Maktaba Wahhabi

آیت نمبرترجمہسورہ نام
1 بسم اللہ الرحمن الرحیم (1) سورت کی اہمیت اور خصوصیات یہ قرآن کی سب سے پہلی سورت ہے۔ اس لیے فاتحۃ الکتاب کے نام سے پکاری جاتی ہے۔ جو بات زیادہ اہم ہوتی ہے، قدرتی طور پر پہلی اور نمایاں جگہ پاتی ہے۔ یہ سورت قرآن کی تمام سورتوں میں خاص اہمیت رکھتی تھی، اس لیے قدرتی طور پر اس کی موزوں جگہ قرآن کے پہلے صفحے ہی میں قرار پائی۔ چنانچہ خود قرآن نے اس کا ذکر ایسے ہی لفظوں میں کیا ہے جس سے اس کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم (1) سورت کی اہمیت اور خصوصیات یہ قرآن کی سب سے پہلی سورت ہے۔ اس لیے فاتحۃ الکتاب کے نام سے پکاری جاتی ہے۔ جو بات زیادہ اہم ہوتی ہے، قدرتی طور پر پہلی اور نمایاں جگہ پاتی ہے۔ یہ سورت قرآن کی تمام سورتوں میں خاص اہمیت رکھتی تھی، اس لیے قدرتی طور پر اس کی موزوں جگہ قرآن کے پہلے صفحے ہی میں قرار پائی۔ چنانچہ خود قرآن نے اس کا ذکر ایسے ہی لفظوں میں کیا ہے جس سے اس کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ وَلَقَدْ آتَیْنَاکَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِی وَالْقُرْآنَ الْعَظِیمَ (87:15) اے پیغمبر ! یہ واقعہ ہے کہ ہم نے تمہیں سات دہرائی جانے والی چیزیں عطا فرمائی اور قرآن عظیم۔ احادیث و آثار سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس آیت میں ” سات دہرائی جانے والی چیزوں“ سے مقصود یہی سورت ہے کیونکہ یہ سات آیتوں کا مجموعہ ہے اور ہمیشہ نماز میں دہرائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورت کو سبع المثانی بھی کہتے ہیں۔ امام بخاری اور اصحاب سنن نے ابو سعید بن المعلی سے روایت کیا ہے کہ الحمد للہ رب العلمین، ھی السبع المثانی والقرآن العظیم الذی اوتیتہ۔ اور امام مالک، ترمذی اور حاکم نے ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابی بن کعب کو سورۃ فاتحہ کی تلقین کی اور یہی الفاظ ارشاد فرمائے۔ اسی طرح طربی نے حضرت عمر حضرت علی، حضرت ابن عباس اور ابن مسعود (رضی اللہ عنہم) وغیرہم سے روایت کی ہے کہ السبع المثانی فاتحۃ الکتاب، اگرچہ ابن مسعود کی اسناد منقطع ہے لیکن ابن عباس کی حسن ہے۔ ابو العالیہ سے بھی ایسا ہی مروی ہے اس کے علاوہ ائمہ تابعین کی ایک بڑی جماعت اسی طرف گئی ہے۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں تمام روایات جمع کردی ہیں (شرح کتاب التفسیر جلد 8۔ صفحہ 120۔ طبع اول)۔ احادیث و آثار میں اس سورت کے دوسرے نام بھی آئے ہیں جن سے اس کی خصوصیات کا پتہ چلتا ہے۔ مثلاً ام القرآن، الکافیہ، الکنز، اساس القرآن۔ (صحیح بخاری، موطا امام مالک، ابوداود، ابن ماجہ اور مسند احمد میں بہ اختلاف الفاظ اس مضمون کی روایات موجود ہیں۔ ) عربی میں ” ام“ کا اطلاق تمام ایسی چیزوں پر ہوتا ہے جو ایک طرح کی جامعیت رکھتی ہوں یا بہت سی چیزوں میں مقدم اور نمایاں ہوں یا پھر کوئی ایسی اوپر کی چیز ہو جس کے نیچے اس کے بہت سے توابع ہوں۔ چنانچہ سر کے درمیانی حصے کو ام الراس کہتے ہیں کیونکہ وہ دماغ کا مرکز ہے۔ فوج کے جھنڈے کو ام کہتے ہیں کیونکہ تمام فوج اسی کے نیچے جمع ہوتی ہے۔ مکہ کو ام القری کہتے تھے کیونکہ خانہ کعبہ اور حج کی وجہ سے عرب کی تمام آبادیوں کے جمع ہونے کی جگہ تھی۔ پس اس سورت کو ام القرآن کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ایک ایسی سورت ہے جس میں مطالب قرآنی کی جامعیت اور مرکزیت ہے یا جو قرآن کی تمام سورتوں میں اپنی نمایاں اور مقدم جگہ رکھتی ہے۔ اساس القرآن کے معنی ہیں قرآن کی بنیاد۔ الکافیہ کے معنی ہیں ایسی چیز جو کفایت کرنے والی ہو، الکنز خزانہ کو کہتے ہیں۔ علاوہ بریں ایک سے زیادہ حدیثیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت کے یہ اوصاف عہد نبوت میں عام طور پر مشہور تھے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابی بن کعب (رض) کو اس سورت کی تلقین کی اور فرمایا ” اس کے مثل کوئی سورت نہیں“۔ (ابو سعید بن معلی کی روایت میں جس کی تخریج پچھلے حاشیہ میں گزر چکی ہے، اسے اعظم سورۃ فی القرآن فرمایا ہے، اور مسند کی روایت ابن جابر میں ” اخیر“ کا لفظ ہے) سورۃ ٔ فاتحہ میں دین حق کے تمام مقاصد کا خلاصہ موجود ہے :۔ چنانچہ اس سورت کے مطالب پر نظر ڈالتے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس میں اور قرآن کے بقیہ حصے میں اجمال اور تفصیل کا سا تعلق پیدا ہوگیا ہے۔ یعنی قرآن کی تمام سورتوں میں دین حق کے جو مقاصد بہ تفصیل بیان کیے گئے ہیں سورۃ فاتحہ میں انہی کا بہ شکل اجمال بیان موجود ہے۔ اگر ایک شخص قرآن میں سے اور کچھ نہ پڑھ سکے صرف اس سورت کے مطالب ذہن نشین کرلے جب بھی وہ دین حق اور خدا پرستی کے بنیادی مقاصد معلوم کرلے گا اور یہی قرآن کی تمام تفصیلات کا ماحصل ہے۔ علاوہ ازیں جب اس پہلو پر غور کیا جائے کہ سورت کا پیریہ دعائیہ ہے اور اسے روزانہ عبادت کا ایک لازمی جزوہ قرار دیا گیا ہے تو اس کی یہ خصوصیت اور زیادہ نمایاں ہوجاتی ہے اور واضح ہوجاتا ہے کہ اس اجمال و تفصیل میں بہت بڑی مصلحت پوشیدہ تھی۔ مقصود یہ تھا کہ قرآن کے مفصل بیانات کا ایک مختصر اور سیدھا سادھھا خلاصہ بھی ہو جسے ہر انسان بآسانی ذہن نشین کرلے اور پھر ہمیشہ اپنی دعاؤں اور عبادتوں میں دہراتا رہے۔ یہ اس کی دینی زندگی کا دستور العمل، خدا پرستی کے عقائد کا خلاصہ اور روحانی تصورات کا نصب العین ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اس سورت کا ذکر کرتے ہوئے سبعاً من المثانی کہہ کر اس کی خصوصیت کی طرف اشارہ کردیا۔ یعنی ہمیشہ دہرائے جانے اور ورد رکھنے ہی میں اس کے نزول کی حکمت پوشیدہ ہے۔ کوئی شخص کتنا ہی نادان اور ان پڑھ ہو لیکن ان چار سطروں کا یاد کرلینا اور ان کا سیدھا سادھا مطلب سمجھ لینا اس کے لیے کچھ دشوار نہیں ہوسکتا۔ اگر ایک انسان اس سے زیادہ قرآن میں سے کچھ نہ پڑھ سکا، جب بھی اس نے دین حق کا بنیادی سبق حاصل کرلیا یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان کے لیے اس سورت کا سیکھنا اور پڑھنا ناگزیر ہوا اور نماز کی دعا اس کے سوا کوئی نہ ہوسکی کہ ( لاصلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب) (صحیحین) اور اسی لیے صحابہ کرام (رض) اسے سورۃ الصلوۃ کے نام سے پکارتے تھے۔ یعنی وہ سورت جس کے بغیر نماز نہیں پڑھی جاسکتی۔ ایک انسان اس سے زیادہ قرآن میں سے جس قدر پڑھے اور سیکھے مزید معرفت و بصیرت کا ذریعہ ہوگا لیکن اس سے کم کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ دین حق کا ماحصل :۔ دین حق کا تمام تر ماحصل کیا ہے؟ جس قدر غور کیا جائے گا ان چار باتوں سے باہر کوئی بات دکھائی نہ دے گی۔ (1) خدا کی صفات کا ٹھیک ٹھیک تصور، اس لیے کہ انسان کو خدا پرستی کی راہ میں جس قدر ٹھوکریں لگی ہیں صفات ہی کے تصور میں لگی ہیں۔ (2) قانون مجازات کا اعتقاد۔ یعنی جس طرح دنیا میں ہر چیز کا ایک خاصہ اور قدرتی تاثیر ہے اسی طرح انسانی اعمال کے بھی معنوی خواص اور نتائج ہیں۔ نیک عمل کا نتیجہ اچھائی ہے اور برے کا برائی۔ (3) معاد کا یقین۔ یعنی انسان کی زندگی اسی دنیا میں ختم نہیں ہوجاتی۔ اس کے بعد بھی زندگی ہے اور جزا کا معاملہ پیش آنے والا ہے (4) فلاح و سعادت کی راہ اور اس کی پہچان۔ سورۂ فاتحۃ کا اسلوب :۔ اب غور کرو کہ ان باتوں کا خلاصہ اس سورت میں کس خوبی کے ساتھ جمع کردیا گیا ہے ! ایک طرف زیادہ سے زیادہ مختصر حتی کہ گنے ہوئے الفاظ ہیں، دوسری طرف ایسے جچے تلے الفاظ کہ ان کے معانی سے پوری وضاحت اور دل نشینی پیدا ہوگئی ہے۔ ساتھ ہی نہایت سیدھا سادھا بیان ہے۔ کسی طرح کا پیچ و خم نہیں۔ کسی طرح کا الجھاؤ نہیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا میں جو چیز جتنی زیادہ حقیقت سے قریب ہوتی ہے۔ اتنی ہی زیادہ سہل اور دلنشین بھی ہوتی ہے اور خود فطرت کا یہ حال ہے کہ کسی گوشے میں بھی الجھی ہوئی نہیں ہے۔ الجھاؤ جس قدر بھی پیدا ہوتا ہے بناوٹ اور تکلف سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جو بات سچی اور حقیقی ہوگی ضروری ہے کہ سیدھی سادھی اور دلنشین بھی ہو۔ دل نشینی کی انتہا یہ ہے کہ جب کبھی کوئی ایسی بات تمہارے سامنے آجائے تو ذہن کو کسی طرح کی اجنبیت محسوس نہ ہو۔ وہ اس طرح قبول کرلے گویا پیشتر سے سمجھی بوجھی ہوئی بات تھی۔ اردو کے ایک شاعر نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے اب غور کرو کہ جہاں تک انسان کی خدا پرستی اور خدا پرستی کے تصورات کا تعلق ہے اس سے زیادہ سیدھی سادھی باتیں اور کیا ہوسکتی ہیں جو اس سورت میں بیان کیا ہوسکتا ہے؟ سات چھوٹے چھوٹے بول ہیں۔ ہر بول چار پانچ لفظوں سے زیادہ کا نہیں اور ہر لفظ صاف اور دل نشین معانی کا نگینہ ہے جو اس انگوٹھی میں جڑ دیا گیا ہے۔ اللہ کو مخاطب کر کے ان صفتوں سے پکارا گیا ہے جن کا جلوہ شب و روز انسان کے مشاہدے میں آتا رہتا ہے اگرچہ وہ اپنی جہالت و غفلت سے ان میں غور و تفکر نہیں کرتا۔ پھر اس کی بندگی کا اقرار، اس کی مددگاریوں کا اعتراف ہے اور زندگی کی لغزشوں سے بچ کر سیدھی راہ لگ کر چلنے کی طلبگاری ہے۔ کوئی مشکل خیال نہیں، کوئی انوکھی بات نہیں، کوئی عجیب و غریب راز نہیں۔ اب کہ ہم بار بار یہ سورت پڑھتے رہتے ہیں اور صدیوں سے اس کے مطالب نوع انسانی کے سامنے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ہمارے دینی تصورات کی ایک بہت ہی معمولی سی بات ہے لیکن یہی معمولی بات جس وقت تک دنیا کے سامنے نہیں آئی تھی اس سے زیادہ کوئی غیر معلوم اور ناقابل حل بات بھی نہ تھی۔ دنیا میں حقیقت اور سچائی کی ہر بات کا یہی حال ہے۔ جب تک سامنے نہیں آتی، معلوم ہوتا ہے اس سے زیادہ مشکل بات کوئی نہیں۔ جب سامنے آجاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے اس سے زیادہ صاف اور سہل بات اور کیا ہوسکتی ہے؟ عرفی نے یہی حقیقت ایک دوسرے پیرایے میں بیان کی ہے۔ ہر کس نشناسندۂ راز ست، وگرنہ ::: اینہا ہمہ راز ست کہ معلوم عوام ست ! دنیا میں جب کبھی وحیٔ الٰہی کی ہدایت نمودار ہوئی تو اس نے یہ نہیں کیا ہے کہ انسان کو نئی نئی باتیں سکھا دی ہوں کیونکہ خدا پرستی کے بارے میں کوئی انوکھی بات سکھائی ہی نہیں جاسکتی۔ اس کا کام صرف یہ رہا ہے کہ انسان کے وجدانی عقائد کو علم و اعتراف کی ٹھیک ٹھیک تعبیر بتا دے اور یہی سورۃ فاتحہ کی خصوصیت ہے۔ اس سورت نے نوع انسانی کے وجدانی تصورات ایک ایسی تعبیر سے سنوار دیے کہ ہر عقیدہ، ہر فکر، ہر جذبہ، اپنی حقیقی شکل و نوعیت میں نمودار ہوگیا اور چونکہ یہ تعبیر حقیقت حال کی سچی تعبیر ہے اس لیے جب کبھی ایک انسان راست بازی کے ساتھ اس پر غور کرے گا بے اختیار پکار اٹھے گا کہ اس کا ہر بول اور ہر لفظ اس کے دل و دماغ کی قدرتی آواز ہے ! دین حق کی مہمات :۔ پھر دیکھو اگرچہ اپنی نوعیت میں وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ ایک خدا پرست انسان کی سیدھی سادھی دعا ہے لیکن کس طرح اس کے ہر لفظ اور ہر اسلوب سے دین حق کا کوئی نہ کوئی اہم مقصد واضح ہوگیا ہے اور کس طرح اس کے الفاظ نہایت اہم معانی و دقائق کی نگرانی کر رہے ہیں ! (1) خدا کے تصور کے بارے میں انسان کی ایک بڑی غلط فہمی یہ رہی ہے کہ اس تصور کو محبت کی جگہ خوف و دہشت کی چیز بنا لیتا تھا۔ سورۂ فاتحہ کے سب سے پہلے لفظ نے اس گمراہی کا ازالہ کردیا۔ (الحمد للہ رب العالمین) اس کی ابتدا حمد کے اعتراف سے ہوتی ہے حمد ثنائے جمیل کو کہتے ہیں یعنی اچھی صفتوں کی تعریف کرنے کو، ثنائے جمیل اسی کی کی جاسکتی ہے جس میں خوبی و جمال ہو۔ پس حمد کے ساتھ خوف و دہشت کا تصور جمع نہیں ہوسکتا۔ جو ذات محمود ہوگی وہ خوفناک نہیں ہو سکتی۔ پھر حمد کے بعد خدا کی عالمگیر ربوبیت، رحمت اور عدالت کا ذکر کیا ہے اور اس طرح صفات الٰہی کی ایک ایسی مکمل شبیہ کھینچ دی ہے جو انسان کو وہ سب کچھ دے دیتی ہے جس کی انسانیت کے نشو و ارتقا کے لیے ضرورت ہے اور ان تمام گمراہیوں سے محفوظ کردیتی ہے جو اس راہ میں اسے پیش آسکتی ہیں۔ (2) ” رب العالمین“ میں خدا کی عالمگیر ربوبیت کا اعتراف ہے جو ہر فرد، ہر جماعت، ہر قوم، ہر ملک اور ہر گوشہ وجود کے لیے ہے۔ اس لیے یہ اعتراف ان تمام تنگ نظریوں کا خاتمہ کردیتا ہے جو دنیا کی مختلف قوموں اور نسلوں میں پیدا ہوگئی تھیں۔ اور ہر قوم اپنی جگہ سمجھنے لگی تھی کہ خدا کی برکتیں اور سعادتیں صرف اسی کے لیے ہے کسی دوسری قوم کا ان میں حصہ نہیں۔ (3) ” ملک یوم الدین“ میں ” الدین“ کا لفظ جزا کے قانون کا اعتراف ہے اور جزا کو ” دین“ کے لفظ سے تعبیر کر کے یہ حقیقت واضح کردی ہے کہ جزا انسانی اعمال کے قدرتی نتائج و خواص ہیں۔ یہ بات نہیں ہے کہ خدا کا غضب و انتقام بندوں کو عذاب دینا چاہتا ہو۔ کیونکہ ” الدین“ کے معنی بدلہ اور مکافات کے ہیں۔ (4) ربوبیت اور رحمت کے بعد ” ملک یوم الدین“ کے وصف نے یہ حقیقت بھی آشکارا کردی کہ اگر کائنات میں صفاتِ رحمت و جمال کے ساتھ قہر وجلال بھی اپنی نمود رکھتی ہیں تو یہ اس لیے نہیں کہ پروردگار عالم میں غضب و انتقام ہے بلکہ اس لیے ہے کہ وہ عاد ہے اور اسکی حکمت نے ہر چیز کے لیے اس کا ایک خاصہ اور نتیجہ مقرر کردیا ہے۔ عدل منافی رحمت نہیں ہے بلکہ عین رحمت ہے۔ (5) عبادت کے لیے یہ نہیں کہا کہ نعبدک، بلکہ کہا ” ایاک نعبد“ یعنی یہ نہیں کہا کہ ” تیری عبادت کرتے ہیں“۔ بلکہ حصر کے ساتھ کہا ” صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں“۔ اور پھر اس کے ساتھ ” ایاک نستعین“ کہہ کر استعانت کا بھی اسی حصر کے ساتھ ذکر کردیا۔ اس اسلوب بیان نے توحید کے تمام مقاصد پورے کردیے اور شرک کی ساری راہیں بند ہوگئیں ! (6) سعادت و فلاح کی راہ کو ” صراط المستقیم“ یعنی سیدھی راہ سے تعبیر کیا جس کی اس سے زیادہ بہتر اور قدرتی تعبیر نہیں ہوسکتی کیونکہ کوئی نہیں جو سیدھی راہ اور ٹیڑھی راہ میں امتیاز نہ رکھتا ہو اور پہلی راہ کا خواہشمند نہ ہو۔ (7) پھر اس کے لیے ایک سیدھی سادھی اور جانی بوجھی ہوئی شناخت بتا دی جس کا اذعان قدرتی طور پر ہر انسان کے اندر موجود ہے اور جو محض ایک ذہنی تعریف ہونے کی جگہ ایک موجود و مشہود حقیقت نمایاں کردیتی ہے۔ یعنی وہ راہ جوانعام یافتہ انسانوں کی راہ ہے۔ کوئی ملک، کوئی قو، کوئی زمانہ کوئی فرد ہو، لیکن انسان ہمیشہ دیکھتا ہے کہ زندگی کی دو راہیں یہاں صاف موجود ہیں۔ ایک راہ کامیاب انسانوں کی راہ ہے، ایک ناکام انسانوں کی۔ پس ایک واضح اور آشکارا بات کے لیے سب سے بہتر علامت یہی ہوسکتی تھی کہ اس کی طرف انگلی اٹھا دی جائے۔ اس سے زیادہ کچھ کہنا ایک معلوم بات کو مجہول بنا دینا تھا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس سورت کے لیے دعا کا پیرایہ اختیار کیا گیا ہے کیونکہ اگر تعلیم و امر کا پیرایہ اختیار کیا جاتا تو اس کی نوعیت کی ساری تاثیر جاتی رہتی۔ دعائیہ اسلوب ہمیں بتاتا ہے کہ ہر راست باز انسان کی جو خدا پرستی کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے صدائے حال کیا ہوتی ہے اور کیا ہونی چاہئے؟ یہ گویا خدا پرستی کے فکر و وجدان کا سرجوش ہے جو ایک طالب صادق کی زبان پر بے اختیار ابل پڑتا ہے۔ الفاتحة
2 (2) اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ حَمْد :۔ عربی میں حمد کے معنی ثنائے جمیل کے ہیں، یعنی اچھی صفتیں بیان کرنے کے۔ اگر کسی کی بری صفتیں بیان کی جائیں تو یہ حمد نہ ہوگی، حمد پر الف لام ہے یہ استغراق کے لیے بھی ہوسکتا ہے، جنس کے لیے بھی۔ پس ” الحمد للہ“ کے معنی یہ ہوئے کہ حمد و ثنا میں سے جو کچھ اور جیسا کچھ بھی کہا جاسکتا ہے وہ سب اللہ کے لیے ہے کیونکہ خوبیوں اور کمالوں میں سے جو کچھ بھی ہے سب اسی سے ہے اور اسی میں ہے۔ اور اگر حسن موجود ہے تو نگاہ عشق کیوں نہ ہو اور اگر محمودیت جلوہ افروز ہے تو زبان حمد و ستائش کیوں خاموش رہے؟ آئینہ ما روائے ترا عکس پذیر است ::: گر تو نہ نمائی گنہ از جانب ما نیست حَمْد سے سورت کی ابتدا کیوں کی گئی؟ اسلیے کہ معرفت الٰہی کی راہ میں انسان کا پہلا تاثر یہی ہے۔ یعنی جب کبھی ایک صادق انسان اس راہ میں قدم اٹھائے گا تو سب سے پہلی حالت جو اس کے فکر و وجدان پر طاری ہوگی وہ قدرتی طور پر وہی ہوگی جسے یہاں تحمید و ستائش سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انسان کے لیے معرفت حق کی راہ کیا ہے؟ قرآن کہتا ہے صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ ہے کہ کائنات خلقت میں تفکر و تدبر کرے۔ مصنوعات کا مطالعہ اسے صانع تک پہنچا دے گا۔ الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (188:3) اب فرض کرو، ایک طالب صادق اس راہ میں قدم اٹھاتا ہے اور کائنات خلقت کے مظاہر و آثار کا مطالعہ کرتا ہے تو سب سے پہلا اثر جو اس کے دل و دماغ پر طاری ہوگا وہ کیا ہوگا؟ وہ دیکھے گا کہ خود اس کا وجود اور اس کے وجود سے باہر کی ہر چیز ایک صانع حکیم اور مدبر قدیر کی کار فرمائیوں کی جلوہ گاہ ہے اور اس کی ربوبیت اور رحمت کا ہاتھ ایک ایک ذرہ خلقت میں صاف نظر آرہا ہے۔ پس قدرتی طور پر اس کی روح جوش ستائش اور محویت جمال سے معمور ہوجائے گی۔ وہ بے اختیار پکار اٹھے گا کہ ” الحمد للہ رب العالمین“ ساری حمد و ستائش اسی کے لیے ہے جو اپنی کار فرمائی کے ہر گوشے میں سرچشمہ رحمت و فیضان اور معنی حسن و کمال ہے ! اس راہ میں فکر انسانی کی سب سے بڑی گمراہی یہ رہی ہے کہ اس کی نظریں مصنوعات کے جلووں میں محو ہو کر رہ جاتیں اور آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرتیں۔ وہ پردوں کے نقش و نگار دیکھ کر بے خود ہوجاتا مگر اس کی جستجو نہ کرتا جس نے اپنے جمال صنعت پر یہ دل آویز پردے ڈال رکھے ہیں، دنیا میں مظاہر فطرت کی پرستش کی بنیاد اسی کوتاہ نظری سے پڑی۔ پس ” الحمد للہ“ کا اعتراف اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ کائنات ہستی کا تمام فیضان و جمال خواہ کسی گوشے اور کسی شکل میں صرف ایک صانع حقیقی کی صفتوں ہی کا ظہور ہے۔ اس لیے حسن و جمال کے لیے جتنی بھی شیفتگی ہوگی، خوبی و کمال کے لیے جتنی بھی مدحت طرازی ہوگی اور بخشش و فیضان کا جتنا بھی اعتراف ہوگا، وہ مصنوع و مخلوق کے لیے نہیں ہوگا۔ صانع و خالق ہی کے لیے ہوگا۔ عباراتنا شتی و حسنک واحد ::: وکل الی ذاک الجمال یشیر اللہ :۔ نزول قرآن سے پہلے عربی میں اللہ کا لفظ خدا کے لیے بطور اسم ذات کے مستعمل تھا جیسا کہ شعرائے جاہلیت کے کلام سے ظاہر ہے۔ یعنی خدا کی تمام صفتیں اس کی طرف منسوب کی جاتی تھیں۔ یہ کسی خاص صفت کے لیے نہیں بولا جاتا تھا۔ قرآن نے بھی یہی لفظ بطور اسم ذات کے اختیار کیا اور تمام صفتوں کو اس کی طرف نسبت دی۔ ” وللہ الاسماء الحسنی فادعوہ بہا“ (179:7) ” اور اللہ کے لیے حسن و خوبی کے نام ہیں (یعنی صفتیں ہیں) پس چاہیے کہ اسے ان صفتوں کے ساتھ پکارو ! قرآن نے یہ لفظ محض اس لیے اختیار کیا کہ لغت کی مطابقت کا مقتضا یہی تھا یا اس سے بھی زیادہ کوئی معنوی موزونیت اس میں پوشیدہ ہے؟ جب ہم اس لفظ کی معنوی دلالت پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے اس غرض کے لیے سب سے زیادہ موزوں لفظ یہی تھا۔ نوع انسانی کے دینی تصورات کا ایک قدیم عہد جو تاریخ کی روشنی میں آیا ہے۔ مظاہر فطرت کی پرستش کا عہد ہے۔ اسی پرستش نے بتدریج اصنام پرستی کی صورت اختیار کی اصنام پرستی کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ مختلف زبانوں میں بہت سے الفاظ دیوتاؤں کے لیے پیدا ہوگئے اور جوں جوں پرستش کی نوعیت میں وسعت ہوتی گئی الفاظ کا تنوع بھی بڑھتا گیا لیکن چونکہ یہ بات انسان کی فطرت کے خلاف تھی کہ ایسی ایسی ہستی کے تصور سے خالی الذہن رہے جو سے اعلی اور سب کی پیدا کرنے والی ہستی ہے اس لیے دیوتاؤں کی پرستش کے ساتھ ایک سب سے بڑی اور سب پر حکمراں ہستی کا تصور بھی کم و بیش ہمیشہ موجود رہا اور اس لیے جہاں بے شمار الفاظ دیوتاؤں اور ان کی معبودانہ صفتوں کے لیے پیدا ہوگئے وہاں کوئی نہ کوئی لفظ ایسا بھی ضرور مستعمل رہا جس کے ذریعہ اس ان دیکھی اور اعلی تریں ہستی کی طرف اشارہ کیا جاتا تھا۔ چنانچہ سامی زبانوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف و اصوات کی ایک خاص ترکیب ہے جو معبودیت کے معنی میں مستعمل رہی ہے۔ عبرانی، سریانی، آرامی کلدانی، حمیری، عربی و غیرہ تمام زبانوں میں اس کا یہ لغوی خاصہ پایا جاتا ہے۔ یہ الف، لام اور ہ کا مادہ ہے اور مختلف شکلوں میں مشتق ہوا ہے۔ کلدانی و سریانی کا ” الاہیا“ عبرانی کا ” الوہ“ اور عربی کا ” الہ“ اسی سے ہے اور بلاشبہ یہی ” الہ“ ہے جو حروف تعریف کے اضافہ کے بعد اللہ ہوگیا ہے اور تعریف نے اسے صرف خالق کائنات کے لیے مخصوص کردیا ہے۔ لیکن اگر اللہ ” الہ“ سے ہے تو ” الہ“ کے معنی کیا ہیں؟ علمائے لغت و اشتقاق کے مختلف اقوال ہیں مگر سب سے زیادہ قوی قول یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اصل ” الہ“ ہے اور ” الہ“ کے معنی تحیر اور درماندگی کے ہیں، بعضوں نے اسے ” ولہ“ سے ماخوذ بتایا ہے اور اس کے معنی بھی یہی ہیں پس خالق کائنات کے لیے یہ لفظ اس لیے اہم قرار پایا کہ اس بارے میں انسان جو کچھ جانتا اور جان سکتا ہے وہ عقل کے تحیر اور ادراک کی درماندگی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ وہ جس قدر بھی اس ذات مطلق کی ہستی میں غور و خوض کرے گا اس کی عقل کی حیرانی اور درماندگی بڑھتی ہی جائے گی۔ یہاں تک کہ وہ معلوم کرلے گا کہ اس راہ کی ابتدا بھی عجز و حیرات سے ہوتی ہے اور نتہا بھی عجز و حیرت ہی ہے ! اے بروں از وہم و قال و قیل من :: خاک بر فرق من و تمثیل من اب غور کرو خدا کی ذات کے لیے انسان کی زبان سے نکلے ہوئے لفظوں میں اس سے زیادہ موزوں لفظ اور کون سا ہوسکتا ہے؟ اگر خدا کو اس کی صفتوں سے پکارنا ہے تو بلاشبہ اس کی صفتیں بے شمار ہیں لیکن اگر صفات سے الگ ہو کر اس کی ذات کی طرف اشارہ کرنا ہے تو وہ اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ ایک متحیر کردینے والی ذات ہے اور جو کچھ اس کی نسبت کہا جاسکتا ہے وہ عجز درماندگی کے اعتراف کے سوا کچھ نہیں ہے؟ فرض کرو نوع انسانی نے اس وقت تک خدا کی ہستی یا تخلیق کائنات کی اصلیت کے بارے میں جو کچھ سوچا اور سمجھا ہے وہ سب کچھ سامنے رکھ کر ہم ایک موزوں سے موزوں لفظ تجویز کرنا چاہیں تو وہ کیا ہوگا؟ اس سے موزوں اور اس سے بہتر کوئی لفظ تجویز کیا جاسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی اس راہ میں عرفان و بصیرت کی کوئی بڑی سے بڑی بات کہی گئی وہ یہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ خود رفتگیوں کا اعتراف کیا گیا اور ادراک کا منتہی مرتبہ ہمیشہ یہی قرار پایا کہ ادراک کی نارسائی کا ادراک حاصل ہوجائے۔ عرفاء کے دل و زبان کی صدا ہمیشہ یہی رہی کہ ” رب زدنی فیک تحیرا“ یعنی خدا یا ایسا کر کہ تیری ہستی میں ہمارا تحیر بڑھتا رہے“ کیونکہ تحیر جہالت کا نہیں بلکہ معرفت کا ہے۔ اور حکما کی حکمت و دانش کا فیصلہ بھی ہمیشہ یہی ہوا کہ ” معلومم شد کہ ہیچ معلوم نہ شد“۔ چونکہ یہ اسم خدا کے لیے بطور اسم ذات کے استعمال میں آیا اس لیے قدرتی طور پر ان تمام صفتوں پر حاوی ہوگیا جن کا خدا کی ذات کے لیے تصور کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم خدا کا تصور اس کی کسی صفت کے ساتھ کریں مثلا الرب یا الرحیم کہیں تو یہ تصور صرف ایک خاص صفت ہی میں محدود ہوگا۔ یعنی ہمارے ذہن میں ایک ایسی ہستی کا تصور پیدا ہوجائے گا جس میں ربوبیت یا رحمت ہے، لیکن جب ہم اللہ کا لفظ بولتے ہیں تو فوراً ہمارا ذہن ایک ایسی ہستی کی طرف منتقل ہوجاتا ہے جو ان تمام صفات حسن و کمال سے متصف ہے جو اس کی نسبت بیان کیے گئے ہیں اور جو اس میں ہونے چاہئیں۔ (3) رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ربوبیت حمد کے بعد بالترتیب چار صفتیں بیان کی گئی ہیں (رب العالمین، الرحمن، الرحیم، مالک یوم الدین) چونکہ الرحمن اور الرحیم کا تعلق ایک ہی صفت کے دو مختلف پہلوؤں سے ہے اس لیے دوسرے لفظوں میں انہیں یوں تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ ربوبیت، رحمت، عدات، تین صفتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ الہ کی طرح ” رب“ بھی سامی زبانوں کا ایک کثیر الاستعمال مادہ ہے۔ عبرانی سریانی اور عربی تینوں زبانوں میں اس کے معنی پالنے کے ہیں اور چونکہ پرورش کی ضرورت کا احساس انسانی زندگی کے بنیادی احساسات میں سے ہے اس لیے اسے بھی قدیم ترین سامی تعبیرات میں سے سمجھنا چاہیے۔ پھر چونکہ معلم، استاد اور آقا کسی نہ کسی اعتبار سے پرورش کرنے والے ہی ہوتے ہیں اس لیے اس کا اطلاق ان معنوں میں بھی ہونے لگا۔ چنانچہ عبرانی اور آرامی کا ” ربی“ اور ” رباہ“ پرورش کنندہ، معلم اور آقا تینوں معنی رکھتا تھا اور قدیم مصری اور خالدی زبان کا ایک لفظ ” رابو“ بھی انہی معنوں میں مستعمل ہوا ہے اور ان ملکوں کی قدیم ترین سامی وحدت کی خبر دیتا ہے۔ بہرحال عربی میں ” ربوبیت“ کے معنی پالنے کے لیے ہیں لیکن پالنے کو اس کے وسیع اور کامل معنوں میں لینا چاہیے۔ اسی لیے بعض ائمہ لغت نے اس کی تعریف ان لفظوں میں کی ہے۔ ” ھو انشاء الشیء حالا فحالا الی حد التمام“ (مفردات راغب اصفہانی)۔ کعنی کسی چیز کو یکے بعد دیگرے اس کی مختلف حالتوں اور ضرورتوں کے مطابق اس طرح نشو ونما دیتے رہنا حتی کہ اپنی حد کمال تک پہنچ جائے۔ اگر ایک شخص بھوکے کو کھانا کھلا دے یا محتاج کو روپیہ دیدے تو یہ اس کا کرم ہوگا، جود ہوگا، احسان ہوگا لیکن وہ بات نہ ہوگی جسے ربوبیت کہتے ہیں ربوبیت کے لیے ضروری ہے کہ پرورش اور نگہداشت کا ایک جاری اور مسلسل اہتمام ہو اور ایک وجود کو اس کی تکمیل وبلوغ کے لیے وقتاً فوقتا جیسی کچھ ضرورتیں پیش آتی رہیں ان سب کا سروسامان ہوتا رہے۔ نیز ضروری ہے کہ یہ سب کچھ محبت و شفقت کے ساتھ ہو کیونکہ جو عمل محبت و شفقت کے عافطہ سے خالی ہوگا ربوبیت نہیں ہوسکتا۔ ربوبیت کا ایک ناقص نمونہ ہم اس پرورش میں دیکھ سکتے ہیں جس کا جوش ماں کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو محض گوشت پوست کا ایک متحرک لوتھڑا ہوتا ہے اور زندگی اور نمو کی جتنی قوتیں بھی رکھتا ہے سب کی سب پرورش و تربیت کی محتاج ہوتی ہیں۔ یہ پرورش محبت و شفقت، حفاظ و نگہداشت اور بخشش و اعانت کا ایک طول طویل سلسلہ ہے اور اسے اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک بچہ اپنے جسم و صہن کے حد بلوغ تک نہ پہنچ جاے۔ پھر پرورش کی ضرورتیں ایک دو نہیں بے شمار ہیں۔ ان کی نوعیت ہمیشہ بدلتی رہتی ہے اور ضروری ہے کہ ہر عمر اور ہر حالت کے مطابق محبت کا جوش، نگرانی کی نگاہ اور زندگی کا سروامان ملتا ہے۔ حکمت الٰہی نے ماں کی محبت میں ربوبیت کے یہ تمام خدو خال پیدا کردیے ہیں۔ یہ ماں کی ربوبیت ہے جو پیدائش کے دن سے لے کر بلوغ تک، بچے کو پالتی، بچاتی، سنبھالتی، اور ہر حالت کے مطابق اس کی ضروریات پرورش کا سروسامان مہیا کرتی رہتی ہے۔ جب بچے کا معدہ دودھ کے سوا کسی غذا کا متحمل نہ تھا تو اسے دودھ ہی پلایا جاتا تھا۔ جب دودھ سے زیادہ قوی غذا کی ضرورت ہوئی تو ویسی ہی غذا دی جانے لگی۔ جب اس کے پاؤں میں کھڑے ہونے کی سکت نہ تھی تو ماں اسے گود میں اٹھائے پھرتی تھی۔ جب کھڑے ہونے کے قابل ہوا تو انگلی پکڑی اور ایک ایک قدم چلانے لگی۔ پس یہ بات کہ ہر حالت اور ہر ضرورت کے مطابق ضروریات مہیا ہوتی رہیں اور نگرانی و حفاظت کا ایک مسلسل اہتمام جاری رہا۔ یہ وہ صورت حال ہے جس سے ربوبیت کے مفہوم کا تصور کیا جاسکتا ہے۔ مجازی ربوبیت کی یہ ناقص اور محدود مثال سامنے لاؤ اور ربوبیت الٰہی کی غیر محدود حقیقت کا تصور کرو۔ اس کے رب العالمین ہونے کے معنی یہ ہوئے کہ جس طرح اس کی خالقیت نے کائنات ہستی اور اس کی ہر چیز پیدا کی ہے اسی طرح اس کی ربوبیت نے ہر مخلوق کی پرورش کا سروسامان بھی کردیا ہے اور یہ پرورش کا سروسامان ایک ایسے عجیب و غریب نظام کے ساتھ ہے کہ ہر وجود کو زندگی اور بقا کے لیے جو کچھ مطلوب تھا وہ سب کچھ مل رہا ہے اور اس طرح مل رہا ہے کہ ہر حالت کی رعایت ہے، ہر ضرورت کا لحاظ ہے، ہر تبدیلی کی نگرانی ہے اور ہر کمی بیشی ضبط میں آچکی ہے۔ چیونٹی اپنے بل میں رینگ رہی ہے، کیڑے مکوڑے کوڑے کرکٹ میں ملے ہوئے ہیں َ مچھلیاں دریا میں تیر رہی ہیں، پرندے ہوا میں اڑ رہے ہیں، پھول باغ میں کھل رہے ہیں، ہاتھی جنگل میں دوڑ رہا ہے اور ستارے فضا میں گردش کر رہے ہیں۔ لیکن فطرت کے پاس سب کے لیے یکساں طور پر پرورش کو گود اور نگرانی کی آنکھ ہے اور کوئی نہیں جو فیضان ربوبیت سے محروم ہو۔ اگر مثالوں کی جستجو میں تھوڑی سی کاوش جائز رکھی جائے تو مخلوقات کی بے شمار قسمیں ایسی ملیں گی جو اتنی حقیر اور بے مقدار ہیں کہ غیر مسلح آنکھ سے ہم انہیں دیکھ بھی نہیں سکتے۔ (Naked Eye) غیر مسلح آنکھ جو اپنی قدرتی نگاہ سے دیکھ رہی ہو، زیادہ قوت کے ساتھ دیکھنے کا کوئی آلہ مثلاً خوردین اس کے ساتھ نہ ہو)۔ تاہم ربوبیت الٰہی نے جس طرح اور جس نظام کے ساتھ ہاتھی جیسی جسیم اور انسان جیسی عقیل مخلوق کے لیے سامان پرورش مہیا کردیا ہے، ٹھیک ٹھیک اسی طرح اور ویسے ہی نظام کے ساتھ ان کے لیے بھی زنگی اور بقا کی ہر چیز مہیا کی ہے۔ اور پھر یہ جو کچھ بھی ہے انسان کے وجود سے باہر ہے اگر انسان اپنے وجود کو دیکھے تو خود اس کی زندگی اور زندگی کا ہر لمحہ ربوبیت الٰہی کی کرشمہ سازیوں کی ایک پوری کائنات ہے ! وفی الارض ایت للموقنین وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (21-20:51) ” ان لوگوں کے لیے جو (سچائی پر) یقین رکھنے والے ہیں زمین میں (خدا کی کارفرمائیوں کی) کتنی ہی نشانیاں ہیں اور خود تمہارے وجود میں بھی، پھر کیا تم دیکھتے نہیں !“ نظام ربوبیت لیکن سامان زندگی کی بخشائش میں اور ربوبیت کے عمل میں جو فرق ہے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اگر دنیا میں ایسے عناصر، عناصر کی ایسی ترکیب اور اشیا کی ایسی بناوٹ موجود ہے جو زندگی اور نشو ونما کے لیے سود مند ہے تو محض اس کی موجودگی ربوبیت سے تعبیر نہیں کی جاسکتی۔ ایسا ہونا قدرت الٰہی کی رحمت ہے، بخشش ہے، احسان ہے مگر وہ بات نہیں ہے جسے ربوبیت کہتے ہیں۔ ربوبیت یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں دنیا میں سود مند اشیا کی موجودگی کے ساتھ ان کی بخشش و تقسیم کا بھی ایک نظام موجود ہے اور فطرت صرف بخشتی ہی نہیں بلکہ جو کچھ بخشتی ہے ایک مقررہ انتظام اور ایک منضبط ترتیب و مناسبت کے ساتھ بخشتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں ہر وجود کو زندگی اور بقا کے لیے جس جس چیز کی ضرورت ھی اور جس جس وقت اور جیسی جیسی مقدار میں ضرورت تھی ٹھیک ٹھیک اسی طرح، انہی وقتوں میں اور اسی مقدار میں اسے مل رہی ہے اور اس نظم و انضباط سے تمام کارخانہ حیات چل رہا ہے۔ پانی کی بخشش و تقسیم کا نظام : زندگی کے لیے پانی اور رطوبت کی ضرورت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پانی کے وافر ذخیر ہر طرف موجود ہیں۔ لیکن اگر صرف اتنا ہی ہوتا، تو یہ زندگی کے لیے کافی نہ تھا۔ کیونکہ زندگی کے لیے صرف یہی ضروری نہیں ہے کہ پانی موجود ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ایک خاص انتظام، ایک خاص ترتیب، اور ایک خاص مقررہ مقدار کے اتھ موجود ہو۔ پس یہ جو دنیا میں پانی کے بننے اور تقسیم ہونے کا ایک خاص انتظام پایا جاتا ہے اور فطرت صرف پانی بناتی ہی نہیں بلکہ ایک خاص ترتیب و مناسبت کے ساتھ بناتی اور ایک خاص اندازہ کے ساتھ بانٹتی رہتی ہے تو یہی ربوبیت ہے اور اسی سے ربوبیت کے تمام اعمال کا تصور کرنا چاہیے۔ قرآن کہتا ہے یہ اللہ کی رحمت ہے جس نے پانی جیسا جوہر حیات پیدا کردیا لیکن یہ اس کی ربوبیت ہے جو پانی کو ایک ایک بوند کر کے ٹپکاتی، زمین کے ایک ایک گوشے تک پہنچاتی، ایک خاص مقدار اور حالت میں تقسیم کرتی، ایک خاص موسم اور محل میں برساتی، اور پھر زمین کے ایک ایک تشنہ ذرے کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر سیراب کردیتی ہے ! وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْکَنّٰہُ فِی الْاَرْضِ ڰ وَاِنَّا عَلٰی ذَہَابٍۢ بِہٖ لَقٰدِرُوْنَ فَاَنْشَاْنَا لَکُمْ بِہٖ جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ ۘلَکُمْ فِیْہَا فَوَاکِہُ کَثِیْرَۃٌ وَّمِنْہَا تَاْکُلُوْنَ (19-18:23) ” اور (دیکھو) ہم نے آسمان سے ایک خاص اندازے کے ساتھ پانی برسایا، پھر اسے زمین میں ٹھہرائے رکھا، اور ہم اس پر بھی قادر ہیں کہ (جس طرح برسایا تھا اسی طرح) اسے واپس لے جائیں، پھر (دیکھو) اسی پانی سے ہم نے کھجوروں انگوروں کے باغ پیدا کردیے جن میں بے شمار پھل لگتے ہیں اور انہی سے تم اپنی غذا بھی حاصل کرتے ہو“ تقدیر اشیا : یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جابجا اشیا کی قدر اور مقدار کا ذکر کیا ہے۔ یعنی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ فطرت کائنات جو کچھ بخشتی ہے ایک خاص اندازے کے ساتھ بخشتی ہے اور یہ اندازہ ایک خاص قانون کے ما تحت ٹھہرایا ہوا ہے۔ وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗیِٕنُہٗ ۡ وَمَا نُنَزِّلُہٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ (21:15) ” اور کوئی شے نہیں جس کے ہمارے پاس ذخیرے موجود نہ ہوں لیکن ہمارا طریقہ کار یہ ہے کہ جو کچھ نازل کرتے ہیں ایک مقررہ مقدار میں نازل کرتے ہیں“ وکل شیء عندہ بمقدار (8:13) ” اور اللہ کے نزدیک ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر ہے“ انا کل شیء خلقنہ بقدر (49:54) ” ہم نے جتنی چیزیں بھی پیدا کی ہیں ایک اندازے کے ساتھ پیدا کی ہیں“ یہ کیا بات ہے کہ دنیا میں صرف یہی نہیں ہے کہ پانی موجود ہے بلکہ ایک خاص نظم و ترتیب کے ساتھ موجود ہے؟ یہ کیوں ہے کہ پہلے سورج کی شعاعوں نے سمندر سے ڈول بھر بھر کر فضا میں پانی کی چادریں بچھا دیں پھر ہواؤں کے جھونکے انہیں حرکت میں لائیں اور اپنی کی بوندیں بنا کر ایک خاص وقت اور خاص محل میں برسا دیں؟ پھر یہ کیوں ہے کہ جب کبھی پانی برسے تو ایک خاص ترتیب اور مقدار ہی سے برسے اور اس طرح برسے کہ زمین کی بالائی سطح پر اس کی خاص مقدار بہنے لگے اور اندرونی حصوں تک ایک خاص مقدار میں نمی پہنچے؟ کیوں ایسا ہو کہ پہلے پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کے تودے جمتے ہیں پھر موسم کی تبدیلی سے پگھلنے لگتے ہیں پھر ان کے پگھلنے سے پانی کے سرچشمنے ابلنے لگتے ہیں پھر چشموں سے دریا کی جدولیں بہنے لگتی ہیں پھر یہ جدولیں پیچ و خم کھاتی ہوئی دور دور تک دوڑ جاتی ہیں اور سیکڑوں ہزاروں میلوں تک اپنی وادیاں شاداب کرد یتی ہیں؟ کیوں یہ سب کچھ ایسا ہی ہوا؟ کیوں کر ایسا نہ ہوا کہ پانی موجود ہوتا مگر اس انتظام اور ترتیب کے ساتھ نہ ہوتا؟ قرآن کہتا ہے : اس لیے کہ کائنات ہستی میں ربوبیت الٰہی کار فرما ہے اور ربوبیت کا مقتضا یہی تھا کہ پانی اسی ترتیب سے بنے اور اسی ترتیب و مقدار سے تقسیم ہو، یہ رحمت و حکمت تھی جس نے پانی پیدا کیا مگر یہ ربوبیت ہے جو اسے اس طرح کام میں لائی کہ پرورش اور رکھوالی کی تمام ضرورتیں پوری ہوگئیں۔ اَللّٰہُ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا فَیَبْسُطُہٗ فِی السَّمَاۗءِ کَیْفَ یَشَاۗءُ وَیَجْعَلُہٗ کِسَفًا فَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہٖ ۚ فَاِذَآ اَصَابَ بِہٖ مَنْ یَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖٓ اِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ (48:30) ” یہ اللہ ہی کی کار فرمائی ہے کہ پہلے ہوائیں چلتی ہیں پھر ہوائیں بادلوں کو چھیڑ کر حرکت میں لاتی ہیں پھر وہ جس طرح چاہتا ہے انہیں فضا میں پھیلا دیتا ہے اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ بادلوں میں سے مینہ نکل رہا ہے۔ پھر جن لوگوں کو بارش کی یہ برکت ملنی تھی مل چکتی ہے تو وہ اچانک خوش وقت ہوجاتے ہیں“ عناصر حیات : پھر اس حقیقت پر بھی غور کرو کہ زندگی کے لیے جن چیزوں کی سب سے زیادہ ضرورت تھی انہی کی بخشائش سب سے زیادہ اور عام ہے اور جن کی ضرورت خاص خاص حالتوں اور گوشوں کے لیے تھی انہی میں اختصاص اور مقامیت پائی جاتی ہے۔ ہوا سب سے زیادہ ضروری تھی کیونکہ پانی اور غذا کے بغیر کچھ عرصہ تک زندگی ممکن ہے مگر ہوا کے بغیر ممکن نہیں۔ پس اس کا سامان اتنا وافر اور عام ہے کہ کوئی جگہ کوئی گوشہ اور کوئی وقت نہیں جو اس سے خالی ہو۔ فضا میں ہوا کا بے حد و کنار سمندر پھیلا ہوا ہے۔ جب کبھی اور جہاں کہیں سانس لو زندگی کا یہ سب سے زیادہ ضروری جوہر تمہارے لیے خود بخود مہیا ہوجائے گا۔ ہوا کے بعد دوسرے درجے پر پانی ہے، وجعلنا من الماء کل شیء حی، اس لیے اس کی بخشائش کی فراوانی و عمومیت ہوا سے کم مگر ہر چیز سے زیادہ ہے۔ زمین کے نیچے آب شیریں کی سوتیں بہہ رہی ہیں۔ زمین کے اوپر بھی ہر طرف دریا رواں دواں ہیں پھر ان دونوں ذخیروں کے علاوہ فضائے آسمانی کا بھی کارخانہ ہے جو شب و روز سرگرم کار رہتا ہے۔ وہ سمندر کا شورابہ کھینچتا رہتا ہے اور اسے صاف و شریں بنا کر جمع کرتا رہتا ہے پھر حسب ضرورت زمین کے حوالے کردیتا ہے ! پانی کے بعد غذا کی ضرورت تھی لہذا ہوا اور اپنی سے کم مگر اور تمام چیزوں سے زیادہ اس کا دسترخوان کرم بھی خشکی و تری میں بچھا ہوا ہے، اور کوئ مخلوق نہیں جس کے گرد و پیش اس کی غذا کا ذخیرہ نہ ہو۔ نظام پرورش : پھر سامان پروش کے اس عالمگیر نظام پر غور کرو جو اپنے ہر گوشہ عمل میں پروردگی کی گود اور بخشش حیات کا سرچشمہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا یہ تمام کارخانہ صرف اسی لیے بنا ہے کہ زندگی بخشنے اور زندگی کی ہر استعداد کی رکھوالی کرے۔ روشن سورج اس لیے ہے کہ روشنی کے لیے چراغ کا اور گرمی کے لیے تنور کا کام دے اور اپنی کرنوں کے ڈول بھر بھر کر سمندر سے پانی کھینچتا رہے۔ ہوائیں اس لیے ہیں کہ اپنی سردی اور گرمی سے مطلوبہ اثرات پیدا کرتی رہیں۔ اور کبھی پانی ذرات جما کر ابر کی چادریں بنا دیں۔ کبھی ابر کو پانی بنا کر بارش برسا دیں۔ زمین اس لیے کہ نشوونما کے خزانوں سے ہمیشہ معمور رہے اور ہر دانے کے لیے اپنی گد میں زندگی اور ہر پودے کے لیے اپنے سینہ میں پروردگری رکھے۔ مختصر یہ کہ کارخانہ ہستی کا ہر گوشہ صرف اسی کام میں لگا ہوا ہے۔ ہر قوت استعداد ڈھونڈ رہی اور ہر تاثیر اثر پذیری کے انتظار میں ہے۔ جونہی کسی وجود میں بڑھنے اور نشوونما پانے کی استعداد پیدا ہوتی ہے معاً تمام کارخانہ ہستی اس کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔ سورج کی تمام کار فرمائیاں، فضا کے تمام تغیرات، زمین کی تمام قوتیں، عناصر کی تمام سرگرمیاں صرف اس اتنظار میں رہتی ہیں کہ کب چیونٹی کے انڈے سے ایک بچہ پیدا ہوتا ہے اور کب دہقان کی جھولی سے زمین پر ایک دانہ گرتا ہے۔ وَسَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ (13:45) ” اور آسمان و زمین میں جو کچھ بھی ہے سب کو اللہ نے تمہارے لیے مسخر کردیا ہے۔ بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں اس بات میں (معرفت حقیقت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں“ نظام ربوبیت کی وحدت : سب سے زیادہ عجیب مگر سب سے زیادہ نمایاں حقیقت نظام ربوبیت کی یکسانیت اور ہم آہنگی ہے۔ یعنی ہر وجود کی پرورش کا سروسامان جس طرح اور جس اسلوب پر کیا گیا ہے وہ ہر گرشے میں ایک ہی ہے اور ایک ہی اصل و قاعدہ رکھتا ہے۔ پتھر کا ایک ٹکڑا تمہیں گلاب کے شاداب اور عطر بیز پھول سے کتنا ہی مختلف دکھائی دے لیکن دونوں کی پرورش کے اصول و احوال پر نظر ڈالو گے تو صاف نظر آجائے گا کہ دونوں کو ایک ہی طریقے سے سامان پرورش ملا ہے اور دونوں ایک ہی طرح پالے پوسے جا رہے ہیں۔ انسان کا بچہ اور درخت کا پودا تمہاری نظروں میں کتنی بے جوڑ چیزیں ہیں؟ لیکن اگر ان کی نشوونما کے طریقوں کا کھوج لگاؤگے تو دیکھ لو گے کہ قانون پروش کی یکسانیت نے دونوں کو ایک ہی رشتے میں منسلک کردیا ہے۔ پتھر کی چٹان ہو یا پھول کی کلی، انسان کا بچہ ہو یا چیونٹی کا انڈا، سب کے لیے پیدائش ہے اور قبل اس کے کہ پیدائش ظہور میں آئے سامان پرورش مہیا ہوجاتا ہے۔ پھر طفولیت کا دور ہے اور اس دور کی ضروریات ہیں۔ انسان کا بچہ بھی اپنی طفولیت رکھتا ہے درخت کے مولود نباتی کے لیے بھی طفولیت ہے اور تمہاری چشم ظاہر بین کے لیے کتنا ہی عجیب کیوں نہ ہو لیکن پتھر کی چٹان اور مٹی کا تودہ بھی اپنی اپنی طفولیت رکھتا ہے۔ پھر طفولیت رشد و بلوغ کی طرف بڑھتی ہے اور جوں جوں بڑھتی جاتی ہے اس کی روز افزوں حالت کے مطابق یکے بعد دیگرے سامان پرورش میں بھی تبدیلیاں ہوتی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ ہر وجود اپنے سن کمال تک پہنچ جاتا ہے اور جب سن کمال تک پہنچ گیا تو از سر نو ضعف و انحطاط کا دور شروع ہوجاتا ہے پھر اس ضعف و انحطاط کا خاتمہ بھی سب کے لیے ایک ہی طرح ہے۔ کسی دائرے میں اسے مرجانا کہتے ہیں کسی میں مرجھا جانا اور کسی میں پامال ہوجانا۔ الفاظ متعدد ہوگئے مگر حقیقت میں تعدد نہیں ہوا۔ اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ ﮨـعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ﮨـعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّۃٍ ﮨـعْفًا وَّشَیْبَۃً ۭ یَخْلُقُ مَا یَشَاۗءُ ۚ وَہُوَ الْعَلِیْمُ الْقَدِیْرُ (54:30) ” یہ اللہ ہی کی کار فرمائی ہے کہ اس نے تمہیں اس طرح پیدا کیا کہ پہلے ناتوانی کی حالت ہوتی ہے پھر ناتوانی کے بعد قوت آتی ہے پھر قوت کے بعد دوبارہ ناتوانی اور بڑھاپا ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ کیونکہ وہ علم اور قدرت رکھنے والا ہے“ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَلَکَہٗ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ یُخْرِجُ بِہٖ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُہٗ ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَرٰیہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَجْعَلُہٗ حُطَامًا ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَابِ (21:39) ” کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر زمین میں اس کے چشمے رواں ہوگئے پھر اسی پانی سے رنگ برنگ کی کھیتیاں لہلہا اٹھیں پھر ان کی نشوونما میں ترقی ہوئی اور پوری طرح پک کر تیار ہوگئیں پھر (ترقی کے بعد زوال طاری ہوا اور) تم دیکھتے ہوں کہ ان پر زردی چھا گئی پھر بالآخر خشک ہو کر چورا چورا ہوگئی۔ بلاشبہ دانشمندوں کے لیے اس صورت حال میں بڑی ہی عبرت ہے“ جہاں تک غذا کا تعلق ہے حیوانات میں ایک قسم ان جانوروں کی ہے جن کے بچے دودھ سے پرورش پاتے ہیں اور ایک ان کی ہے جو عام غذاؤں سے پرورش پاتے ہیں۔ غور کرو نظام ربوبیت نے دونوں کی پرورش کے لیے کیسا عجیب سروسامان مہیا کردیا ہے؟ دودھ سے پرورش پانے والے حیوانات میں انسان بھی داخل ہے۔ سب سے پہلے انسان اپنی ہی ہستی کا مطالعہ کرے۔ جونہی وہ پیدا ہوتا ہے اس کی غذا اپنی ساری خاصیتوں، مناسبتوں، اور شرطوں کے ساتھ خود بخود مہیا ہوجاتی ہے اور ایسی جگہ مہیا ہوتی ہے جو حالت طفولیت میں اس کے لیے سب سے قریب تر اور سب سے موزوں جگہ ہے۔ ماں بچے کو جوش محبت میں سینے سے لگا لیتی ہے اور وہیں اس کی غذا کا سرچشمہ بھی موجود ہوتا ہے ! پھر دیکھو اس غذا کی نوعیت اور مزاج میں اس کی حالت کا درجہ بدرجہ کس قدر لحاظ رکھا گیا ہے اور کس طرح یکے بعد دیگرے اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے؟ ابتدا میں بچے کا معدہ اتنا کمزور ہوتا ہے کہ اسے بہت ہی ہلکے قوام کا دودھ ملنا چاہیے۔ چنانچہ نہ صرف انسان میں بلکہ تمام حیوانات میں ماں کا دودھ بہت ہی پتلے قوام کا ہوتا ہے لیکن جوں جوں بچے کی عمر بڑھتی جاتی ہے اور معدہ قوی ہوتا جاتا ہے دودھ کا قوام میں بھی بدلتا جاتا ہے اور مائعیت کے مقابلہ میں دہنیت بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بچے کا عہد رضاعت پورا ہوجاتا ہے اور اس کا معدہ عام غذاؤں کے ہضم کرنے کی استعداد پیدا کرلیتا ہے۔ جونہی اس کا وقت آتا ہے ماں کا دودھ خشک ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ گویا ربوبیت الٰہی کا اشارہ ہوتا ہے کہ اب اس کے لیے دودھ کی ضرورت نہیں رہی ہر طرح کی غذائیں استعمال کرسکتا ہے وحملہ و فصالہ ثلثوان شھرا (15:64) ” اور حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت (کم از کم) تیس مہینوں کی“ پھر ربوبیت الٰہی کی اس کارسازی پر غور کرو کہ کس طرح ماں کی فطرت میں بچے کی محبت ودیعت کردی گئی ہے اور کس طرح اس جذبے کو طبیعت بشری کے تمام جذبات میں سب سے زیادہ پر جوش اور سب سے زیادہ ناقابل تسخیر بنا دیا گیا ہے؟ دنیا کی کون سی قوت ہے جو اس جو چھ کا مقابلہ کرسکتی ہے جس کو ماں کی مامتا کہتے ہیں؟ جس بچے کی پیدائش اس کے لیے زندگی کی سب سے بڑی مصیبت تھی : حملتہ امہ کرھا ووضعتہ کرھا (15:46) ” اس کی ماں نے اسے تکلیف کے ساتھ پیٹ میں رکھا اور تکلیف کے ساتھ جنا“ اسی کی محبت اس کے اندر زندگی کا سب سے بڑا جذبہ مشتعل کردیتی ہے۔ جب تک بچہ سن بلوغ تک نہیں پہنچ جاتا وہ اپنے لیے نہیں بلکہ بچے کے لیے زندہ رہنا چاہتی ہے۔ زندگی کی کوئی خود فراموشی نہیں جو اس پر طاری نہ ہوتی ہو اور راحت و آسائش کی کوئی قربانی نہیں جس سے اسے گریز ہو۔ حب ذات جو فطرت انسانی کا سب سے زیادہ طاقتور جذبہ ہے اور جس کے انفعالات کے بغیر کوئی مخلوق زندہ نہیں رہ سکتی وہ بھی اس جذبہ خود فراموشی کے مقابلہ میں مضمحل ہو کر رہا جاتا ہے۔ یہ بات کہ ایک ماں نے بچے کے مجنونانہ عشق میں اپنی زندگی قربان کردی فطرت مادری کا اسا معمولی واقعہ ہے جو ہمیشہ پیش آتا رہتا ہے اور ہم اس میں کسی طرح کی غرابت محسوس نہیں کرتے۔ لیکن پھر دیکھو کارساز فطرت کی یہ کیسی کرشمہ سازی ہے کہ جوں جوں بچے کی عمر بڑھتی جاتی ہے محبت مادری کا یہ شعلہ خود بخود دھیما پڑتا جاتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے جب حیوانات میں تو بالکل ہی بجھ جاتا ہے اور انسان میں بھی اس کی گرم جوشیاں باقی نہیں رہتیں۔ یہ انقلاب کیوں ہوتا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ بچے کے پیدا ہوتے ہیں محبت کا ایک عظیم ترین جذبہ جنبش میں آجائے اور پھر ایک خاص وقت تک قائم رہ کر خود بخود غائب ہوجائے؟ اس لیے کہ یہ نظام ربوبیت کی کار فرمائی ہے۔ اور اس کا مقتضا یہی تھا۔ ربوبیت چاہتی ہے کہ بچے کی پرورش ہو۔ اس نے پرورش کا ذریعہ ماں کے جذبہ محبت میں رکھ دیا تھا۔ جب بچے کی عمر اس حد تک پہنچ گئی کہ ماں کی پرورش کی احتیاج باقی نہ رہی تو اس ذریعے کی بھی ضرورت باقی نہ رہی اب اس کا باقی رہنا ماں کے لیے بوجھ اور بچے کے لیے رکاوٹ ہوتا۔ بچے کی احتیاج کا سب سے نازک وقت اس کی نئی نئی طفولیت تھی اس لیے ماں کی محبت میں بھی سب سے زیادہ جوش اسی وقت تھا پھر جوں جوں بچہ بڑھتا گیا احتیاج کم ہوتی گئی۔ اسلیے محبت کی گرم جوشیاں بھی گھٹتی گئیں۔ فطرت نے محبت مادری کا دامن بچے کی احتیاج پرورش سے باندھ دیا تھا۔ جب احتیاج زیادہ تھی تو محبت کی سرگرمی بھی زیادہ تھی۔ جب احتیاج کم ہوگئی تو محبت بھی تغافل کرنے لگی۔ (انسان میں ماں کی محبت بلوغ کے بعد بھی بدستور باقی رہتی ہے اور بعض حالتوں میں اس کے انفعالات اتنے شدید ہوتے ہیں کہ عہد طفولیت کی محبت میں اور بعد کی محبت میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا، لیکن یہ صورت حال غالباً انسان کی مدنی و عقلی زندگی کے نشوونما کا نتیجہ ہے نہ کہ فطرت حیوانی کا۔ ابتدائی انسان میں بھی یہ علاقہ فطرۃً اسی حد تک ہوگا کہ بچہ سن تمیز تک پہنچ جائے۔ لیکن بعد کونسل و خاندان کی تشکیل اور اجتماعی احساسات کی ترقی سے مادری رشتہ میں ایک دائمی رشتہ بن گیا) جن حیوانات کے بچے انڈوں سے پیدا ہوتے ہیں ان کی جسمانی ساخت اور طبیعت دودھ والے حیوانات سے مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اول دن ہی سے معمولی غذائیں کھا سکتے ہیں بشرطیکہ کھلانے کے لیے کوئی شفیق نگرانی موجود ہو۔ چنانچہ تم دیکھتے ہو کہ بچہ انڈے سے نکلتے ہی غذا ڈھونڈنے لگتا ہے اور ماں چن چن کر اس کے سامنے ڈالتی اور منہ میں لے لے کر کھانے کی تلقین کرتی ہے یا ایسا کرتی ہے کہ خود کھا لیتی ہے مگر ہضم نہیں کرتی اپنے اندر نرم اور ہلکا بنا کر محفوظ رکھتی ہے اور جب بچہ غذا کے لیے منہ کھولتا ہے تو اس کے اندر اتار دیتی ہے۔ ربوبیت معنوی پھر اس سے بھی عجیب تر نظام ربوبیت کا معنوی پہلو ہے۔ خارج میں زندگی اور پرورش کا کتنا ہی سر و سامان کیا جاتا لیکن وہ کچھ مفید نہیں ہوسکتا تھا اگر ہر وجود کے اندر اس سے کام لینے کی ٹھیک ٹھیک استعداد نہ ہوتی اور اس کے ظاہری و باطنی قوی اس کا ساتھ نہ دیتے۔ پس یہ ربوبیت ہی کا فیضان ہے کہ ہم دیکھتے ہیں ہر مخلوق کی ظاہری و باطنی بناوٹ اس طرح کی واقع ہوئی ہے کہ اس کی ہر قوت، اس کے سامان پرورش کی نوعیت کے مطابق ہوتی ہے، اور اس کی ہر چیز نے اسے زندہ رہنے اور نشوونما پانے میں مدد دیتی ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی مخلوق اپنے جسم و قوی کی ایسی نوعیت رکھتی ہو جو اس کے حالات پرورش کے مقتضیات کے خلاف ہو۔ اس سلسلے میں جو حقائق مشاہدہ و تفکر سے نمایاں ہوتے ہیں ان میں دو باتیں سب سے زیادہ نمایاں ہیں اس لیے جابجا قرآن حکیم نے ان پر توجہ دلائی ہے۔ ایک کو وہ تقدیر سے تعبیر کرتا ہے دوسری کو ہدایت سے۔ تقدیر : تقدیر کے معنی اندازہ کردینے کے ہیں۔ یعنی کسی چیز کے لیے ایک خاص طرح کی حالت ٹھہرا دینے کے۔ خواہ یہ ٹھہراؤ کمیت میں ہو یا کیفیت میں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ فطرت نے ہر وجود کی جسمانی ساخت اور معنوی قوی کے لیے ایک خاص طرح کا اندازہ ٹھہرا دیا ہے جس سے وہ باہر نہیں جاسکتا اور یہ اندازہ ایسا ہے جو اس کی زندگی اور نشوونما کے تمام احوال ظروف سے ٹھیک ٹھیک مناسبت رکھتا ہے : وخلق کل شیء فقدرہ تقدیرا (2:25) ” اور اس نے تمام چیزیں پیدا کیں، پھر ہر چیز کے لیے (اس کی حالت اور ضرورت کے مطابق) ایک خاص اندازہ ٹھہرا دیا“۔ یہ کیا چیز ہے کہ ہر گرد و پیش میں اور اس کی پیداوار میں ہمیشہ مطابقت پائی جاتی ہے اور یہ ایک ایسا قانون خلقت ہے جو کبھی متغیر نہیں ہوسکتا؟ یہ کیوں ہے کہ ہر مخلوق اپنی ظاہری و باطنی بناوٹ میں ویسی ہی ہوتی ہے جیسا اس کا گرد و پیش ہے اور ہر گرد و پیش ویسا ہی ہوتا ہے جیسی اس کی مخلوق ہوتی ہے؟ یہ اس حکیم وقدیر کی ٹھہرائی ہوئی تقدیر ہے اور اس نے ہر چیز کی خلقت و زندگی کے لیے ایسا ہی اندازہ مقرر کردیا ہے۔ اس کا یہ قانون تقدیر صرف حیوانات و نباتا ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ کائنات ہستی کی ہر چیز کے لیے ہے۔ ستاروں کا یہ پورا نظام گردش بھی اسی تقدیر کی حد بندوں پر قائم ہے۔ (والشمس تجری لمستقر لھا ذلک تقدیر العزیز العلیم) (38:36) ” اور (دیکھو) سورج کے لیے جو قرار گاہ ٹھہرا دی گئی ہے وہ اسی پر چلتا ہے۔ اور یہ عزیز و علیم خدا کی اس کے لیے تقدیر ہے“ مخلوقات اور اس کے گرد و پیش کی مطابقت کا یہی قانون ہے جس نے دونوں میں باہم دگر مناسبت پیدا کردی ہے اور ہر مخلوق اپنے چاروں طرف وہی پاتی ہے جس میں اس کے لیے پرورش اور نشوونما کا سامان ہوتا ہے پرند کا جسم اڑنے والا ہے، مچھلی کا تیرنے والا، چارپایوں کا چلنے والا اور حشرات کا رینگنے والا، اس لیے کہ ان میں سے ہر نوع کا گرد و پیش ویسے ہی جسم کے لیے موزوں ہے جیسا اسے ملا ہے اور اس لیے کہ ان میں سے ہر نوع کی جسمانی ساخت ویسا ہی گرد و پیش چاہتی ہے جیسا گرد و پیش اسے حاصل ہے۔ دریا میں پرند پیدا نہیں ہوتا اس لیے کہ وہ گرد و پیش اس کے لیے مفید پرورش نہیں۔ خشکی میں مچھلیاں پیدا نہیں ہوسکتیں کیونکہ خشکی ان کے لیے موزوں نہیں۔ اگر فطرت کی اس تقدیر کے خلاف ایک خاص گرد و پیش کی مخلوق دوسرے قسم کے گرد و پیش میں چلی جاتی ہے تو یا تو وہاں زندہ نہیں رہتی یا رہتی ہے تو پھر بتدریج اس کی جسمانی ساخت اور طبعیت بھی ویسی ہی ہوجاتی ہے، جیسی اس گرد و پیش میں ہونی چاہئے۔ پھر ان میں سے ہر نوع کے لیے مقامی مؤثرات کے مختلف گرد و پیش کا یہی حال ہے۔ سرد آب و ہوا کی پیداوار سرد آب و ہوا ہی کے لیے ہے۔ گرم کی گرم کے لیے۔ قطب شمالی کے قرب و جوار کا ریچھ خط استوا کے قرب میں نظر نہیں آسکتا اور منطقہ حارہ کے جانور منطقہ باردہ میں معدوم ہیں۔ ہدایت : ہدایت کے معنی راہ دکھانے، راہ پر لگادینے اور رہنمائی کرنے کے ہیں اور اس کے مختلف مراتب اور اقسام ہیں۔ تفصیل آگے آئے گی۔ یہاں صرف اس مرتبہ ہدایت کا ذکر کرنا ہے جو تمام مخلوقات پر ان کی پرورش کی راہیں کھولتا، انہیں زندگی کی راہ پر لگاتا اور ضروریات زندگی کی طلب و حصول میں رہنمائی کرتا ہے۔ فطرت کی یہ ہدایت ربوبیت کی ہدایت ہے اور اگر ہدایت ربوبیت کی دستگیری نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ کوئی مخلوق بھی دنیا کے سامان حیات و پرورش سے فائدہ اٹھا سکتی اور زندگی کی سرگرمیاں ظہور میں آسکتیں۔ لیکن ربوبیت الٰہی کی یہ ہدایت کیا ہے؟ قرآن کہتا ہے یہ وجدان کا فطری الہام اور حواس و ادراک کی قدرتی استعداد ہے۔ وہ کہتا ہے یہ فطرت کی وہ رہنمائی ہے جو ہر مخلوق کے اندر پہلے وجدان کا الہام بن کر نمودار ہوتی ہے پھر حواس و ادراک کا چراغ روشن کردیتی ہے۔ یہ ہدایت کے مختلف مراتب میں سے وجدان اور ادراک کی ہدایت کے مراتب ہیں۔ ہدایت و وجدان : وجدان کی ہدایت یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں ہر مخلوق کی طبیعت میں کوئی ایسا اندرونی الہام موجود ہے جو اسے زندگی اور پرورش کی راہوں پر خود بخود لگا دیتا ہے اور وہ باہر کی رہنمائی و تعلیم کی محتاج نہیں ہوتی۔ انسان کا بچہ ہو یا حیوان کا، جونہی شکم مادر سے باہر آتا ہے خود بخود معلوم کرلیتا ہے کہ اس کی غذا ماں کے سینے میں ہے اور جب پستان منہ میں لیتا ہے تو جانتا ہے کہ اسے زور زور سے چوسنا چاہیے۔ بلی کے بچوں کو ہم ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ ابھی ابھی پیدا ہوئے ہیں، ان کی آنکھیں بھی نہیں کھلی ہیں، لیکن ماں جوش محبت میں انہیں چاٹ رہی ہے، وہ اس کے سینے پر منہ مار رہے ہیں۔ یہ بچہ جس نے عالم ہستی میں ابھی ابھی قدم رکھا ہے جسے خارج کے موثرات نے چھوا تک نہیں کس طرح معلوم کرلیتا ہے کہ اسے پستان منہ میں لے لینا چاہیے اور اس کی غذا کا سرچشمہ یہیں ہے؟ وہ کون سا فرشتہ ہے جو اس وقت اس کے کان میں پھونک دیتا ہے کہ اسطرح اپنی غذا حاصل کرلے؟ یقیناً وہ وجدانی ہدایت کا فرشتہ ہے اور یہی وجدانی ہدایت ہے جو قبل اس کے کہ حواس و ادراک کی روشنی نمودار ہو ہر مخلوق کو اس کی پرورش و زندگی کی راہوں پر لگا دیتی ہے۔ تمہارے گھر میں پلی ہوئی بلی ضرور ہوگی۔ تم نے دیکھا ہوگا کہ بلی اپنی عمر میں پہلی مرتبہ حاملہ ہوئی ہے اس حالت کا اسے کوئی پچھلا تجربہ حاصل نہیں۔ تاہم اس کے اندر کوئی چیز ہے جو اسے بتا دیتی ہے کہ تیاری و حفاظت کی سرگرمیاں شروع کردینی چاہییں۔ جونہی وضع حمل کا وقت قریب آتا ہے، خود بخود اس کی توجہ ہر چیز کی طرف سے ہٹ جاتی ہے اور کسی محفوظ گوشے کی جستجو شروع کردیتی ہے۔ تم نے دیکھا ہوگا کہ مضطرب الحال بلی مکان کا ایک ایک کونا دیکھتی پھرتی ہے۔ پھر وہ خود بخود ایک سب سے محفوظ اور علیحدہ گوشہ چھانٹ لیتی ہے اور وہاں بچہ دیتی ہے۔ پھر یکایک اس کے اندر بچے کی حفاظت کی طرف سے ایک مجہول خطرہ پیدا ہوجاتا ہے اور وہ یکے بعد دیگرے اپنی جگہ کی اسے ضرورت ہوگی؟ یہ کون سا الہام ہے جو اسے خبردار کردیتا ہے کہ بلا بچوں کا دشمن اور ان کی بو سونگھتا پھرتا ہے اس لیے جگہ بدلتے رہنا چاہیئے؟ بلاشبہ یہ ربوبیت الٰہی کی وجدانی ہدایت ہے۔ جس کا الہام ہر مخلوق کے اندر اپنی نمود رکھتا ہے اور جو ان پر زندگی اور پرورش کی تمام راہیں کھول دیتا ہے۔ ہدایت حواس : ہدایت کا دوسرا مرتبہ حواس اور مدرکات ذہنی کی ہدایت ہے اور وہ اس درجہ واضح و معلوم ہے کہ تشریح کی ضرورت نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ حیوانات اس جوہر دماغ سے محروم ہیں جسے فکر و عقل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تاہم فطرت نے انہیں احساس و ادراک کی وہ تمام قوتیں دے دی ہیں جن کی زندگی و معیشت کے لیے ضرورت تھی اور ان کی مدد سے وہ اپنے رہنے سہنے، کھانے پینے، توالد و تناسل اور حفاظت و نگرانی کے تمام وظائف حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیتے رہتے ہیں۔ پھر حواس و ادراک کی یہ ہدایت ہر حیوان کے لیے ایک ہی طرح کی نہیں ہے بلکہ ہر وجود کو اتنی ہی اور ویسی ہی استعداد دی گئی ہے جتنی اور جیسی استعداد اس کے احوال و ظروف کے لیے ضروری تھی۔ چیونٹی کی قوت شامہ نہایت دور رس ہوتی ہے اس لیے کہ اسی قوت کے ذریعے وہ اپنی غذا حاصل کرسکتی ہے۔ چیل اور عقاب کی نگاہ تیز ہوتی ہے کیونکہ اگر ان کی نگاہ تیز نہ ہو تو بلند میں اڑتے ہوئے اپنا شکار دیکھ نہ سکیں۔ یہ سوال بالکل غیر ضروری ہے کہ حیوانات کے حواس و ادراک کی یہ حالت اول دن سے تھی یا احوال و ظروف کی ضروریات اور قانون مطابقت کے مؤثرات سے بتدریج ظہور میں آئی۔ اس لیے کہ خواہ کوئی صورت ہو بہرحال فطرت کی بخشی ہوئی استعداد ہے اور نشو وارتقا کا قانون بھی فطرت ہی کا ٹھہرایا ہوا قانون ہے۔ چنانچہ یہی مرتبہ ہدایت ہے جس کو قرآن نے ربوبیت الٰہی کی وحی سے تعبیر کیا ہے۔ عربی میں وحی کے معنی مخفی ایما اور اشارے کے ہیں۔ یہ گویا فطرت کی وہ اندرونی سرگوشی ہے جو مخلوق پر اس کی راہ عمل کھول دیتی ہے۔ (واوحی ربک الی النحل ان اتخذی من الجبال بیوتا ومن الشجر ومما یعرشون) (68:16) ” اور (دیکھو) تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ان ٹٹیوں میں جو اس غرض سے بلند کی جاتی ہیں اپنے لیے چھتے بنائے“ اور یہی وہ ربوبیت الٰہی کی ہدایت ہے جس کی طرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبانی اشارہ کیا گیا ہے۔ فرعون نے جب پوچھا (من ربکما یموسی) تمہارا پروردگار کون ہے؟ تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا (ربنا الذی اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی) (50:20) ” ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی بناوٹ دی، پھر اس پر (زندگی و معیشت کی) راہ کھول دی“۔ اور پھر یہی وہ ہدایت ہے جسے دوسری جگہ ” راہ عمل آسان کردینے“ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ (من ای شیء خلقہ، من نطفۃ، خلقہ فقدرہ، ثم السبیل یسرہ) (20-18:80) ” اس نے انسان کو کس چیز سے پیدا کیا؟ نطفہ سے پیدا کیا۔ پھر اس (کی تمام ظاہری وباطنی قوتوں) کے لیے ایک اندازہ ٹھہرا دیا، پھر اس پر (زندگی و عمل کی) راہ آسان کردی۔ یہی (ثم السبیل یسرہ) یعنی راہ عمل آسان کردینا، وجدان و ادراک کی ہدایت ہے جو تقدیر کے بعد ہے۔ کیونکہ اگر فطرت کی رہنمائی نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ ہم اپنی ضروریات زندگی حاصل کرسکتے۔ آگے چل کر تمہیں معلوم ہوگا کہ قرآن نے تکوین وجود کے جو چار مرتبے بیان کیے ہیں ان میں سے تیسرا اور چوتھا مرتبہ یہی تقدیر اور ہدایت کا مرتبہ ہے۔ یعنی تخلیق، تسویہ، تقدیر، ہدایت۔ (الذی خلق فسوی، والذی قدر فہدی) (3-2:87) ” وہ پروردگار عالم جس نے پیدا کیا پھر اسے ٹھیک ٹھیک درست کردیا اور جس نے ہر وجود کے لیے ایک اندازہ ٹھہرا دیا پھر اس پر راہ (عمل) کھول دی“ براہین قرآنیہ کا مبدء استدلال چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے خدا کی ہستی اور اس کی توحید و صفات پر جا بجا نظام ربوبیت سے استدلال کیا ہے اور یہ استدلال اس کے مہمات دلائل میں سے ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ اس کی تشریح کی جائے مناسب ہوگا کہ قرآن کے طریق استدلال کی بعض مبادیات واضح کردی جائیں۔ کیونکہ مختلف اسباب سے جن کی تشریح کا یہ موقع نہیں مطالب قرآنی کا یہ گوشہ سب سے زیادہ مہجور ہوگیا ہے اور ضرورت ہے کہ از سر نو حقیقت گم گشتہ کا سراغ لگایا جائے۔ دعوت تعقل : قرآن کے طریق استدلال کا اولین مبدء تعقل و تفکر کی دعوت ہے۔ یعنی وہ جابجا اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان کے لیے حقیقت شناسی کی راہ یہی ہے کہ خدا کی دی ہوئی عقل و بصیرت سے کام لے اور اپنے وجود کے اندر اور اپنے وجود کے باہر جو کچھ بھی محسوس کرسکتا ہے اس میں تدبر و تفکر کرے۔ چنانچہ قرآن کی کوئی سورت اور سورت کا کوئی حصہ نہیں جو تفکر و تعقل کی دعوت سے خالی ہو۔ وفی الارض آیات للموقنین، وفی انفسکم افلا تبصرون (51: 20-21) ” اور یقین رکھنے والوں کے لیے زمین میں (معرفت حق کی) نشانیاں ہیں اور خود تمہارے وجود میں بھی پھر کیا تم دیکھتے نہیں؟ وہ کہتا ہے انسان کو عقل و بصیرت دی گئی ہے اس لیے وہ اس قوت کے ٹھیک ٹھیک استعمال کرنے نہ کرنے کے لیے جواب دہ ہے۔ ’ ان السمع والبصر و الفؤاس کل اولئک کان عنہ مسئولا : یقیناً (انسان کا) سننا، دیکھنا، سوچنا، سب اپنی اپنی جگہ جواب دہی رکھتے ہیں“ (17:36) وہ کہتا ہے زمین کی ہر چیز میں، آسمان کے ہر منظر میں اور زندگی کے ہر تغیر میں فکر انسانی کے لیے معرفت حقیقت کی نشانیاں ہیں بشرطیکہ وہ غفلت و اعراض میں مبتلا نہ ہوجائے ” وکاین من ایۃ فی السموات والارض یمرون علیہا وھم عنہا معرضون : اور آسمان و زمین میں (معرفت حق کی) کتنی ہی نشانیاں ہیں لیکن (افسوس انسان کی غفلت پر !) لوگ ان پر سے گزر جاتے ہیں اور نظر اٹھا کر دیکھتے تک نہیں“ (105:12) تخلیق بالحق : اچھا ! اگر انسان عقل و بصیرت سے کام لے اور کائنات خلقت میں تفکر کرے تو اس پر حقیقت شناسی کا کون سا دروزہ کھلے گا؟ وہ کہتا ہے، سب سے پہلی حقیقت جو اس کے سامنے نمودار ہوگی وہ تخلیق بالحق کا عالمگیر اور بنیادی قانون ہے۔ یعنی وہ دیکھے گا کہ کائنات خلقت اور اس کی ہر چیز کی بناوٹ کچھ اس طرح کی واقع ہوئی ہے کہ ہر چیز ضبط وترتیب کے ساتھ ایک خاص نظام و قانون میں منسلک ہے اور کوئی شے نہیں جو حکمت و مصلحت سے خالی ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ سب کچھ تخلیق بالباطل ہو۔ یعنی بغیر کسی معین اور ٹھہرائے ہوئے مقصد و نظم کے وجود میں آگیا ہو۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس نظم، اس یکسانیت، اس وقت کے ساتھ اس کی ہر بات کسی نہ کسی حکمت ومصلحت کے ساتھ بندھی ہوئی ہوتی ” خلق اللہ السموات والارض بالحق ان فی ذلک لایۃ للمومنین : اللہ نے آسمانوں کو اور زمین کو حکمت اور مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور بلاشبہ اس بات میں ارباب ایمان کے لیے (معرفت حق کی) ایک بڑی ہی نشانی ہے“ (44:29) آل عمران کی مشہور آیت میں ان ارباب دانش کی جو آسمان و زمین کی خلقت میں تفکر کرتے ہیں صدائے حال یہ بتائی ہے ” ربنا ماخلقت ھذا باطلا : اے ہمارے پروردگار ! یہ سب کچھ تو نے اس لیے نہیں پیدا کیا ہے کہ محض ایک بیکار و عبث سا کام ہو“ (191:3) دوسری جگہ ” تخلیق بالباطل“ کو تلعب سے تعبیر کیا ہے۔ ” تلعب“ یعنی کوئی کام کھیل کود کی طرح بغیر کسی معقول غرض و مدعا کے کرنا۔ ” وما خلقنا السموات والارض وما بینھما لعبین۔ ماخلقناھما الا بالحق ولکن اکثرہم لا یعلمون : اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے محض کھیل اور تماشہ کرتے ہوئے نہیں پیدا کیا ہے۔ ہم نے انہیں نہیں پیدا کیا مگر حکمت و مصلحت کے ساتھ۔ مگر اکثر انسان ایسے ہیں جو حقیقت کا علم نہیں رکھتے“ (44: 38-39) پھرجا بجا اس ” تخلیق بالحق“ کی تشریح کی ہے۔ مثلا ایک مقام پر ” تخلیق بالحق“ کے اس پہلو پر توجہ دلائی ہے کہ کائنات کی ہر چیز افادہ فیضان کے لیے ہے اور فطرت چاہتی ہے کہ جو کچھ بنائے اس طرح بنائے کہ اس میں وجود اور زندگی کے لیے نفع اور راحت ہو ” خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَـقِّ ۚ یُکَوِّرُ الَّیْلَ عَلَی النَّہَارِ وَیُکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی الَّیْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ۭ اَلَا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ : اس نے آسمانوں اور زمین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے اس نے رات اور دن کے اختلاف اور ظہور کا ایسا انتظام کردیا کہ رات دن پر لپٹی جاتی ہے اور دن رات پر لپٹا آتا ہے۔ اور سورج اور چاند دونوں کو اس کی قدرت نے مسخر کررکھا ہے۔ سب (اپنی اپنی جگہ) اپنے مقررہ وقت تک کے لیے گردش کر رہے ہیں“ (5:39) ایک دوسرے موقع پر خصوصیت کے ساتھ اجرام سماویہ کے افادہ و فیضان پر توجہ دلائی ہے اور اسے ” تخلیق بالحق“ سے تعبیر کیا ہے ” ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِیْنَ وَالْحِسَابَ ۭ مَا خَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّا بِالْحَقِّ ۚ یُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ : وہ (کار فرمائے قدرت) جس نے سورج کر درخشندہ اور چاند کو روشن بنایا اور پھر چاند کی گردش کے لیے منزلیں ٹھہرا دیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور اوقات کا حساب معلوم کرلو۔ بلاشبہ اللہ نے یہ سب کچھ پیدا نہیں کیا ہے مگر حکمت و مصلحت کے ساتھ۔ وہ ان لوگوں کے لیے جو جاننے والے ہیں (علم و معرفت کی) نشانیاں الگ الگ کر کے واضح کردیتا ہے“ (5:10) ایک اور موقع پر فطرت کے جمال وزیبائی کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسے ” تخلیق بالحق“ سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی فطرت کائنات میں تحسین و آرائش کا قانون کام کر رہا ہے جو چاہتا ہے، جو کچھ بنے، ایسا بنے کہ اس میں حسن و جمال اور خوبی و کمال ہو ” خلق السموت والارض بالحق وصورکم فاحسن صورکم : اس نے آسمانوں کو اور زمین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا اور تمہاری صورتیں بنائی تو نہایت حسن و خوبی کے ساتھ بنائیں“ (3:64) اسی طرح وہ قانون مجازات پر (یعنی جزا و سزا کے قانون پر) بھی اسی ” تخلیق بالحق“ سے استشہاد کرتا ہے۔ تم دیکھتے ہو کہ دنیا میں ہر چیز کوئی نہ کوئی خاصہ اور نتیجہ رکھتی ہے اور یہ تمام خواص اور نتائج لازمی اور اٹل ہیں۔ پھر کیونکر ممکن ہے کہ انسان کے اعمال میں بھی اچھے اور برے خواص اور نتائج نہ ہوں اور وہ قطعی اور اٹل نہ ہوں؟ جو قانون فطرت دنیا کی ہر چیز میں اچھے برے کا امتیاز رکھتا ہے کیا انسان کے اعمال میں اس امتیاز سے غافل ہوجائے گا؟ ” اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ سَوَاۗءً مَّحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ ۭ سَاۗءَ مَا یَحْکُمُوْنَ وَخَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا کَسَبَتْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ : جو لوگ برائیاں کرتے ہیں، کیا وہ سمجھتے ہیں ہم انہیں ان لوگوں جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور جن کے اعمال اچھے ہیں؟ یعنی دونوں برابر ہوجائیں، زندگی میں بھی اور موت میں بھی؟ (اگر ان لوگوں کے فہم و دانش کا فیصلہ یہی ہے تو) کیا ہی برا ان کا فیصلہ ہے ! اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے آسمانوں کو اور زمین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس لیے پیدا کیا ہے کہ ہر جان اپنی کمائی کے مطابق بدلہ پا لے اور ایسا نہیں ہوگا کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہو“ معاد یعنی مرنے کے بعد کی زندگی پر بھی اس سے جا بجا استشہاد کیا ہے۔ کائنات میں ہر چیز کوئی نہ کوئی مقصد اور منتہی رکھتی ہے۔ پس ضروری ہے کہ انسانی وجود کے لیے بھی کوئی نہ کوئی مقصد اور منتہی ہو۔ یہی منتہیٰ آخرت کی زندگی ہے۔ کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کائنات ارضی کی یہ بہترین مخلوق صرف اسی لیے پیدا کی گئی ہو کہ پیدا ہو اور چند دن جی کر فنا ہوجائے ” اَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ ۣ مَا خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّی ۭ وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاۗیِٔ رَبِّہِمْ لَکٰفِرُوْنَ : کیا ان لوگوں نے کبھی اپنے دل میں اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے محض بیکار و عبث نہیں بنایا ہے۔ ضروری ہے کہ حکمت و مصلحت کے ساتھ بنایا ہو۔ اور اس کے لیے ایک مقررہ و وقت ٹھہرا دیا ہو۔ اصل یہ ہے کہ انسانوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے پروردگار کی ملاقات سے یک قلم منکر ہیں“ (8:30) مبدء استدلال : غرض کہ قرآن کا مبدء استدلال یہ ہے کہ : (١) اس کے نزول کے وقت دین داری اور خدا پرستی کے جس قدر عام تصورات موجود تھے وہ نہ صرف عقل کی آمیزش سے خالی تھے بلکہ ان کی تمام تر بنیاد غیر عقلی عقائد پر آ کر ٹھہر گئی تھی۔ لیکن اس نے خدا پرستی کے لیے عقلی تصور پیدا کیا۔ (٢) اس کی دعوت کی تمام تر بنیاد تعقل و تفکر پر ہے، اور وہ خصوصیت کے ساتھ کائنات و خلقت کے مطالعہ و تفکر کی دعوت دیتا ہے۔ (٣) وہ کہتا ہے کہ کائنات خلقت کے مطالعہ و تفکر سے انسان پر ” تخلیق بالح“ کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ یعنی وہ دیکھتا ہے کہ اس کارخانہ ہستی کی کوئی چیز نہیں جو کسی ٹھہرائے ہوئے مقصد اور مصلحت سے خالی ہو اور کسی بالا تر قانون خلقت کے ماتحت ظہور میں نہ آئی ہو۔ یہاں جو چیز بھی اپنا وجود رکھتی ہے ایک خاص نظم و ترتیب کے ساتھ حکمتوں اور مصلحتوں کے عالمگیر سلسلہ میں بندھی ہوئی ہے (٤) وہ کہتا ہے کہ جب انسان مقاصد و مصالح پر غور کرے گا تو عرفان حقیقت کی راہ خود بخود اس پر کھل جائے گی اور جہل و کوری کی گمراہیوں سے نجات پا جائے گا۔ برہان ربوبیت چنانچہ اس سلسلے میں اس نے مظاہر کائنات کے جن مقاصد و مصالح سے استدلال کیا ہے ان میں سب سے زیادہ عام استدلال ربوبیت کا استدلال ہے اور اسی لیے ہم اسے برہان ربوبیت سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کائنات کے تمام اعمال و مظاہر کا اس طرح واقع ہونا کہ ہر چیز پرورش کرنے والی اور ہر تاثیر زندگی بخشنے والی ہے اور پھر ایک ایسے نظام ربوبیت کا موجود ہونا جو ہر حالت کی رعایت کرتا اور ہر طرح کی مناسبت ملحوظ رکھتا ہے۔ ہر انسان کو وجدانی طور پر یقین دلا دیتا ہے کہ ایک پروردگار عالم ہستی موجود ہے اور وہ ان تمام صفتوں سے متصف ہے جن کے بغیر نظام ربوبیت کا یہ کامل اور بے عیب کارخانہ وجود میں نہیں آسکتا تھا۔ وہ کہتا ہے : کیا انسان کا وجدان یہ باور کرسکتا ہے کہ نظام ربوبیت کا یہ پورا کارخانہ خود بخود وجود میں آجائے اور کوئی زندگی، کوئی ارادہ کوئی حکمت اس کے اندر کار فرما نہ ہو؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اس کارخانہ ہستی کی ہر چیز میں ایک بولتی ہوئی پروردگاری اور ایک ابھری ہوئی کارسازی موجود ہو مگر کوئی پروردگار، کوئی کارساز موجود نہ ہو؟ پھر کیا یہ محض ایک اندھی بہری فطرت، بے جان مادہ، اور بے حس الیکٹرون (Electrons) کے خواص ہیں جن سے پروردگار و کارسازی کا یہ پورا کارخانہ ظہور میں آگیا ہے؟ اور عقل اور ارادہ رکھنے والی کوئی ہستی موجود نہیں؟ پروردگاری موجود ہے، مگر کوئی پروردگار موجود نہیں ! کارسازی موجود ہے، مگر کوئی کارساز موجود نہیں ! رحمت موجود ہے، مگر کوئی رحیم موجود نہیں ! حکمت موجود ہے مگر کوئی حکیم موجود نہیں ! سب کچھ موجود ہے، مگر کوئی موجود نہیں ! عمل بغیر کسی عامل کے، نظم بغیر کسی ناظم کے، قیام بغیر کسی قیوم کے، عمارت بغیر کسی معمار کے، نقش بغیر کسی نقاش کے، سب کچھ بغیر کسی موجود کے۔ نہیں، انسان کی فطرت کبھی یہ باور نہیں کرسکتی۔ اس کا وجدان پکارتا ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں اس کی فطرت اپنی بناوٹ میں ایک ایسا سانچا لے کر آئی ہے جس میں یقین و ایمان ہی ڈھل سکتا ہے۔ شک اور انکار کی اس میں سمائی نہیں ! قرآن کہتا ہے، یہ بات انسان کے وجدانی اذعان کے خلاف ہے کہ وہ نظام ربوبیت کا مطالعہ کرے اور ایک ” رب العالمین“ ہستی کا یقین اس کے اندر جاگ نہ اٹھے۔ وہ کہتا ہے : ایک انسان غفلت کی سرشاری اور سرکشی کے ہیجان میں ہر چیز سے انکار کرسکتا ہے لیکن اپنی فطرت سے انکار نہیں کرسکتا۔ وہ ہر چیز کے خلاف جنگ کرسکتا ہے لیکن اپنی فطرت کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھا سکتا۔ وہ جب اپنے چاروں طرف زندگی اور پروردگاری کا ایک عالمگیر کارخانہ پھیلا ہوا دیکھتا ہے تو اس کی فطرت کی صدا کیا ہوتی ہے؟ اس کے دل کے ایک ایک ریشے میں کون سا اعتقاد سمایا ہوتا ہے؟ کیا یہی نہیں ہوتا کہ ایک پروردگار ہستی موجود ہے اور یہ سب کچھ اسی کی کرشمہ سازیاں ہیں؟ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کا اسلوب بیان یہ نہیں ہے کہ نظری مقدمات اور ذہنی مسلمات کی شکلیں ترتیب دے اور پھر اس پر بحث و تقریر کر کے مخاطب کو رد و تسلیم پر مجبور کرے اس کا تمام تر خطاب انسان کے فطری وجدان و ذوق سے ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے : خدا پرستی کا جذبہ انسانی فطرت کا خمیر ہے۔ اگر ایک انسان اس سے انکار کرنے لگتا ہے تو یہ اس کی غفلت ہے اور ضروری ہے کہ اسے غفلت سے چونکا دینے کے لیے دلیلیں پیش کی جائیں۔ لیکن یہ دلیل ایسی نہیں ہونی چاہیے جو محض ذہن و دماغ میں کاوش پیدا کردے بلکہ ایسی ہونی چاہیے جو اس کے نہاں خانہ دل پر دستک دے اور اس کا فطری وجدان بیدار کردے۔ اگر اس کا وجدان بیدار ہوگیا تو پھر اثبات مدعا کے لیے بحث و تقریر کی ضرورت نہ ہوگی۔ خود اس کا وجدان ہی اسے مدعا تک پہنچا دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن خود انسان کی فطرت ہی سے انسان پر حجت لاتا ہے ” بل الانسان علی نفسہ بصیرۃ ولو القی معاذیرہ : بلکہ انسان کا وجود خود اس کے خلاف (یعنی اس کی کج اندیشیوں کے خلاف) حجت ہے اگرچہ وہ (اپنے وجدان کے خلاف) کتنے ہی عذر بہانے تراش لیا کرے“ (75 : 10-14) اور اسی لیے وہ جابجا فطرت انسانی کو مخاطب کرتا اور اس کی گہرائیوں سے جواب طلب کرتا ہے ” قُلْ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الْـحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُ الْاَمْرَ ۭ فَسَیَقُوْلُوْنَ اللّٰہُ ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۔ فَذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمُ الْحَقُّ ۚ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ ښ فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ : وہ کون ہے جو آسمان (میں پھیلے ہوئے کارخانہ حیات) سے اور زمین (کی وسعت میں پیدا ہونے والے سامان رزق) سے تمہیں روزی بخش رہا ہے؟ وہ کون ہے جس کے قبضہ میں تمہارا سننا اور دیکھنا ہے؟ وہ کون ہے جو بے جان سے جاندار کو اور جاندار سے بے جان کو نکالتا ہے؟ اور پھر وہ کونسی ہستی ہے جو یہ تمام کارخانہ خلقت اس نظم و نگرانی کے ساتھ چلا رہی ہے؟ (اے پیغمبر ! یقینا وہ (بے اختیار) بول اٹھیں گے اللہ ہے (اس کے سوا کون ہوسکتا ہے) اچھا تم ان سے کہو جب تمہیں اس بات سے انکار نہیں تو پھر یہ کیوں ہے کہ غفلت و سرکشی سے نہیں بچتے ! ہاں بیشک یہ اللہ ہی ہے جو تمہارا پروردگار برحق ہے اور جب یہ حق ہے تو حق کے ظہور کے بعد اسے نہ ماننا گمراہی نہیں تو اور کیا ہے؟ (افسوس تمہاری سمجھ پر) تم (حقیقت سے منہ پھیر کر) کہاں جا رہے ہو؟“ (یونس :31-32) ایک دوسرے موقع پر فرمایا : ” السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ وَأَنْزَلَ لَکُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا بِہِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَہْجَۃٍ مَا کَانَ لَکُمْ أَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَہَا أَإِلَہٌ مَعَ اللَّہِ بَلْ ہُمْ قَوْمٌ یَعْدِلُونَ (٦٠)أَمَّنْ جَعَلَ الأرْضَ قَرَارًا وَجَعَلَ خِلالَہَا أَنْہَارًا وَجَعَلَ لَہَا رَوَاسِیَ وَجَعَلَ بَیْنَ الْبَحْرَیْنِ حَاجِزًا أَإِلَہٌ مَعَ اللَّہِ بَلْ أَکْثَرُہُمْ لا یَعْلَمُونَ (٦١)أَمَّنْ یُجِیبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوءَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَاءَ الأرْضِ أَإِلَہٌ مَعَ اللَّہِ قَلِیلا مَا تَذَکَّرُونَ (٦٢)أَمَّنْ یَہْدِیکُمْ فِی ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ یُرْسِلُ الرِّیَاحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہِ أَإِلَہٌ مَعَ اللَّہِ تَعَالَی اللَّہُ عَمَّا یُشْرِکُونَ (٦٣)أَمَّنْ یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ وَمَنْ یَرْزُقُکُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالأرْضِ أَإِلَہٌ مَعَ اللَّہِ قُلْ ہَاتُوا بُرْہَانَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ (٦٤): وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی برسایا پھر اس آب پاشی سے خوشنما باغ اگا دیے حالانکہ تمہارے بس کی یہ بات نہ تھی کہ ان باغوں کے درخت اگاتے؟ کیا (ان کاموں کا کرنے والا) اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی ہے؟ (افسوس ان لوگوں کی سمجھ پر ! حقیقت حال کتنی ہی ظاہر ہو) مگر یہ وہ لوگ ہیں جن کا شیوہ ہی کج روی ہے ! اچھا ! بتلاؤ وہ کون ہے جس نے زمین کو (زندگی و معیشت کا) ٹھکانا بنا دیا، اس کے درمیان نہریں جاری کردیں، اس (کی درستگی) کے لیے پہاڑ بلند کردیے، دو دریاؤں میں (یعنی دریا اور سمندر میں ایسی) دیوار حائل کردی (کہ دونوں اپنی اپنی جگہ محدود رہتے ہیں) کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا بھی ہے؟ (افسوس ! کتنی واضح بات ہے) مگر ان لوگوں میں اکثر ایسے ہیں جو نہیں جانتے ! اچھا بتلاؤ: وہ کون ہے جو بے قرار دلوں کی پکار سنتا ہے جب وہ (ہر طرف سے مایوس ہو کر) اسے پکارنے لگتے ہیں اور ان کا درد دکھ ٹال دیتا ہے؟ اور وہ کہ اس نے تمہیں زمین کا جانشین بنایا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا بھی ہے؟ (افسوس تمہاری غفلت پر !) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم نصیحت پذیر ہو ! اچھا ! بتلاؤ: وہ کون ہے جو صحراؤں اور سمندروں کی تاریکیوں میں تمہاری رہنمائی کرتا ہے؟ وہ کون ہے جو بارانِ رحمت سے پہلے خوشخبری دینے والی ہوائیں چلا دیتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا بھی معبود ہے؟ ( ہرگز نہیں !) اللہ کی ذات اس ساجھے سے پاک و منزہ ہے جو یہ لوگ اس کی معبودیت میں ٹھہرا رہے ہیں ! اچھا بتلاؤ وہ کون ہے جو مخلوقات کی پیدائش شروع کرتا ہے اور پھر اسے دہراتا ہے، اور وہ کون ہے جو آسمان و زمین کے کارخانہ ہائے رزق سے تمہیں روزی دے رہا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی ہے؟ (اے پیغمبر !) ان سے کہو اگر تم (اپنے رویہ میں) سچے ہو (اور انسانی عقل و بصیرت کی اس عالمگیر شہادت کے خلاف تمہارے پاس کوئی دلیل ہے) تو اپنی دلیل پیش کرو !“ (نمل : 60-64) ان سوالات میں سے ہر سوال اپنی جگہ ایک مستقل دلیل ہے کیونکہ ان میں سے ہر سوال کا صرف ایک ہی جواب ہوسکتا ہے اور وہ فطرت انسانی کا عالمگیر اور مسلمہ اذعان ہے۔ ہمارے متکلموں کی نظر اس پہلو پر نہ تھی اس لیے قرآن کا اسلوب استدلال ان پر واضح نہ ہوسکا اور دور دراز گوشوں میں بھٹک گئے۔ بہرحال قرآن کے وہ بے شمار مقامات جن میں کائنات ہستی کے سروسامان پرورش اور نظام ربوبیت کی کارسازیوں کا ذکر کیا گیا ہے دراصل اسی استدلال پر مبنی ہیں : ” فَلْیَنْظُرِ الإنْسَانُ إِلَی طَعَامِہِ (٢٤)أَنَّا صَبَبْنَا الْمَاءَ صَبًّا (٢٥) ثُمَّ شَقَقْنَا الأرْضَ شَقًّا (٢٦) فَأَنْبَتْنَا فِیہَا حَبًّا (٢٧) وَعِنَبًا وَقَضْبًا (٢٨) وَزَیْتُونًا وَنَخْلا (٢٩) وَحَدَائِقَ غُلْبًا (٣٠) وَفَاکِہَۃً وَأَبًّا (٣١) مَتَاعًا لَکُمْ وَلأنْعَامِکُمْ (٣٢): انسان اپنی غذا پر نظر ڈالے (جو شب و روز اس کے استعمال میں آتی رہتی ہے) ہم پہلے زمین پر پانی برساتے ہیں، پھر اس کی سطح شق کردیتے ہیں، پھر اس کی روئیدگی سے طرح طرح کی چیزیں پیدا کردیتے ہیں۔ اناج کے دانے، انگور کی بیلیں، کھجور کے خوشے، سبزی، ترکاری، زیتون کا تیل، درختوں کے جھنڈ، قسم قسم کے میوے، طرح طرح کا چارہ (اور یہ سب کچھ کس کے لیے) تمہارے فائدے کے لیے اور تمہارے جانوروں کے لیے“ (عبس :24-32) ان آیات میں فَلْیَنْظُرِ الإنْسَانُ کے زور پر غور کرو۔ انسان کتنا ہی غافل ہوجائے اور کتنا ہی اعراض کرے لیکن دلائل حقیقت کی وسعت اور ہمہ گیری کا یہ حال ہے کہ کسی حال میں بھی اس سے اوجھل نہیں ہوسکتیں۔ ایک انسان تمام دنیا کی طرف سے آنکھیں بند کرلے لیکن بہرحال اپنی شب و روز کی غذا کی طرف سے تو آنکھیں بند نہیں کرسکتا جو غذا اس کے سامنے دھری ہے اسی پر نظر ڈالے۔ یہ کیا ہے؟ گیہوں کا دانہ ہے۔ اچھا ! گیہوں کا ایک دانہ اپنی ہتھیلی پر رکھ لو اور اس کی پیدائش سے لے کر اس کی پختگی و تکمیل تک کے تمام احوال ظروف پر غور کرو۔ کیا یہ حقیر سا ایک دانہ بھی وجود میں آسکتا تھا اگر تمام کارخانہ ہستی ایک خاص نظم و ترتیب کے ساتھ اس کی بناوٹ میں سرگرم نہ رہتا؟ اور اگر دنیا میں ایک ایسا نظام ربوبیت موجود ہے تو کیا یہ ہوسکتا ہے کیہ ربوبیت رکھنے والی ہستی موجود نہ ہو؟ سورۃ نحل میں یہی استدلال ایک دوسرے پیرایہ میں نمودار ہوا ہے : ” وَإِنَّ لَکُمْ فِی الأنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُسْقِیکُمْ مِمَّا فِی بُطُونِہِ مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِلشَّارِبِینَ (٦٦) وَمِنْ ثَمَرَاتِ النَّخِیلِ وَالأعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْہُ سَکَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا إِنَّ فِی ذَلِکَ لآیَۃً لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ (٦٧) وَأَوْحَی رَبُّکَ إِلَی النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِی مِنَ الْجِبَالِ بُیُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُونَ (٦٨) ثُمَّ کُلِی مِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُکِی سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلا یَخْرُجُ مِنْ بُطُونِہَا شَرَابٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُہُ فِیہِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ إِنَّ فِی ذَلِکَ لآیَۃً لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ (٦٩): اور (دیکھو یہ) چارپائے (جنہیں تم پالتے ہو) ان میں تمہارے لیے غور کرنے اور نتیجہ نکالنے کی کتنی بڑی عبرت ہے؟ ان کے جسم سے ہم خون و کثافت کے درمیان دودھ پیدا کردیتے ہیں جو پینے والوں کے لیے بے غل و غش مشروب ہوتا ہے (اسی طرح) کھجور اور انگور کے پھل ہیں جن سے نشہ کا عرق اور اچھی غذا دونوں طرح کی چیزیں حاصل کرتے ہو۔ بلاشبہ اس بات میں ارباب عقل کے لیے (ربوبیت الٰہی کی) بڑی ہی نشانی ہے !۔ اور پھر (دیکھو) تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کی طبیعت میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ان ٹٹیوں میں جو اس غرض سے بلند کردی جاتی ہیں، اپنے لیے گھر بنائے، پھر ہر طرح کے پھولوں سے رس چوسے، پھر اپنے پروردگار کے ٹھہرائے ہوئے طریقوں پر کامل فرمانبرداری کے ساتھ گامزن ہو (چنانچہ تم دیکھتے ہو کہ) اس کے شکم سے مختلف رنگتوں کا رس نکلتا ہے، جس میں انسان کے لیے شفا ہے۔ بلاشبہ اس بات میں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں (ربوبیت الٰہی کی عجائب آفرینیوں کی) بڑی ہی نشانی ہے !“ (النحل :66-69) جس طرح اس نے جابجا خلقت سے استدلال کیا ہے۔ یعنی دنیا میں ہچیز مخلوق ہے، اس لیے ضروری ہے کہ خالق بھی ہو۔ اسی طرح وہ ربوبیت سے بھی استدلال کرتا ہے۔ یعنی دنیا میں ہر چیز مربوب ہے اس لیے ضروری ہے کہ کوئی رب بھی ہو۔ اور دنیا میں ربوبیت کامل اور بے داگ ہے، اس لیے ضروری ہے کہ وہ رب کام اور بے عیب ہو۔ زیادہ واضح لفظوں میں اسے یوں ادا کیا جاسکتا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں، دنیا میں ہر چیز ایسی ہے کہ اسے پرورش کی احتیاج ہے، اور اسے پرورش مل رہی ہے۔ پس ضروری ہے کہ کوئی پرورش کرنے والا بھی موجود ہو، یہ پرورش کرنے والا کون ہے؟ یقیناً وہ نہیں ہوسکتا جو خود پروردہ اور محتاج پروردگارہو۔ قرآن میں جہاں کہیں اس طرح کے مخاطبات ہیں جیسا کہ سورۃ واقعہ کی مندرجہ ذیل آیات میں ہے، وہ اسی استدلال پر مبنی ہیں : ”أَفَرَأَیْتُمْ مَا تَحْرُثُونَ (٦٣)أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَہُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ (٦٤) لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَاہُ حُطَامًا فَظَلْتُمْ تَفَکَّہُونَ (٦٥)إِنَّا لَمُغْرَمُونَ (٦٦) بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ (٦٧)أَفَرَأَیْتُمُ الْمَاءَ الَّذِی تَشْرَبُونَ (٦٨)أَأَنْتُمْ أَنْزَلْتُمُوہُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُونَ (٦٩) لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنَاہُ أُجَاجًا فَلَوْلا تَشْکُرُونَ (٧٠)أَفَرَأَیْتُمُ النَّارَ الَّتِی تُورُونَ (٧١)أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَہَا أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُونَ (٧٢) نَحْنُ جَعَلْنَاہَا تَذْکِرَۃً وَمَتَاعًا لِلْمُقْوِینَ (٧٣): اچھا ! تم نے اس بات پر غور کیا کہ جو کچھ تم کاشت کاری کرتے ہو اسے تم اگاتے ہو یا ہم اگاتے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے چورا چورا کردیں اور تم صرف یہ کہنے کے لیے رہ جاؤ کہ افسوس، ہمیں تو اس نقصان کا تاوان ہی دینا پڑے گا بلکہ ہم تو اپنے محنت کے سارے فائدوں ہی سے محروم ہوگئے۔ اچھا تم نے یہ بات بھی دیکھی کہ یہ پانی جو تمہارے پینے میں آتا ہے اسے کون برساتا ہے؟ تم برساتے ہو یا ہم برساتے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اسے (سمندر کے پانی کی طرح) کڑوا کردیں۔ پھر کیا اس نعمت کے لیے ضروری نہیں کہ تم شکر گزار ہو؟ اچھا ! تم نے یہ بات بھی دیکھی کہ یہ آگ جو تم سلگاتے ہو تو اس کے لیے لکڑی تم نے پیدا کی ہے یا ہم پیدا کر رہے ہیں؟ ہم نے اس کو یاد دہانی کا ذریہ اور حاجت مندوں کے لیے سامان زیست بنایا ہے“ (واقعہ :63-73) نظام ربوبیت سے توحید پر استدلال : اسی طرح وہ نظام ربوبیت سے توحید الٰہی پر استدلال کرتا ہے۔ جو رب العالمین تمام کائنات کی پرورش کر رہا ہے اور جس کی ربوبیت کا اعتراف تمہارے دل کے ایک ایک ریشے میں موجود ہے اس کے کون اس کا مستحق ہوسکتا ہے کہ بندگی و نیاز کا سر اس کے آگے جھکایا جائے؟ ”یَا أَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ (٢١) الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الأرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِہِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ فَلا تَجْعَلُوا لِلَّہِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (٢٢): اے افراد نسل انسانی ! اپنے پروردگار کی عبادت کرو، اس پروردگار کی جس نے تمہیں پیدا کیا اور ان سب کو بھی پیدا کیا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور اس لیے پیدا کیا تاکہ تم برائیوں سے بچو۔ وہ پروردگار عالم جس نے تمہارے لیے زمین فرش کی طرح بچھا دی اور آسمان چھت کی طرح بنا دیا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے طرح طرح کے پھل پیدا کردیے تاکہ تمہارے لیے رزق کا سامان ہو۔ پس (جب خالقیت اسی کی خالقیت ہے اور ربوبیت اسی کی ربوبیت، تو) ایسا نہ کرو کہ کسی دوسری ذات کو اس کا ہم پلہ ٹھہراؤ اور تم اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہو !“ (البقرہ :21-22) یا مثلاً سورۃ فاطر میں ہے : ”یَا أَیُّہَا النَّاسُ اذْکُرُوا نِعْمَۃَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ ہَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللَّہِ یَرْزُقُکُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالأرْضِ لا إِلَہَ إِلا ہُوَ فَأَنَّی تُؤْفَکُونَ : اے افراد نسل انسانی ! اللہ نے اپنی جن نعمتوں سے تمہیں فیض یاب کیا ہے ان پر غور کرو، کیا اللہ کے سوا کوئی دوسرا بھی خالق ہے جو تمہیں زمین اور آسمان کی بخشایشوں سے رزق دے رہا ہے؟ نہیں کوئی معبود نہیں ہے مگر اسی کی ایک ذات !“ نظام ربوبیت سے وحی ور سالت کی ضرورت پر استدلال : اسی طرح وہ نظام ربوبیت کے اعمال سے انسانی سعادت و شقاوت کے معنوی قوانین اور وحی و رسالت کی ضرورت پر بھی استدلال کرتا ہے۔ جس رب العالمین نے تمہاری پرورش کے لیے ربوبیت کا ایسا نظام قائم کر رکھا ہے کیا ممکن ہے کہ اس نے تمہاری روحانی فلاح و سعادت کے لیے کوئی قانون، کوئی نظام اور کوئی قاعدہ مقرر نہ کیا ہو؟ جس طرح تمہارے جسم کی ضرورتیں ہیں اسی طرح تمہاری روح کی بھی ضرورتیں ہیں۔ پھر کیونکر ممکن ہے کہ جسم کی نشوونما کے لیے تو اس کے پاس سب کچھ ہو لیکن روح کی نشوونما کے لیے اس کے پاس کوئی پروردگار نہ ہو؟ اگر وہ رب العالمین ہے اور اس کی ربوبیت کے فیضان کا یہ حال ہے کہ ہر ذرہ کے لیے سیرابی اور ہر چیونٹی کے لیے کارسازی رکھتی ہے تو کیونکر باور کیا جاسکتا ہے کہ انسان کی روحانی سعادت کے لیے اس کے پاس کوئی سرچشمگی نہ ہو؟ اس کی پروردگار اجسام کی پرورش کے لیے آسمان سے پانی برسائے لیکن ارواح کی پرورش کے لیے ایک قطرۂ فیض بھی نہ رکھے؟ تم دیکھتے ہو کہ جب زمین شادابی سے محروم ہو کر مردہ ہوجاتی ہے تو یہ اس کا قانون ہے کہ باران رحمت نمودار ہوتی اور زندگی کی برکتوں سے زمین کے ایک ایک ذرے کو مالا مال کردیتی ہے۔ پھر کیا یہ ضروری نہیں کہ جب عالم انسانیت ہدایت و سعادت کی شادابیوں سے محروم ہوجائے تو اس کی باران رحمت نمودار ہو کر ایک ایک روح کو پیام زندگی پہنچا دے؟ روحانی سعادت کی یہ بارش کیا ہے؟ وہ کہتا ہے وحی الٰہی ہے۔ تم اس منظر پر کبھی متعجب نہیں ہوتے کہ پانی برسا اور مردہ زمین زندہ ہوگئی۔ پھر اس بات پر کیوں چونک اٹھو کہ وحی الٰہی ظاہر ہوئی اور مردہ روحوں میں زندگی کی جنبش پیدا ہوگئی ” حم (١) تَنْزِیلُ الْکِتَابِ مِنَ اللَّہِ الْعَزِیزِ الْحَکِیمِ (٢)إِنَّ فِی السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ لآیَاتٍ لِلْمُؤْمِنِینَ (٣) وَفِی خَلْقِکُمْ وَمَا یَبُثُّ مِنْ دَابَّۃٍ آیَاتٌ لِقَوْمٍ یُوقِنُونَ (٤) وَاخْتِلافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَمَا أَنْزَلَ اللَّہُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ رِزْقٍ فَأَحْیَا بِہِ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَتَصْرِیفِ الرِّیَاحِ آیَاتٌ لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ (٥) تِلْکَ آیَاتُ اللَّہِ نَتْلُوہَا عَلَیْکَ بِالْحَقِّ فَبِأَیِّ حَدِیثٍ بَعْدَ اللَّہِ وَآیَاتِہِ یُؤْمِنُونَ (٦): یہ اللہ کی طرف سے کتاب (ہدایت) نازل کی جاتی ہے جو عزیز اور حکیم ہے۔ بلاشبہ ایمانر کھنے والون کے لیے آسمانوں اور زمین میں (معرفت حق کی) بے شمار نشانیاں ہیں۔ نیز تمہاری پیدائش میں اور ان چارپایوں میں جنہیں اس نے زمین میں پھیلا رکھا ہے ارباب یقین کے لیے بڑی ہی نشانیاں ہیں۔ اسی طرح رات اور دن کے یکے بعد دیگرے آتے رہنے میں، اور اس سرمایہ رزق میں جسے وہ آسمان سے برساتا ہے اور زمین مرنے کے بعد پھر جی اٹھتی ہے، اور ہواؤں کے رد و بدل میں ارباب دانش کے لیے بڑی ہی نشانیاں ہیں۔ (اے پیغمبر !) یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو فی الحقیقت ہم تمہیں سنا رہے ہیں۔ پھر اللہ اور اس کی آیتوں کے بعد کون سی بات رہ گئی ہے جسے سن کر یہ لوگ ایمان لائیں گے؟“ سورۃ انعام میں ان لوگوں کا جو وحی الٰہی کے نزول پر متعجب ہوتے ہیں، ان لفظوں میں ذکر کیا ہے : ” وما قدروا الہ حق قدرہ اذقالو ما انزل اللہ علی بشر من شیء : اور اللہ کے کاموں کی انہیں جو قدر شناسی کرنی تھی یقینا انہوں نہیں کی جب انہوں نے یہ بات کہی کہ اللہ نے اپنے کسی بندے پر کوئی چیز نازل نہیں کی“ (الانعام :91) تو پھر تورات اور قرآن کے نزول کے ذکر کے بعد حسب ذیل بیان شروع ہوجاتا ہے : ”إِنَّ اللَّہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَی یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ ذَلِکُمُ اللَّہُ فَأَنَّی تُؤْفَکُونَ (٩٥) فَالِقُ الإصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّیْلَ سَکَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ذَلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ (٩٦) وَہُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ النُّجُومَ لِتَہْتَدُوا بِہَا فِی ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ قَدْ فَصَّلْنَا الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُونَ (٩٧): یقینا یہ اللہ ہی کی کار فرمائی ہے کہ وہ دانے اور گٹھلی کو شق کرتا ہے (اور اس سے ہر چیز کا درخت پیدا کردیتا ہے) وہ زندہ کو مردہ چیز سے نکالتا اور مردہ کو زندہ اشیا سے نکالنے والا ہے۔ ہاں ! وہی تمہارا خدا ہے۔ پھر تم اس سے روگردانی کر کے کدھر کو بہکے چلے جا رہے ہو؟ ہاں ! وہی (پردۂ شب چاک) کر کے صبح کی روشنی نمودار کرنے والا ہے، وہی ہے جس نے رات کو راحت و سکون کا ذریعہ بنا دیا، اور وہی ہے کہ سورج اور چاند کی گردش اس درستگی کے ساتھ قائم کردی کہ حساب کا معیار بن گئی۔ یہ اس عزیز و علیم کا ٹھہرایا ہوا اندازہ ہے۔ اور (پھر دیکھو !) وہی ہے جس نے تمہارے لیے ستارے پیدا کردیے تاکہ خشکی وتری کی تاریکیوں میں ان سے رہنمائی پاؤ۔ بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جو جاننے والے ہیں ہم نے دلیلیں کھول کھول کر بیان کردی ہیں“۔ یعنی جس پروردگار عالم کی ربوبیت و رحمت کا یہ تمام فیضان شب و روز دیکھ رہے ہو کیا ممکن ہے کہ وہ تمہاری جسمانی پرورش و ہدایت کے لیے تو یہ سب کچھ کرے لیکن تمہاری روحانی پرورش و ہدایت کے لیے اس کے پاس کوئی سروسامان نہ ہو؟ وہ زمین کی موت کو زندگی سے بدل دیتا ہے۔ پھر کیا تمہاری روح کی موت کو زندگی سے نہیں بدل دے گا؟ وہ ستاروں کی روشن علامتوں سے خشکی و تری کی ظلمتوں میں رہنمائی کرتا ہے۔ کیونکر ممکن ہے کہ تمہاری روحانی زندگی کی تاریکیوں میں رہنمائی کی کوئی روشنی نہ ہو؟ تم جو کبھی اس پر متعجب نہیں ہوتے کہ زمین پر کھت لہلہا رہے ہیں اور آسمان میں تارے چمک رہے ہیں کیوں اس بات پر متعجب ہوتے ہو کہ خدا کی وحی نوع انسانی کی ہدایت کے لیے نازل ہو رہی ہے؟ اگر تمہیں تعجب ہوتا ہے تو یہ اس بات کا نتیجہ ہے کہ تم نے خدا کو اس کی صفتوں میں اس طرح نہیں دیکھا ہے جس طرح دیکھنا چاہیے۔ تمہاری سمجھ میں یہ بات تو آجاتی ہے کہ وہ ایک چیونٹی کی پروش کے لیے یہ پورا کارخانہ حیات سرگرم رکھے مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ نوع انسانی کی ہدایت کے لیے سلسلہ وحی و تنزیل قائم ہو ! نظام ربوبیت سے وجود معاد پر استدلال : اسی طرح وہ اعمال ربوبیت سے معاد اور آخرت پر بھی استدلال کرتا ہے۔ جو چیز جتنی زیادہ نگرانی اور اہتمام سے بنائی جاتی ہے اتنی ہی زیادہ قیمتی استعمال اور اہم مقصد بھی رکھتی ہے، اور بہتر صناع وہی ہے جو اپنی صنعت گری کا بہتر استعمال اور مقصد رکھتا ہو۔ پس انسان جو کرہ ارضی کی بہترین مخلوق اور اس کے تمام سلسلہ خلقت کا خلاصہ ہے، اور جس کی جسمانی و معنوی نشوونما کے لیے فطرت کائنات نے اس قدر اہتمام کیا ہے، کیونکر ممکن ہے کہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کے لیے ہی بنایا گیا ہو اور کوئی بہتر استعمال اور بلند تر مقصد نہ رکھتا ہو؟ اور پھر اگر خالق کائنات رب ہے اور کامل درجے کی ربوبیت رکھتا ہے تو کیونکر باور کیا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنے ایک بہترین مربوب یعنی پروردہ ہستی کو محض اس لیے بنایا ہو کہ مہمل اور بے نتیجہ چھوڑ دے؟ ” افحسبتم انما خلقناکم عبثا وانکم الینا لا ترجعون۔ فتعالی اللہ الملک الحق لا الہ الاھو رب العرش الکریم : کیا تم نے ایسا سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں بغیر کسی مقصد و نتیجہ کے پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹنے والے نہیں؟ اللہ جو اس کائنات ہستی کا حقیقی حکمران ہے اس سے بہت بلند ہے کہ ایک بیکار و عبث فعل کرے۔ کوئی معبود نہیں ہے مگر وہ جو (جہانداری کے) عرش بزرگ کا پروردگار ہے“ (المومنون : 115۔116)۔ ہم نے یہ مطلب اسی سادہ طریقہ پر بیان کردیا جو قرٓن کے بیان و خطاب کا طریقہ ہے۔ لیکن یہ مطلب علمی بحث و تقریر کے پیرایہ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ وجود انسانی کرہ ارضی کے سلسلہ خلقت کی آخری اور اعلی ترین کڑی ہے اور اگر پیدائش حیات سے لے کر انسانی وجود کی تکمیل تک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ ایک ناقابل شمار مدت کے مسلسل نشو وارتقا کی تاریخ ہوگی۔ گویا فطرت نے لکھوں کروڑوں برس کی کارفرمائی و صناعی سے کرہ ارضی پر جو اعلی ترین وجود تیار کیا ہے وہ انسان ہے ! (بقیہ حصہ اگلی آیت کی تفسیر میں ملاحظہ ہو) الفاتحة
3 (سابقہ آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ) ہم نے یہ مطلب اسی سادہ طریقہ پر بیان کردیا جو قرٓن کے بیان و خطاب کا طریقہ ہے۔ لیکن یہ مطلب علمی بحث و تقریر کے پیرایہ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ وجود انسانی کرہ ارضی کے سلسلہ خلقت کی آخری اور اعلی ترین کڑی ہے اور اگر پیدائش حیات سے لے کر انسانی وجود کی تکمیل تک کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ ایک ناقابل شمار مدت کے مسلسل نشو وارتقا کی تاریخ ہوگی۔ گویا فطرت نے لکھوں کروڑوں برس کی کارفرمائی و صناعی سے کرہ ارضی پر جو اعلی ترین وجود تیار کیا ہے وہ انسان ہے ! ماضی کے ایک نقطہ بعید کا تصور کرو۔ جب ہمارا یہ کرہ سورج کے منتہب کرے سے الگ ہوا تھا۔ نہیں معلوم کتنی مدت اس کے ٹھنڈے اور معتدل ہونے میں گزر گئی اور یہ اس قابل ہوا کہ زندگی کے عناصر اس میں نشوونما پا سکیں۔ اس کے بعد وہ وقت آیا جب اس کی سطح پر نشوونما کی سب سے پہلی داغ بیل پڑی اور پھر نہیں معلوم کتنی مدت کے بعد زندگی کا وہ اولین بیج وجود میں آسکا جسے پروٹو پلازم کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ پھر حیات عضوی کے نشوونما کا دور شروع ہوا اور نہیں معلوم کتنی مدت اسی پر گزر گئی کہ اس دور نے بسیط سے مرکب تک اور ادنی سے اعلی درجے تک ترقی کی منزلیں طے کیں۔ یہاں تک کہ حیوانات کی ابتدائی کڑیاں ظہور میں آئیں اور پھر لاکھوں برس اس پر نکل گئے کہ یہ سلسلہ ارتقا وجود انسانی تک مرتفع ہو۔ پھر انسان کے جسمانی ظہور کے بعد اس کے ذہنی ارتقا کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک طول طویل مدت اس پر گزر گئی۔ بالآخر ہزاروں برس کے اجتماعی اور ذہنی ارتقا کے بعد وہ انسان ظہور پذیر ہوسکا جو کرہ ارضی کے تاریخی عہد کا متمدن اور عقیل انسان ہے۔ گویا زمین کی پیدائش سے لے کر تریق یافتہ انسان کی تکمیل تک، جو کچھ گزر چکا ہے اور جو کچھ بنتا سنورتا رہا ہے وہ تمام تر انسان کی پیدائش و تکمیل ہی کی سرگزشت ہے۔ سوال یہ ہے کہ جس وجود کی پیدائش کے لیے فطرت نے اس درجہ اہتمام کیا ہے کیا یہ سب کچھ صرف اس لیے تھا کہ وہ پیدا ہو، جھائے پیے اور مر کر فنا ہوجائے؟ فتعالی اللہ الملک الحق لا الہ الا ھو رب العرش الکریم۔ قدرتی طور پر یہاں ایک دوسرا سوال بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ اگر وجود حیوانی اپنے ماضی میں ہمیشہ یکے بعد دیگرے متغیر ہوتا اور ترقی کرتا رہا ہے تو مستقبل میں بھی یہ تغیر و ارتقا کیوں جاری نہ رہے؟ اگر اس بات پر ہمیں بالکل تعجب نہیں ہوتا کہ ماضی میں بیشمار صورتیں مٹیں اور نئی زندگیاں ظہور میں آئیں تو اس بات پر کیوں تعجب ہو کہ موجودہ زندگی کا مٹنا بھی بالکل مٹ جانا نہیں ہے اس کے بعد بھی ایک اعلی تر صورت اور زندگی ہے؟ ”أَیَحْسَبُ الإنْسَانُ أَنْ یُتْرَکَ سُدًی (٣٦)أَلَمْ یَکُ نُطْفَۃً مِنْ مَنِیٍّ یُمْنَی (٣٧) ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوَّی (٣٨): کیا انسان خیال کرتا ہے کہ وہ مہمل چھوڑ دیا جائے گا (اور اس زندگی کے بعد دوسری زندگی نہ ہوگی؟) کیا اس پر یہ حالت نہیں گزر چکی ہے کہ پیدائش سے پہلے نطفہ تھا پھر نفہ سے علقہ ہوا (یعنی جونک کی سی شکل ہوگئی) پھر عقلہ سے (اس کا ڈیل ڈول) پیدا کیا گیا، پھر ( اس ڈیل ڈول کو) ٹھیک ٹھیک درست کیا گیا“ (القیمہ)۔ سورۃ ذاریات میں تمام تر دین یعنی جزا کا بیان ہے ” انما توعدون لصادق و ان الدین لواقع“ اور پھر اس پر اعمال ربوبیت سے یعنی ہواؤں کے چلنے اور پانی برسنے کے مؤثرات سے استشہاد کیا گیا ہے۔ ” والذاریات ذروا فالحاملات وقرا فالجاریات یسرا فا لمقسمات امرا“ پھر آسمان اور زمین کی بخشایشوں پر اور خود وجود انسانی کی اندرونی شہادتوں پر توجہ دلائی ہے۔ ” وفی الارض ایات للموقنین وفی انفسکم افلا تبصرون وفی السماء رزقکم وما توعدون۔ اس کے بعد فرمایا۔ ” فورب السماء والارض انہ لحق مثل ما انکم تنطقون : آسمان و زمین کے رب کی قسم ! (یعنی آسمان و زمین کے پروردگار کی پروردگار شہادت دے رہی ہے) کہ بلاشبہ وہ معاملہ (یعنی جزا وسزا کا معاملہ) حق ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح یہ بات کہ تم گویائی رکھتے ہو“۔ اس آیت میں اثبات جزا کے لیے خدا نے خود اپنے وجود کی قسم کھائی ہے لیکن رب کے لفظ اسے اپنے آپ کو تعبیر کیا ہے۔ عربی میں قسم کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی بات پر کسی بات سے شہادت لائی جائے۔ پس مطلب یہ ہوا کہ پروردگار عالم کی پروردگار شہادت دے رہی ہے کہ یہ بات حق ہے۔ یہ شہادت کیا ہے؟ وہی ربوبیت کی شہادت ہے۔ اگر دنیا میں پرورش موجود ہے، پروردہ موجود ہے اور اس لیے پروردگار بھی موجود ہے تو ممکن نہیں کہ جزا کا معاملہ بھی موجود نہ ہو۔ اور وہ بغیر کسی نتیجہ کے انسان کو چھوڑ دے۔ چونکہ لوگوں کی نظر اس حقیقت پر نہ تھی۔ اس لیے اس آیت میں قسم مقسم بہ کا ربط صحیح طور پر متعین نہ کرسکے۔ قرآن حکیم کے دلائل و براہین پر غور کرتے ہوئے یہ اصل ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اس کے استدلال کا طریقہ منطقی بحث و تقریر کا طریقہ نہیں ہے جس کے لیے چند در چند مقدمات کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر اثبات مدعا کی شکلیں ترتیب دینی پڑتی ہیں بلکہ وہ ہمیشہ براہ راست تلقین کا قدری اور سیدھا سادھا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ عموماً اس کے دلائل اس کے اسلوب بیان و خطاب میں مضمر ہوتے ہیں۔ وہ یا تو کسی مطلب کے لیے اسلوب خطاب ایسا اختیار کرتا ہے کہ اسی سے استدلال کی روشنی نمودار ہوجاتی ہے۔ یا پھر کسی مطلب پر زور دیتے ہوئے کوئی ایک لفظ ایسا بول جاتا ہے کہ اس کی تعبیر ہی میں اس کی دلیل بھی موجود ہوتی ہے اور خود بخود مخاطب کا ذہن دلیل کی طرف پھر جاتا ہے۔ چنانچہ اس کی ایک واضح مثال یہی صفت ربوبیت کا جابجا استعمال ہے۔ جب وہ خدا کی ہستی کا ذکر کرتا ہوا اسے رب کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے تو یہ بات کہ وہ رب ہے جس طرح اس کی ایک صفت ظاہر کرتی ہے اسی طرح اس کی دلیل بھی واضح کردیتی ہے۔ وہ رب ہے اور یہ واقعہ ہے کہ اس کی ربوبیت تمہیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے اور خود تمہارے دل کے اندر گھر بنائے ہوئے ہے۔ پھر کیونکر تم جرات کرسکتے ہو کہ اس کی ہستی سے انکار کرو؟ وہ رب ہے اور رب کے سوا کون ہوسکتا ہے جو تمہاری بندگی ونیاز کا مستحق ہو؟ چنانچہ قرآن کے وہ تمام مقامات جہاں اس طرح کے مخاطبات ہیں کہ ” یا ایہا الناس اعبدوا ربکم۔ اعبدوا اللہ ربی ربی و ربکم۔ ان اللہ ربی و ربکم فاعبدوہ۔ ذلکم اللہ ربکم فاعبدوہ۔ ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم فادبودن۔ قل اتحاجوننا فی اللہ؟ وھو ربنا وربکم“ وغیرہ تو انہیں مجرد امر و خطاب ہی نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ وہ خطاب و دلیل دونوں ہیں کیونک ہرب کے لفظ نے برہان ربوبیت کی طرف خود بخود رہنمائی کردی ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے مفسروں کی نظر اس حقیقت پر نہ تھی کیونکہ منطقی استدلال کے استغراق نے انہیں قرآن کے طریق استدلال سے بے پروا کردیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان مقامات کے ترجمہ وتفسیر میں قرآن کے اسلوب بیان کی حقیق روح واضح نہ ہوسکی اور استدلال کا پہلو طرح طرح طرح کی توجیہات میں گم ہوگیا۔ (آیت 1 الحمد للہ رب العالمین کی تفسیر ختم ہوئی) الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ الرحمن اور الرحیم دونوں رحم سے ہیں۔ عربی میں رحمت عواطف کی ایسی رقت و نرمی کو کہتے ہیں جس سے کسی دوسری ہستی کے لیے احسان و شفقت کا ارادہ جوش میں آجائے۔ پس رحمت میں محبت، شفقت، فضل اور احسان سب کا مفہوم داخل ہے اور مجرد محبت، لطف اور فضل سے زیادہ سیع اور حاوی ہے۔ اگرچہ یہ دونوں اسم رحمت سے ہیں لیکن رحمت کے دو مختلف پہلوؤں کو نمایاں کرتے ہیں َ عربی میں فعلان کا باب عموماً ایسے صفات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو محض صفات عارضہ ہوتے ہیں۔ جیسے پیاسے کے لیے عطشان۔ غضبناک کے لیے غضبان۔ سراسیمہ کے لیے حیران، مست کے لیے سکران۔ لیکن فعیل کے وزن میں صفات قائمہ کا خاصہ ہے۔ یعنی عموماً ایسے صفات کے لیے بولا جاتا ہے جو جذبا و عواض ہونے کی جگہ صفات قائمہ ہوتے ہیں مثلا کریم کریم کرنے والا۔ عظیم بڑائی رکھنے والا اور علیم علم رکھنے والا، حکیم حکمت رکھنے والا۔ پس الرحمن کے معنی یہ ہوئے کہ وہ ذات جس میں رحمت ہے اور الرحیم کے معنی یہ ہوئے کہ وہ ذات جس میں نہ صرف رحمت ہے بلکہ جس سے ہمیشہ رحمت کا ظہور ہوتا ہے رہتا ہے اور ہرآن و ہر لمحہ تمام کائنات خلقت اس سے فیض یاب ہو رہی ہے۔ رحمت کو دو الگ الگ اسموں سے کیوں تعبیر کیا گیا؟ اس لیے کہ قرآن مجید خدا کے تصور کا جو نقشہ ذہن نشین کرانا چاہتا ہے اس میں سب سے زیادہ نمایاں اور چھائی ہوئی صفت رحمت ہی کی صفت ہے بلکہ کہنا چاہیے کہ تمام تر رحمت ہی ہے : ” ارحمتی وسعت کل شیء : اور میری رحمت دنیا کی ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے“ (الاعراف :156)۔ پس ضروری تھا کہ خصوصیت کے ساتھ اس کی صفتی اور فعلی دونوں حیثیتیں واضح کردی جائیں یعنی اس میں رحمت ہے کیونکہ وہ الرحمن ہے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ہمیشہ اس سے رحمت کا ظہور بھی ہو رہا ہے کیونکہ الرحمن کے ساتھ وہ الرحیم بھی ہے۔ رحمت : لیکن اللہ کی رحمت کیا ہے؟ قرآن کہتا ہے : کائنات ہستی میں جو کچھ بھی خوبی و کمال ہے وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ رحمت الٰہی کا ظہور ہے ! جب ہم کائنات ہستی کے اعمال و مظاہر پر غور کرتے ہیں تو سب سے پہلی حقیقت جو ہمارے سامنے نمایاں ہوتی ہے وہ اس کا نظام ربوبیت ہے۔ کیونکہ فطرت سے ہماری پہلی شناسائی ربوبیت کے ذریعہ ہوتی ہے لیکن جب علم و ادراک کی راہ میں چند قدم آگے بڑھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ربوبیت سے بھی ایک زیادہ وسیع اور عام حقیقت یہاں کار فرما ہے اور خود ربوبیت بھی اسی کے فیضان کا ایک گوشہ ہے۔ ربوبیت اور اس کا نظام کیا ہے؟ کائنات ہستی کی پرورش ہے لیکن کائنات ہستی میں صرف پرورش ہی نہیں ہے۔ پرورش سے بھی ایک زیادہ بنانے سنوارنے اور فائدہ پہنچانے کی حقیقت کام کر رہی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی فطرت میں بناؤ اس کے بناؤ میں خوبی ہے، اس کے مزاج میں اعتدال ہے، اس کے افعال میں خواص ہیں، اس کی صورت میں حسن ہے، اس کی صداؤں میں نغمہ ہے، اس کی بو میں عطر بیزی ہے اور اس کی کوئی بات نہیں جو اس کارخانہ کی تعمیر و درستگی کے لیے مفید نہ ہو۔ پس یہ حقیقت جو اپنے بناؤ اور فیضان میں ربوبیت سے بھی زیادہ وسیع اور عام ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ رحمت ہے اور خالق کائنات کی رحمانیت اور رحیمیت کا ظہور ہے۔ تعمیر و تحسینِ کائنات رحمت الٰہی کا نتیجہ ہے : زندگی اور حرکت کا یہ عالمگیر کارخانہ وجود ہی میں نہ آتا اگر اپنے ہر فعل میں بننے بنانے، سنورنے سنوارنے اور ہر طرح بہتر و اصلح ہونے کا خاصہ نہ رکھتا۔ فطرت کائنات میں یہ خاصہ کیوں ہے؟ اس لیے کہ بناؤ ہو بگاڑ نہ ہو۔ درستگی ہو برہمی نہ ہو لیکن کیوں ایسا ہو کہ فطرت بنائے اور سنوارے، بگاڑے اور الجھائے نہیں؟ یہ کیا ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے درست اور بہتر ہی ہوتا ہے۔ خراب اور بدتر نہیں ہوتا؟ انسان کے علم و دانش کی کاوشیں آج تک یہ عقدہ حل نہ کرسکیں۔ فلسفہ نظر کا قدم جب کبھی اس حد تک پہنچا دم بخود ہو کر رہ گیا لیکن قرآن کہتا ہے یہ اس لیے ہے کہ فطرت کائنات میں رحمت ہے اور رحمت کا مقتضا یہی ہے کہ خوبی اور درستگی ہو بگاڑ اور خرابی نہ ہو۔ انسان کے علم و دانش کی کاوشیں بتلاتی ہیں کہ کائنات ہستی کا یہ بنتاؤ اور سنوار عناصر اولیہ کی ترکیب اور ترکیب کے اعتدال و تسویہ کا نتیجہ ہے۔ مادہ عالم کی کمیت میں بھی اعتدال ہے، کیفیت میں بھی اعتدال ہے۔ یہی اعتدال ہے جس سے سب کچھ بنتا ہے اور جو کچھ بنتا ہے خوبی اور کمال کے ساتھ بنتا ہے۔ یہی اعتدال و تناسب دنیا کے تمام تعمیری اور ایجابی حقائق کی اصل ہے۔ وجود، زندگی، تندرستی، حسن، خوشبو، نغمہ، بناؤ اور خوبی کے بہت سے نام ہیں مگر حقیقت ایک ہی ہے اور وہ اعتدال ہے۔ لیکن فطرت کائنات میں یہ اعتدال و تناسب کیوں ہے؟ کیوں ایسا ہوا کہ عناصر کے دقائق جب ملیں تو اعتدال و تناسب کے ساتھ ملیں اور مادہ کا خاصہ یہی ٹھہرا کہ اعتدال و تناسب ہو، انحراف اور تجاوز نہ ہو؟ انسان کا علم دم بخود اور متحیر ہے لیکن قرآن کہتا ہے یہ اس لیے ہوا کہ خالق کائنات میں رحمت ہے اور اس لیے کہ اس کی رحمت اپنا ظہور بھی رکھتی ہے اور جس میں رحمت ہو اور اس کی رحمت ظہور بھی رکھتی ہو تو جو کچھ اس سے صادر ہوگا اس میں خوبی و بہتری ہی ہوگی، حسن و جمال ہی ہوگا، اعتدال و تناسب ہی ہوگا اور اس کے خلاف کچھ نہیں ہوسکتا ! فلسفہ ہمیں بتلاتا ہے کہ تعمیر اور تحسین فطرت کائنات کا خاصہ ہے۔ خاصہ تعمیر چاہتا ہے کہ بناؤ ہو، خاصہ تحسین چاہتا ہے کہ جو کچھ بنے خوبی وکمال کے ساتھ بنے اور یہ دونوں خاصے قانون ضرورت کا نتیجہ ہیں۔ کائنات ہستی کے ظہور و تکمیل کے لیے ضرورت تھی کہ تعمیر ہو، اور ضرورت تھی کہ جو کچھ تعمیر ہو حسن و خوبی کے ساتھ تعمیر ہو۔ یہی ضرور بجائے خود ایک علت ہوگئی اور اس لیے فطرت سے جو کچھ بھی ظہور میں آتا ہے ویسا ہی ہوتا ہے جیسا ہونا ضروری تھا۔ لیکن اس تعلیل سے بھی تو یہ عقدہ حل نہیں ہوا؟ سوال جس منزل میں تھا اس سے صرف ایک منزل اور آگے بڑھ گیا۔ تم کہتے ہو یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس لیے ہے کہ ضرورت کا قانون موجود ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ضرورت کا قانون کیوں موجود ہے؟ کیوں یہ ضروری ہوا کہ جو کچھ ظہور میں آئے ضرورت کے مطابق ہو اور ضرورت اسی بات کی مقتضی ہوئی کہ خوبی اور درستگی ہو بگاڑ اور برہمی نہ ہو؟ انسانی علم کی کاوشیں اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتیں۔ ایک مشہور فلسفی کے لفظوں میں ” جس جگہ سے یہ کیوں شروع ہوجائے سمجھ جاؤ کہ فلسفہ کے غور و خوض کی سرحد ختم ہوگئی“۔ لیکن قرآن اسی سوال کا جواب دیتا ہے وہ کہتا ہے یہ ” ضرورت“ رحمت اور فضل کی ” ضرورت“ ہے۔ رحمت چاہتی ہے جو کچھ ظہور میں آئے بہتر ہو اور نافع ہو اور اس لیے جو کچھ ظہور میں آتا ہے بہتر ہوتا ہے اور نافع ہوتا ہے ! پھر یہ حقیقت بھی واضح رہے کہ دنیا میں زندگی اور بقا کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے جمال و زیبائی ان سے ایک زائد تر فیضان ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ جمال و زیبائش بھی یہاں موجود ہے۔ پس یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ قانون ضرورت ہی کا نتیجہ ہے۔ ضرورت زندگی اور بقا کا سر و سامان چاہتی ہے لیکن زندہ اور باقی رہنے کے لیے جمال و زیبائش کی کیا ضرورت ہے؟ اگر جمال وزیبائش بھی یہاں موجود ہے تو یقینا یہ فطرت کا ایک مزید لطف و احسان ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت صرف زندگی ہی نہیں بخشتی بلکہ زندگی کو حسین و لطیف بھی بنانا چاہتی ہے۔ پس یہ محض زندگی کی ضرورت کا قانون نہیں ہوسکتا۔ یہ اس ضرورت سے بھی کوئی بالا تر ضرورت ہے جو چاہتی ہے کہ مرحمت اور فیضان ہو۔ قرآن کہتا ہے یہ رحمت کی ” ضرورت“ ہے اور رحمت کا مقتضا یہی ہے کہ وہ سب کچھ ظہور میں آئے جو رحمت سے ظہور میں آنا چاہیے : ” قل لمن ما فی السموات والارض قل للہ کتب علی نفسہ الرحمۃ: آسمان و زمین میں جو کچھ ہے وہ کس کے لیے ہے؟ (اے پیغمبر) کہہ دے اللہ کے لیے ہے جس نے اپنے لیے ضروری ٹھہرا لیا ہے کہ رحمت ہو“ (الانعام : 12)۔ ” ورحمتی وسعت کل شیء : اور میری رحمت دنیا کی ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے“ افادہ فیضانِ فطرت : اس سلسلہ کی سب سے پہلی حقیقت جو ہمارے سامنے نمایاں ہوتی ہے وہ کائنات ہستی اور اس کی تمام اشیا کا افادہ و فیضان ہے۔ یعنی ہم دیکھتے ہیں کہ فطرت کے تمام کاموں میں کامل نظم ویکسانیت کے ساتھ مفید اور کار آمد ہونے کی خاصیت پائی جاتی ہے اور اگر بہ حیثیت مجموعی دیکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے گویا یہ تمام کارگاہ عالم صرف اسی لیے بنا ہے کہ ہمیں فائدہ پہنچائے اور ہماری حاجت روائیوں کا ذریعہ ہو : ” وسخر لکم ما فی السموات والارض جمیعا منہ۔ ان فی ذلک لایات لقوم یتفکرون : اور آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ نے تمہارے لیے مسخر کردیا ہے (یعنی ان کی قوتیں اور تاثیریں اس طرح تمہارے تصرف میں دیدی گئی ہیں کہ جس طرح چاہو کام لے سکتے ہو) بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں اس بات میں (معرفت حق کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں“ (45 :، 13) اس آیت میں اور اس کی تمام ہم معنی آیات میں ” سخر“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ یعنی تمام چیزیں تمہارے لیے مسخر کردی گئی ہیں۔ عربی میں تسخیر ٹھیک ٹھیک اسی معنی میں بولا جاتا ہے جس معنی میں ہم اردو میں بولا کرتے ہیں۔ یعنی کسی چیز کا قہراً و حکماً اس طرح مطیع ہوجانا کہ جس طرح چاہیں اس سے کام لیں۔ غور کرو انسانی قوی کی عظمت و سروری کے اظہار کے لیے اس سے زیادہ موزوں تعبیر اور کیا ہوسکتی تھی؟ قرآن کے نزول سے پہلے اقوام عالم کی دینی ذہنیت انسان کی عقلی امنگوں کے قطعاً خلاف تھی۔ لیکن قرآن نے صرف یہی نہیں کہ اس کی عقلی امنگوں کی جرات افزائی کردی بلکہ اس کی ہمت عقل اور اولو العزمی حلم کے لیے ایک ایسی بلند نظری کا نقشہ کھینچ دیا جس سے بہتر نقشہ آج بھی نہیں کھینچا جاسکتا۔ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے سب اس لیے ہے کہ انسان کے آگے مسخر ہو کر رہے اور انسان ان میں تصرف کرے۔ انسانی عقل و فر کے لیے اس سے زیادہ بلند نصب العین اور کیا ہوسکتا ہے؟ پھر غور کرو ” تسخیر“ کا لفظ انسانی عقل کی حکمرانیوں کے لیے کس درجہ موزوں لفظ ہے؟ اس تسخیر کا قدیم منظر یہ تھا کہ انسان کا چھوٹا سا بچہ لکڑی کے دو گز تختے جوڑ کر سمندر کے سینے پر سوار ہوجاتا تھا اور نیا منظر یہ ہے کہ آگ، پانی، ہوا اور بجلی تمام عناصر پر حکمرانی کر رہا ہے ! البتہ یہ بات یاد رہے کہ قرآن نے جہاں کہیں اس تسخیر کا ذکر کیا ہے اس کا تعلق صرف کرہ ارضی کی کائنات سے ہے یا آسمان کے ان مؤثرات سے ہے جنہیں ہم یہاں محسوس کر رہے ہیں یہ نہیں کہا ہے کہ تمام موجودات ہستی اس کے لیے مسخر کردی گئی ہیں۔ یا تمام موجودات ہستی میں وہ اشرف و اعلی مخلوق ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ ہماری دنیا کائنات ہستی کے بے کنار سمندر میں ایک قطرہ سے زیادہ نہیں۔ وما یعلم جنود ربک الا ہو۔ اور انسان کو جو کچھ بھی برتری حاصل ہے وہ صرف اسی دنیا کی مخلوقات میں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کائنات ہستی میں جو کچھ بھی موجود ہے، اور جو کچھ بھی ظہور میں آتا ہے اس میں سے ہر چیز کوئی نہ کوئی خاصہ رکھتی ہے اور ہر حادثہ کی کوئی نہ کوئی تاثیر ہے اور پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یہ تمام خواص و مؤثرات کچھ اس طرح واقع ہوئے ہیں کہ ہر خاصہ ہماری کوئی نہ کوئی ضرورت پوری کرتا اور ہر تاثیر ہمارے لیے کوئی نہ کوئی فیضان رکھتی ہے۔ سورج، چاند، ستارے، ہوا، بارش، دریا، سمندر اور پہاڑ سب کے خواص و فوائد ہیں، اور سب ہمارے لیے طرح طرح کی راحتوں اور آسائشوں کا سامان بہم پہنچا رہے ہیں : ” اللَّہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِہِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَکُمْ وَسَخَّرَ لَکُمُ الْفُلْکَ لِتَجْرِیَ فِی الْبَحْرِ بِأَمْرِہِ وَسَخَّرَ لَکُمُ الأنْہَارَ (٣٢) وَسَخَّرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَیْنِ وَسَخَّرَ لَکُمُ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ (٣٣) وَآتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَۃَ اللَّہِ لا تُحْصُوہَا إِنَّ الإنْسَانَ لَظَلُومٌ کَفَّارٌ (٣٤): یہ اللہ ہی کی کار فرمائی ہے کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس کی تاثیر سے طرح طرح کے پھل تمہاری غذا کے لیے پیدا کردیے۔ اسی طرح اس نے یہ بات بھی ٹھہرا دی کہ سمندر میں جہاز تمہارے زیر فرمان رہتے، اور حکم الٰہی سے چلتے رہتے ہیں، اور اسی طرح دریا بھی تمہاری کار برآریوں کے لیے مسخر کردیے گئے اور (پھر اتنا ہی نہیں بلکہ غور کرو تو) سورج اور چاند بھی تمہارے لیے مسخر کردیے گئے ہیں کہ ایک خاص ڈھنگ پر گردش میں ہیں اور رات اور دن کا اختلاف بھی (تمہارے فائدہ ہی کے لیے) مسخر ہے۔ غرض کہ جو کچھ تمہیں مطلوب تھا وہ سب کچھ اس نے عطا کردیا۔ اگر تم اللہ کی نعمتیں شمار کرنی چاہو تو وہ اتنی ہیں کہ ہرگز شمار نہ کرسکو گے۔ بلاشبہ انسان بڑا ہی نا انصاف بڑا ہی نا شکرا ہے“ (ابراہیم : 32-34) زمین کو دیکھو، اس کی سطح پھلوں اور پھولوں سے لدی ہوئی ہے تہہ میں آب شیریں کی سوتیں بہہ رہی ہیں گہرائی سے چاندی سونا نکل رہا ہے وہ اپنی جسامت میں اگرچہ مدور ہے لیکن اس کا ہر حصہ اس طرح واقع ہوا ہے کہ معلوم ہوتا ہے ایک مسطح فرش بچھا دیا گیا ہے۔ ” الذی جعل لکم الارض مہدا وجعل لکم فیھا سبلا لعلکم تھتدون : وہ پروردگار جس نے تمہارے لیے زمین اس طرح بنا دی کہ فرش کی طرح بچھی ہوئی ہے اور اس میں قطع مسافت کی (ہموار) راہیں پیدا کردیں“ (43:، 10) ” وَہُوَ الَّذِی مَدَّ الأرْضَ وَجَعَلَ فِیہَا رَوَاسِیَ وَأَنْہَارًا وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِیہَا زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ یُغْشِی اللَّیْلَ النَّہَارَ إِنَّ فِی ذَلِکَ لآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ (٣) وَفِی الأرْضِ قِطَعٌ مُتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیلٌ صِنْوَانٌ وَغَیْرُ صِنْوَانٍ یُسْقَی بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلَی بَعْضٍ فِی الأکُلِ إِنَّ فِی ذَلِکَ لآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ (٤): اور یہ اسی پروردگار کی پروردگاری ہے کہ اس نے زمین (تمہاری سکونت کے لیے) پھیلا دی اور اس میں پہاڑوں کے لنگر ڈال دیے اور نہریں بہا دیں، نیز ہر طرح کے پھلوں کی دو دو قسمیں پیدا کردیں، اور پھر یہ اسی کی کار فرمائی ہے کہ ( رات اور دن یکے بعد دیگرے آتے رہتے ہیں اور) رات کی تاریکی دن کی روشنی ڈھانپ لیتی ہے۔ بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں اس میں ( معرفت حقیقت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں۔ اور (پھر دیکھو) زمین کی سطح اس طرح بنائی گئی ہے کہ اس میں ایک دوسرے سے قریب (آبادی کے) قطعات بن گئے اور انگوروں کے باغ، غلہ کی کھیتیاں اور کھجوروں کے جھنڈ پیدا ہوگئے، ان درختوں میں بعض درخت زیادہ ٹہنیوں والے ہیں۔ بعض اکہرے، اور اگرچہ سب کو ایک ہی طرح کے پانی سے سینچا جاتا ہے لیکن پھل ایک طرح کے نہیں۔ ہم نے بعض درختوں کو بعض درختوں پر پھلوں کے مزہ میں برتری دے دی۔ بلا شبہ ارباب دانش کے لیے اس میں (معرفت حقیقت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں“ (الرعد :3-4) ” القد مکناکم فی الارض و جعلنا لکم فیہا معایش قلیلا ما تشکرون : اور (دیکھو) ہم نے زمین میں تمہیں طاقت و تصرف کے ساتھ جگہ دی، اور زندگی کے تمام سامان پیدا کردیے (مگر افسوس) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ تم نعمت الٰہی کے شکر گزار ہو“ (الاعراف : 10) ” وَہُوَ الَّذِی سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْکُلُوا مِنْہُ لَحْمًا طَرِیًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْہُ حِلْیَۃً تَلْبَسُونَہَا وَتَرَی الْفُلْکَ مَوَاخِرَ فِیہِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِہِ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ : اور (دیکھو) یہ اسی کی کارفرمائی ہے کہ اس نے سمندر تمہارے لیے مسخر کردیا تاکہ اپنی غذا کے لیے تر و تازہ گوشت حاصل کرو اور زیور کی چیزیں نکالو جنہیں (خوشنمائی کے لیے) پہنتے ہو۔ نیز تم دیکھتے ہو کہ جہاز سمندر میں موجیں چیرتے ہوئے جا رہے ہیں۔ اور سیر و سیاحت کے ذریعہ اللہ کا فضل تلاش کرو تاکہ اس کی کی نعمت کے شکر گزار رہو“ (النحل :14) حیوانات کو دیکھو، زمین کے چار پائے، فضا کے پرند اور پانی کی مچھلیاں سب اسی لیے ہیں کہ اپنے اپنے وجود سے ہمیں فائدہ پہنچائیں۔ غذا کے لیے ان کا دودھ اور گوشت، سواری کے لیے ان کی پیٹھ، حفاظت کے لیے ان کی پاسبانی، پہننے کے لیے ان کی کھال اور اون اور برتنے کے لیے ان کے جسم کی ہڈیاں تک مفید ہیں ! : ” وَالأنْعَامَ خَلَقَہَا لَکُمْ فِیہَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْہَا تَأْکُلُونَ (٥) وَلَکُمْ فِیہَا جَمَالٌ حِینَ تُرِیحُونَ وَحِینَ تَسْرَحُونَ (٦) وَتَحْمِلُ أَثْقَالَکُمْ إِلَی بَلَدٍ لَمْ تَکُونُوا بَالِغِیہِ إِلا بِشِقِّ الأنْفُسِ إِنَّ رَبَّکُمْ لَرَءُوفٌ رَحِیمٌ (٧) وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیرَ لِتَرْکَبُوہَا وَزِینَۃً وَیَخْلُقُ مَا لا تَعْلَمُونَ (٨): اور چارپائے پیدا کردیے جن میں تمہارے لیے جاڑے کا سامان اور طرح طرح کے منافع ہیں اور ان سے تم اپنی غذا بھی حاصل کرتے ہو۔ جب ان کے غول شام کو چر کر واپس آتے ہیں اور جب چراگاہوں کے لیے نکلتے ہیں تو (دیکھو) ان کے منظر میں تمہارے لیے خوشنمائی رکھ دی ہے۔ اور انہی میں وہ جانور بھی ہیں جو تمہارا بوجھ اٹھا کر ان (دور دراز) شہروں تک پہنچا دیتے ہیں جہاں تک تم بغیر سخت مشقت کے نہیں پہنچا سکتے تھے۔ بلا شبہ تمہارا پروردگار بڑا ہی شفقت رکھنے والا اور صاحب رحمت ہے۔ اور (دیکھو) گھوڑے، خچر، گدھے پیدا کیے گئے تاکہ تم ان سے سواری کا کام لو اور خوشنمائی کا بھی موجب ہوں۔ وہ اسی طرح (طرح طرح کی چیزیں) پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں“ (النحل : 8-8) ” وَإِنَّ لَکُمْ فِی الأنْعَامِ لَعِبْرَۃً نُسْقِیکُمْ مِمَّا فِی بُطُونِہِ مِنْ بَیْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِلشَّارِبِینَ (٦٦): اور چارپایوں کے وجود میں تمہارے لیے (فہم و بصیرت کی) بڑی ہی عبرت ہے۔ انہی جانوروں کے جسم سے ہم خون اور کثافتوں کے درمیان پاک و صاف دودھ پیدا کردیتے ہیں جو پینے والوں کے لیے بے غل و غش مشروب ہوتا ہے“ (النحل : 66) ” وَاللَّہُ جَعَلَ لَکُمْ مِنْ بُیُوتِکُمْ سَکَنًا وَجَعَلَ لَکُمْ مِنْ جُلُودِ الأنْعَامِ بُیُوتًا تَسْتَخِفُّونَہَا یَوْمَ ظَعْنِکُمْ وَیَوْمَ إِقَامَتِکُمْ وَمِنْ أَصْوَافِہَا وَأَوْبَارِہَا وَأَشْعَارِہَا أَثَاثًا وَمَتَاعًا إِلَی حِینٍ : اور (دیکھو) اللہ نے تمہارے گھروں کو تمہارے لیے سکونت کی جگہ بنایا اور ( جو لوگ شہروں میں نہیں بستے ان کے لیے ایسا سامان کردیا کہ) چارپایوں کی کھال کے خیمے بنا دیے۔ سفر اور اقامت دونوں حالتوں میں انہیں ہلکا پاتے ہو۔ اسی طرح جانوروں کی اون، رووں، اور بالوں سے طرح طرح کی چیزیں پیدا کردیں جن سے ایک خاص وقت تک تمہیں فائدہ پہنچتا ہے“ (النحل : 80) ایک انسان کتنی ہی محدود اور غیر متمدن زندگی رکھتا ہو لیکن اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہوسکتا کہ اس کا گرد و پیش اسے فائدہ پہنچا رہا ہے۔ ایک لکڑ ہارا بھی اپنے جھونپڑے میں بیٹھا ہوا نظر آتھاتا ہے تو گویا اپنے احساس کے لیے بہتر تعبیر نہ پائے لیکن یہ حقیقت ضرور محسوس کرلیتا ہے۔ وہ جب بیمار ہوتا ہے تو جنگل کی جڑی بوٹیاں کھا لیتا ہے۔ دھوپ تیز ہوتی ہے تو درختوں کے سائے میں بیٹھ جاتا ہے بیکار ہوتا ہے تو پتوں کی سرسبزی اور پھولوں کی خوشنمائی سے آنکھیں سینکنے لگتا ہے۔ پھر یہی درخت ہیں جو اپنی شادابی میں اسے پھل بخشتے ہیں پختگی میں لکڑی کے تختے بن جاتے ہیں کہنگی میں آگ کے شعلے بھڑکا دیتے ہیں۔ ایک ہی مخلوق بنائی ہے جو اپنے منظر سے نزہت و سرور بخشتی ہے، اپنی بو سے ہوا کو معطر کرتی ہے، اپنے پھل میں طرح طرح کی غذائیں رکھتی ہے، اپنی لکڑی سے سامان تعمیر مہیا کرتی ہے، اور پھر خشک ہوجاتی ہے تو اس کے جلانے سے آگ بھڑکتی، چولھے گرم کرتی، موسم کو معتدل بناتی، اور اپنی حرارت سے بے شمار اشیا کے پکنے، پگھلنے اور تپنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ ” الذی جعل لکم من الشجر الاخضر نارا فاذا انتم منہ توقدون : (اور دیکھو) وہ کارفرمائے قدرت جس نے سرسبز درخت سے تمہارے لیے آگ پیدا کردی۔ اب تم اسی سے (اپنے چولھوں کی) آگ سلگا لیتے ہو“ (36:، 80) اور پھر یہ وہ فوائد ہیں جو تمہیں اپنی جگہ محسوس ہو رہے ہیں لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ فطرت نے یہ تمام چیزیں کن کن کاموں اور کن کن مصلحتوں کے لیے پیدا کی ہیں اور کار فرمائے عالم کارگاہ ہستی کے بنانے اور سنوارنے کے لیے ان سے کیا کام نہیں لے رہا ہے؟ : ” وما یعلم جنود ربک الا ھو : اور تمہارا پروردگار ( اس کار زار ہستی کی کارفرمائیوں کے لیے) جو فوجیں رکھتا ہے ان کا حال اس کے سوا کون جانتا ہے؟“ پھر یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ فطرت نے کائنات ہستی کے افادہ و فیضان کا نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ وہ بیک وقت ہر مخلوق کو یکساں طور پر نفع پہنچا تاکہ اور ہر مخلوق کی یکساں طور پر رعایت ملحوظ رکھتا ہے۔ اگر ایک انسان اپنے عالی شان محل میں بیٹھ کر محسوس کرتا ہے کہ تمام کارخانہ ہستی صرف اسی کی کار براریوں کے لیے تو ٹھیک اسی طرح ایک چیونٹی بھی اپنے بل میں کہہ سکتی ہے کہ فطرت کی ساری کارفرمائیاں صرف اسی کی کاربراریوں کے لیے ہیں اور کون ہے جو اسے جھٹلانے کی جرات کرسکتا ہے؟ کیا فی الحقیقت سورج اس لیے نہیں ہے کہ اس کے لیے حرارت بہم پہنچائے؟ کیا بارش اس لیے نہیں ہے کہ اس کے لیے رطوبت مہیا کرے؟ کیا ہوا اس لیے نہیں ہے کہ اس کی ناک تک شکر کی بو پہنچا دے؟ کیا زمین اس لیے نہیں ہے کہ ہر موسم اور ہر حالت کے مطابق اس کے لیے مقام و منزل بنے؟ در اصل فطرت کی بخشایشوں کا قانون کچھ ایسا عام اور ہمہ گیر واقع ہوا ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں ایک ہی طریقہ سے، ایک ہی نظام کے ماتحت، ہر مخلوق کی نگہداشت کرتا اور ہر مخلوق کو یکساں طور پر فائدہ اٹھانے کا موقع دیتا ہے۔ حتی کہ ہر وجود اپنی جگہ محسوس کرسکتا ہے کہ یہ پورا کارخانہ عالم صرف اسی کی کام جوئیوں اور آسائشوں کے لیے سرگرم کار ہے۔ ” ومامن دابۃ فی الارض ولا طائر یطیر بجناحیہ الا امم امثالکم : اور زمین کے تمام جانور ( اور پردار) بازوؤں سے اڑنے والے تمام پرند در اصل تمہاری ہی طرح امتیں ہیں“۔ کائنت کی تخریب بھی تعمیر کے لیے ہے : البتہ یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا عالم کون و فساد ہے۔ یہاں ہر بنے کے ساتھ بگڑنا ہے اور ہر سمٹنے کے ساتھ بکھرنا۔ لیکن جس طرح سنگ تراش کا توڑنا پھوڑنا بھی اس لیے ہوتا ہے کہ خوبی و دل آویزی کا ایک پیکر تیار کردے اسی طرح کائنات عالم کا تمام بگاڑ بھی اس لیے ہے کہ بناؤ اور خوبی کا فیضان ظہور میں آئے۔ تم ایک عمارت بناتے ہو لیکن اس ” بنانے“ کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ کیا یہی نہیں ہوتا کہ بہت سے بنی ہوئی چیزیں بگڑ گئیں؟ چٹانیں اگر نہ کاٹی جاتیں، بھٹے اگر سلگائے جاتے، درختوں پر آرہ اگر نہ چلتا تو ظاہر ہے عمارت کا بناؤ بھی ظہور میں نہ آتا۔ پھر یہ راحت و سکون جو تمہیں ایک عمارت کی سکونت سے حاصل ہوتا ہے کس صورت حال کا نتیجہ ہے؟ یقینا اسی شور و شر اور ہنگامہ تخریب کا جو سروسامان تعمیر کی جدو جہد نے عرصہ تک جاری رکھا تھا۔ اگر تخریبھ کا یہ شور و شر نہ ہوتا تو عمارت کا عیش و سکون بھی وجود میں نہ آتا۔ پس یہی حال فطرت کی تعمیری سرگرمیوں کا بھی سمجھو۔ وہ عمارت ہستی کا ایک ایک گوشہ تعمیر کرتی رہتی ہے، وہ اس کارخانہ کا ایک ایک کیل پرزہ ڈھالتی رہتی ہے، وہ اس کی درستگی و خوبی کی حفاظت کے لیے ہر نقصان کا دفعیہ اور ہر فساد کا ازالہ چاہتی ہے۔ تعیر و درستگی کی یہی سرگرمیاں ہیں جو تمہیں بعض اوقات تخریب و نقصان کی ہولناکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ حالانکہ یہاں تخریب کب ہے؟ جو کچھ ہے تعمیر ہی تعمیر ہے۔ سمندر میں تلاطم، دریا میں طغیانی، پہاڑوں میں آتش فشانی، جاڑوں میں برف باری، گرمیوں میں سموم، اور بارش میں ہنگامہ ابر و باد، تمہارے لیے خوش آئند مناظر نہیں ہوتے لیکن تم نہیں جانتے کہ ان میں سے ہر حادثہ کائنات ہستی کی تعمیر و درستگی کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جس قدر دنیا کی کوئی مفید سے مفید چیز تمہاری نگاہ میں ہوسکتی ہے۔ اگر سمندر میں طوفان نہ اٹھتے تو میدانوں کی زندگی و شادابی کے لیے ایک قطرہ بارش میسر نہ آتا۔ اگر بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک نہ ہوتی تو باران رحمت کا فیضان بھی نہ ہوتا۔ اگر آتش فشاں پہاڑوں کی چوٹیاں نہ پھٹتیں تو زمین کے اندر کا کھولتا ہوا مادہ اس کرہ کی تمام سطح پارہ پارہ کردیتا۔ تم بول اٹھو گے، یہ مادہ پیدا ہی کیوں کیا گیا؟ لیکن تمہیں جاننا چاہیے کہ اگر یہ مادہ نہ ہوتا تو زمین کی قوت نشوونما کا ایک ضروری عنصر مفقود ہوجاتا۔ یہی حقیقت ہے جس کی طرف قرآن نے جابجا اشارات کیے ہیں۔ مثلا سورۃ روم میں ہے : ” وَمِنْ آیَاتِہِ یُرِیکُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَیُحْیِی بِہِ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا إِنَّ فِی ذَلِکَ لآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ : اور (دیکھو) اس کی (قدرت و حکمت کی) نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ بجلی کی چمک اور کڑک نمودار کرتا ہے اور اس سے تم پر خوف اور امید دونوں حالتیں طاری ہوجاتی ہیں اور آسمان سے پانی برساتا ہے اور پانی کی تاثیر سے زمین مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھتی ہے۔ بلاشبہ اس صورت حال میں ان لوگوں کے لیے جو عقل و بینش رکھتے ہیں (حکمت الٰہی کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں ! جمال فطرت : لیکن فطرت کے افادہ فیضان کی سب سے بڑی بخشایش اس کا عالمگیر حسن و جمال ہے۔ فطرت صرف بناتی اور سنوارتی ہی نہیں بلکہ اس طرح بناتی سنوارتی ہے کہ اس کے ہر بناؤ میں حسن و زیبائی کا جلوہ اور اس کے ہر ظہور میں نظر افروزی کی نمود پیدا ہوگئی ہے۔ کائنات ہستی کو اس کی مجموعی حیثیت میں دیکھو یا اس کے ایک ایک گوشہ خلقت پر نظر ڈالو اس کا کوئی رخ نہیں جس پر حسن و رعنائی نے ایک نقاب زیبائش نہ ڈال دی ہو۔ ستاروں کا نظام اور ان کی سیر و گردش، سورج کی روشنی اور اس کی بوقلمونی، چاند کی گردش اور اس کا اتار چڑھاؤ، فضائے آسمانی کی وسعت اور اس کی نیرنگیاں، بارش کا سماں اور اس کے تغیرات، سمندر کا منظر اور دریاؤں کی روانی، پہاڑوں کی بلندیاں اور وادیوں کا نشیب، حیوانات کے اجسام اور ان کا تنوع، نباتات کی صورت آرائیاں اور باغ و چمن کی رعنائیاں، پھولوں کی عطر بیزی اور پرندوں کی نغمہ سنجی، صبح کا چہرہ خنداں اور شام کا جلوہ محجوب، غرض کہ تمام تماشا گاہ ہستی حسن کی نمائش اور نظر افروزی کی جلوہ گاہ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے گویا اس پردہ ہستی کے پیچھے حسن افروزی و جلوہ آرائی کی کوئی قوت کام کر رہی ہے جو چاہتی ہے کہ جو کچھ بھی ظہور میں آئے حسن و زبیائش کے ساتھ ظہور میں آئے اور کارخانہ ہستی کا ہر گوشہ نگاہ کے لیے نشاط، سامعہ کے لیے سرور، اور روح کے لیے بہشت راحت و سکون بن جائے ! دراصل کائنات ہستی کا مایہ خمیر ہی حسن و زیبائی ہے۔ فطرت نے جس طرح اس کے بناؤ کے لیے مادی عناصر پیدا کیے، اسی طرح اس کی خبروئی و رعنائی کے لیے معنوی عناصر کا بھی رنگ و روغن آراستہ کردیا۔ روشنی، رنگ، خوشبو، اور نغمہ حسن و رعنائی کے وہ اجزا ہیں جن سے مشاطہ فطرت چہرہ وجود کی آرائش کر رہی ہے : مشاطہ را بگو کہ بر اسباب حسن یار۔ چیزے فزوں کند کہ تماشا بما رسد !۔ ” صنع اللہ الذی اتقن کل شیء : یہ اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز خوبی اور درستگی کے ساتھ بنائی“۔ ” ذلک عالم الغیب والشہادۃ العزیز الرحیم۔ الذی احسن کل شیء خلقہ۔ : یہ اللہ ہے محسوسات اور غیر محسوسات کا جاننے والا، طاقت والا، رحمت والا جس نے جو چیز بنائی حسن و خوبی کے ساتھ بنائی“۔ بلبل کی نغمہ سنجی اور زاغ و زغن کا شور و غوغا : بلاشبہ کاروبار فطرت کے بعض مظاہر ایسے بھی ہیں جن میں تمہیں حسن و خوبی کی کوئی گیرائی محسوس نہیں ہوتی۔ تم کہتے ہو قمری و بلبل کی نغمہ سنجیوں کے ساتھ زاغ و زغن کا شور و غوغا کیوں کیوں ہے؟ لیکن تم بھول جاتے ہو کہ ارغنون ہستی کا نغمہ کسی ایک آہنگ ہی سے نہیں بنا ہے اور نہ بننا چاہیے تھا۔ جس طرح تمہارے آلات موسیقی کے پردوں میں زیر و بم کے تمام آہنگ موجود ہیں۔ اس میں ہلکے سے ہلکے سر بھی ہیں جن سے باریک اور سریلی صدائیں نکلتی ہیں موٹے سے موٹ سر بھی ہیں جو بلند سے بلند اور بھاری سے بھاری صدائی پیدا کرتے ہیں۔ ان تمام سروں کے ملنے سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہی موسیقی کی حلاوت ہے۔ کیونکہ دنیا کی تمام چیزوں کی طرح موسیقی کی حقیقت بھی مختلف اجزا کے امتزاج و تالیف سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی ایک ہی سر سے نغمے کی حلاوت پیدا ہوجائے۔ اگر تم بین یا ستار اٹھا کر صرف اس کے چڑھاؤ کا کوئی ایک پردہ چھیڑ دو گے یا پیانو کی بھاری کنجیوں میں سے کوئی ایک کنجی ہی بجانے لگو گے تو یہ نغمہ نہ ہوگا بھاں بھاں کی ایک کرخت آواز ہوگی۔ یہاں حال موسیقی فطرت کے زیر وبم کا ہے۔ تمہیں کوے کی کائیں کائیں اور چیک کی چیخ میں کوئی دلکشی محسوس نہیں ہوتی لیکن موسیقی فطرت کی تالیف کے لیے جس طرح قمری و بلبل کا ہلکا سر ضروری تھا اسی طرح زاغ و زغن کا بھاری اور کرخت سر بھی ناگزیر تھا، بلبل و قمری کو اس سرگم کا اتار سمجھو اور زاغ و زغن کو چڑھاؤ۔ بر اہل ذوق در فیض در نمی بندد۔ نوائے بلبل اگر نیست صوت زاغ شنو۔ ” تُسَبِّحُ لَہُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالأرْضُ وَمَنْ فِیہِنَّ وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِ وَلَکِنْ لا تَفْقَہُونَ تَسْبِیحَہُمْ إِنَّہُ کَانَ حَلِیمًا غَفُورًا : ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی بھی ان میں ہے سب (اپنی بناوٹ کی خوبی اور صنعت کے کمال میں) اللہ کی بڑائی اور پاکی کا (زبان حال سے) اعتراف کر رہے ہیں اور ( اتنا ہی نہیں بلکہ کائنات خلقت میں) کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو ( زبان حال سے) اس کی تسبیح و تحمید نہ کر رہی ہو مگر ( افسوس کہ) تم ( اپنے جہل و غفلت سے) اس ترانہ تسبیح کو سمجھتے نہیں۔ فطرت کی حسن افروزیاں اور رحمت الٰہی کی بخشش !: آؤ چند لمحوں کے لیے پھر ان سوالات پر غور کرلیں جو پہلے گزر چکے ہیں۔ فطرت کائنات کی یہ تمام حسن افروزیاں اور جلوہ آرائیاں کیوں ہیں؟ یہ کیوں ہے کہ فطرت حسین ہے اور جو کچھ اس سے ظہور میں آتا ہے وہ حسن و جمال ہی ہوتا ہے؟ کیا یہ ممکن نہ تھا کہ کارخانہ ہستی ہوتا لیکن رنگ کی نظر افروزیاں، بو کی عطر بیزیاں اور نغمہ کی جاں نوازیاں نہ ہوتیں؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا تھا کہ سب کچھ ہوتا لیکن سبزہ و گل کی رعنائیاں اور قمری و بلبل کی نغمہ سنجیاں نہ ہوتیں؟ یقینا دنیا اپنے بننے کے لیے اس کی محتاج نہ تھی کہ تتلی کے پروں میں عجیب و غریب نقش و نگا رہوں اور رنگ برنگ کے دلفریب پرند درختوں کی شاخوں پر چہچہا رہے ہوں؟ ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ درخت ہوتے مگر قامت کی بلندی، پھیلاؤ کی موزونیت، شاخوں کی ترتیب، پتوں کی سبزی اور پھولوں کی رنگا رنگی نہ ہوتی۔ پھر یہ کیوں ہے کہ تمام حیوانات اپنی اپنی حالت اور گردو پیش کے مطابق ڈیل ڈول کی موزونیت اور اعضا کا تناسب ضرور ہی رکھیں۔ اور کوئی وجود نہ ہو جو اپنی شکل و منظر میں ایک خاص طرح کا معتدل پیمانہ نہ رکھتا ہو؟ انسانی علم و نظر کی کاوشیں آج تک یہ عقدہ حل نہ کرسکیں کہ یہاں تعمیر کے ساتھ تحسین کیوں ہے؟ مگر قرآن کہتا ہے یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ خالق کائنات الرحمن اور الرحیم ہے۔ یعنی اس میں رحمت ہے اور اس کی رحمت اپنا ظہور و فعل بھی رکھتی ہے۔ رحمت کا مقتضا یہی تھا کہ بخشش ہو، فیضان ہو، جود و احسان ہو، پس اس نے ایک طرف تو ہمیں زندگی اور زندگی کے تمام احساس و عواطف دبخش دیے جو خوشنمائی اور بدنمائی میں امتیاز کرتے اور خوبی و جمال سے کیف و سرور حاصل کرتے ہیں دوسری طرف کارگاہ ہستی کو اپنی حسن آرائیوں اور جاں فزائیوں سے اس طرح آراستہ کردیا کہ اس کا ہر گشہ نگاہ کے لیے جنت، سامعہ کے لیے حلاوت اور روح کے لیے سرمایہ کیف و سرور بن گیا۔ ” فتبارک اللہ احسن الخالقین : پس کیا ہی بابرکت ذات ہے اللہ کی بنانے والوں میں سب سے زیادہ حسن و خوبی کے ساتھ بنانے والا“ (المومنون : 14) قدرت کا خود رو سامانِ راحت و سرور اور انسان کی ناشکری : ہم زندگی کی بناوٹی اور خود ساختہ آسائشوں میں اس درجہ منہمک ہوگئے ہیں کہ ہمیں قدرتی راحتوں پر غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا اور بسا اوقات تو ہم ان کی قدر و قیمت کے اعتراف سے بھی انکار کردیتے ہیں۔ لیکن اگر چند لمحوں کے لیے اپنے آپ کو اس غفلت سے بیدار کرلیں تو معلوم ہوجائے کہ کائنات ہستی کا حسن و جمال فطرت کی ایک عظیم اور بے پایاں بخشش ہے اور اگر یہ نہ ہوتی یا ہمیں اس کا احساس نہ ہوتا تو زندگی، زندگی نہ ہوتی، نہیں معلوم کیا چیز ہوجاتی۔ ممکن ہے موت کی بدحالیوں کا ایک تسلسل ہوتا ! ایک لمحہ کے لیے تصور کرو کہ دنیا موجود ہے مگر حسن و زیبائی کے تمام جلووں اور احساسات سے خالی ہے۔ آسمان ہے مگر فضا کی یہ نگاہ پرور نیلگونی نہیں ہے، ستارے ہیں مگر ان کی درخشندگی و جہاں تابی کی یہ جلوہ آرائی نہیں ہے، درخت ہیں مگر بغیر سبزی کے، پھول ہیں مگر بغیر رنگ و بو کے، اشیا کا اعتدال، اجسام کا تناسب، صداؤں کا ترنم، روشنی و رنگت کی بو قلمونی ان میں سے کوئی چیز بھی وجود نہیں رکھتی یا یوں کہا جائے کہ ہم میں ان کا احساس نہیں ہے۔ غور کرو ایک ایسی دنیا کے ساتھ زندگی کا تصور کیا بھیانک اور ہولناک منظر پیش کرتا ہے؟ ایسی زندگی جس میں ہن تو حسن کا احساس ہو نہ حسن کی جلوہ آرائی، نہ نگاہ کے لیے سرور ہو نہ سامعہ کے لیے حلاوت، نہ جذبات کی رقت ہو نہ محسوسات کی لطافت، یقینا عذاب و جانکاہی کی ایک ایسی حالت ہوتی جس کا تصور بھی ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے۔ لیکن جس قدرت نے ہمیں زندگی دی اس نے یہ بھی ضروری سمجھا کہ زندگی کی سب سے بڑی نعمت یعنی حسن و زیابی کی بخشش سے بھی مالا مال کردے۔ اس نے ایک ہاتھ سے ہمیں حسن کا احساس دیا۔ دوسرے ہاتھ سے تمام دنیا کو جلوہ حسن بنا دیا۔ یہی حقیقت ہے جو ہمیں رحمت کی موجودگی کا یقین دلاتی ہے۔ اگر پردہ ہستی کے پیچھے صرف خالقیت ہی ہوتی، رحمت نہ ہوتی، یعنی پیدا کرنے یا پیدا ہوجانے کی قوت ہوتی مگر افادہ فیضان کا ارادہ نہ ہوتا، تو یقینا کائنات ہستی میں فطرت کے فض (رح) و احسان کا یہ عالمگیر مظاہرہ بھی نہ ہوتا ! ”أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّہَ سَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الأرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَہُ ظَاہِرَۃً وَبَاطِنَۃً وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُجَادِلُ فِی اللَّہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَلا ہُدًی وَلا کِتَابٍ مُنِیرٍ : کیا تم نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ سب تمہارے لیے خدا نے مسخر کردیا ہے اور اپنی تمام نعمتیں ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی پوری کردی ہیں؟ انسانوں میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی علم ہو، یا ہدایت ہو، یا کوئی کتاب روشن“ (لقمان :20) انسانی طبیعت کی یہ عالمگیر کمزوری ہے کہ جب تک وہ ایک نعمت سے محروم نہیں ہوجاتا اس کی قدر وقیمت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ نہیں کرسکتا۔ تم گنگا کے کنارے بستے ہو اس لیے تمہارے نزدیک زندگی کی سب سے زیادہ بے قدر چیز پانی ہے لیکن اگر یہی پانی چوبیس گھنٹے تک میسر نہ آئے تو تمہیں معلوم ہوجائے اس کی قدر و قیمت کا کیا حال ہے؟ یہی حال فطرت کے فیضان جمال کا بھی ہے۔ اس کے عام اور بے پردہ جلوے شب و روز تمہاری نگاہوں کے سامنے سے گزرتے رہتے ہیں اس لیے تمہیں ان کی قدر و قیمت محسوس نہیں ہوتی۔ صبح اپنی ساری جلو آرائیوں کے ساتھ روز آتی ہے اس لیے تم بستر سے سر اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ چاندنی اپنی ساری حسن افروزیوں کے ساتھ ہمیشہ نکھرتی رہتی ہے اس لیے تم کھڑکیاں بن کر کے سو جاتے ہو۔ لیکن جب یہ شب و روز کے جلوہ ہائے فطرت تمہاری نظروں سے روپوش ہوجاتے ہیں یا تم میں ان کے نظارہ و سماع کی استعداد باقی نہیں رہتی تو غور کرو اس وقت تمہارے احساسات کا کیا حال ہوتا ہے؟ کیا تم محسوس نہیں کرتے کہ ان میں سے ہر چیز زندگی کی ایک بے بہا برکت اور معیشت کی ایک عظیم الشان نعمت تھی؟ سرد ملکوں کے باشندوں سے پوچھو جہاں سال کا بڑا حصہ ابر آلود گزرتا ہے کیا سورج کی کرنوں سے بڑھ کر بھی زندگی کی کوئی مسرت ہوسکتی ہے؟ ایک بیمارے سے پوچھو جو نقل و حرکت سے محرم بستر مرض پر پڑا ہے۔ وہ بتائے گا کہ آسمان کی صاف اور نیلگوں فضا کا ایک نظارہ راحت و سکون کی کتنی بڑی دولت ہے؟ ایک اندھا جو پیدائشی اندھا نہ تھا تمہیں بتا سکتا ہے کہ سورج کی روشنی اور باغ و چمن کی بہار دیکھے بغیر زندگی بسر کرنا کیسی ناقابل برداشت مصیبت ہے؟ تم بسا اوقات زندگی کی مصنوعی آسائوشوں کے لیے ترستے ہو اور خیال کرتے ہو کہ زندگی کی سب سے بڑی نعمت چاندی سونے کا ڈھیر اور جاہ و حشم کی نمائش ہے لیکن تم بھول جاتے ہو کہ زندگی کی حقیقی مسرتوں کا جو خود رو سامان فطرت نے ہر مخلوق کے لیے پیدا کر رکھا ہے اس سے بڑھ کر دنیا کی دولت و حشمت کونسا سامان نشاط مہیا کرسکتی ہے اور اگر ایک انسان کو وہ سب کچھ میسر ہو تو پھر اس کے بعد کیا باقی رہا جاتا ہے؟ جس دنیا میں سورج ہر روز چمکتا ہو، جس دنیا میں صبح ہر روز مشکراتی اور شام ہر روز پردہ شب میں چھپ جاتی ہو، جس کی راتیں آسمان کی قندیلوں سے مزین اور جس کی چاندنی حسن افروزیوں سے جہاں تاب رہتی ہو، جس کی بہار سبزہ و گل سے لدی ہوئی اور جس کی فصلیں لہلہاتے ہوئے کھیتوں سے گرانبار ہوں، جس دنیا میں روشنی اپنی چمک، رنگ اپنی بوقلمونی، خوشبو اپنی عطر بیزی، اور موسیقی اپنا نغمہ و آہنگ رکھتی ہو، کیا اس دنیا کا کوئی باشندہ آسایش حیات سے محروم اور نعمت معیشت سے مفلس ہوسکتا ہے؟ کیا کسی آنکھ کے لیے جو دیکھ سکتی ہو اور کسی دماغ کے لیے جو محسوس کرسکتا ہو ایک ایسی دنیا میں نامرادی و بدبختی کا گلہ جائز ہے؟ قرآن نے جا بجا انسان کو اس کے اسی کفران نعمت پر توجہ دلائی ہے : ” وَآتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَۃَ اللَّہِ لا تُحْصُوہَا إِنَّ الإنْسَانَ لَظَلُومٌ کَفَّارٌ : اور اس نے تمہیں وہ تمام چیزیں دے دیں جو تمہیں مطلوب تھیں اور اگر اللہ کی نعمتیں شمار کرنی چاہو تو وہ اتنی ہیں کہ کبھی شمار نہیں کرسکو گے۔ بلاشبہ انسان بڑا ہی نا انصاف بڑا ہی نا شکرا ہے“ (ابراہیم :34) جمال معنوی : پھر فطرت کی بخشایش جمال کے اس گوشہ پر بھی نظر ڈالو کہ اس نے جس طرح جسم و صورت کو حسن و زیبائی بخشی اسی طرح اس کی معنویت کو بھی جمال معنوی سے آراستہ کردیا۔ جسم و صورت کا جمال یہ ہے کہ ہر وجود کے ڈیل ڈول اور اعضاء و جوارح میں تناسب ہے۔ معنویت کا جمال یہ ہے کہ ہر چیز کی کیفیت اور باطنی قوی میں اعتدال ہے۔ اسی کیفیت کے اعتدال سے خواص اور فوائد پیدا ہوئے ہیں اور یہی اعتدال ہے جس نے حیوانات میں اداراک وھواس کی قوتیں بیدار کردیں اور پھر انسان کے درجہ میں پہنچ کر جوہر عقل و فکر کا چراغ روشن کردیا۔ ” وَاللَّہُ أَخْرَجَکُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّہَاتِکُمْ لا تَعْلَمُونَ شَیْئًا وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالأبْصَارَ وَالأفْئِدَۃَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ : اور (دیکھو) یہ اللہ کی کارفرمائی ہے کہ تم اپنی ماؤں کے شکم سے پیدا ہوتے ہو اور کسی طرح کی سمجھ بوجھ تم میں نہیں ہوتی لیکن اس نے تمہارے لیے دیکھنے سننے کے حواس بنا دیے اور سوچنے سمجھنے کے لیے عقل دے دی تاکہ اس کی نعمت کے شکر گزار ہو۔ کائنات ہستی کے اسرار و غوامض بے شمار ہیں لیکن روح حیوانی کا جوہر ادراک زندگی کا سب سے زیادہ لاینحل عقدہ ہے۔ حیوانات میں کیڑے مکوڑے تک ہر طرح کا احساس و ادراک رکھتے ہیں اور انسانی دماغ کے نہاں خانہ میں عقل و تفکر کا ایک چراغ روشن ہے۔ یہ قوت احساس، یہ قوت ادراک اور یہ قوت عقل کیونکر پیدا ہوئی؟ مادی عناصر کی ترکیب و امتزاج سے ایک ماورائے مادہ جوہر کس طرح ظہور میں آگیا؟ چیونٹی کو دیکھو اس کے دماغ کا حج سوئی کی نوک سے شاید ہی کچھ زیادہ ہوگا۔ لیکن مادہ کے اس حقیر ترین عصبی ذرہ میں بھی احساس و ادراک، محنت و استقلال، ترتیب و تناسب، نظم و ضبط، اور صنعت و اختراع کی ساری قوتیں مخفی ہوتی ہیں اور وہ اپنے اعمال حیات کی کرشمہ سازیوں سے ہم پر رعب اور حیرت کا عالم طاری کردیتی ہے۔ شہد کی مکھی کی کار فرمائیاں ہر روز تمہاری نظروں سے گزرتی رہتی ہیں۔ یہ کون ہے جس نے ایک چھوٹی سی مکھی میں تعمیر و تحسین کی ایسی منتظم قوت پیدا کردی ہے؟ قرآن کہتا ہے یہ اس لیے کہ رحمت کا مقتضا جمال تھا اور ضروری تھا کہ جس طرح اس نے جمال صوری سے دنیا آراستہ کردی ہے اسی طرح جمال معنوی کی بخشایشوں سے بھی اسے مالا مال کردیتی۔ ” ذَلِکَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ (٦) الَّذِی أَحْسَنَ کُلَّ شَیْءٍ خَلَقَہُ وَبَدَأَ خَلْقَ الإنْسَانِ مِنْ طِینٍ (٧) ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہُ مِنْ سُلالَۃٍ مِنْ مَاءٍ مَہِینٍ (٨) ثُمَّ سَوَّاہُ وَنَفَخَ فِیہِ مِنْ رُوحِہِ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالأبْصَارَ وَالأفْئِدَۃَ قَلِیلا مَا تَشْکُرُونَ : یہ محسوسات اور غیر محسوسات کا جاننے والا عزیز و رحیم ہے جس نے جو چیز بھی بنائی حسن و خوبی کے ساتھ بنائی۔ چنانچہ یہ اسی کی قدرت و حکمت ہے کہ انسان کی پیدائش مٹی سے شروع کی پھر اس کے توالد و تناسل کا سلسلہ (خون کے) خلاصہ سے جو پانی کا ایک حقیر سا قطرہ ہوتا ہے قائم کردیا۔ پھر اس کی تمام قوتوں کی درستگی کی اور اپنی روح (میں سے ایک قوت) پھوک دی اور (اس طرح) اس کے لیے سننے، دیکھنے اور فکر کرنے کی قوتیں پیدا کردیں۔ (لیکن افسوس انسان کی غفلت پر !) بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ (اللہ کی رحمت کا) شکر گزار ہو۔ بقائے انفع : لیکن کائنات ہستیکا یہ بناؤ، یہ حسن، یہ ارتقا قائم نہیں رہ سکتا تھا اگر اس میں خوبی کے بقا اور خرابی کے ازالے کے لیے ایک اٹل قوت سرگرم کار نہ رہتی۔ یہ قوت کیا ہے؟ فطرت کا انتخاب ہے۔ فطرت ہمیشہ چھانٹتی رہتی ہے۔ وہ ہر گوشہ میں صرف خوبی اور بہتری ہی باقی رکھتی ہے۔ فساد اور نقص محو کردیتی ہے۔ ہم فطرت کے اس انتخاب سے بے خبر نہیں ہیں۔ ہم اسے ” بقائے اصلح“ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ” اصلح“ یعنی Fittest، لیکن قرآن بقائے اصلح کی جگہ بقائے انفع کا ذکر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے اس کارگاہ فیضان و جمال میں صرف وہی چیز باقی رکھی جاتی ہے جس میں نفع ہو۔ کیونکہ یہاں رحمت کارفرما ہے اور رحمت چاہتی ہے کہ افادہ فیضان ہو۔ وہ نقصان و برہمی گوارا نہیں کرسکتی۔ تم سونا کٹھالی میں ڈال کر آگ پر رکھتے ہو۔ کھوٹ جل جاتا ہے۔ خالص سونا باقی رہ جاتا ہے۔ یہی مثال فطرت کے انتخاب کی ہے۔ کھوٹ میں نفع نہ تھا نابود کردیا گیا، سونے میں نفع تھا باقی رہ گیا۔ ”أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِیَۃٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَابِیًا وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْہِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَۃٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُہُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الأرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الأمْثَالَ : خدا نے آسمان سے پانی برسایا تو ندی نالوں میں جس قدر سمائی تھی اس کے مطابق بہہ نکلے اور جس قدر کوڑا کرکٹ جھاگ بن کر اوپر آگیا تھا اسے سیلاب اٹھا کر بہا لے گیا۔ اسی طرح جب زیور یا اور کسی طرح کا سامان بنانے کے لیے (مختلف قسم کی دھاتیں) آگ میں تپاتے ہیں تو اس میں بھی جھاگ اٹھتا ہے اور میل کچیل کٹ کر نکل جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ حق اور باطل کی مثال بیان کردیتا ہے۔ جھاگ رائیگاں جائے گا (کیونکہ اس میں نفع نہ تھا) جس چیز میں انسان کے لیے نفع ہوگا، وہ زمین میں باقی رہ جائے گی۔ تدریج وامہال : پھر اگر دقت نظر سے کام لو تو افادہ فیضان فطرت کی حقیقت کچھ انہی مظاہر پر موقوف نہیں ہے بلکہ کارخانہ ہستی کے تمام اعمال وقوانین کا یہی سوال ہے۔ تم دیکھتے ہو کہ فطرت کے تمام قوانین اپنی نوعیت میں کچھ اس طرح واقع ہوئے ہیں کہ اگر لفظوں میں اسے تعبیر کرنا چاہو تو صرف فطرت کے فضل و رحمت ہی سے تعبیر کرسکتے ہو۔ تمہیں اور کوئی تعبیر نہیں ملے گی۔ مثلاً اس کے قوانین کا عمل کبھی فوری اور اچانک نہیں ہوتا۔ وہ جو کچھ کرتی ہے آہستہ آہستہ بتدریج کرتی ہے اور اس تدریجی طرز عمل نے دنیا کے لیے مہلت اور ڈھیل کا فائدہ پیدا کردیا ہے۔ یعنی اس کا ہر قانون فرصتوں پر فرصتیں دیتا ہے اور اس کا ہر فعل عفو و درگزر کا دروازہ آخر تک کھلا رکھتا ہے۔ بلاشبہ اس کے قوانین اپنے نفاذ میں اٹل ہیں۔ ان میں رد و بدل کا امکان نہیں۔ ” مایبدل القول لدی : ہماری یہاں جو بات ایک مرتبہ ٹھہرا دی گئی اس میں کبھی تدبیلی نہیں ہوتی“ (ق :28)۔ اور اس لیے تم خیال کرنے لگتے ہو کہ ان کی قطعیت بے رحمی سے خالی نہیں لیکن تم نہیں سوچتے کہ جو قوانین اپنے نفاذ میں اس درجہ قطعی اور بے پروا ہیں وہی اپنی نوعیت میں کس درجہ عفو و درگزر اور مہلت بخشی و اصلاح کوشی کی روح بھی رکھتے ہیں؟ اسی لیے آیت مندرجہ صدر میں مایبد القول کے بعد ہی فرمایا ” وما انا بظلام للعبید : لیکن یہ بھی نہیں ہے کہ ہم بندوں کے لیے زیادتی کرنے والے ہوں“ (ق :28)۔ فطرت اگر چاہتی تو ہر حالت بیک دفعہ ظہور میں آجاتی۔ یعنی اس کے قوانین کا نفاذ فوری اور ناگہانی ہوتا لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ ایسا نہیں ہوتا۔ ہر حالت، ہر تاثیر، ہر انفعال کے ظہور و بلوغ کے لیے ایک خاص مدت مقرر کردی گئی ہے۔ اور ضروری ہے کہ بتدریج مختلف منزلیں پیش آئیں۔ پھر ہر منزل اپنے آثار و انداز رکھتی ہے اور آنے والے نتائج سے خبردار کرتی رہتی ہے۔ زندگی اور موت کے قوانین پر غور کرو۔ کسی طرح زندگی بتدریج نشوونما پاتی اور کس طرح درجہ بدرجہ مختلف منزلوں سے گزرتی ہے۔ اور پھر کس طرح موت کمزوری وفساد کا ایک طول طویل سلسلہ ہے جو اپنے ابتدائی نقطوں سے شروع ہوتا اور یکے بعد دیگرے مختلف منزلیں طرے کرتا ہوا آخری نقطہ بلوغ تک پہنچا دیا کرتا ہے؟ تم بد پرہیزی کرتے ہو تو یہ نہیں ہوتا کہ فوراً ہی ہلاک ہوجاؤ بلکہ بتدریج موت کی طرف بڑھنے لگتے ہو اور بالآخر ایک خاص مدت کے اندر جوہر صورت حال کے لیے یکساں نہیں ہوتی درجہ بدرجہ اترتے ہوئے موت کی آغوش میں جا گرتے ہو۔ نباتات کو دیکھو۔ درخت اگر آبیاری سے محروم ہوجاتے ہیں یا نقصان و سفاد کا کوئی دوسرا سبب عارض ہوجاتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ ایک ہی دفعہ مرجھا کر رہ جائیں یا کھڑے کھڑے اچانک گر جائیں۔ بلکہ بتدریج شاقدابی کی جگہ پژمردگی کی حالت طاری ہونا شروع ہوجاتی ہے اور پھر ایک خاص مدت کے اندر جو مقرر کردی گئی ہے یا تو بالک مرجھا کر رہ جاتے ہیں یا جڑ کھوکھلی ہو کر گرپڑتے ہیں۔ اصطلاح قرآنی میں ” اجل“: یہی حال کائنات کے تمام تغیرات و انفعالات کا ہے۔ کوئی تغیر ایسا نہیں جو اپنا تدریجی دور نہ رکھتا ہو۔ ہر چیز بتدریج بنتی ہے اور اسی طرح بتدریج بگڑتی ہے۔ بناؤ ہو یا بگاڑ، ممکن نہیں کہ ایک خاص مدت گزرے بغیر کوئی حالت بھی اپنی کامل صورت میں ظاہر ہوسکے۔ یہ مدت جو ہر حالت کے ظہور کے لیے اس کی ” اجل“ یعنی مقررہ وقت ہے مختلف گوشوں اور مختلف حالتوں میں مختلف مقدار رکھتی ہے اور بعض حالتوں میں اس کی مقدار اتنی طویل ہوتی ہے کہ ہم اپنے نظام اوقات سے اس کا حساب بھی نہیں لگا سکتے۔ قرآن نے اسے یوں تعبیر کیا ہے کہ جس مدت کو تم اپنے حساب میں ایک دن سمجھتے ہو اگر اسے ایک ہزار برس یا پچاس ہزار برس تصور کرلو تو ایسے دنوں سے جو مہینے اور برس بنیں گے ان کی مقدار کتنی ہوگی؟ ” وان یوم عند ربک کالف سنۃ مما تعدون : اور بلاشبہ تمہارے پروردگار کے حساب میں ایک دن یسا ہے جیسے تمہارے حساب میں ایک ہزار برس“ (22:، 47) ” تکویر“ : فطرت کا یہی تدریجی طرز عمل ہے جسے قرآن نے ” تکویر“ سے بھی تعبیر کیا ہے۔ یعنی لپٹنے سے۔ وہ کہتا ہے : بجائے اس کے کہ اچانک دن کی روشنی نگل آتی اور ناگہاں رات کی اندھیری ابل پڑتی فطرت نے رات اور دن کے ظہور کو اس طرح تدریجی بنا دیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے رات آہستہ آہستہ دن پر لپٹتی جاتی ہے اور دن درجہ بدرجہ رات پر لٹتا آتا ہے : ” خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ بِالْحَقِّ یُکَوِّرُ اللَّیْلَ عَلَی النَّہَارِ وَیُکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی اللَّیْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَجْرِی لأجَلٍ مُسَمًّی: اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حکمت ومصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اس نے رات اور دن کے یکے بعد دیگرے آتے رہنے کا ایسا انتظام کردیا کہ رات دن پر لپٹتی جاتی ہے اور دن رات پر لپٹتا آتا ہے۔ اور سورج اور چاند دونوں کو اس کی قدرت نے (ایک خاص انتظام کے ماتحت) مسخر کر رکھا ہے۔ سب (اپنی اپنی جگہ) اپنے مقررہ و وقت تک کے لیے حرکت میں ہیں“۔ (الزمر :5) قرآن اسی تدریجی رفتار عمل کو فائدہ اٹھانے کا موقع دینے، ڈھیل دینے، عفو و درگزر کرنے، اور ایک خاص مدت کی فرصت حیات بخشنے سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے : یہ اس لیے ہے کہ کائنات ہستی میں فضل و رحمت کی مشیت کام کر رہی ہے ور وہ چاہتے ہے ہر غلطی کو درستگی کے لیے، ہر نقصان کو تلافی کے لیے ہر لغزش کو سنبھل جانے کے لیے، زیادہ سے زیادہ مہلت اصلاح ملتی رہے اور اس کا دروازہ کسی پر بند نہ ہو۔ تاخیر اجل : وہ کہتا ہے : اگر تدریج و امہال کی یہ فرصتیں اور بخششیں نہ ہوتیں تو دنیا میں ایک وجود بھی فرصت حیات سے فائدہ نہ اٹھا سکتا۔ ہر غلطی، ہر کمزوری، ہر نقصان ہر فساد، اچانک بیک دفعہ بربادی وہلاکت کا باعث ہوجاتا۔ ” وَلَوْ یُؤَاخِذُ اللَّہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوا مَا تَرَکَ عَلَی ظَہْرِہَا مِنْ دَابَّۃٍ وَلَکِنْ یُؤَخِّرُہُمْ إِلَی أَجَلٍ مُسَمًّی فَإِذَا جَاءَ أَجَلُہُمْ فَإِنَّ اللَّہَ کَانَ بِعِبَادِہِ بَصِیرًا : اور انسان جو کچھ اپنے اعمال سے کمائی کرتا ہے اگر اللہ اس پر (فورا) مواخذہ کرتا تو یقین کرو زمین کی سطرح پر ایک جاندار بھی باقی نہ رہتا لیکن ( یہ اس کی رحمت ہے کہ) اس نے ایک مقررہ وقت تک فرصت حیات دے رکھی ہے۔ البتہ جب وہ مقررہ وقت آجائے گا تو پھر (یاد رہے کہ) اللہ اپنے بندوں کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔ اس کی آنکھیں ہر وقت اور ہر حال میں سب کچھ دیکھ رہی ہیں“۔ (فاطر :45) تدریج و امہال اچھائی اور برائی دونوں کے لیے ہے : قدرتی طور پر یہ ڈھیل اچھائی اور برائی دونوں کے لیے ہے۔ اچھائی کے لیے اس لیے تاکہ زیادہ نشوونما پائے۔ بڑائی کے لیے اس لیے تاکہ متنبہ اور خبردار ہو کر اصلاح و تلافی کا سامان کرلے : ” کلا نمد ھؤلاء وھؤلاء من عطاء ربک و ما کان عطاء ربک محظورا : ان لوگوں کو بھی اور ان لوگوں کو بھی ( یعنی اچھوں کو بھی اور بروں کو بھی) سب کو تمہارے پروردگار کی بخشش میں سے حصہ مل رہا ہے اور تمہارے پروردگار کی بخشش کسی پر بند نہیں“ (17:، 20)۔ اگر قوانین فطرت کی ان مہلت بخشیوں سے فائدہ اٹھا کر نقصان و فساد کی اصلاح کرلی جائے۔ مثلاً تم نے بد پرہیزی کی تھی۔ اسے ترک کردو تو پھر اسی فطرت کا یہ بھی قانون ہے کہ اصلاح و تلافی کی ہر کوشش قبول کرلیتی ہے اور نقصان و فساد کے جو نتائج نشوونما پانے لگے تھے ان کا مزید نشوونما فوراً رک جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اگر اصلاح بروقت اور ٹھیک ٹھیک کی گئی ہے تو پچھلے مضر اثرات بھی محو ہوجائیں گے اور اس طرح محو ہوجائیں گے گویا کوئی خرابی پیش ہی نہیں آئی تھی۔ لیکن اگر فطرت کی تمام مہلت بخشیاں رائگاں گئیں۔ اس کا بار بار اور درجہ بدرجہ انذار بھی کوئی نتیجہ پیدا نہ کرسکا تو پھر بلاشبہ وہ آخری حد نمودار ہوجاتی ہے جہاں پہنچ کر فطرت کا آخری فیصلہ صادر ہوجاتا ہے۔ اور پھر جب اس کا فیصلہ صادر ہوجائے تو نہ تو اس میں چشم زدن کی تاخیر ہوسکتی ہے نہ کسی حال میں بھی تزلزل اور تبدیلی۔ ” فاذا جاء اجلہم لا یستاخرون ساعۃ ولا یستقدمون : پھر جب ان کا مقررہ و قت آگیا تو اس سے نہ تو ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں، اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں“۔ یعنی نہ تو اس کے نفاذ میں تاخیر ہوسکتی ہے نہ تقدیم۔ ٹھیک ٹھیک اپنے وقت میں اسے ہوجانا ہے۔ تسکین حیات : زندگی کی محنتیں اور کاوشیں : ہم دیکھتے ہیں انسان کی معیشت قیام و بقا کی جدو جہد اور کشاکش کا نام ہے۔ اس لیے قدرتی طور پر اس کا ہر گوشہ طرح طرح کی محنتوں اور کاوشوں سے گھرا ہوا ہے اور بہ حیثیت مجموعی زندگی اضطراری ذمہ داریوں کا بوجھ اور مسلسل مشقتوں کی آزمائش ہے۔ ” لقد خلقنا الانسان فی کبد : بلاشبہ ہم نے انسان کو اس طرح بنایا ہے کہ اس کی زندگی مشقتوں سے گھری ہوئی ہے“ (البلد : 4) مشغولیت اور انہماک : لیکن بایں ہمہ فطرت نے کارخانہ معیشت کا ڈھنگ کچھ اس طرح کا بنا دیا ہے اور طبیعتوں میں کچھ اس طرح کی خواہشیں، ولولے، اور انفعالات ودیعت کردیے ہیں کہ زندگی کے ہر گوشے میں ایک عجیب طرح کی دل بستگی، مشغولیت، ہماہمی اور سرگرمی پیدا ہوگئی ہے اور یہی زندگی کا انہماک ہے جس کی وجہ سے ہر ذی حیات نہ صرف زندگی کی مشقتیں برداشت کر رہا ہے بلکہ انہی مشقتوں میں زندگی کی بڑی سے بڑی لذت و راحت محسوس کرتا ہے۔ یہ مشقتیں جس قدر زیادہ ہوتی ہیں اتنی ہی زیادہ زندگی کی دلچسپی اور محبوبیت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اگر ایک انسان کی زندگی ان مشقتوں سے خالی ہوجائے تو وہ محسوس کرے گا کہ زندگی کی ساری لذتوں سے محروم ہوگیا اور اب زندہ رہنا اس کے لیے ناقابل برداشت بوجھ ہے ! حالات متفاوت ہیں، لیکن زندگی کی دل بستگی اور سرگرمی سب کے لیے ہے : پھر دیکھو ! کارساز فطرت کی یہ کیسی کرشمہ سازی ہے کہ حالات متفاوت ہیں، طبائع متنوع ہیں، اشغال مختلف ہیں، اغراض متضاد ہیں، لیکن معیشت کی دل بستگی اور سرگرمی سب کے لیے یکساں ہے اور سب ایک ہی طرح اس کی مشغولیتوں کے لیے جوش و طلب رکھتے ہیں۔ مرد و عورت، طفل و جوان، امیر و فقیر، عالم وجاہل، قوی و ضعیف، تندرست و بیمار، مجرد و متاہل، حاملہ و مرضعہ، سب اپنی اپنی حالتوں میں منہمک ہیں اور کوئی نہیں جس کے لیے زندگی کی کاوشوں میں محویت نہ ہو۔ امیر اپنے محل کے عیش و نشاط میں اور فقیر اپنی بے سرو سامانیوں کی فاقہ مستی میں زندگی بسر کرتا ہے لیکن دونوں کے لیے زندگی کی مشغولیتوں میں دل بستگی ہوتی ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کون زیادہ مشغول ہے۔ ایک تاجر جس انہماک کے ساتھ اپنی لاکھوں روپیہ کی آمدنی کا حساب کرتا ہے اسی طرح ایک مزدور بھی دن بھر کی محنت کے چند پیسے گن لیا کرتا ہے اور دونوں کے لیے یکساں طور پر زندگی محبوب ہوتی ہے۔ ایک حکیم کو دیکھو جو اپنے علم و دانش کی کاوشوں میں غرق ہے اور ایک دہقان کو دیکھو جو دوپہر کی دھوپ میں برہنہ سر ہل جوت رہا ہے اور پھر بتلاؤ کس کے لیے زندگی کی مشغولیتوں میں زیادہ دل بستگی ہے؟ پھر دیکھو ! بچے کی پیدائش ماں کے لیے کسی جانکاہی و مصیبت ہوتی ہے؟ اس کی پرورش و نگرانی کس طرح خود فروشانہ مشقتوں کا طول طویل سلسلہ ہے؟ تاہم یہ سارا معاملہ کچھ ایسی خواہشوں اور جذبوں کے ساتھ وابستہ کردیا گیا ہے کہ ہر عورت میں ماں بننے کی قدرتی طلب ہے اور ہر ماں پرور اولاد کے لیے مجنونانہ خود فراموشی رکھتی ہے۔ وہ زندگی کا سب سے بڑا دکھ سہے گی اور پھر اسی دکھ میں زندگی کی سب سے بڑی مسرت محسوس کرے گی ! وہ جب اپنی معیشت کی ساری راحتیں قربان کردیتی ہے اور اپنی رگوں کے خون کا ایک ایک قطرہ دودھ بنا کر پلا دیتی ہے تو اس کے دل کا ایک ایک ریشہ زندگی کے سب سے بڑے احساس مسرت سے معمور ہوجاتا ہے۔ پھر کاروبار فطرت کے یہ تصرفات دیکھو کہ کس طرح نوع انسانی کے منتشر افراد اجتماعی زندگی کے بندھنوں سے باہم دگر مربوط کردیے گئے ہیں؟ اور کس طرح صلہ رحمی کے رشتہ نے ہر فرد کو سینکڑوں ہزاروں افراد کے ساتھ جوڑ رکھا ہے؟ فرض کرو زندگی و معیشت ان تمام مؤثرات سے خالی ہوتی۔ لیکن قرآن کہتا ہے کہ خالی نہیں ہوسکتی تھی اس لیے کہ فطرت کائنات میں رحمت کار فرما ہے اور رحمت کا مقتضا یہی تھا کہ معیشت کی مشقتوں کو خوشگوار بنا دے اور زندگی کے لیے تسکین و راحت کا سامان پیدا کردے۔ یہ رحمت کی کرشمہ سازیاں ہیں جنہوں نے رنج میں راحت، الم میں لذت، اور سختیوں میں دل پذیری کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ اشیاء و مناظر کا اختلاف و تنوع اور تسکین حیات : چنانچہ قرآن نے تسکین حیات کے مختلف پہلووں پر جا بجا توجہ دلائی ہے۔ ازاں جملہ کائنات خلقت کے مناظر و اشیا کا اختلاف و تنوع ہے۔ انسانی طبیعت کا خاصہ ہے کہ یکسانی سے اکتاتی ہے اور تبدیلی و تنوع میں خوشگواری و کیفیت محسوس کرتی ہے۔ پس اگر کائنات ہستی میں محض یکسانی و یک رنگی ہی ہوتی تو یہ دلچسپی اور خوشگواری پیدا نہ ہوسکتی جو اس کے ہر گوشہ میں ہمیں نظر آرہی ہے۔ اوقات کا اختلاف، موسموں کا اختلاف، خشکی و تری کا اختلاف، مناظر طبیعت اور اشیائے خلقت کا اختلاف جہاں بے شمار مصلحتیں اور فوائد رکھتا ہے وہاں ایک بڑی مصلحت دنیا کی زیب و زینت اور معیشت کی تسکین و راحت بھی ہے : گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن اے ذوق اس جہاں میں ہے زیب اختلاف سے اختلاف لیل ونہار : چنانچہ اسی سلسلہ میں وہ رات اور دن کے اختلاف کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے اگر غور کرو تو اس اختلاف میں حکمت الٰہی کی کتنی ہی نشانیاں پوشیدہ ہیں۔ یہ بات کہ شب و روز کی آمد و شد کی دو مختلف حالتیں ٹھہرا دی گئی ہیں اور وقت کی نوعیت ہر معین مقدار کے بعد بدلتی رہتی ہے، زندگی کے لیے بڑی ہی تسکین و دل بستگی کا ذریعہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور وقت ہمیشہ ایک ہی حالت پر برقرار رہتا تو دنیا میں زندہ رہنا دشوار ہواجتا۔ اگر تم قطبین کے اطراف میں جاؤ جہاں روز و شب کا اختلاف اپنی نمود نہیں رکھتا تو تمہیں معلوم ہوجائے کہ یہ اختلاف گزران حیات کے لیے کیسی عظیم الشان نعمت ہے : ” ان فی خلق السموات والارض واختلاف اللیل والنہار لایات لاولی الباب : بلا شبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں ارباب دانش کے لیے (حکمت الٰہی) کی بڑی ہی نشانیاں ہیں“ (آل عمران :190)۔ رات اور دن کے اختلاف نے معیشت کو دو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ دن کی روشنی جدو جہد کی سرگرمی پیدا کرتی ہے۔ رات کی تاریکی راحت و سکون کا بستر بچھا دیتی ہے۔ ہر دن کی محنت کے بعد رات کا سکون ہوتا ہے اور ہر رات کے سکون کے بعد نئے دن کی سرگرمی۔ ” ومن رحمتہ جعل لکم الیل والنہار لتسکنوا فیہ ولتبتغوا من فضلہ ولعلکم تشکرون : اور (دیکھو) یہ اس کی رحإت کی کارسازی ہے کہ تمہارے لیے رات اور دن (الگ الگ) ٹھہرا دیے گئے تاکہ رات کے وقت راحت پاؤ اور دن میں اس کا فضل تلاش کرو ( یعنی کاروبار معیشت میں سرگرم رہو) “ (28:، 73)۔ دن کی مختلف حالتیں اور رات کی مختلف منزلیں : پھر رات اور دن کا اختلاف صرف رات اور دن ہی کا اختلاف نہیں ہے بلکہ ہر دن مختلف حالتوں سے گذرتا اور ہر رات مختلف منزلیں طے کرتی ہے۔ ہر حالت ایک خاص طرح کی تاثیر رکھتی ہے اور ہر منزل کے لیے ایک خاص طرح کا منظر ہوتا ہے۔ اوقات کا یہ روزانہ اختلاف ہمارے احساسات کا ذائقہ بدلتا رہتا ہے، اور یکسانیت کی افسردگی کی جگہ تدبل و تجدد کی لذت اور سرگرمی پیدا ہوتی رہتی ہے۔ ” فسبحان اللہ حین تمسون و حین تصبحون۔ ولہ الحمد فی السموات والارض و عشیا و حین تظہرون : پس پاکی ہے اللہ کے لیے اور آسمانوں اور زمین میں اس کے لیے ستائش ہے جبکہ تم پر شام آتی ہے جب تم پر صبح ہوتی ہے جب دن کا آخری وقت ہوتا ہے اور جب تم پر دوپہر آتی ہے“ (روم : 16) حیوانات کا اختلاف : اسی طرح انسان خود اپنے وجود کو دیکھے اور تمام حیوانات کو دیکھے۔ فطرت نے کس طرح، طرح طرح کے اختلافات سے اس میں تنوع اور دل پذیری پیدا کردی ہے؟ ” ومن الناس والدواب والانعام مختلف الوانہ : اور انسان، جانور، چارپائے طرح طرح کی رنگتوں کے“ نباتات : عالم نباتات کو دیکھو۔ درختوں کے مختلف ڈیل ڈول ہیں، مختلف رنگتیں ہیں، مختلف خوشبوئیں ہیں، مختلف خواص ہیں، اور پھر دانہ اور پھل کھاؤ تو مختلف قسم کے ذائقے ہیں۔ ” اولم یروا الی الارض کم انبتنا فیہا من کل زوج کریم : کیا ان لوگوں نے کبھی زمین پر نظر نہیں ڈالی اور غور نہیں کیا کہ ہم نے نباتات کی ہر دو دو بہتر قسموں میں سے کتنے (بے شمار) درخت پیدا کردیے ہیں“ (26:، 7)۔ ” وما ذرا لکم فی الارض مختلفا الوانہ ان فی ذلک لایات لقوم یذکرون : اور (دیکھو) اللہ نے جو پیداوار مختلف رنگتوں کی تمہارے لیے زمین میں پھیلا دی ہے سو اس میں بھی عبرت پذیر طبیعتوں کے لیے (حکمت الٰہی کی) بڑی ہی نشانی ہے“ (16:13)۔ ” وھو الذی انشا جنات معروشات و غیر معروشت والنخل والزرع مختلفا اکلہ : اور وہ (حکیم و قدیر) جس نے (طرح طرح کے) باغ پیدا کردیے۔ ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے اور بغیر چڑھائے ہوئے اور کھجور کے درخت اور (طرح طرح کی) کھیتیاں جن کے دانے اور پھل کھانے میں مختلف ذائقہ رکھتے ہیں“۔ جمادات : حیوانات اور نباتات ہی پر موقوف نہیں جمادات میں بھی یہی قانون فطرت کام کر رہا ہے : ” ومن الجبال جدد بیض و حمر مختلف الوانہا وغرابیب سود : اور پہاڑوں کو دیکھو۔ گوناگوں رنگتوں کے ہیں۔ کچھ سفید، کچھ سرخ کچھ کالے کلوٹے“۔ ہر چیز کے دو دو ہونے کا قانون : اسی قانون اختلاف کا ایک گوشہ وہ بھی ہے جسے قرآن نے ” تزویج“ سے تعبیر کیا ہے اور ہم اسے قانون تثنیہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی ہر چیز کے دو دو ہونے یا متقابل و متماثل ہونے کا قانون۔ کائنات خلقت کا کوئی گوشہ بھی دیکھو تمہیں کوئی چیز یہاں اکہری اور طاق نظر نہیں آئے گی۔ ہر چیز میں جفت اور دو دو ہونے کی حقیقت کام کر رہی ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ ہر چیز اپنا کوئی نہ کوئی مثنی بھی ضرور رکھتی ہے۔ رات کے لیے دن ہے، صبح کے لیے شام ہے، نر کے لیے مادہ ہے، مرد کے لیے عورت ہے، زندگی کے لیے موت ہے۔ قرآن حکیم نے آخرت کے وجود کا جن جن دلائل سے اذعان پیدا کیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔ وہ کہتا ہے : دنیا میں ہر چیز اپنا کوئی نہ کوئی متقابل وجود یا مثنی ضرور رکھتی ہے۔ پس ضروری ہے کہ دنیوی زندگی کے لیے بھی کوئی متقابل اور مثنی زندگی ہو۔ دنیوی زندگی کی متقابل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ چنانچہ بعض سورتوں میں انہی متقابل مظاہرات سے استشہاد کیا ہے۔ مثلا سورۃ والشمس میں فرمایا : وَالشَّمْسِ وَضُحَاہَا (١) وَالْقَمَرِ إِذَا تَلاہَا (٢) وَالنَّہَارِ إِذَا جَلاہَا (٣) وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَاہَا (٤) وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاہَا (٥) وَالأرْضِ وَمَا طَحَاہَا (٦)۔ ” ومن کل شیء خلقنا زوجین لعلکم تذکرون : اور ہر چیز میں ہم نے جوڑے پیدا کردیے (یعنی دو دو اور متقابل اشیا پیدا کیں“۔ ” سبحان الذی خلق الازواج کلہا مما تنبت الارض و من انفسہم ومما لا یعلمون : پاکی اور بزرگی ہے اس ذات کے لیے جس نے زمین کی پیداوار میں اور انسان میں اور ان تمام مخلوقات میں جن کا انسان کو علم نہیں دو دو اور متقابل چیزیں پیدا کیں۔ مرد اور عورت : یہی قانون فطرت ہے جس نے انسان کو دو مختلف جنسوں یعنی مرد اور عورت میں تقسیم کردیا اور پھر ان میں فعل و انفعال اور جذب وا نجذاب کے کچھ ایسے وجدانی احساسات ودیعت کردیے کہ ہر جنس دوسری سے ملنے کی قدرتی طلب رکھتی ہے اور دونوں کے ملنے سے ازدواجی زندگی کی ایک کامل معیشت پیدا ہوجاتی ہے۔ ” فاطر السموات والارض جعل لکم من انفسکم ازواجا و من الانعام ازواجا : وہ آسمانوں اور زمین کا بنانے والا۔ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس میں سے جوڑے بنا دیے (یعنی مرد کے لیے عورت اور عورت کے لیے مرد) اسی طرح چارپایوں میں بھی جوڑے پیدا کردیے“ (الشوری :11) قرآن کہتا ہے : یہ اس لیے ہے تاکہ محبت اور کون ہو اور دو ہستیوں کی باہمی رفاقت اور اشتراک سے زندگی کی محنتیں اور مشقتیں سہل اور گوارا ہوجائیں۔ ” وَمِنْ آیَاتِہِ أَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْکُنُوا إِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَوَدَّۃً وَرَحْمَۃً إِنَّ فِی ذَلِکَ لآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ : اور (دیکھو) اس کی (رحمت کی) نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کردیے (یعنی مرد کے لیے عورت اور عورت کے لیے مرد) تاکہ اس کی وجہ سے تمہیں سکون حاصل ہو اور ( پھر اس کی یہ کارفرمائی دیکھو کہ) تمہارے درمیان (یعنی مرد اور عورت کے درمیان) محبت اور رحمت کا جذبہ پیدا کردیا۔ بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جو غو و فکر کرنے والے ہیں اس میں (حکمت الٰہی کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں۔ نسب اور صہر : پھر اسی ازدواجی زندگی سے توالد و تناسل کا ایک ایسا سلسلہ قائم ہوگیا ہے کہ ہر وجود پیا ہوتا ہے اور ہر وجود پیدا کرتا ہے۔ ایک طرف وہ نسب کا رشتہ رکھتا ہے جو اسے پچھلوں سے جوڑتا ہے۔ دوسری طرف صہر یعنی دامادی کا رشتہ رکھتا ہے جو اسے آگے آنے والوں سے مربوط کردیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر وجود کی فردیت ایک وسیع دائرہ کی کثرت میں پھیل گئی ہے اور رشتوں، قرابتوں کا ایسا وسیع حلقہ پیدا ہوگیا ہے جس کی ہر کڑی دوسری کڑی کے ساتھ مربوط ہے۔ ” وھو الذی خلق من الماء بشرا فجعلہ نسبا وصہرا : اور وہی (حکیم و قدیر) ہے جس نے پانی سے (یعنی نطفہ سے) انسان کو پیدا کیا پھر ( اسی رشتہ پیدائس کے ذریعہ) اسے نسب اور صہر کا رشتہ رکھنے والا بنا دیا۔ صلہ رحمی اور خاندانی حلقہ کی تشکیل : اور پھر دیکھو اس نسب اور صہر کے رشتے سے کس طرح خاندان اور قبیلہ کا نظام قائم ہوگیا ہے اور کس عجیب و غریب طریقہ سے صلہ رحمی یعنی قراب داری کی گیرائیاں ایک وجود کو دوسرے وجود سے جوڑتیں اور معاشرتی زندگی کی باہمی الفتوں اور معاونتوں کے لیے محرک ہوتی ہیں؟ در اصل انسان کی اجتماعی زندگی کا سارا کارخانہ اسی صلہ رحمی کے سر رشتہ نے قائم کر رکھا ہے ”یَا أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالا کَثِیرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّہَ الَّذِی تَسَاءَلُونَ بِہِ وَالأرْحَامَ إِنَّ اللَّہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیبًا : اے افراد نسل انسانی ! اپنے پروردگار کی نافرمانی سے بچو ( اور اس کے ٹھہرائے ہوئے رشتوں سے بے پروا نہ ہوجاؤ) وہ پروردگار جس نے تمہیں ایک فرد واحد سے پیدا کیا ( یعبی باپ سے پیدا کیا) اور اسی سے اس کا جوڑا بھی پیدا کردیا (یعنی جس طرح ہر مرد کی نسل سے لڑکا پیدا ہوا لڑکی بھی پیدا ہوئی) پھر ان کی نسل سے ایک بڑی تعداد مرد اور عورت کی پیدا ہو کر پھیل گئی ( اس طرح فرد واحد کے رشتہ نے ایک بڑے خاندان اور قبیلہ کی صورت پیدا کرلی) پس اللہ کی نافرمانی سے بچو جس کے نام پر باہم دگر (مہر و شفقت کا) سوال کرتے ہو اور صلہ رحمی کے توڑنے سے بھی بچو (جس کے نام پر باہم دگر ایک دوسرے سے چشم داشت اعانت رکھتے ہو) بلاشبہ اللہ تمہارا نگران حال ہے۔ ” اللہ جعل لکم من انفسکم ازواجا وجعل لکم من ازواجکم بنین و حفدۃ: اور (دیکھو) یہ اللہ ہے جس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے لیے جوڑا بنا دیا (یعنی مرد کے لیے عورت اور عورت کے لیے مرد) پھر تمہارے باہمی ازدواج سے بیٹوں اور پوتوں کا سلسلہ قائم کردیا“ (النحل : 27) ایام حیات کا تغیر و تنوع : اسی طرح ایام حیات کے تغیر و تنوع میں بھی تسکین حیات کی ایک بہت بڑی مصلحت پوشیدہ ہے۔ ہر زندگی طفولیت، شباب، جوانی، کہولت، اور بڑھاپے کی مختلف منزلوں سے گزرتی ہے اور ہر منزل اپنے نئے نئے احساسات اور نئی نئی مشغولیتیں اور نئی نئی کاوشیں رکھتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہماری زندگی عالم ہستی کی ایک دلچسپ مسافرت بن گئی۔ ایک منزل کی کیفیتوں سے ابھی جی سیر نہیں ہو چکتا کہ دوسری منزل نمودار ہوجاتی ہے اور اس طرح عرصہ حیات کی طوالت محسوس ہی نہیں ہوتی۔ ”ہُوَ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ یُخْرِجُکُمْ طِفْلا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّکُمْ ثُمَّ لِتَکُونُوا شُیُوخًا وَمِنْکُمْ مَنْ یُتَوَفَّی مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلا مُسَمًّی وَلَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ : وہ (پروردگار) جس نے تمہارا وجود مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر علقہ سے (یعنی جونک کی شکل کی ایک چیز سے) پھر ایسا ہوتا ہے کہ تم طفولیت کی حالت میں ماں کے شکم سے نکلتے ہو پھر بڑے ہوتے ہو اور سن تمیز تک پہنچتے ہو۔ اس کے بعد تمہارا جینا اس لیے ہوتا ہے تاکہ بڑھاپے کی منزل تک پہنچو پھر تم میں سے کوئی تو ان منزلوں سے پہلے ہی مر جاتا ہے کوئی چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ اپنے مقررہ وقت تک زندگی بسر کرلے۔ زینت و تفاخر، مال و متاع، آل و اولاد : اسی طرح، طرح طرح کی خواہشیں اور جذبے، زینت و تفاخر کے ولولے، مال و متاع کی محبت، آل و اولاد کی دلبستگیاں زندگی کی دلچسپی اور انہماک کے لیے پیدا کردی گئی ہیں۔ ” زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِینَ وَالْقَنَاطِیرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالأنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذَلِکَ مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَاللَّہُ عِنْدَہُ حُسْنُ الْمَآبِ : انسان کے لیے مرد و عورت کے تعلق میں، اولاد میں، چاندی سونے کے اندوختوں میں، چنے ہوئے گھوڑوں میں، مویشیوں میں، اور کھتی باڑی میں دل بستگی پیدا کردی گئی ہے اور یہ جو کچھ بھی ہے دنیوی زندگی کی پونجی ہے۔ بہتر ٹھکانا تو اللہ ہی کے پاس ہے“ (آل عمران :14) اختلاف معیشت اور تزاحم حیات : اسی طرح معیشت کا اختلاف اور اس کی وجہ سے مختلف درجوں اور حالتوں کا پیدا ہوجانا بھی انہماک حیات کا ایک بہت بڑا محرک ہے کیونکہ اس کی وجہ سے زندگی میں مزاحمت اور مسابقت کی حالت پیدا ہوگئی ہے اور اس میں لگے رہنے سے زندگی کی مشقتوں کا جھیلنا آسان ہوگیا ہے۔ بلکہ یہی مشقتیں سرتا سر راحت و سرور کا سامان بن گئی ہیں۔ ” وَہُوَ الَّذِی جَعَلَکُمْ خَلائِفَ الأرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَبْلُوَکُمْ فِی مَا آتَاکُمْ إِنَّ رَبَّکَ سَرِیعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَحِیمٌ : اور یہ اسی (حکیم و قدیر) کی کارفرمائی ہے کہ اس نے تمہیں زمین میں (پچھلوں کا) جانشین بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر، درجوں میں فوقیت دے دی تاکہ جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے اس میں تمہارے عمل کی آزمائش کرے۔ بلاشبہ تمہارا پروردگار (پاداش عمل کی) سزا دینے میں تیز ہے۔ (یعنی اس کا قانون مکافات نتائج عمل میں سست رفتار نہیں) لیکن ساتھ ہی بخش دینے والا، رحمت رکھنے والا بھی ہے“ (الانعام :165) برہان فضل و رحمت : چنانچہ یہی وجہ کہ جس طرح قرآن نے ربوبیت کے اعمال و مظاہر سے استدلال کیا ہے اسی طرح وہ رحمت کے آثار و حقائق سے بھی جا بجا استدلال کرتا ہے اور برہان ربوبیت کی طرح برہان فضل و رحمت بھی اس کی دعوت و ارشاد کا ایک عام اسلوب خطاب ہے۔ وہ کہتا ہے : کائنات کی ہر شے میں ایک مقررہ نظام کے ساتھ رحمت و فضل کے مظاہر کا موجود ہونا قدرتی طور پر انسان کو یقین دلا دیتا ہے کہ ایک رحمت رکھنے والی ہستی کی کارفرمائیاں یہاں کام کر رہی ہیں۔ کیونکہ ممکن نہیں فضل و رحمت کی یہ پوری کائنات موجود ہو اور فضل و رحمت کا کوئی زندہ ارادہ موجود نہ ہو۔ چنانچہ وہ تمام مقامات جن میں کائناتِ خلقت کے افادہ و فیضان، زینت وجمال، موزونیت و اعتدلال، تسویہ و قوام، اور تکمیل و اتقان کا ذکر کیا گیا ہے، در اصل اسی استدلال پر مبنی ہیں : (اس آیت کی بقیہ تفسیر کے لیے ملاحظہ اگلی آیت ) الفاتحة
