بھی تمنا کی کہ کاش وہ لوگ مسلمان ہوجاتے، تاکہ اللہ کے عذاب سے بچ جاتے اور جنت کے مستحق بن جاتے۔ يس
27 يس
28 15 مرد صالح حبیب بن موسیٰ نجار کے قتل کئے جانے کے بعد، اس کافرو ظالم قوم کا ہلاک کیا جانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ثابت ہوگیا، جس کے لئے اس نے آسمان سے کوئی فوج نہیں نازل کی اور نہ ہی اس کی ضرورت تھی، وہ تو ایک چیخ تھی جس کے اثر سے آناً فاناً سبھی ہلاک ہوگئے اور اپنے تمام گناہوں کے ساتھ اچک لئے گئے، تاکہ قیامت کے دن ان کا بوجھ لئے میدان محشر میں اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں اور ان کا بدلہ چکھیں۔ يس
29 يس
30 16 اللہ کے رسولوں اور اس کے دین کی طرف ہلانے والوں کا جو لوگ اس دنیا میں مذاق اڑاتے ہیں اور ان کی ایذا رسانی کے در پے رہتے ہیں، انہیں قیامت کے دن اس وقت سخت ندامت اٹھانی پڑے گی جب اللہ تعالیٰ ان کے ان اعمال مجرمانہ پر ان سے باز پرس ہوگا، اس وقت انہیں جس ہلاکت و بربادی کا سامنا ہوگا اسے دیکھ کر ان کی حالت ایسی ہوگی کہ آسمان و زمین کے تمام رہنے والے بھی اس پر اظہار حسرت کریں تو کم ہوگا۔ يس
31 17 کفار مکہ اور دیگر کافروں کے حال پر اظہار حیرت ہے کہ ان سے پہلے جو کافر قومیں تھیں، اللہ نے کفر و شرک کی وجہ سے انہیں ہلاک کردیا اور ان میں سے کوئی قوم بھی پھر دوبارہ دنیا میں نہیں پائی گئی، تو کیا یہ امر عبرت حاصل کرنے کے لئے کافی نہیں ہے، کیا اہل مکہ کو اس سے سبق نہیں لینا چاہئے؟! يس
32 18 اس آیت کریمہ میں غایت درجہ کی تاکید ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے تمام بندے اس کے سامنے حاضر کئے جائیں گے، ایک فرد بھی نہ کہیں چھپ سکے گا اور نہ بھاگ سکے گا۔ يس
33 19 جس عقیدہ بعث بعد الموت کی بات ابھی گذری ہے، اس کی عقلی دلیل یہ ہے کہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے زمین مردہ ہوجاتی ہے، اس میں کوئی پودا نہیں اگتا، پھر اللہ تعالیٰ بارش بھیج کر اسے زندہ کرتا ہے، اس میں دانے اگاتا ہے جسے لوگ کھاتے ہیں، اس میں کھجوروں اور انگوروں کے مختلف باغات پیدا کرتا ہے اور جو پانی زمین میں چلا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے اسے چشموں کی صورت میں دوبارہ زمین پر بہاتا ہے، آدمی ان تمام نعمتوں کے مستفید ہوتا ہے، پھلوں اور دانوں کو کھاتا ہے اور ان پھلوں میں سے کسی کا رس نکالتا ہے تو کسی کو خشک کرلیتا ہے، یعنی مختلف طریقوں سے انہیں استعمال کرتا ہے، یہ گونگاوں نعمتیں کیا بندوں سے تقاضا نہیں کرتی ہیں کہ وہ اپنے خالق و مالک کا شکریہ ادا کریں اور کیا یہ ساری باتیں اس بات کی دلیل نہیں ہیں کہ باری تعالیٰ انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے؟! آیت ٦٣ میں مذکورہ بالا مضمون کی مزید تاکید کے طور پر اللہ تعالیٰ نے اس عیب اور عاجزی سے اپنی پاکی بیان کی کہ وہ انسانوں کو دوبارہ پیدا نہیں کرسکتا، کیوں کہ وہ تو قادر مطلق ہے جس نے تمام نباتات اور انسان کو جوڑا جوڑا یعنی مذکر و مونث پیدا کیا ہے، اور آسمانوں اور زمین میں پائی جانے والی بہت سی دیگر اشیاء کو بھی جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے جن کی ہمیں خبر نہیں ہے۔ يس
34 يس
35 يس
36 يس
37 20 عقیدہ بعث بعد الموت کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دن کو رات سے الگ کردیتا ہے، یعنی دن رخصت ہوجاتا ہے اور رات اپنی تاریکی سمیت آجاتی ہے اور ہر چیز کو ڈھانک لیتی ہے رات اور دن کا اس غایت درجہ ترتیب و انتظام کے ساتھ ایک دوسرے کے بعد آتے رہنا اور اس میں ذرا بھی خلل واقع نہ ہونا، اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ وہ کار ساز ارض و سماء یقیناً انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔ تیسری عقلی دلیل آفتاب کی یومیہ گردش ہے جس کے مطابق وہ طلوع اور غروب ہوتا ہے اور بخاری و مسلم کی ابوذر غفاری (رض) سے مروی حدیث کے مطابق ہر عرش کے نیچے جا کر رب العالمین کو سجدہ کرتا ہے اور نئے دن کے لئے اپنی گردش جاری رکھنے کی اجازت مانگتا ہے جس غالب و علیم ذات نے اس دقیق نظام شمسی کو قائم کر رکھا ہے، جس سے آفاتب سرموانحراف نہیں کرسکتا، ورنہ کرہ ارض کا پورا نظام درہم برہم ہو کر دنیا خراب و برباد ہوجاتی، کیا وہ اس پر قادر نہیں ہے کہ اپنے ہی ہاتھوں پیدا کردہ انسانوں کو دوبارہ زندہ کرسکے؟! چوتھی دلیل زمین کے گرد ماہتاب کی گردش ہے، جس کے مطابق وہ اپنے مقررہ اٹھائیس منال میں پوری پابندی اور ترتیب و انتظام کے ساتھ گھومتا رہتا ہے جس کی وجہ سیدن، ہفتہ، مہینہ اور سال کا حساب معلوم ہوتا رہتا ہے، ابتدا میں چاند پتلا ہوتا ہے، پھر آہستہ آہستہ بڑا ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ چودہویں تاریخ کو بدر کامل بن جاتا ہے، اس کے بعد پھر چھوٹا ہونا شروع ہوتا ہے، یہاں تک کہ مہینہ کے آخر میں کھجور کی پتلی سوکھی اور زرد شاخ کی مانند ہوجاتا ہے جو ذات برحق ماہتاب کی اس حیرت انگیز گردش پر قادر ہے، وہ یقیناً تمام انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار کر دوبارہ زندہ کرنے اور ان کے اعمال کا انہیں حساب چکانے پر قادر ہے۔ آیت 40 میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمی قدرت کو یوں واضح کیا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ آفتاب ماہتاب کو جا لے، یعنی دونوں ایک جگہ جمع ہوجائیں اور دونوں ایک دوسرے کے عمل میں دخل انداز ہونے لگیں، یہ ناممکن ہے کہ رات اپنے مقرر وقت سے پہلے نکل کر دن سے آگے بڑھ جائے، یا دن رات سے آگے بڑھ جائے، بلکہ دونوں اللہ کی تدبیر و حکمت کے مطابق ہمیشہ ایک دوسرے کے بعد آتے رہتے ہیں۔ آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ شمس و قمر اور کواکب آسمان کے مدار عظیم میں تیرتے رہتے ہیں، نہ وہ آپس میں خلط ملط ہوتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں، ورنہ کائنات کے پرخچے اڑ جاتے اور یہ منظم و مرتب دنیا تباہ و برباد ہوجاتی۔ يس
38 يس
39 يس
40 يس
41 21 اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے سمندروں کو اس قابل بنایا ہے کہ ان میں مال و اسباب سے لدی ہوئی کشتیاں تیرتی ہوئی ایک شہر سے دوسرے شہر جاتی رہتی ہیں۔ پہلی کشتی نوح (علیہ السلام) کی کشتی تھی جس میں انہوں نے اللہ کے حکم سے اپنے مومن پیروکاروں کو اور اس وقت سر زمین پر پائے جانے والے تمام حیوانات کو سوار کرلیا تھا اور طوفان کی زد سے ان کے سوا کوئی نہیں بچا تھا۔ يس
42 ٢٢ مجاہد، قتادہ، ابن عابس (رض) اور بہت سے مفسرین کا خیال ہے کہ اس سے مراد اونٹ ہے، جس کے ذریعہ لوگ خشکی کا راستہ طے کرتے ہیں، قدیم زمانے میں عرب کے لوگ اونٹ کو شکی کا سفینہ کہتے تھے، ابن عباس (رض) کا ایک دوسرا قول ہے کہ اس سے مراد وہ کشتیاں ہیں جو کشتی نوح کے بعدبنائی گئیں اور قیامت تک بنتی رہیں گی۔ يس
43 23 اللہ تعالیٰ نے بندوں پر غایت درجہ احسان کا ذکر فرمایا ہے کہ اگر وہ چاہتا تو انہیں اور ان کی کشتیوں کو موجوں کے حوالے کردیتا اور چیخ و پکار کی بھی مہلت نہ دیتا، لیکن از راہ لطف و کرم وہ انہیں نہیں ڈبوتا اور سلامتی کے ساتھ ساحل تک پہنچاتا رہتا ہے، تاکہ اپنی باقی عمریں خشکی پر گذار کر دنیا سے رخصت ہوں۔ يس
44 يس
45 24 مشرکین کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم لوگ جن آفات و بلیات کے درمیان گھرے ہوئے ہو اور جو مصائب و آلام مستقبل میں تم پر آنے والے ہیں، ان سے ڈرتے ہوئے ایمان لے آؤ تو وہ لوگ منہ پھیر کر چل دیتے ہیں۔ آیت کی ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ گزشتہ زمانوں میں جن قوموں نے رسولوں کی تکذیب کی اور جس کی وجہ سے ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا، اسی جیسے عذاب سے تم لوگ بھی ڈرتے رہو، اور آخرت کے عذاب سے بھی ڈرتے رہو، تو مشرکین اس دھمکی کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔ آیت ٦٤ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرکین کا ہمیشہ سے یہ وطریہ رہا ہے کہ جب بھی ان کے رب کی طرف سے رسولوں کی صداقت کی دلیل آئی تو انہوں نے اس کی تکذیب کردی اور ایمان لانے سے انکار کردیا، مشرکین مکہ کا بھی یہی حال ہے کہ انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور دعوت توحید کی صداقت کی ہر دلیل کو پس پشت ڈال دیا ہے اور اپنے کفر و شرک پر ایسے ڈٹے ہوئے ہیں کہ گویا انکے دل پتھر کے بنے ہیں، ان میں خیر کی کوئی بات داخل ہی نہیں ہوتی ہے۔ يس
46 يس
47 25 حسن بصری کہتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں (الذین کفروا) سے مراد یہود ہیں، جنہیں اللہ نے مال و دولت سے نوازا تھا، جب ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ مدینہ کے فقیروں اور محتاجوں پر خرچ کریں تو کہتے ہیں کہ کیا ہم انہیں کھلائیں جنہیں اللہ چاہتا تو کھلاتا، یہ تو صریح گمراہی ہے کہ ہم سے اللہ کی مرضی کے خلاف کرنے کو کہا جاتا ہے۔ مقاتل کا خیال ہے کہ ان سے مرا کفار قریش ہیں، عاص بن وائل سہمی سے جب کوئی غریب مسلمان کچھ مانگتا تو کہتا کہ اپنے رب کے پاس جاؤ جس پر ایمان لائے ہو خازن نے اپنی تفسیر میں اس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اللہ نے تو اسے محروم بنا رکھا ہے اور میں اسے کھانے کے لئے دوں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ یہود مدینہ یا کفار قریش یا دونوں ہی قسم کے لوگ ایسی بات مسلمانوں کا مذاق اڑانے کے لئے کہا کرتے تھے اور آیت ٨٤ کے مطابق کفار قریش مسلمانوں کا مذاق اڑانے کے لئے یہ بھی کہا کرتے تھے کہ تم لوگ جو قیامت اور جنت و جہنم کی بات کیا کرتے ہو اور ہمیں دھمکیاں دیتے ہو تو وہ قیامت کب واقع ہوگی؟ یعنی یہ بات سرے سے غلط ہے، اس کی کؤی حقیقت نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ نے آیت ٩٤ میں ان کے اس استہزاء کا یہ جواب دیا کہ وہ تو ایک چیخ ہوگی جو انہیں اچانک پکڑ لے گی، جبکہ وہ اپنی عادت کے مطابق خرید و فروخت میں لگے ہوں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ کاروباری معاملات طے کرنے کے لئے لڑ رہے ہوں گے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس چیخ سے مراد پہلا صور ہے جسے زمین پر رہنے والا ہر آدمی سنے گا اور جو جہاں ہوگا اس کے زیر اثر وہیں مر جائے گا، اسی لئے آیت ٠٥ میں کہا گیا کہ لوگوں کو اتنی بھی مہلت نہیں ملے گی کہ کسی کو کوئی وصیت کرسکیں، یا اپنے بال بچوں کے پاس جا کر ان کا حال معلوم کرسکیں۔ بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” قیامت اچانک برپا ہوجائے گی درانحالیکہ دو آدمی کپڑا پھیلا کر خرید و فروخت کرنا چاہتے ہوں گے، نہ اسے خرید و فروخت کر پائیں گے، نہ ہی اسے لپیٹ پائیں گے اور قیامت قائم ہوجائے گی جبکہ آدمی پانی کا حوض درست کر رہا ہوگا، لیکن وہ اس میں اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلا سکے گا اور قیامت آجائے گی جبکہ ٓدمی اپنی اونٹنی کا دودھ ہاتھ میں لئے ہوگا اور اسے پی نہ سکے گا اور قیامت قائم ہوجائے گی جبکہ آدمی اپنا کھانا منہ کی طرف لے جا رہا ہوگا اور اسے کھا نہ سکے گا۔ “ يس
48 يس
49 يس
50 يس
51 26 جب دوسرا صور پھونکا جائے گا تو سارے لوگ دوبارہ زندہ ہو کر میدان محشر کی طرف دوڑ پڑیں گے بخاری و مسلم کی ابوہریرہ (رض) سے مروی حدیث کے مطابق دونوں صوروں کے درمیان چالیس سال کا زمانہ ہوگا اور جو لوگ دنیا میں قیامت اور بعث بعدالموت پر یقین نہیں رکھتے تھے جب اپنے آپ کو دوبارہ زندہ پائیں گے اور جس عذاب کی تکذیب کرتے تھے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو شدت ہول سے خبط الحواس ہوجائیں گے اور مارے دہشت کے کہیں گے کہ اے ہماری بدنصیبی ! ہمیں ہماری قبروں سے کس نے نکالا ہے کہ جہنم جیسا خطرناک اور ہیبت ناک عذاب ہماری آنکھوں کے سامنے ہے؟! تو ان سے مومنین یا فرشتے کہیں گے کہ یہ تو وہی دن ہے جس کا اللہ نے تم سے وعدہ کیا تھا اور جس کی خبر تمہیں اس کے سچے رسولوں نے دی تھی، اور جسے تم جھٹلاتے تھے۔ يس
52 يس
53 27 یہ وہی دوسرا صور ہوگا جس کا ذکر ابھی اوپر آچکا ہے اور مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنا اور انہیں میدان محشر کی طرف ہانک کرلے جانا، بہت ہی آسان ہے پہلی چیخ کے ذریعہ تمام زندہ لوگ موت کے گھاٹ اتار دیئے جائیں گے اور دوسری چیخ کے ذریعہ دوبارہ زندہ ہو کر میدان محشر کی طرف دوڑ پڑیں گے جہاں کافروں کو ان کے کفر کا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہوگا، بلکہ دنیا میں انہوں نے جس کفر و شرک اور ظلم و معاصی کا ارتکاب کیا ہوگا اسی کا پورا پورا بدلہ انہیں چکا دیا جائے گا۔ يس
54 يس
55 28 کافروں کا حال و انجام بیان کرنے کے بعد اب اہل جنت پر اللہ کا جو انعام و اکرام ہوگا اسے بیان کیا جا رہا ہے اور اس کے مخاطب بھی کافر ہی ہوں گے، تاکہ ان کے لئے تیار کردہ عذاب الیم کا مشاہدہ کرلینے کے بعد جب اہل جنت کے لئے تیار کردہ انعامات الٰہیہ کا ذکر سنیں تو ان کا حزن و الم شدید تر ہوجائے اور ان کی پریشانی اور ان کا اضطراب انتہا کو پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس دن اہل جنت اللہ کی دی ہوئی بیش بہا نعمتوں سے مستفید ہونے میں اس طرح مشغول ہوں گے کہ وہ کافروں اور ان کے انجام بد سے بالکل غافل ہوجائیں گے، چاہے وہ ان کے اعزاء و اقارب ہی کیوں نہ ہوں گے، وہ اپنی بیویوں کے ساتھ درختوں کے سائے میں گاؤتکیوں پر ٹیک لگائے آرام کریں گے، وہاں انہیں انواع و اقسام کے پھل اور ہر وہ نعمت ملے گی جس کی وہ لوگ خواہش کریں گے اور بے حد رحم کرنے والے رب کی طرف سے انہیں سلام کا پیغام پہنچے گا، یعنی اللہ تعالیٰ ان کی غایت تعظیم و تکریم کے لئے انہیں سلام کرے گا۔ يس
56 يس
57 يس
58 يس
59 29 اللہ تعالیٰ جب اہل جنت کے لئے جنت کا اور اہل جہنم کے لئے جہنم کا حکم دے دے گا تو کافروں سے کہے گا کہ اے وہ لوگوں جنہوں نے کفر و شرک اور گناہوں کے سبب اپنے آپ پر ظلم کیا تھا اب تم لوگ اہل جنت سے الگ ہو کر کھڑے ہوجاؤ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فیصلے کو قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں بیان فرمایا ہے۔ سورۃ یونس آیت ٨٢ میں ہے : (ویوم نخشرھم جمیعاثم نقول للذین اشرکوا مکانکم انتم وشرکاؤکم فزیلنابینھم) ” اور وہ دن بھی قابل ذکر ہے جس روز ہم ان سب کو جمع کریں گے، پھر مشرکین سے کہیں گے کہ تم اور تمہارے شرکاء اپنی جگہ ٹھہرو۔ پھر ہم ان کے آپس میں پھوٹ ڈال دیں گے۔ مفسرین لکھتے ہیں : اس تفریق سے مراد یہ ہے کہ جب مومنین جنت میں بھیج دیئے جائیں گے تو کافروں کو اکٹھا کر کے نہایت ہی ذلت و رسوائی کے ساتھ جانوروں کی طرح جہنم کی طرف ہانک کرلے جایا جائے گا اور اس میں دھکیل دیئے جائیں گے۔ يس
60 30 پھر اللہ تعالیٰ ان سے بطور زجر و توبیخ کہے گا کہ کیا میں نے اپنے رسولوں کی زبانی تمہیں یہ نصیحت نہیں کی تھی کہ تم لوگ شیطان کی عبادت نہ کرو، اس لئے کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، صرف میری عبادت کرو، یہی سیدھی راہ ہے، یہی وہ دین اسلام ہے جو اپنے ماننے والوں کو جنت تک پہنچاتا ہے۔ آیت ٢٦ میں انسانوں سے شیطان کی عداوت بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اس مرد ود نے تو بے شمار لوگوں کو گمراہ کیا ہے، اس لئے وہ تمہارا دوست کیسے بن سکتا ہے؟ کیا اتنی سی بات تمہارے دل و دماغ میں نہیں آتی ہے، آیات (٣٦، ٤٦) میں کہا گیا کہ اے اہل کفر و شرک ! اب اپنے انجام کو بھگتو اور اس جہنم میں داخل ہوجاؤ جس کی تم تمام زندگی بھ رتکذیب کرتے رہے تھے۔ يس
61 يس
62 يس
63 يس
64 يس
65 (31) میدان محشر میں کافروں کے ایک حال کی منظر کشی کی گئی ہے، جب کفار اپنے رب کے حضور پیش کئے جائیں گے اور اپنے گناہوں کا انکار کرنے لگیں گے، تو اللہ تعالیٰ ان کے منہ پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھوں اور پاؤں کو قوت گویائی دے دے گا، جو ان کے ایک ایک کرتوت کی گواہی دیں گے اور ان جرائم کی کی خبر دیں گے جن کا وہ دنیا کی زندگی میں ارتکاب کرتے رہے تھے اللہ تعالیٰ نے سورۃ حم السجدہ آیت (١٢) میں فرمایا ہے : (وقالوا الجلود ھم لم شھدتم علینا قالوا انطقنا اللہ الذی انطق کل شی) ” اور وہ لوگ اپنی کھالوں سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی؟ وہ کہیں گی کہ ہمیں اس اللہ نے قوت گویائی عطا فرمائی ہے جس نے ہر چیز کو بولنے کی طاقت بخشی ہے۔ “ يس
66 (32) اللہ تعالیٰ کی رحمت دنیا میں کافر و مومن سب کے لئے عام ہے، اس لئے ہزار کفر و شرک کے ارتکاب کے باوجود اللہ کافروں اور مشرکوں کو روزی دیتا ہے اور انہیں دنیا کی چند روزہ زندگی گذار لینے کا موقع دیتا ہے، اگر وہ کفر و شرک پر دنیا ہی میں ان کی گرفت کرتا تو ان کی آنکھیں چھین لیتا، پھر وہ اپنے جانے پہچانے راستوں پر بھی نہ چل پاتے اور ان کی صورتوں کو مسخ کردیتا نہ آگے جا پاتے اور نہ پیچھے لوٹ سکتے، لیکن اس نے غایت رحمت کی وجہ سے ایسا نہیں کیا۔ يس
67 يس
68 ٣٣ جس کی عمر جتنی لمبی ہوتی جاتی ہے، اس کی حالت دن بدن اتنی ہی دگرگوں ہوتی جاتی ہے، اس کا جسم گھلتا جاتا ہے اور ذہنی اور عقلی کیفیت بدلتی جاتی ہے، حتی کہ وہ اس بچے کے مانند ہوجاتا ہے جو اپنی پیدئاش کے وقت تمام بدنی اور عقلی قویٰ سے محروم ہوتا ہے تو جو قادر مطلق انسان کو پیدائش، بچپن، جوانی اور بڑھاپے کے مراحل سے گذار کر موت کے گھاٹ اتارنے کی قدرت رکھتا ہے کیا وہ اس کی قدرت نہیں رکھتا کہ اسے دوبارہ زندہ کرسکے؟ عقل و فہم کا تو یہی تقاضا ہے کہ وہ یقیناً اس پر قادر رہے۔ يس
69 34 مشرکین کہا کرتے تھے کہ محمد شاعر ہے اور قرآن اس کی شاعری کا نتیجہ ہے اس آیت کریمہ میں انہی دونوں باتوں کی تردید کی گئی ہے کہ نہ محمد شاعر ہیں اور نہ قرآن ان کی جدت طبع کا نتیجہ ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے انہیں شاعری نہیں سکھائی ہے کہ وہ شعر کہہ سکیں اور نہ ان کے مقام نبوت کے لئے یہ مناسب ہے منصب نبوت کو شاعری پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے، کیونکہ شعراء تو جھوٹ بولتے ہیں اور مباغلہ اور خلاف واقعہ باتیں بیان کرتے ہیں، جبکہ قرآن کریم کتاب الٰہی ہے جس سے مقصود یہ ہے کہ بندوں کو ان کے پیدا کرنے والے کی بندگی کی طرف بلایا جائے اور کفر و سرکشی کے انجام بد سے انہیں ڈرایا جائے، اسی لئے آیت ٠٧ میں کہا گیا ہے کہ قرآن کریم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس لئے نازل کیا گیا ہے تاکہ وہ ایمان و یقین کے ذریعہ زندہ اور آباد دلوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں اور کافروں کے لئے ان کے کفر و سرکشی کی وجہ سے عذاب آخرت ثابت ہوجائے۔ يس
70 يس
71 35 اللہ تعالیٰ کے گوناگوں انعامات و احسانات کا تقاضا یہ ہے کہ بندے صرف رب العالمین کی عبادت کریں اور اس کے سوا کسی کے سامنے اپنا سر نہ جھکائیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا ہے کہ چوپایوں کو ہم نے پیدا کیا ہے، ہمارے سوا کوئی ان کی تخلیق پر قادر نہیں ہے اور پھر ہم نے انہیں بندوں کے لئے مسخر کردیا ہے، جس طرح چاہتے ہیں بحیثیت مالک ان میں تصرف کرتے ہیں، بعض جانوروں کو سواری کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور بعض کا گوشت کھاتے ہیں، چمڑے، بال اور اون سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور بعض جانوروں کا دودھ بھی پیتے ہیں، ان تمام نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ بندے اپنے خالق و مالک کا شکر ادا کریں، اسی کی عبادت کریں اور اس کے سوا غیروں کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا نہ سمجھیں۔ يس
72 يس
73 يس
74 36 لیکن ان کی بے عقلی اور کور مغزی کا حال یہ ہے کہ وہ رب العالمین کے سوا معبود بناتے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ مصیبتوں کے وقت وہی کام آئیں گے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ معبودان باطل ان کی مدد کی ذرہ برابر بھی قدرت نہیں رکھتے ہیں، بلکہ ان پجاریوں کو شیطان نے ان کی خدمت، دیکھ بھال اور عبادت کے لئے مقرر کردیا ہے : (وھم لھم جند مخضرون) کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جہنم میں معبودوں کے بعد ان کے پجاری بھی ڈال دیئے جائیں گے۔ يس
75 يس
76 37 نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے کہا جا رہا ہے کہ مشرکین مکہ لوگوں کو آپ سے متنفر کرن کیلئے آپ کا مختلف نام رکھتے ہیں، کبھی شاعر کہتے ہیں تو کبھی جادوگر اور کبھی کاہن کہتے ہیں اور کبھی کہت یہیں کہ اے محمد ! تم اللہ کے رسول نہیں ہو، تو آپ کو ان کی ان استہزا آمیز باتوں سے غمگین نہیں ہونا اہئے، ہم ان کے تمام خفیہ اور ظاہر کرتوتوں سے واقف ہیں، وہ ہم سے بچ کر کہاں جائیں گے، ہم ان کے کفر و شرک اور کبرو عناد کا بدلہ انہیں چکا کر رہیں گے۔ يس
77 38 ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور حاکم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے (اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے) کہ عاص بن وائل سہمی ایک گلی سڑی ہڈی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اسے اپنی چٹکی سے مسل کر پھینک دیا اور کہا، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا اب اسے اللہ دوبارہ زندہ کرے گا؟ تو آپ نے فرمایا، ہاں ! اسے دوبارہ اٹھائے گا اور تمہیں بھی وہ موت دے گا پھر زندہ کرے گا، پھر جہنم میں داخل کر دے گا، اسی واقعہ کے بعد سورۃ یٰسین کی یہ آخری آیتیں نازل ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ انسان کو ایک حقیر نطفہ سے پیدا کرتا ہے پھر اسے بڑا کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ بھرپور جوان آدمی بن جاتا ہے، لیکن وہ اپنے کبر و غرور کے نشے میں اپنی حقیقت کو بھول جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کے ساتھ غیروں کو شریک بنانے لگتا ہے اور کہنے لگتا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ مر جانے کے بعد لوگ قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جائیں گے حالانکہ اسے سوچنا چاہئے کہ جس قادر مطلق نے اسے پہلی بار ایک نطفہ حقیر سے پیدا کیا ہے وہ یقیناً اس پر قادر ہے کہ اسے دوبارہ پیدا کرے۔ آیات (٨٧، ٩٧) میں یہی مضمون بیان کیا گیا ہے۔ مفسرطیبی لکھتے ہیں کہ اس آیت کا عطف آیت ١٧ (اولم یروا) پر ہے اور دونوں کا مفہوم یہ ہے کہ باری تعالیٰ نے گونگوں نعمتیں پیدا کیں تاکہ انسان اپنے رب کا شکر ادا کرے، لیکن اس نے اس کی ناشکری کی اور اس نے انسان کو حقیر پانی کے ایک قطرہ سے پیدا کیا تاکہ وہ اپنے رب کے لئے عاجزی اور انکساری اختیار کرے، لیکن اس نے کبر و عناد سے کام لیا اور اس کے قادر مطلق ہونے میں شبہ کرنے لگا۔ يس
78 يس
79 يس
80 39 بعث بعد الموت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ درخت کو پانی سے پیدا کرتا ہے جو بڑھ کر ہرا بھرا ہوجاتا ہے، پھر مرور زمانہ کے ساتھ سوکھی لکڑی بن جاتا ہے اور ایندھن کے کام آتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ درخت سے آگ پیدا کرنے پر ق ادر ہے وہ یقیناً انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ اس سے مراد صحراء کا وہ درخت ہے جس کی دو شاخوں کو آپس میں ٹکرانے سے آگ پیدا ہوجاتی ہے تو جو خالق کائنات ہرے درخت سے آگ نکال سکتا ہے وہ یقیناً انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے۔ يس
81 40 بعث بعد الموت کی ایک تیسری دلیل آسمانوں اور زمین کی تخلیق ہے، یعنی جو ذات واحد عظیم آسمانوں اور زمین کی پیدائش پر قادر ہے وہ یقیناً کمزور اور صغیر انجم انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے، وہ تو وہ ہے جو لفظ ” کن“ سے جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ ذات واحد جو ہر چیز کا مالک ہے اور جس چیز میں چاہتا ہے اپنی مرضی اور ارادے کے مطابق تصرف کرتا ہے، وہ ہر عیب و نقص سے پاک ہے اور ہر خوبی اور اچھائی کے ساتھ متصف ہے اور قیامت آئیگی اور سب کو دوبارہ زندہ ہو کر اس کے پاس لوٹ کرجاتا ہے، تاکہ وہ خالق کائنات ہر ایک کو اس کے کئے کا بدلہ دے، وباللہ التوفیق يس
82 يس
83 يس
0 سورۃ الصافات مکی ہے، اس میں ایک سو بیاسی آیتیں اور پانچ رکوع ہیں تفسیر سورۃ الصافات نام : سورت کی پہلی آیت میں ہی لفظ ” الصافات“ آیا ہے یہی اس کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ صاحب محاسن التنزیل نے مفسر مہایمی سے نقل کیا ہے کہ اس آیت کریمہ میں فرشتوں کی ایسی صفات بیان کی گئی ہیں جو ان سے الوہیت کی نفی کرتی ہیں، انہی صفات میں سے صفت ” صافات“ بھی ہے اور فرشتوں سے الوہیت کی نفی ہوگئی تو دوسری مخلوقات سے بدرجہ اولیٰ اس کی نفی ہوگئی اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ثابت ہوگئی اسی مناسبت سے اس سورت کا نام ” الصآفات“ رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ سورت سب کے نزدیک مکی ہے۔ ابن عباس (رض) کا یہی قول ہے۔ آخری مکی دور کی سورتوں کی طرح اس میں بھی کفار مکہ کی مخالفت عروج پر نظر آرہی ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام انتہائی شدید اور صبر آزما حالات سے دوچار ہیں کفار مکہ کو دھمکی دی جا رہی ہے اور ان سے کہا جارہا ہے کہ ایک دن آئے گا کہ نبی اور ان کے صحابہ غالب ہوں گے اور انہیں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دھمکی کے ساتھ قرآن کریم نے اپنے خاص اسلوب میں توحید و آخرت کا عقیدہ بھی بیان کیا ہے، اور مختلف پیرائے میں انہیں ایمان کی ترغیب بھی دلائی ہے۔ الصافات
1 (١) اللہ تعالیٰ نے اس سورت کریمہ کی ابتدا فرشتوں کی قسم کھا کر اپنی ذات کے لئے اثبات و حدانیت کے ذریعہ کی ہے، عبداللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عباس، عکرمہ، سعید بن جبیر، مجاہد اور قتادہ وغیر ہم کا خیال ہے کہ ” الصآفات“ سے مراد وہ فرشتے ہیں جو آسمان میں اپنے رب کے سامنے صفیں ابندھ کر کھڑے ہوتے ہیں، مسلم کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” کیا تم لوگ اسی طرح صفیں نہیں باندھو گے جس طرح فرشتے اپنے رب کے حضور صفیں باندھتے ہیں؟ لوگوں نے پوچھا : فرشتے اپنے رب کے سامنے کس طرح صفیں باندھتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا : اگلی صفوں کو پوری کرتے ہیں اور صف میں ایک دوسرے سے ملے رہتے ہیں۔ “ ” الزاجرات“ سے مراد دیا تو وہ رفشتے ہیں جو بادلوں کو ہانکتے ہیں یا وہ جو لوگ کے دلوں میں نیکی اور بھلائی کا الہام کر کے گناہوں سے روکتے ہیں۔ (التالیات ذکرا) سے مراد وہ فرشتے ہیں جو انبیاء علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ الصافات
2 الصافات
3 الصافات
4 (٢) فرشتوں کی قسم کھا کر انسانوں کے عرف عام کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانی چاہی ہے کہ اللہ ایک ہے، اس کا کوئی ساجھی نہیں ہے، وہی ہر ایک کا پیدا کرنے والا اور سب کو روزی دینے والا ہے، وہی آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا رب ہے اور وہی مشرق و مغرب کا رب ہے آسمان اور زمین کا وجود اور جب سے دنیا قائم ہوئی ہے شمس و قمر کا مکمل نظم و نسق کے ساتھ چلتے رہنا اور اس میں ذرہ برابر فرق نہ آنا، اس بات کی واضح ترین دلیل ہے کہ ان کا پیدا کرنے والا موجود ہے، اور وہ ایک ہے جو مالک کل ہے اور وہی اپنی مرضی کے مطابق ان میں تصرف کرتا ہے، کسی دوسرے کا کوئی دخل نہیں ہے۔ الصافات
5 الصافات
6 (٣) اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے علم و حکمت کے مظاہر میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے آسمان دنیا کو ستاروں سے مزین کردیا ہے۔ یہ ستارے مختلف الانواع ہیں، ان میں سے کچھ ایک جگہ ثابت ہیں، اور کچھ متحرک، کچھ چھوٹے ہیں اور کچھ بڑے یہ ستارے رات کے وقت دیکھنے میں روشن اور چمکدار نظر آتے ہیں اور آسمان دنیا کو زینت بخشتے ہیں اور تاریک راتوں میں دیکھنے میں بھلے نظر آتے ہیں۔ ان ستاروں کا ایک دوسرا مقصد یہ ہے کہ ان کے ذریعے شیاطین کو مار کر آسمان کی باتیں سننے سے انہیں دور رکھا جاتا ہے، تاکہ غیب کی باتیں سن کر زمین پر رہنے والے کاہنوں کو نہ بتائیں، شیاطین جب بھی اس کی کوشش کرتے ہیں، فرشتے انہیں آسمان کی ہر جہت سے انگاروں کے ذریعے مارتے ہیں تاکہ انہیں آسمان کی باتیں سننے سے دور رکھیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ان شیاطین کو شدید دائمی عذاب دیا جائے گا۔ الصافات
7 الصافات
8 الصافات
9 الصافات
10 (٤) مفسرین نے لکھا ہے کہ شیاطین آسمان کے قریب پہنچ جاتے اور فرشتے جو باتیں آپس میں کرتے، انہیں سننے کی کوشش کرتے اور ان کی بعض باتیں سن کر جان جاتے کہ دنیا میں کیا ہونے والا ہے، پھر کاہنوں کو آ کر وہی باتیں بتا دیتے اور انہیں باور کراتے کہ وہ غیب کی باتیں جانتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آسمان کے قریب تک پہنچنے سے انگاروں کے ذریعے روک دیا، یعنی وہ جب بھی ایسی کوشش کرتے ہیں انہیں انگاروں کے ذریعہ مارا جاتا ہے، جن کی زد میں آ کر کبھی تو جل جاتے ہیں اور کبھی جلتے نہیں تو بعض باتیں کاہنوں کو بتا دیتے ہیں۔ امام شوکانی نے بعض مفسرین کی رائے نقل کی ہے کہ شیاطین وحی الٰہی کو ہرگز نہیں سن پاتے، بلکہ کبھی فرشتوں کی بعض دوسری باتیں سن لیتے ہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشعراء آیت (٢١٢) میں فرمایا ہے : (انھم عن السمع المعزولون) ” شیاطین وحی الٰہی کو سننے سے قطعی طور پر روک دیئے گئے ہیں“ اور سورۃ الملک آیت (٥) میں فرمایا ہے : (وجعلناھا رجوما لشیاطین) ” ہم نے ستاروں کو شیاطین کے مارنے کا ذریعہ بنایا ہے“ اور سورۃ الحجر آیات (٧١، ٨١) میں فرمایا ہے : (وحفظناھا من کل شیطان رجیم، الا من استراق السمع فاتبعہ شھاب مبین) ” ہم نے اسے ہر مرد ود شیطان سے محفوظ رکھا ہے، ہاں مگر جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرے تو اس کے پیچھے دہکتا ہوا (کھلا) شعلہ لگتا ہے۔ “ الصافات
11 (٥) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جا رہا ہے کہ آپ مشرکین سے پوچھئے جو بعث بعد الموت کا انکار کرتے ہیں کہ جسمان قوت و متانت میں وہ زیادہ ہیں یا آسمان و زمین اور پہاڑ؟ اس کا جواب اس کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں کہ وہ واقعی کمزور اور ناتواں جسم رکھتے ہیں، اور آسمانوں و زمین اور پہاڑ ان سے کہیں زیادہ قوی اور بڑے ہیں جنہیں اللہ نیپیدا کیا ہے اور یہ بات انہیں اس حقیقت کے اعتراف پر مجبور کرتی ہے کہ اللہ کی قدرت سے کوئی چیز خارج نہیں ہے اس لئے انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنا بھی اس کے لئے بے حد آسان ہے۔ آیت کے آخر میں انسان کی کمزو ریو ناتوانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہم نے تو اسے چکنی اور کمزور مٹی سے پیدا کیا ہے وہ اپنی اس حقیقت کو اور آسمان و زمین اور پہاڑوں کی قوت کو مدنظر رکھتے ہوئے کیوں نہیں ایمان لاتا کہ جو اللہ ان مہیب آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں کو پیدا کرنے پر قادر ہے وہ یقیناً انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے۔ الصافات
12 (٦) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جا رہا ہے کہ مشرکین مکہ کے انکار بعث بعد الموت پر آپ کو اس لئے تعجب ہو رہا ہے کہ دلائل و براہین کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے، لیکن ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اسی لئے اتنی واضح ترین حقیقت کا انکار کر رہ یہیں اور آپ کا مذاق اڑا رہے ہیں اور جب انہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ عقیدہ بعث بعد الموت کا انکار نہ کریں تو ان پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا اور جب انہیں کائنات میں موجود کوئی ایسی نشانی دکھائی جاتی ہے جو اللہ کی اس قدرت پر دلالت کرتی ہے تو اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ محمد کی ہر بات اور اس کا ہر عمل جادو کے قبیل سے ہے، بھلا یہ بھی کوئی عقل سے لگتی بات ہے کہ جب ہم مر جائیں گے اور گل سڑ کر مٹی ہوجائیں گے اور ہماری ہڈیاں رہ جائیں گی تو ہمیں اور ہمارے باپ دادوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا؟! آیات (٨١، ٩١) میں اللہ تعالیٰ نے ان کی اس حیرت آمیز بات کا جواب دیا کہ ہاں تم یقیناً اٹھائے جاؤ گے اور اس وقت تمہیں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور کوئی دلیل و حجت تمہارے کام نہیں آئے گی، وہ تو ایک چیخ ہوگی جو انسانوں کے دوبارہ زندہ ہونے کے لئے حکم الٰہی سے تعبیر ہوگی، تو سارے انسان ایک لخت زندہ ہو کر پنے رب کے حضور کھڑے ہوجائیں گے اور قیامت کی ہولناکیوں کو دیکھنے لگیں گے۔ الصافات
13 الصافات
14 الصافات
15 الصافات
16 الصافات
17 الصافات
18 الصافات
19 الصافات
20 (٧) منکرین قیامت کو جب اس دن اپنی ہلاکت و بربادی کا یقین ہوجائے گا اور سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تب بعث بعد الموت کا اعتراف کرتے ہوئے کہیں گے کہ یہی ہے بدلے کا وہ دن جس کا ہم دنیا میں ان کار کرتے تھے، اور فرشتے اور مومنین ان سے زجر و توبیخ کے طور پر کہیں گے کہ ہاں، یہی وہ دن ہے جس کی تم لوگ دنیا میں تکذیب کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہے گا کہ لے جاؤ ان ظالموں کو اور ان جیسے تمام مجرمین کو اور ان تمام جھوٹے معبودوں کو جن کی یہ لوگ اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے اور ان سب کو جہنم کی راہ پر ڈال دو، جس پر چل کر اس کی کھائی میں گر جائیں۔ الصافات
21 الصافات
22 الصافات
23 الصافات
24 (٨) اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہے گا کہ ان مجرموں کو میدان محشر میں روک لو تاکہ ان سے ان کے عقائد، اقوال اور اعمال کے بارے میں پوچھا جائے، پھر ان سے زجر و توبیخ کے طور پر پوچھا جائے گا کہ تم لوگ دنیا کی طرح یہاں بھی ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کر رہے ہو؟ ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہ ہوگا، اس دن تو ذلت و رسوائی سے ان کی گردنیں جھکی ہوں گی اور ان میں سے جو کمزور لوگ دنیا میں متکبرین کی پیروی کرتے رہے تھے، ان متکبرین سے پوچھیں گے کہ تم لوگ دنیا میں ہمیں اپنی پیروی پر مجبور کرتے تھے، تو آج کیوں نہیں ہماری مدد کے لئے آگے بڑھتے ہو اور جہنم کا عذاب ہم سے ٹال دیتے ہو؟ الصافات
25 الصافات
26 الصافات
27 الصافات
28 الصافات
29 (٩) شیاطین یا سردار ان کفر جواب دیں گے کہ تم مومن کب تھے کہ ہم نے تمہیں کفر پر آمادہ کیا، اور نیک کب تھے کہ ہم نے تمہیں برائی کی راہ پر ڈال دیا اور اہل توحید کب تھے کہ ہم نے تمہیں شرک پر مجبور کیا؟ تم لوگ ہمارے زیر تسلط نہیں تھے کہ ہم تمہیں طاقت کے بل بوتے پر کفر سے نکال کر ایمان میں داخل کردیتے، تم تو ظلم و شرک اور کفر و طغیان میں حد سے تجاوز کئے ہوئے تھے، اس لئے آج اللہ کا وعدہ ہم سب کے لئے ثابت ہوگا ی کہ (لا ملان جھنم ممک وممن تبعک منھم اجمعین) ” اے ابلیس ! ہم تجھ سے اور تیری پیروی کرنے والوں سے جہنم کو بھر دیں گے۔“ (ص : ٥٨) اب ہم سب کو اس عذاب کا مزاچکھنا ہے جس کی دھمکی اللہ نے ہمیں دے رکھی تھی اور بالاخر اپنی مجرمانہ حرکتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہاں ! ہم نے تمہیں گمراہ کیا تھا، ہم چونکہ گمراہ تھے اس لئے چاہا کہ تم بھی ہمار جیسے ہوجاؤ، لیکن ہم نے تمہیں مجبور نہیں کیا تھا، بلکہ کفر و شرک کی راہوں کو تمہارے لئے خوشنما بنا دیا تو تم ان پر ہمارے ساتھ چل پڑے۔ الصافات
30 الصافات
31 الصافات
32 الصافات
33 (10) اللہ تعالیٰ نے شیاطین و سرداران کفر اور ان کی پیری کرنے والوں کے بارے میں خبر دی ہے کہ جس طرح دنیا میں یہ تمام لوگ ضلالت و گمراہی میں شریک تھے، آج عذاب الٰہی کا مزا چکھنے میں بھی شریک ہوں گے۔ ہم کفر و شرک کرنے والے مجرمین کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کیا کرتے ہیں۔ مشرکین قریش سے جب ہمارے نبی کہتے تھے کہ تم لوگ اس بات کا اقرار کرلو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو کبر و غرور سے ان کی گردنیں اکڑ جاتی تھیں اور آپس میں ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ کیا ہم ایک پاگل کی شاعرانہ باتوں میں آ کر جسے وہ قرآن کا نام دیتا ہے، اپنے معبودوں سے دست بردار ہوجائیں؟ آیت (٧٣) میں اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کی تردید اور اپنے نبی کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے نبی جو کچھ تمہیں پڑھ کر سناتے ہیں وہ شاعری نہیں، بلکہ برحق کتاب ہے اور اسی دعوت توحید کو لے کر مبعوث ہوئے ہیں جو تمام انبیاء و رسل کی دعوت رہی ہے۔ الصافات
34 الصافات
35 الصافات
36 الصافات
37 الصافات
38 (١١) میدان محشر میں اللہ تعالیٰ ان کفار و مشرکین سے کہے گا جن کے بارے میں جہنم کا فیصلہ ہوجائے گا کہ اب تم جہنم کے درد ناک عذاب میں ہمیشہ کے لئے مبتلا کردیئے جاؤ گے اور یہ انجام بد تمزہارے برے اعمال ہی کا نتیجہ ہے۔ الصافات
39 الصافات
40 (12) مذکورہ بالا عذاب نار سے اللہ تعالیٰ نے اپنے ان مومن بندوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے جو صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں انہیں ان کا رب جنت میں داخل کر دے گا اور بے شمار نعمتوں سے نوازے گا ان نعمتوں میں سے یہ بھی ہے کہ انہیں بغیر انقطاع کے صبح و شام عدہ اور پاکیزہ روزی ملتی رہے گی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ مریم آیت (٢٦) میں فرمایا ہے : (ولھم رزقھم فیھا بکر قوعشیا) ” وہاں ان صبح و شام روزی ملتی رہے گی۔ “ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت (٢٤) میں ” فواکہ“ سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ اہل جنت کا کھانا پینا بھوک اور پیاس کی وجہ سے نہیں، بلکہ محض لذت حاصل کرنے کے لئے ہوگا اور وہاں وہ بہت ہی باعزت زندگی گذاریں گے اور وہ آمنے سامنے آرام دہ کرسیوں پر بیٹھے ہوں گے اور انہیں شراب کی جاری نہروں سے پیالے بھر کر پیش کئے جائیں گے، ایسی شراب جس سے انہیں نہ کوئی بیماری ہوگی نہ ہی درد سر اور نہ اس کے زیر اثران کی عقل ہی مارے جائے گی۔ الصافات
41 الصافات
42 الصافات
43 الصافات
44 الصافات
45 الصافات
46 الصافات
47 الصافات
48 (13) اہل جنت اتنے زیادہ خوبصورت ہوں گے کہ ان کی بیویاں ان کے سوا دوسرے مردوں پر نگاہ نہیں ڈالیں گے، اور وہ بیویاں بڑی خوبصورت اور کشادہ آنکھوں والی ہوں گی اور اتنی خوبصورت اور گوری ہوں گی، جیسے شتر مرغ کے صاف ستھرے انڈے ہوتے ہیں۔ الصافات
49 الصافات
50 14) اہل جنت آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھ کر شراب پئیں گے، باتیں کریں گے، اور دنیا میں ان جو بیتی تھی ایک دوسرے سے بیان کریں گے۔ خدام جنت ان کے سامنے آجا رہے ہوں گے اور انواع و اقسام کی ایسی نعمتیں پیش کر رہے ہوں گے جنہیں دنیا میں نہ کسی آنکھ نے دیکھا تھا نہ کسی کان نے سنا تھا اور نہ کسی دل میں ان کا خیال تک گذرا تھا۔ اس وقت ان میں سے ایک جنتی کہے گا کہ ایک مشرک میرے ساتھ دنیا میں کبھی کبھار بیٹھتا تھا، وہ آخرت کی تکذیب کرتے ہوئے کہتا تھا کہ کیا تم اس بات کو مانتے ہو کہ ہم جب مر کر گل سڑ جائیں گے اور مٹی میں مل جائیں گے تو ہم دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اور ہمیں ہمارے اعمال کا بدلہ چکایا جائے گا؟! تو آج ہمارے رب نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا ہے، ہمیں جنت میں داخل کردیا ہے اور میرے اس ساتھی کو جہنم میں دھکیل دیا جاتا ہے کہ تم لوگ اسے جہنم میں دیکھنا چاہتے ہو؟ پھر وہ جنتی جہنم میں جھانکے گا، تو اسے بیچ جہنم میں دیکھے گا اور حیرت و دہشت کے ملے جلے جذبات سے متاثر ہو کر اس جہنمی کو پکارے گا اور اس سے کہے گا کہ اللہ کی قسم ! قریب تھا کہ تم مجھے بھی جہنم میں پہنچا دیتے اور اگر مجھ پر اللہ کا فضل و کرم نہ ہوتا تو آج میں بھی تمہارے ساتھ جہنم کی کھائی میں نظر آتا ہے۔ الصافات
51 الصافات
52 الصافات
53 الصافات
54 الصافات
55 الصافات
56 الصافات
57 الصافات
58 (15) پھر وہ جنتی اپنے اہل جنت ساتھیوں سے مخاطب ہو کر غایت فرحت و شادمانی میں کہے گا کہ دوستوں ! ہم نے دنیا میں موت کا جو مزا چکھا تھا اس کے بعد اب ہمیں یہاں جنت میں موت نہیں آئے گی، یہاں کی زندگی دائمی ہے اور اس کی نعمتیں لازوال ہیں۔ بے شک مرد مومن کی یہی سب سے بڑی کامیابی ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے اور لوگوں کو اس کے حصول کے لئے دنیا کی زندگی میں کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ الصافات
59 الصافات
60 الصافات
61 الصافات
62 (16) اہل جنت کی خوش بختیوں کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جہنم کی بدبختیوں کا ذکر کیا ہے کہ اوپر اہل جنت کے لئے جن نعمتوں کا ذکر ہوا ہے وہ بہترین نعمت ہے، یا بدترین کڑوے زقوم کا درخت، جسے ہم نے ظالم کفار قریش کی آزمائش کا سبب بنا دیا ہے، جو کہتے ہیں کہ بھلا یہ بھی عقل میں آنے والی بات ہے کہ کوئی ایسا بھی درخت ہے جو آگ میں پیدا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہاں زقوم ایسا درخت ہے جو جہنم کی تہہ میں پیدا ہوتا ہے، جس کی شاخیں آگ میں لہلہاتی ہیں اور جس کے پھل شیطانوں کے سروں کے مانند بڑے اور قبیح المنظر ہوتے ہیں، جہنمی جب بھوک کی شدت سے تڑپیں گے تو اپنے آگے سوائے شجرز قوم کیک کچھ بھی کھانے کے لئے نہ پائیں گے، ناچاراسی کو کھائیں گے اور اپنے پیٹ بھریں گے اور کھانے کے بعد جب انہیں پیاس لگے گی تو پینے کے لئے پیپ اور گندگی ملا ہوا شدید گرم پانی ملے گا جو ان کی آنتوں کو کاٹ کر باہر نکال دے گا۔ اور ہر حال میں ان کا ٹھکانا جہنم ہی ہوگا جہاں بھڑکتی آگ کے شعلے ان کے ناتواں جسموں کو جلاتے رہیں گے، جیسا کہ سورۃ الرحمٰن آیات (٣٤، ٤٤) میں آیا ہے : (ھذہ جھنم التی یکذب بھا المجرمون یطوفون بینھا و بین حمیم ان) ” یہ ہے وہ جہنم جسے مجرم جھوٹا جانتے تھے مجرمین اس کے اور کھولتے ہوئے گرم پانی کے درمیان چکر کھائیں گے۔ الصافات
63 الصافات
64 الصافات
65 الصافات
66 الصافات
67 الصافات
68 الصافات
69 17 اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اہل جہنم مذکورہ بالا عذاب شدید سے اس لئے دوچار ہوئے کہ انہوں نے اپنے آباء و اجداد کو راہ ہدایت سے بھٹکا ہوا پایا تو انہی کے پیچھے ہو لئے اور شرک و کفر اور ضلالت و گمراہی میں ان کی تقلید کرنے لگے، صاحب محاسن التنزیل لکھتے ہیں کہ آیات (٩٦، ٠٧) میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ مشرکین مکہ نے بغیر غور و فکر اور محض اندھی تقلید کی بنیاد پر اپنے باپ دادوں کی پیروی میں تیزی کی۔ فخر الدین رازی لکھتے ہیں کہ اگر قرآن کریم میں اس ایک آیت کے سواذم تقلید میں کوئی دوسری آیت نہ ہوتی تو کبھی کافی ہوتی۔ الصافات
70 الصافات
71 (18) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرکین مکہ سے پہلے بھی بہت سی قومیں گمراہ ہوئیں اور ہم نے انہیں ان کے برے اعمال کے انجام بد سے ڈرانے کے لئے انبیاء و رسل بھیجے اور جنہوں نے ان کی دعوت کو قبول نہیں کیا انہیں ہلاک کردیا اور اپنے ان نیک بندوں کو اس عذاب سے بچا لیا جو اخلاص و للہیت کے ساتھ ہماری عبادت کرتے رہے۔ الصافات
72 الصافات
73 الصافات
74 الصافات
75 (19) سرکش ونافرمان قوموں کی ہلاکت کا ذکر آنے کے بعد مناسب معلوم ہوا کہ ان میں سے بعض قوموں کے حالات کچھ تفصیل کے ساتھ بیان کئے جائیں۔ چنانچہ اس ضمن میں یہاں سات انبیائے کرام اور ان کی قوموں کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔ سب سے پہلا واقعہ نوح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا ہے : اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نوح نے ہمیں اپنی قوم کے خلاف مدد کے لئے پکارا (جیسا کہ سورۃ المومنون آیات (٦٢ اور ٩٣) میں آیا ہے : (قال رب انصرنی بماکذبون) ” نوح نے دعا کی اے میرے رب ! ان کے جھٹلانے پر تو میری مدد کر اور سورۃ القمر آیت (٠١) میں آیا ہے : (قدعا ربہ انی مغلوب فانتصر) ” نوح نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں مغلوب ہوں، تو میری مدد فرما“ تو ہم نے ان کی دعا قبول کرلی (اس لئے کہ ہمارے سوا کون کسی پریشان حال کی پکا رسن سکتا ہے) اور انہیں اور ان کے خاندان والوں کو (ان کی بیوی اور بیٹے کنعان کے سوا) طوفان عظیم سے بچا لیا اور ان کی نسلوں کو دنیا میں باقی رکھا چنانچہ قوم نوح کی ہلاکت کے بعد دوبارہ پوری دنیا نوح کے تین بیٹوں، سام، حام اور یافث کی اولاد سے آباد ہوئی۔ الصافات
76 الصافات
77 الصافات
78 (20) نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے نوح کے بعد آنے والی قوموں میں ان کا ذکر خیر باقی رکھا کہ سب ان کا نام عزت و احترام کے ساتھ لیتے ہیں اور ان کے لئے سلامتی و رحمت کی دعا کرتے ہیں اور قیامت تک ان کا ذکر جمیل قوموں میں باقی رہے گا اور فرمایا کہ ہم عمل صالح کرنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں نوح کا عمل صالح یہ تھا کہ انہوں نے اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تک اللہ کے دین کی طرف ہلاتے رہے۔ اسی لئے آیت (١٨) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نوح ہمارے صادق الایمان بندوں میں سے تھے، مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ سے ایمان کی فضیلت و اہمیت ثابت ہوتی ہے، اس لئے کہ نوح جیسے عظیم نبی کی تعریف کے لئے ان کی اسی صفت کو بطور خاص بیان کیا گیا ہے۔ آیت ٢٨ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے اور ان کے اہل ایمان رشتہ داروں اور پیروکاروں کے سوا باقی تمام کافروں کو ہم نے طوفان کی نذر کردیا۔ الصافات
79 الصافات
80 الصافات
81 الصافات
82 الصافات
83 21 دوسرا واقعہ ابراہیم (علیہ السلام) کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابراہیم ایمان اور توحید کی طرف لوگوں کو بلانے میں نوح کی راہ پر ہی گامزن تھے وہ بھی اپنے رب کی طرف ایسے دل کے ساتھ متوجہ ہوئے تھے جو شرک و شک کی آلائشوں سے یکسر پاک اور فطری طور پر توحید کی طرف مکمل طور پر مائل تھا، اسی لئے انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم کی بت پرستی پر نکیر کی اور ان سے کہا کہ کیا تم اللہ کے خلاف افتراپردازی کرتے ہوئے اپنے لئے اس کے سوا دوسروں کو معبود بتاتے ہو اور رب العالمین کی عبادت چھوڑ کر غیروں کی پرستش کرتے ہو، حالانکہ یہ بات متہارے وہم و گمان میں بھی نہیں آنی چاہئے کہ اس کے سوا کوئی دوسرا عبادت کا مستحق ہوسکتا ہے۔ الصافات
84 الصافات
85 الصافات
86 الصافات
87 الصافات
88 (٢٢) شوکانی نے مفسر واحدی کے حوالے سے مفسرین کا قول نقل کیا ہے کہ وہ لوگ علم نجوم کے قائل تھے، اسی لئے ابراہیم (علیہ السلام) نے ستاروں کی طرف دیکھ کر کہا کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگر میں تمہارے ساتھ میلے میں شریک ہوں گا تو بیمار پڑجاؤں گا، تاکہ لوگ انہیں میلہ میں شرکت سے معذور سجھیں، چنانچہ ایسا ہی ہوا، لوگوں نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا اور میلے میں شرکت کے لئے چلے گئے ابراہیم (علیہ السلام) بتوں کے پاس پہنچے اور ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اگر تم عبادت کے مستحق ہو تو تمہارے سامنے اتنے سارے کھانے رکھے ہیں انہیں کیوں نہیں کھاتے ہو، لیکن بتوں نے نہ کھانا کھایا اور نہ ان کی بات کا جواب دیا تو ابراہیم (علیہ السلام) کہنے لگے کہ اے بتو ! تم بولتے کیوں نہیں ہو؟ پھر اپنے دائیں ہاتھ میں موجود کلہاڑی سے انہیں مار مار کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے مشرکین جب شام کو واپس آئے اور اپنے معبودوں کا حال زار دیکھا، تو فوراً ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس پہنچے اور ان سے پوچھ تاچھ کرنے لگے ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے دفاع میں کہا کہ یہ کیسی تمہاری کور مغزی ہے کہ جن بتوں کو تم اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہو انہی کی پوجا کرتے ہو حالانکہ اور تمہارے معبودوں کا خالق اللہ ہے، اس لئے عبادت کا مستحق بھی صرف وہی ہے۔ الصافات
89 الصافات
90 الصافات
91 الصافات
92 الصافات
93 الصافات
94 الصافات
95 الصافات
96 الصافات
97 (23) قوم ابراہیم کے پاس جب اپنے شرک و کفر کی تائید میں کوئی دلیل باقی نہیں رہی اور ابراہیم (علیہ السلام) کی صریح اور واضح دلیل نے انہیں لاجواب کردیا تو انہوں نے ظلم و جبروت کی راہ اختیا رکی، جو حق کی آواز کو دبانے کے لئے ظالموں اور جابروں کا ہمیشہ سے شیوہ رہا ہے۔ انہوں نے طے کیا کہ ایک بہت بڑی آگ جلا کر ابراہیم کو اس میں ڈال دیں۔ آیت (٨٩) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے ابراہیم کے خلاف سازش کی اور ان کو نیچا دکھانا چاہا، لیکن اللہ نے انہیں ہی ذلیل و رسوا کیا، ان کی سازش یکسر ناکام رہی اور آگ ابراہیم کے لئے ٹھنڈی اور سلامتی بن گئی۔ الصافات
98 الصافات
99 (24) آگ سے نجات پانے کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے وطن سے ہجرت کا فیصلہ کرلیا اور وہاں سے نکل کر شام کے علاقے حزان پہنچ گئے اور جاتے ہوئے اپنے رب سے اس امید کا اظہار کیا کہ وہ انہیں ان کے مقصد میں کامیاب کرے گا، اور انہیں ایمان و توحید پر ثابت قدم رکھے گا۔ رازی نے لکھا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ اقدام اس بات کی دلیل ہے کہ جس جگہ دشمنان اسلام کی کثرت ہوجائے وہاں سے ہجرت کر جانا واجب ہے۔ الصافات
100 (25) ابراہیم (علیہ السلام) نے شام کی مقدس سر زمین میں پہنچنے کے بعد دعا کی کہ اے میرے رب ! مجھے ایک نیک لڑکا عطا فرما جو غریب الدیاری میں میرے انس و دل بستگی کا سامان بنے اور تیری اطاعت و بندگی میں میری مدد کرے۔ اللہ نے ان کی دعا قبول فرما لی اور ہاجرہ کے بطن سے اسماعیل (علیہ السلام) پیدا ہوئے۔ پھر اللہ کے حکم سے ماں اور بیٹے کو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں پہنچا دیا، جہاں اللہ نے اپنے فضل و کرم سے آب زمزم مہیا کردیا اور قبیلہ جر ہم کو لا کر بسا دیا اسماعیل (علیہ السلام) جب جوان ہوئے تو اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو خواب میں بذریعہ وحی حکم دیا کہ وہ اپنے رب کی خوشنودی کے لئے اپنے چہیتے بیٹے کی قربانی دیں، انہوں نے اپنا خواب بیٹے سے بیان کیا اور ان سے مشورہ طلب کیا تو بیٹے نے کہا، ابا جان ! آپ کو جو حکم ہوا ہے اسے کر گذریئے انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے، ابراہیم (علیہ السلام) بیٹے کو ساتھ لے کر منیٰ کی طرف چل پڑے اور جمرات کی جگہ پہنچ کر انہیں پیشانی کے بل ڈال دیا، اور چھری ان کی گردن پر رکھ دی اچانک دیکھتے کیا ہیں کہ وہاں ایک مینڈھا کھڑا ہے، ایک غیبی آواز آئی کہ آپ بیٹے کو چھوڑ دیجیے اور مینڈھے کو ذبح کیجیے، آیت (٤) سے آگے تک یہی کچھ بیان کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آواز دی اور کہا کہ آپ نے اپنا خواب سچ کر دکھایا اور کمال طاعت اور عظیم ترین صبر و ثبات کی دلیل پیش کردی۔ اب آپ بیٹے کو ذبح نہ کیجیے، ہم احسان اور عمل کرنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں، بے شک یہی وہ کھلی اور صریح آزمائش ہے جس کے ذریعہ مخلص و غیر مخلص کا امتیاز ہوجاتا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں، آیت کریمہ (٦٠١) میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ خواب کی تعمیل میں ابراہیم (علیہ السلام) کا امتحان تھا تاکہ وہ اپنے عزیز ترین بیٹے کی قربانی دے کر اللہ سے اپنی غایت محبت اور انتہائے طاعت و بندگی کا ثبوت بہم پہنچائیں چنانچہ جب وہ اس امتحان میں کامیاب ہوگئے تو اللہ نے ایک مینڈھا بھیج دیا تاکہ بیٹے کے بدلے اسے ذبح کریں۔ الصافات
101 الصافات
102 الصافات
103 الصافات
104 الصافات
105 الصافات
106 الصافات
107 الصافات
108 (26) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ابراہیم کے بعد آنے والی قوموں میں ان کا ذکر خیر باقی رکھا، یہودی، نصرانی اور مسلمان سبھی ان کا نام عزت و احترام کے ساتھ لیتے ہیں اور ان کے لئے سلامتی اور رحمت کی دعا کرتے ہیں اور قیامت تک ان کا ذکر جمیل قوموں میں باقی رہے گا۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ ہم عمل صالح کرنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) کا عمل صالح یہ تھا کہ توحید باری تعالیٰ کی طرف اپنی قوم کو بلانے کی پاداش میں انہیں آگ کی نذر کردیا گیا، جس سے اللہ نے اپنے فضل خاص سے انہیں نجات دی، اسی لئے آیت (١١١) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابراہیم (علیہ السلام) ہمارے صادق الایمان بندوں میں سے تھے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ سے ایمان کی فضیلت و اہمیت ثابت ہوتی ہے، اس لئے ابراہیم جیسے عظیم نبی کی تعریف کے لئے ان کی اسی صفت کو بیان کیا گیا ہے۔ الصافات
109 الصافات
110 الصافات
111 الصافات
112 (27) ابراہیم (علیہ السلام) جب بوڑھے ہوگئے، اور ان کی بیوی سارہ بھی بوڑھی ہوگئیں، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اسحاق (علیہ السلام) کی بشارت دی، یہ بشارت وہفرشتے لے کر آئے تھے جو قوم لوط کی بستی کو الٹنے کے لئے بھیجے گئے تھے۔ فرشتوں نے جب دونوں کو یہ بشارت دی تو سارہ علیہما السلام اپنی اور اپنے شوہر کی کبر سنی کی وجہ سے شدت تعجب سے کہنے لگیں : (االدوانا عجوزوھذا بعلی شیخا) ” کیا مجھے بچہ ہوگا حالانکہ میں بوڑھی ہوچکی ہوں اور میرے شوہر بھی بوڑھے ہوگئے ہیں۔“ (ہود : ٢٧) آیات (٢١١، ٣١١) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ابراہیم کو اسحاق کی بشارت دی جو بڑے ہو کر صالح اور نبی ہوں گے اور ہم نے ابراہیم اور اسحاق پر اپنی برکتیں نازل کردیں، یعنی ان کی اولاد میں کثرت ہوگی ان میں انبیاء کا سلسلہ جاری رہے گا ان میں کچھ لوگ بادشاہوں گے اور ہم انہیں ایسی نعمتیں دیں گے جو دوسروں کو نہیں ملیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ ابراہیم و اسحاق کی اولاد میں کچھ تو مومنین صالحین ہوں گے اور کچھ لوگ کفر و معاصی کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر کھلا ظلم کرنے والے ہوں گے۔ علماء کا اختلاف ہے کہ ذبیح کون تھے۔ اسماعیل یا اسحاق قرطبی اور کچھ دوسرے لوگوں کا خیال ہے کہ ذبیح اسحاق تھے، لیکن راجح یہی ہے کہ وہ اسماعیل تھے، یہ یہودی و نصاریٰ کی کار ستانی ہے کہ انہوں نے جھوٹی روایات گھڑ کر مسلمانوں میں پھیلا دیا، تاکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ” ابن الذبیحین“ یعنی دو ذبیحوں، اسماعیل اور عبداللہ کا بیٹا ہونے کا شرف چھین لیں، حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ” زاد المعاد“ میں لکھا ہے کہ صحیح قول کے مطابق صحابہ و تابعین اور دیگر علمائے اسلاف کے نزدیک ذبیح اسماعیل ہیں، اسحاق کا ذبیح ہونا بیس وجوہات سے باطل ہے، آگے لکھا ہے میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیمہ رحمہ اللہ سے سنا ہے کہ یہ قول یہود و نصاریٰ سے لیا گیا ہے، حالانکہ یہ دعویٰ خود ان کی کتاب کے نص کے ذریعہ باطل ہے تو رات میں ہے، اللہ نے ابراہیم کو حکم دیا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کریں اور اہل کتاب اور مسلمان سبھی جانتے ہیں کہ اسماعیل ہی ان کے اکلوتے تھے اسحاق کو ذبیح کہنے والوں کو اس بات سے دھوکہ ہوا ہے کہ ان کے پاس موجود تورات میں ہے کہ (آپ اپنے بیٹے اسحاق کو ذبح کیجیے) حالانکہ یہ جھوٹ اور یہود کی تحریف ہے، اس لئے کہ یہ ذبیح کے اکلوتا ہونے سے متعارض ہے۔ یہود نے حسد کرتے ہوئے یہ افترا پردازی کی تاکہ اولاد اسماعیل کہ یہ شرف حاصل نہ ہو۔ اسحاق ذبیح کیسے ہو سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ام اسحاق کو اسحاق اور یعقوب کی بشارت ایک ساتھ دی تھی : (فبشرنا ھاباسحاق ومزرور اسحاق یعقوب) ” ہم نے سارہ کو اسحاق کی بشارت دی اور اسحاق کے بعد ان کے بیٹے یعقوب کی۔“ یہ بات محال ہے کہ انہیں اسحاق کے بیٹے یعقوب کی بشارت دی جائے پھر اسحاق کو ذبح کرنے کا حکم دیا جائے۔ شیخ السلام آگے چل کر کہتے ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ذبح مکہ میں تھے اسی لئے تو دس تاریخ کو قربانی صفا و مروہ کے درمیان سعی اور رمی جمار جیسے اعمال حج ذبیح اور ان کی ماں کی یاد میں مکہ مکرمہ میں ادا کئے جاتے ہیں اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ مکہ میں اسماعیل اور ان کی ماں ہاجرہ تھیں نہ کہ اسحاق اور ان کی ماں سارہ اور یہی وجہ ہے کہ ذبح کرنے کی جگہ اور زمانہ (بیت حرام) سے وابستہ ہے جسے ابراہیم و اسماعیل نے بنایا تھا اور مکہ میں قربانی کرنا حج بیت اللہ کے شعائر میں سے قرار پایا، جسے دونوں باپ بیٹے نے بنایا تھا، اگر ذبح کرنے کا عمل شام میں ہوا ہوتا تو حج پر قربانی کے شعائر مکہ کے بجائے شام میں ادا ہوتے۔ الصافات
113 الصافات
114 (28) اقوام گزشتہ میں سے چوتھا واقعہ موسیٰ و ہارون علیہما السلام کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت و رسالت اور دیگر عظیم نعمتوں سے نوازا، انہیں اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون اور فرعونیوں کے ظلم و استبداد اور ان کی غلامی سے نجات دی اور ان پر انہیں غلبہ عطا کیا، بایں طور کہ فرعون نے جب ایک بڑی فوج کے ساتھ ان کا پیچھا کیا، تو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بچا لیا اور فرعون اور اس کی پوری فوج کو سمندر میں ڈبو دیا، موسیٰ و ہارون اور ان کی قوم پر ایک بڑا احسان یہ تھا کہ اب تک جو فرعونیوں کے ظلم کی چکی میں پیسے جا رہے تھے، انہیں اللہ تعالیٰ نے عزت و غلبہ دیا اور ظالم فرعونیوں کو سمندر کی نذر کردیا۔ الصافات
115 الصافات
116 الصافات
117 (29) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ و ہارون پر یہ بھی احسان کیا کہ انہیں تورات جیسی عظیم کتاب عطا کی، جس میں احکام و تشریعات الٰہیہ کھول کر بیان کردیئے گئے تھے اور انہیں اپنی سیدھی راہ پر ڈال دیا، یعنی دین اسلام کا پیرو بنا دیا جو تمام انبیاء کا دین رہا ہے اور ان دونوں کا ذکر خیر آنے والی قوموں میں باقی رکھا، کہ یہودی و نصرانی اور مسلمان سبھی ان کا نام عزت و احترام سے لیتے ہیں اور ان کے لئے سلامتی و رحمت کی دعا کرتے ہیں، آیت (١٢١) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم عمل صالح کرنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں اور آیت (٢٢١) میں فرمایا کہ وہ دونوں ہمارے صادق الایمان بندوں میں سے تھے۔ الصافات
118 الصافات
119 الصافات
120 الصافات
121 الصافات
122 الصافات
123 (30) پانچواں واقعہ الیاس (علیہ السلام) کا ہے، جن کا نام بنی اسرائیل کی کتابوں میں ” ایلیا“ آیا ہے، ان کا زمانہ سلیمان (علیہ السلام) کے بعد کا تھا۔ انہیں شہر بعلبک اور اس کے گردونواح میں رہنے والے بنی اسرائیل کے لئے اس وقت نبی بنا کر بھیجا تھا، جب ان میں بت پرستی پھیل گئی تھی، لوگ اللہ کے بجائے بتوں کی پرستش کرتے تھے اور ہر قسم کا نذر و نیاز اور قربانی انہی کے نام سے کرتے تھے اور تورات کے احکام کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ الیاس (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ کیا تم اللہ کے عذاب سے ڈرتے نہیں کہ اس کے بجائے بتوں کی عبادت کرتے ہو؟ کیا تم اس قدر گم گشتہ راہ ہوگئے ہو کہ اپنے بڑے بت (بعل) کی پرستش کرتے ہوء، اور اللہ احسن الخالقین کو فراموش کر بیٹھے ہو جو تمہارے اور تمہارے گزشتہ باپ دادوں کا رب ہے؟! اہل بعلبک پر ان کی تقریر کا کوئی مثبت اثر نہیں ہوا انہوں نے اللہ کی وحدانیت کا اقرار نہیں کیا اور حالت کفر میں ہی مر گئے، تو انجام کار جہنم میں ڈال دیئے گئے سوائے ان چند بندگان نیک کے جنہوں نے ان کی ایمان کی دعوت کو قبول کرلیا تھا اور ان کی پیروی کی تھی، انہیں اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخل کردیا۔ آیت (٩٢١) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ان کا ذکر خیر آنے والی قوموں میں باقی رکھا کہ ہر صاحب ایمان ان کا نام عزت و احترام سے لیتا ہے اور ان کے لئے ان کے پیروکاروں کے لئے سلامتی و رحمت کی دعا کرتا ہے اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ ہم عمل صالح کرنے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں اور الیاس ہمارے صادق الایمان بندوں میں سے تھے۔ الصافات
124 الصافات
125 الصافات
126 الصافات
127 الصافات
128 الصافات
129 الصافات
130 الصافات
131 الصافات
132 الصافات
133 (31) چھٹا واقعہ لوط (علیہ السلام) کا ہے، یہ بھی اللہ کے رسولوں میں سے تھے، انہوں نے بھی اپنی قوم کو دعوت توحید دی اور انہیں ان کے بدترین عمل، عمل لواطت سے روکا، لیکن ان کی دعوت کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوا، تو اللہ تعالیٰ نے تمام بدکاروں کو ہلاک کردیا، ان کی بستیوں کو تہہ و بالا کردیا اور وط (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو بچا لیا، سوائے ان کی بڑھیا بیوی کے جو کافروں کے ساتھ رہ گئی تھی، تو وہ بھی ان کے ساتھ ہلاک کردی گئی۔ آیت (٦٣١) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے لوط اور ان کے مومن ساتھیوں کے سوا باقی تمام کو ہلاک کردیا، یعنی ان کی بستی کو الٹ دیا اور اوپر سے پتھروں کی بارش کردی۔ آیات (٧٣١، ٨٣١) میں اہل مکہ سے کہا گیا کہ تم لوگ ان بستیوں کے پاس سے کبھی صبح کے وقت اور کبھی شام کے وقت گذرتے ہو اور عذاب الٰہی کے جو آثار اب تک باقی ہیں انہیں دیکھتے ہو، تو کیا تمہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر تم بھی اپنے کفر و شرک پر مصر رہو گے تو تمہارا انجام بھی انہی جیسا ہوسکتا ہے؟! الصافات
134 الصافات
135 الصافات
136 الصافات
137 الصافات
138 الصافات
139 (32) ساتواں واقعہ یونس (علیہ السلام) کا ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں عراق کے شہر نینویٰ والوں کے لئے نبی بنا کر بھیجا تھا، اس زمانے میں نینویٰ آشوریوں کا ایک عظیم شہر تھا، جہاں ایک لاکھ سے زیادہ بنی اسرائیل کے لوگ رہتے تھے، جنہیں آشوری قید کر کے لے گئے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہی کی ہدایت کے لئے یونس (علیہ السلام) کو نبی بنا کر فلسطین سے نینویٰ بھیجا تھا۔ یونس (علیہ السلام) نے انہیں ایمان کی دعوت دی، لیکن انہوں نے قبول نہیں کیا، تو یونس (علیہ السلام) نے انہیں عذاب کی دھمکی دی اور جب عذاب آنے میں تاخیر ہوئی تو یونس (علیہ السلام) ناراض اور تنگ دل ہو کر شہر سے نکل کر سمندر کی طرف چل پڑے۔ جب بندرگاہ پہنچے تو وہاں ایک کشتی کہیں روانہ ہونے کے لئے تیار تھی، اس پر سوار ہوگئے چونکہ اس کا وزن زیادہ تھا، اس لئے بیچ سمندر میں جا کر رک گئی ناخدا کی رائے ہوئی کہ کشتی کا وزن کم کرنا ضروری ہے ورنہ سارے لوگ ڈوب جائیں گے، قرعہ اندازی میں یونس (علیہ السلام) کا ہی نام نکلا، چنانچہ انہیں لوگوں نے سمندر میں پھینک دیا اور ایک بڑی مچھلی نے آ کر نگل لیا، اس لئے وہ اپنے رب کی اجازت کے بغیر اپنی قوم کے پاس سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ آیت (٣٤١) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یونس (علیہ السلام) چونکہ اس ابتلاء و آزمائش سے قبل کثرت سے نماز پڑھتے تھے اور ہمیشہ تسبیح و تہلیل اور ذکر و عبادت میں مشغول رہتے تھے، اسی لئے اللہ نے ان پر رحم کیا اور انہیں (لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلامین) کے ورد کا الہام کیا، جس کی برکت سے مچھلی نے اللہ کے حکم سے انہیں ساحل سمندر پر لاکر ڈال دیا، ورنہ قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے۔ مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے یونس (علیہ السلام) بیمار ہوگئے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت کا یہ سامان کیا کہ وہاں فوراً یقطین کا ایک درخت اگ آیا جس کے پتے ان پر سایہ فگن ہوگئے اور انہیں دھوپ اور مکھی سے بچانے لگے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ نے ان کے لئے ایک دودھ دینے والی ہر نی کو مسخر کردیا جو صبح و شام انہیں دودھ پلانے کے لئے ان کے پاس آجایا کرتی، یہاں تک کہ وہ بالکل تندرست ہوگئے اور اپنی قوم کے پاس واپس گئے تو دیکھا کہ وہ سب مسلمان ہوچکے ہیں اور ان کے جانے کے بعد انہوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کرلی تھی اس لئے اللہ نے ان سے عذاب کو ٹال دیا تھا۔ آیات (٧٤١، ٨٤١) میں بتایا گیا ہے کہ یونس (علیہ السلام) جس قوم کے لئے نبی بنا کر بھیجے گئے تھے ان کی تعداد ایک لاکھ یا اس سے زیادہ تھی، وہ لوگ جب اللہ پر ایمان لے آئے، اسلام کو بحیثیت دین قبول کرلیا اور یونس (علیہ السلام) کی نبوت و رسالت پر ایمان لے آئے اور شرک و کفر سے تائب ہوگئے تو اللہ نے ان سے عذاب کو ٹال دیا اور انہیں ایک وقت مقرر تک دنیا کی نعمتوں سے مستفید ہونے کا موقع دے دیا۔ الصافات
140 الصافات
141 الصافات
142 الصافات
143 الصافات
144 الصافات
145 الصافات
146 الصافات
147 الصافات
148 الصافات
149 (٣٣) عرب کے کچھ قبائل اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ بدترین افترا پردازی کرتے تھے کہ اللہ نے جنوں کے ساتھ رشتہ ازدواج قائم کرلیا، جس کے نتیجے میں فرشتے پیدا ہوئے، جو اللہ کی بیٹیاں ہیں، یہ بہت بڑی گمراہی تھی جس میں شیطان نے انہیں مبتلا کردیا تھا، یہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے اسی باطل مزعومہ پر ان کے اجر و توبیح کیلئے اپنے رسول سے کہا کہ ذرا ان سے پوچھئے تو سہی، کیا انہیں شرم نہیں آتی کہ اپنے لئے تو بیٹا ثابت کرتے ہیں جسے اپنی عزت و شرف کا باعث سمجھتے ہیں، اور اللہ کے لئے بیٹیاں ثابت کرتے ہیں جنہیں اپنے لئے ذلت و رسوائی کا سبب مانتے ہیں کیا جب ہم نے فرشتوں کو پیدا کیا تھا تو وہ موجود تھے اور ان کے علم میں یہ بات آگئی تھی کہ فرشتے مؤنث ہیں؟ یقیناً ایسی کوئی بات نہیں ہے، وہ لوگ محض افترا پردازی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کی اولاد ہے۔ ولادت تو ان جسموں کا خاصہ ہے جو نقص و فساد کو قبول کرتے ہیں اور اللہ تو ہر نقص و عیب سے پاک ہے، اس لئے ان کے جھوٹا ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ آیت (٣٥١) میں اور اس سے آگے فرمایا کہ کیا اللہ نے بیٹوں کے بجائے اپنے لئے بیٹیاں چن لی ہیں؟ تمہاری عقلوں کو کیا ہوگیا ہے اور تمہارا یہ فیصلہ کیسا ہے کہ باری تعالیٰ کے مقام اعلیٰ کی طرف ناقص کو منسوب کرتے ہو، کیا تمہیں یہ بات معلوم نہیں ہے کہ اس کی ذات بیوی اور اولاد سے یکسر منزہ ہے۔ آیت (٦٥١) میں اللہ تعالیٰ نے کفار عرب کو مخاطب کیا کہ کیا تمہارے پاس اپنے دعویٰ کے ثبوت میں کوئی واضح دلیل ہے؟ عقلی طور پر یہ محال ہے، اس لئے تم لوگ اگر سچے ہو تو بتاؤ کہ کیا یہ بات تمہارے پاس موجود کسی آسمانی کتاب میں ہے؟ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ جو کتاب الٰہی تمہاری ہدایت کے نازل ہوئی ہے، یعنی قرآن کریم، اس کا تو تم انکار کرچکے ہو۔ معلوم ہوا کہ تمہاری بات اللہ کے خلاف محض افترا پردازی ہے۔ الصافات
150 الصافات
151 الصافات
152 الصافات
153 الصافات
154 الصافات
155 الصافات
156 الصافات
157 الصافات
158 (34) آیت (٩٤١) میں کفار عرب کی جس بات کی تردید کی گئی ہے اور جس پر ان کی زجر و توبیخ کی گئی ہے، اسی کا یہاں صراحت کے ساتھ انکار کیا گیا ہے کہ وہ لوگ اللہ اور جنوں کے درمیان رشتہ ازدواج بتاتے ہیں حالانکہ شیاطین الجن جانتے ہیں کہ قیامت کے دن ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا اگر اللہ سے ان کا رشتہ ہوتا تو وہ انہیں آگ کا عذاب کیسے دیتا، رشتہ داری کا تو تقاضا تھا کہ اللہ انہیں عذاب نہ دیتا معلوم ہوا ہے کہ اللہ کے بارے میں یہ بدترین جھوٹ ہے بہت سے مفسرین نے یہاں ” الجنۃ“ سے مراد فرشتے لئے ہیں اور آیت کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ کفار عرب اللہ اور فرشتوں کے درمیان رشتہ بتاتے ہیں۔ یہ بات اللہ کے خلاف افترا پردازی ہے۔ فرشتے بھی جانتے ہیں کہ جو کفار ایسی بات کہتے ہیں ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ آیت (٩٥١) میں اللہ تعالیٰ نے نے مذکورہ بالا افتراپردازی سے اپنی پاکی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی ذات ولادت و نسب جیسے عیب و نقص سے پاک ہے۔ آیت (٠٦١) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کے مخلص بندے اپنے رب کی طرف اس قسم کے عیوب و نقائص کو منسوب نہیں کرتے ہیں۔ دوسری تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ اہل ایمان جن جہنم میں داخل نہیں کئے جائیں گے اس تفسیر کے مطابق (الاعباد اللہ امخلصین) کا تعلق (انھم المحضرون) سے ہوگا یعنی اہل ایمان جنوں کے سوا دوسرے شیاطین الجن جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے۔ الصافات
159 الصافات
160 الصافات
161 الصافات
162 (35) کافروں کو بالعموم یا کفار مکہ کو بالخصو صمخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ تم اور تمہارے معبود ان باطل اللہ کے نیک بندوں کو گمراہ نہیں کرسکتے ہو سوائے ان لوگوں کے جو تمہاری طرح گمراہ ہیں اور جن کی قسمت میں جہنمی ہونا لکھ دیا گیا ہے، ایسے لوگ وہی کام کریں گے جو انہیں جہنم میں پہنچا دے گا اور وہی لوگ تمہاری راہ پر چلیں گے۔ الصافات
163 الصافات
164 (36) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی زبانی ان کی عبودیت کے اعتراف کو بیان کیا ہے اور اس سے مقصود ان لوگوں کی تردید ہے جو فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں۔ فرشتے خود اپنی زبان سے اللہ کے لئے اپنی عبودیت کا اعتراف کرتے ہیں، پھر وہ معبود کیسے ہو سکتے ہیں۔ یہ قول جبرئیل (علیہ السلام) اور دیگر فرشتوں کا ہے جو انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا اور جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کی زبان میں بیان کیا ہے کہ طاعت و بندگی اور احکام الٰہی کی بجا آوری میں ہم میں سے ہر فرشتے کی ایک حد مقرر ہے۔ جس سے وہ تجاوز نہیں کرسکتا ہے اور ہم تمام فرشتے اللہ کے حضور صف بستہ کھڑے ہوتے ہیں اور ہر وقت اس کی پاکی بیان کرتے رہتے ہیں۔ صحیح مسلم میں حذیفہ (رض) سے مروی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” ہمیں دوسروں پر تین باتوں کے ذریعہ فضیلت دی گئی ہے : ہماری صفیں فرشتوں کی صفوں کی مانند ہیں، زمین ہمارے لئے مسجد بنا دی گئی ہے اور اس کی مٹی ہمارے لئے پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دی گئی ہے۔ “ الصافات
165 الصافات
166 الصافات
167 (37) مشرکین عرب کہا کرتے تھے کہ اگر تورات و انجیل کی مانند ہمیں بھی کوئی کتاب ملی ہوتی تو اس پر عمل کر کے ہم بھی اللہ کے مخلص بندے ہوتے اور اس کے ساتھ دوسروں کو شریک نہ بناتے، لیکن جب اللہ نے ان کے لئے قرآن کریم نازل فرمایا جو اس کی عظیم تر کتاب ہ، تو اس پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ معلوم ہوا کہ ان کی بات محض جھوٹی تمنا تھی، اس لئے انہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ قرآن کریم کی تکذیب کا انجام کیا ہوتا ہے۔ مشرکین عرب کی اس جھوٹی تمنا کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی دیگر آیتوں میں بھی بیان کیا ہے۔ سورۃ فاطر آیت (٢٤) میں فرمایا ہے : (واقسمواباللہ جھدایمانھم لائن جاءھم نذیر لیکونن اھذی من احدی الاھم فلما جاء ھم نذیر مازادھم الا نفوراً) ” اور کفار نے بڑی زور دار قسم کھائی تھی کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والا آئے تو ہر ایک امت سے زیادہ ہدایت قبول کرنے والے ہوں، پھر جب ان کے پاس ایک پیغمبر آگیا، تو ان کی نفرت ہی میں اضافہ ہوا۔“ اور سورۃ الانعام آیات (٦٥١، ٧٥١) میں فرمایا ہے : (ان تقولوا انما انزل الکتاب علی طائفتین من قبلنا وان کنا عن ذرا ستھم لغافلین اوتفولوالوانا انزل علینا الکتاب لکنا اھذی منھم فقد جاء کم بینہ من ربکم و ھدی ورحمۃ فمن اظلم ممن کذب بآیات اللہ وصدق عنھا) ” کہیں تم لوگ یہ نہ کہو کہ کتاب تو ہم سے پہلے جو دو فرقے تھے ان پر نازل ہوئی تھی اور ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے محض بے خبر تھے یا یوں کہو کہ اگر ہم پر کوئی کتاب نازل ہوتی تو ہم ان سے بھی زیادہ راہ راست پر ہوتے سو اب تمہارے پاس تمہارے رب کے پاس سے ایک کتاب واضح اور رہنمائی کا ذریعہ اور رحمت آچکی ہے اب اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہوگا جو ہماری ان آیتوں کو جھوٹا بتائے اور اس سے روکے۔ “ الصافات
168 الصافات
169 الصافات
170 الصافات
171 (38) تکذیب قرآن پر مشرکین کو دھمکی دینے کے بعد، اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ اللہ ان کی مدد ضرور کرے گا۔ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے اپنے جن بندوں کو انسان کی ہدایت کے لئے رسول بنا کر بھیجا، ان سے ہمارا وعدہ ہے کہ ہم ان کی ضرور مدد کریں گے اور بالاخر غلبہ انہی کو حاصل ہوگا جو اللہ کی فوج بن کر اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لئے جہاد کرتے ہیں۔ الصافات
172 الصافات
173 الصافات
174 (39) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جا رہا ہے کہ آپ ابھی مشرکین سے اعراض کیجیے، ان کی باتوں کا جواب نہ دیجیے اور صبر سے کام لیجیے، یہاں تک کہ حالات آپ کے لئے سازگار ہوجائیں، یا ان کے بارے میں اللہ کا کوئی حکم آجائے، یا اللہ انہیں کسی آزمائش میں مبتلا کر دے اور آپ انہیں بتا دیجیے کہ کفر و سرکشی کا انجام کیا ہوتا ہے اور دلائل کے ذریعہ اسلام کی حقانیت اور ان کی ضلالت و گمراہی ان پر واضح کردیجیے اور اگر اب نہ سمجھے تو جب اللہ کی نصرت و تائید فتح و کامرانی بن کر آپ کو حاصل ہوجائے گی، تب خود ہی سب کچھ سمجھ جائیں گے۔ الصافات
175 الصافات
176 (40) کفار مکہ اپنے کبر و غرور کے نشے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام سے کہا کرتے تھے کہ جس عذاب کا ہم سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ وہ کب آئے گا؟ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دھمکی دی اور فرمایا کہ کیا یہ نادان لوگ ہمارے عذاب کی جلدی مچا رہے ہیں؟ ہمارا عذاب تو ایسا ہے کہ جب وہ آجاتا ہے تو اس بدنصیب قوم کی صبح بڑ بری صبح ہوتی ہے، ہلاکت و تباہی انہیں ہر چہار جانب سے گھیر لیتی ہے۔ بخاری و مسلم نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خیبر کا محاصرہ کیا اور یہود مسلمانوں کی فوج دیکھ کر چیخ پکار کرنے لگے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :’ اللہ اکبر خربت خیبر، انا اذا انزلنا بساحۃ قوم فساء صباح المنذرین“” آج خیبر کی بربادی کا دن آگیا، ہم جب کسی قوم کے میدان میں پہنچ جاتے ہیں تو ان کی بح بڑی بری ہوتی ہے۔ “ الصافات
177 الصافات
178 (41) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دوبارہ کہا جا رہا ہے کہ آپ ابھی مشرکین سے اعراض ہی کیجیے اور کفر و سرکشی کا انجام انہیں بتا دیجیے اور اگر اب نہ سمجھے تو جب اللہ کی نصرت و تائید فتح و کامرانی بن کر آپ کو حاصل ہوگی، تب خود ہی سب کچھ انہیں سمجھ میں آجائے گا۔ الصافات
179 الصافات
180 (42) ان آخری آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے ان اوصاف سے اپنی پاکی اور نزاہت بیان کی ہے جن کے ساتھ مشرکین اللہ کو موصوف کرتے تھے اور اپنے رسولوں پر سلامتی بھیجی ہے جنہیں اس نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لئے مبعوث کیا تھا، ان میں سے ایک آپ بھی ہیں اور آخر میں تمام تعریفوں کو صرف اپنی ذات کے لئے ثابت کیا ہے جو سارے جہان کا پالنہار ہے اور جو اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو ہلاک کرتا ہے۔ الصافات
181 الصافات
182 الصافات
0 سورۃ ص ٓ مکی ہے، اس میں اٹھاسی آیتیں اور پانچ رکوع ہیں تفسیر سورۃ ص نام : سورت کی ابتدا میں حرف ” ص“ آیا ہے، یہی اس کا نام ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ سورت سب کے نزدیک مکی ہے۔ ابن ابی شیبہ، احمد، ترمذی، نسائی اور حاکم وغیرہ ہم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ابو جہل اور دیگر رؤسائے قریش ابوطالب کی موت کے وقت اس کے پاس گئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شکایت کی کہ وہ ہمارے بتوں کو برا کہتا ہے، اس لئے مناسب ہے کہ آپ اپنی زندگی میں اسے اس بات سے منع کردیجیے۔ ابوطالب نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ ایک کلمہ کہہ دیں اور سارا عرب و عجم ان کے زیر نگیں ہوجائے گا، کافروں نے پوچھا وہ کون سا کلمہ ہے؟ تو آپ نے فرمایا : کلمہ ” لا الہ الا اللہ“ تو تمام کفار اپنا کپڑا جھاڑتے ہوئے گھبرا کر اٹھ گئے اور کہنے لگے کہ یہ تو بہت سے معبودوں کے بجائے ایک معبود کی بات کرتا ہے، یہ تو بڑی عجیب بات ہے؟! تو اس سورت کی آیات (١) سے (٨) تک نازل ہوئیں، ترمذی اور حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ ص
1 (١) ” ص“ حرف مقطع ہے، اللہ کو ہی معلوم ہے کہ اس سے مراد کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کریم کی قسم کھائی ہے جو تمام انسانوں کے لئے اپنے اندر بے شمار پندو نصیحت کی باتیں لئے ہوئے ہے اور بتایا ہے کہ معاملہ ایسا نہیں ہے، جیسا مشرکین سمجھتے ہیں کہ محمد جادوگر، شاعر اور جھوٹے ہیں، بلکہ ان کے کبر و غرور اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کے ساتھ ان کی گہری عداوت نے انہیں افترا پردازویوں پر ابھارا ہے، ورنہ انہیں خوب معلوم ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ جادو گر ہیں، نہ شاعر، نہ آپ کو جنون لاحق ہے اور نہ ہی جھوٹ بولنا آپ کی عادت ہے۔ ص
2 ص
3 (٢) گزشتہ کافرو مشرک قوموں کا جوا انجام ہوا، اسے بیان کر کے کفار قریش کو دھمکی دی جا رہی ہے اللہ نے فرمایا کہ ہم نے اہل مکہ سے قبل بہت سی قوموں کو ان کے کبر و غرور اور کفر و شکرک کی وجہ سے ہلاک کردیا اور جب عذاب آیا تو فریاد رسی کے لئے چیخنے اور پکارنے لگیں، لیکن اس وقت کی چیخ و پکار سے انہیں کیا فائدہ پہنچ سکتا تھا اس وقت نہ تو وہ لوگ بھاگ سکتے تھے، نہ سہی کوئی انہیں بچا سکتا تھا۔ ان واقعات سے کفار مکہ کو عبرت حاصل کرنی چاہئے تھی، لیکن ان سے انہیں کو فائدہ نہیں پہنچا اور حیرت و استعجاب کرنے لگے کہ کیسے انہی میں کا ایک آدمی اللہ کا رسول ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے اور آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یہ تو جادوگر اور جھوٹا ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بہت سے معبودوں کے بجائے صرف ایک معبود ہو، یہ تو بڑی عجیب و غریب بات ہے، اور یہ بات انہوں نے اس لئے کہی کہ ان کے آباؤ و اجداد مدت مدید سے اسی عقیدہ کے حامل تھے اور یہ بات ان کے رگ و پے میں بس گئی تھی اس لئے یہ بھی ان کی اندھی تقلید میں اسی عقیدہ کے حامل ہیں شرک نے ان کے دل کی آنکھوں کو اندھا کردیا ہے، اور حق بات قبول کرنے کی صلاحیت ان سے چھن گئی ہے۔ ص
4 ص
5 ص
6 (٣) آیات (١) سے (٨) تک کے نزول کا پس منظر بیان کرتے ہوئے ابتدا میں لکھا جا چکا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار قریش سے کلمہ ” لا الہ الا اللہ“ کا مطالبہ کیا تو وہ ابوطالب کے پاس سے دامن جھاڑ کر اٹھ گئے اور واپس جاتے ہوئے ایک دوسرے کو بت پرستی پر جمے رہنے کی تاکید کرتے ہوئے کہنے لگے کہ لوگو ! اپنے آباء و اجداد کے طریقے پر قائم رہو اور محمد ہمارے اور ہمارے معبودوں کے بارے میں جو چاہے کہتا رہے ہمیں ان باتوں کی پرواہ نہیں کرنی ہے اور اپنے معبودوں کی عبادت نہیں چھوڑتی ہے محمد کی ساری تدبیروں اور کوششوں کا مقصد یہی تو ہے کہ ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں جس توحید کی بات کی جا رہی ہے اور جس پر ایمان لانے کی ہمیں دعوت دی جا رہی ہے وہ تو نصاریٰ کے یہاں بھی موجود نہیں ہے، اس لئے معلوم ہوا کہ یہ محمد کی افترا پردازی ہے جس کی دلیل اس کے پاس اس کتاب کے سوا کوئی نہیں جسے وہ قرآن کہتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ یہ اللہ کی وحی ہے اور یہ بات اس لئے بھی قابل حیرت ہے کہ ہمارے درمیان اس سے زیادہ ملادار اور صاحب حیثیت لوگ موجود ہیں، تو اس کے بجائے کسی اور کو نبوت کیوں نہیں دی گئی ہے؟! مفسرین لکھتے ہیں کہ ان کی اس بات سے ان کے سینوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف پوشیدہ بغض و حسد کی غمازی ہوتی تھی ان کے دلوں میں آگ لگی تھی کہ اللہ نے ان کے بجائے محمد کو ہی شرف نبوت سے کیوں نواز دیا۔ آیت (٨) کے دوسرے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کفار قریش کو میرے قرآن کے بارے میں شبہ ہے کہ یہ میری طرف سے نازل کردہ کتاب ہے یا نہیں اور ان کا یہ شک اس لئے زائل نہیں ہو رہا ہے کہ انکار قرآن پر انہیں اب تک سزا نہیں ملی ہے، اگر اس کی وجہ سے ان پر عذاب آگیا ہوتا تو سارا اشک و حسد از خود دور ہوگیا ہوتا۔ ص
7 ص
8 ص
9 (٤) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا کفار قریش آپ کے رب کے خزانوں کے مالک ہیں (جن میں نبوت اور دوسری نعمتیں شامل ہیں) کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق جسے چاہیں دیں اور جسے چاہیں نہ دیں؟ جب ایسی کوئی بات نہیں ہے، تو انہیں کہاں سے یہ حق حاصل ہوگیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منصب نبوت پر فائز ہونے پر اعتراض کریں سورۃ الانعام آیت (٤٢١) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ) ” اللہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کا منصب کس کو سونپے۔ “ ص
10 (٥) نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا کفار قریش آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کے مالک ہیں؟ اگر ایسی بات ہے تو پھر منزل بہ منزل چڑھتے ہوئے ساتویں آسمان تک پہنچ جائیں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نزول وحی کو روک دیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس میں کفار قریش کی غایت درجہ کی تحقیر اور ان کی عاجزی و بے بسی کا بیان ہے۔ اسی لئے اللہ نے آیت (١١) میں فرمایا کہ کافر قریش کا حقیر لشکر عنقریب ہی بری طرح شکست کھائے گا اور ہمیشہ کے لئے ان کا زور ٹوٹ جائے گا۔ اس لئے اے میرے نبی ! آپ ان کی پرواہ نہ کیجیے، آپ کے خلاف ان کی ہر سازش دھری کی دھری رہ جائے گی۔ چنانچہ میدان بدر میں بری طرح قتل کئیگئے اور جو بچ گئے قید کر لئے گئے اور فتح مکہ کے دن رہی سہی کمی پوری ہوگئی اور نہایت ذلت و رسوائی کے ساتھ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آ کر اپنی جان بخشی کی بھیک مانگی ؟ ص
11 ص
12 (٦) اقوام گزشتہ کے کفر و شرک پر اصرار اور ان کی ہلاکت و بربادی کے قصے بیان کر کے، کفار قریش کو دھمکی دی جا رہی ہے کہ کہیں ان کا انجام بھی انہی قوموں جیسا نہ ہوا، اور ساتھ ہی ساتھ انہیں توبہ اور رجوع الی اللہ کی دعوت بھی دی جا رہی ہے تاکہ اللہ انہیں معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے نبی ! آپ کی قوم سے پہلے نوح کی قوم اور قوم عاد یعنی ہود کی قوم، اور جاہ وسطوت والے فرعون نے اللہ کے انبیاء کی تکذیب کی اور قوم ثمود، قوم لوط اور ایکہ والوں نے بھی اپنے اپنے زمانے کے رسولوں کی تکذیب کی اور وہ قومیں کفار قریش کے مقابلے میں تعداد، قوت اور مال و دولت میں بہت آگے تھیں، لیکن جب اللہ کا عذاب آگیا تو ان میں سے کوئی قوم بھی ہزار جتن کے باوجود اس سے نہ بچ سکی۔ آیت (٢١) میں فرعون کی صفت ” میخوں والا“ بتائی گئی ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یا تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی حکومت بہت ہی قوی تھی جیسے زمین پر میخیں گاڑ دی گئی ہوں، یا یہ کہ اس کے لشکر کی تعداد اتنی کثیر تھی کہ جہاں ٹھہرتا خیموں کی کثرت سے زمین بھر جاتی تھی، یا مراد یہ ہے کہ فرعون جب کسی کو عذاب دیتا تو اس کے ہاتھ پاؤں میں کیخ ٹھوک دیتا تھا۔ ص
13 ص
14 ص
15 (٧) کفار قریش کے بارے میں کہ اجا رہا ہے کہ انہیں اب صرف اس صور کا انتظار ہے جو قریب قیامت پھونکا جائے گا اور اس آواز کے ساتھ ہر جاندار ہلاک ہوجائے گا، صرف اللہ کی ذات باقی رہ جائے گی، یعنی عذبا جہنم اور ان کے درمیان صرف صور اسرافیل حائل ہے۔ ص
16 (٨) کفار قریش پر عذاب کی دھمکی کا الٹا ہی اثر ہوا، اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑاتے ہوئے کہنے لگے کہ قیامت تک کیوں انتظار کیا جائے، اسی دنیا میں ہی ہمارے حصے کا عذاب بہم پر بھیج دیا جائے، ابن جریر کا خیال ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قیامت کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ قیامت کا کیا انتظار کرنا ہے، خیر یا شر، جس کے بھی ہم مستحق ہیں اسی دنیا میں ہی ہمیں دے دیا جائے۔ ص
17 (٩) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کی ایذا رسانیوں پر صبر کی تلقین کی اور دیگر انبیائے کرام کے واقعات سنا کر خوشخبری دی کہ ان کی طرح بہرحال فتح و کامیابی آپ کو ہی ملے گی۔ سب سے پہلے آپ ہمارے بندے داؤد کی زندگی کو اپنے مدنظر رکھئے جو اپنے رب کی اطاعت و بندگی، امانت کی ادائیگی اور دعوت الی اللہ کے کاموں میں بڑے ہی قوی واقع ہوئے تھے اور اللہ سے ان کا رشتہ اتنا مضبوط تھا کہ اپنے تمام دینی اور دنیاوی امور میں اسیکی طرف رجوع کرتے تھے، اس کا خوف ہر وقت ان کے دل پر طاری رہتا تھا اور ہر حال میں اسی کی بندگی میں لگے رہتے تھے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے، آدھے رات تک نماز پڑھتے اور جب دشمن سے مڈبھیڑ ہوجاتی تو میدان چھوڑ کر نہیں بھگاتے تھے۔ ص
18 (10) اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) پر بڑے انعامات کئے تھے، انہی کا ذکر کیا جا رہا ہے تاکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ان کی اقتدا کی رغبت پیدا ہو، اللہ نے فرمایا کہ ہم نے پہاڑوں کو ان کے تابع کردیا تھا، جب وہ عصر کے بعد سے غروب آفتاب تک اور صبح کے وقت اللہ کی تسبیح پڑھتے تو آس پاس کے پہاڑ اور چڑیاں ان تسبیحات کو دہراتیں، آیت (٩١) کے آخر میں فرمایا کہ داؤد، پہاڑ اور چڑیاں، سب اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے، سب اس کی تسبیح پڑھتے اور اسی کی اطاعت و بندگی میں لگے رہتے تھے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کے پہاڑوں کو مسخر کردیا تھا، جو صبح و شام ان کے ساتھ اللہ کی تسبیح پڑھتے تھے، اسی طرح چڑیاں بھی ان کے ساتھ تسبیح پڑھتی تھیں جب وہ ہوا میں تیرتے وقت زبور کی تلاوت کرتے تو چڑیاں ان کی آواز سن کر ہوا میں رک جاتیں اور انکے ساتھ تسبیح پڑھنے لگتیں۔ ص
19 ص
20 (١١) ابھی داؤد (علیہ السلام) کا ہی ذکر خیر ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے فوجوں اور جنگی سامانوں کے ذریعہ دشمنوں کے دلوں میں ان کا رعب و دبدبہ بیٹھا کر اور میدان جنگ میں فتح و نصرت دے کر ان کی حکومت کی جڑوں کو مضبوط بنا دیا تھا اور ہم نے انہیں نبوت اور بالغ نظری عطا کی تھی، اسی لئے ان کا کوئی قول و عمل حکمت سے خالی نہیں ہوتا تھا اور ہم نے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں انہیں صائب الرائے بنایا تھا، مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو (زبور) عطا کیا تھا وہ بے بہا حکمتوں کا خزانہ تھا اور وہ لوگوں کے درمیان اتنا صحیح فیصلہ کرتے تھے کہ سارے لوگ ان سے محبت کرتے تھے اور کوئی ان کی مخالفت نہیں کرتا تھا، ص
21 (12) آیات (١٢) سے (٥٢) تک اللہ تعالیٰ نے داؤد (علیہ السلام) کے ایک فیصلے کا ذکر کیا ہے جو ان کی حکمت و دانائی، بالغ نظری اور اللہ سے ان کے شدت خوف پر دلالت کرتا ہے۔ ان آیات کا اجمالی معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ایک دن داؤد (علیہ السلام) کے پاس دو آدمی دروازے سے داخل ہونے کے بجائے دیوار پر چڑھ کر اس محراب میں داخل ہوگئے جس میں وہ اللہ کی عبادت کرتے تھے، ان دونوں کو اچانک اپنے سامنے دیکھ کر گھبرا گئے تو انہوں نے کہا کہ گھبرائیے نہیں ہمارے درمیان جھگڑا ہے، ہم میں سے ایک نے دوسری پر زیادتی کی ہے، آپ کے پاس آئے ہیں تاکہ عدل و انصاف کے مطابق ہمارے درمیان فیصلہ کردیجیے کسی پر زیادتی نہ کیجیے اور صحیح راستے کی طرف ہماری رہنمائی کیجیے پھر وہ آدمی جو اپنے آپ کو مظلوم سمجھتا تھا، کہنے لگا کہ میرے اس مسلمان بھائی کے پاس ننانوے بکیراں ہیں اور میرے پاس صرف ایک بکری ہے یہ کہتا ہے کہ تم مجھے اپنی بکری دے دو تاکہ اپنی بکری کے ساتھ اسے ملا لوں اور اپنی چرب زبانی کی وجہ سے مجھ پر غالب آ کر بکری لے لی ہے، داؤد (علیہ السلام) نے کہا : اس نے تمہاری بکری مانگ کر تم پر زیادتی کی ہے، اس لئے کہ ننانوے بکریوں کے رہتے ہوئے تمہاری بکری زبردستی لینے کی اسے ضرورت نہیں تھی، مزید کہا کہ بہت سے شرکاء اسی طرح اخوت و صداقت کا پاس نہیں رکھتے اور زیادتی کر بیٹھتے ہیں حالاانکہ برادری کا تقاضا تو یہ ہے کہ اپنے بھائی کو اپنے آپ پر ترجیح دیں البتہ جو لوگ ایمان و تقویٰ والے ہوتے ہیں وہ ایسی زیادتی نہیں کرتے ہیں اور ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں دونوں کے واپس چلے جانے ک بعد داؤد (علیہ السلام) کے ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ قضیہ اللہ کی طرف سے ان کا امتحان تھا، اس لئے اپنے رب سے مغفرت طلب کرنے لگے اور ان کے دل پر خشیت الٰہی کا ایسا غلبہ ہوا کہ سجدے میں گر کر رونے لگے اور پوری طرح اپنے رب کی طرف متوجہ ہوگئے تو اللہ نے انہیں معاف کردیا۔ (آیت (٥٢) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی ہے کہ داؤد کو ہم سے بہت قربت تھی اور وہ جنت میں اونچے درجات پر فائز ہوں گے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ داؤد (علیہ السلام) کا یہ فیصلہ ان کی حکمت و بالغ نظری اور فیصلوں میں ان کے صائب الرائے اور صریح ہونے پر دلالت کرتا ہے، انہوں نے کسی کی رعایت کئے بغیر حق بات کہی اور مدعی علیہ کی زیادتی کی صراحت کردی اس طرح مظلوم کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائی اور ظالم نے اپنا ظلم جان لیا اور سب نے یہ بھی جان لیا کہ عدل و انصاف ہر بات پر مقدم ہے اور یہ کہ اکثر لوگوں میں دوسروں پر زیادتی کرنے کی صفت پائی جاتی ہے۔ مذکورہ بالا آیات کی تفسیر میں مفسرین کے کئی اقوال ہیں، جن کا خلاصہ دو مذاہب ہیں : پہلا مذہب یہ ہے کہ ان آیات میں ایک گناہ کی طرف اشارہ ہے جس کا داؤد (علیہ السلام) نے ارتکاب کیا تھا اور اللہ نے اسے معاف کردیا تھا ابن جریر وغیرہ کی یہی رائے ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایک مثال ہے جس کے ذریعہ دو فرشتوں نے بصورت انسا نآ کر ان کی غلطی پر انہیں متنبہ کیا تھا اور غلطی یہ تھی کہ داؤد (علیہ السلام) کے پاس ننانوے بیویاں تھیں اور ایک آدمی کے پاس صرف ایک بیوی تھی جس پر داؤد (علیہ السلام) کی نگاہ پڑگئی اور اس سے شادی کرنی چاہی، اس لئے انہوں نے اس کے شوہر کو میدان جنگ میں بھیج دیا جہاں وہ قتل ہوگیا تو داؤد (علیہ السلام) نے اس عورت سے نکاح کرلیا اور جب انہوں نے دونوں آدمیوں کے درمیان فیصلہ کردیا اور وہ واپس چلے گئے تو انہیں پتہ چل گیا کہ یہ دونوں فرشتے تھے، جنہیں بھیج کر اللہ نے انہیں ان کی غلطی پر تنبیہ کی ہے، چنانچہ انہوں نے اللہ کے سامنے توبہ کی اور معافی ماگنی تو اللہ نے انہیں معاف کردیا۔ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ اپنی کتاب (الفصل) میں لکھتے ہیں کہ یہ یہود و نصاریٰ کا قول ہے جو داؤد (علیہ السلام) پر سراسر بہتان اور منصب رسالت کے بالکل خلاف ہے۔ پھر انہوں نے اس کی بھرپور تردید کی ہے۔ دوسرا مذہب (جس کے صحیح ہونے کی ابن حزم نے زبردست تائید کی ہے) یہ ہے کہ داؤد (علیہ السلام) کے پاس آنے والے دو فرشتے نہیں، بلکہ انسان تھے اور ان کا جھگڑا واقعی بکریوں کے بارے میں ہی تھا اور جن لوگوں نے کہا ہے کہ وہ دونوں فرشتے تھے اور مقصود عورتوں کی طرف اشارہ کرنا تھا، انہوں نے اللہ پر افترا پر دازی کی ہے۔ حافظ ابن حزم کے اس قول کی تائید حافظ ابن کثیر کے قول سے بھی ہوتی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ مفسرین نے یہاں ایک قصہ بیان کیا ہے جس کا اکثر حصہ اسرائیلیات سے ماخوذ ہے اسی پر اکتفا کیا جائے اور اس کی تفصیل کا علم اللہ تعالیٰ کے حوالے کردیا جائے، اس لئے کہ قرآن حق ہے اور اس میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ حق ہے۔ ص
22 ص
23 ص
24 ص
25 ص
26 (13) اس آیت کریمہ کا تعلق گزشتہ آیت سے ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ہم نے داؤد سے کہا اے داؤد ! ہم نے آپ کو زمین میں اپنا خلیفہ بنایا ہے تاکہ آپ لوگوں کو بھلائی کا حکم دیجیے اور برائی سے روکئے اور اپنے رب کی شریعت کو نافذ کیجیے پس آپ لوگوں کے درمیان اس عدل کے ساتھ فیصلہ کیجیے جس کا اللہ کی شریعت تقاضا کرتی ہے اور اپنے نفس کی پیروی نہ کیجیے کہ مال و جاہ یا دوستی یا رشتہ داری کی وجہ سے حق و عدل سے منحرف ہوجایئے، اگر ایسا کیجے گا تو آپ اللہ کی اڈرگ سے دور ہوجائیے گا، جس پر چل کر قومیں دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی حاصل کرتی ہیں اور جس سے انحراف حاکم و محکوم سب کی ہلاکت و بربادی کا سبب بنتا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ جو لوگ اس دنیا میں اللہ کی راہ سے برگشتہ ہوجائیں گے، انہیں قیامت کے دن شدید عذاب دیا جائے گا، اس لئے کہ انہوں نے اللہ کی ملاقات کو فراموش کردیا تھا اور ایمان و تقویٰ کے بجائے کفر و سرکشی کی زندگی اختیار کرلی تھی حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : یہ آیت کریمہ حاکموں کے لئے اللہ کی جانب سے وصیت ہے کہ انہیں لوگوں کے درمیان اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے اور اس سے منحرف نہیں ہونا چاہئے، ورنہ اللہ کی شریعت سے برگشتہ مانے جائیں گے، اور جو اللہ کی شریعت سے برگشتہ ہوجائے گا اور اس کی ملاقات کو بھول جائے گا، اللہ نے اسے قیامت کے دن شدید عذاب کی دھمکی دی ہے۔ ص
27 (14) اوپر کی آیتوں میں بعث بعد الموت اور حساب و جزا کی جو بات آئی ہے، اسی کی مزید تاکید کے طور پر اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا ہے کہ ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی مخلوقات کو بے مقصد نہیں پیدا کیا ہے، بلکہ اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ لوگ وحدانیت پر ایمان لائیں اور صرف ہماری عبادت کریں، لیکن کفار مکہ اور دیگر اہل کفر اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ ان کی پیدائش میں کوئی حکمت و مصلحت نہیں ہے، یہ ان کی خام خیالی ہے اور ان کافروں کا ٹھکانا جہنم کی وہ وادی ہوگی جس کا نام ” ویل“ ہے کیا یہ بات معقول ہو سکتی ہے کہ ہم اہل ایمان اور عمل صالح کرنے والوں کو ان لوگوں جیسا بدلہ دیں جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں، یا تقویٰ کی راہ اختیار کرنے والوں کو ان لوگوں جیسا بنا دیں جو ہمارے احکام کی مخالفت کرتے ہیں اور ہم سے دشمنی کرتے ہیں۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب معاملہ ایسا ہے تو ایک دوسرے عالم کا ہونا یقینی ہے، جہاں اللہ کے فرمانبردار بندے کو اچھا بدلہ دیا جائے گا، اور نافرمان کو سزا دی جائے گی، آگے لکھتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ ظالم و سرکش کے مال و اولاد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اسی حال میں اس کی موت آجاتی ہے اور اللہ کا اطاعت گذار و مظلوم بندہ گھٹ گھٹ کر جان دے دیتا ہے اس لئے یقینی ہے کہ وہ عادل و حکیم اللہ جو ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا ہے، دونوں کے درمیان ایک دن انصاف کرے گا اور ایسا اگر یہاں نہیں ہوگا تو ایک دوسرا عالم ضرور ہے جہاں مظلوم کو انصاف ملے گا۔ ص
28 ص
29 (15) قرآن کریم حکمتوں کا خزانہ ہے اور دنیاوی اور آخروی بھلائیوں کی طرف انسان کی صحیح رہنمائی کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے کہ یہ قرآن ایک مبارک کتاب ہے، جسے ہم نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس لئے نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں، اس کے انوار سے اپنی عقلوں اور دلوں کو روشن کریں، اللہ پر ایمان لائیں اور عمل صالح کریں تاکہ دنیا و دنیا کی سعادت حاصل کریں اور تاکہ عقل و ہوش والے اس میں موجود نصیحتوں سے مستفید ہوں۔ ص
30 (16) داؤد (علیہ السلام) پر اللہ کا ایک انعام یہ بھی تھا کہ اس نے انہیں سلیمان (علیہ السلام) جیسا بیٹا عطا کیا، جو انہی کی طرح نبی ہوئے، جیسا کہ اللہ نے سورۃ النمل (آیت (٦١) میں فرمایا ہے : (وورث سلیمان داؤد) ” سلیمان نبوت میں اپنے باپ داؤد کے وارث بن کر آئے۔“ سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر خصوصی طور پر نبی ہونے کی وجہ سے ہی ہوا ہے ورنہ داؤد (علیہ السلام) کے ان کے علاوہ بھی بیٹے تھے اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا کہ وہ اپنے رب کے بہت اچھے بندہ تھے، اس لئے کہ کثرت سے ذکر الٰہی اور طلب مغفرت میں مشغول رہتے تھے۔ ص
31 (17) ایک بار ایسا ہوا کہ شام کے وقت عمدہ جنگی گھوڑوں کی ان کے سامنے نمائش کی گئی تو انہوں نے کہا کہ میں نے ان گھوڑوں کو اپنے رب کی راہ میں جہاد کی خاطر پسند کیا ہے، جب وہ گھوڑے دوڑتے ہوئے آنکھوں سے اوچھل ہوگئے تو انہوں نے حکم دیا کہ انہیں واپس لایا جائے اور جب سارے گھوڑے واپس آگئے تو از راہ لطف و محبت ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر اپنے سہلانے لگے۔ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے، بہت سے مفسرین کی رائے ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) گھوڑوں کی نمائش میں ایسا مغشول ہوئے کہ عصر کی نماز کا وقت گذر گیا اور علی بن ابی طلحہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) گھوڑوں کی پنڈلیوں اور گردنوں پر اپنا ہاتھ پھیرنے لگے۔ ابن جریر نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔ انتہی فخر الدین رازی نے بھی تقریباً اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے اور لکھا ہے کہ قرآن کے الفاظ اسی تفسیر کے مطابق ہیں۔ صاحب محاسن التنزیل لکھتے ہیں کہ رازی سے پہلے حافظ ابن حزم نے یہی تفسیر بیان کی ہے اور گھوڑوں کے قتل کو من گھڑت کہانی قرار دی ہے۔ ص
32 ص
33 ص
34 (18) داؤد (علیہ السلام) کے بیٹے سلیمان (علیہ السلام) پر بھی اللہ تعالیٰ نے بڑے انعامات کئے تھے، اس آیت کریمہ میں انہی انعامات کا ذکر ہے۔ امام ابن حزم نے (فتنا سلیمان) کا معنی یہ کیا ہے کہ ہم نے سلیمان کو حکومت و بادشاہی دے کر اپنے لئے ان کی طاعت و بندگی کو آزمایا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا ہے : (ان ھی الا فتنتک تضل بھامن تشآء و تھدی من تشآء) ” موسیٰ نے کہا کہ اے اللہ ! یہ تو تیری آزمائش ہے، تو اس کے ذریعہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے“ معلوم ہوا کہ یہاں بھی فتنہ سے مراد امتحان ہے، یعنی اللہ نے سلیمان (علیہ السلام) کو بادشاہی دے کر آزمایا تاکہ ان کی فضیلت ظاہر ہو۔ اس معنی کے سوا جتنی باتیں مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھی ہیں سب خرافات ہیں، جنہیں یہودی زندیقوں اور انہیجیسے دوسرے زندیقوں نے گھڑ کر مسلمانوں میں پھیلا دیا ہے اور وہ جسم جو سلیمان (علیہ السلام) کی کرسی پر ڈال دیا گیا تھا اس سے مقصود کیا ہے، اللہ کی و ہی معلوم ہے قرآن میں جس طرح آیا ہے ہم اسی طرح اس پر ایمان رکھیت ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ نے سچ کہا ہے اور یہ اللہ کا کلام ہے۔ اگر قرآن کی کسی آیت یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کسی صحیح حدیث سے اس کی وضاحت ہوتی تو اسے قبول کرتے، لیکن اس طرح کی نہ کوئی آیت ہے اور نہ کوئی صحیح حدیث ہے، اس لئے محض ظن کی بنیاد پر کؤی بات کہنی اللہ پر افترا پردازی ہوگی اور جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ وہ جسم ایک ” جن“ تھا جس نے سلیمان (علیہ السلام) کی صورت اختیار کرلی تھی، تو ہمارے نزدیک اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جھوٹ ہے، اللہ تعالیٰ اپنے ایک رسول کو اس طرح بے آبرو نہیں کرے گا، اسی طرح ہم اس بات کو بھی بعید از حقیقت سمجھتے ہیں کہ وہ جسم ان کے ایک بیٹے کا تھا یہ اور اس طرح کی دوسری تمام روایات موضوع اور بے بنیاد ہیں۔ انتہی حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس قسم کی تمام روایات یہودیوں سے لی گئی ہیں اور ان میں سے ایک جماعت تو سلیمان (علیہ السلام) کی نبوت کی قائل بھی نہیں تھی۔ اس لئے انہوں نے سلیمان (علیہ السلام) کے خلاف بہت افترا پردازی کی ہے۔ انتہی بعض مفسرین نے صحیح حدیث سے ثابت ایک واقعے کو اس آیت کی تفسیر کے طور پر بیان کیا ہے، لیکن اس حدیث میں اس کی کوئی صراحت موجود نہیں ہے کہ یہی واقعہ اس آیت کی تفسیر ہے۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ سلیمان (علیہ السلام) نے کہا میں آج کی رات اپنی نوے بیویوں سے جماع کروں گا، اور ہر ایک بیوی ایک بچہ جنے گی جو شہسوار ہوگا اور اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا اور انشاء اللہ نہیں کہا تو اس کی سزا انہیں یہ دی گئی کہ صرف ایک بیوی نے بچہ جنا جس کا آدھا دھڑ بے کار تھا، لوگوں نے اسے لا کر سلیمان (علیہ السلام) کی کرسی پر ڈال دیا۔ انہوں نے اپنی تقصیر کی اللہ سے معافی مانگی تو اللہ نے انہیں معاف کردیا اور دعا کی کہ میرے رب ! مجھے ایسی حکوتم دے جو میرے بعد کسی کو نہ ملے۔ ص
35 ص
36 (19) اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی اور ان کے لئے ہوا کو مسخر کردیا جو ان کے حکم کے مطابق ان کے تخت کو یا ہوا میں تیرنے والے ان کے سفینے کو جہاں چاہتے لے کر جاتی، اس یادبانی سفینہ کی رفتار صبح کے وقت ایک ماہ کی اور شام کے وقت ایک ماہ کی ہوتی تھی۔ اسی طرح اللہ نے ان کے لئے شیاطین الجن کو بھی مسخر کردیا تھا، جو ان کے حکم کے مطابق مختلف کام کیا کرتے تھے، ان میں کوئی معمار تھا، تو کوئی سمندر میں غوطے لگا کر موتی نکالتا تھا اور ان میں سے جو نافرمانی کرتا تھا انکے ہاتھوں میں بیڑیاں ڈال کر ان کی گردنوں کے ساتھ باندھ دیتے تھے۔ یحییٰ بن سلام کہتے ہیں کہ ایسا صرف کافرجنوں کے ساتھ کرتے تھے، اور جب وہ مسلمان ہوجاتے تھے تو انہیں آزاد کردیتے تھے۔ سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے رب سے جو کچھ مانگا انہیں عطا کیا اور ان سے کہہ دیا کہ اب آپ جسے جو چاہئے اور جتنا چاہئے دیجیے اور جسے چاہئے نہ دیجیے، آپ سے اس کا کوئی حساب نہیں لیا جائے گا۔ (بغیر حساب) کا ایک دوسرا معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ” ہماری نعمتیں آپ کے لئے بے حساب ہیں۔“ (آیت (٠٤) میں اللہ نے فرمایا کہ ان ظاہری دنیوی نعمتوں کے علاوہ انہیں مجھ سے قربت بھی حاصل ہے اور قیامت کے دن بھی ان کا انجام اچھا ہوگا۔ ص
37 ص
38 ص
39 ص
40 ص
41 (20) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ داؤد اور سلیمان کی طرح ہمارے بندے ایوب کے حالات کو بھی یاد کیجیے جنہیں ہم نے آزمائشوں میں ڈالا تو صبر سے کام لیا اور ایک حرف شکایت اپنی زبان پر نہ لائے اور نہ ہی ان کے دل میں شکویٰ کا گذر ہوا۔ آپ کسی بیماری اور شدید تکلیف میں مبتلا ہوگئے اور کئی سال تک اسی حال میں رہے، جب تکلیف بہت زیادہ بڑھ گئی تو اپنے رب سے دعا کی اور کہا اے میرے رب ! مجھے شیطان نے تکلیف اور عذاب الیم میں مبتلا کردیا ہے تو اللہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کی اور بذریعہ وحی ان سے کہا کہ آپ زمین پر اپنا پاؤں ماریئے، پانی کا ایک چشمہ نکل پڑے گا، اس پانی سے نہایئے اور اسے پیجیے، آپ کی بیماری دور ہوجائے گی، انہوں نے ایسا ہی کیا اور ان کی تکلیف بالکل ختم ہوگئی جیسے کوئی تکلیف تھی ہی نہیں اور اللہ نے ان پر مزید رحم کرتے ہوئے ان کا کھویا ہوا خاندان اولاد اور مال و دولت دوبارہ دے دیا، بلکہ ان کا دوگنا دیا ان کی زندگی ارباب عقل و خرد کے لئے سبق آموز تھی کہ مصیبت کے وقت آدی کو صبر سے کام لینا چاہئے اور اپنی بیوی کی کسی غلطی پر قسم کھائی تھی کہ اسے سو کوڑے ماریں گے جب اچھے ہوگئے تو اللہ نے ان سے کہا کہ سو لکڑیوں کا ایک مٹھالے کر اس سے ایک بار بار دیجیے تاکہ آپ کی قسم پوری ہوجائے۔ آیت (٤٤) کے آخر میں اللہ نے ایوب (علیہ السلام) کے صبر کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنے رب کے بڑے ہی اچھے بندے تھے اور ہر حال میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والے تھے ایوب (علیہ السلام) کے اس واقعہ سے متعلق مندرجہ ذیل چند ملاحظات مدنظر رکھنا مفید رہے گا۔ ١۔ آپ کا نام ایوب بن عیصو بن اسحاق بن ابراہیم الخلیل علیہم السلام تھا، آپ اللہ کے نبی اور مالدار آدمی تھے اور امرائے قوم میں سے تھے، ان کا علاقہ بحرمیت کے جنوب مشرق میں بلاد ادوم اور صحرائے عرب کے درمیان واقع تھا وہاں کی زمین بڑی زرخیز تھی اور بہت سے پانی کے چشمے پائے جاتے تھے۔ ٢۔ ان کی آزمائش سے متعلق بہت سے مفسرین نے جھوٹے واقعات اور اسرائیلی قصے بیان کئے ہیں۔ قرآن کریم نے اس آزمائش کا اجمال کے ساتھ ذکر کیا ہی اور بتایا ہے کہ وہ اپنی جان، مال اور اولاد کے سلسلے میں جس عظیم مصیبت میں مبتلا ہوئے تھے اس پر ایسا صبر کیا کہ وہ ضرب المثل بن گیا اور اللہ نے انہیں اس کا کئی گنا اچھا بدلہ دیا۔ ٣۔ ایوب (علیہ السلام) نے اپنے رب کے ساتھ انتہائے ادب کی وجہ سے اپنی تکلیف و بیماری کی نسبت اللہ کے بجائے شیطان کی طرف کی ہے۔ ٤۔ ان کی بیوی ان کی صحت و عافیت کی شدید خواہش کی وجہ سے ہر دم دوا کی تلاش میں رہتی تھیں۔ ایک دن شیطان نے ان کی شفا کے لئے انہیں کسی شرکیہ عمل کی دعوت دی، انہوں نے آ کر اپنے شوہر کو خبر دی، تو ایوب (علیہ السلام) نے کہا کہ وہ شیطان تھا اور ناراض ہو کر قسم کھائی کہ اللہ نے انہیں شفا دے دی تو وہ اپنی بیوی کو سو کوڑے ماریں گے کہ وہ شیطان کی باتوں میں کیوں آگئیں۔ ان کی بیوی معذور تھی اس لئے کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان سے بات کرنے والا شیطان تھا اور ان کی شریعت میں کفارہ نہیں تھا، ورنہ ایوب (علیہ السلام) کو کفارہ دے دیتے اور قسم پوری کرنے کے لئے بیوی کو مارنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ایوب کو فتویٰ دیا کہ وہ اپنی نیک بیوی کے ساتھ معذور آدمی کا برتاؤ کریں جو سزا کا مستحق نہیں ہوتا۔ وباللہ التوفیق۔ ص
42 ص
43 ص
44 ص
45 (21) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آپ داؤد، سلیمان اور ایوب کی طرح ہمارے بندوں ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کے حالات کو بھی یاد کیجیے جو ہماری اطاعت و بندگی میں بڑی قوت کا مظاہرہ کرتے تھے اور دین کی اچھی سمجھ رکھتے تھے اور اسرار شریعت سے خوب واقف تھے اور چونکہ یہ سب ہر دم فکر آخرت میں لگے رہتے تھیاس کی کامیابی کے لئے کوشاں رہتے تھے اور لوگوں کو اسی کی دعوت دیتے تھے اور دنیا اور اس کی لذتوں پر دھیان نہیں دیتے تھے، اس لئے ہم نے انہیں اپنی خالص اور حقیقی محبت کے لئے خاص کرلیا تھا اور یہ سب ہمارے نزدیک بر گزیدہ اور اصحاب خیر تھے۔ اللہ نے فرمایا : اے ہمارے نبی ! آپ اسماعیل، السیع اور ذوالکفل کے حالات کو بھی یاد کیجیے۔ داؤد (علیہ السلام) سے لے کر ذوالکفل تک جنتے انبیاء کا ذکر آیا ہے، ان سب کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آیت (٨٤) کے آخر میں فرمایا کہ یہ تمام اللہ کے برگزیدہ انبیاء تھے اور آیت (٩٤) میں فرمایا کہ ان کا یہ ذکر جمیل دنیا میں ان کے لئے باعث شرف ہے اور آخرت میں اللہ اپنے تمام اہل تقویٰ بندوں کو بہت ہی عمدہ جائے رہائش دے گا، جن میں یہ انبیائے کرام بدرجہ اولیٰ شامل ہیں۔ داؤد (علیہ السلام) کے تذکرے میں لکھا جا چکا ہے کہ اللہ کی راہ میں ان انبیائے کرام کے صبر و تحمل کے بیان سے مقصود یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے حالات سے فائدہ حاصل کریں اور دعوت اسلام کی راہ میں جو بھی تکلیف ہو اسے برداشت کریں۔ ص
46 ص
47 ص
48 ص
49 ص
50 (٢٢) اہل تقویٰ سے جس عمدہ جائے رہائش کا وعدہ کیا گیا ہے، وہ ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہوں گی، جن کے دروازے جنتیوں کے انتظار میں ہر دم کھلے رہیں گے اہل جنت ان جنتوں میں تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے جب چاہیں گے اپنی خواہش کے مطابق بہت سے پھل اور مشروبات مانگ لیا کریں گے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہاں طعام یعنی کھانے کا ذکر اس لئے نہیں ہوا ہے کہ ان کا کھانا اور پینا صرف لذت حاصل کرنے کے لئے ہوگا، دنیا کی زندگی کی طرح غذائیت حاصل کرنے کے لئے نہیں۔ اور اہل جنت کو ایسی بیویاں ملیں گی جو اپنے شوہوں کے سوا دوسرے مردوں کو نہیں دیکھیں گی، یا ان کے شوہر ان کے غایت حسن و جمال کی وجہ سے دوسری عورتوں کی طرف نہیں دیکھیں گے اور وہ بیویاں عمر میں متساوی ہوں گی، مجاہد کیقول کے مطابق ان کی عمریں تینتیس (٣٣) سال ہوں گی۔ آیت (٣٥) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب اہل تقویٰ جنت میں داخل ہوجائیں گے اور وہاں کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے لگیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا کہ یہی وہ جنت ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ یہ نعمت قیامت کے دن حساب کے بعد ملے گی اور یہی ہماری وہ روزی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔ ص
51 ص
52 ص
53 ص
54 ص
55 (23) یہاں تک ان نیک بختوں کا انجام بیان کیا گیا جو جنت میں داخل کئے جائیں گے اور جو لوگ اللہ کے سرکش اور باغی بندے ہوں گے ان کا ٹھکانا بڑا ہی برا ہوگا، ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا جس میں وہ لامحالہ داخل ہوں گے اور وہ ہر چہار جانب سے انہیں گھیر لے گی، انہیں پینے کے لئے انتہائی گرم پانی اور جہنمیوں کے جسموں کا لہو اور پیپ دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اب اللہ کے سرکش اور باغی بندے ان کا اور انہی جیسے دیگر نوع بہ نوع عذابوں اور ذلتوں اور رسوائیوں کا مزا چکھتے رہیں جو ان کے لئے تیار کی گئی ہیں۔ ص
56 ص
57 ص
58 ص
59 (42) رؤسائے کفر و شرک کے بعد جہنم میں جب ان کے پیروکار لوگ داخل ہوں گے تو جہنم کے ذمہ دار فرشتے ان سردار ان کفر کو مخاب کر کے کہیں گے کہ اب جہنم کی تنگ کھائیوں میں تمہارے بعد تمہارے مجرم پیروکار بھی داخل ہو رہے ہیں تو وہ سردار ان پیروکاروں کے بارے میں کہیں گے کہ جہنم میں ان کی منزلیں ہمیشہ تنگ رہیں گی، کبھی کشادہ نہ ہوں گی، پھر اپنی بات کی علت بیان کرتے ہوئے کہیں گے : یہ لوگ بھی ہمارے ہی طرح اپنے برے اعمال کی وجہ سے جہنم میں داخل ہو رہے ہیں، جہاں عذاب ہی عذاب ہے، تو انہیں راحت و کشادگی کہاں سے ملے گی۔ (لامرحبابھم) کی ایک دوسری تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ یہ بات فرشتے کہیں گے اور اس سے مقصود اس عذاب کی سختی کو بیان کرنا ہے جس میں اہل جہنم مبتلا رہیں گے اور اس وحشت واجنبیت کی طرف اشارہ ہے جو شدت عذاب کی وجہ سے ان کے درمیان پائی جائے گی۔ ص
60 (25) سردار ان کفر کی یہ بات سن کر ان کے پیرو کار کہیں گے کہ تم لوگوں نے ہمارے بارے میں جو بات کہی ہے، وہ تم پر زیادہ صادق آتی ہے، اس لئے تمہارے مجرمانہ کردار کی وجہ سے آج تمہیں دوہرا عذاب دیا جائے گا، تم ہی نے ہمیں گمراہ کیا تھا اور ہمارے عذاب کا سبب بنے ہو تو آج تمہارے کوئی راحت و کشادگی نہیں ہے پھر اللہ سے کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! جن مجرمین نے دنیا میں ہمیں گمراہ کیا تھا اور آج ہمارے عذاب کا سبب بنے ہیں، ان کو جہنم میں دوہرا عذاب دے۔ جیسا کہ سورۃ الاحزاب آیت (٨٦) میں آیا ہے کہ عام اہل جہنم اپنے سرداروں کے بارے میں کہیں گے : (ربنا اتھم ضعفین من العذاب) ” اے ہمارے رب ! انہیں دوہرا عذاب دے۔ “ ص
61 ص
62 (26) رؤسائے کفر جہنم میں ادھر ادھر دیکھیں گے تو بلال، عمار اور صہیب جیسے کمزور اور فقیر مسلمانوں کو نہیں پائیں گے جنہیں دنیا میں حقیر سمجھ کر ان کا مذاق اڑاتے تھے، تو اپنے آپ کو ملامت کرتے ہوئے کہیں گے کہ وہ لوگ یہاں کیوں نہیں نظر آرہے ہیں، جنہیں ہم ” برے لوگ“ کہا کرتے تھے اور جن کا ہم مذاق اڑایا کرتے تھے، یا جن پر حقارت کی وجہ سے ہماری نگاہیں نہیں ٹھہرتی تھیں؟! بعض مفسرین نے ” ام زاغت) میں ” ام“ کا ترجمہ ” بل“ کیا ہے، یعنی اہل جہنم اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دیتے ہوئے کہیں گے کہ شاید وہ حقیر لوگ بھی جہنم میں ہی ہیں، لیکن ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔ ص
63 ص
64 (27) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بات بالکل سچ ہے کہ اہل جہنم آپس میں جھگڑیں گے، ایک دوسرے کو الزام دیں گے اور سردار ان اور ان کے پیروکار ایک دوسرے کا برا چاہیں گے۔ بعض مفسرین نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ آیت (٩٥) میں (لامرحبابھم) سردار ان کفر کا قول ہے، فرشتوں کا نہیں، ورنہ ان کا آپس میں جھگڑنا ثابت نہیں ہوگا۔ ص
65 (28) انبیائے کرام کے واقعات اور کچھ جنت و جہنم کے احوال بیان کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ وہ مشرکین قریش کو ایک ایسی بات کہیں جس میں ان کے لئے ان کے کفر و شرک پر دھمکی کے ساتھ توحید فی العبادۃ کی دعوت بھی ہو، چنانچہ فرمایا کہ اے میرے نبی ! آپ کفار قریش سے کہہ دیجیے کہ میں اللہ کے عذاب سے ہر اس شخص کو ڈرانے والا ہوں جو کفر کی راہ اختیار کرے گا اور اللہ کے بجائے شیطان کی عبادت کرے گا اور ان سے آپ یہ بھی کہہ دیجیے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے جو اپنی ذات و صفات اور ربوبیت و عبادت میں تنہا اور لاشریک ہے اور اپنی تمام مخلوقات پر قاہر و غالب ہے اور آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک اور ان میں بلا شرکت غیرے تصرف کرنے والا ہے اور جب نافرمانوں کو سزا دیتا ہے تو کؤی اسے مغلوب نہیں کرسکتا اور ہر اس شخص کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے جو صدق دل سے اس کے حضور توبہ کرتا ہے۔ ص
66 ص
67 (29) اور اے میرے نبی ! آپ کفار قریش سے یہ بھی کہہ دیجیے کہ یہ قرآن کریم آپ کے رب کی ایک عظیم کتاب ہے، جس میں توحید باری تعالیٰ خاتم النبین کی نبوت بعث بعد الموت اور جنت و جہنم سے متعلق سچی اور یقینی خبریں ہیں اور وحی کے ذریعہ مجھ پر اس کا نزول بلاشبہ میرے صداقت کی بڑی دلیل ہے۔ لیکن اے کفار قریش، تم لوگ اپنی غفلت و بے حسی میں اس قدر آگے جا چکے ہو کہ اس سے اعراض کر رہ یہو کیا تم سوچتے نہیں ہو کہ نزول قرآن سے پہلے تو مجھ اس کی کوئی خبر ہی نہیں تھی کہ جب اللہ نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے آدمی کو پیدا کرنا چاہتا ہوں اور میں زمین میں اسے اپنا خلیفہ بناؤں گا، تو فرشتوں نے اللہ سے جھگڑا کیا اور کہا کہ اے اللہ ! کیا تو زمین میں ایسوں کو پیدا کرے گا جو اس میں فساد برپا کریں گے اور خونریزی کریں گے؟ یہ بات تو مجھے بذریعہ وحی معلوم ہوئی ہے۔ اے کفار قریش ! مجھ پر تو اللہ کی صرف یہ وحی نازل ہوتی ہے کہ میری ذمہ داری لوگوں کو کھلم کھلا اللہ کے عذاب سے ڈرانا ہے، میں اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتا اور نہ ہی مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں کو اسلام میں داخل کرنے کے لئے ان کے ساتھ جبر و تشدد سے کام لوں۔ ص
68 ص
69 ص
70 ص
71 (30) آیت (٩٦) میں مذکور فرشتوں کے جھگڑے کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ یہ واقعہ اس سے پہلے البقرہ، الاعراف، الحجر، الاسراء اور الکہف میں بھی بیان کیا جا چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم سے پہلے فرشتوں کو بتایا کہ وہ مٹی سے ایک آدمی بنائے گا اور بنا لینے کے بعد انہیں حکم دیا کہ حضرت آدم کی تکریم کے لئے ان کا سجدہ کریں تو ابلیس کے سوا تما مفرشتوں نے اللہ کے حکم کی بجا آوری میں آدم کو سجدہ کیا، ابلیس جنوں میں سے تھا، اس کی فطرت میں کبرو غرور تھا، اس نے سجدہ کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ میں آدم سے بہتر ہوں، میں آگ سے پیدا کیا گیا ہوں اور آدم مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ مٹی سے بہتر ہے۔ ابلیس کی یہ سوچ غلط تھی اور اس کا قیاس قیاس فاسد تھا، چنانچہ اللہ کے حکم کی نافرمانی کر بیٹھا اور کفر کا مرتکب ہوا، اس لئے اللہ نے اسے اپنی جناب سے دور کردیا، اسے رسوا کیا اور ہمیشہ کے لئے اپنی رحمت سے محروم کردیا اور ذلیل و خوار بنا کر زمین پر بھیج دیا۔ ابلیس نے جب دیکھا کہ وہ ہمیشہ کے لئے راندہ درگاہ ہوگیا، تو آدم کے خلاف اس کے حقد و حسد کی آگ اور بھڑک اٹھی، اس نے اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن تک زندہ رہنے کی مہلت مانگی تاکہ آدم اور اس کی ذریت کو خوب گمراہ کرے اللہ تعالیٰ نے اسے مہلت دے دی، تو اس نے اللہ کی عزت کی قسم کھا کر از راہ تمرود سرکشی کہا کہ میں تریے مخلص بندوں کے سوا سب کو گمراہ کروں گا، ابلیس کی اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاسراء آیت (٢٦) میں یوں بیان کیا ہے : (قال ارایتک ھذا الذی کرمت علی لئن اخرتن الی یوم القیامۃ لاحتنکن ذریتہ الا قلیلاً) ” اچھا دیکھ لے اسے تو نے مجھ پر بزرگی تو دی ہے، لیکن اگر مجھے بھی قیامت تک تو نے ڈھیل دی تو میں اس کی اولاد کو بجز بہت تھوڑے لوگوں کے اپنے بس میں کرلوں گا“ اور جن تھوڑے لوگوں کو یہاں مستثنیٰ کیا گیا ہے، ان کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاسراء کی آیت (٦٥) میں یوں فرمایا ہے : (ان عبادی لیس لک علیھم سلطان وکفی بربک وکیلا) ” میرے سچے بندوں پر تیرا کوئی قابو اور بس نہیں، تیرا رب بحیثیت کار ساز کافی ہے۔ “ جب ابلیس نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ اے اللہ ! میں تیرے مخلص بندوں کے سوا سب کو گمراہ کروں گا، تو سدی کے قول کے مطابق اللہ نے بھی اپنی ذات کی قسم کھا کر کہا کہ میں بھی جہنم کو تجھ سے اور ان تمام لوگوں سے بھر دوں گا جو تیری پیروی کریں گے۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ السجدہ آیت (١٣) میں یوں بیان کیا ہے : (ولکن حق القول منی لاملاں جھنم من الجنۃ والناس اجمعین) ” لیکن یہ بات بالکل حق ہوچکی ہے کہ میں ضرور جہنم کو انسانوں اور جنوں سے بھر دوں گا“ اور سورۃ الاسراء آیت (٦٣) میں فرمایا : (قال اذھب فمن تبعک منھم فان جھنم جزاؤکم جزاء مؤفوراً) ” اللہ نے کہا کہ جان، ان میں سے جو بھی تیرا تابعدار ہوجائے گا تو تم سب کی سزا جہنم ہے جو پورا پورا بدلہ ہے۔ “ ص
72 ص
73 ص
74 ص
75 ص
76 ص
77 ص
78 ص
79 ص
80 ص
81 ص
82 ص
83 ص
84 ص
85 ص
86 (٣١) اوپر یہ بات گذر چکی ہے کہ ابلیس و آدم کا واقعہ بیان کرنے سے مقصود، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر دلیل پیش کرنی تھی، اور کفار قریش کو بتانا تھا کہ اس کا علم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس وحی کے ذریعہ ہوا جو اللہ نے آپ پر نازل کیا، اسی بات کے تکملہ کے طور پر یہاں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ جو لوگ آپ کی رسالت کی تکذیب کرتے ہیں، ان سے آپ کہہ دیجیے کہ میں اس تبلیغ وحی کا تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا اور جو کچھ میں تمہیں سناتا ہوں وہ واقعی اللہ کی وحی ہے، میں اسے خود نہیں گھڑتا ہوں، اور یہ بات تو تمہیں میرے بارے میں پہلے سے معلوم ہے کہ میں بچپن سے جھوٹ نہیں بولتا ہوں، اور اپنے لئے کسی ایسی صفت کا دعویٰ نہیں کرتا جو میرے اندر من جانب اللہ نہیں۔ اس لئے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ چالیس سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر بیٹھوں اور اپنی طرف سے ایک کلام گھڑ کر تمہیں سناؤں اور کہوں کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ یہ تو واقعی اللہ کا کلام ہے جسے اس نے دنیا والوں کی عبرت و نصیحت کے لئے نازل کیا ہے اور تمہیں اس کا یقین اس وقت ہوگا جب لوگ جوق در جقو اسلام قبول کرنے لگیں گے اور ہر طرف اسلام کا بول بالا ہونے لگے گا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ بات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی بہت بڑی دلیل تھی، اس لئے کہ جب یہ بات کہی گئی تھی اس وقت مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی اور ہر وقت ان کے ذہنوں پر مشرکوں کا خوف طاری رہتا تھا پھر دیکھتے ہی دیکھتے حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہوگئی اور مسلمان ایک عظیم قوت بن کر دنیا میں ابھرے اور قرآن کریم کی پیشین گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔ وباللہ التوفیق ص
87 ص
88 ص
0 سورۃ الزمرمکی ہے، اس میں پچہتر آیتیں، اور آٹھ رکوع ہیں نام : آیات (٧١/٧٣) میں کلمہ ” الزمر“ آیا ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : ابن عباس، حسن عکرمہ اور جابر بن زید سے مروی ہے کہ یہ سورت مکی ہے، بعض لوگوں نے (قل یعبادی) سے تین آیتوں کو مدنی کہا ہے۔ عام مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی توحید کی اہمیت اور شرک کی خرابی اور اس کے سنگین ترین نتائج بیان کئے گئے ہیں، اور کفار قریش کو مختلف پیرائے میں توحید کی دعوت قبول کرلینے کی ترغیب دی گئی ہے۔ الزمر
1 (١) اس آیت کریمہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی گئی ہے کہ یہ قرآن کریم اس اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہے جو ہر چیز پر غالب اور اپنے تمام امور میں صاحب حکمت ہے اس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ یہ وہ کتاب برحق ہے جس میں توحید و نبوت، آخرت اور دیگر تمام اوامرونواہی بیان کردیئے گئے ہیں۔ اس لئے اے میرے نبی ! آپ صرف اللہ کی عبادت کیجیے جس کا کوئی شریک نہیں اور انسانوں کو بھی اسی بات کی دعوت دیجیے اور انہیں بتا دیجئے کہ رب العالمین کا کوئی مدمقابل نہیں ہے، اس لئے اس کے سوا کسی کی عبادت جرم عظیم ہے۔ الزمر
2 الزمر
3 (٢) اوپر جو بات کہی گئی ہے، اسی کا تتمہ ہے کہ وحدانیت و الوہیت میں اللہ تعالیٰ کا یکتا ہونا تقاضا کرتا ہے کہ ہر قسم کی عبادت کو صرف اسی کے لئے خالص کردیا جائے، بایں طور کہ شرک کا شائبہ تک نہ پایا جائے۔ لیکن جو لوگ اس کے ساتھ غیروں کو شریک بناتے ہیں، وہ ان معبودوں کی عبادت کرتے ہیں اور اپنے ضلال و گمراہی کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہم تو ان کی عبادت اس لئے کرتے ہیں تاکہ وہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں اور ہماری حاجت برآوری کے لئے اس کے نزدیک ہمارے سفارشی بنیں۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کے اور مومنوں کے درمیان فیصلہ کرے گا اور ہر ایک کو ان کے عمل کا بدلہ دے گا۔ مومنوں کو انعام و اکرام سے نوازے گا اور کافروں اور مشرکوں کو جہنم میں ڈال دے گا۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص یہ جھوٹا دعویٰ کرتا ہے کہ اس کے معبود ان باطل اسے اللہ سے قریب کرتے ہیں اس لئے وہ انہیں اللہ کا شریک بنا کر کفر کا ارتکاب کرتا ہے، اللہ ایسے جھوٹے کافر کو ہدایت کی توفیق نہیں دیتا ہے۔ الزمر
4 (٣) شرک باللہ کی مزید تردید کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ سے اولاد کی نفی کی ہے کہ اس کی کوئی اولاد نہیں، نہ فرشتے اس کی بیٹیاں ہیں اور نہ عزیز و عیسیٰ اس کے بیٹے ہیں۔ اگر بے شمار بار بفرض محال اللہ کسی کو اپنی اولاد بنانا چاہتا تو وہ اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا اختیار کرتا نہ کہ معاملہ جاہل مشرکوں اور گمراہ یہود و نصاریٰ کی مرضی پر چھوڑ دیتا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے فرشتوں اور عزیزو عیسیٰ کو اللہ کی اولاد بنا دیا ہے اور مخلوق کا اس کی اولاد بننا محال اس لئے ہے کہ خالق و مخلوق میں کوئی مجانست نہیں پائی جاتی ہے۔ اس لئے اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ مخلوق اس کا بندہ ہو، اولاد نہیں۔ اسی لئے آیت کے آخر میں فرمایا کہ باری تعالیٰ کی ذات ہر نقص و عیب سے پاک ہے اور وہ تنہا اللہ ہے جس کے قہر و جبروت کے سامنے تمام مخلوقات کی گردنیں جھکی ہوئی ہیں۔ الزمر
5 (٤) قدرت، ربوبیت اور الوہیت میں باری تعالیٰ کی وحدانیت بیان کی جا رہی ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمینوں اور ان کے درمیان کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے وہی مالک کل اور اپنی مرضی کے مطابق ان میں تصرف کرنے والا ہے۔ وہی رات اور دن کو الٹتا پھیرتا ہے، دونوں ایک دوسرے کے پیچھے لگے رہتے ہیں اور ذرا بھی نہیں تھکتے ہیں۔ سورۃ الاعراف آیت (٥٤) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (یغشی اللیل النھار یطلبہ حیثاً) ” وہ رات سے دن کو ایسے طور پر چھپا دیتا ہے کہ وہ رات اس دن کو جلد سے آلیتی ہے۔ “ اور اس نے آفتاب و ماہتاب کو بھی ایک مخصوص نظام کا پابند بنا رکھا ہے، دونوں اپنے اپنے مدار میں قیامت تک چلتے رہیں گے اور اللہ کی مخلوقات ان کے فوائد سے مستفید ہوتی رہیں گی۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اپنے دشمنوں سے انتقام لینے میں بڑا زبردست ہے اور اپنی طرف رجوع کرنے والے بندوں کو بڑا معاف کرنے والا ہے۔ الزمر
6 (٥) اس کی قدرت و وحدانیت کی دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے تمام بنی نوع انسان کو صرف ایک آدم سے پیدا کیا ہے اور اس کی بیوی حوا کی اس کی بائیں پسلی سے پیدا کیا ہے اور ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس نے اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ پیدا کئے اور ہر ایک کی مذکر و مؤنث دو قسمیں بنائیں اور ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ انسانوں کو ان کی ماؤں کے بطن میں مختلف مراحل سے گذارتا ہے، پہلے رحم مادر میں نطفہ قرار پاتا ہے، پھر منجمد خون کی شکل اختیار کرتا ہے، پھر گوشت کے لوتھڑے کے مانند ہوجاتا ہے، پھر انسان کی شکل و صورت اختیار کرتا ہے اور اس میں روح ڈال دی جاتی ہے، اس کی پرورش تین تاریکیوں کے نیچے ہوتی ہے، پیٹ کی تاریکی، رحم کی تاریکی اور اس جھلی کی تاریکی جو اس مخلوق پر چڑھی رہتی ہے۔ وہ ذات برحق جس نے آسمانوں، زمینوں اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کو اور تمہیں پیدا کیا ہے، وہی اللہ تمام انسا نکا رب ہے، وہی مالک کل ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور جب بات ایسی ہے تو پھر لوگ اس کے سوا دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہیں؟! الزمر
7 (٦) اللہ تعالیٰ اپنی تمام ملوقات سے بے نیاز ہے، سب اس کے محتاج ہیں اور وہ کسی کا محتاج نہیں ہے اس لئے اگر تمام جن و انسان کفر کی راہ اختیار کرلیتے ہیں تو اس کا نقصان انہی کو ہوگا اللہ کی بے نیازی میں کوئی فرق نہیں آئے گا سورۃ ابراہیم آیت (٨) میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی یہی بات یوں کہی ہے : (ان تکفروا انتم ومن فی الارض جمیعا فان اللہ لغنی حمید) ” اگر تم سب اور روئے زمین کے تمام انسان اللہ کی ناشکری کریں تو بھی اللہ بے نیاز اور تعریفوں والا ہے“ امام مسلم نے اپنی کتاب ” الصحیح“ میں حدیث قدسی روایت کی ہے کہ اے میرے بندو ! اگر تمہارا پہلا اور آخری شخص اور تمہارے جن و انس تم میں سے بدترین گناہگار کے مانند ہوجائیں تو اس سے میری بادشاہی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن اللہ اپنی غایت رحمت کی وجہ سے اپنے بندوں کے لئے کفر کو پسند نہیں کرتا جو ان کی شقاوت و بدبختی کا سبب ہوتا ہے، وہ تو ان کے لئے یہ پسند کرتا ہے کہ قول و عمل کے ذریعہ اس کا شکر ادا کرتے رہیں تاکہ انہیں اس کا اچھا بدلہ دے اور جنت ان کا مقام بنے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : قیامت کے دن کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، ہر شخص صرف اپنے عمل کا ذمہ دار ہوگا اور اسی کا اسے بدلہ دیا جائے گا اور مرنے کے بعد ہر شخص کو بہرحال اللہ کے پاس ہی لوٹ کر جانا ہے، جو اسے ان تمام اعمال کی خبر دے گا جو وہ دنیا میں کرتا رہا تھا، اس سے کوئی بات مخفی نہیں ہے، وہ تو دلوں کے بھیدوں کو جانتا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت کے اس جزو میں بہت بڑی دھمکی ہے کہ دنیا میں اگر کسی کا کردار اچھا نہیں ہے تو اسے اس کی سزا بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ الزمر
8 (٧) مشرک کے کردار میں بڑا تضاد ہوتا ہے، جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور یقین ہوجاتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اسے ٹال نہیں سکتا تو دونوں ہاتھ اٹھا کر اور گڑ گڑا کر دعا کرتا ہے کہ میرے رب تو میری تکلیف دور کر دے اور جب اللہ اس کی تکلیف دور کردیتا ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہے اور پہلے کی طرح غیروں کی پرستش کرنے لگتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبانی اس سے کہا کہ تم اس دنیاوی زندگی سے کچھ دنوں کے لئے لطف اٹھا لو، مرنے کے بعد تمہارا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت کے اس جزو میں اہل کفر اور اہل شرک کے لئے بہت بڑی دھمکی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ ابراہیم آیت (٣٠) میں فرمایا ہے : (قل تمتعوا فان مصیرکم الی النار) ” آپ کہہ دیجیے کہ خوب مزے کرلو، تمہارا انجام تو آخر جہنم ہی ہے۔ “ الزمر
9 (٨) مشرکین کی صفات بیان کرنے کے بعد اب مومنین کی صفات بیان کی گئی ہیں، کہا گیا ہے کہ وہ کافر بہتر ہے جو مصیبت ٹل جانے کے بعد غیر اللہ کو پکارنے لگتا ہے، یا وہ مومن جو خوشی اور غم دونوں حال میں راتوں کو اٹھ کر نماز پڑھتا ہے، قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے اور عذاب آخرت کو یاد کر کے سجدے میں اپنے رب کے سامنے گریہ وزاری کرتا ہے اور حصول جنت کی دعا کرتا ہے؟ یقیناً وہ مومن بہتر ہے جو ہر حال میں اپنے رب کو یاد کرتا رہتا ہے، خوشی ملتی ہے تو اس کا شکر ادا کرتا ہے اور غم ملتا ہے تو اسی سے اس سے نجات پانے کے لئے دعا کرتا ہے۔ آیت کے آخر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی کہا گیا ہے کہ علم و جہل اور عالم و جاہل برابر نہیں ہو سکتے ہیں۔ جو لوگ اللہ کی توحید اور اس کے اوامرونواہی کا علم حاصل کرتے ہیں اور اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں، وہ یقیناً ان نادانوں سے بہتر ہیں جو شرک وضلالت کی وادیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں اور اس ربانی تعلیم سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو اپنے جسموں میں عقل سلیم رکھتے ہیں۔ الزمر
10 (٩) اس آیت کریمہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی مومنوں کو ہر حال میں اپنے رب سے ڈرنے کی تعلیم دی گئی ہے، آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے وہ لوگو جنہوں نے اللہ کی وحدانیت کی تصدیق کی ہے ! اپنے رب سے ڈرتے رہو، اس کی بندگی کرو، اس کی نافرمانی سے بچتے رہو اور اس کے ساتھ غیروں کو شریک نہ بتاؤ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے فوائد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ اس دنیا میں عمل صالح کریں گے، اللہ تعالیٰ آخرت میں انہیں جنت دے گا اور جن پر وطن کی زمین تنگ ہوجائے اور اہل کفر کے ظلم و استبدا کی وجہ سے اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہوجائے، انہیں اللہ تعالیٰ نے اس سر زمین سے ہجرت کر کے ایسی جگہ چلے جانے کا حکم دیا ہے جہاں وہ بآ انسی اس کی عبادت کرسکیں، انبیاء و صالحین کی یہی سنت رہی ہے سورۃ النساء آیت (٩٧) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (الم تکن ارض اللہ واسعۃ فتھا جروا فیھا) ” قیامت کے دن ایسے لوگوں سے فرشتے کہیں گے : کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟“ بعض مفسرین نے (ارض اللہ) سے مراد جنت لی ہے اور کہا ہے کہ یہاں مقصود مومنوں کو حصول جنت کی ترغیب دلانی ہے۔ اور چونکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی بغیر صفت صبر کے ممکن نہیں، اس لئے آیت کے آخر میں صبر کی فضیلت اور اللہ کے نزدیک اس کے عظیم اجر و ثواب کا ذکر کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ ترک قوم و وطن کی اذیت برداشت کریں گے اور اللہ کی رضا کی خاطر کڑوے گھونٹ برداشت کریں گے، اللہ انہیں بے حساب اجر و ثواب عطا کرے گا، یعنی جنت دے گا جس کی نعمتیں ان گنت اور کبھی نہ ختم ہونے والی ہوں گی۔ الزمر
11 (١٠) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا ہے کہ وہ مشرکین قریش کو یہ بتا دیں کہ مجھے تو اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں صرف اللہ کی عبادت کروں اور اس کے سوا کسی کی طرف التفات نہ کروں اور مجھے اس بات کا بھی حکم دیا گیا ہے کہ اخلاص و عمل اور اطاعت و بندگی میں تمام مسلمانوں سے آگے رہوں۔ چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے آدمی تھے جس نے اپنے آباء و اجداد کے دین کی مخالفت کی اور لوگوں کو توحید کی طرف بلایا۔ اور مجھے کفار قریش کو یہ بھی کہنے کا حکم دیا گیا ہے کہ اگر میں نے اپ نے رب کی نافرمانی کی اور کافروں کی بات مان کر غیر اللہ کی عبادت کی، تو ڈرتا ہوں کہ قیامت کے دن پکڑ نہ لیا جاؤں اور عذاب میں نہ مبتلا کردیا جاؤں۔ شوکانی نے ابوحمزہ یمانی اور ابن المسیب کا قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت سورۃ الفتح کی آیت (٢) (لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک ماتاخر) کے ذریعہ منسوخ ہوگئی ہے، جس میں اللہ نے آپ کو خبر دمی ہے کہ ان کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے گئے ہیں۔ اور مجھے یہ بات بھی بتا دینے کا حکم دیا گیا ہے کہ میں صرف اللہ کی ہی عبادت کرتا ہوں، میری عبادت میں شرک کا شائبہ تک نہیں ہوتا ہے اے مشرکین مکہ ! اگر تم میری دعوت قبول نہیں کرتے ہو اور توحید کا انکار کرتے ہو تو اس کے سوا غیروں کے سامنے سر ٹیکتے رہو، تمہیں عنقریب اپنا انجام معلوم ہوجائے گا۔ اور مجھے یہ بھی بتا دینے کو کہا گیا ہے کہ اصل گھاٹا پانے والے وہ لوگ ہیں، جو قیامت کے دن کفر وضلالت کی وجہ سے خود بھی جہنم کا ایندھن بنیں گے اور اپنے اہل و عیال کو گمراہ کرنے کی وجہ سے انہیں بھ اپنے ساتھ اس میں لے جائیں گے اور جنت کی نعمتوں سے ہمیشہ کے لئے محروم کردیئے جائیں گے۔ درحقیقت یہی وہ خسارہ ہے جس سے بڑھ کر اور کوئی خسارہ نہیں، کہ گوشت اور ہڈی سے بنے انسانوں کو جہنم کا ایندھن بنا دیا جائے۔ الزمر
12 الزمر
13 الزمر
14 الزمر
15 الزمر
16 (١١) اہل جہنم کے عذاب کی ہولناکی بیان کی جا رہی ہے کہ وہ لوگ اوپر اور نیچے سے آگ کے کئی طبقوں میں ڈھکے ہوں گے، اس عذاب سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اور انہیں نصیحت کرتا ہے کہ اس سے ڈرتے رہیں اور کوئی ایسا عمل نہ کریں جو اس کی اراضگی اور عذاب نار کا سبب بنے اعاذنا اللہ من عذاب النار الزمر
17 (١٢) قیامت کے دن بتوں کے پجاریوں کا انجام بد بیان کرنے کے بعد، اب ان موحدین کا انجام بیان کیا جا رہا ہے جو بتوں کی پرستش نہیں کرتے اور اپنے دل و دماغ اور تمام اعضاء جوارح کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور اس کے سوا کسی کو پرکاہ کی بھی حیثیت نہیں دیتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے لئے جنت کی خوشخبری ہے اس خوشخبری کا ذکر قرآن کریم کی بہت ساری آیتوں میں آیا ہے، انہی میں سے یہ آیت بھی ہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورۃ یونس کی آیت (٦٤) (لھم البشری فی الحیاۃ الدنیا و فی الاخرۃ) کی تفسیر بیان کرتے ہئے فرمایا کہ ” مومن کو اچھے خواب دکھائے جاتے ہیں“ اور یہ خوشخبری اسے دنیا سے رخصت ہوتے وقت اور قبر میں دی جاتی ہے اور میدان محشر میں بھی دی جائے گی۔ اور جو خوشخبری بتوں سے اعراض کرنے والے موحدین کو دی گئی ہے، اللہ تعالیٰ نے وہی خوشخبری ان لوگوں کی ودی ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہر افضل و احسن بات سن کر اس پر عمل کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ یہی لوگ جادہ حق پر گامزن ہیں اور اپنے جسموں میں عقل سلیم رکھتے ہیں۔ الزمر
18 الزمر
19 (١٣) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جارہا ہے کہ جو آدمی اپنی ازلی شقاوت و بدبختی کی وجہ سے کفر و شرک اور ظلم و سرکشی کی زندگی گذار رہا ہے، آپ اسے عذاب نار سے نہیں بچا سکتے ہیں، اس لئے کہ جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور جسے وہ ہدایت دے دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا، اس لئے اے میرے نبی ! آپ ان کے غم میں پریشان نہ رہئے، انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے۔ شو کافی لکھتے ہیں کہ آیت میں (کلمۃ العذاب) سے مراد سورۃ ص آیت (٨٥) میں ابلیس سے اللہ تعالیٰ کا قول : (لا ملان جھنم منک وممن تبع منھم اجمعین) اور سورۃ الاعراف آیت (١٨) میں اس کا قول : (لمن تبعک منھم لاملان جھنم منکم اجمعین) ہے، جن کا معنی یہ ہے کہ ” اے ابلیس ! میں تجھ سے اور ان لوگوں سے جہنم کو بھر دوں گا جو تیری پیروی کریں گے۔ “ الزمر
20 (١٤) آیت (١٦) میں جہنمیوں کی جو حالت بیان کی گئی ہے، اسی سے بطور استدراک اب اللہ سے ڈرنے والوں کی حالت بیان کی جا رہی ہے کہ جنت میں ان کے لئے بلند و بالا اور عالیشان محل ہوں گے، جن کے کمرے بہت سی منزلوں پر مشتمل ہوں گے اور جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، یہ اللہ کا وعدہ ہے، جو برحق ہے اس کا وعدہ کبھی بھی جھوٹا نہیں ہوتا۔ الزمر
21 (١٥) اللہ تعالیٰ نے دنیا اور اس کی نعمتوں کی بے ثباتی بیان کرنے کے لئے قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں دنیاوی زندگی کو اس پانی سے تشبیہہ دی ہے جو آسمان سے نازل ہوتا ہے اور جس کی وجہ سے ہرے بھرے پودے اگتے ہیں، درختوں میں پھل آتے ہیں اور پھر کچھ ہی دنوں کے بعد ختم ہوجاتے ہیں اس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ کیق درت و علم کے مظاہر بیان کر کے اس کے وجود پر ایمان لانے کے وجوب پر استدلال کیا گیا ہے، نیز دنیاوی زندگی کی بے ثباتی کو بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ سورۃ الکہف آیت (٤٥) میں آیا ہے : (واضرب لھم مثل الحیاۃ الدنیا کماء انزلناہ من السماء فاختلط بہ نبات الارض فامنبع نشیماتذروہ الریاح وکان اللہ علی کل شیء مقتدرا) ” ان کے سامنے آپ دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کیجیے جیسے وہ پانی جسے ہم آسمان سے اتارتے ہیں، اس سے زمین کا سبزہ ملا جلا نکلتا ہے، پھر آخر کار وہ چورا چورا ہوجاتا ہے جسے ہوائیں اڑائے لئے پھرتی ہیں۔ معلوم ہوا کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ “ الزمر
22 (١٦) اوپر کی آیت میں بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے مظاہر علم و قدرت سے وہی لوگ عبرت و موعظت حاصل کرتے ہیں جو عقل سلیم رکھتے ہیں، اسی مناسبت سے قبول اسلام کے لئے اللہ کی جانب سے شرح صدر کا ذکر آیا، کیونکہ اسلام سے حقیقی انتفاع بغیر توفیق الٰہی ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس کا سینہ قبول حق کے لئے کھول دیا جائے، اس آدمی کے مانند کیسے ہوگا جس کے دل پر مہرلگا دیا جائے اور اس کا سینہ اتنا تنگ ہوجائے کہ قبول حق کی اس میں گنجائش باقی نہ رہے ایسے سخت دل اور کفر و شرک کی وادیوں میں بھٹکنے والوں کو دھمکی دی گئی ہے کہ ان کے لئے ہلاکت و بربادی ہے، ان کا حال اس مریض کا ہے جس کے لئے دوا باعث ہلاکت بن جائے۔ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے تمام روحانی بیماریوں کا علاج بتایا ہے، اسے جب مومن سنتا ہے تو اس کے دل پر اس کا بہت ہی اچھا اثر ہوتا ہے، اور اسے نئی زندگی مل جاتی ہے، لیکن سخت دل کافروں اور مشرکوں پر اس کا اثر معکوس ہوتا ہے، یعنی ان کے دل کی سختی مزید بڑھ جاتی ہے اور ان پر موت طاری ہوجاتی ہے، ایسے لوگوں کی ہدایت ممکن نہیں، کیونکہ وہ کھلی گمراہی میں پڑچکے ہوتے ہیں۔ الزمر
23 (١٧) (احسن الحدیث) سے مراد قرآن کریم ہے، اس آیت کریمہ میں اس کی بعض صفات کا ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اس نے سب سے اچھی ” حدیث“ نازل کی ہے، جس کی آیتیں حسن تعبیر اور صدق معانی میں ایک دوسرے کی مشابہ ہیں اور جن میں بیان کردہ اوامرونواہی وعدہ دو عید اور قصص و مواعظ مختلف انداز میں بار بار ذکر کئے گئے ہیں، اللہ سے ڈرنے والے جب عذاب والی آیتیں سنتے ہیں تو ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور جب رحمت و مغفرت کی آیتیں سنتے ہیں تو ان کے دلوں کو سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے اور اللہ کی یاد میں لگ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ صرف قرآن کریم ذریعہ ہدایت ہے، اللہ جسے ہدایت دینی چاہتا ہے، اس یاس پر ایمان لانے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دیتا ہے اور آخر میں فرمایا کہ جس کے لئے کفر و عناد اور کبر و سرکشی کی وجہ سے اللہ کی طرف سے گمراہی لکھ دی گئی ہو، اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا ہے۔ الزمر
24 (١٨) سخت دل کفار و مشرکین کا دنیا میں یہ حال بیان کیا گیا کہ وہ ضلالت کی وادیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں اور آخرت میں ان کا حال یہ ہوگا کہ ان کے ہاتھ پیٹھ کی طرف یا گردن کے ساتھ باندھ دیئے جائیں گے اور اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے، اللہ تعالیٰ نے ان کی شقاوت و بدنصیبی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا وہ لوگ ان کے مانند ہو سکتے ہیں جو جنت کے باغوں میں پرامن زندگی گذار رہے ہوں گے؟ عطاء اور ابن زید کہتے ہیں کہ جہنمی کے دونوں ہاتھ اس کی پیٹھ کی طرف باندھ کر چہرہ کے بل آگ میں ڈال دیا جائے گا اور مجاہد کہتے ہیں کہ اسے چہرہ کے بل جہنم میں گھسیٹا جائے گا اور ظالم جہنمیوں سے زجر و توبیخ کے طور پر کہا جائے گا کہ اپنے کرتوتوں کا مزا چکھتے رہو۔ آیات (٢٥/٢٦) میں اللہ تعالیٰ نے کفار قریش کی عبرت و موعظت کے لئے فرمایا کہ ان سے پہلی قوموں نے بھی اللہ کے رسولوں کی تکذیب کی تو اللہ نے انہیں دنیا میں ذلیل و رسوا کیا، کسی کو زمین میں دھنسا دیا، کسی کی صورت مسخ کردی اور کسی پر پتھروں کی بارش برسا دی اور کسی کو قید و بند میں مبتلا کیا اور آخرت کا عذاب تو دنیا کے عذاب سے کہیں سخت ہوگا، جس سے بہر حال انہیں دوچار ہونا ہی پڑے گا۔ کاش کفار اس بات کا یقین کرلیتے، رسولوں کی تکذیب نہ کرتے اور اپنے خالق و مالک پر ایمان لے آتے تو ہلاکت و بربادی ان کا انجام نہ ہوتا۔ الزمر
25 الزمر
26 الزمر
27 (١٩) اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے قرآن کریم میں بہت سی مثالیں اور گزشتہ قوموں کے واقعات و قصص بیان کئے ہیں، تاکہ ان میں غور و فکر کر کے عبرت حاصل کریں اور اس قرآن کو عربی زبان میں نازل فرمایا، جو ہر تناقص و اختلاف اور التباس و غموض سے پاک ہے، اس کی ہر بات واضح اور ہر بات صریح ہے، جسے سنتے ہی عربی زبان جاننے والے اس کی غرض و غایت سمجھ لیتے ہیں اور اللہ نے انسانوں پر یہ کرم اس لئے کیا تاکہ لوگ اس میں موجود اوامرونواہی کی اتباع کر کے اپنے آپ کو جہنم کے عذاب سے بچا سکیں گے۔ الزمر
28 الزمر
29 (٢٠) یہ آیت کریمہ قرآن میں مذکور بہت سی مثالوں میں سے ایک مثال ہے، تاکہ لوگ اس میں غور و فکر کر کے عبرت حاصل کریں، یہ مثال ایک مشرک اور ایک موحد کے درمیان فرق واضح کرنے کے لئے بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک ایسا غلام جس کے کئی آقاہوں، اور سبھی بد اخلاق اور بدسلوک ہوں اور وہ ہمیشہ حیران و پریشان رہتا ہو کہ کس کی بات مانے اور کس کی نافرمانی کرے اور کس طرح سمجھوں کو راضی رکھے، ایسا غلام اس غلام کے مانند نہیں ہوسکتا جس کا ایک ہی آقا ہو، اسی کے اشاروں پر عمل کرتا ہو اور اطمینان بھیر زندگی گذارتا ہو۔ یہی حال مشرک و موحد کا ہے۔ مشرک مختلف معبودوں کے درمیان حیران و پریشان رہتا ہے اور موحد رب العالمین کی عبادت کرتا ہے اور اس کا دل سکون و اطمینان کی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔ مشرک کی اسی حیرانی اور موحد کے اسی سکن و اطمینان کی طرف یوسف (علیہ السلام) نے اشارہ کیا تھا جب قرآن کی زبان میں انہوں نے جیل کے ساتھیوں سے کہا تھا : (أأرباب متفرقون خیرام اللہ الواحد القھمار) ” بھانت بھانت کے بہت سارے معبود بہتر ہیں یا ایک اللہ جو صاحب قہر و جبروت ہے“ مفسر ابوالسعود لکھتے ہیں کہ (الحمد اللہ) کے ذریعہ اوپر بیان کئے گئے مشرک و موحد کے درمیان فرق کی مزید توثیق کی گئی ہے اور موحد کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اسے جو نعمت توحید حاصل ہوئی ہے وہ محض اللہ کی توفیق سے حاصل ہوئی ہے، اور یہ اتنی بڑی عظیم نعمت ہے جس پر اللہ کا ہر دم شکر ادا کرتے رہنا چاہئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شرک و توحید اور مشرک و موحد کا فرق ظاہر و واضح ہونے کے باوجود، مشرکین اسے نہیں سمجھ پاتے ہیں اور شرک و ضلالت کے بھنور میں ہچکولے کھاتے رہتے ہیں۔ الزمر
30 (٢١) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی ہے کہ آپ کو اور تمام انسانوں کو موت لاحق ہوگی اس میں کفار مکہ کی تردید ہے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت کی تمنا کرتے تھے، ان سے کہا جا رہا ہے کہ اگر محمد مر جائیں گے تو تم لوگ بھی تو مر جاؤ گے، اس لئے کسی کی موت پر خوش ہونا اچھی بات نہیں ہے۔ نیز ان بعض صحابہ کرام کی فکر کی تصحیح کی گئی ہے جو گمان کرتے تھے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر موت طاری نہیں ہوگی اور اس کے بعد والی آیت میں جو بات کہی گئی ہے اس کی تمہید بھی ہے، یعنی دنیا ختم ہوجائے گی، سارے لوگ مر جائیں گے اور قیامت کے دن مومن و کافر اور ظالم و مظلوم سب لوگ اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے حقوق کے لئے ایک دوسرے سے جھگڑیں گے۔ آیت (٣١) کا ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اے میرے نبی ! قیامت کے دن آپ اپنے رب سے لوگوں کے بارے میں بتائیں گے کہ آپ نے اسلام کی دعوت ان تک پہنچا دی تھی اور کفار و مشرکین انکار کریں گے اور عذاب سے بچنے کے لئے کہیں گے کہ ہمیں اسلام کی دعوت پہنچی ہی نہیں تھی۔ الزمر
31 الزمر
32 22 جو مومنین اور کفار قیامت کے دن اللہ کے سامنے جھگڑیں گے ان کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ اس آدمی سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں ہوسکتا جو اللہ کے بارے میں افترا پردازی کرے اور کہے کہ اس کا کوئی ساجھی یا لڑکا یا بیوی ہے اور جو اس دین کی تکذیب کرے جسے لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے، ایسے کافروں کا ٹھکانا جہنم ہے اور ان کے مقابلے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان پر ایمان لانے والے حقیقی معنوں میں اللہ سے ڈرنے والے ہیں اور قیامت کے دن انہیں ان کے رب کے پاس ہر وہ نعمت ملے گی جس کی وہو خواہش کریں گے، اور عمل صالح کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ایسا ہی بدلہ دے گا، وہ ان کے تمام بڑے اور چھوٹے گناہوں کو معاف کر دے گا اور ان کے نیک اعمال کا انہیں بہترین بدلہ دے گا۔ الزمر
33 الزمر
34 الزمر
35 الزمر
36 (٢٣) اوپر گذر چکا ہے کہ کفار قریش نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت کی تمنا کرتے تھے اور انہوں نے اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے آپ کو قتل بھی کرنا چاہا اسی پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اطمینان دلایا کہ آپ کا رب آپ کے لئے یقیناً کافی ہے، اس لئے کفار آپ کا بال بھی بیکا نہیں کرسکیں گے اور ان کی سازشیں دھری کی دھری رہ جائیں گی اور وہ لوگ اپنی غایت جہالت ونادانی میں آپ کو اپنے بتوں سے ڈراتے ہیں، کہتے ہیں کہ وہ بت آپ کو قتل کروا دیں گے یا جنون میں مبتلا کردیں گے، حقیقت یہ ہے کہ اللہ جس کو گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، جیسے کفار مکہ ہیں اور جسے اللہ ہدایت دے جیسے آپ ہیں، اسے راہ راست سے کوئی بھٹکا نہیں سکتا اور اللہ بڑا زبردست اور اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کی پوری قدرت رکھتا ہے، اس لئے اگر کفار قریش اس کے رسول کی ایذا رسانی اور اپنے کفر و عناد سے باز نہ آئے تو وہ اپنے دشمنوں سے انتقام لے کر رہے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور کفار مکہ میدان بدر میں جس طرح ذلیل و رسوا کئے گئے تاریخ کے اوراق پر شاہید ہیں۔ اور بالاخر مکہ فتح ہوا اور کافروں کی طاقت ہمیشہ کے لئے ٹوٹ گئی۔ الزمر
37 الزمر
38 (٢٤) اس آیت کریمہ میں کفار کی جہالت و نادانی اور ان کی کم عقلی بیان کی گئی ہے کہ آپ جب ان سے پوچھیں گے کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا کون ہے؟ تو فوراً جواب دیں گے کہ اللہ ہے تو پھر وہ لوگ خالق ارض و سماوات کو چھوڑ کر بتوں کی پرستش کیوں کرتے ہیں؟ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی ان سے پوچھا کہ اگر اللہ مجھے کوئی تکلیف دینی چاہے، تو تم لوگ جن بتوں کی پرستش کرتے ہو، کیا وہ میری اس تکلیف کو دور کردیں گے؟ اور اگر وہ مجھے اپنے فضل و کرم سے نوازنا چاہے تو کیا وہ بت اسے روک دیں گے؟ جو اب یقیناً نفی میں ہے، اس لئے کہ ان کے اندر نفع و نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں ہے اس لئے اے کفار قریش ! میرا یہ اعلان سن لو کہ میرا اللہ میرے لئے کافی ہے، میں اسی پر بھروسہ کروں گا اور اسی کی عبادت کروں گا، کیونکہ تمام بھروسہ کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ہودعلیہ السلام کی قوم نے جب ان سے کہا کہ ہمارے معبودوں نے تمہاری عقل کو نقصان پہنچا دیا ہے، تو انہوں نے کہا : (انی اشھداللہ وا شھدوانی ری مما تشرکون من دونہ فکیدونی جمیعا ثم لاتنظرون، انی توکلت علی اللہ ربی و ربکم مامن دابۃ الا ہوآ خذبنا صیتھا ان ربی علی صراط مستقیم) ” میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں تو اللہ کے سوا ان سب سے بیزار ہوں جنہیں تم شریک بنا رہے ہو، اچھا تم سب مل کر میرے خلاف چالیں چل لو اور مجھے بالکل مہلت بھی نہ دو، میرا بھروسہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہی ہے جو میرا اور تم سب کا پروردگار ہے جتنے بھی پاؤں دھرنے والے ہیں سب کی پیشانی وہی تھامے ہوئے ہے، یقیناً میرا رب بالکل صحیح راہ پر ہے۔ “ عبداللہ بن عباس (رض) سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک طویل حدیث میں فرمایا کہ اگر سارے لوگ تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہیں جسے اللہ نے تمہارے لئے مقدر نہیں کیا ہے، تو وہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور اگر سارے لوگ تمہیں کوئی نفع پہنچانا چاہیں جسے اللہ نے تمہارے لئے مقدر نہیں کیا ہے تو وہ نفع نہیں پہنچا سکیں گے۔ (ترمذی و مسند احمد) الزمر
39 (٢٥) اس آیت کریمہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی کفار قریش کو دھمکی دی گئی ہے کہ تم لوگ دعوت حق سے جس بغض و عداوت کا معاملہ کر رہے ہو، اسی پر بای رہو، میں بھی ایمان و توحید اور اللہ کی طاعت و بندگی پر قائم رہتا ہوں، تمہیں عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ دنیا میں رسوا کن عذاب کسے آلیتا ہے اور جہنم کا دائمی عذاب کس کا ٹھکانا ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ میدان بدر میں اللہ نے انہیں ذلیل و خوار کیا اکثر و بیشتر متکبرین قریش مارے گئے اور ان کی لاشوں کو ایک کنوئیں کے اندر ڈال دیا یا اور جو بچ گئے انہیں پابند سلاسل کر کے مدینہ لے جایا گیا۔ الزمر
40 الزمر
41 (٢٦) اہل قریش کے کفر پر اصرار کی وجہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف ہوتی تھی اللہ تعالیٰ نے انہیں تسلی دی کہ ہم نے آپ کو کتاب حق دے کر مبعوث کیا ہے اور آپ کی ذمہ داری تبلیغ و بیان کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ آپ کسی کو ہدایت نہیں دے سکتے ہیں جو شخص قرآن پر ایمان لائے گا اور ایمان و عمل کی زندگی اختیار کرے گا اس کا فائدہ اسے ہی ملے گا کہ وہ جہنم سے نجات پائے گا اور جنت کا حقدار بنے گا، اور گمراہ ہوگا تو اس کا انجام بد وہ خود بھگتے گا بایں طور کہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور اللہ کی لعنت و غضب کا مستحق بنے گا۔ شو کانی لکھتے ہیں کہ یہ آیت، آیت جہاد کے ذریعہ منسوخ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو کفار سے جہاد کرنے کا حکم دیا ہے یہاں تک کہ وہ کلمہ ” لا الہ الا اللہ“ پڑھ لیں اور احکام اسلام کے پابند ہوجائیں۔ الزمر
42 (٢٧) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو یہ خبر دی ہے کہ پوری کائنات میں وہی اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرتا ہے، وہی فرشتوں کے ذریعہ انسانوں کی روحوں کو ان کے جسموں سے نکال لیتا ہے، جس کے بعد وہ قیامت تک کے لئے مر جاتے ہیں اور وہی انسانوں پر نیند طاری کرتا ہے، جس کے سبب اس کے ظاہری حواس کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، پھر ان میں سے جسے اللہ دنیا سے اٹھا لینا چاہتا ہے، اسے واقعی موت دے دیتا ہے اور قیامت تک اس کی روح اس کے جسم میں لوٹ کر نہیں آئے گی، اور جس کی موت نہیں لکھی ہوتی اس کی روح لوٹ آتی ہے۔ بخاری و مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی بستر پر جائے تو اسے تہبند کے دامن سے جھاڑ دے، اس لئے کہ وہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد کیا چیز اس پر آئی ہے۔ پھر کہے میرے رب ! میں اپنا پہلو تیرے نام کے ساتھ رکھتا ہوں اور تیری مدد سے اسے اٹھاؤں گا، اگر تو میری جان قبض کرلے تو اس پر رحم کرنا اور اگر دوبارہ اسے آنے دے تو اس کی اسی طرح حفاظت کرنا جس طرح تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔ موت و حیات اور روح کے قبض کئے جانے اور جسم میں اس کے دوبارہ لوٹ آنے میں ان لوگوں کے لئے بڑی بڑی نشانیاں ہیں جو غور و فکر کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ حقائق اس بات کی طعی دلیل ہیں کہ جو ذات باری تعالیٰ ان باتوں پر قادر ہے، وہ یقیناً قیامت کے دن لوگوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے، اور وہی طاعت و بندگی کا تنہا مستحق ہے۔ الزمر
43 ٢٨ مشرکین کو ان نشانیوں سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا اور توحید باری تعالیٰ سے برگشتہ ہو کر بتوں کو اللہ کی جناب میں اپنا سفارشی بنا لیا، اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنے نبی کی زبانی فرمایا کہ کیا یہ بت تمہارے سفارشی ہوں گے اگرچہ وہ کسی چیز کے مالک نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے پاس عقل ہے؟ ! کیونکہ وہ تو مٹی اور پتھر کے بنے بت ہیں، شفاعت کی تمام قسموں کا مالک تو وہ اللہ ہے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے، اور اسی کے پاس سب کو لوٹ کر جانا ہے، اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت نہیں کرسکے گا، اس لئے شفاعت کی اجازت اسی سے طلب کرو۔ الزمر
44 الزمر
45 ٢٩ شرک کا ایک بدترین نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ مشرکین کے سامنے جب صرف اللہ کا نام لیا جاتا ہے اور کہا جا تا ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے تو ان کے دل سخت ترین تنگی میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جس کا اثر ان کے چہروں پر ظاہر ہوجاتا ہے، اور جب ان کے جھوٹے معبودوں کے نام لئے جاتے ہیں تو خوشی کے مارے ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں، ان کی بدنصیبی دیکھئے کہ دونوں ہی حال میں وہ انتہا کو پہنچے ہوتے ہیں، جب صرف اللہ کا نام آتا ہے تو فرط غم سے ان کے چہروں کا رنگ بدل جاتا ہے اور جب جھوٹے معبودوں کا نام لیا جاتا ہے تو پھولے نہیں سماتے اور خوشی کے آثار ان کے چہروں پر نمایاں ہتے ہیں، العیاذ باللہ الزمر
46 ٣٠ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تعلیم دی جا رہی ہے کہ جب ان کے اور کافروں کے درمیان اختلاف شدید ہوجائے اور وہ تنگ دل ہونے لگیں، تو اپنے رب کی طرف تیزی کے ساتھ لپکیں، دعا کریں اور خشوع و خضوع کے ساتھ کہیں کہ اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے اور غائب و حاضر کے جاننے والے تو ہی اپنے مومن و کافر بندوں کے درمیان ان باتوں میں فیصلہ کرنے والا ہے جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں تو حق کی طرف میری رہنمائی کرے۔ الزمر
47 ٣١ اس آیت میں عذاب آخرت کی شدت و ہولناکی بیان کی گئی ہے کہ شرک کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر ظلم کرنے وال جب قیامت کے دن عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے، تو اس کی ہولناکی کا اندازہ کر کے تمنا کریں گے کہ اگر ان کے پاس زمین بھر کر دولت ہوتی اور اتنی دولت اور ہوتی اور سب دے کر اس عذاب سے نجات مل جاتی تو وہ ایسا کرنے میں ذرا بھی تاخیر نہ کرتے، اس لئے کہ وہ ایسا خطرناک اور درد ناک عذاب ہوگا جو ان کے شان و گمان میں بھی نہیں تھا اور دنیا میں جن گناہوں کا ارتکاب کرتے رہے تھے ان کا انجام بد ان کی آنکھوں کے سامنے ہوگا اور جس عذاب کا مذاق اڑاتے رہے تھے، وہ انہیں ہر طرف سے گھیر لے گا۔ الزمر
48 الزمر
49 ٣٢ مشرک انسان کی قبیح صفت یہ ہے کہ جب اسے کوئی بیماری یا تکلیف لاحق ہوتی ہے، تو اپنے جھوٹے معبودوں سے منہ موڑ کر صرف ایک اللہ کی طرف مائل ہوجاتا ہے اور خوب گڑ گڑا کر اس مصیبت سے نجات کے لئے دعائیں کرتا ہے اور جب اللہ بطور آزمائش اس کی دعا سن لیتا ہے اسے اس مصیبت سے نجات دے دیتا ہے اور اپنی کسی نعمت سے اسے نواز دیتا ہے تو فوراً ہی طغیان و سرکشی پر تل جاتا ہے اور لوگوں سے اپنی جھوٹی بڑائی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگتا ہے کہ اللہ کو معلوم تھا کہ میں اس نعمت کا حقدار ہوں جبھی مجھے دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی خام خیالی کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ نہیں، وہ تو اللہ کی طرف سے اس کے لئے آزمائش تھی کہ اس کے بعد بھی طاعت و بندگی کی راہ اختیار کرتا ہے یا احسان فراموشی کر کے پھر اپنے جھوٹے معبودوں کے سامنے سجدہ ریزی کرنے لگتا ہے، لیکن اکثر مشرکین اس حقیقت سے ناواقف ہی رہتے ہیں۔ اس بات کی دلیل کہ کفر و شرک کے باوجود اللہ کی داد و دہش ان کے لئے بطور آزمائش تھی، یہ ہے کہ قارون اور دیگر نافرمانوں نے ان سے پہلے ایسی ہی بات کی، تو اللہ نے فوراً ہی انہیں پکڑ لیا، اور ان کی ساری دولت دھری کی دھری رہ گئی، یعنی ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ان کے برے اعمال کا نتیجہ تھا، اسی طرح کفار قریش کو بھی ان کے برے اعمال کا بدلہ مل کر رہے گا اور وہ اللہ کو عاجز نہیں بنا سکیں گے۔ الزمر
50 الزمر
51 الزمر
52 ٣٣ آیت (٤٩) میں جو بات کہی گئی ہے کہ مشرکوں کے لئے اللہ کی نعمت فتنہ و آزمائش ہے، اسی بات کی توثیق کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ روزی میں وسعت اور تنگی دونوں آزمائش کے لئے ہوتی ہے، روزی میں وسعت دے کر اللہ تعالیٰ آزماتا ہے کہ بندہ شکر ادا کرتا ہے یا ناشکری کرتا ہے اور تنگی دے کر آزماتا ہے کہ صبر کرتا ہے یا اپنی قسمت کو کوستا ہے اور اللہ سے ناراضگی کا اظہار کرتا ہے، نہ وسعت اللہ کی محبت کی دلیل ہے اور نہ ہی تنگی اس کی نفرت کی نشانی ہے اور ان تمام باتوں میں بڑی مفید نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو اہل ایمان ہوتے ہیں، یعنی وہی لوگ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اہل کفر کو تو ان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ الزمر
53 ٣٤ واحدی نے لکھا ہے : تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہوں نے شرک، قتل اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذا رسانی جیسے گناہوں کا ارتکاب کیا تھا اور اسلام لانا چاہتے تھے، لیکن ڈرتے تھے کہ شاید ان کے گناہ معاف نہیں کئے جائیں گے، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ انہیں اور اللہ کے تمام بندوں کو اس کی وسیع رحمت اور عظیم مغفرت کی خوشخبری دے دیں کہ انہیں اللہ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہئے، وہ تو اپنے بندوں کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، اس لئے کہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور بے حد مہربان ہے۔ شو کافی لکھتے ہیں کہ یہ آیت قرآن کریم کی سب سے زیادہ امید بھری آیت ہے۔ اس میں اللہ نے بندوں کی نسبت اپنی طرف کی ہے اور پھر انہیں گناہوں کے ارتکاب میں حد سے متجاوز ہونے کی صورت میں اپنی رحمت سے ناامید ہونے سے منع فرمایا ہے اور یہ کہہ کر مزید کرم فرمایا کہ وہ تو تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ یہ آیت کیمہ کافر و مومن تمام گناہ گاروں کو توبہ کی دعوت دیتی ہے اور خبر دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے کے تمام گناہ معاف کردیتا ہے چاہے وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔ الزمر
54 ٣٥ اللہ تعالیٰ نے حد سے تجاوز کرنے والے اپنے جن بندوں کو عموم مغفرت کی خوشخبری دی، انہیں حکم دیا کہ وہ توبہ کریں اور ہر حال میں اسی کی طرف رجوع کریں اور اسی کی طاعت و بندگی میں لیگ رہیں اور اس دن کے عذاب سے ڈرتے رہیں جس دن ان کا اللہ کے سوا کوئی مددگار نہیں ہوگا اور قرآن کریم میں وارد احکام کی اتباع کریں، اللہ نے اس میں جن چیزوں کو حلال قرار دیا ہے انہیں حلال سمجھیں اور جنہیں حرام قرار دیا ہے انہیں حرام سمجھیں قبل اس کے کہ عذاب الٰہی انہیں اچانک اپنے گھیرے میں لے لے اور انہیں اس کا احساس بھی نہ ہو اور اس روز قیامت سے قبل جب اہل جرائم جنہیں دنیا میں توبہ کی توفیق نہیں ہوئی تھی، مارے حسرت کے کف افسوس ملیں گے اور کہیں گے ہائے افسوس ! میں تو دنیا میں اللہ کے دین اور روز قیامت کا مذاق اڑاتا تھا یا کہیں گے، اے کاش ! مجھے اللہ نے اسلام کی ہدایت دی ہوتی، تو متقیوں میں سے ہوتا اور کفر کا ارتکاب نہ کرتا، یا جب عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو کہیں گے، اے کاش ! مجھے دنیا میں لوٹا دیا جاتا تو میں بھی ان مومنوں جیسا بن جاتا جنہوں نے ایمان اور عمل صالح کی زندگی اختیار کی اور آج کے دن اپنے رب کے حضور سرخرو ہوئے۔ الزمر
55 الزمر
56 الزمر
57 الزمر
58 الزمر
59 ٣٦ اللہ تعالیٰ ان اہل جرائم کی تردید کرے گا اور کہے گا کہ بات ویسی نہیں جیسی تم کہہ رہے ہو تمہارے سامنے تو قرآن کریم کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی رہی، لیکن تم نے ان کی تکذیب کی، کبر و عناد سے کام لیا اور کفر کی راہ اختیار کی۔ الزمر
60 ٣٧ جو مجرمین دنیا میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں افترا پردازی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے شرکاء ہیں، اس کی بیوی ہے اور اس کی اولاد ہے، روز محشر جب عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور اللہ ان کی ان افتر اپردازیوں پر شدید غضبناک ہو گ، تو رعب و دہشت کی شدت سے ان کے چہرے سیاہ ہوجائیں گے اور آج جو لوگ تکبر کی وجہ سے ایمان اور عمل صالح کی راہ اختیار نہیں کرتے ہیں، اس دن ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور جو لوگ شرک و معاصی سے بچتے ہیں اور طاعت و بندگی کی راہ اختیار کرتے ہیں، انہیں اللہ جہنم سے نجات دے گا اور جنت میں داخل کر کے فائز المرام بنائے گا، انہیں میدان محشر میں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی اور دنیا میں جو کچھ چھوڑ کر آئے تھے اس کا انہیں کوئی غم نہیں ہوگا، جنت اور اس کی نعمتوں کو پا کر ماضی کی تمام باتیں بھول جائیں گے۔ الزمر
61 الزمر
62 ٣٨ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہی تمام چیزوں کا خالق و مالک، ان کا پالنہار، ان میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنے والا ہے اور ان کا محافظ و نگراں ہے، اس کی قدرت بے پایاں اور اس کا علم لامحدود ہے اور آسمانوں اور زمین کے خزانوں کی چابیاں اسی کے پاس ہیں، رزق و رحمت اور خیر و برکت سب کچھ اسی کے پاس ہے، اس لئے عبادت کا صرف وہی تنہا حقدار ہے، اور دست سوال پھیلایا جائے تو صرف اسی کے سامنے اور قیامت کے دن حقیقی خسارہ اٹھانے والے وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں قرآن کریم اور ان نشانیوں کا انکار کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اور اس کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہیں۔ الزمر
63 الزمر
64 ٣٩ کفار مکہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ بتوں کی پرستش تمہارے آباء و اجداد کا دین ہے، اس لئے تم اپنے رب کی عبادت کرو اور بتوں کی بھی عبادت کرو اور ہم بھی تمہاری خاطر تمہارے رب کی عبادت کریں گے، تو اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ وہ مشرکین کی اس رائے کی پوری صراحت کے ساتھ تردید کردیں اور کہہہ دیں کہ اے نادانو ! کیا تم غیر اللہ کی عبادت کی طرف بلاتے ہو، ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ آیت (٦٥) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ کو اور آپ سے پہلے تمام انبیاء کو بذریعہ وحی یہ بات بتا دی گئی تھی کہ اگر آپ نے شرک کیا تو آپ کے سارے اعمال ضائع ہوجائیں گے اور ان لوگوں میں سے ہوجائیں گے جو قیامت کے دن حقیقی گھاٹا اٹھانے والے ہوں گے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ یہ آیت (شرک پر موت) کے ساتھ مقید ہے، جیسا کہ سورۃ البقرہ آیت (٢١٧) میں آیا ہے : (ومن یرتدد منکم عن دینہ قیمت وھو کافر فاؤلئک حبطت اعمالھم فی الدنیا و الاخرۃ) ” اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں اور اسی کفر کی حالت میں مریں، ان کے اعمال دنیوی اور اخروی سب غارت ہوجائیں گے۔ “ آیت (٦٦) میں اللہ تعالیٰ نے گزشتہ مضون کی تکمیل کرتے ہوئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ صرف اللہ کی عبادت کیجیے اور توحید و نبوت اور دعوت و رسالت جیسی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتے رہے۔ الزمر
65 الزمر
66 الزمر
67 (٤٠) مشرکین کی جہالت و نادانی بیان کی جا رہی ہے کہ وہ اللہ کی حقیقی قدر و منزلت کا تصور ہی نہیں کرسکے جبھی تو اس کے سوا دوسروں کو معبود سمجھا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشورہ دیا کہ وہ بھی بتوں کی پرستش کریں۔ اس کی ذات تو وہ قادر مطلق ذات ہے کہ زمین اپنی عظمت و کقافت کے باوجود قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور ساتوں آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوں گے، اس دن وہ پورے جلال میں ہوگا اور کہے گا کہ میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں وہ جو دنیا میں بادشاہ کہلاتے تھے۔ تو جو ذات ایسی ہو اور جو ایسی عظیم قدرت کا مالک ہو وہی تمام عبادتوں کا مستحق ہے، اس کے سوا جھوٹے معبودوں کی پرستش جرم عظیم ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آیت کے آخر میں فرمایا کہ وہ تما عیوب و نقائص سے پاک ہے اور وہ مشرکوں کے شرک سے بالاتر ہے۔ الزمر
68 (٤١) روز قیامت کی ہولناکی اور ان بڑی نشانیوں اور زلزلوں کا بیان ہے جو اس دن ظہور پذیر ہوں گے۔ صاحب ایسر التفاسیر لکھتے ہیں کہ یوم آخرت سے متعلق قرآن کریم کی آیات کا تتبع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صور چار بار پھونکا جائے گا۔ پہلی پھونک سے سارے لوگ فنا ہوجائیں گے، دوسری سے سارے لوگ زندہ ہو کر میدان محشر میں جمع ہوجائیں گے، تیسری پھونک کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ جس کے اثر سے لوگ مدہوش ہوجائیں گے مریں گے نہیں اس کی دلیل صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرماما :” سب سے پہلے مجھے ہوش آئے گا، تو موسیٰ کو عرش کے پاس پاؤں گا، مجھے معلوم نہیں کہ انہیں مجھ سے پہلے ہوش آچکا ہوگا یا وہ ان لوگوں میں سے ہوں گے جنہیں اللہ مدہوش ہونے سے مستثنیٰ رکھے گا۔“ اور چوتھی پھونک کے زیر اثر تمام لوگ رب العالمین کے حضور حساب کے لئے خشوع و خضوع کے ساتھ کھڑے ہوجائیں گے۔ اور اپنے اپنے انجام کا انتظار کرنے لگیں گے۔ الزمر
69 (٤٢) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جب مخلوق کے درمیان فیصہل کرنے کے لئے ظاہر ہوگا تو اس کی تجلی سے پورا میدان محشر اجالا ہوجائے گا اور لوگوں کے نامہ ہائے اعمال سامنے لائے جائیں گے اور انبیائے کرام آگے آئیں گے جو گواہی دیں گے کہ انہوں نے اپنی اپنی امتوں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا، او نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے لوگ آگے لائیں گے جائیں گے جو گواہی دیں گے کہ گزشتہ انباء نے اپنی اپنی امتوں تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا اور اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات کے درمیان پورے عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دے گا، کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا اور چونکہ اللہ تعالیٰ بندوں کے اعمال کو ان سے زیادہ جانتا ہے اس لئے حساب میں کوئی ظلم و زیادتی نہیں ہوگی اور نہ اس میں کسیخ طا غلطی یا بھول چوک کا امکان ہوگا۔ الزمر
70 الزمر
71 (٤٣) قیامت کے دن مومن و کافر، موحد و مشرک اور نیک و بد کے درمیان جب اللہ کا فیصلہ صادر ہوجائے گا، تو دونوں جماعتوں کو ان کے آخری انجام کی طرف بھیج دیا جائے گا۔ مندرجہ ذیل آیتوں میں اسی کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے کہ کافروں کو فرشتے پوری سختی کے ساتھ ڈانٹتے پھٹکارتے، جماعتوں کی شکل میں جہنم کی طرف زبردستی ہانک کرلے جائیں گے، جیسا کہ سورۃ الطور آیت (١٣) میں آیا ہے : (یوم یدعون الی نار جھنم دعا) ” جس دن وہ لوگ جہنم کی آگ میں دھکے دے کر پہنچائے جائیں گے“ اور ان کے وہاں پہنچتے ہی فوراً جہنم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے، تاکہ ان کے عذاب دیئے جانے میں کوئی تاخیر نہ ہو پھر جہنم کے سخت دل اور سخت لہجہ داروغے بطور زجر و توبیخ ان سے کہیں گے کہ کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے اللہ کے پیغامبر نہیں آئے تھے جو تمہارے رب کی آیتیں پڑھ کر تمہیں سمجھاتے تھے، اتباع حق کی دعوت دیتے تھے اور آج کے دن کے عذاب سے ڈراتے تھے؟ تو اہل جہنم کہیں گے کہ ہاں آئے تھے، ہمیں ڈرایا تھا اور دلائل و براہین کے ذریعہ ایمان و عمل کی دعوت دی تھی، لیکن ہم نے اپنی بدبختی کی وجہ سے ان کی تکذیب کی اور ان کی مخالفت کی تو پھر ان سے کہہ دیا جائے گا کہ تم لوگ جہنم کے ان دروازوں میں داخل ہوجاؤ جو تمہارے لئے کھول دیئے گئے ہیں۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ چونکہ ان کے گناہوں کو دیکھ کر تمام حاضرین میدان محشر پکار اٹھیں گے کہ واقعی یہ لوگ عذاب نار کے ہی مستحق ہیں، اسی لئے یہاں ” قول“ کی نسبت کسی خاص کی طرف نہیں کی گئی ہے اور شوکانی لکھتے ہیں کہ یہ بات ان سے عذاب کے فرشتے کہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جہنمی جہنم میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے اور جو لوگ دنیا میں کبر و غرور کی وجہ سے حق کی اتابع نہیں کرتے تھے ان کا وہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہوگا۔ الزمر
72 الزمر
73 (٤٤) اور اللہ سے ڈرنے والوں کو ان کی خدمت پر متعین فرشتے نہایت تزک و احتشام کے ساتھ جنت کی طرف مخصوص سواریوں پر لے جائیں گے اور جب وہاں پہنچیں گے تو جنت کے دروازوں کو اپنے استقبال میں پہلے سے کھلا ہوا پائیں گے اور فرشتے انہیں سلام کریں گے اور کہیں گے کہ اب آپ لوگ تمام آفات و بلیات سے امن میں آگئے، آپ حضرات کی زندگی دنیا میں شرک و معاصی کی آلائشوں سے پاک تھی، اس لئے جنت میں ہمیشہ کے لئے داخل ہوجایئے۔ الزمر
74 (٤٥) اس وقت اہل جنت کہیں گے کہ ساری تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے اپنا وعدہ پورا کیا (جس کا ذکر سورۃ مریم آیت (٦٣) میں آیا ہے : (تلک الجنۃ التی نورث من عباد نامن کان تقیا) ” یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں کو بناتے ہیں جو متقی ہوں“ ) اور ہمیں جنت کا وارث بنایا جس میں ہم جہاں اور جس طرح چاہتے ہیں رہتے ہیں دنیا میں ایمان اور تقویٰ کی زندگی اختیار کرنے والوں کا کیا ہی اچھا بدلہ ہے۔ الزمر
75 (٤٦) اللہ تعالیٰ نے جب یہ بتایا کہ وہ حساب و کتاب کے بعد اہل جنت کو جنت میں اور اہل جہنم کو جہنم میں بھیج دے گا، اور ہر ایک کو اس کے کئے کا بدلہ پورے عدل و انصاف کے ساتھ چکا دے گا تو اب فرشتوں کے بارے میں خبر دی جا رہی ہے کہ وہ عرش کے چاروں طرف سر نیاز جھکائے اپنے رب کی پاکی اور بڑائی بیان کرنے میں لگے ہوں گے۔ جب اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کے درمیان پورے عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دے گا تو محشر کی کار گزاریاں ختم ہوجائیں گی اور فرشتے اور جنت میں مقیم مومنین اللہ رب العالمین کا شکر بجا لائیں گے اور اس کی تعریف بیان کریں گے۔ والحمد اللہ رب العالمین الزمر
0 تفسیر سورۃ المؤمن نام : آیت (٢٨) (وقال رجل موؤمن من ال فرعون) سے ماخوذ ہے، اس کا نام غافر اور الطول بھی ہے۔ زمانہ نزول : ابن عباس، حسن، عطاء، عکرمہ اور جابر وغیر ہم کے نزدیک یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ غافر
1 (١) تم، حروف مقطعہ ہیں، اور اللہ کو ہی معلوم ہے کہ ان سے مراد کیا ہے، البتہ اتنی بات قابل ذکر ہے، جو پہلے بھی کہی جا چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اکثر و بیشتر حروف مقطعات کے بعد قرآن کریم کے وحی الٰہی اور منزل من اللہ ہونے کی بات کی ہے، اس سے اس طرف اشارہ ملتا ہے کہ یہ غالباً عربوں کے لئے ایک قسم کا چیلنج تھا کہ یہ کتاب الٰہی انہی حروف سے مرکب ہے جن سے تمہارا کلام مرکب ہوتا ہے اور تمہیں زبان دانی میں سارے عالم پر اپنی فوقیت کا بھی دعویٰ ہے، تو اگر یہ کلام کسی انسان کا کلام ہے، تو اس جیسا کلام لانے سے تم عاجز کیوں ہو؟ معلوم ہوا کہ یہ اللہ کا کلام ہے، جسے اس نے بذریعہ وحی اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا ہے۔ غافر
2 (٢) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کتاب اس اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے، جو اپنی تمام مخلوقات پر غالب ہے، کوئی بھی اس کے کسی ارادے اور حکم میں مداخلت کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے اور وہ بڑا علم والا ہے، اپنی مخلوقات ان کی نیتوں ان کے اعمال اور ان کی ضروریات کو خوب بہتر جانتا ہے، وہ مغفرت چاہنے والوں کے گناہ معاف کردیتا ہے، توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرتا ہے، نافرمانوں اور کافروں کو سخت ترین سزا دینے پر قادر ہے، اور مخلوقات پر خوب انعام و احسان کرنے والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، روز قیامت سب کو اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ غافر
3 غافر
4 (٣) اوپر بیان ہوا کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے، اسے اس نے اس لئے نازل کیا ہے تاکہ اس کے بندے اس سے ہدایت اور روشنی حاصل کریں، اسی مناسبت سے اب ان لوگوں کے احوال بیان کئے جا رہے ہیں جو قرآن کریم کی آیتوں کی تردید و تکذیب کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور اس شمع ہدایت کی لوکو بزعم خود کم کرنے کے لئے اپنی پوری قوت صرف کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کی وحدانیت، روز قیامت اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر دلالت کرنے والی آیتوں میں وہی لوگ شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں اور باطل دلائل کے ذریعہ حق کو دبانا چاہتے ہیں جو درحقیقت کافر ہوتے ہیں، اس لئیاے میرے نبی ! ان کی دنیاوی نعمتوں اور صحت و عافیت کو دیکھ کر آپ دھوکے میں نہ پڑجائیے کہ اللہ تعالیٰ ان سے خوش ہے، بلکہ اس نے ان کی رسی ڈھیل دی ہے کہ وہ کبر و عناد میں کس حد تک آگے بڑھتے ہیں، سورۃ آل عمران آیات (١٩٦، ١٩٧) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (لایغرنک تقلب الذین کفروا فی البلاد، متاع قلیل تم ماواھم جھنم وبئس المھاد) ” آپ کو کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا دھوکے میں نہ ڈال دے۔ یہ تو بہت ہی تھوڑا فائدہ ہے، اس کے بعد ان کا ٹھکانا تو جہنم ہے اور وہ بری جگہ ہے۔ “ غافر
5 (٤) کفار قریش سے پہلے قوم نوح اور ان کے بعد قوم عاد و ثمود، قوم ابراہیم و لوط، اصحاب مدین اور فرعونیوں نے بھی اپنے اپنے رسولوں کو جھٹلایا اور ہر ایک نے انہیں قتل کرنا چاہا اور باطل دلائل کے ذریعہ حق کی آواز کو دبانا چاہا تو اللہ نے ان میں سے ہر ایک کو عذاب کے ذریعہ ہلاک کردیا اور وہ عذاب بڑا شدید اور درد ناک ہوتا تھا۔ اسی طرح کفار قریش کے لئے بھی ان کے کفر و شرک پر اصرار کی وجہ سے اللہ کا عذاب ثابت ہوچکا ہے، اور طے ہے کہ ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ غافر
6 (٥) لیکن جو لوگ اللہ او اس کے رسول پر ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے تقویٰ اور عمل صالح کی راہ اختیار کرلی ہے، ان کا انجام بخیر ہوگا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ فرشتے جنہوں نے عرش الٰہی کو تھام رکھا ہے اور دیگر فرشتے جنہیں رب العالمین کا قرب حاصل ہے، سب اپنے رب کی بڑائی بیان کرتے ہیں اور اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی ان کا رب نہیں ہے اور ہر دم اس کی عبادت میں لگے رہتے ہیں اور اہل ایمان کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے ہیں۔ مومنوں اور ان فرشتوں کے درمیان ایمان کا رشتہ ان سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ دنیا کے اہل ایمان انسان کے لئے رب العالمین کے عرش کے نزدیک دعا اور طلب استغفار کرتے رہیں، گویا یہ کام بھی ان کے دائمی و ظیفہ کا ایک حصہ ہے۔ فرشتے کہتے ہیں : اے ہمارے رب ! تیری رحمت ہر چیز کو شامل ہے اور تیرے علم نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے، تو اپنے ان بندوں کو معاف کر دے، جنہوں نے شرک سے توبہ کرلی ہے اور اسلام کی راہ اختیار کرلی ہے اور تو انہیں جہنم کی آگ سے بچا لے اسے ہمارے رب ! تو انہیں عدن کے ان باغوں میں داخل کر دے جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے ساتھ ان کے ان آباء و اجداد، بیویوں اور اولاد کو بھی جنہوں نے نیکی اور صلاح کی راہ اختیار کی، تاکہ دخول جنت سے انہیں جو خوشی حاصل ہوئی ہے اس کی تکمیل ہوجائے۔ اے ہمارے رب ! تو ہر چیز پر غالب ہے اور بڑی حکمتوں والا ہے۔ اے ہمارے رب ! تو انہیں برے اعمال کی سزا سے بچا لے ان کے گناہوں پر پردہ ڈال دے، تو قیامت کے دن جسے برے اعمال کی جزا سے بچا لے گا، اسے ہی درحقیقت تیری رحمت ڈھانک لے گی۔ مطرف بن عبداللہ کہتے ہیں کہ اللہ کے بندوں کے لئے سب سے زیادہ خیر خواہ فرشتے ہیں اور سب سے بدخواہ شیاطین ہیں۔ انہوں نے اسی آیت کے پیش نظر یہ بات کہی ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جہنم سے نجات اور دخول جنت ہی سب سے بڑی کامیابی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران آیت (١٨٥) میں فرمایا ہے : (فمن زخرح عن الناروا دخل الجنۃ فقد فاز) ” جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے گا اور جنت میں داخل کردیا جائے گا وہ بے شک کامیاب ہوجائے گا۔ “ غافر
7 غافر
8 غافر
9 غافر
10 (٦) بارہا یہ بات لکھی جاچکی ہے کہ قرآن کریم بالعموم ترغیب و ترہیب ایک ساتھ بیان کرتا ہے اوپر مومنوں اور ان کے اہل و عیال کے دخول جنت کا بیان گذر چکا تو اب جہنم میں کافروں کا حال بیان کیا جا رہا ہے اہل جہنم جب عذاب کی سختیوں سے تنگ آجائیں گے، ان کی شکلیں بدل جائیں گی اور ان کے چہرے جل کر وحشت اک اور بد نما ہوجائیں گے تو انہیں اپنے آپ سے نفرت ہوجائے گی اور دنیا میں اپنی بد اعمالیوں پر اپنے آپ کو کو سنے لگیں گے اور جب فرشتے ان کی باتیں سنیں گے تو کہیں گے کہ دنیا میں تمہارے کفر و استکبار اور توحید و رسالت کا انکار کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کو تم لوگوں سے جو بغض و نفرت تھی وہ اس سے کہیں زیادہ تھی جو آج عذاب نار کی وجہ سے تمہیں اپنی ذات سے ہے۔ غافر
11 (٧) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ میدان محشر میں کفار جب اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوں گے تو دوبارہ دنیا کی طرف لوٹنا چاہیں گے۔ سورۃ السجدہ آیت (١٢) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (ولوتری اذا لمجرون ناکسوارؤسھم عند ربھم رنا ابصرنا وسمعنا فارجمعنا نعمل صالحا انا موقنون) ” کاش ! آپ دیکھتے جب کہ گناہ گار لوگ اپنے رب کے سامنے سر جھکائے ہوں گے، کہیں گے، اے ہمارے رب ! ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا، اب تو ہمیں واپس لوٹا دے، ہم نیک اعمال کریں گے، ہم یقین کرنے والے ہیں“ لیکن انہیں کوئی جواب نہیں ملے گا۔ پھر جب آگ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو پہلے سے زیادہ الحاج کے ساتھ سوال کریں گے، لیکن انہیں کوئی جواب نہیں ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام آیت (٢٧) میں فرمایا ہے : (ولوتری اذوقفوا علی النار فقالوا یلیتنا نردو لانکذب بآیات ربنا ونکون من المومنین) ” اگر آپ اس وقت دیکھیں جب یہ دوزخ کے پاس کھڑے کئے جائیں گے، تو کہیں گے، ہائے کیا اچھی بات ہو کہ ہم پھر واپس بھیج دیئے جائیں اور اگر ایسا ہوجائے تو ہم اپنے رب کی آیات کو نہ جھٹلائیں اور ہم ایمان والوں میں سے ہوجائیں گے“ پھر جب آگ میں داخل کردیئے جائیں گے اور اس کی سختیوں کو جھیلنے لگیں گے اور ان کی حالت ناگفتہ بہ ہوجائے گی، تو چیخیں ماریں گے اور کہیں گے : (ربنا اخرجنا نعمل صالحا غیر الذی کنا نعمل) ” اے ہمارے رب ! ہمیں اس سے نکال دے، ہم اچھے کام کریں گے، برخلاف ان کاموں کے جو کیا کرتے تھے۔“ (فاطر : ٣٧) سورۃ المؤمن کی اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے سوال سے پہلے اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت کا اعتراف کریں گے اس امید میں کہ شاید ان کی بات مان لی جائے، کہیں گے اے ہمارے رب ! تو نے اپنی عظیم قدرت کے ذریعہ ہمیں دوبارہ موت دی اور دوبارہ زندہ کیا، یعنی ہم نطفوں کی شکل میں مردہ اپنے باپوں کی پٹھوں میں تھے، تو نے ہمیں زندگی دی، پھر ہم نے موت کا مزا چکھا اور اب پھر دوبارہ ہمیں زندہ کیا ہے ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں، تو کیا ایسا ممکن ہے کہ تو دوبارہ ہمیں دنیا میں بھیج دے، تاکہ نیک عمل کریں؟ تو ان کا سوال رد کردیا جائے گا، اور اللہ ان سے کہے گا کہ تمہاری خبیث فطرتیں حق کو قبول کرنے کی صلاحیت نہیں کھتی ہیں، تمہیں تو دنیا میں جب ایک اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو انکار کردیتے تھے اور جب اس کے ساتھ غیروں کو شریک بنایا جاتا تھا تو ان کے سامنے فوراً سر نیاز جھکا دیتے تھے اس لئے اگر دوبارہ بھی تمہیں دنیا میں بھیج دیا جائے تو توحید باری تعالیٰ کا انکار کرو گے اور اس کے ساتھ غیروں کو شریک ٹھہراؤ گے تمہارے بارے میں عذاب کا حتمی فیصلہ ہوچکا ہے، نجات کی کوئی سبیل نہیں ہے، اب اپنے آپ کو کوسو، اور اپنی بدبختی پر نوحہ کرو، لیکن ان سب باتوں سے اب کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اور عذاب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ غافر
12 غافر
13 (٨) اہل کفر و شرک کے لئے قیامت کے دن وعید شدید کا بیان کئے جانے کے بعد، اب انہیں اس دن سے پہلے اس دنیاوی زندگی میں دعوت ایمان دی جا رہی ہے، تاکہ موت سے پہلے ہی تائب ہو کر زمرہ مومنین میں داخل ہوجائیں اور جہنم کا ایندھن نہ بنیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے اہل قریش ! تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی توحید اور اپنی عظمت و قدرت کے عظیم دلائل تمہارے سامنے پیش کرتا ہے اور وہی آسمان سے تمہارے لئے روزی بھیجتا ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ نے خود ہی کہا کہ نصیحت تو وہ حاصل کرتا ہے جو گناہوں سے تائب ہوتا ہے اور ہر حال میں اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ غافر
14 (٩) اہل ایمان کو خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ تم اپنی راہ پر چلتے رہو، اور کافروں کے غیظ و غضب کے علی الرغم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، جو بہت ہی اونچے درجات اور عرش والا ہے، یعنی جس کی رفعت شان اور عظمت و کمال کی کوئی انہتا نہیں ہے، وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے وحی بھیج کر اپنا رسول بنا دیتا ہے، تاکہ وہ لوگوں کو اس دن سے ڈرائے جب اہل زمین آسمان والوں سے ملیں گے اور بندے اپنے خلاق کے سامنے حاضر ہوں گے، جس دنت مام وگ اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے، کوئی چیز انہیں اللہ سے نہیں چھپائے گی، جب تمام مخلوقات کی روحیں قبض کرلی جائیں گی، اللہ کے سوا کوئی باقی نہیں رہے گا، اس وقت اللہ تعالیٰ تین بار کہے گا : آج بادشاہت کس کی ہے؟ پھر خود ہی جواب دے گا، اس اللہ کی ہے جو تنہا ہے اور جو ہر چیز پر قاہر و غالب ہے۔ بخاری و مسلم نے اسی معنی کی حدیث عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کی ہے۔ جس دن ہر شخص کو عدل الٰہی کے مطابق اس کے کئے کا بدلہ چکا دیا جائے گا، اس دن کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ صحیح مسلم میں ابو ذرغفاری (رض) سے حدیث قدسی مروی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اس دن کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ صحیح مسلم میں ابو ذر غفاری (رض) سے حدیث قدسی مروی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے میرے بندو ! میں نے اپنے آپ پر ظلم حرام کردیا ہے اور اسے تمہارے درمیان بھی حرام کردیا ہے اس لئے ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ بڑا تیز حساب لینے والا ہے۔ سورۃ لقمان آیت (٢٨) میں آیا ہے : (ماخلقکم ولا بعثکم الا کنفس واحدۃ) ” تم سب کی پیدائش اور مرنے کے بعد جلانا ایسا ہی ہے جیسے ایک جان کا“ غافر
15 غافر
16 غافر
17 غافر
18 (١٠) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ اپنی قوم کو قیامت کے دن سے ڈرائیے، جو بہت ہی قریب ہوچکا ہے، تاکہ شرک و معاصی کا ارتکاب کر کے اس دن کے عذاب کے مستحق نہ بن جائیں اس دن لوگوں کے دلوں پر ایسا خوف و رعب طاری ہوگا کہ دل اپنی جگہ چھوڑ کر حلق تک پہنچ جائیں گے۔ نہ نکل پائیں گے اور نہ ہی اپنی اصلی جگہ لوٹ سکیں گے اور دنیا میں اپنے برے کرتوتوں کی وجہ سے غم سے نڈھال ہوں گے ان پر مکمل سکوت طاری ہوگا، شرک و معاصی کا ارتکاب کرنے والوں کا اس دن نہ کوئی رشتہ دار ہوگا اور نہ کوئی مونس و غم و خوار اور نہ کوئی سفارشی ہوگا، انتہائی مایوسی کا عالم ہوگا۔ العیاذ باللہ غافر
19 (١١) اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس کا علم تمام چیزوں کو محیط ہے، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ہے، وہ آنکھوں کی خیانتوں اور دلوں کے بھیدوں کو جانتا ہے، تاکہ لوگ اس کی نافرمانی سے ڈریں، اور تقویٰ اور عمل صالح کی راہ اختیار کریں۔ ” خیانت نظر“ کی تشریح ابن عباس (رض) نے یہ کی ہے کہ آدمی کسی کے گھر میں جائے، وہاں کوئی خوبصورت عورت ہو جسے لوگوں سے نظر بچا کر دیکھنے کی کوشش کرے اور جب لوگوں کو اپنی طرف متوجہ پائے، تو نظر نیچی کرلے، لیکن اللہ نے اس کے دلکا حال جان لیا، اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کاش وہ اس عورت کی شرمگاہ کو بھی دیکھ لیتا !! اللہ نے اپنے بارے میں یہ بھی خبر دی کہ اس کا فیصلہ نہایت عادلانہ ہوتا ہے، اس لئے کہ وہ اچھائی کا بدلہ اچھے انجام کے ذریعہ اور برائی کا بدلہ برے انجام کے ذریعہ دینے پر پوری قدرت رکھتا ہے، اس کے برخلاف وہ معبود ان باطل جنیں مشرکین پکارتے ہیں کسی فیصلے کی قدرت نہیں رکھتے، اس لئے کہ وہ نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں اور اللہ تو ہر بات کو سننے والا اور ہر چیز کو دیکھنے والا ہے، اس لئے وہ بندوں کے درمیان عادلانہ فیصلے کی مکمل قدرت رکھتا ہے۔ غافر
20 غافر
21 (١٢) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی رسالت کی تکذیب کرنے والوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ لوگ اللہ کی زمین میں گھوم کر ان قوموں کا انجام کیوں نہیں دیکھتے جنہوں نے اللہ کے رسولوں کی تکذیب کی، تو اللہ نے انہیں عذاب کے ذریعہ ہلاک کردیا، حالانکہ وہ لوگ کفار قریش سے زیادہ طاقت ور تھے، انہوں نے زمین کو آباد کرنے کے لئے بڑی بڑی عمارتیں بنائی تھیں اور دنیاوی اعتبار سے خوب کامیاب تھے، لیکن جب اللہ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کا مواخذہ کیا، تو انہیں کوئی بچا نہ سکا، ان کا یہ انجام اس لئے ہوا کہ ان کے پاس انبیائے کرام توحید و رسالت کے اثبات میں بڑی واضح نشانیاں اور صریح دلائل لے کر آئے، لیکن انہوں نے انکار کردیا تو اللہ نے انہیں پکڑ لیا اور ہلاک کردیا، اس ذات برحق کا مقابلہ کون کرسکتا ہے، وہ تو بہت زبردست قوت والا اور بڑا سخت عذاب دینے والا ہے۔ غافر
22 غافر
23 (١٣) قرآن کریم اپنے معہود طریقہ کے مطابق نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کر رہا ہے اور یہ بتا رہا ہے کہ بہرحال دنیا اور آخرت میں اچھا انجام اور کامیابی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہی حاصل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ہمارے نبی ! ہم نے آپ سے پہلے موسیٰ کو اپنی نشانیاں، دلائل اور ایک بہت ہی کھلا برہان دے کر فرعون، ہامان اور قارون کے پاس بھیجا تھا۔ فرعون ملک مصر میں قبطیوں کا بادشاہ تھا، ہامان اس کا وزیر تھا اور قارون بنی اسرائیل کا ایک فردت ھا اور اپنے دور کا بہت ہی بڑا مالدار تھا۔ دولت و حشمت نے اسے کبر و غرور میں مبتلا کردیا تھا اور فرعون کے ساتھ جا ملا تھا۔ آیت میں (سلطان مبین) سے مراد تو رات ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جب ان کے سامنے اپنے رب کی دعوت توحید پیش کی اور عصائے موسیٰ، ید بیضاء اور دیگر معجزات پیش کئے جو ان کے رسول ہونے پر پوری صراحت کے ساتھ دلالت کرتے تھے اور فرعونیوں سے کچھ نہ بن پڑا، تو کہنے لگے کہ یہ تو کوئی بڑا جھوٹا اور جادوگر ہے اور آپس میں سازش کی کہ جو لوگ موسیٰ پر ایمان لائے ہیں ان کے بیٹوں کو قتل کردیا جائے اور ان کی عورتوں کو خدمت کے لئے زندہ رکھا جائے اور اس سے مقصود بنی اسرائیل کی اہانت، ان کی تعداد کم کرنا اور ان کے دلوں میں یہ بات بٹھانی تھی کہ موسیٰ ہی ان کی بربادی اور ہلاکت کا سبب ہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ فرعون کا بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے کا یہ دوسرا آرڈر تھا۔ پہلی بار موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت سے قبل تھا، اس کے بعد اس نے قتل کرنا بند کردیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کافروں کی سازش دھری کی دھری رہ گئی، دین موسوی پھیلتا گیا، بنی اسرائیل کی نسل میں افزائش ہوتی رہی اور بالاخر فرعون اور فرعونی اپنے آخری انجام کو پہنچ گئے۔ غافر
24 غافر
25 غافر
26 (١٤) فرعون نامراد جب اللہ کے معجزوں کے مقابلے میں پے در پے شکست کھاتا گیا تو اپنی قوم کے سامنے، اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرنے کیلئے کہنے لگا کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ میں موسیٰ کو موت کے گھاٹ اتار دوں اور کبر و تعلی کی آخری حدوں کو چھوتے ہوئے کہنے لگا کہ مجھے اس کے رب کی پرواہ نہیں ہے، اسے وہ اپنی مدد کے لئے بلا لے اور اپنے فیصلے کی تائید میں یہ دلیل پیش کی کہ اے میری قوم کے لوگو ! مجھے ڈر ہے کہ وہ اپنی ساحرانہ چالوں کے ذریعہ تمہارے دل و دماغ پر نہ چھا جائے اور تم لوگ اس سے متاثر ہو کر اس کا دین و مذہب قبول کرلو، اور تمہارے عادات و اطوار بدل جائیں، اور زمین فساد سے بھر جائے۔ غافر
27 (١٥) موسیٰ (علیہ السلام) کو جب اس کی دھمکی کی خبر ہوئی تو اللہ کے ذریعہ اس کے شر سے پناہ مانگی اور کہا کہ میں ہر اس متکبر سے جو یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہش نفس کی پیروی کرتا ہے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، وہی اپنے دین کا محافظ اور اپنے مومن بندوں کا حامی و ناصر ہے اور ظاہر ہے کہ فرعون اس عموم میں بدرجہ اولیٰ داخل تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کے شر سے محفوظ رکھا۔ غافر
28 (١٦) قرآن کریم کے ظاہری بیان کے مطابق آل فرعون کا ایک آدمی خفیہ طور پر موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت پر ایمان رکھتا تھا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ وہ فرعون کا چچا زاد بھائی تھا اور اس کا نام شمعان تھا۔ جب اس نے فرعون کی بات سنی کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی بات کر رہا ہے تو اس نے جرأت کر کے کہا کہ تم لوگ ایک آدمی کو صرف اس لئے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ صرف اللہ کے رب ہونے کا قائل ہے، حالانکہ وہ اپنے اور اپنے عقیدہ کی صداقت پر تمہارے سامنے ایسے دلائل پیش کرچکا ہے جن کی تم تردید نہیں کرسکے ہو۔ مرد مومن نے اس کے بعد اپنے لہجے میں تھوڑی نرمی پیدا کرتے ہوئے کہا اگر ہم مان لیں کہ وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا نقصان اسے ہی پہنچے گا اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت دونوں جگہ اس کے جھوٹ کی اسے سزا دے گا اور اگر وہ سچا ہے اور تم اسے تکلیف دو گے تو جس دنیاوی اور اخروی عذاب کی وہ دھمکی دیتا ہے اس کی گرفت میں آجاؤ گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کبھی بھی اس آدمی کو کامیاب نہیں کرتا جو حد سے تجاوز کرنے والا اور جھوٹا ہوتا ہے۔ غافر
29 (١٧) مرد مومن نے جب دیکھا کہ اس کی بات نے فرعون اور فرعونیوں پر کچھ مثبت اثر ڈالا ہے، تو موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں نصیحت کی اور کہ ااے میری قوم کے لوگو ! آج تم لوگ ملک مصر کے بادشاہ ہو اور تمہیں غلبہ حاصل ہے، تو اللہ کا شکر ادا کرو اور عذاب الٰہی کو دعوت نہ دو، اس لئے کہ اگر عذاب آجائے گا تو ہمیں اور تمہیں کوئی اس سے بچا نہ سکے گا۔ فرعون نے جب اس مرد مومن کی یہ بات سنی تو اپنی قوم کو دھوکہ دینے کے لئے اور انہیں یہ باور کرانے کے لئے کہ وہ ان کے لئے بڑا مخلص ہے، کہنے لگا کہ جو رائے مجھے تمہارے حق میں بہتر معلوم ہوئی ہے، یعنی موسیٰ کا قتل کیا جانا، وہی میں نے تمہارے سامنے پیش کی ہے اور میں نے تمہاری صحیح رہنمائی کرنی چاہی ہے تاکہ موسیٰ زندہ رہ کر تمہاا دین نہ بدل دے اور سر زمین مصر میں خلفشار کا سبب نہ بنے۔ غافر
30 (18) مرد مومن نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا، اے میری قوم کے لوگو ! اگر تم نے موسیٰ کو قتل کردیا تو مجھے ڈر ہے کہ تم پر بھی اللہ کا کوئی عذاب نازل ہوجائے گا جو تمہیں ہلاک کر دے گا، جیسے گزشتہ زمانوں میں ان قوموں کا انجام ہوا جنہوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی تھی۔ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود اور ان کے بعد آنے والی دیگر قوموں نے تمہاری ہی طرح کا رویہ اختیار کیا تو اللہ نے ان کے گناہوں کے سبب انہیں ہلاک کردیا۔ اے میری قوم کے لوگو ! میں تمہارے بارے میں قیامت کے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ آیت میں روز قیامت کو (یوم التناد) اس لئے کہا گیا کہ اس دن تمام قومیں اپنے اپنے اعمال کے ساتھ پکاری جائیں گی اور اہل جنت جنت والوں کو پکاریں گے اور اہل جہنم جہنمیوں کو بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ جب زمین پھٹ پڑے گی اور قیامت کا ہنگامہ برپا ہوجائے گا تو سارے لوگ ایک دوسرے کو پکارتے ہوئے ادھر ادھر بھاگنے لگیں گے، اسی لئے اس دن کو (یوم التناد) کہا گیا ہے، یعنی جس دن ایک دوسرے کو پکاریں گے۔ مفسر بغوی وغیرہ کا خیال ہے کہ مذکورہ بالا تمام ہی حالات پیش آئیں گے اور ان سب کی وجہ سے اس دن کو (یوم التناد) کہا گیا ہے۔ مرد مومن نے کہا : میں تمہارے بارے میں اس دن سے ڈرتا ہوں جس دن تم حساب کے بعد از خرد میدان محشر سے جہنم کی طرف بھاگ رہے ہو گے اس دن تمہیں عذاب الٰہی سے کوئی نہیں بچا سکے گا اور جسے اللہ گمراہ کر دے اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ غافر
31 غافر
32 غافر
33 غافر
34 19 مرد مومن نے اپنی دعوتی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا : اے اہل مصر ! موسیٰ سے پہلے تمہارے پاس یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (علیہم السلام) معجزات اور اپنی صداقت کی کھلی نشانیاں لے کر آئیت ھے اور بیس سال تک تمہیں ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے رہے اور خود ان کا اعلیٰ ترین کریکٹر ان کی پاک باطنی اور ان کے نبی ہونے کی گواہی دیتا رہا، لیکن تم لوگ ان کے لائے ہوئے دین توحید میں شک ہی کرتے رہے اور جب ان کی وفات ہوگئی تو تم بہت خوش ہوئے اور اپنے کفر کی وجہ سے کہنے لگے کہ اب یوسف کے بعد کوئی رسول نہیں آئے گا، یعنی تم نے یوسف اور ان کے بعد آنے والے تمام انبیاء کا انکار کردیا، یہ تمہاری ضلالت و گمراہی کی انتہا تھی۔ اللہ تعالیٰ افترا پردازی میں حد سے تجاوز کرنے والے اور ہر بات میں شک کرنے والے کو اسی طرح گمراہ کردیتا ہے غافر
35 (٢٠) مرد مومن نے اپنی تقریر ختم کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ حق کی آواز کو دبانے کے لئے شیطانی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں، اور اللہ کی جانب سے بغیر کسی حجت و برہان کے اس کی آیتوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں تاکہ لوگ ایمان نہ لائیں ان کا یہ کردار اللہ اور اس کے مومن بندوں کی نظر میں بہت ہی زیادہ مبغوض ہے اور ایسے لوگوں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ مہر لگا دیتا ہے، ان سے نور بصیرت چھین لیتا ہے، پھر وہ حق و باطل کی تمیز سے محروم ہوجاتے ہیں۔ غافر
36 (٢١) فرعون پر مرد مومن کی تقریر دل پذیر کا کوئی اثر نہ ہوا اور اپنے طبعی استکبار کا اظہار کرتے ہوئے ہامان سے کہنے لگا کہ میرے لئے ایک نہایت بلند و بالا عمارت بناؤ جس کے ذریعہ میں آسمان کے راستے طے کروں اور موسیٰ کے معبود کو دیکھوں، حالانکہ میں تو موسیٰ کو جھوٹا ہی سمجھتا ہوں کہ میرے سوا اس کا کوئی دوسرا معبود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کفر و استکبار میں حد سے تجاوز کر جانے کی وجہ سے فرعون کے دل پر مہر لگا دی گئی اور اس کی بد اعمالیوں اور کفر کو اس کی نگاہوں میں خوبصورت بنا دیا گیا، اور راہ حق کی اتباع کرنے سے روک دیا گیا اور اس کی سازش اور اسکی چال اس کے کسی کام نہ آئی۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ فرعون کی بات دلالت کرتی ہے کہ وہ بہت بڑا جاہل اور کم فہم انسان تھا اور حقائق کے ادراک سے بالکل قاصر تھا، جبھی تو اس نے ہامان سے ایسی حماقت آمیز بات کہی تھی۔ غافر
37 غافر
38 (٢٢) مرد مومن نے دعوت و تبلیغ کے لئے اپنی کوشش جاری رکھتے ہوئے کہا : اے میری قوم کے لوگو ! میں نے جس دین کو قبول کرلیا ہے اسے تم لوگ بھی قبول کرلو، میں تمہیں اس راہ پر لے چلوں گا جو جنت کی راہ ہے۔ اے میری قوم کے لوگو ! یہ دنیاوی زندگی چند روزہ ہے، جسے بہرحال ختم ہوجانا ہے، اور آخرت کی زندگی جو اس زندگی کے بعد آنے والی ہے، وہی درحقیقت ابدی امن و استقرار اور سکون و راحت کی زندگی ہے، اس لئے تمہیں اس ابدی راحت و سکون والی زندگی کو کامیاب بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اور یاد رکھو کہ حساب کا دن بہت ہی قریب ہے اور جو شخص اس دنیا میں برائی کرے گا تو اسی کے برابر اسے سزا ملے گی اور جو لوگ (مرد ہوں یا عورتیں) اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہوئے عمل صالح کریں گے، وہ جنت میں داخل ہوں گے جہاں انہیں بغیر ادنیٰ پریشانی کے ان گنت نعمتیں اور بے شمار روزی ملے گی۔ غافر
39 غافر
40 غافر
41 (٢٣) مرد مومن نے فرعونیوں سے یہ بھی کہا : اے میری قوم کے لوگو ! میں تو تمہیں راہ نجات پر چلنے کی دعوت دیتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور موسیٰ اس کے رسول ہیں اور تم لوگ مجھے کفر و شرک کی دعوت دیتے ہو اور اللہ کے ساتھ ایسے جھوٹے معبودوں کو شریک بنانے کو کہتے ہو جن کے معبود ہونے کا مجھے علم نہیں ہے اور میں تمہیں اس اللہ کی طرف بلاتا ہوں جو زبردست ہے، اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا ہے اور جو بڑا معاف کرنے والا ہے۔ جن اصنام کی عبادت کی تم لوگ مجھے دعوت دیتے ہو، انہیں پکارنے کا نہ تو دنیا میں کوئی فائدہ ہے کہ وہ ہماری تکلیفوں اور مصیبتوں کو دور کردیں گے اور ہماری ضرورتیں پوری کردیں گے، اور نہ ہی آخرت میں ہمارے سفارشی بن کر عذاب کو ٹال سکیں گے کیونکہ وہ تو پتھر ہیں ایک دوسرا مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ دنیا اور آخرت کہیں بھی پکارے جانے کے حقدار نہیں ہیں، اس لئے کہ وہ مٹی اور پتھر کے بنے ہوئے ہیں۔ یاد رکھو کہ ہمیں بہرحال لوٹ کر اللہ کے پاس ہی جانا ہے، اور اس دنیا میں جو لوگ حد سے تجاوز کریں گے، اللہ کا انکار کریں گے، لوگوں پر ظلم کریں گے، بے گناہوں کا خون بہائیں گے، آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ مرد مومن کی اس بات میں اشارہ تھا کہ فرعون اور اس کے پیروکار کفر و ظلم میں حد سے تجاوزکر گئے ہیں اور نبی اسرائیل کے بیٹوں کو ناحق قتل کرتے ہیں، اور یہ کہ موسیٰ کے قتل کا ارادہ ظلم میں حد سے بڑھ جانا ہے، جس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ مرد مومن نے کہا : لوگو ! جب عذاب الٰہی تمہیں چاروں طرف سے گھیر لے گا اس وقت مجھے اور میری باتیں یاد کرو گے، اور میں اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کرتا ہوں وہ اپنے فرمانبردار اور نافرمان تمام بندوں سے خوب واقف ہے۔ وہ بہتر جانتا ہے کہ کون جزائے خیر کا مستحق ہے اور کون عذاب کا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ مرد مومن کی اس بات میں فرعونیوں کے لئے عذاب کی دھمکی تھی۔ اور یہ بات اس نے اس وقت کہی جب کافروں نے اسے قتل کرنا چاہا۔ مقاتل کہتے ہیں کہ وہ مرد مومن بھاگ کر پہاڑ کی طرف چلا گیا اور کفار اسے پکڑ نہیں پائے۔ غافر
42 غافر
43 غافر
44 غافر
45 ٢٤ اللہ تعالیٰ نے اس داعی الی اللہ کو پہلے تو فرعون اور فرعونیوں سے نجات دی اور جب فرعون اپنے لشکر کے ساتھ سمندر میں غرق ہوا تو اسے موسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر مومنین کے ساتھ ڈوبنے سے بچا لیا اور فرعون اور فرعونیوں کی بد ترین عذاب نے آ گھیرا، دنیا میں نہایت ذلت و رسوائی کے ساتھ سمندر میں ڈبو دیئے گئے اور قبر اور برزخ میں صبح و شام یعنی ہر وقت ان کی روحوں کو آگ کا عذاب دیا جاتا ہے اور جب قیامت آئے گی تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دے گا کہ فرعون اور فرعونیوں کو شدید ترین عذاب میں ڈال دو۔ سیوطی نے کرمانی کی کتاب ” العجائب“ کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ آیت عذاب قبر کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ اس لئے کہ آیت میں روحوں کو عذاب دیا جانا، روز قیامت کے عذاب سے پہلے بتایا گیا ہے۔ عذاب قبر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح احادیث سے بھی ثابت ہے۔ عائشہ (رض) کہتی ہیں، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آگاہ رہو ! تم لوگ قبروں میں آزمائشوں میں ڈالے جاؤ گے۔ (احمد و مسلم) اور بخاری نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” عذاب قبر حق ہے“ عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگتے تھے۔ غافر
46 غافر
47 (٢٥) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا ہے کہ وہ کیسا وقت ہوگا جب جہنمی جہنم میں آپس میں جھگڑیں گے اور دنیا میں ان میں سے جو لوگ کمزورت ھے اور طاقت و ثروت والے کافروں کے ڈر سے ان کے پیچھے پیچھے چلتے تھے، ان سے کہیں گے کہ دنیا میں تم نے ہمیں اپنی پیروی کرنے پر مجبور کر رکھا تھا اور تمہیں اپنی قیادت و سیادت پر بڑا ناز تھا تو کیا آج عذاب نار کو ہم سے ہلکا کرسکو گے، کیا آج کچھ بھی ہمارے کام آؤ گے؟ تو متکبرین دنیا جو جہنم کی کھائیوں میں جل رہے ہوں گے کہیں گے کہ تمہارے ساتھ ہم بھی جہنم میں ہیں، اگر آج ہم کچھ بھی کرسکتے تھے تو پہلے اپنے آپ کو بچاتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کردیا ہے، اہل جنت کو جنت میں داخل کردیا ہے اور اہل جہنم کو جہنم میں ڈال دیا ہے اب کسی کے لئے کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ غافر
48 غافر
49 (٢٦) جہنم میں عذاب پانے والے بڑے اور چھوٹے تمام کافر عذاب کی سختیوں سے تنگ آ کر اور ہر طرف سے ناامید ہو کر جہنم پر مامور فرشتوں سے ال تجا کریں گے کہ ذرا تم ہی اپنے رب سے ہم پر رحم کرنے کی دعا کرو کہ وہ ایک دن کے لئے بھی ہم سے عذاب کو ہلکا کر دے۔ تو وہ فرشتے جواب دیں گے کہ کیا تمہارے پاس تمہارے لئے بھیجے گئے انبیاء و دعوت ایمان لے کر نہیں آئیت ھے اور ظاہر دلائل کے ذریعہ اللہ کے دین کی صداقت کو ثابت نہیں کیا تھا اور تمہیں شرک و معاصی سے روکا نہیں تھا؟ تو جہنمی کہیں گے کہ ہاں ہمارے پاس انبیاء آئے تھے، لیکن ہم نے ان کی بات ان سنی کردی تھی۔ تو فرشتے کہیں گے کہ پھر تم خود ہی اپنے رب کو پکارو، ہم نہ تمہاری بات سنیں گے اور نہ ہی چاہیں گے کہ تمہیں جہنم سے نجات مل جائے اور ہم تمہیں یہ بھی بتا دینا چاہتے ہیں کہ تم پکارو یا نہ پکارو، نتیجہ ایک ہے کہ تم سے عذاب ہلکا نہیں کیا جائے گا اور تم اسی طرح جہنم میں جلتے رہو گے۔ غافر
50 غافر
51 (٢٧) اللہ تعالیٰ کی اپنے انبیائے کرام کے بارے میں یہ سنت رہی ہے کہ وہ ان کی اور ان کے ماننے والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں ضرور مدد کرتا ہے، ان کے دین کو غالب کرتا ہے اور ان کے مخالفین کو قتل، قید و بند اور دیگر عذاب دنیا سے دوچار کرتا ہے اور اس کا وعدہ ہے کہ قیامت کے دن انہیں ان کے اعمال صالحہ کا اچھا بدلہ دے گا، یعنی جنت میں داخل کرے گا اور گوناگوں انعام و اکرام سے نوازے گا اور ان کے مخالفین کو اپنی رحمت سے دور کر دے گا اور انہیں جہنم میں ڈال دے گا۔ یہ وہ دن ہوگا جب ظالم مشرکوں کی کوئی معذرت ان کے کام نہیں آئے گی۔ ابن جریر لکھتے ہیں کہ اس دن اہل شرک کو ان کی معذرت کام نہیں دے گی، اس لئے کہ ان کے پاس عذر لنگ کے سوا کچھ بھی نہ ہوگا، دنیا میں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں خوب موقع دیا تھا، ان کے سامنے دلیل و حجت کا انبار لگا دیا تھا، اس لئے آخرت میں ان کے پاس سوائے کذب بیانی کے کچھ بھی نہ ہوگا جیسے کہیں گے : (واللہ ربنا ماکنا مشرکین) ” ہم اپنے رب کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم شرک نہیں کرتے تھے۔“ چنانچہ وہاں ان کے لئے اللہ کی رحمت سے دوری اور بدترین عذاب کے سوا کچھ بھی نہ ہوگا۔ غافر
52 غافر
53 (٢٨) موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کر کے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک گونہ تسلی دی جا رہی ہے کہ موسیٰ نے بھی اپنی قوم کی طرف سے بڑی اذیت اٹھائی تھی بالاخر اللہ نے ان کے دین کو غالب کیا اور انہیں ان کے دشمنوں سے نجات دی، تو آپ بھی صبر کیجیے اور اپنے مشن کی تکمیل میں لگے رہئے اللہ کا وعدہ برحق ہے، وہ آپ کی ضرور مدد کرے گا اور آپ کا دین اور آپ غالب ہو کر رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے موسیٰ کو تورات و نبوت سے نوازا تھا، جیسا کہ سورۃ المائدہ آیت (٤٤) میں آیا ہے : (انا انزلنا التوراۃ فیھا ھدی و نور) ” بے شک ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور نور ہے، نیز فرمایا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو تورات کا وارث بنایا جو موسیٰ کے بعد بھی مدتوں ان کے پاس رہی، اور جو عقل سلیم رکھنے والوں کے لئے روشنی اور نصیحت فراہم کرتی رہی۔ اس لئے اے میرے نبی ! آپ بھی موسیٰ کی طرح صبر کیجیے، بے شک اللہ کا وعدہ برحق ہے، وہ آپ کو تنہا نہیں چھوڑ دے گا، ہر وقت اپنے رب کی یاد میں لگے رہئے اور استغفار، دعا، نماز اور تسبیح و تہلیل آپ کا شیوہ رہے۔ بعض لوگوں نے صبح و شام کی تسبیح سے فجر اور عصر کی نماز مراد لی ہے اور حسن اور قتادہ کا خیال ہے کہ ان سے مراد صبح اور شام کے وقت کی دو دو رکعتیں ہیں جو پنجگانہ نماز فرض ہونے سے پہلے پڑھی جاتی تھیں۔ غافر
54 غافر
55 غافر
56 (٢٩) اے میرے نبی ! جو کفار و مشرکین دین حق کو باطل دلیلوں کے ذریعہ دبانا چاہتے ہیں اور توحید و رسالت کے صحیح دلائل کی اپنے فاسد شبہات کے ذریعہ تردید کرنا چاہتے ہیں، درحقیقت ان کے دلوں میں کبر و غرور ہے جو انہیں دعوت حق کو قبول کنے اور آپ کی رسالت کا اعتراف کرنے سے روکے ہوئے ہے۔ انہیں یقین ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، لیکن اللہ کے اس فضل و کرم پر آپ سے حسد کرتے ہیں، حالانکہ وہ نعمت انہیں کسی حال میں بھی نہیں مل سکتی، اس لئے کہ وہ تو اللہ کا فضل ہے، وہ جسے چاہات ہے عطا کرتا ہے۔ نبوت و رسالت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو تمنا کرنے سے حاصل ہوجائے۔ ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ ان کے سینوں میں (بزعم خود) بڑائی ہے، جو انہیں کبھی حاصل نہ ہو سکتی ہے، کیونکہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ وہ انہیں ذلیل کر کے رہے گا۔ اس لئے اے میرے نبی ! آپ اپنے رب کے ذریعہ ان لوگوں کے شر سے پناہ مانگئے جو اللہ کی آیتوں کو جھٹلانے کے لئے بغیر دلیل جھگڑتے ہیں، اور یہ بھی دعا کیجیے کہ آپ کا دل اس کبر سے پاک رہے جس میں وہ لوگ مبتلا ہیں۔ غافر
57 (٣٠) بعث بعد الموت کا انکار کرنے والوں کی تردید کی جا رہی ہے کہ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا، انسانوں کو پہلی بار اور دوبارہ پیدا کرنے سے زیادہ بڑی بات ہے۔ تو جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کو بغیر سابق نمونہ اور بغیر موجود مادہ کے پیدا کیا، وہ یقیناً انسانوں کو دوسری بار پیدا کرنے پر قادر ہے۔ لیکن اکثر لوگ اس دلیل پر دھیان نہیں دیتے ہیں، جیسے بہت سے کفار عرب جو مانتے تھے کہ آسمانوں اور زمین کو اللہ نے پیدا کیا ہے اور انسانوں کو دوبارہ پیدا کئے جانے کے انکار کرتے تھے۔ غافر
58 (٣١) اللہ تعالیٰ نے ایمان و کفر اور مومن و کافر کا فرق بیان کرتے ہئے فرمایا کہ جس طرح بینا اور نابینا برابر نہیں ہو سکتے، دونوں کے درمیان بڑا فرق ہے، اسی طرح مومنین اور اہل کفر برابر نہیں ہو سکتے ہیں۔ مومن اپنے نور بصیرت کے ذریعہ اللہ کی نشانیوں اور دلائل میں غور کرتا ہے اور اللہ کی توحید و ربوبیت کا اقرار کرلیتا ہے اور اس پر ایمان لے آتا ہے اور کافر نور بصیرت سے محروم ہوتا ہے، اس لئے اس کے سامنے سے ہزار نشانیاں گذر جائیں، اور ہزار دلائل پیش کردیئے جائیں، ان سے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور دائرہ کفر سے باہر آنے کی اسے توفیق نہیں ہوتی۔ غافر
59 (٣٢) قیامت کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے، اس لئے لوگو ! دنیا میں اس یقین کے ساتھ زندگی گذارو کہ تم دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے، اور تمہارے اعمال خیر و شرکا تمہیں بدلہ چکایا جائے گا، لیکن اہل کفر اپنی کم عقلی، نادانی اور شومئی قسمت کی وجہ سے اس حقیقت کا ادراک نہیں کر پاتے ہیں۔ غافر
60 (٣٣) جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ ہی سارے جہان کا ” رب“ ہے، تو اس نے اپنے بندوں کو از راہ خیر خواہی اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی یہ تعلیم دی کہ میرے بندو ! تم سب صرف مجھے پکارو، میں ہی تمہاری پکار کا جواب دوں گا اور تمہاری دعائیں قبول کروں گا، اس لئے کہ تم سب میرے بندے ہو اور میں ہی تمہارا رب ہوں۔ مسند احمد میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو اللہ کو نہیں پکارتا، اللہ اس سے غضبناک ہوجاتا ہے“ ایک دوسری روایت ہے کہ ” جو اللہ سے نہیں مانگتا، اللہ اس سے ناراض ہوجاتا ہے۔ “ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد فرمایا کہ جول وگ کبر و غرور کی وجہ سے میری عبادت نہیں کرتے ہیں اور مجھے پکارتے نہیں ہیں، وہ نہایت ہی ذلت و رسوائی کے ساتھ جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے۔ یعنی ایسا صرف اہل کفر ہی کرسکتے ہیں، اہل ایمان تو اپنے اللہ کے سامنے گریہ وزاری کرتے ہیں اور دست سوال پھیلا کر اپنے گناہوں کی معافی اور دنیا و آخرت کی بھلائی مانگتے ہیں۔ غافر
61 (٣٤) اللہ تعالیٰ نی اپنی بعض مخلوقات اور ان میں اپنے تصرفات کا ذکر کر کے انسانوں کو دعوت فکر دی ہے کہ ان مخلوقات میں غور کر کے اسے پہنچانیں اس پر ایمان لائیں اور صرف اسی کی عبادت کریں اور اس کے ماسوا جھوٹے معبودوں کا انکار کردیں فرمایا کہ وہ اللہ ہے جس نے رات بنائی ہے، تاکہ تم طلب معاش کے لئے پیہم حرکت و عمل کو چھوڑ کر نیند کی گود میں چلے جاؤ، اور راحت و سکون حاصل کرو اور اس نے دن کو روشن بنایا ہے تاکہ تم چل پھر سکو اور طلب معاش اور زندگی کی دیگر ضروریات پوری کرنے کے لئے نقل و حرکت کرسکو اور اللہ کی نعمتیں بے شمار ہیں جن کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا ہے لیکن جاہ و نادان اور کافر کو ان نعمتوں کے اعتراف اور ان پر اللہ کا شکر بجا لانے کی توفیق نہیں ہوتی ہے۔ غافر
62 (٣٥) اللہ تعالیٰ نے اپنا مزید تعارف کراتے ہوئے فرمایا کہ جس اللہ نے رات اور دن بنائے ہیں وہی تمہارا رب ہے، وہی ہر چیز کا خلاق ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ پھر تم کیسے اسے چھوڑ کر اور اس سے منہ موڑ کر، بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہو اور ان کی عبادت کرتے ہو۔ آیت (٦٣) میں کفار قریش کو خطاب کر کے کہا گیا ہے کہ جس طرح تم لوگ دلائل و براہین کی کثرت کے باوجود ایمان باللہ اور اس کی وحدانیت کے اقرار سے منہ موڑ رہے ہو، ہر زمانے میں اللہ کی آیتوں کا انکار کرنے والوں کا یہی وتیرہ رہا ہے۔ غافر
63 غافر
64 (٣٦) اس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دعوت فکر دی ہے، تاکہ وہ اپنے خالق و رازق کو پہچانیں، اس پر ایمان لائیں اور صرف اسی کی عبادت کریں، اس لئے کہ دنیا و آخرت دونوں جہان میں انسانوں کی بھلائی اسی پر موقوف ہے، فرمایا کہ وہ اللہ ہے جس نے زمین کو ٹھہری ہوئی بنایا ہے، تاہ تم اس پر زندگی گذار سکو، چل پھر سکو، اور اپنی ضروریات زندگی پوری کرسکو اور جس نے آسمانوں کو مضبوط اور محکم بنایا ہے، جو نہ کبھی پھٹتا ہے اور نہ اس کا کوئی حصہ ٹوٹ کر انسانوں کے سروں پر گرتا ہے اور جس نے تمہیں تمہاری ماؤں کے بطن میں اچھی شکل و صورت میں بنایا، یعنی ہر عضو کو مناسب ترین جگہ پر رکھا تاکہ تم ان سے فائدہ اٹھا سکو اور اپنے خالق کے کمال قدرت اور کمال حکمت کا اعتراف کرسکو اور جس نے تمہیں لذیذ ترین کھانے اور پینے کی نعمتیں دیں تاکہ تم اس کا شکر بجا لاؤ۔ جس اللہ نے یہ سب کچھ پیدا کیا ہے، وہی تمہارا رب ہے، اس کے سوا کوئی بھی صفت ربوبیت کا سزا وار نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اس کے سوا ہر چیز فنا کے گھاٹ اتار دی جائے گی، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اس لئے لوگو ! صرف اسی کی عبادت کرو، طاعت و بندگی کو صرف اسی کے ساتھ خاص کر دو، عبادت میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ تمام تعریفیں اسی رب العالمین کے لئے ہیں جو تمام مخلوقات کا مالک ہے، ان بتوں کے لئے نہیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور نہ ہی کسی نفع یا نقصان کی قدرت رکھتے ہیں۔ غافر
65 غافر
66 (٣٧) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی قوم سے برملا کہہ دیں کہ میں ان بتوں کی عبادت اور انہیں پکارنے سے قطعی طور پر روک دیا گیا ہوں، جن کی تم لوگ عبادت کرتے ہو اور جنہیں پکارتے ہو، میرے پاس میرے رب کی جانب سے کھلے دلائل اور واضح براہین آگئے ہیں، عبادت کے لائق صرف اسی کی ذات ہے، اور غیروں کی پرستش باطل اور شرک اکبر ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ اپنی گردن رب العالمین کے سامنے جھکائے رکھوں، اسی کے اوامرونواہی کے اتباع کروں اور اپنا ہر معاملہ اسی کے سپرد کر دوں۔ غافر
67 (٣٨) اے انسانو ! وہی ذات برحق جس کی صفات و کمالات کا اوپر ذکر آیا ہے، اسی خالق و مالک کل نے تم سب کو پہلے مٹی سے پیدا کیا (یعنی تمہاری اصل مٹی ہے، یا یہ کہ تمہارے باپ آدم کو مٹی سے پیدا کیا) پھر تمہارے باپ کے نطفہ حقیر کو رحم مادر تک پہنچایا، پھر اسے منجمد خون بنایا، پھر بچہ کی شکل میں تمہیں تمہاری ماں کے بطن سے باہر نکالا، یعنی مختلف اطوار سے گذار کرت مہیں ایک ننھے منے بچے کی شکل میں دنیا میں بھیجا، پھر تمہاری پرورش کی، یہاں تک کہ تم بھرپور جوان بن گئے اور پھر مرور ایام و سال کے ساتھ تم بوڑھے ہوجاتے ہو اور تم میں سے بعض رحم مادر سے مردہ ساقط ہوجاتا ہے اور کوئی کمسنی ہی میں وفات پا جاتا ہے، اور کوئی عہد جوانی میں اور کوئی عہد پیری سے قبل اے انسانو ! تمہیں ان سارے اطوار سے اللہ وحدہ لا شریک کے سوا کون گذارتا ہے، تمہیں ان باتوں پر غور و فکر کرنا چاہئے تاکہ تم رب العالمین کی قدرت و عظمت کا اعتراف کرسکو، اور بعث بعد الموت پر تمہارا ایمان و یقین پختہ ہوجائے۔ اے لوگو ! وہی معبود برحق حقیر قطرہ منی کو زندگی دیتا ہے اور وہی انسانوں کو عمریں پوری ہوجانے کے بعد، انہیں موت دیتا ہے، اسے کبھی بھی موت لاحق نہیں ہوگی اور اس کے سوا تمام جن و انس مر جائیں گے اور وہ معبود برحق جب کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو کلمہ ” کن“ کے ذریعہ اسے وجود میں لے آتا ہے، محال ہے کہ وہ چاہے اور کوئی چیز وجود میں نہ آئے۔ غافر
68 غافر
69 (٣٩) یہاں سے ان مشرکین کے حالات پر روشنی ڈالی جا رہی ہے جو اپنے جھوٹے اور باطل دلائل کے ذریعہ قرآن کریم کی آیات کی تردید کرتے تھے اور ان میں شکوک و شبہات پیدا کرتے تھے، اس جرم عظیم کی ایک فوری سزا انہیں یہ دی گئی کہ ظاہر و صریح دلائل کے باوجود قول حق کی توفیق ان سے چھین لی گئی، اور قیامت کے دن ان کی گردنوں میں آگ کا طوق اور ان کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دی جائیں گی اور انہیں شدید ترین کھولتے ہوئے پانی میں گھسیٹا جائے گا اور ان کے جسموں میں آگ لگا دی جائے گی جیسے لکڑی میں آگ لگا دی جاتی ہے اور پھر ان سے اجر و توبیخ کے طور پر کہا جائے گا کہ کہاں ہیں وہ شرکاء جن کی تم اللہ کے بجائے عبادت کرتے تھے؟ تو وہ جاب دیں گے کہ وہ تو آج ہم سے غائب ہوگئے ہیں، کہیں بھی نظر نہیں آرہے ہیں۔ ایک دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ تو ہمارے کسی کام کے نہیں رہے، ان سے ہماری مصیبتوں کا کوئی مداوا نہیں ہوسکا۔ پھر شدت حیرت و اضطراب میں اپنا عقلی توازن کھو بیٹھیں گے اور کہنے لگیں گے کہ ہم نے تو دنیا میں کسی کی عبادت نہیں کی تھی۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اہل کفر کو اسی طرح اپنے آپ سے اور اپنی رحمت سے دور کردیتا ہے اور ایمان و یقین کے لئے مہلک بیماری شرک میں مبتلا کردیتا ہے جو اسے جہنم رسید کردیتا ہے۔ غافر
70 غافر
71 غافر
72 غافر
73 غافر
74 غافر
75 (٤٠) فرشتے عذاب نار اور اللہ کی رحمت سے دوری کا سبب بیان کرتے ہوئے کہیں گے کہ تمہارا یہ انجام اس لئے ہوا ہے کہ تم اللہ کی نافرمانی اور اس کے رسول اور اس کی کتاب کی مخالفت کر کے خوب خوش ہوتے تھے اور مارے خوشی کے آپے سے باہر نکلے جاتے تھے، تو آج تم جہنم کے دروازوں سے گذر کر اس کی آخری کھائی میں پہنچ جاؤ، جو ایمان باللہ اور توحید باری تعالیٰ کا انکار کرنے والوں کا بدترین ٹھکانا ہے۔ غافر
76 غافر
77 (٤١) مکی زندگی میں صحابہ کرام کفار قریش کی ایذا رسانیوں سے تنگ آ کر دل میں سوچتے اور کبھی زبان پر یہ بات لاتے کہ نہ معلوم اللہ کی مدد کب آئے گی، تو اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے کہ کفار کے مقابلے میں وہ آپ کی مدد ضرور کرے گا اور کافروں کے علی الرغم دین اسلام کو غالب کر کے رہے گا یا تو آپ کی زندگی میں ہی حسب وعدہ کوئی دنیاوی عذاب ان پر نازل ہوگا اور اگر اس سے پہلے ہی آپ وفات پا گئے تو انہیں ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے، اس وقت ہم انہیں جہنم کے درد ناک عذاب میں مبتلا کریں گے اور آپ کو عزت و اکرام کے گھر یعنی جنت میں اعلیٰ مقام عطا کریں گے اور مومنوں کو بھی ان کے اعمال کے مطابق درجات دیں گے۔ غافر
78 (٤٢) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مزید تسلی دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے آپ سے پہلے بہت سے انبیاء مبعوث کئے، ان میں سے بعض کے واقعات ہم نے قرآن کریم میں آپ کے لئے بیان کردیئے ہیں اور بعض کے بارے میں ہم نے آپ کو کچھ بھی نہیں بتایا ہے حا فظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جن کے نام نہیں بتائے گئے ہیں، ان کی تعداد ان انبیاء سے کئی گنا زیادہ ہے جن کے نام قرآن میں ذکر کئے گئے ہیں۔ قرآن میں صرف پچیس ہی انبیاء کے نام آئے ہیں۔ ان رسولوں کو یہ اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ اپنی قوموں کے مطالبے اپنی مرضی سے معجزات پیش کرتے، انہیں جب اللہ کا حکم ہوتا تھا جبھی اللہ کی قدرت سے کسی معجزے کا اظہار کرتے تھے اور جب کسی کا فرو سرکش قوم کی ہلاکت کا اللہ تعالیٰ فیصلہ کردیتا تھا، تو وہ اپنے رسول اور اس کے پیروکار مومنوں کو بچا لیتا تھا اور اپنی کتاب اور اپنے رسول کی تکذیب کرنے والے مشرکوں کو ہلاک کردیتا تھا۔ غافر
79 (٤٣) آیات (٦١، ٦٢، ٦٣، ٦٤) کی طرح یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے اپنی بعض نعمتوں کا ذکر کر کے انہیں دعوت فکر و نظر دی ہے، تاکہ وہ اپنے خلاق و رازق کو پہچانیں، اس پر ایمان لائیں اور صرفا سی کی عبادت کریں، فرمایا کہ اللہ نے ہی تمہارے لئے چوپائے پیدا کئے ہیں، جن میں بعض پر تم سوار ہوتے ہو، یعنی اونٹ اور بعض کے گوشت کھاتے ہوجیسے گائے، بکری اور بھیڑ، اور ان میں دوسرے فوائد و منافع بھی ہیں، ینی ان سے اون، بال اور چمڑا حاصل کرتے ہو اونٹ میں ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ ان پر اپنا سامان تجارت لاد کر ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے ہو اور اس کے ذریعہ اپنا بری راستہ طے کرتے ہو اور کشتی کے ذریعہ بحری راستہ یہ سب اللہ کی نوع بہ نوع نشانیاں ہیں جو اس کے کمال قدرت اور بندوں کے لئے اس کی عظیم رحمت پر دلالت کرتی ہیں۔ غافر
80 غافر
81 غافر
82 (٤٤) کفار قریش کو کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکالنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی بہت ساری سورتوں میں گزشتہ زمانوں کی کافر اقوام کے انجام بد بیان کئے ہیں، تاکہ ان سے عبرت حاصل کریں اور اپنے کفر و شرک سے تائب ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں، فرمایا کہ وہ قومیں کفار قریش سے تعداد میں زیادہ تھیں، جسمانی اعتبار سے ان سے زیادہ قوی، اور مالی اعتبار سے ان سے بہت اچھی حالت میں تھیں، انہوں نے اپنے شہروں میں بلڈنگیں بنائیں، فیکٹریاں قائم کیں اور زراعتی میدان میں خوب ترقی کی، لیکن جب اللہ کا عذاب آیاتو اسے کوئی نہ ٹال سکا، اس لئے جب اللہ کے انبیاء ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تو انہوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور بزعم خود اپنے علم اور اپنی سمجھ کو انبیاء پر نازل شدہ وحی سماوی پر ترجیح دی، مجاہد کہتے ہی، انہوں نے کہا کہ ہم ان نبوت کا دعویٰ کرنے والوں سے زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ نہ ہم دوبارہ پیدا کئے جائیں گے اور نہ ہمیں عذاب دیا جائے گا۔ اور جب عذاب الٰہی نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا اور بچ نکلنے کی کوئی صورت باقین ہیں رہی، تو اپنی توبہ کا اعلان کرنے لگے، اور کہنے لگے کہ ہم ایک اللہ پر ایمان لے آئے اور ان تمام طاغوتی طاقتوں کا انکار کرتے ہیں جنہیں ہم اللہ کا شریک ٹھہراتے تھے، لیکن وہ توبہ ان کے کام نہ آئی اور وہ ایمان انہیں اللہ کے عذاب سے بچا نہ سکا، جیسا کہ فرعون کے ساتھ ہوا کہ جب اس نے موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو پکار اٹھا کہ میں ایمان لے آیا کہ اس اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل کے لوگ ایمان لے آئے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کی توبہ قبول نہیں کی اور کہا کہ اب کوئی فائدہ نہیں ہوگا، کیونکہ تم اب تک نافرمان رہے ہو اور زمین میں فساد پھیلاتے رہے ہو۔ اسی لئے آیت (٨٥) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر اس قوم کے بارے میں اللہ کا یہی فیصلہ رہا ہے جس نے عذاب دیکھ کر توبہ کی، یعنی اس کی توبہ قبول نہیں کی گئی اور اسے ہلاک کردیا گیا۔ غافر
83 غافر
84 غافر
85 غافر
0 سورۃ حم ٓ السجدہ مکی ہے، اس میں چون آیتیں، اور چھ رکوع ہیں تفسیر سورۃ حم السجدہ نام : اس کا نام حروف مقطعہ ” حم“ اور آیت (٣٨) سے ماخوذ ہے، جس کی تلاوت کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خانہ کعبہ میں عتبہ بن ربیعہ کی موجودگی میں سجدہ کیا تھا۔ زمانہ نزول : قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ سورت تمام مفسرین کے نزدیک مکی ہے، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابو یعلی، حاکم، ابن مردویہ، ابو نعیم، بیہقی اور ابن عساکر سب نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے اور حاکم و ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے کہ ایک دن قریش کے لوگ جمع ہوئے اور آپس میں راے کی کہ ان میں جو شخص جادو، کہانت اور شعر سب سے زیادہ جانتا ہے، اسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا جائے جس نے ہمارے درمیان تفریق پیدا کردی ہے اور ہمارے دین کی عیب جؤی کی ہے، تاکہ اس سے بات کرے اور دیکھے کہ وہ کیا جواب دیتا ہے سب کی رائے ہوئی کہ اس کام کے لئے سب سے مناسب آدمی عتبہ بن ربیعہ ہے، چنانچہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا اور کہا کہ تم بہتر ہو یا عبداللہ (تمہارے باپ) تم بہتر ہو یا عبدالمطلب (تمہارے دادا) اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ لوگ بہتر تھے تو وہ انہی معبودوں کی پرستش کرتے تھے جن کی تم نے عیب جوئی کی ہے اور اگر تم سمجھتے ہو کہ تم بہتر ہو تو بات کرو تاکہ ہم سنیں۔ اللہ کی قسم ! تم سے زیادہ ہم نے کسی کو اپنی قوم کے لئے نقصان دہ نہیں پ ایا، تم نے ہمارے درمیان تفریق پیدا کردی، ہمارے دین میں عیب نکلا اور تمام عربوں میں ہماری بے عزتی کرائی، تمام عربوں میں مشہور ہوگیا کہ قریش میں ایک جادوگر ہے، قریش میں ایک کاہن ہے، اللہ کی قسم ! اب تم اسی کا انتظار کر رہے ہو کہ ہم ایک دوسرے کے خلافتلواریں لے کر تن جائیں۔ اگر تم مال چاہتے ہو تو بتاؤ، ہم لوگ تمہارے لئے اتنا مال اکٹھا کردیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مالدار بن جاؤ اور اگر شادی کرنا چاہتے ہو، تو قریش کی جن عورتوں کو چاہو پسند کرلو، ہم تمہاری دس شادیاں کرا دیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا، کیا تمہاری بات پوری ہوگئی؟ اس نے کہا ہاں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کہا اور حم کی تلاوت شروع کردی اور جب (فان اعرضوا فقل انذرتکم صاعقہ مثل صاعقۃ عادو ثمود) تک پہنچے، تو عتبہ نے کہا، بس کرو، کیا تمہارے پاس اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے؟ آپ نے جواب دیا : نہیں تو وہ اٹھ کر قریش والوں کے پاس گیا اور کہا کہ میں نے ایک ایسا کلام سنا ہے جیسا میرے کانوں نے کبھی نہیں سنا تھا اور مجھ سے اس کا کوئی جواب نہیں بن پڑا ہے۔ محمد بن اسحاق نے اپنی کتاب ” السیرۃ“ میں اس واقعہ کی جو تفصیل بیان کی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سورت حمزہ بن عبدالمطلب کے اسلام لانے کے بعد نازل ہوئیتھی جب لوگ تیزی سے اسلام میں داخل ہونے لگے تھے۔ (دیکھیے تفسیر ابن کثیر : حمد السجدہ) فصلت
1 (١) حم حروف مقطعہ ہیں، اور اللہ کو ہی معلوم ہے کہ ان سے مراد کیا ہے۔ تفسیر سورۃ المؤمن کے آغاز کے آغاز میں حروف مقطعہ کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے اسے دیکھ لیجیے۔ فصلت
2 (٢) امام صدیق حسن لکھتے ہیں کہ مخلوق کی مثال مریضوں اور محتاجوں کی ہے اور قرآن کریم میں مریضوں کے لئے ہر دوائے شافی ہے، اور صحت مند محتاجوں کے لئے ہر غذائے نافع ہے۔ گویا قرآن کریم انسانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کا عظیم ترین عطیہ ہے جو باری تعالیٰ کی رحمت اور اس کے لطف و کرم کا مظہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانبیاء آیت (١٠٧) میں فرمایا ہے : (وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین) ” ہم نے آپ کو تمام دنیا والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ “ فصلت
3 (٣) قرآن کریم وہ عظیم کتاب ہے جس کی آیتیں الفاظ و معانی کے اعتبار سے واضح اور صریح ہیں، ان میں کوئی غموض اور الجھاؤ نہیں ہے اور ان میں تمام چیزوں کی ایسی تفصیلات ہیں جو دنیا کی کسی دوسری کتاب میں موجود نہیں ہیں۔ (فتح البیان) قتادہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیتوں میں حلال و حرام اور طاعت و نافرمانی کی تمام تفصیلات بیان کردی گئی ہیں حسن بصری کے نزدیک وعدہ و وعید کی اور سفیان ثوری کے نزدیک جزا و سزا کی تفصیلات بیان کردی گئی ہیں۔ شوکافی کہتے ہیں : کوئی مانع نہیں کہ یہ تمام باتیں مراد لی جائیں۔ اور یہ آیتیں اس قرآن کریم کی ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے عربی زبان میں اہل علم اور اہل نظر عربوں کے لئے نازل کیا ہے، تاکہ اسے بغیر ترجمہ کے سمجھیں اور ایمانل ائیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے جسے اس نے بذریعہ وحی اپنے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمایا ہے۔ فصلت
4 (٤) اور یہ قرآن کریم اس میں غور و فکر کرنے والوں اور اس میں مذکور اوامرونواہی پر عمل کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری دیتا ہے اور جو لوگ اس سے منہ موڑتے ہیں، انہیں نار جہنم میں ہمیشہ جلتے رہنے کی دھمکی دیتا ہے، لیکن اکثر اہل قریش نے اس سے اعراض کیا اور اس پر کوئی توجہ نہیں دی، اور غرور استکبار کی وجہ سے اسے سننا بھی گوارا نہیں کیا اور اگر کبھی سن بھی لیاتو کفر وا ستکبار کی وجہ سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں جب بھی قرآن سنانا چاہا تو استہزاء کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دلوں پر کئی پردے پڑے ہیں تاکہ تم جس عقیدہ توحید اور بعث بعد الموت اور جزا و سزا کی بات کرتے ہو اسے ہم سمجھ نہ سکیں اور ہمارے کان بہرے ہیں اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ حائل ہے، اس لئے نہ ہم تمہاری بات سنتے ہیں اور نہ جو تم کرتے ہو اسے دیکھ پاتے ہیں، اس لئے جس طرح ہم نے تمہیں چھوڑ رکھا ہے، تم بھی ہمیں چھوڑ دو اور ہمیں اپنا قرآن سنانے کی کوشش نہ کرو، تم اپنے دین پر چلتے رہو، اور ہم اپنے دین پر چلتے رہیں گے اور اپنے عقیدہ کی حفاظت کرتے رہیں گے۔ شو کافی لکھتے ہیں کہ ان مثالوں سے قرآن کریم کا مقصود یہ بتانا ہے کہ ان کے دل قبول حق سے کو سوں دور تھے اور چاہتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے بالکل دور ہوجائیں اور کسی طرح کا اتصال نہ رکھیں۔ فصلت
5 فصلت
6 (٥) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی جواب دیا کہ میں تو تمہارے ہی طرح کا ایک آدمی ہوں، فرق صرف یہ ہے کہ مجھ پر اللہ کی وحی نازل ہوتی ہے، پھر میری بات قبول کرنے سے تمہارے دلوں پر پردے کیوں پڑے ہیں، تمہارے کان کیوں بہرے ہیں اور تم نے ہمارے اور اپنے درمیان حجاب کیوں حائل کر رکھا ہے؟ اور میں تمہیں کسی ایسی بات کی طرفت و نہیں بلاتا جسے عقل قبول نہ کرتی ہو، میں تو تمہیں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دعوت دیتا ہوں اس لئے تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ تم بتوں سے اعلان برأت کر دو، پورے خلوص کے ساتھ اللہ کی بندگی پر ثابت قدم ہوجئاو، اور اب تک شرک اور دیگر جتنے گناہتم سے سر زد ہوئے ہیں ان سے طلب مغفرت کرو۔ اس کے بعد اہل شرک کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ہلاکت و بربادی ہے ان اہل شرک کے لئے جو اپنے آپ کو شرک اور اخلاق رذیلہ سے پاک نہیں کرتے ہیں، بعث بعدالموت اور قیامت کے دن کی جزا و سزا کا انکار کرتے ہیں۔ ابن عباس (رض) نے (لایوتون الزکاۃ) کی تفسیر ” لایشھدون ان لا الہ الا اللہ“ سے کی ہے، یعنی وہ لوگ اس بات کی گواہی نہیں دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ عکرمہ سے بھی یہی تفسیر منقول ہے۔ ابن جریر نے زکاۃ سے مال کی زکاۃ مراد لی ہے، جو محل نظر ہے، اس لئے کہ زکاۃ ٢ ھ میں فرض ہوئی تھی اور یہ آیت مکی ہے اس لئے راجح یہی ہے کہ یہاں زکاۃ سے مراد شرک سے پاکی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (قد افلح من زکاھا) ” وہ آدمی کامیاب ہوگیا جس نے اپنے نفس کو شرک اور گناہوں سے پاک کیا۔ “ فصلت
7 فصلت
8 (٦) اور جو لوگ ایمان اور عمل صالح کی زندگی اختیار کرتے ہیں، انہیں خوشخبری دی کہ ان کو اللہ تعالیٰ جنت میں ایسی نعمتیں دے گا جو کبھی بھی ختم نہیں ہوں گی۔ فصلت
9 (٧) مشرکین قریش کا کفر و شرک اور تکذیب قرآن کریم پر اصرار بڑھتا ہی گیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی انہیں اجر و توبیخ کے طور پر فرمایا کہ کیا تم اس ذات باری تعالیٰ کی الوہیت کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں کی مدت میں پیدا کیا ہے اور اس کے لئے شرکاء ٹھہراتے ہو اور ان کی عبادت کرتے ہو، حالانکہ وہ رب العالمین ہے، اس لئے اس کے سوا کوئی دوسرا کیسے عبادت کا مستحق ہوسکتا ہے۔ اور کیا تم اس ذات واحد کی الوہیت کا انکار کرتے ہو، جس نے زمین کے اوپر بڑے بڑے پہاڑوں کے کھونٹے گاڑ دیئے ہیں اور جس نے زمین میں بنی نوع انسان کے لئے نوع بہ نوع نعمتیں پیدا کی ہیں اور اس کی سطح پر نہریں جاری کیں، درخت اگائے اور چوپائے پیدا کئے اور ہر ملک کے رہنے والوں کو ان کے مزاج کے مطابق روزی دی ہے۔ یہ نوع بہ نوع نعمتیں اور روزی کی کثرت اللہ تعالیٰ کی برکت کا ہی نتیجہ ہے۔ یہ سارے کام اللہ تعالیٰ نے چار دن کی مدت میں کئے ہیں اتوار اور سوموار دو دنوں میں زمین کو پیدا کیا اور منگل اور بدھ دو دنوں میں مذکورہ بالا باقی کام کیا۔ فصلت
10 فصلت
11 (٨) زمین کے بعد اللہ تعالیٰ نے آسمان کو پیدا کرنا چاہا، اس وقت وہ دھواں کے مانند ایک لطیف جوہر تھا جو اس پانی سے پیدا ہوا تھا جس پر اللہ کا عرش تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جب آسمان اور زمین دونوں کو بنانا چاہا، تو دونوں فوراً ہی وجود میں آگئے۔ ابن جریر لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین سے کہا کہ میں نیت مہارے اندر جو چیزیں پیدا کی ہیں، انہیں باہر لاؤ، اے آسمان ! تو آفتاب، ماہتاب اور ستاروں کو نکال اور اے زمین ! تو درختوں، پھلوں اور نباتات کو نکال اور نہروں کو باہر کر، تو دونوں نے کہا کہ اے ہمارے رب ! ہم تیری بات مانتے ہوئے ان تمام چیزوں کو باہر لے آئے جو تو نے ہمارے اندرپیدا کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے سات آمسان دو دن میں بنئاے، یعنی دھواں کی نرمی کو دور کر کے انہیں مضبوط و محکم بنایا اور ہر آسمان میں جو کچھ پیدا کرنا چاہتا، جن فرشتوں کو رکھنا چاہا اور اس کے علاوہ وہ کچھ کرنا چاہا جس کا ہمیں علم نہیں ہے سب کو انجام دیا۔ اور آسمان دنیا کو ستاروں سے مزید کیا اور انہیں ان شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنایا جو چوری چھپے آسمان کی باتیں سننا چاہتے ہیں۔ فرشتے ان ستاروں کے ذریعہ ان شیاطین کو مارتے ہیں تو وہ جل جاتے ہیں یا جنون میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ یہ سارے کارنامے اس اللہ کے ہیں جو بڑا زبردست اور اپنے تمام امور میں سب پر غالب ہے ان میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا ہے اور جو اپنی عظیم بادشاہی اور اپنی مخلوق کے اعمال و احوال سے خوب واقف ہے۔ فصلت
12 فصلت
13 (٩) مذکورہ بالا تفصیلات کے بعد جو اللہ تعالیٰ کی قدرت، علم اور حکمت پر دلالت کرتی ہیں اور جو اللہ کی وحدانیت اور بعث بعد الموت پر ایمان لانے کی دعوت دیتی ہیں، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا ہے کہ اگر اب بھی کفار قریش دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے اعراض کرتے ہیں تو آپ انہیں کھلم کھلا ایسے عذاب کی دھمکی دے دیجیے جس طرح کا عذاب قوم عاد اور قوم ثمود پر نازل ہوا تھا اور جس نے انہیں اور ان کی تمام چیزوں کو یکسر ہلاک کردیا تھا۔ فصلت
14 (١٠) قوم عاد و ثمود کو اس لئے ہلاک کیا گیا تھا کہ ان کے پاس ہود اور صالح جیسے انبیاء آئے اور ان تک دعوت توحید پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی اور کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا، لیکن کفر و سرکشی پر ان کی ہٹ دھرمی میں کوئی کمی نہیں آئی اور کہنے لگے کہ اگر اللہ ہم تک اپنا پغیام پہنچانا چاہتا تو فرشتوں کو بھیجتا نہ کہ ہمارے ہی جیسے انسان کو اس لئے ہم تمہاری رسالت کا انکار کرتے ہیں۔ فصلت
15 (١١) قوم عاد نے اللہ کی سر زمین پر ناحق تکبر اور سرکشی کی راہ اختیار کی اور اپنی جسمانی قوت اور مادی طاقت کے نشے میں ہود (علیہ السلام) کی دعوت کا انکار کردیا اور کہنے لگے کہ کون ہے ہم سے زیادہ طاقتور، ہم سب کو دیکھ لیں گے اور اس زعم باطل میں مبتلا ہوگئے کہ وہ اپنی طاقت کے ذریعہ اللہ کے عذاب کو بھی روک دیں گے۔ چونکہ ان کے رویے میں اللہ کے خلاف ایک قسم کا چیلنج تھا، اسی لئے اللہ نے اپنی طاقت کا ذکر کیا اور کہا کہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے وہ یقیناً ان سے زیادہ طاقتور ہے۔ وہی ہر طاقت کا سرچشمہ ہے۔ اس نے جب انسان کو پیدا کیا تو وہ بے حد کمزور تھا، پھر اللہ نے اسے آہستہ آہستہ قوی اور تنومند بنایا پھر اللہ کے مقابلے میں وہ اپنی طاقت پر کیوں نازاں ہیں اور کیسے ان معجزات کا انکار کرتے ہیں جنہیں ہود (علیہ السلام) ان کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ فصلت
16 (١٢) جب اپنے کفر و سرکشی سے باز نہیں آئے، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کرنے کے لیے ان پر ایک تیز اور ٹھنڈی ہوا کو مسلط کردیا جو سات رات اور آٹھ دن تک چلتی رہی اور جس نے ان میں سے ایک کو بھی نہیں چھوڑا یہ دن ان کے لئے بڑے ہی برے دن ثابت ہوئے مجاہد اور قتادہ کہتے ہیں کہ یہ ایام بدھ سے بدھ تک ماہ شوال کے آخری ایامتھے اس عذاب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں روسا کیا اور آخرت میں جو عذاب انہیں دیا جائے گا وہ بہت ہی زیادہ رسوا کن ہوگا اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوگا۔ فصلت
17 (١٣) قوم ثمود کی ہدایت کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے راہ نجات کو روشن کردیا۔ صالح (علیہ السلام) کو نبی بنا کر ان کے پاس بھیجا، بہت سی نشانیوں کے ذریعہ حق کو واضح کیا اور اپنی شریعت نازل کر کے اس پر عمل کرنے کا حکم دیا ان ساری باتوں کات قاضا تھا کہ وہ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آتے، لیکن انہوں نے ایمان پر کفر کو اور طاعت و بندگی پر معصیت و سرکشی کو ترجیح دی، تو اللہ نے ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ایک روسا کن عذاب کے ذریعہ انہیں ہلاک کردیا اور صالح (علیہ السلام) اور ان کے مومن ساتھیوں کو جن کی تعداد چار ہزار تھی، اس عذاب سے بچا لیا۔ فصلت
18 فصلت
19 (١٤) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا ہے کہ آپ اہل قریش کو وہ احوال و کوائف بتائیں جن سے کفار قیامت کے دن دوچار ہوں گے، شاید کہ عبرت حاصل کریں، جب اللہ کے تمام دشمنان جہنم یا میدان محشر کی طرف ہانک کرلے جائیں گے اور سب ایک جگہ اکٹھا کئے جائیں گے۔ ابن عباس (رض) کہتے ہیں یہ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جہنمیوں کی تعداد بہت بڑی ہوگی۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کے کان، ان کی آنکھیں اور ان کے چمڑے ان کے جرائم کی گواہی دیں گے، جس اللہ نے ان کی زبانوں کو دنیا میں قوت گویائی دی تھی، وہی اس دن ان کے جسموں کے دیگر اعضاء کو قوت گویائی دے گا اور وہ ان مجرمین کا ایک جرم بیان کریں گے اور جس کفر و شرک کا اعتراف کرنے سے ان کی زبانیں خاموش تھیں، ان کی گواہی دیں گے۔ فصلت
20 فصلت
21 (١٥) اہل شرک اپنے اعضائے جسم کا یہ حال دیکھ کر دم بخود ہوجائیں گے اور اپنے چمڑوں سے (جن سے آواز نکل رہی ہوگی، اور جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن عقل و فہم دے گا) کہیں گے، جنہیں بالعموم تکلیف کا احساس زیادہ شدید ہوتا ہے کہ تم نے ہمارے خلاف ایسی گواہی کیوں دی ہے جو تمہارے درود و الم کا سبب ہوگا ؟ ! تو وہ کہیں گے کہ یہ گواہی ہمارے ذریعہ اس اللہ نے دلوائی ہے جس نے ہر حیوان کو قوت گویائی دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہیں اپنے اعضاء کی قوت گویائی پر حیرت کیوں ہوتی ہے، یہ تو اس اللہ کا حکم ہوگا جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے، تو جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے وہ یقیناً تمہارے اعضاء کو قوت گویائی دینے پر قادر ہے اور یاد رکھو کہ تمہیں لوٹ کر اسی کے پاس جانا ہے، یعنی وہت مہیں دوبارہ زندہ کرے گا اور تم اس میدان محشر میں جمع ہو کر اپنے کرتوتوں کا حساب چکاؤ گے جس میں جمع شدہ مشرکین کی ذلت و اہانت کی اس آیت میں منظر کشی کی گئی ہے۔ والعیاذ باللہ فصلت
22 (١٦) اللہ تعالیٰ کفار و مشرکین سے کہے گا جب تم لوگ گناہوں کا ارتکاب کرتے تھے تو اپنے کانوں، آنکھوں اور چمڑوں سے پردہ کرنے کی نہیں سوچتے تھے، کیونکہ تمہارے دل میں یہ خیال آتا ہی نہیں تھا کہ قیامت کے دن تمہارے اعضاء تمہارے خلاف گواہی دیں گے اور تم یہ بھی گمان کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے بہت سے جرائم و معاصی کو نہیں جانتا ہے، جبھی تو ان کے ارتکاب کی جرأت کرتے تھے۔ اپنے رب سے متعلق تمہاری اسی بدگمانی نے تمہیں ہلاکت و بربادی کے دہانیت کو پہنچا دیا ہے۔ اسی وجہ سے تم نے دنیا میں اس کے احکام کی مخالفت کی جرأت کی اور اب آخرت میں نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اپنے گناہوں کا انکار کر رہے ہو اور سب کچھ کھو کر جہنم کی طرف لے جائے جا رہے ہو۔ آیت (٢٤) میں اللہ تعالیٰ نے اسلوب کلام بدلتے ہوئے فرمایا کہ آج اگر جہنمی صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں، تو اس کے سوا چارہ ہی کیا ہے، کیونکہ اب تو جہنم ہی ان کا ہمیشہ کے لئے ٹھکانا ہے اور اگر چاہتے ہیں کہ اللہ ان سے راضی ہوجائے اور جنت میں داخل کردیئے جائیں، تو ان کی یہ تمنا کبھی پوری نہیں ہوگی، یعنی نہ جہنم سے نکالے جائیں گے اور نہ ہی اس کا عذاب ہی ان سے ہلکا کیا جائے گا۔ فصلت
23 فصلت
24 فصلت
25 (١٧) اہل کفر و شرک کا باطل پر اصرار اور ان کے نفس کی خباثت جب حد سے تجاوز کر جاتی ہے، تو اللہ تعالیٰ کچھ خبیث شیاطین کو ان کے ساتھ لگا دیتا ہے، جو ان کے دوست بن جاتے ہیں اور ان کے حاضر و مستقبل کے گناہوں کو ان کی نگاہوں میں خوبصورت بنا کر پیش کرتے ہیں ایک دوسری تفسیر یہ کی گئی ہے کہ وہ شیاطین ان کی نگاہوں میں کفر و معاصی کو خوبصورت بنا دیتے ہیں، پھر وہ ان میں ڈوب جاتے ہیں اور ان کے ذہنوں میں یہ بھی ڈال دیتے ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے۔ جب ان کا حال یہ ہوجاتا ہے تو ان کے لئے ابدی شقاوت و بدبختی لکھ دی جاتی ہے او ان کا نام ان گزشتہ جن و انس کے ساتھ لکھ دیا جاتا ہے جنہوں نے اپنے انبیاء کی تکذیب کی، خواہ گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا اور پھر دنیا و آخرت کا خسارہ ان کی قسمت بن جاتا ہے۔ فصلت
26 (١٨) ابن ابی حاتم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ میں اونچی آواز سے قرآن پڑھتے، تو مشرکین سننے والوں کو وہاں سے بھگادیتے اور کہتے کہ ” تم لوگ اس قرآن کو نہ سنو، اور دوسری بے ہودہ باتیں کرنے لگو، تاکہ سننے والوں کو اس سے روک سکو“ اور جب پست آواز سے پڑھتے تو جو لوگ قرآن سننا چاہتے وہ سن نہیں پاتے تو سورۃ الاسراء کی آیت (١١٠) (ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا) نازل ہوئی، یعنی ” نہتو آپ اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھئے اور نہ بالکل پوشیدہ“ مشرکین مکہ کے اسی معاندانہ رویہ کو اس آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے مجاہد نے اس کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ خوب مذاق اڑاؤ، تالیاں بجاؤ، اور ادھر ادھر کی باتیں کروتاکہ محمد کی قرأت بے معنی بن جائے (لعلکم تغلبون) کا مفہوم یہ ہے کہ اس طرح تمہاری آوازیں محمد کی آواز پر غالب آجائیں گی اور وہ قرآن پڑھنے سے باز آجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی ان نازیبا اور بے ہودہ حرکتوں پر نکیر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم ان کافروں کو شدید عذاب دیں گے۔ اور قیامت کے دن ان کے کرتوتوں کا بدترین بدلہ دیں گے۔ اس دن اللہ کے دشمنوں کا بدلہ جہنم کی آگ ہوگی، جس میں وہ ہمیشہ جلتے رہیں گے، اس سبب سے کہ ہو دنیا میں اللہ کی کتاب کا انکار کرتے تھے۔ فصلت
27 فصلت
28 فصلت
29 (١٩) جہنمی جب آگ میں جل رہے ہوں گے اور کچھ نہ بن پڑے گا، تو اپنے غیظ و غضب کا اظہار ان شیاطین جن و انس کے خلاف کریں گے جو دنیا میں کفر و معاصی کو ان کی نگاہوں میں خوبصورت بنا کر پیش کرتے تھے، کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! جو شیاطین انس و جن ہمیں دنیا میں بہکاتے رہے تھے، ذرا انہیں ہمارے سامنے کر دے تاکہ ہم انہیں اپنے قدموں سے روند ڈالیں، اور انہیں جہنم کی آخری کھائی میں پہنچا دے، تاکہ انہیں ہم اپنے آپ سے بدترین حال میں دیکھ کر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑلیں۔ فصلت
30 (٢٠)ّ قرآن کریم اپنے معہود طریقہ کے مطابق کافروں کا حال بیان کرنے کے بعد، اب مومنوں کا حال بیان کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ اللہ کو ایک مانتے ہیں، معبود ان باطل کی نفی کرتے ہیں اور صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں، ان کے پاس دنیا میں، یا موت کے وقت، یاد دوبارہ زندہ کئے جانے کے وقت، فرشتے آتے ہیں اور انہیں اطمینان دلاتے ہیں کہ جو زندگی اب آنے والی ہے، اس کے بارے میں آپ لوگ مطمئن رہئے اور جن لوگوں کو آپ دنیا میں چھوڑ آئے ہیں، ان کی بھی فکر نہ کیجیے ان کی نگرانی ہم کریں گے اور دنیا میں آپ لوگوں سے جس جنت کا وعدہ کیا گیا تھا، اسے پا کر اب خوش ہوجائے۔ (الاتخافوا ولاتخزنوا) کی ایک دوسری تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ آپ لوگ صور اسرافیل اور قیامت قیامت کے وقت کی گھبراہٹ کی فکر نہ کیجیے یعنی آپ لوگوں کو اس وقت کوئی گھبراہٹ لاحق نہیں ہوگی، سورۃ الانبیاء آیت (١٠٣) میں آیا ہے : (لایحزنھم الفزع الاکبرو تتلقاھم الملائکۃ) ” وہ بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرسکے گی اور فرشتے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ “ فصلت
31 (٢١) فرشتے ان سے یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم لوگ دنیا اور آخرت دونوں جگہ آپ سے محبت کرنے والے ہیں، اس لئے کہ ہمارے اور آپ کے درمیان قدر مشترک اللہ کی طاعت و بندگی ہے، جس طرح شیاطین کافروں سے محبت رکھتے ہیں، اس لئے کہ ان کے درمیان قدر مشترک اللہ کی نافرمانی اور رحمت سے دوری ہے۔ ابن کثیر کہتے ہیں : فرشتے مومنوں سے جان کنی کے وقت کہتے ہیں کہ ہم دنیا میں آپ کے ساتھ رہے ہیں، آپ کی رہنمائی کرتے رہے ہیں، خیر کی توفیق دیتے رہے ہیں اور اللہ کے حکم سے آپ کی حفاظت کرتے رہے ہیں اور قیامت کے دن بھی ہم آپ کے ساتھ ہوں گے۔ قبروں میں اور صور اسرافیل کے وقت آپ کے مونس ہوں گے، قبروں سے اٹھائے جانے کے وقت آپ کو اطمینان دلائیں گے اور ہم آپ کو پل صراط پار کرا کے جنت تک پہنچا دیں گے۔ اور جنت میں آپ لوگوں کو ہر وہ چیز ملے گی جسے آپ کا دل چاہے گا اور جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی، یہ تمام نعمتیں آپ کے غفور رحیم رب کی طرف سے آپ کی میزبانی کے لئے ہوں گی۔ فصلت
32 فصلت
33 (٢٢) کفار قریش کا کفر و عناد قرآن کریم سے ان کا اعراض اور دعوت اسلامیہ میں ان کی رخنہ اندازی بیان کئے جانے کے بعد، اب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ آپ قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت مشرکین کی شر انگیزیوں کی پرواہ نہ کیجیے، اور پوری پابندی کے ساتھ توحید کی دعوت لوگوں کو دیتے رہئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس آدمی سے بہتر کس کی بات ہو سکتی ہے جو لوگوں کو صرف ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دیتا ہے، اور جن اعمال صالحہ کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے ان پر پہلے خود عمل کرتا ہے اور پورے فخر و اعتزاز کے ساتھ کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں۔ یہ بات مسلم ہے کہ یہ صفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بدرجہ اتم پائی گئی، اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سب سے اچھی بات تھی، اور آپ سب سے اچھے داعی الی اللہ تھے اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے مشورہ دیا کہ مشرکین کی باتوں کی پرواہ نہ کریں اور اپنے مشن کو آگے بڑھانے میں لگے رہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کے مصداق سب سے پہلے انبیائے کرام ہیں، پھر علماء پھر مجاہدین، پھر اذان دینے والے اور پھر توحید خالص اور قرآن و سنت کی دعوت دینے والے۔ فصلت
34 (٢٣) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر دعاۃ الی اللہ کو ایک بہت ہی اہمت علیم دی گئی ہے اور اس کی ابتدایوں کی گئی ہے کہ اچھا عمل اور براعمل دونوں برابر نہیں ہو سکتے ہیں، اچھا عمل آدمی کو جنت تک پہنچاتا ہے اور فرشتوں کی صحبت کا سبب بنتا ہے اور برا عمل جہنم کی طرف لے جاتا ہے اور شیاطین کی دوستی کا ذریعہ بنتا ہے، اس لئے اے میرے نبی ! اگر کوئی برائی آپ کے آڑے آئے، تو اچھائی کے ذریعہ اسے اپنے آپ سے دور کردیجیے، برائی کا جواب اچھائی سے، قصور کا جواب عفو و در گذر سے، غصہ کا جواب صبر سے، لغزش کا جواب نظر انداز کر کے اور دعوت کی راہ میں ایذا رسانیوں کو برداشت کر کے دیجیے آپ جب ایسا کریں گے تو دشمن دوست اور دور قریب کی طرح ہوجائیں گے۔ قاشانی لکھتے ہیں : جب آپ دشمن کی برائی کو کسی بہت ہی بہتر اچھائی کے ذریعہ دور کرسکتے ہیں، تو اس سے کم درجہ کی اچھائی کے ذریعہ اسے دور نہ کیجیے برائی کے ذریعہ اس کا دور کرناتو کس حال میں بھی جائز نہیں ہوگا، کیونکہ آگ کے شعلے اور بھڑک اٹھیں گے اور آپ اپنی خواہش اور شیطان کے پیرو کار ہوجائیں گے۔ آیت (٣٥) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ شریف خصلت اور عظیم فضیلت تو انہیں نصیب ہوتی ہے جو درود و الم کے گھونٹ خاموشی کے ساتھ پی جاتے ہیں اور اپنے رب کی طاعت و بندگی پر صبر کے ساتھ قائم رہتے ہیں۔ یہ رتبہ بلند تو اسے ملتا ہے جو اللہ کے نزدیک بڑا ہی سعادت مند ہوت ہے، اس کے اندر خیر کی صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہیں، عقل سلیم اور خلق عظیم کا مالک ہوتا ہے اور سب سے اول و آخر اپنے رب سے ثواب کی امید لگائے زندگی گذارتا ہے۔ فصلت
35 فصلت
36 (٢٤) اوپر کی آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو نصیحت کی گئی ہے اسی کا تتمہ ہے، کہ اگر شیطان آپ کے دل میں وسوسہ پیدا کرے، اور برائی کا جواب برائی سے دینے پر آمادہ کرے اور مخالف سے انتقام لینے کو کہے، تو اللہ کی جناب میں پناہ لیجیے، اسی سے مدد مانگئے اور نفس کی برائی سے بچانے کی التجا کیجیے۔ اسی مفہوم کو سورۃ الاعراف آیات (١٩٩/٢٠٠) میں یوں بیان کیا گیا ہے : (خذا العفووا مربا لعرف و اعرض عن الجاھلین، واماینزغنک من الشیطان نزع فاستعذ باللہ انہ سمیع علیم) ” آپ در گذر کرنا اختیار کیجیے، نیک کام کی تعلیم دیجیے اور نادانوں سے کنارہ کش ہوجایئے اور اگر آپ کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کیجیے، بلاشبہ وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے“ اور سورۃ المؤمنون آیات (٩٦، ٩٧، ٩٨) میں آیا ہے : (ادفع بالتی ھی احسن السیءۃ نحن اعلم بما یصفون، وقل رب اعوذبک من ھمزات الشیاطین، واعوذ بک رب ان یخضرون) ” آپ برائی کو سب سے بہتر اچھائی کے ذریعہ دور کیجیے جو کچھ یہ بیان کرتے ہیں ہم بخوبی واقف ہیں اور دعا کیجیے کہ اے میرے رب ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں شیاطین کی چھیڑ سے اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے پاس آجائیں۔ “ فصلت
37 (٢٥) اس آیت کریمہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی بعض عظیم نشانیوں کو بیان کرنا شروع کیا ہے جو اس کے کمال قدرت اور اس کے علم و حکمت پر دلالت کرتی ہیں اور جو انسان کو دعوت ایمان دیتی ہیں، لیل و نہار کی گردش اور شمس و قمر کا نور اور ان کا ایک محکم نظام کے مطابق اپنے اپنے دائرے میں چلتے رہنا اور اس میں ذرہ برابر کا فرق نہ آنا، یہ سب اللہ کی نشانیاں ہیں اور شمس و قمر اللہ کے پیدا کردہ ہیں، اس لئے بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے کہا گیا کہ لوگو ! آفتاب و ماہتاب کی پرستش نہ کرو، بلکہ اس اللہ کی عبادت کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے اور عبادت میں اس کے ساتھ کسی غیر کو شریک نہ بناؤ۔ آیت (٣٨) میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا ہے کہ اگر ان تمام نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود مشرکین مکہ کبر و غرور کی راہ اختیار کرتے ہیں، اور اللہ کے لئے بندگی کو خالص نہیں کرتے، تو انہیں بتا دیجیے کہ فرشتے رات دن آپ کے رب کی تسبیح میں مشغول ہیں اور کبھی بھی نہیں تھکتے ہیں۔ فصلت
38 فصلت
39 (٢٦) اللہ کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جب بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی ہوجاتی ہے تو زمین پتھر کے مانند سخت ہوجاتی ہے، اور اس میں کوئی گھاس اور پودا باقی نہیں رہتا پھر جب اللہ تعالیٰ بارش بھیجتا ہے تو مٹی میں حرکت آجاتی ہے، پودے اگ آتے ہیں اس کی بالائی سطح ابھر جاتی ہے اور ہر طرف زندگی کے آثار نظر آنے لگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس باری تعالیٰ نے اس مردہ زمین کو زندگی دی اور اس میں پودے اگائے، وہی مردوں کو دوبارہ زندہ کرے گا، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ناممکن ہے کہ وہ کسی چیز کا ہونا چاہے اور وہ وجود میں نہ آئے۔ فصلت
40 (٢٧) جو لوگ اللہ کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی مذکورہ بالا آیتوں اور قرآن کریم کا انکار کرتے ہیں اور ان میں غور و فکر کر کے اس پر ایمان نہیں لاتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں ہیں، اس کا علم ان سب کو محیط ہے اور ان کی ایک ایک حرکت پر اس کی نگاہ اور جب قیامت آئے گی، وہ انہیں ان کے کرتوتوں کا مزا چکھائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت کے دن جو شخص جہنم میں ڈال دیا جائے گا وہ بہتر ہوگا یا وہ شخص جو اس دن ہر خوف و خطر سے مطمئن ہوگا ؟ جو اب معلوم ہے کہ یقیناً جہنم کے عذاب سے بچ جانے والا بہتر ہوگا، پھر مشرکین وہ راہ کیوں نہیں اختیار کرتے جو انہیں جہنم سے بچا لے اور جنت میں پہنچا دے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اے کافرو ! ٹھیک ہے، جو چاہو کرتے رہو، علام الغیوب تمہارے تمام کرتوتوں سے خوب واقف ہے۔ صاحب محاسن التنزیل لکھتے ہیں کہ اس آیت سے انتمام باطل فرقوں کی تردید ہوتی ہے، جو اپنے نظریات کی تائید کے لئے قرآن کریم کی من مانی تفسیر کرتے ہیں، اس ضمن میں تمام باطنی فرقے، ملحدین، گمراہ صوفیاء، قادیانی، بہائی اور قبر پرست جماعتیں داخل ہیں جو اپنے باطل عقائد کی تائید کیلئے قرآن میں معنوی تحریف کرتی ہیں۔ آیت (٤١) میں اللہ نے فرمایا کہ جو لوگ قرآن کریم کا انکار کرتے ہیں، انہیں ان کے کفر و عناد کا بدلہ مل کر رہے گا اور آخر میں قرآن کریم کی تعریف کرتے ہؤے فرمایا کہ اللہ کی یہ کتاب ہر تبدیلی اور تحریف سے محفوظ کردی گئی ہے اور کوئی فرد بشر اس جیسا کلام نہیں لا سکے گا۔ آیت (٤٢) میں فرمایا کہ یہ وہ کتاب برحق ہے جس کے قریب باطل نہیں پھٹک سکتا ہے، نہ کوئی شخص اس میں کمی کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی شخص اس میں کوئی چیز زیادہ کرسکتا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جسے اس اللہ نے نازل کیا ہے جو بڑی حکمتوں والا ہے اور جوہر تعریف کا سزا وار ہے۔ فصلت
41 فصلت
42 فصلت
43 (٢٨) مکی زندگی میں مرور زمانہ کے ساتھ کفار قریش کا کفر و عناد بڑھتا ہی گیا، جس سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طبعی طور پر متاثر ہوتے تھے اور قرآن کریم اور اپنے آپ سے متعلق ان کی دل آزار باتیں سن کر کبھی غمگین ہوجاتے تھے، تو اللہ تعالیٰ گزشتہ انبیائے کرام اور ان کے ساتھ ان کی قوموں کی بدسلوکی کے واقعات سنا کر انہیں تسلی دیتا تھا۔ اس آیت کریمہ میں بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا ہے کہ کفار قریش آپ سے وہی کچھ کہتے ہیں جو گزشتہ قومیں اپنے رسولوں سے کہتی تھیں، وہی تکلیف دہ باتیں اور اللہ کی نازل کردہ کتاب میں انہی کی طرح شکوک و شبہات پیدا کرنا، اس لئے جس طرح ان انبیاء نے صبر کیا آپ بھی صبر کیجیے اور آپ کا رب ان موحدین کے گناہوں کو معاف کرنے والا ہے جنہوں نے آپ کی اور گزشتہ انبیاء کی پیروی کی ہے، اور جو اہل کفر آپ کی مخالفت کر رہے ہیں انہیں وہ سخت سزا دینے والا ہے۔ فصلت
44 (٢٩) کفارقریش کفر و عناد کی وجہ سے کہتے تھے کہ اگر واقعی محمد اللہ کا نبی ہے اور قرآن اللہ کا کلام ہوتات و یہ کسی عجمی زبان میں نازل ہوا ہوتا، تاکہ ہمیں یقین ہوجاتا کہ اسے سچ مچ اللہ نے ہی بھیجا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ویسا ہی ہوتا جیسا وہ کہہ رہے ہیں، تب بھی ان کے عناد اور سرکشی میں کمی نہ آتی اور کہتے کہ اس کی آیتوں کو اس زبان میں کیوں نہیں بیان کیا گیا ہے جسے ہم سمجھتے ہیں، یہ کون سا تک ہے کہ قرآن تو عجمی ہے اور رسول عربی ہے اور اس کے مخاطب عرب ہیں۔ یعنی چونکہ ان کا مقصد ایمان لانا نہیں ہے۔ اس لئے اللہ کی آیتیں جس طرح بھی ان کے پاس پہنچیں گی، وہ لوگ قبول نہیں کریں گے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے نبی ! آپ ان سے کہہ دیجیے کہ یہ قرآن ایمان والوں کے لئے باعث ہدایت اور دلوں کے امراض کا علاج ہے اور اہل کفر کے کان تو اس صدائے ایمانی کو سننے سے اور ان کی آنکھیں اس نور ہدایت سے مستفید ہونے سے قاصر ہیں، ان کافروں کی مثال تو اس آدمی کی ہے جسے بہت ہی دور سے پکارا جائے، اور وہ آواز اس تک نہ پہنچے، چونکہ کفر و عناد کی وجہ سے ان کے دلوں پر بھی مہر لگ گیا ہے، اس لئے قرآن کریم کی آیتوں سے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔ فصلت
45 (٣٠) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مزیدتسلی کے لئے کہا گیا کہ ہم نے موسیٰ کو بھی کتاب دی تھی، تو لوگوں نے ان کی اور اس کتاب کی تکذیب کی، اور انہیں اذیت پہنچائی، اس لئے اے میرے نبی ! جس طرح اولوالعزم انبیاء نے صبر کیا آپ بھی صبر کیجیے۔ اور اگر کا یہ فیصلہ اٹل نہ ہوتا کہ لوگوں کے اعمال کا بدلہ قیامت کے دن ہی دیا جائے گا، تو کفار قریش کو ان کے کفر و عناد کی وجہ سے اسی دنیا میں ہی عذاب کے ذریعہ ہلاک کردیا جاتا اور یہ لوگ قیامت کے دن پر بالکل یقین نہیں رکھتے ہیں، اسی لئے انہوں نے کفر و عناد کی زندگی اختیار کر رکھی ہے۔ آیت (٤٦) میں بھی ایک گونہ تسلی ہی کی بات ہے کہ جو آدمی ایمان لانے کے بعد نیک عمل کرتا ہے، اس کا فائدہ اسے ہی پہنچتا ہے، اور جو کفر و معصیت کی راہ پر چلتا ہے اس کا نقصان اسے ہی ملتا ہے، یعنی اللہ کی ناراضگی اور عذاب الیم کا سزاوار بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ہے، وہ کسی کا بغیر گناہ مواخذہ نہیں کرتا۔ فصلت
46 فصلت
47 ٣١ قیامت کب واقع ہوگی، اس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے، حدیث جبریل میں آیا ہے کہ جب انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ تو آپ نے جواب دیا کہ پوچھا جانے والا پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ہے۔ یعنی جس طرح آپ کو معلوم نہیں ہے، اسی طرح مجھے بھی معلوم نہیں ہے اور سورۃ النازعات آیات (42، 43، 44) میں آیا ہے : (یسالونک عن الساعۃ ایان مرسھا فیم انت من ذکر اھا الی ربک منتھانا) ” لوگ آپ سے قیامت کے واقع ہونے کا وقت دریافت کرتے ہیں، آپ کو اس کے بیان کرنے سے کیا تعلق، اس کے علم کی انتہا تو اللہ کی جانب ہے“ اور سورۃ الاعراف آیت (٧٨١) میں آیا ہے : (یسالونک عن الساعۃ ایان مرساھاقل انما علمھا عندرربی لایجلیھا لوقتھا الاھو) ” یہ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا، آپ فرما دیجیے کہ اس کا علم صرف میرے رب ہی کے پاس ہے اس کے وقت پر اس کو اللہ کے سوا اور کوئی ظاہر نہیں کرے گا۔ اس کا علم تمام کائنات کو محیط ہے، حتی کہ جو پھل شگوفہ کے غلاف سے باہر آتا ہے، اسے بھی اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور رحم مادر میں جو بچہ پرورش پاتا ہے اور کتنے دنوں کے بعد اس کی ولادت ہوگی اور وہ ناقص ہوگا یا پورا، خوبصورت ہوگا یا بدصورت، ان تمام باتوں کا علم صرف اللہ کو ہوتا ہے۔ اللہ کا علام الغیوب ہونا اور اس کی عظیم قدرت تقاضا کرتی ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے کسی کو اس کا شریک نہ بنایا جائے اسی لئے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مشرکوں سے پوچھے گا کہ جن معبود ان باطل کو تم میرا شریک بناتے رہے تھے، وہ کہاں ہیں؟ تو وہ کذب بیانی سے کام لیں گے اور کہیں گے، اے ہمارے رب ! ہم نے تجھے بتا دیا ہے کہ ہم میں سے کوئی اس بات کی گواہی نہیں دیتا تھا کہ تیرا کوئی شریک ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام آیت (23) میں فرمایا ہے : (واللہ ربنا ما کنامشرکین) ” اس اللہ کی قسم ! جو ہمارا رب ہے، ہم لوگ مشرک نہیں تھے۔ “ آیت (48) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرکین جن بتوں اور غیر بتوں کی دنیا میں پرستش کرتے تھے، قیامت کے دن وہ سب ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوجائیں گے، کوئی ان کی مدد کے لئے نہیں آئے گا اور انہیں اس وقت یقین ہوجائے گا کہ اب عذاب نار سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ فصلت
48 فصلت
49 (32) بالعموم لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے لئے دنیاوی فوائد کی دعا کرنے سے نہیں تھکتے، جب دیکھئے اپنے لئے مال، اولاد اور صحت و عافیت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور اگر کبھی انہیں تکلیفپہنچتی ہے، یا فقر و فاقہ کی نوبت آجاتی ہے تو غم سے نڈھال ہوجاتے ہیں اور نا امیدی کا گہرا بادل ان کے دل و دماغ پر چھا جاتا ہے اور سمجھتے ہیں کہ اب وہ ہمیشہ اسی حال میں رہیں گے سدی لکھتے ہیں کہ آیت میں کافر انسان مراد ہے، کیونکہ اسی کے بارے میں اللہ نے کہا ہے : (انہ لایباس من روح اللہ الا القوم الکافرون) ” اللہ کی رحمت سے صرف کافر لوگ ناامید ہوتے ہیں“ شو کافی لکھتے ہیں کہ بہتر یہی ہے کہ عام انسان مراد لئے جائیں اور ظاہر ہے کہ اللہ کے مخلص بندے اس میں داخل نہیں ہوں گے۔ فصلت
50 (٣٣) اور جب اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف دور کردیتا ہے، محتاجی کے بعد اسے دولت عطا کردیتا ہے، تو اپنا ماضی بھول جاتا ہے اور لوگوں کے سامنے فخر کرنے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ دولت تو میں نے اپنی ذہانت اور محنت سے حاصل کی ہے اور اللہ کا شکر ادا کرنا بھول جاتا ہے اور جب اسے قیامت کی یاد دلائی جاتی ہے تاکہ اللہ کی دی ہوئی دولت میں سے لوگوں پر صدقہ و احسان کرے تو کہنے لگتا ہے کہ یہ سب دقیانوسی باتیں ہیں، انسان کی پیدائش نیچر کا نتیجہ ہے، آدمی مر کر گل سڑ جائے گا اور دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا اور قیامت نہیں آئے گی اور اگر مان بھی لیں کہ ہم دوبارہ اپنے رب کے پاس جائیں گے تو وہاں بھی ہمیں جنت ملے گی، کیونکہ ہم اس کی نگاہ میں اچھے ہیں، جبھی تو اس نے ہمیں اس دنیا میں اپنی نعمتوں سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان منکرین قیامت احسان فراموشوں کا انجام بتایا کہ وہ روز قیامت ان کے برے اعمال ان کے سامنے رکھ دے گا، تاکہ انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور ان کی جھوٹی تمنائیں خاک میں مل جائیں، پھر انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا جس میں ہمیشہ جلتے رہیں گے۔ فصلت
51 (34) اس آیت کریمہ میں بالعموم لوگوں کی یہ فطرت بیان کی گئی ہے کہ جب اللہ انہیں مال و اولاد اور صحت و عافیت سے نوازتا ہے تو اس کی یاد سے غافل ہوجاتے ہیں اور کبر و غرور میں مبتلا ہو کر طاعت و بندگی کی راہ سے منحرف ہوجاتے ہیں اور جب وہ نعمتیں ان سے چھن جاتی ہیں، تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتے ہیں، یعنی الفاظ زیادہ ہوتے ہیں اور مفہوم و معنی کم ہوتا ہے۔ سورۃ یونس آیت (12) میں آیا ہے : (واذا مس الانسان الضر دعانا لجنبہ اوقاعد اوقائما فلما کشفنا عنہ ضرہ مرکان لم یدعنا الی ضر) ” اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہم کو پکارتا ہے، لیٹے ہوئے، بیٹھے ہوئے، کھڑے ہوئے، پھر جب ہم اس کی تکلیف اس سے ہٹا دیتے ہیں تو وہ ایسا ہوجاتا ہے کہ گویا اس نے اپنی تکلیف کے لئے جو اسے پہنچی تھی کبھی ہمیں پکارا ہی نہ تھا۔ “ فصلت
52 (35) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی قریش کو مخاطب کیا گیا ہے جو قرآن کریم کے وحی الٰہی ہونے کا انکار کرتے تھے کہ اگر یہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور تم اس کا انکار کرتے ہو تو بتاؤ تو سہی کہ تم سے بھی زیادہ کوئی گمراہ ہوسکتا ہے؟ یہ حقیقت تو روز روشن کی طرح واضح ہوچکی ہے کہ قرآن واقعی اللہ کا کلام ہے اور تم بغیر دلیل و برہان اس کا انکار کئے جا رہے ہو۔ (آیت (٣٥) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم اپنے نبی اور ان کے مومن ساتھیوں کو مشرق و مغرب میں غلبہ دیں گے، قیصر و کسری اور دیگر طاقتوں کا زور توڑ دیں گے اور اسلام تیزی کے ساتھ ہر طرف پھیلنے لگے گا اور ہمارے رسول اہل قریش کے شہر مکہ کو بھی فتح کریں گے اور وہاں سے ہمیشہ کے لئے کفر و شرک کا خاتمہ ہوجائے گا، تب کافروں کو یقین ہوجائے گا کہ واقعی قرآن اللہ کا کلام ہے اور اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے سچ ہے۔ آیت کے آخر میں اہل قریش کو بطور زجر و توبیخ کہا گیا ہے کہ کیا قرآن کریم اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کے لئے اللہ کی گواہی کافی نہیں ہے؟ وہ تو ہر چیز سے باخبر ہے، کوئی بات اس سے مخفی نہیں ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ یہ قرآن اسی نے اپنے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے نازل کیا ہے۔ فصلت
53 فصلت
54 (36) کفار قریش جس شر و فساد میں مبتلا ہیں، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انہیں دوبارہ زندہ کئے جانے اور اپنے رب کے حضور اپنے کرتوتوں کا حساب دینے پر یقین ہی نہیں ہے۔ آگاہ ہوجائیں کہ اللہ کا علم ہر چیز کو محیط ہے، اس کی قدرت سب سے بڑی قدرت ہے، قیامت یقیناً آئے گی اور سارے انسان دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اور علام الغیوب اور قادر مطلق اللہ ان کے اعمال کا بدلہ انہیں ضرور چکائے گا۔ وباللہ التوفیق فصلت
0 سورۃ الشوریٰ مکی ہے، اس میں ترپن آیتیں اور پانچ رکوع ہیں الشورى
1 تفسیر سورۃ الشوریٰ نام : آیت (38) (وامرھم شوری بینھم) سے ماخوذ ہے اسے سورۃ حم عشق بھی کہتے ہیں۔ زمانہ نزول : ابن عباس اور ابن الزبیر (رض) کے نزدیک پوری سورت مکی ہ۔ ابن عباس (رض) کے ایک دوسرے قول کے مطابق آیت (23) (قل لا اسئالکم علیہ اجزا) سے چار آیتیں مدنی ہیں قتادہ کا بھی یہی قول ہے عام مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی اہل قریش کو بہت ہی دل نشین انداز میں ایمان و توحید اور وحی و رسالت پر ایمان لان کی دعوت دی گئی ہے۔ (١) اس سے قبل حروف مقطعات سے شروع ہونے والی کئی سورتوں کی تفسیر کی ابتدا میں یہ لکھا جا چکا ہے کہ ان حروف مقطعات کا معنی و مفہوم اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ الشورى
2 الشورى
3 (٢) یعنی آپ پہلے رسول نہیں ہیں جس پر پہلی بار اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کی ہے، آپ سے پہلے بہت سے انبیاء آئے جن پر اللہ نے اپنی وحی نازل کی تھی اور اہل مکہ اس بات سے خوب واقف ہیں، اس لئے اگر اللہ نے آپ پر وحی نازل کی ہے تو انہیں تعجب کیوں ہے۔ سورۃ النساء آیت (136) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (انا اوحینا الیک کما اوحینا الی نوح و النبین من بعدہ واوحینا الی ابراہیم و اسماعیل و اسحاق و یعقوب والاسباط وعیسی و ایوب و یونس و ہارون و سلیمان و اتیناد اوددزبورا) ” یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے نوح اور ان کے بعد آنے والے نبیوں کی طرف کی، اور ہم نے وحی کی ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔ “ اس قرآن کو بذریعہ وحی آپ پر اس اللہ نے نازل کیا ہے جو ہر چیز پر غالب و قادر ہے اور اس کا کوئی قول و فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا وہ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہے وہ سب سے اعلیٰ اور سب سے اعلیٰ اور سب سے عظیم ہے اس کی عظمت تو وہ عظمت ہے اور اس کا جلال تو وہ جلال ہے کہ جس کی تاب نہ لا کر اگر آسمان پھٹ کر ایک دوسرے پر گر جائیں تو کوئی حیرت کی بات نہیں۔ وہ تو وہ ہے جس کی حمد و ثنا بیان کرنے اور اس کی عظمت و کبریائی کا گن گانے میں تمام فرشتے ہر لمحہ اور ہر آن مشغول رہتے ہیں اور اہل ایمان بندگان رب العالمین کے لئے دعاء مغفرت کرتے رہتے ہیں، اس لئے کہ انہیں معلوم ہے کہ اللہ بڑا مغفرت کرنے والا اور اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔ الشورى
4 الشورى
5 الشورى
6 (٣) مشرکین مکہ کے شرک پر نکیر کرتے ہوئے اور انہیں دھمکی دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ اللہ کے سوا بتوں کو اپنا ولی اور دوست بنا لیتے ہیں اور ان کی پرستش کرتے ہیں، اللہ ان کے تمام اعمال کو لکھ رہا ہے اور قیامت کے دن انہیں ان کا بدلہ ضرور دے اگ۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی کے لئے فرمایا کہ اے میرے نبی ! آپ پر ان کی ہدایت کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی ہے کہ ان کے گناہوں کا مؤاخذہ آپ سے ہوگا، آپ تو پیغامبر ہیں اور آپ کی ذمہ داری صرف ان تک پیغام پہنچا دینا ہے۔ شو کافی لکھتے ہیں کہ بعض حضرات کے نزدیک اس آیت میں مذکور حکم، آیت جہاد کے ذریعہ منسوخ ہے۔ الشورى
7 (٤) یعنی جس طرح ہم نے آپ سے پہلے دیگر انبیاء پر وحی نازل کی تھی، اسی طرح آپ پر اس قرآن کو نہایت ہی فصیح و بلیغ اور صریح عربی زبان میں نازل کیا ہے، تاکہ آپ اہل مکہ اور ان کے اردگرد رہنے والوں کو ان کی ہی زبان میں اللہ کا پیغام سنا سکیں اور قیامت کے دن فضیحت و رسوائی سے ڈرا سکیں جب ساری مخلوق جمع ہوگی اور سب کے سامنے مشرکوں، کافروں اور مجرموں کو ان کے دائمی ٹھکانا جہنم کی طرف گھسیٹ کرلے جایا جائے گا اور جو اہل ایمان ہوں گے اور اس دنیا میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کریں گے انہیں جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ الشورى
8 (٥) اللہ تعالیٰ اس بات پر یقیناً قادر ہے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کو دین اسلام کا پابند بنا دے، لیکن اس کی مشیت ازلی کا تقاضا ہوا کہ لوگ اپنی فطری استعداد میں اختلاف کے باعث مختلف ادیان و مذاہب میں بٹ جائیں اور اللہ جس کو چاہے اپنی رحمت سے دین اسلام میں داخل کر دے اور اپنی جنت کا حقدار بنا دے اور جو لوگ اپنی فطری کج روی کی وجہ سے راہ حق سے برگشتہ ہوجائیں گے اور ظلم و شرک کی راہ کو اپنائیں گے، قیامت کے دن ان کا کوئی یارومددگار نہیں ہوگا۔ الشورى
9 (٦) مشرکین کے رویہ پر حیرت و استعجاب کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے کیسے اس بات کو گوارہ کرلیا کہ اللہ کے سوا دوسروں کو اپنا ولی و کار ساز مان لیں، اللہ کے سوا کوئی بھی حقیقی کار ساز نہیں ہے، وہ تو وہ ہے جو مردوں کو زندہ کرتا ہے، اس کے سوا کون اس کی قدرت رکھتا ہے اور وہ تو ہر چیز پر قادر ہے اور اس کے سوا کوئی کسی چیز پر قادر نہیں ہے، اس لئے اس کے سوا غیروں کو کار ساز ماننا ظلم عظیم ہے اور نہایت ہی حیرت و استعجاب کا باعث ہے۔ الشورى
10 (٧) تمام بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ دنیا و دین کے کسی بھی معاملہ میں اگر تمہارے درمیان اختلاف ہوگا تو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کرے گا، جس کا ہر فیصلہ عدل و انصاف پر مبنی ہوتا ہے صاحب محاسن التنزیل لکھتے ہیں، آیت میں اشارہ ہے کہ سچا دین صرف دین اسلام ہے اور مشرکین مکہ اور دیگر مشرکین کا دین و مذہب ان کے آباء و اجداد کی مشرکانہ رسمیں اور خواہش نفس کی اتباع ہے اور اگرچہ یہ سورت مکی ہے، لیکن یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ جن مسائل و معاملات میں اختلاف ہوجائے ان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث ہی فیصل قرار پائے گی۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ وہ مشرکین کو بتا دیں، میرا رب وہی رب ذوالجلا ہے جو حاکم عادل ہے اور جس کا فیصلہ ہر فیصلے پر غالب ہے، اس کے سوا میرا کوئی رب نہیں ہے، میں نے اپنے تمام امور میں اسی پر بھروسہ کیا ہے، اپنے آپ کو اسی کے حوالے کردیا ہے اور میں ہر حال میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ الشورى
11 (٨) میرا رب وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور جس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویوں کو پیدا کیا ہے بایں طور کہ حوا کو آدم (علیہ السلام) کی پسلی سے پیدا کیا ہے، پھر زن و شو کے باہم ملاپ سے نسل انسانی کو باقی رکھا اور میرا رب وہ ہے جس نے جانوروں کے بھی (مذکر و مؤنث) جوڑے پیدا کئے ہیں، اس ذات باری تعالیٰ نے مرد و زن اور مذکر و مؤنث کے باہم ملاپ سے انسانوں اور تمام جانوروں اور بہائم کی نسلوں کو باقی رکھا ہے اور ان کی تعداد کو کثیر بنا کر دنیا میں پھیلا دیا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات بیان کی ہے کہ کوئی چیز اس کے مانند نہیں ہے، وہ اپنی ذات و صفات میں اکیلا اور تنہا ہے اور وہ تمام آوازوں کو سننے والا اور تمام کائنات کی خبر رکھنے والا ہے۔ اس نے آسمانوں اور زمین میں اپنی مخلوقات کے لئے جو روزی پیدا کی ہے اور انعامات و اکرامات کے جو خزانے ان میں ودیعت کی ہے، ان کی چابیاں اسی کے پاس ہیں، وہ ان میں جس طرح چاہتا ہے اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرتا ہے، اپنے علم و حکمت کے تقاضے کے مطابق کسی کی روزی میں وسعت دیتا ہے اور کسی کی روزی تنگ کردیتا ہے اس لئے روزی اور دیگر تمام حاجتیں اسی سے طلب کرنی چاہئے اس کے سوا کوئی ملجا و ماویٰ نہیں ہے۔ الشورى
12 الشورى
13 (٩) آیت (13) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ آپ پر اور آپ سے پہلے دیگر انبیاء پر اللہ نے وحی نازل کی ہے اس آیت کریمہ میں اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اور ان چاروں اولوالعزم انبیاء کو جن کا اس آیت میں ذکر آیا ہے، ایک ہی بات کا حکم دیا ہے کہ صرف اسی ذات واحد کی عبادت کی جائے جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ سورۃ الانبیاء آیت (25) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون) ” ہم نے جب بھی کوئی رسول بھیجا تو اس کو بذریعہ وحی یہی حکم دیا کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اسی لئے تم سب صرف میری ہی عبادت کرو“ اور صحیح بخاری، کتاب الانبیاء میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہم انبیاء ایک ماں کی اولاد کی مانند ہیں، ہمارا دین ایک ہے (یعنی ایک اللہ کی بندگی کرنا، اگرچہ ہماری شریعتیں مختلف رہی ہیں) آیت میں انہی پانچ اولوالعزم انبیاء کا ذکر اس لئے آیا ہے کہ یہ حضرات بڑے انبیائے کرام تھے، ان کی شریعتیں بھی عظیم تھیں اور ان کے ماننے والے دنیا میں بہت بڑی تعداد میں ہوئے ہیں، نیز کافروں کے دلوں کو دین اسلام کی طرف مائل کرنا بھی مقصود ہے، اس لئے کہ ان انبیائے کرام میں بعض ایسے بھی ہیں جن کے نبی ہونے پر تمام کا اتفاق ہے اور ان کا دین بھی دین اسلام تھا۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ کا لوگوں کو توحید کی طرف بلانا کفار قریش پر بڑا ہی گراں گذرتا ہے، لیکن آپ ہمت نہ ہاریئے اور پورے عزم و ثبات کے ساتھ اللہ کا پیغام ان تک پہنچاتے رہئے، کن قبول کرتا ہے اور کون اسے رد کردیتا ہے یہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اللہ اپنی حکمت و مصلحت اور مرضی کے مطابق جسے چاہتا ہے ایمان باللہ کی توفیق دیتا ہے اور وہ اس عظیم خیر کو قبول کرنے کی توفیق اسے دیتا ہے جو اپنے گناہوں سے تائب ہو کر اس کی بندگی کی راہ پر لگ جاتا ہے اور جو باطل پر اصرار کرتا ہے اسے ظلمتوں میں بھٹکتا چھوڑ دیتا ہے۔ الشورى
14 (10) کفار قریش کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمارے پاس اپنا کوئی نبی بھیجے گا تو اس پر ایمان لے آئیں گے اور یہود و نصاریٰ سے زیادہ راہ راست پر چلنے والے بن جائیں گے، لیکن جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے، تو انہوں نے حق کو پہچانتے ہوئے ان کی رسالت پر ایمان لانے سے صرف اس لئے انکار کردیا کہ زمانہ جاہلیت سے ان کو جو سیادت چلی آرہی تھی وہ خطرے میں پڑگئی تھی، اس لئے دل میں اعتراف حق کے باوجود محض جاہلی حمیت کی وجہ سے اسے قبول نہیں کیا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں یہود و نصاریٰ مراد ہیں، جیسا کہ سورۃ البینہ آیت (٤) میں آیا ہے : (وما تفرق الذین اوتوا الکتاب الامن بعد ماجاء تھم البینۃ) ” اہل کتاب اپنے پاس ظاہر دلیل آجانے کے بعد متفرق ہوگئے۔ “ بعض دیگر مفسرین نے لکھا ہے کہ عرب اور یہود و نصاری سبھی مراد ہیں اور یہی قول راجح ہے اس لئے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد تینوں گروہوں میں سے کچھ نے ان کی دعوت کو قبول کیا اور کچھ نے حق کو جاننے اور پہچاننے کے باوجود انکار کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے حق کا انکار کرنے والے ان عرب اور یہود و نصاریٰ کے بارے میں فرمایا کہ اگر اللہ کا یہ فیصلہ پہلے ہی نہ ہوچکا ہوتا کہ انہیں دنیا میں عذاب دے کر ہلاک نہیں کیا جائے گا، بلکہ قیامت کے دن تک کے لئے ان کی سزا مؤخر کردی گئی ہے، تو ان کے جرائم ایسے ہیں کہ انہیں فی الفور ہلاک کردیا جاتا۔ آیت کے آخر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں پائے جانے والے عربوں اور یہود و نصاریٰ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ قرآن، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دین اسلامی کی صداقت کے بارے میں خود غایت درجہ شک و شبہ میں مبتلا ہیں اور اپنی سوسائٹی میں اسلام کے خلاف شبہات پھیلا کر دوسروں کو بھی قبول حق سے روکتے ہیں۔ الشورى
15 (١١) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جا رہا ہے کہ جس دین و شریعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث کیا ہے لوگوں کو اسی کی طرف بلایئے اور خود بھی اسی پر قائم رہئے اور مشرکوں اور یہود و نصاریٰ کی پیروی میں اس سے ہرگز انحراف نہ کیجیے اور پوری صراحت کے ساتھ اس بات کا اعلان کردیجیے کہ میں ان تمام کتابوں پر ایمان رکھتا ہوں جنہیں اللہ نے نازل کی ہیں، میرا شیوہ یہود و نصاریٰ جیسا نہیں کہ اللہ کی کسی کتاب پر ایمان لاؤ اور کسی کا انکار کر دوں اور مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ اگر تم اپنے کسی قضیہ میں میرے پاس فیصلہ کے لئے آؤ تو پورے عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کروں اور اللہ کی شریعت سے سرموانحراف نہ کروں۔ اور اے کفار قریش ! اور اے یہود و نصاریٰ سن لو، کہ ہمارا اور تمہارا رب اللہ ہے، اس کے سوا کوئی رب نہیں ہے، وہی ذات واحد ہر چیز کا رب اور مالک ہے ہمارے اعمال کا ثواب و عقاب ہمارے لئے ہے اور تمہارے اعمال کا تمہارے لئے، ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ چکایا جائے گا۔ اور چونکہ حق ظاہر ہوچکا ہے اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہی رہی ہے، اس لئے ہمارے اور تمہارے درمیان اختلاف و نزاع کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ہمیں اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہئے، قیامت کے دن وہ ہمیں ضرور جمع کرے گا اور ہمارے درمیان فیصلہ کر دے گا، اہل حق کو جہنم سے نجات دے گا اور جنت میں داخل کر دے گا اور باطل پرستوں کو ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈال دے گا۔ الشورى
16 (12) مجاہد کہتے ہیں کہ جب لوگ اسلام میں کثرت سے داخل ہونے لگے تو کچھ کفار اپنے دل میں تمنا کرنے لگے کہ کاش جاہلیت کا زمانہ پھر لوٹ آتا اور اسلام کا سیل رواں رک جاتا، تو یہ آیت نازل ہوئی، جس کا مفہم یہ ہے کہ کفار چاہتے ہیں کہ کسی طرح محمد اور اس کے ساتھی اسلام سے برگشتہ ہوجائیں، اللہ تعالیٰ نے انہی کافروں کے بارے میں فرمایا کہ قیامت کے دن ان کی لچر دلیلیں ہرگز کام نہ دیں گی اور آفتاب کے مانند عیاں حق کے انکار کی وجہ سے ان پر اللہ کا غضب نازل ہوگا اور انہیں شدید عذاب دیا جائے گا۔ الشورى
17 (13) اس آیت کریمہ میں خبر دی گئی ہے کہ وہ اللہ کی ذات ہے جس نے تمام آسمانی کتابوں کو نازل کیا ہے، جن میں مذکورہ احکام و اخبار برحق ہیں اور جس نے میزان عدل نازل کیا ہے، یعنی لوگوں کو الہام کیا کہ وہ میزان استعمال کریں تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور سر زمین پر اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کی جائے اور اس کی شریعت کے سوا کسی کا حکم نافذ العمل نہ قرار پائے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت کا دن بالکل ہی قریب ہے، اس لئے اے میرے نبی ! آپ قرآن کریم کے احکام پر عمل کیجیے اور عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کیجیے، اس دن کے آنے سے پہلے جب لوگوں کے اعمال وزن کئے جائیں گے اور ہر ایک کو اس کا پورا پورا بدلہ چکایا جائے گا۔ اور روز قیامت کی آمد کی جلدی وہ لوگ مچاتے ہیں جنہیں اس کی آمد کا یقین نہیں ہے، اسی لئے ہمارے نبی سے مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ اگر تمہاری بات سچ ہے تو پھر آ ہی جائے وہ دن، ذرا ہم بھی دیکھ لیں، یعنی دوبارہ اٹھائے جانے کی بات بالکل ہی بے بنیاد اور بعید از عقل ہے، لیکن جو لوگ بعث بعد الموت، روز قیامت اور اس دن کی جزا و سزا پر ایمان رکھتے ہیں، اس کی آمد کے تصور سے ڈرتے ہیں، اس لئے کہ وہ نہیں جانتے کہ اس دن ان کا انجام کیا ہوگا۔ آیت (18) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے بعث بعد الموت کی صداقت پر مزید زور دیتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ قیامت کی آمد میں شبہ کرتے ہیں وہ راہ حق سے بہت ہی دور جا چکے ہیں، اتنی دور کہ جہاں سے لوٹ کر راہ حق پر آجانے کی کوئی امید نہیں ہے۔ الشورى
18 الشورى
19 (14) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بے حد مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے، اس کا لطف و کرم مومن و کافر اور نیک و بد سب کو شامل ہے، اسی لئے تو وہ سب کو روزی دیتا ہے، کافر کفر کا ارتکاب کرتا ہے اور فاجر فسق و فجور سے دنیا کو بھر دیتا ہے، پھر بھی انہیں ہلاک نہیں کرتا ہے، بلکہ زندگی کی آخری سانس تک کھلاتا اور پلاتا رہتا ہے۔ اور اللہ جسے چاہتا ہے خوب روزی دیتا ہے اور جس پر چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے، اس وسعت و تنگی کے بھید کو وہی جانتا ہے، نہ وسعت رزق اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ اس سے راضی ہے اور نہ ہی تنگی رزق اس کی ناراضگی کی دلیل ہے۔ الشورى
20 (15) اس کے لطف و کرم کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ اس کے جو بندگان نیک اپنے اعمال صالحہ کے بدلے اس کی رضا اور حصل جنت کی نیت کرتے ہیں وہ ان کے ہر عمل صالح کا دس سے سات سو گنا تک ثواب دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس سے بھی زیادہ دیتا ہے اور جن کا مقصد دنیا اور اس کی عارضی لذتوں کا حصول ہوتا ہے وہ انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیتا ہے، اور آخرت میں انہیں کوئی خوش نصیب نہیں ہوگی، وہاں ان کا ٹھکانہ جہنم میں ہوگا، اسی معنی و مفہوم کو سورۃ الاسراء آیات (18، 19) میں یوں بیان کیا گیا ہے : (من کان یرید العاجلۃ عجلنا لہ فیھا مانشا لمن نریدتم جعلنا لہ جھنم یصلاھا مذموما مذحور ا، ومن ارادالاخرۃ وسعی لھا سعیھا وھومؤمن فاؤلئک کان سعیھم مشکورا) ” جس کا ارادہ اس جلدی والی دنیا (فوری فائدہ) کا ہی ہو، اسے ہم یہاں جس قدر جس کے لئے چاہیں سردست دیتے ہیں، بالآخر اس کے لئے ہم جہنم مقرر کردیتے ہیں جہاں وہ برے حالوں دھتکارا ہوا داخل ہوگا اور جس کا ارادہ آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اس کے لئے ہونی چاہئے وہ کرتا بھی ہو اور وہ باایمان بھی ہو، پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش کی اللہ کے ہاں پوری قدر دانی کی جائے گی۔ “ الشورى
21 (16) کفر و معصیت کی قباحت و شناعت بیان کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے کہ کیا کفار قریش کے کچھ ایسے شیاطین شرکاء ہیں جنہوں نے اللہ کی مرضری کے خلاف ان کے لئے ایسی شریعت گھڑ دی ہے جو شرک و معاصی کا مجموعہ ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں شرک باللہ کا شدید انکار اور مشرکین کے خلاف اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب کا اعلان ہے اسی لئے اس کے بعد کہا گیا ہے کہ اگر یہ فیصلہ نہ ہوچکا ہو تاکہ ان کی سزا قیامت کے دن کے لئے مؤخر کردی گئی ہے، تو ان کے جرم کا تقاضا تو یہ تھا کہ انہیں فوراً ہلاک کردیا جاتا اور ایسے ظالموں کو قیامت کے دن درد ناک عذاب دیا جائے گا۔ الشورى
22 (17) میدان محشر کا ایک منظر بیان کیا جا رہا ہے کہ دنیا میں شرک و معاصی کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر ظلم کرنے والے لوگ اس دن اپنی بد اعمالیوں کو یاد کر کے اپنے برے انجام سے شدید خائف ہوں گے، کیونکہ اس وقت انہیں یقین ہوجائے گا کہ اب عذاب نار سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اور جنہوں نے دنیا میں رب العالمین کی ربوبیت کا اقرار کرلیا ہوگا، اسلام کو بحیثیت دین اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بحیثیت ہی تسلیم کرلیا ہوگا اور اپنی زندگی عمل صالح کے ساتھ گذاری ہوگی، ان کا مقام خوبصورت ترین جنتیں ہوں گی جن میں ان کے رب کی طرف سے ان کی مرضی کی ہر چیز ملے گی اور اہل جنت پر اللہ کا یہ بڑا فضل و کرم ہوگا۔ آیت (٣٢) میں اللہ تعالیٰ نے اہل جنت کے لئے اپنے وعدے کی تجدید کرتے ہوئے فرمایا کہ خوبصورت ترین جنتوں، بے مثال باغات اور بے بہا نعمتوں کی اللہ تعالیٰ اپنے ان نیک بندوں کو خوش خبری دیتا ہے، جو ایمان و عمل صالح کی زندگی اختیار کرتے ہیں۔ آیت کے دوسرے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی فرمایا کہ اے اہل قریش ! اتنی عظیم نعمتوں کے حصول کی طرف رہنمائی پر میں تم سے کوئی معاوضہ نہیں طلب کرتا ہں، صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم لوگوں کے ساتھ میری جو قرابت و رشتہ داری ہے اس کا خیال کر کے میری ایذا رسانی سے باز آجاؤ اور دوسروں کو بھی مجھے ایذا پہنچانے سے رد کو، تاکہ میں بسہولت اللہ کا پیغام اس کی مخلوق تک پہنچا سکوں۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو بندہ مومن بھی کوئی عمل صالح کرے گا تو ہم اس کا بدلہ اسے کئی گنا بڑھا کردیں گے اس لئے کہ ہم توبہ کرنے والوں کے گناہوں کو معاف کردیتے ہیں اور نیکو کاروں کو ان کے اعمال صالحہ کا بدلہ کئی گنا بڑھا کردیتے ہیں۔ الشورى
23 الشورى
24 (18) مشرکین کہتے تھے کہ محمد جھوٹا ہے، اللہ نے اسے اپنا نبی نہیں بنایا ہے اور نہ ہی بذریعہ وحی اس پر اپنا قرآن نازل کیا ہے، اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے ان کی اس افترا پردازی کی تردید یوں کی ہے کہ اگر آپ ہمارے نبی نہ ہوتے اور قرآن ہمارا کلام نہ ہوتا بلکہ آپ کی افتر اپردازی ہوتی تو اللہ تعالیٰ آپ کے دل پر مہر لگا دیتا، نہ کوئی معنی آپ کی سمجھ میں آتا اور نہ کوئی حرف آپ کی زبان سے ادا ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ وحی کا سلسلہ جاری ہے، قرآن نازل ہو رہا ہے اور دین اسلام کے احکام مدون ہو رہے ہیں یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ اللہ آپ سے راضی ہے اور قرآن ہمارا کلام ہے، اور مشرکین عرب جھوٹے ہیں۔ آیت کے دوسرے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ بہر حال باطل کی بیخ کنی کردیتا ہے اور قرآنی آیات کے ذریعہ حق کی جڑوں کو مضبوط کردیتا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس میں بھی مشرکین مکہ کی گزشتہ افتر اپردازی کی تردید کی گئی ہے کہ اگر قرآن اللہ کا کلام نہ ہوتا تو وہ اسے ضرور مٹا دیتا۔ زمشری نے لکھا ہے کہ اس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکین کی افتر اپردازیوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گا اور قرآن کریم کے ذریعہ دعوت حق کی جڑوں کو وہ ضرور مضبوط کرے گا انتہی چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے وقت جزیرہ عرب مشرکوں سے پاک ہوگیا اور توحید کا علم ہر طرف لہرانے لگا۔ الشورى
25 (19) اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے اپنے لطف و کرم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہی واحد ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے اور وہ اپنے بندوں کے تمام کرتوتوں سے خوب واقف ہے اور وہی ہے جو ایمان و عمل صالح کی زندگی اختیار کرنے والوں کو قیامت کے دن ان کی نیکیوں کا پورا پورا بدلہ دے گا، بلکہ اپنے فضل و کرم سے انہیں زیادہ دے گا یعنی جو طلب نہیں کریں گے وہ بھی دے گا اور جو لوگ اس دنیا میں کفر و سرکشی کی راہ اختیار کریں گے انہیں شدید عذاب دے گا۔ الشورى
26 الشورى
27 (20) اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور علم و حکمت کے مظاہر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر وہ اپنے تمام بندوں کی روزی میں خوب وسعت و کشادگی دے دیتا، تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ زمین میں سرکشی کرنے لگتے اور کبر و غرور میں مبتلا ہوجاتے اور اللہ سے وہ کچھ مانگنے لگتے جس کا انہیں حق نہیں پہنچتا، اسی لئے وہ انہیں اتنی ہی روزی دیتا ہے جو اس کی مشیت و حکمت کے مطابق ہوتی ہے، وہ اپنے بندوں کے احوال و ضروریات سے خوب واقف ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنی قدرت و حکمت کے ملے جلے تقاضے کے مطابق باران رحمت کو روک لیتا ہے، یہاں تک کہ زمین خشک ہوجاتی ہے، قحط سالی سے انسان اور چوپائے بدحال ہونے لگتے ہیں، حتی کہ بارش سے بالکل ناامید ہوجاتے ہیں اور اللہ کی مشیت کے سامنے اپنے آپ کو بالکل بے دست و پا سمجھنے لگتے ہیں اور مشرکین کے جھوٹے معبودوں کی عاجزی اور بے بسی بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اگر معبود ہیں اور کسی قسم کی قدرت رکھتے ہیں تو پھر اپنی پوجا کرنے والوں کی مدد کے لئے آگے کیوں نہیں بڑھتے ہیں اور آسمان سے بارش کیوں نہیں نازل کرتے ہیں، تب اللہ کی رحمت جوش میں آتی ہے اور باران رحمت کے ذریعہ بندوں کی نا امیدی و پریشانی کو دور کردیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت کے مظاہر میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو عجیب و غریب ہئیت و کیفیت میں پیدا کیا ہے اور چوپائے پیدا کئے ہیں جو زمین پر چلتے رہتے ہیں اور فرشتے پیدا کئے ہیں جو فضائے آسمانی میں تیرتے رہتے ہیں اور اس کے مظاہر قدرت میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ہر ذی روح کو موت کے گھاٹ اتار دے گا اور تمام کے تمام مٹی میں گل سڑ جائیں گے اور جب قیامت آئے گی تو اسرافیل (علیہ السلام) کے ایک صور کے ذریعہ تمام کو زندہ کر کے اپنے سامنے لاکھڑا کرے گا۔ الشورى
28 الشورى
29 الشورى
30 (21) اللہ کے علم و قدرت کے مظاہر میں سے یہ بھی ہے کہ انسان کا کوئی عمل بھی اس سے مخفی نہیں ہوتا ہے اور اس کا کوئی بھی کام مکافات عمل کے قدرتی نظام سے خارج نہیں ہوتا ہے، مسلمان کو اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو یہ دلیل ہوتی ہے کہ اس سے کسی غلطی کا ارتکاب ہوا ہے، جسے اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں کوئی تکلیف دے کر مٹا دینا چاہتا ہے اور بہت سی غلطیوں اور خطاؤں کو وہ اپنے فضل و کرم سے معاف کردیا ت ہے، اس پر مواخذہ نہیں کرتا ہے۔ ترمذی نے ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بندے کو کوئی بھی چھوٹی یا بڑی تکلیف پہنچتی ہے تو ایسا اس کے کسی گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے اور جن گناہوں کو وہ معاف کردیتا ہے وہ تو بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ واحدی نے لکھا ہے کہ یہ آیت کریمہ مومن کو اس سے زیادہ پرامید بناتی ہے، اس لئے کہ مومن کے گناہوں کو دو حصوں میں تقسیم کر کے، ایک حصہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے مصائب و تکلیف میں مبتلا کر کے مٹا دیتا ہے اور دوسرے بڑے حصے کو اپنے فضل و کرم سے دنیا میں ہی معاف کردیتا ہے اور کافر کے گناہوں کی سزا دنیا میں نہیں دی جاتی ہے، اس کے سارے جرائم و معاصی قیامت کے دن کے لئے اٹھا کر رکھ دیئے جاتے ہیں۔ آیت (١٣) میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور علم و حکمت کا ایک اور مظہر یہ بیان کیا کہ انسان کے پاس چاہے جتنی بھی قوت و سطوت اور علم و معرفت ہو، وہ اللہ کو عاجز نہیں بنا سکتا ہے۔ اگر اللہ چاہے تو آسمان کو اس کے سر پر گرا دے اور چاہے تو اس زمین میں دھنسا دے اور کوئی اسے اس کام سے نہیں روک سکتا ہے۔ الشورى
31 الشورى
32 (٢٢) اس کی قدرت، علم وحکمت اور رحمت کا ایک مظہر سمندروں میں پہاڑوں کے مانند چلنے والی کشتیاں ہیں جو محض اللہ کی قدرت کے سہارے ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچ جاتی ہیں۔ اگر اللہ چاہتا تو ہوا کو روک دیتا، پھر وہ کشتیاں سطح سمندر میں ٹھہری رہ جاتیں، یا اللہ چاہتا تو کشتی میں سوار لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے تیز و تند آندھی بھیج کر ان کشتیوں کو سمندر میں ڈبو دیتا، لیکن اللہ اپنے بندوں کے بہت سارے گناہوں کو معاف کردیتا ہے اور ان پر رحم کرتے ہوئے انہیں سمندر کی نذر نہیں کرتا۔ یہ تمام باتیں رب العالمین کے وجود، اس کی قدرت و عظمت اور حکمت و رحمت کی بڑی واضح دلیلیں ہیں، جن سے وہی لوگ مستفید ہوتے ہیں جو اپنے رب کی اطاعت و بندگی کی راہ میں تکلیفیں برداشت کرتے ہیں اور اس کی دی ہوئی نعمتوں پر زبان و عمل کے ذریعہ شکر ادا کرتے ہیں۔ الشورى
33 الشورى
34 (23) جب کوئی کشتی ہوا کی زد میں آ کر ڈوبنے لگتی ہے اس وقت اس میں سوار اللہ کی آیتوں کا انکار کرنے والے مشرکین کو خوب معلوم ہوجاتا ہے کہ اب اللہ کے عذاب سے انہیں اس کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا ہے، اس لئے بتوں کو چھوڑ کر صرف اللہ کو پکارنے لگتے ہیں۔ الشورى
35 الشورى
36 (24) اللہ تعالیٰ نے دنیائے دنی اور اس کی نعمتوں کی بے ثباتی اور جنت کے دوام و بقا کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ جنت ان کو ملے گی جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں، صرف اسی پر بھروسہ کرتے ہیں بڑے گناہ جیسے شرک، قتل، ظلم، شراب نوشی، اکل حرام اور زنا ولواطت وغیرہ سے بچتے ہیں، جب انہیں کسی پر غصہ آتا ہے، تو اس کی غلطی کو معاف کر دیت یہیں، جب ان کا رب انہیں اپنی طاعت و بندگی کا حکم دیتا ہے تو فوراً سر تسلیم خم کردیتے ہیں نماز قائم کرتے ہیں، یعنی پورے خشوع و خضوع کے ساتھ تمام شروط و ارکان اور واجبات و سنن کی رعایت کرتے ہوئے نماز ادا کرتے ہیں اور جب کوئی اہم معاملہ پیش آتا ہے تو آپس میں مشورہ کرنے بعد ہی قدم اٹھاتے ہیں، اللہ انہیں جو روزی دیتا ہے اس کا کچھ حصہ اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور جب کوئی باغی و طاغی کا فران پر چڑھ دوڑتا ہے تو اپنی عزت نفس کی خاطر اٹ کھڑے ہوتے ہیں اور ظلم وتعدی کو قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں، اس لئے کہ مومن کی عزت نفس اور غیرت و خودی کا یہی تقاضا ہے اور اس لئے بھی کہ ظالم کو ظلم سے روک دینا اور اسے قبول حق پر مجبور کردینا اللہ کے نزدیک قابل ستائش صفت ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ کے جو نیک بندے مذکورہ بالا دسوں صفات کے ساتھ متصف ہوں گے، وہ اللہ کے فضل و کرم سے دنیا کی حلال نعمتوں سے بھی محرم نہیں ہوں گے، لیکن چونکہ جنت کے مقابلے میں ان کی کوئی حیثیت نہیں، اسی لئے صرف جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ الشورى
37 الشورى
38 الشورى
39 الشورى
40 (25) اوپر کی آیت میں مومنین اہل جنت کی دسویں صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ظلم کو قبول نہیں کرتے ہیں اسی مناسبت سے یہاں کہا گیا ہے کہ وہ لوگ ظالم کو اس کے ظلم کے مطابق ہی سزا دیتے ہیں، زیادتی نہیں کرتے ہیں۔ آگے فرمایا کہ بہر حال عفو و درگذر سے کام لینا اور دوسروں کی غلطیوں کو نظر انداز کر جانا اللہ کو زیادہ پسند ہے، اور وہ اپنے ایسے بندوں کو اچھا بدلہ دیتا ہے اور ظلم و تعدی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔ جو شخص ظلم کو قبول نہیں کرتا اور اس پر جتنی زیادتی ہوئی ہوتی ہے اتنا بدلہ لے لیتا ہے تو اس کا کوئی مواخذہ نہیں ہوگا، مواخذہ تو ان کا ہوگا جو دوسروں پر ظلم و زیادتی کرتے ہیں اور زمین میں ناحق فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں اور اگر اپنے کئے پر نادم نہیں ہوں گے اور اللہ کے حضور تائب نہیں ہوں گے تودنیاوی مواخذہ کے بعد آخرت میں بھی درد ناک عذاب سے دوچار ہوں گے۔ آیت (40) میں جو بات کہی گئی تھی، آیت (43) میں اسی کو مزید تاکید کے طور پر بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص کسی کی اذیت کو برداشت کرے گا، اسے معاف کر دے گا اور بدلہ نہیں لے گا وہ بہرحال اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل ستائش ہوگا، اس لئے کہ وہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے اس عظیم صفت کے ساتھ متصف ہوں۔ الشورى
41 الشورى
42 الشورى
43 الشورى
44 (26) اللہ تعالیٰ جسے گمراہ کر دے، اسے کؤی راہ راست پر نہیں لا سکتا ہے اور قیامت کے دن مشرکین جب جہنم کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کرلیں گے تو تمنا کریں گے کہ کاش دنیا کی طرف دوبارہ لوٹ جانے کی کوئی صورت نکل جاتی تاکہ ایمان لے آتے، اور موحد بن کر عذاب نار سے نجات پانے اور دخول جنت کے حقدار بن جاتے۔ انہیں جہنم کے سامنے لایا جائے گا تو ذلت و رسوائی کے نیچے دبے ہوں گے، اور مارے خوف و دہشت کے اس کی طرف ادھ کھلی نگاہوں سے دیکھیں گے، اور اہل ایمان اپنی کامیابی کے غبطہ و سرور میں اور جہنمیوں کی ذلت و رسوائی کو دیکھ کر کہیں گے کہ حقیقی گھاٹا اٹھانے والے آج وہ لوگ ہیں جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے اور جنت کی دائمی نعمتوں سے ہمیشہ کے لئے محروم کردیئے جائیں گے اور کوئی نہیں ہوگا جو اللہ کے مقابلے میں ان کی مدد کے لئے آگے آسکے اور حقیقت تو یہ ہے کہ جسے اللہ گمراہ کر دے وہ نہ تو دنیا میں راہ حق پر چل سکتا ہے اور نہ ہی آخرت میں جنت کی راہ پر چل کر اس میں داخل ہو سکے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دنیا و آخرت کی رسوائیوں سے بچائے۔ الشورى
45 الشورى
46 الشورى
47 (27) دنیا و آخرت کی رسوائیوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ رب العالمین کے پیغامبر نے جو دعوت ایمان و عمل دی ہے اسے قبول کیا جائے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں نصیحت کی ہے کہ لوگو ! اللہ کی دعوت کو قبول کرلو، اس روز قیامت سے پہلے جسے کوئی ٹال نہیں سکے گا، اور جاب کافروں کو اللہ کے عذاب سے بھاگ نکلنے کی کوئی جگہ نہیں ملے گی اور نہ وہ اپنے کرتوتوں کا انکار کرسکیں گے۔ الشورى
48 (28) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا ہے کہ اگر لوگ آپ کی دعوت توحید کو قبول نہیں کرتے ہیں، تو نہ کریں، آپ ان کے اوپر داروغہ بنا کر انہیں بھیجے گئے ہیں، آپ کا کام تو محض پیغام رسانی ہے، جو آپ کر رہے ہیں، ان کے کفر و شرک کا ملال نہ کریں، اور ان کا معاملہ ہمارے حوالے کردیں۔ آیت کے دوسرے حصہ میں کافر اور ضعیف الایمان انسان کی حالت بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اسے اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے تو مارے خوشی کے آپے سے باہر نکلنے لگتا ہے اور شکر ادا کرنا بھول جاتا ہے اور جب اسے اس کے برے اعمال کی وجہ سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ کی ساری نعمتوں اور اس کے سارے احسانات کو بھل جاتا ہے اور صرف اسی تکلیف کو یاد کر کے ناشکری کرنے لگتا ہے، وہی کافر جب نعمت ایمانی سے مشرف ہوجاتا ہے تو اس کی حالت یکسر بدل جاتی ہے اور اس کی طبیعت میں پاکیزگی آجاتی ہے جب کوئی نعمت ملتی ہے تو شکر گزار ہوتا ہے اور جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے۔ الشورى
49 (29) آسمانوں اور زمین کا بادشاہ صرف اللہ ہے، اس کی بادشاہت میں کسی کا کوئی دخل نہیں ہے، وہ جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے، اور جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، کسی کو بیٹا دیتا ہے، کسی کو بیٹی دیتا ہے اور کسی کو دونوں دیتا ہے اور کسی کو بانجھ بنا دیتا ہے، یعنی اس کے یہاں اولاد نہیں ہوتی، ان تمام رازوں اور بھیدوں کو صرف وہی جانتا ہے اور وہ ہر بات کی قدرت رکھتا ہے، اس لئے بندہ کو اللہ کی تقدیر و قسمت پر ہر حال میں راضی رہنا چاہئے اسی میں اس کے لئے دین و دنیا کی بھلائی ہے۔ الشورى
50 الشورى
51 مفسرین اس آیت کا سبب نزول یہ بیان کرتے ہیں کہ یہودیوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا اگر تم نبی ہو تو جس طرح موسیٰ نے اللہ سے بات کی تھی اور طور پر اس کی تجلی کا نظارہ کیا تھا، تم بھی اس سے بات کر کے ہمیں دکھاؤ، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، یہ کسی انسان کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اللہ اس سے ہم کلام ہو، البتہ اپنی پغیام رسانی کے لئے جسے اختیار کرلیتا ہے اس کے پاس اپنی وحی بھیجتا ہے یعنی اسے الہام کرتا ہے اور اپنی بات اس کے دل میں ڈال دیتا ہے، جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ موسیٰ کو تابوت میں بند کر کے سمندر میں ڈال دیں اور ابراہیم (علیہ السلام) کو الہام کیا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کو ذبح کریں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے رسول سے کسی پردے کے اوٹ سے بات کرتا ہے، یعنی رسول اس کی بات تو سنتا ہے، لیکن اسے دیکھ نہیں پاتا جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ہوا تھا اور تیسری صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی جبرئیل (علیہ السلام) کو اپنے رسول کے پاس بھیجتا ہے اور حکم الٰہی کے مطابق اپنے رب کا پیغام بذریعہ وحی رسول تک پہنچاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس امر سے بہت ہی بلند و بالا ہے کہ کوئی مخلوق اس کے سامنے آ کر اس سے ہم کلام ہو، اگر ایسا فرض کرلیا جائے تو تجلی الٰہی کی روشنی اسے خاکستر کر دے گی، اس لئے کہ ناممکن ہے کہ اس کے سامنے کؤی دوسرا ٹھہر جائے اور وہ بڑا ہی حکمت و دانائی والا ہے، وہ خوب جانتا ہے کہ اپنا پیغام اپنے رسول تک کس طرح پہنچائے۔ آیت (52) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ تک ہم نے اپنی وحی انہیں مذکور بالا تیونوں طریقوں کے ذریعہ پہنچائی ہے۔ نزول وحی سے پہلے آپ کو نہ تو قرآن کا پتہ تھا اور نہ ایمان و عمل کی تفصیلات آپ جانتے تھے کہ خود آپ کو کیسے زندگی گذارنی ہے اور دوسروں کو کیا تعلیم دینی ہے۔ یہ تو وحی الٰہی کی برکت ہے کہ ہم نے آپ کو قرآن دیا ہے جس کی روشنی کے ذریعے ہم اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتے ہیں راہ حق کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور جس کی بدولت آپ لوگوں کو دین اسلام کی دعوت دیتے ہیں، جو آسمانوں اور زمین کے مالک اللہ تک پہنچنے کا واحد سیدھا راستہ ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ آیت میں وحی کو روح سے اسی لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ مردہ دلوں کو زندگی ملتی ہے۔ اور اے میرے نبی ! آپ جان لیجیے کہ آخرت میں تمام امور کا فیصلہ صرف اللہ کرے گا، جو اپنے بندوں کے درمیان پورے عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا، اور ہر ایک کو اس کے کئے کا اچھا یا برا بدلہ دے گا۔ الشورى
52 الشورى
53 الشورى
0 سورۃ الزخرف مکی ہے، اس میں نواسی آیتیں اور سات رکوع ہیں الزخرف
1 تفسیر سورۃ الزخرف نام : آیت (٥٣) (وزخرفا وان کل ذلک لما متاع الحیاۃ الدنیا) الآیۃ سے ماخوذ ہے، صاحب محاسن التنزیل نے مہایمی کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس سورت کے نام کے لئے اس لفظ کو اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ یہ آیت دنیا کی خست و دناءت اور اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ دنیا اپنے رب کی نگاہ میں مبغوض ہے، اس لئے فی الواقع یہ اس کے دشمنوں ہی کی جگہ ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ سورت بالاجماع مکی ہے۔ ابن عباس (رض) کا یہی قول ہے۔ اس کے مضامین بتاتے ہیں کہ یہی بھی انہی دنوں نازل ہوئی ہوگی جب المومن، حم السجدہ اور الشوریٰ نازل ہوئی تھیں۔ (١) یہ حروف مقطعات ہیں اور ان کا معنی و مفہوم اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ الزخرف
2 (٢) اللہ تعالیٰ نے کتاب مبین کی قسم کھائی ہے، جس سے مقصود لوگوں کے دل و دماغ میں قرآن کریم کی قدر و منزلت بٹھانی ہے یعنی یہ کتاب مبین وہ عظیم کتاب ہے جس کی قدر و منزلت کی قسم باری تعالیٰ نے کھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے اہل عرب ! اس کتاب مبین کی قسم جو حق و باطل کو لوگوں کے لئے کھول کر بیان کرتی ہے، اسے عربی زبان میں ہم نے نازل کیا ہے، تاکہ تم لوگ اس کے اغراض و مقاصد کا ادراک کرسکو اور بغیر واسطہ سمجھ سکو کہ ہمارا تم سے کیا مطالبہ ہے۔ اور یہ قرآن مبین ہمارے پاس لوح محفوظ میں موجود ہے اور اس کا مقام بہت ہی اونچا ہے اور یہ بڑی حکمتوں والی کتاب ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں، مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ اسمان والوں کے دلوں میں اس قرآن کی قدر و منزلت، زمین والوں سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ بھی اس کا صحیح مقام سمجھیں اور اس میں مذکور احکام شریعت کی پابندی کریں۔ اسی معنی کو سورۃ البروج آیات (١٢/٢٢) میں یوں بیان کیا گیا ہے : (بل ھو قرآن مجید، فی لوح محفوظ) ” بلکہ یہ قرآن ہے بڑی شان والا اور لوح محفوظ میں (لکھا ہوا) “ الزخرف
3 الزخرف
4 الزخرف
5 (٣) کفار مکہ کے کفر و شرک پر اصرار اور قرآن کریم سے مسلسل اعراض پر نکیر کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے، کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہاری زیادتیوں اور حد سے تجاوز کی وجہ سے ہم قرآن کا نازل کرنا بند کردیں گے، بلکہ حق سے تمہارا اعراض تو اور اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ قرآن نازل ہوتا رہے، شاید کہ کسی دن تمہارے دل میں حق بات اتر جائے، تم مشرف بہ اسلام ہوجاؤ، اور تمہارے دل کی دنیا بد جائے۔ اور تمہاری جانب سے ہمارے نبی اور قرآن کا حجود و انکار کوئی نئی بات نہیں ہے، ہم تم سے پہلے بھی بہت سے انبیاء بھیجتے رہے ہیں اور ان کی قوموں نے ان کا مذاق اڑایا، ان کی نبوتوں اور اللہ کی کتابوں کا انکار کیا تو ہم نے ان میں سب سے زیادہ طاقتور قومیں تھیں انہیں عذاب بھیج کر ہلاک کردیا اور ان قوموں کے واقعات اور ان کی ہلاکت و تباہی کی رو دادیں قرآن کریم میں مختلف مقامات پر مذکور ہیں، جنہیں سن کر تمہیں عبرت حاصل کرنی چاہئے۔ الزخرف
6 الزخرف
7 الزخرف
8 الزخرف
9 (٤) مشرکین مکہ کے لئے دعوت توحید کا اعادہ کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اے میرے نبی ! اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو بغیر کسی توقف و تردد کے یہی جواب دیں گے کہ انہیں اس ذات واحد نے پیدا کیا ہے جو بڑے مقام پر عزت والا ہے اور جس کا علم ہر چیز کو محیط ہے اور ان کا یہ اعتراف ان کے جرم کو اور بڑھا دیتا ہے اور انہیں شدید ترین سزا کا حقدار بنا دیتا ہے کہ اس اعتراف کے باوجود اس کے سوا غیروں کی عبادت کرتے ہیں، بلکہ پتھر کے بنے بتوں کی پرستش کرتے ہیں جو سمع و بصر سے عاری اور نفع و ضرر سے بالکل خالی ہوتے ہیں۔ آیت (١٠) میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی بات پر اضافہ کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو ! اس عزیز و علیم ذات کی صفت یہ بھی ہے کہ اس نے زمین کو تمہارے لئے بچے کے پالنا کی طرح ہموار اور آرام دہ بنایا ہے جس پر تم چلتے ہو، سوتے ہو، اور اپنی تمام ضروریات زندگی پوری کرتے ہو اور اس نے تمہارے لئے زمین میں پہاڑوں اور وادیوں کے درمیان راستے بنائے ہیں، تاکہ تم ان پر چل کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکو اور اپنی معیشت کے لئے تجارتی کاروبار انجام دے سکو۔ اور اس کی صفت یہ بھی ہے کہ وہ آسمان سے اپنی حکمت و مصلحت کے تقاضے کے مطابق مناسب مقدار میں بارش نازل کرتا ہے جس سے وہ مردہ شہروں کو زندگی دیتا ہے۔ آیت (١١) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس طرح بارش کے قطروں سے مردہ زمین میں جان آجاتی ہے، پودے لہلہا اٹھتے ہیں اور انواع و اقسام کے پھل اور پھول اگ آتے ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ قیامت کے دن تمام مردہ انسانوں کو دوبارہ زندہ کرے گا جو زندہ ہوتے ہی میدان محشر کی طرف دوڑ پڑیں گے اور اپنے رب کے حضور اپنے اعمال کا حساب دینے کے لئے دست بستہ کھڑے ہوجائیں گے۔ الزخرف
10 الزخرف
11 الزخرف
12 (٥) اس ذات باری تعالیٰ کی صفت یہ بھی ہے کہ اس نے انواع و اقسام کی چیزیں اور تمام حیوانات و نباتات کے جوڑے پیدا کئے ہیں، صرف اس کی ذات فرد ہے، اس کا کوئی جوڑا نہیں ہے اور اس نے انسان کو کشتی بنانے کا علم دیا اور اس کے لئے چوپائے پیدا کئے لوگ ان کشتیوں اور چوپایوں پر سوار ہو کر سفر کرتے ہیں۔ اہل عقل و خرد اور اہل ایمان جب ان کشتیوں اور چوپایوں پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے رب کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں جس نے ان جانوروں کو ان کے تابع فرمان بنا دیا ہے۔ اگر اللہ نہ چاہتا تو انہیں وہ مسخر نہیں کرسکتے تھے اور وہ کہتے ہیں کہ اس دنیاوی زندگی کے بعد ہمیں لوٹ کر اپنے رب کے پاس ہی جانا ہے، یعنی دنیاوی سفر سے ان کا ذہن آخروی سفر کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اور دنیا کا زاد سفر دیکھ کر زاد آخرت کی فکر انہیں دامن گیر ہوجاتی ہے۔ الزخرف
13 الزخرف
14 الزخرف
15 (٦) مشرکین مکہ کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ انہوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو یعنی فرشتوں کو اس کی بیٹیاں کہا۔ اس سے بڑھ کر جھوٹ اور کفر کیا ہوسکتا ہے۔ انہیں کیسے معلوم ہوا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور اللہ کے ساتھ وہ عبادت کے مستحق ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سے بڑھ کرکفران نعمت اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو اعتراف کرتے ہیں کہ وہی ذات واحد خالق ارض و سماء ہے، اس کا کوئی ثانی نہیں ہے اور پھر اس کے لئے جسم اور اولاد ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کی وہ اولاد اس کے مماثل و مشابہ ہے۔ آیت (16) میں ان کے اسی فعل شنیع پر نکیر کی گئی ہے کہ اللہ کی شان بے نیازی کے خلاف ان کی جرأت دیکھئے کہ انہوں نے اس کے لئے اولاد بھی ٹھہرایاتو ایسی جسے اپنے لئے پسند نہیں کرتے ہیں، یعنی بیٹیاں جن سے ان کی نفرت کا حال یہ ہے کہ جب انہیں خبر دی جاتی ہے کہ ان کے یہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے تو غم والم سے ان کے چہرے سیاہ ہوجاتے ہیں اور ان کے دل کرب و اذیت سے بھر جاتے ہیں۔ اللہ کے خلاف ان کی کیسی جرأت بے جا اور ڈھٹائی ہے کہ جن لڑکیوں کی پرورش (ان کے اندر موجود نقص کو پورا کرنے کے لئے) زینت و زیورات میں ہوتی ہے اور جو خفیف العقل ہونے کی وجہ سے اپنا مافی الضمیر بھی صحیح طور پر ادا نہیں کرسکتیں، انہیں وہ اللہ تعالیٰ کا جزء اور حصہ بتاتے ہیں۔ جو فرشتے لیل و نہار اپنے خالق و مالک کی تسبیح و تقدیس میں لگے ہوتے ہیں، انہیں اپنی غایت درجہ کی جہالت و نادانی کی وجہ سے عورتیں کہتے ہیں، کیا جب اللہ نے انہیں پیدا کیا تھا اس وقت وہ موجود تھے اور انہیں علم ہوگیا تھا کہ اللہ نے انہیں مؤنث پیدا کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی قدر و منزلت کے خلاف یہ بڑی ہی ظالمانہ جرأت ہے، جس کے بارے میں قیامت کے دن ان سے سوال ہوگا اور کہا جائے گا کہ اپنے دعویٰ کی صداقت پر دلیل و برہان پیش کرو، لیکن وہ عاجز رہیں گے اور تب انہیں ذلت و سروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ الزخرف
16 الزخرف
17 الزخرف
18 الزخرف
19 الزخرف
20 (٧) مشرکین کے اس فعل شنیع پر جب نکیر کی جاتی ہے اور ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آخر کس دلیل کی بنیاد پر تم فرشتوں اور بتوں کی پرستش کرتے ہو؟ تو وہ کہتے ہیں کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ ہم ان کی عبادت کرتے ہیں، اگر ہمارے اس عمل سے وہ راضی نہ ہوتا تو ہمیں اپنی قدرت کے ذریعہ اس سے روک دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کی کہ انہیں کیسے معلوم ہوگیا کہ اللہ ان کے اس فعل سے راضی ہے، یہ محض ان کی بے دلیل و بے بنیاد باتیں ہیں، جن کی تائید نہ کسی آسمانی کتاب سے ہوتی ہے اور نہ ہی کسی نبی مرسل کے قول کے ذریعہ، اسی لئے آیت (21) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا ہم نے اس کے قبل انہیں کوئی کتاب دے رکھی ہے جس سے ان کی مشرکانہ باتوں کی تائید ہوتی ہے؟ الزخرف
21 الزخرف
22 (٨) ان کے فعل شنیع پر مزید نکیر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے پاس فرشتوں اور بتوں کی پرستش کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے، صرف یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اسی دین پر عمل کرتے پایا ہے، اس لئے ہم بھی اسی پر قائم رہیں گے۔ آیت (23) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قریش کے کافروں نے یہ کئی نئی بات نہیں کہی ہے۔ بلکہ ہر دور کے کفار اپنے کفر و شرک پر جمے رہنے کا یہی سبب بیان کرتے رہے ہیں، یعنی آباء و اجداد کی اندھی تقلید قدیم گمراہی ہے، جس میں ہر دور کے اہل کفر مبتلا رہے ہیں۔ اس لئے اے میرے نبی ! آپ کو اہل قریش کے کفر و شرک پر ملول خاطر نہیں ہونا چاہئے، کرخی لکھتے ہیں کہ آیت (23) میں تقلید آباء پر جمے رہنے کا قول، ناز و نعم والوں کی طرف اس بات کی وضاحت کے لئے منسوب کیا گیا ہے کہ ناز و نعم ہی نے انہیں غور و فکر کرنے کے بجائے تقلید کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ الزخرف
23 الزخرف
24 (٩) ہر دور کے نبی نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر میں تمہاری رہنمائی ایسی راہ کی طرف کروں جو سعادت و نیک بختی کی راہ ہے تو کیا پھر بھی تم اپنے آباء کی اندھی تقلید میں شقاوت و بدبختی کی راہ پر ہی چلتے رہو گے؟ تو کافروں نے بیک زبان کہا کہ ہاں، ہم تمہاری دعوت کا انکار کرتے ہیں، یعنی تمہیں ایک ذرہ برابر بھی ہمارے ایمان لانے کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : آیت کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اگر کافروں کو یقین بھی ہوجاتا کہ ان کے عہدے کے نبی کی دعوت صحیح ہے، تب بھی اپنی بدنیتی اور حق اور اہل حق سے عداوت اور استکبار کی وجہ سے ایمان نہ لاتے۔ آیت (25) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب کفر و شرک پر ان کا اصرار اس حد کو پہنچ گیا، تو ہم نے عذاب بھیج کر ان کا وجود ختم کردیا، اللہ کے دین اور نبی کو جھٹلانے والوں کا ہمیشہ ایسا ہی انجام ہوتا رہا ہے۔ الزخرف
25 الزخرف
26 (10) اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور رسول دخلیل ابراہیم (علیہ السلام) کا حال بیان کر کے اہل قریش کو دعوت فکر دی ہے کہ تم لوگ جس ابراہیم کی محبت کا دم بھرت یہو، انہوں نے تو اپنے باپ دادوں کی تقلید سے اعلان برأت کردیا تھا اور کہہ دیا تھا کہ میں محض تمہاری تقلید میں تمہارے جھوٹے معبودوں کی عبادت نہیں کروں گا۔ کائنات میں جو عقلی دلائل و براہین موجود ہیں وہ سب اس بات کی طرف راہنمائی کرتے ہیں کہ میں اس ذات واحد کی پرستش کروں جس نے مجھے پیدا کیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ میرا رب مجھے ضائع نہیں کرے گا، وہ اپنے صحیح دین کی طرف میری رہنمائی کرے گا، اپنی بندگی کی توفیق دے گا اور راہ حق پر ثبات عطا فرمائے گا، اس لئے کہ جو اس پر اعتماد بھروسہ کرتا ہے اسے وہ بالیقین اپنی راہ پر لگا دیتا ہے۔ الزخرف
27 الزخرف
28 (١١) اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ ابراہیم نے جس توحید باری تعالیٰ کی خود گواہی دی اور کہا کہ میں تو اس اللہ کی عبادت کروں گا جس نے مجھے پیدا کیا ہے، اسی توحید پر گامزن رہنے کی اپنی اولاد کو بھی نصیحت کی، جیسا کہ سورۃ البقرہ آیت (123) میں آیا ہے : (ووصی بھا ابراہیم بنیہ و یعقوب) الآیۃ” اور ابراہیم نے اپنی اولاد کو اور یعقوب نے اپنی اولاد کو اس بات کی وصیت کیکہ وہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں“ گویا انہوں نے اپنی اولاد کو کلمہ توحید کا وارث بنایا اور یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں دعوت توحید ان کی اولاد میں باقی رہی اور ان میں ایسے لوگ پائے گئے جنہوں نے بھٹکے ہوئے لوگوں کی رہنمائی کی اور انہیں شرک سے ڈرایا، چنانچہ اللہ نے جنہیں توفیق دی انہوں نے توحید کی دعوت کو قبول کیا اور شرک سے اعلان برأت کردیا۔ الزخرف
29 (12) ابراہیم (علیہ السلام) کی مشرک ذریت میں سے اہل قریش بھی تھے، اللہ نے ان کے کفر و شرک کے باوجود انہیں ہلاک نہیں کیا، بلکہ زندہ رہنے دیا، یہاں تک کہ اس نے اپنی برحق کتاب یعنی قرآن کرین نازل فرمایا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا جنہوں نے اس کی شریعت کو ان کے لئے پوری وضاحت و صراحت کے ساتھ بیان کیا، لیکن انہوں نے قرآن کا انکار کردیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادو گر کہا اور شرک و ضلالت کی وادیوں میں بھٹکتے ہوئے اتنی دور نکل گئے کہ راہ حق پر ان کا لوٹ کر آنا ناممکن سا ہوگیا۔ الزخرف
30 الزخرف
31 (13) اہل قریش غرور و استکبار میں آ کر کہتے تھے کہ منصب رسالت مکہ کے ولید بن مغیرہ یا طائف کے عروہ بن مسعود جیسے آدمی کو ملنا چاہئے ج دنیاوی مال و جاہ کا مالک ہے۔ یہ بھی ان کو رمغزی اور غایت درجہ کی مادہ پرستی تھی کہ رسالت جیسے عظیم منصب کا حقدار کسی دنیا دار کو سمجھتے تھے، حالانکہ یہ تو روحانیت کا وہ عظیم ترین رتبہ ہے جس کا مستحق وہی انسان ہو سکتا ہے جو صفائے قلب، طہارت نفس، اخلاق و فضائل اور قدسی کمالات کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہو اور اللہ تعالیٰ نے یہ ساری صفات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں جمع کردی تھی، اس لئے وہی اس عظیم منصب رسالت کے حقدار ہوئے۔ الزخرف
32 (14) اہل قریش کی یہ بات چونکہ اللہ کے حق میں غایت درجہ کی گستاخی اور بندہ ہو کر باری تعالیٰ کی مشیت و اختیار میں ظالمانہ مداخلت تھی، اسی لئے اللہ نے فرمایا کہ اے میرے نبی ! کیا آپ کے رب کی رحمت (یعنی نبوت) کی تقسیم کفار قریش کریں گے، وہ اپنی مرضی سے جسے چاہیں گے دیں گے اور جسے چاہیں گے اس سے محروم کردیں گے؟ کیا وہ دیکھتے نہیں کہ دنیا کی زندگی میں ان کی روزی ہم مہیا کرتے ہیں، ایسے عاجز لوگ اللہ پر اعتراض کرنے کی کیسے جرأت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ محمد جیسے فقیر آدمی کو اللہ نے کیوں اپنا رسول بنا دیا۔ اللہ کی ذات تو وہ ہے جس نے انسانوں کو مختلف طبقات و درجات میں بانٹ رکھا ہے، کسی کو مالدار بنایا ہے تو کسی کو فقیر اور فقیر کو مالدار کے لئے مسخر کردیا ہے تاکہ اس کی خدمت کرے اور جو مزدوری ملے اس سے اپنی ضرورت پوری کرے نہ مالدار کی مالداری اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ کے نزدیک محبوب ہے اور نہ فقیر کی محتاجی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ کے نزدیک مبغوض ہے، یہ اختلاف درجات اللہ کی حکمت و مصلحت کے مطابق ہے وہی ان بھیدوں کو جانتا ہے کوئی شخص اس کی مرضی کے خلاف کسی کو نہ مالدار بنا سکتا ہے اور نہ فقیر منصب رسالت بھی اللہ کی نعمت اور اس کا عظیم عطیہ ہے، وہ جسے چاہتا ہے اس سے نواز دیتا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ منصب نبوت دنیا کے مال و جاہ سے کہیں زیادہ بہتر ہے اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جنہیں یہ نبوت دی گئی ہے، یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں سے کہیں بہتر ہیں جو اگرچہ مال و دولت رکھتے ہیں، لیکن اللہ کی نگاہ میں ادنیٰ ترین اور حقیر ترین لوگ ہیں، لیکن جن کے دل مال اور خواہش نفس کی محبت کی وجہ سے مریض ہوچکے ہیں، وہ دنیا داروں کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں نبوت کا زیادہ حقدار سمجھتے ہیں۔ الزخرف
33 (15) دنیا اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں حقیر شے ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ نے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر سارے انسانوں کو کفر باللہ جیسے مبغوض ترین عمل پر جمع ہوجانے کی بات نہ ہوتی، تو دنیا تو وہ حقیر شے ہے کہ ہم تمام کافروں کے گھروں کی چھتوں اور سیڑھیوں کو چاندی کا بنا دیتے اور ان کے گھروں کے دروازوں، چارپائیوں اور کرسیوں کو بھی چاندی کا بنا دیتے اور ہم انہیں سونے اور جواہر کے بنے سامانہائے زینت سے بھی نواز دیتے، تاکہ وہ کفر طغیان میں اور بڑھتے چلے جاتے اور شدید ترین عذاب کا مستحق بنتے، اس لئے کہ دنیا کی ان عارضی نعمتوں کی اللہ کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے، اور حقیقی اور دائمی نعمت تو جنت ہے جسے ہم نے اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے مخصوص کر رکھی ہے۔ الزخرف
34 الزخرف
35 الزخرف
36 (16) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی اہمیت بیان کی ہے کہ جو لوگ قرآن اور اس میں موجود احکام سے اعراض کرتے ہیں اور اسے چھوڑ کر دیگر گمراہیوں کو اپناتے ہیں، اللہ تعالیٰ بطور عقاب اس کے پیچھے ایک شیطان کو لگا دیتا ہے، جو ہر وقت اسے گمراہ کرتا رہتا ہے تاکہ حق کو قبول نہ کرلے۔ (فھولہ قرین) کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ آدمی اس شیطان کا پیرو کار بنج اتا ہے اور تمام امور میں اس کی اتباع کرتا ہے۔ آیت (37) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ شیاطین قرآن سے اعراض کرنے والوں کو راہ حق کی اتباع سے روکتے رہتے ہیں اور ان کے دل میں خیال ڈالتے رہتے ہیں کہ وہ حق پر ہیں ایک دوسرا معنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ کفاران شیاطین کو راہ حق پر سمجھتے ہیں، اسی لئے ان کی پیروی کرتے ہیں۔ آیت (38) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ہمارے سامنے دونوں حاضر ہوں گے، تو قرآن کریم سے منہ پھیرنے والا اپنے شیطان دوست سے کہے گا کہ اے کاش ! میرے اور تمہارے درمیان مشرق و مغرب کی دوری ہوتی، تو تو بڑا ہی برا ثابت ہوا، تو نے ہی مجھے راہ حق سے گمراہ کیا اور کفر و شرک اور ضلالت و گمراہی کو خوبصورت بنا کر پیش کیا جو آج میرے عذاب کا سبب بن گیا ہے۔ آیت (39) میں بتایا گیا کہ اس دن اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا کہ دنیا میں اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بنانے کی وجہ سے تم پر آج کے دن کا عذاب واجب ہوگیا ہے، اب کوئی تمنا تمہیں کام نہیں دے گی اور تم سب یعنی تم اور تمہارے شیاطین دوست عذاب جہنم میں برابر کے شریک ہو گے۔ الزخرف
37 الزخرف
38 الزخرف
39 الزخرف
40 (17) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار قریش کے رشد و ہدایت کی بڑی خواہش رکھتے تھے، اسی لئے ان کے سامنے دعوت حق پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے اور ان کی سرد مہری اور بے اعتنائی دیکھ کر ملول خاطر ہوتے تو اللہ تعالیٰ انہیں تسلی دیتا اور کہتا کہ آپ کا کام تو دعوت اسلام پیش کردینا ہے، ہدایت دینا تو صرف اللہ کا کام ہے اور کفار قریش تو بہرے ہیں، ان سے تو قوت سماع سلب کرلی گئی ہے، یہ کب اللہ کی آیتوں اور دلیلوں کو سن سکیں گے، یہ تو اندھے ہیں، قوت بصارت سے محروم ہیں، اللہ کی نشانیوں کو دیکھ کر بھی ان سے عبرت حاصل نہیں کرسکیں گے اور گم گشتہ راہ ہیں، سیدھی راہ سے کو سوں دور نکل گئے ہیں، اب راہ راست پر نہ آسکیں گے۔ یا تو آپ ان پر غالب آنے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہوجائیں گے، تو ہم ان کے کفر و شرک کا انتقام عذاب جہنم کے ذریعہ لیں گے، یا اپنے وعدے کے مطابق اپنی قدرت کا کرشمہ آپ کو دنیا میں ہی دکھلا دیں گے۔ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ کفار قریش کے جتنے بڑے رؤساء تھے، یا تو انہوں نے توحید کا کلمہ پڑھ کر اپنی جان بچا لی، یا پھر صحابہ کرام کے ہاتھوں جنگ کے میدانوں میں مارے گئے۔ الزخرف
41 الزخرف
42 الزخرف
43 (18) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ جب کفار قریش کا حال وہ ہے جو اوپر بیان ہوا ہے کہ دعوت حق سے استفادہ کی ہر صلاحیت ان سے سلب کرلی گئی ہے، تو آپ ان کے کفر و شرک پر غمگین نہ ہویئے، بلکہ جو قرآن آپ پر نازل ہوا ہے اور جو دین حق آپ کو دیا گیا ہے اس پر گامزن رہئے اور اللہ کا شکر ادا کیجیے جو قرآن آپ پر نازل ہوا ہے وہ آپ اور آپ کی امت کے لئے نہایت باعث شرف و عزت ہے اور عبرت و موعظت، علوم و حکم اور شرائع اسلام کا خزانہ ہے، قیامت کے دن آپ کی امت سے پوچھا جائے گا کہ انہوں نے کس حد تک اس میں مذکور اوامرو نواہی کی پابندی کی۔ الزخرف
44 الزخرف
45 (19) تمام انبیائے کرام نے توحید باری تعالیٰ کی دعوت دی، کسی نے بھی بتوں کی پرستش کی طرف لوگوں کو نہیں بلایا، یعنی آپ نے اہل قریش کے سامنے کوئی نئی دعوت نہیں پیش کی ہے کہ وہ آپ کی تکذیب کر رہے ہیں اور آپ کے در پئے آزاد ہیں۔ یہ تو وہی دعوت ہے جو تمام انبیاء نے اپنی قوموں کے سامنے پیش کی تھی اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ جو کہا گیا ہے کہ آپ گزشتہ انبیاء سے پوچھ لجییے تو اس سے مقصود تورات و انجیل کا علم رکھنے والے مومنوں سے پوچھنا ہے اس لئے کہ ان سے پوچھنا گویا ان انبیاء سے پوچھنا ہے جن پر وہ کتابیں نازل ہوئی تھیں۔ الزخرف
46 (20) اہل قریش کا حال فرعون کے حال کے مشابہ تھا، اہل قریش نے کہا کہ اگر اللہ کو رسول بنانا تھا تو مکہ کے ولید بن مغیرہ یا طائف کے عروہ بن مسعود کے مانند کسی مال و جاہ والے کو بناتا، نہ کہ محمد جیسے فقیر اور بے حیثیت آدمی کو اور فرعون نے بھی کہا تھا کہ میں بہتر ہوں یا موسیٰ جیسا حقیر انسان اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرعون و موسیٰ کا واقعہ بیان کر کے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نصیحت کی ہے کہ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے صبر و ضبط سے کام لیا، آپ بھی ہمت نہ ہاریئے اور لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچاتے رہئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے موسیٰ کو معجزات دے کر فرعون اور فرعونیوں کے پاس بھیجا انہوں نے اس سے کہا کہ میں اس اللہ کا پیغامبر ہوں جو سارے جہان کا پالنے والا ہے، اس کے سوا کوئی بندگی کا حقدار نہیں ہے، نہ اس کے سوا کسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ رب العالمین کے بندوں کو اپنا بندہ بنائے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی دعوت توحید اور صدق رسالت کے دلائل پیش کئے، تو فرعون اور فرعونی ان کا مذاق اڑانے لگے، بالکل اہل قریش کی طرح جو آپ کا اور آپ کی دعوتی تقریروں اور قرآن کریم کا مذاق اڑاتے ہیں تو آپ کو ان کی ان اوچھی حرکتوں سے بد دل نہیں ہونا چاہئے اور دعوت کے کام میں سستی نہیں ہونی چاہئے، جیسے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کی جانب سے نوع بہ نوع تکلیفوں کو برداشت کیا اور اپنی دعوت اس کے سامنے مختلف انداز میں پیش کرتے رہے۔ الزخرف
47 الزخرف
48 (21) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ اس طرف اشارہ کیا ہے کہ فرعون اور فرعونیوں کا استہزاء کچھ اس وجہ سے نہیں تھا کہ وہ نشانیاں ہی اس قابل نہ تھیں کہ ان پر اثر انداز ہوتیں، بلکہ وہ ایسا محض کبر و عناد کی وجہ سے کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر نشانی پہلی نشانی سے بڑی ہوتی تھی اور ہم نے انہیں دنیاوی عذاب میں بھی مبتلا کیا کہ شاید اس طرح وہ رجوع الی اللہ کریں اور جب عذاب کی سختی سے تلملا اٹھے تو موسیٰ سے کہا اے جادوگر ! تم کہتے ہو کہ تمہارا رب تم پر ایمان لانے والوں سے عذاب کو ٹال دیتا ہے تو دعا کرو کہ وہ ہم سے عذاب کو دور کر دے، اگر ایسا ہوگیا تو ہم تم پر ایمان لے آئیں گے، اور جسے تم راہ ہدایت کہتے ہو اسے کہتے ہو اسے اختیار کرلیں گے، چنانچہ ہم نے ان سے عذاب کو ٹال دیا، تو وہ فوراً بد عہدی کر بیٹھے اور ضلالت و گمراہی میں اور آگے بڑھتے چلے گئے۔ الزخرف
49 الزخرف
50 الزخرف
51 (٢٢) جب موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے عذاب الٰہی ٹل گیا، تو فرعون اپنے دل میں ڈرا کر کہیں لوگ واقعی موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان نہ لے آئیں، اسی لئے اس نے پینترا بدلتے ہوئے لوگوں سے کہا کہ کیا میں حکومت مصر کا مالک نہیں ہوں، کیا دریائے نیل کی چاروں شاخیں میرے محل کے پاس سے نہیں گذرتی ہیں، کیا تم لوگ میری ان تمام نعمتوں اور قدرتوں کا مشاہدہ نہیں کرتے ہو، تو پھر میں بہتر ہوں، یا یہ حقیر انسان (یعنی موسی) جو اپنی خدمت آپ کرتا ہے اور اپنا مافی الضمیر ادا کرنے سے قاصر و عاجز ہے۔ اگر یہ واقعی کسی کا پیغمبر ہے اور بڑا آدمی ہے تو اس کے بھیجنے والے نے اسے سونے کے کنگن کیوں نہیں پہنا دیئے ہیں، تاکہ دیکھنے والوں کو معلوم ہوتا کہ واقعی یہ کوئی بڑا انسان ہے، یا پھر ایسا کیوں نہ ہوا کہ اس کے ساتھ کچھ فرشتوں کو بھیجا ہوتا جو ہر دم اس کے ساتھ رہتے اور اس کی نبوت کی گواہی دیتے۔ فرعون نے اپنی قوم کے دل میں یہ بات ڈالنی چاہی کہ رسول کو بڑی شان و شوکت والا اور فرشتوں سے گھرا ہوا ہونا فرعون نے اپنی قوم کے دل میں یہ بات ڈالنی چاہی کہ رسول کو بڑی شان و شوکت والا اور فرشتوں سے گھرا ہوا ہونا چاہئے، چنانچہ اس کی شیطانی چال کام کرگئی، لوگوں نے اس کی بات مان لی اور موسیٰ (علیہ السلام) کو جھٹلا دیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ لوگ پہلے ہی سے اللہ کی بندگی سے برگشتہ تھے۔ الزخرف
52 الزخرف
53 الزخرف
54 الزخرف
55 (23) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب فرعون اور فرعونیوں نے ہمارے غیظ و غضب کو بھڑکا دیا، موسیٰ اور ان کے معجزات کی تکذیب کی، انہیں جادو گر کہا اور ایمان لانے کا وعدہ کر کے بدعہدی کی، تو ہم نے ان سے انتقام لے لیا اور تمام کو سمندر میں ڈبو دیا اور انہیں آنے والی قوموں کے لئے نشان عبرت بنا دیا۔ الزخرف
56 الزخرف
57 (24) اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ یہ آیت کریمہ ابن الزبعری کے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک مجادلہ کے بعد نازل ہوئی تھی۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جب سورۃ الانبیاء کی آیت (٨٩) (انکم وماتعبدون من دون اللہ حصب جھنم) ” تم اور تمہارے معبود ان باطل جہنم کا ایندھن بنو گے“ نازل ہوئی، تو ابن الزبعری نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ رب کعبہ کی قسم ! آج میں تم پر غالب آگیا، کیا نصاریٰ عیسیٰ کی یہود عزیز کی اور بنو ملیح فرشتوں کی پرستش نہیں کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ جہنم میں جائیں گے تو ہم بھی اپنے معبودوں کے ساتھ جہنم میں جانے کے لئے تیار ہیں۔ مشرکین اس کی اس بات سے بہت خوش ہوئے اور شور مچانے لگے تو سورۃ الانبیا کی آیت (١٠١) (ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولئک عنھا مبعدون) ” جن کے لئے ہماری جانب سیپہلے سیہی جنت کا فیصلہ ہوچکا ہے، وہ لوگ جہنم سے دور رکھے جائیں گے“ نازل ہوئی اور اس سورت کی یہ آیت کریمہ نازل ہوئی، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب ابن الزبعری نے عیسیٰ کو بتوں کے مشابہ قرار دیا تو کفار قریش بہت خوش ہوئے اور مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہمارے معبود بہتر ہیں یا عیسیٰ، یعنی جب عیسیٰ کی عبادت کی جاسکتی ہے، تو فرشتے جن کی ہم عبادت کرتے ہیں بدرجہ اولیٰ عبادت کئے جانے کے حقدار ہیں۔ آیت (58) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے نبی ! ابن الزبعری کا مقصد طلب حق نہیں، بلکہ محض مجادلہ تھا، اور پوری قوم قریش اس مرض میں مبتلا ہے، کہ وہ لوگ باطل کو غلاب کرنے کے لئے جدال و نقاش کا سہارا لیتے ہیں، ترمذی، ابن ماجہ اور حاکم و غیر ہم نے ابوامامہ (رض) سے بسند صحیح روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب بھی کوئی قوم گمراہ ہوئی تو اس نے جدال کی راہ اختیار کی، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی۔ الزخرف
58 الزخرف
59 (25) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ سے عیسیٰ (علیہ السلام) کا صحیح مقام بیان کیا ہے کہ وہ معبود نہیں، بلکہ اللہ کے ان گنت بندوں میں سے ایک بندہ ہیں، اللہ نے انہیں منصب رسالت کے لئے چن لیا تھا اور ان کی پیدائش کو بنی اسرائیل کے لئے عبرت و موعظت کا سبب بنایا تھا، یعنی انہیں بغیر باپ کے پیدا کیا تھا اور وہ بطور معجزہ مردوں کو زندہ کرتے تھے، گنجوں اور برص کے مریضوں کو اللہ کے حکم سے شفا دیتے تھے، تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی قدرت و عظمت شان پر ایمان لے آئیں۔ الزخرف
60 (26) اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، اگر وہ چاہتا تو انسانوں کو ہلاک کردیتا اور زمین میں ان کی جگہ فرشتوں کو لا کر بس ا دیتا جو اسے اپنے سجدوں سے آباد کرتے اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتے۔ شوکافی لکھتے ہیں کہ فرشتوں کی جگہ آسمان ہونے سے وہ مقام الوہیت پر فائز نہیں ہوگئے ہیں کہ ان کی عبادت کی جائے۔ الزخرف
61 (27) اس آیت کریمہ کا مفہوم بیان کرنے میں علمائے تفسیر کے کئی اقوال ہیں : مجاہد ضحاک، سدی اور قتادہ کا خیال ہے کہ یہاں عیسیٰ (علیہ السلام) مراد ہیں، یعنی خروج دجال کی طرح ان کا خروج بھی قیامت کی نشانی ہے۔ حسن بصری اور سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ قرآن کریم مراد ہے، یعنی نزول قرآن قرب قیامت کی نشانی ہے اور اس میں اس کے احوال و کوائف بیان کئے گئے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا بغیر باپ کے پیدا کیا جانا بعث بعد الموت کے صحیح ہونے کی دلیل ہے اور بعض نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مراد لیا ہے، یعنی آپ کی بعثتقرب قیامت کی نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی فرمایا کہ لوگ ! قیامت کے بارے میں ذرا بھی شک و شبہ نہ کرو، اس کا آنا یقینی ہے، اور اللہ کی طرف سے میں تمہیں جن باتوں کا حکم دیتا ہوں ان پر عمل کرو، اللہ کو ایک جانو، اس کے ساتھ غیروں کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اس نے جو احکام فرض کئے ہیں بجا لاؤ، یہی سیدھی راہ ہے۔ دیکھو ! شیطان تمہارے دلوں میں اسلام، قرآن اور میرے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر کے تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے، اور میری پیروی کرنا نہ چھوڑ دو، کیونکہ میں تمہیں اسی دین کی دعوت دے رہا ہے جو تمام انبیائے کرام کا دین تھا، اور جس کی وضاحت و بیان کے لئے تمام آسمانی کتابیں نازل ہوئیں، دیکھو ! شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے، وہ تم سے اپنی عداوت کی صراحت رب العالمین کے سامنے کرچکا ہے۔ اس لئے اس سے بڑھ کر بے عقلی کیا ہوگی کہ تم اپنے صریح دشمن کی پیروی کرو۔ الزخرف
62 الزخرف
63 (28) اوپر کی آیتوں میں عیسیٰ (علیہ السلام) کا صحیح مقام بیان کیا گیا ہے، اسی کے تکملہ کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ جب وہ بنی اسرائیل کے پاس انجیل اور دیگر معجزات لے کر گئے، تو انہیں خبر دی کہ میں تمہارے لئے نبی بنا کر اور حکمت کا خزانہ دے کر بھیجا گیا ہوں، تاکہ تمہیں حکمت کی وہ باتیں سکھاؤ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد دین کے جن احکام میں تمہارے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا، ان میں حق کو واضح کروں اس لئے بنی اسرائیل کے لوگو ! اللہ کی نافرمانی سے ڈرو اور توحید باری تعالیٰ اور احکام شریعت سے متعلق جو باتیں میں تمہیں بتاتا ہوں انہیں قبول کرو بے شک میرا اور تمہارا رب اللہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس لئے تم سب صرف اسی کی عبادت کرو یہی سیدھی راہ ہے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) کا یہی صحیح مقام تھا کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول تھے اور بنی اسرائیل کے پاس دعوت توحید لے کر آئے تھے، انہوں نے لوگوں کو اپنی بندگی کی ہرگز دعوت نہیں دی تھی۔ الزخرف
64 الزخرف
65 (29) عیسیٰ (علیہ السلام) کے دنیا سے زندہ اٹھا لئے جانے کے بعد، یہود و نصاریٰ ان کے بارے میں مختلف فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ یہود نے کہا کہ ان کی ماں، خاکم بدہن، زانیہ اور وہ دلدالزنا تھے اور نصاریٰ میں سے فرقہ نسطوریہ نے کہا کہ وہ ابن اللہ تھے، یعقوبیہ نے کہا : وہ اللہ تھے اور فرقہ ملکیہ نے کہا : وہ اللہ ابن اللہ اور روح القدس تین معبودوں میں سے ایک تھے۔ ان سب ظالموں کو اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے درد ناک عذاب کی دھمکی دی ے، اس لئے کہ انہوں نے تمام عقلی اور نقلی دلائل کو نظر انداز کر کے عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں مجرمانہ اور مشرکانہ عقائد کو رواج دیا ہے۔ یہ مجرمین و مشرکین اب گویا صرف قیامت کا انتظار کر رہے ہیں جو اچانک آجائے گی، اس وقت وہ مادہ پرستی، دنیا داری اور شہوتوں کی غلامی میں ایسے منہمک ہوں گے کہ قیامت ہر چہار جانب سے گھیر لے گی اور انہیں احساس بھی نہ ہو سکے گا۔ آج سارے عالم میں بالعموم اور مغربی دنیا میں بالخصوص جو کچھ ہو رہا ہے اور یہود و ہنود اور نصاریٰ اللہ سے یکسر غافل، اس کی سر زمین پر جو کچھ کر رہے ہیں، یہ آیت کریمہ ان تمام باتوں کی پوری تصویر پیش کر رہی ہے۔ الزخرف
66 الزخرف
67 (30) دنیا میں جن کی دوستی کی بنیاد معصیت، فساد انگیزی، حق سے دشمنی اور دیگر مادی اور شہوانی اغراض و مقاصد پر ہے، قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے اور آپس میں اظہار نفرت کرنے لگیں گے، اس لئے کہ وہ ساری باتیں ان کے عذاب کا سبب بنتی نظر آئیں گی، تو ان کی دوستی دشمنی میں بدل جائے گی، البتہ جو لوگ یہاں اللہ سے ڈرتے ہیں اور آپس میں اللہ اور اس کے رسول کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، وہ قیامت کے دن بھی ایک دوسرے سے محبت کریں گے، اس لئے کہ دنیا میں جن دینی اغراض و مقاصد پر ان کی آپس کی محبت کی بنیاد تھی، اس دن وہ ساری باتیں ان کے ثواب و نجات کا سبب بن جائیں گی، اس لئے ان کی آپس کی محبت اور بڑھ جائے گی اور ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہے گی۔ جب اللہ تعالیٰ انہیں پکار کر کہے گا کہ اے میرے بندو ! آج کے بعد تمہیں کوئی خوف اور کوئی حزن و ملال لاحق نہیں ہوگا۔ آیت (69) میں اللہ تعالیٰ نے ان خوش قسمت بندوں کی کچھ صفات بیان کر کے وضاحت کردی کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں اللہ کی کتابوں اور اس کے رسولوں کی تصدیق کرتے ہیں اور یہودیت نصرانیت اور بت پرستی کے بجائے دین ابراہیمی یعنی دین اسلام پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مزید کہے گا کہ اے میرے بندو ! تم اپنی نیک بیویوں کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ، جہاں تمہیں ایسی فرحت و شادمانی ملے گی کہ تمہارے چہرے کھل اٹھیں گے یہی بات سورۃ المطففین کی آیت (24) میں یوں کہی گئی ہے : (غرف فی وجودھھم نصرۃ النعیم) ” آپ ان کے چہروں سے ہی نعمتوں کی تروتازگی پہچان لیں گے۔ “ الزخرف
68 الزخرف
69 الزخرف
70 الزخرف
71 (31) اہل جنت کے سامنے سونے کی رکابیوں اور پلیٹوں میں لذیذ ترین کھانے پیش کئے جائیں گے اور سونے ہی کے بنے پیالوں کا دور چلے گا جو انواع و اقسام کی بہترین شرابوں سے لبالب ہوں گے۔ صحیحین میں حذیفہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” تم لوگ ریشم اور دیباج نہ پہنو اور سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ کھاؤ پیؤ یہ چیزیں دنیا میں کافروں کے لئے ہیں اور تمہارے لئے جنت میں۔ “ اور جنت میں ہر وہ چیز ہوگی جس کی کوئی نفس خواہش کرے گا اور جس سے آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سرور ملے گا، اور اہل جنت سے کہا جائے گا کہ اب تم ہمیشہ یہیں رہو گے، نہ تمہیں موت لاحق ہوگی اور نہ یہ نعمتیں ختم ہوں گی اور یہ جنت تمہیں ان بھلائیوں اور نیک کاموں کے بدلے ملی ہے جو تم دنیا میں کرتے رہے تھے۔ یعنی جس طرح ایک انسان جب دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کے ورثہ اس کے مال و جائیداد کے حقدار بن جاتے ہیں، اسی طرح تم اپنے نیک اعمال کے بدلے اس جنت کے وارث بن گئے ہو؟ اور جنت میں تمہیں بے شمار تازہ اور خشک پھل ملا کریں گے جو نہ کبھی ختم ہوں گے اور نہ ہی تمہیں ان کے کھانے سے کبھی روکا جائے گا۔ الزخرف
72 الزخرف
73 الزخرف
74 (32) قرآن کریم بالعموم ترغیب کے بعد ترہیب اور ترہیب کے بعد ترغیب کا اسلوب اختیار کرتا ہے، اسی لئے جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد، اب جہنم اور اس کے عذاب کا بیان آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو مجرمین دنیا میں کفر و شرک اور دیگر معاصی کا ارتکاب کرتے ہیں اور اسی حال میں ان کی موت آجاتی ہے، وہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے، ان کا عذاب کبھی بھی ہلکا نہیں کیا جائے گا اور ان کے دلوں پر ہمیشہ کے لئے یاس و ناامیدی کا گہرا سایہ پڑجائے گا۔ اللہ نے فرمایا کہ ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا، انہوں نے کفر و شرک کا ارتکاب کر کے خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا ہے۔ الزخرف
75 الزخرف
76 الزخرف
77 (٣٣) اہل جہنم خازن جہنم کو پکاریں گے اور کہیں گے، اے مالک ! تم اپنے رب سے ہمارے لئے سوال کرو کہ وہ ہمیں مار ڈالے تاکہ اس عذاب سے نجات مل جائے، تو ایک طویل مدت کے بعد (جس کے بارے میں کئی اقوال ہیں، کہا گیا ہے کہ وہ اسی (80) سال کی مدت ہوگی، بعض نے کہا ہے کہ وہ ہزار سال کی مدت ہوگی، ایک قول ہے کہ وہ سو (100) سال کی مدت ہوگی) مالک انہیں جو اب دے گا، میرے رب کا کہنا ہے کہ تم لوگ اب اسی میں رہو گے، اس لئے کہ ہم نے تمہارے پاس کتابیں بھیجیں اور انبیاء مبعوث کئے جنہوں نے تمہارے سامنے حق کی دعوت پیش کی، تو تم نے اظہار نفرت کیا اور ایمان نہیں لائے۔ الزخرف
78 الزخرف
79 (34) اہل جہنم کی تکلیفوں کے بیان سے یکبارگی کلام کا رخ کفار قریش اور ان کی ان سازشوں کی طرف پھیر دیا گیا ہے جو وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کرتے تھے، اس میں اشارہ ہے کہ ان کے یہی جرائم انہیں جہنم تک پہنچا دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کافروں نے میرے نبی اور ان کی دعوت کے خلاف زبردست سازش کر رکھی ہے، تو ہم نے بھی طے کرلیا ہے کہ ان کی سازشوں کو ناکام بنا دیں گے اور انہیں عذاب میں مبتلا کریں گے۔ سورۃ الطور آیت (٢٤) میں یہ بات یوں کہی گئی ہے۔ (ام یریدون کید افالذین کفروا اھم المکیدون) ” کیا کفار مکہ کوئی سازش کرنی چاہئے ہیں، تو جان لیں کہ درحقیقت انہی کے خلاف تدبیر ہو رہی ہے۔ “ الزخرف
80 (35) کفار مکہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے دلوں کے بھیدوں اور پوشیدہ جگہوں میں اسلام اور رسول اللہ کے خلاف ان کی سرگوشیوں کو نہیں سنتے ہیں، یہ ان کی خام خیالی اور نادانی ہے، ہم ان کے دلوں کے بھیدوں کو جانتے ہیں اور ان کی سرگوشیوں کو سنتے ہیں، یہ ان کے خام خیالی اور نادانی ہے، ہم ان کے دلوں کے بھیدوں کو جانتے ہیں اور ان کی سرگوشیوں کو سنتے ہیں، اور ہمارے فرشتے ان کے تمام اقوال و افعال لکھ لیتے ہیں۔ الزخرف
81 (36) ابتدائے سورت میں کفار عرب کے اس زعم باطل کی تردید کی گئی ہے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں، اسی مشرکانہ خیال کی یہاں دوسرے اسلوب میں تردید کی گئی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی کہا گیا ہے کہ اگر بفرض محال اللہ کی کوئی اولاد ہوتی، تو سب سے پہلے میں اس کی عبادت کرتا، لیکن چونکہ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے، اس لئے میں اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتا ہوں۔ قاشانی نے لکھا ہے کہ اس آیت میں دلیل و برہان کے ذریعہ اللہ کے لئے اولاد ہونے کی نفی کی گئی ہے۔ یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کسی کی اس حیثیت سے عبادت نہ کرنا کہ وہ اللہ کی اولاد ہے، اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے، اس لئے کہ اگر اس کی کوئی اولاد ہوتی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی ضرور عبادت کرتے۔ نیز اس آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شرک کی نفی کی گئی ہے۔ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے ہیں۔ الزخرف
82 (٣٧) اللہ تعالیٰ نے مذکور بالا مشرکانہ خیال سے اپنی پاکی بیان کی ہے، یعنی اس کی ذات اس عیب سے پاک ہے کہ کوئی اس کی اولاد ہے وہ تو آسمانوں اور زمین کا اور عرش بریں کا رب اور مالک ہے، ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ اور اگر اس آیت کو بنی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گزشتہ قول کا ایک حصہ مانا جائے تو مفہوم یہ ہوگا کہ میرا رب مشرکوں کے اس اتہام سے بالکل پاک ہے کہ کوئی اس کی اولاد ہے۔ وہ تو آسمانوں اور زمین اور عرش بریں کا رب اور مالک ہے کوئی چیز اس کے قبضہ قدرت سے خارج نہیں ہے۔ الزخرف
83 (٣٨) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا ہے کہ اگر مشرکین مکہ آپ کی دعوت توحید کو قبول نہیں کرتے ہیں اور اپنے شرک پر اصرار کرتے ہیں، تو آپ انہیں اپنی باطل پرستی میں بھٹکتا چھوڑ دیجیے اور لہو و لعب میں مشغول رہنے دیجیے، یہاں تک کہ قیامت کا وہ دن آجائے جب اللہ انہیں ان کی افترا پردازی کی وجہ سے جہنم میں ڈال دے گا۔ الزخرف
84 (٣٩) اللہ کی ذات برحق ہی ارض و سماء میں عبادت کئے جانے کے لائق ہے، ہر تعظیم و محبت کا وہی تنہا مستحق ہے اور ہر بندے کی ذلت و انکساری صرف اسی کے لئے جائز ہے، اس کا ہر فعل مبنی برحکمت اور اس کا علم مخلوق کے تمام احوال و کوائف کو گھیرے ہوئے ہے، اس کی ذات بیوی اور اولاد کی محتاج نہیں ہے، وہ اس عیب سے برتر و بالا ہے، آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی ہر شے کا وہی تنہا مالک ہے۔ اس کے سوا کسی کو خبر نہیں کہ قیامت کب واقع ہوگی اور سب کو اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے، جہاں وہ ہر ایک کو اس کے کئے کا بدلہ دے گا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آخری جملہ میں کفر و شرک اور دیگر معاصی کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے زبردست دھمکی ہے۔ الزخرف
85 الزخرف
86 (٤٠) مشرکین عرب اس زعم باطل میں مبتلات ھے کہ فرشتے اور ان کے دیگر جھوٹے معبود قیامت کے دن ان کے لئے سفارشی بنیں گے، اسی لئے ان کی عبادت کرتے تھے۔ اس آیت کریمہ میں ان کے اسی مشکانہ عقیدہ کی تردید کی گئی ہے کہ وہ معبود ان باطل کسی کے لئے شفاعت کرنے کا اختیار نہیں رکھتے ہیں، شفاعت تو اللہ کی اجازت سے صرف اس کے وہ بندے کسی کے لئے کریں گے جو اللہ کی وحدانیت کے صدق دل سے قائل ہوں گے اور کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ الزخرف
87 (٤١) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا ہے کہ اگر آپ مشرکین سے پوچھیں گے کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے، تو وہ جواب دیں گے کہ ہمیں اللہ نے پیدا کیا ہے، یعنی یہ بات اتنی ظاہر و باہر ہے کہ وہ کسی حال میں بھی اس کا انکار نہیں کر پاتے ہیں۔ تو پھر ان کی یہ کتنی بڑی نادانی ہے کہ عبادت اس کے سوا غیروں کی کرتے ہیں۔ اسی لئے آیت کے آخر میں کہا گیا ہے کہ یہ جانتے ہوئے کہ ان کا خلاق ال لہ ہے، اس کے سوا غیروں کی عبادت کیسے کرتے ہیں؟! الزخرف
88 (٤٢) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس درد بھری بات کا علم ہے کہ اے میرے رب ! یہ مشرکین مکہ ایمان نہیں لائیں گے، ان کا عناد اور ان کے دل کی سختی حد سے بڑھی ہوئی ہے۔ پس اے میرے رسول ! آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے اور ان سے الگ ہوجائیے، انہیں عنقریب ہی اپنا انجام معلوم ہوجائے گا۔ الزخرف
89 الزخرف
0 سورۃ الدخان مکی ہے، اس میں انسٹھ آیتیں اور تین رکوع ہیں تفسیر سورۃ الدخان نام : آیت (١٠) فارتقب یوم تاتی السماء بدخان مبین) سے ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ سورۃ بالا اتفاق مکی ہے۔ صرف آیت (١٥) (انا کاشفوا العذاب قلیلاً) کے بارے میں کہ ا جاتا ہے کہ یہ مدنی ہے۔ ابن مردویہ نے ابن عباس اور ابن الزبیر (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ الدخان مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ اس کے مضامین سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔ الدخان
1 (١) یہ حروف مقطعات ہیں اور ان کا مفہوم اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ الدخان
2 (٢) سورۃ الزخرف کی ابتدا میں بھی اللہ تعالیٰ نے کتاب مبین کی قسم کھائی ہے، اور وہاں بتایا جا چکا ہے کہ اس سے مقصود لوگوں کے دل و دماغ میں قرآن کریم کی قدر و منزلت بٹھانی ہے یعنی یہ وہ عظیم کتاب ہے جس کی قدرو منزلت کی قسم باری تعالیٰ نے کھائی ہے۔ الدخان
3 (٣) سورۃ الزخرف کی آیت (٢) کی طرح یہاں بھی باری تعالیٰ نے قرآن کریم کی قسم کھا کر اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ یہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام نہیں ہے، بلکہ اسے ہم نے نازل کیا ہے اور وہ رات بڑی ہی خیر و برکت والی تھی جس میں ہم نے اسے نازل کیا تھا۔ وہ شب قدر تھی جس کی صراحت اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت (١٨٥) میں کردی ہے۔ فرمایا : (شھر رمضان الذی انزل فیھا القرآن) ” وہ رمضان کا مہینہ تھا جس میں قرآن نازل کیا گیا۔“ اور اس کی مزید صراحت سورۃ القادر آیت (١) یوں فرما دی : (انا انزلناہ فی لیلۃ القدر) ” ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ “ قتادہ کہتے ہیں کہ پورا قرآن کریم شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کے بیت العزۃ تک نازل کیا گیا، پھر وہاں سے اللہ تعالیٰ نے اسے 23 سال کی مدت میں مختلف اوقات میں نازل فرمایا۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ چونکہ نزول قرآن کی ابتدا ماہ رمضان میں ہوئی، اسی لئے سبیل التغلیب یہاں کہا گیا ہے کہ قرآن ماہ رمضان میں نازل ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اس رات کو برکتوں والی رات کا نام اس لئے دیا ہے کہ اس میں قرآن کریم نازل ہوا، جس میں دین و دنیا کی ہر بھلائی کی طرف بنی نوع انسان کی رہنمائی کی گئی ہے اور جس کے ذریعہ اللہ کی رحمت و برکت اور عدل و ہدایت سارے عالم میں پھیل گئی ہے اور جس رات کی وجہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بنلد ترین رتبہ ملا اور یہ وہ رات ہے جس میں فرشتوں اور روح الامین کا زمین پر نزول ہوتا ہے اور جس میں اللہ تعالیٰ آنے والے پورے سال میں وقوع پذیر ہونے والی حیات و موت، خیر و شر اور روزی میں کشادگی اور تنگی اور دیگر تمام مقدرات کو لکھتا ہے۔ اور اس قرآن کریم کے نزول کا مقصد جن و انس کو قیامت کے دن کے عذاب سے ڈرانا تھا، تاکہ ایمان و عمل صالح کی زندگی اختیار کر کے عذاب نار سے بچیں اور جنت کے حقدار بنیں۔ الدخان
4 الدخان
5 (٤) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی مزید اہمیت جتانے کے لئے فرمایا کہ اسے ہمارے حکم سے لوح محفوظ سے لکھ کر آسمان دنیا پر نازل کیا گیا ہے اور کہا کہ ہم نے بنی نوع انسان پر مہربانی کرتے ہوئے ان کے پاس انہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو انہیں اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے، ان کا تزکیہ نفس کرتا ہے اور انہیں کتاب و سنت کی تعلیم دیتا ہے، جیسا کہ سورۃ الانبیاء آیت (١٠٧) میں آیا ہے : (وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین) ” اے ہمارے نبی ! ہم نے آپ کو سارے جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔“ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی باتوں اور آوازوں کو خوب سنتا ہے اور ان کی ضرورتوں کو بہت اچھی طرح جانتا ہے، اس لئے اس کے علم و حکمت کا تقاضا ہوا کہ وہ ان پر رحم کرتے ہوئے دین و دنیا کی ہر بھلائی کی طرف ان کی رہنمائی کے لئے اپنا رسول بھیجے۔ الدخان
6 الدخان
7 (٥) اس آیت کا تعلق اوپر والی آیت سے ہے، اور مفہوم یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمہارے اس رب نے رحمت بنا کر بھیجا ہے جو آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کی ہر چیز کا رب ہے۔ اگر واقعی تمہیں اس بات کا یقین ہے کہ وہ سارے جہان کا رب ہے جیسا کہ تم اس بات کا اپنی زبان سے اقرار کرتے ہو، تو پھر صرف اسی کی عبادت کرو، آیت (٨) میں فرمایا : اس لئے کہ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، زندگی اور موت اسی کے اختیار میں ہے اور وہی تمہارا اور تمہارے گذرے ہوئے آباء و اجداد کا رب ہے۔ الدخان