4 (آیت 2 کی تفسیر کا بقیہ حصہ): ”إِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ وَاخْتِلافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِی تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنْزَلَ اللَّہُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْیَا بِہِ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیہَا مِنْ کُلِّ دَابَّۃٍ وَتَصْرِیفِ الرِّیَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالأرْضِ لآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَعْقِلُونَ : اور (دیکھو) تمہارا معبود وہی ایک معبود ہے۔ کوئی معبود نہیں مگر اسی کی ایک ذات، رحمت والی اور اپنی رحمت کی بخشایشوں سے ہمیشہ فیض یاب کرنے والی ! بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات دن کے ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں، اور کشتی میں جو انسان کی کاربراریوں کے لیے سمندر میں چلتی ہے اور اور بارش میں جسے اللہ آسمان سے برساتا ہے اور اس کی (آبپاشی) سے زمین مرنے کے بعد پھر جی اٹھتی ہے اور اس بات میں کہ ہر قسم کے جانور زمین میں پھیلا دیے ہیں نیز ہواؤں کے (مختلف جانب) پھیرنے اور اس بات میں کہ ہر قسم کے جانور زمین میں پھیلا دیے ہیں نیز ہواؤں کے (مختلف جانب) پھیرنے میں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (اپنی مقررہ جگہ کے اندر) بندھے رکھے ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے (اللہ کی ہستی اور اس کے قوانین فضل و رحمت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں“ (البقرہ : 163۔164) اسی طرح ان مقامات کا مطالعہ کرو جہاں خصوصیت کے ساتھ جمال فطرت سے استدلال کیا ہے : ”أَفَلَمْ یَنْظُرُوا إِلَی السَّمَاءِ فَوْقَہُمْ کَیْفَ بَنَیْنَاہَا وَزَیَّنَّاہَا وَمَا لَہَا مِنْ فُرُوجٍ (٦) وَالأرْضَ مَدَدْنَاہَا وَأَلْقَیْنَا فِیہَا رَوَاسِیَ وَأَنْبَتْنَا فِیہَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍ بَہِیجٍ (٧) تَبْصِرَۃً وَذِکْرَی لِکُلِّ عَبْدٍ مُنِیبٍ : کیا کبھی ان لوگوں نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا نہیں کہ کس طرح ہم نے اسے بنایا ہے اور کس طرح اس کے منظر میں خوشنمائی پیدا کردی ہے اور پھر یہ کہ کہیں بھی اس میں شگاف نہیں؟ اور اسی اور اسی طرح زمین کو دیکھو کس طرح ہم نے اسے فرش کی طرح پھیلا دیا، اور پہاڑوں کے لنگر ڈال دیے اور پھر کس طرح قسم قسم کی خوبصورت نباتات اگا دیں؟ ہر اس بندے کے لیے جو حق کی طرف رجوع کرنے والا ہے۔ اس میں غور کرنے کی بات اور نصیحت کی روشنی ہے“ (ق :6۔8) ” ولقد جعلنا فی السماء بروجا وزیناھا للنظرین : اور (دیکھو) ہم نے آسمان میں (ستاروں کی گردش کے لیے) برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے ان میں خوشنمائی پیدا کردی“ (15:، 16)۔ ” ولقد زینا السماء الدنیا بمصابیح : اور (دیکھو) ہم نے دنیا کے آسمان (یعنی کرہ ارضی کی فضا) کو ستاروں کی قندیلوں سے خوش منظر بنا دیا“ ” ولکم فیہا جمال حین تریحون و حین تسرحون : اور (دیکھو) تمہارے لیے چارپایوں کے منظر میں جب شام کے وقت چراگاہ سے واپس لاتے ہو اور جب صبح لے جاتے ہو ایک طرح کا حسن اور نظر افروزی ہے“۔ موزونیت و تناسب : جس چیز کو ہم ” جمال“ کہتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے؟ موزونیت اور تناسب۔ یہی موزونیت اور تناسب ہے جو بناؤ اور خوبی کے تمام مظاہر کی اصل ہے۔ ” وانبتنا فیہا من کل شیء موزون : اور (دیکھو) ہم نے زمین میں ہر ایک چیز موزونیت اور تناسب رکھنے والی اگائی ہے“ تسویہ : اسی معنی میں قرآن ” تسویہ“ کا لفظ بھی استعمال کرتا ہے۔ ” تسویہ“ کے معنی یہ ہیں کہ کسی چیز کو اس طرح ٹھیک ٹھیک، درست کردینا کہ اس کی ہر بات خوبی و مناسبت کے ساتھ ہو۔ ” الذی خلق فسوی۔ والذی قدر فھدی : وہ پروردگار جس نے ہر چیز پیدا کی پھر ٹھیک ٹھیک خوبی و مناسبت کے ساتھ درست کردی۔ اور وہ جس نے ہر وجود کے لیے ایک اندازہ ٹھہرا دیا پھر اس پر (زندگی و معیشت) کی راہ کھول دی“ (الاعلی : 2) ” الذی خلقک فسوک فعدلک۔ فی ای صورۃ ما شاء رکبک : وہ پروردگار جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر ٹھیک ٹھیک درست کردیا پھر (تمہارے ظاہری و باطنی قوی میں) اعتدال و تناسب ملحوظ رکھا پھر جیسی صورت بنانی چاہی اسی کے مطابق ترکیب دے دی“۔ اتقان : یہی حقیقت ہے جسے قرآن نے اتقان سے بھی تعبیر کیا ہے۔ یعنی کائنات ہستی کی ہر چیز کا درستگی و استواری کے ساتھ ہونا کہ کہیں بھی اس میں خلل، نقصان، بے ڈھنگا پن، اونچ نیچ اور ناہمواری نظر نہیں آسکتی : ” صنع اللہ الذی اتقن کل شیء : یہ اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز درستگی و استواری کے ساتھ بنائی“ (القصص :88) ” ماتری فی خلق الرحمن من تفاوت فارجع البصر ھل تری من فطور۔ ثم ارجع البصر کرتین ینقلب الیک البصر خاسئا وھو حسیر : تم الرحمن کی بناوٹ میں (رحمن کی بناوٹ میں کیونکہ یہ اس کی رحمت ہی کا ظہور ہے) کبھی کوئی اونچ نیچ نہیں پاؤ گے (اچھا نظر اٹھاؤ اور اس نماش گاہ صنعت کا مطالعہ کرو) ایک بار نہیں بار بار دیکھو۔ کیا تمہیں کہیں کوئی دراڑ دکھائی دیتی ہے؟ تم اسی طرح یکے بعد دیگرے دیکھتے رہو تمہاری نگاہ اٹھے گی اور عاجز و درماندہ ہو کر واپس آجائے گی لیکن کوئی نقص نہ نکال سکے گی“ (ملک : 3) ” فی خلق الرحمن“ فرمایا۔ یعنی یہ خوبی و اتقان اس لیے ہے کہ رحمت رکھنے والے کی کاریگری ہے اور رحمت کا مقتضا یہی تھا کہ حسن و خوبی ہو، اتقان و کمال ہو، نقص اور ناہمواری نہ ہو ! رحمت سے معاد پر استدلال : خدا کی ہستی اور اس کی توحید و صفات کی طرح آخرت کی زندگی پر بھی وہ رحمت سے استدلال کرتا ہے۔ اگر رحمت کا مقتضا یہ ہوا کہ دنیا میں اس خوبی و کمال کے ساتھ زندگی کا ظہور ہو تو کیونکر یہ بات باور کی جاسکتی ہے کہ دنیا کی چند روزہ زندگی کے بعد اس کا فیضان ختم ہوجائے اور خزانہ رحمت میں انسان کی زندگی اور بناؤ کے لیے کچھ باقی نہ رہے؟ ”أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللَّہَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ قَادِرٌ عَلَی أَنْ یَخْلُقَ مِثْلَہُمْ وَجَعَلَ لَہُمْ أَجَلا لا رَیْبَ فِیہِ فَأَبَی الظَّالِمُونَ إِلا کُفُورًا : کیا ان لوگوں نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ اللہ جس نے آسمان و زمین پیدا کیے ہیں یقینا اس بات سے عاجز نہیں ہوسکتا کہ ان جیسے (آدمی دوبارہ) پیدا کردے اور یہ کہ ان کے لیے اس نے ایک مقررہ وقت ٹھہرا دیا ہے جس میں کسی طرح کا شک و شبہ نہیں؟ ( افسوس ان کی شقاوت پر !) اس پر بھی ان ظالموں نے اپنے لیے کوئی راہ پسند نہ کی مگر حقیقت سے انکار کرنے کی ! (اے پیغمبر ان سے) کہہ دو اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضہ میں ہوتے تو اس حالت میں یقنا تم خرچ ہوجانے کے ڈر سے ہاتھ روکے رکھتے (لیکن یہ اللہ ہے جس کے خزائن رحمت نہ تو کبھی ختم ہوسکتے ہیں نہ اس کی بخشایش رحمت کی کوئی انتہا ہے)۔ رحمت سے وحی و تنزیل کی ضرورت پر استدلال : اس طرح وہ رحمت سے وحی و تنزیل کی ضرورت پر بھی استدلال کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے جو رحمت کارخانہ ہستی کے ہر گوشہ میں افادۂ فیضان کا سرچمہ ہے کیونکر ممکن تھا کہ انسان کی معنوی ہدایت کے لیے اس کے پاس کوئی فیضان نہ ہوتا اور وہ انسان کو نقصان و ہلاکت کے لیے چھوڑ دیتی؟ اگر تم دس گوشوں میں فیضان رحمت محسوس کر رہے ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ گیارہویں گوشے میں اس سے انکار کردو۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جابجا نزول وحی، ترسیل کتب، اور بعثت انبیا کو رحمت سے تعبیر کیا ہے : ” وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْہَبَنَّ بِالَّذِی أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ ثُمَّ لا تَجِدُ لَکَ بِہِ عَلَیْنَا وَکِیلا (٨٦)إِلا رَحْمَۃً مِنْ رَبِّکَ إِنَّ فَضْلَہُ کَانَ عَلَیْکَ کَبِیرًا : اور (اے پیغمبر ! اگر ہم چاہیں تو جو کچھ تم پر وحی کے ذریعہ بھیجا گیا ہے اسے اٹھا لے جائیں (یعنی سلسلہ تنزیل و وحی باقی نہ رہے) اور پھر تمہیں کوئی بھی ایسا کارساز نہ ملے جو ہم پر زور ڈال سکے۔ لیکن یہ جو سلسلہ وحی جاری ہے تو یہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ تمہارے پروردگار کی رحمت ہے اور یقین کرو تم پر اس کا بڑا ہی فضل ہے“ (اسراء :86۔87) ” تنزیل العزیز الرحیم۔ لتنذر قوما ما انذر آباءھم فھم غافلون : (یہ قرآن) عزیز و رحیم کی طرف سے نازل کیا گیا ہے تاکہ ان لوگوں کو جن کے آباء و اجداد (کسی پیغمبر کی زبانی) متنبہ نہیں کیے گئے ہیں اور اس لیے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں تم متنبہ کرو“ (یس :5۔6) تورات و انجیل اور قرآن کی نسبت جابجا تصریح کی کہ ان کا نزول رحمت ہے۔ ” ومن قبلہ کتاب موسیٰ اماما ورحمۃ: اور اس سے پہلے (یعنی قرآن سے پہلے) موسیٰ کی کتاب ( امت کے لیے) پیشوا اور رحمت“ ” یایہا الناس قد جاءتکم موعظۃ من ربکم و شفاء لما فی الصدور و ھدی ورحمۃ للمومنین۔ قل بفضل اللہ و برحمتہ فبذلک فلیفرحوا ھو خیر مما یجمعون : اے افراد نسل انسانی ! یقینا یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے موعظت ہے جو تمہارے لیے آگئی ہے اور ان تمام بیماریوں کے لیے جو انسان کے دل کی بیماریاں ہیں نسخہ شفا ہے اور رہنمائی اور رحمت ہے ایمان رکھنے والوں کے لیے (اے پیغمبر ان لوگوں سے) کہہ دو کہ یہ جو کچھ ہے اللہ کے فض (رح) اور رحإت سے ہے۔ پس چاہیے کہ (اپجنی فیضیابی) پر خوش ہو۔ یہ (اپنی برکتوں میں) ان تمام چیزوں سے بہتر جنہیں تم (زندگی کی کامرانیوں کے لیے) فراہم کرتے ہو : ” ھذا بصائر للناس وھدی ورحمۃ لقوم یوقنون : یہ (قراان) لوگوں کے لیے واضح دلیلوں کی روشنی ہے، اور ہدایت و رحمت ہے، یقین رکھنے والوں کے لیے“ (45:، 20) ”أَوَلَمْ یَکْفِہِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ یُتْلَی عَلَیْہِمْ إِنَّ فِی ذَلِکَ لَرَحْمَۃً وَذِکْرَی لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ : کیا ان لوگوں کے لیے یہ نشانی کافی نہیں کہ ہم نے پر کتاب نازل کی ہے جو انہیں (برابر) سنائی جا رہی ہے؟ جو لوگ یقین رکھنے والے ہیں، بلاشبہ ان کے لیے اس (نشانی) میں سر تا سر رحمت اور فہم و بصیرت ہے“ (29:، 51) چنانچہ اسی بنا پر اس نے داعی اسلام کے ظہور کو بھی فیضان رحمت سے تعبیر کیا ہے ” وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین : (اے پیغمبر !) پم نے تمہیں نہیں نہیں بھیجا ہے مگر اس لیے کہ تمام جہانوں کے لیے ہماری رحمت کا ظہور ہے“ (21:، 107) انسانی اعمال کے معنوی قوانین پر ” رحمت“ سے استدلال اور ” بقائے انفع“: اسی طرح وہ ” رحمت“ کے مادی مظاہر سے انسانی اعمال کے معنوی قوانین پر بھی استدلال کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے جس ” رحمت“ کا مقتضا یہ ہوا کہ دنیا میں ” بقائے انفع“ : اسی طرح وہ ” رحمت“ کے مادی مظاہر سے انسانی اعمال کے معنوی قوانین پر بھی استدلال کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے جس ” رحمت“ کا مقتضا یہ ہوا کہ دنیا میں ” بقائے انفع“ کا قانون نافذ ہے یعنی وہی چیز باقی رہتی ہے جو نافع ہوتی ہے کیونکر ممکن تھا کہ وہ انسانی اعمال کی طرف سے غافل ہوجاتی اور نافع اور غیر نافع اعمال میں امتیاز نہ کرتی؟ پس مادیات کی طرح معنویات میں بھی یہ قانون نفاذ ہے اور ٹھیک ٹھیک اسی طرح اپنے احکام و نتائج رکھتا ہے جس طرح مادیات میں تم دیکھ رہے ہو۔ حق اور باطل : اس سلسلہ میں وہ دو لفظ استعمال کرتا ہے ” حق“ اور ” باطل“۔ سورۃ رعد میں جہاں قانون ” بقائے انفع“ کا ذکر کیا ہے وہاں یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اس بیان سے مقصود ” حق“ اور ” باطل“ کی حقیقت واضح کرنی ہے۔ ” کذلک یضرب اللہ الحق والباطل : اس طرح اللہ ” حق“ اور ” باطل“ کی ایک مثال بیان کرتا ہے“۔ ساتھ ہی مزید تصریح کردی : ” لِلَّذِینَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّہِمُ الْحُسْنَی وَالَّذِینَ لَمْ یَسْتَجِیبُوا لَہُ لَوْ أَنَّ لَہُمْ مَا فِی الأرْضِ جَمِیعًا وَمِثْلَہُ مَعَہُ لافْتَدَوْا بِہِ أُولَئِکَ لَہُمْ سُوءُ الْحِسَابِ : پس (دیکھو) میل کچیل سے جو جھاگ اٹھتا ہے وہ رائگاں جاتا ہے کیونکہ اس میں انسان کے لیے نفع نہ تھا لیکن جس چیز میں انسان کے لیے نفع ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ (اپنے قوانین عمل کی) مثالیں دیتا ہے۔ (سو) جن لوگوں نے اپنے پروردگار کا حکم قبول کیا ان کے لیے خوبی و بہتری ہے اور جن لوگوں نے قبول نہ کیا ان کے لیے (اپنے اعمال بد کا) سختی کے ساتھ حساب دینا ہے اور اگر ان لوگوں کے قبضے میں وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے اور اتنا ہی اس پر اور بڑھا دیں اور بدلہ میں دے کر (نتائج عمل سے) بچنا چاہیں جب بھی نہ بچ سکیں گے“۔ عربی میں ” حق“ کا خاصہ ثبوت اور قیام ہے۔ یعنی جو بات ثابت ہو، اٹل ہو، امٹ ہو، اسے حق کہیں گے۔ ” باطل“ ٹھیک ٹھیک اس کا نقیض ہے۔ ایسی چیز جس میں ثبات و قیام نہ ہو۔ ٹل جانے والی، مٹ جانے والی، باقی نہ رہنے والی۔ چنانچہ خود قرآن میں جابجا ہے۔ ” لیحق الحق ویبطل الباطل“ قانون ” قضا بالحق“: وہ کہتا ہے جس طرح تم مادیات میں دیکھتے ہو کہ فطرت چھانٹتی رہتی ہے۔ جو چیز نافع ہوتی ہے باقی رکھتی ہے جو نافع نہیں ہوتی اسے محو کردیتی ہے۔ ٹھیک ٹھیک ایسا ہی عمل معنویات میں بھی جا ری ہے۔ جو عمل حق ہوگا قائم اور ثابت رہے گا جو باطل ہوگا مٹ جائے اور جب کبھی حق اور باطل متقابل ہوں گے تو بقا حق کے لیے ہوگی نہ کہ باطل کے لیے۔ وہ اسے ” قضا بالحق“ سے تعبیر کرتا ہے۔ یعنی فطرت کا فیصلہ حق جو باطل کے لیے نہیں ہو سکتا“ (فاذا جاء امر اللہ قضی بالحق وحسر ھنالک المبطلون : پھر جو وہ وقت آگیا کہ حکم الٰہی صادر ہو تو (خدا کا) فیصلہ حق نافذ ہوگیا اور اس وقت ان لوگوں کے لیے جو برسر باطل تھے، تباہی ہوئی“۔ اس نے اس حقیقت کی تعبیر کے لیے ” حق“ اور ” باطل“ کا لفظ اختیار کر کے مجر تعبیر ہی سے حقیقت کی نوعیت واضح کردی۔ کیونکہ حق اسی چیز کو کہتے ہیں جو ثابت و قائم ہو اور باطل کے معنی ہی یہ ہیں کہ مٹ جانا، قائم و باقی نہ رہنا۔ پس جب وہ کسی بات کے لیے کہتا ہے کہ یہ ” حق“ ہے تو یہ صرف دعوی ہی نہیں ہوتا بلکہ دعوے کے ساتھ اس کے جانچنے کا ایک معیار بھی پیش کردیتا ہے۔ یہ بات حق ہے۔ یعنی نہ ٹلنے والی نہ مٹنے والی بات ہے۔ یہ بات باطل ہے۔ یعنی نہ ٹک سکنے والی، مٹ جانے والی بات ہے۔ پس جو بات اٹل ہوگی اس کا اٹل ہونا کسی نگاہ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ جو بات مٹ جانے والی ہے اس کا مٹنا ہر آنکھ دیکھ لے گی۔ اللہ کی صفت بھی ” الحق“ ہے : چنانچہ وہ اللہ کی نسبت بھی ” الحق“ کی صفت استعمال کرتا ہے۔ کیونکہ اس کی ہستی سے بڑھ کر اور کون سی حقیقت ہے جو ثابت اور اٹل ہوسکتی ہے؟ ” فذلکم اللہ ربکم الحق : پس یہ ہے تمہارا پروردگار، الحق“۔ ” فتعالی اللہ الملک الحق : پس کیا ہی بلند درجہ ہے اللہ کا، الملک (یعنی فرمنروا) الحق (یعنی ثابت) “۔ وحی و تنزیل بھی ” الحق“ ہے : وحی و تنزیل کو بھی وہ ” الحق“ کہتا ہے کیونکہ وہ دنیا کی ایک قائم و ثابت حقیقت ہے۔ جن قوتوں نے اسے مٹانا چاہا تھا، وہ خود مٹ گئیں حتی کہ آج ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں لیکن وحی و تنزیل کی حقیقت ہمیشہ قائم رہی اور آج تک قائم ہے ” قل یا ایہا الناس قد جاءکم الحق من ربکم فمن اھتدی فانما یھتدی لنفسہ ومن ضل فانما یضل علیہا و ما انا علیکم بوکیل، واتبع ما یوحی الیک واصبر حتی یحکم اللہ و ھو خیر الحاکمین : (اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اے افراد نسل انسانی ! بلاشبہ تمہارے پروردگار کی طرف سے وہ چیز تمہارے لیے آگئی جو ” حق“ ہے۔ پس اب جس کسی نے سیدھی راہ اختیار کی تو یہ راست روی اسی کی بھلائی کے لیے ہے اور جس نے گمراہی اختیار کی تو اس کی گمراہی کا نقصان بھی اسی کے لیے ہے اور میرا کام تو صرف راہ حق دکھلا دینا ہے) میں تم پر نگہبان مقرر نہیں کیا گیا ہوں (کہ تم کو پکڑ کے زبردستی راہ پر لگا دوں)۔ اور (اے پیغمبر !) جو کچھ تم پر وحی کی گئی ہے اس کے مطابق چلو اور صبر کرو۔ یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کردے اور وہ فیصلہ کرنے والوں میں بہتر فیصلہ کرنے والا ہے“۔ ً” وبالحق انزلناہ وبالحق نزل“ اور (اے پیغمبر ! ہماری طرف سے اس کا (یعنی قرآن کا) نازل ہونا حق ہے اور وہ حق ہی کے ساتھ نازل بھی ہوا ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں ” الحق“: اسی طرح جب وہ علامت تعریف کے ساتھ کسی بات کا ” الح“ کہتا ہے تو اس سے بھی مقصود یہی حقیقت ہوتی ہے اور اسی لیے وہ اکثر حالتوں میں صرف ” الحق“: اسی طرح جب وہ علامت تعریف کے ساتھ کسی بات کو ” الحق“ کہتا ہے تو اس سے بھی مقصود یہی حقیقت ہوتی ہے اور اسی لیے وہ اکثر حالتوں میں صرف ” الحق“ کہہ کر خاموش ہوجاتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ کہنا ضروری نہیں سمجھتا۔ کیونکہ اگرچہ فطرت کائنات کا یہ قانون ہے کہ وہ حق و باطل کے نزاع میں ” حق“ ہی کو باقی رکھتی ہے تو کسی بات کے امر حق ہونے کے لیے صرف اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ وہ ” حق“ ہے۔ یعنی باقی و قائم رہنے والی حقیقت ہے۔ اس کا بقا و قیامت خود اپنی حقیقت کا اعلان کردے گا۔ نزاع حق و باطل : یہ جو قرآن جا بجا حق اور باطل کی نزاع کا ذکر کرتا ہے اور پھر بطور اصل اور قاعدہ کے اس پر زور دیتا ہے کہ کامیابی حق کے لیے ہے اور ہزیمت و خسران باطل کے لیے تو یہ تمام مقامات بھی اسی قانون ” قضاء بالحق“ کی تصریحات ہیں اور اسی حقیقت کی روشنی میں ان کا مطالعہ کرنا چاہیے : ” بل نقذف بالحق علی الباطل فیدمغہ فاذا ھو زاھق : اور ہمارا قانون یہ ہے کہ حق باطل سے ٹکراتا ہے اور اسے پاش پاش کردیتا ہے اور اچانک ایسا ہوتا ہے کہ وہ نابود ہوگیا“۔ ” وقل جاء الحق وزھق الباط ان الباطل کان زھوقا“ اور کہہ دو حق نمودار ہوگیا اور باطل نابود وہا اور یقینا باطل نابود ہی ہونے والا تھا۔ اللہ کی شہادت : اور پھر حق صداقت کے لیے یہی اللہ کی وہ شہادت ہے جو اپنے مقررہ وقت پر ظاہر ہوتی ہے اور بتا دتی ہے کہ حق کس کے ساتھ تھا۔ اور باطل کا کون پرستار تھا۔ یعنی قضاء بالحق کا قانون حق کو ثابت و قائم رکھ کر اور اس کے حریف کو محو و متلاشی کر کے حقیقت حال کا اعلان کردیتا ہے۔ ” قل کفی باللہ بینی و بینکم شہیدا یعلم ما فی السموات والارض والذین امنوا بالباطل وکفروا باللہ اولئک ہم الخاسرون : ان لوگوں سے کہہ دو، اب کسی اور رد و کد کی ضرورت نہیں۔ میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی بس کرتی ہے۔ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب اس کے علم میں ہے۔ پس جو لوگ حق کی جگہ باطل پر ایمان لائے ہیں اور اللہ کی صداقت کے منکر ہیں تو یقینا وہی ہیں جو تباہ ہونے والے ہیں“۔ ایک دوسرے موقع پر فیصلہ امر کے لیے اسے سب سے بڑی شہادت قرار دیا ہے۔ ” قل ای شیء اکبر شہادۃ قل اللہ شہیدا بینی و بینکم : کون سی بات سب سے بڑی گواہی ہے؟ (اے پیغمبر !) کہہ دو اللہ کی گواہی۔ وہی میرے اور تمہارے درمیان (فیصلہ امر کے لیے) گواہی دینے والا ہے۔ قضاء بالحق مادیات اور معنویات کا عالمگیر قانون ہے : وہ کہتا ہے اس قانون سے تم کیونکر انکار کرسکتے ہو جبکہ زمین و آسمان کا تمام کارخانہ اسی کی کارفرمائیوں پر قائم ہے؟ اگر فطرت کائنات نقصان اور برائی چھانٹی نہ رہتی اور بقاء و قیام صرف اچھی اور خوبی ہی کے لیے نہ ہوتا تو ظاہر ہے تمام کارخانہ ہستی درہم برہم ہوجاتا۔ جب تم جسمانیات میں اس قانون فطرت کا مشاہدہ کر رہے ہو تو معنویات میں تمہیں کیوں انکار ہو؟ ” ولو اتبع الحق اھواءھم لفسدت السموات والارض ومن فیہن : اور اگر حق ان کی خواہشوں کی پیروی کرے تو یقین کرو یہ آسمان و زمین اور جو کوئی اس میں ہے سب درہم برہم ہو کر رہ جائے“۔ انتظار اور تربص : قرآن میں جہاں کہیں انتظار اور تربص پر زور دیا ہے اور کہا ہے جلدی نہ کرو انتظار کرو عنقریب حق و باطل کا فیصلہ جائے گا۔ مثلا ” قل فانتظروا انی معکم من المنتظرین“ تو اس سے بھی مقصود یہی حقیقت ہے۔ ” قضاء بالحق“ اور تدریج و امہال : لیکن کیا ” قضاء بالحق“ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر باطل عمل فوراً نابود ہوجائے اور ہر عمل حق فوراً فتح مند ہوجائے؟ قرآن کہتا ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔ اور رحمت کا مقتضا یہی ہے کہ ایسا نہ ہو۔ جس رحمت کا مقتضا یہ ہوا کہ مادیاں میں تدریج و امہال کا قانون نافذ ہے اسی رحمت کا مقتضا یہ ہوا کہ معنویات میں بھی تدریج و امہال کا قانون کام کر رہا ہے اور عالم مادیات ہو یا معنویات، کائنات ہستی کے ہر گوشہ میں قانون فطرت ایک ہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ دنیا میں کوئی انسانی جماعت اپنی بدعملیوں کے ساتھ مہلت حیات پا سکتی۔ ” ولو یعجل اللہ للناس الشر استعجالہم بالخیر لقضی الیہم اجلہم : اور جس طرح انسان فائدے کے لیے جلد باز ہوتا ہے اگر اسی طرح اللہ انسان کو سزا دینے میں جلد باز ہوتا تو (انسان کی لغزشوں خطاؤں کا یہ حال ہے کہ) کبھی کا فیصلہ ہوچکتا اور ان کا مقررہ وقت فوراً نمودار ہوجاتا“۔ ” تاجیل“۔ وہ کہتا ہے، جس طرح مادیات میں ہر حالت بتدریج نشوونما پاتی ہے اور ہر نتیجہ کے ظہور کے لیے ایک خاص مقدار ایک خاص مدت اور ایک خاص وقت مقرر کردیا گیا ہے ٹھیک اسی طرح اعمال کے نتائج کے لیے بھی مقدار و اوقات کے احکام مقرر ہیں۔ اور ضروری ہے کہ ہر نتیجہ ایک خاص مدت کے بعد اور ایک خاص مقدار کی نشوونما کے بعد ظہور میں آئے۔ مثلاً فطرت کا یہ قانون ہے کہ اگر پانی آگ پر رکھا جائے گا تو وہ گرم ہو کر کھولنے لگے گا لیکن پانی کے گرم ہونے اور بالآخر کھولنے کے لیے حرارت کی ایک خاص مقدار ضروری ہے اور اس کے ظہور و تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ ایک مقررہ وقت تک انتظام کیا جائے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ تم پانی چولھے پر رکھو اور فوراً کھولنے لگے۔ وہ یقینا کھولنے لگے گا لیکن اس وقت جب حرارت کی مقررہ مقدار بتدریج تکمیل تک پہنچ جائے گی۔ ٹھیک اسی طرح یہاں انسانی اعمال کے نتائج بھی اپنے مقررہ اوقات ہی میں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور ضروری ہے کہ جب تک اعمال کے اثرات ایک خاص مقررہ مقدار تک نہ پہنچ جائیں نتائج کے ظہور کا انتظار کیا جائے۔ اس صورت حال سے تدریج و امہال کی حالت پیدا ہوگئی اور عمل حق اور عمل باطل دونوں کے نتائج کے ظہور کے لیے تاجیل یعنی ایک معین وقت کا ٹھہراؤ ضروری ہوگیا۔ دونوں کے نتائج فوراً ظاہر نہیں ہوجائیں گے۔ اپنی مقررہ اجل یعنی مقررہ وقت ہی پر ظاہر ہوں گے۔ البتہ حق کے لیے تاجیل اس لیے ہوتی ہے تاکہ اس کی فتح مند قوت نشوونما پائے اور باطل کے لیے اس لیے ہوتی ہے تاکہ اس کی فنا پذیر کمزور تکمیل تک پہنچ جائیے۔ اس تاجیل کے لیے کوئی ایک ہی مقررہ مدت نہیں ہے۔ ہر حالت کا ایک خاصہ ہے اور ہر گردوپیش اپنا ایک خاص مقتضا رکھتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک خاص حالت کے لیے مقررہ مدت کی مقدار بہت تھوڑی ہو اور ہوسکتا ہے کہ بہت زیادہ ہو۔ ” فان تولوا فقل اذنتکم علی سواء وان ادری اقریب ام بعید ما توعدون۔ انہ یعلم الجہر من القول ویعلم ما تکتمون۔ وان ادری لعلہ فتنۃ لکم ومتاع الی حین : پھر اگر یہ لوگ روگردانی کریں تو تو ان سے کہہ دو، میں تم سب کو یکساں طور پر (حقیقت حال کی) خبر دے دی اور میں نہیں جانتا اعمال بد کے جس نتیجہ کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے اس کا وقت قریب ہے ایا بھی دیر ہے۔ جو کچھ علانیہ زبان سے کہا جاتا ہے اور جو کچھ تم پوشیدہ رکھتے ہو خدا کو سب کچھ معلوم ہے۔ اور مجھے معلوم، ہوسکتا ہے یہ تاخیر اس لیے ہوتا کہ تمہاری آزمائش کی جائے یا اس لیے کہ ایک خاص وقت تک تمہیں فائدہ اٹھانے کا (مزید) موقع دیا جائے“ قوانین فطرت کا معیار اوقات : قرآن کہتا ہے، تم اپنی اوقات شماری کے پیمانے سے قوانین فطرت کی رفتار عمل کا اندازہ نہ لگاؤ۔ فطرت کا دائرہ عمل تو اتنا وسیع ہے کہ تمہارے معیار حساب کی بڑی سے بڑی مدت اس کے لیے ایک دن کی مدت سے زیادہ نہیں : ” ویستعجلونک بالعذاب ولن یخلف اللہ وعدہ و ان یوم عند ربک کالف سنۃ مما تعدون۔ وکاین من قریۃ املیت لہا وھی ظالمۃ ثم اخذتہا والی المصیر : اور وہ لوگ عذاب کے لیے جلد بازی کر رہے ہیں (یعنی انکار و شرارت کی راہ سے کہتے ہیں اگر سچ مچ کو عذاب آنے والا ہے تو وہ کہاں ہے؟) سو یقین کرو خدا اپنے وعدہ میں کبھی خلاف کرنے والا نہیں لیکن بات یہ ہے کہ تمہارے پروردگار کا ایک دن ایسا ہوتا ہے جیسا تمہارے حساب کا ہزار برس۔ چنانچہ کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں (عرصہ دراز تک) ڈھیل دی گئی حالانکہ وہ ظاہم تھیں پھر ( جب ظہور نتائج کا وقت آگیا تو) ہمارا مواخذہ نمودار ہوگیا۔ اور (ظاہر ہے کہ) لوٹ کر ہماری طرف آنا ہے“۔ استعجال بالعذاب : ان آیات میں فکر انسانی کی جس گمراہی کو ” استعجال بالعذاب“ سے تعبیر کیا گیا ہے وہ صرف انہی منکریں حق کی گمراہی نہ تھی جو ظہور اسلام کے وقت اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے تھے بلکہ ہر زمانہ میں انسان کی ایک عالمگیر کج اندیشی رہی ہے۔ وہ بسا اوقات فطرت کی اس مہلت بخشی سے فائدہ اٹھانے کی جگہ شر و فساد میں اور زیادہ نڈر اور جری ہوجاتا ہے اور کہتا ہے اگر فی الحقیقت حق و باطل کے لیے ان کے نتائج و عواقب ہیں، تو وہ نتائج کہاں ہیں؟ اور کیوں فوراً ظاہر نہیں ہوجاتے؟ قرآن جابجا منکرین حق کا یہ خیال نقل کرتا ہے اور کہتا ہے۔ اگر کائنات ہستی میں اس حقیقت اعلیٰ کا ظہور نہ ہوتا جسے ” رحمت“ کہتے ہیں تو یقینا یہ نتائج یکایک اور بیک دفعہ ظاہر ہوجاتے اور انسان اپنی بدعملیوں کے ساتھ کبھی زندگی کا سانس نہ لے سکتا لیکن یہ سارے قانونوں اور حکموں سے بھی بالاتر ” رحمت“ کا قانون ہے اور اس کا مقتضا یہی ہے کہ حق کی طرح باطل کو بھی زندگی و معیشت کی مہلتیں دے، اور توبہ و رجوع اور عفو ودرگزر کا دروازہ ہر حال میں باز رکھے۔ فطرت کائنات میں اگر یہ ” رحمت“ نہ ہوتی تو یقینا وہ جزائے عمل میں جلد باز ہوتی لیکن اس میں رحمت ہے اس لیے نہ تو اس کی مہلت بخشیوں کی کوئی حد ہے نہ اس کے عفو ودرگزر کے لیے کوئی کنارہ۔ ” ویقولون متی ھذا الوعدہ ان کنتم صدقین قل عسی ان یکون ردف لکم بعض الذی تستعجلون۔ وان ربک لذوفضل علی الناس ولکن اکثرہم لا یشکرون : اور (اے پیغمبر) یہ (حقیقت فراموش کہتے ہیں) اگر تم (نتائج ظلم و طغیان سے ڈرانے میں) سچے ہو تو وہ بات کب ہونے والی ہے؟ (اور کیوں نہیں ہوچکتی؟) ان سے کہہ دو (گھبراؤ نہیں) جس بات کے لیے تم جلدی مچا رہے ہو عجب نہیں اس کا ایک حصہ بالکل قریب آگیا ہو۔ اور (اے پیغمبر !) تمہارا پروردگار انسان کے لیے بڑا ہی فضل رکھنے والا ہے (کہ ہر حال میں اصلاح و تلافی کی مہلت دیتا ہے) لیکن (افسوس انسان کی غفلت پر بیشتر ایسے ہیں کہ اس کے فضل و رحمت سے فائدہ اٹھانے کی جگہ اس کی ناشکری کرتے ہیں“ ” ویستعجلونک بالعذاب ولولا اجل مسمی لجاءھم العذاب ولیاتینہم بغتۃ وھم لا یشعرون : اور یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی کرتے ہیں (یعنی انکار و شرارت کی راہ سے کہتے ہیں اگر واقعی عذاب آنے والا ہے تو کیوں نہیں آچکتا؟) اور واقعہ یہ ہے کہ اگر ایک خاص وقت نہ ٹھہرا دیا گیا ہوتا تو کب کا عذاب آچکا ہوتا اور (یقین رکھو جب وہ آئے گا تو اس طرح آئے گا کہ) یکایک ان پر آ گرے گا اور انہیں اس کا وہم و گمان بھی نہ ہوگا !“۔ ” وما نؤخرہ الا لاجل معدود : اور (یاد رکھو) اگر ہم اس معاملہ میں تاخیر کرتے ہیں تو صرف اس لیے کہ ایک حساب کی ہوئی مدت کے لیے اسے تاخیر میں ڈال دیں“۔ العاقبۃ للمتقین : وہ کہتا ہے : یہاں زندگی و عمل کی مہلتیں سب کے لیے ہیں کیونکہ ” رحمت“ کا مقتضا یہی تھا۔ پس اس بات سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے اور یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ نتائج اعمال کے قوانین موجود نہیں۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ نتیجہ کی کامیابی کس کے حصے میں آتی ہے اور آخر کار کون آبرومند ہوتا ہے۔ ” قل یقوم اعملوا علی مکانتکم انی عامل فسوف تعلمون من تکون لہ عاقبۃ الدار انہ لا یفلح الظالمون : (اے پیغمبر ! تم ان لوگوں سے) کہہ دو کہ دیکھو (اب میرے اور تمہارے معاملہ کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے) تم جو کچھ کر رہے ہو اپنی جگہ کیے جاؤ اور میں بھی اپنی جگہ کام میں لگا ہوں۔ عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ کن ہے جس کے لیے آخر کار (کامیاب) ٹھکانا ہے۔ بلاشبہ (یہ اس کا قانون ہے کہ) ظلم کرنے والے کبھی فلاح نہیں پا سکتے“ قرآن کی وہ تمام آیات جن میں ظلم و کفر کے لیے فلاح و کامیابی کی نفی کی گئی ہے : اس موقع پر یہ قاعدہ بھی معلوم کرلینا چاہیے کہ قرآن نے جہاں کہیں ظلم و فساد اور فسق و کفر وغیرہ اعمال بد کے لیے کامیابی و فلاح کی نفی کی ہے اور نیک عملی کے لیے فتح مندی و کامرانی کا اثبات کیا ہے ان تمام مقامات میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مثلاً 1۔ انہ لا یفلح الظالمون (6:، 21)۔ ” تحقیق وہ ظالموں کو فلاح نہیں دیتا“ 2۔ انہ لایفلح المجرمون (10:، 17) ” بے شک وہ مجرموں کو کامیابی نہ دے گا“ 3۔ انہ لا یفلح الکافرون (23:، 117) ” حقیقتا وہ کافروں کو کامیاب نہیں کرتا“ 4۔ لایصلح عمل المفسدین (10:، 81) ” ہاں وہ فسادیوں کی اصلاح نہیں فرماتا“ 5۔ ان اللہ لا یہدی القوم الکافرین (9: 37) ” تحقیق اللہ منکر قوم کو ہدایت نہیں دیتا“ 6۔ واللہ لا یہدی القوم الظالمین (3:، 37) ” اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دکھلاتا“۔ وغیرہا من الآیات۔ اللہ ظلم کرنے والوں کو فلاح نہیں دیتا۔ یعنی اس کا قانون ہے کہ ظلم کے لیے کامیابی و فلاح نہیں ہوتی۔ اللہ ظلم کرنے والوں کو فلاح نہیں دیتا۔ یعنی اس کا قانون یہی ہے کہ ظلم کرنے والوں پر کامیابی و سعادت کی راہ نہیں کھلتی۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ ارشاد و ہدایت کا دروازہ ان پر بند کردیتا ہے۔ اور وہ گمراہی و کوری کی زنگی پر مجبور کردیے جاتے ہیں۔ افسوس ہے کہ قرآن کے مفسروں نے ان مقامات کا ترجمہ غور وفکر کے ساتھ نہیں کیا اس لیے مطالب اپنی اصلی شکل میں واضح نہ ہوسکے۔ تمتع : اور پھر اصطلاح قرآنی میں یہی وہ تمتع ہے۔ یعنی زندگی سے فائدہ اٹھانے کی مہلت جس کا وہ بار بار ذکر کرتا ہے اور جو یکساں طور پر سب کو دی گئی ہے : ” بل متعنا ھؤلاء واباءھم حتی طال علیہم العمر : بلکہ بات یہ ہے کہ ہم نے ان لوگوں کو اور ان کے آباء واجداد کو مہلت حیات سے بہرہ مند ہونے کے مواقع دیے یہاں تک کہ (خوشحالی کی) ان پر بڑی بڑی عمریں گزر گئیں“ اسی طرح وہ جابجا ” متعناہم الی حین (10:، 98)، ’ متاع الی حین“ (36:، 44)، ” فتمتعوا فسوف تعلمون“ (16:، 55) وغیر تعبیرات سے بھی اسی حقیقت پر زور دیتا ہے۔ قضاء بالحق اور اقوام و جماعات : اسی طرح وہ قانون قضاء بالحق کو جماعتوں اور قوموں کے عروج و زوال پر بھی منطبق کرتا ہے اور کہتا ہے : جس طرح فطرت کا قانون انتخاب، افراد و اجسام میں جاری ہے اسی طرح اقوام و جماعات میں بھی جاری ہے۔ جس طرح فطرت نافع اشیاء کو باقی رکھتی ہے غیر نافع کو چھانٹ دیتی ہے ٹھیک اسی طرح جماعتوں میں بھی صرف اسی جماعت کے لیے بقا ہوتی ہے جس میں دنیا کے لیے نفع ہو۔ جو جماعت غیر نافع ہوجاتی ہے وہ چھانٹ دی جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے یہ اس کی ” رحمت“ ہے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا میں انسانی ظلم وطغیان کے لیے کوئی روک تھام نظر نہ آتی۔ ” ولولا دفع اللہ الناس بعضہم ببعض لفسدت الارض ولکن اللہ ذو فضل علی العالمین : اور (دیکھو) اگر اللہ (نے جماعتوں اور قوموں میں باہم دگر تزاحم پیدا نہ کردیا ہوتا اور وہ) بعض آدمیوں کے ذریعے بعض آدمیوں کو راہ سے ہٹاتا نہ رہتا تو یقینا زمین میں خرابی پھیل جاتی لیکن اللہ کائنات کے لیے فضل و رحمت رکھنے والا ہے۔ ایک دوسرے موقع پر یہی حقیقت ان لفظوں میں بیان کی گئی ہے : ” الَّذِینَ أُخْرِجُوا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ إِلا أَنْ یَقُولُوا رَبُّنَا اللَّہُ وَلَوْلا دَفْعُ اللَّہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیہَا اسْمُ اللَّہِ کَثِیرًا وَلَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ إِنَّ اللَّہَ لَقَوِیٌّ عَزِیزٌ : اور اگر ایسا نہ ہوتا کہ اللہ بعض جماعتوں کے ذریعے بعض جماعتوں کو ہٹاتا رہتا تو (یقین کرو دنیا میں انسان کے ظلم و فساد کے لیے کوئی روک باقی نہ رہتی اور) یہ تمام خانقاہیں، گرجے، عبادت گاہیں اور مسجدیں جن میں اس کثرت سے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے منہدم ہو کر رہ جاتیں“۔ قضاء بالحق کے اجتماع نفاذ میں تدریج وامہال اور تاجیل ہے : لیکن وہ کہتا ہے جس طرح فطرت کائنات کے تمام کاموں میں تدریج و امال کا قانون کام کر رہا ہے اسی طرح قوموں اور جماعتوں کے معاملہ میں بھی وہ جو کچھ کرتی ہے بتدریج کرتی ہے اور اصلاح حال اور رجوع وانابت کا دروازہ آخر وقت تک کھلا رکھتی ہے۔ کیونکہ رحمت کا مقتضا یہی ہے۔ ” وَقَطَّعْنَاہُمْ فِی الأرْضِ أُمَمًا مِنْہُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنْہُمْ دُونَ ذَلِکَ وَبَلَوْنَاہُمْ بِالْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّئَاتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ : اور ہم نے ایسا کیا کہ ان کے لیے الگ الگ گروہ زمین میں پھیل گئے۔ ان میں سے بعض تو نیک عمل تھے بعض دوسری طرح کے۔ پھر ہم نے انہیں اچھائیوں اور برائیوں دونوں طرح کی حالتوں سے آزمایا تاکہ نافرمانی سے باز آجائیں“۔ جس طرح اجسام کے ہر تغیر کے لیے فطرت نے اسباب و علل کی ایک خاص مقدار اور مدت مقرر کردی ہے اسی طرح اقوام کے زوال و ہلاکت کے لیے بھی موجبات ہلاکت کی ایک خاص مقدار اور مدت مقرر ہے اور یہ ان کی ” اجل“ ہے۔ جب تک یہ اجل نہیں آچکتی قانون الٰہی یکے بعد دیگرے تنبہ واعتبار کی مہلتیں دیتا رہتا ہے۔” اولایرون انہم یفتنون فی کل عام مرۃ او مرتین ثم لا یتوبون ولا ھم یذکرون : کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ان پر کوئی برس ایسا نہیں گزرتا کہ ہم انہیں ایک دو مرتبہ یا دو مرتبہ آزمائشوں میں نہ ڈالتے ہو (یعنی ان کے اعمال بد کے نتائج پیش نہ آتے ہوں) پھر بھی نہ تو توبہ کرتے ہیں نہ حالات سے نصیحت پکڑتے ہیں !“ لیکن اگر تنبہ و اعتبار کی یہ تمام مہلتیں رائگاں گئیں اور ان سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو پھر فیصلہ امر کا آخری وقت نمودار ہوجاتا ہے اور جب وہ وقت آجائے تو پھر یہ فطرت کا آخری، اٹل اور بے پناہ فیصلہ ہے۔ نہ تو اس میں ایک لمحہ کے لیے تاخیر ہو سکتی ہے نہ یہ اپنے مقررہ وقت سے ایک لمحہ پہلے آسکتا ہے۔ ” ولکل امۃ اجل فاذا جاء اجلہم لا یستاخرون ساعۃ ولایستقدمون : اور (دیکھو) ہر امت کے لیے ایک مقررہ وقت ہے۔ سو جب ان کا مقررہ وقت آچکتا ہے تو اس سے نہ تو ایک گھڑی پیچھے رہ سکتے ہیں نہ ایک گھڑی آگے بڑھ سکتے ہیں“ ” وما اھلکنا من قریۃ الا ولھا کتب معلوم۔ ما تسبق من امۃ اجلہا و ما یستاخرون : اور ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ ہمارے ٹھہرائے ہوئے قانون کے مطابق ایک مقررہ میعاد اس کے لیے موجود تھی۔ کوئی امت نہ تو اپنے مقررہ وقت سے آگے بڑھ سکتی ہے، نہ پیچھے رہ سکتی ہے“۔ اسی طرح بقائے انفع اور قضاء بالحق کا قانون پچھلی قوم کو چھانٹ دیتا ہے اور اس کی جگہ ایک دوسری قوم لا کھڑی کرتا ہے اور یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ ” رحمت“ کا مقتضا یہی ہے۔ ” ذَلِکَ أَنْ لَمْ یَکُنْ رَبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرَی بِظُلْمٍ وَأَہْلُہَا غَافِلُونَ (١٣١) وَلِکُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ (١٣٢) وَرَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَۃِ إِنْ یَشَأْ یُذْہِبْکُمْ وَیَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِکُمْ مَا یَشَاءُ کَمَا أَنْشَأَکُمْ مِنْ ذُرِّیَّۃِ قَوْمٍ آخَرِینَ (١٣٣): یہ (تبلیغ و ہدایت کا تمام سلسلہ) اس لیے ہے کہ تمہارے پروردگار کا یہ شیوہ نہیں کہ بستیوں کو ظلم و ستم سے ہلاک کر ڈالے اور ان کے بسنے والے حقیقت حال سے بے خبر ہوں (اس کا قانون تو یہ ہے کہ) جیسا کچھ جس کا عمل ہے اسی کے مطابق اس کا ایک درجہ ہے (اور اسی درجہ کے مطابق اچھے برے نتائج ظاہر ہوتے ہیں) اور یاد رکھو جیسے کچھ لوگوں کے اعمال ہیں تمہارا پروردگار ان سے بے خبر نہیں ہے ! تمہارا پروردگار رحمت ولاا اور بے نیاز ہے۔ اگر وہ چاہے تو تمہیں راہ سے ہٹٓ دے اور تمہارے بعد جسے چاہے تمہارا جانشین بنا دے۔ اسی طرح جس طرح ایک دوسری قوم کی نسل سے تمہیں اوروں کا جانشین بنا دیا ہے“ انفرادی زندگی اور مجازات دنیوی : اسی طرح وہ کہتا ہے : یہ بات کہ انفرادی زندگی کے اعمال کی جزا دنیوی زندگی سے تعلق نہیں رکھتی۔ آخرت پر اٹھا رکھی گئی ہے اور دنیا میں نیک و بد سب کے لیے یکساں طور پر مہلت حیان اور فیضان معیشت ہے۔ اسی حقیقت کا نتیجہ ہے کہ یہاں ” رحمت“ کی کارفرمائی ہے۔ ” رحمت“ کا مقتضا یہی تھا کہ اس کے فیضان و بخشش میں کسی طرح کا امتیاز نہ ہو اور مہلت حیات سب کو پوری طرح ملے اس نے انسان کی انفرادی زندگی کے دو حصے کردیے۔ ایک حصہ دنیوی زندگی کا ہے، اور سرتا سر مہلت ہے۔ دوسرا حصہ مرنے کے بعد کا ہے اور جزا کا معاملہ اسی سے تعلق رکھتا ہے۔ ” وربک الغفور ذو الرحمۃ لو یواخذہم بما کسبو لعجل لہم العذاب بل لہم موعد لن یجدو من دونہ موئلا : اور (اے پیغمبر ! یقین کرو) تمہارا پروردگار بڑا بخشنے والا صاحب رحمت ہے۔ اگر وہ ان لوگوں سے ان کے اعمال کے مطابق مواخذہ کرتا تو فوراً عذاب نازل ہوجاتا۔ لیکن ان کے لیے ایک میعاد مقرر کردی گئی ہے اور جب وہ نمودار ہوگی تو اس سے بچنے کے لیے کوئی پناہ کی جگہ انہیں نہیں ملے گی“۔ ” ھو الذی خلقکم من طین ثم قضی اجلا واجل مسمی عندہ : وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر تمہاری زندگی کے لیے ایک وقت غھہرا دیا اور اسی طرح اس کے پاس ایک اور بھی ٹھہرائی ہوئی میعاد ہے ! (یعنی قیامت کا دن) “۔ معنوی قوانین کی مہلت بخشی اور توبہ و انابت : وہ کہتا ہے : جس طرح عالم اجسام میں تم دیکھتے ہو کہ فطرت نے ہر کمزوری و فساد کے لیے ایک لازمی نتیجہ ٹھہرا دیا ہے لیکن پھر بھی اصلاح حال کا دروازہ بند نہیں کرتی اور مہلتوں پر مہلتیں دیتی رہتی ہے۔ نیز اگر بروقت اصلاح ظہور میں آجائے، تو اسے قبول کرلیتی ہے۔ ٹھیک ٹھیک اسی طرح یہاں بھی توبہ و انابت کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ کوئی بد عملی، کوئی گناہ، کوئی جرم، کوئی فساد ہو اور نوعیت میں کتنا ہی سخت اور مقدار میں کتنا ہی عظیم ہو لیکن جونہی توبہ و انابت کا احساس انسان کے اندر جنبش میں آتا ہے تو رحمت الٰہی قبولیت کا دروازہ معاً کھول دیتی ہے اور اشک ندامت کا ایک قطرہ بد عملیوں اور گناہوں کے بے شمار داغ دھبے اس طرح دھو دیتا ہے گویا اس کے دامن عمل پر کوئی دھبہ لگا ہی نہ تھا۔ التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ ”إِلا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلا صَالِحًا فَأُولَئِکَ یُبَدِّلُ اللَّہُ سَیِّئَاتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَکَانَ اللَّہُ غَفُورًا رَحِیمًا : ہاں مگر جس کسی نے توبہ کی، ایمان لایا اور آئندہ کے لیے نیک عملی اختیار کی تو یہ لوگ ہیں جن کی برائیوں کو اللہ اچھائیوں سے بدل دیتا ہے اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے ! “ رحمت الٰہی اور مغفرت وبخشش کی وسعت و فراوانی ! اس بارے میں قرآن نے رحمت الٰہی کی وسعت اور اس کی مغفرت و بخشش کی فراوانی کا جو نقشہ کھینا ہے اس کی کوئی حد و انتہا نہیں ہے۔ کتنے ہی گناہ ہوں، کتنے ہی سخت گناہ ہوں، کتنی ہی مدت کے گناہ ہوں لیکن ہر اس انسان کے لیے جو اس کے دروازہ رحمت پر دستک دے رحمت و قبولیت کے سوا کوئی صدا نہیں ہوسکتی ! ” قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنْفُسِہِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَۃِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (٥٣): اے میرے بندو ! جنہوں نے (بدعملیاں کرکے) اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے (تمہاری بدعملیاں کتنی ہی سخت اور کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو مگر) اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقینا اللہ تمہارے تمام گناہ بخش دے گا۔ یقینا وہ بڑا بخشنے والا بڑی ہی رحمت رکھنے والا ہے ! اسلامی عقائد کا دینی تصور اور ” رحمت“: اور پھر یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں قرآن نے انسان کے لیے دینی عقائد و اعمال کا جو تصور قائم کیا ہے اس کی بنیاد بھی تمام تر رحمت و محبت ہی پر رکھی ہے کیونکہ وہ انسان کی روحانی زندگی کو کائنات فطرت کے عالمگیر کارخانہ سے کوئی الگ اور غیر متعلق چیز قرار نہیں دیتا۔ بلکہ اسی کا ایک مربوط گوشہ قرار دیتا ہے۔ اور اس لیے کہتا ہے : جس کارساز فطرت نے تمام کارخانہ ہستی کی بنیاد ” رحمت“ پر رکھی ہے ضروری تھا کہ اس گوشہ میں بھی اس کے تمام احکام سر تا سر رحمت کی تصویر ہوں۔ خدا اور اس کے بندوں کا رشتہ محبت کا رشتہ ہے : چنانچہ قرآن نے جابجا یہ حقیقت واضح کی ہے کہ خدا اور اس کے بندوں کا رشتہ محبت کا رشتہ ہے اور سچی عبودیت اسی کی عبودیت ہے جس کے لیے معبود صرف معبود ہی نہ ہوبلکہ محبوب بھی ہو : ” ومن الناس من یتخذ من دون اللہ اندادا یحبونہم کحب اللہ والذین امنوا اشد حبا للہ : اور (دیکھو) انسانوں میں سے کچھ انسان ایسے ہیں جو دوسری ہستیوں کو اللہ کا ہم پلہ بنا لیتے ہیں۔ وہ انہیں اس طرح چاہتے لگتے ہیں جس طرح اللہ کو چاہنا ہوتا ہے حالانکہ جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں۔ ان کی زیادہ سے زیادہ محبت صرف اللہ ہی کے لیے ہوتی ہے“ ” قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّہَ فَاتَّبِعُونِی یُحْبِبْکُمُ اللَّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ (٣١): (اے پیغمبر ! ان لوگوں سے) کہہ دو اگر واقعی تم اللہ سے محبت رکھنے والے ہو تو چاہیے کہ میری پیروی کرو (میں تمہیں محبت الٰہی کی حقیقی راہ دکھا رہا ہوں، اگر تم نے ایسا کیا تو صرف یہی نہیں ہوگا کہ تم اللہ سے محبت کرنے والے ہوجاؤ گے بلکہ خود) اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بخشنے والا رحمت والا ہے۔ وہ جابجا اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ ایمان باللہ کا نتیجہ اللہ کی محبت اور محبوبیت ہے : ”یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِینِہِ فَسَوْفَ یَأْتِی اللَّہُ بِقَوْمٍ یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّونَہُ : اے پیروان دعوت ایمانی ! اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے دین کی راہ سے پھرجائے گا تو (وہ یہ نہ سمجھے کہ دعوت حق کو اس سے کچھ نقصان پہنچے گا) عنقریب اللہ ایک گروہ ایسے لوگوں کا پیدا کردے گا جنہیں اللہ کی محبت حاصل ہوگی اور وہ اللہ کو محبوب رکھنے والے ہوں گے“۔ جو خدا سے محبت کرنا چاہے اسے چاہیے اس کے بندوں سے محبت کرے : لیکن بندے کے لیے خدا کی محبت کی عملی راہ کیا ہے؟ وہ کہتا ہے : خدا کی محبت کی راہ اس کے بندوں کی محبت میں سے ہو کر گزری ہے۔ جو انسان چاہتا ہے خدا سے محبت کرے اسے چاہیے کہ خدا کے بندوں سے محبت کرنا سیکھے : ” واتی المال علی حبہ : اور جو اپنا مال اللہ کی محبت میں نکلاتے اور خرچ کرتے ہیں“ ” وَیُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسْکِینًا وَیَتِیمًا وَأَسِیرًا (٨)إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللَّہِ لا نُرِیدُ مِنْکُمْ جَزَاءً وَلا شُکُورًا (٩): اور اللہ کی محبت میں وہ مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھالتے ہیں (اور کہتے ہیں) ہمارا یہ کھلانا اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ محض اللہ کے لیے ہے ہم تم سے نہ تو کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ کسی طرح کی شکر گزاری“ ایک حدیث قدسی میں یہی حقیقت نہایت مؤثر پیرائے میں واضح کی گئی ہے : ” یابان ادم مرضت فلم تعدنی قال کیف اعودک وانت رب العالمین۔ قال اما علمت ان عبدی فلانا مرض فلم تعدہ؟ اما علمت انک لوعدتہ لوجدتنی عندہ؟ یا ابن ادم ان ستطعمتک فلم تطعمنی قال یا رب کیف اطعمک وانت رب العالمین؟ قال امت انہ استطعمک عبدی فلان فلم تطعمہ ام اعلمت انک لو اطعمتہ لوجدت ذلک عندی؟ یا ابن ادم استسقیتک فلم تسقنی قال کیف اسقتیتک وانت رب العالمین، قال استسقاک عبدی فلان فلم تسقہ اما انک لوسقیتہ لوجت ذلک عندی ؟“ (رواہ مسلم عن ابی ھریرۃ) ” قیامت کے دن ایسا ہوگا کہ خدا ایک انسان سے کہے گا۔ اے ابن آدم ! میں بیمار ہوگیا تھا مگر تو نے میری بیماری پرسی نہ کی۔ بندہ متعجب ہو کر کہے گا بھلا ایسا کیونکر ہوسکتا ہے اور تو تو رب العالمین ہے۔ خدا فرمائے گا کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ تیرے قریب بیمار ہوگیا تھا اور تو نے اس کی خبر نہیں لی تھی۔ اگر تو اس کی بیمار پرسی کے لیے جاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اسی طرح خدا فرمائے گا اے ابن آدم میں تجھ سے کھانا مانگا تھا مگر تو نے نہیں کھلایا۔ بندہ عرض کرے گا بھلا ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ تجھے کسی بات کی احتیاج ہو؟ خدا فرمائے گا کیا تجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بھوکے بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا اور تو نے انکار کردیا تھا۔ اگر تو اسے کھلاتا تو تو اسے میرے پاس پاتا ایسے ہی خدا فرمائے گا اے ابن آدم ! میں نے تجھ سے پانی مانگا مگر تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔ بندہ عرض کرے گا بھلا ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ تجھے پیاس لگے تو تو خود پروردگار ہے؟ خدا فرمائے گا میرے فلاں پیاسے بندے نے تجھ سے پانی مانگا لیکن تو نے اسے پانی نہ پلایا۔ اگر تو اسے پانی پلا دیتا تو اسے میرے پاس پاتا۔ اعمال و عبادات اور اخلاق و خصائل : اسی طرح قرآن نے اعمال و عبادات کی جو شکل و نوعیت قرار دی ہے، اخلاق و خصائل میں سے جن جن باتوں پر زور دیا ہے اور اوامر و نواہی میں جو اصول و مبادی ملحوظ رکھے ہیں ان سب میں بھی یہی حقیقت کام کر رہی ہے۔ اور یہ چیز اس درجہ واضح و معلوم ہے کہ بحث و بیان کی ضرورت نہیں۔ قرآن سر تا سر رحمت الٰہی کا پیام ہے : اور پھر یہی وجہ ہے کہ قرآن نے خدا کی کسی صفت کو بھی اس کثرت کے ساتھ نہیں دہرایا ہے اور نہ کوئی مطلب اس درجہ اس کے صفحات میں نمایاں ہے جس قدر رحمت ہے۔ اگر قرآن کے وہ تمام مقامات جمع کیے جائیں جہاں ” رحمت“ کا ذکر کیا گیا ہے تو تین سو سے زیادہ مقامات ہوں گے اور اگر وہ تمام مقامات بھی شامل کرلیے جائیں۔ جہاں اگرچہ لفظ رحمت استعمال نہیں ہوا ہے۔ لیکن ان کا تعلق رحمت ہی سے ہے۔ مثلاً ربوبیت، مغفرت، رافت کرم، حلم، عفو و غیرہا تو پھر یہ تعداد اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ کہا جاسکتا ہے قرآن اول سے لے کر آخر تک اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ رحمت الٰہی کا پیام ہے ! بعض احادیث : ہم اس موقع پر وہ تمام تصریحات قصداً چھور رہے ہیں جن کا ذخیرہ احادیث میں موجود ہے کیونکہ یہ مقام زیادہ تفصیل و بحث کا متحمل نہیں۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول و عمل سے اسلام کی جو حقیقت ہمیں بتلائی ہے وہ تمام تر یہی ہے کہ خدا کی موحدانہ پرستش اور اس کے بندوں پر شفقت و رحمت۔ ایک مشہور حدیث جو ہر مسلمان واعظ کی زبان پر ہے ہمیں بتلاتی ہے کہ انما یرحم اللہ من عبادہ الرحمانء ” خدا کی رحمت انہی دبندوں کے لیے ہے جو ان کے بندوں کے لیے رحمت رکھتے ہیں۔ (طبرانی و ابن جریر بسند صحیح) حضرت مسیح (علیہ السلام) کا مشہور کلمہ وعظ ” زمین والوں پر رحم کرو تاکہ وہ جو آسمان پر ہے تم پر رحم کرے“ بجنسہ پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر بھی طاری ہوا ہے) (الرحمن تبارک وتعالی۔ ارحموا من فی الارض یرحمکمم من فی السماء) (امام احمد نے مسند میں، ترمذی، اور ابوداود نے صحیح میں اور حاکم نے مستدرک میں ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے۔ وروینا سلسلا من طریق الشیخ محمود شکری الالوسی العراقی وایضا عن والدی المرحوم عن الشیخ صدر الدین الدھئولی من طریق الشیخ احمد ولی اللہ رحمہم اللہ)۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اسلام نے انسانی رحمت و شفقت کی جو ذہنیت پیدا کرنی چاہی ہے وہ اس قدر وسیع ہے کہ بے زبان جانور بھی اس سے باہر نہیں ہیں۔ ایک سے زیادہ حدیثیں اس مضمون کی موجود ہیں کہ اللہ کی رحمت رحم کرنے والوں کے لیے ہے اگر یہ رحم ایک چڑیا ہی کے لیے کیوں نہ ہو ” من رحم ولو ذبیحۃ عصفور رحمہ اللہ یوم القیامۃ(رواہ البخاری فی الادب المفرد والطبرانی عن ابی امامۃ وصححہ السیوطی فی الجامع الصغیر) مقام انسانی اور صفات الٰہی سے تخلق و تشبہ : اصل یہ ہے کہ قرآن نے خدا پرستی کی بنیاد ہی اس جذبہ پر رکھی ہے کہ انسان خدا کی صفتوں کا پرتو اپنے اندر پیدا کرے۔ وہ انسان کے وجود کو ایک ایسی سرحد قرار دیتا ہے جہاں حیوانیت کا درجہ ختم ہوتا اور ایک مافوق حیوانیت درجہ شروع ہوجاتا ہے۔ وہ کہتا ہے : انسان کا جوہر انسانیت جو اسے حیوانات کی سطح سے بلند و ممتاز کرتا ہے اس کے سوا کچھ نہیں کہ صفات الٰہی کا پرتو ہے اور اس لیے انسانیت کی تکمیل یہ ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ صفات الٰہی سے تخلق و تشبہ پیدا ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جہاں کہیں بھی انسان کی خاص صفات کا ذکر کیا ہے انہیں براہ راست خدا کی طرف نسبت دی ہے۔ حتی کہ جوہر انسانیت کو خدا کی روح پھونک دینے سے تعبیر کیا ” ثم سواہ ونفخ فیہ من روحہ وجعل لکم السمع والابصار والافئدۃ“ (32:، 8) یعنی خدا نے آدم میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دیا اور اسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے اندر عقل و حواس کا چراغ روشن ہوگیا۔ در ازل پرتو حسنت زتجلی دم زد : عشق پیدا شد و آتش بہ ہمہ عالم زد بس اگر وہ خدا کی رحمت کا تصور ہم میں پیدا کرنا چاہتا ہے تو یہ اس لیے کہ وہ چاہتا ہے ہم بھی سرتاپا رحمت و محبت ہوجائیں۔ اگر وہ اس کی ربوبیت کا مرقع بار بار ہماری نگاہوں کے سامنے لاتا ہے تو یہ اس لیے کہ وہ چاہتا ہے ہم بھی اپنے چہرہ اخلاق میں ربوبیت کے سارے خال و خط پیدا کرلیں۔ اگر وہ اس کی رافت و شفقت کا ذکر کرتا ہے، اس کے لطف و کرم کا جلودہ دکھاتا ہے، اس کے جود و احسان کا نقشہ کھینچتا ہے تو اسی لیے کہ وہ چاہتا ہے ہم میں بھی ان الٰہی صفتوں کا جلوہ نمودار ہوجائے۔ وہ بار بار ہمیں سناتا ہے کہ خدا کی بخشش و درگزر کی کوئی انتہا نہیں اور اس طرح ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم میں بھی اس کے بندوں لیے بخشش و درگزر کا غیر محدود جوش پیدا ہوجانا چاہیے۔ اگر ہم اس کے بندوں کی خطائیں بخش نہیں سکتے تو ہمیں کیا حق ہے اپنی خطاؤں کے لیے اس کی بخشائشوں کا انتظار کریں؟ احکام و شرائع : جہاں تک احکام و شرائع کا تعلق ہے بلاشبہ اس نے یہ نہیں کہا دشمنوں کو پیار کرو کیونکہ ایسا کہنا حقیقت نہ ہوتی، مجاز ہوتا۔ لیکن اس نے کہا کہ دشمنوں کو بھی بخش دو اور جو دشمن کو بخش دینا سیکھ لے گا اس کا دل خود بخود انسانی بغض و نفرت کی آلودگیوں سے پاک ہوجائے گا۔ الکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللہ یحب المحسنین : غصہ ضبط کرنے والے، اور انسانوں کے قصور بخش دینے والے اور اللہ کی محبت انہی کے لیے ہے جو احسان کرنے والے ہیں۔ وَالَّذِینَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْہِ رَبِّہِمْ وَأَقَامُوا الصَّلاۃَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَعَلانِیَۃً وَیَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ أُولَئِکَ لَہُمْ عُقْبَی الدَّارِ (٢٢): اور جن لوگوں نے اللہ کی محبت میں (سختی و ناگواری) برداشت کرلی، نماز قائم کی، خدا کی دی ہوئی روزی پوشیدہ و علانیہ (اس کے بندوں کے لیے) کرچ کی اور برائی کا جواب برائی سے نہیں نیکی سے دیا تو (یقین کرو) یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت کا بہتر ٹھکانا ہے۔ ’ ولمن صبر و غفر ان ذلک لمن عزم الامور : اور (دیکھو) جو کوئی برائی پر صبر کرے اور بخش دے تو یقینا یہ بڑی ہی اولوالعزمی کی بات ہے۔ ” ولا تستوی الحسنۃ ولا السیئۃ ادفع بالتی ھی احسن فاذ الذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم۔ وما یلقاھا الا الذن صبروا وما یلقاہا الا ذو حظ عظیم : اور (دیکھو) نیکی اور بدی برابر نہیں ہوسکتی (اگر کوئی برائی کرے تو) برائی کا جواب ایسے طریقے سے دو جو اچھا طریقہ ہو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو تم دیکھو گے کہ جس شخص سے تمہاری عداوت تھی یکایک تمہارا دلی دوست ہوگیا ہے البتہ یہ ایسا مقام ہے جو اسی کو مل سکتا ہے جو (بدسلوکی سہہ لینے کی) برداشت رکھتا ہو اور جسے (نیکی وسعادت کا) حصہ وافر ملا ہو“۔ بلاشبہ اس نے بدلہ لینے سے بالکل روک نہیں دیا اور وہ کیونکر روک سکتا تھا جب کہ طبیعت حیوانی کا یہ فطری خاصہ ہے اور حفاظت نفس اس پر موقوف ہے لیکن جہاں کہیں بھی اس نے اس کی اجازت دی ہے ساتھ ہی عفو و بخشش اور بدمی کے بدلے نیکی کرنے کی موثر ترغیب بھی دے دی ہے اور ایسی موثر ترغیب دی ہے کہ ممکن نہیں ایک خدا پرست انسان اس سے متاثر نہ ہو : ” وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ ولئن صبرتم لہو خیر للصابرین : اور (دیکھو) اگر تم بدلہ لو، تو چاہیے جتنی اور جیسی کچھ برائی تمہارے ساتھ کی گئی ہے اسی کے مطابق ٹھیک ٹھیک بدلہ بھی لیا جائے (یہ نہ ہو کہ زیادتی کر بیٹھو) لیکن اگر تم برداشت کرجاؤ اور بدلہ نہ لو تو (یاد رکھو) برداشت کرنے والوں کے لیے برداشت کرجانے ہی میں بہتری ہے۔ ” وجزاء سیئۃ سیئۃ مثلہا فمن عفا و اصلح فاجرہ علی اللہ : اور برائی کے لیے ویسا ہی اور اتنا ہی بدلہ ہے جیسی اور جتنی برائی کی گئی ہے۔ لیکن جس کسی نے درگزر کیا اور معاملہ بگاڑنے کی جگہ سنوار لیا تو اس کا اجر اللہ پر ہے“۔ انجیل اور قرآن : ہم نے قرآن کی آیات عفو وبخشش نقل کرتے ہوئے ابھی کہا ہے کہ اس نے یہ نہیں کہا کہ دشمنوں کو پیا کرو کیونکہ ایسا کہنا حقیقت نہ ہوتی، مجاز ہوتا۔ ضروری ہے کہ اس کی مختصر تشریح کردی جائے : حضرت مسیح (علیہ السلام) نے یہودیوں کی ظاہر پرستیوں اور اخلاقی محرومیوں کی جگہ رحم و محبت اور عفو و بخشش کی اخلاقی قربانیوں پر زور دیا تھا اور ان کی دعوت کی اصلی روح یہی ہے۔ چنانچہ ہم انجیل کے مواعظ میں جا بجا اس طرح کے خطابات پاتے ہیں ” تم نے سنا ہوگا کہ اگلوں سے کہا گیا دانت کے بدلے دانت اور آنکھ کے بدلے آنکھ لیکن میں کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا“ یا ” اپنے ہمسایوں ہی کو نہیں بلکہ دشمنوں کو بھی پیار کرو“ یا مثلا ” اگر کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تو چاہیے دوسرا گال بھی آگے کردو“ دعوت مسیح اور دنیا کی حقیقت فراموشی : افسوس ہے کہ انجیل کے معتقدوں اور نکتہ چینوں دونوں نے یہاں ٹھوکر کھائی۔ دونوں اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ یہ تشریع تھی اور اس لیے دونوں کو تسلیم کرلینا پڑا کہ یہ ناقابل عمل احکام ہیں۔ معتقدوں نے خیال کیا کہ اگرچہ ان احکام پر عمل نہیں کیا جاسکتا تاہم مسیحیت کے احکام یہی ہیں اور عملی نقطہ خیال سے اس قدر کافی ہے کہ اوائل عہد میں چند ولیوں اور شہیدوں نے ان پر عمل کرلیا تھا۔ نکتہ چینوں نے کہا کہ یہ سر تا سر ایک نظری اور ناقابل عمل تعلیم ہے اور کہنے میں کتنی ہی خوشنما ہو لیکن عملی نقطہ خیال سے اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ یہ فطرت انسانی کے صریح خلاف ہے۔ فی الحقیقت نوع انسانی کی یہ بڑی ہی درد انگیز نا انصافی ہے جو تاریخ انسانیت کے اس عظیم الشان معلم کے ساتھ جائز رکھی گئی۔ جس طرح بے درد نکتہ چینوں نے اسے سمجھنے کی کوشش نہ کی اسی طرح نادان معتقدوں نے بھی فہم و بصیرت سے انکار کردیا۔ حضرت مسیح کی تعلیم کو فطرت انسانی کے خلاف سمجھنا تفریق بین الرسل ہے : لیکن کیا کوئی انسان جو قرآن کی سچائی کا معترف ہو۔ ایسا خیال کرسکتا ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تعلیم فطرت انسانی کے خلاف تھی اور اس لیے ناقابل عمل تھی حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی تصدیق کے ساتھ ایسا منکرانہ خیال جمع نہیں ہوسکتا۔ گر ہم ایک لمحہ کے لیے بھی اسے تسلیم کرلیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تعلیم کی سچائی سے انکار کردیں۔ کیونکہ جو تعلیم فطرت انسانی کے خلاف ہے وہ کبھی انسان کے لیے سچی تعلیم نہیں ہوسکتی۔ لیکن ایسا اعتقاد نہ صرف قرآن کی تعلیم کے خلاف ہوگا بلکہ اس کی دعوت کی اصلی بنیاد ہی متزلزل ہوجائے گی۔ اس کی دعوت کی بنیادی اصل یہ ہے کہ وہ دنیا کے تمام رہنماؤں کی یکساں طور پر تصدیق کرتا اور سب کو خدا کی ایک ہی سچائی کا پیامبر قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے : پیروان مذہب کی سب سے بڑی گمراہی تفریق بین الرسل ہے۔ یعنی ایمان و تصدیق کے لحاظ سے خدا کے رسولوں میں تفریق کرنا، کسی ایک کو ماننا دوسروں کو جھٹلانا یا سب کو ماننا کسی ایک کا انکار کردینا۔ اسی لیے اس نے جابجا اسلام کی راہ یہ بتلائی ہے : ” لا نفرق بین احد منہم ونحن لہ مسلمون : ہم خدا کے رسولوں میں سے کسی کو بھی دوسروں سے سے جدا نہیں کرتے (کہ کسی کو مانیں کسی کو نہ مانیں) ہم تو خدا کے آگے جھکے ہوئے (س کی سچائی کہیں بھی آئی ہو اور کسی کی زبانی آئی ہو، ہمارا اس پر ایمان ہے“ (آل عمران : 84) علاوہ بریں خود قرآن نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کی دعوت کا یہی پہلو جابجا نمایاں کیا ہے کہ وہ رحمت و محبت کے پیامبر تھے اور یہودیوں کی اخلاقی خشونت و قساوت کے مقابلہ میں مسیحی اخلاق کی رقت و رافت کی بار بار مدح کی ہے : ” ولنجعلہ ایۃ للناس و رحمۃ منا وکان امر امقضیا : اور تاکہ ہم اس کو (یعنی مسیح (علیہ السلام) کے ظہور کو) لوگوں کے لیے ایک الٰہی نشانی اور اپنی رحمت کا فیضان بنائیں اور یہ بات (مشیت الٰہی میں) طے شدہ تھی“ (مریم :21)۔ ” وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافۃ ورحمۃ: اور ان لوگوں کے دلوں میں جنہوں نے (مسیح کی) پیروی کی، ہم نے شفقت اور رحمت ڈال دی“ (57:، 27) اس موقع پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ قرآن نے جس قدر اوصاف خود اپنی نسبت بیان کیے ہیں پوری فراخ دلی کے ساتھ وہی اوصاف تورات و انجیل کے لیے بھی بیان کیے ہیں۔ مثلاً وہ جس طرح اپنے آپ کو ہدایت کرنے والا، روشنی سے متصف قرار دیتا ہے۔ چنانچہ انجیل کی نسبت ہم جا بجا پڑھتے ہیں ” واتینہ الانجیل فیہ ھدی ونور و مصدقا لما بین یدیہ من التوراۃ وھدی و موعظۃ للمتقین“ (5:، 46)۔ یہ ظاہر ہے کہ جو تعلیم فطرت بشری کے خلاف اور ناقابل عمل ہو، وہ کبھی نور و ہدایت اور موعظۃ للمقتین نہیں ہوسکتی۔ دعوت مسیحی کی حقیقت : اصل یہ ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی ان تمام تعلیمان کی وہ نوعیت ہی نہ تھی جو غلطی سے سمجھ لی گئی اور دنیا میں ہمیشہ انسان کی سب سے بڑی گمراہی اس کے انکار سے نہیں بلکہ کج اندیشانہ اعتراف ہی سے پیدا ہوئی ہے۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) کا ظہور ایک ایسے عہد میں ہوا تھا جب کہ یہودیوں کا اخلاقی تنزل انتہائی حد تک پہنچ چکا تھا اور دل کی نیکی اور اخلاق کی پاکیزگی کی جگہ محض ظاہر احکام و رسوم کی پرستش دینداری و خدا پرستی سمجھی جاتی تھی۔ یہودیوں کے علاوہ جس قدر متمدن قومیں قرب و جوار میں موجود تھیں۔ مثلا رومی، مصری، آشوری وہ بھی انسانی رحم و محبت کی روح سے یکسسرنا آشنا تیں۔ لوگوں نے یہ ابت تو معلوم کرلی تھی کہ مجرموں کو سزائیں دینی چاہیں لیکن اس حقیقت سے بے بہرہ تھے کہ رحم و محبت اور عفو و بخشش کی چارہ سازیوں سے جرموں اور گناہوں کی پیدائش روک دینی چاہیے۔ انسانی قتل وہ لاکت کا تماشا دیکھنا، طرح طرح کے ہولناک طریقوں سے مجرموں کو ہلاک کرنا، زندہ انسانوں کو درندوں کے سامنے ڈال دینا، آباد شہروں کو بلا وجہ جلا کر خاکستر کردینا، اپنی قوم کے علاہ تمام انسانوں کو غلام سمجھنا اور غلام بنا کر رکھنا، رحم و محبت اور حلم و شفقت کی جگہ قلبی قساوت و بے رحمی پر فخر کرنا، رومی تمدن کا اخلاق اور مصری اور آشوری دیوتاؤں کا پسیدہ طریقہ تھا۔ ضرورت تھی کہ نوع انسانی ہدایت کے لیے ایک ایسی ہستی مبعوث ہو جو سر تا سر رحمت و محبت کا پیام ہو، جو انسانی زندگی کے تمام گوشوں سے قطع نظر کر کے صرف اس کی قلبی و معنوی حالت کی اصلاح و تزکیہ پر اپنی تمام پیغمبرانہ ہمت مبذول کردے۔ چنانچہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی شخصیت میں وہ ہستی نمودار ہوگئی۔ اس نے جسم کی جگہ روح پر، زبان کی جگہ دل پر، اور ظاہر کی جگہ باطن پر نوع انسانی کی توجہ دلائی اور انسانیت اعلیٰ کا فراموش شدہ سبق تازہ کردیا۔ مواعظ مسیح کے مجازات کو تشریح و حقیقت سمجھ لینا سخت غلطی ہے۔ معمولی سے معمولی کلام بھی بشرطیکہ بلیغ ہو اپنی بلاغت کے مجازات رکھتا ہے۔ قدرتی طور پر اس الہامی بلاغت کے بھی مجازات تھے جو اس کی تاثیر کا زیور اور اس کی دل نشینی کی خوبروئی ہیں لیکن افسوس کہ وہ دنیا جو اقانیم ثلاثہ اور کفارہ جیسے دورازکار عقائد پیدا کرلینے والی تھی ان کے مواعظ کا مقصد و محل نہ سمجھ سکی اور مجازات کو حقیقت سمجھ کر غلط فہمیوں کا شکار ہوگئی۔ انہوں نے جہاں کہیں یہ کہا ہے کہ ’[ دشمنوں کو پیار کرو“ تو یقیناً اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ ہر انسان کو چاہیے کہ اپنے دشمنوں کا عاشق زار ہوجائے بلکہ سیدھا سادھا مطلب یہ تھا کہ تم میں غیظ و غضب اور نفرت و انتقام کی جگہ رحم و محبت کا پرجوش جذبہ ہونا چاہیے اور ایسا ہونا چاہیے کہ دوست تو دوست، دشمن تک کے ساتھ عفو و درگزر سے پیش آؤ۔ اس مطلب کے لیے کہ رحم کرو، بخش دو، انتقام کے پیچھے نہ پڑو، یہ ایک نہایت ہی بلیغ اور موثر پیرایہ بیان ہے کہ ” دشمنوں تک کو پیار کرو“ ایک ایسے گرد و پیش میں جہاں اپنوں اور عزیزوں کے ساتھ بھی رحم و محبت کا برتاؤ نہ کیا جاتا ہو یہ کہنا کہ اپنے دشمنوں سے بھی نفرت نہ کرو رحم و محبت کی ضرورت کا ایک اعلی اور کامل ترین تخیل پیدا کردینا تھا۔ شنیدم کہ مردان راہ خدا۔ دل دشمنان ہم نہ کردند تنگ ترا کے میسر شود ایں مقام۔ کہ بادوستانت خلاف ست و جنگ یا مثلا اگر انہوں نے کہا ” اگر کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا گال بھی آگے کردو“ تو یقینا اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ سچ مچ کو تم اپنا گال آگے کردیا کرو بلکہ صریح مطلب یہ تھا کہ انتقام کی جگہ عفو و درگزر کی راہ اختیار کرو۔ بلاغت کلام کے یہ وہ مجازات ہیں جو ہر زبان میں یکساں طور پر پائے جاتے ہیں اور یہ ہمیشہ بڑی ہی جہالت کی بات سمجھی جاتی ہے کہ ان کے مقصود و مفہوم کی جگہ ان کے منطوق پر زور دیا جائے۔ اگر ہم اس طرح کے مجازات کو ان کو ظواہر پر محمول کرنے لگیں گے تو نہ صرف تمام الہامی تعلیمات ہی درہم برہم ہوجائیں گی۔ بلکہ انسان کا وہ تمام کلام جو ادب و بلاغت کے ساتھ دنیا کی تمام زبانوں میں کہا گیا ہے یک قلم مختلف ہوجائے گا۔ اعمال انسانی میں اصل رحم و محبت ہے نہ کہ تعزیر و انتقام : باقی رہی یہ بات کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے سزا کی جگہ محض رحم و درگزر ہی پر زور دیا تو ان کے مواعظ کی اصلی نوعیت سمجھ لینے کے بعد یہ بات بھی بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ بلاشبہ شرائع نے تعزیر و عقوبت کا حکم دیا تھا لیکن اس لیے نہیں کہ تعزیر وعقوبت فی نفسہ کوئی مستحسن عمل ہے بلکہ اس لیے کہ معیشت انسانی کی بعض ناگریز حالتوں کے لیے یہ ایک ناگزیر علاج ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا کہ ایک کم درجہ کی برائی تھی جو اس لیے گوارا کرلی گئی کہ بڑے درجے کی برائیاں روکی جاسکیں۔ لیکن دنیا نے اسے علاج کی جگہ ایک دل پسند مشغلہ بنا لیا اور رفتہ رفتہ انسان کی تعذیب و ہلاکت کا ایک خوفناک آلہ بن گئی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی قتل و غارت گری کی کوئی ہولناکی ایسی نہیں ہے جو شریعت اور قانون کے نام سے نہ کی گئی ہو اور جو فی الحقیقت اسی بدلہ لینے اور سزا دینے کے حکم کا ظالمانہ استعمال نہ ہو۔ اگر تاریخ سے پوچھا جائے کہ انسانی ہلاکت کی سب سے بڑی قوتیں میدانہائے جنگ سے باہر کون کون سی رہیں ہیں؟ تو یقینا اس کی انگلیاں ان عدالت گاہوں کی طرف اٹھ جائیں گی جو مذہب اور قانون کے ناموں سے قائم کی گئیں اور جنہوں نے ہمیشہ اپنے ہم جنسوں کی تعذیب و ہلاکت کا عمل اس کی ساری وحشت انگیزیوں اور ہولناکیوں کے ساتھ جاری رکھا۔ پس اگر حضرت مسیح (علیہ السلام) نے تعزیر و عقوبت کی جگہ سر تا سر رحم و درگزر پر زور دیا تو یہ اس لیے نہیں تھا کہ وہ نفس تعزیر و سزا کے خلاف کوئی نئی تشریع کرنی چاہتے تھے بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس ہولناک غلطی سے انسان کو نجات دلائیں جس میں تعزیر و عقوبت کے غلو نے مبتلا کر رکھا ہے۔ وہ دنیا کو بتلانا چاہتے تھے کہ اعمال انسانی میں اصل رحمت و محبت ہے، تعزیر و انتقام نہیں ہے۔ اور اگر تعزیر و سیاست جائز رکھی گئی ہے تو صرف اس لیے کہ بطور ایک ناگزیر علاج کے عمل میں لائی جائے۔ اس لیے نہیں کہ تمہارے دل رحم و محبت کی جگہ سر تاسر نفرت و انتقام کا آشیانہ بن جائیں ! (شاید انسانی گمراہی کی بوالعجبیوں کی اس سے بہتر مثال نہیں مل سکتی۔ جس انجیل کی تعلیم کا یہ مطلب سمجھ لیا گیا تھا کہ وہ کسی حال میں بدلہ لینے اور سزا دینے کی اجازت نہیں اسی انجیل کے پیرووں نے نوع انسانی کی تعذیب و ہلاکت کا عمل ایسی وحشت و بے رحمی کے ساتھ صدیوں تک جاری رکھا کہ آج ہم اس کا تصور بھی بغیر وحشت و ہراس کے نہیں کرسکتے۔ اور پھر یہ جو کچھ کیا گیا انجیل اور اس کے مقدس معلم کے نام پر کیا گیا !) شریعت موسوی کے پیرووں نے شریعت کو صرف سزا دینے کا آلہ بنا لیا تھا۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے بتلایا کہ شریعت سزا دینے کے لیے نہیں بلکہ نجات کی راہ دکھانے آتی ہے اور نجات کی راہ سر تا سر رحمت و محبت کی راہ ہے ! ’ عمل“ اور ” عامل“ میں امتیاز : در اصل اس بارے میں انسان کی بنیادی غلطی یہ رہی ہے کہ عمل میں اور عامل میں امتیاز قائم نہیں رکھتا۔ حالانکہ جہاں تک مذہب کی تعلیم کا تعلق ہے اس بات میں کہ ایک عمل کیسا ہے اور اس بات میں کہ کرنے والا کیسا ہے بہت بڑٓ فرق ہے اور دونوں کا حکم ایک نہیں۔ بلاشبہ تمام مذاہب کا یہ عالمگیر مقصد رہا ہے کہ بد عملی اور گناہ کی طرف سے انسان کے دل میں نفرت پیدا کردیں لیکن یہ انہوں نے کبھی گوارا نہیں کیا کہ خود انسان کی طرف سے انسان کے اندر نفرت پیدا ہوجائے۔ یقینا انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ گناہ سے نفرت کرو لیکن یہ کبھی نہیں کہا ہے کہ گنہگار سے نفرت کرو۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طبیب ہمیشہ لوگوں کو بیماریوں سے ڈراتا رہتا ہے اور بسا اوقات ان کے مہلک نتائج کا ایسا ہولناک نقشہ کھینچ دیتا ہے کہ دیکھنے والے سہم کر رہ جاتے ہیں لیکن یہ تو وہ کبھی نہیں کرتا کہ جو لوگ بیماری ہوجائیں ان سے ڈرنے اور نفرت کرنے لگے یا لوگوں سے کہے ڈرو اور نفرت کرو؟ اتنا ہی نہیں بلکہ اس کی تو ساری توجہ اور شفقت کا مرکز بیمار ہی کا وجود ہوتا ہے۔ جو انسان جتنا زیادہ بیمار ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کی توجہ اور شفقت کا مستحق ہوجائے گا۔ مرض اور مریض : پس جس طرح جسم کا طبیب بیماریوں کے لیے نفرت لیکن بیماری کے لیے شفقت و ہمدردی کی تلقین کرتا ہے ٹھیک اسی طرح روح و دل کے طبیب بھی گناہوں کے لیے نفرت لیکن گنہگاروں کے لیے سرتاپا رحمت و شفقت کا پیام ہوتے ہیں َ یقینا وہ چاہتے ہیں کہ گناہوں سے (جو روح و دل کی بیماریاں ہیں) ہم میں دہشت و نفرت پیدا کردیں لیکن گنہگار انسانوں سے نہیں، اور یہی وہ نازک مقام ہے جہاں ہمیشہ پیروان مذاہب نے ٹھوکر کھائی ہے۔ مذاہب نے چاہا تھا انہیں برائی سے نفرت کرنا سکھلائیں۔ لیکن برائی سے نفرت کرنے کی جگہ انہوں نے ان انسانوں سے نفرت کرنا سیکھ لیا جنہیں وہ اپنے خیال میں برائی کا مجرم تصور کرتے ہیں ! گناہوں سے نفرت کرو مگر گناہگاروں پر رحم کرو : حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تعلیم سر تا سر اسی حقیقت کی دعوت تھی۔ گناہوں سے نفرت کرو مگر ان انسانوں سے نفرت نہ کرو جو گناہوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ اگر ایک انسان گنہگار ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی روح و دل کی تندرستی باقی نہ رہی۔ لیکن اگر اس نے بدبختانہ اپنی تندرستی ضائع کردی ہے تو تم اس سے نفرت کیوں کرو؟ وہ تو اپنی تندرستی کو کھو کر اور زیادہ تمہارے رحم و شفقت کا مستحق ہوگیا ہے۔ تم اپنے بیماری بھائی کی تمیار داری کرو گے یا اسے جلاد کے تازیانے کے حوالے کردوگے؟ وہ موقع یاد کرو جس کی تفصیل ہمیں سینٹ لوقا کی زبانی معلوم ہوئی ہے۔ جب ایک گناہگار عورت حضرت مسیح (علیہ السلام) کی خدمت میں آئی اور اس نے اپنے بالوں کی لٹوں سے ان کے پاؤں پونچھے تو اس پر ریاکار فریسیوں کو ( اور اب فریسیت کے معنی ہی ریاکاری کے ہوگئے ہیں (Pharisaism) سخت تعجب ہوا لیکن انہوں نے کہا طبیب بیماروں کے لیے ہوتا ہے نہ کہ تندرستوں کے لیے۔ پھر خدا اور اس کے گناہگار بندوں کا رشتہ رحمت واضح کرنے کرنے کے لیے ایک نہایت ہی مؤثر اور دلنشین مثال بیان کی۔ فرض کرو، ایک ساہوکار کے دو قرضدار تھے، ایک پچاس روپیہ کا، ایک ہزار روپیہ کا۔ ساہو کار نے دونوں کا قرض معاف کردیا۔ بتلاؤ کس قرضدار پر اس کا احسان زیادہ ہوا، اور کون اس سے زیادہ محبت کرے گا؟ وہ جسے پچاس معاف کردیے، یا وہ جسے ہزار؟ نصیب ماست بہشت اے خدا شناس برو۔ کہ مستحق کرامت گناہگار انند یہی حقیقت ہے جس کی طرف بعض ائمہ تابعین نے اشارہ کیا ہے (انکسار العاصیین احب الی اللہ من صولۃ المطیعین)۔ خدا کو فرمانبردار بندوں کی تمکنت سے کہیں زیادہ گناہگار بندوں کا عجز و انکسار محبوب ہے۔ گدایاں را ازیں معنی خبر نیست۔ کہ سلطان جہاں باماست امروز قرآن اور گناہگار بندوں کے لیے صدائے تشریف وحمت : اور پھر یہی حقیقت ہے کہ ہم قرآن میں دیکھتے ہیں جہاں کہیں خدا نے گناہگار انسانوں کو مخاطب کیا ہے یا ان کا ذکر کیا ہے تو عموماً یائے نسبت کے ساتھ کیا ہے جو تشریف و محبت پر دلالت کرتی ہے۔ ” قل یاعبادی الذین اسرفوا علی انفسہم“ (39:53)۔ ” ءانتم اضللتم عبادی“ (25:17) اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک جیسے ایک باپ جوش محبت میں اپنے بیٹے کو پکارتا ہے تو خصوصیت کے ساتھ اپنے رشتہ پدری پر زور دیتا ہے ” اے میرے بیٹے“ ” اے میرے فرزند“۔ حضرت امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے سورۃ زمر کی آیہ رحمت کی تفسیر کرتے ہوئے کیا خوب فرمایا ہے۔ جب ہم اپنی اولاد کو اپنی طرف نسبت دے کر مخاطب کرتے ہیں تو وہ بے خوف و خطر ہماری طرف دوڑنے لگتے ہیں کیونکہ سمجھ جاتے ہیں ہم ان پر غضبناک نہیں۔ قرآن میں خدا نے بیس سے زیادہ موقعوں پر ہمیں عبادی کہہ کر اپنی طرف نسبت دی ہے اور سخت سے سخت گناہگار انسانوں کو بھی یاعبادی کہہ کر پکارا ہے۔ کیا اس سے بھی بڑے کر اس کی رحمت و آمرزش کا کوئی پیام ہوسکتا ہے؟ صحیح مسلم کی مشہور حدیث کا مطلب کس طرح واضح ہوجاتا ہے۔ جب ہم اس روشنی میں اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ” والذی نفسی بیدہ لم لم تذنبوا لذھب اللہ بکم ولجاء بقوم یذنبون فیستغفرون“ (رواہ مسلم عن ابی ھریرۃ (رض) و ایضا عن انس قال قال صلی اللہ علیہ والذی نفسی بیدہ، لو اخطاتم حتی تملاء خطایاکم مابین السماء والارض، ثم استغفرتم اللہ یغفر لکم۔ والذی نفسی بیدہ لو لم تخطئون لجاء اللہ بقوم یخطئون ثم یستغفرون فیغفر لہم۔ اخرجہ واحمد و ابویعلی باسناد رجالہ ثقات۔ وعن ابن عمر مرفوعا لو لم تذبنوا۔ لخلق اللہ خلقا یذنبون ثم یغفرلہم۔ اخرجہ احمد والبزار و رجالہم ثقات۔ واخرج البزار من حدیث ابی سعید نحو حدیث ابی ھریرۃ فی الصحیح و فی اسنادی یحیی بن بکیر وھو ضعیف)۔ ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم ایسے ہوجاؤ کہ گناہ تم سے سرزد ہی نہ ہو تو خدا تمہیں زمین سے ہٹا دے اور تمہاری جگہ ایک دوسرا گروہ پیدا کردے جس کا شیوہ یہ ہو کہ گناہوں میں مبتلا ہو اور پھر خدا سے بخشش و مغفرت کی طلبگاری کرے۔ فدائے شیوہ رحمت کہ درلباس بہار۔ بعد از خواہی رندان باد نوش آمد اصلاً انجیل اور قرآن کی تعلیم میں کوئی اختلاف نہیں : پس فی الحقیقت حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تعلیم میں اور قرآن کی تعلیم میں اصلا کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں کا معیار احکام ایک ہی ہے۔ فرق صرف محل بیان اور پیرایہ بیان کا ہے۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے صرف اخلاق اور تزکیہ قلب پر زور دیا کیونکہ شریعت موسوی موجود تھی اور وہ اس کا ایک نقطہ بھی بدلنا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن قرآن کو اخلاق اور قانون، دونوں کے احکام بیک وقت بیان کرنے گھے اس لیے قدرتی طور پر اس نے پیرایہ بیان ایسا اختیار کیا جو مجازات و متشابہات کی جگہ احکام بیک وقت بیان کرے تھے اس لیے قدرتی طور پر اس نے پیرایہ بیان ایسا اختیار کیا جو مجازات و متشابہات کی جگہ احکام و قوانین کا صاف صاف جچا تلا پیرایہ بیان تھا۔ اس نے سب سے پہلے عفو و درگزر پر زور دیا اور اسے نیکی وفضیلت کی اصل قرار دیا۔ ساتھ ہی بدلہ لینے اور سزا دینے کا دروازہ بھی کھلا رکھا کہ ناگزیر حالتوں میں اس کے بغیر چارہ نہیں۔ لیکن نہایت قطعی اور واضح لفظوں میں بار بار کہہ دیا کہ بدلے اور سزا میں کسی طرح کی نا انصافی اور زیادتی نہیں ہونی چاہے۔ یقینا دنیا کے تمام نبیوں اور شریعتوں کے احکام کا ماحصل یہی تین اصول رہے ہیں۔ ” وَجَزَاءُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثْلُہَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُہُ عَلَی اللَّہِ إِنَّہُ لا یُحِبُّ الظَّالِمِینَ (٤٠) وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِہِ فَأُولَئِکَ مَا عَلَیْہِمْ مِنْ سَبِیلٍ (٤١)إِنَّمَا السَّبِیلُ عَلَی الَّذِینَ یَظْلِمُونَ النَّاسَ وَیَبْغُونَ فِی الأرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ أُولَئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ (٤٢) وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الأمُورِ (٤٣): اور (دیکھو) برائی کے بدلے ویسی ہی اور اتنی ہی برائی ہے۔ لیکن جو کوئی بخش دے اور بگاڑنے کی جگہ سنوار لے تو (یقین کرو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے)۔ اللہ ان لوگوں کو دوست نہیں رکھتا جو زیادتی کرنے والے ہیں۔ اور جس کسی پر ظلم کیا گیا ہو اور وہ ظلم کے بعد اس کا بدلہ لے تو اس پر کوئی الزام نہیں۔ الزام ان لوگوں پر ہے جو انسانوں پر ظلم کرتے ہیں اور ناحق ملک میں فساد کا باعث ہوتے ہیں۔ سو یہی لوگ ہیں جن کے لیے عذاب الیم ہے اور جو ظلم کرتے ہیں اور ناحق ملک میں فساد کا باعث ہوتے ہیں۔ سو یہی لوگ ہیں جن کے لیے عذاب الیم ہے ! اور جو کوئی بدلہ لینے کی جگہ برائی برداشت کرجائے اور بخش دے تو یقینا یہ بڑی ہی اولوالعزمی کی بات ہے“۔ اسلوب بیان پر غور کرو اگرچہ ابتدا میں صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ” فمن عفا و اصلح فاجرہ علی اللہ“ اور بظاہر عفو و درگزر کے لیے اتنا کہہ دینا کافی تھا لیکن آخر میں پھر دوبارہ اس پر زور دیا۔ ” ولمن صبر و غفر ان ذلک لمن عزم الامور“ یہ تکرار اس لیے ہے کہ عفو و درگزر کی اہمیت واضح ہوجائے۔ یعنی یہ حقیقت اچھی طرح آشکارا ہوجائے کہ اگرچہ بدلہ اور سزا کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے لیکن نیکی و فضیلت کی راہ عفو و درگزر ہی کی راہ ہے ! پھر اس پہلو پر بھی نظر رہے کہ قرآن نے اس سزا کو جو برائی کے بدلے میں دی جائے، برائی ہی کے لفظ سے تعبیر کیا۔ جزاء سیئۃ سیئۃ مثلہا۔ یعنی سیئۃ کے بدلے میں جو کچھ کیا جائے گا وہ بھی سیئۃ ہی ہوگا۔ عمل حسن نہیں ہوگا۔ لیکن اس کا دروازہ اس لیے باز رکھا گیا کہ اگر باز نہ رکھا جائے تو اس سے بھی زیادہ برائیاں ظہور میں آنے لگیں گی۔ پھر اس آدمی کی نسبت جو معاف کردے ” اصلح“ کا لفظ کہا یعنی سنوارنے والا، اس سے معلوم ہوا کہ یہاں بگاڑ کے اصلی سنوارنے والے وہی ہوئے جو بدلے کی جگہ عفو و درگزر کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ قرآن کے زواجر و قوارع : ممکن ہے بعض طبیعتیں یہاں ایک خدشہ محسوس کریں۔ اگر فی القیقت قرآن کی تمام تعلیم کا اصل اصول رحمت ہی ہے، تو پھر اس نے اپنے مخالفوں کی نسبت زجر و توبیخ کا سخت پیرایہ کیوں اختیار کیا؟ اس کا مفصل جواب تو اپنے محل میں آئے گا لیکن تکمیل بحث کے لیے ضروری ہے کہ یہاں مختصراً اشارہ کردیا جائے۔ بلاشبہ قرآن میں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں اس نے مخالفوں کے لیے شدت و غلظت کا اظہار کیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کن مخالفوں کے لیے؟ ان کے لیے جن کی مخالفت محض اختلاف فکر و اعتقاد کی مخالفت تھی؟ یعنی ایسی مخالفت جو معاندانہ اور جارحانہ نوعیت نہیں رکھتی تھی؟ ہمیں اس سے قطعاً انکار ہے۔ ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ تمام قرآن میں شدت و غلظت کا ایک لفظ بھی نہیں مل سکتا جو اس کے طرح کے مخالفوں کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔ اس نے جہاں کہیں بھی مخالفوں کا ذکر کرتے ہوئے سختی کا اظہار کیا ہے اس کا تمام تر تعلق ان مخالفوں سے ہے جن کی مخالفت بغض و عناد اور ظلم و شرارت کی جارحانہ معاندت تھی اور ظاہر ہے کہ اصلاح و ہدایت کی کوئی تعلیم بھی اس صورت حال سے گریز نہیں کرسکتی۔ اگر ایسے مخالفوں کے ساتھ بھی نرمی و شفقت کا ملحوظ رکھی جائے تو بلاشبہ یہ رحمت کا سلوک تو ہوگا مگر انسانیت کے لیے نہیں ہوگا۔ ظلم و شرارت کے لیے ہوگا اور یقیناً سچی رحمت کا معیار یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ظلم و فساد کی پرورش کرے۔ ابھی چند صفحوں کے بعد تمہیں معلوم ہوگا کہ قرآن نے صفات الٰہی میں رحمت کے ساتھ عدالت کو بھی اس کی جگہ دی ہے اور سورۃ فاتحہ میں ربوبیت اور رحمت کے بعد عدالت ہی کی صفت جلوہ گر ہوئی ہے۔ یہ اسی لیے ہے کہ وہ رحمت سے عدالت کو الگ نہیں کرتا بلکہ اسے عین رحمت کا مقتضا قرار دیتا ہے۔ وہ کتہا ہے۔ تم انسانیت کے ساتھ رحم و محبت کا برتاؤ کر ہی نہیں سکتے اگر ظلم و شرارت کے لیے تم میں سختی نہیں ہے۔ انجیل میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) بھی اپنے زمانے کے مفسدوں کو سانپ کے بچے اور ڈاکوؤں کا مجمع کہنے پر مجبور ہوئے۔ کفر محض اور کفر جارحانہ : قرآن نے ” کفر“ کا لفظ انکار کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ انکار دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ انکار محض ہو، ایک یہ کہ جارحانہ ہو۔ انکار محض سے مقصود یہ ہے کہ ایک شخص تمہاری تعلیم قبول نہیں کرتا۔ اس لیے کہ اس کی سمجھ میں نہیں آتی یا اس لیے کہ اس میں طلب صادق نہیں ہے یا اسلیے کہ جو راہ چل رہا ہے اسی پر قانع ہے۔ بہرحال کوئی وجہ ہو لیکن وہ تم سے متفق نہیں ہے۔ جارحانہ انکار سے مقصود وہ حالت ہے جو صرف اتنے ہی پر قناعت نہیں کرتی بلکہ اس میں تمہارے خلاف ایک طرح کی کد اور ضد پیدا ہوجاتی ہے اور پھر یہ ضد بڑھتے بڑھتے بغض و عناد اور ظلم و شرارت کی سخت سے سخت صورتیں اختیار کرلیتی ہے۔ اس طرح کا مخالف صرف یہی نہیں کرتا کہ تم سے اختلاف رکھتا ہے بلکہ اس کے اندر تمہارے خلاف بغض و عناد کا ایک غیر محدود جوش پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی زندگی اور زندگی کی ساری قوتوں کے ساتھ تمہاری بربادی و ہلاکت کے درپے ہوجائے گا۔ تم کتنی ہی اچھی بات کہو وہ تمہیں جھٹلائے گا۔ تم کتنا ہی اچھا سلوک کرو وہ تمہیں اذیت پہنچائے گا۔ تم کہو روشنی تاریکی سے بہتر ہے تو وہ کہے تاریکی سے بہتر کوئی چیز نہیں۔ تم کہو کڑواہٹ سے مٹھاس اچھی ہے تو وہ کہے نہیں کڑواہٹ ہی میں دنیا کی سب سے بڑی لذت ہے۔ یہی حالت ہے جسے قرآن نے انسانی فکر و بصیرت کے تعطل سے تعبیر کرتا ہے اور اسی نوعیت کے مخالف ہیں جن کے لیے اس کے تمام زواجر و قوارع ظہور میں آئے ہیں : ” لہم قلوب لا یفقہون بہا ولہم اعین لا یبصرون بہا ولہم اذان لا یسمعون بہا اولئک کالانعام بل ھم اضل اولئک ھم الغفلون : ان کے پاس دل ہیں مگر سوچتے نہیں، ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر سنتے نہیں۔ وہ ایسے ہوگئے ہیں جیسے چارپائے۔ نہیں بلکہ چارپایوں سے بھی زیادہ کھوئے ہوئے۔ بلاشبہ یہی لوگ ہیں جو غفلت میں ڈوب گئے“ ہمارے مفسر اسی دوسری حالت کو کفر وجحود سے تعبیر کرتے ہیں۔ (آیت 2، الرحمن الرحیم کی تفسیر کا بقیہ حصہ ملاحظہ ہو اگلی آیت کی تفسیر میں) الفاتحة
5 (آیت 2 الرحمن الرحیم کی تفسیر کا بقیہ حصہ): دنیا میں جب کبھی سچائی کی کوئی دعت ظاہر ہوئی ہے، تو کچھ لوگوں نے اسے قبول کرلیا ہے کچھ نے انکار کیا ہے لیکن کچھ لوگ ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے اس کے خلاف طغیان و جحود اور ظلم و شرارت کی جتھا بندی کرلی ہے۔ قرآن کا جب ظہور ہوا تو اس نے بھی یہ تینوں جماعتیں اپنے سامنے پائیں۔ اس نے پہلی جماعت کو اپنی آغوش تربیت میں لے لیا دوسری کو دعوت و تذکیر کا مخاطب بنایا مگر تیسری کے ظلم و طغیان پر حسب حالت و ضرورت پر زجر و توبیخ کی۔ اگر ایسے گروہ کے لیے بھی اس کے لب و لہجہ کی سختی رحمت کے خلاف ہے تو بلاشبہ اس معنی میں قرآن رحمت کا معترف نہیں اور یقیناً اس ترازو سے اس کی سے اس کی رحمت نہیں تولی جاسکتی۔ تم بار بار سن چکے ہو کہ وہ دین حق کے معنوی قوانین کو کائنات فطرت کے عام قوانین سے الگ نہیں قرار دیتا بلکہ انہی کا ایک گوشہ قرار دیتا ہے۔ فطرت کائنات کا اپنے فعل و ظہور کے ہر گوشے میں کیا حال ہے؟ یہ حال ہے کہ وہ اگرچہ سر تا سر رحمت ہے لیکن رحمت کے ساتھ عدالت اور بخشش کے ساتھ جزا کا قانون بھی رکھتی ہے۔ پس قرآن کہتا ہے، میں فطرت سے زیادہ کچھ نہیں دے سکتا۔ تمہاری جس مزعومہ رحمت سے فطرت کا خزانہ خالی ہے یقینا میرے آستین و دامن میں نہیں مل سکتی : ” فطرت اللہ التی فطر الناس علیہا لا تبدیل لخلق اللہ ذلک الدین القیم ولکن اکثر الناس لا یعلمون : اللہ کی فطرت جس پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بناوٹ میں کبھی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ یہی (اللہ کی ٹھہرائی ہوئی فطرت) سچا اور ٹھیک ٹھیک دین ہے لیکن اکثر انسان ایسے ہیں جو اس حقیقت سے بے خبر ہیں“۔ قرآن کے ان تمام مقامات پر نظر ڈالو جہاں اس نے سختی کے ساتھ منکروں کا ذکر کیا ہے یہ حقیقت بیک نظر واضح ہوجائے گی۔ (آیت 2، الرحمن الرحیم، کی تفسیرختم ہوئی) ۔۔۔۔۔ تفسیر آیت 3 اور 4: مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ ربوبیت اور رحمت کے بعد جس صفت کا ذکر کیا گیا ہے، وہ عدالت ہے، اور اس کے لیے ” مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ“ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ الدین : سامی زبانوں کا ایک قدیم مادہ ” دان“ اور ” دین“ ہے جو بدلہ اور مکافات کے معنوں میں بولا جاتا تھا اور پھر آئین و قانون کے معنوں میں بھی بولا جانے لگا۔ چنانچہ عبرانی اور آرامی میں اس کے متعدد و مشتقات ملتے ہیں۔ آرامی زبان ہی سے غالبا یہ لفظ قدیم ایران میں بھی پہنچا اور پہلو میں ” دینیہ“ نے شریعت وہ قانون کا مفہوم پیدا کرلیا۔ خورد اوستا میں ایک سے زیادہ موقع پر یہ لفظ مستعمل ہوا ہے اور زردشتیوں کی قدیم ادبیات میں انشاء و کتابت کے آئین و قواعد کو بھی ” دین دبیرہ“ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ علاوہ بریں زردشتیوں کی ایک مذہبی کتاب کا نام ” دین کارت“ ہے جو غالباً نویں صدی مسیحی میں عراق کے ایک موجد نے مرتب کی تھی۔ بہرحال عربی میں ” الدین“ کے معنی بدلہ اور مکافات کے ہیں۔ خواہ اچھائی کا ہو خواہ برائی کا : ستعلم لیلی ای دین تداینت۔ وای غریم فی التقاضی غریمہا پس مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کے معنی ہوئے وہ جو جزا کے دن کا حکمراں ہے یعنی روز قیامت کا۔ اس سلسلے میں کئی باتیں قابل غور ہیں : ” دین“ کے لفظ نے جزا کی حقیقت واضح کردی : اولاً قرآن نے نہ صرف اس موقع پر بلکہ عام طور پر جزا کے لیے ” الدین“ کا لفظ اختیار کیا اور اسی لیے وہ قیامت کو بھی عموماً یوم الدین سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ تعبیر اس لیے اختیار کی گئی کہ جزا کے بارے میں جو اعتقاد پیدا کرنا چاہتا تھا اس کے لیے یہی تعبیر سب سے زیادہ موزوں اور واقعی تعبیر تھی وہ جزا کو اعمال کا قدرتی نتیجہ اور مکافات قرار دیتا ہے۔ نزول قرآن کے وقت پیروان مذاہب کا عالمگیر اعتقاد یہ تھا کہ جزا محض خدا کی خوشنودی اور اس کے قہر و غضب کا نتیجہ ہے۔ اعمال کے نتائج کو اس میں داخل نہیں۔ الوہیت اور شاہیت کا تشابہ تمام مذہبی تصورات کی طرح اس معاملے میں بھی گمراہی فکر کا موجب ہوا تھا۔ لوگ دیکھتے تھے کہ ایک مطلق العنان بادشاہ کبھی خوش ہو کر انعام و اکرام دینے لگتا ہے، کبھی بگر کر سزائیں دینے لگتا ہے اس لیے خیال کرتے تھے کہ خدا بھی ایسا ہی حال ہے وہ کبھی ہم سے خوش ہوجاتا ہے کبھی غیظ و غضب میں آجاتا ہے۔ طرح طرح کی قربانیوں اور چڑھاووں کی رسم اسی اعتقاد سے پڑی تھی۔ لوگ دیوتاؤں کا جوش غضب ٹھنڈا کرنے کے لیے قربانیاں کرتے اور ان کی نظر التفات حاصل کرنے کے لیے نذریں چڑھاتے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کا عام تصور دیوبانی تصورات سے بلند ہوگیا تھا لیکن جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے ان کے تصور نے بھی کوئی وقیع ترقی نہیں کی تھی۔ یہودی بہت سے دیوتاؤں کی جگہ خاندان اسرائیل کا ایک خدا مانتے تھے لیکن پرانے دیوتاؤں کی طرح یہ خدا بھی شاہی اور مطلق العنانی کا خدا تھا۔ وہ کبھی خوش ہو کر انہیں اپنی چہتی قوم بنا لیتا۔ کبھی جوش انتقام میں آ کر بربادی وہ ہلاکت کے حوالے کردیتا۔ عیسائیوں کا اعتقاد تھا کہ آدم کے گناہ کی وجہ سے اس کی پوری نسل مغضوب ہوگئی اور جب تک خدا نے اپنی صفت ابنیت کو بشکل مسیح (علیہ السلام) قربان نہیں کردیا اس کے نسلی گناہ اور مغضوبیت کا کفارہ نہ ہوسکا۔ مجازات عمل کا معاملہ بھی دنیا کے عالمگیر قانون فطرت کا ایک گوشہ ہے : لیکن قرآن نے جزا و سزا کا اعتقاد ایک دوسری ہی شکل و نوعیت کا پیش کیا ہے۔ وہ اسے خدا کا کوئی ایسا فعل نہیں قرار دیتا جو کائنات ہستی کے عام قوانین و نظام سے الگ ہو بلکہ اسی کا ایک قدرتی گوشہ قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے، کائنات ہستی کا عالمگیر قانون یہ ہے کہ ہر حالت کوئی نہ کوئی اثر رکھتی ہے اور ہر چیز کا کوئی نہ کوئی خاصہ ہے۔ ممکن نہیں یہاں کوئی شئے اپنا وجود رکھتی ہو اور اثرات و تنائج کے سلسلہ سے باہر ہو۔ پس جس طرح خدا نے اجسام و مواد میں خواص و نتائج رکھتے ہیں اسی طرح اعمال میں بھی خواص و نتائج ہیں اور جس طرح جسم انسانی کے قدرتی انفعالات ہیں اسی طرح روح انسانی کے لیے بھی قدرتی انفعالات ہیں۔ جسمانی موثرات جسم پر مرتب ہوتے ہیں۔ معنوی موثرات سے روح متاثر ہوتی ہے۔ اعمال کے یہی قدرت خواص و نتائج ہیں جنہیں جزا وسزا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اچھے عمل کا نتیجہ اچھائی ہے اور یہ ثواب ہے۔ برے عمل کا نتیجہ برائی ہے۔ اور یہ عذاب ہے۔ ثواب اور عذاب کے ان اثرات کی نوعیت کیا ہوگی؟ وحی الٰہی نے ہماری فہم و استعداد کے مطابق اس کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس نقشہ میں ایک مرقع بہشت کا ہے ایک دوزخ کا۔ بہشت کے نعائم ان کے لیے ہیں جن کے اعمال بہشتی ہوں گے۔ دوزخ کی عقوبتیں ان کے لیے ہیں جن کے اعمال دوزخی ہوں گے۔ ” لایستوی اصحاب النار واصحاب الجنۃ ہم الفائزون : اصحاب جنت اور اصحاب دوزخ (اپنے اعمال و نتائج میں) یکساں نہیں ہوسکتے۔ کامیاب انسان وہی ہیں جو اصحاب جنت ہیں“ جس طرح مادیات میں خواص و نتائج ہیں، اسی طرح معنویات میں بھی ہیں : وہ کہتا ہے تم دیکھتے ہو کہ فطرت ہر گوشہ وجود میں اپنا قانون مکافات رکھتی ہے۔ ممکن نہیں کہ اس میں تغیر یا تساہل ہو۔ فطرت نے آگ میں یہ خاصہ رکھا ہے کہ جلائے۔ اب سوزش و تپش فطرت کی وہ مکافات ہوگئی جو ہر اس انسان کے لیے ہے جو آگ کے شعلوں میں ہاتھ ڈال دے۔ ممکن نہیں کہ تم آگ میں کودو اور اس فعل کے مکافات سے بچ جاؤ۔ پانی کا خاصہ ٹھنڈک اور رطوبت ہے۔ ٹھنڈک اور رطوبت وہ مکافات ہے جو فطرت نے پانی میں ودیعت کردی ہے۔ اب ممکن نہیں کہ تم دریا میں اترو اور اس مکافات سے بچ جاؤ۔ پھر جو فطرت کائنات ہستی کی ہر چیز اور ہر حالت میں مکافات رکھتی ہے کیونکر ممکن ہے کہ انسان کے اعمال کے لیے مکافات نہ رکھے؟ یہی مکافات جزا و سزا ہے۔ آگ جلاتی ہے پانی یا ٹھنڈک پیدا کرتا ہے، سنکھیا کھانے سے موت، دودھ سے طاقت آتی ہے۔ کونین سے بخار رک جاتا ہے۔ جب اشیا کی ان تمام مکافات پر تمہیں تعجب نہیں ہوتا کیونکہ یہ تمہاری زندگی کی یقینیات ہیں تو پھر اعمال کے مکافات پر کیوں تعجب ہوتا ہے؟ افسوس تم پر، تم اپنے فیصلوں میں کتنے نا ہموار ہو ! تم گیہوں بوتے ہو اور تمہارے دل میں کبھی یہ خدشہ نہیں گزرتا کہ گیہوں پیدا نہیں ہوگا۔ اگر کوئی تم سے کہے کہ ممکن ہے گیہوں کی جگہ جوار پیدا ہوجائے، تو تم اسے پاگل سمجھو گے۔ کیوں؟ اس لیے کہ فطرت کے قانون مکافات کا یقین تمہاری طبیعت میں راسخ ہوگیا ہے۔ تمہارے وہم و گمان میں بھی یہ خطرہ نہیں گزر سکتا کہ فطرت گیہوں لے کر اس کے بدلے میں جوار دے دے گی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ تم یہ بھی نہیں مان سکتے کہ اچھے قسم کا گیہوں لے کر برے قسم کا گیہوں دے گی تم جانتے ہو کہ وہ بدلہ دینے میں قطعی اور شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ پھر بتلاؤ کہ جو فطرت گیہوں کے بدلے گیہوں اور جوار کے بدلے جوار دے رہی کیونکر ممکن ہے کہ اچھے عمل کے بدلے اچھا اور برے عمل کے بدلے برا نتیجہ نہ رکھتی ہو؟ (مسنگ صفحہ 157 تا 163) تفسیر آیت 3 اور 4۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ ربوبیت اور رحمت کے بعد جس صفت کا ذکر کیا گیا ہے، وہ عدالت ہے، اور اس کے لیے ” مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ“ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔ الدین : سامی زبانوں کا ایک قدیم مادہ ” دان“ اور ” دین“ ہے جو بدلہ اور مکافات کے معنوں میں بولا جاتا تھا اور پھر آئین و قانون کے معنوں میں بھی بولا جانے لگا۔ چنانچہ عبرانی اور آرامی میں اس کے متعدد و مشتقات ملتے ہیں۔ آرامی زبان ہی سے غالبا یہ لفظ قدیم ایران میں بھی پہنچا اور پہلو میں ” دینیہ“ نے شریعت وہ قانون کا مفہوم پیدا کرلیا۔ خورد اوستا میں ایک سے زیادہ موقع پر یہ لفظ مستعمل ہوا ہے اور زردشتیوں کی قدیم ادبیات میں انشاء و کتابت کے آئین و قواعد کو بھی ” دین دبیرہ“ کے نام سے موسوم کیا ہے۔ علاوہ بریں زردشتیوں کی ایک مذہبی کتاب کا نام ” دین کارت“ ہے جو غالباً نویں صدی مسیحی میں عراق کے ایک موجد نے مرتب کی تھی۔ بہرحال عربی میں ” الدین“ کے معنی بدلہ اور مکافات کے ہیں۔ خواہ اچھائی کا ہو خواہ برائی کا : ستعلم لیلی ای دین تداینت۔ وای غریم فی التقاضی غریمہا پس مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کے معنی ہوئے وہ جو جزا کے دن کا حکمراں ہے یعنی روز قیامت کا۔ اس سلسلے میں کئی باتیں قابل غور ہیں : ” دین“ کے لفظ نے جزا کی حقیقت واضح کردی : اولاً قرآن نے نہ صرف اس موقع پر بلکہ عام طور پر جزا کے لیے ” الدین“ کا لفظ اختیار کیا اور اسی لیے وہ قیامت کو بھی عموماً یوم الدین سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ تعبیر اس لیے اختیار کی گئی کہ جزا کے بارے میں جو اعتقاد پیدا کرنا چاہتا تھا اس کے لیے یہی تعبیر سب سے زیادہ موزوں اور واقعی تعبیر تھی وہ جزا کو اعمال کا قدرتی نتیجہ اور مکافات قرار دیتا ہے۔ نزول قرآن کے وقت پیروان مذاہب کا عالمگیر اعتقاد یہ تھا کہ جزا محض خدا کی خوشنودی اور اس کے قہر و غضب کا نتیجہ ہے۔ اعمال کے نتائج کو اس میں داخل نہیں۔ الوہیت اور شاہیت کا تشابہ تمام مذہبی تصورات کی طرح اس معاملے میں بھی گمراہی فکر کا موجب ہوا تھا۔ لوگ دیکھتے تھے کہ ایک مطلق العنان بادشاہ کبھی خوش ہو کر انعام و اکرام دینے لگتا ہے، کبھی بگر کر سزائیں دینے لگتا ہے اس لیے خیال کرتے تھے کہ خدا بھی ایسا ہی حال ہے وہ کبھی ہم سے خوش ہوجاتا ہے کبھی غیظ و غضب میں آجاتا ہے۔ طرح طرح کی قربانیوں اور چڑھاووں کی رسم اسی اعتقاد سے پڑی تھی۔ لوگ دیوتاؤں کا جوش غضب ٹھنڈا کرنے کے لیے قربانیاں کرتے اور ان کی نظر التفات حاصل کرنے کے لیے نذریں چڑھاتے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کا عام تصور دیوبانی تصورات سے بلند ہوگیا تھا لیکن جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے ان کے تصور نے بھی کوئی وقیع ترقی نہیں کی تھی۔ یہودی بہت سے دیوتاؤں کی جگہ خاندان اسرائیل کا ایک خدا مانتے تھے لیکن پرانے دیوتاؤں کی طرح یہ خدا بھی شاہی اور مطلق العنانی کا خدا تھا۔ وہ کبھی خوش ہو کر انہیں اپنی چہتی قوم بنا لیتا۔ کبھی جوش انتقام میں آ کر بربادی وہ ہلاکت کے حوالے کردیتا۔ عیسائیوں کا اعتقاد تھا کہ آدم کے گناہ کی وجہ سے اس کی پوری نسل مغضوب ہوگئی اور جب تک خدا نے اپنی صفت ابنیت کو بشکل مسیح علہی السلام قربان نہیں کردیا اس کے نسلی گناہ اور مغضوبیت کا کفارہ نہ ہوسکا۔ مجازات عمل کا معاملہ بھی دنیا کے عالمگیر قانون فطرت کا ایک گوشہ ہے : لیکن قرآن نے جزا و سزا کا اعتقاد ایک دوسری ہی شکل و نوعیت کا پیش کیا ہے۔ وہ اسے خدا کا کوئی ایسا فعل نہیں قرار دیتا جو کائنات ہستی کے عام قوانین و نظام سے الگ ہو بلکہ اسی کا ایک قدرتی گوشہ قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے، کائنات ہستی کا عالمگیر قانون یہ ہے کہ ہر حالت کوئی نہ کوئی اثر رکھتی ہے اور ہر چیز کا کوئی نہ کوئی خاصہ ہے۔ ممکن نہیں یہاں کوئی شئے اپنا وجود رکھتی ہو اور اثرات و تنائج کے سلسلہ سے باہر ہو۔ پس جس طرح خدا نے اجسام و مواد میں خواص و نتائج رکھتے ہیں اسی طرح اعمال میں بھی خواص و نتائج ہیں اور جس طرح جسم انسانی کے قدرتی انفعالات ہیں اسی طرح روح انسانی کے لیے بھی قدرتی انفعالات ہیں۔ جسمانی موثرات جسم پر مرتب ہوتے ہیں۔ معنوی موثرات سے روح متاثر ہوتی ہے۔ اعمال کے یہی قدرت خواص و نتائج ہیں جنہیں جزا وسزا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اچھے عمل کا نتیجہ اچھائی ہے اور یہ ثواب ہے۔ برے عمل کا نتیجہ برائی ہے۔ اور یہ عذاب ہے۔ ثواب اور عذاب کے ان اثرات کی نوعیت کیا ہوگی؟ وحی الٰہی نے ہماری فہم و استعداد کے مطابق اس کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس نقشہ میں ایک مرقع بہشت کا ہے ایک دوزخ کا۔ بہشت کے نعائم ان کے لیے ہیں جن کے اعمال بہشتی ہوں گے۔ دوزخ کی عقوبتیں ان کے لیے ہیں جن کے اعمال دوزخی ہوں گے۔ ” لایستوی اصحاب النار واصحاب الجنۃ ہم الفائزون : اصحاب جنت اور اصحاب دوزخ (اپنے اعمال و نتائج میں) یکساں نہیں ہوسکتے۔ کامیاب انسان وہی ہیں جو اصحاب جنت ہیں“ جس طرح مادیات میں خواص و نتائج ہیں، اسی طرح معنویات میں بھی ہیں : وہ کہتا ہے تم دیکھتے ہو کہ فطرت ہر گوشہ وجود میں اپنا قانون مکافات رکھتی ہے۔ ممکن نہیں کہ اس میں تغیر یا تساہل ہو۔ فطرت نے آگ میں یہ خاصہ رکھا ہے کہ جلائے۔ اب سوزش و تپش فطرت کی وہ مکافات ہوگئی جو ہر اس انسان کے لیے ہے جو آگ کے شعلوں میں ہاتھ ڈال دے۔ ممکن نہیں کہ تم آگ میں کودو اور اس فعل کے مکافات سے بچ جاؤ۔ پانی کا خاصہ ٹھنڈک اور رطوبت ہے۔ ٹھنڈک اور رطوبت وہ مکافات ہے جو فطرت نے پانی میں ودیعت کردی ہے۔ اب ممکن نہیں کہ تم دریا میں اترو اور اس مکافات سے بچ جاؤ۔ پھر جو فطرت کائنات ہستی کی ہر چیز اور ہر حالت میں مکافات رکھتی ہے کیونکر ممکن ہے کہ انسان کے اعمال کے لیے مکافات نہ رکھے؟ یہی مکافات جزا و سزا ہے۔ آگ جلاتی ہے پانی یا ٹھنڈک پیدا کرتا ہے، سنکھیا کھانے سے موت، دودھ سے طاقت آتی ہے۔ کونین سے بخار رک جاتا ہے۔ جب اشیا کی ان تمام مکافات پر تمہیں تعجب نہیں ہوتا کیونکہ یہ تمہاری زندگی کی یقینیات ہیں تو پھر اعمال کے مکافات پر کیوں تعجب ہوتا ہے؟ افسوس تم پر، تم اپنے فیصلوں میں کتنے نا ہموار ہو ! تم گیہوں بوتے ہو اور تمہارے دل میں کبھی یہ خدشہ نہیں گزرتا کہ گیہوں پیدا نہیں ہوگا۔ اگر کوئی تم سے کہے کہ ممکن ہے گیہوں کی جگہ جوار پیدا ہوجائے، تو تم اسے پاگل سمجھو گے۔ کیوں؟ اس لیے کہ فطرت کے قانون مکافات کا یقین تمہاری طبیعت میں راسخ ہوگیا ہے۔ تمہارے وہم و گمان میں بھی یہ خطرہ نہیں گزر سکتا کہ فطرت گیہوں لے کر اس کے بدلے میں جوار دے دے گی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ تم یہ بھی نہیں مان سکتے کہ اچھے قسم کا گیہوں لے کر برے قسم کا گیہوں دے گی تم جانتے ہو کہ وہ بدلہ دینے میں قطعی اور شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ پھر بتلاؤ کہ جو فطرت گیہوں کے بدلے گیہوں اور جوار کے بدلے جوار دے رہی کیونکر ممکن ہے کہ اچھے عمل کے بدلے اچھا اور برے عمل کے بدلے برا نتیجہ نہ رکھتی ہو؟ (مسنگ صفحہ 157 تا 163) قرآن اور صفات الٰہی کا تصور : قرآن نے خدا کی صفات کا جو تصور قائم کیا ہے سورۃ فاتحہ اس کی سب سے پہلی رونمائی ہے۔ ہم اس مرقع میں وہ شبیہ دیکھ سکتے ہیں جو قرآن نے نوع انسانی کے سامنے پیش کی ہے۔ یہ ربوبیت، رحمت اور عدالت کی شبیہ ہے۔ انہی تین صفتوں کے تفکر سے ہم اس کے تصور الٰہی کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں۔ خدا کا تصور ہمیشہ انسان کی روحانی و اخلاقی زندگی کا محور رہا ہے۔ یہ بات کہ ایک مذہب کا معنوی اور نفسایتی مزاج کیسا ہے اور وہ اپنے پیرووں کے لیے کس طرح کے اثرات رکھتا ہے، صرف یہ بات دیکھ کر معلوم کرلی جاسکتی ہے کہ اس کے تصور الٰہی کی نوعیت کیا ہے؟ انسان کا ابتدائی تصور : جب انسان کے تصورات الوہیت کا ان کے مختلف عہدوں میں مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمیں ان کے تغیرات کی رفتار کچھ عجیب طرح کی دکھائی دیت ہے اور تعلیل وتوجیہ کے عام اصول کام نہیں دیتے۔ موجودات خلقت کے ہر گوشہ میں تدریجی ارتقا Evolution کا قانون کام کرتا ہے اور انسان کا جسم بتدریج ترقی کرتا ہوا نچلی کڑیوں سے اونچی کڑیوں تک پہنچا۔ اسی طرح اس کے دماغی تصورات بھی نچلے درجوں سے بلند ہوتے ہوئے بتدریج اونچے درجوں تک ہنچے لیکن جہاں تک خدا کی ہستی کے تصورات کا تعلق ہے معلوم ہوتا ہے کہ صورت حال اس سے بالکل برعکس رہی اور ارتقا کی جگہ ایک طرح کے تنزل یا ارتجاع کا قانون یہاں کام کرتا رہا۔ ہم جب ابتدائی عہد کے انسانوں کا سراغ لگاتے ہیں تو ہمیں ان کے قدم آگے بڑھنے کی جگہ پیچھے ہٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ انسانی دماغ کا کا سب سے زیادہ پرانا تصور جو قدامت کی تاریکی میں چکتا ہے وہ توحید کا تصور ہے۔ یعنی صرف ایک ان دیکھی اور اعلی ہستی کا تصور جس نے انسان کو اور ان تمام چیزوں کو جنہیں وہ اپنے چاروں طرف دیکھ رہا تھا پیدا کیا۔ لیکن پھر اس کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اس جگہ سے ان کے قدم بتدریج پیچھے ہٹنے لگے اور توحید کی جگہ آہستہ آہستہ اشراک اور تعدد الٰہ کا تصور پیدا ہونے لگا۔ یعنی اب اس ایک ہستی کے ساتھ جو سب سے بالاتر ہے دوسری قوتیں بھی شریک ہونے لگیں اور ایک معبود کی جگہ بہت سے معبودوں کی چوکھٹوں پر انسان کا سر جھک گیا۔ اگر خدا کے تصور میں وحدت کا تصور انسانی دماغ کا بلند تر تصور ہے اور اشراک اور تعدد کے تصورات نچلے درجے کے تصورات ہیں تو ہمیں اس نتیجہ تک پہنچنا پڑتا ہے کہ یہاں ابتدائی کڑی جو نمایاں ہوئی وہ نچلے درجہ کی نہ تھی۔ اونچے درجے کی تھی اور اس کے بعد جو کڑیاں ابھریں انہوں نے بلندی کی جگہ پستی کی طرف رخ کیا۔ گویا ارتقا کا عام قانون یہاں بے اثر ہوگیا۔ ترقی کی جگہ رجعت کی اصل کام کرنے لگی۔ انیسویں صدی کے نظریے اور ارتقائی مذہب : انیسویں صدی کے علمائے اجتماعیات کا عام نقطہ خیال یہ تھا کہ انسان کے دینی عقائد کی ابتدا ان اوہامی تصورات سے ہوئی جو اس کی ابتدائی معیشت کے طبعی تقاضوں اور احوال و ظروف کے قدرتی اثرات سے نشوونما پانے لگے تھے۔ یہ تصورات قانون ارتقا کے ماتحت درجہ بدرجہ مختلف کڑیوں سے گزرتے رہے اور بالآخر انہوں نے اپنی ترقی یافتہ صورت میں ایک اعلی ہستی اور خلاق کل خدا کے عقیدے کی نوعیت پیدا کرلی۔ گویا اس سلسلہ ارتقا کی ابتدائی کڑی اوہامی تصورات تھے جن سے طرح طرح کی الٰہی قوتوں کا تصور پیدا ہوا اور پھر اسی تصور نے ترقی کرتے ہوئے خدا کے ایک توحیدی اعقاد کی شکل اختیار کرلی۔ بے جا نہ ہوگا اگر اختصار کے ساتھ یہاں ان تمام نظریوں پر ایک اجمالی نظر دال لی جائے جو اس سلسلے میں یکے بعد دیگرے نمایاں ہوئے اور وقت کے علمی حلقوں کو متاثر کیا۔ دینی عقائد اور تصورات کی تاریخ بہ حیثیت ایک مستقل شاخ علم کے انیسویں صدی کی پیداوار ہے۔ اٹھارویں صدی کے اواخر میں جب انڈوجرمن قبائل (یعنی وسط ایشیا کے آریائی قبائل) اور ان کی زبانوں کی تاریخ روشنی میں آئی تو ان کے دینی تصورات بھی نمایاں ہوئے اور اس طرح بحث و تنقید کا ایک نیا میدان پیدا ہوگیا۔ یہی میدان تھا جس کے مباحث نے انیسوی صدی کے اوائل میں بحث و نظر کی ایک مستقل شاخ پیدا کردی۔ یدنی دینی عقائد کی پیدائش اور ان کے نشوونما کی تاریخ کا علم مدون ہونے لگا۔ اسی دور میں عام خیال یہ تھا کہ خدا پرستی کی ابتدا نیچر متھس (Nature-myths) کے تصورات سے ہوئی۔ یعنی ان خرافاتی اساطیر سے ہوئی جو مظاہر فطرت کے متعلق بننا شروع ہوگئے تھے۔ مثلاً روشنی کی ایک مستقل ہستی کا تصور پیدا ہوگیا۔ بارش کی قوت نے ایک دیوتا کی شکل اختیار کرلی۔ قدیم آریائی تصورات سے جو مظاہر فطرت کی پرستش پر مبنی تھے اس خیال کا مواد فراہم ہوا تھا۔ لیکن انیسویں صدی کے نصف ابتدائی دور میں جب افریقہ اور امریکہ کے وحشی قبائل کے حالات روشنی میں آئے تو ان کے دینی تصورات کی تحقیقات نے ایک نئے نظریے کا سامان فراہم کردیا۔ 1760 ء میں دہ بروسے (De Brosses) نے انہی وحشی قبائل کے تصورات سے فیتش ورشپ (Fetish Worship) کا استنباط کیا تھا۔ یعنی ایسی اشیاء کی پرستش کا جن سے کسی جنی روح کی وابستگی یقین کی جاتی تھی۔ اب پھر 1851 ء میں اے۔ کامٹ (Comete) نے اسی پرستش سے خدا پرستی کی پیدائش کا نظریہ اختیار کیا اور سر جان لبک نے (جو آگے چل کر لارڈ اویبری کے لقب سے مشہور ہوا) اسے مزید بحث و نظر کا جامہ پہنایا۔ اس نظریے کا اس عہد میں عام طور پر استقبال کیا گیا تھا اور وقت کے علمی حلقوں کی قبولیت اس نے حاصل کرلی تھی۔ تقریباً اسی عہد میں میں ازم (Manism) یعنی اجداد پرستی کے نظریے نے سر اٹھایا۔ اس نظریے کی بنیاد اس قیاس پر رکھی گئی تھی کہ انسان کو آباء وا جداد کی محبت و عظمت نے پہلے ان کی پرستش کی راہ دکھائی۔ پھر اسی پرستش نے قانون ارتقا کے ماتحت ترقی کر کے خدا پرستی کی نوعیت پیدا کرلی۔ صحرا نشین اور چراگاہوں کی جستجو کرنے والے قبیلوں کے ابتدائی تصورات میں اجداد پرستی کا ذہنہ مواد موجود تھا۔ چین کی قدیم تاریخ میں بھی اس پرستش کا سراغ بہت دور تک ملنے لگا تھا۔ اس لیے اس نئے نظریے کے لیے ضروری مواد فراہم ہوگیا اور 1870 ء میں جب ہر برٹ اسپنسر اپنے آسیبی نظریے (Ghost theory) کی بنیاد اسی تخیل پر استوار کی تو وقت کے فلسفیوں اور اجتماعیات کے عالموں کے حلقے میں اس نے فوراٍ مقبولیت پیدا کرلی۔ اسی عہد میں ایک دوسرا نظریہ بھی بروئے کار آیا اور اس نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کرلی۔ یہ ای بی ٹیلراینی مزم (Animism) کا نظریہ تھا۔ 1872 ء میں اس نے اپنی مشہور کتاب پری مے ٹیوکلچر شائع کی اور اس میں دینی عقائد کی کم از کم تعریف اینی مزم کے ذریعہ کی۔ اینی مزم سے مقصود یہ ہے کہ انسان کے تصورات میں اس کی جسمانی زندگی کے علاوہ ایک مستقل روحانی زندگی کا تصور بھی پیدا ہوجائے۔ اس ” مستقل روحانی زندگی“ کا تصور ٹیلر کے نزدیک خدا پرستی اور دینی عقائد کا بنیادی مادہ تھا۔ اسی مادہ نے نشوونما پا کر خدا کی ہستی کے عقیدے کی نوعیت پیدا کرلی۔ غالبا دینی عقائد کی پیدائش کے تمام نظریوں میں یہ پہلا نظریہ ہے جو علمی طریقہ پر پوری طرح مرتب کیا گیا اور بحث و نظر کے تمام اطراف و جوانب منظم اور آراستہ کیے گئے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وقت کے تمام علمی حلقوں پر اس نظریے نے ایک خاص اثر ڈالا تھا اور عام طور پر اسے ایک مقررہ اور طے شدہ اصل کی شکل میں پیش کیا جانے لگا تھا۔ انیسویں صدی کے اختتام تک اس نظیے کا یہ اقتدار بلا استثنا قائم رہا۔ اسی اثنا میں مصر، بابل، اور اشوریا کے قدیم آثار و کتبات کے حل سے تاریخ قدیم کا ایک بالکل نیا میدان روشنی میں آنے لگا تھا اور ان آثار کے مباحث نے مستقل علوم کی حیثیت پیدا کرلی تھی۔ اس نئے مواد نے مظاہر فطرت کی پرستش کی اصل کو از سر نو اہمیت دے کر ابھار دیا کیونکہ وادی نیل اور وادی دجلہ وفرات کے یہ دونوں قدیم تمدن دینی عقائد کے یہی تصورات نمایاں کرتے تھے۔ چنانچہ اب پھر ایک نیا مذہب (اسکول) پیدا ہوگیا جو خدا پرستی کے پیدائش کی ابتدائی بنیاد مظاہر فطرت کے تاثرات کو قرار دیتا تھا۔ اور خصوصیات کے ساتھ اجرام سماوی کے تاثرات پر زور دیتا تھا۔ اس نظریے کے حامیوں نے اینی مزم کی مخالفت کی اور ایسٹرل اینڈ نیچر میتھالوجسٹ (Astral and Nature Mythologists) کے نام سے مشہور ہوئے۔ لیکن انیسویں صدی کے نصف آخری حصے میں جبکہ یہ تمام نظریے سر اٹھا رہے تھے دوسری طرف ایک خاص علمی حلقہ ایک دوسرے نظریے کی بنیادیں بھی چن رہا تھا۔ اس نظریے کا مواد قدیم ترین تمدنی عہد کے شکار پیشہ قبائل کے تصورات نے بہم پہنچایا تھا جن کے حالات اب تاریخ کی دسترس سے باہر نہیں رہے تھے۔ یہ نظریہ ٹو ٹمزم (Totemism) کے نام سے مشہور ہوا اور بہت جلد اس نے وقت کے علمی حلقوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ ٹوٹمزم سے مقصود مختلف اشیاء اور جانوروں کے وہ انتسابات ہیں جو جمعیت بشری کی ابتدائی قبائلی زندگی میں پیدا ہوگئے تھے اور پھر کچھ عرصے کے بعد ان اشیاء اور جانوروں کا غیر معمولی احترام کیا جانے لگا تھا۔ اس نظریے کی رو سے خیال کیا گیا کہ ہندوستان کی گائے، مصر کا مگرمچھ اور وہیل، شمالی خطوں کا ریچھ، اور صحرا نشین قبائل کا سفید بچھڑا اور دراصل ٹوٹمزم ہی کے بقایا ہیں۔ سب سے پہلے 1885 ء میں رابرٹسن سمتھ نے اس نظریے کا اعلان کیا تھا۔ پھر وقت کے دوسرے نظار نے بھی اسی رخ پر قدم اٹھایا۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد اس نظریے کی مقبولیت مجروح ہونا شروع ہوگئی۔ پروفیسر جے۔ جی۔ فریزار کا جمع کیا ہوا مواد جب منظر عام پر آیا تو معلوم ہوا کہ ٹوٹمزم کے تصورات نجہ تو دینی تصورات کی نوعیت رکھتے تھے نہ دینی تصورات کا مبدء بننے کی ان میں صلاحیت تھی۔ ان کی اصلی نوعیت زیادہ سے زیادہ ایک اجتماعی نظام کی تھی جس کے ساتھ طرح طرح کے تصورات کا ایک سلسلہ وابستہ ہوگیا تھا۔ اس سے زیادہ انہیں اس سلسلہ میں اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ مگر اس سلسلہ میں معاملہ کا ایک اور گوشہ بھی نمایاں ہوا تھا۔ فریزر نے ٹوٹمزم کے تصورات میں ایک خاص قسم ایسی بھی پائی تھی جس میں دینی عقائد کا ابتدائی مواد بننے کی زیادہ صلاحیت دکھائی دیتی تھی۔ یعنی وہ قسم جو جادو کے اعتقاد سے تعلق رکھتی ہے۔ بحث و نظر کے اس گوشے نے مفکروں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کرلیا اور جادو کا نظریہ علمی حلقوں میں روشناس ہوگیا۔ 1892 ء میں ایک امریکی عالم جے۔ ایچ کنیگ اس پہلو پر توجہ دلا چکا تھا۔ اب بیسوی صدی کے اابتدائی برسوں بیک وقت جرمنی، انگلینڈ، فرانس اور امریکہ علمی حلقوں سے اس کی باز گشت شروع ہوگئی اور اینمزم کے خلاف رد فعل کام کرنے لگا۔ اب یہ خیال عام طور پر پھیل گیا کہ اینمزم کے تصورات سے پیشتر بھی انسانی تصورات کا ایک دور رہ چکا ہے اور یہ ماقبل اینمزم (Preanimism) دور، جادو کے تصورات کا دور تھا۔ اسی جادو کے اعمال کے عقیدے نے آگے چل کر روحانی عقائد کی شکل اختیار کرلی اور خدا پرستی اور دینی عقائد کے مبادیات پیدا ہوگئے۔ اب جادو کا نظریہ ایک عام مقبول نظریہ بن گیا اور پچھلے نظریے اپنی جگہ کھونے لگے 1895 ء میں آر، آر، میرٹ نے، 1902 میں ہیوٹ نے، 1904 میں کے۔ پریبو نے، 1907 میں اے وائر کنڈٹ نے، اور 1908 میں ای۔ ایس۔ ہارٹ لینڈ نے اسی نظریے پر اپنے بحث و فکر کی تمام دیواریں اٹھائیں اور اسے دور تک پھیلاتے چلے گئے۔ سب سے زیادہ حصہ اس میں فرانس کے علمائے اجتماعیات کے اس طبقہ نے لیا جو دور کیم (Durkheim) کے مسلک نظر سے تعلق رکھتا تھا۔ اس طقبہ کا زعیم پہلے ایچ۔ ہیوبرٹ اور ام۔ ماس تھا۔ پھر 1912 ء میں خود دورکیم آگے بڑھا اور اس نظریے کا سب سے بڑا علم بردار بن گیا۔ اس گروہ کی رائے میں ٹوٹمزم اور جادو کے تصورات کا مرتکب مجموعہ جیسا کہ وسط آسٹریلیا کے قبائل کے اوہام میں پایا جاتا ہے جمعیت بشری کے دینی تصورات کا اصلی مبدء تھا۔ قانون ارتقا کے ماتحت انہی تصورات نے خدا پرستی کے عقائد کی ترقی یافتہ شکل پیدا کرلی۔ اس زمانہ کے چند سال بعد بعض پروٹسنٹ علما نے جو دینی عقائد کے نفسیاتی مطالعہ میں مشغول تھے۔ مسئلے پر نفسیاتی نقطہ نگاہ سے نظر ڈالی اور اس نظریے کی حمایت شروع کردی۔ وہ اس طرف گئے کہ خدا پرستی کے عقیدے کا مبدء ہمیں مذہب اور سحر کاری، دونوں کے مرکب تصورات میں ڈھونڈھنا چاہیے۔ اس جماعت کا پیشرو آرچ بشپ سوڈر بلوم (Soderblom) تھا جس کے مباحث 1916 ء میں شائع ہوئے۔ اس کے بعد کا زمانہ پہلی عالمگیر جنگ کا زمانہ تھا جو بیسویں صدی کا ایک دور ختم کر کے دوسرے دور کا دروازہ کھول رہی تھی۔ اس نئے دور نے جہاں علم و نظر کے بہت سے گوشوں کو انقلابی تغیرات سے آشنا کیا وہاں علم کی اس شاخ میں میں بھی ایک نیا انقلابی دور شروع ہوگیا۔ یہ تمام پچھلے نظریے مادی مذہب ارتقا (Materialisttics Evolutionism) کی اصل پر مبنی تھے۔ ان سب کے اندر یہ بنیادی اصل کام کر رہی تھی کہ اجسام و مواد کی طرح انسان کی دینی عقیدہ بھی بتدریج نچلی کڑیوں سے ترقی کرتا ہوا اعلی کڑیوں تک پہنچا ہے اور خدا پرستی کے عقیدہ میں توحید (Monotheism) کا تصور ایک طول طویل سلسلہ ارتقا کا نتیجہ ہے۔ انیسویں صدی کا نصف آخر ڈارونزم کے شیوع و احاطہ کا زمانہ تھا اور بختر، ویلز، اسپنسر نے اسے اپنے فلسفیانہ مباحث سے انسانی فکر و عمل کے تمام دائروں میں پھیلا دیا تھا۔ قدرتی طور پر خدا کے اعتقاد کی پیدائش کا مسئلہ بھی اس سے متاثر ہوا اور نظر و بحث کے جتنے قدم اٹھے وہ اسی راہ پر گامزن ہونے۔ مذہب ارتقا کا خاتمہ اور زمانہ حال کی تحقیات : لیکن ابھی بیسویں صدی اپنے انقلاب انگیز انکشافوں میں بہت آگے نہیں بڑھی تھی کہ ان تمام نظریوں کی عمارتیں متزلزل ہونا شروع ہوگئیں اور پہلی عالمگیر جنگ کے بعد کے عہد نے تو انہیں یک قلم منہدم کردیا۔ اب تمام اہل نظر بالاتفاق دیکھنے لگے کہ اس راہ میں جتنے قدم اٹھائے گئے تھے دوسرے سے اپنی بنیاد ہی میں غلط تھے۔ کیونکہ ان سب کی بنیاد قانون اور ارتقا کی اصل پر رکھی گئی تھی اور ارتقائی اصل کی رہنمائی یہاں سود مند ہونے کی جگہ گمراہ کن ثابت ہوئی ہے۔ اب انہیں ٹھوس اور ناقابل انکار تاریخی شواہد کی روشنی میں صاف صاف نظر آگیا کہ انسان کے دینی عقائد کی جس نوعیت کو انہوں نے اعلی اور ترقی یافتہ قرار دیا تھا وہ بعد کے زمانوں کی پیداوار نہیں ہے بلکہ جمعیت بشری کی سب سے زیادہ پرانی متاع ہے۔ مظاہر فطرت کی پرستش، حیوانی انتسابات کے تصورات، اجداد پرستی کی رسوم، اور جادو کے توہمات کی اشاعت سے بھی بہت پہلے جو تصور انسانی دل و دماغ کے افق پر طلوع ہوا تھا وہ ایک اعلی ترین ہستی کی موجودگی کا بے لگاگ تصور تھا۔ یعنی خدا کی ہستی کا توحید کی اعتقاد تھا ! چنانچہ اب بحث و نظر کے اس گوشہ میں ارتقائی مذہب کا یک قلم خاتمہ ہوچکا ہے۔ ڈبلیو شمٹ (Schmidt) پروفیسر وائنا یونیورسٹی جنہوں نے اس موضوع پر زمانہ حال کی سب سے بہتر کتاب لکھی ہے لکھتے ہیں : ” علم شعوب و قبائل انسانی کے پورے میدان میں اب پرانا ارتقائی مذہب یکسر دیوالیہ ثابت ہوچکا ہے۔ نشوونما کی مرتب کڑیوں کا وہ خوشنما سلسلہ جو اس مذہب نے پوری آمادگی کے ساتھ تیار کردیا تھا اب ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور نئے تاریخی رجحانوں نے اسے اٹھا کر پھینک دیا ہے“۔ (دی اریجین اینڈ گروتھ آف ریلیجن۔ صفحہ 8)۔ "اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ انسان کے ابتدائی عمران و تمدن کے تصور کی "اعلی ترین ہستی" فی الحقیقت توحیدی اعتقاد کا خدائے واحد تھا اور انسان کا دینی عقیدہ جو اس سے ظہور پذیر ہوا وہ پوری طرح ایک توحیدی دین تھا۔ یہ حقیقت اب اس درجہ نمایاں ہوچکی ہے کہ ایک سرسری نظر تحقیق بھی اس کے لیے کفایت کرے گی۔ نسل انسانی کے قدیم پستہ قد قبائل میں سے اکثروں کی نسبت یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ابتدائی عہد کے جنگلی قبیلوں کے جو حالات روشنی میں آئے ہیں اور کرنائی، کلین، اور جنوب مشرقی، آسٹریلیا کے پائن قبیلوں کی نسبت جس قدر تاریخی مواد مہیا ہوا ہے ان سب کی تحقیقات ہمیں اس نتیجہ تک پہنچاتی ہے۔ ارکٹیک تہذیب کے قبیلوں کے روایتی آثار اور شمالی امریکہ کے قبائل کے دینی تصورات کی چھان بین نے بھی بالآخر اسی نتیجہ کو نمایاں کیا" (دی اور یجین اینڈ گروتھ آف ریلیجین صفحہ 262) زمانہ حال کے نظارے نے اب اس مسئلہ کا موسوعاتی (Pantologic) طریق نظر سے مطالعہ کیا ہے اور قدیم معلومات و مباحبث کی تمام شاخیں جمع کر کے مجموعی نتائج نکالے ہیں۔ ضروری ہے کہ اس سلسلہ کی بعض جدید تحقیقات پر ایک سرسری نظر ڈال لی جائے کیونکہ ابھی وہ اس درجہ شائع نہیں ہوئی ہیں کہ عام طور پر نظر و مطالعہ میں آچکی ہوں۔ آسٹریلیا اور جزائر کے وحشی قبائل اور مصر کے قدیم ترین آثار کی جدید تحقیقات : آسٹریلیا اور جزائر بحر محیط کے وحشی قبائل ایک غیر معین قدامت سے اپنی ابتدائی ذہنی طفولیت کی زندگی بسرت کرتے رہے۔ زندگی وہ معیشت کی وہ تمام ترقی یافتہ کڑیاں جو عام طور پر انسانی جماعتوں کے ذہنی ارتقا کا سلسلہ مربوط کرتی ہیں یہاں یکسر مفود رہیں۔ ابتدائی عہد کی بشری جمعیت کے تمام جسمانی اور دماغی خصائص ان کی قبائلی زندگی میں دیکھے جاسکتے تھے۔ ان کے تصور اس درجہ محدود تھے کہ اوہاد و خرافات میں کسی طرح کا ارتقائی نظم نہیں پایا جاتا۔ تاہم ان کا ایک اعتقادی تصور بالکل واضح تھا۔ ایک بالا تر ہستی ہے جس نے ان کی زمین اور ان کا آسمان پیدا کیا اور ان کا مرنا اور جینا اسی کے قبضہۂتصرف میں ہے۔ مصر کے قدیم باشندوں کی صدائیں آٹھ ہزار برس پیشتر تک کی ہمارے کانوں سے ٹکرا چکی ہیں۔ قدیم مصر تصورات کا پورا سلسلہ اپنی عہد بعہد کی تبدیلیوں کے ساتھ ہمارے سامنے ابھر آیا ہے۔ ہمیں صاف نظر آرہا ہے کہ ایک خدا کی پرستش کا تصور اس سلسلہ میں بعد کو نہیں ابھرا بلکہ سلسلہ کی سب سے زیادہ پرانی کڑی ہے۔ مصر کے وہ تمام معبود جن کے مرقعوں سے اس کے مشہور عالم ہیکلوں اور مناروں کی دیورایں منقش کی گئی ہیں اس قدیم ترین عہد میں اپنی کوئی نمود نہیں رکھتے تھے۔ جب صرف ایک "اوسیریز" کی ان دیکھی ہستی کا اعتقاد دریائے نیل کی تمام آباد وادیوں پر چھایا ہوا تھا۔ (مردہ کی کتاب قدیم مصری تصورات کا سب سے زیادہ مرتب اور منضبط نوشتہ ہے۔ مصریات کے مشہور محقق ڈاکٹر بج (Budge) کی رائے میں یہ سب سے زیادہ قدیم فکر مواد ہے جو مصری آثار نے ہمارے حوالہ کیا ہے۔ یہ خود اتنی ہی پرانی ہے جتنا پرانا مصری تمدن ہے،۔ لیکن جو تصورات اس میں جمع کیے گئے ہیں۔ وہ مصری تمدن سے بھی زیادہ قدیم ہیں۔ وہ اتنے قدیم ہیں کہ ہم ان کی قدامت کی کوئی تاریخ معین نہیں کرسکتے۔ اس نوشتہ میں "اوسیریز" کے یہ صفات ہمیں ملتے ہیں : معبود اعطم۔ الخیر۔ ازلی پادشاہ۔ آخرت کا مالک) دجلہ وفرات کی وادیوں کی قدیم آبادیوں اور خدا کی ہستی کا توحیدی تصور : پہلی عالمگیر جنگ کے بعد عراق کے مختلف حصوں میں کھدائی کی جو نئی مہمیں شروع کی گئی تھیں۔ اور جو مودہ جنگ کی وجہ سے ناتمام رہ گئیں ان کے انکشافات نے اس مسئلہ کے لیے نئی روشنیاں بہم پہنچائی ہیں۔ اب اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کیا جاتا کہ دریائے نیل کی طرح دجلہ ور فرات کی وادیوں میں بھی جب انسان پہلے پہل اپنے خدا کو پکارا و وہ بہت سی ہستیوں میں بٹا ہوا نہیں تھا بلکہ ایک ہی ان دیکھی ہستی کی صورت میں نمایاں ہوا تھا۔ کالڈیا کے سومیری اور اکادی قبائل جن انسانی نسلوں کے وارث ہوئے تھے وہ شمس یعنی سورج اور نانعار یعنی چاند کی پرستش نہیں کرتے تھے بلکہ اس ایک ہی لازوال ہستی کی"جس نے سورج اور چاند اور تمام چمکدار ستاروں کو بنایا ہے"۔ مہنجودارو کا خدائے وحدا "اون" ہندوستان میں "مہنجودارو" کے آثار ہمیں آریاؤں کے عہد ورود سے بھی آگے لے جاتے ہیں۔ ان کے مطالعہ و تحقیق کا کام ابھی پورا نہیں ہوا ہے۔ تاہم ایک حقیقت بالکل واضح ہوگئی ہے۔ اس قدیم ترین انسانی بستی کے باشندوں کا بنیادی تصور توحید الٰہی کا تصور تھا۔ اصنام پرستانہ تصور نہ تھا۔ وہ اپنے یگانہ خدا کو "اون" کے نام سے پکارتے تھے۔ جس کی مشابہت ہمیں سنسکرت کے لفظ "اندوان" میں میں مل جاتی ہے۔ اس یگانہ ہستی کی حکومت سب پر چھائی ہوئی ہے۔ طاقت کی تمام ہستیاں اسی کے ٹھہرائے ہوئے قانون کے ماتحت کام کر رہی ہیں اس کی صفت "ویدوکن" ہے۔ یعنی ایسی ہستی جس کی آنکھیں کبھی غافل نہیں ہوسکتیں "لاتاخذہ سنۃ ولا نوم"۔ اللہ کی یگانہ اور ان دیکھی ہستی کا قدیم سامی تصور : سامی قبائل کا اصلی چشمہ صحرائے عرب کے بعض شاداب علاقے تھے۔، جب اس چشمہ میں نسل انسانی کا پانی بہت بڑھ جاتا تو اطراف میں پھیلنے لگتا۔ یعنی قبائل کے جتھے عرب سے نکل کر اطراف و جوانب کے ملکوں میں منتشر ہونے لگتے اور پھر چند صدیوں کے بعد نیا رنگ روپ اور نئے نام اختیار کرلیتے۔ شاید انسانی قبائل کا انشعاب کرہ ارضی کے دو مختلف حصوں میں بیک وقت جاری رہا اور زمانہ مابعد کی مختلف قوموں اور تمدنوں کا بنیادی مبدء بنا۔ صحرائے گوبی کے سرچشمے سے وہ قبائل نکلے جو ہندی۔ یورپی (اندویورپین) آریاؤں کے نام سے پکارے گئے۔ صحرائے عرب سے وہ قبائل نکلے جن کا پہلا نام سامی پڑا اور پھر یہ نام بے شمار ناموں کے ہجوم میں گم ہوگیا۔ تاریخ کی موجودہ معلوام اس حد تک پہنچ کر رک گئی ہیں اور آگے کی خبر نہیں رکھتیں۔ عرب قبائل کا یہ انشعاب بتدریج مغربی ایشیا اور قریبی افریقہ کے تمام دور دراز حصوں تک پھیل گیا تھا۔ فلسطین (شام) مصر، نوبیا، عراق، اور سواحل خلیج فارس سب ان کے دائرہ انشعاب میں آگئے تھے۔ عاد، ثمود، عمالقہ، ہکسوس، موابی، آشوری، آکادی، سومیری، عیلامی، آرامی، اور عبرانی وغیرہم مختلف مقاموں اور مختلف عہدوں کی قوموں کے نام ہیں مگر دراصل سب ایک ہی قبائلی سرچشمہ سے نکلے ہوئے ہیں یعنی عرب سے۔ اب جدید سامی اثریات کے مطالعہ سے جو ان تمام قوموں سے تعلق رکھتی ہیں ایک حقیقت بالکل واضح ہوگئی ہے۔ یعنی ان تمام قوموں میں ایک ان دیکھے خدا کی ہستی کا اعتقاد موجود تھا۔ اور وہ "ال۔ الاہ" یا "اللہ " کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہی "الاہ" ہے جس نے کہیں "ایل" کی صورت اختیار کی، کہیں "الوہ" کی اور کہیں "الاہیا" کی۔ سرحد حجاز کی وادی عقبہ اور شمالی شام کے راس شمر کے جو آثار گزشتہ جنگ کے بعد منکشف ہوئے ان سے یہ حقیقت اور زیادہ آشکارا ہوگئی ہے مگر یہ موقع تفصیل کا نہیں۔ انسان کی پہلی راہ ہدا یت کی گھی، گمراہی بعد کوئی آئی : بہرحال بیسویں صدی کی علمی جستجو اب ہمیں جس کی طرف لے جا رہی ہے وہ انسان کا قدیم ترین توحیدی اور غیر اصنامی اعتقاد ہے۔ اس سے زیادہ اس کے تصورات کی کوئی بات پرانی نہیں۔ اس نے اپنے عہد طفولیت میں ہوش و خرد کی آنکھیں جونہی کھولی تھیں ایک یگانہ ہستی کا اعتقاد اپنے اندر موجود پایا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کے قدم بھٹکنے لگے اور بیرونی اثرات کی جولانیاں اسے نئی نئی صورتوں اور نئے نئے ڈھنگوں سے آشنا کرنے لگیں۔ اب ایک سے زیادہ مافوق الفطرت طاقتوں کا تصور نشوونما پانے لگا اور مظاہر فطرت کے بے شمار جلوے اسے اپنی طرف کھینچنے لگے۔ یہاں تک کہ پرستش کی ایسی چوکھٹیں بننا شروع ہوگئیں جنہیں اس کی جبین نیاز چھو سکتی تھی اور تصورات کی ایسی صورتیں ابھرنے لگیں جو اس کے دیدہ صورت پرست کے سامنے نمایاں ہوسکتی تھیں۔ یہیں اسے ٹھوکر لگی لیکن راہ ایسی تھی کہ ٹھوکر سے بچ بھی نہیں سکتا تھا۔ کمند کو تہ و بازوئے سست و بام بلند بمن حوالہ و نومیدیم گنہ گیرند پس معلوم ہوا کہ اس راہ میں ٹھوکر بعد کو لگی۔ پہلی حالت ٹھوکر کی نہ تھی۔ راہ راست پر گام فرسائیوں کی تھی : من ملک بودم و فردوس بریں جائم بود آدم آورد دریں خانہ خراب آبادم اگر اس صورت حال کو گمراہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے تو ماننا پڑے گا کہ پہلی حالت جو انسان کو پیش آئی تھی وہ گمراہی کی نہ تھی، ہدایت کی تھی۔ اس نے آنکھیں روشنی میں کھولی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ تاریکی پھیلنے لگی ! دینی نوشتوں کی شہادت اور قرآن کا اعلان : زمانہ حال کی علمی تحقیقات کا یہ نتیجہ ادیان عالم کے مقدس نوشتوں کی تصریحات کے عین مطابق ہے۔ مصر، یونان، کالڈیا، ہندوستان، چین، ایران، سب کی مذہبی روایتیں ایک ایسے ابتدائی عہد کی خبر دیتی ہیں جب نوع انسانی گمراہی اور غمناکی سے آشنا نہیں ہوئی تھی اور فطری ہدایت کی زندگی بسر کرتی تھی۔ افلاطون نے کریطیاس (Critias) میں آبادی عالم کی جو حکایت درج کی ہے اس میں اس اعتقاد کی پوری جھلک موجود ہے اور طیماوس (Timaeus) کی حکایت جو ایک مصری پجاری کی زبانی ہے مصری روایت کی خبر دیتی ہے۔ تورات کی کتاب پیدائش نے آدم کا قصہ بیان کیا ہے۔ اس قصہ میں آدم کی پہلی زندگی ہدایت کی بہشتی زندگی تھی پھر لغزش ہوئی اور بہشتی زندگی مفقود ہوگئی اس قصہ میں بھی یہ اصل کام کررہی ہے کہ یہاں پہلا دور فطری ہدایت کا تھا۔ انحراف و گمراہی کی راہیں بعد کو کھلیں۔ قرآن نے تو صاف صاف اعلان کردیا ہے : "ومان کان الناس الا امۃ واحدۃ فاخلتفوا : ابتدا میں تمام انسان ایک ہی گروہ تھے (یعنی الگ الگ راہوں میں بھٹکے ہوئے نہ تھے) پھر اختلاف میں پڑگئے " (10:، 19) دوسری جگہ مزید تشریح کی : "کان الناس امۃ واحدۃ فبعث اللہ النبیین مبشرین و منذرین وانزل معہم الکتاب بالحق لیحکم بین الناس فیما اختلفوا فیہ : ابتدا میں تمام انسانوں کا ایک ہی گروہ تھا (یعنی فطری ہدایت کی ایک ہی راہ پر تھے۔ پھر اس کے بعد اختلاف پیدا ہوگئے) پس اللہ نے ایک کے بعد ایک نبی مبعوث کیے۔ وہ نیک عملی کے نتیجوں کی خوشخبری دیتے تھے۔ بد عملی کے نتیجوں سے متنبہ کرتے تھے۔ نیز ان کے ساتھ نوشتے نازل کیے۔ تاکہ جن باتوں میں لوگ اختلاف کرنے لگے ہیں ان کا فیصلہ کردیں"۔ (2:، 213) ارتقائی نظریہ خدا کی ہستی کے اعتقاد میں نہیں، مگر اس کی صفات کے تصورات کے مطالعہ میں مدد دیتا ہے : پس خدا کی ہستی کے عقیدے کے بارے میں انیسویں صدی کا ارتقائی نظریہ اب اپنی علمی اہمیت کھو چکا ہے اور بحث و نظر میں بہت کم مدد دے سکتا ہے۔ البتہ جہاں تک انسان کے ان تصوروں کا تعلق ہے جو خدا کی صفات کی نقش آرائیاں کرتے رہے ہمیں ارتقائی نقطہ خیال سے ضرور مددملتی ہے۔ کیونکہ بلاشبہ یہاں تصورات کے نشو وارتقا کا ایک ایسا سلسلہ موجود ہے جس کی ارتقائی کڑیاں ایک دوسرے سے الگ کی جاسکتی ہیں اور نچلے درجوں سے اونچے درجہ کی طرف ہم بڑھ سکتے ہیں۔ خدا کی ہستی کا اعتقاد انسان کے ذہن کی پیداوار نہ تھا کہ ذہنی تبدیلیوں کے ساتھ وہ بھی بدلتا رہتا۔ وہ اس کی فطرت کا ایک وجدانی احساس تھا اور وجدانی احساسات میں نہ تو ذہن و فکر کے مؤثرات مداخلت کرسکتے ہیں نہ باہر کے اثرات سے ان میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔ لیکن انسان کی عقل، ذات مطلق کے تصور سے عاجز ہے۔ وہ جب کسی چیز کا تصور کرنا چاہتی ہے تو گو تصور ذات کا کرنا چاہے لیکن تصور میں صفات و عوارض ہی آتے ہیں اور صفات ہی کے جمع و تفرقہ سے وہ ہر چیز کا تصور آراستہ کرتی ہے۔ پس جب فطرت کے اندرونی جذبہ نے ایک بالا تر ہستی کے اعتراف کا ولولہ پیدا کیا تو ذہن نے چاہا، اس کا تصور آراستہ کرے۔ لیکن جب تصور کیا تو یہ اس کی ذات کا تصور نہ تھا یہیں سے خدا پرستی کے فطری جذبہ میں ذہن و کفر کی مداخلت شروع ہوگئی۔ عقل انسانی کی درماندگی اور صفات الٰہی کی صورت آرائی : عقل انسانی کا ادراک محسوسات کے دائرے میں محدود ہے۔ اس لیے اس کا تصور اس دائرے سے باہر قدم نہیں نکال سکتا۔ وہ جب کسی ان دیکھی اور غیر محسوس چیز کا تصور کرے گی تو ناگریز ہے کیہ تصور میں وہی صفات آئیں جنہیں وہ دیکھتی اور سنتی ہے اور جو اس کے حاسہ ذوق و لمس کی دسترس سے باہر نہیں ہیں۔ پھر اس کے ذہن و تفکر کی جتنی بھی رسائی ہے بیک دفعہ ظہور میں نہیں آئی ہے بلکہ ایک طول طویل عرصہ کے نشو وارتقا کا نتیجہ ہے۔ ابتدا میں اس کا ذہن عہد طفولیت میں تھا۔ اس لیے اس کے تصورات بھی اسی نوعیت کے ہوتے تھے۔ پھر جوں جوں اس میں اور اس کے ماحول میں ترقی ہوتی گئی اس کا ذہن بھی ترقی کرتا گیا اور ذہن کی ترقی و تزکیہ کے ساتھ اس کے تصورات میں بھی شائستگی اور بلندی آتی گئی۔ اس صورت حلا کا نتیجہ یہ تھا کہ جب کبھی ذہن انسانی نے خدا کی صورت بنانی چاہی تو ہمیشہ ویسی ہی بنائی جیسی صورت خود اس نے اور اس کے احوال و ظروف نے پیدا کرلی تھی۔ جوں جوں اس کا معیار فکر بدلتا گیا وہ اپنے معبود کی شکل و شباہت بھی بدلتا گیا۔ اسے اپنے آئینہ تفکر میں ایک صورت نظر آتی تھی۔ وہ سمجھتا تھا یہ اس کے معبود کی صورت ہے۔ حالانکہ وہ اس کے معبود کی صورت نہ تھی خود اسی کے ذہن و صفات کا عکس تھا۔ فکر انسانی کی سب سے پہلی درماندگی یہی ہے جو اس راہ میں پیش آئی ! حرم جویاں درے رامی پرستند فقیہاں دفترے را می پرستند برافگن پردہ تا معلوم گردد کہ یاراں دیگرے را می پرستند یہی درمانگی ہے جس سے نجات دلانے کے لیے وحی الٰہی کی ہدایت ہمیشہ نمودار ہوتی رہی۔ انبیائے کرام (علیم السلام) کی دعتو کی ایک بنیادی اصل یہ رہی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ خدا پرستی کی تعلیم ویسی ہی شکل و اسلوب میں دی جیسی شکل و اسلوب کے فہم و تحمل کی استعداد مخاطبوں میں پیدا ہوگئی تھی۔ وہ مجمع انسانی کے معلوم ومربی تھے اور معلم کا فرض ہے کہ متعلموں میں جس درجہ کی استعداد پائی جائے اسی درجہ کا سبق بھی دے۔ پس انبیائے کرام نے بھی وقتا فوقتا خدا کی صفات کے لیے جو پیرایہ تعلیم اختیار کیا وہ اس سلسلہ ارتقا سے باہر نہ تھا۔ بلکہ اسی کی مختلف کڑیاں مہیا کرتا ہے۔ ارتقائے تصور کے نقاط ثلاثہ : اس سلسلہ کی تمام کڑیوں پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں اور ان کے فکری عناصر کی تحلیل کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ ان کی بے شمار نوعیتیں قرار دی جاسکتی ہیں لیکن ارتقائی نقطے ہمیشہ تین ہی رہے اور انہی سے اس سلسلہ کی ہدایت و نہایت معلوم کی جاسکتی ہے : (1)۔ تجسم سے تنزیہہ کی طرف : (تجسم سے مقصود یہ ہے کہ خدا کی نسبت ایس تصور قائ8 م کرنا کہ وہ مخلوق کی طرح جسم و صورت رکھتا ہے۔ تشبہ سے مقصود یہ ہے کہ ایسی صفات تجویز کرلیں جو مخلوقات کی صفات سے مشابہ ہوں۔ تنزیہہ سے مقصود یہ ہے کہ ان تمام باتوں سے جو اسے مخلوقات سے مشابہ کرتی ہوں اسے مبرا یقین کرنا۔ انگریزی میں تجسم کے لیے ان تھروپو مارفزم (Anthroporphism) اور تشبہ کے لیے ان تھراپوافیوازم (Anthropophuism) کی مصطلحات استعمال کرتے ہیں) (2)۔ تعدد و اشراک (Polytheism) سے توحید (Monotheism) کی طرف۔ (3) صفات قہر و جلال سے صفات رحمت و جمال کی طرف۔ یعنی تجسم اور صفات قہریہ کا تصور اس کا ابتدائی درجہ ہے اور تنزہ اور صفات رحمت و جمال سے اتصاف اعلی و کامل درجہ۔ جو تصور جس قدر ابتدائی اور ادنی درجہ کا ہے، اتنا ہی تجسم اور صفات قہریہ کا عنصر اس میں زیادہ ہے۔ جو تصور جس قدر زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ اتنا ہی زیادہ منزہ اور صفات رحمت و جلال سے متصف ہے۔ انسان کا تصور صفات قہریہ کے تاثر سے کیوں شروع ہوا؟ انسان کا تصور صفات قہریہ کے تخیل سے کیوں شروع ہوا؟ اس کی علت واضح ہے۔ فطرت کائنات کی عمیر، تخریب کے نقاب میں پوشیدہ ہے۔ انسانی فکر کی طفولیت تعمیر کا حسن نہ دیکھ سکی۔ تخریب کی ہوناکیوں سے ہم گئی۔ تعمیر کا حسن و جمال دیکھنے کے لیے فہم و بصیرت کی دور رس نگاہ مطلوب تھی اور وہ ابھی اس کی آنکھوں نے پیدا نہیں کی تھی۔ دنیا میں ہر چیز کی طرح ہر فعل کی نوعیت بھی اپنا مزاج رکھتی ہے۔ بناؤ ایک ایسی حالت ہے جس کا مزاج سر تا سر سکون اور خاموشی ہے اور بگاڑ ایک ایسی حالت ہے کہ اس کا مزاج سرتاسر شورش اور ہولناکی ہے۔ بناؤ ایجاب ہے، نظم ہے، جمع و ترتیب ہے اور بگاڑ سلب ہے، برہمی ہے، تفرقہ و اختلال ہے۔ جمع و نظم کی حالت ہی سکون کی حالت ہوتی ہے اور تفرقہ و برہمی کی حالت ہی شورش و انفجار کی حالت ہے۔ دیوار جب بنتی ہے تو تمہیں کوئی شورش محسوس نہیں ہوتی لیکن جب گرتی ہے تو دھماکا ہوتا ہے اور تم بے اختیار چونک اٹھتے ہو۔ اس صورت حال کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ حیوانی طبیعت سلبی افعال سے فوراً متاثر ہوجاتی ہے کیونکہ ان کی نمود میں شورش اور ہولناکی ہے لیکن ایجابی افعال سے متاثر ہونے میں دیر لگاتی ہے کیونکہ ان کا حسن و جمال یکایک مشاہدہ میں نہیں آجاتا اور ان کا مزاج شورش کی جگہ خاموشی اور سکون ہے۔ فطرت کے سلبی مظاہر کی قہرمانی اور ایجابی مظاہر کا حسن و جمال : اسی بنا پر عقل انسانی نے جب صفات الٰہی کی صورت آرائی کرنی چاہی تو فطرت کائنات کے سلبی مظاہر کی دہشت سے فوراً متاثر ہوگئی کیونکہ زیادہ نمایاں اور پرشور تھے اور ایجابی و تعمیری حقیقت سے متاثر ہونے میں بہت دیر لگ گئی کیونکہ ان میں شورش اور ہنگامہ نہ تھا۔ بادلوں کی گرج، بجلی کی کڑک، آتش فشاں پہاڑوں کا انفجار، زمین کا زلزلہ، آسمان کی ژالہ بار، دریا کا سیلاب، سمندر کا تلاطم، ان تمام سلبی مظاہر میں اس کے لیے رعب و ہیبت تھی اور اسی ہیبت کے اندر وہ ایک غضبناک خدا کی ڈراؤنی صورت دیکھنے لگا تھا۔ اسے بجلی کی کڑک میں کوئی حسن محسوس نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ بادلوں کی گرج میں کوئی شان محبوبیت نہیں پاسکتا تھا۔ وہ آتش فشاں پہاڑوں کی سنگ باری سے پیار نہیں کرسکتا تھا اور اس کی عقل ابھی خدا کے انہی کاموں سے آشنا ہوئی تھی۔ انسان پر شیفتگی سے پہلی دشہت طاری ہوئی : خود اس کی ابتدائی معیشت کی نوعیت بھی ایسی ہی تھی کہ انس و محبت کی جگہ خوف و وحشت کے جذبات برانگیختہ ہوتے۔ وہ کمزور اور نہتا تھا اور دنیا کی ہر چیز اسے دشمنی اور ہلاکت پر تلی نظر آتی تھی۔ دلدل کے مچھروں کے جھنڈ چاروں طرف منڈلا رہے تھے۔ زہریلے جانور ہر طرف رینگ رہے تھے اور درندوں کے حملوں سے ہر وقت مقابل رہنا پڑتا تھا۔ سر پر سورج کی تپش بے پناہ تھی اور چاروں طرف موسم کے اثرات ہولناک تھے۔ غرض کہ اس کی زندگی سر تا سر جنگ اور محنت تھی اور اس ماحول کا قدرتی نتیجہ تھا کہ اس کا ذہن خدا کا تصور کرتے ہوئے خدا کی ہلاکت آفرینیوں کی طرف جاتا رحمت و فیضان کا ادراک نہ کرسکتا۔ بالآخر صفات رحمت و جمال کا اشتمال : لیکن جوں جوں اس میں اور اس کے ماحول میں تبدیلی ہوتی گئی اس کے تصور میں بھی یاس و دہشت کی جگہ امید و رحمت کا عنصر شامل ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ معبودیت کے تصور میں صفات و رحمت و جمال نے بھی ویسی ہی جگہ پالی جیسی صفات قہر وجلال کے لیے تھی۔ چنانچہ اگر قدیم اقوام کے اصنام پرستانہ تصورات کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ ان کی ابتدا ہر جگہ صفات قہر و غضب کے تصور ہی سے ہوئی ہے اور پھر آہست آہستہ رحمت و جمال کی طرف قدم اٹھا ہے۔ آخری کڑیاں وہ نظر آئیں گی جن میں قہر و غضب کے ساتھ رحمت و جمال کا تصور بھی مساویانہ حیثیت سے قائم ہوگیا ہے۔ مثلاً قہر وہلاکت کے دیوتاؤں اور قوتوں کے ساتھ زندگی، رزق، دولت اور حسن و علم کے دیوتاؤں کی بھی پرستش شروع ہوگئی ہے۔ یونان کا علم الاصنام اپنے لطافت تخیل کے لحاظ سے تمام اصنامی تخیلات میں اپنی خاص جگہ رکھتا ہے لیکن اس کی پرستش کے بھی قدیم معبود وہی تھے جو قہر و غضب کی خوفناک قوتیں سمجھی جاتی تھیں۔ ہندوستان میں اس وقت تک زندگی اور بخشش کے دیوتاؤں سے کہیں زیادہ ہلاکت کے دیوتاؤں کی پرستش ہوتی ہے۔ ظہور قرآن کے وقت دنیا کے عام تصورا : بہرحال ہمیں غور کرنا چاہیے کہ قرآن کے ظہور کے وقت صفات الٰہی کے عام تصورات کی نوعیت کیا تھی اور قرآن نے جو تصور پیش کیا اس کی حیثیت کیا ہے؟ ظہور قرآن کے وقت پانچ دینی تصور فکر انسانی پرچھائے ہوئے تھے : چینی، ہندوستانی، مجوسی، یہودی اور مسیحی۔ (1)۔ چینی تصور : دنیا کی تمام قدیم قوموں میں چینیوں کی یہ خصوصیت تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ ان کے تصور الوہیت نے ابتدا میں جو ایک سادہ اور مبہم نوعیت اختیار کرلی تھی وہ بہت حد تک برابر قائم رہی اور زمانہ مابعد کی ذہنی وسعت پذیریاں اس میں زیادہ مداخلت نہ کرسکیں۔ تاہم تصور کا کوئی مرقع بغیر رنگ و روغن کے بن نہیں سکتا۔ اس لیے آہستہ آہستہ اس سادہ خاکے میں بھی مختلف رنگیں نمایاں ہونے لگیں اور بالآخر ایک رنگین تصویر متشکل ہوگئی۔ چین میں قدیم زمانے میں سے مقامی خداؤں کے ساتھ ایک "آسمانی" ہستی کا اعتقاد بھی موجود تھا۔ ایک ایسی بلند اور عظیم ہستی جس کی علویت کے تصور کے لیے ہم آسمان کے سوا اور کسی طرف نظر نہیں اٹھا سکتے۔ آسمان حسن و بخشائش کا بھی مظہر ہے۔ قہر و غضب کی بھی ہولناکی ہے۔ اس کا سورج روشنی اور حرارت بخشتا ہے، اس کے ستارے اندھیری راتوں میں قدنیلیں روشن کردیتے ہیں، اس کی بارش زمین کو طرح طرح کی روئیدگیوں سے معمور کردیتی ہے، لیکن اس کی بجلیاں ہلاکت کا بھی پیام ہیں اور اس کی گرج دلوں کو دہلا بھی دیتی ہے۔ اس لیے آسمانی خدا کے تصور میں بھی دونوں صفتیں نمودار ہوئیں۔ ایک طرف اس کی جود و بخشائش ہے، دوسری طرف اس کا قہر و غضب ہے۔ چینی چاعری کی قدیم کتاب میں ہم قدیم ترین چینی تصورات کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں جابجا ہمیں ایسے مخاطبات ملتے ہیں جن میں آسمانی اعمال کی، ان متضاد نمودوں پر حیرانی و سرگشتگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ کیا بات ہے کہ تیرے کاموں میں یکسانی اور ہم آہنگی نہیں؟ تو زندگی بھی بخشتا ہے اور تیرے پاس ہلاکت کی بجلیاں بھی ہیں۔ یہ "آسمان" چینی تصور کا ایک ایسا بنیادی عنصڑ بن گیا کہ چینی جمعیت آسمانی جمعیت اور چینی مملکت آسمانی مملکت کے نام سے پکاری جانے لگی۔ رومی جب پہلے پہل چین سے آشنا ہوئے تو انہیں ایک "آسمانی مملکت" ہی کی خبر ملی تھی۔ اس وقت سے (Coelum) کے مشتقات کا چین کے لیے استعمال ہونے لگا۔ یعنی آسمان والے اور "آسمانی" اب بھی انگریزی میں چین کے باشندوں کے لیے مجازا سلسٹیل (Celestial) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی آسمانی ملک کے باشندے۔ اس آسمانی ہستی کے علاوہ گزرے ہوئے انسانوں کی روحیں بھی تھیں۔ جنہیں دوسرے عالم میں پہنچ کر تدبیر و تصرف کی طاقتیں حاصل ہوگئی تھیں اور اس لیے پرستش کی مستحق سمجھی گئی تھیں۔ ہر خاندان اپنی معبود روحیں رکھتا تھا اور ہر علاقہ اپنا مقامی خدا۔ لاؤتزو اور کنگ فوزی کی تعلیم : سنہ مسیحی سے پانچ سو برس پہلے لاؤ۔ تزو (Lao-Tzu) اور کنگ فوزی (King-fu-Tse) کا ظہور ہوا۔ کنگ فوزی نے ملک کو عملی زندگی کی سعادتوں کی راہ دکھائی اور معاشرتی حقوق و فرائض کی ادائیگی کا ایک قانون مہیا کردیا لیکن جہاں تک خدا کی ہستی کا تعلق ہے۔ "آسمان" کا قدیمی تصور بدستور قائم رہا اور اجداد پرستی کے عقائد نے اس کے ساتھ مل کر ایک ایسی نوعیت پیدا کرلی گویا آسمانی خدا تک پہنچنے کا ذریعہ گزری ہوئی روحوں کا وسیلہ اور تشفع ہے۔ روحانی تصورات میں وسیلہ کا اعتقاد ہمیشہ عابدانہ پرستش کی نوعیت پیدا کرلیتا ہے چنانچہ یہ توسل بھی عملاً تعبد تھا اور ہر طرح کے دینی اعمال و رسوم کا مرکزی نقطہ بن گیا تھا۔ ("کنگ فوزی" فارسی تلفظ ہے۔ صحیح چینی لفظ "کونگ۔ فو۔ تسی" ہے۔ ایرانیوں نے اسے زیادہ صحت کے ساتھ نقل کیا۔ یعنی صرف اتنی تبدیلی کی کہ "فوتسی" کو "فوزی" کردیا۔ لیکن یورپ کی زبانوں نے اسے یک قلم مسخ کر کے "کنفیوشیس" (Confuocius) بندا دیا اور اس کی آواز اصل آواز سے اس درجہ مختلف ہوگئی کہ ایک چینی سن کر حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کس چیز کا نام ہے اور کس ملک کی بولی ہیں؟) ہندوستان اور یونان میں دیوتاؤں کے تصور نے نشوونما پائی تھی جو خدائی کی ایک بالاتر ہستی کے ساتھ کارخانہ عالم کے تصرفات میں شرکت رکھتے تھے۔ چینی تصور میں یہ خانہ بزرگوں کی روحوں نے بھرا اور اس طرح اشراک اور تعدد کے تصور کی پوری نقش آرائی ہوگئی۔ کنگ فوزی کے ظہور سے پہلے قربانیوں کی رسم عام طور پر رائج تھی۔ کنگ فوزی نے اگرچہ ان پر زور نہیں دیا لیکن ان سے تعرض بھی نہیں کیا۔ چنانچہ وہ چینی مندروں کا تقاضا برابر پورا کرتی رہیں۔ قربانیوں کے عمل کے پیچھے طلب بخشش اور جلب تحفظ دونوں کے تصور کام کرتے تھے۔ قربانیوں کے ذریعہ ہم اپنے مقاصد بھی حاصل کرسکتے ہیں اور خدا کے قہر و غضب سے محفوظ بھی ہوجا سکتے ہیں۔ پہلی غرض کے لیے وہ نذر ہیں۔ دوسری غرض کے لیے فدیہ ! لاؤ۔ تزو نے "تاؤ" یعنی طریقت کے مسلک کی بنیاد ڈالی۔ اسے چین کا تصور اور ویدانت سمجھنا چاہیے۔ تاؤ نے چینی زندگی کو روحانی استغراق اور داخلی مراقبہ کی راہوں سے آشنا کیا اور مذہبی اور اخلاقی تصورات میں ایک طرف گہرائی اور وقت آفرینی پیدا ہوئی دوسری طرف لطافت فکر اور رقت خیال کے نئے نئے دروازے کھلے۔ لیکن تصوف ملک کا عام دینی تصور نہیں بن سکتا تھا۔ اس کی محدود جگہ چین میں بھی وہی رہی جو ویدانت کی ہندوؤں میں اور تصوف کی مسلمانوں میں رہی ہے۔ چین کا ثمنی تصور : اس کے بعد وہ زمانہ آیا جب ہندوستان کے شمنی مذہب یعنی بدھ مذہب کی چین میں اشاعت ہوئی۔ یہ مہایاما بدھ مذہب تھا جو مذہب کے اصلی مبادیات سے بہت دور جا چکا تھا اور جس نے تبدل پذیری کی ایسی بے روک لچک پیدا کرلی تھی کہ جس شکل و قطع کا خانہ ملتا تھا ویسا ہی جسم بنا کر اس میں سما جاتا تھا۔ یہ جب چین، کوریا اور جاپان میں پہنچا تو اسے ہندوستان اور سیلون سے مختلف قسم کی فضا ملی اور اس نے فوراً مقامی وضع و قطع اختیار کرلی۔ بدھ مذہب کی نسبت یقین کیا جاتا ہے کہ خدا کی ہستی کے تصور سے خالی ہے۔ لیکن پیروان بدھ نے خود بدھ کو خدا کی جگہ دے دی اور اس کی پرستش کا ایک ایسا عالمگیر نظام قائم کردیا جس کی کوئی دوسری نظیر اصنامی مذاہب کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ چنانچہ چین، کوریا، اور جاپان کی عبادت گاہیں بھی اب اس نئے معبود کے بتوں سے معمور ہوگئیں۔ (سنسکرت میں "شمن" زاہد اور تارک الدنیا کو کہتے ہیں۔ بدھ مذہب کے تارک الدنیا بھکشو اس لقب سے پکارے جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ تمام پیروان بدھ کو "شمنی" کہنے لگے۔ اسی شمنی کو عربوں نے "سمنی " بنا لیا اور وسط ایشیا کے باشندوں "شامانی"۔ چنانچہ زکریا رازی، البیرونی، اور ابن الندیم وغیرہم نے بدھ مذہب کا ذکرسمنیہ ہی کے نام سے کیا ہے۔ البیرونی بدھ مذہب کی عالمگیر اشاعت کی تاریخ کی بھی خبر رکھتا تھا۔ چنانچہ کتاب الہند کی پہلی فصل میں اس طرف اشارات کیے ہیں۔ چنگیز خاں کی نسبت یہ تصریح ملتی ہے کہ وہ شامانی مذہب کا پیرو تھا۔ یعنی بدھ مذہب کا۔ چونکہ شامانی اور بدھ مذہب کا ترادف واضح نہیں ہوا تھا اس لیے انیسویں صدی کے بعض یورپی مؤرخوں کو طرح طرح کی غلط فہمیاں ہوئیں اور وہ اس کا صحیح مفہوم متعین نہ کرسکے۔ یہ غلط فہمی یورپ کے عام اہل قلم میں آج بھی موجود ہے۔ شمالی سائبیریا اور چینی ترکستان کے ہم سایہ علاوں کے تورانی قبائل اپنے مذہبی پیشواؤں کو (جو تبت کے لاماؤں کی طرح ملکی پیشوائی بھی رکھتے ہیں) شامان کہتے ہیں۔ سوویت روس کی حکومت آج کل ان کی تعلیم وتربیت کا سروسامان کر رہی ہے۔ یہ لوگ بھی بلاشبہ بدھ مذہب کے پیرو ہیں لیکن ان کا بدھ مذہب منگولیوں کے محرف مذہب کی بھی ایک مسخ شدہ صورت ہے اس لیے اصلیت کی بہت کم جھلک باقی رہ گئی ہے اور اسی لیے ان کی مذہبی اصلیت کے بارے میں آج کل کے مصنف حیرانی ظاہر کر رہے ہیں۔ انگریزی میں انہی تورانی قبائل کے مذہب کی نستب شے منزم (Shamanism) کی ترکیب رائج ہوگئی ہے اور جادگری کے اعمال و اثرات کو (Shamanic) اور (Shamanislic) وغیرہ سے تعبیر کرنے لگے ہیں۔ یہ "شمین" بھی وہی "شامانی" ہی کی ایک محرف صورت ہے چونکہ ان قبائل میں جادوگری کا اعتقاد عام ہے اور وہ اپنے شامانوں سے بیماریوں میں جادو کے ٹوٹکے کراتے ہیں اس لیے جادوگری کے لیے یہ لفظ مستعمل ہوگیا ہے۔ ) (اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ ملاحظہ ہو اگلی آیت میں) الفاتحة
6 (تفسیر آیت 3 اور 4: مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ کا بقیہ حصہ): (2)۔ ہندوستانی تصور : ہندوستان کے تصور الوہیت کی تاریخ متضاد تصوروں کا ایک حیرت انگیز منظر ہے۔ ایک طرف اس کا توحیدی فلسفہ ہے، دوسری طرف اس کا عملی مذہب ہے۔ توحیدی فلسفہ نے استغراق فکر و عمل کے نہایت گہرے اور دقیق مرحلے طے کیے اور معاملہ کو فکری بلندیوں کی ایک ایسی اونچی سطح تک پہنچا دیا جس کی کوئی دوسری مثال ہمیں قدیم قوموں کے مذہبی تصورات میں نہیں ملتی۔ عملی مذہب نے اشراک اور تعدد الہ کی بے روک راہ اختیار کی اور اصنامی تصوروں کو اتنی دور تک پھیلنے دیا کہ ہر پتھر معبود ہوگیا، ہر درخت خدائی کرنے لگا، اور ہر چوکھٹ سجدہ گاہ بن گئی۔ وہ بیک وقت زیادہ سے زیادہ بلندی کی طرف بھی ڑا اور زیادہ سے زیادہ پستی میں بھی گرا۔ اس کے خواص نے اپنے لیے توحید کی جگہ پسند کی اور عوام کے لیے اشراک اور اصنام پرستی کی راہ مناسب سمجھی۔ اوپانی شد کا توحیدی اور وحدۃ الوجودی تصور : رگ وید کے زمزموں میں ہمیں ایک طرف مظاہر قدرت کی پرستش کا ابتدائی تصور بتدریج پھیلتا اور متجسم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ دوسری طرف ایک بالاتر اور خالق کل ہستی کا توحیدی تصور بھی آہستہ آہستہ ابھرتا نظر آتا ہے۔ خصوصا دسویں حصے کے زمزموں میں تو اس کی نمود صاف صاف دکھائی دینے لگتی ہے۔ یہ توحیدی تصور کسی بہت پرانے گذشتہ عہد کے بنیادی تصور کا بقیہ تھا یا مظاہر قدرت کی کثرت آرائیوں کا تصور اب خود بکثرت سے وحدت کی طرف ارتقائی قدم اٹھانے لگا تھا؟ اس کا فیصلہ مشکل ہے لیکن بہرحال ایک ایسے قدیم عہد میں بھی جبکہ رگ وید کے تصوروں نے نظم و سخن کا جامہ پہننا شروع کیا تھا توحیدی تصور کی جھلک صاف صاف دیکھی جاسکتی ہے۔ خداؤں کا وہ ہجوم جس کی تعداد تین سو تینتیس یا اسی طرح کی ثلاثی کثرت تک پہنچ گئی تھی بالآخر تین دائروں میں سمٹنے لگا یعنی زمین، فضا، اور آسمان میں (رگ وید حصہ سوم 9۔9) اور پھر اس نے ایک رب الاربابی تصور (Henotheism) کی نوعیت پیدا کرلی (رب الاربابی تصور سے مقصود تصور کی وہ نوعیت ہے جب خیال کیا جاتا ہے کہ بہت سے خداؤں میں ایک خدا سب سے بڑا ہے اور چھوٹے خداؤں کو اس کے ماتحت رہنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ یونانیوں اور رومیوں کا عقیدہ مشتری کی نسبت تھا)۔ پھر یہ رب الاربابی تصور اور زیادہ سمٹنے لگتا ہے اور ایک سب سے بڑی اور سب پر چھائی ہوئی ہستی نمایاں ہونے لگتی ہے۔ یہ ہستی کبھی "درون" میں نظر آتی ہے، کبھی "اندر" میں اور کبھی "اگنی" میں لیکن بالآخر ایک خالق کل ہستی کا تصور پیدا ہوجاتا ہے جو "پرجایتی" (پروردگار عالم) اور "وشواکرمن" (خالق کل) کے نام سے پکاری جانے لگتی ہے اور جو تمام کائنات کی اصل و حقیقت ہے۔ "وہ ایک ہے مگر علم والے اسے مختلف ناموں سے پکارتے ہیں : اگنی، یم، ماتری شوان" (164۔46)۔ "وہ ایک نہ تو آسمان ہے نہ زمین ہے۔ نہ سورج کی روشنی ہے نہ ہوا کا طوفان ہے۔ وہ کائنات کی روح ہے۔ تمام قوتوں کا سرچشمہ۔ ہمیشگی۔ لازوالی۔ وہ کیا ہے؟ وہ شاید رٹ ہے جوہر کے روپ میں۔ ادیتی ہے روحانیت کے بھیس میں۔ وہ بغیر سانس کے سانس لینے والی ہستی" (حصہ دہم۔121۔2)۔ " ہم اسے دیکھ نہیں سکتے۔ ہم اسے پوری طرح بتلا نہیں سکتے" (ایضاً۔121)۔ "وہ ایکم ست" ہے۔ یعنی حقیقت یگانہ۔ الحق۔ یہی وحدت ہے جو کائنات کی تمام کثرت کے اندر دیکھی جاسکتی ہے۔ (رگ وید اور اوپانی شد کے مطالب کے لیے ہم نے حسب ذیل مصادر سے مدد لی ہے دی ویدک ہیمز : (Maxmuller)۔ دی ریلیجن آف دی وید : (Bloomfield)۔ دی رگ وید : (Kaeigi)۔ لیکچرز آن دی رگ وید : (Ghate)۔ دی فلاسفی آف اوپانی شد : (Deussen)۔ دی تھرٹین پرنسپل اوپانی شد : (Hume) یہی مبادیات ہیں جنہوں نے اوپانی شدوں میں توحید وجودی (Pantheism) کے تصور کی نوعیت پیدا کرلی اور پھر ویدانت کے مابعد الطبیعات (Metaphysics) نے انہی بنیادوں پر استغراق فکر و نظر کی بڑی عمارتیں تیار کردیں۔ وحدۃ الوجودی اعتقاد ذات مطلق کے کشفی مشاہدات پر مبنی تھا۔ نظری عقائد کو اس میں دخل نہ تھا۔ اس لیے اصلاً یہاں صفات آرائیوں کی گنجائش ہی نہ تھی اور اگر تھی بھی تو صرف سلبی صفات (Negative Attributes) ہی ابھر سکتی تھیں۔ ایجابی (Positive) صفات کی صورت آرائی نہیں کی جاسکتی تھی۔ یعنی یہ تو کہا جاسکتا تھا کہ وہ ایسا نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ وہ ایسا ہے اور ایسا ہے۔ کیونکہ ایجابی صفات کا جو نقشہ بھی بنایا جائے گا وہ ہمارے ذہن و فکر ہی کا بنایا ہوا نقشہ ہوگا اور ہمارا ذہن و فکر امکان و اضافت کی چار دیواری میں اس طرح مقید ہے کہ مطلق اور غیر محدود حقیقت کا تصور کر ہی نہیں سکتا۔ وہ جب تصور کرے گا تو ناگزیر ہے کہ مطلق کو مشخص بنا کر سامنے لائے، اور جب تشخص آیا تو طلاق باقی نہیں رہا۔ بابا افغانی نے دو مصرعوں کے اندر معاملہ کی پوری تصویر کھینچ دی تھی : مشکل حکایتیست کہ ہر ذرہ عین اوست۔ اما نمی تواں کہ اشارت بہ او کنند۔ یہی وجہ ہے کہ اوپانی شد نے پہلے ذات مطلق (برہمان) کو ذات مشخص (ایشور) کے مرتبہ میں اتارا اور جب اطلاق نے تشخص کا نقاب چہرہ پر ڈال لیا تو پھر اس نقاب چہرہ کی صفتوں کی نقش آرائیاں کی گئیں اور اس طرح وحدۃ الوجودی عقیدہ نے ذات مشخص و متصف (ساگون) کے تصور کا مقام بھی مہیا کردیا۔ (ہمارے صوفیائے کرام نے اسی صورت حال کو یوں تعبیر کیا ہے۔ کہ "احدیت" نے مرتبہ "واحدیت" کی تجلی میں نزول کیا۔ "احدیت" یعنی یگانہ ہونا۔ "واحدیت" یعنی اول ہونا۔ یگانہ ہستی کو ہم اول نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ اول جبھی ہوگا جب دوسرا، تیسرا اور چوتھا بھی ہو اور یگانگی بخت کے مرتبہ میں دوسرے اور تیسرے کی گنجائش ہی نہیں۔ لیکن جب "احدیت" نے "واحدیت" کے مرتبہ میں نزول کیا تو اب "اب ھوالاول" کا مرتبہ ظہور میں آگیا۔ اور جب اول ہوا تو دوسرے، تیسرے اور چوتھے کے تعینات بھی ظہور میں آنے لگے۔ وما املح قوال الشاعر العارف : دریائے کہن چو برزند موجہ نو : مش خوانند وفی الحقیقت دریاست) جب ان صفات کا ہم مطالعہ کرتے ہیں تو بلاشبہ ایک نہایت بلند تصور سامنے آجاتا ہے جس میں سلبی اور ایجابی دونوں طرح کی صفتیں اپنی پوری نموداریاں رکھتی ہیں۔ اس کی ذات یگانہ ہے۔ اس ایک کے لیے دوسرا نہیں۔ وہ بے ہمتا ہے۔ بے مثال ہے۔ ظرف و زمان اور مکان کے قیود سے بالاتر۔ ازلی وابدی۔ ناممکن الادراک۔ واجب الوجود۔ وہی پیدا کرنے والا ہے، وہی حفاظت کرنے والا، اور وہی فنا کردینے والا۔ وہ علۃ العلل اور علت مطلقہ ("اپادنا" اور "نیمتتا کارنا") ہے۔ تمام موجودات اسی سے بنیں، اسی سے قائم رہتی ہیں اور پھر اسی کی طرف لوٹنے والی ہیں۔ وہ نور ہے۔ کمال ہے حسن ہے۔ سر تا سر پاکی ہے۔ سب سے زیادہ طاقتور، سب سے زیادہ رحم و محبت والا، ساری عبادتوں اور عاشقیوں کا مقصود حقیقی ! لیکن ساتھ ہی دوسری طرف یہ حققیت بھی ہمیں صاف صاف دکھائی دیتی ہے کہ توحیدی تصور کی یہ بلندی بھی اشراک اور تعدد کی آمیزش سے خالی نہیں رہی، اور توحید فی الذات کے ساتھ توحید فی الصفات کا بے میل عقیدہ جلوہ گر نہ ہوسکا۔ زمانہ حال کے ایک قابل ہندو مصنف کے لفظوں میں دراصل اشراکی اور تعددی تصور (Polytheistic) ہندوستانی دل و دماغ میں اس درجہ جڑ پکڑ چکا تھا کہ اب اسے یک قلم اکھاڑ کے پھینک دینا آسان نہ تھا۔ اس لیے ایک یگانہ ہستی کی گلوہ طرازی کے بعد بھی دوسرے خدا نابود نہیں ہوگئے۔ البتہ اس یگانہ ہستی کا قبضہ اقتدار ان سب پر چھا گیا اور سب اس کی ماتحتی میں آگئے۔ (پروفیسراس۔ رادھا کرشناں : انڈین فلاسفی جلد اول صفحہ 144۔ طبع ثانی) اب اس طرح کی تصریحات بھی ہمیں ملنے لگتی ہیں کہ بغیر اس بالا تر ہستی (برہماں) کے "اگنی" دیبی کچھ نہیں کرسکتی " یہ اسی (برہماں) کا خوف ہے جو تمام دیوتاؤں سے ان کے فرائض منصبی انجام دلاتا ہے" (یتترا اوپانی شد) راجہ اشواپتی نے جب پانچ گھر والوں سے پوچھا۔ " تم اپنے دھیان میں کسی کی پرستش کرتے ہو؟ تو ان میں سے ہر ایک نے ایک ایک دیوتا کا نام لیا۔ اس پر اشوایتی نے کہا تم میں سے ہر نے حقیقت کے صرف ایک ہی حصہ کی پرستش کی حالانکہ وہ سب کے ملنے سے شکل پذیر ہوتی ہے۔ "اندر" اس کا سر ہے۔ "سوریہ" (سورج) اس کی آنکھیں ہیں۔ "وایو" سانس ہے۔ "آکاش" (ایتھر) جسم ہے۔ "دھرتی" (زمین) اس کا پاؤں ہے" (ایضاً) (اگر اوپانی شد کی اشراکی لچک کے دوسرے صریح شواہد موجود نہ ہوتے تو اس طرح کی تصریحات بآسانی مجازات پر محمول کی جاسکتی تھیں۔ یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اوپانی شد ایک سو آٹھ ہیں اور مختلف عہدوں میں مرتب ہوئے ہیں۔ ہر اوپانی شد اپنے عہد کے تدریجی تصورات و مباحث کے اثرات پیش کرتا ہے اور یہاں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ان نتائج پر مبنی ہے جو مجموعی حیثیت سے نکالے گئے ہیں) لیکن پھر ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ جب حقیقت کی قیومیت اور احاطہ پر زور دیا جاتا ہے تو تمام موجودات کے ساتھ دیوتاؤں کی ہستی بھی غائب ہوجاتی ہے کیونکہ تمام موجودات اسی پر موقوف ہیں۔ وہ کسی پر موقوف نہیں۔ ج"جس طرح رگھ کے پہیے کی تمام شاخیں ایک دائرہ کے اندر اپنا وجود رکھتی ہیں اسی طرح تمام چیزیں، تمام دیوتا، تمام دنیائیں اور تمام آلات اسی ایک وجود کے اندر ہیں" (برہادریناک اوپانی شد باب 2۔5)۔ یہاں وہ درخت موجود ہے جس کی جڑ اوپر کی طرف چلی گئی ہے اور شاخین نیچے کی طرف پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ برہماں ہے لافانی۔ تمام کائنات اس میں ہے۔ کوئی اس سے باہر نہیں " (تیتترا۔1۔10) یہاں ہم مصنف موصوف کے الفاظ پھر مستعار لیتے ہیں " یہ در اصل ایک سمجھوتا تھا جو چند خاص دماغوں کے فلسفیانہ تصور نے انسانی بھیڑ کے وہم پرستانہ ولولوں کے ساتھ کرلیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواص اور عوام کی فکر موافقت کی ایک آب و ہوا پیدا ہوگئی اور وہ برابر قائم رہی"۔ (ویدانت پاری جات سورابھ جلد سوم صفحہ 25۔ اس کا انگریزی ترجمہ مترجمہ ڈاکٹر رومابوس، رائل ایشیاٹک سوسائٹی بنگال نے حال میں شائع کیا ہے) آگے چل کر ویدانت کے فلسفہ نے بڑی وسعتیں اور گہرائیاں پیدا کیں لیکن خواص کے توحیدی تصور میں عوام کے اشراکی تصور سے مفاہمت کا جو میلان پیدا ہوگیا تھا وہ متزلزل نہ ہوسکا۔ بلکہ اور زیادہ مضبوط اور وسیع ہوتا گیا۔ یہ بات عام طور پر تسلیم کرلی گئی کہ سالک جب عرفان حقیقت کی منزلیں طے کرلیتا ہے تو پھر ماسوی کی تمام ہستیاں معدوم ہوجاتی ہیں اور ماسوی میں دیوتاؤں کی ہستیاں بھی داخل ہیں۔ گویا دیوتاؤں کی ہستیاں مظاہرہ وجود کی ابتدائی تعینات ہوئیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بنیاد بھی برابر قائم رکھی گئی کہ جب تک اس آخری مقام عرفان تک رسائی حاصل نہ ہوجائے دیوتاؤں کی پرستش کے بغیر چارہ نہیں اور ان کی پرستش کا جو نظام قائم ہوگیا ہے اسے چھیڑنا نہیں چاہیے۔ اس طرح گویا ایک طرح کے توحیدی، اشراکی تصور (Monotheistic-Polytheism) کا مخلوط مزاج پیدا ہوگیا جو بیک وقت فکر و نظر کا توحیدی تقاضا بھی پورا کرنا چاہتا تھا اور ساتھ ہی اصنامی عقائد کا نظام عمل بھی سنبھالے رکھنا چاہتا تھا۔ ویدانت کے بعض مذہبوں میں تو یہ مخلوط نوعیت بنیادی تصوروں تک سرایت کرگئی۔ مثلاً نیمبارک اور اس کا شاگرد سری نواس برہم سوتر کی شرح کرتے ہوئے ہمیں بتلاتے ہیں کہ "اگرچہ برہام یا کرشن کی طرح کوئی نہیں مگر اس سے ظہور میں آئی ہوئی دوسری قوتیں بھی ہیں جو اس کے ساتھ اپنی نمود رکھتی ہیں اسی طرح کی کارفرمائی میں شریک ہیں۔ چنانچہ کرشن کے بائیں طرف رادھا ہے۔ یہ بخشش و نوال کی ہستی ہے۔ تمام نتائج و ثمرات بخشنے والی۔ ہمیں چہایے کہ برہما کے ساتھ رادھا کی بھی پرستش کریں۔ اس موقع پر یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ فطرت کائنات کے جن قوائے مدبرہ کو سامی تصور نے "ملاک : اور "ملائکہ" سے تعبیر کیا تھا، اسی کو آریائی تصور نے "ویو" اور "یزتا" سے تعبیر کیا۔ یونانیوں کا ج"تھیوس" رومیوں کا ڈے یوس (Deus) پارسیوں کا "یزتا" (یزداں) سب کے اندر وہی ایک بنیادی مادہ اور وہی ایک بنیادی تصور کرم کرتا رہا۔ سنسکرت میں "ویو" ایک لچکدار لفظ ہے جو متعدد معنوں میں مستعمل ہوا ہے لیکن جب مافوق الفطرت ہستیوں کے لیے بولا جاتا ہے تو اس کے معنی ایک ایسی غیر مادی اور روحانی ہستی کے ہوجاتے ہیں جو اپنے وجود میں روشن اور درخشاں ہو۔ سامی ادیان نے ان روحانی ہستیوں کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں دیکھی کہ وہ خدا کی پیدا کی ہوئی کارکن ہستیاں ہیں َ لیکن آریائی تصور نے ان میں تدبیر و تصرف کی بالاستقلال طاقتیں دیکھیں اور جب توحیدی تصوری کے قیام سے وہ استقلال باقی نہیں رہا تو توسل اور تزلف کا درمیانی مقام انہوں نے پیدا کرلیا۔ یعنی اگرچہ وہ خود خدا نہیں ہیں لیکن خدا تک پہنچنے کے لیے ان کی پرستش ضروری ہوئی۔ ایک پرستار کی پرستش اگرچہ ہوگی معبود حقیقی کے لیے مگر ہوگی انہی کے آستانوں پر۔ ہم براہ راست خدا کے آستانے تک پہنچ نہیں سکتے ہمیں پہلے دیوتاؤں کے آستانوں کا وسیلہ پکڑنا چاہیے۔ در اصل یہی توسل و تزلف کا عقیدہ جس نے ہر جگہ توحیدی اعتقاد و عمل کی تکمیل میں خلل ڈالا۔ ورنہ ایک خدا کی یگانگی اور بالاتری سے تو کسی کو بھی انکار نہ تھا۔ عرب جاہلیت کے بت پرستوں کا بھی یہی عقیدہ قرآن نے نقل کیا ہے کہ (ما نعبدھم الا لقربونا الی اللہ زلفی) (39۔3) بہرحال شرک فی الصفات اور شرک فی العبادت کا یہی وہ عنصری مادہ تھا جس نے ہندوستان کے عملی مذہب کو سرتاسر اشراک اور اصنام پرستی کے عقائد سے معمور کردیا اور بالآخر یہ صورت حال اس درجہ گہری اور عام ہوگئی کہ جب تک ایک سراغ رساں جستجو اور تفحص کی دور دراز مسافتیں طے نہ کرلے ہندو عقیدہ کے توحیدی تصور کا کوئی نشان نہیں پاسکتا۔ توحیدی تصور نے یہاں ایک ایسے رازز کی نوعیت پیدا کرلی جس تک صرف خاص خاص عارفوں ہی کی رسائی ہوسکتی ہے۔ ہم اس کا سراغ پہاڑوں کے غاروں میں پا سکتے ہیں لیکن کوچہ و بازار میں نہیں پاسکتے۔ گیارھویں صدی مسیحی میں جب ابوریحان البیرونی ہندوستان کے علوم و عقائد کے سراغ میں نکلا تھا تو یہ متضاد صورت حال دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔ سولہویں صدی میں ویسی ہی حیرانی ابوالفضل کو پیش آئی، اور پھر اٹھارہویں صدی میں سر ولیم جونس کو۔ بہترین معذرت جو اس صورت حال کی کی جاسکتی ہے وہ وہی ہے جس کا اشارہ گیتا کے شہرۂ آفاق ترانوں میں ہمیں ملتا ہے اور جس نے البیرونی کے فلسفیانہ دماغ کو بھی اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا۔ یعنی یہاں پہلے دن سے عقائد و عمل کی مختلف راہیں مصلحتاً کھلی رکھی گئیں تاکہ خواص اور عوام دونوں کی فہم و استعداد کی رعایت ملحوظ رہے۔ توحیدی تصور خواص کے لیے تھا کیونکہ وہی اس بلند مقام کے متحمل ہوسکتے تھے۔ اصنامی تصور عوام کے لیے تھا کیونکہ ان کی طفلانہ عقول کے لیے یہی راہ موزوں تھی۔ اور پھر چونکہ خواص بھی جمعیت و معاشرت کے عام ضبط و نظم سے باہر نہیں رہ سکتے، اس لیے عملی زندگی میں انہیں بھی اصنام پرستی کے تقاضے پورے کرنے ہی پڑتے تھے۔ اور اس طرح ہندو زندگی کی بیرونی وضع و قطع بلا استثنا اشراک اور اصنام پرستی ہی کی رہتی آئی۔ البیرونی نے حکمائے یونان کے اقوال نقل کر کے دکھایا ہے کہ اس بارے میں ہندوستان اور یونان دونوں کا حال ایک ہی طرح کا رہا۔ پھر گیتا کا یہ قول نقل کیا ہے کہ "بہت سے لوگ مجھ تک (یعنی خدا تک) اس طرح پہنچنا چاہتے ہیں کہ میرے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہیں لیکن میں ان کی مرادیں بھی پوری کردیتا ہوں۔ کیونکہ میں ان سے اور ان کی عبادت سے بے نیاز ہوں" (البیرونی نے کتاب الہند ص 59 میں بعض سنسکرت کتابوں سے بتوں کے بنانے کے احکام و قواعد نقل کیے ہیں َ اس کے بعد لکھتا ہے وکان الفرض فی حکایۃ ھذا الھذیان ان تعرف الصورۃ من صنمہا اذا شوھد، ولیتحقق ما قلنا من ان ھذہ الصنام للعوام الذین سفلت مراتبہم وقصرت معارفہم، فما عمل صنم قط باسلم من علا المادۃ فضلا عن اللہ تعالیٰ ولیعرف کیف بعید السف بالتمویھات، وکذلک قیل فی کتاب گیتا ان کثیرا من الناس یتقربون می مباغیہم الی بغیری، یتوسلون بالصدقات والتسیح والصلوۃ لسوای فاقویہم علیہا، واوفقہم لہا، واوصلہم الی ارادتہم لا استغنائی عنہم۔ آج کل کے تمام ہندو اہل نظر جو ہندو عقائد و تصورات کی فلسفیانہ تعبیر کرنی چاہتے ہیں عموما یہی توجیہ پیش کرتے ہیں جو الیبرونی نے پیش کی تھی۔ ابوالفضل اور دارا شکوہ نے بھی یہی خیال ظاہر کیا ہے)۔ بے محل نہ ہوگا اگر اس موقع پر زمانہ حال کے ایک ہندو مصنف کی رائے پر بھی نظر ڈال لی جائے۔ گوتم بدھ کے ظہور سے پہلے ہندو مذہب کے تصور الوہیت نے جو عام و شکل و صورت پیدا کرلی تھی اس پر بحث کرتے ہوئے یہ قابل مصنف لکھتا ہے : "گوتم بدھ کے عہد میں جو مذہب ملک پر چھایا ہوا تھا اس کے نمایاں خط و خال یہ تھے کہ لین دین کا ایک سودا تھا جو خدا اور انسانوں کے درمیان ٹھہر گیا تھا۔ جب کہ ایک طرف اوپانی شد کا برہماں تھا جو ذات الوہیت کا ایک اعلی اور شائستہ تصور پیش کرتا تھا تو دوسری طرف ان گنت خداؤں کا ہجوم تھا جن کے لیے کوئی حد بندی نہیں ٹھہرائی جاسکتی تھی۔ آسمان کے سیارے، مادہ کے عناصر، زمین کے درخت، جنگل کے حیوان، پہاڑوں کی چٹانیں، دریاؤں کی جدولیں، غرض کہ موجودات خلقت کی کوئی قسم ایسی نہ تھی جو خدائی حکومت میں شریک نہ کرلی گئی ہو۔ گویا ایک بے لگام اور خود رو تخیل کو پروانہ مل گیا تھا کہ دنیا کی جتنی چیزوں خدائی مسند پر بٹھا سکتا ہے بے روک ٹوک بٹھاتا رہے۔ پھر جیسے خداؤں کی یہ بے شمار بھیڑیں بھی اس کے ذوق خدا سازیکے لیے کافی نہ ہوئی ہوں۔ طرح طرح کے عفریتوں اور عجیب الخلقت جسموں کی متخیلہ صورتوں کا بھی ان پر اضافہ ہوتا رہا۔ اس میں شبہ نہیں کہ اوپانی شدوں نے فکر و نظر کی دنیا میں ان متخیلہ صورتوں کا بھی ان پر اضافہ ہوتا رہا۔ اس میں شبہ نہیں کہ اوپانی شدوں نے فکر و نظر کی دنیا میں ان خداؤں کی سلطانی برہم کردی تھی۔ لیکن عمل کی زندگی میں انہیں نہیں چھیڑا گیا۔ وہ بدستور اپنی خدائی مسندوں پر جمے رہے" (پروفیسراس۔ رادھا کرشناں۔ انڈین فلاسفی جلد اول صفحہ 453۔ طبع ثانی) شمنی مذہب اور اس کے تصورات : قدیم برہمنی مذہب کے بعدشمنی مذہب (یعنی بدھ مذہب) کا ظہور ہوا۔ اسلام کے ظہور سے پہلے ہندوستان کا عام مذہب یہی تھا۔ شمنی مذہب کی اعتقادی مبادیات کی مختلف تفسیریں کی گئی ہیں۔ انیسویں صدی کے مستشرقوں کے ایک گروہ نے اسے اوپانی شدوں کی تعلیم ہی کا ایک عملی استغراق قرار دیا تھا اور خیال کیا تھا کہ "نروان" میں جذب و انفصال کی روحانی اصل پوشیدہ ہے۔ یعنی جس سرچشمہ سے انسانی ہستی نکلی ہے۔ پھر اسی میں واصل ہوجانا "نروان" یعنی نجات کامل ہے۔ لیکن اب عام طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے کہ شمنی مذہب خدا اور روح کی ہستی کا کوئی تصور نہیں رکھتا۔ اس کا دائرہ اعتقاد و عمل صرف زندگی کی سعادت اور نجات کے مسئلہ میں محدود ہے۔ وہ صرف پر کرتی یعنی مادہ ازلی کا حوالہ دیتا ہے جسے کائناتی طبیعت حرکت میں لاتی ہے۔ "نرون" سے مقصود یہ ہے کہ ہستی کی انانیت فنا ہوجائے اور زندگی کے چکر سے نجات مل جائے۔ اس میں شک نہیں کہ جہاں تک مابعد زمانے کے شمنی مکروں کی تصریحات کا تعلق ہے یہی تفسیر صحیح معلوم ہوتی ہے۔ اگر ان کا ایک گروہ لا ادریت (Agnosticism) تک پہنچ کر رک گیا ہے تو دوسرا گروہ اس سے بھی آگے نکل گیا ہے اور مدعیانہ انکار کی راہ اختیار کی ہے۔ موکشا آکر گپتا نے "ترک بھاشا" میں ان تمام دلائل کا رد کیا۔ (یہ قدیم کتاب جس کا صرف تبتی نسخہ دنیا کے علم میں آیا تھا اب اصل سنسکرت میں نکل آئی ہے اور گائیکواڑ اور ینٹیل سیریز کے ادارے نے حال میں شائع کردی ہے۔ میسور کا مشرقی کتب خانہ بھی اس کا ایک دوسرا نسخہ اشاعت کے لیے مرتب کررہا ہے۔) جونیائے اور ویشییسک طریق نظر کے نظار خدا کی ہستی کے اثبات میں پیش کرتے تھے ("نیائے" یعنی منطق "ویشیسک" طریق نظر سے مقصود منطقی نقد و تحلیل کا ایک خاص مسلک ہے، گوتم بدھ کی تعلیم میں "اشٹانگ مارگ" یعنی آٹھ باتوں کا طریقہ ایک بنیادی اصل ہے۔ آٹھ باتوں سے مقصود علم و عمل کا تزکیہ و طہارت ہے۔ علم حق، رحم و شفقت، قربابنی، ہوا و ہوس سے آزادی خودی کو مٹانا وغیرہ)۔ تاہم یہ بات بھی قطعی طور پر نہیں کہی جاسکتی کہ خود گوتم بدھ کا سکوت و توقف بھی انکار ہی پر مبنی تھا۔ اس کے سکوتی تحفظات متعدد مسئلوں میں ثابت ہیں اور اس کے متعدد محمل قرار دیے جاسکتے ہیں۔ اگر ان تمام اقوال پر جو براہ راست اس کی طرف منسوب ہیں غور کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا مسلک نفی ذات کا نہ تھا۔ نفی صفات کا تھا۔ اور نفی صفات کا مقام ایسا ہے کہ انسانی فکر و زبان کی تمام تعبیرات معطل ہوجاتی ہیں اور سکوت کے سوا چارہ کار باقی نہیں رہتا۔ علاوہ بریں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس کے ظہور کے وقت اصنامی خدا پرستی کے مفاسد بہت گہرے ہوچکے تھے اور اصنامی خدا پرستی بجائے خود راہ حقیقت کی سب سے بڑی روک بن گئی تھی۔ اس نے اس روک سے راستہ صاف کردینا چاہا اور تمام توجہ زندگی کی عملی سعادت کے مسئلہ پر مرکوز کردی۔ اس صورت حال کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ برہمنی خدا پرستی کے عقائد سے انکار کیا جائے اور اس پر زور دیا جائے کہ نجات کی راہ ان معبودوں کی پرستش میں نہیں ہے بلکہ علم حق اور عمل حق میں ہے۔ یعنی "اشٹانگ مارگ" میں ہے۔ آگے چل کر اس اصنافی انکار نے مطلق انکار کی شکل پیدا کرلی اور پھر برہمنی مذہب کی مخالفت کے غلو نے معاملہ کو دور تک پہنچا دیا۔ (میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ میرا ذاتی استنباط ہے اور مجھے حق نہیں کہ اپنی رائے کو وثوق کے ساتھ ان محققوں کے مقابلہ میں پیش کروں جنہوں نے اس موضوع کے مطالعہ میں زندگیاں بسر کردی ہیں۔ تاہم میں مجبور ہوں کہ اپنی محدود و معلومات کی روشنی میں جن نتائج تک پہنچا ہوں ان سے دست بردار نہ ہوں۔ یورپ کے محققوں نے بدھ مذہب کے مصادر کی جستجو و فراہمی میں بڑی کدوکاوش کی ہے اور پالی زبان کے تمام اہم مصادر فرنچ یا انگریزی میں منتقل کرلیے ہیں۔ میں نے حتی الامکان اس تمام مواد کے مطالعہ کی کوشش کی اور بالآخر اسی نتیجہ تک پہنچا) بہرحال خود گوتم بدھ اور اس کی تعلیم کے شارحوں کی تصریحات اس بارے میں کچھ ہی رہی ہوں مگر یہ واقعہ ہے کہ اس کے پیرووں نے خدا کے تصور کی خالی مسند بہت جلد بھر دی۔ انہوں نے اس مسند کو خالی دیکھا تو خود گوتم بدھ کو وہاں لا کر بٹھا دیا اور پھر اس نئے معبود کی پرستش اس جوش و خروش کے ساتھ شروع کردی کہ آدھی سے زیادہ دنیا اس کے بتوں سے معمور ہوگئی ! آوارہ غربت نہ تواں دید صنم را۔ وقتست کہ دگر بتکدہ سازند حرم را ! گوتم بدھ کی وفات پر ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا تھا کہ پیروان بدھ کی اکثریت نے اس کی شخصیت کو عام انسانی سطح سے بالاتر دیکھنا شروع کردیا تھا اور اس کے آثار و تبرکات کی پرستش کا میلان بڑھنے لگا تھا۔ اس کی وفات کے کچھ عرصہ بعد جب مذہب کی پہلی مجلس اعظم راج گیری میں منعقد ہوئی اور اس کے شاگرد خاص آنند نے اس کی آخری وصایا بیان کیں تو بیان کیا جاتا ہے کہ لوگ اس کی روایت پر مطمئن نہ ہوئے اور اس کے مخالف ہوگئے کیونکہ اس کی روایتوں میں انہیں وہ ماورائے انسانیت عظمت نظر نہیں آئی جسے اب ان کی طبیعت ڈھونڈنے لگی تھی۔ تقریباً سو برس بعد جب دوسری مجلس ویسالی (مظفر پورحالی) میں منعقد ہوئی تو اب مذہب کی بنیادی سادگی اپنی جگہ کھوچکی تھی اور اس کی جگہ نئے نئے تصوروں اور مخلوط عقیدوں نے لے لی تھی۔ اب مسیحی مذہب کے اقانیم ثلاثہ کی طرح جو پانچ سو برس بعد ظہور میں آنے والا تھا ایک شمنی اقانیم کا عقیدہ بدھ کی شخصیت کے گرد ہالے کی طرح چمکنے لگا اور عام انسانی سطح سے وہ ماورا تسلیم کرلی گئی۔ یعنی بدھ کی ایک شخصیت کے اندر تین وجودوں کی نمود ہوگئی۔ اس کی تلعیم کی شخصیت، اس کے دنیاوی وجود کی شخصیت اور اس کے حقیقی وجود کی شخصیت۔ یہ آخری شخصیت لوگ (بہشت) میں رہتی ہے۔ دنیا میں جب کبھی بدھ کا ظہور ہوتا ہے تو یہ اس حقیقی وجود کا ایک پرتو ہوتا ہے۔ نجات پانے کے معنی یہ ہوئے کہ آدمی حقیقی بدھ کے اسی ماورائے عالم مسکن میں پہنچ جائے۔ پہلی صدی مسیحی میں بعہد کوشان جب چوتھی مجلس برشاور (پشاور حالی) میں منعقد ہوئی تو اب بنیادی مذہب کی جگہ ایک طرح کا کلیسائی مذہب قائم ہوچکا تھا اور بدھ کے اشٹانگ مارگ (طریق ثمانیہ) کی عملی روح طرح طرح کی رسوم پرستیوں اور قواعد آرائیوں میں معدوم ہوچکی تھی۔ بالآخر پیروان بدھ دو بڑے فرقوں میں بٹ گئے۔ "ہینیان" اور "مہایان" پہلا فرقہ بدھ کی شخصیت میں ایک رہنما اور معلم کی انسانی شخصیت دیکھنا چاہتا تاھ لیکن دوسرے نے اسے پوری طرح ماورائے انسانیت کی ربانی سطح پر متمکن کردیا تھا اور پیروان بدھ کی عام راہ وہی ہوگئی تھی۔ افغانستان، بامیان، وسط ایشیا، چین، کوریا، جاپان اور تبت سب میں مہایان مذہب ہی کی تبلیغ و اشاعت ہوئی۔ چینی سیاح فاہین جب چوتھی صدی مسیح میں ہندوستان آیا تھا تو اس نے پورب کے ہینیان شمنیوں سے مباحثہ کیا تھا اور مہایان طریقہ کی صداقت کے دلائل پیش کیے تھے۔ موجودہ زمانے میں سیلون کے سوا جہاں ہینیان طریقے کا ایک محرف بقیہ "تھیراواد" کے نام سے پایا جاتا ہے تمام پیروان بدھ کا مذہب مہایان ہے۔ موجودہ زمانے کے بعض محققین شمنیہ کا خیال ہے کہ اشوک کے زمانہ تک بدھ مذہب میں بت پرستی کا عام رواج نہیں ہوا تھا۔ کیونکہ اس عہد تک کے جو بدھ آثار ملتے ہیں ان میں بدھ کی شخصیت کسی بت کے ذریعہ نہیں بلکہ صرف ایک کنول کے پھول یا ایک خالی کرسی کی شکل میں دکھائی گئی ہے۔ پھر کنول اور خالی کرسی کی جگہ دو قدم نمودار ہونے لگے اور پھر بتدریج قدموں کی جگہ خود بدھ کا پورا مجسمہ نمودار ہوگیا۔ اگر یہ استنباط صحیح تسلیم کرلیا جائے جب بھی ماننا پڑے گا کہ اشوک کے زمانے کے بعد سے بدھ کے بتوں کی عام پرستش جاری ہوگئی تھی۔ اشوک کا عہد 250 قبل از مسیح تھا۔ (3)۔ ایرانی مجوسی تصور : زردشت کے ظہور سے پہلے مادا (میڈیا) اور پارس میں ایک قدیم ایریانی طریق پرستش رائج تھا۔ ("ایرایان" وہی لفظ ہے جو ہندوستان میں "آریا" ہوگیا۔ اوستا میں چوبیس ملکوں کی پیدائش کا ذکر کیا گیا ہے جس میں سب سے پہلا اور سب سے بہتر "ایریاناویچ" ہے اور غالباً اس سے شمارلی ایران مقصود ہے (ویندیداد۔ فرگرداول۔ فقرہ 2) ہر مزدیشت کے فقرہ 21 میں "ایریاناویچ" کا ذکر کیا ہے اور اس پر درود بھیجا ہے۔ "ویچ" جرمن مستشرق اسپیگل کی قراءت ہے۔ آنک تیل نے اسے "ویگو" پڑھا تھا۔ "ویچ" یا "ویگو" کے معنی پہلو میں مبارک کے ہیں۔ یعنی مبارک ایریانی کی سرزمین)۔ ہندوستان کے ویدوں میں دیوتاؤں کی پرستش اور قربانیوں کے اعمال و رسوم جس طرح کے پائے جاتے ہیں قریب قریب ویسے ہی عقائد و رسوم پارس اور ماد میں بھی پھیلے ہوئے تھے۔ دیوتائی طاقتوں کو ان کے دو بڑے مظہروں میں تقسیم کردیا تھا۔ ایک طاقت روشن ہستیوں کی تھی جو انسان کو زندگی کی تمام خوشیاں بخشتی تھی۔ دوسری برائی کے تاریک عفریتوں کی تھی جو ہر طرح کی مصیبتوں اور ہلاکتوں کا سرچشمہ تھی۔ آگ کی پرستش کے لیے قربان گاہیں بنائی جاتی تھیں اور ان کے پجاریوں کو "موگوش" کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اوستا کے گاتھا میں انہٰں "کارپان" اور "کاوی" کے نام سے بھی پکارا گیا ہے۔ آگے چل کر اسی "موگوش" نے آتش پرستی کا مفہوم پیدا کرلیا اور غیرقو میں ایرانیوں کو "مگ" اور "مگوش" کے نام سے پکارنے لگیں۔ عربوں نے اسی "موگوش" کا 'مجوس" کردیا۔ مزدیسنا : زردشت کا جب ظہور ہوا تو اس نے ایرانیوں کو ان قدیم عقائد سے نجات دلائی اور "مزدیسنا" کی تعلیم دی۔ یعنی دیوتاؤں کی جگہ ایک خدائے واحد "اہورا مزد" کی پرستش کی۔ یہ اہورا مزدیگانہ ہے، بے ہمتا ہے، بے مثال ہے، نور ہے، پاکی ہے، سرتاسر حکمت اور خیر ہے، اور تمام کائنات کا خالق ہے۔ اس نے انسان کے لیے دو عالم بنائے ایک عالم دنیوی زندگی کا ہے دوسرا مرنے کے بعد کی زندگی کا۔ مرنے کے بعد جسم فنا ہوجاتا ہے مگر روح باقی رہتی ہے اور اپنے اعمال کے مطابق جزا پاتی ہے۔ دیوتاؤں کی جگہ اس نے "امش سپدن" اور "یزتا" کا تصور پیدا کیا۔ یعنی فرشتوں کا، یہ فرشتے اہورا مزد کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں۔ برائی اور تاریکی کی طاقتوں کی جگہ" انگرا مے نیوش" کی ہستی کی خبر دی۔ یعنی شیطان کی۔ یہی "انگرامے نیوش" پازند کی زبان میں "اہرمن" ہوگیا۔ زردشت کی تعلیم میں ہندوستانی آریاؤں کے ویدی عقائد کا رد صاف صاف نمایاں ہے۔ ایک ہی نام ایران اور ہندوستان دونوں جگہ ابھرتا ہے اور متضاد معنی پیدا کرلیتا ہے۔ اوِستا کا "اہورا" سام اور یجروید میں "اسورا" ہے اور اگرچہ رگ وید میں اس کا اطلاق اچھے معنوں پر ہوا تھا مگر اب وہ برائی کی شیطانی روح بن گیا ہے۔ ویدوں کا "اندرا" اوستا کا "انگرا" ہوگیا۔ ویدوں میں وہ آسمان کا خدا تھا۔ اوستا میں زمین کا شیطان ہے۔ ہندوستان اور یورپ میں "دیو" اور "ڈے یوس" اور "تھیوس" خدا کے لیے بولا گیا ہے لیکن ایران میں "دیو" کے معنی عفریتوں کے ہوگئے۔ گویا دونوں عقیدے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔ ایک کا خدا دوسرے کا شیطان ہوجاتا تھا اور دوسرے کا شیطان پہلے کے لیے خدا کا کام دیتا تھا۔ اسی طرح ہندوستان میں "یم" موت کی طاقت ہے۔ اوستا کی روایتوں میں "یم" زندگی اور انسانیت کی سب سے بڑی نمود ہوئی اور پھر یہی "جم" "جم" ہو کر جمشید ہوگیا۔ فسانہا کہ ببازیچہ روزگار سرود کنوں بہ مسند جمشید و تاج کے بستند لیکن معلوم ہوتا ہے کہ چند صدیوں کے بعد ایران کے قدیم تصورات اور بیرونی اثرات پھر غالب آگئے اور ساسانی عہد میں جب "مزدیسنا" کی تعلیم کی ازسر نو تدوین ہوئی تو یہ قدیم مجوسی، یونانی اور زردشتی عقائد کا ایک مخلوط مرکب تھا اور اس کا بیرونی رنگ و روغن تو تمام تر مجوسی تصور ہی نے فراہم کیا تھا اسلام کا جب ظہور ہوا تو یہی مخلوط تصور ایران کا قومی مذہبی تصور تھا۔ مغربی ہند کے پارسی مہاجر یہی تصور اپنے ساتھ ہندوستان لائے اور پھر یہاں کے مقامی اثرات کی ایک تہہ اس پر اور چڑھ گئی۔ مجوسی تصور کی بنیاد ثنویت (Dualism) کے عقیدہ پر تھی۔ یعنی خیر اور شر کی دو الگ الگ قوتیں ہیں۔ اہورا مزد جو کچھ کرتا ہے خیر اور روشنی ہے۔ انگرامے نیوش یعنی اہرمن جو کچھ کرتا ہے شر اور تاریکی ہے۔ عبادت کی بنیاد سورج اور آگ کی پرستش پر رکھی گئی کہ روشنی یزدانی صفات کی سب سے بڑی مظہر ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ مجوسی تصور نے خیر اور شر کی گتھی یوں سلجھانی چاہی کہ کارخانہ ہستی کی سربراہی دو متقابل اور متعارض قوتوں میں تقسیم کردی۔ (4)۔ یہودی تصور : یہودی تصور ابتدا میں ایک محدود نسلی تصور تھا۔ یعنی کتاب پیدائش کا یہودا خاندان اسرائیل کے نسلی خدا کی حیثیت سے نمایاں ہوا تھا۔ لیکن پھر یہ تصور بتدریج وسیع ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ یشعیا دوم کے صحیفہ میں تمام قوموں کا خدا اور تمام قوموں کا ہیکل نمایاں ہوگیا۔ تاہم اسرائیلی خدا کا نسلی اختصاص کسی نہ کسی شکل میں برابر کام کرتا ہی رہا اور ظہور اسلام کے وقت اس کے نمایاں خال و خط نسل اور جغرافیہ ہی کے خال و خط تھے۔ (عہد عتیق میں یشعیا نبی کی طرف جو کتاب منسوب ہے اس کی زبان اور مطالب کا آیت 51 تک ایک خاص انداز ہے اور پھر اس کے بعد بالکل دوسرا ہوجاتا ہے۔ ابتدائی حصہ ایک ایسے شخص کا کلام معلوم ہوتا ہے جو قید بابل سے پہلے تھا۔ لیکن بعد کے قصہ میں قید بابل کے زمانے کے اثرات صاف صاف نمایاں ہیں۔ اس لیے انیسویں صدی کے نقادوں نے اسے دو شخصوں کے کلام میں تقسیم کردیا۔ ایک کو یشعیا اول اور دوسرے کو دوم سے تعبیر کرتے ہیں) تجسم اور تنزیہہ کے اعتبار سے وہ ایک درمیانی درجہ رکھتا تھا اور اس میں غالب عنصر قہر و غضب اور انتقام و تعذیب کا تھا۔ خدا کا بار بار متشکل ہو کر نمودار ہونا، مخاطبات کا تمام تر انسانی اوصاف و جذبات سے آلودہ ہونا، قہر و انتقام کی شدت اور ابتدائی درجہ کا تمثیلی اسلوب، تورات کے صحیفوں کا عام تصور ہے۔ خدا کا انسان سے رشتہ اس نوعیت کا رشتہ ہوا جیسے ایک شوہر کا اپنی بیوی سے ہوتا ہے۔ شوہر نہایت غیور ہوتا ہے۔ وہ اپنی بیوی کی ساری خطائیں معاف کردے گا لیکن یہ جرم معاف نہیں کرے گا کہ اس کی محبت میں کسی دوسرے مرد کو بھی شریک کرے۔ اسی طرح خاندان اسرائیل کا خدا بھی بہت غیور ہے اس نے اسرائیل کے گھرانے کو اپنی چہیتی بیوی بنایا اور چونکہ چہیتی بیوی بنایا اس لیے خاندان اسرائیل کی بے وفائی اور غیر قوموں سے آشنائی اس پر بہت ہی شاق گزرتی ہے۔ اور ضروری ہے کہ وہ اس جرم کے بدلے سخت سزائیں دے۔ چنانچہ احکام عشرہ (Ten Commandments) میں ایک حکم یہ بھی تھا "تو کسی چیز کی صورت نہ بنائیو اور نہ اس کے آگے جھکیو۔ کیونکہ میں خداوند تیرا خدا رشک کرنے والا ایک بہت ہی غیور خدا ہوں" (خروج۔ 21) شوہر کے رشتہ کی یہ تمثیل جو مصر سے خروج کے بعد متشکل ہونا شروع ہوگئی تھی آخر عہد تک کم و بیش قائم رہی۔ یہودیوں کی ہر گمراہی پر خدا کے غضب کا اظہار ایک غضبناک شوہر کا پرجوش اظہار ہوتا ہے جو اپنی چہیتی بیوی کو اس کی ایک ایک بے وفائی یاد دلا رہا ہو۔ یہ اسلوب تمثیل بظاہر کتنا ہی مؤثر اور شاعرانہ دکھائی دیتا ہو لیکن اس میں شک نہیں کہ خدا کے تصور کے لیے ایک ابتدائی درجہ کا غیر ترقی یافتہ تصور تھا۔ (5)۔ مسیحی تصور : لیکن یشعیا دوم کے زمانے سے اس صورت حال میں تبدیلی شروع ہوئی اور یہودی تصور میں بیک وقت وسعت اور لطافت دونوں طرح کے عناصر نمایاں ہونے لگے۔ گویا اب ایک نئی تصوری فضا کے لیے زمانے کا مزاج تیار ہونے لگا تھا۔ چنانچہ مسیحیت آئی تو رحم و محبت اور عفو و بخشش کا ایک نیا تصور لے کر آئی۔ اب خدا کا تصور نہ تو جابر بادشاہ کی طرح قہر آلود تھا۔ نہ رشک و غیرت میں ڈوبے ہوئے شوہر کی طرح سخت گیر تھا بلکہ باپ کی محبت و شفقت کی مثال نمایاں کرتا تھا اور اس میں شک نہیں کہ یہودی تصور کی شدت و غلظت کے مقابلے میں رحم و محبت کی رقت کا یہ ایک انقلابی تصور تھا۔ انسانی زندگی کے سارے رشتوں میں ماں اور باپ کا رشتہ سب سے بلند تر رشتہ ہے اس میں شوہر کے رشتہ کی طرح جذبوں اور خواہشوں کی غرضوں کو دخل نہیں ہوتا۔ یہ سرتا سر رحم و شفقت اور پرورش و چارہ سازی ہوتی ہے۔ اولاد بار بار قصور کرے گی لیکن ماں کی محبت پھر بھی گردن نہیں موڑے گی اور باپ کی شفقت پھر بھی معافی سے انکار نہیں کرے گی۔ پس اگر خدا کے تصور کے لیے انسانی رشتوں کی مشابہتوں سے کام لیے بغیر چارہ نہ ہو تو بلاشبہ شوہر کی تمثیل کے مقابلہ میں باپ کی تمثیل کہیں زیادہ شائستہ اور ترقی یافتہ تمثیل ہے۔ (اسی لیے ہندو تصور نے ماں کی تشبیہ سے کام لیا کیونکہ ماں کی تشبیہ میں اگرچہ نسائیت آجاتی ہے لیکن تشبیہ باپ سے بھی زیادہ پر اثر ہوجاتی ہے۔ باپ کی شفقت کبھی کبھی جواب دے دے گی لیکن ماں کی محبت کی گہرائیوں کے لیے کوئی اتھاہ نہیں) تجسم اور تنزہ کے لحاظ سے مسیحی تصور کی سطح اصلاً وہی تھی جہاں تک یہودی تصور پہنچ چکا تھا مگر جب مسیحی عقائد کا ردی اصنام پرستی کے تصوروں سے امتزاج ہو تو اقانیم ثلاثہ، کفارہ اور مسیح پرستی کے تصورات چھا گئے اور اسکندریہ کے فلسفہ آمیز اصنامی تصور سراپیز (Serapis) نے مسیحی اصنامی تصور کی شکل اختیار کرلی۔ اب مسیحت کو بت پرستوں کی بت پرستی سے تو انکار تھا لیکن خود اپنی بت پرستی پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ میڈونا کے قدیم بت کی جگہ اب ایک نئی مسیحی میڈونا کا بت تیار ہوگیا۔ یہ خدا کے فرزند کو گود میں لیے ہوئے تھی اور ہر راسخ الاعتقاد مسیحی کی جبین نیاز کا سجدہ طلب کرتی تھی ! غرض کہ قرآن کا جب نزول ہوا تو مسیحی تصور رحم و محبت کی پدری تمثیل کے ساتھ اقانیم ثلاثہ، کفارہ، اور تجسم کا ایک مخلوط اشراکی۔ توحیدی تصور تھا۔ (6)۔ فلاسفہ یونان واسکندریہ کا تصور : ان تصوروں کے علاوہ ایک تصور فلاسفہ یونان کا بھی ہے جو اگرچہ مذاہب کے تصوروں کی طرح اقوام عالم کا تصور نہ ہوسکا تاہم انسان کی فکری نشوونما کی تاریخ میں اس نے بہت بڑا حصہ لیا اور اس لیے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تقریباً پانچ سو برس قبل از مسیح یونان میں توحید کا تصور نشوونما پانے لگا تھا۔ اس کی سب سے بڑی معلم شخصیت سقراط (Socrates) کی حکمت میں نمایاں ہوئی جسے افلاطون (Plato) نے تدوین و انضباط کے جامے سے آراستہ کیا۔ جس طرح ہندوستان میں رگ وید کے دیوبانی تصورات نے بالآخر ایک رب الاربابی تصور کی نوعیت پیدا کرلی تھی اور پھر اسی ربا الاربابی تصور نے بتدریج توحیدی تصور کی طرف قدم بڑھایا تھا ٹھیک اسی طرح یونان میں بھی المپس کے دیوتاؤں کو بالآخر ایک رب الارباب ہستی کے آگے جھکنا پڑا اور پھر یہ رب الاربابی تصور بتدریج کثرت سے وحد کی طرف قدم بڑھانے لگا۔ یونان کے قدیم ترین تصوروں کے معلوم کرنے کا تنہا ذریعہ اس کی پرانی شاعری ہے۔ جب ہم اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو دو عقیدے برابر پس پردہ کام کرتے دکھائی دیتے ہیں : مرنے کے بعد کی زندگی اور ایک سب سے بڑی اور سب پرچھائی ہوئی الوہیت۔ آئیونی (Ionie) فلسفہ نے جو یونانی مذاہب فلسفہ میں سب سے زیادہ پرانا ہے اجرام سماوی کی ان دیکھی روحوں کا اعتراف کیا تھا اور پھر ان روحوں کے اوپر کسی ایسی روح کا سراغ لگانا چاہتا تھا جسے اصل کائنات قرار دیا جاسکے۔ پانچویں صدی قبل از مسیح میں فیثا غورس (Pythagoras) کا ظہور ہوا اور اس نے نئے نئے فکری عنصروں سے فلسفہ کو آشنا کیا۔ فیثا غورث کے سفر ہند کی روایت صحیح ہو یا نہ ہو لیکن اس میں شک نہیں کہ اس کے فلسفیانہ تصوروں میں ہندوستانی طریق فکر کی مشابہتیں پوری طرح نمایاں ہیں۔ تناسخ کا غیر مشتبہ عقیدہ، پانچویں آسمانی عنصر (Quintaessesntia) کا اعتراف، نفس انسانی کی انفرادیت کا تصور، مکاشفاتی طریق ادراک کی جھلک اور سب سے زیادہ یہ کہ ایک "طریق زندگی" کے ضابطہ کا اہتمام، ایسے مبادیات ہیں جو ہمیں اوپانی شد کے دائرہ فکر و نظر سے سے بہت قریب کردیتے ہیں۔ فیثا غورس کے بعد انکسا غورس (Anaxagoras) نے ان مبادیات کو کلیاتی (Abstracts) تصورات کی نوعیت کا جامہ پہنایا اور اس طرح یونانی فلسفے کی وہ بنیاد استوار ہوگئی جس پر آگے چل کر سقراط اور افلاطون اپنی کلیاتی تصورتی کی عمارتیں کھڑی کرنے والے تھے۔ سقراط کی شخصیت میں یونان کے توحیدی اور تنزیہی اعتقاد کی سب سے بڑی نمود ہوئی۔ سقراط سے پہلے جو فلسفی گزرے تھے انہوں نے قومی پرستش گاہوں کے دیوتاؤں سے کوئی تعرض نہیں کیا تھا۔ کیونکہ خود ان کے دل و دماغ بھی ان کے اثرات سے خالی نہیں ہوئے تھے۔ نفوس فلکی کے تصورات کی اگر اصل حقیقت معلوم کی جائے تو اس سے زیادہ نہیں نکلے گی کہ یونان کے کواکبی دیوتاؤں نے علم و نظر کے حلقوں سے روشناس ہونے کے لیے ایک نیا فلسفیانہ نقاب اپنے چہروں پر ڈال لیا تھا اور اب ان کی ہستی صرف عوم کو ہی نہیں بلکہ فلسفیوں کو بھی تسکین دینے کے قابل بناد گئی تھی۔ یہ تقریباً ویسی ہی صورت حال تھی جو ابھی تھوڑی دیر ہوئی ہم ہندوستان کی قدیم تاریخ کے صفحوں پر دیکھ رہے تھے۔ یعنی فکری غور و خوض کے نتائج ایک ایسی لچکدار صورت میں ابھرنے لگے کہ ایک طرف فلسفیانیہ دماغوں کے تقاضوں کا بھی جواب دیا جا سکے، دوسری طرف عوام کے قومی عقائد سے بھی تصادم نہ ہو۔ ہندوستان کی طرح یونان میں بھی خواص اور عوام کے فکر و عمل نے باہم دگر سمجھوتا کرلیا تھا۔ یعنی توحید اور اصنامی عقیدے ساتھ ساتھ چلنے لگے تھے۔ لیکن سقراط کا معنوی علو فکر اس عام سطح سے بہت بلند جا چکا تھا۔ وہ وقت کے اصنامی عقائد سے کوئی سمجھوتا نہیں کرسکا۔ اس کا توحیدی تصور تجسم اور تشبہ کی تمام آلودگیوں سے پاک ہو کر ابھرا۔ اس کی بے لوث خدا پرستی کا تصور اس درجہ بلند تھا کہ وقت کے عام مذہبہ تصورات اسے سر اونچا کر کے بھی دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اس کی حقیقت شناس نگاہ میں یونان کی اصنامی خدا پرستی اس سے زیادہ کوئی اخلاقی بنیاد نہیں رکھتی تھی کہ ایک طرح کا دکاندارانہ لین دین تھا جو اپنے خود ساختہ معبودوں کے ساتھ چکایا جاتا تھا۔ افلاطون یوثی فرا (Euthyphro) کے مکالمہ میں ہمیں صاف صاف بتلاتا ہے کہ یونان کے دینی تصورات و اعمال کی نسبت سقراط کے بے لاگ فیصلے کیا تھے؟ سقراط پر مذہبی بے احترامی کا الزام لگایا گیا تھا۔ وہ پوچھتا ہے کہ "مذہبی احترام" کی حقیقت کیا ہے؟ پھر جو جواب ملتا ہے وہ اسے اس نتیجہ پر پہنچاتا ہے کہ "مذہبی احترام گویا مانگنے اور دینے کا ایک فن ہوا۔ دیوتاؤں سے وہ چیز مانگنی جس کی ہمیں خواہش ہے، اور انہیں وہ چیز دے دینی جس کی انہیں احتیاج ہے۔ مختصراً یہ کہ تجارتی کاروبار کا ایک خاص ڈھنگ"۔ ایسی بے پردہ تعلیم، وقت کے داروگیر سے بچ نہیں سکتی تھی اور نہ بچی لیکن سقراط کی اولوالعزم روح وقت کی کوتاہ اندیشیوں سے مغلوب نہیں ہوسکتی تھی۔ اس نے ایک ایسے صبر و استقامت حق کے ساتھ جو صرف نبیوں اور شہیدوں ہی کے اندر گھر بنا سکتا ہے زہر کا جام اٹھایا اور بغیر کسی تلخ کامی کے پی لیا۔ تمنت سلیمی ان نموت بحبہا۔ واھون شیء عندنا ماتمنت اس نے مرنے سے پہلے آخری بات جو کہی تھی وہ یہ تھی : "وہ ایک کمزور دنیا سے ایک بہتر دنیا کی طرف جا رہا ہے"۔ افلاطون نے سقراط کے باحثانہ (Dialectic) افکار کو جو ایک معلم کے درس و املا کی نوعیت رکھتے تھے ایک مکمل ضابطہ کی شکل دے دی اور منطقی تحلیل کے ذریعہ انہیں و جوامع کی صورت میں مرتب کیا۔ اس نے اپنے فلسفیانہ بحث و نظر کی بنیاد کلیات (Abstracts) پر رکھی اور حکومت سے لے کر خدا کی ہستی تک سب کو تصوریت (Idea) کا جامہ پہنا دیا۔ اگر تصوریت محسوسات سے الگ ہستی رکھتی ہے تو ناؤس (Nause) یعنی نفس ناطقہ بھی مادہ سے الگ اپنی ہستی رکھتا ہے اور اگر نفس مادہ سے الگ ہستی رکھتا ہے تو خدا کی ہستی بھی مادیات سے الگ اپنی نمود رکھتی ہے۔ اس نے انکسا غورس کے مسلک کے خلاف دو نفسوں میں امتیاز کیا۔ ایک کو فانی قرار دیا۔ دوسرے کو لافانی۔ فانی نفس خواہشیں رکھتا ہے۔ اور وہی مجسم ایجو (Ego) ہے۔ لیکن لافانی نفس کائنات کی اصل عاقلہ ہے اور جسمانی زندگی کی تمام آلائشوں سے یک قلم منزہ یہی نفس کلی کی وہ الٰہی چنگاری ہے جس نے انسان کے اندر قوت مدرکہ کی روشنی کا چراغ روشن کردیا ہے یہاں پہنچ کر نفس کلی کا تصور بھی ایک طرح سے وحدۃ الوجودی تصور کی نوعیت پیدا کرلیتا ہے۔ در اصل ہندو فلسفے کا "آتما" اور یونانی فلسفے کا "نفس" ایک ہی مسمی کے دو نام ہیں۔ یہاں "آتما" کے بعد "پرم آتما" نمودار ہوا تھا۔ وہاں نفس کے بعد نفس کلی نمودار ہو۔ ("ناؤس" جس کا تلف "ناؤز" کیا جاتا ہے عربی کے "نفس" سے اس درجہ صوتی مشابہت رکھتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے "ناؤز" تعریب کا جامہ پہن کر "نفس" ہوگیا۔ اسی طرح "نوئٹک" (Noetic) اور "ناطق" اس درجہ قریب ہیں کہ دوسرے کو پہلے کی تعریب سمجھا جاسکتا ہے۔ چنانچہ رینان اور دوزی نے نفس ناطقہ کو "نوئٹک ناؤز" کا معرب قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں یہ "ناط" نطق سے نہیں ہے بلکہ "نوئٹک" کی تعریب ہے جس کے معنی ادراک کے ہیں۔ بعض عربی مصادر سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ اصل یونانی الفاظ پیش نظر کھے گئے تھے۔ "نفس" عربی لغت میں ذات اور خود کے معنی میں بولا جاتا تھا اور ارسطو نے عاقلانہ نطق کو انسان کی فصل قرار دیا تھا۔ اس لیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عرب مترجموں نے یونانی تعبیر سامنے رکھ کر نفس ناطقہ کی ترکیب اختیار کرلی اور یہ تعریب خود عربی الفاظ کے مدلول سے بھی ملتی جلتی ہوئی بن گئی) سقراط نے خدا کی ہستی کے لیے "اگاتھوس" یعنی "الخیر" کا تصور قائم کیا تھا۔ وہ سر تا سر اچھائی اور حسن ہے۔ افلاطون و جود کی دنیاؤں سے بھی اوپر اڑا اور اس نے خیر بحث کا سراغ لگانا چاہا لیکن سقراط کے صفاتی تصور پر کوئی اضافہ نہ کرسکا۔ ارسطو (Aristotle) جس نے فلسفے کو روحانی تصوروں سے خالص کر کے صرف مشاہدۂ و احساسات کے دائرہ میں دیکھنا چاہا تھا اس سقراطی تصور کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔ اس نے عقل اول اور عقل فعال کا تصور قائم کیا جو ایک ابدی، غیر متجزی، اور بسیط بحث ہستی ہے۔ پس گویا سقراط اور افلاطون نے جس ذات کی صفت "الخیر" میں دیکھی تھی ارسطو نے اسے "العقل" میں دیکھا اور اس منزل پر پہنچ کر رک گیا۔ اس سے زیادہ جو کچھ مشائی فلسفے (Peripatetic) میں ہمیں ملتا ہے وہ خود ارسطو کی تصریحات نہیں ہیں۔ اس کے یونانی اور عرب شارحوں کے اضافے ہیں۔ اس تمام تفصیل سے معلوم ہوا کہ "الخیر" اور "العقل" یونانی فلسفے کے تصور الوہیت کا ماحصل ہے۔ سقراط کے صفاتی تصور کو وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے ضروری کہ افلاطون کی جمہور (Republic) کا حسب ذیل مکالمہ پیش نظر رکھا جائے۔ اس مکالمہ میں اس نے تعلیم کے مسئلہ پر بحث کی ہے اور واضح کیا ہے کہ اس کے بنیادی اصول کیا ہونے چاہییں۔ "اڈمنٹس نے سوال کیا کہ شاعروں کو خدا کا ذکر کرتے ہوئے کیا پیرایہ بیان اختیار کرنا چاہیے"۔ سقراط : ہر حال میں خدا کی توصیف ایسی کرنی چاہیے جیسا کہ وہ اپنی ذات میں ہے۔ خواہ رزمی (Epic) شعر ہو خواہ غنائی (Lyric)۔ علاوہ بریں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا کی ذات صالح ہے۔ پس ضروری ہے کہ اس کی صفات بھی صلاح پر مبنی ہوں۔ اڈمنٹس : درست ہے۔ سقراط : اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جو وجود صالح ہوگا اس سے کوئی بات مضر صادر نہیں ہوسکتی اور جو ہستی غیر مضر ہوگی وہ کبھی شر کی صانع نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح یہ بات بھی ظاہر ہے کہ جو ذات صالح ہوگی ضروری ہے کہ نافع بھی ہو۔ پس معلوم ہوا کہ خدا صرف خیر کی علت ہے۔ شر کی علت نہیں ہوسکتا۔ اڈمنٹس : درست ہے۔ سقراط : اور یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ خدا کا تمام حوادث کی علت ہونا ممکن نہیں جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔ بلکہ وہ انسانی حالات کے بہت ہی تھوڑے حصے کی علت ہے۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں ہماری برائیاں بھلائیوں سے کہیں زیادہ ہیں اور برائیوں کی علت خدا کی صالح اور نافع ذات نہیں ہوسکتی۔ پس چاہیے کہ صرف اچھائی ہی کو اس کی طرف نسبت دیں اور برائی کی علت کسی دوسری جگہ ڈھونڈھیں۔ اڈمنٹس : میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ بات بالکل واضح ہے۔ سقراط : تو اب ضروری ہو کہ ہم شاعروں کے ایسے خیالات سے متفق نہ ہوں جیسے ہومر کے حسب ذیل شعروں میں ظاہر کیے گئے ہیں "مشتری کی ڈیوڑھی میں دو دو پیالے رکھے ہیں۔ ایک خیر کا ہے۔ ایک شر کا۔ اور ہی انسان کی بھلائی اور برائی کی تمام تر علت ہیں۔ جس انسان کے حصے میں خیر کے پیالے کی شراب آگئی اس کے لیے تمام تر خیر ہے۔ جس کے حصے میں شر کی آئی۔ اس کے لیے تمام تر شر ہے۔ اور پھر جس کسی کو دونوں پیالوں کا ملا جلا گھونٹ مل گیا اس کے حصے میں اچھائی بھی آگئی اور برائی بھی" پھر اس کے بعد تجسم کے عقیدہ پر بحث کی ہے اور اس سے انکار کیا ہے کہ "خدا ایک بازیگر اور بہروپیے کی طرح کبھی ایک بھیج میں نمودار ہوتا ہے کبھی دوسرے بھیس میں" (دی پبلک ترجمہ ٹیلر۔ باب 2) (جمہوریت کے اشخاص مکالمہ میں "اڈمنٹس" اور "گلوکن" افلاطون کے بھائی ہیں۔ چنانچہ افلاطون نے خود ایک جگہ اس کی تصریح کی ہے۔ افلاطون کی دوسری مصنفات کے ساتھ جمہوریت کا ترجمہ بھی عربی میں ہوگیا تھا۔ چنانچہ چھٹی صدی ہجری میں ابن رشد نے اس کی شرح لکھی شرح کے دیباچہ میں لکھتا ہے کہ میں نے ارسطو کی کتاب السیاسہ کی شرح لکھنی چاہی تھی مگر اندلس میں اس کا کوئی نسخہ نہیں ملا۔ مجبوراً افلاطون کی کتاب اختیار کرنی پڑی۔ ابن رشد کی شرح کے عبرانی اور لاطینی تراجم یورپ میں موجود ہیں مگر اصل عربی ناپید ہے۔ یورپ کے موجود تراجم براہ راست یونانی سے ہوئے ہیں۔ ہمارے پیش نظر اے۔ ای۔ ٹیلر اور بی جو ویٹ (Jowet) کے انگریزی تراجم ہیں مشتری یعنی "زیوس" (Zeus) یونان کے اصنامی عقائد میں رب الارباب یعنی دیوتاؤں میں سب سے بڑا اور حکمراں دیوتا تھا۔ ہومر نے ایلیڈ میں دیوتاؤں کی جو مجلس آراستہ کی ہے۔ اس میں تخت نشین ہستی مشتری ہی کی ہے۔ یہ اشعار ایلیڈ کے ہیں۔ سلیمان بستانی نے اپنے بے نظیر ترجمہ عربی میں ان کا ترجمہ حسب ذیل شعروں میں کیا ہے : فباعتا رف قارورتان : ذی لخیر و ذی لشرالھوان فیہما کل قسمۃ الانسان فالذی منہما مزیجا انالا زفس یلقی خیرا ویلقی وبالا والذی لاینال الا من الشر فتنتابہ الخطوب انتیابا بطواہ یطوی البلاد کلیلا تائھا فی عرض الفلاۃ ذلیلا من بنی الخلد والوری مخذولا (الیاذہ۔ نشید 24۔ صفحہ 1131) ان اشعار میں "زفس" یونانی "زیوس" کی تعریب ہے۔) اسکندریہ کا مذہب افلاطون جدید : تیسری صدی مسیحی میں اسکندریہ کے فلسفہ تصوف نے "مذہب افلاطون جدید" (Neo-Platonic) کے نام سے ظہور کیا جس کا بانی اموینس سکاس (Ammonius Saccas)۔ اموینس کا جانشین فلاطینس (Platinus) ہوا فلاطینس کا شاگرد فور فوریوس (Porphyry) تھا جو اسکندرا فردوسی کے بعد ارسطو کا سب سے بڑا شار تسلیم کیا گیا ہے اور جس نے افلاطونیۂ جدیدہ کی مبادیات مشائی فلسفے میں مخلوط کردیں۔ فلاطینس اور فورفوریوس کی تعلیم سرتاسر اسی اصل پر مبنی تھی جو ہندوستان میں اوپانی شد کے مذہب نے اختیار کی ہے۔ یعنی عام حق کا اصلی ذریعہ کشف ہے۔ نہ کہ استدلال، اور معرفت کا کمال مرتبہ یہ ہے کہ جذب و فنا کا مقام حاصل ہوجائے۔ خدا کی ہستی کے بارے میں فلاطینس بھی اس نتیجہ پر پہنچا جس پر اوپانی شد کے مصنف اس سے بہت پہلے پہنچ چکے تھے۔ یعنی نفی صفات کا مسلک اس نے بھی اختیار کیا۔ ذات مطلق ہمارے تصور ادراک کی تمام تعبیرات سے ماورا ہے۔ اس لیے ہم اس بارے میں کوئی حکم نہیں لگا سکتے۔ ذات مطلق ان چیزوں میں سے کوئی چیز بھی نہیں جو اس سے ظہور میں آئیں۔ ہم اس کی نسبت کوئی حکم نہیں لگا سکتے۔ ہم نہ تو اسے موجودیت سے تعبیر کرسکتے ہیں نہ جوہر سے۔ نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ زندگی ہے۔ حقیقت ان تمام تعبیروں سے وراء الوراء ہے" (E.T.Mekenna جلد 2۔ صفحہ 134) سقراط اور افلاطون نے حقیقت کو "الخیر" سے تعبیر کیا تھا۔ اس لیے فلاطینس وہاں تک بڑھنے سے انکار نہ کرسکا لیکن اس سے آگے کی تمام راہیں بندی کردیں۔ جب تم نے کہا الخیر، تو بس یہ کہہ کر رک جاؤ اور اس پر اور کچھ نہ بڑھاؤ۔ اگر تم کسی دوسرے خیال کا اضافہ کرو گے تو ہر اضافہ کے ساتھ ایک نئے نقص کی اس سے تقریب کرتے جاؤگے۔ ارسطو نے حقیقت کا سراغ عقول مجردہ کی راہ سے لگایا تھا اور علۃ العلل کو عقل اول سے تعبیر کیا تھا مگر فلاطینس کا مطلق اس تعبیر کی گرانی بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ "یہ بھی مت کہو کہ وہ عقل ہے۔ تم اس طرح اسے منقسم کرنے لگو گے"۔ لیکن اگر ہم "عقل" کا اطلاق اس پر نہیں کرسکتے تو پھر "الوجود" اور "الخیر" کیونکر کہہ سکتے ہیں؟ اگر ہم اپنی متصورہ صفتوں میں سے کوئی صفت بھی اس کے لیے نہیں بول سکتے تو پھر وجودیت اور خیریت کی صفات بھی کیوں ممنوع نہ ہوں؟ اس اعتراض کا وہ خود جواب دیتا ہے۔ ہم نے اگر اسے "الخیر" کہا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم کوئی باقاعدہ تصدیق کسی خاص وصف کی کرنی چاہتے ہیں کہ وہ ایک مقصد اور منتہی ہے جس پر تمام سلسلے جا کر ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ گویا ایک اصطلاح ہوئی جو ایک خاص غرض کے لیے کام میں لائی گئی ہے۔ اسی طرح اگر ہم اس کی نسبت وجود کا حکم لگاتے ہیں تو صرف اس لیے کہ عدم کے ائرہ سے اسے باہر رکھیں۔ وہ تو ہر چیز سے ماورا ہے۔ حتی کہ وجود کے اوصاف و خواص سے بھی"۔ اسکندریہ کے کلیمنٹ (Clement) نے اس مسلک کا خلاصہ چند لٖفظوں میں کہہ دیا۔ " اس کی شناخت اس سے نہیں کی جاسکتی کہ وہ کیا ہے؟ صرف اس سے کی جاسکتی ہے کہ وہ کیا کچھ نہیں ہے" یعنی یہاں صف سلب و نفی کی راہ ملتی ہے۔ ایجاب و اثبات کی راہیں بند ہیں۔ سر لسان النطق عنہ اخرس باب صفات میں یہ وہی بات ہوئی جو اوپانی شد کی "نیتی نیت" میں ہم سن چکے ہیں اور جس پر شنکر نے اپنے مذہب کی مبادیات کی تمام عمارتیں استوار کی ہیں۔ ازمنہ وسطیٰ کے یہودی فلاسفہ نے بھی یہی مسلک اختیار کیا تھا۔ موسیٰ بن میمون (المتوفی 605 ھ) خدا کو "الموجود" کہنے سے بھی بھی انکار کرتا ہے اور کہتا ہے ہم جونہی "موجود" کا وصف بولتے ہیں ہمارے تصور پر مخلوق کے اوصاف وخواص کی پرچھائیں پڑنے لگتی ہے اور خدا ان اوصاف سے منزہ ہے۔ اس نے اس سے بھی انکار کیا کہ خدا کو وحدہ لاشریک کہا جائے۔ کیونہ اور اور عدم شرکت کے تصورات بھی اضافی نسبتوں سے خالی نہیں۔ ابن میمون کا یہ مسلک در اصل فلسفہ اسکندریہ ہی کی بازگشت تھی۔ (E.T.Mekenna جلد اول صفحہ 118۔ مذہب افلاطون جدید افللاطون کی طرف اس لیے منسوب ہوا کہ اس کی بنیاد بعض افلاطونی مبادیات پر رکھی گئی تھی۔ مگر پھر اپنی بحث و نظر میں اس نے جو راہ اختیار کی اور جن نتائج تک پہنچا انہیں افلاطون سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن عرب فلاسفہ کا ایک بڑا طبقہ اس غلط فہمی میں پڑگیا کہ فی الحقیقت یہ افلاطون ہی کا مذہب ہے۔ اس مذہب کے بعض فلسفیوں مثلافورفوریوس نے ارسطو کی شرح کرتے ہوئے اس کے مذہب میں جو اضافے کیے تھے اسے بھی عرب حکما اصل سے ممتاز نہ کرسکے۔ چنانچہ ابو نصر فارابی نے الجمع بین الرائین میں ارسطو کا جو مذہب ظاہر کیا ہے اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ ابن رشد پہلا عرب فلسفی ہے جس نے یہ غلط فہمی محسوس کی اور ارسطو کے مذہب کو شارحوں کے اضافے سے خالص کر کے دیکھنا چاہا۔ 529 ء میں جب شہنشاہ جسٹینین کے حکم سے اسکندریہ کے فلاسفہ جلا وطن کیے گئے تو ان میں سے بعض نے ایران میں پناہ لی۔ چنانچہ سیمیٹس اور ڈیماسیس خسرو کے دربار میں معزز جگہ رکھتے تھے۔ ان فلاسفہ کی وجہ سے پہلوی زبان بھی مذہب افلاطون جدید سے آشنا ہوگئی اور ایرانی حکما نے اسے قومی رنگ دینے کے لیے زردشت اور جاماسپ کی طرف منسوب کردیا۔ عربی میں جب پہلوی ادبیات منتقل ہوئیں تو یہ فلسفیانہ مقالات بھی ترجمہ ہوئے اور عام طور پر یہ خیال پیدا ہوگیا کہ یہ زردشت اور جاماسپ کا ایک پراسرار فلسفہ ہے۔ چنانچہ شیخ شہاب الدین نے حکمۃ الاشراق میں اور شیرازی نے اس کی شرح میں دونوں غلطیاں جمع کردی ہیں۔ وہ مذہب افلاطون جدید کو افلاطون کا مذہب سمجھتے ہیں اور زردشت اور جاماسپ کا بھی حوالہ دیتے ہیں !) قرآنی تصور : بہرحال چھٹی صدی مسیحی میں دنیا کی خدا پرستانہ زندگی کے تصورات اس حد تک پہنچ تھے کہ قرآن کا نزول ہوا۔ اب غور کرو کہ قرآن کے تصور الٰہی کا کیا حال ہے؟ جب ہم ان تمام تصورات کے مطالعہ کے بعد قرآن کے تصور پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف نظر آجاتا ہے کہ تصور الٰہی کی تمام تصویروں میں اس کی تصویر جامع اور بلند تر ہے۔ اس سلسلہ میں حسب ذیل امور قابل غور ہیں : (1)۔ تزیہہ کی تکمیل : اولا : تجسم اور تنزیہہ کے لحاظ سے قرآن کا تصور تزنیہہ کی ایسی تکمیل ہے جس کی کوئی نمود اس وقت دنیا میں موجود نہیں تھی۔ قرآن سے پہلے تنزیہہ کا بڑے سے بڑا مرتبہ جس کا ذہن انسانی متحمل ہوسکا تھا یہ تھا کہ اصنام پرستی کی جگہ ایک ان دیکھے خدا کی پرستش کی جائے۔ لیکن جہاں تک صفات الٰہی کا تعلق ہے انسانی اوصاف و جذبات کی مشابہت اور جسم و ہیئت کے تمثل سے کوئی تصور بھی خالی نہ تھا۔ ہندوستان اور یونان کا حال ہم دیکھ چکے ہیں۔ یہودی تصور جس نے اصنام پرستی کی کوئی شکل بھی جائز نہیں رکھی تھی وہ بھی اس طرح کے تشبہ و تمثل سے یکسر آلودہ ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا خدا کو ممرے کے بلوطوں میں دیکھنا، خدا کا حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے کشتی لڑنا، کوہ طور پر شعلوں کے اندر نمودار ہونا، حضرت موسیٰ کا خدا کو پیچھے سے دیکھنا، خدا کا جوش غضب میں آ کر کوئی کام کر بیٹھنا اور پھر پچھتانا، بنی اسرائیل کو اپنی چہیتی بیوی بنا لینا اور پھر اس کی بدچلنی پر ماتم کرنا، ہیکل کی تباہی پر اس کا نوحہ، اس کی انتڑیوں میں درد کا اٹھنا اور کلیجے میں سوراخ پڑجانا، تورات کا عام اسلوب بیان ہے۔ اصل یہ ہے کہ قرآن سے پہلے فکر انسانی اس درجہ بلند نہیں ہوا تھا کہ تمثیل کا پردہ ہٹا کر صفات الٰہی کا جلوہ دیکھ لیتا۔ اس لیے ہر تصور کی بنیاد تمام تر تمثیل و تشبیہ ہی پر رکھنی پڑی۔ مثلاً تورات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف زبور کے ترانوں اور یشعیا کی کتاب میں خدا کے لیے شائستہ صفات کا تخیل موجود ہے لیکن دوسری طرف خدا کا کوئی مخاطبہ ایسا نہیں جو سرتار سر انسانی اوصاف و جذبات کی تشبیہ سے مملو نہ ہو۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے جب چاہا کہ رحمت الٰہی کا عالمگیر تصور پیدا کریں تو وہ بھی مجبور ہوئے کہ خدا کے لیے باپ کی تشبیہ سے کام لیں۔ اسی تشبیہ سے ظاہر پرستوں نے ٹھوکر کھائی اور ابنیت مسیح (علیہ السلام) کا عقیدہ پیدا کرلیا۔ لیکن ان تمام تصورات کے بعد جب ہم قرآن کی طرف رخ کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے گویا اچانک فکر و تصور کی ایک بالکل نئی دنیا سامنے آگئی۔ یہاں تمثیل و تشبیہ کے تمام پردے بیک دفعہ اتھ جاتے ہیں، انسانی اوصاف و جذبات کی مشابہت مفقود ہوجاتی ہے، ہر گوشہ میں مجاز کی جگہ حقیقت کا جلوہ نمایاں ہوتا ہے اور تجسم کا شائبہ تک باقی نہیں رہتا۔ تنزیہہ اس مرتبہ کمال تک پہنچ جاتی ہے کہ : "لیس کمثلہ شیء : اس کے مثل کوئی شے نہیں کسی چیز سے بھی تم اسے مشابہ نہیں ٹھہرا سکتے" (42۔11) " لا تُدْرِکُہُ الأبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الأبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیفُ الْخَبِیرُ: انسان کی نگاہیں اسے نہیں پا سکتیں لیکن وہ انسان کی نگاہوں کو دیکھ رہا ہے" (6۔103) "قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ (١) اللَّہُ الصَّمَدُ (٢) لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ (٣) وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ (٤): اللہ کی ذات یگانہ ہے، بے نیاز ہے اسے کسی کی احتیاج نہیں۔ نہ تو اس سے کوئی پیدا ہوا، نہ وہ کسی سے پیدا ہوا، اور نہ کوئی ہستی اس کے درجے اور برابری کی ہوئی" (112) تورات اور قرآن کے جو مقامات مشترک ہیں دقت نظر کے ساتھ ان کا مطالعہ کرو۔ تورات میں جہاں کہیں خدا کی براہ راست نمود کا ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن وہاں خدا کی تجلی کا ذکر کرتا ہے۔ تورات میں جہاں یہ پاؤگے کہ خدا متشکل ہو کر اترا قرآن اس موقع کی یوں تعبیر کرے گا کہ خدا کا فرشتہ متشکل ہو کر نمودار ہوا۔ بطور مثال کے صرف ایک مقام پر نظر ڈال لی جائے۔ تورات میں ہے : "خداوند نے کہا اے موسیٰ دیکھ، یہ جگہ میرے پاس ہے، تو اس چٹان پر کھڑا رہ، اور یوں ہوگا کہ جب میرے جلال کا گزر ہوگا تو میں تجھے اس چٹان کی دراڑ میں رکھوں گا، اور جب تک نہ گزر لوں گا تجھے اپنی ہتھیلی سے ڈھانپے رہوں گا۔ پھر ایسا ہوگا کہ میں ہتھیلی اٹھالوں گا اور تو میرا پیچھا دیکھ لے گا۔ لیکن تو میرا چہرہ نہیں دیکھ سکتا" (خروج 33۔20) "تب خداوند بدلی کے ستون میں ہو کر اترا اور خیمہ کے دروازے پر کھڑا رہا۔ اس نے کہا کہ میرا بندہ موسیٰ اپنے خداوند کی شبیہ دیکھے گا" (گنتی 12:5) اسی معاملہ کی تعبیر قرآن نے یوں کی ہے : "قال رب ارنی انظر الیک قال لن ترانی ولکن انظر الی الجبل : موسیٰ نے کہا اے پروردگار ! مجھے اپنا جلوہ دکھا تاکہ میں تیری طرف نگاہ کرسکوں فرمایا نہیں۔ تو کبھی مجھے نہیں دیکھے گا لیکن ہاں اس پہاڑ کی طرف دیکھ" (7۔143) تنزیہہ اور تعطیل کا فرق البتہ یاد رہے کہ تنزیہہ اور تعطیل میں فرق ہے۔ تنزیہہ سے مقصود یہ ہے کہ جہاں تک عقل بشری کی پہنچ ہے صفات الٰہی کو مخلوقات کی مشابہت سے پاک اور بلند رکھا جائے۔ تعطیل کے معنی یہ ہیں تنزیہہ کے منع و نفی کو اس حد تک پہنچا دیا جائے کہ فکر انسانی کے تصور کے لیے کوئی بات باقی ہی نہ رہے۔ قرآن کا تصور تنزیہہ کی تکمیل ہے۔ تعطیل کی ابتدا نہیں ہے۔ بلاشبہ اوپانی شد تنزیہہ کی "نیتی نیتی" 1؎ کو بہت دور تک لے گئے لیکن عملاً نتیجہ کیا نکلا؟ یہی نا کہ ذات مطلق (برہماں) کو ذات مشخص (ایشور) میں اتارے بغیر کام نہ چل سکا : بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔ 1 (؎۔ "نیتی" یعنی کلمۂ نفی۔ وہ ایسا بھی نہیں ہے۔ ایسا بھی نہیں۔ برہدریناک اوپانی شد میں یہ نفی دور تک چلی گئی ہے۔ وہ کثیف ہے؟ نہیں۔ وہ لطیف ہے؟ نہیں۔ وہ کوتاہ ہے ؟ نہیں۔ وہ دراز ہے؟ نہیں۔ غرض کی ہر مشابہت کے جواب میں "نہیں" دہرایا جاتا ہے۔ نہ وہ ایسا ہے۔ نہ ویسا ہے۔ نہ یہ ہے۔ نہ وہ ہے۔ اے بروں از وہم و قال و قیل من خاک برفرق من و تمثیل من !) جس طرح اثبات صفات میں غلو تشبہ کی طرف لے جاتا ہے اسی طرح نفی صفات میں غلو تعطیل تک پہنچا دیتا ہے اور دنوں میں تصور انسانی کے لیے ٹھوکر ہوئی اگر تشبہ اسے حقیقت سے نا آشنا کردیتا ہے تو تعطل اسے عقیدہ کی روح سے محروم کردیتا ہے۔ پس یہاں ضروری ہوا کہ افراط اور تفریط دونوں سے قدم روکے جائیں اور تشبہ اور تعطیل دونوں کے درمیان راہ نکالی جائے۔ چنانچہ قرآن نے جو راہ اختیار کی ہے وہ دونوں راہوں کے درمیان جاتی ہے اور دونوں انتہائی سمتوں کے میلان سے بچتی ہوئی نکل گئی ہے۔ اگر خدا کے تصور کے لیے صفات و افعال کی کوئی صورت ایسی باقی نہ رہے جو فکر انسانی کی پکڑ میں آسکتی ہے تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ یہی نکلے گا کہ تنزیہہ کے معنی نفی وجود کے ہوجائیں گے۔ یعنی اگر کہا جائے، ہم خدا کے لیے کوئی ایجابی صفت قرار نہیں دے سکتے۔ کیونکہ جو صفت بھی قرار دینگے اس میں مخلوق کے اوصاف سے مشابہت کی جھلک آجائے گی، تو ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں فکر انسانی کے لیے کوئی سر رشتہ تصور باقی نہیں رہے گا اور وہ کسی ایسی ذات کا تصور ہی نہیں کرسکے گا، اور جب تصور نہیں کرسکے گا تو ایسا عقیدہ اس کے اندر کوئی پکڑ اور لگاؤ بھی پیدا نہیں کرسکے گا۔ ایسا تصور اگرچہ اثبات وجود کی کوشش کرے لیکن فی الحقیقت وہ نفی وجود کا تصور ہوگا۔ کیونکہ صرف سلبی تصور کے ذریعہ ہم ہستی کو نیستی سے جدا نہیں کرسکتے۔ خدا کی ہستی کا اعتقاد انسانی فطرت کے اندرونی تقاضوں کا جواب ہے۔ اسے حیوانی سطح سے بلند ہونے اور انسانیت اعلی کے درجہ تک پہنچنے کے لیے بلندی کے ایک نصب العین کی ضرورت ہے اور اس نصب العین کی طلب بغیر کسی ایسے تصور کے پوری نہیں ہوسکتی جو کسی نہ کسی شکل میں اس کے سامنے آئے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ مطلق کا تصور سامنے آنہیں سکتا۔ وہ جبھی آئے گا کہ ایجابی صفتوں کے تشخص کا کوئی نہ کوئی نقاب چہرے پر ڈال لے۔ چنانچہ ہمیشہ اس نقاب ہی کے ذریعہ جمال حقیقت کو دیکھنا پڑا۔ یہ کبھی بھاری ہوا کبھی ہلکا۔ کبھی پر خوف رہا کبھی دلآویز، مگر اترا کبھی نہیں : آہ ازاں حوصلہ تنگ و ازاں حسن بلند کہ دلم را گلہ از حسرت دیدار تو نیست ! جمال حقیقت بے نقاب ہے مگر ہماری نگاہوں میں یا رائے دید نہیں۔ ہم اپنی نگاہوں پر نقاب ڈال کر اسے دیکھنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کے چہرے پر نقاب پڑگیا : ہرچہ ہست از قامت ناساز و بے اندام ست ورنہ تشریف تو بربالائے کس دشوار نیست ! غیر صفاتی تصور کو انسان پکڑ نہیں سکتا اور طلب اسے ایسے مطلوب کی ہوئی جو اس کی پکڑ میں آسکے۔ وہ ایک ایسا جلوہ محبوبی چاہتا ہے جس کے عشق میں اس کا دل اٹک سکے، جس کے حسن گریزاں کے پیچھے وہ والہانہ دوڑ سکے، جس کا دامن کبریائی پکڑنے کے لیے ہمیشہ اپنا دست عجز و نیاز بڑھاتا رہے۔ جو اگرچہ زیادہ سے زیادہ بلندی پر ہو لیکن پھر بھی اسے ہر دم جھانکلگائے تاک رہا ہو کہ "ان ربک لبالمرصاد : یقینا تمہارا پروردگار تمہیں گھات لگائے تاک رہا ہے" اور واذا سالک عبادی عنی فانی قریب اجیب دعوۃ الداع اذا دعان : اور جب میرا بندہ تجھ سے میری نسبت سوال کرتا ہے تو اس سے کہہ دے کہ میں اس سے دور کب ہوں؟ میں تو بالکل اس کے پاس ہوں" (2۔186)۔ درپردہ و برہمہ کس پردہ می دری باہر کسی وبا تو کسے را وصال نیست غیر صفاتی تصور محض نفی و سلب ہوتا ہے اور اس سے انسانی طلب کی پیاس نہیں بجھ سکتی۔ ایسا تصور ایک فلسفیانہ تخیل ضرور پیدا کردے گا لیکن دلوں کا زندہ اور سرگرم عقیدہ نہیں بن سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جو راہ اختیار کی وہ ایک طرف تو تنزیہہ کو اس کے کمال درجہ پر پہنچا دیتی ہے۔ دوسری طرف تعطیل سے بھی تصور کو بچا لے جاتی ہے۔ وہ فرداً فرداً تمام صفات و افعال کا اثبات کرتا ہے مگر ساتھ ہی مشابہت کی قطعی نفی بھی کرتا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے : خدا حسن و خوبی کی ان تمام صفتوں سے جو انسانی فکر میں آسکتی ہیں متصف ہے۔ وہ زندہ ہے قدرت والا ہے، پالنے والا ہے، رحمت والا ہے، دیکھنے والا، سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ اور پھر اتنا ہی نہیں بلکہ انسان کی بول چال میں قدرت و اخیتار اور ارادہ و فعل کی جتنی شائستہ تعبیرات ہیں انہیں بھی بلا تامل استعمال کرتا ہے۔ مثلاً خدا کے ہاتھ تنگ نہیں "بل یداہ مبسوطتان"(5۔46)۔ اس کے تخت خکومت و کبریائی کے احاطہ سے کوئی گوشہ باہر نہیں : "وسع کرسیہ السموات والارض" (2۔255)۔ لیکن یہ بھی صاف صاف اور بے لچک لفظوں میں کہہ دیتا ہے کہ اس سے مشابہ کوئی چیز نہیں جو تمہارے تصور میں آسکتی۔ وہ عدیم المثال ہے "لیس کمثلہ شیء" (42۔11)۔ تمہاری نگاہ اسے پا ہی نہیں سکتی : "لا تدرکہ الابصار" (6۔103)۔ تم اس کے لیے اپنے تخیل سے مثالیں نہ گھڑو : "فلا تضربوا للہ الامثال" (16۔7)۔ پس ظاہر ہے کہ اس کا زندہ ہونا ہمارے زندہ ہونے کی طرح نہیں ہوسکتا۔ اس کی پروردگاری ہماری پروردگاری کی طرح نہیں ہوسکتی۔ اس کا دیکھنا، سننا، جاننا ویسا نہیں ہوسکتا جس طرح کے دیکھنے، سننے اور جاننے کا ہم تصور کرسکتے ہیں۔ اس کی قدرت و بخشش کا ہاتھ اور جلال و احاطہ کا عرش ضرور ہے لیکن یقینا اس کا مطلب وہ نہیں ہوسکتا جو ان الفاظ کے مدلولات سے ہمارے ذہن میں متشکل ہونے لگتا ہے۔ قرآن کے تصور الٰہی کا یہ پہلو فی الحقیقت اس راہ کی تمام درماندگیوں کا ایک ہی حل اور ساری عمر کی سرگردانیوں کے بعد بالاآخر اسی منزل پر پہنچ کر دم لینا پڑتا ہے۔ انسانی فکر جتنی بھی کاوشیں کرے اس کے سوا اور کوئی حل پیدا نہیں کرسکے گا۔ یہاں ایک طرف بام حقیقت کی بلندی اور فکر کوتاہ کی نارسائیاں ہوئیں۔ دوسری طرف ہماری فطرت کا اضطراب طلب اور ہمارے دل کا تقاضائے دید ہوا۔ بام اتنا بلند کہ نگاہ تصور تھک تھک کے رہ جاتی ہے۔ تقاضاے دید اتنا سخت کہ بغیر کسی کا جلوہ سامنے لائے چین نہیں پا سکتا : نہ بہ اندازہ بازوست کمندم ہیہات ورنہ باگوشہ بامیم سروکارے ہست ! ایک طرف راہ کی اتنی دشواریاں دوسری طرف طلب کی اتنی سہل اندیشیاں ! ولنعم ماقیل : ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں اگر تنزیہہ کی طرف زیادہ جھکتے ہیں تو تعطیل میں جا گرتے ہیں۔ اگر اثبات صفات کی صورت آرائیوں میں دور نکل جاتے ہیں تو تشبہ اور تجسم میں کھوئے جاتے ہیں۔ پس نجات کی راہ صرف یہی ہوئی کہ دونوں کے درمیان قدم سنبھالے رکھیں۔ اثبات کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹے، تنزیہہ کی باگ بھی ڈھیلی نہ پڑنے پائے۔ اثبات اس کی دلآویز صفتوں کا مرقع کھینچے گا۔ تنزیہہ تشبہ کی پرچھائیں سے بچاتی رہے گی۔ ایک کا ہاتھ حسن مطلق کو صورت صفات میں جلوہ آرا کردے گا۔ دوسرے کا ہاتھ اسے اتنی بلندی پر تھامے رہے گا کہ تشبہ کا گردوغبار اسے چھونے کی جرات نہیں کرسکے گا۔ بر چہرۂ حقیقت اگر ماند پردۂ جرم نگاہ دیدۂ صورت پرست ماست ! اوپانی شد کے مصنفوں کا نفی صفات میں غلو تو معلوم ہے لیکن مسلمانوں میں جب علم کلام کے مختلف مذاہب و آرا پیدا ہوئے تو ان کی نظری کاوشیں اس میدان میں ان سے بھی آگے نکل گئیں اور صفات باری کا مسئلہ بحث و نظر کا ایک معرکۃ الآرا مسئلہ بن گیا۔ جہمیہ اور باطنیہ قطعی انکار کی طرف گئے۔ معتزلہ نے انکار نہیں لیکن ان کا رخ رہا اسی طرح امام ابوالحسن اشعری نے گو خود معتدل راہ اختیار کی تھی (جیسا کہ کتاب الابانہ سے ظاہر ہے) لیکن ان کے پیرووں کی کاوشیں تاویل صفات میں دور تک چلی گئیں اور بحث و نزاع سے غلو کا رنگ پیدا ہوگیا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی معاملہ کی گتھی نہ سلجھا سکا۔ اگر گتھی سلجھی تو اسی طریقہ سلجھی جو قرآن نے اختیار کیا ہے۔ امام جوینی یہ اقرار کرتے ہوئے دنیا سے گئے کہ "وھا انا ذا اموت علی عقیدۃ امی : میری ماں نے جو عقیدہ سکھلایا تھا اس پر دنیا سے جا رہا ہوں"۔ اشاعرہ میں امام فخر الدین رازی سب سے زیادہ ان کاوشوں میں سرگرم رہے ہیں لیکن بالآخر اپنی زندگی کی آخری تصنیف میں انہیں بھی اقرار کرنا پڑا تھا کہ "لقد تاملت الطرق الکلامیۃ والمناھج الفلسفیۃ، فما رایتھا تشفی علیلا ولا تروی غلیلا ورایت اقرب الطرق طریق القران اقرا فی الاثبات "الرحمن علی العرش استوی" وفی النفی "لیس کمثلہ شیء" ومن جرب مثل تجربتی عرف مثل معرفتی" (نقلہ ملا علی القاری فی شرح الفقہ الاکبر) "میں نے علم کلام اور فلسفہ کے تمام طریقوں کو خوب دیکھا بھالا لیکن بالآخر معلوم ہوا کہ نہ تو ان میں کسی بیماری دل کے لیے شفا ہے نہ کسی پیاسے کے لیے سیرابی۔ سب سے بہتر اور حقیقت سے نزدیک تر راہ وہی ہے جو قرآن کی راہ ہے۔ اثبات صفات میں پڑھو "الرحمن علی العرش استوی" اور نفی تشبہ میں پڑھو " لیس کمثلہ شیء" یعنی اثبات اور نفی دونوں کا دامن تھامے رہو۔ اور جس کسی کو میری طرح اس معاملہ کے تجربے کا موقع ملا ہوگا اسے میری طرح یہ حقیقت معلوم ہوگئی ہوگی" یہی وجہ ہے کہ اصحاب حدیث اور سلفیہ نے اس باب میں تفویض کا مسلک اختیار کیا تھا اور تاویل صفات میں کاوشیں کرنا پسند نہیں کرتے تھے اور اسی بنا پر انہوں نے جہمیہ کے انکار صفات کو تعطیل سے تعبیر کیا اور معتزلہ و اشاعرہ کی تاویلوں میں بھی تعطل کی بو سونگھنے لگے۔ متکلمین نے ان پر تجسم اور تشبہ کا الزام لگایا لیکن وہ کہتے تھے کہ تمہارے سلب و نفی کی کاوشوں کے بعد تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ متاخرین اصحاب حدیث میں امام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد امام ابن قیم نے اس مسئلہ کی گہرائیوں کو خوب سمجھا اور اسی لیے سلف کے مسلک سے ادھر ادھر ہونا گوارا نہیں کیا۔ آریائی اور سامی نقطۂ خیال کا اختلاف : آریائی اور سامی تعلیموں کے نقطہ خیال کا اختلاف ہم اس معاملہ میں پوری طرح دیکھ سکتے ہیں۔ آریائی حکمت نے فطرت انسانی کی جس صورت پرستی کے تقاضے کا جواب مورتی پوجا کا دروازہ کھول کردیا قرآن نے اسے صرف صفات کی صورت آرائی سے پورا کردیا اور پھر اس سے نیچے اترنے کی تمام راہیں بند کردیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان تمام مفاسد کے کھلنے کے دروازے بند ہوگئے جو بت پرستی کی غیر عقلی زندگی سے پیدا ہوسکتے تھے اور ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ محکمات اور متشابہات : قرآن نے اپنے مطالب کی دوبنیادی قسمیں قرار دی ہیں۔ ایک کو "محکمات" سے تعبیر کیا ہے دوسرسی کو " متشابہات" سے۔ "محکمات" سے وہ باتیں مقصود ہیں جو صاف صاف انسان کی سمجھ میں آجاتی ہیں اور اس کی عملی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں اور اس لیے ایک سے زیادہ معانی کا ان میں احتمال نہیں۔ "متشابہات " وہ ہیں جن کی حقیقت وہ پا نہیں سکتا اور اس کے سوا چارہ نہیں کہ ایک خاص حد تک جا کر رک جائے اور بے نتیجہ باریک بینیاں نہ کرے : " ہُوَ الَّذِی أَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ مِنْہُ آیَاتٌ مُحْکَمَاتٌ ہُنَّ أُمُّ الْکِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِہَاتٌ فَأَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِیلِہِ وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیلَہُ إِلا اللَّہُ وَالرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ یَقُولُونَ آمَنَّا بِہِ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا یَذَّکَّرُ إِلا أُولُو الألْبَابِ (٧)" (بقرہ)۔ صفات الٰہی کی حقیقت متشابہات میں داخل ہے۔ اس لیے قرآن کہتا ہے کہ اس باب میں فکری کاوشیں کچھ سود مند نہیں ہوسکتیں۔ بلکہ طرح طرح کی کج اندیشیوں کا دروازہ کھول دیتی ہیں۔ یہاں بجز تفویض 1؎ کے چارہ کار نہیں پس وہ تمام فلسفیانہ کاوشیں جو ہمارے متکلموں نے کی ہیں فی الحقیقت قرآن کے معیار تعلیم کا ساتھ نہیں دے سکتیں۔ 1؎۔ تفویض کے مسلک سے مقصود یہ ہے کہ جو حقائق ہمارے دائرہ علم و ادراک سے باہر ہیں ان میں رد و کد اور باریک بینی نہ کرنا اور اپنے عجز و نارسائی کا اعتراف کرلینا تفویض کہلاتا ہے۔ اپانی شد کا مرتبہ اطلاق اور مرتبہ تشخص : اس موقعے پر یہ بات بھی صاف ہوجانی چاہیے کہ ویدانت سوتر اور اس کے سب سے بڑے شارح شنکر اچاریا نے نفی صفات پر جتنا زور یا ہے وہ حقیقت کے اس مرتبہ اطلاق سے تعلق رکھتا ہے جسے وہ "برہماں" سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی ذات مطلق سے۔ لیکن سے انہیں بھی انکار نہیں کہ مرتبہ اطلاق کے نیچے ایک اور مرتبہ بھی ہے جہاں تمام صفات ایجابی کی نقش آرائی ظہور میں آجاتی ہے اور انسان کے تمام عابدانہ تصورات کا معبود وہی ذات متصف ہوتی ہے۔ اوپانی شد کے نزدیک ذات مطلق " نیرو پادھیک ست" اور "نرگن" ہے۔ یعنی تمام مظاہرات سے منزہ اور عدیم التوصیف ہے۔ اگر کوئی ایجابی صفت اس کی نسبت سے کہی بھی جاسکتی ہے تو وہ اسی سلب کا ایجاب ہے۔ یعنی وہ "نرگنوگنی" ہے۔ عدیم الوصفی صفت سے متصف۔ ہم اس کی نسبت کچھ نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ ہم جو کچھ کہیں گے اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ لامحدود کو محدود بنا دیں گے۔ اگر محدود لا محدود کا تصور کرسکتا ہے تو پھر یا تو محدود کو لامحدود ماننا پڑے گا۔ یا لا محدود کو محدود بن جانا پڑے گا" (شنکر ابھاشیا برہم سوتر۔ باب 3)۔ "ہم کسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو الفاظ بولتے ہیں وہ یا تو اس چیز کا تعلق کسی خاص نوع سے ظاہر کرتے ہیں یا اس کے فعلی خواص بتلاتے ہیں یا اس کی قسم کی خبر دیتے ہیں یا کسی اور اضافی نوعیت کی وضاحت کرتے ہیں۔ لیکن برہمن کے لیے کوئی نوع نہیں ٹھہرائی جاسکتی۔ اس کی کوئی قسم نہیں۔ اس کے فعلی خواص بتلائے نہیں جاسکتے۔ اس کے لیے کوئی اضافت نہیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ ایسا ہے۔ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس طرح کا نہیں ہے۔ کیونکہ اس کے لیے کوئی مشابہت نہیں اور چونکہ مشابہت نہیں اس لیے اس کی عدم مشابہت اور غیریت بھی انسانی تصور میں نہیں لائی جاسکتی۔ مشابہت کی طرح ہماری نفی مشابہت بھی اضافی رشتے رکھتی ہے" (ایضاً باب اول و ثانی) غرض کہ حقیقت اپنے مرتبہ اطلاق میں ناممکن التعریف ہے اور منطقی ماورائیت سے بھی ماورا ہے۔ اسی لیے ویدانت سوتر نے بنیادی طور پر ہستی کے دو دائرے ٹھہرا دیے۔ ایک کو ممکن التصور کہا ہے، دوسرے کو ناممکن التصور، ممکن التصور دائرہ پر کرتی، عناصر، ذہن، تعقل اور خودی کا ہے۔ ناممکن التصور دائرہ برہمن (ذات مطلق) کا۔ یہی مذہب اسکندریہ کے افلاطونیہ جدیدہ کا بھی تھا اور حکما اسلام اور صوفیہ نے بھی یہی مسلک اختیار کیا۔ صوفیہ مرتبہ اطلاق کو مرتبہ "احدیت" سے تعبیر کرتے ہیں اور کہتے ہیں "احدیت" ناممکن التصور، ناممکن التعبیر اور تمام منطقی ماورائیوں سے بھی وراء الورا ہے : بنام آں کہ آں نامے نہ دارد بہ ہر نامے کہ خوانی سر بر آرد ! لیکن پھر مرتبہ اطلاق ایک ایسے مرتبہ میں نزول کرتا ہے جس میں تمام ایجابی صفات کی صورت آرائی کا تشخص نمودار ہوجاتا ہے۔ اوپانی شد نے اسے "ایشور" سے اور صوفیہ نے "واحدیت" سے تعبیر کیا ہے۔ ویدانت سوتر کے شارحوں میں شنکر نے سب سے زیادہ اوپانی شد کے نفی صفات کے مسلک کو قائم رکھنا چاہا ہے۔ اور اس باب میں بڑی کاوش کی۔ تاہم اسے بھی "سگن برہمن" یعنی ذات مشخص و متصف کے مرتبہ کا اعتراف کرنا پڑا اور گو اس مرتبہ کے عرفان کو وہ "اپرم" یعنی فروتر مرتبہ کا عرفان قرار دیتا ہے مگر ساتھ ہی تسلیم کرتا ہے کہ ایک معبود ہستی کا تصوربغیر اس کے ممکن نہیں۔ اور انسانی ذہن و ادراک کے لیے زیادہ سے زیادہ بلند پروزی جو یہاں ہوسکتی ہے، وہ یہی ہے۔ (شنکر بھاشیا۔1۔2۔ اور شند دگیا اوپانی شد قسم 8) (بقیہ تفسیر ملاحظہ ہو اگلی آیت میں) الفاتحة
7 (تفسیر آیت 3 اور 4: مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ کا بقیہ حصہ): (2)۔ صفات رحمت و جمال : ثانیاً تنزیہہ کی طرح صفات رحمت و جمال کے لحاظ سے بھی قرآن کے تصور پر نظر ڈالی جائے تو اس کی شان تکمیل نمایاں ہے۔ نزول قرآن کے وقت یہودی تصور میں قہر و غضب کا عنصر غالب تھا۔ مجوسی تصور نے نور و ظلمت کی دو مساویانہ قوتیں الگ الگ بنا لی تھیں۔ مسیحی تصور نے رحم و محبت پر زور دیا تھا۔ لیکن جزا کی حقیقت مستور ہوگئی تھی۔ اسی طرح پیروان بدھ نے بھی صرف رحم و محبت محبت پر زور دیا۔ عدالت نمایاں نہیں ہوئی۔ گویا جہاں تک رحمت و جمال کا تعلق ہے یا تو قہر و غضب کا عنصر غالب تھا یا مساوی تھا یا پھر رحمت و محبت آئی تھی تو اس طرح آئی تھی کہ عدالت کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہی تھی۔ لیکن قرآن نے ایک طرف تو رحمت و جمال کا ایسا کامل تصور پیدا کردیا کہ قہر و غضب کے لیے کوئی جگہ ہی نہ رہی دوسری طرف جزائے عمل کا سر رشتہ بھی ہاتھ سے نہیں دیا کیونکہ جزا کا اعتقاد قہر و غضب کی بنا پر نہیں بلکہ عدالت کی بنا پر قائم کردیا۔ چنانچہ صفات الٰہی کے بارے میں اس کا عام اعلان یہ ہے : "قل ادعوا اللہ اوادعوا الرحمن ایاما تدعوا فلہ الاسماء الحسنی : اے پیغمبر، ان سے کہہ دو، تم خدا کو اللہ کے نام سے پکارو یا رحمن کہہ کر پکارو جس صفت سے بھی پکارو اس کی ساری صفتیں حسن و خوبی کی صفتیں ہیں" یعنی وہ خدا کی تمام صفتوں کو "اسمائے حسنی" قرار دیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا کی کوئی صفت نہیں جو حسن و خوبی کی صفت نہ ہو۔ یہ صفتیں کیا کیا ہیں؟ قرآن نے پوری وسعت کے ساتھ انہیں جابجا بیان کیا ہے۔ ان میں ایسی صفتیں بھی ہیں جو بظاہر قہر و جلال کی صفتیں ہیں۔ مثلاً جبار، قہار، لیکن قرآن کہتا ہے، وہ بھی "اسمائے حسنی" ہیں۔ کیونکہ ان میں قدرت و عدالت کا ظہور ہوا ہے اور قدرت و عدالت حسن و خوبی ہے۔ خونخواری و خوفناکی نہیں ہے۔ چنانچہ سورۃ حشر میں صفات رحمت و جمال کے ساتھ قہر و جلال کا بھی ذکر کیا ہے اور پھر متصلاً ان سب کو "اسمائے حسنی" قرار دیا ہے۔ " ہُوَ اللَّہُ الَّذِی لا إِلَہَ إِلا ہُوَ الْمَلِکُ الْقُدُّوسُ السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّہِ عَمَّا یُشْرِکُونَ (٢٣) ہُوَ اللَّہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الأسْمَاءُ الْحُسْنَی یُسَبِّحُ لَہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ وَہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ (٢٤): وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ و الملک ہے۔ القدوس ہے۔ السلام ہے۔ المومن ہے۔ المہیمن ہے۔ العزیز ہے۔ الجبار ہے۔ المتکبر ہے۔ اور اس ساجھے سے پاک ہے جو لوگوں نے اس کی معبودیت میں بنا رکھے ہیں، وہ الخالق ہے۔ الباری ہے۔ المصور ہے (غرض کہ) اس کے لیے حسن و خوبی کی صفتیں ہیں۔ آسمان و زمین میں جتنی بھی مخلوقات ہیں سب اس کی پاکی اور عظمت کی شہادت دے رہی ہیں اور بلاشبہ وہی ہے جو حکمت کے ساتھ غلبہ و توانائی بھی رکھنے والا ہے" اسی طرح سورۃ اعراف میں ہے : "وللہ الاسماء الحسنی فادعوہ بہا وذروا الذین یلحدون فی اسمائہ : اور اللہ کے لیے حسن و خوبی کی صفتیں ہیں۔ سو چاہیے کہ ان صفتوں سے اسے پکارو۔ اور جن لوگوں کا شیوہ یہ ہے کہ اس کی صفتوں میں کج اندیشیاں کرتے ہیں، انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو" 1؎ چنانچہ اسی لیے سورۃ فاتحہ میں صرف تین صفتیں نمایاں ہوئیں : ربوبیت، رحمت اور عدالت۔ اور قہر و غضب کی کسی صفت کو یہاں جگہ نہ دی گئی۔ 1؎۔ اس آیت میں "الحاد فی الاسماء " سے مقصد کیا ہے؟ "الحاد" لحد سے ہے۔ "لحد" کے معنی میلان عن الوسط کے ہیں۔ یعنی درمیان سے کسی ایک طرف کو ہٹا ہوا ہونا۔ اسی لیے ایسی قبر کو جس میں نعش کی جگہ ایک طرف کو ہٹی ہوئی ہوتی ہے۔ لحد کہتے ہیں۔ جب یہ لفظ انسانی افعال کے لیے بولا جاتا ہے تو اس کے معنی راہ حق سے ہٹ جانے کے ہوتے ہیں۔ کیونکہ وسط حق ہے اور جو اس سے منحرف ہو باطل ہے۔ الحد فلان۔ ای مال عن الحق۔ پس یہاں الحاد فی الاسماء کا مطلب یہ ہوا کہ خدا کی صفات کے بارے میں جو راہ حق ہے اس سے منحرف ہوجانا۔ امام راغب اصفہانی نے اس کی تشریح حسب ذیل لفظوں میں کی ہے " ان یوصف بما لا یصح وصفہ بہ او ان یتاول اوصافہ علی مالا یلیق بہ (مفردات 464)۔ یعنی خدا کے لیے کوئی ایسا وصف قرار دینا جو اس کا وصف نہیں ہونا چا ہے یا اس کی صفتوں کا ایسا مطلب ٹھہرانا جو اس کی شان کے لائق نہیں۔ 12۔ (3)۔ اشراکی تصورات کا کلی انسداد : ثالثاً : جہاں تک توحید و اشراک کا تعلق ہے قرآن کا تصور اس درجہ کامل اور بے لچک ہے کہ اس کی کوئی نظیر پچھلے تصورات میں نہیں مل سکتی۔ اگر خدا اپنی ذات میں یگانہ ہے تو ضروری ہے کہ وہ اپنی صفات میں بھی یگانہ ہو۔ کیونکہ اس کی یگانگت کی عظمت قائم نہیں رہ سکتی اگر کوئی دوسری ہستی اس کی صفات میں شریک و سہیم مان لی جائے۔ قرآن سے پہلے توحید کے ایجابی پہلو پر تو تمام مذاہب نے زور دیا تھا لیکن سلبی پہلو نمایاں نہیں ہوسکا تھا۔ ایجابی پہلو یہ ہے کہ خدا ایک ہے۔ سلبی یہ ہے کہ اس کی طرح کوئی نہیں۔ اور جب اس کی طرح کوئی نہیں تو ضروری ہے کہ جو صفتیں اس کے لیے ٹھہرا دی گئی ہیں ان میں کوئی دوسری ہستی شریک نہ ہو۔ پہلی بات توحید فی الذات سے اور دوسری توحید فی الصفات سے تعبیر کی گئی ہے۔ قرآن سے پہلے اقوام عالم کی استعداد اس درجہ بلند نہیں ہوئی تھی کہ توحید فی الصفات کی نزاکتوں اور بندشوں کی متحمل ہوسکتی اس لیے مذاہب نے تمام تر زور توحید فی الذات ہی پر دیا۔ توحید فی الصفات اپنی ابتدائی اور سادہ حالت میں چھوڑ دی گئی۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں باوجودیکہ تمام مذاہب قبل از قرآن میں عقیدہ توحید کی تعلیم موجود تھی لیکن کسی نہ کسی صورت میں شخصیت پرستی، عظمت پرستی، اور اصنام پرستی نمودار ہوتی رہی اور رہنمایان مذاہب اس کا دروازہ بند نہ کرسکے۔ ہندوستان میں تو غالباً اول روز ہی سے یہ بات تسلیم کرلی گئی تھی کہ عوام کی تشفی کے لیے دیوتاؤں اور انسانی عظمتوں کی پرستاری ناگریز ہے اور اس لیے توحید کا مقام صرف خواص کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔ فلاسفہ یونان کا بھی یہی خیال تھا۔ یقیناً وہ اس بات سے بے خبر نہ تھے کہ کوہ الیمپس کے دیوتاؤں کی کوئی اصلیت نہیں، تاہم سقراط کے علاوہ کسی نے بھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ عوام کے اصنامی عقائد میں خلل انداز ہو۔ وہ کہتے تھے اگر دیوتاؤں کی پرستش کا نظام قائم نہ رہا تو عوام کی مذہبی زندگی درہم برہم ہوجائے گی۔ فیثا غورس کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ جب اس نے اپنا مشہور حسابی قاعدہ معلوم کیا تھا تو اس کے شکرانے میں سو بچھڑوں کی قربانی دیوتاؤں کے نذر کی تھی۔ اس بارے میں سب سے زیادہ نازک معاملہ معلم و رہنما کی شخصیت کا تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی تعلیم عظمت و رفعت حاصل نہیں کرسکتی جب تک معلم کی شخصیت میں بھی عظمت کی شان پیدا نہ ہوجائے۔ لیکن شخصیت کی عظمت کے حدود کیا ہیں؟ یہیں آ کر سب کے قدموں نے ٹھوکر کھائی۔ وہ اس کی ٹھیک حد بندی نہ کرسکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کبھی شخصیت کو خدا کا اوتار بنا دیا، کبھی ابن اللہ سمجھ لیا، کبھی شریک و سہیم ٹھہرا دیا اور اگر یہ نہیں کیا تو کم از کم اس کی تعظیم میں بندگی و نیاز کی سی شان پیدا کردی۔ یہودیوں اپنے ابتدائی عہد کی گمراہیوں کے بعد کبھی ایسا نہیں کیا کہ پتھر کے بت تراش کر ان کی پوجا کی ہو۔ لیکن اس بات سے وہ بھی نہ بچ سکے کہ اپنے نبیوں کی قبروں پر ہیکل تعمیر کر کے انہیں عبادت گاہوں کی سی شان و تقدیس دے دیتے تھے۔ گوتم بدھ کی نسبت معلوم ہے کہ اس کی تعلیم میں اصنام پرستی کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔ اس کی آخری وصیت جو ہم تک پہنچی ہے یہ ہے "ایسا نہ کرنا کہ میری نعش کی راکھ کی پوجا شروع کردو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو یقین کرو نجات کی راہ تم پر بند ہوجائے گی" (آرلی بودھ ازم 12)۔ لیکن اس وصیت پر جیسا کچھ عمل کیا گیا، وہ دنیا کے سامنے ہے۔ نہ صرف بدھ کی خاک اور یادگاروں پر معبد تعمیر کیے گئے۔ بلکہ مذہب کی اشاعت کا ذریعہ ہی یہ سمجھا گیا کہ اس کے مجسموں سے زمین کا کوئی گوشہ خالی نہ رہے۔ ویہ واقعہ ہے کہ دنیا میں معبود کے بھی اتنے مجسمے نہیں بنائے گئے جتنے گوتم بدھ کے بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح ہمیں معلوم ہے کہ مسیحیت کی حقیقی تعلیم سرتاسر توحید کی تعلیم تھی لیکن ابھی اس کے ظہور پر پورے سو برس بھی نہیں گزرے تھے کہ الوہیت مسیح کا عقیدہ نشوونما پا چکا تھا۔ توحید فی الصفات : لیکن قرآن نے توحید فی الصفات کا ایسا کامل نقشہ کھینچ دیا کہ اس طرح کی لغزشوں کے تمام دروازے بند ہوگئے۔ اس نے صرف توحید ہی پر زور نہیں دیا بلکہ شرکی کی بھی راہیں بند کردیں اور یہی اس باب میں اس کی خصوصیت ہے۔ وہ کہتا ہے ہر طرح کی عبادت اور نیاز کی مستحق صرف خدا ہی کی ذات ہے۔ پس اگر تم نے عابدانہ عجز و نیاز کے ساتھ کسی دوسری ہستی کے سامنے سر جھکایا تو توحید الٰہی کا اعتقاد باقی نہ رہا۔ وہ کہتا ہے یہ اسی کی ذات ہے جو انسانی کی پکار سنتی اور ان کی دعائیں قبول کرتی ہے۔ پس اگر تم نے اپنی دعاؤں اور طلبگاریوں میں کسی دوسری ہستی کو بھی شریک کرلیا تو گویا تم نے اسے خدا کی خدائی میں شریک کرلیا۔ وہ کہتا ہے کہ دعا، استعانت، رکوع و سجود، عجز و نیاز، اعتماد و توکل اور اس طرح کے تمام عبادت گزارانہ اور نیاز مندانہ اعمال وہ اعمال ہیں جو خدا اور اس کے بندوں کا باہمی رشتہ قائم کرتے ہیں۔ پس اگر ان اعمال میں تم نے کسی دوسری ہستی کو بھی شریک کرلیا تو خدا کے رشتہ معبودیت کی یگانگی باقی نہ رہی۔ اسی طرح عظمتوں، کبریائیوں، کارسازیوں اور بے نیازیوں کا جو اعتقاد تمہارے اندر خدا کی ہستی کا تصور پیدا کرتا ہے وہ صرف خدا ہی کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔ اگر تم نے ویسا ہی اعتقاد کسی دوسری ہستی کے لیے بھی پیدا کرلیا تو تم نے اسے خدا کا نِد یعنی شریک ٹھہرا لیا اور توحید کا اعتقاد درہم برہم ہوگیا !۔ یہی وجہ ہے کہ سورۃ فاتحہ میں ایاک نعبد وایاک نستعین کی تلقین کی گئی۔ اس میں اول تو عبادت کے ساتھ استعانت کا بھی ذکر کیا گیا پھر دونوں جگہ مفعول کو مقدم کیا جو مفید حصر ہے۔ یعنی "صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھی سے مدد طلب کرتے ہیں" اس کے علاوہ تمام قرآن میں اس کثرت کے ساتھ توحید فی الصفات اور رد اشراک پر زور دیا گیا ہے کہ شاید ہی کوئی سورت بلکہ کوئی صفحہ اس سے خالی ہو۔ مقام نبوت کی حد بندی : سب سے زیاہ اہم مسئلہ مقام نبوت کی حد بندی کا تھا۔ یعنی معلم کی شخصیت کو اس کی اصلی جگہ میں محدود کردینا تاکہ شخصیت پرستی کا ہمیشہ کے لیے سد باب ہوجائے۔ اس بارے میں قرآن نے جس طرح صاف اور قطعی لفظوں میں جا بجا پیغمبر اسلام کی بشریت اور بندگی پر زور دیا ہے محتاج بیان نہیں۔ ہم یہاں صرف ایک بات کی طرف توجہ دلائیں گے۔ اسلام نے اپنی تعلیم کا بنیادی کلمہ جو قرار دیا ہے وہ سب کو معلوم ہے "اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمد عبدہ ورسولہ" یعنی میں اقرار کرتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اقرار کرتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہے" اس اقرار میں جس طرح خدا کی توحید کا اعتراف کیا گیا ہے ٹھیک اسی طرح پیغمبر اسلام کی بندگی اور درجہ رسالت کا اعتقاد اسلام کی اصل و اساس بن جائے اور اس کا کوئی موقع ہی باقی نہ رہے کہ عبدیت کی جگہ معبودیت کا اور رسالت کی جگہ اوتار کا تخیل پیدا ہو۔ ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ اس معاملہ کا تحفظ کیا جاسکتا تھا؟ کوئی شخص دائرہ اسلام میں داخل ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ خدا کی توحید کی طرح پیغمبر اسلام کی بندگی کا بھی اقرار نہ کرلے ! یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں، پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد مسلمانوں میں بہت سے اختلافات پیدا ہوئے لیکن ان کی شخصیت کے بارے میں کبھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوا۔ ابھی ان کی وفات پر چند گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے برسر منبر اعلان کردیا تھا : "من کان منکم یعبد محمدا فان محمدا قد مات و من کان منکم یعبد اللہ فان اللہ حی لا یموت : جو کوئی تم میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پرستش کرتا تھا۔ سو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد نے وفات پائی۔ اور جو کوئی تم میں سے اللہ کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کی ذات ہمیشہ زندہ ہے اس لیے موت نہیں" (بخاری شریف) (4)۔ عوام اور خواص دونوں کے لیے ایک تصور : رابعاً قرآن سے پہلے علوم وفنون کی طرح مذہبی عقائد میں بھی خاص و عام کا امتیاز ملحوظ رکھا جاتا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ خدا کا ایک تصور تو حقیقی ہے اور خواص کے لیے ہے۔ ایک تصور مجازی ہے اور عوام کے لیے ہے۔ چنانچہ ہندوستان میں خدا شناسی کے تین درجے قرار دیے گئے : عوم کے لیے دیوتاؤں کی پرستش، خواص کے لیے براہ راست خدا کی پرستش اور اخص الخواص کے لیے وحدۃ الوجود کا مشاہدہ۔ یہی حال فلاسفہ یونان کا تھا۔ وہ خیال کرتے تھے کہ ایک غیر مرئی اور غیر مجسم خدا کا تصور صرف اہل علم و حکمت ہی کرسکتے ہیں۔ عوام کے لیے اسی میں امن ہے کہ دیوتاؤں کی پرستاری میں مشغول رہیں۔ لیکن قرآن نے حقیقت و مجاز یا خاص و عام کا کوئی امتیاز باقی نہ رکھا۔ اس نے سب کو خدا پرستی کی ایک ہی راہ دکھائی اور سب کے لیے صفات الٰہی کا ایک ہی تصور پیش کردیا۔ وہ حکما و عرفا سے لے کر جہاد و عوام تک سب کو حقیقت کا ایک ہی جلوہ دکھاتا ہے اور سب پر اعتقاد و ایمان کا ایک ہی دروازہ کھولتا ہے۔ اس کا تصور جس طرح ایک حکیم وعارف کے لیے سرمایہ تفسکر ہے اسی طرح ایک چرواہے اور دہقان کے لیے سرمایہ تسکین ! اس سلسلہ میں معاملہ کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے۔ ہندوستان میں خواص اور عوام کے خدا پرستانہ تصوروں میں جو فرق مراتب ملحوظ رکھا گیا وہ معاملہ کو اس رنگ میں بھی نمایاں کرتا ہے کہ یہاں کا مذہبی نقطہ خیال ابتدا سے فکر و عمل کی رواداری پر مبنی رہا ہے۔ یعنی کسی دائرہ فکر کو بھی اتنا تنگ اور بے لچک نہیں رکھا گیا کہ کسی دوسرے دائرہ کی اس میں گنجائش ہی نہ نکل سکے۔ یہاں خواص توحید کی راہ پر گامزن ہوئے لیکن عوام کے لیے دیوتاؤں کی پرستش اور مورتیوں کی معبودیت کی راہیں بھی کھلی چھوڑ دی گئیں۔ گویا ہر عقیدہ کو جگہ دی گئی۔، ہر عمل کے لیے گنجائش نکالی گئی اور ہر طور طریقہ کو آزادانہ نشوونما کا موقع مل گیا۔ مذہبی اختلاف جو دوسری قوموں میں باہمی جنگ و جدال کا ذریعہ رہا ہے یہاں آپس کے سمجھوتوں کا ذریعہ بنا اور ہمیشہ متعارض اصول باہم دگر ٹکرانے کی گجہ ایک دوسرے کے لیے جگہیں نکالتے رہے۔ تخالف کی حالت میں تفاہم اور تعارض کی حالت میں تطابق گویا یہاں کے ذہنی مزاج کی عام خصوصیت تھی۔ ایک ویدانتی جانتا ہے کہ اصل حقیقت اشراک اور بت پرستی کے عقائد سے بالا تر ہے تاہم یہ جاننے پر بھی وہ بت پرستی کا منکر و مخالف نہیں ہوجاتا۔ کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ پس ماندگان راہ کے لیے یہ بھی ایک ابتدائی منزل ہوئی اور راہرو کوئی راہ اختیار کرے مگر مقصود اصلی ہر حال میں سب کا ایک ہی ہے : خواہ از طریق میکدہ خواہ از رہ حرم از ہر جہت کہ شاد شوی فتح باب گیر ! چنانچہ چند سال ہوئے پروفیسر سی۔ ای۔ ام جوڈ (Joad) ہندوستان کے تاریخی خصائص پر نظر ڈالتے ہوئے اس خصوصیت کو سب سے زیادہ نمایاں جگہ دی تے ھی اور اس سے پہلے دوسرے اہل قلم بھی اس پہلو پر زور دے چکے ہیں۔ ہمیں چاہیے معاملے کے اس پہلو پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ بلاشبہ فکر و عمل کی اس روادارانہ سوچ کا جو ہندوستان کی تاریخ میں برابر ابھرتی رہی ہے ہمیں اعتراف کرنا چاہیے لیکن معاملہ صرف اتنے ہی پر ختم نہیں ہوجاتا۔ زندگی کے حقائق کے تقاضوں کا یہاں کچھ عجیب حال ہے۔ یہاں ہم کسی ایک گوشے ہی کے ہو کر نہیں رہ جاسکتے۔ دوسرے گوشوں کی بھی خبر رکھنی پڑتی ہے۔ اور فکر و عمل کی ہر راہ اتنی دور تک چلی گئی ہے کہ کہیں کہیں جا کر حد بندی کی لکیریں کھینچنی پڑتی ہیں۔ اگر ایسا نہ کریں تو علم و اخلاق کے تمام احکام متزلزل ہوجائیں اور اخلاق اقدار کی کوئی مستقل حیثیت باقی نہ رہے۔ رواداری یقیناً ایک خوبی کی بات ہے لیکن ساتھ ہی عقیدہ کی مضبوطی، رائے کی پختگی اور فکر کی استقامت کی خوبیوں سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پس یہاں کوئی نہ کوئی حد بندی کا خط ضرور ہونا چاہیے جو ان تمام خوبیوں کو اپنی اپنی جگہ قائم رکھے۔ اخلاق کے تمام احکام انہی حد بندیوں کے خطوط سے بنتے اور ابھرتے ہیں۔ جونہی یہ ہلنے لگتے ہیں اخلاق کی پوری دیوار ہل جاتی ہے۔ عفو و درگزر بڑی ہی حسن و خوبی کی بات ہے لیکن یہ عفو و درگزر جب اپنی حد بندی کے خط سے آگے بڑھ جاتا ہے تو عفو و درگزر نہیں رہتا اسے بزدلی اور بے ہمتی کے نام سے پکارنے لگتے ہیں۔ شجاعت انسانی سیرت کا سب سے بڑا وصف ہے۔ لیکن یہ وصفت جب اپنی حد سے گزر جائے گا تو نہ صرف اس کا حکم ہی بدل جائے گا بلکہ صورت بھی بدل جائے گی۔ اب اسے دیکھیے تو وہ شجاعت نہیں ہے قہر و غضب اور ظلم وتشدد ہوگیا۔ دو حالتیں ہیں اور دونوں کا حکم ایک نہیں ہوسکتا۔ ایک حالت یہ ہے کہ کسی خاص اعتقاد اور عمل کی روشنی ہمارے سامنے آگئی ہے اور ہم ایک خاص نتیجہ تک پہنچ گئے ہیں َ اب اس کی نسبت ہمار اطرز عمل کیا ہونا چاہیے؟ ہم اس پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں یا متزلزل رہیں ؟ دوسرے حالت یہ ہے کہ جس طرح ہم کسی خاص نتیجے تک پہنچے ہیں اسی طرح ایک دوسری شخص بھی ایک دوسرے نتیجے تک پہنچ گیا ہے اور یہاں فکر و عمل کی ایک ہی راہ سب کے آگے نہیں کھلتی۔ اب ہمارا طرز عمل اس شخص کی نسبت کیا ہونا چاہیے؟ ہماری طرح اسے بھی اپنی راہ چلنے کا حق ہے یا نہیں؟ رواداری کا صحیح محل دوسری حالت ہے۔ پہلی نہیں ہے۔ اگر پہلی حالت میں وہ آئے گی تو یہ رواداری نہ ہوگی۔ اعتقاد کی کمزوری اور یقین کا فقدان ہوگا۔ رواداری یہ ہے کہ اپنے حق اعتقاد و عمل کے ساتھ دوسرے حق اعتقاد و عمل کا بھی اعتراف کیجیے۔ اور اگر دوسرے کی راہ آپ کی صریح غلط دکھائی دے رہی ہے جب بھی اس کے اس کے حق سے انکار نہ کیجیے کہ وہ اپنی غلط راہ پر بھی چل سکتا ہے۔ لیکن اگر رواداری کے حدود یہاں تک بڑھا دیے گئے کہ وہ آپ عقیدوں میں بھی مداخلت کرسکتی ہے اور آپ کے فیصلوں کو بھی نرم کرسکتی ہے پھر یہ رواداری نہ ہوئی استقامت فکر کی نفی ہوگئی۔ مفاہمت زندگی کی ایک بنیادی ضرورت ہے اور ہماری زندگی ہی سرتاسر مفاہمت ہے۔ لیکن ہر راہ کی طرح یہاں بھی حد بندی کی کوئی لکیر کھینچنی پڑے گی اور جس حد پر بھی جا کر لکیر کھینچی گئی معاً عقیدہپیدا ہوگیا۔ اب جب تک عقیدہ کی تبدیلی کی کوئی روشنی سامنے نہیں آتی آپ مجبور ہیں کہ اس پر جمے رہیں اور اس میں کاٹ چھانٹ نہ کریں۔ آپ دوسروں کے عقائد کا احترام ضرور کریں گے لیکن اپنے عقیدہ کو بھی کمزوری کے حوالہ نہیں ہونے دیں گے۔ کتنی ہی مصیبتیں ہیں جو اعتقاد اور عمل کے تمام گوشوں میں اسی دروازہ سے آئیں کہ ان دو مختلف حالتوں کا امتیازی خط اپنی جگہ سے ہل گیا۔ اگر اعتقاد کی مضبوطی آئی تو اتنی دور تک چلی گئی کہ رواداری کے تمام تقاضے بھلا دیے گئے اور دوسروں کے اعتقاد و عمل میں جبراً مداخلت کی جانے لگی۔ اگر رواداری آئی تو اس بے اعتدالی کے ساتھ آئی کہ استقامت فکر و رائے کے لیے کوئی جگہ نہ رہی، ہر عقیدہ لچک گیا ہر یقین ہلنے لگا۔ پہلی بے اعتدالی کی مثالیں ہمیں ان مذہبی تنگ نظریوں اور سخت گیریوں میں ملتی ہیں جن کی خونچکاں داستانوں سے تاریخ کے اوراق رنگین ہوچکے ہیں۔ دوسری بے اعتدالی کے نتائج کی مثال ہمیں ہندوستان کی تاریخ مہیا کردیتی ہے۔ یہہاں فکر و عقیدہ کی کوئی بلندی بھی وہم و جہالت کی گراوٹ سے اپنے آپ کو محفوظ نہ رکھ سکی اور علم و عقل اور وہم و جہل میں ہمیشہ سمجھوتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ان سمجھوتوں نے ہندوستانی دماغ کی شکل و صورت بگاڑ دی۔ اس کی فکری ترقیوں کا تمام حسن اصنامی عقیدوں اور وہم پرستیوں کے گرد و غبار میں چھپ گیا۔ زمانہ حال کے مورخوں نے اس صورت حال کا اعتراف کیا ہے۔ ہمارے زمانے کا ایک قابل ہندو مصنف اس عہد کی فکری حالت پر نظر ڈالتے ہوئے جب آریائی تصورات ہندوستان کے مقامی مذاہب سے مخلوط ہونے لگے تھے تسلیم کرتا ہے کہ "ہندو مذہب کی مخلوط نوعیت کی توضیح ہمیں اس صورت حال میں مل جاتی ہے۔ صحرا نورد قبائل کے وحشیانہ توہمات سے لے کر اونچے سے اونچے درجہ کے تہ رس غور وخوض تک ہر درجہ اور ہر دائرہ فکر کے خیالات یہاں باہم دگر ملتے اور مخلوط ہوتے رہے۔ آریائی مذہب اول روز سے کشادہ دل، خود رو اور روادار تھا۔ وہ جب کبھی کسی نئے موثر سے دوچار ہوا تو خود سمٹتا گیا اور جگہیں نکالتا رہا۔ اس کی اس مزاجی حالت میں ہم ایک سچے انکسار طبع اور ہمدردانہ مفاہمت کا شائستہ رجحان محسوس کرتے ہیں۔ ہندو دماغ اس کے لیے تیار نہیں ہوا کہ نچلے درجہ کے مذہبوں کو نظر انداز کردے یا لڑا کر ان کی ہستی مٹا دے۔ اس کے اندر ایک مذہبی مجنون کا غرور نہیں تھا کہ صرف اسی کا مذہب سچا مذہب ہے۔ اگر انسانوں کے ایک گروہ کو کسی ایک معبود کی پرستش اس کے طور طریقے پر تسکین قلب مہیا کردیتی ہے تو تسلیم کرلینا چاہیے کہ یہ بھی سچائی کی ایک راہ ہے۔ مکمل سچائی پر کوئی بیک دفعہ قابض نہیں ہوسکتا۔ وہ صرف بتدریج اور بہ تفریق ہی حاصل کی جاسکتی ہے اور یہاں ابتدائی اور عارضی درجوں کو بھی ان کی ایک جگہ دینی پڑتی ہے۔ ہندو دماغ نے رواداری اور باہمی مفاہمتوں کی یہ راہ اختیار کرلی لیکن وہ یہ بات بھول گیا کہ بعض حالات ایسے بھی ہوتے ہیں جب رواداری کی جگہ نارواداری ایک فضیلت کا حکم پیدا کرلیتی ہے اور مذہبی معاملات میں بھی گریشم کے قانون کی طرح کا ایک قانون کام کرتا رہتا ہے (گریشم کے قانون سے مقصود اقتصادیات کی یہ اصل ہے کہ اگر کھرے سکوں کے ساتھ کھوٹے سکے ملا دیے جائیں گے تو کھرے سکوں کی قیمت باقی نہیں رہے گی)۔ جب آریائی اور غیر آریائی مذاہب باہم دگر ملے۔ ایک شائستہ، دوسرا ناشائستہ، ایک اچھی قسم کا، دوسرا نکما۔ تو غیر شائستہ اور نکمے اجزا میں قدرتی طور پر یہ میلان پیدا ہوگیا کہ شائستہ اور اچھے اجزا کو دبا کر معطل کردے۔" (پروفیسر اس رادھا کرشناں۔ انڈین فلاسفی۔ جلد اول صفحہ 119۔ طبع ثانی)۔ بہرحال قرآن کے تصور الٰہی کی ایک بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے کسی طرح کی اعتقادی مفاہمت اس بارے میں جائز نہیں رکھی۔ وہ اپنے توحید اور تنزیہی تصور میں سرتاسر بے میل اور بے لچک رہا۔ اس کی یہ مضبوط جگہ کسی طرح بھی ہمیں روادرانہ طرز عمل سے روکنا نہیں چاہتی۔ البتہ اعتقادی مفاہمتوں کے تمام دروازے بند کردیتی ہے۔ خامساً: قرآن نے تصور الٰہی کی بنیاد انسان کے عالمگیر وجدانی احساس پر رکھی ہے۔ یہ نہیں کیا ہے کہ اسے نظر و کفر کی کاوشوں کا ایک ایسا معمہ بنا دیا ہو جسے کسی خاص طبقہ کا ذہن ہی حل کرسکے۔ انسان کا عالمگیر وجدانی احساس کیا ہے؟ یہ ہے کہ کائنات ہستی خود بخود پیدا نہیں ہوگئی ہے اور اس لیے ضروری ہے کہ ایک صانع ہستی موجود ہو۔ پس قرآن بھی اس بارے میں عام طور پر جو کچھ تلاتا ہے وہ اتنا ہی ہے اس سے زیادہ جو کچھ ہے وہ مذہبی عقیدہ کا معاملہ نہیں ہے۔ انفرادی اور ذاتی تجربہ و احوال کا معاملہ ہے۔ اس لیے وہ اس کا بوجھ جماعت کے افکار پر نہیں ڈالتا۔ اسے اصحاب جہد و طلب کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ "والذین جاھدوا فینا لنہدینہم سبلنا وان اللہ لمع المحسنین : اور جو لوگ ہم تک پہنچنے کے لیے کوشش کریں گے تو ہم بھی ضرور ان پر راہ کھول دیں گے اور اللہ نیک کرداروں سے الگ کب ہے؟ وہ تو ان کے ساتھ ہے !" "وفی الارض ایات للموقنین۔ وفی انفسکم افلا تبصرون : اور ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں زمین میں کتنی ہی حقیقت کی نشانیاں ہیں اور خود تمہارے اندر بھی، پھر کیا تم دیکھتے نہیں؟" سادساً: اسی مقام سے وہ فرق مراتب بھی نمایاں ہوجاتا ہے جو اسلام نے بالکل ایک دوسری شکل و نوعیت میں عوام و خواص کا ملحوظ رکھا ہے۔ ہندو مفکروں نے عوام اور خواص میں الگ الگ تصور اور عقیدے تقسیم کیے۔ اسلام نے تصور اور عقیدے کے اعتبار سے کوئی امتیاز جائز نہیں رکھا۔ وہ حقیقت کا ایک ہی عقیدہ ہر انسانی دل و دماغ کے آگے پیش کرتا ہے۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ طلب و جہد کے لحاظ سے سب کے مراتب یکساں نہیں ہوسکتے۔ اور یہاں ایک ہی درجہ کی پیاس لے کر ہر طالب حقیقت نہیں آتا۔ عامۃ الناس بحیثیت جماعت کے اپنا ایک خاص مزاج اور اپنی خاص احتیاج رکھتے ہیں۔ خاص افراد بحیثیت فرد کے اپنی طلب و اسستعداد کا الگ الگ درجہ و مقام رکھتے ہیں۔ پس اس نے جس امتیاز سے پہلی صورت میں انکار کردیا تھا اس سے دوسری صورت میں انکار نہیں کیا اور مختلف مدارج طلب کے لیے عرفان و یقین کی مختلف راہیں کھلی چھوڑ دیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک متفق علیہ روایت میں جو حدیث جبریل کے نام سے مشہور ہے، نہایت جامع و مانع لفظوں میں یہ فرق مراتب واضح کردیا گیا ہے۔ یہ حدیث تین مرتبوں کا ذکر کرتی ہے۔ اسلام، ایمان اور احسان۔ اسلام یہ ہے کہ اسلامی عقیدے کا اقرار کرنا اور عمل کے چاروں رکن یعنی نماز روزہ، حج اور زکوۃ انجام دینا۔ ایمان یہ ہے کہ اقرار کے مرتبہ سے آگے بڑھنا اور اسلام کے بنیادی عقائد کے حق الیقین کا مرتبہ حاص کرنا۔ احسان یہ ہے کہ : "ان تعبداللہ کانک تراہ وان لم تکن تراہ فانہ یراک : تو اللہ کی اس طرح عبادت کرے گویا اسے اپنے سامنے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ ررہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے" (صحیحین) پس گویا عرفان حقیقت کے لحاظ سے یہاں تین مرتبے ہوئے۔ پہلا مرتبہ اسلامی دائرہ کے عام اعتقاد و عمل کا ہے۔ یہ اسلام ہے۔ یعنی جس نے اسلامی عقیدہ کا اقرار کرلیا اور اس کے اعمال کی زندگی اختیار کرلی وہ اس دائرہ میں آگیا۔ لیکن دائرہ میں داخل ہوجانے سے یہ لازم نہیں آجاتا کہ علم و یقین کے جو مقامات ہیں وہ بھی ہر ورد و داخل کو حاصل ہوگئے۔ پس اب دوسرا مرتبہ نمایاں ہوا جسے ایمان سے تعبیر کیا ہے۔ اسلام ظاہر کا اقرار و عمل تھا۔ ایمان دل و دماغ کا یقین و اذعان ہے۔ یہ مرتبہ جس نے حاسل کرلیا وہ عوام سے نکل کر خواص کے زمرہ میں داخل ہوگیا۔ لیکن معاملہ اتنے ہی پر ختم نہیں ہوجاتا۔ عرفان حقیقت اور عین الیقین ایقان کا ایک اور مرتبہ ابھی باقی رہ جاتا ہے۔ اسے احسان سے تعبیر کیا گیا۔ لیکن یہ مقام محض اعتقاد اور یقین پیدا کرلینے کا نہیں ہے جو ایک گروہ کو بحیثیت گروہ کے حاصل ہوسکتا ہے۔ یہ ذاتی تجربہ کا مقام ہے۔ جو یہاں تک پہنچتا ہے وہ اپنے ذات تجربہ و کشف سے یہ درجہ حاصل کرلیتا ہے۔ تعلیمی اور احکامی عقائد کو اس میں دخل نہیں۔ بحث و نظر کی اس میں گنجائش نہیں۔ یہ خود کرنے اور پانے کا معاملہ ہے۔ بتلانے اور سمجھانے کا معاملہ نہیں۔ جو یہاں تک پہنچ گیا وہ اگر کچھ بتلائے گا بھی تو یہی بتلائے گا کہ، میری طرح بن جاؤ۔ پھر جو کچھ دکھائی دیتا ہے دیکھ لو : پرسید یکے کہ عاشقی چیست؟ گفتم کہ چومن شوی بدانی اسلام نے اس طرح طلب و جہد کی پیاس کے لیے درجہ بدرجہ سیرابی کا سامان کردیا۔ عوام کے لیے پہلا مرتبہ کافی ہے۔ خواص کے یے دوسرا مرتبہ ضروری ہے اور اخص الخواص کی پیاس بغیر تیسرے جام کے تسکین پانے والی نہیں۔ اس کے تصور الٰہی اور عقیدہ کا میخانہ ایک ہے لیکن جام الگ الگ ہوئے۔ ہر طا الب کے حصے میں اس کے ظرف کے مطابق ایک جام آجاتا ہے اور اس کی سرشاری کی کیفیتیں مہیا کردیتا ہے۔ وللہ در ما قال : ساقی بہ ہمہ بادہ ز یک خم دہد، اما در مجلس او مستی ہر کس زشرابے ست ! یہاں یہ امر بھی واضح کردینا بے محل نہ ہوگا کہ قرآن کی متعدد تصریحات ہیں جنہیں اگر وحدۃ الوجودہ تصور کی طرف لے جایا جائے تو بلا تکلف دور تک جاسکتی ہیں۔ مثلا ھو الاول والآخر والظاھر والباطن۔ اور اینما تولوا فثم وجہ اللہ اور ونحن اقرب الیہ من حبل الورید۔ اور کل یوم ھو فی شان۔ یا تمام اس طرح کی تصریحات جن میں تمام موجودات کا بالآخر اللہ کی طرف لوٹنا بیان کیا گیا ہے۔ توحید وجودی کے قائل ان تمام آیات سے مسئلہ وحدۃ الوجود پر استدلال کرتے ہیں اور شاہ ولی اللہ نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اگر " میں مسئلہ وحدۃ الوجود کو ثابت کرنا چاہوں تو قرآن و حدیث کے تمام نصوص و ظواہر سے اس کا اثبات کرسکتا ہوں" لیکن صاف بات جو اس بارے میں معلوم ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ ان تمام تصریحات کو ان کے قریبی محامل سے دور نہیں لے جانا چاہیے اور ان معانی سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے جو صدر اول کے مخاطبوں نے سمجھے تھے۔ باقی رہا حقیقت کے کشف و عرفان کا وہ مقام جو عرفائے طریق کو پیش آتا ہے۔ تو وہ کسی طرح بھی قرآن کے تصور الٰہی کے عقیدے کے خلاف نہیں۔ اس کا تصور ایک جامع تصور ہے اور ہر توحیدی تسور کی اس میں گنجائش موجود ہے۔ جو افرادِ خاصہ مقام احسان تک رسائی حاصل کرتے ہیں وہ حقیقت کو اس کی سپ پردہ جلوہ طرازیوں میں دیکھ لیتے ہیں اور عرفان کا وہ منتہی مرتبہ جو فکر انسانی کی دسترس میں ہے انہیں حاصل ہوجاتا ہے۔ ومن لم یذق، لم یدر : تو نظر باز نہ ورنہ تغافل نگہ ست تو زبان فہم نہ ورنہ خموشی سخن ست ! سابعاً: جس ترتیب کے ساتھ سورۃ فاتحہ میں یہ تینوں صٖتیں بیان کی گئی ہیں دراصل فکر انسانی کی طلب و معرفت کی قدرتی منزلیں ہیں اور اگر غور کیا جائے تو اسی ترتیب سے پیش آتی ہیں۔ سب سے پہلے ربوبیت کا ذکر کیا گیا۔ کیونکہ کائنات ہستی میں سب سے زیاہ ظاہر نمود اسی صفت کی ہے اور ہر وجود کو سب سے زیادہ اسی کی احتیاج ہے۔ ربوبیت کے بعد رحمت کا ذکر کیا کیونکہ اس کی حقیقت بمقابلہ ربوبیت کے مطالعہ و تفکر کی محتاج تھی اور ربوبیت کے مشاہدات سے جب نظر آگے بڑھتی ہے تب رحمت کا جلوہ نمودار ہوتا ہے۔ پھر رحمت کے بعد عدالت کی صفت جلوہ افروز ہوئی کیونکہ یہ سفر کی آخری منزل ہے۔ رحمت کے مشاہدات کی منزل سے جب قدم آگے بڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے یہاں عدالت کی نمود بھی ہر جگہ موجود ہے اور اس لیے موجود ہے کہ ربوبیت اور رحمت کا مقتضا یہی ہے۔ (آیت 3 اور 4: مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی تفسیر ختم ہوئی۔ ۔۔۔۔ الفاتحة
0 البقرة
1 البقرة
2 یہ کتاب متقی انسانوں پر فلاح و سعادت کی راہ کھولنے والی ہے۔ متقین، قبولیت حق کے لحاظ سے انسانوں کی پہلی قسم البقرة
3 البقرة
4 البقرة
5 البقرة
6 دوسری قسم منکرین حق کی جو قبولیت کی استعداد کے لحاظ سے پہلی قسم کی ضد ہیں البقرة
7 البقرة
8 تیسری قسم ان لوگوں کی جو اگرچہ خدا پرستی کا دعوی کرتے ہیں مگر فی الحقیقت اس سے محروم ہیں البقرة
9 البقرة
10 البقرة
11 البقرة
12 وہ مفسد ہیں مگر اپنے آپ کو مصلح سمجھتے ہیں البقرة
13 وہ راست بازی کو بے وقوفی اور اور نفاق کو دانشمندی سمجھتے ہیں البقرة
14 راست بازوں کی تحقیر اور ایمان والوں کا تمسخر ان لوگوں کا شیوہ ہے البقرة
15 البقرة
16 البقرة
17 تیسری قسم کے لوگوں کی محرومی ایک مثال البقرة
18 البقرة
19 حق کے ظہور اور محروموں کی محرومی کی دوسری مثال۔ کائنات خلقت کی ہولناکیاں بھی خیر و برکت کے لیے ہیں، لیکن محروموں کے حصے میں خوف و سراسیمگی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ البقرة
20 البقرة
21 توحید الٰہی کی تلقین اور خالقیت اور ربوبیت سے استدلال جس کا یقین انسان کی فطرت میں ہے البقرة
22 البقرة
23 رسالت اور وحی البقرة
24 البقرة
25 البقرة
26 سنت الٰہی یہ ہے کہ وحی کا کلام انسانی بول چال کے مطابق ہوتا ہے اور بیان حقائق کے لیے مثالیں ضروری ہیں البقرة
27 البقرة
28 آخرت کی زندگی، اور پہلی پیدائش سے دوسری پیدائش پر استدلال البقرة
29 زمین کی مخلوقات میں نوع انسانی برتری اور مخلوقات ارضی کا اس لیے ہونا تاکہ انسان انہیں اپنے کام میں لائے البقرة
30 انسان کا زمین میں خدا کا خلیفہ ہونا، نوع انسانی کی معنوی تکمیل، آدم (علیہ السلام) کا ظہور اور قوموں کی ہدایت و ضلالت کی ابتدا البقرة
31 البقرة
32 البقرة
33 البقرة
34 فرشتوں کا آدم کے سامنے سربسجود ہوجانا مگر ابلیس کا انکار کرنا البقرة
35 آدم (علیہ السلام) کی بہشنی زندگی اور شجر ممنوع البقرة
36 آدم (علیہ السلام) کی لغزش اور اعتراف قصور۔ قبولیت توبہ اور ایک نئی زندگی کا آغاز البقرة
37 البقرة
38 وحی الٰہی کی ہدایت اور انسان کی سعادت و شقاوت کا قانون البقرة
39 البقرة
40 وحی الٰہی کی ہدایت کا جاری ہونا اور اس سلسلہ میں بنی اسرائیل سے خطاب کہ کتاب اللہ کے سب سے بڑے حامل وحی سمجھے جاتے تھے البقرة
41 البقرة
42 البقرة
43 البقرة
44 البقرة
45 صبر اور نماز دو بڑی روحانی قوتیں ہیں جن سے اصلاح نفس اور انقلاب حال میں مدد لی جاسکتی ہے البقرة
46 البقرة
47 بنی اسرائیل کے ایام و وقائع کا تذکرہ اور قوموں کی ہدایت و ضلالت کے حقائق البقرة
48 البقرة
49 مصر کے فرعونوں کی غلامی سے نجات اور کتاب و فرقان کا عطیہ لیکن بنی اسرائیل کا مصری بت پرستی کی طرف مائل ہوجانا اور گوسالہ پرستی شروع کردینی۔ البقرة
50 البقرة
51 البقرة
52 البقرة
53 البقرة
54 البقرة
55 بنی اسرائیل کی یہ گمراہی کہ ان کے دلوں میں وحی الٰی پر کامل یقین نہ تھا البقرة
56 البقرة
57 صحرائے سینا کی بے آب وگیاہ سرزمین میں زندگی کی تمام ضروریات کا مہیا ہوجانا لیکن بنی اسرائیل کا کفران نعمت کرنا۔ "من" درخت کا شیرہ ہے جو گوند کی طرح جم جاتا ہے اور خوش ذائقہ و مقوی ہوتا ہے۔ "سلوی" ایک پرند ہے۔ یہ دونوں چیزوں کوہ طور کے اطراف و جوانب میں بکثررت ہوتی ہیں۔ "من" کا حلوہ میں خود کھایا ہے جو فلسطین کے یہودی بنایا کرتے ہیں۔ البقرة
58 بنی اسرائیل کی یہ گمراہی کہ جب انہیں فتح و کامرانی عطا کی گئی تو عبودیت و نیاز کی جگہ غفلت و غرور میں مبتلا ہوگئے البقرة
59 البقرة
60 صحرائے سینا میں پانی کے چشموں کا نمایاں ہوجانا لیکن بنی اسرائیل کا پانی کے لیے آپس میں جھگڑا اور فتنہ و فساد پھیلانا البقرة
61 محکومی و غلامی سے قوم کا اخلاق پست ہوجاتا ہے اور بلندمقاصد کے لیے جوش و عزم باقی نہیں رہتا۔ بنی اسرائیل فراعنہ مصر کی غلامی سے آزاد ہوگئے تھے۔ اور قومی عظمت کا مستقبل ان کے سامنے تھا، لیکن وہ ان حقیر راحتوں کے لیے ترستے تھے جو مصر کی غلامانہ زندگی میں میسر تھیں، اور وہ چھوٹی چھوٹی تکلیفیں شاق گذرتی تھیں جو آزادی و عظمت کی راہ میں پیش آتی تھیں۔ البقرة
62 اس اصل عظیم کا اعلان کہ سعادت و نجات ایمان و عمل سے وابستہ ہے۔ نسل و خاندان یا مذہبی گروہ بندی کو اس میں کوئی دخل نہیں۔ یہودی جب ایمان و وعمل سے محروم ہوگئے تو نہ تو ان کی نسل ان کے کام آئی نہ یہودیت کی گروہ بندی سود مند ہوسکی۔ خدا کے قانون نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ کون ہیں اور کس گروہ بندی سے تعلق رکھتے ہیں؟ بلکہ صرف یہ دیکھا کہ عمل کا کیا حال ہے؟ اور پھر جب آزمائش عمل میں پورے نہ اترے تو مغضوب ونامراد ہوگئے۔ البقرة
63 بنی اسرائیل کی یہ گمراہی کہ شریعت کے احکام پر سچائی کے ساتھ عمل نہیں کرتے تھے اور ان سے بچنے کے لیے طرح طرح کے شروعی حیلے گھڑ لیے تھے یعنی محض نمائشی طور پر تو ان کی تعمیل کرلیتے لیکن جو کچھ حقیقی مقصد تھا وہ پورا نہ کرتے۔ البقرة
64 البقرة
65 البقرة
66 البقرة
67 کثرت سوال اور تعمق فی الدین کی گمراہی۔ یعنی احکام حق کی سیدھی سادھی اطاعت کرنے کی جگہ ردوکد کرنا۔ طرح طرح کے سوالات گھڑنا، بلا ضرورت باریک بینیاں اور دقیقہ سنجیاں کرنی اور شریعت کی سادگی اور آسانی کو سختی اور پیچیدگی سے بدل دینا۔ حکم ذبح کے لیے گنتی باب 19۔20، استثنا 21۔2 دیکھو۔ البقرة
68 البقرة
69 البقرة
70 البقرة
71 بنی اسرائیل کا قتل نفس میں بے باک ہوجانا جو شریعت الٰہی کے رو سے انسان کا بڑے سے بڑا جرم ہے البقرة
72 البقرة
73 البقرة
74 بنی اسرائیل کی قلبی و اخلاقی حالت کا انتہائی تنزل حتی کہ اس حالت کا پیدا ہوجانا جب عبرت پذیر اور تنبہ کی استعداد یک قلم معدوم ہوجاتی ہے اور فکر انسان اپنی تباہ شدہ حالت پر قانع و مطمئن ہوجاتا ہے البقرة
75 بنی اسرائیل کے گذشتہ ایام و وقائع کے ذکر کے بعد ان کو موجود اعمال واقوال پر تبصرہ، ان کی اعتقادی اور عملی گمراہیوں کی تشریح اور دین الٰہی کے حجج و رباہین۔ سب سے پہلی اور بنیادی گمراہی یہ ہے کہ نہ تو کتاب اللہ کا سچا علم باقی رہا ہے نہ سچا عمل ! البقرة
76 البقرة
77 البقرة
78 ان کے علما حق فروش ہیں، اور عوام کا سرمایہ دین خوش اعتقادی کی آرزوؤں اور جہالت کے ولولوں کے سوا کچھ نہیں ہے ! یہودیوں کے علما کی یہ گمراہی کہ کتاب اللہ کے احکام پر اپنی رایوں اور خواہشوں کو ترجیح دیتے اور پھر اپنے گھڑے ہوئے حکموں اور مسئلوں کو کتاب اللہ کی طرح واجب العمل بتلاتے البقرة
79 البقرة
80 یہودیوں کی یہ گمراہی کہ سمجھتے تھے، ان کی امت نجات یافتہ امت ہے۔ اس لیے ممکن نہیں کہ کوئی یہودی ہمیشہ دوزخ میں نہیں ڈالا جائے۔ قرآن ان کے اس زعم باطل کا رد کرتا ہے اور کہتا ہے جنت و دوزخ کی تقسیم قوموں کی تقسیم کی بنا پر نہیں ہے کہ کسی خاص قوم کے لیے جنت ہو، اور باقی کے لیے دوزخ، بلکہ اس کا تمام تر دارو مدار ایمان و عمل پر ہے۔ جس انسان نے بھی اپنے اعمال کے ذریعہ برائی کمائی، اس کے لیے برائی یعنی عذاب ہے اور جس کسی نے بھی اپنے اعمال کے ذریعہ اچھائی کمائی اس کے لیے اچھائی یعنی نجات ہے۔ خواہ وہ کوئی ہو، اور کسی گروہ بندی کا ہو ! البقرة
81 البقرة
82 البقرة
83 البقرة
84 پیروان مذاہب کی گمراہی کی وہ حالت، جبکہ اتباع دین کی روح یک قلم مفقود ہوجاتی ہے، اور دینداری کی نمائش صرف اس لیے کی جاتی ہے تاکہ نفسانی خواہشوں اور کام جوئیوں کے لیے اسے آلہ کار بنایا جائے۔ اس صورت حال کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شریعت کے بنیادی اور اصولی احکام پر تو کوئی توجہ نہیں کرتا۔ لیکن چھوٹی چھوٹی باتوں پر جو نمائش اور ریاکاری کا ذریعہ ہوسکتی ہیں اور جن کے کرنے میں کچھ چھوڑنا اور کھونا نہیں پڑتا، بہت زور دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اگر ان اصولی باتوں پر ٹھیک ٹھیک عمل کیا جاتا تو یہ فروعی خلاف ورزیاں ظہور ہی میں نہ آتیں۔ علمائے یہود اسی گمراہی میں مبتلا تھے البقرة
85 یہ حالت اس بات کا نتیجہ ہے کہ راست بازی اور حق پرستی کی جگہ نفسانی خواہشوں کی پرستش کی جاتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ غرض پرستوں نے ہمیشہ داعیان حق و اصلاح کی مخالفت کی ہے۔ بنی اسرائیل کے تکذیب رسل اور قتل انبیا سے استشہاد، کہ جس طرح ہمیشہ سچائی کے منکر و معاند رہے، اسی طرح اب بھی انکار و عناد میں سرگرم ہیں۔ البقرة
86 البقرة
87 البقرة
88 حق کے اثبات اور تقلید کے جمود میں فرق ہے۔ خیالات کی ایسی پختگی میں کوئی خوبی نہیں کہ ہم دوسروں کی بات سننے ہی سے انکار کردیں۔ علمائے یہود ایسے ہی جمود میں مبتلا تھے اور اسے اعتقاد کی پختگی سمجھ کر فخر کرتے تھے۔ البقرة
89 البقرة
90 قبول حق کی راہ میں جو موانع پیش آتے ہیں، ان میں سب سے بڑا مانع نسلی، جماعتی، یا شخصی حسد ہے۔ البقرة
91 اہل کتاب کی عالمگیر گمراہی یہ ہے کہ جب انہیں اتباع حق کی دعوت دی جاتی ہے تو کہتے ہیں ہمارے پاس ہمارا دین موجود ہے۔ ہمیں کسی نئی تعلیم کی ضرورت نہیں۔ حالانکہ وہ بھول جاتے ہیں کہ جس دین کو اپنا دین کہتے ہیں اس پر ان کا عمل کب ہے؟ قرآن کہتا ہے دین سب کے لیے اور سب کا ایک ہی ہے، اور میں اس لیے نہیں آیا کہ پچھلی سچائیوں کی جگہ کوئی نیا دین پیش کروں بلکہ اس لیے آیا ہوں کہ ان کا سچا اعتقاد اور عمل پیدا کردوں۔ البقرة
92 البقرة
93 البقرة
94 جن کے دل میں نجات اخروی کا سچا یقین ہے وہ موت سے خائف اور حیات دنیوی کے پجاری نہیں ہوسکتے۔ بنی اسرائیل کی دنیا پرستی اور حیات دنیوی کی حرص سے ان کے ایمان و یقین سے محرومی پر استشہاد البقرة
95 البقرة
96 البقرة
97 جو کوئی سلسلہ وحی کا مخالف ہے۔ تو وہ اللہ اور اس کے قوانین ہدایت کا مخالف ہے البقرة
98 البقرة
99 پیغمبر اسلام سے خطاب کہ دعوت حق کا ظہور سچائی کی روشن دلیلوں کے ساتھ ہوا ہے، جن سے کوئی راست باز انسان انکار نہیں کرسکتا اور اگر علمائے یہود باوجود کتاب اللہ کے حال ہونے کے انکار کررہے ہیں، تو یہ کفر و جحود کا کوئی نیا مظاہرہ نہیں ہے جس پر تعجب ہو اس سے پہلے بھی ان کی روش ایسی ہی رہ چکی ہے۔ البقرة
100 البقرة
101 البقرة
102 بنی اسرائیل کے ضعف عقل و ایمان پر اس واقعہ سے استشہاد کہ جادوگروں کے شعبدوں پر جھک پڑے تھے اور کتاب الٰہی کی تعلیم پس پشت ڈال دی تھی۔ ضمناً اس حقیقت کا اعلان کہ اس بارے میں جو خرافات مشہور ہیں، ان کی کوئی اصلیت نہیں۔ البقرة
103 البقرة
104 دعوت قرآنی کے پیروؤں سے خطاب کہ بنی اسرائیل کے ایام و قائع سے عبرت پکڑیں، اور ان ٹھوکروں سے بچیں جو انہیں اس راہ میں لگ چکی ہیں۔ نیز ان شکوک اور اعتراضات کا جواب جو منکرین حق مسلمانوں کے دلوں میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ البقرة
105 البقرة
106 ایک شریعت کے بعد دوسری شریعت کا ظہور اس لیے ہوا کہ یا تو "نسخ" کی حالت طاری ہوئی۔ یا "نسیان" کی۔ "نسخ" یہ ہے کہ ایک بات پہلے سے موجود تھی لیکن موقوف ہوگئی، اور اس کی جگہ دوسری بات آگئی "نسیان" کے معنی بھول جانے کے ہیں۔ بعض حالتوں میں ایسا ہوا کہ پھچلی شریعت کسی نہ کسی شکل میں موجود تھی، لیکن احوال و ظروف بدل گئے تھے، یا اس کے پیرووں کی عملی روح معدوم ہوگئی تھی۔ اس لیے ضروری ہوا کہ نئی شریعت ظہور میں آئے۔ بعض حالتوں میں ایسا ہوا کہ امتداد وقت سے پچھلی تعلیم بالکل فراموش ہوگئی، اور اصلیت میں سے کچھ باقی نہ رہا، پس لامحالہ تجدید ہدایت ناگزیر ہوئی۔ سنت الٰہی یہ ہے کہ یہ نسخ شرائع ہو یا نسیان شرائع، لیکن ہر نئی تعلیم پچھلی تعلیم سے بہتر ہوگی یا اس کے مانند ہوگی۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کمتر ہو۔ کیونکہ اصل تکمیل و ارتقاء ہے، نہ کہ تنزل و تسفل۔ کثرت سوال اور تعمق فی الدین کی ممانعت۔ "تعمق" یعنی ضرورت سے زیادہ باریکیاں نکالنی اور کاوشیں کرنی اور ایک سیدھے سادھے عماملہ کو پیچیدہ بنا دینا۔ البقرة
107 البقرة
108 البقرة
109 البقرة
110 نماز اور زکوۃ یعنی قلبی اور مالی عبادت کی سرگرمی ایک ایسی حالت ہے جس سے جماعت کی معنوی استعداد نشوونما پاتی ہے اور قوی ہوتی ہے جس جماعت میں سرگرمی موجود ہو وہ نہ تو دین سے برگشتہ ہوسکتی ہے نہ اس کی اجتماعی قوت میں کمزوری آسکتی ہے۔ البقرة
111 اہل مذاہب کی عالمگیر گمراہی یہ ہے کہ انہوں نے دین کی سچائی جو ایک ہی تھی اور یکساں طور پر سب کو دی گئی تھی مذہبی گروہ بندیوں کے الگ الگ حلقے بنا کر ضائع کردی۔ اب ہر گروہ دوسرے گروہ کو جھٹلاتا ہے اور صرف اپنے ہی کو سچائی کا وارث سمجھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس نزاع کا فیصلہ کیونکر ہو؟ اگر کوئی ایک گروہ ہی سچا ہے تو کیوں وہی سچا ہو دوسرے سچے نہ ہوں؟ اگر سب سچے ہیں تو پھر کوئی بھی سچا نہیں کیونکہ ہر گروہ دوسرے کو جھٹلا رہا ہے۔ اگر سب جھوتے ہیں تو پھر خدا کی سچائی گئی کہاں؟ قرآن کہتا ہے خدا کی سچائی سب کے لیے ہے اور سب کو ملی تھی لیکن سب نے سچائی سے انحراف کیا۔ سب اصل کے اعتبار سے سچے اور سب عمل کے اعتبار سے جھوٹے ہیں۔ میں چاہتا ہوں اسی مشترک اور عالمگیر سچائی پر سب کو جمع کردوں اور مذہبی نزاع کا خاتمہ ہوجائے۔ یہ مشترک اور عالمگیر سچائی کیا ہے؟ خدا پرستی اور نیک عملی کا قانون ہے۔ یہی قانون خدا کا ٹھہرایا ہوا دین ہے اور اسی کو میں "الاسلام" کے نام سے پکارتا ہوں۔ یہودی کہتے تھے، جب تک ایک انسان یہودی گروہ بندی میں داخل نہ ہو نجات نہیں پاسکتا۔ عیسائی کہتے تھے، جب تک عیسائی گروہ بندی میں داخل نہ ہو نجات نہیں مل سکتی۔ قرآن کہتا ہے نجات کا دارومدار خدا پرستی اور نیک عملی پر ہے، نہ کسی خاص گروہ بندی پر۔ جو انسان بھی خدا پرست اور نیک عمل ہوگا نجات پائے گا۔ خواہ تمہاری گھڑی ہوئی گروہ بندیوں میں داخل ہو یا نہ ہو۔ البقرة
112 البقرة
113 البقرة
114 مذہبی گروہ بندی کا تعصب یہاں تک بڑھ گیا ہے کہ ہر گروہ کے لیے اس کی مخصوص عبادت گاہیں ہیں۔ اگر دوسرے گروہ کا کوئی آدمی ان میں خدا کی عبادت کرنی چاہے تو اسے روک دیا جاتا ہے اور ہر گروہ چاہتا ہے دوسرے گروہ کی عبادت گاہیں ڈھا دے اور ویران کردے حالانکہ سب خدا پرستی کے مدعی ہیں، اور سب کا خدا ایک ہی خدا ہے۔ البقرة
115 خدا کسی خاص عبادت گاہ کی چار دیواری کے اندر محدود نہیں ہے کہ صرف وہیں اس کی عبادت کی جا سکے۔ جہاں کہیں بھی اسے اخلاص کے ساتھ یاد کیا جائے وہ قبول کرے گا۔ البقرة
116 عیسائیوں کی یہ گمراہی کہ کتاب الٰہی کی تعلیم سے منحرف ہوگئے۔ اور ابنیت مسیح کے اعتقاد باطل پر اپنی کلیسائی گروہ بندی قائم کرلی۔ البقرة
117 البقرة
118 مشرکین عرب اور ان کے جاہلانہ و معاندانہ اعتراضات البقرة
119 جس طرح انسانی سچائی کا مزاج ہمیشہ ایک ہی طرح کا رہا ہے اسی طرح انسانی گمراہی کا مزاج بھی ایک ہی طرح کا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہر زمانہ میں منکرین حق نے ایک ہی طریقہ پر سچائی کو جھٹلایا ہے۔ اور ایک ہی طرح کی صدائیں بلند کی ہیں سچائی کی پہچان رکھنے والوں کے لیے سب سے بڑی نشانی پیغمبر کی تعلیم اور اس کی زندگی ہے اور یہ بات سنت الٰہی کے خلاف ہے کہ لوگوں کے جاہلانہ خیالات کے مطابق فرمائشی معجزے دکھلائے جائیں۔ البقرة
120 یہ جتنی ملتیں الگ الگ بنا لی گئی ہیں یعنی الگ الگ گروہ بندیاں کرلی گئی ہیں مثلاً یہودیت اور مسیحیت تو یہ سب انسانی گمراہی کی بناوٹیں ہیں ہدایت کی راہ تو بس ہدایت کی راہ ہے۔ جو کوئی اس پر چلے گا، ہدایت یافتہ ہوگا۔ خواہ ان کی بنائی ہوئی ملتوں میں داخل ہو یا نہ ہو مذہبی گروہ بندی کا نتیجہ یہ ہے کہ حق پسندی اور حقیقت بینی کی جگہ محض گروہ پرستی کی روح کام کر رہی ہے۔ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ ایک انسان کا اعتقاد اور عمل کیسا ہے؟ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ہماری گروہ بندی میں داخل ہے یا نہیں؟ جب لوگوں کی ذہنیت ایس ہوجائے تو ظاہر ہے کہ دلائل و حقائق کچھ کام نہیں دے سکتے۔ کتنی ہی سچی اور معقول بات کیوں نہ کی جائے۔ ان لوگوں کے لیے بیکار ہوگی۔ جب تک تم یہودیت اور نصرانیت کی گروہ بندی میں داخل نہ ہوجاؤ یہودی اور عیسائی تم سے خوش ہونے والے نہیں اگرچہ تمہارا اعتقاد اور عمل کتنا ہی اچھا اور معقول ہو اور خود ان کی مسلمہ تعلیمات کے ٹھیک ٹھیک مطابق ہی کیوں نہ ہو۔ البقرة
121 البقرة
122 البقرة
123 البقرة
124 یہود نصای اور مشرکین عرب تینوں گروہوں کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شخصیت ایک مسلمہ شخصیت تھی۔ اس ؛ ہئ ام لہ دعوت سے استشہاد تینوں کے لیے ناقابل انکار استشہاد تھا مذہبی گروہ بندی کے خلاف، تینوں گروہوں کے ایک حجت قاطع ہے یہ ظاہر کہ تینوں گروہ بندیاں اور ان کے عقائد و رسوم حضرت ابراہیم کے بہت بعد پیدا ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا طریقہ کیا تھا؟ یقینا وہ ان گروہ بندیوں کا طریقہ نہ تھا۔ پس جو طریقہ ان کا تھا اسی کی دعوت قرآن دیتا ہے۔ یہودیوں کی جماعتی سرگرانی زیادہ تر نسلی غرو کا نتیجہ تھی۔ وہ کہتے تھے ہم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں۔ اور تورات میں ہے کہ خدا نے اس کی نسل کو برکت دی۔ اس بیان نے واضح کردیا کہ اول تو نسل کے شرف میں بنی اسحاق کی طرف بنی اسماعیل بھی شریک ہیں پھر وہ جو کچھ بھی ہو خدا کا عہد برکت نیک کرداروں کے لیے تھا نہ کہ بدکرداروں کے لیے۔ جن لوگوں نے ایمان و عمل کی سعادت کھو دی ان کے لیے نسل کا امتیاز کچھ سود مند نہیں ہوسکتا تھا ! پچھلی امتوں کی محرومیوں کے ذکر کے بعد یہ حقیقت واضح کرنی تھی کہ اب توفیق الٰہی نے پیروان دعوت قرآن کو خدمت حق کے لیے چن لیا ہے اور اقوان عالم کی ہدایت کا سر رشتہ ان کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ پہلے دعوت قرآن کے ظہور کی معنوی تاریخ بیان کردی جائے۔ چنانچہ معبود کعبہ کی تعمیر اور حضرت ابراہیم کی دعا کا ذکر اسی غرض سے کیا گیا ہے کہ آنے والے بیان کے لیے ایک قدرتی تمہید کا کام دے۔ البقرة
125 البقرة
126 البقرة
127 البقرة
128 البقرة
129 البقرة
130 دین کی جو راہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اختیار کی تھی وہ کیا تھی؟ ان کے بعد ان کی اولاد جس طریقہ پر چلتی رہی وہ کونسا طریقہ تھا؟ خود "اسرائیل" یعنی حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے بستر مرگ پر جس دین کی وصیت کی تھی وہ کون سا دین تھا؟ یقینا وہ یہودیت اور مسیحتی کی گروہ بندی نہ تھی۔ وہ صرف خدا پر ایمان لانے اور اس کے قانون سعادت کی فرمانبرداری کرنے کی فطری اور عالمگیر سچائی تھی اور اسی کی دعوت قرآن دیتا ہے۔ دین الٰہی کو اسی لیے "الاسلام" کے نام سے تعبیر کیا گیا جس کے معنی اطاعت کرنے کے ہیں یعنی ہر طرح کی نسبتوں اور گروہ بندیوں سے الگ ہوکر، صرف اطاعت حق کی طرف انسان کو دعوت دی جائے۔ البقرة
131 البقرة
132 البقرة
133 البقرة
134 قانون الٰہی یہ ہے کہ ہر فرد اور جماعت کو وہی پیش آتا ہے جو اس نے اپنے عمل سے کمایا ہے۔ نہ تو ایک کی نیکی دوسرے کو بچا سکتی ہے۔ نہ ایک کی بدعملی کے لیے دوسرا جواب دہ ہوسکتا ہے۔ انسان کے لیے قدامت پرستی کا پھندا بڑا ہی سخت پھندا ہے اس کے بیچ سے وہ نکل نہیں سکتا۔ وہ ہمیشہ ماضی کے افسانوں میں گم رہے گا اور ہر پرانے طور طریقے کو تقدیس کی نظر سے دیکھے گا۔ ہندو ہزاروں برس سے مہا بھارت اور پرانوں کے افسانوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے دو فرقے آج تک اس نزاع سے فارغ نہیں ہوئے کہ تیرہ سو برس پہلے سقیفہ میں خلافت کا جو انتخاب ہوا تھا، وہ صحیح تھا یا غلط؟ لیکن قران کہتا ہے تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ ۚ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ، یہ ایک گروہ تھا جو گزر چکا۔ اب اس کے پیچھے پڑے رہنے سے تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ تم اپنی خبر لو۔ ان کے اعمال ان کے لیے تھے۔ تمہارے تمہارے لیے ہیں۔ البقرة
135 بہرحال ہدایت کی راہ ان گروہ بندیوں کی راہ نہیں ہوسکتی اور نہ وہ کسی ایک قوم اور گروہ ہی کے حصے میں آئی ہے۔ ہدایت کی راہ تو وہی ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی راہ تھی اور وہ خدا کا عالمگیر قانون نجات ہے۔ پس سچائی کی راہ یہ ہوئی کہ دوسرے کو جھٹلانے کی جگہ سب کی تصدیق کرو۔ دنیا میں جس قدر بھی رہنمایان مذاہب آئے ہیں خواہ وہ کسی عہد اور کسی ملک و قوم سے تعلق رکھتے ہوں سب ایک ہی سچائی کے پیغامبر تھے، اور اس لیے سب کی یکساں طور پر تصدیق کرنی چاہیے۔ داعیان مذاہب میں سے کسی ایک کا انکار بھی سب کا انکار ہے۔ جو کوئی تفریق بین الرسل کرتا ہے یعنی کسی کو مانتا ہے۔، کسی کو نہیں مانتا۔ وہ فی الحقیقت خدا کے پورے سلسلہ ہدایت کا منکر ہے۔ قرآن کہتا ہے میری راہ عالمگیر تصدیق کی راہ ہے۔ اگر تم یہودی ہو اور تورات پر ایمان رکھتے ہو تو میں اس کا مصدق ہوں اور اسی لیے آیا ہوں تاکہ دین حقیقی تازہ کروں۔ اگر تم مسیحی ہو تو میں انجیل کا منکر کب ہوں؟ میں تو اسی لیے آیا ہوں کہ تم انجیل کے سچے عامل بن جاؤ۔ اگر تم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے نام لیوا ہو، تو میر دعوت سرتاسر ملت ابراہیمی ہی کی دعوت ہے۔ اگر تم کسی دوسرے رسول یا نئے مذہب کے پیرو ہو تو میں تمہیں اس کا منکر بنانا نہیں چاہتا۔ اس کی تصدیق میں اور زیادہ پختہ کردینا چاہتا ہوں۔ البقرة
136 البقرة
137 البقرة
138 البقرة
139 جب سب کا پروردگار ایک ہے اور ہر انسان کے لیے اس کا عمل ہے تو پھر خدا اور دین کے نام پر یہ تمام جھگڑے کیوں ہیں؟ کیوں ایک مذہب کا پیرو دوسرے مذہب کے پیروؤں کا دشمن ہو؟ کیوں ایک انسان دوسرے انسان سے نفرت کرے؟ البقرة
140 کتمان حق یعنی سچائی کو دیدہ و دانستہ ظاہر نہ کرنا اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ ہے البقرة
141 البقرة
142 دعوت ابراہیمی سے وحدت دین کے استشہاد کا بیان ختم ہوگیا۔ اب یہاں سے اس کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے جو پچھلے بیان کا قدرتی نتیجہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ اللام کو اقوام عالم کی امامت ملی تھی۔ انہوں نے مکہ میں عبادت گاہ کعبہ تعمیر کی اور امت مسلمہ کے ظہور کی الہامی دعا مانگی۔ مشیت الٰہی میں اس ظہور کے لیے ایک خاص وقت مقرر تھا۔ جب وہ وقت آگیا تو پیغمبر اسلام کا ظہور ہوا اور ان کی تعلیم و تزکیہ سے موعودہ امت پیدا ہوگئی۔ اس امت کو نیک ترین امت ہونے کا نصب العین عطا کیا گیا اور اقوام عالم کی تعلیم اس کے سپرد کی گئی۔ ضروری تھا کہ اس کی روحانی ہدایت کا ایک مرکز بھی ہوتا۔ یہ مرکز قدرتی طور پر عبادت گاہ کعبہ ہوسکتا تھا چنانچہ تحویل قبلہ نے اس کی مرکزیت کا اعلان کردیا۔ یہی حقیقت قلبہ کے تقرر میں پوشیدہ تھی۔ چنانچہ سیقول السفہاء سے یہی بیان شروع ہوتا ہے۔ پیرون دعوت قرآنی مخاطب ہیں اور انہیں بتلایا جا رہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عمل حق نے جو بیج بویا تھا وہ بار آور ہوگیا ہے اور نیک ترین امت تم ہو۔ البقرة
143 البقرة
144 البقرة
145 یہود اور نصاری کا تحویل قبلہ پر اعتراض کرنا محض گروہ پرستی کے تعصب کا نتیجہ ہے۔ اگر ان میں حق پرستی ہوتی تو وہ آپس میں کیوں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے اور کیوں ایسا ہوتا کہ یہودی عیسائیوں کا قبلہ نہیں مانتے اور عیسائیوں کو یہودیوں کے قبلہ سے انکار ہوتا؟ پس جب صورت حال ایسی ہے تو متبع حق کو چاہیے ایسے لوگوں کے اتفاق و یک جہتی سے قطع نظر کرلے۔ کیونکہ جن لوگوں نے اتباع حق سے یک قلم کنارہ کشی کرلی ہے ان کے ساتھ متبع حق کا کبھی اتفاق نہیں ہوسکتا البقرة
146 البقرة
147 کسی بات کا حق ہونا ہی اس کی حقانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ کیونکہ حق کے معنی ہی قائم و ثابت رہنے کے ہیں اور جو بات قائم و ثابت رہنے والی ہے اس کے لیے اس کے قیام و ثبات سے بڑھ کر اور کونسی دلیل ہوسکتی ہے؟ البقرة
148 اور پھر جو کچھ بھی ہو تقرر قبلہ کا معاملہ کوئی ایس بات نہیں ہے جو دین کے اصول و مہمات میں سے ہو، اور اسے حق و باطل کا معیار سمجھ لیا جائے۔ ہر گروہ کے لیے کوئی نہ کوئی جہت ہے اور وہ اسی کی طرف رخ کرکے عبادت کرتا ہے۔ عبادت جس طرف بھی منہ کرکے کی جائے خدا کی عبادت ہے۔ وہ کسی ایک جہت ہی میں محدود نہیں۔ اصلی چیز جو سمجھنے اور کرنے کی ہے وہ خیرات ہے۔ یعنی نیک عملی۔ پس چاہیے کہ اس میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرو۔ اور اسی کو دینداری و خدا پرستی کا اصلی کام سمجھو۔ البقرة
149 تقرر قبلہ کا حکم عام اور اس کے مصالح و حکم البقرة
150 البقرة
151 البقرة
152 کتاب و حکمت کی تعلیم، شخص نبوت کی پیغمبرانہ تربیت، مرکز ہدایت کا قیام اور نیک ترین امت ہونے کا نصب العین، ییہ وہ بنیادی عناصر تھے جن کی موعودہ امت کی نشوونما کے لیے ضرورت تھی۔ جب یہ تمام مراتبط ظہور میں آگئے تو اب ضوری ہوا کہ پیروان دعوت قرآنی کو مخاطب کیا جائے اور سرگرم عمل ہوجانے کی دعوت دی جائے۔ چنانچہ فاذکرونی اذکرکم سے یہی مخاطبہ شروع ہوتا ہے۔ اور پھر چونکہ سرگرم عمل ہونے کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ راہ عمل کی مشکلیں اور آزمائش پیش آتیں، اس لیے دعوت عمل کے اتھ ہی صبر و استقامت اور جاں فروشی و قربانی کی بھی دعوت دے دی گئی، اور واضح کردیا گیا کہ اس راہ میں آزمایشوں سے گرزنا ناگزیر ہے۔ ساتھ ہی ان اصول و مہمات کی طرف بھی اشارہ کردیا گیا جن میں ثابت قدم ہونے کے بعد گمراہی و ناکامی سے قدم محفوظ ہوجا سکتے ہیں۔ صبر اور نماز کی قوتوں سے مدد لو۔ صبر کی حقیقت یہ ہے کہ مشکلات و مصائب کے جھیلنے اور نفسانی خواہشوں سے مغلوب نہ ہونے کی قوت پیدا ہوجائے۔ نماز کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے ذکروفکر سے روح کو تقویت ملتی رہے۔ جس جماعت میں یہ دو قوتیں پیدا ہوجائیں گی، وہ کبھی ناکام نہیں ہوسکتی ! راہ حق میں موت، موت نہیں ہے۔ سرتاسر زندگی وہدایت ہے۔ پس موت کے خوف سے اپنے دلوں کو پاک کرلو۔ البقرة
153 البقرة
154 البقرة
155 البقرة
156 البقرة
157 البقرة
158 مرکز قبلہ سے وابستگی اور حج کا قیام البقرة
159 کتاب اللہ کی تعلیم وتذکیر ایک مقدس جماعتی فرض ہے۔ جو لود دنیا کے خوف یا طمع سے احکام حق چھپاتے ہیں وہ اللہ کی لعنت کے سزاوار ہوتے ہیں البقرة
160 البقرة
161 البقرة
162 البقرة
163 خدا پرستی میں ثابت قدم رہنے، عقل و بصیرت سے کام لینے، کائنات خلقت میں تدبر و تفکر کرنے اور حقائق ہستی کی معرفت حاصل کرنے کا حکم اور برہان فضل و رحمت سے استدلال البقرة
164 البقرة
165 اللہ پر ایمان اور اللہ کی محبت دونوں لاز و ملزوم ہیں۔ پس اگر اللہ کے سوا کسی دوسری ہستی کو بھی ویسی ہی چاہت سے ماننے لگے جیسی چاہت سے ماننا صرف اللہ ہی کے لیے ہے تو پھر یہ اللہ کے ساتھ دوسرے کو ہم پلہ بنا دینا ہوا، اور توحید الٰہی کا اعتقاد درہم برہم ہوگیا۔ مومن وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ کی محبت رکھنے والا ہو البقرة
166 پیروان باطل کی پیروی کرنے کا حسرت انگیز نتیجہ جو ان کے بدقسمت پیروؤں کے حصے میں آئے گا۔ پچھلی امتوں کی تباہی کا ایک بنیادی سبب پیشوایان باطل کا اتباع ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کہ تم بھی اس میں مبتلا ہوجاؤ۔ البقرة
167 البقرة
168 ان اصولی مہمات کی تلقین کے بعد اب یہاں سے ان فروعی احکام کا بیان شروع ہوتا ہے جن کے متعلق طرح طرح کی گمراہیاں لوگوں میں پھیلی ہوئی تھیں اور دین حق کی بنیادی صداقتوں پر ان کا اثر پڑتا تھا۔ یہ بیان اگرچہ فروعی احکام کا بیان ہے لیکن اپنی تشریحات و موعظت میں سرتاسر اصولی معارف ہیں۔ من جملہ عالم گیر گمراہیوں کے ایک بنیادی گمراہی یہ تھی کہ کھانے پینے کے بارے میں طرھ طرح کی بے اصل پابندیاں لگالی گئی تھیں اور دینداری کی سب سے بڑی بات یہ سمجھی جاتی تھی کہ انسان کھانے پینے میں سب سے زیادہ توہم پرست ہو۔ ظاہر ہے کہ جس جماعت کی ذہنیت ایسی توہم پرستانہ پابندیوں میں جکڑی ہوئی وہ کبھی آزادی کے ساتھ ترقی و وسعت کا قدم نہیں اٹھا سکتی۔ پس سب سے پہلے اس معاملہ کی حقیقت واضح کی گئی اور ان تمام غلطیوں کا ازالہ کردیا گیا جو اس بارے میں پھیلی ہوئی تھیں خدا نے انسان کی غذا کے لیے جس قدر اچھی چیزیں زمین مہیا کردی ہیں شوق سے کھانی چاہیں۔ بے اصل روک ٹوک اور منگھڑت پابندیاں شیطانی وسوسے ہیں ضمناً اس حقیقت کی طرف اشارہ کہ ایمان کی راہ عقل و بصیرت کی راہ ہے اور کفر کا خاصہ کورانہ تقلید اور بے بصیرتی ہے۔ اندھی تقلید کرنا، جو کچھ دیکھتے اور سنتے آئے ہیں بے سمجھے بوجھے اسی پر جمے رہنا اور دلیل و برہان کی جگہ اپنے بزرگوں اور پیشیواؤں کا قول و عمل حجت سمجھنا ہدایت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اندھی تقلید کرنے والوں کے سامنے، علم، بصیرت کی بات پیش کرنا ایسا ہے جیسے چارپایوں کو مخاطب کرنا۔ البقرة
169 البقرة
170 البقرة
171 البقرة
172 البقرة
173 جن چار پایوں کا گوشت عام طور پر کھایا جاتا ہے، وہ سب حلال ہیں مگر چار چیریں البقرة
174 اور یہ جو اہل کتاب نے حلال و حرام کے بارے میں طرح طرح کی پابندیاں اپنے پیچھے لگا لی ہیں تو یہ اس لیے ہے کہ کتاب اللہ کا علم و عمل متروک ہوگیا ہے۔ ان کے علماء حق فروش ہیں کہ دنیا کی طمع سے احکام الٰہی میں تحریف کرتے ہیں۔ یا نہیں ظاہر نہیں کرتے۔ اور عوام اپنے مذہبی پیشواؤں کی اندھی تقلید میں مبتلا ہیں کتاب اللہ علم و حقیقت ہے اور اختلاف جہل و ظن سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جب علم حقیقت پر آجائے تو اختلاف باقی نہیں رہنا چاہیے۔ پھر جو لوگ کتاب اللہ کے نزول کے بعد بھی اختلافات میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور الگ الگ مذہبی فرقہ بنا کر دین کی وحدت کھو دیتے ہیں تو وہ شقاق بعید میں پڑجاتے ہیں یعنی ایسے گہرے اور دور دراز تفرقوں میں جن سے کبھی نہیں نکل سکتے اور جس قدر ہاتھ پاؤں ماتے رہیں اور زیادہ حقیقت سے دور ہوتے جاتے ہیں البقرة
175 البقرة
176 البقرة
177 دین حق کی اس اصل عطیم کا اعلان کہ سعادت و نجات کی راہ یہ نہیں ہے کہ عبادت کی کوئی خاص شکل یا کھانے پینے کی کوئی خاص پابندی یا اسی طرح کی کوئی دوسری بات اختیار کرلی جائے۔ بلکہ وہ سچی خدا پرستی اور نیک عملی کی زندگی سے حاصل ہوتی ہے اور اصلی شے دل کی پاکی اور عمل کی نیکی ہے۔ شریعت کے ظاہری احکام و رسوم بھی اسی لیے ہیں تاکہ یہ مقصود حاصل ہو۔ نزول قرآن کے وقت دنیا کی عالمگیر مذہبی گمراہی یہ تھی کہ لوگ سمجھتے تھے دین سے مقصود محض شریعت کے ظواہر و رسوم ہیں۔ اور انہی کے کرنے نہ کرنے پر انسان کی نجات و سعادت موقوف ہے۔ لیکن قرآن کہتا ہے اصل دین خدا پرستی اور نیک عملی ہے اور شریعت کے ظاہر رسوم و اعمال بھی اسی لیے ہیں کہ یہ مقصود حاصل ہو۔ پس جہاں تک دین کا تعلق ہے ساری طلب مقاصد کی وہنی چاہیے نہ کہ وسائل کی۔ البقرة
178 قاص کا حکم اور اس سلسلہ میں ان مفاسد کا ازالہ جو اس بارے میں پھیلے ہوئے تھے۔ انسانی مساوات کا اعلان اور نسل و شرف کے تمام امتیازات سے انکار جو لوگوں نے بنا رکھے ہیں اور جن کی وجہ سے انسانی حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت، بڑا ہو یا چھوٹا، وضیع ہو یا شریف۔ انسان ہونے کے لحاظ سے سب برابر ہیں۔ اس لیے قصاص میں کوئی امتیاز تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ اگر مقتول کے ورثا خوں بہا لینے پر راضی ہوجائیں تو قاتل کی جان بخشی ہوسکتی ہے قصاص میں اگرچہ جان کی ہلاکت ہے مگر اس لیے ہے تاکہ زندگی کی حفاظت کی جائے۔ پس جب مقصود اصلی حفظ نفس ہوا، نہ کہ قتل نفس تو ظاہر ہے کہ اسے قتل نفس کا ذریعہ بنانا کیونکر جائز ہوسکتا ہے۔ البقرة
179 مرنے سے پہلے پس ماندوں کے لیے اچھی وصیت کرنے کا حکم، اور اس اصولی حقیقت کی تلقین کہ : انسان موت کے بعد جو کچھ چھوڑ جاتا ہے وہ اگرچہ دوسروں کے قبضہ میں جاتا ہے لیکن مرنے سے پہلے اس کے ٹھیک ٹھیک خرچ ہونے اور عزیزوں قریبوں کو فائدہ پہنچانے کی فکر مرنے والے کی زندگی کے فرائض میں سے ہے اور اس ذمہ داری سے وہ بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔ مرنے والے کی وصیت ایک مقدس امانت ہے۔ جو لوگ اس کے امین ہوں ان کا فرض ہے کہ بے کم و کاست اس کی تعیل کریں۔ اگر وہ لوگ جن پر وصیت کی تعمیل چھوڑ دی گئی ہے خیانت کریں تو اس کے لیے وہ خود جواب دہ ہوں گے۔ وصیت کرنے والا اور وصیت سے فائدہ اٹھانے والے جواب دہ نہیں ہوسکتے۔ البقرة
180 البقرة
181 البقرة
182 البقرة
183 رمضان میں روزہ رکھنے کا حکم اور اس سلسلہ میں دین حق کے بعض اصولی حقائق کی تعلیم۔ نیز ان غلطیوں کا ازالہ جو اس بارے میں عام طور پر پھیلی ہوئی تھیں۔ روزہ کے حکم سے یہ مقصود نہیں ہے کہ انسان کا فاقہ کرنا اور اپنے جسم کو تکلیف و مشقت میں ڈالنا کوئی ایسی بات ہے جس میں پاکی و نیکی ہے۔ بلکہ تمام تر مقصود نفس انسانی کی اصلاح و تہذیب ہے۔ روزہ رکھنے سے تم میں پرہیز گاری کی قوت پیدا ہوگی اور نفسانی خواہشوں کو قابو میں رکھنے کا سبق سیکھ لو گے البقرة
184 البقرة
185 روزہ کے لیے رمضان کا مہینہ اس لیے قرار پایا کہ اسی مہینے میں قرآن کا نزول شروع ہوا ہے اور اس کا روزے کے لیے مخصوص ہوجانا نزول قرآن کی یاد آوری و تذکیر ہے دین حق میں اصل آسانی ہے نہ کہ سختی۔ پس یہ سمجھنا کہ اس طرح کی عبادتوں میں سختی و تنگی اختیار کرنا خدا کی خوشنودی کا موجب ہوگا صحیح نہیں ہوسکتا۔ البقرة
186 اس طرح کی عبادتوں سے مقصود خود تمہارے نفس کی اصلاح و تربیت ہے۔ یہ بات نہیں ہے کہ جب تک فاقہ کشی کے چلے نہ کھینچے جائیں خدا کو پکارا نہیں جاسکتا (جیسا کہ اہل مذاہب کا خیال تھا) خدا تو ہر حال میں انسان کی پکار سننے والا اور اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس سے قریب ہے ایمان و اخلاص کے ساتھ جب کبھی اسے پکاروگے اس کا دروازہ رحمت تم پر کھل جائے گا البقرة
187 یہودیوں کے یہاں روزہ کی شرطیں نہایت سخت تھیں۔ ازاں جملہ یہ کہ اگر شام کو روزہ کھول کر سوجائیں، تو پھر بیچ میں اٹھ کر کچھ کھا پی نہیں سکتے تھے۔ اسی طرح روزے کے مہینے میں زنا شوئی کا علاقہ بھی مطلقاً ممنوع تھا۔ مسلمانوں کو جب روزے کا حکم ہوا تو انہوں نے خیال کیا ان کے لیے بھی یہ پابندیاں ضورری ہوں گی۔ اور چونکہ پابندیاں سخت تھیں اس لیے بعض لوگ نبھا نہ سکے اور اپنے فعل کو کمزوری سمجھ کر چھپانے لگے علم اللہ انکم کنتم تختانون انفسکم میں اسی معاملہ کی طرف اشارہ ہے۔ روزے سے مقصود یہ نہیں ہے کہ جسمانی خواہشیں بالکل ترک کردی جائیں بلکہ مقصود ضبط و اعتدال ہے۔ پس کھانے پینے اور زنا شوئی کے معاملہ کی جو کچھ ممانعت ہے صرف دن کے وقت ہے۔ رات کے وقت کوئی روک نہیں۔ زناشوئی کا تعلق کوئی برائی اور ناپاکی کی بات نہیں ہے جس کا عبادت کے مہینے میں کرنا جائز نہ ہو۔ وہ مرد اور عورت کا ایک فطری تعلق ہے اور دونوں ایک دوسرے سے اپنے حوائج میں وابستہ ہیں۔ پس ایک فطری علاقہ عبادت الٰہی کے منافی کیوں ہو؟ مومن وہ ہے جس کے عمل میں کوئی کھوٹ اور راز نہ ہو۔ اگر ایک بات بری نہیں ہے مگر تم نے اسے برا سمجھ لیا ہے اور اس لیے چوری چھپے کرنے لگے ہو تو گو تم نے اصلاً برائی نہیں کی مگر تمہارے ضمیر کے لیے برائی ہوگئی ہے اور تمہارے دل کی پاکی پر دھبہ لگ گیا۔ البقرة
188 اس حقیقت کی طرف اشارہ کہ مشقت نفس کی عبادتیں کچھ سود مند نہیں ہوستیں اگر ایک شخص بندوں کے حقوق سے بے پروا ہے اور مال حرام سے اپنے آپ کو نہیں روک سکتا۔ نیکی صرف اسی میں نہیں ہے کہ چند دنوں کے لیے تم نے جائز غذا ترک کردی۔ نیکی راہ یہ ہے کہ ہمیشہ کے لیے ناجائز غذا ترک کردو۔ البقرة
189 حج کے احکام کے اور اس سلسلہ میں دین حق کی بعض اصولی ہدایتیں اور اہل عرب اور دیگر اقوام کی گمراہیوں کا ازالہ : چاند کے طلوع و غروب سے مہینوں کا حساب لگا لیا جاتا ہے اور حج کے موسم کا تعین اسی حساب سے کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جو وہم پرستانہ خیالات لوگوں میں پھیلے ہوئے ہیں خواہ ان کا تعلق کو کب پرستی سے ہو یا نجوم کے عقائد سے، ان کی کوئی اصلیت نہیں۔ مقدس زیادرت گاہوں اور تیرتھوں پر جانے کے لیے لوگوں نے طرح طرح کی پابندیاں لگا لی ہیں اور اجر و ثواب کے لیے اپنے آپ کو تکلیفوں مشقتوں میں ڈالتے ہیں، لیکن یہ سب گمراہی کی باتیں ہیں۔ نیکی کی اصلی راہ یہ ہے کہ اپنے اندر تقوی پیدا کرو۔ البقرة
190 اہل مکہ کے ظلم و تعدی سے حج کا دروازہ مسلمانوں پر بند ہوگیا تھا پس حکم دیا گیا کہ جنگ کے بغیر چارہ نہیں۔ ضروری ہے کہ اس مقام کو ظالموں کے قبضہ و تصرف سے نجات دلائی جائے اس بارے میں اصل یہ ہے کہ امن کی حالت ہو یا جنگ کی لیکن مسلمانوں کے کسی کام میں بھی عدل و راستی کے خلاف کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔ البقرة
191 البقرة
192 البقرة
193 جنگ کی اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ دین و اعتقاد کی آزادی حاصل ہوجائے۔ یعنی دین کے معاملہ میں جس کا تعلق صرف اللہ سے ہے انسان کے ظلم و تشدد کی مداخلت باقی نہ رہے البقرة
194 البقرة
195 جو لوگ جہاد کی راہ میں مال خرچ نہیں کرتے وہ اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں۔ کیونکہ جہاد سے اعراض کا نتیجہ قومی زندگی کی ہلاکت ہے۔ البقرة
196 اگر لڑائی کی وجہ سے یا کسی دوسری وجہ سے راہ میں رک جانا پڑے تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ نیز حج اور عمرہ کے تمتع کی صورت (یعنی دونوں کو ملا کر کرنے کی صورت) البقرة
197 حج کے دنوں میں (اور وہ اس وقت سے شروع ہوجاتے ہیں جب تم نے احرام باندھ لیا) نہ تو عورت کے ساتھ خلوق کرنی چاہیے، نہ گناہ کی کوئی بات اور نہ کسی طرح کا لڑائی جھگڑا۔ اعمال حق کے لیے سب سے بڑی تیاری یہ ہے کہ تم میں تقوی پیدا ہو۔ البقرة
198 دین حق کی اس اصل عظیم کا اعلان کہ خدا پرستی اور دین داری کی راہ دنیوی معیشت اور دنیوی فلاح و ترقی کے خلاف نہیں ہے بلکہ وہ ایک ایسی کامل زندگی پیدا کرنی چاہتا ہے جس میں دنیا اور آخرت دونوں کی سعادتیں موجود ہوں۔ حج ایک عبادت ہے۔ لیکن اس کا عبادت ہونا اس سے مانع نہیں کہ کاروبار دنیوی کا بھی فائدہ اٹھاؤ۔ مال و دولت الللہ کا فضل ہے۔ پس چاہیے کہ اللہ کے فضل کی تلاش میں رہو۔ دین اور دنیا کے معاملہ میں دنیا کی عالمگیر گمراہی یہ ہے کہ یا تو افراط میں پڑگئے ہیں، یا تفریط میں، اور راہ اعتدال گم ہوگئی ہے۔ یعنی یا تو دنیا کا انہماک اس درجہ بڑھ جاتا ہے کہ آخرت سے یک قلم بے پرواہ ہوجاتے ہیں یا آخرت کے استغراق میں اتنے دور نکل جاتے ہیں کہ ترک دنیا اور رہبانیت کا دم بھرنے لگتے ہیں۔ لیکن دین حق کی راہ ہر گوشہ عمل کی طرح یہاں بھی اعتدال کی راہ ہے اور صحیح زندگی اس کی زندگی ہے جو کہتا ہے "خدایا میں دنیا اور آخرت دونوں کو سعادتیں چاہتا ہوں" البقرة
199 حج کے اعمال میں سے ایک عمل عرفات جا کر ٹھہرنا اور وہاں سے لوٹنا ہے لیکن باشندگان مکہ نے یہ طریقہ اختیار کرلیا تھا کہ حدود حرم تک جا کر لوٹ آتے اور کہتے ہم تو اسی مقام کے باشندے ہیں۔ ہمارے لیے حدود حرم سے باہر جانا ضروری نہیں۔ یہ کچھ تو اس لیے تھا کہ باشندہ مکہ ہونے کا غرور باطل تھا۔ اور زیادہ تر اس لیے کہ دنیوی کاروبار کے انہماک سے اعمال حج کی مشغولیت ان پر شاق گزرتی تھی۔ چاہتے تھے کہ باہر کے حاجی حج میں مشول رہیں۔ ہم موسم سے تجارت کا فائدہ اٹھائیں۔ البقرة
200 البقرة
201 البقرة
202 البقرة
203 البقرة
204 دین حق دنیا کا نہیں لیکن دنیا پرستی کے غرور و سرشاری کا مخالف ہے۔ یہی دنیا پرستی کا غرور ہے جو انسان کو خدا پرستی اور راست بازی سے بے پروا کردیتا ہے اور جب اسے طاقت اور حکومت مل جاتی ہے تو غرض و نفس کی پرستش میں وہ سب کچھ کر گزرتا ہے جو دنیا میں انسان کا ظلم وفساد کرسکتا ہے۔ لیکن جو لوگ سچے خدا پرست ہیں وہ دنیا میں کتنے ہی مشغول ہوں مگر ان کے پیش نظر نفس پرستی نہیں ہوتی بلکہ رضائے الٰہی کا حصول ہوتا ہے۔ ایک دنیا پرست اپنے نفس کے لیے دوسروں کو قربان کردے گا لیکن یہ لوگ رضائے الٰہی کی راہ میں خود اپنے نفس کو قربان کردیں گے۔ ایک شخص کی دنیوی زندگی بظاہر کتنی ہی خوش نما ہو اور وہ اپنی نیک دلی کا کتنا ہی دعوی کرے لیکن ان باتوں سے کچھ نہیں بنتا۔ اصلی کسوٹی یہ ہے کہ دیکھا جائے طاقت و اختیار پا کر اپنے ابنائے جنس کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے؟ حرث و نسل کی تباہی انسانی غرور و طاقت کا بہت بڑا فساد ہے۔ دنیوی طاقت کے متوالوں سے جب کہا جاتا ہے اللہ سے ڈرو تو ان کا گھمنڈ انہیں اور زیادہ ظلم و معصیت پر آمادہ کردیتا ہے البقرة
205 البقرة
206 البقرة
207 البقرة
208 دنیا پرستی کی یہ سرشاری قوموں کی گمراہی کا بہت بڑا سبب رہی ہے۔ خصوصاً فتح و اقبال کے حصول کے بعد۔ اس لیے پیروان دعوت حق کو خصوصیت کے ساتھ متنبہ کیا جاتا ہے کہ اس صورت حال سے اپنی حفاظت کریں۔ اللہ کی ہدایت ظاہر ہوچکی ہے اور وہ سب کچھ تمہیں بتلایا جا چکا ہے جس کی استقامت حق کے لیے ضرورت ھی۔ اس پر بھی اگر تم نے ٹھوکر کھائی اور راہ ہدایت پر قائم نہ رہے تو یہ نعمت الٰہی کو محرومی سے بدل دینا ہوگا۔ اگر ایک گروہ کے ایمان و یقین کے لیے کلام الٰہی کی ہدایت کافی نہیں تو پھر اس کے بعد یہی رہ گیا ہے کہ خدا اس کے سامنے آخر اپنی زبان سے کہہ دے کہ میں تمہارا خدا ہوں۔ مجھ پر ایمان لاؤ۔ لیکن نہ ایسا ہوا ہے اور نہ ہوسکتا ہے ایمان کی برکتیں اور سعادتیں حاصل کرنے کے لیے صرف یہی کافی نہیں کہ اسلام کے دائرہ میں آجاؤ بلکہ چاہیے کہ پوری طرف آجاؤ یعنی اعتقاد و عمل کے ہر گوشہ میں ایمان کی روح تمہارے اندر پیدا ہوجائے اور از سر تاپا پیکر ایمان ہوجاؤ۔ البقرة
209 البقرة
210 البقرة
211 بنی اسرائیل کی سرگزشت سے عبرت پکڑو۔ اللہ نے انہیں ہدایت و سعادت کی راہ دکھلائی لیکن انہوں نے محرومی و شقاوت کی راہ اختیار کی۔ البقرة
212 البقرة
213 دین حق کی اس اصل عظیم کا اعلان کہ ابتدا میں تمام انسان ایک ہی قوم و جماعت تھے اور فطری زندگی کی سادی پر قانع تھے۔ پھر ایسا ہوا کہ نسل انسانی کی کثرت و وسعت سے طرح طرح کے تفرقے پیدا ہوگئے اور تفرقے کا نتیجہ ظلم و فساد کی صورت میں ظاہر ہوا۔ تب وحی الٰہی نمودار ہوئی اور یکے بعد دیگرے خدا کے رسول مبعوث ہوتے رہے۔ ہر رسول کی دعوت کا مقصد ایک ہی تھا۔ یعنی خدا پرستی و نیک عملی کی تلقین اور تفرقہ و اختلاف کی جگہ وحدت و اجتماع کا قیام۔ کتاب اللہ ہمیشہ اس لیے نازل ہوئی۔ تاکہ دین کے تفرقہ و اختلاف میں فیصلہ کرنے والی ہو، اور لوگوں کو وحد دین کی اصل پر متحد کردے۔ تفرقہ و اختلاف کی علت باہمی "یعنی عصیان" ہے۔ یعنی آپس کی ضد اور اتباع حق کی جگہ خود پرستی اور سرکشی۔ اس محل میں اس ذکر کی مناسبت یہ ہے کہ پیروان اسلام کو دعوت استقامت دیتے ہوئے پہلے بنی اسرائیل کے حالت سے استشہاد کیا تھا۔ اب واضح کیا جاتا ہے کہ صرف بنی اسرائیل ہی پر موقوف نہیں۔ تمام پچھلی جماعتوں کا یہی حال رہا ہے پس قیام حق کے تعلیم حق کی نہیں (کیونکہ وہ تو اول روز سے ایک ہی رہی ہے، اور ہمیشہ موجود رہی ہے) بلکہ حق پر ثابت قدم رہنے کی ضرورت ہے۔ البقرة
214 مومن ہونے کے لیے صرف یہی کافی نہیں کہ تم نے ایمان کا اقرار کرلیا اور جنتی ہوگئے بلکہ ضروری ہے کہ ان تمام آزمائشوں میں ثابت قدم رہو جو تم سے پہلے حق پرستوں کو پیش آچکی ہیں اور تمہیں بھی پیش آئیں گی۔ البقرة
215 خیرات کرنے کا حکم، اور اس غلطی کا ازالہ کہ لوگ سمجھتے تھے خیرات صرف غیروں ہی کو دی جاسکتی ہے۔ اپنوں اور عزیزوں کی مدد کرنا خیرات نہیں ہے۔ خیرات کے مصارف بتلاتے ہوئے واضح کردیا گیا کہ ان کا اولین مصرف تمہارے عزیز و اقربا ہیں۔ اگر وہ محتاج ہوں البقرة
216 دفاع کا حکم یعنی دین کے اعتقاد و عمل کی آزادی کے لیے لڑنے کا حکم : جنگ کی حالت کوئی ایسی حالت نہیں ہے جو تمہارے لیے خوشگوار ہو۔ لیکن اس دنیا میں کتنی ہی خوشگواریاں ہیں جو ناگواریوں سے پیدا ہوتی ہیں۔ اور کتنی ہی خوشگوار باتیں ہیں جن کا نتیجہ ناگوار ہوتا ہے۔ جنگ برائی ہے لیکن انسانی طاقت کا ظلم و فساد اس سے بھی بڑھ کر برائی ہے۔ پس جب ایسی حالت پیش آجائے کہ ظلم کا ازالہ اور کسی طرح ممکن نہ ہو تو جنگ کے سوا چارہ نہیں دشمنوں کی مخالفت کسی خاص فرد یا جماعت سے نہ تھی بلکہ اس بنا پر تھی کہ لوگ اپنے پچھلے عقائد چھوڑ کر کیوں ایک نیا اعتقاد اختیار کر رہے ہیں؟ یعنی محض اختلاف عقائد کی بنا پر وہ ایک جماعت کو نیست و نابود کردینا چاہتے تھے۔ پس جب تک مسلمان اپنے اعتقاد سے دست بردار نہ ہوجاتے، دشمنوں کی طرف سے قتل و غارت گری کا سلسلہ برابر جاری رہتا اور جب مسلمان اس کے لیے تیار نہ تھے تو پھر اس کے سوا کیا چارہ کار تھا کہ مردانہ وار لڑیں اور حق و باطل کا فیصلہ ہوجائے؟ قرآن نے جنگ کا قدم نہیں اٹھایا اور نہ وہ داعی امن ہو کر اٹھا سکتا تھا، لیکن اس کے خلاف اٹھایا گیا اور اس نے پیٹھ نہیں دکھلائی۔ البقرة
217 البقرة
218 البقرة
219 جنگ کے سلسلہ میں تین سوالات پیدا ہوگئے تھے۔ ان کے جوابات دیے گئے : عام طور پر سمجھا جاتا تھا (اور اب تک سمجھا جاتا ہے) کہ شراب سے لڑائی لڑنے میں مدد ملتی ہے اور جوا حصول مال کا ذریعہ ہے۔ اس غلطی کا ازالہ کردیا گیا اور یہ اصولی حقیقت بتلا دی گئی کہ صرف اشیا کا نفع ہی نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ اضافی نفع سے تو کوئی چیز بھی خالی نہیں۔ بلکہ نفع اور نقصان دونوں کو تولنا چاہیے۔ جس چیز میں نقصان زیادہ ہو اسے ترک کردینا چاہیے۔ اگرچہ تھوڑا بہت نفع بھی ہو۔ اور جس چیز میں نفع زیادہ ہو اسے اختیار کرنا چاہیے اگرچہ نقصان کا بھی احتمال ہو۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ مصارف جنگ کے لیے اور اسی طرح کی دوسری قومی ضرورتوں کے لیے کس قدر انفاق کیا جائے؟ فرمایا، کوئی خاص قید، نہیں ضروریات معیشت سے جو کچھ فاضل ہو کر بچ رہے اسے راہ مقصد میں لگا دو۔ تیسرا سوال یتیم بچوں کی نسبت تھا۔ حکم دیا گیا کہ جس طریقے میں ان کے لیے اصلاح و درستگی ہو وہی بہتر ہے اور وہی اختیار کرنا چاہیے۔ اور اگر تم انہیں اپنے گھرانے میں شامل کرلو تو وہ تمہارے بھائی ہیں کچھ غیر نہیں۔ البقرة
220 البقرة
221 دشمنان اسلام سے جنگ کے سلسلہ میں یہ سوال پیدا ہوا کہ ان سے مناکحت جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا کہ مشرک مرد اور عورت سے مومن مرد اور عورت کا نکاح جائز نہیں، علت بھی واضح کردی کہ جو لوگ تمہارے دین کی وجہ سے تمہارے دشمن ہوگئے ہیں اور تمہیں راہ حق سے برگشتہ کرنا چاہتے ہیں ان کے ساتھ تمہارا ازدواجی رشتہ کبھی فلاح و سعادت کا موجب نہیں ہوسکتا۔ البقرة
222 مشرکین سے مناکحت کے بیان نے نکاح و طلاق اور ازدواجی زندگی کی مہمات کی طرف سلسلہ بیان پھیر دیا ہے۔ عورتوں سے ان کے مہینے کے خاص ایام میں علیحدگی کا حکم اور اس حقیقت کا اعلان کہ علیحدگی کا سبب یہ نہیں ہے کہ عورتیں ناپاک ہوجاتی ہیں اور ملنے جلنے اور چھونے کے قابل نہیں رہتیں، جیسا کہ یہودیوں کا خیال تھا۔ بلکہ صرف یہ بات ہے کہ ان ایام میں زنا شوئی کا تعلق مضر ہے، اور صفائی اور طہارت کے خلاف ہے۔ فطرت نے مرد اور عورت کے باہم ملنے اور وظیفہ زوجیت ادا کرنے کے لیے جو بات جس طرح ٹھہرا دیہے، اسی طرح ہونی چاہیے۔ اس کے سوا اور کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔ اللہ کی پسندیدگی ان کے لیے جو ناپاکی کی تمام باتوں سے اپنی نگہداشت کرتے ہیں۔ اس معاملہ کی نسبت جو وہم پرستیاں لوگوں میں پھیلی ہوئی ہیں اور طرح طرح کی قیدیں اپنے پیچھے لگا رکھی ہیں۔ مثلاً کسی خاص طریقے کو جائز سمجھتے ہیں کسی کو ناجائز کسی خاص طریقے میں برکت سمجھتے ہیں، کسی میں نحوست تو ان کی کوئی اصلیت نہیں۔ جس طرح بھی چاہو فطری طریقے سے یہ معاملہ کرسکتے ہو۔ البقرة
223 البقرة
224 اس گمراہی کا ازالہ کہ ازدواجی زندگی کی اہمیت سے لوگ بے پروا تھے، اور زبانیں چھوٹ ہوگئی تھیں۔ طرح طرح کی بے معنی قسمیں کھا لیتے اور پھر سمجھتے کہ رشتہ نکاح ٹوٹ گیا۔ کسی جائز اور نیکی کی بات کے خلاف قسم کھا لینی اور خدا کے نام کو ان کے نہ کرنے کے لیے حیلہ بنانا، خدا پرستی کے خلاف ہے۔ لغو اور بے معنی قسم کا کوئی اعتبار نہیں۔ اصل اس بارے میں یہ ہے کہ جو بات انسان سمجھ کر اور دل کے قصد کے ساتھ کی ہو اسی کے لیے وہ جواب دہ ہوگا۔ اگر بیوی سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھالی جائے جو عرب میں ایلا کے نام سے مشہور تھی تو کیا کرنا چاہیے۔ البقرة
225 البقرة
226 البقرة
227 البقرة
228 طلاق کے احکام اور اس میں ازدواجی زندگی کے لیے جن مضرتوں کا اندیشہ تھا یا عورتوں کی حق تلفی ہوسکتی تھی، اس کا انسداد : طلاق کی عدت کا ایک مناسب زمانہ مقرر کرکے، نکاح کی اہمیت، نسب کے تحفظ اور عورت کے نکاح ثانی کی سہولتوں کا انتظام کردیا گیا۔ یہ اصل واضح کردی گئی کہ اگر طلاق کے بعد شوہر رجوع کرنا چاہے تو وہی زیادہ حق دار ہے۔ کیونکہ شرعا مطلوب ملاپ ہے نہ کہ تفرقہ۔ جہاں تک عورتوں کے حقوق کا تعلق ہے دین حق کی اس اصل عظیم کا اعلان کہ جیسے حقوق مردوں کے عورتوں پر ہیں ویسے حقوق عورتوں کے بھی مردوں پر ہیں البقرة
229 طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ تین مرتبہ، تین مجلسوں میں، تین مہینوں میں، اور ایک کے بعد ایک واقع ہوتی ہے۔ اور وہ حالت جو قطعی طور پر رشتہ نکاح قطع کردیتی ہے، تیسری مجلس، تیسرے مہینے اور تیسری طلاق کے بعد وجود میں ٓتی ہے۔ اس وقت تک جدائی کے ارادے سے باز ٓجانے اور ملاپ کرلینے کا موقع باقی رہتا ہے۔ پس نکاح کا رشتہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس گھڑی چاہا، بات کی بات میں توڑ کر رکھ دیا۔ اس کے تورنے کے لیے مختلف منزلوں سے گزرنے، اچھی طرح سوچنے سمجھنے، یکے بعد دیگرے اصلاح کی مہلت پانے، اور پھر اصلاح حال سے بالکل مایوس ہو کر آخری فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ شوہر کے لیے جائز نہیں کہ جو کچھ بیوی کو دے چکا ہے یا دینا کیا ہے طلاق دیتے ہوئے واپس لے لے۔ (جیسا کہ عرب میں جاہلت میں لوگ کیا کرتے تھے) ہاں اگر ایسی صورت پیش آجائے کہ شوہر طلاق دینا نہ چاہتا ہو نہ اس کی طرف سے کوئی تصور ہو۔ لیکن کسی وجہ سے آپس میں بنتی نہ ہو اور اندیشہ پیدا ہوگیا کہ ازدواجی زندگی کے فرائض ادا نہ ہوسکیں گے، تو اس صورت میں اگر عورت کہے، میں اپنا مہریاں اس کا کوئی حصہ چھوڑ دیتی ہوں، اور شوہر اس کے بدلے میں طلاق دے دے تو ایسی معاملت ہوسکتی ہے۔ اسی کو "خلع" کہتے ہیں۔ نکاح کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے کے گلے پڑجائیں، اور نہ یہ ہے کہ عورت کو مرد کی خود غرضانہ کام جوئیوں کا آلہ بنا دیا جائے۔ بلکہ مقصود حقیقی یہ ہے کہ دونوں کے ملاپ سے ایک کامل اور خوش حال ازدواجی زندگی پیا ہوجائے۔ ایسی زندگی جب ہی پیدا ہوسکتی ہے۔ کہ آپس میں محبت و سازگاری ہو، اور حدود اللہ یعنی خدا کے ٹھہرائے واجبات و حقوق ادا کیے جائیں اگر کسی وجہ سے ایسا نہیں ہے تو نکاح کا مقصود حقیقی فوت ہوگیا اور ضروری ہوگیا کہ دونون فریقوں کے لیے تبدیلی کا دروازہ کھول دیا جائے۔ اگر مقصود نکاح کے فوت ہوجانے پر بھی علیحدگی کا دروازہ نہ کھولا جاتا۔ تو یہ انسان کے آزادانہ حق انتخاب کے خلاف ایک ظالمانہ رکاوٹ ہوتی اور ازدواجی زندگی کی سعادت سے سوسائٹی کو محروم کردینا ہوتا۔ یا تو عورت کو بیوی کی طرح رکھنا چاہیے اور اس کے حقوق ادا کرنے چاہیں یا طلاق دے کر اس کی راہ کھول دینی چاہیے۔ یہ نہیں کرنا چاہیے کہ نہ تو بیویوں کی طرح رکھو، نہ طلاق دے کر اس کی راہ کھولو۔ بیچ میں لٹکائے رکھو (جیسا کہ عرب جاہلیت میں لوگ کیا کرتے تھے)۔ ازدواجی زندگی کا معاملہ نہایت اہم اور نازک ہے۔ اور مرد کی خود غرضیوں اور نفس پرستیوں سے ہمیشہ عورتوں کی حق تلفی ہوئی ہے۔ اس لیے خصوصیت کے ساتھ یہاں مسلمانوں کو نصیحت کی گئی کہ اللہ نے انہیں "نیک ترین" امت ہونے کا مرتبہ عطا فرمایا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم نے ہدایت و موعظت کے تمام پہلو واضح کردیے ہیں پس اپنے جماعت شرف و مقام کی ذمہ داریوں سے غافل نہ ہوں اور زدواجی زندگی میں اخلاق و پرہیز گاری کا بہترین نمونہ بنیں۔ ضمناً اس حقیقت کی طرف اشارہ کہ جس جماعت کے افراد کی ازدواجی زندگی درست نہیں ہے وہ کبھی ایک فلاح یافتہ جماعت نہیں ہوسکتی۔ البقرة
230 البقرة
231 البقرة
232 البقرة
233 جب عورت کو طلاق دے دی گئی اور اس نے عدت کا زمانہ پورا کرلیا تو پھر اسے اختیار ہے جس جس سے چاہے ٹھیک طریقے پر نکاح کرے۔ نہ تو اسے دوسرے نکاح سے روکنا چاہیے، نہ اس کی پسند کے خلاف اس پر زور ڈالنا چاہیے، نہ اس بات پر ناراض ہونا چاہیے۔ چونکہ اس بارے میں مردوں کی طرف سے زیادتی کا اندیشہ تھا اس لیے خصوصیت کے ساتھ اس پر زور دیا گیا اور فرمایا، اگر تم اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس حکم کی نافرمانی سے بچو۔ طلاق کی صورت میں ایک نہایت اہم سوال چھوٹے بچوں کی پرورش کا تھا۔ ماں باپ کی علیحدگی کے بعد دودھ پیتے بچوں کی پرورش کا تھا۔ ماں باپ کی علیحدگی کے بعد دودھ پیتے بچوں کی پرورش کا انتظام کیا ہو؟ اس بارے میں طرح طرح کی خرابیوں کا اندیشہ تھا۔ پس ان کا سدباب کردیا گیا۔ بڑا محل نقصان پہنچنے کا ماں تھی کہ طلاق کی وجہ سے جدا ہوگئی تھی، اور محبت مادری کی وجہ سے مجبور تھی، کہ بچے کو دودھ پلائے۔ پس حکم دیا گیا کہ دودھ پلانے تک اس کا خرچ باپ کے ذمے ہے اور دودھ پلانے کی مدت دو برس ہے۔ ساتھ ہی اس بارے میں دو بنیادی قاعدے بھی واضح کردیے "نہ تو ماں کو اس کو بچے کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو" اور "کسی پر اس کی وسعت سے زیادہ خرچ کا بار نہیں"۔ البقرة
234 جو عورتیں بیوہ ہوجائیں، ان کی نسبت احکام، اور ان مفاسد کا انسداد جو اس بارے میں پھیلے ہوئے تھے : 1۔ وفات کی عدت چار مہینے دس دن مقرر کرکے ان مفاسد کی اصلاح کردی جو اس بارے میں افراط و تفریط کا موجب تھے۔ نہ تو عورت فوراً ہی دوسرا نکاح کرسکتی ہے کہ اس میں معاملہ نکاح کی بے وقعتی اور مرحوم شوہر کے تذکار و محبت سے تغافل ہے۔ نیز نسب بھی مشتبہ ہوسکتا ہے۔ اور نہ یہ ہونا چاہیے کہ زیادہ مدت تک عورت کو شوہر کا سوگ منانے کے لیے مجبور کیا جائے۔ 2۔ اگر عورت عدت کے بعد دوسرا نکاح کرنا چہے تو اسے نہیں روکنا چاہیے، اور نہ اس بات کا خواہشمند ہونا چاہیے کہ عدت کی مقررہ مدت سے زیادہ شوہر کا سوگ کرے (جیسا کہ عرب جاہلیت میں لوگ کیا کرتے تھے)۔ البقرة