8 الدخان
9 آیت (٩) میں مشرکین مکہ کی حقیقت حال بیان کردی کہ وہ توحید باری تعالیٰ اور بعث بعد الموت کے بارے میں گہرے شک میں مبتلا ہیں اور ان کا اقرار کہ اللہ ہی سارے جہان کا رب ہے، یقین و ایمان سے بالکل عاری ہے، اسی لئے تو عبادت میں اس کے ساتھ غیروں کو شریک بناتے ہیں، گویا ان کا زبانی اقرار محض لہو و لعب کے طور پر ہے۔ الدخان
10 (٦) بخاری، مسلم، امام احمد، ترمذی، نسائی، ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے مختلف سندوں کے ساتھ عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ جب اہل قریش کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف کبرد عناد بڑھتا گیا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی کہ اے اللہ ! انہیں قوم یوسف کی طرح سات سال کی قحط سالی میں مبتلا کر کے میری ان کے خلاف مدد فرما۔ چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ لوگوں نے ہڈیانں، چمڑے اور مردار جانور تک کھائے اور مارے بھوک کے جب آسمان کی طرف دیکھتے تو ان کی آنکھوں کے سامنے دھواں سا آجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے (فارتقب یوم تاتی السماء بدخان مبین) نازل کیا اور جب حالات کی سختی اور بڑھتی تو ابوسفیان نے کہا، اے محمد ! تم ہمیں طاعت و صلہ رحمی کی طرف بلاتے ہو اور تمہاری قوم ہلاک ہو رہی ہے، اللہ سے دعا کرو کہ یہ قحط سالی ختم ہوجائے، تو اللہ نے (انا کاشفوا العذاب قلیلاً انکم عائدون) نازل کیا، لیکن جب قحط سالی دورہو گئی اور ان کا کبرو عناد پہلے سے زیادہ ہوگیاتو اللہ تعالیٰ نے (یوم نبطش البطشۃ الکبری انا منتقمون) نازل فرمایا اور میدان بدر میں ان سے انتقام لے لیا۔ آیت (١٠) میں جس دھواں کا ذکر آیا ہے، اس کے بارے میں علماء کے تین اقوال ہیں، ایک تو یہی جواد پر گذر چکا ہے کہ اس سے مراد دھواں کی وہ کیفیت ہے جو قحط سالی کے دنوں میں بھوک کی شدت سے اہل مکہ کی آنکھوں کے سامنے پیدا ہوتی تھی۔ اس قول کے مطابق وہ دن گذر گیا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد وہ دھواں ہے جو قیامت کی دس نشانیوں میں ایک نشانی ہے، اور چالیس دن تک باقی رہے گا۔ اس قول کے مطابق وہ دن ابھی نہیں آیا ہے۔ علی، ابن عباس، حذیفہ، اور تابعین کی ایک جماعت کی یہی رائے ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ انس سے مراد فتح مکہ کا دن ہے۔ شوکانی نے تینوں اقوال نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ صیحین کی روایت کے مدنظر راجح پہلا قول ہے، اور یہ بات اس کے منافی نہیں ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی میں سے ایک نشانی دھواں ہے، جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے، اور نہ اس کے منافی ہے کہ فتح مکہ کے دن ایک دھواں نظر آیا تھا، جسے ابن سعد نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، جس کی سند محل نظر ہے، اور جس کے پیش نظر ابوہریرہ نے سمجھا کہ اس آیت میں ” دھواں“ سے مراد وہی فتح مکہ کے دن کا دھواں ہے۔ مفسر ابوالسعود نے بھی پہلے قول کو ترجیح دیا ہے۔ آیت (١٢) میں اللہ تعالیٰ سے عذاب دور کرنے کی جو دعا کی گئی ہے، وہ پہلے قول کے مطابق قحط سالی دور کرنے کے لئے کفار مکہ کی دعا ہے اور دوسرے قول کے مطابق قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کفار و مشرکین کریں گے۔ الدخان
11 الدخان
12 الدخان
13 (٧) آیات (١٣/١٤) میں اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کے کفر و عناد اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت سے ان کے اعراض کے پیش نظر اس بات کو بعید قرار دیا ہے کہ قحط سالی سے عبرت حاصل کریں گے اور اسلام لانے کی بات کریں گے، چنانچہ آیت (١٥) میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ ہم کچھ دنوں کے لئے عذاب کو ٹال دیں گے، لیکن وہ ایمانل انے کا وعدہ وفا نہیں کریں گے اور کفر و شرک سے باز نہیں آئیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ لوگ اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ گئے، تو اللہ تعالیٰ نے ان سے میدان بدر میں انتقام لے لیا، جس کا ذکر آیت (١٦) میں آیا ہے۔ شوکافی لکھتے ہیں کہ آیت (١٦) میں جس انتقام کا ذکر آیا ہے، بظاہر اس سے مراد جنگ بدر ہی ہے، اس لئے کہ سیاق کلام کفار قریش سے متعلق ہے، اگرچہ قیامت کے دن کی گرفت اور اس دن کا عقاب و عذاب تمام عذابوں سے بڑھ کر ہوگا، جو ہر نافرمان جن و انس کے لئے عام ہوگا۔ الدخان
14 الدخان
15 الدخان
16 الدخان
17 (٨) چونکہ سردار ان قریش اور فرعون اور فرعونیوں کے حالات میں بہت زیادہ تشابہ ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی اور ذہنی تناؤ کم کرنے کے لئے فرعون اور موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کیا ہے کہ اگر کفار قیش کی جانب سے آپ کو تکلیف پہنچ رہی ہے، تو موسیٰ کو بھی تو فرعون اور فرعونیوں نے تکلیف پہنچائی تھی اور انہوں نے صبر و استقامت سے کام لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے کفار قریش سے پہلے قوم فرعون کو بھی ایمان باللہ اور طاعت و بندگی کا حکم دے کر آزمایا تھا تو انہوں نے کفر کو پسند کرلیا تھا اور ہم نے ان کے پاس اپنا ایک رسول بھیجا تھا جن کا اللہ اور مومنوں کے نزدیک بڑا مقام تھا اور جو حسب و نسب میں اونچے اور نہانیت بلند اخلاق کے مالک تھے۔ وہ موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) تھے۔ انہوں نے فرعون سے کہا کہ تم اللہ کے بندوں (بنی اسرائیل) کو آزاد کر دو اور انہیں میرے ساتھ ان کے آبائی وطن جانے دو اس لئے کہ وہ آزاد لوگ ہیں اور ظلم و جور کی وجہ سے اس ملک سے باہر نکل جانا چاہتے ہیں دیکھو ! میں تمہارے لئے اللہ کا سچا اور امانت دار رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں، تاکہ تمہیں نافرمانی کی صورت میں اس کے عذاب سے ڈراؤں۔ انہوں نے فرعون سے یہ بھی کہا کہ اللہ کی ربوبیت کا انکار اور اپنے رب ہونے کا دعویٰ کر کے، اور اس کے نبی کی تکذیب اور اس کے بندوں پر ظلم و ستم ڈھا کر اللہ کے خلاف اعلان بغاوت نہ کرو اور میں اپنے دعویٰ کی صداقت پر واضح اور صریح دلیل پیش کرتا ہوں اور تم نے جو مجھے پتھروں سے مار کر ہلاک کرنے کی دھمکی دی ہے، تو میں نے اس ذات برحق کی بارگاہ میں پناہ لے لی ہے جو میرا اور تم سب کا رب ہے، اس لئے اب مجھے تمہاری طرف سے کوئی گزند نہیں پہنچ سکتا ہے اور اللہ کی طرف سے میری یہ حفاظت اس بات کی دلیل ہے کہ میں کذاب و مفتری نہیں ہوں، کیونکہ وہ افترا پردازوں کو پناہ نہیں دیتا ہے۔ صاحب محاسن التنزیل لکھتے ہیں کہ اس بات سے ان کا مقصد ان سنگین ترین حالات میں اظہار شجاعت و ثبات قدی تھا، تاکہ دشمن انہیں کمزور نہ سمجھے۔ الدخان
18 الدخان
19 الدخان
20 الدخان
21 (٩) موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے یہ بھی کہا کہ اگر تم لوگ میری نبوت پر ایمان نہیں لاتے، تو مجھے میرے حال پر چھوڑ دو، اور ایذا نہ پہنچاؤ، لیکن جب ہر ممکن کوشش کے باوجود قبطیوں نے ان کی دعوت نہیں قبول کی اور انہیں قتل کرنے کی ٹھان لی، تو انہوں نے اپنے رب سے دعا کی اور کہا، اے میرے رب ! یہ مجرم و مفسد لوگ ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرلی اور انہیں بذریعہ وحی حکم دیا کہ وہ نبی اسرائیل کو لے کر راتوں رات وہاں سے نکل جائیں اور انہیں یہ بھی خبر دی کہ فرعون اور دیگر قبطی، انہیں گھیر کر واپس لانے کیلئے ان کا پیچھا کریں گے۔ آیت (٢٤) میں اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ جب آپ بحر قلزم پار کر جائیں تو اپنی لاٹھی مار کر سمندر کو اس کی اصل حالت میں لوٹانے کی کوشش نہ کیجیے، اسے اسی طرح کشادہ کھلا ہوا چھوڑ دیجیے، تاکہ اس میں فرعون اور فرعونی داخل ہوں اور انہیں ڈبودیا جائے اور ان کے انجام کی خبر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو پہلے ہی اس لئے دے دی تاکہ ان کا ڈر جاتا رہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اللہ نے موسیٰ اور بنی اسرائیل کو نجات دی اور فعن اور اس کے لشکر کو ڈبو دیا۔ الدخان
22 الدخان
23 الدخان
24 الدخان
25 (١٠) فرعون اور فرعونی اپنے پیچھے بہت سے باغات اور چشمے، بہت سی کھیتیاں اور زیب و زینت سے آراستہ بہت سی محافل و مجالس چھوڑ گئے اور بہت سی دوسری نعمتیں بھی، (جیسے عورتیں، مال و دولت اور جاہ وحشم) چھوڑ گئے، جو ان کے عیش و آرام کا سامان تھے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے انہیں انت مام نعمتوں سے نکال باہر کیا اور ان چیزوں کا وارث دوسروں کو بنا دیا، نہ آسمان ان پر رویا اور نہ زمین نے ان پر آہ ونالہ کیا۔ یعنی وہ لوگ اللہ کے ایسے ذلیل بندے تھے کہ ان کی ہلاکت پر کوئی آنسو بہانے والا نہیں تھا۔ حسن بصری اس کی تفسیر بیان کرتے ہیں کہ ان پر نہ فرشتے روئے اور نہ مومنین، بلکہ سب ان کی ہلاکت پر خوش تھے، یعنی نہ آسمان والوں نے ان پر آنسو بہایا اور نہ زمین والوں نے،” خس کم جہاں پاک“ آیت (٢٩) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہیں مہلت نہیں دی گئی، بلکہ فوراً پکڑ لئے گئے، اس لئے کہ اللہ ان کی فطرت سے خوب واقف تھا کہ اگر انہیں مہلت بھی دے دی جائے تب بھی وہ اپنے گناہوں سے تائب ہو کر ایمان نہیں لائیں گے۔ الدخان
26 الدخان
27 الدخان
28 الدخان
29 الدخان
30 (١١) اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر بہت سارے احسانات کئیتھے، یہاں انہی میں سے بعض تذکرہ ہے۔ فرعون نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا، ان کے لڑکوں کو قتل کر تاتھ ا، ان کی عورتوں و رسوا کرنے کے لئے زندہ رکھتا تھا اور ان سے مشکل ترین کام لیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ہلاک کر کے بنی اسرائیل کو اس رسوا کن عذاب سے نجات دے دی۔ آیت (٣١) کے آخر میں اللہ نے فرعون کی ہلاکت کا سبب بیان کرتے ہئے فرمایا کہ فرعون بڑا ہی متکبر تھا اور کفر باللہ، ظلم اور ارتکاب معاصی میں حد سے تجاوز کر گیا تھا۔ الدخان
31 الدخان
32 (١٢) اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اس زمانے کی دیگر تمام قوموں پر فضیلت دی تھی، اپنے اس علم کی بنیاد پر کہ وہ اس قدر و منزلت کے مستحق ہیں۔ آیت سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ اللہ نے انہیں ہر دور کے لوگوں پر فوقیت دیتھی، اس لئے کہ امت محمدیہ کے بارے میں سورۃ آل عمران آیت (١١٠) میں آیا ہے : (کنتم خیر امۃ اخر جنت للناس) ” تم سب سے اچھے لوگ ہو جنہیں لوگوں کی بھلائی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ “ اور اللہ نے انہیں بہت سے معجزات و کرامات سے نوازا تھا، جو درحقیقت اللہ کی جانب سے ان کی آزمائش تھی کہ ان نعمتوں پر وہ اللہ کے شکر گذار ہوتے ہیں یا اس کی ناشکری کرتے ہیں۔ الدخان
33 الدخان
34 (١٣) مشرکین قریش قیامت اور بعث بعد الموت کا انکار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہماری اس دنیاوی زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے اور نہ مرنے کے بعد دوبارہ جینا ہے اور دلیل یہ پیش کرتے تھے کہ ان کے جو باپ دادے گذر گئے، ان میں سے کوئی بھی لوٹ کر نہیں آیا، اس لئے اے محمد ! اور اے مسلمانو ! اگر بعث بعد الموت کا عقیدہ صحیح ہے، تو ہمارے ان آباء و اجداد کو زندہ کر کے دکھا دو، جو مر چکے ہیں۔ مشرکین کی یہ دلیل باطل اور ان کا یہ شبہ فاسد تھا، اس لئے کہ لوگوں کا دوبارہ زندہ کیا جانا قیامت کے دن ہوگا، اس دنیا میں کسی کو اس حقیقت کا مشاہدہ نہیں کرایا جائے گا۔ جب دنیا پورے طور پر ختم ہوجائے گی، تو اللہ تعالیٰ تمام جنوں اور انسانوں کو دوبارہ زندہ کرے گا اور ظالم کافروں کو جہنم کی آگ کا ایندھن بنائے گا۔ آیت (٣٧) میں اللہ تعالیٰ نے انہیں دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ وہ بہتر ہیں یا تبع حمیری کے لوگ جن کی فوجیں سمرقند تک پہنچ گئیت ھیں اور جہاں جہاں سے گذریں وہاں کے لوگوں کو اپنا تابع فرمان بنا لیا تھا، لیکن اللہ نے ان کے کفر و عناد کی وجہ سے انہیں ہلاک کردیا، ان کے علاقے تہ و بالاہ گئے اور وہ لوگ ٹولیوں میں بٹ کر دنیا میں بکھر گئے۔ الدخان
35 الدخان
36 الدخان
37 الدخان
38 الدخان
39 (١٤) یہ آیت کریمہ بعث بعد الموت اور قیامت کے دن کی جزا و سزا کی دلیل ہے، اس لئے کہ یہ بات حکمت سے اری ہے کہ اللہ نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو بغیر کسی مقصد کے پیدا کیا ہے اور ایک وقت آئے گا کہ سب کچھ فنا ہوجائے گا اور اس کے بعد کچھ بھی نہیں ہوگا۔ یہ تو ایسی لغوبات ہوگی جو عقلمند انسانوں کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی، تو اس ذات باری تعالیٰ کے بارے میں کیسے کہی جاسکتی ہے جس نے انسانوں کو عقل کی نعمت سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ جن و انس اس کی عبادت کریں اور اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں، تو جو شخص ایسا کرے گا اسے وہ قیامت کے دن اس کے نیک اعمال کا اچھا سے اچھا بدلہ دے گا اور جو ایسا نہیں کرے گا اور کفر و شرک کی راہ اختیار کرے گا، اسے وہ ذلیل و رسوا کرے گا اور بدترین عذاب میں مبتلا کرے گا۔ انہی حقائق کی تائید کے طور پر اللہ تعالیٰ نے آیت (٤٠) میں فرمایا کہ قیامت کے دن (جو حق و باطل کے درمیان فیصلے کا دن ہوگا) تمام لوگ میدان محشر میں اکٹھا کئے جائیں گے اور آیات (٤١/٤٢) میں فرمایا کہ اس دن کوئی رشتہ دار یا دوست اپنے کسی دوسرے رشتہ دار یا دوست کے کام نہیں آئے گا، البتہ جن پر اللہ نے دنیا میں رحم کیا ہوگا اور ایمان باللہ اور توحید باری تعالیٰ کی راہ اختیار کی ہوگی، ان پر اللہ آخرت میں بھی رحم کرے گا، یعنی اپنے کسی نیک بندے کو اس کے لئے شفاعت کی اجازت دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد فرمایا کہ وہ اپنے دشمنوں سے انتقام لینے پر پوری طرح قادر ہے، اور اپنے نیک بندوں پر بڑا مہربان ہے۔ الدخان
40 الدخان
41 الدخان
42 الدخان
43 (١٥) ذکر آخرت کی مناسبت سے جہنم اور اس میں پائے جانے والے بدترین عذاب کا ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہاں بڑے مجرمین کو زقوم کا پھل کھانے کو دیا جائے گا، زقوم کا درخت بادیہ میں پایا جانے والا بدترین درخت ہے۔ قیامت کے دن یہ اللہ کے حکم سے جہنم میں پیدا ہوگا، اس کے پھل نہایت بدشکل اور بدمزہ ہوں گے، سورۃ الاسراء آیت (٦٠) میں اس کا نام (ملعونہ) بتایا گیا ہے، یعنی وہ درخت جس میں کوئی خیر نہیں ہے اور سورۃ الصافات آیات (٦٢) سے (٦٦) تک میں اس کا تفصیلی بیان آچکا ہے۔ جہنمی جب بھوک کی شدت سے اسے کھائیں گیت و وہ القطرہ کی تلچھت یا پگھلے ہوئے تانبے کے مانند ان کے پیٹوں میں پوری شدت کے ساتھ کھولنے لگے گا جو ان کے دلوں کو جلا ڈالے گا۔ سورۃ الہمزہ آیات (٦/٧) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (نار اللہ الموقدۃ، التی تطلع عل الافترہ) ” وہ اللہ تعالیٰ کی سلگائی ہوئی آگ ہوگی، جو دلوں پر چڑھتی چلی جائے گی۔ “ الدخان
44 الدخان
45 الدخان
46 الدخان
47 (١٦) اللہ تعالیٰ جہنم پر متعین فرشتوں سے کہے گا کہ انہیں ان کے گریبانوں سے پکڑ لو اور نہایت بے دردی کے ساتھ گھسیٹتے ہوئے بیچ جہنم میں ڈال دو، پھر ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی انڈیل دو، جو ان کے سارے جسم کو جلا ڈالے، پھر ان کا ذہنی کرب و الم بڑھانے کے لئے بطور استہزاء ان سے کہا جائے گا کہ تم دنیا میں بڑی عزت اور اونچے مقام والے بنے پھرتے تھے اور مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے تو اب اپنے کبر و غرور کا مزا چکھو۔ اموی نے اپنی کتاب ” المغازی“ میں عکرمہ سے ایک مرسل روایت نقل کی ہے کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ابوجہل سے ملاقات ہئی، تو آپ نے اس سے کہا کہ مجھے اللہ نے تمہیں یہ کہنے کو کہا ہے : (اولی لک فاولی، تم اولی لک فاولی) ” افسوس ہے تجھ پر، حسرت ہے تجھ پر، بربادی ہے اور خرابی ہے تیرے لیے “ (القیامہ : ٣٤/٣٥) تو اس نے اپنا ہاتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ سے کھینچ لیا اور کہا کہ تم اور تمہارا رب میرا کیا بگاڑ سکتے ہو، تم جانتے ہو کہ میں اہل بطحاء کو جس چیز سے چاہتا ہوں روک دیتا ہوں اور میں زت و شرف والا ہوں، تو اللہ تعالیٰ نے میدان بدر میں اس کی جان لے لی، اسے رسوا کیا اور قیامت کے دن اس کی بات یاد دلا کر اس سے کہے گا کہ ہاں ! اب مزا چکھو، تم تو بڑے ہی عزت و شرف والے ہو۔ آیت (٥٠) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جہنمیوں سے کہا جائے گا کہ یہی وہ عذاب جہنم ہے جس کے بارے میں تم دنیا کی زندگی میں شک کرتے تھے اور کہتے تھے کہ قیامت، بعث بعد الموت اور جنت و جہنم کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ الدخان
48 الدخان
49 الدخان
50 الدخان
51 (١٧) قرآن کے معہود طریقہ کے مطابق اب اہل جنت اور جنت میں پائی جانے والی نعمتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا کی زندگی میں کفر و معاصی سے بچنے والے قیامت کے دن اس مقام پر ہوں گے جہاں انہیں کوئی خوف و ہراس لاحق نہیں ہوگا، وہ باغوں میں اور بہتے چشموں کے درمیان ہوں گے۔ وہاں انہیں پہننے کے لئے باریک اور دبیز ریشمی لباس ملے گا اور ان کے کمروں اور منازل کی ایسی ترتیب ہوگی کہ وہ ہر دم ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے۔ اللہ نے کہا کہ جنتیوں کے ساتھ بالکل ویسا ہی برتاؤ ہوگا جیسا ہم نے اوپر بیان کیا ہے اور ہم ان کی شادیاں گوری چٹی خوبصورت ترین آنکھوں والی حوروں سے کریں گے، تاکہ ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک اور ان کے دلوں کو سرور ملے اور اہل جنت ان جنتوں میں ہر آفت و مصیبت سے مامون ہوں گے اور اپنی پسند کے نوع بہ نوع پھل حاضر کرنے کا غلمان جنت کو حکم دیا کریں گے انہیں کبھی موت نہیں آئے گی، اور اللہ تعالیٰ انہیں ہمیشہ کے لئے جہنم کے عذاب سے نجات دے دے گا۔ مفسرین لکھتے ہیں : آیت (٥٦) کا آخری حصہ اس بات کی دلیل ہے کہ ممکن ہے غیر متقی موحدین کچھ عذاب بھگتنے کیب عد جنت میں داخل ہوں، البتہ متقی موحدین جہنم میں بالکل داخل نہیں ہوں گے۔ (صحیحین کی روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ موت کو ایک میڈھے کی شکل میں لا کر جنت اور جہنم کے درمیان ذبح کردیا جائے گا، پھر کہا جائے گا، اے اہل جنت ! اب تم ہمیشہ یہیں رہو گے، کبھی موت نہیں آئے گی، اور اے اہل جہنم ! اب تم ہمیشہ جہنم میں ہی رہو گے، تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی اور مسلم نے ابو سعید اور ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اہل جنت سے کہا جائے گا، تم اب ہمیشہ صحت مند رہو گے کبھی بیمار نہیں ہو گے، اور تم ہمیشہ زندہ رہو گے کبھی نہیں مرو گے، اور تم ہمیشہ خوش و خرم رہو گے کبھی رنجیدہ نہیں ہو گے، اور تم ہمیشہ جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہیں ہو گے۔ “ الدخان
52 الدخان
53 الدخان
54 الدخان
55 الدخان
56 الدخان
57 (١٨) اہل تقویٰ مومنوں کو قایمت کے دن جو نعمت بھی ملے گی، وہ اللہ کا ان پر محض فضل و کرم ہوگا، کوئی شخص اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں ہرگز داخل نہیں ہوگا، صحیحین کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جان لو کہ کسی کو اس کا عمل جنت میں نہیں پہنچائے گا۔ لوگوں نے پوچھا، اے اللہ کے رسول ! آپ کو بھی؟ آپ نے فرمایا : ہاں مجھے بھی مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل و کرم سے ڈھانک لے گا۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جہنم کی آگ سے نجات اور دخول جنت وہ عظیم کامیابی ہوگی جس سے بڑھ کر کوئی کامیابی نہیں ہوگی۔ سورۃ آل عمران آیت (١٨٥) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (فمن زحزح عن النار و ادخل الجنۃ فقد فاز) ” جو شخص آگ سے ہٹا دیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ کامیاب ہوگیا۔ “ الدخان
58 (١٩) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تعریف بیان کی ہے کہ اے میرے نبی ! ہم نے اسے آپ کی مادری زبان (عربی) میں نازل کر کے آپ کے لئے اس کا دوسروں کو سمجھانا اور آپ کی قوم کے لئے اس کا سمجھنا آسان بنا دیا ہے، تاکہ اہل مکہ اس میں بیان کردہ عبرتوں، نصیحتوں اور دلائل و براہین سے مستفید ہوں، حق کو قبول کریں اور اپنے رب کی طرف رجوع کریں۔ لیکن اکثر اہل مکہ نے قرآن کریم میں بیان کردہ عبرتوں اور نصیحتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آیت (٥٩) میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ اب آپ ان کے بارے میں اللہ کے فیصلے کا انتظار کرلیجیے، وہ بھی اسی انتظار میں ہیں کہ کب آپ حوادث زمانہ کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہوجائیں اور انہیں آپ سے چھٹی مل جائے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ کی جانب سے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے نصرت اور اہل مکہ پر غلبہ کا وعدہ تھا، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اللہ نے اپنے رسول کو غالب کیا اور کافر سردار ان قریش کو منہ کی کھانی پڑی۔ الدخان
59 الدخان
0 سورۃ الجاثیہ مکی ہے، اس میں سینتس آیتیں اور چار رکوع ہیں تفسیر سورۃ الجاثیہ نام : آیت (٢٨) (وتری کل امۃ جاثیہ کل امۃ تدعی الی کتابھا الیوم تجزون ماکنتم تعملون) سے ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول : حسن، جابر اور عکرمہ کے نزدیک پوری سورت مکی ہے۔ ماوردی نے لکھا ہے کہ ابن عباس اور قتادہ کے نزدیک آیت (١٤) کا پہلا حصہ (قل للذین امنوا یغفروالذین لایرجون ایام اللہ) مدنی ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ سورت سورۃ الدخان کے بعد نازل ہوئی اور دونوں کے مضامین میں تشابہ پایا جاتا ہے۔ دونوں میں توحید و آخرت سے متعلق مشرکین مکہ کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے اور ان کے شبہات کی تردید کی گئی ہے اور دونوں ہی میں قرآن کریم کی دعوت کو ٹھکرانے پر انہیں دھمکی دی گئی ہے۔ الجاثية
1 (١) یہ حروف مقطعات ہیں اور ان کا حقیقی معنی و مفہوم اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ الجاثية
2 (٢) سورۃ الزخروف اور سورۃ الدخان کی آیت (٣) کی طرح یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ یہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام نہیں ہے، بلکہ اسے اس اللہ نے نازل کیا ہے جو زبردست ہے اور حکیم بھی ہے اور اس کا زبردست ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ دلائل و براہین کی ایسی بھرمار کر دے کہ اس کے دشمن مبہوت و مغلوب ہوجائیں اور اس کا حکیم ہونا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ تمام شکوک و شبہات کا ازالہ کر دے اور اس کے کلام میں کوئی عیب و نقص نہ ہو۔ چنانچہ قرآن کریم توحید باری تعالیٰ کے دلائل و براہین سے بھرا پڑا ہے اور چونکہ وہ کلام ربانی ہے اس لئے اس میں کوئی عیب و نقص نہیں ہے۔ الجاثية
3 الجاثية
4 (٣) ذیل کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے انہی بعض دلائل توحید کا ذکر کیا ہے جن کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آسمانوں اور زمین میں، یا ان کی پیدائش میں نوع بہ نوع نشانیاں ہیں اور چونکہ ان نشانیوں سے مومنین فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی لئے بطور خاص ان کا ذکر آیا، ورنہ اللہ کی نشانیاں تو ہر خاص و عام کے لئے ہیں۔ آیت (٤) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابن آدم کا تخلیق کے کئی مراحل سے گذر کر پیدا ہونا، دل، دماغ اور عقل جیسی نعمتوں سے بہرور ہونا اور سماعت، بینائی اور گویائی پر اقدر ہونا، ان کے بارے میں آدمی جتنا غور کرے گا، اللہ کی عظیم قدرت کا اعتراف بڑھتا چلا جائے گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے زمین پر بھانت بھانت کے جانور، چوپائے اور حیوانات پیدا کئے ہیں، کوئی خشکی کا جانور ہے تو کوئی دریا اور سمندر میں رہنے والا ان سب کے بارے میں غور و فکر آدمی کو اس یقین تک پہنچاتا ہے کہ اللہ موجود ہے، وہ علام الغیوب ہے، عزیز و حکیم ہے اور اس بات پر قادر ہے کہ قیامت کے دن تمام مردوں کو دوبارہ زندہ کر کے ان کے اعمال کا ان سے حساب لے۔ رات اور دن کا ایک دوسرے کے بعد پورے انتظام کے ساتھ آتے رہنا، موسم کی تبدیی کے مطابق دونوں کا چھوٹا اور بڑا ہونا اور آسمان سے بارش کا نزول جس سے مردہ زمین میں جان پڑجاتی ہے اور ہواؤں کا رد و بدل، کبھی باد صبح گاہی ہے، تو کبھی شام کے وقت چلنے والی ہوا ہے، کبھی شمالی ہے تو کبھی جنوبی ہے اور کبھی باد سموم ہے تو کبھی آندھی ہے، ان سب تصرفات پر اللہ کے سوا کس کا اختیار ہے، وہی تو ہے جو ان تمام قدرتوں کا مالک ہے، اور ان میں اہل خرد کے لئے واقعی بڑی بڑی نشانیاں ہیں جو انسانوں کو صرفاسی ذات واحد کی عبادت کی طرف بلاتی ہیں۔ آیت (٦) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ یہ وہ نشانیاں ہیں جو اس کے کمال قدرت، کمال حکمت اور اس کے کمال ارداہ و مشیات پر دلالت کرتی ہیں۔ تو اب ان نشانیوں کے بعد کفار قریش کو کس دلیل کا انتظار ہے جس یدیکھ کر اللہ پر ایمان لائیں گے۔ ایک دوسری تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ (بعد اللہ) سے مراد ” بعد حدیث اللہ“ ہے، یعنی اگر یہ لوگ قرآن کریم جیسی عظیم الشان کتاب پر ایمان نہیں لاتے ہیں، تو ان کی ہدایت کے لئے اب کون سی کتاب آئے گی۔ جس پر ایمان لائیں گے؟! یعنی یہ مشرکین ایمان نہیں لائیں گے۔ الجاثية
5 الجاثية
6 الجاثية
7 (٤) ذیل کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسے کافر کا انجام ویل (جہنم کی ایک وادی) بتایا ہے، جو اللہ اور اس کی صفات کے بارے میں خلاف دلیل بات کرتا ہے اور گناہوں کا کثرت سے ارتکاب کرتا رہتا ہے اور جب اس کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے تو اس کی کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ گویا اس نے انہیں سنا ہی نہیں، اور کبر و غرور کی وجہ سے اپنے کفر پر اصرار کرتا ہے، اور حق کو قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ ایسے کافروں کو درد ناک عذاب کی خوشخبری دے دیجیے۔ الجاثية
8 الجاثية
9 (٥) ایسے کافروں کی صفت یہ بھی ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے اور اس کے احکام بیان کئے جاتے ہیں تو وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے جھوٹوں اور معصیت صفت انسانوں کا انجام یہ بتایا کہ ان کے لئے آخرت میں ایسا رسوا کن عذاب تیار کیا گیا ہے کہ اس سے بڑھ کر ذلت و رسوائی نہیں ہو سکتی ہے۔ آیت (١٠) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جہنم ان کا انتظار کر رہی ہے اور اس دن ان کا مال و جاہ اور ان کی اولاد ان کے کچھ بھی کام نہیں آئے گی، اور اللہ کے سوا جن معبودوں کی وہ لوگ پرستش کر رہے ہیں وہ بھی ان سے عذاب کو ٹال نہیں سکیں گے اور انہیں بڑا ہی سخت عذاب دیا جائے گا۔ الجاثية
10 الجاثية
11 (٦) اس آیت کریمہ میں اشارہ قرآن کریم کی طرف ہے، جو منبع رشد و ہدایت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر ایمان لنے والوں کو گمراہی سے نکال کر راہ ہدایت پر ڈال دیتا ہے اور کفر و شرک سے نجات دے کر ایمان و توحید کی نعمت سے مالا مال کردیتا ہے، اس لئے کہ وہ سراپا نور اور سرچشمہ خیر و برکت ہے۔ الجاثية
12 (٧) ذیل کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بعض نعمتوں کا ذکر کیا ہے، جن سے بنی نوع انسان استفادہ کرتے ہیں، اور جو ایمان باللہ کی دعوت دیتی ہیں اور اس کی طاعت و بندگی پر ابھارتی ہیں اور مقصود اہل قریش کو اللہ کی قدرت و وحدانیت اور اس کے احسانات کا قائل کرنا ہے تاکہ ایمان لے آئیں اور دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسی نے تمہارے لئے سمندر کو مسخر کردیا ہے تاکہ اس کے حکم سے تمہاری کشتایں اس میں چلتی رہیں اور اتکہ تم اس کی نعمتیں حاصل کرو۔ چنانچہ آدمی کشتیوں کے ذریعہ سفر کر کے دوسرے شہروں میں علم حاصل کرنے اور تجارت کے لئے جاتا ہے، اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے اور سمندروں میں غوطے لگا کر موتی نکالتا ہے اور نوع بہ نوع مچھلیوں کا شکار کرتا ہے۔ ان نعمتوں کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے اس خالق ور ازق کا شکر ادا کرے جس نے یہ نعمتیں دی ہیں اور صرف اسی کی عبادت کرے۔ الجاثية
13 (٨) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور اسی نے تمہارے لئے ان تمام چیزوں کو مسخر کردیا ہے جنہیں اس نے آسمانوں اور زمین میں تمہارے فائدے کے لئے پیدا کی ہے۔ شمس و قمر، ستارے، بارش، بادل، ہوائیں، پہاڑ، درخت، نہریں، سمندر، معدنیات اور حیوانات، ان تمام مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے ہی اپنی رحمت سے انسانوں کے لئے مسخر کردیا ہے، اور بلاشبہ اس کے یہ احسانات دعوت فکر و نظر دیتے ہیں، تاکہ لوگ اس پر ایمان لے آئیں، اس کی وحدانیت کا اقرار کریں، اس کا شکر ادا کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں۔ الجاثية
14 (٩) مکی زندگی میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصیحت کی کہ اگر انہیں مشرکین قریش کی طرف سے اذیت پہنچتی ہے تو عفو و درگزر سے کام لیں، اور انتقام لینے کی نہ سوچیں۔ دعوت الی اللہ کی راہ میں حکمت و دانائی کا بھی یہی تقاضا ہے۔ اگر بالفرض مسلمانوں میں انتقام لینے کی طاقت بھی ہے تب بھی ایسا نہ کریں۔ (ایام اللہ) کی تفسیر بعض نے ” اقوام گزشتہ پر عذاب الٰہی“ کیا ہے، بعض نے ” مطلق اللہ کا عذاب“ مراد لیا ہے، اور بعض نے اس سے مراد ” بعث بعد الموت“ لیا ہے۔ آیت میں مذکور عفو و درگزر کا صلہ یہ بتایا گیا کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ مومنوں کو ان کے اس نیک عمل کا اچھا بدلہ دے گا۔ (لیجزی قوما بماکانوا یکسبون) کا دوسرا مفہوم یہ کیا گیا ہے کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ کافروں کو ان کے برے اعمال کا بدلہ دے گا یعنی اے مومنو ! تم ان سے انتقام لینے کی نہ سوچو، ان کی ایذا رسانیوں کا بدلہ انہیں ہم دیں گے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ عفو و در گزر کا یہ حکم جہاد کے حکم کے ذریعہ منسوخ ہوگیا ہے۔ الجاثية
15 (١٠) جو شخص اس دنیاوی زندگی میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے بعد نیک عمل کرتا ہے، تو روز قیامت اس کا فائدہ اسے ہی پہنچے گا کہ عذاب نار سے نجات پا جائے گا اور جو شخص برا عمل کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو نقصان پہنچائے گا کہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت میں عمل صالح کی ترغیب دلائی گئی ہے اور اللہ کی نافرمانی سے ڈرایا گیا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم سب کو اپنے رب کے پاس ہی لوٹ کر جانا ہے۔ جہاں وہ ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا، بھلا کرنے والے کو بھلا، اور برا کرنے والے کو برا بدلہ ملے گا۔ الجاثية
16 (١١) اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر جو احسانات کئیت ھے، ان میں سے ایک احسان یہ بھی تھا کہ تورات میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نشانیاں بیان کردی گئی تھیں اور بتا دیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی آخری کتاب دے کر بھیجے گا اور ان باتوں کو ان میں ہر وہ شخص جانتا تھا جو تورات کا علم رکھتا تھا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے یہ مدینہ اوس و خزرج والوں سے کہا کرتے تھے کہ وہ نبی عنقریب ہی مبعوث ہونے والے ہیں، جن پر ہم ایمان لائیں گے اور ان کے ساتھ مل کر تمہارے خلاف جنگ کریں گے اور تم پر غالب آئیں گے اور جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے تو انہوں نے آپ کو اسی طرح پہچان لیا جس طرح کوئی اپنی صلبی اولاد کو پہچانتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی صراحت سورۃ البقرہ آیت (١٤٦) اور سورۃ الانعام آیت (٢٠) میں کردی ہے : (الذین اتیناھم الکتاب یعرفونہ کما یعرفن ابنا ھم) ” یہود آپ کو اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں“ لیکن چونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اولاد اسماعیل بن ابراہیم سے تھے، اس لئے انہوں نے محض بغض و حسد کی وجہ سے ایمان لانے سے انکار کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے بنی اسرائیل یعنی اولاد یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم کو تورات، اور لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی فہم و بصیرت دی، اور ان میں موسیٰ، ہارون، یوسف، داؤد، سلیمان اور عیسیٰ علیہم السلام جیسے انبیاء پیدا کئے اور ان کے دور ایمانی میں دیگر قوموں پر انہیں فوقیت دی اور تورات و انجیل میں حلال و حرام کا واضح علم، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے صریح دلائل بیان کئے، تاکہ ان کی بعثت کے بعد انہیں پہچان کر ان پر ایمان لائیں، لیکن برا ہو بغض و حسد کا، جس کی وجہ سے انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کردیا۔ بہت سے مفسرین نے آیت (١٧) کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لئے تورات اس لئے نازل کیا تھا کہ وہ لوگ اس میں بیان کردہ احکام شریعت پر عمل کر کے اپنے آپس کا اختلاف دور کریں، لیکن معاملہ الٹا ہوا اور ایک دوسرے سے بغض و حسد کی وجہ سے انہوں نے احکام شریعت کو پس پشت ڈال دیا اور ان کا آپس کا اختلاف بڑھتا ہی گیا اور انہوں نے اللہ کے دین و شریعت کو کھلواڑ بنال یا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ قیامت کے دن ان یہود کے درمیان فیصلے کے گا اور ان کو ان کے کئے کا بدلہ دے گا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس میں امت محمدیہکے لئے زبردست تنبیہہ ہے کہ قرآن و سنت کے ساتھ اگر انہوں نے بھی ویسا ہی برتاؤ کیا، جیسا یہود و نصاریٰ نے تورات و انجیل کے ساتھ کیا ہے، تو پھر وہ بھی برے انجام کا انتظار کریں۔ الجاثية
17 الجاثية
18 (١٢) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا ہے کہ اے میرے نبی ! ہم نے آپ کو بہت ہی واضح دین اور روشن شریعت دی ہے جو آپ سے پہلے تمام انبیاء کا دین رہا ہے، آپ اسی پر گامزن رہئے، اور اپنی امت کو اسی کا حکم دیجیے اور جنہیں اللہ کی توحید اور اس کے دین و شریعت کا علم نہیں، چاہے وہ کفار مکہ ہوں یا یہود و نصاریٰ، ان کی خواہشات کی پیروی نہ کیجیے۔ اگر آپ ان کی خواہشات کی اتباع کریں گے، تو یہ لوگ اللہ کے عذاب کو آپ سے نہیں ٹال سکیں گے۔ آیت (١٩) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دشمنان اسلام، مومنوں کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، لیکن اس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا، اس لئے کہ اللہ کی نصرت و تائید سے وہ محروم ہیں، جبکہ اہل تقویٰ مومنوں کو اس کی نصرت و تائید حاصل ہے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت (٢٥٧) میں فرمایا ہے : (اللہ ولی الذین امنوا یخرجھم من الظلمات الی النور والذین کفروا اولیاؤھم الطاغوت یخرجونھم من النور ال الظلمات) ” ایمان والوں کا کار ساز خود اللہ تعالیٰ ہے، وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور کافروں کے اولیاء شیاطین ہیں، وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں۔ “ آیت (٢٠) میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی عظمت بیان فرمائی ہے کہ اس میں جو احکام شریعت اور جو براہیم و دلائل بیان کئے گئے ہیں ان میں غور و فکر کرنے سے قلب مومن میں ایسی بصیرت پیدا ہوتی ہے کہ وہ نافع و ضار اور حق و بطال کے درمیان تفریق کرنے لگتا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو مومنوں کے لئے منبع ہدایت و رحمت ہے۔ الجاثية
19 الجاثية
20 الجاثية
21 (١٣) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات مختلف پیرائے میں بارہا کہی ہے کہ نیک و بد اور صالح و طالح کا انجام ایک جیسا ہرگز نہیں ہوگا۔ اسی بات کو اللہ نے یہاں بھی بیان کیا ہے کہ کیا شرک و معاصی کا ارتکاب کرنے والے اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم انہیں دنیا اور آخرت میں ان لوگوں کے برابر بنا دیں گے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیا اہل ایمان نے تو دنیا میں اپنے رب کی بندگی کی اور سکون قلب کی دولت سے مالا مال رہے، اور آخرت میں اس کی رحمت اور جنت کے حقدار ہوں گے۔ اور شرک و معاصی کا ارتکاب کرنے الیت و دنیا میں اپنے رب کے نافرمان رہے اور سکون قلب سے محروم رہے، اور آخرت میں اس کی رحمت اور جنت سے محروم کردیئے جائیں گے۔ سورۃ طہ آیت (١٢٤) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (فمن اتبع ھدای فلایضل ولا یشقی، ومن اغرض عن ذکری فان لہ معیشۃ ضنکا ونخشرہ یوم القیامۃ اعمی) ” پس جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا نہ تو وہ بہکے گا، نہ تکلیف میں پڑے گا اور جو میری یاد سے روگردانی کرے گا، اس کی زندگی تنگی میں رہے گی اور ہم اسے روز قیامت اندھا بنا کر اٹھائیں گے۔ “ الجاثية
22 (١٤) اوپر جو بات کہی گئی ہے، اسی کیتاکید کے طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو اظہار حق اور عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے پیدا کیا ہے اور نیک و بد کا برابر ہونا حق کے منافی اور عدل و انصاف کے خلاف ہوگا۔ آسمانوں اور زمین کی تخلیق کا مقصد ہی یہ ہے کہ زمین پر رہنے والے جو جن و انس اس کی بندگی کریں، انہیں اچھا بدلہ دیا جائے گا اور جو اس کی نافرمانی کریں انہیں ان کے برے کرتوتوں کے بدلے عذاب میں مبتلا کیا جائے۔ الجاثية
23 (١٥) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخطاب کر کے ان لوگوں کے حال پر اظہارت عجب کیا ہے، جن کا معبود ان کا نفس ہوتا ہے، جو اللہ کے دین کے بجائے اپنے نفس کی عبادت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی انہیں ضلالت و گمراہی میں بھٹکتا چھوڑ دیتا ہے، اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ ان میں قبول حق کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ (واضلہ اللہ علی علم) کی دوسری تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ چونکہ اپنے نفس کا وہ بندہ جان رہا ہوتا ہے کہ اسے کیا کرنا چاہئے، اس کے باوجود اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتا، اس لئے اللہ تعالیٰ اسے گمراہی میں بھٹکتا چھوڑ دیتا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دیتا ہے اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیتا ہے، اس لئے نہ وہ خیر کی کوئی بات سن پاتا ہے، نہ ہی خیر و شر کی تمیز کر پاتا ہے، اور نہ حق پر چلنے کی اسے توفیق ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سج کا حال وہ ہو جو اوپر بیان کیا گیا، یعنی جسے اللہ گمراہ کر دے، اسے ہدایت کی توفیق کون دے سکتا ہے، لوگو ! تم یہ باتیں سن کر نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے اور ایمان و عمل کی زندگی اختیار کر کے اپنے رب کی رضا اور جنت کے حقدار کیوں نہیں بنتے؟! الجاثية
24 (١٦) مشرکین مکہ بعث بعد الموت کا انکار کرتے تھے او کہتے تھے کہ جو زندگی ہم گذار رہے ہیں، اس کے سوا اب کوئی زندگی نہیں ہے، آدمی جسمانی زندگی جیتا ہے اور مردر زمانہ کے ساتھ اس کے جسم کو موت لاحق ہوجاتی ہے اور ختم ہوجاتا ہے اس زندگی کے بعد نہ کوئی دوسری زندگی ہے اور نہ کوئی اور عالم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو بات وہ اپنی زبان سے کہتے ہیں، اس کی ان کے پاس کوئی نقلی یا عقلی دلیل نہیں ہے، یہ محض ان کا گمان باطل ہے۔ الجاثية
25 (١٧) آیت (٢٥) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب مشرکین مکہ کے سامنے ان آیتوں کی تلاوت کی جاتی ہے جن میں یہ بیان آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی مخلوق کو دوبارہ زندہ کرے گا تو ان آیات کیت ردید کے لئے ان کے پاس ان کے اس قول کے سوا کوئی دلیل نہیں ہوتی کہ ” اچھا اگر بعث بعد الموت کا عقیدہ صحیح ہے تو پھر ہمارے گذرے ہوئے باپ دادوں کو زندہ کر کے دکھادو۔ “ اللہ تعالیٰ نے آیت (٢٦) میں ان کے اس شبہ کی تردید کرتے ہوئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی فرمایا کہ اے کفار قریش ! تمہیں زمانہ ہلاک نہیں کردیتا ہے، بلکہ اللہ تمہیں زندگی دیتا ہے اور وہ تمہیں موت کے گھاٹ اتارتا ہے، اور جب قیامت کا دن آئے گا تو وہ تمہیں دوبارہ زندہ کر کے میدان محشر میں اکٹھا کرے گا، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے، اس لئے کہ جو پہلی بار پیدا کرنے پر قادر ہے، وہ یقیناً دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے، لیکن اکثر و بیشتر لوگ جنہیں اللہ کے قادر مطلق ہونے پر ایمان نہیں ہے اور جو اپنی تخلیق کے بارے میں غور نہیں کرتے ہیں وہ اس حقیقت کے ادراک سے قاصر ہیں۔ الجاثية
26 الجاثية
27 (١٨) آیت (٢٧) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہی آسمانوں اور زمین کا مال ہے، اسی نے انہیں پیدا کیا ہے، اور ان میں تصرف کرتا ہے اور جس کی قدرت اور علم و حکمت کا یہ عالم ہو، اس کی اس بات کو کیسے جھٹلایا جاسکتا ہے کہ وہ قیامت کے دن اپنے بندوں کو دوبارہ زندہ کر کے انہیں حساب و جزا کے لئے میدان محشر میں جمع کرے گا۔ اور قیامت کا دن وہ دن ہوگا جب اپنے رب کے ساتھ غیروں کو شریک بنانے والے سب کچھ کھو دیں گے اور جہنم میں ڈال دیئے جائیں اور اے میرے نبی ! آپ اس دن دیکھیں گے کہت مام قومیں اور جماعتیں میدان محشر میں حساب کے وقت نہایت ذلت و مسکنت کے عالم میں اپنے گھٹنوں کے بل جھکے ہوں گے اور ہر جماعت کے سامنے اس کا نامہ اعمال پیش کیا جائے گا، یا ہر جماعت کے سامنے وہ کتاب رکھی جائے گی جو دنیا میں ان کی ہدایت کے لئے بھیجی گئی تھی اور ان سے کہا جائے گا کہ آج تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ چکایا جائے گا اور تمہارا یہ نامہ اعمال تمہیں سب کچھ بتائے دے رہا ہے، دنیا میں تم جو کچھ کرتے رہے، ہم اپنے فرشتوں کے ذریعہ اسے لکھتے رہے۔ ایک ذرہ کے برابر بھی تمہاری نیکی یا بدی کہیں غائب نہیں ہوگئی۔ جن لوگوں نے وہاں ایمان اور عمل صالح کی راہ اختیار کی اور شرک و معاصی سے اجتناب کیا، آج ان کا رب انہیں اپنی رحمت یعنی جنت میں داخل کر دے گا اور کھلی اور صریح کامیابی یہی ہے کہ آدمی ہر خوف و ہراس سے نجات پا جائے اور دائمی فرحت و شادمانی کو پالے۔ اور جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی، اور شر و معاصی کا ارتکاب کیا، ان سے کہا جائے گا : کیا میرے انبیاء تمہارے پاس نہیں آئے، اور کیا میری آیتیں پڑھ کر تمہیں سنائی نہیں گئیں، اور تمہیں اللہ کا خوف نہیں دلایا گیا ؟ ہاں، تمہیں یقیناً میری آیتیں سنائی گئیں، لیکن تم نے استکبار میں آ کر ان کا انکار کردیا، اور تم لوگ تھے ہی بڑے مجرم صفت لوگ، جبھی تو تم نے بندہ ہو کر بندگی کی راہ چھوڑ دی، شیطان کی پیروی کی اور گناہوں کا ارتکاب کیا۔ الجاثية
28 الجاثية
29 الجاثية
30 الجاثية
31 الجاثية
32 (١٩) اور جب تم سے کہا جاتا تھا کہ اللہ کا یہ وعدہ برحق ہے کہ وہ اپنے بندوں کو دوباہر زندہ کرے گا اور حساب و جزا کے لئے انہیں میدان محشر میں اکٹھا کرے گا، اور قیامت کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے، تو تم کہتے تھے کہ ہمیں قیامت کی بات سمجھ میں نہیں آتی ہے، اسے ہم وہم و خیال ہی سمجھتے ہیں، ہمیں بالکل یقین نہیں ہے کہ قیامت کی کوئی چیز واقع ہوگی۔ الجاثية
33 (٢٠) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کفر و شرک اور عاصی کا ارتکاب کرنے والوں کا برا انجام ان کے سامنے ہوگا اور وہ عذاب نارا نہیں ہر چہار جانب سے گھیر لے گا جس کا وہ دنیا میں مذاق اڑایا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا کہ آج ہم تمہیں جہنم میں ڈال کر اسی طرح بھول جائیں گے جس طرح تم اس دن کو بھول کر شرک و معاصی کا ارتکاب کرتے رہے، اور نیک عمل سے دور رہے، جو آج عذاب نار سے تمہاری نجات کا سبب بنتا اور اب کوئی نہیں جو تمہیں عذاب نار سے نجات دلا سکے اور تم اس انجام بد سے اس سبب سے دوچار ہوئے ہو کہ تم نے قرآن کریم کا مذاق اڑایا تھا اور دنیا کی رنگ رلیوں نے تمہیں دھوکے میں ڈال دیا تھا اور تم سمجھ بیٹھے تھے کہ نہ کوئی دوسری زندگی ہے اور نہ ہی حساب و جزا ہے۔ آیت (٣٥) کے آخر میں یہ بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ جہنمیوں سے انتہائے نفرت کی وجہ سے منہ پھیر لے گا اور کہے گا کہ اب یہ بدبخت اس آگ سے کبھی نہیں نجات پائیں گے اور نہ ان سے یہ کہا جائے گا کہ اپنا عذر پیش کر کے اپنے رب کو راضی کرلیں، کیونکہ توبہ اور معذرب طلبی کی جگہ دنیاتھی، میدان محشر تو صرف حساب و جزا کی جگہ ہوگی۔ الجاثية
34 الجاثية
35 الجاثية
36 (٢١) اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں اپنی ربوبیت کے جو مظاہر بیان کئے ہیں، بندوں پر اپنے جن لطف و کرم کا ذکر کیا ہے اور حق و عدل کی جو تائید اور ظلم و باطل کی جوت ردید کی ہے، ان کا تقاضا ہے کہ اس کے بندے اس کی حمد و ثنا بیان کرتے رہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگو ! ساری تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور جو سارے جہان کا رب ہے، اس لئے تم اسی کی تعریف بیان کرو نہ کہ بتوں اور جھوٹے معبودوں کی اور سنو ! آسمانوں اور زمین میں ہر بڑائی اور ہر کبریائی اسی کے لئے سزا وار ہے، اس لئے کہ وہ زبردست اور ہر چیز پر غالب ہے اور اپنے تمام اعمال و تصرفات میں نہایت ہی حکیم و دانا ہے، اس کا کوئی عمل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ وباللہ التوفیق الجاثية
37 الجاثية
0 سورۃ الاحقاف مکی ہے، اس میں پینتس آیتیں اور چار رکوع ہیں تفسیر سورۃ الاحقاف نام : آیت (٢١) (واذکراخاعاد اذا نذر قومہ بالاحقاف) سے ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول : ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ حم الاحقاف مکہ میں نازل ہوئی تھی قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ سورت تمام کے نزدیک مکی ہے۔ الأحقاف
1 (١) یہ حروف مقطعات ہیں، اور ان کا حقیقی معنی و مفہوم اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ الأحقاف
2 (٢) سورۃ الزخرف، سورۃ الدخان اور سورۃ الجاثیہ کی ابتدائی آیتوں کی طرح یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ قرآن کریم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام نہیں ہے، بلکہ اس اللہ کا کلام ہے جو زبردست، ہر چیز پر غالب اور بڑا حکیم و دانا ہے۔ الأحقاف
3 (٣) اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، زمین اور ان کے درمیان کی تمام مخلوقات کو عبث اور بے کار نہیں پیدا کیا ہے، بلکہ ان کی تخلیق کا ایک عظیم مقصد ہے جسے باری تعالیٰ نے قرآن کریم میں بارہا بیان کیا ہے اور وہ ہے صرف اسی کی عبادت اور اس نے تمام چیزوں کو ایک محدود و متعین مدت کے لئے پیدا کیا ہے، جب وہ مدت پوری ہوجائے گی تو کائنات کی ایک ایک چیز ختم ہوجائے گی۔ آیت کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اہل کفر اپنی تخلیق کے مقصد سے یکسر غافل ہیں، حالانکہ اللہ نے ان کی یاد دہانی کے لئے کتابیں نازل کیں اور انبیاء بھیجے، جنہوں نے انہیں آخرت کے عذاب سے ڈرایا، لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوا، تو وہ عنقریب اس کفر و سرکشی کا انجام جان لیں گے۔ الأحقاف
4 (٤) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی مشرکین سے کہا جا رہا ہے کہ اللہ کے سوا جن معبودوں کو تم پکارتے ہو، ذرا ان کے بارے میں مجھے خبر تو دو کہ انہوں نے زمین میں کوئی چیز پیدا کی ہے، یا آسمانوں میں پائی جانے والی کسی چیز کی تخلیق میں ان کا حصہ ہے، جس کے سبب وہ عبادت کے مستحق ہیں، یا قرآن کریم سے پہلے تمہارے پاس کوئی ایسی آسمانی کتاب آئی ہے جس میں تمہارے دین و عقیدہ کے صحیح ہونے کی دلیل پائی جاتی ہے، یا اقوام گزشتہ کے علوم کا کوئی حصہ تمہارے پاس ہے جس میں یہ شہادت موجود ہے کہ تمہارے جھوٹے معبود عبادت کے مستحق ہیں؟ اگر تم سچے ہو تو کوئی بھی دلیل لاؤ، حقیقت یہ ہے کہ تمہارے پاس عقلی یا نقلی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، اس لئے اے مشرکین مکہ ! تم اللہ کے ساتھ غیروں کو کیوں شریک بناتے ہو اور کیوں ان کی عبادت کرتے ہو؟! الأحقاف
5 (٥) اہل کفر کی شقاوت و بدبختی بیان کی جا رہی ہے کہ اس آدمی سے زیادہ گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اللہ کے سوا کسی ایسے جھوٹے معبود کو پکارتا ہے جو اس کی پکار کو قیامت تک نہیں سن سکتا ہے، اس لئے کہ یا تو وہ مٹی یا پتھر کا بنا بت ہے یا کوئی بندہ عاجزو مسکین ہے جو اپنے حال میں مشغول ہے اور اللہ کی مرضی کے بغیر ایک تنکا بھی نہیں ہلا سکتا ہے بلکہ قیامت کے دن میدان محشر میں جب سب لوگ جمع ہوں گے تو وہ معبود ان باطل ان کے دشمن بن جائیں گے اور ان سے اعلان برأت کردیں گے اور صاف صاف کہہ دیں گے کہ ہم نے انہیں نہیں کہا تھا کہ یہ ہماری عبادت کریں، اور نہ ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے ہماری عبادت کی تھی، اے ہمارے رب ! ہم ان سے اپنی بیزاری اور برأت کا اعلان کرتے ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ معبود ان باطل کا اپنی زبان سے اس بات کا اعلان کہ ان مشرکین نے ہمار عبادت نہیں کی تھی، اس بات کی دلیل ہے کہ وہ معبود یا تو شیاطین ہوں گے جو جھوٹ بولیں گے، یا ملائکہ اور عیسیٰ اور عزیز ہوں گے جو اپنی عبادت کئے جانے پر کبھی راضی نہیں تھے تو وہ حقیقت معنوں میں اپنی برأت کا اعلان کریں گے اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! یہ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے، بلکہ ان شیاطین کی عبادت کرتے تھے جو انہیں شرک باللہ کی تعلیم دیتے تھے اور اگر وہ مٹی یا پتھر کے بنے بت ہوں گے تو یا تو وہ زبان حال سے مشرکین کو جھٹلائیں گے یا اللہ انہیں قوت گویائی دے دے گا اور وہ اپنے پجاریوں کی پرستش کا انکار کردیں گے، اس لئے کہ زمین و آسمان کا ایک ایک ذرہ جانتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے۔ الأحقاف
6 الأحقاف
7 (٦) مشرکین مکہ کا حال بیان کیا جا رہا ہے کہ جب ان کے سامنے صریح اور واضح آیات قرآنیہ کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ بجائے اس کے کہ ان میں غور و فکر کرتے اور دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے، فوراً ان کا انکار کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن تو کھلا جادو ہے، بلکہ کفر و سرکشی میں اور آگے بڑھ کر کہتے ہیں کہ اس قرآن کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود گھڑتا ہے اور لوگوں کو اللہ کا کلام بتا کر سناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی ان کے اس جھوٹ کی تردید یوں کی کہ میں تمہاری خاطر اللہ کے بارے میں ایسی افتراپردازی کیسے کرسکتا ہوں، جبکہ میں جانتا ہوں کہ تم مجھ سے اس کے عقاب کو ٹالنے کی ذرہ برابر بھی قدرت نہیں رکھتے ہو۔ قرآن کریم کے بارے میں تم جو کبھی کہتے ہو کہ وہ جادو ہے اور کبھی کہتے ہو کہ یہ تو محمد کا ہی کلام ہے، تو اللہ تعالیٰ تمہاری ان ہر زہ سرائیوں کو خوب جانتا ہے اور میرے اور تمہارے درمیان بحیثیت گواہ اللہ کافی ہے کہ یہ قرآن اسی کا کلام ہے اور میں نے یہ بات تم تک پہنچا دی ہے اور یہ لوگ کذاب اور مفتی ہو، کبھی اللہ کے بارے میں جھوٹ بولتے ہو اور کبھی میرے اور قرآن کریم کے بارے میں آیت (٨) کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ وہ کفر سے تائب ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہونے والوں کے گناہوں کو معاف کرنے والا اور ان پر بے حد رحم کرنے والا ہے۔ الأحقاف
8 الأحقاف
9 (٧) مشرکین مہ دن رات قرآن کریم اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عیب جوئی میں لگے رہتے تھے۔ ان کی مجلس کا اہم ترین موضوع یہ ہوتا تھا کہ محمد اللہ کا پیغامبر کیسے ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان سے یہ کہنے کا حکم دیا کہ : میں اللہ کا کوئی پہلا نبی نہیں ہوں کہ تمہیں بڑی حیرت ہو رہی ہے، مجھ سے پہلے بہت سے انبیاء و رسل آئے جنہوں نے اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچا دیا اور میں اللہ کا رسول ہونے کے باوجود نہیں جانتا ہوں کہ آئندہ دنیاوی زندگی میں میرے اور تمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے، مفسرین کے نزدیک (وما ادری مایفعل بی ولابکم) کی یہی تفسیر زیادہ صحیح ہے۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ اس سے مراد آخرت کا انجام ہے۔ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ اس کے سوا دوسری تفسیر جائز نہیں ہے۔ اس لئے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ آخرت میں آپ کا مقام جنت ہوگا۔ البتہ دنیا کی زندگی میں آپ کو معلوم نہیں تھا کہ آنے والے دنوں میں آپ کو کن حالات سے گذرنا ہوگا اور مشرکین قریش کے ساتھ اللہ تعالیٰ کیا کے گا، ایمان لائیں گے، یا کفر کی راہ اختیار کریں گے اور عذاب سے دوچار ہوں گے۔ تیسری بات اللہ نے اس آیت میں اپنے رسول کی زبانی یہ کہی کہ میں تو صرف وحی الٰہی کی اتباع کرتا ہوں، اپنی خواہش نفس سے کوئی بات نہیں کرتا ہوں، مفسرین لکھتے ہیں کہ (ان اتبع الا مایوحی الی) میں مشکین مکہ کی تردید کی گئی ہے جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسی نشانیوں کا مطالبہ کرتے تھے جن کے لانے کی وہ قدرت نہیں رکھتے تھے۔ چوتھی بات یہ کہی گئی ہے کہ میں اللہ کی جانب سے لوگوں کو صاف صاف ڈرانے والا ہوں، تو جو شخص میری بات پر دھیان دے گا اور شرک و معاصی سے پرہیز کرے گا، وہ عذاب جہنم سے نجات پائے گا اور جو ٹھکرا دے گا، اس کا معاملہ میرے رب کے حوالے ے، چاہے گا تو عذاب دے گا اور چاہے گا تو اسے راہ ہدایت پر ڈال دے گا اور اس کے حال پر رحم کرے گا۔ الأحقاف
10 (٨) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی اہل قریش کی اس بات کی تردید کی گئی ہے کہ قرآن جادو ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ تمہارا کیا انجام ہوگا، اگر یہ قرآن اللہ کا کلام ہوگا، اور تم اس کا انکار کرتے ہو، حالانکہ بنی اسرائیل کے ایک گواہ نے تورات کے بارے میں گواہی دی ہے کہ اسے اللہ نے نازل کیا ہے اس لئے اس میں کون سی تعجب کی بات ہے کہ قرآن بھی اللہ کے نازل کردہ کتاب ہو، چنانچہ وہ اسرائیلی گواہ ایمان لے آیا کہ یہ قرآن کلام الٰہی ہے اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا حسن، مجاہد، قتادہ اور عکرمہ کی رائے ہے کہ یہ آیت مدنی ہے اور وہ گواہ عبداللہ بن سلام تھے جو تورات کے عالم تھے اور قرآن سننے کے بعد اس پر ایمان لے آئے اور مسلمان ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ اے اہل قریش ! تم لوگ محض کبر و عناد کی وجہ سے اپنے کفر پر ڈٹے رہے۔ بے شک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ہے۔ الأحقاف
11 (٩) مشرکین مکہ، بلال، عمار، صہیب، خباب اور ان جیسے کمزور مسلمانوں کا نام لے کر کہتے تھے کہ اگر قرآن اور نبوت محمد میں کوئی خیر ہوتی، تو یہ فقیر و حقیر مسلمان ایمان لانے میں ہم سے سبقت نہیں کر جاتے، وہ سمجھتے تھے کہ ہر عزت و شرف کے پہلے وہی مستحق ہیں، انہیں معلوم نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت سے نوازتا ہے، جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے، جسے چاہتا ہے ذلیل کردیتا ہے اور اپنے دین کے لئے جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے۔ انہی مشرکین کے بارے میں آیت کے آخر میں کہا گیا ہے کہ چونکہ انہیں قرآن کریم پر ایمان لانے کی توفیق نہیں ملی، اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ یہ تو پرانا جھوٹ ہے جو محمد کو کہیں سے مل گیا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کلام الٰہی ہے، ابن کثیر لکھتے ہیں کہ وہ لوگ قرآن اور اہل قرآن کی برائی بیان کرتے تھے اور یہی کبر ہے جس کے بارے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا ہے کہ وہ حق کے انکار اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔ الأحقاف
12 (١٠) مشکین کے مذکور بالا قول (کہ یہ قرآن پرانا جھوٹ ہے) کی تردید کی گئی ہے کہ اس قرآن سے پہلے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ پر تورات نازل کی ہے جو لوگوں کی خیر کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور ان کے لئے باعث خیر و رحمت ہے اور دونوں کتابیں اصول شریعت میں متفق ہیں، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن بھی اللہ کی نازل کردہ کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ قرآن کریم تورات کی تصدیق کرتا ہے، یعنی دونوں میں بیان کردہ احکام و شرائع ایک جیسے ہیں، حالانکہ یہ قرآن عربی زبان میں ہے اور تورات عبرانی زبان میں نازل ہوئی تھی یہ بات دلیل ہے کہ قرآن وحی الٰہی ہے۔ نیز اللہ نے فرمایا کہ یہ قرآن اس لئے نازل کیا گیا ہے تاکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشکین مکہ کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں، جنہوں نے شرک و معاصی کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا ہے، اور نیک عمل کرنے والے مومنوں کو جنت کی بشارت دیں۔ الأحقاف
13 (١١) قرآن کریم کا معروف طریقہ ہے کہ ترغیب و ترہیب کو ایک دوسرے کے بعد بیان کرتا ہے چونکہ آیت (١١) میں مشرکین مکہ اور ان کے انکار قرآن کا بیان آیا ہے، اسی لئے اس آیت میں رب العالمین پر ایمان لانے والوں اور ان کے اچھے انجام کا ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے، اس کے سوا کوئی نہیں، پھر وہ جب تک زندہ ہے، لا الہ الا اللہ کے منہج پر قائم رہے اور عمل صالح کی پابندی کرتے رہے، انہیں قیامت کے دن نہ کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ کوئی غم ان کا ٹھکانا جنت ہوگا، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہترین انجام ان کے نیک اعمال کا بدلہ ہوگا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت (١٣) میں لفظ ” ثم“ اس بات کی دلیل ہے کہ عقیدہ توحید کے بعد ہی عمل صالح کا اعتبار ہوتا ہے۔ الأحقاف
14 الأحقاف
15 (١٢) انسان کی زندگی میں ایک بہت ہی اہم عمل صالح یہ ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرے اور اس کی شقاوت و بدبختی یہ ہے کہ ان کے ساتھ بدسلوکی کرے۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے اس کی اہمیت کے پیش نظر قرآن کریم کی تین سورتوں سورۃ العنکبوت (آیت : ٨) سورۃ لقمان (آیت : ١٤) اور سورۃ الاحقاف کی اس آیت کریمہ میں بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے انسان کو نصیحت کی ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ اس کی ماں حالت حمل میں ہر تکلیف گوارہ کرتی رہی، اسے اپنے بطن میں ڈھوئے پھری، اور ولادت کے وقت بھی شدت الم سے دوچار ہوئی یہ تمام باتیں انسان سے تقاضا کرتی ہیں کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ بے حد اچھا سلوک کرے اور بالخصوص ماں کے ساتھ جس نے تیس ماہ تک مدت حمل، وضع حمل اور رضاعت کے مراحل سے گذر کر اسے پالا اور بڑا کیا اور ہر تکلیف کو خوشی خوشی گوارہ کیا۔ شوکانی لکھتے ہیں، یہ آیت دلیل ہے کہ کم سے کم مدت حمل چھ ماہ ے، اس لئے کہ کامل مدت، رضاعت دو سال ہے، جیسا کہ سورۃ البقرہ آیت (٣٣) میں آیا ہے : (حولین کاملین لمن ارادان یتم الرضاعۃ) ” جو شخص مدت رضاعت پوری کرنی چاہے وہ جان لے کہ اس کی مدت دو سال ہے“ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں کم از کم مدت حمل اور کامل مدت رضاعت بیان کی ے۔ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ یہی رائے عثمان، علی اور کئی دیگر صحابہ کرام کی ہے۔ مومن آدمی ولادت و رضاعت اور نشو و نما کے مراحل سے گذرتا ہوا بڑا ہوتا ہے اور بھرپور جوانی کو پہنچ جاتا ہے، اور زندگی گذارتا ہوا جب اس کی عمر چالیس سال ہوجاتی ہے اور عقل و ہوشمندی میں پختہ ہوجاتا ہے اور اسے اللہ کے احسانات کے ساتھ اپنے والدین کے احسانات کا احساس شدید ہونے لگتا ہے، تو دعا کرتا ہے کہ اے میرے رب ! تو نے مجھے اور میرے ماں باپ کو ہدایت دی ہے او مجھ پر اور ان پر ان گنت احسانات کئے ہیں، تو اب ان احسانات کا شکر ادا کرنے کی مجھے توفیق بھی دے اور مجھے اس بات کی بھی توفیق دے کہ تیری مرضی کے کام کرتا رہوں اور اے میرے رب ! میری اولاد میں نیکی کو جاری کر دے، اور ان میں صفت صلاح کو راسخ کر دے کہ وہ ہر حال میں اس پر قائم رہیں، میرے رب ! میں ان گناہوں سے تائب ہوتا ہوں جو میں نے ماضی میں کیا ہے اور میں تیرے حضور سرتسلیم خم کرتا ہوں اور عہد کرتا ہوں کہ تیرے اوامرو نواہی کو مانوں گا اور تیرے حکم کی پیروی کروں گا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : اس میں اشارہ ہے کہ آدمی کی عمر جب چالیس سال ہوجائے تو توبہ کی تجدید کے، رجوع الی اللہ کرے اور تقویٰ اور عمل صالح والی زندگی گذارنے کا اپنے رب سے عہد و پیمان کرے۔ آیت (١٦) میں مذکور بالا نیک صفت انسانوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ ان کے نیک اعمال کو قبول فرمائے گا انہیں بہت ہی اچھا بدلہ دے گا اور توبہ کرلینے کی وجہ سے ان کے گناہ معاف کر دے گا اور ان کے نام اہل جنت کی فہرست میں لکھ دیئے جائیں گے۔ اللہ کا یہ وہ سچا وعدہ ہے جو ان سے دنیا میں انبیاء و رسل کی زبانی کیا جاتا تھا۔ الأحقاف
16 الأحقاف
17 (١٣) اوپر مومن لڑکے کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں، اب کافر لڑکے اور اس کی بد اعمالیوں کو بیان کیا جا رہا ہے کہ جب اس کے والدین نے اسے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لانے اور نیک عمل کرنے کی دعوت دی تو اس نے ان سے کہا کہ میں تم سے اور تمہاری باتوں سے تنگ آچکا ہوں، کیا تم مجھے اس بات کا یقین دلانا چاہتے ہو کہ مرنے کے بعد اپنی قبر سے دوبارہ اٹھایا جاؤں گا، حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ مجھ سے پہلے بہت سی قومیں آئیں اور گذر گئیں اور کوئی واپس نہیں آیا ماں باپ اس کی کافرانہ باتیں سن کر اللہ تعالیٰ سے اس کے لئے توفیق ایمان کی دعا کرنے لگے اور اس سے کہنے لگے کہ اپنی ہلاکت و بربادی سے بچو، ایمان لے آؤ، اللہ کے وعدہ آخرت کی تصدیق کرو اور اقرار کرلو کہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جاؤ گے اللہ کا اپنی مخلوق سے یہ وعدہ برحق ہے کہ وہ انہیں ان کی قبروں سے زندہ اٹھا کر میدان محشر میں لاکھڑا کرے گا، تاکہ ان کے اعمال کا انہیں بدلہ چکائے۔ کافر لڑکے نے اپنے ماں باپ کی نصیحت کو ٹھکرا دیا اور اللہ کے وعدہ آخرت کی تکذیب کرتے ہوئے کہا کہ بعث بعد الموت کا عقیدہ گزشتہ قوموں میں رائج ایک افسانہ ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آیت (١٨) میں انہی بعث بعد الموت اور آخرت کا انکار کرنے والوں کے بارے میں کہا گیا کہ ان کے لئے اللہ کا عذاب واجب ہوگیا، جس کی صراحت سورۃ ص آیت (٨٥) میں کردی گئی ہے : (لاملان جھنم منک وممن تبک منھم اجمعین) اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے کہا کہ ” میں تم سے اور تمہاری پیروی کرنے والوں سے جہنم کو بھر دوں گا“ اور اس آیت کریمہ کے دوسرے حصہ میں بھی اس کی صراحت کردی گئی ہے اور آخر میں کہا گیا ہے کہ اصل گھاٹا پانے والے یہی منکرین قیامت ہیں کہ انہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی اختیار کرلی ہے۔ آیت (١٩) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دونوں قسم کے لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق درجے ملیں گے۔ اہل جنت اپنے اعمال کے مطابق درجات طے کرتے ہوئے بلندی کی طرف چلے جائیں گے اور اہل جہنم اپنے گناہوں کے مطابق اسفل السلافلین کی طرف گرتے چلے جائیں گے اور دونوں فریقوں میں سے کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہوگا۔ ہر ایک کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ الأحقاف
18 الأحقاف
19 الأحقاف
20 (١٤) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا ہے کہ آپ مشرکین مکہ کو اس دن کی یاد دلائے جب جہنم اور ان کے درمیان سے پردہ اٹھ جائے گا، اور آگ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے لگیں گے اور ان سے زجر و توبیخ کے طور پر کہا جائے گا کہ تم نے تو دنیا میں اپنی تمام خواہشات پوری کرلی اور لذت کی تکمیل کرلی، یہاں اب تمہارے لئے عذاب کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہ گیا ہے۔ تم دنیا میں ناحق تکبر کرتے تھے اور اپنے رب کی بندگی سے روگردانی کرتے تھے، اس لئے آج تمہیں ایسا رسوا کن عذاب دیا جائے گا، جس سے بڑھ کر کوئی ذلت و رسوائی نہیں ہو سکتی ہے۔ الأحقاف
21 (١٥) ہود (علیہ السلام) اللہ کے نبی تھے اور قوم عاد کے فرد تھے، اسی لئے انہیں ان کا بھائی کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ اہل قریش کو ہود (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا واقعہ سنا دیجیے، تاکہ اس عبرت حاصل کریں۔ ان کا مسکن جزیرہ عرب کے جنوب میں حضرموت اور عمان کے درمیان تھا، یہ ایک اونچا اور لمبا ریتیلا علاقہ تھا، جہاں ان کے مکانات اور کھیتیاں تھیں، اور یہ لوگ قوی ہیکل اور تنومند تھے، آس پاس کی قومیں ان کے ظلم و تعدی سے بہت پریشان رہتی تھیں۔ ہود (علیہ السلام) نے انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرایا (جیسے ان سے پہلے اور ان کے بعد آنے والے تمام انبیاء نے اپنی قوموں کو ڈرایا تھا) اور کہا کہ لوگو ! اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو، اگر تم نے میری بات نہ مانی تو مجھے ڈر ہے کہ ایک بڑے ہی خطرناک دن کا عذاب تمہیں اپنی گرفت میں لے لے گا۔ قوم عاد نے ان کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور ان سے کہا، کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہمیں ہمارے معبودوں کی عبادت سے روک، تو سن لو کہ ہم تمہاری بات نہیں مانیں گے اور تم پر ایمان نہیں لائیں گے اگر تم اپنی بات میں سچے ہو کہ ہم پر اللہ کا عذاب ٹوٹ پڑے گا تو وہ کر دکھاؤ۔ ہود (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ وہ عذاب آ کر رہے گا، لیکن اس کا وقت مجھے معلوم نہیں ہے، اس کا علم صرف للہ کو ہے۔ میرا کام تو صرف پیغام رسانی ہے، لیکن بات یہ ہے کہ تم نرے جاہل اور نادان لوگ ہو، بجائے اس کے کہ تم اپنے رب کی رحمت و مغفرت طلب کرو، اپنے لئے عذاب کی جلدی مچا رہے ہو۔ الأحقاف
22 الأحقاف
23 الأحقاف
24 (١٦) قوم عد نے جب افق آسمان پر ایک بادل کو پھیلا دیکھا جو ان کی وادیوں کی طرف بڑھا آرہا تھا (جو درحقیقت عذاب الٰہی تھا) تو دل کے اندھے خوشی سے کہنے لگے کہ یہ برسنے والا بادل ہے، تو ہود (علیہ السلام) نے کہا کہ یہ تو وہ عذاب ہے جس کی تمہیں جلدی تھی، یہ ایک تیز ہوا ہے جو اپنے اندر درد ناک عذاب لئے ہوئی ہے، یہ ہوا اپنے رب کے حکم سے تمہاری جان اور مال ہر چیز کو تباہ کر دے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اس آندھی نے تمام کافروں کو ہلاک کردیا، صرف ہود (علیہ السلام) اور ان کے مسلمان ساتھی بچ گئے، اور قوم عاد کے خالی اور ویران مکانات۔ آیت (٢٥) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ انجام بد قوم عاد ہی کے ساتھ خاص نہیں تھا، بلکہ وہ جو لوگ بھی شرک و معاصی کا ارتکاب کریں گے اور سرکشی کی راہ اختیار کریں گے، چاہے وہ اہل مکہ ہوں یا دوسرے لوگ، ان کا بھی ایسا ہی انجام ہوگا۔ الأحقاف
25 الأحقاف
26 (١٧) اللہ تعالیٰ نے اہل قریش سے کہا کہ ہم نے قوم عاد کو جسمانی قوت اور مال و دولت کا جو حظ وافر عطا کیا تھا وہ تمہیں نہیں دیا ہے اور انہیں اللہ کی نصیحتیں سننے کے لئے کان دیئے تھے اور اس کی نشانیاں دیکھنے کے لئے آنکھیں دی تھی اور نافع اور ضار اشیاء میں تمیز کرنے کے لئے کان دیئے تھے او اس کی نشانیاں دیکھنے کے لئے آنکھیں دی تھی اور نافع اور ضار اشیاء میں تمیز کرنے کے لئے دل دیا تھا، لیکن انہوں نے اللہ کی ان نعمتوں کا استعمال اپنی بھلائی کے لئے نہیں کیا، اس کی آیتوں کا انکار کردیا اور ان کا مذاق اڑایا، تو عذاب الٰہی نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا۔ طبری نے لکھا ہے کہ اس آیت کریمہ میں اہل قریش کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر وہ اپنے کفر پر اصرار کرتے رہے اور اس کے رسولوں کو جھٹلاتے ہے تو ان کا حشر بھی وہی ہوگا جو قوم عاد کا ہوا تھا۔ الأحقاف
27 (١٨) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے اہل قریش ! تمہاے قرب و جوار میں پائی جانے والی کئی بستیوں کو ہم نے ماضی میں تباہ کیا، جیسے قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط اور اصحاب مدین کی بستیاں، مہ نے انہیں تہہ و بالا کردیا اور مختلف طریقوں سے انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کی اور انہیں بہت سمجھایا تاکہ وہ اللہ اور اس کے رسولوں کو جھٹلانے سے باز آجائی، لیکن ہر تدبیر ناکام رہی اور جوں جوں دوا کی، مرض بڑھتا ہی گیا تو ہم نے انہیں ہلاک کردیا اور ان کی مدد کے لئے کوئی نہیں آیا۔ الأحقاف
28 (١٩) اے اہل قریش ! اگر وہ قومیں اپنے اس دعویٰ میں سچی تھیں کہ جن بتوں کی وہ عبادت کرتی ہیں وہ انہیں ان کے رب سے قریب سب کردیں گے اور ان کے لئے سفارشی بنیں گے تو پھر انہیں عذاب الٰہی سے کیوں نہیں بچا لیا، اس وقت تو ان کا پتہ ہی نہیں تھا، یہ سب ان کی اس افترا پردازی کا نتیجہ تھا کہ وہ اصنام ان کے معبودیں اور اللہ کے نزدیک ان کے سفارشی بنیں گے۔ الأحقاف
29 (٢٠) مفسرین لکھتے ہیں کہ ان آیات سے مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسانوں کی طرح جنوں کے بھی نبی بنا کر بھیجے گئے تھے اور جنوں نے آپ کی زبانی قرآن کریم سنا اور ان میں سے جنہیں اللہ نے توفیق دی وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے اور حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ آپ کفار مکہ سے اس دن کا ذکر کردیجیے جب ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو آپ کے پاس پہنچا دیا، تاکہ آپ کی زبانی قرآن کریم سنیں جب وہ آپ کے پاس پہنچے تو آپ قرآن کی تلاوت کر رہے تھے، انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ سب خاموشی اختیار کریں اور قرآن کو غور سے سنیں آپ کی تلاوت سن کر جن بہت متاثر ہوئے اور آپ پر ایمان لے آئے، چنانچہ تلاوت ختم ہوتے ہی سب اپنی قوم کے پاس واپس گئے اور ان سے کہا کہ میں نے اس قرآن کریم کی تلاوت سنی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کی تورات کے بعد انسانوں کی ہدایت کے لئے اللہ کی جانب سے نازل ہوا ہے جو اس پر ایمان نہیں لائے گا اس کے لئے کوئی خیر نہیں ہے۔ عطاء کا قول ہے کہ وہ جن یہودی تھے اور قرآن سن کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن پر ایمان لے آئے تھے خازن نے لکھا ہے کہ انسانوں کی طرح جنوں میں بھی مختلف ادیان و مذاہب کے ماننے والے ہیں۔ ان میں بھی یہود و نصاریٰ، مجوسی اور بتوں کے پجاری ہیں اور ان کے مسلمانوں میں بعض اہل بدعت ہوتے ہیں اور بعض باطل عقائد والے ہیں۔ جنوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا : اے ہمار قوم کے لوگو ! یہ قرآن گزشتہ آسمانی کتابوں (صحائف ابراہیم، تورات اور زبرو و انجیل وغیرہ) کی تائید و تصدیق کرتا ہے، یعنی اس کی دعوت بھی وہی دعوت توحید ہے جو دیگر آسمانی کتابوں کی دعوت تھی یہ قرآن دین حق اور راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ لوگو ! اللہ کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آؤ، اور ان کی دعوت توحید کو قبول کرلو، اللہ تعالیٰ تمہارے ان گناہوں کو معاف کر دے گا جو تمہارے اور اس کے درمیان ہوں گے (البتہ وہ گناہ جن کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہوگا، انہیں یا تو وہ بندے معاف کر دے گا یا یہ کہ ان کے حقوق انہیں واپس کردیئے جائیں) اور تمہیں آگ کے درد ناک عذاب سے نجات دے گا۔ شوکافی لکھتے ہیں کہ آیت (٣١) اس بات کی دلیل ہے کہ اوامرنواہی اور ثواب و عقاب میں جن و انس برابر ہیں، مالک، شافعی اور ابن ابی لیلی وغیر ہم کا یہی خیال ہے اور حسن بصری کہتے ہیں کہ مومن جنوں کا ثواب یہی ہے کہ انہیں عذاب نار سے نجات دے دی جائے گی، اس کے بعد بہائم کی طرح مٹی ہوجائیں گے، امام ابوحنیفہ کی یہی رائے ہے۔ شوکانی نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الرحمٰن آیات (٤٦/٤٧) میں فرمایا ہے : (ولمن خاف مقام ربہ جنتاں فبای الاء ربکما تکذبان) ” او اس شخص کے لئے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا دو جنتیں ہیں، پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے“ یعنی جنت جن و نس دونوں کے مومنوں کو ملے گی اور عقل اور عدل و انصاف کا بھی یہ تقاضا ہے کہ جب کاف جنوں کو جہنم میں ڈالا جائے گا تو ان کے مومنوں کو جنت اور اس کی نعمتوں سے نوازا جائے۔ جنوں نے اپنا کلام جاری کھتے ہوئے اپنی قوم سے کہا : لوگو ! جو شخص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت توحید کو قبول نہیں کرے گا، اور ان پر اور قرآن پر ایمان نہیں لائے گا، وہ اللہ سے بھاگ کر کہاں جائے گا، زمین کا ایک ایک حصہ اس کے زیر تصرف اور زیر حراست ہے۔ اس کی گرفت سے کون بچ سکتا ہے اور اس کے مقابلے میں کون ایسے شخص کی مدد کرسکتا ہے۔ جو لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو قبول نہیں کریں گے وہ کھلی گمراہی میں پڑجائیں گے اور کبھی راہ راست پر نہیں آئیں گے۔ جنوں کا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی قرآن کریم سننے او آپ سے دین کی باتیں سیکھنے سے متعلق بہت سی احدیث وارد ہوئی ہیں، جن کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بارہ قرآن کریم سنا، جن میں سے بعض کا قرآن کریم میں اور بعض کا احادیث میں ذکر آیا ہے، اور آپ سے ان کی بہت سی ملاقاتوں کا ذکر صراحت کے ساتھ قرآن و سنت میں نہیں آیا ہے، لیکن اتنی بات یقینی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنوں کی ہدایت کے لئے بھی مبعوث کئے گئے تھے۔ اس لئے بہت سے جن آپ کی مجلسوں میں حاضر ہو کر آپ سے اسلام کی تعلیم حاصل کرتے رہے، بلکہ صحیح مسلم میں مروی عبداللہ بن مسعود (رض) کی ایک روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک رات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنوں کی درخواست پر اکیلے ان کی قوم کے پاس گئے اور انہیں اسلام کی تعلیم دی اور مسند احمد میں مروی عبد اللہ بن مسعود (رض) کی ایک دوسری روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک دوسری بار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب جنوں کو اسلام کی تعلیم دینے گئے تو عبداللہ بن مسعود (رض) آپ کے ساتھ گئے تھے۔ مذکورہ بالا آیات کریمہ میں جنوں کے جس واقعہ کا ذکر آیا ہے، اس کے بارے میں محمد بن اسحاق نے محمد بن کعب قرظی سے روایت کی ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طائف والوں کے قبول اسلام سے مایوس ہو کر مکہ مکرمہ واپس ہو رہے تھے اور رات کو وادی نخلہ میں ٹھہر گئے تھے تو نصیبین کے جنوں نے آپ کی زبانی قرآن کریم کی تلاوت سنی۔ اس واقعہ کو حاکم، ابن مردویہ، ابو نعیم اور بیہقی نے بھی اختصار کے ساتھ رویت کی ہے، جس میں آیا ہے کہ ان جنوں کی تعداد نو تھی اور ان میں سے ایک کا نام زوجہ تھا۔ مسند احمد کی ایک صحیح روایت میں ہے کہ اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے روایتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنوں کی آمد اور قرآن کریم سننے کا علم اس وقت ہوا جب یہ آیتیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئیں۔ حافظ ابن کثیر کا خیال ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی قرآن کی تلاوت سننے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا، جیسا کہ مسند احمد میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے جن وحی سماوی بن لیا کرتے تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد جب انہوں نے ایسی کوشش کی تو انہیں انگاروں سے مار اجانے لگا۔ چنانچہ ابلیس نے جنوں کو پتہ لگانے کے لئے بھیجا، تو انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وادی نخلہ کے دو پہاڑوں کے درمیان قرآن پڑھتے پایا۔ یہ روایت بتاتی ہے کہ جنوں نے ابتدائے وحی میں ہی آپ کی زبانی قرآن سنا تھا، لیکن طائف سے واپسی کے وقت وادی نخلہ میں آپ کی زبانی قرآن سننے کے بعد، ان کے وفود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پے در پے آنے لگے اور اسلام کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ الأحقاف
30 الأحقاف
31 الأحقاف
32 الأحقاف
33 (٢١) اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے بعث بعد الموت پر استدلال کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کیا انہیں اتنی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ جس قادر مطلق نے آسمانوں اور زمین کو بغیر کوئی نمونہ دیکھے پہلی بار پیدا کیا ہے اور ان کی تخلیق سے اسے کوئی تھکن اور پریشانی لاحق نہیں ہوئی، وہ یقیناً مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر رہے، اس لئے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ الأحقاف
34 (٢٢) منکرین قیامت کفار جب جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے اس وقت اللہ ان سے پوچھے گا کہ کیا تم اب بھی سمجھتے ہو کہ مردوں کا دوبارہ زندہ کیا جانا برحق نہیں ہے؟ تو وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! اب تو یہ حقیقت ہمارے لئے ایسی آشکارا ہوگئی ہے کہ ہم ہرگز اس کا انکار نہیں کرسکتے ہیں، تب اللہ ان سے کہے گا کہ پھر تم اپنے کفر کی بدولت اب اسی جہنم میں جلتے رہو۔ الأحقاف
35 (٢٣) توحید و رسالت اور بعث بعد الموت کے حقائق دلائل و براہین کے ذریعہ ثابت کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت کی راہ میں صبر کرنے کا حکم دیا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جو اولوالعزم انبیاء گذرے ہیں، ان کی سیرت کو اپنے لئے نمونہ بنانے کی نصیحت کی ہے۔ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ اولوالعزم انبیاء سے مراد نبی کریم، نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام ہیں، بعض نے ان کی تعداد چھ اور بعض نے نو بتائی ہے اور ان سے مراد وہ انبیائے کرام ہیں جنہوں نے دعوت حق کی راہ میں ایسی تکلیف اٹھائی جو دیگر انبیاء کی طاقت سے باہر کی بات تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بھی نصیحت کی ہے کہ اہل قریش کے ظلم و طغیان سے تنگ دل ہو کر ان کے لئے عذاب کی جلدی نہ کریں، کیونکہ وہ تو اتنا قریب ہے کہ جب اہل کفر روز قیامت کی ہولناکیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے، تو مارے دہشت کے بھول جائیں گے کہ وہ دنیا میں کتنے دن ٹھہرے تھے۔ نیز فرمایا کہ یہ قرآن اور جو باتیں اوپر بیان کی گئی ہیں، مشرکین مکہ کی عبرت و نصیحت کے لئے کافی ہیں، پس انہیں چاہئے کہ عبرت حاصل کریں اور دائرہ اسلام میں داخل ہوجائیں اور اگر وہ کفر و شرک سے تائب نہیں ہوتے تو انہیں جان لینا چاہئے کہ اللہ کا عذاب انہی لوگوں کو ہلاک کرتا ہے جو اپنے رب کے نافرمان او سرکش بندے ہوتے ہیں۔ وباللہ التوفیق الأحقاف
0 سورۃ محمد مدنی ہے، اس میں اڑتیس آیتیں ہیں، اور چار رکوع ہیں تفسیر سورۃ محمد نام : آیت (٢) (والذین امنوا وعملوا الصالحات و امنوا بمانزل علی محمد وھو الحق من ربھم کفر عنھم سیئاتھم واصلح بالھم) سے ماخوذ ہے اس سورت کا ایک دوسرا نام ” قتال“ بھی ہے، جو آیت (٢٠) (فاذا انزلت سورۃ محکمۃ وذکر فیھا القتال رایت الذین فی قلوبھم مرض ینظرون الیک نظر المغشی علیہ من الموت) سے ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول : ماوردی کا قول ہے کہ یہ سورت تمام کے نزدیک مدنی ہے، ابن عباس اور قتادہ نے آیت (١٣) (وکاین من فریۃ ھی اشد قوۃ من قریتک) کے بارے میں کہا ہے کہ یہ آیت حجتہ الوداع کے بعد مکہ سے روانگی کے وقت نازل ہوئی تھی، اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں سے آنسو جاری تھا۔ محمد
1 (١) ذیل میں مذکور تین آیتوں میں نیکوں اور گناہ گاروں کے ثواب و عقاب کا ذکر آیا ہے، تاک لوگ ان میں غور و فکر کریں، گناہوں سے اجتناب کریں، اور نیکی اور بھلائی کی راہ اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن سرداران کفر و ضلالت نے اللہ اور اس کی آیتوں کا انکار کیا، توحید باری تعالیٰ کے منکر ہوئے اور جھوٹے معبودوں کی عبادت کی اور اپنے آپ کو اور دوسروں کو دین اسلام میں داخل ہونے سے وکا، اللہ تعالیٰ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ان کی سازشوں کو ناکام بنا دیا، بلکہ ان کو ان ہی کی گردنوں کا پھندا بنا دیا اور قیامت کے دن ان کے وہ نیک اعمال بھی رائیگاں ہوجائیں گے جنہیں وہ حالت کفر میں کرتے تھے اور توقع کرتے تھے کہ انہیں ان کا اجر ملے گا۔ اور جو لوگ تمام آسمانی کتابوں پر بالعموم اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل شدہ قرآن پر بالخصوص ایمان لائے، ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کے تمام گزشتہ چھوٹے اور بڑے گناہوں کو معاف کر دے گا اور آئندہ کی زندگی میں انہیں گناہوں سے محفوظ رکھے گا اور خیر کے کاموں کی توفیق دے گا۔ علمائے تفسیر لکھتے ہیں کہ اگرچہ قرآن کریم تمام آسمانی کتابوں میں داخل ہے، لیکن اس کا ذکر بطور خاص اس کی عظمت شان اجاگر کرنے اور اس بات کی تعلیم دینے کے لئے ہوا ہے کہ اس پر ایمان لائے بغیر ایمان کا تصور ممکن نہیں ہے۔ اس معنی کی تائید، اس کے بعد والے جملے (وھوالحق من ربھم) سے ہوتی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن کریم تمام گزشتہ آسمانی کتابوں کے لئے ناسخ ہے یعنی اس کے آجانے کے بعد اب کسی آسمانی کتاب کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی۔ آیت (٣) میں مذکور بالا فیصلے کی علت بیان کی گئی ہے کہ کافروں کے اعمال اس لئے ضائع ہوئے کہ انہوں نے باطل یعنی شرک باللہ اور دیگر معاصی کا ارتکاب کیا اور مومنوں کے گناہ اس لئے معاف کردیئے گئے اور خیر کی راہ کی طرف ان کی اس لئے رہنمائی کی گئی کہ وہ اللہ اس کے رسول اور اس کی کتاب پر ایمان لائے، شرک سے دور رہے اور اچھے اعمال کئے دونوں جماعتوں کے حالات امتوں اور قوموں کے لئے ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں، یعنی جو کوئی بھی کافر ہوگا اس کے سارے اعمال رائیگاں ہوجائیں گے، قیامت کے دن اسے ان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا، اور جو مومن ہوگا اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کر دے گا۔ محمد
2 محمد
3 محمد
4 (٢) اوپر کی آیتوں میں مشرکین کی ایک مجرمانہ صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ لوگوں کو دین اسلام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔ ان کے اس فعل شنیع پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم مرتب کیا کہ مسلمانو ! جب میدان جنگ میں تمہاری مڈبھیڑ ان سے ہو تو ان کی گدنوں پر کاری ضربیں لگاؤ، یعنی ان میں سے جو لوگ تمہاری تلواروں کی زد میں آجائیں انہیں ٹھکانے لگاؤ اور جب دیکھو کہ تمہارا غلبہ یقینی ہوگیا ہے اور دشمن کے باقی افراد شکست خوردہ ہو کر تمہاری قیدی ہوگئے ہیں، تو ان کے ہاتھ اور پاؤں خوب اچھی طرح باندھ دو، تاکہ دھوکہ دے کر کہیں تمہیں قتل نہ کرنے لگیں، یا بھاگ نہ جائیں۔ اور ان قیدیوں کو یا تو ان پر احسان کرتے ہوئے بلامعاوضہ آزاد کر دو، اس لئے کہ اب ان کے غرور کا نشہ ٹوٹ چکا ہے، یا فدیہ اور معاوضہ لے کر انہیں چھوڑ دو، وہ معاوضہ یا تو مال ہو یا دشمن کے پاس موجود کوئی مسلمان قیدی، جسے وہ مسلمانوں کے پاس موجود کسی کافر قیدی کے بدلے آزاد کر دں۔ اور یہ کیفیت اس وقت تک باقی رہے جب تک جنگ ختم نہ ہوجائے اور مشرکین یا تو اسلام قبول کرلیں، یا شکست مان کر جزیہ دینے پر آمادہ ہوجائیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ آیت (١٩٣) میں فرمایا ہے : (وقاتلوھم حتی لاتکون فتنہ ویکون الدین للہ) ” ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ کا دین غالب نہ ہوجائے۔ “ علمائے سلف کے درمیان اس آیت کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ محکم ہے یا منسوخ، یعنی اس میں بلامعاوضہ یا معاوضہ لے کر دشمن کے قیدیوں کو چھوڑ دینے کا جو حکم بیان کیا گیا ہے وہ باقی ے، یا منسوخ ہوگیا اور بت پرست قیدیوں کو بہرحال قتل کردینا ہے۔ ١۔ ابن عباس، قتادہ ضخاک اور سدی کہتے ہیں کہ اس آیت میں بیان کردہ حکم منسوخ ہوچکا ہے اور سورۃ التوبہ کی آیت (٥) (فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم) ” مشرکین کو جہاں پاؤ قتل کر دو“ کے مطابق اب ہر مشرک جنگی قیدی کو قتل کردیا جائے گا امام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے، سوائے بچوں، عورتوں اور ان لوگوں کے جن سے جزیہ لینے کی بات طے ہوگئی ہو۔ ٢۔ اور ابن عمر، عطاء، حسن بصری اور عمر بن عبدالعزیز کی رائے ہے کہ یہ آت، سورۃ التوبہ کی آیت (٥) (فاقتلوا المشکرین حیث و جدتموھم) کے لئے ناسخ ہے اور اب مشرک جنگی قیدیوں کو قتل کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ بلا معاوضہ یا معاوضہ لے کر اسے آزاد کردینا ہے۔ ٣۔ اور ابن جریر، شوکانی اور صاحب محاسن التزیل کی رائے ہے کہ یہ آیت محکم ہے، یعنی اس کا حکم باقی ہے اور قیدیوں کا معاملہ حاکم وقت کے سپرد ہوگا، اگر اس کی نظر میں ان میں سے بعض کو قتل کردینا ہی بہتر ہوگا تو وہ انہیں قتل کر دے گا اور اگر چاہے گا تو بلا فدیہ یا فدیہ لے کر انہیں آزاد کر دے گا، یا انہیں غلام بنا لیا جائے گا اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیئے جائیں گے، یا جزیہ لگا کر انہیں بطور ذمی اسلامی سلطنت میں رہنے کی اجازت دے دی جائے گی، جنگی قیدیوں کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تاریخی فیصلے اسی رائے کی تائید کرتے ہیں ائمہ کرام مالک، شافعی، ثوری، اوزاعی اور ابوعبید و غیر کا یہی قول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اوپر بیان کردہ حکم کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ کافروں کے بارے میں اللہ کا یہی حکم ہے، نیز فرمایا کہ اگر اللہ چاہتا تو مسلمانوں کا کافروں پر بغیر جنگ کئے ہی فتح و نصرت دے دیتا، یعنی انہیں کسی عذاب کے ذریعہ ہلاک کردیتا، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا، بلکہ مومنوں کو ان سے جہاد کرنے کا حکم دیا تاکہ معلوم ہو کہ کون اس کی راہ میں اخلاص کے ساتھ جہاد کرتا ہے اور صبر و ثبات قدمی کا اظہار کر کے اجر جزیل اور ثواب عظیم کا حقدار بنتا ہے اور تاکہ اللہ مومنوں کے ہاتھوں کافروں کو سزا دے۔ نیز فرمایا کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو ضائع نہیں کرتا ہے، انہیں اس راہ پر چلنے کی توفیق دیتا ہے جو جنت کی طرف لے جاتی ہے، ان کے تمام امور و احال کو ٹھیک کردیتا ہے، اور بالاخر انہیں اس جنت میں پہنچا دیتا ہے جس کی نعمتوں کی تفصیلات اور وہاں کے منازل و مقامات کے اوصاف اس نے قرآن کی بہت سی آیتوں میں اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سی احادیث میں اس طرح بیان کردیئے ہیں کہ اہل جنت وہاں پہنچتے ہی از خود اپنی اپنی جگہوں کو پہچان لیں گے۔ امام بخاری نے کتاب الرقاق، باب القصاص یوم القامہ میں ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ! اہل جنت اپنی منزل منزلوں تک اپنے دنیاوی گھروں سے بھی زیادہ جلدی اور آسانی کے ساتھ پہنچ جائی گے۔ محمد
5 محمد
6 محمد
7 (٣) اللہ تعالیٰ نے اپنے مجاہد بندوں سے فتح و کامرانی کا وعدہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ لوگ اس کے دین کی خاطر اس کے دشمنوں سے قتال کریں گے تو و ان کی مدد کرے گا، انہیں غالب بنائے گا، ہر معرکہ جہاد میں انہیں ثبات قدی عطا فرمائے گا اور دشمنوں کی زمین و جائیدد کا انہیں وارث بنا دے گا۔ اور اہل کفر کو منہ کی کھانی پڑے گی، ہلاکت و بربادی ان کا نصیب ہوگی، اور اللہ تعالیٰ ان کے اعمال رائیگاں کر دے گا، ان کے ساتھ اللہ کا یہ برتاؤ اس لئے ہوگا کہ انہوں نے قرآن کریم سے نفرت کی، اور اس میں بیان کردہ احکام کو پس پشت ڈال دیا، اس لئے اللہ ان کے ان تمام اعمال کو ضائع کر دے گا جو بظاہر اچھے ہوں گے، اس لئے کہ کافر کا کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں ہوتا ہے، اور اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے۔ محمد
8 محمد
9 محمد
10 (٤) اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کی زجر و توبیخ کی ہے اور اپنے گرد و نوح میں پائی جانے والی کافر قوموں کی ہلاکت و بربادی کے آثار دیکھ کر ان سے عبرت حاصل کرنے کی نصیحت کی ہے اور کہا ہے کہ اللہ نے ان کے کفر و شرک اور تکذیب انبیاء کی وجہ سے کس طرح انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور ان کی بستیوں کو تہہ و بالا کردیا، نیز فرمایا کہ ہر دور میں کافروں کا ایسا ہی انجام ہوا ہے اور ہوتا رہے گا اس لئے مشرکین مشکین مکہ سوچتے کیوں نہیں کہ کہیں ان کا انجام بھی ایسا ہی نہ ہو۔ اور اللہ نے اپنے مومن و مجاہد بندوں کو فتح و کامرانی کی جو خوشخبری دی ہے اور اہل کفر و شرک کے لئے دونوں جہان میں جس ذلت و رسوائی کی خبر دی ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ وہ قادر مطلق ہر حال میں مومنوں کا یادو مددگار ہوتا ہے، جبکہ کافروں کا کوئی مددگار نہیں ہوتا، اور جسے اللہ چھوڑ دے اس کی کون مدد کرسکتا ہے۔ محمد
11 محمد
12 (٥) اللہ تعالیٰ کا نیک عمل کرنے والے مومنوں سے وعدہ ہے کہ وہ انہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اور اہل کفر کا دنیا میں حال یہ ہوتا ہے کہ وہ فکر آخرت سے یکسر غافل، اپنی لذتوں اور نفسیاتی خواہشات کے پیچھے لگے رہتے ہیں، ایسے اہل کفر کا ٹھکانہ مرنے کے بعد جہنم ہوگا۔ محمد
13 (٦) اس آیت کریمہ میں اہل مکہ کے لئے زبردست دھمکی اور شدید وعید آئی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ ایام گزشتہ میں بہت سی ایسی بستیاں پائی گئی ہیں جن کے رہنے والے، آپ کی بستی مکہ کے رہنے والوں سے زیادہ طاقت ور اور زیادہ مال و جاہ والے تھے، جب ان کے رہنے والوں نے اللہ کے رسولوں کی تکذیب کی، تو ہم نے انہیں ہلاک کردیا اور کوئی ان کی مدد کے لئے نہیں آیا۔ اب جبکہ اہل مکہ نے آپ کو یہاں سے نکل جانے پر مجبور کردیا ہے اور آپ کی تکذیب پر اصرار کر رہے ہیں، تو ہم اس پر بے شک قادر ہیں کہ انہیں ہلاک کردیں، لیکن چونکہ ہم نے آپ کو رسول رحمت بنا کربھیجا ہے، اسی لئے ان کے ہلاک کئے جانے میں جلدی نہیں کی جا رہی ہے۔ آیت (١٤) میں اللہ تعالیٰ نے مومن و کافر اور موحد و مشرک کا فرق واضح کر کے مشرکین مکہ کو دعوت ایمان دی ہے، اور انہیں اپنی حالت بدلنے کی نصیحت کی ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص علم و برہان کی روشنی میں صحیح عقیدے کا حامل ہو، اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرنے والا، اور صرف اسی کی عبادت کرنے والا ہو، کیا وہ اس شخص کے مانند ہوسکتا ہے، جس کے کفر و شرک کو شیطان نے اس کی نظر میں جائز اور خوبصورت بنا دیا ہو، اس لئے وہ بتوں کی پرستش کرتا ہے اور اپنے نفس کی پیروی کرتا ہے؟ جو اب معلوم ہے کہ جس طرح زندگی اور موت، اور جنت و جہنم برابر نہیں ہیں، اسی طرح مومن و کافر اور موحد و مشرک برابر نہیں ہو سکتے ہیں۔ محمد
14 محمد
15 جس طرح مومن و کافر اور موحد و مشرک کے درمیان فرق ہے، اسی طرح روز قیامت ان کے دائمی ٹھکانوں میں بھی فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس جنت کے اوصاف جس کا قیامت کے دن اہل تقویٰ سے وعدہ کیا گیا ہے، یہ ہیں کہ اس میں پانی کی ایسی نہریں ہوں گی جن کا پانی کبھی بھی بدمزا نہیں ہوگا، اور اس میں دودھ ایسی نہریں ہوں گی جن کا دودھ نہایت سفید اور نہایت میٹھا ہوگا، اور کبھی کھٹا نہیں ہوگا اور اس شراب کی ایسی نہریں ہوں گی جن میں پائی جانے والی شراب دیکھنے میں نہایت خوبصورت اور پینے والوں کے لئے نہایت لذیذ ہوگی، اہل جنت کا جی ان کے پینے سے کبھی نہیں اکتائے گا۔ سورۃ الصافات آیات (٤٦/٤٧) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (بیضاء لذۃ لشاربین، لافیھاغول ولا ھم عنھا ینزقون) ” جنت کی شراب صاف شفاف اور پینے میں نہایت لذیذ ہوگی، نہ اس کے پینے سے درد سر ہوگا، اور نہ جنتی اسے پی کر بہکیں گے“ اور اس میں ایسے شہد کی نہریں ہوں گی جو موم، یا چھتے کے ٹکڑوں اور ہر میل کچیل سے صاف ہوگا اور اہل جنت کو وہاں مذکورہ بالا مشروبات کے علاوہ انواع و اقسام کے پھل بھی ملیں گے۔ سورۃ الدخان آیت (٥٥) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (یدعون فیھا بکل فاکھۃ آمنین) ” وہاں وہ ہر طرح کے میوؤں کی فرمائشیں کریں گے، اور بہت ہی پرسکون ہوں گے“ اور سورۃ الرحمٰن آیت (٥٢) میں فرمایا ہے : (فیھما من کل فاکھۃ زوجان) ” ان دونوں میں ہر قسم کے میوؤں کی دو قسمیں ہوں گی۔ “ مسند احمد اور سنن ترمذی میں صحیح سند کے ساتھ معاویہ بن حیدہ (رض) سے مروی ہے، انہوں نے کہا، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ جنت میں دودھ کا سمندر ہوگا، پانی کا سمندر ہوگا، شہد کا سمندر ہوگا اور شراب کا سمندر ہوگا اور ان سمندروں سے نہریں جاری ہوں گی۔ اہل جنت پر اللہ تعالیٰ یہ بھی احسان کرے گا کہ ان کے چھوٹے بڑے تمام گناہوں کو معاف کر دے گا۔ جن خوش نصیب لوگوں پر اللہ کے اتنے عظیم احسانات ہوں گے، کیا وہ ان کے مانند ہوں گے جو ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے۔ اس سے کبھی نہیں نکلیں گے اور جنہیں پینے کے لئے اتنا شدید گرم پانی ملے گا کہ پیتے ہی ان کی انتڑیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر سرین کے راستے باہر نکل جائیں گی۔ محمد
16 (٨) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام کو اسلام کی تعلیم دینے کے لئے جب خطبہ دیتے، تو منافقین بھی شریک ہوتے، اور ظاہر کرتے کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں خوب غور سے سن رہے ہیں اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس سے باہر آتے تو علمائے صحابہ (عبداللہ بن عباس، عبد اللہ بن مسعود اور ابوالدرداء وغیرہم) سے استہزاء کے طور پر پوچھتے کہ ابھی اس نے (یعنی محمد نے) کیا بیان کیا ہے، ہماری سمجھ میں تو اس کی باتیں نہیں آتی ہیں؟! اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ لوگ منافق ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے، اس لئے خیر کی کوئی بات ان میں داخل ہی نہیں ہوتی ہے، اور اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں، اسی لئے قبول حق کے بجائے کفر و نفاق پر مصر ہیں۔ ان منافقین کے برعس جن صحابہ کرام نے راہ حق کو اپنایا، اللہ پر ایمان لائے، اور عمل صالح کیا، انہیں اللہ نے اتباع حق کی مزید توفیق دی اور تقویٰ والی زندگی گذارنے پر ان کی مدد فرمائی، یعنی انہیں علم نافع اور عمل صالح کی توفیق سے نوازا۔ محمد
17 محمد
18 (٩) اہل کفر کی ہٹ دھرمی سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اب انہیں اسی کا انتظار ہے کہ اچانک قیامت آجائے، تو وہ جان لیں کہ اس کی علامتیں ظاہر ہونے لگی ہیں، حسن بصری اور ضحاک کہتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت قرب قیامت کی ایک بڑی نشانی ہے صیحین میں انس بن مالک (رض) سے مروی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری بعثت اور قرب قیامت کی مثال ان دو انگلیوں کی مانند ہے اور آپ نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی کی طرف اشارہ کیا یعنی جس طرح یہ دونوں انگلیں ایک دوسرے سے قریب ہیں، اسی طرح میں قیامت کے بالکل قریب بھیجا گیا ہوں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعدد احادیث میں قرب قیامت کی نشانیاں بتائی ہیں، جن میں بعض کا ظہور ہوچکا ہے اور بعض ابھی تک ظاہر نہیں ہوئی ہیں۔ بعض حضرات نے اس آیت میں مذکور نشانیوں میں شق قمر (چاند کے دو ٹکڑے ہونے) اور دھواں کے ظہور کو بھی شمار کیا ہے اور بعض دوسرے لوگوں نے دوسری نشانیوں کا ذکر کیا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب قیامت آجائے گی، اس وقت ماضی کو یاد کر کے افسوس کرنے سے کافروں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا، اس لئے کہ وہ وقت عمل کا نہیں، بلکہ مکافات عمل کا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفجر آیت (٢٣) میں فرمایا ہے : (یومئذیتذکرا الانسان و انی لہ الذکری) ” اس دن انسان کو سمجھ آئے گی، مگر تب اس کے سمجھنے کا کیا فائدہ؟“۔ محمد
19 (١٠) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ اوپر کی آیتوں میں جب ایمان و کفر اور توحید و شرک کا فرق واضح کردیا گیا، اور دونوں کے نتائج بھی بیان کردیئے گئے تو اے میرے نبی ! آپ ٹھیک سے اس بات کو ذہن نشین کرلیجیے کہ اس اللہ کے سوا جو سارے جہان کا خالق و مالک ہے، کوئی دوسر معبود نہیں ہے جس کی عبادت کی جائے، پس آپ اسی عقیدہ پر جم جایئے، اس سے سرموانحراف نہ کیجیے اور اپنے رب سے اپنے لئے مغفرت طلب کرتے رہئے تاکہ آپ سے کوئی گناہ سر زد نہ ہو، یا کبھی کبھار ترک اولیٰ کے لئے مغفرت طلب کرتے رہئے اور اپنے رب سے مومن مردوں اور عورتوں کے لئے بھی مغفرت طلب کیجیے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف کر دے۔ امام بخاری نے کتاب الدعوات میں ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگو ! اپنے رب کے حضور توبہ کرتے رہو، میں دن میں ستر (٧٠) بار سے زیادہ اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور اس کے حضور توبہ کرتا ہوں اور کتاب التہجد میں ابن عباسی رضی اللہ عنما سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے آخر میں یہ دعا پڑھتے تھے :” اللھم اغفرلی لا الہ الا انت“ اس دعا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اگلے پچھلے، پوشیدہ و ظاہر اور ان تمام گناہوں سے معافی مانگی ہے جنہیں اللہ خوب جانتا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگو ! اللہ تمہاری پوری خبر رکھتا ہے، دن اور رات کی ایک ایک گھڑی میں تم کیا کرتے ہو اور کہاں رات گذارتے ہو، اس سے کچھ بھی مخفی نہیں ہے، یعنی تمہارے ہر قول و فعل سے باخبر ہے اور قیامت کے دن تمہیں ان کا بدلہ ضرور چکائے گا۔ محمد
20 (١١) ہجرت مدینہ کے بعد مسلمان جن حالات سے گذر رہے تھے اور مکہ اور دیگر علاقوں کے کفار مسلمانوں پر جو ظلم و بربریت ڈھا رہے تھے، انہیں سن سن کر مخلص مسلمانوں کے دل تنگ ہو رہے تھے، اور چاہتے تھے کہ انہیں اللہ کی طرف سے جہاد کی اجازت مل جائے تاکہ کافروں کے ساتھ قتال کر کے ان سے انتقام لے سکیں، چنانچہ قرآن کریم میں حکم جہاد نازل ہوا، تو وہ آیتیں منافقین کے دلوں پر بجلی بن کر گریں، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ایسی نظروں سے دیکھنے لگے کہ جیسے ان پر موت کی بے ہوشی طاری ہو، اب تک تو وہ نماز اور دیگر ہلکے اعمال اسلام کے ذریعہ اپنے مسلمان ہونے کا ظاہری ثبوت بہم پہنچا رہے تھے، اور اپنے نفاق پر پردہ ڈال رکھا تھا، اب جو حکم جہاد آگی اور ان سے جان و مال کی قربانی کا مطالبہ ہوا تو ان کی آنکھوں میں موت کا نقشہ پھر گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کو دھمکی دی کہ ان کے لئے ہلاکت و بربادی ہے۔ جوہی اور اصمعی نے (اولی لھم) کا یہی معنی بیان کیا ے۔ اس کا ایک دوسرا معنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان کے لئے بہتر ہے تھا کہ اللہ اور اس کے رسول کی بات مانتے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں اپنی زبان سے اچھی بات نکالتے اور جب جہاد کا وقت آجاتا، تو انہوں نے اپنی زبان سے جو عہد کیا تھا کہ جب وقت آئے گا تو وہ اللہ کے رسول کے ساتھ جہاد کریں گے، اس عہد میں سچے ثابت ہوتے، تو یہ باتیں ان کے لئے دنیا و آخرت دونوں جگہ بہتر ثابت ہوتیں۔ آیت (٢٢) میں انہی منافقن کو مخاطب کر کے اللہ نے فرمایا کہ اگر تم اپنے ظاہری ایمان سے بھی پھر جاؤ گے اور کفر صریح کا اعلان کرو گے، تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم دور جاہلیت کی طرح ایک دوسرے کو قتل کرو گے، اور اپنے مسلمان رشتہ داروں کے خلاف جنگ کرو گے۔ (ان تولیتم) کا ایک دوسرا معنی ” ان حکمتم“ بھی کیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اے وہ لوگو جنہوں نے اسلام کو دل سے قبول نہیں کیا ہے۔ اگر تمہیں حکومت مل جائے گی تو تم زمین میں فساد پھیلاؤ گے، ظلم کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرو گے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ تمہیں متحد کردیا اور نیکی اور صلہ رحمی کا حکم دے کر جسموں کے ساتھ تمہارے دلوں کو بھی جوڑ دیا ہے۔ آیت (٢٣) میں ان منافقین کا دنیا میں انجام بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رحمت سے دور کردیا ہے، حق بات سننے سے بہرا بنا دیا ہے اور ان کی بصیرت چھین لی ے، اسی لئے سیدھی راہ کو دیکھ ہی نہیں پا رہے ہیں۔ آیت (٢٤) میں انہی منافقین کے بارے میں کہا گیا کہ یہ لوگ قرآن کریم کی ان آیتوں میں غور و فکر کیوں نہیں کرتے ہیں جو عبرتوں اور نصیحتوں اور نصیحتوں سے بھری پڑی ہیں، تاکہ انہیں اپنی غلطی کا علم ہوا اور حق کی طرف رجوع کرنے کی سوچیں؟ کیا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہیں کہ ان کے اندر خیر کی باتیں داخل ہوتی ہی نہیں ہیں؟ یقیناً یہی بات ہے کہ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، اسی لئے قرآن میں مذکور نصیحتوں کا ان کے اندر گذر ہوتا ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ان کے دلوں کو کھولنے پر قادر ہے، وہی جسے چاہتا ہے قبول حق کی توفیق دیتا ہے۔ محمد
21 محمد
22 محمد
23 محمد
24 محمد
25 (١٢) سلسلہ کلام منافقین کے بارے میں ہی ہے، کہ جن لوگوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دین اسلام کی صداقت ظاہر ہونے کے باوجود نفاق کی راہ اختیار کی، اور جہاد کرنے سے اعراض کیا، درحقیقت شطان نے ان کی نظروں میں نفاق و ارتداد کو خوبصورت بنا دیا اور انہیں بہلایا کہ اب تو لمبی عمر پڑی ہے، خوب داد عیش دے لو، محمد کا ساتھ دے کر کیوں اپنی جان جوکھم میں ڈالو گے۔ ان منافقین کو اللہ تعالیٰ نے گمراہی کے گڈھے میں اس لئے دھکیل دیا کہ انہوں نے مشرکین کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازش کی، اور ان سے کہا کہ ہم تمہارے خلاف جنگ نہیں کریں گے، بلکہ دوسروں کو بھی محمد کے ساتھ مل کر تم سے جنگ کرنے سے روکیں گے۔ آیت (٢٦) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس وقت وہ لوگ مشرکین کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف خفیہ طور پر سازش کر رہے تھے، اللہ ان کی تمام باتوں کو سن رہا تھا، اس سے ان کا کوئی راز پوشیدہ نہیں تھا، او اب ان ساری باتوں سے اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو باخبر کردیا ہے، جیسا کہ سورۃ الحشر آیت (١١) میں آیا ہے : (الم ترالی الذین نافقوا یقولون لاخوانھم الذین کفروا من اھل الکتاب لئن اخرجنتم لنخرجن معکم ولا نطیع فیکم احدا ابداوان قوتلتم لننصرنکم) ” کیا آپ نے منافقوں کو نہیں دیکھا کہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں اگر تم جلا وطن کئے گئے تو ضرور ہم بھی تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہوں گے اور تمہاے بارے میں ہم کبھی بھی کسی کی بات نہ مانیں گے اور اگر تم سے جنگ کی جائے گی تو ہم تمہاری مدد کریں گے۔“ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہاں اہل کتاب سے مراد بنو قریظہ اور بنو نضیر کے یہود ہیں جن کے ساتھ مل کر منافقین ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف سازش کرتے رہتے تھے۔ محمد
26 محمد
27 (١٣) انہی منافقین کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس وقت وہ نفاق وار تداد کی بد انجامی سے کیسے بچ سکیں گے جب موت کا فرشتہ او عذاب کے دیگر فرشتے ان کی روح قبض کرلیں گے اور ان کے چہروں پر (جنہیں انہوں نے اللہ کے دشمنوں کی طرف کرلیا تھا) اور ان کے پیٹھوں پر (جنہیں انہوں نے اللہ کی طرف کردیا تھا) لوہے کی گرزوں سے مار مار کر جہنم کی طرف لے جائیں گے، اور ان کے ساتھ ایسا رسوا کن برتاؤ اس لئے ہوگا کہ انہوں نے وہ کام کئے تھے جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے، اللہ، اس کے رسول اور اس کی کتاب کا انکار کیا تھا اور جن کاموں سے اللہ راضی ہوتا ہے ان کو انہوں نے برا جانا تھا ایمان، توحید اور طاعت و بندگی سے منہ موڑا تھا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے منافقانہ ایمان اور دکھا دے کے اعمال کو ضائع کردیا، دنا میں نفاق کی زندگی بسر کرتے رہے اور مخلص مسلمانوں کی نگاہوں میں ذلیل بنے رہے اور اب موت کے وقت ان کے چہروں اور پیٹھوں پر گرزوں کی مار پڑ رہی ہے۔ والعیاذ باللہ من ھذا الذل والخذلان محمد
28 محمد
29 (١٤) منافقین ہی کے بارے کہا جا رہا ہے کہ وہ اس خام خیالی میں مبتلا نہ ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کا پردہ فاش نہیں کرے گا اور ان کے نفاق کی خبر مسلمانوں کو نہیں دے گا۔ وہ ضرور ان کی نشاندہی کے گا تاکہ اہل بصیرت مسلمان ان کی طرف سے چوکنا رہیں، اور ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں۔ آیت (٣٠) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر ہم چاہیں تو آپ کو ایک ایک منافق کا پتہ دے دیں اور آپ ہر ایک کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں، اور ان کی نشانیوں سے انہیں پہچان لیں، لیکن اللہ نے اپنی دانستہ حکمت و مصلحت کے پیش نظر ان میں سے بہتوں پر پرد ڈال دیا مگر پردہ پوشی کے باوجود وہ اپنے طرز کلام سے پہچانے جاتے ہیں، جب دیکھئے وہ آپ اور مسلمانوں کی شان گھٹانے والی بات کرتے رہتے ہیں، مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد جب کوئی منافق آپ کے سامنے بات کرتا تو آپ اس کے طرز کلام سے اسے فوراً پہچان جاتے تھے۔ آیت (٣٠) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر ہم چاہیں تو آپ کو ایک ایک منافق کا پتہ دے دیں اور آپ ہر ایک کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں، اور ان کی نشانیوں سے انہیں پہچان لیں، لیکن اللہ نے اپنی دانستہ حکمت و مصلحت کے پیش نظر ان میں سے بہتوں پر پردہ ڈال دیا، مگر پردہ پوشی کے باوجود وہ اپنے طرز کلام سے پہچانے جاتے ہیں، جب دیکھیے، وہ آپ اور مسلمانوں کی شان گھٹانے والی بات کرتے رہتے ہیں، مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد جب کوئی منافق آپ کے سامنے بات کرتا تو آپ اس کے طرز کلام سے اسے فوراً پہچان جاتے تھے۔ آیت (٣٠) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگو ! اللہ تم سب کے اعمال سے خوب باخبر ہے، اور ہر ایک کو روز قیامت اس کے اعمال کا بدلہ ضرور چکائے گا۔ اس لئے تم میں سے ہر شخص اپنا محاسبہ کرتا رہے اور اس دن کی رسوائی سے پناہ مانگتا رہے۔ محمد
30 محمد
31 (١٥) اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے کہا کہ ہم تمہیں جہاد کرنے، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور دیگر اوامرونواہی کا حکم دے کر آزمائیں گے، تاکہ دیکھیں کہ کس نے اخلاص کے ساتھ ہماری راہ میں جہاد کیا ہے اور صبر و ثبات قدمی کا ثبوت دیا ہے اور کون ان احکام سے تنگ دل ہوا ہے اور تمہارے اقوال و اعمال سے متعلق جو صحیح خبریں ہیں ہم انہیں ظاہر کریں گے، تاکہ لوگ جان لیں کہ کس نے ہمارے اوامر کا پاس رکھا ہے، اور کس نے نافرمانی کی ہے۔ محمد
32 (١٦) مفسرین لکھتے ہیں کہ یہاں منافقین مرد ہیں، بعض کے نزدیک اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) مراد ہے اور بعض کے نزدیک وہ مشرکین مکہ مراد ہیں جنہوں نے میدان بدر میں لڑنے والے کافروں کو کھانا کھلایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن منافقین نے اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی، لوگوں کو قبول اسلام اور سول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع سے روکا، ان کی مخالفت کی اور ان سے جنگ کی (حالانکہ ان کے سامنے حق واضح ہوچکا تھا، اور دین حق اور سول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت دلائل و براہین سے ثابت ہوچکی تھی) وہ جان لیں کہ ان کے کفروارتدد کا نقصان انہی کو پہنچے گا، اور اللہ تعالیٰ ان کے ظاہری نیک اعمال کو رائیگاں کر دے گا، اس لئے کہ کفر کی وجہ سے ان کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہوگا۔ (وسیحبط اعمالھم) کا ایک دوسرا مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ، دین اسلام اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ان کی تمام سازشوں کو ناکام بنا دے گا۔ محمد
33 (١٧) منافقین اور ان کے اعمال و انجام کا بیان ہوجانے کے بعد اب ایمان والوں کو نصیحت کی جارہی ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہیں اور منافقین کی طرح نفاق اور پوشیدہ ارتداد کے ذریعہ اپنے ظاہری نیک اعمال کو ضائع نہ کریں، (ولا تبطلوا اعمالکم) میں ہر اس کام سے روکا گیا ہے جو نیک عمل کو ضائع کر دے، جیسے احسان جتانا، فخر و ریا کاری کے لئے کام کرنا، یا کسی نیک عمل کی ابتدا کر کے اسے چھوڑ دینا یا کوئی ایسا کام کرنا جو ان اعمال کو ضائع کر دے۔ آیت (٣٤) میں اللہ نے فرمایا کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کا انکار کرتے ہیں، لوگوں کو دین اسلام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں اور کفر سے تائب ہو کر اسلام میں داخل ہونے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو کبھی بھی معاف نہیں کرے گا، بلکہ انہیں دائمی عذاب میں مبتلا کرے گا۔ محمد
34 محمد
35 (١٨) مومنوں کو اللہ نے نصیحت کی ہے کہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرنے میں ہرگز اپنی کمزوری ظاہر نہ ہونے دو، اور جہاد کی طاقت ہونے کے باوجود دشمنوں کو صلح کی پیشکش نہ کرو، بہرحال غلبہ تمہیں ہی حاصل ہوگا اور سر بلند تم ہی ہو گے اور جب تک تم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے اللہ تمہاری مدد کرتا رہے گا اور تمہارے نیک اعمال کا اجر کچھ بھی کم نہیں کرے گا، بلکہ پورا بدلہ دے گا اور اپنے فضل و کرم سے زیادہ دے گا۔ محمد
36 (١٩) دنیاوی زندگی کی کوئی حقیقت نہیں ہے، محض دھوکہ ہے، یہاں کی کسی چیز کو ثبات و دوام حاصل نہیں ہے، ہر شے فانی ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو نصیحت کی ہے کہ تم لوگ اس فانی زندگی کی لذتوں میں مشغول ہو کر اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہرگز نہ چھوڑو، اور فرمایا کہ اگر تم اللہ پر ایمان لاؤ گے اور کفر و معاصی سے بچو گے، تو اس کا وعدہ ہے کہ وہ تمہارا اجر ضائع نہیں کرے گا۔ اور اسے تمہارا مال نہیں چاہئے، کیونکہ وہ تو غنی اور بے نیاز ہے، اگر وہ تم سے مال مانگتا ہے اور مانگنے میں الحاج سے کام لیتا تو تم بخیلی کرنے لگتے اور اسلام کے خلاف تمہارے دل کے کینے باہر آجاتے۔ وہ تو تم سے توحید، انکار شرک اور صرف اپنی طاعت و بندگی کا مطالبہ کرتا ہے۔ بعض مفسرین نے (ولایسئالکم اموالکم) کی یہ تفسیر کی ہے کہ وہ تم سے تمہارا سارا مال نہیں مانگتا ہے، بلکہ صرف ڈھائی فیصد مانگتا ہے، تاکہ اس کے ذریعہ تمہاے محتاج و فقیر مسلمان بھائیوں کی ضرورت پوری ہو۔ اگر وہ تمہار اسارا مال مانگتا، اور اس پر اصرار کرتا تو تم بخل پر اتر آتے (جیسا کہ طبع انسانی کا خاصہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس سے مال طلب کرنے میں الحاح کرنے لگتا ہے تو وہ زیادہ بخیل بن جاتا ہے) اسلام کے خلاف تمہارے دل کے کینے باہر آجاتے اور تم اس دین سے ہی نفرت کرنے لگتے جو تم سے تمہارا سارا مال مانگتا ہے۔ محمد
37 محمد
38 (٢٠) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب مسلمانوں کو جہاد فی سبیل اللہ اور دیگر بھلائی اور خیر کے کاموں میں مال خرچ کرنے کی رغبت دلائی جاتی ہے، تو ان میں سے بعض لوگ بخیلی کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں، حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اس بخل کا نقصان انہیں ہی پہنچتا ہے، یعنی اجر عظیم سے محروم ہوجاتے ہیں، اللہ کو بندوں کے مال کی ضرورت نہیں ہے، وہ تو غنی اور بے نیاز ہے، آسمانوں اور زمین کے خزانوں کا وہی مالک ہے، محتاج تو بندے ہیں کہ کوئی چیز ان کے اختیار میں نہیں ہے، ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ محتاجیوں سے گھرا ہوا ہے۔ اللہ دیتا ہے تو بندے پاتے ہیں۔ اس نے تو بندوں کو مال خرچ کرنے کی نصیحت خود ان کی بھلائی کے لئے کی ہے تاکہ ان کا نفس حرص و ہوس سے پاک ہو، اور ان کا مال بھی پاک رہے اور جہاد کی تیاری کر کے اپنے اور للہ و رسول کے دشمنوں کو مار بھگائیں اور اپنی عزت اور جان و مال کی حفاظت کریں۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگو ! اگر تم ایمان اور تقویٰ کی راہ سے پھر جاؤ گے، تو وہ تمہارے بجائے ایک دوسری قوم کو لے آئے گا جو تم سے زیادہ اللہ کی مطیع و فرمانبردار ہوگی، اس کی راہ میں، خرچ کرنے سے تمہاری طرح بخل نہیں کرے گی اور اس کے تمام اوامرونواہی کو پورے طور پر بجا لائے گی۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت کے اس حصہ سے مقصود صحابہ کرام کو خیر کی رغبت دلانا تھا، تاکہ وہ نعمت اسلام کی قدر کریں، اور اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ لگا دیں اور تاریخ شاہد ہے کہ صحابہ کرام اس کسوٹی پر پورے اترے، انہوں نے اسلام کی آبیاری کے لئے اپنا تن من دھن سب کچھ لگا دیا اور اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔ وباللہ التوفیق محمد
0 سورۃ الفتح مدنی ہے، اس میں انتیس آیتیں، اور چار رکوع ہیں تفسیر سورۃ الفتح نام : آیت (١) (انا فتحنا لک فتحا مبینا) سے ماخودذ ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی لکھتے ہیں کہ یہ سورت تمام کے نزدیک مدنی ہے، ابن عباس اور ابن الزبیر کا بھی یہی قول ہے ابن اسحاق، حاکم اور بیہقی نے مسور بن مخرمہ اور مرد ان کا قول نقل کیا ہے کہ پوری سورۃ الفتح مکہ اور مدینہ کے درمیان صلح حدیبیہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں قتادہ سے روایت کی ہے انہوں نے کہا ہم سے انس بن مالک نے بیان کیا کہ (انا فتحنا لک فتحامبینا) سے (فوزا عظیمات) تکح دیبیہ سے واپسی کے وقت نازل ہوئی، جب صحابہ کے دل غم و الم سے بھرے تھے اور انہوں نے عمرہ کی قربانی حدیبیہ میں ہی کردی تھی، تو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے اوپر ایک ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو میرے نزدیک دنیا و فیہما سے زیادہ بہتر ہے۔ محمد بن سعد نے لکھا ہے کہ وہ جگہ ” ضجنان“ ہے جہاں یہ سورت نازل ہوئی تھی سیوطی نے ” الا کلیل“ میں لکھا ہے کہ وہ جگہ ” کراع الغمیم“ تھی اور ابو معسر نے اسے حجفہ بتایا ہے حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ تینوں جگہیں ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ سورت رسول ال لہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس وقت نازل ہوئی جب ذی القعدہ ٦ ھ میں آپ حدیبیہ سے مدینہ واپس آرہے تھے مشرکین نے آپ کو عمرہ ادا کرنے کے لئے مسجد حرام تک پہنچنے سے روک دیا تھا اور بالاخر بات مصالحت پر جا کر ختم ہوئی تھی، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سال مدینہ واپس چلے جائیں اور آئندہ سال آ کر عمرہ کریں اکثر صحابہ کرام کو اس صلح سے بہت تکلیف ہوئی، جن میں سرفہرست عمر (رض) تھے معاہدہ ہوجانے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام نے حدیبیہ کے مقام پر ہی قربانی کر کے اپنے بال منڈوا لئے اور مدینہ کی طرف لوٹ گئے، واپسی میں یہ سورت اس جگہ نازل ہوئی جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کو ” فتح مبین“ سے تعبیر کیا ہے اور سیرت نبوی کے اوراق شاہد ہیں کہ یہ صلح مسلمانوں کے حق میں نتائج کے اعتبار سے زبردست فتح ثابت ہوئی، امام بخاری نے براء بن عازب (رض) سے روایت کی ہے کہ تم لوگ فتح مکہ کو فتح کہت یہو (اور فتح مکہ یقیناً فتح تھی) لیکن ہم لوگ یوم حدیبیہ کے بیعت رضوان کو فتح کہتے ہیں الحدیث چنانچہ آنے والے دنوں میں صلح کے مندرجہ ذیل نتائج ظاہر ہوئے : ١۔ یہ صلح درحقیقت اہل قریش اور دیگر کفار عرب کی جانب سے مدینہ منورہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قیادت و سیادت میں موجود اسلامی حکومت کا پہلا اعتراف تھا۔ ٢۔ یہ پہلا موقع تھا جب اہل قریش نے یہ بات مان لی تھی کہ مسلمان بھی دیگر عربوں کی طرح خانہ کعبہ کی زیارت کا حق رکھتے ہیں۔ ٣۔ صلح کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ دس سال تک فریقین میں جنگ نہیں ہوگی اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے کھل کر اسلام کی تبلیغ کی اور امام زہری کے قول کے مطابق تین سال کے اندر اسلام اتنی تیزی سے پھیلا کہ فتح مکہ کے وقت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دس ہزار مجاہدین موجود تھے۔ ٤۔ صلح کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام نے اطمینان کی سانس لی اور مسلم سوسائٹی کی جڑوں کو استوار کرنے میں لگ گئے اور اسلام کا دارالسلطنت (مدینہ) ایک مستحکم و مضبوط قلعہ اسلام بن کر ابھر آیا۔ ٥۔ اہل قریش اور جنوب کے قبائل عرب کی طرف سے مطمئن ہوجانے کا فائدہ یہ ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شمال اور وسط عرب کی طرف توجہ کی پہلے یہودیوں کا دوسرا قلعہ خیبر مسلمانوں کے قبضے میں آیا، پھر فدک، وادی القریٰ، تیما اور تبوک کی یہودی بستیاں ایک ایک کر کے مسلمانوں کے تابع فرمان ہوگئیں۔ امام شعبی کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صلح حدیبیہ میں وہ کچھ ملا جو کسی غزوہ میں نہیں ملا : ١۔ اللہ نے آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیئے۔ ٢۔ بیعت رضوان صحابہ کرام کے لئے ایک بہت بڑی نعمت تھی۔ ٣۔ مسلمان خیبر کی کھجوروں کے مالک بن گئے۔ ٤۔ قربانی کے جانور حلال ہونے کی جگہ پہنچ گئے۔ ٥۔ اہل روم کو فارس والوں پر غلبہ حاصل ہوا، جس کے سبب مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ امام ابن القیم نے اپنی کتاب ” زاد المعاد“ میں صلح حدیبیہ کی ان عظیم حکمتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ صلح حدیبیہ کی مذکور بالا عظیم فائدوں کی وجہ سے دو سال کے اندر ہی اہل قریش اور دیگر مشرکین کی قوت از خود جواب دے گئی، اور اسلام ایک عظیم قوت بن کر ابھرا آیا، جس کا سب سے پہلا اثر فتح مکہ کی صورت میں ظاہر ہوا۔ الفتح
1 (١) جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، یہاں ” فتح“ سے مراد ” صلح حدیبیہ“ ہے، امام بخاری نے براء بن عازب (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ ” ہم لوگ یوم حدیبیہ کی بیعت رضوان کو فتح کہتے ہیں“ امام احمد ابوداؤ د اور حاکم وغیرہم نے مجمع بن جاریہ انصاری (رض) سے روایت کی ہے کہ جب حدیبیہ سے واپسی کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” کراع الغمیم“ نامی مقام پر (انا فتحنالک فتحامبینا) کی تلاوت کی تو ایک صحابی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ یہ ” فتح“ ہے؟“ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” ہاں ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ ” فتح“ ہے۔ “ اور یہ صلح درحقیقت ” فتح“ کیسے تھی؟ اس کے اسباب و وجوہ اوپر بیان کئے جا چکے ہیں۔ الفتح
2 (٢) صلح کی ظاہری شرطوں کو قبول کرنے کی وجہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بہت زیادہ صبر و ضبط سے کام لینا پڑا، لیکن اس کے نتائج اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بہت ہی مفید ثابت ہوئے، عربوں کی کثیر تعداد نے اسلام کو قبول کرلیا اور اللہ پر ایمان لانے والوں میں خوب اضافہ ہوا۔ یہ تمام عظیع نتائج نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صبر و ضبط کی وجہ سے حاصل ہوئے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے : ١۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیئے، یعنی دعوتی اور جہادی زندگی میں ” ترک اولیٰ“ کی جو کو تاہیاں سر زد ہوئیں ان سب کو اللہ تعالیٰ نے درگذر فرمادیا، مفسرین لکھتے ہیں کہ ” ترک اولیٰ“ کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے گناہ کہا گیا ہے، دوسروں کے لئے یہ چیز گناہ نہیں ہے۔ ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی نعمت تمام کردی، بایں طور کہ اس نے آپ کے دین (دین اسلام) کو عزت دی، آپ کے دشمنوں کو مغلوب بنایا اور اسلامی حکومت کے علاقے دن بدن پھیلتے چلے گئے۔ ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رہنمائی اس دین مبین کی طرف کی جس میں کوئی کجی نہیں ہے۔ مفسر ابوالسعود لکھتے ہیں کہ اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صلح حدیبیہ سے پہلے بھی راہ مستقیم پر گامزن تھے، لیکن اس کے بعد راہ حق کے نشانات زیادہ واضح ہوگئے۔ ٤۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مستقبل میں ایسی فتح و کامرانی کا وعدہ فرمایا، جس کے بعد اسلام قوی سے قوی تر ہوتا چلا گیا، اہل کفر ذلیل و خوار ہوتے گئے، ان کی تعداد اور ان کی قوت گھٹتی گئی اور مسلمانوں کی تعداد بڑھتی ہی گئی اور ان کی اجتماعی اور مالی حالت بھی پہ سے بہتر ہوتی گئی۔ الفتح
3 الفتح
4 (٣) صلح کی شرطوں کی وجہ سے پہلے تو صحابہ کرام میں بڑا اضطراب پیدا ہوا۔ سب سے زیادہ ناراضگی کا اظہار عمر بن خطاب (رض) نے کیا، بالاخر تمام صحابہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات یہ سوچ کر مان لی کہ بہر حال اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننے میں ہی ہر خیر ہے اس کا فوری نتیجہ یہ ہوا کہ تمام صحابہ کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طاعت کا جذبہ پیدا کر کے ان کی بے قراری کا خاتمہ کیا اور اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ایمان میں اضافہ ہوا، جیسا کہ مفسرین نے لکھا ہے کہ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی اور صحابہ اس پر ایمان لاتے تو ان کے ایمان کا درجہ بڑھ جاتا تھا امام بخاری اور دیگر ائمہ کرام نے اسی آیت کریمہ سے ایمان میں زیادتی اور نقصان پر استدلال کیا ہے۔ آیت کے دوسرے حصہ میں اللہ تعالیٰ کہ آسمانوں اور زمین میں اس کے بہت سے لشکر ہیں، اس نے بہت سے فرشتے آسمانوں کے لئے اور بہت سے زمین کے لئے پیدا کئے ہیں، ان کے علاوہ کئانات کا ہر ذرہ اللہ کے تابع فرمان ہے، ان لشکروں کے ذریعہ جب چاہے کافروں کو نیست و نابود کر دے، لیکن اس نے جہاد و قتال کو اپنے مومن پر اپنی جانی سمجھی حکمتوں کی وجہ سے فرض کیا ہے، جنہیں وہی بہتر جانتا ہے۔ الفتح
5 (٤) ان حکمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ طاعت و بندگی اور صبر و جہاد کے ثواب کے طور پر اللہ تعالیٰ مومن مردوں اور عورتوں کو ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، ان میں وہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے اور ان کے گناہوں کو معاف کر دے گا اور اللہ کے نزدیک یہی سب سے بڑی کامیابی ہے، کیونکہ دخول جنت کے بعد ہر غم دور ہوجائے گا اور ہر خوشی حاصل ہوجائے گی۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ گناہوں کی معافی سے پہلے دخول جنت کی بشارت، اہل جنت کے دلوں کو جلد از جلد خوشی پہچانے کی غرض سے دی گئی ہے۔ بخاری و مسلم نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ حدیبیہ سے واپسی کے وقت، جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی : (لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذبک وما تاخر) ” تاکہ اللہ آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دے“ تو صحابہ کرام نے کہا، اے اللہ کے رسول ! مبارک ہو، اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کا انجام بتا دیا، لیکن ہمارا کیا ہوگا، تو آیت (٥) (لیدخل المومنین و المومنات جنات تجری من تحتھا الانھار) سے (فوزا عظیماً) تک نازل ہوئی، انتہی یعنی مسلمانوں کو بھی ان کا انجام بتا دیا گیا کہ وہ ایسی جنتوں میں داخل ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی۔ الفتح
6 (٥) جہاد اسلامی کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ منافق مردوں اور عورتوں کو اور مشرک مردوں اور عورتوں کو عذاب دینا چاہتا ہے، جنہوں نے اللہ سے غلط توقع کی کہ وہ اپنے رسول اور مسلمانوں کی مدد نہیں کرے گا۔ اللہ نے فرمایا کہ برا انجام ان کا انتظار کر رہا ہے، اللہ انہیں دنیا میں انواع و اقسام کے عذاب سے دوچار کرے گا، ان پر اس کا غضب نازل ہوگا اور قیامت کے دن انہیں وہ اپنی رحمت سے دور کر دے گا اور اس نے ان کا ٹھکانا جہنم بنا رکھا ہے، جو بہت ہی بری جگہ ہوگی۔ آیت (٧) میں اللہ نے مذکور بالا معنی کی تائید کے طور پر فرمایا کہ آسمانوں اور زمینوں کے لشکر اللہ کے اشارے کے منتظر ہوتے ہیں، اس لئے اس کے قبضہ قدرت سے کون باہر جاسکتا ہے اور جسے وہ سزا دینی چاہے وہ کب اس کی زد میں بچ سکتا ہے، وہ تو زبردست اور ہر چیز پر غالب ہے اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا ہے۔ الفتح
7 الفتح
8 (٦) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ اے میرے نبی ! ہم نے آپ کو اللہ کے لئے وحدانیت اور کمال مطلق کی گواہی دینے والا بنا کر بھیجا ہے، یعنی آپ نے دنیا والوں کے سامنے اس بات کا اعلان کردیا کہ اللہ کی ذات یکتا، ہر عیب سے پاک اور ہر اعتبار سے کامل ہے اور ہم نے آپ کو آپ کی امت کے لئے اس بات کی گواہی دینے والا بنا کر بھیجا ہے کہ آپ نے اپنے رب کا دین ان تک پہنچا دیا اور آپ ایمان اور تقویٰ والوں کو جنت کی بشارت دینے والے اور اہل کفر و معاصی کو عذاب جہنم سے ڈرانے والے ہیں۔ اے مومنو ! ہم نے انہیں اس لئے بھیجا ہے تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اس کے دین کی تائید اور اس کا دفاع کرو ذات باری تعالیٰ کی تعظیم کرو، اس کی وحدانیت کا اقرار کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور صبح و شام اس کی پاکی بیان کرتے رہو۔ الفتح
9 الفتح
10 (٧) یہاں بیعت سے مراد بیعت رضوان ہے یعنی وہ بیعت جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (لقد رضی اللہ عن المومنین اذیباعونک تحت الشجرۃ) ” اللہ مومنوں سے راضی ہوگیا جب وہ آپ کے ہاتھوں پر درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے“ صحابہ کرام نے حدیبیہ کے مقام پر ایک درخت کے نیچے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کی تھی کہ وہ اہل مکہ سے جنگ کریں گے اور کسی بھی حال میں میدان چھوڑ کر راہ فرار اختیار نہیں کریں گے اس بیعت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگرچہ بظاہر مسلمان یہ بیعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر کر رہے ہیں، لیکن درحقیقت یہ معاہدہ اور بیعت اللہ کے ساتھ ہے، بیعت کرتے وقت اللہ کا ہاتھ کے اوپر تھا، انہوں نے جنت کے بدلے اللہ سے اپنی جانوں کا سودا کرلیا ہے، اس لئے اب جو کوئی نقض عہد کرے گا اور کافروں سے جنگ نہیں کرے گا، تو اس کا نقصان اسے ہی پہنچے گا، یعنی اس کا وبال اور اس کی سزا سے مل کر رہے گی، اور جو اللہ سے کئے گئے معاہدہ کی پابندی کرے گا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مل کر کافروں سے جنگ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے اس کا اجر عظیم عطا فرمائے گا، یعنی اسے جنت میں داخل کر دے گا۔ الفتح
11 (٨) اس آیت کریمہ میں مدینہ کے آس پاس رہنے والے دیہاتی قبائل کا حال بیان کیا گیا ہے، جن کے نام غفار، مزینہ، جہینہ، اسلم، اشجمع اور دئل تھے، صلح حدیبیہ کے سال، عمرہ کے لئے مکہ کی طرف روانگی سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بھی اپنے ساتھ چلین کو کہا تھا، لیکن کفار قریش کے ڈر سے یہ لوگ نہیں گئے، ان کا خیال تھا کہ قریش مسلمانوں کا خاتمہ کردیں گے، اور ان میں سے کوئی بھی واپس نہیں آسکے گا ان کی اسی بدنیتی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں اپنے رسول کی صحبت اور بیعت رضوان جیسی یا برکت بیعت اور اس کے فضائل و برکات سے محروم رکھا انہی دیہاتیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے نبی ! جب آپ مدینہ پہنچیں گے تو وہ دیہاتی آپ کے پاس آ کر عذر لنگ پیش کریں گے اور کہیں گے کہ ہم اپنے کاروبار میں لگے رہ گئے اور ہماری عدم موجودگی میں ہمارے بال بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے بھی نہیں تھے، اسی لئے ہم آپ کے ساتھ نہیں جا سکے تھے، آپ ہمارے رب سے ہمارے لئے مغفرت طلب کردیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا نفاق ظاہر کیا اور انہیں جھٹلاتے ہوئے فرمایا کہ وہ اپنی زبانوں سے وہ باتیں کہہ رہے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں، وہ تو شک و نفاق میں مبتلا ہیں اور آپ سے طلب استغفار میں بھی صادق نہیں ہیں اس لئے کہ وہ اپنے کئے پر نادم اور اپنے گناہ سے تائب نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی ان سے کہا کہ اگر اللہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے، یا تمہیں نفع ہی پہنچانا چاہے، تو اسے اس کے ارادوں سے کوئی نہیں روک سکتا ہے یعنی تمہارے نفاق اور کذب بیانی کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طلب مغفرت کا تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور آخر میں دھمکی کے طور پر ان سے کہا کہ اللہ تمہارے کرتوتوں سے خوب واقف ہے اور وہ تمہیں اس کا بدلہ ضرور چکائے گا۔ آیت (١٢) میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی ہی ان سے کہا گیا ہے کہ تم یہ سمجھتے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانان مدینہ میں سے کوئی بھی بچ کر نہ آسکے گا، کفار قریش ہم میں سے ایک ایک کو موت کے گھاٹ اتار دیں گے اور شیطان نے تمہارے دلوں میں اس خیال کو خوب پختہ کردیا کہ اب ہمارا رب ہماری مدد نہیں کرسکے گا اور مسلمانوں میں سے کوئی بھی واپس نہیں لوٹے گا یہی اصل وجہ تھی کہ تم لوگ ہمارے ساتھ نہیں گئے، وہ عذر صحیح نہیں ہے جو تم نے اپنی زبان سے بیان کیا ہے۔ اور تم اپنے اسی نفاق، کذب بیانی اور مسلمانوں کے ساتھ غداری کی وجہ سے اللہ کی ناراضگی اور اپنی ہلاکت و بربادی کے مستحق بن گئے ہو۔ آیت (١٣) میں ان کے اسی انجامبد کی تاکید کے طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لائے گا، ایسے کافروں کی سزا کے لئے ہم نے جہنم کی بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ اور آیت (١٤) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آسمانوں اور زمین کا وہی مالک و حاکم ہے اور وہی ان میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرتا ہے، وہ جسے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اس لئے اے وہ لوگو جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عمرہ کے لئے جانے سے پیچھے رہ گئے تھے، اب بھی موقع ہے کہ اپنے اس گناہ کی اللہ سے معافی مانگو اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طاعت کا عہد کرو، تاکہ وہ تمہارے گناہ معاف کر دے، اس لئے کہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور نہایت مہربان ہے۔ الفتح
12 الفتح
13 الفتح
14 الفتح
15 (٩) جو دیہاتی منافقین، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عمرۃ الحدیبیہ کے لئے جانے سے بہانہ بنا کر پیچھے رہ گئے تھغ، انہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی ہے کہ جب آپ اپنے مخلص صحابہ کرام کے ساتھ خیبر فتح کرنے کے لئے روانہ ہوں گے تو وہ مال غنیمت کی لالچ میں آپ کے ساتھ جانا چاہیں گے، آپ انہیں اپنے ساتھ جانے کی اجازت نہیں دیجیے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے خیبر کے اموال غنیمت کا وعدہ صرف ان صحابہ سے کیا ہے جو حدیبیہ کی صلح کے وقت وہاں موجود تھے، دوسروں کے لئے ان میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ (یریدون ان یبدلوا کلام اللہ) کا مجاہد، قتادہ اور جو یبر وغیرہم نے یہی مفہوم بیان کیا ہے، یعنی یہ دیہاتی منافقین اہل حدیبیہ سے اللہ کے کئے گئے وعدے کو بدل دینا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا، آپ ان سے کہہ دیجیے کہ تم ہمارے ساتھ نہیں جاؤ گے، کیونکہ اللہ نے ہمارے مدینہ واپس آنے سے پہلے ہی ہمیں خبر دے دی ہے کہ خیبر کا مال غنیمت صرف ان کو ملے گا جو عمرۃ الحدیبیہ میں شریک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اللہ نے ان منافقین کے بارے میں بتایا کہ وہ لوگ آپ کی یہ بات سن کر مسلمانوں سے کہنے لگیں گے کہ تم لوگ ہم سے حسد کرتے ہو، اسی لئے ہمیں اپنے ساتھ جانے سے روک رہے ہو، یعنی یہ اللہ کا حکم نہیں ہے، بلکہ تم ہم سے حسد کی وجہ سے ایسی بات کہہ رہے ہو۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فہم دین میں ان کی بے مائگی بیان کی ہے کہ وہ لوگ دین کی تو قطعی کوئی سمجھ نہیں رکھتے ہی، صرف تھوڑی سی سمجھ امور دنیا کی رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے اپنے نفاق پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ الفتح
16 (١٠) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی عمرہ حدیبیہ سے پیچھے رہ جانے والے دیہاتیوں سے کہا کہ عنقریب تمہیں ایک زبردست طاقتور قوم سے جنگ کرنے کے لئے بلایا جائے گا، اس طاقتور قوم کی تعیین میں علمائے تفسیر کے کئی اقوال ہیں، کسی نے فارس، کسی نے روم، کسی نے دونوں، کسی نے ہوازن و ثقیف، اور کسی نے مسلیمہ کذاب کے ماننے والوں کو مراد لیا ہے۔ واحدی نے اکثر مفسرین سے آخری قول نقل کیا ہے، اس لئے کہ یہاں دوہی صورت بتائی گئی ہے، یا تو وہ لوگ اسلام لائیں گے، یا ان کا فیصلہ تلوار کرے گی، ان سے جزیہ نہیں لیا جائے گا اور مسلیمہ کذاب کے ماننے والے ہی وہ لوگ تھے جن سے جزیہ لینا جائز نہیں تھا، اہل فارس اور اہل روم سے تو جزیہ لیا جاسکتا تھا اس لئے کہ وہ لوگ اسلام لانے کے بعد مرتد نہیں ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ تم ان سے قتال کرو گے، الایہ کہ وہ اسلام قبول کرلیں اگر تم اس دعوت جہاد پر لبیک کہو گے اور ان سے قتال کرو گے، تو اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا میں مال غنیمت اور آخرت میں جنت دے گا اور اگر عمرہ حدیبیہ کی طرح اس بار بھی تم جہاد کے لئے جانے سے کتراؤ گے، تو وہ تمہیں درد ناک عذاب دے گا۔ الفتح
17 (١١) مذکورہ بالا و عید سے اللہ تعالیٰ نے جہاد سے معذور لوگوں کو مستثنیٰ قرار دیا اور فرمایا کہ ادھے، لنگڑے اور مریض کے لئے کوئی حرج نہیں اگر وہ جنگ میں شریک نہ ہوں، اندھا دشمن کو دیکھ نہیں سکتا، اس لئے نہ جنگ کرسکتا ہے اور نہ دشمن سے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے اور لنگڑا چلنے کی قدرت نہیں رکھتا ہے، اس لئے وہ جنگی کرو فر سے مجبور ہوتا ہے اور مریض اگرچہ دیکھ سکتا اور کھڑا ہوسکتا ہے، لیکن اپنی بیماری اور کمزوری کی وجہ سے دشمن پر غالب نہیں آسکتا ہے، بلکہ اپنے آپ سے دشمن کے حملے کو روک بھی نہیں سکتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ کیا کہ اگرچہ ایسے مجبور لوگ جہاد میں شریک نہیں ہوں گے، لیکن اگر ان کے دلوں میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا جذبہ کار فرما ہوگا، تو اللہ تعالیٰ انہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور جو اللہ اور اس کے رسول کی طاعت سے روگردانی کرے گا، اللہ اسے درد ناک عذاب دے گا۔ الفتح
18 (١٢) یہی وہ بیعت ہے جو صحابہ کرام نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر حدیبیہ میں ایک دخت کے نیچے کی تھی، اس کا ذکر آیت (١٠) میں بھی آچکا ہے اور وہاں بتایا جا چکا ہے کہ اسے ” بیعت رضوان“ اس لئے کہا جاتا ہے کہ جن صحابہ کرام نے یہ بیعت کی تھی، انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا اور خوشنودی کی خوشخبری دی تھی، وہ خوشخبری اسی آیت (١٨) میں دی گئی ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے خبر دی تھی کہ جن مومنین نے درخت کے نیچے آپ کے ہاتھوں پر بیعت کی ہے ان سے اللہ راضی ہوگیا اس بیعت کی بنیادی شرط یہ تھی کہ کفار قریش سے جنگ کرنے میں ہر شخص اپنی جان کی بازی لگا دے گا اور کسی حال میں بھی میدان چھوڑ کر نہیں بھاگے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب اس نے مومنوں کے دلوں کی صداقت اور ان کے عہد پر قائم رہنے کے عزم صمیم کو جان لیا، تو انہیں صبر و ثبات قدمی اور سکون قلب عطا فرمایا اور ان کے صبر و شکیبائی کے بدلے انہیں اہل مکہ کے غنائم کے بجائے جلد ہی فتح خیبر اور وہاں پائے جانے والے بہت سے نائم کی خوشخبری دی اس زمانے میں خیبر کی سر زمین بہت ہی زرخیز مانی جاتی تھی، اور وہاں کے یہودیوں کے پاس بڑی دولت تھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انت مام پھلوں، زمینوں اور مال و دولت کو بیعت رضوان میں شریک ہونے والے صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کردیا۔ اس بیعت کا سبب یہ تھا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عثمان بن عفان (رض) کو اہل قریش کے پاس اپنا ایلچی بنا کر بھیجا، تاکہ وہ انہیں اس بات کا یقین دلائیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کے لئے آئے ہیں، اس کے علاوہ آپ کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ عثمان جب پیغام رسانی سے فارغ ہوئے تو اہل مکہ نے ان سے کہا کہ اگر تم چاہو تو خانہ کعبہ کا طواف کرلو، انہو نے کہا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے طواف نہیں کروں گا۔ اس بات پر وہ لوگ چراغ پا ہوگئے اور عثمان کو واپس جانے سے روک دیا ادھر مسلمانوں میں یہ خبر پھیل گئی کہ عثمان قتل کردیئے گئے، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب تک ہم مکہ والوں سے بدلہ نہیں لیں گے، یہاں سے واپس نہیں جائیں گے اور مسلمانوں کی سو رکی بازی لگانے کے لئے اپنے ہاتھ پر بیعت کرنے کا حکم دیا۔ الفتح
19 الفتح
20 (١٣) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کرنے والے اپنے مومن بندوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ قیامت تک کافروں کے علاقے فتح کرتے رہیں گے، جس کے سبب بہت سارے اموال غنیمت انہیں حاصل ہوتے رہیں گے، انہی میں سے وہ اموال غنیمت بھی ہیں جو اللہ نے جلدی ہی خیبر میں انہیں عطا کئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر یہ بھی احسان کیا کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام حدیبیہ میں تھے، اس وقت یہود مدینہ نے یہود خیبر کے ساتھ مل کر سازش کی کہ وہ مسلمانوں کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سب مل کر یکبارگی مدینہ پر حملہ کردیں گے اور صحابہ کرام کے بال بچوں کو قتل کردیں گے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ وہ اپنی سازش کو بروئے کار نہ لا سکے۔ اور حصول مال غنیمت اور اللہ کی جانب سے یہودیوں کے دلوں میں رعب ڈال کر انہیں مدینہ پر حملہ کرنے سے باز رکھنا اس لئے ہوا تاکہ مسلمان جان لیں کہ اللہ کے نزدیک ان کا بڑا مقام ہے اور وہ ان کی مدد ضرور کرے گا اور انہیں ضرور فتح و کامرانی ملے گی اور ایسا اس لئے بھی ہوا تاکہ مسلمانوں کے یقین و بصیرت میں اضافہ ہو اور اللہ کے فضل و کرم پر ان کا اعتماد زیادہ سے زیادہ بڑھ جائے۔ آیت (٢١) میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو غنائم خیبر کے علاوہ دوسرے ایسے غنائم بھی جلدی ہی دیئے، جنہیں پانے کی ان کے اندر طاقت نہیں تھی، اللہ نے ہر طرف سے ان غنائم کو گھیر رکھا، یہاں تک کہ مسلمانوں نے جہاد کر کے اس علاقے پر قبضہ کیا، اور وہاں پائے جانے والے اموال غنیمت پر قابض ہوگئے۔ (واخری لم تقدروا علیھا) سے کس جگہ کے اموال غنیمت مراد ہیں، اس بارے میں علمائے تفسیر کا اختلاف ہے، ابن عباس، مجاہد حسن اور مقاتل نے اس سے وہ تمام فتوحات مراد لئے ہیں جو اللہ نے مسلمانوں کو صلح حدیبیہ کے بعد عطا کئے، ان میں فارس اور روم کے علاقے بھی شامل ہیں، صحاک وغیرہ کا خیال ہے کہ اس سے مراد ” فتح خیبر“ ہے اور قتادہ اور ابن جریر کہتے ہیں کہ اس سے مراد ” فتح مکہ“ ہے اور عکرمہ کے نزدیک اس سے مراد ” حنین“ ہے۔ شوکانی نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے۔ الفتح
21 الفتح
22 (١٤) یہاں اللہ تعالیٰ نے بیعت رضوان والوں کو بشارت دی ہے کہ اگر مشرکین مکہ حدیبیہ کے مقام پر ان سے جنگ کرتے تو ان کو منہ کی کھانی پڑتی، اور پیٹھ پھیر کر بھگاتے اور کوئی ان کا یارومددگار نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہی سنت رہی ہے کہ اس نے اپنے مومن بندوں کی کافروں کے خلاف مدد کی ہے۔ حق کو سربلندی عطا کی ہے اور باطل کو سرنگوں کیا ہے۔ الفتح
23 الفتح
24 (١٥) مسلم، ابوداؤد، ترمذی اور نسائی وغیرہم نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ حدیبیہ کے دن مکہ کے اسی (٨٠) آدمی ہتھیار کے ساتھ جبل تنعیم کی طرف سے اچانک آدھمکے، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نقصان پہنچانا چاہا، لیکن وہ پکڑ لئے گئے، بعد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں معاف کر کے آزاد کردیا۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اسی واقعہ کی طرف اشارہ کر کے مسلمانوں پر احسان جتایا ہے کہ اس نے مشرکوں کو تمہیں ایذا پہنچانے سے باز رکھا، اور تمہیں ان سے مسجد حرام کے پاس جنگ کرنے سے روکا اور صلح کے لئے حالات ساز گار کئے جو نتائج کے اعتبار سے مسلمانوں کیلئے بہت ہی مفید رہی۔ الفتح
25 (١٦) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کفار قریش اور دیگر مشرکین عرب کی مذمت بیان کر کے مسلمانوں کو ان سے جنگ کرنے پر آمادہ کیا ہے، فرمایا کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے باری تعالیٰ کی توحید اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کیا ہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو مسجد حرام تک جانے اور عمرہ کرنے سے روک دیا ہے اور قرباین کے ستر (٧٠) اونٹ جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ سے لے کر گئے تھے، انہیں بھی حدود حرم کے اندر جانے سے روک دیا ہے۔ کفار و مشرکین کے یہ جرائم اس کے متقاضی ہیں کہ ان سے جنگ کی جائے، لیکن مانع یہ ہے کہ مکہ میں مشرکین کے درمیان کچھ مومن مرد اور عورتیں ہیں، جن کے قتل کئے جانے کا ڈر ہے۔ اگر وہ مومن مرد اور عورتیں وہاں نہ ہوتیں جن کا مجاہدین مدینہ کو پتہ نہیں، اور جن کے بارے میں ڈر ہے کہ جنگ ہونے کی صورت میں کافروں کے ساتھ وہ بھی قتل کردیئے جائیں گے اور نادانی میں مسلمانوں سے گناہ سر زد ہوجائے گا کفارہ دینا پڑے گا اور کفار کہنے لگیں کہ مسلمانوں نے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو قتل کردیا، اگر اس کا ڈر نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہو کر جنگ کرنے کی اجازت دے دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جنگ کی اجازت اس لئے نہیں دی تاکہ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اپنی رحمت سے نواز دے، مجاہدین مدینہ کو ننگ و عار سے اور مکہ میں چھپے مسلمانوں کو قتل ہونے سے بچا لے اور جو مشرکین مکہ اسلام میں داخل ہونا چاہیں انہیں کفر کے بعد ایمان سے اور لالت کے بعد ہدایت سے نواز دے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر مکہ میں پائے جانے والے مومن مرد اور عورتیں مشرکین سے الگ ہوتے، تو ہم مجاہدین مدنیہ کو مکہ میں داخل ہو کر کفار سے جنگ کرنے کی اجازت دے دیتے اور کافروں کو ان کے ہاتھوں درد ناک عذاب دلواتے، یعنی قتل کئے جاتے اور جو زندہ رہ جاتے وہ قید کر لئے جاتے۔ الفتح
26 (١٧) اگر مکہ کے میں مومنین نہ ہوتے، یا مشرکین سے الگ تھلگ ہوتے، تو اللہ تعالیٰ مجاہدین مدینہ کو اہل مکہ سے جنگ کرنے کی اجازت اس لئے دے دیتا کہ ان کافروں نے مسلمانوں کے خلاف جاہلیت کی حمیت کو اپنے دلوں میں ابھارا، وثیقہ صلح پر بسم اللہ الرحمٰن الرحمیم اور حمد رسول اللہ لکھنے سے انکار کیا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سال خانہ کعبہ تک پہنچنے سے روکا اور کہا کہ ” ان مسلمانوں نے ہمارے بھائیوں اور بیٹوں کو قتل کیا ہے، اور اب ہمارے گھروں میں داخل ہونا چاہتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو قبائل عرب کہیں گے کہ مسلمان اہل مکہ کے گھروں میں زبردستی داخل ہوگئے، لات و عزیٰ کی قسم ! ہم انہیں مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ “ لیکن ان کی تمام شرپسندوں کے باوجود، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور مومنوں کے دلوں کو سکون و اطمینان عطا کیا، اسی لیے انہوں نے مشرکین سے جنگ کرنے کی نہیں سوچی، اللہ کے فیصلے پر صبر کیا اور صلح کی شروط کی پابندی کی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ وہ کلمہ تقویٰ(لا الہ الا اللہ) کو اپنا لیں، تاکہ اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بنانے سے باز رہیں اور مومنوں کی تعریف کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ وہ اس کلمہ توحید کے زیادہ حقدارتھے اور دین اسلام اور صحبت رسول کی وجہ سے وہی اس نعمت عظمیٰ کے اہل تھے اور چونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے اس لئے وہ خوب جانتا ہے کہ اس نعمت کا حقدار کون ہے۔ الفتح
27 (١٨) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ میں ٦ ھ میں خواب دیکھا کہ آپ اپنے صحابہ کرام کے ساتھ مکہ میں داخل ہوں گے اور خانہ کعبہ کا طواف کریں گے، چنانچہ آپ نے صحابہ کرام کے ساتھ عمرہ کرنے کا اعلان کردیا اور راستہ میں انہیں اپنے خواب کی اطلاع دی تو تمام صحابہ بہت خوش ہوئے، لیکن جب مکہ میں داخل نہیں ہوئے اور صلح کی تلخ شرطیں قبول کر کے مدینہ واپس ہونے لگے تو انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ آپ نے جو خواب دیکھا تھا، اس کی تعبیر کیا ہے؟ اور منافقین کہنے لگے کہ ہم نے نہ بال منڈایانہ نہ کٹوایا اور نہ مسجد حرام میں داخل ہوئے، آخر یہ کیسا عمرہ ہے؟! انہی حالات میں حدیبیہ سے واپس آتے ہوئے یہ پوری سورت نازل ہوئی، اور یہ آیت نازل ہوئی، جس میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ وہ اپنے رسول کا خواب یقیناً سچ کر دکھلائے گا، ان کا خواب برحق ہے، مسلمانو ! تم لوگ اگر اللہ چاہے گا، تو ضرور مسجد حرام میں داخل ہو گے، درانحالیکہ تم ہر خوف و خطر سے دور ہو گے اور عمرہ کر کے اپنے سر کے بال یا تو منڈواؤ گے یا کٹاؤ گے، تمہیں کسی قسم کا ڈر لاحق نہیں ہوگا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ وہ کچھ جانتا ہے جو تم نہیں جانتے ہو (یعنی مکہ میں مسلمان مردوں اور عورتوں کا پایا جانا اور جنگ ہونے کی صورت میں ان کے قتل کئے جانے کا خطرہ) اسی لئے اس نے اس سال تمہیں مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا ہے اور خواب کے مطابق دخول مکہ سے پہلے، صلح حدیبیہ کے لئے حالات سازگار کئے جو درحقیقت نتائج کے اعتبار سے مسلمانوں کے لئے عظیم فتح کے مترادف ہے۔ بعض لوگوں نے یہاں (فتحاقریباً) سے ” فتح خیبر“ مراد لیا ہے، لیکن اکثر لوگوں کی رائے یہی ہے کہ اس سے مرادن ” صلح حدیبیہ“ ہے۔ حافظ ابن کثیرلکھتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خواب ذی القعدہ ٧ٌ میں عمرۃ القضاء کی صورت میں پورا ہوا، ذی القعدہ ٦ ھ میں حدیبیہ سے واپسی کے بعد، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذی الحجہ اور محرم دو ماہ مدینہ میں قیام کیا، صفر میں خیبر کو فتح کیا اور ذی القعدہ ٧ ھ میں عمرہ کی نیت سے مکہ کے لئے روانہ ہوئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ وہی صحابہ کرام تھے جو بیعت رضوان میں شریک ہوئے تھے اور اس بار آپ اپنے ساتھ قربانی کے ساٹھ (٦٠) اونٹ لے گئے تھے مکہ پہنچنے کے بعد آپ نے صحابہ کے ساتھ عمرہ ادا کیا، جس کی تفصیل سیرت و تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ الفتح
28 (١٩) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام اور عام مسلمانوں کو بشارت دی گئی ہے کہ اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت و گمراہی کے درمیان فرق کرنے کے لئے علم نافع اور دین اسلام دے کر بھیجا ہے، جو دین برحق ہے اس کا وعدہ ہے کہ ہو اس دین کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب اور بنلد کرے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ دین اسلام پوری دنیا میں چھا گیا اور دیگر باطل ادیان کمزور ہوتے چلے گئے۔ ابن جریر طبری نے (لیظھرہ علی الدین کلہ) کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ اس وقت ہوگا جب عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے اتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے اس وقت تمام ادیان باطل ہوجائیں گے اور ہر طرف اسلام کا غلغلہ ہوجائے گا۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ اس پر شاہد ہے کہ وہ دین اسلام کو دیگر تمام ادیان پر غالب کرے گا اور اس بات پر بھی وہ شاہد ہے کہ محمد اس کے سچے رسول ہیں اور وہ ان کی ضرور مدد کرے گا۔ ابن جریر نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو خبر دی ہے کہ وہ مکہ اور دیگر شہروں اور علاقوں کو ان کے زیر نگیں کر دے گا، تاکہ حدیبیہ سے بغیر عمرہ کئے واپس ہونے کی وجہ سے ان کے دلوں پر حزن و ملال کا جو بوجھ ہے وہ ہلکا ہوجائے۔ الفتح
29 (٢٠) اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے گواہیدی ہے کہ اسی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اسی کی مزید تاکید کے طور پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، اور آپ کے لئے یہ گواہی دینا گویا آپ کے لئے ہر وصف جمیل کی گواہی ہے، اس لئے کہ اللہ کے رسول تمام اخلاق کریمہ اور صفات سے متصف ہوتے ہیں۔ پھر آپ کے صحابہ کرام کی تعریف کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ وہ کافروں کے لئے ایسے ہی سخت ہوتے ہیں جیسے شیر اپنے شکار کے لئے سخت ہوتا ہے اور آپس میں ایک دوسرے کے لئے نہایت ہی رحم دل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی تعریف میں سورۃ المائدہ آیت (٥٤) میں فرمایا ہے : (اذلۃ علی المومنین اعزۃ علی الکافرین) ” وہ مومنوں کے لئے مانند ! بریشم نرم وتے ہیں اور کافروں کے لئے سخت ہوتے ہیں۔ “ مخلوق کے ساتھ ان کا معاملہ ایسا ہوتا ہے اور خالق کے ساتھ ان کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب کی جنت اور اس کی خوشنودی کے لئے کثرت سے نماز پڑھتے ہیں اور اللہ کے ان نیک بندوں کی نشانی، کثرت سجود اور کثرت تہجد و نوافل کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر پائی جاتی ہے اور صحابہ کرام کی یہ نشانی انجیل اور تورات میں بھی پائی جاتی ہے۔ (ومثلھم فی الانجیل کزرع اخرج شطاء) کے اعراب کے بارے میں دورائے ہے : ١۔ (مثلھم فی الانجیل) مبتدا ہے، اور ” کزرع“ اس کی خبر ہے اور معنی یہ ہے کہ انجیل میں ان کی مثال پودے کی ہے الخ ٢۔ (مثلھم فی الانجیل) (مثلھم فی التوراۃ) پر معطوف ہے اور ” کزرع“ مبتدا محذوف کی خبر ہے، جس کی تقدیر ” ھم کزرع“ ہے اور معنی یہ ہے کہ صحابہ کی مثال اس پودے کی ہے جو زمین سے اپنی کونپل نکالتا ہے، پھر وہ بڑھ کر دخرت بن جاتا ہے، پھر درخت موٹا ہوجاتا ہے، پھر وہ اپنے تنے پر کھڑا ہوجاتا ہے، جسے دیکھ کر کاشتکار خوش ہوتا ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس مثال کے ذریعہ صحابہ کرام کی حالت بیان کی ہے کہ ابتدا میں ان کی تعداد کم ہوگی، پھر ان کی تعداد بڑھتی جائے گی، اور وہ پودے کے مانند قوی سے قوی تر ہوتے جائیں گے اور ایسا اس لئے ہوگا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی کثرت و قوت کے ذریعہ کافروں کے غیظ و غضب میں اضافہ کرے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ نے اپنے ان نیک بندوں سے جنہیں صحابہ رسول کہا جاتا ہے اور جن کے لئے اللہ نے ایمان اور علم صالح کی گواہی دی ہے، وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کے گناہوں کو معاف کر دے گا اور انہیں اجر عظیم یعنی جنت عطا فرمائے گا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ امام مالک نے (لیغیظ بھم الکفار) ” تاکہ اللہ ان کے ذریعہ کافروں کے غیظ و غضب میں اضافہ کرے“ کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان روافض کی تکفیر کی ہے جو صحابہ کرام سے بغض رکھتے ہیں اور کہا ہے کہ روافض صحابہ سے بغض رکھتے ہیں اور جو صحابہ سے بغض رکھے گا وہ اس آیت کے مطابق کافر ہوگا امام مالک کی اس رائے سے علماء کی ایک جماعت نے اتفاق کیا ہے۔ وباللہ التوفیق الفتح
0 سورۃ الحجرات مدنی ہے، اس میں اٹھارہ آیتیں اور دو رکوع ہیں تفسیر سورۃ الحجرات نام : آیت (٤) (ان الذین ینادونک من وراء الحجرات اکثرھم لایعقلون) سے ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی لکھتے ہیں کہ یہ سورت تمام کے نزدیک مدنی ہے۔ ابن عباس (رض) سے بھی یہی مروی ہے، اس کے مضامین کا تتبع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عہد مدنی کے آخری دور میں نازل ہوئی تھی اور یہ کہ پوری سورت ایک ہی وقت نازل نہیں ہوئی، بلکہ اس کی آیتیں مختلف اوقات میں نازل ہوئیں جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جگہ جمع کردیا ہے اس کا سب سے اہم مضمون ان آداب کی تعلیم ہے، جن کا ہر مسلمان کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ معاملہ کرتے وقت لحاظ رکھنا ضروری ہے، تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں ان سے گستاخی نہ ہوجائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان سے کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ الحجرات
1 (١) بخاری نے عبداللہ الزبیر (رض) سے روایت کی ہے کہ بنی تمیم کے کچھ سوار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے، ابوبکر (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ ان کا امیر قعقاع بن معبد کو بنائیے، اور عمر (رض) نے کہا : اقرع بن حابس کو بنائیے، ابوبکر (رض) نے کہا : تمہارا مقصد صرف میری مخالفت کرنی ہے۔ عمر (رض) نے کہا : میرا مقصد آپ کی مخالفت کرنی نہیں ہے۔ دونوں کے درمیان بات بڑھ گئی اور دونوں کی آواز اونچی ہوگئی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ وہ عجلت میں آ کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کؤی بات کہیں، یا کوئی کام کریں، یا اللہ اور اس کے رسول کا حکم جاننے سے پہلے کوئی اقدام کریں۔ حافظ ابن کثیر نے آیت کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ مسلمانو ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کوئی کام کرنے میں جلدی نہ کرو، بلکہ تمام امور میں ان کی پیروی کروخ ابن جریر نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ اے وہ لوگو جنہوں نے اللہ کی وحدانیت اور اس کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا اقرار کیا ہے تم اپنے کسی جنگی یا دینی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے سے پہلے خود کوئی فیصلہ نہ کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی مرضی کے خلاف فیصلہ کرلو عرب کہا کرتے ہیں ” فلان یتقدم بین یدی امامہ“ یعنی فلاں شخص امام سے پہلے امر اور نہی صادر کرنے لگتا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مومنو ! اپنے تمام معاملات میں اللہ سے ڈرتے رہ۔ ان معاملات میں یہ بھی داخل ہے کہ اللہ اور اس کے رسول سے پہلے نہ کوئی کام کیا جائے نہ کوئی بات کہی جائے اور نہ ان کے فیصلے سے پہلے کوئی فیصلہ کیا جائے۔ الحجرات
2 (٢) اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو یہ ادب سکھایا گیا ہے کہ جب وہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں ہوں تو اتنی اونچی آواز سے نہ بولیں کہ ان کی آواز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے بلند ہوجائے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح نہ پکاریں جس طرح وہ آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہیں بلکہ نہایت مؤدبانہ طور پر دھیمی آواز میں اس طرح پکاریں جس طرح نہایت معظم و محترم اور صاحب ہیبت انسان کو پکارا جاسکتا ہے، اس لئے کہ آپ کی شان میں ادنیٰ گستاخی اللہ کے نزدیک گناہ عظیم ہے اور ایسا کرنے والے کے سارے نیک اعمال غیر شعوری طور پر ضائع ہو سکتے ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد اس آیت کے پیش نظر، مسلمانوں پر واجب ہے کہ جب بھی آپ کا ذکر جمیل آئے، یا آپ کا کوئی حکم یا کوئی حدیث بیان کی جائے تو ادب و احترام محلوظ رکھا جائے، آپ کی شان میں ادنیٰ گستاخی بھی نہ ہونے پائے، آپ کی حدیث پر کسی دوسرے کے قول کو مقدم نہ کیا جائے، چاہے وہ دنیا کا کوئی بھی انسان ہو۔ حاکم نے صحیح سند کے ساتھ ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ابوبکررضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول، اس ذات کی قسم ! جس نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے، میں جب تک زندہ رہوں گا آپ سے سرگوشی کے ادناز میں بات کروں گا حاکم نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ یہ امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے اور حافظ ذہبی نے ان کی تائید کی ہے اور بخاری و مسلم نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو ثابت بن قیس بن شماس نے کہا : جن کی آواز اونچی تھی کہ میری ہی آواز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز سے اونچی ہوتی ھی، میرے اعمال برباد ہوگئے، اور میں اہل جہنم میں سے ہوں، اور محزون و مغموم اپنے گھر میں جا کر بیٹھ گئے صحابہ کرام نے جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے حال کی خبر دی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں وہ تو اہل جنت میں سے ہیں، چنانچہ وہ یمامہ میں مرتد ہونے والوں کے خلاف جنگ کرتے ہوئے مارے گئے۔ الحجرات
3 (٣) اس آیت کریمہ میں ان صحابہ کرام کی تعریف بیان کی گئی ہے جو مذکور بالا حکم پر عمل کرتے ہوئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حضور نہایت دھیمی آواز میں بات کرتے تھے، جیسے ابوبکر و عمر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے ان صحابہ کرام کے دلوں کو تقویٰ اور نیک کاموں کے لئے اس طرح پاک و صاف کردیا ہے، جس طرح آگ کے ذریعہ سونا زنگ سے صاف کردیا جاتا ہے اور اس ان کے لئے خوشخبری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف کر دے گا اور انہیں اجر عظیم یعنی جنت عطا فرمائے گا۔ الحجرات
4 (٤) اس آیت کریمہ میں بنی تمیم کے ان سخت دل اور بد اخلاق افراد کی برائی بیان کی گئی ہے۔ جنہوں نے امہات المومنین کے کمروں کے پاس آ کر زور زور سے یا محمد ! یا محمد ! کی آواز لگائی تھی۔ محمد بن اسحاق نے ٩ ھ کے واقعات میں لکھا ہے کہ فتح مکہ، فتح تبوک، اور بنو ثقیف کے مسلمان ہوجانے کے بعد، ہر چہار جانب سے قبائل عرب کے فود آنے لگے، انہی میں ایک وفد بنی تمیم کا تھا ان لوگوں نے مسجد میں داخل ہوتے ہی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کمروں کے باہر سے پکارنا شروع کیا اور کہا : اے محمد ! باہر نکل کر ہمارے پاس آؤ، ان کی چیخ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف ہوئی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہرتشریف لائے انب اسحاق نے ان سے متعق طویل روایت نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ انہی کے بارے میں قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ مسند احمد کی صحیح روایت میں ہے کہ پکارنے والے کا نام ” اقرع بن حابس“ تھا حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ یہ آیت اقرع بن حابس تمیمی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ آپ (٥) میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہایت با ادب رہنے کی تعلیم دینے کے لیے فرمایا کہ اگر وہ لوگ صبر کرتے اور ادب کے ساتھ مسجد میں بیٹھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکلنے کا اتنظار کرلیتے تو ان کے لئے دنیاوی اور اخروی دونوں اعتبار سے بہت بہتر ہوتا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : علماء کا قول ہے کہ جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں آپ کے حضور اونچی آوا زسے بات کرنے کی ممانعت تھی، اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر کے پاس آواز بلند کرنا ممنوع ہے، اس لئے کہ آپ جس طرح زندگی میں واجب الاحترام تھے، مرنے کے بعد اپنی قبر میں بھی واجب الاحترام ہیں۔ امیر المومنین عمر بن خطاب (رض) کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے مسجد نبوی میں دو آدمی کو اونچی آواز سے بات کرتے سنا، تو ان پر کنکری پھینک کر اپنی طرف متوجہ کیا اور پوچھا کہ تم دونوں کہا کے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم طائف کے ہیں، تو عمر (رض) نے کہا کہ اگر تم مدینہ کے ہوتے تو تمہاری پٹائی کردیتا۔ الحجرات
5 الحجرات
6 (٥) حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابی مغیط کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی المصطلق کے صدقات وصول کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ اس واقعہ کو امام احمد، ابن ابی حاتم، طبرانی، ابن مندہ اور ابن مردویہ نے (سیوطی کے قول کے مطابق) سند جید کے ساتھ حارث بن ضرار خزاعی سے روایت کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حارث خزاعی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر اسلام قبول کرلیا اور آپ سے کہا کہ میں اپنی قوم کے مسلمانوں کی زکاۃ جمع کر کے رکھوں گا اور آپ کا نمائندہ آ کر مجھ سے وہ مال وصول کرلے گا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ولید بن عقبہ بن ابی معیط کو اس کام کے لئے بھیجا، لیکن وہ بنو خزاعہ کے ڈر سے راستہ سے ہی واپس آگیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہہ دیا کہ حارث نے زکاۃ دینے سے انکار کردیا اور مجھے قتل کرنا چاہا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ لوگوں کو حارث کی طرف بھیجا ادھر حارث نے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایلچی کی آمد میں تاخیر محسوس کی، تو کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملنے کے لئے روانہ ہوگئے، راستہ میں دونوں جماعتوں کی مڈ بھیڑ ہوئی تو حقیقت حال معلوم ہوئی اور حارث نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا کہ ولید بن عقبہ میرے پاس نہیں آیا تھا، تو اس کی کذب بیانی کا حال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوا اور اسی موقع سے یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن قتیبہ نے اپنی کتاب ” المعارف“ میں لکھا ہے کہ ولید بن عقبہ بن ابی معیط، عثمان بن عفان (رض) کا سوتیلا بھائی تھا، دونوں کی ماں اروی بنت کریز تھی، فتح مکہ کے دن اسلام لایا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بنی المطلق کی زکاۃ لانے کے لئے بھیجا تھا، لیکن وہ راستہ سے ہی سے واپس آگیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہہ دیا کہ انہوں نے زکاۃ دینے سے انکار کردیا ہے، وہ جھوٹا تھا اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں مومنوں کو نصیحت کی ہے کہ جب کوئی فاسق معصیت کبیرہ کا مرتکب، کوئی اہم خبر لے کر آئے تو جلدی نہ کرو اور کوئی قدم اٹھانے یس پہلے اس کی پوری تحقیق کرلو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم عجلت اور نادانی میں کسی قوم کی جان و مال کو نقصان پہنچا دو اور حقیقت کا پتہ چلنے کے بعدت مہیں ندامت اٹھانی پڑے۔ یہ آیت دلیل ہے کہ فاسق کی خبر رد کردی جائے گی اور خبر دینے والا چاہے رواوی ہو، شاہد ہو، یا مفتی ہو، اس کا ثقہ اور عدل ہونا ضروری ہے اور اگر وہ ثقہ اور عدل ہے تو اس کی روایت قبول کی جائے گی، اگرچہ وہ اکیلا راوی ہے۔ الحجرات
7 (٦) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو تنبیہہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والو ! تم یہ نہ بھولو کہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول بھی رہتے ہیں، اگر تم جھوٹ بولو گے، افترا پردازی کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری حقیقت حال سے انہیں باخبر کر دے گا۔ اور تم یہ بھی جان لو کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام معاملات میں تمہاری رائے قبول کرتے اور تمہاری ہر بات مان لیتے تو بہت سے امور میں تم اپنی طاقت سے بھاری مشقتوں میں پڑجاتے اور بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کر بیٹھتے، اس لئے کہ تمہاری بہت سی رائیں غلط ہوتیں جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مان کر ان پر عمل کرتے اور بڑی بڑی غلطیاں کرتے، جیسا کہ بنی المصطلق کے بارے میں ولید بن عقبہ کی جھوٹی بات مان لینے کی وجہ سے خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے خلاف فوج کشی کر کے انہیں قتل کردیتے اور ناحق ان کے مال پر قبضہ کرلیتے، اسی لئے وہ تمہاری کسی رائے پر اس وقت تک عمل نہیں کرتے جب تک اس پر غور نہیں کرلیتے ہیں۔ اور تم پر اللہ تعالیٰ نے یہ احسان کیا کہ تمہارے دلوں میں ایمان کو راسخ کردیا ہے اور اس میں کفر باللہ، کذب بیانی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کی نفرت بیٹھا دی ے، جس کی برکت سے تم بہت سی مشقتوں سے نجات پا جاتے ہو۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے بارے میں شہادت دی کہ درحقیقت یہی لوگ راہ حق پر چلنے والے، اور اس پر شدت کے ساتھ قائم رہنے والے ہیں۔ آیت (٨) میں یہ بات کہی گئی ہے کہ صحابہ کرام پر محض اللہ کا فضل و کرم تھا کہ اس نے ان کے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دی اور کفر و معصیت کی نفرت پیدا کردی اور اللہ خوب جانتا ہے کہ کون اچھا عمل کرتا ہے اور کون برا اور اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ الحجرات
8 الحجرات
9 (٧) اس آیت کے شان نزول کے بارے میں بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بعض صحابہ نے عبداللہ بن ابی بن سلول کے پاس اس کی دل دہی کے لئے جانے کا مشورہ دیا، چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک گدھے پر سوار ہو کر روانہ ہوئے اور صحابہ کرام پیدل چل پڑے، ادھر کی زمین نمک والی تھی اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھ کر کہا کہ دور ہی رہو، تمہایر گدھے کی بو سے مجھے تکلیف ہو رہی ہے، تو ایک انصاری نے کہا کہ اللہ کی قسم ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گدھے کی بو تمہارے جسم کی بو سے زیادہ اچھی ہے، اس بات پر عبد اللہ بن ابی کی قوم کے چند افراد نارضا ہوگئے۔ ادھر صحابہ کرام بھی نارضا ہوگئے اور دونوں طرف سے کھجور کی شاخوں، ہاتھوں اور جوتوں کے ذریعہ ایک دوسرے پر حملہ ہونے لگا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کی دو جماعت آپس میں قتال کرنے لگے، تو مسلمانوں کو چاہئے کہ ان دونوں جماعتوں کو اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ قبول کرنے کی دعوت دیں۔ اگر قبول کرلیں تو یہی مطلوب ہے اور اگر ایک جماعت اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دے، تو مسلمان اس باغی جماعت سے قتال کریں، یہاں تک کہ وہ قرآن میں مذکور اللہ کا حکم قبول کرنے پر راضی ہوجائے۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کو چاہئے کہ ان کے درمیان عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ کردیں، یعنی اللہ کے اس حکم کے مطابق جو اس کی کتاب میں مذکور ہے اور جو عین عدل ہے، مزید تاکید کے طور پر اللہ نے فرمایا کہ مومنو ! تمہارا ہر فیصلہ انصاف پر مبنی ہونا چاہئے۔ بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور اس محبت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ انہیں بہترین بدلہ دے گا۔ علمائے تفسیر نے اس آیت کریمہ سے مندرجہ ذیل مسائل مستنبط کئے ہیں : ١۔ مسلمانوں کی جماعتوں کے درمیان صلح کرانا واجب ہے۔ ٢۔ باغی جماعت سے قتال کرنا واجب ہے، اور یہ حکم اہل مکہ اور دیگر تمام مسلمانوں کو شامل ہے۔ ٣۔ جو شخص باغی جماعت سے الگ ہوجائے گا، اس سے قتال نہیں کیا جائے گا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے (حتی تقی) کہا ہے، یعنی جب باغی جماعت بغاوت سے باز آجائے گی تو اس سے قتال نہیں کیا جائے گا۔ ٤۔ پیچھے ہٹ جانے والے اور زخمی کا قتل کرنا حرام ہے۔ ٥۔ نہ ان کا مال، مال غنیمت ہوگا اور نہ ان کی اولاد کو غلام بنایا جائے گا، اس لئے کہ بغاوت کی وجہ سے وہ کافر نہیں ہوگئے تھے۔ ٦۔ اگر حالت جنگ میں ان کا مال لے لیا گیا تھا، تو اسے واپس کردیا جائے گا اور اگر انہوں نے فریق مقابل کی جان یا مال کو نقصان پہنچایا تھا تو وہ اس کے ضامن نہیں ہوں گے۔ ٧۔ اگر کوئی باغی مارا جائے گا تو اسے نہلایا جائے گا، کفن پہنایا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ ٨۔ اگر انصاف پر قائم جماعت کا کوئی فرد مارا جائے گا، تو وہ شہید ہوگا، نہ اسے نہلایا جائے گا اور نہ اس پر نماز پڑھی جائے گی۔ ٩۔ اگر دو جماعتوں کے درمیان نسلی یا قومی عصیبت یا طلب حکومت کی وجہ سے جنگ ہوگی تو دونوں ہی جماعتیں ظالم ہوں گی، اور ہر دو جماعت ایک دوسرے کے خسارے کی ضامن ہوگی۔ الحجرات
10 (٨) مسلمانوں کی دو متحارب جماعتوں کے درمیان جس صلح کا اوپر کی آیت میں حکم دیا گیا ہے، اسی کی مزید تاکید کے طور پر یہاں مسلمانوں کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہوتے ہیں، دین کا رشتہ سب سے قومی رشتہ ہوتا ہے، جس کا تقاضا ہے کہ اگر کبھی دو مسلمان بھائیوں یا جماعتوں کے درمیان اختلاف ہوجائے تو اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق آپس میں صلح کرلیں، اور اللہ سے ڈریں، اور اس میں ذرا بھی سستی نہ کریں، تاکہ اختلاف بڑھنے نہ پائے اور مسلمان ایک دوسرے کا خن نہ بہائیں صلح کی راہ ہی وہ راہ ہے جس پر چلنے سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے حال پر رحم کرے گا اور ان کے آپس کا اختلاف بڑھنے نہیں پائے گا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث مبارکہ میں بھی اسلامی اخوت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ امام بخاری نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے رسوا کرے اور بخاری نے ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت کی ہے کہ مومن مومن کے لئے عمارت کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو طاقت پہنچاتا ہے۔ الحجرات
11 (٩) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بعض ان امور سے منع فرمایا ہے جو مسلمانوں کے درمیان اختلاف و نزاع اور جنگ و قتال کا سبب بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے وہ لوگو جو ایمانل ائے ہو ! تمہاری ایک جماعت دوسری جماعت کا مذاق نہ اڑائے، ممکن ہے کہ حقیر سمجھ کر جس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، وہ اللہ کے نزدیک مذاق اڑانے والی جماعت سے بہتر ہو، مفسر ابو السعود لکھتے ہیں کہ دونوں فریقوں میں سے ایک کے اچھا ہونے کا تعلق اس کی صورت و شکل اور دیگر ظاہری اسباب سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق دلوں میں پوشیدہ باتوں سے ہے۔ اس لئے کؤی کسی کو حقیر نہ جانے، شاید کہ جسے حقیر جانا جا رہا ہے، وہ حقیر جاننے والی جماعت سے اللہ کے نزدیک زیادہ بہتر ہو۔ اور مردوں اور عورتوں کا اس بارے میں ایک ہی حکم ہے، یعنی کسی مومنہ کے لئے یہ حلال نہیں کہ وہ اپنی مومنہ بہن کا مذاق اڑائے، ممکن ہے کہ جس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہ اللہ کے نزدیک مذاق اڑانے والی سی بہتر ہو۔ ابن عباس (رض) نے سورۃ الکہف کی آیت (٤٩) (یویلتنا مالھذا الکتاب لایغادر صغیرۃ ولا کبیرۃ الا احصاھا) ” ہائے ہماری خرابی، یہ کیسی کتاب ہے جس نے کوئی چھوٹا بڑا گناہ بغیر شمار کئے نہیں چھوڑا ہے“ کی تفسیر میں کہا ہے کہ گناہ صغیرہ یہ ہے کہ کسی مومن کا مذاق اڑایا جائے اور کبیرہ یہ ہے کہ عاس پر قہقہہ لگایا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی منع فرمایا کہ کوئی مسلمان مرد یا عورت اپنے مسلمان بھائی یا بہن میں عیب لگائے اور چونکہ ایمانی رشتہ سب سے قوی رشتہ ہوتا ہے، اس لئے مسلمان آپس میں ایک جان ہوتے ہیں، تو کسی مسلمان کی عیب جوئی گویا خود اپنی عیب جوئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی منع فرمایا ہے کہ کوئی کسی کو ایسے نام سے پکارے جسے وہ برا سمجھتا ہے، اس لئے کہ یہ بھی مسلمانوں میں عداوت و اختلاف کا بہت بڑا سبب ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد فرمایا ہے کہ بدترین بات یہ ہے کہ مسلمان کو برے نام سے پکارا جائے، جیسے فاسق، کافر، زانی یا فاسد کہا جائے اور (بئس الاسم الفسوق بد الایمان) کی تفسیر میں یہ بھی داخل ہے کہ کسی مسلمان کو برے نام سے پکارنے والا فاسق قرار پاتا ہے، جو (اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کے بعد) اس کے لئے بڑا ہی برا نام ہے، جسے اس نے برے کرتوت کے ذریعہ حاصل کیا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے بطور تاکید فرمایا کہ جو شخص اپنے مومن بھائی کا مذاق اڑانے، اس کی عیب جوئی کرنے، اور اسے برے ناموں کے ذریعہ پکارنے سے باز نہیں آئے گا اور ان گناہوں سیتائب نہیں ہوگا وہ درحقیقت اپنے حق میں بڑا ظالم ہوگا کہ وہ ان گناہوں کے سبب اللہ کے عقاب کا مستحق ٹھہرے گا۔ الحجرات
12 (١٠) اس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو بدظنی، تجسس اور غیبت سے منع فرمایا ہے، اس لئے کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ مومن کے بارے میں حسن ظن رکھا جاء، اس کے خلاف تجسس نہ کیا جائے، اور اس کی غیبت نہ کی جائے، اور اللہ تعالیٰ نے اس کا سبب یہ بیان کیا کہ بعض بدظنی انسان کو گناہ تک پہنچا دیتی ہے، جیسے کہ نیک لوگوں سے بدظنی کی وج ہسے ان کے بارے میں بری باتیں پھیلائی جائیں۔ زجاج کہتے ہیں کہ آیت میں ” ظن“ سے مراد اہل خیر کے بارے میں بدظنی رکھنی ہے، بدکرداروں اور فاسقوں کے ظاہری اعمال سے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے، ان کے بارے میں ویسا ہی خیال رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قرطبی نے اکثر علماء کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جس مسلمان کا ظاہر اچھا ہو، اس کے بارے میں بظنی جائز نہیں ہے اور جس کا ظاہر خراب ہو اس کے بارے میں بدگمانی رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور تجسس یہ ہے کہ کوئی شخص مسلمانوں کے عیوب اور ان کی پوشیدہ باتوں کی کرید میں لگا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے تو ان عیوب اور پوشیدہ باتوں پر پردہ ڈال رکھا ہے اور وہ ان سے پردہ ہٹا دینا چاہتا ہے۔ اور غیب یہ ہے کہ کسی کی عدم موجودگی میں اس کے بارے میں ایسی بات کہی جائے جسے وہ پسند نہیں کرتا ہے۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : غیب یہ ہے کہ کسی کی پیٹھ پیچھے اس کے بارے میں وہ بات کہی جائے جو اس کے اندر موجود ہے، اور اگر وہ برائی اس کے اندر نہیں ہے تو وہ بہتان ہے اور آیت میں غیب کو مردے کا گوشت کھانے سے اس لئے تشبیہہ دیا گیا ہے کہ جس طرح مردہ کو خبر نہیں ہوتی کہ کوئی اس کا گوشت کھا رہا ہے اسی طرح غیبت کئے جانے والے کو خبر نہیں ہوتی کہ کوئی اس کی عیب جوئی کر رہا ہے۔ آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ آدمی کی عزت اس کے گوشت کے مانند ہے، جس طرح اس کا گوشت کھانا حرام ہے، اسی طرح اس کی عزت کے بارے میں بات کرنی بھی حرام ہے اور مقصود غیبت سے نفرت دلانی ہے، کیونکہ انسانی طبیعتیں ادمی کا گوشت کھانے سے نفرت کرتی ہیں۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مسلمانو ! جن برے اعمال سے تمہیں اس آیت میں روکا گیا ہے ان کا ارتکاب نہ کرو اور اللہ کے عقاب سے ڈرتے رہو اور اگر کسی سے کوئی ایسی غلطی ہوجاتی ہے اور پھر اپنے گناہ پر نادم ہوتا ہے، اور اس سے تائب ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا اور بے حد مہربان ہے۔ جن برے اعمال سے اس آیت کریمہ میں منع کیا گیا ہے، ان کی ممانعت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی متعدد احادیث میں بھی آئی ہے۔ بخاری اور مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” مسلمانو ! تم بدظنی سے پرہیز کرو، اس لئے کہ بدظنی سب سے جھوٹی بات ہے، اور تجسس نہ کرو اور کسی کی ٹوہ میں نہ لگو، اور آپس میں ایک دوسرے سے حسد، دشمنی اور بغض نہ رکھو اور کسی کے پیچھے نہ لگو اور اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بن کر رہو۔ “ اور ابوداؤد نے معاویہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اگر تم لوگوں کی پوشیدہ باتوں کی کرید میں لگے رہو گے، تو انہیں خراب کر دو گے۔ “ اور تمذی نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا اور آواز اتنی اونچی کی کہ عورتوں کو ان کے گھروں میں سنایا، فرمایا :” اے وہ لوگو جو اپنی زبان سے ایمان لائے ہو، حالانکہ ایمان تمہارے دلوں میں پیوست نہیں ہوا ہے، مسلمانوں کی چھپی باتوں کی کرید میں نہ لگو، جو شخص مسلمانوں کی چھپی باتوں کی کرید میں رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی چھپی باتوں کو کریدتا ہے، یہاں تک کہ اسے رسوا کردیتا ہے، اگرچہ وہ اپنے گھر میں بیٹھا ہو۔ “ الحجرات
13 (١١) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو خبر دی ہے کہ وہ سب آدم و حوا کی اولاد ہیں، اس لئے نسب کے اعتبار سے سب برابر ہیں، اب ان میں جو جتنا زیادہ اللہ اور اس کے رسول کا مطیع و فرمانبردار ہوگا، اتنا ہی اس کا مقام اللہ کے نزدیک اونچا ہوگا ، اور اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو قوموں اور قبائل میں اسے لئے نہیں بانٹا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مقابلے میں جھوٹا فخر کریں، جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اس کا مقصد محض یہ ہے کہ وہ بہائم کی طرح زندگی نہ گذاریں کہ کوئی کسی کو نہیں پہچانتا، بلکہ ان کے آپس میں جان پہچان اور تعارف ہونا چاہئے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں قوموں، قبیلوں اور خاندانوں میں بانٹ دیا ہے، تاکہ ان کے درمیان باہمی تعاون کا جذبہ پیدا ہو اور ایک صالح سوسائٹی وجود میں آئے۔ علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ انساب کی حفاظت کا اہتمام ابر مطلوب ہے، کیونکہ اسی کے ذریعہ آپ اس میں تعارف ہوتا ہے، صلہ رحمی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، آپس میں وراثت کی تقسیم ہوتی ہے اور رشتہ داریاں قائم ہوتی ہیں، لیکن نسب کی بنیاد پر فخر کرنا مذموم ہے اور متقی آدمی اگرچہ خاندانی اعتبار سے پست ہوگا، غیر متقی خاندانی آدمی پر مقدم ہوگا۔ ابن ابی حاتم نے ابن وہب سے روایت کی ہے کہ میں نے امام مالک سے پوچھا کہ کسی عربی عورت سے غلام کی شادی کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے؟ تو انہوں نے کہا : حلال ہے، پھر یہی آیت پڑھی، یعنی کفو ہونے کے لئے آزادی کی شرط نہیں لگائی۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے نکاح میں کفو ہونے کی شرط نہیں لگائی ہے، انہوں نے اسی آیت سے استدلال کیا ہے، اور کہا ہے کہ سوائے دین کے کوئی شرط نہیں عے۔ آیت میں مذکور معنی و مفہوم کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سی احادیث میں بیان فرمایا ہے، امام بخارمی نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ کون شخص زیادہ باعزت ہے؟ تو آپ نے فرمایا :” اللہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے باعزت وہ ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے“ امام مسلم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ،” اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مال کو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔ “ الحجرات
14 (١٢) ابن عباس، قتادہ اور مجاہد سے مختلف سندوں کے ذریعہ مروی ہے کہ یہ آیت قبیلہ بنی اسد کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ یہ لوگ قحط سالی سے پریشان ہو کر اپنے بال بچوں سمیت مدینہ آگئے اور بظاہر اسلام قبول کرلیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ فلاں فلاں قبیلے آپ کے پاس اپنی سواریوں پر آئے اور ہم تو آپ کے پاس اپنے بال بچوں سمیت آگئے ہیں اور ہم نے فلاں فلاں قبیلوں یک طرح آپ سے جنگ نہیں کی ہے اور اس احسان جتانے سے ان کا مقصد زیادہ سے زیادہ صدقہ حاصل کرنات ھا، تو یہ آیت ان کی ایمانی تربیت کے لئے نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان دیہاتیوں نے کہا، ہم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے ہیں، اس لئے ہم مومن ہیں، اور ہر اکرام و عزت افزائی کے مستحق ہیں، اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی ان سے کہا کہ تم ابھی مومن نہیں ہو، اس لئے کہ ایمان اعتقاد قلب، خلوص نیت اور حصول اطمینان کا نام ہے، تم لوگ یہ کہو کہ ہاں ہم لوگ غلامی اور قتل کے ڈر سے یا صدقہ کی لالچ میں ظاہری طور پر اسلام میں داخل ہوگئے ہیں اور یہ صفت منافقین کی ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے، ورنہ اس کا اثر تمہارے جسموں پر ظاہر ہوتا اور اعمال صالحہ کے ذریعہ اس کی تصدیق ہوتی۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ ”U“ توقع اور امید کا فائدہ دیتا ہے، اس لئے یہ لفظ دلالت کرتا ہے کہ وہ لوگ بعد میں صحیح معنوں میں مومن ہوگئے تھے۔ آیت کے دوسرے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے انہی دیہاتیوں سے فرمایا کہ اگر تم لوگ اللہ اور اس کے رسول کے اوامر کو بجا لاؤ گے اور ان کے نواہی سے بچتے رہو گے، تو اللہ تمہارے نیک اعمال کا اجر ہرگز کم نہیں کرے گا اور یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ بڑا معاف کرنے والا اور بے حد مہربان ہے، اس لئے اس کی طرف رجوع کرو، نفاق سے توبہ کرو، اپنے دلوں میں ایمان کو راسخ کرو اور اس ایمان راسخ کے مطابق عمل کرو، تاکہ اللہ تمہارے گناہوں کو معاف کر دے اور تم پر رحم کرے۔ الحجرات
15 (١٣) ایمان صادق کسے کہتے ہیں؟ اور حقیقی مومن کون ہے؟ اسی کیتشریح کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حقیقی معنوں میں اہل ایمانت و وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر صدق دل سے ایمان لے آئے، ایسا ایمان جس کے بعد ان کے دل کے کسی گوشہ میں شک کا شائبہ تک باقی نہ رہا، اور اپنے مال اور اپنی جان کے ذریعہ اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور دیگر اعمال صالحہ بھی کئے۔ یہی لوگ اپنے ایمان کے دعویٰ میں صادق ہیں نہ کہ وہ دیہاتی جن کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا اور نہ ان کے عمل نے ان کے صادق الایمان ہونے کی تصدیق کی۔ الحجرات
16 الحجرات
17 (١٤) اس آیت کریمہ میں انہی دیہاتیوں سے جن کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا تھا اور جو ایمان کا دعویٰ کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے زجر و توبیخ کے طور پر کہا ہے کہ تم اللہ کو اپنے دین و ایمان کی خبر دیتے ہو، تاکہ تمہیں مومن مان لیا جائے، حالانکہ وہ تو آسمانوں اور زمین کی ہر شے کی خبر رکھتا ہے، اس لئے اسے خوب معلوم ہے کہت مہارا ایمان کس درجہ کا ہے اور اللہ کا علم ہر چیز کو محیط ہے، اس لئے تمہارے دلوں میں جو بات ہے اس کے خلاف کوئی بات نہ کہو، ورنہ اس کے عقاب سے بچ نہ سکو گے۔ آیت (١٧) میں انہی دیہاتیوں کی ایک دوسری غلطی پر تنبیہہ کی جا رہی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جا رہا ہے کہ یہ دیہاتی آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور ان کی وجہ سے مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی ہے تو آپ ان سے کہہ دیجیے کہ تم لوگ اپنے اسلام لانے کا مجھ پر احسان نہ جتاؤ، اس لئے کہ جو راہ ہدایت پر آجاتا ہے وہ اپنا بھلا کرتا ہے، بلکہ اگر تم اپنے ایمان میں صادق ہوتے تو اللہ تم پر احسان جتاتاکہ اس نے تمہیں ایمان لانے کی توفیق دی، لیکن اسے معلوم ہے کہ تم جھوٹے ہو، اس لئے کہ اس سے کوئی بات مخفی نہیں ہے۔ جیسا کہ آیت (١٨) میں فرمایا ہے کہ وہ آسمانوں اور زمین کی ہر پوشیدہ چیز کی خبر رکھتا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ تم میں کون صادق الایمان ہے اور کون کاذب الایمان۔ الحجرات
18 الحجرات
0 سورۃ ق ٓ مکی ہے، اس میں پینتالیس آیتیں اور تین رکوع ہیں تفسیر سورۃ ق نام : پ ہلی آیت کی ابتدا میں موجود حرف مقطع ” ق“ اس کا نام رکھ دیا گیا ہے اسے سورۃ ” الباسقات“ بھی کہا جاتا ہے۔ زمانہ نزول : تمام کے نزدیک اس کا زمانہ نزول مکی دور ہے۔ ابن عباس اور قتادہ سے مروی ایک روایت کے مطابق صرف ایک آیت (ولقد خلقنا السماوات والارض وما بینھما فی ستۃ ایام وما مسنا من لغوب) مدنی ہے۔ حافظ ابن کثیر اور امام شوکانی کے نزدیک صحیح یہی ہے کہ مفصل صورتوں کی ابتدا اسی سورت سے ہوتی ہے۔ مالیکہ کے نزدیک ان کی ابتدا سورۃ الحجرات سے ہوتی ہے، جس کی تفسیرابھی گذری ہے۔ سورۃ ” ق“ سے لے کر سورۃ ” الناس“ تک قرآن کریم کی سورتوں کو تین حصوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ سورۃ ” ق“ سے ” النازعات“ تک کی سورتوں کو ” طوال مفصل“ سورۃ ” عبس“ سے لے کر ” اللیل“ تک کو ” وسط مفصل“ اور ” الضحیٰ“ سے ” الناس“ تک ” قصار مفصل“ کہا جاتا ہے، فجر کی نماز میں طوال مفصل سے، ظہر اور عشاء میں وسط مفصل سے اور مغرب میں قصار مفصل سے پڑھنا مستحب ہے۔ امام احمد، مسلم اور اصحاب سنن نے روایت کی ہے عمر بن خطاب (رض) نے ابو واقد لیثی سے پوچھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عید کی نماز میں کیا پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا : ق اور اقتربت اور مسلم، ابوداؤد اور نسائی و غیر ہم نے ام ہشام بنت حارثہ بن النعمان سے روایت کی ہے کہ میں نے سورۃ ق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن کر یاد کیا تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر جمعہ اسے پڑھ کر خطبہ دیتے تھے ایک روایت میں ہے : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر جمعہ کے دن جب لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے تھے تو اسے منبر پر پڑھتے تھے۔ مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورۃ ق عید اور جمعہ جیسے مجمعوں میں پڑھا کرتے تھے، اس لئے کہ اس میں انسان کی پیدائش، بعث بعد الموت، قیامت، حساب و کتاب، جنت و جہنم، ثواب و عقاب اور ترغیب وترہیب کا ذکر آیا ہے، جنہیں سننے سے آدمی کے اندر فکر آخرت پیدا ہوتی ہے۔ ق
1 (١) ق حرف مقطع ہے، جس کے حقیقی معنی و مفہوم کا علم اللہ کو ہی ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب (قرآن) کی قسم کھائی ہے، جو بہت ہی بلند و بالا مرتبہ والی کتاب ہے اور اس قسم کا جواب محذوف ہے، بعض مفسرین نے اس کی تقدیر ” ان محمد الرسول امین“ مانا ہے، عینی عالی مقام قرآن کی قسم ہے کہ محمد اللہ کے امانت دار رسول ہیں، بعض نے اس کی تقدیر ” انزلناہ الیک لتنذربہ الناس“ مانا ہے، یعنی بلند مقام قرآن کی قسم ہے ہم نے اس قرآن کو آپ پر اس لئے نازل کیا ہے تاکہ آپ اسے پڑھ کر لوگوں کو عذاب سے ڈرائیں۔ لیکن مشرکین مکہ نے محمد کے رسول ہونے میں شبہ کیا، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر انہوں نے ان کی بعثت کو ایک امر عجیب قراردیا اور کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہمارے ہی درمیان کا ایک فرد رسول بنا کر ہمیں اللہ سے ڈرانے کے لئے بھیج دیا جائے۔ (فقال الکافرون ھذاشی عجیب) میں گزشتہ بات کی ہی مزید صراحت کردی گئی ہے، یعنی اس سے زیادہ حیرت انگیز بات نہیں ہو سکتی کہ محمد کو نبی بنا دیا جائے جو ہمارے ہی جیسا آدمی ہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ ” ھذا“ سے اشارہ ” معبود واحد کی پرستش کی دعوت“ کی طرف ہے، یعنی یہ عجیب بات ہے کہ ہمیں تمام معبودوں کو چھوڑ کر صرف ایک معبود کی عبادت کی دعوت دی جا رہی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کافروں کو (بعث بعد الموت) کی بات پر تعجب تھا، ایسی صورت میں ” ھذا“ کی تفسیر بعد والی آیت (أاذا متناوکنا تراباً) سے ہوتی ہے، یعنی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جانا بڑی عجیب سی ہے۔ ق
2 ق
3 (٢) مشرکین مکہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا ہی انکار نہیں کیا، بلکہ بعث بعد الموت کا بھی انکار کیا، اس لئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں روز قیامت کے ہی عذاب سے تو ڈراتے تھے، جو بعث بعد الموت کے بعد آنے والا ہے، اس آیت کریمہ میں ان کی اسی حیرت و انکار کو بطور تاکید بیان کیا گیا ہے کہ کیا جب ہم مرنے کے بعد مٹی ہوجائیں گے تو دوبارہ زندہ کئے جائیں گے، جیسا کہ محمد ہمیں قرآن پڑھ کر اس کی یقین دہانی کراتا ہے ہمارا دوبارہ زندہ کیا جانا وہم و خیال ہے اور امکان و عادت سے بہت دور کی بات ہے۔ ق
4 (٣) بعث بعد الموت کے انکار کی تردید ہے، یعنی مرنے کے بعد جب انسان دفن کردیا جاتا ہے، تو زمین اس کے جسم کو آہستہ آہستہ کھا جاتی ہے، اللہ تعالیٰ کو اس کا خوب علم ہے، اس لئے کہ اس کا علم ہر شے کو محیط ہے، اس کا علم کامل اور نہایت لطیف ہے، کوئی چیز اس کے احاطہ علم سے خارج نہیں ہے، ایسے قدار مطلق اور علام الغیوب کے لئے یہ بات کیسے بعید از امکان مانی جاتی ہے کہ وہ دوبارہ مردوں کو زندہ کرے گا ! آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوح محفوظ میں تمام انسانوں کی تعداد، ان کے نام اور ہر چیز محفوظ ہے اور جب قیامت آئے گی تو جیسے وہ تمام پہلی بار پیدا کئے گئے تھے، دوبارہ بے کم و کاست پیدا کئے جائیں گے، کسی چیز میں ذرہ برابر بھی کوئی فرق نہیں آئے گا۔ ق
5 (٤) مشرکین مکہ نے صرف یہی جرم نہیں کیا کہ انہوں نے بعث بعدالموت کا انکار کیا، بلکہ اس سے بھی بڑا جرم ان کا یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کا انکار کیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کیا جن پر قرآن نازل ہوا، اور اس معاملہ میں وہ نہایت اضطراب میں مبتلا ہیں، کسی ایک حال پر ان کو قرار نہیں ہے، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی ساحر، کبھی شاعر اور کبھی کذاب اور مفتری کہتے ہیں اور قرآن کو اقوام گزشتہ کے خیالی قصے بتاتے ہیں انہیں خود معلوم نہیں کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ ق
6 (٥) عقیدہ بعث بعد الموت کو ہی مشرکین مکہ کے دل و دماغ میں بٹھانے کے لئے کہا جا رہا ہے کہ یہ منکرین بعث بعدالموت اور یہ منکرین روز قیامت کیا اپنی آنکھوں سے اپنے سروں کے اوپر اونچے آسمان کو نہیں دیکھتے ہیں کہ کس طرح اللہ نے بغیر دیکھے جانے والے ستونوں کے سہارے اسے قائم و ثابت رکھا ہوا ہے اور اسے آفتاب و ماہتاب اور ان گنت ستاروں کے ذریعہ مزین کیا ہوا ہے اور اس میں کوئی شگاف نہیں ہے، کیا وہ اللہ جو ایسے آسمان کی تخلیق پر قادر ہے، وہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے؟ وہ یقیناً اس بات پر قادر ہے کہ جسے اس نے پہلی بار پیدا کیا ہے اور پھر اسے موت کے گھاٹ اتار دے گا اسے دوبارہ زندہ کرے گا۔ ق
7 (٦) اور کیا یہ منکرین بعث بعد الموت نہیں دیکھتے کہ ہم نے زمین کو پھیلا دیا ہے اور اس کے اوپر پہاڑوں کے کھونٹے گاڑ دیئے ہیں، تاکہ زمین اپنے اندرونی جوش کی وجہ سے ہلنے نہ لگے اور اس میں انواع و اقسام کے خوبصورت پودے اگائے ہیں جو اپنے حسن و جمال کی وجہ سے گویا کہ مسکرا رہے ہیں، قدرت کے یہ نظارے ہر اس بندے کو دعوت فکر و نظر دیتے ہیں جو اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کی رضا کی جستجو میں لگے رہتے ہیں جو اللہ ان باتوں پر قادر ہے وہ یقیناانسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔ ق
8 ق
9 (٧) اللہ نے آسمانوں سے کثیر المنفقت پانی برسایا ہے، جس کے ذریعہ اس نے پھلدار درخت اگائے اور گیہوں، جو اور دوسرے دانے اگائے، اور کھجوروں کے لمبے لمبے درخت اگائے، جن کے پھلوں کے خوشے تہ بہ تہ ہوتے ہیں۔ اللہ نے یہ ساری چیزیں اپنے بندوں کی روزی کے لئے پیدا کی ہیں۔ اور اللہ نے پانی کے ذریعہ قحط زدہ مردہ زمینوں میں جان ڈال دی ہے اور ان میں قسم قسم کے پودے، پھول اور پھل اگ آئے، جس طرح اللہ کی قدرت سے پانی کے ذریعہ مردہ زمین میں جان پڑگئی، اسی طرح قیامت کے دن مردے اپنی قبروں سے زندہ ہو کر میدان محشر کی طرف دوڑ پڑیں گے۔ ق
10 ق
11 ق
12 (٨) یہاں بھی مقصود یہی ثابت کرنا ہے کہ بعث بعد الموت حق ہے، تمام انبیائے کرام نے اپنی قوموں کو یہی بتایا کہ بعث بعد الموت اور روز قیامت برحق ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے اور جو شخص بھی اس کا منکر ہوگا، اللہ تعالیٰ اسے عذاب دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قریش والوں سے پہلے، قوم نوح نے بھی روز قیامت، جزا اور سزا اور نوح (علیہ السلام) کی نبوت کا انکار کیا تھا۔ نوح (علیہ السلام) ساڑھے نو سو سال تک انہیں اللہ کی طرف بلاتے رہے، لیکن نوے سے کم لوگوں نے ان کی دعوت قبول کی۔ اصحاب الرس سے ایک ایسی قوم مراد ہے جس نے اپنے نبی کو کنواں میں پھینک دیا تھا، بعض کے نزدیک شعیب (علیہ السلام) کی قوم مراد ہے اور بعض دوسروں کے نزدیک عیسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں کی ایک جماعت، یا اصحاب اخدود یعنی وہ لوگ جنہوں نے ایک بڑی آگ جلا کر اس میں اپنی بستی کے مومنوں کو ڈال دیا تھا۔ قوم ثمود نے صالح (علیہ السلام) پر ایمان لانے سے انکار کردیا اور بطور معجزہ ظاہر ہونے والی اونٹنی کو ہلا کردیا تھا اور قوم عاد نے ہود (علیہ السلام) پر ایمان لانے سے انکار کردیا تھا اور اصنام پرسی پر اصرار کیا تھا اور فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت پر ایمان لانے سے انکار کیا تھا اور قوم لوط کے لوگ عورتوں کے بجائے مردوں کے ساتھ بدکاری کر کے اپنی شہوت پوری کرتے تھے اور اصحاب ایکہ نے شعیب (علیہ السلام) کی دعوت ٹھکرا دی تھی اور ناپ تول میں کمی بیشی کرتے تھے، سورۃ الشعراء آیت (١٧٦) میں تفصیل گذر چکی ہے اور تبع حمیر کی قوم نے بھی سرکشی کی راہ اختیار کی اور دین کی صحیح باتوں کو ٹھکرا دیا تھا سورۃ الدخان آیت (٣٧) کی تفسیر میں تفصیل گذر چکی ہے انتمام قوموں نے اپنے اپنے رسولوں کی اور ان کے لائے ہوئے دین کی تکذیب کی، تو اللہ کا عذاب ان کے لئے واجب ہوگیا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس تفصیل سے مقصود مشرکین قریش کو ڈرانا اور دھمکانا ہے کہ اگر انہوں نے اپنی حالت نہیں بدلی، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب سے باز نہ آئے، تو ان پر بھی اللہ کا عذاب انہی قوموں کی طرح نازل ہوگا، نیز نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینی بھی مقصود ہے کہ اگ آپ کی قوم آپ کو جھٹلاتی ہے تو غم نہ کیجیے، کیونکہ ان سے پہلی قوموں کا بھی یہی وطیرہ ہو رہا ہے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کو جھٹلایا اور ان میں سے بہت کم لوگوں نے ان کی دعوت قبول کی۔ ق
13 ق
14 ق
15 (٩) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیو قت ایسا تھا کہ آسمان و زمین میں کوئی مخلوق نہیں پائی جاتی تھی، ہم نے انہیں پہلی بار پیدا کیا اور جب ہم پہلی بار مخلوقات کو پیدا کرنے سے عاجز نہیں تھے، تو انہیں دوبارہ پیدا کرنے سے کیسے عاجز رہیں گے۔ اور مشرکین مکہ جب اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ نے ہی تمام مخلوقات کو پہلی بار پیدا کیا ہے تو پھر وہ اس کا کیوں انکار کرتے ہیں کہ وہ انہیں دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ ان کی کور مغزی کی وجہ سے یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ مرنے کے بعد جب انسان کے اعضاء بکھر جائیں گے اور گل سڑ کر مٹی میں مل جائیں گے، تو اللہ ان اعضاء کو دوبارہ اکٹھا کرے گا اور اس کی قدرت سے ان میں زندگی آجائے گی، وہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ قادر مطلق کے لئے یہ کام بہت ہی آسان ہے۔ ق
16 (١٠) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بعض قدرتوں کا ذکر فرمایا ہے، باری تعالیٰ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے اور اس کا علم اس کے تمام امور کو محیط ہے، یہاں تک کہ وہ ان باتوں کو بھی جانتا ہے جن کا اس کے دل میں کھٹکا ہوتا ہے اور وہ اپنے بندے سے شہ رگ سے زیادہ قریب ہے، وہ اس کے تمام احوال سے بغیر فرشتوں کے واسطہ کے غایت درجہ باخبر ہے، اس کے ساتھ فرشتوں کا پایا جانا اور ان کے ذریعہ اس کے اعمال کا ریکارڈ میں لایا جانا محض اتمام حجت کے لئے ہے۔ حسن، قتادہ اور مجاہد کہتے ہیں : ہر انسان کے ساتھ اللہ نے دو فرشتے لگا دیئے ہیں جو اس کے دائیں اور بائیں ہوتے ہیں اور اس کے حسنات و سئیات کو لکھتے رہتے ہیں۔ مجاہد کا ایک دوسرا قول ہے کہ ” اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ دورات کے اور دو دن کے فرشتے لگا دیئے ہیں، جو اس کے اعمال کو لکھتے رہتے ہیں۔ “ انسان جونہی اپنی زبان سے کوئی بات نکالتا ہے، اس پر تمعین فرشتے فوراً اسے اس کے نامہ اعمال میں لکھ لیتے ہیں، دائیں طرف کا فرشتہ اس کے نیک اعمال کو، اور بائیں طرف کا اس کے برے اعمال کو درج کرل یتا ہے اور وہ فرشتے انتہائی چوکنا اور ہر آن تیار رہتے ہیں، اپنی ذمہ داری سے کبھی غافل نہیں ہوتے ہیں۔ ق
17 ق
18 ق
19 (١١) بالاخر دنیا سے اس کے رخصت ہونے کا وقت آجاتا ہے اور موت کی سختی اس پر طاری ہوجاتی ہے اور بعث بعدالموت اور روز قیامت کے جزا و سزا کا نقشہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے اور جن حقائق کا وہ انکار کرتا تھا ان سے پردہاٹھا جاتا ہے اور اس وقت اس سے کہا جاتا ہے کہ یہی وہ موت ہے جس سے تم راہ فرار اختیار کرتے تھے۔ ق
20 (١٢) جس دن اسرافیل (علیہ السلام) بعث بعد الموت کا صور پھونک دیں گے اور سارے لوگ گھبرا کر میدان محشر کی طرف دوڑ پڑیں گے، وہی کافروں کے عذاب کا دن ہوگا اور اگرچہ وہ دن مومنوں کے ساتھ کئے گئے وعدہ جنت کی تکمیل کا بھی ہوگا، لیکن کافروں کے لئے تیار کئے گئے عذاب جہنم کی ہولناکی بیان کرنے کے لئے صرف عذاب کا ذکر آیا ہے۔ ق
21 (١٣) نفخ صور کے بعد ہر آدمی کے پیچھے دو فرشتے لگ جائیں گے، ایک اسے میدان محشر کی طرف ہانکے گا اور دوسرا فرشتہ اس کے نیک اور برے اعمال کی گواہی دے رہا ہوگا حسن، قتادہ اور مجاہد کا یہی قول ہے اور ضحاک کہتے ہیں کہ ہانکنے والا تو فرشتہ ہوگا اور شاہد اس ادمی کے ہاتھ پاؤں ہوں گے۔ ق
22 (١٤) اس دن دنوں اور انسانوں سے کہا جائے گا کہ تم سب یوم آخرت اور اس کی ہولناکیوں سیغافل، اور دنیا اور اس کی لذتوں میں مشغول تھے، تو آج ہم نے تمہاری آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹا دیا ہے، اب تم ہر چیز کو اپنے سامنے عیاں پا رہے ہو، مجاہد نے اس کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ آج تمہاری نظر تمہارے میزان عمل پر ایسی لگی ہے کہ ہٹتی نہیں ہے، تمہاری بینائی میں تیزی آگئی ہے، بڑے غور سے دیکھ رہے ہو کہ تمہاری نیکیوں کاپلڑا کہیں ہلکا تو نہیں ہو رہا ہے۔ ق
23 (١٥) قرین سے مراد یا تو وہ فرشتہ ہے جو ہر آدمی کے ساتھ دنیا میں لگا ہوتا ہے اور اس کے نیک و بد اعمال لکھتا رہتا ہے، تو آیت کی تفسیر یہ ہوگی کہ وہ فرشتہ اللہ سے کہے گا کہ یہ ہے وہ آدمی اور اس کے اعمال جس کے پیچھے تو نے مجھے لگایا تھا اور اگر ” قرین“ سے مراد وہ شیطان ہے جسے دنیا میں اس کا ساتھی بنا دیا گیا تھا تاکہ اسے گمراہ کرتا رہے، تو تفسیر ہوگی کہ وہ شیطان رب العالمین سے کہے گا کہ یہ ہے وہ آدمی جسے گمراہ کرنے کے لئے تو نے مجھے سا کے پیچھے لگا دیا تھا، میں نے اسے گمراہ کر کے جہنم کے لئے تیار کردیا ہ۔۔ ق
24 (١٦) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی مخلوقات کے درمیان نہایت عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور جب کافر کا حساب ہوچکے گا، تو اللہ تعالیٰ سائق و شاہد دونوں فرشتوں سے کہے گا کہ پکڑو اس اللہ کی وحدانیت اور اس کے رسول کی رسالت کا انکار کرنے والے سرکش کافر کو، اور اسے جہنم میں ڈال دو۔ ق
25 (١٧) اسے اللہ نے مال دیا تھا تو اس پر سانپ بن کربیٹھ گیا تھا، اس میں اللہ اور اس کے محتاج بندوں کا حق یکسر بھول گیا تھا، لوگوں پر زبان اور ہاتھ دونوں سے زیادتی کرتا تھا، انہیں گالیاں دیتا تھا، ان کی عزت پر حملے کرتا تھا اور طاقت کے نشے میں ان پر ظلمو ستم کے پہاڑ توڑتا تھا اور کثرت دلائل کے باوجود دین اسلسام کی حقانیت اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت میں شبہ کرتا تھا۔ ق
26 (١٨) اور اس کی سب سے بدترین صفت یہ تھی کہ وہ اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی بھی پرستش کرتا تھا، اس لئے اے سائق و شاہد فرشتو ! اسے جہنم کی اس کھائی میں ڈال دو جس کا عذاب بہت ہی شدید ہے۔ ق
27 (١٩) وہ شیطان جسے دنیا میں اس کافر کا ساتھی بنا دیا گیا تھا اس دن اس سے اپنی برأت کا اعلان کر دے گا اور کہے گا کہ اے ہمارے رب ! اسے میں نے گمراہ نہیں کیا تھا، درحقیقت یہ خود ہی راہ حق سے بہت دور تھا، اگر یہ توحید کی راہ کو چھوڑ کر شرک باللہ کی راہ پر نہ چل پڑا ہوتا اور گناہوں کے ذریعہ اپنی فطرت سلیمہ کو مسخ نہ کرلیا ہوتا، تو میرے نرغے میں نہ آتا اور میرے وسوسوں کو قبول نہ کرتا۔ ابن جریر طبری لکھتے ہیں کہ یہاں کافر کے شیطان ساتھی کی بات اس لئے نقل کی گئی ہے تاکہ انسانوں کو معلوم ہوجائے کہ قیامت کے دن کفار اور ان کے شیاطین ساتھی ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں گے۔ ق
28 (٢٠) رب العالمین کفار اور ان کے شیاطین ساتھیوں کو آپس میں جھگڑتا دیکھ کر، کہیں گے کہ اب تم لوگ میرے پاس نہ جھگڑو، اس کا کوئی فائدہ نہیں، میں نے دنیا میں اپنی کتاب میں اور اپنے رسول کی زبانی یہ بات واضح کردی تھی کہ جو شخص اللہ کا انکار کرے گا، اس کے ساتھ غیروں کو شریک بنائے گا، اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا، اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا، اس لئے آج کے دن تم دونوں کا ٹھکانا جہنم ہے۔ ق
29 (٢١) ابلیس نے آدم و حوا کو وسوسہ میں ڈال کر جب جنت سے نکلوا دیا تھا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے کہا تھا : (لاملان جھنم من الجنۃ و الناس اجمعین) ” میں جہنم کو یقیناً جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا۔“ (ہود : ١١٩) اسی فیصلہ کی طرف اشارہ ہے کہ میں نے کافروں اور رسولوں کی نافرمانی کرنے والوں کے بارے میں جو فیصلہ کردیا ہے، وہ ہرگز نہیں بدلے گا اور نہ ہی میں اپنے بندوں پر ظلم کروں گا کہمطیع و فرمانبردار کو عذاب دوں، یا کافر و نافرمان کو جنت میں داخل کر دوں۔ مفسر قاشانی نے (وما انا بظلام اللعبید) کی تفسیر یہ کی ہے کہ ” میں نے بندوں کو قبول حق کی استعدادی دی، انہیں خیر و شر سے آگاہ کیا اور راہ حق کی طرف ان کی رہنمائی کردی، اس لئے میں نہیں، بلکہ وہ خود ہی اپنے حق میں ظشالم ہیں کہ روشنی اور نور کو چھوڑ کر ظلمت و تاریکی کو اختیار کرتے ہیں، اور دائمی نعمت یعنی جنت کو نظر ادناز کر کے فانی یعنی دنیاوی لذتوں اور شہوتوں کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ ق
30 (٢٢) واحدی نے مفسرین کے حوالے سے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے جو بات کہی تھی کہ میں جنوں اور انسانوں کے ذریعہ جہنم کو بھردوں گا اس کے مطابق جب جہنم بھر جائے گی تو اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ کیا تم بھر گئی؟ تو جہنم کہے گی کہ ہاں میں بالکل بھر گئی اور اب کوئی جگہ خالی نہیں ہے، عطاء مجاہد اور مقاتل بن سلیمان نے یہی تفسیر بیان کی ہے۔ امام بخاری اور حافظ ابن کثیر وغیرہ ہم نے یہ تفسیر بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق جہنم میں جنوں اور انسانوں کو ڈالتا جائے گا اور جہنم مزید جہنمیوں کا مطالبہ کرتی رہے گی، یہاں تک کہ رب العزۃ اس میں اپنا قدم ڈال دے گا، تو وہ سکڑ جائے گی اور کہنے لگے گی کہ بس بس، تیری عزت و بخشش کی قسم، بخاری اور مسلم نے اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں انس (رض) کی حدیث روایت کی ہے، جسکا مفہوم وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔ ق
31 (٢٣) قیامت کے دن کافروں کا حال بیان کئے جانے کے بعد اب مومنوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس دن جنت متقیوں کے بالکل قریب کردی جائیگی، اتنی قریب کہ میدان محشر سے ہی اس کا نظارہ کریں گے اور ان نعمتوں کا مشاہدہ کریں گے جنہیں دنیا میں نہ کسی آنکھ نے دیکھا تھا، نہ کسی کان نے سنات ھا اور نہ کسی انسان کے دل نے ان کا تصور کیا تھا۔ ق
32 (٢٤) اہل جنت جب جنت اور اس کی نعمتوں کو میدان محشر سے ہی دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں گے، تو اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا کہ یہی وہ جنت ہے جس کا تم سے دنیا میں وعدہ کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ہر وہ شخص جو دنیا میں گناہوں سے منہ موڑ کر اللہ کی بندگی کرے گا اور اس کے فرض کردہ اعمال و احکام کو بجالائے گا اور امانتوں کی حفاظت کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ ق
33 ق
34 (٢٥) اہل جنت کے جو اوصاف اوپر کی آیت میں بیان کئے گئے ہیں، انہی کی مزید تاکید کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو اللہ سے اس حال میں بھی ڈرتے ہیں جب انہیں کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا ہے، وہ اس دنیا میں اس یقین کے ساتھ زندگی گذارت یہیں کہ اگرچہ کوئی انسان انہیں نہیں دیکھتا ہے، لیکن اللہ تو انہیں ہر جگہ اور ہر حال میں دیکھ رہا ہے اور ان کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ ہر دم اپنے رب کے حضور اپنے گناہوں سے توبہ کرتے رہتے ہیں، اور جن کاموں کو اللہ پسند نہیں کرتا ہے ان کے قریب نہیں پھٹکتے ہیں۔ ق
35 (٢٦) مذکورہ بالا اوصاف سے متصف متقیوں سے اس دن کہا جائے گا کہ اب تم لوگ جنت میں ہمیشہ کے لئے پورے امن و سکون کے ساتھ داخل ہوجاؤ، یہاں تمہیں نہ ماضی کا غم ہوگا اور نہ مستقبل کا خوف، بڑے چین و سکون کی زندگی ہو ی، خزن و ملال کا سایہ بھی ان کے دلوں پر نہیں پڑے گا اور جس چیز کی بھی خواہش کریں گے وہ چیز چشم زدن میں ان کے پاس ہوگی، اور ان تمام نعمتوں کے علاوہ سب سے بڑی نعمت یہ ہوگی کہ باری تعالیٰ اپنا چہرہ انور ان کے سامنے کر دے گا، جس کا وہ نظارہ کریں گے۔ امام مسلم نے صہیب رومی (رض) سے (ولدینا مزید) کی یہی تفسیر روایت کی ہے۔ ق
36 ق
37 (٢٧) اقوام گزشتہ کے ساتھ جو کچھ ہوا اسے سنا کر اہل مکہ کو ڈرایا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان مشرکین سے پہلے بہت سی قومیں گذر چکی ہیں، جو ان سے قوت میں زیادہ تھیں، جیسے عاد و ثمود کی قومیں اور فرعون موسیٰ وغیر ہم اور انہوں نے مختلف ممالک کی سیر بھی خوب کی، لیکن جب اللہ کا عذاب آیا تو کیا انہوں نے زمین میں کوئی ایسی جگہ پائی جہاں بھاگ کر چلے جاتے اور عذاب سے بچ جاتے؟ یا جب ان کی موت آیا تو کیا اس سے راہ فرار اختیار کرسکے؟ یہی حال مشرکین مکہ کا بھی ہوگا کہ اگر یہ لوگ یونہی مسلسل نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرتے رہے، تو اللہ کا عذاب انہیں اپنی گرفت میں لے لے گا، اور اس سے راہ فرار اختیار نہیں کرسکیں گے۔ ق
38 (٢٨) اقوام گزشتہ کے ان واقعات سے وہ لوگ نصیحت حاصل کریں گے جو عقل سے بہرہ ور ہوں گے، جس سے کام لے کر کفر سے تائب ہوں گے اور اپنے کان سے ان کی خبریں سن کر، چوکنا دل و دماغ کے ساتھ سوچیں گے کہ اگر ہم نے کفر پر اصرار کیا تو ہمارا انجام انہیں کافر قوموں جیسا ہوگا جن کے واقعات یہاں بیان کئے گئے ہیں۔ ق
39 (٢٩) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس آیت سے مقصود بعث بعد الموت کا اثبات اور اس کی تاکید ہے، اس لئے کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور ان کی تخلیق سے اسے کوئی تھکاوٹ نہیں ہوئی، وہ یقیناً اور بدرجہ اولیٰ مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔ سورۃ الاحقاف آیت (٣٣) میں آیا ہے : (اولم یروا ان اللہ الذی خلق السماوات ولارض ولم یعنی بخلقھن بقادر علی ان یحیی الموتی بلی انہ علی کل شی قدیر) ” کیا وہ نہیں دیکھتے کہ جس اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور ان کے پیدا کرنے سے نہ تھکا، وہ یقیناً مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔ ہاں وہ یقیناً ہر چیز پر قادر ہے۔ “ قتادہ کہتے ہیں : یہود کہا کرتے تھے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر ساتویں دن یعنی ہفتہ کے دن آرام کیا، اور اپنے اسی باطل عقیدہ کے سبب وہ لوگ ہفتہ کے دن کو آرام کا دن کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس افترا پردازی کی تردید کرتے ہوئے فرمایا : (وما مسنا من لغوب) ” ہمیں آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے سے کوئی تھکاوٹ نہیں ہوئی۔ “ ق
40 (٣٠) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ مشرکین اگر بعث بعد الموت اور توحید و رسالت کا انکار کرتے ہیں، تو آپ رنجیدہ نہ ہوا کیجیے، صبر و تحمل سے کام لیجیے اور اپنے رب کی حمد و ثنا اور تسبیح کے ذریعہ قوت حاصل کیجیے۔ تسبیح سے مراد یا تو ظاہری تسبیبح ہے، یعنی اللہ کی پاکی بیان کرنا یا اس سے مراد نماز ہے، دوسری صورت میں طلوع آفتاب سے قبل کی نماز سے مراد فجر کی نماز، غروب سے قبل کی نماز سے مراد ظہر اور عصر کی نماز ہے اور رات کی نماز سے مراد عشاء اور تہجد کی نماز اور (ادبار السجود) سے مراد وہ نوافل ہیں جو فرض نمازوں کے بعد پڑھی جاتی ہیں۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ معراج سے پہلے فرض نماز دو رکعت طلوع آفتاب سے قبل فجر کے وقت تھی اور دو رکعت غروب آفتاب سے قبل عصر کے وقت تھی اور قیام اللیل نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں پر ایک سال تک فرض تھا، پھر امت کے لئے اس کا وجوب منسوخ ہوگیا اور معراج کی رات پانچ نمازوں کے ذریعہ گزشتہ نمازیں منسوخ ہوگئیں، لیکن فجر اور عصر کی نمازیں باقی رہ گئیں۔ ق
41 ق
42 (٣١) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ آپ کو بذریعہ وحی روز قیامت کے جو احوال بتائے جا رہے ہیں، انہیں غور سیسنئے، جس دن اسرافیل دوسرا صور پھونکیں گے اور قیامت برپا ہوجائے گی، اور ہر مردہ زندہ ہو کر میدان محشر کی طرف دوڑ پڑے گا، ایک دوسری رائے یہ ہے کہ اسرافیل صور پھونکیں گے اور جبرئیل محشر والوں کو پکاریں گے کہ حساب کے لئے چلو، اور یہ آواز اتنی قریب ہوگی کہ میدان محشر کا ہر فرد اسے سنے گا۔ آیت (٤٢) میں گزشتہ بات کی ہی صراحت کردی گئی ہے کہ جس دن لوگ قبر سے اٹھائے جانے اور میدان محشر میں جمع ہونے کے لئے اسرافیل کے صور کی آواز سنیں گے، وہ قبر سے نکلنے کا برحق دن ہوگا، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ ق
43 (٣٢) اس آیت کریمہ میں بھی اللہ نے بعث بعد الموت کو ایک اٹل حقیقت بتایا ہے اور فرمایا ہے کہ ہم ہی تمام مخلوقات کو پہلی بار پیدا کرتے ہیں اور مرنے کے بعد دوبارہ انہیں زندہ کریں گے اور انہیں دوبارہ کرنا ہمارے لئے زیادہ آسان ہے۔ اور سب کو دوبارہ زندہ ہو کر ہمارے پاس ہی لوٹ کرآنا ہے اور اپنے کئے کی انہیں جزا یا سزا پانی ہے۔ ق
44 (٣٣) اسرافیلعلیہ السلام کے صور پھونکنے کے بعد زمین پھٹ پڑے گی، اور تمام مردے زندہ ہو کر ادھر دوڑ پڑیں گے جدھر سے آواز آئے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگوں کو ان کی قبروں سے نکال کر میدان محشر میں جمع کرنا ہمارے لئے بہت ہی آسان ہے۔ ق
45 (٣٤) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ مشرکین مکہ کی اللہ اور اس کے رسول کے خلاف افترا پردازی اور بعث بعد الموت کا انکار اللہ کو خوب معلوم ہے اور وہی ان سے اس کا حساب لے گا۔ آپ کا کام تو انہیں ہمارا پیغام پہنچا دینا ہے۔ انہیں ایمان لانے پر مجبور کرنا آپ کا کام نہیں ہے، آپ قرآن کریم کی تلاوت کر کے ان لوگوں کو نصیحت کرتے رہئے جو میرے عذاب و عاقب سے ڈرتے ہیں۔ یعنی آپ کا وعظ اور آپ کی نصیحت تو سب کے لئے ہے، لیکن اس سے فائدہ صرف وہی اٹھائیں گے جو آخرت پر اور جنت پر ایمان رکھتے ہیں۔ وباللہ التوفیق۔ ق
0 سورۃ الذاریات مکی ہے، اس میں ساٹھ آیتیں ہیں اور تین رکوع ہیں تفسیر سورۃ الذاریات نام : پہلی آیت کا پہلا کلمہ ” ولذاریات“ ہے، یہی اس کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی نے لکھا ہے کہ تمام علمائے تفسیر کے نزدیک اس کا زمانہ نزول مکی دور ہے، ابن عباس اور ابن الزبیر (رض) سے یہی مروی ہے۔ الذاريات
1 (١) ابن جریر، ابن ابی حاتم، خاکم اور بیہقی وغیرہم نے علی بن ابی طالب (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ کوفہ کی مسجد میں خطبہ دے رہے تھے، تو ابن الکواء نامی شخص نے ان سے اس سورت کی چار ابتدائی آیتوں کا معنی دریافت کیا، انہوں نے کہا کہ (ولاذاریات ذروا) سے مراد تیز ہوا ہے جو مٹی اڑاتی ہے اور (فالحاملات وقرا) سے مراد بادل ہے، جو بارش کا پانی اٹھائے پھرتا ہے اور (فالجاریات یسرا) سے مراد کشتیاں ہیں جو سمندروں میں ہوا کے سہارے سبک رومی کے ساتھ چلتی رہتی ہیں اور (فالمقسمات امرا) سے مراد فرشتے ہیں جو اللہ کے حکم کے مطابق اس کی مخلوقات کے درمیان بارش، روزی اور دیگر اسباب زندگی تقسیم کرتے ہیں۔ بعض مفسرین نے ” الذاریات، الحاملات، الجاریات، المقسمات“ چاروں سے ہوائیں مراولی ہیں، یعنی بعض ہوا غبار اڑاتی ہے، بعض بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ اٹھائے پھرتی ہے اور بعض بارش کو تقسیم کرتی ہے، امام شوکانی لکھتے ہیں کہ یہ رائے بہت ہی کمزور ہے۔ الذاريات
2 الذاريات
3 الذاريات
4 الذاريات
5 (٢) اللہ تعالیٰ نے مذکور بالا مخلوقات کی قسم کھا کر کہا ہے کہ لوگ ! تم سے جس قیامت کا وعدہ کیا گیا ہے اور سج بعث بعد الموت کی تمہیں خبر دی گئی ہے، وہ بات بالکل سچ ہے۔ اس میں ذرا بھی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ جزا و سزا کا ایک دن مقرر ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ان کے اعمال کا بدلہ چکائے گا، اچھوں کو اچھا اور بروں کو برا بدلہ دے گا۔ شوکانی کے نزدیک مذکورہ بالا آیتوں کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ جو رب ذوالجلا ان باتوں پر قادر ہے جن کا ذکر اوپر آیا ہے، وہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے اور قیامت برپا کرنے پر یقیناً قادر ہے۔ الذاريات
6 الذاريات
7 (٣) حافظ ابن کثیرنے ” ذات الحبک“ کی تفسیر ابن عباس (رض) سے ” ذات الجمال وا لبھاء و الحسن والا ستواء“ نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہی قول مجاہد، عکرمہ، سعید بن جبیر اور قتادہ وغیر ہم کا بھی ہے، یعنی حسین و جمیل اور ستاروں سے مزین آسمانوں کی قسم اور ضحاک نے اس کی تفسیر ” ذات الطرائق“ کی ہے، یعنی اس آسمان کی قسم جس میں لہریں اور دھاریاں بنی ہوئی ہیں، جیسے موتی اور ہیرے سے مزین کپڑے میں دھاریاں بن جاتی ہیں، حسن بصری کا ایک قول ہے کہ ” ذات الحبک“ سے مراد ساترے ہیں، یعنی ستاروں سے مزین آسمان کی قسم۔ ان تمام اقوال کا خلاصہ ایک ہی چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آسمان کی قسم کھائی ہے جو بڑا ہی حسین و جمیل اور ستاروں سے مزین ہے اور ایسی قسم اہل مکہ کے کردار کی شناعت و قباحت بیان کرنے کے لئے کھائی ہے، کہ اے کفار مکہ ! تم قرآن کریم اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عداوت میں کس قدر اخلاقی گراوٹ میں مبتلا ہوگئے ہو کہ جو چاہتے ہو ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتہام دھرتے ہو، کبھی انہیں شاعر کہتے ہو، کبھی ساحر کہتے ہو اور کبھی مجنون اور پاگل کہتے ہو، جیسے آسمان میں جگمگاتے ستاروں سے مختلف لہریں اور دھاریاں بنی معلوم ہوتی ہیں، ویسے ہی تم ہمارے نبی کے بارے میں متناقض اور بے بنیاد باتیں کرتے رہتے ہو۔ آیت (٩) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس قرآن پر ایمان لنے سے وہی شخص محروم کیا جاتا ہے جو اللہ کی تقدیر کے مطابق ایمان سے محروم، گم گشتہ راہ اور فکر وفہم سے عاری ہوتا ہے، امام شوکانی نے (یوفک عنہ من افک) کی ایک تفسیر یہ بیان کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں متناقض اور بے بنیاد باتیں کرنے سے وہی شخص بچتا ہے جسے اللہ اپنی توفیق سے ایسی کافرانہ باتوں سے بچاتا ہے۔ الذاريات
8 الذاريات
9 الذاريات
10 (٤) کفار مکہ نے قرآن کریم اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی واضح اور صریح نبوت کا انکار دلائل و براہین کی بنیاد پر نہیں، بلکہ محض ظن وتخمینہ کی بنیاد پر کیا تھا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان جھوٹوں پر لعنت دی مفسرین لکھتے ہیں کہ ” قتل“ کی اضافت جب اللہ کی طرف ہوتی ہے، تو اس سے مقصود ” لعنت“ ہوتی ہے، یعنی اللہ نے انہیں اپنی رحمت سے محروم کردیا ہے۔ ان کی جہالت و نادانی کا حال یہ ہے کہ جو قرآن ان کے لئے دنیا و آخرت کی بھلائی لے کر آیا ہے، اس سے یکسر غافل، اپنی جسمانی لذتوں اور شہوتوں کی تکمیل میں منہمک ہیں اور اگر کبھی قیامت کے بارے میں پوچھتے بھی ہیں تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑانے کے لئے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آیت (١٣) میں ان کے اس استہزاء آمیز سوال کا جواب یہ دیا کہ قیامت اس دن آئے گی جب کفار مکہ جہنم کی آگ میں جلائے جائیں گے۔ الذاريات
11 الذاريات
12 الذاريات
13 الذاريات
14 (٥) ان جہنمیوں سے کہا جائے گا کہ اب چکھو اس عذاب کا مزا جس کا تم بطور استہزاء مطالبہ کیا کرتے تھے، بلکہ وقت سے پہلے اس کے آنے کی تم جلدی مچاتے تھے۔ الذاريات
15 (٦) قرآن کریم کے عام قاعدہ کے مطابق ترہیب کے بعد ترغیب اور اہل جہنم کا بدترین انجام بیان کرنے کے بعد اب جنت اور اہل جنت کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس سے ڈرنے والے ایسے باغات اور چشموں کے درمیان ہوں گے جن کی خوبیاں الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی ہیں۔ ان کا رب انہیں اپنی ان بخششوں اور نوازشوں سے انہیں اس لئے نوازے گا کہ وہ اپنی دنیا کی زندگی میں بڑے ہی اچھے لوگ تھے، اپنے رب کے اوامر کی پابندی کرتے تھے اور نواہی سے بچتے تھے، راتوں کو کم سوتے تھے، یعنی رات کا اکثر حصہ نماز تہجد میں گذارتے تھے، اور جب صبح کے وقت اٹھتے تھے تو نیند کی قلت اور نماز تہجد کی کثرت کے باوجود، انہیں احساس ہوتا تھا کہ جیسے ان کے گناہ اور جرائم بہت ہیں، اسی لئے توبہ اور استغفار میں لگ جاتے تھے اور اپنے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محتاجوں اور فقیروں کا حق سمجھتے تھے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ ” سائل“ سے مراد وہ محتاج ہے جو ہاتھ پھیلا کر مانگتا ہے، اور ” محروم“ سے مراد وہ ہے جو کسی سے اپنی حاجت بیان نہیں کرتا ہے، اس لئے لوگ اسے مالدار سمجھ کر کچھ نہیں دیتے ہیں۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباسرضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ اہل تقویٰ فرض زکاۃ ادا کرنے کے بعد بھی اپنے مال میں محتاج و محروم مسلمانوں کا حق سمجھتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں، میزبانی کرتے ہیں اور پریشان حال لوگوں کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ الذاريات
16 الذاريات
17 الذاريات
18 الذاريات
19 الذاريات
20 (٧) آیت (١٠) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کفار مکہ دلائل و براہین پر غور نہیں کرتے ہیں، محض ظن وتخمین سے کام لیتے ہیں، حالانکہ اگر آسمان و زمین میں پھیلی ہوئی نشانیوں پر غور کرتے تو ایمان و یقین تک پہنچ جاتے اسی مذکور بالا بات کی مزید تاکید کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ اللہ کی بنائی زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں، اگر آدمی ان میں فکر و تدبر سے کام لے تو وہ ایمان و یقین کی دولت سے مالا مال ہوجائے یہ پہاڑ، یہ نہریں، یہ کھیتیاں، رنگ برنگ کے پھل اور پھول، بھانت بھانت کے لوگ اور انواع و اقسام کے بہائم اور حیوانات اور دیگرت مام چیزیں جو زمین میں پائی جاتی ہیں، خالق کائنات کے وجود اور اس کی وحدانیت کا پتہ دیتی ہیں، لیکن ان نشانیوں سے حقیقت میں فائدہ وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو اللہ پر یقین رکھتے ہیں، یہ لوگ جب کائنات میں پھیلی ہوئی نشانیوں میں غور کرتے ہیں، تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور عمل کے باب میں دوسروں سے سبقت لے جاتے ہیں۔ الذاريات
21 (٨) انسان کی تخلیق میں بھی بہت سی نشانیاں ہیں، جن میں غور و فکر آدمی کو خالق کائنات کے وجود اور اس کی وحدانیت کے اعتراف پر مجبور کرتا ہے، باپ کا نطفہ رحم مادر میں قرار پاتا ہے، پھر مختلف مراحل سے گذر کر بچہ پیدا ہوتا ہے، پھر بڑا ہوتا ہے، بوڑھا ہوتا ہے اور ایک دن دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے قوت گویائی، قوت سماعت، قوت بینائی اور قوت عقل و احساس سے نوازتا ہے، اس کے جسم کا ہر عضو الگ الگ کام کرتا ہے اور پھر انسانوں کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں، رنگ و زبان اور عقل و کفر کے اعتبار سے دنیا میں بے شمار قسم کے لوگ ہوتے ہیں، ان تمام باتوں میں فکر و تدبر آدمی کو اس نتیجہ پر پہنچاتا ہے کہ ان کا خلاق ضرور ہے جو قادر مطلق اور وحدہ لاشریک ہے۔ الذاريات
22 (٩) اللہ تعالیٰ عرش بریں پر مستوی ہے اور اپنے علم و قدرت کے ذریعہ آسمان و زمین کے تمام امور کی تدبیر کرتا ہے۔ بارش جو تمام پھلوں، پھولوں اور غذائے انسانی کی پیدائش کا سبب ہے، آسمان کی جانب سے نازل ہوتی ہے۔ خیر و شر اور رحمت و عذاب کے فیصلے آسمان میں ہوتے ہیں۔ لوح محفوظ، جس میں ہر چیز کی تفصیل پائی جاتی ہے وہ بھی آسمان میں ہے۔ ابن عباس (رض) نے ” رزق“ کی تفسیر بارش اور (وما توعدون) کی تفسیر جنت کی ہے۔ مجاہد نے (وما توعدون) سے مراد جنت و جہنم لیا ہے اور کلبی نے اس کی تفسیر خیر و شرکی ہے۔ شوکانی کہتے ہیں کہ (وما توعدون) سے یہ ساری چیزیں مراد ہیں، کیونکہ اعمال کی جزا و سزا، قضا و قدر اور جنت و جہنم سب آسمان میں ہیں۔ الذاريات
23 (١٠) اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھا کر کفار مکہ کو یقین دلانا چاہا ہے کہ قیامت، بعث بعد الموت اور جزا و سزا امر یقینی ہے، اس میں ذرا بھی شبہ کی گنجائش نہیں ہے، جیسے تمہیں اپنی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ و کلمات پر یقین ہوتا ہے کہ وہ الفاظ تمہاری زبان سے نکلے ہیں، اسی طرح وقوع قیامت اور جزا و سزا کے لئے حساب کا ہونا یقینی ہے۔ الذاريات
24 (١١) قیامت اور بعث بعد الموت کی یقین دہانی کے بعد، اب ان قوموں کا ذکر کیا جا رہا ہے جنہوں نے کفار کمہ سے پہلے رسولوں اور بعث بعدالموت کی تکذیب کی تھی۔ اس ضمن میں یہاں پہلا واقعہ قوم لوط کا ہے، اس کا ذکر اس سے پہلے سورۃ ہود اور سورۃ الحجر میں گذر چکا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ کلمہ استفہام ” ھل“ کے ذریعہ اس واقعہ کی ابتدا اس پر دلالت کرتی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلے سے اس کی خبر نہیں تھی، اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ انہیں اس کی اطلاع دی تھی۔ یہاں اس کی ابتدایوں ہوئی ہے کہ ایک دن ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس کچھ ایسے فرشتے آئے جن کا اللہ کے نزدیک بڑا مقام تھا، جب وہ ابراہمی کے پاس پہنچے تو انہوں نے سلام کیا، ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کے سلام کا جواب دیا اور کہا کہ میں آپ لوگوں کو نہیں پہچانتا ہوں، اپنا تعارف کرائیے تاکہ معلوم ہو کہ آپ لوگ کون ہیں، ابتدائی تعارف کے بعد، ابراہیم (علیہ السلام) فوراً ہی مہمانوں سے بتائے بغیر اپنے اہل خانہ کے پاس پہنچے، تاکہ ان کی میزبانی کا انتظام کریں اور جیسا کہ سورۃ ہود آیت (٦٩) میں آیا ہے : (بعجل حنیذ) ” ایک بھنا ہوا بچھڑا ان کے سامنے لے کر آئے“ اور اسے مہمانوں کے قریب کیا، لیکن انہوں نے کھانے کے لئے ہاتھ نہیں بڑھایا، تو ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کھاتے کیوں نہیں اور دل ہی دل میں ڈرنے لگے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کی نیت ہمارے بارے میں اچھی نہیں ہے۔ اسی لئے ہمارا کھانا نہیں کھا رہے ہیں، جیسا کہ سورۃ ہود (٧٠) میں آیا ہے : (فلما رای ایدیھم لاتصل الیہ نکرھم واوجس منھم حیفۃ) ” جب ابراہمی نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھ رہے ہیں، تو ان سے اجنبیت محسوس کرنے لگے اور اندر ہی اندر ان سے ڈر گئے۔ “ جب ان فرشتوں نے دیکھا کہ ابراہیم اندر ہی اندر کسی انہونی شر سے ڈر گئے ہیں، تو انہیں اپنی حقیقت کی اطلاع دے دی، اور ایک لڑکے کی خوشخبری دی جو بڑا ہو کر صاحب علم و فضل ہوگا۔ جمہور اہل علم کے نزدیک اس لڑکے سے مراد اسحاق (علیہ السلام) ہیں، جیسا کہ سورۃ ہود آیت (٧١) میں اس کی صراحت آگئی ہے : (فبشرنا ھا باسحاق) ” ہم نے سارہ علیہما السلام کو اسحاق کی خوشخبری دی“ اور سورۃ الصافات آیت (١١٢) میں آیا ہے : (وبشرناہ باسحاق) ” ہم نے ابراہیم کو اسحاق کی بشارت دی“ سارہ علیہا السلام نے (جو بوڑھی ہوچکی تھیں) جب یہ بات سنی تو مارے حیرت کے ان کے منہ سے چیخ نکل گئی اور اپنا چہرہ پیٹنے لگیں اور کہنے لگیں کہ میں تو بڑھی ہوں اور بانجھ ہوں، مجھے کیسے بچہ ہوگا ؟ تو فرشتوں نے کہا کہ جیسا ہم نے آپ کو خبر دی ہے ویسا ہی اللہ نے فرمایا ہے، اس لئے اس بارے میں کوئی شبہ نہ کیجیے، اللہ نے جو چاہا ہے وہ ہو کر رہے گا (اسوقت سارہ ننانوے سال کی اور ابراہیم (علیہ السلام) سو سال کے تھے) اللہ نے آیت کے آخر میں فرمایا کہ وہ اپنے اقوال و افعال میں بڑا حکیم اور ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ الذاريات
25 الذاريات
26 الذاريات
27 الذاريات
28 الذاريات
29 الذاريات
30 الذاريات
31 (12) ابراہیم (علیہ السلام) کو شاید اندازہ ہوگیا تھا کہ ان فرشتوں کے آنے کا کوئی اور بھی مقصد ہے، اسی لئے جب ان کا خوف جاتا رہا اور بیٹے کی خوشخبری بھی مل گئی، تو ان سے پوچھا کہ تمہاری آمد کا اور کیا مقصد ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ ہم ایک مجرم قوم (قوم لوط) کی طرف بھیجے گئے ہیں، تاکہ ہم ان پر سخت مٹی کے پتھروں کی بارش کردیں جن میں سے ہر پتھر پر ایک ایک مجرم کے نام آپ کے رب کی جانب سے لکھے ہوئے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) اور ان کے گھر والوں کو وہاں سے نکل جانے کا حکم دے دیا، تاکہ وہ عذاب کی لپیٹ میں نہ آئیں کہتے ہیں کہ وہ صرف تین افراد تھے، لوط اور ان کی دو یٹیاں، ان کی بیوی مسلمان نہیں تھی اس لئے ہلاک کردی گئی تھی، بعض کا خیال ہے کہ لوط (علیہ السلام) اور ان کی دونوں بیٹیوں کے علاوہ دیگر دس مسلمان بھی تھے۔ ان مسلمانوں کو آیت (35) میں مومن اور آیت (36) میں مسلم کہا گیا ہے اس لئے کہ وہ لوگ مومن بھی تھے اور مسلم بھی کیونکہ ہر مومن مسلم ہوتا ہے اور ہر مسلم ممن نہیں ہوتا ہے، اس لئے کہ ممکن ہے وہ بظاہر اسلام کے شعائر کی پابندی کرتا ہو، لیکن دل میں پختہ مومن نہ ہو۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحیحین میں مروی ایک مشہور حدیث میں اسلام اور ایمان دونوں کی تشریح کردی ہے، فرمایا :” اسلام کلمہ ” لا الہ الا اللہ“ کی ہشادت، اقامت صلاۃ ادائیگی زکاۃ حج بیت اللہ اور صوم رمضان کو کہتے ہیں اور ایمان یہ ہے کہ اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھا جائے۔ اس حدیث سے اسلام اور ایمان کے درمیان فرق واضح ہوجاتا ہے قرآن کریم میں بعض جگہ اسلام اور ایمان کو ایک دوسرے کے معنی میں لغوی اعتبار سے استعمال کیا گیا ہے، شرعی اعتبار سے دونوں میں وہی فرق ہے جو مذکورہ بالا حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ الذاريات
32 الذاريات
33 الذاريات
34 الذاريات
35 الذاريات
36 الذاريات
37 (13) اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کی ہلاکت کے آثار زمین پر باقی رہنے دیا، تاکہ بعد میں آنے والی قومیں جو وہاں سے گذریں ان آثار کو دیکھ کر عبرت حاصل کریں، چنانچہ اب ان بستیوں کی جگہ کالا بدبو دار پانی بہتا ہے، جسے آج کل ” بحرمیت“ کہتے ہیں، بے شک ان آثار کو دیکھ کر ان لوگوں کو عبرت حاصل ہوتی ہے جو اللہ کے درد ناک عذاب سے ڈرتے ہیں۔ الذاريات
38 (14) جس طرح قوم لوط کی بستی کے باقی ماندہ آثار کفار مکہ اور دیگر قوموں کے لئے نشان عبرت ہیں، اسی طرح موسیٰ (علیہ السلام) کے دشمنوں کی ہلاکت بھی اپنے اندر بہت سی نشانیاں لئے ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو معجزہ عصادے کر فرعون کے پاس بھیجا، تاکہ وہ اسے اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دیں، لیکن فرعون نے تکبر کے ساتھ ان سے اور ان کی دعوت سے منہ پھیر لیا اور ان کے بارے میں اپنی قوم سے کہنے لگا یہ آدمی یا تو جادو گر ہے، یا اسے جنون لاحق ہوگیا ہے، مفسرین لکھتے ہیں کہ اس ملعون کا مقصد اپنی قوم کو بیوقوف بنانا اور دھوکہ دینا تھا، ورنہ اس نے خوب سمجھ لیا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں جن معجزوں کا ظہور ہوا ہے وہ کسی ساحر کا کارنامہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کوئی مجنون ایسے کارنامے انجام دے سکتا ہے۔ الذاريات
39 الذاريات
40 (15) اللہ تعالیٰ نے یہاں پر موسیٰ اور فرعون کے واقعات کو مختصر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب اس کی سرکشی انتہا کو پہنچ گئی اور اس کے ایمان لانے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو ہم نے اسے اور اس کے لشکر کو سمندر میں ڈبودیا، درانحالیکہ اس کے سارے کرتوت قابل ملامت تھے، اس نے ربوبیت کا دعویٰ کیا، اللہ کا انکار کیا اور سرکشی اور کبر و غرور کی آخری حدوں کو پہنچ گیا۔ الذاريات
41 (16) قوم عاد، یعنی قوم ہود (علیہ السلام) کی ہلاکت بھی اپنے اندر نشان عبرت رکھتی ہے، جب ان کی سرکشی حد سے متجاوز ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کرنے کے لئے ایک ایسی تیز و تند ہوا کو ان پر مسلط کردیا جس میں کسی طرح کی کوئی خیر نہیں تھی، یعنی اللہ نے وہ ہوا چلائی ہی تھی صرف قوم عاد کو ہلاک کرنے کے لئے چنانچہ وہ ہوا جس روح اور جس چیز کو بھی لگی، وہیں ڈھیر ہوگئی، تمام لوگ ہلاک ہوگئے، ان کے مویشی مر گئے اور ان کے سارے اسباب زندگی تباہ برباد ہوگئے۔ الذاريات
42 الذاريات
43 (17) قوم ثمود، یعنی قوم صالح (علیہ السلام) کی ہلاکت میں بھی کفار مکہ اور دیگر قوموں کے لئے بہت سی عبرت و موعظت کی باتیں ہیں، جب ان کی بھی سرکشی حد سے بڑھ گئی، صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کو ہلاک کردیا اور ان کے ایمان لانے کی کوئی امید باقی نہ رہی، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں رہنے کے لئے تین دن کی مہلت دی، جیسا کہ سورۃ ہود آیت (٥٦) میں آیا ہے : (متعوا فی دارکم ثلاثہ ایام) ” تم لوگ تین دن تک اپنے گھروں میں مزے کرلو۔“ لیکن انہوں نے سرکشی کی ہی راہ اختیار کی، اور اپنے رب کا حکم ماننے سے انکار کردیا، تو عذاب الٰہی نے دن دھاڑے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا اور موت ان میں سے ایک ایک کو اچکنے لگی درانحالیکہ وہ اپنے گھٹنوں کے بل اوندھے منہ زمین پر پڑے تھے اور وہ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے، نہ اپنی مجلسوں سے اٹھ سکے اور نہ ہی کوئی ان کی مدد کیلئے آیا جو انہیں عذاب سے بچا لیتا۔ الذاريات
44 الذاريات
45 الذاريات
46 (18) فرعون، قوم عاد اور قوم ثمود سے پہلے نوح (علیہ السلام) کی قوم نے بھی سرکشی کی راہ اختیار کی اور اللہ کی طاعت و بندگی کا انکار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی ہلاک کردیا بے شک ان کی ہلاکت میں بھی ان کے بعد آنے والی قوموں کے لئے عبرت و موعظت ہے۔ الذاريات
47 (19) مندرجہ ذیل آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے مظاہر بیان کر کے گویا یہ کہنا چاہا ہے کہ جو ایسی عظیم ترین قدرت کا مالک ہے، بے شک وہی ہر چیز کا رب اور اپنے تمام بندوں کا معبود واحد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے آسمان کو اپنی قدرت سے بنایا ہے اسے اونچا بنایا ہے اور شمس و قمر اور ان گنت ستاروں سے اسے مزین کیا ہے اور ہم ہر چیز کو جتنا پھیلانا چاہیں اسے پھیلانے کی قدرت رکھتے ہیں اور ہم نے زمین کو فرش کی طرح پھیلا دیا ہے، تاکہ بندے اس سے مستفید ہو سکیں، ہم ہی اسے اچھی طرح پھیلانے والے ہیں، یعنی ہمارے سوا کوئی اس کی قدرت نہیں رکھتا ہے۔ آیت (٩٤) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ہر چیز کو جوڑا پیدا کیا ہے، کوئی چیز اس دنیا میں فرد نہیں ہے، آسمان و زمین، لیل و نہار، شمس و قمر، بحر و بر، ظلمت و روشنی ایمان و کفر، موت و حیات، نیک بختی و بدبختی، جنت و جہنم، حتی کہ حیوانات و نباتات سبھی جوڑے ہیں، صرف اللہ کی ذات وحدہ لاشریک ہے اور انسان و جن اور حیوانات و بہائم میں مذکر و مؤنث ہونا اور ان کی نسلوں کی بقاء کے لئے بظاہر بے جان نطفہ میں جان ڈالنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اللہ قادر مطلق مردوں کو دوبارہ زندہ کیر گا اسی لئے آیت کے آخر میں (لعلکم تذکرون) آیا ہے یعنی تاکہ تم لوگ غور و فکر کے اس نتیجہ پر پہنچ سکو کہ تمہاری عبادت کا مستحق صرف رب ذوالجلا ہے جس نے ہر چیز کو جوڑا پیدا کیا ہے، یعنی یا تو انہیں مذکر و مؤنث بنایا ہے، یا ایک دوسرے کا مخالف بنایا ہے، جیسے آگ پانی کا، موت زندگی کا ایمان کفر کا اور جنت جہنم کی مخالف ہے۔ الذاريات
48 الذاريات
49 الذاريات
50 (20) مشرکین مکہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی کہا جا رہا ہے کہ جب دلائل و براہین سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اس کے در کے سوا کوئی در نہیں، اس کی ذات کے سوا کوئی ملجاوماویٰ نہیں، تو اے مشرکین مکہ ! اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ تم اس پر ایمان لے آؤ، اس کی طاعت و بندگی کرو، اس لئے کہ اس کے عذاب سے بچنے کا اس کے سوا کوئی ذریعہ نہیں کہ اس کی بندگی کی جائے اور دیکھو ! میں اس کے عذاب سے تمہیں بہت ہی صراحت کے ساتھ ڈرا رہا ہوں، اگر تم نے اپنی حالت نہیں بدلی تو تم پر بھی کوئی ویسا ہی عذاب نہ نازل ہوجائے جیسا ان قوموں پر نازل ہوا تھا جن کے قصے تم ابھی سن آئے ہو۔ مزید تاکید کے طور پر مشرکین مکہ سے کہا گیا کہ تم لوگ اللہ کے عقاب سے بچنے کے لئے اس کی وحدانیت کا اقرار کرو، اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور دیکھو میں تمہیں بہت ہی صراحت کے ساتھ اس کے عذاب سے ڈرائے دے رہا ہوں تاکہ تمہارے پاس کوئی عذر باقی نہ رہ جائے۔ الذاريات
51 الذاريات
52 (21) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ کی قوم اگر آپ کو ساحر و مجنون کہتی ہے تو اس سے دل برداشتہ نہ ہوں کیونکہ کافر قوموں کا ہمیشہ یہی شیوہ رہا ہے کہ جب بھی ان کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی رسول آیا تو اسے جادوگر اور پاگل کہا۔ آیت (٣٥) میں اللہ تعالیٰ نے ہر دور کے اہل کفر کی حالت پر اظہار تعجب کیا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تمام اہل کفر ایک دوسرے کو یہ بات سکھاتے آئے ہیں کہ جب بھی کوئی نبی آئے تو اسے ساحر و مجنون کہا جائے، گویا سب کا اس پر اتفاق ہوچکا ہے آیت کے دوسرے حصہ میں کہا گیا ہے کہ اہل کفر کی سرکشی حد سے تجاوز کرگئی ہے جبھی تو انہوں نے ہمارے رسول کے بارے میں اتنی بری بات کہی ہے، درحقیقت ان کی فطرت خبیث ہے، اسی لئے انہوں نے اپنی زبان سے اتنی قبیح و شنیع بات کہی ہے۔ اسی لئے آیت (٤٥) میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نصیحت کی کہ آپ ان کے ساتھ نہ الجھئے، آپ نے اپنا کام کردیا، اب آپ عند اللہ قابل ملامت نہیں ہیں، اس لئے کہ آپ نے اپنی ذمہ داری پوری کردی۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ یہ حکم آیت جہاد کے ذریعہ منسوخ ہوچکا ہے۔ الذاريات
53 الذاريات
54 الذاريات
55 (٢٢) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ مشرکین کے ساتھ بغیر الجھے اور بغیر ٹکراؤ پیدا کئے قرآن پڑھ کر انہیں نصیحت کرتے رہئے، تاکہ جن کی قسمت میں ایمان لانا لکھا ہے اس سے مستفید ہوں اور وہ لوگ بھی مستفید ہوں۔ جو ایمان لا چکے ہیں۔ الذاريات
56 (23) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ میں انہیں اپنی عبادت کا حکم دوں، ورنہ مجھے ان کے پیدا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ شو کانی لکھتے ہیں کہ اوپر کی آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن کریم پڑھ کر نصیحت کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے، اسی کی تائید میں یہ بات کہی گئی ہے، یعنی چونکہ انسانوں کی تخلیق کا مقصد ہی عبادت کرنا ہے، اس لئے آپ بہرحال انہیں نصیحت کرتے رہئے اور ان کی تخلیق کا یہ مقصد مشرکین مکہ سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ آپ کی نصیحت قبول کریں۔ الذاريات
57 (24) رب ذوالجلا نے اپنی عظمت و کبریائی بیان کی ہے کہ اس مقام اپنے بندوں کے مقابلے میں وہ نہیں ہے جو دنیا کے آقاؤں کا ان کے غلاموں کے مقابلے میں ہوتا ہے دنیا کے آقا اپنے غلاموں کے یک گونہ محتاج ہوتے ہیں، ان کے آقا ان سے خدمت اور تجارت یا مزدوری کے ذریعہ مال کا مطالبہ کرتے ہیں، جبکہ اللہ اپنے بندوں سے بندگی کے سوا کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتا ہے، کیونکہ وہ غنی ہے، وہ کسی چیز کا محتاج نہیں ہے، وہی سب کو روزی دیتا ہے اور اس کی قوت ایسی زبردست اور ناقابل شکست ہے کہ آسمان و زمین میں کوئی چیز اسے عاجز نہیں بنا سکتی ہے۔ الذاريات
58 الذاريات
59 (25) جن مشرکین مکہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب اور کفر و شرک اور فساد و سرکشی پر اصرار کر کے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے، وہ لوگ گزشتہ زمانوں میں ہلاک کی جانے والی قوموں کی طرح بڑے عذاب کے سزا وار ہوگئے ہیں، وہ جلدی نہ کریں، اسے ضرور آنا ہے اور وقت مقرر پر آنا ہے، اللہ نے اپنی معلوم حکمت کی وجہ سے اسے مؤخر کر رکھا ہے، جب اس کا وقت آجائے گا تو اسے کوئی ٹال نہ سکے گا اور وہ بڑا ہی درد ناک عذاب ہوگا، اسی لئے آیت (٠٦) میں کہا گیا ہے کہ جس عذاب کے دن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے وہ کافروں کے لئے ہلاکت و بربادی کا دن ہوگا، مفسرین لکھتے ہیں کہ اسے مراد یا تو روز قیامت ہے، یا غزوہ بدر جب مشرکین مکہ کے کشتوں کے پشتے لگ گئے تھے، مفسر ابوالسعود نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے۔ وباللہ التوفیق الذاريات
60 الذاريات
0 سورۃ الطور مکی ہے، اس میں انچاس آیتیں اور دو رکوع ہیں تفسیر سورۃ الطور نام : اس سورت کا پہلا لفظ ” الطور“ ہے، یہی اس کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی لکھتے ہیں کہ سب کے نزدیک یہ سورت مکی دور میں نازل ہوئی تھی، بیہقی وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ الطور مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ الطور
1 (١) مندرجہ ذیل چھ آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی چند مخلوقات کی قسم کھا کر سننے والوں کے ذہنوں میں اس بات کی اہمیت بٹھانی چاہی ہے جس پر قسم کھائی ہے اور جس کا ذکر آیت (٧) میں آیا ہے، یعنی عذاب جہنم جو یقینی امر ہے اور جو لوگ اس کے حقدار ہوں گے ان پر وہ عذاب ضرور نازل ہوگا، یہ ایک ایسی بات ہے، جس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ ” طور“ سریانی زبان میں پہاڑ کو کہتے ہیں، اور بالعموم اس کا اطلاق ہرے بھرے پہاڑ پر ہوتا ہے صحرائے سیناء کے جس پہاڑ پر موسیٰ (علیہ السلام) رب العالمین سے ہم کلام ہوئے تھے، اسے ” طور سینا“ کہا جانے لگا ہے اور جو تجلی الٰہی کی تاب نہ لا کر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تھا۔ (وکتاب مسطور) سے مراد یا تو قرآن کریم ہے، یا لوح محفوظ یا تمام آسمانی کتابیں (رق“ اس باریک چمڑے کو کہتے ہیں جسے قدیم زمانے میں کاغذ کے طور پر لکھنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا اور (والبیت المعمور) سے مراد وہ گھر ہے جو ساتویں آسمان پر پایا جاتا ہے اور جسے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کی رات میں دیکھا تھا اور دیکھا تھا کہ روزانہ ستر ہزار فرشتے اس میں داخل ہوتے ہیں اور دوبارہ اس سے باہر لوٹ کر نہیں آتے ہیں، فرشتے اس گھر کا اسی طرح طواف کرتے ہیں جس طرح اہل زمین خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ساتویں آسمان پر اسی بیت معمور سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے دیکھا تھا اور یہ بیت معمور بالکل کعبہ کے سامنے ہے اور اسی طرح کا ایک گھر ہر آسمان پر پایا جاتا ہے، جس کے اردگرد اس آسمان پر رہنے والے عبادت کرتے ہیں، آسمان دنیا کے گھر کا نام ” بیعت العزۃ“ ہے۔ بعض لوگوں نے (والبیت الممعمور“ سے مراد خانہ کعبہ لیا ہے، پہلی تفسیر کے مطابق وہ گھر فرشتوں کی عبادت سے آباد ہے اور دوسری تفسیر کے مطابق حج اور عمرہ کرنے والوں، طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور دیگر عبادت گذاروں سے آباد رہتا ہے۔ صاحب محاسن التنزیل نے دوسری تفسیر کو سورۃ التین کی دوسری اور تیسری آیات (وطور سینین، وھذا البلد الامین) کی روشنی میں ترجیح دی ہے، یعنی وہاں طور سینا کے ساتھ بلد امن ” مکہ مکرمہ“ کا ذکر آیا ہے، اس لئے یہاں بھی طور کے ذکر کے بعد ” بیت معمور“ سے مراد خانہ کعبہ ہے جو مکہ میں ہے، کیونکہ قرآن کریم کی ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر کرتی ہے۔ (سقف مرفوع“ سے مراد آسمان ہے اور چونکہ وہ زمین کے لئے چھت کے مانند ہے، اس لئے اسے چھت سے تعبیر کیا گیا ہے اور ” بحر مسجور“ سے مراد یا تو پانی سے بھرا ہوا سمندر ہے، یا یہ کہ جب قیامت آئے گی تو سمندروں کا پانی آگ بن جائے گا۔ (مسجور“ کے کئی دیگر معانی بھی بیان کئے گئے ہیں، بعض نے کہا ہے کہ وہ ” فارغ“ یعنی خالی کے معنی میں ہے، بعض نے اس کا معنی ” مفجور“ کیا ہے، یعنی سارے سمندر پھٹ پڑیں گے، میٹھا پانی کھارے پانی میں مل جائے گا امام شوکانی نے دوسرے معنی کو ترجیح دیا ہے، یعنی اللہ نیاس سمندر کی قسم کھائی ہے جس کا پانی قیامت کے دن آگ ہوجائے گا۔ الطور
2 الطور
3 الطور
4 الطور
5 الطور
6 الطور
7 (٢) یہی وہ بات ہے جس کی اہمیت لوگوں کے ذہنوں میں بٹھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی مذکورہ بالا مخلوقات کی قسم کھائی ہے، اور کہا ہے کہ اے میرے نبی ! آپ کے رب کا عذاب ان لوگوں پر ضرور نازل ہوگا جو آپ کو، قرآن کریم کو اور بعث بعد الموت کے عقیدے کو جھٹلاتے ہیں اور اس عذاب سے کوئی بھی انہیں بچانہ سکے گا، یعنی بعث بعد الموت اور روز قیامت برحق ہے، جس دن اللہ تعالیٰ کافروں کو جہنم کا مزا چکھائے گا۔ الطور
8 الطور
9 (٣) اس روز قیامت کی بعض نشانیاں یہ ہیں کہ اس دن آسمان نہایت تیزی کے ساتھ حرکت کرنے لگے گا اور پہاڑ اپنی جگہوں سے ہٹ جائیں گے، بادلوں کی طرح چلنے لگیں اور غبار بن کر اڑنے لگیں گے اور جس دن آسمانوں اور پہاڑوں کی یہ کیفیت ہوگی، وہ اللہ اس کے رسول اور اس کے قرآن کی تکذیب کرنے والوں کے لئے بڑی ہی ہلاکت و بربادی کا دن ہوگا، یا جہنم میں ان کا ٹھکانا ” ویل“ نام کی وادی ہوگی۔ الطور
10 الطور
11 الطور
12 (٤) یہ وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں باطل کی تائید کرتے تھے، روز آخرت کے حساب و عقاب سے غافل لہو و لعب میں مشغول رہتے تھے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑاتے تھے (فی حوض یلعبون) کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو دنیا کے عیش و آرام میں منہمک اور فکر آخرت سے یکسر غافل رہتے تھے۔ الطور
13 (٥) انہیں نہایت بے دردی اور سختی کے ساتھ دھکا دے کر جہنم میں پہنچا دیا جائے گا، مقاتل کہتے ہیں کہ ان کے ہاتھ ان کی گردنوں کے ساتھ اور ان کے سر ان کے قدموں کے ساتھ باندھ دیئے جائیں گے، پھر چہروں کے بل جہنم میں دھکیل دیئے جائیں گے۔ الطور
14 (٦) ان سے جہنم پر مامور فرشتے کہیں گے کہ یہی وہ نار جہنم ہے جس کی تم دنیا میں تکذیب کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ ان سے ان کی تذلیل و اہانت میں اضافہ کرتے ہوئے کہے گا کہ یہ نار جہنم جس کا تم اب مشاہدہ کر رہے ہو، کیا یہ جادو اور افسانہ ہے جیسا کہ تم دنیا میں ہمارے رسولوں کو جادوگر اور ہماری کتابوں کو جادو اور افسانہ کہا کرتے تھ، یا تم اندھے ہو اور نار جہنم کو دیکھ نہیں پا رہے ہو، جیسا کہ تم دنیا میں دل کے اندھے تھے اور راہ حق کو نہیں دیکھ پا رہے تھے۔ الطور
15 الطور
16 (٧) اب تو وہ حقیقت جس کا تم دنیا میں انکار کرتے تھے تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے اب جہنم میں داخل ہوجاؤ اور اس کے عذاب کی سختیوں کو جھیلو، صبر کرو یا نہ کرو، دونوں ہی حال برابر ہے، بہرحال اب نار جہنم سے چھٹکارا نہیں ہے، تم نے اپنے رب کا انکار کیا تھا اور زمین کو گناہوں سے بھر دیا تھا تو یہ عذاب تمہاری انہی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ الطور
17 (٨) قرآن کریم کے عام قاعدہ کے مطابق اہل جہنم کا انجام بدبیان کئے جانے کے بعد اہل جنت کے لئے تیار نعمتوں کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا میں شرک و معاصی سے بچنے والے قیامت کے دن جنتوں اور باغوں میں ہوں گے، اور ان کے لئے کبھی نہ ختم ہونے والی نعمتیں ہوں گی، وہاں وہ اللہ کی طرف سے عطا کی گئی نعمتوں سے خوب راحت و لذت پائیں گے اور ایک بہت بڑی نعمت یہ ہوگی کہ ان کا رب جہنم سے ان کی آزادی کا اعلان کر دے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ دنیا میں تم جو اعمال صالحہ کرتے تھے ان کے سبب اب اس جنت کی بے مثال نعمتوں میں سے جو چاہو کھاؤ پیو، یہاں تمہارے عیش و آرام میں کوئی خلل نہیں ڈالے گا، اور نہ تمہیں اب موت لاحق ہوگی۔ الطور
18 الطور
19 الطور
20 (٩) ان جنتوں میں اہل جنت صفوں میں لگے گاؤ تکیوں پر ٹیک لگا کر بیٹھیں گے، اور اللہ تعالیٰ ان کی شادی بڑی آنکھوں والی حوروں سے کر دے گا، یعنی وہاں کی زندگی ایسے آرام و راحت اور ٹھاٹھ باٹھ کی ہوگی جسے اس دنیا میں نہ کسی نے دیکھا ہے، نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی دل نے کبھی اس کا تصور کیا ہے۔ الطور
21 (10) اہل جنت پر اللہ تعالیٰ کی کرم نوازیوں کی کوئی انتہا نہیں ہوگی، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا انہی بے شمار کرم فرمائیوں میں سے ایک یہ بھی ہوگا کہ ان کی جو اولاد دنیا میں ایمان لائے گی، عمل صالح کرے گی اور سئیات و معاصی سے بچے گی، وہ اگر اپنے اعمال کی بدولت جنت کا وہ مقام حاصل نہیں کرسکے گی جو ان کے نیک باپ ماں کا ہوگا، تو اللہ تعالیٰ ان کے والدین کی خوشی میں مزید اضافہ کرنے کے لئے ان کے درجات بلند کر کے، ان کے والدین کے مقام تک پہنچا دے گا، سعید بن جبیر نے ابن عباس (رض) سے یہی تفسیر روایت کی ہے۔ عوفی نے ابن عباس (رض) سے اس کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ جن اہل جنت کی اولاد ایمان لائے گی اور اللہ کی بندگی کرے گی، انہیں اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کی بدولت جنت میں داخل کر دے گا اور ان کے چھوٹے بچے ان کے پاس جنت میں پہنچا دیئے جائیں گے، ان جریر نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ انہیں خوش کرنے کے لئے ان کی اولاد کے ساتھ جو کرم فرمائی ہوگی، اس کے سبب ان کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کے درمیان اپن اعدل و انصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ کسی کا مواخذہ کسی دوسرے کے گناہوں کی وجہ سے نہیں کرے گا ہر آدمی صرف اپنے عمل کا ذمہ دار ہوگا، اس پر کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں لادا جائے گا، چاہے اس کا باپ یا بیٹا ہی کیوں نہ ہوگا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المدثر آیات (38، 39) میں فرمایا ہے : (کل نفس بما کسبت رھینۃ، الا اصحاب الیمین) ” ہر جان اپنے اعمال کے بدلے گروی ہے، مگر دائیں طرف والے“ الطور
22 (١١) اہل جنت پر اللہ تعالیٰ کی بخششوں کی بارش ہر دم ہوتی رہے گی، اللہ تعالیٰ ان کے پاس انواع و اقسام کے پھل اور ان کے پسندیدہ گوشت پہنچاتا رہے گا، وہ لوگ ایک دوسرے کو شراب سے بھرے جام دیں گے، جسے پی کر بدمست نہیں ہوں گے، نہ زبان سے نازیبا اور فحش کلمات نکالیں گے اور نہ ہی اسے پی کر بہکیں گے اور نہ گنارہ کا ارتکاب کریں گے، جیسا کہ دنیا والے دنیا کی حرام شراب پی کر بہکتے ہیں، فحش بکتے ہیں اور دوسروں کی عزت پر دست درازی کرتے ہیں۔ اور ان کی خدمت کے لئے ان کے اردگرد خدم و حشم پھرتے رہیں گے اور انہیں کھانے کے لئے پھل اور پینے کے لئے شراب کے جام بھر بھر کر پیش کرتے رہیں گے اور وہ ایسے خوبصورت ہوں گے جیسے سیپ میں بند موتی ہوتے ہیں، جنہیں اب تک کسی نے ہاتھ نہیں لگایا ہو۔ الطور
23 الطور
24 الطور
25 (12) اہل جنت آپس میں ایسی باتیں کریں گے جن سے مقصود جنت میں رب العالمین کی دی ہوئی نعمتوں کا ذکر اور ان پر اس کا شکر ادا کرنا ہوگا پہلے ان حالات کا ذکر کریں گے جن سے وہ دنیا میں طاعت و بندگی کی راہ میں دوچار ہوئے اور ایک دوسرے سے کہیں گے کہ ہم دنیا میں اللہ کے عذاب سے کتنے خائف رہتے تھے تو اللہ نے آج ہم پر کیسا احسان کیا ہے کہ ہمیں جہنم کی آگ سے نجات دے دی ہے۔ ہم روز قیامت آنے سے پہلے دنیا میں صرف اسی کی عبادت کرتے تھے، اسی کے سامنے گڑ گڑاتے تھے کہ ارحم الراحمین تو ہمیں جہنم کے عذاب سے نجات دے دے اور جنت میں داخل کر دے تو اس نے ہماری دعا قبول کرلی، اس لئے کہ جو اسے پکارتا ہے وہ اس کی ضرور سنتا ہے اور اس پر ضرور احسان کرتا ہے اور جو صرف اسی کی عبادت کرتا ہے اور اس کے عذاب سے خائف رہتا ہے، اس پر رحم کرتے ہوئے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق ضرور دیتا ہے۔ الطور
26 الطور
27 الطور
28 الطور
29 (13) اس آیت کریمہ سے مقصود مشرکین مکہ کے اس قول کی تردید ہے کہ محمد یا تو کاہن ہے جوغیب کی خبریں لانے کا دعویٰ کرتا ہے، یا اسے جنون لاحق ہوگ یا ہے جس کے سبب بہکی بہکی باتیں کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے فرمایا کہ آپ لوگوں کو قرآن کریم پڑھ کر ان کے رب کی طرف بلاتے رہئے۔ آپ پر آپ کے رب کا بڑا انعام ہے کہ اس نے آپ کو نبوت، عقل راجح اور عظیم اخلاق کریمانہ سے نوازا ہے، آپ کا ہن اور مجنون کیسے ہو سکتے ہیں؟ آپ تو جو کچھ بیان کرتے ہیں وہ اللہ کی وحی ہوتی ہے اور بندوں کے لئے اس کا پیغام ہوتا ہے، جسے آپ بلاکم وکاست ان تک پہنچاتے ہیں۔ الطور
30 (14) مشرکین مکہ کبھی کہتے کہ محمد ایک شاعر ہے، جیسے بلاد عربیہ میں بڑے بڑے شعراء گذر چکے ہیں یہ بھی چند سالوں تک ہمیں اپنی شاعری سناتا رہے گا، پھر عمر طبیعی کو پہنچ کر مر جائے گا اور قصہ تمام ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی ان کو کور مغزی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ٹھیک ہے، پھر تم میری موت کا انتظار کرو، اور وہ میں بھی تمہارے بارے میں اللہ کے فیصلے کا انتظار کرتا ہوں۔ الطور
31 الطور
32 (15) قریش کے سادات بڑی عقل والے مانے جاتے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ محمد نہ کاہن ہے نہ مجنون، بلکہ وہ واقعی اللہ کے رسول ہیں، لیکن محض کبرو عناد کی وجہ سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں متضاد باتیں کہتے تھے، کبھی انہیں کاہن کہتے جو ان کے خیال میں بڑا ذہین و فطین ہوتا تھا اور کبھی انہیں مجنون کہتے جو عقل سے عاری ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا ان کی عقل و دانش جوان کی صفت بتائی جاتی ہے، انہیں ایسی ہی متضاد بات کرنے کا حکم دیتی ہے؟ پھر اللہ نے فرمایا کہ نہیں بات دراصل یہ ہے کہ ان کی سرکشی حد سے تجاوز کرگئی ہے اور حق ظاہر ہوجانے کے باوجود محض کبر و عناد کی وجہ سے وہ ایسی متضاد باتیں کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان کی سرکشی تو بہت زیادہ آگے بڑھ گئی ہے، کہتے ہیں کہ قرآن محمد کا کلام ہے، اس نے اسے اپنی طرف گھڑ لیا ہے، بلکہ بات اس سے بھی آگے جا چکی ہے، دراصل یہ متضاد باتیں وہ اس لئے کرتے ہیں کہ وہ کافر ہیں، نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تصدیق کرتے ہیں، اسی لئے اس طرح کی افترا پردازی کرتے ہیں۔ آیت (34) میں اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین کو چینلج کیا کہ اگر وہ اپنے زعم میں سچے ہیں کہ قرآن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام ہے، تو پھر اس جیسا کلام لا کر دکھائیں جو حسن بیان، اسلوب بدیع اور فصاحت و بلاغت کی انتہا کو پہنچا ہوا ہے، اس لئے کہ قرآن عربی زبان میں ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ فصاحت و بلاغت کی حدود کو چھو رہے ہیں۔ الطور
33 الطور
34 الطور
35 (16) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے خلاف حجت قائم کرنے کے لئے ایک ایسا طرز استدلال اختیار کیا ہے، جس کے نتیجہ میں انہیں باری تعالیٰ کی توحید کا اقرار کرلینا چاہئے، ورنہ بصورت انکار، ان پر حجت قائم ہوجائے گی کہ ان کا اعتقاد مشرکانہ دین اور عقل سب کے خلاف ہے، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ان کا عقیدہ انکار توحید و رسالت اس دعویٰ کو مستلزم ہے کہ انہیں اللہ نے نہیں پیدا کیا ہے اور ایسا دعویٰ کرنا تین حالتوں میں سے ایک سے خالی نہیں ہے یا تو وہ یہ کہیں کہ انہیں کسی خالق نے پیدا نہیں کیا ہے، بلکہ از خود وجود میں آگئے ہیں اور یہ بات عین محال ہے، یا یہ کہیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو خود ہی پیدا کیا ہے، یہ بھی محال ہے، اس لئے کہ ایسا ممکن نہیں کہ کوئی اپنے آپ کو پیدا کرے اور جب یہ دونوں صورتیں ناممکن ہوئیں، تو تیسری بات ثابت ہوگئی کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ صرف وہی ذات برحق عبادت کا مستحق ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ الطور
36 (17) اس آیت کریمہ میں استفہام، نفی کے معنی میں ہے، یعنی انہوں نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا ہے کہ وہ اللہ کے شریک بن جائیں اور یہ بات بالکل واضح ہے لیکن مشرکین ” یقین“ کی نعمت سے محروم ہیں، اسی لئے انہیں توحید باری تعالیٰ سے متعلق شرعی اور عقلی دلائل سے فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ الطور
37 (18) مشرکین مکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا انکار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اللہ نے مکہ وطائف کے بڑے بڑے رؤساء کو چھوڑ کر محمد کو کیسے نبوت دے دی، اسی کافرانہ بات کی تردید کی جا رہی ہے کہ کیا آپ کے رب کی رحمت کے خزانے ان کے اختیار میں ہیں کہ وہ جسے چاہیں دیں اور جسے چاہیں محروم کردیں، اسی لئے وہ اللہ پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے اپنے بندے اور رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیوں نبوت دے دی، حالانکہ وہ تو اللہ کی نگاہ میں نہایت ہی حقیر و ذلیل لوگ ہیں، ان کے اختیار میں تو ان کا اپنا نفع و نقصان بھی نہیں ہے۔ وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر اللہ کی بادشاہی اور اس کے اختیارات پر قباض نہیں ہوگئے ہیں کہ ایسی بات کرتے ہیں وہ تو نہایت ہی محتاج اور عاجز لوگ ہیں۔ الطور
38 (19) اس آیت میں بھی استفہام، نفی کے معنی میں ہے، یعنی کیا انکے پاس کوئی ایسی سیڑھی ہے جس کے ذریعہ وہ آسمان تک پہنچ جاتے ہیں اور فرشتوں کی وہ باتیں سن لیتے ہیں جو انہیں بذریعہ وحی معلوم ہوتی ہے اور اس طرح انہیں غیب کی باتیں معلوم ہوجاتی ہیں؟ ایسی کوئی بات نہیں ہے اور اگر وہ اس کا دعویٰ کرتے ہیں، تو اپنی صداقت پر دلیل پیش کریں اور وہ دلیل کیسے پیش کرسکیں گے، غیب کی خبریں تو صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں، وہ کسی کو بھی ان پر مطلع نہیں کرتا ہے، سوائے اس رسول کے جسے وہ اپنی پیغام رسانی کے لئے چن لیتا ہے، تو اسے جتنی باتوں کی چاہتا ہے خبر دیتا ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، جنہیں اس نے اپنی توحید اور دین اسلام کی صداقت کی خبر دی ہے اور مشرکین مکہ نادان، گمراہ اور کبرو عناد میں مبتلا ہیں، جن کے پاس آسمان سے کوئی خبر نہیں آتی ہے تو بھلا کس کی بات مانی جائے، ان کی یا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ الطور
39 (20) مشرکین مکہ سے پوچھا جا رہا ہے کہ کیا تمہارے گمان کے مطابق اللہ کے لئے بیٹیاں ہیں اور تمہارے لئے بیٹے ہیں؟ اللہ تعالیٰ کے خلاف یہ کیسی جرأت بے جا ہے کہ تم اپنے لئے تو بیٹا پسند کرتے ہو، اور اس کے لئے بیٹیاں ثابت کرتے ہو کیا رب العالمین کی اس سے بڑھ بڑھ کر کوئی عیب جوئی ہو سکتی ہے۔ الطور
40 (21) یہاں بھی استفہام، نفی کے معنی میں ہے، یعنی اے میرے نبی ! کیا آپ ان تک میری پیغام رسانی کے بدلے ان سے کوئی معاوضہ طلب کرتے ہیں، جس کے بوجھ تلے وہ دبے جا رہے ہیں اور اسلام قبول کرنے سے معذور ہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے، آپ تو بلا معاوضہ پوری کوشش کر رہے ہیں کہ وہ دائرہ اسلام میں آجائیں بلکہ آپ اپنے پاس سے انہیں مال دیتے ہیں، تاکہ ان کے دلوں میں ایمان راسخ ہوجائے۔ الطور
41 (٢٢) کیا مشرکین مکہ کے پاس غیب کی خبریں آتی ہیں، جنہیں وہ لکھ لیتے ہیں اور اس طرح انہیں وہ باتیں معلوم ہوجاتی ہیں جن کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر نہیں ہوتی ہے اور جن کی بنیاد پر وہ آپ کی مخالفت کرتے ہیں؟ ایسی کوئی بات نہیں ہے، وہ تو نرے ان پڑھ اور گمراہ لوگ ہیں، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس غیب کی ایسی خبریں آتی ہیں جو ان کے سوا کسی مخلوق کے پاس نہیں آتی ہے۔ اس لئے ان کا دعویٰ باطل ہے، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم برحق اور صادق ہے۔ الطور
42 (23) کیا مشرکین مکہ آپ میں اور آپ پر نازل کردہ قرآن میں عیب لاگ کر دین اسلام اور آپ کے خلاف کوئی چال چل رہے ہیں؟ تو جان لیں کہ ان کی سازش انہی کیگ لے کا پھندا بن جائے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا، کافروں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دین اسلام کو زک پہنچانے کے لئے ایک کسر نہیں چھوڑی لیکن انہیں منہ کی کھانی پڑی اور اللہ نے اپنے رسول کی مدد کی، ان کے دین کو غالب بنایا اور کافروں کو ذلیل و رسوا کیا؟ الطور
43 (24) کیا مشرکین مکہ کا کوئی دوسرا معبود ہے جو پکارے جانے کا مستحق ہے، جس سے نفع کی امید لگائی جاسکتی ہے اور جس کی ضرر رسانی سے ڈرا جاسکتا ہے؟ ایسی کؤی بات نہیں ہے، اللہ مشرکوں کے شرک سے پاک ہے، نہ اس کی بادشاہت میں اس کا کوئی شریک ہے اور نہ ہی اس کی وحدانیت و عبودیت میں اور یہی وہ مقصود اعظم ہے جس کے اثبات کے لئے آیت (35) سے لے کر (٣٤) تک متعدد الانواع دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ الطور
44 (25) مشرکین مکہ کی سرکشی حد سے تجاوز کرچکی ہے، انہوں نے باطل کو اپنے گلے سے اس طرح لگا لیا ہے کہ حق کی تائید میں چاہے کوئی بھی دلیل پیش کردی جائے، اسے قبول نہیں کریں گے اور کبرو عناد سے باز نہیں آئیں گے۔ اگر کھلی نشانی کے طور پر ان پر عذاب کے بڑے بڑے تودے بھی برسا دیئے جائیں، تب بھی یہی کہیں گے کہ یہ تو تہ بہ تہ بادل کے ٹکڑے ہیں اور اس نشانی سے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا ان کافروں کی دو اعذاب و عقاب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آیت (45) میں فرمایا کہ اے میرے نبی ! آپ انہیں روز قیامت تک ان کے حال پر چھوڑ دیجیے اور خوب مزا اڑانے دیجیے قیامت کے دن انہیں اپنا انجام معلوم ہوجائے گا، جب ان کی تمام سازشیں دھری کی دھری رہ جائیں گی اور کوئی ان کی مدد کے لئے نہیں آئے گا۔ الطور
45 الطور
46 الطور
47 (26) جو لوگ کفر و شرک کا ارتکاب کر کے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں، انہیں اللہ تعالیٰ روز قیامت سے پہلے دنیا میں بھی عذاب دیتا ہے اور اس سے مراد یا تو عذاب قبر ہے، یا قحط سالی، یا دیگر حوادث و مصائب زمانہ جو ان کی جان اور مال کو لاحق ہوتے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر لوگوں کی مسجھ میں یہ بات آتی ہی نہیں کہ ان جیسے اہل فسق و فجور کے بارے میں ہمیشہ سے اللہ کی یہی سنت رہی ہے، اسی لئے ٹھوکریں لگنے کے باوجود اپنے کفر و شرک پر جمے رہتے ہیں۔ الطور
48 (27) قرآن کریم اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کفار مکہ کی جب تمام افرتا پردازیوں کی دلائل و براہین کے ذریعہ تردید کی جا چکی، تو اب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ ان کافروں کی زیادہ پرواہ نہ کیجیے اور آپ کے رب کی طرف سے آپ پر جو ذمہ داری عائد کی گئی ہے، اسے پورے صبر و استقامت کے ساتھ ادا کرتے رہئے اور اپنے بارے میں اندیشہ نہ کیجیے، آپ کا اللہ آپ کی حفاظت کر رہا ہے اور جب رات میں بیدار ہویئے تو اپنے رب کی تسبیح بیان کیجیے۔ امام احمد، بخاری اور اصحاب سنن نے عبادہ بن صامت رضی اللہ سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو کوئی رات کو بیدار ہو اور کہے ” لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد، وھو علی کل شئی قدیر سبحان اللہ، والحمد للہ، ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولاحول ولا قوۃ الا باللہ“ پھر اپنے لئے دعا کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر اس کے بعد وضو کر کے نماز پڑھے، تو اس کی نماز قبول کی جاتی ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قیام اللیل (تہجد کی نماز) کا حکم دیا گیا ہے۔ بعض لوگوں نے (حین تقوم) سے مراد ” حین تقوم الی الصلوات الخمس“ مراد لیا ہے، یعنی پانچوں نمازیں پابندی سے ادا کیجیے اور ان میں اللہ کی خوب تسبیح بیان کیجیے امام مسلم نے اپنی کتاب (الصحیح“ میں عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابتدائے نماز میں ” سبحانک اللھم وبحمدو تبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الہ غیرک پڑھا کرتے تھے۔ ان حضرات نے اپنی اس رائے کی تائید میں آنے والی آیت (49) پیش کی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رات میں بیدار ہو کر اور رات کے آخری حصہ میں اپنے رب کی تسبیح بیان کرنے کا حکم دیا ہے، یعنی اس سے معلوم ہوا کہ اوپر والی آیت (48) میں (حین تقوم) سے مراد پنجوقتہ نماز ہے۔ مجاہد نے (حین تقوم) سے مراد ہر مجلس سے اٹھنا لیا ہے، مسند احمد میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے اور کثرت سے اونچی آواز میں بات کرے، اور اٹھنے سے پہلے کہے :“ سبحانک اللھم وبحمدک اشھدان لا الہ الا اللہ استغفرو اتوب الیک ” تو اللہ تعالیٰ اس کے اس مجلس کے گناہوں کو معاف کر دے گا، اس حدیث کو ترمذی اور حاکم نے بھی روایت کی ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ (ادبار النجوم) یعنی رات کے بالکل آخری حصہ میں اللہ کی تسبیح بیان کرنے میں فجر کی نماز بھی داخل ہے اور ابن عباس (رض) کے نزدیک (ادبار النجوم) سے مراد نماز فجر سے پہلے کی دو رکعتیں ہیں، صحیحین میں عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فجر کی دو رکعتوں سے زیادہ کسی نفل نماز کا اہتمام نہیں کرتے تھے اور امام مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ فجر کی دو رکعتیں دنیا و مافیہما سے بہتر ہے۔ وباللہ التوفیق الطور
49 الطور
0 سورۃ النجم مکی ہے، اس میں باسٹھ آیتیں اور تین رکوع ہیں تفسیر سورۃ النجم نام : اس سورت کا پہلا لفظ ” النجم“ ہے، یہی اس کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : جمہور علمائے تفسیر کے نزدیک پوری سورت مکی ہے، ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ النجم مکہ میں نازل ہوئی تھی، بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ پہلی سورت جس میں ” سجدہ“ نازل ہوا تھا، سورۃ النجم ہے، چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سجدہ کیا اور تمامم لوگوں نے سجدہ کیا، صرف ایک آدمی کو میں نے دیکھا کہ اس نے ایک مٹھی مٹی لے کر اس پر سجدہ کرلیا تو میں نے اس کے بعد دیکھا کہ وہ شخص حالت کفر میں قتل کردیا گیا وہ شخص امیہ بن خلف تھا بعض روایتوں میں اس کا نام عتبہ بن ربیعہ بتایا گیا ہے۔ بعض محدثین (مثلاً اسود بن یزید، ابواسحاق اور زہیر بن معاویہ) نے عبداللہ بن مسعود (رض) کی مذکور بالا روایت میں، اس بات کی صاحت کردی ہے کہ سورۃ النجم پہلی سورت ہے جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار قریش کے مجمع عام کے سامنے پڑھی تھی، اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آخر میں سجدہ کیا تو کفار بھی سجدہ میں چلے گئے صرف ایک شخص نے سجدہ نہیں کیا جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ النجم
1 (١) پہلی آیت سے آیت (١٨) تک اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تصدیق و تائید فرمائی ہے اور اس کی ابتدا ان ستاروں کی قسم کھا کر کی ہے جو رات کے آخری پہر میں گرتے نظر آتے ہیں بعض لوگوں نے یہاں ” النجم“ سے مراد ” ثریا“ ستارہ لیا ہے، لیکن زیادہ تر مفسرین کی رائے ہے کہ اس سے عام ستارے مراد ہیں۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی صداقت پر ستاروں کی قسم کھانے میں ایک عجیب مناسبت یہ ہے کہ جس طرح ستارے آسمان کی زینت ہیں، اسی طرح وحی الٰہی سے زمین کو زینت ملتی ہے، اس لئے کہ اگر انبیاء کے ذریعہ یہ علم الٰہی زمین والوں کو نہم لتا تو زمین اندھیری رات سے بھی زیادہ تاریک ہوتی۔ اتنی بڑی قسم کھانے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے کفار قریش کو خطاب کر کے کہا کہ تمہارے ساتھی یعنی میرے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گم گشتہ راہ نہیں ہوگئے ہیں اور اپنے رب کے صراط مستقیم سے بھٹک نہیں گئے ہیں اور اس میں اشارہ ہے کہ اے اہل قریش ! جادہ مستقیم سے بھٹکے ہوئے تو تم ہو کہ میرے نبی کے تمام حالات سے بخوبی واقف ہو، وہ تمہارے درمیان پیدا ہوئے، پلے بڑھے، ان کی صداقت، امانت، راست بازی، پاکدامنی اور اخلاق عالیہ سے ان کا متصف ہونا تم سب کو معلوم ہے، تمہیں معلوم ہے کہ انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور جب چالیس سال کی عمر کے بعد انہوں نے تمہیں بتایا کہ ان پر اللہ کی وحی نازل ہوتی ہے تو تم نے ان کا مذاق اڑایا، ان کو جھٹلا دیا اور قرآن کریم کے وحی الٰہی ہونے کا انکار کردیا۔ النجم
2 النجم
3 (٢) میرے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ گم گشتہ راہ ہیں اور نہ اس قرآن کو انہوں نے اپنی جانب سے گھڑ لیا ہے اور نہ دیگر احکام الٰہیہ کو جنہیں وہ قرآن کی تفسیر و توضیح کے طور پر بیان کرتے ہیں، اپنی خواہش نفس کے مطابق لاتے ہیں، بلکہ وہ سب اللہ کی وحی ہوتے ہیں، جیسا کہ اللہ نے سورۃ النساء آیت (١١٣) میں فرمایا ہے : (وانزل اللہ علیک الکتاب ولاحکمۃ) ” اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت یعنی قرآن و سنت دونوں نازل کیا ہے“ صاحب ” فتح البیان“ لکھتے ہیں یہ آیت دلیل ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت وحی ہوتی تھی جو آپ کے دل میں ڈال دی جاتی تھی۔ النجم
4 النجم
5 (٣) جبریل (علیہ السلام) کو وہ تعلیمات اللہ سے ملتی تھیں اور جبریل نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سکھا دیتے تھے۔ آیت میں (شدید القوی) سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک جبریل (علیہ السلام) ہیں، جیسا کہ سورۃ التکویر آیات (١٩/٢٠) میں آیا ہے : (انہ لقول رسول کریم، ذی قوۃ عند ذی العرش مکین) ” یقیناً یہ ایک بزرگ رسول کا قول ہے، جو قوت والا ہے، عرش والے کے نزدیک بلند مرتبہ ہے۔ “ اور وہ فرشتہ بڑا ہی صاحب عقل و دانش اور صائب الرائے ہے، وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تعلیم دینے کے بعد آسمان کے بعد آسمان میں اپنی جگہ پر لوٹ گیا، بعض لوگوں نے ” فاستوی“ کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ وہ فرشتہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اپنی اصلی شک میں آیا، دحیہ کلبی کی شکل میں نہیں، جن کی شکل میں عام طور پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا کرتا تھا، حافظ ابن کثیر نے (فاستوی، وھو بالافق الاعلی) کا معنی حسن، مجاہد، قتادہ اور ربیع بن انس سے یہ نقل کیا ہے کہ جبریل افق کی بلندیوں میں ظاہر ہوئے۔ النجم
6 النجم
7 النجم
8 (٤) جبریل (علیہ السلام) پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہوئے، تاکہ ان تک اللہ کی وحی پہنچائیں اور افق کی بلندیوں سے ان کی طرف جھکے اور ان سے اتنا قریب ہوگئے کہ ان کا درمیانی فاصلہ صرف دوگز کے برابر یا اس سے بھی کم رہ گیا، ام المومنین عائشہ، ابن معسود، ابو ذر اور ابوہریرہ (رض) نے یہی تفسیر بیان کی ہے، امام بخاری نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل (علیہ السلام) کو دیکھا کہ ان کے چھ سو پر تھے۔ ضحاک نے (دنا فتدلی) کا فاعل نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرار دیا ہے، یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اپنے رب کے بہت ہی قریب پہنچ گئے تو سجدہ میں گر گئے اس قول کے مطابق (فکان قاب فوسین او ادنی) کا مفہوم یہ ہوگا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب سے صرف دو گز یا اس سے بھی کم فاصلے پر رہ گئے۔ النجم
9 النجم
10 (٥) جبریل (علیہ السلام) جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اتنے قریب آگئے تب انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک اللہ کی وحی پہنچائی دوسرا قول یہ ہے کہ اللہ نے اپنے بندے جبریل (علیہ السلام) کو وحی کی۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اللہ نے اپنے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کی، یعنی بذریعہ جبریل وحی کی۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت میں ” وحی“ کو مبہم رکھا گیا ہے، یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ وہ کیا بات تھی جس کی وحی کی گئی، اس لئے بہتر یہی ہے کہ اپنی طرف سے اس کی تفسیر نہ بیان کی جائے، البتہ اتنی بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ کوئی بڑی ہی ذی شان بات تھی جو احاطہ بیان سے باہر ہے۔ النجم
11 (٦) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جبریل (علیہ السلام) ان کے پاس ان کے رب کی وحی لے کر آئے اور ان کے دل نے بھی اس کی تصدیق کی اور یقین کرلیا کہ یہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتہ جبریل ہیں جو اللہ کی وحی لے کر آئے ہیں، یہ کوئی شیطانی خیال نہیں ہے یعنی کان، آنکھ اور دل تینوں اس پر متفق تھے کہ جبریل ہیں جو وحی الٰہی لے کر آئے ہیں۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس آیت میں مراد اللہ کی وہ عظیم الشان نشانیاں ہیں جن کا مشاہدہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کی رات میں کیا تھا اور جن کا ان کے دل نے بھی یقین کرلیا تھا۔ اور بعض نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا تھا اور ہم کلام ہوئے تھے، لیکن صحیح یہی ہے کہ آیت میں مراد جبریل (علیہ السلام) کی رؤیت ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل کو ان کی اصلی صورت میں دوبارہ دیکھا تھا پہلی بار بعثت کے کچھ ہی دنوں کے بعد آسمان دنیا کے نیچے افق کی بلندیوں میں دیکھا جس کا ذکر اس آیت میں آیا ہے اور جو آیات (٨/٩) کی تفسیر میں بیان کیا جا چکا ہے، جبریل (علیہ السلام) کو آنکھوں سے دیکھا اور دوسری بار شب معراج میں ساتویں آسمان پر دیکھا، جس کا ذکر آیت (١٣) کی تفسیر میں آئے گا۔ آیت (١٢) میں مشرکین مکہ سے کہا جا رہا ہے کہ میرے نبی نے اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھا، اس میں تم کیوں شبہ کرتے ہو، اور جو بات تمہارے فہم و تصور سے بالاتر ہے، اس کے بارے میں تم ان سے کیوں جھگڑتے ہو، امام بخاری نے ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل کو دیکھا کہ ان کے چھ سو پر تھے، جبریل (علیہ السلام) کو آنکھوں سے دیکھنا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر انبیائے کرام کے ساتھ خاص ہے، دوسرے لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے ہیں، انہیں تو بس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات پر یقین کر کے ایمان لے آنا چاہئے کہ واقعی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ النجم
12 النجم
13 (٧) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل (علیہ السلام) کو دوسری شب معراج میں ساتویں آسمان پر دیکھا تھا بعض لوگوں نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کو اپنے دل کی آنکھوں سے دوسری بار شب معراج میں دیکھا تھا، لیکن جمہور مفسرین کے نزدیک پہلا قول ہی راجح ہے اور اس کی تائید ابو ذر (رض) کی اس حدیث سے ہوتی ہے جسے مسلم نے روایت کی ہے کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا، کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا؟ تو آپ نے فرمایا :” ایک نورت ھا، اللہ کو کیسے دیکھ سکتا تھا“ مشہور تابعی مسروق سے عائشہ (رض) نے کہا کہ جو شخص تم سے کہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کو دیکھا تھا، اس نے اللہ پر بہت بڑی افترا پردازی کی، انہوں نے جبریلک و دیکھا تھا، ان کی اصلی صورت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں صرف دوبارہ دیکھا تھا دوسری بار سدرۃ المنتہی کے پاس اور پہلی بار ” اجیادمکہ“ میں جب انہوں نے چھ سو پروں کے ساتھ افق کو ڈھانک رکھا تھا۔ (ترمذی تفسیر سورۃ نجم) البتہ اتنی بات ثابت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا تھا، امام احمد نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” میرا رب میرے پاس آج کی رات سب سے اچھی صورت میں آیا“ الحدیث اور یہ خواب آپ نیح مدینہ میں دیکھات ھا۔ النجم
14 (٨) (سدرۃ المنتھی) ایک عظیم درخت ہے، جو ساتویں آسمان پر پایا جاتا ہے (مسلم) ایک صحیح روایت کے مطابق یہ درخت چھٹے آسمان پر ہے اور اس کا نام (سدرۃ المنتھی) اس لئے ہے کہ زمین سے جو کچھ اوپر چڑھتا ہے، اس کی انتہا وہی درخت ہے، اس کے ماوراء کیا ہے کسی کو معلوم نہیں ہے گویا بیری کا وہ درخت اس جگہ ہے جہاں مخلوقات کے علم، شہداء کی روحوں اور زمین سے اوپر چڑھنے والے تمام اعمال کی انتہا ہے، یعنی وہ جگہ تمام آسمانوں اور زمین کے اوپر ہے، وہاں مخلوقات کی بلندی کی انتہا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شب معراج میں اسی (سدرۃ المنتھی) کے پاس جبریل (علیہ السلام) کو دیکھا تھا، جس کے قریب شیطان نہیں پھٹک سکتا تھا۔ النجم
15 (٩) اس درخت کے پاس ایک جنت ہے جس کا نام (جنۃ الماوی) ہے، جس میں اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتیں پائی جاتی ہیں اور جو اس کے مقرب بندوں کی روحوں کی جگہ ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا کہ بے شمار روحیں اور فرشتے اس درخت پر ٹوٹے پڑ رہے تھے، اور اس کے اردگرد منڈلاتے پھرتے تھے۔ النجم
16 النجم
17 (١٠) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس وقت جو کچھ دکھایا گیا، اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر نہ ادھر ادھر ہوئی اور نہ اس منتہائے مقصود سے ذرا بھی آگے بڑھی یعنی اتنا ہی کیا جتنے کا انہیں حکم دیا گیا اور اسی پر قناعت کی جو انہیں دیا گیا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اللہ کے ساتھ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتہائے ادب کی تصویر کشی کی گئی ہے کہ آپ اس مقام پر غایت ادب کے ساتھ ٹکٹکی لگائے رہے اور جو کچھ انہیں دکھایا گیا، اسے ہی دیکھتے رہے، ذرا بھی کسی دوسری طرف ملتفت نہیں ہوئے اور نہ آپ کی آنکھیں اس تجلی کی دید سے تھکیں۔ النجم
18 (١١) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس رات اپنے رب کی ایسی عظیم نشانیوں کا مشاہدہ کیا جو حد وصف سے باہر تھیں۔ بعض کے نزدیک عظیمت رین نشانی سے مراد ” سبز کپڑا“ ہے جس نے افق کو ڈھانک رکھا تھا بعض کے نزدیک اس سے مراد جبریل ہیں جنہوں نے سبز لباس میں آسمان و زمین کی درمیانی مسافت کو ڈھانک رکھا تھا اور ان کے چھ سو پر تھے صحیح مسلم وغیرہ میں یہی تشریح آئی ہے اور دیگر مفسرین کی رائے ہے کہ ” الکبری“ ” آیات“ کی صفت ہے اور اس سے مردا اللہ کی وہ تمام عظیم ترین نشانیاں ہیں، جن کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس رات ” سدرۃ المنتھی“ کی طرف جاتے ہوئے اور وہاں سے لوٹتے ہوئے مشاہدہ کیا تھا۔ النجم
19 (١٢) مذکورہ بالا آیتوں میں دین اسلام اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت، وحی الٰہی اور توحید باری تعالیٰ کا ذکر کئے جانے کے بعد اب مشرکین مکہ کی بت پرستی اور ان کے جھوٹے معبودوں کی حیثیت بیان کی جا رہی ہے کہ ہو تو مٹی اور پتھر کے بنے ہوئے بت میں جن کے تم نے مختلف نام رکھ لئے ہیں اور جو نہ تمہیں نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان کیا تم اندھے ہوگئے ہو کہ تم انہیں اس اللہ کے برابر سمجھتے ہو جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟! اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے تین مشہور بتوں کے نام لئے ہیں، جو اہل عرب میں بڑے مشہور تھے اور جن کے وہ بڑے معتقد تھے اور اللہ کے ناموں سے ان کے نام اخذ کرتے تھے، کہتے تھے کہ اللہ سے ” اللات“ اور العزیز سے ” العزی“ ماخوذ ہے، جو ” الاعز“ کا مؤنث ہے اور جو ” العزیزۃ“ کے معنی میں ہے اور ” المنان“ سے ” مناۃ“ ہے اس طرح وہ اپنے ان بتوں کو اللہ کا شریک ٹھہراتے تھے اور ان کی پرستش کرتے تھے۔ الصحاح میں ہے کہ ” اللات“ بنی ثقیف کے ایک بت کا نام تھا، جو طائف میں تھا اور ” العزی“ قریش اور بنی کنانہ کا ایک بت تھا مجاہد کہتے ہیں کہ غطفان میں ایک درخت تھا، جس کی لوگ عبادت کرتے تھے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خالد بن ولید کو بھیج کر اسے کٹوا دیا تھا بعض کی رائے ہے کہ ” بطن نخلہ“ میں ایک شیطانہ تھی جو ہر سال تین موسموں میں آیا کرتی تھی، سعید بن جبیر کا قول ہے کہ ” العزی“ ایک سفید پتھر تھا جس کی وہ لوگ عبادت کرتے تھے، ” مناۃ“ بنی ہلال کے بت کا نام تھا اور ابن ہشام کا خیا ہے کہ وہ ہذیل و خزاعہ کے بت کا نام تھا صاحب محاسن التنزیل نے لکھا ہے کہ وہ مکہ اور مدینہ کے درمیان، قدید کے پاس مشلل میں ایک چٹان تھا، جس کی خزاعہ اور اوس و خزرج والے زمانہ جاہلیت میں تعظیم کرتے تھے اور وہیں سے حج بیت اللہ کے لئے تکبیر کہنا شروع کرتے تھے، امام بخاری نے عائشہ (رض) سے یہی روایت کی ہے۔ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ جزیرہ عرب میں مذکورہ بالا بتوں کے عالوہ بھی طواغیت یعنی جھوٹے معبود تھے، جن کی اہل عرب خانہ کعبہ کی طرح تعظیم کرتے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا بتوں کا ذکر ان کے زیادہ مشہور ہونے کی وجہ سے کیا ہے۔ النجم
20 النجم
21 (١٣) تم عدل و انصاف سے کس قدر دور ہو کہ اپنے لئے تو بیٹے پسند کرتے ہو، اور لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے ہو اور جن لڑکیوں کو تم اپنے لئے پسند نہیں کرتے ہو، انہیں اللہ کے لئے ثابت کرتے ہو، کہتے ہو کہ فرشتے اور تمہاری یہ دیویاں اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ آیت کا ایک دوسرا مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ لات و عزی اور منات جن کو تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو، انہیں مؤنث بتاتے ہو، حالانکہ تم مؤنث کو حقیر جانتے ہو، اور گوارہ نہیں کرتے ہو کہ تمہارے گھر بچیاں پیدا ہوں اور تمہاری طرف ان کی نسبت کی جائے، تو پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جن جھوٹے معبودوں کو تم اللہ کا شرک بتاتے ہو، انہیں مؤنث بتاتے ہو۔ النجم
22 النجم
23 (١٤) تمہارے یہ جھوٹے معبود جنہیں تم نے اور تم سے پہلے تمہارے آباء و اجداد نے اللہ کے ناموں سے مشتق نام دے کھے ہیں، ان میں معبود بننے کی کوئی بھی صفت موجود نہیں ہے، تم نے محض اپنی طرف سے ان کے ایسے نام رکھ دیئے ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جن کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں نازل کی ہے تم محض اپنے وہم و گمان اور اپنی خاہش نفس کی پیروی کرتے ہو حالانکہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے واضح دلیل آچکی ہے کہ یہ بت اس لائق نہیں کہ ان کی عبادت کی جائے عبادت تو صرف اللہ کے لئے خاص ہے جو ہر چیز کا خالق اور آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک ہے۔ النجم
24 (١٥) مشرکین مکہ کے لئے ان کے رب کی طرف سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ جو ہدایت آئی، اس سے انہوں نے منہ پھیر لیا، اور اپنی من مانی تمناؤں سے رشتہ جوڑ لیا اور اس خیال باطل کو اپنے دل میں جگہ دے دی کہ ان کے بت ان کے لئے سفارشی بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دنیا میں آدی کی مرضی اور خوراہش کے مطابق معاملات انجام نہیں پاتے ہیں، بلکہ تمام امور کا تعلق اللہ کی مرضی اور اس کی مشیت سے ہے، اس لئے انہوں نے کیسے سمجھ لیا ہے کہ ان کے جھوٹے معبود ان کی مرضی کے مطابق ان کی سفارش کریں گے۔ یقیناً ان کی یہ بہت بڑی جرأت بے جا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذریعہ آمدہ یقین کو چھوڑ کر اپنے ظن باطل کی پیروی کر رہے ہیں اور اللہ کی شریعت سے آزاد ہو کر اپنی خواہش نفس کی پیروی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ مومن آیت (٧١) میں فرمایا ہے : (ولو اتبع الحق اھوا ھم لفسدت السماوات والارض ومن فیھن) ” اگر دین شریعت ان کی خواہش کا نام ہوجاتا تو آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز درہم برہم ہوجاتی“ النجم
25 النجم
26 (١٦) بتوں کے پجاریوں کی زجر و توبیخ کی گئی ہے کہ وہ اپنے پتھر کے بنے ذلیل و حقیر معبودوں سے کیسے سفارش کی امید لگاتے ہیں، جبکہ اللہ کے معزز و مکرم فرشتوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی مرضی اور اجازت کے بغیر کسی کے لئے شفاعت کا کوئی کلمہ اپنی زبان پر نہیں لا سکتے ہیں۔ النجم
27 (١٧) مشرکین مکہ جو بعث بعد الموت اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں، ان کا ایک بہت بڑا جرم یہ ہے کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے ہیں۔ آیت (٢٨) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اپنی زبان سے ایک ایسی بات کہتے ہیں، جس کا انہیں کوئی علم نہیں ہے، اس لئے کہ نہ انہوں نے انہیں دیکھا اور جاتا ہے، اور نہ ان کے پاس اللہ کی طرف سے اس بارے میں کوئی خبر آئی ہے، یہ بات انہوں نے محض اپنے وہم و گمان اور جہالت و گمراہی کی بنیاد پر کہی ہے اور معلوم ہے کہ حقیقت کا ادراک وہم و گمان کے ذریعہ نہیں، بلکہ یقینی دلائل کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ النجم
28 النجم
29 (١٨) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نصیحت کی کہ آپ ان کافروں سے پہلوتہی کرلیجیے جو ہماری یاد سے غافل ہیں اور جن کا منتہائے مقصود دنیاوی لذتوں سے فائدہ اٹھانا ہے۔ النجم
30 (١٩) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کافروں کا منتہائے علم بھی دنیاوی اغراض و مقاصد ہیں، اس کے سوا نہیں کچھ بھی معلوم نہیں ہے اور جس کا مبلغ علم دنیائے دنی اور اس کی لذتیں ہوں، اسے اس کے حال پر ہی چھوڑ دینا چاہئے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ کے رب کو خوب معلوم ہے کہ راہ حق پر کون گامزن ہے اور ضلالت کی وادیوں میں کون بھٹک رہا ہے اور وہ روز قیامت ہر ایک کو اس کے اچھے اور برے اعمال کا بدلہ دے گا۔ النجم
31 (٢٠) آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ کے لئے ہے، اور ان دونوں کے درمیان جتنی بھی مخلوقات ہیں سب اسی کی مملوک ہیں۔ وہ جس طرح چاہتا ہے ان میں تصرف کرتا ہے اس کی تقدیر ان میں نافذ ہوتی ہے اور اس کی شریعت ان پر جاری ہوتی ہے۔ وہ انہیں حکم دیتا ہے اور منع کرتا ہے اور وہ گناہگار کو سزا دیتا ہے اور فرمانبردار کو اچھا بدلہ دیتا ہے اور سب سے اچھا بدلہ اللہ کی رضا اور حصول جنت ہے۔ النجم
32 (٢١) ان اچھے لوگوں کی صفات یہ ہیں کہ وہ ان واجبات کو ادا کرتے ہیں جن کا چھوڑنا بڑا گناہ ہے اور بڑے حرام کاموں سے بھی بچتے ہیں، مثلاً زنا، شراب نوشی، سود خوری، قتل نفس اور اسی طرح کے دیگر بڑے بڑے حرام کام البتہ ان سے کبھی کبھار بعض چھوٹے چھوٹے گناہ سرزد ہوجاتے ہیں۔ ” لم“ کا لغوی معنی ” قلیل و صغیر“ ہے۔ زجاج کا قول ہے کہ ” لم“ وہ گناہ ہے جس کا ارتکاب انسان سے کبھی کبھار ہوجاتا ہے اور اس پر اصرار نہیں کرتا ہے۔ جمہور اہل علم کے نزدیک اس سے مراد چھوٹے گناہ ہیں۔ ابوہریرہ (رض) نے اس کی مثال بوسہ، اشارہ کرنا اور دیکھنا بتایا ہے۔ ابن عباس (رض) سے اس کا معنی یہ منقول ہے کہ آدمی گناہ کے قریب جائے، پھر تولہ کرلے۔ اس قسم کے چھوٹے گناہوں کے ارتکاب سے آدی اچھوں کی صف سے نہیں نکل جاتا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں معاف کردیتا ہے، اس لئے کہ اس کی رحمت بہت ہی وسیع ہے، جس کے اندر وہ اپنے ایسے تمام بندوں کو ڈھانک لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء آیت (٣١) میں فرمایا ہے : (ان تجتنبوا کبائر ماتنھون عنہ نکفر عنکم سیئاتکم) ” اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے جن سیت مہیں منع کیا گیا ہے باز رہو گے، تو ہم ضرور تمہارے (چھوٹے چھوٹے) قصور معاف کردیں گے“ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح حدیث ہے :” پنجگانہ نمازیں اور جمعہ سے جمعہ تک اور رمضان سے رمضان تک ان کے درمیان کے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں، جب تک آدمی بڑے گناہوں سے بچتا رہے“ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے انسانو ! تمہارا رب تماری کمزوریوں سے اس وقت سے خوب واقف ہے جب اس نے تمہارے باپ آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں پرورش پا رہے تھے، وہ جانتا ہے کہ تمہارے اندر نیکی کرنے کے جذبہ کے ساتھ گناہ کرنے کا جذبہ بھی پایا جاتا ہے، جب گناہ کا سبب پایا جائے گا تو تمہاری کشش اس کی طرف بڑھ جائے گی اسی لئے وہ اپنے فضل و کرم سے تمہارے چھوٹے گناہ معاف کردیتا ہے اور خاص طور پر اپنے ان بندوں کے چھوٹے گناہوں کو جو ہر دم اپنے مولائے حقیقی کی رضا کی طلب میں گے رہتے ہیں اور کبھی کبھار کوئی چھوٹا گناہ ان سے سر زد ہوجاتا ہے۔ اس لئے لوگو ! تم اپنی پاکی نہ بیان کرو اور یہ نہ کہو کہ ہم تو گناہوں سے بالکل پاک صاف ہیں۔ اللہ کو تمہارے بیان کئے بغیر خوب معلوم ہے کہ اس سے ڈرنے والا کون ہے۔ احمد، مسلم اور ابوداؤ د نے زینب بنت ابی سلمہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ان کا نام ” برۃ“ یعنی پاکیزہ رکھا گیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” تم لوگ اپنی پاکی نہ بیان کرو، اللہ کو خوب معلوم ہے کہ پاکیزہ کون ہے۔ اس کا نام ” زینب“ رکھو۔ “ اور صحیحین میں ابوبکر (رض) سے مروی ہے کہ ایک شخص نے کسی دوسرے کی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے تعریف کی، تو آپ نے بار بار فرمایا کہ ” تمہارا برا ہو، تم نے اپنے دوست کی گردن کاٹ دی، اگر کسی کی تعریف کرنی ضروری ہو، تو یوں کہو کہ میں فلاں کو ایسا سجھتا ہوں اور اللہ اس کے حال سے خوب واقف ہے اور میں اللہ کے علم کے ہوتے ہوئے کسی کی پاکی نہیں بیان کرتا ہوں۔ میرا خیا ہے کہ فلاں آدمی ایسا ایسا ہے۔ “ النجم
33 (٢٢) مجاہد، ابن زید اور مقاتل کا قول ہے کہ یہ آیتیں ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی تھیں، اس نے پہلے اسلام کو قبول کرلیا تھا، لیکن بعض مشرکین نے اسے اپنا آبائی دین چھوڑنے کی عار دلائی، تو اسلام سے پھر گیا اور دوبارہ مشرکوں میں شامل ہوگیا۔ ابن جریر کی روایت ہے کہ جس شیطان قرشی نے اسے مرتد ہونے پر ابھارا تھا، اس نے اس سے کہا کہ اگر تمہیں قیامت کے دن کے عذاب کا خوف ہے تو مجھے روزانہ اتنا مال دو، میں تمہاری طرف سے عذاب کا بوجھ اٹھا لوں گا، چنانچہ اس نے اسے روزانہ مال دینا شروع کیا اور پھر ایک مدت کے بعد بند کردیا۔ اسی شیطان قرشی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آیت (٣٥) میں فرمایا کہ کیا اس کے پاس علم غیب ہے، جس کے ذریعہ اسے معلوم ہے کہ قیامت کے دن کوئی کسی کی طرف سے عذاب جھیل لے گا یہ اس کی افترا پردازی ہے۔ کیا جو کچھ صحف موسیٰ یعنی تو رات میں اور صحف ابراہیم میں آیا ہے، اسے اس کی خبر ہے، ان صحیفوں میں تو یہ ہے کہ قیامت کے دن کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھا سکے گا اور ہر انسان کو صرف اس کے اپنے عمل کا بدلہ ملے گا۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ بعض دیگر آیات اور احادیث کے ذریعہ اس عموم کی تخصیص ہوچکی ہے۔ جیسے سورۃ الطور آیت (٢١) میں آیا ہے : (الحقنا بھم ذریتھم) ” ہم ان جنتیوں کے پاس ان کی اولاد کو پہنچا دیں گے۔“ اور حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن انبیاء اور فرشتوں کی شفاعت قبول کرے گا اور یہ بھی آیا ہے کہ زندہ آدمی مردہ کے لئے دعا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے گا۔ حافظ ابن کثیر نے آیت (٣٩) کے ضمن میں لکھا ہے کہ امام شافعی اور ان کے شاگردوں نے اس آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے کہ قرأت کا ثواب مردوں کو نہیں پہنچتا ہے اس لئے کہ وہ ان کا اپنا عمل نہیں ہوتا ہے اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو نص یا اشارہ کس طرح بھی اس کی ترغیب نہیں لدائی ہے اور نہ صحابہ کرام نے ایسا کیا اگر یہ کام اچھا ہوتا تو صحابہ کرام نے ضرور کیا ہوتا ثواب کے کاموں میں نص پر اکتفا کیا جاتا ہے ان میں قیاس اور رائے پر عمل نہیں ہوتا ہے۔ البتہ دعا اور صدقہ کا ثواب مردہ کو پہنچتا ہے، کیونکہ یہ نص سے ثابت ہے امام مسلم نے اپنی کتاب ” الصحیح“ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے، صرف تین ذریعوں سے اس کو ثواب ملتا رہتا ہے : نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے، صدقہ جاریہ اور علم جس سے لوگ نفع حاصل کریں۔ اس لئے کہ درحقیقت یہ تینوں کام اس کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہیں اور اس کے عمل کا ایک حصہ ہیں، جیسا کہ عائشہ (رض) کی اس حدیث میں آیا ہے جسے نسائی نے روایت کی ہے، کہ سب سے پاکیزہ روزی وہ ہے جو آدمی کی اپنی کمائی ہو اور اس کا یٹا اس کی کمائی ہے اور صدقہ جاریہ جیسے وقف وغیرہ اس کے اپنے عمل کا حصہ ہے اور جس علم کو وہ لوگوں میں پھیلاتا ہے وہ بھی اس کے عمل کا حصہ ہے۔ النجم
34 النجم
35 النجم
36 النجم
37 النجم
38 النجم
39 النجم
40 النجم
41 النجم
42 النجم
43 (٢٣) صحائف موسیٰ و ابراہیم میں یہ بھی آیا ہے کہ وہ رب العالمین کی ذات ہے جس نے انسان میں ” ہنسنے اور رونے“ کی قوت ودیعت کی ہے یا آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی اہل جنت کو جنت میں بھیج کر ہنسایا اور اہل جہنم کو جہنم میں ڈال کر رلایا، یا اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ نے دنیا میں جسے چاہا خوشی دے کر ہنسایا اور جسے چاہا غم دے کر رونے پر مجبور کیا۔ اور باری تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے جسے چاہا موت کے گھاٹ اتار دیا اور جسے چاہا مردہ نطفہ میں زندگی ڈال کر پیدا کیا اور اسی نے مرد و زن کو ایک قطرہ نطفہ سے پیدا کیا جو دتا ہوا رحم مادر میں جا کر قرار پا جاتا ہے۔ النجم
44 النجم
45 النجم
46 النجم
47 (٢٤) وہ قیامت کے دنتمام مخلوقات کو دوبارہ زندہ کرے گا اور وہی جسے چاہتا ہے مالدار بناتا ہے اور جسے چاہتا ہے فقیر ومحتاج بنا دیتا ہے سورۃ الرعد آیت (٢٦) میں آیا ہے : (یبسط الرزق لمن یشاء و یقدر) ” وہ جس کے لئے چاہتا ہے روزی کو بڑھا دیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے گھٹا دیتا ہے‘ آیت کا دوسرا معنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہی مالدار بناتا ہے اور وہی ذخیرہ اندوزی کے لئے مال دیتا ہے اور وہی شعری ستارے کا رب ہے اور اس آیت سے مقصود خزاعہ اور ان لوگوں کی تردید ہے جو اس ستارے کی پوجا کرتے تھے ورنہ باری تعالیٰ تو ہر چیز کا رب ہے یعنی شعریٰ ستارہ اللہ کی مخلوق ہے اسے لوگ معبود بنا کر کیوں پوجتے ہیں۔ النجم
48 النجم
49 النجم
50 (٢٥) اور وہی ہے جس نے عاد اول کی قوم کو ہلاک کردیا تھا، انہیں ” عاد اول“ اس لئے کہا گیا ہے کہ ان کا زمانہ قوم ثمود سے پہلے کا ہے بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد قوم ہود ہے اور عاد آخر قوم ارم کو کہتے ہیں۔ اور اسی نے قوم ثمود کو ہلاک کردی، یعنی اللہ نے جس طرح قوم عاد کو ہلاک کردیا، اسی طرح قوم ثمود کو بھی ہلاک کردی، دونوں قوموں میں سے کسیک و نہیں چھوڑا اور اسی نے ان دونوں قوموں سے پہلے قوم نوح کو ہلاک کردیا تھا جو عاد و ثمود سے بھی زیادہ ظالم اور سرکش ہوگئی تھی۔ اور اسی نے قوم لوط کی بستیوں کو الٹ دیا تھا اور جبریل کے ہاتھوں اوپر لے جا کر زمین پر دے مارا تھا پھر ان پر پتھروں کی بارش کر کے انہیں ڈھانک دیا تھا، جیسا کہ سورۃ الحجر آیت (٧٤) میں آیا ہے : (فجعلنا عالیھا سافلھا وامطرنا علیھم حجارۃ من سجیل) یعنی ” بالاخر ہم نے اس شہر کو اوپر تلے کردیا اور ان لوگوں پر کنکر والے پتھر برسا دیئے۔ “ النجم
51 النجم
52 النجم
53 النجم
54 النجم
55 (٢٦) مذکورہ بالا امور کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مشرک و کافر انسان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم اللہ کی کن کن نعمتوں میں شبہ کرو گے اور کن کن کی تکذیب کرو گے اور کہو گے کہ یہ نعمتیں اللہ کی عطا کردہ نہیں ہیں۔ مذکورہ بالا امور میں سے بعض تو ظاہری طور پر بھی اللہ کی نعمتیں ہیں اور بعض اگرچہ اللہ کا گزشتہ قوموں پر عذاب تھا، لیکن چونکہ ان سے انسانوں کو عبرت و نصیحت ملتی ہے، اسی لئے انہیں بھی نعمت کہا گیا ہے اور انہیں اس لے بھی نعمت سے تعبیر کیا گیا ہے کہ ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے نافرمانوں سے انتقام لیا تھا اور انبیاء و صالحین کی نصرت و تائید فرمائی تھی۔ النجم
56 (٢٧) اس آیت کریمہ میں ” نذیر“ سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گزشتہ رسولوں کی طرح تمہارے لئے ایک رسول ہیں، جن کی بعثت کا مقصد تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈرانا ہے، جس طرح ان رسولوں نے اپنی قوموں کو ڈرایا تھا، ابن جریج اور محمد بن کعب وغیرہ ہماکا یہی قول ہے اور قتادہ کے نزدیک ” نذیر“ سے مراد قرآن کریم ہے، اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ ! یہ قرآن تمہیں اسی عذاب سے ڈرا را ہے جس سے گزشتہ آسمانی کتابوں نے قوموں کو ڈرایا تھا۔ اور بعض مفسرین نے آیت کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ مذکورہ بالا آیتوں میں گزشتہ سرکش قوموں کی ہلاکت کے جو قصے سنائے گئے ہیں، ان سے مقصود امت محمدیہ کو ڈرانا ہے کہ اگر اس نے بھی اللہ کی نافرمانی کی تو اس پر بھی عذاب الٰہی آسکتا یہ۔ النجم
57 (٢٨) اللہ تعالیٰ نے بندوں کو قرب قیامت کی خبر دی ہے، تاکہ اس دن کے عذاب سے بچین کی تیاری کریں، اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ القمر آیت (١) میں صراحت کے ساتھ یوں کہا ہے : (افتربت الساعۃ) کہ ’ قیامت بالکل قریب ہے“ اور اس کا وقت موعود اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہے۔ جیسا کہ سورۃ الاعراف آیت (١٨٧) میں آیا ہے : (لایجلیھا لوقتھا الاھو) یعنی ” جب اس کا وقت آجائے گا تو وہی اسے ظاہر کرے گا“ آیت (٥٨) کا ایک دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب وہ دن آجائے گا تو اللہ کے سوا کوئی اس کے شدائد واہوال کو ٹال نہیں سکے گا۔ النجم
58 النجم
59 (٢٩) مشرکین مکہ سے زجر و توبیخ کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ اللہ سے تمہاری دوری اور روز قیامت کی تیاری سے تمہاری غفلت کس قدر بڑھ چکی ہے کہ تم قرآن کریم کی تکذیب کرتے ہو اور اس کا مذاق اڑاتے ہو، حالانکہ ہونا تو یہ چاہئیت ھا کہ کافروں اور مشرکوں کے لئے اس میں مذکور و عید شدید کو سن کرتم روتے اور ماضی میں تم سے جو گناہ سر زد ہوئے ہیں انہیں یاد کر کے اپنے رب کے سامنے گریہ و زاری کرتے، جیسا کہ وہ لوگ کرتے ہیں جو قرآن کریم کے وحی الٰہی ہونے کا یقین رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاسراء آیت (١٠٩) میں ان کے بارے میں فرمایا ہے : (ویخرون للاذقان یبکون ویزیدھم خشوا) ” یعنی جب ان کے سامنے رآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو) وہ اپنی ٹھڈیوں کے بل روتے ہوئے سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور یہ قرآن ان کی عاجزی اور خشوع و خضوع کو بڑھا دیتا ہے۔ “ آیت (٦١) میں ” سامدون“ کی تفسیر ابن عباس (رض) نے ” گانا“ کیا ہے، یعنی کفار مکہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن پڑھتے سنتے تو گانے لگتے اور کھیل تماشا کرنے لگتے تھے۔ سدی نے اس کی تفسیر ” یستکبرون“ کیا ہے، یعنی جب وہ لوگ قرآن سنتے تو مارے تکبر کے ان کی گردنیں اکڑ جاتی تھیں۔ حافظ سیوطی نے ” الاکلیل“ میں لکھا ہے، اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم پڑھتے وقت رونا مستحب ہے اور ہنسنا، گانا، لہو لعب اور غفلت میں مبتلا ہونا مذموم ہے۔ النجم
60 النجم
61 النجم
62 (٣٠) مشرکین مکہ کی زجر و توبیخ کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں سے کہا ہے کہ تم ان کی طرح نہ ہوجاؤ اور اپنے اللہ کا سجدہ کرو اس لئے کہ سجدہ ہی مقصود عبادت ہے، اسی کے ذریعہ بندہ اپنے خلاق و مالک کے سامنے حقیقی خشوع و خضوع کا اظہار کرتا ہے، عبادت کی یہی وہ کیفیت ہے جس میں بندہ اپنے جسم کا سب سے معزز عضو، یعنی اپنی جبین نیاز زمین پر رکھ کر اپنے رب کے سامنے اظہار عاجزی کرتا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ نے انہیں عموم عبادت کا حکم دیا، جو ہر اس قول و عمل کو شامل ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے۔ چنانچہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار قریش کے مجمع عام کے سامنے اس سورت کی تلاوت کی اور آخر میں سجدہ کیا تو کفار بھی سجدہ میں گر گئے جیسا کہ اس سورت کی تفسیر کی ابتدا میں لکھا جا چکا ہے۔ وباللہ التوفیق النجم
0 سورۃ القمر مکی ہے، اس میں پچپن آیتیں اور تین رکوع ہیں تفسیر سورۃ القمر نام : پہلی آیت (افتربت الساعۃ وانشق القمر) میں لفظ ” القمر“ آیا ہے یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے زمانہ نزول : اس کا زمانہ نزول مکی دور ہے، اس میں ” شق القمر“ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، جو محدثین و مفسرین کے نزدیک ہجرت سے تقریباً پانچ سال قبل پیش آیا تھا۔ القمر
1 (١) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دو باتوں کی خبر دی ہے ایک تو یہ کہ قیامت قریب ہوچکی ہے اور دوسری یہ کہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا تھا اور دونوں یہ باتوں کی تائید نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح احادیث سے ہوتی ہے۔ قرب قیامت کے بارے میں تو اللہ تعالیٰ نے دوسری کئی آیتوں میں بھی خبر دی ہے۔ سورۃ النحل آیت (١) میں آیا ہے : (اتی امر اللہ فلاتستعجلوہ) ” اللہ کا حکم آچکا ہے، پس تم لوگ اس کی جلدی نہ مچاؤ“ اور سورۃ الانبیاء آیت (١) میں آیا ہے : (افترب للناس حسابھم وھم فی غفلۃ معرضون) ” لوگوں کے حساب کا وقت آچکا ہے اور وہ غفلت میں پڑے دین حق سے منہ پھیر رہے ہیں۔ “ ابن جریر لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں لوگوں کو قرب قیامت کی خبر دے کر تنبیہہ کی گئی ہے کہ یہ دنیا عنقریب فنا ہوجائے گی، اس لئے قیامت کی ہولناکیوں سے نجات پانے کی تیاری کرنی چاہئے۔ امام احمد نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے تھے اور آفتاب عصر کے بعد غروب ہونے کے قریب تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو لوگ دنیا سے گذر چکے ہیں، ان کی عمروں کے مقابلے میں تمہاری عمریں اتنی ہی باقی رہ گئی ہیں جتنا ابھی دن کا حصہ باقی رہ گیا ہے اور امام احمد نے سہل بن عسد (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں دنیا میں اس وقت مبعوث کیا گیا ہوں جب قیامت اس قدر قریب ہے جتنی میری یہ دونوں انگلیاں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کی طرف اشارہ کیا۔ دوسری بات یعنی ” انشقاق قمر“ کے بارے میں جمہور علمائے امت کی رائے ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکی دور میں ہجرت سے تقریباً پانچ سال قبل نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک عظیم معجزہ کے طور پر چاند دو ٹکڑے ہو کر جبل حراء کے دونوں طرف ہوگیا تھا اور بیچ میں پہاڑ آگیا تھا۔ قاضی عیاض نے مفسرین اور اہل سنت کا اس پر اجماع نقل کیا ہے اور ابن کثیر نے لکھا ہے کہ اس مضمون کی حدیثیں متواتر ہیں۔ ابن قتیبہ نے اپنی کتاب ” تاویل مختلف الحدیث“ میں لکھا ہے کہ نظام معتزلی نے ان احادیث کا بغیر دلیل انکار کیا ہے۔ زمخشری، بیضاوی اور ابوالسعود نے عطاء سے بھی اس طرح کا قول نقل کیا ہے، نظام نے کہا ہے کہ چاند قیامت کے دن پھٹے گا اس رائے کی بنیاد انکار سنت پر ہے۔ بخاری و مسلم اور دیگر ائمہ حدیث نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ اہل مکہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے نبی ہنے کی نشانی کا مطالبہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاند کے دو ٹکڑے کر دکھائے، یہاں تک کہ لوگوں نے حرا پہاڑ کو دونوں ٹکڑوں کے درمیان دیکھا۔ بخاری و مسلم اور دیگر ائمہ حدیث نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں چاند دو ٹکڑے ہوگیا تھا ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر اور دوسرا اس کے نیچے آگیا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں سے فرمایا :” دیکھو یا گواہ رہو“ اور مسلم و ترمذی نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ اسی معجزہ کے ظہور کے بعد آیت (افتربت الساعۃ وانشق القمر) نازل ہوئی تھی۔ اور امام احمد، ترمذی اور حاکم وغیرہم نے جبیربن مطعم (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم لوگ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں تھے کہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا تھا ایک ٹکڑا ایک پہاڑ پر اور دوسرا ٹکڑا دوسرے پہاڑ پر، تو لوگ کہنے لگے کہ محمد نے ہم پر جادو کردیا ہے، ایک شخص نے کہا کہ اگر اس نے تمہیں محسور کردیا ہے تو وہ تما لوگوں کو مسحور نہیں کرسکے گا۔ یعنی اگر تمہارے علاوہ دوسروں نے بھی چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے تو تمہاری بات صحیح نہیں ہوگی کہ اس نے تم پر جادو کردیا ہے، بلکہ یہ اس کا معجزہ ہوگا۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے آیت (٢) میں بیان فرمایا ہے کہ جب انہوں نے اس معجزے کو مشاہدہ کرلیا تو بجائے اسکے کہ ایمان لے آتے، استکبار میں آ کر اسے ماننے سے انکار کردیا اور کہنے لگے کہ یہ تو بڑا ہی زبردست جادو ہے جو محمد نے ہم پر کردیا ہے۔ اور آیت (٣) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے اس کی نشانیوں کا انکار کردیا اور اپنی خاہش نفس کی اتباع کرتے ہوئے حق سے منہ پھیر لیا، لیکن انہیں جان لینا چاہئے کہ اللہ کا فیصلہ اپنے انجام کو پہنچ کر رہتا ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دین غالب ہو کر رہے گا اور اللہ ان کی ضرور مدد فرمائے گا اور ان کے منکرین کو ضرور ذلیل و رسوا کرے گا۔ القمر
2 القمر
3 القمر
4 (٢) اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ یا عام کافروں کے لئے قرآن کریم میں اقوام گزشتہ کے بہت سے عبرتناک واقعات بیان کردیئے ہیں، جو ان کی عبرت و نصیحت کے لئے کافی ہیں، اگر وہ چاہتے تو ان میں غور و فکر کر کے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لے آتے، اور غفلت اور لہو و لعب کی زندگی چھوڑ کر آخرت کی فکر میں لگ جاتے، لیکن انہیں اس کی توفیق نہیں ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس حکمت بالغہ سے خوب واقف ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جس کے لئے وہ بدبختی لکھ دیتا ہے اور اس کے دل پر مہر لگا دیتا یہ اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ القمر
5 القمر
6 (٣) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جا رہا ہے کہ اگر کفار مکہ کو لہو و لعب چھوڑ کر فکر آخرت کی توفیق نہیں ہو رہی ہے، تو آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے اور اس دن کا انتظار کیجیے جب انہیں دوبارہ زندہ کر کے میدان محشر میں حساب و کتاب کے لئے اکٹھا کیا جائے گا، اور وہ گھڑی ان کے لئے بڑی ہی مشکل ہوگی، ان کی آنکھیں ذلت و رسوائی کے مارے نیچے جھکی ہوں گی اور جب اللہ تعالیٰ یا فرشتہ انہیں پکارے گا تو وہ اپنی قبروں سے ٹڈی دل کی طرح نکل کر چاروں طرف پھیل جائیں گے اور تیزی کے ساتھ پکارنے والے کی آواز کی طرف دوڑ پڑیں گے اور کفار اپنے اعمال کو یاد کر کے اور اس دن کے حقائق و مناظر اور میدان محشر کی ہولناکیوں کو دیکھ کر کہیں گے کہ یہ تو بڑا ہی سخت دن ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس بات کی نسبت کافروں کی طرف کرنے سے اس طرف اشارہ ہے کہ وہ دن مومنوں کے لئے سخت نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المدثر آیات (٩/١٠) میں فرمایا ہے : (فذلک یومئذیوم عسیر، علی الکافرین غیر یسیر) ” پس وہ دن بڑا سخت دن ہوگا، جو کافروں پر آسان نہ ہوگا۔ “ القمر
7 القمر
8 القمر
9 (٤) آیت (٤) میں جن اقوام گزشتہ کی خبروں کا ذکر آیا ہے، انہی میں سے بعض کی تفصیل بیان کر کے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے نوح کا ذکر فرمایا کہ اہل قریش سے پہلے قوم نوح نے اللہ کے رسول کی تجذیب کی، انہوں نے ہمارے بندے نوح کی تکذیب کی، انہیں پاگل کہا اور سب و شتم اور مختلف قسم کی ایذا رسانیوں کے ذریعہ انہیں دوت و تبلیغ سے روکا۔ نوح (علیہ السلام) جب اپنی قوم کی ہدایت سے بالکل مایوس ہوگئے اور کفر پر ان کا اصرار اور سرکشی حد سے متجاوز ہوگئی، تو انہوں نے ان پر بد دعا کردی اور اللہ سے کہا کہ اے میرے رب ! میری قوم نے اپنے تمرد و سرکشی کے ذریعہ مجھے مغلوب و عاجز بنا دیا ہے اور مجھے تبلیغ رسالت سے سختی کے ساتھ روک دیا ہے اب تو ہی ان سے نمٹ اور ان پر اپنا عذاب بھیج دے۔ القمر
10 القمر
11 (٥) اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی اور ان کی قوم کو سزا دینے کے لئے آسمان سے موسلا دھار بارش کے تمام دروازے کھول دیئے اور زمین کے ہر گوشے سے اس طرح پانی ابل پڑا کہ گویا ساری زمین چشموں میں بدل گئی اور دونوں جہت کا پانی قوم نوح کو ہلاک کرنے کے لئے اکٹھا ہوگیا۔ القمر
12 القمر
13 (٦) نوح (علیہ السلام) اس کشتی پر سوار ہوگئے جو انہوں نے اسی دن کے لئے اللہ کے حکم سے کشادہ تختوں اور بڑی بڑی کیلوں کی مدد سے بنایا تھا وہ کشتی طوفان میں اللہ کے حفظ و امان میں چلتی رہی اور یہ جو کچھ ہوا ناشکروں کو ان کے کفر کا بدلہ دینے کے لئے ہوا، اس لئے کہ نوح (علیہ السلام) کی بعثت ان کے لئے اللہ کی ایک عظیم نعمت تھی، جس کی انہیں قدر دانی کرنی چاہئے تھی، لیکن انہوں نے ناشکری کی تو اللہ نے نوح (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والوں کو بچا لیا اور باقی پوری قوم کو طوفان کے ذریعہ ہلاک کردیا۔ القمر
14 القمر
15 (٧) اللہ تعالیٰ نے قوم نوح کی ہلاکت کے قصے کو آنے الی نسلوں کے لئے ایک نشان عبرت بنا دی، جس سے لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ جب قوم نوح نے اللہ سے سرکشی کی تو عذاب الٰہی نے کیسا انہیں گرفت میں لے لیا تو یہی حال دیگر کافرو مشرک قوموں کا بھی ہوسکتا ہے۔ القمر
16 القمر
17 (٨) قوم نوح کا واقعہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس نے قرآن کریم کا حفظ کرنا اور اس سے عبرت و نصیحت حاصل کرنا آسان بنا دیا ہے۔ قرآن کریم کا یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ وہ آسانی سے یاد ہوجاتا ہے اور اس میں بیان کردہ مثالوں اور قصص و واقعات سن کر (جیسے قوم نوح کا قصہ) آدمی سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ جو کوئی بھی اللہ کے حق میں مجرم ہوگا، اس کا انجام ماضی میں گناہوں کے سبب ہلاک کی جانے والی قوموں کے جیسا ہوسکتا ہے اور جو انبیاء و صالحین کی راہ اختیار کرے گا، اسے اللہ غالب کرے گا اور دنیا و آخرت میں اسے اپنی بیش بہا نعمتوں سے نوازے گا۔ شو کانی لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں مسلمانوں کو قرآن کریم پڑھنے، کثرت سے اس کی تلاوت کرنے اور اسے سیکھنے میں جلدی کنے کی رغبت دلائی گئی ہے۔ القمر
18 (٩) قوم نوح کے بعد، قوم ہود کا ذکر کیا گیا ہے، جسے قوم عد کہتے ہیں، ان لوگوں نے بھی اللہ کے رسول ہود (علیہ السلام) کو جھٹلایا اور ان پر ایمان لانے سے انکار کردیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو پھر جس عذاب کا ہم سے وعدہ کرتے ہو، جلد لے آؤ تو عذاب الٰہی نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا اور اس عذاب کو لوگوں کی تنبیہہ کا ذریعہ بنایا گیا اور وہ عذاب تیز و تند ٹھنڈی ہوا کی شکل میں تھا، اور وہ دن ان کے لئے بڑا برا ثابت ہوا، جس دن یہ عذاب ان پر مسلط کیا گیا وہ ہوا اس وقت تک چلتی رہی جب تک ان کا ایک ایک فرد ہلاک نہ ہوگیا وہ ان کے ایک ایک فرد کو اوپر فضا میں لے جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے وہاں سے اسے سر کے بل گراتی، تو وہ زمین پر اتنی سختی کے ساتھ گرتا کہ اس کا سر دھڑ سے الگ ہوجاتا۔ اس طرح انہوں نے اور دنیا والوں نے دیکھ لیا کہ اللہ کے عذاب نے انہیں کس طرح اپنی گرفت میں لے لیا، کس طرح اس بدترین عذاب کو لوگوں کی تنبیہہ کا ذریعہ بنایا گیا۔ القمر
19 القمر
20 القمر
21 القمر
22 (١٠) قوم ہود کی ہلاکت و بربادی کا قصہ قرآن کریم میں بیان کئے جانے کے بعد، دوبارہ کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قران کریم میں بیان کردہ ان واقعات کے ذریعہ نصیحت حاصل کرنے کو آسان بنا دیا ہے، یعنی جو کوئی ان واقعات میں غور و فکر کرے گا، وہ اللہ کی توفیق سے گناہوں سے تائب ہو کر اپنے رب کی طرف رجوع کرے گا۔ تو کوئی ہے جو ان واقعات سے عبرت حاصل کرے ؟ القمر
23 (١١) قوم ثمود نے بھی رسولوں کی تکذیب کی، اس لئے کہ صالح (علیہ السلام) کی تکذیب گویا سارے انبیاء کی تکذیب تھی، یا ان نشانیوں کی تکذیب کی جنہیں پیش کر کے صالح (علیہ السلام) نے انہیں دعوت توحید دی تھی۔ انہوں نے کہا : یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم اپنی ہی قوم کے ایک فرد کو رسول مان لیں اور پوری جماعت کو چھوڑ کر اس کی پیروی کرنے لگیں، اللہ کے رسول کو تو انسانوں سے اعلیٰ جنس یعنی فرشتہ ہونا چاہئے۔ اس لئے اگر ہم صالح کی بات مان کر اس کی پیروی کرنے لگیں گے تو حق سے دور اور مجنونوں کی صف میں آجائیں گے۔ القمر
24 القمر
25 (١٢) صالح میں کون سی بڑائی اور خوبی پائی جاتی ہے کہ اللہ نے ہمارے بڑے بڑے سرداروں اور مالداروں کو چھوڑ کر اسے اپنا نبی بنا لای ہے۔ ایسی کؤی بات نہیں ہے، بلکہ وہ بڑا جھوٹا اور متکبر ہے اور اس کے کبر و غرور نے اس پر ابھارا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑا ظاہر کرے اور ہمیں اپنی پیروی کا حکم دے۔ القمر
26 (١٣) اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ کل جب یہاں دنیا میں ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا اور پھر قیامت کے دن جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے تو انہیں خوب معلوم ہوجائے گا کہ جھوٹ، حق سے اعراض کرنے والا اور کبر و نخوت میں مبتلا کون تھا۔ القمر
27 (١٤) اللہ تعالیٰ نے صالح (علیہ السلام) سے کہا کہ وہ لوگ آپ سے آپ کے نبی ہونے کی نشانی کا مطالبہ کرتے ہیں، تو ہم سخت چٹان کے بیچ سے ایک اونٹنی نکال کر انہیں دکھاتے ہیں، جو آپ کی صداقت کی نشانی اور ان کی آزمائش کا ذریعہ ہوگی، یعنی اگر انہوں نے اس معجزے کا انکار کردیا تو ان کے لئے بڑی خطرناک بات ہوگی، پس آپ اونٹنی ظاہر ہونے کا انتظار کیجیے اور دیکھیے کہ وہ کیا کرتے ہیں اور اگر آپ کو ان سے دعوت کی راہ میں تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کیجیے، کیونکہ یہ راہ ہی ایسی ہے جس کا مسافر بغیر صبر و استقامت آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ القمر
28 (١٥) اللہ نے فرمایا : آپ انہیں یہ بتا دیجیے کہ جس کنوئیں کا پانی وہ لوگ پیتے ہیں اب وہ ان کے اور اونٹنی کے درمیان بربار برابر تقسیم کردیا گیا ہے ایک دن اونٹنی پئے گی، اور دوسرے دن وہ لوگ پئیں گے ہر باری والا صرف اپنی باری کے دن آئے گا اور اپنے حصے کا پانی پئے گا۔ القمر
29 (١٦) انہوں نے اللہ کے حکم سے روگردانی کی اور قدار بن سالف نامی شخص کو اونٹنی کے قتل کردینے پر ابھارا جو قوم ثمود کا بڑا ہی برا انسان تھا، چنانچہ اس نے پہلے تیر سے اس کی پنڈلی کو زخمی کردیا، پھر اس پر تلوار سے حملہ کر کے اس کے دونوں پاؤں کو مزید زخمی کردیا، پھر اسے ذبح کردیا اور اس طرح پوری قوم اللہ کے عذاب کا حقدار بن گئی، جس کا ذکر آیت (٣١) میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جبرئیل (علیہ السلام) نے ان کے درمیان ایسی سخت چیخ پیدا کی کہ ان کے دل پہلوؤں سے الگ ہوگئگے اور مر کر اپنے گھروں میں ایسا ڈھیر ہوگئے جیسے بکریاں پالنے والا، باڑے میں اپنی بکریوں کے لئے خشک گھاس کا ڈھیر لگایا کرتا ہے۔ آیت (٣٢) میں، سہ بارہ کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان کردہ ان واقعات کے ذریعہ نصیحت حاصل کرنے کو آسان بنا دیا ے، تو کوئی ہے جو ان واقعات سے عبرت حاصل کرے؟ القمر
30 القمر
31 القمر
32 القمر
33 (١٧) قوم لوط نے بھی رسولوں کی تکذیب کی اس لئے کہ لوط (علیہ السلام) کی تکذیب گویا سارے رسولوں کی تکذیب تھی یا ان کے نشانیوں کی تکذیب کی جنہیں پیش کر کے لوط (علیہ السلام) نے انہیں دعوت توحید دی تھی۔ گزشتہ کئی سورتوں میں قوم لوط کا ذکر آچکا ہے کہ سدوم اور عموریہ بستیوں کے رہنے والوں میں، مردوں کے ساتھ لواطت کا گناہ پھیل گیا تھا اللہ نے انہیں اس فعل منکر سے تائب ہونے اور راہ راست پر چلنے کے لئے لوط (علیہ السلام) کو نبی بنا کر ان کے پاس بھیجا جو ابراہیم (علیہ السلام) کے بھائی ہاران کے بیٹے تھے، لیکن وہ اپنے گناہوں پر مصر رہے، تو اللہ تعالیٰ نے ان بستیوں کو الٹ دیا اور پھر فرشتہ یا تیز و تند ہوا کے ذریعہ ان پر پتھروں کی ایسی بارش کردی کہ وہ سب کے سب ہلاک ہوگئے، صرف لوط علیہ السلام، ان کی دونوں بیٹیاں اور چند وہ لوگ بچ گئے جو مسلمان ہوگئے تھے یہ لوگ اللہ کے حکم سے رات کے آخری پہر میں ان بستیوں سے نکل گئے، ان مومنوں پر اللہ نے اپنا فضل و کرم کیا کہ عذاب نازل ہونے سے پہلے انہیں وہاں سے نکل جانے کو کہہ دیا۔ اللہ تعالیٰ ہر زمانے میں اپنے نیک اور شکر گزار بندوں کو ان کے نیک اعمال کا اسی طرح اچھا بدلہ دیا کرتا ہے۔ القمر
34 القمر
35 القمر
36 (١٨) اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اچانک عذاب میں مبتلا نہیں کردیا، بلکہ لوط (علیہ السلام) نے انہیں اللہ کے عذاب شدید سے بہت ڈرایا اور پوری کوشش کی کہ وہ راہ راست پر آجائیں، لیکن انہوں نے ہمیشہ ہی لوط (علیہ السلام) کی باتوں کا مذاق اڑایا اور سمجھتے رہے کہ لوط کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے اور جس عذاب کی وہ دھمکی دے رہا ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور ان کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ انہوں نے لوط (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں اپنے نووارد خوبصورت مہمانوں کے ساتھ بدفعلی کی اجازت دے دیں، وہ مہمانان دراصل فرشتے تھے جو انسانوں کی شکل میں مجرموں کی آزمائش کے طور پر بھیجے گئے تھے۔ لوط (علیہ السلام) کی بڑھیا بیوی جو مجرمین کے ساتھ ملی ہوئی تھی، دوڑی گئی اور مجرمین کو خوبصورت مہمانوں کے آنے کی اطلاع دے دی، تھوڑی ہید یر میں تمام مجرمین لوط (علیہ السلام) کے پاس جمع ہوگئے اور کہا کہ وہ اپنے مہمانوں کو ان کے حوالے کردیں لوط (علیہ السلام) نے اللہ کا واسطہ دے کر ان سے منت و سماجت کی کہ وہ ان کے مہمانوں کے ساتھ بدفعلی کا ارتکاب کر کے انہیں ذلیل و رسوا نہ کیں، لیکن انہوں نے ان کی ایک نہ سنی اور زبردستی ان کے گھر میں داخل ہونا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اندھا بنا دیا اور وہ مہمانوں کو نہ دیکھ سکے اور اللہ نے ان سے کہا کہ اب تم لوگ میرے عذاب کا مزا چکھو چنانچہ صبح کے وقت ایک دائمی اور کبھی نہ ہٹنے والے عذاب نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا، جس کے سبب دنیا میں ذلت و رسوائی کی موت مرے، اور عالم برزخ میں بھی وہ عذاب ان پر مسلط رہے گا، یہاں تک کہ انہیں جہنم میں پہنچا دے گا اور اللہ تعالیٰ ان سے اس وقت کہے گا کہ تم لوگ میرے عذاب کا مزا چکھتے رہو۔ آیت (٤٠) میں اللہ تعالیٰ نے چوتھی بار کہا کہ اس نے قرآن کریم میں بیان کردہ ان واقعات کے ذریعہ نصیحت حاصل کرنے کو آسان بنا دیا ہے تو کوئی ہے جو ان واقعات سے عبرت حاصل کرے؟ اور اس تکرار سے مقصود بندوں کو ماضی میں کافر اقوام کی ہلاکت کی یاد دلا کر، عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی غبت دلانا ہے، تاکہ فکر آخرت سے غافل نہ ہوجائیں۔ القمر
37 القمر
38 القمر
39 القمر
40 القمر
41 (١٩) اللہ تعالیٰ نے فرعون اور فرعونیوں کے پاس موسیٰ اور ہارون کو نبی بنا کر بھیجا، تاکہ وہ انہیں آسمان و زمین کے خلاق الہ واحد کی بندگی کی طرف بلائیں اور اللہ نے انہیں اپنی صداقت کے اثبات کے لئے نو نشانیاں دیں، جن کا ذکر گزشتہ سورتوں کی تفسیر میں کئی بار آچکا ہے موسیٰ اور ہارون نے ایک ایک کر کے وہ تمام نشانیاں پیش کردیں لیکن فرعون اپنے کبر و غرور کے نشے میں ان سب کا انکار کرتا چلا گیا اور اللہ کی وحدانیت اور اس کی عبودیت کا اقرار کرنے کی اسے توفیق نہیں ہوئی بالاخر اللہ تعالیٰ نے اس کی ایسی سخت گرفت کی جس سے دنیا کی کوئی طاقت اسے بچا نہ سکی اس لئے کہ اللہ کی قادر مطلق ہستی پر کون غالب آسکتا ہے۔ القمر
42 القمر
43 (٢٠) اللہ تعالیٰ نے کفار قریش سے کہا ہے کہ جن قوموں کا ابھی ذکر ہوا، اور جن پر ہمارا غضب نازل ہا، کیا تم اہل کفر ان سے بہتر ہو کہ اپنے آپ کو اللہ کے عذاب سے مامون و محفوظ سمجھتے ہو، یا اللہ نے اپنی کسی آسمانی کتاب میں تمہاری برأت نازل کردی ہے کہ تم چاہے جو کرتے رہو تمہاری گرفت نہیں ہوگی؟ واقعہ یہ ہے کہ دونوں ہی باتیں صحیح نہیں ہیں، بلکہ تمہیں ڈھیل دے دی گئی ہے تاکہ تم اللہ کی طرف رجوع کرو گے یا پھر اللہ کا عذاب تم پر نازل ہوجائے گا۔ القمر
44 (٢١) اگر کفار قریش اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ ان کی جماعت اتنی کثیر اور طاقتور ہے کہ کوئی ان پر غالب نہیں آسکتا؟ تو سن لیں کہ ان کی شکست ہو کر رہے گی، چاہے وہ کفار قریش ہوں یا عام کفار عرب اور وہ میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر ایسا بھاگیں گے کہ مڑ کر بھی نہیں دیکھیں گے اور معاملہ یہاں پر ہی ختم نہیں ہوجاتا ہے، بلکہ ان کا اصل موعد تو یوم آخرت ہے، جو بڑی ہی کٹھن گھڑی ہوگی اور جس کے عذاب سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی اور جو دنیا کے عذاب سے بہت ہی زیادہ سخت ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ وہ میدان بدر میں بدترین شکست سے دوچار ہوئے اور کفر و شرک کے بڑے بڑے سرداران مسلمانوں کی تلواروں کے ذریعہ گاجر مولی کی طرح کاٹ دیئے گئے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ آیت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی دلیل ہے، اس لئے کہ یہ مکہ میں نازل ہوئی تھی، جس میں یہ غیبی خبر دی گئی تھی کہ کفار قریش کی شکست ہوگی اور وہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگیں گے اور اس کی تصدیق ٢ ھ میں غزوہ بدر کے ذریعہ ہوئی۔ امام بخاری نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میدان بدر میں پورے الحاج کے ساتھ اپنے رب سے مسلمانوں کی کامیابی کے لئے دعا کی، پھر اپنے خیمے سے جست لگا کر اس سورت کی یہی دونوں آیتیں پڑھت ہوئے نکلے۔ القمر
45 القمر
46 القمر
47 (٢٢) اللہ کے جو سرکش بندے، دنیا میں جرائم و معاصی کا ارتکاب کرتے ہیں، وہ دنیا میں راہ حق سے برگشتہ ہیں اور آخرت میں ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا، جس کی آگ ان کے جسموں میں بھڑک اٹھے گی اور اس آگ میں انہیں ان کے چہروں کے بل گھسیٹا جائے گا انہیں نہیں معلوم ہوگا کہ وہ کہاں لے جائے جا رہے ہیں اور ان کا ذہنی کرب والم بڑھانے کے لئے ان سے کہا جائے گا کہ اب جہنم کی سختیوں اور اس شدت عذاب کو جھیلتے رہو۔ القمر
48 القمر
49 (٢٣) اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات پیدا کرنے سے پہلے ان کا پورا علم تھا اور ان کی تقدیر پر لکھ دی تھی کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ کی سابق تقدیر اور علم کے بغیر وجود میں نہیں آتی ہر چیز کا علم اس کے واقع ہونے سے پہلے ہی لوح محفوظ میں مکتوب ہے، اسی تقدیر الٰہی میں یہ بھی ہے کہ وہ مجرمین کو سزا دینے کے لئے جہنم پیدا کرے گا اور صالحین کو ان کے نیک اعمال کا بدلہ دینے کے لئے جنت پیدا کرے گا چنانچہ اس نے جنت و جہنم پیدا کیا اور قرآن کریم میں وعدہ وعید کے طور پر ان کا ذکر فرمایا : اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفرقان آیت (٢) میں یوں بیان فرمایا ہے : (وخلق کل شیء فقدرہ تقدیراً) ” اس نے ہر چیز کو پیدا کر کے اس کی ایک تقدیر مقرر کردی ہے۔ “ امام احمد، مسلم، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ مشکین قریش نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کرت قدیر کے بارے میں بحث و مناظرہ کرنے لگے، تو اس سورت کی آیات (٤٧، ٤٨، ٤٩) نازل ہوئیں۔ القمر
50 (٢٤) جس طرح اللہ کی تقدیر اس کے بندوں میں نافذ ہوتی رہتی ہے، کوئی چیز اسے روک نہیں سکتی، اسی طرح اس کی مشیت بھی اس کی مخلوقات کے سلسلے میں نافذ ہوتی ہے، کوئی شے حائل نہیں ہو سکتی، اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں یہی بات بیان فرمائی ہے کہ کسی چیز کے وجود میں آنے کے لئے اس کا ایک حکم کافی ہے، پھر وہ چیز پلک جھپکتے وجود میں آجاتی ہے۔ القمر
51 (٢٥) اللہ تعالیٰ نے کفار قریش سے کہا ہے کہ ہم نے ماضی میں تمہارے ہی جیسے کافروں کو ان کے جرائم کی وجہ سے ہلاک کردیا تھا۔ تو کیا تم میں کوئی ہے جو ان کے عبرتناک انجام سے نصیحت حاصل کرے اور وقت گذر جانے سے پہلے اپنی حالت بدل لے، گناہوں سے تائب ہوجائے اور اپنے معبود حقیقی کے سامنے سجدہ کے لئے سر جھکا دے۔ آیت (٥٢) میں اللہ تعالیٰ نے ان کی مزید تنبیہہ کے لئے فرمایا کہ لوگوں کے تمام چھوٹے بڑے اعمال فرشتوں کے ذریعہ نامہ ہائے اعمال میں لکھے جا رہے ہیں۔ آیت (٥٣) میں بھی یہی بات بطور تاکید کہی گئی ہے کہ انسان کا حقیر سے حقیر عمل بھی نہ گم ہوتا ہے اور نہ فرشتے اسے بھولتے ہیں۔ سورۃ الکہف آیت (٤٩) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (ویقولون یویلتنا مالھذا الکتاب لایقادر صغیرۃ ولا کبیرۃ الا اخصاھا) ” اس دن مجرمین کہی گے، ہائے ہماری خرابی ! یہ کیسی کتاب ہے جس نے کوئی چھوٹا بڑا (گناہ) بغیر گھیرے کے باقی ہی نہیں چھوڑا ہے۔ “ اور امام احمد نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے، اے عائشہ ! ان گناہوں سے بچو جنہیں معمولی اور حقیر جانا جاتا ہے، اللہ کی جانب سے انہیں ریکارڈ میں لانے والے موجود ہیں۔ القمر
52 القمر
53 القمر
54 (٢٦) قرآن کریم اپنے معہود طریقہ کے مطابق مجرمین کا انجام بیان کرنے کے بعد جس کا ذکر آیات (٤٧) سے (٥٣) تک ہوا ہے، اب مومنین متقین کو خوشخبری دے رہا ہے کہ وہ اللہ کی بنائی جنتوں میں ہوں گے، جن کے آس پاس نہریں جاری ہوں گی، اور وہ اپنے مالک الملک اور قادر مطلق رب کے پاس، اس کی بنائی جنت میں ہوں گے جہاں کوئی لغو، بے ہودہ اور گناہ کی بات نہیں کرے گا، یعنی انہیں اپنے رب کا قرب، اعلیٰ ترین مقام اور جنت کا نہایت پاکیزہ ماحول ملے گا۔ وباللہ التوفیق القمر
55 القمر
0 سورۃ الرحمن مدنی ہے، اس میں اٹھتر آیتیں اور تین رکوع ہیں تفسیر سورۃ الرحمٰن نام : اس سورت کا پہلا لفظ ” الرحمن“ ہے یہی اس کا نام رکھ دیا گیا ہے اور اس کا سبب صاحب محاسن التنزیل نے مفسر مہایمی کے حوالے سے یہ بتایا ہے کہ اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں کا ذکر آیا ہے، جن کا منبع ذات باری تعالیٰ کی صفت ” رحمت“ ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی لکھتے ہیں کہ یہ سورت مکی ہے، حسن، عروہ بن زبیر، عکرمہ، عطاء اور جابر کا یہی قول ہے، نحاس نے ابن عباس (رض) سے اور ابن مردویہ نے عبداللہ بن زبیر اور عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی تھی اور امام احمد اور ابن مردویہ نے اسماء بنت ابی بکر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجر اسود کی طرف رخ کر کے (فبای الاربکما تکذبان) پڑھی اور مشرکین آپ کی قرأت کو سن رہے تھے۔ اور ابن اسحاق نے عروہ بن زبیر سے روایت کی ہے کہ یہی وہ سورت ہے جسے عبداللہ بن مسعود (رض) نے اہل قریش کو قرآن سنانے کے لئے مقام ابراہیم کے سامنے کھڑے ہو کر پڑھی تھی اور انہوں نے انہیں مار مار کر لہو لہان کردیا تھا۔ اور قرآن کریم کی یہ واحد سورت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے جن و انس دونوں کو مخاطب کر کے اپنی قدرتوں اور اپنے کمالات و احسانات کا ذکر کیا ہے اور انہیں شکر بجا لانے کی رغبت دلائی ہے۔ الرحمن
1 (١) اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتدا اپنے نام ” الرحمٰن“ سے کی ہے جو اس کی بے انتہا رحمتوں بے شمار احسانات اور بے حد و حساب نعمتوں پر دلالت کرتا ہے اور پھر اپنی بے پایاں دینی، دنیاوی اور اخروی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ ان نعمتوں میں عظیم ترین دینی نعمت قرآن کریم ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے پوری صراحت و وضاحت کے ساتھ ان تمام باتوں کو بیان فرما دیا ہے جن سے وہ خوش ہوتا ہے، یا جن سے وہ نارضا ہوتا ہے، تاکہ انسان اپنے رب کی خوشی کے کام کرے اور ان کاموں سے دور رہے جن سے وہ ناراض ہوتا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہاں اللہ تعالیٰ کے دیگر ناموں کے بجائے ” الرحمٰن“ کے ذکر سے مقصود، مشرکین مکہ کی تردید ہے جو باری تعالیٰ کے اس نام کا انکار کرتے تھے اور ان یک اس زعم باطل کی بھی تردید ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس قرآن کریم کی تعلیم کوئی انسان دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ تو رحمٰن کا کلام ہے جو اس نے اپنے بندے اور رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سکھایا ہے۔ الرحمن
2 الرحمن
3 (٢) باری تعالیٰ نے انسان کو سب سے اچھی شکل و صورت میں پیدا کیا ہے اور اسے قوت گویائی دے کر تمامح یوانات سے ممتاز کیا ہے اگر اسے یہ قوت نہ دی جاتی تو اس میں اور دیگر حیوانات میں کوئی فرق باقی نہ رہتا وہ بھی دیگر حیوانات کی طرح محض گوشت پوست اور خون اور چمڑے کا مجموعہ ہوتا اور انہی کی طرح زمین پر چلتا پھرتا اور پھر مر جاتا انسان کے جسم میں دھڑکتا دل، عقل و ہوش اور قوت گویائی ہی ہے جس نے اسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے۔ الرحمن
4 الرحمن
5 (٣) آفتاب و ماہتاب اللہ کی مخوقات میں سے ہیں۔ اس نے انہیں انسانوں کے فائدے کے لئے ایک خاص حساب و نظام کا پابند بنا دیا ہے اور ان کی رفتار کے لئے منزلیں متعین کردی ہیں۔ دونوں اللہ کے مقرر کردہ حساب و نظام کے مطابق اپنی منازل میں چلتے رہتے ہیں اور کسی حالت میں بھی ان سے تجاوز نہیں کرتے ہیں اور ان کے اسی متعین و محدود رفتار کی وجہ سے اوقات اور موسم میں تبدیلی آتی رہتی ہے اور لوگ گھنٹوں، دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں کا حساب معلوم کرتے رہتے ہیں۔ یہ قمری اور شمسی نظام بھی اللہ کی اپنے بندوں پر رحمت ہے۔ الرحمن
6 (٤) زمین پر اگنے والے پودے اور درخت، تمام ہی اللہ کی مشیت اور اس کے ارادے کے کلی طور پر تابع ہیں اور جس طرح مومن آدمی اپنے رب کے حضور سجدہ کرتا ہے، اسی طرح ان پودوں اور درختوں کا اپنے خلاق کی مشیت وارادے کا تابع فرمانا رہنا گویا ہر دم اس کے حضور سربسجود رہنا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آفتاب و ماہتاب اجرام سماویہ میں سے ہیں اور پودے اور درخت زمین میں ہوتے ہیں۔ اس لئے آفتاب و ماہتاب کے بعد، پودوں اور درختوں کا ذکر بطور تقابل مناسب رہا کہ سبھی اپنے خلاق کی مشیت و ارادے کے سانے سر جھکائے ہوئے ہیں۔ بعض لوگوں نے ” نجم“ سے مراد آسمان کے تارے لئے ہیں اور ان کا اپنے رب کے حضور سجدہ، ان کا طلوع ہونا ہے، اور درخت کا سجدہ یہ ہے کہ وہ اللہ کی مرضی کے مطابق پھل دیتے ہیں، جنہیں اس کے بندے استعمال کرتے ہیں۔ الرحمن
7 (٥) اللہ تعالیٰ نے زمین میں پائی جانے الی مخلوقات کے لئے آسمان کو چھت بنا کر اونچا رکھا ہے، جو اللہ کی مرضی کے تابع ہے اور مخلوقات کے سروں پر نہیں گرتا۔ اور اس نے اپنے بندوں کے درمیان تمام اقوال و افعال میں عدل و انصاف کو واجب قرار دیا ہے۔ آیت میں ” میزان“ سے مراد صرف ترازو ہی نہیں ہے، بلکہ ہر وہ پیمانہ مراد ہے جس سے کسی چیز، زمین، مقدار اور دنیا میں پائی جانے والی دیگر ماوی اور معنوی اشیاء اور حقائق کی پیمائش کی جاتی ہے اور جن کے ذریعہ بنی نوع انسان آپس میں عدل و انصاف قائم کرتے ہیں اور ان میں نقص و زیادتی کر کے عدل و انصاف کو پامال کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ آیت میں ” میزان“ سے مقصود ” عدل“ ہے اور اس کی دلیل آیت (٨) ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اس نے میزان کو اس لئے نازل کیا ہے تاکہ لوگ حقوق و معاملات میں حد سے تجاوز نہ کریں، ور نہ فساد کے دروزاے کھل جائیں گے، کیونکہ جب کسی سوسائٹی سے عدل و انصاف ختم ہوجاتا ہے، تو ہر طرف انار کی پھیل جاتی ہے اور زندگی کے ہر گوشے میں فتنہ و فسادد عام ہوجاتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بطور مزید تاکید آگے کی آیت (٩) میں فرمایا کہ لوگ ! وزن کرتے وقت عدل و انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دو اور میزان کو برابر رکھو، کم نہ تولو، شوکانی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے میزان کو برابر رکھنے کا حکم دیا، پھر زیادہ تول کر اور ترازوں کو جھکا کر حد سے تجاوز کرنے سے روکا اور پھر کم اور ناقص وزن کرنے سے منع فرمایا، گویا ہر حال میں عدل و انصاف پر قائم رہنے کا حکم دیا ہے۔ الرحمن
8 الرحمن
9 الرحمن
10 (٦) آیت (٧) میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے اس نے آسمان کو چھت بنا کر اوپر اٹھا رکھا اور اس آیت میں کہا ہے کہ اس نے زمین کو پانی پر پھیلا دیا ہے اور اس پر بلند و بالا پہاڑوں کا کھونٹا گاڑ کر اسے ثابت بنا دیا ہے تاکہ اس کی نوع بہ نوع مخلوقات اس پر زندگی گذار سکیں۔ آیات (١١/١٢) میں باری تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے زمین میں مختلف قسم کے پھل پیدا کئے ہیں اور بالخصوص کھجور، جو غلافوں میں لپٹے ہوتے ہیں اور مختف قسم کے دانے پیدا ہوتے ہیں، جو پتوں اور خوشوں میں لپٹے ہوتے ہیں دانے انسانوں کی خوراک بنتے ہیں اور بھس ان کے جانور کھاتے ہیں۔ الرحمن
11 الرحمن
12 الرحمن
13 (٧) مذکورہ بالا آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے جن وانس کے لئے اپنی گوناگوں نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد، اس آیت کریمہ میں انہیں مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے یہ ان گنت نعمتیں تم سے تقاضا کرتی ہیں کہ اس کے احسانات کا دل سے اعتراف کرو اور زبان و عمل سے اس کا شکر ادا کرتے رہو۔ امام شوکانی نے قتیمی کا قول نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں اپنی نعمتوں کا ذکر کر کے جن و انس کو ان کی یاد دلائی ہے، اور ہر دو نعمت کے ذکر کے درمیان آیت (فبای الآ ربکما تکذبان) یعنی ” اے جن و انس ! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے“ کے ذریعہ بار بار اپنی نعمتوں کو یاد دلا کر ان کی تنبیہہ کرنی چاہی ہے، ویس یہی جیسے ایک آدمی کسی شخص پر مسلسل احسان کرتا رہتا ہے اور وہ شخص مسلسل احسان فراموشی کرتا رہتا ہے تو وہ آدمی اس سے کہتا ہے کہ کیا تمہیں یاد نہیں ہے کہ تم محتاج و فقیر تھے تو میں نے تمہیں پیسے دے دے کر مالدار بنا دیا تھا، کیا تم اس کا انکار کرسکتے ہو؟ کیا تمہیں یاد ہے کہ تمہارے اپس سواری نہیں تھی تو میں نے تمہیں سواری دی تھی، کیا تم اس کا انکار کرسکتے ہو؟ حسین بن فضیل کا قول ہے کہ اس آیت کے تکرار سے مقصود بندوں کو تنبیہہ کرنی اور ان کی غفلت دور کرنی ہے تاکہ وہ اپنے رب کی طرف رجوع کریں اور ہر حال میں اس کے شکر گذار رہیں۔ امام بغوی نے لکھا ہے کہ یہ آیت اکتیس بار دہرائی گئی ہے اور اس تکرار سے مقصود بندوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانی ہے کہ یہ نعمتیں اللہ نے دی ہیں اور وہ ان کے مقابلے میں ان کی جانب سے ذکر و شکر کا مستحق ہے۔ الرحمن
14 (٨) اللہ تعالیٰ نے جن و انس کو پیدا کر کے اور ان میں گوناگوں صلاحیتیں ودیعت کر کے ان پر بڑے احسانات کئے ہیں، جن کا تقاضا تھا کہ وہ دونوں اپنے خالق کے شکر گزار بندے بنتے، لیکن انہوں نے ناشکری کی۔ اللہ تعالیٰ نے آدم لعیہ السلام کو ایس مٹی سے پیدا کیا ہے جو پہلے عام مٹی تھی، پھر گل سڑک کر کیچڑ بن گئی، پھر سوکھ کر ٹھیکرا بن گئی۔ اسی لئے قرآن نے کبھی کہا ہے کہ انسان کی پیدائش مٹی سے ہے، کبھی کہا ہے کہ اس کی پیدائش سڑی مٹی سے ہے اور کبھی کہا ہے کہ اس کی تخلیق ٹھیکرے والی مٹی سے ہوئی ہے۔ اور سب سے پہلے جن کو اللہ تعالیٰ نے آگ کے انگارے سے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ الرحمن
15 الرحمن
16 الرحمن
17 (٩) اللہ تعالیٰ ہر اس چیز کا رب ہے جس پر آفاتب و ماہتاب اور دیگر روشن ستارے طلوع اور غروب ہوتے ہیں اور ان کے طلوع و غروب ہونے میں جن و انس کے لئے بے شمار فائدے ہیں، جیسے موسموں کا بدلنا اور ہر موسم میں پائی جانے وای نعمتیں تو اے جن وانس ! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا انکار کرو گے؟!۔ الرحمن
18 الرحمن
19 (١٠) اللہ تعالیٰ نے میٹھے اور کھارے پانی کے دو سمندروں کو ایک ساتھ جاری کیا ہے، دونوں ایک ساتھ بہتے رہتے ہیں، اور کیا مجال کہ دونوں ایک دوسرے سے مل جائیں اور ایک دوسرے کی خاصیت و خوبی کو زائل کردیں، ایک کا پانی میٹھا ہوتا ہے جسے انسان پیتا ہے اور اپنے درختوں اور کھیتوں کو سیراب کرتا ہے اور دوسرے کا پانی کھارا ہوتا ہے جس سے ہوا خوشگوار ہوتی ہے، اور مچھلیاں موتی اور مرجان پیدا ہوتے ہیں اور موتی اور مرجان اگرچہ کھارے سمندر سے نکلتے ہیں، لیکن چونکہ دونوں سمندروں کے امتزاج اور آپس میں ملنے کا ان کے پائے جانے میں دخل ہے، اسی لئے کہا گیا کہ موتی اور مرجان دونوں سمندروں سے نکلتے ہیں تو اے جن و انس ! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا انکار کرو گے؟! الرحمن
20 الرحمن
21 الرحمن
22 الرحمن
23 الرحمن
24 (١١) اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے سمندروں کو اس طرح مسخر کردیا ہے کہ انسانوں کی بنائی ہوئی بلند و بالا پہاڑ جیسی کشتایں ان سمندروں کا سینہ چیرتی ہوئی ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ملک سے دوسرے ملک جاتی رہتی ہیں اور اپنی پیٹھ پر انسانوں اور ان کیضرویرات زندگی کو لاد کر پہنچاتی رہتی ہیں تو اے جن و انس ! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟! الرحمن
25 الرحمن
26 (١٢) زمین پر حرکت کرنے والے جتنے حیوانات ہیں، سب فنا کے گھاٹ اتر جائیں گے، مخلوقات میں سے کوئی بھی باقین ہیں رہے گا، صرف باری تعالیٰ کی ذات باقی رہ جائے گی جو بڑی عظمت و بلندی اور بڑی کبریائی والا ہے اور جس کا فضل و کرم بحر و بر میں رہنے والے اس کی تمام مخلوقات کے لئے عام ہے۔ اور چونکہ تمام مخلوقات کے فنا ہوجانے کے بعد ہی قیامت آئے گی اور سب دوبارہ زندہ ہو کر میدان محشر میں جمع ہوں گے، حق و ناحق کا فیصلہ ہوگا اور اچھوں کو اللہ تعالیٰ جنت دے گا اور گناہ گاروں کوس زا دے گا اور اللہ کا یہ فیصلہ یقینا اس کی بڑی نعمت ہوگی کہ وہ اپنے عدل و انصاف کے تقاضے کے مطابق ظالموں کو ان کے کیفر کردارتک پہنچا دے گا اور اپنے نیک بندوں کو جنت اور اس کی نعمتوں سے نوازے گا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے جن و انس ! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ مفسرین نے (کل من علیھا فان) کی تفسیر کے ضمن میں مندرجہ ذیل فوائد کا ذکر کیا ہے : ١۔ جب زندگی کے ایام محدود ہیں تو اسے اللہ کی عبادت میں گذارنا چاہئے۔ ٢۔ دنیا کی ہر نعمت زوال پذیر ہے، اس لئے اللہ سے ہی لولگانے میں ہر بھلائی ہے۔ ٣۔ تکلیف و مصیب میں صبر کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ یہاں کی خوشی اور غم دونوں عارضی ہیں۔ ٤۔ اللہ کو چھوڑ کر غیروں کو معبود نہ بنایا جائے، اس لئے کہ زائل و فانی معبود نہیں ہوسکتا ہے۔ الرحمن
27 الرحمن
28 الرحمن
29 (١٣) آسمانوں اور زمین میں اللہ کی جتنی مخلوقات ہیں، سب اسی کے محتاج ہیں اور وہ ذات واحد غنی اور بے نیاز ہے، سب اس کی رحمت کی امید لگائے رہتے ہیں، اسی کو پکارتے ہیں، اسی کے سامنے دست سوال پھیلاتے ہیں اور وہی سب کے دامن مرادوں سے بھرتا ہے وہ قادر مطلق کائنات میں اپنی مشیت کے مطابق تصرف کرتا ہے، زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے روزی دیتا ہے اور فقیر بناتا ہے، عزت و ذلت دیتا ہے، بیماری اور شفا دیتا ہے کسی کو دیتا ہے اور کسی کو نہیں دیتا اور کسی کو معاف کرتا ہے اور کسی کو سزا دیتا ہے۔ علی ہذا القیاس اس آسمان و زمین میں اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کا حکم چلتا ہے وہی اپنے بندوں کی تمام ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے جن وانس ! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟! الرحمن
30 الرحمن
31 (١٤) واحدی نے مفسرین کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس آیت کریمہ میں جن وانس کے لئے زبردست دھمکی ہے اور قاسمی نے شہاب کے حالے سے لکھا ہے کہ اس آیت کریمہ میں صرف وعید ہی نہیں ہے، بلکہ اللہ کے نیک بندوں کے لئے ثواب کا وعدہ بھی ہے۔ اس لئے کہ (سنفرع لکم) کا معنی یہ ہے کہ اے جن و انس ! قیامت کے دن ہم تمہارا حساب لیں گے اور تم میں جو اچھے ہوں گے انہیں ان کے نیک اعمال کا اچھا بدلہ دیں گے اور جو برے ہوں گے انہیں سزا دیں گے اور جیسا کہ آیت (٢٦) کی تفسیر میں لکھا جا چکا ہے، یہ بھی اللہ کی نعمت ہے کہ وہ اپنے عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق ظالموں کو سزا دے گا، اور نیکوں کو جنت اور اس کی نعمتوں سے نوازے گا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے جن و انس ! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟! الرحمن
32 الرحمن
33 (١٥) آیت (٣١) میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندوں کو ان کے اچھے اور برے اعمال کا بدلہ ضرور دے گا، اسی مناسبت سے اس آیت کریمہ میں ان سے کہا جا رہا ہے کہ باری تعالیٰ اس دن مجرمین کو ان کے برے اعمال کی سزا دینی چاہے گا، تو وہ ہرگز اس سے بچ کر کہیں نہیں بھاگ سکیں گے، اس لئے کہ بغیر قوت و غلبہ اور قہر جبروت کے یہ ممکن نہیں کہ کوئی آسمانوں اور زمین کی وسعتوں سے نکل کر کہیں اور چلا جائے اور اللہ کو عاجز بنا دے اور یہ قوت و جبروت دنیا اور آخرت میں اللہ کے سوا کسی کو حاصل نہیں، اسلئے اس کے قبضہ قدرت سے نکل کر نہ دنیا میں کہیں کوئی بھاگ سکتا ہے اور نہ آخرت میں اور یہ تحذیر اور تہدید یقیناً اللہ کی ایک نعمت ہے کہ اللہ کا فرمانبردار بندہ طاعت و بندگی میں مزید کوشاں ہوتا ہے، اور نافرمانی اپنی نافرمانی سے باز آجاتا ہے، حالانکہ وہ اگر چاہتا تو گناہگاروں پر اچانک عذاب نازل کردیتا، اور توبہ کی مہلت نہ دیتا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے جن و انس ! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا انکار کرو گے؟! الرحمن
34 الرحمن
35 (١٦) حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ آیات (٣٣) اور (٣٥) میں جو بات کہی گئی ہے، اس کے مخاطب قیامت کے دن کفار و مشرکین ہوں گے یعنی میدان محشر میں فرشتے تمام جن و انس کو چاروں طرف سے گھیر لیں گے، کوئی وہاں سے بھاگ نہیں سکے گا اور کفار جب جہنم کو دیکھ کر بھاگنا چاہیں گے تو فرشتے انہیں انگاروں سے مار مار کر وپاس کریں گے اور ان پر بہتا ہوا تانبا ڈالیں گے، اور ان سے کہیں گے کہ اب تم کہیں بھاگ نہ سکو گے اور کوئی تمہاری مدد نہ کرسکے گا۔ امام ابن ال قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ” طریق الہجرتین“ میں ان آیات کی تفسیر میں یہ بات لکھی ہے اور ضحاک کا بھی یہی قول ہے کہ جب کفار جہنم کے چنگھاڑنے کی آواز سنیں گے، تو مارے دہشت کے بھاگیں گے، لیکن جدھر جائیں گے فرشتوں کو صفیں باندھے پائیں گے، تو اپنی پہلی جگہ پر لوٹ آئیں گے۔ اور یہ تحذیر وتحدید بلاشبہ ایک نعمت ہے کہ آدمی اس میں غور و فکر کر کے اپنے رب کی طرف رجوع کرسکتا ہے۔ نیز یہ بھی اللہ کی نعمت ہے کہ وہ قیامت کے دن کافروں سے انتقام لے گا اور اپنے فرمانبردار بندوں کو جنت جیسی نعمت سے نوازے گا۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا کہ اے جن و انس ! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟! الرحمن
36 الرحمن
37 (١٧) جب قیامت واقع ہوگی تو آسمان پھٹ پڑے گا، اس کا نظام درہم برہم ہوجائے گا، اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے، اور پگھل کرتیل کے مانند بہنے لگے گا اور اس کا رنگ پگھلے ہوئے سیسہ کی طرح سرخی مائل گدلا ہوگا جیسا کہ سورۃ المعارج آیت (٨) میں آیا ہے : (یوم تکن السماء کالمھل) ” جس دن آسمان تلچھت کے مشابہ ہوجائے گا“ اور قیامت کی یہ منظر کشی یقیناً ایک نعمت ہے کہ آدمی اس دن کی ہولناکیوں کو یاد کر کے اپنی اصلاح کی کوشش کرسکتا ہے۔ اسی لئے اللہ نے فرمایا کہ اے جن و انس ! تم اپنے رب کی کن کن کنعمتوں کا انکار کرو گے؟! الرحمن
38 الرحمن
39 (١٨) جب قیامت واقع ہوگی اور مردے اپنی قبروں سے نکل کر میدان محشر کی طرف دوڑیں گے، اس دن کسی جن و انس سے اس کے گناہوں کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا، کیونکہ سب اپنی اپنی پیشانیوں سے پہچانے جائیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران آیت (١٠٦) میں فرمایا ہے : (یوم تبیض وجوہ وتسودو جوہ) ” جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے اور بعض سیاہ“ اور یہاں آیت (٤١) میں فرمایا ہے کہ اس دن مجرمین اپنی خاص نشانیوں کے ذریعہ پہچاین جائیں گے اور فرشتے ان کی ٹانگوں کو ان کی پیشانیوں سے ملا کر باندھ دیں گے اور گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیں گے۔ اور جہنم اور جہنمیوں کی یہ دلفگاہ منظر کشی یقیناً ایک نعمت ہے کہ آدمی جہنم کی ہولناکیوں کو یاد کر کے اپنی اصلاح کرسکتا ہے اسی لئے اللہ نے فرمایا کہ اے جن و انس ! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا انکار کرو گے؟!ٖ الرحمن
40 الرحمن
41 الرحمن
42 الرحمن
43 (١٩) جو مجرمین دنیا میں اللہ کے وعدہ وعید کے تکذیب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جنت و جہنم کی کوئی حقیقت نہیں ہے، جب انہیں ان کی ٹانگوں اور پیشانیوں کے بل گھسیٹ کر جہنم کی بھڑکتی آگ کے قریب لایا جائے گا تو ان سے فرشتے کہیں گے کہ یہی ہے وہ جہنم جس کی کفر و شرک کا ارتکاب کرنے والے مجرمین تکذیب کیا کرتے تھے، تو آج اس کا مزا چکھیں، اور جہنم کے مختلف طبقوں میں پھرتے رہیں، اس کے انگاروں میں جلتے رہیں اور انتہائی گرم پانی میں غوطے لگاتے رہیں، قتادہ کہتے ہیں کہ جہنمی کبھی گرم پانی میں غوطے لگائیں گے اور کبھی جہنم میں جلیں گے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ” آن“ جہنم کی ایک ایسی وادمی ہے جس میں اہل جہنم کا خون اور پیپ جم ہوتی ہے، جہنمی اس وادی میں غوطہ لگائیں گے جہنم کے یہ خوفناک مناظر یقیناً انسانوں کو دعوت ایمان و عمل دیتے ہیں اسی لئے کہا گیا ہے کہ اے جن و انس ! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا انکار کرو گے؟! الرحمن
44 الرحمن
45 الرحمن
46 (٢٠) اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان اور جنوں کو اپنی بہت ساری دینی اور دنیوی نعمتوں کی یاد دلائی ہے اور اب مندرجہ ذیل آیات کریمہ میں اپنی بعض ان نعمتوں کا ذکر کیا ہے جو وہ اپنے جنتی بندوں کو آخرت میں دے گا۔ مفسرین نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب مجرمین کا انجام بیان کیا جا چکا ہے تو ابان اہل تقویٰ کا ذکر کیا جا رہا ہے جو دنیا میں اپنی زندی اللہ سے ڈرتے ہوئے گذارتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص روز حساب، اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا ہے، اس لئے فرائض کی پابندی کرتا ہے اور گناہوں سے بچتا ہے اسے اس کا رب دو جنتیں دے گا، ایک ترک معاصی کے بدلے اور دوسری عمل صالح کے بدلے کہا جاتا ہے کہ ایک کا نام جنت عدن ہے اور دوسرے کا جنت نعیم (ولمن خاف مقام ربہ جنتاں) کا ایک معنی یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص اس بات سے ڈرتا ہے کہ اس کا رب اس کے احال کی خبر رکھتا ہے اور اس کے اقوال و افعال پر مطلع ہے اسے آخرت میں دو جنتیں ملیں گی، پس جن و انس اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا انکار کریں گے؟! اور ان دونوں جنتوں میں لمبی ڈالیوں والے انواع و اقسام کے درخت اور قسم قسم کے پھل ہوں گے تو اے جن و انس ! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا انکار کرو گے؟! اور ان دونوں جنتوں میں سلسبیل اور تسنیم نام کی دو نہریں جاری ہوں گی عطیہ کا قول ہے کہ ایک میں صاف شفاف پانی جاری ہوگا جو کبھی خراب نہیں ہوگا اور دوسری میں شراب جاری ہوگی جو انتہائی لذیذ ہوگی۔ اور ان دونوں میں ہر پھل کی دو قسمیں ہوں گی اور ہر ایک کا مزا جداگانہ نہ ہوگا۔ بعی مفسرین نے لکھا ہے کہ ایک قسم تازہ ہوگی اور دوسری خشک اور دونوں لذت میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہوں گی۔ امام بخاری نے عبداللہ بن قیس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” دو باغ ایسے ہوں گے جن کے برتن اور تمام اسباب چاندی کے ہوں گے اور دو باغ ایسے ہوں گے جن کے برتن اور تمام اسباب سونے کے ہوں گے اور اہل جنت اور اللہ کی دید کے درمیان جنت عدن میں اس کے چہرے کبریائی کی چادر حائل ہوگی۔ “ قرآن کریم میں ان نعمتوں کا ذکر بلاشبہ سننے والوں کو عمل صالح کی ترغیب دلاتا ہے اور برائی سے ڈراتا ہے اور یہ چیز اللہ کی عظیم نعمت ہے، پھر ان سے زیادہ خوش قسمت کون ہوگا جنہیں اللہ تعالیٰ آخرت میں ان نعمتوں سے نوازے گا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے جن و انس ! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟! الرحمن
47 الرحمن
48 الرحمن
49 الرحمن
50 الرحمن
51 الرحمن
52 الرحمن
53 الرحمن
54 (٢١) اہل جنت کے بستروں کا وہ حصہ جو زمین سے لگا ہوا ہوگا جب وہ بیش بہا اور نازک ترین ریشم کا بنا ہوگا تو پھر اس کے ظاہری حصہ کا کیا عالم ہوگا سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ جب اہل جنت کے بسرتوں کا نچلا حصہ اعلیٰ ترین دیباج و حریر کا بنا ہوگا تو پھر ان کا ظاہری حصہ کیسا ہوگا ؟ تو انہوں نے کہا کہ سورۃ السجدہ آیت (١٧) (فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین) ” کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ کر رکھی ہے“ میں اللہ تعالیٰ نے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان دونوں جنتوں کے پھل ہر جنتی کے بالکل قریب ہوں گے کہا جاتا ہے کہ جنتی جب کوئی پھل توڑنا چاہے گا تو درخت اس کے قریب آجائے گا۔ الرحمن
55 الرحمن
56 (٢٢) اور ان دونوں میں ایسی حوریں ہوں گی جن کی نظریں ان کے شوہروں سے کبھی نہیں ہٹیں گی، یعنی ان کے شوہر انتہائی خوبصورت ہوں گے، جن سے ایت محبت کی وجہ سے انہیں دوسروں پر نگاہ ڈالنے کا خیال بھی ان کے دلوں میں نہیں آئے گا اور یہی حال ان کے شوہروں کا ہوگا، یعنی وہ بیویاں اتنی خوبصورت ہوں گی کہ ان کے شوہر ان سے غایت درجہ محبت کریں گے اور دوسری عورتوں پر نگاہ ڈالنے کا ان کے دل میں خیال بھی نہیں گذرے گا۔ اور ان بیویوں کی ایک صفت یہ بھی ہوگی کہ سب باکرہ ہوں گی، ان اہل جنت شوہروں سے پہلے کسی انسان یا جن نے ان کے ساتھ ہمبستری نہیں کی ہوگی۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ (لم یطمتھن انس قبلھم ولاجان) میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ بیویاں مباشرت کے بعد ہر بار با کرہ ہوجایا کریں گی۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ یہ آیت اور اس سورت کی بہت سی آیتیں دلیل ہیں کہ جو جن اللہ پر ایمان لائیں گے فرائض کی پابندی کریں گی اور گناہوں سے باز آئیں گے وہ جنت میں داخل ہوں گے اور وہ بیویاں حسن و جمال میں یاقوت و مرجان کی مانند ہوں گی، یعنی ان کے رنگ نہایت سرخ و سفید ہوں گے۔ آیت (٦٠) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جو لوگ دنیا میں نیک عمل کریں گے، عدل و انصاف کا یہی تقاضا ہے کہ انہیں اچھا بدلہ دیا جائے یعنی گزشتہ آیتوں میں اہل جنت کے لئے جن نعمتوں کا ذکر آیا ہے، ان کے ساتھ عدل و انصاف کا ایسا ہی تقاضا تھا کہ ان کے نیک اعمال کا انہیں اتنا اچھا بدلہ دیا جائے گا۔ اور چونکہ جنت کی مذکور بالا نعمتوں کی یاد دہانی سننے والوں کو نیک عمل پر ابھارتی ہے، اسی لئے اللہ نے فرمایا کہ اے جن و انس ! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا انکار کرو گے؟! الرحمن
57 الرحمن
58 الرحمن
59 الرحمن
60 الرحمن
61 الرحمن
62 (٢٣) آیت (٤٦) میں جن دونوں جنتوں کا ذکر آیا ہے اور جن کے نام بعضم فسرین نے جنت عدن اور جنت نعیم بتائے ہیں، ان کے علاوہ بھی دو جنتیں ہوں گی، جو پہلی دونوں سے درجے میں کم ہوں گی پہلی دونوں عرش کے زیادہ قریب ہوں گی، اور اللہ کے مقرب بندوں کو ملیں گی اور دوسری دونوں اصحاب الیمین کے لئے ہوں گی، اور ان دونوں کے نام جنت الفردوس اور جنت الماوی بتائے گئے ہیں ان دونوں جنتوں کے درخت ہی گھنے ہوں گے اور ان پر ایسی ہریالی چھائی ہوگی کہ ان کا رنگ مائل بہ سیاہی ہوگا۔ اور ان میں دو چشمے ہوں گے جن سے فوارے کی شکل میں پانی پھوٹ رہا ہوگا اور ان میں مختلف الانواع پھل ہوں گے، اور ان پھلوں میں کھجور اور انار بھی ہوں گے مفسرین لکھتے ہیں کہ ان دونوں کا ذکر خصوصی طور پر ان کی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ اور چونکہ جنت میں موجود مذکورہ بالا نعمتوں کی یاد دہانی سننے والوں کو عمل صالح کی ترغیب دلاتی ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اے جن و انس ! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟!۔ الرحمن
63 الرحمن
64 الرحمن
65 الرحمن
66 الرحمن
67 الرحمن
68 الرحمن
69 الرحمن
70 (٢٤) ان دونوں جنتوں میں نیک سیرت اور خوبصورت حوریں ہوں گی جو موتی سے بنے محلوں میں ہر دم اپنے شوہروں کے لئے تیار ہوں گی، جن کے ساتھ پہلے نہ کسی انسان نے مبشارت کی ہوگی اور نہ کسی جن نے جنت کی یہ ساری نعمتیں سننے والوں کو عمل صالح کی رغبت دلاتی ہیں اور اس رغبت کا پیدا ہونا یقیناً ایک نعمت ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے جن و انس ! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا انکار کرو گے؟! الرحمن
71 الرحمن
72 الرحمن
73 الرحمن
74 الرحمن
75 الرحمن
76 (٢٥) اہل جنت، جنت میں سبز رنگ کے گاؤتکیوں اور نہایت قیمتی، گداز، خوبصورت اور رزق برق مسندوں پر ٹیک گائے بیٹھے ہوں گے یعنی ان کی زندگی نہایت ٹھاھ باٹھ اور شان و شوکت والی ہوگی۔ دین و دنیا اور آخرت کی جن نعمتوں کا ذکر اوپر آیا ہے، ان میں سے ہر ایک ایسی عظیم نعمت ہے، جس کی اہمیت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے جن و انس ! تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا انکار کرو گے؟! الرحمن
77 الرحمن
78 (٢٦) سورت کے اختتام میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کی ذات اس لائق ہے کہ اس کی تعظیم کی جائے اور اس کی تعظیم اس کا تقاضا کرتی ہے کہ کسی حال میں بھی اس کی نافرمانی نہ کی جائے اور اس کی تکریم کی جائے اور اس کی تکریم اس کا مطالبہ کرتی ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اس کا شکر ادا کیا جائے اور شکر گزاری کا کمال یہ ہے کہ کسی حال میں بھی اس کی ناشکری نہ کی جائے اور اسے ہر دم یاد کیا جائے اور اس کی یاد میں اخلاص تام یہ ہے کہ اسے کبھی بھی نہ بھولا جائے۔ وباللہ التوفیق الرحمن
0 سورۃ الواقعہ مکی ہے، اس میں چھیانوے آیتیں اور تین رکوع ہیں تفسیر سورۃ الواقعہ نام : سورت کی پہلی آیت میں موجود لفظ ” الواقعۃ“ اس کا نام کھ دیا گیا ہے، جو روز قیامت کا نام ہے۔ مہایمی کے حوالے سے قاسمی نے لکھا ہے کہ چونکہ یہ سورت قیامت میں رونما ہونے والے واقعات کے بیان سے بھری پڑی ہے، اسی لئے اس کا نام ” والواقعۃ“ یعنی روز قیامت رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : حسن، عکرمہ، جابر اور عطاء و غیر ہم کے نزدیک یہ سورت مکی ہے، ابن مردویہ اور بیہقی نے ” دلائل“ میں ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ الواقعہ مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ ترمذی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے، ابوبکر (رض) نے کہا، اے اللہ کے رسول ! آپ بوڑھے ہوگئے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے ہود، الواقعہ، المرسلات، عم یتساء لون اور اذا الشمس کورت نے بوڑھا کردیا ہے، ترمذی نے اسے (حسن غریب) کہا ہے۔ اور امام احمد نے جابر بن سمرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری ہی طرح نماز پڑھتے تھے، لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز ہلکی ہوتی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز فجر میں ” الواقعہ“ اور اسی جیسی سورتیں پڑھتے تھے۔ اس سورت کی فضیلت میں عبداللہ بن مسعود (رض) کی یہ روایت نقل کی جاتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” جو شخص ہر رات سورۃ الواقعہ کی تلاوت کرتا رہے گا اسے کبھی محتاج لاحق نہیں ہوگی“ اسے ابویعلی اور بیہقی نے اپنی کتاب شعب الایمان میں روایت کی ہے اور محدث البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ الواقعة