235 3۔ نکاح کے بارے میں عورت سے جو کچھ بھی نامہ و پیام کیا جائے اعلانیہ اور دستور کے مطابق ہونا چاہیے۔ چوری چھپے نہیں ہونا چاہیے کہ اس میں طرح طرح کے مفاسد ہوسکتے ہیں۔ 4۔ جب تک عدت کی مدت پوری نہ ہوجائے، نکاح کا قول و قرار نہیں کرنا چاہیے۔ البقرة
236 اگر نکاح کے بعد شورہ اور بیوی میں کوئی تعلق نہ ہوا ہو، اور شوہر طلاق دے دے تو اس صورت میں مہر کے احکام اور عورتوں کی حق تلفی کی امکانی صورتوں کا تدارک : 1۔ اگر مہر کی رقم متعین نہ ہوئی ہو، تو اس صورت میں چاہیے مرد اپنے مقدور کے مطابق جس قدر دے سکتا ہے، دے دے۔ 2۔ اگر معین ہو، تو اس صورت میں آدھا مہر عورت کا حق ہوگا، اگر مرد اس سے زیادہ بھلائی کرسکے تو یہ تقوے اور فضیلت کی بات ہوگی۔ 3۔ اس اصولی حقیقت کی تلقین کہ نکاح کے معاملہ میں مرد کا ہاتھ عورت سے زیادہ قوی ہے۔ اس لیے چاہیے کہ ہر معاملہ میں عفو و بخشش بھی اس کی طرف سے زیادہ ہو نہ کہ عورت کی طرف سے۔ البقرة
237 البقرة
238 لیکن انسان جو خواہشوں کا بندہ اور عرض پرستیوں کی مخلوق ہے، کیونکر ایسی اخلاقی طاقت پیا کرسکتا ہے کہ ازدواجی زندگی کی اخلاقی آزمائشوں میں پورا اترے؟ اس کی راہ میں صرف یہ ہے کہ خدا پرستی کی سچی روح پیدا کرے اور خدا پرستی کی سچی روح پیدا کرنے کا ذریعہ خدا کی عبادت ہے پس چاہیے کہ نماز کی محافظت کرو اور نماز میں کھڑے ہو کہ خشوع و خضوع میں ڈوبے ہوئے ہو ! خوف و جنگ کی حالت میں بھی نماز سے غفلت جائز نہیں جس طرح بھی بن پڑے نماز بروقت ادا کرلینی چاہیے صلوۃ وسطی کی ایک تفسیر تو یہ ہے جو ہم نے اختیار کی ہے دوسری تفسیر یہ ہے کہ یہاں "وسطی " سے مقصود درمیانی چیز ہے اور اس لیے پانچ وقت کی نمازوں میں سے کسی خاص درمیانی نماز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جن مفسروں نے یہ تفسیر اختیار کی ہے وہ بخاری و مسلم کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ جب جنگ احزاب میں عصر کا وقت نکل گیا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ شغلونا عن الصلوۃ الوسطی حتی غابت الشمس۔ دشمنوں نے ہمیں صلوۃ وسطی سے باز رکھا یہاں تک سورج ڈوب گیا۔ پس صلوۃ وسطی سے مقصود عصر کی نماز ہے البقرة
239 البقرة
240 اگر شوہر نے وصیت کردی ہو کہ ایک برس تک عورت اس کے گھر میں رہے اور نان و نفقہ پائے (یعی ایک سال تک سوگ منائے اور گھر سے نہ نکلے جیسا کہ عرب جاہلیت میں میں دستور تھا) تو ایسی وصیت اب واجب التعمیل نہیں۔ کیونکہ وفات کی عدت چار ماہ دس دن مقرر کردی گئی ہے۔ البقرة
241 نکاح و طلاق کے احکام کا بیان ختم کرتے ہوئے، مطلقہ عورتوں کے لیے احسان و سلوک کا مکرر حکم کیونکہ اس معاملہ میں رشتہ کار مردوں کے ہاتھ میں تھا اور عورتوں کا پہلو کمزور تھا اس لیے ضروری تھا کہ بار بار حسن سلوک اور عفو و درگزر پر زور دیا جائے البقرة
242 البقرة
243 اب یہاں سے سلسلہ بیان پھر اسی طرف پھرتا ہے جہاں سے نکاح و طلاق کا بیان شروع ہوا تھا یعنی جہاد کے احکام و مصالح کی طرف، جو جماعت موت سے ڈرتی ہے، وہ کبھی زندگی کی کامرانیاں حاصل نہیں کرسکتی۔ بنی اسرائیل کے ایک گروہ کی عبرت انگیز سرگزشت جس نے باوجود کثرت تعداد کے جہاد سے اعراض کیا تھا۔ البقرة
244 البقرة
245 راہ جہاد میں مال خرچ کرنا اللہ کو قرض دینا ہے البقرة
246 طالوت (ساؤں) کی قیادت و فرمانروائی اور بنی اسرائیل فلسطینیوں کے مقابلہ کی سرگزشت اور قوموں کے ضعف و قوت اور فتح وہ ہزیمت کے بعض اہم حقائق : 1۔ جس گروہ میں صبر و استقامت کی سچی ورح نہیں ہوتی، اس میں بسا اوقات سعی و عمل کے ولولے پیدا ہوجاتے ہیں، لیکن جب آزمائش کا وقت آتا ہے، تو بہت کم نکلتے ہیں جو راہ عمل میں ثابت قدم رہنے والے ہوں۔ 2۔ حکومت و قیادت کی جس میں قدرتی صلاحیت ہوتی ہے، وہی اس کا اہل ہوتا ہے۔ اگرچہ مال و دولت اور دنیوی عزت و جاہ سے خالی ہو۔ 3۔ صلاحیت کے لیے اصلی چیز علم و جسم کی قوت ہے۔ یعنی دماغی اور جسمانی قابلیت نہ کہ مال و دولت اور نسل و خاندان کا شرف۔ 4۔ جو شخص بھی سردار مقرر ہوجائے، جماعت کے افراد کا فرض ہے کہ سچے دل سے اس کی اطاعت کریں۔ اگر ایک جماعت میں اطاعت نہیں ہے، تو وہ کبھی جماعتی زندگی کی کشاکش میں کامیاب نہیں ہوسکتی ! البقرة
247 البقرة
248 البقرة
249 طالوت کا پانی پینے سے روک کر لوگوں کے صبر و ثبات اور طاعت و انقیاد کا امتحان لینا اور ایک قلیل تعداد کے سوا سب کا نااہل ثابت ہونا۔ اس راہ میں اصلی چیز صبر اور اطاعت ہے جو لوگ ایک گھڑی کی پیاس ضبط نہیں کرسکتے، وہ میدان جنگ کی محنتیں کیونکر برداشت کریں گے کتنی ہی چھوٹی جماعتیں ہیں جو بڑی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں اور کتنی ہی بڑی جماعتیں ہیں جو چھوٹی جماعتوں سے شکست کھاجاتی ہیں۔ فتح و شکست کا دارو مدار افراد کی کثرت و قلت پر نہیں بلکہ دلوں کی قوت پر ہے اور اللہ کی مدد انہی لوگوں کا ساتھ دیتی ہے جو صابر اور ثابت قدم ہوتے ہیں البقرة
250 سچی دعا وہ ہے جو سچی استعداد عمل کے ساتھ ہو۔ طالوت کے ساتھیوں نے اپنی دعا میں صرف یہی نہیں کہا کہ "ہمیں فتح مند کر" بلکہ فتح مندی کی طلب سے پہلے صبر و ثبات کی طلب گاری کی اور کہا "ہمیں صبر دے اور ہمارے قدم جما دے" کیونکہ خدا کی نصرت انہی کے حصے میں آتی ہے جن میں صبر و ثبات کی روح پیدا ہوجاتی ہے البقرة
251 اگر قوموں اور جماعتوں کی باہمی کش مکش اور مدافعت نہ ہوتی اور ہر جماعت اپنی اپنی حالت میں بغیر منازعت کے چھوڑ دی جاتی تو نتیجہ یہ نکلتا کہ دنیا ظلم و فساد سے بھر جاتی اور حق و عدالت کا نام و نشان باقی نہ رہتا۔ پس یہ اللہ کا بڑا ہی فضل ہے کہ جب کبھی ایک گروہ ظلم و فساد میں چھوٹ ہوجاتا ہے تو مزاحمت کے محرکات دوسرے گروہ کو مدافعت کے لیے کھڑا کردیتے ہیں، اور ایک قوم کا ظلم دوسری قوم کی مقاومت سے دفع ہوتا ہے رہتا ہے پس دفع مظالم کے لیے جنگ ناگزیر ہوئی، خدا نے مختلف عہدوں میں یکے بعد دیگرے اپنے پیغمبر مبعوث کیے اور انہوں نے لوگوں کو تفرقہ و فساد کی جگہ حق پرستی و یگانگت کی تعلیم دی۔ اگر لوگ اس تعلیم پر قائم رہتے اور گروہ بندیاں کرکے الگ الگ نہ ہوجاتے، تو آپس میں جنگ و نزاع نہ کرتے، لیکن انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف جتھا بندی کرلی، اور باہمی جنگ و خونریزی کا ایسا بیج بو دیا جو اب ہمیشہ پھل لاتا رہتا ہے اگر خدا چاہتا تو طبیعت بشری ایسی بناتا کہ اس میں خلاف و نزاع کا مادہ ہی نہ ہوتا اور کسی ایک حالت معیشت پر مجبور کردیا جاتا۔ لیکن اس کی حکمت کا فیصلہ یہی ہوا کہ انسان کو مجبور و مضطر نہ بنائے اور ہر راہ میں چلنے کی قدرت دے دے۔ پس کتنے ہی ہیں جو ہدایت کی راہ اختیار کرتے ہیں، کتنے ہی ہیں جو گمراہی کو ترجیح دیتے ہیں البقرة
252 پیغمبر اسلام سے خطاب کہ جنگ کی جو منزل تمہیں پیش آگئی ہے سنت الٰہی کا مقتضا یہی تھا کہ پیش آئے۔ ظلم و فساد کی مدافعت کے لیے اس منزل سے گزرنا ناگزیر ہے البقرة
253 البقرة
254 جب جنگ ناگزیر ہے تو اس سے غفلت نہ کرو اور بڑی تیاری یہ ہے کہ اپنا مال اس راہ میں خرچ کرو۔ آخرت کی نجات کا تمام تر دار و مدار ایمان و عمل پر ہے۔ وہاں نہ تو نجات کی خرید و فروخت ہوسکتی ہے، نہ کسی کی دوستی آشنائی کام دے سکتی ہے، نہ کسی کی سفارش سے کام نکالا جاسکتا ہے۔ البقرة
255 خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ و مالک الملک ہے۔ حی و قیوم ہے اس کی حکومت سے کوئی گوشہ باہر نہیں۔ اسکے علم کے لیے کوئی شے مخفی اور اوجھل نہیں۔ وہ غفلت سے منزہ ہے اور نسیان سے پاک ہے جس ہستی کی صفتیں ایسی ہوں اس کے سامنے کسی کی سعی و سفارش کی کیا گنجائش ہوسکتی ہے، اور اس کے احکام و قوانین کے نفاذ میں کون ہے جو دخل دینے کی جرات کرسکتا ہے؟ البقرة
256 اس اصل عظیم کا اعلان کہ دین و اعتقاد کے معاملہ میں کسی طرح کا جبر و استکراہ جائز نہیں :۔ دین کی راہ دل کے اعتقاد و یقین کی راہ ہے اور اعتقاد، دعوت و موعظت سے پیدا ہوسکتا ہے نہ کہ جبر و استکراہ سے : 1۔ احکام جہاد کے بعد ہی یہ ذکر اس لیے کیا گیا تاکہ واضح ہوجائے کہ جنگ کی اجازت ظلم و تشدد کے انسداد کے لیے دی گئی ہے۔ نہ کہ دین کی اشاعت کے لیے۔ دین کی اشاعت کے لیے۔ دین کی اشاعت کا ذریعہ ایک ہی ہے اور وہ دعوت ہے۔ قریش مکہ کا فتنہ کیا تھا؟ یہ تھا کہ ظلم و تشدد کے ذریعہ دین و اعتقاد کا فیصلہ کرنا چاہتے تھے۔ قرآن نے اس کے خلاف جنگ کا حکم دیا پس جس بات کے خلاف اس نے جنگ کا حکم دیا ہے خود اسی بات کا مرتکب کیونکر ہوسکتا ہے؟ البقرة
257 2۔ سچائی روشنی ہے اگر تاریکی چھائی ہوئی ہے تو صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ روشنی موجود ہوجائے۔ اگر روشنی نمایاں ہوگئی تو پھر روشنی کو روشن دکھلانے کے لیے اور کسی بات کی ضرورت نہیں، روشنی جس طرف بھی رخ کرے گی تاریکی خود بخود دور ہوجائے گی۔ البقرة
258 3۔ دعوت کی تاثیر و فتح مندی کی وضاحت کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام البقرة
259 175: آیت نمبر : ٢٥٩ اور ٢٦٠ میں اللہ تعالیٰ نے دو ایسے واقعے ذکر فرمائے ہیں جن میں اس نے اپنے دو خاص بندوں کو اس دنیا ہی میں مردوں کو زندہ کرنے کا مشاہدہ کرایا، پہلے واقعے میں ایک ایسی بستی کا ذکر ہے جو مکمل طور پر تباہ ہوچکی تھی اس کے تمام باشندے مرکھپ چکے تھے اور مکانات چھتوں سمیت گر کر مٹی میں مل گئے تھے ایک صاحب کا وہاں سے گزر ہوا تو انہوں نے دل میں سوچا کہ اللہ تعالیٰ اس ساری بستی کو کس طرح زندہ کرے گا، بظاہر اس سوچ کا منشاء خدانخواستہ کوئی شک کرنا نہیں تھا بلکہ حیرت کا اظہار تھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قدرت کا مشاہدہ اس طرح کرایا جس کا اس آیت میں ذکر ہے، یہ صاحب کون تھے اور یہ بستی کونسی تھی یہ بات قرآن کریم نے نہیں بتائی، اور کوئی مستند روایت بھی ایسی نہیں ہے جس کے ذریعے یقینی طور پر ان باتوں کا تعین کیا جاسکے۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ بستی بیت المقدس تھی۔ اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب بخت نصر نے اس پر حملہ کر کے اسے تباہ کر ڈالا تھا، اور یہ صاحب حضرت عزیر یا حضرت ارمیا علیہم السلام تھے۔ لیکن نہ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے، نہ اس کھوج میں پڑنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کا مقصد اس کے بغیر بھی واضح ہے۔ البتہ یہ بات تقریباً یقینی معلوم ہوتی ہے کہ یہ صاحب کوئی نبی تھے، کیونکہ اول تو اس آیت میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے ہم کلام ہوئے، نیز اس طرح کے واقعات انبیائے کرام ہی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ دیکھئے نیچے حاشیہ 177 البقرة
260 176: اس سوال وجواب کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے یہ بات صاف کردی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ فرمائش خدانخواستہ کسی شک کی وجہ سے نہیں تھی، انہیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر پورا یقین تھا ؛ لیکن آنکھوں سے دیکھنے کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے، اس سے نہ صرف مزید اطمینان حاصل ہوتا ہے، بلکہ اس کے بعد انسان دوسروں سے یہ کہہ سکتا ہے کہ جو کچھ کہہ رہا ہوں دلائل سے اس کا علم حاصل کرنے کے علاوہ آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ 177: یعنی اگرچہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ ہر وقت مردے کو زندہ کرنے کا مشاہدہ کراسکتی ہے، مگر اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر ایک کو یہ مشاہدہ نہ کرایا جائے۔ اور بات دراصل یہ ہے کہ یہ دنیا چونکہ امتحان کی جگہ ہے، اس لیے یہاں اصل قیمت ایمان بالغیب کی ہے، اور انسان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ ان حقائق پر آنکھوں سے دیکھے بغیر دلائل کی بنیاد پر ایمان لائے۔ البتہ انبیائے کرام کا معاملہ عام لوگوں سے مختلف ہے۔ وہ جب غیب کے حقائق پر غیر متزلزل ایمان لا کر یہ ثابت کرچکے ہوتے ہیں کہ ان کا ایمان نہ کسی شک کی گنجائش رکھتا ہے اور نہ وہ آنکھ کے کسی مشاہدے پر موقوف ہے تو ان کے ایمان بالغیب کا امتحان اسی دنیا میں پورا ہوجاتا ہے۔ پھر انہیں حکمت خداوندی کے تحت بعض غیبی حقائق آنکھوں سے بھی دکھا دئیے جاتے ہیں، تاکہ ان کے علم واطمینان کا معیار عام لوگوں سے زیادہ ہو، اور وہ ڈنکے کی چوٹ یہ کہہ سکیں کہ وہ جس بات کی دعوت دے رہے ہیں اس کی حقانیت انہوں نے آنکھوں سے بھی دیکھ رکھی ہے۔ بعض وہ لوگ جو خلاف عادت باتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں، انہوں نے اس آیت میں بھی ایسی کھینچ تان کی ہے جس سے یہ نہ ماننا پڑے کہ وہ پرندے واقعۃً مر کر زندہ ہوگئے تھے۔ لیکن قرآن کریم کا پورا سیاق اور جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ان کا اسلوب ایسی تاویلات کی تردید کرتا ہے۔ جو شخص عربی زبان کے محاورات اور اسالیب سے واقف ہو وہ ان آیات کا اس کے سوا کوئی مطلب نہیں نکالے گا جو ترجمے میں بیان کیا گیا ہے۔ البقرة
261 178: اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے سات سوگنا ثواب ملتا ہے اور اللہ تعالیٰ جس کا ثواب چاہیں اور بڑھا سکتے ہیں، واضح رہے کہ اللہ کے راستے میں خرچ کا قرآن کریم نے بار بار ذکر کیا ہے اور اس سے مراد ہر وہ خرچ ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کیا جائے اس میں زکوۃ صدقات اور خیرات سب داخل ہیں۔ البقرة
262 البقرة
263 179: مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی سائل کسی سے مانگے اور کسی وجہ سے دے نہ سکتا ہو تو اس سے نرم الفاظ میں معذرت کرلینا اور اگر وہ مانگنے پر ناروا اصرار کرے تو اس کی غلطی سے درگزر کرنا اس سے کہیں بہتر ہے کہ انسان دے تو دے مگر بعد میں احسان جتلائے یا اسے ذلیل کرکے تکلیف پہنچائے البقرة
264 180: چٹان پر اگر مٹی جمی ہو تو یہ امید ہوسکتی ہے کہ اس پر کوئی چیز کاشت کرلی جائے ؛ لیکن اگر بارش مٹی کو بہالے جائے تو چٹان کے چکنے پتھر کاشت کے قابل نہیں رہتے، اسی طرح صدقہ خیرات سے آخرت کے ثواب کی امید ہوتی ہے ؛ لیکن اگر اس کے ساتھ ریا کاری یا احسان جتانے کی خرابی لگ جائے تو وہ صدقے کو بہالے جاتی ہے اور ثواب کی کوئی امید نہیں رہتی۔ البقرة
265 البقرة
266 181: صدقات کو برباد کرنے کی یہ دوسری مثال ہے۔ جس طرح ایک آگ سے بھرا بگولا ہرے بھرے باغ کو یکایک تباہ کر ڈالتا ہے، اسی طرح ریاکاری یا صدقہ دے کر احسان جتلانا یا کسی اور طرح غریب آدمی کو ستانا صدقے کے عظیم ثواب کو برباد کرڈالتا ہے۔ البقرة
267 البقرة
268 البقرة
269 البقرة
270 البقرة
271 البقرة
272 182: بعض انصاری صحابہ کے کچھ غریب رشتہ دار تھے مگر چونکہ وہ کافر تھے اس لئے وہ ان کی امداد نہیں کرتے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ وہ اسلام لے آئیں تو ان کی امداد کریں، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خود آنحضرتﷺ نے بھی یہی ہدایت فرمائی تھی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (روح المعانی) اس طرح مسلمانوں کو بتایا گیا کہ آپ پر ان کے اسلام لانے کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی اور اگر آپ ان غریب کافروں پر بھی اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے کچھ خرچ کریں گے تو اس کا بھی پورا پورا ثواب ملے گا۔ البقرة
273 183: حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ یہ آیت اصحاب صفہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یہ وہ صحابہ تھے جنہوں نے اپنی زندگی علم دین حاصل کرنے کے لئے وقف کردی تھی اور آنحضرتﷺ کے پاس مسجد نبوی سے متصل ایک چبوترے پر آپڑے تھے، طلب علم کی وجہ سے وہ کوئی معاشی مشغلہ اختیار نہیں کرسکتے تھے مگر مفلسی کی سختیاں ہنسی خوشی برداشت کرتے تھے کسی سے مانگنے کا سوال نہیں تھا، اس آیت نے بتایا کہ ایسے لوگ امداد کے زیادہ مستحق ہیں جو ایک نیک مقصد سے پوری امت کے فائدے کے لئے مقید ہو کر رہ گئے ہیں اور سختیاں جھیلنے کے باوجود اپنی ضرورت کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرتے۔ آیت نمبر 261 سے 274 تک صدقات کی فضیلت اور اس کے احکام بیان ہوئے تھے۔ آگے آیت نمبر 280 تک اس کی ضد یعنی سود کا بیان ہے۔ صدقات انسان کے جذبہ سخاوت کی نشانی ہیں، اور سود بخل اور مال کی محبت کی علامت ہے۔ البقرة
274 البقرة
275 184:"سود"یا "ربا" ہر اس زیادہ رقم کو کہا جاتا ہے جو کسی قرض پر طے کرکے وصول کی جائے، مشرکین کا کہنا تھا کہ جس طرح ہم کوئی سامان فروخت کرکے نفع کماتے ہیں اور اس کو شریعت نے حلال قرار دیا ہے، اسی طرح اگر قرض دے کر کوئی نفع کمائیں تو کیا حرج ہے؟ ان کے اس اعتراض کا جواب تو یہ تھا کہ سامانِ تجارت کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ اسے بیچ کر نفع کمایا جائے، لیکن نقدی اس کام کے لئے نہیں بنائی گئی کہ اسے سامان ِ تجارت بناکر اس سے نفع کمایا جائے، وہ تو ایک تبادلے کا ذریعہ ہے ؛ تاکہ اس کے ذریعہ اشیائے ضرورت خریدی اور بیچی جاسکیں، نقدی کا نقدی سے تبادلہ کرکے اسے بذات خود نفع کمانے کا ذریعہ بنالیا جائے تو اس سے بے شمار مفاسد پیدا ہوتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہاں بیع اور سود کے درمیان فرق کی تفصیل بیان کرنے کے بجائے ایک حاکمانہ جواب دیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دے دیا ہے تو ایک بندے کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس حکم کی حکمت اور اس کا فلسفہ پوچھتا پھرے اور گویا عملاً یہ کہے کہ جب تک مجھے اس کا فلسفہ سمجھ میں نہیں آجائے گا میں اس حکم پر عمل نہیں کروں گا، واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں یقیناً کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے ؛ لیکن ضروری نہیں کہ وہ ہر شخص کی سمجھ میں بھی آجائے، لہذا اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے تو پہلے اس کے ہر حکم پر سرتسلیم خم کرنا چاہئے، اس کے بعد اگر کوئی شخص اپنے مزید اطینان کے لئے حکمت اور فلسفہ سمجھنے کی کوشش کرے تو کوئی حرج نہیں ؛ لیکن اس پر اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کو موقوف رکھنا ایک مومن کا طرز عمل نہیں۔ 185: مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے سود کی حرمت نازل ہونے سے پہلے لوگوں سے سود وصول کیا ہے، چونکہ اس وقت تک سود کے حرام ہونے کا اعلان نہیں ہوا تھا اس لئے وہ پچھلے معاملات معاف ہیں، اور ان کے ذریعے جو رقمیں وصول کی گئی ہیں وہ واپس کرنے کی ضرورت نہیں، البتہ حرمت کے اعلان کے وقت جو سود کسی پر واجب الادا ہو وہ لینا جائز نہیں ہوگا ؛ بلکہ اسے چھوڑنا ہوگا جیسا کہ آیت نمبر ٢٧٨ میں حکم دیا گیا ہے۔ 186: یعنی جن لوگوں نے حرمت سودی کو تسلیم نہ کیا اور وہی اعتراض کرتے رہے کہ بیع اور سود میں کوئی فرق نہیں، وہ کافر ہونے کی وجہ سے ابدی عذاب کے مستحق ہوں گے۔ سود کے موضوع پر مزید تفصیل کے لیے دیکھئے ان آیات کے تحت معارف القرآن اور مسئلہ سود از حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب (رح) اور میرا مذکورہ بالا فیصلہ۔ البقرة
276 البقرة
277 البقرة
278 البقرة
279 البقرة
280 البقرة
281 البقرة
282 187: یہ قرآن کریم کی سب سے طویل آیت ہے اور اس میں سود کی حرمت بیان کرنے کے بعد ادھار خرید وفروخت کے سلسلے میں اہم ہدایات دی گئی ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ معاملات صفائی کے ساتھ ہوں، اگر کوئی ادھار کسی کے ذمے واجب ہورہا ہو تو اسے ایسی تحریر لکھنی یا لکھوانی چاہئے جو معاملے کی نوعیت کو واضح کردے، اس تحریر میں پوری بات لاگ لپیٹ کے بغیر لکھنی چاہئے اور کسی کا حق مارنے کے لئے تحریر میں کتر بیونت سے پرہیز کرنا چاہئے۔ البقرة
283 البقرة
284 188: آگے آیت نمبر 286 کے پہلے جملے نے واضح کردیا کہ انسان کے اختیار کے بغیر جو خیالات اس کے دل میں آجاتے ہیں، ان پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ لہذا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان جان بوجھ کر جو غلط عقیدے دل میں رکھے، یا کسی گناہ کا سوچ سمجھ کر بالکل پکا ارادہ کرلے تو اس کا حساب ہوگا۔ البقرة
285 البقرة
286 البقرة
0 سورۃ آل عمران تعارف عمران حضرت مریم علیہا السلام کے والد کا نام ہے اور“ آل عمران ” کا مطلب ہے“ عمران کا خاندان ” اس سورت کی آیات ٣٣ تا ٣٧ میں اس خاندان کا ذکر اایا ہے، اس لیے اس سورت کا نام“ سورۃ آل عمران ” ہے۔ اس سورت کے بیشتر حصے اس دور میں نازل ہوئے ہیں جب مسلمان مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آگئے تھے، مگر یہاں بھی کفار کے ہاتھوں انہیں بہت سی مشکلات درپیش تھیں۔ سب سے پہلے غزوہ بدر پیش آیا جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو غیر معمولی فتح عطا فرمائی، اور کفار قریش کے بڑے بڑے سردار مارے گئے۔ اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے اگلے سال انہوں نے مدینہ منورہ پر حملہ کیا، اور غزوہ احد پیش آیا، جس میں مسلمانوں کو عارضی پسپائی بھی اختیار کرنی پڑی۔ ان دونوں غزوات کا ذکر اس سورت میں آیا ہے، اور ان سے متعلق مسائل پر قیمتی ہدایات عطا فرمائی گئی ہیں۔ مدینہ منورہ اور اس کے اطراف میں یہودی بڑی تعداد میں آباد تھے، سورۃ بقرہ میں ان کے عقائد و اعمال کا بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر ہوچکا ہے، اور ضمنا عیسائیوں کا بھی تذکرہ آیا تھا۔ سورۃ آل عمران میں اصل روئے سخن عیسائیوں کی طرف ہے، اور ضمنا یہودیوں کا بھی تذکرہ آیا ہے۔ عرب کے علاقے نجران میں عیسائی بڑی تعداد میں آباد تھے، ان کا ایک وفد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا تھا۔ سورۃ آل عمران کا ابتدائی تقریبا آدھا حصہ انہی کے دلائل کے جواب اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کی صحیح حیثیت بتانے میں صرف ہوا ہے۔ نیز اس سورت میں زکوۃ سود اور جہاد سے متعلق احکام بھی عطا فرمائے گئے ہیں، اور سورت کے آخرت میں دعوت دی گئی ہے کہ اس کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت خداوندی کی نشانیوں پر انسان کو غور کر کے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانا چاہیے، اور ہر حاجت کے لیے اسی کو پکارنا چاہئے۔ سورۃ آل عمران مدنی ہے اور اس میں ٢٠٠ آیتیں اور ٢٠ رکوع ہیں۔ آل عمران
1 آل عمران
2 آل عمران
3 آل عمران
4 1: یہاں قرآن کریم نے لفظ فرقان استعمال کیا ہے جس کے معنی ہیں وہ چیز جو صحیح اور غلط کے درمیان فرق واضح کرنے والی ہو، قرآن کریم کا ایک نام فرقان بھی ہے، اس لئے کہ وہ حق وباطل کے درمیان امتیاز کرنے والی کتاب ہے ؛ چنانچہ بعض مفسرین نہ یہاں فرقان سے قرآن ہی مراد لیا ہے، دوسرے مفسرین کا کہنا ہے کہ اس سے مراد معجزات ہیں جو انبیاء کرام ( علیہ السلام) کے ہاتھ پر ظاہر کئے گئے اور جنہوں نے ان کی نبوت کا ثبوت فراہم کیا، نیز اس لفظ سے وہ تمام دلائل بھی مراد ہوسکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرتے ہیں۔ آل عمران
5 آل عمران
6 2: اگر انسان اپنی پیدائش کے مختلف مراحل پر غور کرے کہ وہ ماں کے پیٹ میں کس طرح پرورش پاتا ہے اور کس طرح اس کی صورت دوسرے اربوں انسانوں سے بالکل الگ بنتی ہے کہ کبھی دو آدمی سوفیصد ایک جیسے نہیں ہوتے تو اسے یہ تسلیم کرنے میں دیر نہ لگے کہ یہ سب کچھ خدائے واحد کی قدرت اور حکمت کے تحت ہورہا ہے، اس آیت میں اس حقیقت کو بیان کرکے اللہ تعالیٰ کے وجود اس کی وحدانیت اور حکمت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے، اس کے ساتھ اس سے ایک اور پہلو کی وضاحت بھی کی گئی ہے، روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ شہر نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد آنحضرتﷺ کے پاس آیا تھا اور اس نے اپنے عقائد کے بارے میں آپ سے گفتگو کی تھی، سورۃ آل عران کی کئی آیات اسی پس منظر میں نازل ہوئی ہیں، اس وفد نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خدا کا بیٹا ہونے پر یہ دلیل بھی دی تھی کہ وہ بغیر باپ کہ پیدا ہوئے تھے، یہ آیت اس دلیل کی تردید بھی کررہی ہے، اشارہ یہ کیا گیا ہے کہ ہر شخص کی تخلیق اور صورت گری اللہ تعالیٰ ہی فرماتا ہے، اگرچہ اس نے معمول کا طریقہ یہ بنایا ہے کہ ہر بچہ کسی باپ کے ذریعے پیدا ہوتا ہے ؛ لیکن وہ اس طریقے کانہ پابند ہے نہ محتاج، لہذا وہ جب چاہے جس کو چاہے بغیر باپ کے پیدا کرسکتا ہے اور اس سے کسی کا خدا یا خدا کا بیٹا ہونا لازم نہیں آتا۔ آل عمران
7 3: اس آیت کو سمجھنے کے لئے پہلے اس حقیقت کا احساس ضروری ہے کہ اس کائنات کی بے شمار چیزیں ایسی ہیں جو انسان کی سمجھ سے بالاتر ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ کا وجود اور اس کی وحدانیت توایک ایسی حقیقت ہے جو ہر انسان اپنی عقل سے معلوم کرسکتا ہے، لیکن اس کی ذات اور صفات کی تفصیلات انسان کی محدود عقل سے ماورا ہیں، قرآن کریم نے جہاں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ذکر فرمایا ہے ان سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ ظاہر کی گئی ہے، لیکن کوئی شخص ان صفات کی حقیقت اور کنہ کی فلسفیانہ کھوج میں پڑجائے توحیرانی یا گمراہی کے سوا اسے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا، کیونکہ وہ اپنی محدود عقل سے اللہ تعالیٰ کی ان لامحدود صفات کا احاطہ کرنے کی کوشش کررہا ہے جو اس کے ادراک سے باہر ہیں، مثلاً قرآن کریم نے کئی مقامات پر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک عرش ہے اور یہ کہ وہ اس عرش پر مستوی ہوا، اب یہ بات کہ وہ عرش کیسا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کہ مستوی ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب انسان کی عقل اور سمجھ سے بالاتر ہے اور انسان کی زندگی کا کوئی عملی مسئلہ اس پر موقوف بھی نہیں، ایسی آیات جن میں اس قسم کے حقائق بیان کئے گئے ہیں متشابہات کہلاتی ہیں، اسی طرح مختلف سورتوں کے شروع میں جو حروف الگ الگ نازل کئے گئے ہیں (مثلاً اسی صورت کے شروع میں الف لام میم) اور جنہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے وہ بھی متشابہات میں داخل ہیں، ان کے بارے میں قرآن کریم نے اس آیت میں یہ ہدایت دی ہے کہ ان کی کھو دکرید میں پڑنے کے بجائے ان پر اجمالی طور سے ایمان رکھ کر ان کا صحیح مطلب اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنا چاہئے اس کے برعکس قرآن کریم کی دوسری آیتیں ایسی ہیں جن کا مطلب واضح ہے اور درحقیقت وہی آیات ہیں جو انسان کے لئے عملی ہدایات فراہم کرتی ہیں انہی آیات کو محکم آیتیں کہا گیا ہے، ایک مومن کو انہی پر خصوصی توجہ دینی چاہئے۔ متشابہات کے بارے میں صحیح طرز عمل بتلانا یوں بھی ضروری تھا، لیکن اس سورت میں اس وضاحت کی خاص وجہ یہ بھی تھی کہ نجران کے عیسائیوں کا جو وفد آنحضرتﷺ کی خدمت میں آیا تھا اور جس کا ذکر اوپر کے حاشیہ میں گزرا ہے، اس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خدا یا خدا کا بیٹا ہونے پر ایک دلیل یہ بھی پیش کی تھی کہ خود قرآن نے انہیں کلمۃ اللہ (اللہ کا کلمہ) اور روح من اللہ فرمایا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی صفت کلام اور اللہ کی روح تھے اس آیت نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ قرآن کریم ہی نے جگہ جگہ صاف لفظوں میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں ہوسکتی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا یا خدا قراردینا شرک اور کفر ہے، ان واضح آیتوں کو چھوڑکر کلمۃ اللہ کے لفظ کو پکڑ بیٹھنا اور اس کی بنیاد پر ایسی تاویلیں کرنا جو قرآن کریم کی محکم آیات کے بالکل برخلاف ہیں، دل کے ٹیڑھ کی علامت ہے، حقیقت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کلمۃ اللہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ باپ کے واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ کے کلمہ کن سے پیدا ہوئے تھے، جیسا کہ قرآن کریم نے اسی سورت کی آیت : ٥٩ میں بیان فرمایا ہے، اور انہیں روح من اللہ اس لئے کہا گیا ہے کہ ان کی روح براہ راست اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی تھی، اب یہ بات انسان کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ کن سے پیدا کرنے کی کیفیت کیا تھی اور براہ راست ان کی روح کس طرح پیدا کی گئی ؟ یہ امور متشابہات میں سے ہیں، اس لئے ان کی کھود کرید بھی منع ہے (کیونکہ یہ باتیں انسان کی سمجھ میں آہی نہیں سکتیں) اور ان کی من مانی تاویل کرکے ان سے خدا کے بیٹے کا تصور برآمد کرنا بھی کج فہمی ہے۔ آل عمران
8 آل عمران
9 آل عمران
10 آل عمران
11 آل عمران
12 4: اس سے دنیا میں کافروں کے مغلوب ہونے کی پیش گوئی بھی مراد ہوسکتی ہے، اور آخرت میں مغلوب ہونے کی بھی۔ آل عمران
13 5: پیچھے یہ پیشینگوئی کی گئی تھی کہ کفار مسلمانوں سے مغلوب ہوں گے، اب اس کی ایک مثال دینے کی غرض سے جنگ بدر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں کافروں کا لشکر ایک ہزار مسلح لوگوں پر مشتمل تھا اور مسلمانوں کی تعداد کل تین سو تیرہ تھی، کافر کھلی آنکھوں دیکھ رہے تھے کہ ان کی تعداد کہیں زیادہ ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور کافروں کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ آل عمران
14 آل عمران
15 آل عمران
16 آل عمران
17 آل عمران
18 آل عمران
19 آل عمران
20 آل عمران
21 آل عمران
22 آل عمران
23 آل عمران
24 آل عمران
25 آل عمران
26 6: جب غزوۂ احزاب کے موقع پر آنحضرتﷺ نے پیشینگوئی فرمائی تھی کہ روم اور ایران کی سلطنتیں مسلمانوں کے قبضے میں آجائیں گی تو کفار نے بڑا مذاق اڑایا کہ ان لوگوں کو اپنے دفاع کے لئے خندق کھودنی پڑرہی ہے اور ان پر فاقے گزررہے ہیں مگر دعوے یہ ہیں کہ یہ روم اور ایران فتح کرلیں گے، اس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں، جن میں مسلمانوں کو یہ دعا تلقین فرماکر ایک لطیف پیرائے میں ان کا جواب دے دیا گیا۔ آل عمران
27 7: سردیوں میں دن چھوٹا ہوتا ہے تو گرمیوں کے دن کا کچھ حصہ رات بن جاتا ہے، اور گرمیوں میں دن بڑا ہوتا ہے تو سردیوں کی رات کا کچھ حصہ دن میں داخل ہوجاتا ہے۔ 8: مثلاً بے جان انڈے سے جاندار چوزہ نکل آتا ہے اور جاندار پرندے سے بے جان انڈا۔ آل عمران
28 9:” یار و مددگارـ“ عربی لفظ ” ولی“ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ” ولی“ بنانے کو ” موالات“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ایسی دوستی اور قلبی محبت کا تعلق ہے جس کے نتیجے میں دو آدمیوں کا مقصد زندگی اور ان کا نفع ونقصان ایک ہوجائے۔ اس قسم کا تعلق مسلمان کا صرف مسلمان ہی سے ہوسکتا ہے اور کسی غیر مسلم سے ایسا تعلق رکھنا سخت گناہ ہے اور اس آیت میں اسے سختی سے منع کیا گیا ہے، یہی حکم سورۂ نساء (٤: ١٣٩) سورۂ مائدہ (٥: ٥١) سورۂ توبہ (٩: ٢٣) سورۂ مجادلہ (٢٨: ٢٢) اور سورۂ ممتحنہ (٢٨: ١) میں بھی دیا گیا ہے، البتہ جوغیر مسلم جنگ کی حالت میں نہ ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک، رواداری اور خیر خواہی کا معاملہ نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے، جیسا کے خود قرآن کریم نے سورۂ ممتحنہ (٢٨: ٨) میں واضح فرمادیا ہے اور آنحضرتﷺ کی سنت پوری حیات طیبہ میں یہ رہی ہے کہ آپ نے ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ احسان کا معاملہ فرمایا، اسی طرح ان کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعاون کے وہ معاہدہ اور تجارتی معاملات بھی کئے جاسکتے ہیں جن کو آج کل کی سیاسی اصطلاح میں دوستی کے معاہدے کہا جاتا ہے، بشرطیکہ یہ معاہدے یا معاملات اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف نہ ہوں اور ان میں کسی خلاف شرع عمل کا ارتکاب لازم نہ آئے، چنانچہ خود آنحضرتﷺ نے اور آپ کے بعد صحابہ کرام نے ایسے معاہدات اور معاملات کیے ہیں، غیر مسلموں کے ساتھ موالات کی ممانعت کرنے کے بعد قرآن کریم نے جو فرمایا ہے کہ : الا یہ کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لئے بچاؤ کا کوئی طریقہ احتیار کرو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کفار کے ظلم وتشدد سے بچاؤ کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا پڑے جس سے بظاہر موالات معلوم ہوتی ہو تو اس کی گنجائش ہے۔ آل عمران
29 آل عمران
30 آل عمران
31 آل عمران
32 آل عمران
33 آل عمران
34 10: آیت کا یہ ترجمہ حضرت قتادہ کی تفسیر پر مبنی ہے (دیکھئے روح المعانی 176:3) واضح رہے کہ عمران حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے والد کا بھی نام ہے، اور حضرت مریم علیہا السلام کے والد کا بھی، یہاں دونوں مراد ہوسکتے ہیں، لیکن چونکہ آگے حضرت مریم علیہا السلام کی واقعہ آرہا ہے۔ اس لیے ظاہر یہ ہے کہ یہاں حضرت مریم علیہا السلام ہی کے والد مراد ہیں۔ آل عمران
35 آل عمران
36 آل عمران
37 11:: حضرت عمران بیت المقدس کے امام تھے ان کی اہلیہ کا نام ''حنہ بنت فاقوذا''تھا، ان کی کوئی اولاد نہیں تھی، اس لئے انہوں نے نذر مانی تھی کہ اگر ان کی کوئی اولاد ہوگی تو وہ اسے بیت المقدس کی خدمت کے لئے وقف کردیں گی۔ جب حضرت مریم کے خالو ہوئے۔ حضرت مریم کی سرپرستی کا مسئلہ پیدا ہوا تو قرعہ اندازی کے ذریعے اس کا فیصلہ کیا گیا اور قرعہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کے نام نکلا جس کا ذکر آگے اسی سورت کی آیت نمبر 44 میں آرہا ہے۔ آل عمران
38 12: حضرت مریم کے پاس بے موسم کے پھل آیا کرتے تھے، حضرت زکریا (علیہ السلام) نے یہ دیکھا تو انہیں توجہ ہوئی کہ خدا ان کو بے موسم پھل دیتا ہے وہ مجھے اس بڑھاپے میں اولاد بھی دے سکتا ہے چنانچہ انہوں نے یہ دعا مانگی۔ آل عمران
39 13: اللہ کے کلمے سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں جیسا کہ اس سورت کے شروع میں اوپر واضح کیا گیا ہے انہیں کلمۃ اللہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ باپ کے بغیر اللہ کے کلمہ کن سے پیدا ہوئے تھے، حضرت یحیی (علیہ السلام) ان سے پہلے پیدا ہوئے اور انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی آمد کی تصدیق فرمائی۔ 14: یہاں حضرت یحیی (علیہ السلام) کی ایک خاص صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات پر قابو رکھنے والے ہوں گے، یہ صفت اگرچہ تمام انبیاء علیہم السلام میں پائی جاتی ہے ؛ لیکن ان کا خاص طور سے اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اس درجہ مشغول رہتے تھے کہ ان کو نکاح کرنے کی طرف رغبت نہیں ہوئی، اگرچہ عام حالات میں نکاح سنت ہے اور اس کی ترغیب دی گئی ہے ؛ لیکن اگر کوئی شخص اپنے نفس پر اتنا قابو یافتہ ہوجیسے حضرت یحیی (علیہ السلام) تھے تو اس کے لئے کنوارا رہنا بلا کراہت جائز ہے۔ آل عمران
40 15: دعا حضرت زکریا (علیہ السلام) نے خود مانگی تھی، اس لئے یہ سوال خدانخواستہ کسی بے یقینی کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ ایک غیر معمولی نعمت کی خبر سن کر تعجب کا اظہار تھا جودرحقیقت شکر کا ایک انداز ہے، نیز سوال کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کیا بچہ اسی بڑھاپے کی حالت میں پیدا ہوجائے گا یا ہماری جوانی لوٹادی جائے گی، اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا"اسی طرح" یعنی لڑکا اسی بڑھاپے کی حالت میں پیدا ہوگا۔ آل عمران
41 16: حضرت زکریا (علیہ السلام) کا مقصد یہ تھا کہ کوئی نشانی معلوم ہوجائے جس سے یہ پتہ چل جائے کہ اب حمل قرار پا گیا ہے تاکہ وہ اسی وقت سے شکر ادا کرنے میں لگ جائیں اللہ تعالیٰ نے یہ نشانی بتلائی کہ جب حمل قرار پائے گا تو تم پر ایسی حالت طاری ہوجائے گی کہ تم اللہ کے ذکر اور تسبیح کے سوا کسی کسے کوئی بات نہیں کرسکوگے اور بات کرنے کی ضرورت پیش آئے تو اشاروں سے کرنی ہوگی۔ آل عمران
42 آل عمران
43 آل عمران
44 17: جیسا کے اوپر آیت نمبر : ٣٤ میں ذکر کیا گیا، حضرت مریم (رض) کے والد کی وفات کے بعد ان کی کفالت کے بارے میں اختلاف رائے پیدا ہوا تو اس کا فیصلہ قرعہ اندازی کے ذریعے کیا گیا، اس زمانے میں قرعہ قلموں کے ذریعے ڈالا جاتا تھا اس لئے یہاں قلم ڈالنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ آل عمران
45 18: حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کلمۃ اللہ کہنے کی وجہ اوپر حاشیہ نمبر 13 میں گذر چکی ہے۔ آل عمران
46 19: اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم (رض) کی پاک دامنی واضح کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو معجزے کے طور پر اس وقت بات کرنے کی قدرت عطا فرمائی تھی جب دودھ پیتے بچے تھے اس کا ذکر سورۂ مریم (٢٩ تا ٣٣) میں آیا ہے۔ آل عمران
47 آل عمران
48 آل عمران
49 20: یہ سب معجزے تھے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی نبوت کے ثبوت کے طور پر عطا فرمائے تھے اور آپ نے ان کا عملی مظاہرہ فرمایا۔ آل عمران
50 21: بنی اسرائیل کے لئے موسوی شریعت میں بعض چیزیں حرام کی گئی تھیں، مثلاً اونٹ کا گوشت اور چربی، بعض پرندے اور مچھلیوں کی بعض اقسام، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں انہیں جائز قراردیاگیا۔ آل عمران
51 آل عمران
52 22: حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے صحابہ کو حواری کہا جاتا ہے۔ آل عمران
53 آل عمران
54 آل عمران
55 23: حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے مخالفین نے انہیں سولی پر چڑھانے کا منصوبہ بنایا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر اٹھا لیا اور جو لوگ آپ کو گرفتار کرنے واائے تھے ان میں سے ایک شخص کو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا ہم شکل بنا دیا، اور مخالفین نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دھوکے میں اسے سولی پر چڑھا دیا آیت کا جو ترجمہ یہاں کیا گیا ہے وہ عربی لفظ ” توفی“ کے لغوی معنی پر مبنی ہے، اور مفسرین کی ایک بڑی جماعت نے یہاں یہی معنی مراد لیے ہیں۔ اس لفظ کی ایک اور تشریح بھی ممکن ہے جو حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی مروی ہے۔ اس کے لیے ملاحظہ ہو معارف القرآن ص :74 ج :2۔ 24: یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ماننے والے (خواہ انہیں صحیح طور پر مانتے ہوں جیسے مسلمان، یا غلو کے ساتھ مانتے ہوں، جیسے عیسائی ان کے مخالفین پر ہمیشہ غالب رہیں گے۔ چنانچہ تاریخ میں یسا ہی ہوتا رہا ہے، البتہ صدیوں کی تاریخ میں اگر کچھ مختصر عرصے کے لیے جزوی طور پر کہیں ان کے مخالفین کا غلبہ ہوگیا ہو تو وہ اس کے منافی نہیں ہے۔ آل عمران
56 آل عمران
57 آل عمران
58 آل عمران
59 آل عمران
60 آل عمران
61 25: اس عمل کو مباہلہ کہا جاتا ہے، جب بحث کا کوئی فریق دلائل کو تسلیم کرنے کے بجائے ہٹ دھرمی پر تل جائے تو آخری راستہ یہ ہے کہ اسے مباہلہ کی دعوت دی جائے جس میں دونوں فریق اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ ہم میں سے جھوٹا یا باطل پر ہو وہ ہلاک ہوجائے، جیسا کہ اس سورت کے شروع میں بیان ہوا ہے، شہر نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد آنحضرتﷺ کی خدمت میں آیا تھا اس نے آپ سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی خدائی پر بحث کی، جس کا اطمینان بخش جواب قرآن کریم کی طرف سے پچھلی آیتوں میں دے دیاگیا، جب وہ کھلے دلائل کے باوجود اپنی گمراہی پر اصرار کرتے رہے تو اس آیت نے آنحضرتﷺ کو حکم دیا کہ وہ انہیں مباہلے کی دعوت دیں ؛ چنانچہ آپﷺ نے ان کو یہ دعوت دی اور خود اس کے لئے تیار ہو کر اپنے اہل بیت کو بھی جمع فرمالیا لیکن عیسائیوں کا وفد مباہلے سے فرار اختیار کرگیا۔ آل عمران
62 آل عمران
63 آل عمران
64 آل عمران
65 آل عمران
66 26: یہودی کہا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہودی تھے اور عیسائی کہتے تھے کہ وہ عیسائی تھے، اول تو قرآن کریم نے فرمایا کہ یہ دونوں مذہب تورات اور انجیل کے نزول کے بعد وجود میں آئے، جبکہ حضرت ابرہیم (علیہ السلام) بہت پہلے گزر چکے تھے، لہذا یہ انتہائی احمقانہ بات ہے کہ انہیں یہودی یا عیسائی کہا جائے، اس کے بعد قرآن کریم نے فرمایا کہ جب تمہارے وہ دلائل جو کسی نہ کسی صحیح حقیقت پر مبنی تھے، تمہارے دعوؤں کو ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں، توحضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں یہ بے بنیاد اور جاہلانہ بات کیسے تمہارے دعوے کو ثابت کرسکتی ہے، مثلاً تمہیں یہ معلوم تھا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور اس کی بنیاد پر تم نے ان کی خدائی کی دلیل پیش کرکے بحث کی مگر کامیاب نہ ہوسکے ؛ کیونکہ بغیر باپ کے پیدا ہونا کسی کی خدائی کی دلیل نہیں ہوسکتا، حضرت آدم (علیہ السلام) تو ماں باپ دونوں کے بغیر پیدا ہوئے تھے مگر انکو تم بھی خدا یا خدا کا بیٹا نہیں مانتے، جب تمہاری وہ دلیلیں بھی کام نہ آسکیں جو اس صحیح واقعے پر مبنی تھیں تو سراسر جاہلانہ بات کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نصرانی یا یہودی تھے کیسے تمہارے لئے کارآمد ہوسکتی ہے؟ آل عمران
67 آل عمران
68 آل عمران
69 آل عمران
70 27: یہاں آیتوں سے مراد تورات اور انجیل کی وہ آیتیں ہیں جن میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کی خبر دی گئی تھی، اور مطلب یہ ہے کہ ایک طرف تم تورات اور انجیل کے من جانب اللہ ہونے کی گواہی دیتے ہو، اور دوسری طرف ان پیشینگوئیوں کے مصداق یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار کرتے ہو جو بالواسطہ ان آیتوں کا انکار ہے۔ آل عمران
71 آل عمران
72 28: بعض یہودیوں نے مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لئے یہ اسکیم بنائی تھی کہ ان میں سے کچھ لوگ صبح کے وقت اسلام لانے کا اعلان کردیں اور پھر شام کو یہ کہہ کر اسلام سے پھرجائیں کہ ہم نے آنحضرتﷺ کو قریب سے جاکر دیکھ لیا، آپ وہ پیغمبر نہیں ہیں جن کی خبر تورات میں دی گئی تھی، ان کا خیال تھا کہ اس طرح کچھ مسلمان یہ سوچ کر اسلام سے برگشتہ ہوسکتے ہیں کہ یہ لوگ جوتورات کے عالم ہیں جب اسلام میں داخل ہونے کے بعد بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں تو ان کی بات میں ضرور وزن ہوگا۔ آل عمران
73 آل عمران
74 آل عمران
75 آل عمران
76 آل عمران
77 آل عمران
78 آل عمران
79 29: یہ عیسائیوں کی تردید ہورہی ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا یا خدا کا بیٹا مان کر گویا یہ دعویٰ کرتے تھے کہ خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے ہی ان کو اپنی عبادت کا حکم دی اہے۔ یہی حال ان بعض یہودی فرقوں کا تھا جو حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا مانتے تھے۔ آل عمران
80 آل عمران
81 آل عمران
82 آل عمران
83 30: مطلب یہ ہے کہ پوری کائنات میں حکم اللہ تعالیٰ ہی کا چلتا ہے اہل ایمان اللہ کے ہر حکم کو دل وجان سے بخوشی قبول کرتے ہیں اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کو مانتے بھی نہ ہوں ان کو بھی چار وناچار اللہ کے ان فیصلوں کے آگے سرجھکانا پڑتا ہے جو وہ اس کائنات کے انتظام کے لئے کرتا ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ اگر کسی کو بیمار کرنے کا فیصلہ فرمالے تو کوئی اسے پسند کرے یا ناپسند ہر حال میں وہ فیصلہ نافذ ہو کر رہتا ہے اور کوئی مومن ہو یا کافر اسے فیصلے کے آگے سرجھکائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ آل عمران
84 آل عمران
85 آل عمران
86 آل عمران
87 آل عمران
88 آل عمران
89 آل عمران
90 31: یعنی جب تک وہ کفر سے توبہ کر کے ایمان نہیں لائیں گے، دوسرے گناہوں سے ان کی توبہ قبول نہیں ہوگی۔ آل عمران
91 آل عمران
92 32: پیچھے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 267 میں یہ حکم گذرا ہے کہ صرف خراب اور ردی قسم کی چیزیں صدقے میں نہ دیا کرو، بلکہ اچھی چیزوں میں اللہ کی راہ میں خرچ کیا کرول۔ اب اس آیت میں مزید آگے بڑھ کر یہ کہا جارہا ہے کہ صرف یہی نہیں کہ اچھی چیزیں اللہ کی خوشنودی کے لیے دو، بلکہ جن چیزوں سے تمہیں زیادہ محبت ہے، ان کو اس راہ میں نکالو تاکہ صحیح معنی میں اللہ کے لیے قربانی کا مظاہرہ ہو سکے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے اپنی سب سے زیادہ پسندیدہ چیزیں صدقہ کرنی شروع کردیں جس کے بہت سے واقعات حدیث اور تفسیر کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ ملاحظہ معارف القرآن جلد دوم ص :107 و 108، آل عمران
93 تشریح : بعض یہودیوں نے مسلمانوں پر یہ اعتراض کیا تھا کہ آپ یہ دعوی کرتے ہیں کہ آپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پیروکار ہیں حالانکہ آپ اونٹ کا گوشت کھاتے ہیں جوتورات کی رو سے حرام ہے، ان آیات میں اس اعتراض کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اونٹ کا گوشت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین میں حرام نہیں تھا ؛ بلکہ تورات نازل ہونے سے پہلے بنی اسرائیل کے لئے بھی وہ سب چیزیں حلال تھیں جو آج مسلمانوں کے لئے حلال ہیں ؛ البتہ ہوا یہ تھا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اونٹ کا گوشت اپنے اوپر حرام کرلیا تھا جس کی وجہ حضرت ابن عباس (رض) نے یہ بتائی ہے کہ ان کو عرق النساء کی بیماری تھی اور انہوں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر مجھے اس بیماری سے شفا ہوگئی تو میں اپنے کھانے کی سب سے پسندیدہ چیز چھوڑدوں گا، انہیں اونٹ کا گوشت سب سے زیادہ پسند تھا، اس لئے شفا حاصل ہونے پر انہوں نے اسے چھوڑدیا (روح المعانی بحوالہ مستدرک حاکم صحیح) اب قرآن کریم نے یہاں صریح الفاظ میں یہ بات نہیں بتائی کہ آیا اس کے بعد یہ گوشت بنی اسرائیل پر بھی حرام کردیا گیا تھا یا نہیں لیکن سورۂ نساء (٤: ١٦٠) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان پر بہت سی اچھی چیزیں بھی حرام کردی گئی تھیں اور اسی سورت کی ٥٠ میں گزرچکا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے کہا تھا کہ اور جو کتاب مجھ سے پہلے آچکی ہے یعنی تورات میں اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور (اس لئے بھیجا گیا ہوں) تاکہ کچھ چیزیں جو تم پر حرام کی گئی تھیں اب تمہارے لئے حلال کردوں، نیز یہاں تورات نازل ہونے سے پہلے کے الفاظ بھی یہ بتارہے ہیں کہ اونٹ کا گوشت شاید تورات نازل ہونے کے بعد ان پر حرام کردیا گیا تھا، اب جو چیلنج ان کو دیا گیا ہے کہ اگر تم سچے ہو تو تورات لے کر آؤ اور اس کی تلاوت کرو، اس کا مطلب یہ ہے کہ تورات میں یہ کہیں مذکور نہیں ہے کہ اونٹ کا گوشت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت سے حرام چلا آتا ہے، اس کے برعکس یہ حکم صرف بنی اسرائیل کو دیا گیا تھا ؛ چنانچہ اب بھی بائبل کی کتاب احبار میں جو یہودیوں اور عیسائیوں کی نظر میں تورات کا ایک حصہ ہے اونٹ کی حرمت بنی اسرائیل ہی کے لئے بیان ہوئی ہے : تم بنی اسرائیل سے کہو کہ تم ان جانوروں کا گوشت نہ کھانا یعنی اونٹ کو سو وہ تمہارے لئے ناپاک ہے (احبار ١١: ١۔ ٤) خلاصہ یہ کہ اونٹ کا گوشت اصلاً حلال ہے مگر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے لئے نذر کی وجہ سے اور بنی اسرائیل کے لئے ان کی نافرمانیوں کی بنا پر حرام کیا گیا تھا، اب امت محمدیہ (علی صاحبہا السلام) میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے کا اصل حکم لوٹ آیا ہے۔ آل عمران
94 آل عمران
95 آل عمران
96 34: یہ یہودیوں کے ایک اور اعتراض کا جواب ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بنی اسرائیل کے تمام انبیائے کرام بیت المقدس کو اپنا قبلہ قرار دیتے آئے ہیں، مسلمانوں نے اسے چھوڑ کر مکہ کے کعبہ کو کیوں قبلہ بنا لیا۔ آیت نے جواب یہ دیا ہے کہ کعبہ تو بیت المقدس کی تعمیر سے بہت پہلے وجود میں آچکا تھا، اور وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نشانی ہے۔ لہذا اسے پھر سے قبلہ اور مقدس عبادت گاہ بنانا ہرگز قابل اعتراض نہیں۔ آل عمران
97 آل عمران
98 آل عمران
99 تشریح : یہاں سے ١٠٨ تک کی آیات ایک خاص واقعے کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، مدینہ منورہ میں دو قبیلے اوس وخزرج کے نام سے آباد تھے، اسلام سے پہلے ان کے درمیان سخت دشمنی تھی اور دونوں میں وقتاً فوقتاً جنگیں ہوتی رہتی تھیں جو بعض اوقات سالہا سال جاری رہتی تھیں، جب ان قبیلوں کے لوگ مسلمان ہوگئے تو اسلام کی برکت سے ان کی یہ دشمنی ختم ہوگئی اور اسلام کے دامن میں آکر وہ شیر وشکر ہو کر رہنے لگے، بعض یہودیوں کو ان کا یہ اتحاد ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا، ایک مرتبہ دونوں قبیلوں کے لوگ ایک مجلس میں جمع تھے، ایک یہودی شماس بن قیس نے ان کے پیار محبت کا یہ منظر دیکھا تو اس سے نہ رہا گیا اور اس نے ان کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے لئے یہ ترکیب کی کہ ایک شخص سے کہا کہ اس مجلس میں وہ اشعار سنادو جو زمانۂ جاہلیت میں اوس اور خزرج کے شاعروں نے ایک لمبی جنگ کے دوران ایک دوسرے کے خلاف کہے تھے، اس شخص نے وہ اشعار سنانے شروع کردئے، نتیجہ یہ ہوا کہ ان اشعار سے پرانی باتیں تازہ ہوگئیں، شروع میں دونوں قبیلوں کے لوگوں میں زبانی تکرار ہوئی پھر بات بڑھ گئی اور آپس میں نئے سرے سے جنگ کی تاریخ اور وقت مقرر ہونے لگا، آنحضرتﷺ کو علم ہوا تو آپ کو سخت صدمہ ہوا آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور انہیں تنبیہ فرمائی کہ یہ سب شیطانی حرکت تھی، بالآخر آپ کے سمجھانے سے یہ فتنہ ختم ہوا، ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے پہلے تویہودیوں سے خطاب کرکے فرمایا ہے کہ اول تو تم کو خود ایمان لانا چاہئے اور اگر خود اس سعادت سے محروم ہو تو کم از کم ان لوگوں کے راستے میں رکاوٹ نہ ڈالو جو ایمان لاچکے ہیں، اس کے بعد بڑے مؤثر انداز میں مسلمانوں کو نصیحت فرمائی ہے اور آخر میں باہمی جھگڑوں سے بچنے کا علاج یہ بتایا ہے کہ اپنے آپ کو دین کی تبلیغ ودعوت میں مصروف کرلو تو اس سے اشاعت اسلام کے علاوہ یکجہتی بھی پیدا ہوگی۔ آل عمران
100 آل عمران
101 آل عمران
102 آل عمران
103 آل عمران
104 آل عمران
105 آل عمران
106 36: اگر یہ یہودیوں کا ذکر ہے تو ایمان سے مراد ان کا تورات پر ایمان لانا ہے اور اگر منافقین مراد ہیں تو ایمان کا مقصد ان کا زبانی اعلان ہے جس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے۔ تیسرا احتمال یہ بھی ہے کہ خبر دار اسلام کو چھوڑ نہ بیٹھنا، اس لیے یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ واقعۃ مرتد ہوجائیں گے، ان کا آخرت میں کیا حال ہوگا آل عمران
107 آل عمران
108 آل عمران
109 آل عمران
110 آل عمران
111 آل عمران
112 آل عمران
113 37: اس سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے تھے، مثلاً یہودیوں میں سے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ آل عمران
114 آل عمران
115 آل عمران
116 آل عمران
117 تشریح : کافر لوگ جو کچھ خیرات کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کا صلہ انہیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں ان کے کفر کی وجہ سے، اس کا ثواب آخرت میں نہیں ملتا، لہذا ان کے خیراتی اعمال کی مثال ایک کھیتی سی ہے اور ان کے کفر کی مثال اس تیز آندھی کی ہے جس میں پالا بھی ہو اور وہ اچھی خاصی کھیتی کو برباد کرڈالے۔ آل عمران
118 39: مدینہ منورہ میں اوس و خزرج کے جو قبیلے آباد تھے، زمانہ دراز سے یہودیوں کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات چلے آتے تھے۔ جب اوس اور خزرج کے لوگ مسلمان ہوگئے تو وہ ان یہودیوں کے ساتھ اپنی دوستی نبھاتے رہے، مگر یہودیوں کا حال یہ تھا کہ ظاہر میں تو وہ بھی دوستانہ انداز میں ملتے تھے اور ان میں سے کچھ لوگ یہ بھی ظاہر کرتے تھے کہ وہ بھی مسلمان ہوگئے ہیں، لیکن ان کے دل میں مسلمانوں کے خلاف بغض بھرا ہوا تھا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ مسلمان ان کی دوستی پر بھروسہ کرتے ہوئے سادہ لوحی میں انہیں مسلمانوں کی کوئی راز کی بات بھی بتا دیتے تھے۔ اس آیت کریمہ نے مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ان پر بھروسہ نہ کریں اور انہیں راز دار بنانے سے مکمل پرہیز کریں۔ آل عمران
119 آل عمران
120 آل عمران
121 40: جنگ احد میں تین ہزار کفار کا ایک لشکر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوا تھا آنحضرتﷺ ان کے مقابلے کے لئے احد پہاڑ کے دامن میں تشریف لے گئے تھے جہاں یہ جنگ لڑی گئی، آنے والی آیات میں اس کے متعدد واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ آل عمران
122 41: جب آنحضرتﷺ مقابلے کے لئے مدینہ منورہ سے نکلے تو آپ کے ساتھ ایک ہزار آدمی تھے ؛ لیکن منافقین کا سردار عبداللہ بن ابی راستے میں یہ کہہ کر اپنے تین سو آدمیوں سمیت واپس چلا گیا کہ ہماری رائے یہ تھی کہ دشمن کا مقابلہ شہر کے اندر رہ کر کیا جائے، ہماری رائے کے خلاف آپ باہر نکل آئے ہیں اس لئے ہم جنگ میں شریک نہیں ہوں گے، اس موقع پر سچے مسلمانوں کے دو قبیلے بنو حارثہ اور بنو سلمہ کے دل بھی ڈگمگاگئے اور ان کے دل میں بھی خیال آیا کہ تین ہزار کے مقابلے میں صرف سات سوافراد بہت تھوڑے ہیں اور ایسے میں جنگ لڑنے کے بجائے الگ ہوجانا چاہئے ؛ لیکن پھر اللہ نے مدد فرمائی اور وہ جنگ میں شامل ہوئے اس آیت میں انہی کی طرف اشارہ ہے۔ آل عمران
123 42: جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد کل تین سو تیرہ تھی اور ان کے پاس ستر اونٹ دوگھوڑے اور صرف آٹھ تلواریں تھیں۔ آل عمران
124 آل عمران
125 43: یہ سارا حوالہ جنگ بدر کا ہے اس جنگ میں شروع میں تین ہزار فرشتوں کی بشارت دی گئی تھی لیکن بعد میں صحابۂ کرام کو یہ اطلاع ملی کہ کرز بن جابر اپنا لشکر لے کر کفار مکہ کے ساتھ شامل ہونے کے لئے آرہا ہے، کفار کی تعداد پہلے ہی مسلمانوں سے تین گنا زیادہ تھی اب اس لشکر کے آنے کی اطلاع ملی تو مسلمانوں کو تشویش ہوئی اس موقع پر یہ وعدہ کیا گیا کہ اگر کرز کا لشکر اچانک آگیا توتین ہزار کے بجائے پانچ ہزار فرشتے بھیجے جائیں گے ؛ لیکن پھر کرز کا لشکر نہیں آیا اس لئے پانچ ہزار بھیجنے کی نوبت نہیں آئی۔ آل عمران
126 آل عمران
127 آل عمران
128 آل عمران
129 آل عمران
130 44: امام رازی نے تفسیر کبیر میں فرمایا ہے کہ جنگ احد کے موقع پر مکہ کے مشرکین نے سود پر قرض لے کر جنگ کی تیاری کی تھی، اس لئے کسی مسلمان کے دل میں بھی خیال ہوسکتا تھا کہ مسلمان بھی جنگ کی تیاری میں یہی طریقہ اختیار کریں، اس آیت نے انہیں خبر دار کردیا کہ سود پر قرض لینا حرام ہے، یہاں سود کو کئی گنا بڑھاکر کھانے کا جوذکر ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کم شرح پر سود کی اجازت ہے ؛ بلکہ اس وقت چونکہ سودی قرضوں میں بکثرت یہی ہوتا تھا کہ سود اصل سے کئی گنا بڑھ جاتا تھا اس لئے ایک واقعے کے طور پر یہ بات بیان کی گئی ہے ورنہ سورۂ بقرہ (آیت ٢٧٧ اور ٢٧٨) میں صاف واضح کردیا گیا ہے کہ اصل قرض پر جتنی بھی زیادتی ہو وہ سود میں داخل اور حرام ہے۔ آل عمران
131 آل عمران
132 آل عمران
133 آل عمران
134 آل عمران
135 آل عمران
136 آل عمران
137 آل عمران
138 آل عمران
139 45: جنگ احد کا واقعہ مختصراً یہ ہے کہ شروع میں مسلمان کافر حملہ آوروں پر غالب آگئے اور کفار کا لشکر پسپا ہونے پر مجبور ہوگیا، آنحضرتﷺ نے جنگ شروع ہونے سے پہلے پچاس تیر انداز صحابہ کا ایک دستہ میدان جنگ کے ایک عقبی ٹیلے پر متعین فرمایا تھا، تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کرسکے، جب دشمن پسپا ہوا اور میدان جنگ خالی ہوگیا تو صحابہ نے اس کا چھوڑا ہوا ساز وسامان مال غنیمت کے طور پر اکھٹا کرنا شروع کردیا، تیر اندازوں کے اس دستے نے جب یہ دیکھا کہ دشمن بھاگ چکا ہے تو انہوں نے سمجھا کہ اب ہماری ذمہ داری پوری ہوچکی ہے اور ہمیں مال غنیمت جمع کرنے میں حصہ لینا چاہئے، ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر (رض) اور ان کے چند ساتھیوں نے ٹیلہ چھوڑنے کی مخالفت کی، مگر ان میں سے اکثر نے وہاں ٹھہرنے کو بے مقصد سمجھ کر ٹیلہ چھوڑدیا، دشمن نے جب دور سے دیکھا کہ ٹیلہ خالی ہوگیا ہے اور مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوگئے ہیں تو انہوں نے موقع پاکر ٹیلے پر حملہ کردیا، حضرت عبداللہ بن جبیر (رض) اور ان کے چند ساتھیوں نے اپنی بساط کے مطابق ڈٹ کر مقابلہ کیا، مگر سب شہید ہوگئے اور دشمن اس ٹیلے سے اتر کر ان بے خبر مسلمانوں پر حملہ آور ہوگیا جو مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف تھے، یہ حملہ اس قدر غیر متوقع اور ناگہانی تھا کہ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑنے لگے، اسی دوران کسی نے یہ افواہ اڑادی کہ آنحضرتﷺ شہید ہوگئے ہیں، اس افواہ سے بہت سے مسلمانوں کے حوصلے جواب دے گئے، ان میں سے بعض میدان چھوڑ گئے، بعض جنگ سے کنارہ کش ہو کر ایک طرف کھڑے رہ گئے، البتہ آنحضرتﷺ کے جاں نثار صحابہ کی ایک جماعت آپ کے ارد گرد مقابلہ کرتی رہی، کفار کا نرغہ اتنا سخت تھا کہ اس کشمکش میں آنحضرتﷺ کا مبارک دانت شہید ہوگیا اور چہرۂ مبارک لہو لہان ہوگیا، بعد میں جب صحابہ کو پتہ چلا کہ آپ کی شہادت کی خبر غلط تھی اور ان کے حواس بجا ہوئے تو ان میں سے بیشتر میدان میں لوٹ آئے، اور پھر کفار کو بھاگنا پڑا ؛ لیکن اس درمیانی عرصے میں ستر صحابہ کرام (رض) شہید ہوچکے تھے، ظاہر ہے کہ اس واقعے سے تمام مسلمانوں کو شدید صدمہ ہوا، قرآن کریم ان آیتوں میں انہیں تسلی بھی دے رہا ہے کہ یہ زمانے کے نشیب وفراز ہیں جن سے مایوں اور دل شکستہ نہ ہونا چاہئے، اور اس طرف بھی متوجہ کررہا ہے کہ یہ شکست کچھ غلطیوں کا نتیجہ تھی جس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ آل عمران
140 46: جنگ بدر کی طرف اشارہ ہے جس میں کفار مکہ کے سترسردار مارے گئے تھے اور ستر قید کیے گئے تھے۔ آل عمران
141 آل عمران
142 آل عمران
143 47: جو لوگ جنگ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے وہ شہدائے بدر کی فضیلت سن کر تمنا کیا کرتے تھے کہ کاش ہمیں بھی شہادت کا رتبہ نصیب ہو۔ آل عمران
144 آل عمران
145 48: اس سے اشارہ مال غنیمت کی طرف ہے، اور مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص صرف مال غنیمت حاصل کرنے کی نیت سے جہاد میں شریک ہوگا، اسے مال غنیمت میں سے حصہ تو مل جائے گا، لیکن آخرت کا ثواب حاصل نہیں ہوگا، اس کے برعکس اگر اصل نیت اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کی ہوگی تو آخرت کا ثواب حاصل ہوگا، اور مال غنیمت بھی ایک اضافی فائدے کے طور پر ملے گا (روح المعانی) آل عمران
146 آل عمران
147 آل عمران
148 آل عمران
149 آل عمران
150 آل عمران
151 آل عمران
152 49: ” پسندیدہ چیز“ سے یہاں مراد مال غنیمت ہے جسے دیکھ کر عقبی ٹیلے کے اکثر حضرات اپنے امیر کے حکم کے خلاف ٹیلہ چھوڑ گئے تھے۔ آل عمران
153 50: یعنی اس قسم کے واقعات سے تمہارے اندر پختگی آئے گی، اور آئندہ جب کوئی تکلیف پیش آئے گی اس پر زیادہ پریشان اور مغموم رہنے کے بجائے تم صبر اور استقامت سے کام لو گے آل عمران
154 51: جنگ احد میں جو غیر متوقع شکست ہوئی، اس پر صحابہ صدمے سے مغلوب ہو رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دشمن کے جانے کے بعد بہت سے صحابہ پر اونگھ مسلط فرما دی جس سے غم غلط ہوگیا۔ 52: یہ منافقین کا ذکر ہے وہ جو کہہ رہے تھے کہ : کیا ہمیں بھی کوئی اختیار حاصل ہے؟ اس کا ظاہری مطلب تو یہ تھا کہ اللہ کی تقدیر کے آگے کسی کا اختیار نہیں چلتا اور یہ بات صحیح تھی ؛ لیکن ان کا اصل مقصد وہ تھا جو آگے قرآن کریم نے دہرایا ہے یعنی یہ کہ اگر ہماری بات مانی جاتی اور باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے بجائے شہر میں رہ کر دفاع کیا جاتا تواتنے سارے آدمیوں کے قتل کی نوبت نہ آتی. 53: اشارہ اس طرف ہے کہ اس طرح کے مصائب سے ایمان میں پختگی آتی ہے اور باطنی بیماریاں دور ہوتی ہیں. آل عمران
155 54: یعنی جنگ سے پہلے ان سے کچھ ایسے قصور ہوئے تھے جنہیں دیکھ کر شیطان کو حوصلہ ہوا اور اس نے انہیں بہکا کر مزید غلطی میں مبتلا کردیا۔ آل عمران
156 آل عمران
157 آل عمران
158 آل عمران
159 آل عمران
160 آل عمران
161 55: شاید اس بات کو یہاں ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ مال غنیمت اکھٹا کرنے کے لئے اتنی جلدی کی ضرورت نہیں تھی ؛ کیونکہ جو مال بھی حاصل ہوتا خواہ وہ کسی نے جمع کیا ہو بالآخر آنحضرتﷺ ہی اسے شرعی قاعدے سے انصاف کے ساتھ تقسیم فرماتے اور ہر شخص کو اس کا حصہ مل جاتا ؛ کیونکہ کوئی نبی مال غنیمت میں خیانت نہیں کرسکتا۔ آل عمران
162 آل عمران
163 آل عمران
164 آل عمران
165 56: اشارہ جنگ بدر کی طرف ہے جس میں کفار قریش کے ستر آدمی مارے گئے تھے اور ستر گرفتار ہوئے تھے، جبکہ جنگ احد میں شہید ہونے والے مسلمانوں کی تعداد ستر ضرور تھی مگر کوئی مسلمان گرفتار نہیں ہوا تھا۔ اس لحاظ سے بدر میں مسلمانوں نے کفار کو جو نقصان پہنچایا تھا وہ اس نقصان سے دگنا تھا جو کافروں نے احد میں مسلمانوں کو پہنچایا۔ آل عمران
166 آل عمران
167 57: ان کا مطلب یہ تھا کہ اگر کوئی برابر کی جنگ ہوتی تو ہم ضرور اس میں شریک ہوتے، لیکن یہاں تو مسلمانوں کا دشمن سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ دشمن کی تعداد تین گنے سے بھی زیادہ ہے، لہذا یہ جنگ نہیں، خود کشی ہے، اس میں ہم شامل نہیں ہوسکتے۔ 58: یعنی زبان سے تو یہ کہتے ہیں کہ اگر برابر کی جنگ ہوتی تو ہم ضرور شامل ہوتے، لیکن یہ صرف ایک بہانہ ہے، درحقیقت ان کے دل میں یہ ہے کہ برابر کی جنگ میں بھی مسلمانوں کا ساتھ نہیں دینا۔ آل عمران
168 آل عمران
169 آل عمران
170 آل عمران
171 آل عمران
172 آل عمران
173 59: جب کفار مکہ احد کی جنگ سے واپس چلے گئے تو راستے میں انہیں پچھتاوا ہوا کہ ہم جنگ میں غالب آجانے کے باوجود خواہ مخواہ واپس آگئے، اگر ہم کچھ اور زور لگاتے تو تمام مسلمانوں کا خاتمہ ہوسکتا تھا۔ اس خیال کی وجہ سے انہوں نے مدینہ منورہ کی طرف لوٹنے کا ارادہ کیا۔ دوسری طرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شاید ان کے ارادے سے باخبر ہو کر یا احد کے نقصان کی تلافی کے لیے جنگ احد کے اگلے دن سویرے صحابہ میں یہ اعلان فرمایا کہ ہم دشمن کے تعاقب میں جائیں گے، اور جو لوگ جنگ احد میں شریک تھے صرف وہ ہمارے ساتھ چلیں۔ صحابہ کرام اگرچہ احد کے واقعات سے زخم خوردہ تھے، اور تھکے ہوئے بھی تھے، مگر انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس دعوت پر لبیک کہا جس کی تعریف اس آیت میں کی گئی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے صحابہ کے ساتھ مدینہ منورہ سے نکل کر حمراء الاسد کے مقام پر پہنچے تو وہاں قبیلہ خزاعہ کا ایک شخص معبد آپ سے ملا جو کافر ہونے کے باوجود آپ سے ہمدردی رکھتا تھا، اس نے مسلمانوں نے کے حوصلے کا خود مشاہدہ کیا اور جب وہاں سے نکلا تو اس کی ملاقات کفار مکہ کے سردار ابو سفیان سے ہوگئی، اس نے ابو سفیان کو مسلمانوں کے لشکر اور اس کے حوصلوں کے بارے میں بتایا اور مشورہ دیا کہ وہ لوٹ کر حملہ کرنے کا ارادہ ترک کر کے واپس چلا جائے۔ اس سے کفار پر رعب طاری ہوا اور وہ واپس تو چلے گئے لیکن عبدالقیس کے ایک قافلے سے جو مدینہ منورہ جا رہا تھا یہ کہہ گئے کہ جب راستے میں ان کی ملاقات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہو تو ان سے یہ کہیں کہ ابو سفیان بہت بڑا لشکر جمع کرچکا ہے اور مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کے لیے ان پر حملہ آور ہونے والا ہے مقصد یہ تھا کہ اس خبر سے مسلمانوں پر رعب پڑے۔ چنانچہ یہ لوگ جب حمراء الاسد پہنچ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملے تو یہی بات کہی، لیکن صحابہ کرام نے اس سے مرعوب ہونے کے بجائے وہ جملہ کہا جو اس آیت میں تعریف کے ساتھ نقل کیا گیا ہے۔ آل عمران
174 آل عمران
175 آل عمران
176 آل عمران
177 آل عمران
178 آل عمران
179 60: آیت 176 سے 178 تک اس شب ہے کا جواب دیا گیا ہے کہ اگر کافر لوگ اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں تو انہیں دنیا میں عیش و عشرت کی زندگی کیوں حاصل ہے؟ جواب یہ دیا گیا ہے کہ ان لوگوں کو آخرت میں تو کوئی حصہ ملنا نہیں ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں ڈھیل دئیے ہوئے ہے جس کی وجہ سے یہ مزید گناہوں میں ملوث ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک وقت آنا ہے جب یہ اکٹھے عذاب میں دھر لیے جائیں گے۔ آیت 179 میں اس کے مقابل اس شب ہے کا جواب ہے کہ مسلمان کو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں، اس کے باوجود ان پر مصیبتیں کیوں آرہی ہیں؟ اس کا ایک جواب اس آیت میں یہ دیا گیا ہے کہ یہ آزمائشیں مسلمانوں پر اس لیے آرہی ہیں تاکہ مسلمانوں پر واضح ہوجائے کہ ایمان کے دعوے میں کون کھرا ہے اور کون کھوٹا؟ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس وضاحت کے بغیر نہیں چھوڑ سکتا، اور مشکلات ہی کے وقت یہ پتہ چلتا ہے کہ کون ثابت قدم رہتا ہے اور کون پھسل جاتا ہے؟ اس پر یہ سوال ہوسکتا تھا کہ یہ بات اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مشکل میں ڈالے بغیر کیوں نہیں بتا دیتا؟ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب کی باتیں ہر ایک شخص کو نہیں بتاتا، بلکہ جتنی باتیں چاہتا ہے اپنے پیغمبر کو بتا دیتا ہے۔ اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان منافقین کی بد عملی آنکھوں سے دیکھ کر ان کے بارے میں رائے قائم کریں، اس لیے یہ آزمائشیں پیش آرہی ہیں۔ آزمائشوں کی مزید حکمت آگے آیات 185 اور 186 میں بھی بیان فرمائی گئی ہے۔ آل عمران
180 61: وہ بخل جسے حرام قرار دیا گیا ہے یہ ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ خرچ کرنے کا حکم دیں، انسان وہاں خرچ نہ کرے، مثلاً زکوۃ نہ دے، ایسی صورت میں جو مال انسان بچا کر رکھے گا، قیامت کے دن وہ اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈالا جائے گا۔ حدیث میں اس کی تشریح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمائی ہے کہ ایسا مال ایک زہریلے سانپ کی شکل میں منتقل کر کے اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا جو اس کی باچھیں پکڑ کر کہے گا کہ : ” میں ہوں تیرا مال ! میں ہوں تیرا جمع کیا ہوا خزانہ !“۔ آل عمران
181 62: جب زکوۃ وغیرہ کے احکام آئے تو بعض یہودیوں نے ان کا مذاق اڑاتے ہوئے اس قسم کے گستاخانہ جملے کہے تھے۔ ظاہر ہے کہ عقیدہ تو ان کا بھی یہ نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ معاذ اللہ فقیر ہے، لیکن انہوں نے زکوۃ کے حکم کا مذاق اس طرح اڑایا تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس بیہودہ جملے کا کوئی جواب دیا، بلکہ اس پر عذاب کی وعید سنائی۔ آل عمران
182 آل عمران
183 63: پچھلے انبیائے کرام کے زمانے میں طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کوئی جانور قربان کرتا تو اس کو کھانا حلال نہیں ہوتا تھا، بلکہ وہ جانور ذبح کر کے کسی میدان میں یا ٹیلے پر رکھ دیتا تھا۔ اگر اللہ تعالیٰ قربانی قبول فرماتے تو آسمان سے ایک آگ آکر اس کو قربانی کو کھا لیتی تھی۔ اس کو سوختنی قربانی کہا جاتا تھا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شریعت میں یہ طریقہ ختم کردیا گیا اور قربانی کا گوشت انسانوں کے لیے حلال کردیا گیا۔ یہودیوں نے کہا تھا کہ چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسی قربانی لے کر نہیں آئے اس لیے ہم ان پر ایمان نہیں لاتے۔ چونکہ یہ محض وقت گذاری کا ایک بہانہ تھا اور حقیقت میں ایمان لانا پیش نظر نہیں تھا۔ اس لیے انہیں یاد دلایا گیا کہ ماضی میں ایسے نشانات تمہارے سامنے آئے تب بھی تم ایمان لانے کے بجائے انبیاء کرام کو قتل کرتے رہے ہو۔ آل عمران
184 آل عمران
185 آل عمران
186 آل عمران
187 آل عمران
188 آل عمران
189 آل عمران
190 آل عمران
191 آل عمران
192 آل عمران
193 آل عمران
194 آل عمران
195 آل عمران
196 آل عمران
197 آل عمران
198 آل عمران
199 آل عمران
200 تشریح : قرآنی اصطلاح میں صبر بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے، اس کی ایک قسم اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں استقامت کا مظاہرہ ہے، دوسری قسم گناہوں کے لئے اپنی خواہشات کو دبانا ہے اور تیسری قسم تکلیفوں کو برداشت کرنا ہے یہاں ان تینوں قسموں کے صبر کا حکم دیا گیا ہے، اور سرحدوں کی حفاظت میں جغرافی سرحدوں کی حفاظت بھی داخل ہے اور نظریاتی حفاظت بھی، اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام احکام پر عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین آل عمران
0 سورۃ النساء تعارف یہ سورت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی، اور اس کا اکثر حصہ جنگ بدر کے بعد نازل ہوا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب مدینہ منورہ کی نوازائیدہ مسلمان ریاست مختلف مسائل سے دو چار تھی۔ زندگی کا ایک نیا ڈھانچہ ابھر رہا تھا جس کے لیے مسلمانوں کو اپنی عبادت کے طریقوں اور اخلاق و معاشرت سے متعلق تفصیلی ہدایات کی ضرورت تھی، دشمن طاقتیں اسلام کی پیش قدمی کا راستہ روکنے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہی تھیں، اور مسلمانوں کو اپنی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے نت نئے مسائل کا سامنا تھا۔ سورۃ نساء نے ان تمام معاملات میں تفصیلی ہدایات فراہم کی ہیں۔ چونکہ ایک مستحکم خاندانی ڈھانچہ کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے، اس لیے یہ سورت خاندانی معاملات کے بارے میں مفصل احکام سے شروع ہوئی ہے۔ چونکہ خاندانی نظام میں عورتوں کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے، اس لیے عورتوں کے بارے میں اس سورت نے تفصیلی احکام عطا فرمائے ہیں، اور اسی لیے اس کا نام سورۃ نساء ہے۔ جنگ احد کے بعد بہت سی خواتین بیوہ اور بہت سے بچے یتیم ہوگئے تھے، اس لیے سورت نے شروع ہی میں یتیموں کے حقوق کے تحفظ کا انتظام فرمایا ہے، اور آیت نمبر ١٤ تک میراث کے احکام تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں عورتوں کے ساتھ طرح طرح کے طلم ہوتے تھے، ان مظالم کی ایک ایک کر کے نشاندہی کی گئی ہے، اور معاشرے سے ان کا خاتمہ کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ نکاح و طلاق کے مفصل احکام بیان کیے گئے ہیں، اور میاں بیوی کے حقوق متعین فرمائے گئے ہیں۔ یہ مضمون آیت نمبر ٣٥ تک چلا ہے جس کے بعد انسان کی باطنی اور معاشرتی اصلاح کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ مسلمانوں کو عرب کے صحراؤں میں سفر کے دوران پانی کی قلت پیش آتی تھی، لہذا آیت ٤٣ میں تیمم کا طریقہ اور آیت ١٠١ میں سفر میں نماز قصر کرنے کی سہولت عطا فرمائی گئی ہے۔ نیز جہاد کے دوران نماز خوف کا طریقہ آیت ١٠٢ اور ١٠٣ میں بتایا گیا ہے۔ مدینہ منورہ میں بسنے والے یہودیوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معاہدہ کرنے کے باوجود مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر رکھا تھا، آیات ٤٤ تا ٥٧ اور ١٥٣ تا ١٧٥ میں ان کے ساتھ عیسائیوں کو بھی خطاب میں شامل کرلیا گیا ہے، اور انہیں تثلیث کے عقیدے کے بجائے خالص توحید اختیار کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ آیات ٥٨، ٥٩ میں سیاست اور حکمرانی سے متعلق ہدایات آئی ہیں۔ منافقین کی بد اعمالیاں آیات ٦٠ تا ٧٠ اور پھر آیات ١٣٧ تا ١٥٢ میں واضح کی گئی ہیں۔ آیات ٧١ تا ٩٢ نے جہاد کے احکان بیان کر کے منافقین کی ریشہ دوانیوں کا پردہ چاک کیا ہے۔ اسی سیاق میں آیات ٩٢، ٩٣ میں قتل کی سزائیں مقرر فرمائی گئی ہیں۔ جو مسلمان مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے اور کفار کے ہاتھوں مظالم جھیل رہے تھے، ان کی ہجرت کے مسائل آیات ٩٧ تا ١٠٠ میں زیر بحث آئے ہیں، اسی دوران بہت سے تنازعات آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے فیصلے کے لیے لائے گئے۔ آیات ١٠٥ تا ١١٥ میں ان کے فیصلے کا طریقہ آپ کو بتایا گیا ہے، اور مسلمانوں کو آپ کا فیصلہ دل و جان سے قبول کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ آیات ١١٦ تا ١٢٦ میں توحید کی اہمیت واضح کی گئی ہے۔ خاندانی نظام اور میراث کے بارے میں صحابہ کرام نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعدد سوالات پوچھے تھے، آیات ١٢٧ تا ١٢٩ اور پھر ١٧٦ میں ان سوالات کا جواب دیا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ پوری سورت احکام اور تعلیمات سے بھری ہوئی ہے، اور شروع میں تقوی کا جو حکم دیا گیا تھا، کہا جاکستا ہے کہ پوری سورت اس کی تفصیلات بیان کرتی ہے۔ النسآء
1 1: جب دنیا میں لوگ ایک دوسرے کے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو بکثرت یہ کہتے ہیں کہ خدا کے واسطے مجھے میرا حق دے دو، آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب تم اپنے حقوق کے لئے اللہ کا واسطہ دیتے ہو تو دوسروں کا حق ادا کرنے میں بھی اللہ سے ڈرو اور لوگوں کے حقوق پورے پورے ادا کرو۔ النسآء
2 2: کسی مرنے والے کے بچے جب یتیم ہوجاتے ہیں تو ان کے باپ کی میراث میں ان کا بھی حصہ ہوتا ہے، مگر ان کی کم عمری کی وجہ سے وہ مال ان کے سپرد نہیں کیا جاتا، بلکہ ان کے سرپرست، مثلاً، چچا، بھائی وغیرہ اسے بچوں کے بالغ ہونے تک اپنے پاس امانت کے طور پر رکھتے ہیں۔ اس آیت میں ایسے سرپرستوں کو تین ہدایتیں دی گئی ہیں : ایک یہ کہ جب بچے بالغ اور سمجھ دار ہوجائیں تو ان کی امانت دیانت داری سے ان کے حوالے کردو۔ دوسرے یہ کہ بد دیانتی نہ کرو کہ ان کو ان کے باپ کی طرف سے تو میراث میں اچھی قسم کا مال ملا تھا، مگر تم وہ مال خود رکھ کر گھٹیا قسم کی چیز اس کے بدلے میں دے دو،۔ اور تیسرے ایسا نہ کرو کہ ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ گڈ مڈ کر کے اس کا کچھ حصہ جان بوجھ کر یا بے پروائی سے خود استعمال کر بیٹھو۔ النسآء
3 3: صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضرت عائشہ (رض) نے اس ہدایت کا پس منظر یہ بتایا ہے کہ بعض اوقات ایک یتیم لڑکی اپنے چچا کے بیٹے کی سرپرستی میں ہوتی تھی وہ خوبصورت بھی ہوتی اور اس کے باپ کا چھوڑا ہوا مال بھی اچھا خاصا ہوتا تھا اس صورت میں اس کا چچا زاد یہ چاہتا تھا کہ اس کے بالغ ہونے پر وہ خود اس سے نکاح کرلے تاکہ اس کا مال اسی کے تصرف میں رہے لیکن نکاح میں وہ اس کو اتنا مہر نہیں دیتا تھا جتنا اسی جیسی لڑکی کو دینا چاہئے دوسری طرف اگر لڑکی زیادہ خوبصورت نہ ہوتی تو اس کے مال کی لالچ میں اس سے نکاح کرلیتا تھا ؛ لیکن نہ صرف یہ کہ اس کا مہر کم رکھتا تھا ؛ بلکہ اس کے ساتھ ایک محبوب بیوی جیسا سلوک بھی نہیں کرتا تھا، اس آیت نے ایسے لوگوں کو یہ حکم دیا ہے کہ اگر تمہیں یتیم لڑکیوں کے ساتھ اس قسم کی بے انصافی کا اندیشہ ہو تو ان سے نکاح مت کرو ؛ بلکہ عورتوں سے نکاح کرو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں۔ 4: مَثْنَیٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ: جاہلیت کے زمانے میں بیویوں کی کوئی تعداد مقرر نہیں تھی ایک شخص بیک وقت دس دس بیس بیس عورتوں کو نکاح میں رکھ لیتا تھا اس آیت نے اس کی زیادہ سے زیادہ حد چار تک مقرر فرمادی اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ انسان تمام بیویوں کے درمیان برابری کا سلوک کرے اور اگر بے انصافی کا اندیشہ ہو تو ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ایسی شورت میں ایک سے زیادہ نکاح کرنے کو منع فرمادیا گیا ہے۔ النسآء
4 النسآء
5 5: یتیموں کے سرپرستوں کی ذمہ داریاں بیان کی جارہی ہیں کہ ایک طرف تو انہیں یتیموں کے مال کو امانت سمجھ کر انتہائی احتیاط سے کام لینا ہے، دوسری طرف یہ بھی خیال رکھنا ہے کہ یتیموں کا پیسہ ایسے وقت ان کے حوالے کیا جائے جب ان میں روپے پیسے کی ٹھیک ٹھیک دیکھ بھال کی سمجھ اور اسے صحیح مصرف پر خرچ کرنے کا سلیقہ آچکا ہو۔ جب تک وہ نا سمجھ ہیں، ان کا مال ان کی تحویل میں نہیں دینا چاہیے اور اگر وہ خود مطالبہ کریں کہ ان کا مال ان کے حوالے کردیا جائے تو انہیں مناسب انداز میں سمجھا دینا چاہئے۔ اگلی آیت میں اسی اصول کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ وقتاً فوقتاً ان یتیم بچوں کو آزماتے رہنا چاہئے کہ آیا وہ اتنے سمجھ دار ہوگئے ہیں کہ انہیں اپنے مال کے صحیح استعمال کا سلیقہ آگیا ہے۔ یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ صرف بالغ ہوجانا بھی کافی نہیں، بلوغ کے بعد بھی اگر وہ سمجھ دار نہ ہو پائے ہوں تو مال ان کے حوالے نہ کیا جائے۔ بلکہ جب یہ محسوس ہوجائے کہ ان میں سمجھ آگئی ہے تب مال ان کے حوالے کیا جائے۔ النسآء
6 6: یتیموں کے سرپرست کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لئے بہت سی خدمات انجام دینی پڑتی ہیں، عام حالات میں جب سرپرست خود کھاتا پیتا شخص ہو اس کے لئے ان خدمات کا کوئی معاوضہ لینا درست نہیں، یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک باپ اپنی اولاد کی دیکھ بھال کرتا ہے ؛ لیکن اگر وہ خود تنگدست ہے اور یتیم کی ملکیت میں اچھا خاصا مال ہے تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنا ضروری خرچ بھی یتیم کے مال سے لے لے، مگر پوری احتیاط سے اتنا ہی لے جتنا عرف اور رواج کے مطابق ضروری ہے اس سے زیادہ لینا جائز نہیں ہے۔ النسآء
7 7: جاہلیت کے زمانے میں عورتوں کو میراث میں کوئی حصہ نہیں دیا جاتا تھا، آنحضرتﷺ کے سامنے ایسے واقعات پیش آئے کہ ایک شخص کا انتقال ہوا اور وہ بیوی اور نابالغ بچے چھوڑ کرگیا اور اس کے سارے ترکے پر اس کے بھائیوں نے قبضہ کرلیا، بیوی کو تو عورت ہونے کی وجہ سے میراث سے محروم رکھا گیا اور بچوں کو نابالغ ہونے کی وجہ سے کچھ نہ دیاگیا، اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں واضح کردیا گیا کہ عورتوں کو میراث سے محروم نہیں رکھا جاسکتا، اللہ تعالیٰ نے آگے ١١ سے شروع ہونے والے رکوع میں تمام رشتہ دار مردوں اور عورتوں کے حصے مقرر فرمادئے ہیں۔ النسآء
8 8: جب میراث تقسیم ہورہی ہو تو بعض ایسے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں جو شرعی اعتبار سے وارث نہیں ہیں قرآن کریم نے یہ ہدایت دی ہے کہ ان کو بھی کچھ دے دینا بہتر ہے، مگر ایک تو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس ہدایت پر عمل کرنا مستحب ہے، یعنی پسندیدہ ہے واجب نہیں ہے، دوسرے اس پر عمل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بالغ ورثاء ایسے لوگوں کو اپنے حصہ میں سے دیں، نابالغ ورثاء کے حصے میں سے کسی اور کو دینا جائز نہیں ہے۔ النسآء
9 9: یعنی جس طرح تمہیں اپنے بچوں کی فکر ہوتی ہے کہ ہمارے مرنے کے بعد ان کا کیا ہوگا اسی طرح دوسروں کے بچوں کی بھی فکر کرو اور یتیموں کے مال میں خرد برد کرنے سے ڈرو۔ النسآء
10 النسآء
11 10: آیات 11، 12 میں مختلف رشتہ داروں کے لیے میراث کے حصے بیان فرمائے گئے ہیں۔ جن رشتہ داروں کے حصے ان آیات میں مقرر فرما دئیے گئے ہیں ان کو ” ذوی الفروض“ کہا جاتا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وضاحت فرمائی ہے کہ ان حصوں کی تقسیم کے بعد جو مال بچ جائے، وہ مرنے والے کے ان قریب ترین مذکر افراد میں تقسیم ہوگا جن کے حصے ان آیتوں میں متعین نہیں کیے گئے، جن کو ” عصبات“ کہا جاتا ہے۔ مثلا بیٹے اور اگرچہ بیٹیاں براہ راستہ عصبات میں شامل نہیں ہیں، لیکن بیٹوں کے ساتھ مل کر بیٹیاں بھی عصبات میں شامل ہوجاتی ہیں۔ اس صورت میں یہ قاعدہ اس آیت نے مقرر فرمایا ہے کہ ایک بیٹے کو دو بیٹیوں کے برابر حصہ ملے گا۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہے جب مرنے والے کی اولاد نہ ہو اور بہن بھائی ہوں تو بھائی کو بہن سے دگنا حصہ دیا جائے گا۔ 11: یہ قاعدہ ان آیات میں بار بار دہرایا گیا ہے کہ میراث کی تقسیم ہمیشہ میت کے قرضوں کی ادائیگی اور اس کی وصیت پر عمل کرنے کے بعد ہوگی، یعنی اگر مرنے والے کے ذمے کچھ قرض ہو تو اس کے ترکے سے سب سے پہلے اس کے قرضے ادا کیے جائیں گے۔ اس کے بعد اگر اس نے کوئی وصیت کی ہو کہ فلاں شخص کو جو وارث نہیں ہے، میرے ترکے سے اتنا دیا جائے تو ایک تہائی ترکے کی حد تک اس پر عمل کیا جائے گا اس کے بعد میراث وارثوں میں تقسیم ہوگی۔ 12: یہ تنبیہ اس بنا پر فرمائی گئی ہے کہ کوئی شخص یہ سوچ سکتا تھا کہ فلاں وارث کو زیادہ حصہ ملتا تو اچھا ہوتا، یا فلاں کو کم ملنا مناسب تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ تمہیں مصلحت کا ٹھیک ٹھیک علم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس کا جو حصہ مقرر فرما دیا ہے، وہی مناسب ہے۔ النسآء
12 13: اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ قرض کی ادائیگی اور وصیت پر عمل کرنا میراث کی تقسیم پر مقدم ہے، لیکن مرنے والے کو کوئی ایسا کام نہ کرنا چاہیے جس کا مقصد اپنے جائز ورثاء کو نقصان پہنچانا ہو، مثلاً کوئی شخص اپنے وارثوں کو محروم کرنے یا ان کا حصہ کم کرنے کی خاطر اپنے کسی دوست کے لیے وصیت کردے، یا اس کے حق میں قرضے کا جھوٹ اقرار کرلے، اور مقصد یہ ہو کہ اس کا پورا ترکہ یا اس کا کافی حصہ اس کے پاس چلا جائے اور ورثاء کو نہ ملے یا بہت کم ملے تو ایسا کرنا بالکل ناجازئ ہے، اور اسی لیے شریعت نے یہ قاعدہ مقرر فرما دیا ہے کہ کسی وارث کے حق میں کوئی وصیت نہیں ہوسکتی، نیز غیر وارث کے حق میں بھی ایک تہائی سے زیادہ وصیت نہیں کی جاسکتی۔ النسآء
13 النسآء
14 النسآء
15 14:: عورت بدکاری کا ارتکاب کرے تو شروع میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ اسے عمر بھر گھر میں مقید رکھا جائے ؛ لیکن ساتھ ہی یہ اشارہ دے دیا گیا تھا کہ بعد میں ان کے لئے کوئی سزا مقرر کی جائے گی، یا اللہ ان کے لئے کوئی اور راستہ پیدا کردے، کا یہی مطلب ہے۔ چنانچہ سورۂ نور میں مرد اور عورت دونوں کے لئے زنا کی سزا سوکوڑے مقرر کردی گئی اور آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اب اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے راستہ پیدا کردیا ہے اور وہ یہ کہ غیر شادی شدہ مرد یا عورت کو سوکوڑے لگائے جائیں گے اور شادی شدہ کو سنگسار کیا جائے گا۔ النسآء
16 15: یہ مردوں کے خلاف فطرت ہم جنسی کے عمل کی طرف اشارہ ہے اس کی کوئی متعین سزا مقرر کرنے کے بجائے صرف یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ایسے مردوں کو اذیت دی جائے جس کے مختلف طریقے فقہائے کرام نے تجویز کئے ہیں مگر ان میں سے کوئی لازمی نہیں، صحیح یہ ہے کہ اس کو حاکم کی صوابدید پر چھوڑدیا گیا ہے۔ النسآء
17 النسآء
18 النسآء
19 16: زمانہ جاہلیت میں یہ ظالمانہ رسم چلی آتی تھی کہ جب کسی عورت کے شوہر کا انتقال ہوجاتا تو اس کے ورثاء اس عورت کو بھی میراث کا حصہ سمجھ کر اس کے اس معنی میں مالک بن بیٹھتے تھے کہ وہ ان کی اجازت کے بغیر نہ دوسری شادی کرسکتی تھی اور نہ زندگی کے دوسرے اہم فیصلے کرنے کا حق رکھتی تھی اس آیت نے اس ظالمناہ رسم کو ختم فرمایا ہے۔ اسی طرح ایک ظالمانہ رواج یہ تھا کہ جب کوئی شوہر اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی چاہتا کہ جو مہر ان کو دے چکا ہے وہ اسے واپس مل جائے تو وہ اپنی بیوی کو طرح طرح سے تنگ کرنا شروع کردیتا تھا، مثلاً وہ اس کو گھر میں اس طرح مقید رکھتا تھا کہ وہ بیچاری مجبور ہو کر شوہر سے خلاصی حاصل کرنے کے لیے اسے خود یہ پیشکش کرے کہ تم اپنا مہر واپس لے لو، اور مجھے طلاق دے کر میری جان چھوڑ دو۔ آیت کے دوسرے حصے میں اس رواج کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ النسآء
20 17: اوپر یہ بتایا جاچکا ہے کہ عورتوں کو گلوخلاصی کے لئے مہر واپس کرنے پر مجبور کرنا صرف اس صورت میں جائز ہے جب انہوں نے کھلی بے حیائی کا ارتکاب کیا ہو، اب یہ فرمایا جارہا ہے کہ اگر تم ان سے مہر واپس کرنے کا مطالبہ کروگے تو یہ تمہاری طرف سے ان پر بہتان باندھنے کے مرادف ہوگا کہ انہوں نے کھلی بے حیائی کا ارتکاب کیا ہے، کیونکہ ان کو مہر کی واپسی پر مجبور کرنا اس صورت کے سوا کسی حالت میں جائز نہیں ہے۔ النسآء
21 النسآء
22 18: جاہلیت میں لوگ اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کرنے کو کوئی عیب نہیں سمجھتے تھے، اس آیت نے اس بے شرمی کو ممنوع قراردیا، البتہ جن لوگوں نے اسلام سے پہلے ایسا نکاح کیا تھا ان کے بارے میں فرمایا گیا کہ پچھلا گناہ معاف ہے ؛ کیونکہ اسلام لانے سے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، بشرطیکہ اس آیت کے نزول کے بعد نکاح کا یہ تعلق ختم کرلیا جائے۔ النسآء
23 19: سوتیلی ماں کی حرمت بیان فرما کر اب جن عورتوں سے نکاح جائز نہیں ان سب کو بیان فرماتے ہیں، وہ عورتیں چند قسم ہیں، اوّل ان کو بیان کیا جاتا ہے جو علاقہ نسب کی وجہ سے حرام ہیں اور وہ سات ہیں ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ، بھتیجی، بھانجی ان میں سے کسی کے ساتھ کسی کو نکاح کرنا جائز نہیں۔ النسآء
24 20: جوکنیزیں جہاد کے دوران گرفتار کرکے لائی جاتی تھیں اور ان کے شوہر دارالحرب میں رہ جاتے تھے ان کا نکاح ان شوہروں سے ختم ہوجاتا تھا، لہذا جب وہ دارالاسلام میں آنے کے بعد ایک حیض کی مدت پوری کرلیتیں اور ان کو پچھلے شوہر سے حمل نہ ہوتا تو ان کا نکاح دارالاسلام کے کسی مسلمان سے جائز تھا، مگر یہ حکم انہی باندیوں کا ہے جو شرعی طور پر باندی بنائی گئی ہوں، آجکل ایسی کنیزوں یا باندیوں کا کہیں وجود نہیں ہے۔ 21: مقصد یہ ہے کہ نکاح ایک دیرپا تعلق کا نام ہے جس کا مقصد صرف جنسی خواہش پوری کرنا نہیں ہے بلکہ ایک مضبوط خاندانی نظام کا قیام ہے جس میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے حقوق اور ذمہ داریوں کے پابند ہوتے ہیں اور اس رشتے کو عفت وعصمت کے تحفظ اور بقائے نسل انسانی کا ذریعہ بناتے ہیں، صرف شہوت نکالنے کے لئے ایک عارضی تعلق پیدا کرلینا خواہ وہ پیسے خرچ کرکے ہی کیوں نہ ہو ہرگز جائز نہیں ہے۔ النسآء
25 22: چونکہ آزاد عورتوں کا مہر عام طور پر زیادہ ہوتا تھا اور باندیوں کا مہر کم، اس لئے ایک طرف تو حکمیہ دیا گیا ہے کہ باندیوں سے نکاح اسی وقت کیا جائے جب آزاد عورتوں سے نکاح کی استطاعت نہ ہو، دوسری طرف یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جب کسی باندی سے نکاح کی نوبت آجائے تو پھر محض اس کے باندی ہونے کی وجہ سے اس کو حقیر سمجھنا درست نہیں، کیونکہ فضیلت کا اصل دارومدار تقوی پر ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ کس کی ایمانی حالت زیادہ مضبوط ہے ورنہ اولاد آدم ہونے کے لحاظ سے سب ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ 23: آزاد عورتیں اگر غیر شادی شدہ ہوں تو ان کے لیے زنا کی سزا سو کوڑے ہیں، جس کا ذکر سورۃ نور کی دوسری آیت میں آیا ہے۔ زیر نظر آیت میں باندیوں کے لیے اس کی آدھی سزا یعنی پچاس کوڑے مقرر فرمائی گئی ہے۔ النسآء
26 النسآء
27 النسآء
28 24: انسان فطری طور پر جنسی خواہش کا مقابلہ کرنے میں کمزور واقع ہوا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ خواہش جائز طریقے سے پورا کرنے سے نہیں روکا ؛ بلکہ نکاح کو اس کے لئے آسان بنادیا ہے۔ النسآء
29 25: اس کا سادہ مطلب تو یہ ہے کہ جس طرح دوسرے کا مال ناحق طریقے سے کھانا حرام ہے کسی کی جان لینا اس سے زیادہ حرام ہے، دوسرے کی جان لینے کو اپنے آپ کو قتل کرنے سے تعبیر کرکے اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ دوسرے کو قتل کرنا بالآخر اپنے آپ ہی کو قتل کرنا ہے ؛ کیونکہ اس کے بدلے میں خود قاتل قتل ہوسکتا ہے، اور اگر یہاں قتل نہ بھی ہو تو آخرت میں اس کی جو سزا ملنی ہے وہ موت سے بھی بدتر ہوگی، اس طرح اس تعبیر سے خود کشی کی ممانعت بھی واضح ہوگئی، دوسرے کسی کا مال ناحق کھانے کے ساتھ یہ جملہ لانے سے اس طرف بھی اشارہ ممکن ہے کہ جب ناحق مال کھانے کا رواج معاشرے میں عام ہوجائے تو اس کا نتیجہ اجتماعی خود کشی کی صورت میں نکلتا ہے۔ النسآء
30 النسآء
31 26: اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان گناہ کبیرہ سے پرہیز رکھے تو اس کے چھوٹے چھوٹے گناہوں کو اللہ تعالیٰ خود ہی معاف فرماتے رہتے ہیں، قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نیک عمل مثلاً وضو نماز صدقات وغیرہ سے گناہ صغیرہ معاف ہوتے رہتے ہیں۔ النسآء
32 27: بعض خواتین نے اس تمنا کا اظہار کیا تھا کہ اگر وہ مرد ہوتیں تو وہ بھی جہاد وغیرہ میں حصہ لے کر مزید ثواب حاصل کرتیں، اس آیت کریمہ نے یہ اصول واضح فرمادیا کہ جو باتیں انسان کے اختیار سے باہر ہیں ان میں اللہ نے کسی شخص کو کسی اعتبار سے فوقیت دے رکھی ہے اور کسی کو کسی اور حیثیت سے، مثلاً کوئی مرد ہے کوئی عورت، کوئی زیادہ طاقت ور ہے کوئی کم، کسی کا حسن دوسرے کے مقابلے میں زیادہ ہے یہ چیزیں چونکہ ان کے اختیار میں نہیں ہیں اس لئے ان کی تمنا کرنے سے فضول حسرت ہونے کے سوا کوئی فائدہ نہیں ہے، لہذا ان چیزوں میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہنا چاہئے، البتہ جو اچھائیاں انسان کے اختیار میں ہیں انہیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے اور ان چیزوں میں اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جو شخص جیسا عمل کرتا ہے ویسا ہی نتیجہ ظاہر ہوتا ہے، اس میں مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ النسآء
33 28: جب کوئی شخص اسلام لائے اور مسلمانوں میں اس کا کوئی رشتہ دار نہ ہو تو وہ جس شخص کے ہاتھ پر مسلمان ہوا ہے، بعض اوقات اس کے ساتھ یہ عہد کرلیتا تھا کہ وہ دونوں آپس میں بھائی بن گئے ہیں، لہذا وہ ایک دوسرے کے وارث بھی ہوں گے، اور اگر ان میں سے کسی پر کوئی تاوان آپڑا تو دوسرا اس کی ادائیگی میں اس کی مدد کرے گا، اس رشتے کو"موالاۃ" کہا جاتا تھا، یہاں اسی معاہدہ کا ذکر ہے، اور امام ابوحنیفہ (رح) کا مسلک اس آیت کی بنا پر یہی ہے کہ یہ رشتہ اب بھی کسی نومسلم سے قائم ہوسکتا ہے اور اگر دوسرے مسلمان رشتہ دار موجود نہ ہوں تو میراث میں بھی ان کا حصہ ہوگا۔ النسآء
34 النسآء
35 النسآء
36 29: قرآن و سنت نے پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید فرمائی ہے پھر پڑوسیوں کے تین درجے اس آیت میں بیان فرمائے گئے ہیں۔ پہلے درجے کو ” جار ذی القربی“ (قریب والا پڑوسی) اور دوسرے کو ” الجار الجنب“ کہا گیا ہے جس کا ترجمہ اوپر دور والے پڑوسی سے کیا گیا ہے۔ پہلے سے مراد وہ پڑوسی ہے جس کا گھر اپنے گھر سے بالکل ملا ہوا ہو، اور دوسرے سے مراد وہ پڑوسی ہے جس کا گھر اتنا ملا ہوا نہ ہو۔ بعض حضرات نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ پہلے سے مراد وہ پڑوسی ہے جو رشتہ دار بھی ہو، اور دوسرے مراد وہ جو صرف پڑوسی ہو۔ نیز بعض مفسرین نے پہلے کا مطلب مسلمان پڑوسی اور دوسرے کا مطلب غیر مسلم پڑوسی بتایا ہے قرآن کریم کے الفاظ میں ان سب معانی کی گنجائش ہے۔ خلاصہ یہ کہ پڑوسی چاہے رشتہ دار ہویا اجنبی، مسلمان ہو یا غیرمسلم، اس کا گھر بالکل ملا ہوا ہو یا ایک دو گھر چھوڑکر ہو، ان سب کے ساتھ اچھے برتاؤ کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ 30: یہ پڑوسی کی تیسری قسم ہے جس کو قرآن کریم نے صاحب بالجنب سے تعبیر فرمایا ہے۔ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ: اس سے مراد وہ شخص ہے جو عارضی طور پر تھوڑی دیر کے لئے ساتھی بن گیا ہو، مثلاً سفر کے دوران ساتھ بیٹھا یا کھڑا ہو، یا کسی مجلس یا کسی لائن میں لگے ہوئے اپنے پاس ہو، وہ بھی ایک طرح کا پڑوسی ہے اور اس کے ساتھ بھی اچھے برتاؤ کی تاکید فرمائی گئی ہے، بلکہ اس سے بھی آگے ہر راہ گیر اور مسافر کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے چاہے وہ اپنا ساتھی یا پڑوسی نہ ہو۔ النسآء
37 النسآء
38 النسآء
39 النسآء
40 النسآء
41 31: تمام انبیاء کرام قیامت کے روز اپنی اپنی امتوں کے اچھے برے اعمال پر گواہی دیں گے اور آنحضرتﷺ کو اپنی امت کے لوگوں پر گواہ بناکر پیش کیا جائے گا۔ النسآء
42 النسآء
43 32: یہ اس وقت کی بات ہے جب شراب کی حرمت کا حکم نہیں آیا تھا ؛ لیکن اسی آیت کے ذریعے یہ اشارہ دے دیا گیا کہ وہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے ؛ کیونکہ اس کو پینے کی حالت میں نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے، لہذا کسی وقت اس کو بالکل حرام بھی کیا جاسکتا ہے۔ النسآء
44 النسآء
45 النسآء
46 33: اس آیت میں بعض یہودیوں کی دو شرارتوں کا ذکر کیا گیا ہے ایک شرارت یہ ہے کہ وہ تورات کے الفاظ کو اپنے موقع محل سے ہٹاکر اس میں لفظی یا معنوی تحریف کا ارتکاب کرتے ہیں، یعنی بعض اوقات اس کے الفاظ ہی کو کسی اور لفظ سے بدل دیتے ہیں اور بعض اوقات اس لفظ کو غلط معنی پہنا کر اس کی من مانی تفسیر کرتے ہیں اور دوسری شرارت یہ ہے کہ جب وہ آنحضرتﷺ کے پاس آتے ہیں تو ایسے مبہم اور منافقانہ الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کا ظاہری مفہوم برا نہیں ہوتا ؛ لیکن وہ اندرونی طور پر ان الفاظ سے وہ دوسرے معنی مراد لیتے ہیں جو ان الفاظ میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں، قرآن کریم نے اس کی تین مثالیں اس آیت میں ذکر کی ہیں، ایک یہ کہ وہ کہتے ہیں سمعنا وعصینا جس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے آپ کی بات سن لی اور نافرمانی کی، وہ ان الفاظ کا مطلب یہ ظاہر کرتے تھے کہ ہم نے آپ کی بات سن لی ہے اور آپ کے مخالفین کی نافرمانی کی ؛ لیکن اندر سے ان کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ہم نے آپ کی بات سن لی اور اسی بات کی نافرمانی کی ہے، دوسرے وہ کہتے تھے اسمع غیر مسمع اس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ آپ ہماری بات سنیں خدا کرے آپ کو کوئی بات سنائی نہ جائے ظاہری طور پر وہ یہ دعا دیتے تھے کہ آپ کو کوئی ایسی بات نہ سنائی جائے جو آپ کی طبیعت کی خلاف ہو، لیکن اندر سے ان کا مطلب ہوتا تھا کہ خدا کرے آپ کو ایسی بات نہ سنائی جائے جو آپ کو خوش کرے، تیسرے وہ ایک لفظ راعنا استعمال کرتے تھے جس کے معنی عربی زبان میں تو یہ ہیں کہ ہمارا خیال رکھئے لیکن عبرانی زبان میں یہ ایک گالی کا لفظ تھا جو وہ اندرونی طور پر مراد لیتے تھے۔ النسآء
47 34: سبت سنیچر کے دن کو کہتے ہیں تورات میں بنی اسرائیل کو اس دن روزگار کا کام کرنے سے منع کیا گیا تھا ؛ لیکن ایک بستی کے لوگوں نے اس حکم کی نافرمانی کی جس کے نتیجے میں ان پر عذاب آیا اور ان کو مسخ کردیا گیا اس واقعے کی تفصیل کے لئے دیکھئے سورۂ اعراف (٧: ١٦٣) النسآء
48 35: یعنی شرک سے کم کسی گناہ کو اللہ تعالیٰ جب چاہے توبہ کے بغیر بھی محض اپنے فضل سے معاف کرسکتا ہے ؛ لیکن شرک کی معافی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ مشرک اپنے شرک سے سچی توبہ کرکے موت سے پہلے پہلے اسلام قبول کرکے توحید پر ایمان لے آئے النسآء
49 36: یعنی پاکیزگی اور تقدس اللہ تعالیٰ انہی کو عطا فرماتا ہے جو اپنے اختیاری عمل سے ایسا چاہتے ہیں، جن کو پاکیزگی اور تقدس نہیں ملتا وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے اختیاری اعمال کے ذریعے خود نااہل بن جاتے ہیں، لہذا اگر اللہ انہیں تقدس عطا نہیں فرماتا تو اس میں ان پر کوئی ظلم نہیں ہے ؛ کیونکہ انہوں نے خود اپنے اختیار سے اپنے آپ کو نااہل بنادیا ہے۔ النسآء
50 النسآء
51 37: یہ مدینہ منورہ میں آباد بعض یہودیوں کا تذکرہ ہے، آنحضرتﷺ نے ان سب کے ساتھ یہ معاہدہ کیا ہوا تھا کہ وہ اور مسلمان آپس میں امن کے ساتھ رہیں گے اور ایک دوسرے کے خلاف کسی بیرونی دشمن کی مدد بھی نہیں کریں گے ؛ لیکن انہوں نے اس معاہدہ کی بار بار خلاف ورزی کی اور مسلمانوں کے دشمن کفار مکہ کی حمایت اور درپردہ مدد کا سلسلہ جاری رکھا، ان کا ایک بڑا سردار کعب بن اشرف تھا، جنگ احد کے بعد وہ ایک اور یہودی سردار حیی بن اخطب کے ساتھ مکہ مکرمہ کے کافروں کے پاس گیا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف تعاون کی پیشکش کی، کفار مکہ کے سردار ابو سفیان نے کہا کہ اگر واقعی اپنی پیشکش میں سچے ہو تو ہمارے دو بتوں کے سامنے سجدہ کرو ؛ چنانچہ کعب بن اشرف نے ابوسفیان کا یہ مطالبہ بھی مان لیا، پھر ابوسفیان نے کعب سے پوچھا کہ ہمارا مذہب اچھا ہے یا مسلمانوں کا، تو اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ تمہارا مذہب مسلمانوں کے مذہب سے زیادہ بہتر ہے، حالانکہ وہ جانتا تھا کہ مکہ کے یہ لوگ بت پرست ہیں اور کسی آسمانی کتاب پر ایمان نہیں رکھتے، لہذا ان کے مذہب کو بہتر قرار دینے کا مطلب بت پرستی کی تصدیق کرنا تھا، اس آیت میں اس واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ النسآء
52 النسآء
53 38: یہودیوں کی مسلمانوں سے دشمنی اور عناد کا سبب قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ انہیں یہ توقع تھی کہ جس طرح پچھلے بہت سے انبیائے کرام ( علیہ السلام) بنی اسرائیل سے آئے ہیں، نبی آخرالزماںﷺ بھی انہی کے خاندان سے ہوں گے، لیکن جب آنحضرتﷺ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں مبعوث فرمائے گئے تو یہ لوگ حسد میں مبتلا ہوگئے، حالانکہ نبوت وخلافت وحکومت تو اللہ تعالیٰ کا ایک فضل ہے وہ جب جس کو مناسب سمجھتا ہے اپنے اس فضل سے سرفراز فرماتا ہے، اگر کوئی شخص اس پر اعتراض کرے تو گویا وہ یہ دعوی کررہا ہے کہ کائنات کی بادشاہی اس کے پاس ہے اور اسی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند سے انبیاء ( علیہ السلام) کو منتخب کرے، اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتے ہیں کہ اگر کہیں بادشاہی واقعی ان کو مل گئی ہوتی تو یہ اتنے بخیل ہیں کہ کسی کو ذرہ برابر بھی کچھ نہ دیتے۔ النسآء
54 39: یعنی اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت جس کو مناسب سمجھتا ہے نبوت اور خلافت وحکومت کے اعزاز سے سرفراز فرماتا ہے ؛ چنانچہ اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نبوت وحکمت عطا فرمائی اور ان کی اولاد میں یہ سلسلہ جاری رکھا ؛ چنانچہ ان میں بعض (مثلاً حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام) نبی ہونے کے ساتھ حکمران بھی بنے، اب تک ان کے ایک صاحبزادے (حضرت یعقوب علیہ السلام) کی اولاد میں نبوت جاری رہی ہے، اب اگر ان کے دوسرے صاحب زادے (حضرت اسماعیل علیہ السلام) کی اولاد میں حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اعزاز بخش دیا گیا ہے تو اس میں اعتراض یا حسد کی کیا بات ہے؟ النسآء
55 النسآء
56 النسآء
57 40: اشارہ اس طرف ہے کہ جنت میں روشنی ہوگی مگر دھوپ کی تپش نہیں ہوگی۔ النسآء
58 النسآء
59 41:أُولِی الْأَمْرِ: سے مراد اکثر مفسرین کے مطابق مسلمان حکمران ہیں، جائز امور میں ان کے احکام کی اطاعت بھی مسلمانوں کا فرض ہے، البتہ یہ اطاعت اس شرط کے ساتھ ہے کہ وہ کسی ایسی بات کا حکم نہ دیں جو شرعاً جائز ہو، اس بات کو قرآن کریم نے دو طرح واضح فرمایا ہے، ایک تو اس طرح کے اصحاب اختیار کی اطاعت کا ذکر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بعد فرمایا ہے، جس میں یہ اشارہ ہوگیا کہ حکمرانوں کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے تابع ہے، دوسرے اگلے جملے میں مزید صراحت کے ساتھ بتادیا کہ اگر کسی معاملہ میں یہ اختلاف پیدا ہوجائے کہ آیا حکمرانوں کا دیا ہوا حکم صحیح اور قابل طاعت ہے یا نہیں، تو اسے اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کردو، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حکم کو قرآن اور سنت کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھو، اگر وہ قرآن وسنت کے خلاف ہو تو اس کی اطاعت واجب نہیں ہے اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ ایسا حکم واپس لیں اور اگر وہ حکم قرآن وسنت کے کسی صریح یا اجماعی طور پر مسلم حکم کے خلاف نہیں ہے تو عام مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس پر عمل کریں۔ النسآء
60 42: یہاں سے ان منافقوں کا ذکر ہورہا ہے جو اصل دل سے تو یہودی تھے مگر مسلمانوں کو دکھانے کے لئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے، ان کا حال یہ تھا کہ جس معاملے میں ان کی توقع ہوتی کہ آنحضرتﷺ ان کے فائدے کا فیصلہ کریں گے ان کا مقدمہ تو آپ کے پاس لے جاتے ؛ لیکن جس مسئلے میں ان کو خیال ہوتا کہ آنحضرتﷺ کا فیصلہ ان کے خلاف ہوگا وہ مقدمہ آپ کے بجائے کسی یہودی سردار کے پاس لے جاتے، جسے اس آیت میں طاغوت کہا گیا ہے، منافقین کی طرف سے ایسے کئی واقعات پیش آئے تھے جو متعدد روایات میں منقول ہیں، طاغوت کے لفظی معنی ہیں نہایت سرکش ؛ لیکن یہ لفظ شیطان کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور ہر باطل کے لئے بھی، یہاں اس سے مراد وہ حاکم ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے احکام سے بے نیاز ہو کر یا ان کے خلاف فیصلہ کرے، آیت نے واضح کردیا کہ اگر کوئی شخص زبان سے مسلمان ہونے کا دعوی کرے ؛ لیکن اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر کسی اور قانون کو ترجیح دے تو وہ مسلمان نہیں رہ سکتا۔ النسآء
61 النسآء
62 43: یعنی جب ان کا یہ معاملہ تمام لوگوں پر کھل جاتا ہے کہ یہ آنحضرتﷺ کے فیصلے کے بجائے یا اس کے خلاف کسی اور کو اپنا فیصل بنارہے ہیں اور اس کے نتیجے میں انہیں ملامت یا کسی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ جھوٹی تاویل کرتے ہیں کہ ہم اس شخص کے پاس عدالتی فیصلہ کرانے نہیں گئے تھے ؛ بلکہ مصالحت کا کوئی راستہ نکالنا چاہتے تھے جس سے جھگڑے کے بجائے میل ملاپ کی کوئی صورت پیدا ہوجائے۔ النسآء
63 النسآء
64 النسآء
65 النسآء
66 44: مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو تو بڑے سخت قسم کے احکام دئے گئے تھے جن میں توبہ کے طور پر ایک دوسرے کو قتل کرنا بھی شامل تھا، جس کا ذکرسورۂ بقرہ (٥٤) میں آیا ہے، اب اگر کوئی ایسا سخت حکم دیا جاتا تو ان میں سے کوئی بھی عمل نہ کرتا، اب اس سے بہت آسان حکم یہ دیا جارہا ہے کہ آنحضرتﷺ کے احکام کو دل وجان سے تسلیم کرلو، لہذا عافیت کا راستہ یہی ہے کہ وہ آپﷺ کے صحیح معنی میں فرماں برادار بن جائیں۔ بعض روایات میں ہے کہ کچھ یہودیوں نے شیخی بھی بگھاری تھی کہ ہم توایسی فرماں برادار قوم ہیں کہ جب ہمارے اٰبا واجداد کو یہ حکم ہوا کہ وہ ایک دوسرے کو قتل کریں تو انہوں نے اس جیسے سخت حکم پر عمل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا، : ٦٦ ان کی اس بات کی طرف بھی اشارہ کررہی ہے۔ النسآء
67 النسآء
68 النسآء
69 النسآء
70 45: یعنی وہ کسی کو یہ فضیلت معاذ اللہ بے خبری کے ساتھ نہیں دیتا بلکہ ہر شخص کے عملی حالات سے باخبر ہو کر دیتاہے النسآء
71 النسآء
72 النسآء
73 46: مطلب یہ ہے کہ یوں تو وہ زبان سے مسلمانوں سے دوستی کا دم بھرتے ہیں لیکن جنگ میں شرکت سے متعلق ان کے خیالات تمام تر خود غرضی پر مبنی ہوتے ہیں، خود توجنگ میں شریک ہوتے نہیں اور جب مسلمانوں کو جنگ میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ان کو افسوس نہیں ہوتا بلکہ وہ خوش ہوتے ہیں کہ ہم اس تکلیف سے بچ گئے اور اگر مسلمانوں کو فتح ہوتی ہے اور مال غنیمت حاصل ہوتا ہے تو یہ خوش ہونے کے بجائے حسرت کرتے ہیں کہ ہم اس مال غنیمت سے محروم رہ گئے۔ النسآء
74 النسآء
75 النسآء
76 النسآء
77 47: مکہ مکرمہ میں جب مسلمان کفار کے سخت ظلم وستم کا سامنا کررہے تھے اس وقت بہت سے حضرات کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہوتا تھا کہ وہ ان کافروں سے انتقام لینے کے لئے جنگ کریں، لیکن اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہاد کا حکم نہیں آیا تھا، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کی مصلحت اس میں تھی کہ وہ صبر وضبط کی بھٹی سے گزر کر اعلی اخلاق سے آراستہ ہوں اور پھر جہاد کریں تو وہ محض ذاتی انتقام کے جذبے سے نہ ہو بلکہ اللہ کی رضا کی خاطر ہو لہذا اس وقت جب کچھ مسلمان جہاد کی تمنا کرتے ان سے یہی کہا جا ات تھا کہ ابھی اپنے ہاتھ روک کر رکھو اور جہاد کے بجائے نماز اور زکوۃ وغیرہ کے احکام پر عمل کرتے رہو، بعد میں جب یہ حضرات ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے توجہاد فرض ہوا، اس وقت چونکہ ان کی پرانی تمنا پوری ہوگئی تھی، اس لئے انہیں خوش ہونا چاہئے تھا، لیکن ان میں سے بعض حضرات کے دل میں یہ خیال آیا کہ تقریباً تیرہ سال کی صبر آزما تکلیفوں کے بعد اب ذرا سکون اور عافیت کی زندگی میسر آئی ہے اس لئے جہاد کا حکم کچھ مزید مؤخر ہوجاتا تو اچھا تھا، ان کی یہ خواہش اللہ تعالیٰ کے حکم پر کوئی اعتراض نہیں تھا بلکہ بشریت کا ایک تقاضا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس پر تنبیہ فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ کے برگزیدہ صحابہ کا مقام اس بات سے بلند ہونا چاہئے کہ وہ کسی وقت دنیاوی راحت وآرام کو اتنی اہمیت دیں کہ اس کے خاطر آخرت کے فوائد کو کچھ عرصے کے لئے ہی سہی مؤخر کرنے کی آرزو کرنے لگیں۔ النسآء
78 النسآء
79 48: ان آیتوں میں دو حقیقتیں بیان فرمائی گئی ہیں، ایک یہ کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے حکم سے ہوتا ہے، کسی کو کوئی فائدہ پہنچے تو وہ بھی اللہ کے حکم سے پہنچتا ہے، اور نقصان پہنچے تو وہ بھی اسی کے حکم سے ہوتا ہے، دوسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچانے کا حکم اللہ تعالیٰ کب اور کس بنا پر دیتے ہیں، اس کے بارے میں آیت : ٧٩ نے یہ بتایا ہے کہ جہاں تک کسی کو فائدہ پہنچنے کا تعلق ہے اس کا حقیقی سبب صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے، کیونکہ کسی بھی مخلوق کا اللہ تعالیٰ پر کوئی اجارہ نہیں آتا کہ وہ اسے ضرور فائدہ پہنچائے، اور اگر اس فائدہ کا کوئی ظاہری سبب اس شخص کا کوئی عمل نظر آتا بھی ہو تو اس عمل کی توفیق اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی فضل ہے، اور اس شخص کا کوئی ذاتی استحقاق نہیں ہے، دوسری طرف اگر انسان کو کوئی نقصان پہنچے تو اگرچہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم ہی سے ہوتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ یہ حکم اسی وقت فرماتے ہیں جب اس شخص نے اپنے اختیاری عمل سے کوئی غلطی کی ہو، اب منافقین کا معاملہ یہ تھا کہ جب انہیں کوئی فائدہ پہنچتا تو اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ؛ لیکن کوئی نقصان ہوجاتا تو اسے آنحضرتﷺ کے ذمے لگادیتے تھے، اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ جو نقصان کی ذمہ داری آنحضرتﷺ پر عائد کررہے ہیں اگر اس سے مراد یہ ہے کہ یہ نقصان آنحضرت کے حکم سے ہوا ہے، تو یہ بات بالکل غلط ہے ؛ کیونکہ اس کائنات میں تمام کام اللہ ہی کے حکم سے ہوتے ہیں کسی اور حکم سے نہیں اور اگر ان کا مطلب یہ ہے کہ (معاذاللہ) آنحضرتﷺ کی کوئی غلطی اس کا سبب بنی ہے تو یہ بات بھی غلط ہے، ہر انسان کو خود اس کے اپنے کسی عمل کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے، آنحضرتﷺ کو تو رسول بناکر بھیجا گیا ہے لہذا نہ تو کائنات میں واقع ہونے والے کسی تکوینی واقعے کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے اور نہ آپ فرائض رسالت میں کسی کوتاہی کی مرتکب ہوسکتے ہیں، جس کا خمیازہ آپ کی امت کو بھگتنا پڑے۔ النسآء
80 النسآء
81 النسآء
82 النسآء
83 النسآء
84 النسآء
85 النسآء
86 النسآء
87 النسآء
88 النسآء
89 النسآء
90 النسآء
91 النسآء
92 النسآء
93 النسآء
94 النسآء
95 النسآء
96 النسآء
97 النسآء
98 النسآء
99 النسآء
100 النسآء
101 النسآء
102 النسآء
103 النسآء
104 النسآء
105 النسآء
106 النسآء
107 النسآء
108 النسآء
109 النسآء
110 النسآء
111 النسآء
112 النسآء
113 النسآء
114 النسآء
115 النسآء
116 النسآء
117 النسآء
118 النسآء
119 النسآء
120 النسآء
121 النسآء
122 النسآء
123 النسآء
124 النسآء
125 النسآء
126 النسآء
127 النسآء
128 النسآء
129 النسآء
130 النسآء
131 النسآء
132 النسآء
133 النسآء
134 النسآء
135 النسآء
136 النسآء
137 النسآء
138 النسآء
139 النسآء
140 النسآء
141 النسآء
142 النسآء
143 النسآء
144 النسآء
145 النسآء
146 النسآء
147 النسآء
148 النسآء
149 النسآء
150 النسآء
151 النسآء
152 النسآء
153 النسآء
154 النسآء
155 النسآء
156 النسآء
157 النسآء
158 النسآء
159 النسآء
160 النسآء
161 النسآء
162 النسآء
163 النسآء
164 النسآء
165 النسآء
166 النسآء
167 النسآء
168 النسآء
169 النسآء
170 النسآء
171 النسآء
172 النسآء
173 النسآء
174 النسآء
175 النسآء
176 النسآء
0 المآئدہ
1 1: چوپایہ توہر اس جانور کو کہتے ہیں جو چار ہاتھ پاؤں پر چلتا ہے، لیکن ان میں سے صرف وہ جانور حلال ہیں جو مویشیوں میں شمار ہوتے ہیں، یعنی گائے اونٹ، اور بھیڑ بکری یا پھر ان مویشیوں کے مشابہ ہوں جیسے ہرن نیل گائے وغیرہ۔ 2: ان حرام چیزوں کی طرف اشارہ ہے جن کا ذکر آگے آیت نمبر 3 میں آرہا ہے 3: مویشیوں کے مشابہ جانور مثلاً ہرن وغیرہ اگرچہ حلال ہیں اور ان کا شکار بھی حلال ہے لیکن جب حج یا عمرے کے لئے کسی نے احرام باندھ لیا ہو تو ان جانوروں کا شکار حرام ہوجاتا ہے۔ 4: اس جملے نے ان تمام سوالات اور اعتراضات کی جڑ کاٹ دی ہے جو لوگ محض اپنی محدود عقل کے سہارے شرعی احکام پر عائد کرتے ہیں، مثلاً یہ سوال کہ جانور بھی تو آخر جان رکھتے ہیں، ان کو ذبح کرکے کھانا کیوں جائز کیا گیا جبکہ یہ ایک جاندار کو تکلیف پہنچانا ہے یا مثلاً یہ سوال کہ فلاں جانور کو کیوں حلال کیا گیا اور فلاں جانور کو کیوں حرام قرار دیا گیا ہے؟ آیت کے اس حصے نے اس کا مختصر اور جامع جواب یہ دے دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا خالق ہے وہی اپنی حکمت سے جس بات کا ارادہ فرماتا ہے اس کا حکم دے دیتا ہے، اس کا ہر حکم یقیناً حکمت پر مبنی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ اس کے ہر حکم کی حکمت بندوں کو سمجھ میں بھی آئے، لہذا بندوں کا کام یہ ہے کہ اس کے ہر حکم کو چون وچرا کے بغیر تسلیم کرکے اس پر عمل کریں۔ المآئدہ
2 5: صلح حدیبیہ کے واقعے میں مکہ مکرمہ کے کافروں نے آنحضرتﷺ اور آپ کے صحابہ کرام کو حرم میں داخل ہونے اور عمرہ کرنے سے روکا تھا، مسلمانوں کو طبعی طور پر اس واقعے پر سخت غم وغصہ تھا اور یہ احتمال تھا کہ اس غم وغصہ کی وجہ سے کوئی مسلمان اپنے دشمن سے کوئی ایسی زیادتی کر بیٹھے جو شریعت کے خلاف ہو، اس آیت نے متنبہ کردیا کہ اسلام میں ہر چیز کی حدود مقرر ہیں اور دشمن کے ساتھ بھی کوئی زیادتی کرنا جائز نہیں ہے۔ المآئدہ
3 6: جاہلیت کے زمانے میں ایک طریقہ یہ تھا کہ ایک مشترک اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت قرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم کرتے تھے اور قرعہ اندازی کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ مختلف تیروں پر حصوں کے نام لکھ کر ایک تھیلے میں ڈال دیتے تھے، پھر جس شخص کے نام جو حصہ نکل آیا، اسے گوشت میں سے اتنا حصہ دے دیا جاتا تھا، اور کسی کے نام پر کوئی ایسا تیر نکل آیا جس پر کوئی حصہ مقرر نہیں ہے تو اس کو کچھ بھی نہیں ملتا تھا۔ اسی طرح ایک اور طریقہ یہ تھا کہ جب کسی اہم معاملے کا فیصلہ کرنا ہوتا تو تیروں کے ذریعے فال نکالتے تھے۔ اور اس فال میں جو بات نکل آئے اس کی پیروی لازم سمجھتے تھے۔ ان تمام طریقوں کو آیت کریمہ نے ناجائز قرار دیا ہے، کیونکہ پہلی صورت میں یہ جوا ہے، اور دوسری صورت میں یا علم غیب کا دعویٰ ہے، یا کسی معقول وجہ کے بغیر کسی بات کو لازم سمجھنے کی خرابی ہے۔ بعض حضرات نے آیت کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ : اور یہ بات بھی (تمہارے لیے حرام ہے) کہ تم تیروں سے قسمت کا حال معلوم کرو۔ یہ دوسرے طریقے کی طرف اشارہ ہے اور آیت کے الفاظ میں اس ترجمے کی بھی گنجائش ہے۔ 7: صحیح احادیث میں آیا ہے کہ یہ آیت حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی تھی۔ المآئدہ
4 8: شکاری جانوروں مثلاً شکاری کتوں اور باز وغیرہ کے ذریعے حلال جانوروں کا شکار کرکے انہیں کھانا جن شرائط کے ساتھ جائز ہے ان کا بیان ہورہا ہے، پہلی شرط یہ ہے کہ شکاری جانور کو سدھالیا گیا ہو جس کی علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ جس جانور کا شکار کرے خود نہ کھائے بلکہ اپنے مالک کے لئے روک رکھے، دوسری شرط یہ ہے کہ شکار کرنے والا شکاری کتے کو کسی جانور پر چھوڑتے وقت اللہ کا نام لے یعنی بسم اللہ پڑھے۔ المآئدہ
5 9: کھانے سے یہاں مراد ذبیحہ ہے، اہل کتاب یعنی یہودی اور عیسائی چونکہ جانور کے ذبح میں انہی شرائط کی رعایت رکھتے تھے جو اسلامی شریعت میں مقرر ہیں اور وہ دوسرے غیر مسلموں سے اس معاملے میں ممتاز تھے کہ فی الجملہ آسمانی کتابوں کو مانتے تھے، اس لئے ان کے ذبح کئے ہوئے جانور مسلمانوں کے لئے جائز قرار دئے گئے تھے، بشرطیکہ وہ جانور صحیح شرعی طریقے سے ذبح کریں، اور اس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام نہ لیں، آج کل کے یہودیوں اور عیسائیوں میں ایک بڑی تعداد تو ان لوگوں کی ہے جو درحقیقت دہریے ہیں، خدا ہی کے قائل نہیں ہیں، ایسے لوگوں کا ذبیحہ بالکل جائز نہیں ہے اور ان میں سے بعض اگرچہ عیسائی یا یہودی ہیں مگر اپنے مذہب کے احکام چھوڑے ہوئے ہیں اور ذبح کرنے میں شرعی شرائط کا لحاظ نہیں کرتے، اس لئے ان کا ذبیحہ بھی حلال نہیں ہے۔ اس مسئلے کی پوری تحقیق میرے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب (رح) کی تفسیر معارف القراان اور جواہر الفقہ میں موجود ہے۔ نیز میرا بھی عربی رسالہ احکام الذبائح اسی موضوع پر ہے۔ اس کا انگریزی میں ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ 10: اہل کتاب کی دوسری خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ ان کی عورتوں سے نکاح بھی حلال ہے ؛ لیکن یہاں بھی دو اہم نکتے یاد رکھنے ضروری ہیں، ایک یہ کہ یہ حکم ان یہودی یا عیسائی خواتین کا ہے جو واقعی یہودی یا عیسائی ہوں، جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا مغربی ممالک میں بہت سے لوگ ایسے ہیں مردم شماری کے حساب سے تو انہیں عیسائی یا یہودی گنا گیا ہے ؛ لیکن نہ وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں نہ کسی پیغمبر یا کسی آسمانی کتاب پر، ایسے لوگ اہل کتاب میں شامل نہیں ہیں، نہ انکا ذبیحہ حلال ہے، اور نہ ایسی عورتوں سے نکاح حلال ہے، دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی عورت واقعی یہودی یا عیسائی ہو ؛ لیکن اس بات کا قوی خطرہ ہو کہ وہ اپنے شوہر یا بچوں پر اثر ڈال کر انہیں اسلام سے دور کردے گی توایسی عورت سے نکاح کرنا گناہ ہوگا، یہ اور بات ہے کہ اگر کسی نے نکاح کرلیا تو نکاح منعقد ہوجائے گا اور اولاد حرام نہیں کہا جائے گا، آج کل چونکہ مسلمان عوام میں اپنے دین کی ضروری معلومات اور ان پر عمل کی بڑی کمی ہے اس لئے اس معاملہ میں بہت احتیاط لازم ہے۔ المآئدہ
6 11: ” قضائے حاجت کی جگہ سے آنا“ در حقیقت اس چھوٹی ناپاکی کی طرف اشارہ ہے جس میں انسان پر نماز وغیرہ پڑھنے کے لیے صرف وضو واجب ہوتا ہے اور عورتوں سے ملاپ، اس بڑی ناپاکی کی طرف اشارہ ہے جس کو جنابت کہتا ہے اور جس میں غسل واجب ہوتا ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ جب پانی میسر نہ ہو یا بیماری وغیرہ کی وجہ سے اس کا استعمال ممکن نہ ہو تو ناپاکی چاہے چھوٹی ہو یا بڑی دونوں صورتوں میں تیمم کی اجازت ہے اور دونوں صورتوں میں اسکا طریقہ ایک ہی ہے۔ المآئدہ
7 المآئدہ
8 المآئدہ
9 المآئدہ
10 المآئدہ
11 12: یہ ان مختلف واقعات کی طرف اشارہ ہے جن میں کفار نے مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کے منصوبے بنائے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سب کو خاک میں ملادیا، ایسے واقعات بہت سے ہیں، ان میں سے کچھ واقعات مفسرین نے اس آیت کے تحت بھی ذکر کئے ہیں، مثلاً صحیح مسلم میں روایت ہے کہ مشرکین سے ایک جنگ کے دوران عسفان کے مقام پر آنحصرتﷺ نے ظہر کی نماز تمام صحابہ کو جماعت سے پڑھائی، مشرکین کو پتہ چلا تو ان کو حسرت ہوئی کہ جماعت کے دوران مسلمانوں پر حملہ کرکے انہیں ختم کردینے کا یہ بہترین موقع تھا، پھر انہوں نے منصوبہ بنایا کہ جب یہ حضرات عصر کی نماز پڑھیں گے تو ان پر ایک دم حملہ کردیں گے ؛ لیکن عصر کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے صلاۃ الخوف پڑھی جس میں مسلمان دو حصوں میں تقسیم ہو کر نماز پڑھتے ہیں اور ایک حصہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہتا ہے (اس نماز کا طریقہ پیچھے سورۃ نساء : ١٠٢ میں گزرچکا ہے) چنانچہ مشرکین کا منصوبہ دھرا رہ گیا (روح المعانی) مزیدواقعات کے لئے دیکھئے معارف القرآن۔ المآئدہ
12 13: بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے۔ چنانچہ جب ان سے یہ عہد لیا گیا تو ہر قبیلے کے سردار کو اپنے قبیلے کا نگراں بنایا گیا تاکہ وہ عہد کی پابندی کی نگرانی کریں۔ 14: اچھے قرض یا قرض حسن کا مطلب تو وہ قرض ہے جو کوئی شخص کسی کو اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے دے، لیکن اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دینے کا مطلب یہ ہے کہ کسی غریب کی مدد کی جائے یا کسی اور نیک کام میں پیسے خرچ کئے جائیں۔ المآئدہ
13 15: یعنی اس قسم کی شرارتیں تو ان کی پرانی عادت ہے ؛ لیکن آپ کو فی الحال سارے بنی اسرائیل کو کوئی اجتماعی سزا دینے کا حکم نہیں ہے جب وقت آئے گا اللہ تعالیٰ خود سزا دے گا۔ المآئدہ
14 16: عیسائی مذہب کے ماننے والے مختلف فرقوں میں بٹ گئے تھے اور ان کے مذہبی اختلافات نے دشمنی اور خانہ جنگی کی شکل اختیار کرلی تھی یہ اس خانہ جنگی کی طرف اشارہ ہے۔ المآئدہ
15 17: مطلب یہ ہے کہ یہود ونصاری نے یوں تو اپنی آسمانی کتابوں کی بہت سی باتوں کو چھپا رکھا تھا ؛ لیکن آنحضرتﷺ نے صرف ان باتوں کو ظاہر فرمایا جن کی وضاحت دینی اعتبار سے ضروری تھی، بہت سی باتیں ایسی بھی تھیں جو انہوں نے چھپائی ہوئی تھیں مگر ان کے پوشیدہ رہنے سے کوئی عملی یا اعتقادی نقصان نہیں تھا اور اگر ان کو ظاہر کیا جاتا تو یہود ونصاری کی رسوائی کے سوا کوئی خاص فائدہ نہیں تھا، آنحضرتﷺ نے ایسی باتوں سے درگزر فرمایا ہے اور ان کی حقیقت واضح کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ المآئدہ
16 المآئدہ
17 المآئدہ
18 18: یہ بات یہود ونصاری بھی مانتے تھے کہ وہ محتلف مواقع پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نشانہ بنے ہیں اور ان میں سے بہت سے لوگ اس بات کے بھی قائل تھے کہ آخرت میں بھی کچھ عرصے کے لئے وہ دوزخ میں جائیں گے، لہذا بتانا یہ منظور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسان ایک جیسے پیدا فرمائے ہیں، ان میں کسی خاص نسل کے بارے میں یہ دعوی کرنا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی لاڈلی قوم ہے اور اس کے قوانین سے لازمی طور پر مستثنی ہے بالکل غلط دعوی ہے، اللہ تعالیٰ کے قوانین سب کے لئے برابر ہیں، اس نے کوئی خاص نسل اپنی رحمت کے لئے مخصوص نہیں کی ہے، البتہ وہ اپنی حکمت کے تحت جس کو چاہتا ہے بخش بھی دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اپنے قانون عدل کے تحت سزا بھی دیتا ہے۔ المآئدہ
19 المآئدہ
20 المآئدہ
21 19: مقدس سرزمین سے مراد شام اور فلسطین کا علاقہ ہے ؛ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس علاقے کو انبیاء کرام مبعوث کرنے کے لئے منتخب فرمایا تھا، اس لئے اس کو مقدس فرمایا گیا ہے، جس واقعے کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے وہ مختصراً یہ ہے کہ بنی اسرائیل کا اصل وطن شام اور بالخصوص فلسطین کا علاقہ تھا، فرعون نے مصر میں ان کو غلام بنارکھا تھا، جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرعون اور اس کا لشکر غرق ہوگیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ اب وہ فلسطین میں جاکر آباد ہوں، اس وقت فلسطین پر ایک کافر قوم کا قبضہ تھا جو عمالقہ کہلاتے تھے، لہذا اس حکم کا لازمی تقاضہ یہ تھا کہ بنی اسرائیل فلسطین جاکر عمالقہ سے جہاد کریں مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ بھی کرلیا گیا تھا کہ جہاد کے نتیجے میں تمہیں فتح ہوگی، کیونکہ سرزمین تمہارے مقدر میں لکھ دی گئی ہے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس حکم کی تعمیل میں فلسطین کی طرف روانہ ہوئے، جب فلسطین کے قریب پہنچے توبنی اسرائیل کو پتہ چلا کہ عمالقہ تو بڑے طاقتور لوگ ہیں، دراصل یہ لوگ قوم عاد کی نسل سے تھے اور بڑے زبردست ڈیل ڈول کے مالک تھے، بنی اسرائیل ان کی ڈیل ڈول سے ڈر گئے اور یہ نہ سوچا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت بہت بڑی ہے اور اس نے فتح کا وعدہ کررکھا ہے۔ المآئدہ
22 المآئدہ
23 20: یہ دو صاحبان حضرت یوشع اور حضرت کالب علیہما السلام تھے جو ہر مرحلے پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے وفادار رہے تھے اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت سے بھی سرفراز فرمایا، انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم اللہ پر بھروسہ کرکے آگے بڑھو تو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق تم ہی غالب رہوگے۔ المآئدہ
24 المآئدہ
25 المآئدہ
26 21: بنی اسرائیل کی اس نافرمانی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سزا دی کہ چالیس سال تک فلسطین میں ان کا داخلہ بند کردیا گیا، یہ لوگ صحرائے سینا کے ایک مختصر علاقے میں بھٹکتے رہے، نہ آگے بڑھنے کا راستہ ملتا تھا نہ پیچھے مصر واپس جانے کا، حضرت موسی، حضرت ہارون، حضرت یوشع اور حضرت کالب علیہم السلام بھی ان لوگوں کے ساتھ تھے اور انہی کی برکت اور دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتیں ان پر نازل ہوئیں، جن کا ذکر پیچھے سورۂ بقرہ (آیات ٥٧ تا ٦٠) میں گزرچکا ہے، بادل کے سائے نے انہیں دھوپ سے بچایا، کھانے کے لئے من وسلوی نازل ہوا، پینے کے لئے پتھر سے بارہ چشمے پھوٹے، بنی اسرائیل کے لئے خانہ بدوشی کی یہ زندگی ایک سزا تھی ؛ لیکن ان بزرگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو قلبی راحت کا سامان بنادیا، حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کی یکے بعد دیگرے اسی صحرا میں وفات ہوئی، بعد میں حضرت یوشع (علیہ السلام) پیغمبر بنے اور شام کا کچھ علاقہ ان کی سر کردگی میں اور کچھ حضرت سموئیل (علیہ السلام) کے زمانے میں طالوت کی سر کردگی میں فتح ہوا جس کا واقعہ سورۃ بقرہ (آیات ١٤٢ تا ١٥٢) میں گزرچکا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ سرزمین بنی اسرائیل کے حق میں لکھنے کا جو وعدہ فرمایا تھا وہ پورا ہوا۔ المآئدہ
27 22: پیچھے بنی اسرائیل کی اس نافرمانی کا ذکر تھا کہ جہاد کا حکم آجانے کے باوجود اس سے جان چراتے رہے، اب بتانا یہ مقصود ہے کہ ایک بامقصد جہاد میں کسی کی جان لینا تو نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے ؛ لیکن ناحق کسی کو قتل کرنا بڑا زبردست گناہ ہے، بنی اسرائیل نے جہاد سے تو جان چرائی ؛ لیکن بہت سے بے گنا ہوں کو قتل کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کیا، اس سلسلے میں وہ واقعہ بیان کیا جارہا ہے جو اس دنیا میں سب سے پہلے قتل کی واردات پر مشتمل ہے، اس واقعے میں قرآن کریم نے تو صرف اتنا بتایا ہے کہ آدم (علیہ السلام) کے دوبیٹوں نے کچھ قربانی پیش کی تھی ایک کی قربانی قبول ہوئی دوسرے کی نہ ہوئی اس پر دوسرے کو غصہ آگیا اور اس نے اپنے بھائی کو قتل کرڈالا ؛ لیکن اس قربانی کا کیا پس منظر تھا قرآن کریم نے اس کی تفصیل نہیں بتائی، البتہ مفسرین نے حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اور کچھ دوسرے صحابہ کرام کے حوالے سے ایک واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے دو بیٹے تھے جن میں سے ایک کا نام قابیل تھا اور ایک کا ہابیل، اس وقت چونکہ دنیا کی آبادی صرف حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد پر مشتمل تھی اس لئے ان کی اہلیہ کے ہر حمل میں دو جڑواں بچے پیدا ہوتے تھے ایک لڑکا اور ایک لڑکی، ان دونوں کے درمیان تو نکاح حرام تھا ؛ لیکن ایک حمل میں پیدا ہونے والے لڑکے کا نکاح دوسرے حمل سے پیدا ہونے والی لڑکی سے ہوسکتا تھا، قابیل کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی وہ بڑی خوبصورت تھی ؛ لیکن جڑواں بہن ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ قابیل کا نکاح جائز نہ تھا، اس کے باوجود اس کا اصرار تھا کہ اسی سے نکاح کرے، ہابیل کے لئے وہ لڑکی حرام نہ تھی اس لئے وہ اس کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا تھا، جب دنوں کا یہ اختلاف بڑھا تو فیصلہ اس طرح قرار پایا کہ دونوں کچھ قربانی اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کریں جس کی قربانی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالی اس کا دعوی برحق سمجھاجائے گا ؛ چنانچہ دونوں نے قربانی پیش کی، روایات میں ہے کہ ہابیل نے ایک دنبہ قربان کیا اور قابیل نے کچھ زرعی پیداوار پیش کی، اس وقت قربانی کے قبول ہونے کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے ایک آگ آکر قربانی کو کھاجاتی تھی، ہابیل کی قربانی کو آگ نے کھالیا اور اس طرح اس کی قربانی واضح طور پر قبول ہوگئی اور قابیل کی قربانی وہیں پڑی رہے گئی، جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ قبول نہیں ہوئی، اس پر بجائے اس کے کہ قابیل حق کو قبول کرلیتا حسد میں مبتلا ہو کر اپنے بھائی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہوگیا۔ المآئدہ
28 المآئدہ
29 23: اگرچہ اپنے دفاع کا اگر کوئی اور راستہ نہ ہو تو حملہ آور کو قتل کرنا جائز ہے، لیکن ہابیل نے احتیاط پر عمل کرتے ہوئے اپنا یہ حق استعمال کرنے سے گریز کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنے بچاؤ کا اور ہر طریقہ اختیار کروں گا، مگر تمہیں قتل کرنے کا اقدام نہیں کروں گا، ساتھ ہی اسے یہ جتلادیا کہ اگر تم نے قتل کا ارتکاب کیا تو مظلوم ہونے کی بنا پر میرے گناہوں کی تو معافی کی امید ہے مگر تم پر نہ صرف اپنے گناہوں کا بوجھ ہوگا بلکہ میرے قتل کرنے کی وجہ سے کچھ میرے گناہ بھی تم پر لد جائیں تو بعید نہیں کیونکہ آخرت میں مظلوم کا حق ظالم سے دلوانے کا ایک طریقہ احادیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دے دی جائیں اور نیکیاں کافی نہ ہوں تو مظلوم کے گناہ ظالم ڈال دئے جائیں۔ المآئدہ
30 المآئدہ
31 24: یہ چونکہ کسی کے مرنے کا پہلا واقعہ تھا جو قابیل نے دیکھا اس لئے اسے مردوں کو دفن کرنے کا طریقہ معلوم نہیں تھا، اللہ تعالیٰ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھود کر کسی مردہ کو دفن کررہا تھا، اسے دیکھ کر قابیل کو نہ صرف دفن کرنے کا طریقہ معلوم ہوا ؛ بلکہ پشیمانی بھی ہوئی۔ المآئدہ
32 25: مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کے خلاف قتل کا یہ جرم پوری انسانیت کے خلاف جرم ہے کیونکہ کوئی شخص قتل ناحق کا ارتکاب اسی وقت کرتا ہے جب اس کے دل سے انسان کی حرمت کا حساس مٹ جائے، ایسی صورت میں اگر اس کے مفاد یا سرشت کا تقاضا ہوگا تو وہ کسی اور کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کرے گا، اور اس طرح پوری انسانیت اس کی مجرمانہ ذہنیت کی زد میں رہے گی، نیز جب اس ذہنیت کا چلن عام ہوجائے تو تمام انسان غیر محفوظ ہوجاتے ہیں ؛ لہذا قتل ناحق کا ارتکاب چاہے کسی کے خلاف کیا گیا ہو تمام انسانوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ جرم ہم سب کے خلاف کیا گیا ہے المآئدہ
33 26: پیچھے جہاں انسانی جان کی حرمت کا ذکر تھا وہاں یہ اشارہ بھی کردیا گیا تھا کہ جو لوگ زمین میں فساد مچاتے ہیں ان کی جان کو یہ حرمت حاصل نہیں ہے، اب ان کی مفصل سزا بیان کی جارہی ہے، مفسرین اور فقہاء کا اس بات پر تقریباً اتفاق ہے کہ اس آیت میں ان لوگوں سے مراد وہ ڈاکو ہیں جو اسلحے کے زور پر لوگوں کو لوٹتے ہیں، ان کے بارے میں یہ جو کہا گیا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان قوانین کی بے حرمتی کرتے ہیں اور ان کالوگوں سے لڑنا گویا اللہ اور اس کے رسول سے لڑنا ہے، ان لوگوں کے لئے اس آیت میں چار سزائیں بیان کی گئی ہیں، ان سزاؤں کی تشریح امام ابوحنیفہ (رح) نے یہ فرمائی ہے کہ اگر ان لوگوں نے کسی کو قتل کیا ہو مگر مال لوٹنے کی نوبت نہ آئی ہو تو انہیں قتل کیا جائے گا، مگر یہ قتل کرنا حد شرعی کے طور پر ہوگا قصاص کے طور پر نہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اگر مقتول کو وارث معاف بھی کرنا چاہیں تو ان کی معافی نہیں ہوگی، اور اگر ڈاکوؤں نے کسی کو قتل بھی کیا ہو اور مال بھی لوٹا ہو تو انہیں سولی پر لٹکا کر ہلاک کیا جائے گا، اور اگر مال لوٹا ہو اور کسی کو قتل نہ کیا ہو تو ان کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹا جائے گا، اور اگر انہوں نے لوگوں کو صرف ڈرایا دھمکایا ہو، نہ مال لوٹنے کی نوبت آئی ہو، نہ کسی کو قتل کرنے کی، تو امام ابوحنیفہ (رح) نے أَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ، کی تشریح یہ کی ہے کہ انہیں قید خانے میں بند کردیا جائے گا، یہ تشریح : حضرت عمر (رض) کی طرف بھی منسوب ہے، دوسرے فقہاء نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ انہیں جلا وطن کردیا جائے گا۔ یہاں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم نے ان جرائم کی سزائیں اصولی طور پر بیان فرمائی ہیں نبی کریمﷺ نے احادیث میں تفصیل بیان فرمائی ہے کہ ان سخت سزاؤں پر عمل درآمد کے لئے کیا شرائط ہیں، فقہ کی کتابوں میں یہ ساری تفصیل آئی ہے، یہ شرائط اتنی کڑی ہیں کہ کسی مقدمے میں ان کا پورا ہونا آسان نہیں ؛ کیونکہ مقصد ہی یہ ہے کہ یہ سزائیں کم سے کم جاری ہوں، مگر جب جاری ہوں تو دوسرے مجرموں کے لئے سامان عبرت بن جائیں۔ 27: یہ قرآنی الفاظ کا لفظی ترجمہ ہے۔ امام ابو حنیفہ (رح) نے ” زمین سے دور کرنے“ کی تشریح یہ کی ہے کہ انہیں قید خانے میں بند کردیا جائے گا۔ یہ تشریح حضرت عمر (رض) کی طرف بھی منسوب ہے۔ دوسرے فقہاء نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ انہیں جلا وطن کردیا جائے گا۔ المآئدہ
34 28: مطلب یہ ہے کہ اگر وہ گرفتار ہونے سے پہلے ہی توبہ کرلیں اور اپنے آپ کو حکام کے حوالے کردیں تو ان کی مذکورہ سزائیں معاف ہوجائیں گی، البتہ چونکہ بندوں کے حقوق صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتے اس لئے اگر انہوں نے مال لوٹا ہے تو وہ مالک کو لوٹانا ہوگا، اور اگر کسی کو قتل کیا ہے تو اس کے وارثوں کو حق ملے گا کہ وہ ان کو قصاص کے طور پر قتل کرنے کا مطالبہ کریں، ہاں اگر وہ بھی معاف کردیں یا قصاص کے بدلے خون بہا لینے پر راضی ہوجائیں تو ان کی جان بخشی ہوسکتی ہے۔ المآئدہ
35 29: وسیلہ سے یہاں مراد ہر وہ نیک عمل ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا ذریعہ بن سکے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے نیک اعمال کو وسیلہ بناؤ۔ 30: جہاد کے لفظی معنی کوشش اور محنت کرنے کے ہیں، قرآنی اصطلاح میں اس کے معنی عام طور سے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے دشمنوں سے لڑنے کے آتے ہیں ؛ لیکن بعض مرتبہ دین پر عمل کرنے کے لئے ہر قسم کی کوشش کو بھی جہاد کہا جاتا ہے، یہاں دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں۔ المآئدہ
36 المآئدہ
37 المآئدہ
38 المآئدہ
39 31: ڈاکے کی سزا میں بھی اوپر توبہ کا ذکر آیا تھا، مگر وہاں توبہ کا اثر یہ تھا کہ گرفتاری سے پہلے توبہ کرلینے سے حد کی سزا معاف ہوجاتی تھی، یہاں اس قسم کے الفاظ نہیں ہیں، لہذا امام ابوحنیفہ (رح) کی تشریح کے مطابق چور کی سزا توبہ سے معاف نہیں ہوتی، چاہے وہ گرفتاری سے پہلے توبہ کرلے، یہاں صرف یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اس توبہ کا اثر آخرت میں جاری ہوگا کہ اس کا گناہ معاف کردیا جائے گا، اس کے لئے بھی آیت میں دو شرطیں بیان کی گئی ہیں ایک یہ کہ وہ دل سے شرمندہ ہو کر توبہ کرے اور دوسرے یہ کہ اپنے معاملات درست کرلے، اس میں یہ بات بھی داخل ہے کہ جن جن کا سامان چرایا تھا ان کو وہ سامان واپس کرے الا یہ کہ وہ معاف کردیں۔ المآئدہ
40 المآئدہ
41 32: یہاں سے آیت نمبر : ٥٠ تک کی آیتیں کچھ خاص واقعات کے پس منظر میں نازل ہوئی ہیں، جن میں کچھ یہودیوں نے اپنے کچھ جھگڑے اس امید پر آنحضرتﷺ کے پاس لانے کا ارادہ کیا تھا کہ آپ ان کا فیصلہ ان کی خواہش کے مطابق کریں گے، ان میں سے ایک واقعہ تو یہ تھا کہ خیبر کے دو شادی شدہ یہودی مرد و عورت نے زنا کرلیا تھا، جس کی سزا خود تورات میں یہ مقرر تھی کہ ایسے مرد و عورت کو سنگسار کرکے ہلاک کیا جائے، یہ سزا موجودہ تورات میں بھی موجود ہے (دیکھئے استثناء : ٢٢، ٢٣، ٢٤) لیکن یہودیوں نے اس کو چھوڑکر کوڑوں اور منہ کالا کرنے کی سزا مقرر کررکھی تھی، شاید وہ یہ چاہتے تھے کہ اس سزا میں بھی کمی ہوجائے اس لئے انہوں نہ یہ سوچا کہ آنحضرتﷺ کی شریعت میں بہت سے احکام تورات کے احکام کے مقابلے میں نرم ہیں، اس لئے اگر آپ سے فیصلہ کرایاجائے تو شاید آپ کوئی نرم فیصلہ کریں اور یہ مرد و عورت سنگساری کی سزا سے بچ جائیں، اس غرض کے لئے خیبر کے یہودیوں نے مدینہ منورہ میں رہنے والے کچھ یہودیوں کو جن میں سے کچھ منافق بھی تھے، ان مجرموں کے ساتھ آنحضرتﷺ کی خدمت میں بھیجا، مگر ساتھ ہی انہیں یہ تاکید کی کہ اگر آپ سنگساری کے سوا کوئی اور فیصلہ کریں تو اسے قبول کرلینا اور اگر سنگساری کا فیصلہ کریں تو قبول مت کرنا، چنانچہ یہ لوگ آپ کے پاس آئے، آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتادیا گیا تھا کہ اس کی سزا سنگساری ہے، جسے سن کر وہ بوکھلاگئے، آپ نے انہی سے پوچھا کہ تورات میں اس کی سزا کیا ہے، شروع میں انہوں نے چھپانے کی کوشش کی مگر آخر میں جب آپ نے ان کے ایک بڑے عالم ابن صوریا کو قسم دی اور حضرت عبداللہ بن سلام (رض) جو پہلے خود یہودی عالم تھے ان کا پول کھول دیا تو وہ مجبور ہوگیا اور اس نے تورات کی وہ آیت پڑھ دی جس میں زنا کی سزا سنگساری بیان کی گئی تھی، اور یہ بھی بتایا کہ تورات کا حکم تو یہی تھا مگر ہم میں سے غریب لوگ یہ جرم کرتے تو یہ سزا ان پر جاری کی جاتی تھی اور کوئی مال دار یا باعزت گھرانے کا آدمی یہ جرم کرتا تو اسے کوڑوں وغیرہ کی سزا دے دیا کرتے تھے، پھر رفتہ رفتہ سبھی کے لئے سنگساری کی سزا کو چھوڑدیا گیا، اس قسم کا ایک دوسرا واقعہ بھی پیش آیا تھا جس کی تفصیل نیچے آیت نمبر ٤٥ کی تشریح : میں آرہی ہے۔ 33: یعنی یہودیوں کے پیشوا جو جھوٹی بات تورات کی طرف منسوب کر کے بیان کردیتے ہیں، اور وہ ان کی خواہشات کے مطابق ہوتی ہے تو یہ اسے بڑے شوق سے سنتے اور اس پر یقین کرلیتے ہیں، چاہے وہ تورات کے صاف اور صریح احکام کے خلاف ہو اور یہ لوگ جانتے ہوں کہ ان کے پیشواؤں ن نے رشوت لے کر یہ بات بیان کی ہے۔ 34: اس سے ان یہودیوں کی طرف اشارہ ہے جو خود تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نہیں آئے، لیکن ان یہودیوں اور منافقوں کو آپ کے اس بھیج دیا۔ جو لوگ آئے تھے وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات اس لیے سننے آئے تھے کہ آپ کا موقف سننے کے بعد ان لوگوں کو مطلع کریں جنہوں نے ان کو بھیجا تھا۔ 35: چونکہ یہ دنیا آزمائش ہی کے لئے بنائی گئی ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ کسی ایسے شخص کو زبردستی راہ راست پر لاکر اس کے دل کو پاک نہیں کرتا جو ضد پر اڑ ہوا ہو، یہ پاکیزگی انہی کو عطا ہوتی ہے جو حق کی طلب رکھتے ہوں اور خلوص کے ساتھ اسے قبول کریں۔ المآئدہ
42 36: یہاں حرام سے مراد وہ رشوت ہے جس کی خاطر یہودی پیشوا تورات کے احکام میں تبدیلیاں کردیتے تھے۔ 37: جو یہودی فیصلہ کرانے آئے تھے ان سے جنگ بندی کا معاہدہ تو تھا مگر وہ باقاعدہ اسلامی حکومت کے شہری نہیں تھے، اس لئے آپ کو یہ اختیار دیا گیا کہ چاہیں تو ان کا فیصلہ کردیں اور چاہیں توانکار فرمادیں، ورنہ جو غیر مسلم اسلامی حکومت کے باقاعدہ شہری بن جائیں ملک کے عام قوانین میں ان کا فیصلہ بھی اسلامی شریعت کے مطابق ہی کرنا ضرری ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے البتہ ان کے خاص مذہبی قوانین جو نکاح طلاق اور وراثت وغیرہ سے متعلق ہیں ان میں انہی کے مذہب کے مطابق فیصلہ انہی کے ججوں کے ذریعے کروایا جاتا ہے۔ المآئدہ
43 38: اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ تورات کے احکام سے منہ موڑلیتے ہیں اور یہ بھی کہ حضور اقدسﷺ سے فیصلے کی درخواست کرنے کے باجود جب آپ فیصلہ سناتے ہیں تو اس سے منہ موڑلیتے ہیں۔ المآئدہ
44 المآئدہ
45 39: دوسرا واقعہ ان آیات کے پس منظر میں یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں یہودیوں کے دو قبیلے آباد تھے، ایک بنو قریظہ اور دوسرے بنو نضیر، بنو نضیرکے لوگ مال دار تھے، اور بنو قریظہ کے لوگ مالی اعتبار سے ان کے مقابلے میں کمزور تھے، اگرچہ دونوں یہودی تھے مگر بنو نضیر نے ان کی کمزوری سے فائدہ اٹھاکر ان سے یہ ظالمانہ اصول طے کرالیا تھا کہ اگر بنو نضیر کا کوئی آدمی بنو قریظہ کے کسی شخص کو قتل کرے گا توقاتل سے جان کے بدلے جان کے اصول پر قصاص نہیں لیا جائے گا بلکہ وہ خوں بہا کے طور پر ستر وسق کھجوریں دے گا (وسق ایک پیمانہ تھا جو تقریباً پانچ من سیر کا ہوتا تھا) اور اگر بنو قریظہ کا کوئی آدمی بنو نضیر کے کسی شخص کو قتل کرے گا تونہ صرف یہ کہ قاتل قصاص میں قتل کیا جائے گا بلکہ خوں بہا بھی لیا جائے گا اور وہ بھی دگنا، جب آنحضرتﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے توایک واقعہ ایسا پیش آیا کہ قریظہ کے کسی شخص نے بنو نضیر کے ایک آدمی کو قتل کردیا، بنو نضیر نے جب اپنی سابق قرارداد کے مطابق قصاص اور خوں بہا دونوں کا مطالبہ کیا توقریظہ کے لوگوں نے اسے انصاف کے خلاف قرار دیا اور تجویز پیش کی کہ فیصلہ آنحضرتﷺ سے کرایا جائے ؛ کیونکہ اتنا وہ بھی جانتے تھے کہ آپ کا دین انصاف کا دین ہے، جب قریظہ کے لوگوں نے زیادہ اصرار کیا توبنو نضیر نے کچھ منافقین کو مقرر کیا کہ وہ آنحضرتﷺ سے غیر رسمی طور پر آپ کا عندیہ معلوم کریں اور اگر آپ کا عندیہ بنو نضیر کے حق میں ہو تو فیصلہ ان سے کرائیں ورنہ ان سے فیصلہ نہ لیں، اس پس منظر میں یہ آیت بتارہی ہے کہ تورات نے تو واضح طور پر فیصلہ دیا ہوا ہے کہ جان کے بدلے جان لینی ہے اور اس لحاظ سے بنو نضیر کا مطالبہ سراسر ظالمانہ اور تورات کے خلاف ہے۔ المآئدہ
46 المآئدہ
47 المآئدہ
48 40: یہودی اور عیسائی آنحضرتﷺ کی دعوت قبول کرنے سے جو انکار کرتے تھے اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اسلام میں عبادت کے طریقے اور بعض دوسرے احکام حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی شریعت سے مختلف تھے اور ان لوگوں کو ان نئے احکام پر عمل کرنا بھاری معلوم ہوتا تھا، اس آیت نے واضح فرمایا کے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت مختلف پیغمبروں کو الگ الگ شریعتیں عطا فرمائی ہیں، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عبادت کا کوئی ایک طریقہ یا کوئی ایک قانون اپنی ذات میں کوئی تقدس نہیں رکھتا، اس میں جو کچھ تقدس پیدا ہوتا ہے وہ اللہ کے حکم سے پیدا ہوتا ہے، لہذا جس زمانے میں اللہ تعالیٰ جو حکم دے دیں وہی اس زمانے میں تقدس کا حامل ہے، اب ہوتا یہ ہے کہ جو لوگ ایک طریقے کے عادی ہوجاتے ہیں وہ اسی کو ذاتی طور پر مقدس سمجھ بیٹھتے ہیں، اور جب کوئی نیا پیغمبر نئی شریعت لے کر آتا ہے تو ان کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ پرانے طریقے کو ذاتی طور پر مقدس سمجھ کر نئے طریقے کا انکار کر بیٹھتے ہیں یا اللہ کے حکم کو اصل تقدس کا حامل سمجھ کر نئے حکم کو دل وجان سے تسلیم کرتے ہیں، آگے جو ارشاد فرمایا گیا ہے کہ لیکن (تمہیں الگ شریعتیں اس لئے دیں) تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے اس کا یہی مطلب ہے۔ المآئدہ
49 41: یہ حکم اس صورت میں ہے جب غیر مسلم لوگ اسلامی حکومت کے باقاعدہ شہری بن جائیں جن کو فقہی اصطلاح میں ذمی کہا جاتا ہے یا اس صورت میں جب وہ اپنی رضامندی سے اپنا فیصلہ مسلمان قاضی سے کروانا چاہیں، ایسی صورت میں مسلمان قاضی عام ملکی قوانین میں فیصلہ اسلامی شریعت کے مطابق کرے گا، البتہ ان کے خالص مذہبی معاملات عبادات، نکاح، طلاق اور وراثت میں انہیں اپنے مذہب کے مطابق فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہوگا مگر یہ فیصلہ انہی کے افراد کریں گے۔ 42: بعض گناہ اس لیے فرمایا کہ تمام گناہوں کی سزا تو آخرت میں ملنی ہے۔ البتہ اللہ اور رسول کے فیصلے سے منہ موڑنے کی سزا ان کو دنیا میں بھی ملنے والی ہے۔ چنانچہ کچھ عرصہ بعد ان کی عہد شکنی اور سازوں کے نتیجے میں ان کو جلا وطنی اور قتل کی سزائیں دنیا ہی میں مل گئیں۔ المآئدہ
50 المآئدہ
51 43: اس آیت کی تشریح اور غیر مسلموں سے تعلقات کی حدود کی تفصیل دیکھئے سورۃ آل عمران (28:3) کا حاشیہ۔ المآئدہ
52 44: یہ منافقین کا ذکر ہے جو یہود و نصاریٰ سے ہر وقت گھلے ملے رہتے اور ان کی سازشوں میں شریک رہتے تھے، اور جب ان پر اعتراض ہوتا تو وہ جواب دیتے کہ اگر ہم ان سے تعلقات نہ رکھیں گے تو ان کی طرف سے ہمیں تنگ کیا جائے گا اور ہم کسی مصیبت میں گرفتار ہو سکتے ہیں۔ اور ان کے دل میں یہ نیت ہوتی تھی کہ کسی وقت مسلمان ان کے ہاتھوں مغلوب ہوجائیں گے تو ہمیں بالآخر انہی سے واسطہ پڑے گا۔45: ” کوئی اور بات ظاہر کرنے“ سے مراد غالباً یہ ہے کہ ان کے پول وحی کے ذریعے کھول دئیے جائیں ان کی رسوائی ہو۔ المآئدہ
53 المآئدہ
54 المآئدہ
55 المآئدہ
56 المآئدہ
57 المآئدہ
58 المآئدہ
59 المآئدہ
60 المآئدہ
61 المآئدہ
62 المآئدہ
63 المآئدہ
64 46: جب مدینہ منورہ کے یہودیوں نے آنحضرتﷺ کی دعوت کو قبول نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو تنبیہ کے طور پر کچھ عرصے کے لئے معاشی تنگی میں مبتلا کردیا، اس موقع پر بجائے اس کے کہ وہ ہوش میں آتے ان کے بعض سرداروں نے یہ گستاخانہ جملہ کہا، ہاتھ کا بندھا ہونا عربی میں بخل اور کنجوسی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لہذا ان کا مطلب یہ تھا کہ معاذاللہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ بخل کا معاملہ کیا ہے، حالانکہ بخل کی صفت تو خود ان کی مشہور ومعروف تھی اس لئے فرمایا گیا کہ ہاتھ تو خود ان کے بندھے ہوئے ہیں۔ 47: یہ یہودیوں کی ان سازشوں کی طرف اشارہ ہے جو وہ مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ مل کر کرتے رہتے تھے، اگرچہ انہوں نے آنحضرتﷺ سے جنگ بندی کا معاہدہ کررکھا تھا ؛ لیکن درپردہ اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ مسلمانوں پر کوئی حملہ ہو اور وہ اس میں شکست کھائیں، مگر اللہ تعالیٰ ہر موقع پر ان کی سازش کو ناکام بنادیتے تھے۔ المآئدہ
65 المآئدہ
66 المآئدہ
67 المآئدہ
68 المآئدہ
69 48: یہی مضمون سورۃ بقرہ کی آیت 62 (62:2) میں گذرا ہے۔ اس کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔ المآئدہ
70 المآئدہ
71 المآئدہ
72 المآئدہ
73 49: یہ عیسائیوں کے عقیدۂ تثلیث کی طرف اشارہ ہے، اس عقیدے کا مطلب یہ ہے کہ خدا تین اقانیم (presons) کا مجموعہ ہے، ایک باپ (یعنی اللہ) ایک بیٹا (یعنی حضرت مسیح علیہ السلام) اور ایک روح القدس اور بعض فرقے اس بات کے بھائی قائل تھے کہ تیسری حضرت مریم (رض) ہیں وہ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ تینوں مل کر ایک ہیں، یہ تینوں مل کر ایک کس طرح ہیں، اس معمے کا کوئی معقول جواب کسی کے پاس نہیں ہے، اس لئے ان کے متکلمین (theologians) نے اس عقیدے کی مختلف تعبیریں اختیار کی ہیں۔ بعض نے تو یہ کہا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) صرف خدا تھے انسان نہیں تھے، آیت نمبر ٧٢ میں ان کے عقیدے کو کفر قرار دیا گیا ہے، اور بعض لوگ یہ کہتے تھے کہ خدا تین اقانیم کا مجموعہ ہے، ان میں سے ایک باپ یعنی اللہ ہے دوسرا بیٹا ہے جو اللہ کی ایک صفت ہے جو انسانی وجود میں حلول کرکے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شکل میں آگئی تھی، لہذا وہ انسان بھی تھے اور اپنی اصل کے اعتبار سے خدا بھی تھے، آیت نمبر ٧٣ میں اس عقیدے کی تردید کی گئی ہے، عیسائیوں کے ان عقائد کی تفصیل اور ان کی تردید کے لئے دیکھئے راقم الحروف کی کتاب عیسائیت کیا ہے۔ المآئدہ
74 المآئدہ
75 50: صدیقہ صدیق کا مونث کا صیغہ ہے، اس کے لفظی معنی ہیں بہت سچا، یا راست باز، اصطلاح میں صدیق عام طور سے ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی پیغمبر کا افضل ترین متبع ہوتا ہے اور نبوت کے بعد یہ سب سے اونچا مرتبہ ہے۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کی والدہ ماجدہ حضرت مریم علیہا السلام دونوں کے بارے میں یہاں قرآن کریم نے یہ حقیقت جتلائی ہے کہ وہ کھانا کھاتے تھے۔ کیونکہ تنہا یہ حقیقت اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ وہ خدا نہیں تھے۔ ایک معمولی سمجھ کا شخص بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ خدا تو وہی ذات ہو سکتی ہے جو ہر قسم کی بشری حاجتوں سے بے نیاز ہو۔ اگر خدا بھی کھانا کھانے کا محتاج ہو تو وہ خدا کیا ہوا۔ 51: قرآن کریم نے یہاں مجہول کا صیغہ استعمال کیا ہے، اس لیے ترجمہ یہ نہیں کیا کہ ” وہ اوندھے منہ کہاں جا رہے ہیں“۔ بلکہ ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ ” انہیں اوندھے منہ کہاں لیجایا جا رہا ہے“ اور بظاہر مجہول کا یہ صیغہ استعمال کرنے سے اشارہ اس طرف مقصود ہے کہ ان کی نفسانی خواہشات اور ذاتی مفادات ہیں جو انہیں الٹا لے جا رہے ہیں۔ واللہ سبحانہ اعلم۔ المآئدہ
76 52: حضرت مسیح (علیہ السلام) اگرچہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبر تھے، لیکن کسی کو نفع یا نقصان پہنچانے کی ذاتی صلاحیت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اگر وہ کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں تو صرف اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی مشیت سے پہنچا سکتے ہیں۔ المآئدہ
77 53: ” غلو“ کا مطلب ہے کسی کام میں اس کی معقول حدود سے آگے بڑھ جانا۔ عیسائیوں کا غلو یہ تھا کہ وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعظیم میں اتنے آگے بڑھ گئے کہ انہیں خدا قرار دے دیا، اور یہودیوں کا غلو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے محبت کا جو اظہار کیا تھا اس کی بنا پر یہ سمجھ بیٹھے کہ دنیا کے دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر بس وہی اللہ کے چہیتے ہیں اور اس وجہ سے وہ جو چاہیں کریں، اللہ تعالیٰ ان سے ناراض نہیں ہوگا، نیز ان میں سے بعض نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا قرار دے لیا تھا۔ المآئدہ
78 54: یعنی اس لعنت کا ذکر زبور میں بھی تھا جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی اور انجیل میں بھی تھا جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر اتری تھی۔ المآئدہ
79 المآئدہ
80 55: یہ ان یہودیوں کی طرف اشارہ ہے جو مدینہ منورہ میں آباد تھے اور انہوں نے حضور نبی کریمﷺسے معاہدہ بھی کیا ہوا تھا، اس کے باوجود انہوں نے درپردہ مشرکین مکہ سے دوستیاں گانٹھی ہوئی تھیں، اور ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہتے تھے، بلکہ ان کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے ان سے یہ تک کہہ دیتے تھے کہ ان کا مذہب مسلمانوں کے مذہب سے اچھا ہے۔ المآئدہ
81 المآئدہ
82 56:: مطلب یہ ہے کہ عیسائیوں میں چونکہ بہت سے لوگ دنیا کی محبت سے خالی ہیں، اس لئے ان میں قبول حق کا مادہ زیادہ ہے اور کم از کم انہیں مسلمانوں سے اتنی سخت دشمنی نہیں ہے، کیونکہ دنیا کی محبت وہ چیز ہے جو انسان کو حق کے قبول کرنے سے روکتی ہے، اس کے برعکس یہودیوں اور مشرکین مکہ پر دنیا پرستی غالب ہے، اس لئے وہ سچے طالب حق کا طرز عمل اختیار نہیں کرپاتے، عیسائیوں کے نسبۃً نرم دل ہونے کی دوسری وجہ قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ تکبر نہیں کرتے ؛ کیونکہ انسان کی انا بھی اکثر حق قبول کرنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے، عیسائیوں کو جو مسلمانوں سے محبت میں قریب تر فرمایا گیا ہے اسی کا اثر یہ تھا کہ جب مشرکین مکہ نے مسلمانوں پر ظلم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تو بہت سے مسلمانوں نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس پناہ لی، اور نہ صرف نجاشی بلکہ اس کی رعایا نے بھی ان کے ساتھ بڑے اعزاز واکرام کا معاملہ کیا ؛ بلکہ جب مشرکین مکہ نے اپنا ایک وفد نجاشی کے پاس بھیجا اور اس سے درخواست کی کہ جن مسلمانوں نے اس کے ملک میں پناہ لی ہے انہیں اپنے ملک سے نکال کرواپس مکہ مکرمہ بھیج دے تاکہ مشرکین ان کو اپنے ظلم کا نشانہ بناسکیں، تو نجاشی نے مسلمانوں کو بلا کر ان سے ان کا موقف سنا اور مشرکین مکہ کا مطالبہ ماننے سے انکار کردیا اور جو تحفے انہوں نے بھیجے تھے وہ واپس کردئے ؛ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ عیسائیوں کو جو مسلمانوں سے قریب تر کہا گیا ہے یہ ان عیسائیوں کی اکثریت کے اعتبار سے کہا گیا ہے جو اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے دنیا کی محبت سے دور ہوں اور ان میں تکبر نہ پایا جاتا ہو ؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر زمانے کے عیسائیوں کا یہی حال ہے ؛ چنانچہ تاریخ میں ایسی بہت مثالیں ہیں جن میں عیسائیوں نے مسلمانوں کے ساتھ بدترین معاملہ کیا۔ المآئدہ
83 57: جب مسلمانوں کو حبشہ سے نکالنے کا مطالبہ لے کر مشرکین مکہ کا وفد نجاشی کے پاس آیا تھا تو اس نے مسلمانوں کو اپنے دربار میں بلاکر ان کا موقف سنا تھا، اس موقع پر آنحضرتﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر ابن ابی طالب نے اس کے دربار میں بڑی مؤثر تقریر کی تھی جس سے نجاشی کے دل میں مسلمانوں کی عظمت اور محبت بڑھ گئی اور اسے اندازہ ہوگیا کہ آنحضرتﷺ وہی آخری نبی ہیں جن کی پیشینگوئی تورات اور انجیل میں کی گئی تھی، چنانچہ جب آنحضرتﷺ مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو نجاشی نے اپنے علماء اور راہبوں کا ایک وفد آپ کی خدمت میں بھیجا، آنحضرتﷺ نے ان کے سامنے سورۂ یسین کی تلاوت فرمائی جسے سن کر ان لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے کہا کہ یہ کلام اس کلام کے بہت مشابہ ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوا تھا، چنانچہ سب لوگ مسلمان ہوگئے اور جب یہ واپس حبشہ گئے تو نجاشی نے بھی اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا، ان آیات میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ المآئدہ
84 المآئدہ
85 المآئدہ
86 المآئدہ
87 58: جس طرح حرام چیزوں کو حلال سمجھنا گناہ ہے، اسی طرح جو چیزیں اللہ نے حلال کی ہیں ان کو حرام سمجھنا بھی بڑا گناہ ہے، مشرکین مکہ اور یہودیوں نے ایسی بہت سی چیزوں کو اپنے اوپر حرام کررکھا تھا جس کی تفصیل انشاء اللہ سورۂ انعام میں آئے گی۔ المآئدہ
88 المآئدہ
89 59: لغو قسموں سے مراد ایک تو وہ قسمیں ہیں جو قسم کھانے کے ارادے کے بغیر محض محاورے اور تکیۂ کلام کے طور پر کھالی جاتی ہیں، اور دوسرے وہ قسمیں بھی لغو کی تعریف میں داخل ہیں جو ماضی کے کسی واقعے پر سچ سمجھ کر کھالی گئی ہوں، مگر بعد میں معلوم ہو کہ جس بات کو سچ سمجھا تھا وہ سچ نہیں تھی، اس قسم کی قسموں پر نہ کوئی گناہ ہوتا ہے اور نہ کوئی کفارہ واجب ہوتا ہے البتہ بلا ضرورت قسم کھانا کوئی اچھی بات نہیں ہے، اس لئے ایک مسلمان کو اس سے احتیاط کرنی چاہئے۔ 60: اس سے مراد وہ قسم ہے جس میں آئندہ زمانے میں کوئی کام کرنے یا نہ کرنے کا عہد کیا گیا ہو، ایسی قسم کو توڑنا عام حالات میں بڑا گناہ ہے، اور اگر کوئی شخص ایسی قسم توڑدے تو اس کا کفارہ بھی واجب ہے جس کی تفصیل آیت میں بیان فرمائی گئی ہے۔ ایک تیسری قسم کی قسم وہ ہے جس میں ماضی کے کسی واعے پر جان بوجھ کو جھوٹ بولا گیا ہو، اور مخاطب کو یقین دلانے کے لیے قسم کھالی گئی ہو۔ ایسی قسم سخت گناہ ہے، مگر دنیا میں اس کا کوئی کفار سوائے توبہ اور استغفار کے کچھ نہیں ہوتا۔ 61: مطلب یہ ہے کہ قسم کھا لینا کوئی مذاق نہیں ہے اس لیے اول تو قسمیں کم سے کم کھانی چاہئیں، اور اگر کوئی قسم کھالی ہو تو حتی الامکان اسے پورا کرنا ضروری ہے۔ البتہ اگر کسی شخص نے کوئی ناجائز کام کرنے کی قسم کھالی ہو تو اس پر واجب ہے کہ قسم کو توڑے اور کفارہ ادا کرے۔ اسی طرح اگر کسی جائز کام کی قسم کھائی، مگر بعد میں اندازہ ہوا کہ وہ کام مصلحت کے خلاف ہے، تب بھی ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دہدایت فرمائی ہے کہ ایسی قسم کو توڑ دینا چاہئے۔ اور کفارہ ادا کرنا چاہئے۔ المآئدہ
90 62: بتوں کے تھان سے مراد وہ قربان گاہ ہے جو بتوں کے سامنے بنا دی جاتی تھی اور لوگ بتوں کے نام پر وہاں جانور وغیرہ قربان کیا کرتے تھے۔ اور جوے کے تیروں کی تشریح اسی سورت کے شروع میں آیت نمبر 3 کے تحت حاشیہ نمبر 6 میں گذر چکی ہے۔ المآئدہ
91 المآئدہ
92 المآئدہ
93 63: جب شراب کی حرمت نازل ہوئی تو بعض صحابہ کرام کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جو شراب حرمت کا حکم آنے سے پہلے پی گئی ہے کہیں وہ ہمارے لئے گناہ کا سبب نہ بنے، اس آیت نے یہ غلط فہمی دور کردی اور یہ بتادیا کہ چونکہ اس وقت اللہ تعالیٰ نے شراب پینے سے صاف الفاظ میں منع نہیں کیا تھا، اس لئے اس وقت جنہوں نے شراب پی تھی اس پر ان کی کوئی پکڑ نہیں ہوگی۔ 64: احسان کے لغوی معنی ہیں اچھائی کرنا۔ اس طرح یہ لفظ ہر نیکی کو شامل ہے، لیکن ایک صحیح حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی یہ تشریح فرمائی ہے کہ انسان اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے وہ اس کو دیکھ رہا ہے، یا کم از کم اس تصور کے ساتھ کرے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کے سامنے ہونے کا دھیان رکھے۔ المآئدہ
94 65: جیسا کے اگلی آیت میں آرہا ہے جب کوئی شخص حج یا عمرے کا احرام باندھ لے تو اس کے لئے خشکی کے جانوروں کا شکار کرنا حرام ہوجاتا ہے، عرب کے صحراؤں میں شکار کا مل جانا مسافروں کے لئے ایک نعمت تھی، اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ احرام باندھنے والوں کی آزمائش کے لئے اللہ تعالیٰ کچھ جانوروں کو ان کے اتنا قریب بھیج دے گا کہ وہ ان کے نیزوں کی زد میں ہوں گے، اس طرح ان کا امتحان لیاجائے گا کہ کیا وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں اس نعمت سے پرہیز کرتے ہیں ؟ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے ایمان کا اصل امتحان اسی وقت ہوتا ہے جب اس کا دل کسی ناجائز کام کے لئے مچل رہا ہو، اور وہ اس وقت اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اس ناجائز کام سے باز آجائے۔ المآئدہ
95 66: اگر کوئی شخص احرام کی حالت میں شکار کرنے کا گناہ کرلے تو اس کا کفارہ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس جانور کا شکار کیا ہے اگر وہ جانور حلال ہو تو اسی علاقے کے دو تجربے کار دین دار آدمیوں سے اس جانور کی قیمت لگائی جائے، پھر چوپایوں یعنی گائے بیل بکری وغیرہ میں سے اس قیمت کے کسی جانور کی قربانی حرم میں کردی جائے یا اس کی قیمت فقراء میں تقسم کردی جائے، اور اگر کسی ایسے جانور کا شکار کیا تھا جو حلال نہیں ہے مثلاً بھیڑیا تو اس کی قیمت ایک بکری سے زیادہ نہیں سمجھی جائے گی، اور اگر کسی شخص کو مالی اعتبار سے قربانی دینے یا قیمت فقراء میں تقسیم کرنے کی گنجائش نہ ہو تو وہ روزے رکھے روزوں کا حساب اس طرح ہوگا کہ اس جانور کی جو قیمت بنی تھی اس میں سے پونے دو سیر گندم کی قیمت کے برابر ایک روزہ سمجھا جائے گا، آیت کی یہ تشریح : امام ابوحنیفہ (رح) کے مذہب کے مطابق ہے، ان کے نزدیک اس جانور کے برابر چوپایوں میں سے کسی جانور کا مطلب یہ ہے کہ پہلے شکار کئے ہوئے جانور کی قیمت لگائی جائے، پھر اس قیمت کا کوئی چوپایہ حرم میں ذبح کیا جائے، تفصیل فقہ کی کتابوں میں درج ہے۔ المآئدہ
96 المآئدہ
97 67: کعبے شریف اور حرمت والے مہینے کا باعث امن ہونا تو ظاہر ہے کہ اس میں جنگ کرنا حرام ہے، اس کے علاوہ جو جانور نذرانے کے طور پر حرم لے جائے جاتے تھے ان کے گلے میں پٹے ڈال دئے جاتے تھے تاکہ ہر دیکھنے والے کو پتہ چل جائے کہ یہ جانور حرم جارہے ہیں ؛ چنانچہ کافر، مشرک، ڈاکو بھی ان کو چھیڑتے نہیں تھے، کعبے کے قیام امن کا باعث ہونے کے ایک معنی کچھ مفسرین نے یہ بھی بیان فرمائے ہیں کہ جب تک کعبہ شریف قائم رہے گا قیامت نہیں آئے گی، قیامت اس وقت آئے گی جب اسے اٹھالیا جائے گا۔ المآئدہ
98 المآئدہ
99 المآئدہ
100 68: اس آیت نے بتادیا ہے کہ دنیا میں بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی ناپاک یا حرام چیز کا رواج اتنا بڑھ جاتا ہے کہ وہ وقت کا فیشن قرار پا جاتا ہے، اور فیشن پرست لوگ اسے اچھا سمجھنے لگتے ہیں، مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ صرف کسی چیز کے عام رواج کی وجہ سے اسے اختیار نہ کریں ؛ بلکہ یہ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی ہدایات کی روشنی میں وہ جائز یا پاک ہے یا نہیں۔ المآئدہ
101 69: مطلب یہ ہے کہ اول تو جن باتوں کی کوئی خاص ضرورت نہ ہو ان کی کھوج میں پڑنا فضول ہے، دوسرے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض اوقات کوئی حکم مجمل طریقے سے آتا ہے اگر اس حکم پر اسی اجمال کے ساتھ عمل کرلیا جائے تو کافی ہے، اگر اللہ تعالیٰ کو اس میں مزید تفصیل کرنی ہوتی تو وہ خود قرآن کریم یا نبی کریمﷺ کی سنت کے ذریعے کردیتا، اب اس میں بال کی کھال نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، ساتھ ہی یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اگر نزول قرآن کے زمانے میں اس کا کوئی سخت جواب آجائے تو خود تمہارے لئے مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں، چنانچہ اس آیت کے شان نزول میں ایک واقعہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب حج کا حکم آیا اور آنحضرتﷺ نے لوگوں کو بتایا تو ایک صحابی نے آپ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ کیا حج عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ فرض ہے یا ہر سال کرنا فرض ہے؟ آنحضرتﷺ نے اس سوال پر ناگواری کا اظہار فرمایا، وجہ یہ تھی کہ حکم کے بارے میں اصل یہی ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے خود یہ صراحت نہ کی جائے کہ اس پر با ربار عمل کرنا ہوگا (جیسے نماز روزے اور زکوۃ میں یہ صراحت موجود ہے) اس وقت تک اس پر صرف ایک بار عمل کرنے سے حکم کی تعمیل ہوجاتی ہے اس لئے اس سوال کی کوئی ضرورت نہیں تھی، آپﷺ نے صحابی سے فرمایا کہ اگر میں تمہارے جواب میں یہ کہہ دیتا کہ ہاں ہر سال فرض ہے تو واقعی پوری امت پر وہ ہر سال فرض ہوجاتا۔ المآئدہ
102 70: اس سے غالباً یہودیوں کی طرف اشارہ ہے جو شریعت کے احکام میں اسی قسم کی بال کی کھال نکالتے تھے، اور جب ان کے اس عمل کے نتیجے میں ان پر پابندیاں بڑھتی تھیں تو انہیں پورا کرنے سے عاجز ہوجاتے، اور بعض اوقات ان کی تعمیل سے صاف انکار بھی کر بیٹھتے تھے۔ المآئدہ