1 (١) ” الواقعہ“ روز قیامت کا نام ہے، جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس دن کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے اور عربی قاعدہ کے اعتبار سے کلمہ ” اذا“ کا ماضی کے صیغہ ” وقعت“ کے پہلے آنا بھی اسی پر دلالت کرتا ہے کہ قیامت کے دن کے آنے میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں ہے۔ دونوں آیتوں کا مفہوم یہ ہے کہ جب بعث بعدالموت کے لئے اسرافیل (علیہ السلام) آخری صور پھونکیں گے، تو پھر اس کے بعد قیامت کا جھٹلانا ناممکن ہوجائے گا حسن وقتادہ اور زجاج نے (لیس لوقعتھا کاذبۃ) کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ جب قیامت آجائے گی تو کوئی اسے روک نہیں سکے گا۔ الواقعة
2 الواقعة
3 (٢) عزت دینے والا اور ذلیل کرنے والا تو اللہ ہے لیکن یہاں دونوں باتوں کی نسبت روز قیامت کی طرف اس اعتبار سے کی گئی ہے کہ یہی وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ کچھ ایسی قوموں کو بلند و بالا مقام دے گا جن کی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں تھی اور کچھ ایسوں کو ذلیل و رسوا کے گا جو دنیا میں بڑے بنتے تھے اور مومنوں کو حقیر جانتے تھے۔ الواقعة
4 (٣) مفسرین لکھتے ہیں کہ زمین شدت کے ساتھ ہلنے لگے گی، جیسے بچہ پالنا میں ہلتا ہے اور اس کے اثر سے زمین پر پائی جانے والی ہر چیز ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر غبار کے مانند فضا میں بکھر جائیں گے۔ بعض مفسرین نے (ویمست الجبال بسا) کا معنی یہ کیا ہے کہ پہاڑ اپنی جگہوں سے ہٹا کر کہیں اور لے جائے جائیں گے، جیسا کہ سورۃ النبا آیت (٢٠) میں آیا ہے : (وسیرت الجبال) کہ ” پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹا دیئے جائیں گے۔ “ الواقعة
5 الواقعة
6 الواقعة
7 (٤) قیامت کے دن لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے تین جماعتوں میں بٹ جائیں گے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ایک جماعت عرش کے دائیں جانب ہوگی اور ان کا نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا سدی کا قول ہے کہ یہ عام جنتی لوگ ہوں گے اور دوسری جماعت عرش کے بائیں جانب ہوگی، اور ان کا نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور یہ جہنمی لوگ ہوں گے اور تیسری جماعت اللہ کی رضا کے کاموں یک طرف سبقت کرنے والوں کی ہوگی اور یہ انبیاء و رسل اور صدیقین و شہداء ہوں گے اور ان کی تعداد دائیں طرف والی جماعت سے کم ہوگی۔ اصحاب الیمین نہایت ہی راحت و سعادت اور فحت و شادمانی میں اور اصحاب الشمال بہت ہی زیادہ دکھ، تکلیف اور حزن والم میں ہوں گے۔ اور جن لوگوں نے ظہور حق کے بعد ایمان و بندگی کی طرف سبقت کی، اس راہ میں تکلیف اٹھائیں، پہاڑ جیسی مصیبتوں پر صبر کیا اور ہر حال میں اللہ کے بندوں کو اس کی بندگی کی دعوت دیتے رہے، اللہ تعالیٰ انہیں اس دن جنت نعیم میں بلند ترین مقام سے نوازے گا اور اس پر مستزاد یہ کہ انہیں اللہ اپنی قربت سے نوازے گا۔ الواقعة
8 الواقعة
9 الواقعة
10 الواقعة
11 الواقعة
12 الواقعة
13 (٥) ایمان و بندگی کی طرف سبقت کرنے والے اللہ کے مقرب بندوں کی ایک بڑی تعداد ان اقوام سے ہوگی جو حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت تک گذر چکی ہیں اور ان سے کم تعداد امت محمدیہ سے ہوگی۔ یعنی مقرب بندوں کی تعداد امت محمدیہ میں سے بھی بڑی ہوگی، لیکن گزشتہ امتوں کے مقابلے میں ان کی تعداد کم ہوگی، اس لئے کہ آدم سے لے کر عیسیٰ (علیہ السلام) تک بہت سے انبیاء آئے اور انہیں بہت بڑی تعداد نے دیکھا ان کی صحبت اختیار کی اور عمل صالح کے ذریعہ اللہ کے مقرب بندے ہوگئے۔ شو کانی لکھتے ہیں کہ یہ قول صحیح مسلم میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی حدیث کے مخالف نہیں ہے جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے : مجھے قوی امید ہے کہ تمہاری تعداد اہل جنت کی ایک چوتھائی ہوگی پھر فرمایا : ایک تہائی پھر فرمایا : تمہاری تعداد اہل جنت کی آدھی ہوگی“ اس لئے کہ آیت میں اللہ کے مقرب ترین بندوں کا ذکر آیا ہے اور حدیث میں عام اہل جنت کا ذکر ہے، جنہیں قرآن میں (اصنحاب الیمین) سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی امت محدیہ کے اصحاب الیمین اور اللہ کے مقرب بندوں کی مجموعی تعداد اہل جنت کی آدھی تعداد ہوگی۔ الواقعة
14 الواقعة
15 (٦) اللہ کے یہ مقرب بندے ایسے تختوں پر بیٹھے ہوں گے جن میں ہیرے، موتی اور جواہر جڑے ہوں گے اور سب ایک دوسرے کے سامنے ہوں گے، تمام کے متربے برابر ہوں گے اور ان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوگا۔ الواقعة
16 الواقعة
17 (٧) ان کی خدمت کے لئے ہر دم ان کے اردگرد ایسے لڑکے موجود ہوں گے جو نہ بوڑھے ہوں گے اور نہ ان کی شکلیں بدلیں گی اور نہ وہ مریں گے، بعض کہتے ہیں کہ ہو مسلمانوں کے چھوٹے بچے ہوں گے جو کوئی عمل صالح کرنے سے پہلے ہی مر گئے تھے۔ بعض کا خیال ہے کہ وہ مشرکین کے بچے ہوں گے اور تیسرای قول جو بعید از امکان نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ انہی جنت میں اہل جنت کی خدمت کے لئے پیدا کرے گا۔ واللہ اعلم وہ بچے اللہ کے ان مقرب بندوں کو انواع و اقسام کے پیالوں میں مختلف قسم کی مشروبات اور شراب بھر بھر کر پیش کریں گے جن سے ان کے کام و دہن غایت درجہ لطف اندوز ہوں گے، جن کے پینے سے انہیں نہ کوئی تکلیف ہوگی، نہ نشہ آئے گا اور نہ ہی ان کی عقل متاثر ہوگی اور وہ بچے انہیں ان کے پسندیدہ پھل پیش کریں گے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں، یہ آیت دلیل ہے کہ آدمی کے لئے پھل چن چن کے کھانا جائز ہے اور اس کی تائید عکراش (رض) والی حدیث سے ہوتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ثرید آیا، تو عکراش برتن کے ہر جانب سے لے کر کھانے لگے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا، عکراش ایک جگہ سے کھاؤ پھر آپ کے لئے کھجور لائی گئی تو عکراش اپنے سامنے سے کھانے لگے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پلیٹ سے چن چن کرلینے لگے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے عکراش ! جہاں سے چاہو کھاؤ، اس لئے کہ ساری کھجوریں ایک طرح کی نہیں ہیں، اس حدیث کو ترمذی نے روایت کی ہے اور اسے غریب کہا ہے۔ اور وہ بچے ان کی رغبت اور خواہش کے مطابق انواع و اقسام کی چڑیوں کا بھنا اور پکا ہوا گوشت پلیٹ بھر بھر کر پیش کریں گے۔ الواقعة
18 الواقعة
19 الواقعة
20 الواقعة
21 الواقعة
22 (٨) اور اللہ کے ان مقرب بندوں کو بڑی بڑی، کشادہ اور خوبصورت آنکھوں والی حوریں ملیں گی، جو سیپ میں بند موتیوں کے مانند بے داغ اور سفید ہوں گی، اور یہ حوریں انہیں نیک اعمال کے سبب ملیں گی جو دنیا میں اللہ کی رضا کی خاطر کرتے رہے تھے اور ان جنتوں میں وہ کوئی غیر مفید گفتگو اور بکواس نہیں سنیں گے، وہاں وہ صرف اچھی اور عمدہ باتیں سنیں گے اور ایک دوسرے کو خوشخبری دیں گے کہ اب تمہارے لئے ہمیشہ کے لئے ہر رنج و الم اور غم و اندوہ سے سلامتی ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں : یہ آیت دلیل ہے کہ اہل جنت آپس میں بہت ہی پاکیزہ گفتگو کریں گے، جس سے آپس میں محظوظ ہوں گے اور کسی کی دل آزاری نہیں ہوگی رب ذوالجلال والا کرام سے دعا ہے کہ وہ ہم پر بھی کرم فرماتے ہوئے جنت میں داخل کردے۔ الواقعة
23 الواقعة
24 الواقعة
25 الواقعة
26 الواقعة
27 (٩) اب ان اہل جنت کا ذکر ہو رہا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے (اصحاب الیمین) کہا ہے، جنہیں عرش کے دائیں جانب جگہ ملے گی اور جن کے نامہ ہائے اعمال ان کے دائیں ہاتھوں میں ملیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان دائیں جانب والوں کا کیا پوچھتے ہو، وہ تو بڑے اونچے لوگ ہوں گے اور ان کی سعادت و نیک بختی اوج ثریا کو پہنچی ہوگی۔ ان کے لئے ایسی بیریں ہوں گی جو کانٹوں اور نقصان دہ شاخوں اور پتوں سے یکسر صاف ہوں گی اور کیلے ہوں گے اوپر سے نیچے تک پھلوں سے بھرے ہوں گے۔ سدی نے لکھا ہے کہ جنت کے کیلے دنیا کے کیلے کے مشابہ ہوں گے، لیکن وہ شہد سے بھی زیادہ میٹھے ہوں گے اور حد نگاہ تک پھیلے ہوئے سائے ہوں گے جو کبھ بھی ختم نہیں ہوں گے۔ ربیع بن انس کا قول ہے کہ وہ عرش کا سایہ ہوگا اور ہر طرف بہتی ہوئی نہریں اور چشمے ہوں گے۔ جن کا پانی کبھی بھی خشک نہیں ہوگا اور نہ اپنی تازگی کھوئے گا اور انواع و اقسام کے بہت سارے پھل ملیں گے جو کبھی بھی ختم نہیں ہوں گے اور جب چاہیں گے ان کے سامنے موجود ہوں گے۔ برخلاف دنیاوی پھلوں کے، جواگر سردی کے زمانے کے ہیں تو گرمی میں نہیں ملتے اور اگر گرمی کے زمانے کے ہیں تو سردی میں نہیں ملتے، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ موسم آ کر گذر جاتا ہے اور درختوں میں پھل نہیں لگتے۔ الواقعة
28 الواقعة
29 الواقعة
30 الواقعة
31 الواقعة
32 الواقعة
33 الواقعة
34 (١٠) ان کے لئے تختوں پر حریر و دیباج کے بنے نہایت قیمتی اور اعلیٰ قسم کے بستر لگے ہوں گے۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ ” فرش“ سے مراد جنت میں پائی جانے الی عورتیں ہیں، جو حسن و جمال میں یکتا ہوں گی، اہل جنت کی لطف اندوزی کے لئے عالی شان بستروں پر جلوہ افروز ہوں گی، جیسا کہ سورۃ یٰسین آیت (٥٦) میں آیا ہے : (ھم وازواجھم فی ظلال علی الارائک متکؤن) ” وہ اور ان کی بیویاں سایوں میں مسہریوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے۔ “ الواقعة
35 (١١) ان حوری صفت عورتوں کو اللہ تعالیٰ جنت میں دوبارہ اس حال میں پیدا کرے گا کہ وہ عنفوان شباب میں ہوں گی اور باکرہ ہوں گی، کسی نے انہیں ہاتھ نہیں لگایا ہوگا اور ہمیشہ باکرہ رہیں گی، یعنی جب ان کے شوہر ان کے ساتھ جماع سے فارغ ہوں گے تو وہ پہلے کی طرح باکرہ ہوجائیں گی۔ اور وہ حوری صفت بیویاں اپنے حسن و جمال، طرز گفتگو، چال ڈھال، گداز جسم اور آواز کی شیرنی کی وجہ سے ہر دم اپنے شوہروں کو ایسی شاداں و فرحاں رکھیں گی جس کی تعبیر انسانی الفاظ میں نہیں ہو سکتی، اور وہ ساری بیویاں ہم عمر ہوں گی، سدی لکھتے ہیں کہ وہ سب اخلاق کریمانہ میں ایک جیسی ہوں گی، آپ اس میں ایک دوسرے سے محبت کریں گی، اور بغض وحسد سے کو سوں دور ہوں گی۔ یہ بیویاں اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان اہل جنت کو ملیں گی جنہیں روز قیامت عرش کے دائیں جانب جگہ ملے گی اور ان کی ہم عمر ہوں گی۔ الواقعة
36 الواقعة
37 الواقعة
38 الواقعة
39 (١٢) اور ان (اصحاب الیمین) میں ایک جماعت ان مومنوں کی ہوگی جو حضرت آدم سے لے کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے تک اللہ پر ایمان لائے اور عمل صالح کر کے اپنے رب کی رضا حاصل کی اور ایک جماعت امت محمدیہ کی ہوگی جیسا کہ صحیح مسلم کی عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی حدیث میں آیا ہے کہ اہل جنت کی آدھی تعداد امت محمدیہ سے ہوگی۔ اس کا ذکر آیت (١٣/١٤) کی تفسیر کے ضمن میں گذر چکا ہے۔ ابوالعالیہ، مجاہد، عطاء و ضحاک وغیرہم کا خیال ہے کہ (ثلۃ من الاولین) سے مراد امت محمدیہ کے دور اول کے لوگ ہیں اور (وثلۃ من الاخرین) سے مراد وہ نیک لوگ ہیں جو دور اول کے بعد آئے اور وہ تمام صالحین امت محمدیہ ان میں شامل ہیں جو قیامت تک پیدا ہوں گے۔ الواقعة
40 الواقعة
41 (١٣) ان اہل جہنم کا ذکر ہو رہا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے آیت (٩) میں (اصنحاب المشامۃ) کہا ہے اور اس آیت میں انہیں (اصحاب الشمال) کہا ہے، یعنی وہ اشرار اور بدبخت لوگ جنہیں عرش کے بائیں جانب جگہ ملے گی اور جن کے نامہ ہائے اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے، وہ بڑے ہی بدقسمت لوگ ہوں گے، اس لئے کہ ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا، جس کی تپش اور کھولتا ہوا پانی ان کی جانوں کو ہر لمحہ بے چین اور مضطرب رکھے گا اور ان کے سروں پر آگ اور سیاہ دھواں کا سایہ ہوگا، جس میں نہ ٹھنڈک ہوگی اور نہ ہی کوئی دوسری اچھائی، اس لئے کہ وہ نار جہنم کا دھواں ہوگا نہایت وحشت ناک او کرب انگیز ہوگا۔ الواقعة
42 الواقعة
43 الواقعة
44 الواقعة
45 (١٤) ان کا یہ انجام بد اس لئے ہوگا کہ وہ دنیا کی زندگی میں جسمانی لذتوں اور شہوتوں میں ڈوبے ہوئے تھے اور کبر و غرور اور شرک و معاصی ان کا چلن تھا، وہ لوگ بڑے بڑے گناہ کرتے تھے اور ان پر نادم ہو کر اللہ کے حضور ان سے تائب نہیں ہوتے تھے۔ حسن، ضحاک اور ابن زید وغیر ہم نے (الجنث العظیم) سے شرک مراد لیا ہے، یعنی وہ لوگ شرک کا ارتکاب کرتے تھے اور اس سے تائب نہیں ہوتے تھے۔ اور وہ لوگ بعث بعد الموت کو بعید از عقل سمجھتے تھے کہتے تھے یہ ممکن نہیں کہ جب ہم مر کر مٹی میں گل سڑ جائیں گے اور ہماری صرف ہڈیاں رہ جائیں گی تو ہم دوبارہ زندہ کئے جائیں گے جیسا کہ سورۃ النحل آیت (٣٨) میں آیا ہے : (واقسموا باللہ جھد ایمانھم لایبعث اللہ من یموت) ” وہ اللہ کے نام کی بڑی بڑی قسمیں کھاتے تھے کہ جو آدمی مر جائے گا اللہ اسے دوبارہ زندہ نہیں کرے گا۔ “ اور وہ لوگ اپنے آپ سے زیادہ اپنے ان باپ دادوں کے زندہ کئے جانے کو بعید از عقل سمجھتے تھے جن کو مرے ہوئے ایک زمانہ بیت گیا تھا۔ الواقعة
46 الواقعة
47 الواقعة
48 الواقعة
49 (١٥) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ وہ انکے شبہ کی تردید میں یہ کہیں کہ آدم کی تمام اولاد جو گزشتہ زمانوں میں دنیا میں پائی گئی اور جواب موجود ہیں، جن میں تم بھی ہو اور وہ تمام لوگ جو رہتی دنیا تک پیدا ہوں گے، سب کے سب میدان محشر میں جمع کئے جائیں گے، ایک فرد بشر بھی کہیں جا نہیں سکے گا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ ہود آیت (١٠٣) میں فرمایا ہے : (ذلک یوم مجموع لہ الناس وذلک یوم مشھود) ” وہ دن جس میں سب لوگ جمع کئے جائیں گے اور وہ، وہ دن ہے جس میں سب حاضر کئے جائیں گے۔ “ الواقعة
50 الواقعة
51 (١٦) اس دن تم گمراہوں کو اور اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کرنے والوں کو کھانے کے لئے شجر زقوم کا پھل ملے گا، جو نہایت ہی بدنما، بد ذائقہ اور بدبو دار ہوگا، لیکن بھوک کی شدت سے تم اسے کھاتے چلے جاؤ گے، یہاں تک کہ اپنا پیٹ بھرلو گے پھر تمہیں شدید پیاس لگے گی، جسے بجھانے کے لئے تمہیں نہایت ہی گرم ابلتا ہوا پانی ملے گا، جسے تم اس بیماری اونٹ کی طرح پیتے چلے جاؤ گے جو کبھی سیراب نہیں ہوتا ہے۔ ضحاک، ابن عیینہ، اخفش اور ابن کیسان کہتے ہیں کہ ” ھیم“ ریتیی زمین کو کہتے ہی، جو پانی کو پیتی جاتی ہے اور اوپر اس کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا جہنمی بھی پیاس کی شدت سے کھولتا ہوا پانی پیتے چلے جائیں گے اور انہیں سیرابی حاصل نہیں ہوگی۔ الواقعة
52 الواقعة
53 الواقعة
54 الواقعة
55 الواقعة
56 (١٧) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت کے دن (اصحاب الشمال) کی جہنم کی کھائی میں یہی میزبانی ہوگی جس کا اوپر ذکر ہوا۔ عربی زبان میں ” نزل“ اس ہلکے پھلکے کھانے کو کہا جاتا ہے جو مہمان کی آمد کے بعد فوراً پیش کیا جاتا ہے، پھر اس کے بعد نہایت اہتمام کے ساتھ پر تکلف کھانا پیش کیا جاتا ہے۔ گیا اس تعبیر میں اس طرف اشارہ ہے کہ جب جہنمیوں کے لئے ابتدائی عذاب وہ ہوگا جس کا بیان اوپر گذار، تو اس عذاب کی شدت کا کیا عالم ہوگا جو انہیں ہمیشہ کے لئے جہنم میں دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے جسموں پر جہنم کی آگ کو حرام کر دے۔ الواقعة
57 (١٨) اہل قریش بعث بعد الموت کی تکذیب کرتے تھے اور کہتے تھے، یہ ناممکن ہے کہ جب ہم گل سڑکر مٹی ہوجائیں گے اور صرف ہماری ہڈیاں رہ جائیں گی تو دوبارہ زندہ کئے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس ملحدانہ شبہ کی تردید کے لئے انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ ہم نے تمہیں اس وقت پیدا کیا جب تم کچھ بھی نہیں تھے، تو جو ذات تمہیں پہلی بار پیدا کرنے پر قادر تھی، کیا تمہیں دوبارہ پیدا نہیں کرسکے گی؟ دوبارہپیدا کرنا تو زیادہ آسان ہے تمہاری عقل میں یہ بات کیوں نہیں آتی ہے؟ آیت (٥٨) میں ان کے شبہ کی مزید تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم اپنی بیویں سے مباشرت کے ذریعہ منی کے جس قطرے کو ان کے رحم تک پہنچاتے ہو، نو ماہ اور کچھ دنوں میں تخلیق کے مراحل سے گذار کر، کون اسے ایک زندہ انسان بنا کر ماں کے پیٹ سے باہر نکالتا ہے؟ یقیناً وہ اللہ کی ذات ہے جس نے زن و شو میں شہوت پیدا کی، ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے کشش ڈالی اور مجامعت و مباشرت کی طرف ان کی رہنمائی کی اور منی کے قطرے کی رحم مادر میں پرورش کی، اسے گوشت پوست اور ہڈی کا ڈھانچہ دیا اسے دھڑکتا دل دیا، اس کے لئے آنکھ، کان اور ناک بنایا اور وہاں جب اس کا نمو مکمل ہوا تو رحم مادر کو حکم دیا کہ اسے دھکا دے کر باہر نکالے تو جو باری تعالیٰ اس پر قادر ہے وہ یقیناً اس انسان کو دوبارہپیدا کرنے پر قادر ہے۔ الواقعة
58 الواقعة
59 الواقعة
60 (١٩) مندرجہ ذیل تین آیتوں میں بھی اللہ تعالیٰ نے بعث بعد الموت کی حقیقت کو ہی ایک دوسرے پیرائے میں باور کرایا ہے فرمایا کہ ہم نے تم میں سے ہر ای کے لئے موت کو حتمی قرار دیا ہے، جو اس بات کی خبر دیتی ہے کہ تم ہمارے قبضہ سے باہر نہیں ہو، اور یہ کہ تم بے کار پیدا نہیں کئے گئے تھے، اور نہ یہ بات صحیح ہے کہ تم مر کر مٹی میں مل جاؤ گے اور دوبارہ اٹھائے نہیں جاؤ گے، بلکہ تم دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے اور تمہارے اعمال کا تم سے حساب لیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس بات سے عاجز نہیں ہے کہ وہ تمہیں ہلاک کر کے تمہارے جیسے دوسرے لوگوں کو تمہاری جگہ لے آئے اور تمہیں دوسری شکلوں اور صورتوں میں پیدا کرے۔ حسن کہتے ہیں کہ وہ تمہیں بندروں اور سوروں کی شکل میں پیدا کرے۔ تو جو ذات ان سب باتوں پر قادر ہے، وہ آخرت میں تمہیں دوبارہ زندہ کرنے سے کیسے عاجز درماندہ رہے گی؟! اور اے اہل قریش ! تم اپنی پہلی تخلیق کو کیوں بھول جایا کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے منی کے ایک قطرہ کو رحم مادر میں پہنچایا، پھر اسے منجمد خن بنایا، پھر اسے گوشت کالوتھڑا بنایا اور پھر ایک مکمل انسان بنا کر رحم مادر سے باہر نکالا، تو تم اپنی تخلیق ثانی کو تخلیق اول پر قیاس کیوں نہیں کرتے، کیوں تمہاری عقل میں یہ بات نہیں آتی کہ جو قادر مطلق ذات تمہیں پہلی بار ایک حقیر قطرہ سے پیدا کرنے پر قادر تھی، وہ تمہیں دوبارہ با آسانی پیدا کرے گی، اس میں حیرت و استعجاب کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ الواقعة
61 الواقعة
62 الواقعة
63 (٢٠) اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنے بعض احسانات کی یاد دلا کر، انیں اپنی وحدانیت کے اعتراف اور اپنی بندگی کی دعوت دی ہے، نیز بعث بعدالموت پر استدلال کیا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ تم زمین کو کاشت کے لئے تیار کر کے اس میں دانے تو چھینٹ دیتے ہو، لیکن ان دانوں کو پودوں کی شکل میں تم اگاتے ہو، یا ہم؟ جواب ظاہر ہے کہ انہیں ہم اگاتے ہیں تو جس طرح ہم مردہ زمین میں بارش کے ذریعہ جان ڈال دیتے ہیں اور بے جان دانوں سے لہلہاتے ہوئے پودے نکالتے ہیں اسی طرح ہم تمہیں بھی قیامت کے دن دوبارہ زندہ کریں گے۔ اور ان پودوں کو مختلف مراحل سے گذار کر، ان میں موجود دانوں کو تمہاری غذا کا سامان بناتے ہیں اگر ہم چاہتے تو دانوں کے پختہ ہونے سے پہلے ہی انہیں خشک کردیتے اور بھس بنا کر اڑا دیتے اور پھر تم اپنی کوشش کے رائیگاں جانے پر کف افسوس ملتے اور کہتے کہ ہم نے جو کچھ خرچ کیا تھا سب ضائع ہوگیا، بلکہ کہتے کہ ہم تو اپنی روزی سے محروم ہوگئے، ہماے اور ہمارے بچوں کے لئے کچھ بھی نہ رہا یعنی تم اپنی بے بسی کا اظہار کرنے کے لئے سوا کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے، لیکن اللہ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے کہ وہ ان دانوں کی پرورش کرتا ہے، یہاں تک کہ پختہ ہو کر غذا کے قابل بن جاتے ہیں اور انسان انہیں اپنے گھر میں لا کر اپنے اور اپنے بچوں کے لئے ذخیرہ کرلیتا ہے اس کی یہ مہربانی بندوں سے تقاضا کرتی ہے ہے کہ اس کی وحدانیت کا اعتراف کریں اور صرف اسی کی بندگی کریں۔ الواقعة
64 الواقعة
65 الواقعة
66 الواقعة
67 الواقعة
68 (٢١) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میٹھا پانی جسے تم پیتے ہو اور اپنی پیاس بجھاتے ہو، اسے بادل سے بارش کی شکل میں زمین پر تم برساتے ہو، یا ہم؟ جواب ظاہر ہے کہ اسے ہم برساتے ہیں جب تمہیں اس کا اعتراف ہے، تو پھر باری تعالیٰ کی وحدانیت کا اعتراف کیوں نہیں کرتے ہو اور اس بات کو کیوں نہیں مانتے کہ وہ قادر مطلق قیامت کے دن تمہیں دوبارہ زندہ کرنے پر قادر رہے۔ آیت (٧٠) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر وہ چاہتا تو پانی جیسی عظیم نعمت کو تم سے چھین لیتا، اسے اتنا کھارا بنا دیتا کہ تم اس کا ایک گھونٹ بھی حلق سے نیچے نہ اتار سکتے اور نہ اس کے ذریعہ اپنی زمینوں اور کھیتوں کو سیراب کرسکتے لیکن اس نے ایسا نہیں کیا، اس لئے کہ وہ ذات بحق اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے اور اس کی یہ مہربانی بندوں سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ ہر دم اس کا شکر ادا کرتے رہیں۔ الواقعة
69 الواقعة
70 الواقعة
71 (٢٢) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور وہ آگ جسے تم ہرے درخت پر چقماق یا پتھر رگڑ کر روشن کرتے ہو، اس آگ والے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے یا ہم نے ؟ جواب ظاہر ہے کہ اسے ہم نے پیدا کیا ہے۔ عربوں کے نزدیک ” مرخ و غفار“ نام کے درخت مشہور ہیں، جن میں ایک کی ہری ڈالی کو دوسرے کی ہری ڈالی سے رگڑنے سے آگ پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جب تمہیں اس کا اعتراف ہے کہ ہرے درخت سے آگ نکالنے پر اللہ کی ذات قادر رہے تو پھر اس بات کو کیں نہیں مانتے کہ انسانی جسم کے ٹوٹ پھوٹ جانے اور مٹی میں مل جانے کے بعد، وہ قادر مطلق اسے دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ آیت (٧٣) (نحن جعلنا ھاتذکرۃ) کا دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے ہرے درخت سے آگ نکال کر لوگوں کو یہ باور کرانا چاہا ہے کہ ہم نے جہنم کی آگ بھی پیدا کی ہے، جسے یاد کر کے انہیں اس سے نجات کی فکر کرنی چاہئے۔ بخاری و مسلم اور امام احمد نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ جہنم کی تپش دنیا کی آگ سے ستر گنا زیادہ گرم ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھ پر اور اس تفسیر کے تمام قارئین پر جہنم کی آگ کو حرام کر دے۔ (ومتاعا للمقوین) کا مفہوم یہ ہے کہ آگ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مختلف الانواع فائدے رکھے ہیں، جو لوگ صحراء میں سفر کرتے ہیں وہ بالخصوص اس سے روشنی حاصل کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ کھانا پکاتے ہیں اور تمام ہی انسان اس سے اپن مختلف ضرورتیں پوری کرتے ہیں اگر آگ نہ ہوتی تو آدمی کو کچی چیزیں کھانی پڑتی اور ان صنعتوں اور ایجادات کے دروازے نہیں کھلتے جن میں خام مادوں کو آگ سے ہی پگھلا کر مشینیں، اسلحے محیر القعول آلات بنائے جاتے ہیں۔ مذکورہ بالا نعمتوں کا ذکر کئے جانے کے بعد، آیت (٧٤) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور ان کے واسطے سے عام مومنوں کو رب العالمین کی پاکی بیان کرنے کا حکم دیا، جس کی ذات عظیم ہے اور جس کے احسانات بے شمار ہیں۔ الواقعة
72 الواقعة
73 الواقعة
74 الواقعة
75 (٢٣) ذیل کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ستاروں کے منازل اور ان کے نکلنے اور ڈوبنے کی جگہوں کی قسم کھا کر اس بات کی یقین دہانی کرانی چاہی ہے کہ یہ قرآن بہت ہی قابل احترام کتاب ہے، جو لوح محفوظ میں ہر تغیر و تبدیلی سے محفوظ ہے اور اسے صرف پاک لوگ ہی چھوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ستاروں کے منازل و مواقع کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ کاش تم اس بات کو جان لیتے کہ یہ ایک عظیم قسم ہے۔ اور یہ قسم اس لئے عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قدرت کاملہ کے ذریعہ آسمان میں پائے جانے والے شمس و قمر اور ان گنت ستاروں کو ایک مضبوط و محکم اور نہایت دقیق نظام کا پابند بنا رکھا ہے، جس کے مطابق شمس و قمر اور دیگرت مام ستارے اپنے مدار میں چلتے رہتے ہیں اور کسی حال میں بھی اپنے منازل سے تجاوز نہیں کرتے ہیں۔ ” مواقع النجوم“ کی ایک دوسری تفسیر ابن عباس (رض) سے یہ مروی ہے کہ اس سے مراد قرآن کریم کے حصے ہیں، یعنی پورا قرآن شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل ہوا پھر وہاں سے جبریل (علیہ السلام) نے 23 سال کی مدت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا۔ گویا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی عظمت و بڑائی بیان کرنے کے لئے اس کی کیفیت نزول کی قسم کھائی ہے۔ (انہ لقرآن کریم) کی تفسیر کرتے ہوئے شوکانی نے لکھا ہے کہ قرآن اللہ کی وہ معزز و مکرم کتاب ہے جس کو تمام آسانی کتابوں پر فوقیت حاصل ہے۔ اس کی شان اس سے بالاتر ہے کہ وہ جادو، کہانت یا کسی کی افترا پردازی ہے۔ واحدی نے لکھا ہے کہ وہ کریم اس لئے ہے کہ اس میں بیان کردہ دلائل میں غور و فکر سے آدمی بہت سی بھلائیاں حاصل کرتا ہے، ازہری نے لکھا ہے کہ ” کریم“ اسے کہتے جس کی تعریف کی جائے تو قرآن اس لئے لائق تعریف ہے کہ وہ رشد و ہدایت اور علم و حکمت کا خزانہ ہے۔ (کتاب مکنون) سے مراد جماعت کثیر کے نزدیک لوح محفوظ ہے عکرمہ نے اس سے مراد ’ دتورات و انجیل“ لیا ہے، اس لئے کہ ان دونوں کتابوں میں قرآن اور صاحب قرآن (نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر جمیل موجود ہے۔ مجاہد اور قتادہ نے اس سے مراد وہ مصحف لیا ہے جو دنیا میں موجود ہے۔ الواقعة
76 الواقعة
77 الواقعة
78 الواقعة
79 (٢٤) اس آیت کریمہ کے معنی و مفہوم میں علماء کے کئی اقوال ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ” مس“ سے مراد ہاتھ سے چھونا ہے، یا اس پر مطلع ہونا، یا اس سے فائدہ اٹھانا ہے اور ” مطھرون“ سے مراد فرشتے ہیں یا اہل تقویٰ یا نجات وحدث اکبر وحدث اصغر سے پاک لوگ اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ ” مطھرون“ سے مراد فرشتے ہیں اور ” مس“ سے مراد اس پر مطلع ہوتا ہے ابن زید کہتے ہیں کفار قریش کہتے تھے کہ یہ قرآن شیاطین کا نازل کردہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کی اور کہا : (لایمسہ الا المطھرون) کہ ” اس پر تو صرف فرشتے مطلع ہوتے ہیں“ شیاطین کو اس کی ہوا بھی نہیں لگتی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشعراء آیات (٢١٠، ٢١١، ٢١٢) میں فرمایا ہے : (وما تنزلت بہ الشیاطین، وما ینبغی لھوما یستطیعن انھم عن السمع المعزولون) ” اس قرآن کو شیطانوں نے نہیں اتارا ہے، وہ تو اس کام کے لائق ہی نہیں ہیں، نہ وہ اس کی استطاعت رکھتے ہیں، بے شک شیاطین سننے سے یکسر محروم کردیئے گئے ہیں۔ “ ٢ ء نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ اس سے صرف اہل ایمان ہی فائدہ اٹھاتے ہیں محمد بن الفضل کا بھی یہی قول ہے ایسے تمام لوگ کہتے ہیں کہ اس آیت سے اس پر استدلال صحیح نہیں ہے کہ جنبی، حائضہ، نفساء اور حدث اصغر والے کے لئے قرآن کو چھونا صحیح نہیں ہے۔ البتہ اس پر اجماع ہے کہ حدث اکبر والے آدمی کے لئے قرآن کو چھوناجائز نہیں ہے۔ کچھ دوسرے لوگوں کی رائے ہے کہ ” مطھرون“ سے مراج جنابت وحدث سے پاک لوگ ہیں اور مقصود مصحف کو ان حالتوں میں چھونے کی ممانعت ہے ان حضرات نے محمد بن عمرو بن حزم کی روایت ” لایمس القرآن الا الطاھر“ ” قرآن کو صرف پاک آدمی چھوئے“ سے استدلال کیا ہے جسے امام مالک نے روایت کی ہے۔ نیز دارقطنی کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا یہ جس میں عمر (رض) کے اسلام لانے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اور ان کی بہن نے ان سے کہا تھا کہ وہ ناپاک ہیں اور قرآن کو صرف پاک لوگ چھوتے ہیں، علی، ابن مسعود، عطاء، زہری، نخعی، مالک، شافعی اور حنابلہ وغیرہم کی یہی رائے ہے۔ لیکن یہ دونوں حدیثیں سند کے اعتبار سے کمزور ہیں، حافظ ابن حجر نے تلخیص الجبیر میں، حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں، اور شوکانی نے ” نیل الاوطار“ میں دونوں کے کمزور ہونے کے اسباب ووجوہ کی وضاحت کردی ہے، اس لئے یہ دونوں حدیثیں لائق استدلال نہیں ہیں اور نہ قرآن کریم کی اس آیت سے اس پر استدلال صحیح ہے کہ جنبی، حائضہ، نفساء اور حدث اصغر والا آدمی قرآن کو نہیں چھوئے گا، اس لئے کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ آیت میں ” مطھرون“ سے مراد ملائکہ اور ” مس“ سے مراد اس پر مطلع ہونا یا اس کے فوائد و برکات سے مستفید ہونا ہے۔ البتہ اس پر اجماع امت ہے کہ حدث اکبر والے آدمی کے لئے قرآن کا چھونا جائز نہیں ہے۔ باقی رہا وہ آدمی جو حالت وضو میں نہ ہو، تو اس کے بارے میں امام ابن حزم نے اپنی کتاب ” الملحی“ میں امام ابن القیم نے ” البیان فی اقسام القرآن“ میں اور امام شوکانی نے ” نیل الاؤطار“ میں اسی کو راجح قرار دیا ہے کہ وہ مصحف کو چھو سکتا ہے۔ اس لئے کہ اس کی ممانعت کی کوئی صحیح اور صریح دلیل نہیں پائی جاتی ہے ابن عباس، سلمان الفارسی (رض)، شعبی اور ابوحنیفہ وغیر ہم کی یہی رائے ہے۔ الواقعة
80 (٢٥) اس آیت کا تعلق آیت (٧٧) سے ہے، بایں طور کہ یہ قرآن کریم کی دوسری صفت ہے، آیت (٧٧) میں اس کی پہلی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ معزز و مکرم کتاب ہے اور یہاں دوسری صفت یہ بیان کی گئی کہ وہ رب العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ آیت (٨١) میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کے بارے میں فرمایا کہ لوگو ! کیا تم ایسی معزز و مکرم کتاب اور رب العالمین کی بات کو جھٹلاتے ہو اور اس کی تصدیق نہیں کرتے ہو۔ عوفی نے ابن عباس (رض) سے ” مدھنون“ کی تفسیر ” مکذبون غیر مصدقین“ نقل کی ہے۔ عربی زبان میں ” ادھان“ کا معنی تکذیب، کفر اور نفاق بیان کیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے بھی آیت کا معنی یہ ہوگا کہ لوگو ! کیا تم منافقین کی باتوں میں آ کر اللہ کے کلام کو جھٹلاتے ہو، اور اس کا انکار کرتے ہو؟! حالانکہ یہ عظیم کتاب تم سے تقاضا کرتی ہے کہ تم اس پر ایمان لے آؤ اور اس کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں جاری و ساری کرلو۔ آیت (٨٢) میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے فرمایا کہ اس نے تمہیں روزی دی ہے اور گوناگوں نعمتوں سے نوازا ہے، اس کا تقاضا تھا کہ تم اس کا شکر ادا کرتے، لیکن تم نے ناشکری کی، ان نعمتوں کی نسبت اس کے سوا دوسروں کی طرف کردی اور احسان و انعام کا بدلہ کفر و شرک کے ذریعہ دیا اس سے بڑھ کر احسان فراموشی کیا ہو سکتی ہے کہ جو احسان کرے اس کے ساتھ بدسلوکی اور ایذا رسانی کا برتاؤ کیا جائے۔ الواقعة
81 الواقعة
82 الواقعة
83 (٢٦) ذیل کی تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی بے بسی کو بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ اپنے خالق کی مرضی و منشا کے سامنے یکسر مجبور و مقہور ہے اور اس کی دلیل اس کی جان کنی کا عالم ہے کہ جب فرشتے آ کر اس کی جان نکالتے ہیں اور اس کی روح حلق تک پہنچ جاتی ہے اور نکلنے ہی والی ہوتی ہے اس وقت وہ اور اس کے سارے اقارب و احباب جو اس کے اردگرد ہوتے ہیں، کتنے مجبور ہوتے ہیں کہ اس کی روح نکل رہی ہوتی ہے، وہ اپنی پھٹی پھٹی نگاہوں سے سب کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور اس کے اردگرد سب لوگ اس کے حال پر رحم کھا رہے ہوتے ہیں، لیکن کوئی اس کی مدد نہیں کرسکتا کہ اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹا دے۔ اس وقت اللہ کے فرشتے مرنے والے سے اس کے رشتہ داروں کی بہ نسبت زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ یکن لوگ ان فرشتوں کو دیکھ نہیں پاتے ہیں، یا مرنے والا جو کچھ اس وقت جھیل رہا ہوتا ہے اس راز سربست سے لوگ بالکل ناواقف ہوتے ہیں۔ آیات (٨٦/٨٧) میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی اسی بے بسی اور مجبوری کو بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر تم واقعی سچے ہو کر تم اللہ کی ذات برحق کے محکوم نہیں ہو، تو مرنے والے کی روح کو لوٹا کیوں نہیں دیتے ہو، اور موت کا اس سے پیچھا کیوں نہیں چھڑا دیتے؟! الواقعة
84 الواقعة
85 الواقعة
86 الواقعة
87 الواقعة
88 (٢٧) آیت (٧) او مابعد کی آیتوں کی تقسیم میں بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن لوگ اعمال کے اعتبار سے تین جماعتوں میں بٹ جائیں گے : سابقین اولین، اصحاب الیمین اور اصحاب الشمال اور ان آیتوں میں تینوں جماعتوں کا انجام بھی بیان کیا گیا ہے۔ انہی تینوں جماعتوں کا وہی مذکور بالا انجام اللہ تعالیٰ نے یہاں مزید تاکید اور ترغیب و ترہیب کے طور پر بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر مرنے والا آدمی اللہ کے مقرب بندوں میں سے ہوگا تو اللہ تعالیٰ اسے دنیا کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے ہمیشہ کے لئے آرام دے دے گا، اس پر اپنی رحمتیں نازل کرے گا، اور اس کے قلب و روح کو سکون و راحت پہنچائے گا اور جنت میں اسے نہایت لذیذ روزی عطا کرے گا اور اس جنت نعیم میں داخل کرے گا جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے، نہ کسی کان نے سنا ہے، اور نہ کسی انسان کے دل نے اس کا تصور کیا ہے۔ اور اگر وہ اصحاب الیمین میں سے ہوگا، تو فرشتے اسے سلام کریں گے اور خوشخبری دیں گے کہ وہ ان لوگوں میں سے ہے جنہیں قیامت کے دن عرش کے دائیں جانب جگہ ملے گی اور بالآخر ان کا مقام جنت ہوگا۔ اور اگر وہ اصحاب الشمال میں سے ہوگا، یعنی ان لوگوں میں سے جو دنیا میں روز قیامت کی تکذیب کرتے تھے اور راہ حق سے بھٹکے ہوئے تھے تو اس کی میزبانی (زقوم سے پیٹ بھرنے کے بعد) کھولتے ہوئے پانی سے ہوگی جو اس کے شکم کی ہر چیز کو پگھلا کر باہر نکال دے گا اور اسے جہنم کی آگ میں جلایا جائے گا۔ آیت (٩٥) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تینوں جماعتوں کا جو انجام بین کیا گیا ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، حافظ سیوطی نے اپنی کتاب ” الاکلیل“ میں انہی آیات سے استدلال کر کے لکھا ہے کہ ابن آدم کی روح جسم سے جدا ہونے کے بعد، یا تو سکون و راحت میں ہوتی ہے، یا اسے عذاب دیا جاتا ہے اور یہ کہ مومن روحوں کا ٹھکانا جنت اور کافرروحوں کا ٹھکانا جہنم ہے۔ سورت کے اختتام میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے رب عظیم کی پاکی بیان کرتے رہیں، اس کی حمد و ثنا میں مشغول رہیں، اور مشرکوں کی افترا پردازیوں کی تردید کرتے رہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ” الصحیح“ کے آخر میں ابوہریرہ ری اللہ عنہ سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر تو ہلکے ہیں، لیکن قیامت کے دن میزان عمل میں وہ بڑے بھاری ہوں گے اور رحمٰن کو وہ بڑے پیارے ہیں :” سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم“ ” اللہ متام عیوب و نقائص سے پاک ہے اور ساری تعریفیں اسی کے لئے ہیں، عظمتوں والا اللہ تمام عیوب سے پاک ہے۔“ وباللہ التوفیق الواقعة
89 الواقعة
90 الواقعة
91 الواقعة
92 الواقعة
93 الواقعة
94 الواقعة
95 الواقعة
96 الواقعة
0 سورۃ الحدید مدنی ہے، اس میں انتیس آیتیں اور چار رکوع ہیں تفسیر سورۃ الحدید نام : آیت (٢٥) میں (وانزلنا الحدید فیہ باس شدید و منافع للناس) آیا ہے اسی سے اس سورت کا نام ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ سورت تمام کے نزدیک مدنی ہے، نقاش کا بھی یہی قول ہے۔ امام احمد، ترمذی، نسائی اور بیہقی نے شعب الایمان میں عرباض بن ساریہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سونے سے پہلے مسبحات (الحدید، الحشر، الصف، الجمعہ اور التغابن) پڑھا کرتے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس میں ایک آیت ہے جو ہزار آیتوں سے افضل ہے محدث البانی رحمہ اللہ نے صحیح الترمذی میں اسے ذکر کیا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ وہ آیت (٣) واللہ اعلم (ھوالاول ولاخروا الظاھروا الباطن وھوبکل شیء علیم) ہے۔ الحديد
1 (١) آسمانوں اور زمین میں جتنے حیوانات، نباتات اور جمادات ہیں سب اللہ کی پاکی اور بڑائی بیان کرتے ہیں اور اس بات کا اظہار کرت ہیں کہ وہ ذات برحق ہر قسم کے ساجھی اور اولاد وغیرہ سے پاک ہے، اور اکیلا ہے اور ہر قسم کی عبادت کا تنہا حقدار ہے۔ ربوبیت، الوہیت، علم، قدرت اور مخلوقات کی تدبیر میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات اپنے اپنے حسب حال اپنے رب کی پاکی بیان کرتی ہیں۔ کوئی اپنی زبان سے تسبیح پڑھتا ہے، جیسے فرشتے اور جن و انس اور کسی کی ہئیت و حالت سے آشکار ہوتا ہے کہ اس کا خالق تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے، جیسے آسمان و زمین، درخت، نباتات اور پہاڑ وغیرہ، زجاج کہتے ہیں کہ نباتات و جمادات بھی زبان قال سے ہی تسبیح پڑھتے ہیں، لیکن ہم اسے سمجھ نہیں پاتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاسراء آیت (٤٤) میں فرمایا ہے : (وان من شی اء الا یسبح بحمدہ ولکن لاتفقھون، تسبیحھم) کہ ” ہر چیز اپنے خالق کی تسبیح بیان کرتی ہے، لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں پاتے ہو“ اور سورۃ الانبیاء آیت (٧٩) میں فرمایا ہے : (وسخرنا مع داؤد الجبال یسبحن) کہ ” ہم نے داؤد کے لئے پہاڑوں کو مخسر کردیا تھا، جو ان کے ساتھ تسبیح پڑھا کرتے تھے“ زجاج کہتے ہیں کہ اگر پہاڑ اپنی زبان قال سے تسبیح نہ پڑھتے، بلکہ مقصود یہ ہوتا کہ ان کی خلقت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان کا خالق تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے، تو اس کے ذکر کرنے میں داؤد (علیہ السلام) کے لئے کوئی خصوصیت نہ ہوتی، اس لئے معلوم ہوا کہ وہ پہاڑ اپنی زبان قال سے داؤد (علیہ السلام) کے ساتھ تسبیح پڑھتے تھے جسے وہ سمجھتے تھے۔ آیت میں اللہ کی دو صفات (العزیز الحکیم) بیان کی گئی ہیں، جن کا مفہوم یہ ہے کہ وہ بڑا قوی ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز پر غالب ہے اور اس نے تمام موجودات کو اپنی جانی بوجھی حکمت کے مطابق منظم و مرتب کیا ہے، جس سے کوئی بھی چیز سر موا نحراف نہیں کرسکتی ہے۔ الحديد
2 (٢) آسمانوں اور زمی میں جتنی چیزیں پائی جاتی ہیں، ان سب کا مالک اللہ ہے، وہ جس طرح چاہتا ہے ان میں تصرف کرتا ہے، اس کے سوا کسی کی مرضی نہیں چلتی ہے۔ اس آیت کریمہ سے صوفیاء کے اس جھوٹے اور باطل عقیدہ کی تردید ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ان کے فرضی غوثوں اور قطبوں میں بانٹ دی ہے، اب وہی ان کائنات میں تصرف کرتے ہیں اور اللہ تو۔ العیاذ باللہ۔ تعطل کا شکار ہوگیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ جسے چاہتا ہے زندگی دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے مارتا ہے اور جسے چاہتا ہے اپنی مرضی کے مطابق جو چاہتا ہے عطا کرتا ہے وہ ہر چیز پر مکمل قدرت رکھتا ہے۔ یہ محال ہے کہ وہ کسی چیز کو چاہے اور وہ وجود میں نہ آئے۔ وہ کسی کو مارنا چاہے اور اسے موت نہ آئے، یا کسی کو زندہ رکھنا چاہے اور کوئی اسے مار دے۔ الحديد
3 (٣) وہ آسمانوں اور زمین کے ہر موجود سے پہلے تھا، اسی نے ہر چیز کو ایجاد کیا ہے اور جب ہر چیز فنا ہوجائے گی تو صرف اسی کی ذات رہ جائے گی اور وہ ہر چیز کے اوپر ہے، کوئی چیز اس کے اوپر نہیں ہے اور اس کا وجود دلائل و براہین کے ذریعہ بالکل ظاہر ہے اور اس کی ذات و ماہیت انسانوں کی آنکھوں اور عقلوں سے پوشیدہ ہے کوئی اس کی ذات کے بھید کوئی نہیں پا سکتا ہے اور وہ ہر چیز کے بھید سے واقف ہے۔ امام احمد، مسلم، ترمذی، ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ بی بی فاطمہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک خادمہ کی ضرورت کا ذکر کیا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں نصیحت کی کہ وہ مندرجہ ذیل دعا پڑھا کریں : ” الھم رب السماوات السبع و رب العرش العظیم وربنا ورب کل شی منزل التوراۃ والانجیل والفقران فالق الحب والنوی، اعوذ بک من شرکا شی انت اخذ بنا صیتہ انت الاول فلیس قبلک شیء وانت الاخر فلیس بعدشیء و انت الظاھر، فلیس فوقک شیء، وأنت الباطن فلیس دونک شیء اقض عنا الدین، واغننا من الفقر“ اس مبارک دعا میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی بڑی عمدہ تفسیر فرما دی ہے کہ تو ہی اول ہے کوئی تجھ سے پہلے نہیں اور تو ہی آخر ہے کوئی تیرے بعد نہیں اور تو ہی ظاہر ہے کوئی تجھ سے اوپر نہیں اور تو وہی باطن ہے کوئی تجھ سے زیادہ پوشیدہ نہیں۔ الحديد
4 (٤) اس آیت کی مفصل تفسیر کے لئے دوبارہ سورۃ الاعراف آیت (٥٤) یونس آیت (٣) الفرقان آیت (٥٩) اور السجدہ آیت (٤) کی تفسیر دیکھ لیجیے۔ مذکورہ بالا آیتوں کی طرح یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین میں اور ان کے درمیا کی ہر چیز کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر مستوی ہوگیا، یعنی اپنی تمام مخلوقات کے اوپر، اور ایسا استواء جو اس کے جلال کے لائق ہے۔ وہ اپنی ان تمام مخلوقات کی تعداد اور ان کی جزئیات کو جانتا ہے جو زمین میں داخل ہوتی ہیں، بارش کے قطرات، حیوانات، دانے، مردے اجسام اور دیگر تمام اشیاء جو زمین کی تہوں میں ہیں، اللہ تعالیٰ کو ان سب کا علم ہے وہ ان تمام دانوں، اور پھلوں اور پھولوں کی تعداد اور جزئیات کو بھی جانتا ہے جو زمین سے باہر نکلتی ہیں اور اسے ان تمام چیزوں کی تعداد اور جزئیات کی بھی خبر ہے جو آسمانوں سے نازل ہوتی ہیں، جیسے بارش، برف، اولے، مخلوق کی تقدیر و قسمت، ان کی روزی اور وہ تمام احکام الٰہی جنہیں فرشتے لے کر اترتے ہیں اور جن کا اس کے حکم سے زمین میں نفاذ ہوتا ہے اسی طرح اسے ان تمام چیزوں کی تعداد اور جزئیات معلوم ہیں جو زمین سے آسمان کی طرف چڑھتی ہیں، جیسے فرشتے جو مختلف دنیاوی ذمہ داریوں کے لئے مکلف ہیں، بندوں کے اچھے اور برے اعمال، روحیں، مظلوم کی آہ اور بندوں کی دعائیں۔ اللہ کا علم آسمانوں اور زمین میں وقوع پذیر ہونے والی تمام چیزوں کو محیط ہے، ایک ذرہ بھی کہیں اس سے مخفی نہیں ے۔ وہ اپنے علم کے ذریعہ ہر جگہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے، بحر و بر کے جس گوشے میں بھی ہوں، وہ ان کے اعمال و حرکات اور ان سے متعلق ہر چیز سے واقف ہے، جبھی تو وہ انہیں روزی پہنچاتا ہے، ان کی نگہداشت کرتا ہے، اور جب ان کی زندگی کے ایام پورے ہوجاتے ہیں تو انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ” شرح حدیث النزول“ میں لکھا ہے کہ سورۃ الحدید اور سورۃ المجادلہ میں وارد ” معیت“ کی علمائے سلف کے نزدیک تفسیر یہ ہے کہ ” اللہ اپنے بندوں کے ساتھ اپنے علم کے ذریعہ ہے“ امام ابن عبدالبر اور دیگر ائمہ نے صحابہ کرام اور تابعین کا اس پر اجماع نقل کیا ہے، ابن عباس (رض) ضحاک مقاتل بن حیان، سفیان ثوری اور احمد بن حنبل وغیرہم سے یہی تفسی مروی ہے ابن ابی حاتم نے ابن عباس (رض) سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ اللہ عرش پر ہے اور اس کا علم ان کے ساتھ ہے۔ الحديد
5 (٥) آیت (٢) کی تفسیر میں گذر چکا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جتنی چیزیں پائی جاتی ہیں، ان سب کا مالک اللہ ہے، وہ ان میں جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتا ہے اور تمام مخلوقات کے معاملات کا تعق صرف اللہ سے ہے، وہی ان کی تدبیر کرتا ہے، اسی کے فیصلے ان پر نافذ ہوتے ہیں، کوئی نہیں جو اس کے فیصلوں کے آڑے آسکے۔ الحديد
6 (٦) وہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخ کرتا ہے، یعنی ایک کو چھوٹا کر کے اس کے گھٹنوں کو دوسرے میں داخل کرتا ہے تو کبھی دن چھوٹا ہوتا ہے اور رات لمبی ہوجاتی ہے اور کبھی رات چھوٹی ہوجاتی ہے تو دن بڑا ہوجاتا ہے اس کے سا کوئی نہیں جو اس نظام الٰہی میں ذرہ برابر بھی مداخلت کرسکے۔ مزید تفصیل کے لئے سورۃ آل عمران آیت (٢٧) سورۃ الحج آیت (٦١) سورۃ لقمان آیت (٢٩) اور سورۃ فاطر آیت (١٣) کی تفسیر دیکھ لیجیے۔ وہ علامہ الغیوب اپنے بندوں کے سینوں میں پوشیدہ بھیدوں کو خوب جانتا ہے وہ انت مام خیر و شر سے بھی واقف ہے جن کے کر گذرنے کی انسان نیت کرتا ہے۔ الحديد
7 (٧) اس آیت کریمہ میں بندوں کو اللہ اور اس کے رسول پر ایسا یقینی ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے جس کا اثر ان کے عمل میں ظاہر ہو اور اللہ کے عطا کئے گئے مال و دولت سے اس کی راہ میں خرچ کرنا نفس پر گراں نہ گذرے۔ ابن آدم کے پاس جو مال ہوتا ہے اس میں جائز طور پر تصرف کرنے کے لئے وہ اللہ کی جانب سے خ لیفہ اور نائب ہوتا ہے، بایں معنی کہ مال کا حقیقی مالک اللہ ہے اور انسان کو اس میں تصرف کرنے کے لئے خلیفہ بنایا گیا ہے یا یہ کہ مال کسی اور کا ہوتا ہے اور اس کے دنیا سے گذر جانے کے بعد اس مالک کا مالک اس کے ورثہ بن جاتے ہیں دونوں ہی صورتوں میں مقصود انسان کو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے پر ابھارنا ہے، اس لئے کہ وہ اللہ کا ہی دیا ہوا مال ہے، اس لئے اس کی راہ میں خرچ کرنے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہئے۔ آیت کے آخر میں ایسے اہل ایمان اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کو اجر کبیر یعنی جنت کی خوشخبری دی گئی ہے۔ الحديد
8 (٨) بنی نوع انسان سے زجر و توبیخ کے طور پر کہا جا رہا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت اور نزول قرآن کے ذریعہ کفر و شرک پر باقی رہنے کے تمام اسباب دور ہوگئے، اب ایمان لینے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہیں لاتے ہ، جبکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعوت کا ہر اسلوب اختیار کرتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ تم لوگ اپنے رب پر ایمان لے آؤ اور اللہ تعالیٰ نے روز ازل تم سے عہد لیا تھا کہ جب اس کے آخری رسول دنیا میں تشریف لائیں گے تو تم ان پر ایمان لے آؤ گے، پھر کیا سبب ہے کہ تم ایمان نہیں لاتے ہو؟! (وقداخذمیثاقکم) کا دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ نے تمہیں عقل دی ہے اور توحید باری تعالیٰ اور ایمان باللہ کے وجوب پر بے شمار دلائل قائم کردیا ہے اور تمہاری فطرت میں خالق و رازق پر ایمان لانے کی رغبت و خواہش کو ودیعت کردی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آکر تمہاری اس فطرت کو جگا بھی دیا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ تم ایمان لانے سے گریزاں ہو“؟! الحديد
9 (٩) اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایمان کی دعوت دینے کے لئے جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا، تو اس دعوت کو قوت پہنچانے اور اس کی تائید کے لئے آپ کو بہت سے معجزات عطا کئے، جن میں سب سے بڑا اور اہم معجزہ قرآن کریم تھا، تاکہ لوگ ان معجزات کو دیکھ کر اور قرآن کریم کو سن کر ایمان لے آئیں اور کفر و شرک کی ظلموں سے نکل کر نور ایمان سے اپنے دلوں کو منور کرلیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے بڑا ہی مہربان اور رحم کرنے الا ہے، اسی لئے اس نے ان کی حالت پر رحم کرتے ہئے، ان کی ہدایت کے لئے کتاب بھیجی اور رسول مبعوث کیا، تاکہ وہ ایمان کی دولت سے سرفراز ہو کر جنت کے حقدار بنیں اور جہنم کی آگ کو اپنے آپ پر حرام بنائیں۔ الحديد
10 (١٠) مفسرین لکھتے ہیں کہ چونکہ اس سورت کا مرکزی مضمون، اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دلانا ہے، اسی لئے کئی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے مختلف اسالیب میں انفاق فی سبیل اللہ، اس کی اہمیت اور اس کا اجر عظیم بیان فرمایا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی زجر و توبیخ کی ہے جو محتاجی کے ڈر سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں، حالانکہ یہ مال اس نے دیا ہے جو آسمان و زمین کے خزانوں کا مالک ہے، اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے۔ اور اسی نے سورۃ سبا آیت (٣٩) میں فرمایا ہے : (وما انفقتم من شیء فھو یخلفہ وھو خیرالرازقین) ” تم جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے، اللہ اس کا پورا پورا بدلہ دے گا، اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے“ اس لئے اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے کترانا، قوت ایمان کے منافی بات ہے۔ آیت کے دوسرے حصہ میں جس کی ابتدا (لایستوی منکم من انفق) سے ہوتی ہے، اللہ نے ان لوگوں کی فضیلت بیان فرمائی ہے جنہوں نے فتح مکہ یا صلح حدیبیہ سے پہلے اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور جہاد کیا تاکہ حق کی آواز بلند ہو، ان سابقین اولین کے برابر وہ لوگ نہیں ہو سکتے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور اس وقت جہاد کیا جب اسلام کو قوت و غلبہ حاصل ہوچکا تھا۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ آیت (١٠٠) میں یوں بیان فرمایا ہے : (والسابقون الاولون من المھاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ واعدلھم جنات تجری تحتھا الانھار خالدین فیھا ابداذلک الفوز العظیم) ” جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیروکار ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے، اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہی بڑی کامیابی ہے۔ “ اور بخاری و مسلم نے فضائل الصحابہ میں ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ میرے صحابہ کو گالی نہ دو، اگر تم میں کا کوئی شخص احد پہاڑ کے مانند بھی سونا خرچ کرے گا تو ان کے مد اور آدھے مد کے برابر نہیں ہوگا۔ حافظ سیوطی نے ” الاکلیل“ میں لکھا ہے، یہ آیت دلیل ہے کہ صحابہ کرام کے مختلف مراتب تھے اور ان میں جو لوگ جتنا پہلے اسلام لائے، اسی اعتبار سے ان کو فضیلت حاصل ہے نیز یہ آیت اس کی بھی دلیل ہے کہ لوگوں کو ان کے حساب مراتب مقام ملنا چاہئے۔ اور صحابہ کرام میں اس فرق مراتب کے باوجود اللہ تعالیٰ نے سب کو جنت کا وعدہ کیا ہے۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے (وکلاوعد اللہ الحسنی) اسی لئے فرمایا ہے تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ متاخرین صحابہ کرام کسی تعریف کے لائق نہیں ہیں، بلکہ اللہ کی نگاہ میں تمام صحابہ کرام لائق ستائش ہیں۔ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کرنے والوں اور جہاد کرنے والوں کا اجر و ثواب، بعد کے صحابہ کرام کے مقابلے میں اس لئے زیادہ رکھا کہ اسے ان کے کامل خلوص نیت، غایت للہیت اور اس بات کا خوب علم تھا کہ انہوں نے کس تنگی اور پریشانی کے زمانے میں اللہ کی راہ میں خرچ کیا تھا، نسائی نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ صحابہ کا ایک درہم دوسروں کے ایک لاکھ سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور یہ بات سب اہل ایمان جانتے ہیں کہ ابوبکر صدیق (رض) اس آیت میں مذکور فضیلت کے سب سے زیادہ حقدارتھے، اس لئے کہ انہوں نے محض اللہ کی رضا کے لئے اپنا سارا مال خرچ کردیا تھا۔ الحديد
11 (١١) مفسر ابوالسعود لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے اپنی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا، پھر ان لوگوں کی زجر و توبیخ کی جو بخل کی وجہ سے اس کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، پھر اس کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے درجات بتائے اور اب اس آیت میں ایک مخصوص انداز میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی رغبت دلائی جا رہی ہے کہ جو شخص اس کی راہ میں خرچ کرے گا گویا کہ وہ اسے قرض دے گا، جس کا معاوضہ اسے بہرحال ملنا ہے۔ آیت میں ” قرض حسن“ سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ خرچ کرنے والے کی نیت اچھی ہو، اللہ کی راہ میں سب سے عمدہ مال خرچ کرے اور کوشش کے کہ سب سے اچھی جگہ خرچ کرے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آیت سے مقصود جہاد کے لئے خرچ کرنا ہے، اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے مقصود بال بچوں پر خرچ کرنا ہے۔ ابن کثیر کہتے ہیں : صحیح بات یہ ہے کہ آیت کا مفہوم عام ہے، یعنی ہر کار خیر میں خرچ کرنا مقصود ہے۔ آیت کے دوسرے حصہ کا مفہوم یہ ہے کہ جو اللہ کی راہ میں اپنا بہترین مال خلوص نیت کے ساتھ خرچ کرے گا، اللہ اسے ایک کے بدلے کئی گنا دے گا اور بہت عمدہ بدلہ دے گا، یعنی اللہ تعالیٰ کی جانب سے اسے جو جزا ملے گی وہ مقدار میں کئی گنا زیادہ اور عمدہ ہوگی۔ الحديد
12 (١٢) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کی فضیلت بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ قیامت کے دن کس طرح ایمان اہل ایمان کی رہنمائی کرتا ہوا انہیں جنت تک پہنچا دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے فرمایا ہے کہ روز قیامت آپ دیکھئے گا کہ مومن مردوں اور عورتوں کا نور ان کے آگے اور دائیں طرف آجائے گا اور انہیں کشاں کشاں جنت تک پہنچا دے گا۔ عبداللہ بن مسعود (رض) اور قتادہ وغیر ہما نے یہاں ” نور“ سے حقیقی اور حسی نور مرادل یا ہے اور کہا ہے کہ اس دن ہر شخص کا نور اس کے عمل کے مطابق ہوگا، کسی کا پہاڑ کے مانند، کسی کا کھجور کے دخت کے مانند، کسی کا آدمی کے قد کے برابر اور کسی کا اس سے بھی کم، حتی کہ بعض کانور صرف اس کے دونوں قدموں کے درمیان ہوگا۔ اور ضحاک، مقاتل اور ابن جریر وغیرہم کا خیال ہے کہ اس سے مراد مجازی اور معنوی نور ہے، یعنی ایمان اور عمل صالح کا ثواب، جو اہل جنت کے سامنے آ کر ان کی نجات کا سبب بنے گا، اور ان کے دائیں ہاتھ میں ان کا نامہ اعمال ہوگا اور فرشتے ہر جانب سے آ آ کر انہیں ان جنتوں کی خوشخبری دیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان جنتوں میں وہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے، اس سے کبھی نہیں نکالے جائیں گے اور نہ اس کی نعمتیں کبھی ختم ہوں گی اور ایک مومن کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا کامیابی ہو سکتی ہے۔ الحديد
13 (١٣) اس دن منافق مرد اور عورتیں جب مومنوں کے آگے اور دائیں نور دیکھیں گے اور دیکھیں گے کہ وہ نور انہیں جوق در جوق جنت کی طرف لے جا رہا ہے اور وہ اپنے نفاق کی تاریکیوں میں غلطاں و پیچاں ہوں گے تو اہل جنت کو پکاریں گے اور کہیں گے کہ ذرا ایک نظر ہماری طرف دیکھ لو، تاکہ تمہارے نور کی روشنی ہماری طرف بھی ہوجائے اور ہم بھی اس طرف چل پڑیں جدھر تم جا رہے ہو۔ ابن جریر نے ” انظرونا“ کا معنی ” انتظرونا“ کیا ہے، یعنی جب اہل جنت تیزی کے ساتھ جنت کی طرف جا رہے ہوں گے تو منافقین انسے کہیں گے کہ ذرا ہمارا انتظار کرلو اور ہمارے لئے بھی سفارش کر دو، تاکہ ہم بھی تمہارے ساتھ چلے جائیں۔ ان کی یہ بات سن کر فرشتے یا مومنین انہیں دھتکاریں گے اور کہیں گے کہ جاؤ، وہاں نور ڈھونڈ ھو جہاں سے ہمیں ملا ہے، یعنی میدان محشر میں یا مفہوم یہ ہے کہ یہ تو ایمان کا نور ہے جو دنیا میں ہمیں ملا تھا، اس لئے تم دنیا میں واپس جا کر وہاں سے یہ نور حاصل کرو یا مفہوم یہ ہے کہ خائب و خاسر پیچھے جاؤ اور اپنے لئے کوئی اور نور تلاش کرو۔ اس گفتگو کے بعد مومنوں اور منافقوں کے درمیان ایک موٹی دیوار حائل ہوجائے گی جو منافقوں کو مومنوں کے نور سے بالکل دور کر دے گی اور ان کی تاریکی زیادہ گہری ہوجائے گی اور اس دیوار میں ایک دروازہ جنت کی جانب کھلے گا جس سے اہل ایمان جنت میں داخل ہوجائیں گے اور منافقین انہیں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہ جائیں گے، اس دروازے کے اندر جنت اور اس کی نعمتیں ہوں گی اور اس کے باہر جدھر منافقفین ہوں گے، گھٹا ٹوپ تاریکی ہوگی اور عذاب نار ہوگا۔ الحديد
14 (١٤) جب مومنوں اور منافقوں کے درمیان وٹی دیوار حائل ہوجائے گی، تو منافقین شدت حسرت ویاس کے ساتھ پھر اہل ایمان کو پکاریں گے اور کہیں گے کہ کیا ہم تمہاری ہی طرح بظاہر مومن نہیں تھے؟ تمہاری مسجدوں میں نماز نہیں پڑھتے تھے اور تمہاری ہی طرح دوسرے نیک اعمال نہیں کرتے تھے، پھر آخر آج ہمارا یہ حشرکوں ہو رہا ہے؟! تو مومنین انہیں جواب دیں گے کہ ہاں تم دنیا میں ہمارے ساتھ تھے، بظاہر ہماری ہی طرح مومن تھے اور نیک اعمال کرتے تھے لیکن فی الحقیقت نہ تم مومن تھے نہ ہی تمہاری نیت صحیحت ھی اور نہ تمہارے اعمال میں اخلاص وللہیت تھی، تم لوگ کفر ونفاق کی بیماری میں مبتلا رہے اور شہوتوں اور لذتوں کی بندگی کرتے رہے اور ہر لمحہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں کے لئے برا ہی سوچتے رہے اور جھوٹی تمناؤں سے اپنے آپ کو دھوکہ دیتے رہے کہ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا اور مخلص مسلمانوں کی طرح ہم بھی جنت میں جائیں گے۔ (وغرتکم الامانی) کا ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ تم (منافقین) یہی تمنا کرتے رہے کہ ایک دن مسلمان ضرور کمزور ہوجائیں گے اور تم اسی دھوکے میں پڑے رہے، یہاں تک کہ موت نے تمہیں آدبوچا اور تمہیں توبہ کی توفیق نہیں ملی، یا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی مدد کی، اپنے دین کو غالب کیا اور تمہاری تمنا خاک میں مل گئی کہ مسلمان کمزور ہوجائیں گے اور اللہ کے حلم اور اس کی جانب سے مہلت دیئے جانے کا تم نے غلط مطلب نکالا، شیطان کے بہاوے میں آگئے، اور کفر و نفاق پر مصر رہے یہاں تک کہ موت آگئی۔ آیت (١٥) میں مومنوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ منافقو ! آج اگر تم زمین بھر کر بھی سونا پیش کرو گے تاکہ تمہاری جان عذاب نار سے نجات پا لے تو ایسا نہیں ہوگا اور آج تمہارے ساتھ یہی انجام اہل کفر کا بھی ہوگا تم سب کا ٹھکانا جہنم ہوگا تم سب کو جہنم لپیٹ لے گی، جو تم سب کے لئے بڑا ہی براٹھکانا ہوگا۔ الحديد
15 الحديد
16 (١٥) شوکانی لکھتے ہیں کہ یہ آیت مومنوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی، ان سے مقصود ایمان والوں کو یہ رغبت دلانی ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کی جائے، یا اللہ تعالیٰ کا ذکر آئے تو صداقت ایمانی کا تقاضا ہے کہ ان کے دلوں میں رقت و خشوع پیدا ہو حسن بصری کہتے ہیں کہ صحابہ کرام اللہ کی نگاہ میں محبوب ترین لوگ تھے اور وہ اللہ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والے تھے اور ان کے دلوں پر قرآن سن کر بہت زیادہ رقت و خشوع طاری ہوجاتا تھا اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں اس آیت میں کہا ہے کہ ذکر الٰہی سے ان کے دلوں پر کما حقہ خشوع طاری ہوجاتا تھا، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں اس آیت میں کہا ہے کہ ذکر الٰہی سے ان کے دلوں پر کما حقہ خشوع طاری نہیں ہوتا، تو پھر دیگر مسلمانوں کو تو زیادہ ڈرتے رہنا چاہئے اور قرآن سن کر خشع قلب کا زیادہ اہتمام کرنا چاہئے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت میں ” ذکر“ سے مراد اللہ تعالیٰ کا نام، یا قیامت کے دن کا اس کا وعدہ ووعید ہے، اور ” وما نزل من الحق) میں ” حق“ سے مراد قرآن کر یم ہے بعض نے ” ذکر“ اور ” حق“ دنوں سے قرآن کریم مراد لیا ہے۔ آیت کے دوسرے حصہ (ولایکونوا کالذین اوتوا الکتاب) الآیۃ میں مومنوں کو یہود و نصایٰ کی طرح ہوجانے سے منع کیا گیا ہے، جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی طرح تورات و انجی نازل فرمایا، لیکن مرور زمانہ کے ساتھ ان کتابوں سے ان کا رشتہ کمزور ہوتا گیا اور وہ انبیاء کی تعلیمات کو فراموش کرتے گئے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے دلوں سے خشیت الٰہی جاتی رہی، ان میں سختی پیدا ہوگئی اور انہوں نے تورات و انجیل کو بدل ڈالا اور ان کے احکام پر عمل کرنا ترک کردی۔ حافظ ابن کثیرلکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں مومنوں کو یہود و نصاریٰ کے مانند ہوجانے سے منع فرمایا گیا ہے جنہوں نے مرور زمانہ کے ساتھ معمولی دنیاوی فائدوں کے لئے اللہ کی کتاب کو بدل دیا، اسے پس پشت ڈال دیا، انسانوں کے خود ساختہ اقوال کو دین، اور اپنے علماء و احبار کو معبود بنا لیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے دل سخت ہوگئے اور اللہ کے کلام کو بدل دینا ان کی عادت بن گئی۔ اسی لئے اللہ نے مومنوں کو کسی بھی معاملے میں ان کی مشابہت سے روکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہود کی اسی حالت کو بیان کرتے ہوئے سورۃ المائدہ آیت (١٣) میں فرمایا ہے : (فبما نقضھم میثاقھم لعناھم وجعلنا قلوبھم قاسیۃ یحرفون الکلم عن مواضعہ ونسوا حظامماذکروابہ الآیۃ) ” پھر ہم نے ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ان پر لعنت بھیج دی اور ان کے دل سخت کردیئے (جس کے نتیجے میں) وہ اللہ کے کلام میں تحریف پیدا کرنے لگے اور انہیں جو نصیحت کی گئی تھی اس کا بڑا حصہ بھلا بیٹھے “ الحديد
17 (١٦) جس طرح اللہ تعالیٰ مردہ زمین میں بارش کے قطروں کے ذریعہ زندگی ڈال دیتا ہے، اسی طرح وہ روز قیامت مردوں کو دوبارہ زندہ کنے اور دنیا میں سخت دلوں کو دلائل و براہین کے ذریعہ نرم کرنے اور انہیں راہ راست پر لانے کی قدرت رکھتا ہے، وہ اس پر قادر ہے کہ انسانوں کے بند دلوں کے دروازے کھول دے اور ان میں ایمان و ہدایت کا نور داخل کر دے، ان کی سختی کو نرمی سے اور ضلالت و گمراہی کو ہدایت سے بدل دے، وہ مولاء کل جو چاہے کرے، جسے چاہے ہدایت دے دے۔ الحديد
18 (١٧) اوپر لکھا جا چکا ہے کہ اس سورت کا مرکزی مضمون اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دلانا ہے، چنانچہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ کثرت سے صدہ کرتے ہیں، چاہے وہ مرد ہوں یا عورتیں اور خیر اور بھلائی کے مختلف کاموں میں اپنا مال خلوص نیت کے ساتھ اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں ان کے اعمال کا کئی گنا بڑھا کر بدلہ دیتا ہے، بسا اوقات دس گنا سے سات سو گنا تک بلکہ کبھی اس سے بھی زیادہ بڑھا کردیتا ہے اور سب سے بڑا بدلہ انہیں آخرت میں ” جنت“ دے گا، جس کے عیش و آرام اور جس کی نعمتوں کا کوئی آدمی اس دنیا میں تصور بھی نہیں کرسکتا ہے۔ الحديد
19 (١٨) آیات (١٨/١٩) میں امت مسلمہ کے تین قسم کے لوگوں کا ذکر آیا ہے پہلی قسم کا ذکر اوپر آچکا ہے، یعنی وہ لوگ جو غایت اخلاص کے ساتھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور ان کا اجر بھی بیان کیا جا چکا اور دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور ایمان کا مفہوم اہل سنت کے نزدیک یہ ہے کہ دل سے ایمان لایا جائے اور زبان سے اس ایمان کا اقرار کیا جائے اور پھر دل، زبان اور اعضاء وجوارح کے عمل کے ذریعہ اس کی تصدیق کی جائے۔ امت محمدیہ کے ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے صدیق کا لقب دیا ہے بعض مفسرین نے ” صدیق“ کی تعریف میں یہ اضافہ کیا ہے کہ جس نے ایک لمحہ کے لئے بھی اللہ اور اس کے رسول کو نہ جھٹلایا ہو اس اعتبار سے اس لقب کے مستحق ابوبکر صدیق، آل فرعون کے مرد مومن اور وہ مرد مومن ہوئے جن کا ذکر سورۃ یٰسین میں آیا ہے اور تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو اللہ کی راہ میں شہید ہوئے، انہیں ان کے رب کی طرف سے اجر خاص اور نور ملے گا، جو ان کے ساتھ خاص ہوگا، ابن باس، ابن جریر اور ابن کثیر وغیر ہم کی یہی رائے ہے۔ بعض مفسرین کرام نے اس آیت میں ” الشھداء“ اور ” الصدیقون“ دونوں کو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے والوں کا لقب قرار دیا ہے، اس رائے کے مطابق امت محمدیہ کے تمام مخلص اہل ایمان صدیقین اور شہداء ہیں اور انہیں ان کے رب کی طرف سے اجر خاص اور نور ملے گا، آیت کے پہلے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں اور ان کے اچھے انجام کا ذکر فرمایا، اور دوسرے حصہ (والذین کفروا وکذبوا بایاتنا) الآیۃ میں ان بدبختوں کا ذکر کیا ہے : متصدقین، صدیقین، شہداء اور اہل جہنم اور سورۃ فاطمہ آیت (٣٢) میں پانچویں قسم ” مقتصدون“ کا ذکر کیا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے واجبات ادا کئے، محرمات سے بچے رہے، لیکن ان سے اللہ اور اس کے بندوں کے حق میں بعض کو تاہیاں ہوئیں، ان لوگوں کا انجام اللہ تعالیٰ نے جنت بتایا ہے اگرچہ ان میں سے بعض کو ان کے بعض گناہوں کے سبب سزا بھی ملے گی۔ الحديد
20 (١٩) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بے ثباتی بیان فرمائی ہے اور مومنوں کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ یہ دنیا لہو و لعب سے عبارت ہے جس میں لوگوں کے قلوب اور ابدان سبھی مشغول ہوجاتے ہیں، پوری زندگی گذار دیتے ہیں اور ان کے دل اللہ کی یاد اور روز قیامت کے وعدہ ووعید سے غافل ہوتے ہیں اور زیب و زینت لباس کھانے پینے، عالی شان مکانات، عمدہ سواریوں اور دنیاوی جاہ وحشمت سے بلند ہو کر آخرت کے بارے میں انہیں سوچنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی، اور ایک دوسرے کے مقابلے میں اپنا اپنا حسب و نسب بیان کر کے اور کثرت مال و اولاد کا ذکر کر کے فخر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا کی ان عارضی چیزوں کی مثال بارش کی ہے جس کی وجہ سے زمین کے پودے لہلہا اٹھتے ہیں اور ان پودوں کو دیکھ کر کاشتکار خوب خوش ہوتے ہیں، ویسے ہی جیسے کفار دنیا کے زیب و زینت سے خوش ہوتے ہیں، پھر وہ پودے خشک ہو کر زرد ہوجاتے ہیں، پھر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بھس بن جاتے ہیں اور زمین ایسی ویران ہوجاتی ہے کہ جیسے وہاں کبھی ہرا پودا تھا ہی نہیں، یہی حال دنیا کا ہے یہاں کی ہر چیز آنی جانی ہے اور ہر نعمت فانی ہے اور جو چیز باقی رہنے والی ہے وہ نیک اعمال ہیں، جو بندے کے ساتھ آخرت تک جائیں گے اور عذاب نار سے اس کی نجات کا سبب بنیں گے۔ آیت کے دوسرے حصہ میں جس کی ابتدا (وفی الاخرۃ عذاب شدید) سے ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے آخرت کو فراموش کر کے دنیا کے ہو و لعب میں مشغول ہونے والے کا انجام یہ بتایا کہ قیامت کے دنا یسے نافرمانوں کو وہ عذاب شدید میں مبتلا کرے گا اور جو لوگ آخرت کی فکر کریں گے اور اللہ کے حقوق ادا کریں گے، ان کے سارے گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور ان کا رب ان سے راضی ہوجائے گا۔ آیت کا حصہ (وما الحیاۃ الدنیا الا متاع الغرور) مذکور بالا مضمون کی تاکید کا فائدہ دیتا ہے سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ دنیا دھوکے کی ٹٹی ان کے لئے ہے جو فکر آخرت سے غافل ہوتے ہیں اور جو لوگ فکر آخرت میں مشغول رہتے ہیں، ان کے لئے یہ دنیا ایسی متاع ہے جو اسے اس سے بہترین نعمت یعنی جنت تک پہنچانے میں مدد کرتی ہے۔ الحديد
21 (٢٠) دنیا اور اس کی نعمتوں کی حقارت اور بے ثباتی بیان کرنے کے بعد، اس آیت کریمہ میں آخرت کی بیش بہا اور دائمی نعمتوں کے حصل کی رغبت دلائی گئی ہے بندوں کو اللہ کی مغفرت، اس کی رضا اور جنت کے حصول کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی نصیحت کی گئی ہے اور یہ چیزیں صدق دل سے توبہ، طلب مغفرت، گناہوں سے دوری، عمل صالح اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ بھلائی جانے سے حاصل ہوتی ہیں۔ الحديد
22 (٢١) ذیل میں مذکور دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس نے مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے ان سے متعلق تمام امور کو مقدر کردیا تھا چنانچہ اگر زمین کو یا انسانوں کو کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو وہ لوح محفوظ میں پہلے سے نوشتہ ہے اور جو بات اس کے علم میں پہلے سے مقدر ہوچکی ہے اس کا واقع ہونا امر محتوم ہے اور اگرچہ عقل انسانی ان باتوں کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے، لیکن اللہ کے لئے یہب اتیں بہت ہی آسان ہیں، اس لئے کہ اس کا علم اور اس کی قدرت کاملہ ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ بات اس لئے بتائی ہے تاکہ یہ قاعدہ کلیہ ان کے ذہنوں میں ثبت ہوجائے اور خیر و شر جو بھی انہیں پہنچے اس کے بارے میں انہیں یقین رہے کہ یہ تو اللہ کی تقدیر تھی جسے بہر حال وقوع پذیر ہوتا ہی تھا، تاکہ جو چیز انہیں نہیں ملی ہے اس کا غم نہ کریں اور جو نعمت انہیں ملی ہے اس پر اترانے نہ لگیں بلکہ اپنے اس مولیٰ کا شکر ادا کریں جس نے انہیں اس نعمت سے نوازا ہے اسی لئے آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ وہ متکبر اور خود ستائی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا، جو اللہ کی نعمتوں کو اپنی عقل و صلاحیت اور جاہ وحشمت کی طرف منسوب کرتا ہے، اور غایت سرکشی میں آ کر کہتا ہے کہ (انما اوتیمتہ علی علم بل ھی فتنہ) یہ تو ” مجھے محض میرے علم کی وجہ سے دیا گیا ہے حالانکہ وہ نعمتیں اسے بطور آزمائش دی گئی ہیں“ الحديد
23 الحديد
24 (٢٢) جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے، اس سورت کا مرکزی مضمون اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دلانا ہے، اسی لئے گزشتہ کئی آیتوں میں اور مختلف انداز میں انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دلانے کے بعد، اب اس آیت کریمہ میں بخل کی مذمت بیان کی گئی ہے کہ جو لوگ مال کی شدید محبت کی وجہ سے بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس رذیل کام کا حکم دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے بے نیاز ہے اور ان کے لئے قیامت کے دن شدید وعید ہے، آیت کے آخری حصہ (ومن یتول فان اللہ ھو الغنی الحمید) میں ان کے اسی انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو اللہ کی یاد اور اس کے اوامر سے اعراض کرے گا تو اپنا ہی نقصان کرے گا، اللہ تو بے نیاز ہے اور تمام تعریفوں کا تنہا مستحق ہے اسے بندوں کے مال و دولت کی ضرورت نہیں ہے، وہ تو یہ چاہتا ہے کہ بندے اس کا حکم بجا لائیں، تاکہ دنیا اور آخرت میں خود ان کا بھلا ہو۔ الحديد
25 (٢٣) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کی بعثت کی غرض و غایت اور ان تین چیزوں کو بیان کیا ہے، جو ان انبیاء کی تائید و تصدیق کے لئے انہیں دی گئی تھیں، پہلی چیز جو ان کی تائید کے لئے دی گئی دلائل و معجزات تھے اور دوسری چیز کتاب الٰہیتھی، جس میں مخلوق کے دین و دنیا کی بھلائی کی ہر بات بیان کردی گئی تھی اور تیسری چیز کو اللہ تعالیٰ نے ” میزان“ سے تعبیر کیا ہے، جس کی تفسیر مجاہد اور قتادہ وغیرہ نے ” عدل“ کے ذریعہ کی ہے اور حافظ ابن کثیر نے کہا ہے کہ اس سے مراد وہ حق ہے جس کے حق ہونے کی گواہی وہ سبھی لوگ دیتے ہیں جو عقل سلیم رکھتے ہیں۔ اور ان تمام چیزوں کے ساتھ انبیاء کی بعثت کی غرض و غایت یہ تھی کہ جس دعوت حق کو پھیلانے کے لئے اللہ نے انہیں مبعوث کیا ہے، لوگ اسے قبول کریں، صرف اللہ کی بندگی کریں اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اللہ کے نازل کردہ قانون عدل و انصاف کو نافذ کریں، جس کی تفصیل اللہ کی کتاب اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت میں موجود ہے قانون جنایات، قصاص، حدود، احکام میراث، اور دیگر حقوق انسانی، سب اسی ضمن میں آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا بندوں سے تقاضا ہے کہ وہ انت مام قوانین و احکام کو اپنی انفرادی او اجتماعی زندگی میں نافذ کریں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” ہم نے لوہے کو اتارا جس میں سخت ہیبت و قوت ہے اور لوگوں کے لئے اور بھی بہت سے فائدے ہیں“ اس جملے کا جملہ سابقہ سے تعلق یہ ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے عقل و خرد سے نوازا ہے، وہ کتاب الٰہی کی آیات سنتے ہی ان پر عمل کرنے لگتے ہیں، اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں عدل و انصاف کو قائم کرنے لگتے ہیں اور جو عام لوگ ان کے مخلص پیروکار ہوت یہیں ان پر جب قوانین شریعت کا نفاذ ہوتا ہے تو انہیں قبول کرلیتے ہیں اور نظام عدل جاری ہوجاتا ہے اور جو لوگ سرکشی کی راہ اختیار کرتے ہیں اور نظام عدل کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں، انہیں حکومت کی طاقت نظام عدل کی پابندی پر مجبور کردیتی ہے۔ لوہے میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے بہت سے فوائد رکھے ہیں، تمام جنگی آلات و اسلحہ اسی سے بنتے ہیں مختلف الانواع صنعتیں برتنوں کی قسمیں اور کھیتی کے آلات اسی سے تیار ہوتے ہیں بلکہ یوں کہنا صحیح ہوگا کہ انسانی زندگی میں استعمال ہونے والی شاید ہی کوئی ایسی چیز ہے جس میں لوہے کا کسی نہ کسی طرح استعمال نہ ہوتا ہو۔ آیت کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ لوہے کی تخلیق کا مقصد یہ بھی ہے کہ اس سے جہاد میں استعمال ہونے والے ہتھیار تیار ہوں، جنہیں مجاہدین فی سبیل اللہ استعمال کریں، اور اللہ کے سامنے یہ بات کھل کر آجائے کہ کون اس کی رضا کی خاطر محض غیبی امور پر ایمان رکھتے ہوئے اس کی راہ میں لوہے سے بنے اسلحہ کا استعمال کرتا ہے اور اللہ کے دین کو غالب بنانے کے لئے اپنی جان کی بازی لگا دیتا ہے۔ اور اللہ تو بڑی قوت والا اور ہر چیز پر غالب ہے وہ کسی کی مدد کا محتاج نہیں ہے، اس نے تو بندوں کو جہاد اسلامی کا اس لئے حکم دیا ہے تاکہ اس کی اطاعت کر کے اس کی رضا اور اس کی جنت کے مستحق بنیں۔ الحديد
26 (٢٤) انبیاء کرام کا عمومی ذکر کئے جانے کے بعد، اس آیت میں ان دو خاص انبیاء کا ذکر کیا گیا ہے، جن کے بعد آنے والے تمام انبیاء انہی کی نسل سے ہوئے۔ نوح (علیہ السلام) کے بعد جتنے انبیاء ہوئے اسب انہی کی نسل سے ہوئے اور ابراہیم (علیہ السلام) کے بعد جتنی بھی آسمانی کتابیں نازل ہوئیں، اور جتنے انبیا و رسل معبوث ہوئے، سب انہی کی اولاد کی نسل سے تھے اور جن لوگوں کی ہدایت کے لئے وہ انبیاء آئے، وہ دو جماعتوں میں تقسیم ہوگئے، کچھ لوگوں نے تو ان کی دعوت قبول کی، اللہ کی وحدانیت کا اقرار کیا اور عمل صالح کی زندگی اختیار کی اور اکثر و بیشتر نے سرکشی کی راہ اختیار کی، اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا اس میں تحریف کی اور اپنے علماء اور راہبوں کے اقوال و آراء کو دین بنا لیا۔ الحديد
27 (٢٥) اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل کا یہ تسلسل قائم رکھا، موسیٰ، الیاس، داؤد، سلیمان اور دیگر انبیاء آتے رہے، یہاں تک کہ عیسیٰ بن مریم کو اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول بنا کر بھیجا، جو ابراہیم (علیہ السلام) کی ذریت سے تھے، اس لئے کہ ان کی ماں مریم علیہا السلام آل ابراہیم سے تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو انجیل عطا کیا تھا تاکہ وہ اس کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کریں اور اس نے ان کے حواریوں یعنی اولین پیروکاروں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے اور اپنی عام مخلوق کے لئے نرمی اور محبت ڈال دی تھی، اس لئے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) جب تک زندہ رہے، انہیں نصیحت کرتے رہے کہ وہ یہودیوں کی طرح نہ بنیں جن کے دل اللہ تعالیٰ نے سخت بنا دیئے تھے بلکہ اللہ کی مخلوق کے ساتھ شفقت و محبت اور حلم و برد باری کا برتاؤ کریں ان تعلیمات کا اثر یہ ہوا کہ ان کے دل نرمی اور محبت کے خوگر ہوگئے اور قساوت قلبی سے نفرت کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ آیت (٨٢) میں ان کی اسی نرمی کے بارے میں فرمایا ہے : (لتجدن اشدا الناس عداوۃ للذین امنوا الیھود والذین اشرکوا ولتجدن اقربھم مودۃ للذین امنوا الذین قالوا انا نصاری ذلک بان منھم قسیسین ورھبانا وانھم لا یستکبرون) ” یقیناً آپ ایمان والوں کا سب سے زیادہ دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے اور ایمان والوں سے سب سے زیادہ دوستی کے قریب آپ یقیناً انہیں پائیں گے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں، یہ اس لئے کہ ان میں علماء اور عبادت کے لئے گوشہ نشین افراد پائے جاتے ہیں اور اس وجہ سے کہ وہ تکبر نہیں کرتے ہیں۔ “ (ورھبانیۃ ابتدعوھا) الآیۃ متبعین عیسیٰ (علیہ السلام) مذکور بالا خوبیوں کے ساتھ، ایک خرابی میں مبتلا ہوگئے، انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی غرض سے دین عیسوی میں ایک بدعت ایجاد کرلی جسے قرآن کریم نے ” رہبانیت“ کا نام دیا ہے، اور جس کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی اللہ کی رضا کے حصول کے لئے دنیا و مافیہا سے کنارہ کشی اختیار کرلے اور گوشہ عزلت میں بیٹھ کر اللہ کی یاد میں مشغول ہوجائے، لیکن عملی طور پر وہ لوگ کما حقہ اس کی پابندی نہ کرسکے، بلکہ مرور زمانہ کے ساتھ دین عیسیٰ سے دور ہوتے گئے اور دنیا دار بادشاہوں کی مرضی کے مطابق، اللہ کی کتاب (انجیل) کو بدل ڈالا اور اس رہبانیت کو چھوڑ دیا جسے انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا، صرف کچھ ہی لوگ صحیح دین پر باقی رہے، جن کا ذکر قرآن کریم نے آیت کے آخری حصہ میں کیا ہے اور کہا ہے کہ (فاتینا الذین امنوا منھم اجرھم) جو لوگ شرک بدعت سے بچے رہے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے صحیح دین پر قائم رہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد ان پر ایمان لائے، اللہ تعالیٰ نے انہیں اجر عظیم سے نوازا۔ الحديد
28 (٢٦) ابن عباس (رض) کے قول کے مطابق اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے یہود و نصاریٰ کو مخاطب کیا ہے جو گزشتہ انبیائے کرام پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتیت ھے اور انہیں ان کے دعویٰ کے مطابق اہل ایمان کا خطاب دے کر اللہ سے ڈرنے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے اور کہا ہے کہ اگر انہوں نے اس دعوت کو قبول کرلیا اور اس کے مطابق عمل کیا تو انہیں دوگنا اجر ملے گا ایک اجر گزشتہ نبی پر ایمان لانے کا اور دوسرا اجر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے کا، بخاری و مسلم نے ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت کی ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تین قسم کے لوگوں کو دوہرا اجر ملے گا۔ ان میں پہلا اہل کتاب کا وہ آدمی ہے جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور مجھ پر ایمان لایا الحدیث سعید بن جبیر کہتے، جب اہل کتاب نے فخر کیا کہ انہیں دوہرا اجر ملے گا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت امت محدیہ کے بارے میں نازل فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا : (ویجعل لکم نور اتمشون بہ) ” قیامت کے دن تمہیں ایک نور ملے گا جس کی مدد سے پل صراط پار کر جاؤ گے“ جیسا کہ سورۃ التحریم آیت (٨) میں آیا ہے : (نور ھم یسعی بین ایدیھم) ” ان کا نور ان کے آگے دوڑتا ہوگا“ بعض مفسرین نے (نور اتمشون بہ) کی تفسیر ” دین کا واضح راستہ“ کیا ہے۔ سورۃ الانفال آیت (٢٩) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (یا ایھا الذین امنوا انتتقوا اللہ یجعل لکم فرقانا) ” اے ایمان والو ! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تم کو فرقان دے گا“ یعنی تمہارے لئے حق کو واضح کردے گا۔ الحديد
29 (٢٧) اس آیت کریمہ کا تعلق اوپر والی آیت سے ہے اور مفہوم یہ ہے کہ اے اہل ایمان ! اگر تم اللہ سے ڈرو گے اور اپنے رسول پر ایمان لاؤ گے تو وہ تمہیں وہ فرقان دے گا جس کا ذکر اوپر کیا گیا، تاکہ وہ اہل کتاب جو مسلمان نہیں ہوئے ہیں، جان لیں کہ اللہ کا وہ فضل جو اس نے بطور خاص مسلمانوں کو دیا ہے، ان کے اختیار کی چیز نہیں ہے کہ اس میں سے جو چاہیں اپنے لئے خاص کرلیں اور کہیں کہ اللہ نے انہیں تمام مخلوقات پر فضیلت دی ہے۔ بلکہ تمام فضل صرف اللہ کے اختیار میں ہے اور اس نے اس میں سے امت محمدیہ کو وہ فضل دیا ہے جو انہیں نہیں دیا ہے، یعنی نبوت، جس سے اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سرفراز کیا اور مومنین ان پر ایمان لائے اور اجر عظیم کے مستحق ہوئے۔ وباللہ التوفیق الحديد
0 سورۃ المجادلہ مدنی ہے، اس میں بائیس آیتیں اور تین رکوع ہیں تفسیر سورۃ المجادلہ نام : اس کا نام ” المجادلۃ“ پہلی آیت کے لفظ ” تجادلک“ سے ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی لکھتے ہیں کہ یہ سورت سبھوں کے نزدیک مدنی ہے۔ المجادلة
1 (1) مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت کریمہ خولہ بنت ثعلبہ انصاریہ اور ان کے شوہر اوس بن صامت (رض) کے بارے میں نازل ہوئی تھی اوس بن صامت نے غصہ میں آ کر ان سے کہہ دیا تھا کہ تم مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی مانند ہو اور ان دنوں ” ظہار“ کو طلاق مانا جاتا تھا اور ان دونوں کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے اور دونوں کی عمر زیادہ ہو چلی تھی اس لئے خولہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں اور سارا ماجرا سنایا، اپنی، اپنے شوہر اور اپنے بچوں کی پریشان حالی بیان کی ایک صحیح روایت میں ہے، انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اوس میری جوانی کھا گئے، اور میں نے اپنا پیٹ ان کے لئے پھیلایا، اور جب میری عمر زیادہ ہوگئی، اور بچہ ہونا بند ہوگیا، تو انہوں نے مجھ سے ظہار کرلیا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس بارے میں مجھ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی ہے خولہ نے کہا : یا رسول اللہ ! ہر چیز کے بارے میں آپ پر وحی نازل ہوئی ہے اور صرف یہی معاملہ رہ گیا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہاں، بات دیسی ہی ہے جو میں نے کہی ہے، تو خولہ نے کہا کہ میں اللہ سے شکوہ کرتی ہوں، اس کے رسول سے نہیں، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ امام احمد اور امام بخاری نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا کہ ساری تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو تمام آوازوں کو سنتا ہے جھگڑنے والی عورت (خولہ) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی اور بات کرنے لگی اور میں گھر کے ایک گوشے میں تھی، لیکن اس کی بات نہیں سن پا رہی تھی، تو اللہ عزوجل نے (قد سمع اللہ) الآیۃ نازل فرمایا۔ (قد سمع اللہ) کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے ان کا شکوہ قبول کیا اور اس کا جواب دیا، (وتشتکی الی اللہ) کا مفہوم یہ ہے کہ ظہار کی وجہ سے خولہ کو اپنے، اور اپنے شوہر اور بال بچوں کے بارے میں جو فکر اور پریشانی لاحق ہوگئی تھی، اس کا اظہار اپنے رب کے سامنے کر رہی تھیں اور دعا کرتی تھیں کہ وہ ان کی یہ پریشانی دور کر دے۔ (تحاورکما) کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خولہ کی بات سن کر کہتے کہ تم اپنے شوہر پر حرام ہوگئی تو وہ کہتیں : اللہ کی قسم ! اوس نے طلاق کا لفظ استعمال نہیں کیا، میں اپنی محتاجی فاقہ کشی اور بے بسی کا شکوہ اللہ سے کرتی ہوں میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اگر ان کو اوس کے پاس چھوڑ دیتی ہوں تو وہ ضائع ہوجائیں گے اور اگر اپنے پاس رکھتی ہوں تو وہ بھوکے رہیں گے اور اپنے سر آسمان کی طرف اٹھا کر کہنے لگیں کہ اے اللہ ! میں تجھ ہی سے شکوہ کرتی ہوں۔ المجادلة
2 (2) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ کسی ناراضگی کی وجہ سے اپنی بیویوں سے کہہ دیتے ہیں کہ تم ہم پر ہماری ماں کی پیٹھ کی مانند ہوگئیں، یعنی ہماری ماں کی طرح ہم پر حرام ہوگئیں، تو ایسا کہہ دینے سے ان کی وہ بیویاں ابدی حرمت میں ان کی ماؤں کی طرح نہیں ہوجاتیں، مائیں تو وہ ہوتی ہیں جو انہیں جنتی ہیں اس لئے حرمت میں ان کی بیویاں ان کی ماؤں کی مانند نہیں ہوجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے آگے ان کی اس بات پر نکیر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا کہنا بہت ہی بری بات ہے جسے عقلمند لوگ گوارہ نہیں کرت، اور شریف النفس لوگ اپنی زبان پر ایسی بات نہیں لاتے اور اس کا حکم بیان فرماتے ہوئے کہا کہ ظہار ایک امر باطل ہے، جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن لوگوں کی زبان سے ایسی بری بات نکل جائے اور پھر اپنی غلطی پر نادم اور تائب ہوں تو اللہ ان کے اس گناہ کو معاف کر دے گا کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور مغفرت فرمانے والا ہے۔ المجادلة
3 (3) اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کے لئے حکم بیان کیا گیا ہے جو ظہار کرنے کے بعد فعل پر نادم ہوتے ہیں اور جماع کر کے انہیں دوبارہ اپنے لئے حلال بنانا چاہتے ہیں ان پر جماع کرنے سے پہلے واجب ہے کہ وہ ایک مسلمان غلام یا لونڈی آزاد کریں اور اگر یہ میسر نہ ہو، یا اس کی قیمت زیادہ ہو تو مسلسل دو ماہ کا روزہ رکھیں اور اگر کسی بیماری کی وجہ سے اس کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائیں۔ امام احمد، ابو داؤد، طبرانی اور بیہقی نے یوسف بن عبداللہ بن سلام سے اور انہوں نے خولہ بنت ثعلثہ سے روایت کی ہے کہ اللہ کی قسم ! سورۃ المجادلہ کی ابتدائی آیتیں میرے اور میرے شوہر اوس بن صامت کے بارے میں نازل ہوئی تھیں انہوں نے پورا واقعہ بیان کیا اور کہا کہ پھر (قد سمع اللہ) سے (عذاب الیم) تک چار آیتیں نازل ہوئی تھیں۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے کہا کہ میں اوس کو ایک غلام آزاد کرنے کو کہوں تو میں نے کہا، یا رسول اللہ ! وہ اس کی قدرت نہیں رکھتے، تو آپ نے کہا : پھر وہ مسلسل دو ماہ کے روزے رکھے، تو میں نے کہا : اللہ کی قسم ! وہ تو بوڑھے ہیں، روزہ رکھنے کی ان میں کہاں طاقت ہے تو آپ نے کہا : پھر وہ ساٹھ مسکینوں کو (ایک وسق کھجور) کھانا کھلائے۔ (الحدیث) آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ذلک لتؤمنو با للہ و رسولہ) یعنی ظہار کا حکم اس لئے بیان کیا گیا ہے تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس کے حکم پر عمل کرو اس لئے کہ ایمان اعتقاد قول اور عمل تینوں کے مجموعہ کا نام ہے۔ المجادلة
4 المجادلة
5 (4) یہ آیت غزوہ خندق سے پہلے نازل ہوئی تھی اور اس میں اللہ نے اپنے رسول کو بشارت دی ہے کہ قریش والے چاہے جتنی بھ فوج لے کر مدینہ پر چڑھائی کے لئے آجائیں انہیں بہرحال منہ کی کھانی پڑے گی اور اللہ تعالیٰ انہیں ذلیل و رسوا کرے گا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہی کفار قریش کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں اور ان سے دشمنی کرتے ہیں، وہ ذلیل و رسوا کئے جائیں گے، ان گزشتہ کافر قوموں کی طرح جنہوں نے اللہ کے انبیاء سے دشمنی کی، اس لئے کہ ہم نے تو قرآن کریم میں ایسی واضح اور صریح آیتیں نازل کردی ہیں جو ہمارے رسول کی نبوت اور ان کی دعوت کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں اس کے باوجود جو لوگ ایمان نہیں لائیں گے اور اللہ کے حدود کو پامال کریں گے، ہم انہیں دنیا میں ذلیل و رسوا کریں گے، اور آخرت میں ایسے کافروں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ صاحب محاسن التنزیل لکھتے ہیں کہ بعض مفسرین نے (یحادون اللہ ورسولہ) کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ ” جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے بیان کردہ قوانین و حدود کے سوا دیگر قوانین ایجاد کرتے ہیں یا انہیں پسند کرتے ہیں“ انتہی اس کے بعد لکھا ہے کہ اس میں ان ملوک اور امرائے سوء کے لئے شدید وعید ہے جو اسلامی شریعت کے خلاف قوانین وضع کرتے ہیں نیز لکھا ہے کہ جو قانون شریعت اسلامیہ کے ان نصوص کے مخالف ہو جن میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں بلاشبہ کفر و گمراہی ہے ایسے قوانین کی وہی لوگ تائید کرتے ہیں جو اللہ اور رسول کے منکر اور ملت اسلام سے خارج ہوتے ہیں۔ المجادلة
6 (5) اس آیت کا تعلق اوپر والی آیت سے ہے اور مفہوم یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے متعین کردہ حدود سے تجاوز کرنے والوں کو اللہ دنیا میں رسوا کرے گا اور آخرت میں ان کو دردناک عذاب دے گا، جب اللہ تعالیٰ ان سب کو اکٹھا کرے گا اور انہیں ان کے کئے کی خبر دے گا انہوں نے دنیا میں ان گناہوں کا ارتکاب کیا اور بھول گئے، لیکن اللہ نہیں بھولا تھا، اس نے تو ایک ایک ذرہ کو لکھ رکھا ہے کوئی خبر اس کے احاطہ علم سے خارج نہیں ہے۔ المجادلة
7 (6) اوپر جو بات بطور اجمال بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز کو محیط ہے، یہاں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے اسی کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے کہ اے میرے رسول ! کیا آپ جانتے نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور زمین کی ہر چھوٹی اور بڑی بات کو جانتا ہے کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ہے، اس کے احاطہ علم کا تو حال یہ ہے کہ اگر تین آدمی آپس میں سرگوشی کرتے ہیں تو ان کے ساتھ چوتھا وہ ہوتا ہے اور اگر سرگوشی کرنے والے پانچ ہوتے ہیں تو وہ چھٹا ہوتا ہے یا وہ لوگ اس سے کم ہوں یا زیادہ اور جہاں کہیں بھی ہوں وہ ہر حال میں ان کے ساتھ ہوتا ہے اور ان کی تمام سرگوشیوں پر مطلع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ آیت (78) میں فرمایا ہے : (الم یعلموا ان اللہ یعلم سرھم و نجواھم و ان اللہ غالم الغیوب) ” کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ کو ان کے دل کا بھید اور ان کی سرگوشی سب معلوم ہے اور اللہ غیب کی باتوں سے باخبر ہے۔ “ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں بہت سے لوگوں کا اس پر اجماع ہے کہ اس آیت میں ” اللہ کے بندوں کے ساتھ ہونے“ سے مراد اپنے علم کے ذریعہ ان کے ساتھ ہونا ہے اسی پر بس نہیں، بلکہ وہ اپنی قوت سماع اور اپنی قوت دید کے ذریعہ بھی اپنے بندوں کو محیط ہے، یعنی وہ ان سے پوری طرح باخبر ہے، کوئی بات بھی اس سے مخفی نہیں ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب قیامت آئے گی تو وہ انہیں ان کے تمام کرتوتوں سے باخبر کرے گا اور ان کا انہیں بدلہ چکائے گا، کیونکہ وہ ہر چیز سے باخبر ہے۔ المجادلة
8 (7) مفسرین نے مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت یہود مدینہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی اور ابن زید کا قول ہے کہ بعض منافقین نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح سرگوشی کرتے تھ کہ ممنین ڈر جاتے تھے کہ شاید کسی جنگ کی بات ہو رہی ہے، یا کوئی مصیبت آنے والی ہے بغض دیگر روایتوں میں آتا ہے کہ جب مسلمان یہود و منافقین کے پاس سے گذرتے، تو وہ آپس میں سرگوشی کرنے لگتے تاکہ مسلمان یہ سمجھیں کہ وہ ان کے خلاف کوئی بات کر رہے ہیں، یا مسلمانوں کے کسی لشکر پر دشمن نے حملہ کر کے نقصان پہنچایا ہے جس کی خبر ان کے پاس ہے مسلمان ان باتوں سے خوف زدہ ہوجاتے تھے اور ان کا مقصد بھی یہی ہوتا تھا کہ مسلمانوں کے درمیان رعب پھیلائیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب اس بات کا احساس ہوا تو آپ نے لوگوں کو سرگوشی کرنے سے منع فرمایا۔ امام احمد، بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ” جب تم تین ہو، تو دو الگ ہو کر سرگوشی نہ کریں، اس لئے کہ یہ چیز تیسرے آدمی کو غمگین بنا دیتی ہے“ لیکن یہود و منافقین اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ان کا پردہ فاش کیا کہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں اور آپس میں مسلمانوں کے خلاف ظلم و عدوان اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدم اطاعت کے بارے میں سرگوشی کرتے ہیں اور ان کا خبث باطن اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ جب یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتے ہیں تو ” السلام و علیکم“ کے بجائے ” السام علیکم“ کہتے ہیں، یعنی تمہیں موت آجائے امام احمد اور مسلم وغیرہ ہما نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ یہود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ” السام علیکم“ کہتے تھے، ان کا مقصد آپ کو گالی دینا ہوتا تھا پھر اپنے دل میں کہتے کہ : (لولایعذبنا اللہ بما نقول) کہ جو کچھ کہتے ہیں اس پر اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا ہے؟ ! تو (واذا جاؤک حیوک) الآیۃ نازل ہوئی، انتہی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اس استعجاب کا یہ جواب دیا کہ وہ عذاب انہیں قیامت کے دن ملے گا، جب انہیں جہنم میں جلنے کے لئے ڈال دیا جائے گا، جو بڑا ہی برا ٹھکانہ ہوگا۔ المجادلة
9 (8) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہود و منافقین کی طرح، ظلم و عدوان اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عدم اطاعت کے بارے میں سرگوشی سے منع فرمایا ہے، کیونکہ یہ مومن کی شان کے خلاف بات ہے اور انہیں نصیحت کی ہے کہ اگر وہ سرگوشی کریں تو ایسی باتوں کے لئے جن میں اسلام اور مسلمانوں کی خیر خواہی ہو اور اللہ کی بندگی اور اس کے رسول کی اطاعت کی بات ہو۔ آیت (10) میں مومنوں کی ہمت افزائی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں یعنی یہود و منافقین کی سرگوشیوں سے پریشان نہ ہوں انہیں شیطان سرگوشیوں پر ابھارتا ہے تاکہ مسلمانوں کو غم و فکر لاحق ہو، لیکن انہیں ان سرگوشیوں سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، الایہ کہ اللہ کی یہی مشیت ہو، اس لئے مومنوں کو دشمنوں کی سرگوشیوں سے غمگین نہیں ہونا چاہئے اور اپنے رب کی نصیحتوں پر عمل پیرا رہنا چاہئے اور اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے اگر وہ ایسا کریں گے تو دشمن کی چالیں ناکام ہوجائیں گی، اور انہیں منہ کی کھانی پڑے گی۔ المجادلة
10 المجادلة
11 (9) اس آیت کریمہ کا گزشتہ سے ارتباط واضح ہے اس لئے کہ جب لوگوں کی سرگوشی سے منع کیا گیا تو معلوم ہوا کہ انہیں محفلوں اور مجلسوں میں بیٹھنے کی اجازت تو ہے، لیکن مجالس کے کچھ آداب ہیں جن کا لحاظ ضروری ہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ یہ آیت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجالس تعلیم کے بارے میں نازل ہوئی تھی کچھ لوگ جب کسی کو آتا دیکھتے تو اسے جگہ دینے سے کتراتے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نصیحت کی کہ وہ ایک دوسرے کے لئے وسعت پیدا کریں اور اس کا اجر و ثواب یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ ان کی جگہ، روزی اور سینوں میں کشادگی دے گا، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : ایسا اس لئے ہوگا کہ جزا ہمیشہ عمل کے مشابہ ہوتا ہے، جیسا کہ عثمان بن عفان (رض) سے مروی صحیح حدیث میں آیا ہے جسے بخاری نے روایت کی ہے کہ ” جو اللہ کے لئے مسجد بنائے گا، اللہ کے لئے جنت میں گھر بنائے گا اور جو کسی تنگ دست کے ساتھ سہولت برتے گا، اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کے لئے آسانیاں پیدا کرے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے“ اس قسم کی آیتیں اور حدیثیں بہت ہیں۔ آیت کے دوسرے حصہ (واذا قیل انشزوا فانشزوا یرفع اللہ الذین امن منکم والذین اوتوا العلم درجات واللہ بماتعملون خبیر) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مومنو ! جب تمہیں کہا جائے کہ مجالس میں کشادگی پیدا کرنے کے لئے اپنی جگہ سے اٹھ جاؤ، یا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجالس سے تمہیں اٹھ جانے کے لئے کہا جائے تاکہ تم اپنی طویل بیٹھک سے انہیں پریشان نہ کرو تو تمہیں فوراً بات مان لینی چاہئے اور اس کا اجر و ثواب اللہ نے یہ بتایا کہ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں گے یعنی ان کی اطاعت کریں گے اور اللہ کے احکام کا علم حاصل کر کے ان کے مطابق عمل کریں گے اللہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ ان کے درجات بلند کرے گا۔ شوکانی نے آیت کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ اللہ مومنوں کو غیر مومنوں پر اور اہل علم کو غیر اہل علم پر کئی گنا فوقیت دیتا ہے۔ تو جو شخص ایمان اور علم دونوں سے بہرہ ور ہوگا، اسے اللہ تعالیٰ ایمان کی وجہ سے کئی درجات دے گا اور پھر علم کی وجہ سے کئی درجات عطا کرے گا۔ (فائدہ) آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ لوگ مجلسوں میں دیگر آنے والوں کے لئے وسعت پیدا کریں اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کسی کو اس کی جگہ سے اٹھانا نہیں چاہئے امام احمد اور بخاری و مسلم نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” کوئی آدمی کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود وہاں نہ بیٹھے، بلکہ تم لوگ دوسروں کے لئے کشادگی پیدا کرو۔ “ حافظ ابن کثیر نے اس بارے میں فقہاء کا اختلاف نقل کیا ہے بعض کا خیال ہے کہ یہ جائز ہے اور بخاری کی ابو سعید خدری (رض) سے مروی حدیث سے استدلال کیا ہے، جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد بن معاذ (رض) کے لئے صحابہ کرام کو اٹھنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ ” تم لوگ اپنے سردار کے لئے اٹھ کھڑے ہو“ اور بعض نے کہا کہ ایسا کرناجائز ہے، اگر کوئی سفر سے آیا ہو، یا حاکم جب اپنی مجلس میں آئے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد بن معاذ (رض) کے لئے صحابہ کرام کو حکم دیا تھا کہ وہ اٹھ کر ان کا استقبال کریں، لیکن اگر کوئی شخص اپنی یہ عادت بنا لیتا ہے تو جائز نہیں ہے اس لئے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ لوگ اس کے لئے اٹھ جایا کریں وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے اس حدیث کو ابو داؤد نے معاویہ (رض) سے روایت کی ہے۔ المجادلة
12 (10) حسن بصری کا قول ہے کہ یہ آیت بعض مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بار بار خلوت میں بات کرتے تھے تو دوسرے صحابہ پر اس کا برا اثر پڑتا تھا وہ سوچتے تھے کہ ہمارا درجہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک کم ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ کرنے کا حکم دیا، تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سرگوشی کرنے والے کم ہوجائیں۔ زید بن اسلم کا قول ہے کہ ایسا یہود و منافقین کرتے تھے اور آپس میں کہتے تھے کہ محمد کان کا کچا ہے، ہر ایک کی بات پر کان دھر لیتا ہے اور کسی کو اپنے ساتھ سرگوشی کرنے سے نہیں روکتا ہے اور مخلص صحابہ کرام پر اس کا برا اثر پڑتا تھا، شیطان ان کے دلوں میں شک ڈال دیتا تھا کہ شاید انہوں نے مسلمانوں کے کسی دشمن فوج کی بات کی ہے جو مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لئے جمع ہوگئی ہے تو اللہ تعالیٰ نے آیت (9) نازل فرمائی، لیکن یہود و منافقین اپنی شرارت سے باز نہیں آئے، تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ کا حکم دیا گیا چنانچہ یہود و منافقین مخلص نہ ہونے کی وجہ سے اور مال کی محبت میں سرگوشی کرنے سے رک گئے، لیکن غریب مسلمانوں پر یہ حکم شاق گذرا وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ضروری مسائل پوچھنا چاہتے اور صدقہ کے لئے مال نہ ہونے کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات نہ کر پاتے چنانچہ چند ہی دنوں کے بعد صدقہ دینے کا حکم منسوخ ہوگیا اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بات کرتے وقت ان کا غایت درجہ احترام کریں، اور پاس ادب ملحوظ رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ذلک خیرلکم و اطھر) یعنی ” نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ دینا تمہارے لئے ہر طرح بہتر ہے“ تمہیں اس کا کئی گنا اجر و ثواب ملے گا اور تمہارے غریب مسلمان بھائیوں کا بھلا ہوگا پھر اللہ نے فرمایا : (فان لم تجدوا فان اللہ غفور رحیم) ” اگر صدقہ کے لئے تمہارے پاس مال نہ ہو، تو کوئی حرج کی بات نہیں۔ “ آیت (13) میں ان بعض مسلمانوں کی زجر و توبیخ کی گئی ہے جو فاقہ اور محتاجی کے ڈر سے صدقہ کرنے سے کتراتے تھے اس لئے کہ اللہ کا تو وعدہ ہے کہ وہ اس کی راہ میں خرچ کرنے والے کو کئی گنا بڑھا کر بدلہ دیتا ہے۔ (فاذلم تفعلوا و تاب اللہ علیکم) الآیۃ میں یہ حکم بیان کیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سرگوشی کرنے سے پہلے صدقہ دینا اب امرواجب نہیں، بلکہ مستحب رہ گیا، اس لئے اب جو شخص صدقہ نہ کرسکے اس کے لئے کوئی حرج کی بات نہیں، لیکن وہ اخلاص کیساتھ اپنی نمازوں کی حفاظت کرے، زکاۃ ادا کرے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں سستی نہ کرے، تاکہ صدقہ کے لئے مال نہ ہونے کی کمی پوری ہوتی رہے اور اس کے اجر و ثواب میں اضافہ ہوتا رہے۔ المجادلة
13 المجادلة
14 (11) جن دنوں یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی، ان دنوں منافقین کا نفاق انتہاء کو پہنچ چکا تھا، رات دن وہ لوگ یہودیوں کے ساتھ مل کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے تھے اور انہیں نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔ اس آیت کریمہ میں انہی منافقین کا پردہ فاش کیا گیا ہے کہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں اور نہ وہ یہودیوں میں سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحشر آیت (11) میں بھی منافقوں کی اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے اور کہا ہے : (الم ترالی الذین نافقوا یقولون لاخوانھم الذین کفروا من اھل الکتاب لئن اخرجتم لنخرجن معکم) الآیۃ ” کیا آپ نے منافقوں کو نہیں دیکھا کہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں اگر تم جلا وطن کئے گئے تو ہم بھی تمہارے ساتھ ضرور نکل کھڑے ہوں گے۔“ اور سورۃ النساء آیت (143) میں فرمایا ہے : (مذبذبین بین ذلک لا الی ھولآء ولا الی ھولآء) ” وہ درمیان میں ہی معلق ڈگمگا رہے ہیں نہ پورے ان کی طرف، نہ صحیح طور سے ان کی طرف“ (ویحلفون علی الکذب) کی تفسیم ابن جریر طبری نے یہ بیان کی ہے کہ منافقین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے تھے، ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، حالانکہ وہ اپنی گواہی میں جھوٹے ہوتے تھے، یعنی وہ جانتے تھے کہ صدق دل سے یہ گواہی نہیں دے رہے ہیں۔ آیات (15) سے (19) تک انہی منافقین کا حال و انجام بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے ان کے لئے بہت ہی شدید عذاب تیار کر رکھا ہے اس لئے کہ ان کے کرتوت بہت ہی برے تھے انہوں نے اپنی جانیں بچانے کے لئے اپنی جھوٹی قسموں کو ڈھال بنا لیا اور لوگوں کو در پردہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے سے روکتے رہے۔ آیت (16) میں (فصدوا عن سبیل اللہ) کا ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ جھوٹی قسموں کی وجہ سے اپنے بارے میں اللہ کے حکم یعنی قتل سے بچتے رہے، لیکن آخرت میں وہ اللہ کے رسوا کن عذاب سے نہ بچ سکیں گے۔ آیت (17) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس دن ان کے اموال اور ان کی اولاد انہیں اللہ کے مقابلے میں کوئی کام نہ آئے گی اور ان کا ٹھکانہ ہمیشہ کے لئے جہنم ہوگا۔ المجادلة
15 المجادلة
16 المجادلة
17 المجادلة
18 (12) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں دوبارہ زندہ کرے گا تو نفاق میں اپنی مہارت اور رسوخ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی اپنی صداقت و اخلاص ثابت کرنے کے لئے جھوٹی قسمیں کھانے لگیں گے جس طرح دنیا میں جھوٹی قسموں کے ذریعہ مسلمانوں کو باور کراتے تھے کہ وہ بھی مخلص مسلمان ہیں اور بھل جائیں گے کہ وہ آخرت میں جھوٹی قسمیں اس علام الغیوب کے سامنے کھا رہے ہیں جس سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے اور اس خوش فہمی میں مبتلا ہوں گے کہ ان کی جھوٹی قسمیں انہیں کچھ فائدہ پہنچا جائیں گی آیت کے آخر میں ان کے عمل کی شناخت بیان کرنے کے لئے اللہ نے کہا : (الا انھم ھم الکاذبون) ان سے بدترین جھوٹا اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ اپنی جھوٹی قسموں کے ذریعہ علام الغیوب کو اپنے سچے ہونے کا یقین دلانا چاہتے ہیں۔ المجادلة
19 (13) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کے دل و دماغ پر شیطان مسلط ہوگیا ہے، جس کے سبب جھوٹ بولنا ان کی فطرت ثانیہ بن گئی ہے، دنیا کی رنگینیوں اور عارضی لذتوں میں ڈوب گئے ہیں اور اللہ کی یاد سے یکسر ہوگئے ہیں۔ آخر میں فرمایا کہ جو اوصاف رذیلہ اور صفات خبیثہ اوپر بیان کی گئی ہیں، ان سے متصف لوگ ہی دراصل شیطان کی جماعت کے لوگ ہیں جو سر زمین میں فساد پھیلانے میں اس کی پیروی کرتے ہیں، لیکن انہیں جان لینا چاہئے کہ شیطان ان کے کام نہیں آئے گا اور وہ دونوں جہان کی سعادتوں سے محروم رہیں گے۔ المجادلة
20 (14) آیت (5) کی تفسیر میں (ان الذین یحادون اللہ و رسولہ) کی تفسیر گذر چکی ہے وہاں اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کا انجام بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ذلیل و رسوا کرے گا اور یہاں بھی ایسے لوگوں کا تقریباً ویسا ہی انجام بتایا گیا ہے کہ وہ دنیا اور آں خرت دونوں جگہ ذلیل ترین لوگ ہیں، انہیں کبھی بھی عزت نہیں مل سکتی اور بہر حال غالب اللہ اور اس کے رسول ہی رہیں گے اور ذلیل و رسوا شیطان کے پیروکار ہوں گے، اس لئے کہ اللہ سب سے زیادہ قوی اور زبردست ہے، اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ المجادلة
21 المجادلة
22 (15) اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کا ذکر کئے جانے کے بعد، اب ان اہل ایمان کا ذکر کیا جا رہا ہے جو کسی بھی حال میں اللہ کے دشمنوں سے دوستی نہیں کرتے ہیں، اس لئے کہ ایمان باللہ اور اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کی محبت ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتی اور مقصود اس آیت کریمہ سے اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کی دوستی سے ممانعت میں مبالغہ ہے، یعنی مومن کو کافروں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور ان کے ساتھ اختلاط سے بالکل اجتناب کرنا چاہئے اور اس معاملے میں مومن کے دل میں ذرا سی بھی لچک نہیں پیدا ہونی چاہئے اسی بات کو مبالغہ کی حد تک ذہن نشین کرانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چاہے وہ اللہ کے دشمن تمہارے باپ، بیٹے، بھائی یاد دیگر قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، کیونکہ ایمان مومن سے تقاضا کرتا ہے کہ اللہ کے دشمنوں سے کسی طرح کا تعلق نہ رکھا جائے۔ سورۃ آل عمران آیت (28) میں اللہ تعالیٰ نے اسی بات کو یوں بیان فرمایا ہے : (لایتخذ المومنون الکافرین اولیاء من دون المومنین ومن یفعل ذلک فلیس من اللہ فی شی الا ان تتقوا منھم تقاۃ ویحذرکم اللہ نفسہ) ” مومنوں کو چاہئے کہ ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کی حمایت میں نہیں، مگر یہ کہ ان کے شر سے کسی طرح بچاؤ مقصود ہو اور اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈرا رہا ہے۔ “ حافظ ابن کثیر نے سعید بن عبدالعزیز وغیرہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ آیت ابوعبیدہ بن الجراح کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہوں نے میدان بدر میں اپنے باپ کو قتل کردیا تھا اور ابوبکر صدیق (رض) کے بارے میں جنہوں نے اس دن اپنے بیٹے عبدالرحمٰن کو قتل کردینا چاہا تھا اور مصعب بن عمیر کے بارے میں جنہوں نے اس دن اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کردیا تھا اور عمر بن خطاب کے بارے میں جنہوں نے اس دن اپنے ایک قریبی رشتہ دار کو قتل کردیا تھا اور حمزہ علی اور عبید بن الحارث کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہوں نے اس دن عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کردیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے مومنوں کے بارے میں فرمایا کہ اس نے ان کے دلوں میں ایمان کو راسخ کردیا ہے اور دنیا میں انہیں اپنی نصرت خاص سے نوازا ہے، یعنی ان کے دشمنوں کو مغلوب کیا ہے۔ آیت میں ” روح“ سے بعض لوگوں نے اللہ کی خاص مدد مراد لی ہے، بعض نے نور قلب، بعض نے قرآن، بعض نے جبریل اور بعض نے ایمان مراد لیا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے راسخ الایمان لوگوں کو دنیا میں ضائع نہیں ہونے دیتا اس کی نصرت و تائید ان کے ساتھ ہوتی ہے اور آخرت میں ان کا مقام جنت ہوگا جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کا اللہ ان سے راضی ہوجائے گا ان پر اپنی رحمتوں کی بارش نازل کرے گا اور وہ مومنین اپنے رب کی گوناگوں نعمتیں پا کر اس سے خوش ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا میں یہی لوگ اللہ کی جماعت کے افراد ہیں اس کے اوامر کی اتباع کرتے ہیں، اس کے دشمنوں سے قتال کرتے ہیں اور اس کے دوستوں کی مدد کرتے ہیں اور اس میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اللہ کی جماعت کے لوگ ہی دنیا اور آخرت میں سعادت اور کامیابی پانے والے ہیں۔ وباللہ التوفیق المجادلة
0 سورۃ الحشر مدنی ہے، اس میں چوبیس آیتیں اور تین رکوع ہیں تفسیر سورۃ الحشر نام : سورت کی دوسری آیت : (ھو الذی اخرج الذین کفروا من اھل الکتاب من دیارھم لاول الحشر) آلایۃ میں حشر کا لفظ آیا ہے یہی اس کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی کا قول ہے کہ یہ سورت تمام کے نزدیک مدنی ہے بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس (رض) سے سورۃ الحشر کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ یہ ” سورۃ نبی نضیر“ ہے، یعنی یہ سورت انہی کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ اس سورت کی تفسیر کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ امام ابن القیم کی زاد المعاد، طبقات ابن سعد اور سیرت ابن ہشام وغیرہ کی مدد سے مدینہ کے قبائل اوس و خزرج اور ان کے قرب و جوار میں رہنے والے یہودیوں کا مختصر تعارف کرا دیا جائے۔ مدینہ کے قرب و جوار میں تین مشہور قبائل یہود رہتے تھے : بنی قینقاع، بنی نضیر اور بنی قریظہ، یہ لوگ 132 ء میں رومیوں کے مظالم سے تنگ آ کر فلسطین سے بھاگ کر حجاز آگئے تھے اور ایلہ، مقنا، تیماء وادی القریٰ، فدک اور خیبر وغیرہ کے سرسبز علاقوں میں آباد ہوگئے تھے۔ ان کے تقریباً تین صدی کے بعد قبائل اوس و خزرج، یمن کے سیلاب عظیم کی وجہ سے وہاں سے بھاگ کر یثرب میں آباد ہوگئے، رفتار زمانہ کے ساتھ بنی قینقاع قبیلہ خزرج سے اور بنی قریظہ اور بنی نضیر قبیلہ اوس سے قریب ہوتے گئے۔ یہود اپنی سود خوری اور چالاکی و عیاری کی وجہ سے یثرب اور آس پاس کے علاقوں کے اقتصاد پر قابض ہوتے گئے اور اپنی ساکھ دھاک باقی رکھنے کے لئے اوس و خزرج کو ہمیشہ لڑاتے رہے، تاکہ کہیں یہ لوگ متحد ہو کر انہیں دبا نہ دیں۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینہ تشریف لائے تو اوس و خزرج اور مہاجرین مکہ کو ملا کر مسلمانوں کی ایک وحدت قائم کی اور قبائل یہود سے امن اور مدینہ سے دفاع کا متحدہ معاہدہ کرلیا، لیکن یہود نے اس معاہدہ کی پابندی نہیں کی اور اسلام اور مسلمانوں کی روز بروز کی بڑھتی ہوئی طاقت نے ان کے دلوں میں حسد کی آگ بڑھا دی، انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو زک پہنچانے کے لئے ہر ناپاک چال چلنی شروع کردی۔ اوس و خزرج کی پرانی دشمنی کو ان کے درمیان ابھارنے لگے اور جنگ بدر کی کامیابیوں کے بعد تو ان کے بغض و حسد کی آگ اور بھڑک اٹھی بنی نضیر کے سردار کعب بن اشرف نے مکہ جا کر کفار قریش کو دوبارہ جنگ کرنے پر اکسایا اور وہاں سے واپس آ کر اس نے مسلمان عورتوں کے نام لے لے کر عشقیہ شاعری شروع کردی بالآخر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے تنگ آ کر محمد بن مسلمہ انصاری کے ذریعہ اس کو قتل کروا دیا۔ بنی قینقاع شہر یثرب میں قبیلہ خزرج کے آس پاس رہتے تھے اور آہن گری کا کام کرتے تھے، ان کو اپنی طاقت اور اپنے سات سو جوانوں پر بڑا ناز تھا۔ ایک دن انہوں نے دن دہاڑے ایک مسلمان عورت کو بازار میں ننگا کردیا جس کے نتیجے میں ایک مسلمان اور ایک یہودی کا قتل ہوگیا، اس واقعہ کے بعد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس گئے، انہیں معاہدہ یاد دلایا اور شرافت کے دائرے میں رہنے کی نصیحت کی، لیکن انہوں نے الٹا جواب دیا اور کہا کہ ہم قریش کے لوگ نہیں ہے، جنہیں تم نے میدان بدر میں شکست دے دی، ہم سے سابقہ پڑے گا تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ مرد کسے کہتے ہیں؟ ان کے اس جواب سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جان لیا کہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کی جماعت کے ساتھ جا کر ان کے محلے کا محاصرہ کرلیا، ابھی صرف پندرہ دن ہی گذرے تھے کہ انہوں نے آپ سے جان کی امان مانگ لی، آپ نے اس شرط پر ان کی جان بخشی کردی کہ وہ اپنا تمام مال و اسلحہ اور سامان حرفت و صنعت چھوڑ کر مدینہ سے نکل جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایسا رعب داخل کردیا کہ صدیوں سے بسے بسائے گھروں کو پورے سامان کے ساتھ چھوڑ کر وہاں سے خیبر کی طرف چلے گئے، اس واقعہ کے بعد باقی یہود مدینہ کچھ دن تک تو خائف رہے، لیکن جنگ احد کے ایام میں منافقین کے اکسانے پر، اور خود اپنی فطری خباثت کی وجہ سے، مدینہ سے دفاعی معاہدہ کے پابند نہیں رہے اور جنگ احد کے بعد جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنی نضیر کی بستی میں تشریف لے گئے تاکہ وہ بنی عامر کے ساتھ معاہدے کے مطابق ایک مقتول کی دیت ادا کرنے میں مسلمانوں کے ساتھ تعاون کریں تو انہوں نے موقع کو غنیمت جان کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کردینے کی سازش کرلی اور طے کیا کہ آپ کے سر پر دیوار کے اوپر سے ایک بڑا پتھر گرا دیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے بروقت بذریعہ وحی آپ کو اس کی اطلاع دے دی چنانچہ وہاں سے فوراً صحابہ کرام کے ساتھ واپس آگئے اور انہیں خبر بھیج دی کہ وہ دس دن کے اندر اپنی بستی چھوڑ دیں، لیکن انہوں نے عبداللہ بن ابی بن سلول کی شہ پار کر ایسا کرنے سے انکار کردیا تو آپ نے ربیع الاول 4ٌ میں اس کا محاصرہ کرلیا اور بالآخر چند ہی دنوں کے محاصرے کے بعد اس شرط پر اپنی بستی چھوڑ کر چلے جانے پر آمادہ ہوگئے کہ وہ اسلحہ کے علاوہ جو کچھ بھی اپنے اونٹوں پر لے جا سکیں لے جائیں ان میں سے صرف دو آدمی یامین بن عمیر بن کعب اور ابو سعد بن وہب مسلمان ہوگئے اور باقی خیبر اور ان میں سے بعض شام چلے گئے، بنی نضیر کی اسی جلا وطنی کو قرآن کریم نے ” اول حشر“ سے تعبیر کیا ہے وہ لوگ دوسری بار عمر بن خطاب (رض) کے زمانے میں خیبر سے جلا وطن ہو کر شام چلے گئے جو ان کا ” حشر ثانی“ تھا، اور تیسرا حشر قیامت کے دن ہوگا جس کے بارے میں بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ وہ سر زمین شام میں ہی ہوگا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے چھوڑے ہوئے اموال و اسباب کو مہاجرین میں تقسیم کردیا، بنو نضیر کی جلا وطنی کا مذکورہ بالا واقعہ ہی اس سورت کا مرکزی موضوع ہے اب آئیے ہم سورت کا مطالعہ کریں۔ الحشر
1 (1) سورۃ الحدید کی آیت (1) کی تفسیر میں بیان کیا جا چکا ہے کہ آسمان اور زمین میں جتنے حیوانات، نباتات اور جمادات ہیں، سب اللہ کی پاکی اور بڑائی بیان کرتے ہیں اور اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ وہ ذات برحق اپنے لئے کسی قسم کے ساجھی اور اولاد وغیرہ سے پاک ہے، وہ اکیلا ہے، اور ہر قسم کی عبادت کا تنہا حقدار ہے، ربوبیت، الوہیت، علم، قدرت اور مخلوقات کی تدبیر میں اس کا کؤی شریک نہیں ہے۔ الحشر
2 (2) آیت میں مذکور اہل کتاب کافروں سے مراد بنی نضیر ہیں جو ہارون (علیہ السلام) کی اولاد سے تھے اور رومانیوں کے ظلم سے تنگ آ کر مدینہ چلے آئے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا انتظار کرتے تھے جب آپ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو آپ سے دشمنی کرنے لگے اور نوبت بایں جارسید کہ آپ نے انہیں مدینہ سے جلا وطن کردیا، جسے اس آیت میں ” اول حشر“ سے تعبیر کیا گیا ہے، ابن العربی نے لکھا ہے کہ ان کا پہلا حشر مدینہ سے خیبر کی طرف جلا وطن ہونا تھا اور دوسرا حشر خیبر سے شام کی طرف ان کی جلا وطنی تھی اور آخری حشر قیامت کے دن ہوگا کہاں جاتا ہے کہ سر زمین شام ہی میدان محشر بنے گی، عکرمہ کا قول ہے جہ جسے قیامت کے دن سر زمین شام کے میدان محشر بننے میں شبہ ہو وہ اس آیت کو پڑھے۔ بنی نضیر کے قلعے بڑے مضبوط تھے اور وہ اپنی حفاظت کے لئے ہر طرح کا ساز و سامان بھی رکھتے تھے اس لئے صحابہ کرام کے شان و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ وہ اپنے محلات اور قصور چھوڑ کر چلے جانے پر مجبور ہوجائیں گے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ انہوں نے اپنی جلا وطنی قبول کرلی اور صدیوں میں سے جمے جمائے گھروں اور مال و دولت کو چھوڑ کر وہاں سے ہمیشہ کے لئے نکل گئے۔ (یحزبون بیوتھم بایذیھم وایذی المومنین) الآیۃ کی تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ جب انہیں اپنی جلا وطنی کا یقین ہوگیا تو سوچا کہ اب ان گھروں پر مسلمان قابض ہوجائیں گے، اس لئے انہوں نے شدت حسد میں آ کر ان گھروں کو اندر سے خراب کرنا شروع کردیا اور مسلمان انہیں مزید تکلیف پہنچانے کے لئے ان گھروں کو باہر سے خراب کرنے لگے اور ان کے کھجور کے درختوں کو کاٹنے لگے۔ زہری، ابن زید اور عروۃ بن زبیر کہتے ہیں کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے اس طلب پر راضی ہوگئے کہ وہ اپنے اونٹوں پر جتنا سامان لاد کرلے جا سکیں لے جائیں تو اپنے گھروں سے لکڑیوں اور کھمبوں کو نکال کر اپنے اونٹوں پر لادنے لگے اور جو حصہ باقی بچا اسے مسلمانوں نے خراب کردیا۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس واقعہ سے عبرت حاصل کرنے کی نصیحت کی ہے کہ زمین میں فساد پھیلانے والوں پر کس طرح اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے اور اللہ کے وعدہ نصرت و تائید اور اپنے دشمنوں کے لئے انجام بد کی وعید دونوں میں کتنی صداقت ہوتی ہے۔ الحشر
3 (3) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ان کی قسمت میں پہلے سے جلا وطنی نہ لکھ دی گئی ہوتی تو اللہ تعالیٰ بنی قریظہ کی طرح انہیں بھی دنیا میں قید و بند اور قتل کی سزا دیتا اور آخرت میں جہنم کی آگ تو ان کا انتظار کر ہی رہی ہے اور وہ اس دنیاوی اور اخروی سزا اور عذاب کے مستحق اس لئے ہوئے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور نقض عہد کیا اور جن کے کرتوت ایسے ہوتے ہیں اللہ انہیں دنیا اور آخرت دونوں جگہ بڑا ہی سخت عذاب دیتا ہے۔ الحشر
4 الحشر
5 (4) محمد بن اسحاق نے یزید بن رومان، قتادۃ اور مقاتل بن حیان کا قول نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنی نضیر کا محاصرہ کرلیا تو انہیں ذلیل و رسوا کرنے اور ان کے دلوں میں رعب ڈالنے کے لئے بعض صحابہ کرام کو حکم دیا کہ ان کی کھجوروں کے بعض درخت کاٹ ڈالیں چنانچہ انہوں نے بعض درخت کاٹ ڈالے تو بنی نضیر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہلا بھیجا کہ تم تو زمین میں فساد پھیلانے سے روکتے ہو پھر درختوں کو کاٹنے کا کیسے حکم دیتے ہو؟! تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے فعل کو جائز رقار دیا بلکہ یہ کہا کہ جو کچھ ہوا اللہ کے حکم سے ہوا اور اس لئے ہوا تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے اور اپنے رسول کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کرے۔ الحشر
6 (5) بعض صحابہ نے چاہا کہ بنی نضیر کے چھوڑے ہوئے اموال دیگر اموال غنیمت کی طرح ان کے درمیان تقسیم کردیئے جائیں، حالانکہ وہ اموال غنیمت نہیں تھے، اس لئے کہ اس کے لئے صحابہ کو جنگ نہیں کرنی پڑی تھی اور نہ دور دراز کا سفر کرنا پڑا تھا، بلکہ صرف دو میل کی مسافت پیدل چل کر بنی نضیر کے محلات تک پہنچ گئے اور انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا اور اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، اس لئے بغیر کسی مزاحمت کے صرف چند دنوں کے بعد سب کچھ چھوڑ کر وہاں سے کوچ کر گئے ایسے مال کو فقہ اسلامی کی اصطلاح میں ” مال فئے“ کہا جاتا ہے اور وہ مال غنیمت کی طرح تقسیم نہیں کیا جاتا بلکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار تھا کہ وہ جیسے چاہیں اس میں تصرف کریں۔ آیت (7) میں آیت (6) کی تشریح کی گئی ہے، اسی لئے دونوں کے درمیان حرف عطف نہیں استعمال کیا گیا ہے، اور (اھل القری) سے مراد بنی نضیر کے یہود ہیں اور اس مال کا حکم یہ ہے کہ یہ اللہ، اس کے رسول، رسول اللہ کے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کیلئے ہے، ایسا نہیں ہے کہ اسے بھی مال غنیمت کی طرح تقسیم کردیا جائے تاکہ مالدار مزید مالدار بن جائیں، اور فقرائے صحابہ کی محتاجی دور نہ ہو۔ (کی لایکون دولۃ بین الاغنیاء منکم) کا ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ دور جاہلیت میں یہ نظام تھا کہ اموال غنائم صرف مالداروں میں تقسیم ہوتے تھے، اللہ تعالیٰ نے رسم جاہلی کو توڑنے کے لئے آیت کا یہ حصہ نازل فرمایا اور بتایا کہ اموال غنیمت میں تمام مجاہدین کا حق ہے، اور ” مال فئی“ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی مرضی کے مطابق تصرف کریں گے۔ بعض مفسرین کا خیال ہے جسے ابن جریر نے نقل کیا ہے کہ سورۃ الحشر کی یہ آیت مجمل ہے جس کی تفصیل سورۃ الانفال کی آیت (14) (واعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ و للرسول ولذی القربی و الیتامی والمساکین و ابن السبیل) میں بیان کی گئی ہے بلکہ قتادہ کا قول ہے کہ سورۃ الحشر کی یہ آیت سورۃ الانفال کی مذکورہ بالا آیت کے ذریعہ منسوخ ہوچکی ہے، یعنی ” مال فئی“ اب کوئی چیز نہیں ہے، سب پر مال غنیمت کا ہی اطلاق ہوگا اور اموال غنیمت پہلے پانچ حصوں میں تقسیم کئے جائیں گے، چار حصے مجاہدین کے لئے اور پانچواں حصہ پھر پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، ایک حصہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے ایک حصہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں ان کے رشتہ داروں کے لئے، ایک حصہ یتیموں کے لئے، ایک حصہ مساکین کے لئے اور ایک حصہ مسافروں کے لئے آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصیحت کی ہے کہ انہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے جو ملے اس پر راضی رہنا چاہئے اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں کچھ نہ بھی دیں تو تب بھی ان کے فیصلے پر راضی رہنا چاہئے اس میں اموال غنیمت اموال فئی اور دیگرت مام چیزیں داخل ہیں، علماء نے اسی آیت سے استدلال کر کے کہا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہر صحیح حدیث قرآن کے حکم میں داخل ہے۔ الحشر
7 الحشر
8 (6) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ مال فئی میں جن لوگوں کا گزشتہ آیت میں حق بتایا گیا ہے، ان میں سب سے زیادہ اہتمام اور ہمدردی کے مستحق وہ مہاجر فقراء ہیں جنہوں نے اللہ کی رضا اور اس کے دین کی مدد کے لئے اپنا گھر بار چھوڑ دیا اور مدینہ اس حال میں پہنچے کہ ان کے پاس نہ کھانے کے لئے روٹی تھی اور نہ تن ڈھانکنے کے لئے کپڑا اور چونکہ ان کے اخلاص عمل کے ذریعہ ان کے دعوے ایمان کی تصدیق ہوتی تھی، ان کا انگ انگ بتا رہا تھا کہ انہوں نے سب کچھ صرف اللہ کے لئے لٹایا ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں ” صادقین“ کے لقب سے نوازا۔ الحشر
9 (7) اللہ تعالیٰ نے ان کے دینی بھائیوں، یعنی انصار کو بھی کیا ہی خوب بنایا تھا اور ایثار و قربانی کے جذبہ سے کیسا نوازا تھا کہ اس نے اس آیت کریمہ میں ان کے لئے ایمان صادق، اپنے مہاجر بھائیوں سے سچی محبت اور جذبہ ایثار و قربانی کی گواہی دی اور فرمایا کہ جو مومنین دارالہجرت (مدینہ) میں پہلے سے آباد ہیں اور مہاجرین کی آمد سے پہلے ایمان و ایقان کی شمع ان کے دلوں میں روشن ہوچکی ہے، وہ تو اپنے مہاجر بھائیوں سے بڑی محبت کرتے ہیں اور چاہے مہاجرین کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے جو کچھ بھی دے دیا جائے وہ لوگ اپنے دل میں ذرا بھی تنگی نہیں محسوس کرتے ہیں اور اپنے گھروں میں حاجت اور فاقہ کشی ہونے کے باوجود ہمیشہ یہی چاہتے ہیں کہ ان کے مہاجر بھائی آرام سے رہیں اور ان کے بال بچوں کو تکلیف نہ پہنچے اور ان کے انہی صفات عالیہ اور اخلاق فاضلہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آیت کے آخر میں فرمایا کہ ان کے دلوں سے مال کی غیر شرعی محبت نکال دی گئی ہے، یہ لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے ذرا بھی نہیں کتراتے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا کہ وہ انہیں دونوں جہان کی سعادت و نیک بختی سے نوازے گا۔ ” شح“ عربی زبان میں بخل کو کہتے ہیں ابن جری نے لکھا ہے کہ یہاں اس سے مقصود لوگوں کا مال ناحق کھا جاتا ہے۔ سعید بن جبیر کا قول ہے کہ اس کا معنی ” حرام مال کھانا اور زکاۃ نہ دینا ہے“ ابن زید کہتے ہیں کہ جس نے مال حرام نہیں لیا اور اللہ نے جو دینے کا حکم دیا ہے اسے نہیں روکا، وہ ” شمع نفس“ سے بچ گیا۔ انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اللہ کی شہادت کے مطابق اس ایمانی اور اخلاقی بیماری سے پاک تھے۔ امام بخاری نے اس آیت کی تفسیر میں عمر بن خطاب (رض) سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا کہ میں اپنے آنے والے خلیفہ کو ” مہاجرین اولین“ کے حقوق کی حفاظت اور ان کا احترام محلوظ رکھنے کی وصیت کرتا ہوں اور انصار کا خیال رکھنے کی نصیحت کرتا ہوں جو دارالہجرت (مدینہ) میں پہلے سے آباد ہیں اور جو مہاجرین کی آمد کے قبل سے ہی اپنے دلوں میں ایمان کی شمع جلائے بیٹھے ہیں۔ بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ (ویوترون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃ) ابوطلحہ انصاری (رض) کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہنے پر ایک بھوکے مسافر کی اپنے گھر میں دعوت کی، اپنے بچوں کو بھوکا دیا اور چراغ بجھا کر اپنا اور اپنے بال بچوں کا کھانا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس بھوکے مہمان کو کھلا دیا تھا۔ الحشر
10 (8) ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو مدینہ ہجرت کر کے اس وقت آئے جب اسلام قوی ہوچکا تھا، یعنی ان مہاجرین اولین کے بعد آئے جنہیں ان کے گھروں سے اسلام کی وجہ سے نکنلے پر جمبور کردیا گیا تھا بعض حضرات نے ان سے مراد وہ تمام مومنین لئے ہیں جو مہاجرین مکہ اور انصار مدینہ کے بعد قیامت تک دنیا میں آئیں گے اس دوسری رائے کی مصداق سورۃ التوبہ کی آیت (100) ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (والسابقون الاولون من المھاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی اللہ عنھم و رضواعنہ) ” اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے۔ “ مہاجرین اولین اور انصار مدینہ کے بعد آنے والے مومنوں کا وطیرہ یہ ہوتا ہے کہ جب یہ لوگ اپنے رب کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں تو اپنے ساتھ اپنے تمام گزشتہ مسلمان بھائیوں کے لئے بھی دعا کرتے ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ صفت ایمان میں مشارکت کی وجہ سے مومنین ایک دوسرے کے کام آتے ہیں، ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے دعا کرتے ہیں، اسی لئے تو دعا کے دوسرے حصہ میں ” دل میں کھوٹ“ کی نفی کی گئی ہے، جس کی ضد ” آپس میں محبت“ ہے۔ صحابہ کرام کے ذکر کے بعد دعا میں (الذین سبقونا بالایمان) کا قول اس بات کی دلیل ہے کہ اس آیت میں مذکور مومنوں سے مراد وہ اہل سنت و جماعت ہیں جن کا ایمان و عقیدہ صحابہ کرام جیسا ہوتا ہے اور جو صحابہ کرام سے محبت کرتے ہیں اور ان کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ جو لوگ صحابہ کرام سے نفرت کریں گے، ان کے خلاف دل میں بغض و کینہ کھیں گے، ان سے اللہ کبھی بھی راضی نہیں ہوگا اور وہ دنیا و آخرت کی سعادت سے محروم کردیئے جائیں گے، چاہے وہ رافضی شیعہ ہوں یا دوسرے ملحدین جو صحابہ کرام کی دل سے قدر نہیں کرتے ہیں، امام مالک رحمہ اللہ نے اسی آیت سے استدلال کر کے کہا ہے کہ جو رافضی صحابہ کرام کو گالی دیتا ہے اس کے لئے مال فئی میں کوئی حصہ نہیں یہ، اس لئے کہ اس آیت میں مذکور مومنین کی کوئی صفت ان میں نہیں پائی جاتی ہے۔ امت اسلامیہ کے یہی تینوں قسموں کے مومنین ہیں جو مال فئی کے حقدار ہیں، اور جنہیں مال دینا درحقیقت اسلام کو نفع پہنچانا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل کر دے۔ آمین، یا رب العالمین الحشر
11 (9) اس آیت کریمہ کا تعلق آیت (2) میں مذکور بنی نضیر کے محاصرہ اور پھر ان کی جلا وطنی سے ہے، جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کے ساتھ ان کی بستی کا محاصرہ کرلیا تو سردار ان منافقین نے ان کو پیغام بھیجا کہ تم لوگ ثابت قدم رہو اور اپنے قلعوں سے نکلو، ہم لوگ تمہیں مسلمانوں کے حوالے نہیں ہونے دیں گے اور اگر جنگ کی نوبت آئے گی تو تمہارے شانہ بہ شانہ جنگ کریں گے اور اگر تمہیں مدینہ سے جانا پڑا تو ہم بھی تمہارے ساتھ جائیں گے۔ چنانچہ بنی نضیر منافقین کے اس جھوٹے وعدے کی وجہ سے کچھ دنوں تو ڈٹے رہے، لیکن جب انہوں نے ان کی طرف سے کوئی عملی اقدام نہیں دیکھا تو اللہ کا ایسا کرنا ہوا کہ ان پر مسلمانوں کا شدید رعب اور دبدبہ طاری ہوگیا اور فوراً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر کی کہ انہیں قتل نہ کیا جائے بلکہ یہاں سے انیں نکل جانے کی اجازت دے دی جائے، اس شرط کے ساتھ کہ وہ اپنے اونٹوں پر ہتھیار کے علاوہ جتنا سامان لے جا سکیں لے جائیں۔ آیت (21) میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کی کذب بیانی، افترا پردازی اور نفاق و بزدلی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ انہوں نے کب اپنے وعدوں کی پابندی کی ہے کہ وہ بنی نضیر کا ساتھ دیتے ان کے ساتھ قتال کرتے اور اگر بالفرض انہیں مجبوراً قتال میں ان کا ساتھ دینا بھی پڑتا تو وہ کبھی بھی ثابت قدم نہیں رہتے، بلکہ انہیں میدان جنگ میں تنہا چھوڑ کر بھاگ پڑتے۔ آیت (31) میں مسلمانوں کو یہود و منافقین کی بزدلی اور ان کے میدان جنگ چھوڑ کر بھاگنے کا سبب یہ بتایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں تمہاری تلواروں کی کاٹ سے زیادہ ڈرتے ہیں، انہوں نے اللہ کا مقام سمجھا ہی نہیں، اسی لئے ان کے دل اللہ کے بجائے لوگوں کے ڈر سے کانپتے ہیں جو کسی بھی نفع یا نقصان کی قدرت نہیں رکھتے حقیقی سمجھ تو یہ ہے کہ بندہ اپنے خالق کے مقام و مرتبہ کو سمجھے، اسی سے ڈرے، اسی سے امید رکھے اور اس کی محبت کو ہر شخص اور ہر چیز کی محبت پر مقدم رکھے۔ الحشر
12 الحشر
13 الحشر
14 (10) اس آیت کریمہ میں یہود اور منافقین کی بزدلی اور مسلمانوں سے ان کی مرعوبیت کا حال بیان کیا گیا ہے کہ مسلمانو ! ان میں تم سے آمنے سامنے برسر پیکار ہونے کی جرأت نہیں ہے وہ تم پر دیواروں کی آڑ لے کر یا بند قلعوں کے اندر سے ہی حملہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ وہ بڑی قوت و ہمت والے ہیں، تو وہ اس کا مظاہرہ اس میں لڑتے وقت کرتے ہیں، لیکن جب ان کا سابقہ مسلمانوں سے پڑے گا تو ان کی ساری قوت جاتی رہے گی، اس لئے کہ جو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرتا ہے، اللہ اسے بزدل و ذلیل بنا دیتا ہے۔ اے میرے نبی ! ان کا حال تو یہ ہے کہ آپ انہیں بظاہر متفق و متحد دیکھتے ہیں، لیکن ان کے دل ایک دوسرے سے مختلف اور بیگانہ ہیں، اس لئے کہ وہ عقل و خرد سے محروم ہیں، جبھی تو ایمان نہیں لاتے ہیں جو حقیقی محبت و اتحاد اور جمعیت کا ذریعہ ہے۔ صاحب محاسن التنزیل لکھتے ہیں کہ مذکور بالا تینوں آیتوں میں مومنوں کو یہود و منافقین سے جنگ پر ابھارا گیا ہے، اور انہیں خوشخبری دی گئی ہے کہ وہ ان سے جب بھی جہاد کریں گے، اللہ کی تائید سے انہیں ان پر فتح حاصل ہوگی۔ الحشر
15 (11) بنی نضیر کے یہودیوں پر اللہ تعالیٰ کا جو فوری عذاب دنیا میں نازل ہوا، تو اس بارے میں ان کی مثال ان کفار قریش کی ہے جن پر میدان بدر میں اللہ کا عذاب نازل ہوا، یا بنو قینقاع کے یہودیوں کی مثال ہے جنہیں ابھی کچھ ہی دنوں قبل ان کی بد عہدی اور شرارتوں کی وجہ سے مدینہ سے جلا وطن ہونا پڑا ہے۔ بنی قینقاع کی بد عہدی اور پھر ان کی جلا وطنی کی تفصیل اس سورت کی تفسیر کے مقدمہ میں گذر چکی ہے۔ الحشر
16 (12) جن منافقین نے بنی نضیر کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر ابھارا، ان سے جھوٹا وعدہ کیا کہ وہ ان کا ساتھ دیں گے اور اگر مدینہ چھوڑنے کی نوبت آئی تو وہ بھی ان کے ساتھ نکل جائیں گے، ان کی مثال شیطان کی ہے جس نے انسان کو دھوکہ دیا اور کہا کہ تم اللہ کا انکار کر دو اور میری پیروی کرو اور جب وقت آئے گا تو میں تمہاری مدد کے لئے تیار ہوں اور جب انسان نے اس کی باتوں میں آ کر اللہ کا انکار کردیا تو اس ڈر سے کہ کہیں اللہ اسے بھی عذاب میں شریک نہ کردے، فوراً اس آدمی اور اس کے الحاد و کفر سے اپنی برأت کا اعلان کردیا اور کہنے لگا کہ میں اللہ کہ میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں کہ اگر میں نے تمہاری مدد کی تو وہ میری گرفت کرے گا، لیکن نہ شیطان کو اس کی برأت کام آئی اور نہ ہی کافر کو وعدہ شیطان اور دونوں ہمیشہ کے لئے جہنم میں ڈال دیئے گئے۔ آگے فرمایا کہ اللہ اور اس کے بندوں کے حق میں ظلم کرنے والوں کا انجام ہمیشہ سے ایسا ہی ہوا ہے۔ الحشر
17 الحشر
18 (13) مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت کریمہ ” محاسبہ نفس“ کے باب میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے، مومنوں کو اللہ تعالیٰ نے اس میں نصیحت کی ہے کہ وہ ظاہر و پوشیدہ ہر حال میں اللہ سے ڈرتے رہیں، فرائض و واجبات کی ادائیگی کا اہتمام کریں اور محرمات و ممنوعات سے بچتے رہیں اور ہر وقت اپنی آخرت کی سدھار کی کوشش میں لگے رہے ہیں اور ہر دم یہ خیال رہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو دیکھ رہا ہے اور انہیں ریکارڈ میں لا رہا ہے، کوئی چیز اس کے علم سے مخفی نہیں ہے۔ آیت (91) میں اللہ نے مومنوں کو نصیحت کی کہ وہ دنیا کی شہوتوں اور لذتوں میں مشغول ہو کر، اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوجائیں، ورنہ وہ انہیں یہ سزا دے گا کہ انہیں روحانی رفعت و بلندی کے حص پر دھیان دینے سے غافل کر دے گا اور وہ اپنے جسموں کے آرام و آسائش کو ہی اپنا مطمع نظر بنا لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکہف آیت (82) میں فرمایا ہے : (ولاتعلع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا واتبع ہواہ وکان امرہ فرطاً) ” اور آپ اس کا کہنا نہ مانئے جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا رہا ہے اور جس کا معاملہ حد سے بڑھ گیا ہے۔ “ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ دین اسلام کی حدود کو پھلانگ گئے، اللہ کے ساتھ بدعہدی کی اور اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت اور غداری کی، وہی لوگ درحقیقت اللہ کی بندگی سے روگردانی کرنے والے ہیں۔ الحشر
19 الحشر
20 (14) اہل جہنم اور اہل جنت ہرگز ایک دوسرے کے برابر نہیں ہو سکتے ہیں۔ یہ حکم عام ہے، اس لئے اہل جہنم میں اللہ کی یاد سے غافل اور اہل جنت میں اسے یاد کنے والے اور اس سے ڈرنے والے بدرجہ اولیٰ داخل ہیں، اس لئے کہ آیتوں کا سیاق و سباق انہیں دونوں قسموں کے بارے میں ہے اور اس حکم عام کے بعد، اللہ تعالیٰ نے صراحت کردی کہ حقیقی کامیابی و کامرانی تو صرف اہل جنت کے لئے ہے کہ انہیں ہر مصیبت و تکلیف سے نجات مل جائے گی اور ہر راحت و نعمت سے سرفراز کئے جائیں گے۔ الحشر
21 (15) اہل جنت اور اہل جہنم کا فرق مراتب بیان کئے جانے کے بعد، اب قرآن کریم کی عظمت شان بیان کی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ وہ کتاب عظیم ہے جسے سن کر لوگوں کے دلوں میں اللہ کی خشیت پیدا ہونی چاہئے اور ان پر غایت درجہ کی رقت طاری ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ہم پہاڑوں کو قرآن کی عظمت و جلال کا ادراک دے دیتے اور انہیں اس میں موجود اوامرونواہی کا پابند بنا دیتے تو وہ اللہ کی عظمت و کبریائی کے لئے ہر دم جھکے رہتے اور اس کے شدت خوف سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے لیکن انسان اپنی حقیقت کو فراموش کر گیا کہ وہ منی کے ایک حقیر قطرہ سے پیدا گیا ہے اور وہ اللہ کی قدرت کے سامنے نہایت کمزور و ناتواں ہے اور کبر و غرور میں مبتلا ہوگا ی، اس لئے اس کا دل سخت ہوگیا تو اللہ نے اس پر رحم کرتے ہوئے پہاڑ کی مذکور بالا مثال دی تاکہ اس میں غور کر کے اپنی حالت بدلے، کبر و غرور سے باز آئے اور اللہ کی کبریائی کا تصور کر کے اس سے ہر دم خائف و ترساں رہے۔ الحشر
22 (16) ذیل میں مذکورہ تینوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت و کبریائی کے اوصاف بیان کر کے، انسانوں کو مزید تنبیہہ کی ہے کہ ان کے دل باری تعالیٰ کی خشیت سے کیسے خالی ہوتے ہیں، ان پر کپکپی کیوں طاری نہیں ہوتی، وہ تو وہ معبود برحقہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تو غائب و حاضر سب کچھ کا جاننے والا ہے، اس کی رحمت عام و خاص تو سارے جہان کی مخلوقات کو ڈھانکے ہوئی ہے۔ الحشر
23 (17) اللہ کی ذات تو وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں، وہ تو شاہ بے نیاز ہے، جس کا ہر کوئی محتاج ہے، اسی کا نظام اور اسی کا حکم ہر چیز پر نافذ ہے، وہ ہر عیب و نقص سے یکسر پاک ہے، اسی سے امن و سلامتی کے سوتے پھوٹتے ہیں، اس کی مخلوق اس کے ظلم سے قطعی امان میں ہے، وہی یقین و ایمان کی دولت سے سرفراز بندوں کو قیامت کے دن سکون و اطمینان سے نوازنے والا ہے، وہ ہر چیز پر مطلع، ہر چیز پر غالب، اور اپنی تمام مخلوق کی حفاظت کرنے والا ہے وہ زبردست اور ایسا قوی ہے جسے کوئی مغلوب نہیں بنا سکتا اس کی مشیت ہر شخص اور ہر چیز پر نافذ ہوتی رہتی ہے اور اس پر کسی کی مشیت نافذ نہیں ہوتی اور کوئی چیز اس کے قبضہ قدرت سے خارج نہیں ہے اس کی شان کبریائی تو ایسی ہے کہ اس کی ذات کے مقابلے میں ہر چیز حقیر ہے اور ہر عظمت و کبریائی صرف اسی کی ذات کے لئے وہ شہنشاہ دوجہاں ہے اور سب اس کے بندے اور مملوک ہیں۔ الحشر
24 (18) وہ تو وہ ہے جس نے تمام چیزوں کو اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق پیدا کیا ہے، انہیں عدم سے وجود میں لایا ہے اور پوری کائنات کی جیسی چاہی تصویر گری کی ہے، تمام اچھے اور پیارے نام صرف اسی کے لئے ہیں اور اسی کو زیب دیتے ہیں اور آسمانوں اور زمین میں پائے جانے والی تمام مخلوقات اسی کی پاکی بیان کرتی ہیں وہ بڑا ہی زبردست اور بڑی حکمتوں والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اسمائے حسنی سے متعق سورۃ الاعراف آیت (180) میں فرمایا ہے : (وللہ الاسماء الحسنی قادعوہ بھاو ذرو الذین یلحدون فی اسماۂ) ” اور اچھے اور پیارے نام اللہ ہی کے لئے ہیں، پس تم لوگ اسے انہی ناموں سے پکارو اور ایسے لوگوں سے تعلق نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں“ مزید تفصیل کے لئے اس آیت کی تفسیر دیکھ لیجیے۔ (وباللہ التوفیق) الحشر
0 سورۃ الممتحنہ مدنی ہے، اس میں تیرہ آیتیں اور دو رکوع ہیں تفسیر سورۃ المتحنہ نام : آیت (10) (یا ایھا الذین امنوا اذا جائکم المومنان ماجرات فامتحنوھن اللہ اعلم بایمانھن) سے ماخوذ ہے اور یہ نام حرف ” حاء“ کے کسرہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ پڑھا جاتا ے۔ المصحنۃ(بکسر الحاء) (امتحان لینے والی) اس اعتبار سے ہے کہ اس سورت نے صلح حدیبیہ کے بعد ہجرت کر کے مدینہ آنے والی نئی مسلمان عورتوں کے ایمان کا امتحان لیا اور المتحنۃ(بفتح الحاء) (وہ عورت جس کا امتحان لیا گیا) اس عورت کے اعتبار سے ہے جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی اور جس کے ایمان کا امتحان لینے کا اس سورت میں حکم دیا گیا تھا اس کا نام ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط تھا، جیسا کہ اس آیت کی تفسیر میں آئے گا۔ زمانہ نزول : قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ سورت سب کے نزدیک مدنی ہے ابھی پہلی آیت کے شان نزول کے سلسلے میں حاطب بن ابی بلتعہ (رض) کے واقعہ کا ذکر آئے گا جو صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ کے قبل کا ہے اس سے اس سورت کے زمانہ نزول کی تحدید ہوجاتی ہے کہ یہ فتح مکہ کے قبل نازل ہوئی تھی۔ الممتحنة
1 (1) اس بات پر تمام محدثین و مفسرین کا اتفاق ہے کہ اس سورت کی ابتدائی آیتوں کا سبب نزول حاطب بن ابی بلتعہ (رض) کا واقعہ ہے جو مہاجرین اولین اور بدری صحابیوں میں سے ہیں۔ امام احمد، بخاری و مسلم اور محمد بن اسحاق نے اپنی صحیح سندوں کے ساتھ اس بارے میں جو روایتیں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، عروہ بن الزبیر اور دیگر علمائے سیرت و تاریخ سے نقل کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد جب اہل مکہ نے معاہدے کی پابندی نہیں کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ پر چڑھائی کرنے کا پختہ عزم کرلیا اور مسلمانوں کو ایک غزوہ میں شرکت کے لئے تیار ہونے کا حم دے دیا اور یہ بات چند ہی صحابہ کرام کو بتائی کہ ان کا ارادہ فتح مکہ کا ہے حاطب بن ابی بلتعہ (رض) مکہ کے رہنے والے نہیں تھے وہ کہیں دوسری جگہ سے آ کر وہاں عثمان بن عفان (رض) کے حلیف کی حیثیت سے اقامت پذیر ہوگئے تھے، وہ خود تو ہجرت کر کے آگئے تھے لیکن ان کی اولاد اور ان کے بھائی اور چچا غیرہ ابھی مکہ میں ہی تھے، انہوں نے سوچا کہ اگر مسلمانوں نے مکہ پر حملہ کیا تو دوسرے مہاجر صحابہ کے خاندان والے وہاں موجود ہیں جو مکہ میں موجود ان کے بال بچوں کو قتل ہونے سے بچا لیں گے، ان کے خاندان والے وہاں نہیں ہیں، اس لئے اگر وہ بعض اعیان قریش کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارادے سے مطلع کردیں گے تو وہ ضرورت کے وقت ان کے بچوں اور رشتہ داروں کو قتل ہونے سے بچا لیں گے۔ اسی لئے انہوں نے بنی عبد المطلب کی سارہ نامی ایک مشترکہ لونڈی کو خط لکھ کر مکہ روانہ کیا (جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مالی مدد کے لئے آئی تھی) اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی اس کی اطلاع دے دی آپ نے فوراً علی، ابومرثد اور زبیر بن العوام تین مشہور گھوڑ سواروں کو اس سے خط چھین لینے کے لئے روانہ کیا، اور فرمایا کہ وہ عورت تمہیں (روضہ خاخ) میں مل جائے گی اگر وہ تمہیں خط دے دے تو اسے چھوڑدینا، ورنہ اسے قتل کردینا انہوں نے اسے (روضہ خاخ) میں جالیا، اور بڑی دھمکیوں کے بعد اس نے وہ خط اپنے بال کے جوڑے سے نکال کردیا جس میں حاطب نے بعض مشرکین مکہ کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارادے کی خبر دی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حاطب سے پوچھا کہ ایسا تم نے کیوں کیا؟ تو انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول ! آپ میرے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کیجیے پھر انہوں نے خط لکھنے کا اصل سبب بیان کیا اور کہا کہ میں کافر نہیں ہوگیا ہوں اور اپنے دین سے پھر نہیں گیا ہوں۔ آپ نے صحابہ سے کہا کہ یہ سچ کہہ رہا ہے تو عمر (رض) سے کہا، اے اللہ کے رسول ! مجھے اجازت دیجیے کہ اس کی گردن مار دوں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حاطب غزوہ بدر میں شریک ہوا تھا اور تمہیں کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ بدری صحابیوں کے دلوں سے خوب واقف تھا، اس لئے فرمایا ” اعملوا ماشئتم، فقد غفرت لکم“ ” اے اصحاب بدر اب تم چاہے جیسا عمل کرو، میں نے تمہیں معاف کردیا“ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات سن کر عمر (رض) کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور کہا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ اسی حادثہ کے بعد اس سورت کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ایمان والو ! تم لوگ ان کافروں اور مشرکوں کو اپنا دوست نہ بناؤ جو میرے اور تمہارے دشمن ہیں تم انہیں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جنگی اسرار بتاتے ہو، حالانکہ وہ تمہارے دین حق کے منکر ہیں اور انہوں نے ہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکال دیا تھا، حالانکہ تمہارا اس کے سوا کوئی قصور نہیں تھا کہ تم اپنے رب پر ایمان لائیتھے۔ یہ ظالم کفار اس لائق نہیں ہیں کہ تم انہیں اپنا دوست بناؤ۔ اگر تم مکہ سے میری راہ میں جہاد کرنے کے لئے اور میری رضا کی جستجو میں نکلے تھے تو تمہیں ان کافروں کو درست نہیں بنایا چاہئے جو میرے اور تمہارے دشمن ہیں۔ تم ان سے اظہار دوستی کے لئے خفیہ طور پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبریں ان تک پہنچانا چاہتے ہو، حالنکہ میں تو تمہارے تمام ظاہر و باطن کو جانتا ہوں اور تم نے دیکھ لیا کہ میں نے اپنے رسول کو اس خط کی اطلاع دے دی جو تم نے مشرکین مکہ ک بھیجا تھا۔ آیت (1) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ فرما دیا کہ تم میں جو شخص مشرکوں کو اپنا دوست بنائے گا وہ دین اسلام کی سیدھی راہ سے بھٹک جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی متعدد آیات میں کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کو دوست بنانے سے شدت کے ساتھ منع فرمایا ہے : سورۃ المائدہ آیت (15) میں فرمایا ہے : (یایھا الذین امنوا لاتتخذوا الیھود والنصاری اولیاء) ” مومنو ! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ“ اور سورۃ النساء آیت (441) میں فرمایا ہے : (یا ایھا الذین امنوا لاتتخذوا الکافرین اولیاء من دون المومنین) ” اے ایمان والو ! مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بناؤ“ اور سورۃ آل عمران آیت (82) میں فرمایا ہے : (لایتخذالمومنون الکافرین اولیاء من دون المومنین) ” مومنوں کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ مومنوں کے بجائے کافروں کو اپنا دوست بنائیں۔ “ الممتحنة
2 (2) اللہ تعالیٰ نے کفار و مشرکین کی حالت پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے مسلمانوں سے فرمایا کہ یہ لوگ تمہارے زبردست دشمن ہیں، اگر یہت مہیں پا لیں اور تم پر ان کی گرفت مضبوط ہوجائے تو تمہیں کبھی نہ چھوڑیں، اپنی زبانوں سے بھی تمہیں ایذا پہنچائیں اور اپنے ہاتھوں سے بھی، یعنی گالیاں دیں، ماریں اور قتلک ریں، ان کی تو دلی تمنا ہے کہ تم سب اسلام سے برگشتہ ہوجاتے اور دوبارہ کفر کو قبول کرلیتے۔ الممتحنة
3 (3) تم نے جن اولاد اور رشتہ داروں کی وجہ سے کافروں سے دوستی کرنی چاہی، وہ قیامت کے دن عذاب جہنم سے تمہیں نہیں بچا سکیں گے اس دن سب ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں گے، وئی کس کا پرسان حال نہیں ہوگا تو پھر کیوں دوسروں کی وجہ سے اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ کی نگاہ سے تمہارا کوئی عمل اوجھل نہیں ہے، اس لئے اس سے ڈرتے رہو اور وہی کام کرو جس سے وہ راضی ہوتا ہے۔ الممتحنة
4 (4) مشرکوں سے اعلان برأت کی مزید تاکید فرماتے ہوئے اللہ نے کہا کہ ابراہیم اور ان کے مومن ساتھیوں کی زندگی تمہارے لئے بہترین نمنہ ہے، کہ انہوں نے اپنی قلت و ناتوانی اور دشمنوں کی کثرت و قوت کے باوجود، اللہ کے دشمنوں سے اظہار برأت میں ذرا بھی تامل سے کام نہیں لیا اور کسی رشتہ داری کا خیال نہیں کیا اور پوری قوم کے سامنے اعلان کردیا کہ ہم تم لوگوں سے اور تمہارے بتوں سے دور اور بے تعلق ہیں، ہم تمہارے دین اور معبودوں کا انکار کرتے ہیں اور ہمارے اور تمہارے درمیان اب کھلی دشمنی پیدا ہوگئی، اس لئے کہ ہم موحد ہیں اور تم لوگ مشرک ہو اور یہ عداوت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک تم ایک اللہ پر ایمان نہیں لاؤ گے۔ اور ابراہیم نے اپنے باپ سے جو کہا تھا کہ میں آپ کے لئے دعائے مغفرت کروں گا اور میں اس سے زیادہ کا مالک نہیں ہوں، تو اے اہل ایمان ! ان کی یہ بات تمہارے لئے نمونہ نہیں ہے، اس لئے ب ابراہیم کو یقین ہوگیا کہ ان کا باپ ایمان نہیں لائے گا اور اس کی موت کفر پر ہوگی، تو دعا کرنا چھوڑ دیا تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے سورۃ التوبہ آیت (411) میں بیان فرمایا ہے : (فلما تبین لہ انہ عدو للہ تبراً منہ) ” جب انہیں معلوم ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے اعلان برأت کردیا۔ “ مشرکوں سے اظہار برأت کے ساتھ، اللہ نے مومنوں کو یہ بھی تعلیم دی کہ وہ اپنے رب سے ہمیشہ دعا کرتے رہیں کہ اے اللہ ! ہمارا تو کل تجھ ہی پر ہے اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں ہم صرف تیری بندگی کرتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ ہر چیز مرجع و ماویٰ تو ہی ہے، تو اپنی مخلوق کے بارے میں جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے۔ الممتحنة
5 (5) اے ہمارے رب ! تو کافروں کو ہم پر غلبہ نہ دے کر وہ ہمیں آزمائش میں ڈال دیں اور دوبارہ ہمیں کفر میں واپس لے جانے کی کوشش کریں، اور اس زعم باطل میں مبتلا ہوجائیں کہ وہی حق پر ہیں اور ہم باطل پر ہیں اور ان کا کفر اور بڑھ جائے، اے ہمارے رب ! ہمارے اگلے اور پچھلے گناہوں کو معاف کر دے اور ان پر ہمارا مواخذہ نہ کر تو بڑا ہی زبردست اور بڑی حکمتوں والا ہے۔ الممتحنة
6 (6) ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے مومن ساتھیوں (سارہ اور لوط علیہا السلام) کے نقش قدم پر چلنے کی دوبارہ تاکید کی جا رہی ہے، اور مشرکین سے علیحدگی اور برأت پر پھر سے ابھارا جا رہا ہے اس لئے کہ اہل فساد سے دوستی اور تعلق دین حق اور اس کے ماننے والوں کے لئے ہر طرح نقصان دہ ہے، ان کی ہمیشہ یہی کوشش ہوت ہے کہ دین کی جڑوں کو کمزور کریں، ضعیف الایمان لوگوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کریں اور عوت کی راہ میں روڑے اٹکائیں، اور مومنوں کی و آزمائش میں ڈالیں اسی لئے تو اللہ کے دشمنوں سے نفرت کرنا ایمان کا ایک درجہ ہے، کیونکہ جب تک اہل حق حق کے لئے متعصب نہیں ہوں گے اور متحد ہو کر دشمن کا مقابلہ نہیں کریں گے، حق کو قوت نہیں مل سکتی ہے۔ آیت کا دوسرا حصہ : (لمن کان یرجو اللہ والیوم الاخر) اس بات کی دلیل ہے کہ ابراہیم اور ان کے مومن ساتھیوں کو اپناپیشوا نہ بنانا بدعقیدگی ہے، اسی لئے اس کے بعد کہا گیا : (ومن یتول فان اللہ ھوالغنی الحمید) ” جو شخص ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود اس حکم سے روگردانی کے گا اور اللہ کے دشمنوں کو اپنا دوست بنائے گا، تو وہ خود نقصان اٹھائے گا اللہ تو اس کے ایمان و بندگی سے بے نیاز ہے۔ “ الممتحنة
7 (7) اس آیت کریمہ میں مومنوں کو خوشخبری دی گئی ہے کہ آج تم اپنے جن کافر رشتہ داروں سے محض اللہ کی خاطر اظہار بیگانگی کر رہے ہو ان میں بہت سے لوگ مستقبل قریب میں ایمان لے آئیں گے اور پھر تمہاری عداوت، دوستی اور محبت میں بدل جائے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ کفار قریش نے فتح مکہ کے بعد جوق در جوق صفا پہاڑی پر آ کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھوں پر بیعت کی اور مومنوں کی جماعت میں شامل ہوگئے۔ الممتحنة
8 (8) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کو اپنے ان رشتہ داروں اور اہل تعلق کے ساتھ دوستی اور صلہ رحمی کی اجازت دی گئی ہے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگ نہیں کی، اور انہیں ان کے گھروں سے نہیں نکالا۔ اور آیت کا سبب نزول اگرچہ مشرکین مکہ ہیں لیکن یہ حکم تمام کافروں کے لئے عام ہے ابن جریر اور قرطبی وغیرہ نے اسی رائے کو ت رجیح دی ہے اور اس رائے کو مرجوح قرار دیا ہے کہ یہ حکم (فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموھم) ” مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کرو“ کے ذریعہ منسوخ ہوگیا ہے اس لئے کہ امام احمد اور بخاری و مسلم نے اسماء بنت ابی بکر (رض) سے روایت کی ہے کہ ان کی ماں (قتیلہ) صلح حدیبیہ کے بعد تحفے اور ہدیے لے کر ان سے ملنے کے لئے آئی اور ابھی مسلمان نہیں ہوئی تھی، تو انہوں نے اسے اپنے گھر میں داخل ہونے سے روک دیا اور جب عائشہ (رض) نے اس کے بارے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تو یہ آیت نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے ان مشرک رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی اجازت دی، جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگ نہیں کی تھی اور انہیں ان کے گھروں سے نہیں نکالا تھا اور ان صنادید قریش مشرکوں سے قطع تعلق کا حکم دیا جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگوں میں حصہ لیات ھا اور انہیں ان کے گھروں سے نکالا تھا اور آیت (9) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے دھمکی دی کہ جو شخص ایسے کافروں سے دوستی کرے گا اور ان سے تعلق قائم کرے گا وہ اپنے حق میں ظلم کرے گا، اور اللہ کے غضب کا مستحق بنے گا۔ الممتحنة
9 الممتحنة
10 (9) صلح حدیبیہ کی شرائط میں یہ بات تھی کہ اگر کوئی کافر مکہ سے بھاگ کر یعنی مسلمان ہو کر مدینہ آجائے گا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے مکہ واپس بھیج دیں گے اور اگر کوئی مشرک مدینہ سے مکہ چلا جائے گا تو کفار مکہ اسے واپس نہیں کریں گے، لیکن اللہ کی حکمت دیکھئے کہ اس میں ان مسلمان عورتوں کے بارے میں کوئی بات نہیں تھی جو ہجرت کر کے مدینہ آجائیں گی چنانچہ ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط، سبیعہ اسلمیہ اور امیمہ بنت بشر وغیرھا مسلمان عورتیں جب ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ آگئیں، تو آیات (10/11) نازل ہوئیں، جن کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں مکہ اپس نہیں بھیجا، ام کلثوم دو بھائی عمار اور ولید اس غرض سے مدینہ آئے، لیکن آپ نے انہیں واپس نہیں کیا۔ آیت (10) میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ایسی عورتوں کے ایمان کا امتحان لیں حقیقت حال کا جاننے والا تو صرف اللہ ہے، لیکن قرائن و شواہد سے اگر ان کا ایمان ثابت ہوجائے، تو انہیں کافر شوہروں کے پاس واپس نہ بھجیا جائے، اس لئے مومنہ عورت مشرک کے لئے اب حلال نہیں رہی، ایمان نے اس کا رشتہ اس کے کافر شوہر سے ختم کردیا۔ ابن جری نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب کوئی عورت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتی، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے قسم لیتے کہ وہ اپنے شوہر سے ناراض ہو کر نہیں آئی ہے، یا مدینہ میں اقامت پذیر ہونے کی غرض سے یا کسی دنیاوی مقصد کے لئے نہیں آئی ہے، بلکہ صرف اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں اپنا گھر بار اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر آگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آگ فرمایا کہ اگر ان مسلمان عورتوں کے شوہر اس مال کا مطالبہ کریں جو انہوں نے بطور مہر خرچ کیا تھا تو انہیں وہ مال دو اور چاہو تو انہیں مہر دے کر ان سے نکاح کرلو، اگرچہ ان کے شوہر زندہ ہوں، اس لئے کہ اسلام نے ان دونوں کے درمیان تفریق کردی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک نیا حکم بیان کیا کہ جس طرح مومنہ عورت کا نکاح کافر سے باطل ہوگیا، اسی طرح اب کافرہ عورت کا نکاح بھی مسلمان مرد سے باطل ہوگیا۔ ابن جریر نے (ولاتمسکوا بعصم الکوافر) کی تفسیر کے ضمن میں لکھا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو حکم دیا ہے کہ اب وہ اپنی کافر بیویں سے ہر قسم کا تعلق ختم کرلیں اور آئندہ مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کیں، اسی کے بعد مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنی ان کافر بیویوں کو طلاق دے دیں جو مکہ میں کافر کے ساتھ رہ گئی ہیں۔ امام زہری سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو عمر (رض) نے اپنی دو کافرہ بیویوں کو، اور طلحہ بن عبید اللہ نے اپنی کافرہ بیوی کو طلاق دے دی جو مکہ میں رہ گئی تھی، اور امیمہ بنت بشر انصاریہ جو ثبت بن وحداحہ کی بیوی تھیں جب مسلمان ہو کر اپنے کافر شوہر کے پاس سے بھاگ کر مدینہ آگئیں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی شادی سہل بن حنیف سے کردی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ جو عورتیں مرتد ہو کر مشرکوں کے پاس چلی جائیں، تو جو مال بطور مہران کے مسلمان شوہروں نے انہیں دیا تھا، اس کا مطالبہ ان کے کفار شوہروں سے کرو، اسی طرح جو مسلمان عورتیں اپنے مشرک شوہروں کو چھوڑ کر مکہ سے مدین آجائیں، ان کا مہران کے کافر شروہوں کو واپس کر دو اور آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ اوپر جو حکم بیان کیا گیا ہے وہ اللہ کا حکم ہے اور اس کی اتباع میں ہی سب کے لئے خیر و مصلحت ہے۔ الممتحنة
11 (10) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر کوئی عورت مرتد ہو کر کافروں کے پاس چلی جائے اور کسی کافر سے شادی کرلے اور وہ کافر شوہر اس کا مہر اس کے پہلے مسلمان شوہر کو واپس نہ کرے اور بعد میں مسلمانوں کی ان کافروں سے جنگ ہوجائے، جس میں مسلمانوں کو مال غنیمت حاصل ہو، تو اس مسلمان شوہر کو اس میں سے وہ مال دے دیا جائے گا جو اس نے بطور مہر ادا کیا تھا۔ قتادہ کہتے ہیں کہ جن اصحاب رسول کی بیویاں مرتد ہو کر کافروں کے پاس چلی جاتیتھیں، اور پھر مال غنیمت حاصل ہوتا تھا تو ان ولگوں کو مجموعی مال غنیمت سے مہر کی رقم ادا کردی جاتی تھی، پھر باقی مال غنیمت کی تقسیم عمل میں آتی تھی آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ اے اہل ایمان ! تم لوگ اس اللہ سے ڈرتے رہو جس پر ایمان لائے ہ، یعنی ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے رہو۔ الممتحنة
12 (11) اس آیت کریمہ کو ” بیعۃ النساء“ والی آیت کہتے ہیں اس لئے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کے وقت اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عورتوں سے بیعت لینے کی اجازت دی ہے، چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صفا پہاڑی پر بیٹھ کر ان عورتوں سے بیعت لی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جوق در جوق آ کر اسلام میں داخل ہو رہی تھی۔ بخاری، ترمذی اور دیگر محدثین نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ مسلمان عورتیں مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آتی تھیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ایمان کا امتحان لیتے تھے اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کے ایمان کی طرف سے اطمینان ہوجاتا تھا، تو ان سے کہتے کہ میں نے تم سے بات کے ذریعہ بیعت لے لی ہے۔ اللہ کی قسم ! آپ کا ہاتھ کسی بیعت کرنے والی عورت کے ہاتھ سے کبھی مس نہیں کیا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے صرف زبانی بیعت لیتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نیتم سے بیعت لے لی۔ نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہم نے امیمہ بنت رقیقہ سے روایت کی ہے کہ وہ کچھ عورتوں کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیعت کے لئے آئیں، تو بیعت کرتے وقت کہا : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ ہم سے مصافحہ نہیں کریں گے؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا ہوں۔ (الحدیث) شوکانی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اہل مکہ کی عورتیں آپ کے پاس بیعت کے لئے آئیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ وہ ان عورتوں سے مندرجہ ذیل امور پر بیعت لیں : اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں، چوری نہ کریں، زمانہ کریں، اپنی اولاد کو قتل نہ کیں۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ قتل کی ممانعت، بچہ کے وجود میں آجانے کے بعد، اور ولادت سے قبل جب بچہ رحم مادر میں ہوتا ہے دونوں حالتوں کو شامل ہے۔ انتہی اور اپنے شوہروں کی طرف دوسروں کی اولاد کو منسوب نہ کریں۔ قرآن کریم نے اس افترا پردازی کو اس بہتان کا نام دیا ہے جسے عورت اپنے دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں کے درمیان گھڑتی ہے، اس لئے کہ اس کا پیٹ جس میں بچہ کو ڈھوتا ہے اس کے دونوں ہاتھوں کے درمیان ہوتا ہے، اور وہ شرمگاہ جہاں سے بچہ کو جنتی ہے، اس کے دونوں پاؤں کے درمیان ہوتی ہے اور آخری بات یہ ہے کہ وہ آپ کے اوامرو نواہی کی نافرمانی نہ کریں ان امور پر ان سے بیعت لیجیے اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کیجیے وہ بڑا ہی مغفرت کرنے والا ہے اور بے حد مہربان ہے۔ اس کے بعد شوکانی لکھتے ہیں کہ بیعت میں اسلام کے ارکان خمسہ کا ذکر اس لئے نہیں آیا ہے کہ یہ چیزیں بدرجہ اولیٰ بیعت میں داخل ہیں۔ آیت میں ان گناہوں کا بطور خاص ذکر آیا ہے جن کا ارتکاب بالعموم عورتیں کرتی ہیں۔ الممتحنة
13 (12) اس سورت کی یہ آخری آیت ہے، اس میں اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے مرکزی مضمن کی مزید تاکید فرمائی ہے اور مومنوں کو تنبیہہ کی ہے کہ تمہارا ایمان تم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ تم اہل کفر کو اپنا دوست نہ بناؤ جن سے اللہ ان کے کفر کے سبب غضبناک ہے۔ بعض مفسرین نے اس آیت کو یہود کے ساتھ خاص کردیا ہے، اس لئے کہ یہاں کہا گیا ہے کہ اللہ کا ان پر غضب نازل ہوچکا ہے اور یہود ہی وہ لوگ ہیں جن کی قرآن کریم کی دوسری آیتوں میں یہ صفت بتائی گئی ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ پہلا قول راجح اور اولیٰ ہے، اس لئے کہ اللہ تمام اہل کفر سے حالت غضب میں ہوتا ہے۔ ان کافر قوموں کی دوسری صفت یہ ہے کہ انہیں آخرت پر ذرہ برابر ایمان نہیں ہے، جیسے ان سے پہلے کافروں کا آخرت پر ایمان نہیں تھا، جبھی تو سرکشی کی راہ اختیار کرتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جن سے اللہ غضبناک ہو اور جو آخرت کے منکر ہوں ان سے دوستی کرنی مسلمانوں کے لئے کسی حال میں بھی جائز نہیں، اس لئے کہ وہ بظاہر دوست بن کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف گہری سازش کرتے رہیں گے، اور ان کی حتی الامکان یہی کوشش ہوگی کہ مسلمان بھی انہی کیرطح ملحد و کافر ہوجائیں۔ وبااللہ التوفیق الممتحنة
0 سورۃ الصف مدنی ہے، اس میں چودہ آیتیں ہیں اور دو رکوع ہیں تفسیر سورۃ الصف نام : آیت (4) (ان اللہ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفاک نھم بنیان مرصوص) سے ماخوذ ہے اس آیت میں جہاد فی سبیل اللہ کے لئے صف بندی کا ذک رآیا ہے یہی اس کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : ماوردی نے لکھا ہے کہ یہ سورت تمام کے نزدیک مدنی ہے اور اس کی قوی دلیل اس کی آیتیں ہیں جن میں مسلمانوں کو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے پر ابھارا گیا ہے اور معلوم ہے کہ جہاد مدنی دور میں مشروع ہوا تھا۔ الصف
1 (1) بعینہ یہی آیت سورۃ الحشر کی پہلی آیت ہے اور سورۃ الحدید کی بھی پہلی آیت یہی ہے، صرف اس میں (وما فی الارض) کے بجائے ” والارض“ ہے۔ دونوں سورتوں کی اس پہلی آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جتنے حیوانات، نباتات اور جمادات ہیں، سب اپنے رب کی پاکی اور بڑائی بیان رتے ہیں کوئی اپنی زبان سے تسبیح پڑھتا ہے جیسے فرشتے اور جن و انس، اور کسی کی ہئیت و حالت سے آشکار ہوتا ہے کہ اس کا خلاق تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے، جیسے آسمان و زمین، درخت، نباتات اور پہاڑ وغیرہ زجاج کہتے ہیں کہ نباتات و جمادات بھی زبان قال سے ہی تسبیح پڑھتے ہیں لیکن ہم اسے سمجھ نہیں پاتے ہیں۔ آیت کے آخر میں اللہ کی دو صفات : (العزیز الحکیم) کا ذکر آیا ہے، جن کا مفہوم یہ ہے کہ وہ بڑا ہی قوی ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز پر غالب ہے اور اس نے تمام موجودات کو اپنی جانی بوجھی حکمت کے مطابق منظم و مرتب کیا ہے، جس سے کوئی بھی چیز سرمو انحراف نہیں کرسکتی ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ ” سبح“ کا لفظ کئی سورتوں کی ابتدا میں آیا ہے کہیں ماضی کا صیغہ آیا ہے اور کہیں مضارع کا اور کہیں امر کا صیغہ آیا ہے اور اس سے مقصود بندوں کو یہ تعلیم دینا ہے کہ اللہ کی پاکی اور بڑائی ہر حال میں بیان کرنی ہے۔ الصف
2 (2) ابن المنذر اور ابن ابی حاتم وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ کچھ مسلمان جہاد فرض ہونے سے پہلے کہتے تھے کہ اگر ہمیں معلوم ہوجاتا کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ کون سا عمل پسند ہے تو ہم اسے کرتے، تو اللہ نے بذریعہ وحی اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی کہ سب سے بہترین عمل ایمان باللہ اور جہاد فی سبیل اللہ ہے اور جب جہاد فرض ہوا تو ان مسلمانوں پر جہاد کرناگراں گذرا، تو یہ آیت نازل ہوئی، جس میں اللہ نے انہیں عتاب کیا، اس لئے کہ ایمان صادق کا تو تقاضا یہ ہے کہ مومن نہ جھوٹ بولے اور نہ وعدہ خلافی کرے جو کہے اس کے مطابق عمل کرے اور جو نیک کام نہ کیا ہو اسے اپنی طرف منسوب نہ کرے، کیونکہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ مبغوث بات یہ ہے کہ آدمی اپنی طرف ایسے بھلائی کے کام منسوب کرے جو اس نے نہ کیا ہو، یا کہے کہ میں فلاں خیر کا کام کروں گا اور پھر اسے نہ کرے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں، یہ آیت دلیل ہے کہ مطلق وعدہ وفا کرنا واجب ہے اور اس کی تائید صحیحین کی اس حدیث سے ہوتی ہے کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب وہ وعدہ کرتا ہے تو اسے پورا نہیں کرتا ہے اور جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور جب اس کے پاس کوئی امانت رکھی جاتی ہے تو اس میں خیانت کرتا ہے۔ الصف
3 الصف
4 (3) اوپر ابن عباس (رض) کی روایت گذر چکی ہے، کچھ مسلمانوں نے خواہش کی کہ اگر ہمیں معلوم ہوجاتا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے، تو ہم اسے کرتے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ قاشانی نے لکھا ہے، آدمی اللہ کی راہ میں اسی وقت جان دیتا ہے جب اس کے دل میں اللہ کی خالص محبت بیٹھ گئی ہو اور اس کی محبت ہر چیز کی محبت پر غالب آگئی ہوجیسا کہ اللہ نے سورۃ البقرہ آیت (561) میں فرمایا ہے : (والذین امنوا اشد حباللہ) ” اہل ایمان اللہ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں“ اور جب بندہ اللہ کی محبت میں اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو وہ بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ سورۃ المائدۃ آیت (45) میں آیا ہے : (یحبھم ویحبونہ) ” اللہ ان سے محبت کرتا ہے، اور وہ لوگ اللہ سے محبت کرتے ہیں“ اسی لئے اللہ کے نزدیک محبوب ترع مل اس کی راہ میں جہاد کنا ہے۔ الصف
5 (4) حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے، اس آیت کے ذریعہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ کو کافروں اور منافقوں کی جانب سے جواذیت پہنچتی ہے اس پر صبر کیجیے جیسا کہ موسیٰ نے اپنی قوم کی اذیتوں پر صبر کیا تھا، چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبد اللہ بن مسعود (رض) سے مروی حدیث میں فرمایا ہے، جسے بخاری نے روایت کی ہے کہ اللہ کی رحمت ہو موسیٰ پ انہیں اس سے زیادہ اذیت دی گئی تو انہوں نے صبر کیا۔ آگے لکھا ہے : اس آیت کے ذریعہ مومنوں کو منع کیا گیا ہے کہ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اذیت کا سبب بنیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب آیت (96) میں فرمایا ہے : (یایھا الذین امنوا الاتکونوا کالذین اذوا موسی) ” اے ایمان والو ! تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے موسیٰ کو اذیت پہنچائی تھی۔ “ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا لوگو ! تم میری مخالفت کر کے مجھے کیوں تکلیف پہنچاتے ہو، حالانکہ تمہیں میرے ظاہر و باہر معجزات کے ذریعہ علم یقین حاصل ہوچکا ہے کہ میں اللہ کا سچا رسول ہوں۔ اللہ نے فرمایا کہ جب انہوں نے زیغ و ضلال پر اصرار کیا تو اللہ نے ان کے دلوں کو راہ حق سے برگشتہ کردیا اور قبول حق کی توفیق چھین لی، اس لئے کہ وہ اہل فسق کو ہایت کی توفیق سے محروم کردیتا ہے۔ الصف
6 (5) اس آیت کا تعلق اوپر کی آیت سے ہے اور اس سے مقصود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینی ہے اور یہ بیان کرنا ہے کہ بنی اسرائیل نے جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کی نافرمانی کی اور ان کی اذیت کا سبب بنے، اسی طرح انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی بھی نافرمانی کی اور ان کی تکذیب کی۔ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے زمانہ کے یہودیوں سے کہا : اے نبی اسرائیل !(یعنی یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم کی اولاد) میں نبی بنا کر اور انجیل دے کرت مہاری ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہوں اور میں وہی دعوت لے کر آیا ہوں جو تورات کی دعوت تھی، یعنی ایک اللہ کی بندگی اور غیروں کی عبادت کا انکار اور میرے ذریعہ تورات کی تصدیق یوں بھی ہوتی ہے کہ تورات میں میری بعثت کی خبر موجود ہے اور اب میں مبعوث ہوچکا ہوں تو ثابت ہوا کہ تورات اللہ کی سچی کتاب ہے اور میں تمہیں اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی بشارت دیتا ہوں جن کا نام احمد ہوگا۔ اور جب میرے ذریعہ تو رات کی تصدیق ہو رہی ہے اور میں ایک نئے رسول کی بشارت دے رہا ہوں تو تمہیں مجھ پر ایمان لانا چاہئے نہ کہ میری تکذیب کرنی چاہئے۔ محمد بن اسحاق نے اسناد جید کے ساتھ اصحاب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا، اے اللہ کے رسول ! آپ اپنے بارے میں ہمیں بتائیے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا اور عیسیٰ کی بشارت ہوں اور جب میری ماں حمل سے ہوئیں تو انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ان کے جسم سے ایک نور نکلا ہے جس نے سر زمین شام میں بصریٰ کے محلوں کو روشن کردیا ہے۔ انجیل یوحنا، باب (41) میں آیا ہے : میں باپ سے طلب کروں گا، تو وہ تمہیں ایک ” فارقلیط“ دے گا صاحب اظہار الحق نے لکھا ہے کہ ” قار قلیط“ کا معنی محمد یا احمد ہے اور انجی برناب اس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر جمیل صریح عبارتوں میں آیا ہے اور کہا ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہوں گے۔ یہودیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے تمام معجزات کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ان کی تکذیب کردی اور کہا کہ یہ جو کچھ ہمارے سامنے پیش کر رہا ہے کھلا جادو ہے۔ بعض مفسرین نے (فلما جاء ھم بالبینات قالوا ھذا سحرمبین) میں ضمیر کا مرجع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مانا ہے، ایسی صورت میں عنی یہ ہوگا کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار مکہ کے سامنے اپنی نبوت اور قرآن کی صداقت کے دلائل پیش کئے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو کھلا جادو ہے، جس کے ذریعہ محد ہمیں محسور کرنا چاہتا ہے، جیسے فرعون نے موسیٰ سے، اور بنی اسرائیل نے عیسیٰ سے کہا تھا۔ الصف
7 (6) اس آیت کریمہ میں مشرکین اور یہود و نصاری کے کفر و شرک پر شدید نکیر کی گئی ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسلام جیسا دین برحق دے کر دنیا میں بھیج دیا، جس نے حق و باطل کو وضح کردیا ہے اب اگر کوئی اس سے آنکھ بند کرلے اور اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی کرے تو اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جیسا کہ مشرکین قریش کا حال ہے کہ وہ اللہ کے لئے بیٹا اور شریک ٹھہراتے ہیں اور اس کی حرام کردہ چیزوں کو حلال اور حلال چیزوں کو حرام بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر اللہ کی مرضی نہ ہوتی تو ہم بتوں کی پرستش نہ کرتے، نیز قرآن کریم کو جادو اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا جو اضح اور صریح حق کا انکار کرتے ہیں۔ الصف
8 (7) انہی اعدائے دین، یہود و نصاریٰ اور مشرکین قریش کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کے چراغ کو اپنے پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں، قرآن کریم کو جادو اور میرے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادوگر کہتے ہیں، تو جان لیں کہ یہ کافروں کی خاہش کے علی الرغم ان کی خام خیالی ہے، اللہ کے نور کو شمع کی مانند پھونکوں سے نہیں بجھایا جاسکتا ہے، یہ تو وہ نور ہے جسے اللہ پوری دنیا میں پھیلا کر رہے گا۔ آیت (9) میں اللہ تعالیٰ کے گزشتہ فیصلے کی مزید تاکید آئی ہے جس کا معنی یہ ہے کہ اللہ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن اور دین اسلام کے ساتھ بھیجا ہے اور اس کا فیصلہ ہے کہ وہ دین اسلام کو مشرکین کی خواہش کے علی الرغم دنیا کے تمام ادیان و مذاہب پر غالب بنائے گا، مجاہد کا قول ہے کہ نزول عیسیٰ کے وقت دنیا میں اسلام کے سوا کوئی دین نہیں ہوگا۔ مذکورہ بالا دونوں آیتیں چند حروف کے فرق کے ساتھ سورۃ التوبہ میں بھی آئی ہیں۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے آیات (23/33) میں فرمایا ہے : (یریدون ان یطفؤا نور اللہ بافواھھم ویا بی اللہ الا ان یتم نورہ ولوکرہ الکافرون ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھرہ عل الدین کلہ ولوکرہ المشرکون) دونوں کا معنی تقریباً وہی ہے جو اس سورت کی دونوں آیتوں کا ہے۔ سورۃ التوبہ کی دونوں آیتوں کی تفسیر میں جو کچھ لکھا گیا ہے اسے دیکھ لنیا مناسب ہوگا۔ الصف
9 الصف
10 (٨) اوپر ابن عباس (رض) کی روایت گذر چکی ہے کہ کچھ مسلمانوں نے اللہ کی نظر میں سب سے اچھے عمل کو جاننا چاہا، تاکہ اسے کیں تو اس سورت کی کئی آیتیں نازل ہوئیں، جن میں سے یہ آیت بھی ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اعمال صالحہ کو اموال تجارت سے تشبیہہ دیا ہے، اس لئے کہ جس طرح تجارت سے نفع حاصل ہوتا ہے، اسی طرح اعمال صالحہ دخول جنت اور عذاب نار سے نجات کا سبب ہوتے ہیں۔ آیت (١١) میں اللہ نے اپنے ساتھ مومنوں کی مذکورہ بالا تجارت کی صراحت کردی کہ اگر وہ اللہ اور اس کے رسول پر حقیقی ایمان رکھیں گے اور اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ذریعہ جہاد کریں گے، تو ان کے یہ کام مآل و انجام کے اعتبار سے ان کے لئے بہت ہی نافع ہوں گے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف کر دے گا اور انہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اور بلند و بالا مکانات عطا کرے گا جن میں وہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے اور درحقیقت ایک انسان کی یہی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ اس کا رب اس کے گناہوں کو معاف کر دے اور اسے جنت میں داخل کردے۔ اور مذکورہ نعمتوں کے علاوہ ایک اور نعت دے گا جسے وہ پسند کرتے ہیں، یعنی وہ مکہ کو فتح کریں گے اور اس کے بعد آس پاس کے دیگر شہروں اور علاقوں کو بھی فتح کریں گے اور اللہ کی نصرت و تائید انکے ساتھ ہوگی۔ صاحب محاسن التنزیل لکھتے ہیں، آیت (١٣) دلیل ہے یہ سورت فتح مکہ سے کچھ ہی دن قبل نازل ہوئی تھی اور مقصود مومنوں کو ان کے دشمنوں کے خلاف قتال پر ابھارنا، ان کی ہمت افزائی کرنی اور میدان جہاد میں ثابت قدم رہنے کی نصیحت کرنی تھی، اسی لئے آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ مومنوں کو خوشخبری دے دیجیے کہ اللہ نے ان سے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا ہو کر رہے گا۔ الصف
11 الصف
12 الصف
13 الصف
14 (9) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ہر حال میں اپنی جانوں، اموال، اقوال اور افعال کے ذریعہ اس دین حق کی مدد کرتے رہیں جسے اللہ نے اپنی طاعت و بندگی کے لئے نازل کیا ہے اور جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) کے حواریوں نے ان کی آواز پر لبیک کہا، دعوت الی اللہ کے کام میں ان کا ساتھ دیا اور ان سے اپنی جانوں کی قربانی دینے کا وعدہ کیا اسی طرح وہ بھی اللہ اور اس کے رسول کا ہر طرح ساتھ دینے کے لئے تیار رہیں۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب حواریوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ آپ کی دعوت لوگوں تک پہنچانے کے لئے ہم آپ کی مدد کیں گے تو انہوں نے انہیں اسرائیلیوں اور یونانیوں کے پاس توحید کی دعوت کے ساتھ بھیجا ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی حج کے دنوں میں اسی طرح کہا کرتے تھے کہ کون ہے جو مجھے پناہ دے، تاکہ میں اپنے رب کا پیغام لوگوں تک پہنچاؤں، اس لئے کہ قریش نے مجھے اس کام سے روک دیا ہے۔ چنانچہ اللہ نے ان کی مدد کے لئے مدینہ کے اوس و خزرج والوں کے دلوں کو مسخر کردیا، انہوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی، آپ کی مدد کی اور کہا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ آجائیں گے تو ہم ہر طرح آپ کا دفاع کریں گے اور جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیگر مہاجرین کے ساتھ ہجرت کر کے وہاں پہنچے تو انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا اسی لئے اللہ اور اس کے رسول نے انہیں ” انصار“ کا لقب دیا، جو ان کا نام بن گیا۔ اللہ نے آگے فرمایا کہ ہم نے ایمان والی جماعت کی ان کے دشمنوں یعنی یہودیوں اور بت پرست رومیوں کے مقابلے میں مدد کی، اور انہیں غلبہ حاصل ہوا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس میں مومنوں کو ان کے رب کی جانب سے نصرت و تائید اور فتح و کامرانی کی خوشخبری دی گئی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ دین حق کی سربلندی کے لئے متحد ہو کر کوشش کریں اور نزاع و اختلاف سے یکسر دور رہیں۔ وباللہ التوفیق۔ الصف