103 71: یہ مختلف قسم کے نام ہیں جو زمانہ جاہلیت کے مشرکین نے رکھے ہوئے تھے۔ بحیرہ اس جانور کو کہتے تھے جس کے کان چیر کر اس کا دودھ بتوں کے نام پر وقف کردیا جاتا تھا۔ سائبہ وہ جانور تھا جو بتوں کے نام کر کے آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا، اس سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانا حرام سمجھا جاتا تھا۔ وصیلہ اس اونٹنی کو کہتے تھے جو لگاتار مادہ بچے جنے، بیچ میں کوئی نر نہ ہو۔ ایسی اونٹنی کو بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے۔ اور حامی وہ نر اونٹ ہوتا تھا جو ایک خاص تعداد میں جفتی کرچکا ہو۔ اسے بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ المآئدہ
104 المآئدہ
105 72: کفار کی جوگمراہیاں پیچھے بیان ہوئی ہیں ان کی وجہ سے مسلمانوں کو صدمہ ہوتا تھا کہ اپنی ان گمراہیوں کے خلاف واضح دلائل آجانے کے بعد اور آنحضرتﷺ کی طرف سے بار بار سمجھانے کے باوجود یہ لوگ اپنی گمراہیوں پر جمے ہوئے ہیں، اس آیت نے ان حضرات کو تسلی دی ہے کہ تبلیغ کا حق ادا کرنے کے بعد تمہیں ان کی گمراہیوں پر زیادہ صدمہ کرنے کی ضرورت نہیں، اور اب زیادہ فکر خود اپنی اصلاح کی کرنی چاہئے، لیکن جس بلیغ انداز میں یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے اس میں ایک تو ان لوگوں کے لئے ہدایت کا سامان ہے جو ہر وقت دوسروں پر تنقید کرنے اور ان کے عیب تلاش کرنے میں تو بڑے شوق سے مشغول رہتے ہیں، مگر خود اپنے گریبان میں منہ ڈالنے کی زحمت نہیں اٹھاتے، ان کو دوسروں کا تو چھوٹے سے چھوٹا عیب آسانی سے نظر آجاتا ہے مگر خود اپنی بڑی سے بڑی برائی کا احساس نہیں ہوتا، ہدایت یہ دی گئی ہے کہ اگر بالفرض تمہاری تنقید صحیح بھی ہو اور دوسرے لوگ گمراہ بھی ہوں تب بھی تمہیں تو اپنے اعمال کا جواب دینا ہے، اس لئے اپنی فکر کرو اور دوسروں پر تنقید کی فکر میں نہ پڑو، اس کے علاوہ جب معاشرے میں بد عملی کا چلن عام ہوجائے تو اس وقت اصلاح کی طرف لوٹنے کا بھی بہترین نسخہ یہی ہے کہ ہر شخص دوسروں کے طرز عمل کو دیکھنے کے بجائے اپنی اصلاح کی فکر میں لگ جائے، جب افراد میں اپنی اصلاح کی فکر پیدا ہوگی تو چراغ سے چراغ جلے گا اور رفتہ رفتہ معاشرہ بھی اصلاح کی طرف لوٹے گا۔ المآئدہ
106 73: یہ آیات ایک خاص واقعے کے پس منظر میں نازل ہوئی ہیں، واقعہ یہ ہے کہ ایک مسلمان جس کا نام بدیل تھا، تجارت کی غرض سے اپنے دو عیسائی ساتھیوں تمیم اور عدی کے ساتھ شام گیا، وہاں پہنچ کر وہ بیمار ہوگیا اور اسے اندازہ ہوگیا کہ وہ بچ نہیں سکے گا ؛ چنانچہ اس نے اپنے دوساتھیوں کو وصیت کی کہ میرا سارا سامان میرے وارثوں کو پہنچادینا، ساتھ ہی اس نے یہ ہوشیاری کی کہ سارے سامان کی ایک فہرست بناکر خفیہ طور سے اسی سامان کے اندر چھپادی، عیسائی ساتھیوں کو فہرست کا پتہ نہ چل سکا، انہوں نے سامان وارثوں کو پہنچایا، مگر اس میں ایک چاندی کا پیالہ تھا جس پر سونے کا ملمع چڑھا ہوا تھا اور جس کی قیمت ایک ہزار درہم بتائی گئی ہے وہ نکال کر اپنے پاس رکھ لیا، جب وارثوں کو بدیل کی بنائی ہوئی فہرست سامان میں ہاتھ لگی تو ان کو اس پیالہ کا پتہ چلا اور انہوں نے تمیم اور عدی سے مطالبہ کیا، انہوں نے صاف قسم کھالی کہ ہم نے سامان میں سے کوئی چیز نہ لی نہ چھپائی ہے ؛ لیکن کچھ عرصے کے بعد بدیل کے وارثوں کو پتہ چلا کہ وہ پیالہ انہوں نے مکہ مکرمہ میں ایک سنار کو فروخت کیا ہے، اس پر تمیم اور عدی نے اپنا موقف بدلا اور کہا کہ دراصل یہ پیالہ ہم نے بدیل سے خرید لیا اور چونکہ خریداری کا کوئی گواہ ہمارے پاس نہیں تھا اس لئے ہم نے پہلے اس بات کا ذکر نہیں کیا تھا اب چونکہ وہ خریداری کے مدعی تھے اور مدعی پر لازم ہوتا ہے کہ وہ گواہ پیش کرے اور یہ پیش نہ کرسکے توقاعدے کے مطابق وارثوں میں سے بدیل کے قریب ترین دو عزیزوں نے قسم کھالی کہ پیالہ بدیل کی ملکیت تھا اور عیسائی جھوٹ بول رہا ہے اس پر آنحضرتﷺ نے ان کے حق میں فیصلہ کردیا اور عیسائیوں کو پیالے کی قیمت دینی پڑی، یہ فیصلہ اسی آیت کریمہ کی روشنی میں ہوا جس میں اس قسم کی صورت حال کے لئے ایک عام حکم بتادیاگیا۔ المآئدہ
107 74: یہ ترجمہ امام رازی (رح) کی اختیار کردہ تفسیر پر مبنی ہے جس کی رو سے ” الاولیان“ سے مراد پہلے دو گواہ ہیں۔ جنہوں نے خیانت کی تھی۔ وھذا التفسیر اولیٰ حسب قراءۃ ” استحق“ علی البناء للفاعل کما ھو قراءۃ حفص، بالنظر الی اعراب الایۃ اما التفسیر الذی جعل ” االاولیا“ صفۃ للورثۃ، فوجھہ فی الاعراب خفی جدا، لانہ لا یظھر فیھا فاعل ” استحق“ الا بتکلف، و راجع روح المعانی و البحر المحیط و التفسیر الکبیر، نعم یظھر ذلک التفسیر فی قراءۃ ” استحق“ علی البناء و للمفعول۔ المآئدہ
108 المآئدہ
109 75: قرآن کریم کا یہ خاص طریقہ ہے کہ جب وہ اپنے احکام بیان فرماتا ہے تو اس کے ساتھ آخرت کا کوئی ذکر یا پچھلی امتوں کی فرماں برداری یا نافرمانی کا بھی ذکر فرماتا ہے، تاکہ ان احکام پر عمل کرنے کے لیے آخرت کی فکر پیدا ہو، چنانچہ وصیت کے مذکورہ بالا احکام کے بعد اب آخرت کے کچھ مناظر بیان فرمائے گئے ہیں، اور چونکہ کچھ پہلے عیسائیوں کے غلط عقائد کا تذکرہ تھا، اس لیے خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے آخرت میں جو مکالمہ ہوگا اس کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے۔ اور شروع کی اس آیت میں تمام پیغمبروں سے اس سوال کا ذکر ہے کہ ان کی امتوں نے ان کی دعوت کا کیا جواب دیا تھا؟ اس کے جواب میں انہوں نے اپنی لا علمی کا اظہار کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دیا میں تو لوگوں کے ظاہری بیانات پر ہی فیصلہ کرنے کے مجاز تھے، لہذا جس کسی نے ایمان کا دعویٰ کیا ہم نے اسے معتبر سمجھ لیا، لیکن یہ معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں تھا کہ اس کے دل میں کیا ہے؟ آج جبکہ فیصلہ دلوں کے حال کے مطابق ہونے والا ہے، ہم یقین کے ساتھ کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے، کیونکہ دلوں کا پوشیدہ حال تو صرف آپ ہی جانتے ہیں۔ البتہ جب لوگوں کے ظاہری رد عمل ہی کے بارے میں انبیاء کرام سے گواہی لی جائے گی تو وہ ان کے ظاہری اعمال کی گواہی دیں گے، جس کا ذکر سورۃ نساء (41:4) اور سورۃ نحل (89:16) وغیرہ میں آیا ہے۔ المآئدہ
110 76: تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ بقرہ (87:2) المآئدہ
111 المآئدہ
112 77: یعنی ایک مومن کیلئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے معجزات کی فرمائش کرے، کیونکہ ایسی فرمائشیں تو عام طور پر کافر لوگ کرتے رہے ہیں۔ البتہ جب انہوں نے یہ وضاحت کی کہ خدا نخواستہ اس فرمائش کا منشا ایمان کا فقدان نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو دیکھ کر مکمل اطمینان کا حصول اور ادائے شکر ہے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے دعا فرما دی۔ المآئدہ
113 المآئدہ
114 المآئدہ
115 78: قرآن کریم نے یہ بیان نہیں فرمایا کہ پھر وہ خوان آسمان سے اترا یا نہیں۔ جامع ترمذی کی ایک روایت میں حضرت عمار بن یاسر کا یہ قول مروی ہے کہ خوان اترا تھا، پھر جن لوگوں نے نافرمانی کی وہ دنیا ہی میں عذاب کے شکار ہوئے۔ (جامع ترمذی، کتاب التفسیر حدیث نمبر 3-61) واللہ اعلم۔ المآئدہ
116 79: عیسائیوں کے بعض فرقے توحضرت مریم (رض) کو تثلیث کا ایک حصہ قرار دے کرانہیں معبود مانتے تھے اور دوسرے بعض فرقے اگرچہ انہیں تثلیث کا حصہ قرار نہیں دیتے تھے لیکن جس طرح ان کی تصویر کلیساؤں میں آویزاں کرکے اس کی پرستش کی جاتی تھی وہ بھی ایک طرح سے ان کو خدائی میں شریک قرار دینے کے مرادف تھی اس لئے یہ سوال کیا گیا ہے۔ المآئدہ
117 المآئدہ
118 المآئدہ
119 المآئدہ
120 المآئدہ
0 سورۃ الانعام تعارف یہ سورت چونکہ مکہ مکرمہ کے اس دور میں نازل ہوئی تھی جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت اسلام اپنے ابتدائی دور میں تھی، اس لیے اس میں اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کو مختلف دلائل کے ذریعے ثابت کیا گیا ہے اور ان عقائد پر جو اعتراضات کفار کی طرف سے اٹھائے جاتے تھے، ان کا جواب دیا گیا ہے۔ اس دور میں مسلمانوں پر کفار مکہ کی طرف سے طرح طرح کے ظلم توڑے جارہے تھے، اس لیے ان کو تسلی بھی دی گئی ہے۔ کفار مکہ اپنے مشرکانہ عقائد کے نتیجے میں جن بے ہود رسموں اور بے بنیاد خیالات میں مبتلا تھے، ان کی تردید فرمائی گئی ہے۔ عربی زبان میں انعام چوپایوں کو کہتے ہیں۔ عرب کے مشرکین مویشیوں کے بارے میں بہت سے غلط عقیدے رکھتے تھے، مثلا ان کو بتوں کے نام پر وقف کر کے ان کا کھانا حرام سمجھتے تھے۔ چونکہ اس سورت میں ان بے بنیادی عقائد کی تردید کی گئی ہے۔ (دیکھیے آیات ١٣٦ تا ١٤٦) اس لیے اس کا نام سورۃ الانعام رکھا گیا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ چند آیتوں کو چھوڑ کر یہ پوری سورت ایک ہی مرتبہ نازل ہوئی تھی، لیکن علامہ آلوسہ (رح) نے اپنی تفسیر روح المعانی میں ان روایتوں پر تنقید کی ہے۔ واللہ سبحانہ اعلم یہ سورت مکی ہے، اور اس میں ایک سو پینسٹھ آیتیں اور بیس رکوع ہیں الانعام
1 الانعام
2 1: یعنی ایک میعاد تو ہر انسان کی انفرادی زندگی کی ہے کہ وہ کب تک جئے گا، شروع میں تو اس کا علم کسی کو نہیں ہوتا، مگر جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو ہر ایک کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کی عمر کتنی تھی۔ لیکن مرنے کے بعد جو دوسری زندگی آنے والی ہے وہ کب آئے گی، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ الانعام
3 الانعام
4 الانعام
5 2: کفار سے کہا گیا تھا کہ اگر انہوں نے ہٹ دھرمی کا رویہ جاری رکھا تو دنیا میں بھی ان کا انجام برا ہوگا، اور آخرت میں بھی ان کو عذاب کا سامنا کرنا کفار ان باتوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ آیت ان کو متنبہ کر رہی ہے کہ جس بات کو وہ مذاق اڑا رہے ہیں، عنقریب وہ ایک حقیقت بن کر ان کے سامنے آجائے گی۔ الانعام
6 الانعام
7 الانعام
8 3: یہ دنیا چونکہ انسان کے امتحان کے لیے بنائی گئی ہے، اس لیے انسان سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر اللہ تعالیٰ پر اور اس کے بھیجے ہوئے رسولوں پر ایمان لائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب کوئی غیبی حقیقت آنکھوں سے دکھا دی جاتی ہے تو اس کے بعد ایمان لانا معتبر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص موت کے فرشتوں کو دیکھ کر ایمان لائے تو اس کا ایمان قابل قبول نہیں۔ کفار کا مطالبہ یہ تھا کہ اگر کوئی فرشتہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی لے کر آتا ہے تو وہ اس طرح آئے کہ ہم اسے دیکھ سکیں۔ قرآن کریم نے اس کا پہلا جواب تو یہ دیا ہے کہ اگر فرشتے کو انہوں نے آنکھ سے دیکھ لیا تو پھر مذکورہ بالا اصول کے مطابق ان کا ایمان معتبر نہیں ہوگا اور پھر انہیں اتنی مہلت نہیں ملے گی کہ یہ ایمان لا سکیں دوسرا جواب اگلے جملے میں ہے۔ الانعام
9 4: یعنی اگر کسی فرشتے ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجتے، یا پیغمبر کی تصدیق کے لیے لوگوں کے سامنے بھیجتے تب بھی اس کو انسانی شکل ہی میں بھیجنا پڑتا، کیونکہ کسی انسان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ کسی فرشتے کو دیکھ سکے۔ اس صورت میں پھر یہ کافر لوگ وہی اعتراض دہراتے کہ یہ تو ہم جیسا ہی آدمی ہے اس کو ہم پیغمبر کیسے مان لیں۔ الانعام
10 الانعام
11 5: مشرکین عرب شام کے تجارتی سفر کے دوران ثمود اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیوں سے گذرا کرتے تھے جہاں ان قوموں کی تباہی کے آثار انہیں آنکھوں سے نظر آتے تھے۔ قرآن کریم انہیں دعوت دے رہا ہے کہ وہ ان قوموں کے انجام سے عبرت حاصل کریں۔ الانعام
12 الانعام
13 6: غالباً اشارہ اس طرف ہے کہ رات اور دن کے اوقات میں جب لوگ سوتے ہیں تو دوبارہ بیدار بھی ہوجاتے ہیں، حالانکہ نیند بھی ایک چھوٹی موت ہے جس میں انسان دنیا سے بے خبر اور بالکل بے اختیار ہوجاتا ہے۔ لیکن چونکہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کے قبضے میں ہوترا ہے، اس لیے جب وہ چاہتا ہے اسے بیداری کی دنیا میں واپس لے آتا ہے۔ اسی طرح جب بڑی موت آئے گی تب بھی انسان اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہوگا اور وہ جب چاہے گا اسے دوبارہ زندگی دے کر قیامت کے یوم حساب کی طرف لے جائے گا۔ الانعام
14 الانعام
15 الانعام
16 الانعام
17 الانعام
18 الانعام
19 الانعام
20 الانعام
21 الانعام
22 الانعام
23 7: شروع میں تو وہ بوکھلاہٹ کے عالم میں جھوٹ بول جائیں گے، لیکن پھر قرآن کریم ہی نے سورۃ یس (65:36) اور سورۃ حم السجدہ (21:41) میں بیان فرمایا ہے کہ خود ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے، اور ان کا سارا جھوٹ کھل جائے گا۔ اس موقع کے لیے سورۃ نساء (42:4) میں پیچھے گذرا ہے کہ وہ کوئی بات چھپا نہیں سکیں گے۔ اور آگے اسی سورت کی آیت نمبر 130 میں آرہا ہے کہ وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے۔ الانعام
24 الانعام
25 الانعام
26 الانعام
27 الانعام
28 الانعام
29 الانعام
30 الانعام
31 الانعام
32 8: یہ بات کفروں کے اس بیان کے جواب میں کہی گئی ہے جو آیت نمبر 29 میں اوپر گذرا ہے کہ ” جو کچھ ہے بس یہی دنیوی زندگی ہے“ جواب میں فرمایا گیا ہے کہ آخرت کی ابدی زندگی کے مقابلے میں چند روز کی دنیوی زندگی جسے تم سب کچھ سمجھ رہے ہو، کھیل تماشے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی۔ اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پروا کیے بغیر دنیا میں زندگی گذارتے ہیں تو جس عیش و آرام کو وہ اپنا مقصد زندگی بناتے ہیں، آخرت میں جا کر ان کو پتہ لگ جائے گا کہ اس کی حیثیت کھیل تماشے کی سی تھی۔ ہاں ! جو لوگ دنیا کو آخرت کی کھیتی بنا کر زندگی گذارتے ہیں، ان کے لیے دنیوی زندگی بھی بڑی نعمت ہے۔ الانعام
33 9: یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صرف اپنی ذات کے جھٹلانے سے اتنا زیادہ رنج نہ ہوتا، لیکن زیادہ رنج کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلاتے ہیں۔ آیت کے یہ معنی الفاظ قرآن کے بھی زیادہ مطابق ہیں، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مزاج سے بھی زیادہ مطابقت رکھتے ہیں۔ واللہ سبحانہ اعلم۔ الانعام
34 الانعام
35 10: آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے معجزات عطا فرمائے تھے، جن میں سب سے بڑا معجزہ خود قرآن کریم تھا ؛ کیونکہ آپ کے اُمی ہونے کے باوجود یہ فصیح وبلیغ کلام آپ پر نازل ہوا، تنہا یہی ایک معجزہ ایک حق کے طلب گار کے لئے کافی تھا ؛ لیکن کفار مکہ اپنی ضد اور عناد کی وجہ سے ہر روز نت نئے معجزات کا مطالبہ کرتے رہتے تھے، اس سلسلے میں جس قسم کے بیہودہ مطالبات وہ کرتے تھے ان کی ایک فہرست قرآن کریم نے سوۂ بنی اسرائیل (١٥۔ ٨٩) میں بیان فرمائی ہے، اس پر کبھی کبھی آنحضرتﷺ کو بھی یہ خیال ہوتا تھا کہ اگر ان کے فرمائشی معجزات میں سے کوئی معجزہ دکھادیا جائے تو شاید یہ لوگ ایمان لاکر جہنم سے بچ جائیں، اس آیت میں آنحضرتﷺ سے مشفقانہ خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ درحقیقت ان کے یہ مطالبات محض ہٹ دھرمی پر مبنی ہیں اور جیسا کے پیچھے آیت نمبر ٢٥ میں کہا گیا ہے، یہ اگر ساری نشانیاں دیکھ لیں گے تب بھی ایمان نہیں لائیں گے، اس لئے ان کے مطالبات کا پورا کرنا نہ صرف بیکار ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی اس حکمت کے خلاف ہے جس کی طرف اشارہ آگے آیت نمبر : ٣٧ میں آرہا ہے، ہاں اگر آپ خود ان کے مطالبات پورے کرنے کے لئے ان کے کہنے کے مطابق زمین کے اندر جانے کے لئے کوئی سرنگ بناسکیں یا آسمان پر چڑھنے کے لئے سیڑھی ایجاد کرسکیں تو یہ بھی کر دیکھیں اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر آپ ایسا نہیں کرسکتے، اس لئے یہ فکر چھوڑدیجئے کہ ان کے منہ مانگے معجزات انہیں دکھائے جائیں، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو سارے انسانوں کو زبردستی ایک ہی دین کا پابند بنا دیتا ، لیکن درحقیقت انسان کو دنیا میں بھیجنے کا بنیادی مقصد امتحان ہے اور اس امتحان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان زور زبردستی سے نہیں بلکہ خود اپنی سمجھ سے کام لے کر ان دلائل پر غور کرے جو پوری کائنات میں بکھرے پڑے ہیں اور پھر اپنی مرضی سے توحید رسالت اور آخرت پر ایمان لائے، انبیاء کرام لوگوں کی فرمائش پر نت نئے کرشمے دکھانے کے لئے نہیں ان دلائل کی طرف متوجہ کرنے کے لئے بھیجے جاتے ہیں اور آسمانی کتابیں اس امتحان کو آسان کرنے کے لے نازل کی جاتی ہیں مگر ان سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جن کے دل میں حق کی طلب ہو، اور جو لوگ اپنی ضد پر اڑے رہنے کی قسم کھاچکے ہوں ان کے لئے نہ کوئی بڑی سے بڑی دلیل کار آمد ہوسکتی ہے نہ کوئی بڑے سے بڑا معجزہ۔ الانعام
36 الانعام
37 11: اس آیت میں فرمائشی معجزات نہ دکھانے کی ایک اور وجہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ پچھلی قوموں کو جب کبھی ان کا مانگا ہوا معجزہ دکھایا گیا ہے تو یہ تنبیہ بھی کردی گئی ہے کہ اگر اس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے تو انہیں اس دنیا ہی میں ہلاک کردیا جائے گا ؛ چنانچہ کئی قومیں اس طرح ہلاک ہوئیں، چونکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ کفار مکہ میں اکثر لوگ ہٹ دھرم ہیں اور وہ فرمائشی معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے، اس لئے اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق وہ ہلاک ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کو ابھی یہ منظور نہیں ہے کہ انہیں عذاب عام کے ذریعے ہلاک کیا جائے ؛ لہذا جو لوگ فرمائشی معجزات کا مطالبہ کررہے ہیں وہ اس کے انجام سے ناواقف ہیں، ہاں جن لوگوں کو ایمان لانا ہے وہ مطلوبہ معجزات کے بغیر دوسرے دلائل اور معجزات دیکھ کر خود ایمان لے آئیں گے۔ الانعام
38 اس آیت نے یہ بتایا ہے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی صرف انسانوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ؛ بلکہ تمام جانوروں کو بھی قیامت کے بعد حشر کے دن زندہ کرکے اٹھایا جائے گا، تم جیسی ہے اصناف ہیں کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح تمہیں دوسری زندگی دی جائے گی اسی طرح ان کو بھی دوسری زندگی ملے گی، ایک حدیث میں آنحضرتﷺ نے بیان فرمایا ہے کہ جانوروں نے دنیا میں ایک دوسرے پر جو ظلم کئے ہوں گے میدان حشر میں مظلوم جانور کو حق دیا جائے گا کہ وہ ظالم سے بدلہ لے، اس کے بعد چونکہ وہ حقوق اللہ کے مکلف نہیں ہیں اس لئے ان پر دوبارہ موت طاری کردی جائے گی، یہاں اس حقیقت کو بیان فرمانے کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ کفار عرب مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو ناممکن قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ سارے کے سارے انسان جو مر کر مٹی ہوچکے ہوں گے، ان کو دوبارہ کیسے جمع کیا جاسکتا ہے، اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا ہے کہ صرف انسانوں ہی کو نہیں جانوروں کو بھی زندہ کیا جائے گا ؛ حالانکہ جانوروں کی تعداد انسانوں سے کہیں زیادہ ہے، رہا یہ معاملہ کہ دنیا کی ابتداء سے انتہا تک کے بے شمار انسانوں اور جانوروں کے گلے سڑے اجزاء کا کیسے پتہ لگایا جائے گا تو اس کا جواب اگلے جملے میں یہ دیا گیا ہے کہ لوح محفوظ میں ہر بات درج ہے اور یہ ایسا ریکارڈ ہے جس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے، لہذا نہ انسانوں کو جمع کرنا اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ مشکل ہے نہ جانوروں کا۔ الانعام
39 13: یعنی اپنے اختیار سے گمراہی کو اپنا کر انہوں نے حق سننے اور کہنے کی صلاحیت ہی ختم کرلی ہے۔ یاد رہے کہ یہ ترجمہ ّ” فی الظلمت“ کو ” صم و بکم“ سے حال قرار دینے پر مبنی ہے جسے علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے راجح قرار دیا ہے۔ الانعام
40 الانعام
41 14: عرب کے مشرکین یہ مانتے تھے کہ اس کائنات کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے ؛ لیکن ساتھ ہی ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اس کی خدائی میں دوسرے بہت سے دیوتا اس طرح شریک ہیں کہ خدائی کے بہت سے اختیارات ان کو حاصل ہیں، اب ہوتا یہ تھا کہ ان دیوتاؤں کو خوش رکھنے کی نیت سے ان کی پرستش کرتے رہتے تھے مگر جب کوئی ناگہانی آفت آپڑتی تھی مثلاً سمندر میں سفر کرتے ہوئے پہاڑ جیسی موجوں میں گھر جاتے تھے تو اپنے گھڑے ہوئے دیوتاؤں کے بجائے اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے تھے، یہاں ان کی اس عادت کے حوالے سے یہ سوال کیا جارہا ہے کہ جب دنیا کی ان مصیبتوں میں تم اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہو تو اگر کوئی بڑا عذاب آجائے قیامت ہی آکھڑی ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ ہی کو پکاروگے۔ الانعام
42 الانعام
43 الانعام
44 15: اللہ تعالیٰ نے پچھلی امتوں کے ساتھ یہ معاملہ فرمایا ہے کہ انہیں متنبہ کرنے کے لئے انہیں کچھ سختیوں میں بھی مبتلا فرمایا، تاکہ وہ لوگ جن کے دل سختی کی حالت میں نرم پڑتے ہیں سوچنے سمجھنے کی طرف مائل ہوسکیں، پھر ان کو خوب خوشحالی عطا فرمائی تاکہ جو لوگ خوشحالی میں حق قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں وہ کچھ سبق لے سکیں، جب دونوں حالتوں میں لوگ گمراہی پر قائم رہے تب ان پر عذاب نازل کیا گیا۔ یہی بات قرآن کریم نے سورۃ اعراف (94:7-95) میں بھی بیان فرمائی ہے الانعام
45 الانعام
46 الانعام
47 16: کفار مکہ آنحضرتﷺ سے یہ بھی کہتے تھے کہ اللہ کے جس عذاب سے آپ ہمیں ڈراتے ہیں تو وہ عذاب ابھی کیوں نہیں آجاتا؟ شاید وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر عذاب آیا تو مومن کافر سبھی ہلاک ہوجائیں گے، اس کے جواب میں فرمایا جارہا ہے کہ ہلاک تو وہ ہوں گے جنہوں نے شرک اور ظلم کا ارتکاب کیا ہے۔ الانعام
48 الانعام
49 الانعام
50 17: یہ ان مطالبات کا جواب ہے جو کفار آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا کرتے تھے کہ اگر تم پیغمبر ہو تو دولت کے خزانے تمہارے پاس ہونے چاہئیں۔ لہذا فلاں فلاں معجزات دکھاؤ۔ جواب میں فرمایا گیا ہے کہ پیغمبر ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدائی کے اختیارات مجھے حاصل ہوگئے ہیں، یا مجھے مکمل علم غیب حاصل ہے یا میں فرشتہ ہوں۔ پیغمبر ہونے کا مطلب صرف یہ ہے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہے اور میں اسی کا اتباع کرتا ہوں۔ الانعام
51 18: یہ درحقیقت مشرکین کے اس عقیدے کی تردید ہے کہ وہ اپنے دیوتاؤں کو اپنا مستقل سفارشی سمجھتے تھے، لہذا اس سے آنحضرتﷺ کی اس شفاعت کی تردید نہیں ہوتی جو آپ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے مومنوں کے لئے کریں گے کیونکہ دوسری آیتوں میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے شفاعت ممکن ہے.(مثلاً دیکھئے : سورۃ بقرہ آیت نمبر 255) الانعام
52 19: قریش مکہ کے کچھ سرداروں نے یہ کہا تھا کہ آنحضرتﷺ کے ارد گرد غریب اور کم حیثیت قسم کے لوگ بکثرت رہتے ہیں، ان کے ساتھ آپ کی مجلس میں بیٹھنا ہماری توہین ہے، اگر آپ ان لوگوں کو اپنی مجلس سے اٹھادیں تو ہم آپ کی بات سننے کے لئے آسکتے ہیں اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ الانعام
53 20: مطلب یہ ہے کہ غریب مسلمان اس حیثیت سے ان امیر کافروں کے لئے ایک آزمائش کا سبب بن گئے ہیں کہ آیا یہ لوگ اصل اہمیت حق بات کو دیتے ہیں یا صرف اس وجہ سے حق کا انکار کردیتے ہیں کہ اس کے ماننے والے غریب لوگ ہیں۔ 21: ہ کافروں کا فقرہ ہے جو وہ غریب مسلمانوں کے بارے میں طنزیہ انداز میں کہتے تھے، یعنی (معاذاللہ) ساری دنیا میں سے یہی کم حیثیت لوگ اللہ تعالیٰ کو ملے تھے جن پر وہ احسان کرکے انہیں جنت کا مستحق قراردے۔ الانعام
54 الانعام
55 الانعام
56 الانعام
57 22: یہ آیات کفار کے اس مطالبے کے جواب میں نازل ہوئی ہیں کہ جس عذاب سے آنحضرتﷺ ہمیں ڈرارہے ہیں وہ ہم پر فوراً کیوں نازل نہیں ہوتا، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ عذاب نازل کرنے کا صحیح وقت اور مناسب طریقہ طے کرنے کا مکمل اختیار اللہ تعالیٰ کو ہے جس کا فیصلہ وہ اپنی حکمت سے کرتا ہے۔ الانعام
58 الانعام
59 الانعام
60 الانعام
61 23: نگہبان فرشتوں سے مراد وہ فرشتے بھی ہوسکتے ہیں جو انسان کے اعمال لکھتے ہیں اور وہ بھی جو ہر انسان کی جسمانی حفاظت پر مقرر ہیں۔ اور جن کا ذکر سورۂ رعد (١١: ١٣) میں آیا ہے۔ الانعام
62 الانعام
63 الانعام
64 الانعام
65 الانعام
66 24: یعنی یہ میری ذمہ داری نہیں ہے کہ تمہارا ہر مطالبہ پورا کروں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے جس میں تم لوگوں کو عذاب دینا بھی داخل ہے اور جب وہ وقت آئے گا تو تمہیں خود پتہ لگ جائے گا۔ الانعام
67 الانعام
68 الانعام
69 الانعام
70 25: اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس دین کو انہیں اپنانا چاہئے تھا، (یعنی اسلام) اس کو قبول کرنے کے بجائے وہ اس کا مذاق بناتے ہیں۔ اور یہ مطلب بھی ممکن ہے کہ جو دین انہوں نے اختیار کر رکھا ہے وہ کھیل تماشے جیسی بے بنیاد رسموں پر مشتمل ہے اور دونوں صورتوں میں ان لوگوں کو چھوڑنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس کا مطلب وہی ہے کہ ان کی اس قسم کی گفتگو میں ان کے ساتھ مٹ بیٹو جس میں وہ اللہ کی آیات کو استہزاء کا نشانہ بناتے ہوں الانعام
71 الانعام
72 الانعام
73 26: یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو ایک برحق مقصد سے پیدا کیا ہے اور وہ مقصد یہ ہے کہ جو لوگ یہاں اچھے کام کریں انہیں انعام سے نوازا جائے اور جو لوگ بدکار اور ظالم ہوں انہیں سزا دی جائے یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب دنیوی زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہو جس میں جزا اور سزا کا یہ مقصد پورا ہو اور آگے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس مقصد کے لئے قیامت میں لوگوں کو دوبارہ زندگی دینا اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ مشکل نہیں ہے، جب وہ چاہے گا تو قیامت کو وجود میں آنے کا حکم دے گا اور وہ وجود میں آجائے گی اور چونکہ وہ غائب وحاضر ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے اس لئے لوگوں کو مرنے کے بعد اکھٹا کرنا بھی اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے البتہ چونکہ وہ حکمت والا ہے اس لئے وہ اسی وقت قیامت قائم فرمائے گا جب اس کی حکمت کا تقاضا ہوگا۔ 27: اگرچہ دنیا میں حقیقی بادشاہی اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔ لیکن یہاں ظاہری طور پر بہت سے حکمران مختلف ملکوں پر حکومت کرتے ہیں، لیکن صورت پھونکے جانے کے بعد یہ ظاہری حکومتیں بھی ختم ہوجائیں گی، اور ظاہری اور باطنی ہر اعتبار سے بادشاہی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہوگی۔ الانعام
74 الانعام
75 الانعام
76 28: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) عراق کے جس علاقے نینوا میں پیدا ہوئے تھے وہاں کے لوگ بتوں اور ستاروں کو خدا مان کر ان کی عبادت کرتے تھے، ان کا باپ آزر بھی نہ صرف اسی عقیدے کا تھا بلکہ خود بت تراشا کرتا تھا، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) شروع ہی سے توحید پر ایمان رکھتے تھے اور شرک سے بیزار تھے، لیکن انہوں نے اپنی قوم کو غور وفکر کی دعوت دینے کے لئے یہ لطیف طریقہ اختیار فرمایا کہ چاند ستاروں اور سورج کو دیکھ کر پہلے اپنی قوم کی زبان میں بات کی، مقصد یہ تھا کہ یہ ستارہ تمہارے خیال میں پروردگار ہے، آؤ دیکھتے ہیں کہ یہ بات تسلیم کرنے کے قابل ہے یا نہیں؟ چنانچہ جب ستارہ بھی ڈوبا اور چاند بھی اور آخر میں سورج بھی تو ہر موقع پر انہوں نے اپنی قوم کو یاد دلایا کہ یہ تو ناپائیدار اور تغیر پذیر چیزیں ہیں، جو چیز خود ناپائدار ہو اور اس پر تغیرات طاری ہوتے رہتے ہوں، اس کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ پوری کائنات کی پرورش کررہی ہے، کیسی غیر معقول بات ہے، لہذا انہوں نے چاند ستاروں یا سورج کو جو یہ کہا تھا کہ یہ میرا رب ہے وہ اپنے عقیدے کے مطابق نہیں بلکہ اپنی قوم کے عقیدے کی لغویت ظاہر کرنے کے لئے فرمایا تھا۔ الانعام
77 الانعام
78 الانعام
79 الانعام
80 29: سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے حجت کرتے ہوئے ان کی قوم نے دو باتیں کہیں، ایک یہ کہ ہم برسوں سے اپنے باپ داداؤں کو ان بتوں اور ستاروں کی پوجا کرتے دیکھ رہے تھے، ان سب کو گمراہ سمجھنا ہمارے بس سے باہر ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کا جواب پہلے جملے میں یہ دیا ہے کہ ان باپ داداؤں کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی وحی نہیں آئی تھی اور مذکورہ بالا عقلی دلائل کے علاوہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی ہے، لہذا اللہ کی دی ہوئی ہدایت کے بعد میں شرک کو کیسے درست تسلیم کرسکتا ہوں، دوسری بات ان کی قوم نے یہ کہی ہوگی کہ اگر تم نے ہمارے بتوں اور ستاروں کی خدائی سے انکار کیا تو وہ تمہیں تباہ کرڈالیں گے، اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ میں ان بے بنیاد دیوتاؤں سے نہیں ڈرتا بلکہ ڈرنا تمہیں چاہئے کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ بے بنیاد دیوتاؤں کو اس کی خدائی میں شریک مان رہے ہو، نقصان اگر پہنچا سکتا ہے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ ہے کوئی اور نہیں اور جو لوگ اس کی توحید پر ایمان لاتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ نے امن اور چین عطا فرمایا ہے۔ الانعام
81 الانعام
82 30: ایک صحیح حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت میں لفظ ” ظلم“ کی تشریح شرک سے فرمائی ہے، کیونکہ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے۔ الانعام
83 الانعام
84 الانعام
85 الانعام
86 الانعام
87 الانعام
88 الانعام
89 31: مشرکین عرب نبوت و رسالت ہی کے منکر تھے۔ ان کے جواب میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد میں جو پیغمبر گذرے ہیں ان کا حوالہ دیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو تو عرب کے بت پرست بھی مانتے تھے ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ پیغمبر ہو سکتے ہیں اور ان کی اولاد میں نبوت کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے تو یہ کہنا کیسے درست ہوسکتا ہے کہ نبوت کوئی چیز نہیں ہے، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا رسول بنا کر بھیجنے میں آخر کونسی اشکال کی بات ہے جبکہ آپ کی نبوت کے دلائل روز روشن کی طرح واضح ہوچکے ہیں۔ 32: اس سے صحابہ کرام کی طرف اشارہ ہے۔ الانعام
90 الانعام
91 33: یہاں سے بعض یہودیوں کی تردید مقصود ہے، آنحضرتﷺ کی مخالفت کرتے ہوئے ایک مرتبہ ان کے ایک سردار مالک بن صیف نے غصے میں آکر یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اللہ نے کسی انسان پر کچھ نازل نہیں کیا۔ 34: یعنی پوری کتاب کو ظاہر کرنے کے بجائے تم نے اسے حصوں میں بانٹ رکھا ہے۔ جو حصے تمہارے مطلب کے مطابق ہوتے ہیں ان کو تو عامل لوگوں کے سامنے ظاہر کردیتے ہو، مگر جو حصے تمہارے مفادات کے خلاف ہوتے ہیں، انہیں چھپا لیتے ہو۔ الانعام
92 الانعام
93 الانعام
94 الانعام
95 35: بے جان سے جاندار کو نکالنے کی مثال یہ ہے کہ انڈے سے مرغی نکل آتی ہے اور جاندار سے بے جان کے نکلنے کی مثال جیسے مرغی سے انڈا 36: اس ترجمے میں دو باتیں قابل ذکر ہیں۔ ایک یہ کہ بظاہر قرآن کریم میں ” لوگوں !“ کا لفظ نظر نہیں آرہا، لیکن در حقیقت یہ ذلکم میں جمع مخاطب کی ضمیر کا ترجمہ ہے۔ عربی کے قاعدے سے یہ جمع کی ضمیر مشار الیہ کی جمع نہیں ہوتی، بلکہ مخاطب کی جمع ہوتی ہے۔ دوسرے ” کوئی تمہیں بہکا کر کس اوندھی طرف لیے جا رہا ہے“ اس ترجمے میں ” توفکون“ کے صیغہ مجہول کی رعایت کی گئی ہے۔ اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ یہ ان کی خواہشات ہیں جو انہیں گمراہ کر رہی ہیں۔ الانعام
96 الانعام
97 الانعام
98 37: مستقر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی شخص باقاعدہ اپنا ٹھکانا بنالے، اس کے برعکس امانت رکھنے کی جگہ پر قیام عارضی قسم کا ہوتا ہے، اس لئے وہاں رہائش کا باقاعدہ انتظام نہیں کیا جاتا، اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس آیت کی تفسیر مختلف طریقوں سے کی گئی ہے، حضرت حسن بصری (رح) سے اس کی یہ تفسیر منقول ہے کہ مستقر سے مراد دنیا ہے جہاں انسان باقاعدہ اپنی رہائش کا ٹھکانا بنالیتا ہے، اور امانت رکھنے کی جگہ سے مراد قبر ہے جس میں انسان کو مرنے کے بعد عارضی طور سے رکھا جاتا ہے، پھر وہاں سے اسے آخرت میں جنت یا جہنم کی طرف لے جایا جائے گا، البتہ حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) نے ان لفظوں کی تفسیر اس طرح کی ہے کہ مستقر سے مراد ماں کا پیٹ ہے جس میں بچہ مہینوں ٹھہرارہتا ہے اور امانت رکھنے کی جگہ سے مراد شوہر کی صلب ہے جس میں نطفہ عارضی طور سے رہتا ہے پھر ماں کے رحم میں منتقل ہوجاتا ہے، بعض مفسرین نے اس کے برعکس مستقر شوہر کی صلب کو قرار دیا ہے اور امانت رکھنے کی جگہ ماں کے رحم کو ؛ کیونکہ بچہ وہاں عارضی طور پر رہتا ہے۔ الانعام
99 38: اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ بعض پھل دیکھنے میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوتے ہیں، اور بعض صورت اور ذائقے میں ایکد وسرے سے مختلف بھی ہوتے ہیں۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ جو پھل دکھنے میں ملتے جلتے نظر آتے ہیں، ان کی خصوصیات ایک دوسرے سے الگ ہوتی ہیں۔ الانعام
100 39: جنات سے مراد شیطان ہے اور یہ ان لوگوں کے باطل عقیدے کی طرف اشارہ ہے جو یہ کہتے تھے کہ تمام مفید مخلوقات تو اللہ نے پیدا کی ہیں مگر درندے سانپ بچھو اور دوسرے موذی جانور بلکہ تمام بری چیزیں شیطان نے پیدا کی ہیں اور وہی ان کا خالق ہے، ان لوگوں نے بظاہر ان بری چیزوں کی تخلیق کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے سے پرہیز کیا ؛ لیکن اتنا نہ سمجھ سکے کہ شیطان خود اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور وہ سب سے بری مخلوق ہے، اگر بری چیزیں شیطان کی پیدا کی ہوئی ہیں خود اس بری مخلوق کو کس نے پیدا کیا اس کے علاوہ جو چیزیں ہمیں بری نظر آتی ہیں ان کی تخلیق میں بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی حکمتیں ہیں اور ان کی تخلیق کو برا فعل نہیں کہا جاسکتا۔ بقول اقبال مرحوم نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں 40: عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہا تھا، اور عرب کے مشرکین فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔ الانعام
101 الانعام
102 الانعام
103 41: یعنی اس کی ذات اتنی لطیف ہے کہ کوئی نگاہ اس کو نہیں پاسکتی اور وہ اتنا باخبر ہے کہ ہر نگاہ کو پالیتا ہے اور اس کے تمام حالات سے خوب واقف ہے اس جملے کی یہ تفسیر علامہ آلوسی (رح) نے متعدد مفسرین سے نقل کی ہے اور سیاق وسباق کے لحاظ سے نہایت مناسب ہے یہاں یہ واضح رہے کہ لطافت بھی عام بول چال میں جسم ہی کی صفت ہوتی ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ جسم سے پاک ہے ؛ لیکن لطافت کا اعلی ترین درجہ وہ ہے جو جسمیت کے ہر شائبہ سے ماورا ہو، اللہ تعالیٰ کی ذات کو لطیف اس معنی میں کہا گیا ہے۔ الانعام
104 42: یعنی مجھ پر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی گئی ہے کہ تم میں سے ہر شخص کو زبردستی مسلمان کرکے کفر کے نقصان سے بچاؤں، میرا کام سمجھادینا ہے ماننا نہ ماننا تمہارا کام ہے۔ الانعام
105 43: ہٹ دھرم قسم کے کافروں کو بھی یہ کہتے ہوئے شرم آتی تھی کہ یہ کلام خو آنحضرتﷺ نے گھڑلیا ہے کیونکہ وہ آپ کے اسلوب سے اچھی طرح واقف تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ آپ امی ہیں، اور کسی کتاب سے خود ٖپڑھ کر یہ کلام نہیں بناسکتے، لہذا وہ قرآن کریم کے بارے میں یہ کہا کرتے تھے کہ آنحضرتﷺ نے یہ کلام کسی سے سیکھا ہے اور اسے اللہ کا کلام قرار دے کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ؛ لیکن کس سے سیکھا ہے وہ بھی نہیں بتاسکتے تھے، کبھی کبھی وہ ایک لوہار کا نام لیتے تھے جس کی تردیدسورۂ نحل میں آنے والی ہے۔ الانعام
106 الانعام
107 44: پیچھے آیت نمبر 35 میں بھی یہ مضمون آچکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو سارے انسانوں کو زبردستی ایک ہی دین کا پابند بنا دیتا، لیکن درحقیقت انسان کو دنیا میں بھیجنے کا بنیادی مقصد امتحان ہے، اور اس امتحان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان زور زبردستی سے نہیں، بلکہ خود اپنی سمجھ سے کام لے کر ان دلائل پر غور کرے جو پوری کائنات میں بکھرے پڑے ہیں، اور پھر اپنی مرضی سے توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان لائے، انبیائے کرام ان دلائل کی طرف متوجہ کرنے کے لیے بھیجے جاتے ہیں، اور آسمانی کتابیں اس امتحان کو آسان کرنے کے لیے نازل کی جاتی ہیں، مگر ان سے فائدہ وہی اٹھا سکتے ہیں جن کے دل میں حق کی طلب ہو 45: چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار کے طرز عمل پر مغموم رہتے تھے، اس لیے آپ کو تسلی دی جارہی ہے کہ آپ اپنا فرض ادا کرچکے ہیں۔ ان لوگوں کے اعمال کی کوئی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے۔ الانعام
108 46: اگرچہ جن دیوتاؤں کو کافر و مشرک لوگ خدا مانتے ہیں ان کی حقیقت کچھ نہیں ہے ؛ لیکن اس آیت میں مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ کافروں کے سامنے ان کے لئے نازیبا الفاظ استعمال نہ کیا کریں، اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ کافر لوگ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کرسکتے ہیں، اگر انہوں نے ایسا کیا تو اس کا سبب تم بنوگے اور جس طرح اللہ تعالیٰ کی شان میں خود گستاخی کرنا حرام ہے اسی طرح اس کا سبب بننا بھی ناجائز ہے، اس آیت سے فقہائے کرام نے یہ اصول نکالا ہے کہ کوئی کام بذات خود تو جائز یا مستحب ہو ؛ لیکن اندیشہ ہو کہ اس کے نتیجے میں کوئی دوسرا شخص گناہ کا ارتکاب کرے گا توایسی صورت میں وہ جائز یا مستحب کام چھوڑدیا چاہئے، تاہم اس اصول کے تحت کوئی ایسا کام چھوڑنا جائز نہیں ہے جو فرض یا واجب ہو، مزید تفصیل کے لئے اس آیت کے تحت تفسیر معارف القرآن کی طرف رجوع فرمائیں، یہاں یہ بھی واصح رہے کہ اہل عرب اگرچہ اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے اور اصل میں تو وہ خود بھی اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کو جائز نہیں سمجھتے تھے ؛ لیکن ضد میں آکر ان سے ایسی حرکت سرزد ہوجانا کچھ بعید نہیں تھا ؛ چنانچہ بعض روایات میں ہے کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے آنحضرتﷺ سے یہ بات کہی تھی کہ اگر آپ ہمارے بتوں کو برا کہوگے تو ہم آپ کے رب کو برا کہیں گے۔ 47: یہ درحقیقت ایک ممکن سوال کا جواب ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کافر لوگ اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کریں تو ان کو دنیا میں ہی میں سزا کیوں نہیں دی جاتی جواب یہ دیا گیا ہے کہ دنیا میں تو ان لوگوں کی ضد کی وجہ سے ہم نے ان کے حال پر چھوڑ رکھا ہے کہ یہ اپنے طرز عمل کو بہت اچھا سمجھ رہے ہیں لیکن آخر کار ان سب کو ہمارے پاس لوٹنا ہے اس وقت انہیں پتہ چل جائے گا کہ جو کچھ وہ کررہے ہیں اس کی حقیقیت کیا تھی. الانعام
109 48: تشریح کے لیے اسی سورت کی آیت نمبر 35 کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔ الانعام
110 الانعام
111 49: یہ وہ باتیں ہیں جن کی وہ فرمائش کیا کرتے تھے۔ سورۃ فرقان (آیت نمبر 21) میں ان کا یہ مطالبہ 50: یعنی حقیقت تو یہ ہے کہ تمام معجزات کو دیکھ کر بھی یہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ پھر بھی جو مطالبات کر رہے ہیں وہ محض جہالت پر مبنی ہیں۔ الانعام
112 51: یہاں پھر وہی بات فرمائی جا رہی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا توشیاطین کو یہ قدرت نہ دیتا اور لوگوں کو زبردستی ایمان پر مجبور کردیتا لیکن چونکہ مقصدامتحان ہے، اس لئے زبردستی کا ایمان معتبر نہیں۔ الانعام
113 الانعام
114 الانعام
115 الانعام
116 الانعام
117 الانعام
118 52: تشریح : پیچھے ان لوگوں کا ذکر تھا جو محض خیالی اندازوں پر اپنے دین کی بنیاد رکھے ہوئے ہیں، ان کی اس گمراہی کا ایک نتیجہ یہ تھا کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ہے اس کو یہ حرام کہتے ہیں اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام کہا ہے اسے حلال سمجھتے ہیں، چنانچہ ایک مرتبہ کچھ کافروں نے مسلمانوں پر یہ اعتراض کیا کہ جس جانور کو اللہ تعالیٰ قتل کرے یعنی وہ اپنی طبعی موت مرجائے اس کو تو تم مردار قرار دے کر حرام سمجھتے ہو اور جس جانور کو تم خو داپنے ہاتھوں سے قتل کرتے ہو اس کو حلال قرار دیتے ہو، اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حلال وحرام کا فیصلہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے اس نے واضح فرمادیا ہے کہ جس جانور پر اللہ کا نام لے کر اسے ذبح کیا جائے وہ حلال ہوتا ہے اور جو ذبح کئے بغیر مرجائے یا جسے ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو وہ حرام ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے بعد اپنے من گھڑت خیالات کی بنا پر حلال وحرام کا فیصلہ کرنا ایسے شخص کا کام نہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں پر ایمان رکھتا ہو۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ کفار کے مذکورہ اعتراض کے جواب میں یہ مصلحت بھی بتائی جاسکتی ہے کہ جانور کو باقاعدہ ذبح کیا جاتا ہے اس کا خون اچھی طرح بہہ جاتا ہے، اس کے برخلاف جو جانور خو دمرجاتا ہے اس کا خون جسم ہی میں رہ جاتا ہے جس سے پورا گوشت خراب ہوجاتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ حکمت بیان فرمانے کے بجائے یہ کہنے پر اکتفا فرمایا کہ جو چیزیں حرام ہیں وہ اللہ نے خود بیان فرمادی ہیں، لہذا اس کے احکام کے مقابلے میں خیالی گھوڑے دوڑانا مومن کا کام نہیں، اس طرح یہ واضح فرمادیا کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں یقیناً مصلحتیں ہوتی ہیں لیکن مسلمان کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی اطاعت کو ان مصلحتوں کے سمجھنے پر موقوف رکھے اس کا فریضہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم آجائے تو بے چون وچرا اس کی تعمیل کرے چاہے اس کی مصلحت اس کی سمجھ میں آرہی ہو یا نہ آرہی ہو۔ الانعام
119 الانعام
120 53: ظاہری گناہوں میں وہ گناہ بھی داخل ہیں جو انسان اپنے ظاہری اعضاء سے کرے، مثلاً جھوٹ، غیبت، دھوکا، رشوت، شراب نوشی، زنا وغیرہ، اور باطنی گناہوں سے مراد وہ گناہ ہیں جن کا تعلق دل سے ہوتا ہے مثلاً حسد، ریا کاری، تکبر، بغض، دوسروں کی بد خواہی وغیرہ، پہلی قسم کے گناہوں کا بیان فقہ کی کتابوں میں ہوتا ہے اور ان کی تعلیم وتربیت فقہاء سے حاصل کی جاتی ہے اور دوسری قسم کے گناہوں کا بیان تصوف اور احسان کی کتابوں میں ہوتا ہے اور ان کی تعلیم وتربیت کے لئے مشائخ سے رجوع کیا جاتا ہے، تصوف کی اصل حقیقت یہی ہے کہ باطن کے ان گناہوں سے بچنے کے لئے کسی رہنما سے رجوع کیا جائے افسوس ہے کہ تصوف کی اس حقیقت کو بھلا کر بہت سے لوگوں نے بدعات وخرافات کا نام تصوف رکھ لیا ہے۔ اس حقیقت کو حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رح) نے اپنی بہت سی کتابوں میں خوب واضح فرمایا ہے، آسان طریقے سے اس کو سمجھنے کے لئے ملاحظہ فرمائے حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب (رح) کی کتاب“ دل کی دنیا ”۔ الانعام
121 الانعام
122 54: یہاں روشنی سے مراد اسلام کی روشنی ہے اور لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہو فرماکر اشارہ اس طرف کردیا گیا ہے کہ اسلام کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ انسان مذہبی عبادات کو لے کر دنیا سے ایک طرف ہو کر بیٹھ جائے اور لوگوں سے میل جول چھوڑدے ؛ بلکہ اسلام کا تقاضا یہ ہے کہ وہ عام انسانوں کے درمیان رہے، ان سے ضروری معاملات کرے، ان کے حقوق ادا کرے ؛ لیکن جہاں بھی جائے اسلام کی روشنی ساتھ لے جائے، یعنی یہ سارے معاملات اسلامی احکام کے تحت انجام دے۔ الانعام
123 55: یہ مسلمانوں کو تسلی دی جارہی ہے کہ کافر لوگ ان کے خلاف جو سازشیں کررہے ہیں ان سے گھبرائیں نہیں اس قسم کی سازشیں ہر دور میں انبیاء کرام اور ان کے ماننے والوں کے خلاف ہوتی رہی ہیں ؛ لیکن بالآخر انجام اہل ایمان ہی کا بہتر ہوتا ہے اور دشمنوں کی سازشیں آخر کار خود انہی کو نقصان پہنچاتی ہیں، کبھی تو اسی دنیا میں ان کا یہ نقصان ظاہر ہوجاتا ہے اور کبھی دنیا میں ظاہر نہیں ہوتا ؛ لیکن آخرت میں ان کو پتہ چل جائے گا کہ انہوں نے خود اپنے حق میں کانٹے بوئے تھے۔ الانعام
124 56: یعنی جب تک خود ہم پر ویسی وحی نازل نہیں ہوگی جیسی انبیاء کرام پر نازل ہوتی رہی ہے اور ویسے معجزات ہمیں نہیں دئے جائیں گے جیسے ان کو دئے گئے تھے اس وقت تک ہم ایمان نہیں لائیں گے، خلاصہ یہ ہے کہ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ ہم میں سے ہر شخص کو پوری پیغمبری ملنی چاہئے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نہ یہ جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ پیغمبری کس کو عطا کی جائے۔ الانعام
125 الانعام
126 الانعام
127 الانعام
128 57: انسان تو شیطانوں سے یہ مزے لیتے رہے کہ ان کے بہکائے میں آ کر اپنی نفسانی خوہشات کی تکمیل کی اور وہ گناہ کیے جن سے ظاہری طور پر لذت حاصل ہوتی تھی۔ اور شیطان انسانوں سے یہ مزے لیتے رہے کہ انہیں گمراہ کر کے خوش ہوئے کہ یہ لوگ خوب اچھی طرح ہمارے قابو میں آگئے ہیں۔ در اصل وہ یہ کہہ کر اپنی غلطی کا اعتراف کر رہے ہوں گے، اور غالباً آگے معافی بھی مانگنا چاہتے ہوں گے، لیکن یا تو اس سے آگے کچھ کہنے کا حوصلہ نہیں ہوگا، یا چونکہ معافی کا وقت گذر چکا ہوگا، اس لیے اللہ تعالیٰ ان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی یہ فرمائیں گے کہ اب معافی تلافی کا وقت گذر چکا، اب تو تمہیں جہنم کی سزا بھگتنی ہی ہوگی۔ 58: اس کا ٹھیک ٹھیک مطلب تو اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے ؛ لیکن بظاہر استثناء کے اس جملے سے دو حقیقتوں کی طرف اشارہ مقصود ہے : ایک یہ کہ کافروں کے عذاب وثواب کا فیصلہ کسی سفارش یا اثر ورسوخ کی وجہ سے تبدیل نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کا تمام ترفیصلہ خود اللہ تعالیٰ کی مشیت کی بنیاد پر ہوگا اور یہ مشیت اس کی حکمت اور علم کے مطابق ہوگی جس کا ذکر اگلے جملے میں ہے، دوسری حقیقت جو اس استثناء سے ظاہر کی گئی ہے یہ ہے کہ کافروں کو ہمیشہ جہنم میں رکھنا (معاذاللہ) اللہ تعالیٰ کی کوئی مجبوری نہیں ہے لہذا اگر بالفرض اس کی مشیت یہ ہوجائے کہ کسی کو باہر نکال لیا جائے تو یہ عقلی اعتبار سے ناممکن نہیں ہے ؛ کیونکہ اس کی اس حیثیت کے خلاف کوئی اسے مجبور نہیں کرسکتا یہ اور بات ہے کہ اس کی مشیت اس کے علم اور حکمت کے مطابق یہی ہو کہ کافر ہمیشہ جہنم میں رہیں۔ الانعام
129 59: یعنی جس طرح ان کافروں پر ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے شیاطین کو مسلط کردیا گیا جو انہیں بہکاتے رہے، اسی طرح ہم ظالموں کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان پر دوسرے ظالموں کو مسلط کردیتے ہیں، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ جب کسی ملک کے لوگ بداعمالیوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو ان پر ظالم حکمران مسلط کردئے جاتے ہیں، اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ جب کوئی شخص کسی ظالم کے ظلم میں اس کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ خود اسی ظالم کو مدد کرنے والے پر مسلط کردیتا ہے۔ ابن کثیر۔ الانعام
130 60: انسانوں میں تو پیغمبروں کا تشریف لانا واضح ہے، اس آیت کی وجہ سے بعض علماء کا کہنا ہے کہ جنات میں بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے پیغمبر آتے رہے اور دوسرے حضرات کا کہنا یہ ہے کہ باقاعدہ پیغمبر توجنات میں نہیں آئے ؛ لیکن انسانوں میں جو پیغمبر بھیجے گئے وہی جنات کو تبلیغ کرتے تھے اور جو جنات مسلمان ہوجاتے وہ پھر انبیاء کرام کے نمائندے بن کر دوسرے جنات کو بھی تبلیغ کرتے تھے، جیسا کہ سورۂ جن میں تفصیل سے مذکور ہے، آیت کی رو سے دونوں احتمال ممکن ہیں ؛ کیونکہ آیت کا مقصد یہ ہے کہ انسانوں اور جنات دونوں کو تبلیغ کا حق ادا کردیا گیا اور وہ دونوں طرح ممکن ہے۔ 61: پیچھے آیت نمبر 23 میں گذرا ہے کہ وہ شروع میں جھوٹ بولنے کی کوشش کریں گے، لیکن جب خود ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف گواہی دے دیں گے تو وہ بھی سچ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ تفصیل کے لیے آیت 23 کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔ الانعام
131 62: اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان بستی والوں کی کسی زیادتی کی وجہ سے ان کو ہلاک کرنا اللہ تعالیٰ کو اس وقت تک گوارا نہیں تھا جب تک انہیں انبیائے کرام کے ذریعے متوجہ نہ کردیا جائے۔ اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود یہ زیادتی نہیں کرسکتا تھا کہ پہلے سے متوجہ کیے بغیر لوگوں کو ہلاک کردے۔ الانعام
132 الانعام
133 63: یعنی اس نے رسولوں کو بھیجنے کا جو سلسلہ جاری فرمایا اس کی وجہ معاذ اللہ یہ نہیں تھی کہ وہ تمہاری عبادت کا محتاج ہے وہ تو مخلوق کی عبادت سے بے نیاز ہے، لیکن اس کے ساتھ وہ رحمت والا بھی ہے، اس لیے اس نے پیغمبر بھیجے ہیں جو بندوں کو اس صحیح راہ عمل کی طرف متوجہ کرتے رہیں جس میں ان کی دنیا اور آخرت دونوں کے لیے بہتری کا سامن ہو۔ 64: جس طرح آج کے تمام لوگ ان لوگوں کی نسل سے ہیں جن کا اب کوئی پتہ نشان باقی نہیں رہا، اسی طرح اللہ تعالیٰ کو یہ بھی قدرت ہے کہ آج کے تمام لوگوں کو ایک ہی مرتبہ میں ختم کر کے دوسری قوم پیدا کردے، لیکن وہ اپنی رحمت کی وجہ سے ایسا نہیں کر رہا۔ الانعام
134 65: اس سے مراد آخرت اور جنت اور جہنم ہے۔ الانعام
135 الانعام
136 66: یہاں سے آیت نمبر : ١٤٤ تک عرب کے مشرکین کی کچھ بے بنیاد رسموں کا بیان ہے، ان لوگوں نے کسی معقول اور علمی بنیاد کے بغیر مختلف کاموں کو من گھڑت اسباب کی بنیاد پر حلال یا حرام قرار دے رکھا تھا، مثلاً خود اپنی اولاد کو انتہائی سنگ دلی سے قتل کردیتے تھے، اگر لڑکی پیدا ہوئی تو اسے اپنے لئے بڑی شرم کی بات سمجھ کر اسے زندہ زمین میں دفن کردیتے تھے، بعض لوگ اس وجہ سے بھی لڑکیوں کو دفن کردیتے تھے کہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اس لئے انسانوں کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ لڑکیاں رکھیں، لڑکوں کو بعض اس وجہ سے قتل کرڈالتے تھے کہ ان کو کہاں سے کھلائیں گے، اور کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو یہ نذر مان لیتے تھے کہ ہمارا جو دسواں لڑکا ہوگا اسے اللہ یا بتوں کے نام پر ذبح کردیں گے، اس کے علاوہ اپنے مویشیوں اور کھیتوں کی پیداوار کے بارے میں بھی عجیب وغریب عقیدے گھڑ رکھے تھے، ان میں سے ایک کا بیان اس آیت میں ہے اور وہ یہ کہ اپنے کھیتوں کی پیداوار اور مویشیوں کے دودھ یا گوشت میں سے کچھ حصہ تو اللہ کے نام رکھتے تھے (جو مہمانوں اور غریبوں میں تقسیم کیلئے ہوتا تھا) اور ایک حصہ اپنے بتوں کے نام کا نکالتے تھے جو بت خانوں پر چڑھا یا جاتا تھا اور اس سے بت خانوں کے نگراں فائدہ اٹھاتے تھے، اول تو یہ بات ہی بیہودہ تھی کہ اللہ کے ساتھ بتوں کو شریک کرکے ان کے نام پرپیداوار کا کچھ حصہ رکھا جائے، اوپر سے ستم ظریفی یہ تھی کہ جو حصہ اللہ کے نام کا رکھا تھا اگر اس میں سے کچھ بتوں والے حصے میں چلا جاتا تو کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، البتہ اگر بتوں کے حصے میں سے کوئی چیز اللہ کے نام کے حصے میں چلی جاتی تو اسے فوراً واپس کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔ الانعام
137 67: اس کی تشریح کے لیے دیکئے اسی سورت میں پیچھے آیت نمبر 12 کا حاشیہ۔ الانعام
138 68: یہ ایک اور رسم کا بیان ہے جس کی رو سے وہ اپنے من گھڑت دیوتاؤں کو اپنے گمان کے مطابق خوش کرنے کے لئے کسی خاص کھیتی یا مویشی پر پابندی لگادیتے تھے کہ ان کی پیداوار سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکتا، البتہ جس شخص کو چاہتے اس پابندی سے مستثنی کردیتے تھے۔ 69: ایک اور رسم یہ تھی کہ کسی سواری کے جانور کو کسی بت کے نام وقف کردیتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ اس پر سواری کرنا حرام ہے۔ 70: بعض جانوروں کے بارے میں انہوں نے یہ طے کررکھا تھا کہ ان پر اللہ کا نام نہیں لیاجاسکتا، نہ ذبح کرتے وقت، نہ سواری کے وقت اور نہ ان کا گوشت کھاتے وقت، چنانچہ ان پر سوار ہو کر حج کرنے کو بھی ناجائز سمجھتے تھے۔ الانعام
139 71: یعنی بچہ اگر زندہ پیدا ہوجائے تو صرف مردوں کے لیے حلال ہوگا، عورتوں کے لیے حرام، لیکن مردہ پیدا ہو تو مردوں عورتوں دونوں کے لیے حلال الانعام
140 الانعام
141 72: تشریح کے لیے دیکھئے پیچھے آیت نمبر 99 کا حاشیہ 73: اس سے مراد عشر ہے جو زرعی پیداوار پر واجب ہوتا ہے مکی زندگی میں اس کی کوئی خاص شرح مقرر نہیں تھی، بلکہ جب کٹائی کا وقت آتا تو کھیتی کے مالک پر فرض تھا کہ جو فقراء اس وقت موجود ہوں ان کو اپنی صوابدید کے مطابق کچھ دے دیا کرے، مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد اس کے مفصل احکام آئے اور آنحضرتﷺ نے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ بارانی زمینوں پر پیداوار کا دسواں حصہ اور نہری زمینوں پر بیسواں حصہ غریبوں کا حق ہے، آیت نے بتایا ہے کہ یہ حق کٹائی ہی کے وقت ادا کردینا چاہئے۔ الانعام
142 74: زمین سے لگے ہوئے ہونے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ان کا قد چھوٹا ہوتا ہے، جیسے بھیڑ بکریاں، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان کی کھال زمین پر بچھانے کے کام آتی ہے۔ الانعام
143 75: مطلب یہ ہے کہ تم لوگ کبھی نر جانور کو حرام قرار دے دیتے ہو کبھی مادہ جانور کو، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ جوڑے پیدا کرتے وقت نہ نر کو حرام کیا تھا نہ مادہ کو، اب تم ہی بتاؤ کہ اگر نر ہونے کی وجہ سے کوئی جانور حرام ہوتا ہے توہمیشہ نر ہی حرام ہونا چاہئے اور اگر مادہ ہونے کی وجہ سے حرمت آتی ہے تو ہمیشہ مادہ ہی حرام ہونا چاہئے، اور اگر کسی مادہ کے پیٹ میں ہونے کی وجہ سے حرمت آتی ہے تو پھر بچہ نرہویامادہ ہر صورت میں حرام ہونا چاہئے، لہذا تم نے اپنی طرف سے جو احکام گھڑ رکھے ہیں نہ ان کی کوئی علمی یا عقلی بنیاد ہے اور نہ اللہ کا کوئی حکم ایسا آیا ہے۔ الانعام
144 الانعام
145 76: مطلب یہ ہے کہ جن جانوروں کو بت پرستوں نے حرام قرار دے رکھا ہے ان میں سے کسی جانور کے بارے میں مجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ممانعت کا حکم ان چار چیزوں کے سوا نہیں آیا، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دوسرے جانوروں میں بھی کوئی جانور حرام نہیں، چنانچہ آنحضرتﷺ نے ہر قسم کے درندوں وغیرہ کے حرام ہونے کی وضاحت فرمادی ہے۔ 77: اگر آدمی بھوک سے بے تاب ہو اور کھانے کے لئے کوئی حلال چیز میسر نہ ہو تو جان بچانے کے لئے ان حرام چیزوں میں سے کسی چیز کا کھانا بقدر ضرورت جائز ہوجاتا ہے۔ ان چیزوں کی ھرمت کا یہ حکم پیچھے سورۃ بقری کی آیت 73 اور سورۃ مائدہ کی آیت نمبر 3 میں بھی گذرا ہے، اور آگے سورۃ نحل کی آیت نمبر 115 میں بھی آئے گا۔ الانعام
146 الانعام
147 78: جھٹلانے والوں سے یہاں براہ راست تو یہودی مراد ہیں ؛ کیونکہ وہ اس بات کا انکار کرتے تھے کہ مذکورہ چیزیں ان پر ان کی سرکشی کی وجہ سے حرام کی گئی تھیں، ضمناً اس میں مشرکین عرب بھی داخل ہیں جو قرآن کریم کی ہر بات کا انکار کرتے تھے، جس میں یہ بات بھی شامل تھی، دونوں فریقوں سے یہ کہا جارہا ہے کہ اگر ان کے قرآن کو جھٹلانے کے باوجود ان پر کوئی فوری عذاب نہیں آرہا ہے ؛ بلکہ دنیا میں انہیں خوشحالی بھی میسر ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے عمل سے خوش ہے اس کے بجائے حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ ہ اپنے باغیوں کو بھی رزق دیتا ہے اور خوشحالی سے نوازتا ہے البتہ یہ بات طے ہے کہ ان مجرموں کو ایک نہ ایک دن عذاب ضرور ہوگا جسے کوئی ٹلا نہیں سکتا۔ الانعام
148 79: یہ پھر وہی بے ہودہ دلیل ہے جس کا جواب بار بار دیا جاچکا ہے یعنی یہ کہ اگر اللہ کو شرک ناگوار ہے تو وہ ہمیں شرک پر قدرت ہی کیوں دیتا ہے ؟ جواب بار بار دیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ساری دنیا کو اپنی قدرت کے ذریعے زبردستی ایمان پر مجبور کردے تو پھر امتحان ہی کیا ہوا؟ دنیا تو اسی امتحان کے لئے پیدا کی گئی ہے کہ کون شخص اپنی سمجھ اور اپنے اختیار سے وہ صحیح راستہ اختیار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی فطرت میں بھی رکھ دیا ہے اور جس کی طرف رہنمائی کے لئے اتنے سارے پیغمبر بھیجے ہیں۔ الانعام
149 80: یعنی تم تو فرضی دلائل پیش کررہے ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو بھیج کر اپنی حجت پودی کردی ہے اور ان کے بیان کئے ہوئے دلائل دلوں میں اترنے والے ہیں ان کی تصدیق اس حقیقت نے بھی کردی ہے کہ جن لوگوں نے انہیں جھٹلایا وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے شکار ہوئے، لہذا یہ بات تو صحیح ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب کو زبردستی ہدایت پر لے آتا لیکن اس سے تمہاری یہ ذمہ داری ختم نہیں ہوتی تم اپنے اختیار سے پیغمبروں کے ناقال انکار دلائل کو قبول کرکے ایمان لاؤ۔ الانعام
150 الانعام
151 81: یعنی بے حیائی کے کام جس طرح کھلم کھلا کرنا منع ہے اسی طرح چوری چھپے بھی منع ہے۔ الانعام
152 82: خرید وفروخت کے وقت ناپ تول کا پورا لحاظ رکھنا واجب ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمادیا کہ اس معاملے میں طاقت سے زیادہ میخ نکالنے کی بھی ضرورت نہیں انسان کو پوری پوری کوشش کرنی چاہئے کہ ناپ تول ٹھیک ہو، لیکن کوشش کے باوجود تھوڑا بہت فرق رہ جائے تو وہ معاف ہے۔ 83: اللہ کے عہد میں وہ عہد بھی داخل ہے جس میں براہ راست اللہ تعالیٰ سے کوئی وعدہ کیا گیا ہو، اور وہ عہد بھی جوکسی انسان سے کیا گیا ہو مگر اللہ تعالیٰ کی قسم کھاکر یا اس کو گواہ بناکر کیا گیا ہو۔ الانعام
153 الانعام
154 الانعام
155 الانعام
156 الانعام
157 الانعام
158 84: یعنی اس سے مراد قیامت کی آخری نشانی ہے، جس کے بعد ایمان قبول نہیں ہوگا، کیونکہ معتبر ایمان وہی ہے جو دلائل کی بنیاد پر ایمان بالغیب ہو، کسی چیز کو آنکھوں سے مشاہدہ کر کے ایمان لانے سے امتحان کا وہ مقصد پورا نہیں ہوتا جس کے لیے یہ دنیا پیدا کی گئی ہے۔ الانعام
159 الانعام
160 الانعام
161 الانعام
162 الانعام
163 الانعام
164 85: کفار کبھی مسلمانوں سے یہ کہتے تھے کہ تم ہمارے مذہب کو اپنا لو، اگر کوئی عذاب ہوا تو تمہارے حصے کا عذاب بھی ہم اپنے سر لے لیں گے، جیسا کہ سورۃ عنکبوت (12:29) میں قرآن کریم نے ان کی یہ بات نقل ذکر فرمائی ہے۔ یہ آیت اس کے جواب میں نازل ہوئی۔ اور اس میں یہ عظیم سبق ہے کہ ہر شخص کو اپنے انجام کی خود فکر کرنی چاہئے، کوئی دوسرا شخص اسے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ یہی مضمون سورۃ بنی اسرائیل (15:17) سورۃ فاطر (18:35) سورۃ زمر (7:39) اور سورۃ نجم ) (38:53) میں بھی آیا ہے۔ اس کی مزید تفصیل انشاء اللہ سورۃ نجم میں آئے گی۔ الانعام
165 الانعام
0 الاعراف
1 الاعراف
2 (١) ہدایت وحی کا مقصد تذکیر اور تنذیر ہے، تذکیر یعنی پند و موعظت کے ذریعہ بیدار کرنا، تنذیر یعنی انکار و بدعملی کے نتائج سے خبردار کرنا۔ پیروان دعوت کو موعظت کہ دعوت حق کا معاملہ بڑے ہی عزم و ثبات اور صبر و استقلال کا معاملہ ہے اور خواہ کتنی ہی مشکلیں پیش آئیں لیکن بالآخر حق کی فتح مندی اٹل ہے۔ پس چاہیے کہ مشکلات کار سے دل تنگ و افسردہ خاطر نہ ہوں۔ مشرکین عرب کو تنذیر۔ الاعراف
3 الاعراف
4 (٢) جن جماعتوں نے دعوت حق کا مقابلہ کیا وہ پاداش عمل میں ہلاک ہوگئیں، کیونکہ انکار و سرکشی کا نتیجہ ہلاکت و نامرادی ہے۔ قوموں سے پرسش ہوگی کہ انہوں نے پیغمبروں کی دعوت پر کان دھرا یا نہیں اور پیغمبر بھی اس کے لیے جوابدہ ہیں کہ انہوں نے فرض رسالت ادا کیا یا نہیں۔ الاعراف
5 الاعراف
6 الاعراف
7 الاعراف
8 (١) قانون الہی یہ ہے کہ ہر فرد، ہر جماعت کو ویسے ہی نتائج ملیں گے جیسے کچھ اس کے اعمال ہوں گے، کامیاب انسان وہ ہوگا جس کی بھلائیاں برائیوں سے زیادہ ہوں گی۔ نامراد وہ ہوگا جس کی برائیوں کے وزن سے بھلائیاں دب جائیں گی، دنیا میں اشیا کے موازنہ کے لیے ترازو کام دیا کرتا ہے، اسی طرح اعمال کے موازنہ کے لیے بھی قدرت نے ایک میزان مقرر کردیا ہے جس کی تول میں کبھی غلطی نہیں ہوسکتی۔ الاعراف
9 الاعراف
10 الاعراف
11 (٢) نسل انسنای کی سعادت و شقاوت کی ابتدئی سرگزشت اور ہدایت وحی کی ابتداء۔ (الف) پہلے انسان کے وجود کی تخلیق ہوئی پھر اس کی صورت بنی پھر وہ وقت آیا کہ آدم کا ظہور ہوا اور اس نے وہ مقام حاصل کرلیا کہ ملائکہ کو حکم ہوا کہ اس کے آگے سربسجود ہوجاؤ۔ (ب) ملائکہ نے تعمیل کی لیکن ابلیس نے انکار و سرکشی کی راہ اختیار کی۔ (ج) آدم سے بھی لغزش ہوئی لیکن اس نے سرکشی نہیں کی، عجز و اعتراف کیا اور سر جھکا دیا۔ (د) اب بنی آدم کے لیے دو راہیں ہوگئیں : ایک آدم والی کہ احکام الہی کی اطاعت کرنا اور اگر قصور ہوجائے تو توبہ و انابت کا سر جھکا دینا۔ دوسری ابلیس والی کہ پہلے نافرمانی کرنا پھر عجز و اعتراف کی جگہ سرکشی و تکبر کی چال چلنا۔ جو پہلی راہ چلے گا کامیاب ہوگا، جو دوسری راہ چلے گا نامراد ہوگا۔ (ہ) ابلیس کے گھمنڈ اور گستاخانہ جرات کے ذکر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ برائی کی قوتیں جب سر اٹھاتی ہیں تو ان کی سرکشی کا ایسا ہی حال وہتا ہے اور (د) یہاں ڈھیل اور مہلت سب کے لیے ہے۔ اچھوں کے لیے بھی اور بروں کے لیے بھی۔ یاد رہے کہ قرآن نے حقائق کی دو قسمیں کردیں ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق عالم غیب سے ہے۔ یعنی غیر محسوسات سے، ایک وہ جن کا تعلق عالم شہادت سے ہے یعنی محسوسات سے۔ نوع انسان کی ابدائی پیدائش اور نشو ونما کا معاملہ عالم غیب سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ ہم اپنے وسائل ذہن و ادراک سے کوئی یقینی روشنی اس بارے میں حاصل نہیں کرسکتے اور اس لیے ضروری ہے کہ کتاب الہی نے جو کچھ بیان کیا ہے اس پر ایمان لائیں۔ آدم (علیہ السلام) کی سرگزشت کی تاریخ تورات ہی سے شروع نہیں ہوتی بلکہ آثار قدیمہ کے انکشافات نے اسے بہت قدیم عہد تک پہنچا دیا ہے۔ کم سے کم یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ تورات سے کئی ہزار سال پہلے اہل مصر میں کسی ایسے واقعہ کا اعتقاد عام تھا چنانچہ لڈیا کی اینٹوں پر اس کے نقوش ملے ہیں َ اور زیریں کے عہد میں اس کی تصاویر نمایاں ہیں اور ہیرو غلیفی نقوش بھی اس کے اشاروں سے خالی نہیں۔ الاعراف
12 الاعراف
13 الاعراف
14 الاعراف
15 الاعراف
16 الاعراف
17 الاعراف
18 الاعراف
19 الاعراف
20 الاعراف
21 الاعراف
22 الاعراف
23 الاعراف
24 الاعراف
25 الاعراف
26 (١) اب یہاں سے آیت اولاد آدم سے خطاب ہے یعنی وہ احکام بیان کیے گئے ہیں جو آدم کی ابتدائی نسل کے افراد کو دیئے گئے تھے جب وہ زمین پر پھیل گئے۔ (ا) خدا نے زمین کی پیداوار میں تمہارے لیے لباس کا سامان پیدا کردیا، اس میں پوشش و حفاظت بھی ہے اور زیب و زینت بھی، نیز اس نے ایک دوسرا لباس بھی مہیا کردیا ہے اور وہ لباس تقوی ہے۔ پہلا جسم کی حفاظت و زینت ہے، دوسرا روح کی۔ (ب) دنیا کا سامان زیب و زینت خدا کی بخشی ہوئی نعمت ہے۔ پس دینداری کا مقتضا یہ ہوا کہ انہیں کام میں لایا جائے۔ نہ یہ کہ ان سے گریز کیا جائے، خدا کی عبادت کرو تو اپنے سامان زینت سے آراستہ ہو کر کرو۔ (ج) کھاؤ پیو دنیا کی تمام نعمتیں کام میں لاؤ مگر اسراف یعنی بے اعتدالی نہ کرو۔ یہ بات جکہ دنیا کی تمام راحتوں اور لذتوں سے فائدہ اٹھانا مگر بے اعتدالی سے بچنا دین حقیقی کی وہ بنیادی اصل ہے جس کی اولاد آدم کو تعلیم دی گئی تھی۔ (د) خدا کا قانون یہ ہے کہ انسان کی ہدایت کے لیے پیغمبر مبعوث کرتا ہے، پھر جو کوئی اصلاح کی راہ اختیار کرتا ہے فلاح پاتا ہے۔ جو سرکشی کرتا ہے تباہ ہوتا ہے۔ یہاں خسوصیت سے لباس کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ اس میں انسان کی عقل زندگی کا سب سے پہلا مظاہرہ تھا، جب وہ لباس پہننے لگا تو یہ گویا اس حقیقت کا اعلان ہوا کہ اخلاقی شعور ابھر آیا ہے، صنعت و اختراع کی راہوں سے آشنا ہوگیا ہے اور عام حیوانی زندگی کی جگہ انسانی زندگی کی خصوصیات نشو ونما پارہی ہیں۔ خدا کے دین کی اسلی تعلیم تو یہ تھی لیکن لوگوں نے خود ساختہ گمراہیاں پیدا کرلیں اور انہیں حکم الہی سمجھنے لگے۔ آیت (٢٨) میں فرمایا گمراہی کا سب سے بڑا سرچشمہ اپنے بزرگوں کی تقلید ہے۔ مشرکین عرب کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی ہم نے اپنے بزرگوں کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ آیت (٢٩) میں دین حق کے تین بنیادی اصول واضح کردیئے عمل میں اعتدال، عبادت میں توجہ اور خدا پرستی میں اخلاص، یہ آیت باب توحید میں اصل اصول ہے۔ فرمایا دین کو خدا کے لیے خاص کر کے اسے پکارو یعنی دین کی جتنی باتیں ہیں وہ صرف خدا ہی کے لیے مخصوص کردو۔ رہبانیت کا رد اور اس اصل عظیم اعلان کہ دنیوی زندگی کی آسائشیں خدا پرستی کے خلاف نہیں ہیں بلکہ ان کو کام میں لانا عین منشائے ایزدی کی تعمیل ہے۔ چنانچہ فرمایا اولاد آدم کو جو تعلیم دی گئی تھی وہ یہ تھی کہ اپنی زیب و زینت سے آراستہ ہو کر خدا کی عبادت کرو۔ پیروان مذاہب کی عالمگیر گمراہی یہ تھی کہ سمجھتے تھے روحانی سعادت جبھی مل سکتی ہے کہ دنیا ترک کردی جائے اور خدا پرستی کا مقتضا یہ ہے کہ زینتوں اور آسائشوں سے کنارہ کش ہوجائیں۔ قرآن کہتا ہے حقیقت اس کے عین برعکس ہے۔ تم سمجھتے ہو زندگی کی زینتیں اس لیے ہیں کہ ترک کردی جائیں۔ حالانکہ وہ اسی لیے ہیں کہ کام میں لائی جائیں، دنیا اور دنیا کی تمام نعمتوں کو ٹھیک طور پر کام میں لانا مشیت الہی کو پورا کرنا ہے، خدا نے زمین میں جو کچھ پیدا کیا ہے سب تمہارے ہی لیے ہے۔ کھاؤ، پیو زینت و آسائش کی تمام نعمتیں کام میں لاؤ مگر حد سے نہ گزر جاؤ، دنیا نہیں دنیا کا بے اعتدالانہ استعمال روحانی سعادت کے خلاف ہے۔ زندگی کی جن زینتوں کو پیروان مذاہب خدا پرستی کے خلاف سمجھتے تھے انہیں قرآن زینۃ اللہ یعنی خدا کی زینتوں سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ آیت قرآن کا ایک انقلاب انگیز اعلان ہے جس نے انسان کی دینی ذہنیت کی بنیادیں الٹ دیں، وہ دنیا جو نجات و سعادت کی طلب میں دنیا ترک کر رہی تھی اب اسی نجات و سعادت کو دنیا کی تعمیر و ترقی میں ڈھونڈنے لگی۔ یہاں زینت سے مقصود وہ تمام چیزیں ہیں جو زندگی کی قدرتی ضروریات سے زیادہ ہوں۔ مثلا اچھا لباس، اچھا کھانا، معیشت کی تمام بے ضرر آسائشیں اور لذتیں۔ آیت (٣٤) میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ افراد کی طرح جماعتوں کی موت و حیات کے لیے بھی مقررہ قوانین ہیں اور ان کے احکام اٹل ہیں۔ جب ایک جماعت کا شر و فساد اس حد تک پہنچ جاتا ہے جو جماعتوں کی ہلاکت کے لیے ٹھہرا دی گئی ہے تو پھر ظہور نتائج میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں ہوتی۔ یہاں اس اشارہ سے مقصود روسا عرب کی تنبیہ اور مومنوں کی تزکیر ہے کہ انقلاب حال کا وقت آگیا ہے اور ضروری ہے کہ فیصلہ کن نتائج ظہور میں آئیں۔ آیت (٣٥) میں فرمایا کہ اولاد آدم کو ہدایت وحی کے وقتا فوقتا ظہور کی خبر دی گئی تھی، اسی قانون کے مطابق اب پیغمبر اسلام کا ظہور ہوا ہے، وہ اپنے دعوے میں سچا ہے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ آنے والے نتائج کردیں گے، کیونکہ صورت حال نے دو فریق پیدا کردیئے ہیں۔ ایک داعی قرآن ہے جو کہتا ہے میں خدا کی طرف سے مامور ہوں، دوسرا فریق منکروں کا ہے جو اسے جھٹلاتا ہے، جو شخص خدا پر بہتان باندھے اس سے بڑھ کر کوئی گنہگار نہیں اور جو سچے کو جھٹلائے اس کی بدبختی میں بھی کلام نہیں۔ الاعراف
27 الاعراف
28 الاعراف
29 الاعراف
30 الاعراف
31 الاعراف
32 الاعراف
33 الاعراف
34 الاعراف
35 الاعراف
36 الاعراف
37 الاعراف
38 (١) اصحاب دوزخ کے بعض احوال و واردات جو عالم آخرت میں پیش آئیں گے۔ آیت (٣٨) میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جب کوئی جماعت برائی میں مبتلا ہوتی ہے تو خود بھی گمراہ ہوتی ہے اور دوسروں کے لیے بھی گمراہی کی مثال قائم کردیتی ہے۔ اسی لیے پچھلی امتیں اپنے سے پہلی امتوں پر لعنت بھیجیں گی کہ ان کی تقلید و پیروی میں ہم گمراہ ہوئیں۔ فرمایا : تم میں سے ہر ایک کے لیے دوگنا عذاب ہے، یعنی ہر ایک جماعت خود بھی گمراہ ہوئی اور اپنے سے بعد آنے والوں کے لیے بھی بری مثال قائم کی۔ پس سب اس کی مستحق ہوئیں کہ دوگنا عذاب پائیں۔ الاعراف
39 الاعراف
40 الاعراف
41 الاعراف
42 (١) اصحاب جنت کے بعض احوال و واردات جو آخرت میں پیش آئیں گے۔ دوزخیوں کی نسبت فرمایا تھا کہ ان کی ہر جماعت دوسری پر لعنت بھیجے گی، اور ہر امت کی آرزو ہوگی کہ دوسری کو زیادہ عذاب ملے۔ یہاں فرمایا کہ اصحاب جنت کے دل بغض و عناد کی کدورتوں سے پاک ہوتے ہیں کیونکہ ایمان و عمل کی پاکی کے ساتھ کینہ و عناد کی آلودگی جمع نہیں ہوسکتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصحاب ودزخ کے خصائل کا نمایاں وصف یہ ہے کہ راحت کی حالت میں ہوں یا عذاب میں، ان کے دلوں میں بغض و نفرت کے سوا اور کوئی جذبہ جگہ نہیں پاتا برخلاف اس کے اصحاب جنت وہ ہیں جن کے دلوں سے کینہ و غبار یک قلم دور ہوجاتا ہے۔ الاعراف
43 الاعراف
44 الاعراف
45 الاعراف
46 (١) دو مقام ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں اور انہیں الگ الگ کردینا ہو تو درمیان میں دیوار کھڑی کردیتے ہیں۔ فرمایا جنت اور دوزخ کی تقسیم بھی ایسی ہی سمجھو۔ ایک دیوار ہے جس نے ایک کو دوسرے سے الگ کردیا ہے۔ ایک قدم ادھر رہ گئے تو دوزخ ہے، آگے بڑھ گئے تو جنت ہے۔ چنانچہ سورۃ حدید میں ہے۔ جنتیوں اور دوزخیوں کے درمیان ایک دیوار ہے جس میں دروازہ ہے۔ اندر جاؤ تو رحمت ہے، باہر رہو تو عذاب۔ اسی دیوار کو یہاں اعراف سے تعبیر کیا ہے، اعراف کا اطلاق ہر ایسی چیز پر ہوتا ہے جو زمین سے بلند ہو، فرمایا جنت و دوزخ کے لیے بھی ایک اعراف ہے جہاں سے دونوں طرف دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر حقیقت کے رمز شناس ہو تو حق پالو گے کہ زندگی کے ہر گوشہ میں جنت و دوزخ کی تقسیم کا یہی حال ہے۔ دونوں کی سرحدیں اس طرح ملی ہوئی ہیں کہ ایک قدم پیچھے رہ گئے اور جنت کی جگہ دوزخ میں پڑگئے، بسا اوقات ایک قدم کی تیزی یا کوتاہی جنت سے دوزخ میں یا دوزخ سے جنت میں پہنچا دیتی ہے۔ یک لمحہ غافل بودم و صد سالہ را ہم دو رشد !!! الاعراف
47 الاعراف
48 الاعراف
49 الاعراف
50 الاعراف
51 الاعراف
52 (١) اب منکرین قرآن کی طرف سلسلہ بیان متواجہ ہوا ہے۔ فرمایا آدم کی اولاد کو ہدایت وحی کے وقتا فوقتا ظہور کی جو خبر دی گئی تھی اسی کے مطابق قرآن کی دعوت نمودار ہوئی ہے، اور اس نے علم و بصیرت کی راہ واضح کردی ہے۔ پھر اگر منکرین حق سرکشی و فساد سے باز نہیں آتے تو انہیں کس بات کا انتظار ہے؟ کا اس بات کا کہ انکار و بد عملی کے جن نتائج کی خبر دی گئی ہے ان کا ظہور اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں؟ لیکن جس دن ان کا ظہور ہوگا اس دن اس کی مہلت ہی کب باقی رہے گی کہ کوئی ایمان لائے؟ وہ تو اعمال انسانی کے آخری فیصلہ کا دن ہوگا۔ الاعراف
53 الاعراف
54 (١) توحید الوہیت (توحید الوہیت یعنی خدا کے سوائی کوئی ہستی اس کی مستحق نہیں کہ معبود بنائی جائے، توحید ربوبیت یعنی کائنات کی پیدا کرنے والی اور پرورش کرنے والی ہستی صرف خدا ہی کی ہستی ہے۔ قرآن کا اسلوب بیان یہ ہے کہ وہ توحید ربوبیت سے توحید الوہیت پر استدلال کرتا ہے، یعنی جب خالق و رب اس کے سوا کوئی نہیں تو معبود بھی اس کے سوا اور کسی کو نہیں بنانا چاہیے۔) کی تلقین اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کہ خلق اور امر دونوں اللہ ہی کی ذات سے ہیں، یعنی وہی کائنات ہستی کا پیدا کرنے والا ہے اور اسی کے حکم و قدرت سے اس کا انتظام بھی ہورہا ہے، یہ بات نہیں ہے کہ تدبیر و انتظام کی دوسری قوتیں بھی موجود ہوں جیسا کہ مشرکین کا خیال تھا۔ تخت پر متمکن ہوگیا۔ یعنی خدا کی پادشاہت کائنات ہستی میں نافذ ہوگئی، کیونکہ وہی خالق ہے اور وہی مدبر بھی ہے، تمام عالم ہستی اسی کے تخت جلال کے آگے جھکی ہوئی ہے۔ چنانچہ ایک دوسری جگہ فرمایا (ثم استوی علی العرش یدبر الامر) الاعراف
55 آیت (٥٥) سے سلسلہ بیان اسی مقصد کی طرف پھر گیا ہے جس سے سورت کی ابتدا ہوئی ہے۔ یعنی قرآن کی دعوت کی راہ میں کتنی ہی مشکلات پیش آئیں لیکن اس کی کامیابی اٹل ہے اور اہل ایمان کو اس بارے میں دل تنگ نہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ آیت (٥٦) میں فرمایا خدا کی رحمت نیک کرداروں سے دور نہیں۔ الاعراف
56 الاعراف
57 پھر (٥٧) میں اس کی مثال بیان کی، جب پانی برسنے کو ہوتا ہے تو پہلے بارانی ہوائیں چلنے لگتی ہیں پھر پانی برستا ہے اور مردہ زمین زندہ ہو کر سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے۔ یہی حال ہدایت وحی اور اس کے انقلاب کا ہے، پہلے اس کی علامتیں نمودار ہوتی ہیں، پھر اس کی برکتوں سے مردہ روحوں میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ چنانچہ ہوائیں چلنا شروع ہوگئی ہیں، اب باران رحمت کی برکتوں کے ظہور کا انتظار کرو۔ لیکن بارش سے صرف وہی زمین فائدہ اٹھا سکتی ہے جس میں اس کی استعداد ہو، شور والی زمین پر کتنی ہی بارش ہو سرسبز نہ ہوگی، اسی طرح قرآن کی ہدایت سے بھی وہی روحیں شاداب ہوں گی جن میں قبولیت حق کی استعداد ہے۔ جنہوں نے استعداد کھو دی ان کے حصہ میں محرومی و نامرادی کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ الاعراف
58 الاعراف
59 اس کے بعد آیت (٥٩) سے پچھلی دعوتوں کا تذکرہ شروع ہوتا ہے اور یہ حقیقت واضح کی ہے کہ اس انقلاب حال پر متعجب نہ ہونا چاہیے، کیونکہ ہمیشہ سے سنت الہی ایسی ہی چلی آئی ہے اور ہمیشہ دعوت حق کی بے سروسامانیوں نے وقت کے تمام سروسامانوں پر فتح پائی ہے۔ (ا) اس سلسلہ میں سب سے پہلے حضرت نوح کی دعوت نمایاں ہوتی ہے۔ جن کا ظہور دریائے دجلہ و فرات کے دو آبہ میں ہوا تھا جو انسانی تمدن کا سب سے قدیم گہوارہ ہے، اور جہاں غالبا سب سے پہلے بت پرستی کا ظہور ہوا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسانی جمعیت اپنی ابتدائی اور فطری ہدایت کی راہ سے سب سے پہلے وہیں گمراہ ہوئی تھی۔ الاعراف
60 الاعراف
61 الاعراف
62 الاعراف
63 (١) (ب) اللہ کی طرف سے وہ علم رکھتا ہوں جو تمہیں معلوم نہیں، مذہبی سچائی کی اصلی بنیاد یہی ہے اسی لیے قرآن نے تمام پیغمبروں کی زبانی اسے نقل کی ہے۔ انسانی ذہن و ادراک صرف محسوسات کا سطحی علم حاصل کرسکتا ہے لیکن اس سے آگے کیا ہے؟ اس کے علم کا اس کے پاس کوئی عقلی ذریعہ نہیں۔ انبیائے کرام کا اعلان یہ ہے کہ ان کے پاس ایک ذریعہ موجود ہے اور وہ وحی ہے۔ چونکہ انسان کے پاس ہدایت وحی کے خلاف کوئی یقینی روشنی موجود نہیں اور چونکہ بغیر اس علم کے قبول کے کارخانہ حیات کا مسئلہ حل نہیں ہوتا اور چونکہ وہ وجدانی طور پر اس کی طلب بھی رکھتا ہے اس لیے اس کا فرض ہے کہ اس اعلان کے آگے سر تسلیم خم کردے۔ اگر نہیں کرے گا تو وہ یقین و طمانیت کی جگہ شک و ظن کی زندگی کو ترجیح دے گا۔ الاعراف
64 الاعراف
65 (١) (ج) قوم نوح کے بعد عرب میں قوم عاد کو عروج ہوا، ان کی آبادیاں عمان سے لے کر حضرموت اور یمن تک پھیل گئی تھیں، حضرت ہود کا انہی میں ظہور ہوا تھا۔ حضرت ہود کا وعظ اور قوم کا آبا و اجداد کی تقلید کی بنا پر انکار۔ قبول حق کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ آبا و اجداد کی اندھی تقلید اور گھڑٰ ہوئی بزرگیوں اور روایتی عظمتوں کی پرستش ہے۔ ابتدا میں جہل و فساد سے کوئی عقیدہ گھڑ لیا جاتا ہے، پھر ایک مدت تک لوگ اسے مانتے رہتے ہیں، پھر جب ایک عرصہ کے اعتقاد سے اس میں شان تقدیس پیدا ہوجاتی ہے تو اسے شک و شبہ سے بالا تر سمجھنے لگتے ہیں اور عقل و بصیرت کی کوئی دلیل بھی اس کے خلاف تسلیم نہیں کرتے، قرآن اسی کو (اسماء سمیتموھا انتم وابائکم) سے جابجا تعبیر کرتا ہے کیونکہ بنائے ہوئے ناموں اور لفظوں کے سوا وہ کوئی حقیقت اور معقولیت پیش نہیں کرسکتے۔ افسوس مسلمانوں میں بھی بہت سے ایسے اسماء پیدا ہوگئے ہیں جنہیں وہ حجت و دلیل سمجھنے لگے ہیں حالانکہ خدا نے ان کے لیے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ الاعراف
66 الاعراف
67 الاعراف
68 الاعراف
69 الاعراف
70 الاعراف
71 الاعراف
72 الاعراف
73 (١) قوم ثمود عرب کے اس حصے میں آباد تھی جو حجاز اور شام کے درمیان وادی القری تک چلا گیا ہے۔ اسی مقام کو دوسری جگہ الحجر سے بھی تعبیر کیا ہے۔ پالتو جانوروں کو خدا کے نام پر چھوڑ دینے کا طریقہ بہت قدیمی ہے، بابل اور ہندوستان میں اس کا سرغ ہزاروں برس پیشتر تک ملتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ قوم ثمود کے لوگ بھی اپنے بتوں کے نام پر جانور چھوڑ دیا کرتے تھے۔ حضرت صالح نے خدا کے نام پر ایک اونٹنی چھوڑ دی اور اسی معاملہ میں قوم کے لیے اتباع حق کی آزمائش ہوگئی۔ اگر وہ اونٹنی کو ضرر نہ پہنچاتے تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا کہ ان کے دل ہدایت کے آگے جھک گئے ہیں مگر ان کے اندر خدا پرستی کے خلاف ایسی ضد اور شرارت پیدا ہوگئی تھی کہ اتنی سی بات بھی نہ مان سکے اور اونٹنی کو زخمی کر کے ہلاک کر ڈالا۔ ملک میں سرکشی کرتے ہوئے خرابی نہ پھیلاؤ، اس سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ قتل و غارت، لوٹ مار، شر و فساد میں چھوٹ ہوگئے تھے اور امن و عدالت کا کوئی احساس باقی نہیں رہا تھا۔ الاعراف
74 الاعراف
75 (١) (ہ) جو حقیر و ذلیل سمجھے جاتے تھے انہوں نے سچائی قبول کی اور جنہیں اپنی دنیوی بڑائیوں کا گھمنڈ تھا انہوں نے انکار کیا، دعوت حق کا جب کبھی ظہور ہوا ہے تو ہمیشہ ایسی ہی صورت حال پیش آئی ہے، قبولیت حق کی راہ میں ایک بڑا مانع دنیوی خوشحالیوں کا گھمنڈ اور انہماک ہے۔ الاعراف
76 الاعراف
77 الاعراف
78 الاعراف
79 الاعراف
80 (١) (د) حضرت لوط حضرت ابراہیم علیہما السلام کے بھتیجے تھے اور بحر میت کے کنارے سدوم میں مقیم ہوگئے تھے، یہ ماملہ وہیں پیش آیا۔ تورات میں ہے کہ سدوم اور عمورہ پر آگ اور گندھک کی بارش ہوئی تھی، قرآن میں ہے کہ پتھر گرے تھے۔ دونوں بیانوں کے جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی حالت پیش آئی ہوگی جیسی آتش فشاں پہاڑوں کے پھٹنے سے واقع ہوتی ہے۔ الاعراف
81 الاعراف
82 الاعراف
83 الاعراف
84 الاعراف
85 (١) (ز) مدین کسی بستی کا نام نہیں۔ ایک قبیلہ کا نام تھا جو زیرہ نمائے سینا میں عرب سے متقصل آباد تھا، اسی میں حضرت شعیب کا ظہور ہوا۔ (ح) قرآن نے حضرت شعیب کی کوئی ایسی نشانی بیان نہیں کی جیسی دوسرے پیغمبروں کی بیان کی ہے اور جو متکلمین کی اصطلاح میں معجزہ کے لفظ سے تعبیر کی جاتی ہے۔ تاہم قرآن حضرت شعیب کی زبانی نقل کرتا ہے کہ واضح دلیل آچکی یہ دلیل واضح کیا تھی؟ حضرت شعیب کی تعلیم تھی جو راست بازی و عدالت کی راہ دکھاتی تھی، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے نزدیک انبیاء علیہم السلام کی تعلیم بجائے خود دلیل بینہ اور حجت ہے، اور ضروری نہیں کہ اس کے ساتھ کوئی دوسری نشانی اور مصطلحہ معجزہ بھی ہو۔ (ط) ماپ تول کی درستی اور یہ اصل کہ خریدوفروخت میں جو جس کا حق ہو اسے پورا ملنا چاہیے انسانی معیشت کی وہ بنیادی صداقت ہے جس کی ہمیشہ نبیوں نے تلقین کی۔ (ی) حضرت شعیب نے کہا کم از کم صبر کرو اور نتیجہ دیکھ لو، لیکن منکر اس کے لیے بھی تیار نہ ہوئے۔ الاعراف
86 الاعراف
87 الاعراف
88 (١) (ک) آیت (٨٧) میں فرمایا وہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے، اور دوسری جگہ خاد کے اس فیصلہ کو قضاء بالحق اور سب سے بڑی شہادت سے بھی تعبیر کیا ہے۔ یہ فیصلہ کیا ہے ؟ قانون الہی کا وہ اعلان جو حق کو کامیاب کر کے اور باطل کو ناکام رکھ کر اپنا فیصلہ صادر کردیتا ہے۔ (ل) آیت (٨٨) نے واضح کردیا کہ قرآن کے نزدیک مذہبی اعتقاد کا معاملہ دل کے یقن و طمانیت کا معاملہ ہے اور جبرا کسی کو اس کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ نیز یہ کہ ہمیشہ داعیان حق اور منکرین حق میں بنائے نزاع یہی بات رہی ہے کہ وہ کہ تے تھے ہمارا دل جس راہ کو حق سمجھتا ہے اسی پر چلیں گے، یہ کہتے تھے نہیں ہم تمہیں جبرا اپنی راہ پر چلا کر چھوڑیں گے۔ الاعراف
89 الاعراف
90 (١) تمام پیغمبروں کے حالات پر غور کرو۔ (ا) سب اسی قوم میں پیدا ہوئے جس کی ہدایت کے لیے مبعوث ہوئے تھے، ایسا نہیں ہوا کہ باہر سے کوئی اجنبی آگیا ہو جس کی زندگی سے لوگ بے خبر ہوں۔ (ب) کوئی بھی پادشاہ یا امیر نہ تھا، نہ کسی طرح کا دنیوی سروسامان رکھتا تھا، سب کا ظہور اسی طرح ہوا کہ تن تنہا اعلان حق کے لیے کھڑے ہوگئے اور صرف خدا کی معیت و نصرت پر اعتماد کیا۔ (ج) سب کا پیام ایک ہی تھ : خدا کی بندگی کرو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ (د) سب نے نیک عملی کی تلقین کی انکار و بدعملی کے نتائج سے متنبہ کیا۔ (ہ) سب کے ساتھ یہی ہوا کہ رئیسوں نے سرکشی کی، بے نواؤں نے ساتھ دیا۔ (و) مخالفت بھی ہمیشہ ایک ہی طرح ہوئی۔ یعنی اعلان رسالت کی ہنسی اڑائی گئی، ان کی باتوں کو حماقت سے تعبیر کیا گیا، اہیں اور ان کے ساتھیوں کو اذیت پہنچانے کے تمام وسائل کام میں لائے، ان کی دعوت کی اشاعت روکنے کے لیے اپنی ساری قوتیں خرچ کر ڈالیں۔ (ز) پیغمبروں نے ہمیشہ کہا : اگر میری دعوت قبول نہیں کرتے تو کم از کم میری موجودگی برداشت کرلو اور مجھے اپنا کام کرنے دو، اور فیصلہ نتائج پر چھوڑ دو لیکن منکر اس کے لیے بھی تیار نہیں ہوئے۔ (ح) ہمیشہ یہی ہوا کہ داعی حق اور ان کے ساتھی وعظ و پند کے ذریعہ تبلیغ کرتے یعنی دل و دماغ کو اپیل کرتے لیکن منکر جبر و تشدد سے ان کیراہ روکنی چاہتے، پیغمبروں کی پکار یہ ہوتی تھی کہ روشن دلیلوں پر غور کرو، منکروں کا جواب یہ ہوتا تھا کہ انہیں بستی سے نکال باہر کرو یا سنگسار کردو۔ (ط) پھر دیکھو نتیجہ بھی ہمیشہ ایک ہی طرح کا پیش آیا، وہ تمام جماعتیں جنہوں نے دعوت حق کا مقابلہ کیا تھا، ہلاک و نابود ہوگئیں اور دنیا کی کوئی طاقت بھی انہیں قانون الہی کی پکڑ سے نہ بچا سکی۔ یہی نتیجہ ہے جس پر خصوصیت کے ساتھ یہاں توجہ دلائی ہے اور قرآن دعوت حق کے ظہور و احوال کی یکسانیت سے بے شمار مقاصد و نتائج پر استدلال کرتا ہے۔ چنانچہ آیت (٩٤) میں فرمایا کہ ہمیشہ سنت الہی ایسی ہی رہی ہے، اور پھر آیت (١٠١) اور اس کے بعد کی آیات میں واضح کردیا کہ گزشتہ دعوتوں کے ذکر سے مقصود اسی حقیقت کی تلقین ہے۔ الاعراف
91 الاعراف
92 الاعراف
93 الاعراف
94 الاعراف
95 الاعراف
96 الاعراف
97 (١) منکر و سرکش جماعتوں کی ہلات کے جو حالات بیان کئے گئے ہیں وہ سب اس نوعیت کے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے قدرتی حوادث کا ظہور تھا، مثلا زلزلہ، طوفان، سیلاب، آتش فشانی، پھر انہیں مقررہ عذاب کیوں کہا گیا؟ اس لیے کہ گو ان کا ظہور قدرت کی عادی و جاری صورتوں ہی میں ہوا تھا، لیکن اس لیے ہوا تھا کہ انکار و سرکشی کے نتائج لوگوں کے سامنے آجائیں اور پیغمبروں نے ان کے ظہور کی پہلے سے خبر دے دی تھی، ضروری نہیں کہ ہر زلزلہ کسی گروہ کے لیے عذاب ہو لیکن ہر وہ زلزلہ عذاب تھا جس کی کسی پیغمبر نے اتمام حجت کے بعد خبر دے دی تھی اور جسے مشیت الہی نے اس معاملہ سے وابستہ کردیا تھا۔ خدا نے فطرت کے تمام مظاہر کے لیے ایک خاص بھیس مقرر کردیا ہے۔ وہ جب کبھی آئے گی تو اسی بھیس میں آئے گی۔ اس کا بھیس بدل نہیں سکتا لیکن اس کے ظہور کے مقاصد ہمیشہ یکساں نہیں ہوتے، اور حقیقت حال انسانی علم کی دسترس سے باہر ہے۔ الاعراف
98 الاعراف
99 آیت (٩٩) کا مطلب تم سمجھے؟ عربی میں مکر کے معنی مخفی داؤ اور تدبیر کے ہیں۔ غور کرو فطرت کے داؤ کیسے مخفی اور ناگہانی ہوا کرتے ہیں؟ زلزلہ کے اسباب شب و روز نشو نما پاتے رہتے ہیں۔ سیلاب ایک لمحہ کی برف باری ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ آتش فشاں پہاڑوں کا لاوا برسوں تک کھولتا رہتا ہے تب کہیں جاکر پھٹنے کے قابل ہوتا ہے، فطرت چپکے چپکے یہ سب کام کرتی رہتی ہے لیکن ہمیں کہ اس کی گود میں کھلیتے کودتے رہتے ہیں ایک لمحہ کے لیے بھی اس کا گمان نہیں ہوتا کہ کوئی غیر معمولی بات ہونے والی ہے۔ یہاں تک کہ اچانک اس کا داؤ نمودار ہوجاتا ہے اور ہم یک قلم غفلت و سرمستی میں سرشار ہوتے ہیں۔ فلا یامن مکر اللہ الا القوم الخاسرون۔ الاعراف
100 الاعراف
101 الاعراف
102 الاعراف
103 (١) حضرت موسیٰ کی دعوت کا تذکرہ اور اس حقیقت کی تلقین کہ جس طرح پیغبروں کی تنذیر ہمیشہ وقوع میں آئی اسی طرح تبشیر نے بھی اپنی برکتیں دکھلائیں، نیز بنی اسرائیل کے ایام و وقائع جن میں مخاطبین قرآن کے لیے مواعظ و عبر تھے۔ (ا) حضرت موسیٰ کا فرعون سے مطالبہ کہ بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے رہا کردے اور مصر سے نکل جانے دے، بنی اسرائیل حضرت یوسف کے زمانہ میں مصر گئے تھے اور عزت کے ساتھ بسائے گئے تھے، پھر رفتہ رفتہ مصریوں نے انہیں اپنا غلام بنا لیا، یہاں تک کہ حضرت موسیٰ کا ظہور ہوا۔ (ب) جب ایک افتادہ جماعت اٹھتی ہے اور اپنی حالت سنوارنا چاہتی ہے تو مستبد قومیں اسے بغاوت سے تعبیر کرتی ہیں۔ حضرت موسیٰ کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ بنی اسرائیل کو مصر سے نکل جانے دیا جائے، لیکن امرائے مصر نے کہا : یہ چاہتا ہے تم مصریوں کو تمہارے ملک سے نکال باہر کرے۔ اور سورۃ یونس میں ہے کہ انہوں نے موسیٰ سے کہا تم چاہتے ہو ملک کی سرداری تمہیں مل جائے۔ (ج) ارکان حکومت کا مشہور اور حضرت موسیٰ کے مقابلے کے لیے جادوگروں کی طلبی۔ سورۃ طہ میں مزید تفصیل ہے (دیکھو آیت ٥٨) (د) مصر کے جادوگروں کا اجتماع اور حضرت موسیٰ سے مقابلہ۔ جادوگروں کی نسبت فرمایا لوگوں کی نگاہیں جادو سے مار دی تھیں یعنی جادو کے شعبدوں کی کوئی حقیقت نہیں، محض نگاہ کا دھوکا تھا۔ چنانچہ دوسری جگہ اسے تخیل کی تاثیر سے بھی تعبیر کیا ہے۔ (٦٦: ٢٠) نیز آیت (١١٧) میں فرمایا ما یافکون یعنی ان کی نمائش جھوٹی تھی۔ جادو کا اعتقاد دنیا کی قدیم اور عالمگیر گمراہیوں میں سے ہے اور نوع انسانی کے لیے بڑی مصیبتوں کا باعث ہوچکا ہے، قرآن نے آج سے تیرہ سو برس پہلے اس کے بے اصل ہونے کا اعلان کیا لیکن افسوس ہے کہ دنیا متنبہ نہ ہوئی اور ازمنہ وسطی کے مسیح جہل و قساوت نے ہزاروں بے گناہ انسانوں کو زندہ جلایا۔ الاعراف
104 الاعراف
105 الاعراف
106 الاعراف
107 الاعراف
108 الاعراف
109 الاعراف
110 الاعراف
111 الاعراف
112 الاعراف
113 الاعراف
114 الاعراف
115 الاعراف
116 الاعراف
117 الاعراف
118 (١) جادوگروں کا بری طرح ہارنا، حضرت موسیٰ پر ایمان لانا، فرعون کا اسے سازش قرار دینا اور قتل و تعذیب کی دھمکی۔ سورۃ طہ میں ہے کہ یہ معاملہ مصریوں کے تہوار کے دن پیش آیا تھا اور مملکت کی تمام آبادی جمع تھی اور خود حضرت موسیٰ کی تجویز سے ایسا ہوا تھا۔ نیز یہ کہ مقابلہ سے پہلے حضرت موسیٰ نے جادوگروں کو نصیحت کی تھی اور وہ متاثر ہو کر آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے تھے لیکن چونکہ فرعون نے اس معاملہ کو قومی خطرہ کا رنگ دے دیا تھا اس لیے مقابلہ پر جمے رہے۔ انہوں نے آپس میں کہا موسیٰ ہمیں نکال کر ہمارے ملک پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ جب فرعون نے دیکھا تمام باشندگان ملک کے سامنے اسے شکست ہوئی اور جن جادوگروں پر بھروسہ کیا گیا تھا وہی ایمان لے آئے تو ڈرا، کہیں ایسا نہ ہو لوگ حضرت موسیٰ کے معتقد ہوجائیں، اس لیے جادوگروں پر مکرو سازش کا الزام لگایا۔ یعنی حضرت موسیٰ سے مل گئے ہیں، اسی لیے جان بوجھ کر اہیں فتح مند کرا دیا اور پھر فورا ان پر ایمان لے آئے۔ سچا ایمان اگرچہ ایک لمحہ کا ہو ایسی روحانی طاقت پیدا کردیتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے مرعوب و مسخر نہیں کرسکتی۔ وہی جادوگر جو فرعون سے صلہ و نعام کی التجائیں کر رہے تھے ایمان لانے کے بعد معا ایسے بے پروا ہوگئے کہ سخت سے سخت جسمانی عذاب کی دھمکی بھی انہیں متزلزل نہ کرسکی۔ تفصیل سورۃ طہ میں ہے۔ الاعراف
119 الاعراف
120 الاعراف
121 الاعراف
122 الاعراف
123 الاعراف
124 الاعراف
125 الاعراف
126 الاعراف
127 فرعون کا حضرت موسیٰ کی روحانی طاقت سے مغلوب ہو کر فیصلہ کرنا کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے، لیکن ساتھ ہی یہ حکم بھی دینا کہ بنی اسرائیل کے لڑکے قتل کردیئے جائیں تاکہ ان کی تعداد بڑھنے نہ پائے۔ فرعون نے پہلے حضرت موسیٰ کے قتل کا ارادہ کیا تھا لیکن اس کے خاندان کے ایک آدمی نے کہ دل میں مومن تھا اس سے باز رکھا (دیکھو ٢٨: ٤٠) پس یہاں درباریوں اور فرعون کے مکالمہ کا مطلب یہ سمجھنا چاہیے کہ جب حضرت موسیٰ آزاد چھوڑ دیئے گئے تو درباریوں نے کہا یہ شورش پھیلائے گا اور ہمارے دیوتاؤں سے علانیہ برگشتہ رہے گا۔ اس پر فرعون نے کہا ڈرنے کی کیا بات ہے؟ بنی اسرائیل تو ہماری طاقت کے تلے دبے ہوئے ہیں۔ مصری مختلف دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے، بڑا دیوتا سورج تھا جسے رع کہتے تھے اور چونکہ پادشاہ کو اس کا اوتار سمجھتے تھے اس لیے اس کا قلب فارع تھا، یہی فارع عبرانی میں فارعوا اور عربی میں فرعون ہوگیا۔ محکومانہ زندگی کا پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ عزم و ہمت کی روح پژ مردہ ہوجاتی ہے۔ لوگ غلامی کے زلت انگیز امن پر قانع ہوجاتے ہیں اور طلب و سعی کی مشکلوں سے جی چرانے لگتے ہیں۔ یہی حال بنی اسرائیل کا ہوتا تھا۔ عرصہ تک مصریوں کی غلامی میں رہتے رہتے اس درجہ مسخ ہوگئے تھے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا، آزادی وکامرانی کی طلب میں ان حقیر راستوں سے کیوں ہاتھ دھو بیٹھیں جو غلامی کی حالت میں میسر آرہی ہیں؟ حضرت موسیٰ نے جب صبر و استقامت کی تلقین کی تو شکر گزار ہونے کی جگہ الٹی شکایتیں کرنے لگے۔ وہ ان کی نجات و کامرانی کے لیے فرعون کا مقابلہ کر رہے تھے۔ انہیں شکایت تھی کہ تمہاری اس جدوجہد نے فرعون کو اور زیادہ ہمارا مخالف بنا دیا۔ تم فائدہ پہنچانے کی جگہ الٹے وبال جان ہوگئے۔ حضرت موسیٰ نے کہا خدا جسے چاہتا ہے زمین کا وارث بنا دیتا ہے، پس اس سے مدد مانگو اور اس راہ میں جمے رہو، اس سے معلوم ہوا جو جماعت دنیوی بے سروسامانی سے ہراساں ہو کر بے ہمت نہیں ہوجاتی بلکہ خدا کی مدد پر بھروسہ کرتی اور مشکلات و موانع کے مقابلہ میں جمی رہتی ہے وہی ملک کی وراثت کی مستحق ہوتی ہے۔ یعنی استعانت باللہ اور صبر اس راہ میں اصل اصول ہیں۔ نیز فرمایا انجام کار متقیوں کے لیے ہے یعنی جو جماعت برائیوں سے بچنے والی اور عمل میں پکی ہوگی بالآخر کامیابی اسی کے لیے ہے۔ قوم فرعون پر نکبت و شدائد کا ورود اور پہلے سرکشی بھی حضرت موسیٰ سے رجوع۔ تورات میں ہے کہ دریائے نیل کا پانی لہو کی طرح ہوگیا تھا اور تمام مچھلیاں مرگئی تھیں۔ (خروج : ٢٠) الاعراف
128 الاعراف
129 الاعراف
130 الاعراف
131 الاعراف
132 الاعراف
133 (١) عربی میں قمل جوؤں کو بھی کہتے ہیں اور چھوٹی مکھیوں کو بھی، اگر تورات میں جوؤں کا ذکر نہ ہوتا تو ہم یہاں ترجمہ میں مکھیاں لکھتے کہ انسانی ہلاکت کے لیے زیادہ موثر و قطعی ہیں۔ الاعراف
134 الاعراف
135 آیت (١٣٥) میں فرمایا ایک خاص وقت تک کے لیے کہ انہیں اس تک پہنچنا تھا یعنی ایک آنے والا وقت تھا جس کی طرف وہ اپنے اعمال کے ذریعہ بڑھ رہے تھے، اور بالآخر پہنچنے والے تھے۔ یہ آنے والا وقت کونسا تھا؟ ان کے ظلم و فساد کا آخری نتیجہ کہ خدا کے قانون جزا نے اس طرح کے نتیجہ کے لیے جتنی مقدار فساد عمل کی ٹھہرا دی ہے جب وہ مہیا ہوگئی تو نتیجہ ظہور میں آگیا اور فرعون اور اس کا لشکر ہلاک ہوگیا۔ یہی ظہور نتائج کا وقت ہے جسے قرآن نے امتوں کی اجل سے تعبیر کیا ہے۔ چنانچہ اسی سورت کی آیت (٣٤) میں اس کی طرف اشارہ گزر چکا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر جماعت اپنے اعمال کے زریعہ ایک خاص نتیجہ تک پہنچتی رہتی ہے جو اس کی مقررہ اجل ہے، اگر اعمال نیک ہوتے ہیں تو یہ اجل فلاح کی ہوتی ہے، برے ہوتے ہیں تو ہلاکت کی ہوتی ہے۔ فرعون کی ہلاکت اور بنی اسرائیل کی وراثت ارض۔ قانون الہی یہ ہے کہ ظالم قومیں جن مظلوم قوموں کو حقیر کمزور سمجھتی ہیں ایک وقت آتا ہے کہ وہی شاہی و جہانداری کی وارث ہوجاتی ہیں۔ الاعراف
136 الاعراف
137 (١) یعنی فلسطین اور شام کا ملک جو مصر کے پورب میں واقع ہے اور اس کے مغربی حصوں کا ملک یعنی جزیرہ نمائے سینا جو فلسطین کے پچھم میں ہے۔ یہ تمام علاقہ اس وقت مصری شاہنشاہی کا خراج گزار تھا۔ آیت (١٣٧) سے معلوم ہوا کہ خدا کا وعدہ نصرت انہی کے حق میں پورا ہوتا ہے جو اس کی شرط پوری کریں، یعنی راہ عمل میں جمے رہیں، اگر بنی اسرائیل جمے نہ رہتے تو فتح مندی سے محروم رہتے۔ بنی اسرائیل چونکہ مصری بت پرستی سے مالوف ہوچکے تھے اس لیے سینا کہ بت خانے دیکھ کر خواہشمند ہوئے کہ ان کی پرستش کے لیے بھی ایک بت بنا دیا جائے۔ حضرت موسیٰ کی سرگزشت کا پہلا حصہ ختم ہوگیا جس کا تعلق ان ایام و وقائع سے تھا جو ان کے اور فرعون کے درمیان گزرے۔ اب یہاں سے وہ واقعات شروع ہوتے ہیں جو ان کے ور ان کی امت کے درمیان گزرے۔ پہلے حصے میں یہ حقیقت واضح کی تھی کہ دعوت حق کی مخالفت ہمیشہ طاقتور جماعتوں نے کی اور ہمیشہ ناکام رہیں۔ اس حصہ میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ ایک نئی ہدایت یافتہ جماعت کو راہ عمل میں کیسی کیسی لغزشیں پیش آسکتی ہیں؟ تاکہ پیروان دعوت ان سے اپنی نگہداشت کریں۔ چونکہ سلسلہ بیان ایک دوسرے حصہ کی طرف مڑتا تھا اس لیے اس کی ابتدا ازسرنو بنی اسرائیل کی مخاطب سے کی گئی ہے۔ گویا موعظت و ارشاد کے لحاظ سے یہ ایک نیا بیان ہے۔ (ا) حضرت موسیٰ کا کوہ طور پر اعتکاف اور شریعت کا عطیہ۔ یہاں شریعت سے مقصود وہ دس احکام ہیں جو حضرت موسیٰ نے وحی الہی سے پتھر کی دو تختیوں پر کندہ کیے تھے اور جنہیں تورات میں عہد کے احکام سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی قتل مت کر، زنا مت کر وغیرہا (خروج ٢٩: ٣٤) (ب) اس اصل عظیم کا اعلان کہ انسان اپنے حواس کے ذریعہ ذات باری کا مشاہدہ و ادراک نہیں کرسکتا اور اس راہ میں معرفت کا منتہی مرتبہ یہ ہے کہ عجز و نارسائی کا اعتراف کیا جائے۔ یہودیوں نے تورات کے متشابہات کو حقیقت پر محمول کرلیا تھا اور سمجھتے تھے حضرت موسیٰ نے خدا کی شبیہ دیکھی (خروج ٩: ٢٤) قرآن نے یہاں اس غلطی کا ازالہ کردیا۔ فرمایا جب خدا نے موسیٰ سے کلام کیا تو اس نے کہا میرے سامنے آجاکر ایک نگاہ دیکھ لوں یعنی جب غیب سے ندائے حق سنی تو جوش طلب میں بے خود ہوگئے اور لذت سماع کی محویت میں لذت مشاہدہ کے حصول کا ولولہ پیدا ہوگیا۔ والاذن تعشق قبل العین احیانا۔ حکم ہوا پہاڑ کو دیکھ۔ اگر یہ تاب لاسکا تو تو بھی تاب لاسکے گا۔ یعنی جو بات نظارہ سے مانع ہے وہ خود تیری ہی ہستی کا عجز ہے، یہ بات نہیں ۃ ے کہ نمود حق میں کمی ہو۔ ولنعم ما قیل : ہرچہ ہست از قامت نا ساز و بے اندام ماست ورنہ تشریف تو بر بالائے کس دشوار نیست الاعراف
138 الاعراف
139 الاعراف
140 الاعراف
141 الاعراف
142 الاعراف
143 الاعراف
144 الاعراف
145 (ج) آیت (١٤٥) کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے جن جن حکموں کی ضرورت تھی، وہ سب ان تختیوں کے احکام میں موجود تھے۔ تفصیلا لکل شیئ یعنی تمام باتیں الگ الگ کر کے بیان کردی تھیں۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا جہان کی ہر بات تشریح و تطویل کے ساتھ لکھ دی گئی تھی۔ یاد رہے کہ قرآن تفصیل کا لفظ اس مصلحہ معنی میں نہیں بولتا جو فن بیان و معانی میں بعد کو ٹھہرائے گئے اور جو اجمال کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے۔ اگر امام رازی کی نظر اس حقیقت پر ہوتی تو وہ اس بے کار کی زحمت سے بچ جاتے جو سورۃ فاتحۃ کی تفسیر لکھنے میں انہوں نے برداشت کی۔ چونکہ یہ تختیاں وحی الہی سے کندہ کی گئی تھیں، اس لیے خدا نے ان کی کتابت اپنی طرف منسوب کی اور کتب سماوی کی نسبت قرآن کا یہ عام اسلوب بیان ہے۔ تورات میں ہے کہ یہ دو تختیاں تھیں اور دونوں طرف کندہ کی ہوئی تھیں۔ (خروج : ١٤: ٣٢) (د) قرآن کا عام اسلوب بیان یہ ہے کہ خدا کے ٹھہرائے ہوئے قوانین و اسباب سے جو نتائج پیدا ہوتے ہیں انہیں براہ راست خدا کی طرف نسبت دیتا ہے،۔ مثلا اس کا ایک قانون یہ ہے کہ جو لوگ سمجھ بوجھ سے کام لینے کی جگہ اپنے بڑے بوڑھوں کی اندھی تقلید کرنے لگتے ہیں اور اسی پر اڑے رہتے ہیں رفتہ رفتہ ان کی عقلیں ماری جاتی ہیں اور سمجھ بالکل الٹی ہوجاتی ہے۔ کتنی ہی صاف بات کہی جائے، ان کی سمجھ میں نہیں آئے گی، کتنی ہی ان کی بھلائی چاہو وہ اور زیادہ مخالفت کریں گے۔ قرآن اس حالت کو یوں تعبیر کرے گا کہ خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی پس وہ سمجھتے نہیں۔ یعنی یہ صورت حال خدا کے ٹھہرائے ہوئے قانون کا قدرتی نتیجہ ہے۔ جب کبھی کوئی یہ چال چلتا ہے خدا کا مقررہ قانون موثر ہو کر اسے اس حالت میں پہنچا دیتا ہے۔ الاعراف
146 چنانچہ آیت (١٤٦) میں فرمایا جو لوگ سرکشی کریں گے میں ان کی نگاہیں اپنی نشانیوں سے پھیر دوں گا۔ یعنی جو کوئی جان بوجھ کر سرکشی کرے تو خدا کا قانون یہی ہے کہ وہ دلیلوں اور روشنیوں سے متاثر ہونے کی استعداد کھو دیتا ہے۔ پھر واضح کردیا کہ یہ حالت اس لیے پیش آئے گی کہ انہوں نے نشانیاں جھٹلائیں اور غافل رہے۔ پس معلوم ہوا جو کوئی نشانیاں جھٹلاتا ہے اور غفلت سے باز نہیں آتا وہ کبھی سچائی نہیں پاسکتا، یہی مطلب نگاہ پھرا دینے کا ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا کسی آدمی کو بے عقلی اور گمراہی پر مجبور کردیتا ہے۔ الاعراف
147 (ہ) آیت (١٤٧) کے آخری حصے نے کسی قطعی لفظوں میں سزا و عقوبت کی حقیقت واضح کردی ہے؟ جو کچھ بدلہ پایا وہ اس کے سوا کیا تھا کہ انہی کے کرتوتوں کا پھل تھا۔ (د) بنی اسرائیل مصر کی بت پرستی سے اس درجہ مالوف ہوچکے تھے کہ رہ رہ کر انہیں اس کا شوق ہوتا۔ جونہی حضرت موسیٰ چالیس دن کے لیے الگ ہوئے انہوں نے گائے کے بچھڑے کی طلائی مورتی بنا کر اس کی پوجا شروع کردی۔ تورات میں ہے کہ یہ مورتی حضرت ہارون (علیہ السلام) نے بنائی تھی۔ (خروج ٣٢: ٣١) لیکن قرآن نے دوسری جگہ واضح کردیا ہے کہ یہ سامری نامی ایک شخص کی کارستانی تھی اور حضرت ہارون کا دامن اس دھبہ سے پاک ہے۔ (٩: ٢٠) عجائب پرستوں کا قاعدہ ہے کہ جہاں کوئی ذرا سی بات عجیب نظر آئی فورا معتقد ہوگئے اور سمجھ بوجھ کو خیر باد کہہ دیا۔ سامری مصر کے مندروں کے بھیدوں سے واقف تھا، وہاں اس ترکیب سے مورتیاں بنائی جاتی تھیں کہ جونہی ہوا ان کے اندر جاتی طرح طرح کی آوازیں نکالنے لگتیں َ آج کل یہ صنعت باجوں اور کھلونوں میں استعمال کی جاتی ہے۔ اس زمانہ میں معبدوں کا معجزہ تھا، چنانچہ اس نے بچھڑے کی مورتی میں بھی یہی کاریگری رکھی۔ بنی اسرائیل اتنی ہی بات دیکھ کر معتقد ہوگئے۔ آیت (١٤٨) کا مطلب یہ ہے کہ ان عقل کے اندھوں نے اتنی موٹٰ بات بھی نہ سمجھی کہ ایک ہی طرح کی آواز کیوں نکلتی ہے؟ آدمی کی بات کا جواب کیوں نہیں دیتا؟ ہندوستان کی طرح بابل اور مصر میں بھی بیل اور گائے کی عظمت کا تصور پیدا ہوگیا تھا۔ اگر کالڈیا کے تمند کی قدامت تسلی کرلی جائے تو وہیں سے یہ خیال دوسرے ملکوں میں پھیلا ہوگا۔ (ز) حضرت موسیٰ کا قوم کے سرکش سرداروں میں سے ستر آدمیوں کو فیصلہ کے لیے چننا اور لرزا دینے والی ہولناکی کا ظہور۔ تورات میں ہے کہ سرداروں کی ایک جماعت نے حضرت موسیٰ کی بزرگی و پیشوائی سے انکار کیا تھا۔ اس پر حکم الہی سے ایک وقت مقرر کیا گیا اور سرکش گروہ جمع ہوا۔ اس وقت زلزلہ آیا، زمین پھٹی اور سب اس میں مدفون ہوگئے۔ (گنتی ٣١: ١٦) الاعراف
148 الاعراف
149 الاعراف
150 الاعراف
151 الاعراف
152 الاعراف
153 الاعراف
154 الاعراف
155 الاعراف
156 (ح) آیت (١٥٦) میں فرمایا کہ کائنات ہستی میں اصل و عام حقیقت رحمت، ہے اور تعذیب و عقوبت نہیں ہے مگر خاص خاص حالتون کے لیے، پس یہاں اصل قانون رحمت ہوا جس کے احاطہ سے کوئی گوشہ باہر نہیں ہے۔ یہ مقام معارف قرآنی کی مہمات میں سے ہے اور ان تمام گمراہیوں کا ازالہ کردیتا ہے جو خدا کی صفات و افعال کے بارے میں پھیل گئی تھیں َ جس حالت کو انسان کے لیے عذاب قرار دیا اسے خاص حالتوں سے مخصوص بتلایا گیا مگر رحمت کو کہا کہ عام ہے، کیونکہ رحمت اس کی قدیم اور ازلی صفت ہے۔ عذاب دینا صفت نہیں، اور عذاب بھی اس لیے ہے کہ ہماری ٹھہرائی ہوئی اضافتوں اور نسبتوں کے لحاظ سے ایسا ہی ہونا تھا۔ ورنہ فی الحقیقت اس نے جو کچھ بھی کیا ہے رحمت ہی رحمت ہے۔ سورۃ انعام میں گزر چکا ہے : کتب علی نفسہ الرحمۃ۔ (ط) آیت (١٥٦) میں اس فرمان کا ذکر کیا تھا کہ جو لوگ خدا کی نشانیوں پر ایمان رکھیں گے وہ رحمت کے سزاوار ہوں گے اس لیے بعد کی آیات میں سلسلہ بیان مخاطبین کی طرف متوجہ ہوگیا ہے یعنی اب کہ پیغمبر اسلام کی موعودہ دعوت نمودار ہوگئی، اہل کتاب کے لیے رحمت الہی کی بخشائشوں کا دروازہ کھل گیا ہے۔ جو لوگ سچائی کی نشانیوں پر ایمان لائیں گے، فرمان الہی کے مطابق کامران و سعادت پائیں گے۔ (ی) پیغمبر اسلام کی دعوت کی تین خصوصیتیں یہاں بیان کیں۔ (١) نیکی کا حکم دیتا ہے، برائی سے روکتا ہے۔ (٢) پسندیدہ چیزوں کا استعمال جائز ٹھہراتا ہے، ناپسند چیزوں کے استعمال سے روکتا ہے، قرآن نے اس معنی میں طیبات اور خبائث کا لفظ اختیار کیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ جو چیزیں اچھی ہیں انہیں جائز کیا ہے، جو بری ہیں یعنی مضر ہیں ان سے روک دیا ہے۔ (٣) جو بوجھ اہل کتاب کے سروں پر پڑگیا تھا اور جن پھندوں میں گرفتار ہوگئے تھے ان سے نجات دلاتا ہے۔ یہ بوجھ کیا تھا اور یہ پھندے کون سے تھے جن سے قرآن نے رہائی دلائی، قرآن نے دوسرے مقامات میں اسے واضح کردیا ہے۔ مذہبی احکام کی بے جا سختیاں، مذہبی زندگی کی ناقابل عمل پابندیاں، ناقابل فہم عقیدوں کا بوجھ، وہم پرستیوں کا انبار، عالموں اور فقیہوں کی تقلید کی بیڑیاں، پیشواؤں کے تعبد کی زنجیریں۔ یہ بوجھ رکاوٹیں جنہوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کے دل و دماغ مقید کردیئے تھے، پیغمبر اسلام کی دعوت نے ان سب سے نجات دلائی، اس نے سچائی کی ایسی سہل و آسان راہ دکھا دی جس میں عقل کے لیے کوئی بوجھ نہیں عمل کے لیے کوئی سختی نہیں۔ حنیفیۃ السمحۃ لیلھا کنھارھا۔ افسوس جن پھندوں سے قرآن نے اہل کتاب کو نجات دلائی تھی مسلمانوں نے وہی پھندے پھر اپنے گلوں میں ڈال لیے۔ (ک) دعوت عامہ کا اعلان۔ یعنی پیغمبر اسلام کی دعوت کسی خاص قوم اور ملک کے لیے نہیں ہے، تمام نوع انسانی کے لیے ہے۔ یہ آیت جوامع آیات میں سے ہے جس نے دعوت اسلام کی پوری حقیقت واضح کردی۔ (١) یہ دعوت یکساں طور پر تمام نوع انسانی کے لیے ہے۔ (٢) یہ ایک خدا کے آگے سب کے سروں کو جھکا ہوا دیکھنا چاہتی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ (٣) ایمان باللہ وکلماتہ اس کا شعار ہے۔ یعنی خدا اور اس کے تمام کلمات وحی پر ایمان۔ فرمایا : خدا نے مجھے تم سب کی طرف بھیجا ہے۔ وہ خدا کہ آسمان و زمین کی ساری پادشاہت اسی کے لیے ہے۔ یعنی جب تمام کائنات ہستی میں ایک ہی خدا کی فرمانروائی ہے تو ضروری ہوا کہ اس کا پیغام بھی ایک ہی ہو اور سب کے لیے ہو۔ الاعراف
157 (ل) عربی میں امی ایسے آدمی کو کہتے ہیں جو اپنی پیدائشی حالت پر ہو۔ لکھنے پڑحنے اور علم و فن کی باتوں سے آشنا ہوا۔ چنانچہ عرب کے باشندے بھی امی کہلائے، کیونکہ تعلیم و تربیت سے آشنا نہیں ہوئے تھے۔ پیغمبر اسلام کو بھی الامی فرمایا کیونکہ ظاہری تعلیم و تربیت کا ان پر سایہ بھی نہیں پڑا تھا، جو کچھ تھا سرچشمہ وحی کا فیضان تھا۔ (م) چونکہ تورات کی بشارت میں پیغمبر موعود کے ساتھ اس وصف کی طرف اشارہ تھا اس لیے خصوصیت کے ساتھ اس کا ذکر کیا گیا۔ بشارات ظہور کے لیے استثنا۔ ١٧: ١٨۔ ٢١: ٣٢۔ ٢: ٣٣۔ اور زبور ١: ٤٥۔ اور انجیل متی ١: ٢٠۔ یوحنا ٢١: ١۔ ١٥: ١٤۔ کے مقامات دیکھنے چاہیے۔ الاعراف
158 الاعراف
159 الاعراف
160 (١) تورات میں ہے کہ یہ چٹان جبل حوریب میں تھی۔ (خروج ٦: ١١) حوریب سے مقصود وہ سلسلہ کوہ ہے جو وادی لجاء میں واقع ہے۔ (ن) بنی اسرائیل کی بارہ قبیلوں میں تقسیم اور وادی سینا کے واقعات کی طرف اشارہ۔ (س) یہ گمراہی کہ جب فتح و کامرانی حاصل ہوئی تو عبودیت و نیاز کی جگہ غفلت و شرارت میں مبتلا ہوگئے۔ (دیکھو بقرہ از ٥٤ تا ٥٦) الاعراف
161 (٢) غالبا یہ وہ شہر تھا جسے تورات میں یریحو کہا گیا ہے اور جو یرون پار سرزمین کنعان کی پہلی آبادی تھی جس کے حصول کی بنی اسرائیل کو بشارت دی گئی تھی۔ (گنتی ٥: ٢٣) (٣) حطۃ کلمۃ استغفار ہے، یعنی خدایا گناہوں سے پاک کردے۔ الاعراف
162 (ع) بنی اسرائیل کی یہ گمراہی کہ دین کے حکموں پر سچائی کے ساتھ عمل نہیں کرتے تھے اور شرعی حیلے نکال کر ان کی تعمیل سے بچنا چاہتے تھے۔ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ سبت کا مقدس دن تعطیل کا دن ہے اس دن شکار نہ کرو۔ لیکن ایک گروہ نے یہ حیلہ نکالا کہ سمندر کے کنارے گڑھے کھود لیے، جب جوار کے بعد پانی اتر جاتا تو گڑھے کے اندر کی مچھلیاں پکڑ لیتے اور کہتے یہ مچھلیاں خود آگئیں، شکار نہیں کی گئیں۔ بندر ہوجانے کا مطلب ہے؟ ان کی صورتیں بندروں کی سی ہوگئی تھیں یا دل؟ ائمہ تفسیر میں سے مجاہد کا قول ہے مسخت قلوبھم ان کے دل مسخ ہوگئے تھے۔ (ابن کثیر) (ف) گمراہوں کی ہدایت کی طرف سے کتنی ہی مایوس ہو لیکن اہل حق کا فرض ہے کہ موعظت سے باز نہ رہیں، کیونکہ اول تو یہ ایک فرض ہے اور ادائے فرض میں نتیجہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ثانیا کون کہہ سکتا ہے کہ ہدایت قطعا موثر نہ ہوگی؟ ہوسکتا ہے کہ کسی کے دل کو کوئی بات لگ جائے۔ چنانچہ اسی لیے اہل حق نے کہا معذرۃ الی ربکم ولعلھم یتقون تاکہ اللہ کے حضور معذرت کرسکیں اور اس لیے بھی کہ شاید لوگ باز آجائیں۔ سبحان اللہ قرآن کی معجزانہ بلاغت، پانچ چھ لفظوں کے اندر وہ سب کچھ کہہ دیا جو اس بارے میں کہا جاسکتا ہے۔ الاعراف
163 الاعراف
164 الاعراف
165 الاعراف
166 الاعراف
167 (ص) آیت (١٦٧) سے معلوم ہوا کسی قوم پر ظالم و مستبد حکمرانوں کا مسلط رہنا بھی خدا کا ایک عذاب ہے جو پاداش عمل میں نمودار ہوتا ہے۔ الاعراف
168 (ق) آیت (١٦٨) میں اس قانون الہی کی طرف اشارہ ہے کہ جب کوئی جماعت بدعملی و فساد میں مبتلا ہوتی ہے تو اس کا مہلک نتیجہ فورا ظاہر نہیں ہوجاتا بلکہ تدریج و امہال کی وجہ سے یکے بعد دیگرے مہلتیں ملتی رہتی ہیں کہ اصلاح حال پر آمادہ ہوجائے۔ فرمایا ہم نے انہیں الگ الگ گروہ کر کے زمین میں متفرق کردیا، یعنی بنی اسرائیل کی قومی وحدت باقی نہیں رہی چھوٹے چھوٹے گروہوں میں منتشر ہوگئے، یہ تباہی کی ابتدا تھی تاہم ابھی نیک جماعیں بالکل معدوم نہیں ہوگئی تھیں۔ لیکن اس دور کے بعد جو نسلیں پیدا ہوئیں وہ عمل و حقیقت سے یکسر محروم ہوگئیں۔ (ر) چنانچہ علمائے یہود کا یہ حال ہوگیا کہ دنیا کے حقیر فوائد کے لیے دین فروشی کرتے، ناجائز باتوں کو جائز بنا لیتے اور سمجھتے ہمارے لیے کوئی کھٹکا نہیں، خدا ہمیں بخش دے گا۔ جب کسی گروہ میں عمل اور حقیقت کی روح باقی نہیں رہتی تو ارتکاب معاصی میں چھوٹ ہوجاتا ہے اور عمل کی جگہ محض خوش اعتقادی کے خود ساختہ سہاروں پر اعتماد کرنے لگتا ہے۔ چنانچہ یہی حال یہودیوں کا ہوا جو سمجھتے تھے ہم خدا کی پسندیدہ امت ہیں، آتش دوزخ ہم پر حرام کردی گئی ہے اور یہی حال اب مسلمانوں کا ہوگیا ہے جو سمجھتے ہیں ہم امت مرحومہ ہیں۔ آتش دوزخ ہم پر حرام کردی گئی ہے، اگر کچھ مواخذہ ہوگا بھی تو کسی پیر کی مریدی، یا کسی وظیفہ کا ورد یا کسی خاص نماز کی مداومت یا مجالس میلا کا انعقاد اور عرسوں کی شرکت بخشش ونجات کے لیے کافی ہے۔ (ش) پہلے آیت (١٥٩) میں کہا تھا کہ قوم موسیٰ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ہدایت پر چلتے ہیں۔ یہاں فرمایا جو لوگ کتاب اللہ پر سچائی کے ساتھ عمل کرتے ہیں ان کا اجر ضائع ہونے والا نہیں۔ دونوں جگہ یہ صراحت اس لیے کی تاکہ واضح ہوجائے جو لوگ سچائی پر قائم رہے ان کی سعادت سے انکار نہیں۔ (ت) اس حقیقت کا اعلان کہ خدا کی ہستی کا اعتقاد انسان کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے اور فطرت انسانی کی اصلی آواز بلی ہے۔ یعنی تصدیق ہے انکار نہیں ہے، اور اسی لیے کوئی انسان اپنی غفلت کے لیے معذور نہیں ہوسکتا اور یہ نہیں کہہ سکتا کہ آبا و اجداد کی گمراہی سے میں بھی گمراہ ہوگیا۔ کیونکہ اس کے وجود سے باہر گمراہی کے کتنے ہی موثرات جمع ہوجائیں لیکن اس کی فطرت کی اندرونی آواز کبھی دب نہیں سکتی بشرطیکہ وہ خود اس کے دہانے کے درپے نہ ہوجائے اور اس کی طرف سے کان بند نہ کرلے۔ الاعراف
169 الاعراف
170 الاعراف
171 (١) عربی میں نتقنا کے معنی رفعان کے بھی ہوسکتے ہیں اور زلزلنا کے بھی۔ نتق السقاء اذا ھزہ و نفضہ لیخرج منہ الزبدہ۔ ہم نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے۔ چونکہ آیت (١٧١) میں اس عہد کا ذکر کیا تھا جو دین کے اتباع کا بنی اسرائیل سے لیا تھا اس لیے یہاں واضح کردیا گیا کہ پیغمبروں کی ہدایت کوئی نیا پیام انسان کو نہیں دیتی اور وہ اسی اعتقاد کی تجدید کرتی ہے جو اول دن سے فطرت انسانی میں ودیعت کردیا گیا ہے۔ پچھلی دعوتوں کا ذکر ختم ہوگیا۔ اب یہاں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ جس طرح پچھلے عہدوں کی مفسد جماعتوں نے آخر تک سچائی کا مقابلہ کیا اسی طرح عرب کے مفسدین بھی کر رہے ہیں اور کبھی ایمان لانے والے نہیں۔ پس ان کی شرارتوں سے پریشان خاطر نہ ہو۔ نتیجہ کا انتظار کرو۔ الاعراف
172 الاعراف
173 الاعراف
174 الاعراف
175 آیت (١٧٥) میں غالبا عرب جاہلیت کے ایک حکیم شاعر امیہ بن عبداللہ ابی الصلت ثقفی کی طرف اشارہ ہے یہ غیر معمولی ذکاوت و استعداد کا آدمی تھا اور اہل کتاب کی صحبت میں رہ کر خدا پرستی و دینداری کے خیالات سے آشنا ہوگیا تھا۔ قدرتی طور پر ایسا شخص سب سے زیادہ مستحق تھا کہ اتباع حق کی اس سے توقع کی جاتی لیکن جب اسلام کا ظہور ہوا تو پیغمبر اسلام کی فضیلت اس پر گراں گزری اور اس طمع میں پڑگیا کہ خود ہی عرب کا پیغمبر کیوں نہ ہوا؟ نتیجہ یہ نکلا کہ ادراک حق کی جو توفیق ملی تھی ضائع ہوگئی، اور ہوائے نفس کی پیروی نے محروم و نامراد کردیا۔ کتے کی مثال میں اس طرف اشارہ ہے کہ تم ان لوگوں سے تعرض کرو یا نہ کرو یہ اپنی مفسدانہ خصلت کا مظاہرہ ضرور کریں گے کیونکہ سچائی کی مخالفت ایسے لوگوں کی طبیعت ثانیہ ہوجاتی ہے۔ الاعراف
176 الاعراف
177 الاعراف
178 الاعراف
179 قرآن نے جا بجا یہ حقیقت واضح کیے کہ ہدایت و سعادت کی راہ عقل و تفکر کی راہ ہے اور گمراہی و شقاوت کا سرچشمہ جہل و کوری اور حواس و تفکر کو بیکار کردینا ہے۔ جو لوگ خدا کی دی ہوئی عقل سے کام نہیں لیتے یا ہوائے نفس سے اس درجہ مغلوب ہوجاتے ہیں کہ ذہن و ادراک کی قوتیں بیکار ہوجاتی ہیں وہ کبھی ہدایت نہیں پاسکتے (مزید تفصیل کے لیے تفسیر فاتحہ دیکھین چاہیے) چنانچہ یہاں انسان کی دماغی شقاوت کی اس حالت کی طرف اشارہ کیا ہے جب بڑے بوڑھوں کے تقلیدی اثرات سے ہوائے نفس کے غلبہ سے یا ذاتی طمع و بغض سے وہ اس درجہ مغلوب ہوجاتا ہے کہ عقل و حواس کی ساری روشنیاں اس کے لیے بیکار ہوجاتی ہیں۔ قرآن کہتا ہے ایسا ہی گروہ جہنمی گروہ ہے۔ یہاں سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ معرفت حقیقت کی دو ہی راہیں ہیں : فکر اور نظر۔ فکر یہ کہ خدا کی دی ہوئی عقل سے کام لیں اور اپنے اندر سوچیں سمجھیں۔ نظر یہ کہ کارخانہ ہستی کے عجائب و دقائق کا مشاہدہ کریں اور اس سے بصیرت حاصل کریں۔ جو شخص ان دونوں باتوں سے محروم ہے وہ اندھا بہرا ہے، اور گمراہی سے لوٹنے والا نہیں۔ الاعراف
180 قرآن نے خدا کی صفتوں کا جو تصور ہم میں پیدا کرنا چاہا ہے وہ سراسر حسن و خوبی کا تصور ہے۔ چنانچہ وہ خدا کی تمام صفتوں کو حسنی قرار دیتا ہے۔ یعنی خوبی و جمال کی صفتیں۔ یہ صفتیں کیا کیا ہیں؟ قرآن نے جابجا بیان کی ہی اور شمار کی گئیں تو ٩٩ نکلیں۔ ان تمام صفتوں کے معانی پر غور کرو گے تو معلوم ہوجائے گا قرآن کا تصور کس درجہ بلند اور کامل ہے۔ صرف ان صفات کے معانی پر تدبر کر کے ہم کائنات ہستی کے بے شمار اسرار و دقائق کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں۔ کیونکہ یہاں جو کچھ ہے انہی صفات کا ظہور ہے۔ الاعراف
181 آیت (١٨١) میں عرب کے ان موحد اور راست باز انسانوں کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے اپنا جوہر فکر و نظر ضائع نہیں کیا تھا اور دعوت حق کے شناسا ثابت ہوئے تھے۔ الاعراف
182 الاعراف
183 آیت (١٨٣) میں قانون امہال کی طرف اشارہ ہے اور مفسدین مکہ کی نسبت خبر دی ہے کہ جزائے عمل کا قانون ان کی طرف سے غافل نہیں ہے۔ وہ بتدریج اس نتیجہ تک پہنچ کر رہیں گے جو انکار و سرکشی کا لازمی نتیجہ ہے۔ چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ چند برسوں کے اندر قریش مکہ کی ساری طاقت نابود ہوگئی۔ (قانون امہال کے لیے دیکھو تفسیر فاتحہ) داعیان حق کو ہمیشہ منکروں نے مجنون کہا ہے۔ پیغبر اسلام کو بھی اشرار مکہ مجنون کہا کرتے تھے۔ آیت (١٨٤) اور (١٨٥) میں فرمایا یہ منکر نہ تو فکر سے کام لیتے ہیں نہ مشاہدہ و نظر سے، اگر فکر سے کام لیں تو پیغمبر اسلام کی زندگی جو انہی میں پیدا ہوا اور انہی میں سے ہے سچائی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ اگر نظر سے کام لیں تو آسمان و زمین کا ایک ایک ذرہ خدا کی ہستی اور اس کے مقررہ قوانین خلقت کی شہادت دے رہا ہے۔ غور کرو۔ قرآن کا طریق تلقین و استدلال کیا ہے اور مفسرین نے اسے کیا سے کیا بنا دیا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھو تفسیر فاتحہ) الاعراف
184 الاعراف
185 الاعراف
186 الاعراف
187 مشرکین مکہ انکار و تمسخر کی راہ سے پوچھتے تھے اگر سچ مچ کو قیامت آنے والی ہے تو کیوں نہیں بتلا دیتے کہ آئے گی؟ فرمایا وقت کا علم تو اللہ کو ہے۔ تمہارے لیے اس قدر جان لینا کافی ہے کہ جب آئے گی تو اچانک آجائے گی۔ ڈھنڈورا پیٹ کر نہیں آئے گی۔ ثقلت فی السموات والارض سے معلوم ہوا وہ اجرام سماویہ کا ایک عظیم حادثہ ہوگا۔ اس آیت اور اس کی ہم معنی آیات سے یہ بات بھی معلوم ہوگئ کہ قیامت کے آثار و مقدمات کے بارے میں جتنی باتیں مسلمانوں میں مشہور ہوگئی ہیں ان کا بڑا حصہ بے اصل ہے۔ کیونکہ اگر ایک واقعہ سے بہت پہلے اس کی ظاہر علامتیں یکے بعد دیگرے ظہور میں آنے والی ہوں اور ان کی خبر بھی دے دی گئی ہو تو اس واقعہ کا ہونا ناگہانی نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ قرآن قطعی طور پر کہتا ہے کہ لوگ یکسر بے خبر ہوں گے اور قیامت اچانک نمودار ہوجائے گی۔ الاعراف
188 انسان کی ایک عالمگیر گمراہی یہ رہی ہے کہ جب کوئی انسان روحانی عظمت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے تو لوگ چاہتے ہیں اسے انسانیت و بندگی کی سطح سے بلند کر کے دیکھیں لیکن قرآن نے پیغمبر اسلام کی حیثیت ایسے صاف اور قطعی لفظوں میں واضح کردی کہ ہمیشہ کے لیے اس گمراہی کا ازالہ ہوگیا۔ صرف یہی ایک بات ان کی صداقت کے اثبات کے لیے کفایت کرتی ہے۔ جو دنیا اپنے پیشواؤں کو خدا اور خدا کا بیٹا بنانے کی خواہش مند تھی اسلام کے پیغبر نے اس سے اتنا بھی نہ چاہا کہ کاہنوں کی طرح مجھے غیب داں تسلیم کرلو۔ زیادہ سے زیادہ بات جو اپنی نسبت سنائی، یہ تھی کہ انکار و بدعملی کے نتائج سے خبردار کردینے والا اور ایمان و نیک عمل کی برکتوں کی بشارت دینے والا ایک بندہ ہوں۔ اگر میں غیب داں ہوتا تو زندگی کا کوئی گزند مجھے نہ پہنچتا۔ مجھے کیا معلوم قیامت کب آئے گی۔ کیا ایسے انسان کی زبان سے سچائی کے سوا کوئی بات نکل سکتی ہے؟ چہ عظمت دادہ یا رب بخلق آن عظیم الشاں کہ انی عبدہ گوید بجائے قول سبحانی !!! الاعراف
189 آیت (١٨٩) میں مشرکوں کی یہ گمراہی واضح کی ہے کہ اپنی احتیاجوں اور مصیبتوں میں خدا سے التجائیں کرتے ہیں لیکن جب مطلب حاصل ہوجاتا ہے تو اسے ان آستانوں اور معبودوں کی بخشش سمجھنے لگتے ہیں جو انہوں نے ٹھہرا رکھے ہیں۔ چنانچہ مشرکین عرب مصیبتوں میں خدا ہی کو پکارتے تھے۔ لیکن جب مصیبت ٹل جاتی تو اپنے بنائے ہوئے آستانوں پر نذریں چڑھاتے اور اپنی اولاد کو ان کی طرف منسوب کرتے اور کہتے یہ انہی کی بخشش ہے کہ ہمیں اولاد ملی۔ اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ شرک کی قسموں میں سے ایک قسم شرک فی التسمیہ ہے۔ یعنی غیر خدا کی طرف منسوب کر کے نام رکھنا۔ چنانچہ مشرکین عرب عبدالعزی، عبد الشمس وغیرہا نام رکھتے تھے اور افسوس ہے کہ مسلمان بھی اب اسی طرح کے نام رکھنے لگے ہیں۔ (١) تغاشاھا کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ ڈھانپ لیتا ہے اور یہ عربی میں اس بات کے لیے کنایہ ہے جسے ہم نے اردو میں ملتفت ہونے سے ادا کیا ہے۔ الاعراف
190 الاعراف
191 الاعراف
192 الاعراف
193 الاعراف
194 قرآن نے جابجا یہ حقیقت واضح کی ہے کہ روحانی اعتقاد کے ساتھ ایک بالا تر ہستی کو پکارنا بندگی و نیاز کا ایک ایسا فعل ہے جو صرف خدا ہی کے لیے ہونا چاہیے۔ اگر کسی دوسری ہستی کے لیے کیا گیا تو یہ شرک ہوگا۔ یہی مقام ہے جہاں پیروان مذاہب نے ٹھوکر کھائی، وہ توحید ربوبیت میں نہیں کھوئے گئے، کیونکہ خالق و رب خدا ہی کو مانتے تھے، وہ توحید الوہیت میں گمراہ ہوگئے۔ یعنی اپنی دعاؤں اور منتوں مرادوں کے لیے بہت سے آستانے بنا لیے جسے قرآن الہ بنا لینے سے تعبیر کرتا ہے۔ سورت کا مرکز موعظت یہ تھا کہ اوائل اسلام کی غربت و بے چارگی میں پیروان دعوت کو تسکین دی جائے اور یہ حقیقت ان کے دلوں پر نقش کردی جائے کہ ظاہری اسباب کتنے ہی مخالف دکھائی دیتے ہوں بالآخر دعوت حق کی فتح مندی یقینی ہے، مخالف جماعتیں جس قدر اپنی سرگرمی میں بڑھتی جائیں گی اتنا ہی زیادہ ان کی تباہی کا وقت قریب آتا جائے گا۔ اب اس سورت کے تمام مواعظ پر دوبارہ نظر ڈالو اور دیکھ کس طرح سورت کی ابتدائی ہوئی، کس طرح سلسلہ بیان کھلتا اور پھیلتا گیا اور کس طرح دین حق کے تمام مہمات و مقاصد اس پھیلاؤ میں سمٹ آئے پھر کس طرح مرکز برابر ایک ہی رہا اور اب اسی پر خاتمہ ہورہا ہے ،۔ چنانچہ یہاں واضح فرمایا کہ : (ا) مشرکین مکہ دعوت حق کے خلاف کتنی ہی تدبیریں کریں کامیاب ہونے والی نہیں، کیونکہ اس مقابلہ میں حق تمہارے ساتھ ہے ان کے ساتھ نہیں۔ (ب) جو لوگ تعصب اور ضد میں کھوئے گئے وہ کبھی ماننے والے نہیں۔ (ج) تمہارا طریق کار یہ ہونا چاہیے کہ ہر حال میں نرمی اور درگزر کا شیوہ ملحوظ رکھو اور نیکی کی دعوت دیتے رہو مگر جاہلوں کی طرف متوجہ نہ ہو۔ (د) اگر مخالفوں کے عناد، ناموافق حالات کے ہجوم اور اپنی بے چارگی و بے نوائی کے تصور سے مایوس کن خیالات پیدا ہونے لگیں تو سمجھ جاؤ یہ شیطانی وسوسہ ہے اور اللہ کی یاد سے اس کا علاج کرو۔ وساوس و خطرات سب کو گزرتے ہیں مگر جو لوگ متقی ہیں ان کا ضمیر ایسا بیدار ہوجاتا ہے کہ جونہی کوئی وسوسہ گزرا معا چونک اٹھے اور راستی و نیکی کی روشنی نمودار ہوگئی۔ مگر جو لوگ ایمان و تقوی سے محروم ہیں وہ اپنے آپ کو وساوس کے ہاتھوں چھوڑ دیتے ہیں۔ جدھر لے جائیں اور جہاں تک لے جائیں کھنچے چلے جائیں گے۔ (ہ) کلام الہی کا جی لگا کر سننا وساوس و خطرات کے اثرات دور کردیتا ہے۔ الاعراف
195 الاعراف
196 الاعراف
197 الاعراف
198 الاعراف
199 آیت (١٩٩) مہمات اصول میں سے ہے، چند لفظوں کے اندر زندگانی کی اخلاقی مشکلات کا پورا حل اور فضیلت و کامرانی کے تمام طریقے واضح کردیئے، اخذ بالعفو، امر بالمعروف، اعراض عن الجاہلین یعنی ناسمجھوں کی ناسمجھی بخش دینی، جاہلوں کے پیچھے نہ پڑنا، اور نیکی کی دعوت میں سرگرم رہنا۔ سرسری نظر میں پتہ نہیں لگے گا۔ اچھی طرح اور بار بار غور کرو، انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کون سا گوشچہ ہے جس کی ساری عملی مشکلات ان تین اصلوں سے حل نہیں ہوجاتیں؟ آیت (١٩٨) میں فرمایا حقیقت یہ ہے کہ تجھے دیکھتے نہیں کیونکہ اگر دیکھتے تو کبھی انکار نہ رکتے، سو ایک دیکھنا سلمان فارسی کا تھا جو پہلی ہی نگاہ میں پکار اٹھا۔ واللہ ما ھا بوجہ کذاب۔ خدا کی قسم ! یہ صورت جھوٹے آدمی کی نہیں ہوسکتی۔ اور ایک دیکھنا ابوجہل کا تھا کہ ما لھذا الرسول یاکل الطعام و یمشی فی الاسوق۔ الاعراف
200 (١) قرآن کا یہ عام اسلوب بیان یاد رہے کہ خطاب پیغمبر سے ہوتا ہے اور مقصود اس کے پیرو ہوتے ہیں۔ چنانچہ بعد کی آیات نے یہ بات واضح کردی ہے۔ الاعراف
201 الاعراف
202 الاعراف
203 الاعراف
204 الاعراف
205 الاعراف
206 الاعراف
0 الانفال
1 (١) مکہ میں جب پیغمبر اسلام کی دعوت کا ظہور ہوا تو قدرتی طور پر دو گروہ پیدا ہوگئے، ایک ان لوگوں کا تھا جنہوں نے یہ دعوت قبول کی، دوسرا تمام قوم اور اس کے سرداروں کا جو اس کے مخالف تھے، غور کرو دونوں میں بنائے نزاع کیا تھی؟ پیروان دعوت کہتے تھے انہیں حق ہے کہ جس بات کو درست سمجھیں اختیار کریں، مخالف کہتے تھے کہ انہیں یہ حق حاصل نہیں، یعنی وہ انسان کے اعتقاد و ضمیر کی آزاد تسلیم نہیں کرتے تھے، وہ چاہتے تھے بزور شمشیر مسلمانوں کو ان کے اعتقاد سے پھرا دیں۔ پیغمبر اسلام نے تیرہ برس تک ہر طرح کے مظالم برداشت کیے، آخر جب مکہ میں زندہ رہنا دشوار ہوگیا تو مدینہ چلے آئے، لیکن قریش مکہ نے یہاں بھی چین سے بیٹھنے نہ دیا، پے درپے حملے شروع کردیے۔ اب پیغمبر اسلام کے سامنے تین راہیں تھیں : (الف) جس بات کو حق سمجھتے ہیں اس سے دست بردار ہوجائیں۔ (ب) اس پر قائم رہیں مگر مسلمانوں کو قتل ہونے دیں۔ (ج) ظلم و تشدد و کا مردانہ وار مقابلہ کریں اور نتیجہ خدا کے ہاتھ چھوڑ دیں۔ انہوں نے تیسری راہ اختیار کی اور نتیجہ وہی نکلا جو ہمیشہ نکل چکا ہے یعنی حق فتح مند ہوا اور ظالموں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا۔ قرآن نے جس لڑائی کو جائز رکھا اس کی اصلیت اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ چونکہ لڑائی کی حالت پیش آگئی تھی اس لیے اس کے ضروری احکام بیان کردیئے گئے۔ اس سورت میں اور اس کے بعد کی سورت میں تذکیر و موعظت کا مرکز یہی حالت ہے۔ مال غنیمت جو لڑائی میں ہاتھ آئے وہ اللہ اور اس کے رسول کا ہے یعنی یہ بات نہیں ہونی چاہیے کہ جو جس کے ہاتھ پڑگیا وہ اسی کا ہوگیا بلکہ سب کچھ امام کے سامنے پیش کرنا چاہیے، وہ اسے جماعت میں تقسیم کرے گا۔ امن کی حالت ہو یا لڑائی کی لیکن مسلمانوں کو باہم دگر صلح و صفائی کے ساتھ رہنا چاہیے۔ ہر حال میں تقوی اور اطاعت ان کا نصب العین ہو کہ بغیر اس کے کامیابی ممکن نہیں۔ سچا مومن وہ ہے جس کی روح خدا پرستی سے معمور رہتی ہے جس کا ایمان گھٹنے کی جگہ برابر بڑھتا رہتا ہے، جو نماز قائم رکھتا اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے کبھی نہیں تھکتا۔ یہ آیت اس باب میں قاطع ہے کہ قرآن کے نزدیک ایمان کی ہر حالت یکساں نہیں، وہ گھٹتا بھی ہے اور بڑھتا بھی ہے، نفس تصدیق کے لحاظ سے سب برابر ہیں کیفیت و یقین میں تفاوت ہے۔ عرب جاہلیت میں دستور تھا کہ لڑائی میں جو مال جس کے ہاتھ لگ جائے وہ اسی کا سمجھا جاتا تھا، رومیوں میں بھی ایسا ہی دستور تھا اور آج کل بھی یورپ کی تمام قوموں میں ایسا ہی قانون رائج ہے۔ جس شہر یا قلعہ کو فوج حملہ کر کے فتح کرلیتی ہے ایک خاص وقت تک اسے لوٹنے کا حق ہوتا ہے۔ چنانچہ ہندوستان میں انگریزی فوج نے سر نیگا پٹم، بھرت پور اور حیدر آباد سندھ کو بے دریغ لوٹا اور غدر ١٨٥٧ ء میں جب دہلی فتح ہوئی تو سات دن تک فوجیوں کو لوٹ مار کی اجازت دے دی گئی تھی۔ لیکن قرآن نے یہ حکم دے کر کہ مال غنیمت جو کچھ بھی ہاتھ آئے حکومت (یعنی اسٹیٹ) کا ہے نہ کہ لوٹنے والوں کا، سپاہیوں کی ذاتی طمع و حرص کے ابھرنے کی راہ روک دی۔ چونکہ یہ نئی قسم کی سختی تھی اس لیے ناگزیر تھ کہ لوگوں پر شاق گزرے، پس پہلے تقوی اور اطاعت کی تلقین کی پھر سچے مومنوں کی شان بتلائی پھر آیت (٥) میں فرمایا اس معاملہ کو بھی ویسا ہی معاملہ سمجھو جیسا بدر میں پیش آیا تھا۔ لوگوں کی خواہش دوسری تھی، اللہ کے رسول کا فیصلہ دوسرا تھا، لیکن بالآخر سب نے دیکھ لیا کہ حق بات وہی تھی جو اللہ کے رسول نے چاہی تھی۔ وہ معاملہ یہ تھا کہ ہجرت کے دوسرے سال جب روسائے مکہ نے مدینہ پر حملہ کیا تو اسی زمانہ میں ان کا ایک تجارتی قافلہ بھی شام سے مکہ آرہا تھا اور مدینہ کے قرب و جوار سے ہو کر گزرنے والا تھا۔ پیغمبر اسلام نے وحی الہی سے مطلع ہو کر فرمایا ایک گروہ مکہ سے آرہا ہے۔ دوسرا قافلہ ہے، ان دو میں سے کسی ایک سے ضرور جنگ ہوگی، اور تم کامیاب ہوگے، چونکہ قافلہ کے ساتھ بہت تھوڑے آدمی تھے اس لیے مسلمانوں کی خواہش تھی کہ اسی سے مقابلہ ہو، مکہ والی فوج سے نہ لڑیں کیونکہ خود بڑی ہی کمزوری اور بے سروسامانی کی حالت میں تھی۔ مگر پیغمبر اسلام نے لوگوں کے ان خیالات کی کچھ پروا نہ کی اور حملہ آوروں کے مقابلہ کا فیصلہ کرلیا، نتیجہ یہ نکلا کہ تین سو تیرہ بے نواؤں نے روسائے مکہ کے پورے لشکر کو شکست دے دی۔ الانفال
2 الانفال
3 الانفال
4 الانفال
5 الانفال
6 الانفال
7 آیت (٧) میں غیرت ذات الشوکۃ، سے قافلہ والی جماعت مراد ہے۔ آیت (٦) میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگرچہ ایک فریق نے پیغمبر اسلام کا فیصلہ مان لیا تھا مگر دل میں سخت ہراساں تھا۔ نکلا تو اس طرح ڈرتا ہوا نکلا، گویا موت کے منہ میں دھکیلا جارہا ہے۔ الانفال
8 الانفال
9 الانفال
10 آیت (١٠) سے واضح ہوگیا کہ فرشتوں والی بات صرف اس لیے تھی کہ کمزور مسلمانوں کے دل قرار پاجائیں۔ یہ بات نہ تھی کہ لڑائی لڑنے میں اسے کچھ دخل ہو۔ چنانچہ محققین تفسیر و حدیث اسی طرح گئے ہیں کہ فرشتوں کا نزول مسلمانوں کے دلوں کو مضبوط رکھنے کے لیے ہوا تھا۔ لڑائی میں ان کی شرکت ثابت نہیں، نہ اس کی کوئی ضرورت پیش آئی تھی، اور آیت (١٢) میں فاضربوا کا خطاب مسلمانوں سے ہے نہ کہ فرشتوں سے۔ مسلمانوں کے دلوں کو تھامے رکھنے کے لیے جو فرشتوں کا نزول ہوا اس کی حقیقت کیا تھی؟ تو یہ معاملہ بھی عالم غیب کے حقائق سے تعلق رکھتا ہے، ہم اپنے ذہن و ادراک سے اس کی حقیقت معلوم نہیں کرسکتے۔ بدر کی لڑائی میں مسلمانوں کی حالت بڑی ہی بے بسی اور کمزوری کی تھی، کل تین سو تیرہ آدمی لڑنے کے قابل تھے اور ان کا بھی یہ حال تھا کہ ایک آدمی کے سوا کسی کے پاس گھوڑا نہ تھا، پس قدرتی طور پر لوگ ہراساں ہوئے، اور جو دل کے کچے تھے انہیں طرح طرح کے وسوسے ستانے لگے، پھر بڑی مصیبت یہ ہوئی کہ پانی کی جگہ ایک ہی تھی۔ اس پر دشمن قابض ہوگیا، علاوہ بریں زمین ریتلی تھی، پاؤں دھنس دھنس جاتے تھے، دشمن سوار تھے، ان کا کچھ نہ بگڑتا۔ مسلمان پیدل تھے ان کے پاؤں نہ جمتے۔ آیت (١١) میں فرمایا غور کرو، خدا کی کارسازی نے کس طرح یہ ساری مشکلیں حل کردیں؟ اس نے دلوں کو چین دینے کے لیے تم سب پر نیند غالب کردی، اٹھے تو دل کا سارا خوف و ہراس دور ہوچکا تھا، چنانچہ حضرت علی فرماتے ہیں بدر کی پہلی رات کوئی نہ تھا جو آرام سے سو نہ گیا ہو، ہاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات بھر عبادت کرتے رہے۔ (بیہقی فی الدلائل) اور معلوم ہے جس کے دل میں خوف و خطر ہو وہ کبھی آرام سے سو نہیں سکتا۔ پس اس نیند کا طاری ہوجانا بے خوفی کا القا تھا۔ پھر عین موقع پر بارش ہوگئی اور افراط کے ساتھ سب کو پانی میسر آگیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ نہا دھو کر صاف ستھرے ہوگئے، کوئی نہ تھا جو چست و چاق اور تازہ دم نہ ہوگیا ہو۔ بارش کی وجہ سے ریت بھی جم کر سخت ہوگئی۔ پاؤں کے دھنس جانے کا اندیشہ جاتا رہا، اپنی کامیابی کی طرف سے بے اعتمادی و مایوسی جو دراصل شیطانی وسوسے کی ناپاکی تھی اب کسی کے دل میں باقی نہیں رہی۔ آج کل فن جنگ میں جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ سپاہیوں کی اسپرٹ یعنی معنوی قوی درست رکھے جائیں۔ یہاں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے صرف اس بات نے کہ پانی کی ضرورت باقی نہیں رہی، ریت میں دھنسنے کا خطرہ جاتا رہا اور نہا دھو لینے کی وجہ سے جسم میں تازگی آگئی، لوگوں کے اندر جس درجہ خود اعتمادی اور سرگرمی پیدا کردی ہوگی اس کا اندازہ صرف اہل نظر ہی کرسکتے ہیں۔ الانفال
11 بعض اوقات قدرتی حوادث کا ایک معمولی سا واقعہ بھی فتح و شکست کا فیصلہ کردیتا ہے۔ جنگ واٹرلو کے تمام مورخین متفق ہیں کہ اگر ١٧ اور ١٨ جون ١٨١٥ ء کی درمیانی رات میں بارش نہ ہوئی ہوتی تو یورپ کا نقشہ بدل گیا ہوتا۔ کیونکہ اس صورت میں نپولین کو زمین خشک ہونے کا بارہ بجے تک انتظار نہ کرنا پڑتا۔ سویرے ہی لڑائی شروع کردیتا، نتیجہ یہ نکلتا کہ بلوشر کے پہنچنے سے پہلے ویلنگٹن کو شکست ہوجاتی۔ واٹر لو میں اگر بارش نہ ہوئی ہوتی تو یورپ کا سیاسی نقشہ بدل جاتا، لیکن اگر بدر میں نہ ہوئی ہوتی تو کیا ہوتا؟ تمام کرہ ارضی کی ہداتی و سعادت کا نقشہ الٹ جاتا۔ اسی طرف پیغبر اسلام نے اپنی دعا میں اشارہ کیا تھا : اللھم ان تھلک ھذہ العصابۃ فلا تعبد فی الارض۔ خدایا ! اگر خدام حق کی یہ چھوٹی سی جماعت آج ہلاک ہوگئی تو کرہ ارضی میں تیرا سچا عبادت گزار کوئی نہیں رہے گا۔ آیت (١٥) سے جو اوپر گزر چکی ہے معلوم ہوا کہ اگر دشمن جمع ہو کر مسلمانوں پر چڑھ دوڑیں تو لڑائی سے بھاگنا مسلمانوں کے لیے سخت گناہ کی بات ہے اور اس کے لیے بڑی ہی سخت وعید آئی ہے۔ لیکن اگر دشمنوں کی تعداد بہت زیادہ ہو تو پھر کیا کرنا چاہیے؟ اسی سورت کی آیت (٦٦) سے معلوم ہوا کہ میدان جنگ میں ایک مسلمان کو کم از کم دو دشمنوں پر بھاری ہونا چاہیے۔ پس اگر دشمن دوگنے سے بھی زیادہ ہوں اور مسلمان لڑنے میں مصلحت نہ سمجھیں تو ایسا کرسکتے ہیں لیکن اس صورت میں بھی عزیمت یہی ہوگی کہ خدا پر بھروسہ رکھیں اور لڑنے سے منہ نہ موڑیں۔ اس حکم کو خاص جنگ بدر کے لیے سمجھنا صحیح نہیں ہوسکتا کیونکہ اعتبار عموم لفظ کا ہے نہ کہ خصوص سبب کا اور آیت میں یومئذ سے مراد لڑائی کا وقت ہے، نہ کہ جنگ بدر کا دن۔ الانفال
12 الانفال
13 الانفال
14 الانفال
15 الانفال
16 الانفال
17 الانفال
18 آیت (١٨) میں فرمایا : میدان جنگ کا فیصلہ تو ہوچکا، اب رہیں دشمنوں کی خفیہ تدبیریں تو وہ بھی سست پڑجائیں گی، چنانچہ ایسا ہی ہوا، بدر کے بعد قریش مکہ کی کوئی تدبیر بھی ان کے لیے سود مند نہ ہوئی۔ کفار مکہ کہا کرتے تھے، اگر خدا تمہیں فتح مند کرنے والا ہے تو وہ فتح مندی کہاں ہے؟ خود جنگ بدر میں ابو جہل نے دعا مانگی تھی، خدایا دونوں میں سے جو دین تجھے پسند ہو اس کے ماننے والوں کو فتح مند کر، پس آیت (١٩) میں فرمایا : اگر اسی بات کے طلبگار تھے تو وہ ظہور میں آگئی اور اہل حق کو خدا نے فتح مند کردیا۔ نیز فرمایا اگر باز آجاؤ یعنی اگر اب بھی ظلم و سرکشی سے باز آجاؤ اور محض اختلاف دین کی بنا پر مسلمانوں کی ہلاکت کے درپے نہ ہو تو تمہارے لیے سراسر بہتری ہے۔ اس سے اندازہ کرو کہ کس طرح پیغمبر اسلام نے آخر تک جنگ و خونریزی سے بچنا چاہا اور فتح و کامرانی کے بعد بھی امن و اصلح کی دعوت دیتے رہے؟ اگر جنگ بدر کے بعد قریش مکہ ظلم و عداوت سے باز آجاتے تو ظاہر ہے بعد کی جنگوں کی نوبت ہرگز نہ آتی۔ اگرچہ نتیجہ وہی نکلتا، یعنی اسلام کی دعوت تمام جزیرہ عرب کو فتح کرلیتی۔ الانفال
19 الانفال
20 الانفال
21 آیت (٢١) میں اہل کتاب کی طرف اشارہ ہے کہ تورات و انجیل سنتے تھے، مگر حقیقتا نہیں سنتے تھے کیونکہ اگر سمجھ کر سنتے تو عمل کرتے افسوس، مسلمانوں کا بھی قرآن سننا ویسا ہی سننا ہوگیا۔ وہ سمجھتے ہیں جن حرفوں کی آوازوں سے قرآن کے الفاظ بنے ہیں انہیں کسی نہ کسی طرح کان میں ڈال لینا سماعت قرآن ہے، اس سے زیادہ کسی بات کی ضرورت نہیں۔ الانفال
22 آیت (٢٢) سے جلد نہ گزر جاؤ، یہ وہی بات ہے جو قرآن کے ہر صفحہ اور ہر بیان میں بار بار نمایاں ہوئی ہے۔ یعنی اس کی دعوت سراسر تعقل و تفکر کی دعوت ہے، جو انسان اپنے حواس و عقل سے کام نہیں لیتا وہ اس کے نزدیک انسان نہیں بدترین چارپایہ ہے۔ نیز وہ فکروعمل کی جس حالت کو کفر کی حالت قرار دیتا ہے اس کا سرچشمہ یہی عقل و حواس کا تعطل ہے۔ آیت (٢٢) میں فرمایا پیغمبر اسلام کی دعوت اس لیے ہے کہ تمہیں زندہ کردے یعنی وہ انسانیت اعلی کے انبعاث و قیام کی دعوت ہے۔ غور کرو اس دعوت نے وقت کی تمام مردہ جماعتوں کو کس طرح قبروں سے اٹھ کر زندگی کے میدانوں میں متحرک کردیا تھا؟ اس سے بڑھ کر مردوں کو جلانا اور کیا ہوگا کہ عرب کے ساربانوں میں ابوبکر، عمر، علی، عائشہ، خالد، ابن ابی وقاص، ابن العاس جیسے اکابر عالم پیدا ہوگئے اور پچاس برس کے اندر کرہ ارضی کی سب سے بڑی مہذب و اشرف قوم عرب کے وحشی تھے۔ پھر فرمایا یہ بات نہ بھولو کہ انسان کے افکار و افعال میں حکمت الہی کا ایک خاص قانون کام کر رہا ہے، بسا اوقات اس کے ارادوں اور اس کے دل کے جذبوں اور انفعالوں کے درمیان اچانک کوئی غیر متوقع بات آکر حائل ہوجاتی ہے، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اچانک اچھائی سے برائی میں جا پڑتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ برائی سے بھلائی میں آنکلتا ہے۔ چنانچہ کتنے ہی اچھے ارادے ہیں جن سے عین وقت پر ہمارے دل نے انکار کردیا اور کتنے ہی برائی کے منصوبے ہیں جن سے اچانک ہمارے دل نے بغاوت کردی۔ پس چاہیے کہ انسان اپنے دل کی نگرانی سے کبھی غافل نہ ہو۔ نیز کہا یہ بھی نہ بھولو کہ خدا کے حضور لوٹنا ہے، کیونکہ جس دل میں آخرت کا یقین ہوگا وہ زندگی کی غفلتوں سے کبھی مغلوب نہیں ہوسکتا۔ پھچلی آیات میں انفرادی زندگی کے خطرات سے متنبہ کیا تھا۔ اب (٢٥) میں اجتماعی خطرات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان فتنوں سے بچو جنہیں سوسائٹی کا کوئی فرد یا ایک جماعت برپا کردیتی ہے لیکن جب ان کی آگ بھڑک اٹھتی ہے تو صرف انہی کو نہیں جلاتی جنہوں نے سلگائی تھی سبھی لپیٹ میں آجاتے ہیں اور اس لیے آجاتے ہیں کہ کیوں آگ لگانے والے کا ہاتھ نہیں پکڑا؟ کیوں بروقت بجھانے کی کوشش نہیں کی؟ الانفال
23 الانفال
24 الانفال
25 الانفال
26 الانفال
27 آیت (٢٧) میں خیانت سے مقصود وہ تمام خیانتیں ہیں جو اسلام کے احکام کی تعمیل و تبلیغ اور امت کے مصالح و مقاصد میں کی جائیں، لیکن خصوصیت کے ساتھ جس بات کی طرف اشارہ کیا وہ یہ تھی کہ اہل مکہ کے ساتھ نامہ و پیام نہ رکھو جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے اگرچہ یہ نام و پیام اپنے بچوں کی حفاظت کے خیال ہی سے کیوں نہ ہو۔ بعض مہاجرین نے اپنے اہل و عیال کو جو مکہ میں تھے خطوط لکھے تھے، اس میں کچھ اشارہ جنگ کی نسبت بھی آگیا تھا، فرمایا یہ اللہ کی، رسول اللہ کی، اور مسلمانوں کی خیانت ہے۔ اگر صرف اتنی سی بات اللہ اور رسول اللہ کی خیانت تھی تو غور کرو ان مسلمانوں کے لیے کیا حکم ہونا چاہیے جو اپنی ساری زندگیاں اعدائے ملت کی سیاسی خدمت میں صرف کر ڈالتے ہیں اور جو ڈیڑھ سو برس سے بے شمار اسلامی حکومتوں کے زوال و انقراض کا باعث ہوئے ہیں؟ الانفال
28 الانفال
29 آیت (ّ٢٩) سے معلوم ہوا کہ جو جماعت متقی ہوگی اس میں حق و باطل اور خیر و شر کے امتیاز کی ایک خاص قوت پیدا ہوجائے گی اور اس لیے کبھی باطل و شر کی طرف قدم نہیں اٹھائے گی۔ چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ اس اعتبار سے صدر اول کے مسلمانوں کا کیا حال تھا؟ عرب کے صحرا نشین جن کی ساری زندگیاں اونٹ چرانے میں بسر ہوئی تھیں یکایک ایرانیوں اور رومیوں جیسی متمدن قوموں کی قسموں کے مالک ہوگئے لیکن خیر و شر میں امتیاز کی ایک ایسی قوت ان کے قبضہ میں آگئی تھی کہ جو کچھ کرتے تھے اور جس طرح کرتے تھے، وہ حق و عداوت اور خیر و سعادت کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا تھا۔ وہ زمانہ کیا ہوا جب مری آہ میں اثر تھا۔۔۔۔۔ یہی چشم خوں فشاں تھی، یہی دل، یہی جگر تھا۔ الانفال
30 آیت (٣٠) پر غور کرو، انسان اپنے جہل و غفلت کی سرشاریوں میں کیا سوچتا ہے اور حکمت الہی کی مخفی تدبیروں کا فیصلہ کیا ہوتا ہے؟ جب ہجرت سے پہلے قریش مکہ نے یہ منصوبے باندھے تھے تو کیا ایک لمحہ کے لیے انہیں آنے والے نتائج کا گمان ہوسکتا تھا؟ مگر کس طرح خود انہی کے ظلم و عداوت نے ان کا سارا سروسامان کردیا؟ اگر ظلم نہ ہوتا تو ہجرت بھی نہ ہوتی اور اگر ہجرت نہ ہوتی تو وہ تمام نتائج بھی ظہور میں نہ آتے جو ہجرت سے ظہور آئے۔ ایسی ہی صورت حال قانون الہی کی مخفی تدبیر ہے جو انسانی ظلم و فساد کی ساری تدبیریں ملیا میٹ کردیتی ہے۔ الانفال
31 الانفال
32 آیت (٣٢) میں ابوجہل وغیرہ صنادید قریش کی طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے کہا تھا۔ خدایا ! گر قرآن واقعی تیری جانب سے ہے اور ہم اسے جھٹلانے میں سچے نہیں تو ہم پر اپنا عذاب نازل کر۔ (بخاری) فرمایا یہ خدا کی سنت نہیں کہ وہ ایک قوم پر عذاب نازل کرے حالانکہ داعی حق اس میں موجود ہو اور نہ اس کا عذاب ایسی حالت میں نازل ہوسکتا ہے کہ استغفار کرنے والے موجود ہوں۔ الانفال
33 الانفال
34 پھر آیت (٣٤) میں فرمایا اب کہ پیغمبر اسلام کو انہوں نے ہجرت پر مجبور کردیا اور ان کی سرکشی یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ خدا کے بندوں کو اس کی عبادت گاہ سے بجر روکنے لگے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاداش عمل کی نمود میں تاخیر ہو۔ چنانچہ وہ ظاہر ہوا اور قریش مکہ کے جماعتی اقبال کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا۔ اس آیت سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ جو لوگ متقی نہیں وہ عبادت گاہوں کی تولیت کے حقدار نہیں۔ الانفال
35 الانفال
36 الانفال
37 الانفال
38 آیت (٣٨) عفو و بخشش اور دعوت امن و صلح کی انتہا ہے۔ اس سے اندازہ کرو کہ دعوت اسلام کا اپنے دشمنوں کے ساتھ کیسا طرز عمل رہا اور کس طرح مجبور و بے ہو کر اسے میدان جنگ میں جمنا پڑا؟ سورت کے ابتدا میں فرمایا تھا کہ مال غنیمت اللہ اور اس کے رسول کا ہے، یعنی حکومت کا ہے، اب آیت (٤١) میں اس کی تقسیم کا طریقہ بتلا دیا، اللہ اور اس کے سول کے حصہ سے مقصود یہ ہے کہ دین و ملت کے مصالح کے لیے ایک خاص رقم رکھی جائے، اسی میں سے پیغمبر اسلام کو جب تک زندہ رہیں ضروری مصارف ملیں، ان کے بعد ائمہ مسلمین کو۔ اس آیت اور اس کی ہم معنی آیات نے واضح کردیا کہ قرآن کے نزدیک حکومت (اسٹیٹ) یتیموں، مسکینوں اور مصیبت زدوں کی خبر گیری کے لیے ذمہ داری ہے اور حکومت کے خزانہ کا ایک لازمی مصرف قوم کے ان افراد کی اعانت ہے۔ الانفال
39 الانفال
40 الانفال
41 الانفال
42 آیت (٤٢) میں جنگ بدر کے اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے جس کا پہلے ذکر گزر چکا ہے۔ فرمایا خدا کی مخفی تدبیروں کی کرشمہ سازی دیھکو، ادھر دشمنوں کا گروہ بڑھا چلا آتا تھا ادھر تم شہر سے نکل کر ایک قریبی ناکے تک پہنچے تھے اور ابو سفیان کا قافلہ تھا کہ نشیب میں گزر رہا تھا۔ تم اپنی کمزوری کی وجہ سے چاہتے تھے اس سے مقابلہ ہو لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا قافلہ تو نکل گیا اور مقابلہ ہوا حملہ آوروں سے، اور تمہاری مٹھی بھر کمزور جماعت نے اسے ہرا کر بھگا دیا۔ الانفال
43 آیت (٤٣) میں اس خواب کی طرف اشارہ کیا ہے جو جنگ بدر سے پہلے پیغمبر اسلام نے دیکھا تھا اور جس میں دشمن ناکام اور مسلمان فتح مند دکھائے گئے تھے، یہ خواب مسلمانوں کے لیے مزید تقویت کا باعث ہوا تھا۔ الانفال
44 الانفال
45 آیت (٤٥) سے (٤٧) تک ان چھ باتوں پر زور دیا ہے کہ فتح و کامرانی کا اصلی سرچشمہ ہیں : (ا) ثابت قدم رہو، کیونکہ میدان جنگ کی ساری کامیابی اسی کے لیے ہوتی ہے جو آخر تک ثابت قدم رہے۔ (ب) بہت زیادہ اللہ کو یاد کرو، کیونکہ جسم کا ثبات دل کے ثبات پر موقوف ہے اور دل اسی کا مضبوط رہے گا جو اللہ پر کامل ایمان رکھتا ہے۔ (ج) اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور رسول اللہ کے بعد اپنے امام و سردار کی کیونکہ بغیر طاعت (ڈسپلن) کے کوئی جماعت کامیاب نہیں ہوسکتی۔ (د) باہمی نزاع سے بچو ورنہ سست پڑجاؤ گے اور بات بگڑ جائے گی۔ (ہ) کتنی ہی مشکلیں پیش آئیں جھیلتے رہو۔ بالآخر جیت اسی کی ہے جو زیادہ جھیلنے والا ہوگا۔ (و) کافروں کا سا چلن اختیار نہ کرو جو ایمان و راستی کی جگہ گھمنڈ اور دکھاوے کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ تمہارے کاموں کی بنا پر خدا پرستانہ عجز و اخلاص پر ہونی چاہیے۔ الانفال
46 الانفال
47 الانفال
48 آیت (٤٨) میں شیطان سے مقصود سراقہ بن مالک ابن جعشم ہے جس نے مشرکین مکہ کا ساتھ دیا لیکن لڑائی شروع ہوتے ہی بھاگ گیا۔ چنانچہ مکہ کے لوگ کہتے تھے سراقہ نے ہمیں ہرا دیا۔ جب بدر میں مٹھی بھر بے سروسامان مسلمان جنگ کے لیے نکلے تو منافق اور کچے دل کے آدمی اس کی کوئی توجیہ نہیں کرسکے بجز اس کے کہیں انہیں ان کے دین کے نشہ نے مغرور کردیا ہے،۔ بات اگرچہ بطور طعنہ کے کہی گئی تھی لیکن ایک لحاظ سے غلط بھی نہ تھی، بلاشبہ یہ دین ہی کا نشہ تھا لیکن نشہ باطل نہ تھا، یہی وجہ ہے قرآن کی معجزانہ بلاغت نے آیت (٤٩) میں ان کا قول نقل کر کے رد نہیں کیا بلکہ صرف یہ کہا من یتوکل علی اللہ فھو حسبہ الخ۔ الانفال
49 الانفال
50 الانفال
51 الانفال
52 الانفال
53 آیت (٥٣) اور اس کی ہم معنی آیات نے قطعی لفظوں میں واضح کردیا کہ قرآن کے نزدیک اقوام و جماعات کے عروج و زوال اور موت و حیات کا قانون کیا ہے؟ فرمایا یہ خدا کی مقررہ سنت ہے کہ جب وہ کسی گروہ کو اپنی نعمتوں سے سرفراز کرتا ہے تو اس میں کبھی تغیر نہیں کرتا جب تک کہ خود اس گروہ کے افراد خود اپنی حالت متغیر نہیں کردیتے۔ چنانچہ دنیا کی پوری تاریخ ہمیں اس بارے میں جو کچھ بتلا رہی ہے اس کی حقیقت بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ہر قوم خود ہی اپنی زندگی کا گہوارہ بناتی ہے اور پھر خود ہی اپنے ہاتھوں سے اپن قبر بھی کھودتی ہے۔ اسی سورت کی آیت (٢٢) میں فرمایا تھا کہ بدترین چارپائے وہ انسان ہیں جو قپنی عقل و حواس سے کام نہیں لیتے، یہاں آیت (٥٥) میں فرمایا بدترین چار پائے وہ انسان ہیں جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی۔ اس سے معلوم ہوا قرآن کے نزدیک عقل و حواس سے ٹھیک طرح کام نہ لینا اور اندھوں کی طرح چلنا انسانیت کے درجہ سے گرجانا ہے اور وہ کہتا ہے کفر اسی اندھے پن کا نتیجہ ہے، پس ایمان کی راہ عقل و بصیرت کی راہ ہوئی اور کفر اندھے پن کا دوسرا نام ہوا۔ الانفال
54 الانفال
55 الانفال
56 آیت (٥٦) میں مدینہ کے یہودیوں کی طرف اشارہ کیا ہے، جب پیغمبر اسلام مدینہ آئے تو یہاں یہودیوں کی تین بستیاں آباد تھیں، بنی قینقاع، بنی نضیر، بنی قریظہ۔ پیغمبر اس نے ان سب سے سلح و امن اور باہم دگر اعانت کا معاہدہ کیا۔ معاہدہ کی ایک شرط یہ تھی کہ تمام جماعتیں ایک قوم بن کر رہیں گی، اور اگر کسی فریق پر اس کے دشمن حملہ کریں گے تو سب اس کی مدد کریں گے (ابن ہشام) لیکن ابھی معاہدہ کی سیاسی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ یہودیوں نے خلاف ورزی شروع کردی اور قریش مکہ سے ملکر مسلمانوں کی تباہی کی سازشیں کرنے لگے۔ حتی کہ خود پیغمبر اسلام کو ہلاک کرنے کی تدبیروں میں لگ گئے۔ یہاں حکم دیا ہے کہ اب ایسے دغا باز لووں کے ساتھ نباہ نہیں ہوسکتا۔ جو کھلم کھلا لڑیں ان کا مقابلہ کرو، جو ایسا نہ کریں اور غدر و فریب کا ان سے اندیشہ ہو تو انہیں کھلے طور پر خبر دے دو کہ اب معاہدہ فسخ ہوگیا۔ لیکن فرمایا یہ بات اس طرح کی جائے کہ دوسرے فریق کو نقصان نہ پہنچے، یعنی وقت سے پہلے فسخ معاہدہ سے خبردار ہوجائے اور اگر تیاری کرنی چاہے تو ہماری طرح اسے بھی تیاری کا پورا موقع ملے۔ یہاں سے اندازہ کرو کہ قرآن نے ہر معاملہ میں حتی کہ جنگ میں بھی سچائی اور دیانت کا جو معیار قائم کیا ہے وہ کس قدر بلند ہے؟ کہیں بھی اس نے کوئی گوشہ ایسا نہیں چھوڑا جہاں اخلاقی کمزوری کو ابھرنے کا موقع دیا گیا ہو۔ کیا دنیا میں اس وقت تک کسی قوم نے احکام جنگ کو اس درجہ بلند اخلاقی معیار پر رکھا ہے؟ عالمگیر جنگ یورپ کی تاریخ کا ہر صفحہ اس کے جواب میں نہیں کہے گا۔ الانفال
57 الانفال
58 الانفال
59 الانفال
60 آیت (٦٠) میں فرمایا جہاں تک تمہارے بس میں ہے، کیونکہ یہ تو ممکن نہیں کہ کوئی جماعت اس طرح کا سروسامان جنگ مہیا کرسکے جو ہر اعتبار سے مکمل ہو۔ پس معلوم ہوا مسلمانوں کو اس بارے میں جو کچھ حکم دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے مقدور کے مطابق جو کچھ کرسکتے ہیں کریں اور ادائے فرض کے لیے آمادہ ہوجائیں، یہ بات نہیں ہے کہ جب تک دنیا جہان کے ہتھیار اور ہر قسم کے سازو سامان مہیا نہ ہوجائیں اس وقت تک بے بسی کا عذر کرتے رہیں اور فرض دفاع سے بے فکر ہوجائیں۔ اگر مسلمانوں نے اس آیت کی روح کو سمجھا ہوتا تو اس اپاہج پنے میں مبتلا نہ ہوتے جو ڈیڑھ سو برس سے تمام مسلمانان عالم پر طاری ہے۔ چونکہ جنگ کی تیاری بغیر مال کے نہیں ہوسکتی تھی اس لیے اس کے بعد کی آیت میں انفاق فی سبیل اللہ پر زور دی، اگر اس انفاق کی حقیقت آج مسلمان صحیح طور پر سمجھ لیں تو ان کی ساری مصیبتیں ختم ہوجائیں۔ الانفال
61 آیت (٦١) اور (٦٢) نے کیسے قطعی لفظوں میں قرآن کی دعوت امن کا اعلان کردیا؟ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جبکہ جنگ بدر کے فیصلہ نے مسلمانوں کی فتح مندی آشکارا کردی تھی اور تمام جزیرہ عرب ان کی طاقت سے متاثر ہونے لگا تھا، تاہم حکم ہوا جب کبھی دشمن صلح و امن کی طرف جھکے، چاہیے کہ بلاتامل تم بھی جھک جاؤ، اگر اس کی نیت میں فتور ہوگا تو ہوا کرے اس کی وجہ سے صلح و امن کے قیام میں ایک لمحہ کے لیے بھی دیر نہیں کرنی چاہیے۔ دنیا میں کوئی کام انسان کے لیے اس سے زیادہ مشکل نہیں ہے کہ بکھرے ہوئے انسانی دلوں کو ایک رشتہ الفت میں پرو دے، اور یہ کام تقریبا ناممکن ہوجاتا ہے جب معاملہ ایسے انسانوں کا ہو جو صدیوں سے باہمی جنگ و جدال کی آب و ہوا میں پرورش پاتے رہے ہوں اور جن کے نفسیاتی سانچوں میں باہمی آمیزش وائتلاف کا کوئی ڈھنگ باقی نہ رہا ہو۔ پیغمبر اسلام کا ظہور ایسے ہی لوگوں میں ہوا تھا، مگر ابھی ان کی دعوت پر دس بارہ ہی برس گزرے تھے کہ مدینہ میں ایک ایسا گروہ پیدا ہوگیا جو اس اعتبار سے بالکل ایک نئی قسم کی مخلوق تھی۔ وہ جب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے باہمی کینہ و انتقام کے مجسمے تھے لیکن جونہی مسلمان ہوئے محبت و سازگاری کی ایسی پاکی و قد وسیت ابھر آئی کہ ان کا ہر فرد دوسرے کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردینے کے لیے مستعد ہوگیا۔ فی الحقیقت یہی وہ تزکیہ اخلاق کا عمل ہے جو ایک پیغمبرانہ عمل تھا اور جو پیغمبر اسلام کی تعلیم و تربیت نے انجام دیا اور اسی کی طرف آیت (٦٣) میں اشارہ فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا مسلمانوں کی باہم الفت ایک ایسی نعمت ہے جسے خدا نے اپنا خاص انعام قرار دیا ہے۔ افسوس ان پر جو اس نعمت سے محرومی پر قانع ہوگئے اور اس کے لیے اپنے اندر کوئی جلن محسوس نہیں کی۔ آج باہمی الفت کی جگہ باہمی مخاصمت مسلمانوں کی سب سے بڑی پہچان ہوگئی ہے، اسی کو انقلاب حال کہتے ہیں۔ الانفال
62 الانفال
63 الانفال
64 (١) اس آیت کا صحیح ترجمہ یہی ہے اگرچہ بصرہ کے ائمہ نحو اس کے خلاف گئے ہیں وما کان سیبویہ نبی النحو ولا معصوما۔ الانفال
65 آیت (٦٥) اور (٦٦) میں دو مختلف حالتوں کے لیے عزیمت و رخصت کی دو مختلف صورتیں فرمائی ہیں۔ ایمان کا خاصہ تو یہ ہونا چاہیے کہ ایک مسلمان دس دشمنوں پر بھاری رہے لیکن چونکہ ابھی تمہاری حالت بڑٰ ہی کمزوری کی حالت ہے، اس لیے کم ازکم اپنے سے دوگنی تعداد کا مقابلہ کرو، قوانین حق کا فیصلہ یہ ہے کہ غالب رہو گے۔ آیت (٦٥) میں غلبہ کی توجیہ یہ کی کہ بانھم قوم لا یفقھون۔ تمہارے دشمنوں کا گروہ ایسا گروہ ہے جس میں سمجھ بوجھ نہیں یعنی محض اندھے پن کا تعصب ہے جس کے جوش میں لڑ رہے ہیں۔ علم و بصیرت، معاملہ فہمی اور صلاحیت کار سے محروم ہیں اور چونکہ محروم ہیں اس لیے کتنی ہی بڑی تعداد میں ہوں اصحاب دانش و بصیرت کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتے۔ آج کل کے مسلمانوں کو غور کرنا چاہیے کہ اب اصحاب دانش و بصیرت وہ ہیں یا دنیا کی دوسری قومیں؟ اگر حالات حالات منقلب ہوگئے ہیں تو نتائج بھی کیوں منقلب نہ ہوجائیں؟ جنگ بدر میں جب دشمن قید ہوئے تو سوال پیدا ہوا اس بارے میں کیا کرنا چاہیے؟ چونکہ اس وقت مسلمان بڑی ہی تنگی و افلاس کی حالت میں تھے اس لیے عام رئے یہ تھی کہ قیدیوں کے لیے فدیہ مانگا جائے اور جب تک فدیہ وصول نہ ہو قیدی رہا نہ کیے جائیں۔ بعض صحابہ کی رائے وئی کہ انہیں قتل کردینا چاہیے۔ حضرت عمر بھی انہی میں تھے لیکن آنحضرت نے عام رائے کے مطابق فیصلہ فرمایا اور قیدیوں کے لیے فدیہ طلب کیا گیا اور جن قیدیوں کے لیے فدیہ نہیں ملا وہ روک لیے گئے۔ اس پر آیت (٦٧) نازل ہوئی۔ فرمایا دنیا میں نبی صلی (علیہ السلام) اس لیے نہیں آتے کہ ان کے پیرو دشمنوں کو قید رکھ کر فدیے کا روپیہ لیں بلکہ مقصود اصلی دعوت حق کا اعلان ہوتا ہے۔ پس نبی (علیہ السلام) کو سزاوار نہیں کہ جب تک اس کی دعوت ملک میں ظاہر و غالب نہ ہوجائے اسیران جنگ کو فدیہ کے لیے روکے رکھے، تمہاری نظر متاع دنیا پر ہے اور خدا نے تمہارے لیے آخرت کا انعام پسند کیا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد آیت (٧٠) نے معاملہ بالکل صاف کردیا، فرمایا جو قیدی فدیے کے لیے روک لیے گئے ہیں ان سے کہہ دو اگر تمہاری نیتیں صاف ہیں تو تمہارے لیے کوئی کھٹکا نہیں۔ جہاں تک اسیران جنگ کا تعلق ہے سورۃ محمد کی آیت (٤) نے آخری حکم دے دیا ہے فاما منا بعد اما فداء یعنی آئندہ یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دیا کرو، یا فدیہ لے کر جیسی مصلحت وقت ہو۔ الانفال
66 الانفال
67 (١) حتی یثخن فی الارض ای حتی یغلب فی الارض (بخاری) و قال ابن عباس حتی یظھر علی الارض؟ الانفال
68 الانفال
69 الانفال
70 الانفال
71 الانفال
72 آیت (٧٢) سے آخر سورت تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے : اسلام کی دعوت نے باہمی الفت و سازگاری کی جو روح پھونک دی تھی اس کا ایک عجیب و غریب منظر تاریخ نے آج تک محفوظ رکھا ہے۔ یہ نو مسلموں کا باہمی بھائی چارہ تھا جسے عربی میں مواخاۃ کہتے ہیں۔ یعنی اسلام کے رشتہ سے ایک نو مسلم دوسرے نو مسلم کا بھائی ہوجاتا تھا اور پھر ساری باتوں میں دونوں ایک دوسرے کی شرکت و ملکیت کے ویسے ہی حقدار ہوجاتے جیسے حقیقی بھائی ہوتے ہیں۔ حتی کہ اگر ایک مر جائے تو دوسرا اس کا وارث ہوجاتا تھا۔ یہ مواخاۃ دو مرتبہ ہوئی۔ ایک مرتبہ مکہ میں اور یہ صرف مہاجرین کے درمیان ہوئی تھی دوسری مرتبہ مدینہ میں اور یہ مہاجرین اور انصار کے درمیان ہوئی تھی۔ یعنی مکہ کے جو لوگ ہجرت کر کے آئے ان میں اور مدینہ کے نو مسلموں میں۔ ایک قول کے مطابق یہ نوے آدمی تھے، اور ایک قول میں سو۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد ہجرت کر کے مدینہ چلی آئی تھی لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو موانع و مشکلات سے بے بس ہو کر مکہ ہی میں پڑے رہے۔ یہاں فرمایا جو لوگ ایمان لائے، اپنا گھر بار چھوڑا، جان و مال سے راہ حق میں جہاد کیا تو وہ خواہ کسی قبیلہ اور کسی حلقہ کے ہوں ایک ہی برادری کے افراد ہوئے، یعنی جاں نثار ان حق کی برداری کے، ان کا ہر فرد دوسرے فرد کا کارساز و رفیق ہے اور اسی کارسازی و رفاقت پر تمہاری ساری کامیابیوں کا دارومدار ہے۔ لیکن جو ایمان تو لائے مگر ابھی تک ہجرت نہ کرسکے تو ظاہر ہے کہ اس رشتہ کے حقوق میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ ہجرت کر کے تم سے آ نہ ملیں۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملہ میں مدد چاہیں تو تمہارا فرض ہے کہ ان کی مدد کرو، محض اس وجہ سے کہ ابھی تک ہجرت نہ کرسکے ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہماری مددگاری کے حق دینی سے محروم ہوجائیں۔ البتہ یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اپنے عہد و پیمان کا وفادار رہنا مسلمانوں کا سب سے پہلا فرض ہے۔ پس اگر وہ کسی ایسے غیر مسلم گروہ کے مقابلے میں مدد اہیں جس سے تم صلح کا عہد و پیمان کرچکے ہو تو تمہارے لیے جائز نہ ہوگا کہ ان کی مدد کے لیے عہد شکنی کرو۔ نتیجہ خواہ کچھ ہی نکلے لیکن اپنے قول و قرار پر قائم رہنا چاہیے۔ یہ اشارہ اس طرف تھا کہ مدینہ آکر پیغمبر اسلام نے مدینہ اور اطراف مدینہ کی مختلف جماعتوں سے باہمی صلح و سازگاری کا معاہدہ کیا تھا جو معاہدہ صحیفہ کے نام سے مشہور ہوا۔ صحیفہ کے اکثر فریق عہد شکنی کرچکے تھے لیکن ابھی تک مسلمانوں کی طرف سے انفساخ کا اعلان نہیں ہوا تھا، اس سے انداز کرو کہ قرآن نے وفائے عہد کا اگرچہ مخالفوں کے ساتھ ہو اور اگرچہ اس کی وجہ سے اپنوں کی مدد نہ کی جاسکے کس درجہ لحاظ رکھا ہے؟ فرمایا کہ درجہ کے لحاظ سے جو مقام دو پہلی جماعتوں کا ہے وہ دوسروں کا نہیں ہوسکتا۔ یعنی مکہ کے ان مہاجرین کا جنہوں نے حق کی خاطر گھر بار چھوڑا اور جان و مال سے جہاد کیا اور مدینہ کے انصار کا جنہوں نے انہیں پناہ دی اور ان کی مددگاری کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اولئک ھم المومنون حقا۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا والسابقون الاولون من المھاجرین والانصار۔ اور سورۃ حشر میں انہی دو جماعتوں کی طرف اشارہ کیا ہے : للفقراء المھاجرین الذین اخرجوا من دیارھم اور والذین تبواؤ الدار والایمان من قبلھم۔ نیز والسابقون السابقون اولئک المقربون۔ اور یہ ظاہر ہے کہ سچائی کی ہر راہ میں جو درجہ پہل کرنے والوں کا ہوتا ہے وہ دوسروں کو نصیب نہیں ہوسکتا۔ اس کے بعد فرمایا جو لوگ آئندہ ایمان لائیں، ہجرت و جہاد کریں (یا جن لوگوں نے پہلی ہجرت کے بعد ایمان قبول کیا اور ہجرت کی) تو گو یہ پہلی دو جماعتوں سے پیچھے آئے لیکن انہی میں داخل سمجھے جائیں، یعنی اسی طرح مواخاۃ و اشتراک کے مستحق سمجھے جائیں۔ اس کے بعد وراثت کا معاملہ صاف کردیا، مسلمانوں میں اسلامی بھائی چارگی کا ایسا ولولہ پیدا ہوگیا تھا کہ خون کے عزیزوں سے س کہیں زیادہ رشتہ حق کے ان عزیزوں کو اپنا سمجھنے لگے تھے، حتی کہ اگر ایک مرجاتا تو رشتہ مواخاۃ کا بھائی اس کا وارث سمجھا جاتا، انہوں نے اپنے سارے پچھلے رشتے بھلا دیئے تھے، صرف ایک ہی رشتہ کی لگن باقی رہ گئی تھی یعنی سب اللہ کے رسول کے فدائی اور سب اسی کے حسن جہاں آرا پر اپنا سب کچھ نثار کردینے والے تھے۔ تو نخل خوش ثمر کیستی؟ کہ باغ و چمن ہمہ ز خویش بریدند و در تو پیوستند لیکن یہاں فرمایا جو قرابت دار ہیں اور صلہ رحمی کا رشتہ کسی حال میں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ پس وراثت وغیرہ کے حقوق سے وہ محروم نہیں کیے جاسکتے، یاد رہے یہاں اولوا الارحام سے مقصود اولو الارحام مصطلحۃ فرائض نہیں ہیں بلکہ مصطلحہ لغت یعنی قرابت دار۔ آیت (٧٣) میں فرمایا اگر ایسا نہ کرو گے تو ملک میں فتنہ اٹھے گا اور بڑی ہی خرابی پھیلے گی، یعنی دین حق کی دشمنی میں کفار ایک دوسرے کے کارساز و رفیق ہوگئے ہیں۔ پس چاہیے تم بھی راہ حق میں ایک دوسرے کے کارساز و رفیق رہو، نیز اپنے عہد و پیمان میں پوری طرح پکے رہو کسی حال میں اس سے باہر نہ جاؤ، اگر تم ایسا نہ کرو گے تو ظلم و فساد سر اٹھائے گا اور امن و عداوت کا جو دروازہ کھل رہا ہے نہ کھل سکے گا۔ جن مٹھی بھر مظلوم مسلمانوں نے دعوت حق کا بیج بویا تھا ان کا یہ حال تھا لیکن آج جب کہ روئے زمین میں چار سو ملین مسلمان موجود ہیں ان کی باہمی مواخاۃ کا کیا حال ہے؟ ہندوستان کے مسلمانوں کا کیا حال ہے جس میں ستر ملین مسلمان بستے ہیں؟ الانفال
73 الانفال
74 الانفال
75 الانفال
1 کوئی شخص کتنے ہی مخالفانہ ارادے سے مطالعہ کرے، لیکن تاریخ اسلام کے چند واقعات اس درجہ واضح اور قطعی ہیں کہ ممکن نہیں ان سے انکار کیا جاسکے، ازاں جملہ یہ کہ جو جماعتیں پیغمبر اسلام کی مخالف تھیں ان کے تمام کام اول سے لے کر آخر تک ظلم و تشدد، دغا و فریب وحشت و خونخواری پر مبنی رہے اور پیغمبر اسلام اور انن کے ساتھیوں نے جو کچھ کیا اس کا ایک ایک فعل صبر و تحبل، راستی و دیانت اور عفو و بخشش کا اعلی سے اعلی نمونہ تھا۔ مظلومی میں صبر، مقابلہ میں عزم، معاملہ میں راست بازی طاقت و اختیار میں درگزر تاریخ انسانیت کے وہ نوادر ہیں جو کسی ایک زندگی کے اندر اس طرح کبھی جمع نہیں ہوئے۔ قریش مکہ نے جس طرح ظلم و تعدی میں کمی نہیں کی اسی طرح بدعہدی میں بھی اپنی مثال چھوڑ گئے، آخری معاملہ حدیبیہ کی صلح کا تھا، اس میں ایک طرف مسلمان اور ان کے حلیف تھے، دوسری طرف قریش اور ان کے حلیف، مسلمانوں کے ساتھ قبیلہ خزاعہ شریک ہوا۔ قریش کے ساتھ بنو بکر، صلح کی بنیادی شرط یہ تھی کہ دس برس تک دونوں فریق صلح و امن پر قائم رہیں گے۔ لیکن ابھی دو برس بھی نہیں گزرے تھے کہ بنو بکر نے خزاعہ پر حملہ کردیا اور قریش نے ان کی مدد کی حتی کہ خود سہیل بن عمرو حملہ میں شریک ہوا جس نے معاہدہ حدیبیہ پر دستخط کیے تھے۔ بنو خزاعہ نے خانہ کعبہ میں پناہ لی اور خدا کے نام پر امان مانگی تھی اس پر بھی بے دریغ قتل کیے گئے تھے۔ چالیس آدمی بچ کر مدینہ پہنچے اور پیغمبر اسلام کو اپنا حال زار سنایا۔ اب معاہدہ کی رو سے پیغمبر اسلام کا فرض ہوگیا کہ قریش کی عہد شکنی برداشت نہ کریں، چنانچہ دس ہزار مسلمانوں کے ساتھ انہوں نے کوچ کیا اور بغیر کسی قابل ذکر خونریزی کے مکہ کی فتح مبین ظہور میں آگئی۔ فتح کے بعد ٩ ہجری میں اس سورت کی ابتدائی آیتیں تیس یا چالیس تک نازل ہوئیں اور پیغمبر اسلام نے حضرت ابوبکر اور حضرت علی کو ذیقعدہ میں مکہ بھیجا کہ حج کے موقع پر بطور اعلان عام کے یہ آیات مشتہر کردیں یعنی : ١۔ جن جماعتوں نے بدعہدی کی ان کے ساتھ اب کوئی معاہدہ نہیں رہا، تاہم اچانک ان پر حملہ نہیں کیا جاتا، چار ماہ کی مہلت دی جاتی ہے جو حج کے دن سے شروع ہوگی اور ١٠ ربیع الآخر کو ختم ہوگی۔ اس عرسہ میں انہیں نقل و حرکت کا پورا امن حاصل ہوگا۔ لیکن اس کے بعد جنگ کی حالت تصور کی جائے گی۔ ب۔ لیکن جن جماعتوں نے بد عہدی نہیں کی تو ان کا معاہدہ اپنی جگہ پر قائم ہے۔ ج۔ حرم کعبہ اب شرک کی تمام آلودگیوں سے پاک کردیا گیا ہے جو مشرکین عرب نے پیدا کردی تھیں، پس آئندہ یہ عبادتگاہ صرف اہل توحید و ایمان کے لیے ہوگئی، کوئی مشک آئندہ سال سے اس کا قصد نہ کرے۔ (آیت ٢٨) سورت کا بقیہ حصہ بھی ٩ ہجری ہی میں غزوہ تبوک کے اثنا میں اور اس کے بعد نازل ہوا تھا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہاں لڑائی کا جو حکم دیا گیا ہے اس کا تعلق صرف ان مشرک جماعتوں سے تھا جو عرب میں دعوت اسلام کی پامالی کے لیے لڑ رہی تھیں نہ کہ دنیا جہاں کے تمام مشرکوں کے لیے۔ چنانچہ اول سے لے کر آخر تک خطاب خاص جماعتوں سے ہے اور صاف لفظوں میں واضھ کردیا ہے کہ ان جماعتوں نے کس طرح عہد شکنی کی اور کس طرح خود ہی جنگ کے اعادہ کا باعث ہوئے۔ نیز ظلم و جنگ کی ابتدا کرنے والے بھی وہی ہیں۔ التوبہ
2 التوبہ
3 التوبہ
4 التوبہ
5 آیت (٥) سے یہ بات قطعی طور پر واضح ہوگئی کہ جس بات کے بعد ایک جماعت مسلمانوں کی جماعت تسلیم کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ زبان سے اسلام کا قرار کرے اور عمل میں دو باتیں ضرور آجائیں۔ نماز کی جماعت کا قیام اور زکوۃ کی ادائیگی اگر یہ دو عملی باتیں ایک جماعت میں مفقود ہیں تو اس کا شمار مسلمانوں میں نہ وگا۔ اس اعتبار سے ایک فرد کی حالت میں اور ایک جماعت کی حالت میں جو فرق ہے اسے نظر انداز نہیں کرنا چہایے۔ اگر ایک فرد قیام صلوۃ اور ادائے زکوۃ میں کوتاہی کرتا ہے تو گنہگار ہے۔ لیکن اگر ایک جماعت نے بہ حیثیت جماعت کے ترک کردیا تو اسلامی زندگی کی بنیادی شناخت کھو دی اور وہ مسلمان نہیں۔ ان چند لفظوں میں تمہیں اس تمام نزاع کا فیصلہ مل جاسکتا ہے جو تارک صلوۃ کے باب میں چلی آتی ہے بشرطیکہ غوروفکر سے کام لو۔ غور کرو جنگ کی سخت سے سخت حالت میں بھی اصل مقصد یعنی ارشاد و موعظت کا دروازہ کس طرح کھلا رکھا؟ اور کس طرح دین و اعتقاد کے معاملہ کو جبر و اکراہ کے شبہ سے بالا تر رکھا گیا؟ آیت (٦) میں فرمایا ان مشرکوں میں ایسے لوگ بھی ہوسکتے جن میں قرآن سننے اور حقیقت حال معلوم کرنے کی خلش پیدا ہو، اگر کوئی ایسا آدمی آجائے تو عین لڑائی کی حالت میں بھی اسے بخوشی پناہ دو۔ جب تک رہنا چاہے رہیے، قرآن سنے اور جب جانا چاہے تو اسے اس کے ٹھکانے بحفاظت پہنچا دیا جائے تاکہ اپنے امن کی جگہ پہنچ کر آزادی و اختیار کے ساتھ غور و فکر اور جو راہ چاہے اختیار کرے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ دین کے بارے میں تقلید کافی نہیں۔ فہم و اذعان ضروری ہے ورنہ قرآن کا سنانا اور پھر غور وفکر کی مہلت دینا ضروری نہ ہوتا، یاد رہے قرآن جس طرح اس معاملہ میں جبر کی پرچھائیں بھی دیکھنا نہیں چاہتا اسی طرح تقلیدی اعتقاد کا بھی روادار نہیں۔ التوبہ
6 التوبہ
7 آیت (٧) سے لے کر (١٣) تک یہ حقیقت واضح کی ہے کہ دشمنوں کی پے در پے عہد شکنیوں اور ظلم و عداوت کی انتہا نے کس طرح اس اعلان جنگ کو ناگزیر کردیا تھا، فرمایا جن لوگوں نے بار بار عہد کیے اور بار بار خلاف ورزی کی اور پھر صلح حدیبیہ کا آخری عہد بھی اس ظالمانہ طریقہ پر پامال کیا اب ان کا عہد کیونکر عہد سمجھا جاسکتا ہے؟ ہاں جو فریق اس عہد پر قائم رہے تو یقینا ان کا عہد اپنی جگہ قائم ہے۔ اسلام کسی حال میں بھی بدعہدی جائز نہیں رکھ سکتا۔ فرمایا ان کی دلی عداوت کا یہ حال ہے کہ اگر اب بھی قابو پاجائیں تو ایک مومن کو زندہ نہ چھوڑیں، اگر ایسے لوگوں کے خلاف اعلان جنگ نہ کیا جاتا تو نتیجہ یہ نکلتا کہ مسلمان دائمی خطرہ میں چھوڑ دیے جاتے۔ آیت (١٣) میں فرمایا جو کچھ بھی ہورہا ہے اس کی ابتدا کس نے کی؟ کس نے مظلوموں کو جلا وطنی پر مجبور کیا اور کون فوج لے کر ان پر حملہ آور ہوا؟ یہی لوگ تھے جو یہ سب کچھ کرتے رہے، اب اگر ہم ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں تو اس کی ذمہ داری انہی پر ہے۔ پھر غور کرو قرآن ہر جگہ اس جنگ کا مقصد کیا قرار دیتا ہے؟ جس کی اس نے اجازت دی تھی۔ آیت (١٢) میں فرمایا لعلھم ینتھون۔ تاکہ ظلم و بدعہدی سے باز آجائیں، اسی طرح سورۃ انفال کی آیت (٥٧) میں گزر چکا ہے لعلھم یذکرون تاکہ عبرت پذیر ہوں۔ یعنی یہ دفاعی جنگ بھی انتقام کے خیال سے یا دنیوی انتفاع و تغلب کے لیے نہیں ہے بلکہ محض اس لیے ہے کہ ارباب ظلم و تشدد اپنی بدکرداریوں سے باز آجائیں۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ناگزیر حالت سے زیادہ ایک لمحہ کے لیے قرآن نے جنگ کا قیام جائز نہیں رکھا اور پے در پے عہد شکنیوں اور سخت سے سخت مظالم کے بعد بھی دشمنوں پر دروازہ کبھی بند نہیں کیا۔ التوبہ
8 التوبہ
9 التوبہ
10 التوبہ
11 التوبہ
12 التوبہ
13 التوبہ
14 آیت (١٤) میں چھ باتیں فرمائی تھیں : (ا) تمہارے ہاتھوں انہیں عذاب ملے گا۔ (ب) وہ رسوا ہوں گے۔ (ج) تم فتح مند رہو گے (د) مومنوں کے دلوں میں اپنی مصیبتوں اور اندوہوں کے جتنے دکھ ہیں سب دور ہوجائیں گے۔ (ہ) ان کے دلوں کی جلن نکل جائے گی۔ (و) جنہیں توبہ ملنی ہے وہ تائب ہوں گے۔ چنانچہ غور کرو کس طرح یہ تمام باتیں حرف بحرف پوری ہوئیں۔ مشرکین عرب کی ہستی ہمیشہ کے لیے مٹ گئی۔ انہی مسلمانوں کے ہاتھوں جو بیس برس تک ان کے مظالم سہتے رہے تھے ان کی قوت کا خاتمہ ہوگیا۔ ان کی رسوائی اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کے لیے ثبت ہوگئی۔ اور پھر مسلمانوں کے دلوں کو مظلومیت و بدے چارگی کے سارے دکھوں سے کیسی شفا ملی کہ پچیس برس کے اندر رہ کرہ زمین کی سب سے اشرف و بہتر مخلوق تسلیم کرلیے گئے۔ التوبہ
15 التوبہ
16 التوبہ
17 آیت (١٧) سے سلسلہ بیان ایک دوسرے معاملہ کی طرف متوجہ ہوا جس کا اس موقع پر اعلان کیا گیا تھا اور جو فی الحقیقت اس صورت حال کا لازمی نتیجہ تھا، یعنی خانہ کعبہ کی مستقل حیثیت۔ فرمایا یہ پرستار ان توحید کی عبادت گاہ تھی اور اب آئندہ بھی انہی کے لیے مخصوص رہے گی۔ مشرکوں کو یہ حق ن نہیں کہ اسے اپنے مشرکانہ اعمال اور رسول سے ملوث کریں۔ چنانچہ اوپر گزر چکا ہے کہ ٩ ہجری کے حج میں حضرت علی نے جن امور کا اعلان عام کیا ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ آئندہ سال سے کوئی مشرک خانہ کعبہ میں قدم نہ رکھ سکے گا۔ اور اسی حکم کی یہ تمہید ہے جو آیت مذکور سے شروع ہوئی ہے۔ قریش مکہ کو خانہ کعبہ کی مجاوری اور حاجیوں کے کاروبار کے منصرم ہونے کا بڑا غرور تھا۔ اور جب ایک جماعت اعتقاد و عمل کی حقیقت سے محروم ہوجاتی ہے تو اسی طرح کے رسوم و مظاہر کو ہر طرح کی بزرگی و سعادت کا ذریعہ سمجھنے لگتی ہے۔ چنانچہ آج کل مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے۔ کسی بزرگ کی سجادہ نشینی، کسی مزار کی مجاوری، کسی زیارت گاہ کا متولی ہونا جو اثر و رسوخ رکھتا ہے وہ بڑے سے بڑے اور بتہر سے بہتر مومن و متقی کو بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ ایک صالح و متقی مسلمان کو کوئی نہیں پوچھے گا، لیکن ایک فاسق و فاجر مجاور یا متولی درگارہ کی ہزاروں آدمی قدم بوسی کریں گے یہاں اسی گمراہی کا ازالہ کیا ہے۔ فرمایا اصلی نیکی یہ نہیں ہے کہ حاجیوں کو پانی پلانے کی سبیل لگا دی یا خانہ کعبہ میں روشنی کردی۔ اصل نیکی تو اس کی ہے جو ایمان لایا اور جس نے اعمال حسنہ انجام دیے۔ نیز یہ حقیقت بھی واضح کردی کہ خدا کی عبادت گاہ کی تولیت کا حق متقی مسلمانوں کو پہنچتا ہے اور وہی اسے آباد رکھنے والے ہوسکتے ہیں۔ یہاں سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ فاسق و فاجر آدمی مساجد کا متولی نہیں ہوسکتا، کیونکہ دونوں میں کوئی مناسبت باقی نہیں رہتی بلکہ متضاد باتیں جمع ہوجاتی ہیں۔ مسجد خدا پرستی کا مقام ہے اور متولی خدا پرستی سے نفور۔ التوبہ
18 آیت (١٨) میں مومن صادق کی جو تعریف بیان کی ہے اس میں ایمان باللہ اور قیام صلوۃ اور ادائے زکوۃ کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اللہ کے سوا کسی کا ڈرنہ مانا، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے نزدیک اسلام کے فکری و عملی ارکان میں سے ایک رکن یہ بھی ہے اور جس دل میں ما سوال اللہ کی دہشت ہو وہ پورا مسلمان نہیں۔ التوبہ
19 التوبہ
20 آیت (٢٠) میں واضح کردیا کہ اللہ کے نزدیک بزرگی و فضیلت کا معیار کیا ہے؟ فرمایا سب سے بڑا درجہ انہی کا ہے جنہوں نے سچائی کی راہ میں ہر طرح کی قربانیاں کیں اور ایمان و عمل کی آزمائش میں پورے اترے، تمہارے گھڑے ہوئے تقدس و بزرگی کے مناصب اور رواجی بڑائیاں اللہ کے نزدیک کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ آج کل مسلمانوں کی عام مذہبی ذہنیت کس درجہ اسلام سے دور ہوگئی ہے۔ جاہلیت عرب کی طرح وہ بھی رواجی نیکیوں کو حقیقی اسلامی نیکیوں پر ترجیح دینے لگے ہیں۔ اگر ایک فاسق و فاجر امیر محرم میں سبیل لگا دیتا ہے یا ربیع الاول میں دھوم دھام سے مولود کی مجلس کردیتا ہے یا کسی مسجد اور درگاہ میں بجلی کی روشنی کرا دیتا ہے تو تمام مسلمان اس کی حمد و ثنا کا غلغلہ مچا دیتے ہیں اور کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے ایمان و عمل اور ایثار فی اللہ واللہ کا کیا حال ہے۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ رواجی نیکیاں اللہ کے نزدیک نیکیاں نہیں ہیں۔ نیکی کا معیار صرف ایمان و عمل اور ایمان و عمل کی راہ میں ایثار ہے۔ اوپر گزر چکا ہے کہ یہ سورت ٩ ھ میں نازل ہوئی تھی اور ابتدائی آیتیں سال کے آخری مہینوں یعنی حج کے مہینوں میں اعلام عام کی غرض سے مشتہر کی گئیں۔ یہ وہ وقت تھا کہ مکہ فتح ہوچکا تھا، جنگ حنین نے دشمنوں کی رہی سہی قوت بھی ختم کردی تھی، غزوہ تبوک میں تیس ہزار مسلمانوں نے شرک کی تھی اور جزیرہ عرب میں مسلمانوں کے سوا اور کوئی قوت نظر نہیں آتی تھی۔ تاہم صورت حال کے بعض پہلو ایسے تھے جو کمزوری سے خالی نہ تھے : (١) مکہ کے طلقا کا ایک بڑا گروہ نیا نیا مسلمانوں میں داخل ہوا تھا۔ یعنی ان باشندگان مکہ کا جنہیں پیغمبر اسلام نے عفو و بخشش کی ایک بے نظیر مثال قائم کرتے ہوئے فتح مکہ کے دن آزاد کردیا تھا اور فرمایا تھا : انتم الطلقاء۔ آج تم سے کوئی باز پرس نہیں، یہ بھی اسلامی زندگی کی پختگی کے محتاج تھے اور ان سے بہتوں کے عزیز و اقربا دشمنوں میں ملے ہوئے تھے۔ جب اعلان جنگ ہوا تو انہیں اپنے قرابت داروں کی فکر ہوئی بعضوں نے جاہلیت کی نسبی اور خاندانی عصبیت کی صدا بھی بلند کی جو ابھی پوری طرح ان کے دلوں سے محو نہیں ہوئی تھی۔ (ب) منافق اور کچے دل کے آدمی بھی ابھی باقی تھے، وہ کہنے لگے اب جنگ کے اعلان کی ضرورت کیا ہے؟ جو کچھ ہونا تھا ہوچکا۔ (ج) عام مسلمانوں میں بھی فتح و عروج کی وجہ سے کچھ نہ کچھ بے پروائی سی پیدا ہوگئی تھی۔ لوگ خیال کرتے ہوں گے اب تو تمام عرب کلمہ حق کے آگے جھک رہا ہے اور دشمنوں میں کچھ دم خم باقی نہیں رہا۔ حالانکہ مشیت الہی نے عروج اسلام کا جو نقشہ کھنیچا تھا وہ کچھ اور ہی تھا اور اس موقع پر طبیعتوں کی بے پروائی نہ صرف مستقبل کے لیے بلکہ موجودہ حالت کے لیے بھی خطرہ سے خالی نہ تھے۔ پس ضروری تھا کہ مسلمانوں کو ایمان و عمل کے عزائم کی از سر نو تلقین کی جائے اور یاد دلایا جائے کہ آزمائش ابھی ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ شروع ہوئی ہے۔ ازاں جملہ اس اعلان جنگ کی آزمائش ہے جسے دشمنوں کے غدر و فریب نے ناگزیر کردیا ہے اور ملک کے امن و امان کا استحکام اس کے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ پہلے آیت (١٦) میں فرمایا تھا ایسا نہ سمجھو کہ تم اتنے ہی میں چھوڑ دیے جاؤ گے جتنا کچھ ہوچکا ہے بلکہ ابھی ایمان و عمل کی آزمائشیں باقی ہیں۔ اب یہاں سچے مومنوں کی فضیلت بیان کرنے کے بعد آیت (٢٣) میں خصوصیت کے ساتھ توجہ دلائی کہ ایمان کا دعوی اور مومنوں کے دشمنوں سے موالات ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے۔ اگر باپ اور بھائی بھی دشمنوں میں سے ہوں جب بھی تمہیں ان سے کوئی علاقہ نہیں رکھنا چاہیے۔ التوبہ
21 التوبہ
22 التوبہ
23 التوبہ
24 آیت (٢٤) مہمات مواعظ میں سے ہے اور اس باب میں قطعی ہے کہ اگر حب ایمانی اور غیر ایمانی میں مقابلہ ہوجائے تو مومن وہ ہے جس کی حب ایمانی پر دنیا کی کوئی محبت اور علاقہ بھی غالب نہ آسکے۔ یہاں آٹھ چیزوں کا ذکر ہے اور اگر غور کرو گے تو ایک متمدن زندگی کے تمام علائق ان میں آگئے ہیں، نیز جس ترتیب سے ذکر کیا ہے علائق کی گیرائیوں کی قدرتی ترتیب یہی ہے۔ فرمایا انسان کی مدنی زندگی کی الفتوں کے بڑے رشتے یہی ہیں اور اپنی جگہ سب مطلوب و ضروری ہیں لیکن اگر محبت ایمانی میں اور ان میں مقابلہ ہوجائے تو پھر مومن وہ ہے جس پر ان تمام الفتوں میں سے کسی الفت کا بھی جادو چل نہ سکے۔ اور کوئی علاقہ بھی اسے اتباع حق سے روک نہ سکے۔ غور کرو قرآن فطرت انسانی کی کمزوریوں کا کس طرح کھوج لگاتا ہے؟ فرمایا اور تجارت جس کے مندا پڑجانے کا تمہیں ڈر لگا رہتا ہے یعنی عزائم و مقاصد کی راہ میں جب کبھی قدم اٹھایا جائے گا تو ناگزیر ہے کہ صورت حال میں انقلاب ہو اور جب انقلاب ہوگا خواہ جنگ کی صورت میں ہو، خواہ کسی دوسری صورت میں تو عارضی طور پر کاروبار ضرور بگڑے گا، مال و جائیداد کے لیے خطرات ضرور پیدا ہوں گے اور یہی بات مال و دولت کے پرستاروں پر ہمیشہ شاق گزرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ہمارا کاروبار خراب ہوجائے گا اور نہیں جانتے کہ اگر راہ حق میں استقامت دکھائیں تو جو کچھ خراب ہوگا وہ بہت تھوڑا ہوگا، اور پھر جو کچھ بنے گا وہ بہت زیادہ ہوگا۔ وان اللہ عندہ اجر عظیم۔ محبت ایمانی کی اس آزمائش میں صحابہ کرام جس طرح پورتے اترے اس کی شہادت تاریخ نے محفوظ کرلی ہے اور محتاج بیان نہیں بلاشائبہ مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے سارے دل اور اپنی ساری روح سے ایسا عشق نہیں کیا ہوگا جیسا صحابہ نے اللہ کے رسول سے راہ حق میں کیا۔ انہوں نے اس محبت کی راہ میں سب کچھ قربان کردیا جو انسان کرسکتا ہے اور پھر اسی کی راہ سے سب کچھ پایا جو انسانوں کی کوئی جماعت پاسکتی ہے۔ لیکن آج ہمارا حال کیا ہے؟ کیا ہم میں سے کسی کو جرات ہوسکتی ہے کہ یہ آیت سامنے رکھ کر اپنے ایمان کا احتساب کرے؟ التوبہ
25 آیت (٢٥) میں جنگ حنین کی طرف اشارہ ہے۔ ٨ ھ میں فتح مکہ کے بعد قبیلہ ہوازن اور ثقیف نے بنی نصر اور بنی ہلال کے ساتھ ملکر مسلمانوں پر حملہ کردیا تو پیغبر اسلام مکہ سے نکلے اور حنین نامی وادی میں مقابلہ ہوا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد دشمنوں سے تین گنا زیادہ تھی اس لیے لوگوں کو اپنی کثرت تعداد کا گھمنڈ ہوگیا تھا۔ کہتے تھے اب وہ دن نہیں رہا کہ تعداد کی کمی کی وجہ سے مغلوب ہوجائیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وقت پر تعداد کی کثرت کچھ کام نہ آئی، اور فتح مندی ہوئی تو محض پیغمبر اسلام اور ان کے ساتھ مٹھی بھر مسلمانوں کے عزم و ہمت سے مسلمانوں کو پہاڑ کی ایک تنگ گھاٹی سے گزرنا تھا۔ وہاں دشمنوں کے تیر انداز گھات لگائے بیٹھے تھے۔ مسلمانوں کی فوج میں دو ہزار مکہ کے نو مسلم اور بعض معاہد مشرک بھی تھے، جونہی انہوں نے قدم بڑھایا دشمنوں نے تیروں پر رکھ لیا اور اچانک ان کے قدم اکھڑ گئے۔ انہیں بھاگتا دیکھ کر تمام لشکر نے بھی بھاگنا شروع کردیا۔ قریب تھا کہ شکست ہوجائے مگر اللہ نے پیغمبر اسلام کے قلب مبارک کو اپنے سکون و قرار کی روح سے معمور کردیا۔ آپ نے حضرت عباس کو حکم دیا کہ اصحابہ سمرہ کو پکاریں، یعنی صلح حدیبیہ ئکے موقع پر بیعت رضوان والوں کو، ان کی ندا کا بلند ہونا تھا کہ ہمت و شجاعت کی نئی لہر سب کے دلوں میں دوڑ گئی اور پھر لوٹ کر اس بے جگری سے حملہ کیا کہ دشمنوں کے قدم اکھاڑ دیئے۔ یہ حادثہ فی الحقیقت اللہ کی طرف سے مسلمانوں کی تادیب تھی تاکہ محض کثرت تعداد ہی کو کامیابی کی بنیاد نہ سمجھ لیں۔ بلاشبہ تعداد کی کثرت بھی موجبا تفتح میں سے ہے۔ لیکن صرف اسی سے فتح مندی نہیں مل سکتی، اصلی چیز دل کی استعداد ہے اور وہ موجود ہو تو مٹھی بھر انسان سینکڑوں انسانوں پر غالب آسکتے ہیں۔ فرمایا اللہ نے تمہیں بہت سی جنگوں میں نصرت دی حالانکہ تم بہت تھوڑے تھے اور ڈرتے تھے کہ کامیابی نہیں ہوگی، اور پھر حنین کے دن بھی فتح مندی دی جبکہ تمہیں اپنی کثرت تعداد کا نمرہ تھا اور کثرت تعداد نے کچھ کام نہیں دیا تھا۔ التوبہ
26 التوبہ
27 التوبہ
28 آیت (٢٨) میں اسی حکم کا ذکر ہے جو اوپر گزر چکا ہے۔ یعنی آئندہ سے کوئی مشرک اس عبادت گاہ میں جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے خدائے واحد کی پرستش کے لیے بنائی تھی داخل نہ ہوسکے گا اور یہ مقام امت مسلمہ کے لیے مرکز ہدایت بن کر رہے گا جیسا کہ فی الحقیقت اسے ہونا تھا۔ اس آیت میں مشرکوں کے نجس ہونے سے مقصود ان کی قلبی نجاست ہے نہ کہ جسمانی، کیونکہ اسلام کسی انسان کے جسم کو ناپاک نہیں قرار دیتا اور ہر انسان کو انسان ہونے کے لحاظ سے ایک درجہ پر رکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے چھوت چھات کی ہر قسم اور ہر شکل کو ناجائز قرار دیا ہے۔ خود پیغمبر اسلام کا یہودیوں اور مشرکوں سے ہر طرح کی معاشرت رکھنا، ایک ساتھ کھانا پینا، ان کی دعوتوں میں جانا اور انہیں دعوتوں میں بلانا حتی کہ انہیں مسجد کے اندر ٹھہرانا ثابت ہے۔ بالاتفاق یہ حکم صرف خانہ کعبہ سے تعلق رکھتا ہے۔ عام مساجد میں غیر مسلموں کے لیے کوئی شرعی روک نہیں۔ چنانچہ پیغمبر اسلام نے یمن کے عیسائیوں اور طائف کے مشرکوں کو اپنی مسجد میں ٹھہرایا تھا۔ التوبہ
29 آیت (٢٩) میں مشرکین عرب کی طرح عرب کے یہودیوں اور شام کے عیسائیوں کے خلاف بھی جنگ کا حکم دیا ہے اور یہی آیت جزیہ کے باب میں اصل و بنیاد ہے، اس کی تشریح سورت کے آخری نوٹ میں ملے گی۔ چونکہ سلسلہ بیان اہل کتاب کی طرف متوجہ ہوگیا تھا اس لیے آیت (٢٥) تک ان کی اعتقادی اور عملی گمراہیوں کے اصول و مبادی واضح کیے ہیں اور دعوت قرآنی کی دائمی فتح مندی کی بشارت دی ہے ان کی ضروری تشریح بھی سورت کے آخری نوٹ میں ملے گی۔ چونکہ اب خانہ کعبہ اور حج کا معاملہ جاہلیت کی تمام آلودگیوں سے پاک ہوگیا تھا اس لیے ضروری تھا کہ جاہلیت کی اس جاہلانہ رسم کا بھی ازالہ کردیا جاتا جس نے حج کا زمانہ مشتبہ کردیا تھا اور مہینوں کے حساب کا عرب میں کوئی معیار قائم نہیں رہا تھا۔ آیت (٣٦) اور (٣٧) میں اسی بات کا اعلان کیا ہے۔ مزید تشریح کے لیے سورت کا آخری نوٹ دیکھو۔ اوپر گزر چکا ہے کہ اس سورت کی بقیہ آیتیں غزوہ تبوک کے متعلق نازل ہوئی تھیں، چنانچہ یہاں سے لے کر آخر تک اسی غزوہ کا بیان ہے اور جابجا موعظت و ارشاد کے مختلف اطراف و متعلقات بھی نمایاں ہوتے جاتے ہیں۔ تبوک مدینہ اور دمشق کے درمیان ایک مقام کا نام ہے جس کا فاصلہ آج کل مدینہ سے چھ سو دس کلو میٹر حساب کیا گیا ہے۔ ٩ ہجری میں پیغمبر اسلام کو خبر ملی کہ قیصر روم نے یعنی قسطنطنیہ کی مشرقی رومی حکومت نے مدینہ پر حملہ کا حکم دے د یا ہے اور عرب کے عیسائی قبائل بھی شامل ہوگئے ہیں۔ یہ مسلمانوں کے لیے پہلا موقع تھا کہ عرب سے باہر کی ایک سب سے بڑی طاقتور شہنشاہیت آمادہ پیکار ہوئی تھی اس لیے ضروری تھا کہ بروقت مدافعت کا پورا سامان کیا جاتا۔ چنانچہ پیغمبر اسلام نے تیاری اور کوچ کا اعلان کردیا۔ لیکن اگر ایک طرف ضرورت ناگزیر تھی تو دوسری طرف وقت کی ساری باتیں ناموافق ہورہی تھیں۔ مسلمان چند ماہ پہلے جنگ حنین و طائف کی لڑائی میں چکنا چور ہوچکے تھے اور اس سے پہلے فتح مکہ کا معاملہ پیش آچکا تھا، پھر اچانک مسلمانوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تھی اور چونکہ مالی وسائل محدود تھے اور باہمی اشتراک و معانوت کی زندگی تھی اس لیے تنگی و عست سب پر چھائی ہوئی تھی۔ پھر موسم بڑی ہی گرمی کا تھا اور فصل کاٹنے کا وقت سر پر آگیا تھا۔ نیز سفر ملک کے اندر نہ تھا اس سے باہر چودہ مرحلوں کا تھا، ان سب باتوں نے مل جل کر مسلمانوں کے لیے بڑی مشکلیں پیدا کردیں اور قدرتی طور پر ان کے قدم رک رک کر اٹھنے لگے۔ حالت بلاشبہ مجبوری کی تھی لیکن جب دفاع ملت کی گھڑی آجائے تو اس طرح کی کوئی مجبوری مجبوری تسلیم نہیں کی جاسکتی اور ادائے فرض کی راہ بہرحال آسانیوں اور راحتوں کی راہ نہیں ہے۔ اس میں مشکلیں اور مصیبتیں جھیلنی ہی پڑیں گی۔ البتہ مصیبتیں عارضی ہوں گی اور نتائج کی کامرانیاں دوامی۔ چنانچہ ان آیات میں مسلمانوں کو اسی حقیقت کی تقلین کی گئی ہے۔ مومنین صادقین نے اس دعوت کا کیا جواب دیا؟ اور ساری باتوں کے ناموافق ہونے پر بھی کسی جوش و سرگرمی کے ساتھ اٹھے؟ اس کا جواب تاریخ سے مل سکتا ہے۔ مختصر لفظوں میں یہ ہے کہ تیس ہزار مسلمانوں نے پیغمبر اسلام کے ساتھ کوچ کیا تھا۔ اور انفاق مال کی فدا کاریوں کا یہ حال تھا کہ اگر ایک طرف حضرت عثمان نے نو سو اونٹ پیش کردیے تھے تو دوسری طرف ابو عقیل انصاری نے رات بھر ایک کھیت میں آب پاشی کر کے دو سیر چھوہارے مزدوری میں حاصل کیے تھے اور وہ لاکر اللہ کے رسول کے قدموں پر رکھ دیے تھے۔ اسی فوجی تیاری کا یہ واقعہ ہے کہ حضرت ابوبکر نے اپنا تمام مال و متاع پیش کردیا تھا۔ حتی کہ کرتے کی گھنڈیاں بھی توڑ کر شامل کردی تھیں، اور جب اللہ کے رسول نے پوچھا تھا : ما ابقیت لاھلک بیوی بچوں کے لیے کیا چھوڑ آئے؟ تو اس پیکر صدق و وفا نے جواب دیا تھا اللہ ورسولہ۔ چونکہ اس فوج کی تیاری بڑی ہی تنگی و افلاس کی حالت میں ہوئی تھی اس لیے جیش عسرت کے نام سے مشہور ہوئی۔ التوبہ
30 التوبہ
31 التوبہ
32 التوبہ
33 التوبہ
34 التوبہ
35 التوبہ
36 التوبہ
37 التوبہ
38 التوبہ
39 قرآن نے یہاں آیت (٣٩) میں اور نیز دیگر مقامات میں استبدال اقوام کا ذکر کیا ہے یعنی فرمایا ہے یاد رکھو اگر تم نے ادائے فرض میں کوتاہی کی تو خدا کا قانون اس طرح کا واقع ہوا ہے کہ تمہاری جگہ کسی دوسرے گروہ کو لاکھڑا کرے گا۔ تاریخ کا مطالعہ کرو تو اس استبدال کے مناظر تمہارے سامنے آجائیں گے اور قرآن پر تدبر کرو تو اس کے سنن و نوامیس واضح ہوجائیں گے۔ حکمت الہی نے افراد کی طرح جماعتوں کی زندگی و قیام کے لیے بھی ایک خاص نظام مقرر کردیا ہے اور اسی کے مطابق ایک جماعت کی جگہ دوسری جماعت سے، اور ایک قوم کی زندگی دوسری قوم کی زندگی سے ہمیشہ بدلتی رہتی ہے۔ قرآن کہتا ہے افراد کے نظام حیات کی طرح جماعات کا نظام حیات بھی جدوجہد، سعی و طلب اور فکر و عمل کی صلاحیت کا نظام ہے اور یہاں بھی بقائے انفع کا قانون کام کر رہا ہے۔ یعنی وہی جماعت کشمکش حیات میں باقی رہتی ہے جو دنیا کے لیے انفع ہو۔ جو انفع نہیں وہ چھانٹ دی جاتی ہے۔ پس جو جماعت اس قانون فطرت کے مطابق اپنے کو زندگی و بقا کا اہل ثابت نہیں کرے گی ضروری ہے کہ اس کی جگہ کسی دوسری جماعت کو مل جائے اور یہی استبدال اقوام ہے۔ التوبہ
40 آیت (٤٠) میں واقعہ ہجرت کی طرف اشارہ کیا ہے جس کا ذکر سورۃ انفال میں بھی گزر چکا ہے۔ (دیکھو آیت ٣٠) جب مکہ میں اعدائے حق نے فیصلہ کرلیا کہ تمام قبائل کے لوگ ملکر بیک وقت پیغمبر اسلام پر حملہ کردیں تو آپ کو ہجرت کا حکم ہوا۔ آپ حضرت ابوبکر کو ساتھ لے کر ثور کے غار میں پوشیدہ ہوگئے جو مکہ سے تقریبا چھ میل کے فاسلہ پر ایک پہاڑ ہے۔ یہاں آپ نے تین راتیں بسر کیں اور پھر مدینہ روانہ ہوگئے۔ دشمن جو آپ کی تلاش میں تھے وہ یہاں بھی پہنچے لیکن اللہ نے آپ کی حفاظت کا ایسا سامان پیدا کردیا تھا کہ بغیر دیکھے بھالے واپس چلے گئے۔ یہ تین راتیں حضرت ابوبکر نے کہ شمع نبوت کے پروانہ تھے جس عالم میں بسر کی ہوں گی اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جس نے عشق و محبت کا کچھ بھی ذائقہ چکھا ہو۔ اللہ کا رسول غار میں پوشیدہ تھا، دشمن سراغ میں تھے، ہر لمحہ اندیشہ تھا کہ کہیں سراغ نہ پالیں، اور ایک مرتبہ ان کی صدائیں بھی کانوں میں آنے لگی تھیں۔ ایسی حالت میں ظاہر ہے کہ ان کے دل کے حزن و اضطراب کا کیا عالم ہوگا؟ بلاشبہ انہیں یقین تھا کہ اللہ اپنے رسول کا مددگار ہے۔ لیکن عشق و محبت کا قدرتی تقاضا ہے کہ محبوب کو خطرہ میں دیکھ کر اضطراب ہو، اس سے وہ اپنے دل کو نہیں روک سکتے تھے، اگر روک سکتے تو محبت کی عدالت کا فیسلہ ان کے خلاف ہوتا، لیکن پیغمبر اسلام کے سکون قلب کا عالم دوسرا تھا۔ ان کا رفیق غار جب جوش محبت میں مضطرب ہوتا تو تسلی دیتے اور فرماتے غمگین نہ ہو اللہ ہمارے ساتھ ہے، خود حضرت ابوبکر کا بیان ہے کہ جب دشمن غار کے قریب آئے تو میں نے مضطرب ہو کر کہا ان میں سے کسی نے پاؤں اونچا کیا تو ہمیں دیکھ لے گا۔ آنحضرت صلی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ابوبکر ! تم ان دو آدمیوں کے لیے کیا خیال کرتے ہو جن کے لیے تیسرا خود اللہ ہے؟ (شیخین عن انس) یہاں فرمایا اللہ نے اپنی جانب سے اس پر سکون و قرار اتارا یعنی ابوبکر پر کیونکہ پیغمبر اسلام کا قلب مبارک تو پہلے ہی سے ساکن و برقرار تھا۔ التوبہ
41 آیت (٤١) میں فرمایا خفافا و ثقالا خواہ ہلکے ہو خواہ بوجھل۔ یہاں اس سے مقصود کیا ہے؟ تو حق یہ ہے کہ استعداد اور کمی استعداد کی تمام حالتیں اس میں داخل ہیں۔ نوجوان نکل چلنے میں ہلکا ہوتا ہے، زیادہ عمر کا آدمی بوجھل ہوتا ہے۔ سرگرم آدمی فورا اٹھ کھڑا ہوگا، کسلمند کے قدم بوجھل ہوں گے، جس کے علائق زیادہ ہیں وہ اپنے آپ کو اتنا ہلکا نہ پائے گا جتنا ایک مجرد آدمی یا کم علائق رکھنے والا۔ اسی طرح کوئی سازو سامان سفر سے ہلکا ہوگا۔ کوئی اسلحہ جنگ سے، اگر قرآن کے سمجھنے میں ہمیں صحابہ و سلف کے فہم کا اعتبار کرنا چاہیے نہ کہ بعد کہ ٠ منقطی اصولیوں اور جدلی فقیہوں کا تو انہوں نے اس طرح کی ساری صورتیں اس میں داخل سمجھی تھیں اور جب کبھی جنگ کا عام اعلان ہوجاتا تو کسی حال میں بھی وہ اپنے شرک سے معاف نہیں رکھتے تھے۔ الا یہ کہ قطعا عاجز و معذور ہوں۔ ابو راشد حراتی کہتے ہیں میں نے مقداد بن اسود کو حمص میں دیکھا، جنگ کے لیے نکل رہے تھے، میں نے کہا خدا نے تو تمہیں معذور ٹھہرا دیا ہے (یعنی بوڑھے ہو) انہوں نے کہا (انفروا خفافا و ثقالا) کا کیا جواب ہے؟ حیان ابن زید شرعبی سے مروی ہے کہ میں نے افسس جاتے ہوئے فوج میں ایک نہایت بوڑھے آدمی کو دیکھا جس کی بھویں آنکھوں پر آگری تھیں۔ میں نے متعجب ہو کر کہا کیا خدا نے معذوروں کو کو معاف نہیں کردیا؟ اس نے کہا خدا نے تو ہمیں ہر حال میں نکل کھڑے ہونے کا حکم دیا ہے : (خفافا و ثقالا) ابو ایوب انصاری سے بھی ایسا ہی مروی ہے۔ (ابن جریر) یہ آیت اس باب میں قطعی ہے کہ جب دفاع کے لیے امام بلائے تو بجز ان معذوروں کے جنہیں آگے چل کر آیت (٩١) میں مستثنی کردیا ہے، ہر شخص پر واجب ہوجاتا ہے کہ جان و مال سے شریک جہاد ہو اور اس بارے میں کوئی عذر مسموع نہیں۔ التوبہ
42 اب آیت (٤٢) سے سلسلہ بیان منافقوں کی طرف متوجہ ہوا ہے جن کے لیے غزوہ تبوک کا معاملہ ایک آخری اور فیصلہ کن آزمائش ثابت ہوا تھا، اس نے تظاہر و نمائش کے تمام پردے چاک کردیے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام اس سورت کو الفاضحہ کے نام سے بھی پکارتے تھے، کیونکہ اس نے منافقوں کے بھید کھول کر ان کی فضیحت کردی۔ منافقوں کی نسبت سورۃ آل عمران کی آیت (١٧٣) میں پڑھ چکے ہو کہ اللہ انہیں مومنوں سے ممتاز کر کے آشکارا کردے گا۔ چنانچہ یکے بعد دیگرے ایسے مرحلے پیش آتے رہے جن میں نفاق کے چہروں کو بے نقاب ہونا پڑا۔ اس سلسلہ کا آخری مرحلہ غزوہ تبوک تھا۔ پڑھ چکے ہو کہ اس موقع پر ناموافق حالات سے عام مسلمانوں کی سرگرمیاں بھی ابتدا میں کچھ دھیمی رہی تھیں لیکن منافقوں کی حالت بالکل دوسری تھی۔ یہ حکم ان کے لیے پیام موت سے بھی زیادہ سخت ہوا۔ لگے حیلے بہانے کرنے، ہر شخص ایک نیا بہانہ گھڑ کر لاتا اور کہتا ویسے تو مجھے چلنے میں کوئی عذر نہیں مگر مشکل یہ ہے کہ فلاں کام ناگریز ہوگیا ہے، فلاں بات ناقابل حل ہورہی ہے۔ فلاں الجھاؤ سلجھایا نہیں جاسکتا۔ اب جیسا آپ کا حکم ہو، مقصود یہ تھا کہ جھوٹی سچی مجبوریاں سنائیں گے تو پیغمبر اسلام کا اخلاق ایسا نہیں ہے کہ کسی کو مجبور کر کے لے جانا چاہیں، ان کی رحمت و رافت ہمیشہ رسی ڈھیلی چھوڑ دیتی ہے، وہ یہی کہیں گے کہ مجبور ہو تو نہ چلو۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ پیغمبر اسلام ان کے حیلے بہانے سنتے اور یہ دیکھ کر کہ بخوشی چلنے کے لیے تیار نہیں کہہ دیتے اچھا تمہیں رخصت ہے، ان میں سے بعضوں نے بات بنانے کے لیے یہ بھی کہا کہ مال حاضر ہے لے لیجیے، مگر نکلنا دشوار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں انہی واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے، فرمایا اگر وکئی ایسی بات ہوتی کہ فوری فائدہ دکھائی دیتا اور سفر بھی دور کا نہ ہوتا تو ان کے نفاق کو چھپنے کی آر مل جاتی جیسی بار بار مل چکی ہے۔ یہ فورا تیرے پیچھے قدم اٹھا دیتے ظاہر میں حکم کی تعمیل کرتے دل میں دنیا کی طمع اور مکر و عذر کی چالیں ہوتیں۔ چنانچہ احد وغیرہ میں ایسا ہی کیا تھا۔ مگر انہیں مشکل یہ آپڑی کہ معاملہ نکل آیا عرب سے باہر دور دراز کا اور سفر کی مشقتیں ہوئیں بڑی ہی سخت۔ نہ تو دنیا کے نفع قریب کی توقع نہ قرب مقام کی سہولت کا سہارا۔ پس بے بس ہو کر رہ گئے اور دکھاوے کے لیے ساتھ نہ نکل سکے۔ اللہ کی طرف سے یہی فیصلہ کن آزمائش تھی جس نے سارا بھانڈا پھوڑ کر رکھ دیا اور جب کبھی راہ حق میں کوئی سخت آزمائش آجاتی ہے تو منافقوں کے چہرے اسی طرح بے نقاب ہوجایا کرتے ہیں۔ التوبہ
43 آیت (٤٣) کے اسلوب بیان پر غور کرو، کیسے دلکش اور محبت انداز میں پیغمبر اسلام کو متنبہ کیا ہے کہ رحمت و درگزر کی ایک حد ہونی چاہیے۔ اب یہ اس کے مستحق نہیں کہ رسی اتنی ڈھیلی چھوڑ دی جائے۔ فرمایا جب یہ لوگ ایک طرف تو جھوٹے عذر سناتے تھے دوسری طرف یہ بھی کہتے جاتے تھے کہ جو آپ کا حکم ہو تو بہتر تھا کہ تم انہیں پوری آزمائش میں ڈال دیتے، یعنی کہتے میرا حکم تو یہی ہے کہ چلنا چاہیے، نتیجہ یہ نکلتا کہ کھل جاتا، کون یہ کہنے میں سچے تھے، کون ایسا کہہ دینے پر بھی نہ نکلنے والے تھے۔ التوبہ
44 آیت (٤٤) میں فرمایا جن کے دلوں میں ایمان کی لگن ہے بھلا وہ ایک ایسے کام میں کیوں اجازت مانگنے لگے؟ اور کیوں اس کے انتظار میں بیٹھنے لگے؟ ان کے لیے تو صرف اتنا ہی کافی ہے کہ ادائے فرض کا وقت آگیا اور جسے ایمان عزیز ہے وہ ادائے فرض کے لیے مستعد ہوجائے، حکم تو وہی مانگیں گے جن کے دلوں میں سچا ایمان نہیں اور جو شک کے روگی ہورہے ہیں تاکہ کوئی نہ کوئی راہ نکل بھاگنے کی مل جائے۔ چونکہ مقابلہ بیز نطافی شہنشاہی سے تھا جو مشرق میں رومۃ الکبری کی عظمت کی جانشین تھی اور ابھی حال میں ایران کو شکست دی چکی تھی اس لیے منافقوں کو یقین تھا مسلمانوں کے خاتمہ کے دن آگئے، عبداللہ بن ابی بن سلول نے جو منافقوں کا سرغنہ تھا لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ پیغمبر اسلام اس سفر سے لوٹنے والے نہیں۔ التوبہ
45 التوبہ
46 التوبہ
47 آیت (٤٧) میں فرمایا یہ سمجھے، پیچھے رہ کر مصیبت سے بچے اور واقعہ یہ ہے کہ ان کا نہ نکلنا ہی تمہارے لیے بہتر ہوا۔ کیونکہ نکلتے تو فتنوں کے گھوڑے دوڑاتے اور کچے دل کے آدمیوں کو بہکارتے رہتے، اس سے پہلی آیت میں فرمایا مگر اللہ کے حضور ان کا اٹھنا ناپسند ہوا۔ یعنی اللہ کے علم میں تھا کہ اب وہ نہیں نکلیں گے اور اللہ نے تمہارے لیے اسی میں بہتری دیکھی کہ نہ نکلیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ جماعتی زندگی کے لیے مذبذب اور کچے دل کے آدمیوں کی موجودگی ایک بڑا مہلکہ ہے خصوصا جبکہ قوم موت و حیات کی جدوجہد میں مشغول ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد سے آزاد قومیں بھی مجبور ہوئیں کہ جنگ کے وقت حکومت کو غیر معمولی اختیارات دے دیں، اور اگر شخصی آزادی کے قوانین بھی معطل کردے تو معترض نہ ہوں، کیونکہ اس وقت ایک منافق کی شرارت پوری قوم کو خطرہ میں ڈال سکتی ہے۔ ان آیات کی موعظت یہ ہے کہ حتی الامکان ایسے افراد کی موجودگی برداشت نہیں کرنی چاہیے اور ایسا خیال نہیں کرنا چاہیے کہ ان کی علیحدگی سے جو راضی شور و شغب ہوگا وہ جماعتی مصالح کے لیے زیادہ مضر ہوگا۔ اگر درخت کی جڑ درست ہے تو جتنا چھانٹو گے اتنا ہی زیادہ پھلتا جائے گا اور فاسد اعضا کا الگ کردینا مضر نہیں ہوتا، چھوڑ دینا جسم کے لیے مہلک ہوتا ہے۔ جب انسان میں سچائی باقی نہیں رہتی تو نیکی و پرہیزگاری کے خیال کو خود نیکی و پرہیزگاری ہی کے خلاف استعمال کرنے لگتا ہے اور اس سے حیلے بہانے کا کام نکلتا ہے، اور یہ نفاق کا سب سے زیادہ پر فریب حربہ ہے، بہت سے سادہ لوح دیندار اس کے دھوکے میں آجاتے ہیں۔ التوبہ
48 التوبہ
49 چنانچہ آیت (٤٩) میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ فرمایا بعض منافق کہتے ہیں اس سفر میں نکلنا فتنوں میں پڑنا، ہے پس ہمیں فتنہ نہ ڈالیے، مدینہ ہی میں بیٹھے رہنے دیجیے۔ اس فتنہ سے ان کا مقصود کیا تھا؟ اسے اس لیے بیان نہیں کیا کہ صریحی قرائن واضح کر رہے ہیں اور یہی قرآن کی معجزانہ بلاغت ہے، وہ یقینا ہر طرح کے متوقع اور وہمی خطرات ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالتے ہوں گے، اور اسے فتنہ سے تعبیر کرتے ہوں گے۔ مثلا اس موسم میں ہزاروں آدمیوں کو اس قدر دور کے سفر پر لے جانا جان بوجھ کر انہیں ہلاک کرنا ہے، اور یہ نیکی کا کام نہیں۔ پھر جہاں جانا وہ دوسروں کا ملک ہے، نہیں معلوم کن کن برائیوں میں پڑنا پڑے؟ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب پیغمبر اسلام نے تبوک کا ارادہ کیا تو منافقوں کے ایک سردار جد بن قیس نے کہا عورتوں کے معاملہ میں میں بہت کمزور ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہیں بنو اصفر کی عورتیں دیکھ کر مفتون نہ ہوجاؤں۔ پس مجھے رہ جانے کی اجازت دے دیجیے، اور اس فتنہ میں نہ ڈالیے۔ (ابن جریر، بنو اصفر یعنی رومی) اس سے معلوم ہوا جو باتیں کہی گئی ہوں گی وہ اسی قسم کی ہوں گی۔ فرمایا یہ جھوٹے بہانے نکالنے کے لیے جھوٹے فتنہ کا ذکر کرتے ہیں، حالانکہ یہ کہہ کر اصلی فتنہ میں گر پڑے کہ راہ حق میں جہاد کرنے سے جی چرایا، اور اس کے لیے جھوٹی نیکی و پرہیزگاری کی آڑ پکڑی۔ غور کرو گے تو نفاق کی یہ خصلت آج بڑے بڑے مدعیان علم و مشیخت میں بولتی نظر آئے گی۔ جھوٹی دینداری اور وہمی پرہیزگاری نے سعی و عزم کی تمام راہیں ان پر بند کردی ہیں، اور وہ ساعی ہیں کہ امت پر بھی بند کردیں۔ ١٩١٤ ء کی بات ہے کہ مجھے خیال ہوا، ہندوستان کے علماء و مشائخ کو عزائم و مقاصد وقت پر توجہ دلاؤں۔ ممکن ہے چند اصحاب رشد و عمل نکل آئیں۔ چنانچہ میں نے اس کی کوشش کی، لیکن ایک تنہا شخصیت کو مستثنی کردینے کے بعد سب کا متفقہ جواب یہی تھا کہ یہ دعوت ایک فتنہ ہے۔ ائذن لی ولا تفتنی یہ مستثنی مولانا محمود حسن دیوبندی کی تھی، جواب رحمت الہی کے جوار میں پہنچ چکے ہیں۔ تم نے بعض علما کے فتوے پڑھے ہوں گے کہ مسلمانوں کو وقت کی سیاسی مجالس میں شریک نہ ہونا چاہیے، کیونکہ اس میں غیر مسلم عورتیں کھلے منہ موجود ہوتی ہیں، اور اس لیے ان کی شرکت فتنہ سے خالی نہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ ان کی شرکت سے نماز باجماعت فوت ہوجاتی ہے، اور یہ تقوی کے خلاف ہے۔ یاد رکھو یہ تقوی اور دینداری نہیں ہے جو ان کاموں کی مخالفت پر انہیں ابھارتی ہے۔ یہ مرض نفاق کی قسموں میں سے ایک قسم ہے، اور قرآن کی شہادت اس کے لیے بس کرتی ہے۔ التوبہ
50 التوبہ
51 التوبہ
52 آیت (٥٢) کا ٹھیک مطلب سمجھ لو، فرمایا تم ہمارے لیے جس بات کے انتظار میں رہتے ہو وہ یہ ہے کہ ہم جنگ میں مارے جائیں اور شکست ہو لیکن ہماررے لیے تو یہ بھی (احد الحسنیین) ہے۔ یعنی دو خوبیوں میں سے ایک خوبی، اور یہی مقام ہے جسے قرآن ایمان اور ایمان والوں کی خصوصیت قرار دیتا ہے، اور کہتا ہے جو کفر کی راہ چلے، تو انہیں اس کی سمجھ نہیں۔ دنیا میں جب کبھی کوئی فرد یا جماعت کسی مقصد کے لیے جدوجہد کرتی ہے، تو اس کے سامنے امید بھی ہوتی ہے مایوسی بھی، کامیابی بھی ہوتی ہے ناکامیابی بھی، لیکن قرآن کہتا ہے مومن وہ ہے جس کی جدوجہد میں جو کچھ ہے، امید و کامرانی ہی ہے، مایوسی و ناکامی کی اس پر پرچھائیں بھی نہیں پڑ سکتی۔ کیونکہ وہ جو کچھ کرتا ہے اللہ کے لیے کرتا ہے، اور اس کے لیے یہی بات کامیابی نہیں ہوتی کہ کسی خاص منزل تک پہنچ جائے، بلکہ اس کی راہ میں چلتے رہنا اور جدوجہد میں لگے رہنا بجائے خود بڑی سے بڑی کامیابی ہے۔ وہ جب اپنا سفر شروع کرتا ہے تو اس لیے نہیں کرتا کہ کسی خاص منزل تک ضرور ہی پہنچ جائے بلکہ صرف اس لیے کہ کسی کی راہ میں چلتا رہے اور یہ جو کسی کی راہ میں چلتے رہنا ہے تو یہی اس کے لیے منزل مقصود ہے : رہرواں راخستگی راہ نیست۔۔۔۔۔ عشق ہم راہ ست وہم خود منزل است دوسرے اگر جدوجہد کرتے ہوئے مرجائیں تو یہ ان کی ناکامیابی ہے۔ مومن اگر مرجائے تو اس کی بڑی سے بڑی فتح مندی ہے، ایسی فتح مندی جس سے بڑی فتح مندی کی وہ اپنی ذات کے لیے آرزو ہی نہیں کرسکتا۔ آنانکہ غم تو برگزیدند ہمہ۔۔۔۔ در کوئے شہادت آرمیدند ہمہ ! در معرکہ دو کون فتح از عشق است۔۔۔۔ باآنکہ سپاہ اور شہیدند ہمہ ! دوسرے اگر لڑیں اور دشمنوں پر غالب نہ آسکیں تو ان کی ہار ہوئی لیکن مومون وہ ہے جو ہار کے معنی ہی سے نا آشنا ہوتا ہے، وہ اگر کسی میدان میں غالب نہ آئے جب بھی جیت اسی کی ہے کیونکہ اس کی ہار جیت کا معیار میدان جنگ نہیں ہوتا خود اس کی طلب و سعی ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنی سعی و طلب میں پورا نکلا تو اس نے میدان مار لیا اگرچہ میدان جنگ میں اس کی لاش ہزاروں لاشوں کے نیچے دبی ہوئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس راہ میں وہ کبھی مر نہیں سکتا۔ اس کی موت بھی اس کی زندگی ہوتی ہے۔ (ولکن لا تشعرون) یہ جو قرآن نے جابجا زور دیا ہے کہ مومن کا مقصد سعی صرف اللہ اور اس کی سچائی اور مومن کی جہد کا نام جہد فی سبیل اللہ رکھ دیا تو اس میں یہی حقیقت پوشیدہ ہے۔ یعنی وہ ساری منزلوں سے جو دنیا میں پیش آسکتی ہیں بلند کردیا گیا۔ اب یہاں کی کوئی منزل اس کی منزل مقصود نہیں ہوسکتی کہ اس تک نہ پہنچ سکنا اس کی ناکامیابی کا فیصلہ کردے۔ اس کے لیے منزل مقصود تو صرف یہ حق کہ راہ میں چلتا رہے اور رکے نہیں۔ اس کا ہر قدم جو چلتا رہا فتح مندی ہے اور ہر قدم جو رک گیا نامرادی ہے۔ بہرحال یاد رہے کہ دو خوبیوں سے مقصود یہی حقیقت ہے یعنی فتح مندی یا شہادت، اور شہادت بھی فتح مندی ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ شہادت یا مال غنیمت جیسا کہ بعضوں نے خیال کیا۔ اور حاشا کہ مال غنیمت مومن کے لیے (احد الحسنیین) ہو۔ آیت (٨٧) تک مدینہ کے منافقوں کے حالات و خصائل پر مزید روشنی ڈالی ہے اور ان معاملات کی طرف اشارات کیے ہیں جو غزوہ تبوک کی ابتدا میں اور پھر سفر کے درمیان اور واپسی پر پیش آئے۔ اور بالآخر ان لوگوں کے لیے آخری احکام صادر کیے ہیں َ ان تمام آیات کے لیے سورت کا آخری نوٹ دیکھو کیونکہ بغیر یک جائی نظر ڈالے تمام پہلو واضح نہیں ہوسکتے تھے۔ التوبہ
53 التوبہ
54 التوبہ
55 التوبہ
56 التوبہ
57 التوبہ
58 التوبہ
59 التوبہ
60 آیت (٦٠) میں زکوۃ کے مصارف بیان کردیے۔ توضیح کے لیے آخری نوٹ دیکھو۔ التوبہ
61 التوبہ
62 التوبہ
63 التوبہ
64 التوبہ
65 التوبہ
66 التوبہ
67 التوبہ
68 التوبہ
69 التوبہ
70 التوبہ
71 التوبہ
72 التوبہ
73 التوبہ
74 التوبہ
75 التوبہ
76 التوبہ
77 التوبہ
78 التوبہ
79 التوبہ
80 التوبہ
81 التوبہ
82 التوبہ
83 التوبہ
84 التوبہ
85 التوبہ
86 التوبہ
87 التوبہ
88 التوبہ
89 التوبہ
90 آیت (٩٠) میں سلسلہ بیان ایک دوسرے گروہ کی طرف متوجہ ہوا ہے کہ ان میں بھی ایک جماعت منافقوں کی تھی اور ایک جماعت کمزور ایمان والوں کی یعنی صحرا نشین قبائل کی جن کا بقیہ آج بھیی موجود ہے اور عرب کے بدو کہے جاتے تھے۔ ان کا بڑا حصہ نیا نیا مسلمان ہوا تھا اور شہروں میں نہ رہنے کی وجہ سے ابھی اسلامی زندگی کی تربیت نہیں ملی تھی۔ غزوہ تبوک کا بلاوا ہوا تو کچھ لوگ آئے اور عذر پیش کیے۔ کچھ ایسے نکلے جو چپکے بیٹھے رہے۔ معذرت کے لیے بھی نہیں آئے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عذر کرنے والے عامر بن طفیل کے قبیل کے تھے۔ انہوں نے کہا تھا اگر ہم آپ کے ساتھ نکلے تو قبیلہ طے کے بدو ہمارے مویشی اور اولاد پر آپڑیں گے۔ (ابن جریر) چنانچہ جو منافق تھے ان کے لیے وعید ہوئی۔ اور جنہوں نے کمزوری کی وجہ سے پہلو تہی کی تھی ان پر عتاب ہوا۔ کوئی بات دنیا میں اس سے زیادہ عجیب نہیں ہوسکتی کہ وحشی اور بہائم صفت انسان اچانک محبت و اخلاص اور ایثار و خود فروشی کے لیے فرشتے بن جائیں لیکن قرآن کی تعلیم نے ایسا ہی انقلاب پیدا کیا۔ اوپر گزر چکا ہے کہ غزوہ تبوک بڑے ہی ناموافق حالات میں پیش آیا تھا۔ حتی کہ لوگوں کی افسردگی پر اللہ کا عتبا ہوا لیکن اس پر بھی لوگوں کا کیا حال تھاَ ؟ یہ تھا کہ شدت درد و غم سے بے اختیار ہو کر رونے لگتے تھے۔ کس بات پر؟ اس پر کہ عیش و راحت میں انہیں حصہ نہیں ملا؟ نہیں اس پر کہ راہ حق کی مصیبتوں اور قربانیوں میں شریک ہونے سے رہ گئے۔ التوبہ
91 آیت (٩١) میں بتلا دیا کہ اگر دفاع کے لیے نفیر عام ہو تو کن کن لوگوں کو معذور تصور کیا جاسکتا ہے، فرمایا ناتواں آدمی یعنی جو لوگ جسمانی طور پر مجبور ہوں، مثلا بہت بوڑھے، اندھے اپاہج، دوسرے بیمار، تیسرے ایسے لوگ جو سفر کی لازمی ضروریات کے انتظام کی مقدرت نہ رکھتے ہوں۔ اس عہد میں نہ تو سرکاری فوج وجود میں آئی تھی نہ رضا کاروں کی کوئی الگ قسم تھی نہ سپاہیوں کے مصارف کے لیے حکومت کا کوئی خزانہ تھا۔ سبھی رضا کار تھے اور سب کے لیے ضروری تھا کہ اپنا خرچ خود ہی اٹھائیں بلکہ بن پڑے تو دوسروں کے لیے بھی خرچ کریں۔ پس فرمایا جو لوگ فی الحقیقت مقدور نہیں رکھتے کوئی وجہ نہیں کہ ان پر الزام آئے۔ خصوصا وہ لوگ جن کے ایمان و اخلاص کا یہ حال تھا کہ جب ان کے لیے سواری کا انتظام نہ ہوسکا اور تیسرے ادب و احترام نے اس کی بھی اجازت نہ دی کہ وہ زیادہ اصرار کریں تو خاموش اٹھ کر لوٹ گئے۔ لیکن آنکھیں جو درد و دل کی غماز ہیں خاموش نہ رہ سکیں۔ حسرت و غم کے آنسو بے اختیار بہنے لگے : چشم آستیں بردار و شکم را تماشا کن !!! قرآن کی معجزانہ بلاغت دیکھو۔ پہلے بے مقدوروں کا ذکر ہوچکا تھا لیکن خصوصیت کے ساتھ پھر ان کا ذکر کیا اور ان کی محبت ایمانی کی تصویر کھینچ دی۔ تاکہ نفاق کے مقابلہ میں ایمان کا بھی ایک مرقع سامنے آجائے۔ یعنی یا تو وہ ہیں کہ قدرت رکھنے پر بھی حیلے بہانے نکالتے ہیں، یا یہ ہیں کہ مقدرت نہ رکھنے پر بھی دل کی لگن چین سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ آنسو بن کر آنکھوں سے ٹپک رہی ہے۔ غزوہ تبوک میں سواریوں کی بڑی قلت تھی، اٹھارہ آدمیوں کے حصے میں ایک اونٹ آیا تھا، احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت نے جو زادا راہ کی مقدرت نہیں رکھتی تھی پیغمبر اسلام سے عرض کیا، ہمارے لیے سواری کا بندوبست کردیجیے۔ آپ نے کہا کہاں سے کروں کوئی سامان نہیں پاتا، اس پر وہ روتے ہوئے چلے گئے اور ان کے درد و غم کا یہ حال تھا کہ البکائین کے نام سے مشہور ہوگئے تھے۔ یعنی بہت رونے والے۔ (ابن جریر) سبحان اللہ ان چند آنسوؤں کی قدروقیمت جو ایمان کی تپش سے بہے تھے کہ ہمیشہ کے لیے ان کا ذکر کتاب اللہ نے محفوظ کردیا۔ آج بھی کہ تیرہ صدیاں گزر چکی ہیں ممکن نہیں ایک مومن یہ آیت پڑھے اور ان آنسوؤں کی یاد میں خود اس کی آنکھیں بھی اشکبار نہ ہوجائیں۔ التوبہ
92 التوبہ
93 آیت (٩٣) میں فرمایا ادائے فرض کے وقت عورتوں کے ساتھ بیٹھے رہنا ایک ایسی نامردی کی بات ہے جسے کوئی خود دار آدمی گوارا نہیں کرسکتا لیکن انہوں نے یہ بھی گوارا کرلیا۔ کیونکہ جہل و بے حسی کی انتہائی حالت ان پر طاری ہوگئی ہے۔ اس حالت کو جو انتہا درجہ غفلت و انکار کا لازمی نتیجہ ہے قرآن مہر لگا دینے سے تعبیر کرتا ہے۔ اس تعبیر کی تشریح پچھلی سورتوں میں گزر چکی ہے خصوصا سورۃ اعراف کی آیت (١٤٦) کے نوٹ میں۔ التوبہ
94 یہ آیتیں سفر تبوک کے اثنا میں نازل ہوئی ہیں۔ آیت (٩٤) میں فرمایا منافق تو سمجھے ہوئے تھے تم اس سفر سے بخیر و عافیت لوٹنے والے نہیں۔ اب لوٹو گے تو حسب عادت آئیں گے اور طرح طرحح کی باتیں عذر و معذرت کی کریں گے۔ پھر جب دیکھیں گے کہ بات بنتی نہیں تو قسمیں کھانی شروع کردیں گے لیکن خواہ وہ کتنی ہی قسمیں کھائیں تمہیں ان کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ اب ان کا قول نہیں ان کا عمل دیکھا جائے گا اور اسی کے مطابق ان سے سلوک کیا جائے گا پھر بالآخر اللہ کے حضور لوٹنا اور اپنے کیے کا نتیجہ پانا ہے۔ شہریوں کے مقابلہ میں بادیہ نشین قبائل عموما سخت طبیعت کے ہوتے ہیں، کیونکہ ان میں وہ لچک اور نرمی پیدان نہیں ہوسکتی جو معاشرتی زندگی کا خاصہ ہے۔ یہی حال عرب کے بدووں کا تھا۔ آیت ٩٧ میں اسی طرح اشارہ کیا ہے۔ التوبہ
95 التوبہ
96 التوبہ
97 التوبہ
98 آیت (٩٨) میں فرمایا۔ انہی میں وہ منافق ہیں جو اگر اسلام کی راہ میں کچھ خرچ بھی کرتے ہیں تو محض اس خوف سے کہ سمجھتے ہیں بغیر اس کے چارہ نہیں اور یہ خرچ کرنا ان کے لیے ایسا ہے جیسے کوئی ناگواری سے جرمانہ بھرے، وہ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ مسلمانوں پر کوئی مصیبت آپڑے تو ان پر الٹ پڑیں۔ غزوہ تبوک کے موقع پر انہوں نے سمجھا ہوگا رومیوں کے مقابلہ میں مسلمان کب ٹھہر سکتے ہیں اب ان کے دن ختم ہوئے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے یہ بنو اسد اور غطفان کے قبائل تھے۔ (ابن جریر) التوبہ
99 التوبہ
100 آیت (١٠٠) سے معلوم ہوا اس امت کے بہترین طبقے تین ہیں : (ا) مہاجرینن میں سے سابقون الاولون یعنی مکہ کے وہ حق پرست جنہوں نے دعوت حق کی قبولیت میں سبقت کی اور سب سے پہلے ایمان لائے۔ پھر صلح حدیبیہ سے پہلے کہ غربت و مصیبت کا زمانہ تھا اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کی۔ بالاتفاق سب سے پہلے ایمان لانے والی ہستی حضرت خدیجہ کی تھی۔ ان کے بعد گھر کے آدمیوں میں سے حضرت علی، (ک دس برس سے زیادہ عمر کے نہ تھے) اور زید بن حارثہ ایمان لائے اور باہر کے آدمیوں میں حضرت ابوبکر، حضرت ابوبکر ہجرت مدینہ میں بھی اسبق ہیں کہ خود آنحضرت کے ساتھی تھی۔ (ب) انصار میں سے سابقون الاولون یعنی مدینہ کے وہ حق شناس جنہوں نے عین اس وقت جبکہ تمام جزیر عرب داعی حق کو جھٹلا رہا تھا اور خود اس کے اہل ون اس کے قتل و ہلاکت کے درپے تھے دعوت حق قبول کی اور عقبہ اولی اور ثانیہ میں بیعت کا ہاتھ بڑھایا۔ پہلی بیعت میں سات آدمی تھی، اور یہ اعلان نبوت سے گیارہویں برس ہوئی۔ دوسری میں ستر مرد تھے اور دو عورتیں اور یہ پہلی سے ایک برس بعد ہوئی۔ پیغمبر اسلام نے دوسری بیعت والوں کے ساتھ ابو زرارہ بن مصعب کو بغرض تعلیم بھیج دیا تھا۔ کچھ لوگ ان کے جانے پر ایمان لائے اور کچھ اس وقت جب خود آنحضرت نے ہجرت فرمائی۔ (ج) وہ لوگ جو ان دونوں جماعتوں کے قدم بہ قدم چلے اور گو بعد کو آئے لیکن ان کا شمار پہلوں ہی کے ساتھ ہوا۔ چونکہ بعد کو ایمان لانے والوں میں بعض منافق اور کچے دل کے آدمی بھی تھے اس لیے باحسان کی قید لگا دی۔ یعنی وہ جنہوں نے راست بازی کے ساتھ ان کی پیروی کی۔ دنیا میں جب کبھی سچائی کا ظہور ہوا ہے تو اس کا پہلا عہد ہمیشہ غربت و بے کسی کا رہا ہے اور ان ساری دنیوی ترغیبوں سے خالی رہا ہے جو کسی انسان کے دل کو مائل کرسکتی ہے۔ پس جو نفوس قدسی اس وقت حق کا ساتھ دیتے ہیں ان کی حق شناسی و حق پرستی کے درجہ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا کیونکہ وہ داعی حق کا پہلے پہل ساتھ دے کر خود بھی داعیان حق کے گروہ میں داخل ہوجاتے ہیں اور ان کی حق پرستی دنیا کے ہر طرح کے تاثرات سے یک قلم منزہ ہوتی ہے۔ تاریخ اسلام میں مہاجرین و انصار کی جماعت کا یہی مقام ہے۔ اسی لیے (السابقون الاولون) سے زیادہ ان کے وصف میں کچھ کہنا ضروری نہ ہوا۔ کیونکہ یہاں اسبقیت و اولیت سے بڑھ کر اور کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ جب پیغمبر اسلام نے پہلے پہل حضرت ابوبکر کو دعوت دی اور اس پیکر صدق و وفا نے سنتے ہی قبول کرلی تو غور کرو اس وقت اس معاملہ کا کیا حال تھا؟ پورے کرہ ارض میں تن تنہا دو آدمی کھڑے تھے، ایک نے بلایا تھا، دوسرا دوڑ گیا تھا، جس نے بلایا اس کے اندر وحی الہی کا یقین بول رہا تھا، لیکن جو دوڑا اس نے کیا دیکھا تھا کہ ایک عجیب و غریب بات سنتے ہی قبول کرلی اور بیٹھے بٹھائے تمام ملک و قوم کو اپنا دشمن جانی بنا لیاَ ؟ یاراں خبر دہید کہ ایں جلوہ گاہ کیست؟؟؟ اسی غور کرو جب عقبہ اولی میں مدینہ کے ساتھھ آدمی بیعت کر رہے تھے؟ تو کس سے کر رہے تھے اور کس حال میں کر رہے تھے؟ جس مظلوم کو گیارہ برس سے تمام جزیرہ عرب جھٹلا رہا تھا اور خود اپنی قوم و وطن دشمنوں سے گھرا ہوا تھا اس نے کہا مجھے قبول کرلو اور ساری دنیا کی دشمنی مول لے لو، اور ان عشاق حق نے کہا ہم نے قبول کیا اور تیرے لیے سارے جہان کی دشمنیاں اور ہر طرح کی مصیبتیں اپنے سر لے لیں۔ دو عالم نقد جاں بر دست دارند۔۔۔ بہ بازارے کہ سودائے تو باشد !!! یہی وجہ ہے کہ یہاں ان کا معاملہ ایسے پیرایہ میں بیان فرمایا جس سے بڑھ کر پیرایہ بیانن عشاق حق کے لیے نہیں ہوسکتا۔ (رض) و رضوا عنہ۔ اللہ سن سے خوشنود ہوا، وہ اللہ سے خوشنود ہوئے۔ اور سورۃ مائدہ میں انہی کے لیے پیشین گوئی گزر چکی ہے۔ (یحبھم ویحبونہ) اللہ ان سے محبت کرے گا وہ اللہ سے محبت کریں گے۔ اللہ کی خوشنودی تو ظاہر ہے کہ ان کے کمال ایمان و عمل کا نتیجہ تھی لیکن خود ان کے خوشنود ہونے کا یہاں مطلب ہوا؟ افسوس ہے کہ لوگ اس کی حقیقت نہیں سمجھتے اور اگرچہ یہاں سمجھانے کی گنجائش نہیں مگر پھر بھی کوشش کروں گا کہ سورت کے آخری نوٹ میں اس کی تشریح بھی آجائے۔ التوبہ
101 آیت (١٠١) میں منافقوں کے ایک خاص گروہ کا ذکر کیا جو اطراف مدینہ کے بدوی قبائل میں بھی تھے اور شہری باشندوں میں بھی۔ فرمایا (مردوا علی النفاق) یہ نفاق میں مشاق اور حاذق ہوگئے ہیں۔ یعنی منافقانہ زندگی میں رہتے رہتے اس کی ایسی مشق و مزاولت ہوگئی ہے کہ نو آموزوں کی طرح پکڑے نہیں جاسکتے۔ جو کچھ اور نو آموز ہیں ان کے لیے مشکل ہے کہ اپنی دلی حالت چھپائے رکھیں۔ وہ ان کے چہروں پر ابھر ہی آتی ہے اور باتوں سے ٹپکنے ہی لگتی ہے لیکن یہ لوگ اس بناوٹ کے ایسے عادی ہوگئے ہیں کہ ممکن نہیں عام نگاہیں تاڑ سکیں۔ ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے، یعنی یہ اپنی دہری استعداد نفاق کی وجہ سے دہرے عذاب کے مستحق ہوگئے، پہلی استعداد یہ کہ منافق ہوئے دوسری یہ کہ اس میں کامل و مشاق ہوگئے۔ قرآن نے جابجا یہ حقیقت واضھ کی ہے کہ اعمال کے نتائج ٹھیک ٹھیک ان کی حالت اور درجہ کے مطابق نکلتے ہیں۔ اگر ایک شخص نے زہر کھالیا لیکن ہلکے قسم کا تو نتیجہ بھی ہلکے قسم کی مضرت کا نکلے گا۔ لیکن اگر زہر قاتل ہے تو نتیجہ بھی قاتل ہوگا۔ ایسا ہی قانون روحانی زندگی میں بھی کام کر رہا ہے اور اچھائیوں کی طرح برائیوں کے بھی اقسام و مدارج ہیں۔ التوبہ
102 آیت (١٠٢) سے لے کر (١٠٦) تک ان لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے اگرچہ اس موقع پر کوتاہی کی تھی لیکن اس کا سبب نفاق نہ تھا، سستی اور کاہلی تھی، پیغمبر اسلام جب سفر سے واپس آئے تو ان میں سے ہر شخص سچائی کے ساتھ اپنی غفلت پر منفعل ہوا اور کوئی نہ تھا جس کا دل حسرت و ندامت کے زخموں سے چور نہ ہورہا ہو۔ اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی کیونکہ اس کی بخشش و رحمت کا دروزازہ کبھی بند نہیں ہوسکتا۔ شرط صرف یہ ہے کہ خود ہم اپنے دلوں کا دروازہ اپنے ہاتھوں بند نہ کرلیں : نہ پہنچی ضعف سے لب تک دعا ہی ورنہ سدا۔۔۔۔ در قبول تو اس آروزو میں باز رہا !!! فرمایا انہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا اور ان کا اعتراف دل کا اعتراف ہے، پس کوئی وجہ نہیں کہ ان کی توبہ قبول نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس بارے میں اصل کار گناہوں کا سچا اعتراف ہے اور جو سرا اعتراف ذنوب میں جھک گیا پھر اس کے لیے محرومی نہیں ہوسکتی۔ کہ مستحق کرامت گناہ گار انند اس سے پہلے حکم گزر چکا ہے کہ منافقوں کی خیرات قبول نہ کرو وارا نہ اس کی بخشش کے لیے دعا کرو۔ یہاں فرمایا جن لوگوں نے اب اپنی خطاؤں کا اقرار کرلیا اور تائب ہوگئے تو وہ جو کچھ راہ حق میں نکالیں اسے قبول کرلو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو۔ تمہاری دعا ان کے دلوں کے لیے کہ حسرت و ندامت سے زخمی ہورہے ہیں راحت و سکون کا مرہم ثابت ہوگی۔ نیز فرمایا تم اس ذریعہ سے انہیں مطہر اور مزکی کردو گے یعنی خیرات و زکوۃ کا نکالنا اور اس کا قبول ہونا ایک ایسا معاملہ ہے جو نفس کی پاکی و تربیت کا باعث ہوتا ہے۔ مزید اشارات کے لیے آخری نوٹ میں زکوۃ کا مبحث دیکھو۔ التوبہ
103 التوبہ
104 التوبہ
105 التوبہ
106 آیت (١٠٦) میں فرمایا کچھ اور لوگ ہیں جو خدا کے فیصلہ کا ابھی انتظار کر رہے ہیں یعنی ان کی توبہ کی قبولیت و عدم قبولیت کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔ یہ کل تین آدمی تھے، مرارہ بن الربیع، کعب بن مالک، ہلال بن امیہ۔ انہوں نے واپسی کر کوئی معذرت نہیں کی اور کہا سچی بات یہ ہے کہ کوئی عذر نہ تھا۔ محض کاہلی اور سستی تھی جس نے نکلنے نہیں دیا۔ اس پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کے حکم کا انتظار کرو، چنانچہ آگے چل کر آیت (١١٧) میں ان کا حکم ملے گا۔ التوبہ
107 آیت (١٠٧) میں منافقوں کی ایک بہت بڑی شرارت کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے ایک مسجد بنا کر کرنی چاہی تھی اور خصوصیت کے ساتھ اس لیے ذکر کیا کہ اس میں مسلمانوں کے لیے عبرت و موعظت تھی۔ اس باب میں ضروری اشارات سورت کے آخری نوٹ میں ملیں گے۔ التوبہ
108 التوبہ
109 التوبہ
110 التوبہ
111 آیت (١١١) میں حب ایمانی کی حقیقت واضح کی ہے۔ فرمایا جو لوگ اللہ پر ایمان لائے تو ایمان کا معاملہ یوں سمجھو کہ انہوں نے اپنا سب کچھ اللہ کے ہاتھ بیچ ڈالا، جان بھی اور مال و متاع بھی۔ اب ان کی کوئی چیز ان کی نہیں رہی، اللہ اور اس کی سچائی کی ہوگئی۔ بندگان تو کہ در عشق خداوند انند۔۔۔۔ دو جہاں را بہ تمنائے تو بفروختہ اند اور پھر اللہ کی طرف سے اس کے معاوضہ میں کیا ہوا؟ یہ ہوا کہ نعیم ابدی کی کامرانیاں انہیں عطا فرمائیں۔ یہ گویا خریدوفروخت کا ایک معاملہ تھا جو اللہ میں اور عشاق حق میں طے پا گیا، اب نہ بیچنے والا اپنی متاع واپس لے سکتا ہے نہ خریدنے والا قیمت لوٹائے گا۔ اثامن بالنفس النفیسۃ ربھا۔۔۔۔۔ فلیس لھا فی الخلق کلھم ثمن اذا ذھبت نفسی بدنیا اصبتھا۔۔۔۔۔ فقد ذھبت منی وقد ذھب الثمن اور چونکہ مقصود اللہ کے لطف و کرم کا اظہار تھا اس لیے معاملہ کو اپنی طرف سے شروع کیا۔ نہ کہ بیچنے والوں کی طرف سے، یعنی یہ نہیں کہا کہ مومنوں نے بیچ ڈالی بلکہ کہا اللہ نے مومنوں سے خرید لی۔ گویا معاملہ کا طالب وہ تھا، حالانکہ ہر طرح کی طلب و احتیاج سے وہ منزہ ہے اور جو متاع اس نے قبول کی وہ بھی اسی کی تھی اور جو کچھ معاوضہ میں بخشا وہ بھی اس کے سوا اور کس کا ہوسکتا ہے؟ التوبہ
112 آیت (١١٢) اس سورت کی مہمات معارف میں سے ہے۔ فرمایا، سچے مومنوں کے اوصاف و مدارج یہ ہیں کہ : (ا) التائبون۔ یعنی وہ جو اپنی توبہ میں سچے اور پکے ہوتے ہیں اور ہر حال میں اللہ کی طرف رجوع کرتے اور اپنی غفلتوں اور لغزشوں پر نادم رہتے ہیں۔ (ب) العابدون یعنی وہ جو اللہ کی عبادت میں سرگرم رہتے ہیں اور ان کی ساری بندگیاں اور نیاز مندیاں صرف اسی کے لیے ہوتی ہیں۔ عبادت سے مقصود عبادت خاص بھی ہے اور عام بھی، خاص یہ کہ خاص وقتوں اور خاص شکلوں کی عبادت جو دین حق نے قرار دے دی ہے اسے پورے اخلاص اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرے، عام یہ کہ انسان کی فکری حالت عبادت گزارا نہ ہوجائے اور پھر وہ جو کچھ بھی سنے، جو کچھ بھی کہے، جو کچھ بھی کرے سب میں ایک عابدانہ روح کام کر رہی ہے۔ (ج) الحامدون : یعنی وہ جو اپنے فکر سے اور قول سے اللہ کی حمد و ستائش کرنے والے ہیں، فکر سے حمد و ستائش یہ ہوئی کہ بحکم (ویتفکرون فی خلق السماوات والارض) آسمان و زمین کی خلقت میں غور و فکر کرنا، اور ان تمام کار فرمائیوں کی معرفت حاصل کرنا جو اس کی محمودیت و جمال پر دلالت کرتی ہیں۔ قول سے حمد و ستائش اس فکری حالت کا قدرتی نتیجہ ہے، کیونکہ جس ہستی کی محمودیت دل و دماغ میں بس جائے گی ضروری ہے کہ زبان سے بھی بے اختیار اس کی حمد و ثنا کے ترانے نکلنے لگیں۔ (د) السائحون : وہ جو راہ حق میں سیروسیاحت کرتے ہیں یعنی بحکم (قد خلت من قبلکم سنن فسیروا فی الارض) زمین میں عبرت و نظر کے لیے گردش کرتے ہیں علم کی ڈھونڈھ میں نکلتے ہیں راہ حق میں جدوجہد کرتے ہوئے ایک گوشہ سے دوسرے گوشہ کا رخ کرتے ہیں، حج کے لیے خشکی و تری کی مسافتیں قطع کرتے رہتے ہیں۔ (ہ) (الراکعون الساجدون : وہ جو اللہ کے آگے جھک جاتے ہیں اور رکوع و سجود سے کبھی نہیں تھکتے۔ یہ رکوع و سجود کی حالت جسم پر بھی طاری ہوتی ہے، قلب پر بھی طاری وہتی ہے اور زبان پر بھی طاری ہوتی ہے۔ (و) الامرون بالمعروف والناھون عن المنکر : وہ جو نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔ یعنی صرف اپنے ہی نفس کی اصلاح پر قانع نہیں ہوجاتے بلکہ دوسروں کی بھی اسلاح کرتے اور دنیا میں حق و عدالت کے نشر و قیام کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ (ز) الحافظون لحدود اللہ : یہ آخری وصف اور آخری مقام ہوا یعنی وہ جو ان تمام حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں جو اللہ نے انسان کے لیے ٹھہرا دی ہیں۔ قرآن کی اصطلاح یہ ہے کہ تمام واجبات و حقوق کو خواہ افراد کی زندگی سے تعلق رکھتے ہوں خواہ جماعت سے وہ حدود اللہ سے تعبیر کرتا ہے۔ یعنی یہ حدیث ہیں جو مقرر کردی گئی ہیں۔ ان کے ٹوٹنے میں انسانی امن و سعادت کی بنیادوں کو ٹوٹ جانا ہے۔ یہ کل سات وصف ہوئے اور جس ترتیب سے بیان کیے گئے ہیں وہ قابل غور ہے۔ یہ گویا نفس انسانی کے تزکیہ و ترقی کے سات درجے ہیں یا سات طبقے جو یکے بعد دیگرے ٹھیک اسی ترتیب سے سلوک ایمانی میں پیش آتے ہیں۔ جب کوئی انسان راستی و ہدایت کی راہ میں قدم اٹھائے گا تو قدرتی طور پر پہلا مقام توبہ و انابت ہی کا ہوگا۔ یعنی پھچلی غفلتوں اور گمراہیوں سے (خواہ وہ کفر کی ہوں خواہ نفاق کی خواہ معاصی و زلات کی) باز آئے گا اور آئندہ کے لیے ان سے بچنے کا عہد کرے گا اور اپنے سارے دل اور ساری روح سے اللہ کی طرف رجوع ہوجائے گا۔ اور یہی توبہ کی حقیقت ہے۔ پھر اگر توبہ سچی ہوگی تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اللہ کی بندگی و نیاز مندی کی سرگرمی پیدا ہوجائے۔ پس یہ دوسری منزل ہوئی یا سلوک ایمانی کا دوسرا طبقہ۔ پھر چونکہ عبادت گزاری کی زندگی کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ فکر اور ذکر کا مقام حاصل ہوجائے اور (ملکوت السموات والارض) کے مشاہدہ و معرفت کا دروازہ کھل جائے اس لیے تیسری منزل تحمید و تسبیح کی منزل ہوئی یعنی اللہ کی حمد و ثنا کے جوش سے معمور ہوجانے کی منزل کہ (ربنا ماخلقت ھذا باطلا) پھر اگر توبہ و انابت کا تنبہ، عبادت کا ذوق اور تحمید و تسبیح کا عرفان کامل درجہ کا ہے تو ممکن نہیں کہ وہ مومن صادق کو گھر میں چین سے بیٹھنے دے۔ ضروری ہے کہ وطن و مکان کی الفت کی زنجریں ٹوٹیں اور سیر و سیاحت میں قدم سرگرم ہوجائیں۔ پس یہ چوتھی منزل ہوئی اور السایحون کا طبقہ چوتھا طبقہ ہوا۔ ان چار منزلوں سے جو کاروان عمل گزر گیا اس نے اصلاح نفس کی مسافت طے کرلی۔ پس اب پانچویں منزل (الراکعون الساجدون) کی ہوئی۔ یعنی بندگی و نیاز مندی میں پورے ہوگئے اور اللہ کے آگے سرنیاز ہمیشہ کے لیے جھک گیا۔ اب (امرون بالمعروف وناھون عن المنکر) کا مقام انہیں حاصل ہوجائے گا یعنی اپنی تعلیم و تربیت کا معاملہ پورا کر کے دوسروں کے لیے معلم و مربی ہوجائیں گے۔ چنانچہ چھٹی منزل یہی ہوئی اور اسی سے آخری منزل کے ڈانڈے مل گئے کہ (الحافظون لحدود اللہ) کا مقام ہے یہاں پہنچ کر ان کے تمام اعمال حدود الہی کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں۔ وہ خود اپنے اعمال میں بھی حدود اللہ کی کامل نگہداشت رکھتے ہیں اور اپنے وجود سے باہر بھی ان کے نفاذ و قیام کی نگہبانی کرتے ہیں۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نیک مقصد سے سیر و سیاحت کرنا سچے مومنوں کا بہترین عمل ہے اور ان اعمال میں سے ہے جن کے ذریعہ وہ ایمان کے مدارج طے کرتے اور خصائص ایمانی میں کامل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے جس سرعت کے ساتھ صدر اول کے مسلمان تمام دنیا میں پھیل گئے اس کی کوئی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی، اور جب تک اسلام کی عملی روح زندہ رہی ان سے بڑھ کر زمین کی مسافتیں قطع کرنے والی کوئی قوم نہ تھی۔ وہ سیاحت کو سیاحت سمجھ کر نہیں کرتے تھے بلکہ اللہ کی عبادت سمجھتے تھے۔ اور فی الحقیقت سیاحت نہ صرف ایک تنہا عبادت ہے بلکہ کتنی ہی عبادتوں کا مجموعہ ہے۔ گھر بار چھوڑنا، عزیز و اقارب کی جدائی برداشت کرنا، سفر کی مشقتوں میں پڑنا، قدم قدم پر مال خرچ کرنا، آب و ہوا کی ناموافقت، اجنبیوں سے صحبت و معاملت اور پھر ان تمام موانع ومشکلات میں عزم و عمل کا استوار رہنا ایثار و تحمل کے کتنے مرحلے طے کرنے پڑتے ہیں تب کہیں جاکر یہ عمل انجام پاتا ہے۔ سورۃ تحریم میں یہی وصف مسلمان عورتوں کے لیے بھی فرمایا (مومنات قانتات تائبات عابدات سائحات) اللہ کی فرمانبردار، برائیوں سے پرہیز کرنے والیاں، عبادت گزار، سیاحت میں سرگرم اور روایات سے ثابت ہے کہ نہ صرف صحابہ کرام کی بیبیاں، بلکہ خود پیغمبر اسلام کی ازواج مطہرات بھی جنگ میں نکلتی تھیں اور مجاہدین کی خدمت کرتی تھیں۔ بعد کو اس بارے میں جو حال رہا وہ شرح و بیان سے مستغنی ہے۔ بعضوں کو اس پر تعجب ہوا کہ سیر و سیاحت کا شمار بھی خصائص ایمانی ہو اس لیے السائحون اور السائحات کے لغوی اور مصطلحہ معنی سے گریز کرنے لگے لیکن فی الحقیقت ان کا تعجب محل تعجب ہے۔ قرآن نے ہجرت کو ایمان کا بہترین عمل قرار دیا ہے جو گھر بار چھوڑ کر نکلنا ہے، اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے فرمایا (انفروا خفافا و ثقالا) اور حج ہر مستطیع مسلمان پر مرد ہو یا عورت فرض کردیا جو باشندگان مکہ کے علاوہ سب کے لیے بڑی سے بڑی سیاحت ہی ہے۔ یاتین من کل فج عمیق۔ نیز جابجا زور دیا کہ ملکوں کی سیر کرو، پچھلی قوموں کے آثار و باقیات سے عبرت پکڑو، ان کے عروج و زوال کے حالات و بواعث کا کھوج لگاؤ۔ (افلم یسیروا فی الارض فینظروا کیف کان عاقبۃ الذین من قبلھم) خدا کی قدرت و حکمت کی ان نشانیوں پر غور کرو جو زمین کے چپہ چپہ میں پھیلی ہوئی ہیں : (وکاین من ایۃ فی السموات والارض یمرون علیھا وھم عنھا معرضون) اور اسی سورت میں یہ حکم پڑھو گے کہ طلب علم کے لیے گھروں سے نکلو اور علم کے مرکزوں میں پہنچو : (فلو لا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم؟) اور تجارت کے سفر کو بھی فضل الہی کی جستجو سے تعبیر کیا۔ حتی کہ حج کے موقع پر بھی اس کی اجازت دی۔ (لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم) جبکہ سیرو سیاحت کے یہ صریح احکام موجود ہیں تو پھر کونسی وجہ ہے کہ یہاں اس وصف کی موجودگی موجب تعجب ہو؟ التوبہ
113 استغفار للمشرکین کی ممانعت : اس عہد کے مسلمانوں نے کلمہ حق کے رشتے پر دنیا کے سارے رشتے قربان کردیے تھے، انہیں اپنے ان عزیزوں اور رشتہ داروں سے لڑنے میں ایک لمحہ کے لیے بھی تامل نہیں ہوا جنہوں نے اسلام کے خلاف تلوار اٹھائی تھی اور اس وقت حالت ہی ایسی ہوگئی تھی کہ کلمہ حق کا ساتھ دینا دنیا کے تمام رشتوں، علاقوں کو خیر باد کہہ دینا تھا۔ لیکن اسلام کے جو دشمن لڑتے ہوئے قتل ہوگئے یا اپنی موت مرگئے ان کی حالت زندوں سے مختلف ہوگئی تھی، کیونکہ اب وہ زندہ نہ تھے کہ مسلمانوں پر ظلم و ستم کرتے یا ان کے خلاف لڑتے، بعضض لوگوں کو خیال ہوا جب اللہ کے رسول کی دعا مقبول ہے تو کیوں نہ ہم اپنے ان عزیزوں کے لیے دعائے مغفرت کی التجا کریں جو مرچکے ہیں؟ اور خود قرآن میں حضرت ابراہیم کی نسبت نازل ہوچکا ہے کہ انہوں نے اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کی تھی حالانکہ وہ مومنوں کا مخالف تھا : (واغفرلی لابی انہ کا من الضالین) آیت (١١٣) میں اسی معاملہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ فرمایا نہ تو پیغمبر کو سزاوار ہے کہ ایسا کرے اور نہ مومنوں کو اگرچہ وہ ان کے عزیز و اقارب ہی کیوں نہ ہوں، کیونکہ جب ان پر یہ بات روشن ہوگئی کہ دوزخی ہیں تو پھر انہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ اللہ کے فیسلہ کے خلاف زبان کھولنے کی جسارت کریں۔ ان پر یہ بات روشن کس طرح ہوئی تھی؟ اللہ کی وحی سے اگر تعیین کے ساتھ کسی کی نسب نازل ہوچکی ہو یا ان کے ان اعمال سے جن پر ان کی زندگیوں کا خاتمہ ہوا، یہ ظاہر ہے کہ وہ بیس برس تک داعی حق اور دعوت حق کے جانی دشمن رہے وار کفر وجحود اور ظلم وطغیان کی کوئی شرارت ایسی نہیں جو انسان کرسکتا ہو اور انہوں نے نہ کی ہو، پھر ان کی زندگی کا خاتمہ ببھی اسی عالم میں ہوا اور اپنے اعمال بد پر ایک لمحہ کے لیے شرمندہ نہ ہوئے۔ جن لوگوں کی حالت ایسی رہ چکی ہو ان کے دوزخی ہونے سے زیادہ اور کون سی بات روشن ہوسکتی ہے؟ اس کے بعد اس شبہ کا ازالہ کردیا جو بعض طبیعتوں کو ہوا تھا، فرمایا حضرت ابراہیم نے جو اپنے باپ کے لیے مغفرت کی دعائیں کی تھیں تو صرف اس لیے کہ جب تک آدمی زندہ رہتا ہے اس کی ہدایت و اصلاح سے قطعی مایوسی نہیں ہوسکتی، اگرچہ کتنا ہی گمراہی و شقاوت میں ڈوبا ہوا ہو۔ کیونکہ ہوکتا ہے مرنے سے پہلے باز آجائے۔ چنانچہ جب تک انن کا باپ زندہ رہا وہ مایوس نہ ہوئے اور برابر دعائیں مانگتے رہے، یہ بات انہوں نے اپنے باپ سے کہہ دی تھی جب اس سے الگ ہوئے تھے اور وہ اپنی بات کے پکے تھے لیکن جب وہ کفر و جحود کی حالت میں مرگیا تو انن پر واضح ہوگیا کہ وہ اپنی روش سے باز آنے والا نہ تھا۔ پس اپنی اس طلب سے دست بردار ہوگئے۔ چنانچہ قرآن نے سورۃ مریم اور ممتحنہ میں ان کے اس وعدہ کا ذکر کیا ہے، مریم میں ہے کہ جب ان کے باپ نے غصہ میں آکر انہیں نکال دیا اور کہا اگر تو اپنی روش سے باز نہ آیا تو سنگ سار کروں گا، تو انہوں نے کہا : (سلام علیک، ساستغفرلک ربی انہ کان بی حفیا) اچھا میں جاتا ہوں، تجھ پر سلامتی ہو، اب میں اپنے پروردگار سے تیرے لیے بخشش کی دعا کروں گا۔ وہ مجھ پر بہت مہربان ہے، اور ممتحنہ میں ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنے خاندان سے تمام تعلقات قطع کردیے تھے مگر صرف اتنا واسطہ اپنے باپ سے رکھا کہ (لاستغفرن لک وما املک لک من اللہ شیء) میں ضرور تیری بخشش کا طلبگار ہوں گا، اس سے زیادہ تیرے لیے میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے۔ اور خود پیغمبر اسلام کا بھی یہی ححال رہا کہ دشمنان حق کے لیے ان کی زندگی میں برابر طلبگار بخشش رہے کہ ابھی امید منقطع نہیں ہوئی تھی۔ جنگ احد میں جب ان کا چہرہ مبارک زخمی ہوگیا تھا تو زبان مقدس پر یہی دعا طاری تھی کہ (رب اغفرلی قومی فانھم لا یعلمون) خدایا ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ جانتے نہیں کہ کیا کر رہے ہیں۔ یہ واضح رہے کہ قرآن نے حضرت ابراہیم کی یہ بات ان کے مناقب و فضائل میں شمار کی ہے اور جابجا بطور نمونہ کے پیش کی ہے کیونکہ کتنے ہی ناموافق حالات ہوں مگر ہدایت سے مایوس نہ ہونا اور اپنے ماں باپ کے لیے ہر حال میں خیر طلب رہنا جن کی محبت و شفقت انسان کی پرورش کا ذریعہ ہوتی ہے ایمان و راستی کے بہرین اعمال میں سے ہے۔ چنانچہ سورۃ مریم میں جہاں ان کی وہ مقبول دعائیں نقل کی ہیں جو امت مسلمہ کے ظہور اور خانہ کعبہ کی آبادی کے لیے تھیں وہاں یہ دعا بھی نقل کی ہے : (ربنا اغفرلی ولوالدی وللمومنین) خدایا مجھے بخش دے اور میرے باپ کو بھی اور ان کو جو ایمان لائے۔ یہاں باپ سے مقصود ان کا حقیقی باپ ہے یا چچا جس نے بطور باپ کے پرورش کیا تھا؟ تو زیادہ قوی بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ آزر ان کا چچا تھا، اور یہ معاملہ اسی کے ساتھ پیش آیا تھا۔ چنانچہ سورۃ انعام آیت (٧٤) کے حاشیہ میں اس طرف اشارہ گزر چکا ہے۔ التوبہ
114 التوبہ
115 التوبہ
116 حیات و ممات روحانی : آیت (١١٦) میں فرمایا آسمان و زمین کی پادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے، وہی جلاتا ہے وہی مارتا ہے، یہاں جسمانی موت و حیات کا ذکر نہ تھا، پس مقصود یہ ہے کہ نجات و بخشش کا رشتہ اسی کے ہاتھ میں ہے اور جس طرح اجسام کی موت و حیات اس کے حکم سے ہے اسی طرح روح کی ہدایت و شقاوت کا معاملہ بھی اسی کے حکم پر موقوف ہے اور اس کے حکم سے مقصود اس کے ٹھہرائے ہوئے قوانین ہیں۔ ان قوانین کے مطابق کسی کی راہ سعادت کی راہ ہوتی ہے، کسی کی شقاوت کی، اور ان کے خلاف کبھی کوئی بات ظہور میں نہیں آسکتی۔ التوبہ
117 التوبہ
118 شرح وعلی الثلاثۃ الذین خلفوا : آیت (١١٧) پچھلی آیتوں کے بعد نازل ہوئی ہے، اس میں ان لوگوں کو قبولیت توبہ کی بشارت دی ہے جن سے غزوہ تبوک کی تیاریوں میں کوتاہی ہوئی تھی اور جن کی نسبت آیت (١٠٢) میں فرمایا تھا کہ انہیں رحمت الہی کا امیدوار رہنا چاہیے۔ چونکہ قبولیت کا مقتضا یہ تھا کہ ان کے دلوں کے زخم دھوئے جائیں اور مرحمت و اکرام کے مرہموں سے تسکین پائیں اس لیے پیرائی بیان ایسا اختیار کیا گیا کہ ان کے سارے دکھوں کا مداوا ہوگیا۔ انہوں نے اس لغزش کی وجہ سے اپنی اصلی جگہ کھو دی، یعنی جن مقبولوں کے ساتھ ان کا شمار تھا ان کی صف سے باہر ہوگئے تھے۔ پس قبولیت توبہ کا مژدہ سنایا گیا تو اس طرح کہ پہلے خود پیغمبر اسلام کا نام آیا پھر مہاجرین و انصار کا اور پھر انہی کے ضمن میں ان لوگوں کا بھی ذکر کردیا گیا اور رحمت الہی کی توجہ یکساں طور پر سب کے لیے کہی گئی تاکہ اب کوئی اس حلقہ سے باہر نہ رہے۔ جن سے قصور ہوا تھا، وہ بھی محسوس کرنے لگیں کہ رحمت و قبولیت کی ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں۔ گدایاں را ازیں معنی خبر نیست۔۔۔۔ کہ سلطان جہاں با است امروز۔ توبہ کے معنی رجوع ہونے اور لوٹنے کے ہیں، اللہ کا اپنی رحمت کے ساتھ لوٹنا کاملوں کے لیے یہ ہے کہ مزید رحمت و اکرام ہو، قصور مندوں کے لیے یہ کہ قبولیت و مغفرت ہو۔ اس کے بعد فرمایا : ان تین آدمیوں کی بھی توبہ قبول ہوگئی جن کا معاملہ ملتوی کردیا گیا تھا یعنی جن کی نسبت کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا تھا اور پیغمبر اسلام نے فرمایا تھا حکم الہی کا انتظار کرو۔ چنانچہ آیت (١٠٦) میں انہی کی نسبت گزر چکا ہے کہ حکم الہی کے انتظار میں ہیں۔ یہ تین شخص کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع تھے۔ کعب بن مالک ان تہتر سابقین انصار میں سے جنہوں نے عقبہ ثانیہ میں بیعت کی تھی اور ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع دونوں بدری تھے یعنی ان جاں نثاروں میں جنہوں نے جنگ بدر میں شرکت کی تھی۔ ان تینوں سے بھی غزوہ تبوک میں کوتاہی ہوئی ور شریک نہ ہوئے لیکن جب آنحضرت واپس تشریف لائے اور ساتھ نہ دینے والے اپنے اپنے عذر پیش کر رکے معافی مانگنے لگے تو انہوں نے کوئی خاص عذر پیش نہیں کیا اور صاف صاف تسلیم کرلیا کہ ہماری سستی اور کاہلی تھی کہ اس سعادت سے محروم رہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا حکم الہی کا انتظار کرو۔ پھر تمام مسلمانوں کو حتی کہ ان کی بیویوں کو بھی حکم ہوا کہ ان سے ملنے جلنے کے تمام تعلقات منقطع کرلو۔ چنانچہ اچانک انہوں نے اپنے آپ کو اس حالت میں پایا کہ مدینہ اور اطراف مدینہ کی پوری آبادی نے ان کی طرف سے رخ پھیر لیا تھا۔ ان کے عزیز و قریب تک ان کے سلام کا جواب نہیں دیتے تھے۔ آخر جب پورے پچاس دن اس حالت میں گزر گئے تو یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں قبولیت توبہ کی بشارت ملی۔ ان تین صحابیوں میں سے حضرت کعب بن مالک نے خود اپنی سرگزشت تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں تمام جنگوں میں میں نے رسول اللہ کے ساتھ شرکت کی اور اس موقع پر بھی نکلنے کا فیصلہ کرلیا تھا لیکن ایک کے بعد ایک دن نکلے گئے اور میں اسی خیال میں رہا کہ اپنے معاملات نپٹا لوں تو نکلوں۔ یہاں تک کہ آج کل ہوتے ہوتے پورا وقت نکل گیا۔ اتنے میں خبر اڑی کہ آنحضرت واپس آرہے ہیں۔ تب میری آنکھیں کھلیں، لیکن اب کیا ہوسکتا تھا، آپ حسب معمولی پہلے مسجد میں تشریف لائے اور جو لوگ کوچ میں شریک نہیں ہوئے تھے وہ آ آ کر معذرتیں کرنے لگے اور قسمیں کھا کھا کر اپنی سچائی کا یقین دلانے لگے۔ یہ کچھ اوپر اسی آدمی تھے، انہوں نے جو کچھ ظاہر کیا آنحضرت نے قبول کرلیا اور ان کے دلوں کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔ جب میری طرف متوجہ ہوئے تو مجھ سے یہ نہ ہوسکا کہ کوئی جھوٹی معذرت بنا کر کہہ دیتا۔ جو کچھ سچی بات تھی صاف صاف عرض کردی۔ آپ نے سن کر فرمایا اچھا جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کردے میں نے لوگوں سے پوچھا اور بھی کسی کو ایسا حکم ہوا ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ کو۔ اس کے بعد جب آنحضرت کا حکم ہوا کہ ہم تینوں سے کوئی بات چیت نہ کرے تو سب نے منہ پھیر لیا۔ اچانک دنیا کچھ سے کچھ ہوگئی، گویا کل تک جس دنیا میں تھا اب وہ دنیا ہی نہیں رہی تھی۔ میرے دونوں شریک ابتلا گھر میں بند ہو کر بیٹھ رہے تھے لیکن میں سخت جان تھا۔ اس حالت میں بھی روز گھر سے نکلتا، مسجد میں حاضری دیتا، جماعت میں شریک ہوتا اور پھر ایک گوشہ میں سب سے الگ بیٹھ جاتا۔ اکثر ایسا ہوا کہ نماز کے بعد قریب جاکر سلام عرض کرتا اور پھر اپنے جی میں کہتا دیکھوں سلام کے جواب میں آپ کے لبوں کو حرکت ہوتی ہے یا نہیں؟ آپ گوشہ چشم سے کبھی کبھی دیکھ لیتے لیکن جب میری نگاہ حسرت اٹھتی تو رخ پھر جاتا : بہر تسکین دل نے رکھ لی ہے غنیمت جان کر۔۔۔۔ وہ جو وقت ناز کچھ جنبش ترے ابرو میں ہے !!! ایک دن شہر سے باہر نکلا تو ابو قتادہ کے باغ تک پہنچ گیا، یہ میرا چچیرا بھائی تھا اور اپنے تمام عزیزوں میں اسے زیادہ محبوب رکھتا تھا۔ میں نے سلام کیا مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا، میں نے کہا ابو قتادہ ! کیا تم نہیں جانتے کہ میں مسلمان ہوں اور اللہ اور اس کے رسول کی اپنے دل میں محبت رکھتا ہوں؟ اس پر بھی اس نے میری طرف رخ نہیں کیا، لیکن جب میں نے یہی بات بار بار دہرائی تو صرف اتنا کہا اللہ ورسولہ اعلم اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے، تب مجھ سے ضبط نہ ہوسکا اور بے اختیار آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ وہاں سے واپس ہوا تو راستہ میں شام کا ایک نبطی مل گیا، وہ لوگوں سے کہہ رہا تھا کوئی ہے جو کعب بن مالک تک پہنچا دے لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا تو اس نے پادشاہ غسان کا ایک خط نکال کر میرے حوالہ کیا، اس میں لکھا تھا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے تمہارے آقا نے تم پر سختی کی ہے، تم ہمارے پاس چلے آؤ ہم تمہاری قدرومنزلت کریں گے۔ خط پڑھ کر میں نے کہا یہ ایک اور نئی مصیبت آئی، گویا پچھلی بلائیں کافی نہ تھیں۔ جب اس حالت پر چالیس راتیں گزر چکیں تو آنحضرت کی جانب سے ایک آدمی آیا اور کہا حکم ہوا ہے تم اپنی بیوی سے الگ ہوجاؤ، میں نے کہا طلاق دے دوں؟ کہا نہیں صرف علیحدگی کا حکم ہے، ہلال اور مرارہ کو بھی ایسا ہی حکم ہوا ہے، اس پر میں نے اپنی بیوی کو اس کے میکے بھجوا دیا۔ جب دس دن اور گزر گئے تو پچاسویں رات پر صبح آئی، میں اپنے مکان کی چھت پر نماز پڑھ کر بیٹھا تھا، اور ٹھیک ٹھیک وہی حالت تھی جس کی تصویر اللہ کے کلام نے کھینچ دی ہے۔ زندگی سے تنگ آگیا تھا اور خدا کی زمین ببھی اپنی ساری پہنائیوں پر میرے لیے تنگ ہوگئی تھی۔ اچانک کیا سنتا ہوں، کوئی آدمی کوہ سلع پر سے پکار رہا ہے، کعب بن مالک ! بشار ہو، تمہاری توبہ قبول ہوگئی۔ چہ مبارک سحرے بود و چہ فرخندہ شبے۔۔۔ آن شب قدر کہ ایں تازہ براتم دادند !! اب لوگ جوق در جوق مجھے مبارک باد دینے کے لیے دوڑے، ایک آدمی گھوڑا دوڑاتے ہوئے آیا، لیکن بشارت کی آواز اس سے بھی زیادہ تیز ثابت ہوئی تھی۔ میں مسجد میں حاضر ہوا تو آنحضرت لوگوں کے حلقہ میں بیٹھے تھے۔ آنحضرت کا قاعدہ تھا کہ جب خوش ہوتے تو چہرہ مبارک چمکنے لگتا، جیسے چاند کا ٹکڑا ہو، ہم لوگوں کو یہ بات معلوم تھی، اس لیے ہمیشہ آپ کے چہرہ پر نگاہ رکھتے تھے۔ چنانچہ میں نے دیکھا، اس وقت بھی چہرہ مبارک چمک رہا تھا، فرمایا کعب ! تجھے آج اس دن کے ورود کی بشارت دیتا ہوں جو تیری زندگی کا سب سے بہترین دن ہے۔ میں نے عرض کیا یہ بات آپ کی جانب سے ہوئی یا اللہ کی وحی سے؟ فرمایا اللہ کی وحی سے۔ (صحیحین) اس آیت کا نوٹ نوٹ کے حدود سے متجاوز ہوگیا لیکن تفصیل اس لیے ضروری ہوئی کہ معاملہ اہم ہے اور اس میں مسلمانوں کے لیے بڑی ہی عبرت و موعظت ہے۔ امام احمد بن حنبل کی نسبت منقول ہے کہ قرآن کی کوئی آیت انہیں اس قدر نہیں رلاتی تھی جس قدر یہ آیت اور کعب بن مالک کی روایت۔ اس سے معلوم ہوا کہ : (ا) خدمت حق میں تساہل ایک مومن کے لیے کیسا سخت جرم ہے کہ ایسے مخلص اور مقبول صحابی بھی اس درجہ سرزنش کے مستحق ہوئے، اور تمام مسلمانوں کو ان سے قطع علائق کا حکم دیا گیا۔ (ب) مسلمانوں کی اطاعت و اتثال کا کیا حال تھا کہ جونہی انقطاع علائق کا حکم ہوا، تمام شہر نے بیک دفعہ رخ پھیر لیا۔ چوری چھپے بھی کسی نے اس حکم کی خلاف ورزی نہیں کی، حتی کہ ان کے محبوب سے محبوب عزیزوں کو بھی یہ خیال گزرا کہ ایک لمحہ کے لیے اس پر عمل کریں یا کم از کم تعمیل میں نرمی و تساہل سے کام لیں۔ ابو قتادہ کا حال خود حضرت کعب کی زبان سے سن چکے ہو جب انہوں نے کہا تم تو اس سے بے خبر نہیں ہوسکتے کہ میں سچا مسلمان ہوں۔ اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہوں، پھر مجھ سے رخ کیوں پھیر لیا ہے؟َ تو ابو قتادہ نے صرف یہی کہا کہ اللہ ورسولہ اعلم۔ ان تین لفظوں میں اس عہد کے مسلمانوں کی ذہنیت کی پوری تصویر اتر آئی ہے یعنی مجھے معلوم تو سب کچھ ہے، جانتا ہوں کہ تم پکے مسلمان ہو، لیکن اپنے جاننے کو کیا کروں؟ جاننتا تو اللہ اور اس کے رسول کا ہے اور اس کا حکم یہی ہے کہ تم سے کوئی واسطہ نہ رکھوں۔ پھر اس اطاعت کے لیے نہ تو کوئی مادی قوت کام میں لائی گئی تھی۔ نہ عمال حکومت کا ڈر تھا، نہ قانون و عدالت کا، صرف ایک شخص کے لبوں نے حرکت کی تھی اور اتنی بات سب کو معلوم ہوگئی تھی کہ اس کی مرضی یہی ہے۔ بس اتنی بات کا معلوم ہوجانا اس کے لیے کافی تھا کہ سب کے دل مجسم اطاعت و اتثال بن جائیں۔ (ج) پھر یہ بھی دیکھو کہ مسلمانوں کی باہمی اخوت و محبت کا کیا حال تھا؟ اس سختی کے ساتھ حکم کی تعمیل تو سب نے کی لیکن ساتھ ہی ان کی مصیبت کے غم سے کوئی دل خالی بھی نہ تھا۔ سب کے دلوں کو لگی تھی کہ ان کی توبہ قبول ہوجائے، جونہی قبولیت کا اعلان ہوا ایک پر ایک دوڑنے لگا کہ ان سختی کشان عشق کو سب سے پہلے میری زبان مژدہ قبولیت ملے، کوہ سلع پر سے جس نے پکار کر سب سے پہلے بشارت سنائی تھی حضرت کعب نے گو اس کا نام نہیں لیا لیکن وہ حضرت ابوبکر تھے۔ تعلیم و تعلم کے نظام کا قیام : اس سے پہلے آیت (٩٧) میں بدوی قبائل کی نسبت فرمایا تھا کہ احکام دین سے بے خبری ان سے زیادہ متوقع ہے۔ کیونکہ تعلیم و تربیت سے محروم رہتے ہیں، اب یہاں اشارہ کیا کہ تعلیم کا ایک عام نظم قائم کرنا چاہیے، یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تمام مسلمان گھر چھوڑ کر تحصیل علم کے لیے نکل کھڑے ہوں۔ پس ایسا کرنا چاہیے کہ ہر بستی اور ہر گروہ میں سے کچھ لوگ اس کام کے لیے وقف ہوجائیں۔ وہ تعلیم و تربیت کے مرکز میں (اور اس وقت مرکز مدینہ تھا) رہ کر دین میں بصیرت پیدا کریں اور پھر اپنی آبادیوں میں جاکر دوسروں کو تعلیم دیں۔ قرآن کے یہی اشارات ہیں جنہوں نے مسلمانوں میں اول دن سے تحصیل علم کا عام ولولہ پیدا کردیا تھا، حتی کہ انہوں نے ایک صدی کے اندر ہی اندر اس کا ایک ایسا عالمگیر نظام قائم کردیا جس کی نظیر دنیا کی کسی قوم کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ معرکہ یرموک کی پیشین گوئی : آیت (٢٣) میں غالبا اس طرف اشارہ تھا کہ گو تبوک میں رومیوں سے مقابلہ نہیں ہوا کیونکہ انہوں نے حملہ کا ارادہ ملتوی کردیا تھا، لیکن وہ پھر تیاریاں کرنے والے ہیں اور ضروری ہے کہ مسلمان جنگ کے لیے مستعد رہیں۔ اس صورت میں الذین یلونکم۔ کا مطلب یہ ہوگا کہ جو دشمن تمہاری سرحد سے متصل ہیں۔ یعنی شام کے رومی اور عرب کے عیسائی قبائل، چنانچہ چند سالوں کے بعد ایسا ہی ہوا، اور یرموک کا معرکہ پیش آیا۔ چونکہ رومیوں کا مقابلہ اس عہد کی سب سے زیادہ طاقتور اور متمدن شاہنشاہی کا مقابلہ تھا اس لیے فرمایا۔ اس قوت سے لڑو کہ وہ تمہاری سختی محسوس کریں، مسلمانوں نے اس حکم کی جس طرحح تعمیل کی اس کا اندازہ صرف اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ہر قل کی فوج بالاتفاق دو لاکھ سے زیادہ تھی اور مسلمان زیادہ سے زیادہ چوبیس ہزار تھے لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیشہ کے لیے رومی حکومت کا شام میں خاتمہ ہوگیا۔ التوبہ
119 التوبہ
120 التوبہ
121 التوبہ
122 التوبہ
123 التوبہ
124 التوبہ
125 التوبہ
126 قانون انذار و تنبیہ : آیت (١٢٦) میں اگرچہ منافقوں کا ذکر ہے لیکن قرآن کے تمام بیانات کی طرح یہاں بھی مقصود یہ ہے کہ غفلت انسانی کی ایک عام تصویر سامنے آجائے۔ افراد کی زندگی ہو یا جماعت کی لیکن ہر ہلاکت و بربادی کے بعد تم سراغ لگاؤ گے تو پاؤ گے کہ ان کی ہلاکت اچانک ان پر نہیں آگری تھی، وہ مدتوں تک ان پر منڈلاتی رہی، لیکن اتری نہیں، وہ اپنی آمد کی علامتیں بھیجتی رہی، ان کی زندگی کا کوئی برس کوئی مہینہ بلکہ کوئی دن ان سے خالی نہیں گیا۔ لیکن جب یہ ساری تنبیہیں بیکار ہوئیں اور وہ غفلت و گمراہی سے باز نہ آئے، تو پھر ان پر اتر آئی، کیونکہ یہ ان کی اجل تھی اور جب اجل آجائے تو وہ ٹل نہیں سکتی۔ خدا کے روحانی قوانین بھی اس کے جسمانی قوانین کی طرح ہیں، تم بدپرہیزی کرتے ہو تو فورا نہیں مرجاتے، البتہ موت کے پیام آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ خدا کے روحانی قوانین بھی اس کے جسمانی قوانین کی طرح ہیں، تم بدپرہیزی کرتے ہو تو فورا نہیں مرجاتے، البتہ موت کے پیام آنا شروع ہوجاتے ہیں، یہ پیام کیا ہیں؟ بیماریاں ہیں جو موت کی طرف سے آنے لگتی ہیں تاکہ تمہیں بروقت ہوشیار کردیں۔ اگر تم ہوشیار ہوگئے تو وہ رک جائے گی، نہ ہوئے تو پھر تمہارے سرہانے آ کھڑی ہوگی۔ ٹھیک ایسا ہی معاملہ جماعتوں اور قوموں کے ساتھ بھی پیش آتا ہے اور ایسا ہی معاملہ افراد کی معنوی سعادت و شقاوت کا بھی سمجھو۔ جو نصیحت پکڑتے اور باز آجاتے ہیں وہ سنت الہی کے مطابق ہلاکت سے بچ جاتے ہیں۔ جو مصر رہتے ہیں ہلاک ہوجاتے ہیں، یہی حقیقت ہے جسے قرآن نے جابجا امہال، تربص اور استمتاع سے بھی تعبیر کیا ہے۔ (تشریح کے لیے دیکھو تفسیر فاتحہ) برات ایک وداعی موعظت تھی : امام بخاری نے براء سے روایت کی ہے کہ آخری سورت جو نازل ہوئی برات ہے اور حاکم وغیرہ نے ابی بن کعب اور ابن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ سب سے آخری آیات جو نازل ہوئیں برات کی آخری دو آیتیں ہیں، لیکن تمام روایتوں کو جمع کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے برات سب سے آخری نہیں ہوسکتی۔ کم از کم (واتقوا یوما ترجعون فیہ الی اللہ) اور سورۃ نصر سا کے بعد ضرور نازل ہوئی ہے۔ بہرحال آخری ہو یا نہ ہو لیکن باعتبار نزول کے یہ آخری کلام میں سے ضرور ہے اور اسی لیے بحیثیت مجموعی پوری سورت میں اور آخری دو آیتوں میں خصوصیت کے ساتھ اس طرح کا طرز خطاب پایا جاتا ہے جیسے امت کو آخری احکام دیے جارہے ہوں یا آخری موعظت کا پیام ہو۔ چنانچہ آخری دو آیتوں میں عرب کی اس نسل سے خطاب ہے جو اس وقت مخاطب تھی، فرمایا اللہ کا رسول تم میں آگیا، اور اس نے اپنا فرض رسالت ادا کردیا، وہ کسی دوسری جگہ سے تم میں نہیں آنکلا تھا۔ سنت الہی کے مطابق خود تم ہی میں پیدا ہوا اور چونکہ وہ تم ہی میں سے ہے اس لیے اول سے لے کر آخر تک اس کی ساری باتیں تمہاری نگاہوں کے سامنے رہی ہیں۔ اس کا لڑکپن بھی تم میں گزرا، اس کی جوانی کے دن بھی تم میں بسر ہوئے، پھر اس نے نبوت کا اعلان کیا تو تم سے کہیں چھپ کر زندگی بسر نہیں کی، اس کی ساری باتیں تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے، پھر جو کچھ گزرنا تھا گزرا، اور تم نے مظلومی و بیکسی کے اعلان بھی سن لیے، فتح و کامرانی میں ان تصدیق بھی کرلی، تم میں کوئی نہیں جو اس کی بے داغ زندگی کا شاہد نہ ہو اور کوئی نہیں جس نے اس کی ایک ایک بات کی سچائی آزما نہ لی ہو۔ پھر ان کے ایک ایسے وصف پر زور دیا جو منصب رسالت کے لیے اور ہر اس انسان کے لیے جو قوم کی رہنمائی و قیادت کا مقام رکھتا ہو سب سے زیادہ ضروری وصف ہے یعنی ابنائے جنس کے لیے شفقت و رحمت، فرمایا اس سے زیادہ کوئی بات تمہارے لیے یقینی نہیں ہوسکتی کہ وہ سرتا پا شفقت و رحمت ہے۔ وہ تمہارا دکھ برداشت نہیں کرسکتا، تمہاری ہر تکلیف خواہ جسم کے لیے ہو خواہ روح کے لیے، اس کے دل کا درد و غم بن جاتی ہے، وہ تمہاری بھلائی کی خواہش سے لبریز ہے، وہ اس کے لیے ایسا مضطرب قلب رکھتا ہے کہ اگر اس کی بن پڑتی تو ہدایت و سعادت کی ساری پاکیاں پہلے ہی دن گھونٹ بنا کر پلا دیتا، پھر اس کی یہ شفقت و محبت صرف تمہاری ہی لیے نہیں ہے، وہ تو تمام مومنوں کے لیے خواہ عرب کے ہوں خواہ عجم کے روف رحیم ہے۔ روف رافت سے ہے اور اس کا اطلاق ایسی رحمت ہر پوتا ہے جو کسی کی کمزوری و مصیبت پر جوش میں آئے، پس رافت رحمت کی ایک خاص صورت ہے اور رحمت عام ہے، دونوں کے جمع کردینے سے رحمت کا مفہوم زیادہ قوت و تاثر کے ساتھ واضح ہوگیا۔ خدا نے یہ دونوں وصف جابجا اپنے لیے فرمائے ہیں اور یہاں اپنے رسول کے لیے بھی فرمائے۔ اس کے بعد فرمایا کہ اگر یہ مجمع مخاطبین یہ سب کچھ دیکھ لینے اور تجربہ کرلینے کے بعد بھی ادائے فرض سے اعراض کرے تو اے پیغمبر ! تم آخری اعلان کردو کہ میرے لیے اللہ بس کرتا تھا اور اب بھی اللہ بس کرتا ہے، وہ اپنے کلمہ حق کا محافظ ہے اور اس کی مشیت نے جو کچھ فیصلہ کردیا ہے بہرحال ہو کر رہنے والا ہے۔ اس کا قیام و عروج کسی خاص ملک اور قوم کی پشت پناہی پر موقوف نہیں، میرا بھروسہ اسی پر تھا اور سی پر ہے، میں اپنے فرض سے سکبدوش ہوگیا۔ یہ پیام موعظت یہاں کیوں ضروری ہوا؟ اس کے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ دو باتیں سامنے رکھ لی جائیں : سورت کے نازل کا وقت سورت کے مطالب، یہ سورت اس وقت نازل ہوئی جب تمام عرب کیں کلمہ حق سربلند ہوچکا تھا اور گو قرآن نے دعوت حق کی عالمگیر فیروز مندیوں کی خبر دے دی تھی تاہم ان لوگوں کے لیے جو کل تک غربت و بے کسی کی انتہائی مصیبتوں میں رہ چکے تھے تمام عرب کا مسلمان ہوجانا بڑی سے بڑی کامرانی تھی اور اس لیے ناگزیر تھا کہ ایک طرح کی فارغ البالی اور بے پروائی طبیعتوں میں پیدا ہوجائے، غزوہ تبوک کی تیاریوں میں جو بعضوں سے تساہل ہوا تو اس کی تہ میں بھی اس حالت کی جھلک صاف دکھائی دے رہی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ اس سورت میں اس تفصیل اور شدت کے ساتھ استعداد کا اور عزم و ہمت کی تلقین کی گئی کہ اس کی نظیر کسی دوسری سورت میں نہیں ملتی۔ پس یہاں اس آخری موعظت و اعلان کا مطلب یہ ہے کہ اہل عرب پر دو باتیں واضح کردی جائیں۔ ایک یہ کہ جو کچھ ہوچکا ہے یہ معاملہ کی تکمیل نہیں ہے بلکہ محض ابتدا ہے اور اس لیے ادائے فرض کا مطالبہ بدستور باقی ہے۔ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ کام سے فارغ البال ہوگئے، دوسری یہ کہ کلمہ حق اپنے عروج کے لیے تمہارا محتاج نہیں۔ اگر آئندہ تم نے کوتاہی کی تو خود نقصان اٹھاؤ گے دعوت حق کا کچھ نہیں بگڑے گا، اس کے لیے صرف اللہ کی جہانداری عالم کے عرش عظیم کا مالک ہے نصرت و حمایت کفایت کرتی ہے۔ مندرجہ بالا سطور سے وہ تمام الجھاؤ دور ہوگئے جو ان دو آیتوں کے بارے میں پیدا ہوگئے تھے، چونکہ ان آیتوں میں اہل عرب سے خطاب ہے اور اعراض کی صورت میں توکل علی اللہ کی تلقین کی گئی ہے اور یہ اسلوب بیان زیادہ تر مکی سورتوں کا رہا ہے اس لیے مفسرین نے خیال کیا یہ مدنی آیتیں نہیں ہوسکتیں اور سورۃ برات میں ان کا ہونا تعجب انگیز ہے۔ پھر اس استعجاب کو دور کرنے کے لیے طرح طرح کی توجیہیں کی گئیں لیکن مندرجہ بالا تفسیر کے بعد وہ سب غیر ضروری اور بے محل ہوگئیں۔ سورت کے بعض مہمات کی تشریح ابھی باقی ہے : اہل کتاب سے قتال کا حکم کیوں دیا گیا : آیت (٢٩) میں عرب کے ان یہودیوں اور عیسائیوں سے بھی تمام معاہدات فسخ کردینے کا حکم دیا ہے جنہوں نے یکے بعد دیگرے معاہدوں کی خلاف ورزیاں کی تھیں اور مسلمانوں کے امن و عافیت کے خلاف ایک بہت بڑا خطرہ بن تئے تھے، اور حکم دیا ہے کہ مشرکین عرب کی طرح ان کے خلاف بھی اب اعلان جنگ ہے۔ اسلام کا جب ظہور ہوا تو حجاز میں یہودیوں کی متعدد جماعتیں آباد تھیں لیکن عیسائیوں کی کوئی قریبی آبادی نہ تھی، وہ یا تو یمن میں تھے یا عرب اور شام کے سرحدی علاقے میں، یہودیوں کا جو طرز عمل رہا اس کی طرف اشارات گزر چکے ہیں، عیسائیوں کی حالت یہودیوں سے مختلف رہی، ان کی طبیعت میں وہ جمود اور سختی نہ تھی جو یہودیوں میں طبیعت ثانیہ ہوچکی تھی اس لیے جب انہوں نے اس دعوت کا حال سنا تو مخالفت کا جوش پیدا نہیں ہوا بلکہ اس کی طرف مائل ہونے لگے۔ چنانچہ یمن کے عیسائیوں نے ابتدا سے موافقانہ روش اختیار کی تھی اور خود اپنی خوشی سے جزیہ دینا قبول کرلیا تھا۔ پھر خودبخود اسلام نے اپنی راہ وہاں نکال لی۔ اننہی کے وفد سے وہ مخاطبات ہوئے تھے جو سورۃ آل عمران میں گزر چکے ہیں۔ عرب سے باہر کے جن عیسائیوں تک اسلام کی دعوت پہلے پہل پہنچی ان کا بھی یہی حال رہا، چنانچہ تاریخ اسلام میں سب سے پہلے جو بادشاہ مسلمان ہوا وہ حبش کا عیسائی فرمانروا نیگوش تھا جسے عرب نجاشی کہا کرتے تھے اور جس کی حق شناسی اور استعداد ایمانی کی مدح خود کلام الہی نے کی ہے۔ اس عہد کے یہودیوں اور عیسائیوں کے اس اختلاف حال کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے اور اس کی علت بھی واضح کردی ہے۔ لیکن آگے چل کر جب اسلام کی دعوت زیادہ پھیل گئی تو وہ عیسائی ریاستیں جو عرب اور شام کے سرحدی علاقہ میں قائم ہوگئی تھیں اور رومی حکومت کے ماتحت تھیں اس تحریک کی ترقی گوارا نہ کرسکیں اور رومی شاہنشاہی کی پشت گری سے مغرور ہو کر آمادہ پیکار ہوگئیں۔ سب سے پہلا معاملہ حضرت حارث بن عمیر کی شہادت کا پیش آیا۔ آنحضرت نے انہیں دعوت اسلام کا خط دے کر موتہ بھیجا تھا جہاں کا رئیس شرحبیل بن عمرو غسانی تھا، اس نے انہیں بغیر کسی جرم و قصور کے قتل کرا دیا۔ اس صریح غدر و ظلم نے پیغمبر اسلام کو جنگ پر مجبور کردیا اور ایک فوج ٨ ہجری میں روانہ کی گئی۔ اس وقت شہنشاہ قسطنطنیہ بھی شام میں مقیم تھے۔ اس سے رئیس موتہ نے مدد مانگی اور شاہی فوج بھی میدان میں آگئی۔ تاہم فتح مسلمانوں ہی کو ہوئی۔ اس واقعہ کے بعد شام کے تمام عرب قبائل نے تہیہ کرلیا کہ مسلمانوں پر حملہ کردیں اور شہنشاہ قسطنطنیہ نے بھی ان کی اعانت کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ شاہی فوجیں شام میں جمع ہونے لگیں اور پیغمبر اسلام کو خود دفاع کے لیے نکلنا پڑا۔ یہی دفاعی اقدام ہے جو دفاعی اقدام ہے جو غزوہ تبوک کے نام سے مشہور ہوا۔ لیکن جب پیغمبر اسلام تبوک پہنچے تو معلوم ہوا مسلمانوں کے اس بے باکانہ اقدام نے دشمنوں کے ارادے پست کردیے اور اب حملہ کا ارادہ ملتوی ہوگیا ہے۔ اس سورت کی یہ آیتیں اس واقعہ کے بعد ہی نازل ہوئی تھیں اور چونکہ اب مسلمانوں پر اس جانب سے سخت حملہ ہونے والا تھا اور دوسری طرف عرب کے یہودی بھی اپنی سازشوں میں سرگرم تھے اس لیے ناگزری ہوگیا تھا کہ مشرکین عرب کی طرحح ان کے خلاف بھی جنگ کا اعلان کردیا جائے۔ پس اس آیت میں جنگ کرو کے حکم سے مقصود جنگ کی یہی صورت ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ دنیا کے تمام یہودیوں اور عیسائیوں پر محض ان کے یہودی اور عیسائی ہونے کی وجہ سے حملہ کردو جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجائیں یا جزیہ نہ دیں جیسا کہ معترضین اسلام نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسا مطلب صرف وہی قرار دے سکتا ہے جو پورے قرآن سے پیغمبر اسلام کی زندگی سے صحابہ کے حالات سے اور تاریخ سے یک قلم آنکھیں بند کرلے۔ حکم قتال کے ساتھ یہ بات بھی واضح کردی کہ ان جماعتوں کو دعوت حق سے کیوں بغض ہوا اور کیوں راستی و عدالت سے منہ موڑ کر مسلمانوں کی ہلاکت و بربادی کے درپے ہوگئے؟ چنانچہ پہلے اہل کتاب کا نام نہیں لیا بلکہ ان کے چار سلبی وصف بیان کیے۔ یعنی جن لوگوں کے اوصاف کا یہ حال ہے ان سے ر استی و عدالت اور پاس عہد و قرار کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی اور وہ پیروان حق کی عداوت سے کبھی باز آنے والے نہیں، پس اگر ان سے جنگ نہ کی جائے تو چارہ کار کیا رہا ہے؟ فرمایا باوجود اہل کتاب ہونے کے اب ان کا حال یہ ہے کہ نہ تو اللہ پر ایمان باقی رہا ہے نہ آخرت پر، زبان سے دعوی کرتے ہیں کہ ہم مومن ہیں لیکن ان کا ہر عمل اعلان کرتا ہے کہ مومن نہیں۔ پھر اللہ اور اس کے سول نے جو کچھ حرام کردیا تھا اب ان کے لیے حرام نہیں ہے رہا۔ کیونکہ اول تو ہوائے نفس سے حیلے نکال کر کتنی ہی حرام چیزیں حلال کرلیں پھر حلت و حرمت کا حق بھی خدا و رسول کی جگہ اپنی فقہیوں اور پیشواؤں کے ہاتھ میں دے دیا، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جس دین حق کی انہیں حضرت موسیٰ اور مسیح علیہما السلام نے تعلیم دی تھی اسے یک قلم چھوڑ چکے ہیں۔ یہاں اہل کتاب کے ایمان کی اسی طرح نفی کی ہے جس طرح سورۃ بقرہ میں کی ہے کہ ( ومن الناس من یقول امنا باللہ وبالیوم الاخر وما ھم بمومنین) حکم جزیہ : (ب) اس کے بعد فرمایا (حتی یعطوا الجزیۃ عن ید وھم صاغرون) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھئ سے اٹھا کر جزیہ دے دیں اور ان کا گھمنڈ ٹوٹ چکا ہو۔ نہ صرف عربی زبان میں بلکہ تقریبا ہر زبان میں یہ محاورہ موجود ہے کہ کسی چیز کو خود اپنے ہاتھ سے دے دینا رضا مندی سے دینا ہوتا ہے۔ مثلا اردو میں کہیں گے تم اپنے ہاتھ سے اٹھا کر جو دے دو گے ہم لے لیں گے، یعنی اپنی خوشی سے جو کچھ دے دو وہی ہمارے لیے بہت ہے، ٹھیک مطلب عربی میں بھی اس ترکیب کا ہوتا ہے۔ پس مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنی خوشی سے جزی ہدینا منظور کرلیں اور ان کا گھمنڈ اور ظلم جس نے انسان کے امن و راحت کو خطرہ میں ڈال دیا تھا باقی نہ رہے۔ (ج) عربی میں جزیہ خراج کے معنی میں بھی بولا گیا ہے جو اراضی سے وصول کیا جاتا ہے اور ٹیکس کے لیے بھی جو اشخاص پر عائد ہوتا ہے۔ ایران اور روم میں اس طرح کے ٹیکس لیے جاتے تھے اور عرب کے جن حصوں نے ان کی باج گزاری منظور کرلی تھی وہ اس طرح ٹیکسوں سے آشنا ہوگئے تھے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ نجران (یمن) کے عیسائیوں کا جب وفد آیا تو اس نے خود یہ بات پیش کی کہ ہم مسلمان تو نہیں ہوتے لیکن اطاعت قبول کرلیتے ہیں۔ آپ ہم پر جزیہ مقرر کردیں، غالبا یہ جزیہ لینے کا پہلا واقعہ ہے جو تاریخ اسلام میں پیش آیا، اس کے بعد بحرین کے یہودیوں اور مجوسیوں سے جزیہ لیا گیا۔ (د) یہاں جزیہ لینے کا جو حکم دیا گیا ہے وہ اگرچہ یہودیوں اور عیسائیوں کے ذکر میں آیا ہے لیکن اصلا حکم تمام غیر مسلموں کے لیے ہے جو اسلامی حکومت کے ماتحت رہنا منظور کرلیں۔ چنانچہ صدر اول سے لے کر آخر تک تمام اسلامی حکومتوں کا عمل اسی پر رہا۔ خود آنحضرت نے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا، صحابہ نے صحابیوں سے لیا اور خلفا بنو امیہ و عباسیہ کا سندھ کے ہندؤں اور پیروان بدھ سے لینا معلوم ہے۔ البتہ عرب کے غیر مسلموں کے بارے میں اختلاف ہے اور امام ابو حنیفہ اور قاضی ابو یوسف اس طرح گئے ہیں کہ ان سے جزیہ پر مصالح نہیں ہوسکتی لیکن اس بارے میں صحیح مذہب جمہور ہی کا ہے۔ یعنی عرب و عجم کی کوئی تفریق نہیں کیونکہ خود آنحضرت اور صحابہ کا عرب کے غیر مسلموں سے جزیہ لینا ایک مسلم واقعہ ہے۔ باقی رہے مشرکین عرب تو ان کا سوال عملا پیدا ہی نہیں ہوا کیونکہ سورۃ برات کے نزول کے بعد تمام مشرکین عرب مسلمان ہوچکے تھے اور حکمت الہی کا فیصلہ یہی تھا کہ جاہلیت عرب کا شرک پھر یہاں سر نہ اٹھائے۔ (ہ) قرآن نے غیر مسلموں سے جزیہ لینے کا حکم کیوں دیا؟ اس لیے کہ حق و انصاف کا مقتضا یہی تھا اور اس لیے کہ وہ چاہتا تھا مسلمانوں کے نظام حکومت میں غیر مسلموں پر اتنا بوجھ نہ ڈالا جائے جتنا بوجھ مسلمانوں کو اٹھانا پڑے گا۔ اسلام نے مسلمانوں پر جنگی خدمت فرض کردی تھی یعنی آج کل کی اصطلاح میں فوجی قانون جبری تھا اور اس لیے ضروری تھا کہ جو غیر مسلم اسلامی حکومت کے ماتحت شہری زندی بسر کریں وہ بھی ملک کی حفاظت کے لیے جنگ میں شریک ہوں لیکن اسلام نے اس اسے انصاف کے خلاف سمجھا کہ اس بارے میں غیر مسلموں پر جبر کیا جائے، اس نے یہ بات ان کی مرضی پر چھوڑ دی اور کہا اگر خود اپنی خوشی سے چاہو تو جنگی خدمات میں مسلمانوں کی طرح شریک ہو، نہ شریک ہونا چاہو تو اس کے بدلے ایک سالانہ رقم ادا کردیا کرو۔ یہی رقم تھی جو غیر مسلموں کے لیے جزیہ ہوئی۔ فی الحقیقت انسان کے عقائد و جذبات کی آزادی کا یہ ایسا اعتراف تھا جس کا اس عہد میں کوئی دوسری قوم تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ جنگ کے لیے نکلنا اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ لینا ہے، مسلمان مسلمانوں کو اس کے لیے مجبور کرسکتے ہیں لیکن انہیں کیا حق ہے کہ غیر مسلموں کو اس کے لیے مجبور کریں؟ چنانچہ صحابہ کرام کے زمانہ میں غیر مسلموں کو جو سرکاری فرامین دییے گئے ان میں ہم صاف صاف اس کی تصریح پاتے ہیں۔ جو فوج میں شریک ہوگا اس سے جزیہ نہیں لیا جائے گا، جو نہ ہوگا اس سے جزیہ لیا جائے گا، بعض فرمانوں میں یہاں تک کہ سہولت دی ہے کہ اگر عام طور پر شریک نہیں ہوتے، صرف ایک برس شریک ہوگئے تو اس برس کی رقم معاف ہوجائے گی، طبری نے تاریخ میں اور بلاذری نے فتوح البلدان میں یہ فرامین نقل کیے ہیں۔ یہ تو پہلی علت ہوئی، دوسری علت کا یہ حال ہے کہ اسلام نے مسلمانوں پر کئی طرح کے ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا تھا۔ زکوۃ انہیں ادا کرنی چاہیے، عام صدقات و خیرات میں انہیں حصہ لینا چاہیے، جنگ پیش آجائے تو اس کا بوجھ بھی اٹھانا چاہیے۔ پس ضروری تھا کہ غیر مسلم رعایا پر بھی ایسا ہی بوجھ ڈالا جاتا کیونکہ جہاں تک آزادی و حقوق کا تعلق ہے ان میں اور مسلمانوں میں کوئی امتیاز نہیں کیا گیا تھا، لیکن اسلام نے ایسا نہیں کیا۔ غیر مسلموں کو حقوق تو مسلمانوں ہی کی طرح دیے لیکن مالی بوجھ مسلمانوں کی طرح نہیں ڈالا۔ ان تمام ٹیکسوں کے بدلے جو مسلمانوں پر عائد کیے تھے صرف ایک ہی ٹیکس کی ادائیگی ضروری ٹھہرائی، یعنی جزیہ کی۔ اور وہ بھی انہیں معاف کردیا جو فوجی خدمت کے لیے تیار ہوجائیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فی الحقیقت غیر مسلموں کے لیے کوئی بوجھ بھی نہ رہا اور حقوق سب کے سب رہے۔ یعنی اگر ایک غیر مسلم ذمی فوجی خدمت سے انکار نہ کرے (جو خود اسی کے وطن کی حفاظت کے لیے ہوگی) تو وہ اسلامی حکومت میں آزادی و حقوق کی ٹھیک ویسی ہی زندگی بسر کرے گا جیسی ایک مسلمان بسر کرسکتا ہے لیکن مسلمان کی طرح اسے کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ کیا اس طرز عمل کی کوئی دوسری نظیر تاریخ عالم سے پیش کی جاسکتی ہے؟ (و) جہاں تک غیر مسلموں کے مذہبی، معاشرتی اور شہری حقوق کا تعلق ہے موسیولیبان کا یہ قول کفایت کرتا ہے کہ اسلامی حکومت کے ماتحت غیر مسلموں ذمیوں کو وہ سب کچھ حاصل تھا جو کسی قوم کو حاصل ہوسکتا ہے، البتہ صرف ایک بات کا حق نہ تھا، یعنی وہ خلیفہ نہیں ہوسکتے تھے۔ (ز) آیت (٣٠) اور اس کے بعد کی آیتوں میں یہود و نصاری کی ان گمراہیوں کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں پڑ کر وہ دین حق سے منحرف ہوگئے۔ حضرت عیزر (علیہ السلام) کی نسبت یہودیوں کا اعتقاد : یہاں یہودیوں کا یہ قول جو قول نقل کیا ہے کہ عزیر خدا کے بیٹے ہیں تو اس سے مقصود یہودیوں کا عام اعتقاد نہیں ہے۔ بلکہ صرف ان یہودیوں کا اعتقاد ہے جو یثرب میں آباد تھے، چنانچہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ سلام بن شکم، نعمان بن اوفی، ابو انس، شاش بن قسی اور مالک بن صیف کے روسائے یہود میں سے تھے، آنحضرت کے پاس آئے اور کہا ہم آپ کی کس طرح پیروی کرسکتے ہیں جبکہ آپ نے ہمارا قبلہ ترک کردیا اور عزیر کو ابن اللہ نہیں مانتے۔ (ابن جریر) عزیر سے مقصود عزرا ہیں، بخت نصر کے حملہ بیت المقدس میں تورات کے تمام نسخے جل گئے تھے، اس لیے جب یہودی قید بابل سے چھوٹ کر واپس آئے تو ان کے پاس تورات کا کوئی نسخہ نہ تھا اور ان کی نئی نسل عبرانی زبان سے بھی نا آشنا ہوگئی تھی، یہ حالت دیکھ کر حضرت عزرا نے کلدانی حروف میں اور ایسی عبرانی میں کہ کلدانی زبان سے مخلوط تھی ازسر نو تورات کے صحائف لکھے اور یہی اصلی نسخہ کا بدل سمجھا گیا۔ چونکہ حضرت عزرا نے ازسر شریعت مرتب کی اور قید بابل کے بعد نئے دور کے بانی ہوئے، اس لیے یہودیوں میں ان کی شخصیت بہت ہی مقدس مانی گئی ہے۔ حتی کہ حضرت موسیٰ کا ہم رتبہ اور شریعت کا دوسرا بانی کہا گیا۔ چنانچہ آج تک یہودیوں کا عام اعتقاد یہ ہے کہ اگر اس عہد میں لوگوں سے قصور نہ ہوا ہوتا تو عزرا بھی وہ سارے معجزے دکھا دیتے جو حضرت موسیٰ نے دکھائے تھے۔ جب یہودیوں کا ان کی نسبت عام اعتقاد یہ ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہود یثرب کا غلو موجب تعجب ہو۔ شرح اتخاذ اربابا من دون اللہ : اس کے بعد آیت (٣١) میں اس گمراہی کی طرف اشارہ کیا ہے جو یہود و نصاری کی تمام فکری و عملی گمراہیوں کا سرچشمہ تھی یعنی انہوں نے خدا کو چھوڑ کر اپنے علماء و مشائخ کو پروردگار بنا لیا ہے، پروردگار بنا لینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ انہیں رب السموات والارض کہتے ہیں، کیونکہ اس طرح تو کبھی کسی نے کسی کو رب نہیں بنایا۔ مطلب یہ ہے کہ یہودیوں نے اپنے فقہیوں کو اور عیسائیوں نے اپنے پوپ اور اس کے مقرر کیے ہوئے پادریوں کو دین کے بارے میں جو منصب دے دیا ہے، ور وہ اپنے زاہدوں اور دریشوں کی نسبت جیسا کچھ اعتقاد رکھتے ہیں وہ فی الحقیقت انہیں مثل پروردگار کے بنا لینا ہے۔ چنانچہ خود پیغمبر اسلام نے اس کا یہی مطلب قرار دیا۔ عدی بن حاتم طائی جو پہلے عیسائی تھے، کہتے ہیں آنحضرت نے جب براۃ کی یہ آیت پڑھی تو میں نے عرض کیا، ہم انہیں پوجتے تو نہیں، آپ نے کہا کیا ایسا نہیں ہے کہ جس بات کو وہ حرام ٹھہرا دیتے ہیں تم حرام سمجھ لیتے ہو، جس بات کو حلال کردیتے ہیں حلال مان لیتے ہو؟ عرض کیا ہاں، فرمایا یہی انہیں پوجنا ہے۔ (ترمذی و بیہقی فی السنن) اس سے معلوم ہوا کہ اپنے دینی پیشواؤں کو تشریع دینی کا حق دے دینا یعنی اس بات کا حق دے دینا کہ وہ جو کچھ اپنی خواہش اور رائے سے ٹھہرا دیں اس کی بلا چوں و چرا تقلید و اطاعت کرنی چاہیے قرآن کے نزدیک انہیں رب بنا لینا ہے، کیونکہ اس بات کا حق اللہ کے سوا اور اللہ کی وحی کے مبلغ کے سوا اور کسی کو نہیں، پس جب دوسروں کو بھی یہ حق دے دیا گیا تو گویا وہ خدائی میں شریک کرلیے گئے۔ عیسائیوں میں ایک انسان بھی ایسا نہیں ہوا جس نے پوپ اور اس کے مقرر کیوے ہوئے فادرز کو خدا سمجھا ہو اور نہ یہودیوں نے کبھی اپنے ربیوں کو ایسا سمجھا لیکن ان کے عمل کا یہی حال رہا، گویا حق و باطل، حلال و حرام، عذاب و ثواب اور جنت و دوزخ کی تقسیم کا سارا اختیار انہی کے قبضہ میں ہے، وہ جو حلال کردیں حلال ہے، جو حرام کردیں حرام ہے، جسے چاہیں بخشش کا پروانہ دے دیں جسے چاہیں محروم و مردود کردیں، جنت کی کنجی بھی انہی کے ہاتھ میں ہے۔ دوزخ کا داروغہ بھی انہی کے زیر حکم، وہ ایسے مقدس ہیں کہ کوئی بات ان کی غلط نہیں ہوسکتی۔ اور اللہ نے انہیں ایسا بااختیار کردیا ہے کہ ان کے حکم سے کوئی بات باہر نہیں۔ ما شئت لا ماشائت الاقدار۔۔۔۔ فاحکم فانت الواحد القھار۔ اس گمراہی کا نتیجہ یہ نکلا کہ : اولا : خدا کی کتاب جو اس غرض سے نازل کی گئی تھی کہ لوگ اسے پڑھیں اور اس پر عمل کریں، یک قلم بے اثر و بے کار ہوگئی۔ کیونکہ اس کی جگہ انسانوں کی رایوں اور فیصلوں نے لے لی۔ ثانیا : ہدایت کا مرکز عملا خدا کا حکم نہ رہا انسانوں کا حکم ہوگیا۔ ثالثا : دینی پیشواؤں کا ایک گروہ پیدا ہوگیا جو لوگوں کو اندھا بہرا بنا کر جس طرح چاہتا اپنے اغراض کے لیے کام میں لاتا۔ رابعا : انسان کی عقلی ترقی کی تمام راہیں بند ہوگئیں، کیونکہ جب لوگوں نے اپنی سمجھ بوجھ سے کام لینا چھوڑ دیا اور اپنے بنائے ہوئے پیشواؤں کا حکم بلا دلیل ماننے لگے کہ یہی معنی تقلید کے ہیں تو ظاہر ہے کہ پھر عقل کی نشونما اور ترقی کے لیے کونسی راہ باقی رہ گئی؟ خامسا : تو ہم پرستی اور جہل و کوری کا دروازہ کھل گیا۔ کیونکہ جب اعتقاد و عمل کا دارومدار چند انسانوں کی رایوں پر آٹھہرا اور دوسروں کو اس کا حق نہ رہا کہ اپنی عقل و بینش سے کام لیں تو ظاہر ہے کہ عقل و بینش کی جگہ جہل و تو ہم ہی پھیلے گا اور جو خرافات کسی ٹھہرائے ہوئے پیشوا کی زبان سے نکل جائے گی لوگوں کے لیے دلیل و حجت کا کام دے گی۔ سادسا : دینی پیشوا اچھے انسان ہونے کی جگہ بے پناہ دیوتا بن گئے۔ اور ان کی ساری باتوں نے تقدیس و پاکی کا جامہ پہن لیا۔ کیونکہ جب انہیں اپنے پیروؤں کے لیے حکم و تشریع کی غیر مشروط طاقت مل گئی اور اپنے احکام و اعمال میں یک قلم غیر مسول ہوگئے تو پھر نفس انسانی کی شرارتیں ان سے جو کچھ بھی کرائیں کم ہے۔ یورپ کے اس عہد کی تاریخ پر نظر ڈالو جسے مورخ از منہ وسطی کے نام سے پکارتے ہیں بلکہ اس عہد کی بھی جو نشاۃ ثانیہ کے نام سے مشہور ہے، تمہیں ان نتائج کی ساری نظیریں اور مثالیں قدم قدم پر ملنے لگیں گی، صرف پوپ کے منصب کی نسلا بعد نسل تاریخ ہی دیکھ لی جائے اس کے لیے کفایت کرے گی۔ قرآن نے جس وقت یہ صدا بلند کی عیسائی دنیا تیار نہ تھی کہ اس کا جواب دیتی لیکن بالآخر اس سے اعراض نہ کرسکی، اس وقت تو قرآن کی اس دعوت کو عیسائیوں نے نہیں سمجھا لیکن یہ تخم ریزی برگ و بار لائے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔ صلیبی لڑائیوں میں جب یورپ کے عیسائیوں کو مسلمانوں سے ملنے اور اسلام کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو اس کے اثرات کام کرنے لگے اور بالآخر لوتھر نے اصلاح کنبہ کی دعوت بلند کی۔ لوتھر اور کلیسا میں بنائے نزاع یہ تھی کہ حق کا معیار کیا ہے؟ کتاب اللہ یا پوپ کا اجتہاد؟ اور خدا کی کتاب اس لیے ہے کہ پڑھی جائے اور سمجھی جائے یا اس لیے کہ سب کچھ پوپ پر چھوڑ دیا جائے؟ نزاع کی ابتدا نجات کے مسئلہ سے ہوئی تھی یعنی نجات کا دارومدار ایمان پر ہے یا پوپ کی سند مغفرت پر؟ ظاہر ہے کہ یہ حرف بہ حرف اسی صدائے حق کی بازگشت تھی کہ (اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ) آج یہ واقعہ دنیا کے تاریخی حقائق میں سے سمجھا جاتا ہے کہ یورپ کی تمام ذہنی اور عملی ترقیوں کا دور اصلاح کنیسہ کی دعوت سے شروع ہوا۔ یہ سچ ہے لیکن اسی طرح یہ بھی سچ ہے کہ اصلاح کنیسہ کی بنیاد اس دن پڑتی تھی جس دن اللہ کے رسول نے نجران کے بشپ کو یہ دعوت اصلاح دی تھی : (یا اھل الکتاب تعالوا الی کمۃ سواء بیننا وبینکم الا نبعد الا اللہ ولا نشرک بہ شیا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ) اور پھر اس دن جس دن سورۃ برات کی یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ اگر چھٹی صدی عیسوی کے عیسائی جہل و تعصب نے اس دعوت سے انکار نہ کیا ہوتا تو وہ تمام تاریک صدیاں ظہور میں نہ آتیں جن کی وحشت انگیز سرگزشتیں تاریخ کو قلمبند کرنی پڑیں اور ازمنہ مظلمہ کے نام سے پکاری گئیں اور یقینا یورپ کے علم و عقلیت کی تاریخ چودھویں صدی کی جگہ ساتویں صدی سے شروع ہوجاتی۔ یہ سرگزشت تو عیسائی دنیا کی ہے جسے اس دعوت حق نے مخاطب کیا تھا لیکن خود مسلمانوں کا کیا حال ہوا جنہیں اس دعوت کی تبلیغ سپرد کی گئی تھی؟ افسوس ہے کہ وہ کود بھی اس گمراہی سے بچ نہ سکے اور انہوں نے بھی تشریع دینی کا حق کتاب و سنت کی جگہ انسانوں کی رایوں کے حوالہ کردیا۔ اعتقادا انہیں عملا، اور سوال یہاں عمل ہی کا ہے نہ کہ اعتقاد کا، نتیجہ یہ نکلا کہ وہ تمام مفاسد ظہور میں آگئے جن کا دروازہ قرآن نے بند کرنا چاہا تھا۔ اور سب سے بڑا فساد یہ پیدا ہوا کہ صدیوں سے ان کی عقلی ترقی یک قلم رک گئی اور تقلید نے علم و بصیرت کی راہوں سے انہیں دور کردیا، حتی کہ اب معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ ایک طرف مسلمانوں کی معاشرتی و اجتماعی زندگی مختل ہورہی ہے کیونکہ اس کی ضرورتوں کے مطابق احکام فقہ نہیں ملتے اور شریعت کو فقہ کے مذاہب مدد نہ ہی میں منحصر سمجھ لیا گیا ہے۔ دوسری طرف تمام اسلامی حکومتوں نے قوانین شرع پر عمل درآمد ترک کردیا ہے اور اس کی جگہ یورپ کے دیوانی و فوجداری قوانین اختیار کرنے لگی ہیں۔ کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ دفاتر فقہ وقت کے انتظامی و معاشرتی مقتضیات کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ اور کوئی نہیں جو انہیں بتلائے کہ اللہ کی شریعت کا دامن اس نقص سے پاک ہے اور اگر وہ کتاب و سنت کی طرف رجوع کرتے تو انہیں اس زمانے کے لیے بھی ویسے اصلح و افوق قوانین مل جاتے جس طرح پچھلے عہدوں کے لیے مل چکے ہیں۔ فیا اللہ وللمسلمین۔ من ھزہ الفاقرۃ التی ھی اعظم فواقر الدین والرزیۃ التی مارزی بمثلھا سبیل المومنین۔ اکل اموال بالباطل : (ط) چونکہ پچھلی آیت میں احباب اور رہبان کا ذکر کیا گیا تھا اس لیے آیت (٣٤) میں خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں کو مخاطب کر کے ان کی حالت بیان فرمائی ہے تاکہ اس سے نصیحت پکڑیں۔ قرآن نے یہاں اور متعدد مقامات میں یہود و نصاری کے علمائے و مشائخ کی ایک بہت بڑی گمراہی یہ بتلائی ہے کہ ناجائز طریقہ پر لوگوں کا مال کھالینے میں بے باک ہوگئے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ٹھیک طور پر سمجھ لیا جائے اس سے مقصود کیا ہے؟ یہ مقصود تو نہیں ہوسکتا کہ وہ لوگوں کے مال پر اعلانیہ ڈاکے ڈالتے تھے، ضرور کوئی ایسی ہی بات ہوگی جو ان کی روزانہ زندگی کے اعمال میں داخل ہوگئی تھی اور جس کا نتیجہ اکل بالباطل تھا۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے مذہبی حلقوں اور اداروں کی تاریخ اب منضبط ہوچکی ہے، اس پر نظر ڈالی جائے تو بے شمار باتیں سامنے آئیں گی لیکن خصوصیت کے ساتھ حسب ذیل امور قابل غور ہیں : (١) پادشاہوں اور امیروں کی مطلب براریوں کے لیے حلال کو حرام، حرام کو حلال بنا دیتے اور اس کے فتوے دے کر انعام و اکرام لیتے، حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ شریعت کے کسی حکم سے انکار کردیتے تھے۔ بلکہ یہ ہے کہ اس کے حکموں کو توڑ مروڑ کر یا طرح طرح کے حیلے بہانے نکال کر ایسی صورتیں بنا لیتے ہیں کہ امیروں کی ہوائے نفس پوری ہوجائے۔ مثلا کوئی امیر اپنے دشمن سے انتقام لینا چاہتا ہے تو یہ اس کے کفر کا فتوی تیار کر کے دے دیتے کہ شرعا اسے قتل کرنا جائز ہے۔ بیوی سے نجات حاصل کرنی چاہتا تو فتوی دے دیتے کہ نکاح قائم نہیں رہا، اگر کسی روپیہ پیسے والے سے کوئی ایسی بات ہوجاتی جس کی شرع میں تعزیر ہے وار وہ روپیہ دے کر بچنا چاہتا تو مسئلہ کی کوئی ایسی صورت کھینچ تان کے بنا دیتے کہ تعزیر ساقط ہوجاتی۔ پادشاہوں اور امیروں کے نکاح و طلاق کے بارے میں پوپ اور کارڈینیلوں کی دین فروشیاں تاریخ یورپ کے ایسے مشہور واقعات ہیں کہ محتاج بیان نہیں۔ (٢) ناجائز طریقہ پر مال کھانے کی ایسی صورتیں نکالتے کہ مثلا فلاں جماعت کافروں اور بت پرستوں کی جماعت ہے۔ ان کا مال دھوکے فریب سے بھی کھالیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں بلکہ ثواب ہے۔ چنانچہ علمائے یہود کا مشرکین عرب کی نسبت ایسا ہی فتوی تھا۔ سورۃ آل عمران میں گزر چکا ہے : (ذلک بانھم قالوا لیس علینا فی الامیین سبیل) (٣) معاملات و قضا یا رشوت لے کر فیصلے کرتے۔ قرون وسطی میں پوپ سے لے کر کسی گاؤں کے ایک پادری تک جس طرح بات بات میں رشوتیں لیا کرتے تھے تاریخ کے مسلمات میں سے ہے۔ (٤) راہبوں میں سے جو شخص زیادہ شہرت حاصل کرلیتا لوگ سمجھتے اسے روحانی تسلط و تصرف کا مقام حاصل ہوگیا ہے اور وہ جو چاہے کرسکتا ہے، پس ہر طرح کی حاجتیں لے کر اس کے پاس آتے اور وہ ان سے طرح طرح کی نذریں لے کر انہیں یقین دلا دیتا کہ تمہاری حاجت روائی کا سامان ہوگیا۔ (٥) تمام مذہبی اعمال و رسوم کے لیے باقاعدہ قیمتیں مقرر کردی تھیں اور اس غرض سے کہ آمدنی کے وسائل زیادہ سے زیادہ بڑھیں ہمیشہ نئی نئی رسمیں اور نئی نئی تقریبیں نکالتے رہتے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مذہبی زندگی کے تمام اعمال خریدوفروخت کا معاملہ بن گئے۔ کوئی نماز پڑھے تو اس کے لیے کچھ نہ کچھ خرچ کرے، روزہ رکھے تو اس کے لیے نذرانہ نکالے، شادی غمی ہوجائے تو اس کے لیے فیس مقرر، وعظ و نصیحت کی محفل کرنی چاہے تو اس کے لیے باقاعدہ رقوم، حتی کہ کوئی خدا سے دعا بھی نہیں کراسکتا جب تک کہ اس کا مقررہ نذرانہ ادا نہ کردے۔ (٦) کتاب اللہ کے علم و تعلم کو صرف اپنے ہی طبقہ کے لیے مخصوص کرلیا کہ یہ عوام کے سمجھنے کی چیز نہیں ہے۔ صرف تبرکا سن کر ثواب کمالینے کی چیز ہے۔ اور پھر جو بہ نیت ثواب سننا چاہے اسے معاوضہ لے کر سنانے لگے۔ چنانچہ علمائے یہود نے تورات خوانی کو پیشہ بنا لیا تھا اور روم کیتھولک چرچ کے راہب آج تک ایک ایک گھر میں جاکر انجیل سناتے اور اس کی قیمت وصول کرتے ہیں۔ (٧) عوام میں یہ اعتقاد پیدا کردیا کہ نجات کا سر رشتہ انہی کے ہاتھ میں ہے۔ جسے چاہیں بخش دیں، جسے چاہیں نہ بخشیں اور پھر اس غرض سے اعتراف گناہ (Confession) کا طریقہ رائج کیا یعنی ہر عیسائی کے لیے ضروری ہوگیا کہ کسی پادری کے سامنے جو اس غرض سے مقرر ہو اپنے گناہوں کا اقرار کرے اور وہ اسے مسیح کے نام پر بخش دے۔ اصلاح کے بعد نئے کلیسا نے یعنی پروٹسٹنٹ نے اس سے انکار کردیا لیکن کیتھولک کلیسا کے معتقدین میں آج تک رائج ہے۔ (٨) اس سے بھی بڑھ کر جلب زر کا یہ طریقہ نکالا گیا کہ مغفرت کے پروانے فروخت کیے جانے لگے۔ یعنی جو شخص ایک خاص مقررہ قیمت ادا کردیتا اسے نجات کا مقدس پروانہ مل جاتا اور اس پروانہ کے حصول کا مطلب یہ سمجھا جاتا تھا کہ اب کتنے ہی معاصی و جرائم کیے جائیں آسمان میں کوئی پرسش نہ ہوگی۔ مورخین نے تصریح کی ہے کہ اس تجارت کو اس قدر فروغ ہوا تھا کہ کاروباری آدمیوں پوپ سے اس کی فروخت کا ٹھیکہ لینا شروع کردیا تھا۔ لوتھر کے دل میں سب سے پہلے اسی معاملہ نے خلش پیدا کی تھی۔ (٩) طرح طرح کے تبرکات اور آثار بنائے تھے اور عوام کے دلوں میں اعتقاد پیدا کردیا تھا کہ جس کسی نے ان کی زیارت کرلی یا انہیں چھو لیا اسے دین و دنیا کی ساری برکتیں مل گئیں۔ مثلا لکڑی کا کوئی ٹکڑا، جس کی نسبت یقین دلایا جاتا تھا کہ یہ اسی صلیب کا ہے جس پر حضرت مسیح کو سولی دی گئی تھی یا کسی سینٹ کا ناخن یا کوئی کپڑا یا تسبیح۔ لوگ ان کی زیارت کرتے اور مقررہ نذریں ادا کرتے، ان تبرکات پر ہیکل بھی تعمیر کیے جاتے تھے جو آج تک موجود ہیں۔ (١٠) اکل اموال بالباطل کا ایک بڑا ذریعہ مقامر و مشاہد کی مجاوری بھی ہوئی۔ چنانچہ عیسائیوں میں یہ معاملہ اس قدر بڑھا کہ حج و زیارت کا مرکز یہی مقامات بن گئے اور ایک دنیا کی دولت وہاں سمٹ آئی۔ (١١) چونکہ دین میں اخلاص باقی نہیں رہا تھا اس لیے جب کبھی دیکھتے کہ شریعت کا کوئی حکم ان کی دنیا پرستیوں میں روک ہے تو فورا کوئی نہ کوئی شرعی حیلہ نکال لیتے۔ قرآن نے اصحاب سبت کے حیلہ کا ذکر کیا ہے۔ اور اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ انہیں سود کے لین دین سے روکا گیا تھا مگر وہ بلا تامل کھانے لگے۔ اس باب میں تورات کا حکم کیا تھا اور علمائے یہود نے کس طرح یکے بعد دیگرے حیلے نکالے اس کی تشریح البیان میں ملے گی۔ (١٢) جو مرجائے اسے ثواب پہنچانے اور اس کے گناہوں کا کفارہ دلانے کے لیے مقررہ رقمیں وصول کرتے اور اس غرض سے طرح طرحح کی رسمیں رائج کردی تھیں، چنانچہ یہودیوں اور کیتھولک عیسائیوں میں آج تک رائج ہیں۔ (١٣) سب سے آخر مگر سب سے اول یہ کہ دین کی ساری باتوں کو یک قلم دکانداری اور پیشہ بنا لیا تھا اور ان کی پوری زندگی ہر معنی میں دکانداری کی زندگی ہوگئی تھی۔ عالم اور درویش ہونے کے معنی ہی یہ ہوگئے کہ دین اور خدا کے نام سے پیشہ کی روٹی کھانے والے۔ علم دین کا پڑھنا، پڑھانا، مسائل دین کی تعلیم، فتوی نویسی، ہدایت و وعظ، قرات و ذکر کوئی کام ایسا نہ تھا جو بغیر دنیوی معاوضہ کے کیا جاتا ہو۔ قرآن نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے ان کی اس گمراہی کی طرف اس لیے اشارہ کیا تاکہ واضح ہوجائے ان کا ایمان سے محروم ہوجانا اور دین حق کا عملا ترک کردینا دراصل ان کے علماء و مشائخ کی ان گمراہیوں اور دنیا پرستیوں کا نتیجہ تھا۔ لیکن آج مسلمان اور مسلمانوں کے علماء و مشائخ اپنی حالت پر نظر ڈالیں اور غور کریں کہ کیا وہ بھی ٹھیک ٹھیک احبار و رہبان کے قدم بہ قدم نہیں چل رہے ہیں؟ اور کیا اکل اموال بالباطل کی یہ تمام صورتیں کسی نہ کسی بھیس میں یہاں بھی کام نہیں کر رہی ہیں؟ حضرت شاہ ولی اللہ نے اب سے دو سو برس پہلے فوز الکبیر میں لکھا تھا کہ اگر احبار یہود کی حالت دیکھنی چاہتے تو آج کل کے علما کو دیکھ لو، اور اگر عیسائیوں کے رہبان کا نقشہ کھینچنا چاہتے ہو تو آج کل کے مشائخ کے سامنے بیٹھ کر کھینچ لو۔ قرآن نے اس آیت میں یہ بات تمام احبار و رہبان کی طرف منسوب نہیں کی ہے بلکہ اکثر کی طرف منسوبب کی ہے اور اس طرحح کے مواقع میں اس کا عام انداز یہی ہے۔ مثلا اہل کتاب ہی کی نسبت دوسری جگہ فرمایا ہے : (وان اکثرکم فاسقون) تم میں سے اکثر فاسق ہیں۔ یہ نہیں کہا کہ تم سب فاسق ہو، کیونکہ اگر ایسا کہا جاتا تو گو اس اعتبار سے حق ہونا کہ اکثریت کا حکم کل ہو کا ہوتا ہے، لیکن پھر بھی حقیقت حال کی پوری تعبیر نہ ہوتی اور یہ مطلب نکالا جاسکتا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا ایک ایک فرد بلا استثنا اسی طرح کا ہوگیا ہے۔ حالانکہ ان میں خال خال ایماندار اور مخلص افراد بھی موجود تھے۔ یہ بات نہ تھی کہ پوری امت میں ایک فرد بھی نیک راہ پر نہ رہا ہو۔ نسی کی حقیقت : (ی) آیت (٣٦) میں نسی سے مقصود کیا ہے؟ اسے خود قرآن نے بتلا دیا ہے اور صحابہ کرام نے مزید تشریح کردی لیکن بعد کو مفسروں کی کاوشوں نے اور خصوصا علمائے ہیئت کی دقیقہ سنجیوں نے اسے ایک پیچیدہ سوال بنا دیا۔ غالبا ابو معشر فلکی پہلا شخص ہے جس کا خیال اس طرح گیا کہ یہ کبیسہ کا معاملہ تھا۔ پھر ابو ریحان بیرون نے بھی اسی کی پیروی کی۔ گزشتہ صدی کے بعض مستشرقین یورپ کو بھی اس مسئلہ پر خصوصیت کے ساتھ توجہ ہوئی کیونکہ انہوں نے خیال کیا اس سے عرب جاہلیت کی تقویمی معلومات پر روشنی پڑے گی۔ چنانچہ پوکاک، دی ساسی، گاسین دی پرسیول، اسپرنگر، دل ہواسن غیرہم نے اس پر طول طویل بحثیں کی ہیں اور زمانہ حال کا ایک اطالوی مستشرق پرنس کائتانی بھی اپنی زیر تصنیف تاریخ اسلام کی پہلی جلد میں اس پر بحث کرچکا ہے۔ مستشرقین ہی کی صف میں محمود پاشا فلکی کو بھی شمار کرنا چاہیے جس نے کبیسہ کا نظریہ تسلیم کر کے یہ کوشش کی کہ اس عہد کے شمسی مہینوں کی تقویمی حالت منضبط کی جائے۔ لیکن حق یہ ہے کہ اس نظریہ کے لیے کوئی تاریخی بنیاد موجود نہیں اور صاف بات وہی معلوم ہوتی ہے جس کی طرف خود قرآن نے اشارہ کردیا ہے اور آثار صحابہ میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ عرب میں حضرت اسماعیل کے زمانہ سے یہ بات چلی آتی تھی کہ سال کے چار مہینے امن کے مہینے ہیں۔ ان میں لڑائی نہیں ہونی چاہیے۔ رجب، ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم۔ اسی لیے انہیں اشہر الحرم کہتے تھے یعنی حرمت کے مہینے۔ نیز قمری مہینوں کے حساب سے کہ قدرتی حساب ہے حج کا مہینہ بھی متعین تھا اور وہ اسی نام سے پکارا جاتا تھا۔ یعنی ذی الحجہ، اسی مہینے کی آٹھویں، نویں، دسویں، حج کے اعمال و رسوم کے دن سمجھے جاتے تھے۔ ایک مدت تک یہ بات اسی طرح قائم رہی لیکن پھر لوگوں پر اس حکم کی پابندی شاق گزرنے لگی۔ اول تو اس لیے کہ قمری مہینوں کے حساب کی وجہ سے حج کا زمانہ ہمیشہ ایک ہی موسم میں نہ آتا۔ بدلتا رہتا۔ اور اس کی وجہ سے قریش کے سفر تجارت میں خلل پڑتا۔ ثانیا امن کے مہینوں کا معاملہ بھی ان کے جنگ جو یا نہ مقاصد کے خلاف واقع ہوا تھا۔ ایک قبیلہ کو دوسرے قبیلہ سے کتنی ہی عداوت ہو اور انتقام کا کتنا ہی موزوں موقع سامنے دیکھے لیکن اس کی جرات نہیں کرسکتا تھا کہ ان مہینوں کی بے حرمتی کر کے اعلان جنگ کردے۔ چونکہ عرب جاہلیت کی طبیعتوں کے لیے نہ تو دینی قیود تھے نہ علمی حدود اس لیے مطلب براری کا ایک ڈھنگ نکال لینے میں انہیں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ وہ ڈھنگ یہ تھا کہ امن کے مہینوں کا معاملہ ان کے قدرتی حساب پر موقوف نہیں رکھا بلکہ اس کے لیے ایک خود ساختہ اعلان ضروری ٹھہرا دیا جو حج کے موقع پر کیا جاتا تھا۔ اس اعلان کے ذریعہ حسب ضرورت اس کے مہینے پیچھے ڈال دیتے یا حج کا مہینہ موخر کردیتے۔ مثلا محرم امن کا مہینہ تھا، اعلان کردیا جاتا کہ اس سال محرم صفر میں واقع ہوگا، نتیجہ یہ نکلتا کہ محرم کا حقیقی مہینہ حکما معدوم ہوجاتا اور اس میں لڑائی شروع ہوجاتی پھر جب یہ فرق بہت دور تک پہنچ جاتا تو اسے لوٹانا شروع کردیتے۔ یہاں تک کہ اصلی مہینوں کی ترتیب پھر قائم ہوجاتی۔ چونکہ یہ طریقہ سرتا سر جہل و فساد پر مبنی تھا اور اس کی وجہ سے تو تقویم کا کوئی معیار باقی رہا تھا نہ امن و جنگ کے ایام کا، اس لیئے ضروری تھا کہ اس کا قطعا انسداد کردیا جائے اور حج کے لیے ایک معین اور قطعی زمانہ مقرر ہوجائے، اگر فی الحقیقت اس معاملہ کی بنیاد کسی حسابی قاعدہ پر ہوتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ قرآن اسے زیادۃ فی الکفر سے تعبیر کرتا۔ اسلام کا جب ظہور ہوا تو عرب میں قمری مہینوں کا حساب رائج تھا۔ اس نے بھی اپنے اعمال و عبادات کے لیے اسی حساب پر اعتماد کیا، کیونکہ انسان کے لیے مہینوں کا قدرتی حساب یہی ہے۔ چاند چھپتا ہے اور پھر نکلتا ہے اور ہر شخص خواہ کسی متمدن شہر میں رہتا ہو خواہ صحرا میں، معلوم کرسکتا ہے کہ کب مہینہ ختم ہوا اور کب شروع ہوا۔ اس کے لیے نہ تو علم ہیئت کی حساب دانیوں کی ضرورت ہے نہ تقوی کی جدولوں کی۔ علاوہ بریں موسموں اور طلوع و غروب کے وقتوں کی جو تبدیلیاں قدرتی طور پر ہوتی رہتی ہیں وہ سب اس حساب میں پیش آتی رہتی ہیں۔ مثلا رمضان اور حج کا مہینہ ہمیشہ گردش میں رہتا ہے، کبھی کسی موسم میں آتا ہے، کبھی کسی موسم میں، اور اس طرح ہر انسان کو اپنی زندگی میں پورا موقع مل جاتا ہے کہ یہ اعمال ہر طرح کے موسموں اور ان کے تاثرات کے ساتھ انجام دے جس میں بے شمار مصلحتیں ہیں اور یہ موقع تفصیل کا نہیں۔ تشریح مصارف زکوۃ: (ک) آیت (٦٠) مصارف زکوۃ کے باب میں اسل ہے اور ضروری ہے کہ بعض مہمات واضح ہوجائیں۔ (ا) ہم نے ترجمہ میں فقرا اور مساکین کے لیے دوسرے الفاظ اختیار نہیں کیے کیونکہ عربی میں فقر اور مسکنت سے مقصود احتیاج کی دو مختلف حالتیں ہیں اور ضروری ہے کہ ان کی لغوی نوعیت بجنسہ قائم رکھی جائے۔ فقیر اور مسکین : فقیر اور مسکین دونوں سے مقصود ایسے لوگ ہیں جو محتاج ہوں، لیکن فقر عام ہے اور مسکنت کی حالت خاص ہے۔ فقیر اسے کہیں گے جس کے پاس ضروریات زندگی کے لیے کچھ بھی نہیں۔ مسکین وہ ہے جس کی احتیاج ابھی اس آخری درجہ تک تو نہیں پہنچی مگر پہنچ جائے گی اگر خبر گیری نہ کی جائے۔ مثلا سوسائٹی کے ایسے افراد جو مختلف اسباب سے مفلس ہوگئے ہیں یا وسائل معیشت کا اہتمام نہیں کرسکتے۔ ان کے جسم پر اجلے کپڑے ابھی باقی ہیں، گھر میں تھوڑا بہت سامان بھی نکل آئے، ممکن ہے دو چار روپے بھی جیب میں موجود ہوں، اگر انہیں آج کھانا نہ ملے تو بھوکے نہیں رہیں گے، کل نہ ملے تو برتن بیچ لیں گے۔ پرسوں نہ ملے تو کپڑے فروخت کر ڈالیں گے، لیکن پھر اسکے بعد تو کوئی وسیلہ معاش سامنے نہیں دیکھتے۔ فقیر اور مسکین میں اس لحاظ سے بھی فرق ہے کہ فقیر کو سوال کرنے میں عار نہیں ہوتا، لیکن مسکین کو اس کی خودداری اور عفت نفس طلب و الحاح کی اجازت نہیں دیتی۔ بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں خود آنحضرت نے مسکین کی یہ تعریف کی ہے کہ (الذی لا یجد غنی یغنیہ، ولا یفطن فیتصدق علیہ، ولا یقوم فیسال الناس) جسے ایسے وسائل میسرے نہیں کہ تونگر کردیں، جس کا فقر ظاہر نہیں کہ لوگ خیرات دیں، جو خود سوال کے لیے کھڑا نہیں ہوتا کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے، اور پھر اسی حدیث میں سورۃ بقرہ کی آیت (٢٧٣) کی طرف اشارہ فرمایا کہ (یحسبھم الجھال اغنیاء من التعفف، تعرفھم بسیمھم، لا یسئلون الناس الحافا) ان کی خودداری کا یہ حال ہے کہ نا واقف خیال کرے یہ تو تونگر ہیں۔ تم انہیں ان کے چہروں سے پہچان سکتے ہو، مگر وہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کبھی سوال نہیں کرتے۔ بلاشبہ ایسے علمائے دین جو سورۃ بقرہ کی آیت متذکرہ صدر کے مصداق ہوں کہ (الذین احصروا فی سبیل اللہ لا یستطیعون ضربا فی الارض) یعنی دین کی تعلیم و خدمت کے لیے وقف ہوگئے ہوں اور فکر معیشت کے لیے وقت نہ نکال سکیں، مساکین میں داخل ہیں۔ بشریطکہ انہوں نے تعلیم دین کو حصول زر کا پیشہ نہ بنا لیا ہو، ما یحتاج سے زیادہ نہ لیتے ہوں اور کسی حال میں خود سائل و ساعی نہ ہوتے ہوں۔ نیز وہ تمام افراد جو ان کی طرح خدمت دین و امت کے لیے وقف ہوجائیں اور معیشت کا کوئی سامان نہ رکھتے ہوں۔ قوم کے تمام ایسے افراد جن پر وسائل کی تنگی کی وجہ سے معیشت کے دروازے بند ہورہے ہیں اور اگرچہ وہ خود پوری طرح ساعی ہیں لیکن نہ تو نوکری ہی ملتی ہے نہ کوئی اور راہ معیشت نکلتی ہے یقینا مساکین میں داخل ہیں اور اس مد کے اولیں مستحق ہیں لیکن اس کا انتظام اس طرح ہونا چاہیے کہ ان کی خبر گیری بھی ہوجائے اور ساتھ ہی ان میں بیکاری کی عادت اور اپاہج پنا بھی پیدا نہ ہو۔ یہ بات نہ صرف ان کی اعانت میں بلکہ تمام مستحقین کی اعانت میں ملحوظ رہنی چاہیے۔ ایسے افراد جو خوشحال تھے لیکن کاروبار کی خرابی کی وجہ سے یا کسی اور ناگہانی مصیبت کی وجہ سے مفلس ہوگئے ہیں اگرچہ اپنی پچھلی حیثیت کی بنا پر معزز سمجھے جاتے ہیں حکما مساکین میں داخل ہیں اور ضروری ہے کہ اس مد سے ان کی بھی خبر گیری کی جائے۔ مصارف ثمانیہ : (٢) ان مصارف کے بیان سے مقصود یہ ہے کہ زکوۃ کی ہر رقم ان سب میں وجوبا تقسیم کی جائے یا یہ کہ ہے کہ خرچ انہی میں کی جاسکتی ہے جس مصرف میں خرچ کرنا ضروری ہو اسی میں خرچ کی جائے؟ تو اس بارے میں فقہا نے اختلاف کیا لیکن جمہور کا مذہب یہی ہے کہ تمام مصارف میں بیک وقت تقسیم کرنا ضروری نہیں۔ جس وقت جیسی حالت اور جیسی ضرورت ہو اسی کے مطابق خرچ کرنا چاہیے اور یہی مذہب قرآن و سنت کی تصریحات اور روح کے مطابق ہے۔ ائمہ اربعہ میں صرف امام شافعی اس کے خلاف گئے ہیں۔ (٣) یہ آٹھ مصارف جس ترتیب سے بیانن کیے ہیں اگر غور کرو گے تو معلوم ہوجائے کہ معاملہ کی قدرتی ترتیب یہی ہے۔ سب سے پہلے ان دو گروہوں کا ذکر کیا جو استحقاق میں سب سے زیادہ مقدم ہیں کیونکہ زکوۃ کا اولین مقصود انہی کی اعانت ہے۔ یعنی فقراء و مساکین۔ پھر اس گروہ کا ذکر کیا جس کی موجودگی کے بغیر زکوۃ کا نظام قائم نہیں رہ سکتا، اور اس اعتبار سے اس کا تقدم ظاہر ہے لیکن چونکہ اس کا استحقاق بالذات نہیں تھا، اسلیے اولین جگہ نہیں دی جاسکتی تھی۔ پس دورسی جگہ پائی یعنی (العالمین علیھا) پھر (المولفۃ قلوبھم) کا درجہ ہوا کہ ان کا دل ہاتھ میں لینا ایمان کی تقویت اور حق کی اشاعت کے لیے ضروری تھا، پھر غلاموں کو آزاد کرانے اور قرضداروں کو بار قرض سے سبکدوش کرانے کے مقاصد نمایاں ہوئے جو نسبتا موقت اور محدود تھے۔ پھر فی سبیل اللہ کا مقصد رکھا گیا کہ اگر مستحقین کی پھچلی جماعتیں کسی وقت مفقود ہوگئی ہوں یا کم ہوگئی ہوں یا مقتضیات وقت نے ان کی اہمیت کم کردی ہو یا مال زکوۃ کی مقدار بہت زیادہ ہوگئی ہو تو ایک جامع و حاوی مقصد کا دروازہ کھول دیا جائے جس میں دین وامت کے مصالح کی ساری باتیں آجائیں۔ سب کے آخر میں ابن السبیل کی جگہ ہوئی کیونکہ تقدم میں یہ سب سے کم اور مقدار کے لحاظ سے بہت ہی محدود صورت میں پیش آنے والا مصرف تھا۔ سبیل اللہ : (٤) قرآن کی اصطلاح میں وہ تمام کام جو براہ راست دین و ملت کی حفاظت و تقویت کے لیے ہوں سبیل اللہ کے کام ہیں۔ اور چونکہ حفظ و صیانت امت کا سب سے زیادہ ضروری کام دفاع ہے اس لیے زیادہ تر اطلاق اسی پر ہوا۔ پس اگر دفاع درپیش ہے اور امام وقت اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے کہ مد زکوۃ سے مدد لی جائے تو اس میں خرچ کیا جائے گا۔ ورنہ دین و امت کے عام مصالح ہیں۔ مثلا قرآن اور علوم دینیہ کی ترویج و اشاعت میں، مدارس کے اجراء و قیام میں، دعاۃ و مبلغین کے قیام و ترسیل میں، ہدایت و ارشاد امت کے تمام مفید وسائل میں۔ حکم زکوۃ اور اسلام کا نظام اجتماعی : (٥) دنیا میں کوئی دین نہیں جس نے محتاجوں کی اعانت اور ابنائے جنس کی خدمت کی تلقین نہ کی ہو اور اسے عبادت یا عبادت کا لازمی جز نہ قرار دے دیا ہو لیکن یہ خصوصیت صرف اسلام کی ہے کہ وہ صرف اتنے ہی پر قانع نہیں ہوا بلکہ ہر مستطیع مسلمان پر ایک خاص ٹیکس مقرر کردیا جو اسے اپنی تمام آمدنی کا حساب کر کے سال بہ سال ادا کرنا چاہیے اور پھر اسے اس درجہ اہمیت دی کہ اعمال میں نماز کے بعد اسی کا درجہ ہوا وار قرآن نے ہر جگہ دونوں عملوں کا ایک ساتھ ذکر کر کے یہ بات واضح کردی کہ کسی جماعت کی اسلامی زندگی کی سب سے پہلی شناخت یہی دو عمل ہیں۔ نماز اور زکوۃ۔ اگر کوئی جماعت بحیثیت جماعت کے انہیں یک قلم ترک کردے گی تو اس کا شمار مسلمانوں میں نہ ہوگا۔ اور یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نے مانعین زکوۃ سے قتال کیا اور حضرت ابوبکر نے کہا (واللہ لاقاتلن من فرق بین الصلوۃ والزکوۃ) (متفق علیہ) بلاشبہ حضرت مسیح کے مواعظ اس بارے میں بہت دور تک چلے گئے ہیں۔ انہوں نے صرف یہی ہ نہیں کہا کہ اتنا دے دو بلکہ کہا سب کچھ دے دو، لیکن چونکہ اسلام کی طرح کوئی معین نظم قائم نہیں کیا اس لیے یہ تعلیم محض زہد و ترک دنیا کا ایک اعلی مقام بن کر رہ گئی اور مسیحیت کے صدر اول کے سوا (جبکہ کلیسا کی بنیاد باہمی اخوت و اشتراک پر قائم کی گئی تھی) کوئی زمانہ ایسا ظہور میں نہ آسکا کہ عیسائیوں میں اس تعلیم کے نتائج نے نشوو نما پایا ہو۔ (٦) پھر اس باب میں اس کی ایک دوسری خصوصیت بھی ہے یعنی وہ علت جو نہ صرف زکوۃ کے لیے بلکہ تمام صدقات و خیرات کے لیے قرار دی گئی اور جس کی وجہ سے اس معاملہ نے بالکل ایک دوسری ہی نوعیت اختیار کرلی۔ (کی لا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم) تاکہ ایسا نہ ہو مال و دولت صرف دولت مندوں کے گروہ ہی میں محصور ہو کر رہ جائے۔ یعنی زکوۃ کا مقصد یہ ہے کہ دولت سب میں پھیلے، سب میں بٹے، کسی ایک گروہ ہی کی ٹھیکہ داری نہ ہوجائے۔ اور اسی سورت کی آیت (٣٤) میں گزر چکا ہے : (والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ، فبشرھم بعذاب الیم) جو لوگ چاندی سونا خزانہ بنا کر رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کے لیے اگر کوئی بشارت ہوسکتی ہے تو یہی کہ عذاب دردناک کی بشارت دے دو اور حدیث بعث معاذ الی الیمن میں زکوۃ کا مقصد یہ فرمایا کہ : (توخذ من اغنیائھم، فترد فی فقرائھم) (رواہ الجماعہ) ان کے دولت مندوں سے وصول کی جائے اور پھر انن کے محتاج افراد میں لوٹائی جائے۔ قرآن اور احتکار و اکتناز : ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ قرآن کی روح دولت کے احتکار و اختصاص کے خلاف ہے۔ یعنی وہ نہیں چاہتا کہ دولت کسی ایک گروہ کی ٹھیکیداری میں آجائے یا سوسائٹی میں کوئی ایسا طبقہ پیدا ہوجائے جو دولت کو خزانہ بنا بنا کر جمع کرے۔ بلکہ وہ چاہتا ہے دولت ہمیشہ سیرو گردش میں رہے اور زیادہ سے زیادہ تمام افراد قوم میں پھیلے اور منقسم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ورثا کے لئیے تقسیم و اسہام کا قانون نافذ کردیا اور اقوام عالم کے عام قوانین کی طرح یہ نہیں کیا کہ خاندان کے ایک ہی فرد کے قبضہ میں رہے۔ جونہی ایک شخص کی آنکھیں بند ہوئیں اس کی دولت جو اس وقت تک تنہا ایک جگہ میں تھی، اب وارثوں میں بٹ کر کئی جگہوں میں پھیل جائے گی، اور پھر ان میں سے ہر وارث کے وارث ہوں گے، اور اسے بانٹتے اور پھیلاتے رہیں گے۔ اور پھر یہی وجہ ہے کہ اس نے سود کا لین دین حرام کردیا اور قاعدہ ٹھہرا دیا کہ (یمحق اللہ الربوا ویربی الصدقات) اللہ سود کا جذبہ گھٹانا چاہتا ہے، خیرات کا جزبہ بڑھانا چاہتا ہے۔ یعنی یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے مقابل ہوئیں۔ جس قوم میں سود کا جذبہ ابھرے گا اس کے غالب افراد شقاوت و محرومی میں مبتلا رہیں گے۔ جس قوم میں خیرات کا جذبہ ابھرے گا اس کا کوئی فرد محتاج و مفلس نہیں رہے گا۔ اور اسی لیے اس نے سود کے معاملہ کو اتنی اہمیت دی کہ فرمایا جو لوگ اس پر مصر رہیں گے وہ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ کریں گے۔ (فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ) کیونکہ اس معاملہ پر جماعت کی بنیاد فلاح موقوف تھی اور ضروری تھا کہ اسے ایمان و انقیاد کا معیار قرار دیا جاتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ سورۃ بقرہ میں انفاق کا حکم دینے کے بعد متصلا فرمایا : (یوتی الحکمۃ من یشاء ومن یوت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا وما یذکر الا اولوا الالباب) یعنی یہ بات کہ اپنی کمائی کا ایک حصہ دوسرے افراد کو دے دینا کھونا نہیں ہے پانا ہے بہت دقیقی بات ہے اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو صاحب حکمت ہیں، اور جس کسی نے حکمت کی دولت پائی تو اس نے بڑی سے بڑی بھلائی پالی۔ (وما یذکر الا اولوا الالباب) (٧) قرآن و سنت کی تعلیمات اور صحابہ کرام کی عملی زندگی کے بعد مجھے اس حقیقت کا پورا اذعان ہوگیا ہے کہ اسلام کے بنائے ہوئے اجتماعی نقشہ میں دولت اور وسائل دولت کے احتکار و اکتناز کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ احتکار یہ کہ دولت کا کسی ایک طبقہ ہی میں محصور ہوجانا۔ اکتناز یہ کہ دولت کے بڑے بڑے خزانوں کا افراد کے پاس جمع ہوجانا، اس نے سوسائٹی کی نوعیت کا جو نقشہ بنایا ہے اگر ٹھیک ٹھیک قائم ہوجائے اور صرف چند خانے ہی نہیں بلکہ تمام خانے اپنی جگہ بن جائیں تو ایک ایسا اجتماعی نظام پیدا ہوجائے گا جس میں نہ تو بڑے بڑے کروڑ پتی ہوں گے نہ مفلس و محتاج طبقے، ایک طرح کی درمیانی حالت غالب افراد پر طاری ہوجائے گی۔ بلاشبہ زیادہ سے زیادہ کمانے والے افراد موجود ہوں گے۔ کیونکہ سعی و کسب کے بغیر کوئی مومن زندہ ہی نہیں رہ سکتا۔ لیکن جو فرد جتنا زیادہ کمائے گا اتنا ہی زیادہ انفاق پرور بھی ہوگا اور اس لیے افراد کی کمائی جتنی بڑھتی جائے گی اتنی ہی زیادہ جماعت بحیثیت جماعت کے خوشحال ہوتی جائے گی۔ قابل اور مستعد افراد زیادہ سے زیادہ کمائیں گے لیکن صرف اپنے ہی لیے نہیں کمائیں گے تمام افراد قوم کے لیے کمائیں گے۔ یہ صورت پیدا نہ ہوسکے گی کہ ایک طبقہ کی کمائی دوسرے طبقوں کے لیے محتاجی و مفلسی کا پیام ہوجائے جیسا کہ اب عام طور پر ہورہا ہے۔ یہ بات کہ قرآن کی تعلیم کے مطابق دنیا میں کس طرح کی مدنیت اور اجتماعیت پیدا ہوسکتی ہے؟ جس درجہ اہم ہے اتنی ہی زیادہ دقیق بھی ہے۔ البیان میں بہ ضمن تفسیر بقرہ اس کی مفصل بحث و تحقیق ملے گی۔ (٨) اگر مسلمان آج اور کچھ نہ کریں صرف زکوۃ کا معاملہ ہی احکام قرآنی کے مطابق درست کرلیں تو بغیر کسی تامل کے دعوی کیا جاسکتا ہے کہ ان کی تمام اجتماعی مشکلات و مصائب کا حل خودبخود پیدا ہوجائے گا۔ (٩) لیکن مصیبت یہ ہے کہ مسلمانوں نے یا تو احکام قرآنی کی تعمیل یک قلم ترک کردی ہے یا پھر عمل بھی کر رہے ہیں تو اس طرح کہ فی الحقیقت عمل نہیں کر رہے ہیں۔ زکوۃ کا نظم شرعی : قرآن نے زکوۃ کا معاملہ ایک خاص نظام سے وابستہ کردیا ہے اور اسی نظام کے قیام پر اس کے تمام مقاصد و مصالح کا حصول موقوف ہے، زکوۃ ایک ٹیکس ہے، بالکل اسی طرح کا ٹیکس جس طرح آج کل انکم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ پس اس کی ادائیگی کا طریقہ یہ نہ تھا کہ ہر شخص خود ہی اپنا ٹیکس نکالے اور خود ہی خرچ بھی کر ڈالے بلکہ یہ تھا کہ حکومت اپنے کلکٹروں کے ذریعہ ہر شخص سے وصول کر کے بیت المال میں جمع کرے اور پھر ضروریات وقت کے مطابق جس مصرف کو مقدم دیکھے اس میں خرچ کرے۔ جب ایک شخص نے حکومت کے مقررہ عامل کو اپنی زکوۃ دے دی اس کی زکوۃ ادا ہوگئی۔ چنانچہ اسی لیے کلکٹروں اور عاملوں کی تنخواہ کا بار بھی اسی فنڈ پر ڈال دیا اور صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ (والعاملین علیھا) جو کارندے وصولی کے لیے مقرر ہوں ان کے ضروری مصارف، اگر ادائیگی کے لیے یہ بات ضروری نہ ہوتی تو کوئی وجہ نہ تھی کہ مصارف کی مد میں مستقلا عمال حکومت کا ذکر کیا جاتا۔ اور پھر یہی وجہ ہے کہ صاف و صریح لفظوں میں مسلمانوں کا حکم دیا گیا کہ اس باب میں عمال حکومت کی اطاعت کریں اور بلاعذر زکوۃ ان کے حوالہ کردیں۔ حتی کہ اگر عمال ظالم ہوں یا بیت المال کا روپیہ ٹھیک طور پر خرچ نہ ہورہا ہو جب بھی اصلاح حال کی سعی کے ساتھ ادائیگی کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے، یہ نہیں کرنا چاہیے کہ زکوۃ بطور خود خڑچ کر ڈالی جائے۔ بشیر بن خصاصہ کی روایت میں ہے کہ لوگوں نے کہا : (ان قوما من اصحاب الصدقۃ یعتدون علینا) عمال کا ایک گروہ صدقہ لینے میں ہم پر زیادتیاں کرتا ہے۔ کیا اس کا مقابلہ کریں؟ فرمایا نہیں۔ (ابو داؤد) سعد بن ابی وقاص کی روایت میں صاف صاف موجود ہے : (ادفعوا الیھم ماصلوا) جب تک وہ نماز پڑھتے ہیں زکوۃ انہیں دیتے رہو۔ بنو امیہ کے زمانہ میں جب نظام خلافت بدل گیا اور حکام ظلم و تشدد پر اتر آئے تو بعض لوگوں کو خیال ہوا ایسے لوگ ہماری زکوۃ کے کیوں امین سمجھے جائیں؟ لیکن تمام صحابہ نے یہی فیصلہ کیا کہ زکوۃ انہی کو دینی چاہیے۔ یہ کسی نے نہیں کہا کہ خود اپنے ہاتھ سے خرچ کر ڈالو۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے ایک شخص نے پوچھا اب زکوۃ کسے دیں؟ کہا وقت کے حاکموں کو، اس نے کہا : اذا یتخذون بھا ثیابا و طیبا۔ وہ تو زکوۃ کا روپیہ اپنے کپڑوں اور عطروں پر خرچ کر ڈالتے ہیں۔ فرمایا وان اگرچہ ایسا کرتے ہوں مگر انہی کو۔ (ابن ابی شیبہ) کیونکہ زکوۃ کا معاملہ بغیر نظام کے قائم نہیں رہ سکتا۔ صدر اول سے لیکر آخر عہد عباسیہ تک یہ نظام بلا استثنا قائم رہا۔ لیکن ساتویں صدی ہجری میں جب تاتاریوں کا سیلاب تمام اسلامی ممالک میں امنڈ آیا اور نظام خلافت معدوم ہوگیا تو سوال پیدا ہوا کہ اب کیا کرنا چاہیے؟ فقہائے حنفیہ کے جس قدر شروح و متون اور کتب فتاوی آج کل متداول ہیں زیادہ تر اسی دور میں یا اس کے بعد لکھے گئے ہیں۔ اس وقت پہلے پہل اس بات کی تخم ریزی ہوئی کہ زکوۃ کی رقم بطور خود خرچ کر ڈالی جائے کیونکہ غیر مسلم حاکموں کو نہیں دی جاسکتی مگر ساتھ ہی فقہا نے اس پر بھی زور دیا کہ جن ملکوں میں اسلامی حکومت قائم نہیں رہی ہے اور اعادہ حالت فورا ممکن نہیں وہاں مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کسی اہل مسلمان کو اپنا امیر مقرر کرلیں تاکہ اسلامی زندگی کا نظام قائم رہے۔ معدوم نہ ہوجائے۔ لیکن افسوس ہے کہ بعد کو بتدریج اس نظام کی اہمیت سے مسلمان غافل ہوتے گئے اور رفتہ رفتہ یہ حالت ہوگئی کہ لوگوں نے سمجھ لیا، زکوۃ نکالنے کا معاملہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ خود حساب کر کے ایک رقم نکال لیں اور پھر جس طرح چاہیں خود ہی خرچ کر ڈالیں۔ حالانکہ جس زکوۃ کی ادائیگی کا قرآن نے حکم دیا ہے اس کا قطعا یہ طریقہ نہیں ہے، اور مسلمانوں کی جو جماعت اپنی زکوہ کسی امین کو زکوۃ یا بیت المال کو حوالے کرنے کی جگہ خود ہی خڑچ ڈالتی ہے وہ دیدہ دانستہ حکم شریعت سے انحراف کرتی ہے اور یقینا عنداللہ اس کے لیے جوابدہ ہوگی۔ (١٠) اگر کہا جائے کہ ہندوستان میں اسلامی حکومت موجود نہیں، اس لیے مسلمان مجبور ہوگئے اور انفرادی طور پر خرچ کرنے لگے تو شرعا و عقلا یہ عذر مسموع نہیں ہوسکتا۔ اگر اسلامی حکومت کے فقدان سے جمعہ ترک نہیں کردیا گیا جس کا قیام امام و سلطان کی موجودگی پر موقوف تھا تو زکوۃ کا نظام کیوں ترک کردیا جائے؟ کس نے مسلمانوں کے ہاتھ اس بات سے باندھ دیے تھے کہ اپنے اسلامی معاملات کے لیے ایک امیر منتخب کرلیں یا ایک مرکزی بیت المال پر متفق ہوجائیں یا کم از کم ویسی ہی انجمنیں بنا لیں جیسی انجمنیں بے شمار غیر ضروری باتوں کے لیے بلکہ بعض حالتوں میں بدع و محدثات کے لیے انہوں نے جابجا بنا لی ہیں؟ (١١) اسلام نے اجتماعی زندگی کا ایک پورا نقشہ بنایا تھا، جہاں اس کے چند خانے بگڑے، سمجھ لو پورا نقشہ بگڑ گیا، چنانچہ اس ایک نظام کے فقدان نے مسلمانوں کی پوری اجتماعی زندگی مختل کردی ہے، لوگ اصلاح کے لیے طرح طرح کے ہنگامے بپا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں انجمنوں اور قومی چندوں کے ذریعہ وقت کی مشکلوں اور مصیبتوں کا علاج ڈھونڈ نکالیں گے حالانکہ مسلمانوں کے لیے اصلی سوال یہ نہیں ہے کہ کوئی نیا طریقہ ڈھونڈ نکالیں، سوال یہ ہے کہ اپنے گم گشتہ طریقہ کا کھوج لگائیں۔ درازی شب و بیداری من ایں ہمہ نیست۔۔۔ زبخت من خبر آرید تا کجا خفتست؟؟ اگر محض دولت مند افراد کے عطیوں اور قومی انجمنوں کے نظام سے قوم کا اقتصادی مسئلہ حل ہوسکتا تو آج یورپ اور امریکہ سے بڑھ کر کون ہے جو ان دونوں باتوں کا انتظام کرسکتا ہے؟ لیکن معلوم ہے کہ ان کا کوئی قومی فنڈ اور کوئی قومی نظام بھی نچلے طبقوں کی بییکاری اور متوسط طبقہ کا افلاس روک نہ سکا اور اب اجتماعی مسئلہ کا ہلاکت آفریں خطرہ ان کے سروں پر منڈلا رہا ہے۔ اصل یہ ہے کہ افراد کی وقتی فیاضیاں کتنی ہی زیادہ ہوں قوم کی اجتماعی زندگی کے قیام کے لیے کبھی کفیل نہیں ہوسکتیں۔ اس صورت حال کا علاج صرف وہی ہے جو اسلام نے تیرہ سو برس پہلے تجویز کیا تھا یعنی قانون سازی کے ذریعہ قوم کی پوری کمائی کا ایک خاص حصہ کمزور افراد کی خبر گیری کے لیے مخصوص کردینا کہ (توخذ من اغنیاھم فترد فی فقرائھم) اور (کی لایکون دولۃ بین الاغنیاء منکم) (١٢) بہرحال یہ بات یاد رہے کہ زکوۃ کی نوعیت عام خیرات کی سی نہیں ہے بلکہ یہ اپنے پورے معنوں میں ایک انکم ٹیکس ہے جو اسلامی حکومت نے ہر کمانے والے فرد پر لگا دیتا تھا۔ بشرطیکہ اس کی کمائی اس کی ذاتی ضروریات زندگی سے زیادہ ہو۔ موجودہ زمانے کے انکم ٹیکسوں میں اور اس میں صرف دو باتوں کا فرق ہے۔ ایک یہ کہ اپنی نوعیت میں یہ زیادہ وسیع ہے۔ یعنی صرف کاروبار کی گھٹتی بڑھتی آمدنی ہی پر عائد نہیں ہوتا، بلکہ اندوختہ پر بھی واجب ہوتا ہے اگرچہ اس سال کوئی نئی آمدنی نہ ہوئی ہو، نیز اس طرح کی تمام ملکتیں بھی اس میں داخل ہیں جو بڑھنے کی استعداد رکھتی ہوں، مثلا مویشی، دوسری یہ کہ مقصد کے لحاظ سے یہ ایک خاص مصرف رکھتا ہے جس کی مختلف صورتیں معین کردی گئی ہیں۔ اسٹیٹ کو حق نہیں کہ ان مصارف کے علاوہ کسی دوسرے مصرف میں خرچ کرے۔ (١٣) قرآن نے یہودیوں کی اس گمراہی کا ذکر کیا ہے انہوں نے احکام شرع کی تعمیل سے بچنے کے لیے شرعی حیلے نکال لیے تھے۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں میں بھی اس گمراہی نے سر اٹھایا۔ حتی کہ حیلہ کا معاملہ بعض کتب فقہ کا ایک مستقل باب بن گیا۔ ازاں جملہ ایک حیلہ زکوۃ کے باب میں بھی مشہور ہے۔ طریقہ اس کا یہ بتلایا جاتا ہے کہ جو شخص زکوۃ سے بچنا چاہے وہ کسی آدمی سے بخش دینے اور بخشوا لینے کا فرض معاملہ کرلے اور قبل اس کے کہ برس پورا ہو اپنا تمام مال اس کے نام ہبہ کردے، پھر وہ برس ختم ہونے سے پہلے وہی مال اس کے نام ہبہ کردے گا، نتیجہ یہ نکلے گا کہ دونوں پر سے باوجود مالدار ہونے کے زکوۃ ساقط ہوجائے گی۔ مثلا شوہر نے اپنی بیوی سے رجب کے مہینے میں کہہ دیا میں نے اپنا مال تجھے ہبہ کردیا۔ اس نے کہا قبول، اب شوہر پر زکوۃ نہیں رہی۔ کیونکہ قبل اس کے کہ سال تمام ہو وہ صاحب نصاب نہ رہا۔ البتہ بیوی پر پڑگئی بشرطیکہ بارہ مہینے گزر جائیں، لیکن وہ بارہ مہینے کیوں گزرنے دے گی؟ وہ جمادی الاولی میں شوہر سے کہہ دے گی، میں نے تمام مال اب تمہیں ہبہ کردیا، اسی طرح اس نیک بخت پر سے بھی زکوۃ ساقط ہوجائے گی۔ قصہ کو تہ گشت ورنہ درد سر بسیار بود !!! لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ احکام شرع کی تعمیل میں اس طرح کی حیلہ بازیاں نکالنا فسق و ضلالت کا انتہائی مرتبہ ہے اور جو شخص اس طرح کی مکاریاں کر کے احکام الہی سے بچنا چاہتا ہے اس کی معصیت ان لوگوں سے بدرجہ ہا زیادہ ہے جو سیدھی سادھی طرح ترک اعمال کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ بات کہ ایک شخص سے جرم ہوگیا محض جرم ہے مگر یہ بات کہ ایک شخص جرم کو بے جرمی و پاک عملی بنا کر کرتا ہے صرف جرم ہی نہیں ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے اور صرف اس کی عملی زندگی ہی کو نہیں بلکہ ایمان و فکر کو بھی تاراج کردینے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی اس طرح کے حیلوں کا چرچا پھیلا تمام سلف امت نے اس پر انکار عظیم کیا اور ائمہ و فقہا میں کوئی نہیں جس نے انہیں جائز رکھا ہو۔ (١٤) ایک وار غلط فہمی اس باب میں یہ پھیل گئی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں اپنے مفلس رشتہ داروں کی خبر گیری کا یہی طریقہ ہے کہ زکوۃ کی رقوم سے ان کی مدد کی جائے۔ بلاشبہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ غیروں سے پہلے اپنے محتاج رشتہ داروں کی خبر لے اور قرآن نے صدقات و خیرات کے معاملہ میں جو اصلاحات کی ہیں منجملہ ان کے ایک بڑی اصلاح یہ ہے کہ رشتہ داروں کی اعانت کو بھی خیرات قرار دے دیا بلکہ خیرات کا سب سے پہلا اور بہتر مصرف (قل ما انفقتم من خیر فللوالدین والاقربین) لیکن کزوۃ جو خیرات کی ایک خاص قسم ہے اس لیے واجب نہیں کی گئی ہے کہ لوگ خیرات کی دوسری قسموں سے ہاتھ روک لیں اور اپنے محتاج رشتہ داروں کی مدد کا بوجھ بھی اسی پر ڈال دیں۔ زکوۃ وہی دے گا جو صاحب استطاعت ہو اور اگر ایک شخص خوشحال ہے اور اس کے رشتہ دار تنگی و محتاجی میں مبتلا ہوگئے ہیں تو بحیثیت مسلمان ہونے کے اس کا فرض ہے کہ ان کی خبر گیری کرے۔ اگر نہیں کرے گا تو یقینا عنداللہ جواب دہ ہوگا۔ کیونکہ صلہ رحمی کا حق خدا کا ٹھہرایا ہوا حق ہے : (واتقوا اللہ الذی تسائلون بہ والارحام) بلاشبہ اس کی یہ خبر گیری اس کے لیے خیرات کا بہترین عمل ہوگی لیکن خبر گیری ہر حال میں اس کا اسلامی فرض ہے۔ یہ طریقہ کسی حال میں بھی شرعی نہیں ہوسکتا کہ باوجود خوشحال ہونے کے اپنے رشتہ داروں کو فقروفاقہ میں چھوڑ دیا جائے اور پھر اگر کچھ دیا بھی جائے تو اسے زکوۃ کی مد میں شمار کرلیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں نے کوئی خاص اسلامی عمل ہی ترک نہیں کردیا ہے بلکہ ان کی پوری زندگی غیر اسلامی ہوگئی ہے۔ ان کی فکری حالت غیر اسلامی ہے، ان کی عملی رفتار غیر اسلامی ہے ان کا دینی زاویہ نگاہ غیر اسلامی ہوگیا ہے۔ وہ اگر اسلامی احکام پر عمل بھی کرنا چاہتے ہیں تو غیر اسلامی طریقہ سے اور یہ دینی تنزل کی انتہا ہے۔ (فما لھولاء القوم لا یکادون یفقھون حدیثا) (١٥) ایک عام اور سب سے زیادہ مہلک غلط فہمی یہ پھیل گئی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں زکوۃ دے دینے کے بعد انفاق و خیرات کے اور تمام اسلامی فرائض ختم ہوجاتے ہیں۔ جہاں ایک شخص نے رمضان میں اٹھنیوں اور روپیوں کی پڑیاں باندھ کر تقسیم کے لیے رکھ دیں سال بھر کے لیے اسے ہر طرح کے اسنانی و اسلامی تقاضوں سے چھٹی مل گئی۔ حالانکہ ایسا مجھنا یک قلم اسلام کو بھلا دینا ہے۔ اسلام نے مسلمانوں کو جس طرح کی زندگی بسر کرنے کی تلقین کی ہے وہ محض اپنی اور اپنے بیوی بچوں کے پیٹ ہی کی زندگی نہیں ہے بلکہ منزلی، خاندانی، معاشرتی، جماعتی اور انسانی فرائض کی ادائیگی کی ایک پوری آزمائش ہے اور جب تک ایک انسان اس آزمائش میں پورا نہیں اترتا اسلامی زندگی کی لذت اس پر حرام ہے۔ اس پر اس کے نفس کا حق ہے، اس کے والدین کا حق ہے، رشتہ داروں کا حق ہے، بیوی بچوں کا حق ہے، ہمسایہ کا حق ہے اور پھر تمام نوع انسانی کا حق ہے، اس کا فرض ہے کہ اپنی استطاعت اور مقدور کے مطابق یہ تمام فرائض ادا کرے اور انہی فرائض کی ادائیگی پر اس کی زندگی کی ساری دنیوی اور اخروی سعادتیں موقوف ہیں : (واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا وبالوالدین احسانا وبذی القربی والیتامی والمساکین والجار ذی القربی والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل وما ملکت ایمانکم) یہ تمام فرائض ادا نہیں کیے جاسکتے جب تک کہ انفاق و خیرات کے لیے انسان کا ہاتھ کشادہ نہ ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اعمال میں سے کسی عمل پر اتنا زور نہیں دیا جس قدر نماز اور انفاق پر، اور منافقوں کی سبسے بڑی پہچان اسی سورت میں یہ بتلائی کہ ان کی مٹھیاں بند رہتی ہیں۔ انفاق کے لیے کھلتی نہیں (و یقبضون ایدیھم) اور اگر کچھ دیتے بھی ہیں تو مجبور ہو کر (ولا ینفقون الا وھم کارھون) اور مومنوں کی نسبت فرمایا (ینفقون اموالھم باللیل والنھار سرا و علانیۃ) مومن وہ ہیں جن کا ہاتھ ہمیشہ کھلا رہتا ہے، رات دن، پوشیدہ اور ظاہر ہر حال میں سرگرم انفاق رہتے ہیں ۔ نیز فرمایا یہ شیطانی خیال ہے کہ خرچ کرنے سے ہم محتاج ہوجائیں گے اور اس راہ میں بخل فحش ہے۔ یعنی سخت قسم کی برائی، اور اللہ انفاق کا حکم دے کر تمہیں مغفرت اور خوشحالی کی راہوں پر لگاتا ہے۔ (الشیطان یعدکم الفقر ویامرکم بالفحشا واللہ یعدکم مغفرۃ منہ و فضلا) پس یہ سمجھنا کہ جہاں سال میں ایک مرتبہ زکوۃ کا ٹیکس دے دیا انفاق فی سبیل اللہ کے تمام مطالبات پورے ہوگئے صریح قرآن کی تعلیم سے اعراض کرنا ہے، زکوۃ تو ایک خاص قسم کا ٹیکس ہے اور ایک خاص مقصد کے لیے لگایا گیا ہے جو سال میں ایک مرتبہ دینا پڑتا ہے لیکن ہماری زندگی کا ہر چوبیس گھنٹہ ہم سے انفاق کا مطالبہ کرتا ہے اور اگر ہم اسلامی زندگی کا توشہ لے کر دنیا سے جانا چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ حسب استطاعت اس کے تمام مطالبات پورے کریں۔ قرآن اور سوشلزم : (١٦) دنیا میں دولت اور وسائل اور دولت کا احتکار اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ ضروری تھا اس کا رد فعل پیدا ہو۔ چنانچہ اٹھارویں صدی میں موجودہ سوشلزم کی بنیادیں پڑیں اور اب اس نے کمیونزم کی انتہائی صورت اختیار کرلی ہے اور پندرہ برس سے روس میں اس کا اولین تجربہ بھی ہورہا ہے۔ قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر قرآن کی تعلیم سرمایہ داری کے مفاسد مٹانا چاہتی ہے اور دولت کی تقسیم کی حامی ہے تو کیا ایسا نہیں سمجھا جاسکتا کہ اس کا رخ بھی اسی طرف ہے جس طرف سوشلزم جارہا ہے؟ بلاشبہ سمجھا جاسکتا ہے لیکن ایک خاص درجہ تک اور اس کی حقیقت سمجھ لینی چاہیے۔ دو صورتیں ہیں اور ضروری ہے کہ دونوں کا فرق ملحوظ رکھا جائے : ایک صورت یہ ہے کہ دولت اور وسائل دولت کا احتکار روک دیا جائے اور ہر کمانے والے فرد کو قانون سازی کے ذریعہ مجبور کیا جائے کہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ کمزور افراد کے لیے نکالے، نیز اسٹیٹ کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے کہ کوئی فرد ضروریات زندگی سے محروم نہ رہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ اصل بھی تسلیم کی جائے کہ معیشت کے لحاظ سے تمام افراد طبقات کی حالت یکساں نہیں ہوسکتی اور یہ عدم یکسانیت اکثر حالتوں میں قدرتی ہے۔ کیونکہ سب کی جسمانی و دماغی استداد یکساں نہیں اور جب استعداد یکساں نہیں تو ناگزیز ہے کہ جدوجہد معیشت کے ثمرات بھی یکساں نہ ہوں۔ بالفاظ دیگر انفرادی ملکیت کا حق تسلیم کرلیا جائے کہ جو جس قدر حاصل کرسکتا ہے وہ اس کا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ صرف دولت کا احتکار ہی نہ روکا جائے بلکہ دولت کی انفرادی ملکیت بھی ختم کردی جائے اور ایسا نظام قائم کیا جائے جس میں اجباری قوانین کے ذریعہ اقتصادی اور معیشتی مساوات کی حالت پیدا کردی جائے۔ مثلا وسائل دولت تمام تر قومی ملکیت ہوجائیں انفرادی قبضہ باقی نہ رہے اور جسمانی و دماغی استعداد کے اختلاف سے معیشت کا مختلف ہونا بنائے حق تسلیم نہ کیا جائے۔ التوبہ