0 سورۃ الجمعہ مدنی ہے، اس میں گیارہ آیتیں اور دو رکوع ہیں تفسیر سورۃ الجمعہ نام : آیت (9) یایھا الذین امنوا اذا نودی للصلاۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ) سے ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ سورت تمام کے نزدیک مدنی ہے۔ بیہقی نے اپنی کتاب ” الدلائل“ میں ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ الجمعہ مدینہ میں نازل ہوئی تھی۔ مسلم، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کی نماز میں سورۃ الجمعہ اور المنافقون کی تلاوت فرماتے تھے۔ الجمعة
1 (1) سورۃ الحدید اور سورۃ الحشر کی آیت (1) کی تفسیر میں بیان کیا جا چکا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جتنے حیوانات، نباتات اور جمادات ہیں، سب اللہ کی پاکی اور بڑائی بیان کرتے ہیں، کوئی اپنی زبان سے تسبیح پڑھتا ہے، جیسے فرشتے اور جن و انس اور کسی کی ہئیت و حالت سے آشکارا ہوتا ہے کہ اس کا خلاق تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے، جیسے آسمان و زمین، درخت، نباتات اور پہاڑ وغیرہ زجاج کہتے ہیں کہ نباتات و جمادات بھی زبان قال سے ہی تسبیح پڑھتے ہیں لیکن ہم اسے سمجھ نہیں پاتے ہیں۔ وہ شہنشاہ دو جہاں ہے، آسمانوں اور زمین میں اس کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا، وہ اپنی مخلوق میں جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتا ہے وہ تمام عیوب و نقائص سے یکسر پاک ہے۔ وہ زبردست ہے، وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا، اس کا کوئی کام حکم سے خالی نہیں ہوتا۔ الجمعة
2 (2) ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ ” امیون“ سے مراد تمام عرب ہیں، چاہے وہ پڑھنا جانتے ہوں یا نہیں، اس لئے کہ قرآن کریم سے پہلے ان کو کوئی آسمانی کتاب نہیں دی گئی تھی اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ” ان پڑھ“ ہونا ان کے صدق نبوت کی دلیل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے امت محدیہ کو اپنا احسان یاد دلاتے ہوئے فرمایا کہ اس نے عربوں کے لئے (جو ان پڑھ تھے) انہی جیسا ایک ان پڑھ نبی مبعوث فرمایا جو ان پڑھ ہونے کے باوجود اللہ کی آیتیں پڑھ کر انہیں سناتے تھے خان کے جسموں کو گندگیوں اور آلائشوں سے اور ان کی روحوں کو غلط عقائد اور خبیث الخاق سے پاک کرتے تھے اور انہیں قرآن و سنت کی تعلیم دیتے تھے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اہل عرب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے بڑی ہی شدید گمراہی میں مبتلا تھے، بتوں کی پوجا کرتے تھے اور اخلاق عالیہ اور آداب حسنہ سے یکسر بے بہرہ ہوچکے تھے، اس لئے وہ ایک نبی مرسئل کے ذریعہ ہدایت و رہنمائی کے شدید محتاج تھے اس وقت اللہ نے ان پر کرم کیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عربوں میں پیدا ہونا، اس بات کے منافی نہیں ہے کہ وہ ساری دنیا والوں کے لئے نبی بنا کر بھیجے گئے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاعراف آیت (851) میں فرمایا ہے : (قل یا ایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمعیاً) ” اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ لوگو ! میں تم سب کے لئے اللہ کا رسول ہوں۔ “ اور سورۃ الانعام آیت (91) میں فرمایا ہے : (لانذرکم بہ ومن بلغ) ” تاکہ اس قرآن کے ذریعہ میں تمہیں اور ان سب کو اللہ سے ڈراؤں جن تک میرا پیغام پہنچے۔ “ الجمعة
3 (3) اس آیت میں ” آخرین“ آیت (2) کے کلمہ ” الامیین“ پر معطوف ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان عربوں کے لئے نبی بنا کربھیجا جو عہد رسالت میں موجود تھے، اور ان عربوں کے لئے بھی جو صحابہ کرام کے بعد قیامت تک پیدا ہوں گے۔ بعض مفسرین نے (واخرین منھم) سے اہل عجم مراد لیا ہے جو اسلام میں داخل ہوئے اور قیامت تک داخل ہوتے رہیں گے اور کہا ہے کہ عجمی مسلمان اگرچہ عرب نہیں تھے، لیکن اسلام لانے کے بعد انہی میں سے ہوگئے اور ایک امت بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ آیت (17) میں فرمایا ہے : (والمومنون والمومنات بعضھم اولیاء بعض) ” مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے ولی اور دوست ہوتے ہیں“ امام احمد اور بخاری و مسلم وغیرہم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے تھے کہ سورۃ الجمعہ نازل ہوئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب لوگوں کو پڑھ کر سنایا اور (واخرین منھم لما یلحقوابھم) تک پہنچے، تو ایک صحابی نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! وہ کون لوگ ہیں جو اب تک ہم سے ملے نہیں ہیں، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا ہاتھ سلمان فارسی کے جسم پر رکھ کر فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر ایمان ثریا پر بھی ہوگا تو اسے اس کی قوم کے کچھ لوگ پا لیں گے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : یہ آیت دلیل ہے کہ یہ سورت مدنی ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انسانوں کے لئے نبی بنا کر بھیجے گئے تھے۔ الجمعة
4 (4) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کے لئے عظیم نعمت تھی، جس سے اللہ نے آپ کو سرفراز فرمایا اور جس کے ذریعہ اللہ نے آپ کی امت کو عزت و شرف بخشا۔ صاحب محاسن التنزیل لکھتے ہیں کہ یہود مدینہ کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی ہونے کا پورا یقین تھا، لیکن محض حسد و عناد کی وجہ سے انکار کردیا کہ یہ عزت و شرف ان کے بجائے عربوں کو کیوں مل گیا۔ الجمعة
5 (5) یہود نے تورات کو پڑھا اور اسے یاد کیا لیکن اس پر عمل نہیں کیا، بایں طور کہ اس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی خبر دی گئی تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی علامتیں بیان کی گئی تھیں اور آپ پر ایمان لانے کی تاکید کی گئی تھی اور انہیں یقین کامل تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے نبی ہیں، لیکن محض حسد و عناد کی وجہ سے ایمان نہیں لائے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں گدھوں سے تشبیہ دی جن کی پیٹھوں پر علوم و فنون کی بڑی بڑی کتابیں لدی ہوں، جن کا وہ گدھے بوجھ تو محسوس کرتے ہیں اور ان کے نیچے دبے جاتے ہیں، لیکن ان میں موجود حقائق و معارف سے بے بہرہ اور ان پر عمل کرنے سے محروم ہوتے ہیں، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن یہود نے اللہ کی آیتوں کی تکذیب کی ہے، ان کی بڑی ہی بری مثال ہے، یعنی ان کا حال ان گدھوں جیسا ہے جن پر کتابیں لدی ہوں۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ” اعلام الموقعین“ میں اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مثال اگرچہ یہود کے لئے بیان کی گئی ہے، لیکن یہ ہر اس حامل قرآن پر چسپاں ہوتی ہے جو اس پر عامل نہیں ہوتا اور اس کا کما حقہ حق ادا نہیں کرتا۔ الجمعة
6 (6) یہود کہتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں، جیسا کہ سورۃ المائدہ آیت (81) میں آیا ہے : (نحن ابناء اللہ واحباوہ) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اسی دعویٰ کی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی تکذیب کی ہے کہ اگر تمہارا گمان صادق ہے، تو اللہ کے سامنے اپنی تمنا کا اظہار کروتاکہ وہ تمہیں جلد ہی آخرت میں پہنچا دے اور جنت میں داخ کر دے تاکہ تم دنیا اور اس کے غموں سے نجات پا جاؤ۔ الجمعة
7 (7) اللہ تعالیٰ ن خبر دی ہے کہ وہ اپنی موت کی تمنا ہرگز نہیں کریں گے، اس لئے کہ انہیں معلوم ہے کہ انہوں نے جو گناہ کئے ہیں وہ جہنم میں پہنچانے والے ہیں اور اللہ کو ان کے جرائم کی زیادہ خبر ہے۔ الجمعة
8 (8) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی خبر دی ہے کہ اے یہودتم اپنی زبان سے جس موت کا نام لینے سے بھی ڈرتے ہو کہ وہ کہیں کہیں تمہیں آنہ دبوچے، اور کیفر کردارتک نہ پہنچا دے، اس سے تم بچ نہیں سکو گے، اور قیامت کے دن غائب و حاضر کے جاننے والے اللہ کے سامنے کھڑے ہو گے، جو تمہیں تمہارے کالے کرتوتوں کی خبر دے گا اور ان کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ الجمعة
9 (9) مفسرین نے لکھا ہے کہ بعض اہل مدینہ ” بقیع الزبیر“ میں جمعہ کی اذان ہونے کے بعد بھی خرید و فروخت میں مشغول رہتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ جمعہ کی نماز کا خاص اہتمام کریں اور اذان ہونے کے بعد اپنے کاروبار چھوڑ کر مسجد کی طرف چل پڑیں، تاکہ خطبہ اور نماز کے فضائل و برکات سے مستفید ہو سکیں اور مزید تاکید کے طور پر فرمایا کہ کاروبار دنیا چھوڑ کر جمعہ کی نماز کے لئے جانے ہی میں تمہارے لئے ہر بہتری ہے، کاش تم اس بات کو سمجھ جاؤ۔ الجمعة
10 (10) اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی دینی اور دنیاوی معاملات میں مزید رہنمائی فرماتے ہوئے کہا کہ جب تم نماز سے فارغ ہوجاؤ تو اپنے کاروبار میں لگ جاؤ اور تلاش رزق کے لئے ہر ممکن کوشش کرو اور ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے رہو جس نے تمہاری ہر گام پر رہنمائی کی ہے، کبھی اس کی یاد سے غافل نہ ہو، کیوں کہ ہر کامیابی کار از اسی میں پوشیدہ ہے۔ الجمعة
11 (11) اس آیت کریمہ کے سبب نزول کے بارے میں بخاری و مسلم وغیرہ نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک با نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ ایک تجارتی قافلہ کھانے پینے کا سامان لے کر مدینہ پہنچا صحابہ کرام کو جب خبر ہوئی تو ایک ایک کر کے مسجد سے باہرجانے لگے یہاں تک کہ صرف بارہ آدمی رہ گئے، جن میں میں اور ابوبکر و عمر بھی تھے، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ ابوداؤد نے ” کتاب المراسیل“ میں مقاتل بن حیان سے روایت کی ہے کہ مدنی زندگی کی ابتداء میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کی نماز، عیدین کی طرح خطبہ سے پہلے پڑھتے تھے، ایک بار ایسا ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کی نماز کے بعد خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور کہا کہ دحیہ بن خلیفہ تجارتی مال لے کر آیا ہے، یہ سنتے ہی لوگ ایک ایک کر کے مسجد سے باہر چلے گئے، صرف چند افراد رہ گئے۔ قافلہ کی آمد کے بعد صحابہ کرام سے جو غلطی ہوئی، اسی پر اللہ تعالیٰ نے انہیں عتاب فرمایا کہ جب یہ لوگ کوئی تجارتی قافلہ یا سامانل ہو و لعب دیکھ لیتے ہیں، تو تیزی سے اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو منبر پر تنہا کھڑا چھوڑ دیتے ہیں، آپ انہیں بتا دیجیے کہ آپ کا خطبہ سننے اور اس سے مستفید ہونے کا جو اجر و ثواب ہے، وہ لہو و لعب اور تجارتی نفع سے زیادہ بہتر ہے۔ اور آپ انہیں یہ بھی بتا دیجئے کہ اللہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے، اس لئے انہیں اس خیر و برکت کے حصول کے لئے کوشش کرنی چاہئے جو اللہ کے پاس ہے اور روزی کا معاملہ اللہ کے حوالے کردینا چاہئے۔ فوائد : 1 ص فخر الدین رازی نے آیت جمعہ کا گزشتہ آیتوں سے تعلق بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہود موت سے دنیا کی لذتوں سے متمتع ہونے کے لئے بھاگتے تھے اور اہل ایمان بھی خرید و فروخت حصول متاع دنیا کے لئے ہی کرتے تھے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں تنبیہہ فرمائی کہ وہ جب جمعہ کی اذان سنیں تو اللہ کی یاد یعنی نماز کے لئے جلدی کریں جو متاع آخرت ہے، تاکہ یہود کی مشابہت سے بچیں۔ 2۔ یہ آیت ان حضرات کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ جو بھی جمعہ کی اذان سنے گا، اس پر نماز جمعہ واجب ہوگی اور یہ ان لوگوں کی بھی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ عورتوں پر جمعہ واجب نہیں ہے، اس لئے کہ آیت میں خطاب مردوں سے ہے۔ 3۔ (فاذا قضیت الصلاۃ فانتشروا فی الارض) سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ خطبہ جمعہ کا وقت نماز سے پہلے ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کے بعد زمین میں پھیل جانے کا حکم دیا ہے۔ 4۔ (وابتغوا من فضل اللہ) سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن کی تعطیل کوئی شرعی حیثیت نہیں رکھتی، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے نماز کے بعد تلاش رزق کے لئے کوشش کرنے کا حکم دیا ہے۔ وباللہ التوفیق الجمعة
0 سورۃ المنافقون مدنی ہے، اس میں گیارہ آیتیں اور دو رکوع ہیں تفسیر سورۃ المنافقون نام : پہلی آیت کا پہلا فقفرہ (اذا جائک المنافقون) ہے، اسی سے اس کا نام ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول :۔ قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ سورت تمام کے نزدیک مدنی ہے، ابن مردویہ اور بیہقی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورے المنافقون مدینہ میں نازل ہوئی تھی مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ سورت شعبان 5 ھ میں غزوہ بنی المصلق سے واپسی پر راستہ میں یا مدینہ پہنچنے کے بعد نازل ہوئی تھی۔ اس سورت کی تفسیر سمجھنے کے لئے مذکور بالا اجمال کی تھوڑی سی تفصیل جان لینا ضروری ہے، جسے امام بخاری، ابن اسحاق اور ابن جریر کی روایات کی مدد سے یہاں لکھا جا رہا ہے۔ ہجرت نبوی سے پہلے اوس و خزرج کے قبائل اپنی طویل خانہ جنگیوں سے تنگ آ کر بالآخر اس بات پر متفق ہوگئے تھے کہ قبیلہ خزرج کے مشہور سردار عبداللہ بن ابی بن سلول کو اپنا بادشاہ بنا لیں اور اس کی قیادت دسیادت میں سب مل کر پرسکون زندگی گذاریں، لیکن جب مسلمانان مدینہ نے ہجرت سے پہلے مکہ جا کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعت کرلی جسے تاریخب یعت عقبہ کے نام سے جانتی ہے اور جس کے بعد انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ آجانے کی دعوت دے دی اور آپ مدینہ تشریف لے آئے، اور تمام انصار مدینہ آپ کے گرد جمع ہوگئے اور عبداللہ بن ابی کا خواب ادھورا رہ گیا تو اس کے دل میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسلام کے خلاف عداوت بیٹھ گئی اسی لئے اگرچہ اس نے حالات کے تاقضے کے مطباق بظاہر اسلام کو قبول کرلیا لیکن در پردہ یہود اور کفار کے ساتھ مل کر بنی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اسلام کے خلاف سازش کرتا رہا جنگ بدر کے بعد جب یہود بنی قینقاع کی صریح بدعہدی پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر چڑھائی کردی تو یہ شخص ان کی حمایت کے لئے اٹھ کھڑا ہوا، جنگ احد کے موقع پر بھی اس نے صریح غداری کی، اور عین وقت پر اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر میدان جنگ سے واپس آگیا، 4 ھ میں جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود بنی نضیر پر چڑھائی کی اور ان کے علاقے کا محاصرہ کرلیا تو اس نے ان یہودیوں کو پیغام بھیجا کہ تم ڈٹے رہو، ہم تمہارے ساتھ ہیں اور اگر مدینہ سے نکل جانے کی نوبت آئے گی تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے۔ ان واقعات کے بعد عام مسلمانان مدینہ کو اس کے منافق ہونے کا یقین ہوگیا تھا لیکن حالات کا تقاضا یہی تھا کہ اسے چھیڑا نہ جائے، تاکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام داخلی دشمنوں کے ساتھ نہ الجھ جائیں اور خارجی دشمنوں کو مدینہ پر چڑھ دوڑنے کا موقع نہ مل جائے۔ شعبان 5 ھ میں جب غزو نبی المصطلق واقع ہوتا و عبد اللہ بن ابی بھی منافقین کی ایک جماعت کے ساتھ مجبوراً شریک ہا تھا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس غزوہ میں کافروں پر فتحیابی کے بعد ” المریسیع“ نامی کنواں کے پاس پڑاؤ ڈال رکھا تھا، عمر بن خطاب (رض) کے خادم جہجاہ غفاری اور سنان جہنی حلیف بنی عوف بن الخزرج کے درمیان جھگڑا ہوگیا اور بات بڑھ گئی، جہنی نے انصار کو پکارا اور ججاہ نے مہاجرین کو عبداللہ بن ابی ناراض ہوا اور موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، انصار اور منافقین سے کہنے لگا کہ یہ سب کچھ تمہارا اپنا ہی کیا ہوا ہے تم نے اپنے ملک میں ان لوگوں کو جگہ دی ان پر اپنے مال تقسیم کئے، یہاں تک کہ اب یہ پھل پھول کر خود ہمارے ہی حریف بن گئے ہماری اور قریش کے ان کنگالوں کی حالت پر یہ مثل صادق آتی ہے کہ اپنے کتے کو کھلا پلا کر موٹا کرو تاکہتجھی کو پھاڑ کھائے تم لوگ ان سے ہاتھ روک لو یعنی ان پر خرچ کرنا بند کر دو تو یہ چلتے پھرتے نظر آئیں، اللہ کی قسم ! مدینہ واپس پہنچ کر ہم میں سے جو عزت والا ہے وہ ذلیل کو نکال دے گا۔ زید بن ارقم صحابی جو ایک کم عمر لڑکے تھے، انہوں نے یہ ساری باتیں سن لی تھی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر من و عن نقل کردیا، عمر بن خطاب (رض) وہاں موجودتھے، انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ عباد بن بشر کو حکم دیجیے کہ وہ عبداللہ بن ابی کو قتل کردیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” عمر، ایسا نہیں کرنا چاہئیتا کہ لوگیہ نہ کہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو قتل کردیتا ہے“ عبداللہ بن ابی کو جب معلوم ہوا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی فتنہ انگیزیوں کا پتہ چل گیا ہے تو دوڑا ہوا آپ کے پاس آیا اور سراسر جھوٹ بولا کہ اس نے یہ بات نہیں کہی ہے۔ اس حادثہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں سے فوراً روانہ ہوگئے، راستہ میں آپ نے اسید بن حضیر (رض) کو جب یہ بات بتائی، تو انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم ! اگر آپ چاہیں گے تو اسے مدینہ سے نکال دیجیے گا اللہ کی قسم ! وہ ذلیل ہے اور آپ عزت والے ہیں۔ رفتہ رفتہ یہ بات انصار میں پھیل گئی اور ان میں عبداللہ بن ابی کے خلاف سخت غصہ پیدا ہوگیا چنانچہ جب یہ قافلہ مدینہ میں داخل ہونے لگا تو عبداللہ بن ابی کے صاحبزادے جن کا نام عبداللہ تھا، تلوار سونت کرباپ کے آگے آگئے اور بولے ” تم نے کہا تھا کہ مدینہ واپس پہنچ کر عزت والا نکال دے گا، اب تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ عزت تمہاری یا اللہ اور اس کے رسول کی اللہ کی قسم ! تم مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم کو اجازت نہ دے دیں“ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب خبر ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے کہا، عبداللہ کو کہو، اپنے باپ کو گھر آنے دے، تب عبداللہ نے اپنے باپ کو گھر آنے دیا، ابن اسحاق کی روایت کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ پہنچنے کے بعد یہ سورت نازل ہوئی، جس میں اللہ تعالیٰ نے منافقین اور ان کے سردار عبداللہ بن ابی بن سلول کے حالات بیان کئے اور ان کے نفاق کا پردہ فاش کیا۔ اب آیئے، ہم اس سورت کا مطالعہ کریں : المنافقون
1 (1) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے نبی ! جب عبداللہ بن ابی بن سلول اور دیگر منافقین آپ کی مجلس میں آتے ہیں تو اپنی زبان سے مسلمان ہونے کا اظہار کرتے ہیں اور آپ کو دھوکہ دینے کے لئے کہتے ہیں ” ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں“ اللہ تعالیٰ نے کہا : اللہ جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں، چاہے منافقین اس کی گواہی دیں یا نہ دیں اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافقین اپنی گواہی میں جھوٹے ہیں ان کا باطن ان کے ظاہر کے مطابق نہیں ہے۔ آیت (2) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہوں نے اپنی جھوٹی قسموں کو ڈھال بنا لیا ہے جن کے ذریعہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو قید و بند اور قتل سے بچاتے ہیں خو داسلام پر دل سے عمل پیرا نہیں ہوتے ہیں اور مدینہ کی سوسائٹی میں اسلام اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف شکوک و شبہات پھیلا کر لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے سے روکتے ہیں اور جو اسلام میں داخل ہوگئے ہیں، انہیں جہاد میں جانے اور نیکی کے دیگر کاموں سے روکتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ان کے یہ سارے کرتوت بڑے ہی گھناؤنے ہیں۔ المنافقون
2 المنافقون
3 (2) ان کی بداعمالی اور بدسلوکی، ان کے نفاق کا نتیجہ ہے کہ پہلے تو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا زبان سے قارار کیا، پھر شک و شبہ میں مبتلا ہو کر منافق بن گئے اور اس نفاق کی اللہ نے انہیں پہلی سزا یہ دی کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی، ان سے فہم و تدبر کی صلاحیت چھین لی اور ان کے دلوں کی طرف جانے والے ایمان کے سارے راستے بند کردیئے۔ المنافقون
4 (3) عبداللہ بن ابی اور دیگر منافقین کی حالت پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے، اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ جب آپ ان منافقین کو دیکھیت ہیں تو بظاہر ان کی شکل و صورت بڑی اچھی لگتی ہے، ان کیے اجسام خوبصورت معلوم ہوتے ہیں اور ان کی چرب زبانی کی وجہ سے ان کی باتیں بھی آپ کو اچھی لگتی ہیں، لیکن وہ فہم و تدبر اور ہر قسم کے روحانی فائدے سے ایسے ہی عاری ہیں جیسے کہ لکڑی جسے دیوار سے لگا کر کھڑی کردی جاتی ہے، نہ وہ کسی عمارت میں لگی ہوتی ہے اور نہ ہی کسی اور چیز کو سہارا دیتی ہے، یعنی بے کار محض ہوتی ہے، بعینہ یہی حال منافقین کے اجسام کا ہے جو حقیقی روح اور زندگی سے خالی ہیں۔ اور چونکہ ہر وقت انہیں خوف لاحق ہوتا ہے کہ نہ جانے کب اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر وحی نازل کر کے ان کا پردہ فاش کر دے ان کے قید و بند اور قتل کا حکم دے دے اور ان کے اموال اور ان کی اولاد کو ان کے حلال بنا دے، اس لئے ہر سرسراہٹ پر ان کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور چونک اٹھتے ہیں کہ کہیں ان کے بارے میں اللہ کا حکم آ تو نہیں گیا۔ اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ اے میرے نبی ! یہ منافقین آپ کے پکے دشمن ہیں، یہ لوگ دل سے آپ کے دشمنوں کے ساتھ ہیں اور ہر آن انتظار میں ہیں کہ کب آپ پر اور مسلمانوں پر کوئی مصیبت نازل ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کی ان پر مار ہو، راہ حق سے کیسے دور ہوتے جا رہے ہیں، قرآن نازل ہو رہا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو تعلیم دے رہے ہیں اور دعوتی کوششوں کے اچھے آثار مومنوں کے اقوال و افعال اور اخلقا و افکار پر ظاہر ہو رہے ہیں لیکن دل کے اندھوں کو کچھ بھی نظر نہیں آتا ہے۔ المنافقون
5 (4) جہجاہ غفاری اور سنان انصاری کے درمیان ” مریسیع“ کنواں کے پاس جھگڑے کے بعد، عبداللہ بن ابی نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مہاجرین صحابہ کے بارے میں جو کچھ کہا تھا، اس کی اطلاع جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہوگئی، تو کچھ لوگوں نے عبداللہ بن ابی کو مشورہ دیا۔ کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائے، معافی مانگے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کرے کہ آپ اس کے لئے اللہ سے طلب مغفرت کی دعا کریں تو اس نے کبر و غرور کے ساتھ اپنی گردن پھیر کر کہا کہ ” تم لوگوں نے مجھے ایمان لانے کو کہا میں ایمان لے آیا، زکاۃ دینے کو کہا میں نے زکاۃ دی، اب تو محمد کو صرف سجدہ کرنا ہی باقی رہ گیا ہے“ تو ذیل کے کی چاروں آیتیں نازل ہئیں جن میں منافقفین کے اس سردار اور اسی جیسے دیگر منافقوں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ آیت (5) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جب منافقوں سے کہا جاتا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر معذرت پیش کرو، تاکہ وہ تمہارے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں، تو وہ تکبر کے ساتھ اپنی گردنوں کو جھٹک کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑاتے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جانے سے انکار کردیتے ہیں۔ آیت (6) میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اس کفر و استکبار کا نتیجہ یہ بیان فرمایا کہ اے میرے نبی ! آپ چاہے ان کے لئے دعائے مغفرت کریں یا نہ کریں، اللہ تعالیٰ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا، اس لئے کہ وہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ہے اور منافقین اپنی سرکشی اور گناہوں کے سبب بدرجہ اولیٰ فاسق ہیں، بالخصوص عبداللہ بن ابی جو جھوٹا ہے جس کے انگ انگ سے نفاق اور شارت پھوٹتی ہے۔ المنافقون
6 المنافقون
7 (5) عبداللہ بن ابی نے غفاری اور خزرجی کے جھگڑے کے بعد انصار سے کہا تھا کہ ” تم لوگ مکہ کے ان کنگالوں پر خرچ کرنا بند کر دو، تو یہ چلتے پھرتے نظر آئیں گے“ اللہ تعالیٰ نے اس کی اور اس جیسے دیگر منافقین کی سرزنش کرتے ہوئے فرمایا کہ آسمانوں اور زمین کے خزانے اللہ کی ملکیت ہیں، وہی جسے چاہتا ہے روزی دیتا ہے، پھر یہ منافق کیسے دعویٰ کرتا ہے کہ اگر وہ صحابہ کرام پر خرچ نہیں کرے گا، تو سب بھوک سے پریشان ہو کر محمد کے پاس سے تتر بتر ہوجائیں گے حقیقت یہ ہے کہ مرض نفاق کی وجہ سے ان کے دل اندھے ہوگئے ہیں، اسی لئے اتنی ظاہر و باہر بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ المنافقون
8 (6) اسی رئیس المنافقین نے کہا تھا :” اللہ کی قسم ! مدینہ واپس پہنچ کر ہم میں جو عزت والا ہے، وہ ذلیل کو نکال دے گا“ او اس منافق کے ذہن میں ہ بات نہیں آئی کہ فی الحقیقت عزت و غلبہ اور سربلندی تو اللہ، اس کے رسول، اور مومنوں کے لئے ہے، لیکن منافقین اپنی کو رمغزی کے سبب اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ المنافقون
9 (7) گزشتہ آیتوں میں منافقین کے ان برے عادات و خصائل کا ذکر ہوا جن کے نتیجے میں وہ لوگ اللہ کی یاد سے غافل ہوگئے تھے اور اب مومنوں سے کہا جا رہا ہے کہ دیکھو تم ان کی طرح نہ ہوجاؤ اور اپنے مال و دولت اور اولاد کی اندھی محبت میں اس طرح نہ کھو جاؤ کہ اللہ کی یاد سے غافل ہوجاؤ، جو دنیا و آخرت میں ہر خسران ہلاکت کا سبب اول ہے۔ آیت (10) میں کارہائے خیر کے لئے مزید تاکید کے طور پر اللہ نے فرمایا کہ مسلمانو ! ہم نے تمہیں جو روزی دی ہے، اس میں سے خیر کے کاموں میں خرچ کرتے رہو، قبل اس کے کہ تمہیں موت آجائے اور تم کف افسوس ملتے رہ جاؤ اور اس وقت تمنائے مستحیل کرتے ہوئے کہنے لگو کہ اے رب ! تو مجھے تھوڑی سی مہلت دیدے تاکہ صدقہ خیرات کرلوں اور نیکو کاروں میں سے ہوجاؤں۔ آیت (11) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی یہ تمنا ہرگز پری نہیں ہوگی، اس لئے کہ اللہ کا نظام ازلی ہے کہ کسی کی موت ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں ٹالی جاتی آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ لوگو ! اللہ تمہارے کارناموں سے اچھی طرح واقف ہے، اس لئے قیامت کے دن وہ ہر ایک کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ مفسر ال کیا الہراسی نے لکھا ہے : (وانفقوا من مارزقناکم من قبل ان یاتی احدکم الموت) آیت دلیل ہے کہ زکاۃ واجب ہوجانے کے بعد فوراً ادا کرنا ضروری ہے۔ ترمذی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جس کے پاس مال ہو اور وہ حج نہیں کرے گا، یا زکاۃ واجب ہوجانے کے بعد ادا نہیں کرے گا، تو وہ موت کے وقت دوبارہ دنیا میں لوٹنے کی تمنا کے گا پھر انہوں نے یہی آیت پڑھی۔ وباللہ التوفیق۔ المنافقون
10 المنافقون
11 المنافقون
0 سورۃ التغابن مدنی ہے، اس میں اٹھارہ آیتیں اور دو رکوع ہیں تفسیر سورۃ التغابن نام : آیت (9) (یوم یجمعکم لیوم الجمع ذلک یوم التغابن) سے ماخوذ ہے، یعنی وہ سورت جس میں ” التغابن“ کا لفظ آیا ہے۔ زمانہ نزول : اکثر کے نزدیک یہ سورت مدنی ہے، البتہ ضحاک کہتے ہیں کہ یہ مکی ہے اور کلبی کا قول ہے کہ اس کی کچھ آیتیں مکی اور کچھ مدنی ہیں نحاس نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ” سورۃ التغابن“ مکہ میں نازل ہوئی تھی، صرف آخر کی چند آیتیں عوف بن مالک اشجعی کے بارے میں مدینہ میں نازل ہوئی تھیں۔ انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے ساتھ اپنے اہل و عیال کی بدسلوکی کا ذکر کیا تھا، تو (یایھا الذین امنوا ان من ازواجکم واولالکم عدوالکم فاحذروھم) سے آخر سورت تک نازل ہوئی تھی۔ التغابن
1 (1) سورۃ الحدید، سورۃ الحشر اور سورۃ الجمعہ کی پہلی آیت کی تفسیر میں بیان کیا جا چکا ہے کہ آسمانوں اور زمین میں جتنے حیوانات، نباتات اور جمادات ہیں، سب اللہ کی پاکی اور بڑائی بیان کرتے ہیں، کوئی اپنی زبان سے تسبیح پڑھتا ہے، جیسے فرشتے اور جن وانس، اور کسی کی ہئیت و حالت سے آشکارا ہوتا ہے کہ اس کا خالق تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے، جیسے آسمان و زمین درخت نباتات اور پہاڑ وغیرہ وہ شہنشاہ دو جہاں ہے، آسمانوں اور زمین میں اس کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا، تمام تعریفوں کا وہ تنہا سزا وار ہے، اور اس کی طاقت و قدرت لامحدود ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ التغابن
2 (2) مفسر ابوالسعود نے اس کی تفسیر یوں بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو سب سے اچھی شکل میں پیدا کیا، ان میں علمی اور عملی کمالات کو قبول کرنے کی صلاحیت ودیعت کی، لیکن ان میں سے بعض نے اپنی خلقت کے تقاضے کے خلاف کلمہ حق کا انکار کر کے کفر کو اختیار کرلیا اور بعض نے اپنی خلقت کے تقاضے کے مطابق ایمان باللہ کی راہ اختیار کی اور اس پر چل پڑے، ان کی تخلیق کا تقاضا یہ تھا کہ وہ سب کے سب صرف ایمان کو ہی اختیار کرتے اور اپنے خالق و موجد کی نعمت خلق اور اس کی دیگر نعمتوں کا شکر ادا کرتے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، بلکہ مختلف گروہوں اور ٹولیوں میں بٹ گئے۔ مفسرین لکھتے ہیں، مومن سے پہلے کافر کا ذکر اس لئے آیا ہے کہ مکی زندگی میں کفار ہی اکثریت میں تھے اور اس لئے بھی کہ مقام زجر و توبیخ اس کا تقاضا کرتا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگو ! اللہ تمہارے اعمال سے اچھی طرح باخبر ہے، ایک ذرہ بھی اس سے مخفی نہیں ہے، اور وہ ضرور تمہیں تمہاے ان اعمال کے مطابق بدلہ دے گا۔ التغابن
3 (3) اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو مخصوص غرض و غایت کے لئے پیدا کیا ہے، انہیں بے مقصد نہیں پیدا کیا ہے اور انسانوں کی تخلیق تو اس نے سب سے اچھی شکل و صورت میں کی ہے، انہیں نہایت ہی معتدل مزاج عطا کیا، عقل، قوت گویائی اور قوت سماع سے نوازا اور مخلوقات میں تصرف کرنے اور ان سے مستفید ہونے کی صلاحیت دی۔ اللہ تعالیٰ نے اسی مفہوم کو سورۃ غافر آیت (46) میں یوں بیان فرمایا ہے : (وصورکم فاحسن صورکم ورزقکم من الطیبات) ” اور اس نے تمہاری شکل و صورت بنائی، تو تمہیں بہت ہی اچھی صورت عطا کی اور بطور روزی تمہیں عمدہ چیزیں دیں“ اور سورۃ التین آیت (4) میں فرمایا ہے : (لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم“” ہم نے انسان کو سب سے اچھی شکل و صورت میں پیدا کیا ہے“ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بہرصورت قیامت کے دن سب کو اس کے پاس لوٹ کر جانا ہے، جب وہ انہیں ان کے ایمان و کفر اور اچھے اور برے اعمال کا بدلہ دے گا۔ التغابن
4 (4) وہ ذات باری تعالیٰ آسمانوں اور زمین کے تمام مخفی اور ظاہر اور تمام غائب و حاضر چیزوں کی خبر رکھتا ہے، بلکہ وہ علام الغیوب تو انسانوں کے دلوں میں پوشیدہ اسرار اور اچھی اور بری نیتوں کو بھی جانتا ہے، یعنی اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے، کائنات دو جہاں کی کوئی شے اس سے مخفی نہیں ہے۔ اس لئے بندوں کو چاہئے کہ وہ اپنا باطن برے اخلاق سے پاک رکھیں اور ان اخلاق حسنہ کو اپنائیں جن سے اللہ خوش ہوتا ہے۔ التغابن
5 (5) اللہ تعالیٰ نے اہل کفر و فجور کو مخاطب کر کے بطور زجر و توبیخ فرمایا کہ ماضی میں جن قوموں نے کفر کی راہ اختیار کی، کیا تمہیں ان کے انجام کی خبر نہیں ملی ہے، جیسے نوح، عاد، ثمود اور لوط کی قومیں کس طرح اللہ نے زمین سے ان کا وجود ختم کردیا اور جب قیامت آئے گی تو وہ انہیں درد ناک عذاب دے گا۔ اور یہ سب ان کے ساتھ اس لئے ہوا کہ ان کے پاس اللہ کے پیغامبر صریح او واضح نشانیاں لے کر آتے تھے، تو استکبار میں آ کر انہیں جھٹلا دیتے تھے اور ان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ انہیں دیکھو، یہ ہمارے ہی جیسے انسان ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ہادی و مرشد ہیں پھر انہوں نے اللہ کے پیغام حق دین اور رسول کا انکار کردیا اور سرکشی کی راہ اختیار کرلی تو اللہ نے بھی ان کے ایمان اور ان کی بندگی سے اظہار بے نیازی کرتے ہوئے انہیں ہلاک کردیا اس لئے کہ اللہ اپنی تمام مخلوقات اور اپنے بندوں کے ایمان و عمل سے یکسر بے نیاز ہے، وہ کسی چیز کا محتاج نہیں ہے اور ہر چیز اس کی محتاج ہے اور تمام حمد و ثناء کا وہ تنہا سزا وار ہے اور ہر مخلوق بہرحال اور بہر کیف اسی کی تعریف بیان کرتی رہتی ہے۔ التغابن
6 التغابن
7 (6) اللہ تعالیٰ نے کافروں کے کبر و عناد اور ان کے اس زعم باطل کی تردید کی ہے کہ وہ دوبارہ زندہ نہیں کئے جائیں گے۔ اللہ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ وہ اپنے رب کی قسم کھا کر ان کے زعم باطل کی تردید کریں اور ان کے دل و دماغ میں یہ بات اتارنے کی کوشش کریں کہ قیامت ضرور آئے گی اور وہ دوبارہ یقیناً اٹھائے جائیں گے اور انہیں ان کے کرتوتوں کی خبر دی جائے گی اور ایسا کرنا اللہ کے لئے نہایت آسان ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : قرآن میں یہ تیسری آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بعث بعد الموت کی یقین دہانی کے لئے اپنے رب کی قسم کھانے کا حکم دیا ہے پہلی آیت سورۃ یونس (35) (ویستبؤنک احق ھو قل ای وربی انہ لحق) ہے، جس کا ترجمہ ہے ” اور وہ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا عذاب آخرت واقعی سچ ہے۔ آپ فرما دیجیے کہ ہاں، قسم ہے میرے رب کی، وہ واقعی سچ ہے“ اور دوسری آیت سورۃ سبا (3) (وقال الذین کفروا الاتاتینا الساعۃ قلی بلی و ربی لتاتینکم) ہے، جس کا ترجمہ ہے :” اور کفار کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت نہیں آئے گی، آپ کہہ دیجیے کہ ہاں، میرے رب کی قسم ! وہ تم پر یقیناً آئے گی۔ “ التغابن
8 (7) جب قیامت کا آنا، تمام انسانوں کا دوبارہ زندہ کیا جانا اور جزاء و سزا یقینی ہے تو لوگو ! تمہارے لئے اسی میں بھلائی ہے کہ اللہ، اس کے رسول اور قرآن کریم پر ایمان لے آؤ جس کی روشنی کفر و جہالت کی تاریکیوں کو یکسر ختم کردیتی ہے اور جس کی بدولت انسان اس راہ راست پر بے دھڑک چلتا جاتا ہے جو اسے جنت الفردوس تک پہنچا دیتی ہے۔ اور دنیا میں اس یقین کے ساتھ زندہ رہو کہ اللہ تمہاے تمام اعمال سیپ وری طرح باخبر ہے، اس لئے قیامت کے دن کے عذاب سے نجات کی یہی ایک صورت ہے کہ ایمان باللہ اور عم صالح کی راہ اختیار کرو۔ التغابن
9 (8) اس آیت کریمہ کا تعلق اوپر والی دونوں آیتوں سے ہے، جن میں بیان کیا گیا ہے کہ روز قیامت انسان کو اس کے اعمال کی خبر دی جائے گی، قیامت کی مزید تفصیل یہاں بیان کی گئی ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو جمع کرے گا جو ابتدائے آفرنیش سے دنیا کے ختم ہونے تک دنیا میں پائے گئے اور اس دن کی ایک صفت یہ ہوگی کہ اہل جنت، جنت میں اپنے مقامات کے علاوہ، ان مقامات کو بھی پائیں گے جو اہل جہنم کے لئے مخصوص تھے اگر وہ اہل جنت میں سے ہوتے اور اہل جہنم، جہنم میں اپنی جگہوں کے علاوہ ان جگہوں میں بھی عذاب دیئے جائیں گے جو اہل جنت کے لئے مخصوص تھے، اگر وہ۔ العیاذ باللہ۔ اہل جہنم میں سے ہوتے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح حدیث ہے کہ جب کوئی بندہ جنت میں داخل کیا جائے گا تو اسے اس کی جہنم میں مخصوص جگہ دکھائی جائے گی، جس میں اگر وہ برے اعمال کرتا تو داخل کیا جاتا تاکہ اللہ کا مزید شکر ادا کرے اور جب کوئی بندہ جہنم میں داخل کیا جائے گا تو اسے اس کی جنت میں مخصوص جگہ دکھائی جائے گی جس میں اگر وہ اچھے اعمال کرتا تو داخل کیا جاتا، تاکہ اس کی حسرت ویاس میں اضافہ ہو۔ روز قیامت کی یہی وہ صفت ہے جس کی وجہ سے اسے یہاں ” یوم تغابن“ کہا یا ہے، یعنی ایسا دن جس میں لوگ ایک دوسرے کو نقصان پہنچائیں گے جیسے دنیا میں اہل تجارت ایک دوسرے کو خسارہ میں ڈالتے ہیں۔ آیت کے دوسرے حصہ : (ومن یومن باللہ) الآیۃ میں روز آخرت کے نجاح و فلاح اور سعادت و کامرانی کا سبب بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص اللہ پر ایمان لائے گا اور عمل صالح کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف کر دے گا اور اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان جنتوں میں اہل جنت ہمیشہ رہیں گے اور یہی وہ کامیابی ہے جس سے بڑھ کر کامیابی نہیں ہو سکتی، اس لئے کہ اہل جنت جہنم سے نجات پا جائیں گے جس میں داخل ہنے سے بڑھ کر انسان کی کوئی بدبختی نہیں ہو سکتی۔ آیت (10) میں روز قیامت کافروں کی شقاوت و بدبختی کا سبب بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ دنیا میں کفر کی راہ اختیار کریں گے اور اللہ کی آیتوں کی کبر و عناد کی وجہ سے جھٹلائیں گے، آخرت میں ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہوگا۔ التغابن
10 التغابن
11 (9) مفسرین نے اس آیت کریمہ کا سبب نزول کفار مکہ کا یہ قول بیان کیا ہے کہ اگر مسلمانوں کا دین برحق ہوتا تو اللہ تعالیٰ انہیں دنیاوی مصیبتوں میں گرفتار نہ کرتا اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا کہ مصیبت چاہے کوئی بھی ہو، کسی بھی انسان کو اللہ کے حکم اور اس کی مشیت سے ہی لاحق ہوتی ہے، اس بارے میں اچھے اور برے سبھی برابر ہیں، لیکن جو بندہ مومن اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اسے جو مصیبت لاحق ہوئی ہے وہ اللہ کی تقدیر اور اس کی مشیت کے مطابق ہے، اللہ تعالیٰ اس کا ایمان بڑھا دیتا ہے اور اسے سکون قلب عطا فرماتا ہے اور روز قیامت اسے اجر عظیم عطا فرمائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہے الزمر آیت (10) میں فرمایا ہے : (انما یو فی الصابرون اجرھم بغیر حساب) ” صبر کرنے والوں کو بے حد و حساب اجر دیا جائے گا۔“ لیکن جو بندہ صبر کا دامن چھوڑ دے گا، اللہ کی تقدیر پر راضی نہیں ہوگا اور جزع فزع کرے گا، اسے اللہ اس کے نفس کے حوالہ کر دے گا، اور قیامت کے دن اسے کوئی اچھا بدلہ نہیں ملے گا۔ آیت کے آخر میں اللہ نے فرمایا کہ وہ ہر چیز کی پوری خبر رکھتا ہے، کائنات میں کوئی چیز اس کی اجازت اور اس کے علم کے بغیر وجود میں نہیں آتی اور یہ بات اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کی تقدیر پر راضی رہا جائے اور اس کی مشیت کے آگے ہر دم سرتسلیم خم رکھا جائے۔ التغابن
12 (10) اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت کریں، اور اس کے رسول کی اطاعت ریں، اس لئے کہ دنیا اور آخرت کی ہر کامیابی اور نیک بختی کا دار و مدار اسی پر ہے اور اگر کوئی اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت سے روگردانی کرتا ہے، تو اس کا نقصان اسی کو پہنچے گا، اللہ کے رسول پر اس کی ذمہ داری نہیں آتی، اس کا کام تو پیغام رسانی تھی جو اس نے انجام دے دیا۔ التغابن
13 (11) اوپر کی آیتوں میں جس باری تعالیٰ نے اپنی اطاعت اور اپنے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس کے سوا کوئی لائق بندگی نہیں ہے، اس لئے ممنوں کو ہر حال میں صرف اسی قادر مطلق ذات پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ التغابن
14 (12) مکہ کے بعض افراد نے اسلام لانے کے بعد ہجرت کی نیت کی تو ان کی بیویوں اور بال بچوں نے انہیں ہجرت کرنے سے روک دیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہی مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے بال بچوں سے بچ کر رہیں اور ان کی خواہش کے مطابق اللہ کی مرضی کے کاموں سے نہ رکیں، ابن جریر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ اس آیت کے مذکورہ بالا حصہ کے نازل ہونے کے بعد جب کوئی مسلمان اپنے بال بچوں کی جانب سے ہجرت سے روکا جاتا تو انہیں دھمکی دیتا کہ انہوں نے اسے روکا تو وہ انہیں سزا دے گا تو آیت کا دوسرا حصہ : (وان تعفوا وتصفحوا) الآیۃ نازل ہوا، جس میں انہیں عفو و درگزر کا طریقہ اختیار کرنے کی نصیحت کی گئی، اس لئے کہ اللہ بڑا عفو و درگذر کرنے والا ہے، اور وہ عفو و درگذر کرنے والے کو پسند کرتا ہے اور اس کے بدلے میں اجر عظیم عطا کرتا ہے۔ التغابن
15 (13) ابن جریر نے ضحاک سے روایت کی ہے کہ کچھ لوگ اسلام لانے کے بعد اپنی بیویوں، بچوں اور باپ ماں کو چھوڑ کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس چلے جات تو ان کے خاندان والے اللہ کا واسطہ دے کر انہیں سب کو چھوڑ کر چلے جانے سے منع کرتے، جس سے بعض لوگ متاثرہ کر ہجرت کرنے سے رک جاتے ضحاک کہتے ہیں کہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ لیکن تفسیر کے عام قاعدہ کے مطابق آیت کا حکم عام ہے، اور اس کے ذریعہ تمام ہی مومنوں کو اس بات سے ڈرایا گیا ہے کہ انہیں اپنے بال بچوں کی محبت اور ان کی خواہش کی پیروی میں اللہ کی طاعت و بندگی اور ہجرت و جہاد سے نہیں رکنا چاہئے۔ التغابن
16 (14) جب مومنوں کو حکم دیا گیا کہ وہ مال و اولاد کے فتنہ میں نہ پڑیں اور ان کی محبت پر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو ترجیح دیں تو یہ بتا دینا بھی ان کے مناسب حال رہا کہ اللہ تعالیٰ ان سے ان کی طاقت سے زیادہ ڈرنے اور عمل صالح کا مطالبہ نہیں کرتا، اور یہ کہ وہ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگو ! تم جتنی طاقت رکھتے ہوا تنا اللہ سے ڈرتے رہو اور اللہ کے اوامر کو خوب اچھی طرح سمجھو اور ان پر عمل کرو اور اللہ نے تمہیں جو مال و دولت دیا ہے، اس میں سے اس کی راہ میں خرچ کرو، اسی میں تمہارے لئے خیر و فلاح ہے اور جان رکھو کہ آخرت میں فلاح و نجاح پانے والے صرف وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ مال و دولت کی شدید لالچ، اس کی بندگی اور بخل کی بیماری سے بچا لے، جس کے نتیجے میں وہ اللہ کا دیا ہوا مال اس کی راہ میں خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس آیت کریمہ سے فقہائے اسلام استدلال کرتے ہیں کہ ہر وہ عمل واجب جس کے کرنے سے بندہ عاجز ہوجائے اس کا کرنا اس سے ساقط ہوجاتا ہے اور جس عمل کے بعض حصہ کی اسے قدرت ہو اور بعض حصہ کے کرنے سے عاجز رہے، تو وہ صرف اپنی طاقت و قدرت کے مطابق عمل کا ہی مکلف ہوگا اور باقی اس سے ساقط ہوجائے گا جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ” میں جب تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو اپنی طاقت کے مطابق اس پر عمل کرو“ التغابن
17 (15) اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی مزید ترغیب دلاتے ہوئے لوگوں سے کہا گیا کہ تم اس کی راہ میں جو حلال مال بھی خرچ کرو گے گویا اسے قرض دو گے، جسے کئی گنا بڑھا کر تمہیں لوٹا دیا جائے گا اور مزید برآں تمہارے گناہ بھی معاف کردیئے جائیں گے، اس لئے کہ وہ ” شکور“ ہے، اپنے بندے کے تھوڑے عمل کے عوض اجر کثیر دیتا ہے اور وہ ” حلیم“ ہے، گناہوں پر جلد مؤاخذہ نہیں کرتا، بلکہ توبہ کی مہلت دیتا ہے اور وہ غائب و حاضر تمام اعمال کی خبر رکھتا ہے، اس لئے کوئی عمل خیر اس کے نزدیک ضائع نہیں ہوتا اور وہ بڑا ہی زبردست اور بڑی حکمتوں والا ہے، اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اس کے تمام اوامرو نواہی حکمتوں سے پر ہیں جنہیں وہی جانتا ہے۔ التغابن
18 التغابن
0 سورۃ الطلاق مدنی ہے، اس میں بارہ آیتیں اور دو رکوع ہیں تفسیر سورۃ الطلاق نام : آیت (1) میں دوبارہ طلاق کا لفظ آیا ہے اور پوری سورت کا ضوع طلاق کے احاکم ہیں، اسی لئے اس کا نام ” سورۃ الطلاق“ رکھ دیا گیا عبداللہ بن مسعود (رض) نے اسے ” چھوٹی سورۃ النساء“ بھی کہا ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ سورت تمام کے نزدیک مدنی ہے، ابن مردودیہ اور بیہقی وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ الطلاق مدینہ میں نازل ہوئی تھی۔ الطلاق
1 (1) ابن ابی حاتم نے انس بن مالک (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حفصہ (رض) کو طلاق دے دی، تو وہ اپنے باپ ماں کے پاس چلی گئیں تب یہ آیت نازل ہوئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا گیا کہ وہ حفصہ کو واپس لے لیں، اس لئے کہ وہ روزہ دار اور تہجد گذار ہیں اور جنت میں آپ کی بیویوں میں سے ہوں گی ہیثمی نے مجمع الزوائد (4/633) میں لکھا ہے کہ اس حدیث کو بزار اور ابویعلی نے روایتکی ہے اور ابویعلی کی سند کے رواۃ صحیح بخاری کے رواۃ ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے پہلے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور پھر آپ کی امت کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ مسلمانو ! جب تمکسی ضروری امر کی وجہ سے اپنی بیویوں کو طلاق دینی چاہو، تو اس بارے میں اللہ کے اوامر کا لحاظ کئے بغیر فوراً ہی طلاق نہ دے دو، بلکہ مشروع طریقہ کے مطابق طلاق دو، یعنی ایسے ” طہر“ میں طلاق دو جس میں تم نے ان کے ساتھ جماع نہ کیا ہو، تاکہ ان کی عدت کی مدت واضح اور معلوم رہے اس لئے کہ اگر تم انہیں حالت حیض میں طلاق دو گے، تو وہ حیض عدت میں شمار نہیں ہوگا۔ اور ان کی عدت کا زمانہ طویل ہوجائے گا اسی طرح اگر تم انہیں حالت حیض میں طلاق دو گے، تو وہ حیض عدت میں شمار نہیں ہوگا، اور ان کی عدت کا زمانہ طویل ہوجائے گا، اسی طرح اگر تم انہیں ایسے ” طہر“ میں طلاق دو گے، جس میں ان کے ساتھ جماع کیا ہے تو ممکن ہے کہ حمل قار پا جائے اور معلوم نہ ہو سکے گا کہ اس کی عدت کے لئے ماہواری کا اعتبار ہوگا یا وضع حمل کا اور مسلمانو ! اپنی مطلقہ بیویوں کی عدت کا زمانہ ٹھیک سے یاد کرلو، اگر عورت ایسی ہے جسے ماہواری آتی ہے تو تین ماہواری کے ذریعہ اور اگر ماہواری بند ہوچکی ہے تو مہینوں کے شمار کے ذریعہ، یا حاملہ ہے تو وضع حمل کے ذریعہ اس لئے کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حق، طلاق دینے والے شوہر کے حق اور اس مرد کے حق کی حفاظت ہوتی ہے جو اس عورت سے آئندہ شادی کرنا چاہے گا، نیز مطلقہ عورت کے حق نان و نفقہ کی حفاظت ہوتی ہے۔ اور مسلمانو ! اپنے تمام امور میں اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے اور ان مطلقہ عورتوں کو ان گھروں سے نکل جانے پر جمبور نہ کرو جن میں طلاق کے وقت وہ رہائش پذیر تھیں اس لئے کہ زمانہ عدت میں اس کی رہائش کی ذمہ داری شوہر پر ہے، اور ان عورتوں کے لئے بھی جائز نہیں ہے کہ وہ وہاں سے نکل کر کہیں اور چلی جائیں اس لئے کہ زمانہ عدت میں وہ شوہر کی زوجیت میں ہی باقی رہتی ہیں۔ البتہ اگر مطلقہ عورت زنا یا کسی ایسے برے قول یا فعل کا ارتکاب کر بیٹھتی ہے جو اہل خانہ کی ذلت و رسوائی کا سبب ہو تو ایسی صورت میں اس گھر سے اس کا نکال دینا جائز ہوگا، کیونکہ شریعت نے ” رہائش“ کو شہر کے ذمہ اس کی رعایت کرتے ہوئے واجب قرار دیا تھا اور جب وہ خود کو ءی ایسی حرکت کر بیٹھی جو شوہر اور اس کے گھر والوں کے لئے پریشانی کا سبب بن گئی، تو اس کا وہاں سے نکال دینا جائز ہوگیا۔ اگر مطلقہ بائنہ ہے تو اس کے لئے رہائش واجب نہیں ہے، اس لئے کہ رہائش نان و نفقہ کے تابع ہے اور نفقہ مطلقہ رجعیہ کے لئے ہے نہ کہ بائنہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : مسلمانو ! اوپر جو احکام بیان کئے گئے ہیں وہ اللہ کے حدود ہیں، ان سے تجاوز کرنا تمہارے لئے جائز نہیں ہے اور اس صراحت کے باوجود اگر کوئی شخص ان حدود سے تجاوز کرتا ہے تو وہ اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے اور جلدی یا دیر سے اللہ کی سزا کا حقدار بنتا ہے مسلمانو ! تمہیں معلوم نہیں کہ زمانہ عدت سے متعلق جو احکام اوپر بیان کئے گئے ہیں، ان میں اللہ نے کیا حکمتیں مضمر رکھی ہیں، ممکن ہے کہ شوہر کے دل میں اللہ تعالیٰ مطلقہ کی محبت دوبارہ ڈال دے اور اسے واپس کرلے اور پھر سے عمدہ ازدواجی زندگی گذارنے لگے، ہوسکتا ہے کہ طلاق کا سبب بیوی کی جانب سے رہا ہو، اور زمانہ عدت میں وہ سبب زائل ہوجائے اور شوہر اسے واپس لے لے اور ایک ظاہر حکمت یہ بھی ہے کہ زمانہ عدت کے ختم ہونے تک یقین ہوجاتا ہے کہ عورت کا رحم طلاق دینے والے شوہر کے بچہ سے پاک و صاف ہے۔ (فطلقوھن لعدتھن) کی جو تفسیر اوپر بیان کی گئی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ طلاق ایسے ” طھر“ میں دی جائے جس میں اس کے ساتھ جماع نہ کیا گیا ہو اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ فقہاء نے اسی سے استفادہ کرتے ہوئے طلاق کی تین قسمیں بتائی ہیں، پہلی ” طلاق سنت“ ہے یعنی آدمی اپنی بیوی کو ایسے ” طہر“ میں طلاق دے جس میں اس کے ساتھ جماع نہ کیا ہو، یا وہ حاملہ ہو جس کا حمل ظاہر ہوچکا ہو دوسری ” طلاق بدعت“ ہے یعنی شوہر اپنی بیوی کو حالت حیض میں یا ایسے ” طہر“ میں طلاق دے جس میں اس کے ساتھ جماع کیا ہو اور تیسری قسم ” نہ طلاق سنت ہے نہ طلاق بدعت“ یعنی مطلقہ نا بالغہ ہو، یا بوڑھی ہوگئی ہو یا جوابھی اپنے شوہر سے نہ ملی ہو۔ طلاق بدعی کے بارے میں علمائے اسلام کی دورائے ہے : جمہر کا خیال ہے کہ طلاق واقع ہوجائے گی اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیمہ، ان کے شاگرد امام ابن القیم اور اکثر محدثین کی رائے ہے کہ طلاق بدعی حرام ہے اور واقع نہیں ہوتی ہے نیز ان کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دے گا تو صرف ایک ہی واقع ہوگی، اس لئے کہ جس طرح حیض میں اور ایسے ” طہر“ میں طلاق دینا ناجائز ہے جس میں شوہر نے جماع کیا ہو اور طلاق واقع نہیں ہوتی، اسی طرح ایک مجلس کی تین طلاقیں بھی حرام ہیں اس لئے صرف ایک ہی واقع ہوگی، باقی دو طلاقیں لغو قرار دے دی جائیں گی۔ الطلاق
2 (2) مطلقہ عورت کی عدت کا زمانہ جب ختم ہونے کے قریب ہو، تو شہر اسے یا تو اس کے تمام حقوق کے ساتھ لوٹالے، یا اس کے حقوق ادا کر کے بغیر اختلاف و نزاع پیدا کئے اور اس کے لئے مشکلات کھڑی کئے بغیر، اسے اس کے حال پر چھوڑ دے، یہاں تک کہ اس کی عدت گذر جائے اور بائنہ ہو کر اپنے خویش و اقارب کے پاس چلی جائے۔ (واشھدو اذوی عدل منکم) الآیۃ میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ طلاق دینے والے رجوع کرنے اور ہمیشہ کے لئے چھوڑ دینے، دونوں ہی حالتوں میں، دو دیانت دار و امانت دار مسلمان کو گواہ بنائیں، تاکہ آئندہ اختلاف و نزاع کا دروازہ بند ہوجائے، ابن عباس کہتے ہیں کہ اگر شوہر اپنی مطلقہ بیوی کو واپس لے لیتا ہے تو اب اس کے پاس دو طلاقیں باقی رہ جائیں گی۔ اور اگر اسے واپس نہیں لیتا اور اس کی عدت گذر جاتی ہے تو وہ ایک طلاق کے بعد بائنہ ہوجائے گی اور اب اسے اختیار ہے، چاہے تو اسی سے دوبارہ شادی کرلے یا چاہے تو کسی دوسرے سے کرلے۔ (واقیموا الشھادۃ للہ) میں اللہ تعالیٰ نے یہ نصیحت کی ہے کہ رجعت یا طلاق کے سلسلہ میں جو بھی گواہی ہو، اسے گواہان محض اللہ کی رضا کے لئے ادا کریں، شوہر یا مطلقہ کی خاطر اس میں کوئی تبدیلی نہ پیدا کریں۔ اس کے بعد اللہ نے فرمایا کہ ابتدائے سورت سے یہاں تک جو احکام بیان کئے گئے ہیں ان سب پر عمل وہ شخص کرتا ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، کیونکہ اللہ کے عقاب سے ایسا ہی آدمی ڈرتا ہے اس لئے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتا ہے۔ (ومن یتعدحدود اللہ) سے آیت (3) کے آخر تک اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو نصیحت کی ہے کہ جو شخص اللہ کے عذاب و عقاب سے ڈرتے ہوئے اس کے اوامر کی پابندی کرے گا نواہی سے بچے گا اور اس کے حدود کا پاس و لحاظ رکھے گا، اللہ تعالیٰ اس کے لئے شدائد و محن سے نکلنے کے لئے راستے بنا دے گا اور اس کے لئے ایسی جگہ سے روزی کا سامان کر دے گا جو اس کے شان و گمان میں بھی نہیں تھا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت کا مفہوم عام ہے، جس میں سنت کے مطابق طلاق دینے والا شخص بدرجہ اولی داخل ہے کہ اللہ تعالیٰ یا تو اس کے دل میں مطلقہ بیوی کو واپس لے لینے کی بات ڈال دے گا، یا عدت گذر جانے کے بعد اس کے لئے دوبارہ اس سے شادی کرنے کی گنجائش باقی رہے گی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے تمام امور میں صرف اللہ پر بھروسہ کرتا ہے، اور اس کے فرائض و واجبات کو ضائع نہیں کرتا اللہ ہر حال میں اس کا حامی و ناصر ہوتا ہے، نیز فرمایا کہ اللہ جو ارادہ کرتا ہے، اسے بہرحال واقع ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کوئی عاجز نہیں بنا سکتا اور اللہ تعالیٰ نے ہر کام کا مکان و زمان مقرر کردیا ہے، جس سے وہ آگے یا پیچھے نہیں ہو سکتا اور نہ اس میں کمی یا زیادتی ہو سکتی ہے اس لئے مومن کو اس کی تقدیر پر راضی رہنا چاہئے۔ الطلاق
3 الطلاق
4 (3) اس آیت کریمہ میں بوڑھی، نالغہ اور حاملہ عورتوں کی عدت بیان کی گئی ہے کہ جن عورتوں کی ماہواری بند ہوگئی ہو، ان کی عدت تین ماہ ہے، اور جو نابالغہ ہوں، ان کی عدت بھی تین ماہ ہے اور حاملہ عورتوں کی عدت حمل ہے، صحیحین میں ام سلمہ (رض) سے مروی ہے کہ سبیعہ اسلمیہ نے اپنے شہر کے انتقال کے صرف چالیس دن کے بعد بچہ جن دیا، تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی شادی کردی۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص طلاق اور دیگر امور میں اللہ کے احکام کی پابندی کرے گا، اللہ اس کے لئے آسانیاں پیدا کرے گا۔ آیت (5) میں فرمایا کہ مذکورہ بالا آیتوں میں طلاق، رجعت اور عدت کے جو احکام بیان کئے گئے ہیں، وہ سب احکام الٰہی ہیں جنہیں اللہ نے اس لئے نازل فرمایا ہے تاکہ بندے ان پر عمل کریں اور جو اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے گناہوں کو معاف کر دے گا اور اسے اجر عظیم سے نوازے گا، یعنی اسے جنت میں داخل کر دے گا۔ الطلاق
5 الطلاق
6 (4) آیت (1) میں مطلقہ رجعیہ کو گھر سے نکالنے سے منع کیا گیا ہے، یہاں اس حکم کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ اسے ایسے گھر میں رکھو جس میں اس حیثیت کی عورت اور مرد رہتے ہیں اور اسے رہائش، نان و نفقہ اور دیگر امور میں پریشان نہ کرو تاکہ تنگ آ کر گھر چھوڑ کر چلی جانے پر مجبور ہوجائے اور یہ حکم حاملہ اور غیر حاملہ دونوں قسم کی مطلقہ رجعیہ کے لئے ہے یعنی جب تک عدت کا زمانہ ختم نہیں ہوجاتا انہیں ان کی رہائش سے نکالنا جائز نہیں ے۔ اور اگر مطلقہ کو ت یسری طلاق دی جای چکی ہے اور وہ حاملہ ہے تو اسے رہائش اور نان و نفقہ دینا ہوگا جب تک وہ بچہ جن نہیں دیتی، بچہ کی ولادت کے بعد دونوں (ماں اور باپ) کو اختیار ہے، چاہے تو وہ ماں متعین اجرت پر بچہ کو دودھ پلائے اور چاہے تو باپ کسی دوسری عورت سے یہ کام لے اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کو نصیحت کی ہے کہ مفاہمت کرتے وقت دونوں ایک دوسرے کو درگزر کرنے اور بچے کی خیر خواہی کی نیت کریں تاکہ بچہ ماں سے جدا نہ ہو اور باپ پر اس کی طاقت سے زیادہ بار نہ ڈالا جائے۔ اور اگر دودھ پلائی کی اجرت کے سلسلہ میں دونوں ایک بات پر متفق نہ ہوں تو پھر باپ کسی دوسری دودھ پلانے والی کا انتظام کرے گا، اور ماں کو دودھ پلانے پر مجبور نہیں کرے گا، مفسرین نے لکھا ہے کہ اس میں ماں کے لئے ایک قسم کا عتاب ہے کہ اس نے ماں ہوتے ہوئے بچہ کی خاطر اجرت میں کمی برداشت نہیں کی، تو پھر اس سے بچہ لے لیا جائے گا اور کسی دایا کے حوالے کردیا جائے گا اور باپ کے لئے بھی عتاب ہے، اس نے باپ ہوتے ہئے اپنے بچہ کی خاطر اجرت میں کچھ اضافہ نہیں کیا، تو اس کا انجام یہ ہوگا کہ بچہ اپنی ماں سے جدا ہوجائے گا، اور دایا کے پاس جائے گا۔ الطلاق
7 (5) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مطلقہ دودھ پلانے والی ماں کے بارے میں باپ کو حکم دیا ہے کہ اگر وہ مالدار ہے تو بچہ کی ماں پر خرچ کرنے میں بخل سے کام نہ لے، بلکہ ماں اور بچہ دونوں پر فراخ دلی کے ساتھ خچ کرے اور اگر تنگ دست ہے تو اپنے حسب حال خرچ کرے نفقہ ہو یا اور کوئی عمل، اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے تنگ دستوں کو خوشخبری دی ہے کہ وہ ان کی پریشانی اور تنگ حالی کو عنقریب دور کر دے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (فان مع العسر یسرا) ” بے شک تنگ دستی کے ساتھ آسانی ہے۔ “ مفسرینل کھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ صحابہ کرام کے لئے سچ کر دکھایا کہ ان کی تنگ دستی دور کرنے کے لئے اللہ نے انہیں روم اور فارس کے خزانوں کا مالک بنا دیا، البتہ عام مسلمانوں کے لئے اللہ نے تقویٰ کی شرط لگادی ہے، جیسا کہ ابھی آیات (2/3) میں گذر چکا ہے کہ جو اللہ سے ڈرے گا، اللہ اس کے لئے راستے نکال دے گا اور ایسی جگہ سے اسے روزی دے گا جو اس کے شان و گمان میں بھی نہیں تھا اور آیت (4) میں فرمایا : اور جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے معاملات کو آسان بنا دے گا۔ الطلاق
8 (6) اللہ تعالیٰ نے بندوں کو اپنے اوامرواحکام کی مخالفت سے ڈراتے ہوئے فرمایا کہ گزشتہ زمانوں میں بہت سی قوموں نے اپنے رب کے احکام کی نافرمانی کی، تو اللہ نے ان کے کرتوتوں کا ان سے بڑا شدید حساب لیا اور انہیں بدترین عذاب سے دوچار کیا اور خسارہ اور ہلاکت و بربادی کے سوا انہیں کچھ نہ ملا اس لئے کہ جنت اور اس کی نعمتوں پر انہوں نے دنیا کی متاع حقیر کو ترجیح دیا۔ آیت (10) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان عقل والوں کو تنبیہہ کی کہ جب اللہ کی نافرمانی کا انجام دہ ہے جو اوپر بیان کیا گیا تو تمہیں اللہ سے ڈرتے ہوئے زندگی گذارنی چاہئے اور اس کے اوامر کے بجا لانے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ الطلاق
9 الطلاق
10 (7) (قذانزل اللہ الیکم ذکرا) میں ” ذکر“ سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک ” قرآن کریم“ ہے اور آیت (11) میں ” رسولا“ فعل محذوف ” ارسلنا“ کا مفعول ہے، اور اس سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور مقصود مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم یاد دلانا ہے کہ اس نے ان کی ہدایت کے لئے قرآن کریم نازل فرمایا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا جو قرآن کی صریح آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں ان کا مفہوم و معنی بیان کرتے ہیں اور صراط مستقیم پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں، تاکہ ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کو کفر و شرک اور معاصی کی ظلمتوں سے نکال کر اسلام کی رشنی میں لاکھڑا کردیں۔ آیت (11) کے دوسرے حصہ میں جس کی ابتدا (ومن یومن باللہ ویعمل صالحاً) سے ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ نے ایمان اور عمل صالح والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان جنتوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور وہاں انہیں بہت ہی عمدہ روزی عطا کرے گا جو کبھی منقطع نہیں ہوگی۔ الطلاق
11 الطلاق
12 (8) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس نے سات آسمان، سات زمین اور ان کے درمیان کی تمام مخلوقات کو پیدا کیا، دینی احکام و شرائع نازل کئے اور پوری کائنات کو چلانے کے لئے ضابطے اور قوانین بنائے اور ان تمام کا مقصد یہ ہے کہ اس کے بندے اسے پہچانیں اور اس بات کا یقین کرلیں کہ اس کا علم اور اس کی عظیم قدرت تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہوئی ہے۔ اور اس علم و یقین کا نتیجہ یہ ہو کہ تمام انسان صرف اسی کی بندگی کریں، اسی سے محبت کریں اور اس کے حقوق کی ادائیگی میں ہرگز کوتاہی نہ کریں۔ وباللہ التوفیق الطلاق
0 سورۃ التحریم مدنی ہے، اس میں بارہ آیتیں اور دو رکوع ہیں تفسیر سورۃ التحریم نام : پہلی ہی آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے کہا گیا ہے : (لم تحرم ما احل اللہ لک) یہیں سے اس سورت کا نام ماخوذ ہے، قرطبی نے لکھا ہے کہ اس کا ایک دوسرا نام ” سورۃ النبی“ بھی ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی کہتے ہیں کہ سب کے نزدیک یہ سورت مدنی ہے، نحاس اور ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ التحریم مدینہ میں نازل ہوئی تھی۔ التحريم
1 (1) اس آیت کریمہ کے شان نزول میں دو قسم کی حدیثیں آئی ہیں، ایک حدیث انس بن مالک (رض) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حفصہ (رض) کی باری کے دن ان کے گھر میں، اپنی لونڈی ماریہ قبطیہ سے مباشرت کرلی، اس وقت حفصہ اپنے میکے چلی گئی تھیں واپس آنے کے بعد جب انہیں اس کا اندازہ ہوا تو انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ یا رسول اللہ ! آپ نے میری باری کے دن میرے گھر میں وہ کام کیا ہے جو کسی دوسرے بیوی کے ساتھ آپ نے کبھی نہیں کیا تو آپ نے کہا، کیا تم یہ پسند نہیں کرو گی کہ میں اب کبھی اس کے قریب نہ جاؤں۔ حفصہ نے کہا : ہاں تو آپ نے ماریہ کو اپنے اوپر حرام کرلیا اور کہا کہ یہ بات کسی کو نہ بتاتا، لیکن حفصہ نے عائشہ کو بتا دیا، تو اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی خبر کردی اور یہ آیت نازل فرمائی۔ دوسرا واقعہ شہد پینے کا ہے۔ بخاری و مسلم کی عائشہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ آپ زینب بنت حجش کے پاس دیر تک رہتے اور شہد پیتے تھے اس لئے عائشہ اور حفصہ (رض) نے آپس میں طے کیا کہ ہم دونوں میں سے جس کے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے آیں، آپ سے کہے کہ آپ کے منہ سے ” مغافیر“ کی بو آرہی ہے، کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، جب آپ ان دونوں میں سے ایک کے پاس گئے تو انہوں نے ویسا ہی کہا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا کہ نہیں میں نے زینب بنت حجش کے پاس شہد پیا ہے اب میں کبھی نہیں پیوں گا، میں نے قسم کھالی اور تم کسی کو یہ بات نہ بتانا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ عائشہ (رض) ہی سے مروی ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حفصہ (رض) کے پاس شہد پیا اور ان کے پاس ٹھہرے رہے تو عائشہ نے سودہ اور صفیہ کے ساتھ مل کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ” مغافیر“ پینے والی بات کی تھی، مغافیر ایک میٹھا گوند ہوتا ہے جو ” عرفط“ نامی درخت سے ٹپکتا ہے اور بدبو دار ہوتا ہے۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ دونوں ہی واقعات صحیح ہیں، اس لئے ممکن ہے کہ یہ آیت دونوں ہی واقعات کے بعد نازل ہوئی ہو دونوں ہی واقعات میں آتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واقعہ کے بارے میں اپنی بعض بیویوں سے بات کی اور کہا کہ وہ کسی دوسرے کو نہ بتائے آیت کریمہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو حلال بنایا ہے کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ اسے کسی کی مرضی کی خاطر اپنے اوپر حرام کرلے، آیت میں اس بات کی بھی صراحت کردی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی اس لغزش کو درگذر فرما دیا ان پر رحم فرمایا، اور مسلمانوں کے لئے ایک شرعی حکم نازل کیا کہ اگر کوئی شخص کسی بات پر قسم کھالے تو اس کا کفارہ کیا ہے، جس کی تفصیل سورۃ المائدہ آیت (98) میں آئی ہے : (فکفارتہ اطعام عشرۃ مساکین من اوسط ماتطعمون اھلیکم اوکسوتھم اوتحریر رقبۃ فمن لم یجذ فصیام ثلاثۃ ایام ذلک کفارۃ ایمانکم اذا حلقتم) ” اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا دینا ہے اوسط درجے کا جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو، یا ان کو کپڑا دینا، ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے اور جس کے پاس مقدور نہ ہو وہ تین دن کے روزے رکھے، یہ تمہاری قسموں کا کفاہ ہے جب کہ تم قسم کھالو“ اس لئے جو شخص بھی کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے گا، چاہے وہ کھانے پینے کی چیز ہو یا کوئی لونڈی ہو، یا کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھا لے گا، پھر قسم توڑنا چاہے گا اس پر مذکور بالا کفارہ واجب ہوگا، آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ تمہارا مولیٰ ہے، دینی اور دنیاوی امور میں تمہاری عمدہ تربیت کرنی چاہتا ہے اور تمہیں بری باتوں سے دور رکھنا چاہتا ہے، اسی لئے اس نے قسم کا کفاہ ادا کرنا واجب قرار دیا ہے، تاکہ تم اس سے بری الذمہ ہوجاء، اور اللہ بڑا جاننے والا اور بڑی حکمتوں والا ہے، اسی لئے اس نے ایسے احکام واجب کئے ہیں جو تمہارے حالات کے مناسب اور تمہارے لئے مفید ہیں۔ التحريم
2 التحريم
3 (2) بہت سے مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں بعض زوجات نبی سے مراد حفصہ (رض) ہیں اور ” حدیثا“ سے مراد ماریہ قبطیہ (رض) یا شہد کو اپنے اوپر حرام کرلینا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حفصہ (رض) سے کہا تھا کہ تحریم ماریہ یا تحریم شہد کی جو بات میں نے تم سے بتائی ہے وہ کسی اور کو نہ بتانا، لیکن انہوں نے یہ بات عائشہ (رض) سے کہہ دی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خبر دے دی کہ آپ کا راز راز نہ رہا، حفصہ نے عائشہ کو بتا دیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حفصہ کو کچھ بات بتائی اور کچھ ان کا خیال کر کے نہیں بتایا حفصہ نے آپ سے پوچھا کہ آپ کو کس نے خبر دی ہے کہ میں نے عائشہ کو بات بتا دی ہے ؟ تو آپ نے فرمایا کہ مجھے اس کی خبر اس علیم و خبیر نے دی ہے جس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں رہتی۔ التحريم
4 (3) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی خاطر ناراضگی کا اظہار کیا ہے کہ حفصہ نے آپ کا راز عائشہ کو کیوں بتا دیا اور دونوں ایسا کام کیوں کیا جس سے آپ کا سکون درہم برہم ہوگیا، یہ تو ایسا گناہ ہے جس سے توبہ کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو خطاب کر کے فرمایا کہ تم دونوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ ادب و احترام نہیں کیا جو ان کا حق ہے، تمہیں اپنے اس گناہ سے توبہ کرنا چاہئے تاکہ اللہ تمہاری توبہ قبول کرلے اور اگر تم دونوں کسی ایسی بات پر اتفاق کرو گی جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکلیف کا باعث ہو، تو جان لو ! کہ نبی کا مولیٰ اللہ ہے اور جبرئیل ہیں اور نیک اہل ایمان ہیں اور ان سب کے بعد فرشتے آپ کی مدد کے لئے ہر وقت تیار ہیں، اس لئے کوئی ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا تم دونوں تو بھلا عورتیں ہو، اللہ، جبرئیل اور فرشتوں کے مقابلے میں تمہاری کیا حیثیت ہو سکتی ہے؟ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عظیمترین شرف و عزت کا بیان، اور آپ کی مذکورہ دونوں بیویوں کے لئے تنبیہہ اور دھمکی ہے۔ التحريم
5 (4) اس آیت کریمہ میں حفصہ، عائشہ اور دیگر امہات المومنین کو مزید دھمکی دی گئی ہے اور انہیں ڈرایا گیا ہے کہ اگر تم میرے نبی کو اذیت پہنچاؤ گی تو ممکن ہے وہ تم سب کو طلاق دے دیں اور ان کا رب تمہارے بدلے انہیں تم سے اچھی بیویاں عطا کرے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر کرم کیا اور اس آیت کے نازل ہونے کے بعدتمام امہات المومنین نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو راضی کیا، آپ کا غایت و رجہ ادب و احترام کیا اور بہترین مسلمان عورتیں بن گئیں، اس لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں طلاق نہیں دی، بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تک دنیا میں رہے، وہ سب آپ کی بیویاں ہیں، اور آخرت میں بھی آپ کی بیویاں ہوں گی۔ التحريم
6 (5) اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مخاطب کر کے نصیحت کی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان والوں کو اس عظیم او خطرناک آگ سے بچائیں جس کا ایندھن انسان اور پتھر کے وہ بت ہوں گے جن کی دنیا میں بت پرست عبادت کرتے تھے اور اس سے بچاؤ کی صورت یہ ہے کہ وہ ان گناہوں سے تائب ہوں جو اللہ کی ناراضگی اور عذاب آخرت کا سبب بنتے ہیں اور اس کے اوامر کو بجا لائیں اور نواہی سے بچیں اور اہل و عیال کو نار جہنم سے اس طح بچایا جاسکتا ہے کہ انہیں اسلام کی تعیم دیں اور اس پر عمل کرنے پر مجبور کریں آدمی کے لئے اس مہیب آگ سے بچاؤ کی یہی صورت ہے کہ وہ خود اسلام و شریعت کا پابند بنے اور اپنے ماتحتوں کو بھی پر عمل کرنے پر مجبور کرے۔ آگ کی یہ صفت بیان کی گئی کہ اس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے تو اس سے مقصود تہدید وتخویف ہے تاکہ اس کی ہیبت ناکی کا تصور کر کے بندے اپنے رب کی طاعت و بندگی کی طرف مائل ہوں اور جرائم و معاصی سے پرہیز کریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو فرشتے جہنم کے داروغہ اور پہرہ دار ہوں گے وہ انتہائی درجہ ترش رو اور سخت گیر ہوں گے ان کی آواز کرخت ہوگی، اور ان کا منظر نہایت بھیانک ہوگا، وہ اپنی قوت و جبروت کے ذریعہ جہنمیوں کو ذلیل و رسوا کریں گے اور ان کے سلسلہ میں اللہ کے اوامر کی تنفیذ میں ذرہ برابر نرمی اور تاخیر سے کام نہیں لیں گے وہ فرشتے اپنے رب کی غایت درجہ مطیع و فرمانبردار ہوں گے، اور انہیں جو حکم دیا جائے گا اسے کر گذرنے میں ہرگز تاخیر نہیں کریں گے۔ التحريم
7 (6) قیامت کے دن اہل نار کی توبیخ کرتے ہوئے ان سے کہا جائے گا کہ اے کافرو ! اب تمہاری کوئی معذرت قبول نہیں، معذرت کرنے کا وقت دنیا میں تھا جو گذر گیا اور اب کبھی واپس نہیں آئے گا یہ تو قیامت کی گھڑی ہے جہاں بندوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا اور تم نے تو دنیا میں اللہ کا انکار کیا، اس کی آیتوں کو تکذیب کی اور اس کے رسولوں اور مومنوں کے خلاف جنگ کی، اس لئے تمہارا انجام معلم ہے۔ التحريم
8 (7) اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مخاطب کر کے دوسری نصیحت یہ کی کہ وہ اپنے تمام گناہوں سے صدق دل کے ساتھ ایسی توبہ کریں جس میں رب العالمین سے یہ عہد و پیمان ہو کہ وہ اب کبھی بھی ان گناہوں کا ارتکاب نہیں کریں گے اور ایسی توبہ پر اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا کہ وہ ان کے گناہوں کو معاف کر دے گا اور انہیں اس دن اپنی جنتوں میں داخل کرے گا جب اللہ اپنے فضل و کرم سے اپنے نبی اور مومنوں کو رسوا نہیں کرے گا، جس دن مومنوں کا نور ان کے لئے ان کے آگے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہوگا اور جب وہ منافقین کا نور بجھتا ہوا دیکھیں گے تو اپنے رب سے دعا کریں گے اور کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہمارے نور کو باقی رکھ اور اسے مزید بڑھا دے تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا قبول کرے گا اور انہیں ان کے نور کی رہنمائی میں اپنے جوار میں جنات نعیم تک پہنچا دے گا۔ التحريم
9 (8) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کرنے اور ان پر شدت کے ساتھ حملہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ حکم جہاد زبان و قلم اور شمشیر و سنان سب کے ذریعہ جہاد کرنے کو شامل ہے، جہاد کا پہلا مرتبہ حکمت اور دانائی اور نرم اسلوب کے ساتھ اللہ ک بات کو لوگوں کے سامنے رکھنا ہے، انہیں دلائل و براہین کے ذریعہ قائل کرنا ہے اور اگر یہ اسلوب کارآمد نہیں ہوتا، اور دشمنان دین اسلام کے خلاف برسر پیکار ہوجائیں تو ہتھیار اٹھا لینا واجب ہوگا اور میدان کار زار میں انہیں شکست دے کر اسلام کو غالب بنانا ہوگا۔ کافروں اور منافقوں کا یہ انجام یعنی ان سے جہاد کیا جانا دنیا میں ہوگا اور آخرت میں ان کے کفر و نفاق کی وجہ سے ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، جو بڑا ہی برا ٹھکانہ ہوگا۔ التحريم
10 (9) آیات (10/11/12) میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور کافروں کی حالت بیان کرنے کیلئے دو مثالیں بیان کی ہیں، تاکہ معلوم ہوجائے کہ کسی کافر کی مومن سے قربت، کفر کے ساتھ اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی، اور کسی مومن کا کسی کافر سے اتصال اگر وہ ایمان باللہ کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے، اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں کو تنبیہہ کی گئی ہے اور انہیں ارتکاب معصیت سے خوف دلایا گیا ہے اور خبر دی گئی ہے کہ اگر وہ اپنی نیت اور اپنا عمل درست نہیں کریں گی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کا اتصال کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے کافروں کے لئے نوح اور لوط کی بیویوں کی مثال بیان کی ہے، ان دونوں کے شوہر یعنی نوح ولوط علیہما السلام اللہ کے نیک بندے اور نبی تھے، لیکن ان دونوں بیویوں نے دین میں اپنے شوہروں کے ساتھ خیانت کی یعنی ان کے لائے ہوئے دین کو قبول نہیں کیا تو انبیاء سے ان کا اتصال انہیں قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے بچا نہ سکا اور ان سے کہا جائے گا کہ تم دونوں ان جہنمیوں کے ساتھ جہنم میں داخل ہوجاؤ جن کا انبیاء سے کوئی اتصال نہیں رہا ہے۔ آیت میں ” خیانت“ سے مراد ان انبیاء کے دنی کو قبول نہ کرنا ہے، عزت و ناموس میں خیانت ہرگز مراد نہیں ہے، اس لئے کہ کسی نبی کی بیوی زانیہ نہیں ہوئی اور یہ ہرگز مناسب نہیں تھا کہ کسی نبی کی بیوی زانیہ ہوتی۔ آیت (11) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے اہل ایمان کے لئے فرعون کی بیوی کی مثال بیان کی ہے (ان کا نام آسیہ بنت مزاحم (رض) تھا) انہوں نے دعا کی کہ میرے رب ! تو میرے لئے جنت میں ایک گھر بنا دے اور مجھے فرعون، اس کے برے اعمال اور ہر ظالم کے فتنہ و آزمائش سے محفوظ رکھ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی چنانچہ اس دعا کے بعد وہ جب تک دنیا میں زندہ رہیں، ایمان کامل اور سکون قلب کے ساتھ زندہ ہیں اور آزمائشوں اور فتنوں سے محفوظ رہیں۔ آیت (12) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے اہل ایمان کے لئے مریم بنت عمران کی مثال بھی بیان کی ہے، جنہوں نے فجور وزنا سے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی، اور عفت و پاکدامنی کی اعلیٰ ترین مثال بن کر دنیا میں رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ان کے جسم میں اپنی روح پھونک دی، یعنی جبرئیل (علیہ السلام) نے ان کے گریبان میں پھونک ماری، تو اس کا اثر ان کے جسم کے اندر سرایت کر گیا، جس کے زیر اثر عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہئے۔ مریم نے اپنے رب کی جانب سے نازل شدہ صحائف اور کتابوں کی تصدیق کی، ان کا علم حاصل کیا اور ان کے مطابق عمل کیا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی ان صفات کا ذکر کر کے ان کی تعریف کی، نیز فرمایا کہ وہ اللہ کی بڑی نیک بندی تھیں، ہر وقت اپنے رب کی بندگی میں لگی رہتی تھیں، اور ہر آن اپنے رب کے لئے ان پر خشوع و خضوع طاری رہتا تھا۔ صحیحین میں ابو موسیٰ اشعری (رض) سے مروی ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مردوں میں بہت سے لوگ باکمال ہوئے، لیکن عورتوں میں صرف تین عورتیں باکمال ہوئیں، فرعون کی بیوی آسیہ، مریم بنت عمران اور خدیجہ بنت خویلد اور عائشہ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت تمام انواع و اقسام کے کھانوں پر وباللہ التوفیق التحريم
11 التحريم
12 التحريم
0 سورۃ الملک مکی ہے، اس میں تیس آیتیں اور دو رکوع ہیں ٓتفسیر سورۃ الملک نام : پہلی آیت میں کلمہ ” الملک“ آیا ہے، یہی اس کا نام رکھ دیا گیا ہے، تفسیر کی کتابوں میں اس کا تبارک، الواقعہ، المنجیتہ اور المانعتہ بھی آیا ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ سورت سب کے نزدیک مکی ہے، ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ تبارک (المک) مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ فضائل : حافظ ابن کثیر اور امام شوکانی وغیرہ نے اس سورت کی فضیلت سے متعلق کئی روایات نقل کی ہیں ایک حدیث امام احمد ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ اللہ کی کتاب میں ایک سورت ہے جس میں تیس آیتیں ہیں، اس نے ایک آدمی کے لئے سفارش کی، یہاں تک کہ اسے بخش دیا گیا ایک دوسری حدیث ترمذی نے جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات میں جب تک ” الم تنزیل“ اور ” تبارک الذی بیدہ الملک“ نہیں پڑھ لیتے تھے سوتے نہیں تھے۔ الملك
1 (١) صفات کے ساتھ متصف کیا ہے اللہ نے فرمایا کہ وہ عظمت و بزرگی والا ہے، اس کی خیر و برکت عام اور اس کا احسان تمام مخلوقات کو شامل ہے۔ اس کے عظیم ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ وہ عالم بالا اور عالم زیریں کا شہنشاہ ہے، اسی نے ان سب کو پیدا کیا ہے اور وہی تنہا ان میں تصرف کرتا ہے۔ اس کے عظیم ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے، اس نے اپنے کمال قدرت کے ذریعہ آسمانوں اور زمین اور تمام مخلوقات کو پیدا کیا ہے۔ اس کے عظیم ہونے کی تیسری دلیل یہ ہے کہ اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ہے، وہی جسے چاہتا ہے زندگی دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے موت دیتا ہے اس کے سوا کوئی اس پر قادر نہیں اس نے انسانوں کو زندگی دے کر دنیا میں بھیجا اور انہیں خبر دی کہ ان کو موت لاحق ہوگی اور وہ دار فانی سے کوچ کر کے دار آخرت کو سدھاریں گے تو جو کوئی اس دار فانی میں اللہ کے اوامر کو بجالائے گا اور نواہی سے بچے گا، اسے اللہ تعالیٰ دونوں جہان میں اچھا بدلہ عطا کرے گا اور جو کوئی یہاں اپنی شہوتوں کا غلام بن کر زندہ رہے گا اور اللہ کے اوامر کو پس پشت ڈال دے گا، اسے بدترین بدلہ ملے گا۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ بڑا زبردست ہے، ہر عزت و بڑائی اسی کے لئے ہے اور تمام مخلوقات کی گردنیں اسی کے لئے جھکی ہوئی ہیں اور وہ اپنے توبہ کرنے والے اور اپنی طرف رجوع کرنے والے بندوں کے گناہوں کو معاف کرنے والا اور ان کے عیبوں پر پردہ ڈالنے والا ہے۔ الملك
2 الملك
3 (٢) باری تعالیٰ نے اپنی مزید تعریف بیان فرماتے ہوئے کہا کہ اس نے سات آسمان پیدا کئے ہیں، جو ایک دوسرے کے اوپر ہیں، لیکن ایک دوسرے سے چپکے ہوئے نہیں ہیں، بلکہ ہر دو آسمانوں کے درمیان ہوا اور پانچ سو سال کی مسافت ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان آسمانوں کو غایت درجہ حسین وخوبصورت اور منظم و مرتب بنایا ہے، ان میں کوئی خلل اور نقص پایا جاتا اور آسمانوں کے اسی حسن و جمال اور کمال ترتیب و انتظام کو بیان کرنے اور انسانوں کو دعوت فکر و نظردینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم انہیں غور سے دیکھو، ان میں تمہیں کوئی نقص و خلل نہیں ملے گا اور چاہے تم جتنی بار غور کرو گے تمہاری نگاہیں تھک ہار کر واپس آجائیں گی اور ان میں تمہیں کوئی خلل، کوئی شگاف اور کوئی نقص نہیں نظر آئے گا۔ الملك
4 الملك
5 (٣) جن آسمانوں کے بارے میں اوپر بیان ہوا کہ ان کی تخلیق میں کوئی نقص و خلل نہیں پایا جاتا ہے، انہی کے بارے میں یہاں مزید تفصیل بیان کی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان دنیا کو کواکب اور ستاروں کے ذریعہ زینت بخشی ہے ان ستاروں سے روشنی پھوٹتی ہے، اسی لئے انہیں یہاں ” مصابیع“ کہا گیا ہے، یعنی جس طرح چراغ سے روشنی ملتی ہے اسی طرح یہ ستارے بھی روشنی دیتے ہیں۔ شوکانی لکھتے ہیں کہ بعض ستارے آسمان دنیا کے اوپر والے آسمانوں میں پائے جاتے ہیں، لیکن وہ ایسے نظر آتے ہیں جیسے آسمان دنیا پر ہی ہوں، اس لئے کہ احرام سماویہ اتنے صیقل اور شفاف ہیں کہ اوپر کے آسمانوں میں موجود کواکب کی روشنی ان سے چھن کر نیچے تک آتی رہتی ہے۔ اور بعض ستاروں کے ذریعہ ان شیاطین کو مارا جاتا ہے جو چھپ کر فرشتوں کا کلام سننے کی کوشش میں آسمان دنیا کے قریب ہونا چاہتے ہیں حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ شیاطین ان ستاروں کے ذریعہ نہیں مارے جاتے جو آسمانوں میں ثابت ہیں، بلکہ ان سے انگارے نکلتے ہیں جو شیاطین کا پچیھا کرتے ہیں، قتادۃ کہتے ہیں کہ اللہ نے ستاروں کی تخلیق کے تین فوائد بتائے ہیں : وہ آسمانوں کو زینت بخشتے ہیں، ان کے ذریعہ شیاطین کو مارا جاتا ہے اور وہ بحر و بر میں سفر کرنے والوں کے لئے نشان راہ کا کام دیتے ہیں۔ ان تہی اللہ تعالیٰ نے سورۃ الصافات (٦) سے (١٠) تک میں فرمایا ہے : (انا زینا السماء الدنیا بزینۃ الکوکب و حفظامن کل شیطان مارد، لایسمعون الی الملا الا علی ویقدفون من کل جانب، دحور اولھم عذاب و اصب، الامن خطف الخطفۃ فاتبعہ شھاب ثاقب) ” ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت سے آراستہ کیا اور سرکش شیطان سے اس کی حفاظت کی، عالم بالا کے فرشتوں (کی باتیں) سننے کے لئے وہ کان بھی نہیں لگا سکتے ہر طرف سے بھاگنے کے لئے نہیں انگاروں سے مارا جاتا ہے اور ان کے لئے دائمی عذاب ہے، مگر جو کوئی ایک آدھ بات اچک لے بھاگے تو فوراً ہی اس کے پیچھے دہکتا ہوا شعلہ لگ جاتا ہے۔ “ الملك
6 (٤) اللہ تعالیٰ نے شیاطین کو مارنے کے لئے ستاروں سے پھوٹنے والے انگارے بنائے ہیں اور اللہ سے سرکشی اور اس کے بندوں کو گمراہ کرنے کے سبب آخرت میں انہیں آگ کا عذاب دیا جائے گا اور جو کفار دنیا میں ان کی پیروی کریں گے ان کے لئے بھی اللہ نے جہنم کا عذاب تیار کیا ہے اور جہنم بہت ہی برا ٹھکانا ہوگا جس میں جہنمیوں کو غایت درجہ ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جہنمی جب جہنم میں ڈالے جائیں گے تو اس کی بہت ہی بری اور خطرناک آواز سنیں گے اور اس کی آگ جہنمیوں کے جسموں کے ساتھ اس طرح کھول رہی ہوگی جیسے ہانڈی میں جوش مارتا ہوا پانی کھولتا ہے۔ الملك
7 الملك
8 (٥) جہنم کی حالت کافروں کے خلاف شدت غیظ و غضب سے ایسی ہوگی کہ جیسے وہ ٹوٹ پھوٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو رہی ہے، تو پھر ان کافروں کا کیا حال ہوگا جو اس غضبناک جہنم کی گرفت ان سے زجر و توبیخ کے طور پر پوچھیں گے : کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا کہ آج تم اس جہنم میں ڈالے گئے ہو؟ تو وہ جواب دیں گے کہ ہاں، ہمارے پاس ڈرانے والے ضرور آئے تھے، لیکن ہم نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلا دیا تھا اور ان کی دعوت کو ٹھکراتے ہوئے کہا تھا کہ اللہ نے اپنی طرف سے کوئی چیز انسانوں کی ہدایت کے لئے نازل نہیں کی ہے اور تم بہت بڑی گمراہی میں مبتلا ہو۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے زمانے کے نبی کو جھٹلایا اور گزشتہ تمام انبیاء اور کتابوں کو بھی جھٹلایا اور اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ تمام رسولوں کو بڑی گمراہی کے ساتھ متہم کیا۔ الملك
9 الملك
10 (٦) جہنمی اعتراف کریں گے کہ ہم نے رشد و ہدایت کے سارے راستے خود ہی اپنے آپ پر بند کر لئے تھے، ہم نے اللہ کی نازل کردہ آیتوں کو غور سے سنا، اور نہ اپنی عقل کو کام میں لا کر انہیں سمجھنے کی کوشش کی اور دنیا میں اس طرح دندناتے پھرے اور گناہوں کا ارتکاب کرتے رہے کہ جیسے ہمیں موت نہیں آئے گی اور ہمیں اللہ کے سامنے حاضر نہیں ہونا ہوگا، لیکن اس اعتراف کا انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور اعلان کردیا جائے گا کہ جہنمی اللہ کی رحمت سے دور کردیئے گئے اب ان کے لئے کوئی خیر نہیں ہے۔ الملك
11 الملك
12 (٧) کافروں کے برخلاف یقین و ایمان والوں نے اللہ کی نازل کردہ آیتوں کو غور سے سنا، انبیائے کرام کی دعوت کو قبول کیا اور اپنے رب سے جلوت و خلوت میں ڈرتے رہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان سے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا جس سے مراد جنت اور اس کی بیش بہا نعمتیں ہیں اور ان سب سے عظیم تر نعمت رب العالمین کی خوشنودی اور اس کی رضا ہے جو ہر جنتی کو نصیب ہوگی۔ الملك
13 (٨) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ دلوں میں چھپی باتوں کو جانتا ہے، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ہے، اس کے لئے ظاہر و باطن یکساں ہے، وہ تو ان نیتوں اور ارادوں تک کو جانتا ہے جو سینوں میں چھپے ہوتے ہیں تو پھر وہ ان اقوال و افعال کو کیسے نہیں جانے گا جو سنے اور دیکھے جاتے ہیں۔ آیت (١٤) میں اپنے علم کے کمال و شمولیت پر استدلال کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا ہے اسے اپنی مخلوقات کی خبر کیسے نہیں ہوگی، وہ تو اپنے بندوں کے دلوں میں چھپی باتوں تک کو جانتا ہے اور ان کے تمام اعمال کی پوری خبر رکھتا ہے۔ الملك
14 الملك
15 (٩) اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر احسان جتاتے ہوئے فرمایا کہ اس نے زمین کو ان کے لئے نرم بنایا ہے اور اس میں آسان راستے بنائے ہیں تاکہ انسان بسہولت اپنی ضرورتیں پوری کرسکے، چنانچہ آدمی زمین میں پودے لگاتا ہے، مکان بناتا ہے، کھیتی کرتا ہے، اور راستہ پر چل کر دور دراز علاقوں، شہروں اور ملکوں تک پہنچ جاتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگو ! تم طلب رزق اور اپنی دوسری ضرورتیں پوری کرنے کے لئے زمین میں پائے جانے والے راستوں پر چلو، اور اس میں جو روزی اس نے تمہارے لئے پیدا کی ہے، اسے حاصل کرو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم دنیا کی زندگی پوری کرلینے کے بعد، یہاں سے اٹھا لئے جاؤ گے اور جب قیامت آئے گی تو وہ دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے اور اپنے رب کے سامنے جمع کئے جاؤ گے، تاکہ وہ تمہیں تمہایر نیک و بد اعمال کا بدلہ دے۔ الملك
16 (١٠) اللہ تعالیٰ یقیناً اس پر قادر ہے کہ وہ کافروں کو ان کے کفر کی وجہ سے ہلاک و برباد کر دے، لیکن مخلوق کے ساتھ اپنے لطف و کرم اور رحمت و مہربانی، اور غایت حلم و برد باری کی وجہ سے ان سے عذاب کو ٹال دیتا ہے اور انہیں توبہ کرنے کا موقع دیتا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کا ذکر کر کے اپنے نافرمان بندوں کو دھمکی دی ہے کہ وہ اللہ جو اپنی مخلوقات سے بنلد و بالا اور عرش پر مستوی ہے، اس کی گرفت سے تمہیں بے خوف نہیں ہوجانا چاہئے، وہ تو اس پر قادر ہے کہ تمہیں زمین میں دھنسا دے اور زمین اتنی شدت سے ہلنے لگے کہ وہ تمہارے اوپر آجائے اور تم اس کے اندر پلٹاکھاتے رہو اور وہ اس پر بھی قادر ہے کہ تمہیں ہلاک کرنے کے لئے ایک تیز و تند ہوا بھیج دے، جو کنکریوں اور پتھروں کی تم پر بارش کر دے اور تم یکسر ہلاک ہوجاؤ، اور تب تمہیں معلوم ہوجائے کہ وہ عذاب کیسے آتا ہے جس سے تمہیں ہمارے انبیاء ڈرایا کرتے تھے۔ آیت (١٨) میں مذکورہ بالا دھمکی کی تاکید کے طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ موجودہ دور کے کافروں سے قبل بھی جب کسی کافر قوم نے اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی، تو اللہ نے اس کے کفر و تکذیب کو قبول نہیں کیا اور اسے ہلاک کردیا اس لئے اے وہ لوگو جو اپنے رب کی نافرمانی کر رہے ہو اور کفر کی راہ پر چل پڑے ہو ! تم اپنے کفر و سرکشی سے باز آجاؤ، کہیں تمہیں بھی اللہ کا عذاب اپنی گرفت میں نہ لیل ے۔ الملك
17 الملك
18 الملك
19 (١١) جو مشرکین اللہ کی صفت ” رحمٰن“ کا انکار کرتے تھے، انہی کی تردید کی گئی ہے کہ یہ چڑیاں جو ان کے سروں پر فضا میں اپنے پروں کو پھیلائے اڑتی رہتی ہیں اور کبھی انہیں سمیٹ بھی لیتی ہیں، دونوں ہی حالتوں میں انہیں فضا میں کون روکے رکھتا ہے؟ یقیناً وہ ” رحمٰن“ کیذات ہے، جس کی رحمت ہر چیز کو ڈھانکے ہوئی ہے حتی کہ وہ چڑیاں جو فضا میں تیرتی رہتی ہیں انہیں بھی گرنے اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے اس کی رحمت ہی بچائے رکھتی ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر چیز اس کی نظر میں ہے اور ہر ایک کو اس کے مناسب حال، اس کی ضرورت اور اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق اپنی رحمت کا حصہ عطا کرتا ہے۔ الملك
20 (١٢) جو لوگ حق سے اعراض کرتے ہیں اور اللہ سے سرکشی کی راہ اختیار کرتے ہیں، ان سے بطور زجر و توبیخ کہا جا رہا ہے کہ اگر رحمٰن تمہیں کسی تکلیف میں مبتلا کرنا چاہے، تو اس کی ذات کے سوا کون ہے جو تمہاری مدد کرے اور اس مصیبت سیت مہیں نجات دلاوے حقیقت یہ ہے کہ شیطان نے کافروں کو دھوکہ میں ڈال رکھا ہے، اس نے ان کی نگاہوں میں اعمال شرک کو خوبصورت بنا دیا ہے اور اس فریب میں مبتلا کردیا ہے کہ مرنے کے بعد نہ کوئی دوسری زندگی ہے اور نہ حساب و کتاب اور اگر بالفرض کوئی دوسری زندگی ہوگی تو ان کے معبود اللہ کے حضور ان کے سفارشی بنیں گے اور انہیں نجات دلا دیں گے۔ آیت (٢١) میں انہی سرکشوں سے کہا جا رہا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تم سے بارش کو روک دے اور تم پر اپنی روزی کے دروازے بند کر دے تو تمہیں پانی کون پلائے گا اور روزی کون دے گا مخلوق کا حال تو یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو روزی رسانی کی قدرت نہیں رکھتی تو دوسروں کو کیسے پہنچا سکے گی۔ لیکن سرکشوں کو ان آیتوں سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، بلکہ ان کا استکبار اور بڑھ جاتا ہے اور حق سے مزید دور ہوتے جاتے ہیں اور اس عقیدہ پر اصرار کرتے ہیں کہ ان کے معبود ہی انہیں مصیبتوں سے بچاتے ہیں اور انہیں روزی دیتے ہیں۔ الملك
21 الملك
22 (١٣) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے موحدین و مشرکین اور ہدایت یافتہ اور گمراہوں کے درمیان ایک مثال کے ذریعہ فرق واضح کیا ہے۔ فرمایا کہ جو آدمی گمراہی میں بھٹک رہا ہو، کفر میں ڈوبا ہوا ہو اور اس کی عقل ایسی ماری گئی ہو کہ اس کے نزدیک حق باطل اور باطل حق بن گیا ہو وہ راہ حق پر ہے یا وہ شخص جو راہ حق پر ہے، یا وہ شخص جو راز حق کی خبر رکھتا ہو، اس پر گامزن ہوا وراپنے تمام اقوال و اعمال میں حق کی ہی اتباع کرتا ہو؟ یقیناً جواب معلوم ہے کہ اللہ کا موحد بندہ ہی حق پر ہے اور کافرو مشرک گمراہی کی وادیوں میں بھٹک رہا ہے۔ الملك
23 (١٤) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کیا ہے کہ وہی تنہا معبود حقیقی ہے، اس لئے بندوں کو اسی کی عبادت کرنی چاہئے اور اسی کا شکر بجا لانا چاہئے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ لوگوں کو بتا دیں کہ تنہا ذات باری تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا ہے، ان کی تخلیق میں کوئی اس کا معاون و مددگار نہیں تھا اور نہ اسے کسی کی مدد کی ضرورت تھی اسی نے ان کے کان، آنکھیں اور دل بنائے جو ان کے جسموں کے اہم ترین اعضاء ہیں اور انہیں سب سے اچھی شکل و صورت میں پیدا کیا، ان نعمتوں کا تقاضا تھا کہ لوگ اس منعم حقیقی کے شکر گزار بنتے، لیکن ان میں سے بہت ہی کم لوگ اپنے رب کے شکر گزار ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بھی بتا دینے کا حکم دیا کہ اسی نے تمہیں پیدا کر کے زمین میں پھیلا دیا اور تمہیں انواع و اقسام کی نعمتوں سے نوازا جن سیتم اپنی زند گی میں فائدہاٹھاتے ہو اور جب تمہاری دنیاوی زندگی کے ایام پورے ہوجائیں گے تو وہ تمہیں یہاں سے اٹھا لے گا اور پھر قیامت کے دن زندہ کر کے اپنے سامنے اکٹھا کرے گا۔ لیکن منکرین بعث بعد الموت، انبیاء کی تکذیب کرتے ہوئے کہت یہیں کہ اگر تمہاری بات سچی ہے تو ذرا ہمیں اسکی آمد کا وقت تو بتا دو گویا قیامت کی آمد کا وقت بتا دینا کافروں کے نزدیک انبیاء کی صداقت کی دلیل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو انہیں یہ کہنے کا حکم دیا کہ اس کی آمد کا وقت تو صرف اللہ کو ہی معلوم ہے اور اس بات کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ بات سچی نہیں ہے بات یقیناً سچی ہے اور قیامت کی آمد میں کوئی شبہ نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں اس کی بہت سی نشانیاں اور دلائل بیان کردیئے ہیں، جن میں غور و فکر کرنے والوں کے دلوں میں اس کی صداقت کے بارے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہتا۔ الملك
24 الملك
25 الملك
26 الملك
27 (١٥) کفار و مشرکین دنیا میں قیامت اور بعث بعد الموت کی تکذیب کرتے ہیں، لیکن جب قیامت واقعی آجائے گی، اور وہ دوبارہ زندہ کئے جانے کے بعد میدان محشر میں جمع کردیئے جائیں گے اور جہنم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے، اس وقت ان کی آنکھیں پتھرا جائیں ی، ان کے چہرے مارے خوف و دہشت کے سیاہ ہوجائیں گے اور فرشتے ان سے بطور زجر و توبیخ کیں گے کہ یہی ہے وہ جہنم جس کی تم تکذیب کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ قیامت کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اب تم نے اپنے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، اور تمہارے لئے اس سے نجات کی کوئی صورت باقی نہیں رہی۔ الملك
28 (١٦) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کرنے والے اور آپ کی دعوت کو ٹھکرانے والے، آپ سے شدید بغض و عداوت کی وجہ سے اپنے دلوں میں ت منا کرتے تھے کہ کاش یہ شخص مر جاتا اور اس کے ساتھی بھی ہلاک ہوجاتے تو ایمان و اسلام کی باتوں سے ہمیں نجات مل جاتی اور آئے دن کا جھگڑا ختم ہوجاتا، اللہ تعالیٰ نے ان کے دل کے اس خبث کو واضح کردیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے انیں یہ بتانے کا حکم دیا کہ اے کفار قریش ! اگر اللہ مجھے اور میرے اہل ایمان ساتھیوں کو اس دنیا سے اٹھا لیتا ہے تو اس سے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا، کیونکہ تمہارا کفر اللہ کے نزدیک ثابت ہوچکا ہے اور تم اس کے عذاب کے مستحق بن چکے ہو اور جب اس کا عذاب تم پر نازل ہوگا اور تم جہنم رسید ہوگۓ تو کوئی نہیں ہوگا جو تمہیں اسکے درد ناک عذاب سے بچا سکے گا۔ الملك
29 (١٧) مشرکین مکہ کہا کرتے تھے کہ وہ لوگ حق پر ہیں اور محمد گمراہ ہوگیا ہے، اسی لئے بہکی بہکی باتیں کرتا ہے اس بات کو وہ ہمیشہ دہراتے رہتے تھے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اولین صحابہ کرام سے جدال و مناقشہ کرتے تھے اور نوبت بایں جارسید کہ انہوں نے حق کی آواز کو خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور مسلمانوں سے جنگیں کیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ انہیں پنے ایمان اور ان (مشرکوں) کے کفر سے باخبر کردیں تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ حق پر کون ہے اور ضلالت و گمراہی نے کن کے دلوں پر ڈیرے ڈال دیئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : آپ انہیں بتا دیجیے کہ ہم رحمٰن کی ذات پر ایمان لے آئے ہیں اور عملی طور پر اس ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور ہم ہر حال میں اسی کی ذات پر بھروسہ کرتے ہیں جبکہ تمہارا حال یہ ہے کہ نہ تم ” رحمٰن“ پر ایمان لائے ہو، اور نہ اس کی ذات پر تمہارا بھروسہ ہے اس لئے یہ بات واضح ہوگئی کہ ہم راہ حق پر گامزن ہیں اور ضلالت و گمرایہ تمہاری قسمت میں آئی ہے۔ الملك
30 (١٨) آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی مشرکین کو یہ بات بتائی کہ تمام نعمتیں بندوں کو اسی ذات واحد کی طرف سے ملی ہیں، بالخصوص پانی جس کے ذریعہ اللہ نے تمام زندہ چیزوں کو پیدا کیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اس پانی کو زمین کی آخری تہ میں پہنچ ادے، تو اس کے سوا کوئی ہے جو تمہیں صاف و شفاف پانی عطا کیر؟ جو اب معلوم ہے کہ کوئی نہیں ہے اور جب بات ایسی ہے تو پھر اس اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو کیوں پوجتے ہو، کیوں دوسروں کو اس کا شریک بناتے ہو؟ وباللہ التوفیق الملك
0 سورۃ القلم مکی ہے، اس میں باون آیتیں اور دو رکوع ہیں تفسیر سورۃ القلم نام : پہلی آیت : (ن واقلم ومایسطرون) سے ماخوذ ہے، اس سورت کو ” سورۃ ن“ اور ” سورۃ القلم“ دونوں ہی کہا جاتا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت حسن، عکرمہ اور جابر کے نزدیک مکی ہے اور ابن عباس اور قتادۃ سے مروی ہے کہ ابتدائے سورت سے آیت (١٦) (سنسمہ علی الخرطوم) تک مکی ہے، اور وہاں سے آیت (٥٠) (من الصالحین) تک مدنی ہے اور اس کے بعد کی دو آیتیں مکی ہیں اور نحاس، ابن مردویہ اور بیہقی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ ” ن“ مکی ہے اور ابن مردویہ نے عائشہ (رض) سے بھی یہی روایت کی ہے۔ القلم
1 (١) قرآن کریم میں موجود دیگر حروف مقطعات کی طرح حرف ” ن“ بھی ایک حرف مقطع ہے، جس کا حقیقی معنی و مفہوم صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے اور گزشتہکئی ایسی سورتوں کی ابتدا میں لکھا جا چکا ہے کہ ممکن ہے اس سے مقصود اہل رب کو چیلنج کرنا ہو کہ یہ قرآن بھی انہی حروف سے مرکب ہے جن سے تمہارا کلام بنتا ہے، تو اگر یہ قرآن کسی انسان کا کلام ہے تو تم بھی اس جیسا لا کر دکھاؤ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اس قلم کی قسم کھائی ہے جسے اللہ نے پہلے پیدا کیا اور اسے لکھنے کا حکم دیا تو اس نے کہا کہ کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے تمام کو لکھ ڈالو، نیز اللہ تعالیٰ نے ان تمام اشیاء کی قسم کھائی ہے جنہیں فرشتے لوح محفوظ سے نقل کرکے لکھتے ہیں اور بندوں کے انتمام اعمال کی بھی قسم کھائی ہے جنہیں اللہ کے مکرم فرشتے یعنی ” کراما کاتبین“ لکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا ہے کہ واقعی آپ کو آپ کے رب نے نبوت کی نعمت سے سرفراز فرمایا ہے، اور آپ پر وحی نازل ہوتی ہے، جس کے زیر اثر لوگ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں، کفار و مشرکین محض شدت حسد سے آپ کو مجنوں کہتے ہیں، آپ مجنوں نہیں، بلکہ عظیم الشان نبی ہیں اور اسلام کی دعوت کو لوگوں تک پہنچانے میں آپ جو تکلیف اٹھا رہے ہیں اور اس کا جو عملی نمونہ اپنے کردار کے ذریعہ پیش کر رہے ہیں اس کا اجر و ثواب آپ کو ہمیشہ ملتا رہے گا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا دونوں آیتوں میں مشرکین مکہ کس ایافترا پردازی کی تردید کی گئی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحجر (٦) (وقالوا یا ایھا الذی نزل علیہ الذکر انک لمجنون) میں بیان کیا ہے، جس کاترجمہ ہے :” اور مشرکوں نے کہا کہ اے وہ شخص (یعنی محمد) جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے، تو یقیناً پاگل ہے،“ اور اللہ تعالیٰ نے اس بات پر بھی مذکور بالا قسم کھائی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عظیم اخلاق کے مالک ہیں امام مسلم نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلق قرآن تھا، یعنی آپ کے اخلقا وہی تھے جس کی قرآن نے شہادت دی ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہایت عالی اخلاق، بلند کردار، فصاحت تامہ اور عقل کامل کے مالک تھے، آپ ہر عیب سے پاک اور ہر خوبی کے ساتھ متصف تھے اور جو شخص ان صفات کے ساتھ متصف ہوگا، اسے مجنون اور پاگل کہنا جنون کی بات ہوگی۔ القلم
2 القلم
3 القلم
4 القلم
5 (٢) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نصیحت کی کہ آپ اپنے اخلاق کریمانہ کے ساتھ دعوت کی راہ میں آگے بڑھتے رہئے اور اس راہ میں جو بھی تکلیف اٹھانی پڑے اسے برداشت کیجیے عنقریب ہی وہ دن آنیوالا ہے جب آپ کو اور ان لوگوں کو جو آپ کو جنون کے ساتھ مہتمم کرتے ہیں معلوم ہوجائے گا کہ مجنون و مفتون کون ہے ! آیت (٧) میں اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے اور دعوت اسلامی کی راہ میں جو تکلیف پہنچے، اس پر صبر کرنے کی نصیحت کی ہے، نیز اس میں ان مشرکین کے لئے دھمکی ہے جو آپ کو جھٹلاتے تھے۔ القلم
6 القلم
7 القلم
8 (٣) جب یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق پر ہیں اور آپ کی قوم کفر و شرک کی وادیوں میں بھٹک رہی ہے، تو آپ کیلئے یہ بات کسی طرح مناسب نہیں کہ اللہ، اس کے رسول اور دین اسلام کی تکذیب کرنے والوں کی بات مانئے وہ تو تمنا کرتے ہیں کہ آپ ان کے معبودوں کی عیب جوئی نہ کریں اور ان کی بے بسی بیان نہ کریں تاکہ وہ بھی آپ کو گالی نہ دیں اور اذیت نہ پہنچائیں۔ القلم
9 (٤) کافروں کی بطور عام بات ماننے سے منع کرنے کے بعد، اب بطور خاص مکہ کے بعض بڑے اشرار کی بات نہ ماننے کی نصیحت کی جا رہی ہے، جیسے ولید بن مغیرہ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے نبی ! آپ ہراس آدمی کی بات نہ مانئے جو باطل کو غالب کرنے کے لئے کثرت سے قسمیں کھاتا ہے اور جو حقیر اور عاجز و فاجر ہے، ہمیشہ دوسروں کی عیب جوئی کرتا ہے، لوگوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کے لئے چغلی کھاتا ہے، بڑا ہی بخیل ہے، یا جو لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے سے روکتا ہے، لوگوں کی جانوں اور ان کے مال و دولت پر زیادتی کرتا ہے، یعنی ظلم و زیادتی کا خوگر ہے اور کثرت سے نگاہ کرتا ہے، غلیظ الطبع، سخت گیر اور بدخو ہے اور ان تمام صفات کے ساتھ ساتھ، وہ قریش بھی نہیں ہے بلکہ ان کی طرف منسوب کردیا گیا ہے۔ آیات (١٤/١٥) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مال و جاہ اور اولاد کے غرور نے اسے اللہ کی آیتوں کی تکذیب اور اس افترا پردازی پر ابھارا ہے کہ یہ قرآن گزشتہ قوموں کے محض قصے اور حکایات ہے۔ آیت (١٦) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم اس کی پرپیشانی پر ایسا برا نشان ڈال دیں گے کہ وہ جب تک زندہ رہے گا اس نشان کے ذریعہ پہچانا جائے گا، جیسے وہ شخص ہوتا ہے جس کی ناک کاٹ دی جاتی ہے، جو بھی اسے دیکھتا ہے اس کے ناگوار منظر سے متاثر ہوتا ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد خنس بن شریق ہے، جو دراصل قبیلہ ثقیف کا تھا، لیکن اسے بنی زہرہ سے ملا دیا گیا تھا ایک دوسراقول ہے کہ اس سے مراد ولید بن مغیرہ ہے، اس کے باپ نے اس کی پیدائش کے اٹھارہ سال بعد اس کا دعویٰ کیا تھا کہتے ہیں کہ میدان بدر میں اس کی ناک پر ایک کاری ضرب لگی تھی جس کا گہرا نشان زندگی بھر اسکی ناک پر باقی رہا۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ (سنسمہ علی الخرطوم) کا تعلق روز قیامت سے ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اس دن اس کی پیشانی پر ایک ایسا قبیح المنظر نشان پیدا کر دے گا کہ وہ دیگر کافروں سے بالکل الگ پہچانا جائے گا، اس لئے کہ اس نے دنیا میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تمام کافروں سے بڑھ کر عداوت کی تھی۔ القلم
10 القلم
11 القلم
12 القلم
13 القلم
14 القلم
15 القلم
16 القلم
17 (٥) اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے انہیں اپنی نعمتیں دے کر آزمانا چاہا، انہیں ان کی خواہش کے مطباق مال و دولت، اولاد اور لمبی عمر دی اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا، اس لئے نہیں کہ وہ ہمارے بڑیم حبوب بندے تھے، بلکہ ان کی رسی ڈھیل دی اور انیں اس کا احساس تک نہیں ہوا اور کفر و عناد میں بڑھتے چلے گئے، جیسے اہل کتاب یا حبشہ کے وہ لوگ جو اپنے باپ کے مرنے کے بعد ایک باغ کے وارث ہوئے تھے جب اس کا پھل پک گیا تو انہوں نے آپس میں طے کیا کہ وہ صبح سویرے جا کر کسی آدمی کے جاگنے سے پہگے اس کے پھل کاٹ لیں گے، تاکہ کوئی فقیر و مکسنی آ کر ان سے صدقہ نہ مانگے وہ اس گمان میں مبتلا ہوگئے کہ اب اس باغ کے پھل کا حصول امر یقینی ہوگیا ہے کوئی چیز اس راہ میں حائل نہیں ہے اور بھول گئے کہ اللہ کی مرضی کے بغیر وہ کسی چیز پر قادر نہیں ہیں، انہوں نے انشاء اللہ نہیں کہا کہ اگر اللہ چاہے گا تو ہم اپنے باغ کا پھل کاٹ لیں گے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ایک عذاب رات ہی میں اس باغ پر نازل ہوا اور سارا باغ جل کر اندھیری رات کی طرح کالا اور خاکستر ہوگیا اور کچھ بھی باقی نہ رہا۔ القلم
18 القلم
19 القلم
20 القلم
21 (٦) باغ کے انجام سے بے خبر، انہوں نے صبح سویرے ایک دوسرے کو پکارا اور کہا کہ اگر تمہیں اپنے باغ کا پھل حاصل کرنا ہے تو جلد ہی وہاں چلے چلو، چنانچہ وہ لوگ آپس میں چپکے چپکے باتیں کرتے ہئے چلے، تاکہ کوئی فقیر و محتاج جان نہ جائے اور ان کے ساتھ لگ نہ جائے جیسا کہ ان کے باپ کے زمانے میں ہوتا تھا، یعنی ان کی نیت خراب ہوگئی، انہوں نے اس مال سے اللہ کا حق ادا کرنا نہیں چاہا۔ آیت (٢٥) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ لوگ باغ کی طرف تیزی، غصہ او اس پختہ ارادہ کے ساتھ چلے کہ فقیروں کو ہرگز نہیں دینا ہے، وہ اپنے خیال کے مطابق باپ کے مرنے کے بعد اس بات پر قادر ہوگئے تھے کہ اس میں سے اللہ کے نام کا کوئی حصہ نہیں نکالیں گے۔ القلم
22 القلم
23 القلم
24 القلم
25 القلم
26 (٧) جب انہوں نے باغ کو جلا ہا پایا تو ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یہ ہمارا باغ نہیں ہے، ہمراہ بھٹک کر کہیں اور پہنچ گئے ہیں، لیکن حقیقت کو کب تک جھٹلاتے، انہیں یقین تو ہو ہی گیا تھا کہ ان کا باغ جل گیا ہے، اب انہیں فوراً یہ احساس ہوا کہ ہماری بد نیتی اور مساکین کا حق نہ دینے کے برے ارادہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی نعمت سے محروم کردیا ہے اور ہمارے باغ کا یہ حال ہوگیا ہے ہمارے باپ اللہ کے شکر کے طور پر ہر سال باغ کے پھل سے فقیروں کا حق نکالتے تھے اور ان میں تقسیم کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ ان کے باغ کی حفاظت کرتا تھا۔ القلم
27 القلم
28 (٨) ان بھائیوں میں جو زیادہ صاحب تقویٰ اور ص احب عقل تھا، اپنے دوسرے بھائیوں سے مخاطب ہوا اور کہا میں نے تم سب کو نصیحت کی تھی کہ تم لوگ اپنی بدنیتی سے توبہ کرو، اللہ کی یاد سے غافل نہ بنو اور اس کے حق کو فراموش نہ کرو، اور یاد رکھو کہ اللہ مجرمین سے انتقام لینے پر پوری طرح قادر ہے، چنانچہ سب نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا، اللہ کے حضور تائب ہوئے اور کہنے لگے کہ ہمارا رب تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے، ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے اس کے بعد ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ اگر ہم نے مساکین کو ان کے حق سے محروم کرنے کی بری نیت نہ کی ہوتی اور اللہ کیقدرت کو بھول کر اپنی قدرت کا اظہار نہ کیا ہوتا تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ ہائے افسوس کہ ہم غفلت و جہالت میں پڑ کر اللہ کے حدود سے تجاوز کر گئے تھے۔ القلم
29 القلم
30 القلم
31 القلم
32 (٩) انہوں نے جب اپنے گناہ سے توبہ کرلی اور آئندہ کے لئے اللہ سے عہد کرلیا کہ اب ایسی غلطی نہیں کریں گے، تو اپنے رب سے اچھی امید کرلی، اور کہنے لگے امید ہے کہ اللہ ہمیں اپنی رحمت سے محروم نہیں کرے گا اور اس سے اچھا باغ ہمیں عطا کرے گا ہم اپنے رب سے یہی امید رکھتے ہیں۔ القلم
33 (١٠) کفارقریش کا حال بھی باغ والوں کے حال کے مشابہ ہے، انہیں اللہ نے نعمت دی، پھر ان کے کفر وط غیان کی وجہ سے اسے سب کرلیا تو کیا اہل مکہ اس واقعہ سے عبرت حاصل کریں گے اور اللہ کے حضور اپنے کفر و شرک سے تائب ہو کر اس کے نیک بندے بن جائیں گے، تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں معاف کر دے اور دوبارہ اپنی نعمتوں سے نوازے؟ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کافروں اور سرکشوں کو اللہ کا عذاب اسی طرح اچانک اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور آخرت میں انہیں جو عذاب دیا جائے گا وہ تو بڑا ہی درد ناک ہوگا کاش اہل مکہ اس بات کو سمجھ لیتے اور اپنے گناہوں سے تائب ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے۔ القلم
34 (١١) جب کافروں اور سرکشوں کا قیام کے دن وہ انجام ہوگا جو اوپر بیان کیا گیا، تو اب قرآن کریم کے عام قاعدہ کے مطابق اہل صالح و تقویٰ کا انجام بیان کیا جا رہا یہ، نیز یہاں ان مشرکین کیتردیدبھی کی گئی ہے جو غریب مسلمانوں کے فقر و فاقہ کا مذاق اڑانے اور اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دینے کیلئے کہا کرتے تھے کہ اگر بالفرض قیامت آئے گی تو ہمارا اللہ ہمیں آخرت میں بھی ان بھوکوں اور ننگوں سے اچھی حالت میں رکھے گا، جیسا کہ اس نے ہمیں یہاں مال و دولت سے نواز رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرنے والے مسلمانوں کو قیامت کے دن ان کے رب کے پاس ایسی جنتیں ملیں گی جن میں نعمتیں ہی نعمتیں ہوں گی، عقل کے اندھے کفار و مشرکین یہ کیسے سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ کی بندگی کے لئے سرجھکانے والے مسلمانوں کو ان مجرمرین کے مانند دیں گے جو شرک اور کبائر معاصی کا ارتکاب کرتے ہیں کہ ہم اللہ کی بندگی کے لئے سر جھکانے والے مسلمانوں کو ان مجرمین کے مانند بنا دیں گے جو شرک اور کبار معاصی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اے کفار مکہ ! تمہارے پاس کون سی طاقت ہے اور تم کس دلیل کی بنیاد پر ایسا فیصلہ کرتے ہو کیا تمہارے پاس کوئی آسمانی کتاب ہے جس میں یہ فیصلہ درج ہے کہ تم لوگ قیامت کے دن بھی مومنوں سے اچھی حالت میں رہو گے؟ کیا اس کتاب میں وہ بات ہے جسے تم اپنے لئے پسند کرتے ہو؟ کیا تمہارے پاس اللہ کی جانب سے قسموں کے ذریعہ پختہ کئے گئے وعدے ہیں، جو قیامت تک نہیں ٹوٹیں گے کہ تمہیں قیامت کے دن وہی ملے گا جس کا تم اپنے لئے فیصلہ وہی ملے گا جس کا تم اپنے لئے فیصلہ کرچکے ہو، یعنی تم مومنوں سے بہتر حالت میں ہو گے اے میرے نبی ! آپ ذرا ان سے پوچھے تو سہی کہ آخر ان کا وہ کون سا لیڈر ہے جس نے انہیں ان کے فیصلہ کی ضمانت دے رکھی ہے یا ان کے لئے اللہ کے کچھ شرکاء ہیں جنہوں نے انہیں اس فیصلہ کی ضمانت دے رکھی ہے اگر وہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو ان شریکوں کو سامنے لائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ بالا باتوں میں سے کوئی بات بھی صحیح نہیں ہے جس سے ان کے جھوٹے دعویٰ کی تائید ہو اس لئے معلوم ہوا کہ ان کا دعویٰ کبر و عناد اور فساد عقل پر مبین ہے، جو روز قیامت ان کے انجام بد کو نہیں بدل سکے گا۔ القلم
35 القلم
36 القلم
37 القلم
38 القلم
39 القلم
40 القلم
41 القلم
42 (١٢) اوپر کی آیتوں میں قیامت کے دن مومنوں اور مشرکوں کا مآل و انجام بیان کیا گیا ہے اور آیت (٤١) میں مشرکین مکہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگر ان کے پاس اللہ کے ایسے شرکاء ہیں جنہوں نے انہیں ضمانت دے رکھی ہے کہ قیامت کے دن وہ مومنوں سے بہتر حالت میں ہوں گے تو پھر ان شرکاء کو انہیں اس دن سامنے لانا ہوگا جب حالات کی ہولناک انتہائک وپ ہنچی ہوگی اور رب العالمین مخلوقات کے درمیان فیصلہ کرنے کے لے ان کے سامنے آئے گا اور حالات کی سنگینی کے اظہار کے لئے باری تعالیٰ اپنی پنڈلی کھول دے گا تو ہر مومن مرد و عورت سجدہ میں گرجائیں گے اور منافقین مردوں اور عورتوں کی پیٹھیں تختہ کے مانند ہوجائیں گی اور ہزار کوشش کے باوجود سجدہ نہ کرسکیں گے اس لئے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی میں اللہ کے لئے اخلاص کے ساتھ کبھی سجدہ نہیں کیا تھا اس حدیث کو امام بخاری نے کتاب التفسیر میں اور امامم سلم نے کتاب الایمان میں ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے۔ اس دن منافق مردوں اور عورتوں کی نظریں شدت خوف سے نیچے جھکی ہوں گی اور وہ ذلت و رسوائی کے بوجھ تلے دبے ہوں گے۔ یہ لوگ جب دنیا میں صحت مند تھے اور ان سے سجدہ کرنے کو کہا تھا تو کفر اور شدت استکبار کی وجہ سے ان کی گردنیں اللہ کے سامنے نہیں جھکتی تھیں۔ امام ابن حزم نے اپنی کتاب ” الفصل“ میں لکھا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے روز قیامت کے بارے میں خبر دی ہے کہ اللہ عزو جل اس دن جب اپنی پنڈلی کھو لے گا، تو مومن مرد و عورت سجدہ میں گر جائیں گے، اس کی تائید قرآن کریم کی آیت : (یوم یکشف عن ساق و یدعون الی السجود) سے ہوتی ہے۔ انتہی اسی آیت کریمہ اور صحیحین کی مذکور بالا حدیث کے پیش نظر محدثین نے اللہ تعالیٰ کے لئے ” ساق“ یعنی پنڈلی کو ثابت کیا ہے اور اس کی تاویل کرنے سے احتراز کیا یہ۔ القلم
43 القلم
44 (١٣) مشرکین مکہ کے حق میں جب کوئی بھی دھمکی کارگر نہیں ہوئی، تو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو لوگ اس قرآن کو جھٹلا رہے ہیں ان کا معاملہ آپ مجھ پر چھوڑ دیجیے، مجھے معلوم ہے کہ ان کے ساتھ کیا کرنا چاہئے اور میں ان سے انتقام لنیے کی ہر طرح قدرت رکھتا ہوں اور وہ ان کی رسی ڈھیل دیں گے اور انیں صحت و عافیت دیں گے اور ڈھیر ساری نعمتیں دیں گے اور انہیں کشاں کشاں ہلاکت کے دہانے تک پہنچا دیں گے اور انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوگا۔ اور میں ان کی رسی خوب ڈھیل دوں گا انہیں عذاب دینے میں جلدی نہیں کروں گا یہاں تک کہ وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہوجائیں گے کہ وہ اللہ کے پیارے بندے ہیں جبھی تو اس نے انہیں تانی سایر نعمتوں سے نوازا ہے۔ اسوقت میں انہیں اپنی شدید گرفت میں لے لوں گا اور یہ اللہ یک ان کے خلاف ایسی سخت ترین تدبیر ہوگی جس کو وہ براشت نہ کر پائیں گے۔ القلم
45 القلم
46 (١٤) مشرکین مکہ آپ کی اور قرآن کریم کی تکذیب کرتے ہیں تو کیا آپ دعوت حق کا ان سے کوئی معاوضہ مانگتے ہیں جس کے بوجھتلے وہ دبے جا رہے ہیں اور اسی وجہ سے آپ کی دعوت قبول کرنے سے کتراتے ہیں؟ ایسی تو کوئی بات نہیں ہے یا لوح محفوظ ان کے سامنے کھلا پڑا ہے اور علم غیب سے سارے پردے ان کے لئے اٹھا دیئے گئے ہیں، جس سے استفادہ کر کے وہ خود ہی جان لیتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک ان کا مقام اہل ایمان سے ارفع اور اعلیٰ ہے اور انہیں آپ پر نازل کردہ وحی اور دین کی ضرورت نہیں ے۔ ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔ القلم
47 القلم
48 (١٥) اس لئے اے میرے نبی ! آپ اپنی دعوت کے ساتھ آگے بڑھتے رہئے، ان کے کبر و عناد اور ان کی تکذیب کی پرواہ نہ کیجیے اور مچھلی والے یونس بن متی کی طرح نہ ہوجایئے جنہوں نے اپنی قوم کی اذیتوں سے تنگ آ کر صبر کا دامن چھوڑدیا تھا اور انہیں چھوڑ کر وہاں سے رخصت ہوگئے تھے اور جب مچھلی نے انہیں نگل لیا اور حزب و ملال سے ان کا دل بھر آیا، تو مچھلی کے پیٹ میں ہی انہوں نے اپنے رب کو پکارا اور کہا : (لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلامین) ” میرے رب ! ترییس وا کوئی معبود نہیں، تو ہر عیب و نقص سے پاک ہے اور بے شک میں اپنے آپ پر ظلم کرنے والا تھا“ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی اور ان پر رحم کرتے ہوئے مچھلی کو حکم دیا کہ وہ انہیں ساحل سمندر پر اگل دے، چنانچہ مچھلی نے ایسا ہی کیوں، درانحالیک وہ اپنے رب کے مقبول و محمو بندہ تھے، اگر اللہ کی رحمت ان کے شامل حال نہ ہوتی، اور اللہ ان کی توبہ قبول نہ کرتا تو مچھلی انہیں کسی ویران جگہ پر پھینک آتی ہے، درانحالیکہ ہو اپنی غلطی کی وج سے لائق سر زنش اور مذموم ہوتے۔ القلم
49 القلم
50 (١٦) اس واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ اپنا برگزیدہ بنہ بنالیا اور مقام نبوت پرسرفراز کر کے نینویٰ والوں کے بجائے ان کی اپنی قوم کیلئے نبی بنا کربھیجا جن کی تعداد ایک لاکھ یا اس سے زیادہ تھی۔ یونس (علیہ السلام) کا واقعہ تفصیل کے ساتھ سورۃ الانبیاء، سورۃ یونس اور سورۃ الصافات میں گذر چکا ہے، ان آیات کا دوبارہ کرلیا جائے۔ القلم
51 (١٧) کفار قریش اور دیگرکفار عرب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شدیدبغض و عداوت رکھتے تھے، آپ جب بھی قرآن کی تلاوت کرتے تو وہ لوگ آپ کو ایسی عداوت اور نفرت بھیر نگاہوں سے دیکھتے کہ گگر اللہ آپکی حفاظت نہ کرتا تو آپ ان کی برینظر کے زیر اثر ہوجاتے، لیکن اللہ کا فضل ہمیشہ آپ کے شامل حال رہا ہے مشرکین کہتے کہ محمد کو جنون لاحق ہوگیا ہے اسی لئے ایسی بہکیب ہکی باتیں کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس کافرانہ بات کی تردید کی اور کہا کہ محمد جنوں نہیں ہیں بلکہ وہ اللہ کے نبی اور رسول ہیں، ان و اللہ نے اس لئے مبعوث کیا ہے تاکہ وہ اسے جن و انس تک اللہ کا آخری پیغام پہنچا دیں۔ وباللہ التوفیق۔ القلم
52 القلم
0 سورۃ الحاقہ مکی ہے، اس میں باون آیتیں اور دو رکوع ہیں تفسیر سورۃ الحاقہ نام : اس سورت کی ابتدائی تین آیتوں میں کلمہ ” الحاقۃ“ آیا ہے یہی اس کا نام رکھ دیا گیا ہے بعض نے اس کا نام ” السلسلۃ ” اور الداعیۃ“ بھی بتایا ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی نے لکھا ہے کہ تمام کے نزدیک یہ سورت مکی ہے ابن مردودیہ اور بیہقی وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے یہی روایت کی ہے۔ الحاقة
1 (١) ” الحاقۃ“ سے مراد روز قیامت ہے، اس لئے کہ اس سے متعلق تمام غیب یخبریں اس دن ثابت و متحقق ہوجائیں گی اور خود قیامت کا وجود مستحقق ہوجائے گا اور بندوں کے اعمال کا بدلہ اس دن واجب و ثابت ہوجائے گا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ عرب جب مخاطب کے دل میں کسی اہم چیز کے جاننے کا شوق پیدا کرنا چاہتے ہیں، تو پہلے اس کا مجمل طور پر ذکر کرتی ہیں، پھر اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں تاکہ پہلے اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ جس چیز کا ذکر ہو رہا ہے وہ کوئی مہتمم بالشان چیز ہے، پھر اس کا تفصیلی ذکر کیا جائے تاکہ اس کا تصور اس کے دل و دماغ میں اچھی طرح بیٹھ جائے یہاں بھی قیامت کا ذکر پہلے اجمالی طور پر پھر تفصیلی طور پر اسی مقصد کے لئے آیا ہے۔ الحاقة
2 الحاقة
3 الحاقة
4 (٢) ” القارعۃ“ ب ھی قیامت کا نام ے، اس لئے کہ وہ اپنی ہولناکیوں کے ذریعہ لوگوں کو جھنجھوڑ دے گی اور ان کے دلوں پر کپکپی طاری کر دے گی بعض مفسرین کا خیال ہے کہ اس سے مراد قرآن کریم ہے، اس لئے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسکی آیتیں پڑھ کر لوگوں کو ڈراتے تھے اور انہیں خواب غفلت سے جھنجوڑتے تھے، لیکن پہلا معنی ہی راجح ہے۔ کفار قریش کی طرح قوم ثمود اور قوم عاد نے بھی روز قیامت کو جھٹلایا، تو قوم ثمود کے لوگ ایک شدید ترین چیخ کے ذریعہ ہلاک کردیئے گئے یہ قوم شام و حجاز کے درمیان ” حجز“ نام کی جگہ پر آبادتھی، جسے آج کل مدائن صالح کے نام سے جانا جاتا ہے اور جو سعودی عرب کے شہر ” العلا“ سے صرف چند میل کے فاصلہ پر ہے۔ اور قوم عاد ایک شدیدترین ٹھنڈی اور تیز وتند آندھی کے ذریعہ ہلاک کردی گئی، یہ لوگ ” احقاف“ میں آبادتھے جو عمان اور حضرموت (یمن) کے درمیان ریگستانی علاقہ ہے۔ الحاقة
5 الحاقة
6 الحاقة
7 (٣) اللہ تعالیٰ نے اس آندھی کو ان پر سات راتوں اور آٹھ دنوں کے لئے مسلط کردیا تھا، جو مسلسل چلتی رہی اور ان کو بیخ و بن سے ختم کرتی رہی چنانچہ ان کی لاشوں کے اس طرح ڈھیر لگ گئے جیسے کھجوروں کے کھوکھلے درخت جڑ سے اکھڑ کر زمین پر گرے پڑ یہو تے ہیں، جیسا کہ سورۃ القمر آیت (٢٠) میں آیا یہ : (کانھم اعجاز نخل منقعر) ” گویا کہ وہ جڑسے کٹے ہوئے کھجور کے تنے ہیں“ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئیاس قوم کو ختم کردیا ان کا ایک فردبھی باقی نہ رہا دنیا سے ان کی نسل مٹ گئی یحیی بن سلام کہتے ہیں : کلمہ ” الخاویۃ“ میں اشارہ ہے کہ ان کے اجسام روحوں سے اس طرح خالی تھے جیسے کھجور کے کھوکھلے درخت ہوتے ہیں۔ الحاقة
8 الحاقة
9 (٤) عاد و ثمود کی طرح اس سر زمین پر دوسری سرکش قومیں بھی پائی گئیں۔ ملک مصر میں فرعون پیدا ہوا جس کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) کو بہت سے معجزات دے کر مبعوث کیا، لیکن اس نے کفر کی راہ اختیار کی اور فرعون مصر سے پہلے بھی ایسی قومیں پائی گئیں جنہوں نے اپنے زمانے کے رسولوں کی تکذیب کی اور قوم لوط کی بستیاں پائی گئیں جن کے باشندوں نے گناہوں کا ارتکاب کیا ان تمام کافر قوموں نے اپنے رب کے رسولوں کو جھٹلادیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی شدید ترین گرفت کی۔ الحاقة
10 الحاقة
11 (٥) ان کافر و سرکش قوموں میں قوم نوح کیل وگ بھی تھے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے سمندر میں ڈبو دیا جب طوفان کا پانی زمین پر ہر طرف پھیل گیا اور نشیبی اور بالائی زمین میں کوئی فرق نہ رہا تو اللہ تعالیٰ نے نوح اور ان کے مسلمان ساتھیوں کو کشتی میں سوار ہونے کا حکم دیا چنانچہ کشتی میں سوار لوگوں کے سوا سب ہلاک ہوگئے اور کشتی باقی ماندہ لوگوں کے لئے عبرت و موعظت کا سبب بن گئی کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے رسولوں کی مدد کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو برباد کردیتا ہے نیز یہ واقعہ ہر ذی عقلو ہوش کے دل و دماغ میں ہمیشہ کے لئے ثبت ہوگیا اور انہیں معلوم ہوگیا کہ اللہ سے سرکشی کرنے والی قوم کا انجام یکسا ہوتا ہے۔ الحاقة
12 الحاقة
13 قیامت کی تکذیب کرنے والوں کی ہلاکت و بربادی کے قصے بیان کرنے کے بعد، اب اس کی آمد کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے سب سے پہلے اسرافیل (علیہ السلام) صور پھونکیں گے، جس کے زیر اثر تمام روحیں اپنے جسموں میں داخل ہوجائیں گی اور سب لوگ رب العالمین کے سامنے حاضری کے لئے کھڑے ہوجائیں گے اور زمین اور پہاڑ اوپر اٹھا کر ایک دوسرے سے اس طرح ٹکرا دیئے جائیں گے کہ آن واحد میں پوری دنیا تباہ و برباد ہوجائے گی اور پوری زمین ایک چٹیل میدان بن جائے گی اور قیامت واقع ہوجائے گی۔ اور آسمان پھٹ پڑے گا، اس کا رنگ بدل جائے گا اور نہایت کمزور اور ڈھیلا ڈھالا ہوجائے گا اور فرشتے آسمان کے کناروں پر پناہ لیں گے ضحاک کا قول ہے کہ قیامت کے دن جب آسمان پھٹ جائے گا تو فرشتے اس کے کناروں پر پناہ گزیں ہوجائیں گے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انہیں زمین پر اترنے کا حکم دے گا، تو وہ اتر کر زمین اور اس پر رہنے والوں کو اپنے گھیرے میں لے لیں گے۔ اس دن آٹھ فرشتے اپنے سروں پر عرش کو اٹھائے ہوں گے بعض نے کہا ہے کہ لاتعداد فرشتے آٹھ صفوں میں بٹے ہوئے عرش کو اپنے سروں پر اٹھائے ہوں گے حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ ” عرش“ سے مراد یا تو ” عرش عظیم“ ہے یا وہ عرش جو قیامت کے دن فیصلہ کے لئے زمین پر رکھا جائے گا۔ واللہ اعلم الحاقة
14 الحاقة
15 الحاقة
16 الحاقة
17 الحاقة
18 (٧) اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو مخاطب کر کے کہا کہ قیامت کے دن تم سب اپنے رب کے سامنے حساب اور جزا و سزا کیلئے پیش کئے جاؤ گے اور وہ پیشی اس لئے نہیں ہوگی تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے ان اعمال کو جانے جن کی اسے خبر نہیں تھی، بلکہ اس سے مقصود تمہیں آزمانا اور تمہاری زجر و توبیخ ہوگی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (تخفی منکم خافیۃ) ” تم اپنینرب کے سامنے پیش کئے جاؤ گے، درانحالیکہ تمہارے کرتوتوں میں سے کوئی بات اس سے مخفی نہیں ہوگی۔ “ الحاقة
19 (٨) اس دن جس کا صحیفہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کامیاب ہوگا، اور مارے خوشی کے اپنے آس پاس کے لوگوں سے کہے گا کہ ذرا میرا صحیفہ لو، اور اسیپ ڑھو تو سہی، اس سے تو روشنی پھوٹ رہی ہے، اس میں گناہوں کی سیاہی نہیں نظر آرہی ہے۔ مجھے دنیا میں اس بات کا یقین تھا کہ قیامت کے دن مجھے اپنے اعمال کا بدلہ ضرورملے گا، اسی لئے میں نے ایمان اور عمل صالح کے ذریعہ اس دن کے لئے تیاری کی تھی، اور گناہوں سے بچاتھا اور اگر کبھی نادانی کی وجہ سے کسی گناہ کا ارتکاب کیا تو فوراً اللہ کی طرف رجوع کیا اور اس گناہ سے تائب ہوا، تو وہ گناہ میرے نامہ اعمال میں درج نہیں کیا گیا۔ الحاقة
20 الحاقة
21 (٩) اللہ تعالیٰ نے ایسے نیک انسان کا انجام یہ بتایا کہ اسے جنت کے بالا خانوں میں خوشیوں اور راحتوں سے بھیر زندگی ملے گی، اسی جنت کے پھل ہر حال میں اس سے قریب ہوں گے، وہ جب بھی ان میں سے کوئی پھل کھانا چایہ گا اس کے قریب آجائے گا اور ان سے بطور عزت افزائی کہا جائے گا کہ تم سب خوش و خرم رہو اور جو چاہو کھاؤ اور جو چاہوپیو، یہ جنت او اس کی ساری نعمتیں تمہیں ان اعمال صالحہ کی وجہ سے ملی ہیں جو تم نے دنیا کی زندگی میں کٹے تھے۔ الحاقة
22 الحاقة
23 الحاقة
24 الحاقة
25 (١٠) اور اس دن جس کا صحیفہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ بدبخت اور نامراد ہوگا اور شدت حزن و ملال کی وجہ سے کہے گا کہ اے کاش ! میرا نامہ اعمال مجھے نہ دیا گیا ہوتا اور مجھے میرا حساب معلوم نہ ہوتا اے کاش ! دنیا میں جو مجھے موت آئی تھی اس کے بعد زندہ نہ کیا جاتا۔ الحاقة
26 الحاقة
27 الحاقة
28 (١١) جہنمی اپنی حسرت و نامرادی کا مزید اظہار کرتے ہوئے کہے گا کہ میرا مال آج مجھے عذاب الٰہی سے بچا نہ سکا اور مری بادشاہی، لشکر، آلات، حرب، اور میری قوت اور میرا جبروت، میرے کچھ بھی کام نہ آیا، سب معدوم ہوگئے اور حزب و ملال اور درد و الم کے سوا اب میرے پاس کچھ بھی نہیں رہا۔ الحاقة
29 الحاقة
30 تب اللہ تعالیٰ جہنم کے داروغوں سے کہے گا اسے پکڑ لو اور اس کے ہاتھ گردن سے لگا کر باندھ دو اور پھر اسے جہنم کے انگاروں پر جلاو اور الٹو پلٹو پھر اسے جہنم کے گرم زنجیروں میں سے ایک زنجیر میں اس طرح پرو دوکہ اس کے دبر سے داخل کرو اور منہ سے نکال دو، تاکہ اس میں لٹکا رہے۔ اعاذا اللہ من عذاب جھنم۔ الحاقة
31 الحاقة
32 الحاقة
33 (١٣) وہ بدبخت وشقی اس بدترین انجامکا مستحق بنا کر وہ صاحب عظمت و جلال اللہ پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ خود کو دیتا تھا اور نہ غیروں کو، خود انتہائی درجہ کا بخیل تھا اور دوسروں کو بھی اللہ کے لئے مسکینوں کو کھانا کھلانے سے روکتا تھا، مفسرین لکھتے ہیں کہ سعادت و نیک بختی کا دار ومدار اللہ کے لئے اخلاص اور مخلوق کے ساتھ احسان پر ہے اور وہ بدبخت ان دونوں صفات سے محروم تھا۔ الحاقة
34 الحاقة
35 (١٤) اس بدبخت جہنمی کا مزید حال بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آج (یعنی قیامت کے دن) اس کا کوئی رشتہ دار یا دوست نہیں ہوگا، جو اس کے لئے سفارشی بنے اور اسے اللہ کے عذاب سے بچا لے سورۃ غافر آیت (١٨) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (وانذرھم یوم الازقۃ ہ اذا القلوب لدی الحناجر کا ظمین مالظلامین من حمیم ولا شفیع یطاع) ” اور انہیں بہت ہی قریب آنے والی (قیامت) سے آگاہ کردیجیے، جبکہ دل حلق تک پہنچ جائیں گے اور سب خاموش ہوں گے ظالموں کا نہ کوئی دلی دوست ہوگا نہ سفارشی کہ جس کی بات مانی جائے“ اور اس بدبخت کو کھانے کے لئے جہنمیوں کے خون اور پیپ کے سوا کچھ بھی نہ ملے گا۔ یہ بدترین کھاناصرف کفر اور وہ مجرمین کھائیں گے جو اللہ کے اوامرونواہی کو پس پشت ڈال دیتے تھے اور قصداً ماصی اور جرائم کا ارتکاب کرتے تھے۔ الحاقة
36 الحاقة
37 الحاقة
38 (١٥) مشرکین مکہ کی تردید کی گئی ہے جو قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا انکار کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگو ! میں ان تمام چیزوں کی قسم کھاتا ہوں جنہیں تم دیکھتے ہو اور جنہیں تم نہیں دیکھتے ہو یعنی تمام مخلوقات کی اور اپنی ذات اقدس کی قسم کھاتا ہوں کہ میرے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے ہیں اور انہوں نے یہ قرآن اپنے رب کی جانب سے لوگوں کو سنایا ہے، یہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے جیسا کہ تم لوگوں میں جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے ہو حقیقت یہ ہے کہ تم دولت ایمان سے محروم ہو اگر تم ممن ہوتے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف و اخلاق میں غور و فکر کرتے تو تمہارے لئے روشن آفتاب کی طرح یہ بات واضح ہوجاتی کہ وہ اقعی اللہ کے رسول ہیں اور جو قرآن لے کر وہ مبعوث ہوئے ہیں وہ کلام الٰہی ہے۔ اور یہ قرآن کاہن کا کلام بھی نہیں ہے، جیسا کہ بعض مشرکین عرب کہتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ فکر و نظر کی نعمت سے یکسر محروم ہو ورنہ تمہیں یہ بات یقیناً سمجھ میں آجاتی کہ قرآن کسی کاہن کا کلام نہیں ہے، اس لئے کہ قرآن حق و صداقت لے کر نازل ہا ہے جبکہ کہانت کی بنیاد جھوٹ پر ہوتی ہے۔ مشرکین مکہ کے شبہات کی تردید کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بطور تاکید فرمایا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن رب العالمین کا کلام ہے یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کلام کی عظمت اس کا جلال اور دل و دماغ پر پڑنے والا اس کا غیر معمولی اثر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا مالک وہ اللہ ہے جو عظمت و جلال اور کبریائی والا ہے۔ الحاقة
39 الحاقة
40 الحاقة
41 الحاقة
42 الحاقة
43 الحاقة
44 (١٦) اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسا کہ مشرکین مکہ افتراپردازی کرتے ہیں ہمارے طرف جھوٹ باتیں منسوب کرتے تو ہم انہیں بڑی سخت سزا دیتے اور دل کی طرف جانے والی ان کی رگ کو کاٹ دیتے اور وہ ہلاک ہوجاتے اور تم میں سے کوئی ہمیں ایسا کرنے سے نہ روک سکتا، لیکن اللہ نے ایسا نہیں کیا، بلکہ اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات کے ذریعہ تائید کی، قرآن نازل کر کے ان کی صداقت کی دلیل پیش کی دشمنوں کے خلاف ان کی مدد فرمائی اور ان کے ممالک کا آپ کو مالک بناد یا یہ ساری باتیں دلیل ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف سے قرآن میں ایک کملہ کا بھی اضافہ نہیں کیا، بلکہ قرآن کا ایک ایک کلمہ کلام الٰہی ہے۔ الحاقة
45 الحاقة
46 الحاقة
47 الحاقة
48 (١٧) یہاں قرآن کریم کی اللہ تعالیٰ نے یہ صفت بیان کی ہے کہ اہل تقویٰ اس سے دین و دنیا کے ہر معاملہ میں روشنی اور رہنمائی حاصل کرتے ہیں، مسلمانوں میں بڑے بڑے ربانی علماء اور ائمہ پیدا ہوتے ہیں جو قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں مومنوں کی دینی رہنمائی کرتے ہیں۔ آیت (٤٩) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگو ! ہمیں پوری خبر ہے کہ تم میں سے بعض لوگ دنیاوی فائدے کی خاطر اور خواہش نفس کی پیروی میں اس قرآن کی تکذیب کرتے ہیں تو ہم انہیں ایسے ہی چھوڑ دیں گے بلکہ قرآن کریم سے اس اعراض کا انہیں ضرور بدلہ دیں گے اور آیت (٥٠) میں کہا گیا ہے کہ قیامت کے دن جب کفار دیکھیں گے کہ قرآن کریم پر ایمان لانے والے نوازے جا رہے ہیں اور انہیں جنت کی طرف لے جایا جا رہا ہے تو ان کی حسرت انتہائی شدید ہوگی اور آیت (٥١) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن کریم اللہ کی برحق کتاب ہے، اس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لئے اے میرے نبی ! آپ اپنے عظیم رب کی پاکی بیان کرنے کے لئے ” سبحان ربی العظیم“ کا ورد کرتے رہئے۔ وباللہ التوفیق الحاقة
49 الحاقة
50 الحاقة
51 الحاقة
52 الحاقة
0 سورۃ المعارج مکی ہے، اس میں چوالیس آیتیں ہیں اور دو رکوع ہیں تفسیر سورۃ المعارج نام : آیت (٣) (من اللہ ذی المعارج) سے ماخوذ ہے۔ اسے سورۃ ” سائل سائل“ بھی کہا جاتا ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ سورت بالاتفاق مکی ہے۔ ابن عباس (رض) اور ابن زبیر (رض) سے یہی مروی ہے۔ المعارج
1 (١) نسائی اور حاکم وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ اس آیت کریمہ میں ” سائل“ یعنی پوچھنے والا سے مراد نضر بن حارث ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے کافروں سے وعدہ عذاب کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ اے اللہ ! اگر تیری جانب سے یہی بات حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش کر دے، یا کوئی درد ناک عذاب ہم پر نازل کر دے۔ نضر بن حارث کے اس قول کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانفال آیت (٣٢) میں بیان کیا ہے : (اللھم ان کان ھذا ھوا الحق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السماء اوئتنا بعذاب الیم) تو اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی آیات (١/٢) میں اسکی بات کا جواب دیا کہ ایک پوچھنے والے نے اس عذاب کے بارے میں پوچھا ہے جس کا واقع ہونا یقینی ہے، اور وہ عذاب کافروں کے لئے ان کے کفر کی وجہ سے ہے، اور اس کا فیصلہ اللہ کی جانب سے ہوچکا ہے اب اسے کوئی ٹال نہیں سکتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحج آیت (٤٧) میں فرمایا ہے : (ویستعجلونک بالعذاب ولن یخلف اللہ وعدہ) ” اور مشرکین مکہ آپ سے عذاب لانے کی جلدی کرتے ہیں اور اللہ اپنے وعدہ کے خلاف ہرگز نہیں کرے گا“ چنانچہ صحیح روایت میں ثابت ہے کہ نضر بن حارث میدان بدر میں بری طرح مارا گیا۔ ” ذی المعارج“ اللہ کی صفت ہے، یعنی وہ عذاب اس اللہ کی جانب سے ہے جو ” معارج والا“ ہے مفسرین نے اس کلمہ کیتین معانی بیان کئے ہیں : ایک روایت میں ابن عباس (رض) سے اس کا معنی ” ذی السماوات“ مروی ہے، یعنی آسمانوں والا، اس لئے کہ فرشتے ان آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں دوسری روایت قتادہ سے ہے کہ اس کا معنی ” ذی الفواضل والنعم“ ہے یعنی وہ اللہ جو نعمتوں اور احسانات والا ہے اور تیسرا قول ہے کہ ” معارج“ سے مراد جنت کے وہ درجات ہیں جو اللہ کی طرف سے اس کے اولیاء اور صالحین کو ملیں گے۔ المعارج
2 المعارج
3 المعارج
4 (٢) اس آیت کریمہ میں ” روح“ سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں، جو ملائکہ میں شامل ہیں، لیکن اللہ کے نزدیک ان کے خصوصی مقام کی وجہ سے ان کے نام کی صراحت کی گئی ہے۔ ابن جریر نے اس آیت کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ فرشتے اور جبریل اللہ عزوجل کی جانب عروج کرتے ہیں، بایں طور کہ ایک دن میں ساتویں زمین کی آخری تہ سے ساتویں آسمان کے اوپرتک ان کے چڑھنے کی تیزی رفتار دوسری مخلوقات کے پچاس ہزار سال کی رفتار کے برابر ہوتی ہے۔ آیت کی دوسری تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ فرشتے اور جبرئیل اللہ تعالیٰ کی جانب اس دن چڑھیں گے جس دن اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات کے درمیان فیصلہ کرے گا اور وہ دن پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا تیسری تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ آیت میں (دن) سے مراد ” قیامت کا دن“ ہے۔ یعنی وہ دن کافروں کے لئے پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا، لیکن اللہ تعالیٰ اسے مومنوں کے لئے آسان بنا دے گا اور مجاہد کا قول ہے کہ آیت میں دنیا کی عمرپچاس ہزار سال بتائی گئی ہے۔ لیکن معلوم نہیں کہ کتنی مدت گذر چکی ہے اور کتنی باقی ہے۔ المعارج
5 (٣) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نصیحت کی ہے کہ دعوت کی راہ میں مشرکین کی جانب سے آپ کو جو تکلیف پہنچتی ہے اس پر صبر جمیل سے کام لیجیے لوگوں کے سامنے پریشانی اور ناراضگی کا اظہار نہ کیجئے اور اللہ کے سوا کسی کے سامنے ان تکلیفوں کا شکوہ نہ کیجیے مشرکین چونکہ یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، اس لئے بعث بعد الموت اور قیامت کے دن کے عذاب کو اپنی بدبختی کی وجہ سے بہت دور سمجھتے ہیں، لیکن ہمارے نزدیک تو اس کا دن بہت ہی قریب ہے، اس لئے کہ اس کا آنا یقینی ہے اور ہر آنے والی چیز قریب ہی ہوتی ہے۔ ہم اپنی صفت رحمت اور حلم کی وجہ سے ان پر عذاب لانے میں جلدی نہیں کر رہے ہیں۔ المعارج
6 المعارج
7 المعارج
8 المعارج
9 (٤) اس دن کی ہولناکیوں کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس دن آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گا اور پگھلے ہوئے تانبے کے مانند بہہ پڑے گا اور پہاڑ رنگے ہوئے اون کے مانند بالکل ہلکا ہو کر چاروں طرف اڑنے لگے گا اور ہر چیز فنا کے گھاٹ اتار دی جائے گی، اس کے بعد اللہ تعالیٰ تمام جنوں اور انسانوں کو دوبارہ پیدا کرے گا اور سب ننگے پاؤں ننگے بدن میدان محشر میں اکٹھا ہوجائیں گے جب ان عظیم اجرام ارضیہ کا یہ حال ہوگا، تو اس دن ضعیف و ناتواں انسان کا کیا حال ہوگا جس نے گناہوں کے بارگراں کے ذریعہ اپنے کندھوں کو نہایت بوجھل بنا رکھا ہوگا، یقیناً اس کا دل اپنی جگہ چھوڑ دے گا، اور اپنی نجات کی فکر میں ایسا پریشان و مضطرب ہوگا کہ اپنی ذات کے سوا سب کو بھول جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ عبس آیت (٣٧) میں فرمایا ہے : (لکل امری منھم یومئذشان یغنیہ) انمیں سے ہر ایک کو اس دن فکر دامن گیر ہوگی جو اس کے لئے کافی ہوگی، اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے یہاں یوں فرمایا ہے کہ ” کوئی رشتہ دار اور دوست اپنے کسی رشتہ دار اور دوست کو نہیں پوچھے گا“ المعارج
10 المعارج
11 (٥) اس دن ایک دوسرے کو نہ پوچھنا اس لئے نہیں ہوگا کہ ان کے درمیان کوئی حجاب حائل ہوگا بلکہ دوسروں کے بارے میں سوچنے کے لئے کسی کے دل میں اس دن گنجائش ہی نہیں ہوگی، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” لوگوں کو ان کے خویش و اقارب یاد دلائے جائیں گے، اور ان سے ان کی پہچان کرائی جائے گی“ لیکن ہر ایک دوسرے سے سھابے گا۔ اس دن کافر تمنا کرے گا کہ کاش ! کوئی ایسی صورت نکل آتی کہ وہ اپنی اولاد، بیوی، بھائی، سارا خانان اور سارا عالم دے کر اپنی نجات کرا لیتا، یعنی وہ ایسی گھڑی ہوگی کہ جن سے وہ دنیا میں بے انتہا محبت کرتا تھا، ان کی بھی قربانی دے کرصرف اپنی جان چھڑا لینا چاہے گا۔ المعارج
12 المعارج
13 المعارج
14 المعارج
15 (٦) لیکن اس دن نہ کوئی رشتہ داری کام دے گی اور نہ ہی کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا، ہر آدمی کے پاس صرفاس کا اچھا یا برا عمل ہوگا اور اس کے نتائج کا اسے سامنا ہوگا اور وہ آگ ہوگی جس کا مجرموں سے وعدہ کیا گیا تھا، اس کے شدید ترین انگارے ہوں گے جو سر اور ہر عضو کے چمڑے کو ادھیڑ کر الگ کردیں گے جس کے الگ کرنے سے آدمی مرتا نہیں، لیکن انتہائی تکلیف و مصیبت میں ہوتا ہے۔ اس دن جہنم اپنی طرف ہر اس کافر و سرکش کو پکارے گی جس نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے روگردانی کی تھی اور اسے پس پشت ڈال دیا تھا اور مال اکٹھا کر کیت جویروں میں تہ بہ تہ بند کرتا رہا، نہ اس کی زکاۃ ادا کی اور نہ اس میں سے صدقہ و خیرات کیا اور جسے جہنم پکارے گی، اسے دھکے دے کر اس میں پہنچا دیا جائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الطور آیت (١٣) میں فرمایا ہے : (یوم بدعون الی نارجھنم دعا) ” جس دن وہ دھکے دے کر آتش جہنم کی طرف لائے جائیں گے۔ “ المعارج
16 المعارج
17 المعارج
18 المعارج
19 المعارج
20 (٧) انسان طبعی طور پر ایسا پیدا کیا گیا ہے کہ جب اسے کوئی بھاری مصیبت لاحق ہوتی ہے تو دامن صبر اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے واویلا کرنے لگتا ہے اور انتہائی بے چینی اور اضطراب کا اظہار کرنے لگتا ہے اور جب اللہ کی جانب سے مال و دولت سے نوازا جاتا ہے تو پر لے درجے کا بخیل بن جاتا ہے، اپنے اوپر اللہ کے احسانات کو بھول جاتا ہے اور اپنوں اور غیروں پر اس میں سے ایک پیسہخرچ کرنے کے تصور سے اس کی جان نکلنے لگتی ہے۔ المعارج
21 المعارج
22 (٨) اس بیماری کا اللہ تعالیٰ نے جو انسان کا خالق ہے، ایک ہی علاج بتایا ہے کہ بندہ اس دنیا میں اللہ کا ہو کر رہے، اس نے جو فرائض عائد کئے ہیں انہیں پابندی سے ادا کرے، اور جن برے افعال و اخلاق سے اس نے منع کیا ہے، ان سے اجتناب کرے۔ ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کے اندر ایسی روحانی قوت پیدا کردیتا ہے کہ جب اس پر کوئی مصیبت آتی ہے تو جزع فزع میں مبتلا نہیں ہوتا، بلکہ اس ایمان و یقین کے ساتھ اسے برداشت کرتا ہے کہ رب العالمین کی تقدیر میں ایسا ہی ہونا لکھا تھا، اس لئے ہمت و عزیمت کے ساتھ صبر کرتا ہے اور اللہ سیدعا کرتا ہے کہ ارحم الراحمین اسے اس کے سر سے ٹال دے، اور جب اللہ تعالیٰ اسے دولت سے نوازتا ہے تو اس کا شکر ادا کرتا ہے، کبر و غرور میں مبتلا نہیں ہوتا، آپے سے باہر نہیں ہوجاتا، اور اس مال میں اللہ اور بندوں کا جو حق ہوتا ہے، اسے نہایت خوش دلی سے ادا کرتا ہے، بلکہ اس کی جو مالی حیثیت ہوتی ہے اس اعتبار سے غریبوں، محتاجوں، بے کسوں، یتیموں اور بیواؤں پر ہمیشہ خرچ کرتا رہتا ہے۔ آیات (٢٢) سے (٣٥) تک اللہ تعالیٰ نے جزع فزع اور شدت حرص و طمع سے شفا پانے کے اسی نسخہ کیمیا کو بیان فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دونوں بیماریوں سے اللہ تعالیٰ ان کو شفا دے گا : ١۔ جو اپنی نمازیں پابندی کے ساتھ اور ان کے ارکان و شروط اور سنن کی رعایت کرتے ہوئے ادا کرتے ہیں۔ ٢۔ ان کے مال میں اللہ نے مانگنے والوں اور محروموں کا جو حق مقرر کیا ہے، اسے بطیب خاطر ادا کرتے ہیں۔ ٣۔ بعث بعد الموت، روز قیامت اور اس دن کے جزاء و سزا پر ایمان رکھتے ہیں۔ ٤۔ جب وہ شیطان کے نرغے میں آ کر کوئی فعل واجب چھوڑ دیتے ہیں، یا کسی فعل حرام کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کے عذاب کات صور کر کے ان کے جسموں پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے، اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ کا عذاب کسی کو بھی اپنی گرفت میں لے سکتا ہے اس سے بے خوف ہو کر کافرو منافق ہی زندہ رہتا ہے، مومن اپنے رب کے خوف سے ہر وقت کا نپتا رہتا ہے۔ ٥۔ وہ لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، یعنی زنا اور لواطت سے بچتے ہیں اور شوہر و بیوی اور اپنی لونڈی کے سوا کسی کے سامنے اپنی شرمگاہ نہیں کھولتے البتہ اگر وہ اپنی بیویوں سے جماع کرتے ہیں، یا ان لونڈیوں سے جنہیں اسلامی جہاد یا شرعی طور پر خرید کر حاصل کیا تھا تو وہ قابل ملامت نہیں ہیں اگر کوئی شخص ان دونوں طریقوں کے سوا کسی اور طریقہ سے عورت کو حاصل کرتا ہے اور اس سے جماع کرتا ہے تو وہ اللہ کے مقرر کردہ حد سے تجاوز کرنے والا قرار دیا جائے گا۔ ٦۔ اور وہ لوگ امانتوں اور عہد و مواثیق کی حفاظت کرتے ہیں اور سب اہم امانت اور سب سے پختہ میثاق بندے کا اپنے رب سے یہ عہد و میثاق ہے کہ جب تک زندہ رہے گا اس کی بندگی کرتا رہے گا اور اس کے رسول کی بات کو سب کی بات پر مقدم رکھے گا۔ ٧۔ اور وہ لوگ اپنے پاس موجود شہادتوں کو نہیں چھپاتے، بلکہ جب ان کی ضرورت پڑتی ہے تو حکام کے سامنے انہیں بے کم و کاست ادا کرتے ہیں۔ ٨۔ اور وہ لوگ اپنی پنجگانہ نمازیں، شروط و ارکان کا التزام کرتے ہوئے خشوع و خضوع، طمانیت اور رکوع، سجدہ اور قیام میں اعتدال کا لحاظ کرتے ہوئے ان کے مقرر و محدد اوقات میں ادا کرتے ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت میں نمازوں کے اہتمام کا ذکر دوبارہ آنا، نماز کی فضیلت اور دیگر اعمال صالحہ کے مقابلہ میں اس کی عظمت و اہمیت کی دلیل ہے، اللہ کے جو مومن بندے ان اوصاف کے حامل ہوں گے، اللہ کے فضل و کرم سے، آیت (١٩) میں مذکور نفسیاتی بیماری سے وہ محفوظ رہیں گے اور جب دنیا سے رخصت ہو کر اپنے پاس پہنچیں گے تو اللہ انہیں عزت و اکرام کے ساتھ جنتوں میں جگہ دے گا۔ المعارج
23 المعارج
24 المعارج
25 المعارج
26 المعارج
27 المعارج
28 المعارج
29 المعارج
30 المعارج
31 المعارج
32 المعارج
33 المعارج
34 المعارج
35 المعارج
36 (٩) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں پائے جانے والے کفار و مشرکین ہر روز آپ کو دیکھتے تھے، آپ کے ذریعہ صادر ہونے والے معجزات کا مشاہدہ کرتے تھے اور ان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت ہوتی تھی، لیکن ان تمام چیزوں کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ وہ گروہوں اور جماعتوں کی شکل میں آپ کی دعوت سے راہ فرار اختیار کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کی اسی قساوت قلبی اور شقاوت و بدبختی پر ان دونوں آیتوں میں حیرت کا اظہار کیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المدثر آیات (٤٩/٥٠/٥١) میں فرمایا ہے : (فما لھم عن التذکرہ صعر ضین، کانھم حمر مستنفرۃ، فرت من قسورۃ) ” انہیں کیا ہوگیا ہے کہ نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں گویا کہ وہ بد کے ہوئے گدھے ہیں، جوشیر سے بھاگے ہوں۔ “ عوفی نے ابن عباس (رض) سے ان دونوں آیتوں کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ان کافروں کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ آپ کی طرفدیکھتے ہوئے، آپ کے دائیں اور بائیں سے آپ کا مذاق اڑاتے ہوئے بھاگتے ہیں۔ قتادہ نے ان کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ اہل کفر قصداً جماعتوں کی شکل میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دائیں اور بائیں سے نکل کر چلے جاتے ہیں اور اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت کو سننا نہیں چاہتے ہیں۔ المعارج
37 المعارج
38 (١٠) مشرکین مکہ مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے تھے کہ اگر یہ لوگ جنت میں جائیں گے تو ہم ضرور جنت میں جائیں گے، اسی کی رتدید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا ان میں سے ہر ایک شخص لالچ کرتا ہے کہ وہ نعمتوں والی جنت میں جائیں گے؟ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا، اس لئے کہ انہوں نے اپنی روحوں کو شرک و معاصی کے ذریعہ پلیدب نا رکھا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ کیا وہ اپنی پیدائش کی حقیقت کو بھول گئے ہیں، وہ تو ایک نطفہ حقیر سے پیدا کئے گئے ہیں، پھر یہ تکبر کیسا، وہ تو کسی چیز کی قدرت نہیں رکھتے ہیں، پھر وہ کیسے دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ جنت میں ضرور داخل ہوں گے۔ المعارج
39 المعارج
40 (١١) حافظ ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر یوں بیان کی ہے کہ اس رب کی قسم جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، مشرق و مغرب کو بنایا ہے اور شمس و قمر اور کواکب کو اس طرح مسخر کیا ہے کہ وہ روزانہ ایک مشرق سے نکلتے ہیں اور ایک مغرب میں ڈوبتے ہیں (یعنی ہر سال تین سو ساٹھ مشرقوں سے طلوع ہوتے ہیں اور تین سو ساٹھ مغربوں میں ڈوبتے ہیں) بات ویسی نہیں ہے جیسی تم گمان کرتے ہو کہب عث بعد الموت، قیامت، حساب اور جزا و سزا نہیں ہے، بلکہ یہ تمام باتیں سچ اور یقینی ہیں اور اس میں حیرت کی کون سی بات ہے، وہ تو اللہ کی عظیم قدرت کا مشاہدہ وقع قیامت سے بڑی چیز میں کر رہے ہیں، یعنی آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور ان میں پائی جانے والی تمام مخلوقات و موجودات کو ایک مخصوص نظام کا پابند بنانا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرقوں اور مغربوں کے رب کی قسم ! ہم یقیناً اس پر قادر ہیں کہ روز قیامت انسانوں کو ان کے موجودہ جسم سے اچھا جسم دے کر پیدا کریں اور ہم ایسا کرنے سے عاجز نہیں ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ القیامہ آیات (٣/٤) میں فرمایا ہے : (ایحسب الانسان الن نجمع عظامہ) بلیقادرین علی ان نسوی بنانہ) ” کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہیں کریں گے ہاں ضرور کریں گے ہم تو قادر ہیں کہ ہم اس کی پور پور تک درست کردیں“ المعارج
41 المعارج
42 (١٢) جب ثابت ہوگیا کہ قیامت آئے گی، لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اور مشرکین مکہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی دعوت کو ٹھکرا کر تکذیب قیامت پر مصر ہیں تو اے میرے نبی ! آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے، دنیا میں فاسد عقائد اور باطل چہمیگوئیوں میں مشغول رہیں، کھائیں پئیں اوم مزے اڑائیں، اور شرک و معاصی کا ارتکاب کرتے رہیں، یہاں تک کہ قیامت کا وہ دن آجائے جس دن ان سے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے۔ المعارج
43 (١٣) اس دن ان کا حالیہ ہوگا کہ وہ اپنی قبروں سے نکل کر، پکارنے والے کی آواز کی طرفاس طرح تیزی کے ساتھ دوڑیں گے کہ جیسے کوئی گم گشتہ راہ نشان راہ کو دیکھ کر اس کی طرف تیزی کے ساتھ دوڑتا ہے۔ ان کی نگاہیں ذلت و رسوائی سے جھکی ہوں گی اور ان کا پورا وجود نشان راہ کو دیکھ کر اسکی طرف تیزی کے ساتھ دوڑتا ہے، ان کی نگاہیں ذلت و رسوائی سے جھکی ہوں گی اور ان کا پورا وجود ذلت کے بوجھ تلے دبا ہوگا، آنکھیں جھکی ہوں گی، جسم و جان کی ہر حرکت بند ہوگی، اور زبان گنگ ہوگی اور ان سے کہا جائے گا کہ یہی وہ دن ہے جس کا ان سے دنیا میں وعدہ کیا جاتا تھا۔ وباللہ المعارج
44 المعارج
0 سورۃ نوح مکی ہے، اس میں اٹھائیس آیتیں اور دو رکوع ہیں تفسیر سورۃ نوح نام : پہلی آیت میں ہی نوح (علیہ السلام) کا نام آیا ہے، نیز اس سورت میں نوح (علیہ السلام) کی دعوت کا تفصیلی ذکر ہے، اسی لئے اس کا نام سورۃ نوح رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت سب کے نزدیک مکی ہے، ابن مردویہ وغیرہ نے عبداللہ بن زبیر (رض) سے روایت کی ہے کہ (انا ارسلنا نوحا) مکہ میں نازل ہوئی تھی اس سورۃ مبارکہ میں صرف نوح (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اس لئے کہ وہ واحد نبی تھے جو ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو ت وحید کی دعوت دیتے رہے اور انہیں شرک سے ڈراتے رہے۔ ان کی مدت نبوت کا ذکر سورۃ العنکبوت آیت (١٤) میں گذر چکا ہے ابن ابی شیبہ، ابن ابی حاتم، حاکم اور ابن مرویہ وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب نوح کو رسول بنا کر مبعوث کیا تو اس وقت ان کی عمر چالیس سال تھی اس کے بعد وہ اپنی قوم کوس اڑھے نوس و سال تک اللہ کی طرف بلاتے رہے اور طوفان کے بعد ساٹھ سال زندہ رہے یہاں تک کہ لوگوں کی تعداد کثیر ہوگئی اور چاروں طرف پھیل گئے۔ نوح
1 (١) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس نے نوح کو ان کی قوم پر رحم کرتے ہوئے، رسول بنا کر مبعوث کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو دعوت توحیددیں، شرک سے ڈرائیں اور انہیں بتائیں کہ اگر وہ شرک سے باز نہیں آئیں گے تو اللہ کا درد ناک عذاب انہیں اپنی گرفت میں لے لے گا۔ نوح
2 (٢) نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حکم کی فوراً تعمیل کی اور اپنی قوم سے کہا کہ میں اللہ کی جانب سے تمہیں کفر و شرک سے پوری صراحت و وضاحت کے ساتھ ڈرانے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں، میری دعوت واضح ہے اور تمہارا کفر و شرک ظاہر ہے اور اللہ کے عذاب سے تمہیں کیسے نجات ملے گی وہ بھی میں تمہیں صراحت کے ساتھ بتا دینا چاہتا ہں۔ میری دعوت یہ ہے کہ تم سب صرف اللہ کی بندگی کرو اس کی عبادت میں غیروں کو شریک نہ بناؤ، اور ہر حال میں اس سے ڈرتے رہو اور جس کام کا میں تمہیں حکم دیتا ہوں اور جس سے منع کرتا ہوں ان سب میں میری اطاعت کرو اس لئے کہ میں اللہ کا پیغمبر ہوں، میں اسی کے حکم کے مطابق تمہیں کسی کام کا حکم دیتا ہوں اور کسی کام سے روکتا ہوں۔ اگر تم میری دعوت کو قبول کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا اور تمہیں تمہاری مقرر عمرتک زندہ رہنے دے گا یعنی عذاب دینے میں جلدی نہیں کرے گا اور یاد رکھو کہ جب تمہارے عذاب کا وقت آجائے گا تو اسے ٹالا نہیں جائے گا کاش کہتم ان باتوں کو سمجھتے تو اللہ کی طرف رجوع کرتے، اپنے گناہوں سے توبہ کرتے اور اس سے طلب مغفرت کرتے ! نوح
3 نوح
4 نوح
5 (٣) لیکن ان کی قوم نے ہزار کوشش کے باوجود ان کی دعوت قبول نہیں کی، تو انہوں نے اپنے رب کے حضور شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے پروردگار میں اپنی قوم کو دن رات توحید اور عمل صالح کی طرف بلاتا رہا، لیکن وہ حق سے دور ہی ہوتے گئے اور میری دعوت حق کا ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا، بلکہ میں نے جب بھی انہیں ایمان باللہ کی دعوت دی، تاکہ تو ان کی مغفرت فرما دے، تو ان کی نفرت اور ان کا استکبار بڑھتا ہی گیا اور انہوں نے اپنے کانوں میں اپنی انگلیاں ڈال لیں، تاکہ حق کی آواز کیں ان پر اثر انداز نہ ہوجائے اور انوں نے مجھ سے اور میری دعوت سے شدت نفرت کی وجہ سے اپنے چہروں پر کپڑے ڈال لئے، تاکہ مجھ پر ان کی نگاہ نہ پڑے اور انہوں نے محض عناد کی وجہ سے اپنے کفر و شرک پر اصرار کیا، اور استکبار میں آ کر حق کا انکار کردی، یعنی میں نے جوں جوں اپنی دوت تیز کردی ان کا شر بڑھتا گیا اور خیر کو قبول کرنے کی ان کی صلاحیت و قابلیت گھٹتی گئی۔ نوح
6 نوح
7 نوح
8 (٤) میرے پروردگار !ْ میں نے انہیں برملا توحید کی دعوت دی اور شرک سے روکا میں نے ان کے ساتھ دعوت کے مختلف اسالیب اختیار کئے، کبھی سب کو اکٹھا کر کے اپنی دعوت کا اعلان کیا اور کبھی ایک ایک سے مل کر خفیہ انداز میں ان کے سامنے اپنی دعوت رکھی اور انسے کہا کہ تم لوگ اپنے گزشتہ گناہوں سے صدق دل کے ساتھ اپنے رب سے مغفرت طلب کرو وہ اپنی طرف رجوع کرنے والوں اور اپنے حصور توبہ کرنے والوں کی خطاؤں کو بڑا معاف کرنے والا ہے۔ اگر تم ایسا کرو گے تو وہ تمہاری زمینوں پر خوب بارش برسائے گا، تمہاری کھیتیاں ہلہا اٹھیں گی، خوب اناج پیدا ہوگا اور تمہاری روزی میں خوب برکت ہوگی۔ اور وہ تمہاریے مال اور اولاد میں کثرت دے گا اور تمہیں باغات دے گا اور ان باغوں اور کھیتیوں کو سیراب کرنے کے لئے نہریں جاری کر دے گا۔ نوح
9 نوح
10 نوح
11 نوح
12 نوح
13 (٥) نوح (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ ان تمام نصیحتوں کا ان کی قوم پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑ رہا ہے تو انداز سخن بدلتے ہوئے کہا کہ تم کتنے خراب لوگ ہو کہ تمہارے دلوں میں اللہ کی عظمت و قدرت اور اس کی کبریائی کا کوئی اثر نہیں ہے، حالانکہ تمہارا رب وہی ہے جس نے تمہیں مختلف اطوار سے گذار کر پیدا کیا ہے، اس لئے وہی تنہا ہر عبادت کا مستحق ہے۔ نوح
14 نوح
15 (٦) نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی پر ارض و سماوات اور شمس و قمر کی تخلیق سے استدلال کرتے ہوئے کہا، لوگو ! کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح آسمانوں کو ایک دوسرے کے اوپر قبہ کے مانند پیدا کیا ہے حسن بصری کا قول ہے کہ اللہ نے سات آسمانوں کو سات زمینوں کے اوپر پیدا کیا ہے ہر دو آسمان اور ہر دو زمین کے درمیان مخلوق ہے اور وہاں اللہ کا حکم نافذ ہے۔ نوح
16 (٧) اور اللہ تعالیٰ نے ماہتاب کو آسمان دنیا میں رکھا ہے جس کی روشنی سے زمین روشن رہتی ہے اور آفتاب کو اہل زمین کے لئے چراغ کی حیثیت دی ہے تاکہ لوگ دن کی روشنی میں حصول معاش کی کوشش کریں۔ نوح
17 (٨) اور اللہ تعالیٰ نے زمین سے اگایا ہے، یعنی تمہاری اصل مٹی ہے، آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کئے گئے اور نطفہ بھی اس غذا سے تیار ہوتا ہے جو مٹی میں پیدا ہوتی ہے اور تمہاری تخلیق پودوں سے بالکل مشابہ ہے، اسی طرح تمہیں زندگی ملتی ہے، تمہاری نشو و نما ہوتی ہے، پھر مر جاتے ہو تو اسی میں دفن کردیئے جاتے ہو اور جب قیامت آئے گی تو اللہ تعالیٰ تمہیں زندہ کر کے دوبارہ اسی مٹی سے باہر نکالے گا۔ نوح
18 نوح
19 (٩) اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے زمین کو فرش کے مانند برابر بنایا ہے، تاکہ تم اس پر زندگی گذار سکو اور اس میں بنے ہوئے کشادہ راستوں پر بسہولت چل سکو۔ اگر اللہ تعالیٰ زمین کو برابر نہ بناتا تو اس پر زندگی گذارنا ناممکن ہوتا کھیتی کرنا پودے لگانا مکانات تعمیر کرنا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا اور انسانی زندگی کے دیگر امور کو برتنا ناممکن ہوتا۔ نوح
20 نوح
21 (١٠) نوح (علیہ السلام) کی داعیانہ تقریر اور ان کی وعظ و نصیحت کا ان کی کافر قوم پر کچھب ھی اثر نہ پڑا اور ان کا عناد بڑھتا ہی گیا تو انہوں نے اپنے رب سے ان کاشکوہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے رب ! میں نے انہیں جتنی باتوں کا حکم دیا ان سب میں انہوں نے میری نافرمانی کی اور ان عیش پرستوں اور مالداروں کی پیروی کی جن کے مال و دولت اور ان کی اولاد نے انہیں خسارے کے سوا کچھ بھی نہیں دیا، یعنی ان کے کفر و سرکشی میں اضافہ ہی ہوتا گیا اور حق کی مخالفت و وعداوت میں ان کی سازش حد انتہا کو پہنچ گئی۔ نوح
22 نوح
23 (١١) قوم کے ان سرغنوں نے عوام الناس کو شرک پر ابھارتے ہوئے کہا کہ جن معبودوں کی ہمارے اور تمہارے آباء پرستش کرتے آئے ہیں، انہیں ہرگز نہیں چھوڑو، اور ان کی عبادت پر سختی کے ساتھ جمے رہو، تم لوگ اپنے معبود ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو کسی حالت میں فراموش نہ کرو۔ امام بخاری نے کتاب التفسیر میں ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ قوم نوح جن معبودوں کی پرستش کرتی ھتی، عربوں نے بھی ان کی پرستش کی، ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر قوم نوح میں نیک لوگوں کے نامتھے، جب وہ لوگ وفات پا گئے تو شیطان نے ان کی قوم کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ ان کے بیٹھنے کی جگہوں پر ان کے ناموں کے مجسمے بنا کر گاڑ دو۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور جب وہ لوگ مر گئے اور ان کے درمیان سے علم اٹھ گیا تو ان مجسموں کی عبادت کی جانے لگی۔ نوح
24 (١٢) ان مالداروں اور عیش پرستوں نے اپنی اس گمراہ کن دعوت کے ذریعہ بہتوں کو گمراہ کیا ہے نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کی سرکشی، ان کا طغیان اور ان کا کفر و شرک اللہ کے سامنیب یان کرنے کے بعد، ان پر بد دعا بھیج دی اور کہا اے میرے رب ! اب ان ظالموں کو تو مزید گمراہ کر دے، اس لئے کہ صالح و تقویٰ کی قابلیت ان کے اندر سے معدوم ہوچکی ہے۔ نوح
25 (١٣) اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی دعا قبول کرلی اور ان کی قوم کو طوفان کے ذریعہ ہلاک کردیا اور ان کا یہ انجام ان گناہوں کے سبب ہوا جن کے انجام بد سے نوح (علیہ السلام) نے انہیں ڈرایا تھا لیکن انہوں نے ان کی بات نہیں مانی تھی، تو اللہ کے عذاب نے انہیں گھیر لیا اور سب کے سب ہلاک کردیئے گئے اور ہمیشہ کے لئے جہنم رسید ہوگئے، اور اللہ کے عذاب سے انہیں کوئی نہ بچا سکا۔ نوح
26 (١٤) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی اس دعا کا ذکر کیا ہے جس کے سبب طوفان آیا اور تمام اہل کفر ہلاک ہوگئے انہوں نے کہا، میرے رب ! اب خشک زمین پر کسی بھی کافر کو نہ رہین دے، اس لئے کہ اگر تو انہیں چھوڑ دے گا تو وہ تریے بندوں کو گمراہ کریں گے اور انہیں ت وحید کی راہ سے ہٹا کر شرک کی راہ پر لگا دیں گے اور ان کی نسل میں بھی کافرو فاجر لوگ پیدا ہوں گے، نوح (علیہ السلام) نے یہب ات اپنی قوم کا طویل تجربہ کرنے کے بعد کہیتھی، انہیں ان کے اخلاق و کردار کی پوری خبرت ھی، اور یقین ہوگیا تھا کہ اب یہ قوم ہرگز نہیں سدھرے گی اور نہ ان کی نسل میں اچھے لوگ پیدا ہوں گے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرلی اور تمام کفاروں کو ہلاک کردیا اور نوح اور ان کے مومن ساتھیوں کو نجات دے دی۔ نوح
27 نوح
28 (١٥) کافروں پر بد دعا کرنے کے بعد نوح (علیہ السلام) نے آخر میں اپنے لئے، اپنے ماں باپ کے لئے اور ان تمام مومن مردوں اور عورتوں کے لئے مفغرت کی دعا کی جو ان کے گھر میں داخل ہوں اور آیت کے آخر میں پھر کافروں پر بد دعا کی اور کہا کہ اے اللہ ! تو ظالموں اور کافروں کی ہلاکت و بربادی اور نقصان و خسارہ میں اضافہ ہی کرتا رہ۔ امام شوکانی لکھتے ہیں کہ نوح (علیہ السلام) کی بد دعا قیامت تک ہونے والے ہر کافر کو شامل ہے، جیسا کہ ان کی نیک دعا قیامت تک آنے والے ہر مومن مرد و عورت کو شامل ہے۔ وباللہ التوفیق نوح
0 سورۃ الجن مکی ہے، اس میں اٹھائیس آیتیں اور دو رکوع ہیں تفسیرسورۃ الجن نام : پہلی آیت میں ” جن“ کا لفظ آیا ہے، نیز اس سورت میں ایمان کی تعریف اور کفر کی مذمت سے متعلق جنوں کے تفصیلی اقوام آئے ہیں، اسی لئے اس کا نام ” سورۃ الجن“ رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : قرطبی نے لکھا ہے کہی سورت تمام کے نزدیک مکی ہے۔ اسی مردویہ اور بیہقی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ الجن مکہ میں نازل ہوئی تھی، ابن مردویہ نے عائشہ اور عبداللہ بن زبیر (رض) سے بھی یہی روایت کی ہے۔ سورۃ الاحقاف آیات (٢٩) سے (٣٢) تک میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن پڑھتے سنا اور آپ کی تلاوت سے متاثر ہو کر انہوں نے اسلام کو قبول کرلیا اور اپنی قوم کے پاس واپس جا کر ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی مذکورہ بالا آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے میں نے وہاں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ جنوں نے کب کب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن سنا اور وہ کون جن تھے جنہوں نے وادی نخلہ میں آپ کو عشاء کی نماز میں قرآن پڑھتے ہوئے سنا تھا، مناسب ہوگا کہ سورۃ الاحقاف کی ان چاروں آیتوں کی تفسیر دوبارہپڑھلی جائے۔ الجن
1 (١) امام احمد، بخاری، مسلم اور ترمذی وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت کے ساتھ سوق عکاظ کی طرف روانہ ہوئے (جو اس زمانہ میں مکہ سے قریب ہی ایک بازار تھا) اس وقت شیاطین کو چھپ کر آسمان کی خبر سننے سے روک دیا گیا تھا اور اس کی کوشش کرنے والے شیاطین کو انگاروں سے مارا جانے لگات ھا، جب شیاطین بے مراد واپس آئے، تو ان کے ساتھیوں نے ان سے پوچھا کہ ماجرا کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اب ہمیں آسمان کی خبر سننے سے قطعی طور پر روک دیا گیا ہے اور ہمیں انگاروں سے مارا جانے لگا ہے، شیاطین نے کہا : ضرور کوئی نئی بات ہوئی ہے جس کے سبب ہمیں آسمان کی خبریں سننے سے روک دیا گیا ہے۔ اس لئے تم مشرق و مغرب میں ہر طرف جاؤ اور حقیقت حال کا پتہ لگاؤ۔ چنانچہ جو شیاطین تہامہ کی طرف گئے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وادی نخلہ میں پہنچ گئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوق عکاظ جانا چاہتے تھے اور اس وقت صحابہ کرام کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے جنوں نے آپ کی تلاوت غور سے سننے کے بعد کہا کہ یہی وہ قرآن ہے جس نے ہمیں اب آسمان کی خبریں سننے سے روک دیا اور وہ مسلمان ہوگئے جب وہ جن اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے کہا، اے ہماری قوم ! ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے، اس لئے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم اپنے رب کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہیں بنائیں گے، اسی موقع سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر (قل اوحی الہ انہ استمع نفرمن الجن) نازل فرمایا۔ ماوری نے لکھا ہے : ١۔ بظاہر جنوں نے آپ کی زبانی قرآن سنتے ہی اسلام کو قبول کرلیا تھا۔ ٢۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسانوں کی طرح جنوں کے لئے بھی رسول بنا کر مبعوث ہوئے تھے۔ ٣۔ قریش کو بتایا گیا ہے کہ جنوں نے قرآن سن کر اس کی معجزانہ شان کا اعتراف کرلیا اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فوراً ایمان لے آئے۔ ٤۔ انسانوں کیطرح جن بھی احکام شرعیہ کے مکلف ہیں۔ ٥۔ جن ہماری باتیں سنتے ہیں اور ہماری زبانیں سمجھتے ہیں۔ الجن
2 الجن
3 (٢) جب اللہ تعالیٰ نے جنوں کو (قرآن سننے کے بعد) توحید و ایمان کی توفیق دی اور ایمان لانے سے پہلے عقیدہ توحید کے خلاف جن غلطیوں میں پڑے تھے ان کا انہیں احساس ہوا اور معلوم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ اپنی کسی مخلوق کے مشابہ نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی بیوی ہے ہے اور نہ اولاد، تو اللہ تعالیٰ کی پاکی اور عظمت بیان کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ہمارا رب عظمت و جلال والا ہے، وہی سب کا سچا پاکنہار ہے، اور سارے پاکیزہ نام اسی کے لئے ہیں، اس نے اپنے لئے نہ کوئی بیوی بنا لی ہے اس لئے کہ بیوی کا محتاج کمزور اور عاجز انسان ہوتا ہے، تاکہاپنے جسم میں ابھرتی ہوئی شہوت کو اس کے ساتھ اتصال کے ذریعہ پوری کرسکے اور نہ اس کی کوئی اولاد ہے، کیونکہ اولاد زن و شو کے شہوانی اتصال کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی کوئی بیوی نہیں۔ نیز کہنے لگے کہ ہم میں سے جو نادان افراد ہمیں گمراہ کرتے تھے، وہی یہود و نصاری اور مشرکین کی بات مانتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ جھوٹ بات کرتے تھے کہ اس کی بیوی اور اولاد ہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی قرآن سننے سے پہلے تک ہم یہی سمجھتے رہیتھے کہ جن اور انسان اللہ کے بارے میں جھوٹ نہیں بولتے ہیں۔ الجن
4 الجن
5 الجن
6 (٣) جنوں نے اپنی قوم کے افراد سے یہ بھی بتایا کہ اسلام آنے سے پہلے انسانوں میں سے کچھ لوگ، جنوں کے کچھ افراد کے ذریعہ پناہ مانگتے تھے اور ان جنوں کے گناہ اور اللہ سے ان کی سرکشی میں اضافہ کردیتے تھے۔ ابن جریر نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عض آدمی جب کسی وادی میں رات گذارتے تو کہتے : میں اس وادی کے زبردست جن کے ذریعہ پناہ مانگتا ہوں تو یہ چیز جنوں کے گناہ اور اللہ سے ان کی سرکشی میں اضافہ کردیتی تھی اور ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جب لوگ کسی وادی میں پڑاؤ ڈالتے تو کہتے کہ ہم اس وادی کے سردار کے ذریعہ اس میں موجود برائی سے پناہم انگتے ہیں، تو ان کی یہ بات جنوں کو بہت زیادہ پسند آتی۔ انتہی آیت کریمہ میں زمانہ جاہلیت کے اسی اعتقاد کی طرف اشارہ ہے کہ وادیاں جنوں کے رہنے کی جگہیں ہیں اور ان کے سردار ان ان میں پڑاؤ ڈالنے والوں کو دیگر جنوں سے بچات ہیں۔ ابن زید کہتے ہیں کہ اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں جب کوئی آدمی کسی وادی میں پڑاؤ ڈالتا تو کہتا : میں اس وادی کے سردار کے ذریعہ پناہ مانگتا ہوں جب اسلام آگیا تو لوگ اللہ کے ذریعہ پناہ مانگنے لگے اور جنوں کو چھوڑ دیا۔ امام مسلم نے ” کتاب الذکر و الدعاء“ میں خولہ بنت حکیم کا قول نقل کیا ہے کہ جو شخص کسی جگہ پڑاؤ ڈالے تو کہے :” اعوذ بکلمات اللہ التامات من شرما خلق“ ” میں اللہ کے کلمات تامہ کے ذریعہ اس کی مخلوقات کے شر سے پناہ مانگتا ہوں‘ تو اس سے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی، یہاں تک کہ وہ وہاں سے کوچ کر جائے۔ اس حدیث سے مذکورہ بالا آیت کریمہ کی تفسیر پر رونشی پڑتی ہے کہ انسانوں کا جنوں کے ذریعہ پناہ مانگنا شرک ہے۔ الجن
7 (٤) ان جنوں نے اپنی قوم کو یہ بھی بتایا کہ انسان بھی تمہاری ہی طرح اس گمان میں مبتلا تھے کہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اپنا رسول بنا کر لوگوں کو توحید کی دعوت دینے اور انہیں شرک سے ڈرانے کے لئے نہیں بھیجے گا۔ آیت کا دوسرا مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ انسان بھی تمہاری ہی طرح اس گمان میں مبتلا تھے کہ اللہ تعالیٰ کسی کو دوبارہ زندہ نہیں کرے گا۔ الجن
8 (٥) انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے آسمان سے قریب ہو کر فرشتوں کی باتیں سننی چاہی، تو اسے نگرانی کرنے والے بہت ہی قوی فرشتوں سے بھرا ہوا پایا اور انگاروں کا سامنا کرنا پڑا اور ہم پہلے اپنی مخصوص جگہوں میں بیٹھ کر فرشتوں کی باتیں سننے کی کوشش کرتے تھے، لیکن اب حال یہ ہے کہ جو کوئی چھپ کر سننا چاہے گا اسے انگاروں کا سامنا کرنا پڑے گا جو اسے جلانے کے لئے تیار کئے گئے ہیں۔ الجن
9 الجن
10 (٦) جب جنوں کے لئے چھپ کر آسمان کی باتیں سننا ممکن نہ رہا تو انہیں یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے ضرور زمین پر واقع ہونے والے کسی عظیم حادثہ کا فیصلہ کیا ہے، چاہے وہ اچھا ہو یا برا اسی لئے انہوں نے کہا : ہم نہیں جانت کہ زمین پر رہنے والوں کے لئے کوئی برا فیصلہ کیا گیا ہے، یا ان کے رب نے خیر کی طرف ان کی رہنمائی کرنی چاہی ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں : ان مسلمان جنوں کا اپنے رب کے ساتھ یہ حسن تادب تھا کہ انہوں نے ” شر“ کو اس کی طرف منسوب نہیں کیا اور جب خیر کا ذکر آیا تو اسے اس کی طرف منسوب کیا۔ الجن
11 (٧) جنوں نے اپنی قوم کے بارے میں یہ خبر دی کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی قرآن کریم سننے کے بعد ہم سے بعض ایمان لے آئے اور بعض حالت کفر پر باقی رہے دوسرا مفہوم یہب یان کیا گیا ہے کہ ایمان لان کے بعد ہم میں سے بعض نیک اور پابند شریعت مسلمان ہیں، اور بعض کا ایمان کمزور ہے اور عمل میں کوتاہ ہیں اور ہمارے درمیان مختلف مذاہب و نظریات کے ماننے والے ہیں سعید بن مسیب کا قول ہے کہ ان میں مسلمان، یہودی، نصرانی اور مجوسی سب ہیں اور حسن بصری کا قول ہے کہ ان میں قدریہ، مرجیہ، خوارج اور رافضی شیعہ ہوتے ہیں۔ الجن
12 جنوں نے یہ بھی کہا : اب ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور ہم محض عاجز و بے بس ہیں، ہماری پیشانیاں اللہ کے اختیار میں ہیں، ہم زمین پر کسی حال میں اسے عاجز نہیں بناسکتے اور اس سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتے۔ الجن
13 (٩) اور ہم نے جب اس قرآن کو سنا جو سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے تو ہمیں فوراً یقین ہوگ یا کہ یہ اللہ کی جانب سے نازل کردہ کتاب ہے پس جو کوئی اپنے رب پر ایمانلائے گا اس کی نیکیوں میں قیامت کے دن کوئی کمی نہیں کی جائے گی، بلکہ اسے اس کا پورا بدلہ دیا جاء یگا، اور اس کے نامہ اعمال میں کوئی ایسا گناہ نہیں بڑھا دیا جائے گا جس کا اس نے دنیا میں ارتکاب نہ کیا ہو۔ الجن
14 (١٠) جنوں نے اپنی قوم کے افراد کے بارے میں دوبارہ یہ بات کہی کہ ہم میں سے بعض مسلمان ہوگئے ہیں اور بعض اب تک جادہ اسلام سے دور ہیں انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو قبول نہیں کی ہے پس جن لوگوں نے اسلام کو قبول کر لای ہے اور اپنی گردن اللہ کے لئے جھکا دی ہے وہ اس راہ حق پر گامزن ہوگئے ہیں جو انہیں جنت اور اس کی نعمتوں تک پہنچا دے گا اور جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ جہنم کا ایندھن بنائے جائیں گے جس طرح کافر انسان جہنم کا ایندھن بنائے جائیں گے۔ الجن
15 الجن
16 (١١) یہ آیت جنوں کے کلام کا حصہ نہیں ہے، بلکہ پہلی آیت میں : (انہ استمع نفرمن الجن) پر معطوف ہے، اس لئے یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ مجھ پر یہ وحی بھی نازل ہوئی ہے کہ اگر مشرکین مکہ حق و انصاف کی راہ پر چلیں گے تو ہم ان کے لئے خوب بارش برسائیں گے، جس کے نتیجہ میں ان کا مال بڑھے گا اور ان کی روزی میں کشادگی ہوگی، پھر ہم ان کا امتحان لیں گے کہ وہ ہمارا شکر ادا کرتے ہیں یا ناشکری کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے لئے اپنا یہ مشروط وعدہ قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں بیان فرمایا ہے۔ سورۃ الاعراف آیت (٩٦) میں فرمایا ہے : (ولو ان اھل القری امنوا واتقوا الفتحنا علیھم برکات من السماء والارض ولکن کذبوافاخذنا ھم بماکانوا یکسبون) ” اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے، اور پرہیز گاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا“ اور سورۃ نوح آیات (١٠/١١/١٢) میں فرمایا ہے : (فقلت استغفروا ربکم انہ کان غفار ا، یرسل السماء علیکم مدراراً، ویمددکم باموال وبنین) ” پس میں نے کہا کہ اپنے رب سے اپنے گناہوں کی مفغرت طلب کرو، وہ یقیناً بڑاب خشنے والا ہے، وہ تمہارے لئے آسمان سے خوب بارش برسائے گا اور تمہیں مال و دولت اور اولاد سے نوازے گا۔ “ آیت کا دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ ” اے میرے نبی ! اگر کفار مکہ اپنے کفر و شرک پر اصرار کریں گے، تم ہم ان کی رسی ڈھیل دیں گے اور ان کی روزی میں خوب وسعت دے دیں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام آیت (٤٢) میں فرمایا ہے : (فلما نسوا ماذکروا بہ فتحنا علیھم ابواب کل شیء حتی اذا فرحوا بما وتوا اخذنا ہم بغتہ فاذا ھم مبلسون) ” پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی ان کو نصیحت کی جاتیتھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشادہ کردیئے، یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر جو ان کو ملی تھی وہ خوب اترانے لگے تو ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پھر تو وہ بالکل مایوس ہوگئے۔ “ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس رائے کی تائید آیت (١٦) میں اللہ تعالیٰ کے قول : (لنفتنھم فیہ) سے ہوتی ہے، جس کا معنی ہے ” تاکہ ہم اس کے ذریعہ ان کا امتحان لیں۔ “ آیت (١٧) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کوئی قرآن کریم اور اس کی دعوت سے روگردانی کرے گا اور شرک اور دیگر برے اعمال سے نہیں بچے گا، اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں ذلت و رسوائی اور فقر و فاقہ میں مبتلا کرے گا اور آخرت میں اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا جہاں اسے شدید دیا جائے گا۔ الجن
17 الجن
18 (١٢) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ مجھ پر یہ وحی بھی نازل ہوئی ہے کہ مسجدیں اللہ کی بندگی کے لئے خاص ہیں، اس لئے جب تم اس میں داخل ہو تو اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پکارو اس آیت کریم میں مشرکین قریش کے احوال واقعی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ مسجد حرام میں (جو صرف اللہ کی عبادت کے لئے بنایا گیا تھا) اصنام و تماثیل رکھ کر ان کی پرستش کرتے تھے اور اہل کتاب کی طرف بھی اشارہ ہے جو اپنی عبادت گاہوں میں عزیز اور عیسیٰ کی عبادت کرتے تھے خالانکہ مسجدیں تو اس لئے بنائی جاتی ہیں کہ وہاں صرف اللہ کا نام لیا جائے۔ اسی لئے علمائے حنابلہ نے لکھا ہے کہ اللہ کے دین میں مسجد اور قبر ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں، ان میں سے جو بھی بعد میں بنے گی اسے گرا دیا جائے گا۔ الجن
19 (١٣) اور اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ مجھ پر یہ وحی بھی نازل ہوئی ہے کہ جب اللہ کے بندے اور رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بطن نخلہ میں کھڑے ہو کر اپنے رب کی عبادت کرنے لگے، یعنی نماز پڑھنے لگے تو ان کا طرز عبادت دیکھ کر اور قرآن کریم کیتلاوت سے متاثر ہو کر جن ان کے اردگرد ٹوٹ پڑے اور شدید ازدحام پیدا کردیا۔ بعض مفسرین نے آیت کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مشرکین مکہ کے طریقہ عبادت کے خلاف صرف ایک اللہ کی بندگی کرنے لگے تو مشرکین مکہ آپ کی عداوت میں جب آپ کو نماز پڑھتے دیکھتے، آپ کے اردگرد جمع ہو کر ایذاء پہنچانے کی کوشش کرتے۔ الجن
20 (١٤) آیات (٢٠) سے (٢٣) تک کا سبب نزول یہ ہے کہ کفار قریش نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ تم نے ایک بڑی بات کا دعویٰ کردیا ہے اور اپنے لئے تمام لوگوں کی عداوت خرید لی ہے، تم اپنی اس دعوت سے باز آجاؤ، اور ہم لوگ تمہاری حفاظت کریں گے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ باتیں کہنے کا حکم دیا جن کا ذکر ان آیات میں آیا ہے : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ میں اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں اور ص رفاسی کو پکارت اہوں، اور اس کے اتھ کسی کو شریک نہیں بناتا ہوں اور یہ کوئی ایسی بری بات نہیں ہے جس کے سبب تم سب میری عداوت پر متفق ہوگئے ہو۔ اے میرے نبی ! آپ کفار قریش سے یہ بھی کہہ دیجیے کہ میں نے تمہیں نقصان پہنچاین پر قادر ہوں، نہ ہی میں تمہیں راہ راست پر لا سکتا ہوں، ایسی قدرت تو صرف اللہ کو حاصل ہے، اس لئے تم لوگ مجھ سے جلد عذاب لگانے کا مطالبہ نہ کرو۔ اور اے میرے نبی ! آپ ان کافروں سے یہ بھی کہہ دیجیے کہ اگر اللہ مجھے تکلیف دینا چاہے، تو کوئی مجھے بچا نہیں سکتا اور اگر وہ مجھے ہلاک کرنا چاہے تو مجھے کوئی جائے پناہ نہیں ملے گی۔ اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ میں تو صرف اللہ کا پیغامبر اور اس کا رسول ہوں اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کے رسول کی دعوت کو قبول نہیں کرے گا، اس کا ٹھکانا نار جہنم ہوگا، جس میں وہ ہمیشہ جلتا رہے گا۔ الجن
21 الجن
22 الجن
23 الجن
24 (١٥) اہل جہنم قیامت کے دن جب اللہ کے وعدہ کے مطابق عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے، اس وقت انہیں خوبم علوم ہوجائے گا کہ مددگاروں کے اعتبار سے کون لوگ زیادہ کمزور ہیں اور کن کے مددگاروں کی تعداد زیادہ کم ہے، محمد اور ان کے اہل ایمان صحابہ کرام کی یا مشرکین مکہ کی جو زندگی بھر اللہ اور اس کے رسولوں کو جھٹلاتے رہے۔ الجن
25 (١٦) مشرکین مکہ بطور استہزاء و تکذیب، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کرتے تھے کہ جس عذاب سے تم ہمیں ڈراتے ہو وہ کب آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے کہا، آپ ان سے کہ ہدیجیے کہ میں نہیں جانتا، جس عذاب کا تم سے اللہ کی طرف سے وعدہ کیا جاتا ہے اس کا وقت قریب ہے، یا میرے رب نے مستقبل بعید میں اس کا کوئی وقت مقرر کر رکھا ہے، غیب کا علم تو صرف اسی کے پاس ہے، وہ اپنے غیب کی خبر کسی کو نہیں دیتا، سوائے اپنے اس رسول کے جسے وہ اپنی پیغام رسانی کے لئے پسند کرلیتا ہے چاہے وہ رسول فرشتوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے ایسے رسول کو وہ بعض ایسی غیبی خبریں بتاتا ہے جن کا تعلق اس کی پیغام رسانی سے ہوتا ہے، جیسے وہ معجزات جو نبی کی صداقت پر دلالت کرتے ہیں احکام شرعیہ، اچھے اور برے اعمال کا بدلہ، اور بعض احوال آخرت جن غیبی امور کا تعلق اس کی رسالت سے نہیں ہوتا، جیسے قیامت کی آمد کا وقت، ان کی خبر اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو بھین ہیں دیتا۔ واحدی کا قول ہے : یہ آیت دلیل ہے کہ جو کوئی اس بات کا دعویٰ کرے کہ وہ علم نجوم کے ذریعہ غیب کی خبریں جان لیتا ہے، وہ قرآن کا منکر ہوجاتا ہے۔ قرطبی نے لکھا ہے کہ جو لوگ علم نجوم کے ذریعہ غیب کی خبروں کا دعویٰ کرتے ہیں اور جو لوگ کنکری مارتے ہیں، ہاتھ کی لکیریں پڑھتے ہیں اور مٹی پھینک کر غیبی امور کی خبریں بتاتے ہیں، ایسے لوگ اللہ کے برگزیدہ رسول نہیں ہیں، بلکہ وہ کافر باللہ ہیں اور اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں۔ (فانہ یسلک من بین یدیہ ومن خلفہ رصداً) آیت (٢٧) کے اس حصہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ جب وہ اپنے رسول پر وحی نازل کرتا ہے تو اس وحی کے آگے اور پیچھے (یعنی ہر چہار جانب سے) نگہبان فرشتوں کی ایک جماعت کو لگا دیتا ہے جوشیاطین سے اس کی حفاظت کرتے ہیں، یہاں تک کہ وحی کا وہ حصہ رسول تک بلا کم و کاست پہنچ جاتا ہے ابن زید نے ” رصداً“ کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ نگہبان فرشتے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنوں اور شیطانوں کی مداخلت سے ہر چہار جانب سے بچاتے ہیں۔ الجن