127 قرآن نے جو صورت اختیار کی ہے وہ پہلی ہے اور سوشلزم جس بات کے لیے ساعی ہے وہ دوسری ہے۔ دونوں کا مقصد یہ ہے کہ انسانی اکثریت کی شقاوت دور کی جائے، دونوں نے علاج بھی ایک ہی تجویز کیا ہے یعنی دولت کا اکتناز روکا جائے لیکن دونوں کا طریق کار ایک نہیں، ایک اختلاف معیشت سے تعرض نہیں کرتا اور اسے قائم رکھ کر راہ نکالتا ہے۔ دوسرا اسے مٹا دینا چاہتا ہے۔ اسلام اور سوشلزم کا یہ اختلاف اگرچہ محض درجہ (ڈگری) کا اختلاف معلوم ہوتا ہے لیکن تہہ میں مبدا کا اختلاف بھی موجود ہے، سوشلزم کا نظریہ یہ ہے کہ مدارج معیشت کا اختلاف کوئی قدرت اختلاف نہیں ہے، لیکن قرآن میں اس طرح کے اشارات جا بجا پائے جاتے ہیں کہ یہ اختلاف قدرتی ہے اور ضروری تھا کہ ظہور میں آئے۔ وہ کہتا ہے اگر یہاں سب کی حالت یکساں ہوجاتی ہے تو تزاحم و تنافس کی حالت پیدا نہ ہوتی اور اگر یہ حالت پیدا نہ ہوتی تو انسان کی قدرت قوتوں کے ابھرنے اور ترقی پانے کے لیے کوئی شے محرک بھی نہ ہوتی اور اجتماعی زندگی کی وہ تمام سرگرمیاں ظہور میں نہ آتیں جن سے یہ تمام کارخانہ چل رہا ہے۔ (وھو الذی جعلکم خلائف الارض ورفع بعضکم فوق بعض درجت لیبلوکم فی ما اتاکم ان ربک سریع العقاب وانہ لغفور رحیم) اور وہی ہے جس ننے تمہیں زمین میں ایک دوسرے کا جانشین بنایا اور بعض کو بعض پر مرتبے دیے تاکہ جو کچھ تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے، بلاشبہ تمہارا پروردگار (بدعملیوں کی) فورا سزا دینے والا ہے اور بلاشبہ وہ بڑا ہی بخش دینے والا رحمت والا ہے۔ اس آیت میں تین باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے اولا خدا نے انسانی زندگی کا کارخانہ کچھ اس طرح چلایا ہے کہ یہاں ہر گوشہ میں ایک طرح کی جانشینی کا سلسلہ جاری رہتا ہے یعنی ایک فرد اور گروہ جاتا ہے، دوسرا فرد اور گروہ اس کی جگہ لیتا اور اس کے ثمرات و نتائج سعی کا وارث ہوتا ہے۔ ثانیا درجے کے لحاظ سے سب یکساں نہ ہوئے بعض اوپر ہوئے، بعض ان سے نیچے، ثالثا مدارج معیشت کی یہ بلندی و پستی اس لیے ہوئی تاکہ انسان کے عمل و تصرف کے لیے آزمائش کی حالت پیدا ہوجائے اور ہر فرد اور ہر گروہ کو موقع دیا جائے کہ اپنی سعی و کاوش سے جو درجہ حاصل کرسکتا ہے حاصل کرلے۔ آخر میں فرمایا خدا کا قانون جزا سست رفتار نہیں۔ یعنی سعی و طلب کی اسی امتحان گاہ سے جزائے عمل کا معاملہ وابستہ ہے جیسے جس کے اعمال ہوں گے ویسے ہی نتائج اس کے حصہ میں آجائیں گے۔ اسی طرح بابجا قرآن میں پاؤ گے : (واللہ فضل بعضکم علی بعض فی الرزق) خدا نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں برتری دی ہے۔ (نحن قسمنا بینھم معیشتھم فی الحیواۃ الدنیا ورفعنا بعضھم فوق بعض درجات) دنیوی زندگی کی معیشت ہم نے لوگوں میں تقسیم کردی اور اس کا کارخانہ ایسا بنا دیا کہ سب ایک ہی درجہ میں نہیں ہیں۔ کوئی کسی درجہ میں ہے کوئی کسی درجہ میں۔ بہرحال قرآن نے اجتماعی مسئلہ کا جو حل تجویز کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ مدارج معیشت کی مساوات قائم کرنی نہیں چاہتا لیکن حق معیشت کی مساوات ضرور قائم کرتا ہے، یعنی وہ کہتا ہے یہ بات ضروری نہیں کہ سب کو ایک ہی طرح پر سامان معیشت ملے لیکن یہ ضروری ہے کہ ملے سب کو۔ اور سعی و ترقی کی راہ یکساں طور پر سب کے سامنے کھل جائے، اس نے ہر طرح کے نسلی، خاندانی، جغرافیائی، اور طبقاتی امتیاز مٹا دیے، اس نے زندگی کے ہر میدان میں انسانی مساوات کا اعلان کردیا، اس نے وہ تمام رکاوٹیں دور کردیں جو سوسائٹی کے اونچے طبقوں نے کمزور افراد کی خوشحالی و ترقی کی راہ میں پیدا کردی تھیں، اس نے قانون سازی کے ذریعہ دولت کا احتکار اختصاص روک دیا، اس نے زندگی کے ہر گوشہ میں دولت کے اکتناز کی جگہ دولت کی تقسیم پر زور دیا، اس نے اس بات سے قطعا انکار کردیا کہ دولت مندی بجائے خود کوئی حق ہے اس نے بے اعتدلانہ سرمایہ داری کی تمام راہیں روک دیں، اس نے سود کی ہر شکل حرام کردی، اس نے جوئے کو کسی حال میں جائز نہ رکھا۔ پھر ان تمام باتوں سے بڑھ کر یہ کہ انسانی زندگی کے اعمال حق میں انفاق فی سبیل اللہ کو سب سے زیادہ نمایاں جگہ دی، اور ہر کمانے والے فرد کو سامانہ ٹیکس کے ذریعہ مجبور کردیا کہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ دوسروں کے لیے بھی نکالے۔ بس یہ نقشہ ہے جو اسلام نے اجتماعی نظام کا بنایا ہے۔ لیکن سوشلزم صرف اتنے ہی پر قانع نہیں رہنا چاہتا، وہ آگے بڑھنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے انفرادی ملکیت کی جگہ قومی ملکیت کا نظام قائم کردے اور مدارج معیشت کی اونچ نیچ معدوم ہوجائے، وہ یہ اصل تسلیم نہیں کرتا کہ احوال معیشت کا اختلاف قدرتی ہے اور اجتماع زندگی کی سرگرمی و ترقی کے لیے محور و محرک وہی ہے وہ کہتا ہے اس وقت تک حالت ایسی ہی رہی ہے لیکن اگر سوسائٹی کا نظام مساوات معشیت پر قائم کیا گیا تو دوسری طرح کی ذہنی اور معنوی محرکات پیدا ہوجائیں گی اور کارخانہ معیشت کی سرگرمی اسی طرح جاری رہے گی جس طرح اس وقت تک جاری رہی ہے۔ دنیا کا اس وقت تک کا تجربہ اس کے خلاف ہے اور روس کا نیا تجربہ بھی اس وقت تک اپنے نظریوں کو عملیت کا جامہ نہیں پہنا سکا ہے۔ تاہم اس میں شک نہیں کہ سوشلزم کو اس مطالبہ کا حق ہے کہ مزید تجربہ کا موقع دیا جائے۔ (ولتعلمن نباہ بعد حین) حقیقت نفاق : (ل) قرآن نے کفر کی طرح نفاق کا بھی جابجا ذکر کیا ہے اور منافقوں کے اعمال و خصائل کی سب سے زیادہ تفصیل اسی سورت میں ملتی ہے۔ پس ضروری ہے کہ ٹھیک طور پر سمجھ لیا جائے نفاق کی حقیقت کیا ہے اور منافقوں کی جماعت کس طرح کی جماعت تھی؟ (ا) دنیا میں ہم دیکھتے ہیں فکر و عمل کا کوئی گوشہ ہو تین طرح کے آدمی ضرور ہوتے ہیں : مستعد اور صالح طبعییتں، یہ ہر اچھی بات کو پہچان لیتیں اور قبول کرلیتی ہیں اور پھر سرگرم عمل ہوجاتی ہیں۔ مفسد طبیعتیں، انہیں ہر اچھی بات سے انکار ہوتا ہے، کوئی سیدھی بات ان کے اندر اترتی نہیں۔ درمیان گروہ : یہ ہر بات کو سن لینے اور مان لینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے لیکن فی الحقیقت اس کے اندر تیاری نہیں ہوتی۔ وہ قدم اٹھا دیتا ہے مگر چلنا نہیں چاہتا اور چلتا ہے تو پہلے ہی قدم میں لڑ کھڑا جاتا ہے۔ اس میں پہلے گروہ کی مستعدی نہیں ہوتی کہ جو بات مان لی اسے ٹھیک ٹھیک مان لے اور عمل کرے۔ اس میں دوسرے گروہ کی بے باکی و جرات بھی نہیں ہوتی کہ یکسو ہو کر صاف صاف انکار کردے۔ پس گو وہ سمجھتا ہے کہ ایک راہ اختیار کرلی ہے، لیکن فی الحقیقت دونوں راہوں میں سے کسی میں بھی نہیں ہوتا۔ جہاں تک اقرار کا تعلق ہے قبول کرنے والوں میں ہوتا ہے جہاں تک اذعان و عمل کا تعلق ہے منکروں کی سی حالت میں : (مذبذبین بین ذلک لا الی ھولاء ولا الی ھولاء) جزم و یقینن وار عزم و عمل پہلے گروہ کا خاصہ ہے۔ انکار، جحود دوسرے گروہ کا اور شک و تذبذب اور بے عملی و تعطل تیسرے کا۔ بعینہ یہی حال ایمان و عمل کے دائرہ کا بھی ہے، یہاں بھی طبیعت انسانی کی یہ تینوں حالتیں ظہور میں آتی ہیں۔ مستعد طبیعتیں قبول کرلیتی اور چل کھڑی ہوتی ہیں، یہ مومن ہیں، مفسد انکار کرتے اور مخالفت میں سرگرم ہوجاتے ہیں۔ یہ کافر ہیں، کچھ لوگ قبول کرلیتے ہیں لیکن فی الحقیقت قبولیت کی روح ان کے اندر نہیں ہوتی یہ منافق ہیں۔ (٢) قرآن نے کفر کی طرح نفاق کے اعمال و خصائص بھی پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیے۔ کیونکہ کفر کی طرح نفاق بھی محض عہد نزول ہی کی پیداوار نہ تھا۔ ہمیشہ ظہور میں آنے والی گمراہی تھی اور انسان کی گمراہیاں کسی خاص عہد و نسل کی نہیں بلکہ نوع انسانی کی گمراہیاں ہوتی ہیں۔ (٣) ایک عام غلط فہمی یہ پھیلی ہوئی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں منافقوں کا گروہ کافروں کا کوئی خاص سازشی گروہ تھا جو جاسوسوں کی طرح بھیس بدل کر مسلمانوں میں رہنے لگا تھا۔ باہر نکلتا تو مسلمان بن جاتا، اکیلے میں ہوتا تو اپنے اصلی بھیس میں لوٹ آتا، حالانکہ ایسا سمجھنا قرآن و احادیث کی صاف صاف تصریحات کو جھٹلانا ہے۔ ان لوگوں نے اسلام بطور اپنے دین و اعتقاد کے اسی طرح اختیار کرلیا تھا جس طرح دوسرے مسلمانوں نے، چنانچہ اسی سورت کی آیت (٧٤) میں ہے کہ : (وکفروا بعد اسلامھم) اسلام لاکر پھر کفر کی باتیں کیں، وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے تھے ان کی بیویاں انہیں مسلمان سمجھتی تھیں، ان کے بچے انہیں مسلمان سمجھتے تھے، ان کے گھر کا ہر فرد یقین کرتا تھا کہ ہم مسلمان ہیں، وہ نماز پڑھتے تھے، روزہ رکھتے تھے، اسلام کے طور طریقے پر اولاد کی پرورش کرتے تھے۔ جہاں تک کسی دین کو بطور ایک دین کے اختیار کرلینے کا تعلق ہے کوئی بات ایسی نہ تھی جو بظاہر مسلمان ہونے کے خلاف ہو، تاہم قرآن نے فیصلہ کیا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں، کیونکہ اسلام کا گھونٹ تو انہوں نے پی لیا تھا حلق کے نیچے اترا تھا، کسی تعلیم کو اختیار کرلینے کے بعد یقین و عمل کی جو روح پیدا ہونی چاہیے اس سے یک قلم محروم تھے، اخلاص اور صداقت کے لیے ان کے دلوں میں کوئی جگہ نہیں تھی، وہ اللہ کا کلام سنتے مگر اس لیے نہیں کہ عمل کریں بلکہ اس لیے کہ محض سنتے رہیں۔ وہ نماز پڑھتے مگر بے دلی کے ساتھ، خیرات کرتے مگر مجبور ہوکر، ان کے دلوں میں دین سے زیادہ دنیا کا عشق تھا، اسلام کے جو احکام ان کے شخصی اغراض کے خلاف نہ ہوتے ان پر خوش خوش عمل کرتے، جو خلاف ہوتے ان سے نکل بھاگنا چاہتے، جب کبھی خوشحالیوں کا موقع ہوتا تو وہ سب سے پہلے مومن تھے، جب کبھی قربانیوں کا موقع آجاتا تو سب سے آخری صفوں میں بھی دکھائی نہ دیتے۔ جہاد کے تصور سے ان کی روحیں لرز جاتیں، انفاق کا حکم ان کے لیے موت کا پیام ہوتا، اسلام کے دشمنوں سے سازگاریاں رکھنے میں انہیں کچھ تامل نہ ہوتا۔ وہ سمجھتے تھے دونوں طرف ملے رہنے ہی میں مصلحت ہے، اگر پیام ہوتا اسلام کے دشمنوں سے سازگاریاں رکھنے میں انہیں کچھ تامل نہ ہوتا، وہ سمجھتے تھے دونوں طرف ملے رہنے ہی میں مصلحت ہے، اگر بازی الٹ پڑی اور دشمن فتح مند ہوگئے تو ان کے پاس بھی اپنی بنی رہے گی۔ ایمان و کفر کی طرح نفاق کی تمام حالتیں بھی یکساں نہیں، اور نہیں تھیں، چونکہ اصل کے اعتبار سے یہ حالت بھی انکار ہی کی ایک قرار نما صورت ہے اس لیے جب بڑھتی ہے تو انکار قطعی ہی کی طرف بڑھتی ہے اور اسی کے خصائص رونما ہونے لگتے ہیں۔ کسی میں کم کسی میں زیادہ، چنانچہ اس عہد کے منافقوں کی حالت نفاق یکساں نہ تھی۔ عبداللہ بن ابی کا نفاق ہر منافق کا نفاق نہ تھا، خود قرآن نے اسی سورت کی آیت (١٠١) میں اس طرف اشارہ کیا ہے : وممن حولکم من الاعراب منافقون ومن اھل المدینۃ مردوا علی النفاق) کسی کے نفاق کا رخ زیادہ تر اس طرف تھا کہ ہجرت سے جی چراتے تھے۔ کسی پر انفاق مال شاق تھا، کوئی جہاد سے بچنا چاہتا تھا، کسی پر نماز کا قیام سخت گزرتا تھا، کوئی ایسا بھی تھا کہ احکام الہی اور آیات قرآنی کی ہنسی اڑاتا تھا اور اس تاک میں تھا کہ اگر مسلمانوں پر کوئی آفت آپڑے تو کھلم کھلا دشمنوں کے ساتھ ہوجائے۔ تاہم یہ قطعی ہے کہ ان سب نے اسلام بطور اپنے دین و طریقہ کے قبول کرلیا تھا اور مسلمانوں ہی میں سمجھے جاتے تھے، یہ بات نہ تھی کہ محض ایک سازشی گروہ بھیس بدل کر مسلمانوں میں آملا ہو اور مسلمانوں میں سے نہ ہو۔ منافقوں کے اعمال و خصائص : (ا) جب راہ حق میں جان و مال کی قربانی کا وقت آتا تو طرح طرح کے حیلے بہانے نکالتے اور کہتے ہمیں گھر بیٹھ رہنے کی اجازت مل جائے۔ (ب) مسلمانوں میں ہمیشہ فتنہ پھیلاتے، کمزور اور ناسمجھ آدمیوں کو گمراہ کرتے، ادھر کی بات ادھر لگاتے۔ (ج) جب کبھی جماعت کے لیے کوئی نازل وقت آجاتا تو اس طرح کی باتیں نکالتے کہ دوسروں کے دل بھی کمزور پڑجاتے اور کوئی نہ کوئی فتنہ اٹھ کھڑا ہوتا۔ چنانچہ احد میں انہوں نے ایسا ہی کیا اور اس موقع پر بھی کمی نہیں کی۔ (د) دینداری کے بھیس میں اپنا نفاق چھپاتے اور کہتے اس کام میں ہمارے لیے فتنہ ہے، اس لیے شریک نہیں ہوسکتے۔ (ہ) مسلمانوں کی مصیبت ان کے لیے مصیبت نہیں ہوتی اور نہ ان کی خوشی ان کے لیے خوشی۔ (و) جب کوئی جماعتی معاملہ پیش آجاتا تو اس کا ساتھ نہ دیتے اور طرح طرح کی فتنہ اندازیاں کرتے، پھر اگر کوئی حادثہ پیش آجاتا تو کہتے ہم نے پہلے ہی یہ بات معلوم کرلی تھی۔ اسی لیے ساتھ نہیں دیا تھا اور پھر بجائے اس کے کہ قوم کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھیں دل میں خوش ہوتے کہ چلو اچھا ہوا کامیاب نہ ہوئے۔ (ز) نماز پڑھیں گے تو اس بے دلی سے کہ معلوم ہوگا ایک بوجھ آپڑا ہے اور چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح پٹک کر الگ ہوجائیں۔ (ح) نیکی کی راہ میں خوش دلی سے کبھی خرچ نہ کریں، کنجوسی ان کی سب سے بڑی علامت ہے۔ (ط) قسمیں کھا کھار کر یقین دلائیں گے کہ ہمیں مخالف نہ سمجھو حالانکہ دل میں نفاق بھرا ہوا ہے۔ (ی) چونکہ دلوں میں کھوٹ ہے اس لیے ڈرے سہمے رہتے ہیں اور بہت سے کام دل کی خواہش سے نہیں بلکہ محض جماعت کے خوف سے کرتے ہیں۔ (ک) چونکہ راہ حق کی آزمائشیں پیش آتی رہتی ہیں اور دل میں اخلاص و یقین نہیں ہے اس لیے بسا اوقات صورت حال سے ایسے مضطرب ہوجاتے ہیں کہ اگر چھپ بیٹھنے کی کوئی جگہ مل جائے تو فورا رسی تڑا کر بھاگ کھڑے ہوں۔ (ل) غرض کے بندے ہیں، ان کی خوشنودی اور ناراضی کا سارا دارومدار دنیا اور دنیا کا حصول ہے، اگر صدقات کی تقسیم میں انہیں بھی کچھ دے دیا جائے تو خوش رہیں گے، نہ دیا جائے تو بگڑ بیٹھیں گے۔ (م) چونکہ ایمان و راہتی سے محروم ہیں اس لیے حق و ناحق کی کچھ پروا نہیں۔ جس طرح بھی ملے مال و دولت حاصل کرنی چاہیے۔ صدقات و خیرات کے مستحق نہیں لیکن اس کے حصول کے خواہش مند رہتے ہیں۔ (ن) اگر ان کی ہوائے نفس کے خلاف کوئی فیصلہ ہو تو فورا طعنہ زنی پر اتر آئیں کہ دوسروں کی طرف داری کی جاتی ہے۔ (س) پیغمبر اسلام مخلص مومنوں کا اخلاص پہچانتے اور انہیں قابل اعتماد سمجھتے تھے۔ یہ بات منافقوں پر شاق گزرتی حتی کہ بعضوں نے کہا وہ کان کے کچے ہیں لوگوں کی باتوں میں آجاتے ہیں۔ (ع) جب دیکھتے ہیں کہ ان کی منافقانہ روش پر عام برہمی پیدا ہوگئی تو قسمیں کھا کھا کر لوگوں کو یقین دلاتے اور انہیں اپنے سے راضی رکھنا چاہتے۔ قرآن کہتا ہے ان کی حق فراموشی دیکھو، انہیں خدا کی تو کچھ پروا نہیں کہ بدعملیاں کیے جاتے ہیں لیکن انسانوں کی اتنی پروا ہے کہ جونہی ان کی نگاہیں بدلی ہوئی نظرآئیں، لگے خوشامد کرنے اور جھوٹی قسمیں کھا کھا کر یقین دلانے۔ فی الحقیقت انسانی گمراہی کی بو العجبیوں میں سے ایک عجیب بو العجبی یہ ہے کہ وہ خدا پر ایمان رکھنے کا مدی ہوتا ہے اور جانتا ہے کہ اس کے علم سے کوئی بات پوشیدہ نہیں۔ تاہم ہر طرح کی معصیتیں کیے جائے گا اور ایک لمحہ کے لیے اسے خیال نہ ہوگا کہ میں کیا کر رہا ہوں لیکن جونہی انسانوں کی نظر میں اس کی معصیتیں نمایاں ہوئیں اس کے ہوش و حواس گم ہوجائیں گے اور ہزار طرح کے جتن کرے گا کہ کہیں وہ اسے برا نہ سمجھتے لگیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ فی الحقیقت اسے خدا کی ہستی کا یقین نہیں، کیونکہ اگر یقین ہوتا اسی درجہ کا یقین جس درجہ کا یقین انسانوں کی موجودگی پر رکھتا ہے تو ممکن نہ تھا کہ اس سے بے پروا ہوجاتا۔ قرآن کہتا ہے یہی حالت نفاق کی حالت ہے۔ (ف) دین کے بارے میں ان کی زبانیں چھوٹ ہیں، لیکن جب پکڑے جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے بطور تفریح اور مزاح کے ایک بات کہہ دی تھی، سچ مچ کو ہمارا یہ مطلب نہ تھا، قرآن کہتا ہے یہ عذر گناہ بدتراز گناہ ہے، کیونکہ اس سے معلوم ہوا تم اللہ کی اس کی آیتوں کی اس کے رسول کی ہنسی اڑاتے ہو۔ (ص) جس طرح مومن مرد اور عورتیں راہ حق میں ایک دوسرے کے رفیق و معاون ہیں اسی طرح منافق راہ منافق میں ایک دوسرے کے رفیق و معاون ہیں۔ (ق) کذب گوئی ان کا شعار ہے، صریح ایک بات کہیں گے اور پھر انکار دیں گے۔ (ر) بعضوں کا یہ حال ہے کہ عہد کرتے ہیں، خدایا اگر تو ہم پر فضل کرے تو ہم تیری راہ میں خیرات کریں گے اور نیکی کی زندگی بسر کریں گے، لیکن جب اللہ فضل کرتا ہے تو پھر بے تامل بخیلی پر اتر آتے ہیں اور کچھ اس کی راہ میں نہیں نکالتے، اس کی طرف سے رخ پھیرے رہتے ہیں۔ (ش) ان کا ایک وصف یہ ہے کہ خود تو کچھ کریں گے نہیں لیکن کرنے والوں کے خلاف زبان کھولنے میں ہمیشہ بے باک رہیں گے۔ مثلا اگر خوش حال آدمیوں نے بڑی بڑی رقمیں راہ حق میں نکالیں تو کہیں گے دکھاوے کے لیے یا کسی دنیوی غرض کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ اگر کوئی غریب آدمی اپنی محنت مزدوری کی کمائی میں سے چار پیسے نکال کر رکھ دے گا تو اس کی ہنسی اڑائیں گے کہ واہ اچھی خیرات کی۔ (ت) راہ حق میں محنتیں مشقتیں برداشت کرنا ان کی سمجھ میں نہیں آتا، غزوہ تبوک کا معاملہ سخت گرمی میں پیش آیا تھا اس لیے لوگوں سے کہتے تھے اس گرمی میں کہاں جاتے ہو؟ (ث) ایمان کے ضعف نے انہیں مردانگی کے احساس وغیرت سے بھی محروم کردیا، جب لوگ قوم و ملت کی راہ میں جان و مال قربان کرتے ہیں تو وہ عورتوں کے ساتھ گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں اور ذرا بھی نہیں شرماتے۔ (خ) کچھ لوگ ایسے ہیں جو نفاق کی حالت میں شب و روز رہتے رہتے بڑے مشاق ہوگئے ہیں، دوسرے اتنے مشاق نہیں، جو مشاق ہیں تم انہیں تاڑ نہیں سکتے۔ (ذ) بعض لوگ دینداری کے بھیس میں ایسی راہیں نکالتے کہ مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ ہو اور ان کے مقاصد کو نقصان پہنچے۔ مثلا ایک مسجد بنائی اور پیغمبر اسلام سے عرض کیا آپ اس میں نماز پڑھا دیں تو ہمارے لیے برکت و سعادت ہو، مقصود یہ تھا کہ اپنے اجتماع کے لیے ایک نیا حلقہ پیدا کریں اور مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ ہو۔ (ض) کوئی سال نہیں گزرتا کہ ان کے لیے تنبیہ و اعتبار کی کوئی نہ کوئی بات ظہور میں نہ آجاتی ہو لیکن غفلت کا یہ حال ہے کہ نہ تو توبہ کرتے ہیں نہ عبرت پکڑتے ہیں۔ (٥) سورۃ آل عمران، نساء، انفال، احزاب، محمد، فتح، حدید، مجادلہ اور حشر بھی منافقوں کے اعمال و خصائص بیان کیے گئے ہیں اور ایک پوری سورت منافقون انہی کے حالات میں ہے۔ چاہیے کہ اس موقع پر فہرست سے مدد لے کر وہ تمام مقامات بھی دیکھ لیے جائیں۔ (٦) یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ سورۃ بقرہ کی آیت (٨) (ومن الناس من یقول امنا باللہ وبالیوم الاخر وما ھم بمومنین) میں اور اس کی بعد کی آیتوں میں جن لوگوں کی طرف اشارہ کیا ہے اس سے مقصود منافقوں کی یہ جماعت نہیں ہے بلکہ یہود و نصاری ہیں جو ایمان باللہ کا دعوی کرتے تھے مگر حقیقتا ایمان کی روح ان میں باقی نہیں رہی تھی۔ فی الحقیقت یہ حالت بھی نفاق ہی کی حالت ہے جو ایک مدت کے جمود و اعراض کے بعد پیروان مذاہب پر طاری ہوجاتی ہے لیکن مقصود اس سے مدینہ کے منافق نہیں ہیں۔ (٧) یہاں سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ان احادیث کا مطلب کیا ہے جن میں نفاق کی خصلتیں بیان کی گئی ہیں اور فرمایا ہے جس میں یہ خصلت ہو تو سمجھ لو نفاق کی خصلت آگئی۔ مثلا (اربع، من کن فیہ، کان منافقا خالصا، ومن کانت فیہ خصلۃ منھن، کانت فیہ خصلۃ من النفاق) (بخاری) (ولو صلی و صام، وزعم انہ مسلم) (مسلم) یعنی چار خصلتیں ہیں۔ جس میں یہ چاروں جمع ہوجائے وہ پورا منافق ہے اور جس میں کوئی ایک خصلت پائی جائے تو سمجھ لو نفاق کی ایک خصلت پیدا ہوگئی۔ مسلم کے لفظ میں یہ بھی ہے اگرچہ وہ نما پڑھتا ہو، روزہ رکھتا ہو اور اس زعم میں ہو کہ مسلمان ہے، پھر وہ خصلتیں بیان کی ہیں جو سچے مومن میں نہیں ہونی چاہیے۔ مثلا امانت میں خیانت، جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی، غصہ میں آکر بے قابو ہوجانا، تو معلوم ہوا نفاق کوئی ایسی حالت نہ تھی جو صرف آنحضرت کے زمانہ ہی میں ظہور پذیر ہوئی ہو۔ اور نہ منافقوں کا گروہ کوئی ایسا گروہ تھا جو محض چھپے کافروں کا ایک سازشی گروہ ہو۔ یہ اعمال و عمل کی کمزوری کی ایک زیادہ سخت حالت ہے اور جس طرح اس زمانہ میں تھی اسی طرح ہر زمانے میں ہوسکتی ہے اور ہوتی رہی ہے۔ اگر آج مسلمانوں کی اکثریت اپنے ایمان و عمل کا احتساب کرے تو اسے معلوم ہوجائے کہ نفاق کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے اور کسی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں، وہ اپنے ہی وجود میں اسے دیکھ سکتی ہے۔ دقائق ہستی کے احوال ثلاثہ : (٨) یہ جو قرآن نے انسان کے عقائد و اعمال کی تین حالتیں قرار دیں : ایمان، کفر، نفاق تو فی الحقیقت عالم ہستی کے تمام گوشوں میں اصلا تین ہی حالتیں پائی جاتی ہیں۔ یا تو تکوین کی حالت ہوگی یا فساد کی حالت ہوگی یا پھر دونوں کی درمیانی حالت، خود اپنے وجود ہی کو دیکھ لو، یا زندگی ہے یا موت ہے یا بیماری ہے۔ بیماری کو نہ تو زندگی کی صحیح حالت کہہ سکتے ہیں نہ موت ہی قرار دے سکتے ہیں، دونوں کے بین بین ہے لیکن رخ اس کا موت ہی کی طرف ہے۔ قلب و روح کا بھی یہی حال ہوا، ایمان زندگی ہے، موت کفر ہے اور نفاق بیماری۔ یہ مقام مہمات معارف قرآنی میں سے ہے لیکن : گر نویسم شرح آں بے حد شود۔۔۔ مثنوی ہفتاد من کاغذ شود مسجد ضرار : آیت (١٠٧) میں جس مسجد کا ذکر کیا گیا ہے اور جا تاریخ اسلام میں مسجد ضرار کے نام سے یاد کی جاتی ہے اس کا مختصرا حال یہ ہے۔ پیغمبر اسلام جب مدینہ آئے تو پہلے قبا نامی مقام میں قیام فرمایا، یہاں آپ کے حکم سے ایک مسجد تعمیر ہوئی تھی جو عہد اسلام کی پہلی مسجد ہے۔ بعض منافقوں نے جن کی تعداد بعض روایات سے بارہ ثابت ہوتی ہے، اسی مسجد کے پاس ایک نئی مسجد تعمیر کی اور جب پیغمبر اسلام تبوک کے لیے نکل رہے تھے تو آپ کی خدمت میں آکر عرض کیا۔ ایک دن وہاں آکر نماز پڑھا دیجیے۔ آپ نے فرمایا ابھی تو سفر درپیش ہے۔ واپسی پر دیکھا جائے گا، پھر جب آپ تبوک سے واپس ہوئے اور مدینہ کے بالکل قریب پہنچ گئے تو یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ نے بانیان مسجد کے منافقانہ مقاصد سے آپ کو مطلع کردیا، آپ نے فورا حکم دیا کہ یہ مسجد گرا دی جائے۔ چنانچہ قبل اس کے کہ مدینہ پہنچیں، مسجد منہدم کردی گئی تھی۔ اس آیت میں مسجد بنانے کے چار مقصد بیان کیے ہیں ؛ (ا) ضرارا، یعنی ان کا مطلب یہ ہے کہ قبا کے مخلص مومنوں کو نقصان پہنچائیں، کیونکہ مسجد قبا کی وجہ سے انہیں ایک خاص عزت حاصل ہوگئی ہے۔ یہ حسد و عناد سے چاہتے ہیں ان کی یہ خصوصیت باقی نہ رہے۔ (ب) و کفرا کفر کے مقاصد پورے ہوں، یعنی اپنی الگ مسجد ہوجائے گی تو مسجد قبا میں نماز کے لیے جانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی اور اس طرح نماز ترک کرنے کا موقع مل جائے گا۔ کیونکہ لوگ سمجھیں گے انہوں نے اپنی مسجد میں نماز پڑھ لی، یہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں گے، اس سے معلوم ہوا کہ ترک نماز کی حالت ایک ایسی حالت ہے جسے قرآن کفر کی حالت سے تعبیر کرتا ہے۔ نیز معلوم ہوا کہ نیک کاموں کا نیک ہونا مقصد و نیت پر موقوف ہے ورنہ مسجد بنانے جیسا نیک کام بھی کفر کے لیے ہوجاسکتا ہے۔ (ج) (وتفریقا بین المومنین) مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے لیے، کیونکہ قبا کی تمام آبادی ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتی تھی، اب بالکل اس کے پاس دوسری مسجد بنے گی تو جماعت بٹ جائے گی۔ کچھ لوگ پچھلی مسجد میں جائیں گے، کچھ نئی میں اور جب ایک جماعت نہ رہی تو مسلمانوں کے باہمی اجتماع و تعارف کا وہ مقصد بھی فوت ہوگیا جو قیام جماعت کے اہم ترینن مقاصد میں سے ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک مسجد اگر موجود ہو تو بلا ضرور دوسری مسجد اس کے قریب تعمیر کرنا جائز نہیں کیونکہ ایسا کرنا تفریقا بین المومنین ہے، اور یہی وجہ ہے کہ تمام ائمہ اسلام نے اتفاق کیا کہ ہر شہر میں جمعہ کی جماعت ایک ہی جگہ ہونی چاہیے، اور اگر آبادی اتنی زیادہ ہوجائے کہ ایک جگہ کافی نہ ہو تو پھر بقدر ضرورت ایک سے زیادہ مساجد میں جمعہ قائم کیا جائے۔ یہ نہیں کرنا چہایے کہ بلا ضروری بہت سی مسجدیں تعمیر کردی جائیں اور ہر مسجد میں جمعہ شروع کردیا جائے۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں نے یہ صریح حکم قرآنی پس پشت ڈال دیا اور محض ریاکاری اور نام و نمود کے لیے یا کسی سابق مسجد اور اس کے مہتمموں کو نقصان پہنچانے کے لیے بکثرت مسجدیں، ہر شہر و قریہ میں تعمیر کردیں اور روز بروز تعمیر کرتے جاتے ہیں۔ اگر ان کی تعمیر کے حالات و مقاصد کا جائزہ لیا جائے تو بڑی تعداد ٹھیک ٹھیک مسجد ضرار کی سی مسجدیں ثابت ہوں گی مگر کوئی نہیں جو اس فساد سے لوگوں کو روکے بلکہ خود علماء و مشائخ اپنے شخص انتفاع و ترفع کے لیے اس مفسدانہ فعل کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں اور اپنے معتقدوں کو تعمیر مسجد کے بے محل ثواب سنا سنا کر مزید ترغیبیں دیتے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کی تفریق و انتشار کا یک بڑا باعث مسجدوں کا وجود بھی ہوگیا ہے۔ ایک ہی محلہ میں چار چار پانچ پانچ جگہ جماعتیں ہوتی ہیں۔ ایک ہی رقبہ میں بلا ضرورت ایک سے زیادہ جگہ جمعہ پڑھا جاتا ہے، پھر صرف اتنے ہی پر قدم افساد نہیں رکا بلکہ عیدیں کی جماعتیں بھی مسجدوں میں ہونے لگے ہیں حالانکہ ایسا کرنا صریح سنت مستمرہ کے خلاف ہے اور اجتماع عیدین کا مقصد عظیم ضائع کردینا ہے۔ (د) و ارصادا لمن حارب اللہ ورسولہ من قبل۔ اللہ اور اس کے رسول سے جس نے جنگ کی اس کے لیے ایک کمین گاہ پیدا کری جائے، یا اس کے انتظار و توقع میں پہلے سے ایک جگہ بنا دی جائے۔ یعنی دشمنان اسلام کے لیے جن سے یہ لوگ ساز باز رکھتے ہیں اٹکنے کی جگہ پیدا ہوجائے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ میں قبیلہ خزرج کا ایک آدمی ابو عامر راہب تھا جو ظہور اسلام سے پہلے عیسائی ہوگیا تھا۔ جب پیغمبر اسلام مدینہ تشریف لائے تو کلمہ اسلام کا عروج اس پر شاق گزرا اور اسلام کے خلاف سازشوں میں سرگرم ہوگیا، پہلے قریش مکہ کا ساتھ دیا پھر شہننشاہ قسطنطنیہ کے پاس پہنچا اور اسے مسلمانوں پر حملہ کی ترغیب دی۔ قبا کے بعض منافقین میں اور اس میں قدیم سے رسم و راہ تھی، یہ انہیں اسلام کے خلاف اکساتا رہتا اور رومیوں کے حملہ کا یقین دلاتا۔ یہاں لمن حارب اللہ و رسول میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ (٩) اس سورت میں منافقوں کے لیے حسب ذیل احکام دیے گئے ہیں : (ا) ایسے لوگوں کا انفاق قبول نہ کیا جائے (آیت (٨٣) اس سے معلوم ہوا کہ جو افراد جماعت کے مقاصد کو نقصان پہنچائیں امام کو چاہیے ان کی مالی اعانات قبول کرنے سے انکار کردے۔ کیونکہ ایسے لوگوں کا مال قبول کرنا انہیں بدعملیوں اور شرارتوں پر جرات دلانا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم روپیہ خرچ کر کے اپنے منافقانہ اعمال کی پردہ پوشی کرتے رہیں گے۔ (ب) صاف صاف کہہ دیا کہ یہ لوگ بھی معاندوں کی طرح نجات اخروی سے محروم رہیں گے اگرچہ اپنے کو مومن سمجھتے ہیں۔ (آیت : ٦٨) (ج) مناقوں سے بھی جہاد کرنے کا حکم دیا گیا (آیت : ٧٣) اس سورت کے دوسرے احکام و مواعظ کی طرح اس حکم کا تعلق بھی آئندہ پیش آنے والے واقعات سے تھا۔ چنانچہ جب پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد فتنہ نفاق نے سر اٹھایا اور متعدد قبائل نے زکوۃ دینے سے انکار کردیا تو صحابہ کرام نے اس حکم کی تعمیل کی اور ان سے قتال کرنے پر متفق ہوگئے۔ (د) اشرار منافقین کی نسبت فرمایا جو ان میں سے بغیر توبہ کیے مرجائیں گے وہ کبھی بخشے نہیں جائیں گے، اگرچہ خود پیغمبر اسلام بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں۔ (آیت : ٨٠) سورۃ منافقون میں فرمایا تھا : (سواء علیھم استغفرت لھم ام لم تستغفرلھم) تم ان کے لیے مغفرت طلب کرو یا نہ کرو دونوں حالتیں ان کے لیے یکساں ہیں۔ وہ بخشے جانے والے نہیں۔ یہاں یہی بات زیادہ زور دے کر کہی گئی کہ (ان تستغفرلھم سبعین مرۃ) تم ستر مرتبہ (یعنی سینکڑوں مرتبہ) ہی کیوں نہ دعائے مغرت کرو مگر یہ بخشے جانے والے نہیں۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب عبداللہ بن ابی کا انتقام ہوا تو اس کے لڑکے نے آپ سے درخواست کی کہ کفن کے لیے اپنا پیراہن عطا فرمائیں اور نماز جنازہ پڑھا دیں، اور آپ نے درخواست منظور کرلی۔ حضرت عمر پر یہ بات شاق گزری تھی، مگر آپ نے فرمایا : (لو اعلم انی ان ازدت علی السبعین غفرلہ، لزدت علیھا) (بخاری والجماعہ) اس حدیث اور آیت مندرجہ صدر کی تطبیق میں مفسرین کو مشکلات پیش آئی ہیں، لیکن فی الحقیقت معاملہ بالکل واضھ ہے اور تشریح اس کی سورۃ منافقون کے نوٹ میں ملے گگگی۔ (ہ) جن منافقوں نے اس موقع پر شرکت نہ کی آئندہ اگر وہ کسی ایسے کام میں شریک ہونا چاہیں تو صاف انکار کردیا جائے اور انہیں شریک نہ کیا جائے۔ (آیت : ٨٣) (و) ان میں سے جو کوئی بغیر توبہ کیے مرجائے پیغمبر اسلام اس کے جنازہ میں شریک نہ ہوں اور نہ حسب معمول دعا مانگیں (آیت : ٨٤) حضرت حذیفہ کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم خاص خاص منافقوں کے لیے ہوا تھا اور آنحضرت نے ان کے نام بتلا دیے تھے۔ جبیر بن مطعم سے مروی ہے کہ یہ بارہ آدمی تھے۔ (فتح الباری) (ز) اگر یہ لوگ معذرت کریں تو صاف صاف کہہ دیا جائے کہ اب تمہاری زبانی معذرتیں نہیں سنی جائیں گی۔ عمل دیکھا جائے گا۔ آئندہ اگر تمہارے اعمال سے اخلاص ثابت ہوا تو سمجھا جائے گا کہ تائب ہوگئے، نہیں تو منافق متصور ہوں گے۔ (آیت : ٩٤) (ح) مسلمانوں کو حکم ہوا ان سے گردن موڑ لو، یعنی ان سے ربط ضبط نہ رکھو۔ (آیت : ٩٥) (١٠) اس باب میں بے شمار امور تفصیل طلب ہیں اور مباحث تفسیر و حدیث کے متعدد مقامات ہیں جن کی وضاحت و تحقیق ضروری ہے لیکن مزید تفصیل کا یہ موقعہ نہیں، البیان کا انتظار کرنا چاہیے۔ شرح مقام ورضوا عنہ : (ل) آیت (١٠٠) میں سابقون الاولون اور ان کے متبعین کی نسبت فرمایا : (رضی اللہ عنہھم ورضوا عنہ) اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے، اس مقام کا ایک پہلو قابل غور ہے جس پر لوگوں کی نظر نہیں پڑی، یعنی (ورضوا عنہ) پر کیوں زور دیا گیا؟ اتنا کہہ دینا کافی تھا کہ اللہ ان سے خوشنود ہوا۔ کیونکہ ان کے اعمال اللہ کی خوشنودی کے لیے تھے، یہ بات خصوصیت کے ساتھ کیوں کہی گئی کہ وہ بھی اللہ سے خوشنود ہوئے؟ اس لیے کہ ان کے ایمان و اخلاص کا اصلی مقام بغیر اس کے نمایاں ہوسکتا تھا۔ انسان جب کبھی کسی مقصد کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے اور مصیبتوں سے دورچار ہوتا ہے تو دو طرح کی حالتیں پیش آتی ہیں : کچھ لوگ جو انمرد اور باہمت ہوتے ہیں۔ وہ بلاتامل ہر طرح کی مصیبتیں جھیل لیتے ہیں، لیک ان کو جھیلنا جھیل لینا ہی ہوتا ہے، یہ بات نہیں ہوتی کہ مصیبتیں ان کے لیے مصیبتیں نہ رہی ہوں، عیش و راحت ہوگئی ہوں، کیونکہ مصیبت پھر مصیبت ہے، باہمت آدمی کڑا گھونٹ بغیر کسی جھجک کے پی لے گا لیکن اس کی کڑواہٹ کی بدمزگی محسوس ضرور کرے گا۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں صرف باہمت ہی نہیں کہنا چاہیے بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ سمجھنا چاہیے۔ ان میں صرف ہمت و جوانمردی ہی نہیں ہوتی بلکہ عشق و شیفگتی کی حالت پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ مصیبتوں کو مصیبتوں کی طرح نہیں جھیلتے بلکہ عیش و راحت کی طرح ان سے لذت و سرور حاصل کرتے ہیں۔ راہ محبت کی ہر مصیبت ان کے لیے عیش و راحت کی ایک نئی لذت بن جاتی ہے۔ اگر اس راہ میں کانٹوں پر لوٹنا پڑے تو کانٹوں کی چبھن میں انہیں ایسی راحت ملے جو کسی کو پھولوں کی سیج پر لوٹ کر نہیں مل سکتی حتی کہ اس راہ کی مصیبتیں جس قدر بڑھتی جاتی ہیں اتنی ہی زیادہ ان کے دل کی خوشحالیاں بھی بڑھتی جاتی ہیں، ان کے لیے صرف اس بات کا تصور کہ یہ سب کچھ کسی کی راہ میں پیش آرہا ہے اور اس کی نگاہیں ہمارے حال سے بے خبر نہیں عیش و سرور کا ایک ایسا بے پایاں جذبہ پیدا کردیتا ہے کہ اس کی سرشاری میں جسم کی کوئی کلفت اور ذہن کی کوئی اذیت محسوس ہی نہیں ہوتی۔ یہ بات سننے میں تمہیں عجیب معلوم ہوتی ہوگی لیکن فی الحقیقت حالت میں اتنی عجیب نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کے معمولی واردات میں سے ہے، اور عشق و محبت کا مقام تو بہت بلند ہے بو الہوسی کا عالم بھی ان واردات سے خالی نہیں : حریف کاوش مژگان خونریزش نہ ناصح۔۔۔ بہ دست آور رگ جانے و نشتر را تماشا کن !!! سابقون الاولون کی محبت ایمانی کا یہی حال تھا۔ ہر شخص جو ان کی زندگی کے سوانح کا مطالعہ کرے گا بے اختیار تصدیق کرے گا کہ انہوں نے راہ حق کی مصیبتیں صرف جھیلی ہی نہیں، بلکہ دل کی پوری خوشحالی اور روح کے کامل سرور کے ساتھ اپنی پوری زندگیاں ان میں بسر کر ڈالیں۔ ان میں سے جو لوگ اول دعوت میں ایمان لائے تھے ان پر شب و روز کی جاں کا ہیوں اور قربانیوں کے پورے تئیس برس گزر گئے لیکن اس تمام مدت میں کہیں سے بھی یہ بات دکھائی نہیں دیتی کہ مصیبتوں کی کڑواہٹ ان کے چہروں پر کبھی کھلی ہو، انہوں نے مال و علائق کی ہر قربانی اس جوش و مسرت کے ساتھ کی گویا دنیا جہان کی خوشیاں اور راحتیں ان کے لیے فراہم ہوگئی ہیں۔ اور جان کی قربانیوں کا وقت آیا تو اس طرح خوش خوش گردنیں کٹوا دیں گویا زندگی کی سب سے بڑی خوشی زندگی میں نہیں بلکہ موت میں تھی۔ ان میں ایک بڑٰ تعداد ایسے لوگوں کی تھی جنہوں نے اتنی عمریں نہیں پائیں کہ اسلام کی غربت کے ساتھ اسلام کا عروج و اقبال بھی دیکھ لیے تے اور عدی بن حاتم کی طرح کہہ سکتے کنت فی من افتح کنوز کسری۔ تاہم جب دنیا سے گئے تو اس عالم میں گئے کہ ان سے زیادہ عیش و خوشحالی میں شاید ہی کسی نے دنیا چھوڑی ہو۔ بدر اور احد کے شہیدوں کے حالات پڑھو، ایمان لانے کے بعد جو کچھ بھی ان کے حصے میں آیا وہ بجز رات دن کی کاہشوں اور مصیبتوں کے اور کیا تھاْ اور پھر قبل اس کے کہ اسلام کے فتح و اقبال کی کامرانیوں میں شریک ہونے کا موقع ملتا دشمنوں کی تیغ و سنان سے چور میدان جنگ میں دم توڑ رہے تھے۔ لیکن پھر بھی غور کرو ان کے دل کی شادمانیوں کا کیا حال تھا؟ اس اطمینان و سکون کے ساتھ عیش و نشاط کے بستروں پر کسی نے جان نہ دی ہوگی جس طرح انہوں نے میدان جنگ کی ریتلی زمین پر لوٹ لوٹ کردی۔ جنگ احد میں سعد بن ربیع کو لوگوں نے دیکھا زخمیوں میں پڑے سانس توڑ رہے ہیں، پوچھا کوئی وصیت کرنی ہو تو کردو، کہا اللہ کے رسول کو میرا سلام پہنچا دینا اور قوم سے کہنا ان کی راہ میں جانیں نثار کرتے ہیں۔ عمارہ بن زیادہ زخموں سے چور جانکنی کی حالت میں تھے کہ آنحضرت سرہانے پہنچ گئے، فرمایا کوئی آرزو ہو تو کہہ دو، عمارہ نے اپنا زخمی جسم گھسیٹ کر اور زیادہ قریب کردیا اور اپنا سر آپ کے قدموں پر رکھ دیا کہ اگر کوئی آرزو ہوسکتی ہے تو صرف یہی ہے : منم و ہمیں تمنا کہ بہ وقت جاں سپردن۔۔۔ بہ رخ تو دیدہ باشم، تو درون دیدہ باشی !! عورتوں تک کا یہ حال تھا کہ بیک وقت انہیں ان کے شوہر، بھائی اور باپ کے شہید ہوجانے کی خبر پہنچائی جاتی تھی اور وہ کہتی تھیں۔ یہ تو ہوا مگر بتلاؤ اللہ کے رسول کا کیا حال ہے؟ پھر جب آپ کا جمال جہاں آرا نظر آتا تو بے اختیار خوش ہو کر پکار اٹھتیں : (کل مصیبۃ بعدک جلل) تو اگر سلامت ہے تو پھر دنیا کی ساری مصیتیں ہمارے لیے شہد و شکر کا گھونٹ ہوگئیں۔ من و دل گر فنا شدیم چہ باک۔۔۔ غرض اندر میان سلامت اوست تاریخ اسلام میں جنگ حنین پہلی جنگ ہے جس میں بکثرت مال غنیمت ہاتھ آیا، چوببیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار بکریاں اور چار ہزار اوقیہ چاندی کا ذکر روایا میں ملتا ہے۔ یہ وقت تھا کہ سابقون الاولون کو مال و دولت سے حصہ وافر ملتا لیکن آنحضرت نے ان باشندگان مکہ کو ترجیح دی جو فتح مکہ کے بعد نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور انصار مدینہ کے حصہ میں کچھ نہ آیا، کیونکہ آپ کے پیش نظر نو مسلموں کی تالیف قلب تھی، یہ حالت دیکھ کر بعض نوجوانوں کو خیال ہوا اہل مکہ سے لڑے تو ہم، لیکن آج مال غنیمت کا حصہ مل انہیں رہا ہے۔ بات آنحضرت تک پہنچی تو آپ نے انصار کو جمع کیا اور فرمایا (الا ترضون ان یذھب الناس بالشاۃ والبعیر، وتذھبون بالنبی الی رحالکم؟) کیا تمہاری خوشنودی کے لیے یہ بات کافی نہیں کہ لوگ یہاں سے مال غنیمت کے حصے لے کر جائیں اور تم اللہ کے نبی کو اپنے ساتھ لے کر جاؤ؟ انصار بے اختیار پکار اٹھے (رضینا یا رسول اللہ رضینا) ہم خوشنود ہیں یارسول اللہ، ہم خوشنود ہیں۔ (صحیحین) اور پھر غور کرو، جو لوگ (واتبعوھم باحسان) میں داخل ہوئے، انہیں بھی کس درجہ اس مقام سے حصہ وافر ملا تھا؟ دنیا میں شاید ہی کسی عورت کے دل میں اپنے عزیزوں کے لیے ایسی محبت پیدا ہوئی ہوگی جیسی جاہلیت کی مشہور شاعرہ خنساء کے دل میں تھی، اس نے جو مرثیے اپنے بھائی صخر کے غم میں کہے ہیں تمام دنیا کی شاعری میں اپنی نظیر نہیں رکھتے : یذکرنی طلوع الشمس صخرا۔۔۔ واذکرہ بکل غروب شمس لیکن ایمان لانے کے بعد اسی خنساء کی نفسیاتی حالت ایسی منقلب ہوگئی کہ جنگ یرموک میں اپنے تمام لڑکے ایک ایک کر کے کٹوا دیے اور جب آخری لڑکا بھی شہید ہوچکا تو پکار اٹھی : (الحمدللہ الذی اکرمنی بشھادتھم) پس ورضوا عنہ میں اشارہ اسی طرف ہے کہ اللہ اور اسکے کلمہ حق کی راہ میں جو کچھ بھی پیش آیا انہوں نے اسے جھیلا ہی نہیں بلکہ کمال محبت ایمانی کی وجہ سے اس میں خوشحال و خوشنود رہے اور یہی مقام ہے جو ان کے درجہ کو تمام مدارج ایمان و عمل میں ممتاز کردیتا ہے۔ تعجب ہے کہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مفسروں کی نظر اس صاف اور واضح بات کی طرف نہ گئی۔ البیان میں مزید تفصیل ملے گی۔ ترک موالات کا حکم اور اس کی حقیقت : (م) اس سورت میں جابجا اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دشمنوں سے رفاقت و اعانت کے رشتے نہ رکھو اگرچہ وہ تمہارے قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں اور دوسری سورتوں میں بھی ایسے ہی احکام موجود ہیں۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اور اس طرح کے تمام احکام، احکام جنگ میں سے ہیں نہ کہ معیشت و علائق کے عام احکام اور یہ بات خود قرآن نے جابجا اس درجہ وضاحت اور قطعیت کے ساتھ واضح کردی ہے کہ شک و تردد کی ذرا بھی گنجائش نہیں رہی ہے۔ جہاں تک ایک انسان کے دوسرے انسان کے ساتھ معاملہ کرنے کا تعلق ہے قرآن کہتا ہے اصل اس باب میں محبت و شفقت، ہمدردی و سلوک اور تعاون و سازگاری ہے، اس کے سوا کوئی بات نہیں ہوسکتی، وہ کہتا ہے ہر انسان دوسرے انسان کا بھائی ہے، خواہ اس کا ہم وطن ہو یا نہ ہو، ہم نسل ہو یا نہ ہو، ہم عقیدہ ہو یا نہ ہو، اور امتیاز و تفریق کی وہ تمام باتیں جو اس انسانی بھائی چارگی کا رشتہ قطع کرتی ہیں خدا کی طرف سے نہیں ہیں خود انسانوں کی گھڑی ہوئی معصیت اور گمراہی ہے۔ پیغمبر اسلام کی دعاؤں میں سب سے زیادہ اعتراف اسی حقیقت کا ہوتا تھا کہ (انی اشھد ان العباد کلھم اخوۃ) (مسلم) خدایا ! میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے تمام بندے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ لیکن جب تمام ملک و قوم نے اس دعوت کو بزور شمشیر نابود کردینے کا فیصلہ کردیا اور پیروان دعوت پر محض اختلاف عقائد کی بنا پر ظلم و ستم کرنے لگے تو قدرتی طور پر جنگ کی حالت پیدا ہوگئی۔ اب دو فریق ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے، ایک فریق مسلمانوں کا تھا جو اپنا بچاؤ کر رہا تھا۔ دوسرا دشمنوں کا تھا جو حملہ آور تھا، پس ایسی حالت میں ناگزیر ہوگیا کہ دوستوں اور دشمنوں میں صاف صاف امتیاز ہوجائے۔ جو دوست ہیں وہ دشمنوں کے کیمپ سے کسی طرح تعلق نہ رکھیں، جو دشمن ہیں وہ دوستوں سے کسی طرح کی سازش نہ کرسکیں۔ قرآن میں جس قدر احکام عدم موالات کے ہیں وہ سب اسی صورت حال سے تعلق رکھتے ہیں اور اس سورت کی آیت (٢٣) بھی اسی سے متعلق ہے۔ اصل اس باب میں سورۃ ممتحنہ کی یہ آیات ہیں جو ایک ایسے ہی معاملہ کی نسبت نازل ہوئی تھیں : (لاینھکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم وتقسطوا الیھم ان اللہ یحب المقسطین۔ انما ینھکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین واخرجوکم من دیارکم و ظاھروا علی اخراجکم ان تولوھم ومن یتولھم فاولئک ھم الظالمون۔ ) خدا تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ ان مشرکوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور انصاف کے ساتھ پیش آؤ جنہوں نے دین کے بارے میں تم سے لڑائی نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھر والوں سے نہیں نکالا۔ خدا تو تمہیں صرف ان لوگوں کی رفاقت و ساز گاری سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی ہے (یعنی محض اس لیے کہ تم نے ان کا دین چھوڑ کر ایک نیا دین اختیار کرلیا ہے تم پر حملہ کردیا ہے) اور (ظلم و ستم کر کے) تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے۔ نیز تمہیں جلا وطن کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے، پس جو کوئی ایسے لوگوں سے رفاقت و سازگاری رکھے گا تو ایسے ہی لوگ ہیں جو ظلم کرنے والے ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوگیا کہ قرآن میں جہاں کہیں مسلمانوں کو مشرکین عرب یا یہود و نصاری کی موالات سے روکا گیا ہے تو اس سے مقصود صرف وہی جماعتیں تھیں جنہوں نے مسلمانوں سے محض اختلاف دین کی بنا پر قتال کیا تھا اور جن کے ظلم و ستم نے مسلمانوں کو ترک وطن پر مجبور کردیا تھا۔ یہ بات نہ تھی کہ تمام مشرکین عرب سے یا یہود و نصاری سے ترک علائق کا حکم دے د یا گیا ہو اور ظاہر ہے کہ قرآن کا یہ حکم کیونکر ہوسکتا ہے جب کہ اس کی دعوت سر تا سر انسانی اخوت و مساوات کی دعوت اور عموم شفقت و احسان کا عالمگیر پیام ہے۔ سورۃ توبہ ایک آخری اور و داعی پیام تھا : (ن) اس سورت کے تمام مطالب اپنی اصلی حیثیت میں اس وقت تک واضح نہیں ہوسکتے جب تک یہ حقیقت پیش نظر نہ ہو کہ یہ تمام تر امت کے نام ایک وداعی پیام تھا اور احکام و مواعظ سے اصل مقصود مستقبل کے پیش آنے والے معاملات تھے نہ کہ موجودہ، مفسرین کی نظر چونکہ اس پہلو پر نہیں گئی اس لیے انہیں اکثر مقامات کی شرح و توجیہ میں دقتیں پیش آئیں۔ یہ اصل پیش نظر رکھ کر سورت کے تمام مواعظ و احکام پر دوبارہ نظر ڈالو، صاف واضح ہوجائے گا کہ آئندہ مرحلوں کے لیے مخاطبین کو تیار کیا جارہا ہے۔ مزید تفصیل کا یہ محل نہیں۔ التوبہ
128 التوبہ
129 (١) عرش یعنی تخت شاہی، دیکھو سورۃ اعراف آیت ٥٤ کا نوٹ۔ التوبہ
0 یونس
1 سورۃ انعام کی طرح اس سورت میں بھی خطاب مشرکین عرب سے ہے اور مواعظ کا مرکز دین حق کے مبادی و اساسات ہیں۔ یعنی توحید، وحی و نبوت ور آخرت کی زندگی، سلسلہ بیان منکرین وحی کے ذکر سے شروع ہوا ہے، کیونکہ ہدایت دینی کی سب سے پہلی کڑی یہی ہے اور اسی کے اعتقاد پر اور تمام باتوں کا اعتقاد موقوف ہے۔ منکرین حق ایک طرف تو وحی و نبوت سے انکار کرتے دوسری طرف یہ بھی دیکھتے تھے کہ یہ آدمی اور آدمیوں کی طرح نہیں ہے، کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے، پھر جب اس کی کوئی توجیہ بن نہ پڑتی تو کہتے ہو نہ ہو یہ جادوگری ہے۔ ان کا یہ قول قرآن کی حیرت انگیز تاثیر کی سب سے بڑی شہادت ہے۔ یعنی اس کا اثر اس درجہ نمایاں اور قطعی تھا کہ باوجود عناد و جحود کے اس سے انکار نہیں کرسکتے تھے۔ اسے جادوگری سے تعبیر کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ آسمان و زمین کی چھ ایام میں خلقت سے مقصود کیا ہے؟ اس کی طرف سورۃ اعراف میں اشارہ ہوچکا ہے مزید تشریح سورت کے آخری نوٹ میں ملے گی۔ توحید ربوبیت سے توحید الوہیت پر استدلا۔ یعنی جب تم مانتے ہو کہ کائنات ہستی کا پیدا کرنے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں تو پھر تدبیر و انتظام عالم کے بہت سے تخت اقتدا تم نے کیوں بنا رکھے ہیں؟ اور کیوں انہیں بندگی و نیاز کا مستحق سمجھتے ہو؟ جس طرح یہ بات ہوئی کہ پیدا کرنے والی ہستی اس کے سوا کوئی نہیں اسی طرح تدبیر و فرماں روائی کا تخت بھی صرف اسی کا تخت ہوا۔ اس میں نہ تو کسی سفارشی کی سفارش کو دخل ہے نہ کسی مقرب کے تقرب کو۔ یہی مضمون سورۃ اعراف کی آیت (٥٤) میں گزر چکا ہے۔ (الا لہ الخلق والامر) یونس
2 یونس
3 یونس
4 آیت (٤) میں سلسلہ بیان آخرت کی زندگی کی طرف متوجہ ہوگیا ہے جس سے مشرکین عرب کو انکار تھا، یہاں تین باتوں کی طرف اشارہ کیا : (ا) وہ ہستی پیدا کرتا ہے اور پھر دہراتا ہے، پس اگر پہلی پیدائش پر یقین رکھتے ہو تو دوسری پیدائش پر تمہیں کیوں تعجب ہوتا ہے؟ یہ پہلی نشاۃ سے دوسری نشاۃ پر استدلال ہے۔ زیادہ تفصیل سورۃ حج کی آیت (٥) اور قیامہ کی آخری آیات میں ملے گی۔ (ب) یہ دوسری زندگی کیوں ضروری ہوئی؟ اس لیے کہ جزائے عمل کا قانون چاہتا تھا کہ جس طرح ایک زندگی آزمائش عمل کے لیے ہے اسی طرح ایک زندگی جزائے عمل کے لیے بھی ہو۔ (ج) تمام نظام خلقت اس کی شہادت دے رہا ہے کہ یہاں کوئی بات بغیر حکمت و مصلحت کے نہیں ہے۔ سورج کو دیکھو جس کی درخشندگی سے تمام ستارے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ چاند کو دیکھو جس کی گردش کی ٢٨ منزلیں مقرر کردی ہیں اور اسی سے تم مہینے کا حساب کرتے ہو اور برسوں کی گنتی معلوم کرتے ہو۔ اگر یہ سب کچھ بغیر مصلحت کے نہیں ہے تو کیا ممکن ہے کہ انسان کا وجود بغیر کسی غرض و مصلحت کے ہو اور صرف اس لیے ہو کہ کھائے پیے اور مر کر ہمیشہ کے لیے فنا ہوجائے؟ (اس استدلال کی وضاحت کے لیے دیکھو تفسیر فاتحہ) غور کرو، اس قسم کے تمام مواعظ کا خاتمہ ہمیشہ اسی قسم کے جملوں پر ہوتا ہے کہ لقوم یعلمون۔ لقوم یعقلون۔ کیونکہ ان باتوں کو وہی سمجھ سکتا ہے جو علم و بصیرت سے محروم نہ ہو۔ (٥) منازل قمر کی تقدیر سے مقصود کیا ہے؟ اس کی تشریح سورت کے آخری نوٹ میں ملے گی۔ (٦) سبحان اللہ ! آیت (٧) کے چند گنے ہوئے لفظوں میں حقیقت حال کی کیسی کامل تصویر کھینچ دی ہے جس سے کوئی گوشہ بھی باہر نہیں رہا، ساتھ ہی وجود آخرت کے تمام دلائل بھی نمایاں ہوگئے۔ منکرین آخرت کی ذہنیت کی چار حالتیں ہیں : (ا) ان کے اندر خدا سے ملنے کی توقع نہیں۔ (ب) صرف دنیوی زندگی ہی میں خوشنود ہورہے ہیں۔ (ج) اس حالت کے خلاف ان کے اندر کوئی خلش پیدا نہیں ہوتی، اس پر مطمئن ہوگئے ہیں۔ (د) ان کا ذہن و ادراک اس درجہ معطل ہوگیا ہے کہ قدرت کی تمام نشانیاں جو چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں انہیں بیدار نہیں کرسکیں وہ یک قلم غافل ہوگئے ہیں۔ ان میں سے ہر بات نہ صرف بیان حال ہے بلکہ بجائے خود ایک دلیل بھی ہے اور یہی قرآن کی معجزانہ بلاغت ہے۔ تشریح البیان میں ملے گی۔ یاد رہے کہ قرآن نے ہر جگہ آخرت کے معاملہ کو لقائے الہی سے تعبیر کیا ہے، اور اس تعبیر نے واضح کردیا ہے کہ حیات آخرت کی اصل حقیقت قرآن کے نزدیک کیا ہے۔ مختصر تشریح آخری نوٹ میں ملے گی۔ یونس
5 یونس
6 (١) متقی اور تقوی کے لیے دیکھو سورۃ بقرہ نوٹ ھدی للمتقین۔ یونس
7 یونس
8 یونس
9 یونس
10 آیت (١٠) کی تشریح آخری نوٹ میں ملے گی۔ یونس
11 آیت (١١) میں قانون امہال کی طرف اشارہ کیا ہے جس کی تشریح تفسیر فاتحہ میں دیکھنی چاہیے۔ یونس
12 آیت (١٢) میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ رنج و مصیبت کی حالت میں انسان کے اندر وجدانی طور پر یہ ولولہ اٹھتا ہے کہ ایک بالا تر ہستی موجود ہے جو میرا دکھ درد دور کرسکتی ہے اور اسی کو پکارنا چہایے، لیکن جب مصیبت دور ہوجاتی ہے تو پھر عیش و راحت کی غفلتوں میں پڑ کر اسے بھول جاتا ہے، گویا کبھی اس نے کسی کو پکارا ہی نہ تھا۔ قرآن نے جابجا انسان کی اس فطری حالت سے استشہاد کیا ہے کیونکہ مصیبت اور بے بسی کی حالت میں بے اختیار اس ولولہ کا اٹھنا اس امر کو ثبوت ہے کہ انسانی فطرت اپنے اندرونی اندارک میں خدا کی ہستی کا اعتقاد رکھتی ہے اور اعراض و غفلت کی حالت وجدانی نہیں ہے خارجی اثرات کا نتیجہ ہے۔ آگے چل کر آیت (٢٢) میں بھی یہی بات ملے گی۔ لیکن ایک دوسرے اسلوب موعظت میں۔ مشرکین عرب پیغبر اسلام کی صداقت و فضیلت سے انکار نہیں کرسکتے تھے اس لیے کہتے تھے ہم تمہاری بات سننے کے لیے تیار ہیں مگر تم ایسی باتیں کہتے ہو جنہیں ہم قبول نہیں کرسکتے۔ تم کوئی دوسرا قرآن لاؤ یا اسی کے مطالب ایسے کردو کہ ہمارے پرانے عقیدوں کے خلاف نہ ہوں، فرمایا یہ کچھ میرے جی کی من گھڑت نہیں ہے کہ تمہاری فرمائش کے مطابق بنا دوں، میں تو خود اللہ کی وحی کا تابع فرمان ہوں، جو کچھ مجھ پر وحی ہوتی ہے تمہیں سنا دیتا ہوں، اگر اس کے حکم سے نافرمانی کروں تو اس کی پکڑ سے مجھے بچانے والا کون ہے ؟ یونس
13 یونس
14 یونس
15 یونس
16 پھر آیت (١٦) میں صداقت نبوت کی ایک سب سے زیادہ واضح اور وجدانی دلیل بیان کی ہے، جس کی حقیقت افسوس ہے کہ مفسرین نے پوری طرح واضح نہیں کی، فرمایا ساری باتیں چھوڑ دو، صرف اسی بات پر غور کرو کہ میں تم میں کوئی نیا آدمی نہیں ہوں جس کے خصائل و حالات کی تمہیں خبر نہ ہو، تم ہی میں سے ہوں، اور اعلان وحی سے پہلے ایک پوری عمر تم میں بسر کرچکا ہوں، یعنی چالیس برس تک کی عمر کہ عمر انسانی کی پختگی کی کامل مدت ہے۔ اس تمام مدت میں میری زندگی تمہاری آنکھوں کے سامنے رہی، بتلاؤ اس تمام عرصہ میں کوئی ایک بات بھی تم نے سچائی اور امانت کے خلاف مجھ میں دیکھی؟ پھر اگر اس تمام مدت میں مجھ سے یہ نہ ہوسکا کہ کسی انسانی معاملہ میں جھوٹ بولوں تو کیا ایسا ہوکستا ہے کہ اب خدا پر بہتان باندھنے کے لیے تیار ہوجاؤں اور جھوٹ موٹ کہنے لگوں مجھ پر اس کا کلام نازل ہوتا ہے ؟ کیا اتنی سی موٹی بات بات بھی تم نہیں پاسکتے؟ تمام علمائے اخلاق و نفسیات متفق ہیں کہ انسان کی عمر میں ابتدائی چالیس برس کا زمانہ اس کے اخلاق و خصائل کے ابھرنے اور بننے کا اصل زمانہ ہوتا ہے۔ جو سانچا اس عرصہ میں بن گیا پھر بقیہ زندگی میں بدل نہیں سکتا۔ پس اگر ایک شخص چالیس برس کی عمر تک صادق و امین رہا ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ اکتالیسویں برس میں قدم رکھتے ہی ایسا کذاب اور مفتری بن جائے کہ انسانوں ہی پر نہیں بلکہ فاطر السموات والارض پر افترا کرنے لگے؟ چنانچہ اس کے بعد فرمایا دو باتوں سے تم انکار نہیں کرسکتے : جو شخص اللہ پر افترا کرے اس سے بڑھ کر کوئی شریر نہیں، اور جو صادق کو جھٹلائے وہ بھی سب سے زیادہ شریر انسان ہے، اور شریر و مفتری کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اب صورت حال نے یہاں دونوں فریق پیدا کردیے ہیں، اگر میں مفتری علی اللہ ہوں تو مجھے ناکام و نامفراد ہونا پڑے گا، اگر تم سچائی کے مکذب ہو تو تمہیں اس کا خمیازہ بھگتنا ہے، فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے اور اس کا قانون ہے کہ مجرموں کو فلاح نہیں دیتا۔ چنانچہ اللہ کا فیصلہ صادر ہوگیا، جو مکذب تھے ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا، جو صادق تھا اس کا کلمہ صدق آج تک قائم ہے اور قائم رہے گا، سورۃ انعام کی آیات (٢١) اور (١٤٤) اور سورۃ اعراف کی (٣٧) میں بھی یہی استشہاد گزر چکا ہے۔ یونس
17 یونس
18 آیت (١٨) میں توحید الوہیت کا بیان ہے۔ اس کی تفسیر سورت کے آخری نوٹ میں دیکھو۔ یونس
19 آیت (١٩) کے ہم معنی آیت بقرہ (٢٠٩) میں بھی گزر چکی ہے، اور مہمات معارف قرآن میں سے ہے۔ اس کی مزید تشریح سورۃ ہود کی تشریحات میں ملے گی۔ جب تک دنیوی اسباب و علائق کا کوئی ادنی سا سہارا بھی باقی رہتا ہے انسان کا وجدان بیدار نہیں ہوتا اور ایک تنکے کا بھروسہ بھی اس کے لیے کافی ہوتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے غافل ہوجائے۔ لیکن جونہی اسباب و علائق کے رشتے ٹوٹے اور یاس و قنوط کی کامل حالت طاری ہوئی اور اس نے دیکھا کہ اب دنیا کا کوئی ہاتھ اسے بچا نہیں سکتا تو اچانک اس کا سویا ہوا وجدان بیدار ہوجاتا ہے اور خدا پرستی کا جوش اپنے سارے اخلاص کے ساتھ اس کے اندر ابھر آتا ہے۔ اس وقت وہ خدا کے سوا اور کسی کو نہیں دیکھتا، سارے رشتے، سارے بھروسے، ساری ہستیاں یک قلم نابود ہوجاتی ہیں، وہ بے اختیار خدا کو پکارنے لگتا ہے اور اس کی یہ پکار اس کے دل کے ایک ایک ریشہ کی پکار ہوتی ہے، لیکن پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ کیا یہ حالت قائم رہتی ہے؟ نہیں جونہی اس کی ڈوبتی کشتی اچھلی اور امید و مراد کی گمشدہ صورت واپس آگئی پھر وہی اس کی غفلتیں ہوتی ہیں اور وہی سرکشیاں۔ اگر تم غور کرو گے تو اس حالت کی مثالیں خود اپنی ہی زندگی میں تمہیں مل جائیں گے۔ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ تم بیمار ہوئے اور طبیبوں نے جواب دے دیا؟ یا کسی دوسری مصیبت میں پڑے اور دنیا کے سارے سہارے ہاتھ سے نکل گئے؟ اگر ایسا ہوا ہے تو یاد کرو، اس وقت تمہاری خدا پرستی اور خدا پرستی کے اخلاص کا کیا حال تھا؟ قرآن نے جابجا اس حالت کے بیان کے لیے بحری سفر کی مثال اختیار کی ہے۔ کیونکہ انسان کی بے بسی اور مایوسی کے لیے اس سے بہتر مثال نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ یہاں آیت (٢٢) میں اسی طرف اشارہ کیا ہے اور سورۃ عنکبوت کی آیت (١٥) اور لقمان کی آیت (٣٢) میں بھی یہی مطلب ملے گا۔ دین حق کی تعلیم و تزکیہ کا مقصد یہی ہے کہ اس حالت سے انسان کی نجات دلا دے اور اس کا وجدان اس طرح بیدار کردے کہ خدا پرستی کا جو اخلاص خاص حالتوں میں ابھرتا ہے وہ اس کی پوری زندگی کی ایک دائم اور مستقر حالت ہوجائے، یہی وجہ ہے کہ ایمان کی حالت یہ بیان فرمائی کہ مصیبت کی گھڑی ہو یا راحت و سرور کا عالم لیکن خدا کی یاد سے دل پر غفلت طاری نہ ہو۔ یونس
20 یونس
21 یونس
22 یونس
23 بغی کے معنی سرکشی کے ہیں اور اس میں ہر طرح کی سرکشی داخل ہے لیکن جب فی الارض کے ساتھ کہا جائے جیسا کہ آیت (٢٣) میں ہے تو اس سے مقصود وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں دنیا کی دولت و طاقت حاصل ہوجاتی ہے اور وہ اس کے گھمنڈ میں آکر ظلم و فساد کو اپنا شیوہ بنا لیتے ہیں۔ چونکہ اس سرکشی کا اصلی سرچشمہ دنیوی زندگی کے سروسامان کا غرور ہے اس لیے آیت (٢٤) میں فرمایا دنیا کی زندگی کی مثال تو بالکل ایسی ہے جیسے کاشت کاری کا معاملہ۔ آسمان سے پانی برستا ہے اور تمہارے کھیت لہلہانے لگتے ہیں، پھر جب وہ وقت آتا ہے کہ تم سمجھے ہو اب فصل پک گئی اور ہماری محنت کی کمائی ہمارے قبضہ میں ہے تو اچانک کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے اور ساری فصل اس طرح تباہ ہوجاتی ہے گویا اس کا نام و نشان ہی نہیں تھا۔ یعنی دنیوی زندگی کی ساری کامرانیاں اور دلفریبیاں بے ثبات اور ہنگامی ہیں، تم یہاں کی کسی چیز اور حالت پر بھروسہ نہیں کرسکتے کہ یہ ضروری ایسی ہی رہے گی۔ اول تو زندگی ہی چند روزہ ہے پھر اس کا بھی ٹھکانا نہیں، پھر زندگی کے عیش و تمتع کی جتنی دلفریبیاں ہیں سب کا حال یہ ہے کہ صبح ہیں تو شام نہیں، شام کو تھیں تو صبح کو نہیں، ایسی حالت میں اس سے بڑھ کر غفلت و گمراہی کی اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ انسان حق و راستی کی راہ چھوڑ کر سرکشی پر اتر آئے اور کسی چیز کے بھروسے پر؟ اس زندگی کے سروسامان اور اقتدار کے بھروسہ پر جسے چند لمحوں کے لیے بھی قطعی اور برقرار نہیں کہہ سکتا۔ لیکن انسانی غفلت کے عجائب کا یہی حال ہے، کوئی نہیں جو اس حقیقت سے بے خبر ہو، مگر کوئی نہیں جو اس غرور باطل کی سرگرانیوں سے اپنی نگہداشت کرسکے۔ یہی غفلت ہے جسے دین حق دور کرنا چاہتا ہے، وہ دنیا اور دنیا کی کامرانیوں سے نہیں روکتا، مگر ان کے غرور باطل اور بے اعتدلانہ انہماک کی راہیں بند کردینی چاہتا ہے، کیونکہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے سارے فتنوں کا اسلی سرچشمہ یہی غرور باطل ہے۔ قرآن نے ہر جگہ ایمان کو روشنی سے اور کفر کو تاریکی سے تشبیہ دی ہے۔ (اللہ ولی الذین امنوا یخرجھم من الظلمات الی النور) اور مومنوں کی پہچان یہ فرمائی ہے کہ ان کے لیے سرخروئی اور شادمانی ہوگی، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ (وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرۃ) (تعرف فی وجوھھم نضرۃ النعیم) (وجوہ یومئذ ناعمۃ لسعیھا راضیۃ) اور کفر کے لیے سیاہ روئی اور خواری ہے (وجوہ یومئذ باسرۃ تظن ان یفعل بھا فاقرۃ) (وجوہ یومئذ خاشعۃ عاملۃ ناصبۃ تصلی نارا حامیۃ) اور آل عمران کی آیت (١٠٦) میں گزر چکا ہے : (یوم تسود وجوہ وتبیض وجوہ) یہاں آیت ٢٦ اور ٢٧ میں بھی یہی بیان کیا ہے۔ خوشحالی و کامرانی سے چہروں کا چمک اٹھنا اور نامرادی و خواری سے سیاہ پڑجانا ایک طبعی حالت ہے۔ پس فرمایا قیامت کے دن ایک گروہ کے چہرے چمک اٹھیں گے، دوسرے کے سیاہ پڑجائیں گے، اور سیاہ چہروں کا یہ حال ہوگا گویا پردہ شب نے ان کے چہرے ڈھانپ لیے ہیں۔ یونس
24 یونس
25 یونس
26 یونس
27 یونس
28 آیت (٢٨) میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ تم جن پیشواؤں کو اپنی حاجت روائیوں کے لیے پکارتے ہو ان تک نہ تو تمہاری پکار پہنچتی ہے، نہ تمہاری پرستاریوں کی انہیں کچھ خبر ہے، وہ تمہاری حاجت روائی کیا کریں گے؟ قیامت کے دن خدا مشرکوں کو اور ان کے بنائے ہوئے شریکوں کو ایک صف میں کھڑا کرے گا۔ کیونکہ معبودوں کو اپنے پرستاروں کے حلقے ہی میں ہونا چاہیے۔ لیکن وہ مشرکوں کا ساتھی ہونا پسند نہیں کریں گے، وہ کہیں گے ہمیں ان سے کوئی واسطہ نہیں، یہ گو ہمارا نام لیتے ہوں لیکن فی الحقیقت ہمیں نہیں پوجتے تھے، اپنی ہوائے نفس کے پجاری تھے، ہمیں تو ان کی پرستش کی خبر بھی نہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسی مائدہ کے آخر میں حضرت مسیح کی نسبت فرمائی ہے کہ قیامت کے دن عرض کریں گے میں عیسائیوں کے شرک سے بری ہوں۔ ( ماقلت لھم الا امرتنی بہ) مزید تشریح کے لیے آخری نوٹ میں واردات آخرت کا مبحث دیکھو۔ یونس
29 یونس
30 یونس
31 آیت (٣١) میں برہان ربوبیت کا استدلال ہے اور توحید ربوبیت سے توحید الوہیت پر استشہاد کیا گیا ہے کہ (برہان ربوبیت کی تفصیل تفسیر فاتحہ میں گزر چکی ہے) یونس
32 یونس
33 یونس
34 یونس
35 آیت (٣٥) قرآن کے مہمان حجج میں سے ہے مگر افسوس ہے کہ مفسرین نے اس کی حقیقت بھی اسی طرح ضائع کردی جس طرح اکثر دلائل قرآنیہ ضائع کردی ہیں۔ اس کی تشریح آخری نوٹ میں ملے گی۔ یونس
36 آیت (٣٦) قرآن کے مہمات معارف میں سے ہے، اس کی تشریح آخری نوٹ میں ملے گی۔ یونس
37 آیت (٣٧) میں فرمایا قرآن جس قسم کی چیز ہے ایسی چیز کبھی انسانی بناوٹ سے نہیں بن سکتی، پھر فرمایا وہ تمام پچھلی صداقتوں کی تصدیق کرنے والا اور تمام پچھلی کتابوں کی تعلیمات پر حاوی ہے۔ قرآن کا یہ وصف کیوں اس بات کی دلیل ہوا کہ وہ انسانی بناوٹ کا کام نہیں؟ اس کے جواب کے لیے تفسیر سورۃ فاتحہ دیکھو، یہ مہمان براہین قرآنیہ میں سے ہے۔ یونس
38 آیات (٣٨) اور (٣٩) اور (٤١) کی ضروری تشریحات کے لیے آخری نوٹ دیکھنا چاہیے۔ یونس
39 یونس
40 یونس
41 یونس
42 آیت (٤٢) اور اس کے بعد کی آیات میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے جو جابجا قرآن میں بیان کی گئی ہے، یعنی جہل و فساد اور تعصب و تقلید کے جمود سے ایسی حالت کا پیدا ہوجانا جو انسان کی عقل و بصیرت کو یک قلم معطل کردیتی ہے اور وہ اس قابل نہیں رہتا کہ سچائی اور حقیقت کا ادراک کرسکے۔ آیت (٤٤) میں فرمایا یہ حالت اس لیے پیش نہیں آتی کہ خدا نے کسی کو اس پر مجبور کردیا ہے۔ کیونکہ اگر ایسا ہو تو یہ ظلم ہے اور خدا کا یہ قانون نہیں کہ کسی جان پر ظلم ہو۔ یہ تو خود انسان ہی ہے جو خدا کی دی ہوئی روشنی ضائع کرکے اندھا بہرا بن جاتا ہے۔ یونس
43 یونس
44 یونس
45 آیت (٤٥) میں اس طرف اشارہ ہے کہ آخرت کی زندگی جب انسان پر طاری ہوگی تو وہ تمام مدت جو مرنے کے بعد سے لے کر نشاۃ ثانیہ تک گزرتی ہے اسے ایسی محسوس ہوگی جیسے ایک بہت ہی قلیل مدت کا درمیانی وقفہ گزرا ہو۔ اس حالت کی مثال یوں سمجھو جیسے کبھی رات بھر سوکر تم اٹھتے ہو اور اٹھنے کے بعد خیال کرتے ہو کہ بہت تھوڑی دیر نیند میں رہے۔ حالانکہ رات بھر نیند میں بسر کرچکے ہوتے ہو۔ یہ حقیقت قرآن نے مختلف تعبیرات میں بیان کی ہے اور سب کا ماحصل یہ ہے کہ وہ عظیم مدت جو انسان پر گزرے اس دن بہت ہی قلیل محسوس ہوگی، سورۃ مومنوں آیت (١١٢) روم (٣٠) احقاف (٤٦) اور نازعات کی آخری آیت دیکھنی چاہیے۔ سورۃ روم کی آیت (٥٦) سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کا احساس اگرچہ سب کو ہوگا لیکن اہل علم و ایمان جس کے دلوں میں یوم آخرت کا یقین تھا اس احساس سے مغلوب نہیں ہوجائیں گے، وہ پالیں گے کہ یہ تمام مدت جو گزر چکی ہے دنیوی زندگی اور اخروی زندگی کی درمیانی مدت تھی اور اب قیامت کا دن ہمارے سامنے ہے۔ ان آیات کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ دنیوی زندگی اس دن اتنی حقیر و قلیل محسوس ہوگی گویا گھڑی بھر کی زندگی، لیکن پہلا مطلب زیادہ واضح اور موزوں ہے۔ یونس
46 آیت (٤٦) کا مطلب یہ ہے کہ دعوت حق کی فتح مندیوں اور منکروں کی نامرادیوں کی جو خبر دی گئی ہے کچھ ضروری نہیں کہ وہ سب کچھ تیری زندگی ہی میں پیش آجائے، بعض باتیں تیری موجودگی میں ہو کر رہیں گی بعض بعد کو واقع ہوں گی۔ پس منکروں کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اس معاملہ کا سارا دارومدار اس شخص کی زندگی پر ہے، ل یہ نہ رہے گا کچھ نہ ہوگا، تو زندہ رہے یا نہ رہے لیکن احکام حق کو پورا ہو کر رہنا ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ یونس
47 آیت (٤٧) میں اللہ کے اس قانون کی طرف اشارہ ہے کہ جب کسی قوم کی ہدایت کے لیے اس کا رسول ظاہر ہوا اور لوگوں نے چاہا ظلم و تشدد کے ذریعہ اس کی دعوت روک دیں تو اللہ نے ان دونوں فریقوں کے درمیان فیصلہ کردیا۔ یعنی حق فتح مند ہوا، باطل نامراد، اور چونکہ یہ فیصلہ حق و عدالت کا فیصلہ ہے اس لیے جابجا اسے قضی بالحق اور قضی بالقسط سے تعبیر کیا ہے۔ تفصیل تفسیر سورۃ فاتحہ میں گزر چکی ہے۔ استعجال بالعذاب آیت (٥٠) کی تشریح کے لیے تفسیر فاتحہ دیکھنی چاہیے۔ یونس
48 یونس
49 یونس
50 یونس
51 یونس
52 یونس
53 آیت (٥٣) میں ان لوگوں کا قول نقل کیا ہے جو منکر و جاحد نہ تھے، مگر تصدیق میں متامل تھے، وہ جب پیغمبر اسلام کی صداقت و دیانت پر غور کرتے جو تمام قوم میں اول دن سے مسلم تھی تو ان کا دل کہتا سچے آدمی کی زبان سے جھوٹی بات نہیں نکل سکتی۔ لیکن پھر جب دیکھتے کہ ان کی دعوت ایسی باتوں کا یقین دلاتی ہے جن سے وہ اور ان کے آبا و اجداد یکسر نا آشنا رہے ہیں تو طبیعت کھلتی نہیں، شک و حیرت کی حالت میں مبتلا ہوجاتے اور پوچھنے لگتے کیا جو کچھ تم کہہ رہے فی الحقیقت ایسا ہی ہے؟ فرمایا تم کہو، جب تمہیں آج تک میری سچائی میں شبہ نہیں ہوا۔ تو آج کیوں ہورہا ہے؟ میں جو کچھ کہتا ہوں یہ حق ہے اور اس پر میرا پروردگار شاہد ہے۔ یونس
54 یونس
55 یونس
56 یونس
57 آیت (٥٧) میں قرآن کے چار وصف بیان کیے۔ (ا) موعظت ہے۔ یعنی دل میں اتر جانے والی دلیلوں اور روح کو متاثر کرنے والے طریقوں سے ان تمام باتوں کی ترغیب دیتا ہے جو خیر و حق کی باتیں ہیں اور ان تمام باتوں سے روکتا ہے جو شر اور بطلان کی باتیں ہیں۔ کیونکہ عربی میں وعظ کا مفہوم صرف نصیحت ہی نہیں ہے بلکہ ایسی نصیحت جو موثر دلائل اور دلنشیں اسلوبوں کے ساتھ کی جائے۔ (ب) شفاء لما فی الصدور۔ دل کی تمام بیماریوں کے لیے نسخہ شفا ہے۔ جو فرد اور جوگروہ بھی اس نسخہ پر عمل کرے گا اس کے قلوب ہر طرح کے مفاسد و رذائل سے پاک ہوجائیں گے۔ یاد رہے کہ عربی میں قلب فواد اور صدر کے الفاظ جب کبھی ایسے موقع پر بولے جائیں جیسا کہ یہ موقع ہے تو ان سے مقصود انسان کی معنوی حالت ہوتی ہے۔ یعنی ذہن و فکر کی قوت، عقلی ادراک، جذبات و عواطف، اخلاق و عادات، اندرونی حسیات، وہ عضو مقصود نہیں ہوتا جو فن تشریح کا دل اور سینہ ہے۔ پس دل کی شفا کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کی فکری اور اخلاقی حالت کے جس قدر مرض ہوسکتے ہیں ان سب کے لیے یہ نسخہ شفا ہے۔ (ج) یقین کرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔ (د) یقین کرنے والوں کے لیے پیام رحمت ہے۔ یعنی ظلم و قساوت اور بغض و تنفر سے دنیا کو نجات دلاتا اور رحمو محبت اور امن و سلامتی کی رح سے معمور کرتا ہے۔ یہ محض قرآن کے اوصاف کا مدعیانہ اعلان ہی نہ تھا بلکہ اس کی صداقت کی سب سے زیادہ موثر دلیل بھی تھی، اگر ایک شخص دعوی کرے کہ وہ طبیب ہے تو سب سے زیادہ سہل اور قطعی طریقہ اس کے دعوے کی جانچ کا یہ ہوگا کہ دیکھا جائے اس کے علاج سے بیماروں کو شفا ملتی ہے یا نہیں؟ اگر تم دیکھو کہ موت کی آغوش میں پہنچے ہوئے بیمار اس کے شفا خانہ میں داخل ہوئے اور تندرست ہو کر نکلے، تو تم یقینا تسلیم کرلو گے کہ اپنے دعوے میں سچا ہے۔ قرآن نے بھی جابجا یہی جانچ منکروں کے سامنے پیش کی ہے، اس نے کہا میں نسخہ شفا ہوں اور ثبوت میں مومنوں اور متقیوں کی جماعت پیش کردی جو اس کے دار الشفا میں تیار ہوئی تھی کہ دیکھ لو، یہ تندرست ہوگئے ہیں یا نہیں؟ آج بھی اس کی یہ دلیل اسی طرح قاطع ہے جس طرح عہد نزول میں تھیِ اگر اس نے عرب جاہلیت کے مریضاں روح و دل میں سے ابوبکر، عمر، علی، خالد، سلمان، ابو ذر وغیرہم جیسی تندرست روحیں پیدا رکدی تھیں، تو کیا اس کے نسخہ شفا ہونے میں شک کیا جاسکتا ہے ؟ مشرکین عرب نے اپنے اوہام و خرافات کی بنا پر بہت سی چیزوں کا استسعمال حرام ٹھہرا لیا تھا، چنانچہ سورۃ انعام میں آیت (١٣٨) سے (١٥٠) تک اس کا فمصل بیان گزر چکا ہے اور یہاں آیت (٥٩) میں بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے، اس آتی سے اور اس کی ہم معنی آیات سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوگئی کہ : (ا) قرآن کے نزدیک ان تمام چیزوں میں جو کھانے پینے کی پیدا ہوتی ہیں اصل اباحت ہے نہ کہ حرمت، یعنی جتنی چیزیں کھانے کے قابل ہیں سب حلال ہیں الا یہ کہ وحی الہی نے کسی چیز کو حرام ٹھہرا دیا ہو۔ چنانچہ قرآن نے جابجا یہ حقیقت واضح کردی ہے کہ اس نے صرف انہی چیزوں سے روکا ہے جو خبائث ہیں۔ یعنی مضر اور گندی ہیں، باقی جتنی چیزیں ہیں طیبات ہیں۔ (ب) کسی چیز کو حرام ٹھہرا دینے کا حق صرف خدا کی شریعت کو ہے، پس کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ محض اپنے قیاس و رائے سے کوئی چیز حرام ٹھہرا دے۔ (ج) قراان نے جن باتوں کو افترا علی اللہ سے تعبیر کیا ہے، یعنی خدا پر بہتان باندھنا، ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ بغیر نص قطعی کے محض اپنی رائے اور قیاس سے کوئی چیز حرام ٹھہرا لی جائے۔ (د) انسان کے عقائد و اعمال کی بنیاد علم و یقین پر ہونی چاہیے، نہ کہ وہم گمان پر، وہ مشرکوں کی بنیادی گمراہی یہی قرار دیتا ہے کہ علم و یقین کی کوئی روشنی اپنے سامنے نہیں رکھتے، محض اوہام و ظنون کے پرستار ہیں۔ نزول قرآن سے پہلے اقوام عالم کی ایک عالمگری گمراہی یہ تھی کہ کھانے پینے کے بارے میں طرح طرح کے وہمی قاعدے بنا لیے تھے حلت و حرمت کی بنیاد علم و حقیقت کی کسی روشنی پر نہ تھی، محض اوہام و خرافات پر تھی، قرآن نے نوع انسان کو اس حالت سے نجات دلائی۔ اس نے اعلان کیا کہ زمین میں جتنی اچھی چیزیں خدا نے پیدا کی ہیں سب اسی لیے ہیں کہ انسان انہیں برتے اور خدا کے سوا کسی کو یہ اختیار نہیں کہ اس کی پیدا کی ہوئی کسی چیز کو حرام ٹھہرا دے۔ یہ آیت ان تمام فقہائے متشددین کے خلاف حجت قاطع ہے جنہوں نے محض رائے و قیاس سے بعض مباحات حرام ٹھہرا دی ہیں اور ان تمام لوگوں کے خلاف بھی جو سمجھتے ہیں مباحات کا دائرہ اپنے اوپر تنگ کرلینا تقوی اور تقرب الہی کی بات ہے۔ قرآن کا اسلوب بیان یہ ہے کہ وہ کسی بات کے ٹھہرا دینے اور قطعی طور پر نافذ کردینے کے لیے کتابت کی تعبیر اختیار کرتا ہے یعنی یہ کہتا ہے یہ بات لکھ دی گئی ہے۔ مثلا (کتب علیکم الصیام) (ان عدۃ الشھور عند اللہ اثنا عشر شھرا فی کتاب اللہ) (کتب علیہ انہ من تولاہ فانہ یضلہ) اسی طرح اس مطلب کے لیے کہ حکمت الہی نے کارخانہ ہستی کی ہر چیز کے لیے ایک قانون بنا دیا ہے اور یہاں جو کچھ ظہور میں آتا ہے وہ سب کچھ ضبط میں آچکا ہے۔ کتابت اور کتاب کی تعبیر جابجا ملتی ہے۔ چنانچہ یہاں بھی آیت (٦١) میں فرمایا : آسمان و زمین میں ایک ذرہ بھی ایسا نہیں جو کتاب مبین کے انضباط سے باہر ہو، یعنی علم الہی سے باہر ہو یا اللہ نے جو قوانین خلقت ٹھہرا دیے ہیں ان کے احاطہ سے باہر ہو۔ احکام و قوانین کا شاہی فرمانوں میں لکھ دینا اور شاہی دفاتر میں درج کریدنا دنیا کی نہایت پرانی رسم ہے۔ اس لیے تقریبا تمام زبابوں میں کسی بات کے لکھ دینے کا مطلب یہ ہوگیا ہے کہ بات پکی ہوگئی اور اب اس میں ردو بدل کی گنجائش نہیں، باہمی عہد و پیمان بھی لکھے جاتے تھے اور جب لکھ دیے گئے تو سمجھا جاتا تھا اب ان کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی۔ عربی میں بھی یہ تعبیر قدیم سے موجود ہے، اور معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے بھی اسی معنی میں یہ تعبیر اختیار کی ہے، البتہ یہ ظاہر ہے کہ ہم جزم و یقین کے ساتھ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے، کیونکہ یہ معاملہ عالم غیب سے تعلق رکھتا ہے اور عالم غیب کے حقائق ہماری عقل کی دسترس دے باہر ہیں۔ یونس
58 یونس
59 یونس
60 یونس
61 یونس
62 آیت (٦٢) کی تشریح آخری نوٹ میں ملے گی۔ قرآن کا عام اسلوب خطاب یہ ہے کہ پیہلے وجدانی دلائل بیان کرتا ہے پھر واقعات و ایام کے شواہد سے استدلال کرتا ہے۔ آیت (٦٩) میں تمام پچھلے مواعظ کا خلاصہ بیان کردیا کہ مفتری علی اللہ فلاح نہیں پاسکتا۔ پھر آیت (٧١) میں فرمایا انہیں حضرت نوح کی سرگزشت سناؤ۔ یعنی حضرت نوح اور ان کی قوم کا معاملہ اس حقیقت کے لیے ایک شاہد و حجت ہے۔ ان کا اعلان بھی یہی تھا کہ تم میری مخالفت میں جو کچھ کرسکتے ہو کر گزرو۔ اگر میں صادق ہوں تو تمہاری کوئی کوشش میرے خلاف کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ نتیجہ نے فیصلہ کردیا کہ کون صادق تھا اور کون خدا کی سچائی جھٹلانے والا تھا۔ یونس
63 یونس
64 یونس
65 یونس
66 یونس
67 یونس
68 یونس
69 یونس
70 یونس
71 آیت (٧١) میں انبیائے کرام کی صداقت کی ایک بہت بڑی دلیل واضح کرتی ہے۔ یعنی وہ کامل یقین جو اپنے مرسل من اللہ اور صادق ہونے کا ان کے اندر موجود ہوتا ہے۔ حضرت نوح نے کہا اگر تم پر میری دعوت و تذکیر گراں گزرتی ہے اور مجھے اپنے بیان میں جھوٹا سمجھتے ہو تو جو کچھ بھی تم میرے خلاف کرسکتے ہو زیادہ سے زیادہ کوشش اور زیادہ سے زیادہ اہتمام کے ساتھ کر گزرو۔ تم سب جمع ہو، باہمدگر مشورے کرو، بہتر سے بہتر تدبریریں جو میرے مٹانے کے لیے سوچی جاسکتی ہیں، سوچ لو، معاملہ کا کوئی پہلو ایسا نہ رہ جائے جس کا پہلے سے بندوبست نہ کرلیا ہو۔ پھر پورے عزم و ہمت کے ساتھ اٹھ کھڑے ہو اور اپنے جانتے بھر زرا بھی مہلت نہ دو۔ پھر سب کچھ کر کے دیکھ لو، تم مجھے اور میری دعوت کر مٹا سکتے ہو یا نہیں۔ کیا ممکن ہے کہ محض بناوٹ اور افترا پردازی کی زندگی سے ایسا یقین ابل سکے؟ کیا ممکن ہے کہ ایک فرد واحد پوری قوم کو اس طرح مقابلہ کی دعوت دے اور اس کے دل میں ذرا بھی کھٹک موجود ہو کہ اپنے بیان میں سچا نہیں؟ حضرت نوح کے ذکر کے بعد فرمایا ان کے بعد بہت سے رسول مختلف قوموں میں مبعوث ہوئے اور ایسا ہی معاملہ پیش آیا، پھر حضرت موسیٰ کے تذکرہ میں تفصیل کی، کیونکہ اہل عرب ان کے نام سے ناآشنا نہ تھے۔ حضرت نوح کے ذکر میں بھی اور حضرت موسیٰ کے حالات میں بھی صرف انہی پہلوؤں پر زور دیا ہے جو سورت کی موعظت سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی : (ا) مفتری علی اللہ فلاح نہیں پاسکتا۔ (ب) نہ وہ جو صادق کا مقابلہ کرے، یعنی اللہ کے رسول کا مقابلہ کرے۔ (ج) ہدایت ایسی چیز نہیں ہے کہ زبردستی کسی کو پلا دو۔ جو ماننے والے نہیں وہ کبھی نہیں مانیں گے خواہ کتنی ہی نشانیاں دکھلاؤ، ایسا ہی ہمیشہ ہوا اور اب بھی ہوگی۔ حضرت موسیٰ نے کہا تم حق کی نشانیوں کو جادو کہتے ہو۔ حالانکہ جو جادوگرو ہو وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جادو انسان کی بناوٹ اور شعبہ طرازی ہے اور ایک انسان اپنی بناوٹوں اور کرتبوں میں کتنا ہی ہوشیار ہو لیکن حق کے مقابلہ میں کبھی نہیں ٹک سکتا۔ الحق حقق سے ہے اور عربی میں حقق کا لغوی خاصہ اور قیام ہے۔ یعنی جو بات ثابت ہو، اٹل ہو، انمٹ ہو اسے حق کہتے ہیں۔ اور باطل ٹھیک ٹھیک اس کا نقیض ہے، یعنی ایسی بات جو مٹ جانے والی اور باقی نہ رہنے والی ہو۔ پس قرآن نے سچائی کو حق سے اور انکار کو باطل سے تعبیر کر کے یہ بات واضھ کردی ہے کہ سچائی کا خاصہ ثبوت و قیام ہے اور انکار و سرکشی کے لیے نہ ٹک سکنا اور مٹ جانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جابجا اس طرح کی تعبیرات ہمیں ملتی ہیں کہ خدا حق کو حق کردے گا اور باطل کو باطل۔ یعنی حق ثابت و قائم ہر کر اپنی حقانیت آشکار کردے گا اور باطل نابود ہو کر اپنے بطلان کا ثبوت دے دے گا۔ مثلا سورۃ انفال کی آیت (٨) میں گزر چکا ہے۔ (لیحق الحق ویبطل الباطل) اور یہاں بھی آیت (٨٢) میں ایسی ہی تعبیر اختیار کی ہے۔ یہ تعبیر قرآن کے دقائق براہین میں سے ہے جس کی تشریح تفسیر سورۃ فاتحہ میں دیکھنی چاہیے۔ یونس
72 یونس
73 یونس
74 یونس
75 یونس
76 یونس
77 یونس
78 یونس
79 یونس
80 یونس
81 یونس
82 یونس
83 آیت (٨٣) میں ان لوگوں کو جو ایمان لئے ذریۃ من قومہ سے تعبیر فرمایا ہے۔ ذریۃ کے اصل معنی کم سن اولاد کے ہیں، لیکن نسل و اولاد کے معنوں میں مطلقا بھی بولا جاتا ہے یہاں چونکہ قوم کے ساتھ ذریعۃ کا لفظ آیا ہے اس لیے ضروری ہے کہ لغوی معنوں ہی میں آیا ہو، یعنی قوم بنی اسرائیل کے کم سن افراد۔ اس سے معلوم ہوا کہ جب کبھی مقاصد و عزائم کی راہ میں شدائد و محن کا سامان کرنا پڑتا ہے تو قوم کے بڑے بوڑھوں سے بہت کم امید کی جاسکتی ہے۔ زیادہ تر نئی نسل کے نوجوان ہی آگے بڑھتے ہیں۔ کیونکہ بڑے بوڑھوں کی ساری زندگیاں ظلم و فساد کی آب و ہوا میں بسر ہوچکتی ہیں، اور محکوی کی حالت میں رہتے رہتے عافیت کو شی کے عادی ہوجاتے ہیں۔ البتہ نوجوانوں میں نیا دماغ ہوتا ہے، نیا خون ہوتا ہے، نئی امنگیں ہوتی ہیں، انہیں شدائد و محن کا خوف مرعوب نہیں کردیتا۔ وہی پہلے قدم اٹھاتے ہیں، پھر تمام قوم ان کے پیچھے چلنے لگتی ہے۔ مصر میں حضرت موسیٰ کو ایسی ہی صورت پیش آئی، فرعون کے قہر و استبداد نے بنی اسرائیل کے بڑے بوڑھوں کی ہمتیں سلب کردی تھیں۔ وہ شکر گزار ہونے کی جگہ الٹی شکایتیں کرتے، لیکن نوجوانوں کا یہ حال نہ تھا۔ ان میں ایک گروہ نکل آیا جس نے حضرت موسیٰ کے احکام کی تعمیل کی۔ یونس
84 یونس
85 یونس
86 یونس
87 یونس
88 یونس
89 یونس
90 یونس
91 یونس
92 یونس
93 آیت (٩٣) کا مضمون بظاہر عجیب معلوم ہوتا ہے، یعنی مشیت الہی کا یہ فیصلہ کہ فرعون کے جسم کو غرق ہونے سے نجات دی جائے گی تاکہ آنے والی قوموں کے لیے قدرت حق کی نشانی ہو۔ اور اسی لیے قدیم مفسرین کو حل مطلب میں مشکلات پیش آئیں، لیکن اگر وقت نظر سے کام لیا جائے، تو مطلب بالکل واضح ہے۔ قدیم مصریوں میں ھنوط کا طریقہ رائج تھا، یعنی بادشاہوں اور امیروں کی نعشیں ایک خاص طرح کا مسالا لگا کر ایک عرصہ تک کے لیے محفوظ کردیتے تھے۔ چنانچہ اٹھارویں صدی کے اوائل سے لے کر اس وقت تک بے شمار نعشیں مصر میں نکل چکی ہیں اور دنیا کا کوئی عجائب خانہ نہیں جس کے حصے میں دو چار نعشیں نہ آئی ہوں۔ اس طرح کی نعشوں کے لیے ممی کا لفظ یونانیوں نے استعمال کیا تھا جو غالبا خود مصریوں ہی کی اصطلاح تھی۔ آیت کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرمایا۔ تو اب موت سے تو نہیں بچ سکتا، لیکن تیرا جسم سمندر کی موجوں سے بچا لیا جائے گا کہ وہ حسب معمول ممی کر کے رکھا جائے اور آنے والی نسلوں کے لیے عبرت و تذکیر کا موجب ہو۔ اگر مصریات (اجپٹالوجیا) کے بعض علماء کی یہ تحقیق درست ہے کہ یہ فرعون رخمسیس ثانی تھا تو اس کا بدن آج تک زائل نہیں ہوا ہے، کیونہ اس کی ممی نکل آئی ہے اور قاہرہ کے دار الآثار میں صحیح و سالم موجود ہے۔ اس سلسلہ میں متعدد امور بحث طلب ہیں جن کے لیے البیان کا انتظار کرنا چاہیے۔ یونس
94 قرآن کا اسلوب بیان یہ ہے کہ مومنوں سے خطاب مقصود ہوتا ہے لیکن مخاطب پیغمبر اسلام کو کرتا ہے۔ مثلا (یا ایھا النبی اذا طلقتم النساء) پس یہاں بھی آیت (٩٤) میں اگرچہ خطاب پیغمبر اسلام سے ہے مگر مقصود مومنوں کی وہ ابتدائی جماعت ہے جو آغاز دعوت کی بے چارگی و مظلومی میں ایمان لائی تھی۔ یونس
95 یونس
96 یونس
97 یونس
98 آیت (٩٨) میں حضرت یونس کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کا عبرانی نام یوناہ تھا، جو عربی میں یونس ہوگیا۔ یہ بنی اسرائیل کے نبیوں میں سے ہیں اور عہد عتیق کے نوشتوں میں ایک نوشتہ ان کے نام سے بھی ہے، اس نوشتہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے باشندگان نینوا کو خبر دی تھی کہ چالیس دن کے بعد شہر تباہ ہوجائے گا کیونکہ تمہارا طلم و فساد حد سے گزر گیا ہے۔ یہ سن کر انہوں نے سرکشی نہیں کی بلکہ پادشاہ سے لے کر گڈریے تک سب توبہ و استغفار میں لگ گئے، نتیجہ یہ نکلا کہ چالیس دن کی مدت گزر گئی مگر موعودہ تباہی ظہور میں نہ آئی۔ فرمایا موعودہ عذاب ان پر اس لیے ٹل گیا کہ بات مالی اور سرکشی نہیں کی، اس کے بعد فرمایا : ایک خاص مدت تک کے لیے انہیں مہلت دے دی گئی۔ چنانچہ حضرت یوناہ کے بعد تقریبا ٦٩٠ قبل مسیح میں ان کا ظلم و فساد پھر حد سے گزر گیا اور ایک اور اسرائیل نبی ناحوم نامی نے انہیں پیش آنے والی تباہی کی خبر دی، اس انذار کے ستر برس بعد اہل بابل نے ان پر حملہ کیا۔ ساتھ ہی دجلہ میں اس زور کا سیلاب آیا کہ نینوا کی مشہور عالم چار دیواری جابجا سے گرگئی اور حملہ آوروں کے لیے کوئی روک باقی نہ رہی۔ چنانچہ اشوری تمدن کا یہ مرکز اس طرحح نابود ہوا کہ ٢٠٠ قبل مسیح اس کا جائے وقوع بھی لوگوں کو معلوم نہ تھا جیسا کہ اس عہد کے ایک یونانی مورخ نے تصریح کی ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر اہل مکہ انکار و سرکشی کر رہے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تمہیں غور کرنا چاہیے کہ کتنے ہی رسول عرب کے قرب و جوار میں آئے لیکن قوم یونس کے سوا کوئی قوم نہ نکلی جس نے دای حق کی بات فورا مان لی ہو اور عذاب اس پر سے ٹل گیا ہو۔ پھر اگر اکثر حالتوں میں ایسا ہی ہوا ہے تو موجود حالت پر تعجب و مایوسی کیوں ہو؟ قرآن نے جابجا یہ حقیقت واضھ کی ہے کہ انسانی طبعیت و استعداد کا اختلاف فطری ہے اور خدا کی مشیت یہی ہوئی کہ یہ ختلاف ظہور میں آئے، اگر وہ چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی طرح کی طبیعت ایک ہی طرح کی استتعداد ایک ہی طررح کی فکری و عملی حالت پر مجبور کردیتا مگر اس نے ایسا نہیں چاہا۔ اس کی حکمت کا یہی فیصلہ ہوا کہ انسان میں ہر طرح کی حالت پیدا کرنے کی استعداد ہو اور ہر طرح کی راہ اس کے آگے کھول دی جائے۔ وہ اگر اونچا ہونا چاہیے تو زیادہ سے زیادہ اونچا ہوسکے۔ پست ہونا چاہیے تو زیادہ سے زیادہ پستی میں گر سکے، اسی تنوع استعداد کا نتیجہ ہے کہ فکر و عمل کے ہر گوشے میں مختلف حالتیں پیدا ہوگئیں۔ ایک فرد و جماعت کا ذوق ایک طرح کا ہوا، دوسرے کا دوسری طرح کا۔ ایک کی سمجھ ایک طرف گئی، دوسرے کی دوسری طرف، ایک نے ایک راہ پسند کی کہ حق ہے، دوسرے نے اس سے انکار کیا کہ حق نہیں، اور پھر اسی اختلاف فکر و عمل نے ہدایت و سعادت اور ضلالت و شقاوت کی وہ کشمکش پیدا کردی جسے قراان آزمائش حیات سے تعبیر کرتا ہے کہ (لیبلوکم ایکم احسن عملا) وہ تمہیں کشمکش حیات کی آزمائش میں ڈالتا ہے تاکہ کھل جائے تم میں کون ہے جس کے اعمال سب سے زیادہ بہتر ہوتے ہیں، کیونکہ اس کشمکش میں کامیاب وہی ہوگا جو اپنے عمل میں احسن و انفع ہوگا۔ یونس
99 یہاں آیت (٩٩) میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اور غور کرو، کتنے مختصر لفظوں میں کتنی عظیم الشان بات کہہ دی ہے ؟ فرمایا فکر و استعداد کا اختلاف یہاں ناگزیر ہے اور ایمان کوئی ایسی چیز نہیں کہ زور زبردستی سے کسی کے اندر ٹھونس دی جائے۔ یہ تو اسی کے اندر پیدا ہوگا جس میں فہم و قبول کی استعداد ہے۔ پھر اگر تم پر یہ بات شاق گزر رہی ہے کہ کیوں لوگ مان نہیں لیتے تو کیا تم لوگوں پر جبر کرو گے کہ نہیں، تمہیں ضرور مان ہی لینا چاہیے؟ اس آیت سے یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ قرآن کے نزدیک دین و ایمان کا معاملہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں جبر و اکراہ کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ جبر و اکراہ کی صورت کا ذکر ان ہونی اور ناکردنی بات کی طرح کیا گیا ہے۔ سورۃ بقرہ کی آیت (٢٥٦) اس بارے میں قرآن کا مقررہ قانو ہے کہ (لا اکراہ فی الدین) یونس
100 یونس
101 یونس
102 یونس
103 یونس
104 آیت (١٠٤) کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے میری دعوت دین کی حقیقت ٹھیک ٹھیک نہیں سمجھی ہے اور اس وہم میں مبتلا ہو کہ شاید تمہارے مطلب کی باتیں بھی تھوڑی بہت مان لوں تو یہ وہم اپنے دماغ سے نکال دو۔ میرا اعلان صاف صاف یہ ہے کہ میں تمہارے گھڑے ہوئے معبودوں کو نہیں مانتا، صرف پروردگار عالم کی عبادت کرتا اور اسی کی طرف سے دعوت دینے پر مامور ہوں، اب اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد جو کچھ تمہارے جی میں آئے کرو، میری راہ میرے لیے ہے تمہاری تمہارے لیے اور فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ قرآن حکیم میں تم جابجا اس طرح کا اعلان پاؤ گے جیسا کہ آیت (١٠٨) میں ہے، اس نے پچھلے نبیوں کے جو مواعظ نقل کیے ہیں ان میں بھی ہر جگہ ایسی ہی بات پائی جاتی ہے۔ یعنی مذہبی صداقت کی دعوت کا معاملہ سر تا سر سمجھنے بوجھنے اور سمجھ بوجھ کر اختیار کرلینے کا معاملہ ہے، اس میں نہ تو کسی طرح کی زبردستی ہے نہ کسی طرح کا لڑائی جھگڑا، تمہاری بھلائی کے لیے ایک بات کہی گئی ہے، اگر سمجھ میں آجائے تو مان لو، نہ آئے تو نہ مانو، تمہاری راہ تمہارے لیے، ہماری راہ ہمارے لیے، اگر مان لو گے تو اپنا ہی بھلا کرو گے نہ مانو گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے۔ ہر شخص اپنے نفس کا مختار ہے، چاہے بھلائی کی راہ چلے اور بھلائی کمائے، چاہے برائی کی چال چلے گا تو کسی دوسری کا نقصان نہیں کردے گا کہ وہ اس سے بگڑنے لگے، اپنی اپنی راہ ہے اور اپنی اپنی کمائی : (من عمل صالحا فلنفسہ ومن اساء فعلیھا وما ربک بظلام للعبید) تذکیر و توکیل : ساتھ ہی واضح کردیا کہ داعی حق کی حیثیت کیا ہے : وما انا علیکم بوکیل۔ میں داعی اور مذکر ہوں، کچھ تم پر وکیل نہیں بنایا گیا ہوں، یعنی میرا کام یہ ہے کہ نصیحت کی بات سمجھا دوں، یہ نہیں ہے کہ نگہبان بن کر تم پس مسلط ہوجاؤں اور سمجھوں مجھے تمہاری ہدایت کی ٹھیکیداری مل گئی ہے۔ دوسری جگہ پیغمبر اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے یہی مطلب یوں ادا کیا ہے کہ (وما انت علیھم بجبار) تو ان لوگوں پر ایک حاکم جابر کی طرح مسلط نہیں ہے کہ جبرا و قہرا بات منوا دے۔ نیز فرمایا (لست علیھم بمصیطر) تجھے ان لوگوں پر داروغہ بنا کر نہیں بٹھا دیا ہے کہ مانیں یا نہ مانیں لیکن تو انہیں راہ حق پر چلانے کا ذمہ دار ہو۔ نیز جابجا مختلف پیرایوں میں یہ حقیقت واضح کردی ہے کہ پیغمبر کا مقام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ سچائی کی پکار بلند کرنے والا ہے، پیام حق پہنچانے دینے والا ہے، نصیحت کی بات سجھا دینے والا ہے، ایمان و عمل کے نتائج کی خوشخبری دیتا اور انکار و بد عملی کے نتائج سے خبردار کردیتا ہے، اس سے زیادہ اس کے سر کوئی ذمہ داری نہیں۔ غور کرو۔ اس سے زیادہ صاف، بے لاگ اور امن و سلماتی کی کوئی راہ ہوسکتی ہے؟ اور اگر دنیا نے دعوت حق کی یہ روح سمجھ لی ہوتی تو کیا ممکن تھا کہ کوئی انسان دوسرے انسان سے محض اعتقاد و عمل کی بنا پر لڑتا؟ لیکن مصیبت یہ ہے کہ انسان کے ظلم و سرکشی نے کبھی اس حقیقت کا اعتراف نہیں کیا اور یہی بات ساری نزاعوں کی بنیاد بن گئی۔ قرآن نے پھچلی دعوتوں کی جس قدر سرگزشتیں بیان کی ہیں انہیں جابجا پڑھو۔ ہر جگہ دیکھو گے کہ بنائے نزاع یہی تھی، خدا کے رسولوں کا ہمیشہ اعلان یہی ہوا کہ ہم نصیحت کرنے والے ہیں۔ ماننا نہ ماننا تمہارا کام ہے، اگر نہیں مانتے تو تم اپنی راہ چلو، ہمیں اپنی راہ چلنے دو اور دیکھو نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ لیکن ان کے منکر کہتے تھے کہ نہیں نہ تو ہم تمہاری بات مانیں گے نہ تمہیں تمہاری راہ چلنے دیں گے۔ سورۃ اعراف کی آیت (٨٨) میں حضرت شعیب کی سرگزشت گزر چکی ہے۔ جب ان کی قوم کے سرکشوں نے کہا اگر تم اور تمہارے ساتھی ہماری ملت میں پھر لوٹ نہ آئے تو ہم ضرور تمہیں اپنی بستی سے جلا وطن کردیں گے تو انہوں نے جواب میں کہا اولو کنا کارھین؟ اگر تمہارے مذہب پر ہمارا دل مطمئن نہ ہو تو کیا جبرا اسے مان لیں؟ اسلام اور اس کے منکروں میں جو نزاع شروع ہوئی وہ بھی تمام تر یہی تھی۔ قرآن کہتا تھا، میری راہ تبلیغ و تذکیر کی ہے، مخالف کہتے تھے، ہماری راہ جبر و تشدد کی ہے، قرآن کہتا تھا اگر میری بات سمجھ میں آئے تو مان لو، نہ سمجھ میں آئے تو ماننے والوں کو ان کی راہ چلنے دو، وہ کہتے تھے ہماری بات تمہاری سمجھ میں آئے یا نہ آئے تمہیں ماننی ہی چاہیے نہیں مانو گے تو جبرا منوائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن نے اس آیت میں اور اس کی ہم معنی آیات میں جو بات کہہ دی ہے اگر دنیا اسے سمجھ لیتی تو نوع انسانی کی وہ تمام خونریزیاں جو فکر و عمل کے اختلاف سے پیدا ہوئیں یک قلم ختم ہوجاتیں اور آج کل بھی جس قدر جھگڑے ہورہے ہیں وہ سب ختم ہوجائیں۔ غور کرو سارے جھگڑوں کی اصلی بنا کیا ہے؟ یہی ہے کہ لوگ تذکیر اور توکیل میں فرق نہیں کرتے اور قرآن کہتا ہے دونوں میں فرق کرو۔ تذکیر کی راہ یہ ہوئی کہ جو بات ٹھیک سمجھتے ہو اس کی دوسروں کو بھی ترغیب دو مگر صرف ترغیب دو، اس سے آگے نہ بڑھو۔ یعنی یہ بات نہ بھول جاؤ کہ پسند کرنے نہ کرنے کا حق دوسروں کو ہے، تم اس کے لیے ذمہ دار نہیں ہو۔ تو کیل یہ ہوئی کہ ڈنڈا لے کر کھڑے ہوجاؤ اور جو کوئی تم سے متفق نہ ہو اس کے پیچھے پڑجاؤ۔ گویا خدا نے تمہیں لوگوں کی ہدایت و گمراہی کا ٹھیکیدار بنا دیا ہے، جب قرآن صاف صاف کہتا ہے کہ خدا کے رسولوں کا منصب بھی تذکیر و تبلیغ کے اندر محدود تھا حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے مامور تھے تو پھر ظاہر ہے کسی دوسرے انسان کے لیے وہ کب گوارا کرسکتا ہے کہ وکیل مصطیر اور جبار بن جائے؟ دراصل اعمال انسانی کے تمام گوشوں میں اصلی سوال حدود ہی کا ہے اور ہر جگہ انسان نے اسی میں ٹھوکر کھائی ہے، یعنی ہر بات کی جو حد ہے اس کے اندر نہیں رہنا چاہتا، دو حق ہیں اور دونوں کو اپنی اپنی حدوں کے اندر رہنا چاہی، ایک حق تذکیر و تبلیغ کا ہے، ایک پسند و قبولیت کا، ہر انسان کو اس کا حق ہے کہ جس بات کو درست سمجھتا ہے اسے دوسروں کو بھی سمجھائے لیکن اس کا حق نہیں ہے کہ دوسروں کے حق سے انکار کردے۔ یعنی یہ بات بھلا دے کہ جس طرح اسے ایک بات کے ماننے نہ ماننے کا حق ہے، ویاس ہی دوسرے کو بھی ماننے نہ ماننے کا حق ہے، اور ایک فرد دوسرے کے لیے ذمہ دار نہیں۔ ہم نے یہاں جس بات کو حق سے تعبیر کیا ہے قرآن اسے ہر انسان کا فرض قرار دیتا ہے۔ یعنی وہ کہتا ہے جس بات کو تم سچ سمجھتے ہو تمہارا فرض ہے کہ اسے دوسروں تک بھی پہنچاؤ، اگر اس میں کوتاہی کرو گے تو خدا کے آگے جوابدہ ہوگے، لیکن ساتھ ہی یاد رکھو کہ فرض تذکیر و تبلیغ کا ہے، توکیل و اجبار کا نہیں ہے، اور جوابدہی اس میں ہے کہ تم نے تبلیغ کی یا نہیں، اس میں نہیں ہے کہ دوسروں نے مانا یا نہیں مانا۔ سورۃ اعراف کی آیت (١٦٤) میں پڑھ چکے ہو کہ جو لوگ اصحاب سبت کو نصیحت کرتے تھے انہوں نے کہا تھا معذرۃ الی ربکم ولعلھم یتقون۔ ہم جانتے ہیں کہ ان لوگوں کی سرکشی حد سے گزر چکی ہے لیکن یہ جاننے پر بھی نصیحت کیے جاتے ہیں، تاکہ خدا کے سامنے کہہ سکیں ہم نے اپنا فرض ادا کردیا تھا اور اس خیال سے بھی کہ کون جانتا ہے؟ شاید باز آجائیں۔ غور کرو قرآن نے کس درجہ صحت و عدالت کے ساتھ معاملہ کے دونوں پہلوؤں کی حفاظت کی ہے اور پھر ان کی حد بندیوں کا خط کھینچ دیا ہے؟ اس نے ایک طرف تذکیر و دعوت پر زور دیا تاکہ حق کی طلب و قیام کی روح افسردہ نہ ہو، دوسری طرف انسان کی شخصی آزادی بھی محفوظ کردی کہ جبر و تشدد بے جا مداخلت نہ کرسکے، حد بندی کا یہی خط ہے جو یہاں صحت و اعتدال کی حالت قائم رکھتا ہے۔ اسے اپنی جگہ سے ادھر ادھر کر دو دونوں میں سے کوئی بات ضرور غلط ہوجائے گی، اگر دعوت و تذکیر کا قدم آگے بڑھے گا، اعتقاد و فکر کی شخصی آزادی باقی نہیں رہے گی۔ اگر شخصی اذادی کے مطالبہ میں بڑھ جاؤ گے، حق و عدالت کے طلب و قیام کا نظم مختل ہوجائے گا۔ قرآن کی بہت سی باتوں کی طرح اس بات کے سمجھنے میں بھی دنیا نے بہت دیر لگائی اور تاریخ کو بارہ صدیوں تک سا بات کا انتظار کرنا پڑا کہ ایک انسان دوسرے انسان کو محض اختلاف عقائد پر ذبح نہ کرے اور اتنی بات سمجھ لے کہ تذکیر اور توکیل میں فرق ہے۔ اب ڈیڑھ سو برس سے یہ بات دنیا کے عقلی مسلمات میں سے مجھی جاتی ہے لیکن اسے معلوم نہیں کہ اس کے اعلان کی تاریخ امریکہ اور فرانس کے اعلان حقوق انسانی سے شروع نہیں ہوئی ہے۔ اس سے بارہ سو برس پہلے شروع ہوچکے تھی۔ مسلمانوں نے بھی قرآن کی یہ تعلیم پس پشت ڈال دی، اگر انہوں نے یہ بات نہ بھلائی ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ مختلف مذہبی فرقہ بندیاں پیدا ہوتیں اور ہر فرقہ دوسرے فرقہ سے محض اختلاف عقائد کی بنا پر دست و گریباں ہوجاتا۔ اس سورت کے بعض مقامات کی ضرور تشریحات رہ گئی ہیں، وہ یہاں درج کردی جاتی ہیں۔ یونس
105 (١) کائنات کا چھ ایام میں پیدا ہونا : آیت (٣) میں فرمایا تمہارا پروردگار وہی ہے جس نے آسمان و زمین چھ ایام میں بنائے، یہی بات سورۃ اعراف کی آیت (٥٤) میں گزر چکی ہے اور اس کے نوٹ میں چھ ایام کا مطلب واضح کردیا گیا ہے، یہاں ہم چاہتے ہیں وہ تمام اشارا جمع دیں جو آسمان و زمین کی بتدائی پیدائش کے بارے میں جابجا کیے گئے ہیں : (١) آسمان و زمین کی پیدائش ایک ایسے مادہ سے ہوئی ہے جسے قرآن دخان کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے (ثم استوی الی السماء وھی دخان) دخان کے معنی دھوئیں کے ہیں، یا ایسی بھاپ کے جو اوپر چڑھی ہوئی ہو۔ (٢) یہ مادہ دخانیہ ابتدا میں ملا ہوا تھا، الگ الگ نہ تھا، پھر اس کے مختلف حصے ایک دوسرے سے جد اکردئے گئے اور ان سے اجرام سماویہ کی پیدائش ظہور میں آئی : (ان السماوات والارض کانتا رتقا ففتقناھما) (٣) یہ تمام کائنات بیک دفعہ ظہور میں نہیں آگئی، بلکہ تخلیق کے مختلف دور یکے بعد دیگرے طاری ہوئے، یہ دور چھ تھے جیسا کہ آیت زیر بحث میں ہے۔ (٤) سات ستاروں کی تکمیل دو دوروں میں ہوئی : (فقضاھن سبع سماوات فی یومین) (٥) زمین کی پیدائش دو دوروں میں ہوئی : قل ائنکم لتکفرون بالذی خلق الارض فی یومین وتجعلون لہ اندادا، ذلک رب العالمین) (٦) زمین کی سطح کی درستی اور پہاڑوں کی نمود اور قوت نشو ونما کی تکمیل بھی دو دوروں میں ہوئی، اور اس طرح یہ چار دور ہوئے : (وجعل فیھا رواسی من فوقھا وبارک فیھا وقدر فیھا اقواتھا فی اربعۃ ایام سواء للسائلین) (٧) تمام اجسام حیہ (یعنی نباتات و حیوانات) کی پیدائش پانی سے ہوئی (وجعلنا من الماء کل شی حی) (٨) انسان کے و جود پر بھی یکے بعد دیگرے مختلف حالتیں گزری ہیں : (وخلقکم اطوارا) ان تمام اشارات کا ماحصل بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں مادہ دخانی تھا، پھر اس میں انقسام ہوا، یعنی بہت سے ٹکڑے ہوگئے، پھر ہر ٹکڑے نے ایک کرہ کی شکل اختیار کرلی اور اسی کے ایک ٹکڑے سے زمین بنی، پھر زمین میں کوئی ایسی تبدیلی واقع ہوئی کہ دخانیت نے مائیت کی شکل اختیار کرلی، یعنی پانی پیدا ہوگیا، پھر خشکی کے قطعات درست ہوئے، پھر پہاڑوں کے سلسلے نمایاں ہوئے، پھر زندگی کا نمو شروع ہوا اور نباتات ظہور میں آگئیں۔ موجودہ زمانہ میں اجرام سماویہ کی ابتدائی تخلیق اور کرہ ارضی کی ابتدائی نشو ونما کے جو نظریے تسلیم کرلیے گئے ہیں یہ اشارات بظاہر ان کی تائید کرتے ہیں اور اگر ہم چاہیں تو ان بنیادوں پر شرح و تفصیل کی بڑی بڑی عمارتیں اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا کرنا صحیح نہ ہوگا، یہ نظریے کتنے ہی مستند تسلیم کرلیے گئے ہوں، لیکن پھر نظریے ہیں، اور نظریات جزم و یقین کے ساتھ حقیقت کا فیصلہ نہیں کرسکتے، پھر اس سے کیا فائدہ کہ ان کی روشنی میں قرآن کے مجمل اور محتمل اشارات کی تفسیر کی جائے، فرض کرو آج ہم نے دخان اور دخان کے انقسام کا مطلب اسی روشنی میں آراستہ کردیا جو وقت کے نظریوں میں تسلیم کیا جاتا ہے لیکن کل کو کیا کریں گے اگر ان نظریوں کی جگہ دوسرے نظریے پیدا ہوگئے؟ صاف بات یہی ہے کہ یہ معاملہ عالم غیب سے تعلق رکھتا ہے جس کی حقیقت ہم اپنے علم و ادارک کے ذریعہ معلوم نہیں کرسکتے اور قرآن کا مقصود ان اشارات سے تخلیق عالم کی شرح و تحقیقی نہیں ہے۔ خدا کی قدرت و حکمت کی طرف انسان کو توجہ دلانا ہے۔ یاد رہے کہ پیدائش عالم کے بارے میں مفسرین نے بہت سی روایات نقل کردی ہیں جن کی صحت ثابت نہیں اور جو تمام تر یہودیوں کے قصص و روایات سے ماخوذ ہیں۔ صحیح مسلم کی حدیث خلق اللہ التربۃ یوم السبت الخ۔ کی نسبت بھی محققین نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ اس کا رفع مشکوک ہے اور غالبا کعب احبار سے مروی ہے۔ حافظ ابن کثیر نے تفسیر میں اقوال جمع کردیے ہیں۔ (ب) منازل قمر : آیت (٥) میں فرمایا (وقدرہ منازل) یعنی چاند کے لیے یکے بعد دیگرے وارد ہونے کی منزلیں اندازہ کر کے ٹھہرا دیں۔ سورۃ یاسین کی آیت (٣٩) میں بھی ان منزلوں کی طرف اشارہ کیا ہے ( والقمر قدرنہ منازل حتی عاد کالعرجون القدیم) پس مختصرا ان منازل کا مطلب سمجھ لینا چاہیے۔ چاند زمین کے گرد گردش میں رہتا ہے اور اپنی گردش کے فلک کو ٢٧ دن ٧ گھنٹے اور ٤٣ منٹوں میں قطع کرلیتا ہے۔ اس دور کو علمائے ہئیت چاند کے نجومی دور سے یا نجومی مہینے سے تعبیر کرتے ہیں۔ کیونکہ اس دور کے ختم ہونے پر چاند پھر اسی ستارہ کے قریب دکھائی دیتا ہے جس کے اپس سے اس کی گردش شروع ہوئی تھی۔ نیز اپنی گردش کی ہر رات میں کسی نہ کسی ستارہ یا ستاروں کے مجموعہ کے پاس ضرور پہنچ جاتا ہے اور وہ گویا اس کی گردش کے لیے ہر روز کی ایک منزل بن گیا ہے، وہ ہمیشہ ایک خاص منزل سے سفر شروع کرتا ہے، ہر روز کی مقررہ منزل میں نمایاں ہوتا ہے اور پھر وہیں پہنچ جاتا ہے جہاں سے زمین کا طواف شروع کیا تھا۔ اس طرح ٢٧ دن اور ٧ گھنٹے کی مدت نے ٢٨ منزلیں بنا دیں۔ جب ہم ٣٦٠ کے د رجوں کو (جو کامل دور کی مقررہ مقدار ہے) ٢٨ راتوں پر تقسیم کرتے ہیں تو معلوم ہوا ہے کہ چاند ہر روز تقریبا ١٣ درجہ مسافت اپنے فلک کی طے کرلیا کرتا ہے۔ تقریبا اس لیے کہا گیا کہ حساب میں کچھ دقیقے زیادہ ہوتے ہیں۔ انسان کی نگاہ کے لیے آسمان کی کوئی چیز بھی اس درجہ نمایاں اور پرکشش نہیں جس قدر سورج اور چاند کا طلوع و غروب ہے، کیونکہ انہی دو ستاروں نے بغیر کسی کاوش اور پیچیدگی کے اسے اوقات شماری کا راز بتلا دیا۔ اس نے دیکھا کہ سورج نکلتا ہے اور پھر گھٹتے گھٹتے چھپ جاتا ہے، پس اسے یہ اندازہ مقرر کرلینے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی کہ یہ ایک معین وقت ہے جس میں کبھی خلل واقع نہیں ہوسکتا اور اسے ایک دن ٹھہرا لینا چاہیے۔ پھر اس نے چاند کو دیکھا اور فورا معلوم کرلیا کہ اس کے طلوع و غروب کا بھی ایک خاص اندازہ مقرر ہے، وہ ایک خاص زمانہ تک دکھائی دیتا ہے پھر غائب ہوجاتا ہے اور پھر نمایاں ہو کر بڑھنے گھٹنے لگتا ہے۔ پس اوقات شماری کا دوسرا اندازہ بھی اسے معلوم ہوگیا اور اس نے چاند کے چھپنے اور نکلنے کی مدت کو مہینہ ٹھہرا دیا یہی مطالعہ جب آگے بڑھا تو معلوم ہوا ہر رات چاند آسمان کے کسی نہ کسی ستارہ کے پاس دکھائی دیتا ہے اور یہ نظارہ ایسا ہے جس میں کبھیئ فرق نہیں پڑتا۔ پس ان ستاروں سے اس کی روزانہ منزلیں بن گئیں اور ہر منزل کے لیے کسی خاص مناسبت سے ایک نام تجویز کردیا گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ مطالعہ اور ضرورت کی یکساں حالت نے مختلف قوموں کو اس نتیجہ تک پہنچا دیا تھا۔ چنانچہ ہندوستان میں ان منازل کے لیے نچھتر کا لفظ اختیار کیا گیا اور ستائیس نچھتر قرار دیے گئے جو اسونی سے شروع ہوتے اور ریوتی پر ختم ہوتے ہیں۔ چینیوں نے بھی اٹھائیس منزلیں بنائی تھیں اور اسے سیو کہتے تھے۔ بابل واشور کے باشندوں نے شاید سب سے پہلے اس کا سراغ لگایا، اور مجوسیوں کی ایک مذہبی کتاب سے معلوم ہوتا ہے ایرانی بھی اس سے بے خبر نہ تھے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ عرب جاہلیت نے مجاور قوموں سے یہ حساب معلوم کیا یا بطور خود اس نتجہ تک پہنچے تھے لیکن یہ قاعدہ ان میں رائج ضرور تھا اور اسے چاند کی منزلوں سے تعبیر کرتے تھے۔ حکمائے اسلام نے ان منزلوں کو بطلیموس کے نقشہ مندرجہ مجسطی سے تبطیق دی تھی اور علمائے یورپ نے زمانہ حال کے اسماء و علائم سے تطبیق دی ہے، ان منزلوں کے عربی نام حسب ذیل ہیں : الشرطان، البطین، الثریا، الدبران، الھقعہ، الھنعہ، الذراع، النثرہ، الطرف، الجبھہ، الزھرہ، الصرفہ، العواء، السماک الاعزل، الغفر، الزبانی، الاکلیل، القلب، الشولہ، النعائم، البلدہ، سعد الذابح، سعد بلع، سعد السعود، سعد الاخبیہ، الفرغ الاول، الفرغ الثانی، بطن الحوت۔ الفرغ الاول اور ثانی کے لیے فرغ الدلو المقدم اور فرغ الدلوا الموخر کے نام بھی ملتے ہیں، اور بطن الحوت کو الرشاء بھی کہتے ہیں۔ (ج) قرآن اور آخرت کی زندگی : ادیان عالم کے بنیادی عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی اسی دنیا میں ختم نہیں ہوجاتی، اس کے بعد بھی ایک زندگی ہے اور اس زندگی میں جیسے کچھ اعمال ہوں گے ویسے ہی نتائج دوسری زندگی میں پیش آئیں گے۔ قرآن میں بھی ایمان باللہ کا ایک بنیادی عقیدہ یہی مسئلہ ہے۔ البتہ اس نے جو تعبیر اختیار کی ہے وہ پیروان مذہب کے عام تصور سے مختلف ہے۔ وہ اس گوشہ کو کائنات ہستی کے عالمگیر قوانین خلقت سے الگ نہیں قرار دیتا بلکہ اسی کے ماتحت لاتا ہے۔ وہ کہتا ہے جس طرح دنیا ہر چیز کے خواص اور ہر حادثہ کے نتائج ہیں۔ ٹھیک اسی طرح انسانی اعمال کے بھی خواص و نتائج ہیں اور یہاں مادیات کی طرح معنویات کے قوانین بھی کام کر رہے ہیں۔ پس اچھے کام کا نتیجہ اچھائی ہوگا۔ برے عمل کا نتیجہ برائی (اس مقام کی تفصیل تفسیر سورۃ فاتحہ کے مبحث الدین میں گزر چکی ہے) یہ اچھے برے نتائج کس شکل میں پیش آئیں گے؟ قرآن کہتا ہے نیک عمل انسان اصحاب جنت ہیں ان کے لیے بہشتی زندگی کی خوشحالیاں ہوں گی اور لقائے الہی کی دائمی نعمت، بدعمل انسان اصحاب دوزخ ہیں، ان کے لیے دوزخ زندگی کی بدحالیاں ہوں گی اور نعمت اخروی سے محرومی، پھر دونوں طرح کی زندگیوں کے احوال و واردات ہیں جنہیں جابجا مختلف اسلوبوں میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس بارے میں ہم اپنی عقل سے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔ کیونکہ یہ عالمہمارے ادارک کی سرحد سے باہر ہے، جس مقام کا ہم ادراک نہیں کرسکتے وہاں کے حالات کی نسبت حکم کیسے لگائیں؟ اگر لگائیں گے تو یہ ظن و گمان ہوگا اور ظن سے یقین پیدا نہیں ہوسکتا۔ لیکن پھر اس پر ہم یقین کیوں کریں؟ اس لیے کہ ہم وجدانی طور پر محسوس کرتے ہیں کہ سرحد محسوسات سے ماورا بھی ایک حقیقت موجود ہے اور اگر اس حقیقت سے انکار کردیں تو کائنات ہستی کے مسئلہ کا کوئی حل باقی نہیں رہتا اور خود ہماری عقل کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر اللہ کی ہستی اور آخرت کی زندگی کا مبدء تسلیم نہیں کیا جاتا تو مسئلہ ہستی کے سارے سوالات لا ینحل ہوجاتے ہیں لیکن جونہی یہ نقطہ تسلیم کرلیا جاتا ہے معا سارے سوالات حل ہوجاتے ہیں اور مجہولیت کی تاریکی کی جگہ عرفان و بصیرت کی روشنی ہر طرف نمایاں ہوجاتی ہے۔ پس ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ نقطہ بناوٹی نہیں ہے حقیقی ہے۔ البتہ ایک بات بالکل واضح ہے، جب ہم عالم آخرت کے احوال و واردات سنتے ہیں تو قدرتی طور پر ان کی وہی شکل سامنے آجاتی ہے جو اس زندگی کی محسوسات کے لحاظ سے ہوسکتی ہے۔ لیکن خود قرآن و سنت کی تصریحات نے ہمیں بتلا دیا ہے کہ عالم آخرت کی باتوں کو اس دنیا کی باتوں کی طرح نہیں سمجھنا چاہیے۔ مثلا جب ہم سنتے ہیں کہ جہنم میں آگ ہوگی اور بہشت سے مقصود باغ ہے تو ہمارے سامنے آگ کی وہی شکل آجاتی ہے جو ہمارے چولھوں میں جلا کرتی ہے اور باغ کا وہی نقشہ کھینچ جاتا ہے جو اپنے مکان کے صحنوں میں اگایا کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ ظٓہر ہے کہ عالم آخرت کی آگ اس دنیا کی آگ کی طرح نہیں ہوسکتی، اور نہ وہاں کے باغ و چمن ہمارے لگائے ہوئے باغوں کی طرح ہوں گے۔ سورۃ سجدہ کی آیت (١٧) میں ہے : (فلا تعلم نفس ما اخفی لھم ن قرۃ اعین جزاء بما کانوا یعملون) کوئی جان نہیں جانتی کہ اس کی نیک عملیوں کی جزا میں نگاہ کا کیسا سرور پردہ غییب میں پوشیدہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ جنت کی راحت و سرور کی حقیقت کا ہم اس دنیا میں تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ایک حدیث میں پیغمبر اسلام نے جنت کی حقیقت یہ بتلائی ہے : (لاعین رات، ولا اذن سمعت، ولا خطر ببال احد بشر) (مسلم) نہ تو کسی آنکھ نے دیھکھی، نہ کسی کان نے سنی، نہ کسی فرد و بشر کے خیال میں گزری، حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ جنت کی نعمتیں دنیا سے کوئی مشابہت نہیں رکھتیِ بجز اس کے کہ نام میں مشارکت ہے۔ (ابن کثیر) باقی رہی یہ بات کہ اگر عالم آخرت کے یہ معاملات دنیا کے معاملات کے مثل نہیں ہوں گے تو پھر ان کی حقیقت کیسی ہوگی؟ تو اس بارے میں ہماری عقلی کاوش کچھ معلوم نہیں کرسکتی۔ اصل یہ ہے کہ مادی زندگی کے احساسات و مفہومات کی زنجیروں میں ہم کچھ اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ ان سے آزاد ہو کر جمال حقیقت کا تصور ہی نہیں کرسکتے۔ پس اس کے سوا چارہ نہیں کہ جو کچھ بتلا دیا گیا ہے اس پر یقین کریں اور جو کچھ نہیں پاسکتے اس کی کاوش میں سرگرداں نہ ہوں، اگر سرگرداں ہوں گے تو حقیقت کا سراغ تو نہیں ملے گا، البتہ نئے نئے وہموں اور گمانوں میں مبتلا ہوجائیں گے : اے بروں از وہم و قال و قیل من۔۔۔ خاک بر فرق من و تمثیل من قرآن نے اسی لیے مطالب وحی کی دو قسمیں ٹھہرا دی ہیں۔ محکمات اور متشابہات، متشابہات کی نسبت فرما دیا ہے کہ اس کی حقیقت انسان نہیں پاسکتا۔ (لا یعلم تاویلہ الا اللہ) یہ اور اس طرح کے تمام معاملات جو عالم غیب سے تعلق رکھتے ہیں، یعنی ماورائے محسوسات ہیں متشابہات کی قسم میں داخل ہیں۔ قرآن کہتا ہے جو علم میں کامل ہیں وہ ان کی کاوش میں نہیں پڑتے بلکہ کہتے ہیں کہ (امنا بہ کل من عندنا ربنا وما یذکر الا اولو الالباب) اس سلسلہ میں چند اور امور ہیں جو سمجھ لینے چاہیں۔ یونس
106 لقائے الہی : (ا) قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے آخرت کے معاملہ کو ہر جگہ لقائے الہی سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی اللہ کے دیدار سے، چنانچہ تم جابجا اس طرحح کی تعبیرات پاؤ گے، جو لوگ لقائے الہی کی توقع رکھتے ہیں، یعنی آخرت کی توقع رکھتے ہیں۔ یا جن لوگوں نے لقاء الہی سے انکار کیا، یعنی آخرت سے انکار کیا، وہ کہتا ہے مومن وہ ہے جو لقائے الہی کی طلب رکھتا ہے، کافر وہ ہے جو دنیوی زندگی ہی پر قانع ہوگیا اور لقائے الہی کی اس میں کوئی طلب نہیں۔ چنانچہ اس سورت کی آیت (٧) میں فرمایا جو لوگ ہماری ملاقات کے متوقع نہیں اور صرف دنیوی زندگی ہی پر راضی ہوگئے ہیں اور اس کے خلاف ان کے دل میں کوئی خلش نہیں اٹھتی اور وہ کہ ہماری نشانیوں سے یک قلم غافل ہوگئے ہیں۔ پھر جابجا مومنوں کی نسبت فرمایا ہے کہ ان کی نگاہیں جمال الہی کا نظارہ کریں گے : (وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرہ) اور کافروں کی نسبت فرمایا ہے کہ وہ اس نعمت سے محروم رہیں گے : (کلا انھم عن ربھم یومئذ لمحجوبون) پس ان تمام تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے آخرت کی زندگی اور اس کے نعائم کی جو حقیقت قرار دی ہے وہ کوئی ایسی بات ہے جس کا ماحصل لقائے الہی ہے اور عذاب آخرت کا معاملہ کوئی ایسا معاملہ ہے جسے وہ محبوب رہنے سے تعبیر کرتا ہے۔ (٢) بعض تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت کی نعمتوں میں ایک نعمت تو وہ ہے جسے وہ جنت کی زندگی سے تعبیر کرتا ہے اور ایک اس کے علاوہ بھی ہے۔ اس دوسری نعمت کو اس نے جابجا رضوان سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے یہ جنتی زندگی کی نعمت سے بھی بڑی نعمت ہوگی : (وعد اللہ المومنین والمومنات جنات تجری من تحتھا الانھار خالدین فیھا ومساکن طیبۃ فی جنات عدن ورضوان من اللہ اکبر، ذلک ھو الفوز العظیم) رضوان سے مقصود اللہ کی خوشنودی کا اعلی مرتبہ ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے وہ کوئی ایسی نعمت ہے جس کے لیے بجز اس کے اور کوئی تعبیر نہیں ہوسکتی تھی کہ اللہ کی کامل ترین رضا مندی کی بخشش و نوال کہی جائے۔ تناسخ : (٣) ہندوستان میں آخرت کی زندگی اور جزا کے لیے آواگون (تناسخ) کا عقیدہ پیدا ہوا۔ قدیم ہند و مذہب اور پیروان بدھ اور جینی تینوں اس میں متفق ہیں۔ قدیم مصریوں کے عقائد میں بھی اس کا سراغ ملتا ہے اور بعض حکمائے یونان بھی اسی طرف گئے ہیں، چونکہ قرآن نے آخرت کے معاملہ کے لیے رجوع کی تعبیر اختیار کی ہے، یعنی وہ ہر جگہ کہتا ہے والیہ ترجعون تم اسی طرف لوٹائے جاؤ گے اس لیے حال میں ایک تھیا سوفسٹ مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن کا عقیدہ آخرت بھی تناسخ کے مبدء پر مبنی ہے۔ وہ کہتے ہیں قرآن نے لوٹنے کی تعبیر اختیار کر کے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ زدنگی بار بار ظہور میں آتی اور بار بار اسل مرکز کی طرف لوٹتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کا استنباط کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا۔ بلاشبہ قرآن نے آخرت کی زندگی کو لوٹنے سے تعببیر کیا ہے اور وہ اس معاملہ کو یوں قرار دیتا ہے گویا سہتی انسان کہیں سے آئی ہے اور پھر اسی کی طرف لوٹے گی لیکن صرف اتنی ہی بات سے تناسخ ثابت نہیں ہوجاتا۔ فلسفیانہ تناسخ کی بنیاد روح کے رجوع پر نہیں بلکہ زندگی کے بار بار اعادہ گردش پر ہے اور مذہبی تناسخ کی بنیاد یہ ہے کہ جزائے عمل کا معاملہ اسی اعادئے و گردش سے مرتب ہوتا ہے اور وہ ظاہر ہے کہ قرآن میں ان دونوں عقیدوں کے لیے کوئی تصریح نہیں ملتی۔ ہدایت حواس و عقل اور اس سے استدلال : (د) آیت (٣٥) میں فرمایا : (قل ھل من شرکائکم من یھدی الی الحق، قل اللہ یھدی للحق، افمن یھدی الی الحق احق ان یتبع امن لا یھدی الا ان یھدی فما لکم کیف تحکمون) یعنی جن لوگوں کو تم نے خدا کا شریک ٹھہرا لیا ہے ان میں کوئی ہے جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہو؟ یہ تو اللہ ہی کی ذات ہے جو حق کی راہ چلاتی ہے۔ اچھا تو پھر بتلاؤ جو ہستی حق کی طرف رہنمائی کرتی ہے وہ اس کی حقدار ہے کہ اس کے پیچھے چلیں یا اس کے پیچھے چلنا چاہیے جو خود اس کی محتاج ہے کہ کوئی راہ سجھائے؟ یہ مقام قرآن کے مہمات دلائل میں سے ہے اور ضروری ہے کہ اسے اچھی طرح سمجھ لیا جائے چونکہ اس آیت میں ہدایت اور حق کے الفاظ آئے ہیں اس لیے مفسرین نے خیال کیا ہدایت سے مقصود ہدایت وحی ہے اور حق سے مقصود دین حق اور فارسی و اردو کے تمام متجرموں نے بھی انہی کی پیروی کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن کے استدلال کی ساری حقیقت مفقود ہوگئی اور آیت کا مطلب بھی کچھ سے کچھ ہوگیا۔ اس طرح کے تمام مقامات دیکھ کر سخت حیرانی ہوتی ہے کہ متاخرین کا معیار نظر و مطالعہ کیوں اس درجہ پست ہوگیا تھا کہ قرآن کے صاف و صریح مطالب سے بھی آشنا نہ ہوسکے؟ علاوہ بریں یہ ظاہر ہے کہ یہاں خطاب مشرکوں سے ہے جو سرے سے وحی و دین کے منکر تھے اور مقام استدلال کا ہے، پھر اگر ہدایت سے مقصود ہدایت وحی و دین ہو تو اس میں ان کے لیے دلیل کی بات کیا ہوئی؟ جب وہ وحی و دین کی ہدایت مانتے ہی نہ تھے تو پھر اسی ہدایت سے ان پر دلیل کیونکر لائی جاسکتی ہے؟ کم از کم اتنی ہی بات پر ان بزرگوں نے غور کرلیا ہوتا۔ آیت کا اسلوب کہہ رہا ہے کہ یہاں پہلے ایک بات بطور ایک مسلمہ عقیدہ کے بیان کی گئی ہے جس سے مخاطب انکار نہیں کرتا یا نہیں کرسکتا۔ پھر جب اس کا مسلم ہونا واضھ وہ گیا تو اسی کو بنا استدلال ٹھہرایا گیا ،۔ یعنی پہلے کہا گیا : (ھل من شرکائکم من یھدی الی الحق) تمہارے بنائے ہوئے شریکوں میں کوئی ہے جو حق کی رہنمائی کرتا ہو؟ پھر کہا گیا : (قل اللہ یھدی للحق) یعنی تم اس سے انکار نہیں کرسکتے کہ وہ ہستی جو رہنمائے حق ہے وہ اللہ ہی کی ہستی ہے، پھر جب یہ مسلمہ واضح ہوگیا تو اس سے استدلال کیا گیا کہ (افمن یھدی الی الحق احق ان یتبع) پس ضروری ہے کہ یہاں ہدایت سے مقصود کوئی ایسی بات ہو جس سے مخاطبوں کو انکار کی مجال نہ تھی۔ اب اگر ہدایت کا مطلب ہدایت وحی و دین قرار دیا جاتا ہے تو سار مطلب خبط ہوجاتا ہے۔ کیونکہ معلوم ہے کہ مخاطبوں کے لیے یہ مسلم بات نہیں ہوسکتی، وہ سرے سے وحی ہی کے منکر تھے۔ اصل یہ ہے کہ ان بزرگوں نے یہ معلوم کرنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی کہ قرآن میں ہدایت کا لفظ کن کن معنوں میں استعمال ہوا ہے اور اس کے مختلف مراتب و اشکال کیا کیا ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں ہدایت کا لفظ دیکھتے ہیں اسے ہدایت دین ہی پر محمول کرلیتے ہیں۔ اگرچہ مطلب ٹھیک نہ بیٹھتا ہو۔ بہرحال یہاں ہدایت سے مقصود ہدایت وحی نہیں ہے بلکہ وجدان و حواس اور عقل کی ہدایت ہے اور حق سے مقصود دین حق نہیں ہے بلکہ لغوی حق ہے۔ یعنی سچا راستہ، درست راستہ، قرآن نے جابجا یہ حقیقت واضح کی ہے کہ جس طرح اللہ کی ربوبیت نے مخلوقات کو ان کے مناسب حال وجود عطا فرمایا ہے اسی طرح زندگی و معیشت کی راہ میں ان کی ہدایت کا قدرتی سامان بھی کردیا ہے۔ یہ ہدایت کیونکر ظہور میں آئی؟ اس طرح کہ ان میں وجدان و حواس کی قوتیں رکھ دی گئیں اور انسانوں کو وجدان و حواس کے ساتھ جوہر عقل سے بھی ممتاز کیا۔ چنانچہ اس مقام کی پوری تشریح تفسیر سورۃ فاتحہ کے مبحث ہدایت میں گزر چکی ہے اور (ربنا الذی اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی) اور (الذی خلقنی فھو یھدین) اور (الذی خلق فسوی والذی قدر فھدی) وغیرہا آیات میں ہدایت سے مقصود یہی ہدایت ہے۔ پس یہاں فرمایا تم نے جن ہستیوں کو اللہ کا شریک ٹھہرا لیا ہے ان میں کوئی ہے جو زندگی و معیشت کے ٹھیک راستہ پر انسان کو چلاتا ہو؟ یعنی جو دیکھنے، سننے، بوجھنے کی قوتیں بخشتا ہو؟ پھر فرمایا تم جانتے ہو کہ یہ کوئی نہیں کرسکتا۔ یہ صرف اللہ ہی کی کار فرمائی ہے، کیونکہ مشرکوں کو اللہ ہستی اور اس کے خالق کل ہونے سے انکار نہیں تھا، البتہ وہ سمجھتے تھے کہ ہمیں ان ہستیوں کی بھی پرستش کرنی چاہیے جو اللہ کے حضور مقرب ہیں اور جنہیں دنیا میں حکم و تصرف کی قوتیں حاصل ہوگئی ہیں۔ پھر جب یہ بات واضح ہوگئی تو فرمایا : جب تمہیں اس بات سے انکار نہیں تو غور کرو انسان کو پیروی اس کی کرنی چاہیے جو ہدایت کرنے والا ہے یا اس کی جو خود کسی دوسرے کی ہدایت کا محتاج ہے؟ تم کیسے فیصلہ کر رہے ہو؟ عدم احاطہ علم اور تکذیب حقائق : (ہ) آیت (٣٩) میں منکرین قرآن کی نسبت فرمایا : (بل کذبوا بما لم یحیطوا بعلمہ ولا یاتھم تاویلہ) آیت کا مطلب ترجمہ میں واضح ہوچکا ہے۔ یہاں دو باتوں کی مزید تشریح کردی جاتی ہے۔ اولاد قرآن نے بیک وقت دونوں باتوں کی مذمت کی ہے، اس کی بھی کہ بغیر علم و بصیرت کے کوئی بات مان لی جائے اور اس کی بھی کہ محض عدم ادراک کی بنا پر کوئ بات جھٹلا دی جائے۔ چنانچہ اسی سورت کی آیت (٣٦) میں گزر چکا ہے کہ منکرین حق علم و یقین کی روشنی سے محروم ہیں۔ ان کا سرمایہ اعتقاد محض ظن و گمان ہے، اور پھر اس آیت میں فرمایا کہ جس بات کا وہ اپنے علم سے احاطہ نہ کرسکے اس کے جٹھلانے پر آمادہ ہوگئے۔ اگرچہ بظاہر یہ دو باتیں الگ الگ معلوم ہوتی ہیں لیکن فی الحقیقت ایک ہی بات ہے اور دونوں کی بنیاد اسی ایک اصل عظیم پر ہے کہ نہ تو ظن و گمان کی بنا پر تصدیق کرنی چاہیے۔ نہ ظن و گمان کی بنا پر تکذیب کرنی چاہیے۔ جو کچھ کرنا چاہیے علم و بصیرت کی بنا پر کرنا چاہیے۔ منکرین قرآن نے کوسی بات جھٹلائی تھی؟ یہ کہ انہی میں سے ایک آدمی پر اللہ کی وحی نازل ہوتی ہو، یہ بات انہیں عجیب معلوم ہوئی، اس لیے فورا تکذیب پر آمادہ ہوگئے، قرآن کہتا ہے تمہارے ماننے اور تمہارے جھٹلانے دونوں کا مدار ظن و گمان پر ہے، تم جو باتیں مان رہے ہو ان کے لیے بھی تمہارے پاس کوئی علم نہیں اور جس بات کے جھٹلانے میں اس قدر جلدی کی اس کے لیے بھی تمہارے پاس کوئی یقین نہیں، حالانکہ سچائی کی راہ یہ ہے کہ جو کچھ کرو علم بصیرت کے ساتھ کرو۔ محض اٹکل پر نہ چلو، اگر ایک شخص علم کے ساتھ ایک بات پیش کر رہا ہے اور جتنی باتیں کسی بات کی درستی اور معقولیت کی ہوسکتی ہیں سب اس کے ساتھ ہیں اور تمہارے پاس اس کے خلاف ظن و گمان کے سا کچھ نہیں تو تمہارے لیے کیوں کر جائز ہوسکتا ہے کہ جھٹ جھٹلانے پر آمادہ ہوجاؤ؟ اس سے پہلے آیت (٣٦) میں یہی بات کہی جا چکی ہے کہ (ان الظن لا یغنی من الحق شیئا) تم ظن کی بنا پر یقین کی دعوت جھٹلاتے ہو، حالانکہ ظن کا بھروسہ انسان کو یقین سے مستغنی نہیں کرسکتا؟ اگر تم غور کرو گے تو معلوم ہوجائے گا کہ انسان کی ساری فکری گمراہیوں کا اصلی سرچشمہ یہی بات ہے یا تو وہ عقل سے بینش سے اس قدر کو راہ ہوجاتا ہے کہ ہر بات بے سمجھے بوجھے مان لیتا ہے اور ہر راہ میں آنکھیں بند کیے چلتا رہتا ہے، یا پھر سمجھ بوجھ کا اس طرح غلط استعمال کرتا ہے کہ جہاں کوئی حقیقت اس کی شخصی سمجھ سے بالا تر ہوئی، اس نے فورا جھٹلا دی۔ گویا حقیقت کے اثبات و وجود کا سارا دارومدار صرف اسی بات پر ہے کہ ایک خاص فرد کی سمجھ ادارک کرسکتی ہے یا نہیں۔ دونوں حالتیں علم و بصیرت کے خلاف ہیں اور دونوں کا نتیجہ عقل و بینش سے محرومی اور عقلی ترقی کا فقدان ہے۔ جس عقل و بصیرت کا تقاضا یہ ہوا کہ حقیقت اور وہم میں امتیاز کریں وہی متقاضی ہوئی کہ کوئی بات محض اس لیے نہ جھٹلا دیں کہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ عقل کا پہلا تقاضا ہمیں وہم پرستی و جہل سے روکتا ہے۔ دوسرا اشک و الحاد سے، قرآن کہتا ہے دونوں حلاتیں یکساں طور پر جہل و کوری کی حالتیں ہیں اور اہل علم و عرفان وہ ہیں جو نہ تو جہل و وہم کی راہ چلتے ہیں۔ نہ شک و الحاد کی۔ یہاں سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ دو صورتیں ہیں اور دونوں کا حکم ایک نہیں، ایک یہ کہ کوئی بات عقل کے خلاف ہو، ایک یہ کہ تمہاری عقل سے بالا تر ہو، بہت سی باتیں ایسی ہوسکتی ہیں جن کا تمہاری سمجھ احاطہ نہیں کرسکتی۔ لیکن تم یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ وہ سرے سے خلاف عقل ہیں، اول تو تمام افراد کی عقل قوت یکسساں نہیں، ایک آدمی موٹی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتا، دوسرا باریک سے باریک نکتے حل کرلیتا ہے۔ ثانیا عقل انسانی برابر نشوونما کی حالت میں ہے، ایک عہد کی عقل جن باتوں کا ادراک نہیں کرسکتی، دوسرے عہد کے لیے وہ عقلی مسلمات بن جاتی ہیں۔ ثالثا انسانی عقل کا ادراک ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتا اور عقل ہی کا فیصلہ ہے کہ حقیقت اسی حد پر ختم نہیں ہوجاتی۔ اچھا اب مذہب کے میدان سے باہر قدم نکالو اور غور کرو قرآن نے ان چند لفظوں کے اندر جو بات کہہ دی ہے وہ انسانی علم و عقل کی تمام ترقیوں کے لیے کس طرح اصل و اساس ثابت ہورہی ہے؟ کون سی بات ہے جس نے علمی ترقی کے غیر محدود اور لانہایت امکانات کا دروازہ نوع انسانی کے سامنے کھول دیا اور علم و ادراک کی سینکڑوں ناممکن باتوں کو نہ صرف ممکن بلکہ واقعہ بنا دیا؟ کیا یہی بات نہیں ہے کہ کسی باتت کے احاطہ نہ کرسکنے سے اس کا انکار لازم نہیں آجاتا؟ اگر اصحاب علم و انکشافات نے اس بات سے انکار کردیا ہوتا تو کیا ممکن تھا کہ عقلی ترقیات کے قدم یہاں تک پہنچ سکتے اور آئندہ کے لیے اس قدر ممکنات سامنے آجاتے ؟ بلاشبہ علم و انکشاف کے ہر عہد میں ایسی جلد باز طبیعتیں بھی ہوئیں جنہوں نے محض عدم ادراک کی بنا پر انکار کردیا لیکن علم نے کچھ کچھ پرا نہ کی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اس کا سفر جاری رہا اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کب تک اور کہاں تک جاری رہے گا۔ ایک اور بات بھی یہاں سمجھ لینی چاہیے، جہاں تک عقل اور ماورائے عقل کی نزاع کا تعلق ہے قرآن کے بعد تین دور بحث و نظر کے گزر چکے ہیں، ایک دور حکما و متکلمین اسلام کا جنہوں نے عقلی طریقہ پر مذہبی عقائد کا اثبات کرنا چاہا۔ دوسرا یورپ کے نشاۃ ثانیہ کا جب اسی طرح مسیحی علم کلام مرتب کیا گیا۔ تیسرا علوم عصریہ کا جس نے بحث و نظر کے تمام گوشوں میں ایک نئی روح پیدا کردی۔ تاہم یہ واقعہ ہے کہ قرآن نے یہاں سیدھے سادھے لفظوں میں جو بات کہہ دی ہے اس پر کوئی اضافہ نہ ہوسکا۔ بلاشبہ بحث و نظر کی کاوشیں دور دور تک گئیں لیکن ہمیشہ ناکامیاب ہوئیں اور ہمیشہ اصحاب عرفان وتحقیق کو اقرار کرنا پڑا کہ اس سے بہتر اور فیصلہ کن بات اور کوئی نہیں کہی جاسکتی۔ یہ مقام مہمات معارف میں سے ہے اور تفصیل اس کی مقدمہ میں ملے گی۔ (٢) حقیقت تاویل مستعملہ قرآن : عربی میں تاویل کے معنی کسی بات کے نتیجہ اور مآل کے لیں اور چونکہ الفاظ کے معانی بھی ان کی دلالت کا مآل و مصداق ہوتے ہیں اس لیے مطالب و معانی پر بھی اس کا اطلاق ہونے لگا۔ لیکن قرآن نے یہ لفظ ہر جگہ لغونی معنی میں استعمال کیا ہے۔ چنانچہ سورۃ آل عمران کی آیت (٧) اور اعراف کی (٥٣) میں بھی یئہ لفظ گزر چکا ہے اور اس آیت میں بھی استعمال ہوا ہے۔ لیکن بعد کو جب تفسیر و کلام کے مختلف مذاہب پیدا ہوئے تو تاویل کا لفظ ایک خاص مصطلحہ معنی میں بولا جانے لگا۔ یعنی کسی لفظ کا ایسا ملطب ٹھہرانا جو اس کے ظاہری مدلول سے ہٹا ہوا ہو۔ مثلا قرآن میں ید اللہ کا لفظ آیا ہے۔ یعنی ٰخدا کا ہاتھ، اور یہ تنزییہ کے خلاف ہے کہ خدا کا ہاتھ ہو اس لیے ہاتھ کی جگہ اس کا کوئی دوسرا مطلب لینا، پھر اس کے مختلف مراتب و اقسام ٹھہرائے گئے اور مذہب تاویل و تفویض کی نزاعیں برپا ہوئیں۔ چونکہ متاخرین کے دماغوں میں یہ مصطلحات بسی ہوئی ہیں اس لیے قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے بھی وہ ان کے اثر سے باہر نہیں جاسکتے۔ چنانچہ قرآن کے لغوی تاویل کو بھی انہوں نے مصطلحات کلامیہ کا مصطلحہ تاویل سمجھ لیا اور اس پر بحث و استدلال کی عمارتیں اٹھانے لگے۔ تفسیر کبیر میں اس آیت کی تفسیر پڑھو اور پھر غور کرو کہ تفسیر قرآن کی راہ میں کیسے کیسے الجھاؤ ڈال دیے گئے ہیں اور اصل حقیقت کس طرح مستور ہوگئی ہے۔ تفسیر لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون : (و) قرآن نے ایمان اور اہل ایمان کی نسبت جو کچھ کہا ہے اس میں کوئی بات بھی اس قدر نمایاں نہیں ہے جس قدر یہ کہ (لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون) خوف اور غم دونوں سے وہ محفوظ ہوجائیں گے۔ چنانچہ اس سورت کی آیت (٦٢) میں بھی یہی بات فرمائی ہے۔ غور کرنا چاہیے کہ قرآن نے اس وصف پر کیوں اس قدر زور دیا؟ حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی کی سعادت کے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی شقاوت کی ساری سرگزشت انہی دو لفظوں میں سمٹی ہوئی ہے، خوف اور دکھ، جونہی ان دو باتوں سے اسے رہائی مل گئی اسکی ساری سعادتیں اس کے قبضے میں آگئیں۔ زندگی کے جتنے بھی کانٹے ہوسکتے ہیں سب کو ایک ایک کر کے چنو اور دیکھو، خواہ جسم میں چبھتے ہوں، خواہ دماغ میں، خواہ موجودہ زندگی کی عافیت میں خلل ڈالتے ہوں، خواہ آخرت کی تم دیکھو گے کہ ان دو باتوں سے باہر نہیں ہیں، یا خوف کا کانٹا ہے یا غم کا۔ قرآن کہا ہے ایمان کی راہ سعادت کی راہ ہے، جس کے قدم اس راہ میں جم گئے اس کے لیے دونوں کانٹے بے اثر ہوجاتے ہیں۔ اس کے لیے نہ تو کسی طرح کا اندیشہ ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی۔ قرآن نے یہی حقیقت دوسرے پیرایوں میں بھی بیان کی ہے۔ مثلا آخری پارہ میں سورۃ عصر اسی حقیقت کا اعلان ہے۔ یونس
107 یونس
108 یونس
109 یونس
0 ھود
1 یہ سورت بھی مکی ہے اور گو خطاب عامہ منکرین سے ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ مشرکین عرب مخاطب ہیں۔ قرآن نے گزشتہ دعوتوں، گزشتہ قوموں اور گزشتہ ایام و وقائع کا جابجا ذکر کیا ہے اور ہر جگہ حسب مقام ایک خاص موعظت اور ایک خاص استدلال ہے، ازاں جملہ یہ سورت ہے جس میں حضرت نوح سے لے کر حضرت موسیٰ تک تمام پچھلی دعوتوں کی سرگزشتیں بیان کی گئی ہیں۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ ترتیب بیان تاریخی ہے، یعنی جس دعوت کا ذکر جس دعوت کے بعد کیا گیا ہے وہی اس کی تاریخی جگہ ہے۔ اس موعظت میں سورۃ اعراف کے بعد سب سے بڑی سورت یہی ہے۔ ھود
2 سب سے پہلے اس بات کا اعلان کیا ہے جو اول دن سے تمام دعوتوں کا عالمگیر اعلان رہا ہے یعنی : (ا) اللہ کے سوا اور کسی کی بندگی نہ کرو۔ (ب) میں اس کی طرف سے مامور ہوں اور اس لیے مامور ہوں کہ تبشیر اور تنذیر کا فرض رسالت ادا کردوں یعنی انکار و سرکشی کے نتائج سے خبردار کردوں۔ ایمان و نیک عمل کی کامرانیوں کی خوشبخری سنا دوں۔ (ج) پس سرکشی سے باز آجاؤ اور توبہ و استغفار کرو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو مجھے اندیشہ ہے تم عذاب الہی میں گرفتار ہوجاؤ گے۔ اس کے بعد فرمایا تمہارے اعمال کا ذرہ ذرہ اللہ کے سامنے ہے، اس کے علم سے جب ایک چیونٹی کا سوراخ بھی پوشیدہ نہیں تو انسان کے افکار و اعمال کیونکر پوشیدہ رہ سکتے ہیں؟ غور کرو قرآن کے ایک ایک لفظ میں کیسی دقیق مناسبتیں پوشیدہ ہوتی ہیں؟ سورت کی تمام موعظت کا مرکزی نقطہ جزا عمل کا معاملہ ہے کیونکہ تمام دعوتوں نے اس کا اعلان کیا اور تمام جماعتوں پر یہ طاری ہوا۔ پس پہلی آیت میں قرآن کا صرف یہی وصف بیان کیا کہ احکمت ایاتہ اس کے مطالب مضبوط اور ثابت ہیں۔ یعنی اس کی کوئی بات ایسی نہیں جو کمزور کچی نکلے پھر فرمایا من لدن حکیم خبیر اس کی طرف سے جو حکیم اور خبیر ہے، یعنی چونکہ وہ حکیم ہے اس لیے ضروری تھا کہ جزائے عمل کا قانون ظہور میں آئے۔ ساتھ ہی وہ خبیر بھی ہے اس لیے ممکن نہیں کہ کوئی عمل اس سے پوشیدہ رہ جائے اور جزائے عمل کا نفاذ ٹھیک ٹھیک نہ ہو۔ ھود
3 ھود
4 ھود
5 چنانچہ آیت (٥) میں فرمایا یہ اپنے سینوں کے بھید چھپاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اس کے علم سے کوئی بات پوشیدہ نہیں۔ ھود
6 ھود
7 آیت (٧) میں فرمایا اللہ کی حکومت پانی پر نافذ تھی، دوسری جگہ فرمایا کہ ہم نے تمام زندہ اجسام پانی سے پیدا کیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ زمین پر ایک تبدائی دور گزر چکا ہے جبکہ پانی تھا، یا ایسی چیز تھی جسے پانی سے تعبیر کیا گیا ہے اور قوانین الہی اس میں کام کر رہے تھے۔ ھود
8 ھود
9 آیت (٩) میں فطرت انسانی کی اس حالت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر مصیبت پیش آتی ہے تو فورا مایوس ہوجاتا ہے، راحت پیش آیت ہے تو بے پروا ہو کر ڈینگیں مارنے لگتا ہے۔ پھر آیت (١١) میں فرمایا اس عام حالت سے وہ مستثنی ہیں جن کے اندر صبر ثبات کی روح پیدا ہوگئی ہے اور جنہوں نے نیک عملی کی راہ اختیار کی ہے، وہ نہ تو مصیبت میں مایوس ہونے والے ہیں اور نہ عیش و راحت میں غافل و ناشکر گزار۔ یہاں یہ بات اس لیے بیان کی گئی کہ منکرین حق عذاب کی خبر سن کر ہنسی اڑاتے تھے اور مومنوں پر مصیبت کی گھڑیاں شاق گزرتی تھیں۔ پس فرمایا منکروں کی یہ حالت کوئی غیر معمولی حالت نہیں ہے، انسان خوش حالیوں میں پڑ کر اسی طرح غافل ہوجاتا ہے اور ڈینگیں مارنے لگتا ہے لیکن مومنوں کو چاہیے وقت کی مصیبتوں سے دل تنگ ہو کر مایوس نہ ہوجائیں۔ دنیا میں ایک انسان کی زبان سے جتنی باتیں نکل سکتی ہیں ان میں کوئی بات بھی اس سے بڑھ کر بوجھل اور تھکا دینے والی نہیں کہ ایک آدمی ایک مطمئن اور خوش و خرم قوم کے سامنے آکھڑا ہو اور اچانک اعلان کردے کہ تمہاری ہلاکت کی گھڑی سر پر آگئی۔ اگر سرکشی سے باز نہ آؤ گے تو نیست و نابود کردیے جاؤ گے۔ کتنا بڑا اور عجیب اعلان ہے؟ کتنی عظیم اس کی ذمہ داری ہے؟ اور کس درجہ مافوق انسانیت صبر و تحمل کی ضرورت ہے کہ وہ سب کچھ جھیل لیا جائے جو یہ اعلان سن کر لوگوں کی زبانوں سے نکلے گا؟ لیکن خدا کے رسولوں کو یہ بوجھ اٹھانا پڑا، کیونکہ وہ اس کے لیے مامور من اللہ تھے۔ یہی مرحلہ پیغمبر اسلام کو بھی درپیش تھا۔ اسی لیے وحی الہی جابجا اس بات پر زور دیتی ہے کہ لوگوں کی باتوں سے دل تنگ نہ ہو اور اعلان امر میں ذرا بھی تامل نہ کرو۔ چنانچہ آیت (١٢) میں بھی یہی بات کہی گئی ہے۔ منرکین حق کہتے تھے اگر خدا کے یہاں ایسی ہی تمہاری رسائی ہے تو کیوں نہیں کہتے ایک خزانہ تم پر اتار دے یا فرشتے بھیج دے کہ تمہاری باتوں کی سب کے سامنے تصدیق کردیں؟ فرمایا ان کے اس انکار و استہزا سے دل تنگ نہ ہو۔ کیونکہ تم تو صرف نذیر ہو، کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجے گئے ہو کہ ان کے مان لینے کے بھی ذمہ دار ہو۔ نذیر کی حیثیت پر زور دے کر یہ بات بھی واضح کردی کہ پیغمبر اس لیے نہیں آتے کہ خزانے بانٹتے پھریں یا طرح طرح کے اچنبھے دکھائیں، ان کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ انکار و بدعملی کے نتائج سے خبردار کردیں اور سچائی کی راہ دکھا دیں۔ ھود
10 ھود
11 ھود
12 ھود
13 (١) یہ بات سورۃ بقرہ اور سورۃ یونس میں بھی گزر چکی ہے اور آئندہ سورتوں میں بھی آئے گی، اس کی تشریح سورۃ اسرا آیت (٨٨) کے نوٹ میں دیکھنی چاہیے۔ کفار پیغمبر اسلام کے اعلانا حق کی ہنسی اڑاتے تھے، اور جب قرآن سنایا جاتا تھا تو کہتے تھے، یہ تو تم نے اپنے جیسے گھڑ لیا ہے،۔ آیت (١٣) میں فرمایا اگر یہ گھڑٰ ہوئی بات ہے تو تم بھی ایسی ہی بات گھڑ کر بنا لاؤ اور اپنے بنائے ہوئے معبودوں سے دعائیں کرو کہ اس کام میں تمہاری مدد کریں۔ اس کے بعد یہ حقیقت واضح کی ہے کہ اگر انکار و وسرکشی پر بھی انہیں دنیوی فوائد مل رہے ہیں تو صرف اتنی ہی بات دیکھ کر یہ مغرور نہ ہوجائیں اور نہ مومنوں کو چہایے کہ اس پر متعجب ہوں، اللہ نے دنیا کے لیے ایسا ہی قانون ٹھہرا دیا ہے کہ انسان کا ہر عمل ایک نتیجہ رکھتا ہے اور جیسا کچھ عمل ہوا ہے اسیکے مطابق نتیجہ بھی نکلتا ہے۔ اگر ایک انسان آخرت کی طرف سے غافل ہے اور صرف دنیوی زندگی ہی کا خواہشمند ہے جب بھی ایسا نہ ہوگا کہ اس کی سعی و طلب بے اثر ہوجائے، جیسی کچھ کوشش کرے گا، اس کے مطابق نتیجہ حاصل کرلے گا۔ اگر اچھی طرح ہل جائے گا اور تخم ریزی کرے گا تو اچھی فصل پیدا ہوجائے گی۔ ادھورا کام کرے گا تو ادھورا نتیجہ نکلے گا۔ البتہ ایسے آدمی کے سارے کام اکارت گئے۔ آخرت کے لیے کچھ سود مند نہ ہوئے۔ ھود
14 ھود
15 ھود
16 ھود
17 پھر آیت (١٧) میں فرمایا جو لوگ اللہ کی طرف سے دلیل و حجت پر ہیں اور انہوں نے راہ حقیقت پالی ہے وہ ان مغرورین دنیا کی طرح نہیں ہوسکتے، ان کی راہ ہدایت الہی کی راہ ہے اور ہدایت الہی کی کامیابی شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ ھود
18 پھر آیت (١٨) میں فرمایا اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو اللہ پر افترا کرے؟ یعنی مومن تو اللہ کی دلیل و حجت پر چلے اور منکر اللہ پر افترا کر رہے ہیں۔ پس دونوں کی راہ ایک دوسرے سے متضاد ہوئی اور نتائج بھی متضاد ہوں گے، پہلے نے خدا کی بخشی ہوئی عقل سے کام لیا اور ان کی وحی پر ایمان لایا، دوسرے نے عقل و بصیرت سے انکار کیا اور خدا کی وحی جھٹلائی۔ اس کے بعد آیت (٢٣) تک اسی حقیقت کی وضاحت کی ہے۔ (٢٠) میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ دنیا میں کلمہ حق کی راہ نہ روک سکیں گے، کیونکہ انسان کتنا ہی زور اقتدار میں بڑھ جائے لیکن قوانین حق پر غالب نہیں آسکتا، اسے مغلوب ہی ہونا پڑتا ہے۔ ھود
19 ھود
20 ھود
21 ھود
22 ھود
23 ھود
24 آیت (٢٤) کو تمام پچھلی موعظت کا خلاصہ سمجھو۔ فرمایا دونوں فریقوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اندھا بہرا ہو، دوسرا دیکھنے سننے والا، پھر کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ کیا روشنی اور اندھیاری میں کوئی فرق نہیں؟ کیا بصارت اور کوری کا ایک حکم ہے؟ چنانچہ اس کے بعد ہی گزشتہ ایام و وقائع کا بیان شروع ہوگیا ہے جو فی الحقیقت دلائل و حجج کا ایک پورا سلسلہ ہے، اس سلسلہ کی پہلی کڑی حضرت نوح کی دعوت ہے۔ حضرت نوح نے کہا : (ا) اللہ کے سوا وار کسی کی بندگی نہ کرو۔ (ب) اگر تم سرکشی سے باز نہ آئے تو عذاب کا ایک بڑا ہی دردناک دن آنے والا ہے۔ (ج) لیکن قوم کے سرداروں اور اونچے درجہ کی جماعتوں نے انکار و سرکشی کی۔ صرف وہ لوگ ایمان لائے جو قوم میں ذلیل سمجھے جاتے تھے۔ (د) منکروں نے کہا تم بھی ہماری ہی طرح ایک آدمی ہو پھر تمہاری بات کیوں مانیں یعنی اگر تم میں کوئی ایسا اچنبھا پایا جاتا جو اور آدمیوں میں نہیں پایا جاتا، یا دیوتاؤں کی طرح اتر آئے ہوتے تو تمہاری تصدیق کرتے۔ (ہ) منکرین نے کہا جو ہم میں کمینے ہیں وہی بے سمجھے بوجھے تمہیں مان رہے ہیں۔ پھر کیا ان بے وقوفوں کی طرح ہم بھی مان لیں۔ علاوہ بریں ہم ایسی جماعت میں کیونکر شریک ہوسکتے ہیں جہاں رذیل و شریف میں کوئی امتیاز نہیں؟ (و) حضرت نوح نے کہا۔ انسان کی ہدایت تو انسان ہی کے ذڑیعہ سے ہوسکتی ہے اور وہ اتنا ہی کرسکتا ہے جو اس کے اختیار میں ہے، تم کہتے ہو میں جھوٹا ہوں لیکن بتلاؤ اگر تم مجھے سچا سمجھتے تو کیا اس بات کی توقع کرتے کہ جبرا تمہیں سچائی کی راہ دکھا دوں؟ خدا کی طرف سے کتنے ہی واضح دلیل حق مجھے مل گئی ہو لیکن تم سمجھھے سے انکار کردو تو میں کیا کرسکتا ہوں؟ (ز) انہوں نے کہا تم جن لوگوں کو ذلیل سمجھتے ہو میں کبھی نہیں کہوں گا کہ وہ ذلیل ہیں اور انہیں خوبی و سعادت نہیں مل سکتی۔ اگر میں ایسا کروں تو خدا کے مواخذہ میں گرفتار ہوجاؤں۔ (ح) انہوں نے کہا، میرا دعوی صرف یہ ہے کہ سچائی کا پیغام بر ہوں، مجھے طاقت و تصرف کا دعوی نہیں نہ میں انسانیت سے کوئی بالاتر ہستی ہوں۔ (ط) منکروں نے ان دلائل و مواعظ پر غور کرنے سے انکار کردیا وہ ان باتوں کو جدال سے تعبیر کرنے لگے اور یہاں تک سرکشی کی کہ خود عذاب کے ظہور میں مطالبہ کرنے لگے۔ (ی) اس پر ارشاد الہی ہوا کہ کہہ دے تم کہتے ہو کہ میں مفتری ہوں۔ اچھا اگر میں مفتری ہوں تو میرا گناہ مجھ پر اور اگر تم سچائی کو جھٹلا رہے ہو تو اس کی پاداش میں تمہیں جھیلنی ہے، میں اس سے بری ہوں، اب فیصلہ کا انتظار کرو۔ (ک) حضرت نوح کا وحی الہی سے مطلع ہونا کہ جو ایمان لاچکے ہیں ان کے سوا کوئی ایمان لانے والا نہیں اور یہ کہ ملک غرق ہونے والا ہے پس ایک کشتنی بنا لو۔ (ل) منکروں کا اس پر تمسخر کرنا۔ (ن) طوفان کا ظہور اور حضرت نوح کا کشتی میں سوار ہونا اور ان سب کو ساتھ لے لینا جن کے ساتھ لینے کا حکم ہوا۔ (س) سیلاب نے اتنا گہرا پانی جمع کردیا تھا اور طوفانی ہواؤں کا یہ عالم تھا کہ اونچی اونچی موجیں اٹھنے لگی تھیَ (ع) حضرت نوح کے لڑکے نے ان کا ساتھ نہ دیا اور غرق ہوگیا۔ حضرت نوح نے کہا خدایا ! وہ میرے اہل و عیال میں سے ہے، فرمایا نہیں وہ بدعمل ہے اور بدعمل تیرے اہل میں داخل نہیں۔ یہ آیت اس باب میں قطعی ہے کہ جسمانی رشتہ نجات کے لیے کچھ سود مند نہیں، جو کچھ ہے ایمان و عمل ہے۔ حضرت نوح کو اپنے لڑکے کے کفر کی خبر نہ تھی اس لیے عرض کیا کہ وہ میرے اہل میں سے ہے اور میرے اہل و عیال کی حفاظت کا تو نے وعدہ کیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ حقیقت حال دوسری ہے اور تمہیں اس کی خبر نہیں۔ وہ تو ان میں سے ہے جن کے لیے کہا جاچکا ہے کہ (لا تخاطبنی فی الذین ظلموان) اور (الا من سبق علیہ القول) جیسا کہ آیت (٣٧) اور (٤٠) میں گزر چکا۔ (ف) طوفان اور سیلاب کا تھمنا، حادثہ کا ختم ہونا اور کشتی کا جودی پہاڑ پر قرار پانا۔ سورۃ قمر کی آیت (١١) سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان سے لگاتار بارش ہوئی تھی اور زمین کی تمام نہروں میں سیلاب آگیا تھا، تورات میں بھی ایسا ہی ہے، لیکن اس میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے کہ بڑے سمندر کی تمام سوتیں پھوٹ نکلی تھیں۔ (پیدائش : ١٢: ٧) حضرت نوح کا ظہور اس سرزمین میں ہوا تھا جو دجلہ اور فرات کی وادیوں میں واقع ہے۔ دجلہ اور فرات آرمینیا کے پہاڑوں سے نکلے ہیں، اور بہت دور الگ الگ بہہ کر عراق زیریں میں باہم مل گئے ہیں اور پھر خلیج فارس میں سمندر سے ہم کنار ہوئے ہیں۔ آرمینیا کے یہ پہاڑ ارارات کے علاقہ میں واقع ہیں۔ اسی لیے انہیں تورات میں ارارات کا پہاڑ کہا ہے۔ لیکن قرآن نے خاص اس پہاڑ کا ذکر کیا جس پر کشتی ٹھہری تھی، وہ جودی تھی۔ زمانہ حال کے بعض شارحین تورات کے خیال میں جودی اس سلسلہ کوہ کا نام ہے جس نے ارارات اور جارجیا کے سلسلہ ہائے کوہ کو ملا دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں سکندر کے زمانے کی یونانی تحریرات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے، کم از کم یہ واقعہ تاریخی ہے کہ آٹھویں صدی مسیحی تک وہاں ایک معبد موجود تھا اور لوگوں نے اس کا نام کشتی کا معبد رکھ دیا تھا۔ (ص) ایک ایسے طوفان و سیلاب کے بعد ملک کی جو حالت ہوگئی ہوگی اس کی ہولناکی محتاج بیان نہیں۔ قدرتی طور پر حضرت نوح اور ان کے ساتھیوں کو خیال گزرا ہوگا کہ یہ سرزمین زندگی اور زندگی کے تمام سامانوں سے خالی ہوگئی ہے۔ اب اس وحشت کدہ میں ہم کیونکر زندگی بسر کریں گے؟ پس اللہ نے وحی کی کہ سلامتی اور برکتوں کے ساتھ زمین پر قدم رکھو۔ یعنی تمہارے لیے اب خوف کی کوئی بات نہ ہوگی اور سامان زندگی کی تمام برکتیں پھر ظہور میں آجائیں گے۔ چنانچہ آیت (٤٨) میں کہ خاتمہ سرگزشت ہے اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ وامم سنمعتھم کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے بعد جو امتیں آئیں گی انہیں اگرچہ زندگی کی ساری کامرانیاں ملیں گی، لیکن پھر پاداش عمل سے تباہی میں پڑیں گی۔ ھود
25 ھود
26 ھود
27 ھود
28 ھود
29 ھود
30 ھود
31 ھود
32 ھود
33 ھود
34 ھود
35 ھود
36 ھود
37 ھود
38 ھود
39 ھود
40 ھود
41 ھود
42 ھود
43 ھود
44 ھود
45 ھود
46 (١) یعنی جب وہ تیری راہ نہ چلا اور بدعملوں کا ساتھی ہوا، تو فی الحقیقت تیرے حلقہ قرابت سے باہر ہوگیا، اب اسے اپنا نہ سمجھ۔ ھود
47 ھود
48 ھود
49 ھود
50 قوم عاد میں حضرت ہود کا ظہور ہوا۔ (ا) انہوں نے کہا اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ تمہارے عقائد و اعمال حقیقت کے خلاف محض افترا ہیں۔ میں کسی معاوضہ کا طالب نہیں، محض ادائے فرض کا تقاضا ہے جو مجھے دعوت الی الحق پر مجبور کررہا ہے۔ (ب) لیکن ان کی قوم نے ان مواعظ پر کان دھرنے سے انکار کردیا، انہوں نے کہا تمہارے پاس کوئی ایسی بات نہیں جو ہمارے نزدیک دلیل ہو۔ ہم تو اپنے معبودوں کی پرستش چھوڑنے والے نہیں، ہمارے خیال میں جو بات آتی ہے وہ تو یہ ہے کہ ہمارے معبودوں میں سے کسی کی مار تمہیں لگ گئی ہے۔ اسی لیے ایسے خیالات اانے لگے۔ ھود
51 ھود
52 ھود
53 حضرت ہود نے کہا تم کہتے ہو تمہارے معبودوں کی مجھ پر مار ہے، میں اعلان کرتا ہوں کہ مجھے تمہارے معبودوں سے کوئی سروکار نہیں، اب تم اور تمہارے معبود جو کچھ میرے خلاف کرسکتے ہو کر دیکھیں، تمہارا بھروسہ ان معبودوں پر ہے، میرا اللہ پر ہے جو میرا اور تمہارا سب کا پروردگار ہے۔ میرا کام تبلیغ حق تھا، میں نے کردیا، اب اگر سچائی کی طرف سے تم نے رخ پھیر ہی لیا ہے تو جان لو کہ قانون الہی کے مطابق تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو مل جائے گی اور تم ہلاکت سے دور چار ہوگے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، مومنوں نے نجات پائی۔ سرکش ہلاک ہوئے۔ ھود
54 ھود
55 ھود
56 (١) آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ کوئی چلنے والا وجود نہیں ہے مگر یہ کہ اللہ نے اسے کی پیشانی کے بالوں سے پکڑ رکھا ہے۔ یہ عربی کا محاورہ ہے اور اسی معنی میں بولا جاتا ہے جو متن میں اختیار کیے گئے ہیں۔ آیت (٥٦) میں ربی وربکم کا زور جس بات پار ہے اسے سمجھ لینا چاہیے ان تمام مشرک قوموں کو اس بات سے انکار نہ تھا کہ ایک خالق و پروردگار ہستی موجود ہے اور اصلی طاقت اسی کی طاقت ہے۔ یعنی وہ توحید ربوبیت سے بے خبر نہ تھے لیکن ساری گمراہی یہ تھی کہ توحید الوہیت میں کھوئے گئے تھے، یعنی سمجھتے تھے اس پر پروردگار ہستی کے ماتحت دوسری ہستیاں بھی ہیں جنہیں تصرف کا اختیار مل گیا ہے اور اس لیے ہمیں ان کی پوجا کرنی چاہیے۔ پس (ربی و ربکم) کا مطلب یہ ہوا کہ میرا بھروسہ تو اس پر ہے جسے میں بھی رب یقین کرتا اور تم بھی رب مانتے ہو۔ ھود
57 ھود
58 ھود
59 آیت (٥٩) سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم عاد پر ظالم و سرکش پادشاہ حکمراں تھے اور فراعنہ مصر کی طرح اپنے آپ کی پوجا کرواتے تھے۔ فرمایا انہوں نے خدا کے رسولوں سے نافرمانی کی اور سرکش و ظالم حکمرانوں کا کہا مانا۔ یعنی جو حق و عدالت کی طرف بلاتے تھے ان سے تو منکر ہوئے اور جو ظلم و سرکشی کرتے تھے ان کے پیچھے چلے ایسے گروہ کے لیے بجز ہلاکت کے اور کیا ہوسکتا ہے؟ رسلہ اس لیے کہا کہ گو انہوں نے انکار ایک رسول کا کیا تھا لیکن اس کی تعلیم تمام رسولوں ہی کی تعلیم تھی۔ پس ایک کو جھٹلانا سب کو جھٹلانا ہوا۔ نیز ان کے انکار کو جحود سے تعبیر کیا (جحدوا بایات ربھم) تاکہ واضح ہوجائے ان کے انکار کی نوعیت کیا تھی؟ جحود کے معنی یہ ہیں کہ جان بوجھ کر محض ہٹ اور شرارت سے انکار کرنا۔ چنانچہ تفصیل تفسیر فاتحہ میں گزر چکی ہے۔ ھود
60 ھود
61 قوم ثمود میں حضرت صالح کا ظہور ہوا۔ انہوں نے کہا اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ دیکھو کون ہے جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا، یعنی ایسی چیز سے پیدا کیا جو زمینن کی مٹی کا خمیر تھی (جیسا کہ دوسری جگہ صراحت کی ہے) اور پھر تم سے اس کی آبادی و رونق کردی؟ کیا پروردگار عالم کے سوا کوئی ہوسکتا ہے؟ پھر کیا وہی اس کا مستحق نہیں کہ اس کی بندگی کی جائے؟ سرکشی سے باز آجاؤ اور اس کی طرف رجوع ہو۔ قوم نے کہا ہمیں تو تمہاری ذات سے بڑی بڑی امیدیں تھیں کہ ہماری سرداری اور پیشوائی کرو گے یہ تمہیں کیا ہوگیا کہ ہمارے بزرگوں کے طریقہ کو برا کہتے ہو اور اس سے ہمیں ہٹانا چاہتے ہو؟ ہمیشہ یہ بات دیکھی گئی ہے اور اب بھی دیکھی جاسکتی ہے کہ جب کبھی ایک غیر معمولی قابلیت کا آدی قوم میں پیدا ہوتا ہے تو لوگ اس کی قابلیت سراہتے ہیں اور اس سے بڑی بڑی امیدیں وابستہ کرتے ہیں کہ یہ ہمارا پیشوا ہوگا، باپ دادا کا نام روشن کرے گا، لیکن جب وہ کوئی ایسی بات کہہ دیتا ہے جو ان طور طریقہ کے خلاف ہوتی ہے تو گردن موڑ لیتے ہیں اور کہتے ہیں۔ یہ تو نکما نکلا۔ ہماری ساری امیدیں خاک میں ملا دیں۔ گویا بزرگی و پیشوائی کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ جو بات حق معلوم ہو اس کی لوگوں کو دعوت دی جائے۔ بلکہ یہ ہے کہ لوگ جسے حق سمجھتے ہوں اس کی پیروی کی جائے اور اسی طرف لوگوں کو بھی دعوت دی جائے۔ قرآن نے یہاں قوم ثمود کا جو جواب نقل کیا ہے اس کا مطلب یہی ہے۔ ھود
62 ھود
63 حضرت صالح نے کہا تم غور نہیں کرتے کہ اگر ایک شخص پر اللہ نے علم و بصیرت کی راہ کھول دی ہو اور وہ دیکھ رہا ہو کہ سچائی وہ نہیں ہے جو لوگوں نے سمجھ رکھی ہے تو پھر کیا محض لوگوں کے پاس خاطر سے اس کا اظہار نہ کرے؟ اچھا بتلاؤ اگر وہ حکم حق سے سرتابی کرے تو کون ہے جو خدا کے مواخذہ سے اسے بچا لے گا؟ اگر میں محض اس خیال سے کہ تمہاری امیدوں کو ٹھیس نہ لگے سچائی کا اعلان نہ کروں تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ اپنے آپ کو تباہی میں ڈال دوں۔ بہرحال انہوں نے سرکشی کی، نتیجہ یہ نکلا کہ مومنوں نے نجات پائی۔ سرکش ہلاکت ہوئے۔ اونٹنی کے معاملہ کی تشریح اعراف (٧٣) کے نوٹ میں گزر چکی ہے۔ حضرت ہود اور حضرت صالح کی سرگزشتوں میں اختصار ملحوظ رہا، کیونکہ ان دونوں کا ظہور عرب ہی میں ہوا تھا، اور مخاطبینن ان سے ناآشنا نہ تھے۔ ھود
64 ھود
65 ھود
66 ھود
67 ھود
68 ھود
69 حضرت لوط کی دعوت اور باشندگان سدوم کی ہلاکت۔ تورات میں ہے کہ حضرت لوط حضرت ابراہیم کے بھتیجے اور حاران کے بیٹے تھے، یہ حضرت ابراہیم کے ساتھ شہر اور سے آئے اور سدوم میں مقیم ہوگئے جو دریائے یردن کی ترائی میں واقع تھا چونکہ سدوم کی ہلاکت کی خبر پہلے حضرت ابراہیم کو دی گئی تھی اس لیے سرگزشت کی ابتدا انہی کے ذکر سے ہوئی۔ فرشتوں نے دو باتوں کی خبر دی۔ ایک یہ کہ قوم لوط کی ہلاکت کا وقت آگیا، دوسری یہ کہ ساری کے بطن سے حضرت اسحاق کی پیدائش ہوگی اور ان سے حضرت یعقوب پیدا ہوں گے۔ ان دونوں باتوں میں بظاہر کوئی علاقہ نظر نہیں آتا، اس لیے خیال ہوتا ہے کہ کیوں دونوں کی خبر بیک وقت دی گئی، کیوں دونوں کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا؟ لیکن فی الحقیقت ایسا نہیں ہے، دونوں باتیں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہیں۔ حضرت ابراہیم اور حضرت لوط جب کسدیوں کے ملک سے آکر فلسطین میں مقیم ہوئے تو یہ ملک ان کے لیے اجنبیوں کا ملک تھا لیکن مشیت الہی کا فیصلہ ہوچکا تھا کہ ایک دن اسی سرزمین پر ان کی نسل حکمرانی کرے گی، اس نسل کا ظہور کس سے ہوا؟ اسرائیل سے، یعنی حضرت یعقوب سے، وہ کس کے لڑکے تھے؟ حضرت اسحاق کے، پس فرشتوں نے بیک وقت دو باتوں کی خبر دی۔ ایک میں ایمان و نیک عملی کی کامرانیوں کا اعلان تھا۔ دوسری میں انکار و بدعملی کی ہلاکتوں کا۔ یعنی جس دن اس بات کی خبر دی گئی کہ سدوم اور عمورہ کا علاقہ بدعملیوں کی پاداش میں ہلاک ہونے والا ہے اسی دن اس کی بھی بشارت دے دی گئی کہ نیک عملی کے نتائج ایک نئی نسل تیار کر رہے ہیں اور وہ عنقریب اس تمام ملک پر حکمرانی کرنے والی ہے۔ پھر معاملہ ایک دوسرا پہلو بھی ہے، سدوم اور عمورہ کا علاقہ فلسطین کا سب سے زیادہ شاداب علاقہ تھا۔ اور معلوم ہے کہ سارہ تمام عمر اولاد کی تمنائیں کرتے کرتے بالآخر مایوس ہوچکی تھیں، پس قدرت الہی نے بیک وقت دنوں کرشمے دکھا دیئے۔ جو زمین سب سے زیادہ شاداب ہے وہ بدعملیوں کی پاداش میں ایسی اجڑے گی کہ پھر کبھی سرسبز و شاداب نہ ہوسکے گی۔ جو شجر امید بالکل سوکھ چکا ہے وہ اچانک اس طرح سرسبز ہوجائے گا کہ صدیوں تک اس کی شاخیں بار آور رہیں گی۔ چناندہ سدوم اور عمورہ کا علاقہ آتش فشاں مادہ کے انجفار سے ایسا بنجر ہوا کہ آج تک بنجر ہے اور بشارت پر پورا سال بھی نہیں گزرا تھا کہ حضرت اسحاق کی پیدائش ظہور میں آگئی اور پھر ان کی نسل روز بروز بڑھتی اور پھیلتی گئی۔ حضرت ابراہیم کی ایک بیوی حضرت سارہ تھیں ایک حضرت ہاجرہ۔ ہاجرہ سے اسماعیل پیدا ہوئے لیکن حضرت سارہ سے کوئی اولاد نہیں ہوئی، یہاں تک کہ وہ مایوس ہوگئیں۔ پھر مایوسی کے بعد یہ بشارت ملی اور حضرت اسحاق پیدا ہوئے۔ تورات (پیدائش : ٢٣: ١٩) میں ہے کہ حضرت ابراہیم نے بار بار التجائیں کیں کہ عذاب ٹل جائے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ سدوم میں چند آدمی ہی نیک کردار باقی رہ گئے ہوں۔ لیکن اللہ نے فرمایا : وہاں دس آدمی بھی ایسے نہ رہے جو نیک کردار ہوں، ہوسکتا ہے کہ آیت (٧٤) میں (یجادلنا) سے مقصود یہی بات ہو۔ یا اسی طرح کی کوئی بات۔ بہرحال اللہ نے ان کی اس سعی کی مدح کی کہ یہ ان کے حلم اور رحم و شفقت کا نتیجہ تھی۔ پھر واضح کردیا کہ بات ٹلنے والی نہیں تھی۔ وقت آپہنچا تھا۔ حضرت لوط کو مہمانوں کے آنے سے اس لیے پریشانی ہوئی کہ وہ جانتے تھے شہر کے باشندے ضرور حملہ آور ہوں گے۔ کیونکہ ان کا قاعدہ تھا جب کبھی کوئی اجنبی مسافر آپھنستا تو اس پر حملہ کردیتے اور سمجھتے ہمارے خبیثانہ افعال کے لیے ایک شکار ہاتھ آگیا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اعراف میں حضرت لوط کے وعظ و نصیحت اور قوم کی سرکشی کا حال گزر چکا ہے۔ (آیت ٨٠) یہاں اس میں تفصیل کی کہ عذاب کا ظہور کن حالات میں ہوا تھا۔ بہرحال نتیجہ یہی نکلا کہ قوم ہلاک ہوئی اور حضرت لوط اور ان کے ساتھیوں پر کوئی آنچ نہ آئی۔ ھود
70 ھود
71 ھود
72 ھود
73 ھود
74 ھود
75 ھود
76 ھود
77 ھود
78 ھود
79 ھود
80 ھود
81 ھود
82 دیکھو اعراف آیت ٨٠ کا نوٹ۔ ھود
83 ھود
84 قبیلہ مدین میں حضرت شعیب کی دعوت کا ظہور ہوا۔ تورات میں ہے کہ قطورا کے بطن سے حضرت ابراہیم کے چھ لڑکے ہوئے جن میں سے ایک کا نام مدیان تھا (پیدائش : ١: ٢٥) یہی مدیان عربی میں مدین ہوگیا۔ اس کی اولاد بحر قلزم کے کنارے آباد ہوگئی تھی۔ جن میں حضرت شعیب کا ظہور ہوا۔ بنی اسرائیل انہیں بنی قطورہ کہتے تھے۔ حضرت شعیب نے کہا اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ ناپ تول میں خیانت نہ کرو، نہ تو حق سے زیادہ لو، نہ حق سے کم دو، ملک میں شر و فساد پھیلاتے نہ پھرو یعنی لوٹ مار نہ کرو۔ میں دیکھتا ہوں کہ تم خوشحال ہو لیکن میں ڈرتا ہوں کہ عذاب میں گرفتار نہ ہوجاؤ۔ لوگوں نے کہا تم اپنے خدا کی جتنی عبادت کرنی چاہو شوق سے کرو، لیکن کیا تمہاری نمازیں یہ بھی کہتی ہیں کہ دوسروں کو ان کی راہ سے ہٹاؤ؟ اور اس راہ سے ہٹاؤ جس پر ان کے باپ دادا چلتے آئے ہیں؟ ہم اپنے مال کے مالک مختار ہیں۔ جس طرح چاہیں خریدیں۔ تم اپنے ناپ تول کی باتیں رہنے دو، معلوم ہوتا ہے ساری دنیا میں صرف تم ہی ایک نیک اور خوش معاملہ آدمی رہ گئے ہو۔ ھود
85 ھود
86 ھود
87 ھود
88 حضرت شعیب نے کہا اگر اللہ نے مجھ پر علم و بصیرت کی راہ کھول دی ہو اور میں دیکھ رہا ہوں کہ تم ہلاکت کی طرف جارہے ہو تو بتلاؤ کیا میرا فرض نہیں ہے کہ تمہیں سلامتی کی راہ دکھاؤں؟ اس نے اپنے فضل و کرم سے مجھے رزق و دولت کی فراوانی عطا فرمائی ہے پھر کیا یہ کفران نعمت نہ ہوگا کہ ادائے فرض میں کوتاہی کروں؟ اور پھر تم میری ضد میں آکر کیوں حق سے منہ موڑو؟ میں ایسا تو نہیں کرتا کہ تمہیں ایک بات سے روکوں اور پھر خود وہی کرنے لگوں میں وہی بات کہتا ہوں جس پر خود عامل ہوں۔ اور تم میری تبلیغ سے بگڑتے کیوں ہوں؟ میں کچھ تم پر نگہبان بن کر تو نہیں کھڑا ہوگیا ہوں کہ مجبور کروں، میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں، جہاں تک میرے بس میں ہے، اور میرے کاموں کو بننا ہے تو اللہ ہی کی مدد سے بننا ہے میرا بھروسہ صرف اسی پر ہے۔ بحر قلزم کی جو شاخ عرب اور جزیرہ نمائے سینا کے درمیان گزری ہے اسی کے کنارے مدین کا قبیلہ آباد تھا، چونکہ یہ جگہ شام، افریقہ اور عرب کے تجارتی قافلوں کا نقطہ اتصال تھی، اس لیے اشیائے تجارت کے مبادلہ کی بڑی منڈی بن گئی تھی اور لوگ خوشحال ہوگئے تھے، اسی لیے حضرت شعیب نے کہا : (انی ارکم بخیر) میں تمہین خوشحال پوتا ہوں۔ لیکن جب لوگوں کے اخلاق فاسد ہوگئے تو کاروبار میں خیانت کرنے گلے اور ماپ تول کے انصاف سے ناآشنا ہوگئے، یہی وجہ ہے کہ حضرت شعیب نے خصوصیت کے ساتھ اس معصیت سے روکا۔ جو مکالمہ گزر چکا ہے اس پر اچھی طرح غور کرو، لوگوں نے کہا تم نماز پڑھتے ہو لیکن تمہارے نماز پڑھنے کا نتیجہ یہ کیوں نکلے کہ ہم لوگوں کو بھی اپنی راہ چلنے کی دعوت دو؟ یعنی بنائے نزاع خود تمہارا عمل نہیں ہے یہ ہے کہ دوسروں کو کیوں دعوت دیتے ہو؟ حضرت شعیب نے کہا یہی تو میرا اصلی کام ہے اسے کیسے چھوڑ دوں؟ سچائی کی روشنی میرے سامنے آگئی ہے اور جب آگئی ہے تو اس کے اعلان سے باز نہیں رہ سکتا، البتہ ماننا نہ ماننا تمہارا کام ہے مجھے حق نہیں کہ کسی پر جبر کروں، اس سے معلوم ہوا اتباع حق کے لیے صرف اتنا ہی کافی نہیں کہ آدمی کود متبع ہوجائے بلکہ ضروری ہے کہ دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے۔ اتباع حق کی راہ میں ذاتی خصوصیت اور شخصی حسد سے بڑھ کر کوئی روک نہیں، مکالمہ سے یہ بات ٹپکتی ہے کہ قبیلہ کے سرداروں کو حضرت شعیب سے ذاتی خصومت ہوگئی تھی، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کہا، ایسا نہ کرو کہ میری ضد میں آکر پیام حق کے مخالف ہوجاؤ اور خدا کے مواخذہ میں گرفتار ہو۔ انسان انسانوں کا پاس کرتا ہے لیکن سچائی کا پاس نہیں کرتا، وہ انسانوں کے خیال سے ایک بات چھوڑ دے گا لیکن خدا کے خیال سے نہیں چھوڑے گا، چنانچہ منکروں نے کہا ہم تجھے سنگسار کردیتے لیکن تیرے کنبہ کے خیال سے ایسا نہیں کرتے۔ حضرت شعیب نے کہا افسوس تم پر، تمہیں میرے کنبہ کا تو پاس ہوا لیکن خدا کا نہ ہوا۔ خدا کی بات تو تمہارے خیال میں کوئی بات ہی نہیں ہے۔ ھود
89 ھود
90 ھود
91 ھود
92 ھود
93 حضرت شعیب نے کہا اچھا تم اپنی راہ چلو، میں اپنی راہ چل رہا ہوں، اور نتیجہ کا انتظار کرو، چنانچہ نتیجہ ظاہر ہوگیا، اہل ایمان محفوظ رہے، سرکش ہلاک ہوگئے۔ حضرت موسیٰ کی دعوت اور اس کے نتائج کی طرف اشارہ اور استدلال کی موعظت کا اختتام۔ ھود
94 ھود
95 ھود
96 ھود
97 ھود
98 ھود
99 ھود
100 سورت کی ابتدا میں قوم کو اتباع حق کی دعوت دی تھی اور سرکشی و فساد کے نتیجہ سے خبردار کیا تھا، نیز واضح کیا تھا کہ اس باب میں بنیادی امور کیا کیا ہیں۔ پھر آیت (٢٤) میں ان سب کا خلاصہ بیان کیا تھا کہ یہاں راہیں دو ہیں۔ ایک علم و بصیرت کی، ایک اندھے پن کی۔ اور ضروری ہے کہ دونوں کے چلنے والے اپنی حالت اور اپنے نتیجہ میں ایک ہی طرح کے نہ ہوں، پھر اس حقیقت پر دلیل پیش کی تھی، یہ گزشتہ ایام و وقائع کا بیان تھا جو حضرت نوح کے تذکرہ سے شروع ہوا اور حضرت موسیٰ کے تذکرہ پر ختم ہوگیا۔ اب آیت (١٠٠) سے لیکر آخر سورت تک ان نتیجوں اور عبرتوں کی طرف توجہ دلائی ہے جو اس سلسلہ استدلال سے واضح ہوتی ہیں : (ا) ان قوموں کو جو کچھ پیش آیا تو اس لیے نہیں پیش آیا کہ اللہ نے ان پر زیادتی کی ہو، اس کا قانون جزا تو سرتا سر عدل و رحمت ہے، بلکہ اس لیے ہوا کہ انہوں نے خود اپنے اوپر ظلم کرنا چاہا اور نجات کی راہ سے منہ موڑ کر ہلاکت کی طرف چلنے لگے۔ (ب) اس باب میں اللہ کا قانون ایسا ہی ہے، اس کی رحمت نے مہلتوں پر مہلتیں دی ہیں اور روشنی کو تاریکی سے بالکل الگ کردیا ہے لیکن اگر ایک قوم روشنی سے یک قلم منہ موڑ لے تو پھر نتائج و عواقب کا ظہور کب نہیں رک سکتا۔ ان کے ظہور کی دردناکی وشدت کبھی دور نہیں ہوسکتی۔ (ج) ہر اس انسان کے لیے جو آخرت کے خیال سے بے خوف نہ ہو اس بات میں حقیقت کی بڑی ہی نشانی ہے، کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جزائے عمل کا قانون یہاں نافذ ہے اور خدا کے رسولوں کا پیام جھوٹا نہیں۔ (د) اللہ کے یہاں ہر بات کے لیے ایک حساب ہے اور ہر معاملہ کے لیے ایک مقررہ میعاد، جب تک وہ وقت نہ آئے اس بات کا ظہور نہیں ہوسکتا، آخرت کا دن بھی اسی لیے پیچھے ڈال دیا گیا کہ اپنے مقررہ وقت پر ظاہر ہو۔ (ہ) اس دن جو شقی نکلیں گے ان کے لیے شقاوت ہوگی، جو سعید نکلیں گے ان کے لیے سعادت۔ ھود
101 ھود
102 ھود
103 ھود
104 ھود
105 ھود
106 ھود
107 ھود
108 ھود
109 آیت (١٠٩) میں پیغمبر اسلام سے خطاب ہے : تمہیں یہ خیال نہ ہو کہ مشرکین عرب کیوں شرک سے باز نہیں آتے؟ اور کیوں انہیں مہلت مل رہی ہے؟ وہ تو اسی راہ پر چل رہے ہیں جس پر ان کے باپ دادا چلے اور انہیں ان کی سرکشیوں کا نتیجہ پورا پورا ملنے والا ہے۔ پھر فرمایا تم سے پہلے حضرت موسیٰ کو بھی کتاب دی گئی تھی لیکن لوگ اختلاف میں پڑگئے اور حکمت الہی کا فیصلہ یہی ہے کہ یہاں اختلاف عمل دور نہیں ہوسکتا۔ ھود
110 ھود
111 ھود
112 پھر آیت (١١٢) میں پیغبر اسلام کو اور ان کے ان ساتھیوں کو جو ابتدائے عہد کی بے سروسامانیوں اور مظلومیوں میں ایمان لائے تھے مخاطب کیا ہے اور حسب ذیل کی تلقین کی ہے، یہ ان کے لیے اس سورت کی موعظت کا خلاصہ ہے : (ا) جو راہ بتلا دی گئی ہے اس پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہو اور اپنا کام کیے جاؤ۔ (ب) اپنی حد سے تجاوز نہ کرو، یعنی استقامت کار کا نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ مخالفوں پر کسی طرح کی زیادتی کرنے کا خیال کرنے لگو۔ یا لڑنے جھگڑنے لگو، اپنے دائرہ کے اندر رہو، مگر اپنے طریقہ پر قائم رہو۔ (ج) لیکن یہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ مخالفوں کی طرف جھک پڑو اور نتیجہ یہ نکلے کہ ان کی گمراہی کی چھینٹ تم پر بھی پڑجائے۔ (د) نماز کو اس کی ساری حقیقتوں کے ساتھ اس کے تمام وقتوں میں ادا کرو، تمہاری طاقت کا اصلی سرچشمہ یہی ہے۔ یہ بڑی نیک عملی ہے اور نیک عملی برائیاں دور کردیتی ہے۔ (ہ) صبر کرو، اللہ کا قانون یہ ہے کہ وہ نیک کرداروں کا اجر ضائع نہیں کرتا، یعنی ضروری ہے کہ آخر کار کامیابی انہی کے حصہ میں آئے۔ (و) یہ پچھلی قومیں جو یک سر ہلاک ہوگئیں تو اس لیے ہوئیں کہ ان میں اہل خیر و صلاح معدوم ہوگئے تھے، کوئی نہیں رہا تھا جو شر و فساد سے روکے، اگر ان میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے موجود ہوتے تو کبھی اس نتیجہ سے دو چار نہ ہوتے، کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک بستی پر عذاب آئے اور اس کے باشندے مصلح ہوں۔ اس بات میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر تم اپنی راہ میں مستقیم رہے اور ایک گروہ داعیان حق کا پیدا ہوگیا تو یہ سرزمین عذاب استیصال سے محفوظ رہے گی، یعنی ایسے عذاب سے جو یک قلم نابود کردینے والا ہوجیسا کہ پھچلی قوموں پر آچکا ہے۔ (ز) یاد رکھو دنیا میں اختلاف فکرو عمل ناگزیر ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ سب ایک ہی راہ چلنے والے ہوجائیں اور حق و باطل کی کشمکش باقی نہ رہے، پس اس بات سے مایوس نہ ہو کہ تمام آدمی کیوں دعوت حق قبول نہیں کرلیتے؟ نہ تو پہلے ایسا ہوا نہ اب اس کی توقع رکھینی چاہیے بہت سے مانیں گے، بہت سے نہیں مانیں گے، تم اپنے کام میں سرگرم ریو۔ ھود
113 ھود
114 ھود
115 ھود
116 ھود
117 ھود
118 ھود
119 ھود
120 یہاں آیت (١٢٠) میں واضح کردیا کہ گزشتہ رسولوں کی سرگزشتیں جو مختلف مقامات میں اور مختلف اسلوبوں میں بیان کی گئی ہیں ان سے قرآن کا مقصد کیا ہے : (ا) تاکہ تیرے دل کو تسکین ہو یعنی قوم کو اعراض و سرکشی کی حالت میں دیکھ کر تیرا دل بے قرار ہے، دعوت کا ولولہ اور اصلاح کا عشق تجھے مضطرب رکھتا ہے : (لعلک باخع نفسک الا یکونوا مومنین) تو ان سرگزشتوں کا تفکر موجب تسکین ہوگا کہ تجھ سے پہلے بھی ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے، بلکہ اعراض و سرکشی کے اس سے بھی زیادہ سخت مظاہر ہوچکے ہیں۔ (ب) یہ سرگزشتیں حق کو واضح کردیتی ہیں، یعنی ان میں حقیقت کی دلیلیں اور روشنیاں ہیں، یہ بتلاتی ہیں کہ اس بارے میں اللہ کا ایک مقررہ قانون ہے اور اس میں کبھی تبدیلی ہونے والی نہیں۔ (ج) ان میں موعظت ہے، یعنی ایسی باتیں ہیں جو سننے والوں کو عبرت دلاتی ہیں نصیحت و پند کرتی ہیں غرور و نادانی سے بیدار کردیتی ہیں۔ (د) مومنوں کے لیے تذکیر ہے یعنی سچائی کی یاد دلاتی ہیں غفلت سے روکتی ہیں۔ اوائل حال کی ایک غفلت یہ بھی تھی کہ کمزور بے سروسامان تھے اور تمام ملک دشمنی پر تل گیا تھا۔ اس لیے کبھی کبھی مایوسی کے خیال آنے لگتے تھے۔ اب یہ چار باتیں سامنے رکھ کر قرآن کے قصص و وقائع کا مطالعہ کرو۔ وہ تمام قفل کھل جائیں گے جنہیں ہمارے منقطی مفسروں کی دس دس جلدیں بھی نہ کھول سکیں۔ ھود