26 الجن
27 الجن
28 (١٧) اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نگہبان فرشتوں کی ایک جماعت کو وحی کی حفاظت کے لئے اس لگے لگا دیتا ہے تاکہ اسے معلوم ہوجائے (یعنی کھل کر بات سامنے آجائے) کہ انہوں نے اپنے رب کا پیغام بحفاظت تمام اس کے رسول تک پہنچا دیا یہ۔ دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے ” تاکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جان لیں کہ جبریل اور ان کے ساتھی فرشتوں نے اپنے رب کا پیغام بحفاظت تمام ان تک پہنچا دیا ہے۔ “ تیسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے ” تاکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جان لیں کہ گزشتہ انبیاء نے بھی انہی کی طرح اپنے رب کا پیغام اپنی قوموں تک پہنچا دیا تھا۔ “ (واحاط بمالدیھم) اور نگہبان فرشتوں، یا اللہ کی جانب سے پیغام رسانی کرنے والے فرشتوں کے تمام احوال سے اللہ تعالیٰ پوری طرح باخبر رہتا ہے، ان کا کوئی حال اللہ کے احاطہ علم سے خارج نہیں ہوتا۔ (واخصی کل شیء عدداً) اور اللہ کے پاس چیزوں کا اجمالی علم نہیں، بلکہ مخلوقات کے ہر فرد کا الگ الگ تفصیلی علم ہے۔ وباللہ التوفیق الجن
0 سورۃ المزمل مکی ہے، اس میں بیس آیتیں، اور دو رکوع ہیں تفسیر سورۃ المزمل نام : پہلی آیت میں ہی لفظ ” المزمل“ آیا ے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا یہ۔ زمانہ نزول :۔ ماوردی کے قول کے مطابق، پوری سورت حسن، عکرمہ اور جابر کے نزدیک مکی ہے، ابن مردویہ اور بیہقی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ” سورۃ المزمل“ مکہ میں نازل ہوئی تھی اور نحاس نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ” سورۃ المزمل“ مکہ میں نازل ہوئی تھی سوائے آخری آیت (ان ربک یعلم انک تقوم ادنی) کے جو مدینہ میں نازل ہوئی تھی۔ المزمل
1 (١) بخاری و مسلم اور ترمذی نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب پہلی بار وحی نازل ہوئی، اور غار حرا سے گھر واپس آتے ہوئے جبریل (علیہ السلام) کو فضاء میں دیکھا، تو آپ پر کپکپی طاری ہوگئی اور گھر پہنچتے ہی خدیجہ (رض) سے کہا ” زملونی ودٹرونی“ کہ مجھے فوراً کمبل اڑھاؤ، انتہی اسیلئے اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں از راہ لطف و محبت آپ کو ” الزمل“ اور سورۃ المدثر ” المدثر“ کا خطاب دیا۔ بعض مفسرین نے اس کی توجیہہ یہ بیان کی ہے کہ ابتدائے وحی میں جب جبریل (علیہ السلام) آپ کے پاس آتیت و وحی کے رعب سے آپ پر کپکپی طاری ہوجاتی اور آپ کمبل اوڑھ لیتے، اسی لئے آپ کو ” الزمل“ کا خطاب دیا گیا کچھ دنوں کے بعد یہ کیفیت ختم ہوگئی اور اللہ نے آپ کے دل کو ثبات عطا کیا۔ تیسری رائے یہ ہے کہ ” مزمل“ کا معنی ” نبوت کا بارگاں اٹھانے والا“ ہے چونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آخری رسالت کا بارگراں ڈالا گیا تھا، اسی لیے اس بڑی ذمہ داری کا احساس دلانے کے لئے آپ کو اس خطاب کے ساتھ پکارا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہلے نماز کا، پھر دعوت کی راہ میں اپنی قوم کی طرف سے آنے والی اذیتوں کو برداشت کرنے کا حکم دیا ہے اور آخر میں یہ حکم دیا کہ آپ اپنی دعوت لوگوں کے سامنے اب علی الاعلان پیش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے کمبل اوڑھنے والے (نبی) ! آپ رات کے وقت نماز پڑھا کیجیے مفسرین لکھتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پہلے تہجد کی نماز فرض تھی اور پنجگانہ نمازوں کے فرض ہونے کے بعد آپ کے لئے تہجد کی نماز واجب ہوگئی اور آپ کی امت کے لئے سنت ہوگئی۔ (الا قلیلا) کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کچھ وقت کے علاوہ ساری رات نماز پڑھتے رہئے، لیکن (نصفۃ اوانقص منہ قلیلاً) میں تشریح کردی گئی ہے کہ آدھی رات تک نماز پڑھئے یا اس سے تھوڑا سا کم وقت یعنی تہائی رات تک یا آپ اگر چاہئے تو دو تہائی رات تک نماز پڑھئے مقصود یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار دیا گیا کہ یا تو آدھی رات تک نماز پڑھئے یا اس سے زیادہ یا اس سے کم۔ آیت (٤) کے دوسرے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نصیحت کی کہ آپ قرآن کریم کی تلاوت اطمینان کے ساتھ کیجیے بایں طور کہ تمام حروف و کلمات اور حرکات و سکنات واضح ہوں، قرآن کے معانی قلب میں اترتے چلے جائیں۔ المزمل
2 المزمل
3 المزمل
4 المزمل
5 (٢) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی ہے کہ ہم آپ پر قرآن نازل کرنے والے ہیں جس کا آپ کے جسم و جان پر بڑا بھاری اثرپڑے گا، امام بخاری نے عائشہ (رض) کا قول نقل کیا ہے کہ ” آپ پر سخت سردی کے زمانے میں بھی وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کی پیشانی پسینہ سے شرابور ہوجاتی تھی“ قتادہ نے ” قول ثقیل“ کی یہ تشریح کی ہے کہ اللہ کی قسم ! قرآن میں مذکور فرائض و حدود کو نباہنا انسان کے لئے بڑا بھاری کام ہے۔ مجاہد نے اس سے قرآن میں مذکور ” حلال و حرام“ مرادل یا ہے۔ فراء نے اس سے مراد بھاری بھرکم کلام مرادلیا ہے۔ یعنی قرآن کریم ہلکا اور سطحی کلام نہیں ہے، اس لئے کہ یہ ہمارے رب کا کلام ہے۔ المزمل
6 (٣) اس آیت کریمہ میں قام اللیل اور اس میں قرآن کریم کی پرسکون ادناز میں قرأت کا فائدہ بتایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ رات کے وقت نماز پڑھئے اور اس میں قرآن کی تلاوت کیجیے اس لئے کہ رات کے وقت ماحول پرسکون ہوتا ہے، مخلوق سوئی ہوتی ہے اور ساری آوازیں خاموش ہوتی ہیں، اس وقت کان، آنکھ، دل اور زبان کے درمیان پورا توافق ہوتا ہے۔ اس لئے ایسے وقت میں جب آپ نماز کے لئے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہو کر قرآن کی تلاوت کیجیے گا تو آپ کی قرأت زیادہ حضور قلب کے ساتھ ہوگی اور آپ کے دل و دماغ پر اس کا گہرا اثر پڑے گا۔ حافظ سیوطی نے جاحظ سے اس آیت کا مفہوم یہ نقل کیا ہے کہ ” ناشءۃ اللیل“ سے مراد وہ معاین و مطالب ہیں جو تہد کی نماز میں قرآن کی تلاوت سے دل پر منکشف ہوتے ہیں، وہ مطالب و معانی زیادہصحیح ہوتے ہیں اور ان کا اثر آدمی پر زیادہ ہواضح ہوتا ہے۔ آیت (٧) میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے وجوب تہد کا سبب بیان کیا گیا ہے کہ دن میں آپ اسلام اور مسلمانوں کی خاطر مختلف کاموں میں مغشول رہتے ہیں، اس لئے آپ کو رات کیوقت نماز پڑھنے اور قرآن کریم کی تلاوت کا حکم دیا گیا ہے۔ المزمل
7 المزمل
8 (٤) اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ ہر وقت اپنے رب کی یاد میں مشغول رہئے۔ تسبیح وتہلیل، تکبیر و تمجید باری تعالیٰ، نماز، تلاوت قرآن کریم اور لوگوں کو اسلام کی تعلیم دینے میں لگے رہئے اور اپنے نفس کو آلائشوں سے پاک کر کے، پورے اخلاص کے ساتھ اپنے رب کی یاد میں لگے رہئے جو مشرق و مغرب کا رب ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اور اپنے تمام امور میں صرف اسی پربھروسہ کیجیے اسکے سواکسی کو اپنا کار ساز نہ مانئے، وہ آپ کے لئے کافی ہوگا اور ہر حال میں آپ کا حامی و ناصر ہوگا اور دعوت کی راہ میں کفارقریش کی جانب سے آپ کو اور آپ کے صحابہ کو جو اذیت پہنچتی ہے، اس پر صبر کیجیے اور ان کی باتوں کا جواب نہ دیجیے۔ المزمل
9 المزمل
10 المزمل
11 (٥) مفسرین نے لکھا ہے کہ آیت (١١) ان دس قریشیوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہوں نے میدان بدر میں لشکر کفار کو کھانا کھلایا تھا۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا ہے کہ مکہ کے ارباب عیش و عشرت کافروں کا معاملہ آپ مجھ پر چھوڑ دیجیے، آپ ان کی فکر نہ کیجیے۔ ان سے نمٹنے کیلئے میں آپکی طرف سے کافی ہوں اور میں آپ کا انتقام ان سے ضرور لوں گا۔ حاکم اور بیہقی نے (دلائل میں) عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ اس آیت کے نزول کے کچھ ہی دنوں کے بعد جنگ بدر واقع ہوئی تھی۔ شوکانی نے (ومھلھ قلیلا) کا دوسرا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ” مرنے کے وقت تک آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے“ اور اسے راجح قرار دیا یہ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد والی آیتوں میں عذاب آخرت کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ جو لوگ آپ کیتکذیب کرتے ہیں، ان کے لئے آخرت میں ہمارے پاس لوہے کی بیڑیاں ہیں، جہنم کی دہکتی ہوئی آگ ہے اور کھانے کے لئے زقوم کا درخت ہے جو کھانے والے کے حلق میں اٹک کر رہ جائے گا، اور ان کے لئے بڑا ہی درد ناک عذاب ہے۔ اور ان کا یہ انجام اس دن ہوگا جب زمین اور پہاڑپوری شدت کے ساتھ ہلنے لگیں گے اور پہاڑ ریت کے تودے بن کرپانی کی طرح بہہ پڑیں گے۔ المزمل
12 المزمل
13 المزمل
14 المزمل
15 (٦) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار قریش کی اذیتوں پر صبر کی تلقین کے بعدفرعون موسیٰ کا ذکر اس مناسبت سے ہے کہ جس طرح فرعون اپنے کبر و غرور کی وجہ سے اللہ پر ایمان نہیں لایا اور ہلاک کردیا گیا، مجرمین مکہ کا انجام بھی ویسا ہی ہوسکتا ہے، اس لئے کہ یہ بھی حق کو جاننے اور پہچاننے کے بعد اللہ پر ایمان نہیں لا رہے ہیں اور اس کے نبی کی ایذا رسانی کے درپے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے اہل مکہ ! یا اے کفار عرب ! ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمہارے لئے نبی بنا کربھیجا ہے اور قیامت کے دن ہم تمہاری بد اعمالیوں کی گواہی دیں گے اور تب تمہارا انجامب ہت ہی برا ہوگا جسطرح ہم نے فرعون کے پاس موسیٰ کو نبی بنا کر بھیجا تھا اور فرعون نے ان کی بات نہیں مانی تھی، تو ہم نے فرعون اور فرعونیوں کی بڑی سخت گرفت کیتھی اور ان تمام کو سمندر میں ڈبو دیا تھا۔ المزمل
16 المزمل
17 (٧) اللہ تعالیٰ نے کفارقریش کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اگر تم اپنے کفر و باقی رہو گے، اور دین حق کو قبول نہیں کرو گے تو روز قیامت کے عذاب سے کیسے بچو گے، جس کی ہولناکی اتنی شدید ہوگی کہ وہ بچوں کو بوڑھا بنا دے، اور آسمان مارے رعب ودہشت کے پھٹ جائے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ حتمی وعدہ ہے، اسے پورا ہونا ہے، اور قیامت کو ضرور واقع ہونا ہے، اس لئے اے اہل قریش ! تم اس دن کے عذاب سے بچنے کی تدبیر ضرور کرل وچ اور وہ تدبیر اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوجانا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آیت (١٩) میں فرمایا کہ آیتیں جن میں قیامت کے دن کے وعید شدید کی خبر دی گئی ہے، باعث عبرت و موعظت ہیں، اس لئے جو شخص قیامت کے دن کے عذاب سے نجات چاہتا ہے وہ شرک و معاصی سے تائب ہو کر اللہ پر ایمان لائے اور عمل صالح کرے۔ المزمل
18 المزمل
19 المزمل
20 (٨) ابتدائے سورت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اس نے اپنے رسول کو نصف رات، یاد و تہائی، یا ایک تہائی رات تک نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اور احکام شرعیہ میں عام حالات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت آپ کے تابع ہوتی ہے اور سورت کی اس آخری آیت میں اللہ نے خبر دی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کے حکم کا پورا اہتمام کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع میں صحابہ کرام نے بھی نماز تہجد پڑھناشروع کردیا، لیکن چونکہ مقررہ وقت کی پوری تحدید کے ساتھ پابندی مسلمانوں کے لئے مشقت کا باعث تھی، اس لئے اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ نماز تہد کی ادائیگی کو اس نے اب آسان کردیا رات اور دن کے اوقات، ان کے گذرے ہوئے اور باقی ماندہ حصوں کو وہی جانتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ تہجد کے وقت کی تحدید، بغیر کمی اور زیادتی وکے تمہارے لئے مشکل امر ہے، اسی لئے اب اس نے نماز تہد کے معاملے کو تمہارے لئے آسان بنا دیا ہے اور تمہیں حکم دیا ہے کہ تم سے جتنی دیر ہو سکے نماز تہجد پڑھو اور قرآن کی تلاوت کرو، اب وقت کی تحدید باقی نہیں رہی، آدمی جب تک نشاط محسوس کرے نماز پڑھے اور جب تھک جائے یا نیند آنے لگے تو آرام کرے، تاکہ فجر کی نماز کے وقت سستی نہ محسوس کرے۔ (علم ان سیکون منکم مرضی) سے اللہ تعالیٰ نے نماز تہجد کے اوقات میں تخفیف کے بعض اسباب بیان کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اسے معلوم ہے کہ تم میں سے بعض لوگ مریض ہوں گے ان کے لئے آدھی رات، یا دو تہائی رات یا ایک تہائی رات تک نماز پڑھنا بہت ہی تکلیف کا باعث ہوگا، اسلئے اس سے جتنا ہو سکے، اتنا ہی پڑھے، اور اگر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے میں تکلیف محسوس ہو تو بیٹھ کر پڑھے، بلکہ اگر نوافل پڑھنے میں اسے پریشانی ہو تو نہ پڑھے اور اسے ان نوافل کا ثواب ملے گا جو وہ حالت صحت میں پڑھا کرتا تھا۔ اسے معلوم ہے کہ بعض لوگ تجارتی کاموں کے لئے سفر کرتے ہیں تاکہ مخلوق کے محتاج نہ رہیں ایسے مسافروں کے احوال و ظروف کا تقاضا ہے کہ شریعت ان کے لئے سہولت پیدا کرے، اسی لئے ان کے لئے فرض نمازوں میں تخفیف کردی گئی، چار رکعت والی نمازیں ان کے لئے دو رکعت کردی گئیں، اور دو نمازوں کو ایک وقت میں پڑھنا جائز کردیا گیا اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ بعض مسلمان اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لئے اپنے گھروں سے نکل کر دور دراز علاقوں میں جاتے ہیں اور ان کے احوال و ظروف کا بھی تقاضا ہے کہ شریعت ان کے لئے سہولت پیدا کرے، چنانچہ مجاہدین فی سبیل اللہ بھی اپنے حالات کے مطابق نوافل کا اہتمام کریں گے اور اگر حالات نامساعد ہوں گے تو تہجد کی نماز عارضی طور پر چھوڑ دیں گے۔ (فاقرعوا ماتیسرمن القرآن) اور (فاقرعوا ماتیسرمنہ) کے ضمن میں امام شافعی رحمہ اللہ نے نماز تہجد کے عد موجوب پر استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صرف یہی ثابت ہے کہ پانچ فرض نمازوں کے سوا کوئی دوسری نماز فرض نہیں ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قیام اللیل کا وجوب بنی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت دونوں کے لئے منسوخ ہوگیا ہے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ امت کے حق میں نماز تہجد کا وجوب منسوخ ہوگیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں اس کا وجوب باقی رہا۔ شوکانی لکھتے ہیں : راجح یہی ہے کہ قیام اللیل کا وجوب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت سب کے حق میں منسوخ ہوگیا ہے اس کی دلیل صحیحین کی وہ حدیث ہے جس میں ایک سائل نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ کیا پنجگانہ نمازوں کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی نماز فرض ہے؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا کہ نہیں، الایہ کہ تم نفلی نمازیں پڑھو اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے وجوب کے ساقط ہوجانے کی دلیل سورۃ الاسراء کی آیت (٧٩) (ومن اللیل فتھجدبہ نافلۃ لک) ہے،” آپ رات کے وقت تہجد کی نماز پڑھئے جو آپ کے لئے نفل نماز ہوگی۔ “ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ صفاقرموا مات یسرمن القرآن) میں نماز کو ” قرأت“ سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسا کہ سورۃ الاسراء آیت (١١٠) (ولا تجھر بصلاتک) میں قرأت کو نماز سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اصحاب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نماز میں سورۃ الفاتحہ پڑھناضروری نہیں ہے، بلکہ اگر قرآن کی ایک آیت بھی پڑھ لے تو کافی ہوگی اور انہوں نے اپنی رائے کی تائید میں صحیحین میں مروی اس حدیث کو پیش کیا ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس صحابی سے جسے نماز پڑھنا نہیں آتا تھا، کہا تھا :” ثم اقراء ماتیسرمن القرآن“” پھر تم کو قرآن کا جو حصہ یاد ہو اسے پڑھو“ جمہور محدثین نے ان کی رائے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس آیت سے استدلال ہرگز صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ اس میں ” قرأت“ سے مراد ” صلاۃ“ ہے، اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جتنی رکعتیں آسانی کے ساتھ پڑھ سکو، پڑھو۔ دوسری بات یہ ہے کہ آیت کریمہ میں ” ماتیسر“ کیت شریح شارع (علیہ السلام) نے اپنی صحیح احادیث کے ذریعہ فرما دی۔ جن کا ذکر سورۃ الفاتحہ کی تفسیر میں گذر چکا ہے، انہی میں سے ایک حدیث صحیحین میں عبادہ بن صامت (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بغیر سورۃ الفاتحہ پڑھے نماز نہیں ہوتی۔ حافظ ابن کثیر (وء اخرون یقاتلون فی سبیل اللہ) کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ یہ آیت بلکہ پوری سورت مکہ میں نازل ہوئی تھی، جب جہاد فرض نہیں ہوا تھا، اس لئے یہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کی اہم دلیل ہے کہ جو حکم جہاد آئندہ آنے والات ھا اس کی خبر اس میں دی گئی ہے۔ (واقیموا الصلاقوئا توا الزکاۃ) میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو دو اہم عبادات نماز و زکاۃ کا حکم دیا ہے، اس لئے کہ نماز کے بغیر دین کی بنیاد گر جاتی ہے اور زکاۃ دینا ایمان کی دلیل ہے، اسلام کا یہی وہ رکن ہے جس کے ذریعہ فقراء و مساکین کی ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو صدقہ و خیرات اور ہر فعل خیز کی ترغیب دلائی اور کہا کہ جہاد فی سبیل اللہ کے لئے خرچ کر کہ اللہ تعالیٰ کو قرض دو جو ایک نیکی کا سات سو گنا تک بدلہ دیتا ہے اور اس یقین کے ساتھ خرچ کرو اور دیگر نیک اعمال کرو کہ تمہارا کوئی عمل صالح ضائع نہیں جائے گا، بلکہ قیامت کے دن سینکڑوں گنا بڑھا کر تمہیں اس کا اجر دیا جائے گا۔ اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے طلب مغفرت کرتے رہو، تاکہ وہ تمہارے گناہوں کو معاف کردے اس لئے کہ بلاشبہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور نہایت مہربان ہے۔ وباللہ التوفیق المزمل
0 سورۃ المدثر مکی ہے، اس میں چھپن آیتیں اور دو رکوع ہیں تفسیر سورۃ المدثر نام : پہلی آیت میں ہی لفظ ” المدثر“ آیا ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت بالاتفاق مکی ہے۔ ابن مردویہ اور بیہقی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ” سورۃ المدثر“ مکہ میں نازل ہوئی تھی جمہور علماء کے نزدیک نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سب سے پہلی وحی (اقراء باسم ربک الذی خلق) نازل ہوئی، اس کے بعد کچھ دنوں تک وحی کا نزول موقوف ہوگیا پھر سورۃ المدثر نازل ہوئی۔ بخاری و مسلم نے جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا، میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کے بارے میں بات کرتے سنا، آپ نے فرمایا کہ میں پیدل چل رہا تھا کہ آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی، سر اٹھایا تو اسی فرشتہ کو جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا دیکھا میں اس منظر سیشدید مرعوب ہوگیا، گھر واپس آگیا اور کہا : مجھے کمبل اوڑھاؤ، مجھے کمبل اوڑھاؤتو گھروالوں نے مجھے کمبل اوڑھا دیا اس کے بعد اللہ نے (یا ایھا المدثر) نازل کیا، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس سلسلے کی یہی روایت محفوظ ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے پہلے آپ پر وحی نازل ہوچکی تھی، اس لئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں فرمایا ہے : میں نے آسمان و زمین کے درمیان اسی فرشتہ کو کرسی پر بیٹھے دیکھا جو میرے پاس غار حرام میں آیا تھا۔ المدثر
1 (١) سورۃ الزمل کی پہلی آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ” الزمل“ کا خطاب از راہ لطف و محبت دیا ہے۔ ” المدثر“ کے بارے میں بھی یہی بات صحیح ہے، یعنی بھی اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس خطاب سے از راہ لطف و محبت نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا کہ اے کمبل اوڑھنے والے ” اب راحت و آرام کو چھوڑ دیجیے اور پوری ہمت و نشاط کے ساتھ مکہ کے مشرکین کو عذاب نار سے ڈرائیے۔ “ اور اپنے رب کی عظمت و کبریائی بیان کیجیے اور مشرکین سے کہئے کہ اللہ سب سے بڑا ہے، اس لئے تم اس کے سوا کسی کے سامنے نہ جھکو اور کسی کے سامنے دست سوال نہ پھیلاؤ۔ ” اور اپنے کپڑوں کی پاکیزگی کا خیال رکھئے“ اس آیت میں کپڑوں سے مراد تمام اعمال ہیں، گویا اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نصیحت کی کہ آپ اپنے تمام اعمال کو نام و نمود، ریا کاری، نفاق، کبر و غرور اور غفلت و کاہلی سے پاک و صاف رکھئے اور کپڑوں کو پاک رکھنا اس میں بدرجہ اولی داخل ہے، اس لئے کہ اعمال کی پاکیزگی میں یہ بھی داخل ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ کپڑوں سے مراد کپڑے ہی ہوں اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ ہر وقت تمام نجاستوں سے اپنے کپڑوں کی پاکی کا خیال رکھئے، بالخصوص جب آپ نماز پڑھئے، اور ظاہر ہے کہ جب آپ کو ظاہری پاکیزگی کا اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو باطنی پاکیزگی بدرجہ اولیٰ مطلوب ہے۔ اور جن بتوں کی عبادت آپ کی قوم کرتی ہے، ان کے قریب بھی نہ جائیے، اس لئے کہ وہ ناپاک اور پلید ہیں۔ سورۃ الحج آیت (٣٠) میں آیا ہے : (فاجتنبوا الرجس من الاوثان) ” پس تم لوگ رجس یعنی بتوں سے بچو“ عربی زبان میں ” رجز“ اور ” رجس“ دونوں کا ایک ہی معنی ہے، یعنی قبیح اور گندی چیز یہ بھی ممکن ہے کہ ” رجز“ سے مراد تمام برے اقوال و افعال ہوں، یعنی آپ تمام چھوٹے بڑے اور ظاہر و باطن گناہوں سے قطعی طور پر الگ رہئے، مکارم اخلاق کو اپنائیے اور مشرکوں کے اخلاق سے دور رہئے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” رجز“ اور ” رجس“ کے دونوں ہی مفہوم سے بالکل پاک تھے، اس لئے مقصود یا تو دوسروں کو اس کی نصیحت کرنی ہے یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ نصیحت کرنی ہے کہ آپ بتوں سے اور تمام گناہوں اور برے اخلاق سے کنارہ کشی پر دوام برتئے۔ اور لوگوں کے ساتھ دینی یا دنیوی احسان کر کے اسے جتائیے نہیں اور آپ کے دل میں یہ بات نہ آئے کہ آپ نے فلاں پر بڑا احسان کیا ہے، بلکہ جتنا ہو سکے بھلائی کئے جائیے اور اسے بھول جائیے اور اس کے اجر و ثواب کی امید اللہ رب العالمین سے رکھے، گویا آپ کا حال ایسا ہو کہ جس پر احسان کیا ہے اور جس پر نہیں کیا ہے دونوں ہی آپ کی نظر میں برابر ہوں۔ بعض مفسرین نے (ولا تمنن تسکثر) کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ کسی کو کوئی چیز اس نیت سے نہ دیجیے کہ وہ آپ کو اس کے بدلے اس سے زیادہ دے۔ اس اعتبار سے یہ حکم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص ہوگا۔ اور دعوت اسلامیہ کی راہ میں آپ کو مخالفین کی جانب سے جو تکلیف پہنچتی ہے اس پر اپنے رب کی رضا مندی کی نیت سے صبر کیجیے۔ مذکورہ بالا آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جن باتوں کا حکم دیا، ان تمام پر آپ نے عمل کیا، لوگوں کو عذاب آخرت سے ڈرایا، قرآن کریم کی صریح اور واضح آیتیں پڑھ کر ان کے سامنے تمام مقاصد الٰہیہ کو بیان کیا، اللہ کی عظمت و کبریائی بیان کی، اور مخلوق کو رب العالمین کی تعظیم کی دعوت دی، اپنے ظاہری اور باطنی تمام اعمال کو گندگیوں اور آلودگیوں سے یکسر پاک رکھا، بتوں، گناہوں اور برے اخلاق سے ہمیشہ دور رہے۔ اللہ تعالیٰ کے بعد آپ نے لوگوں پر احسان عظیم کیا اور ان سے کسی بدلہ کی امید نہیں رکھی، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب کی رضا کی خاطر زندگی بھر اس کی بندگی کی، گناہوں سے پرہیز کیا اور دعوت کی راہ میں جو تکلیف بھی پہنچی اسے برداشت کیا اور اس باب میں اولوالعزم انبیاء و رسل پر فوقیت لے گئے۔ المدثر
2 المدثر
3 المدثر
4 المدثر
5 المدثر
6 المدثر
7 المدثر
8 (٢) اوپر کی آیت سے اس آیت کا تعلق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکین مکہ کی ایذا رسانیوں پر صبر کرنے کی نصیحت کی اور کہا کہ عنقریب وہ ہیبت ناک دن آنے والا ہے جس دن انہیں اپنے کئے کا بدلہ مل جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب صور پھونکا جائے گا تمام مخلوق قبروں سے زندہ ہو کر نکل کھڑی ہوگی اور انہیں میدان محشر کی طرف ہانکا جائے گا وہ دن اپنی ہولناکیوں کی وجہ سے بڑا ہی کٹھن ہوگا اور کافروں کے لئے تو وہ دن انتہائی مشکل ہوگا اس لئے کہ نجات کی امید یکسر منقطع ہوجائے گی اور اپنی ہلاکت و بربادی کا انہیں قطعی یقین ہوجائے گا۔ المدثر
9 المدثر
10 المدثر
11 (٣) مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیتیں ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی تھیں، جس کا دین حق سے عناد، اور اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت حد سے تجاوز کرگئی تھی اس واقعہ کو محمد بن اسحاق نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ولید بن مغیرہ نے جو بڑی عمر کا آدمی تھا، اہل قریش سے کہا کہ حج کا موسم آرہا ہے، قبائل عرب کے وفود آئیں گے اور محمد کے دعوئے نبوت کی خبر ان کو پہنچی چکی ہے، اس لئے تم سب کسی ایک بات پر متفق ہوجاؤ جو اس کے بارے میں تم لوگ وفود عرب سے کہو گے لوگوں نے کہا کہ ہم لوگ محمد کو کاہن بتائیں گے، تو اس نے موافقت نہیں کی، لوگوں نے کہا ہم اسے مجنون کہیں گے شاعر کہیں گے اور جادوگر کہیں گے، اس نے کسی رائے سے اتفاق نہیں کیا، بالآخر اس نے خود ہی کہا کہ مناسب تر بات یہی ہے کہ ہم اسے جادوگر کہیں گے، جو اپنے جادو کے ذریعہ آدمی، اس کے باپ، اس کے بھائی، اس کی بیوی، اور اس کے خاندان والوں کے درمیان تفریق کرا دیتا ہے، چنانچہ اسب اسی رائے پر متفق ہوگئے اور قبائل عرب میں سے کوئی قبیلہ ان کے پاس سے گذرتا تو اسے کہتے کہ محمد کی بات نہ سننا، وہ جادوگر ہے، وہ تمہیں مسحور کر دے گا تو ولید کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئیں، اور اللہ تعالیٰ نے اس کی ایسی مذمت بیان کی جیسی کسی کی نہیں کی معلوم ہوا کہ جو بھی حق سے عناد رکھے گا اور اس کی مخالفت کرے گا، اسے اللہ تعالیٰ میں رسوا کرے گا اور آخرت میں اسے بدترین عذاب میں مبتلا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے نبی ! جس شخص کو میں نے اس کی ماں کے بطن میں تنہا پیدا کیا، نہ اسکے پاس مال تھا اور نہ اولاد تھی اس کو میرے لئے چھوڑ دیجیے، اس سے آپ کا انتقام لینے کے لئے میں کافی ہوں اور جب پیدا ہوا تو میں نے اس کی پرورش کی، اسے مال کثیر دیا اور نرینہ اولاد سے نوازا جو ہر وقت اس کے پاس رہتے ہیں، انہیں دیکھ کر خوش ہوتا ہے، ان سے اپنی ضرورتیں پوری کرتا ہے، اور اپنے کاموں میں مدد لیتا ہے میں نے اس کے لئے تمام دنیاوی اسباب مہیا کردیئے، یہاں تک کہ اس کی تمام ضرورتیں اور خواہشات پوری ہونے لگیں مجاہد کا قول ہے کہ ولید کے دس لڑکے تھے ان میں سے خالد، عمار اور ہشام نے اسلام قبول کرلیا تھا حافظ ابن حجر نے ” الاصابہ“ میں لکھا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ خالد اور ہشام نے اسلام قبول کیا اور عمار حالت کفر میں مرا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ ان تمام دنیاوی نعمتوں کے ساتھ یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ میں اسے آخرت کی نعمتوں سے بھی نواز دوں گا ایسا نہیں ہوسکتا، اس کی یہ خواہش ہرگز پوری نہیں ہوگی، اس لئے کہ اس نے ہماری آیتوں کی صداقت کا یقین کرنے کے بعد ان کا انکار کردیا اور حق کو پہچاننے کے بعد اسے قبول نہیں کیا، میں اسے بدترین عذاب سے دوچار کروں گا ترمذی نے ابو سعید خدری (رض) سے ایک حدیث روایت کی ہے کہ اسے جہنم میں آگ کے پہاڑ پر چڑھنے کا حکم دیا جائے گا، جب بھی چڑھنے کی کوشش کرے گا گر جائے گا اور وہ ہمیشہ اس حالت میں رہے گا۔ المدثر
12 المدثر
13 المدثر
14 المدثر
15 المدثر
16 المدثر
17 المدثر
18 (٤) ولید بن مغیرہ کے لئے اوپر جس وعید کا بیان ہوا ہے، اسی کا سبب بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے بڑا غور و فکر کیا اور اپنے دل میں وہ بات طے کرلی جو اسے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات پر اتہام دھرنے اور قرآن کریم کی آیات کے ابطال کے لئے اہل قریش کے سامنے پیش کرنی تھی۔ اللہ کی اس پر لعنت ہو، اس نے کیسے اس افترا پردازی کو اپنے دل میں جگہ دی اور وہ بات گھڑ لی جسے خود اس کے ضمیر نے قبول نہیں کیا، اللہ کی اس پر بار بار لعنت ہو، اس نے کیسے ایسی افترا پردازی کی جرأت کرلی۔ پھر اس معلون نے اس جھوٹی بات کے بارے میں غور کر کے خوب اطمینان کرلیا کہ اہل قریش اور دیگر مشرکین عرب اسے مان جائیں گے پھر اس لئے میں نے کبر و غرور اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن سے بغض و عناد کے سبب اپنی پیشانی سکڑال ی، اور اس کے چہرے پر حسد و کینہ کی سیاہی پھیل گئی، پھر اس نے حق سے منہ پھیر لیا، اور استکبار میں آ کر قرآن برحق پر ایمانل انے سے انکار کردیا اور کہنے لگا کہ یہ قرآن جادو کے سوا کچھ نہیں جسے محمد دوسروں سے سیکھتا ہے، یہ اللہ کا کلام نہیں ہے، بلکہ کسی انسان کا گھڑا ہوا کلام ہے۔ المدثر
19 المدثر
20 المدثر
21 المدثر
22 المدثر
23 المدثر
24 المدثر
25 المدثر
26 (٥) چونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے کلام کے خلاف ولید بن مغیرہ کی بات بہت بڑی افترا پردازی تھی، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں یہاں اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی کہ وہ قیامت کے دن بہت شدید عذاب کا مستحق ہوگا، میں اسے جہنم میں جلاؤں گا اور اے میرے نبی ! آپ کو کیا معلوم کہ جہنم کسے کہتے ہیں، یہ تو ایسی خطرناک وہیبت ناک آگ ہے جو نہ گوشت کو چھوڑے گی اور نہ پٹھے اور ہڈی کو، جہنمی کے جسم کے ہر عضو کو جلا کر خاکستر اور چمڑے کو سیاہ بنا دے گی۔ ” لواحۃ للبشر“ کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جہنم کافر انسانوں کو جلائے گی، اور انہیں شدید دائمی عذاب میں مبتلا رکھے گی اور جہنم پر انیس فرشتے بطور داروغہ مقرر ہیں جو نہایت سخت دل اور بے رحم ہیں، انہیں اللہ کی طرف سے جو حکم ملتا ہے اس کی تعمیل میں ذرا بھی تاخیر نہیں کرتے اور نہ اس میں کوئی کمی کرتے ہیں۔ المدثر
27 المدثر
28 المدثر
29 المدثر
30 المدثر
31 (٦) ابن جریر اور ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب ابوجہل نے ” علیھا تسعۃ عشر“ سنا، یعنی جہنم کے انیس داروغے ہیں تو قریش سے کہا تمہاری مائیں تم پر روئیں، محمد تمہیں خبر دیتا ہے کہ جہنم کے داروغے انیس ہیں، حالانکہ تمہاری تعداد بہت بڑی ہے کیا تم میں ہر دس شخص ایک داروغہ جہنم کو زیر نہیں کرسکے گا۔ اور ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے ابوالاشد نے کہا کہ تم لوگ جہنم کے داروغوں کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو میں تم سب کی طرف سے ان سے نمٹ لوں گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے (وما جعلنا اصحاب النار الا ملائکۃ) نازل کیا اور بتایا کہ جن کے ذمہ جہنم کی نگرانی اور ان میں داخل ہونے والوں کو عذاب دینا ہے وہ سب فرشتے ہیں ان پر کوئی غالب آسکتا ہے کہ کفار ان پر غالب آنے کی بات کرتے ہیں۔ آیت کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اللہ نے جہنم کے داروغے فرشتے مقرر کئے ہیں، یعنی انہیں جنوں اور انسانوں میں سے نہیں بنایا ہے کہ مبادا اپنے ہم جنس کے لئے ان کے دلوں میں رحم نہ پیدا ہوجائے۔ تیسرا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کی مخلوقات میں سے فرشتے اللہ کا حق ادا کرنے میں زیادہ جلدی کرتے ہیں اور اس کی نافرمانی پر زیادہ غضبناک ہوتے ہیں اور زیادہ قوی اور سخت گرفت کرنے والے ہوتے ہیں، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انہیں جہنم کا ذمہ دار بنایا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے جہنم پر مامور فرشتوں کی جو تعداد یہاں بتائی ہے، اس سے مقصود کافروں کی آزمائش ہے، تاکہ جو لوگ اس کا مذاق اڑاتے ہیں، ان پر اللہ کا غضب نازل ہو، اور ان کا عذاب کئی گنا بڑھا دیا جائے۔ اور مذکور بالا عدو کے ذکر کرنے سے مقصود یہ بھی ہے کہ یہود و نصاری نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قران کی صداقت پر یقین کرلیں، اس لئے کہ جہنم پر مامور فرشتوں کی یہی تعدادتورات و انجیل میں بھی مذکور ہے۔ نیز یہ بھی مقصود ہے کہ جب امت محمدیہ کے مومنوں کو معلوم ہوگا کہ قرآن کریم کی یہی بات تو رات و انجیل میں بھی موجود ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوگا۔ مزید تاکید کے طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس سے مقصود یہ ہے کہ اہل کتاب کے دل میں اسلام کی صداقت کے بارے میں کوئی شبہ باقی نہ رہ جائے کیونکہ یہی بات ان کی کتابوں میں بھی موجود ہے اور تاکہ مومنوں کا ایمان بڑھ جائے اور فرشتوں کی تعداد انیس بتانے سے مقصود یہ بھی ہے کہ کفار عرب اور مستقبل میں مدینہ منورہ میں پائے جانے والے منافقین نافق و کفر کی وادیوں میں بھٹکتے رہیں اور اللہ اور قرآن کا مذاق اڑاتے رہیں کہ اس عجیب و غریب مثال کے ذریعہ اللہ نے کیا بتانا چاہا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر و ضلال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ اسی طرح جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے نبی ! آپ کے رب کی فوجوں کی تعداد کو (چاہے وہ فرشتے ہوں یا غیر فرشتے) اس کے سوا کوئی نہیں جانتا دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ جہنم کے ذمہ دار فرشتے انیس ہیں اور ان کے ساتھ کام کرنے والے دیگر فرشتے بے شمار ہیں جن کی تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ آیت (٣١) میں اللہ تعالیٰ نے دوبارہ جہنم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جہنم پر مامور فرشتوں کی تعداد بتانے کا مقصد یہ ہے کہ بنی نوع انسان اس سے عبرت حاصل کریں، اور جہنم کے عذاب سے ڈرتے رہیں۔ المدثر
32 (٧) ابن جریر نے لکھا ہے کہ یہاں کفار قریش کے زعم باطل کی تردید ہے کہ وہ جہنم کے داروغوں کا مقابلہ کریں گے اور ان پر غالب آجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : چاند کی قسم اور رات کی قسم جب وہ طلوع فجر کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہے اور صبح کی قسم جب وہ روشن ہوتی ہے تم ان فرشتوں پر ہرگز غالب نہ آسکو گے۔ آیت (٣٥) میں اللہ تعالیٰ نے جہنم کے بارے میں خبر دی کہ وہ تو نہایت خطرناک اور ہیبت ناک مصیبتوں میں سے ایک مصیبت ہے، اور اس بیان سے مقصد لوگوں کو ڈرانا ہے، اس لئے کہ جہنم ہے ہی ایسی جگہ جس سے لوگوں کو ڈرایا جائے اور آیت (٣٧) میں خبر دی ہے کہ یہ ان لوگوں کو ڈرانے والی ہے جو اللہ کی طاعت و بندگی میں دوسروں پر سبقت لے جانا اور جنت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان کو بھی ڈرانے والی ہے جو اللہ کی طاعت و بندگی سے پیچھے ہٹنا اور ہلاکت میں پڑنا چاہتے ہیں یعنی جہنم کا ذکر کر کے مومن و کافر دونوں کو ڈرانے کا کام ہوچکا۔ المدثر
33 المدثر
34 المدثر
35 المدثر
36 المدثر
37 المدثر
38 (٨) روز قیامت اور اس کے جزا و سزا کی یقین دہانی کے طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس دن ہر شخص اپنے عمل کا ذمہ دار ہوگا، اگر اچھا عمل کیا ہوگا تو اس کی نجات ہوجائے گی اور اگر برا عمل کیا ہوگا تو وہ اسے ہلاک کر دے گا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( الا اصحاب الیمین) کہ جن کے اعمال اچھے ہوں گے، ان کی گردنیں عذاب سے آزاد کردی جائیں گی، جیسے کوئی رہن رکھنے والا قرض ادا کر کے اپنا رہن چھڑا لیتا ہے۔ وہ اصحاب الیمین اس دن ایسی جنتوں میں ہوں گے جن کی نعمتوں، راحتوں اور آسائشوں کا ادراک کوئی شخص اس دنیا میں نہیں کرسکتا وہ لوگ ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے آپس میں باتیں کریں گے، یہاں تک کہ بات ان مجرمین تک پہنچ جائے گی جو دنیا میں اللہ اور اس کے رسول کے باغی تھے اور جن کی موت کفر و شرک پر ہوئی تھی، تو جنتی ایک دوسرے سے کہیں گے کہ کیوں نہ جہنم میں جھانک کر ان کا حال معلوم کیا جائے، چنانچہ انہیں بیچ جہنم میں شدید عذاب کی حالت میں پائیں گے، اور ان سے پوچھیں گے کہ تمہارے کس کرتوت نے تمہیں جہنم میں پہنچا دیا ہے؟ تو وہ جہنمی کہیں گے کہ ہم دنیا میں اللہ کے لئے نماز نہیں پڑھتے تھے مسکینوں کے لئے اپنے مال کی زکاۃ نہیں دیتیت ھے دین اسلام، قرآن کریم اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازش کرنے والوں کا ساتھ دیتے تھے اور قیامت کے دن کو جھٹلاتے تھے ہمارا یہی حال رہا یہاں تک کہ موت نے ہمیں آدبوچا اور آج ان حقائق کا مشاہدہ کرلیا جن کا دنیا میں ہم انکار کرتے تھے۔ المدثر
39 المدثر
40 المدثر
41 المدثر
42 المدثر
43 المدثر
44 المدثر
45 المدثر
46 المدثر
47 المدثر
48 (٩) اللہ تعالیٰ نے انہی مجرمین کے بارے میں فرمایا کہ اگر بفرض محال کوئی نبی یا فرشتہ اس دن ان کے لئے سفارش بھی کرے گا۔ تو وہ ان کے کام نہیں آئے گی۔ دوسرے لفظوں میں، وہ شفاعت کے اہل نہیں ہوں گے، اس لئے اللہ تعالیٰ کسی نبی یا فرشتہ کو ان کے لئے سفارش کرنے کی اجازت ہی نہیں دے گا، اس لئے کوئی ایسی سفارش نہیں پائی جائے گی۔ جو انہیں نفع پہنچائے۔ المدثر
49 المدثر
50 (١٠) اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کی حالت پر اظہار حیرت کرتے ہوئے فرمایا : انہیں کیا ہوگا ہے کہ وہ اس قرآن سے اعراض کر رہے ہیں جس میں ان کے لئے عبرت و نصیحت ہے، اور قرآن سننے سے اس طرح بدکتے ہیں جیسے خوفزدہ گدھے جو جنگل میں شیروں کو دیکھ کر مارے خوف و دہشت کے بے تحاشا دوڑنے لگتے ہیں اور انہیں کہیں قرار نہیں ملتا۔ المدثر
51 المدثر
52 (١١) مفسرین نے لکھا ہے : کفارقریش نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ ہم میں سے ہر ایک کے پاس اللہ کی طرف سے ایک کتاب آنی چاہئے جس میں مذکور ہو کہ تم اس کے رسول ہو تو ہم تم پر ایمان لانے کے بارے میں غور کریں گے لیکن وہ اپنی اس بات میں قطعی طور پر جھوٹے تھے اس لئے کہ قرآن کریم میں بہت سی آیتیں نازل ہوچکی تھیں جن سے حق واضح ہوچکا تھا، اگر ان میں خیر کو قبول کرنے کی صلاحیت ہوتی تو کب کے ایمان لے آئے ہوتے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے کہا : ہرگز نہیں ہم ان کی خواہش پوری نہیں کریں گے، ان کا مقصد ہمارے رسول کو عاجز و درمادندہ بنانا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے دلوں میں آخرت کا ڈر نہیں ہے، اگر انہیں آخرت میں نجات کی فکر ہوتی، تو ایسی بات نہیں کرتے، بلکہ ایمان لے آتے۔ المدثر
53 المدثر
54 (١٢) اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے بارے میں فرمایا کہ یہ عبرت و نصیحت کا خزانہ ہے، اس میں موجود اللہ کے اوامرونواہی سے جو چاہے فائدہ اٹھائے اور اپنی عاقبت سدھارے لیکن اس سے وہی شخص فائدہ اٹھائے گا جسے اللہ توفیق دے گا، اس کی توفیق کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ آیت (٥٦) کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اللہ کی ذات ہی وہ ذات ہے جس سے بندوں کو ڈرتا چاہئے اور جسے راضی کرنے کے لئے عمل صالح کرنا چاہئے اور وہی ارحم الراحمین مومنوں کے گناہوں کو معاف کرتا ہے اور توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔ امام احمد، ترمذی، نسائی، دارمی اور ابن ماجہ وغیرہ نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (ھو اھل التقوی واھل المغفرۃ) کی تلاوت کی اور فرمایا :” لوگو ! تمہارا رب کہتا ہے کہ میں ہی وہ ہوں جس سے ڈرنا چاہئے، پس میرے ساتھ کسی کو معبود نہ بناؤ، تو جو شخص مجھ سے ڈرے گا اور میرے ساتھ کسی کو معبود نہیں بنائے گا، میں اسے معاف کردوں گا۔“ وباللہ التوفیق المدثر
55 المدثر
56 المدثر
0 سورۃ القیامہ مکی ہے، اس میں چالیس آیتیں اور دو رکوع ہیں تفسیر سورۃ القیامہ نام : پہلی آیت میں ہی لفظ ” القیامۃ“ آیا ہے یہی اس کا نام رکھ دیا گیا ہے بعض روایات میں انب عباس (رض) سے مروی اس کا نام ” سورۃ الا اقسم“ بھی آیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت بالا تفاق مکی ہے، ابن مردویہ نے اور بیہقی نے (دلائل میں) ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ القیامہ اور ایک روایت کے مطابق ” سورۃ لا اقسم“ مکہ میں نازل ہوئی تھی ابن مردویہ نے عبداللہ بن زبیر (رض) سے بھی یہی روایت کی ہے۔ القيامة
1 (١) آیات (١/٢) کی ابتدا میں موجود ” لا“ کے بارے میں بہت سے مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ زائد ہے، اور ” لا اقسم“ کا معنی ’ داقسم“ بتایا ہے بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ ” لا“ زائد نہیں ہے، بلکہ نفی کے معنی میں ہے اور اس کے ذریعہ مشرکین کے ” بعت بعد الموت“ کے بارے میں غلط عقیدے کی نفی کی گئی ہے اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ بات ویسی نہیں ہے جیسی مشرکین کہتے ہیں کہ بعث بعد الموت اور قیامت کے دن کے جزا و سزا کا تصور صحیح نہیں ہے۔ میں بعث بعد الموت کے عقیدے کے صحیح ہونے پر قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں اور آدمی کے ’ دنفس لوامۃ“ کی قسم کھاتا ہوں، جو ہمیشہ اللہ کی جناب میں تقصیر پر آدمی کو ملامت کرتا رہتا ہے، اسے بھلائی پر اکساتا ہے اور برائی سے روکتا ہے اس لئے کہ اسے یقین ہوتا ہے کہ قیامت ضرور آئے گی۔ بنی نوع انسان دوبارہ زندہ کئے جائیں گی اور انہیں ان کے اچھے اور برے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ دونوں آیتوں میں جس بات پر اللہ نے قسم کھائی ہے وہ یہ ہے کہ کافرو ! تم ضرور دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے، تم سے ضرور تمہارے اعمال کا حساب لیا جائے گا اور تمہیں سزا دی جائے گی، چونکہ یہ بات سیاق و سباق سے واضح تھی، اسی لئے آیت میں اس کا ذکر صراحت کے ساتھ نہیں کیا گیا ہے۔ القيامة
2 القيامة
3 (٢) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے وہی بات بصراحت کہی ہے جس کو ثابت کرنے کے لئے اس نے اوپر کی دونوں آیتوں میں قسم کھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کیا کافر و ملحد یہ سمجھتا ہے کہ وہ مر کر گل سڑ جائے گا اس کا وجود ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گا۔ اور ہم اس کیہ ڈیاں زمین سے نکال کر انہیں جمع کر کے اسے دوبارہ زندہ نہیں کریں گے؟ یہ اس کی خام خیالی ہے، ہم یقیناً اس بات پر قادر ہے کہ اس کی ہڈیوں کو جمع کریں، بلکہ ہم تو اس سے بڑی بات کی قدرت رکھتے ہیں کہ اس کے ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں کو اونٹ اور گدھے کی کھر کی مانند یکجا کردیں، تاکہ ان سے وہ دقیق و باریک کام نہ لے سکے جو وہ اپنی انگلیوں کے ذریعہ لیتا ہے۔ آیت (٤) کا دوسرا مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہم تو انسان کی انگلیوں کو بننے پر قادر ہیں جو چھوٹی اور نازک ہوتی ہیں اور ایک دوسرے سے الگ اور حرکت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں تو پھر اس کے جسم کی بڑی ہڈیوں کو دوبارہ بنانے پر کیوں نہیں قادر ہوں گے جبکہ پہلی بار ہم نے ہی انہیں بنایا تھا۔ آیت (٥) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کافر و ملحد انسان، اللہ تعالیٰ کی قدرت تخلیق کا اس لئے انکار نہیں کرتا ہے اس کے پاس اس کی دلیل نہیں پہنچی ہے اور اس کا وہ دل سے معترف نہیں ہے، بلکہ اس کی نیت فاسد ہوتی ہے، وہ محض استکبار کی وجہ سے چاہتا ہے کہ انکار آخرت پر اس کا اصرار باقی رہے اور حقیقت کا اعتراف نہ کرے۔ القيامة
4 القيامة
5 القيامة
6 (٣) بعث بعد الموت اور قیامت کا منکر بطور استہزاء پوچھتا ہے کہ قیامت کب آئے گی، اس لئے کہ وہ وقوع قیامت کو بعید از عقل بات سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اس استہزاء آمیز سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ہاں جب قیامت آئے گی تو آدمی کی آنکھیں شدت خوف و دہشت سیپ تھرا جائیں گی اور حرکت کرنے سے رک جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ ابراہیم آیت (٤٢) میں فرمایا ہے : (انما یوخرھم لیوم تشخص فیہ الابصارم) ” اللہ تعالیٰ انہیں اس دن تک مہلت دیئے ہوئے ہے جس دن آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ “ اور اس دن ماہتاب ہمیشہ کے لئے اپنی روشنی کھو دے گا اور آفتاب و ماہتاب دونوں اکٹھا کردیئے جائیں گے، دونوں کی روشنی ختم ہوجائے گی اور رات اور دن کا ایک دوسرے کے بعد آنا بند ہوجائے گا اس دن انسان مارے دہشت کے ہر چہار جانب بھاگنے کی کوششکرے گا، لیکن اسے کوئی جائے فرار نہیں ملے گی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (کلا لاوزر) ہرگز نہیں، اب کوئی جائے پناہ نہیں ہے، اب تو سبھی رب العالمین کے سامنے کھڑے ہیں اور اپنے بارے میں اس کے فیصلے کے منتظر ہیں کہ جنت کا فیصلہ ہوتا ہے یا جہنم کا اس دن ہر آدمی کو اس کے اچھے اعمال کی خبر دی جائے گی جو اس کی نجات کا سبب بنیں گے اور ان اعمال کی بھی جن کی ادائیگی میں اسنے تفریط و تقصیر سے کام لیا تھا بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ خبر انسان کو اعمال کے وزن کے وقت دی جائے گی اور بعض کہتے ہیں کہ یہ خبر اسے موت کے وقت دی جائے گی، قرطبی کے نزدیک پہلا قول راجح ہے۔ آیت (١٤) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بلکہ انسان کے اعضاء و جوارح اس کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے، جیسا کہ سورۃ النور آیت (٢٤) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (یوم تشھد علیھم السنتھم وایذیھم وارجلھم بماکانوا یعملون) ” جس دن کافروں کی زبانیں ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے خلاف ان کے کرتوتوں کی گواہی دیں گے۔ “ حسن بصری نے اس کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ اس دن ہر آدمی اپنے عیوب و نقائص سے خوب واقف ہوگا، اگرچہ عذاب سے بچاؤ کی ناکامکوشش میں جھوٹے اعذار پیشک رے گا لیکن اس کا کوئی فائدہ اسے نہیں پہنچے گا۔ القيامة
7 القيامة
8 القيامة
9 القيامة
10 القيامة
11 القيامة
12 القيامة
13 القيامة
14 القيامة
15 القيامة
16 (٤) بخاری و مسلم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جب وحی نازل ہوتشی تو آپ ہونٹ ہلانے لگتے آپ سے کہا گیا کہ آیتوں کو یاد کرنے کے لئے اپنی زبان نہ ہلائیے، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں آپ کے سینے میں محفوظ کردیں تاکہ نزول وحی ختم ہونے کے بعد آپ انہیں پڑھیں اس لئے جب ہم پوری وحی نازل کر چکیں، تب آپ پڑھئے پھر اس کے بیان کرنے کی ذمہ داری بھی ہم پر ہے بخاری کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب جبریل وحی لے کر آتے تو آپ غور سے سنتے اور جب جبریل چلے جاتے تو آپ ویسے ہی پڑھتے جس طرح جبریل نے پڑھات ھا، انتہی، سورۃ طہ آیت (١١٤) میں اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے : (ولا تعجل بالقراء ان من قبل ان یقضی الیک وحیہ) ” آپ وحی ختم ہونے سے پہلے قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیجیے۔ “ حافظ ابن کثیر نے شعبی، حسن بصری، قتادہ، مجاہد اور ضحاک وغیرہ کا قول نقل کیا ہے کہ ان آیات کے نزول کا سبب وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو وحی کا علم حاصل کرنے کی کیفیت سکھائی ہے۔ انتہی مفسرین نے ذکر قیامت کے درمیان ان آیتوں کے آنے کی کئی مناسبتیں بیان کی ہیں، ان میں سے ایک مناسبت یہ ہے کہ جب یہ سورت (ولو القی معاذیرہ) تک نازل ہوئی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاہا کہ اسے جلد یاد کرلیں اور زبان ہلانے لگیتاکہ اس کا کوئی حصہ ضائع نہ ہوجائے تو اللہ تعالیٰ نے (لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ) سے (ثم ان علینا بیانہ) تک نازل فرمایا پھر قیامت سے متعلق کلام مکمل کیا۔ (ثم ان علینا بیانہ) کے ضمن میں مفسرین نے لکھا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی 23 سالہ نبوت کی زندگی میں قرآن کریم کی تشریح تو ضیح کے لئے جو کچھ کہا اور کیا اور جتنی باتوں کی تائید کی اور جتنی باتوں سے منع فرمایا، جسے اسلام کی زبان میں ” حدیث“ کہا جاتا ہے وہ پورا ذخیرہ اللہ کی طرف سے نازل کردہ وحی کا حصہ تھا اور اگرچہ قرآن نہیں تھا، لیکن قرآن کی مذکورہ بالا آیت میں موجود ربانی وعدے کے مطابق وہ ذخیرہ قرآن کی تشریح اور اس کا بیان تھا اور امت کے لئے آسمانی وحی کی حیثیت سے واجب الاتباع تھا، اللہ تعالیٰ نے سورۃ النجم آیات (٣/٤) میں اسی بات کی تائید میں فرمایا ہے : (وما ینطق عن الھوی، ان ھوالاوحی یوحی) ” اللہ کے نبی اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں کہتے ہیں، وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔ “ القيامة
17 القيامة
18 القيامة
19 القيامة
20 (٥) چار معترضہ آیتوں کے بعد، جن میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کا علم حاصل کرنے کی تعلیم دی ہے، پھر آخرت، اس کی نعمتوں اور اس کے عذاب کا ذکر آگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو کفر آخرت کی نصیحت کی ہے اور کہا ہے کہ تم دنیا اس کی لذتوں اور شہوتوں کے پیچھے دوڑتے ہو اور فکر آخرت سے غافل ہوگئے ہو اس لئے کہ دنیا کی لذتیں فوراً حاصل ہوجاتی ہیں اور آخرت کی نعمتیں نگاہوں سے اوجھل ہیں حالانکہ اگر تم عقل و خرد سے کام لیتے، دائمی انجام پر تمہاری نگاہ ہوتی، تو آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتے اور قیامت کے دن تمہیں ایسی دائمی خوش ملتی جس کے بعد کبھی بدبختی اور دکھ اور مصیبت تمہارے قریب پھٹکتی۔ القيامة
21 القيامة
22 (٦) جو لوگ آخرت کو دنیا پر ترجیح دیتی ہیں، قیامت کے دن ان کے چہرے شاداب، پررونق اور پر نور ہوں گے اور جنت اور اس کی بے بہا نعمتوں کو پاک کر شاداں و فرحاں ہوں گے اور انہیں سب سے بڑی نعمت یہ ملے گی کہ ان کا رب ان کے سامنے جلوہ افروز ہوگا جسے دیکھ کر انہیں ایسی خوشی ملے گی جس کی تعبیر الفاظ میں نہیں کی جاسکتی اور جس کے بعد وہ جنت کی ساری نعمتوں کو بھول جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان اہل جنت میں شامل کر دے۔ القيامة
23 القيامة
24 (٧) اور جو لوگ دنیا اور اس کی عارضی لذتوں کو جنت اور اس کی دائمی خوشیوں پر ترجیح دیتے ہیں، قیامت کے دن ان کے چہرے غم والم کے مارے نہایت بے رونق اور اداس ہوں گے، ان پر کرب و اذیت کے سبب سیاہی چھائی ہوگی، اس لئے کہ انہیں یقین ہوجائے گا کہ آج ان کے لئے کوئی خیر نہیں، انہیں ایسی سزا دی جائے گی جو ان کی ریڑھ کی ہڈی کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گی، یعنی وہ انتہائی شدید عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے۔ القيامة
25 القيامة
26 (٨) اس آیت کریمہ میں بھی آیات (١/٢/٣) کی طرح مشرکین کے بعث بعدالموت کے بارے میں غلط عقیدے کی نفی کی گئی ہے، اور حضرت انسان کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ بات ویسی نہیں جیسی تم سمجھتے ہو کہ قیامت نہیں آئیگی اور تم دوبارہ زندہ نہیں کئے جاؤ گے، تم ضرور زندہ کئے جاؤ گے اللہ تعالیٰ نے مزید تاکید کے طور پر فرمایا : جب تمہاری روح حلق کی ہڈی تک پہنچ جائے گی اور تمہارے خویش و اقارب تمہارا حال زار دیکھ کر بے بسی میں پکار اٹھیں گے کہ کوئی ہے جو جھاڑ پھونک کے ذریعہ اس کی بیماری اور کرب و اذیت کو دور کر دے اور تمہیں یقین ہوجائے گا کہ اب تم اپنے اہل و عیال اور خویش و اقارب کو چھوڑ کر دنیا سے کوچ کر جاؤ گے، اس دن تم آخرت کی طرف سدھار جاؤ گے تمہارا جسم مٹی میں دفن کردیا جائے گا اور تمہاری روح تمہارے رب کے پاس پہنچا دی جائے گی۔ تاکہ قیامت کے دن وہ تمہیں زندہ کر کے تمہارے انجام کے بارے میں اپنا فیصلہ صادر فرمائے۔ القيامة
27 القيامة
28 القيامة
29 القيامة
30 القيامة
31 (٩) انسان روزانہ اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھتا ہے کہ لوگ بے بسی کے عالم میں مر جاتے ہیں اور کوئی انہیں بچا نہیں پاتا۔ ان کی روحیں جسد خاکی سے نکل کر اپنے خالق کے پاس چلی جاتی ہیں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ انسان موت کے ان مناظر سے عبرت حاصل کرتا اور آخرت میں عذاب نار سے بچنے کی تدبیر کرتا، لیکن اس کی شومئی قسمت کہ وہ ایسا نہیں کرتا۔ ایسے ہی کافرو متکبر اور غافل انسان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے اللہ کی ایٓتوں کی تکذیب کی، اس کی نعمتوں کا انکار کیا، اپنی زندگی میں اس نے نمازوں کا اہتمام نہیں کیا، دین حق کو جھٹلایا اور طاعت و بندگی کی راہ پر نہیں چلا اور ان تمام گناہوں کے ارتکاب کے باوجود اس کا دل مطمئن رہا اور اللہ سے ڈر کر کبھی تو بہ کی نہیں سوچی، بلکہ استکبار کے ساتھ اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کے پاس چلا گیا۔ واحدی نے مفسرین کا قول نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوجہل کا ہاتھ پکڑیا، پھر کہا کہ تمہارے لئے بربادی ہی بربادی ہے تو ابوجہل نے کہا، تم مجھے کس چیز کی دھمکی دیتے ہو تم اور تمہارا رب میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، میں اس وادی کا معزز ترین آدمی ہں، تو یہ آیتیں نازل ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی تائید میں اس کافرو متکبر انسان کا انجام بتا دیا کہ اس کے لئے ہلاکت و بربادی ہے مفسرین نے لکھا ہے کہ لفظ ” اولی“ کو چار بار ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اس کیلئے ہلاکت و بربادی زندگی میں ہے اور مرنے کے بعد بھی ہے اور جس دن وہ دوبارہ اٹھایا جائے گا اور جب جہنم میں ڈالا جائے گا۔ نسائی، حاکم، طبرانی، ابن المنذر اور ابن جریر وغیرہ نے سعید بن جبیر سے روایتکی ہے کہ میں نے ابن عابس (رض) سے (اولی لک فاؤلی) کے بارے میں پوچھا، کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوجہل کو یہ بات اپنی طرف سے کہی تھی یا اللہ نے حکم دیا تھا؟ تو انہوں نے کہا : آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف سے کہا تھا، پھر اللہ نے اسے قرآن میں نازل کردیا۔ اس روایت کو حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط کے مطابق صحیح کہا ہے۔ القيامة
32 القيامة
33 القيامة
34 القيامة
35 القيامة
36 (١٠) اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق بے غرض و غایت نہیں کی ہے اس نے اسے اپنی طاعت و بندگی کے لئے پیدا کیا ہے، اس لئے وہ یہ نہ سمجھے کہ اسے اس دنیا میں جانوروں کی طرح آزاد چھوڑ دیا گیا ہے، بلکہ اللہ نے اسے اوامرو نواہی کا مکلف بنایا ہے اور قیامت کے دن اس سے پوچھا جائے گا، اور اچھے یا برے اعمال کے مطابق اسے جزا یا سزا دی جائے گی۔ آدمی اگر اپنی تخلیق کی ابتدا پر غور کرے تو ایمان لے آئے کہ باری تعالیٰ یقیناً اسے دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اسے خوب معلوم ہے کہ وہ منی کا ایک حقیر قطرہ تھا جسے اس کے باپ کی پیٹھ سے نکال کر اس کی ماں کے رحم میں ٹپکایا گیا، پھر کچھ دنوں کے بعد وہ قطرہ منی خون بن گیا، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے گوشت کا ایک ٹکڑا بنایا اور اعضاء و جوارح بنا کر اس ٹکڑے میں جان ڈال دی، پھر سا قطرہ منی سے پیدا کردہ انسانوں کو اللہ نے (مرد و زن) دو قسم کے انسان بنائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے بنی نوع انسان ! جو اللہ قطرہ منی کو مختلف مدارج و مراحل سے گذار کر تمہیں پیدا کرنے پر قادر ہے، کیا وہ مردوں کو زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے؟ وہ یقیناً اس پر قادر ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وباللہ التوفیق القيامة
37 القيامة
38 القيامة
39 القيامة
40 القيامة
0 سورۃ الدہر مدنی ہے، اس میں اکتیس آیتیں اور دو رکوع ہیں تفسیر سورۃ الدہر نام : پہلی آیت میں ہی لفظ ” الدھر“ آیا ہے، یہی اس کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ اس کا دوسرا نام ” سورۃ الانسان“ ہے اور اسے ” سورۃ الامشاج“ اور سورۃ ” ھل اتی“ بھی کہتے ہیں۔ زمانہ نزول : جمہور علماء کے نزدیک یہ سورت مدنی ہے اور ابن النحاس نے ابن عباس (رض) سے اور ابن مردویہ نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت کیش ہے کہ یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ تیسرا قول یہ ہے کہ ابتدائے سورت سے آیت (٢٢) تک مدنی ہے اور اس کے بعد سے آخر سورت تک مکی ہے۔ امام مسلم نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن صبح کی نماز میں ” الم سجدہ“ اور (ھل اتی علی الانسان) پڑھتے تھے۔ الإنسان
1 (١) اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی ضعیفی اور حقارت یاد دلائی ہے کہ اس کا باپ (آدم) چالیس سال تک مٹی کا ایک مجسمہ بنا پڑا رہا ایک دوسرے قول کے مطابق ایک سو بیس سال تک، مٹی گارے اور ٹھیکرے کے مراحل سے گذرتا رہا، تب جا کر اللہ تعالیٰ نے اس میں روح ڈالی اس پوری مدت میں وہ مٹی کا ایک تودہ رہا، اللہ کے سوا کسی کو کچھ معلوم نہ تھا کہ اس تو وہ کا کیا ہوگا اور اس کا کیا نام ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں روح پھونکی اور اسے انسان بنایا۔ الإنسان
2 (٢) اللہ تعالیٰ نے پھر آدم کی اولاد کو گندے اور حقیر پانی کے ایک مخلوط قطرہ سے پیدا کیا، ” امشاج“ سے مراد وہ مخلوط ہے جو مرد اور عورت دونوں کی منی سے بنتا ہے مرد کی منی سفید اور گاڑھی ہوتی ہے اور عورت کی منی پیلی اور پتلی ہوتی ہے دونوں کے امتزاج سے آدمی کی تخلیق ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو احکام و شرائع کا پابند بنایا تاکہ اسے آزمائے اور دیکھے کہ وہ اپنے رب کا مطیع و فرمانبردار بندہ بنتا ہے یا نافرمانی کرتا ہے اور اسے سننے اور دیکھنے کی قوت دی اور عقل سے نوازا تاکہ وہ خیر و شر اور ہدایت و گمراہی کے درمیان تمیز کرے اور راہ ہدایت پر چل کر یا تو اللہ کاش کر گذار بندہ بنے، یا اس سے روگردانی کر کے ناشکری کرے اور ہلاکت و بربادی کی راہ پر چل پڑے۔ الإنسان
3 الإنسان
4 (٣) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اس عذاب کی خبر دی ہے جو اس نے کافروں کے لئے تیار رکھا ہے۔ فرمایا کہ ہم نے کافروں کے لئے زنجیریں، بیڑیاں اور بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے، سورۃ المومن آیات (٧١/٧٢) میں فرمایا ہے : (اذا الاغلال فی اغناقھم والسلاسل یسحبون فی الحمیم ثم فی النار یسجرون) ” جب ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور زنجیریں ہوں گی، گھسیٹے جائیں گے کھولتے ہوئے پانی میں، پھر جہنم کی آگ میں جلائیے جائیں گے۔ “ الإنسان
5 (٤) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کی خبر دی ہے جو اس نے مومنین صالحین کے لئے تیار رکھی ہے، فرمایا کہ ایسے لوگ نہایت لذیذ شراب پئیں گے جس میں کافور ملا ہوگا، تاکہ اسے ٹھنڈا کر دے اور اس کی تیزی کو زائل کر دے اور یہ کافور نہایت ہی لذیذ ہوگا اور دنیاوی کافور کی خرابیوں سے پاک ہوگا۔ اور وہ لذیذ شراب کبھی ختم نہیں ہوگی، اس لئے کہ وہ ہمیشہ جاری رہنے والا چشمہ ہوگا، جسے اہل جنت اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق جب اور جہاں چاہیں گے جاری کرلیں گے ادھر ان کا ارادہ ہوگا۔ اور ادھر چشم زدن میں ان کے سامنے جاری ہوجائے گا۔ الإنسان
6 الإنسان
7 (٥) اہل جنت کو یہ نعمت ہائے بے بہا اس سبب سے ملیں گی کہ وہ جن اعمال صالحہ کو اپنے اوپر واجب کرلیتے تھے انہیں ضرور پورا کرتے تھے اور یہ دلیل ہے اس بات کی کہ وہ اللہ کی جانب سے واجب کردہ اعمال صالحہ کو بدرجہ اولی پورا کرتے تھے اور اس دن کے عذاب سے ڈرتے تھے جس کا شر زمین و آسمان کو بھر دے گا اور اسی خوف کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے ہر اس برے عمل سے کنارہ کشی کرلی تھی جو قیامت کے دن عذاب کا سبب بنتا۔ اور وہ مسکین یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے تھے باوجودیکہ ان کے پاس کھانا کم ہوتا تھا یا مفہوم یہ ہے کہ وہ اللہ کی رضا اور اس کی محبت حاصل کرنے کے لئے مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے تھے، اس مفہوم کی تائید اس کے بعد والی آیت (٩) سے ہوتی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے کھانا کھلانے والوں کی بات نقل کی ہے کہ وہ جنہیں کھانا کھلاتے ہیں ان سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اللہ کی رضا کے حصول کے لئے تمہیں کھانا کھلا رہے ہیں، ہم کو تم سے اس کا نہ کوئی بدلہ چاہئے اور نہ اس کے لئے ہم یہ چاہتے ہیں کہ تم ہماری تعریف کرتے پھرو۔ الإنسان
8 الإنسان
9 الإنسان
10 (٦) وہ اہل جنت دنیا میں یہ بھی کہتے تھے کہ ہم اپنے رب کی طرف سیاس دن سے ڈرتے ہیں جو اپنی ہولناکیوں کے سبب بڑا ہی شدید اور ناقابل برداشت ہوگا۔ الإنسان
11 (٧) اللہ تعالیٰ مذکورہ بالا نیکیوں کے سبب انہیں اس دن کے عذاب سے بچا لے گا اور فرشتے آگے بڑھ کر ان سے کہیں گے کہ یہی وہ دن ہے جس کا تم سے دنیا میں وعدہ کیا جاتا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کا غایت درجہ اکرام کرے گا، ان کے چہرے کو شادابی اور ان کے دلوں کو فرحت و شادمانی عطا کرے گا یعنی انہیں ظاہری اور باطنی تمام نعمتوں سے نوازے گا۔ اور چونکہ وہ صبر و استقلال کے ساتھ اللہ کی بندگی کرتے رہے، گناہوں سے پرہیز کرتے رہے، دعوت الی اللہ کا کام کرتے رہے اور اس راہ کی اذیتوں کو برداشت کرتے رہے، اس لئے اللہ تعالیٰ انہیں جنت دے گا اور پہننے کے لئے ریشم کے کپڑے دے گا، جسے انہوں نے دنیا میں اللہ کا حکم مانتے ہوئے نہیں پہنا تھا۔ وہ اہل جنت ان جنتوں میں گاؤ تکیوں پر ٹیک لگائے نہایت اطمینان و راحت کے ساتھ بیٹھے ہوں گے، وہاں نہ وہ آفتاب کی تمازت کو دیکھیں گے اور نہ سخت سردی کو، بلکہ ہر وقت ان کے سروں پر گھنا راحت بخش سایہ ہوگا اور وہاں کے درخت ہر وقت ان پر سایہ فگن رہیں گے اور ان کے پھل ہمہ وقت اور ہر حال میں ان کے دسترس میں ہوں گے، کوئی چیز ان کے ہاتھوں کو ان تک پہنچنے سے نہیں روکے گی۔ الإنسان
12 الإنسان
13 الإنسان
14 الإنسان
15 (٨) جب اہل جنت کو پینے کی خواہش ہوگی تو چھوٹی عمر کے بچے اور خدمت گار، چاندی کے برتن لئے ان کے پاس پہنچ جائیں گے، ان کے ہاتھوں میں شیشے کے پیالے ہوں گے اور وہ شیشے چاندی کے بنے ہوں گے، یعنی وہ چاندی شیشہ کی طرح صاف و شفاف ہوگی اور وہ برتن اور پیالے اسی حجم و شکل کے ہوں گے جس کی وہ خاہش کریں گے نہ اس سے بڑے ہوں گے اور نہ چھوٹے، یعنی ان کے ذوق و خواہش کی پوری رعایت ہوگی، تاکہ پیتے وقت ان کے کام و دہن انتہائی لذت و سرور پائیں۔ الإنسان
16 الإنسان
17 (٩) اہل جنت کو جنت میں ایسی شراب پلائی جائے گی جس میں زنجیل ملی ہوگی۔ عرب کے لوگ زنجیل کی خوشبو سے متمتع ہونے کے لئے اسے شراب میں ملا کر پینا پسند کرتے تھے اور زنجیل ملی شراب جنت میں ایک سلسبیل نامی چشمہ سے جاری رہے گی، جس کی شراب نہایت لذیذ ہوگی۔ الإنسان
18 الإنسان
19 (10) اہل جنت کی خدمت کے لئے ہمہ وقت ان کے اردگرد چھوٹی عمر کے بچے ان کے اشاروں کے منتظر رہیں گے وہ بچے ہمیشہ خوبصورت اور شاداب رہیں گے، اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں ہی پیدا کرے گا، نہ وہ عمر رسیدہ ہوں گے، نہ ہی ان کا حسن و جمال کبھی بدلے گا جب اہل جنت کی ان پر نظر پڑے گی تو وہ غایت حسن و جمال اور چہروں کی بے انتہا شادابی کی وجہ سے ایسے لگیں گے جیسے صاف شفاف فرش پر بکھرے موتی کے دانے ہوں مفسرین لکھتے ہیں کہ ان بچوں کو بکھرے ہوئے موتیوں سے ان مناسبت سے تشبیہہ دی گئی ہے کہ وہ اہل جنت کی خدمت کے لئے ہر طرف منتشر ہوں گے اور تیزی کے ساتھ ان کی خدمت کر رہے ہوں گے برخلاف ” حورعین“ کے جو سیپ میں بند موتیوں سے تشبیہہ دی گئی ہیں، اس لئے کہ وہ خدمت کے لئے نہیں، بلکہ اہل جنت کے تلذذ کے لئے ہوں گی۔ الإنسان
20 (١١) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جا رہا ہے کہ آپ جب جنت اور اہل جنت پر نگاہ ڈالیں گے تو وہاں لاتعداد نعمتیں اتنے وسیع و عریض علاقے میں پھیلی ہوئی دیکھیں گے جس کی وسعتوں کا آپ اندازہ نہیں لگا پائیں گے، ہر جنتی کے لئے الگ الگ خوبصورت محلات و قصور، سرسبز و شاداب باغات لذیذ ترین میوہ جات، بہتی نہریں، چہچہاتی چڑیاں، اور پری وش بیویاں ہوں گی، اور ان کے اردگرد پھیلے ہوئے غلمان ہوں گے، جو خدمت کے لئے ان کے اشاروں کے منتظر رہیں گے اور ان تمام نعمتوں سے بڑی نعمت اہل جنت کو یہ ملے گی کہ ان کا رب ان سے راضی ہوگا انہیں اس کا رقب حاصل ہوگا اور وہ جنت سے کبھی نہیں نکالے جائیں گے۔ الإنسان
21 (12) اہل جنت ایسے لباس زیب تن کئے ہوں گے جو سبز باریک ریشم کے بنے ہوں گے اور کچھ دوسرے دبیز ریشم کے بنے ہوں گے اور وہ چاندی کے کنگن پہنے ہوں گے شوکانی لکھتے ہیں کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ اہل جنت چاندی کے کنگن پہنے ہوں گے اور سورۃ فاطر آیت (23) میں فرمایا ہے کہ وہ سونے کے کنگن پہنے ہوں گے اور سورۃ الحج آیت (23) میں فرمایا ہے کہ وہ سونے اور موتی کے بنے کنگن پہنے ہوں گے تو ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ اہل جنت کے کنگن تینوں طرح کے ہوں گے اور اپنی خواہش کے مطابق پہنا کریں گے۔ اور اہل جنت کو ان کا رب ایک دوسری قسم کی شراب بھی پلائے گا، جس کا نام ” شراب طہور“ ہوگا جو نہ دنیا کی شراب کی مانند ناپاک ہوگی، اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی کثافت و کدورت ہوگی۔ جب اہل جنت ان تمام نعمتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور ان سے متمتع ہونے لگیں گے، تو ان سے کہا جائے گا کہ یہ سب کچھ تمہارے ایمان و توقیٰ کا بدلہ ہے اور تمہارے عمل صالح کو اللہ نے ضائع نہیں کیا ہے۔ الإنسان
22 الإنسان
23 (13) امام شوکانی نے مفسرین کا یہ قول نقل کیا ہے کہ آیت (24) میں ” آثما“ سے مراد عتبہ بن ربیعہ اور ” کفورا“ سے مراد ولید بن مغیرہ ہے ان دونوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ تم لوگوں کو دعوت اسلام دینا بند کر دو ہم تمہیں مالا مال کردیں گے اور اپنی خوبصورت ترین عورتوں سے تمہاری شادی کردیں گے تو اللہ تعالیٰ نے (انا نحن نزلنا علیک القرء ان تنزیلا) اور اس کے بعد کی آیتیں نازل فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس قرآن کو ہم نے آپ پر نازل کیا ہے، اسے آپ نے نہیں کھڑا ہے جیسا کہ مشرکین آپ پر اتہام دھرتے ہیں، اس لئے آپ اپنے رب کی پیغامبری کی ذمہ داریوں کو قبول کیجیے اور اسے بے کم و کاست لوگوں تک پہنچائیے، اور مشرکین قریش میں سے ابوجہل اور تعبہ بن ربیعہ جیسے گناہگاروں اور ولید بن مغیرہ جیسے نافرمانوں اور ناشکروں کی بات نہ مانئے، اور اپنی دعوت کو لے کر آگے بڑھتے رہے اور اپنے رب کے لئے نماز پڑھئے، تسبیح و ذکر میں مشغول رہئے اور ہاتھ پھیلا کر اس کے سامنے گریہ و زاری کیجیے اور راتوں میں اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھئے اور دیر تک اپنے رب کی پاکی بیان کرت یر ہے۔ نماز اللہ کی مدد حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کوئی پریشانی لاحق ہوتی یا کوئی اہم معاملہ پیش آتا تو آپ فوراً نماز پڑھنے لگتے سورۃ البقرہ آیت (45) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (٣ استعینوا بالصبروا الصلاۃ) ” اور صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد طلب کرو“ اور سورۃ ق آیت (40) میں فرمایا ہے : (ومن اللیل فسبحنہ و اذبار السجود) ” اور رات کے کچھ حصے میں اللہ کی تسبیح کیجیے اور نمازوں کے بعد بھی“ رات میں اللہ کی تسبیح کرنے سے مراد تہجد کی نماز ہیے۔ الإنسان
24 الإنسان
25 الإنسان
26 الإنسان
27 (14) کفار مکہ اور دیگر کافروں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ لوگ دنیا کے عارضی فائدوں کو پسند کرتے ہیں اور انہی کے حصول کے لئے ان کی ساری تگ و دو ہے اور قیامت کے دن کی ہولناکیوں کو بھول بیٹھے ہیں، دنیا کی طرف ایسی دوڑ لگا رہے ہیں کہ آخرت کی طرف پیچھے مڑ کر دیکھتے بھی نہیں، گویا کہ دنیا کے لئے ہی پیدا کئے گئے ہیں اور انہیں موت نہیں آئے گی۔ الإنسان
28 (15) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہیں ہم نے پیدا کیا ہے اور ان جسموں میں اعصاب، رگیں، ریشے اور ہڈیاں پیدا کر کے انہیں مضبوط بنایا ہے اور جب ہم نے انہیں پہلی بار ایسا بنایا ہے تو یقیناً ہم انہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہیں، تاکہ ان کے اعمال کا انہیں بدلہ دیں اور ہم جب چاہیں اس پر بھی قادر ہیں کہ انہیں ہلاک کردیں اور ان کی جگہ انہی جیسی دوسری قوم کو لے آئیں، یا ان کی صورتوں کو مسخ کر کے انہیں غایت درجہ بد شکل بنا دیں۔ الإنسان
29 (16) اللہ تعالیٰ نے عبرتوں اور نصیحتوں سے بھری اس سورت کے خاتمہ میں فرمایا کہ مذکورہ بالا آیتیں عبرتوں سے پر ہیں، اب جو چاہے ایمان اور بندگی کی راہ پر چل کر اپنے رب کو راضی کرلے تاکہ آخرت میں سرخ رو ہو اور عذاب نار سے بچ جائے۔ آیت (30) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگو ! صراط مستقیم پر چلن کی تمہاری مشیت، اللہ کی مشیت کے تابع ہے، یعنی جب اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت دینا چاہے گا اور تمہیں خیر کی توفیق دے گا، تبھی تم اس پر چل سکو گے۔ الإنسان
30 (17) مذکورہ بالا بات کی مزید تاکید کے طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کردیتا ہے اس کی مشیت میں کوئی دخل انداز نہیں ہوسکتا اور ظالموں کے لئے اس نے درد ناک عذاب تیار کیا ہے، اس کے فیصلوں کو کوئی نہیں بدل سکتا اس لئے بندوں کو چاہئے کہ وہ اپنے رب سے اس کی رحمت کا سوال کریں، اس سے خیر کی توفیق، اور آخرت کے عذاب سے نجات مانگیں، وباللہ التوفیق۔ الإنسان
31 الإنسان
0 تفسیر سورۃ المرسلات نام : پہلی آیت میں ہی ” المرسلات“ کا لفظ آیا ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے، اس کا دوسرا نام ” سورۃ العرف“ بھی ہے، لفظ ” العرف“ بھی پہلی ہی آیت میں آیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت مکی ہے، فتادہ نے صرف آیت (٨٤) (واذا قبل لھم ارکعوا لایرکعون) کو مدنی کہا ہے، ابن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ منیٰ کے ایک غار میں تھے تو سورۃ ” والمرسلات عرفاً“ نازل ہوئی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑھتے جاتے تھے اور میں ان سے حاصل کرتا جاتا تھا، الحدیث المرسلات
1 (١) جمہور مفسرین کا قول ہے کہ ” والمرسلات عرفاً“ سے مراد ” خوشگوار ہوا“ ہے بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد ” فرشتے“ ہیں اور بعض نے ” انبیاء“ مراد لیا ہے پہلے قول کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان ہواؤں کی قسم کھائی ہے، جنہیں اللہ دنیا میں اپنے بغض اوامر نافذ کرنے کے لئے بھیجتا ہے دوسرے قول کے مطابق ان فرشتوں کی قسم کھائی ہے جو وحی الٰہی اور دیگر اوامرونواہی کے ساتھ دنیا میں بھیجخے جاتے ہیں اور تیسرے قول کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ان رسولوں کی قسم کھائی ہے جنہیں وہ اپنے بندوں کے پاس پیغام رسانی کے لئے بھیجتا ہے۔ ” عرفا“ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں کار خیر کے لئے بھیجتا ہے یا مفہوم یہ ہے کہ اللہ انہیں پے در پے بھیجتا ہے۔ ” العاصفات“ سے مراد تیز و تند ہوائیں ہیں اور ” الناشرات‘ سے مراد یا تو ہوئایں ہیں جو بادل اور بارش کو فضا میں پھیلا دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الروم آیت (٨٤) میں فرمایا ہے : (اللہ الذی یرسل الریاح فتبر سحابا فیسطہ فی السماء) ” اللہ ہی ہواؤں کو بھیجتا ہے جو بادل کو بکھیر دیتی ہیں، پھر اللہ تعالیٰ اسے آسمان میں پھیلا دیتا ہے۔“ یا اس سے مراد فرشتے ہیں جو زمین میں احکام شریعت، علم و حکمت اور نبوت و ہدایت کو پھیلا دیتے ہیں، حافظ ابن کثیر کے نزدیک راجح یہی ہے کہ المرسلات، العاصفات اور الناشرات تینوں سے مراد ہوائیں ہیں، جن کی تفصیل اوپر گذر چکی۔ ” الفارقات“ سے مراد وہ فرشتے ہیں جو وحی لے کر حق و باطل اور حلال و حرام کے درمیان تفریق کرنے کے لئے آسمان سے زمین پر آتے ہیں، یا وہ قرآنی آیات ہیں جو حق و باطل کے درمیان تفریق کرتی ہیں، یا وہ ہوائیں ہیں جو بادل کو چاروں طرف بکھیر دیتی ہیں۔ (الملقیات“ سے مراد وہ فرشتے ہیں جو اللہ کی اس وحی کو انبیائے کرام تک پہنچاتے ہیں، جن سے مقصود انسانوں کے لئے دین حق کی وضاحت کر دینی ہوتی ہے تاکہ ضلالت و گمراہی کے لئے کسی کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے، نیز مقصود انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرا دینا ہوتا ہے، تاہ اللہ کی نافرمانی نہ کریں۔ المرسلات
2 المرسلات
3 المرسلات
4 المرسلات
5 المرسلات
6 المرسلات
7 (٢) اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی چار قسم کی مخلوقات کی قسمیں کھانے کے بعد، اس آیت کریمہ میں وہ بات بیان کی ہے جس کی حقانیت و صداقت لوگوں کے دلوں میں بیٹھانے کے لئے اتنی ساری قسمیں کھائی ہیں فرمایا کہ جس قیامت کی آمد کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے یقیناً وہ آ کر رہے گی سورۃ الذاریات آیت (٦) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (وان الدین لواقع) ” اور بے شک قیامت ضرور آئے گی۔ “ المرسلات
8 (٣) جب قیامت واقع ہوجائے گی تو ستارے بکھر جائیں گے اور اپنی روشنی کھو دیں گے اور آسمان پھٹ جائیں گے اور اس کے اطراف و جوانب جھک جائیں گے، اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے اور غبار بن کر فضا میں اڑنے لگیں گے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ طہ آیت (٥٠١) میں فرمایا ہے : (ویسئالونک عن الجبال فقل یسفھا ربی نسفا) ” وہ آپ سے پہاڑوں کی نسبت پوچھتے ہیں، تو آپ کہہ دیجیے کہ انہیں میرا رب ریزہ ریزہ کر کے اڑا دے گا“ اور اس دن انبیاء و رسل کے لئے مقرر کیا ہوا وقت آجائے گا تاکہ ان کے اور ان کی امتوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے۔ المرسلات
9 المرسلات
10 المرسلات
11 المرسلات
12 (٤) انبیاء و رسل کے لئے فیصلے کا مقرر کیا ہوا وقت، ایک بہت ہی ہیبت ناک اور خطرناک دن تک مؤخر کردیا گیا ہے یہ وہ دن ہوگا جب کافروں کو رسوا کیا جائے گا اور وہ شدید عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے اور مومنوں کی تکریم ہوگی اور انہیں جنت میں داخل کیا کیا جائے اور اس دن آخرت سے متعلق وہ تمام باتیں کھل کر سامنے آجائیں گی جن سے انبیائے کرام اپنی قوموں کو ڈرایا کرتے تھے۔ قرآن کریم نے (لای یوم اجلت) میں استفہام کا اسلوب، اس دن کی ہیبت ناکی کے اظہار کے لئے اختیار کیا ہے، اور پھر کہا ہے : (لیوم الفصل) یعنی انبیاء و رسل کے لئے مقرر کیا ہوا وقت اس دن تک مؤخر کردیا گیا ہے جس دن تمام مخلوقات کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا اور پھر اس دن کی مزید ہیبت دل میں بیٹھانے کے لئے فرمایا : (وما ادراک ما یوم الفصل) ” تمہیں کیا معلوم کہ فیصلے کا وہ دن کیسا (ہیبت ناک اور خطرناک) ہوگا“ یعنی وہ نہایت ہی خطرناک دن ہوگا اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ دنیا میں اس فیصلے کے دن کو جھٹلاتے ہیں، ان کے لئے اس دن ہلاکت و بربادی ہوگی، اللہ تعالیٰ نے سورۃ المطففین آیات (10/١١) میں فرمایا ہے : (ویل یومئذللکمکبین الذین یکذبون بیوم الدین) ” اس دن جھٹلانے والوں کے لئے بڑی خرابی ہوگی جو قیامت کے دن کو جھٹلاتے ہیں۔ “ المرسلات
13 المرسلات
14 المرسلات
15 المرسلات
16 (٥) مندرجہ ذیل آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان کافر قوموں کا ذکر کیا ہے جو ماضی میں اپنے گناہوں کے سبب ہلاک کردی گئیں۔ فرمایا : کیا ہم نے ان قوموں کو ہلاک نہیں کردیا جنہوں نے ماضی میں ہمارے رسولوں کی تکذیب کی اور ہماری آیتوں کا انکار کیا، جیسے قوم نوح، قوم عاد اور ثوم ثمود ان کے بعد آنے والی جن قوموں کا بھی وہی وطیرہ رہا، ہم نے انہیں بھی نہیں چھوڑا اور ہم مجرمین کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی برتاؤ کرتے آئے ہیں۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ ان آیات میں مجرمین قریش کے لئے بہت بڑی دھمکی تھی کہ اگر انہوں نے اپنی حالت نہیں بدلی تو کیا تعجب ہے کہ انہیں بھی ہلاک کردیا جائے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آیت (19) میں فرمایا کہ ہلاکت و بربادی ہے ان مجرمین کے لئے جو اللہ کے رسول اور اس کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں۔ المرسلات
17 المرسلات
18 المرسلات
19 المرسلات
20 (٦) ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو اس کی حقیقت یاد دلائی ہے، جس کا تقاضا تھا کہ وہ کبر و غرور کے بجائے تواضح اختیار کرتا اور اللہ کی عظیم قدرت اور اس کے اتھاہ علم کا اعتراف کرتا، نیز اللہ تعالیٰ نے اس کے دل و دماغ میں عقیدہ بعث بعد الموت کو اتارنا چاہا کہ جس قادر مطلق نے تمہیں پہلی بار ایک قطرہ حقیر سے پیدا کیا ہے، وہ یقیناً تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لوگو ! کیا ہم نے تمہیں حقیر پانی کے ایک قطرہ سے پیدا نہیں کیا ہے، ہم نے اس قطرے کو رحم مادر تک پہنچایا جہاں جا کر وہ قرار پا گیا اور وہاں ایک مدت معلوم تک ٹھہرا رہا، اس میں نمو ہوتا رہا یہاں تک کہ وہ ایک مکمل ذی روح بچہ بن کر باہر نکل آنے کے قابل بن گیا، اللہ نے فرمایا : وہ اللہ تھا جس نے اس قطرہ منی کو رحم کی تاریکیوں میں مختلف مراحل سے گذارا، اور اس میں روح پھونک کر اسے باہر نکالا وہ برحق اللہ بڑا ہی زبردست قدرت والا ہے اور وہی تمام تعریفوں کا تنہا حقدار ہے اس لئے ہلاکت و بربادی ہے ان مجرمین کے لئے جو اللہ کے قادر مطلق اور علام الغیوب ہونے کا انکار کرتے ہیں یا اس بارے میں شبہ کرتے ہیں کہ وہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے۔ المرسلات
21 المرسلات
22 المرسلات
23 المرسلات
24 المرسلات
25 (٧) ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو اپنی بعض نعمتیں یاد دلائی ہیں جن کا تقاضا تھا کہ وہ اپنے رب کا شاکر و ذاکر بندہ بنتا اللہ نے فرمایا : لوگو ! کیا ہم نے زمین کو تمہارے زندوں اور مردوں کے لئے جائے سکونت نہیں بنایا ہے، تمہارے زندے زمین پر بنے منازل و مساکن میں پناہ لیتے ہیں اور تمہارے مردہ افراد کو زمین اپنے اندر جگہ دیتی ہے، انہیں اپنے آپ سے چمٹا لیتی ہے، جس طرح محلات و قصور اللہ کی نعمت ہیں، اسی طرح قبریں بھی اس کی نعمت ہیں، جن میں مردے دفن کردیئے جاتے ہیں، تاکہ جانور اور دوسری چیزیں ان کی اہانت نہ کریں، دفن میت کی اسی اہمیت کے پیش نظر حافظ ابن عبدالبر نے امام مالک کے شاگرد ابن القاسم کا یہ قول نقل کیا ہے کہ کفن چور کا ہاتھ کاٹ لینا شرع ہے، انہوں نے اسی آیت سے استدلال کیا ہے اور کہا ہے کہ قبر کی حیثیت مردہ کے لئے ویسی ہی ہے جیسی زندگی کے لئے گھر کی۔ آیت (27) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لوگو ! کیا ہم نے زمین پر بڑے اونچے پہاڑوں کے کھونٹے نہیں گاڑ دیئے ہیں، تاکہ اس میں حرکت نہ پیدا ہو، اور تم اس پر بسہولت زندگی گذار سکو اور کیا ہم نے تمہیں میٹھا صاف پانی نہیں پلایا ہے ان تمام سوالوں کا جواب ایک ہے کہ ہاں، یقیناً یہ ساری نعمتیں اللہ کی دی ہوئی ہیں تو پھر اے کافرو ! تم کیوں اللہ کی نعمتوں کو جھٹلاتے ہو، کیوں اس کے رسول اور اس کی کاتب کی تکذیب کرتے ہو، یاد رکھو کہ قیامت کے دن ہلاکت و بربادی ہے ایسے جھٹلانے والوں کے لئے المرسلات
26 المرسلات
27 المرسلات
28 المرسلات
29 (٨) جو لوگ دنیا کی زندگی میں آخرت اور عذاب نار کو جھٹلاتے تھے، قیامت کے دن ان سے جہنم پر مامور فرشتے کہیں گے کہ جس جہنم کی تم تکذیب کرتے تھے اس میں داخل ہوجاؤ، تم لوگ جہنم کے دھواں کے اس سائے کی طرف بڑھتے چلے جاؤ، جو اوپر اٹھتا چلا گیا ہے اور اوپر جا کر اپنی شدت سوزش کی وجہ سے تین مہیب شعلوں میں بٹ گیا ہے، وہ سایہ کسی درخت یا دیوار کے سائے کے مانند نہیں ہوگا جو آدمی کو دھوپ کی تمازت سے بچاتا ہے، اس لئے وہ جہنمی کو آگ کی تپش سے نہیں بچائے گا، وہ آگ ایسی ہوگی جسسے محلات و قصور کی مانند عظیم انگارے چھوٹتے رہیں گے، جو اپنی سیاہی اور زردی کی وجہ سے زردی مائل کالے اونٹوں کے مانند ہوں گے یعنی وہ انگارے نہایت ہی ہیبت ناک ہوں گے سورۃ الزمر آیت (16) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (لھم من فوقھم ظلل من النارون تحتھم ظلل) ” جہنمیوں کے لئے ان کے اوپر سے آگ کے شعلے مثل سائبان کے ہوں گے اور ان کے نیچے سے بھی ویسے ہی آگ کے شعلے مثل سائبان کے ہوں گے“ اور سورۃ الاعراف آیت (41) میں فرمایا ہے : (لھم من جھنم مھادومن فوقھم غواش) ” جہنمیوں کے لئے جہنم کی آگ کا بچھونا ہوگا اور ان کے اوپر اسی کا اوڑھنا ہوگا“ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہلاکت و بربادی ہے ان کے لئے جو دنیا میں روز آخرت، جنت، جہنم اور اللہ کے رسول اور اس کے قرآن کی تکذیب کرتے ہیں۔ المرسلات
30 المرسلات
31 المرسلات
32 المرسلات
33 المرسلات
34 المرسلات
35 (٩) اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلانے والوں کے لئے وہ دن اتنا سخت ہوگا کہ خوف و دہشت کے مارے ان کی زبانیں گنگ ہوں گی، ایک کملہ بھی ان کے منہ سے نہیں نکلے گا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ قیامت کے دن اہل موقف کئی حالات سے گذریں گے، بعض حالات میں وہ بات کریں گے بلکہ آپس میں ایک دوسرے سے جھگڑیں گے، جیسا کہ سورۃ الزمر آیت (31) میں آیا ہے : (ثم انکم یوم القیامۃ عندربکم تختصمون) ” پھر تم لوگ قیامت کے دن اپنے رب کے پاس ایک دوسرے سے جھگڑو گے“ اور بعض حالات میں مارے دہشت کے ان کی زبان سے ایک کملہ بھی نہیں نکلے گا، جیسا کہ یہاں آیا ہے اور بعض حالات میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی، جیسا کہ سورۃ یٰسین آیت (٥٦) میں آیا ہے : (الیوم نختم علی افواھم) ” ہم آج کے دن ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے۔ “ اور ان جھٹلانے والوں کو اس دن عذر پیش کرنے کی اجازت ہی نہیں دی جائے گی، تاکہ وہ اپنا عذر پیش کریں، سورۃ النحل آیت (84) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (ثم لایوذن للذین کفروا ولا ھم یستفتبون) ” پھر کافروں کو (معذرت پیش کرنے کی) اجازت نہیں دی جائے گی، اور نہ ان سے توبہ کرنے کو کہا جائے گا“ المرسلات
36 المرسلات
37 المرسلات
38 (10) اس دن آخرت کی تکذیب کرنے والے کافروں سے کہا جائے گا کہ یہی وہ فیصلے کا دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، آج ہم نے میدان محشر میں تمہیں اور تم ہی جیسے ماضی میں یوم آخرت کی تکذیب کرنے والوں کو جمع کردیا ہے، اگر اپنی نجات کے لئے کوئی بھی تدبیر کرسکتے ہو تو میرے عذاب سے بچنے کے لئے کر ڈالو۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس انداز کلام سے مقصود جہنمیوں کو روحانی عذاب دینا ہوگا۔ جو جسمانی عذاب سے زیادہ سخت ہوگا، ورنہ معلوم ہے کہ اس دن جہنمی بے یارو مددگار ہوں گے، ان کے دل و دماغ پر حسرت و ناامیدی کا ایک کثیف بادل چھایا ہوگا، اور اپنی نجات سے قطعی طور پر ناامید ہوچکے ہوں گے۔ اس دن ہلاکت و بربادی ہوگی ان کافروں کے لئے جو اللہ کے رسول، اس کی کتاب اور روز آخرت کو جھٹلاتے ہیں۔ المرسلات
39 المرسلات
40 المرسلات
41 (١١) قرآن کریم اپنے معہود طریقے کے مطاق جھٹلانے والے کافروں کا انجام بیان کرنے کے بعد، اب اللہ سے ڈرنے والوں کا ذکر کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جو لوگ اللہ کی گرفت سے ڈرتے ہوئے، فرائض کو ادا کرتے ہیں اور گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں وہ گھنے درختوں کے سائے میں ہوں گے اور ان درختوں کے درمیان سے نہریں جاری ہوں گی اور وہ جن پھلوں کی خواہش کریں گے اپنے سامنے پائیں گے اور ان کی غایت تکریم کے لئے اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا کہ تم لوگ دنیا میں کئے گئے اپنے اعمال صالحہ کے بدلے جو چاہو کھاؤ اور پیو اور راحت و آسائش کی زندگی گذارو ہم اپنے رب سے ڈرنے والوں اور ایمان و عمل صالح والی زندگی گذارنے والوں کو ایسا ہی اچھا بدلہ دیتے ہیں۔ لیکن اس دن ہلاکت و بربادی ہوگی ان کافروں کے لئے جو اللہ، اس کے رسول، اس کی کتاب، اور روز آخرت کو جھٹلاتے ہیں۔ المرسلات
42 المرسلات
43 المرسلات
44 المرسلات
45 المرسلات
46 (12) مشرکین مکہ سے بطور دھمکی کہا جا رہا ہے کہ اے مجرمین ! کھاؤ پیو اور تھوڑے دنوں کے لئے خوب عیش کرلو، عنقریب تم اپنے انجام کو پہنچنے والے ہو چنانچہ اکثر صنادید قریش میدان بدر میں مارے گئے اور قیامت کے دن ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ ہلاکت و بربادی ہوگی تم جیسوں کے لئے جو اللہ اس کے رسول، اس کی کتاب اور روز آخرت کو جھٹلاتے ہیں۔ المرسلات
47 المرسلات
48 (13) ان مجرمین مکہ سے جب کہا جاتا تھا کہ تم لوگ دین حق کو قبول کرلو، اللہ کے نماز پڑھو اور اس کے لئے خشوع و خضوع اختیار کرو تو ان کی گردنیں اکڑ جاتی تھیں، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ ہلاکت و بربادی ہوگی اس دن ان جیسوں کے لئے جو اللہ، اس کے رسول، اس کی کتاب اور روز آخرت کو جھٹلاتے ہیں۔ المرسلات
49 المرسلات
50 (٤١) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کفار قریش نے جب اس قرآن کو جھٹلا دیا ہے، جس کے اللہ کی کتاب ہونے کے دلائل روز روشن کی طرح واضح ہیں تو پھر وہ کس کتاب پر ایمان لائیں گے یعنی اگر وہ اس کتاب پر ایمان نہیں لائیں گے تو کفر و ضلالت کی تاریکیوں میں بھٹکتے رہیں گے، یہاں تک کہ موت انہیں آدبوچکے گی اور ہمیشہ کے لئے جہنم رسید ہوجائیں گے اور ایک انسا نکی اس سے بڑھ کر بدنصیبی کیا ہو سکتی ہے کہ اس کی موت کفر پر ہو اور مرنے کے بعد اس کا ٹھکانا جہنم ہو (اعاذنا اللہ من نارجھنم وباللہ التوفیق) المرسلات
0 سورۃ النبا مکی ہے، اس میں چالیس آیتیں اور دو رکوع ہیں ُتفسیر سورۃ النبا نام : دوسری آیت میں لفظ ” النباء“ آیا ے، جس سے مراد ” روز قیامت“ ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت سب کے نزدیک مکی ہے، ابن مردویہ اور بیہقی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ (عم یتسآء لون) مکہ میں نازل ہوئی تھی، ابن مردویہ نے ابن زبیر (رض) سے بھی یہی روایت کی ہے۔ النبأ
1 (١) امام شوکانی کے واحدی کے حوالے سے مفسرین کا قول نقل کیا ہے، کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے، کفار مکہ کے سامنے توحید باری تعالیٰ اور بعث بعد الموت کی بات کی اور حقائق سے متعلق قرآنی آیات کی تلاوت کی، تو وہ آپس میں باتیں کرنے لگے کہ محمد کس روز قیامت کی بات کر رہا ہے اور یہ کیسا کلام پیش کرتا ہے؟ ! اللہ تعالیٰ نے (عم یتسآئلون) نازل فرمایا اور استفہامی طریقہ تعبیر استعمال کر کے پہلے مشرکین مکہ کے ذہنوں کو اس بات کی اہمیت کی طرف مبذول کرایا جس کا ذکر ابھی آنے والا ہے، پھر کہا (عن النبا العظیم) یعنی جس بعث بعد الموت اور قیامت کے بارے میں وہ آپس میں باتیں کرتے ہیں وہ تو بڑا ہی عظیم دن ہوگا اور اس کی خبر بڑی ہی عظیم خبر ہے۔ مجاہد وغیرہ نے ” نباء عظیم“ سے مراد قرآن کریم ہے اور اس پر استدلال آیت (٣) (الذی ھم فیہ مختلفون) سے کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ مشرکین مکہ نے ابتدائے اسلام میں قرآن کریم کے بارے میں ہی اختلاف کیا تھا، کسی نے اسے جادو کسی نے شعر کسی نے کہانت، اور کسی نے اسے اقوام گزشتہ کے قصے کہا تھا ان دنوں ” بعث بعد الموت“ کے انکار پر تو تمام کفار متفق تھے شوکانی لکھتے ہیں کہ ” نباء عظیم“ سے مراد قرآن کریم ہونے کی دلیل سورۃ ص کی آیات (٦٧/٦٨) ہیں جن میں قرآن کریم کو ” نباء عظیم“ کہا گیا ہے۔ جن لوگوں نے ” نباء عظیم“ سے مراد ” بعث بعد الموت“ لیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ مردوں کا دوبارہ زندہ کیا جانا ہی ہی وہ بات تھی جس کا مشرکین انکار کرتے تھے اور جسے ان کی جاہلانہ عقل قبول نہیں کرتی تھی نیز یہود و نصاریٰ بعث بعدالموت کی کیفیت میں اختلاف کرتے تھے اور کفار عرب میں سے بعض اس کا قطعی انکار کرتے تھے اور بعض کو اس میں شبہ تھا۔ تیسری رائے یہ ہے کہ بعث بعدالموت کے بارے میں پوچھنے والے مومنین اور کفار سبھی تھے، مومنین نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مزید دینی بصیرت اور یقین حاصل کرنے کے لئے سوال کرتے تھے اور کفار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کا مذاق اڑانے کے لئے پوچھتے تھے کہ وہ بعث بعد الموت جس کی تم بات کرتے ہو آخر ہو آخر وہ کب ہوگا ؟! النبأ
2 النبأ
3 النبأ
4 (٢) آیات (٤، ٥) دلیل ہیں کہ بعث بعد الموت کے بارے میں پوچھنے والے وہ کفار تھے جو اس کا انکار کرتے تھے، اس لئے کہ ان دونوں آیتوں میں موجود دھمکی اور وعید شدید صرفک افروں کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ اپنی روح نکلتے وقت تکذیب بعث بعد الموت اور انکار توحید و رسالت کا انجام اچھی طرح جان لیں گے اور جب اپنی قبروں سے زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے اور جہنم کی طرف بھیجے جائیں گے تو انہیں اپنے کفر و انکار کا نتیجہ خوب معلوم ہوجائے گا۔ النبأ
5 النبأ
6 (٣) ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت، علم اور رحمت کے مظاہر بیان کئے ہیں جن میں غور و فکر کرنا باری تعالیٰ کی وحدانیت اور عقیدہ بعث بعد الموت پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لوگو ! کیا ہم نے زمین کو تمہارے لئے فرش نہیں بنایا ہے، جس پر تم کھیتی کرتے ہو، آرام سے زندگی گذارتے ہو، اور اس پر موجود راستوں پر چل کر دور دراز کا سفر کرتے ہو اور کیا ہم نے پہاڑوں کو زمین کے لئے کھونٹا نہیں بنایا ہے تاکہ اس میں حرکت نہ پیدا ہو اور تم اس پر راحت و سکن کے ساتھ زندگی بسر کرسکو زمین کو ثابت و ساکن رکھنے کے لئے پہاڑوں کی حیثیت وہی ہے جو خیموں کے لئے لکڑیوں کی ہوتی ہے، جس طرح خیمے کی لکڑیاں اسے ہر چہار جانب سے کھینچ کر رکھتی ہیں، اسی طرح پہاڑ زمین کے کناروں کو کھینچ کر رکھتے ہیں، ورنہ زمین اپنے داخلی مادوں میں جوش و خروش کی وجہ سے ہر وقت ہلتی رہتی، اور مخلوق اس پر زندگی نہ گذار سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور ہم نے تمہیں مذکر و مؤنث بنایا ہے، تاکہ تمہارے درمیان انس و محبت پیدا ہو، اور تاکہ زندگی کے مسائل حل کرنے اور نسل انسانی کی افزائش اور اس کی تعلیم و تربیت میں تم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کروتخلیق انسانی اور ان کا مذکر و مؤنث ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت، اس کے علم، اور اس کی حکمت و رحمت کے مظاہر ہیں۔ اور ہم نے تمہاری نیند کو تمہاری راحت و سکون کا سبب بنایا ہے اگر نیند نہ آتی تو آدمی کا بدن تھک کر چور ہوجاتا، اس کا سکون چھن جاتا اور اسے جنون لاحق ہوجاتا۔ نیند اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جس کے ذریعہ آدمی کی کھوئی ہوئی طاقت واپس آجاتی ہے اور وہ تازہ دم ہو کر دوبارہ کاروبار حیات میں سرگرم ہوجاتا ہے۔ اور ہم نے رات کو تمہارے لئے لباس بنایا ہے، جس طرح لباس آدمی کے جسم کو ڈھانک لیتا ہے، اسیرطح رات کی تاریکی اسے ڈھانک لیتی ہے اور اسے سکون و راحت پہنچاتی ہے۔ اور ہم نے دن کو تلاش معاش کا وقت بنایا ہے انسان دن کی روشنی میں اپنی اور اپنے بال بچوں کی روزی حاصل کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں چلاتا ہے، ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے اور مشاغل زراعت و تجاتر میں لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ پھر رات آجای ہے یہ تمام چیزیں باری تعالیٰ کیقدرت اس کے علم اور اس کی حکمت و رحمت کے مظاہر ہیں۔ النبأ
7 النبأ
8 النبأ
9 النبأ
10 النبأ
11 النبأ
12 (٤) اللہ تعالیٰ نے اپنے مزید مظاہر قدرت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : لوگو ! ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے ہیں جن کی ساخت بہت ہی محکم اور مضبوط ہے، زمانے کی گردش ان میں اثر انداز نہیں ہوتی ہے جب سے اللہ نے انہیں بنایا ہے اب تک ان میں کوئی سوراخ یا شگاف نہیں پدیا ہوا ہے۔ جوں کے توں ہیں اور رہیں گے، یہاں تک کہ جب قیامت آئے گی تو وہ اللہ کے حکم سے زوال پذیر ہوجائیں گے۔ اور ہم نے آفتاب کو پیدا کیا ہے جو دنیا والوں کو دن کی روشنی دیتا ہے اور اس میں تمازت و حرارت ہے جس کے سبب پھل پکتے ہیں اور دیگر کئی منافع ہیں۔ اور ہم بادلوں سے موسلا دھار بارش برساتے ہیں، تاکہ اس کے ذریعہ گیہوں، جو، باجرہ، چاول اور دیگر دانے نکالیں جنہیں انسان کھاتے ہیں اور ان پودوں کو نکالیں جنہیں ان کے مویشی کھاتے ہیں اور گھنے درختوں کو پیدا کریں جن کی ڈالیں آپس میں گتھی ہوتی ہیں اور جن سے مختلف الانواع پھل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں دلیل ہیں کہ ان کا خالق ایسی قدرت والا ہے جسسے بڑھ کر کوئی قدرت نہیں اور ایسا علیم ہے جس کا علم ہر چیز کو محیط ہے اور ایسا حکیم ہے جس کا کوئی فعل حکمت سے خالین ہیں اور ایسا رحیم ہے جس کی رحمت اس کی تمام مخلوق کے لئے عام ہے، جو اللہ ایسی قدرت، ایسے علم اور ایسی حکمت و رحمت والا ہے، اس کے بارے میں نادان منکرین آخرت کیسے گمان کرتے ہیں کہ وہ انسانوں کو دوبارہ زندہ نہیں کرے گا اور انیں ان کے اچھے اور برے اعمال کا بدلہ نہیں دے گا، یہ کیسی نامعقول سی بات ہے کہ ظالم و مجرم اس دنیا میں دندناتے پھریں، جو چاہیں کریں اور کوئی دوسری زندگی نہ ہو جہاں انہیں ان کے کرتتوں کا بدلہ ملے۔ یقیناً ایک دوسری زندگی ہے، جس میں انسانوں کا خالق و مالک ان سے حساب لے گا اور انہیں جزا و سزا دے گا۔ النبأ
13 النبأ
14 النبأ
15 النبأ
16 النبأ
17 (٥) اللہ تعالیٰ نے بعث بعد الموت کے امکان پر اپنے مظاہر قدرت کے دلائل پیش کرنے کے بعد، ذیل کی آیتوں میں کائنات میں ہونے والے ان حادثات و انقلابات کا ذکر فرمایا ہے جو وقوع قیامت کے وقت رونما ہوں گے، نیز ان انسانوں کا انجام بیان کیا ہے جنہوں نے دنیا میں اپنے رب سے سرکشی کی تھی۔ فرمایا کہ مخلوق کے درمیان فیصلے کا دن، اللہ کی جانب سے سب کے لئے مقرر ہے، اس دن اللہ کے وعدے کے مطابق سب اپنے اعمال کا ثواب اور عقاب پائیں گے۔ یہ وہ دن ہوگا جب اسرافیل دوسرا صور پھونکیں گے، تو تمام روحیں اپنے جسموں میں لوٹ جائیں گی اور لوگ میدان محشر کی طرف مختلف جماعتوں اور گروہوں کی شکل میں دوڑ پڑیں گے اور آسمان پھٹ کر اس طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے کہ ان میں بے شمار دروازے بن جائیں گے اور پہاڑ اپنی جگہوں سے اکھاڑ کر ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے اور ہوا میں غبار کی طرح بکھیر دیئے جائیں گے، جسے دیکھ کر لوگ سراب تصور کریں گے۔ النبأ
18 النبأ
19 النبأ
20 النبأ
21 (٦) اس دن اللہ تعالیٰ مخلوق کے درمیان فیصلہ کرے گا اور جہنم کی آگ تیز کردی جائے گی جو سرکشوں کے شدید انتظار میں تھی اور جو ان کا ٹھکانا بنے گی اور جس میں وہ ہمیشہ کیلئے رہیں گے جب ایک زمانہ گذرے گا تو دوسرا زمانہ شروع ہوجائے گا اور ان کا عذاب کبھی ختم نہیں ہوگا واحدی نے حسن بصری سے ” احقابا“ کی یہی تفسیر روایت کی ہے اور جہاں انہیں کوئی ایسی ٹھنڈی چیز نہیں ملے گی جو آگ کی گرمی کو کم کرسکے اور نہ کوئی ایسی پینے کی چیز ملے گی جو ان کی پیاس بجھا سکے، انہیں پینے کے لئے شدید گرم پانی اور اہل جہنم کے جسموں کی پیپ ملے گی، انہوں نے دنیا میں جو جرائم اور برے اعمال کئے تھے ان کا انہیں پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اللہ ان پر ظلم نہیں کرے گا بلکہ وہ اپنے حق میں خود ہی ظالم تھے۔ النبأ
22 النبأ
23 النبأ
24 النبأ
25 النبأ
26 النبأ
27 (٧) انہوں نے اپنے آپ پر ظلم اس طرح کیا تھا کہ انہیں آخرت پر یقین نہیں تھا، وہ سمجھتے تھے کہ حساب اور جزا و سزا کا کوئی دن آنے والا نہیں ہے، اسی لئے انہوں نے آخرت میں نجات پانے کے لئے کوئی کار خیر نہیں کیا ہماری آیتوں کی تکذیبکی، اور ہمارے انبیاء جو نشانیاں لے کر ان یک پاس آئے ان کا انکار کیا، لیکن ہم ان کے چھوٹے بڑے تمام گناہوں کو ریکارڈ کرتے رہے اس لئے مجرمین آج یہ نہسمجھیں کہ ہم ان پر ظلم کر رہے ہیں اور انہیں ناکردہ گناہوں کی سزا دے رہے ہیں ہمت و ایک ایک ذرہ کو ضبط تحریر میں لاتے رہے ہیں۔ سورۃ الکہف آیت (٤٩) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (ووضعالکتاب فتری المجرمین مشفقین ممافیہ ویقولن یویلتنا مالھذا الکتاب لایغادر صغیرۃ لاکبیرۃ الا احصاھا ووجدوا ماعملوا حاضر اولا یظلم ربک احدا) ” اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیئے جائیں گے، پس دیکھیں گے کہ گناہگار اس کی تحریر سے خوفزدہ ہو رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے، ہائے ہماری خرابی، کیسی کتاب ہے جس نے کوئی چھوٹا بڑا بغیر گھیرے کے باقی ہی نہیں چھوڑا اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا سب موجود پائیں گے اور آپ کا رب کسی پر ظلم و ستم نہیں کرے گا۔ “ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان مجرمین سے ان کا ذہنی کرب والم بڑھانے کے لئے کہے گا کہ اب جہنم کے عذاب کا مزا چکھتے رہو، اب تو ہم تمہارے عذاب میں اضافہ ہی کرتے رہیں گے، اب تمہارے لئے چین و آرام کہاں ہے جب بھی تمہارے چمڑے جل جائیں گے ہم انہیں بدل دیں گے اور جب بھی آگ دھیمی ہوگی ہم اس کیتیزی کو بڑھا دیں گے۔ (اجارنا اللہ من النار) النبأ
28 النبأ
29 النبأ
30 النبأ
31 (٨) اوپر کی آیتوں میں مجرمین اور سرکشوں کا انجام بد بیان کئے جانے کے بعد، اب اہل تقویٰ اور نیک لوگوں کا مآل خیر بیان کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جو لوگ اپنے رب کی رضا کی خاطر اس کی بندگی کریں گے اور گناہوں سے بچیں گے وہ نار جہنم سے نجات پائیں گے اور جنت کی نعمتیں پا کر فائز المرام ہوں گے، اس جنت میں ان کے لئے انواع و اقسام کے پھلدار درخت ہوں گے، انگوروں کے گچھے ہوں گے، نوخیز ہم عمر بیویاں ہوں گی جن کی عمرتیتیس سال سے متجاوز نہیں ہوگی اور نہایت لذیذ شراب سے بھرے پیالے ہوں گے۔ اہل جنت ان جنتوں میں نہ کوئی بے ہو دہ بات سنیں گے، جس میں کوئی فائدہ نہ ہو اور نہ وہ کوئی ایسی بات کریں گے جس پر ایک دوسرے کو جھٹلائیں گے۔ سورۃ الواقعہ آیت (٥) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (لایسمعون فیھا لغوا ولاتاتیما، الا قیلا سلاماً سلاماً) ” نہ وہاں بکواس سنیں گے اور نہ گناہ کی بات، صرف سلام ہی سلام کی آواز آئے گی۔ “ مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ کے سچے بندوں کو دنیا میں بے ہودہ جھوٹی باتوں سے بہت اذیت ہوتی ہے، اسی لئے جنت میں بھی اللہ تعالیٰ انہیں ایسی اذیت ناک فعل و کیفیت سے دور رکھے گا اور یہ ساری نعمتیں انہیں ان کے رب کی طرف سے ان کے نیک اعمال کا بدلہ ہوگی اور دراصل یہ سب کچھ ان کے رب کا ان پر احسان عظیم ہوگا کہ اس نے انہیں دنیا میں نیک عمل کی توفیق دی جو اللہ کے فضل و کرم کا بہانا بنا۔ النبأ
32 النبأ
33 النبأ
34 النبأ
35 النبأ
36 النبأ
37 (٩) ان کے جس رب نے ان پر یہ احسانات کئے، وہی آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا رب ہے، اسی نے انہیں پیدا کیا ہے، وہی ان کا نگراں و محافظ اور مدبر و کار ساز ہے، اور وہ ” رحمٰن“ ہے، اس کی رحمت ہر چیز کو شامل ہے اور وہی سب کا پالنہار ہے۔ اور وہ شہنشاہ دو جہان قیامت کے دن جب مخلوق کا حساب لینے کے لئے فارغ ہوگا، تو ساری مخلوق اس کے سامنے اسکی عظمت و جلال سے ایسی مرعوب ہوگی کہ کسی کو اس کے سامنے زبان کھولنے کی جرأت نہیں ہوی ایک مدت کے بعد صرف وہ لوگ دوسروں کی شفاعت کے لئے اللہ سے بات کریں گے جنہیں وہ قہار و جبار بات کرنے کی اجازت دے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد والی آیت (٣٨) میں فرمایا ہے کہ جس دن روح اور فرشتے صفیں باندھ کر کھڑے ہوں گے تو کوئی کلام نہ کرسکے گا مگر جسے رحمٰن اجازت دے دے اور وہ ٹھیک بات زبان سے نکالے۔ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ نبی کریم اللہ تعالیٰ میدان محشر میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے بات کریں گے، عرش کے نیچے سجدے میں گر جائیں گے اور اللہ کی ایسی تعریفیں کریں گے جو اللہ ان کے دل میں اسی وقت ڈالے گا، تب اللہ عزو جل ان سے کہے گا :” اپنا سر اٹھایئے، مانگئے آپ کو دیا جائے گا، اور شفاعت کیجیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ “ آیت (٣٨) میں ” روح“ سے مراد (قول راجح کے مطابق) جبریل (علیہ السلام) ہیں، جنہیں سورۃ البقرہ کی آیات (٨٧ اور ٣٥٣) میں، سورۃ المائدہ کی آیت (١١٠) میں اور سورۃ النحل کی آیت (١٠٢) میں (روح القدس) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ النبأ
38 النبأ
39 (١٠) اللہ تعالیٰ نے روز قیامت، اس دن کے وعدہ وعید اور جز او سزا کا ذکر کرنے کے بعد، مزید تاکید کے طور پر فرمایا کہ جس روز قیامت کا ذکر اوپر ہوا، اس کا آنا امر یقینی ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں، اس لئے جو شخص اس دن سرخرو ہونا چاہتا ہے، وہ اللہ، اس کے رسول اور آخرت پر ایمان لا کر گناہوں سے بچے، اور عمل صالح کر کے رب العالمین سے قربت حاصل کرے۔ النبأ
40 (١١) اللہ تعالیٰ نے از راہ کرم اپنے بندوں کو سورت کی آخری آیت میں مکرر وارننگ دے دی کہ لوگو ! ہم نے تمہیں اس عذاب سے ڈرا دیا ہے، جس کی گھڑی سر پر کھڑی ہے، موت آتے ہی وہ گھڑی آجائے گی اور قیامت بھی قریب ہی ہے، اس لئے کہ ہر آنے والی چیز قریب ہی ہوتی ہے اس دن ہر آدمی اپنے اچھے اور برے عمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھے گا اور اچھے کو جنت کی طرف لے جایا جائے گا اور برے کو جہنم کی آگ کی طرفتب کافر پر حسرت ویاس کا گہرا بادل چھا جائے گا، اس کی آنکھیں مارے رعب و دہشت کے پتھرا جائیں گی اور کچھ بھی نہ بن پڑے گا تو کہنیل گے گا، کاش ! میں بھی جانوروں کی طرف مٹی ہوگیا ہوتا، تاکہ اس عذاب نار سے بچ جاتا، لیکن ان حسرتوں کا اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اور جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔ (اعاذنا اللہ من النار) النبأ
0 سورۃ النازعات مکی ہے، اس میں چھیالیس آیتیں اور دو رکوع ہیں تفسیر سورۃ النازعات نام : پہلی آیت میں لفظ ” النازعات“ آیا ہے، یہیاس کا نام رکھ دیا گیا ہے مفسرین نے اس کا نام ” الساھرۃ“ اور ” الطامۃ“ بھی بتایا ہے۔ ” الساھرۃ“ آیت (١٤) میں اور ” الطامۃ“ آیت (٣٤) میں آیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت بالا اتفاق مکی ہے ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے اور ابن مردویہ نے ابن زبیر (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ النازعات مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ النازعات
1 (١) اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی پانچ ابتدائی آیتوں میں (قول راجح کے مطابق) فرشتوں کی قسم کھائی ہے اور ان یک پانچ قسم کے کاموں اور اوصاف کی وجہ سے انہیں پ انچ قسم کے فرشتے قرار دیا ہے اور جس بات کو انسانوں کے ذہن میں بٹھانے کیلئے قسم کھائی ہے وہ محذوف ہے اس لئے ان آیتوں کا مفہوم یہ ہے : ان فرشتوں کی قسم جن کے اوصاف اوپر بیان کئے گئے، تم لوگ دوبارہضرور زندہ کر کے اٹھائے جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان فرشتوں کی قسم ! جو کافر انسانوں کی روحوں کو پوری قوت و شدت کے ساتھ نکالتے ہیں اور ان فرشتوں کی قسم ! جو مومنوں کی روحوں کو تیزی اور نرمی کے ساتھ نکالتے ہیں، اور ان فرشتوں کی قسم ! جو آسمانوں سے اللہ کے احکام واوامرلے کر زمین کی طرف اترتے ہیں، گویا کہ وہ تیرتے ہیں اور ان فرشتوں کی قسم ! جو اللہ کی وحی کی طرف لپکتے ہیں اور شیاطین سے سبقت کر کے اسے اللہ کے رسولوں تک بحفاظت پہنچاتے ہیں، تاکہ شیاطین انہیں چوری چھپے سن نہ لیں اور ان فرشتوں کی قسم جنہیں اللہ تعالیٰ نے عالم بالا و زیریں کے بہت سارے کام سپرد کر رکھے ہیں، جیسے بارش برسانا، پودے اگانا، ہواؤں، سمندروں، حیوانات، رحم مادر میں بچوں کی نگہداشت اور جنت و جہنم وغیرہ کا انتظام و انصرام ان پانچوں قسموں کے فرشتوں کی قسم، تم دوبارہضرور زندہ کر کے اٹھائے جاؤ گے۔ النازعات
2 النازعات
3 النازعات
4 النازعات
5 النازعات
6 (٢) جب اسرافیل (علیہ السلام) پہلا صور پھونکیں گے، تو اس کے زیر اثر تمام مخلوق مر جائے گی، پھر جب وہ دوسرا صور پھونکیں گے تو سارے لوگ زندہ ہو کر کھڑے ہوجائیں گے، صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ دونوں صوروں کے درمیان چالیس سال کا وقفہ ہوگا پہلے صور کو ” راجفۃ“ اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ایک ایسی خطرناک اور ہیبت ناک چیخ ہوگی جس سے سارا عالم اضطراب میں مبتلا ہوجائے گا، اور سب پر ایک کپکپی طاری ہوجائے گی، پھر سب مر جائیں گے اور دوسرے صور کو ” رادفۃ“ اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ پہلے صور کے بعد ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الزمر آیت (٦٨) میں فرمایا ہے : (ونفخ فی الصور فصعق من فی السماوات ومن فی الارض الا من شاء اللہ ثم نفخ فیہ اخری فاذا ھم قیام ینظرون) ” اور صور پھونک دیا جائے گا، پس آسمانوں اور زمین والے سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے، مگر جسے اللہ چاہے گا پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا، پس وہ ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے۔ “ النازعات
7 النازعات
8 (٣) اس دن تمام انسانوں کے دل تراساں، ہراساں اور خوفزدہ ہوں گے اور نظریں مارے خوف و دہشت کے جھکی ہوں گی۔ النازعات
9 النازعات
10 (٤) جو مشرکین مکہ بعث بعدالموت کا انکار کرتے تھے ان کی حالت بیان کی گئی ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم لوگ دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے تو انہیں اس بات سے شدید حیرت ہوتی ہے اور کہتے ہیں یہ بالکل غیر معقول ہے کہ مرنے سے پہلے ہماری جو حالت تھی، مرنے کے بعد دوبارہ پھر اسیح ال میں لوٹا دیئے جائیں گے، یعنی زندہ کئے جائیں گے۔ انہوں نے بعث بعد الموت کا مزید مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ جب ہماری ہڈیاں گل سڑ جائیں گی اور ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائیں گی، تو کیا وہ دوبارہ جمع کی جائیں گی اور پھر نئے سرے سے ہڈیاں بنادی جائیں گی، اگر بفرض محال ایسا ہوگا تو یہ بڑے خسارے کی بات ہوگی۔ مفسر ابوالسعود لکھتے ہیں کہ آیات (١١، ١٢) میں ان کے کفر مکرر کو بیان کیا گیا ہے، یعنی دوسری زندگی کے انکار اول کے بعد انہوں نے دوبارہ اس حقیقت کا انکار کیا، جسے ان دونوں آیتوں میں بیان کیا گیا ہے۔ النازعات
11 النازعات
12 النازعات
13 (٥) اللہ تعالیٰ نے ان کے اس کفر مکرر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ تم کتنے نادان ہو کر اللہ تعالیٰ کے لئے جو خالق ارض و سماوات ہے، اس بات کو مشکل سمجھتے ہو کہ وہت مہیں دوبارہ زندہ کے ارے ! وہت و صرف ایک چیخ ہوگی، جس کے بعد تم سب زندہ ہو کر زمین پر ظاہر ہوجاؤ گے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ آیت (١٤) میں دوبارہ زندہ کئے جانے کو ” الساھرۃ“ سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ اس لفظ کا معنی جاگنے کے ہے اور دوبارہ زندہ ہونے کے بعد لوگوں کو پھر کبھی نیند نہیں آئے گی۔ النازعات
14 النازعات
15 (٦) یہاں موسیٰ (علیہ السلام) اور فعرون کا واقعہ ذکر کرنے سے مقصود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینی ہے کہ اگر آپ کی قوم، قوم قریش کے لوگ آپ کی اور آپ کی دعوت توحید کی تکذیب کر رہے ہیں، تو فرعون اور فرعونیوں نے بھی موسیٰ کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا تھا اور اللہ نے انہیں غرقاب کردیا تھا، تو کیا بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل قریش کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاؤ کرے اور انہیں ہلاک کردے۔ اور استفہامی طرز تعبیر سیمقصود یا تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو موسیٰ اور فرعون کا واقعہ سننے کی ترغیب دلانی ہے، اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان آیات کے نزول سے پہلے اس واقعہ کی خبر نہیں تھی اور اگر خبر تھی تو مقصود یاد دہانی کرانی ہے کہ آپ کو موسیٰ اور فرعون کے واقعہ کی تو خبر ہے ہی، اسے یاد کر کے اپنے دل کو تسلی دیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے نبی ! کیا آپ کو موسیٰ بن عمران کے واقعے کی خبر ہے، جب انہوں نے پاک اور مقدس وادی (طویٰ) میں اپنے رب کو پکارا، تو ان کے رب نے انہیں بتایا کہ اس کے سوا ان کا کوئی معبود نہیں اور انہیں صرف اپنی عبادت کا حکم دیا، پھر انہیں حکم دیا کہ وہ شاہ مصر (فرعون) کے پاس جائیں جس نے سرکشی کی راہ اختیار کرلی ہے اور اللہ کے بندوں کو اپنی بندگی پر مجبور کردیا ہے اور اس سے کہیں کہ میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ تم ظلم و سرکشی اور شرک باللہ سے تائب ہوجاؤ اور گناہوں سے بچو۔ النازعات
16 النازعات
17 النازعات
18 النازعات
19 النازعات
20 (٧) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے سامنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیئے گئے اپنے دو بڑے معجزوں (یدبیضاء اور عصائے موسوی) کا اظہارکیا، ان کی لاٹھی سانپ بن کر زمین پر دوڑنے لگی، لیکن فرعون نے ان کے پیش کردہ معجزات کی تکذیب کی، انہیں جادوگر کہا، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور کبر و غرور کا اظہار کرتے ہوئے مجلس سے اٹھ کر چل دیا اور دل میں ٹھانلیا کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پیش کردہ معجزوں کا شیطانی سازشوں اور حیلوں کے ذریعہ مقابلہ کرے گا۔ (ثم ادبریسعی) کا ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب اس نے لاٹھی کو سانپ بن کر دوڑتے دیکھا تو اس پر شدید دہشت طاری ہوگئی اور پیچھے مڑ کر تیزی کے ساتھ بھاگا۔ النازعات
21 النازعات
22 النازعات
23 (٨) پھر اس نے اپنی قوم اور اپنی فوج کو جمع کیا اور ان کے سامنے موسیٰ (علیہ السلام) کی دوت توحید باری تعالیٰ کا انکار اور اپنے معبود ہونے کا یوں اعلان کیا کہ لوگو ! میں ہی تمہارا سب سے بڑا معبود ہوں، سورۃ القصص آیت (٣٨) میں اللہ تعالیٰ نے اس کے دعوئے الوہیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے : (ما علمت لکم من الہ غیری) ” لوگو ! مجھے معلوم نہیں کہ میرے سوا تمہارا کوئی دوسرا معبود یہ۔ “ قاضی بیضاوی لکھتے ہیں کہ جب فرعون نے لاٹھی کو سانپ بن کر دوڑتے دیکھ لیا اور اپنی ذلت و رسوائی اپنی آنکھوں سے دیکھ لی، تو اس کے لئے مناسب یہ تھا کہ وہ ایسی بات نہ کرتا اس کی یہ بات دلالت کرتی ہے کہ جب اس نے عصائے موسوی کو اپنے سامنے دوڑتا دیکھا تو اس پر جنونی کیفیت طاری ہوگئی اور اس کا کفر و عناد بڑھتا ہی گیا اور انجام سے بے خبر موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی دعوت کے خلاف ہر ممکن تدبیر کرتا رہا، یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) اس کے ظلم سے تنگ آ کر بنی اسرائیل کو لے کر جب راتوں رات مصر سے روانہ ہوئے تو اس نے اپنی فوج کے ساتھ ان کا پیچھا کیا اور بالاخر اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کی فوج کو سمندر میں ڈبو دیا، اس کے اسی انجام بد کی طرف اللہ تعالیٰ نے آیت (٢٥) میں اشارہ کیا ہے کہ اللہ نے دنیا میں یہ عذاب دیا کہ اسے اور تمام فرعونیوں کو بحر قلزم کے حوالے کردیا اور آخرت میں اسے آگ کا عذاب دے گا۔ بعض مفسرین نے (یکال الآخرۃ الاولی) کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ فرعون نے اپنی قوم کے سامنے اپنے معبود ہونے کا دوبارہ اعلان کیا، پہلی بار اس نے ابتدائے دعوت موسیٰ میں کہا کہ میں نے ملک کا ایک ایک چپہ ڈھونڈ لیا ہے“ مجھے میرے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ملا اور اس کے چالیس سال کے بعد اس نے دوبارہ اپنی قوم اور اپنے لشکر کے سامنے اس کا اعلان کیا کہ میں ہی تمہارا سب سے بڑ امعبود ہوں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ان دونوں طاغوتی دعوؤں کی پاداش میں اسے ہلاک کردیا اور اس کی ذلت و رسوائی اور ہلاکت کو رہتی دنیا تک کے لئے نشان عبرت بنا دیا۔ النازعات
24 النازعات
25 النازعات
26 النازعات
27 (٩) یہاں خطاب قریش کے ان لوگوں سے ہے جو بعث بعد الموت کو نہیں مانتیت ھے، کہ جو قادر مطلق آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر قادر ہے، جس نے رات اور دن بنائے ہیں، زمین سے پانی کے چشمے جاری کئے ہیں، نباتات پیدا کئے ہیں اور پہاڑوں کو زمین پر جمایا ہے، اس کے لئے تمہیں اور تم جیسوں کو دوبارہ پیدا کرنا بہت ہی آسان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی نوع انسان ! تمہاری تخلیق بڑی بات ہے، یا عظیم وقی اور بلند و بالا آسمان کی، جسے اللہ نے بنایا ہے، اسے اونچا اٹھایا ہے اور اسے اتنا مضبوط و محکم بنایا ہے کہ انسانی عقل ہمیشہ سے محو حیرت رہی ہے، اور رہے گی اور اس نے رات کو تاریک بنایا ہے، جس کی تاریکی آسمان و زمین کو ڈھانک لیتی ہے اور اس نے آفتاب کی روشنی کے ذریعہ دن کو ظاہر کیا ہے تاکہ لوگ کاروبار حیات انجام دیں اور اس نے زمین کو پھیلا دیا ہے تاکہ لوگ اس پر زندگی گذار سکیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرسکیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرسکیں سورۃ یٰسین آیت (٨١) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (اولیس الذی خلق السماوات و الارض بقادر علی ان یخلق مثلھم ) ” کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا ہے وہ انسانوں جیسا دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے“ اور سورۃ غافر آیت (٥٧) میں فرمایا ہے : (لخلق السماوات و الارض اکبر من خلق الناس) ” یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش آدمی کی تخلیق سے بڑی بات ہے۔ “ النازعات
28 النازعات
29 النازعات
30 النازعات
31 (١٠) اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ کی مزید نشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسی قادر مطلق نے زمینسیچشمے جاری کئے ہیں اور اسی نے زمین سے دانے، پھل، پودے اور درخت اگائے ہیں جو انسانوں اور حیوانات کے کام آتے ہیں۔ جو قادر مطلق اللہ مذکورہ بالا اشیاء کی تخلیق پر قادر ہے، وہ یقیناً اس کی قدرت رکھتا ہے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کو دوبارہ زندہ کر کے انہیں میدان محشر میں جمع کرے اور ان کے اعمال کا انہیں بدلہ دے۔ النازعات
32 النازعات
33 النازعات
34 (١١) گزشتہ آیات میں بعث بعد الموت پر متعدد دلائل پیش کرنے کے بعد، اب قیامت کے دن ان لوگوں کا انجام بیان کیا جا رہا ہے ہے جو ایسی ظاہر و بین حقیقت کا انکار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب وہ عظیم ترین آفت رونما ہوجائے گی جس کا نام قیامت ہے اور جس کا کفار قریش انکار کرتے ہیں، تو ہر انسان کے سامنے اس کے تمام اعمال پیش کردیئے جائیں گے اور وہ ایک ایک عمل کو یاد کرنے لگے گا اور کافر کو یقین ہوجائے گا کہ یہی وہ دن ہے جس کا وہ انکار کرتا تھا اور جہنم تمام اہل محشر کے سامنے لائی جائے گی، جو جہنمیوں کو اپنا لقمہ بنانے کے لئے اپنے رب کے حکم کی منتظر ہوگی اور جسے دیکھ کر اہل جنت اپنے رب کے احسان کا شکر ادا کریں گے اور اہل جہنم کا غم اور نجات سے ان کی نا امیدی حد سے تجاوز کر جائے گی۔ النازعات
35 النازعات
36 النازعات
37 (١٢) اس دن حق و باطل کا فیصلہ ہوجائے گا، اہل محشر مومن و کافر دو گروہوں میں منقسم ہوجائیں گے اور جنت و جہنم کے سوا کوئی تیسرا ٹھکانا نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس نے اس دنیا میں اللہ سے سرکشی کی ہوگی، کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ہوگا، دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دی ہوگی، اس کی ساری کوششیں اسی کے حصول کے لئے رہی ہوں گی، اور آخرت کو بھول گیا ہوگا اس دن اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ اور جس نے اللہ کے خوف کو اپنے دل میں جگہ دی ہوگی، اور اس ایمان کے ساتھ دنیا میں زندگی گذاری ہوگی کہ اسے اپنے رب کے سامنے میدان محشر میں کھڑا ہونا ہوگا اور اس ایمان کے زیر اثر اس نے اپنے آپ کو خواہش نفس کی اتباع سے دور رکھا ہوگا، اس دن اس کی جائے رہائش جنت ہوگی، جس کی نعمتوں کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے، نہ کسی کان نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کا دل اس کا تصور کرسکتا ہے۔ النازعات
38 النازعات
39 النازعات
40 النازعات
41 النازعات
42 (١٣) انسانوں کو روز قیامت کی ہولناکی اور ہیبت ناکی کا مزید احساس دلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے فرمایا ہے کہ منکرین قیامت آپ سیپ وچھتے ہیں کہ آخر وہ بھاری اور مشکل دن کب آئے گا؟ حالانکہ آپ اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے ہیں، اس کی آمد کا وقت توص رف آپ کے رب کو معلوم ہے، اسے ہی معلوم ہے کہ وہس فینہ کب گھاٹ لگے گا، جو لوگوں کو ان کی دنیاوی زندگی سے منتقل کر کے اخروی زندگی میں پہنچا دے گا، سورۃ الاعراف آیت (١٨٧) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (یسالونک عن الساعۃ ایان مرسا ھاقل انما علمھا عندربی لایجلیھا لوقتھا الا ھو) ” یہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ ہو کب واقع ہوگی آپ فرما دیجیے کہ اس کا علمصرف میرے رب ہی کے پاس ہے اس کے وقت پر اس کو سوا اللہ کے کوئی اور ظاہر نہیں کرے گا۔ “ النازعات
43 النازعات
44 النازعات
45 (١٤) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ کا کام پیغام رسانی ہے آپ کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ لوگوں کو قیامت کی آمد کا یقینی وقت بتائیں، اس کا علم تو صرف آپ کے رب کو ہے۔ آیت (٤٦) میں قیامت کی ہولناکی کا بار بار احساس دلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ منکرین قیامت جب اپنی آنکھوں سے اس دن کا مشاہدہ کرلیں گے، تو مارے رعب و دہشت کے انہیں ایسا لگے گا کہ وہ دنیا میں یا اپنی قبروں میں محض ایک شام یا ایک صبح رہے تھے۔ وباللہ التوفیق ولہ الحمد والنۃ النازعات
46 النازعات
0 سورۃ عبس مکی ہے، اس میں بیالیس آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ عبس نام : پہلا لفظ ” عبس“ ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا یہ۔ اس کا نام ” السفرۃ“ اور ” الصاخۃ“ بھی آیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت تمام کے نزدیک مکی ہے، ابن مردویہ اور بیہقی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ عبس مکہ میں نازل ہوئیتھی۔ ابن مردویہ نے ابن زبیر سے بھی یہی روایت کی ہے۔ عبس
1 (١) ترمذی، ابن المنذر، ابن حبان، حاکم اور ابن مردویہ نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ (عبس وتولی) ابن ام مکتوم (نابینا) کے بارے میں نازل ہوئی تھی یہ صحابی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور آپ سے کہنے لگے یا رسول اللہ ! آپ مجھے کچھ رشد و ہدایت کی بات بتائیے، اور آپ کے پاس (اس وقت) سردار ان مشرکین مکہ بیٹھے تھے اسلئے آپ ان سے منہ پھیرنے لگے تو یہ سورت نازل ہوئی۔ عبدالرزاق، عبد بن حمید اور ابویعلی نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب عبداللہ بن ام مکتوم آپ کے پاس آئے تو آپ ابی بن خلف سے بات کر رہے تھے اس لئے آپ نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا، تو (عبس وتولی، ان جاءہ الاعمی) نازل ہوئی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے بعد ابن ام مکتوم کی عزت کرنے لگے روایتوں میں آیا ہے کہ یہ نابینا صحابی خدیجہ (رض) کے ماموں زاد بھائی تھے اور مکی دور کی ابتدا میں ہی اسلام لائے تھے، اور مدنی دور میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر غزوات کے وقت ان ہی کو مدینہ میں اپنا خلیفہ بنایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نابینا صحابی کے لیے اپنا چہرہ سکیڑ لیا، اس سے منہ پھیر لیا اور اس سے بات کرناگوارہ نہیں کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو، اس کی طرف توجہ دینے سے وہ صنادید قریش برامان جائیں جن کے سامنے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایمان و اسلام کی تشریح فرما رہے تیھ، آپ کا یہ اعراض دعوتی نقطہ نگاہ سے مفید نہیں ہے، اس لئے کہ وہ اخلاص و رغبت کے ساتھ قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کرنے آیا تھا، اس کی خواہش تھی کہ آپ سے علم حاصل کر کے اپنی روح کا تزکیہ کرے، برے اخلاق سے اجتناب کرے، اور اخلاق حمیدہ کو اپنائے، یا آپ سے نصیحت کی باتیں سن کر ان سے مستفید ہو اور جو شخص اپنی دولت اور قوم میں اپنے جاہ و منزلت کی وجہ سے گردن اکڑائے ہوئے ہے اور ایمان و اسلام اور وحی و رسالت کی بات سننے کے لئے تیار نہیں، اسی کی طرف آپ لپکے جا رہے ہیں اور اسی پر اپنی پوری توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں، حالانکہ اگر وہ مکتبر اسلام کو قبول نہیں کرتا اور اس کا تزکیہ نفس نہیں ہوتا تو آپ کا کیا نقصان ہوگا، آپ کی ذمہ داری تو صرف پیغام رسانی ہے، اس لئے جو کفار اسلام سیاظہار استغناء کرتے ہیں آپ ان کی فکر نہ کریں۔ عبس
2 عبس
3 عبس
4 عبس
5 عبس
6 عبس
7 عبس
8 (٢) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مزید عتاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص خوف الٰہی اور تقویٰ کے زیر اثر آپ کے پاس تیزی کے ساتھ آیا ہے، تاکہ آپ اسے دین کی تعلیم دیں اور اسے اپنی پیغمبرانہ نصیحتوں سے نوازیں، اس سے آپ نے منہ پھیر لیا ہے، اور ان لوگوں کی طرف متوجہ ہیں جو کبر و غرور میں مبتلا ہیں اور آپ کی باتوں پر دھیان نہیں دے رہے ہیں۔ حافظ سیوطی نے اپنی کتاب ” الاکلیل“ میں لکھا ہے کہ مذکورہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے فقراء کی دل دہی، ان کی ضروریات پوری کرنے اور مجالس علم میں ان کی طرف متوجہ ہونے کی ترغیب دلائی ہے، اتنہی اسی لئے سفیان ثوری کے بارے میں آتا ہے کہ ان کی مجلس میں فقراء امراء بنے ہوتے تھے۔ یہ آیات دلیل ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی غیب کی جو بات بھی بتائی، اسے انہوں نے اپنی امت سے نہیں چھپایا علمائے سلف کہا کرتے تھے کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کا کوئی حصہ چھپاتے، تو اپنے بارے میں اللہ کے اس عتاب کو ضرور چھپا دیتے۔ ابن ام مکتوم (رض) کے ساتھ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذکور بالا برتاؤ کوئی گناہ کی بات نہیں تھی، اس لئے کہ آپ کے پاس صنادید قریش موجودت ھے اور آپ اس لالچ میں کہش اید وہ لوگ مسلمان ہوجائیں، تھوڑی دیر کے لئے ایک مسلمان کو یہ سوچ کر نظر انداز کر رہے تھے کہ بعد میں اس کے سوال کا جواب دے دیں گے، تاکہ وہ کافر اٹھ کر چلے نہ جائیں، بظاہر دعوت اسلامی کا یہی تقاضا تھا اور عام دعاۃ الی اللہ کے لئیایسا ہی کرنا مناسب تھا، لیکن اللہ کی نظر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا برتاؤ اپنے صحابہ کے ساتھ اس سے ارفع و اعلیٰ ہونا چاہئے تھا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو عتاب کیا، یعنی عتاب کا سبب ترک اولیٰ تھا، نہ کہ ارتکاب معصیت عبس
9 عبس
10 عبس
11 (٣) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دوبارہ بطور تاکید کہا جا رہا ہے کہ اب کبھی آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ مسلمان فقراء و مساکین سے منہ پھیر کر کبرو و غرو روالے کافروں کی طرف یکسر متوجہ ہوجائیں، چنانچہ اوپر انس (رض) کی روایت گذر چکی ہے کہ اس واقعے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابن ام مکتوم کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ اس واقعے میں دوسروں کے لئے عبرت ہے کہ جب ایسے برتاؤ پر اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عتاب فرمایا، جن کا عظیم مقام اللہ کے نزدیک سب کو معلوم ہے تو پھر دوسرے اگر ایسا کریں گے تو ان کا انجام کیا ہوگا، بعض مفسرین کرام نے ” انھا تکرۃ“ میں ” ھا“ کا مرجع ان آیات میں موجود اس نصیحت کو مانا ہے کہ دعاۃ الی اللہ کو لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں مساوات کا خیال رکھنا چاہئے۔ آیت (١٢) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ کی جانب سے یہ ایک بہت بڑی نصیحت ہے، جس سے جو چاہے، اس پر عمل کر کے فائدہ اٹھالے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکہف آیت (٢٩) میں فرمایا ہے : (فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر) ” جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر کیر“ یعنی جو چاہے ایمان لا کر اپنی عاقبت سدھار لے۔ عبس
12 عبس
13 (٤) اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیات میں موجود نصیحت کی عظمت و اہمیت بیان کرنے کے لئے فرمایا کہ یہ تو ان معزز و مکرم صحفیوں میں مکتوب ہے جن کا ان میں موجود علوم اور حکمتوں کی وجہ سے اللہ کے نزدیک بڑا اونچا مقام ہے اور جنہیں صرف پاک فرشتے ہی ہاتھ لگاتے ہیں اور جنہیں اللہ کے رسولوں تک ایسے فرشتے پہنچاتے ہیں جو اپنے رب کے نہایت فرمانبردار اور سچے بندے ہیں یعنی وہ صحائف لوح محفوظ سے انبیائے کرام تک بڑے قومی و تقی فرشتوں کے ذریعہ پہنچتے ہیں، جو وحی الٰہی میں اپنی طرف سے کسی قسم کا تصرف نہیں کرتے اور نہ ہی شیاطین اس میں کوئی تصرف کر پاتے ہیں۔ عبس
14 عبس
15 عبس
16 عبس
17 (٥) اوپر کی آیتوں میں صنادید قریش کے کبر وغرور کا حال بیان کرنے کے بعد، اب اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو ان کافروں کے حال پر حیرت و استعجاب کی دعوت دے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کافر انسان کے لئے ہلاکت و بربادی ہے اسے کبر و غرور پر کون سی بات ابھارتی ہے، کیا اسے اپنی حقیقت معلوم نہیں کہ اسے اللہ تعالیٰ نے ایک نطفہ حقیر سے پیدا کیا یہ اور مرنے کے بعد گل سڑ کر مٹی ہوجائے گا اور وہ زندگی بھراپنے جسم میں گندگی ڈھوتا پھرتا ہے اگر وہ اپنی حقیقت پر غور کرتا تو کبر و غرور میں مبتلا نہ ہوتا اور قادر مطلق خالق کے وجود اور حشر و نشر پر ایمان لے آتا اور عمل صالح کر کے آخرت میں جنت کا حقدار بنتا ہے۔ عبس
18 عبس
19 عبس
20 عبس
21 عبس
22 عبس
23 عبس
24 (٦) گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ان کی تخلیق اور حیات و موت کے بارے میں غور و فکر کی دعوت دی ہے، تاکہ وہ اپنی حقیقت اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا تصور کر کے اس پر اور روز آخرت پر ایمان لے آئیں، اب یہاں انہیں اپنی روزی کے بارے میں غور و فکر کی دعوت دی جا رہی ہے کہ ذرا سوچیں تو سہی اللہ نے اسے ان کے لئے کن مراحل سے گذار کر مہیا کیا ہے تاکہ وہ اپنے رب کے شکر گذار بندے بنیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انسان اپنے کھانے کے بارے میں غور کرے جسے وہ ہر روز کئی بار کھاتا ہے کہ ہم نے اسے کن مراحل سے گذار کر صالح اور مفید غذائی بنائی ہے پہلے ہم نے زمین پر بارش برسایا پھر اسے زاعت کے قابل بنایا پھر اس سے مختلف قسم کے دانے اگائے، جیسے گیہوں، جو، باجرہ اور دیگر دانے، انگور اور سبزیاں اگائیں جیسے ککڑی اور کھیرے، زیتون اگایا جس کاپ ھل کھایا جاتا یہ اور جس کا تیل لگایا جاتا ہے، کھجور اگایا جسے تازہ اور خشک کھایا جاتا ہے، باغات اگائے جن کے درخت آپس میں ایک دوسرے سے گتھے ہوتے ہیں، نیز دیگر قسم کے پھل اگائے جنہیں آدمی کھاتا ہے، اور گھاس اگائی جسے اس کے جانور کھاتے ہیں اللہ نے فرمایا کہ یہ ساری چیزیں ہم نے تمہارے لئی اور تمہارے جانوروں کے لئے پیدا کی ہیں ان نعمتوں کا تقاضا یہ ہے کہ تماپنے رب کی عظیم قدرت اور یوم آخرت پر ایمان لے آؤ، اس کے شکر گذار بندے بنو اور عمل صالح کی زندگی اختیار کرو۔ عبس
25 عبس
26 عبس
27 عبس
28 عبس
29 عبس
30 عبس
31 عبس
32 عبس
33 (٧) مذکورہ بالا آیتوں میں انسان کی تخلیق اور اس کی دنیاوی زندگی پر روشنی ڈالی گئی تھی اور اسے غور و فکر کی دعوت دی گئی تھی، اب اس کی آخروی زندگی اور اس کے اچھے اور برے انجام کو بیان کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب قیامت آجائیگی جس کے صور کی آواز اتنی تیز اور کرخت ہوگی کہ لوگوں کے کان بہرے ہو رہے ہوں گے تو رعب و دہشت کے مارے ہر آدمی اپنے حال میں ایسا پریشان ہوگا اور ہر ایک کو اپنی نجات کی ایسی فکر ہوگی کہ وہ اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو بھی میدان محشر میں دیکھ کر راہ فرار اختیار کرے گا یا تو اس ڈر سے بھاگے گا کہ کہیں کوئی اس سے کسی حق کا مطالبہ نہ کر دے، یا اس لئے کہ کوئی اس کی پریشانی اور بے چینی کو نہ دیکھ لے، یا اس لئے کہ اس معلوم ہوگا کہ آج کوئی اس کے کام نہیں آئے گا، تو پھر اسکی طرف التفات کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ عبس
34 عبس
35 عبس
36 عبس
37 عبس
38 (٨) اس دن لوگ دو حصوں میں تقسیم ہوجائیں گے جو نیک بخت ہوں گے اور جن کے لئے رب العالمین جنت کا فیصلہ کر دے گا، ان کے چہرے مارے خوشی کے دمک رہے ہوں گے اور جن اشقیاء اور بدبختوں کے لئے رب العالمین جہنم کا فیصلہ کر دے گ، ان کے چہروں پر حسرت و یاس کی وجہ سے ہوائی اڑ رہی ہوگی اور ان پر سیاہی چھائی ہوگی اور یہ بدترین انجام ان لوگوں کا ہوگا جنہوں نے کفر و سرکشی اور فسق و فجور کی زندگی گذاری ہوگی اور بغیرتوبہ کئے اسی حال میں موت نہ انہیں آدبوچا ہوگا۔ عبس
39 عبس
40 عبس
41 عبس
42 عبس
0 سورۃ التکویر مکی ہے، اس میں انتیس آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ التکویر نام : پہلی آیت میں لفظ ” کورت“ آیا ہے اسی سے اس کا نام ” التکویر“ ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول : ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ (اذا الشمس کورت) مکہ میں نازل ہوئی تھی ابن مردویہ نے عائشہ اور ابن زبیر (رض) سے بھی یہی روایت کی ہے۔ التكوير
1 (١) روز آخرت اور جزا و سزا کا عقیدہ ہی وہ بنیادی عقیدہ ہے جس پر ایمانلائے بغیر کسی بھی فرد یا سوسائٹی کی اصلاح ناممکن ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے جا بجا مختلف پیرائے میں اس کی وضاحت کی ہے اور لوگوں کو اس پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے۔ اس سورت میں بھی اللہ تعالیٰ نے اسی حقیقت کو باور کرانا چاہتا ہے اور انسانوں یک دل و دماغ میں اسی عقیدہ بعث بعد الموت کو اتارنا چاہا ہے، تاکہ اس پر ایمان لا کر لوگ اپنی آخرت کی فکر میں لگ جائیں اور اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح کریں، چنانچہ آیات (١) سے (١٣) تک بارہ حادثات و واقعات کا ذکر بطور شرط بیان کئے جانے کے بعد، اسی حقیقت کو بطور جواب بیان کیا گیا ہے، اور کہا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے اور اس کے بعد جب بھی حادثات و قوع پذیر ہوں گے، تو ہر فرد اس دن یقینی طور پر جان لے گا کہ وہ دنیا سے اپنے ساتھ کیسے اعمال لے کر آیا ہے، جن کا آج اسے بدلہ چکایا جائے گا۔ ان بارہ حادثات میں سے چھ وقوع قیامت سے پہلے یا اس کے بعد فوراً ظہورپذیر ہوں گے۔ ١۔ آفتاب اپنی جگہ سے ہٹا دیا جائے گا اور اس کی روشنی غائب ہوجائے گی۔ ٢۔ ستارے ٹوٹ کر زمین پر بکھر جائیں گے۔ ٣۔ شدید لرزش اور زلزلہ کے زیر اثر پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے اور غبار بن کر فضا میں اڑنے لگیں گے۔ ٤۔ لوگ شدت رعب و خوف سیدس ماہ کی حاملہ اونٹنیوں سے غافل ہوجائیں گے جو عربوں کے نزدیک سب سے اچھی اور قیمتی دولت ہوتی ہے، تو پھر دوسریچ یزوں سے ان کی غفلت کا کیا حال ہوگا یعنی لوگ نہایت پریشان و بدحال ہوں گے، انہیں اپنی جان کے بچاؤ کے سوا کسی چیز کی فکر نہیں ہوگی۔ ٥۔ شدت زلزلہ اور ٹوٹ پھوٹ کے زیر اثر زمین پر پائے جانے والے تمام وحشی جانور اسے چھپنے کی جگہوں سے نکل کر مارے رعب و دہشت کے اکٹھے ہوجائیں گے اور انسانوں کے قریب آ کر اپنا پناہ لینے کی کوشش کریں گے اور پھر مر کر ڈھیر لگ جائیں گے۔ ٦۔ تمام سمندروں کا پانی ابل پڑے گا اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک ہوجائیں گے، بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ سمندروں کا پانی غائب ہوجائے گا اور اس کی جگہ آگ بھڑکنے لگے گی قفال کا قول ہے کہ ممکن ہے جہنم سمندروں کی تہوں میں ہو اور جب دنیا کی مدت ختم ہوجائے گی تو اس کی آگ بھڑک کر اوپر آجائیگی۔ باقی چھ قیامت کے دن ظہورپذیر ہوں گے : ٧۔ اللہ تعالیٰ انسانی جسموں کو دوبارہپیدا کر کے ان کی روحوں کو ان میں داخل کر دے گا، بعض مفسرین نے کہا ہے کہ تمام نیکو کار جنت میں اور تمام بدکار جہنم میں اکٹھا کردیئے جائیں گے عطاء کا قول ہے کہ مومنوں کی شادی حوروں سے کر دیجائے گی اور کفار شیاطین کے ساتھ جہنم میں اکٹھا کردیئے جائیں گے۔ ٨۔ بعض قبائل عرب کا دستور تھا کہ جب کسی کے گھر بچی پیدا ہوتی تو عار سے بچنے کے لئے اسے زندہ درگور کردیتے یہ ایک بہت بڑا مجرمانہ فعل تھا، جس کا وہ اپنی شدید جہالت و نادانی کے سبب ارتکاب کرتے تھے ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ قیامت کے دن شدید غضبناک ہوگا اور شدت غیظ و غضب کی وجہ سے ان کی طرف سے منہ پھیر لے گا اور ان زندہ درگور کی گئی بچیوں سے پوچھے گا کہ ان ظالموں نے تمہیں کس جرم کی پاداش میں زندہ درگور کردیا تھا، یعنی تم نے تو کوئی جرم نہیں کیا تھا، اس لئے آج ان ظالموں کو ہم شدید ترین عذاب دیں گے۔ حافظ سیوطی نے اپنی کتاب ” الاکلیل“ میں لکھا ہے، یہ آیت دلیل ہے کہ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا گناہ عظیم ہے۔ ٩۔ قیامت کے دن لوگوں کے نامہ ہائے اعمال حساب کے لئے کھول کر ان کے سامنے رکھ دیئے جائیں گے اور ہر شخص اپنے اچھے اور برے اعمال کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے لگے گا۔ ١٠۔ اس دن آسمان اپنی جگہوں سے اس طرح الگ کردیئے جائیں گے جس طرح مذبوح جانوروں کے چمڑے ادھیڑ دیئے جاتے ہیں۔ (١١) اس دن جہنم کی آگ اللہ کے دشمنوں کے لئے پوری طرح تیز کردی جائے گی قتادہ کہتے ہیں کہ جہنم کی آگ اللہ کے غضب اور بنی آدم کے گناہوں کے سبب بھڑک اٹھے گی۔ ١٢۔ جنت ایمان وتقویٰ والوں سے بالکل قریب کردی جائے گی، ابن زید نے ” زلفت“ کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ جنت متقیوں کے لئے سنواری اور خوبصورت بنائشی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا حادثات بطورش رط بیان کرنے کے بعد، آیت (١٤) میں ان کا جواب بیان فرمایا کہ جس دن یہ حادثات رونما ہوں گے اس دن ہر آدمی کو دنیا میں اپنے کئے کا علم ہوجائے گا، جن لوگوں نے نیکیاں کی ہوں گی، ان کو اپنی نیکیوں کا علم ہوجائے گا اور وہ جنت میں بھیج دیئے جائیں گے اور جنہوں نے برے اعمال کئے ہوں گے، انہیں اپنی برائیوں کا علم ہوجائے گا، اور وہ جہنم میں دھکیل دیئے جائیں گے، سورۃ آل عمران آیت (٣٠) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (یومتجدکل نفس ماعملت من خیر محضرا) ” جس دن ہر شخص اپنی کی ہوئی نیکیوں اور برائیوں کو اپنے سامنے پائے گا۔ “ مسند احمد میں عبداللہ بن عمر (رض) سے مروی ہے کہ جو شخص قیامت کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہے، وہ (اذا الشمس کورت) اور (اذا السماء انفطرت) اور (اذا السماء انشقت) پڑھے۔ التكوير
2 التكوير
3 التكوير
4 التكوير
5 التكوير
6 التكوير
7 التكوير
8 التكوير
9 التكوير
10 التكوير
11 التكوير
12 التكوير
13 التكوير
14 التكوير
15 (٢) بعث بعد الموت اور قیامت کے دن جزا و سزا کا جو عقیدہ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے، جب تک کوئی شخص قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے پر ایمان نہیں لائے گا، اس عقیدہ بعث بعد الموت کو بھی تسلیم نہیں کرے گا، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل آیتوں میں متحرک و جامد اور ظاہر و پوشیدہ ستاروں کی نیز رات اور صبح کی قسم کھا کر انسانوں کو یہ باور کرایا ہے کہ یہ قرآن جس میں بعث بعد الموت کا عقیدہ بیان کیا گیا ہے، وہ کسی انسان کا نہیں بلکہ رب العالمین کا کلام ہے جسے جبریل امین نے خاتم النبین پر اتارا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان ستاروں کی قسم جو دن کے وقت چھپ جاتے ہیں، مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ پانچ مشہور ستارے، زحل، مشتری، مریخ، زہرہ اور عطارد ہی، فراء کا قول ہے کہ یہ پانچوں ساترے آفتاب نکلنے کے بعد اسطرح چھپ جاتے ہیں جس طرح ہر نیاں غاروں میں چھپ جاتی ہیں، لغنت کی کتاب ” الصحاح“ میں ” الخنس“ تمام ہی ستاروں کو کہا گیا ہے، اس لئے کہ دن کے وقت سبھی چھپ جاتے ہیں، یہ ستارے آفتاب و ماہتاب کے ساتھ چلتے رہتے ہیں اور آفتاب کی روشنی کے نیچے چھپے بھی رہتے ہیں۔ اور رات کی قسم جب وہ دن کو پیچھے چھوڑ کر آگے آجاتی ہے اور ہر چیز پر اپنی سیاہ چادر ڈال دیتی ہے اور صبح کی قسم جس کی روشنی پھیلتی جاتی ہے یہاں تک کہ پورا دن نکل آتا ہیع۔ بے شک وہ قرآن جو انسانوں کے سامنے بعث بعد الموت کا عقیدہ پورے شرط وبسط کے ساتھ پیش کرتا ہے، اسے اللہ کے معزز و مکرم رسول جبریل روح الامین نے اپنے رب کی جانب سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا ہے، وہ جبریل امین جنہیں ان کے رب نے ایسی زبردست قوت عطا کی ہے کہ کوئی انسان یا جن ان کے پاس موجود وحی ان سے نہ چھین سکتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی نقص و اضافہ کرسکتا ہے، جیسا کہ سورۃ النجم آیت (٥) میں آیا ہے : (علمہ شدید القوی) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پوری قوت والے فرشتے نے سکھایا ہے“ اور وہ روح الامین فرشتہ عرش والے کے نزدیک بڑا اونچا مقام رکھتے ہیں اور آسمانوں میں رہنے والے سبھی ان کی بات مانتے ہیں اور وہ اپنے رب کی وحی اور اسرار رسالت کے بڑے ہی امانت دار ہیں۔ التكوير
16 التكوير
17 التكوير
18 التكوير
19 التكوير
20 التكوير
21 التكوير
22 (٣) اہل مکہ کو خطاب کر کے کہا جا رہا ہے کہ ہمارے پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن پر ہم نے تمہارے لئے وہ قرآن کریم نازل کیا ہے جس کا ذکر اوپر آچکا وہ پاگل اور دیوانہ نہیں ہیں، یعنی یہ قرآن دیوانے کی بڑ نہیں ہے، جیسا کہ تمہارا باطل گمان ہے۔ یہاں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر ” صاحب اہل قریش“ کے لفظ کے ساتھ اس طرف اشارہ کرنے کے لئے آیا ہے کہ اے اہل قریش ! وہ تو تمہایر ہی ایک فرد ہیں، تمہارے ہی درمیان پلے پڑھے ہیں، اس لئے تمہیں خوب معلوم ہے کہ انہیں جنون یا کوئی بیماری لاحق نہیں، بلکہ تم سب سے زیاہ عقل مند اور ہوش مند ہیں، اس لئے انہیں جنون کے ساتھ مہتم کرنا تمہیں زیب نہیں دیتا۔ التكوير
23 (٤) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل امین کو ان کی اصلی صورت میں چھ سو پروں کے ساتھ مشرق کی جانب آسمان کے افق میں پہلی بار بایں طور دیکھا کہ پورا آسمانی افق ان کے وجود سے بھر گیا تھا حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : بظاہر یہ سورت واقعہ معراج سے پہلے نازل ہوئیتھی اس لئے کہ اس میں صرف اسی پہلی رویت کا ذکر آیا ہے، دوسری رویت جبریل کا ذکر سورۃ النجم میں آیا ہے جو سورۃ الاسراء کے بعد نازل ہوئیتھی، وہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (ولقد راۃ نزلۃ اخری، عند سدرۃ المنتھی، عندھا جنۃ الماوی) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل کو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا، سدرۃ المنتہی کے پاس، اسی کے پاس جنۃ الماویٰ ہے“ اور یہاں جبریل (علیہ السلام) کو ان کی اصلی صورت میں دیکھنے کے ذکر سے مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان سے اللہ کی وحی اور اس کا کلام حقیقی معنوں میں اور یقینی طور پر لیا، اس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کی جو بیش بہا وحی حاصل کی اسے پوری وسعت قلبی کے ساتھ بے کم و کاست امت تک پہنچا دیا، اس بایر میں ذرا بھی بخل سے کام نہیں لیا بلکہ پوری تفصیل کے ساتھ اسے امت کے لئے بیان کردیا اگر آپ کاہن ہوتے تو کاہنوں کی طرح بغیر اجرت لئے اسے دوسروں کو نہ بتاتے، اس لئے اے اہل قریش ! تمہارا یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ محمد کان ہیں اور قرآن کسی مرد ود شیطان کا کلام ہے جسے وہ محمد کو سکھاتا رہتا ہے۔ التكوير
24 التكوير
25 التكوير
26 (٥) اے اہل قریش ! تم نے میرے نبی اور میرے قرآن پر جتنے اتہامات دھرے، سب کی نفی ہوچکی اور سب کی تردید کی جا چکی اس کے بعد بھی اگر تم حق کو قبول نہیں کرتے، تو تمہارے لئے ضلالت و گمراہیکے سوا کوئی راہ باقی نہیں رہ گئی ہے اس لئے تم ہٹ دھرمی سے باز آجاؤ اور حق کو قبول کرلو، اور قرآن پر ایمان لے آؤ جو سارے عالم کے لئے عبرت و موعظت کا خزانہ ہے، لیکن اس خزانے سے وہی مستفید ہوگا جو راہ حق پر چلنا چاہے گا اور اس حق کو وہی قبول کرتا ہے اور اس پر وہی چلتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اپنی مرضی سے اس کی توفیق دیتا ہے۔ سورت کے آخر میں مشیت الٰہی کے ذکر سے مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ بندہ ہر حال میں رب العالمین کا محتاج ہے اور یہ کہ اس کی قدرت و مشیت کے بغیر بندہ بالکل عاجز و درمادنہ ہے، اس لئے اسے چاہئے کہ ہر نیک کام کی توفیق اسی سے مانگتا رہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بندوں کی رہنمائی سورۃ الفاتحہ میں کی ہے، اور سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق مانگنے کی تعلیم دی ہے۔ وباللہ التوفیق التكوير
27 التكوير
28 التكوير
29 التكوير
0 سورۃ الانفطار مکی ہے، اس میں انیس آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ الانفطار نام : پہلی آیت میں ہی لفظ ” انفطرت“ آیا ہے، جو ” الانفطار“ سے ماخوذ ہے، جس کا معنی پھٹنا ہے چونکہ اس سورت میں روز قیامت آسمان کے پھٹنے کا ذکر ہے، اسی لیے لفظ ” الانفطار“ اس کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہسورت بالا تفاق مکی ہے، ابن عباس اور ابن زبیر (رض) سے یہی مروی ہے۔ الإنفطار
1 (١) اس سورت میں بھی اللہ تعالیٰ نے اسلام کے بنیادی عقیدہ ” بعث بعد الموت“ کی وضاحت کی ہے اور انسانوں کو اس پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے۔ چنانچہ آیات (١) سے (٤) تک چار حادثات کا ذکر کیا، جن میں سے تین کا ظہور قیامت سے پہلے دنیا میں پہلے صور کے بعد ہوگا اور چوتھے کا ظہور یعنی قبروں سے مردوں کے زندہ نکالے جانے کا دوسرے صور کے بعد آخرت میں ہوگا ان چاروں حادثات کا بطور شرط ذکر کنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے بطور جواب یہ بیان فرمایا کہ جب یہ حادثات ظہور پذیر ہوں گے، اس وقت ہر آدمی یقینیط ور پر جان لے گا کہ اس نے دنیا میں کیسے اعمال کئیت ھے نیک آدمی کو معلوم ہوجائے گا کہ اس نے کیا عمدہ زاد آخرت اپنے لئے پہلے بھیج دیا تھا اور گناہگار کو بھی خوب معلوم ہوجائے گا کہ کن گناہوں کے ارتکاب کے سبب اسے آج ذلت و رسوائی اور ہلاکت و بربادی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس دن آسمان پھٹ پڑے گا، جیسا کہ سورۃ الفرقران آیت (٢٥) میں آیا ہے : (ویوم تشقق السماء بالغمام) ” اور جس دن آسمان بادل سمیت پھٹ جائے گا“ اور جب ستارے گر کر بکھر جائیں گے جیسے ہار ٹوٹ جاتا ہے تو موتی کے دانے زمین پر بکھر جاتے ہیں اور جب کھارے سمندروں کا پانی میٹھے دریاؤں کے پانی کے ساتھ مل جائے گا، یعنی زمین اتنی شدت کے ساتھ ہلے گی، اور ایسا مہیب زلزلہ واقع ہوگا کہ ہر چیز ٹوٹ پھوٹ جائے گی، اور زمین پر موجود پانی ایک دوسرے کے ساتھ مل جائے گا اور قبریں الٹ دی جائیں گی، اور تمام مردے زندہ ہو کر اوپر آجائیں گے۔ جس دن یہ حادثات رونما ہوں گے، اس دن ہر آدمی کو دنیا میں اپنے کئے کا علم ہوجائے گا، ان نیک و بداعمال کا علم ہوجائے گا جو اس نے دنیا کی زندگی میں کئے تھے اور ان اچھے اور برے طور طریقوں کا بھی جنہیں وہ دنیا میں جاری کر آیا تھا اور جن پر لوگ اس کے بعد عمل پیرا ہوئے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحیح حدیث ہے کہ جو شخص کوئی اچھا طریقہ جاری کرے گا، اسے اس کا اجر ملے گا اور ان لوگوں کا بھی جو اس پر عمل کریں گے اور جو شخص کوئی برا طریقفہ جاری کرے گا اسے اس کا گناہ ملے گا اور ان لوگوں کا بھی جو اس پر عمل کریں گے۔ الإنفطار
2 الإنفطار
3 الإنفطار
4 الإنفطار
5 الإنفطار
6 (٢) یہاں خطاب ان تمام کافر و فاسق انسانوں سے ہے جو دنیا میں معصیت کی زندگی گذارتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے انسان ! تجھے کس چیز نے دھوکے میں ڈال دیا ہے کہ تو اپنی فطرت سے منحرف ہوگیا ہے اور اپنے اس رب کی نافرمانی کر رہا ہے جو عظیم و جلیل اور کامل و قادر ہے، اور جس نیتما پر یہ احسان کیا ہے کہ تمہیں کامل الخلقت انسان بنایا ہے، عقل و حواس اور اپنی گونگاوں نعمتوں سے نوازا ہے، تم کچھ بھی نہیں تھے، تو اس نے تمہیں ایک نطفہ حقیر سے پیدا کیا، ایک مکمل آدمی بنایا، کان، آنکھ اور عقل جیسی نعمت دی، ہاتھ اور پاؤں دیئے، سنیے میں دھڑکتا ہوا دل دیا اور ہر طرح سے ایک مکمل آدمی بنایا اور اس کا کمال قدرت دیکھو کہ اس نے تم میں سے کسی کو گورا کسی کو کالا بنایا کسی کو لمبا اور کسی کو ناٹا بنایا اور پھر تم میں سے کسی کو مذکر اور کسی کو مؤنث بنایا یہ سب اس کی قدرت کی کاریگری اور اس کی کمال صناعی ہے، جس کا تقاضا ہے کہ تم اپنے رب کی نافرمانی نہ کرو، ہم دم اسی کی بندگی میں لگے رہو، اور کسی حال میں بھی اس کے احکام سے سرتابی نہ کرو۔ الإنفطار
7 الإنفطار
8 الإنفطار
9 (٣) حقیقت یہ ہے کہ کوئی چیز نہیں جو تمہیں تمہارے رب کی جانب سے دھوکے میں ڈالے اور تمہیں تمہاری فطرت سے منحرف کر دے، بلکہ تمہارے رب کے بے باپاں احسانات تو تمہاری اس جانب رہنمائی کرتے ہیں کہ تم مرنے کے بعد دوبارہ ضرور اٹھائے جاؤ گے تاکہ تمہارے نیک و بد اعمال کا تمہیں بدلہ دیا جائے گا، لیکن تم محض کبر و عنا دکی وجہ سے سے بعث بعد الموت اور روز قیامت جزا اور سزا کا انکار کرتے ہو، اور کفر و ظلم اور دیگر معاصی کا ارتکاب کرتے ہو، یاد رکھو کہ ہم نے تمہارے اعمال کی گنتی اور انہیں ریکارڈ کرنے کے لئیفرشتے مقرر کر رکھے ہیں جو تمہاے ایک ایک عمل کو لکھ رہے ہیں تم پوشیدہ یا ظاہر میں جو کچھ بھی اچھے یا بریے اعمال کرتے ہو، وہ فرشتے ان سب کو جانتے ہیں، تمہارے کسی قول و عمل سے غافل نہیں ہیں اور وہ سارے نیک و بداعمال روز قیامت اچانک تمہارے سامنے آجائیں گے۔ سورۃ ق آیات (١٧/١٨) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (عن الیمین وعن الشمال قعید، مایلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید) ” ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف بیٹھا ہوا ہے انسان جوں ہی منہ سے کوئی لفظ نکالتا ہے، اس کے پاس موجود نگہبان اسے محفوظ کرلیتا ہے۔ “ الإنفطار
10 الإنفطار
11 الإنفطار
12 الإنفطار
13 (٤) جب یہ ثابت ہوگا کہ بندوں کے تمام اعمال ریکارڈ میں لائے جا رہے ہیں تو اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ روز قیامت مومن و کافر اور نیک و بدہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے فرائض ادا کریں گے، گاہوں سے اجتناب کریں گے اور صلاح و تقویٰ کی زندگی اختیار کریں گے وہ جنت کی نعمتوں کے مستحق بنیں گے اور جو لوگ اللہ کے اوامرکی مخالفت کریں گے ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا جس میں وہ جزا و سزا کے دن ڈال دیئے جائیں گے، اس کی گرمی اس کا عذاب اور اس کی سختی جھیلتے رہیں گے نہ مریں گے اور نہ وہاں سے کبھی نکالے جائیں گے۔ سورۃ الشوریٰ آیت (٧) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (فریق فی الجنۃ و فریق فی السعیر) ” ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ جہنم میں“ الإنفطار
14 الإنفطار
15 الإنفطار
16 الإنفطار
17 (٥) روز قیامت کی ہیبت ناکی اور سختی بیان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے میرے نبی ! آپ اس دن کی سختی و ہیبت ناکی کو پوری طرح نہیں جانتے حالانکہ یہ تو وہ چیز ہے جس کا صحیح علم حاصل کرنا نہایت ہی اہم ہے اس کی خطرناکی کا اس سے اندازہ لگایئے کہ اس دن کوئی شخص کسی دوسرے کے ہرگز کام نہیں آئے گا، اس دن اللہ کے سوا کوئی ایک ذرہ کا بھی مالک نہیں ہوگا، اسکی اجازت کے بغیر نہ کوئی سفارش کرے گا اور نہ کسی کیس فارش قبول کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ غافر آیت (١٦) میں فرمایا ہے : (لمن الملک الیوم للہ الواحد القھار) ” آج کس کی بادشاہی ہے؟ صرف ایک اللہ کی جو قہار ہے“ وباللہ التوفیق الإنفطار
18 الإنفطار
19 الإنفطار
0 سورۃ المطففین مکی ہے، اس میں چھتیس آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ المطففین نام : پہلی آیت میں ہی ” المطففین“ کا لفظ آیا ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : ابن مسعود، ضحا اور مقاتل کے نزدیک یہ سورت مکی ہے، نحاس اور ابن مردویہ نے ابن عباس اور ابن عمر (رض) سے یہی روایت کی ہے اور نسائی اور ابن ماجہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ہجرت کر کے مدینہ آئیتودیکھا کہ وہاں کے لوگوں کا حال ناپتول میں بہت برا تھا، تو اللہ نے (ویل للمطففین) نازل فرمایا۔ صاحب محاسن التنزیل لکھتے ہیں کہ بظاہر یہ سورت مکی ہے، اس کا سیاق اور بلاخصوص اس کی آخری آیتیں بتاتی ہیں کہ یہ مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ المطففين
1 (١) ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی ہلاکت و بربادی کی خبر دی ہے جو ناپ تول میں لوگوں کے ساتھ بے ایمانی کرتے ہیں، ان کے لینے کا پیمانہ اور ہوتا ہے اور دینے کا اور جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پیمانے کو خوب بھرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ناپتول کرتے وقت آدمی کو پورا دینا چاہئے اور جب لوگوں کو دیتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ پیمانہ لبالب نہ ہو اور کہتے ہیں کہ یہی صحیح پیمائش ہے۔ حافظ سیوطی نے ” الاکلیل“ میں لکھا ہے کہ اس آیت کریمہ میں ناپتول میں کمی اور خیانت کی شدید مذمت آئی ہے۔ اس لئے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کا مال ناحق کھایا جاتا ہے اور اس مال کی مقدار اگرچہ تھوڑی ہوتی ہے لیکن ایسا کرنے والے کی وناءت و خباثت پر دلالت کرتی ہے اور اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اگر اسے موقع ملتا تو لوگوں کا مال کثیر بھی بطور حرام کھانے سے گریز نہیں کرتا۔ انتہی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی کئی دیگر آیتوں میں بھی پورے ناپتول کا حکم دیا ہے، سورۃ الاسراء آیت (٢٥) میں آیا ہے : (واوفوا الکیل اذا کلتم وزنوا بالقسطاس المستقیم ذلک خیر و احسن تاویلا) ” اور جب ناپنے لگو تو بھرپور پیمانے سے ناپو، اور سیدھے ترازو سے تولا کرو، یہی بہتر ہے، اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے“ اور سورۃ الرحمٰن آیت (٩) میں آیا ہے : (واقیموالوزن بالقسط ولاتخسروا المیزان) ” اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو، اور تول میں کمی نہ دو“ اور شعیب (علیہ السلام) کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے اسی گناہ کے سبب ہلاک کردیا کہ وہ لوگ ناپتول میں لوگوں کے ساتھ خیانت کرتے تھے۔ المطففين
2 المطففين
3 المطففين
4 (٢) ان آیات کر یمہ میں اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا بری صفت کے ساتھ متصف لوگوں کو دھمکی دی ہے کہ کیا انہیں اس کا یقین نہیں ہے کہ اپنی قبروں سے زندہ اٹھائے جائیں گے اور قیامت کے خطرناک اور مہیب دن میں تمام لوگوں کیساتھ رب العالمین کے سامنے نہایت ہی ذلت و انکساری کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور اپنے بارے میں اس کے فیصلے کا انتظار کریں گے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ ناپتول میں خیانت کی شناخت بیان کرنے کے بعد ان آیتوں کے لانے سے مقصود اس گناہ سے ممانعت میں مبالغہ اور اس کی خطرناکی بیان کرنا ہے۔ المطففين
5 المطففين
6 المطففين
7 (٣) لفظ ” کلا“ کے ذریعہ ان لوگوں کی زجر و توبیخ کی گئی ہے جو ناپتول میں خیانت کرتے ہیں اور لوگوں کے حقوق کی ادائیگی میں کمی کرتے ہیں، ان سے کہا گیا ہے کہ تم یہ نہس مجھو کہ تمہایر یہ اعمال لکھے نہیں جا رہے ہیں، تمہارا ان پر محاسبہ نہیں ہوگا اور تمہیں روز قیامت ان کا بدلہ نہیں دیا جائے گا، قیامت کا دن ضرور آئے گا اور تمہارے نامہ ہائے اعمال تمہارے سامنے ضرور پیش کئے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فاجروں کے نامہ ہائے اعمال سجین میں ہوں گے اور سجین کی تفسیر یہ بیان کی کہ وہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے، یعنی ایسی کتاب جس میں شیاطین، کفار، فاسقوں اور فاجروں کے برے اعمال لکھے جاتے ہیں، فتادہ، سعید بن جبیر، مقاتل اور کعب کا قول ہے کہ ” سجین“ ساتویں زمین کے نیچے ایک چٹان ہے، جس کے نیچے فاجروں کے نامہ ہائے اعمال دبا دیئے جاتے ہیں۔ مجاہد کا بھی یہی قول ہے۔ اخفش، مبرد اور زجاج وغیرہ نے (ان کتاب الفجار لفی سجین) کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ وہ فجار حبس دوام اور شدید تنگی میں ہیں، یعنی روز قیامت وہ نہایت ہی ذلت و روسائی سے دوچار ہوں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس دن اللہ اس کی آیتوں اور روز قیامت کی تکذیب کرنے والوں کے لئے ہلاکت و بربادی ہوگی یا انہیں جہنم کی وادی ویل میں درد ناک عذاب دیا جائے گا۔ مفسرینل کھتے ہیں کہ ناپت ول میں خیانث کرنے والے اس وعید میں بدرجہ اولیٰ داخل ہیں اس لئے کہ اس گناہ کے ارتکاب پر ان کا اصرار اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بعث بعد الموت پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔ آیات (١٢/١٣) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ روز قیامت کی تکذیب وہی شخص کرتا ہے جو اللہ کے حدود سے تجاوز کرنے والا اور انواع و اقسام کے جرائم و معاصی کا ارتکاب کرنے والا ہوتا ہے اور اس کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ جب اس کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے تو یہ کہہ کر اس کا انکار کردیتا ہے کہ یہ تو گزشتہ قوموں کے قصے اور افسانے ہیں، یہ وحی الٰہی نہیں ہے۔ المطففين
8 المطففين
9 المطففين
10 المطففين
11 المطففين
12 المطففين
13 المطففين
14 (٤) یہاں لفظ ” کلا“ اس زعم باطل کیتردید کے لئے ہے کہ قرآن کریم گزشتہ قوموں کے قصے اور واقعات ہیں، کہا گیا کہ یہ تو اللہ کی برحق اور کھلی کتاب ہے جس پر ایمان لانا اور اس پر عمل کرنا روحانی امراض کے لئے شافی ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کفر و معاصی نے ان کے دلوں پر پردہ ال دیا ہے جس کے بب وہ معرفت حق سے محروم ہوگئے ہیں اور اللہ کی کتاب عظیم کے بارے میں ایسی غلط بات اپنی زبان پر لاتے ہیں اور ان کے کفر ومعاصی کی ایک دوسری سزا انہیں یہ ملے گی کہ وہ قیامت کے دن اپنے رب کی دید سے محروم کر دیئیجائیں گے۔ سورۃ القیامہ آیات (٢٢/٢٣) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (وجوہ یومئذنا ضرۃ، الی ربھا ناظرۃ) ” اس روز بہت سے چہرے تروت ازہ اور بارونق ہوں گے اپنے رب کی طرف دیکھیت ہوں گے“ معلوم ہوا کہ مومنین اپنے رب کو دیکھیں گے اور کفار اس نعمت سے محروم کردیئے جائیں گے، بعض لوگوں نے اس کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ اس سے مقصود ان کی ذلت و رسوائی کی مثال بیان کرنی ہے، اس آدمی کے مانند جسے بطور اہانت بادشاہ کے دربار میں جانے سے روک دیا جاتا ہے قتادہ اور ابن ابی ملیکہ نے یہ تفسیر بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں گناہوں سے پاک نہیں کرے گا اور ان پر نظر رحمت نہیں ڈالے گا، مجاہد کا قول ہے کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اعزاز و اکرام سے یکسر محروم کردیئے جائیں گے۔ المطففين
15 المطففين
16 (٥) ان مجرمین کو ان کے کفر و معاصی کیت یسری سزا یہ ملے گی کہ وہ جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے جس میں ہمیشہ جلتے رہیں گے حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے ” بدائع الفوائد“ میں اس آیت کے ضمن میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں دو قسم کے عذاب دے گا، عذاب حجاب اور عذاب نار عذاب حجاب (یعنی اللہ تعالیٰ کو نہ دیکھنے) سے ان کے دلوں اور ان کی روحوں کو نہایت شدید تکلیف ہوگی اور عذاب نار سے ان کے اجسام جلتے رہیں گے اور اپنے محبوب بندوں کو اللہ تعالیٰ اس دن اپنی قربت اور اپنی دید سے نوازے گا اور جنت کی بیش بہا نعمتوں، حورعین اور دیگر بے شمار نعمتوں سے نوازے گا، جیسا کہ سورۃ الدہر آیت (١١) میں آیا ہے : (ولقاھم نضرہ وسروراً) ” اللہ تعالیٰ انہیں تازگی اور خوشی پہنچائے گا۔ “ آیت (١٧) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان مجرمین کی مزید زجر و توبیخ اور انہیں مزید ذہنی کرب و اذیت میں مبتلا کرنے کے لئے ان سے کہا جائے گا کہ یہی وہ جہنم ہے جسے تم لوگ دنیا کی زندگی میں جھٹلایا کرتے تھے اس لئے کہ انسان کے لئے یہ غایت درجہ کی تکلیف کی بات ہے کہ جب وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو اس سے کوئی کہے کہ تم جو کچھ بھگت رہے ہو تمہارے کرتوتوں کا پھل ہے۔ المطففين
17 المطففين
18 (٦) آیت (٧) اور اس کے بعد کی آیتوں میں فاجروں کے نامہ ہائے اعمال کی جگہ بتائی گئی تھی، یہاں نیکو کاروں اور اللہ سے ڈرنے والوں کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ بلاشبہ ان کے نامہ ہائے اعمال ” علیین“ میں ہوں گے اور علیین کی تفسیر یہ کی گئی کہ وہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے جس میں اہل خیر، اہل تقویٰ اور صالحین کے اچھے اعمال لکھے جاتے ہیں واحدی نے مفسرین کا قول نقل کیا ہے کہ وہ جگہ ساتویں آسمان پر عرش کے نیچے ہے ضحاک، مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ ” علیین“ ساتویں آسمان پر وہ جگہ ہے جہاں مومنوں کی روحیں رکھی جاتی ہیں قتادہ کا ایک دوسرا قول ہے کہ ” علیین“ ساتویں آسمان کے اوپر عرش الٰہی کے دائیں پائے کے نزدیک جگہ ہے بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد ” جنت“ ہے۔ آیت (٢١) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس مقدس کتاب کا مشاہدہ صرف مقر فرشتے کرتے ہیں یا مفہوم یہ ہے کہ اس کتاب عظیم میں صرف اللہ کے مقرب فرشتوں، انبشیاء صدیقین اور شہداء کی روحوں کے تذکرے ہیں، یعنی ان کا مقام ان کے رب کے نزدیک بہت ہی اونچا ہے۔ المطففين
19 المطففين
20 المطففين
21 المطففين
22 (٧) جن اہل تقویٰ اور اہل خیر کے نامہ ہائے اعمال ” مقام علیین“ میں ہوں گے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں نعمتوں والی جنت میں جگہ دے گا اور گاؤ تکیوں پر ٹیک لگائے آرام کریں گے اور ان کا رب انہیں جن نعمتوں سے نوازے گا اور جو عزت بخشے گا اس کے بارے میں سوچس وچ کر دل ہی دل میں نہایت خوش ہوں گے اور ان بیش بہا نعمتوں کی وجہ سے خوشی کے آثار ان کے چہروں پر عیاں ہوں گے اور انہیں خالص شراب پلائی جائے گی جس میں ت لچھت کا نام و نشان تک نہیں ہوگا اور وہ شراب خالص ایسے برتنوں میں ہوگی جو سربمہر ہوں گے، یعنی پہلے سے اسے کسی نے ہاتھ نہیں لگایا ہوگا اور وہ مہر مشک کے ذریعہ لگائی گئی ہوگی، اس مٹی کی مانند جس کے ذریعہش یشوں اور برتنوں کو سربمہر کیا جاتا ے، یعنی وہ مشک اتناتنازہ اور نم ہوگا کہ وہ مہر کے اثر کو قبول کرلے گا۔ بعض مفسرین نے (ختامہ مسک) کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ جنتی جب اس شراب طہور سے لذت کام و دہن حاصل کریں گے تو آخر میں مشک کی نہایت عمدہ خوشبو محسوس کریں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ اللہ کی ان نعمتوں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں اس کی طاعت و بندگی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرنی چاہئے، یہی تو وہ نعمتیں ہیں جن کے حصول کے لئے آدمی کو پوری جانفشانی اور محنت کرنی چاہئے۔ المطففين
23 المطففين
24 المطففين
25 المطففين
26 المطففين
27 (٨) اس شراب طہور کی تیاری میں جنت کے ” تسنیم“ نامی چشمے کا صاف شفاف پانی ملا ہوگا اور وہ پانی اللہ کے ان مقرب بندوں کے لئے خاص ہوگا جو جنت کے اعلیٰ ترین مقام میں ہوں گے۔ المطففين
28 المطففين
29 (٩) کفار و مجرمین اور صالحین اور اہلت قویٰ کا انجام اور ہر ایک کی جزا و سزا بیان کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ نے ابو جہل، ولید بن مغیرہ عاص بن وائل اور انہی جیسے دیگر مجرمین قریش کے ظلم و طغیان کا ذکر کیا کہ قیامت کے دن ان کیب ارے میں کہا جائے گا کہیہی وہ مجرمین ہیں جو دنیا میں ان مومنوں کی ہنسیاڑاتے تھے جو ایک اللہ پر ایمان لے آئیتھے، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا رسول مان لیا تھا اور اپنے آباء و اجداد کے مشرکانہ طرور طریقوں سے تائب ہوگئے تھے، اللہ کے یہ نیک بندے جب مکہ کی سڑکوں اور گلیوں میں ان کے پاس سے گذرتے تھے تو کبر و غرور میں آ کر ان کا مذاق اڑتے تھے اور آپس میں ان کے بارے میں ایک دوسرے کی طرف آنکھوں سے اشارہ کرتے تھے اور جب اپنی مجلسوں سے اٹھ کر اپنے گھروں اور بال بچوں کی طرف چلتے تھے تب بھی مومنوں کا مذاق اڑاتے تھے ان کی عیب جوئی کرتے تھے اور خوب چٹخارے لیتے تھے۔ المطففين
30 المطففين
31 المطففين
32 (١٠) مجرمین قریش جب مسلمانوں کو دیکھتے تو ان کی طرف اشارہ کر کے کہتے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آباء و اجداد کا دین چھوڑ دیا ہے اور محمد کا دین قبول کر کے راہ حق سے برگشتہ ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : حالانکہ وہ مجرمین ان مومنوں کے محافظ و نگہبان بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے کہ ان کے اعمال پر نظر رکھتے اور ان کی ہدایت و گمراہی کی گواہی دیتے۔ مفسر ابو السعود نے (وما ارسلوا علیھم حافظین) کو انہی مجرمین کا قول قرار دیا ہے، وہ کہتے تھے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والے یہ لوگ یقیناً گمراہ ہوگئے ہیں اور یہ ہم پر نگراں اور محافظ نہیں مقرر کئے گئے ہیں کہ ہمیں شرک سے روکیں اور اپنے اسلام کی طرف بلائیں۔ المطففين
33 المطففين
34 (١١) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : دنیا میں مومنوں کا مذاق اڑانے کا، قیامت کے دن کافروں اور مجرموں کو یہ بدلہ ملے گا کہ مومنین ان کی ذلت و رسوائی دیکھ کر خوش ہوں گے اور گاؤ تکیوں پر بیٹھے اپنے رب کی دی ہوئی نعمتوں کو دیکھ رہے ہوں گے اور اس عذاب جہنم کو بھی دیکھ رہے ہوں گے جس میں مجرمین مبتلا ہوں گے، تب رب ذوالجلال مومنوں کو مخاطب کر کے کہے گا : کیا ابتم نے دیکھ لیا کہ ہم نے کافروں کو ان کے کفر و ظلم اور ان کے دیگر برے اعمال کا کیسا بدلہ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المومنون آیات (١٠٨/١٠٩/١٠٠/١١١) میں اسی مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے : (قال اخسوا فیھا ولاتکلمون، انہ کان فریق من عبادی یقولون ربنا امنافا غفرلنا وارحمنا وانت خیر الراحمین، فاتخذتموھم سخریا حتی انسوکم ذکری وکنتم منھم تضحکون، انی جزیتھم الیوم بما صبروا انھم ھم الفائزون) ” اللہ تعالیٰ (جہنمیوں سے) کہے گا، تم سب پھٹکا رے ہوئے یہیں پڑے رہو، اور مجھ سے بات نہ کرو میرے بندوں کی ایک جماعت تھی جو برابر یہی کہتی رہی کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم ایمان لا چکے ہیں، تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما، تو سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے، لیکن تم ان کا مذاق ہی اڑاتے رہے، یہاں تک کہ (اس مشغلے نے) تمہارے دل سے میری یاد بھی بھلا دی اور تم ان سے مذاق ہی کرتے رہے، میں نے آج انہیں ان کے اس صبر کا بدلہ دے دیا ہے کہ وہ اپنی مراد (جنت) کے حصول میں کامیاب ہوچکے ہیں“ المطففين
35 المطففين
36 المطففين
0 سورۃ الانشقاق مکی ہے، اس میں پچیس آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ الانشقاق نام : پہلی آیت میں ” اشقت“ لفظ آیا ہے، جو انشقاق کا فعل ماضی ہے، اسی لئے اس سورت کا نام ” الانشقاق“ رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت بالاتفاق مکی ہے، ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ نے ابن عباس اور ابن الزبیر (رض) سے یہی روایت کی ہے، بخاری و مسلم وغیرہ نے ابو رافع سے روایتکی ہے کہ میں نے ابوہریرہ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی، انہوں نے (اذا السماء انشقت) پڑھی اور سجدہ کیا اور کہا کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے سجدہ کیا ہے اس لئیسجدہ کرتا رہوں گا، یہاں تک کہ ان سے جا ملوں۔ الانشقاق
1 (١) آیات (١) سے (٥) تک اللہ تعالیٰ نے بعث بعد الموت کی حقیقت کو باور کرانا چاہا اور کہا ہے کہ جب آسمان اپنے رب کا حکم سنتے ہی پھٹ جائے گا، اس کے ٹکڑیٹکڑے ہوجائیں گے، ستارے بکھر جائیں گے اور شمس و قمر کی روشنی غائب ہوجائے گی، اور جب زمین تیزی کے ساتھ ہلنے لگے گی، اس پر موجود پہاڑ، مکانات اور دیگرتمام چیزیں ختم ہوجائیں گی اور زمین ایک چٹیل میدان بن جائے گی، جیسا کہ سورۃ طہ آیات (١٠٦/١٠٧) میں آیا ہے : (فیذرھا قاعا صفصفا، لاتری فیھا عوجا ولا امتا) اللہ تعالیٰ زمین کو بالکل ہموار اور صاف میدان بنا دے گا، جس میں آپ نہ کہیں موڑ توڑ دیکھیں گے اور نہ اونچ نیچ“ او زمین اپنے تمام خزانوں اور مردوں کو باہر نکال پھینکے گی، اور ان سے بالکل خالی ہوجائے گی، اس کے اندر کچھ بھی بایق نہیں رہے گا اور زمین اپنے رب کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دے گا اور اسے ایسا ہی کرنا تھا، اس لئے کہ رب العالمین کے حکم سے کون سرتابی کرسکتا ہے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ (واذنت لربھا وحقت) کیتکرار سے مقصود انسانوں کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھانی ہے کہ آسمان و زمین ہر دو رب ذوالجلال کی قدرت و مشیت اور اس کے قہر وجلال کے دائرے سے ایک لمحہ کے لئے بھی خارج نہیں ہے۔ جس دن آسمان و زمین کی یہ حالت ہوجائے گی، اس دن انسانوں کا کیا حال ہوگا، وہ بیان سے باہر ہے، یا اس دن ہر آدمی یقینی طور پر جان لے گا کہ اس نے دنیا میں کیسے اعمال کئے تھے جن کا آج اسے بدلہ چکایا جائے گا۔ الانشقاق
2 الانشقاق
3 الانشقاق
4 الانشقاق
5 الانشقاق
6 (٢) بعث بعد الموت کی صداقت کی مزیدتاکید کے لئے اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تمہاری زندگی جہد و عمل سے عبارت ہے، تم جب تک زندہ رہو گے دن رات کوئی نہ کوئی کام کرتے رہو گے، چاہے وہ کام اچھا ہو یا برا اور ساتھ ہی ساتھ تمہاری ہر سانس تمہیں موت سے قریب کرتی جاتی ہے یہاں تک کہ ایک دن تمہارمی موت آ ہی جائے گی، اور تم اپنے خالق حقیقی سے جا ملو گے، اس لئیت مہاری یہ کوشش ہونی چاہئے کہ تمہارا عمل ایسا ہو جوت مہیں رب العالمین کی ناراضگی سے بچائے ورنہ تم روز قیامت ہلاک ہوجاؤ گے۔ بعض مفسرین نے (فملا قیہ) میں ” ہ“ ضمیرغائب کا مرجع ” کدح“ کو مانا ہے، جس کا معنی جہدو عمل ہے، ایسی صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ اے انسان ! مرنے کے بعدتم اپنے عمل سے ضرور ملو گے، چاہے وہ اچھا ہو یاب را اس لئے تم ایسا عمل کرنے کی کوشش کرو کہ رب العالمین تم سے راضی ہوجائے تاکہ تم ہلاک نہ ہوجاؤ۔ الانشقاق
7 (٣) روز قیامت لوگوں کا کیا حال ہوگا اس کی منظر کشی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس دن جن نیک بختوں کے نامہ ہائے اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے، رب العالمین ان کا حساب آسان کر دے گا، ان کے گناہوں کو معاف کر دے گا، اور ان کی نیکیوں کو قبول فرما لے گا اور وہ اپنے اہل و عیال اور خویش و اقارب کے پاس، یا انہی جیسے نیک لوگوں کے پاس بے پایاں خوشی کے ساتھ آئیں گے، اس لئے کہ انہیں جہنم سے آزادی کا پروا نہ مل چکا ہوگا اور جنت میں حوروں، اپنی نیک بیویوں اور صالح اولاد کے ساتھ جا ملیں گے، سورۃ الطور آیت (٢١) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (والذین امنوا واتبعتھم ذریتھم بایمان الحقنا بھم ذریتھم) ” اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی، ہم ان کی اولاد کو ان تک پہنچا دیں گے۔ “ الانشقاق
8 الانشقاق
9 الانشقاق
10 الانشقاق
11 الانشقاق
12 الانشقاق
13 (٤) آیات (١٣/١٤) میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اس برے انجام کا سبب بیان فرمایا کہ یہ اہل جہنم دنیا کی زندگی میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ خوب عیش پرستی کرتے رہے، انہوں نے قیامت اور جنت و جہنم کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا، انہوں نے اپنے پیٹ اور اپنی شہوت رانی کے سوا کسی دوسری بات کے بارے میں کبھی بھی غور نہیں کیا، یہ لوگ رب العالمین کی بندگی سے یکسر غافل رہے، یہ لوگ یہی سمجھتے رہے کہ بعث بعد الموت اور اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر حساب دینے سے بڑھ کر کوئی جھوٹ نہیں۔ آیت (١٥) میں ان جہنمیوں کے اس بیمار فکر کیتردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم سراسر غلطی پر ہو، تم ضرور دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے اور تمہارا رب تمہارے کرتوتوں سے خوب واقف ہے، وہ تمہیں ضرور ان کا بد لہ دے گا اور تم ضرور جہنم رسید ہو گے۔ الانشقاق
14 الانشقاق
15 الانشقاق
16 (٥) مشرکین مکہ سمجھتے تھے کہ مرنے کے بعد آدمی مٹی میں گل سڑ کر ختم ہوجاتا ہے اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے، اسی کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے شفق، رات اور چاند کی قسم کھا کر حضرت انسان کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ موت کے بعدتم ہمیشہ کے لئے ختم نہیں ہوجاؤ گے بلکہ بلاشبہ تم کئی احوال و اطوار سے گذررو گے، موت کے بعدتم دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے، پھر میدان محشر میں اکٹھا کئے جاؤ گے پھر تمہارا حساب ہوگا اور پھر تم اپنے نیک و بد اعمال کے مطابق بدلہ دیئے جاؤ گے، اگر تم نے دنیا کی زندگی میں نیک اعمال کئے ہوں گیت و جنت اور اس کی نعمتوں سے نوازے جاؤ گے اور اگر کفر و شرک اور دیگر معاصی سے تمہارے نامہ ہائے اعمال بھرے ہوں گے تو تمہارا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ الانشقاق
17 الانشقاق
18 الانشقاق
19 الانشقاق
20 (٦) جب قیامت کا آنا یقینی ہے، اس دن نیک و بد اعمال کی جزا و سزا یقینی ہے اور جنت و جہنم و ہم و خیال نہیں بلکہ امر واقع اور موجود ہے تو پھر ان مشرکین قریش کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اللہ، اس کے رسول اور قرآن پر ایمان نہیں لاتے اور اپنے گناہوں سے تائب ہو کر دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوجاتے اور انہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو رب العالمین کے لئے عجز و انکساری کا اظہار کرتے ہوئے سجدے میں نہیں گرجاتے۔ الانشقاق
21 الانشقاق
22 (٧) مشرکین قریش قرآن پر ایمان لانے کے بجائے اس کی تکذیب کرتے ہیں مفسرین لکھتے ہیں کہ ان کی یہ تکذیب اس بنا پر نہیں تھی کہ قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کے دلائل ناکافی تھے، قرآن کریم نے ان کے دلوں کے بند دروازوں کو ضرور کھولا، اور اس کی آواز ان کے ضمیر کی گہرائیوں تک ضرور پہنچی اور انہیں یقین ہوگیا کہ یہ کلام الٰہی ہے، لیکن محض کبر و غرور کے سبب وہ ایمان نہیں لائے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آیت (٢٣) میں فرمایا ہے کہ ان کے دلوں میں کفر و افترا پردازمی، بغض و حسد اور کبر و غرور نے گھر کرلیا ہے، جس کے سبب اللہ نے انہیں ایمان کی توفیق سے محروم کردیا ہے۔ الانشقاق
23 الانشقاق
24 (٨) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ اے میرے نبی ! آپ ان متکبر کافروں کو درد ناک عذاب کی خوشخبری دے دیجیے، البتہ ان میں سے جو لوگ ایمان لے آئیں گے اور نیک عمل کریں گے، انہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پورے اجر و ثواب سے نوازے گا، انہیں جنت دے گا جس کی نعمتیں کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ وباللہ التوفیق الانشقاق
25 الانشقاق
0 سورۃ البروج مکی ہے، اس میں بائیس آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ البروج نام : پہلی آیت میں ہی ” البروج“ کا لفظ آیا ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت بالاتفاق مکی ہے، ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ نیح ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ (والسماء ذات البروج) مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ امام احمد نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عشاء کی نماز میں (والسماء ذات البروج) پڑھا کرتے تھے نیز امام امد نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عشاء کی نماز میں (والسماء ذات البروج) پڑھنے کا حکم دیا یہ۔ البروج
1 (١) باری تعالیٰ نے تین آیتوں میں چار چیزوں کی قسم کھا کر ” اصحاب اخدود“ پر لنت بھیجی ہے جنہوں نے اللہ کے نیک بندوں کو صرف اس لئے آگ میں ڈال دیا تھا کہ وہ رب العالمین پر ایمان لے آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس آسمان کی قسم جس میں شمس و قمر اور نجوم و کواکب کے منازل پائے جاتے ہیں، جن میں وہ اپنے خالق کی مقرر کردہ نہایت دقیق تنظیم و ترتیب کے مطابق چلتے رہتے ہیں اور ان سے سر موانحراف نہیں کرتے ہیں۔ اور اس روز قیامت کی قسم ! جس میں اللہ نے اپنے بندوں کے درمیان فیصلے صادر کرنے کا وعدہ کیا ہے اور جو پورا ہو کر رہے گا اور یوم جمعہ اور یوم عرفہ کیقسم صاحب محاسن التنزیل نے (وشاھدو مشھود) کی تفسیر یہ بیان کی ہے کہ ہر اس مخلوق کی قسم ! جس کے اندر حس ہے، جس کے ذریعہ وہ محسوس و مشاہدہ کرتی ہے اور ہر اس مخلوق کی قسم ! جسے بذریعہ حس محسوس و مشاہدہ کیا جاتا ہے، یعنی ان تمام مخلوقات کی قسم جن کا مشاہدہ کیا جاتا ہے، امام شوکانی نے احادیث و آثار کی بنیاد پر پہلی تفسیر (یعنی شاہد سے مراد یوم جمعہ اور مشہود سے یوم عرفہ) کو ترجیح دی ہے۔ تمام مذکورہ بالا چیزوں کی قسم ! کہ اصحاب اخدود اللہ کی لعنت کے مستحق بن گئے جنہوں نے ایک بہت بڑی آگ سلگائی، اور ان مومنوں کو اس کے پاس لے کر آئے جنہوں نے شرک سے تائب ہو کر توحید کی دعوت قبول کرلی، اور ان سے کہا کہ یا تو تم دوبارہ کافر ہوجاؤ یا تمہیں اس آگ میں ڈال دیا جائے گا تو انہوں نے کفر کے بجائے آگ میں ڈالا جانا قبول کرلیا۔ اصحاب اخدود کے بارے میں مسلم، ترمذی اور نسائی وغیرہ نے صہیب (رض) سے اور انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ گزشتہ زمانہ میں ایک بادشاہ تھا، اس کا ایک کاہن تھا اس نے کہا : مجھے ایک ذہین و فطین لڑکا دیجیے جسے میں اپنے مرنے سے پہلے اپنا علم سکھا دوں، بادشاہ نے ایک لڑکا چن کر اس کے پاس بھیج دیا، وہ لڑکا اس کے پاس جانے لگا اس کے راستہ میں ایک گرجا تھا، جس میں ایک راہب (عابد و زاہد) رہتا تھا، لڑکا اس کے پاس بھی جانے لگا، کچھ دنوں کے بعد راہب نے اسے بتایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے، لڑکا اس کے پاس دیر تک رہنے لگا اور کاہن کے پاس جانے میں دیر کرنے لگا، کاہن نے اس کے گھر والوں کو خبر بھیج دی کہ وہ دیر سے آیا کرتا ہے اور میرے پاس بہت کم وقت رکتا ہے، جب لڑکے نے راہب کو یہ بات بتائی تو اس نے کہا : کاہن کو کہہ دیا کرو کہ گھر میں تھا، اور گھر والوں سے کہہ دو، میں کاہن کے پاس تھا ایک دن اس نے دیکھا کہ ایک شیر نے لوگوں کی راہ روک رکھی ہے اس نے ایک پتھر اٹھایا اور یہ کہہ کر اسے مارا کہ اے اللہ ! اگر کاہن کی بات صحیح نہیں ہے تو میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میں اس شیر کو قتل کر دوں اور اگر کاہن کی بات صحیح ہے توشیر اس پتھر سے نہ مرے، چنانچہ شیر مر گیا، لوگوں نے یہ دیکھ کرلڑکے کے علم و عرفان کا اعتراف کرلیا، ایک اندھا اس لڑکے کے پاس آیا، اور کہا کہ اگر تمہارے ذریعہ میری بصارت واپس آجائے گی تو میں تمہیں ایسا ایسا بدلہ دوں گا لڑکے نے کہا : مجھے تم سے اس کا کوئی بدلہ نہیں چاہئے، سوائے اس کے کہ تم اس اللہ پر ایمان لے آؤ جو تمہاری بصارت لوٹا دے گا، اس نے کہا : ٹھیک ہے لڑکے نے دعا کی اور اس کی بینائی واپس آگئی تو وہ اللہ پر ایمان لے آیا، بادشاہ کو خبر ہوئی تو اس نے راہب، سابق نابینا اور لڑکا، تینوں کو اپنے دربار میں بلایا، اور راہب اور سابق نابینا کو آرے سے دوٹکڑے کردیا اور لڑکے کے بارے میں حکم دیا کہ اسے اونچے پہاڑ سے نیچے گرا دیا جائیجب لوگ اسے لے کر پہاڑ پر پہنچے تو اللہ کی قدرت سے ایک ایک کر کے سبھی نیچے گر کر ہلاک ہوگئے اور لڑکا واپس آگیا بادشاہ نے دوبارہ حکم دیا کہ اسے سمندر میں ڈبو دیا جائے لوگ اسے لے کر سمندر میں گئے، اللہ کا ایسا کرنا ہوا کہ سب ڈوب گئے اور لڑکا بچ گیا تب اس نے بادشاہ سے کہا کہ تم مجھے ایک ہی صورت میں مار سکتے ہو کہ مجھ پرتیر چلاتے وقت ” بسم اللہ رب ھذا الغلام“ کہو یعنی ” اس اللہ کے نام سے اسے مارنا چاہتا ہوں جو اس لڑکے کا رب ہے“ چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیا تو لڑکا مر گیا جب لوگوں نے دیکھا تو بیک آواز سب کہنے لگے کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے بادشاہ نے جب دیکھا کہ لوگ گروہ درگروہ ایمانلا رہے ہیں تو اس نے ایک آگ جلائی اور تمام لوگوں کو اس کے پاس جمع کیا اور ہر اس شخص کو اس میں ڈالنے لگا جو اپنے نئے دین سے نہیں پھرتا تھا صہیب کہتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (قتل اصحاب الاخدود) سے (العزیز الحمید) تک تلاوت کی اور کہا کہ ان آیتوں میں یہی واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ آیت (٥) میں اسی آگ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ بڑی بھیانک آگ تھی اور آیات (٦/٧) میں ب تایا کہ وہ مجرمین اتنے سخت دلتھے کہ اس آگ کے کنارے بیٹھ کر مومنوں اور مومنات کے جسموں کے جلنے کا نظارہ کرتے تھے۔ آیات (٨/٩) میں فرمایا کہ ان کافروں کے نزدیک ان مومنوں کا جرم اس کے سوا کچھ بھی نہ تھا کہ وہ اس اللہ پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور تمام تعریفوں کا تنہا سزا وار ہے اور جو آسمانوں اور زمین کا تنہا مالک اور بادشاہ ہے جو اپنے بندوں کے ہر قول و عمل پر مطلع ہے، آسمانوں اور زمین کے درمیان ایک ذرہ بھی اس کے علم سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے، اور وہ یقیناقیامت کے دن ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ اللہ جل جلالہ کے ان صفات کا تقاضا یہ ہے کہ بندے اس پر ایمان لائیں اسی کی طاعت و بندگی کریں، اسی سے محبت کریں اور اسی سے ڈریں، نہ کہ کفر کی راہ اختیار کریں اور اس کے ممن بندوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائیں، جیسا کہ اصحاب اخدود نے اپنے زمان کے اہل ایمان کے ساتھ برتاؤ کیا کہ انہیں بے دردی کے ساتھ دہکتی آگ میں ڈال دیا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہسورت مکی دور میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کی ہمت افزائی اور انہیں صبر کی تعلیم دینے کے لئے نازل ہوئی تھی کہ جس طرح گزشتہ زمانہ میں اصحابہ اخدود کے ظلم و ستم پر اس عہد کے مومنوں نے صبر کیا اور آگ میں جلایا جانا برداشت کرلیا لیکن اپنے ایمان سے دست بردار نہیں ہوئے، اسی طرح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے صحابہ کو بھی اہل مکہ کے ظلم و ستم پر صبر کرنا چاہئے اور اپنے ایمان پر ثابت قدم رہنا چاہئے اور انہیں یہ بھی معلم ہونا چاہئے کہ مکہ کے کفار مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے اور بے دردی کی وجہ سے اللہ کے نزدیک اصحاب اخدود کی طرح لعنت کے مستحق ہیں۔ البروج
2 البروج
3 البروج
4 البروج
5 البروج
6 البروج
7 البروج
8 البروج
9 البروج
10 اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اصحاب اخدود کا انجام بیان فرمایا ہے جنہوں نے اللہ پر ایمان لانے والے اس کے نیک بندوں اور بندیوں کو آگ میں ڈال دیا اور اپنے گناہ سے تائب ہو کر دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہوئے کہ قیامت کے دن ان کے کفرکے سبب اللہ تعالیٰ انہیں جہنم کا عذاب دے گا اور مومنوں کو آگ میں جلانے کے سبب انہیں دوہری عذاب نار میں مبتلا کرے گا بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ پہلے انہیں جہنم میں زمہر یر یعنی شدید ترین ٹھنڈے کے ذریعہ عذاب دیا جائے گا، پھر آگ کے عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے ربیع بن انس کا قول ہے کہ اصحاب اخدود نے جو آگ جلائی تھی اس نے خندق سے باہر نکل کر بادشاہ اور اس کے تمام ساتھیوں کو جلا دیا تھا۔ البروج
11 (٣) اس آیت کریمہ میں ان مومنوں کا بہترین انجام بیان کیا گیا ہے جو آگ میں ڈال دیئے گئے تھے اور اللہ کا یہ وعدہ ہر دور میں اس کے تمام نیک بندوں کو شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا، ان کو اللہ ایسی جنتیں دے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور یہی وہ عظیم کامیابی ہے جس کے برابر اور کوئی کامیابی نہیں ہو سکتی، اس لئے کہ انہیں جہنم سے نجات مل جائے گی اور جنت میں داخل کردیئے جائیں گے، اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران آیت (١٨٥) میں فرمایا ہے : (فمن زحزح عن الناروا دخل الجنۃ فقد فازوما الحیاۃ الدنیا الامتاع الغرور) ” جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے گا اور جنت میں داخل کردیا جائے گا وہ کامیاب ہوجائے گا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔ “ البروج
12 (٤) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ ظالموں اور سرکشوں کے لئے آپ کے رب کی گرفت بہت ہی سخت ہوتی ہے مفسر ابوالعسود کہتے ہیں، اس میں اشارہ ہے کہ جو مشرکین قریش نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کو اذیت پہنچانے میں پیش پیش ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی شدیدگرفت کرے گا، اس لئے کہ ان جیسے ظالموں کو اللہ بڑا ہی شدید عذاب دیتا ہے، جیسا کہ سورۃ ہود آیت (١٠٢) میں آیا ہے : (وکذلک اخذ ربک اذا اخذ القری وہی ظالمۃ ان اخذہ الیم شدید) ” آپ کے رب کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ ان بستیوں والوں کی گرفت کرتا ہے جن کے رہنے والے ظلم کرنیلگتے ہیں بے شک اس کی گرفت درد ناک اور شدید ہوتی ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ اس کے لئے ظالموں کی گرفتک رنا کوئی بڑی بات نہیں، اس لئے کہ وہ بے پایاں قدرت کا مالک ہے، وہ جب بھی کوئی چیز چاہتا ہے، پلک جھپکتے وہ چیز وجود میں آجاتی ہے اس کی قدرت بے پایاں کا مظہر یہ بھی ہے کہ ہو یہ چیز کو پہلی بار پیدا کرنے پر قادر ہے اور اس کے ہلاک ہونے کے بعد ہو جب چاہے گا اسے دوبارہ وجود میں لے آئے گا، کوئی چیز اس کی مشیت کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ اور وہی اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کرنے والا ہے اس کے سوا کوئی گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا، اور وہ اپنے مخلص و محب بندوں سے بڑی محبت کرنے والا ہے اور وہ عرش پر مستوی شہنشاہ دو جاں ہے اور وہ عظمت و کبریائی والا ہے اور وہ مالک دوسرا جو چاہتا ہے کرتا ہے کوئی نہیں جو اس کی مرضی کی راہ میں حائل ہو، اس لئے وہ جب چاہتا ہے کافروں اور سرکشوں کو ہلاک کردیتا ہے اور اپنے مخلص بندوں کی مدد کرتا ہے۔ البروج
13 البروج
14 البروج
15 البروج
16 البروج
17 (٥) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جا رہی ہے اور صبر و شکیبائی کی تلقین کی جا رہی ہے کہ آپ کو فرعونیوں اور قوم ثمود کے عناد اور ان کی سرکشی کی خبر دی جا چکی ہے اور ان کے پاس بھیجے گئے رسولوں کی صبر و ضبط کی بات بھی بتائی جا چکی ہے کہ انہوں نے ہر تکلیف برداشت کی اور ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی اس لئے آپ بھی صبر سے کام لجییے اور میرا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہئے اور یہ جان لیجیے کہ جو لوگ آپ کی تصدیق نہیں کریں گے اور آپ پر ایمان نہیں لائیں گے ان کا انجام انہی فرعونیوں اور قوم ثمود کی طرح ہلاکت و بربادی ہوگا۔ آیت (١٩) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے نبی ! آپ کی قوم کے کفار انکار حق میں فرعونیوں اور قوم ثمود سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں کہ قرآن و اسلام کی حقانیت پر روشن اور واضح دلائل آجانے اور فرعونیوں اور قوم ثمود کا انجام معلوم ہونے کے باوجود اپنے کفر و شرک پر اصرار کر رہے ہیں۔ آیت (٢٠) میں کفار قریش کو مزید دھمکی دیتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ وہ ان کے کارہائے بد کو ایک ایک کر کے لکھ رہا ہے، ان کی کوئی حرکت اور ان کا کوئی عمل اس سے مخفی نہیں ہے، وہ لوگ ہر وقت اور ہر حال میں اس کے قبضہ قدرت میں ہیں، اس سے بھاگ کر ان کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں۔ البروج
18 البروج
19 البروج
20 البروج
21 (٦) مشرکین مکہ کی تردید کی گئی ہے جو قرآن کریم کو کبھی گزشتہ قوموں کے افسانے، کبھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے اللہ تعالیٰ پر افترا پردازی، کبھی شاعری اور کبھی جادو کہتے تھے اور لوگوں کو اس پر ایمان لانے سے روکتے تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ قرآن وہ نہیں ہے جو تم اس کے بارے میں کہتے ہو، بلکہ یہ اللہ کی نازل کردہ ایک نہایت معظم و مکرم کتاب ہے جس کی مانند دنیا میں کوئی کتاب نہیں اور وہ کتاب عظیم لوح محفوظ میں شیاطین اور دیگر خلائق کی دترس سے محفوظ ہے۔ وباللہ التوفیق البروج
22 البروج
0 سورۃ الطارق مکی ہے، اس میں سترہ آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ الطارق نام : پہلی اور دوسری آیت میں لفظ ” الطارق“ آیا ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت تمام کے نزدیک مکی ہے، ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ نے ابن عباسرضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ (والسماء و الطارق) مکہ میں نازل ہوئی تھی احمد، طبرانی اور امام بخاری نے اپنی ” تاریخ“ میں خالد العددانی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ثقیف کے بازار میں (والسماء و الطارق) پڑھی تھی اور انہوں نے زمانہ جاہلیت میں ہی اسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن کر یاد کرلیا تھا۔ الطارق
1 (١) مفسرین نے لکھا ہے کہ سورتوں کی ابتدا قسم کے ذریعہ کرنے سے مقصود، سننے والے کو رغبت دلانا ہے کہ جو بات اس قسم کے بعد کہی جا رہی ہے اسے غور سے سنے، چنانچہ یہاں ابتدائی چار آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے آسمان اور روشن ستارے ” زحل“ یا ثریا، یا ہر چمکدار ستارے کی قسم کھا کر لوگوں کو یہ باور کرانا چاہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی کے لئے ایک محافظ فرشتہ مقرر کر رکھا ہے جو اس کے خیر و شر تمام اقوال و اعمال کو محفوظ کرتا رہتا ہے کسی انسان کا کوئی عمل بھی گم نہیں ہوجاتا۔ بعض مفسرین نے ” حافظ“ سے اللہ مراد لیا ہے، جو ہر انسان کا مراقبہ کرتا رہتا ہے اور اس کے خیر و شر اعمال کو فرشتوں کے ذریعہ نامہ اعمال میں درج کرتا رہتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب آیت (٥٢) میں فرمایا ہے : (وکان اللہ علی کل شی ئرقیباً) ” اللہ ہر چیز کا نگران و نگہبان ہے“ امام شوکانی نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے۔ الطارق
2 الطارق
3 الطارق
4 الطارق
5 (٢) اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کے اچھے اور برے اقوال و افعال کو ” کراماً کاتبین“ فرشتوں کے ذریعہ محفوظ کر رہا ہے اور جب قیامت آئے گی تو سب مردے دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اور ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ چکایا جائے گا اس امر کی صداقت میں جو کافر شبہ کرتا ہے، اسے اپنی تخلیق کی حقیقت پر غور کرنا چاہئے کہ جس اللہ تعالیٰ نے اسے حقیر منی کے ایک قطرہ سے پیدا کیا ہے جو مرد کی ریڑھ اور عورت کے سینے کے درمیان سے نکلتا ہے، وہ یقیناً اس پر قادر ہے کہ اسے دوبارہ زندہ کرے اور میدان محشر میں جمع کر کے اس کے کرتوتوں کا اس سے حساب لے۔ اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے آیات (٨/٩) میں یوں بیان فرمایا ہے کہ وہ رب ذوالجلال جو تمام انسانوں کا نگراں و محافظ ہے، وہ ییناً انہیں دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے، اور یہ بعث و نشور اور حساب و کتاب اس دن ہوگا جب دلوں کی تمام چھپی باتیں ظاہر کردی جائیں گی، لوگوں کے صحیح اور غلط عقائد اور نیتیں کھل کر سامنے آجائیں گی، اور کافر انسان کے پاس نہ خود کوئی قوت ہوگی جس کے ذریعہ اللہ کے عذاب کو ٹال سکے اور نہ اس کا کوئی مددگار ہوگا جو آگے بڑھ کر اسے عذاب سے نجات دلا سکے گا، اس کی بے بسی انتہا کو پہنچی ہوگی اور انتہائے بے چارگی میں اپنے برے انجام کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوگا۔ الطارق
6 الطارق
7 الطارق
8 الطارق
9 الطارق
10 الطارق
11 (٣) ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی صداقت و حقانیت پر اس آسمان کی قسم کھائی ہے جس سے وہ انسانوں اور دیگر حیوانات کی زندگی اور بقا کے لئے بارش بھیجتا رہتا ہے اور اس زمین کی قسم کھائی ہے جس میں وہ مختلف الانواع پودے اگاتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بے شک قرآن کریم اس کا کلام ہے جو حق و باطل کے درمیان تفریق کرتا ہے اور برملا اعلان کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی بندگی کے لائق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور قیامت کی آمد امر یقینی ہے مزید تاکید کے طور پر اللہ نے فرمایا کہ یہ قرآن کوئی باطل اور لغو کلام نہیں ہے جس کی کوئی غرض و غایت نہ ہو۔ الطارق
12 الطارق
13 الطارق
14 الطارق
15 الطارق
16 (٤) اللہ تعالیٰ نے کفار قریش کے بارے میں فرمایا جو قرآن کریم کی تکذیب کرتے تھے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی دعوت کے خلاف سازشیں کرتے تھے، کہ یہ لوگ اللہ کے دین کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اور پھونکوں سے اس کے چراغ کو بجھانا چاہتے ہیں تو وہ جان لیں کہ اللہ بھی ان کے خلاف تدبیر کر رہا ہے اور انہیں جہنم تک پہنچانے کے لئے ان کی رسی ڈھیل دی ہے، تاکہ کفر و معصیت میں آخری حدود کو پہنچ جائیں، اس لئے اے میرے نبی ! آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجیے اور ان کے عذاب کے لئے جلدی نہ کیجیے، انہیں تھوڑی سی مہلت دے دیجیے، بالآخر اپنے انجام بد کو پہنچ کر رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المجادلہ آیت (٢١) میں فرمایا ہے : (کتب اللہ لاغلبن ان اور سلی ان اللہ قوی عزیز) ” اللہ لکھ چکا ہے کہ میں اور میرے پیغامبر یقیناً غالب ہوں گے۔ یقیناً اللہ قوت والا، زبردست ہے“ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ چکا ہے کہ میں اور میرے پیغامبر یقیناً غالب ہوں گے، یقیناً اللہ قوت والا، زبردست ہے“ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا اور چند ہی سال کے اندر مکہ سے کفر و شرک کا خاتمہ ہوگیا، تمامب توں کو وہاں سے نکال پھینکا گیا اور وہاں صرف ایک اللہ کی بندگی کی جانے لگی۔ وباللہ التوفیق الطارق
17 الطارق
0 سورۃ الاعلی مکی ہے، اس میں انیس آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ الاعلیٰ نام : پہلی آیت میں لفظ ” الاعلی“ آیا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے یہی اس سورت کا نام دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : جمہور مفسرین کے نزدیک یہ سورت مکی ہے، حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے، اس کے مکی ہونے کی دلیل براء بن عازب کی حدیث ہے جسے بخاری نے روایت کی ہے، کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ آئے تو اہل مدینہ آپ کی آمد پر اتنا خوش ہوئے کہ اس سے پہلے کسی بات سے اتنا خوش نہیں ہوئیت ھے، یہاں تک کہ میں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے جب آپ آئے تو میں نے (سبح اسم ربک الاعلی) اور اسی جیسی دوسری سورتیں پڑھیں۔ مسند احمد میں علی (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سورت کو بہت پسند کرتے تھے اور صحیح مسلم میں نعمان بن شیر سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیدین میں اور جمعہ کے دن (سبع اسم ربک الاعلی) اور (ھل اتاکا حدیث الغاشیۃ) پڑھا کرتے تھے اور اگر عید اور جمعہ ایک دن اکٹھا ہوجاتے تو انہیں دونوں میں پڑھتے اور ابو داؤد، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ نے ابی بن کعب اور عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وتر میں (سبح اسم ربک الاعلی) اور (قل یایھا الکافرون) اور (قل ھو اللہ احد) پڑھتے تھے۔ الأعلى
1 (١) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے رب کی پاکی بیان کریں، اعلان کریں کہ باری تعالیٰ اولاد، بیوی اور ہر شریک سے پاک ہے، اس کا کوئی ساجھی نہیں، اور نہ اس کا کوئی ہم نام ہے، اس کا نام کسی گندی جگہ پر نہ لیا جائے اور جب بھی اس کا نام لیا جائے تو غایت اجلال و احترام کے ساتھ، کیونکہ وہ اپنی تمام مخلوق سے اعلیٰ وا رفع ہے اور سب اس کے نیچے ہے، وہ ہر چیز پر قاہر و غالب ہے اور سب پر اسی کا حکم نافذ ہوتا ہے سورۃ الصافات آیت (١٨٠) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (سبحان ربک رب العزۃ عما یمفون) ” اے میرے نبی ! آپ کا رب جو بہت بڑی عزت والا ہے، وہ ہر اس بات سے پاک ہے جو مشرکین اس کے بارے میں بیان کرتے ہیں“ سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر اور حاکم وغیرہ نے ابن عباس، ابن عمر، ابن الزبیر وغیرہم سے روایت کی ہے کہ جب یہ حضرات نماز میں (سبع اسم ربک الاعلی) پڑھتے تو اس کے بعد ” سبحان ربی الاعلی“ کہتے انتہی یعنی اس آیت کریمہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اپنے ارفع و اعلیٰ رب کی پاکی بیان کریں اس کو فوراً بجالاتے ہوئے کہتے کہ میرا اعلیٰ وا رفع رب تمام عیوب و نقائص سے پاک ہے۔ الأعلى
2 (٢) اس اعلیٰ و ارفع رب کی ایک صفت یہ ہے کہ اس نے تمام مخلوقات کو پہلی بار پیدا کیا اور ہر مخلوق کو اس کے حساب حال مناسب شکل و صورت دی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سب حکیم و علیم باری تعالیٰ کی صناعی اور کاریگری ہے جس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اور باری تعالیٰ کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ اس نے کتاب تقدیر میں تمام اشیاء اور تمام خیر و شر کو مقدر فرمایا اور ہر مخلوق کے لئے جو کچھ مقدر فرمایا اسے پانے کے لئے اس کی رہنمائی فرمائی، چنانچہ وہ اس کے معین زمان و مکان میں اسے پاک کر رہتا ہے۔ انسان کی انتمام اشیاء کی طرف رہنمائی کی جو اس کے لئے مفید ہیں اور ان سے استفادہ کا علم دیا جانوروں اور چوپایوں میں مذکر و مؤنث بنایا اور مذکر کو مؤنث کے ساتھ جفت کرنا سکھایا، انسانوں اور جانوروں کی روزی فراہم کی اور ہر ایک کو اس تک پہنچنے اس سے استفادہ کرنے اور اس سے اپنا پیٹ بھرنے کی طرف رہنمائی کی تاکہ ان کی نسلیں باقی رہیں، اور اپنے خالق کی حکمت و مصلحت کے تقاضوں کو پوری کرتی رہیں۔ اور باری تعالیٰ نے زمین میں مختلف قسم کی گھاس پیدا کی جو جانوروں کے لئے چارہ بنتی ہے اور وہ ہری گھاس کچھ دنوں کے بعد اپنی ترو تازگی کھو دیتی ہے اور خشک ہو کر ایسی ہلکی پھلکی اور سیاہ ہوجاتی ہے کہ ہوائیں اسے اڑائے پھرتی ہیں۔ الأعلى
3 الأعلى
4 الأعلى
5 الأعلى
6 (٣) گزشتہ آیتوں میں انسانوں اور دیگر تمام مخلوقات کی عام رہنمائی کے تذکرے کے بعد، اب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خاص ہدایت و رہنمائی کی بات آئی یہ کہ اے میرے نبی ! آپ کو بشارت دی جاتی ہے، جو قرآن کریم بذریعہ جبریل آپ پر نازل ہوتا ہے، اسے آپ ہرگز نہیں بھولیں گے اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ابدی کلام ہے جسے رہتی دنیاتک باقی رہنا ہے، تاکہ انسانیت اس سے روشنی حاصل کرتی رہے۔ ابتدائے اسلام میں جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل ہوتی تو آپ اسے یاد کرلینے کے لئے جلدی کرتے، تو اللہ نے آپ کو اطمینان دلایا کہ یہ قرآن کے دل پر نقش ہوجائے گا، آپ اسے ہرگز نہیں بھولیں گے، اس لئے جلدی نہ کیجیے اور جب تک جبریل آپ پر وحی اتارتے رہیں آپ نہایت سکون و اطمینان کے ساتھ اسے سنتے رہئے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بات کئی دیگر آیتوں میں بھی کہی ہے۔ سورۃ القیامہ آیات (١٦/١٧) میں (لاتجرک بہ لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ وقرانہ) ” اے میرے نبی ! آپ قرآن کو جلدی یاد کرنے کے لئے اپنی زبان کو حرکت نہ دیجیے، اس کا جمع کرنا اور آپ کی زبان پر اسے جاری کرنا ہماری ذمہ داری ہے“ اور سورۃ طہ آیت (١١٤) میں آیا ہے : (ولاتعجل بالقران من قبل ان یقضی الیک وحیہ) ” اور آپ قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیجیے اس سے پہلے کہ آپ کی طرف جو وحی کی جاتی ہے وہ پوری کردی جائے۔ “ الأعلى
7 (٤) (الا ماشاء اللہ) کا مفہوم یہ ہے کہ اگر اللہ آپ کے دل سے وحی کی کسی بات کو بھلانا چاہے گا تو آپ بھول جائیں گے فراء کا قول ہے : ل یکن اللہ تعالیٰ نے نہیں چاہا کہ آپ وحی کا کوئی حصہ بھول جائیں۔ اس سے مقصود محض اللہ کی قدرت و مشیت کو ثابت کرنا ہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ استثناء مجازی ہے جو قلت کے معنی میں ہے اور اس سے مقصود نفی ہے، یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی کا کوئی بھی حصہ ہرگز نہیں بھولیں گے۔ فخر الدین رازی اور زفحشری نے اپنی تفسیروں میں فراء کے قول کی بھرپورتائید کی ہے اور کہا ہے کہ اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل سے وحی کا کوئی حصہ بھلا دینا نہیں چاہا اس بات پر ہمارا قطعی ایمان ہے۔ آیت کے دوسرے حصہ (انہ یعلم الجھرو مایخفی) کا مفہوم یہ ہے کہ باری تعالیٰ سے کوئی بات مخفی نہیں ہے، وہ ظاہر و پوشیدہ سب کچھ جانتا ہے اسے خوب معلوم ہے کہ اس کے بندوں کی مصلحت کس امر میں ہے اور اس ضمن میں اس کا یہ ازلی علم بھی ہے کہ وہ ان کی ہدایت کے لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نازل کرے گا، جس کے ذریعہ انہیں کفر و شرک کی ظلمتوں سے نکال کر دین اسلام کی وسعتوں اور پہنائیوں میں پہنچا دے گا۔ الأعلى
8 (٥) اور اے میرے نبی ! آپ کو یہ بشارت بھی دی جاتی ہے کہ جو شریعت اسلامیہ آپ کو دی گئی ہے اس کی بنیاد سہولت و آسانی پر ہے، اس میں تکلیف مالا یطاق والی کوئی بات نہیں ہے۔ سورۃ الحج آیت (٧٨) میں آیا ہے۔ (وما جعل علیکم فی الدین من حرج) ” اور اللہ نے دین میں تمہارے لئے کوئی مشکل بات نہیں رکھی ہے“ اور اے میرے نبی ! آپ لوگوں کے سامنے اللہ کی شریعت اور اس کی آیتوں کو بیان کرتے رہئے چاہے اس سے سارے لوگ نفع اٹھائیں یا نہ اٹھائیں، آپ کا کام تو دین کی تبلیغ کرتے رہنا ہے جو لوگ اس سے نفع اٹھائیں گے وہ اللہ سے ڈرتے ہوئے برائیوں سے بچیں گے اور اچھائیوں کی طرف سبقت کریں گے اور جو اس سے نفع نہیں اٹھائیں گے وہ شریعت اسلامیہ اور آپ کی نصیحتوں سے دوری اختیار کریں گے، اور جس کے نتیجے میں وہ قیامت کے دن جہنم کی خطرناک آگ میں ڈال دیئے جائیں گے جو دلوں پر چڑھتی چلی جائے گی اور جس میں جہنمی کو نہ موت آئے گی اور نہ وہ زندہ رہے گا، یعنی ہر وقت درد ناک عذاب میں مبتلا رہے گا۔ سورۃ فاطر آیت (٣٦) میں آیا ہے : (لایقضی علیھم فیموتوا ولایخفف عنھم من عذابھا) ” نہ تو ان کی قضا ہی آئے گی کہ ہو مر جائیں اور نہ ہی دوزخ کا عذاب ہی ان سے ہلکا کیا جائے گا۔ “ الأعلى
9 الأعلى
10 الأعلى
11 الأعلى
12 الأعلى
13 الأعلى
14 (٦) یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندہ مومن کو کامیابی و کامرانی کی خبر دی ہے جو اپنے نفس کو شرک و معاصی سے پاک کرتا ہے، ہر وقت اپنے رب کو یاد کرتا رہتا ہے اور عمل صالح کرتا رہتا ہے اور بالخصوص نماز کی پابندی کرتا ہے جو ایمان کی کسوٹی ہے۔ یہاں فوز و فالح سے مراد جہنم سے نجات اور جنت میں داخل ہونا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران آیت (١٨٥) میں فرمایا ہے : (فمن زحزح عن الاروا ذخل الجنۃ فقد فاز) ” پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے گا اور جنت میں داخل کردیا جائے گا وہ کامیاب ہوجائے گا۔ “ الأعلى
15 الأعلى
16 (٧) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لیکن اے بنی نوع انسان ! تم وہ نہیں کرتے جو آخرت میں تمہاری کامیابی و کامرانی کا سبببنے، بلکہ دنیا کی فانی لذتوں کے سرگرداں رہتے ہو، حالانکہ آخرت دنیا سے کہیں بہتر ہے، اس کی نعمتیں لازوال ہیں اور دنیا دار فانی ہے۔ مالک بن دینار کا قول ہے کہ اگر دنیا فنا ہوجانے والے سونے کی بنی ہوتی اور آخرت لازوال ٹھیکرے کی، تو لازوال ٹھیکرے کو فانی سونے پر ترجیح دینا واجب ہوتا، چہ جائیکہ آخرت لازوات سونے کی بنی ہوئی ہے، اور دنیا فانی ٹھیکرے کی۔ الأعلى
17 الأعلى
18 (٨) (قدافلح من تزکی) سے (خیرو ابقی) تک یہ بیان کیا گیا ہے کہ کامیابی ان کے لئے ہے جو اپنے نفس کا تزکیہ کرتے ہیں، اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اور عمل صالح کرتے ہیں اور یہ کہ لوگ دنیاکی فانی لذتوں کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ آخرت کی نعمتیں بہتر اور لازوال ہیں یہ باتیں صحائف ابراہیم (جن کی تعداد دس تھی) اور صحیفہ موسیٰ یعنی تورات میں بھی مذکورتھیں بعض مفسرین نے اس سے مراد وہ تمام باتیں لی ہیں جو اس سورت میں بیان کی گئی ہیں۔ وباللہ التوفیق الأعلى
19 الأعلى
0 سورۃ الغاشیہ مکی ہے، اس میں چھبیس آیتیں، اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ الغاشیہ نام : پہلی آیت میں ہی لفظ ” الغاشیۃ“ آیا ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت تمام کے نزدیک مکی ہے۔ ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ نے ابن عباس اور ابن زبیر (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ الغاشیہ مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ سورۃ الاعلی کی تفسیر میں مسند احمد اور صحیح مسلم کے حوالے سے نعمان بن بشیر (رض) کی روایت نقل کی جا چکی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیدین اور جمعہ میں (سبح اسم ربک الاعلی) اور (ھل اتاک حدیث الغاشیۃ) پڑھا کرتے تھے صحیح مسلم اور سنن ابوداؤد بن بشیر (رض) سے ایک دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ میں سورۃ الجمعہ کے ساتھ (ھل اتاک حدیث الغاشیۃ) پڑھا کرتے تھے۔ الغاشية
1 (١) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے قیامت کے بعض حالات بیان کئے ہیں اور اس کی ابتدا لفظ ” ھل“ سے کی ہے جو یہاں تحقیق کے معنی میں ہے، یعنی اے میرے نبی ! آپ کے پاس قیامت سے متعلق یقینی خبریں آگئیں اور قیامت کو لفظ ” الغاشیۃ“ سے اسی لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ اس دن کے مہیب و مخیف حالات و شدائد لوگوں کو ہر چہار جانب سے گھیر لیں گے۔ الغاشية
2 (٢) جو لوگ دنیا میں دین حق کا انکار کرتے ہیں، قیامت کے دن ان کے چہرے ذلت و رسوائی کے مارے جھکے ہوں گے، اور دائمی طور پر بہت ہی شدید عذاب میں مبتلا ہوں گے، اور آگ میں انہیں ان کے چہروں کے بل گھسیٹا جائے گا، درانحالیکہ وہ زنجیروں اور بھاری بیڑیں میں بندھے ہوں گے اور ان کو گھسیٹنے سے وہ نہایت ہی مشکل میں ہوں گے اور ان کی جان کے لالے پڑے ہوں گے۔ (عاملۃ ناصبۃ) کی ایک دوسری تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ اہل کفر دنیا میں باطل عقائد و نظریات کو اپنانے اور بددعات و خرافات پر عمل کرنے کے سبب تھکے ہوں گے، لیکن یہ سب کچھ آخرت میں ان کے کام نہیں آئے گا اور جہنم کی کھائیوں میں اپنے ہاتھ پاؤں اور گرد نوں میں بندھی بو جھل بیڑیاں گھسیٹتے رہیں گے امام شوکانی اور کئی دیگر مفسرین نے پہلی تفسیر کو ہی راجح قرار دیا ہے۔ (عاملۃ ناصبۃ) میں قیامت کے دن اہل کفر کا حال بیان کیا گیا ہے۔ الغاشية
3 الغاشية
4 (٣) بدنصیب اہل کفر قیامت کے دن شدید گرم آگ میں جلتے رہیں گے جو انہیں ہمہ وقت ہر چہار جانب سے گھیرے رہے گی، اور انہیں کھولتا ہوا گرم پانی پلایاج ائے گا، سورۃ الکہف آیت (٢٩) میں آیا ہے۔ (وان یستغیثوا یغاثوا بماء کالمھل یشوی الوجوہ) ” اگر وہ فریاد رسی چاہیں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جوتیل کی تلچھت جیسا ہوگا جو چہروں کو بھون ڈالے گا۔ “ اور ان کا کھانا ایک کانٹے دار درخت کا خشک پھل ہوگا جو نہایت بدبدو دار، نہایت بدشکل، نہایت بد مزہ اور نہایت زہریلا ہوگا، جسے عرب والے ” شبرق“ اور اہل حجاز ” ضریع“ کہتے ہیں، جسے اونٹ بھی نہیں کھا پاتا ہے اور جس سے نہ ان کے جسم فربہ ہوں گے اور نہ ہی ان کی بھوک ہی ختم ہوگی۔ الغاشية
5 الغاشية
6 الغاشية
7 الغاشية
8 (٤) اس دن خوش قسمت اہل جنت کے چہرے اللہ کی گوناگوں نعمتوں کے زیراثر شاداب اور دمکتے ہوئے ہوں گے اور دنیا کی زندگی میں انہوں نے جو نیک اعمال کئے ہوں گے اور حصول رضائے الٰہی کے لئے انہوں نے وہاں جو جدوجہد کی ہوگی، اسے یاد کر کے وہ نہایت شاداں و فرحاں ہوں گے اور اپنے رب کی بنائی ہوئی بلند و بالا جنتوں میں آرام کریں گے اور وہاں وہ کوئی فضول اور لغوبات نہیں سنیں گے جس سے ان کی راحت و آسائش متاثر ہو، بلکہ ہمہ وقت ان کے کانوں تک اہل جنت اور فرشتوں کی اچھی باتیں، اللہ کی نعمتوں کا ذکر اور اللہ کی یاد کے لئے استعمال شدہ پاکیزہ الفاظ و کلمات پہنچتے رہیں گے۔ الغاشية
9 الغاشية
10 الغاشية
11 الغاشية
12 (٥) جنت میں ایسی نہریں ہوں گی جنہیں اہل جنت اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق جہاں اور جب چاہیں گے جاری کرلیا کریں گے اور وہاں اہل جنت کے لئے اونچے عالیشان بستر لگے ہوں گے، جن پر لیٹے ہوئے وہ جنت کی دیگرتمام نعمتوں کا نظارہ کرتے رہیں گے، اور ان کے سامنے سونے اور چاندی کے پیالے ہوں گے جو انواع و اقسام کی لذیذ شرابوں سے بھرے ہوں گے، اور ریشم و دیباج کے بنے تکئے بستروں اور رہائش کی جگہوں پر قطار در قطار لگے ہوں گے، جن پر وہ جب چاہیں گے ٹیک لگا کر آرام کریں گے، اور ہر طرف بیش بہا قالینیں بچھی ہوں گی۔ مذکورہ بالا آیتوں میں جنت اور اس کی نعمتوں کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کی گئی ہے، تاکہ اللہ کے بندے انہیں اپنے کے لئے دنیا میں مسلسل جدوجہد کرتے رہیں، یہاں تک کہ وہ اپنے خالق سے جا ملیں۔ الغاشية
13 الغاشية
14 الغاشية
15 الغاشية
16 الغاشية
17 (٦) مشرکین مکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت توحید اور عقیدہ بعث بعد الموت کا انکار کرتے تھے مندرجہ ذیل آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بعض مخلوقات کا ذکر کر کے انہی مشرکین کو دعوت فکر و نظر دی ہے اور کہا ہے کہ جو باریتعالیٰ ان مخلوقات کی تخلیق پر قادر ہے وہ قیامت کے دن تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر یقیناً قادر ہے اور بلاشبہ وہی تنہا معبود برحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ بعث بعد الموت اور جنت و جہنم کے منکر ہیں کیا وہ غور نہیں کرتے کہ اس نے اونٹ کو کیسی عجیب شکل میں پیدا کیا ہے اور کس طرح اسے انسانوں کے لئے مسخر کردیا یہ تاکہ اس کا دودھ پئیں اس پر سواری کریں اور اس کا گوشت کھائیں۔ اور کیا وہ لوگ آسمان کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے کہ اس نے اسے بغیر ظاہری ستونوں کے قائم کر رکھا ہے اور اسے شمس و قمر اور کواکب کے ذریعہ زینت بخشی ہے اور کیا وہ لوگ پہاڑوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مہیب چٹانوں کی زمین پر میخ گاڑ رکھی ہے اور کس طرح اس نے زمین کو پھیلا دیا ہے تاکہ اس کے بندے اس پر بسہولت زندگی گذار سکیں، اس پر چل پھر سکیں، کھیتی کرسکیں، مکانات بنا سکیں اور دیگر امور زندگی کو پورا کرسکیں۔ باری تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے یہ مظاہر ذی ہوش انسانوں کو اس ایمان و ایقان پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ قادر مطلق گلی سڑی ہڈیوں کو جمع کر کے مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر یقیناً قادر ہے۔ الغاشية
18 الغاشية
19 الغاشية
20 الغاشية
21 (٧) ان آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے ان کی ذمہ داری یاد دلائی ہے کہ آپ کا کام محض تبلیغ و دعوت ہے، اسے آپ پورا کرتے رہئے، کسی کو ایمان لانے اور راہ راست اختیار کرنے پر مجبور کرنا آپ کا کام نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ ق آیت (٤٥) میں فرمایا ہے : (وما انت علیھم بجبار فذکر بالقرآن من یخاف وعید) ” اور آپ اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ لوگوں کو ایمانل انے پر مجبور کریں، پس آپ قرآن کے ذریعہ ان لوگوں کو سمجھاتے رہئے جو میرے وعید سے ڈرتے ہیں۔ “ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت توحید جسے پہنچ گئی اور اس نے اسے قبول نہیں کیا بلکہ کفر و سرکشی کی راہ اختیار کی، ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے آیت (٢٣) میں دھمکی دی ہے کہ ہم انہیں قیامت کے دن شدید عذاب میں مبتلا کریں گے اور ہم سے بھاگ کر وہ کہیں نہیں جاسکتے، موت کے بعد انہیں بہر حال ہمارے پاس ہی آنا ہے اس دن ہم دنیا میں ان کے کئے کا ان سے حساب لیں گے اور اس کا انہیں بدلہ چکائیں گے۔ ” ان خیر افخیر و ان شر افشر“ جس نے اچھے اعمال کئے ہوں گے اسے ہم اپنے فضل و کرم سے جنت میں داخل کردیں گے اور جس نے کفر و شرک کی راہ اختیار کی ہوگی اور گناہوں کا انبارلئے ہمارے حضور آئے گا، اسے ہم جہنم میں ڈال دیں گے۔ وباللہ التوفیق الغاشية
22 الغاشية
23 الغاشية
24 الغاشية
25 الغاشية
26 الغاشية
0 سورۃ الفجرمکی ہے، اس میں تیس آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ الفجر نام : پہلی آیت میں حرف قسم ” و“ کے بعد کلمہ ” الفجر“ آیا ہے یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت تمام کے نزدیک مکی ہے، ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ ” والفجر“ مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ الفجر
1 (١) اللہ تعالیٰ نے ابتدائی چار آیتوں میں چار چیزوں کی قسم کھائی ہے، پہلی چیز ” فجر“ ہے، جس سے مراد اکثر لوگوں کے نزدیک ہر دن کی فجر کا وقت ہے قتادہ نے اس سے محرم کی پہلی تاریخ مراد لی ہے، مجاہد نے قربانی کا دن، اور ضحاک نے ذی الحجہ کا پہلا دن مراد لیا ہے۔ دوسری چیز ”’ دس راتیں“ ہیں ضحاک نے اس سے رضمان کے آخری دس دن اور بعض نے اس سے محرم کے ابتدائی دس دن مراد لئے ہیں، لیکن جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے ذی الحجہ کے دس ابتدائی دن مراد ہیں، بخاری و مسلم اور ترمذی وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ کوئی ایام ایسے نہیں جن میں نیک عمل کرنا اللہ کے نزدیک ذی الہجہ کے دس ابتدائی ایام سے زیادہ محبوب ہو۔ تیسری چیز ” شفع“ اور ” وتر“ ہے۔ شوکانی نے اس کی تفسیر میں مفسرین کے متعدد اقوال نقل کئے ہیں اور کہا ہے کہ ان میں سے اکثر اقوال کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس لئے بہتر یہی ہے کہ کلام عرب میں ان سے جو مراد ہے، اسے ہی اختیار کیا جائے اور عربی زبان میں ” شفع“ جوڑے کو اور ” وتر“ فرد کو کہا جاتا ہے۔ اس لئے آیت میں ” شفع“ اور ” وتر“ سے وہ تمام مخلوقات مراد ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے جوڑا یا فروپیدا کیا ہے۔ مجاہد اور عطیہ عوفی نے (والشفع والوتر) سے مخلوق اور خالق مراد لیا ہے اور کہا ہے کہ اللہ نے ہر مخلوق کو جوڑا پیدا کیا ہے سورۃ الذاریات آیت (٤٩) میں آیا ہے : (ومن کل شی خلقنازوجین لعلکم تذکرون) ” ہم نے ہر چیز کو جوڑاپیدا کیا ہے، تاکہ تم عبرت حاصل کرو“ آسمان و زمین، بحر و بر، جن وانس، شمس و قمر، کفر و ایمان، سعادت وش قاوت، ہدایت و ضلالت اور لیل و نہار، سب جوڑے ہیں۔ اور ” وتر“ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، جو ایک اور تنہا کے معنی میں ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ نے اپنی ذات اور اپنی مخلوق کی قسم کھائی ہے۔ چوتھی چیز ” رات“ ہے، جس کی اللہ تعالیٰ نے یہاں قسم کھائی ہے، جو چلتی رہتی ہے یہاں تک کہ گذر جاتی ہے اور پھر لوٹ کر آتی ہے۔ رات اور دن کی یہ گردش اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت پردلالت کرتی ہے اور بندوں کو ان عظیم نعمتوں کی یاد دلاتی ہے جو اس گردش سے پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً دن میں آدمی تلاش معاش میں سرگرداں رہتا ہے اور جب رات آتی ہے تو نیند کی گود میں چلا جاتا ہے اور اس کی ساری تکان دور ہوجاتی ہے۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ مذکورہ بالا قسموں کا جواب قسم محذوف ہے، یعنی مذکورہ بالا چیزوں کی قسم ! اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ضرور ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔ الفجر
2 الفجر
3 الفجر
4 الفجر
5 (٢) اس آیت کریمہ میں باری تعالیٰ نے مذکورہ بالا قسموں کی عظمت کا احساس دلا یا ہے اور کہا ہے کہ جو بھی صاحب عقل آدمی ہوگا وہ جان لے گا کہ یہ عظیم قسم ہے اور جس بعث بعد الموت کی یقین دہانی کے لئے یہ قسم کھائی گئی ہے، اس کی آمد میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ الفجر
6 (٣) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے کفار و مشرکین کو ڈرانے کے لئے قرآن کریم میں بارہا گزشتہ کافر قوموں کی سرکشی اور پھر ان کے انجام بد کا ذکر فرمایا ہے۔ ان آیات سے بھی مقصود کفار قریش کو خوف دلانا ہے کہ اگر تم بھی اپنے کفر و عناد پر اصرار کرو گے تو بعید نہیں کہ تمہارا انجام بھی عاد و ثمود جیسا ہو۔ ان آیات میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ کیا آپ نے قرآن کریم میں مذکورتاریخی جھرکوں سے جھانک کر دیکھا نہیں کہ آپ کے رب نے قوم عاد کا کیا حال بنایا، جن کا لقب ” ارم“ تھا اور جن کے اجسام بہ تلمبے ہوتے تھے اور جنہیں اللہ نے بڑا قوی اور تنومند بنایا تھا اور جن کے گھروں کے ستون ان کے اجسام کے طویل ہونے کے سبب خیموں کے ستونوں کے مانند لمبے ہوتے تھے، بعض مفسرین نے (ذات المعاد) کی تفسیریہ بیان کی ہے کہ وہ لوگ خیمہ زن مسافروں کی طرح ہریالی والی جگہوں کی تلاش میں رہتے تھے اور جہاں ایسی جگہ ملی جاتی وہیں خیمہ زن ہوجاتے تھے اور باقی ایام میں اپنے اصلی مقام ” احقاف“ میں واپس آجاتے تھے جو حضرت موت میں واقع تھا۔ بہرکیف وہ لوگ جسمانی قوت و جبروت میں دوسری قوموں سے بہت بڑھے ہوئے تھے اور عزت و شرف میں بھی اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھتے تھے اور کبر و نخوت ان کی فطرت ثانیہ بن گئی تھی اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے اسیلئے اللہ تعالیٰ نے جب ہود (علیہ السلام) کو ان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے مبعوث کیا تو انہوں نے ان کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور کفر کی راہ اختیار کرلی۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ حم السجدہ آیت (١٥) میں ان کے بارے میں فرمایا ہے : (فاما عاد فاستکبروا فی الارض بغیر الحق وقالوا من اشدمناقوۃ) ” عاد نے بے وجہ زمین میں سرکشی شروع کردی اور کہنے لگے کہ ہم سے زور آور کون ہے“ کیا انہیں یہ نظر نہ آیا کہ جس نے انہیں پیدا کیا ہے وہ ان سے بہت ہی زیادہ زور آور ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت تیز و تند باد صرصر کے ذریعہ انہیں ہلاک کردیا اور دنیا سے ان کا وجود ختم کردیا۔ الفجر
7 الفجر
8 الفجر
9 (٤) اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور میرے نبی ! آپ نے قوم ثمود کا حال نہیں دیکھا، جنہیں ہم نے بڑا ہی قوی بنایا تھا جو پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر مکانات بناتے تھے ان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے ہم نے صالح کو نبی بنا کر مبعوث کیا انہوں نے انہیں اللہ کی طرف بلایا اور ایمان کی دعوت دی تو انہوں نے ان کی دعوت توحید و ایمان کا انکار کردیا چنانچہ انجام کار ہم نے انہیں ہلاک کردیا۔ قوم ثمود کے لوگ ” اصحاب حجر“ کہلاتے ہیں۔ ان کا علاقہ مدینہ منورہ کے شمال میں ” مدائن صالح“ کے نام سے جانا جاتا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، یہ لوگ بہت ہی قوی الاجسام تھے اور چٹانوں کو کاٹ کاٹ کر گھر بنایا کرتے تھے مفسرین نے لکھا ہے کہ ان کے ایک ہزار سات سو شہر تھے، سب کے سب پتھروں کے بنے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں سورۃ الشعراء آیت (١٤٩) میں فرمایا ہے : (وتنحتون من الجبال بیوتافرھین) ” اور تم پہاڑوں کو تراش تراش کر پر تکلف مکانات بنا رہے ہو“ اور سورۃ الحجر آیت (٨٢) میں فرمایا ہے : (وکان اینحتون من الجبال بیوتا امنین)’ یہ لوگ پہاڑوں کو تراش تراش کر گھر بناتے تھے، بے خوف ہو کر“ الفجر
10 (٥) اللہ نے فرمایا : اور میرے نبی ! آپ نے فرعون کا حال نہیں دیکھا جس نے سر زمین میں سرکشی کی اور اللہ کے بندوں کو قتل کیا اور انہیں نوع بہ نوع عذاب سے دوچار کیا جو شخص اس کی نافرمانی کرتا اور اسے وہ قتل کرنا چاہتا اس کے دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں میں لوہے کی کھونٹیاں ٹھونک دیتا تھا اور پھر اسے قتل کردیتا تھا، جب اس کی سرکشی حد سے تجاوز کرگئی اور اس کے خلاف حجت تمام ہوگئی تو اللہ نے اسے سمندر میں ڈبو کر ہلاک کردیا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ (سوط عذاب) سے اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ نے اسے دنیا میں جو سخت عذاب دیا، وہ آخرت کے عذاب کے مقابلے میں ایک کوڑے کی مار تھی، بعض نے لکھا ہے کہ اس سے اشارہ اس عذاب کی سختی کی طرف ہے جو اللہ نے اس پر نازل کیا تھا۔ الفجر
11 الفجر
12 الفجر
13 الفجر
14 (٦) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے نبی ! آپ کا رب ہر کافر و سرکش اور ظالم و جابر کے گھات میں بیٹھا ہوا ہے، ان کے اعمال بد کو اکٹھا کر رہا ہے، تاکہ انہیں دنیا میں سزا دے اور آخرت میں انہیں جہنم رسید کرے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اس سے مقصود بندوں کو ارتکاب معاصی سے ڈرانا اور انہیں طاعت و بندگی کی رغبت دلانی ہے اور یہ بات آیت سے بالکل واضح ہے۔ الفجر
15 (٧) لیکن اکثر و بیشتر لوگوں کی نگاہوں میں دنیا ہی سب کچھ ہوتی ہے اور آخرت سے یکسر غافل ہوتے ہیں، اسی لئے اللہ تعالیٰ جب انہیں مال و جائیداد دے کر آزماتا ہے، تو بجائے اس کے کہ وہ اپنے قول و عمل کے ذریعہ رب العالمین کاشکر ادا کریں اور اس کے لئے تواضع اور انکساری میں جھک جائیں، خوشی میں آپے سے باہر نکل جاتے ہیں اور اترانے لگتے ہیں اور لوگوں سے کہنے لگتے ہیں کہ ہم اللہ کے نزدیک باعزت ہیں جبھی تو اس نے ہمیں ان نعمتوں سے نوازا ہے انہیں یہ بات سوچنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی کہ رب العالمین انہیں آزما رہا ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ انہیں بطور آزمائش فقر و فاقہ سے دوچار کردیتا ہے، تو فوراً شکوہ کرنے لگتے ہیں کہ اللہ نے محتاجی میں مبتلا کر کے ہمیں ذلیل و رسوا کردیا۔ دولت و مالداری اور فقر و محتاجی دونوں ہی حالتوں میں ان کی سوچ مریض اور ان کی فکر کج ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دولت دی تو اس لئے کہ وہ اس کے شکر گزار بنیں اور محتاجی میں مبتلا کیا تو اس لئے کہ وہ اللہ کی اس تقدیر پر راضی رہیں، صبر کریں، اور تنگدستی کے باوجود حرام ذرائع سے روزی حاصل کرنے کی نہ سوچیں۔ الفجر
16 الفجر
17 (٨) اوپر جو بات کہی گئی ہے کہ دونوں ہی حالتوں میں ان کی تفکیر صحیح نہیں ہوتی، اسی کی طرف اس آیت کریمہ میں لفظ ” کلا“ سے اشارہ کیا گیا ہے، یعنی یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ہر ہو شخص جس کو ہم نے دنیا کی نعمتوں سے نوازا ہے وہ ہمارا چہیتا ہے اور ہر وہ آدمی جس پر ہم نے روزی کا دروازہ تنگ کردیا ہے اسے ہم نے ذلیل کردیا ہے بلکہ دونوں ہی حالتوں سے مقصود بندوں کو آزمانا ہے کہ کون شاکر و صابر ہوتا ہے اور کون ناشکر گذار اور بے صبر ہوتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہی انسانوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تمہاری فکر و نظر کی جو خرابی اوپر بیان کی گئی ہے، اس سے بڑھ کر قبیح تمہارا یہ عمل ہے کہ تمہیں اپنی ذات سے بالاتر ہو کر دوسروں کے لئے بھلائی سوچنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ تمہاری خود غرضی، مادہ پرستی اور خست نفس کا عالم یہ ہے کہ تم یتیموں کا بالکل خیال نہیں کرتے، انہیں تم اپنا مال کیا دو گے کہ ان کا مال بھی کھا جاتے ہو اور غایت درجہ کے بخل اور حب دنیا کی وجہ سے فقراء و مساکین کو کھانا کھلانے کی تم ایک دوسرے کو ترغیب نہیں دلاتے ہو اور وارث بچوں اور عورتوں کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر پورا ہڑپ جاتے ہو اور ڈکار بھی نہیں لیتے ہو ابن زید کا قول ہے کہ کفار قریش عورتوں اور چھوٹیب چوں کو وراثت کا حصہ نہیں دیتے تھے پھر انہوں نے سورۃ النساء آیت (١٢٧) پڑھی (ویستفتونک فی النساء قل اللہ یفتیکم فیھن وما یتلی علیکم فی الکتاب ی یتام النساء اللاتی لا تؤتونھن ماکتب لھن وترغبون ان تکحوھن والمستضعفین من الوالدان) ” آپ سے عورتوں کے بارے میں حکم دریافت کرتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ خود اللہ ان کے بارے میں حکم دے رہا ہے اور قرآن کی وہ آیتیں جو تم پر ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں پڑھی جاتی ہیں جنہیں ان کا مقرر حق تم نہیں دیتے اور انہیں اپنے نکاح میں لانے کی رغبت رکھتے ہو، اور کمزور بچوں کے بارے میں“ اللہ تعالیٰ نے آگے فرمایا کہ تم مال سے شدید محبت کرتے ہو، اسی لئے تو اسے تجوریوں میں تہ بہ تہ جما کر رکھتے ہو اور غریبوں، بیواؤں، یتیموں اور بے کسوں پر خرچ نہیں کرتے ہو۔ الفجر
18 الفجر
19 الفجر
20 الفجر
21 (٩) ابن آدم کی جو حالت اوپر بیان کی گئی ہے، اس پر نکیر کی گئی ہے کہ اسے اپنے رب کا احسان فراموش، ناشکر گزار بندہ اور جزع فزع کرنے والا نہیں ہونا چاہئے، نہ ہی اسے یتیموں کا مال ہڑپ جانا چاہئے اور نہ غایت درجہ بخیل اور مال سے شدید محبت کرنے والا ہونا چاہئے اس آیت کریمہ میں لفظ ” کلا“ کے ذریعہ اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص دنیا میں ان مذموم صفات کے ساتھ متصف ہوگا وہ روز قیامت کف افسوس ملے گا جبکہ ایسا کرنا اس کے کسی کام نہیں آئے گا فرمایا گیا کہ جب زمین پوری شدت کے ساتھ اس طرح ہلا دی جائے گی کہ اس پر موجود پہاڑ پاش پاش ہوجائیں گے اور اس کی سطح برابر ہوجائے گی، اور رب العالمین اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے سامنے آجائے گا اور ظہور قیامت میں ادنیٰ سا بھی شبہ باقی نہیں رہے گا اور آسمانوں پر موجود تمام فرشتے اپنے رب کے سامنے نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ قطار در قطار کھڑے ہوجائیں گے اور اس دن فرشتے جہنم کو زنجیروں کے ذریعہ کھینچ کر مخلوق کے سامنے لائیں گے، اسے سب لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور کافر کو یقین ہوجائے گا کہ یہی اس کا ٹھکانا ہے سورۃ النازعات آیت (٣٩) میں گذر چکا ہے : (وبرزت الجحیم لمن یری) ” اور ہر دیکھنے والے کے سامنے جہنم ظاہر کی جائے گی۔ “ اس دن ہر آدمی دنیا کی گئی کوتاہیوں کو یاد کرے گا اور اپنے رب کی طاعت و بندگی اور اعمال صالحہ میں سستی اور تقصیر کو سوچ سوچ کر حسرت و ندامت میں ڈوبا جائے گا اور اپنے آپ سے کہے گا، اے کاش ! میں نے اپنی اس آخرت کی زندگی کے لئے دنیا میں اچھے کام کئے ہوتے، لیکن ان حسرتوں اور ندامتوں کا اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا اسی بات کو سورۃ الفرقان آیات (٢٧/٢٨) میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ (ویوم یعض الظالم علی یدیہ یقول یلیتنی اتخذت مع الرسول سبیلا، یویلتا لیتنی لم اتخذ فلانا خلیلاً) ” اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا، ہائے کاش ! میں نے رسول کی راہ اختیار کی ہوتی، ہائے افسوس ! کاش میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ “ الفجر
22 الفجر
23 الفجر
24 الفجر
25 (١٠) قیامت کے دن اہل کفر کے لئے عذاب اور قید و بند کی سختی بیان کی گئی ہے کہ اس دن اللہ جل جلالہ انہیں ایسا سخت عذاب دے گا جس کی نظیر انہوں نے دنیا میں نہیں دیکھی ہوگی، اور انہیں آگ کی زنجیروں کے ذریعہ باندھ کر چہروں کے بل جہنم میں گھسیٹا جائے گا اور وہ دائمی طور پر اسی حال میں رہیں گے۔ الفجر
26 الفجر
27 (١١) اور جو لوگ دنیا میں ایمان لائے ہوں گے اور انہوں نے نیک عمل کیا ہوگا، ان کا انجام اس دن اچھا ہوگا انہیں رب العالمین آواز دے گا اور کہے گا کہ اے وہ پاکیزہ روح جس نے دنیا میں اپنے رب کو یاد کیا، اس سے محبت کی، اور اس کی طاعت و بندگی کے ذریعہ سکون و اطمینان حاصل کیا تو آج اس کے جوار میں چلی جا، درانحالیکہ تو اس کی عطا کردہ نعمتوں سے راضی رہے اور وہ اب تجھ سے ہمیشہ کے لئے راضی ہوگیا۔ اے پاکیزہ روح ! تو آج میرے ان بندوں میں شامل ہوجا جنہیں نہ کوئی خوف لاحق ہوگا اور نہ کوئی حزن و ملال، اور تو ان کے ساتھ میری جنت میں داخل ہوجا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ بات ان سے موت کے وقت اور قیامت کے دن کہی جائے گی۔ وباللہ التوفیق الفجر
28 الفجر
29 الفجر
30 الفجر
0 سورۃ البلد مکی ہے، اس میں بیس آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ البلد نام : پہلی آیت میں ہی لفظ ” البلد“ آیا ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت تمام کے نزدیک مکی ہے، ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ نے ابن عباس اور ابن زبیر (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ (لا اقسم بھذا البلد) مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ البلد
1 (١) متعدد گزشتہ آیتوں میں ” لا اقسم“ کی تفسیر گذر چکی ہے اور بتایا جا چکا ہے کہ لفظ ” لا“ زائد ہے اور ہیاں ” البلد“ سے مراد مکہ مکرمہ ہے اور قسم کو اس حال کے ساتھ مقید کردیا گیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شہر میں موجد ہیں، جس سے اشارہ اس طرف ہے کہ مکہ کی قسم اس لئے کھائی جا رہی ہے کہ آپ وہاں موجود ہیں، یعنی آپ کا وہاں رہنا مکہ کے لئے باعث شرف ہے، لیکن اس حقیقت کو اہل مکہ نے نہیں سمجھا، اور آپ کو وہاں سے نکال دینے کا فیصلہ کیا۔ بعض نے (وانت حل بھذا البلد) کا معنی اہل مکہ کے حال پر اظہار تعجب بیان کیا ہے کہ جس شہر میں کبوتر کا شکار حلال نہیں وہاں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا احترام نہیں کیا جا رہا ہے اور انہیں طرح طرح کی تکلیفیں دی جا رہی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ اس آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فتح و کامرانی کی خوشخبری دی گئی ہے کہ عنقریب یہاں آپ بحیثیت فاتح داخل ہوں گے اور مشرکین میں سے کچھ کو قتل کریں گے اور کچھ کو قید کرلیں گے۔ اور یہ استثنائی حکم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص تھا مکہ مکرمہ نہ آپ سے پہلے کسی کے لئے حلال بنایا گیا اور نہ آپ کے بعد کسی کے لئے حلال ہوگا۔ امام بخاری نے کتاب المغازی میں مجاہد سے روایت کی کہ ہے، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مکہ نے مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہوگا، اور میرے لئے بھی دن کی صرف ایک گھڑی کے لئے حلال بنایا گیا۔“ ابن جریر کی روایت میں ہے کہ اسی گھڑی میں ابن خطل کو قتل کیا گیا درانحالیکہ وہ کعبہ کی چادر پکڑے لٹکا ہوا تھا۔ البلد
2 البلد
3 (٢) (ووالدوما ولد) کا عطف (ھذا البلد) پر ہے۔ بعض کے نزدیک اس سے مراد آدم اور ان کی ذریت ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد ابراہیم اور ان کی ذریت ہے ابن جریر کے نزدیک اس سے مراد والد و مولود ہے، اس لئے کہ آدم یا ابراہیم کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ البلد
4 (٣) (لقد خلقنا الانسان فی کبد) گزشتہ قسم کا جواب قسم ہے اور مفہوم یہ ہے کہ جب سے آدمی بصورت حمل اپنی ماں کے پیٹ میں قرار پاتا ہے، مختلف قسم کی تکلیفیں اٹھاتا رہتا ہے، پیدائش کے بعد دنیا میں، پھر برزخ میں پھر یوم حساب اس لئے عقل و ہوش کا تقاضا یہ ہے کہ وہ دنیا کی زندگی میں ایسا نیک عمل کرے جس کے ذریعہ آخرت میں اس کے لئے ان شدائد کا خاتمہ ہوجائے اور دائمی فرحت و شادمانی والی جنت میں جگہ مل جائے۔ دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے آدمی کو بہت ہی اچھی شکل و ہیئیت میں بنایا ہے اور اسے ہاتھ پاؤں اور دیگر جسمانی اعضاء کو حرکت دینے کی پوری صلاحیت دی ہے اور مشکل ترین کاموں کو انجام دینے کی اسے قدرت دی ہے، ان نعمتوں کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اللہ کا شکر گذار بندہ بنتالیکن اس کے برعکس وہ کبر و غرور اور اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا کہ اب وہ ہمیشہ ایک حال پر باقی رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ایحسب ان لن یقدر علیہ احد) یعنی وہ اپنے دل کی بیماری اور اس کی قساوت کی وجہ سے سمجھنے لگا کہ قیامت نہیں آئے گی اور کوئی ذات اسے مغلوب کرنے پر قادر نہیں ہے اور بطور فخر و مباہات لوگوں سے کہنے لگا کہ میں نے تو اپنی شہوتوں کی تسکین پر لاکھوں اور کروڑوں خرچ کردیا ہے اور وہ یہ بھی گمان کر بیٹھا کہ اللہ اسے نہیں دیکھ رہا ہے اور ہر چھوٹے اور بڑے گناہ پر اس کا محاسبہ نہیں کرے گا۔ یہ اس کی خام خیالی ہے، قیامت ضرور آئے گی اور رب ذوالجلال ہر چیز پر غالب ہے، اسے کوئی مغلوب نہیں کرسکتا، وہ قیامت کے دن اس کے ایک ایک عمل کا حساب لے گا اور جس دولت کو اپنی شہوتوں کی تسکین کے لئے پانی کی طرح بہا تا تھا اس پر ضرور اس کا مواخذہ کرے گا اس دن کوئی بھی اس سے راہ فرار نہیں اختیار کرسکے گا۔ البلد
5 البلد
6 البلد
7 البلد
8 (٤) باری تعالیٰ نے حضرت انسان کو باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ یقیناً انہیں دوبارہ زندہ کرنے اور ان کا حساب لینے پر قادر رہے، وہ تو وہ ہے جس نے اسے بے شماربیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے، اس نے اسے دو آنکھیں دی ہیں جن کے ذریعہ وہ دیکھتا ہے اور زبان اور دو ہونٹ دیئے ہیں جنہیں حرکت دے کر وہ بولتا ہے اور جن کے ذریعہ وہ اپنے منہ کا اندرونی حصہ اور دانتوں کو چھپاتا ہے، تاکہ اس کی شکل و صورت اچھی لگے۔ اور آخرت کی کامیابی کے لئے اس نے اسے خیر و شر دونوں راہیں دکھا دی ہیں اور ان میں سے ایک راہ کو اختیار کرنے کی صلاحیت دے دی ہے۔ ان نعمتوں کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اپنے رب کا شکر گذار بندہ بنتا اور انہیں ارتکاب معاصی کے لئے استعمال نہ کرتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنی خواہش نفس کی پیروی کرتا رہا اور نیکی وتقویٰ کی دشوار گذار راہ پر چل کر منزل کو پانے کی کوشش نہیں کی، یعنی نفس اور شیطان کی نافرمانی کر کے اللہ کی طاعت و بندگی میں نہیں لگا اور اس راہ کی کٹھنائیوں سے کتراتا رہا اور حصول جنت کی کوشش نہیں کی۔ البلد
9 البلد
10 البلد
11 البلد
12 (٥) اس گھاٹی اور دشوار گذار راہ کی تفسیر اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کی کہ وہ کسی کی گردن سے طوق غلامی اتارپھینکنے میں مدد کرنی ہے، یعنی اسے خرید کر آزاد کردینا، یا جزوی طور پر اس کام میں اس کی مدد کرنا ہے، اسی ضمن میں کافروں کے ہاتھ سے مسلمان قیدی کا آزاد کرانابھی آتا ے۔ یا جب لوگ سخت قحط سالی میں مبتلا ہوں، شدید بھوک سے دوچار ہوں اور غذا کے بغیر لوگوں کی جانیں ہلاک ہو رہی ہوں، اس وقت کسی رشتہ دار یتیم کو یا کسی نہایت غریب و نادار کو کھانا کھلانا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ (یتیماذا مقربۃ) میں اس بات کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ داد و دہش اور دیگر مالی تعاون و مدد میں رشتہ دار محتاجوں کو دوسروں پر مقدم رکھا جائے۔ البلد
13 البلد
14 البلد
15 البلد
16 البلد
17 (٦) جنت کی راہ میں واقع دشوار گھاٹی کو عبور کرنے کے ضمن میں یہ بھی ہے کہ وہ طالبان جنت اللہ پر دل سے ایمان لاتے ہیں اور اپنے اعضاء و جوارح کے ذریعہ عمل صالح کرتے ہیں اور اللہ کی بندگی اور دعوت الی اللہ کی راہ میں انہیں جو صعوبتیں لاحق ہوتی ہیں ان پر صبر کرتے ہیں اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ شفقت و رحمت کی نصیحت کرتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفتح آیت (٢٩) میں صحابہ کرام کی تعریف میں فرمایا ہے : (رحما بینھم) ” وہ لوگ آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں۔ “ جو لوگ مذکورہب الا پانچوں باتوں پرع مل پیرا ہوں گے، وہی گھاٹی عبور کر جائیں گے، جہنم سے نجات پا جائیں گے اور جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ البلد
18 البلد
19 (٧) اور جو لوگ اللہ کی آیتوں کا انکار کریں گے نہ ایمان لائیں گے، اور نہ عمل صالح کریں گے اور جذبہ رحمت سے محروم ہونے کے باعث نہ اللہ کے بندوں پر رحم کریں گے وہ بدبختوں میں سے ہوں گے اور ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا جس میں ان کے داخل ہوجانے کے بعد اس کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کردیئے جائیں گے اس سے کبھی نہیں نکل پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے کمزور و ناتواں جسموں پر جہنم کی آگ کو حرام کر دے۔ آمین البلد
20 البلد
0 سورۃ الشمس مکی ہے، اس میں پندرہ آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ الشمس نام : پہلی آیت کا پہلا لفظ ” الشمس“ آیا ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت تمام کے نزدیک مکی ہے، ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ نے ابن عباس رضی اللہ (رض) سے اور ابن مردویہ نے ابن الزبیر (رض) سے روایت کی ہے کہ (والشمس وضحاھا) مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ الشمس
1 (١) اس سورت کی ابتدائی آٹھ آیتوں میں باریتعالیٰ نے اپنی چند مخلوقات کی قسم کھائی ہے، جن کی تفصیل آگے آئے گی، اور جواب قسم کے بارے میں علمائے تفسیر کے کئی اقوال آئے ہیں کسی نے ” لتبعثن“ محذوف مانا ہے اور مفہوم یہ ہوگا کہ مذکورہ بالا مخلوقات کی قسم ! تم لوگ دوبارہ زندہ کر کے ضرور اٹھائے جاؤ گے اور کسی نے جواب قسم یہ محذوف مانا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل مکہ کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کی وجہ سے قوم ثمود کی طرح ہلاک کر دے گا اور زجاج وغیرہ نے آیت (٩) (قد افلح من زکاھا) کو جواب قسم مانا ہے، تب مفہوم یہ ہوگا کہ مذکور چیزوں کی قسم، کامیاب و بامراد وہ ہوگا جس نے اپنے نفس کو پاک بنایا اور خائب و خاسر وہ ہوگا جس نے اسے گناہوں تلے دبا دیا، امام شوکانی نیتیسرے قول کو راجح قرار دیا ہے۔ باری تعالیٰ نے فرمایا : آفتاب کی قسم ! اور زمین پر اس کی ضیا باریوں کی قسم ! جس کے سبب رات کی تاریکی چھٹ جاتی ہے اور دن نکل آتا ہے اور ماہتاب کی قسم ! جب وہ چودہویں رات کو غرور آفتاب کے بعد ماہ کامل بن کر طلوع ہوتا ہے اور پوری دنیا پر اس کی روشنی پھیل جاتی ہے اور دن کی قسم جب وہ آفتاب کو پورے طور پر ظاہر کردیا ت ہے اور تاریکی رخصت ہوجاتی ہے، اور رات کے پردے میں چھپی تمام چیزیں آشکارا ہوجاتی ہیں اور رات کی قسم ! جب وہ آفتاب کو چھپا دیتی ہے، یا آفاق عالم کو یا زمین کو ڈھانک لیتی ہے اور آسمان اور اس کے بنانے والے قسم ! یا آسمان اور اس کی بناوٹ کی قسم جو اپنی فخامت و ضخامت کے سبب اپنے بنانے والے کی عظیم قدرت پر دلالت کرتی ہے اور زمین اور اس کے بنانے والے کیقسم، یا زمین اور اس کی بناوٹ کی قسم، جسے اللہ نے ہر چہار جانب پھیلا دیا ہے، تاکہ اس کی مخلوقات اس پر زندگی گذار سکے، اور روح انسانی اور اس کے پیدا کرنے والے کی قسم، جس نے اسے بہترین شکل و ہئیت میں پیدا کیا، پھر اس کے لئے خیر و شر کو بیان کردیا تاکہ نیک عمل کرے اور گناہ سے بچے۔ مذکورہ بالا بھاری قسموں کے بعد اللہ تعالیٰ نے بطور جواب قسم فرمایا کہ کامیاب و بامراد وہ انسان ہوگا جو اپنے نفس کو گناہوں سے پاک کرے گا، عمل صالح اور ذکر الٰہی کے ذریعہ اس زینت بخشے گا، اور خائب و خاسر وہ ہوگا جو اپنے نفس کو گناہوں کے بوجھ تلے دبا دے گا، چھپا دے گا اور حصول رضائے الٰہی کیلئے اسے اوپر اٹھنے نہیں دے گا۔ الشمس
2 الشمس
3 الشمس
4 الشمس
5 الشمس
6 الشمس
7 الشمس
8 الشمس
9 الشمس
10 الشمس
11 (٢) کافروں کے خائب و خاسر ہونے کی مثال قوم ثمود کی ہلاکت و بربادی کا قصہ ہے کہ جب انہوں نے اپنے نبی صالح (علیہ السلام) کو جھٹلا دیا اور اونٹنی کو ہلاک کردیا تو اللہ کے عذاب نے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا۔ مفسرینل کھتے ہیں کہ ان ایات کریمہ میں مندرجہ ذیل باتیں بنائی گئی ہیں : ١۔ گناہوں کا ارتکاب دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا داعی اور سبب ہوتا ہے۔ ٢۔ کفار مکہ کی جانب سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب ان کی ہلاکت و تباہی کا سبب بن سکتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کو صالح (علیہ السلام) کی تکذیب کے سبب ہلاک کردیا تھا۔ ٣۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے برحق رسول ہیں اور قریش کی تکذیب کا کوئی معنی اور اعتبار نہیں اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بعث بعد الموت اور قیامت کے دن جزا و سزا ان دلائل سے ثابت ہشیں جو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے علم پو دلالت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : قوم ثمود نے اللہ کے نبی صالح کو اپنے طغیان اور سرکشی کی وجہ سے جھٹلادیا یا قوم ثمود نے اس عذاب کو جھٹلا دیا جس کا اس سے وعدہ کیا گیا تھا اور اس عذاب کو ” طغوی“ اس لئے کہا گیا کہ وہ سختی میں حد سے متجاوز تھا۔ یہ طغیان و سرکشی یا عذاب کا جھٹلایا جانا اس وقت وقوع پذیر ہوا جب سردار ان قبیلہ نے اپنے بدبخت ترین آدمی ” قدار بن سالف“ کو اس بات پر ابھارا کہ وہ اونٹنی کو ہلاک کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے جب قوم ثمود کی طلب کے مطابق صالح (علیہ السلام) کی صداقت کی دلیل کے طور پر پہاڑ سے اونٹنی نکال دی، تو صالح (علیہ السلام) نے انہیں نصیحت کی کہ کوئی آدمی اسے ایذا نہ پہنچائے، یہ آزادی کے ساتھ جہاں چاہے گی جائے گی اور اپنی باری کے دن کنواں سے پانیپئے گی اسے تکلیف پہنچانا یا اس کی باری کے دن اسے پانیپ ینے سے روکنا، اللہ کے عذاب کو بلانا ہے۔ لیکن انہوں نے صالح (علیہ السلام) کی بات نہیں مانی اور اونٹنی کو ایذا پہنچانے کی صورت میں عذا کی بات کو جھٹلا دیا، اور قدار بن سالف نے ان کے ایماء پر اونٹنی کو قتل کردیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس گناہ کے سبب پوری قوم کو ہلاک کردیا، ان میں سے ایک فد بھی نہ بچا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسے ان کی ہلاکت و بربادی کے سبب کسی کا خوف نہیں ہے اس لئے کہ وہ سب کا مالک اور سب کا رب ہے، وہ اپنے بندوں پر غالب و قاہر ہے، کوئی نہیں جو اس کے فیصلوں پر اعتراض کرسکے۔ سورۃ الشعراء آیات (١٥٥/١٥٦/١٥٧/١٥٨) میں اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو یوں بیان فرمایا ہے : (قال ھذہ ناقۃ لھا شرب ولکم شرب یوم معلوم، ولا تمسوھا بسوء فیاخذکم عذاب یوم عظیم فعقروھا فاصبحوا نادھین فاخذھم العذاب) ” صالح نے کہا : یہ اونٹنی ہے، پانی پینے کی ایک باری اس کی اور ایک مقرر دن کی باری پانی پینے کی تمہاری ہے خبر دار اسے برائی سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایک بڑے دن کا عذاب تمہاری گرفت کرلے گا پھر بھی انہوں نے اس کی کو چین کاٹ ڈالیں، پسوہ پشیمان ہوگئے اور عذاب نے انہیں آ دبوچا“ وباللہ التوفیق الشمس
12 الشمس
13 الشمس
14 الشمس
15 الشمس
0 سورۃ اللیل مکی ہے، اس میں اکیس آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ اللیل نام : پہلی آیت کا پہلا لفظ ” واللیل“ ہے یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت جمہور کے نزدیک مکی ہے نحاس اور بیہقی وغیرہ نے ابن عابس (رض) سے اور ابن مردویہ نے ابن الزبیر (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ ” واللیل اذا یغشی“ مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ الليل
1 (١) اس سورت کی ابتدائی تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے لیل و نہار اور اپنی ذات کی قسم کھا کر حضرت انسان سے کہا کہ لوگو ! تمہارے اعمال مختلف قسم کے ہوتے ہیں، کچھ تو اچھے ہوتے ہیں جو دنیا و آخرت میں تم ہاری راحت و سعادت کا سبب بنتے ہیں، اور کچھ ایسے برے ہوتے ہیں جو دونوں جہان میں تمہاری شقاوت وب دبختی کا سبب ہوتے ہیں۔ (وما خلق الذکر والانثی) میں باری تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم اس حیثیت میں کھائی ہے کہ اس نے مرد و زن اور دیگر تمام مذکر و مؤنث کو پیدا کیا ہے اور اس قسم کی عظمت کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام حیوانات کو مذکر و مؤنث بنایا جنہیں دنیا میں باقی رکھنا چاہا اور ہر دو کے اندر شہوت ودیعت کی اور انہیں اتصال و مباشرت کا فطری طریقہ سکھایا، تاکہ ان حیوانات کی نسلیں رہتی دنیا تک باقی رہیں ہر حیوان میں مذکر و مونث پیدا کرنا اور اس نسل کی بقاء کے لئے مذکور بالاتدبیر کرنا یقیناً باری تعالیٰ کی عظمت اور اس کی قدرت کاملہ پر دلالت کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لوگو ! رات کی قسم جب وہ اپنی تاریکی کے ذریعہ دن کو ڈھانک لیتی ہے اور دن کی قسم جب وہ پورے طور پر ظاہر ہوجاتا ہے اور اس کی روشنی سارے عالم کو منور کردیتی ہے اور اس اللہ کی قسم جس نے تمام مذکر و مؤنث کو پیدا کیا ہے : تمہارے اعمال اور تمہاری کوششیں مختلف ہوتی ہیں کچھ تو نیکیاں ہوتی ہیں جو تمہارے سعادت و نیک بختی کا سبب بنتی ہیں اور کچھ گناہ اور معاصی ہوتے ہیں جو تمہاری ہلاکت و بربادی کا سبب ہوتے ہیں۔ سورۃ السجدہ آیت (١٨) میں اللہ تعالیٰ نے اسی بات کو یوں بیان فرمایا ہے : (افمن کان مومنا کمن کان فاسقا لایستوون) ” کیا وہ جو مومن ہو مثل اس کے ہے جو فاسق ہو“ اور سورۃ الجاثیہ آیت (٢١) میں فرمایا ہے : (ام حسب الذین اجترحوا السیات ان نجعلھم کالذین امنوا وعملوا الصالحات سواء محیاھم ومما تھم ساء ما یحکمون) ” کیا ان لوگوں کا جو برے کام کرتے ہیں یہ گمان ہے کہ ہم انہیں ان لوگ جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے کہ ان کا مرنا اور جینا یکساں ہوجائے برا ہے وہ فیصلہ جو وہ کر رہے ہیں۔ “ الليل
2 الليل
3 الليل
4 الليل
5 (٢) مومن و کافر، صالح و طالح اور نیک و بد کے انجام میں جو فرق ہے اور جسے اوپر بیان کیا گیا ہے اسی کی مزید تشریح کے طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جس نے مال پر عائد کردہ حقوق کو ادا کیا، زکاۃ ادا کی، اللہ کی راہ میں صدقہ کیا اور دیگر خیر کے کاموں میں سے خرچ کیا اور تقویٰ کی راہ اختیار کی، اللہ پر ایمان لایا، اس کی بندگی کی، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنایا، محرمات و معاصی سے بچتا رہا اور اس بات پر یقین رکھا کہ اللہ تعالیٰ اس کی راہ میں مال خرچ کرنے والے کو اس کا عوض اور بدلہ دنیا میں بھی دیتا ہے، جیسا کہ امام بخاری وغیرہ نے روایت کی ہے کہ ہر روز دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں، ان میں سے ایک کہتا ہے : اے اللہ ! تو اپنی راہ میں خرچ کرنے والے کو اس کا عوض اور بدلہ دے دے اور دوسرا کہتا ہے : اے اللہ ! تو اپنی راہ میں خرچ کرنے والے کا مال ضائع کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم دنیا میں ایسے آدمی کے لئے ان نیک کاموں کو آسان بنا دیتے ہیں جو ہماری رضا اور خوشنودی کا سبب ہوتے ہیں اور آخرت میں اسے جنت میں داخل کردیں گے۔ اور جو اپنے مال سے اللہ کے عائد کردہ حقوق کو ادا نہیں کرتا اور صدقہ و خیرات نہیں کرتا، اور اپنے مال و اولاد اور جاہ و حشمت کے نشے میں، نیک اعمال کر کے ہماری قربت حاصل نہیں کرتا، اور اس بات پر یقین نہیں رکھتا کہ ہماری راہ میں خرچ کئے ہئے مال کا عوض اور بدلہ ہم دنیا میں بھی دیتے ہیں تو ہم اسے ان برے اعمال کی راہ پر لگا دیتے ہیں جو دنیا میں ہماری ناراضگی کا سبب ہوتے ہیں، اور آخرت میں اسے جہنم میں داخل کردیں گے۔ آیت (١١) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص بخل کی وجہ سے ہماری راہ میں مال خرچ نہیں کرے گا، طلب رضائے الٰہی کی کوشش نہیں کرے گا اور ہماری راہ میں خرچ کردہ مال کے عوض کا یقین نہیں رکھے گا، جب وہ قیامت کے دن جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا، اس وقت وہ مال اس کے کسی کام نہیں آئے گا اور سر کے بل جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ الليل
6 الليل
7 الليل
8 الليل
9 الليل
10 الليل
11 الليل
12 (٣) اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا تو راہ حق کی طرف ان کی رہنمائی بھی کی، چنانچہ اس نے ابتدائے آفرنیش سے انبیاء مبعوث کئے، کتابیں نازل فرمائیں، عقل و خرد سے نوازا اور حق و باطل کے درمیان تمیز کی قوت عطا کی۔ آیت (١٣) میں فرمایا کہ آخرت اور دنیا کی تمام چیزوں کا وہی تنہا مالک ہے اور وہی ان میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرتا ہے، ساری مخلوق عاجز و درماندہ اور محتاج و فقیر ہے، ان کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے، اس لئے دنیا و آخرت کی کوئی بھی بھلائی صرف اسی سے مانگی جانی چاہئے اور طغیان و سرکشی کرنے والے کو اس کے عقاب و عذاب سے ڈرتے رہنا چاہئے۔ اسی لئے آیات (١٤) سے (١٨) تک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگو ! میں تم ہیں جہنم کی اس آگ سے ڈرائے دے رہا ہوں جو ہمیشہ بھڑکتی رہے گی، کبھی سرد نہیں پڑے گی اور اس میں نہایت بدنصیب آدمی داخل ہوگا جو رب العالمین کے دین حق کیتکذیب کرے گا اور کفر و عناد کے سبب اس سے روگردانی کرے گا اور اس بھڑکتی آگ سے وہ مرد مومن بچا لیا جائے گا جو اپنے رب سے غایت درجہ ڈرتا ہوا زندگی گذارے گا، اور اپنے نفس کو بخل اور دیگر معاصی سے پاک کرنے کے لئے اپنا مال بھلائی کے کاموں میں خرچ کرتا رہے گا۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ یہ آیتیں ابوبکر صدیق (رض) کے بارے میں نازل ہوئی تھیں بعض نے مفسرین کا اس پر اجماع نقل کیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ابوبکر (رض) ان نیک لوگوں میں بدرجہ اولی داخل ہیں جن کی صفات ان آیات میں بیان کی گئی ہیں اس لئے کہ وہ صدیق تھے تقی تھے، کریم تھے، اور اپنا مال اپنے رب کی خوشنودی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت و تائید کے لئے خرچ کرتے تھے، انہوں نے محض اپنے رب کریم کی رضا کی خاطر بہت سارے اموال خرچ کئے، لوگوں کا ان پر کوئی احسان نہیں تھا جسے چکانے کے لئے وہ ایسا کرتے تھے بہت سیس ردار ان عرب پر بھی ان کے احسانات تھے اسی لئے سردار ثقیف عروہ بن مسعود نے ان سے صلح حدیبیہ کے دن کہا تھا : اللہ کی قسم ! اگر تم نے مجھ پر احسان نہ کیا ہوتا جس کا بدلہ میں نے تمہیں نہیں چکایا ہے تو میں تمہاری تلخ باتوں کا جواب ضرور دیتا اور صحیحین میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے دو جوڑے اللہ کی راہ میں خرچ کئے، اسے جنت کے تمام داروغے پکاریں گے، اے اللہ کے بندے ! یہ دروازے بہتر ہے تو ابوبکر (رض) نے پوچھا، اے اللہ کے رسول ! جو لوگ ان میں سے الگ الگ دروازوں سے پکارے جائیں گے وہ تو پکارے ہی جائیں گے، کیا کوئی شخص ان میں سے ہر ایک دروازے سے پکارا جائے گا؟ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ انہی میں سے ہوں گے۔ الليل
13 الليل
14 الليل
15 الليل
16 الليل
17 الليل
18 الليل
19 (٤) ان آیات کا تعلق بھی اوپر کی آیات سے ہے اور مفہوم یہ ہے کہ وہ بندہ مومن اپنا جو مال بھی خرچ کرتا ہے وہ محض اپنے رب کی رضا کے لئے کرتا ہے ایسا نہیں کہ کوئی شخص اس پر احسان کئے ہوتا ہے جس کا بدلہ چکانے کے لئے وہ اسے اپنا مال دیتا ہے اور جب بات ایسی ہے کہ وہ محض اپنے رب کیرضا کے لئے خرچ کرتا ہے تو اسے اپنے رب کی طرف سے ایسا بدلہ ملے گا جس سے وہ خوش ہوجائے گا، یعنی رب العالمین اسے جنت میں داخل کر دے گا۔ یہ بات ابوبکر صدیق (رض) پر پورے طور پر صادق آتی تھی، جیسا کہ ان کے بارے میں تفسیر ابن کثیر کی عبارت کا ترجمہپ یش کیا گیا اور چونکہ قرآن کریم میں عموم لفظ کا اعتبار ہوتا ہے نہ کہ خصوص سبب کا، اس لئے جس مرد مومن کے اندر بھی وہ صفات پائی جائیں گی جن کا ذکر آیات (١٧) سے (٢١) تک میں آیا ہے، وہ اس خوشخبری کا مستحق ہوگا جو ان آیات میں دی گئی ہے۔، یعنی جہنم کی بھڑکتی آگ سے دور کردیا جائے گا۔ الليل
20 الليل
21 الليل
0 سورۃ الضحیٰ مکی ہے، اس میں گیارہ آیتیں، اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ الضحیٰ نام : پہلی آیت لفظ ” والضحی“ ہے یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت تمام کے نزدیک مکی ہے۔ ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ نے ابن عابس (رض) سے روایت کی ہے کہ ” والضحی“ مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ الضحى
1 (١) بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے جندب بجلی سے روایت کی ہے کہ ایک بار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار پڑگئے، اس لئے دو یا تین راتیں تہجد کی نماز نہیں پڑھ سکے، تو آپ کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی، اے محمد ! میں دیکھ رہی ہوں کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے، دو تین راتوں سے وہ تمہارے قریب نہیں آیا ہے، تب اللہ تعالیٰ نے (والضحی والیل اذا سجی ما ودعک ربک وما قلی) نازل فرمایا، مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ عورت ابولہب کی بیوی ام جمیل تھی۔ ابن جریر، سعید بن منصور اور طبرانی غیرہ نے جندب سے روایت کی ہے کہ کچھ دن جبریل (علیہ السلام) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نہیں آئے تو مشرکین کہنے لگے کہ محمد کو چھوڑ دیا گیا تب آیت (ماودعک ربک وما قلی) نازل وئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے میرے نبی ! صبح کی قسم جب اس کی روشنی پھیل جاتی ہے اور رات کی قسم جب اس کی تاریکی گہری ہوجاتی ہے، آپ کے رب نے ہمیشہ آپ کی دیکھ بھال کی ہے، آپ کا خیال رکھا ہے ایک لمحہ کے لئے بھی آپ کو نظر انداز نہیں کیا ہے اور نہ آپ کو مبغوض جانا ہے، بلکہ آپ سے غایت درجہ محبت کی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ آئندہ آپ کا خیال رکھے گا ہر آنے والا دن آپ کے لئے گزشتہ دن سے بہتر ہوگا، چنانچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درجات اللہ کی نگاہ میں بنلد ہوتے رہے، آپ کے دشمن مغلوب ہوتے گئے اور آپ کا دین غالب ہوتا گیا اور دن بہ دن آپ پر اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات بڑھت یہی گئے اور آپ کا مقام اونچا سے اونچا ہوتا گیا، یہاں تک کہ آپ اپنے رب کے نزدیک اس مقام پر فائز ہوگئے جو اولین و آخرین میں سے کی کو نصیب نہیں ہوا۔ اور آخرت میں آپ کو جو مقام ملے گا اور جن نعمتوں سے آپ نوازے جائیں گے ان کی تعبیر انسانی الفاظ میں ممکن نہیں، اسی لئے اللہ نے کہا : (ولسوف یعطیک ربک فترضی ) ” اور عنقریب آپ کا رب آپ پر اپنے انعامات کی بارش کرے گا تو آپ راضی ہوجائیں گے۔ “ الضحى
2 الضحى
3 الضحى
4 الضحى
5 الضحى
6 (٢) یہاں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنے تین احسانات کا ذکر فرمایا، تاکہ آپ کو یقین ہوجائے کہ آپ کا رب آپ کے ساتھ ہے، نہ اس نے ماضی میں آپ کو چھوڑ دیا تھا اور نہ مستقبل میں کبھی چھوڑے گا اور تاکہ مشرکین جان لیں کہ آپ کا رب ہر دم آپ کے ساتھ ہے اور ان کی شمانت اور خوش ہونے کا کوئی معنی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کو آپ کے رب نے یتیم پایا تو آپ کو پناہ دی، آپ کے والد (عبداللہ) کا انتقال اس وقت ہوگیا تھا جب آپ اپنی ماں کے پیٹ میں چھ ماہ کے تھے جب آپ چھ سال کے تھے تو والدہ بھی دنیا سے رخصت ہوگئیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے چچا ابوطالب کے دل میں آپ کی محبت ڈال دی، انہوں نے آپ کی دیکھ بھال کی اور ہر طرح خیال رکھا یہاں تک آپ بڑے ہوگئے اور نبی ہونے کے بعد جب آپ نے اپنی دعوت اہل مکہ کے سامنے پیش کی اور انہوں نے آپ کو اذیت پہچانی شروع کی تو ابوطالب نے جان و مال کی ذریعہ آپ کا ساتھ دیا۔ اور آپ کو آپ کے رب نے رشد و ہدایت سے غافل پایا تو آپ کی رہنمائی کی اور دنیا والوں کے لئے آپ کو امام بنا دیا آپ بھی دیگر اہل مکہ کی طرح علم شریعت سے آگاہ نہیں تھے اور ایمان و اسلام کی کوئی بات نہیں جانتے تھے (اگرچہ آپ نے کبھی کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کیا تھا) جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشوریٰ آیت (٢٥) میں فرمایا ہے : (ماکنت تدری ما الکتاب ولا ایمان) ” آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ ایمان کی کوئی بات جانتے تھے“ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا رسول بنا لیا اور اپنی پیغامبری کے لئے آپ کو چن لیا۔ اور آپ کو آپ کے رب نے محتاجی و فقیر پایا، تو آپ کی محتاجی دور کردی آپ کے والد کا ترکہ (ام ایمن) باندی اور چند اونٹوں کے سوا کچھ بھی نہ تھا، اللہ نے آپ کو قناعت دی چنانچہ آپ نے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا اور جب بڑے ہوئے تو اللہ نے آپ کی شادی خدیجہ (رض) سے کرا دی جنہوں نے اپنی ساری دولت آپ کے قدموں میں رکھ دی اور جب نبی ہوئے اور مدنی زندگی میں فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا تو اموال غنائم، زکاۃ و خراج اور اموال جزیہ کے ذریعہ اللہ نے آپ کی اور آپ کے صحابہ کی غربت و محتاجی دور کردی ہے۔ الضحى
7 الضحى
8 الضحى
9 (٣) ان نعمتوں کا تقاضا تھا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے رب کا شکر ادا کرتے اس لئے اللہ نے آپ کو شکر کی تعلیم دی اور کہا کہ آپ یتیم کے ساتھ برابر تاؤ نہ کیجیے اس سے تنگ دل نہ ہو یئے، نہ اسے ڈانٹئے بلکہ اس کا خیال کیجیے اور اس کے ساتھ ایسا چھا برتاؤ کیجیے جیسا آپ چاہیں گے کہ آپ کی وفات کے بعد دوسرے آپ کی اولاد کے ساتھ کریں۔ اور مانگنے والے محتاج و مسکین کے ساتھ سخت کلامی کے ساتھ نہ پیش آئے بلکہ جو میسر ہو اسے دے دیجیے اچھے انداز میں اس کو واپس کردیجیے۔ بعض لوگوں نے ” سائل“ سے دین کا علم طلب کرنے والا مراد لیا ہے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہر قسم کے لوگ علم دین حاصل کرنے کے لئے آتے تھے، ان میں بادیہ نشین اور سخت زبان لوگ بھی ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ نرمی سے پیش آیئے، جیسا کہ سورۃ عبس میں اللہ نے نابینا صحابی کے ساتھ بے اعتنائی پر آپ کی تنبیہہ کی۔ اور آپ کے رب نے آپ پر جو احسانات کئے ہیں، ان کا ذکر کر کے اپنے رب کی خوب تعریف بیان کیجیے اور قول و فعل کے ذریعہ ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتے رہئے تاکہ رب العالمین آپ کو مزید نعمتوں سے نوازے، آپ سے خوش ہو اور آپ سے محبت کرے۔ مجاہد اور کلبی نے یہاں ” نعمت“ سے قرآن کریم مراد لیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمت تھی، اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ لوگوں کو اسے پڑھ کر سناتے رہئے، مجاہد کا ایک دوسرا قول ہے کہ یہاں ” نعمت“ سے مراد ” نبوت“ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سرفراز فرمایا تھا زجاج کا بھی یہی قول ہے اور مفہوم یہ ہوگا کہ آپ کو اللہ نے جو پیغام دے کر مبعوث کیا ہے اسے لوگوں تک پہنچاتے رہئے۔ شو کانی لکھتے ہیں کہ جن باتوں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روکا ہے، ان کا تعلق آپ کی امت سے بھی یہغ، یعنی امت کے ہر فرد کو ان سے منع کیا گیا ہے۔ وباللہ التوفیق۔ الضحى
10 الضحى
11 اور اپنے رب کی نعمتوں کا ذکر کرتے رہئے الضحى
0 سورۃ الم نشرح مکی ہے، اس میں آٹھ آیتیں ہیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ الم نشرح نام : پہلی آیت کا پہلا حصہ (الم نشرح) ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت تمام کے نزدیک مکی ہے ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ (الم نشرح) مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ الشرح
1 (١) سورۃ الضحی میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنے تین احسانات کا ذکر فرمایا تھا اس سورت میں تین دوسری نعمتوں کا ذکر کر کے آپ پر احسان جتایا ہے :۔ فرمایا کہ کیا ہم نے آپ کا سینہ کھول نہیں دیا ہے اور اس میں وسعت نہیں پیدا کردی ہے، تاکہ آپ وحی الٰہی کو بآسانی قبول کریں، اخلاق حسنہ کو اپنائیں، اور دعوت اسلامیہ کی راہ میں آپ کو جو تکلیف پہنچے اسے برداشت کریں اور نبوت کی عظیم ذمہ داریوں کا بار اٹھائیں۔ جیسا کہ سورۃ الزمر آیت (٢٢) میں آیا ہے : (افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فھ علی نور من ربہ) ” کیا جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے، پس وہ اپنے رب کی طرف سے روشنی میں ہے (ایس جیسا ہوسکتا ہے جس کا دل تنگ ہو۔ “ ) اور ہم نے آپ کے دل سے اس بوجھ کو ہٹا دیا جو آپ کی پیٹھ کو توڑ رہا تھا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اگرچہ نبوت سے پہلے کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کیا، بت کی پرستش نہیں کی اور شراب نہیں پی، لیکن آپ کے دل میں ہر دم یہ شدید احساس رہتا تھا کہ آپ نے نبوت سے پہلے کی چالیس سالہ زندگی میں اپنے رب کی عبادت نہیں کی اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے کوئی واضح عمل نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کے ذریعہ آپ کے دل سے اس بوجھ کا ازالہ کردیا ہے۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفتح آی (٢) میں یوں فرمایا ہے : (لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک ومات خر) ” تاکہ اللہ آپ کے اگلے اور پچھلے سارے گناہ معاف کر دے۔ “ اور ہم نے آپ کا مقام اونچا کردیا ہے، آپ کا ذکر خیر ہر جگہ عام کردیا ہے، آپ کی رسالت کے اعتراف کو قبول ایمان کی شرط قرار دے دی ہے، قتادہ کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے دنیا و آخرت دونوں جگہ آپ کا مقام اونچا کردیا ہے چنانچہ اذان، اقامت اور خطبے میں :” اشھدان لا الہ الا اشد اشھد ان محمد رسول اللہ“ پکارا جاتا ہے اور جب تک دنیا باقی رہے گی، آپ کا نام اللہ کے نام کے ساتھ لیا جاتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو حکم دیا کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود و سلام بھیجتے رہیں : (یا یھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیماً) ” اے ایمان والو ! نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود و سلام بھیجتے رہو“ (الاحزاب : ٦٥)۔ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کی طرف سے خبر دی ہے کہ جو مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا اللہ اس پر دس بار درود بھیجے گا اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اپنی اطاعت کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و فرمانبرداری کا حکم دیا فرمایا : (اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول) ” مسلمانو ! اللہ کی بات مانو، اور رسول اللہ کی بات مانو“ (النساء : ٩٥) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وما اتاکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا) ” مسلمانو ! تمہیں جو کچھ رسول دیں اسے لو اور جس سے روکیں رک جاؤ۔ “ گویا اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر جمیل سے آسمانوں اور زمینوں کو بھر دیا اور جو شہرت و مقام آپ کو حاصل ہوا، وہ دنیا میں کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ (ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشآء واللہ ذوالفضل العظیم) ” یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے اپنا فضل دیتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے“ (الحدید : ١٢) اللھم صل و سلم وبارک علی رسولک محمد و علی آلہ وصحبہ اجمعین الشرح
2 الشرح
3 الشرح
4 الشرح
5 (٢) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ابتدائے بعثت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بڑی تکلیفیں اٹھانی پڑیں، پھر آہستہ آہستہ حالات بہ سے بہتر ہوتے گئے، حتی کہ اللہ نے آپ کا شرح صدر فرما دیا، آپ کے دل پر جو بار گراں تھا اسے دور کردیا اور آپ کا ذکر جمیل سارے عالم میں پھیلا دیا اللہ تعالیٰ کا یہی نظام حیات ہے کہ وہ تنگی کے بعد آسانی لاتا ہے آدمی جب اپنی فکر و نظر استعمال کر کے مشکلات سے نکلنا چاہتا ہے اور پھر اللہ پر بھروسہ کر کے آگے بڑھتا جاتا ہے اور ہمت نہیں ہارتا، تو طوفان رک جاتا ہے آندھیاں بند ہوجاتی ہیں اور بالاخر سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے یہی حال نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تھا ابتدائے نبوت میں آپ کو اور آپ کے اصحاب کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن مردر زمانہ کے ساتھ حالات نے پلٹا کھایا اور تنگی آسانی میں بدلتی چلی گئی۔ ابن جریر، عبدالرزاق، حاکم اور بیہقی نے حسن بصری سے (مرسلاً) روایت کی ہے کہ ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے بہت خوش نکلے اور فرمایا کہ ایک تنگی دو آسانیوں کو مغلوب نہیں کرسکتی، اللہ تعالیٰ نے فرماا : (فان مع العسر یسرا، ان مع العسر یسرا) ” بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے، بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔ “ طبرانی، حاکم اور بیہقی وغیرہ نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے تھے اور آپ کے سامنے ایک سوراخ تھا آپ نے فرمایا :” اگر تنگی اس سوراخ میں داخل ہوگی تو آسانی آئے گی اور اس میں داخل ہو کر اسے نکال دے گی“ تو اللہ تعالیٰ نے (فان مع العسر یسرا، ان مع العسر یسراً) نازل فرمایا۔ اگرچہ یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن مفسرین نے اس آیت کی جو تفسیر بیان کی ہے اس سے اس معنی کی تائید ہوتی ہے۔ الشرح
6 الشرح
7 (٣) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نصیحت کی کہ جب آپ جہاد اور دیگر امور دنیا سے فارغ ہوجائیں اور یکسوئی حاصل ہوجائے، تو اپنے رب کی عبادت کے لئے کھڑے ہوجایئے، اور نماز، دعا اور تسبیح اور استغفار میں خوب محنت کیجیے اور تمام علائق دنیا سے الگ ہو کر صرف اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگ جایئے، اور ان لوگوں میں سے نہ ہوجایئے جو فراغت کے اوقات لہو و لعب میں گذارت یہیں اور اپنے رب کی یاد سے غافل ہوجاتے ہیں۔ وباللہ التوفیق الشرح
8 الشرح
0 سورۃ التین مکی ہے، اس میں آٹھ آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ التین نام : پہلی آیت کا پہلا لفظ ” والتین“ ہے یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : جمہور کے نزدیک یہ سورت مکی ہے، ابن مردویہ اور بیہقی وغیرہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ التین مکہ میں نازل ہوئی تھی، لیکن قرطبی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ سورت مدنی ہے پہلے قول کی تائید آیت (٣) (وھذا البلد الامین) سے ہوتی ہے، جس سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔ التين
1 (١) ابتدائی تین آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے انجیر، زیتون، طورسینا اور بلد امین (مکہ مکرمہ) کی قسم کھانے کے بعد فرمایا کہ ہم نے انسان کو سب سے اچھی شکل و صورت میں پیدا کیا ہے، لیکن اس نے اللہ کی اس نعمت کا اور دیگر بے شمار اور بیش بہا نعمتوں کا شکر ادا نہیں کیا اور اپنی زندگی لہو و لعب میں لگا دی تو وہ اللہ کی نگاہ میں گرتا چلا گیا یہاں تک کہ اس کا ٹھکانا جہنم کی آخری کھائی میں بنا دیا گیا۔ البتہ اس بدترین انجام سے وہ لوگ بچا لئے جائیں گے جن پر اللہ نے یہ احسان کیا کہ انہیں ایمان، عمل صالح اور اخلاق حسنہ کی توفیق دی، انہیں اللہ تعالیٰ جہنم سے دور کر دے گا، اور جنت میں اعلیٰ مقام پر فائز کرے گا جس کی نعمتیں اور خوشیاں کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ اکثر مفسرین کے نزدیک لفظ ” التین“ سے مراد انجیر ہے جسے لوگ کھاتے ہیں اور ” الزیتون“ مشہور پھل ہے۔ جس سے تیل نکالا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انجیر کی قسم اس لئے کھائی ہے کہ وہ گٹھلی سے خالی ہونے کے سبب جنت کے پھل سے زیادہ مشابہ ہے بہت سے اطباء کا خیال ہے کہ انجیر انسانی جسم کے لئے بہت زیادہ نفع بخش ہے اسی طرح زیتون میں بھی بہت سے فوائد ہیں اسے کھایا جاتا ہے اس کا تیل استعمال کیا جاتا ہے اور مختلف دواؤں میں اہم ترین جزاء کے طور پر ڈالا جاتا ہے۔ اور (وطور سینین) فلسطین میں وہ سینا پہاڑ ہے جہاں انسانی تاریخ کا عظیم ترین واقعہ پیش آیا تھا، بنی اسرائیل کے عظیم بنی موسیٰ بن عمران سے اللہ تعالیٰ اس پہاڑ کے دامن میں کئی بار ہم کلام ہوا تھا اور رب العالمین کی تجی سے ایک بار وہ پہاڑ چکنا چور ہوگیا تھا۔ اور (البلد الامین) سے مراد ام القریٰ(مکہ مکرمہ) ہے، جہاں اللہ کا گھر ہے اور جس کے اردگرد کو اللہ تعالیٰ نے ” حرم“ بنا دیا ہے اور اسے ” بلد امین“ اس لئے کہا گیا ہے کہ ہاں انسان نہیں چڑیا اور جانور میں امن میں ہوتے ہیں۔ دوسری جگہ : طور سینا ہے جہاں اللہ نے موسیٰ بن عمران سے بات کی تھی اور تیسری جگہ مکہ ہے، جو بلد امین ہے جس میں داخل ہوجانے والا امن میں آجاتا ہے، اور یہاں اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا تھا۔ التين
2 التين
3 التين
4 التين
5 التين
6 التين
7 (٢) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے کافر انسان کو مخاطب کر کے بطور زجر و توبیخ فرمایا ہے کہ رب العالمین کی قدرت و علم اور رحمت و حکمت کے بے شمار دلائل و براہین کے باوجود تم کیسے بعث بعد الموت اور قیامت کے دن جزا و سزا کا انکار کرتے ہو جب تمہارا وجود تمہارے لئے اس بات کی دلیل فراہم کر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا جب تم کچھ بھی نہیں تھے تو کیا وہ قادر مطلق تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہوگا پھر وہ کون سی عقلی یا نقلی دلیل ہے جو تمہیں بعث بعد الموت کے انکار پر ابھارتی ہے حقیقت یہ ہے کہ کبر و عناد کے سوا تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ التين
8 (٣) اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی عدل و انصاف والا نہیں اس لئے یہ کیسے گمان کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کی زندگی میں لوگ اعمال میں مختلف ہوں، کوئی زندگی بھر صلاح و تقویٰ کی راہ پر گامزن رہے اور کوئی معصیت و سرکشی اور فسق و فجور میں ڈوبا رہے، اور مرنے کے بعد ثواب و عقاب کے اعتبار سے دونوں برابر ہوجائیں یہ تو سراسر ظلم ہوگا اور اللہ عزوجل صفت عدل و انصاف کے بالکل منافی ہوگا۔ وباللہ التوفیق التين
0 سورۃ العلق مکی ہے، اس میں انیس آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ العلق نام : دوسری آیت میں لفظ ” علق“ آیا ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت تمام کے نزدیک مکی ہے اور قرآن کریم کی پہلی سورت ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوئی تھی بخاری و مسلم نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس حق آیا، یعنی جبریل امین آئے جب آپ غار حراء میں تھے، اور آپ سے کہا : پڑھئے، میں نے کہا : مجھے پڑھنا نہیں آتا تو انہوں نے مجھے پکڑ لیا اور اتنا زور سے بھینچا کہ مجھے تھکا دیا، پھر چھوڑ دیا اور کہا : پڑھئے میں نے کہا : مجھے پڑھنا نہیں آتا تو انہوں نے مجھے بار پکڑا اور اتنا زور سے بھینچا کہ میں تھک گیا پھر چھوڑ دیا اور کہا : (اقراء باسم ربک الذی خلق، خلق الانسان من علق، اقراوربک الاکرم الذی علم بالقلم، علم الانسان مالم یعلم) اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں سے اس حال میں واپس آئے کہ آپ کے دل پر کپکپی طاری تھی۔ العلق
1 (١) یہاں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ ان پر جو قرآن کریم بذریعہ وحی نازل ہوتا ہے اس کی تلاوت سے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھا کریں، نیز انسان کو خبر دی ہے کہ تمام مخلوقات کا خلاق وہی تنہا ہے اور اس نے انسان کو لوتھڑے یعنی ایک غلیظ منجمد خون سے پیدا کیا ہے، جو چالیس دن تک رحم مادر میں نطفہ کی شکل میں رہتا ہے، پھر منجمد خون کا ایک لوتھڑا بن کر رحم مادر سے چیک جاتا ہے، پھر چالیس دن کے بعد گوشت کا ایک ٹکڑا بن جاتا ہے، پھر یا تو امر الٰہی کے مطابق اس کی تخلیق مکمل ہوجاتی ہے، یا رحم سے گوشت کے ایک ٹکڑے کی شکل میں باہر نکل جاتا ہے۔ العلق
2 العلق
3 (٢) چونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جبریل (علیہ السلام) کو اچانک اپنے سامنے پا کر گھبرا گئے تھے، اسی بطور تاکید آپ سے کہا گیا کہ آپ پڑھئے اور چونکہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پڑھنے سے معذرت کی تھی اور کہا تھا کہ مجھے پڑھنا نہیں آتا، اس لئے آپ سے کہا گیا کہ آپ کا وہ رب آپ کو پڑھنے کا حکم دے رہا ہے جو بے پایاں کرم و احسان والا ہے، جس کے جودو عطا کی کوئی انتہا نہیں، جس نے پڑھنا لکھنا سکھا کر انسان پر احسان عظیم کیا ہے اور جس نے قلم کے ذریعہ اسے وہ سب سکھایا جو وہ پہلے سے نہیں جانتا تھا۔ العلق
4 العلق
5 العلق
6 (٣) آیت (٦) سے آخر سورت تک ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی تھی، احمد مسلم، نسائی، ابن جریر اور بیہقی وغیرہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے، ابوجہل نے پوچھا، کیا محمد تم لوگوں کے سامنے اپنا چہرہ زمین پر رکھتا ہے؟ لوگوں نے کہا : ہاں، اس نے کہا : لات و عزی کی قسم ! اگر میں نے اسے اس طرح نماز پڑھتے دیکھ لیا تو اس کی گردن کو پاؤں سے کچل دوں گا اور اس کا چہرہ مٹی میں رگڑدوں گا چنانچہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس وقت آیا جب آپ نماز پڑھ رہے تھے، تاکہ آپ کی گردن کو کچل دے، لیکن جب وہ آپ کے قریب ہوا تو فوراً پیچھے ہٹنے لگا اور ہاتھ کے ذریعہ اپنے آپ کو بچانے لگا لوگوں نے پوچھا کیا : کیا بات ہے؟ اس نے کہا کہ میرے اور اس کے درمیان آگ سے بھرا خندق اور کوئی نہایت ڈراؤنی چیز ہے جس کے پر ہیں، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر وہ مجھ سے قریب ہوتا تو فرشتے اسے چیر پھاڑ کر اس کا ایک ایک عضو اچک لے جاتے۔ اسی حادثہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے (کلا ان الانسان لیطفی) سے آخر سورت تک نازل فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو انسان ایمان اور معرفت الٰہی کی دولت سے محروم ہوتا ہے، جب اللہ تعالیٰ اسے مال و دولت اور حکومت و سلطنت سے نوازتا ہے، تو وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اب وہ کسی کا محتاج نہیں اور رب العالمین کو یکسر بھول جاتا ہے، طغیان و سرکشی پر آمادہ ہوجاتا ہے، کبر و ظلم اس کی صفت بن جاتی ہے، کمزوروں کو حقیر سمجھنا اور دوسروں کا مذاق اڑانا اس کا شیوہ بن جاتا ہے۔ آیت (٨) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ابوجہل ہو یا اور کوئی ظالم و سرکش، بہرحال اسے لوٹ کر آپ کے رب کے پاس ہی آنا ہے، اور ہم اس سے ضرور انتقام لیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ابو جہل کی بدسلوکی پر شدید اظہار تعجب کرتے ہوئے کہا کہ کتنا برا اور لائق نفرت ہے وہ انسان جو اللہ کے بندے (محمد) کو نماز پڑھنے سے روکتا ہے کیا اللہ کے لئے نماز پڑھنا کوئی جرم ہے، نماز پڑھنے سے اس مجرم کو کیا تکلیف پہنچتی ہے کہ وہ آپ کو روکتا ہے۔ وہ نبی جو راہ ہدایت پر قائم ہے اور دورسوں کو صالح و تقویٰ کی دعوت دیتا ہے، اس کی مخالفت کرنا اسے ایذا پہنچانا اور طرح طرح کی اسے دھمکی دینا، اللہ کو ہرگز گوارہ نہیں۔ وہ کافر و مجرم انسان جو میرے بندے اور رسول کو نماز پڑھنے سے روکتا ہے، ایمان و اسلام سے روگردانی کرتا ہے، اور بعث بعدالموت اور حساب و جزا کا انکار کرتا ہے، اس کا اس دن کیا حال ہوگا جب وہ میدان محشر میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوگیا، کیا اسے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے تمام کرتوتوں سے باخبر ہے اور آپ کو ڈرانے اور دھمکانے کے لئے وہ جو بھی حرکتیں کرتا ہے اس سے اچھی طرح واقف ہے۔ العلق
7 العلق
8 العلق
9 العلق
10 العلق
11 العلق
12 العلق
13 العلق
14 العلق
15 (٤) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ابوجہل ہمارے رسول کی ایذا رسانی سے باز نہیں آیا اور انہیں مسجد حرام اور مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکنے کی دوبارہ کوشش کی تو ہم اسے اس کی جھوٹی اور گناہوں میں ملوث پیشانی سے پکڑ لیں گے اور گھسیٹتے ہوئے جہنم میں پہنچا دیں گے اس وقت اگر وہ اپنی مجلس اور قوم کے ان لوگوں کو بلانا چاہے تو بلا لے جن کے بل بوتے پر وہ آپ کو نماز سے روکنا چاہتا ہے ہم بھی جہنم کے دارغوں کو بلا لیں گے، ترمذی وغیرہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھ رہے تھے، ابوجہل آیا اور کہنے لگا : کیا میں نے تمہیں نماز پڑھنے سے روکا نہیں تھا؟ تو خوب جانتے ہو کہ مجھ سے زیادہ دوست اور مددگار کسی کے پاس نہیں ہیں تو اللہ تعالیٰ نے (فلیدع نادیہ سندعوا الزبانیۃ) نازل فرمائی۔ وہ مجرم اپنی ان حرکتوں سے باز آجائے اور یقین کرلے کہ آئندہ وہ ہمارے رسول کو ایذا نہیں پہنچا سکے گا، مفسرین لکھتے ہیں کہ ابو جہل نے اس کے بعد آپ کے ساتھ بد زبانی یا ہاتھ سے ایذا پہنچانے کی جرأت نہیں کی۔ آیت (٩١) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بطور تنبیہ فرمایا کہ آپ ابوجہل کی بات ہرگز نہ مانئے اور مسجد حرام میں نماز پڑھتے رہئے اور دیگر عبادات کے ذریعہ اپنے رب کی قربت حاصل کرتے رہئے۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب حالت سجدہ میں ہوتا ہے، اس لئے تم لوگ سجدہ میں کثرت سے دعا کرو“ نیز صحیح مسلم میں ہی ابوہریرہ رضی اللہ کی دوسری روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ (اقراء باسم ربک) اور (اذا السماء انشقت) میں سجدہ کیا اسی لئے امام شافعی کے نزدیک اس سورت کا سجدہ اہم سجدوں میں سے ہے اور قاری اور سننے والے کے لئے اس کی قرأت کے بعد سجدہ کرنا مسنون ہے۔ العلق
16 العلق
17 العلق
18 العلق
19 العلق
0 سورۃ القدر مکی ہے، اس میں پانچ آیتیں ہیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ القدر نام : پہلی آیت میں ہی لفظ ” القادر“ ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : ماوردی کا قول ہے کہ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ سورت مکی ہے اور ثعلبی نے کہا کہ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ سورت مدنی ہے واقدی کا قول ہے کہ یہ پہلی سورت ہے جو مدینہ میں نازل ہوئی تھی ابن مردویہ نے ابن عباس، ابن الزبیر اور عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ سورت مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ القدر
1 (١) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس نے قرآن کو ایک باعزت اور خیر و برکت والی رات میں نازل کیا ہے، پورا قرآن لیلتہ القدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل ہا پھر وہاں سے جستہ جستہ حسب ضرورت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوتا رہا اور 23 سال میں اس کے نزول کی تکمیل ہوگئی۔ ان آیات میں قرآن کریم کی بہت بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے، جس کی تعبیر ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ ہم نے قرآن کی عظمت و اہمیت کے پیش نظر اسے ایک نہایت ہی معظم و مکرم اور بابرکت رات میں نازل کیا ہے۔ اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ خان آیت (٣) میں یوں بیان فرمایا ہے : (انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ انا کنا منذرین) ” بے شک ہم نے قرآن کو ایک بابرکت رات میں نازل کیا ہے، بے شک ہم ڈرانے والے تھے“ اور یہ رات ماہ رمضان میں تھی، جس کی تصریح اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ آیت (٥٨١) میں فرما دی ہے : (شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن) ” رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا“ القدر
2 (٢) اللہ تعالیٰ نے لیلتہ القدر کی عظمت و اہمیت کو بیان کرنے کے لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے کہا : آپ کو کیا معلوم کہ لیلتہ القدر کیا ہے؟ لیلتہ القدر ایسے ہزار مہینوں سے بہتر ہے جن میں کوئی لیلتہ القدر نہ ہو، یعنی ایک لیلتہ القدر تراسی سال اور چار ماہ سے بہتر ہوتی ہے، اس لئے کہ اس میں فرشتے اور جبریل (علیہ السلام) اپنے رب کے حکم سے آسمان سے زمین پر اترتے ہیں درانحالیکہ ان کے پاس آنے والے سال سے متعلق رب العالمین کے تمام فیصلے اور احکام ہوتے ہیں جیسا کہ سورۃ الدخان آیات (٤/٥) میں آیا ہے : (فیھا یفروتکل امر حکیم، امرامن عندنا انا کنامرسلین) ” اسی رات میں ہر پر حکمت کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے، ہمارے پاس سے حکم ہو کر ہم ہی ہیں رسول بنا کر بھیجنے والے“ القدر
3 القدر
4 القدر
5 (٣) لیلتہ القدر سراسر سلامتی اور خیر ہی خیر ہوتی ہے، اس میں کوئی شر نہیں ہوتا اور یہ خیر و سلامتی غروب آفتاب سے طلوع فجر تک باقی رہتی ہے بعض لوگوں نے سلامتی والی رات کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ مومنین اس رات کو شیاطین کے شر سے محفوظ رہتے ہیں، یا یہ کہ فرشتے مومنوں اور مومنات کو سلام کرتے ہیں۔ لیلتہ القدر کی تعیین کے بارے میں علماء کے چالیس سے زیادہ اقوال ہیں سب سے قوی روایت یہ ہے کہ یہ رات ماہ رمضان کی آخری دس راتوں میں آتی ہے، بخاری و مسلم اور احمد و ترمذی نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” لیلتہ القدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں سے طاق راتوں میں تلاش کرو“ اسی لئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دس راتوں میں عبادت کا بڑا اہتمام کرتے تھے، اعتکاف کرتے تھے اور عبادت کے لئے خود بھی جگتے تھے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔ دیگر صحیح احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ طاق راتوں میں سے کوئی رات ہوتی ہے، ابی بن کعب سے زربن حبیش نے شب قدر سے متعلق پوچھا تو انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ وہ 27 ویں رات ہے مصنف ابن ابی شیبہ میں ابو ذر (رض) کی روایت ہے، انہوں نے کہا کہ عمر، حذیفہ اور دیگر بہت سے صحابہ کو اس میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ وہ رمضان کی 27 ویں رات ہے۔ مذکورہ بالا احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے، نیز معاویہ، ابن عمر اور ابن عباس وغیرہ ہم سے اس بارے میں جو روایات آئی ہیں ان کے پیش نظر علمائے سلف کی ایک بڑی تعداد نے 27 ویں رات کو ہی لیلتہ القدر سمجھا ہے، واللہ اعلم بالصواب بہر حال لیلتہ القدر سے متعلق احادیث کا مطالعہ کرنے سے اتنی بات ضرور سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمان کی زندگی میں اس رات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، اس لئے اسے پان کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع میں رمضان کی آخری دس راتوں میں عبادت کا خوب اہتمام کرنا چاہئے اور اپنے بال بچوں کو بھی ان راتوں میں عبادت کے لئے جگانا چاہئے۔ وباللہ التوفیق القدر
0 سورۃ البینہ مدنی ہے، اس میں آٹھ آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ البینہ نام : پہلی آیت کا آخری لفظ ” البینۃ“ ہے یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے اسے سورۃ القیامہ، سورۃ المنفکین اور سورۃ البریہ بھی کہتے ہیں۔ زمانہ نزول : جمہور علماء کے نزدیک یہ سورت مدنی ہے بعض لوگوں نے اسے مکی کہا ہے ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ ” لم یکن“ مدینہ میں نازل ہوئی تھی اور عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ ” لم یکن“ مکہ میں نازل ہوئی تھی بخاری و مسلم وغیرہ نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابنی بن کعب (رض) سے فرمایا : مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ تمہارے سامنے (لم یکن الذین کفروا) پڑھوں، ابی نے پوچھا : کیا اللہ نے میرا نام لے کر آپ سے کہا ہے؟ آپ نے کہا : ہاں تو ابی رونے لگے۔ البينة
1 (١) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ یہود و نصاری اور بتوں کے پجاری کفر و ضلالت کی وادیوں میں بھٹکتے رہے۔ اور مردر زمانہ کے ساتھ انکا کفر بڑھتا ہی گیا، یہاں تک کہ اللہ کی طرف سے دلیل واضح اور برہان ساطع آگیا، یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحیثیت نبی و رسول مبعوث ہوئے اور ان پر اللہ کی کتاب نازل ہوئی تب انہوں نے حق کو پہچانا اور ان میں سے کچھ لوگ اسلام میں داخل ہوئے اور کچھ کفر پر ہی باقی رہے یہاں تک کہ ان کی موت آگئی، آیت (٢) میں ” رسول“ سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور (صحفا مطھرۃ) سے مراد قرآن کریم ہے اور آیت (٣) میں (کتب قیمۃ) سے مراد قرآن کریم میں موجود سچی خبریں، اللہ کی نشانیاں اس کے احکام اور اوامرونواہی ہیں۔ البينة
2 البينة
3 البينة
4 (٢) اس آیت کریمہ میں ان اہل کتاب کی زجر وتو بیخ کی گئی ہے جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے اللہ نے کہا کہ اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ انہوں نے حق کو نہیں پہچانا، بلکہ حق واضح ہوجانے کے بعد انہوں نے کفر کو ترجیح دیا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ تمام یہود و نصاریٰ بعثت نبوی سے پہلے، خاتم النبین کی آمد کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ آپ مبعوث ہوگئے اس کے بعد آپ پر ایمان لانے میں اختلاف کر بیٹھے، بعض لوگ ایمان لے آئے اور بعض نے انکار کردیا سورۃ آل عمران آیت (٩١) میں اللہ تعالیٰ نے اسی بات کو یوں بیان فرمایا ہے : (وما اختلف الذین اوتوا الکتاب الامن بعدماجاء ھم العلم بغیانینھم) ” اور اہل کتاب نے اپنے پاس علم آجانے کے بعد محض سرکشی اور حسد کی بنا پر اختلاف کیا۔ “ البينة
5 (٣) یہود و نصاریٰ کے اس اختلاف کی ان کے پاس کوئی عقلی یا شرعی دلیل موجود نہیں تھی، اس لئے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم نے انہیں جس بات کی دعوت دی، وہی دعوت موسیٰ اور عیسیٰ نے دی تھی اور وہی بات تو رات و انجیل میں نازل ہوئی تھی یعنی سب کا دین ایک تھا اور سب نے بنی نوع انسان کو اسی بات کا حکم دیا کہ وہ صرف ایک اللہ کی بندگی کریں، تمام عبادتوں سے مقصود صرف اسی کی رضا ہو اور تمام باطل ادیان کو چھوڑ کر دین اسلام میں داخل ہوجائیں جس کے سوا اللہ کے نزدیک کوئ صحیح دین نہیں اور نماز پڑھیں اور زکاۃ دیں آپ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ توحید اور تمام عابدتوں کو صرف اللہ کے لئے خاص کرنا ہی اللہ کا صحیح دین ہے۔ جو آدمی کو اللہ کی جنت تک پہنچا دیتا ہے اور اس کے سوا تمام راستے جہنم کی طرف لے جانے والے ہیں۔ البينة
6 (٤) جو اہل کتاب اور مشرکین نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان نہیں لائے، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ صادر فرمایا کہ وہ لوگ اللہ کی بدترین مخلوق ہیں، بادروں اور سوروں سے بھی بدترین ہیں اور ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا جس میں وہ لوگ ہمیشہ جلتے رہیں گے۔ البينة
7 (٥) اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور انہوں نے دین اسلامی کے مطابق عمل صالح کیا، فرائض کو ادا کیا اور نواہی سے بچتے رہے، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ صادر فرمایا کہ وہ اللہ کی بہترین مخلوق ہیں اس لئے کہ انہوں نے اپنے رب کو پہچانا، اس کی عبادت کی اور شریعت اسلامیہ پر عمل پیرا ہونے کے سبب ان کی روح کو بالیدگی ملی اور بلند اخلاق و کردار سے انہیں حظ و افر ملا اور موت کے بعد جب وہ اپنے رب سے ملیں گے تو رہائش کے لئے انہیں باغات عدن ملیں گے جن کے نیچے نہریں جارمی ہوں گی، ان جنتوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے وہاں سے کبھی نہیں نکلیں گے اور نہ انہیں موت آئے گی اور وہاں انہیں ایسا آرام ملے گا جس سے زیادہ آرام و راحت کا تصور بھی نہیں کا جاسکتا۔ البينة
8 (٦) ان کے ایمان اور طاعت و بندگی کے سبب اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ کا ان پر جو فضل و کرم ہوگا اور انہیں جو جنت اور اس کی بیش بہا نعمتیں ملیں گی، اس کے سبب وہ بندگان نیک بھی اپنے رب سے راضی ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت کے آخر میں فرمایا کہ یہ جزائے عظیم اس بندے کو ملے گا جو دنیا میں اپنے رب سے ڈرتا رہے گا، اس کی نافرمانی نہیں کرے گا اس کی طاعت و بندگی میں اپنی زندگی گذارے گا یہاں تک کہ اس کی موت آجائے۔ البينة
0 سورۃ الزلزال مدنی ہے، اس میں آٹھ آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ الزلزال نام : پہلی آیت کے لفظ زلزالھا“ سے ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت ابن عباس (رض) اور قتادہ کے نزدیک مدنی ہے اور ابن مسعود و جابر (رض) اور عطاء کے نزدیک مکی ہے، ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ (اذا زلزلت) مدینہ میں نازل ہوئی تھی۔ ترمذی، ابن مردویہ اور بیہقی نے انس (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” جو شخص (اذا زلزلت) پڑھے گا، اسے نصف قرآن کا ثواب ملے گا اور جو (قل ھو اللہ احد) پڑھے گا اسے ایک تہائی قرآن کا ثواب ملے گا، اور (قل یایھا الکافرون) پڑھے گا، اسے ربع قرآن کا ثواب ملے گا۔ “ الزلزلة
1 (١) اس سورت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب قیامت واقع ہوگی تو زمین کا کیا حال ہوگا اور کس طرح لوگ گروہ درگروہ اپنی قبروں سے اٹھ کر میدان محشر میں جمع ہوتے جائیں گے تاکہ دنیا میں کئے گئے اپنے اچھے اور برے اعمال کا نتیجہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وقوع قیامت کے وقت زمین انتہائی سختی کے ساتھ ہلا دی جائے گی اس پر موجود تمام مکانات منہدم ہو کر زمین بوس ہوجائیں گے، پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے، تمام ٹیلے برابر کردیئے جائیں گے، اور پوری زمین ایک چٹیل میدان بن جائے گی، نہ اس میں کوئی کجی رہے گی اور نہ کوئی اونچی نیچی جگہ اور زمین کے اندر جتنے خزانے ہوں گے وہ سب پہلے صور کے بعد باہر آجائیں گے اور جب دوسرا صور پھونکا جائے گا تو سارے مردے زندہ ہو کر اپنی قبروں سے نکل پڑیں گے۔ الزلزلة
2 الزلزلة
3 (٢) کافر انسان جو بعث بعد الموت اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتا تھا، جب زمین کو نہایت شدت کے ساتھ ہلتا دیکھ گا تو مارے حیرت و دہشت کے کہے گا کہ آج اسے کیا ہوگیا ہے لیکن مومن انسان ایسا سوال نہیں کرے گا اس لئے کہ اس کا تو ایمان تھا کہ جب قیامت آئے گی تو زمین نہایت شدت کے ساتھ ہلا دی جائے گی۔ اس دن زمین پر انسانوں نے جو بھی عمل خیر و شرک کیا ہوگا زمین اس کی گواہی دے گی اور ایسا وہ ایسے رب کے حکم کی تعمیل میں کرے گا اور اس کی ہرگز نافرمانی نہیں کرے گی۔ احمد، ترمذی، نسائی اور حاکم وغیرہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (یومئذ تحدث اخبارھا) پڑھا اور کہا : کیا تم لوگ جانتے ہو کہ زمین کی خبریں کیا ہیں؟ صحابہ نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں تو آپ نے فرمایا : اس کی خبریں یہ ہیں کہ وہ ہر بندے اور بندی کے بارے میں ان اعمال کی گواہی دے گی جو اس نے زمین پر کیا تھا یہی اس کی خبریں ہیں۔ الزلزلة
4 الزلزلة
5 الزلزلة
6 (٣) جس دن زمین کی وہ حالت ہوگی جو اوپر بیان کی گئی، اس دن لوگ اپنی قبروں سے نکل کر مختلف جماعتوں میں میدان حساب کی طرف دوڑ پڑیں گے تاکہ وہ اپنے اعمال کا نتیجہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں، بعض لوگوں نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ لوگ میدان حساب سے اپنی اپنی حالتوں اور اپنے اپنے اعمال کے مطابق جنت یا جہنم کی طرف چل پڑیں گے، کوئی مطمئن ہوگا اور کوئی خائف، اہل جنت کا رنگ سفید ہوگا اور اہل جنم کا سیاہ اور بعض لوگ دائیں طرف جائیں گے اور بعض دوسرے بائیں طرف، یعنی اپنے عقائد و اعمال کے اختلاف کے مطابق ان کی حالتیں مختلف ہوں گی۔ الزلزلة
7 (٤) انسان اس دنیا میں جو عمل بھی کرتا ہے اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیا جاتا ہے اس کا کوئی عمل بھی ضائع نہیں ہوتا اور وہ اسے قیامت کے دن اپنے سامنے پائے گا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو شخص دنیا میں ایک چھوٹی چیونٹی کے برابر بھی کوئی اچھا کام کئے ہوگا، اس کا ثواب اسے آخرت میں ضرور ملے گا اور جو شخص ایک چھوٹی چیونٹی کے برابر بھی کوئی برائی کئے ہوگا تو اسے اس کا بدلہ مل کر رہے گا، الایہ کہ اللہ تعالیٰ سے معاف کر دے۔ بعض لوگوں نے ” ذرہ“ کا معنی وہ باریک ترین غبار کیا ہے جو کھڑکی کے سوراخ سے داخل ہونے والی شعاع میں نظر آتا ہے، یعنی اس باریک ترین غبار کے برابر بھی کسی کا عمل خیر و شرگم نہیں ہوگا، اور اس کا بدلہ اسے ضرور ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء آیت (٠٤) میں فرمایا ہے : (ان اللہ یایظلم مثقال ذرۃ) ” بے شک اللہ ایک ذرہ کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا ہے“ اور سورۃ آل عمران آیت (٠٣) میں فرمایا ہے : (یوم تجد کل نفس ما عملت من خیر محضر اواما عملت من سوء تو دلوان بینھا وبینہ امدا بعیداً) ” جس دن ہر شخص اپنی کی ہوئی نیکیوں کو اور اپنی کی ہوئی برائیوں کو موجود پائے گا، تمنا کرے گا کہ کاش، اس کے اور برائیوں کے درمیان بہت ہی دوری ہوتی۔ “ الزلزلة
8 الزلزلة
0 سورۃ العادیات مکی ہے، اس میں گیارہ آیتیں، اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ العادیات نام : پہلی آیت کا پہلا لفظ ” والعادیات“ ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت ابن مسعود، جابر، حسن، عکرمہ اور عطاء کے نزدیک مکی ہے اور ابن عباس، انس بن مالک اور قتادہ کے نزدیک مدنی ہے۔ ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ ” والعادیات“ مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ العاديات
1 (١) اس سورۃ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی حقیقت کے اظہار کے لئے قسم کھائی ہے، جس سے بہت سے لوگ ناواقف ہیں اور وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے رب کی بڑی ناشکری کرتا ہے۔ مصیبتوں کو توگنتا رہتا ہے اور نعمتوں اور احسانات کو بھول جاتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں کی قسم کھائی ہے جن میں فی الواقع اللہ کی بڑی نشانیاں پائی جاتی ہیں اور جن میں انسان کے لئے بہت سارے فوائد و منافع ہیں اور گھوڑے کی ان حالتوں کی قسم کھائی ہے جن میں دیگر حیوانات اس کے شریک نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ان گھوڑوں کی قسم جو نہایت شدت کے ساتھ دشمن کی طرف دوڑتے ہیں، جس کے سبب ان کے سینے سے ایک خاص آواز نکلنے لگتی ہے اور ان گھوڑوں کی قسم جن کے تیز دوڑنے کے سبب ان کے گھروں کی رگڑ سے راہ کے پتھروں سے چنگاریاں اڑنے لگتی ہیں اور ان گھوڑوں کی قسم جو صبح کے وقت دشمنوں پر حملہ کرتے ہیں تاکہ انہیں اچانک جا لیا جائے، اور انہیں دفاع کرنے یا بھاگنے کا موقع نہ دیا جائے ور نہ دشمن کے خلاف فوج کشی اور گھوڑوں کے ذریعہ ان پر حملہ کسی بھی مناسب وقت میں کیا جاسکتا ہے۔ اور وہ گھوڑے اپنی تیزی رفتار اور دشمن پر حملے کی شدت کے سبب فضا کو غبار آلود بنا دیتے ہیں اور مجاہدین اسلام کو لے کر دشمن کی صفوں میں گھس جاتے ہیں اور انہیں تہس نہس کردیتے ہیں۔ العاديات
2 العاديات
3 العاديات
4 العاديات
5 العاديات
6 (٢) ان گھوڑوں کی قسم جن کا اوپر ذکر ہوا، آدمی اپنے رب کی بڑی ناشکرمی کرتا ہے جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو چیخ پڑتا ہے اور اپنے رب کے سارے احسانات و انعامات کو بھول جاتا ہے۔ العاديات
7 (٣) اور اللہ کا یہ ناشکر گذار بندہ اپنی ناشکری اور احسان فراموشی پر شاہد ہوتا ہے، اس کا دل گواہی دیتا رہتا ہے کہ وہ اپنے رب کا ناشکر گزار بندہ ہے اور اس ناشکری کے آثار بھی اس کی ذات پر عیاں ہتے ہیں، اس مفہوم کے مطابق (وانہ علی ذلک لشھید) میں ” انہ“ کی ضمیر انسان کے لئے ہوگی، دوسرا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے باندے کی ناشکر گزاری اور احسان فراموشی پر گواہ ہے اس مفہوم کے اعتبار سے اس میں اللہ کی جانب سے زبردست دھمکی ہے کہ رب العالمین اس کی احسان فراموشی کو دیکھ رہا ہے اور قیامت کے دن اسے اس کا مزا چکھائے گا اس اعتبار سے ” وانہ“ کی ضمیر اللہ کے لئے ہوگی۔ امام شوکانی کے نزدیک پہلامفہوم ہی راجح ہے کیونکہ اس کے بعد آیت (٨) (وانہ لحب الخیر لشدید) میں ” انہ“ کی ضمیر انسان کے لئے ہے اور معنی یہ ہے کہ انسان مال و دولت سے بے انتہاء محبت کرتا ہے اور اس کے حصول کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور اپنی جان جوکھم میں ڈال دیتا ہے۔ العاديات
8 العاديات
9 (٤) کافرو ناشکر گزار انسان کی زجر و توبیخ کی گئی ہے اور اس آخرت میں اپنے انجام پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے تاکہ گناہوں سے تائب ہو کر اپنے رب کی طرف رجوع کرے، اپنی اصلاح کرے اور آخرت کو کامیاب بنانے کی فکر کرے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کیا مغرور انسان کو معلوم نہیں کہ جس دن اللہ تعالیٰ قبروں سے تمام مردوں کو باہر نکال دے گا اور انسانوں کے سینوں میں جو بھی خیر و شرچھپا ہوگا وہ تمام باہر کردیئے جائیں گے کوئی چیز چھپی نہیں رہے گی اس دن ان کا رب ان کے ظاہر و باطن تمام اعمال سے خوب باخبر ہوگا، اور ان اعمال کا انہیں پورا پورا بدلہ چکائے گا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے تمام اعمال سے ہر وقت باخبر ہے، لیکن قیامت کے دن بطور خاص اس کے باخبر ہونے سے مقصو دیہ ہے کہ اس دن وہ انہیں ان کے اعمال کا بدلہ اپن علم کی بنیاد پر دیگا اور ان کا کوئی عمل اس سے چھپا نہیں رہے گا۔ العاديات
10 العاديات
11 العاديات
0 سورۃ القارعہ مکی ہے، اس میں گیارہ آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ القارعہ نام : ابتدا کی تین آیتوں میں لفظ ” القارعۃ“ آیا ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت تمام کے نزدیک مکی ہے، ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ القارعہ مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ القارعة
1 (١) ” القارعۃ“ قیامت کا ایک نام ہیغ اور اسے یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ یہ لوگوں کے دلوں کو نہایت سختی کے ساتھ جنجھوڑ دے گی اور اللہ کے دشمنوں کو شدید عذاب میں مبتلا کر دے گی۔ آسمان پھٹ جائے گا آفتاب اور ستارے ٹوٹ کر بکھر جائیں گے، زمین میں بھونچال آجائے گا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ اسی قیامت، بعث بعد الموت اور عقیدہ جزا و سزا کو اس سورت میں بیان کیا گیا ہے، تاکہ لوگ اس دن کی کامیابی کے لئے کوشش کریں اور پہلی اور دوسری آیت میں ” استفہام“ سے مقصود قیامت کے دن کی ہولناکی کو بیان کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا : قیامت کا دن جو اپنی ہولناکیوں اور دہشتوں کے ذریعہ لوگوں کے دلوں کی نہایت سختی کے ساتھ جھنجھوڑ دینے والا ہوگا، آپ کو کیا معلوم کہ وہ کیسا دن ہوگا ؟! اس دن لوگ کیڑوں اور ٹڈیوں کی مانند پریشان اور مضطرب ہوں گے۔ ” فراش“ ان کیڑوں کو کہتے ہیں جو رات کے وقت شمع اور چراغ کی روشنی کے گرد اڑتے اور گرتے رہتے ہیں، اسی طرح قیامت کے دن لوگ پریشان اور مضطرب ہوں گے، شدت از دحام اور پریشانی کے سبب ایک دوسرے پر گریں گے، جیسا کہ وہ اپنی عقل کھو چکے ہوں، اور ان پر جنونی کیفیت طاری ہو اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر دھنی ہوئی روئی کی مانند فضا میں بکھر جائیں گے۔ اس دن جب لوگ قبروں سے نکل کر میدان محشر میں جمع ہوں گے اور ان کے نامہ اعمال رب العالمین کے سامنے پیش ہوں گے تو جس کی نیکیوں کا پلڑا جھک جائے گا وہ جہنم سے نجات پا جائے گا اور اسے جنت میں دائمی خوشگوار زندگی مل جائے گی اور جس کی نیکیاں کم ہوجائیں گی اور گناہ زیادہ ہوجائیں گے یا اس کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی جیسے کافر و مشرک، اس کا ٹھکانا جہنم کی کھائی ہوگی جس میں وہ سب کے بل ڈال دیا جائے گا۔ آیات (٠١/١١) میں جہنم کی ہولناکیوں اور اس کے عذاب کی سختی کا احساس دلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا کہ آپ کو کیا معلوم کو وہ ” ہاویۃ“ کیا ہے؟ پھر خود ہی اس کا جواب دیا کہ وہ تو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ ہے، جس کی گری دنیا کی آگ کی گرمی سے ستر گنا زیادہ ہوگی، جیسا کہ صحیحین میں ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ لوگو ! تمہاری یہ آگ جسے ابن آدم سلگاتا ہے، جہنم کی آگ کے ستر حصے کا ایک حصہ گرم ہے۔ اللھم انا نستجیربک من نارھنم القارعة
2 القارعة
3 القارعة
4 القارعة
5 القارعة
6 القارعة
7 القارعة
8 القارعة
9 القارعة
10 القارعة
11 القارعة
0 سورۃ التکاثر مکی ہے، اس میں آٹھ آیتیں، اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ التکاثر نام : پہلی آیت میں لفظ ” التکاثر“ آیا ے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت تمام کے نزدیک مکی ہے ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ (الھاکم التکاثر) مکہ میں نازل ہوئی تھی امام بخاری نے اسے مدنی کہا ہے اور دلیل میں ابی بن کعب کی روایت پیش کی ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول ” لو ان لابن آدم وادیین من مال لتمنی وادیاثالثاً، ولا یملاجوف ابن آدم الا التراب“ اگر ابن آدم کے پاس دو وادی بھر کر مال ہوتا، تو وہ تیسری وادی کی تمنا کرتا، ابن آدم کا پیٹ صرف مٹی سے بھرے گا“ کو قرآن کا حصہ سمجھتے تھے یہاں تک کہ (الھاکم التکاثر) نازل ہوئی۔ یہ روایت اس سورت کے مدنی ہونے کی دلیل اس طرح بنتی ہے کہ ابی بن کعب مدینہ میں مسلمان ہوئے تھے، لیکن راجح یہی ہے کہ یہ سورت مکی ہے اور ابی بن کعب کی روایت کی توجیہہ یہ بیان کی گئی ہے کہ جو صحابہ مدینہ میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے، جب انہوں نے پہلی بار نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی یہ سورت سنی تو سمجھے کہ یہ ابھی مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔ التکاثر
1 (١) اس سورت میں اللہ تعالیٰ کا خطاب ان لوگوں سے ہے جو فخر و مباہات اور نام و نمود کے لئے زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرتے ہیں، اللہ کی یاد سے یکسر غافل اور عمل صالح کی توفیق سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کریمہ میں ایسے لوگوں کی اجر و توبیخ کی ہے اور انہیں جہنم کی آگ سے ڈرایا ہے۔ فرمایا ہے : لوگو ! تمہیں کثرت اور زیادتی کی چاہت نے اللہ اور اس کی محبت سے غافل کردیا ہے۔ یہاں صرف کثرت اور زیادتی کی چاہت کا ذکر کیا گیا اور ان چیزوں کا ذکر نہیں آیا جن میں آدمی نام و نمود کی خاطر زیادتی کا خواہاں ہوتا ہے، اس لئے اس تکاثر میں ہر وہ چیز داخل ہوگی جس میں کثرت کی خواہش فخر و مباہات کے لئے ہوتی ہے، چاہے وہ مال ہو یا اولاد، فوج و لکشر ہو یا دیگر اسباب قوت و ہیبت یا نوکر چاکر ہوں یا جاہ وحشمت ہر وہ چیز جس میں طلب کثرت سے مقصود طلب رضائے الٰہی نہ ہو، اس میں داخل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، لوگو ! تم اللہ کی یاد اور فکر آخرت یے یکسر غافل رہو گے، یہاں تک کہ تم قبر میں پہنچ جاؤ گے، اس وقت تمہاری آنکھوں کا پردہ ہٹ جائے گا اور حقیقت تمہارے سامنے کھل کر آجائے گی، لیکن اس وقت ایمان و یقین کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ التکاثر
2 التکاثر
3 (٢) مفسرین نے لکھا ہے کہ لفظ ” کلا“ اس بات پر تنبیہہ کے لئے ہے کہ دنیا کی حرص و ہو اس والے اپنی حرکتوں سے باز آجائیں، ورنہ قیامت کے دن وہ اس کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ آیت (٤) میں اسی تنبیہہ ووعید کا اعادہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ حب دنیا اور فخر و مباہات میں لگے رہے اور اللہ کی یاد سے غافل رہے تو عنقریب روز قیامت اپنا براانجام دیکھ لیں گے۔ آیت (٥) میں اللہ تعالیٰ نے دنیا پرستوں کو مزید دھمکی دی ہے اور کہا ہے کہ موت کے بعد جن حالات کا تم سامنا کرنے والے ہو، اگر اس کا یقینی علم تمہارے دلوں کو چھو لیتا تو تم دنیا کے حرص و ہوس میں نہ پڑتے، بلکہ زہد و تقویٰ اور عمل صالح والی زندگی کو اپنا لیتے تمہاری یہ دنیا طلبی بعث بعد الموت اور آخرت پر عدم ایمان کا نتیجہ ہے۔ التکاثر
4 التکاثر
5 التکاثر
6 (٣) یہ دونوں آیتیں محذوف قسم کا جواب ہیں اور مقصود گزشتہ وعید اور دھمکی کی مزید تاکید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہماری عزت اور ہمارے جلال کی قسم ! تم لوگ جہنم کو قیامت کے دن ضرور دیکھو گے، مشرک اسے دیکھے گا اور اس میں ڈال دیا جائے گا اور مومن اسے دیکھے گا، پھر اللہ تعالیٰ اسے اس سے نجات دے دے گا آگے فرمایا : تمہارا جھنم کو دیکھنا ایسی یقینی بات ہے جس میں ذرا بھی شک کی گنجائش نہیں ہے، اسے سامنے لایا جائے گا اور تمام اہل موقف اسے دیکھیں گے جیسا کہ سورۃ الکہف آیت (٣٥) میں آیا ہے : (ورای المجرمون النارفظنوانھم مواقعوھا ولم یجدو اعنھا مصرفا) ” اور گناہ گار جہنم کو دیکھ کر سمجھ لیں گے کہ وہ اسی میں جھونکے جانے والے ہیں اور اس سے بچنے کی جگہ نہ پائیں گے۔ “ آیت (٥٣) میں آیا ہے : (ورای المجرمون النار فظنوانھم مواقعو ھاولم یجدوا عنھا مصرفاً) ” اور گناہ گار جہنم کو دیکھ کر سمجھ لیں گے کہ وہ اسی میں جھونکے جانے والے ہیں اور اس سے بچنے کی جگہ نہ پائیں گے۔ “ التکاثر
7 التکاثر
8 (٤) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لوگو ! جس دن تم جہنم کو اپنی آنکھوں سے دیکھوگے، اس دن تم سے ان نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا جو اللہ نے تمہیں دنیا میں دیا تھا ابن عباس (رض) نے ” النعیم“ سے مراد صحت و عافیت اور قوت سماع و بصر لیا ہے کسی نے اس سے صحت و فراغت کسی نے ماکولات و مشروبات اور کسی نے صحت وامن مراد لیا ہے، امام شوکانی لکھتے ہیں : اولیٰ یہ ہے کہ اس سے اللہ کی متام نعمتیں مراد لی جائیں، جن سے بندے دنیا میں مستفید ہوتے ہیں۔ نعمتوں کے بارے میں بندوں سے سوال یہ کیا جائے گا کہ انہوں نے ان پر اپنے خالق و مالک کا شکر ادا کیا یا نہیں، تو جس نے دنیا میں کا شک ادا کیا ہوگا وہ نجات پا جائے گا اور جس نے ناشکری کی ہوگی وہ اس کی گرفت میں آجائے گا۔ التکاثر
0 سورۃ العصر مکی ہے، اس میں تین آیتیں اور ایک رکوع ہے نام : پہلی آیت ” والعصر“ ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : جمہور کے نزدیک یہ سورت مکی ہے، ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ العصر مکہ میں نازل ہوء تھی اور قتادہ کے نزدیک یہ سورت مدنی ہے۔ العصر
1 (١) اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھا کر کہا ہے کہ بالعموم انسان خسارے میں ہے، سوائے اس آدمی کے جس کے اندر و وہ چار صفات پائی جائیں جن کا ذکر آیت (٣) میں آیا ہے۔ اور زمانے سے مراد ” لیل و نھار“ ہے جس کی گردش سے تاریکی اور روشنی پیدا ہوتی ہے اور جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا کوئی بنانے والا ہے، اور وہ ایک ہے۔ ” عصر“ کے مفہوم کے بارے میں علماء کے متعدد اقوال ہیں، لیکن شوکانی کے نزدیک راجح وہی ہے جو میں نے بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : زمانے کی قسم ! انسان گھاٹے میں ہے، اس لئے کہ وہ دنیا میں جب تک زندہ رہتا ہے، اسے کوئی نہ کوئی پریشانی لاحق ہوتی رہتی ہے اور اگر کفر پر موت ہوجاتی ہے تو اس کا ٹھکانا جہنم ہوتا ہے اور اپنی زعیز ترجان کو بھی کھو بیٹھتا ہے یعنی جہنم میں جانے کے بعد ہمیشہ کے لئے اس کی جان عذاب میں مبتلا رہے گی۔ العصر
2 العصر
3 (٢) اس خسارے اور گھاٹے سے صرف وہی لوگ بچیں گے جن کے اندر چار صفات پائی جائیں گی : ١۔ اللہ تعالیٰ نے جن باتوں پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے، ان پر ایمان لائیں۔ ٢۔ عمل صالح کریں، یعنی بھلائی کے جتنے کام ہیں ان کو بجا لائیں، چاہے ان کا تعلق اللہ کے حقوق سے ہو، یا بندوں کے حقوق سے اور چاہے وہ واجب ہوں یا مسنون یا مستحب ٣۔ جس ایمان اور عمل صالح کی باتیں اوپر بیان کی گئی ہیں، ان کی وہ آپس میں ایک دوسرے کو نصیحت کریں اور ان پر عمل کی رغبت دلائیں۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی طاعت و بندگی بجا لانے اور نواہی سے اجتناب میں جو تکلیف اور زحمت اٹھانی پڑے، اس پر ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کریں، نیز ان دیگر تکلیفوں اور صمیبتوں پر بھی ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کریں جو اللہ کی تقدیر ہوتی ہے اور جنہیں اللہ کے سوا کوئی ٹال نہیں سکتا۔ جس بندے میں یہ چاروں صفات پائی جائیں گی وہ خسارے سے بچا رہے گا اور دونوں جہان میں فوز عظیم کا حقدار بنے گا۔ العصر
0 سورۃ الہمزہ مکی ہے، اس میں نو آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ الہمزہ نام : پہلی آیت میں لفظ ” ھمزہ“ آیا ے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت سب کے نزدیک مکی ہے ابن مردویہ بن ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ (ویل لکل ھمزۃ لمزۃ) مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ الهمزة
1 (١) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے جہنم کی وادی ویل، یا ہلاکت و عذاب کی دھمکی ہر اس شخص کو دی ہے جو لوگوں کی عیب جوئی اور منہ پر یا پیٹھ پیچھے غیبت کرتا پھرتا ہے۔ ” ھمزۃ“ سے مراد وہ آدمی ہے جو کسی کی اس کے منہ پر برائی بیان کرتا ہے اور ” لمزہ“ اس کو کہتے ہیں جو کسی کی پیٹھ پیچھے برائی بیان کرتا ہے بعض نے کہا ہے کہ ” ھمزۃ“ وہ ہے ج واپنے عمل اور اشارہ کے ذریعہ کسی کی عیب جوئی کرتا ہے اور ” لمزہ“ وہ ہے جو اپنی زبان کے ذریعہ کسی کی عیب جوئی کرتا ہے۔ مشرکین مکہ میں کچھ ایسے لوگ تھے جن میں خاص طور سے یہ بری صفت پائی جاتی تھی، جیسے اخنس بن شریق وغیرہ یہ لوگ جب مسلمانوں کو دیکھتے تو کبھی زبان سے اور کبھی اشارے سے ان کا مذاق اڑاتے تھے، لیکن آیت کا حکم عام ہے اور ہر اس آدمی کو شامل ہے جس کے اندر کسی بھی زمان و مکان میں یہ بری صفت پائی جائے گی اور قرآن کریم کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور کے مجموں کے اندر بالخصوص یہ صفت پائی جاتی رہی ہے سورۃ المطففین آیات (٢٩/٣٠) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (ان الذین اجرما کانوامن الذین امنوا یضحکون، واذا مروابھم یتغامزون) ” گناہ گار لوگ ایمانداروں کی ہنسی اڑایا کرتے تھے، اور ان کے پاس سے گذرتے ہئے آپس میں آنکھ کے اشارے کرتے تھے۔ “ الهمزة
2 (٢) ایسے غیب جو انسان کی دوسری صفت یہ ہوتی ہے کہ زندگی میں مال جمع کرنے اور اسے گنتے رہنے کے سوا اس کا کوئی مقصد نہیں ہوتا، وہ حلال و حرام کی تمیز کئے بغیر مال جمع کرتا رہتا ہے اور صلہ رحمی اور دیگر کارہائے خیر میں اسے خرچ کرنے کی کبھی نہیں سوچتا سمجھتا ہے کہ ہر عزت و شرف مال جعم کرنے میں ہے جوں جوں اس کا مال بڑھتا جاتا ہے، اس کا کبر و غرور بڑھتا جاتا ہے اور لوگوں کا مذاق اڑانا اس کا شیوہ بن جاتا ہے ایسا شخص دولت کے نشے میں موت اور اس کے بعد کے انجام کو بھول جاتا ہے اور گمان کرنے لگتا ہے کہ اسے کبھی موت نہیں آئے گی اور وہ ہمیشہ دنیا میں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس کا گمان غلط ہے، اسے موت آئے گی اور اس عارضی زندگی کے بعد دائمی زندگی آئے گی جس میں اسے اپنے برے اعمال کی سزا بھگتنی ہوگی، اور قیامت کے دن اس آگ میں اسے ڈال دیا جائے گا، جو اس کے اندر ڈالی جانے والی ہر چیز کو نیست و نابود کر دے گی۔ الهمزة
3 الهمزة
4 الهمزة
5 (٣) جہنم کی خطرناکی اور اس کی ہولناکی بیان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا : آپ کو کیا معلوم کہ وہ ” حطمہ“ یعنی جہنم کیا چیز ہوگی؟ پھر کہا کہ ہو تو اللہ تعالیٰ کی جلائی ہوئی آگ ہوگی جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے، اور جو اپنی شدت اور تیزمی کے سبب جسموں کے راستے دلوں تک پہنچ جائیگی، یعنی اس کی تکلیف اور سختی دلوں کو ہمہ دم بے چین اور مضطرب رکھے گی۔ الهمزة
6 الهمزة
7 الهمزة
8 (٤) اور وہ بخت جہنمی اس آگ میں ہمیشہ رہیں گے، اسی میں انیں بند کردیا جائے گا، اس سے نکلنے کی امید ہمیشہ کے لئے مقنطع ہوجائے گی، انہیں لوہے کے طویل کھمبوں کے ساتھ باندھ دیا جائے گا، بعض نے لکھا ہے کہ بند دروازوں کو ہمیشہ کے لئے بند رکھنے کے لئے باہر سے ان پر لمبے لمبے ستون ٹھوک دیئے جائیں، تاکہ اس سے کبھی نہ نکلیں، نعوذ باللہ من ذلک، ونسئالہ العفو و العافیۃ الهمزة
9 الهمزة
0 سورۃ الفیل مکی ہے، اس میں پانچ آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ الفیل نام : پہلی آیت میں لفظ ” الفیل“ آیا ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت تمام کے نزدیک مکی ہے، ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ (الم تر کیف فعل ربک با صحاب الفیل) مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ الفیل
1 (١) اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو مخاطب کر کے اصحاب فیل کی ہلاکت کا واقعہ یاد دلایا ہے، جو اپنی قوت و جبروت کے نشے میں یمن سے خانہ کعبہ کو گرانے کے لئے آئے تھے اور کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی طرح قریش کے ظالموں اور سرکشوں کو بھی ہلاک کرنے پر قادر ہے اس لئے اے میرے نبی ! آپ صبر سے کام لیجیے اور ہمارے فیصلے کا انتظار کیجیے۔ اصحاب فیل کا واقعہ متواتر روایتوں سے ثابت ہے اہل مکہ نے اسے اس کی شہرت اور اہمیت کے پیش نظر اپنی تاریخ کی ابتدا بنا لی تھی، ابن ہشام اور دیگر اہل تاریخ و سیر نے اس واقعے کی جو تفصیل بیان کی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابرہہ حبشی نے جو نجاشی کی طرف سے یمن کا گورنر تھا، صنعاء میں ایک گرجا بنایا تاکہ لوگوں کو خانہ کعبہ کے بجائے اس کے طواف و زیارت کی دعوت دے ایک قریشی یہ سن کر بڑا متاثر ہوا اور رات کے وقت اس نے اس گرجا میں داخل ہو کر پاخانہ کردیا اور اس کی دیواروں میں لگا دیا، ابرہہ یہ سن کر شدید ناراض ہوا اور ایک بہت بڑی فوج لے کر (جس میں تیرہ ہاتھی بھی تھے) خانہ کعبہ کو گرانے کے لئے روانہ ہوگیا، جب مکہ کے قریب پہنچا تو عبدالمطلب نے اس کو ہر طرح سمجھایا لیکن وہ اپنی بات پر اڑا رہا تب عب المطلب نے لوگوں سے کہا کہ ہم سب پہاڑوں پر چڑھ جائیں اور جس اللہ کا گھر ہے وہ اپنے گھر کی حفاظت کرلے گا۔ چنانچہ جب ابرہہ اپنی طاقت کے نشے میں چور آگے بڑھا، تو اللہ کے حکم سے چھوٹی چھوٹی ابابیل چڑیاں اپنی چونچوں اور پنجوں میں کنکر لئے آئیں اور اس کو اور اس کی فوج کو مارنے لگیں روایتوں میں آتا ہے کہ ان کنکروں کی چوٹ سے ان کے جسم میں کھجلی ہونے لگی اور اس کو اور اس کی فوج کو مارنے لگیں روایتوں میں آتا ہے کہ ان کنکروں کی چوٹ سے ان کے جسم میں کھجلی ہونے لگی اور کھجلاتے ہی ان کے جسموں کا گوشت گرنے لگا اور سب وادی محسر اور اس کے آس پاس ہلاک ہوگئے ابرہہ جان بچا کر بھاگا، لیکن وہ بھی یمن پہنچنے کے بعد مر یا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ اور اہل مکہ کو بچا لیا اور یہ واقعہی رہتی دنیا تک کے لئے تازیانہ عبرت بن گیا، اس کے بعد سے آج تک پھر کسی نے ابرہہ جیسی جرأت نہیں کی اور وہاں کے امن و سکون میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا، وللہ الحمد اللہ تعالیٰ نے اہل قریش پر احسان جتاتے ہوئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا : کیا آپ نے اللہ کی قدرت، اس کی عظمت شان، بندوں پر اس کی رحمت، اور اس کی توحید اور اس کے رسول کی صداقت کے دلائل کا اصحاب فیل کے کے واقعے میں نظارہ نہیں کیا، کہ اس نے خانہ کعبہ کے خلاف اصحاب فیل کی سازش کو کس طرح ناکام بنا دیا اور ان کو ہلاک و برباد کرنے کے لئے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیئے جو سمندر کی طرف سے آئے تھے، اہل مکہ نے (جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ گئے تھے) انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ابرہہ کی فوج کے اوپر آئے اور اپنی چونچوں اور پنجوں میں موجود کنکریوں کو ان پر برسانے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی لاشوں کے ڈھیر لگ گئے اور وہ کھائی ہوئی بھوسی کی طرح ہوگئے۔ الفیل
2 الفیل
3 الفیل
4 الفیل
5 الفیل
0 سورۃ قریش مکی ہے، اس میں چار آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ قریش نام : پہلی آیت میں لفظ ” قریش“ آیا ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : جمہور کے نزدیک یہ سورت مکی ہے اور ضحاک اور کلبی نے کہا ہے کہ یہ مدنی ہے ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ ” لایلاف“ مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ قریش
1 (١) عربی زبان میں ” ایلاف“ کا معنی کسی چیز کا عادی ہونا ہے، بہت سے مفسرین کا خیال ہے کہ ” لایلاف“ میں جارو مجرور کا تعلق اس سے پہلی الی سورت یعنی سورۃ الفیل سے ہے اور مفہوم یہ ہے کہ ہم نے اصحاب فیل کے ساتھ جو کچھ کیا، اس لئے کیا تاکہ اہل قریش یمن و شام کے سفر کے عادی رہیں اور بے خوف و خطر سفر کرتے رہیں، قریش پر ہمارا یہ احسان تھا چنانچہ اہل قریش جب تجارت کے لئے مکہ سے باہر جاتے تو کوئی قبیلہ ان پر حملہ نہیں کرتا تھا، قبائل عرب کہتے تھے کہ یہ لوگ اللہ کے گھر والے ہیں انہیں چھیڑ کر کوئی اللہ سے عداوت نہ کرے اور ان کے اس عقیدے کی توثیق اللہ تعالیٰ نے اصحاب فیل کے واقعے سے کردی کہ جب ابرہہ حبشی خانہ کعبہ کو گرانے کے لئے آیا تو اللہ نے اسے ہلاک کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں قریش کو انہی نعمتوں کی یاد دلائی ہے اور کہا ہے کہ ہم نے ابرہہ اور اس کی فوج کے ساتھ ایساا اس لئے کیا تاکہ اہل قریش تجارت کے لئے بے خوف و خطر شام و یمن کا سفر کرتے رہیں اور کوئی ان پر حملہ نہ کرے۔ قریش کے لوگ سال میں دوبارہ تجارتی سفر کرتے تھے، سردی کے زمانے میں یمن اور گرمی میں شام جاتے تھے اور اپنا تجارتی مال بیچ کر وہاں سے کھانے پینے کی چیزیں لاتے تھے اور سال بھر آرام سے مکہ مکرمہ میں زندگی گذارتے تھے۔ اسی لئے آیت (٣) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ان پر اللہ کے انعامات کا شمار نہیں کیا جاسکتا اور ان میں سے ہر نعمت ان سے شکر کا تقاضا کرتی ہے، لیکن سردی اور گرمی کے زمانے میں شام و یمن کی طرف ان کا سفر کرنا تو اتنی بڑی نعمت ہے کہ اسے یاد کر کے انہیں ضرور ہی رب کعبہ کی عبادت کرنی چاہئے جس نے ان اسفار کے ذریعہ ان کی روزی کا انتظام کیا، اور اہل حرم ہونے کے سبب انہیں خوف و ہراس سے نجات دی، نہ کوئی ان پر حملہ کرتا ہے اور نہ ہی کوئی ان سے قتال کی سوچتا ہے۔ ابن زید کہتے ہیں کہ عرب کے لوگ ایک دوسرے پر چھاپہ مارتے تھے اور ایک دوسرے کو قیدمی بنا لیتے تھے اہل حرم کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا تھا لوگوں کے دلوں میں حرم کی زت ان پر حملہ کرنے سے باز رکھتی تھی، پھر انہوں نے سورۃ القصص کی آیت (٥٧) پڑھی (اولم نمکن لھم حرما امنا یجبی الیہ ثمرات کل شی) ” کیا ہم نے انہیں امن و امان اور مرمت والے حرم میں جگہ نہیں دی جہاں تمام اقسام کے پھل کھچے چلے آتے ہیں“ نیز سورۃ العنکبوت کی آیت (٦٧) پڑھی : (اولم یروا انا جعلنا حرما امنا ویتخطف الناس من حولھم) ” کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو پرامن بنا دیا ہے حالانکہ اس کے اردرد سے لوگ اچک لئے جاتے ہیں۔ “ قریش
2 قریش
3 قریش
4 قریش
0 سورۃ الماعون مکی ہے، اس میں سات آیتیں، اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ الماعون نام : آخری آیت میں لفظ ” الماعون“ آیا ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے اس کے دو نام اور ہیں، سورۃ الدین اور سورۃ الیتیم زمانہ نزول : عطاء اور جابر کے نزدیک یہ سورت مکی ہے اور یہی ابن عباس (رض) کا بھی ایک قول ہے اور قتادہ اور دیگر علماء کے نزدیک مدنی ہے ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ (ارایت الذین یکذب بالدین) مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ الماعون
1 (١) مقاتل اور کلبی کا قوتل ہے کہ یہ سورت عاص بن وائل السہمی کے بارے میں نازل ہوئی تھی اور سدی کا قول ہے کہ ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی اور ضحاک کہتے ہیں کہ عمرو بن عائذ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان کفار مکہ کے سلوک پر نکیر کی ہے اور انہیں قیامت کے دن کے عذاب کی دھمکی دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے میرے نبی ! وہ آدمی لائق صد حیرت ہے جو قیامت کے دن کے جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے اور کہتا ہے کہ موت کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے جس میں انسانوں کو ان کے اچھے اور برے اعمال کا بدلہ چکا یا جائے گا۔ اور وہ آدمی سنگ دل اور بے رحم ہے، یتیموں کو بری طرح ڈانٹتا ہے، انہیں دھکے دے کر بھگا دیتا ہے اور ان کا حق ہڑپ جاتا ہے۔ اور چونکہ اس کا آخرت اور جزا و سزا پر ایمان نہیں، اسی لئے نہ وہ خود مسکینوں کو کھانا کھلاتا ہے نہ ہی دوسروں کو اس کی ترغیب دلاتا ہے۔ الماعون
2 الماعون
3 الماعون
4 (٢) ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ منافقین ہیں جو لوگوں کے سامنے تو نماز پڑھتے ہیں اور تنہائی میں نہیں پڑھتے اور مسروق وغیرہ کا خیال ہے کہ وہ لوگ نماز تو پڑھتے ہیں جیسا کہ للمصلین کے لفظ سے معلم ہوتا ہے لیکن وہ نمازوں کو ان کے معین اوقات میں نہیں پڑھتے، اور عطاء بن دینار کا قول ہے کہ وہ لوگ نمازوں کو اول اوقات میں نہیں پڑھتے بلکہ ہمیشہ یا اکثر و بیشتر آخری وقت میں پڑھتے ہیں یا نماز پڑھتے وقت اس کے ارکان و شروط کا خیال نہیں رکھتے یا اس میں خشوع و خضوع کا خیال نہیں رکھتے (عن صلاتھم ساھون) کے الفاظ ان تمام ہی صورتوں کو شامل ہیں تو جس شخص میں ان میں سے ایک صفت پائی جائے گی اس کے اندر اسی حساب سے نماز سے غفلت پائی جائے گی اور جس کے اندر مذکورہ بالا تمام صفتیں پائی جائیں گی وہ مکمل عمل نفاق میں مبتلا ہوگا جیسا کہ صحیحین کی روایت ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” وہ منافق کی نماز ہے، وہ منافق کی نماز ہے، وہ منافق کی نماز ہے، بیٹھا آفتاب کو دیکھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ شیطان کی دو سینگوں کے درمیان پہنچ جاتا ہے تو چار بار ٹکر مار لیتا ہے، اللہ کو اس میں کم ہی یاد کرتا ہے“ آیت (٦) میں اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کی حقیقت کھول دی کہ ان کی نماز لوگوں کے دکھاوے کے لئے ہوتی ہے، چونکہ وہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، اس لئے وہ اپنی اس نماز سے نہ ثواب کی امید رکھتے ہیں اور نہ عذاب و عقاب کا خوف۔ اس بات کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء آیت (١٤٢) میں یوں بیان فرمایا ہے : (ان المنافقین یخارعون اللہ وھو خادعھم واذا قاموا الی الصلاۃ قاموا کسالی یراعون الناس ولا یذکرون اللہ الا قلیلاً) الماعون
5 الماعون
6 الماعون
7 (٣) ان منافقین کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ جب کوئی مخلص مسلمان ان سے گھر میں برتنے والی کوئی چیز عارضی استعمال کے لئے مانگتا ہے جس سے دینے والے کا کوئی نقصان نہیں ہوتا اور مانگنے والے کی عارضی ضرورت پوری ہوجاتی ہے، جیسے ڈول، کلہاڑی اور ہانڈی وغیرہ تو وہ مسلمانوں سے حسد کی وجہ سے انکار کردیتے ہیں نہیں چاہتے کہ مومنوں کو ان کی کسی چیز سے فائدہ پہنچے اور چونکہ آخرت پر ان کا ایمان نہیں ہوتا، اس لئے انہیں ثواب کی لالچ بھی نہیں ہوتی۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو مندرجہ ذیل امور کی ترغیب دلائی ہے : ١۔ یتیموں اور مسکینوں کو خود کھانا کھلانا اور دیگر مسلمانوں کو اس کی ترغیب دلانا۔ ٢۔ پنجگانہ نمازوں کو ان کے متعین اوقات میں پورے اخلاص اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنا۔ ٣۔ تمام اعمال حسنہ کی ادائیگی میں رضائے الٰہی کی نیت کرنا اور ریاکاری اور نام و نود سے قطعی طور پر دور رہنا۔ ٤۔ زندگی میں کار خیر کرتے رہنا، اور اپنے پڑوسیوں اور مسلمان بھائیوں کو اپنی چھوٹی چیزوں سے فائدہ پہنچاتے رہنا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا نہ کرنے والوں کی مذمت بیان کی ہے۔ الماعون
0 سورۃ الکوثر مکی ہے، اس میں تین آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ الکوثر نام : پہلی آیت میں لفظ ” الکوثر“ آیا ہے، یہی اس کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت ابن عباس، کلبی اور مقاتل کے نزدیک مکی ہے اور حسن، عکرمہ، مجاہد اور قتادہ کے نزدیک مدنی ہے، ابن مردویہ نے ابن عباس، ابن الزبیر اور عائشہ (رض) اجمعین سے روایت کی ہے کہ سورۃ الکوثر مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ الكوثر
1 (١) اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار مکہ کی بدسلوکیوں کے بارے میں تسلی اور خیر کثیر کی خوشخبری دی ہے۔ محمد بن اسحاق نے یزید بن رومان سے روایت کی ہے کہ عاص بن وائل کے سامنے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر آتا تو کہتا، اس کی بات نہ کرو، وہ تو ایسا آدمی ہے جس کی جڑکتی ہوئی ہے، اس کی کوئی نرینہ اولاد نہیں ہے، جب مر جائے گا تو اس کا نام مٹ جائے گا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ عطاء کہتے ہیں کہ یہ سورت ابولہب کے بارے میں نازل ہوئی تھی، نی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک بیٹے کا انتقال ہوگیا تو مشرکین سے کہنے لگا کہ رات محمد کی جڑکٹ گئی تو اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی، شمر بن عطیہ کا قول ہے کہ یہ سورت عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی تھی، حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ (ان شانئک ھوالابتر) ان تمام کفار کو شامل ہے جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ایسی کوئی بات کہی، انتہی اور جب تک دنیا رہے گی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی کرنے والا اس آیت کے حکم میں داخل ہوگا۔ عربی زبان میں ” کو ثر“ کا اطلاق ہر چیز کی کثرت پر ہوتا ہے، چاہے وہ کثرت تعداد میں ہو یا قدرو منزل میں یا کسی اور اعتبار سے، یہاں اس سے مراد خیر کثیر ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن و حکمت، نبوت، دین حق اور رشد و ہدایت کا حظ وافردیا ہے واحدی نے اکثر مفسرین کا قول نقل کیا ہے کہ کو ثر جنت میں ایک نہر کا نام ہے عطاء نے کہا ہے کہ کو ثر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوض کا نام ہے جو میدان محشر میں آپ کو ملے گا احمد ابوداؤد اور نسائی وغیرہ نے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھ لگ گئی، پھر آپ نے مسکراتے ہوئے سر اٹھایا اور فرمایا : مجھ پر ابھی ایک سورت نازل ہوئی ہے۔ پھر آپ نے سورۃ الکوثر آخر تک پڑھی اور کہا : کیا تم لوگ جانتے ہو کہ کو ثر کیا ہے؟ صحابہ نے کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں تو آپ نے فرمایا : وہ جنت میں ایک نہر ہے جو اللہ نے مجھے دی ہے۔ الحدیث ابن جریر نے ابوبشر سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا : میں نے سعید بن جبیر سے ” کو ثر“ کے بارے میں پوچھا تو کہا کہ اس سے مراد ” خیر کثیر“ ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا تھا تو میں نے کہا : ہم سنتے آئے ہیں کہ وہ جنت میں ایک نہر ہے؟ تو سعید نے کہا : وہ نہر بھی اس ” خیر کثیر“‘ میں داخل ہے جو اللہ نے آپ کو دی ہے۔ الكوثر
2 (٢) اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خیر کثیر عطا کرنے کی جو خوشخبری دی ہے اس آیت میں آپ کو اس پر شکر ادا کرنے کی نصیحت کی ہے اور کہا ہے کہ آپ صرف اپنے رب کی خوشنودی اور اس کی رضا کے حصول کے لئے نماز پڑھتے رہئے اور صرف اسی کے نام سے قربانی کیا کیجیے اور نماز اور قربانی کا بطور خاص ذکر دونوں کی اہمیت کے پیش نظر کیا گیا۔ الكوثر
3 (٣) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی کرنے والے ہر دور اور ہر جگہ ذلیل و خوار ہوں گے، انہی کی نسل باقی نہیں رہے گی، اور انہی کا نام دنیا سے مٹ جائے گا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو تمام صفات و کمالات میں ان حدوں کو چھو چکے تھے جو خاتم النبین کے لئے اللہ نے مقرر کردیا تھا، ان کے ذکر جمیل نے سارے عالم کو بھر دیا تھا اور ان کے انصار و مددگار اور ان کے پیروکار پوری دنیا میں پھیل گئے تھے۔ الكوثر
0 سورۃ الکافرون مکی ہے، اس میں چھ آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ الکافرون نام : پہلی آیت میں لفظ ” الکافرون“ آیا ہے یہی اس کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نازول : یہ سورت ابن مسعود، حسن اور عکرمہ کے نزدیک مکی ہے، اور قتادہ اور ضحاک کے نزدیک مدنی ہے، اور یہی ابن عباس (رض) کا بھی ایک قول ہے، ابن مردویہ نے ابن عابس (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ (قل یایھا الکافرون) مکہ میں نازل ہوئی تھی اور ابن الزبیر (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ سورت مدینہ میں نازل ہوئی تھی، صحیح مسلم میں جابر (رض) سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سورت اور (قل ھو اللہ احد) طواف کی دونوں رکعتوں میں پڑھی اور ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دونوں سورتیں فجر کی دو رکعتوں میں پڑھی اور طبرانی نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ سورت ایک چوتھائی قرآن کے برابر ہے اور احمد، ابوداؤد ترمذی اور نسائی وغیرہ نے معاویہ اشجعی (رض) سے روایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں سکھایا کہ جب تم بستر پر جاؤ تم (قل یا یھا الکافرن) پڑھ کر سو جاؤ، اس سورت میں شرک سے برأت ہے۔ الكافرون
1 (١) محمد بن اسحاق نے سعید بن مینا سے روایت کی ہے کہ ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، اسود بن المطلب اور امیہ بن خلف نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کی اور کہا، اے محمد ! آؤ ہم تمہارے معبود کی پرستش کریں اور تم ہمارے معبودوں کی پرستش کرو، تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ (قل یایھا الکافرون) نازل فرمائی ایک روایت میں ہے کہ یہ سورت اور سورۃ الزمر کی آیات (٦٤/٦٥/٦٦) قل افغیر اللہ تامرونی اعبد ایھا الجاھلون ولقد اوحی الیک والی الذین من قبلک لئن اشرکت لیجبطن عملک ولتکونن من الخاسرین، بل اللہ فاعبدوکن من الشاکرین) نازل فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا : اے میرے نبی ! آپ ان کافروں سے جو آپ کو مشورہ دے رہے ہیں کہ آپ ان کے معبودوں کی پرستش کیجیے اور وہ آپ کے معبود کی معبود کی عبادت کریں کہہ دیجیے کہ میں اس وقت ہرگز تمہارے معبودوں کی پرستش نہیں کروں گا اور نہ تم میرے اللہ کی پرستش کرو گے، تمہارے بارے میں اللہ کا ایسا ہی فصلہ ہے اور میں مستقبل میں بھی ہرگز تمہارے معبودوں کی پرستش نہیں کروں گا اور نہ تم میرے اللہ کی مستقبل میں پرستش کرو گے، اس لئے کہ میرے رب کا تمہارے بارے میں تمہاری نیت اور عمل کے فساد کے سبب یہی فیصلہ ہے کہ تمہاری موت کفر پر ہو، تاکہ تم جہنم میں داخل ہوجاؤ۔ ان آیات میں تکرار سے مقصود تاکید ہے، تاکہ جن کافروں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یتوں کی پرستش کا مشورہ دیا تھا وہ قطعی طور پر اس بات سے ناامید ہوجائیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے بتوں کی عبادت کریں گے۔ حافظ ابن کثیر نے شخی الاسلام ابن تیمیمہ رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ (لا اعبد ماتعبدون) سے مراد فعل کی نفی ہے، اس لئے کہ یہ جملہ فعلیہ ہے اور (ولا انا عابد ماعبدتم) سے مراد بتوں کی عبادت کو قبول کرنے کی قطعی نفی ہے، اس لئے جملہ اسمیہ کے ذریعہ نفی زیادہ قوی اور موکد ہوتی ہے، ویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتوں کی عبادت واقع ہونے کی نفی کردی اور کسی بھی صورت میں اس کے امکان کی بھی نفی کردی۔ آخری آیت (لکم دینکم ولی دین) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کافروں کے ایمان لانے سے قطعی طور پر ناامید کردیا ہے جن کے ایمان لانے کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خواہش رکھتے تھے اور ان کافروں کو جنہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتوں کی پرستش کا مشورہ دیا تھا، اس بات سے قطعی طور پر ناامید بنا دیا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی فاسد و باطل رائے کو مان کر کبھی ان کے بتوں کی پرستش کریں گے چنانچہ وہ مشرکین جنہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتوں کی پرستش کا مشوہ دیا، سب کی موت کفر پر ہوئی، کوئی میدان بدر میں مارا گیا اور کوئی مکہ میں ہی حالت کفر میں ہلاک ہوا اور اللہ کی بات ان کے بارے میں صادق ہوئی کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ الكافرون
2 الكافرون
3 الكافرون
4 الكافرون
5 الكافرون
6 الكافرون
0 سورۃ النصرمدنی ہے، اس میں تین آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ النصر نام : پہلی آیت میں لفظ ” نصر“ آیا ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے، اس کا دوسرا نام سورۃ التودیع بھی ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت سب کے نزدیک مدنی ہے، ابن مردویہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ سورت مدینہ میں نازل ہوء تھی اور ابن شیبہ بزار ابو یعل اور بیہقی وغیرہ نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ یہ سورت حجتہ الوداع میں، وسط ایام تشریق میں منی میں نازل ہوئی تو آپ نے سمجھ لیا کہ اب دنیا سے رخصت ہونے کا وقت قریب آگیا ہے۔ النصر
1 (١) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا : اے میرے نبی ! اب جبکہ آپ اپنے دشمنوں کے خلاف ہر معرکے میں غالب آ نے لگے ہیں اور مکہ کو فتح کرلیا ہے اور وہ دارالکفر سے دارالاسلام بن گیا ہے اور قبائل عرب گروہ درگروہ اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں ابتدائے اسلام کی طرح نہیں جب لوگ کافروں کے ڈر سے اکا دکا اسلام میں داخل ہوتے تھے، جب یہ سب نعمتیں حاصل ہوگئیں، تو آپ اپنے رب کا شکر بجالانے کے لئے اس کی پاکی اور اس کی حمد و ثنا بیان کیجیے اور اس سے مغفرت طلب کرتے رہئے، بعض ان کوتاہیوں کے لئے جن کا احساس آپ کو خود ہی ترک اولیٰ کے سبب ہوتا رہا ہے، اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے بندوں کی توبہ کو بہت جلد قبول کرتا ہے، ان کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے اور ان کے حال پر رحم کرتا ہے۔ فائدہ : اس سورت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ایک خوشخبری ہے اور جب وہ خوشخبری ظاہر ہوجائے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ان کے رب کی طرف سے ایک حکم ہے، ایک بات کی طرف اشارہ ہے اور ایک تنبیہہ ہے : خوشخبری یہ ہے کہ اللہ اپنے رسول کی مدد کرے گا مکہ مکرمہ فتح ہوگا اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوں گے حکم یہ ہے کہ آپ مذکورہ بالا نعمتوں پر اپنے رب کا شکر ادا کریں، اس کی پاکی اور حمد و ثنا بیان کریں اور اس سے مغفرت طلب کریں اس میں دو اشارے ہیں، ایک یہ کہ اللہ دین اسلام کی ہمیشہ مدد کرتا رہے گا، اور اس کا شکر ادا کرنے اور اس کی حمد و ثنا میں لگے رہنے سے اس کی نصرت و تائید میں اضافہ ہوتا رہے گا اور تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمان قرآن و سنت کی راہ پر گامزن رہے، ان کو اللہ کی نصرت و تائید ہمیشہ حاصل ہوتی رہی، یہاں تک کہ اسلام دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گیا، دوسرا اشارہ یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا وقت قریب آچکا ہے۔ اور تنبیہہ یہ ہے کہ چونکہ دنیا سے آپ کے رخصت ہونے کا وقت قریب ہوچکا ہے اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چاہئے کہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اس کی یاد میں لگائیں، تاکہ عمر کا آخری حصہ اس کی یاد میں گذرے امام بخاری نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ سورۃ النصر کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر نماز میں ” سبحانک ربنا وبحمدک، اللھم اغفرلی“ پڑھنے لگے۔ النصر
2 النصر
3 النصر
0 سورۃ اللہب مکی ہے، اس میں پانچ آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ اللہب نام : اس سورت کا نام ” اللہب“ ہے، اسے سورۃ المسد بھی کہتے ہیں۔ جو آخری آیت کے آخری لفظ ” مسد“ سے ماخوذ ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت سب کے نزدیک مکی ہے، ابن مردویہ نے ابن عباس، ابن الزبیر اور عائشہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے رایت کی ہے کہ (تبت یدا ابی لھب وتب) مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ الہب
1 (١) بخاری و مسلم اور دیگر محدثین نے ابن عابس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب سورۃ الشعراء کی آیت (٢١٤) (وانذر عشیرتک الاقربین) ” اے میرے نبی ! آپ اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈرایئے“ نازل ہوئی، تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے نکل کر صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور قریش کے خاندانوں کو آواز دی، اے نبی قہر ! اے بنی عدی ! یہاں تک کہ سب جمع ہوگئے، بعض لوگ جو خود نہیں آسکے، انہوں نے اپنا نمائندہ بھیج دیا تاکہ معلوم کرے کہ ماجرا کیا ہے؟ چنانچہ ابولہب اور اہل قریش آگئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا : تمہارا کیا خیال ہے، اگر میں تمہیں خبر دں کہ وادی میں ایک لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے، تو کیا تم لوگ مھے سچا سمھو گے؟ لوگوں نے کہا : ہاں ہمارا تجربہ تمہارے بارے میں یہی ہے کہ تم سچ بولتے ہو۔ آپ نے کہا : تو میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈرانے والا ہوں، ابولہب نے کہا : تم وپرا دن خسارہ ہی اٹھاتے رہو، کیا تم نے ہمیں اسی بات کے لئے جمع کیا تھا؟ تو یہ سورت نازل ہوئی۔ ابولہب کا نام : عبدالعزی تھا، عبدالمطلب بن ہاشم کا لڑکا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چچا تھا، آپ سے اور آپ کی دعوت سے بڑی سخت عداوت رکھتا تھا، جنگ بدر میں شریک نہیں ہوا تھا، اپنے بدلے کسی اور کو بھیج دیا تھا لیکن جب اسے قریش کی بری شکست کا حال معلوم ہا تو غم کی تاب نہ لا سکا اور کچھ ہی دنوں کے بعد ہلاک ہوگیا۔ اس کی بیوی ام جمیل کا نام : اروی تھا، وہ حرب بن امیہ کی بیٹی، ابو سفیان کی بہن اور معاویہ کی پھوپھی تھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زبردست دشمنی رکھتی تھی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی راہ میں کانٹے بچھاتی تھی اور کفر و عناد اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی کرنے میں اپنے شوہر ابولہب کا ساتھ دیتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اسی ابولہب اور اس کی بیوی ام جمیل کے بارے میں نازل فرمائی ہے، تاکہ رہتی دنیا تک ان لوگوں کی مثال قائم ہوجائے جو شیطان اور خاہش نفس کی اتباع میں اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ابولہب ہلاک و برباد ہوا، شقاوت و بدبختی نے اسے گھیر لیا اور وہ کبھی کامیاب نہیں ہوا، اس نے جو مال جمع کیا اور جو اولاد اور جاہ دولت حاصل کیا، اس سے اس تباہی اور عذاب کو نہیں ٹال سکا جو اللہ کی جانب سے اسے لاحق ہا، اور وہ اسلام اور رسول اسلام کی عداوت کی وجہ سے عنقریب بھڑکتی آگ میں داخل ہوگا اور اس کی بیوی (ام جمیل) جو زبردست چغل خور تھی، لوگوں کے درمیان آگ لگاتی پھرتی تھی، جیسا کہ مجاہد عکرمہ اور قتادہ نے کہا ہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی راہ میں کانٹے بچھاتی تھی، قیامت کے دن اس کے گردن میں مونج کی رسی بندھی ہوگی جس کے ذریعہ اسے جہنم میں گھسیٹا جائے گا۔ ضحاک کہتے ہیں کہ ام جمیل نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غریبی اور محتاجی کا عار دلاتی تھی اور خود اپنی گردن میں رسی باندھ کر لکڑیاں ڈھوتی تھی جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس کی گردن گھونٹ دی اور اسے ہلاک کردیا اور آخرت میں اس کی گردن میں آگ کی ایک رسی بندھی ہوگی مجاہد اور عروہ بن الزبیر کہتے ہیں کہ وہ آگ کی ایک زنجیر ہوگی جو روز قیامت اس کے منہ سے داخل کی جائے گی اور اس کی سرین سے نکال دی جائے گی، سعید بن المسب کہتے ہیں کہ ام جمیل کے پاس ایک قیمتی ہار تھا اس نے کہا کہ لات و عزی کی قسم ! میں اسے ضرور محمد کی دشمنی پر خرچ کروں گی قیامت کے دن اس ہار کے ذریعہ اسے عذاب دیا جائے گا۔ فائدہ : جب یہ سورت نازل ہوئی، اس وقت ابولہب اور اس کی بیوی دونوں زندہ تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں خبر دی کہ وہ ضرور جہنم میں عذاب دیئے جائیں گے، یعنی وہ اسلام نہیں لائیں گے اور ان کی مت کفر پر ہوگی، چنانچہ ایسا ہی ہوا دونوں حالت کفر میں ہلاک ہوگئے، یہ بات اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی ہے کہ علامہ الغیوب نے اس سورت میں ان کے بارے میں جیسی خبر دی ویسا ہی ہوا۔ الہب
2 الہب
3 الہب
4 الہب
5 الہب
0 سورۃ الاخلاص مکی ہے، اس میں چار آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ الاخلاص نام : چونکہ اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی خالص توحید بیان کی گئی ہے، اسی للئے اس کا نام ” الاخلاص“ رکھا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت ابن مسعود، حسن، عطا، عکرمہ اور جابر کے نزدیک مکی ہے اور قتادہ ضحاک اور سدی اور ایک قول کے مطابق ابن عباس کے نزدیک مدنی ہے۔ احمد، بخاری (تاریخ میں) اور تمذی وغیرہ نے ابی بن کعب (رض) سے روایت کی ہے، مشرکین نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا، اے محمد ! تم اپنے رب کا نسب بیان کرو۔ تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ (قل ھو اللہ احد) نازل فرمائی۔ اور ابن ابی حاتم اور بیہقی نے ” کتاب الاسماء و الصفات“ میں ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ یہود کعب بن اشرف اور حییی بن اخطب کے ساتھ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا اے محد ! تم اپنے اس رب کی صفت بیان کرو جس نے تمہیں مبعوث کیا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے (قل ھو اللہ احد) نازل فرمایا۔ ان دونوں روایتوں کے علاوہ بھی روایتیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اسی طرح کا سوال دوسرے لوگوں نے بھی کیا، اور ہر بار اس کا جواب دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہی سورت تلاوت کرنے کا حکم دیا۔ معلوم ہوا کہ یہ سورت پہلی بار مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ آنے کے بعد جب بھی کسی نے اللہ کی صفت بیان کرنے کا سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے دوبارہ نازل فرمایا اور آپ کو حکم دیا کہ سائل کو یہ سورت سنا دیں شیخ الاسلام ابن تیمیمہ کہتے ہیں کہ یہ سورت پہلی بار مکہ میں نازل ہوئی، اس کے بعد مدینہ منورہ میں جب بھی کسی یہودی یا نصرانی نے مشرکین مکہ جیسا سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس سورت کو نئے سرے سے نازل فرمایا۔ فضیلت :۔ اس سورت کی فضیلت کے بارے میں امام بخاری نے عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کو ایک فوجی دستہ کا سردار بنا کر بھجیا وہ شخص جب بھی نماز پڑھاتا تو اپنی قرأت (قل ھو اللہ احد) پڑھ کر ختم کرتا واپسی کے بعد صحابہ نے یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بتائی تو آپ نے کہا :” تم لوگ اس سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتا تھا“ لوگوں نے پوچھا تو اس نے کہا : اس سورت میں رحمٰن کی صفت بیان کی گئی ہے اس لئے میں اسے پڑھنا چاہتا ہوں۔ نی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” تم لوگ اسے بتا دو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے۔ “ اور احمد اور بخاری وغیرہ نے ابو سعید خدری (رض) سے رایت کی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے (قل ھو اللہ احد) ایک تہائی قرآن کے برابر ہے“ انتہی اس لئے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات کی توحید بیان کی گئی ہے۔ الاخلاص
1 (١) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے میرے نبی ! جو شخص آپ سے اللہ کے بارے میں پوچھے، اس سے کہہ دیجیے کہ اللہ ایک ہے تمام کمالات میں منفرد ہے، تمام اچھے اور پیارے نام، کامل و اعلیٰ صفات، اور مقدس افعا اسی کے لئے ہیں اور وہ بے نظیر و بے مثال ہے۔ سب کی حاجتیں وہی پوری کرنے والا ہے، اس کے در کے سوا کوئی در نہیں، سب اس کے محتاج ہیں، وہ کسی کا محتاج نہیں اس لئے کہ وہ اپنی صفات میں کامل ہے، اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے، اس کا حلم اس کے غضب پر غالب ہے، اس کی رحمت ہر چیز کے لئے عام ہے، اسی طرح وہ اپنی تمام صفات میں کامل ہے، اس میں کوئی نقص و عیب نہیں۔ وہ کامل و بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ اس کو کسی نے جنا ہے اور نہ اس کا کوئی مدمقابل ہے اور نہ کوئی اس جیسا ہے اس لئے صرف وہی عبادت کا مستحق ہے، اس کے سوا کوئی بھی کسی عبادت کا سزاوار نہیں۔ الاخلاص
2 الاخلاص
3 الاخلاص
4 الاخلاص
0 سورۃ الفلق مدنی ہے، اس میں پانچ آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ الفلق نام : پہلی آیت میں لفظ ” الفلق“ آیا ہے، یہی اس سورت کا نام رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : یہ سورت حسن، عکرمہ، عطاء اور جابر کے نزدیک مکی ہے اور عبداللہ بن زبیر اور قتادہ کے نزدیک اور ابن عباس (رض) کے ایک قول کے مطابق مدنی ہے، اور یہی دوسرا قول راجح ہے، اس لئے کہ مسلم، ترمذی اور نسائی وغیرہم نے عقبہ بن عامر (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز مجھ سے فرمایا :” مجھ پر آج کی رات ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں، جن کی مانند میں نے کبھی نہیں دیکھی : (قل اعوذ برب الفلق) اور (قل اعوذ برب الناس) “ اور عقبہ بن عامر مدینہ منورہ میں اسلام لائے تھے۔ ان دونوں سورتوں کی فضیلت کے بارے میں کئی صحیح احادیث وارد ہوئے ہیں ان میں سے مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ کیجیے : ١۔ احمد، نسائی، بغوی اور بیہقی نے ابن عابس جہنمی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا :” اے عابس ! کیا میں تمہیں سب سے اچھی چیز بتاؤں جس کے ذریعہ لوگ پناہ مانگتے ہیں؟ انہوں نے کہا، ہاں یا رسول اللہ ! تو آپ نے کہا : (قل اعوذ برب الفلق) اور (قل اعذ برب الناس) یہ دونوں معوذتین ہیں۔ ٢۔ اور ترمذی اور بیہقی وغیرہ نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنوں اور انسانوں کی نظر سے پناہ مانگتے تھے جب سورۃ المعوذتین یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس نازل ہوئیں، تو آپ نے انہی دونوں کو اپنا لیا اور ان کے سوا باقی کلمات کو چھوڑ دیا۔ ٣۔ اور امام مالک نے موطاء میں (عن ابن شھاب عن عروۃ عن عائشۃ) روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کوئی تکلیف ہوتی تو معوذ تین پڑھ کر اپنے جسم پر پھونکتے تھے عائشہ (رض) کہتی ہیں کہ جب آپ کی تکلیف بڑھ گئی تو میں آپ کے جسم پر یہ دونوں سورتیں پڑھ کر پھونکتی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ حصل برکت کے لئے آپ کے جسم پر پھیرتی تھی۔ اسی حدیث کو بخاری و مسلم نے صحیحین میں امام مالک کی مذکور بالا سند کے ساتھ روایت کی ہے۔ ٤۔ اور امام بخاری نے کتاب الطب، باب السحر میں اور امام مسلم نے کتاب السلام، باب السحر میں عائشہ (رض) سے، اور امام احمد نے مسند میں زید بن ارقم سے روایت کی ہے کہ جب لبیدبن اعصم منافق نے (جو قبیلہ بنی زریق کا تھا اور یہودیوں کا حلیف تھا) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کردیا تو جبریل (علیہ السلام) آپ کے پاس یہی دونوں سورتیں لے کر آئے اور آپ کو خبر دی کہ لبیدین اعصم نے آپ کی کنگھی اور کنگھی کے دانتوں میں جا دو کر کے ایک کنواں میں پانی کے نیچے دبا دیا ہے آپ نے علی (رض) کو بھیجا وہ اسے نکال کرلے آئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک ایک آیت پڑھتے گئے اور گرہ کھلتی گئی، یہاں تک کہ آخری گرہ بھی کھل گئی اور آپ اس طرح نشاط محسوس کرنے لگے جیسے کہ ان کا بندھا ہوا جسم کھول دیا گیا ہو۔ جبریل (علیہ السلام) نے آپ کو خود بھی پھونکا جس کے کلمات یہ تھے :” باسم اللہ ارقیک من کل شیء یوذیک من حاسدوعین اللہ یشفیک“ الفلق
1 (١) اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا : اے میرے نبی ! آپ کہئے کہ میں صبح کے رب کی جناب میں پناہ لیتا ہں، یا میں تمام مخلوقات کے رب کی پناہ مانگتا ہوں، جن و انس اور دیگر تمام مخلوقات کے شر سے، چاہے وہ حیوانات ہوں یا جمادات یا اللہ کی کوئی بھی مخلوق ہو اور میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے ذریعہ رات سے، جب اس کی بھیانک تاریکی ہر جگہ داخل ہوجاتی ہے اور چاند کی برائی سے پناہ مانگتا ہوں جب اس کی روشنی مدھم ہوجاتی ہے۔ ترمذی اور نسائی عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاند کی طرف دیکھا اور کہا :” اے عائشہ ! اللہ کے ذریعہ اس کے شر سے پناہ مانگو، یہی غاشق ہے جب اس کی روشنی دھیمی ہوجاتی ہے“ انتہی اس لے کہ رات کے وقت جنوں اور انسانوں کے شیاطین چاروں طرف پھیل جاتے ہیں اور اس وقت کفر و فسق، شر و فساد، چوری، خیانت اور دیگرمعاصی کا ارتکاب زیادہ ہوتا ہے، اسی طرح مشرکین، اہل نجوم اور جادوگر چاند کی عبادت کرتے ہیں، اسے وسیلہ بناتے ہیں، اور بے شمار جادو اور کفر یہ باتوں کا تعلق چاند سے جوڑتے ہیں۔ اور میں ان جادوگر عورتوں سے پناہ مانگتا ہوں جو دھاگے پر جادو پڑھ کر پھونکتی ہیں، اور ان میں گر ہیں ڈالتی ہیں، نسائی اور ابن مردویہ نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” جس نے گرہ ڈال کر اس میں پھونکا، اس نے جادو کیا اور جس نے جادو کیا اس نے شرک کیا اور جس نے کسی چیز سے (اللہ کے سوا) اپنا تعلق جوڑا، اسے اسی چیز کے سپرد کردیا گیا“ اور میں پناہ مانگتا ہوں حاسد کے حسد سے، جب وہ اپنا حسد ظاہر کرتا ہے تاکہ محسود کو نقصان پہنچائے، بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ حاسد کے مفہوم میں وہ آدمی بھی داخل ہے جس کی نظر لگ جاتی ہے، اس لے کہ جو آدمی حاسد، بدطینت اور خبیث النفس ہوتا ہے اسی کی نظر بری ہوتی ہے، عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا قول ہے : میں نے حاسد سے زیداہ کسی ظالم کو مظلوم کے مشابہ نہیں دیکھا، یعنی حسد کے سبب ظالم ہوتا ہے، لیکن نعمت سے محرومی کے سبب مظلوم معلوم ہوتا ہے۔ شوکانی لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بالعموم تمام مخلوقات کے شر سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے، اس کے بعد تین برائیوں سے بالخصوص پناہ مانگنے کی نصیحت کی ہے، جن کا ذکر اوپر گذر چکا، اس لئے کہ یہ برائیاں بہت زیاد خطرناک ہیں، اور ان کا نقصان بہت بڑا ہے۔ الفلق
2 الفلق
3 الفلق
4 الفلق
5 الفلق
0 سورۃ الناس مدنی ہے، اس میں چھ آیتیں اور ایک رکوع ہے تفسیر سورۃ الناس نام : اس سورت میں ” الناس“ بار بار آیا ہے، اسی لئے اس کا نام ” سورۃ الناس“ رکھ دیا گیا ہے۔ زمانہ نزول : سورۃ الفلق کے زمانہ نزول کے بارے میں علمائے تفسیر کی جو دورائیں بیان کی گئی ہیں وہی رائیں اس سورت کے نزول کے بارے میں بھی ہیں، اس لئے کہ دونوں سورتیں ایک ساتھ نازل ہوئی تھیں اور دونوں کی فضیلت و اہمیت اور شان نزول بھی ایک ہی ہے جیسا کہ ان احادیث سے معلوم ہوا جو سورۃ الفلق کی فضیلت کے بیان میں گذر چکی ہیں۔ الناس
1 (١) اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے سینوں میں وسوسہ پیدا کرنے والے شیطان کے شر سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے اور یہ چیز ان چاروں چیزوں سے زیادہ خطرناک ہے جن کے شر سے پناہ مانگنے کی تعلیم سورۃ الفلق میں دی گئی ہے، اس لئے کہ شیطان ہی (چاہے وہ جنوں کا شیطان ہو یا انسانوں کا) تمام برائیوں کی جڑ اور ان کا منبع ہے وہی لوگوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا کرتا ہے ان کی نگاہوں میں برائیوں کو خوبصورت بنا دیتا ہے اور ان کو کر گذرنے کے لئے ان کے ارادوں کو مہمیز لگاتا ہے اور بھلائی کے کام کرنے سے ان کی ہمت کو پست بناتا ہے اور نیکی کے کاموں کو ان کی نگاہوں میں بدشکل بنا کر پیش کرتا ہے اور شیطان اپنے اس کام میں ہر وقت لگا رہتا ہے ہمہ دم وسوسہ پیدا کرتا رہتا ہے اور جب بندہ مومن اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور اس کے ذریعہ شیطان کے وسوسہ سے پناہ مانگتا ہے تو شیطان فوراً پیچھے ہٹ جاتا ہے اس لئے آدمی کو چاہئے کہ اللہ سے مدد اور شیطان کے وسوسے سے اس کی پناہ مانگتا رہے، جو تمام انسانوں کا رب ہے، ان کا حقیقی بادشاہ ہے، اور ان کا تنہا معبود ہے۔ اس کے سوا کوئی رب نہیں اور نہ اس کے سوا کوئی بادشاہ ہے اور نہ کوئی معبود حقیقی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے کہ میں لوگوں کے بر کی جناب میں پناہ لیتا ہوں، لوگوں کے شاہ حقیقی کی جناب میں لوگوں کے تنہا معبود کی جناب میں لوگوں کے سینوں میں وسوسہ پیدا کرنے والے شیطان کے شر سے اور اس شیطان کی صفت یہ ہے کہ آدمی جب اپنے رب کی یاد سے غافل ہوتا ہے تو وہ اس کے دل میں وسوسہ پیدا کرتا ہے اور جب غفلت سے چوکنا ہوتا ہے اور اپنے رب کو یاد کرتا ہے تو وہ شیطان فوراً پیچھے ہٹ جاتا ہے اور چھپ جاتا ہے اور وہ شیطان جنوں میں سے بھی ہوتا ہے اور انسانوں میں سے بھی صحیح مسلم کی روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” تم میں سے ہر ایک کے ساتھ اس کا ساتھی شیاطن لگا رہتا ہے۔ صحابہ نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ کے ساتھ ہوتا ہے ؟ آپ نے کہا :” ہاں، لیکن اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی ہے اور وہ مسلمان ہوگیا ہے، اس لئے وہ مجھے صرف بھلائی کا حکم دیتا ہے۔ “ اور صحیح بخاری میں انس (رض) سے مروی ہے کہ ام المومنین صفیہ (رض) سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آپ کے اعتکاف کی جگہ میں زیارت کی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ رات کے وقت نکلے تاکہ انہیں ان کے گھر تک پہنچا دیں۔ راستے میں دو انصاری سے ملاقات ہوگئی۔ دونوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھ کر تیز تیز چلنا شروع کیا تو آپ نے کہا :” ٹھہرو ! یہ صفیہ بنت حی ہے“ دونوں نے کہا : سبحان اللہ، یا رسول اللہ ! تو آپ نے کہا :” شیطان، ابن آدم کے خون کے ساتھ اس کی رگوں میں دوڑتا رہتا ہے اور مجھے ڈر ہوا کہ کہیں وہ تم دونوں کے دلوں میں کوئی برائی نہ ڈال دے۔ “ اور امام احمد نے ابو ذر غفاری (رض) سے روایت کی ہے کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مسجد میں آیا اور بیٹھ گیا، تو آپ نے فرمایا :” اے ابو ذر ! کیا تم نے نماز پڑھی؟“ میں نے کہا : نہیں آپ نے کہا ” اٹھو اور نماز پڑھو“ ابوذر کہتے ہیں کہ میں نے اٹھ کر نماز پڑھی پھر بیٹھ گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا ” اے ابو ذر ! انسانوں اور جنوں کے شیاطین کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو“ تو میں نے کہا : یا رسول اللہ ! کیا انسانوں میں بھی شیاطین ہوتے ہیں؟ آپ نے فرمایا :” ہاں“ اور حسن بصری کا قول ہے : جنوں کا شیطان لوگوں کے سنیوں میں وسوسہ پیدا کرتا ہے، لیکن انسانوں کا شیطان تو کھل کر سامنے سے آتا ہے اور قتادہ کہتے ہیں کہ شیاطین جنوں میں بھی ہوتے ہیں اور انسانوں میں بھی، پس تم جنوں اور انسانوں کے شیاطن سے اللہ کی پناہ مانگتے رہو۔ والحمد للہ رب العالمین اولاواخر و ظاہرا وباطنا اللہ رب العالمین کا شکر ہے کہ محض اس کی توفیق سے آج بروز جمعرات بوقت صبح مطابق ٨ محرم الحرام ١٤٢١ ھ یہ تفسیر مکمل ہوگئی۔ اے میرے اللہ ! تو نے جس طرح مجھے اس کی تکمیل کی توفیق ارزانی بخشی ہے، مجھ پر یہ بھی احسان کر کہ اسے قبول فرما لے، اسے میرے لئے ذخیرہ آخرت بنا دے اور اس کی تحریر و تالیف میں میں نے جو محنت و مشقت اٹھائی ہے، اس کا دونوں جہان میں مجھے اچھا سے اچھا بدلہ دے۔ آمین میرے اللہ ! تو میری اس تفسیر کو قبول عام عطا فرمایا اور جب تک آفتاب و ماہتاب گردش میں رہیں تو اسے مسلمانوں کے درمیان مفید و نافع بنا کر باقی رکھ میرے مولیٰ! تو اس کنیک کام کو محض اپنی رضا کے لئے بنا دے اور اگر میرے دل میں کبھی کوئی ایسی بات گذری جو اخلاص کے خلاف تھی، یا اس تفسیر میں میرے قلم نے کوئی ایسی بات لکھ دی ہے جو تیری مراد کے مطابق نہیں ہے، تو مجھے معاف کر دے، میں نے وہی لکھا ہے جسے حق سمجھا ہے، اس لئیاگر کوئی غلطی ہوگئی ہے تو اسے تو معاف کر دے اور اسے قبول فرما لے۔ اے خالق کون و مکان ! میں تیری ان گنت تعریف باین کرتا ہوں اور اس احسان عظیم پر تیرا بے شمار شکر ادا کرتا ہوں اور درود و سلام بھیجتا ہوں تریے رسول پر، ان کی آل پر، اور ان کے اصحاب کرام پر اللہ کا شکر ہے کہ آج بروز جمعہ بعد نماز عصر مطابق ٨ جمادی الاولی ١٤٢١ ھ بمقام حرم مکی اس کی طباعت کی تصحیح کا کام بھی مکمل ہوگیا۔ الناس
2 الناس
3 الناس
4 الناس
5 الناس
6 الناس
Flag Counter