121 سورت کی ابتدا جس اعلان حق سے ہوئی تھی اور پھر واضح کیا تھا کہ تمام پچھلی دعوتوں کا بھی یہی اعلان رہ چکا ہے اسی پر اب سورت ختم ہوتی ہے۔ چنانچہ آخر کی تین آیتیں خاتمہ موعظت ہیں : (ا) منکروں سے وہی بات کہہ دو جو ہمیشہ کہی گئی ہے۔ یعنی تم اپنی جگہ کام کیے جاؤ، ہم اپنی جگہ کر رہے ہیں تم بھی نتیجہ کا انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں، نتیجہ فیصلہ کردے گا، جس طرح ہمیشہ کرچکا ہے۔ (ب) اللہ ہی جانتا ہے کہ پردہ غیب میں کیا چھپا ہے اور سارے کام اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ (ج) اور تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو کیا کرنا چاہیے؟ (فاعبدہ وتوکل علیہ) اس کی عبادت میں لگے رہو اور اس پر بھروسہ رکھو۔ قرآن کے قصص اور ان کا حجت و برہان ہونا : یہ سورت بھی من جملہ ان سورتوں کے ہے جن میں گزشتہ دعوتوں کے وقائع سے استشہاد کیا گیا ہے اور گو سورۃ اعراف کے ایک نوٹ میں اس طرف اشارات کیے جا چکے ہیں، لیکن ضروری ہے کہ یہاں مزید وضاحت کردی جائے تاکہ آئندہ جہاں کہیں یہ بات آئے ذہن فہم و تدبر کے لیے مستعد رہے۔ قرآن نے تذکیر و موعظت کے لیے جو باتیں بطور دلائل کے اختیار کی ہیں اور جنہیں وہ جابجا حجج، براہین، بینا اور بصائر سے تعبیر کرتا ہے اور ان میں ایک نمایاں استدلال ایام و وقائع کا استدلال ہے، اس نے جہاں کہیں گزشتہ قوموں کے حالات بیان کیے ہیں، وہاں یہ بات بھی واضح کردی ہے کہ اس بیان سے اس کا مقصود کیا ہے؟ جیسا کہ اسی سورت کی آیت (١٢٠) میں گزر چکا ہے۔ اور جب ہم اس پر غور کرتے ہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ مقصود یہ نہیں ہے کہ تورات کی طرح دنیا کی تاریخ بیان کی جائے بلکہ کچھ باتیں ہیں جن کا وہ دلوں میں اذعان پیدا کرنا چاہتے ہیں اور یہ سرگزشتیں اس کے لیے دلیلیں ہیں، حجتیں ہیں، براہین ہیں۔ پس سمجھ لینا چاہیے کہ کیونکر یہ سرگزشتیں دلیلیں ہوئیں۔ بات بالکل صاف تھی کیونکہ خود قرآن نے کھول کھول کر ہر جگہ بتلا دی ہے لیکن منطقی استدلال کے انہماک نے مفسروں کو سمجھنے کی مہلت نہ دی۔ وحدت قوانین فطرت : اس سلسلے میں سب سے پہلے دو باتیں ذہن نشین کرلینی چاہیے۔ اولا، قرآن کہتا ہے کہ کائنات ہستی کے جس گوشہ پر بھی نظر ڈالو گے تمہیں ایک حقیقت ابھری ہوئی دکھائی دے گی، بشرطیکہ دیکھنے سے انکار نہ کرو، وہ کیا ہے؟ قوانین فطرت کی وحدت، یعنی یہاں ہر جگہ ایک ہی قانون ایک ہی طرح پر کام کر رہا ہے۔ کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو اپنے قانون خلقت و فعل میں دوسروں سے ذرا بھی الگ ہو۔ بلاشبہ بھیس بہت سے ہوگئے ہیں اور نام بھی یکساں نہیں، مگر حقیقت ایک ہی ہے اور جونہی سامنے کے پردے ہٹاتے ہو، اصلیت کی بے لاگ وحدی آکھڑی ہوتی ہے۔ مثلا تم کہتے ہو کہ حیوان کے لیے موت و حیات ہے۔ پھولوں کے لیے کھلنا اور مرجھانا ہے۔ پتھروں کے لیے بننا اور پامال ہونا ہے، اجزا کے لیے ملنا اور بکھر جانا ہے، بھیس بہت سے ہوگئے مگر کیا صورتیں بھی بہت ہوئیں؟ نام کیئ ہوگئی مگر کیا حقیقت بھی متعدد ہوئی؟ وہی قانون جو حیوانات میں موت و حیات تھا، نباتات میں کھلنا اور مرجھانا ہوا، جمادات میں بننا اور پامال ہونا، اجزا میں ملنا اور بکھرنا، الفاظ بدلتے جاؤ، معنی نہیں بدل سکتے۔ عباراتنا شتی و حسنک واحد۔۔۔۔ وکل الی ذاک الجمال یشیر !!! وہ کہتا ہے جب کائنات ہستی کے ہر گوشہ میں وحدت قانون کی بنیادی اصل کام کر رہی ہے تو کیونکر ہوسکتا ہے کہ اعمال انسانی کا گوشہ اس سے باہر ہو؟ اور وہاں بھی کوئی قانون کام نہ کر رہا ہو؟ اور وہ وہی وار ویسا ہی نہ ہوجیسا تم گوشوں میں ہے؟ وہ کہتا ہے کہ یہ گوشہ بھی دوسرے گوشوں کے ساتھ جڑار ہوا ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح یہاں کا ہر گوشہ دوسرے گوشے سے مربوط ہے۔ یہاں بھی وہی قانون کام کر رہا ہے جو عالم مادی کے تمام گوشوں میں کار فرما ہے۔ اور یہاں کے بھی وہی احکام و نتائج ہیں جو دوسرے گوشوں میں نظر آرہے ہیں۔ مثلا اگر عالم مادی میں تم دیکھتے ہو کہ آگ کا خاصہ جلانا ہے، اور ایسا نہیں ہوسکتا کہ آگ روشن ہو اور اس کے شعلوں سے ٹھنڈک نکلے، تو تمہیں اس سے انکار نہیں کرنا چاہیے کہ یہاں بھی کوئی بات آگ کی طرح ہوسکتی ہے اور جب وہ ظہور میں آجائے تو اس سے گرمی ہی نکلے گی۔ ٹھنڈک نہیں نکل سکتی، یعنی مادیات کے خواص کی طرح معنویات کے بھی خواص ہیں اور خواص و نتائج کا ایک ہی عالمگیر قانون یکساں طور پر دونوں جگہ کام کر رہا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے تفسیر سورۃ فاتحہ اور مقدمہ دیکھنا چاہیے) ثانیا : وہ کہتا ہے جس طرح یہاں ہر بات کے لیے فطرت کے مقررہ قوانین ہوئے اسی طرح قوموں اور جماعتوں کی سعادت و شقاوت اور حیات و ممات کا بھی ایک قانون ہوا اور جس طرح فطرت کے تمام قوانین یکساں ہیں، عالمگیر ہیں، غیر مبدل ہیں، اسی طرح یہ قانون بھی ہمیشہ ایک ہی طرح رہا ہے، اور ہمیشہ ایک ہی طرح کے احکام و نتئاج ظاہر ہوئے ہیں۔ زمانوں اور قوموں کے اختلاف سے اس کی تاثیر مختلف نہیں ہوسکتی۔ جس طرح سنکھیا کا خاصہ ہلاکت ہی ہے۔ خواہ کسی ملک اور کسی عہد میں کھائی جائے اسی طرح اس قانون کے احکام و نتائج بھی یکساں ہی ہوں گے خواہ کسی ملک اور کسی عہد میں پیش آئیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اب سے ہزار برس پہلے تو سنکھیا کا خاصہ ہلاکت رہا ہو اور اب زندگی ہوجائے۔ پس جو کچھ ماضی میں پیش آچکا ہے ضروری ہے کہ مستقبل میں بھی پیش آئے۔ اس میں کبھی تبدیلی نہیں ہوسکتی، کیونکہ فطرت کے قوانین میں تبدیلی نہیں۔ اس نے جابجا اس قانون کو سنت اللہ سے تعبیر کیا ہے : (سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا) جو لوگ تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان کے لیے اللہ کی سنت یہی رہی ہے (یعنی اللہ کے قانون کا دستور یہی رہا ہے) اور اللہ سنت میں تم کبھی ردو بدل نہیں پاؤ گے۔ (فھل ینظرون الا سنت الاولین فلن تجد لسنت اللہ تبدیلا ولن تجد لسنت اللہ تحویلا) پھر یہ لوگ کس بات کی راہ تک رہے ہیں؟ کیا اس بات کی کہ جو کچھ اگلے لوگوں کے لیے سنت رہ چکی ہے ان کے لیے بھی ظہور میں آجائے؟ تو یاد رکھو، تم اللہ کی سنت کو کبھی بدلتا ہوا نہیں پاؤ گے اور نہ کبھی ایسا ہوسکتا ہے کہ اس کی سنت کے احکام پھیر دیئے جائیں۔ (سنۃ من قد ارسلنا قبلک من رسلنا ولا تجد لسنتنا تحویلا) (اے پیغمبر) تجھ سے پہلے جن رسولوں کو ہم نے بھیجا ہے ان کے لیے ہماری سنت یہی رہی ہے اور ہماری سنت کبھی ٹلنے والی نہیں۔ استقرا کا یقین فطری ہے : قرآن کا یہ استدلال فی الحقیقت طبیعت انسانی کا وجدانی اذعان ہے، انسان کی ذہنی فطرت کا مطالبہ کرو، تم دیکھو گے کہ وہ حوادث سے بالطبع متاثر ہوتی ہے اور اس کے اندر کوئی چیز ہے جو اسے بتلا دیتی ہے کہ یہاں ایک مرتبہ کا حادثہ ایک ہی مرتبہ کا حادچہ نہیں ہے، خواص و نتائج دائمی ہیں۔ یعنی جو بات یہاں ایک مرتبہ ظہور میں آتی ہے وہ ہمیشہ ظہور میں آئے گی یا ہمیشہ ظہور ظہور میں آسکتی ہے۔ اور جس چیز کا جو خاصہ ایک مرتبہ ظاہر ہوا وہی خاصہ ہمیشہ ظہور میں آئے گاْ چنانچہ بچوں کو دیکھ کس طرح یہ وجدانی علم ان کے اندر بول رہا ہے ؟ ایک بچہ پہلی مرتبہ آگ میں انگلی ڈالتا ہے اور انگلی جلنے لگی ہے، پھر جب کبھی آگ اس کے سامنے آتی ہے تو خودبخود ہاتھ کھینچ لیتا ہے، کیوں؟ اس لیے کہ اس کے اندر کوئی چیز ہے جو اسے بتلا دیتی ہے کہ جس چیز نے ایک مرتبہ جلایا وہ ہمیشہ جلائے گی۔ یہ اعتقاد کہ آگ ہمیشہ جلاتی ہے، اسے صرف اتنی بات سے حاصل ہوگیا کہ آگ نے ایک مرتبہ جلایا تھا۔ طبیعت انسانی کا یہی وجدانی تاثر ہے جس نے ہمارے ذہن میں استقرا کا اعتقاد پیدا کیا، یعنی جزئیات کا تجربہ کرنا اور اس کے ذریعہ سے کلمات تک پہنچنا، اب ہمارے تمام علوم و معارف کا سنگ بنیاد یہی ہے۔ بہرحال قرآن کہتا ہے اگر تم وجدانی طور پر یہ بات محسوس کرتے ہو کہ خواص و نتائج کا تسلسل و اجراء ایک حقیقت ہے۔ یعنی اگر ایک چیز سے بار بار ایک ہی طرح کا نتیجہ نکلا ہے تو یہ اس کا خاصہ ہے اور اس میں تبدیلی ممکن نہیں تو پھر تم کیسے انکار کردیتے ہو کہ اعمال انسانی کے لیے یہ حقیقت معطل ہوگئی اور یہاں ایسا ہونا ضروری نہیں؟ اگر تم کہتے ہو کہ فلاں بات سے ایسا نتیجہ ضرور نککلے گا کیونہ بار بار ایسا ہی ہوچکا ہے تو پھر اس بات سے کیوں انکار کردیتے ہو کہ فلاں قسم کے اعمال کا نتیجہ یقینا ہلاکت ہے کیونکہ بار بار ایسا ہی ہوچکا ہے ؟ چنانچہ یہی بات ہے کہ وہ جابجا کہتا ہے تم ہی دنیا میں پہلی قوم نہیں ہو، تم سے پہلے بھی بے شمار قومیں اسی زمین میں گزر چکی ہیں، ان کی بھی آبادیاں تھیں، قوتیں اور شوکتیں تھیں، سربہ فلک عمارتیں تھیں، فکر و عمل کی سرگرمیاں تھیں۔ پس دنیا کی سیر و کرو، گزری ہوئی سرگزشتیں سنو، مٹی ہوئی نشانیوں کا کھول لگاؤ اور پھر دیکھو سعادت و شقاوت کے قانون کا کیسا عمل درآمد رہ چکا ہے؟ اور اگر ہمیشہ ایسا ہی ہوچکا ہے تو کیا تم سمجھتے ہو خدا تمہارے لیے اپنا قانون ہستی معطل کردے گا؟ یا اس طرح بدل دے گا کہ جو چیز کل تک سنکھیا رہ چکی ہے تمہارے لیے شہد ہوجائے؟ (قد خلت من قبلکم سنن فسیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبۃ المکذبین) تم سے پہلے بھی (دنیا میں خدا کے) احکام و قوانین کے نتائج گزر چکے ہیں۔ پس ملکوں کی سیر کرو، پھر دیکھو ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جنہوں نے خدا کی نشانیاں جھٹلائی تھیں؟ (اولم یسیروا فی الارض فینظروا کیف کان عاقبۃ الذین من قبلھم وکانوا اشد منھم قوۃ) کیا یہ لوگ ملکوں میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے ان لوگوں کا کیسا انجام ہوچکا ہے جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں وار جو ان لوگوں سے قوت میں کہیں زیادہ تھے؟ قرآن کی موعظت کا ایک خاص دائرہ ہے اور وہ جو کچھ کہتا ہے اسی کے اندر رہ کر کہتا ہے، پس ضروری ہے کہ اس استدلال کو بھی اسی کے اندر رہ کر دیھیں، اس سے باہر جانے کی کوشش نہ کریں، تاہم ایک بات ایسی ہے جو بغیر کسی تکلیف کے خودبخود سامنے آجاتی ہے اور ہم اپنے ذہن کو اس طرف جانے سے روک نہیں سکتے۔ یعنی قرآن کے اس طرز استدلال نے ایک زیادہ عام حقیقت کی طرف بھی اشارہ کردیا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ تاریخ کا صحیح استعمال کیا ہونا چاہیے؟ قرآن کی ان تصریحات سے معلوم ہوگیا کہ گزشتہ کا مطالعہ اس لیے کرنا چاہیے کہ آئندہ کے لیے عبرت حاصل کی جائے، یعنی جو کچھ گزر چکا ہے وہ آئندہ کے لیے ذخیرہ بصیرت ہے اور ماضی کے آئینہ میں مستقبل کی صورت دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ کہنا ضروری نہیں کہ اس باب میں علم و نظر کی کاوشیں جس قدر بھی سراغ لگا سکی ہیں وہ زیادہ سے زیادہ یہی ہے۔ تاریخ میں بن خلدون پہلا شخص تھا جس نے تاریخ کو اسی روشنی میں دیکھنا چاہا اور اب فلسفہ تاریخ کی ساری بنیادیں اسی اصل پر چنی گئی ہیں۔ البتہ اس وقت تک معاملہ ابتدائی حالت سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ اگر بڑھتا تو ہم تاریخ کی ہر داستان میں مستقبل کی ایک نئی داستان پڑھ لیا کرتے۔ (ج) اب یہ دو اصل سامنے رکھ کر قرآن کے ان تمام مقامات کا مطالعہ کرو جہاں گزشتہ ایام و وقائع کا ذکر کیا گیا ہے، تم دیکھو گے کہ ہر جگہ یہی استدلال کام کر رہا ہے اور جونہی یہ بات سامنے رکھ لی جائے تمام وجوہ روابط واضح ہوجاتے ہیں۔ البتہ ہر مقام پر ایک ہی طرح کا بیان نہیں ہے اور نہ ایک ہی پہلو پر زور دیا گیا ہے۔ کسی مقام پر شخصیتوں کا ذکر کیا گیا ہے، کیونکہ وہاں اسی کی ضرورت تھی، کہیں قوموں کا ذکر کیا ہے کیونکہ وہاں کا مقتضا یہی تھا، کہیں وقائع کی طرف اشارہ کیا ہے کیونکہ وہاں کے لیے اسی قدر کافی تھا، اور پھر کہیں ایسا ہے کہ سرگزشتیں ایک ہی مقام پر جمع کردی ہیں اور ان سب سے بحیثیت مجموعی استدلال کیا ہے، تاکہ استدلال کے تمام پہلو آشکارا ہوجائیں۔ سورۃ ہود اور استقراء تاریخی : چنانچہ یہ سورت بھی منجملہ ان سورتوں کے ہے جن میں آخری صورت اختیار کی گئی ہے اور اس لیے اس استدلال کے جامع و مفصل مقامات میں سے ہے۔ وہ کہتا ہے گزرے ہوئے عہدوں کی طرف مڑ کر دیکھو، تم دیکھو گے کہ دنیا کی کوئی آبادی ایسی نہیں ہے جہاں ایک خاص طرح کا معاملہ پیش نہ آیا ہو اور خاص طرح کے نتائج پیدا نہ ہوئے ہوں، ہمیشہ ایسا ہوا ہے کہ قوموں میں ایک خاص طرح کی شخصیتیں پیدا ہوئیں، ہمیشہ ایسا ہوا ہے کہ انہوں نے خاص طرح بلند کیں، ہمیشہ ایسا ہوا ہے کہ ان کے اور ان کی قوم کے درمیان خاص طرح کے معاملات پیش آئے اور پھر ہمیشہ ایسا ہوا ہے کہ ان کا خاتمہ ایک خاص طرح کے نتیجہ پر ضرور ہوا اور اس نتیجہ نے تمام قضیہ کا فیصلہ کردیا۔ تم یہ بھی دیکھو گے کہ یہ سارا معاملہ اپنی ساری باتوں میں کچھ اس طرح کا یکساں اور ہم رنگ واقع ہوا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی حقیقت ہے جو بار بار ابھرتی اور اپنے آپ کو دہراتی رہی ہے یا ایک ہی زنجیر ہے جس کی مختلف کڑیاں یکے بعد دیگرے نمایاں ہوئی ہیں اور اس کی کوئی کڑی دوسری کڑی سے الگ نہیں، پھر کیا یہ بات کہ ہمیشہ اور ہر جگہ ایک ہی طرح کی بات پیش آئی اور ایک ہی طرح کا نتیجہ نکلا، اس یقین کے لیے کافی نہیں کہ یہ ملکوں اور قوموں کی سعادت و شقاوت کا ایک الہی قانون ہے، اور چونکہ ہمیشہ کام کرتا رہا ہے، اس لیے اب بھی کام کرے گا؟ اب ان تمام سرگزشتوں پر نظر ڈالو جو اس سورت میں بیان کی گئی ہیں اور اعراف میں گزر چکی ہیں اور آئندہ سورتوں میں بھی آئیں گی، یہ حضرت نوح کی دعوت سے شروع ہوتی ہیں اور حضرت موسیٰ کے ذکر پر ختم کردی جاتی ہیں۔ غور کرو کس طرح ان تمام دعوتوں کے ظہور میں، اعلانات میں، تذکیر و موعظت میں، احوال و ظروف میں، ردو قبول میں، نوعیت و حیثیت میں اور پھر آخری نتیجہ میں کامل یکسانی پائی جاتی ہے؟ اور کس طرح ان کی ہم آہنگی کے تمام نقطے صاف صاف ابھرے ہوئے ہیں؟ ساتھ ہی کسی طرح قدم قدم پر بتلایا جارہا ہے کہ ہدایت وحی کے ظہور کے عام قوانین کیا کیا ہیں؟ اور کس طرح دعوت وحی کا ہر چہرہ اپنے خال و خط میں قطعی اور آشکارا نظر آرہا ہے کہ شک و اشتباہ کی پرچھائیں بھی اسے چھونے کی جرات نہیں کرسکتی؟ سورۃ اعراف کے ایک نوٹ میں اشارات گزر چکے ہیں، اور اس سورت میں ہر دعوت کے وقائع کا خلاصہ بالمقابل نوٹوں میں پڑھ چکے ہو۔ ان سب پر مکرر نظر ڈالو اور غور کرو، جتنے رسول پیدا ہوئے وہ کیسے وقتوں میں پیدا ہوئے؟ اور کن لوگوں میں پیدا ہوئے؟ ان کی پکار کیا تھی؟ اور پکار کی نوعیت کیا تھی؟ ان کی دلیلیں کیا تھیں جن پر انہوں نے زور دیا؟ ان کا طریق کار کیا تھا جس پر وہ برابر کاربند رہے؟ انہوں نے اپنے قدم جہاں ٹکائے تھے وہ جگہ کون سی تھی؟ اور سہارے کے لیے جس کی طرف ہاٹھ بڑھایا تھا وہ کون تھا؟ پھر ان میں اور ان کی قوموں میں جو معاملات پیش آئے وہ کس قسم کے تھے؟ اور ان معاملات میں ان کا جو قول و فعل رہا وہ کس قسم کا تھا ؟ تم دیکھو گے کہ ان ساری باتوں میں ہر رسول دوسرے رسول کی تصویر تھا اور ہر دعوت دسری دعوت کا عکس تھی، کسی بات میں بھی تم ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کرسکتے، سب اسی حال میں پیدا ہوئے کہ دنیوی طاقتوں اور حکمرانیوں میں سے کچھ نہیں رکھتے تھے۔ سب کا ظہور ایسے ہی وقتوں میں ہوا جب خدا پرستی اور نیک عملی کی روشنی بجھ چکی تھی۔ سب انہی قوموں میں پیدا ہوئے جن قوموں کو انہوں نے مخاطب کیا تھا، سب کی زبانوں سے ایک ہی پکار نکلی۔ سب نے ایک ہی طرح پر لوگوں کو بلایا، سب نے کہا اللہ کی بدنگی کرو، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، سب نے کہا ظلم و بدعملی سے باز آجاؤ۔ اس کا نتیجہ ہلاکت ہے، سب نے کہا، ہماری جدوجہد ادائے فرض ہے، مزدوری کی طلب نہیں، سب نے کہا ہمارے پاس علم ویقین ہے، ہم تمہیں ظن و جہل سے نجات دلانا چاہتے ہیں، سب نے کہا ہمارا دعوی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایمان و نیک عمل کے نتائج کی بشارت دینے والے ہیں۔ انکار و بدعملی کے نتائج سے متنبہ کردینے والے، ماننا نہ ماننا تمہارا کام ہے، سب نے کہا تمہارا بھروسہ اپنی طاقتوں پر ہے، ہمارا پروردگار عالم پر تم جو کرسکتے ہو کر دیکھو، ہم اپنے کام سے باز آنے والے نہیں، سب نے کہا، اگر مانتے نہیں تو کم از کم حق کے مقابلہ میں سرکشی کرنا چھوڑ دو، کیونکہ سرکشی کا نتیجہ عذاب ہے، اور پھر سب نے کہا کہ تمہاری راہ تمہارے لیے ہے، ہماری راہ ہمارے لیے فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے، ہم بھی انتظار کرتے ہیں، تم بھی انتظار کرو۔ پھر ان قوموں کی طرف نظر اٹھاؤ جن میں ان تمام دعوتوں کا ظہور ہوا تھا، کس طرح یہاں بھی ہر قوم اپنے طرز عمل میں ٹھیک ٹھیک دوسری قوم کی شبیہ ہے ؟ اور کس طرح گمراہی کا چہرہ ہمیشہ ایک ہی طرح کا رہا، جس طرح ہدایت کا چہرہ ایک ہی طرح کا رہا ہے؟ غور کرو، کوئی بات بھی ایسی دکھائی دیتی ہے جس میں ظلم و فساد کی ایک نمود، ظلم و فساد کی دوسری نمود سے ہم رنگ نہ رہی ہو؟ سب نے اپنی اپنی باری وہی سب کچھ کیا جو ان میں سے کسی ایک نے کیا تھا، سب نے دعوت سے انکار کیا، سب نے دعوت کی ہنسی اڑائی، سب نے دلیلوں سے منہ موڑا، سب نے روشنیوں سے آنکھیں بند کرلیں، سب سرکشی اور گھمنڈ کی چال چلے، سب نے جبر و تشدد سے راہ روکنی چاہی، سب نے موعظت و دلائل کا جواب ظلم و تعدی سے دیا، سب کی زبانوں سے ایک ہی طرح کی صدائیں نکلیں، سب کے اعراض و انکار کا مزاج ایک ہی طرح کا مزاج رہا، اور پھر سب کو غرور و طغیان نے آخر وقت تک اس کی مہلت نہ دی کہ روشنی و تاریکی میں امتیاز کرے۔ پھر اگر انہیں مانا تو کن لوگوں نے مانا اور کتنوں نے مانا؟ تو یہاں بھی ہر دعوت کا معاملہ دوسری دعوت کے معاملہ سے بالکل ہم آہنگ رہا ہے۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوا کہ بے نواؤں اور درماندہ نے قبول کیا اور سرداروں اور رئیسوں نے مقاومت کی، ہمیشہ ایسا ہی ہوا کہ جنہوں نے مانا وہ تھوڑے تھے، جنہوں نے انکار کیا وہ بہت تھے۔ پھر دیکھو، نتیجہ بھی کس طرح ہمیشہ ایک ہی رہا اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس ایک کے خلاف ہوا ہو؟ ہمیشہ خدا کے فیصلہ کا انتظار کیا گیا اور ہمیشہ فیصلہ یہی ہوا کہ مومنوں نے نجات پائی، سرکشوں کے لیے ہلاکت ہوئی، یہ گویا اس معاملہ کا ایک قدرتی خاصہ تھا اور خاصہ کبھی بدل نہیں سکتا۔ یہ آگ کے لیے گری تھی، برف کے لیے ٹھنڈک تھی، سنکھیا کے لیے ہلاکت تھی، اور آگ جب سلگے گی گرمی ہی نکلے گی۔ برف جب کبھی جمے گی ٹھنڈک ہی ہوگی۔ سنکھیا جب کبھی کھائی جائے گی ہلاک ہی لائے گی : (سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل ولن تجد لسنتۃ اللہ تبدیلا) قرآن کے اس استدلال کی ہم نے جو کچھ تشریح کی ہے یہ کوئی دور کا مفسرانہ استنباط نہیں ہے بلکہ خود قرآن نے صاف صاف لفظوں میں یہ ساری باتیں واضح کردی ہیں۔ ضرورت صرف تدبر و بصیرت کی ہے، قرآن کے ان بے شمار مقامات کا مطالعہ کرو جہاں گزشتہ رسولوں یا گزشتہ قوموں کی الگ الگ سرگزشتیں نہیں بیان کیں، بلکہ محض اجمالی اشارہ کردیا ہے اور پھر یکے بعد دیگرے ان عبرتوں پر توجہ دلائی ہے جو ان سب کی سرگزشتوں سے مجموعی طور پر نکلتی ہیں۔ مثلا سورۃ ابراہیم کی آیت (٩) میں فرمایا کیا ان قوموں کی خبریں تم تک نہیں پہنچیں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں؟ پھر ان قوموں کی طرف اشارہ کیا ہے قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود اور وہ قومیں جو ان کے بعد ظہور میں آئیں اور جن کا حال اللہ ہی کو معلوم ہے، پھر اس کے بعد ان سب کے ایام و وقائع کی متفقہ اور مشترکہ عبرتیں بیان کی ہیں، اور صاف طور پر واضح کردیا ہے کہ تمام رسولوں کی صدائیں ایک ہی طرح کی رہیں اور تمام قوموں کے انکار و سرکشی بھی ایک ہی رہا۔ پھر جو نتیجہ پیش اایا وہ بھی سب کے لیے یکساں تھا اور ایک ہی تھا (فاحی الیھم ربھم لنھلکن الظالمین۔ ولنسکننم الارض من بعدھم ذلک لمن خا ف مقامی و خاف وعید) ایام اللہ : عربی میں ایسے واقعات کو جو بڑے اہم اور فیصلہ کن ہوتے ہیں اور قوی روایات کی حیثیت حاصل کرلیتے ہیں یوں تعبیر کیا جاتا ہے کہ فلاں واقعہ کا دن۔ مثلا یوم بدر، یوم احد، یوم قادسیہ اور اسی سے قومی معرکوں کے لیے ایام کی تعبیر پیدا ہوگئی ہے۔ چونکہ فیصلہ نتائج کے یہ دن جو تمام قوموں کو پیش آئے اللہ کے قانون حق کے نفاذ کے دن تھے اور حق و باطل کی معرکہ آرائی تھی، اس لیے قرآن نے انہیں ایام اللہ سے تعبیر کیا ہے۔ (ولقد ارسلنا موسیٰ بایتنا ان اخرج قومک من الظلمت الی النور وذکرھم بایم اللہ ان فی ذلک لایت لکل صبار شکور) قصص قرآن و مبادی سبعہ : اس سورت میں بیان قصص کے بعد فرمایا ہے ( وجائک فی ھذہ الحق و موعظۃ و ذکری للمومنین) ان سرگزشتوں نے تم پر حقیقت کھول دی اور وہ سرتا پا موعظت و تذکیر ہیں، نیز بے شمار مقامات میں تصریح کی کہ ان سرگزشتوں میں حقیقت کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں۔ بڑٰی بڑی دلیلیں ہیں، تو اب غور کرو ایام اللہ کے اس استدلال سے کس طرح حقائق وحی کی تمام مہمات واضح ہوجاتے ہیں َ؟ اور کس طرح ہر حقیقت کے لیے موعظت و تذکیر مل جاتی ہے؟ تشریح کا یہ محل نہیں، مقصود اشارات ہیں تاکہ تمہارے سامنے تدبر کی راہیں خودبخود کھل جائیں مثلا بنائے استدلال کی وحدت اور ان کا عالمگیر تسلسل ہے، تو اب غور کرو، یہ وحدت کس طرح ہر گوشہ میں علم و یقین کا اجالا پیدا کر رہی ہے؟ اولا : وحد انبعاث، یعنی معلوم ہوگیا، ایک خاص معاملہ کے لحاظ سے تمام ملکوں اور قوموں کی حالت یکساں رہی ہے کوئی ملک و قوم ہو لیکن سراغ ملتا ہے کہ وہاں کچھ لوگ ایسے ضرور پیدا ہوئے جنہوں نے ابنائے جنس کو ایک خاص طرح کی تعلیم دی۔ ثانیا : وحدت دعوت، یعنی یہ تعلیم اگرچہ مختلف وقتوں، مختلف ملکوں، مختلف پیرایوں، مختلف زبانوں میں دی گئی لیکن ان اختلافات سے تعلیم مختلف نہیں ہوگئی۔ وہ ہمیشہ ایک ہی رہی۔ گویا ایک ہی پیغام تھا جو کسی نے بہت سے پیام بروں کو دے کر بھیج دیا ہو، اور زبانیں بہت سی ہوگئی ہوں مگر بات ایک ہی رہی ہے۔ ثالثا : وحدت تذکیر و موعظت یعنی تمام دعوتوں کی صرف تعلیم ہی یکساں نہ رہی۔ بلکہ تزکیر و موعظت کے اصول بھی ہمیشہ ایک ہی رہے۔ رابعا : وحدت شؤن و وقائع، یعنی اگرچہ زمانے مختلف ہوئے، ملک مختلف ہوئے، قومیں مختلف ہوئیں، احوال و ظروف مختلف ہوئے، مگر جو معاملات پیش آئے وہ اپنی نوعیت میں ہمیشہ ایک ہی طرح کے ہوئے۔ خامسا : وحدت تصدیق و انکار۔ یعنی دعوت کے ماننے نہ ماننے کے لحاظ سے بھی حالت ہمیشہ یکساں رہی۔ سادسا : وحدت ہدایت و ضلالت فکر۔ یعنی ہمیشہ ماننے والوں کی فکری حالت بھی ایک ہی طرح کی رہی اور نہ ماننے والوں کی فکری حالت بھی ایک ہی طرح کی رہی، جنہوں نے مانا ہمیشہ ایک ہی طرح پر مانا، جنہوں نے نہ مانا ایک ہی طرح پر نہ مانا، حتی کہ تصدیق و یقین کی جتنی صدائیں اٹھیں ہمیشہ ایک ہی طرح کی اٹھیں اور انکار و شک کی جتنی باتیں کہی گئیں ہمیشہ ایک ہی طرح کی کہی گئیں۔ سابعا : وحدت ظہور نتائج، یعنی پھر نتیجہ بھی ہمیشہ ایک ہی نکلا، ایک سے دو نہ ہوا۔ قرآن کہتا ہے، جب صورت حال یہ ہے تو کیا ایسی باتیں اصلیت سے خالی ہوسکتی ہیں؟ کیا ان کی قدامت، ان کی عالمیگری، ان کا دائمی تسلسل، ان کا غیر منقطع اعادہ، ان کی بے داغ وحدت، ان کی فطری صداقت کا اعلان نہیں کر رہی۔ (ما لکم کیف تحکمون) پس معلوم ہوا یہاں کی تمام فطری اور عالمیگر حقیقتوں کی طرح ہدایت وحی کی بھی ایک حقیقت ہے، جو ہمیشہ ظہور میں آئی، ایمان اور عمل صالح کے قانون کی بھی ایک حقیقت ہے جس کی ہمیشہ تعلیم دی گئی، ہدایت اور ضلالت کی کشمکش کی بھی ایک حقیقت ہے جو ہمیشہ نمودار ہوئی۔ تصدیق رسل کے نتائج کی بھی ایک حقیقت ہے جو ہمیشہ ظہور میں آئی اور انکار و سرکشی کے نتائج بھی دنیا کی ایک ثابت شدہ حقیقت ہیں کیونکہ ان میں کبھی تغیر نہیں ہوا۔ قرآن نے صرف چند دعوتوں کا کیوں ذکر کیا؟ اس سلسلہ میں یہ بات پیش نظر رہیے کہ قرآن نے اگرچہ یہاں اور دیگر مقامات میں چند خاص خاص دعوتوں اور قوموں ہی کا ذکر کیا ہے، لیکن اس کا دعوی عام ہے اور اسی پر یہ استدلال مبنی ہے۔ اس نے جابجا یہ بات واضح کردی ہے کہ ہدایت وحی کا ظہور جمیعت بشری کا عالمگیر واقعہ ہے اور کوئی قوم نہیں جس میں اللہ کے کسی رسول کا ظہور نہ ہوا ہو۔ نیز یہ کہ بے شمار قومیں دنیا میں گزر چکی ہیں جن کا حال اللہ ہی کو معلوم ہے۔ چنانچہ سورۃ یونس کی آیت (٤٧) میں گزر چکا ہے۔ (ولکل امۃ رسول فاذا جاء رسولھم قضی بینھم بالقسط وھم لا یظلمون) اور دوسرے مقامات میں فرمایا : (انما انت منذر ولکل قوم ھاد) (ولقد بعثنا فی کل امۃ رسولا ان اعبدوا اللہ واجتنبوا الطاغوت) (انا ارسلنک بالحق بشیرا و نذیرا وان من امۃ الا خلا فیھا نذیر) (الم یاتکم نبوا الذین من قبلکم قوم نوح و عاد و ثمود والذین من بعدھم لا یعلمھم الا اللہ) لیکن ساتھ ہی اس نے یہ تصریح بھی کردی ہے کہ قرآن میں تمام رسولوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔ صرف چند کا ذکر کیا گیا ہے : (ولقد ارسلنا رسلا من قبلک منھم من قصصنا علیک ومنھم من لم نقصص علیک) اور (اے پیغمبر) ہم نے تم سے پہلے کتنے ہی رسول مبعوث کیے، ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کے حالات تمہیں سنائے ہیں، اور کچھ ایسے ہیں جن کے حالات نہیں سنائے۔ یہ ظاہر ہے کہ قومیں بے شمار گزر چکی ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ حسب تصریح قرآن ہر قوم میں دعوت حق کا ظہور ہوا ہے۔ پس تسلیم کرنا پڑے گا کہ بے شمار قومیں اور بے شمار دعوتیں جن میں سے صرف چند ہی کا قرآن نے ذکر کیا، باقی کا نہیں کیا۔ قرآن نے ایسا کیوں کیا؟ تو اس کا سبب بالکل واضح ہے، قرآن کا مقصود ان سرگزشتوں کے بیان سے یہ نہیں تھا کہ تاریخ کی طرح تمام واقعات کا استقصاء کیا جائے۔ بلکہ صرف تذکیر و موعظت تھا، اور تذکیر و موعظت کے لیے اس قدر کافی تھا کہ چند دعوتوں اور قوموں کی سرگزشتیں بیان کردی جائیں اور باقی کے لیے کہہ دیا جائے کہ ان کا حال بھی انہی پر قیاس کرلو۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس بارے میں اس کا اسلوب بیان ہر جگہ عام ہے۔ جابجا اس طرح کی تعبیرات پائی جاتی ہیں کہ پھچلے قرنوں میں ایسا ہوا۔ پچھلی قوموں میں ایسا ہوا۔ پچھلی آبادیوں میں ایسا ہوا، پچھلے رسولوں کے ساتھ اس طرح کے معاملات پیش آئے، البتہ جہاں کہیں تخصیص کے ساتھ ذکر کیا ہے وہاں صرف چند قوموں ہی کی سرگزشتیں بیان کی ہیں۔ جس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ یہ چند سرگزشتیں پچھلی قوموں کے ایام و وقائع کا نمونہ سمجھی جائیں اور ان سے اندازہ کرلیا جائے کہ اس بارے میں تمام اقوام عالم کی روادادیں کیسی رہ چکی ہیں؟ البتہ کہا جاسکتا ہے کہ کیوں خصوصیت کے ساتھ ان چند قوموں ہی کا ذکر کیا گیا جو ایک خاص خطہ ارضی میں گزر چکی تھیں۔ دوسرے خطوں کی اقوام میں سے کسی کا ذکر نہیں کیا؟ تو اس کے وجوہ بھی بالکل واضح ہیں اگر تھوڑی سی وقت نظر کام میں لائی جائے، یہ ظاہر ہے کہ ایام و وقائع کے ذکر سے مقصود یعنی مقاصد کے لیے استشہاد تھا اور یہ استشہاد جب ہی موثر ہوسکتا تھا کہ جن ایام و وقائع کا ذکر کیا جائے ان کے وقوع سے مخاطب بے خبر نہ ہوں۔ کم از کم ان کی بھنک کانوں میں پڑچکی ہو۔ یا نہ پڑی ہو تو اپنے پاس آدمیوں سے حال پوچھ لے سکتے ہوں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ لوگ کہہ دیتے پہلے ان وقائع کا وقوع ثابت کردو، پھر ان سے ہمیں عبرت دلانا، اور اس طرح عبرت و تذکیر کا سارا مقصد ہی فوت ہوجاتا، اب دیکھو قرآن نے جن ایام و وقائع کا وقوع ثابت کردو، پھر ان سے ہمیں عبرت دلانا، اور اس طرح عبرت کو تذکیر کا سارا مقصد ہی فوت ہوجاتا۔ اب دیکھو قرآن نے جن ایام و وقائع کا ذکر کیا ہے وہ تمام ترکن خطوں میں واقعے ہوئے تھے؟ یعنی ان کی جغرافیائی حدود کیا ہیں؟ یہ تمام وقائع یا تو خود عرب میں ہوئے یا سرزمین دجلہ و فرات میں یا پھر فلسطین اور مصر میں، اور یہ تمام خطے ایک دوسرے سے متصل تھے تجارتی قافلوں کی شاہراہوں سے باہمدگر پیوستہ آمد و رفت کے علائق کا قدیمی سلسلہ رکھتے تھے اور نسلی و لسانی تعلقات کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے جیسا کہ آگے چل کر تمہیں معلوم ہوگا۔ پس قرآن نے انہی خطوں کا ذکر کیا جو فی الحقیقت تاریخ اقوام کا ایک ہی وسیع خطہ رہ چکا ہے دوسرے خطوں سے تعرض نہیں کیا کیونکہ مخاطبین کے لیے ان خطوں کا ذکر ان کی شب و روز کی باتوں کا ذکر تھا اور وہ جھٹلانے کی جرات نہیں کرسکتے تھے۔ عرب خود ان کا ملک تھا، عراق سے ان کے تعلقات تھے، فلسطین کے کھنڈروں پر ہر سال گزرتے رہتے، مصر ان کے تجارتی قافلوں کی منڈی تھی، ان ملکوں کا نام سننا گویا اپنے چاروں طرف نظر اٹھا کر دیکھ لینا تھا۔ پھر جن قوموں کا ذکر کیا گیا ان کے ناموں سے بھی وہ ناآشنا نہ تھے، قوم تبع اور اصحاب اخدود یمن سے تعلق رکھتے تھے اور یمن عرب میں ہے، عاد اور ثمود کی بستیاں بھی عرب ہی کے حدود میں تھیں، قبیلہ مدین بالکل عرب کے پڑوس میں تھا، قوم لوط کے کھنڈر ان میں سے سینکڑوں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے، سرزمین دجلہ و فرات کی قوموں اور ان کی روایتوں سے بھی نا آشنا نہیں ہوسکتے تھے۔ مصر میں گو مصر کے فرعون اب نہیں رہے تھے، لیکن مصر میں برابر آتے جاتے رہتے تھے، فراعنہ کے نام ان کے لیے اجنبی نام نہیں ہوسکتے تھے۔ علاوہ بریں یہودی اور عیسسائی خود ان کے اندر سے بسے ہوئے تھے، انبیائے بنی اسرائیل کے نام ان لوگوں کی زبانوں پر تھے، تفصیلات ربیوں اور راہبوں کو معلوم تھیں، یہ ان سے پوچھ سکتے تھے اور پوچھا کرتے تھے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ایما و وقائع کے بیان و استدلال میں جابجا اس طرح کا اسلوب اختیار کیا ہے جیسے ایک جانی بوجھی ہوئی بات کی طرف اشارہ کیا جائے۔ مثلا جابجا فرمایا : (الم یاتکم نبو الذین من قبلکم) جو قومیں تم میں سے پہلے گزر چکی ہیں کیا تم تک ان کی خبریں نہیں پہنچ چکی ہیں؟ یا مثلا جابجا اس طرح کی تعبیرات پاؤ گے : (اولم یسیروا فی الارض فینظروا کیف کان عاقبۃ الذین من قبلھم) کیا یہ لوگ ملک میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھتے پچھلی قوموں کا کیا انجام ہوچکا ہے؟ کیونکہ واقعہ ہوچکا ہے؟ کیونکہ واقعہ یہ تھا کہ وہ برابر چلتے پھرتے رہتے تھے، یعنی ہر موسم میں تجارت کے لیے نکلتے تھے اور اثنائے سفر میں کتنی ہی اجڑی ہوئی بستیاں، مٹتے ہوئے نشان اور سنسان کھنڈر ان کی نظروں سے گزرتے تھے بلکہ بسا اوقات انہی میں منزل کرتے اور انہی کے سایوں میں دوپہر کاٹتے تھے اور پھر جابجا اس طرح کی بھی تصریحات ہیں کہ یہ مقامات تم سے دور نہیں کہ بعد کی وجہ سے بالکل بے خبر رہے ہو۔ اور یہ بھی کہا ہے کہ کیا علمائے بنی اسرائیل سے یہ سرگزشتیں نہیں سنیں؟ اور اگر بے خبر ہو تو علم والوں سے یعنی علمائے اہل کتاب سے دریافت کرلو جو تم ہی میں بسے ہوئے ہیں ْ اور پھر بعض مقامات میں عرب کے حوالی و اطراف کی تصریح بھی کردی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیان وقائع میں قصدا یہ بات ملحوظ رکھی گئی ہے کہ سرزمین عرب اور اس کے اطراف و جوانب ہی کے وقائع ہوں۔ مثلا سورۃ احقاف کی آیت (٢٧) میں قوم عاد کے ذکر کے بعد فرمایا (ولقد اھلکنا ما حولکم من القری وصرفنا الایت لعلھم یرجعون) البتہ یہ ظاہر و معلوم ہے کہ ان واقعات کی تفصیلات سے لوگ نا آشنا تھے، اور بعض وقائع ایسے تھے جن کی صرف کانوں میں بھنک پڑچکی تھی لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ معاملہ کس طرح پیش آیا اور صحیح سرگزشت کیا ہے؟ نہ صرف عرب میں بلکہ ان خطوں میں بھی جہاں وہ پیش آئے تھے، جن وقائع کا ذکر تورات میں موجود تھا ان کی بھی بعض حقیقتیں محرف ہوگئی تھیں، یا بھلا دی گئی تھیں اور خود اہل کتاب کو بھی خبر نہ تھی کہ اصلیت کیا رہ چکی ہےْ پس قرآن نے ان کی حقیقت ٹھیک ٹھیک واضح کردی، ہر معاملہ اپنی اصلی صورت میں نمایاں ہوگیا، بعض وقائع کی نسبت تصریح کردی کہ اس سے باشندگان عرب بالکل نا آشنا تھے، یعنی نام تو سن لیا تھا لیکن اس کی یہ تفصیلات اور جزئیات کسی کو معلوم نہ تھیں، مثلا اسی سورت میں حضرت نوح کی سرگزشت بیان کر کے آیت (٤٩) میں تصریح کردی کہ یہ باتیں نہ تو تجھے معلوم تھیں نہ تیری قوم کو۔ جدید اثری تحقیقات اور اقوام متذکرہ قرآن : پھر فہم و تدبر کا ایک اور نقطہ بھی ہے اور اس سطرف بھی اشارہ کردینا ضروری ہے، قرآن نے جن خطوں کی اقوام کا ذکر کیا ہے دنیا کو ان کی قدیم تاریخ بہت کم معلوم تھی، اور خود عرب اور عربی نسل کی ابتدائی سرگزشتیں بھی پردہ خفا میں مستور تھیں، لیکن اٹھارویں صدی سے آثار قدیمہ کی تحقیقات کا نیا سلسلہ شروع ہوا اور پھر انیسویں صدی میں نئے نئے پردے اٹھے اور اب بیسویں صدی کے اثری انکشافات روز بروز ایک خاص رخ پر جارہے ہیں، ان سب سے عرب، عراق، فلسطین، شام اور مصر کی قدیم قوموں اور تمدنوں کے جو حالات منکشف ہوئے ہیں انہوں نے ان خطوں کی قدیم تاریخ کو بالکل ایک نئی شکل دے دی ہے اور روز بروز نئی نئی حقیقتیں ابھرتی جاتی ہیں، سب سے زیادہ عجیب بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ عربی نسل اور عربی زبان کے صرف اتنے ہی معنی نہیں ہیں جتنے آج تک سمجھے گئے ہیں بلکہ یہ قوموں اور نسلوں کی ایک نہایت قدیم اور وسیع داستان ہے اور وہ دنیا کے ابتدائی تمدنوں میں عظیم الشان حصہ لے چکے ہیں۔ ان تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر عربی زبان اور اس کی ابتدائی شکلوں کے بولنے والوں کو ایک خاص نسل تسلیم کرلیا جائے تو یہ دراصل بہت سے گروہوں اور قبیلوں کا ایک مجموعہ تھا اور عرب، فلسطین، شام، مصر اور عراق کے خطوں میں پھیلا ہوا تھا۔ اس نے دنیا کے ابتدائی تمدن کی تعمیر میں بڑے بڑے حصے لیے، ان ملکوں کی وہ تمام قدیم قومیں جو آج تک ایک دوسرے سے بالکل الگ سمجھی جاتی تھیں مثلا اشوری، سریانی، فینقی، مصری، آرامی وغیرھم، فی الحقیقت الگ نہ تھیں اور عربی زبان کا ابتدائی مواد اور عربی رسم الخط کے ابتدائی نقوش ان سب میں مشترک تھے، حتی کہ انہی گروہوں نے مصر کے تخت عظمت و جبروت پر عرصہ تک شہنشاہی کی اور اپنی زبان وقت کی تمام متمدن قوموں کو مستعار دے دی، چنانچہ دارا کے کتبوں اور مصر کے ہیلو غلیفی نقوش میں عربی الفاظ ااج تک پڑھے جاسکتے ہیں اور یہ بات تو ایک تاریخی حقیقت کی طرح مان لی گئی ہے کہ یونانیوں نے فن کتابت کا پہلا سبق انہی اقوام سے حاصل کیا تھا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ آئندہ اس سلسلہ میں کیا کیا انکشافات ہونے والے ہیں؟ تاہم جس قدر انکشافات ہوچکے ہیں ان سے ایک بات واضح ہوگئی ہے۔ یعنی ایک زمانہ میں یہ تمام خطے ایک خاص نسل کے عروج و انشعاب کے مختلف میدان تھے اور یہی نسل عربی قبائل کی ابتدائی نسل تھی، پس اگر قرآن نے صرف انہی خطوں کی اقوام کا ذکر کیا ہے، کوئی دوسری قوم اس دائرہ میں داخل ہیں ہوسکی ہے تو بہت ممکن ہے اس کی علت اس سے کہیں زیادہ گہری ہو جس قدر اس وقت تک ہم سمجھتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں چار باتیں نمایاں طور پر سامنے آجاتی ہیں : اولاد : جن اقوام کا ذکر کیا گیا ہے ان کی خصوصیت صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ بعض سرزمین حجاز کے قرب و جوار میں گزری تھیں اور بعض سے اہل کتاب واقف تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ کوئی گہری بات ہے، کیونکہ معلوم ہوتا ہے یہ تمام قومیں اسلا ایک ہی نسلی حلقہ کی ہیں، حتی کہ اگر مصریوں کا ذکر کیا گیا ہے تو مصری بھی اس میں داخل ہیں۔ ثانیا : ان انکشافات کی روشنی میں ایک اور مسئلہ بھی بالکل صاف ہوجاتا ہے قرآن نے جہاں کہیں ترتیب ظہور کے ساتھ دعوتوں کا ذکر کیا ہے وہاں قوم نوح کے بعد قوم عاد اور عاد کے بعد قوم ثمود نمایاں ہوئی ہیں اور ان تینوں قوموں کو ایک دوسرے کا جانشین کہا ہےْ چنانچہ سورۃ اعراف کی آیت (٦٩) میں ہے کہ حضرت ہود نے اپنی قوم سے کہا خدا کی یہ نعمت یاد کرو کہ اس نے تمہیں قوم نوح کے بعد اس کا جانشین بنایا، اور آیت (٧٤) میں ہے کہ اسی طرح حضرت صالح نے فرمایا۔ تم قوم عاد کے بعد اس کے جانشین بنائے گئے۔ چونکہ ان تینوں قوموں کا جغرافیائی محل ایک دوسرے سے الگ تھا اس لیے یہ بات واضح نہیں ہوتی تھی کہ اس خطاب کا صحیح مطلب کیا ہے؟ لیکن اب بالکل واضح ہوگئی اور ان توجیہوں کی ضرورت نہ رہی جو مفسرین نے اختیار کی ہیں۔ ثالثا : اس سوال پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ قرآن نے ہر جگہ یہ تذکرہ حضرت نوح ہی سے کیوں شروع کیا ہے؟ اس کے متعدد وجوہ سامنے آتے تھے لیکن ان انکشافات کی روشنی میں ایک نیا پہلو واضح کردیا ہے، یعنی حضرت نوح کی دعوت غالبا اس قدمین نسل میں پہلی دعوت تھی، اور چونکہ پہلی دعوت تھی اس لیے ناگزیر تھا کہ اس کی دعوتوں کا تذکرہ اسی سے شروع ہو۔ رابعا : تورات کی بنا پر سامی نسلوں اور زبانوں کی تقسیم کی گئی تھی اور جو اٹھارویں اور انیسویں صدی کے علمائے انساب والسنہ کے نزدیک بنیادی تقسیم رہی ہے اب متزلزل ہورہی ہے اور معلوم ہوتا ہے از سر نو نئی تقسی میں کرنی پڑیں گی۔ (ولتعلمن نباہ بعد حین) اس سورت کی تصریحات میں ایک معاملہ اور تشریح طلب رہ گیا ہے اور ضروری ہے کہ اس طرف بھی اشارہ کردیا جائے۔ قرآن نے جس طرح دوسری قوموں کے عذاب کا ذکر کیا ہے اسی طرح قوم نوح کے عذاب کا بھی ذکر کیا ہے اور اگر دوسری قوموں کا عذاب صرف انہی قوموں کے لیے تھا تو کوئی وجہ نہیں کہ قوم نوح کا عذاب یعنی طوفان عالمگیر تصور کیا جائے لیکن چونکہ تورات کی کتاب پیدائش میں اس طرح کی تصریحات موجود ہیں کہ طوفان عام تھا اور یہودیوں اور عیسائیوں کا ایسا ہی اعتقاد رہا ہے اس لیے مسلمانوں میں بھی یہ خیال پھیل گیا اور اس طرح کی تفسیر کی جانے لگی جو طوفان کے عموم پر مبنی تھی۔ بہرحال دو باتیں یاد رکھی چاہیں۔ ایک یہ قرآن میں کوئی بات ایسی نہیں ہے جس سے طوفان نوح عام ثابت ہوتا ہو، دوسری یہ کہ تورات کے بقیہ اجزا کے بارے میں کچھ ہی کہا جائے لیکن موجودہ زمانہ میں علم و تحقیق کا قطعی فیصلہ ہوچکا ہے کہ کتاب پیدائش لائق اعتماد نہیں۔ خصوصا اس کا ابتدائی حصہ، تفصیل اس کی مقدمہ میں ملے گی۔ انیسویں صدی کی اثری تحقیقات اور وقائع بنی اسرائیل : انیسویں صدی کی اثری تحقیقات نے ایک نیا سوال بھی پیدا کردیا ہے، یعنی تورات اور قرآن میں حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ کی جو سرگزشتیں بیان کی گئی ہیں مصر کے تاریخی آثار میں ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا، حتی کہ بنی اسرائیل کے توطن مصر اور خروج کا پورا واقعہ اثربیات مصر کی تاریخ میں ایک غیر معلوم واقعہ ہے۔ دنیا کی کسی پرانی قوم نے اپنی تاریخ کی کتاب و حفاظت کا ایسا انتظام نہیں کیا جیسا کہ قدیم مصریوں نے کیا تھا۔ جس وقت تک پیرس (قدیم مصری کاغذ) ایجاد نہیں ہوا تھا، شاہی محلوں، مندروں اور مقبروں کی دیواروں پر ہر عہد کے حالات مسلسل نقش کیے جاتے رہے اور جب پیپرس رائج ہوگیا، تو باقاعدہ دفاتر مدون ہونے لگے، علاوہ بریں ہر پادشاہ اور امیر کی وفات کے بعد اس کی نعش حنوط (ممی) کر کے اس کے خاص مقبرہ میں رکھی جاتی تھی اور نقش کے ساتھ اس کی زندگی کے وقائع رکھ دیے جاتے تھے۔ اب یہ تمام آثار روشنی میں آگئے ہیں اور ان کی معلومات نے ایک مرتب تاریخ کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ان معلومات نے ہمیں پانچ ہزار برس پیشتر کے واقعات تک پہنچا دیا ہے، بعد کے واقعات کے لیے یونانی نوشتے موجود ہیں، دونوں یکجا کردیے جائیں تو یہ تین ہزار سال قبل از مسیح سے لے کر عہد سکندر تک ایک مسلسل تاریخ ہے۔ اس تمام عرصے میں اکتیس شاہی خاندانوں نے مصر پر حکومت کی، آخری خاندان فارس کی شہنشاہی کا تھا جس کے بعد ٣٣٢ قبل از مسیح میں سکندر اعظم کا تسلط قائم ہوا، ان اکتیس خاندانوں کے اکثر افراد روشنی میں آگئے ہیں اور ان کے ناموں کی فہرستیں مرتب کرلی گئی ہیں۔ علمائے آثار کہتے ہیں کہ حضرت یوسف کا معاملہ ایک نہایت غیر معمولی نوعیت کا معاملہ تھا، پھر ان کے خاندان کا مصر آنا وار بس جانا اور حضرت موسیٰ کا ظہور وار فرعون سے مقابلہ تمام تر ایسے واقعات ہیں جو نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ ضروری تھا کہ آثار مصر میں ان کا ذکر آتا۔ لیکن کسی طرح کا بھی تزکرہ نہیں ملتا، تورات کی سنین کے مطابق حضرت یوسف کا زمانہ مصر کے ہیکس (عمالقہ) فرمانرواؤں کا زمانہ ہے اور حضرت موسیٰ کا زمانہ بیسیوں حکمراں خاندان کا زمانہ ہونا چاہیے جس میں رعمیس سوم سے لے کر عمیس یازدہم تک کے فراعنہ گزرے ہیں لیکن ان تمام پادشاہوں کے جس قدر حالات معلوم ہوئے ہیں ان میں کوئی واقعہ ایسا نہیں ملتا جو حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ کی سرگزشتوں کی خبر دیتا ہو۔ اسی بنا پر بیسیویں صدیں کے علمائے تاریخ کا عام رجحان اس طرح ہے کہ دونوں واقعوں کی تاریخی حیثیت قابل تسلیم نہیں۔ لیکن کیا آثار مصر کا سکوت اس کے لیے کافی ہے کہ اسے تاریخ کی منفی شہادت تسلیم کرلیا جائے؟ اور کیا فی الحقیقت آثار مصر میں ان واقعات کے لیے کوئی روشنی نہیں؟ یہ ضروری سوالات ہیں جنہیں حل کرنا چاہیے، لیکن اس کا محل البیان ہے، ترجما القرآن نہیں۔ ھود
122 ھود
123 ھود
0 یوسف
1 یہ سورت بھی ان سورتوں میں سے ہے جو اوائل دعوت میں نازل ہوئیں، اس میں اول سے لے کر آخر تک ایک ہی سرگزشت بیان کی گئی ہے اور وہ حضرت یوسف کی سرگزشت ہے۔ گزشتہ سورت میں گزر چکا ہے کہ حضرت ابراہیم کو بشارت دی گئی تھی کہ ایک لڑکا پیدا ہوگا اور پھر اس سے ایک لڑکا ہوگا اور اس کی اولاد میں خدا برکت دے گا۔ (آیت ٧١) چنانچہ حضرت اسحاق پیدا ہوئے اور ان کی اولاد میں حضرت یعقوب ہوئے، حضرت یعقوب کے بارہ لڑکے تھے : چھ لیاہ سے : روبن، شمعون، لاوی، یہوداہ، اشکار، زبلون۔ دوبلہا سے : دان، نفتالی۔ دو زلفہ سے : جد، آشر۔ دو راخل سے : یوسف بنیامین۔ یوسف اور بنیامین سب سے چھوٹے تھے، اور بنیماین کی پیدائش کے بعد ماں کا انتقال ہوگیا، پس گھرانے میں چودہ آدمی رہ گئے تھے، بارہ لڑکے، باپ اور ان کی ایک بیوی۔ تورات میں ہے کہ لیاہ اور راخل میں سخت رقابت تھی اور اس کا اثر ان کی اولاد میں بھی پوری طرح نمایاں تھا، حضرت یعقوب، حضرت یوسف کو سب سے زیادہ چہاتے تھے اور یہ بات سوتیلے بھائیوں پر بہت شاق تھی۔ (پیدائش : ٤: ٣٧) اسی لیے حضرت یعقوب نے روکا تھا کہ اپنا خواب بھائیوں سے نہ کہیو۔ تورات میں ہے کہ یوسف کی عمر سترہ برس کی تھی جب خواب کا معاملہ پیش آیا۔ (پیدائش : ٢: ٣٧) یوسف
2 یوسف
3 یوسف
4 خواب میں گیارہ ستاروں سے مقصود یوسف کے گیارہ بھائی تھے اور سورج چاند سے باپ اور (سوتیلی) ماں، تورات میں ہے کہ یوسف نے بھائیوں سے خواب کہہ دیا تھا اور انہیں یہ بات بھی معلوم ہوگئی تھی کہ اس کی تعبیر کیا ہے۔ (پیدائش : ١١: ٣٧) غالبا حضرت یوسف باپ کی ممانعت سے پہلے یہ بات ظاہر کرچکے تھے۔ بھائیوں کا یوسف کے بارے میں مشورہ کرنا اور اس پر متفق ہونا کہ اسے ایک اندھے کنویں میں ڈال دیا جائے اور باپ سے اجازت مانگنی کہ یوسف کو اپنے ساتھ جنگل میں لے جائیں جہاں وہ روز مویشی چرانے جایا کرتے تھے۔ تورات میں ہے کہ جب بھائیوں نے مشورہ کیا تو روبن نے کہا قتل نہ کرو کنویں میں ڈال دو۔ (پیدائش : ٢٤: ٣٧) یوسف
5 یوسف
6 یوسف
7 یوسف
8 یوسف
9 یوسف
10 یوسف
11 یوسف
12 یوسف
13 حضرت یوسف کا اندیشہ ظاہر کرنا اور پھر اجازت دے دینا۔ اس زمانہ میں قبائل کی دولت و ثروت کا بڑا دارومدار مویشیوں پر تھا، مردون بھر چراتے تھے، شام کو خیموں میں آکر آرام کرتے تھے، ایسی ہی زندگی حضرت یعقوب کے گھرانے کی بھی تھی، بھیڑیے مویشی کے دشمن ہوتے ہیں۔ ہمیشہ کوئی نہ کوئی حادثہ ہوتا رہتا تھا۔ اس لیے بے اختیار حضرت یعقوب کی زبان سے نکل گیا کہیں ایسا ہی حادثہ یوسف کو پیش نہ آجائے یوسف کے بھائیوں نے یہی بات پکڑ لیا اور اسی کا جھوٹا قصہ بنا کر سنا دیا۔ یوسف
14 یوسف
15 یوسف
16 یوسف
17 یوسف
18 یوسف کے بھائیوں کا یوسف کو کنویں میں ڈال دینا، بھیڑیے کے حملے کا جھوٹا قصہ بنانا، حضرت یعقوب کا ان کے کذب پر مطلع ہوجانا مگر صبر جمیل کا شیوہ اختیار کرنا۔ صبر کے معنی شدائد جھیلنے کے ہیں، جمیل ایسی بات جو پسندیدہ ہو، پس صبر جمیل ایسا صبر ہوا جو بڑے ہی پسندیدہ طریقہ پر ہو، یعنی نہ صرف یہ کہ شدائد کا شکوہ نہ ہو بلکہ بڑی خوبی کے ساتھ جھیلے جائیں۔ شدائد کا شکوہ نہ ہو، درد و الم کی شکایت زبان پر نہ آئے، چونکہ حضرت یعقوب کو فراست نبوت سے یہ بات معلوم ہوگئی تھی کہ پچھلی بشارتیں یوسف ہی کے ذریعہ سے پوری ہونے والی ہیں اس لیے وہ کبھی باور نہیں کرسکتے تھے کہ اس طرح اس کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ پس فرمایا فصبر جمیل یعنی اس معاملہ میں حکمت الہی کا ہاتھ صاف نظر آرہا ہے۔ پس میرے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ بغیر شکوہ و شکایت کے درد فراق جھیلتا رہوں اور اس کی کارفرمائیوں کے ظہور کا انتظار کروں۔ (واللہ المستعان علی ما تصفون) آیت (١٨) میں خون آلود کرنے کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا کیونکہ اسی سے ان کا سارا جھوٹ کھل گیا تھا، انہوں نے اپنے خیال میں یہ بڑی ہوشیاری کی بات کی تھی کہ یوسف کے کرتے پر بکری کا خون لگا کر بطور شہادت کے لیے آئے لیکن یہ نہ سمجھے کہ اگر بھیڑیے نے حملہ کیا تھا تو کرتا کیسے بچ رہا؟ اس کے تو پرزے پرزے ہوجانے تھے، حضرت یعقوب نے جب کرتا دیکھا تو انہیں پورا یقین ہوگیا کہ ساری کہانی من گھڑت ہے۔ قرآن کی معجزانہ بلاغت دیکھو، حضرت یعقوب نے صرف اتنا کہہ کر کہ (سولت لکم انفسکم امرا) کس طرح ساری باتیں کہہ دیں جو اس معاملے کے لیے کہی جاسکتی تھیں؟ یعنی ان کا حسد کرنا، سازش کرنی، معاملہ کی ایک پوری صورت بنا لینی اور پھر سمجھنا اس طرح ہم کامیاب بھی ہوجائیں گے اور ہمارا جھوٹ بھی نہیں کھلے گا۔ سب کی طرف اس میں اشارے ہوگئے۔ یوسف
19 ایک عرب قافلہ کا کنویں پر سے گزرنا، حضرت یوسف کا ڈول میں بیٹھ کر نکل آنا اور فروخت ہونا۔ تورات میں ہے کہ قافلہ اسماعیلیوں کا تھا جو گرم مسالے، بلسان اور مر مصر لے جارہا تھا اور اس وقت پہنچا تھا جب یوسف کے بھائی اپنا کام پورا کر کے روٹی کھانے بیٹھے تھے، تب یہودا نے کہا، بہتر ہے ہم یوسف کو ان لوگوں کے ہاتھ بیچ ڈالیں، اس کے مار ڈالنے سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے بیس سکوں پر بیچ ڈالا۔ (پیدائش : ٢٥: ٣٧) اسماعیلی یعنی حجاز کے عرب جو حضرت اسمایل کی نسل سے تھے۔ اگر یہ معاملہ واقعی پیش آیا تھا تو قرآن نے اسے حذف کردیا کیونکہ ضروری نہ تھا، اور آیت (٢٠) میں وہ واقعہ بیان کردیا جو مصر پہنچنے کا ذریعہ ہوا۔ ڈول کھینچنے والے نے اظہار تعجب کی جگہ اظہار مسرت اس لیے کیا کہ غلامی کا رواج عام تھا اور کم سن اور خوبصورت لڑکا ہاتھ لگ جاتا تو ایک قیمتی متاع سمجھی جاتی اور معقول قیمت وصول ہوجاتی، یہی وجہ ہے کہ فرمایا : (واسروہ بضاعۃ) تورات میں ہے کہ یہ کنواں بیابان میں تھا اور اس میں ایک بوند پانی نہ تھا۔ (پیدائش : ٢٢: ٣٧ و ٢٤) پس حضرت یوسف کنویں میں پڑے رہے، جب قافلہ کے آدمی نے ڈول لٹکایا تو سمجھے شاید کوئی آدمی مجھے نکالنے آیا ہے اور ڈول میں بیٹھ گئے، اس طرح ان کی رہائی کا خود بخود سامان ہوگیا۔ مصر کے ایک سردار کا حضرت یوسف کو خریدنا اور ان کے اخلاق و خصائل سے اس درجہ متاثر ہونا کہ اپنا سب کچھ ان کے سپرد کردینا۔ تورات میں ہے کہ جس مصری نے خریدا تھا اس کا نام فوطی فار تھھا اور وہ فرعون کا ایک امیر اور سردار فوج تھا۔ (پیدائش : ٣٦: ٣٧) قرآن نے بھی آگے چل کر اسے عزیز کہا ہے۔ یعنی ایسا آدمی جو ملک میں بڑی جگہ رکھتا تھا۔ عزیر مصر نے پہلے تو خوبصورت غلام دیکھ کر خرید لیا تھا، لیکن جب تھوڑے ہی دنوں کے اندر اس پر حضرت یوسف کے جوہر کھل گئے تو ان کی راست بازی، نیک عملی اور پاکی نفس سے اس درجہ متاثر ہوا کہ اپنے سارے گھر بار اور علاقہ کا مختار کل بنا دیا۔ تورات میں ہے کہ یوسف کے حسن انتظام سے فوطی فار کی آمدنی دوگنی ہوگئی تھی۔ (پیدائش : ٤: ٣٩) غور کرو قرآن نے یہ سارا معاملہ ایک چھوٹی سی آیت میں بیان کردیا یعنی آیت (٢١) میں۔ عزیز کا اپنی بیوی سے یہ کہنا کہ اسے عزت کے ساتھ گھر میں رکھو اسی طرف اشارہ ہے۔ یوسف
20 یوسف
21 حضرت یوسف کی مصری زندگی اور مصری کامرانیوں کی ابتدا۔ جب معاملہ یہاں تک پہنچ گیا تو گویا حجرت یوسف کی مصری کامرانیوں کی بنیاد پڑگئی اور وہ میدان پیدا ہوگیا جہاں ان کے جوہر کھلنے والے اور بتدریج تخت مصر تک پہنچانے والے تھے۔ پس فرمایا (کذلک مکنا لیوسف فی الارض) اس طرح ہم نے یوسف کے مصر میں قدم جما دیے کہ غلام ہو کر بکا تھا لیکن معزز و محترم ہو کر زندگی بسر کرنے لگا۔ نیز اس میں یہ مصلحت بھی تھی کہ اس پر تاویل الاحادیث کے علم کی راہ کھول دیں جس کی خبر ستاروں والے خوب میں دی جاچکی تھی۔ (تاویل الاحادیث کی تشریح آخری نوٹ میں ملے گی) پھر فرمایا : واللہ غالب علی امرہ۔ دیکھو خدا جو کچھ چاہتا ہے کس طرح کر کے رہتا ہے؟ بھائیوں نے یوسف کو نامراد کرنا چاہا تھا لیکن انہوں نے جو کچھ کیا وہی اس کی فتح و فیروزی کا ذریعہ بن گیا۔ یوسف
22 حضرت یوسف کا بلوغ کو پہنچنا اور دانش حکومت اور فضیلت علم کی تکمیل۔ اوپر تورات کی تصریح گزر چکی ہے کہ باپ سے علیحدگی کے وقت ان کی عمر سترہ برس کی تھی۔ پس آیت (٢٢) میں فرمایا عزیز کے یہاں کئی سال رہنے کے بعد جب وہ جوان ہوگئے تو حکمرانی کی دانش اور علم کی فضیلت مرتبہ کمال کو پہنچ گئی اور قانون الہی یہ ہے کہ نیک کرداروں کو اسی طرح ان کے حسن عمل کے نتائج ملا کرتے ہیں۔ عزیز کی بیوی کا حضرت یوسف پر فریفتہ ہونا اور ایک سخت ترین آزمائشی حالت میں ڈالنا پھر ناکام رہ کر جھوٹا الزام لگانا، مگر ان کا معصیت سے بچے رہنا اور حیرت انگیز طریقہ پر الزام کا بھی جھوٹا ثابت ہونا۔ یوسف
23 آیت (٢٣) سے اس واقعہ کا بیان شروع ہوتا ہے جو حضرت یوسف کی زندگی کا سب سے زیادہ عظیم واقعہ ہے۔ تشریح اس کی آخری نوٹ میں ملے گی۔ تورات میں ہے کہ یوسف خوبصورت اور نور پیکر تھے۔ (پیدائش : ٦: ٣٩) پس جب جوانی کو پہنچے تو اس کی بیوی ان پر فریفتہ ہوگئی اور جب دیکھا دوسری طرف سے جواب نہیں ملتا تو جیسا کہ قاعدہ ہے ملتفت کرنے کے لیے طرح طرح کی تدبیریں کام میں لائی، پھر جب اس پر بھی وہ نہ پھسلے تو ایک دن جوش فریفتگی میں وہ بات کر بیٹھی جو اس معاملہ کی انتہائی حد ہے۔ یعنی ہر طرح کے موانع جو کسی انسان کو ضبط نفس پر مجبور کرسکتے ہیں راہ سے دور کردیے، اور کھلے لفظوں میں طالب و مصر ہوئی۔ غور کرو، آیت کے ابتدائی جملہ نے ان ساری باتوں کی طرف کس طرح صاف صاف اشارات کردیے ہیں؟ جس شخص نے انکشاف حقیقت کا طریقہ بتلایا اسے شاہد کہا، کیونکہ اس نے کرتا دیکھ کر اصلیت پالی تھی اور حضرت یوسف کی پاکی کی شہادت دی تھی اور پھر ثبوت میں کہا تھا کہ تم خود بھی دیکھ لو، ان کے کرتے کا کیا حال ہے؟ یہ کون شخص تھا؟ خود اس عوت کے عزیزوں میں سے تھا، اس سے زیادہ قرآن نے تصریح نہیں کی، کیونکہ جو بات واضح کرنی تھی وہ صرف یہ تھی کہ حضرت یوسف کی پاکی و راست بازی نے گھر کے تمام افراد کو ان کا معتقد بنا دیا تھا حتی کہ خود عورت کے ایک رشتہ دار نے اپنی رشتہ داری کا لحاظ نہیں کیا، یوسف کی حمایت میں سچائی ظاہر کردی۔ شہر کی ہم درجہ عورتوں میں اس بات کا چرچا ہونا، عورتوں کا بناوٹ اور ریاکاری سے طعن تشنیع کرنا، عزیز کی بیوی کا سننا اور ضیافت کی محفل کا سامان کرنا اور حضرت یوسف کی عصمت و پاکی کا اس آزمائش میں بھی بے داغ نکلنا۔ یوسف
24 یوسف
25 یوسف
26 یوسف
27 یوسف
28 یوسف
29 یوسف
30 آیت (٣٠) میں جس واقعہ کا ذکر کیا ہے، یہ حضرت یوسف کے جمال سیرت کا ایک دوسرا مظاہرہ ہے اور پہلے سے بھی زیادہ عظیم ہے، ضروری تشریح آخری نوٹ میں ملے گی۔ ضمنا یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ اس زمانہ کی مصری معاشرت کس درجہ شائستہ ہوچکی تھی؟ ضیافت کی مجلسیں خاص طور پر آراستہ کی جاتی تھیں۔ نشست کے لیے مسندیں لگائی جاتی تھیں کھانے کے لیے ہر شخص کے سامنے چھری رکھی جاتی تھی، مسندوں کے اہتمام کا حال اس سے معلوم ہوگیا کہ (واعتدت لھن متکا) مصر کے آثار قدیمہ اور یونانی مورخوں کی شہادت سے جو حالات روشنی میں آئے ہیں ان سے بھی اس متمدن معاشرت کی تصدیق ہوتی ہے۔ خصوصا ان نقوش سے جن میں امراء کی مجلسوں کا مرقع دکھایا گیا ہے اور جو قرآن کے ان اشارات کی پوری تفسیر ہیں۔ یوسف
31 یوسف
32 یوسف
33 عزیز کی بیوی کا دھمکی دینا کہ اگر کہا نہ مانو گے تو قید میں ڈالے جاؤ گے اور حضرت یوسف کا معصیت پر قید کو ترجیح دینا اور قید خانہ میں بھی تبلیغ حق سے غافل نہ ہونا۔ عزیز پر حضرت یوسف کی سچائی ظاہر ہوئی گھی اس لیے ان کے لیے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی لیکن اس کی بیوی کا عشق ایسا نہ تھا جو اس ناکامی سے سرد پڑجاتا، وہ اور زیادہ بڑھ گیا، اور جب دیکھا کہ طلب و الحاح سے کسی طرح کام نہیں بنتا تو سختی پر اتر آئی اور یوسف سے کہا یا تو میرا کہا مانو نہیں تو قیدی ہونے کی ذلت و رسوائی گوارا کرو۔ حضرت یوسف نے کہا قید خانہ مجھے پسند پے لیکن راستی سے منحرف ہونا پسند نہیں۔ تورات میں ہے کہ جب یوسف قید خانے میں ڈالا گیا تو قید خانے کا داروغہ اس پر مہربان ہوگیا اور تمام قیدیوں کا انتظام اس کے سپرد کردیا وہ قید خانہ کا بالکل مختار ہوگیا تھا اور خداوند نے وہاں بھی اسے اس کے تمام کاموں میں اقبال مند کیا۔ (پیدائش : ٢٢: ٣٩) قرآن کی آیت (٣٦) میں بھی اس کے اشارات موجود ہیں۔ اول تو دو قیدیوں کا خواب کی تعبیر پوچھا ہی اس کی دلیل ہے کہ انہیں غیر معمولی علم و فضیلت کا آدمی سمجھا جاتا تھا، پھر ان دونوں کا یہ کہنا کہ ہم دیکھتے ہیں تم بڑے نیک آدمی ہو، صاف طور پر واضح کردیتا ہے کہ قید خانے میں ان کا تقدس عام طور پر تسلیم کیا جاتا تھاْ تورات میں ہے کہ ان قیدیوں میں ایک بادشاہ کے ساتھیوں کا سردار تھا، دوسرا روٹی پکانے والوں کا، بادشاہ ان پر ناراض ہوا اور قید خانے میں بھیج دیاْ یوسف ہر روز قیدیوں کا معائنہ کیا کرتا تھا، ایک دن انہیں دیکھا کہ بہت ادا بیٹھے ہیں، سبب پوچھا تو انہوں نے کہا، ہم نے آج رات کو ایسی ایسی باتیں خواب میں دیکھی ہیں۔ (پیدائش : ١: ٤٠) یوسف
34 یوسف
35 یوسف
36 حضرت یوسف کا دو قیدیوں کو ان کے خواب کی تعبیر بتلانا اور اسی کے مطابق ظہور میں آنا، پھر بادشاہ مصر کا ایک عجیب و غریب خواب دیکھنا اور مصر کے تمام دانشمندوں اور جادوگروں کا تعبیر سے عاجز ہونا اور بالآخر حضرت یوسف کو قید خانہ سے طلب کرنا۔ تورات میں ہے کہ یوسف نے ساقیوں کے سردار کو اس کے خواب کی تعبیر یہ بتلائی تھی کہ تین دن کے اندر فرعون تجھے تیرے منصب پر بحال کردے گاْ اور آگے کی طرح تو اس کے ہاتھ میں شراب کا جام دے گا۔ْ اور کہا تھا جب تو خوش حال ہو تو مجھے یاد رکھیو اور فرعون سے میرا کیجیو کہ لوگ عبرانیوں کے ملک سے مجھے چرا لائے اور یہاں بھی بغیر کسی قصور کے قید خانے میں ڈال دیا، اور نان پزوں کے سردار سے کہا تھا کہ تین دن کے اندر تیری موت کا فیصلہ ہوجائے گا اور تیری لاش درخت پر لٹکائی جائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ تیسرے دن فرعون کی سالگرہ کا دن تھا، اس دن سردار ساقی بحال کردیا گیا مگر نان پزوں کے سردار کو سزا ہوئی۔ لیکن سردار ساقی نے بحال ہو کر یوسف کو یاد نہ رکھا، وہ یہ معاملہ بھول گیاْ (پیدائش : ٢٠، ١٢، ٤٠) چنانچہ حضرت یوسف کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، وہ کئی سال تک قید خانہ میں پڑے رہے۔ْ اس کے بعد وہ معاملہ آیا جس کی طرف آیت (٤٣) میں اشارہ کیا ہے۔ یعنی بادشاہ مصر نے ایک عجیب طرح کا خواب دیکھا اور جب دربار کے دانشمندوں سے تعبیر دریافت کی تو کوئی تشفی بخش جواب نہ دے سکے۔ تورات میں ہے کہ بادشاہ نے مصر کے تمام حکیموں اور جادوگروں کو جمع کیا تھا۔ مگر کوئی اس کی تعبیر بتلا نہ سکا۔ (پیدائش : ٨: ٤١) یہاں قرآن نے درباریوں کا جو جواب نقل کیا ہے اس کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی تشفی بخش بات معلوم نہ کرسکے تو کوشش کی کہ بادشاہ کے دل سے اس خواب کی اہمیت کا خیال نکال دیں، پس انہوں نے کہا، یہ کوئی روحانی بات نہیں ہے ویسے ہی پریشان خیالی سے طرح طرح کی باتیں سوتے میں نظر آگئی ہیں، لیکن سردار کو ساقی کو خواب کی بات سن کر اپنے خواب کا معاملہ یاد آگیا اور ساتھ ہی یہ بات بھی یاد آگئی کہ حضرت یوسف نے کیا کہا تھا؟ تب اس نے اپنا واقعہ بادشاہ کے گوش گزار کیا، اور قید خانہ میں جاکر حضرت یوسف سے ملا۔ حضرت یوسف نے فرمایا سات گایوں سے مقصود زراعت کے سات برس ہیں، آئندہ سسات برس تک بہت اچھی فصلیں ہوں گی، یہ گویا سات موٹی گائیں ہوئی، اس کے بعد سات برس تک متواتر قحط رہے گا۔ یہ سات دبلی گائیں ہوئیں، انہوں نے موٹی گائیں نگل لیں یعنی فراوانی کو قحط نے نابود کردیا، سات ہری بالوں اور سات سوکھی بالوں میں بھی یہی بات واضح کی گئئی ہے۔ پھر فرمایا : اس آنے والی مصیبت سے ملک کو کیونکر بچایا جاسکتا ہے؟ اس کی تدبیر یہ ہے کہ بڑھتی کے ساتھ برستوں میں قحط کے لے اناج ذخیرہ کیا جائے اور اسے اس طرح محفوظ رکھا جائے کہ آنے والے سات برسوں میں ملک کے لیے کفایت کرے۔ یہ قرآن کے ایجاز بلاغت میں سے ہے کہ تعبیر اور تدبیر کو الگ الگ بیان نہیں کیا، ایک ساتھ ہی بیان کردیا، تاکہ تکرار بیان کی حاجت نہ رہے، جب سردار ساقی نے حضرت یوسف کا جواب بادشاہ کو سنایا تو تعبیر اس درجہ واضح اور چسپاں تھی کہ اس نے سنتے ہی اس کی تصدیق کی اور ان کی ملاقات کا مشتاق ہوگیا۔ چنانچہ حکم دیا، فورا انہیں قید خانے سے نکالا جائے اور دربار میں لایا جائے۔ یوسف
37 یوسف
38 یوسف
39 یوسف
40 یوسف
41 یوسف
42 یوسف
43 یوسف
44 یوسف
45 یوسف
46 یوسف
47 یوسف
48 یوسف
49 یوسف
50 حضرت یوف کا مژدہ رہائی سننا مگر قید خانہ چھوڑنے سے انکار کردینا اور بادشاہ سے کہلانا کہ پہلے میرے قضیہ کی تحقیقات کرلی جائے، بادشاہ کا تحقیق کرنا اور انن کی پاکی و راستی کا آشکارا ہوجانا اور عزیز کی بیوی کا اعلان کرنا کہ وہ سچا ہے، سارا قصور میرا تھا۔ تعبیر سن کر بادشاہ کے دل میں حضرت یوسف کا اس درجہ احترام پیدا ہوگیا کہ اس نے ایک خاص پیام بر ان کے لانے کے لیے بھیجا جسے آیت (٥٠) میں رسول سے تعبیر کیا ہے، لیکن حضرت یوسف نے تعمیل حکم سے انکار کردیا، انہوں نے کہا میں اس طرح رہا ہونا پسند نہیں کرتا۔ پہلے میرے معاملہ کی تحقیقات کرلی جائے کہ مجھے قید میں کیوں ڈالا گیا؟ اگر میں مجرم ہوں تو رہائی کا مستحق نہیں، اگر مجرم نہیں ہوں تو بلاشبہ مجھے رہا ہونا چاہیے۔ یوسف
51 یوسف
52 یوسف
53 اس سلسلہ میں انہوں نے عزیز کی بیوی کی جگہ ان عورتوں کا ذکر کیوں کیا جنہوں نے مکاری سے ہاتھ کاٹ لیے تھے ؟ اس لیے کہ : (ا) قید کے معاملہ میں ان عورتوں کا بھی ہاتھ تھا، انہوں نے اپنی ناکامیابی کی ذلت مٹانے کے لیے جھوٹے الزام تراش لیے ہوں گے، یہی وجہ ہے کہ قید کا معاملہ ان کے معاملہ کے بعد ظہور میں آیا۔ (ب) عزیز کی بیوی نے ان سب کے سامنے ان کی بے گناہی اور اپنی طلب و سعی کا اعتراف کیا تھا جیسا کہ آیت (٣٢) میں گزر چکا ہے، پس یہ سب اس بات کی گواہ تھیں کہ عزیز کی بیوی کے معاملہ میں ان کا دامن بے داغ ہے۔ (ج) ان سب کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا تھا خود اس سے بھی عزیز کی بیوی کا الزام بے اصل ثابت ہوتا تھا کیونکہ جس شخص کی پاکی طبع کا یہ حال ہو کہ ان تمام فتنہ گران شہر اور خوب رویان عہد کا متفقہ اظہار عشق بھی اسے مسخر نہ کرسکا، کیونکر باور کیا جاسکتا ہے کہ ایسا آدمی اپنے آقا کی بیوی پر ہاتھ ڈالے اور ایسی حالت میں ہاتھ ڈالے کہ وہ متنفر اور گریزاں ہو؟ اس معاملہ میں ایک اور دقیق نکتہ بھی ہے۔ آیت (٢٩) میں گزر چکا ہے کہ جب عزیز پر اپنی بیوی کا قصور ثابت ہوگیا تھا تو اس نے کہا تھا (یوسف اعرض عن ھذا) یوسف ! اس بات سے درگزر کر، یعنی جو ہوا سو ہوا۔ اب اس کا چرچا نہ کیجیو، کہ اس میں میری بدنامی ہے، بعد کو اگرچہ عزیز اپنی بات پر نہ رہا اور حضرت یوسف کو قید میں ڈال دیا، لیکن حضرت یوسف کا اخلاق ایسا نہ تھا کہ یہ بات بھول جاتے۔ عزیز نے انہیں غلام کی حیثیت سے خریدا تھا، اور پھر اپنے عزیزوں کی طرح عزت و آرام کے ساتھ رکھا تھا، وہ اس کا یہ احسان نہیں بھول سکتے تھے پس ان کی طبیعت نے گوارا نہیں کیا کہ اس موقع پر اس کی بیوی کا ذکر کر کے اس کے رسوائی کا باعث ہوں، صرف ہاتھ کاٹنے والی عورتوں کا ذکر کردیا کہ ان میں کوئی نہ کوئئی ضرور نکل آئے گی جو سچائی کے اظہار سے باز نہیں رہے گی۔ لیکن عزیز کی بیوی اب وہ عورت نہیں رہی تھی جو چند سال پہلے تھی، اب وہ ہوس کی خام کاریوں سے نکل کر عشق کی پختگی و کمال تک پہنچ چکی تھی۔ اب ممکن نہ تھا کہ اپنی رسوائی کے خیال سے اپنے محبوب کے سر الٹا الزام لگائے۔ جب عورتوں نے یوسف کی پاکی کا اقرار کیا۔ تو اس نے بھی خود بخود اعلان کردیا، سارا قصور میرا تھا، وہ بے جرم اور راست باز ہے۔ یوسف
54 حضرت یوسف کا بادشاہ سے ملنا، تمام مملکت کے انتظام کا ذمہ دار قرار پانا، پھر تعبیر کے مطابق قحط کے سالوں کا نمودار ہونا، بھائیوں کا غلہ کی طلب میں مصر آنا اور بنیامین کا حضرت یوسف کے پاس پہنچ جانا۔ (ا) جب تحقیقات کا نتیجہ آشکارا ہوگیا تو حضرت یوسف بادشاہ سے ملنے کے لیے تیار ہوگئے کیونکہ اب ان کی رہائی بادشاہ کی بخشش نہ رہی، ان کا حق ہوگئی۔ (ب) اس معاملہ نے بادشاہ کا اشتیاق اور زیادہ کردیا، اس نے خیال کیا جس شخص کی راست بازی، امانت داری اور وفائے عہد کا یہ حال ہے اس سے بڑھ کر مملکت کے کاموں کے لیے کون موزوں ہوسکتا ہے؟ پس کہا، فورا میرے پاس لاؤأ، میں اسے اپنے کاموں کے لیے خاص کرلوں گا، چنانچہ حضرت یوسف آئے اور پہلی ہی ملاقات میں اس درجہ مسخر ہوا کہ بول اٹھا، مجھے تم پر پورا بھروسہ ہے، تم میری نگاہ میں بڑا مقام رکھتے ہو۔ مجھے بتلاؤ اس آنے والی مصیبت سے جس کی خبر خواب میں دی گئی ہے مملکت کیونکر بچائی جاسکتی ہے؟ حضرت یوسف نے کہا، اس طرح کہ ملک کی آمدنی کے تمام وسائل میرے ماتحت کردیے جائیں، میں علم و بصیرت کے ساتھ اس کی حفاظت کرسکتا ہوں، چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیا، اور جب وہ دربار سے نکلے تو تمام مملکت مصر کے حکمران و مختار تھے۔ (ج) تورات میں ہے کہ فرعون نے یوسف کی باتیں سن کر درباریوں سے کہا، ہم ایسا آدمی کہاں پاسکتے ہیں جیسا یہ ہے اور جس میں خدا کی روح بول رہی ہے؟ پھر یوسف سے کہا، دیکھ، میں نے ساری زمینن مصر پر تجھے حکومت بخشی، فقط ایک تخت نشینی ہی میں تجھ سے اوپر رہوں گا۔ اور اس نے اپنی انگوٹھی اتار کر یوسف کو پہنا دی اور گلے میں سونے کا طوق ڈالا اور کتان کا لباس عطا کیا اور اپنی رتھ سواوری کو دی کہ شاہی رتوں میں دوسری رتھ تھی، پھر جب وہ نکلا تو اس کے آگے آگے نقیب پکارتے تھے، سب ادب سے رہو، اور فرعون نے حکم دیا یوسف کو صاحب مملکت کے لقب سے پکارا جائے۔ (پیدائش : ٣٧: ٤١) (د) حضرت یوسف کی مصری زندگی کے دو انقلاب انگیز نقطے تھے، ایک وہ جب غلام ہو کر بکے اور پھر عزیز کی نظروں میں ایسے معزز ہوئے کہ اس کے ع علاقہ کے مختار ہوگئے، دوسرا یہ کہ قید خانے سے نکلے اور نکلتے ہی وہاں پہنچ گئے کہ حکمرانی کی مسند اجلال پر جلوہ آرا نظر آئےْ پس جب پہلے انقلاب تک سرگزشت پہنچی تھی تو آیت (٢١) میں حکمت الہی کی کرشنہ سنجیوں پر توجہ دلائی تھی کہ (کذلک مکنا لیوسف فی الارض) اور اب کہ دوسرا انقلاب پیش آیا تو اسی طرح آیت (٥٦) میں فرمایا : (کذالک مکنا لیوسف فی الارض) وہاں چونکہ معاملہ مصڑ کی ابتدا ہوئی تھی اور ابھی حضرت یوسف کو حکمرانی کی دانش سیکھنی باقی تھی، اس لیے فرمایا تھا : (ولنعلمہ من تاویل الاحادیث واللہ غالب علی امرہ) یہاں چونکہ تکمیل کار کے بعد اس کا نتیجہ ظاہر ہوگیا تھا اس لیے فرمایا : (لا نضیع اجر المحسنین) یہ اس لیے ہوا کہ ہمارا قانون ہے، نیک عملی کا بیج کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ ضروری ہے کہ پھل لائے۔ (ہ) تورات میں ہے کہ جب یوسف بادشاہ کے پاس آیا تو اس کی عمر تیس برس کی تھی۔ (پیدائش : ٤٦: ٤١) (و) اس کے بعد جو حالات پیش آئے قرآن نے ان کی تصریح نہیں کی، کیونکہ خواب کی تعبیر میں ان کا بیان آچکا تھا اور چونکہ تعبیر سچی تھی اس لیے ظاہر تھا کہ ویسے ہی حالات پیش آئے ہوں گے اور یہ ایجاز بلاغت کی انتہا ہے۔ چنانچہ پہلے سات برس بڑھتی کے گزرے اور جو تدبیر تجویز کی تھی اسی کے مطابق انہوں نے غلہ کے ذخیرے جمع کرلی، پھر جب قحط کے سال شروع ہوئے تو وہی ذخیرے کام میں لائے گئے، اور حکومت کی جانب سے غلہ تقسیم ہونے لگا۔ تورات میں ہے کہ تمام روئے زمین پر کال تھی (پیدائش : ٥٦: ٤١) تمام روزئے زمین کا مطلب یہ ہوگا کہ مصرکے اطراف و جوانب میں بھی کال تھا اور وہاں کے باشندے بھی مصر آکر حضرت یوسف کی بخشش سے فائدہ اٹھاتے تھے، کیونکہ یقینا اس بات کا شہرہ دور دور تک پہنچ گیا ہوگا کہ مصر میں غلہ کے وافر ذخیرے موجود ہیں۔ (ز) اسی زمانے کی بات ہے کہ کنعان سے یوسف کے بھائی بھی غلہ مول لینے مصر آئے اور اس طرح اس سرگزشت کا آخر باب اپنی عجیب و غریب موعظتوں اور عبرتوں کے ساتھ ظہور میں آنا شروع ہوگیا۔ (آیت (٥٨) سے اسی کا بیان شروع ہوتا ہے۔ یوسف
55 یوسف
56 یوسف
57 یوسف
58 (ح) حضرت یوسف انہیں دیکھتے ہی پہچان گئے، لیک وہ کیونکر پہچان سکتے تھے، اول تو یوسف جب گھر سے جدا ہوئے سترہ برس کے لڑکے تھے اور اب چالیس کے لگ بھگ عمر تھی، پھر اس بات کا کسے گمان ہوسکتا تھا کہ چند سکوں کا بکا ہوا، غلام مصر کا حکمراں ہوگا؟ حضرت یوسف نے جب انہیں دیکھا تو باپ کی اور اپنے ماں جائے بھائی بنیامین کی صورتیں سامنے آگئیں، ان سے کھود کھود کر گھر کے حالات پوچھے اور چلتے وقت کہا۔ تمہارے یہاں قحط چھایا ہوا ہے، تم غلہ لینے پھر آؤ گے، لیکن یاد رکھو، اب کے میں غلہ جبھی دوں گا کہ اپنے بھائی بنیامین کو بھی ساتھ لاؤ۔ (ط) تورات میں ہے کہ یہ صورت اس طرح پیش آئی کہ یوسف نے انہیں جاسوس کہا تھا جب انہوں نے اپنی بریت میں اپنے گھرانے کے حالات سنائے تو ان کی بات پکڑلی اور کہا، تم کہتے ہو اور تمہارا ایک بھائی اور بھی ہے؟ اچھا اسے بھی اپنے ساتھ لاؤ تاکہ تمہارے بیان کی تصدیق ہوجائے اور اس وقت تک کے لیے ایک آدمی یہاں چھوڑ جاؤ۔ (پیدائش : ١٠: ٤٢) معلوم ہوتا ہے ان لوگوں پر جاسوسی کا شبہ ضرور کیا گیا تھا اگرچہ خود حضرت یوسف کی طرف سے نہ ہوا ہو، اسی لیے حضرت یعقوب جب مجبور ہوئے کہ بنیامین کو ان کے ساتھ بھیج دیں تو نصیحت کی کہ ایک دروازہ سے شہر میں داخل نہ ہونا کہ کنعانیوں کا ایک پورا جتھا دیکھ کر مصریوں کو شبہ ہوگا، الگ الگ دروازوں سے ایک ایک دو دو کر کے داخل ہونا۔ نیز فرمایا : (ان الحکم الا للہ) اصلی فرماں روائی تو اللہ کے لیے ہے، وہ نہ چاہے تو مصر کا حکمراں کیا کرسکتا ہے؟ پس جو کچھ بھروسہ ہے اسی پر ہے، البتہ اپنی طرف سے تدبیر و احتیاط ضروری کرنی چاہے، لیکن جو کچھ پیش آنے والا تھا وہ دوسرا ہی معاملہ تھا، جاسوسی کی بنا پر نہیں بلکہ ایک دوسری مصلحت کی بنا پر بنیامین کو روک لیا گیا اور جس بات کی احتیاط کی تھی وہی پیش آگئی، یہی وجہ ہے کہ آیت (٦٨) میں فرمایا۔ یہ احتیاط کچھ کام نہ دے سکی، ہاں حضرت یعقوبب نے ایک خطرہ محسوس کیا تھا سو اپنی جگہ اس کی پیش بندی کرلی، پھر ان کے علم و دانش مندی کا بھی اظہار کردیا، تاکہ واضح ہوجائے، انہوں نے جو احتیاط کی تھی وہ گو کام نہ دے سکی، لیکن یہ قصور علم کی وجہ سے نہیں ہوا، علم کا مقتضا تو یہی تھا کہ تدبیر و احتیاط میں کمی نہ کرتے اور پھر سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیتے جیسا کہ فی الحقیقت انہوں نے کیا۔ (ی) بہرحال بنیامین کو لے کر جب دوبارہ گئے تو حضرت یوسف نے اس پر اپنی حقیقت ظاہر کردی اور چونکہ جانتے تھے سوتیلے بھائی ضرور اس کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہوں گے اس لیے کہا : اب دن پھرنے والے ہیں اس لیے آزردہ خاطر نہ ہو۔ یوسف
59 یوسف
60 یوسف
61 یوسف
62 یوسف
63 یوسف
64 یوسف
65 یوسف
66 یوسف
67 یوسف
68 یوسف
69 حضرت یوسف کا چاہتا کہ بنیامین کو اپنے پاس رکھ لیں لیکن اس کی کوئی راہ نہ پانا اور رخصت کردینا لیکن حکتم الہی سے ایک عجیب و غریب حادثہ کا پیش آجانا اور بنیامین کا ان کے پاس رہ جانا۔ (ا) بنیامین حضرت یوسف کا حقیقی بھائی تھا، اتنی مدت کے بعد دیکھا تو کسی طرح دل نہیں مانتا تھا کہ اسے جدا ہونے دیں، لیکن مشکل یہ آپڑی کہ روک بھی نہیں سکتے تھے، اس بارے میں مصر کا قانون بہت سخت تھا، بلاوجہ کسی آدمی کو خصوصا اجنبی کو روک لینا جائز نہ تھا۔ اور ابھی اس کا وقت بھی نہیں آیا تھا کہ اپنی شخصیت بھائیوں پر ظاہر کریں۔ مجبور ہو کر رخصت کردیا اور اس غرض سے کہ اپنی ایک نشانی اسے دے دیں، اس کے سامان میں اپنا چاندی کا کٹورا رکھ دیا، چونکہ بھائیوں پر اس بات کا اظہار خلاف مصلحت تھا اس لیے یہ بات پوری پوشیدگی کے ساتھ عمل میں آئی۔ لیکن جب یہ لوگ روانہ ہوگئے تو حضرت یوسف کے محل کے کارندوں نے پیالہ ڈھونڈ اور جب نہ ملا تو ان لوگوں کے تعاقب میں نکلے، انہیں پیالہ کا حال معلوم نہ تھا اور چونکہ ان لوگوں کے سوا کوئی اور آدمی محل میں ٹھہرا نہیں تھا اس لیے سمجھے، ہو نہ ہو انہی اجنبیوں کی کارستانی ہے، پھر جب کارندوں کے سردار نے تلاشی لی (جس کی موجودگی کا پتہ آیت (٧٢) کے اس جملہ سے ملتا ہے کہ (انا بہ زعیم) تو بنیامین کی خرجی سے پیالہ نکل آیا، اب کوئی وجہ نہ تھی کہ اس کے چور ہونے میں انہیں شبہ ہوتا، وہ ان سب کو لے کر حضرت یوسف کے پاس پہنچے۔ جب حضرت یوسف نے یہ معاملہ سنا تو سمجھ گئے اس حادثہ میں خدا کا ہاتھ کام کر رہا ہے اور اس نے بنیامین کو روک لینے کا خودبخود سامان پیدا کردیا۔ وہ خاموش ہو رہے اور کہا تو صرف یہی کہا کہ ہم اور کسی کو روک نہیں سکتے اسی کو روکیں گے جس کے پاس ہماری چیز نکلی۔ یہ دراصل وہی بات تھی جو خود ان لوگوں کی زبان سے نکل چکی تھی۔ ان سے جب کارندوں نے پوچھا تھا اگر مال نکل آیا تو چور کی کیا سزا ہے؟ تو انہوں نے کہا تھا جس کے پاس سے نکلے وہ خود اپنی سزا ہو، یعنی بطور قیدی کے یا غلام کے اسے صاحب مال رکھ لے۔ یوسف
70 یوسف
71 یوسف
72 یوسف
73 یوسف
74 یوسف
75 یوسف
76 یہی وجہ ہے کہ آیت (٧٦) میں اس معاملہ کے ذکر کے بعد ہی فرمایا : (کذلک کدنا لیوسف) یوسف ملک کے قانون کے مطابق بنیماین کو نہیں روک سکتے تھے، اور اس نے روکنا چاہا بھی نہیں، اگرچہ دل اس کے لیے بے قرار تھا لیکن حکمت الہی نے ایک مخفی اور دقیق تدبیر پیدا کردی، جو انسان کے کیے نہیں ہوسکتی تھی، اور کید کے معنی مخفی اور دقیق تدبیر ہی کے ہیں۔ (ک) جھوٹوں کا قاعدہ ہے کوئی موقع کوئی بات ہو جھوٹ بولنے سے نہیں روکتے، اگر مدح کا موقع ہو تو جھوٹی مدح کردیں گے، مذمت کا موقع ہو تو کوئئی جھوٹا الزام لگا دیں گے، جب بنیماین کی خرجی میں سے پیالہ نکل آیا تو بھائیوں کا سوتیلے پن کا حسد جوش میں آگیا۔ جھٹ بول اٹھھے، اگر اس نے چوری کی تو کوئی عجیب بات نہیں۔ اس کا بھائی یوسف بھی چور تھا۔ پس یہ بغض و حسد کی ایک بات تھی اس کا مطلب یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ واقعی کوئی ایسی بات ہوئی بھی تھی، قرآن نے خصوصیت کے ساتھ ان کی یہ بات اس لیے نقل کی کہ واضح ہوجائے، بغض و حسد انسان کو کیسی کیسی غلط بیانیوں کا عادی بنا دیتا ہے۔ یوسف
77 یوسف
78 یوسف
79 یوسف
80 یوسف
81 یوسف
82 یوسف
83 یوسف
84 حضرت یعقوب کا بنیامین کی گم گشتگی میں بازیافتگی کی ایک نئی امید محسوس کرنا اور بیٹوں کو جستجوئے مقصود میں روانہ کرنا، بالآخر پردہ راز کا ہٹنا اور کرشمہ حقیقت کا سامنے آجانا۔ (ا) اب یہ سرگزشت عبرت اپنی آخری منزل سے قریب ہورہی ہے، جب یوسف کے بھائی بنیامین کے معاملہ میں مایوس ہوگئے تو آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کرنا چاہیے۔ تورات میں ہے کہ جب حضرت یعقوب راضی نہیں ہوتے تھے کہ بنیامین کو جدا کریں تو روبن نے خصوصیت کے ساتھ اس کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا۔ (پیدائش : ٣٨: ٤٢) اور روبن ہی ان سب میں بڑا تھا، پس اس نے کہا، یوسف کے معاملہ میں ہم سے جو بدعہدی ہوچکی ہے اس کا داغ اب تک باپ کے دل سے مٹا نہیں، اب بنیماین کے لیے ہم نے قول و قرار کیا تھا اس کا نتیجہ یہ نکلا، میری ہمت تو پڑتی نہیں کہ باپ کو جاکر منہ دکھاؤں تم جاؤ اور جو کچھ گزرا ہے بے کم و کاست سنا دو۔ چناندہ بھائیوں نے ایسا ہی کیا اور گھر آکر تمام سرگزشت باپ کو سنا دی۔ (ب) غور کرو، قرآن واقعہ کی جزئیات نقل کرتے ہوئے کس طرح دقیق سے دقیق پہلو فطرت انسانی کے ملحوظ رکھتا ہے؟ بنیامین ان سب کا بھائی تھا، ماں ایک نہ سہی مگر باپ تو ایک ہی تھا، لیکن انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہمارے بھائی نے چوری کی، بلکہ کہا تیرے لڑکے نے چوری کی، اس ایک بات میں کتنی باتیں چھپی ہوئی ہیں؟ اس میں طعن ہے، تحقیر ہے، ملامت ہے، اپنی بڑائی ہے، مغرورانہ بریت ہے اور پھر حد درجہ کی سنگ دلی کہ ایسے موقع پر بھی جبکہ بوڑھے باپ کے دل پر ایک نیا زخم لگنے والا تھا طعن تشنیع سے باز نہ رہ سکے اور کہا یہ ہے تیرا چہیتا بیٹا جس نے چوری کا ارتکاب کیا اور ہم سب کو مصیبت میں ڈالا۔ (ج) معلوم ہوتا ہے حضرت یعقوب نے بنیامین کی گم گشتگی میں یوسف کی بازگشت کی جھلک دیکھ لی تھی اور یہ ان کی فراست نبوت کا کرشمہ تھا، اسی لیے فرمایا (عسی اللہ ان یاتینی بھم جمیعا) اور یہ قرب و صال کے تصور کا نتیجہ تھا کہ درد فراق کی شدتیں بڑھ گئیں اور بے اختیار (یاسفی علی یوسف) کی صدا نکل گئی۔ اور اسی لیے آخر میں اشارہ کیا کہ (انی اعلم من اللہ ما لا تعلمون) یوسف
85 یوسف
86 یوسف
87 اس کے بعد حضرت یعقوب کا کہنا کہ مایوس ہو کر نہ بیٹھو رہو، جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کا سراغ لگاؤ، واضح کردیتا ہے کہ وحی الہی کا اشارہ ہوچکا تھا اور وہ سمجھ چکے تھے شمیم یوسف اسی رخ سے آنے والی ہے، ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ یوسف کا نام ان کی زبان سے نکلتا، کیونکہ جو معاملہ پیش آیا تھا بنیامین کا تھا۔ یوسف کا نہ تھا۔ چنانچہ آگے چل کر آیت (٩٦) سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے، جب حضرت یوسف کا کرتا اور پیام پہنچا تو انہوں نے کہا : (الم اقل لکم انی اعلم من اللہ ما لا تعلمون) ایک طرف تو یہ حالات پیش آرہے تھے، دوسری طرف قحط کی شدتیں بھی روز بروز بڑھتی جاتی تھیں، پس بھائیوں نے مصر آکر جو کچھ حضرت یوسف سے کہا وہ اپنے دوبارہ آنے کا بہانہ نہ تھا، بلکہ واقعی مصیبت کی سچی داستان تھی، جب حضرت یوسف نے یہ حالات سنے اور دیکھا کہ ان کے بھائی ان کے سامنے کھڑے خیرات کی بھیک مانگ رہے ہیں تو جوش رحم و محبت سے بے اختیار ہوگئے اور اپنے آپ کو ظاہر کردیا، جب انہوں نے کہا تمہیں یاد ہے تم نے یوسف کے ساتھ کیا کیا تھا؟ تو بھائی چونک اٹھے کہ عزیز مصر یوسف کا ذکر اس طرح کیوں کر رہا ہے؟ اور اب جو اس اکی صورت اور آواز پر غور کیا تو صاف نظر آگیا کہ یہ تو بالکل یوسف کی سی ہے۔ پس حیران ہو کر بول اٹھے : (انک لانت یوسف؟) قرآن نے اس موقعہ کا سارا مکالمہ صرف دو جملوں میں بیان کردیا ہے۔ ایک حضرت یوسف کا ہے، دوسرا بھائیوں کا ہے، لیکن غور کرو، موقعہ کی طبیعت حال کا کونسا پہلو ہے جو ان دو جملوں کے اسلوب بیان اور لب و لہجہ میں نہیں آگیا؟ بھائیوں نے یہ نہیں کہا کہ کیا تم یوسف ہو؟ بلکہ کہا انک اور لانت یوسف یعنی کیا فی الحقیقت تم ہی یوسف ہو؟ اس اسلوب استفہام نے وہ ساری حالتیں واضح کردیں جو ان کے ذہن و فکر پر اس وقت طاری ہوگئی تھیں اور اس طرح کے موقع میں قدرتی طور پر طاری ہوا کرتی ہیں۔ جب بھائیوں نے یوسف کی ہلاکت کی خبر باپ کو سنائی تھی تو خود آلود کرتا جاکر دکھایا تھا، اب وقت آیا کہ زندگی و اقبال کی خوشخبری سنائی جائے تو اس کے لیے بھی کرتے ہی نے نشانی کا کام دیا۔ وہی چیز جو کبھی فراق کا پیام لائی تھی اب وصال کی بشارت بن گئی۔ یوسف
88 یوسف
89 یوسف
90 یوسف
91 یوسف
92 حضرت یعقوب کے خاندان کا مصر پہنچنا، خواب کی تعبیر کا ظہور میں آنا اور سرگزشت کا خاتمہ۔ ادھر کاروان بشارت نے کوچ کیا اور ادھر کنعان میں حضرت یعقوب نے کہنا شروع کردیا : (انی لاجد ریح یوسف) مجھے یوسف کی مہک آرہی ہے۔ ولقد تھب لی الصبا من ارضھا۔۔۔۔ فیلذ مس ھبوبھا و یطیب اس سے معلوم ہوا کہ وحی الہی نے انہیں مطلع کردیا تھا کہ اب ایام فراق قریب الاختتام ہیں اور مژدہ وصال جلد پہنچنے والا ہے۔ جب بھائیوں نے حضرت یوسف کے آگے عجز و اعتراف کا سرجھکایا تو انہوں نے بلا تامل کہہ دیا (لا تثریب علیکم الیوم یغفر اللہ لکم وھو ارحم الرحمین) لیکن جب حضرت یعقوب سے دعائے مغفرت کے طلب گار ہوئے تو کہا : (سوف استغفر لکم ربی) میں عنقریب تمہارے لیے دعائے مغفرت کروں گا، یعنی طلب مغفرت کی دعا کو کسی آئندہ وقت پر ملتوی کردیا۔ یہ اختلاف حال غالبا اس بات کا نتیجہ ہے کہ بھائیوں نے جو ظلم کیا تھا وہ حضرت یوسف کی ذات خاص پر کیا تھا۔ اس لیے انہیں عفو و درگزر میں تامل نہیں ہوا۔ کیونکہ معاملہ خود ان کا معاملہ تھا، لیکن حضرت یعقوب کو تامل ہوا کیونکہ معاملہ صرف انہی کا نہیں بلکہ حضرت یوسف کا بھی تھا، پس فرمایا میں عنقریب ایسا کروں گا، یعنی عنقریب وہ وقت آنے والا ہے کہ سب یکجا ہوں گے اور عفو و بخش کا آخری فیصلہ ہوجائے گا، پھر میری دعائیں ہوں گی اور تم ہوگے۔ تورات میں ہے کہ جب یوسف نے اپنے بھائیوں پر اپنے آپ کو ظاہر کردیا تو وہ گھبرا گئے لیکن یوسف نے انہیں تسلی دی اور کہا اپنے دلوں میں پریشان نہ ہو، یہ خدا کی مصلحت تھی کہ اس نے مجھے تم لوگوں سے پہلے اس سرزمین میں بھیج دیا، دو برس سے زمین پر کال ہے اور ابھی پانچ برس اور کال رہے گا، پس خدا نے مجھے اس لیے مصر کا حاکم بنا دیا کہ تمہاری اولاد باقی رہے اور تمہیں غموں سے نجات ملے، تم اب فورا میرے باپ کے پاس جاؤ اور اسے مع اپنے پورے گھرانے کے میرے پاس لے آؤ، میں اسے جشن کی زمین میں رکھوں گا۔ (پیدائش : ٤: ٤٥) تورات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب فرعون کو معلوم ہوا، یوسف کے بھائی آئے ہیں تو وہ بہت خوش ہوا اور اس نے یوسف کو کہا اپنے بھائیوں سے کہہ، اپنے باپ اور اپنے گھرانے کو میرے پاس لے آئیں، میں انہیں مصر کی ساری اچھی چیزیں دوں گا، نیز حکم دیا کہ ان کے لانے کے لیے مصر کے رتھ اپنے ساتھ لے جائیں اور جو اسباب وہاں چھوٹ جائے اس کا افسوس نہ کریں، مصر کی ساری خوشیاں ان کے لیے ہوں گی۔ چنانچہ کنعان سے حضرت یعقوب کا گھرانہ روانہ ہوگیا، تورات میں ہے کہ وہ سب ٦٧ تھے، اور اگر یوسف اور اس کے لڑکوں کو جو مصر میں پیدا ہوئے تھے ملا لیا جائے تو خاندان کی پوری تعداد ستر ہوجاتی ہے۔ (پیدائش : ٢٧: ٤٦) جب قافلہ مصر کے قریب پہنچا تو حضرت یوسف نے ان کا استقبال کیا، اس زمانہ میں مصر کا دار الحکومت رعمسیس تھا اور اسے جشن کا شہر کہتے تھے، کیونکہ سالانہ جشن وہیں ہوا کرتا تھا، پس یہ لوگ دار الحکومت میں آئے جہاں حضرت یوسف نے دربار منعقد کیا اور اپنے والدین کے لیے بلند مسند بچھائی۔ اب وہ وقت آگیا تھا جس کا مرقع سالہا سال پہلے حجرت یوسف نے خواب میں دیکھا تھا، جونہی حضرت یوسف دربار میں نمودار ہوئے تمام درباریوں نے مصر کے دستور کے مطابق تعظیم دی اور تعظیم یہ تھی کہ سجدے میں گر پڑے، جب حضرت یوسف کے والدین اور بھائیوں نے یہ دیکھا تو وہ بھی سجدے میں جھک گئے اور درباریوں کا ساتھ دیا، تب حضرت یوسف کو اپنے خواب کی بات یاد آگئیْ وہ بے اختیار پکار اٹھے : (ھذا تاویل رءیای من قبل قد جعلھا ربی حقا) انہوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ سورج چاند اور گیارہ ستارے ان کے آگے جھکے ہوئے ہیں، تو سورج اور چاند ان کے والدین تھے اور گیارہ ستارے بھائی، آج یہ سب ان کی عظمت و جلال کے آگے جھک گئے اور وقت کی سب سے بڑی مملکت کے اوج و اقبال نے اپنا تخت ان کے لیے خالی کردیا۔ حضرت یعقوب اور ان کے بیٹوں کا یہ سجدہ تعظیم تھا، دنیا میں قدیم سے یہ دستور چلا آتا ہے کہ حکمرانوں اور پیشواؤں کے آگے سجدے کرتے ہیں اور اسے تعظیم و احترام کی خاص علامت سمجھتے ہیں، مصر، بابل، ایران، ہندوستان اور سلاطین بنی اسرائیل سب کے یہاں تعظیم و احترام کا یہی طریقہ رائج تھا اور ہندوستان میں اب تک رائج ہے، لیکن قرآن نے توحید کے اعتقاد و عمل کا جو اعلی معیار قائم کیا وہ اس طرح کے رسول و اشکال کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ اس نے سجدہ کی ہر قسم اور ہر صورت صرف اللہ ہی کی عبادت کے لیے مخصوص کردی اور کسی حال میں جائز نہ رکھا کہ کسی دوسری ہستی کے لیے سر نیاز جھکایا جائے، اس نے صرف سجدہ ہی کو نہیں روکا جو پیشانی کے زمین پر رکھنے کا نام ہے بلکہ یہ بھی جائز نہ رکھا کہ کوئی انسان کسی دوسری ہستی کے آگے اپنا جسم دہرا کرے۔ ہر جھکاؤ، ہر خمیدگی، ہر رکوع، جو کسی قامت پر طاری ہوسکتا ہے وہ کہتا ہے صرف اللہ ہی کے لیے ہے اور کوئی دوسری ہستی اس میں شریک نہیں ہوسکتی۔ پس یاد رہے کہ یہاں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ محض ایک گزشتہ واقعہ کی حکایت ہے، اسلامی احکام کی تشریح نہیں ہے۔ اس طرح یہ سرگزشت جس خواب کے ذکر سے شروع ہوئی تھی اسی کی تعبیر کے ظہور پر ختم ہوگئی۔ حضرت یوسف نے اس موقع پر جو کچھ فرمایا اور اس کے بعد جو دعا فرمائی وہ ان کی سیرت مطہرہ کا سب سے زیادہ اہم مقام ہے اور اس کی مختصر تشریح آگے آئے گی۔ یوسف
93 یوسف
94 یوسف
95 یوسف
96 یوسف
97 یوسف
98 یوسف
99 یوسف
100 یوسف
101 یوسف
102 سورت کا خاتمہ : سرگزشت ختم ہوگئی۔ اب آیت (١٠٢) سے خطاب پیغمبر اسلام کی جانب ہے اور دعوت حق کی بعض مہمات واضح کی ہیں : (ا) اس سرگزشت میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے یہ سرتا سر غیب کی باتیں ہیں، اگر وحی الہی کا فیضان نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس واقعہ کی ایک ایک جزئیات پر تم مطلع ہوتے اور دنیا کے آگے اس طرح پیش کردیتے، یہ ظاہر ہے کہ واقعہ تم سے دو ہزار سال پہلے کا ہے اور دنیا میں گزشتہ واقعات کے علم و سماعت کے جتنے وسائل ہوسکتے ہیں ان میں سے کوئی وسیلہ بھی تمہارے لیے موجود نہیں ن اور اگر موجود بھی ہو تو یہ قطعی ہے کہ اس باب میں کچھ مفید نہیں ہوسکتا۔ (ب) لیکن کیا منکرین حق تمہاری سچائی کی یہ دلیل واضح دیکھ کر ایمان لے آئیں گے؟ نہیں تم کتنا ہی چاہو، جو ماننے والے ہیں وہ کبھی ماننے والے نہیں۔ (ج) خدا کی کائنات تو سرتا سر حقیقت کی نشانی ہے، آسمان و زمین کا کون سا گوشہ ہے جو اس کی نشانیوں سے خالی ہے اور شب و روز انسان کو دعوت و فکر و عبرت نہیں دے رہا ہے؟ بایں ہمہ بندگان غفلت کا کیا حال ہے ؟ یہ ہے کہ ان پر سے گزر جاتے ہیں اور نگاہ اٹھا کر دیکھتے بھی نہیں۔ قرآن نے یہاں اور دوسرے مقامات میں آسمان و زمین کی نشانیوں پر توجہ دلائی ہے اور ان کے مطالعہ و تفکر کو معرفت حق کا سرچشمہ ٹھہرایا ہے اور یہی بات اس کے تمام استدلال کا مبدء و اساس ہے۔ چنانچہ پچھلی سورتوں کے نوٹوں میں اس طرف اشارات گزر چکے ہیں اور تفصیل کے لیے تفسیر فاتحہ کرنا چاہیے۔ یوسف
103 یوسف
104 یوسف
105 یوسف
106 آیت (١٠٦) کے پانچ چھ لفظوں میں وہ سب کچھ بیان کردیا جو باب توحید میں دعوت قرآنی کا ماحصل ہے، فرمایا اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ خدا کی ہستی پر یقین بھی رکھتے ہیں اور ساتھ ہی دوسروں کو اس کا شریک بھی ٹھہراتے ہیں، یعنی ان کا خدا کو ماننا ایسا ماننا نہیں ہے جو شرک سے انہیں باز رکھے۔ دنیا کی تمام قوموں کی دینی ذہنیت کی یہ کیسی مکمل تعبیر ہے جو چند لفظوں کے اندر بیان کردی گئی ہے؟ نزول قرآن کے وقت دنیا کی تمام خدا پرست جماعتوں کی خدا پرستی کا یہی حال تھا اور اب بھی دیکھ لو یہی حال ہے وہ خدا پر ایمان رکھتے تھے لیکن ان کا ایمان طرح طرح کے مشرکانہ عقائد و اعمال سے آلودہ ہوگیا تھا، وہ نہیں سمجھتے تھے کہ ایمان صحیح کے ساتھ شرک جمع نہیں ہوسکتا، عرب کے بت پرستوں کو ببھی اس سے انکار نہ تھا کہ آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں : (ولئن سالتھم من خلق السموات والارض وسخر الشمس والقمر لیقولن اللہ فانی یوفکون) لیکن یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ کیوں صرف اسی کی ایک ہستی ہر طرح کی بندگیوں کی مستحق سمجھ لی جائے؟ کیوں دوسری ہستیوں کی بھی بندگی نہ کی جائے؟ کیوں خدا اور بندے کے درمیان کوئی درمیان قوت وسیلہ تقرب و تزلف نہ ہو؟ قرآن کی دعوت توحید : لیکن قرآن کی دعوت توحید یہ تھی کہ اس طرح کی خدا پرستی سچی خدا پرستی نہیں ہے، خدا پرستی یہ ہے کہ نہ صڑف اسے مانا جائے بلکہ جو اس کے لیے مانا جائے اس میں کسی دوسری ہستی کو شریک نہ کیا جائے، اس نے کہا ہر طرح کی بندگی و نیاز کی مستحق صرف اسی کی ذات ہے۔ پس اگر تم نے عابدانہ عجز و نیاز کے ساتھ کسی دوسری ہستی کے سامنے سر جھکایا تو سچی خدا پرستی باقی نہ رہی، اس نے کہا، دعا، استعانت، رکوع و سجود، عجز و نیاز، اعتماد و توکل اور اسی طرح کے تمام عبادت گزارانہ اور نیاز مندانہ اعمال وہ اعمال ہیں جو خدا اور اس کے بندوں کا باہمی رشتہ قائم کرتے ہیں، پس اگر ان اعمال میں دوسروں کو بھی شریک کرلیا تو خدا کے رشتہ عبودیت کی یگانگت باقی نہ رہی، اور جب یگانگت باقی نہ رہی تو سچی خدا پرستی بھی نہ ہوئی۔ اسی طرح عظمتوں، کبریائیوں، کارسازیوں اور بے نیازیوں کا جو تصور تمہارے اندر خدا کا اعتقاد پیدا کرتا ہے وہ صرف خدا ہی کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔ اگر تم نے ویسا ہی اعتقاد کسی دوسری ہستی کے لیے پیدا کرلیا تو تم نے اسے خدا کا شریک بنا دیا اور جب شریک بنا دیا تو صرف اسی کو نہیں مانا دوسروں کو بھی مان لیا، حالانکہ اس کے ماننے کے معنی تو یہ تھے کہ صرف اسی کو مانا جائے۔ یوسف
107 یوسف
108 دعوت وحی علم و بصیرت : آیت (١٠٨) میں جو بات کہی گئی ہے کہ قرآن کے مہمات معارف میں سے ہے۔ فرمایا تم اعلان کردو میری راہ یہ ہے کہ علم و یقین کی بنا پر خدا پرستی کی دعوت دیتا ہوں اور کہتا ہوں میری راہ شرک کرنے والوں کی راہ نہیں ہے، برخلاف اس کے تمہارا حال یہ ہے کہ شرک کے داعی ہو اور بنیاد دعوت علم و یقین نہیں ہے، جہل و ظن ہے، اب فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے اور ایسے ہی فیسلے پچھلی قوموں کے لیے بھی ہوچکے ہیں۔ یہاں بصیرۃ کا لفظ فرمایا، بصیرۃ کے معنی علم، معرفت اور یقین کے ہیں اور اسی لیے دلیل و حجت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ پس قرآن کہتا ہے جس راہ کی طرف بلاتا ہوں اس کے لیے میرے سامنے علم و یقین ہے، پھر کیا تمہارے پاس بھی علم و یقین میں سے کچھ ہے؟ اگر نہیں ہے تو اتباع یقین وعرفان کا کرنا چاہیے یا جہل و کوری اور شک و گمان کا؟ اس مقام کی تشریح پچھلی سورتوں کی تشریحات میں بار بار گزر چکی ہے۔ یوسف
109 یوسف
110 یوسف
111 قرآن کے اوصاف اربعہ : آخری آیت میں فرمایا : قرآن انسان کی بناوٹ نہیں ہے بلکہ وحی الہی کی سچائی ہے، اور پھر اس کے چار وصف بیان کیے ہیں جو کبھی کذب و افتراء کے اوصاف نہیں ہوسکتے : اولا : وہ پچھلی صداقتوں کی تصدیق ہے، اگر بناوٹ ہوتی تو پچھلی کڑیوں کے ساتھ اس طرح نہ جڑ جاتی گویا ایک زنجیر کی مختلف قدرتی کڑیاں ہیں اور ہر کڑی دوسری کڑی کو سہارا دے رہی ہے۔ ثانیا : ارباب یقین کے لیے اس میں دین کی ساری باتوں کی تفصیل ہے۔ یعنی ہر بات اس طرح الگ الگ کر کے بیان کردی گئی ہے کہ شبہ و التباس کی کوئی گنجائش نہیں رہی ہے۔ ثالثا : ارباب یقین کے لیے سرتاسر رہنمائی ہے، یعنی انسان کو کامیابی و سعادت کی منزلوں تک پہنچاتی اور ہر طرح کی گمراہیوں سے بچاتی ہے۔ رابعا : ارباب یقین کے لیے رحمت ہے، یعنی ہر طرح کی شقاوتوں اور نامرادیوں سے نجات دلانے ولی ہے۔ سورۃ یوسف کے مواعظ و حکم : سورت کی ضروری تشریحات ختم ہوچکیں لیکن ضروری ہے کہ اب حضرت یوسف کی سرگزشت پر بحیثیت مجموعی ایک نظر ڈال لی جائے تاکہ اس کی موعظتیں اور عبرتیں پوری وضاحت کے ساتھ واضح ہوجائیں۔ اس سلسلہ میں حسب ذیل امور قابل غور ہیں : مصری تمدن کا عروج : حضرت مسیح سے تقریبا دو ہزار سال پہلے دنیا کے نقشہ کا یہ حال تھا کہ سرزمین مصر وقت کے تہذیب و تمدن کا مرکز بن چکی تھی لیکن اس کے اطراف و جوانب کی قومیں ابھی تمدن و حضارۃ سے آشنا نہیں ہوئی تھیں اور صحرا نشینی و بدویت کی زندگی بسر کر رہی تھیں۔ مصر سے ایک قریب تر علاوہ وہ تھا جو آگے چل کر فلسطین کے نام سے مشہور ہوا اور جسے خاکنائے سینا نے سرزمین افریقہ سے ملا دیا ہے۔ اس علاقہ کی تمام پچھلی آبادیاں مٹ چکی تھیں، اب محض ایک صحرائی علاقہ تھا جو مویشی کے لیے چراگاہوں کا کام دیتا تھا اور مختلف بدوی قبائل وہاں بود و باش رکھتے تھے، انہی قبائل میں ایک چھوٹا سا قبیلہ حضرت ابراہیم کے خاندان کا بھی تھا۔ حضرت ابراہیم کا قبیلہ اور عہد الہی : حضرت ابراہیم کا ظہور تمدن قدیم کے ایک دوسرے مرکز یعنی سرزمین دجلہ و فرات میں ہوا تھا، انہوں نے وہاں سے ہجرت کی اور کنعان میں مقیم ہوگئے، کنعان سے مقصود وہ علاقہ ہے جو بحر میت کی مغربی جانب واقع ہے اور دریائے یرون سے سیراب ہوتا ہے۔ تورات میں ہے کہ انہوں نے یہ علاقہ وحی الہی سے منتخب کیا تھا اور اللہ نے فرمایا تھا تو جس جگہ کھڑا ہے اس کے چاروں طرف دیکھ، یہ تمام ملک میں تجھے اور تیری نسل کو دوں گا اور تیری نسل کو میں خاک کے ذروں کی مانند بنا دوں گا، اگر کوئی خاک کے ذروں کو گن سکتا ہے تو تیری نسل بھی گن لی جائے گی۔ (پیدائش : ١٥: ١٣) قرآن نے بھی جابجا اس بشارت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جب حضرت ابراہیم یہاں مقیم ہوگئے تو وقتا فوقتا انہیں اور بشاریں بھی ملتی رہیں، ان تمام بشارتوں کا ماحصل یہ تھا کہ اللہ نے انہیں امتوں کا پیشوا، نسلوں کا مورث اور بادشاہوں کا جد بنایا ہے اور ان کی نسل کو اپنی برکتوں کے لیے چن لیا ہے جب تک ان کی نسل ظلم و ضلالت سے آلودہ نہ ہوگی وعدہ کی برکتوں کی مستحق رہے گی۔ یہ بشارتیں اس خاندان میں اللہ کا عہد سمجھی جاتی تھیں۔ یعنی اللہ کا وعدہ جو کبھی ٹل نہیں سکتا، خاندان کا ہر بزرگ اسے محفوظ رکھتا ہے اور پھر اپنے وارث کو اس کی وصیت کرتا، یہ عہد دو باتوں پر مشتمل تھا، ایک یہ کہ نسل ابراہیمی اللہ کے دین پر قائم رہے گی اور اس کی دعوت دے گی، دوسری یہ کہ اللہ اسے برکت دے گا اور اس کی دعوت کا میاب ہوگی، قرآن نے ان تمام بشارتوں کا جابجا ذکر کیا ہے، چنانچہ سورۃ بقرہ کی آیت (١٢٤) اور ہود کی آیت (٧١) میں دو بشارتیں گزر چکی ہیں۔ تورات سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ایک موقع پر حضرت ابراہیم کو ایک خاص واقعہ کی خبر دی گئی تھی یعنی یہ کہ تیری اولاد ایک ایسے ملک میں جائے گی جو ان کا ملک نہ ہوگا۔ وہاں لوگ اسے غلام بنا لیں گے اور وہ چار سو برس تک وہاں رہے گی۔ (پیدائش : ١٣: ١٥) حضرت ابراہیم سے حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق پیدا ہوئے، حضرت اسماعیل حجاز میں بس گئے اور حضرت اسحاق کنعان میں خاندان کے جانشین ہوئے، حضرت اسحاق سے یعقوب پیدا ہوئے، یہ پہلے حاران گئے تاکہ اپنی خالہ زاد بہن سے نکاح کریں، پھر بیس برس کے بعد کنعان واپس آئے اور وہیں مقیم ہوگئے، تورات میں ہے کہ اللہ نے نسل ابراہیم کا عہد ان سے تازہ کیا تھا اور قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے۔ فلسطین کے تمام علاقہ کی طرح حضرت یعقوب کے خاندان کی زندگی بھی بالکل بدویانہ زندگی تھی، مویشی چراتے تھے، اور ان کے گوشت، اون اور دودھ پر گزران کرتے تھے۔ مصریوں کا غرور تمدن : لیکن اس علاقہ سے تھوڑے فاصلہ پر مصر کی سرزمین تمدن و حضارۃ میں شہرہ آفاق ہورہی تھی اور ایک بڑی مملکت کی پائے گاہ تھی، اس کا دار الحکومت رعمسیس وقت کے علوم و صنائع کا مرکز تھا اور وہاں کے باشندوں میں شہریت و امارت کی خصوصیتیں نشو ونما پاچکی تھیں، جیسا کہ قاعہد ہے مصر کے لوگ اپنے آپ کو متمدن اور ترقی یافتہ سمجھتے اور اطراف و جوانب کے بدویوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے۔ خصوصا کنعانی اور عبرانی ان کی نگاہوں میں بڑے ہی زلیل تھے، وہ انہیں چرواہا کہہ کر پکارتے اور اس قابل نہ سمجھتے کہ اپنی مجلسوں میں جگہ دیں، یہ بات بھی ان میں عام تھی کہ کوئی مصرنی کنعانی کے ساتھ ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا نہ کھاتا۔ (پیدائش : ٣٣: ٤٣) اور مصر کے دیہاتی بھی انہیں اس درجہ برا سمجھتے کہ اپنی آبادیوں میں ان کا بسنا گوارا نہ کرتے۔ (پیدائش : ٣٤: ٤٦) قدرت الہی کی کرشمہ سازی : لیکن قدرت الہی سے ایک عجیب و غریب واقعہ آیا، کنعان کے اس بدوی قبیلہ کا ایک کم سن لڑکا بگیر اپنی خواہش اور مرضی کے مصر پہنچ گیا اور کچھ عرصہ کے بعد دنیا نے دیکھا کہ اس عظیم الشان مملکت کی حکومت کی باگ اسی کنعانی کے ہاتھوں میں ہے اور بادشاہ سے لے کر مصر کی ادنی رعایا تک اس کی عظمت و فضیلت کے آگے جھکے ہوئے ہیں، گویا وقت کی سب سے بڑی پرشوکت، سب سے بڑی متمدن، سب سے بڑی مغرور مملکت کے تخت حکمرانی پر اچانک کون پہنچ گیا؟ اسی بدوی قبیلہ کا ایک چرواہا جسے اس متمدن آبادی کا ہر فرد نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ اور پھر یہ عجیب و غریب معاملہ کن حالات میں ظہور پذیر ہوا؟ ایسے حالات میں جو اصل معاملہ سے بھی کہیں زیادہ عجیب و غریب تھے۔ اسے سوتیلے بھائیوں نے ہلاک کرنے کے لیے کنویں میں ڈال دیا، کنواں خشک تھا اور شاہرا سے الگ، اس لیے انہیں یقین تھا کہ کوئی انسان وہاں نہیں پہنچ سکے گا۔ لیکن اتفاق سے ایک قافلہ راہ بھول کر وہاں آنکلتا ہے اور پانی کے لیے ڈول ڈالتا ہے، لڑکا سمجھتا ہے میرے بھائیوں کو رحم آگیا، اب مجھے نکلانے کے لیے ڈول ڈال رہے ہیں، وہ اس میں بیٹھ جاتا ہے اور اس طرح اس کی رہائی کا سامان ہوجاتا ہے۔ کنعانی غلام : لیکن کیسی رہائی؟ ایسی رہائی جس میں ایک ہلاکت سے جو تھوڑی دیر کی تھی نجات مل گئی لیکن دوسری ہلاکت جو عمر بھر رہنے والی ہلاکت تھی نمودار ہوگئی، یعنی بھائیوں نے اسے اپنا بھاگا ہوا غلام ظاہر کرکے قافلہ والوں کے ہاتھ بیچ ڈالا، وہ اسے کسی دوسرے گاہک کے ہاتھ بیچنے کے لیے مصر لے آئے۔ اس طرح مصر میں اس کا داخلہ ایک غلام کا داخلہ تھا، اور غلام بھی ایسا جو کم سے کم قیمت میں خریدا گیا اور اب کم سے کم قیمت پر فروخت کیا جارہا ہے، نہ تو بیچنے والے اس کی قدر و قیمت بڑھانے کے خواہشمند تھے، نہ اب بازار مصر میں اس جنس کی گرانی کا کوئی سامان ہے۔ لے جایے دکھلانے اسے مصر کا بازار۔۔۔۔ خواہاں نہیں پر کوئی وہاں جنس گراں کا ! غلامی کا خواجگی و آقائی ہوجانا : بہرحال ایک خریدار کی نظر پڑجاتی ہے، یہ اس کے گھر میں ایک نو خرید غلام کی حیثیت سے ہوتا ہے، مگر اپنے حسن عمل سے خواجگی و آقائی کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔ یہ انقلاب حال بجائے خود عجیب و غریب تھا لیکن اس سے بھی عجیب تر معاملہ وہا تھا جب اس زرخرید غلام کے سامنے بیک وقت دو باتیں پیش کی گئیں کہ دونوں میں سے جسے چاہے اپنے لیے پسند کرلے : (ولئن لم یفعل ما امرہ لیسجنن ولیکونا من الصغرین) امتحان عصمت : نفسانی زندگی کی سب سے بڑی عشرت و کامرانی اور انسانی زندگی کی سبسے بڑی محرومی و نامرادی، پہلی میں نفس کی عشرت مگر حق کی معصیت تھی، دوسری میں نفس کی محرومی مگر حق کی اطاعت تھی، وہ پہلی سے بھاگتا ہے اور دوسری کے لیے آرزوئیں کرتا ہے، پہلی سے اس طرح بھاگتا ہے گویا اس سے بڑھ کر کوئی مصیبت نہیں، دوسری کے لیے اس طرح التجائیں کرتا ہے گویا اس سے بڑھ کر کوئی محبوب شے نہیں : (رب السجن احب الی مما یدعوننی الیہ) تمنت سلیمی ان نموت بحبھا۔۔۔ واھون شی عندنا ما تمنت۔ مصر میں کسی انسان کی ذلت و نامرادی کے جتنے سامان ہوسکتے تھے اب وہ سب جمع ہوگئے، اول تو عبرانی قبیلہ کا ایک فرد، پھر کیسا فرد؟ زر خرید غلام، کیسا غلام؟ جسے اس کے آقا نے ایک بڑے جرم کا مرتکب پایا اور سزا کا مستحق تصور کیا، کیسی سزا؟ قید خانے میں ڈالے جانے کی سزا جو ذلت و خواری اور تعذیب و عقوبت کی بڑی سے بڑی سزا سمجھی جاتی تھی۔ اب وہ مصریوں کی نگاہ میں قابل نفرت عبرانی بھی ہے، غلام بھی ہے، مجرم بھی ہے اور قیدی بھی۔ قید خانہ اور تخت مصر : لیکن پھر غور کرو دنیا کی کون سی بات اس سے زیادہ عجیب ہوسکتی ہے کہ اسی قیدی کے لیے اچانک قید خانے کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور کھولنے والا کون ہوتا ہے؟ خود مصر کا بادشاہ، اور پھر کیوں کھولتا ہے؟ اس لیے کہ ایک عبرانی قیدی کو قید خانہ سے نکالے اور مصر کے تخت فرماں روائی پر بٹھا دے، گویا مصر کے قید خانے اور مصر کے تخت حکومت کا درمیانی فاصلہ ایک قدم سے زیادہ نہ تھا، اس نے قید خانہ سے قدم اٹھایا اور اس نے تخت فرماں روائی پر قدم رکھ دیا۔ طے ی شود ایں رہ بہ درخشیدن برقے۔۔۔۔ ما بے خبراں منتظر شمع و چراغیم ! پھر اس عجیب وغریب انقلاب کا نتیجہ کیا نکلا؟ ایسا کہ ان ساری باتوں سے بھی زیادہ عجیب ہے اور جسے قرآن کی ایجاز بلاغت نے صرف ایک جملہ میں واضھ کردیا ہے : (وکذلک مکنا لیوسف فی الارض یتبوا منھا حیث یشاء) اللہ نے سرزمین مصر میں اس کے قدم اس طرح جما دیے کہ اس کے جس حصے کو چاہے اپنے کام میں لائے، چنانچہ اس نے اپنے تمام خاندان کو کنعان سے مصر بلا لیا اور عین دار الحکومت میں کہ جشن کی سرزمین تھی عزت و احترام کے ساتھ وہ بسائے گئے۔ اب وہی صحرا کے بدوی جو مصر میں قابل نفرت سمجھے جاتے تھے مصری دار الحکومت کے معزز باشندے ہوئے اور وہاں ان کی نسل میں اس درجہ برکت ہوئی کہ جب چار سو برس کے بعد مصر سے نکلے تو کئی لاکھ تک تعداد پہنچ چکی تھی۔ کئی لاک انسانوں کی یہ قوم جو مصر سے نکلی، کن لوگوں کی نسل سے بنی تھی؟ اسی لڑکے کی نسل سے جو غلام بن کر آیا تھا اور فرماں روا بن کر چمکا تھا، اور اس کے گیارہ بھائیوں کی نسل سے جنہوں نے اسے ہلاک کرنا چاہا تھا، لیکن اس نے انہیں زندگی اور زندگی کی کامرانیاں بخش دیں۔ اس طرح اس عہد کی کرشمہ سازیوں کا ظہور شروع ہوگیا جس کی بشارتیں حضرت ابراہیم کو دی گئی تھیں اور پھر حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب سے بھی ان کی تجدید ہوئی تھی۔ روحانی صداقت اور مادی ترقیات کا مقابلہ : سب سے پہلی بات جو اس سلسلہ میں سامنے آتی ہے وہ روحانی صداقت اور مادی ترقیات کا مقابلہ ہے۔ حضرت یعقوب کا گھرانا دین حق کی امانت رکھتا تھا، وحی الہی کی برکتوں سے فیض یاب تھا لیکن مادی ترقیوں اور دنیوی شوکتوں میں سے کوئی بات بھی اسے میسر نہ تھی حتی کہ شہری زندگی کی ابتدائی خصوصیات سے بھی آشنا نہیں ہوا تھا، اس کے تمام افراد صحرا میں رہتے تھے، مویشی چراتے تھے اور قدرتی زندگی کی سادگی پر قانع تھے۔ لیکن مصر کی حالت بالکل اس سے مختلف تھی، وہ دین حق کے علم و عمل اور وحی الہی کے فیضان سے محروم تھا، لیکن وقت کی تمام مادی ترقیوں کا سرمایہ دار تھا، اس کے دار الحکومت کے لوگ لکھنے پڑھنے میں ماہر تھے، اس کے امراء و اشراف حکمرانی و دانشوری میں ترقی یافتہ تھے۔ اس کے مندروں کے کاہن حقائق اشیا کے بھید جاننے والے تھے اور اس کے حکیم علوم و صنائع کے عجائب و غراب سکھلانے والے تھے۔ آج اثریات مصر نے ایک مدون علم کی حیثیت اختیار کرلی ہے، اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عہد کا فرعون غالبا وہ شخص تھا جسے آثار مصر میں آبوفی کے نام سے پکارا گیا ہے، اس کے عہد میں مصری تمدن پوری طرح ترقی کرچکا تھا۔ لیکن جب عجیب و غریب اتفاقات نے اس صحرائی گھرانے کے ایک فرد کو مصر پہنچا دیا اور ایسی حالتوں میں پہنچایا جو کسی حال میں بھی عزت و کامرانی کا ذریعہ نہیں ہوسکتی تھیں تو پھر کیا نتیجہ نکلا؟ یہ نکلا کہ دونوں قوتوں میں مقابلہ ہوا اور بالآخر دین حق کے علم و عمل اور وحی الہی کے فیضان نے وقت کی تمام مادی فضیلتوں کو مسخر کرلیا۔ حضرت یوسف کے پاس دین حق کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ مصریوں کے پاس دین حق کے سوا اور سب کچھ تھا۔ یہ صرف دین حق کی فضیلت سے آراستہ تھے۔ وہ ہر طرح کی مدی فضیلتوں میں تفوق رکھتے تھے۔ بایں ہمہ ہر مقابلہ میں فتح مندی حضرت یوسف ہی کی سیرت و عمل کو ہوئی اور قدم قدم پر مادی فضیلتوں کو اپنے تفوق سے دست بردار ہونا پڑا۔ حتی کہ جب مملکت کی سلامتی خطرہ میں پڑگئی تو اس کی نجات کے لیے مادی فضائل کی کوئی پیداوار بھی کام نہ دے سکی۔ اسی عبرانی نوجوان کے آگے مصر کو جھکنا پڑا کہ اس کی سلامتی کی راہ نکال دے۔ جب حضرت یوسف نے بادشاہ مصر سے کہا تھا : (اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم) توفی الحقیقت یہ دین حق اور فیضان وحی کا ایک اعلان تھا جو وقت کے سب سے بڑے مرکز تمدن کے مقابلہ میں کیا گیا تھا، یعنی آج مملکت کی نجات کے لیے ایسے شخص کی ضرورت ہے جو علم و کاروانی کے ساتھ حفاظت کرنے والا ہو۔ لیکن ایسا شخص پیش کرنے سے مصر کی پوری مدنیت عاجز ہوگئی۔ اس کا عظیم الشان دار الحکومت، جو کارفرماؤں، دانشمندوں اور کاہنوں سے بھرا ہوا ہے ایک فرد بھی پیش نہ کرسکا جو یہ بوجھ اٹھانے کا اہل ہو، لیکن میں تیار ہوں کہ یہ بوجھ اٹھا لوں۔ میں دنیا کی سب سے بڑی مملکت کو اس کی ہلاکت کی گھڑیوں میں بچا لوں گا۔ کیونکہ میں حفاظت کرنے والا، علم رکھنے والا ہوں۔ متمدن مصر نے کنعان کے صحرائی کا یہ اعلان سنا اور اس کے آگے سرنیاز خم کردیا، یہی معنی ہیں اس آیت کے کہ (وکذلک مکنا لیوسف فی الارض یتبوا منھا حیث نشاء نصیب برحمتنا من نشاء ولا نضیع اجر المحسنین۔ والاجر الاخرۃ خیر للذین امنوا وکانوا یتقون) قوانین عمل و نتائج عمل : لیکن یہ معاملہ کتنا ہی عجیب معلوم ہوتا ہے اور کیسی ہی عجیب حالتوں میں پیش آیا، قرآن کہتا ہے کہ قوانین الہی کے قدرتی نتائج کا ظہور تھا اور حقیقت شناسوں کے لیے اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں، یہ سب کچھ ٹھیک اسی طرح ہوا جس طرح آگ کے جلانے سے گرمی نکلے یا پانی پینے سے پیاس بجھ جائے۔ کیونکہ اللہ نے اشیا کی طرح اعمال کے بھی خواص و نتائج ٹھہرا دیے ہیں اور جب کبھی ایک خاص طرح کا عمل وجود میں آتا ہے ایک خاص طرح کا نتیجہ بھی ضرور ظہور میں آجاتا ہے۔ یہاں ہر گوشے میں علت کے ساتھ معلول کا دامن باندھ دیا گیا ہے۔ بھائیوں نے جو کچھ یوسف کے ساتھ کیا وہ اسکے سوا کیا تھا کہ ایک خاص طرح کا انسانی عمل تھا، اور جب خاص طرح کا عمل تھا تو خاص طرح کا نتیجہ نکلنا ہی تھا اور نتیجہ نکلا۔ حضرت یوسف زندگی کی مختلف آزمائشوں میں جو کچھ کرتے رہے اس کی حقیقت بھی اس کے سوا کیا تھی کہ ایک خاص سیرت کے خاص اعمال تھے، اور جب اعمال تھے تو ضروری تھا کہ جیسے کچھ اعمال ہوں ویسا ہی نتیجہ بھی نکلے اور ویسا ہی نتیجہ نکلتا رہا۔ اسی طرح سرگزشت کی تمام سیرتوں پر نظر ڈالو۔ ہر سیرت ایک خاص طرح کے عمل میں لگی ہوئی ہے اور ہر عمل ایک خاص طرح کا نتیجہ تیار کر رہا ہے۔ سب نے اپنے اپنے بیج بوئے تھے اس لیے سب کو اپنے اپنے پھل ملنے تھے اور سب نے اپنے اپنے پھل پا لیے، پس جہاں تک اعمال و نتائج کا تعلق ہے یہ تاریخ انسانیت کا کوئی مستثنی حادثہ نہ تھا بلکہ سنت الہی کی وہی کارفرمائی تھی جو ہمیشہ سے کارفرما ہے اور ہمیشہ کار فرما رہے گی جب کبھی ایسے احوال و ظروف میں ایسے اعمال ظہور پذیر ہوں گے، ضروری ہے کہ اسی طرح کے نتائج بھی ظہور میں آئیں : (سنۃ اللہ فی الذین خلوا من قبل ولن تجد لسنۃ اللہ تبدیلا) بلاشبہ حوادث کی نوعیت عجیب تھی اور نتائج بھی عجیب طرح کے نکلے لیکن سنت الہی کی کرشمہ سازیوں کا تو ہیشہ ایسا حال رہتا ہے وہ اپنی کس بات میں عجیب نہیں؟ وہ تو سرتاسر معجزہ ہے۔ تم جب چاہو اپنے حسن عمل کی قوت سے ہر طرح کے کرشے اور اچنبھے پیدا کردے سکتے ہو لیکن مشکل یہ ہے کہ تم چاہتے ہی نہیں اور اسی لیے قانون عمل کے کرشمے تم پر کھلتے بھی نہیں، دنیا میں یوسف کی سرگزشت ایک ہی مرتبہ گزری لیکن یوسف کے حسن عمل کی سرگزشت ایک ہی مرتبہ کے لیے نہ تھی۔ بلاشبہ مصر کا بازار اب باقی نہیں رہا، لیکن دنیا کا بازار کس نے بند کیا ہے؟ آج بھی جس کا جی چاہے شان یوسفیت پیدا کرکے دیکھ لے، دنیا کے تخت عظمت و اجلال اس کا استقبال کرتے ہیں یا نہیں۔ ہر کس نہ شناسدہ راز ست وگرنہ۔۔۔ ایں ہا ہمہ راز ست کہ معلوم عوام است ! یہی وجہ ہے کہ سورت میں جابجا اس حقیقت کی طرف اشارات کیے گئے کہ ارباب دانش کے لیے اس میں عبرتیں ہیں، موعظتیں ہیں، نشانیاں ہیں، سرگزشت کی ابتدا ہی اس اعلان سے ہوتی ہے کہ (لقد کان فی یوسف واخوتہ ایت للسائلین) پھر خاتمہ بھی اسی پر ہوتا ہے کہ (لقدن کان فی قصصھم عبرۃ لاولی الالباب) نیز جابجا اہم واقعات کے ظہور کے بعد وضاحت کردی ہے کہ (کذلک نجز ی المحسنین) (انہ لا یفلح الظالمون) (انہ من یتق ویصبر فان اللہ لا یضیع اجر المحسنین) یعنی یہ سب کچھ جو ظہور میں آیا، عمل کا نتیجہ ہے، بدلہ ہے، مکافات ہے۔ اور جب نتیجہ ہے تو ضروری ہے کہ ہمیشہ ظہور میں آئے۔ جب بدلہ ہے تو ضروری ہے کہ ہمیشہ کام کرنے والوں کو ملے۔ حسد و بغض کا نتیجہ وہی ہے جو بھائیوں نے پایا۔ راست بازی اور نیک عملی کا نتیجہ وہی ہے جو حضرت یوسف کو ملا۔ صبر جمیل کبھی اس نتجہ سے محروم رہ سکتا جو حضرت یعقوب کے حصے میں آیا تھا۔ معصیت کے بیج سے ہمیشہ وہی پھل پیدا ہوگا جو امراۃ العزیز کو نصیب ہوا تھا۔ جھوٹ کتنا ہی سوچ سمجھ کر بنایا گیا ہو سچ نہیں ہوسکتا۔ سچ کتنے ہی نافوافق حالات میں اپنے کو پائے لیکن جھوٹ نہیں ہوسکتا۔ علم و فضیلت ہر حال میں ایک حکمراں قوت ہے۔ سب کو اس کے آگے جھکنا پڑے گا۔ حسن عمل ہر حال میں ایک فتح مند حقیقت ہے۔ سب کو اس کا لوہا ماننا پڑے گا۔ سرگزشت کی شخصیتیں اور ان کی سیرت : سرگزشت کی اصلی عبرت اس کی خاص خاص شخصیتیں ہیں اور ضروری ہے انہیں اچھی طرح پہچان لیا جائے : سب سے پہلے حضرت یعقوب کی شخصیت نمایاں ہوتی ہے اس میں درد و غم کی انتہا ہے مگر ساتھ ہی صبر اور یقین کی روح بھی چھائی ہوئی ہے اور اس طرح چھائی ہوئی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ درد و غم کے طوفان اٹھ رہے ہیں، لیکن صبر و یقین سے ٹکرا کر رہ جاتے ہیں، اس پر غالب نہیں آسکتے، اور یہی صورت حال اس سیرت مقدسہ کا اسوہ حسنہ ہے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) : قرآن کی معجزانہ بلاغت یہ ہے کہ وہ داستان سرائی نہیں کرتا، ایک دو لفظوں کے اندر سب کچھ کہہ دیا کرتا ہے، پس غور کرو، صورت حال کے یہ تینوں عنصر کس طرح اپنی انتہائی اور کامل صورتوں میں نمایاں ہوئے ہیں؟ درد و غم کی شدت جب نمایاں ہوتی ہے تو معلوم ہے۔ آتش فراق کے شعلوں کا دھواں آنکھوں سے بے اختیار بہہ رہا ہے اور جسم کا ایک ایک ریشہ اس طرح گھل گیا ہے گویا سرتا پاجاں گدازی و ہلاکت کی تصویر ہے : (وتولی عنھم وقال یاسفی علی یوسف وابیضت عینہ من الحزن فھو کظیم) اور یہ حالت ایک دن کی حالت نہ تھی بلکہ اس مدت فراق کی ہر صبح اور ہر شام اسی عالم میں بسر ہوئی تھی : (قالو اتا اللہ تفتوا تذکر یوسف حتی تکون حرضا او تکون من الھالکین) یذکرنی طلوع الشمس صخرا۔۔۔ وازکرہ بکل غروب شمس ! لیکن پھر جب یقین کی روشنی چمکتی ہے تو اس کی نمود کا یہ حال ہے کہ دنیا کے سارے سہارے جواب دے چکے ہیں، امید کے سارے رشتے یک قلم ٹوٹ چکے ہیں، ہر طرف سے صدا اٹھ رہی ہے کہ یوسف کی اب کوئی امید نہیں، لیکن ان کے دل کے ایک ایک ریشے کی صدا یہ ہے کہ (انما اشکوا بثی وحزنی الی اللہ واعلم من اللہ ما لا تعلمون) اور (اذھبوا فتحسسوا من یوسف واخیہ ولا تائیسوا من روح اللہ انہ لا یائیس من روح اللہ) حتی کہ ہر زبان جھٹلا رہی ہے اور ہر نگاہ دیوانہ سمجھ رہے، لیکن ان کی زبان سے بے اختیار نکل رہا ہے) (انی لاجد ریح یوسف) مجھے یوسف کی مہک آرہی ہے۔ تفاوت است میان شنیدن من و تو۔۔۔ تو بستن در و من فتح باب می شنوم ! پھر دیکھو۔ جب صبر کا مقام نمایاں ہوتا ہے تو اس کی مضبوطی کیسی غیر متزلزل، کیسی اٹل ہے؟ جب یوسف کے فراق کا داغ لگا تو اس وقت بھی زبان سے یہی نکلا کہ (بلا سولت لکم انفسکم امرا فصبر جمیل واللہ المستعان علی ما تصفون) اور پھر جب بنیامین کی جدائی کی خبر سنی تو اس وقت بھی اس کے سوا کچھ زبان سے نہ نکلا کہ (فصبر جمیل عسی اللہ ان یاتینی بھم جمیعا انہ ھو العلیم الحکیم) پھر باوجودیکہ بے خبر نہ تھے۔ علم و یقین کے ساتھ سمجھ چکے تھے کہ یوسف کے خلاف سازش کی گئی ہے لیکن پوری سرگزشت میں کہیں کوئی اشارہ اس کا نہیں ملتا کہ دو باتوں سے زیادہ اس باب میں کچھ زبان سے نکلا ہو۔ ایک تو یہ کہ (بل سولت لکم انفسکم امرا) اور دوسرا وہ جو اس وقت زبان سے نکل گیا، جب بھائیوں نے بنیامین کو ساتھ لے جانا چاہا۔ (ھل امنکم علیہ الا کما امنتکم علی اخیہ من قبل) اور ان دونوں جملوں میں بھی نہ تو ملامت کی سختی ہے نہ شکایت کی تیزی۔ بلکہ صورت حال کی ایسی تعبیر ہے جس سے زیادہ نرم اور دھیمی تعبیر ہو ہی نہیں سکتی۔ پہلے جملہ میں صرف اس کا اظہار تھا کہ جو بات کہہ رہے ہو اصلیت اس کے خلاف ہے، لیکن خیر، صبر کے سوا چارہ نہیں، دوسرے میں صرف پہلے واقعہ کا نتیجہ یاد دلایا ہے، کس طرح کا الزام نہیں دیا ہے، یعنی مجھے بھروسہ کرنے کے لیے کہتے ہو لیکن اگر بھروسہ کروں تو کیا اسی طرح کروں جس طرح پہلے کرچکا ہوں اور اس کا جو نتیجہ نکل چکا ہے تمہیں معلوم ہے؟ اتنا ہی نہیں بلکہ اگر غور کیا جائے تو پہلے جملہ کا اسلوب ایسا واقع ہوا ہے کہ سرزنش سے کہیں زیادہ رحم و تاسف پر مبنی ہے اور مخاطبوں کے لیے ایک طرح کی معذرت کا پہلو پیدا کررہا ہے۔ یعنی یہ نہیں فرمایا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو، یا تم نے یوسف کے خلاف سازش کی ہے، بلکہ کہا : تمہاری جی نے تمہارے لیے ایک بات بنا دی ہے اور اسے تمہارے خیال میں خوشنما دکھا دیا ہے، کیونکہ تسویل کے معنی یہ ہیں کہ کسی بات کا جما دینا، خوشنما بنا کر دکھا دینا اور اس کے لیے طمع و خواہش کا پیدا ہوجانا۔ پس گویا یہ ایک ہمدرد دل کا تاسف تھا کہ افسوس تم نفس کے دام میں پھنس گئے اور اس کے دھوکے سے بچ نہ سکے۔ پھر ساتھ ہی ان کے اس طرز عمل کے لیے معذرت کے پہلو کا بھی اعتراف ہے کہ طمع نفس میں آکر ایسا کر بیٹھے ہو اور انسان نفس کے ہاتھوں بے بس ہوجاتا ہے۔ ایک ایسے صدمہ جانکاہ میں جیسا کہ حضرت یعقوب کو ناگہاں پہنچا تھا، اور کسی طرح کی بات کا زبان پر نہ آنا، صرف اسی جملہ کا نکلنا صبر کا کیسا عظیم الشان مظاہرہ ہے ؟ یہ ممکن ہے کہ صدمہ کے فوری تاثر کے بعد ایک ضابط اور متحمل آدمی اپنے دل و زبان کی نگرانی کرلے لیکن عین اس وقت جب صدمہ کی پہلی چوٹ لگ رہی ہو اور دل کی بے تابیاں بے اختیار زبان کی طرف اٹھنے لگی ہوں، ممکن نہیں کہ دل د زبان کی نگہداشت کی جاسکے۔ ضابط سے ضابط دل بھی اس عالم میں چیخ اٹھتا ہے۔ مضبوط سے مضبوط طبعیتیں بھی بے اختیار متزلزل ہوجاتی ہیں۔ لیکن حضرت یعقوب کا مقام صبر ایسا نہ تھا جو کسی حال میں بھی متزلزل ہوسکے۔ اس عالم میں بھی زبان کھلتی ہے تو ایسا سنبھلا ہوا جملہ نکلتا ہے گویا بے حالی و جانکا ہی کا کوئی معاملہ پیش ہی نہیں آیا ہے۔ یہی وہ صبر ہے جسے صبر جمیل فرمایا۔ بظاہر خیال ہوتا ہے کہ یہ تینوں باتیں بیک وقت جمع نہیں ہوسکتیں۔ اگر صبر کامل ہے تو پھر درد و غم کی شدتیں کیوں ہوں؟ اور اگر یقین موجود تھا تو درد و غم کو محو ہوجانا چاہیے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مفسرین نے اس مقام میں مشکلات محسوس کیں اور طرح طرح کی توجیہوں کی جستجو میں نکلے۔ لیکن اگر وقت نظر سے کام لیا جائے تو معاملہ بالکل واضح ہے اور کسی ایسی توجیہ کی ضرورت نہیں جو بہ تکلف پیدا کی جائے۔ یہ ظاہر ہے کہ حضرت یعقوب کا مقام، صبر کا مقام تھا اور صبر جب ہی صبر ہوسکتا ہے جب بے صبری کے اسباب موجود ہوں اور زیادہ سے زیادہ موجود ہوں۔ اگر درد و غم کی ٹیس نہیں اٹھ رہی ہے تو تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ جھیلنے اور اف نہ کرنے کی حالت موجود ہے؟ جھیلنا تو اسی کا جھیلنا ہوگا جو برابر آگ کی جلن محسوس کر رہا ہو، لیکن پھر بھی زبان سے اف نہ نکالے۔ اگر حضرت یعقوب کا درد و غم اس طرح محو ہوجاتا کہ اس کی جلن باقی ہی نہ رہتی یا رہتی تو بہت دبی دبائی رہتی تو یہ مقام صبر کا مقام نہ ہوتا۔ موجبات غم سے متاثر نہ ہونے کا مقام ہوتا۔ اور ایسی ھالت یا تو فرشتوں کی سیی مخلوق ہوسکتی ہے یا ایسے انسان کی جس کے احساسات معطل ہوچکے ہیں۔ لیکن حضرت یعقوب انسان تھے، فرشتہ نہ تھے اور اسی حیثیت سے قرآن نے اس کا اسوہ حسنہ پیش کیا ہے، ان کی روح صبر و یقین سے معمور تھی، وہ یوسف کے خواب میں اس کا مستقبل دیکھ چکے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ کسی نہ کسی دن یہ جدائی ختم ہونے والی ہے۔ تاہم دل کے ہاتھوں مجبور تھے، جس کی جدائی ایک گھڑی کے لیے شاق تھی وہ برسوں کے لیے ان سے جدا ہوگیا تھا۔ یہ جاننے پر بھی کہ وہ زندہ و سلامت موجود ہے، اس کے فراق کا زخم بھر نہیں سکتا تھا۔ بلکہ اس بات کے تصور نے کہ وہ زندہ موجود ہے مگر مجھ سے دور ہے، درد فراق کی چبھن اور زیادہ کرتی تھی : بلائے ہجر وارد انتظار پیر کنعانی۔۔۔ کسے داند کہ چوں یوسف عزیزے در سفر دارد ! فی الحقیقت اس صورت حال کی ساری عظمت اسی میں ہے کہ یہ ایک ماورائے انسانیت سیرت نمودار نہیں کرتی بلکہ ایسی حالتوں میں ایک کامل صابر و مومن کی زندگی کی جو تصویر ہوسکتی ہے وہ سامنے آگئی ہے، دل آتش فراش میں پھنکا جارہا ہے اور ہزار کوشش کی جائے لیکن یہ آگ اس طرح بجھنے والی نہیں۔ لیکن ساتھ ہی روح ایمان و یقین سے معمور ہے اور دماغ صبر جمیل کا عزم کرچکا ہے۔ پس غم کو دیکھا جائے تو وہ اپنی جگہ ہے، صبر و یقین کو دیکھا جائے تو وہ اپنی جگہ ہے، اگر دل اپنی بے قراریوں میں کبھی کمی نہیں کرتا تو دماغ بھی اپنے شیوہ صبر و رضا میں کبھی متزلزل نہیں ہوسکتا۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دل کی بے تابیاں حد سے گزر جاتی ہیں اور یا اسفی علییوسف بے اختیار زبان سے نکل جاتا ہے لیکن یہ بھی نکلتا ہے تو کس کے آگے نکلتا ہے؟ اس کے آگے جس کے آگے اپنا درد و غم پیش نہ کیجیے تو یہ بھی شان عبودیت کے خلاف ہے (انما اشکوا بثی وحزنی الی اللہ واعلم من اللہ ما لا تعلمون) مکن تعافل ازیں بیشتر کہ ی ترسم۔۔۔۔ گماں برند کہ ایں بندہ بے خداوندست ! یوسف (علیہ السلام) : پھر حضرت یعقوب کے بعد حضرت یوسف کی شخصیت نمایاں ہوتی ہے اور یہی سرگزشت کی اصلی شخصیت ہے۔ یہاں پہنچتے ہی ایک خاص حقیقت کی جلوہ نمائی شروع ہوجاتی ہے اور جس جس رخ سے دیکھیے اور جہاں کہیں دیکھیے، اسی کی نمود سامنے آتی رہتی ہے۔ یعنی انسان کی سیرت (کیریکٹر) کی فضیلت اور اس فضیلت کی اٹل کامرانیاں، ان کی سیرت کا مطالعہ ہمیں بتلاتا ہے کہ انسانی زندگی کی سب سے بڑی قوت اس کی سیرت کی فضیلت ہے اور اگر یہ فضیلت موجود ہو تو پھر اس کے لیے فتح و کامرانی کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ دنیا کی ساری رکاوٹیں اس کی راہ روک لیں جب بھی وہ اپنی راہ نکال لے گا۔ دنیا کے سارے سمندر اور پہاڑ اس کی راہ میں حائل ہوجائیں جب بھی اس کی رفات نہیں رکے گی، حوادث و وقائع اس پر قابو نہیں پاسکتے، احوال و ظروف اس پر غالب نہیں آسکتے، افراد و جماعت کی کوششیں اسے مسخر نہیں کرسکتیں۔ اس کے لیے ہر حال میں کامرانی ہے، اس کے لیے ہر گوشہ میں فتح مندی ہے، اس کے لیے ہر طاقت پر فرماں روائی ہے، وہ اعمال و نتائج کی اس امتحان گان میں صرف اسی لیے ہے کہ سربلند ہو، عجز و درماندگی کی آلودی کبھی اسے چھو نہیں سکتی۔ سترہ برس کا ایک کم سن لڑکا باپ کی آغوش محبت سے جبرا چھین لیا جاتا ہے اور اچانک اپنے آپ کو کن لوگوں میں پاتا ہے؟ ان میں جو چند سکوں کے بدلے اسے غلام بنا کر بیچ رہے ہیں۔ دنیا کی ایک لاکھ انسانی طبیعتیں ایسی حالت میں کیا کرتیں؟ مگر غور کرو، اس نے کیا کیا؟ اچانک ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ایک تجربہ کار دانشمند کی طرح اس نے صورت حال جائزہ لے لیا ہو اور پھر فیصلہ کرلیا ہو کہ جو حال بھی پیش آجائے اسے صبر و سکون کے ساتھ جھیل لینا چاہیے اور اسی کے مطابق کام کیے جانا چاہیے۔ قافلہ والوں نے انہیں غلام کی حیثیت میں پیش کیا، وہ ایک غلام کی طرح پیش ہوگئے، عزیز مصر نے غلام کی طرح خرید لیا، انہوں نے غلام کی طرح خدمت شروع کردی اور اس کے ساتھ اسی طرح پیش آئے جس طرح ایک طاعت شعار اور وفادار غلام کو اپنے آقا کے ساتھ پیش آنا چاہیے، کہیں سے بھی کوئی ایسی بات مترشح نہیں ہوتی کہ ایسا کرنے میں انہیں کوئی تامل ہوا ہو، گویا یہ ناگہانی مصیبت جو ہزاروں لاکھوں انسانوں کے لیے پوری زندگی کی سوگواری بن جاتی ان کے لیے کوئی مصیبت ہی نہ تھی، باپ کے آغوش محبت سے نکل کر اچانک ایک اجنبی ملک میں ایک اجنبی غلام بن جانا ان کے لیے ایسی ہی بات ہوئی جیسے اپنی مرضی سے زندگی کا ایک عیش چھوڑ کر دوسرا عیش اختیار کرلینا۔ نہ پچھلی حالت کا ماتم ہے، نہ موجودہ حالت سے جھجک۔ نہ گزشتہ کی یاد میں سوگواری ہوئی، نہ آئندہ کے اندیشہ میں بدحالی، اس عازم اور بے پروا ملاح کی طرح جسے نہ تو کنارہ چھوٹنے کا غم ستاتا ہے نہ آنے والے طوفان کا اندیشہ، اس نے اپنی کشتی چلانی شروع کردی اور دیکھو بالآخر ساحل مقصود تک پہنچ کر رہی۔ حوادث و انقلاب کے ترکش میں اس سے بڑھ کر اور کون سا تیر ہوسکتا ہے جو اس پر چلایا گیا تھا؟ لیکن اس کے صبر و عزم نے اسے پرکاہ کے برابر بھی نہ سمجھا اور اس طرح بے داغ نکل گیا گردش حوادث کا ہاتھ اس کے خلاف اٹھا ہی نہ تھا : چیں برجبیں زجنبش ہر خس نمی رسد۔۔۔۔ دریا دلاں چو موج گہرا آرمیدہ اند ! غور کرو، ہر اس انسان کے لیے جو دنیا کی مصیبتوں اور ناموافقتوں میں اپنی راہ نکالنی چاہتا ہو اس معاملہ کیسی عظیم الشان عبرت ہے؟ اگر حضرت یوسف نے مصائب و محن کی پہلی ہی منزل میں صبر، عزم، اعتماد نفس اور توکل علی اللہ کی یہ روح عظیم اپنے اندر نہ پیدا کرلی ہوتی تو کیا ممکن تھا کہ اس منزل مقصود تک پہنچ سکتے جو بالآخر ان کی منزل مقصود ثابت ہوئی؟ پھر دیکھو زمانہ کی گردشیں کس طرح آزمائشوں پر آزمائشیں پیدا کرتی رہیں اور ان کی غیر متزلزل اور بے داغ سیرت کس طرح فتح مندیاں حاصل کرتی گئی؟ سب سے پہلے عزیز مصر کے ساتھ ان کا معاملہ سامنے آتا ہے، اس نے بحیثیت غلام انہیں خریدا تھا، اور مصر کے آثار و نقوش ہمیں بتلا رہے ہیں کہ مصریوں کا سلوک غلاموں کے ساتھ کیسا ہوا کرتا تھا۔ وہ غلاموں کے لیے اتنے ہی سنگدل تھے جتنے سنگدل دنیا کی تمام پرانی قومیں رہ چکی ہیں، تاہم انہوں نے تھوڑے ہی عرصہ کے اندر اپنے حسن سیرت سے اس کا دل ایسا مسخر کرلیا کہ غلام کی جگہ آقائی کرنے لگے اور اس نے اپنی بیوی سے کہا : (اکرمی مثواہ عسی ان ینفعنا او نتخذہ ولدا) غور کرو یہ انقلاب حال کیونکر پیدا ہوا ہوگا؟ وہ کیسی وفاداری و دیانت اور راست بازی و امانت شعاری ہوگی جس نے ایک مصری امیر کو اس درجہ متاثر کردیا کہ ایک عبرانی غلام کو اپنے فرزند کی طرح چاہنے لگا اور اپنے تمام گھر بار اور علاقہ کا مختار کل بنا دیا؟ پھر امرۃ العزیز کا معاملہ رونما ہوتا ہے، پھچلی آزمائش ذہن و دماغ کی آزمائش تھی، یہ جذبات کی تھی اور ان انسان کے لیے سب سے بڑی آزمائش جذبات ہی کی آزمائش ہوتی ہے۔ وہ سمندر کی موجوں سے ہراساں نہیں ہوتا، پہاڑ کی چٹانوں سے نہیں گھبراتا، آسمان کی بجلیوں سے نہیں لرزتا، درندوں کے مقابلہ سے منہ نہیں موڑتا، تلواروں کے سایے میں کھیلنے لگتا ہے، لیکن نفس کی ایک چھوٹی سی ترغیب اور جذبات کی ایک ادنی سی کشش کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتا لیکن حضرت یوسف کی سیرت کی چٹان یہاں بھی متزلزل نہ ہوسکی، ان کی بے داغ فضیلت پر نفس انسانی کا سب سے بڑا فتنہ بھی دھبہ نہ لگا سکا۔ قرآن کی معجزانہ بلاغت نے چند لفظوں کے اندر صورت حال کی پوری تصویر کھینچ دی ہے اور اگر ان اشاروں کو تشریح و بیان کا پورا جامہ پہنایا جائے تو کئی صٖفحوں کی داستان بن جائے۔ تم چشم تصور سے کام لو اور دیکھو ترغیبات کی قہر و سلطانی کا کیا حال تھا اور عیش نفس کی یہ دعوت کیسے شکیب آزما ساموں اور صبر ربا حالتوں کے ساتھ پیش آئی تھی؟ عمر عین عروج شباب کی عمر اور معاملہ محبت کا نہیں محبوبیت کا، طلب کا نہیں مطلوبیت کا، پھر طلب بھی ہوئی تو کیسی طلب؟ دیوانگی کی طلب اور دل باختگی کا تعاقب، پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ موانع بہ کلی مرتفع ہوگئے، کوئی انسانی آنکھ دیکھنے والی نہیں، کوئی پردہ حجاب حائل ہونے ولا انہیں، کون ہے جو ایسی حالت میں بھی اپنے آپ کو قابو میں رکھ سکتا ہے؟ عفت و پاکی کا کون سا پہاڑ ہے جو ان بجلیوں کی تاب لاسکتا ہے؟ لیکن ایک پہاڑ تھا جسے یہ بجلیاں بھی جنبش میں نہ لاسکیں، یہ حضرت یوسف کی سیرت تھی جو کسی حال میں بھی متزلزل نہیں ہوسکتی تھی، خود امراۃ العزیز کے لفظوں میں (اور اس سے بڑھ کر اس معاملہ کا کون شاہد ہوسکتا ہے) (انا راودتہ عن نفسہ فاستعصم) وہ اس حال میں بھی اپنی جگہ سے بے جگہ نہ ہوا۔ اس کوہ عصمت کے لیے ذرا سی بھی جنبش نہ تھی۔ پھر دیکھو۔ امرۃ العزیز کی دعوت عیش کے جواب میں جو کچھ ان کی زبان سے نکلا وہ کیا تھا؟ (معاذ اللہ انہ ربی احسن مثوای) تیرا شوہر میرا آقا ہے، اس نے مجھ پر اعتماد کیا، عزت و احترام کے ساتھ رکھا، پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس کے حسن سلوک کا بدلہ میں یہ دوں کہ اس کی امانت میں خیانت کرنے لگوں؟ غور کرو یہ برائی ایسی برائی تھی کہ اسے برائی دکھلانے کے لیے کتنی ہی باتیں کہی جاسکتی تھیں، لیکن ان کا ذہن اسی بات کی طرف گیا اور اسی کو قرآن نے نمایاں کر دکھایا، اس سے معلوم ہوا کہ ان کی سیرت کا اصلی جوہر یہیں ڈھونڈ نا چاہیے۔ امانت داری، راست بازی اور ادائے فرض کی روح ان پر چھائی ہوئی تھی کہ ہر موقع پر سب سے پہلے وہی سامنے آتی تھی۔ پھر اس کے بعد لائمات کا معاملہ پیش آتا ہے، اب صرف ایک امراۃ العزیز ہی کا فتنہ نہ تھا، دار الحکومت مصر کے تمام فتنہ گران حسن جمع ہوگئے تھے کہ ان کی متاع ضبط و تحمل کی غارتگریوں میں حصہ لیں : وائے برصید کہ یک باشد و صیادے چند ! مگر یہاں بھی کیا نتیجہ نکلا؟ (قلن حاش للہ ماھذا بشرا ان ھذا الا ملک کریم) ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں۔۔۔ جسے غرور ہو، آئے، کرے شکار مجھے ! پھر دیکھو۔ راست بازی و حق پرستی کی آزمائش نے اچانک کیسی صورت اختیار کرلی؟ دنیا میں انسانوں کو سزائیں اس لیے بھگتنی پڑتی ہیں کہ جرم و معصیت سے اپنے کو نہیں روک سکتے لیکن اب حضرت یوسف کے سامنے قید کی سزا اس لیے لائی جارہی ہے کہ جرم و معصیت سے کیوں اپنے آپ کو روک رہے ہیں، لوگوں کو قید و بند کی معصیت اس لیے برداشت کرنی پڑتی ہے کہ عیش حیات ڈھونڈتے ہیں اور جب نہیں ملتا تو جبرا لینا چاہتے ہیں۔ لیکن حضرت یوسف کو اس لیے قید خانے کی دھمکی دی جارہی ہے کہ عیش حیات نے اپنی ساری دلفریبیوں اور عنائیوں کے ساتھ انہیں دعوت دی اور انہوں نے اس سے منہ موڑ لیا۔ یہ حضرت یوسف کی سیرت کا سب سے زیادہ عظیم مظاہرہ ہے، یہ عشق حق کا نمونہ ہے، یہ پرستاری صدق کا دستور العمل ہے، یہ ایمان کامل کا معیار ہے، جب ان کے سامنے دو باتیں پیش کی گئیں : زندگی کا عیش مگر معصیت حق کی راہ میں، زندگی کے شدائد مگر راست بازی کی راہ میں تو ان کا فیصلہ قطعی اور بغیر کسی تامل کے یہ تھا کہ ( السجن احب الی مما یدعوننی الیہ) قید خانہ مجھے محبوب ہے مگر وہ بات نہیں جس کی مجھے دعوت دی جارہی ہے۔ ہمارے مفسرین لکھتے ہیں کہ یہ حضرت یوسف کی بدشگونی تھی کہ خود قید خانہ کی بات بول اٹھے۔ اگر جلدی میں آکر ایسا نہ کہہ دیتے تو یہ ابتلا پیش نہ آتی، افسوس کس درجہ حقیقت فراموشی ہے، حضرت یوسف کی جو بات ان کی پاکی و عظمت کا سب سے بڑا جوہر تھی وہی ان حقیقت ناآشناؤں کی نظر میں ان کی لغزش ہوگئی، گویا حضرت یوسف کا قید خانہ کو معصیت پر ترجیح دینا، اور اسے خوشی خوشی اختیار کرلینا کوئی ایسی بات تھی جو نہ ہونی چاہیے تھی اور صرف اس لیے ہوگئی کہ حضرت یوسف نے بدشگونی کی بات کہہ دی تھی۔ غور کرو قرآن کہاں اور اس کے شارح کہاں پہنچ گئے ہیں۔ نزلوا بمکۃ فی قبائل ھاشم۔۔۔۔ و نزلت بالبیداء ابعد منزل ! پھر دیکھو۔ حضرت یوسف کی یہی سیرت ہے جو قید خانہ کی تنگ و تاریک کوٹھری کو بھی اسی طرح روشنی کردیتی ہے جس طرح عزیز مصر کے ایوان عزت و اقبال کو اس نے روشن کردیا تھا کیونکہ چراغ جہاں کہیں بھی رکھ دیا جائے روشنی ہی دے گا اور ہیرے کی چمک اس سے کم نہیں ہوجائے گی کہ جو امر خانہ شاہی میں رہنے کی جگہ کوڑے کرکٹ میں ڈال دیا گیا، تورات کی تصریح پڑھ چکے ہو کہ قید خانہ کا افسران کا معتقد ہوگیا تھا اور قید خانہ میں انہی کی افسری قائم ہوگئی تھی۔ پھر دیکھو۔ عین قیدخانہ کی زندگی میں دعوت حق کا داعیہ ان کے قلب مبارک میں اٹھتا ہے، اس وقت تک انہوں نے مصر میں دین حق کی تبلیغ نہیں کی تھی اگرچہ خود اسی پر قائم تھے، لیکن اب وقت آگیا تھا کہ خاندانی نبوت کا ان میں ظہور ہو، چنانچہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اب یکایک اپنے قلب کو ولولہ تبلیغ سے معمور پایا۔ لیکن یہاں کون تھا جو اس تبلیغ کا مخاطب ہو؟ صرف قید خانہ کے ساتھی تھے جو طرح طرح کے جرموں کی پاداش میں یہاں پہنچا دیے گئے تھے۔ مگر غور کرو انہوں نے رہائی کا انتظار نہیں کیا۔ انہی قیدیوں میں تبلیغ حق شروع کردی اور اب مصر کا قید خانہ دعوت حق کی تعلیم و تربیت کی ایک درس گاہ بن گیا۔ پھر دیکھو۔ تبلیغ حق کے جوش و طلب کا کیا حال ہے ؟ دو نئے قیدی آتے ہیں جو بادشاہ کے خاص پیش خدمتوں میں سے تھے اور اپنا اپنا خواب بیان کرتے ہیں، خواب سن کر حضرت یوسف معلوم کرلیتے ہیں کہ ایک کی رہائی قریب ہے، دوسرے کی موت قریب ہے۔ پس چاہتے ہیں کہ فرصت کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کریں اور تعلیم حق سے انہیں آشنا کردیں، ممکن ہے کہ جو رہا ہونے والا ہے وہ حق کا بیج اپنے ساتھ لے جائے اور دربار شاہی میں تخم ریزی کرسکے، جس کی موت قریب ہے، ممکن ہے کہ سچائی قبول کرلے اور دنیا سے جائے تو راہ حق پر جائے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں انہوں نے خواب سنتے ہی اس کی تعبیر نہیں بتلا دی کہ ان کی توجہ و رجوع سے فائدہ اٹھا کر ایک دوسرا ہی بیان شروع کردیا : (انی ترکت ملۃ قوم لا یومنون باللہ وھم بالاخرۃ ھم کافرون) ان کی سیرت کے اس مقام سے ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ دعوت حق کا فریضہ کیونکر ادا کرنا چاہیے اور داعی حق کے جوش و طلب دعوت کا کیا حال ہوتا ہے؟ قید خانے کی زندگی بھی ادائے فرض دعوت سے مانع نہ ہوئی، اس حالت میں بھی فکر اس کی نہ تھی کہ میں کیونکر قید سے رہائی پاؤں۔ بلکہ تمام تر اس کی تھی کہ خدا کے بندے جہل و گمراہی سے کیونکر نجات پائیں؟ مہلت جب کبھی ملی اور جس حال میں ملی معا اسی مقصد کے لیے کام میں لائی گئی اور جس طرح اس آدمی کی ہدایت میں جلدی کی جو ابھی مدتوں زندہ رہنے والا تھا اسی طرح اس کی ہدایت کے لیے بھی صبر نہ کرسکے جس کے سر پر اجل کی تلوار لٹک رہی تھی، کیونکہ ہدایت پانا ہر انسان کا قدرتی حق ہے اور زندہ رہنے والا ہو یا مر رہا ہو اسے اس کا حق فورا ملنا چاہیے۔ پھر دیکھو۔ معاملہ صرف اتنے ہی پر ختم ہیں ہوجاتا بلکہ حتی الوسع کوشش کرتے ہیں کہ جہاں تک پہنچا سکتے ہیں پہنچا دیں، جونہی یہ بات معلوم ہوئی کہ ان میں ایک آدمی بادشاہ کے ساتھیوں کا سردار ہے اور پھر اسی منصب پر مامور ہونے والا ہے۔ معا ان کا ذہن اس طرف چلا گیا کہ ایسے آدمی کو جو خلوت و جلوت میں بادشاہ کے حضور رہنے والا ہے کتنا اچھا موقع حاصل ہوگا کہ پیام حق پادشاہ کے کانوں تک پہنچا دے؟ چنانچہ تعبیر بیان کرنے کے بعد اس سے فرمایا (اذکرنی عند ربک) اپنے آقا کے پاس جائیو تو مجھے یاد رکھیو۔ یعنی میری یہ تعلیم و دعوت یاد رکھیو اور اپنے آقا سے بعنوان مناسب اس کا تذکرہ کردیجیے و، ممکن ہے کہ پیام حق کام کرجائے۔ عام طور پر حضرت یوسف کے اس قول کا مطلب یہ سمجھا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی رہائی کے لیے کہا تھا، یعنی اپنے آقا سے میری سفارش کیجیو، لیکن جس محل میں یہ بات کہی گئی ہے اس سے اس کی تائید نہیں ہوتی ہے، قیدیوں سے جو کچھ بھی ان کے گفتگو ہوتی ہے یا تو تعبیر کے بارے میں ہے یا دین حق کے بارے میں ہے، اس کا کوئی اشارہ نہیں پایا جاتا کہ انہوں نے اپنے قید و محن کے مصائب کا کوئی ذکر کیا ہو۔ پس اس بات کا وہی مطلب موزوں معلوم ہوتا ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔ یہ بات بھی صاف ہوگئی کہ قیدیوں کا خواب سن کر آپ نے تعبیر فورا کیوں نہیں کردی تھی۔ مفسرین کہتے ہیں تاخیر اس لیے کی کہ وحی کا انتظار تھا۔ لیکن اگر آپ انتظار کی حالت میں ہوت تو اس وثوق کے ساتھ کیونکر وعدہ کرلیتے کہ (لا یاتیکما طعام ترزقنہ الا نباتکما بتاویلہ) اور فیضان وححی سے تو آپ کا قلب معمور ہورہا تھا، تعبیر کے لیے انتظار کرنے کی کیوں ضرور پیش ااتی؟ صاف بات یہی ہے کہ تاخیر قصدا کی تھی اور اس خیال سے کی تھی کہ تعبیر کی احتیاج نے ان دونوں کو میری طرف متوجہ کردیا ہے۔ چاہیئے کہ اس توجہ سے فورا فائدہ اٹھایا جائے اور دین حق کی دعوت چھیڑ دی جائے۔ چنانچہ اس کا ذکر اس مناسبت سے شروع کردیا کہ : (ذلکما مما علمنی ربی انی ترکت ملۃ قوم لا یومنون باللہ وھم بالاخرۃ ھم کافرون) یعنی خواب کی تعبیر میں بہت جلد بتلا دوں گا۔ کیونکہ میرے پروردگار نے مجھے اس کا علم دیا ہے، لیکن میرے علم کو اس طرح کا علم نہ سمجھنا، جس طرح اپنے کاہنوں اور جادوگروں کا سمجھا کرتے ہو۔ میری راہ دوسری ہے، میں تمہارے طریقہ پر کار بند نہیں، پھر اس طرح بات میں سے بات نکلاتے ہوئے دین حق کی دعوت شروع کردی کہ (یصاحبی السجنء ارباب متفرقون خیر ام اللہ الواحد القھار) پھر دیکھو۔ اس سیرت کی فضیلت کا کیسا عجیب منظر سامنے آجاتا ہے جب بادشاہ مصر خواب دیکھتا ہے اور سردار ساقی آکر یہ معاملہ انہیں سناتا ہے۔ دنیا کا ہر انسان ایسے موقع پر کیا کرتا؟ دنیا کو ہر وہ قیدی کیا کرتا جسے بغیر کسی جرم و گناہ کے قید خانے میں ڈال دیا گیا ہو اور سالہا سال سے اس حالت میں بے یارو مددگار پڑا ہو؟ یقینا اسے تائید غیبی سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا اور کہتا میں یہ مشکل حل کرسکتا ہوں۔ مجھے یہاں سے نکلنے اور بادشاہ کے حضور حاضر ہونے کا موقع دیا جائے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت یوسف کی جانب سے کوئی اس طرح کی خواہش ظاہر نہیں ہوئ۔ انہوں نے خواب سنتے ہی اس کی تعبیر بیانن کردی، اس کا خیال بھی انہیں نہیں گزرا کہ اپنی مطلب براری کی یہ نہایت قیمتی بات تھوڑٰ دیر کے لیے بھی روک لوں، پھر صاف اتنا ہی نہیں کیا کہ جتنی بات پوچھی گئی تھی بتلا دی بلکہ اس سے بھی زیادہ علم و فضل کی بخشش سائل کے دامن میں ڈال دی، یعنی خواب میں ایک آنے والی ہولناکی کی خبر دی گئی تھی، انہوں نے تعبیر کے ساتھ یہ بھی بتلا دیا کہ اس ہولناک مصیبت سے بچنے کی سبیل کیا ہوسکتی ہے۔ سوال بادشاہ کی طرف سے تھا، لیکن دیکھو جس نے جواب دیا وہ قید خانہ کی کوٹھری میں بیٹھا ہوا اپنے علم و فضیلت کی بخشش میں بادشاہوں سے بھی زیادہ فیاض تھا : عدیل ہمت ساقی ست فطرت عرفی۔۔۔ کہ حاتم و گراں و گدائے خویشتن ست ! حضرت یوسف نے ایسا کیوں کیا؟ اس لیے کہ دنیا نے ان کے ساتھ کچھ ہی کیا ہو وہ دنیا کی خدمت و ہدایت کے سوا اور کوئی شے اپنے سامنے نہیں رکھ سکتے تھے۔ جب انہوں نے خواب سنا اور خواب کا حل ان کے علم و بصیرت نے معلوم کرلیا تھا تو وہ ایک لمحہ کے لیے بھی علم و ہدایت کا فیضان انسان پر نہیں روک سکتے تھے۔ ان کا فرض تھا کہ جب کبھی طلب اعانت کا ہاتھ ان کے آگے بڑھے وہ اس کی دستگیری کریں۔ اور انہوں نے دستگیری کی، اگر نہ کرتے تو داعی حق نہ ہوتے، ان کا بے لوث جذبہ خدمت اس خود غرضانہ مطلب براری کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا کہ ایک انسان کی مشکل اور احتیاج کو اپنی رہائی کا ذریعہ بنائیں۔ پھر جب بادشاہ کا مشتاق ہوا اور اپنا پیام بر بھیجا تو چاہیے تھا کہ جوش مسرت سے اس پیام کا استقبال کرتے کیونکہ اب خود بخود رہائی سامنے آگئی تھی اور ایسی حالت میں آئی تھی کہ بادشاہ وقت مشتاق زیارت ہو رہا تھا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت یوسف کی نگاہوں میں معاملہ نے دوسری ہی شکل اختیار کی۔ انہوں نے قید خانہ چھوڑنے اور بادشاہ کی ملاقات سے انکار کردیا اور کہلایا کہ پہلے میرے معاملہ کی تحقیقات کرلی جائے۔ اب یہاں پھر بے اختیار یہی سوال سامنے آجاتا ہے کہ دنیا کا ہر مظلوم قیدی ایسی حالت میں کیا کرتا اور اس پیکر صدق و صفا نے کیا کیا؟ غور کرو، ان کی سیرت کیسے جوہروں سے گوندھی گئی تھی اور کس طرح صبر و ضبط کی عدیم النظیر قوتوں کے ساتھ خود داری اور عزت نفس کی روح اس کے ایک ایک ذرہ میں رچی ہوئی تھی؟ حضرت یوسف کے اس انکار و انتظار میں ان کی اخلاقی ذہنیت کی ایک پوری دنیا پوشیدہ ہے۔ گویا وہ زبان حال سے کہہ رہے تھے کہ قید سے رہائی بلاشبہ ایک خوشخبری ہے لیکن ایسی رہائی مجھے کیا خوش کرسکتی ہے جو میری بے جرمی کی وجہ سے ظہور میں نہ آرہی ہو بلکہ محض بادشاہ کا ایک عطیہ اور بخشش ہو؟ میں تھا تو مجرم، لیکن چونکہ بادشاہ نے خواب دیکھا، کسی سے تعبیر بن نہ اائی میں نے بتلا دی، اس لیے خوش ہو کر بادشاہ نے رہا کردیا۔ پس یہ بادشاہ کا احسان ہوا، حق و انصاف کا فیصلہ نہ ہوا۔ نہیں میں اپنی رہائی بطور ایک احسان کے قبول نہیں کرسکتا اگر میں مجرم ہوں تو سزا وار ہوں، کیوں مجھے کوئی بخشے؟ اگر مجرم نہیں ہوں تو میری بے جرمی کا اعتراف کرنا چاہیے اور اس لیے رہا کرنا چاہیے کہ سزا کا مستحق نہ تھا، اس لیے نہیں کہ کسی نے بخش دیا۔ عزت نفس اور استقامت حق کا کیسا بلند مقام ہے؟ اور اخلاقی سیرت کی کیسی عجیب مضبوطی ہے، جس میں کہیں سے بھی کوئی لچک پڑتی دکھائی نہیں دیتی؟ جس رخ سے دیکھو اور جہاں کہیں دیکھو اس کی بے داغ خصوصیتیں یکساں طور پر نمایاں ہیں اور اس سورج کی روشنی کبھی مدھم نہیں پڑسکتی۔ کانہ علم، فی راسہ نار۔ فی الحقیقت جمال یوسف کی یہی رعنائیاں تھیں جنہوں نے ایک ہی نظارہ میں بادشاہ کا دل مسخر کرلیا تھا : (انک الیوم لدینا مکین امین) پھر سب سے آخر میں اس موقع کا مطالعہ کرو جب حضرت یوسف کے بھائی ان کے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں۔ کون بھائی؟ جنہوں نے قتل کا سامان کیا اور پھر غلام بنا کر اجنبیوں کے ہاتھ بیچ ڈالا، کس کے سامنے؟ اسی مظلوم کے سامنے جو آج مظلوم نہیں ہے بلکہ وقت کی سب سے بڑی مملکت کا مالک اور قحط سسالی کی سب سے بڑی مصیبت میں سامان زندگی کا بخشنے والا ہے۔ کیسا عجیب موقع تھا اور نفس انسانی کے لیے ولولہ انتقام کی کیسی صبر آزما آزمائش؟ تاہم غور کرو، اول سے لے کر آخر تک حضرت یوسف کا طرز عمل کیسا رہتا ہے؟ کہیں بھی کوئی بات ایسی دکھائی دیتی ہے کہ کہہ سکو، بغض و انتقام کے جذبہ کی کوئی ہلکی سی بھی پرچھائیں پڑ رہی ہے؟ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ تو ان کے لیے سرتا پا شفقت و رحمت ہوگئے تھے۔ انتقام و سرزنش کا کیا ذکر ہے۔ ان کی زبان سے تو ایک لفظ بھی ایسا نہیں نکلا جس سے بھائیوں کے د لوں کو ذرا سی بھی ٹھیس لگتی۔ صاف نظر آرہا ہے کہ ان کی شرمندگی و پشیمانی کا زخم ان سے کہیں زیادہ خود ان کے دل پر لگ رہا ہے اور اب فکر ہے تو اس بات کی کہ کس طرح ان کے دلوں کے لیے تسکین خاطر کے سامان پیدا کردیں۔ جب تیسری مرتبہ بھائی آئے اور اپنی مصیبتوں کی داستان سنائی : (مسنا واھلنا الضر) اور پھر دست سوال بڑھایا کہ (وتصدق علینا ان اللہ یجزی المتصدقین) تو جوش محبت سے بے قرار ہوگئے۔ اس وقت ان کے سامنے اور کوئی بات نہ تھی، صرف یہ تھی کہ میرے بھائی فقرو فاقہ میں مبتلا ہیں۔ میں مسند عزت پر بیٹھا ہوں اور وہ دریوزہ گروں کی طرح دست سوال دراز کیے ہوئے ہیں۔ بے اختیار ان کا جی چاہا کہ اپنے آپ کو ظاہر کردیں۔ (ھل علمتم ما فعلتم بیوسف واخیہ) تمہیں وہ بات بھی یاد ہے جو یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کی تھی َ؟ کہنے کو تو یہ کہ گئے اور یہ کہے بغیر چارہ بھی نہ تھا، کیونکہ یاد دلانا تھا کہ میں مصر کیونکر پہنچا، لیکن معا خیال ہوا کہ اس معاملہ کی یاد میں ان کے لیے سرتا سر سرزنش و خجالت ہے، اس لیے فورا ایک ایسی بات بھی کہہ دی کہ ان کے لیے ایک معذرت کا پہلو نکل آئے اور شرمندگی کا بوجھ محسوس نہ کریں : (اذ انتم جاھلون) یہ اس وقت کی بات ہے جب تمہاری نادانیوں کا زمانہ تھا، یعنی اس معاملہ پر شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ نادانیوں کے زمانے کی ایک بات ہے اور دنیا میں کون ہے جس پر کوئی نہ کوئی زمانہ نادانیوں کا نہ گزرا ہو؟ یہ سنتے ہی جب انہوں نے پہچان لیا اور عجز و ندامت کا سر جھکا کر بولے : (تال اللہ لقد اثرک اللہ علینا وان کنا لخاطئین) تو بلا تامل جواب ملا : (لا تثیر علیکم الیوم یغفر اللہ لکم وھو ارحم الراحمین) نہیں آج کا دن بچھڑے ہوؤں کے ملنے اور ٹوٹے ہوئے رشتوں کے جڑنے کا دن ہے۔ ملامت و الزام کی باتوں کا یہاں گزر نہیں، میرا دل تو ہر طرح کی رنجشوں سے صاف ہے، باقی رہا خدا کا معاملہ تو اس کے لیے بھی میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں، وہ تمہارے سارے قصور بخش دے اور وہ ضرور بخش دے گا کیونکہ اس سے بڑھ کر رحم کرنے والا اور کون ہے۔ پھر آگے چل کر جب وقت آیا کہ اللہ کے فضل و کرم کا شکر ادا کرتے ہوئے گزرے ہوئے واقعات کی طرف اشارہ کریں تو دیکھو اس معاملہ کی طرف کیونکر اشارہ کرتے ہیں؟ (من بعد ان نزغ الشیطان بینی وبین اخوتی) جب ایسا ہوا تھا کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں اختلاف ڈال دیا تھا۔ یعنی اول تو اس معاملہ کو شیطان کی طرف منسوب کردیا کہ بھائیوں پر اس کا بوجھ نہ پڑے۔ گویا یہ شطیان کا ایک فتنہ تھا اور نہ میرے بھائی ایسا کیوں کرتے۔ پھر سارے معاملہ کو محض ایک طرح کے اختلاف سے تعبیر کیا تاکہ اصل واقعہ کی شناعت کم ہوجائے۔ پھر جتنا کچھ بھی ہونا ظاہر کیا، وہ اس طریقہ پر کیا کہ مجھ میں اور میرے بھائیوں میں اختلاف پڑگیا تھا گویا یہ بھائیوں کا بلاوجہ جو روستم نہ تھا، کوئی ایسی بات تھی جیسے بھائیوں میں باہم دگر پیش آجایا کرتی ہے اور دونوں جانبوں کو اختلاف کے وجوہ میں دخل ہوتا ہے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ کسی ایک ہی جانب کا قصور تھا۔ غور کرو عفو و بخشش کا وہ کیسا مقام ہے، ہمت کا وہ کیسا علو ہے، ظرف کی وہ کیسی پہنائی ہے ؟ خلق کی وہ کیسی عظمت ہے جو دشمنی کرنے والوں کے ساتھ ایسا سلوک کرسکتی ہے ؟ اور جس سیرت کا یہ حال ہو اس کے لیے فضیلت کی اور کون سی بات باقی رہ گئی؟ شنیدم کہ مردان راہ خدا۔۔۔۔ دل دشمناں ہم نہ کردند تنگ ترا کے میسر شود ایں مقام۔۔۔۔ کہ باد و ستانت خلاف است او جنگ مظلومی و بے چاری کی حالت میں صبر کرلینا بلاشبہ ایک بڑائی ہے لیکن طاقت و اختیار کی حالت میں بدلہ نہ لینا اور بخش دینا سب سے بڑی بڑائی ہے : (ولمن صبر وغفر ان ذلک لمن عزم الامور) اور اس سیرت کی عظمت میں دونوں مقام جمع ہوگئے، جب بے چار گی تھی تو اف تک نہ کی۔ جب طاقت ملی تو انتقام کا وہم و گمان بھی نہ گزرا، اور بلاشبہ یہ اس زندگی کا سب سے بڑا اسوہ حسنہ ہے۔ سب سے آخر میں ان کی دعا نمایاں ہوتی ہے اور یہ فی الحقیقت ایک مرقع ہے جس میں ان کی سیرت کا ایک ایک خالی و خط دیکھا جاسکتا ہے۔ عظمت و کامرانی کے اس مقام پر پہنچ جانے کے بعد بھی جو صدا ان کے دل و دماغ سے نکل سکتی تھی وہ یہی تھی کہ (فاطر السموات والارض انت ولی فی الدنیا والاخرۃ توفنی مسلما والحقنی بالصالحین) یعنی زندگی کی ساری کامرانیوں کا آخری ماحصل جس کی طلب و آرزو سے کبھی دل خالی نہیں ہوسکتا یہی ہے کہ اطاعت حق پر خاتمہ ہو اور الحاق ان کے ساتھ ہو جو تیرے صالح بندے ہیں۔ امرۃ العزیز : حضرت یوسف کے بعد سرگزشت کی نمایاں شخصیت امرۃ العزیز کی شخصیت ہے۔ کیونکہ حضرت یوسف کی مصری زندگی کے حوادث میں بڑا حصہ اسی کا ہے۔ اس شخصیت میں ہم دیکھتے ہیں کہ عشق وہوس کے مختلف مراتب یکے بعد دیگرے نمایاں ہوئے ہیں اور قرآن حکیم نے ایک عجیب اسلوب بلاغت کے ساتھ انہیں ہر جگہ ابھارا ہے اور ہر مرتبہ کی خصوصیت واضح کردی ہے۔ سب سے پہلے وہ موقع سامنے آتا ہے جب اس نے حضرت یوسف کو دعوت عیش دی اور ناکام رہی۔ (ولقد ھمت بہ وھم بھا لولا ان رابرہان ربہ) اور جب پردہ فاش ہوگیا اور شوہر سامنے کھڑا نظر آیا تو اپنی ذلت و رسوائی برداشت نہ کرسکی۔ جھٹ اپنا جرم دوسرے کے سر ڈال دیا، اور پھر کس دوسرے کے سر؟ اسی کے سر جس کی محبت و شیفتگی کی مدعی بنی تھی۔ (قالت ماجزاء من اراد باھلک سوء الا ان یسجن او عذاب الیم) اس سے معلوم ہوا کہ محبت میں بھی کچی تھی، اور ہوس سے معاملہ آگے نہیں بڑھا تھا، کیونکہ اگر محبت کامل ہوتی تو محبت کی راہ میں ذلت و رسوائی سے نہ ڈرتی اور خود اپنے محبوب کے سر جھوٹا الزام نہ لگاتی۔ لیکن پھر جب کچھ دن گزر گئے تو معلوم ہوتا ہے اس حالت نے دوسرا رنگ اختیار کیا۔ اب اسے لائمات کے سامنے تو اقرار محبت میں عار نہ آیا۔ لیکن دنیا کے آگے اقرار نہ کرسکی۔ (انا راودتہ عن نفسہ فاستعصم) ساتھ ہی محبت ابھی اس درجہ تک نہیں پہنچی تھی کہ اپنے نفس کا مجوئیوں پر محبوب کی مرضی کو ترجیح دیتی۔ قبول خاطر معشق شرط دیدار است۔۔۔۔ بہ حکم شوق تماشا مکن کہ بے ادبی است ! اس لیے دھمیاں دے کر رام کرنا چاہا : (ولئن لم یفعل ما امرہ لیسجنن ولیکونا من الصاغرین) لیکن پھر جب وہ وقت آیا کہ عشق کی خامیاں پختگی و کمال تک پہنچ گئیں تو اب نہ تو ننگ و ناموس کی جھجک باقی رہی تھی نہ زور و طاقت سے کان نکالنے کا گھمنڈ، جونہی سنا کہ یوسف کے معاملہ کی پوچھ گچھ ہورہی ہے بے پردہ صریح اعلان کردیا : (الئن حصحص الحق انا راودتہ عن نفسہ وانہ لمن الصدقین) وہ تو سرتاسر سچا ہے جو کچھ بھی قصور تھا میرا تھا : ہاں بانگ بلندست این، پوشیدہ نمی گوی۔ اب اقرار محبت میں نہ تو کسی طرح کا عار محسوس ہوتا تھا نہ عشق کی ذلت و رسوائی ذلت رہی تھی، اب تو ہر بات جو محبوب کی راہ میں پیش آئے محبوب ہی کی طرح محبوب ہوگئی تھی : اجد الملامۃ فی ھواک لذیذۃ۔۔۔۔ حبا لذکرک فیلمنی اللوم ! محبت کی خامی و پختگی کے یہ مراتب قدرتی ہیں اور عام ہیں جب کبھی اور جہاں کہیں بھی آئیں گے ان تین حالتوں میں سے کوئی حالت ضروری ہوگی : خام بودم، پختہ شدم، سوختم ! تاویل الاحادیث : حضرت یوسف کے حالات میں جابجا تاویل الاحادیث کا لفظ آیا ہے اور اس طرح آیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک علم تھا جو اللہ نے انہیں سکھا دیا تھا، پس معلوم ہونا چاہیے کہ اس علم سے مقصود کون سا علم ہے ؟ عربی میں تاویل کے معنی کس بات کے نتیجہ اور مآل کار کے ہیں اور باتوں کے مطلب و مقصد پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ چنانچہ سورۃ یونس کی آیت (٣٩) کے نوٹ میں اس کی تشریح گزر چکی ہے، احادیث یعنی باتیں، پس تاویل الاحادیث کا مطلب یہ ہوا کہ باتوں کا مطلب، نتیجہ اور مآل، بوجھ لینے کا علم یعنی انسان میں علم و بصیرت کی ایسی قوت کا پیدا ہوجانا کہ ہر بات کے مطلب اور مآل کا شناسا ہوجائے۔ معاملات کی تہہ تک پہنچ جانا، امور و مہمات کے بھیدوں کارمز شناس ہوجانا، ہر بات کی نبض پہچان لینی، ہر واقعہ کا مطلب پالینا، کوئی بات کتنی ہی الجھی ہوئی ہو لیکن اس طرح سلجھا لینا کہ ساری باتوں کی کل ٹھیک بیٹھ جائے۔ حضرت یوسف کا ظہور کنعان کے صحرا میں ہوا تھا اور ایک ایسے خاندان میں جو پشت ہا پشت سے صحرا کی بدودیانہ زندگی بسر کر رہا تھا۔ پیدائش سے لے کر عنفوان شباب تک اسی عالم میں زندگی بسر ہوئی۔ نہ تو کسی طرح کی خارجی تعلیم و تربیت کا موقع ملا، نہ شہری زندگی کے رسم و راہ سے آشنا ہوسکے، جب شہری زندگی ہی سے آشنا نہ تھے تو ظاہر ہے اجتماعی زندگی کی تمدنی خصوصیات سے کیونکر باخبر ہوسکتے تھے؟ ملکی معاملات اور انتظامی مہمات کی تو ان کے کانوں میں بھنک بھی نہ پڑی ہوگی۔ بسا اوقات خاندان کے موروثی اثرات خارجی اثرات سے بے نیاز کردیتے ہیں لیکن حضرت یوسف کا خاندانی ورثہ نبوت تھا۔ شہریاری و ملک داری نہ تھی، اور حضرت ابراہیم کے توطن کنعان کے بعد سے تو شہری زندگی کا علاقہ بھی یک قلم مفقود ہوگیا تھا۔ بایں ہمہ جب گردش حوادث نے انہیں مصر جیسی متمدن سرزمینن میں پہنچا دیا تو وہ نہ صرف اس کے نظم و نسق کے لیے سب سے بہتر حکمراں ثابت ہوئے بلکہ ان کی کاروانی و حقائق فہمی نے مملکت کو اس کی سب سے بڑی ہولناک بربادی سے بچا لیا اور ان کے فضل و کمال کے آگے سب نے سر جھکایا۔ خود پادشاہ وقت کو اپنے عجز و درماندگی کا اعتراف کرنا پڑا۔ ایک ایسے شخص میں جو ابھی چند سال ہوئے، صحرا کے ویرانوں سے نکل کر آیا تھا یہ قوت علمی کیسے پیدا ہوگئی کہ تمام باتوں کا نبض شناس اور تمام معاملات و مہمات کی کل بٹھانے ولا ہوگیا۔ یقینا مبدء فیاض کے کرشمہ فیضان سے، لیکن اس کرشمہ فیضان کا نام کیا ہے۔ علم تاویل الاحادیث کا سکھا دینا، اب جبکہ صناعی علوم کی تدوین اور فنی مصطلحات کی بناوٹوں نے ہمیں طرح طرحح کی تعبیرات سکھا دی ہیں ہم اس طرح کے علم و بصیرت کے لیے بہت سے مصلطحہ الفاظ بولیں گے، لیکن قرآن کی زبان صناعی مصطلحات کی زبان نہیں ہے، نہ علمی مصطلحات سے اس وقت عربی زبان آشنا ہوئی تھی۔ اس نے ان ساری باتوں کے لیے ایک ایسی ترکیب استعمال کیا جو ادائے مطلب کا قدرتی اور سیدھا سادھا اسلوب ہوسکتا ہے۔ یعنی باتوں کے مطلب اور مآل پالینے کا علم، تعلیم کی ساری کاوشیں، ترتیب ذہنی ساری محنتیں، تجربہ و اختیار کی ساری کوششیں کس غرض سے ہوتی ہیں؟ اسی لیے کہ باتوں مطلب و مآل بوجھ لینے کی استعداد پیدا ہوجائےْ علم و دانش کا تمام تر حاصل و مقصود کیا ہے؟ یہی کہ باتوں کی کل بٹھانی آجائے، جس کے لیے ہم نے بے شمار اصطلاحیں بنا لیں قرآن نے اسی کو بغیر کسی پیچ و خم کے اس طرح کہہ دیا جو ادائے مطلب کا یک صاف اور قدرتی طریقہ ہوسکتا ہے اور یہ اس کی بلاغت کی معجزانہ خصوصیت ہے۔ چونکہ حضرت یوسف نے خواب کی تعبیریں بتلائی تھیں اس لیے مفسرین اس طرف گئے ہیں کہ یہ خواب کی سچی تعبیر معلوم کرلینے کا علم تھا، بلاشبہ خواب کی بات بھی احادیث میں داخل ہے اور اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ ایک گوشت اس کا یہ ببھی تھا۔ لیکن یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی کہ براہ راست علم تعبیر منام پر اس کا اطلاق ہوا ہو۔ یہ ظاہر ہے کہ خواب کی سچی تعبیر معلوم کرلینا نبوت کے عام خصائص میں سے ہے اور ہر نبی وحی الہی سے مطلع ہو کر خواب کی حقیقت معلوم کرلیتا ہے۔ خود حضرت یعقوب نے حضرت یوسف کا خواب سنتے ہی حقیقت معلوم کرلی تھی اور حضرت دانیال اور عزرا وغیرہما کی سرگزشتیں ہمیں معلوم ہیں۔ پس اگر یہی بات مقصود ہوتی تو اس کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ خصوصیت کے ساتھ تاویل الاحادیث کا ذکر کیا جاتا۔ یہ نبوت کے اعمال و خصائص میں سے تھی اور جب نبوت کا مقام مل رہا تھا تو لازمی طور پر اس طرح کی تمام باتوں کی قابلیت بھی مل رہی تھی۔ لیکن حضرت یعقوب نے خواب سن کر کہا : (وکذلک یجتبیک ربک ویعلمک من تاویل الاحادیث ویتم نعمتہ علیک وعلی ال یعقوب کما اتمھا علی ابویک من قبل) یعنی اللہ تجھے برگزیدگی عطا فرمائے گا تاویل الاحادیث کا علم سکھائے گا اور جس طرح تیرے بزرگوں پر اپنی نعمتیں پوری کرچکا ہے اسی طرح تجھ پر اور آل یعقوب پر بھی کرے گا۔ اس بیان میں برگزیدگی سے مقصود امتیاز اور تفوق ہے اور اتمام نعمت سے مقصود نبوت ہے، پس تاویل الاحادیث کی تعلیم سے مقصود کوئی تیسری چیز ہونی چاہیے۔ اگر تعبیر خواب ہی کی بات ہوتی تو وہ حصول نبوت کی بشارت میں آگئی تھی، خصوصیت کے ساتھ الگ کر کے نہ دکھائی جاتی۔ علاوہ بریں ایک نبی کے لیے تعبیر خواب کا ملکہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں کہ خصوصیت کے ساتھ اسے اللہ کا ایک خاص عطیہ قرار دیا جاتا۔ پھر اگر ان تینوں مقامات پر غور کیا جائے جہاں تاویل احادیث کا ذکر کیا گیا ہے تو یہ حقیقت اور زیادہ نمایاں ہوجاتی ہے لیکن اس کی تفصیل البیان میں ملے گی۔ عزیز مصر کا اپنی کے ساتھ معاملہ : عزیز مصر کا اپنی بیوی کے ساتھ معاملہ مفسرین کے لیے ایک حیرت انگیز معاملہ رہا ہے اور بعض مجبور ہوئے ہیں کہ طرح طرح کی دو راز کار توجہیں کریں۔ وہ کہتے ہیں اس پر اپنی بیوی کی بدچلنی بالکل واضح ہوگئی تھی۔ اس نے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ (انہ من کیدکن ان کیدکن عظیم) لیکن پھر بھی ہم دیکھتے ہیں اس نے اس معاملہ کو زیادہ اہمیت نہ دی کہ بیوی سے کہا : (استغفری لذنبک انک کنت من الخاطئین) اور پھر اسی طرح مختار و آزاد چھوڑ دیا جس طرح پہلے تھی، چنانچہ شہر کی عورتوں کی دعوت، مجلس طرب کی آراستگی اور حضرت یوسف کی طلبی سب بعد کے واقعات ہیں۔ نیز اس کا اختیار و تصرف اس سے ظاہر ہے کہ قید کرنے کی دھمکی دیتی ہے اور اسے پورا کر کے دکھا دیتی ہے۔ گویا بیوی کی بدچلنی کوئی ایسی بات نہ تھی جو عزیز کو (استغفری لذنبک) کہنے سے زیادہ کسی سرزنش اور مخالفانہ اقدام پر آمادہ کرتی۔ کیونکر ممکن ہے کہ ایک شریف اور معزز آدمی اس بارے میں اس قدر بے حس اور بے پروا واقع ہو؟ لیکن اگر مفسرین کے سامنے اس عہد کی مصری معاشرت کی تفصیلات ہوتیں تو اس معاملہ پر انہیں ذرا بھی استغراب نہ ہوتا۔ انہوں نے دو ڈھائی ہزار پیشتر کی مصری معاشرت اور اس کے اخلاقی احساسات کو اپنے وقتوں کی معاشرت و احساسات پر قیاس کیا اور اسی کے مطابق توجیہات کے جامے تراشنے لگے۔ اس بارے میں ہمارے پاس معلومات حاصل کرنے کے دو ذریعے ہیں، ایک براہ راست اسی زمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ دوسرا بعد کے عہدوں سے۔ پہلا اثریات مصر (اجپٹیالوجیا) سے ماخوذ ہے۔ دوسرا بعض یونانی تحریرات سے جوسنہ مسیحی سے کچھ عرصہ بیشتر لکھی گئی ہیں۔ اور یہ دونوں ذریعے اس بارے میں متفق ہیں کہ اس عہد کی مصری معاشرت کی حالت ٹھیک ٹھیک ویسی ہی تھی جس کی تصویر اس موقع پر قرآن نے کھینچ دی ہے۔ یعنی امراء کے طبقہ کی معاشرتی اور ازدواجی حالت عامۃ الناس سے بالکل مختلف تھی۔ ان کی عورتیں اپنے اعمال و تصرف میں بالکل آزاد تھیں۔ مردوں کے دباؤ میں رہنا پسند نہیں کرتی تھیں۔ ازدواجی زندگی میں پلہ انہی کا بھاری رہتا، اخلاقی حیثیت سے معاملہ نے ایسی صورت اختیار کرلی تھی کہ عصمت و بے عصمتی کا معاملہ عملا غیر اہم ہوگیا تھا۔ لوگ سب کچھ جانتے تھے اور پھر اسے جاگزیر سمجھ کر برداشت کرلیا کرتے تھے۔ گویا اس اعتبار سے پندرہ سو سال قبل مسیح مصری سوسائٹی کا حال ٹھیک ٹھیک ویسا ہی تھا جیسا ایک ہزار سال بعد رومۃ الکبری کے دار الحکومت میں ہمیں دکھائی دیتا ہے اور جس کا نمونہ خود جولیس سیزر کی بیویوں کی زندگی میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔ انہیں شک و شبہ سے اس لیے بالاتر کہا گیا تھا کہ شک و شبہ کا سب سے بڑا محل انہی کی زندگی تھی۔ دراصل یونان اور روم کا تمدن، اور بہت سی باتوں کی طرح اس بات میں بھی بابل اور مصر ہی کے نقش قدم پر چلا تھا۔ مصر کی یہ حالت برابر رہی، امراۃ العزیز کے عہد سے لے کر کلیو پیٹرا تک وہ صرف نسوانی حسن و جمال ہی میں نہیں بلکہ ازدواجی زندگی کی بے باکیوں اور مطلق العنانیوں میں بھی شہرہ آفاق رہا۔ خود اس سرگزشت میں بھی اس کی اندرونی شہادت موجود ہے۔ عزیز پر جب معاملہ کھل گیا تو جو بات اس کی زبان پر بے اختیار آگئی غور کرو، وہ کیا تھی؟ (انہ من کیدکن ان کیدکن عظیم) ہاں معلوم ہوگیا یہ تم عورتوں کا چرتر ہے، تم لوگوں کے چرتر بڑے ہی چرتر ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ اس وقت عورتوں کی نسبت سوسائٹی کے عام خیالات کیا تھے اور کس طرح یہ بات دلوں میں بیٹھی ہوئی تھی کہ مکرو فریب میں طاق ہیں، ان کے فریب سے عہدہ بر آ ہونا آسان نہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس موقع پر اس طرح کی بات بے اختیار عزیز کی زبان سے نکل جاتی، چرتر جو کچھ بھی کیا تھا اس کی بیوی نے کیا تھا، تمام عورتوں نے نہیں کیا تھا، لیکن چونکہ وقت کی معاشرتی زندگی عام طور پر ایسی ہی ہورہی تھی اس لیے جب ایک عورت کا معاملہ سامنے آیا تو بے اختیار زبان سے نکل گیا، تم سب کا یہی حال ہے۔ تمہارے مکرو فریب سے خدا کی پناہ۔ پھر بعد کو جو معاملہ پیش آیا اس سے بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اس بارے میں وقت کے نسوانی اخلاق کا معیار کیا تھا؟ شہر کی امیر زادیوں نے جونہی یہ خبر سنی کہ ایک عبرانی غلام ایسا طرحدار ہے کہ امراۃ العزیز جان دینے لگی ہے اور وہ قابو میں نہیں آتا بے اختیار اس سے ملنے کی مشتاق ہوگئیں اور پھر جب مجلس ضیافت آراستہ ہوئی اور یوسف بلائے گئے تو کوئی نہ تھا جس نے اپنی دلربائیوں اور رشوہ طرازیوں کے بے باکانہ تیروں سے انہیں چھلنی نہ کرنا چاہا ہو۔ ظاہر ہے کہ سوسائٹی کی عورتوں کا اس طرح بے حجابانہ کھل کھیلنا اور بغیر کسی جھجک کے ایک پوری مجمع کا اظہار عشق کرنا جبھی ہوسکتا ہے جبکہ لکھنو کی اصطلاح میں شوقینی وقت کا فیشن ہوگئی اور شوقین عورتیں پوری طرح آزاد ہوں۔ پس عزیز کے طرز عمل کے لیے اس کے سوا اور کسی توجیہ کی ضرورت نہیں کہ مصر کے ایک امیر کا طرز عمل تھا اور اسے ایسا ہی ہونا تھا، اس نے بیوی کو ملامت کردی کہ قصور تیرا ہی ہے، یوسف سے کہا اس بات کو اور آگے نہ بڑھانا اور معاملہ ختم ہوگیا۔ اس سے زیادہ نہ تو وہ کچھ کرسکتا تھا اور نہ وقت کے احساسات متقاضی تھے کہ کرے۔ تفسیر ان کیدکن عظیم : عزیز کے اس قول میں کہ ان کیدکن عظیم۔ جو رائے ظاہر کی گئی ہے وہ ظاہر ہے کہ اپنے وقت اور اپنے شہر کی عورتوں کی نسبت ہے، نہ کہ دنیا جہان کی تمام عورتوں کے لیے، اور پھر جو کچھ بھی ہے عزیز کا قول ہے۔ خود قرآن کا حکم نہیں ہے، لیکن افسوس ہے کہ لوگوں نے اس مقولہ کا اس طرح استعمال شروع کردیا، گویا عورتوں کے جنسی اخلاق کے لیے یہ قرآن کا فیصلہ ہے اور اس کے نزدیک عورتوں کی جنس مردوں کے مقابلہ میں زیادہ مکار اور بے عصمتی کی گھاتیں نکالنے میں زیادہ ہوشیار رہے۔ چنانچہ عام طور پر ہمارے مفسروں نے اس کا ایسا ہی مطلب قرار دیا ہے اور پھر حسب عادت و جوہ و مباحت کی دور دراز وادیوں میں گم ہوگئے ہیں۔ پہلے اسے عورتوں کی جنس کی نسبت قرآن کا عام و مطلق حکم قرار دیتے ہیں۔ پھر حیرانی میں پڑتے ہیں کہ شیطان کے کید کو تو ضعیف کہا ہے : (ان کید الشیطان کان ضعیفا) عرتوں کا کید کیسے عظیم ہوگیا؟ پھر تو جہیوں کی وادیوں میں قدم اٹھاتے ہیں اور جہاں تک نکل سکتے ہیں نکل جاتے ہیں۔ بعضوں کو مان لینا پڑتا ہے کہ شیطان کے کید سے بھی عورتوں کا کید بڑا ہے۔ کیونکہ آیت اس بارے میں نص قطعی ہے۔ بعضوں کی دقیقہ سنجی اس پر مطمئن نہیں ہوتی۔ وہ کہتے ہیں نہیں علی الاطلاق نہیں ہوسکتا، صرف جنسی تعلقات کے معاملہ میں ہے، اس میدان میں مرد انن سے بازی نہیں لے جاسکتے۔ حالانکہ نہ تو قرآن کا یہ حکم ہے، نہ عزیز کا قول ایسے محل میں ہے کہ اطلاق و عموم کے یہ سوالات پیدا ہوں۔ بحث و تفسیر کی یہ پوری عمارت بنیاد سے لے کر چوٹی تک بالکل بے اصل ہے۔ بلاشبہ مردوں نے اپنی ظالمانہ خود غرضیوں سے عورتوں کے بارے میں ہمیشہ ایسے ہی فیصلے کیے ہیں لیکن قراان کا یہ فیصلہ نہیں ہے۔ اس نے ہر جگہ مرد اور عورت دونوں کا مساویانہ حیثیت سے ذکر کیا ہے اور فضائل و خصائل کے لحاظ سے وہ دونوں میں کسی طرح کی بھی تفریق نہیں کرتا۔ سورۃ نسا میں جہاں ازدواجی زندگی کے احکام کی تشریح ہے وہاں صاف صاف تصریح کردی ہے کہ فضائل و محاسن کے لحاظ سے دونوں یکساں طور پر اپن اپنی راہیں رکھتے ہیں اور دونوں کے لیے ایک ہی طرح پر فضیلتوں کا دروازہ کھول دیا گیا۔ (للرجال نصیب مما اکتسبوا ولنساء نصیب مما اکتسبن وسئلوا اللہ من فضلہ ان اللہ کان بکل شیء علیما) چنانچہ جس طرحح وہ نیک مردوں کے فضائل و مدارج بتلاتا ہے اسی طرح نیک عورتوں کے بھی بتلاتا ہے اور جس طرح بدعمل مردوں کی برائیاں بتلائی ہیں اسی طرح بدعمل عورتوں کی بھی بتلائی ہیں۔ کہیں بھی دونوں میں کسی طرح کا امتیاز اس نے جائز نہیں رکھا ہے۔ مردوں کے لیے اگر فرمایا : (التائبون العبدون الحمدون السائحون الراکعون السجدون الامرون بالمعروف والناھون عن المنکر والحفظون لحدود اللہ) تو عورتوں کے لیے بھی فرمایا : (مسلمات مومنات قانتات تائبات عابدات سائحات) منافقوں کا ذکر کیا تو صرف مردوں ہی کا نہیں کیا، دونوں جنسوں کا کیا : (المنفقون والمنفقت بعضھم من بعض یامرون بالمنکر وینھون عن المعروف) مومنوں کا ذکر کیا تو صرف مردوں ہی کا نہیں کیا دونوں کا کیا : (والمومنون والمومنت بعضھم اولیاء بعض یامرون بالمعروف وینھون عن المنکر) مردوں اور عورتوں کی یہ اخلاقی مساوات اس کا عام اسلوب ہے، ہر جگہ تم دیکھو گے کہ وہ دونوں کو ایک ہی صف میں کھڑا کرتا، ایک ہی درجہ میں رکھتا اور ایک ہی طرح پر ذکر و خطاب کرتا ہے : (ان المسلمین والمسلمات والمومنین والمومنات والقنتین والقنتت والصدقین والصدقت والصبرین والصبرت والخشعین والخشعت والمتصدقین والمتصدقت والصائمین والصئمت والحفظین فروجھم والحفظت والذکرین اللہ کثیرا والذکرات اعد اللہ لھم مغفرۃ واجرا عظیما) یعنی جس طرح مردوں میں مسلم و مومن ہیں اسی طرح عورتوں میں بھی مسلمہ و مومنہ ہیں َ جس طرح مردوں میں قانت مرد ہیں اسی طرح عورتوں میں بھی قانۃ عورتیں ہیں۔ جس طرح مردوں میں صادق مرد ہیں اسای طرح عورتوں میں بھی صادقہ عورتیں ہیں، جس طرح مردوں میں اللہ کا خوف رکھنے والے اور بکثرت اس کا ذکر کرنے والے ہیں اسی طرح عورتوں میں بھی اللہ کا خوف رکھنے والیاں اور بکثرت ذکر کرنے والیاں ہیں، اور پھر جس طرح مردوں میں ایسے پاکباز ہیں کہ نفسانی خواہشوں کے غلبہ سے اپنی حفاظت کرتے ہیں اسی طرح عورتوں میں بھی ایسی پاکباز ہستیاں ہیں جو اپنی حفاظت سے کبھی غافل نہیں ہوتیں۔ غور کرو، کسی وصف میں بھی تفریق نہیں، کسی فضیلت میں بھی امتیاز نہیں، کسی بڑائی میں بھی عدم مساوات نہیں، پھر کیا ممکن ہے کہ جس قرآن نے مردوں اور عورتوں کی اخلاقی مساوات اس درجہ ملحوظ رکھی ہو اسی قرآن کا یہ فیصلہ ہو کہ عورتوں کی جنس مردوں کے مقابلہ میں زیادہ بداخلاق ہے؟ اور مرد بڑے پاکباز ہوتے ہیں مگر بدبخت عوتیں ہیں جو نفس پرست اور مکار ہیں؟ تفسیر قرآن کی تاریخ کی یہ کیسی بو العجمی ہے کہ ایک مصری بت پرست کے قول کو اللہ کا فرمان سمجھ لیا گیا، اور اس سے اس طرحح استدلال کیا جارہا ہے گویا عورتوں کی جنسی پستی و ابداخلاقی کے لیے کتاب اللہ کا قطعی فیصلہ موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر پاکبازی و عصمت کے لحاظ سے دونوں جنسوں میں تفریق ہی کرنی ہو تو ہر طرح کی نفس پرستیوں اور مکاریوں کی حیوانیت مرد کے حصہ میں آئے گی اور ہر طرح کی پاکیوں اور عفتوں کی فرشتگی عورت کے لیے ثابت ہوگی۔ یہ مرد ہی ہے جس کی حیوانیت پر عورت کی فرشتگی شاق گزرتی ہے، وہ چاہتا ہے اسے بھی اپنی ہی طرح کا حیوان بنادے، اس لیے اپنے کید عظیم کے سارے فتنے کام میں لاتا اور برائیوں کی ایک ایک راہ سے اسے آشنا کر کے چھوڑتا ہے۔ پھر جب وہ اس کے پیچھے قدم اٹھا دیتی ہے تو اس سے گردن موڑ لیتا ہے اور کہنے لگتا ہے اس کا کید تو سب سے بڑا کید اور اس کی برائی تو سب سے بڑی برائی ہے۔ فی الحقیقت سب سے بڑا کید تو مرد ہی کا کید ہے جو پہلے اسے اپنی کا مجوئیوں کا آلہ بناتا ہے اور جب بن جاتی ہے تو خود پاک بنتا اور ساری ناپاکیوں کا بوجھ اس معصوم کے سر ڈال دیتا ہے۔ دنیا میں کوئی عورت بری نہ ہوتی اگر مرد اسے برا بننے پر مجبور نہ کرتا، عورت کی برائی کتنی ہی سخت اور مکروہ صورت میں نمایاں ہوتی ہو، لیکن اگر جستجو کرو گے تو تہ میں ہمیشہ مرد ہی کا ہاتھ دکھائی دے گا اور اگر اس کا ہاتھ نظر نہ آئے تو ان برائیوں کا ہاتھ ضرور نظر آئے گا جو کسی نہ کسی شکل میں اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ تورات میں ہے کہ شجر ممنوعہ کے پھل کھانے کی ترغیب آدم کو حوا نے دی تھی اس لیے نافرمانی کا پہلا قدم جو انسان نے اٹھایا وہ عورت کا تھا۔ اسی بنا پر یہوددیوں اور عیسائیوں میں یہ اعتقاد پیدا ہوگیا کہ عورت کی خلقت میں مرد سے زیادہ برائی اور نافرمانی ہے اور وہی مرد کو سیدھی راہ سے بھٹکانے والی ہے۔ لیکن قرآن نے اس قصہ کی کہیں بھی تصدیق نہیں کی بلکہ ہر جگہ اس معاملہ کو آدم اور حوا دونوں کی طرف منسوب کیا۔ انہیں جو حکم دیا گیا تھا وہ بھی یکساں طور پر دونوں کے لیے تھا : (ولا تقربا ھذہ الشجرۃ فتکونا من الظلمین) اور لغزش بھی ہوئی تو ایک ہی طرح دونوں سے ہوئی : (فازلھما الشیطن عنھا فاخرجھما مما کانا فیہ) شیطان نے دونوں کے قدم ڈگمگا دیے، اور دونوں کے نکلنے کا باعث ہوا۔ یعنی جو لغزش ہوئی اس میں یکساں طور پر دونوں کا حصہ تھا۔ یہ بات نہ تھی کہ کسی ایک پر دوسرے سے زیادہ ذمہ داری ہو۔ بہرحال یہ بات رہے کہ سورۃ یوسف کی اس آیت سے جو استدلال کیا جارہا ہے وہ قطعا بے اصل ہے اور جہاں تک عورتوں کے جنسی اخلاق کا تعلق ہے قرآن میں کہیں ایسی بات موجود نہیں جس سے مترشح ہوتا ہو کہ عورت کی جنس مرد سے فروتر ہے یا بے عصمتی کی راہوں میں زیادہ مکارم اور شاطر ہے۔ امراۃ العزیز کا نام : تورات میں ہے کہ مصر کے جس امیر نے حضرت یوسف کو خریدا تھا اس کا نام فوطی فا رتھا (پیدائش : ٣٦: ٣٧) لیکن اس کی بیوی کا نام نہیں لکھا ہے نہیں معلوم ہمارے مفسرین نے کہاں سے یہ بات معلوم کرلی کہ اس کا نام زلیخا تھا؟ بہرحال اس کی کوئی قابل اعتنا اصلیت پائی نہیں جاتی۔ البتہ مفسرین کا یہ بیان بالکل صحیح ہے کہ اس وقت مصر کا حکمراں خاندان عمالقہ میں سے تھا۔ یہ عمالقہ وہی ہیں جنہیں مصر کی تاریخ میں ہیکسوس کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے اور جن کی اصلیت یہ بتائی گئی ہے کہ چرواہوں کی ایک قوم تھی، یہ چرواہوں کی قوم مصر میں کہاں سے آئی تھی؟ جدید تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب سے آئی تھی اور یہ دراصل عربی قبائل عاربہ ہی کی ایک شاخ تھی۔ قدیم قبطی اور عربی زبان کی مشابہت ان کے عرب ہونے کی ایک مزید دلیل ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا انتقال : تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف زندگی بھر مصر کے حکمران و مختار رہے اور جب ان کا آخری وقت آیا تو اپنے بھائیوں اور اپنی اولاد سے کہا، ایک وقت آئے گا جب خدا تمہیں پھر اسی زمین کنعان میں لے جائے گا، جس کا ابراہیم، اسحاق اور یعقوب سے اس نے وعدہ کیا ہے، تو جب وہ وقت آئے تم میری ہڈیاں اپنے ساتھ لے جانا اور میرے بزرگوں کے پاس دفن کردینا، چنانچہ ان کے خاندان کے لوگوں نے ان کی نعش میں خوشبو بھری اور ایک صندوق میں محفوظ کردی۔ (پیدائش : ٢٤: ٥٠) خوشبو بھرنے کا غالبا مطلب یہ ہے کہ مصریوں کے طریقہ کے مطابق ممی کر کے رکھی گئی تھی۔ جب چار سو برس بعد حضرت موسیٰ کا ظہور ہوا اور وہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر مصر سے نکلے تو انہوں نے حضرت یوسف کی نعش بھی اپنے ساتھ لے لی تھی، اس طرح حضرت یوسف کی وصیت کی تعمیل ظہور میں آگئی۔ سورۃ یوسف کے بصائر و حکم کی طرح اس کے مباحث ومسائل کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے، لیکن مزید تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ یوسف
0 الرعد
1 یہ سورت بھی مکی ہے اور خطاب مشرکین مکہ سے ہے۔ تمام مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی دین حق کے بنیادی عقائد کا بیانن ہے، یعنی توحید، رسسالت، وحی اور جزائے عمل لیکن خصوصیت کے ساتھ جس بات پر زور دیا گیا ہے اور جو سورت کی تمام موعظت و تدبیر کے لیے مرکز بیان و خطاب ہے وہ حق اور باطل کی حقیقت اور ان کی باہمی آویز کا قانون ہے۔ چنانچہ سورت کی ابتدا بھی اسی اعلان سے ہوئی ہے کہ (والذی انزل الیک من ربک الحق) اور خاتمہ بھی اسی پر ہوا ہے کہ (فانما علیک وعلینا الحساب) حق و باطل کے امتیاز کا یہی عالمگیر اور فیصلہ کن قانون ہے جو دعوت قرآنی کی حقانیت اور عدم حقانیت کا فیصلہ کردے گا۔ اگر پیغمبر اسلام کا اعلان رسالت حق ہے تو حق کا خاصہ یہی ہے کہ باقی رہے اور فتح مند ہو، اگر باطل ہے تو بلاشہ باطل کے لیے مٹ جانا اور نامراد ہونا ہے، یہی اللہ ہے جس سے بڑھ کر کوئی فیصلہ کن شہادت نہیں ہوسکتی اور اب اس شہادت کے ظہور کا انتظار کرنا چاہیے۔ سورت کی ابتدا اس اعلان سے ہوئی ہے کہ قرآن فکر انسانی کی بناوٹ نہیں ہے اللہ کی جانب سے نازل ہوا ہے۔ اور امر حق ہے لیکن مخاطبین دعوت میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو اسے نہیں مانتے، پس ضروری ہے کہ ان کے مقابلہ میں اس کی حقانیت آشکارا ہوجائے۔ پھر اللہ کی ہستی اور آخرت کی زندگی پر برہان حکمت و ربوبیت کا استدلال کیا ہے۔ اور یہ حقیقت واضح کی ہے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز کسی ایسی ہستی کی موجودگی کی شہادت دے رہی ہے جس نے جو کچھ بنایا ہے مصلحتوں اور حکمتوں کے ساتھ بنایا ہے اور یہاں کا ذرہ ذرہ اسی کی تدبیر و انتظام سے چل رہا ہے۔ پھر فرمایا ان نشانیوں کا تفکر دلوں میں یقین پیدا کردیتا ہے کہ انسانی زندگی صرف اتنے ہی کے لیے نہیں ہوسکتی جتنی حیات دنیوی میں نظر آرہی ہے۔ ضروری ہے کہ کوئی دوسرا مرحلہ بھی پیش آنے والا ہے ہو اور وہ ایسا ہو کہ مخلوق کو خالق کے حضور پیش کردے۔ اس آیت میں قدرت و حکمت الہی کے تین مرتبے بیان کیے ہیں : سب سے پہلے یہ کہ اجرام سماویہ کو پیدا کیا اور فضا میں پھیلا دیا، وہ بلند ہیں لیکن کوئی سہارا نہیں جو انہیں تھامے ہوئے ہو، محض جذب و انجذاب کا قانون ہے جس کے توازن نے انہیں اپنی اپنی جگہ معلق و قائم رکھا ہے۔ یہ ان کے پیدائش تھی لیکن اب ان کے قیام و اجرا کے لیے ضروری تھا کہ احکام و قوانین ہوں اور نافذ ہوجائیں پس اس تمام کائنات ہستی پر اللہ کی فرمانروائی نافذ ہوگئی یعنی اس کا تخت حکومت بچھ گیا۔ اس کے احکام کے آگے سب جھک گئے۔ یہ احکام و قوانین کس طرح نافذ ہوئے؟ اس طرح کہ سورج اور چاند کو دیکھو، احکام الہی نے کس طرح انہیں مسخر کر رکھا ہے ؟ بال برابر ان کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے، ان کی سیر و گردش کے لیے جو میعادیں ٹھہرا دی گئی ہیں ٹھیک ٹھیک اس کے مطابق چل رہے ہین۔ پھر اس کے بعد اس معاملہ کی وضاحت کردی کہ یدبر الامر اور یہاں یہی بات بنائے استدلال ہے۔ یعنی یہ سب کچھ جو ہوا اور ہو رہا ہے اس حقیقت کی شہادت ہے کہ یہاں تدبیر امور کرنے والا ایک ہاتھ موجود ہے ورنہ ممکن نہ تھا کہ یہ سب کچھ ظہور میں آجاتا اور قائم و جاری رہتا اور اگر تدبیر امور کی قوت کام کر رہی ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ اعمال انسانی کے لیے اس نے کوئی انتظام نہ کیا ہو اور انسانی زندگی ایک فعل عبث کی طرح رائیگاں جائے؟ الرعد
2 آیت (٢) میں عالم سماویہ کا ذکر کیا تھا۔ آیت (٣) میں فرمایا زمین کو دیکھو، وہ ایک گیند کی طرح مدور اور گول ہے لیکن اس کی سطح کا ہر حصہ ایسا واقعہ ہوا ہے کہ گولائی محسوس ہی نہیں ہوتی، ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے ایک مسطح فرش بچھا ہوا ہو، پھر اس میں پہاڑ پیدا کردریے گئے جن کی چوٹیوں پر برف جمتی اور پگھلتی رہتی ہے، اور اس طرح انہ نہروں کی روانی کا سامان ہوتا رہتا ہے جو میدانی زمینوں سے گزرتی ہیں اور انہیں سیراب کرتی رہتی ہیں۔ پھر زمین میں روئیدگی کیسی عجیب و غریب قوت پید اکردی کہ اس کی تمام طرح طرح کی خوش ذائقہ غذاؤں کا خوان نعمت بن گئی ہے؟ ہر طرح کے پھلوں کے درخت ہیں، ہر طرح کے دانوں کی فصلیں ہیں، سب میں دو دو قسموں اور جوڑوں کا قانون کام کر رہا ہے۔ اس اعتبار سے بھی کہ نباتات کی کوئی قسم نہیں جس میں حیوانات کی طرح نر اور مادہ کی جنسی تقسیم نہ ہو اور اس اعتبار سے بھی کہ ہر درخت کے پھل دو قسموں کے ضرور ہوتے ہیں۔ مثلا کھٹے اور میٹھے۔ خوش ذائقہ اور بد ذائقہ، اچھی قسم کے اور گری ہوئی قسم کے، پھر اس کی حکمت فرمائی کا یہ کرشمہ دیکھو کہ رات دن کا دائمی انقلاب طاری ہوتا رہتا ہے جو نباتات کی روئیدگی اور پختگی کے لیے ضروری تھا۔ جب دن کی تپش انہیں خوب اچھی طرح گرم کردیتی ہے تو رات آتی ہے اور زمین کو ڈھانپ لیتی ہے اور اس کی چادر کے تلے وہ خنکی و برودت کی مطلوبہ مقدار حاصل کرلیتے ہیں۔ پھر ربوبیت الہی کی یہ کارر فرمائی دیکھو کہ زمین کی سطح ایک ہے مگر اس کے مختلف قطعات یکساں نہیں، سب ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں لیکن اپنی روئیدگی اور پیداوار کی مختلف خدمتیں انجام دے رہے ہیں۔ ایک قطعہ میں باغ ہیں ایک میں کھیت ہیں، ایک میں نخلستان ہیں، پھر اگرچہ زمین ایک ہے اور ایک ہی پانی سے ہر قطعہ سیراب ہوتا ہے لیکن ہر درخت کا پھل یکساں نہیں، کسی کا مزہ کچھ ہوتا ہے کسی کا کچھ۔ کائنات ہستی کے ان تمام کارخانوں کا اس نگرانی اور دقیقہ سنجی کے ساتھ نافع و کار آمد ہونا اور مخلوقات کی ضروریات کا اس عجیب و غریب کارر فرمائی کے ساتھ انتظام پانا کیا اس حقیقت کا اعلان نہیں ہے کہ ایک پرورش کنندہ اور مدبر ہستی موجود ہے اور یہاں جو کچھ ہورہا ہے کسی مقصد اور منتہی کے لیے ہورہا ہے ؟ الرعد
3 الرعد
4 الرعد
5 آیت (٥) میں فرمایا کائنات ہستی کی ہر بات یقین دلارہی ہے کہ یہ کارخانہ تدبیر و حکمت بغیر کسی مصلحت و مقصد کے نہیں ہوسکتا اور ضروری ہے کہ انسان کی زندگی صرف اتنی ہی نہ ہو کہ پیدا ہو، کھایا پیا اور فنا ہوگیا بلکہ اس کے بعد بھی کچھ نہ کچھ ہونے والا ہو، ورنہ تدبیر و مصلحت کا سارا کارخانہ باطل ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر اس پر بھی لوگوں کی غفلت کا یہ حال ہے کہ حیات آخڑت کی بات ان کی سمجھ میں نہیں ٓٓتی تو اس سے زیادہ کون سی بات عجب ہوسکتی ہے ؟ عجب بات یہ نہیں ہے کہ مرنے کے بعد پھر انسان پر ایک دوسری زندگی طاری ہوگی کیونکہ اس کی شہادت تو دنیا کی ہر چیز دے رہی ہے، عجب بات یہ ہے کہ انسان صرف حیات دنیوی پر قانع و مطمئن ہوجائے اور سمجھ لے اس کی پیدائش سے جو کچھ مقصود تھا وہ صرف اتنا ہی تھا کہ ایک مرتبہ پیدا ہوا اور کچھ دنوں کھا پی کر مرگیا۔ عقل و بینش کا مقتضا تو یہ تھا کہ اگر کہا جاتا، یہ زندگی صرف دنیا ہی کی زندگی ہے تو طبعیتیں کس طرح مطمئن نہ ہوتیں اور شک و شبہ میں پڑجاتیں کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے ؟ لیکن منکرین حشر کی عقل و بینش کا یہ حال ہے کہ انہیں کہا جارہا ہے زندگی صرف اتنی ہی نہیں اور وہ ہیں کہ حیران ہو کر کہتے ہیں۔ جب مرگئے اور گل سڑ کر مٹی ہوگئے تو کیا پھر ہمیں زندگی کا ایک نیا جامہ مل جائے گا؟ الرعد
6 آیت (٦) میں انکار و جحود کی اس حالت کی طرف اشارہ کیا ہے ہے کہ انسان بھلائی کی جگہ برائی کے لیے جلدی مچانے لگتا ہے، یعنی کہنے لگتا ہے اگر انکار و بدعملی کا برا نتیجہ نکلنے والا ہے تو وہ نیتجہ کہاں ہے ؟ کیوں پیش نہیں آجاتا؟ فرمایا اس لیے کہ اللہ بڑا ہی بخشنے والا اور درگزر کرنے والا ہے پس فورا نتیجہ بدھ پیش نہیں آجاتا، مہلتوں پر مہلتیں دی جاتی ہیں لیکن جب وقت آجائے تو وہ شدید العقاب بھی ہے، کیونکہ پاداش عمل کبھی ٹلنے والی نہیں اور نہ کسی طرح کی نرمی کرنے والی ہے۔ انسان کی ایک عالمگری گمراہی یہ رہی ہے کہ وہ سچائی کو سچائی میں نہیں ڈھونڈتا بلکہ دوسری چیزوں میں تلاش کرتا ہے۔ ازاں جملہ یہ کہ اچنبھوں اور عجائب کاریوں کو سچائی کی دلیل سمجھتا ہے اور خیال کرتا ہے سب سے ز یادہ سچا انسان وہ ہے جو سب سے زیادہ عجیب و غریب ہو۔ قرآن نے جن بنیادی گمراہیوں کا ازالہ کیا منجملہ ان کے ایک گمراہی یہ ہے۔ اس نے جابجا یہ حقیقت واضح کی ہے کہ دعوت حق کی شناکٹ خود دعوت ہے نہ کہ عجائب و غرائب کا ظہور جسے لوگوں نے دلیل صداقت سمجھ رکھا تھا۔ الرعد
7 آیت (٧) میں فرمایا : یہ لوگ کہتے ہیں عجیب و غریب قسم کی نشانیاں اس شخص کے لیے کیوں ظاہر نہیں ہوتیں؟ لیکن وہ نہیں جانتے کہ انبیا کا ظہور عجائب نمائیوں کے لیے نہیں ہوتا، ہدایت خلق کے لیے ہوتا ہے، جس طرح دنیا کی ہر قوم میں ایک ہدایت کرنے والاانسان پیدا ہوچکا ہے، اسی طرح تم بھی ہدایت کے لیے ظاہر ہوئے ہو، تمہارا دعوی یہ نہیں ہے کہ میں اچنبھے دکھانے کے لیے آیا ہوں۔ دعوی یہ ہے کہ ہدایت کی راہ دکھانے آیا ہوں۔ پس طالب حق کو دیکھنا چاہیے کہ تمہاری زندگی، تمہاری تعلیم، تمہارا طور طریقہ واقعی ہدایت کا ہے یا نہیں ہے ؟ یہی بات آگے چل کر آیت (٢٧) میں بھی فرمائی ہے اور وہاں زیادہ وضاحت ہوگئی ہے۔ فرمایا (الذین امنوا وتطمئن قلوبھم بذکر اللہ) جو ایمان لائے ہیں وہ تو اس طرح لائے ہیں کہ ذکر الہی سے ان کے د لوں کو قرار مل گیا۔ تمام شکوک دور ہوگئے، انہیں اس کی ضرورت نہ ہوئی کہ اچنبھوں کی فرمائش کرتے۔ الرعد
8 پھر آیت (٨) میں فرمایا اللہ کے علم سے کوئی بات ور کوئی حالت پوشیدہ نہیں اور اس نے ہر بات کے لیے ایک اندازہ مقرر کردیا ہے۔ اس سے باہر کوئی بات نہیں جاسکتی پس وہ تمہاری نیتوں اور خیالوں سے بے خبر نہیں، اس نے ہدیات و شقاوت کے معاملہ کے لیے بھی اندازے ٹھہرا دییے ہیں، جو ہدایت پائے گا اسی کے مطابق پائے گا، جو نہیں پائے گا اسی کے مطابق نہیں پائے گا۔ الرعد
9 الرعد
10 الرعد
11 ہدایت و شقاوت کا یہ اندازہ یعنی مقررہ قانون کیا ہے؟ آیت (١١) میں فرمایا عمل اور صلاحیت عمل کا قانون ہے۔ یہی ایک کے بعد ایک آنے والی قوتیں ہیں جو حکم الہی سے انسان کی حفاظت کرتی ہیں۔ یہ اس کے گزشتہ اعمال ہیں جن سے اس کا حال پید اہوتا ہے اور حال کے اعمال ہیں جو اس کا مستقبل بناتے ہیں۔ پھر اس کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا خدا کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدل ڈالے، یعنی اصل اس بارے میں خود انسان کا عمل ہے۔ وہ جیسی حالت چاہے اپنے عمل اور صلاحیت عمل سے حاصل کرلے سکتا ہے۔ اگر ایک قوم بدحال ہے وا وہ اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرلیتی ہے جس سے خوشحالی پیدا ہوسکتی ہے تو خدا کا قانون یہ ہے کہ یہ تبدیلی فورا اس کی حالت بدل دے گی۔ اور بدحالی کی جگہ خوشحالی آجائے گی۔ اسی طرح خوشحالی سے بدحالی کا تغیر بھی سمجھ لو۔ پھر فرمایا جب ایک قوم نے اپنی عملی صلاحیت کھو دی اور اس طرح تبدیل حالت کی مستحق ہوگئی تو ضروری ہے کہ اسے برائی پہنچے، یہ برائی کبھی ٹل نہیں سکتی کیونکہ یہ خود خدا کی جانب سے ہوتی ہے، یعنی اس کے ٹھہرائے ہوئے قانون کا نفاذ ہوتا ہے اور خدا کے قانون کا نفاذ کون ہے جو روک سکے اور کون ہے جو کسی کو اس کی زد سے بچا سکے ؟ لیکن یہ برائی جو پہنچتی ہے تو کیا اس لیے پہنچتی ہے کہ اس نے برائیوں کا سامان کردیا ہے ؟ آیت (١٢) میں فرمایا کہ نہیں، اس نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ بجز اچھائی اور خوبی کے اور کچھ نہیں ہے، لیکن اچھائی اور کو بی کی بڑی سے بڑی بات بھی تمہاری عاجز اور درماندہ نگاہوں کے لیے خوف و دہشت کی ہولناکی بن جاتی ہے۔ تم اپنی حالت اور اضافت کے لحاظ سے سمجھنے لگتے ہو کہ برائی ہے اور تمہارے لیے برائی ہو بھی جاتی ہتے لیکن اس کے لیے کہ وہ فی نفسہ برائی ہے بلکہ اس لیے کہ تمہاری حالت اور اضافت کے لحاظ سے برائی ہوگئی : کفر ہم نسبت بہ خالق حکمت ست۔۔۔۔۔ چوں بہ ما نسبت کنی کفر آفت ست یہ مقام تشریح طلب ہے اور تشریح کے لیے تفسیر فاتحہ ما مبحث برہان رحمت دیکھنا چاہیے۔ چنانچہ اس حقیقت کی وضاحت کے لیے ایک ایسی مثال بیان کی جو ہر انسان کے علم و مشاہدہ میں ہمیشہ آتی رہتی ہے۔ فرمایا بجلی کا چمکنا مایوسیوں کے لیے پیام امید ہوتا ہے۔ اگر نہ چمکے تو باران رحمت کے ظہور کا پیام بھی نہ ملے، لیکن تمہارے لیے یہ معاملہ خوف و امید کا معاملہ بن گیا۔ بارش کی امید سے خوش ہوتے ہو، لیکن ساتھ ہی بجلی کی تیزی سے ڈرنے بھی لگتے ہو۔ پھر وہی بجلی جو زمین کے لیے زندگیوں کا پیام ہے جب کسی انسان پر گرتی ہے تو اس کے لیے موت کا پیام بن جاتی ہے۔ اسی طرح بادل کا گرجنا تمہارے لیے سرتاسر دہشت و ہولناکی ہے حالانکہ وہ فی الحقیقت ہولناکی نہیں ہے۔ سرتاسر خدا کی محمودیت کا اعلان ہے۔ وہ گرج گرج کر اس کی ستائیشوں کا اعلان کرتا، اس کی تقدیس و تسبیح میں ربط اللسان ہوتا ہے۔ فرشتے اس کے خوف سے نہیں ڈرتے، خدا کے خوف سے ترساں رہتے ہیں۔ مگر تمہارے لیے وہ کائنات جو کی سب سے بڑی ہولناکی ہوگئی ہے۔ وھم یجادلون فی اللہ۔ یعنی اللہ کی قدرت و حکمت کی یہ نشانیاں ہمیشہ انسان کے علم و مشاہدہ میں آتی رہتی ہیں۔ اس پر بھی اس کی غفلت کا یہ حال ہے کہ اللہ کی ہستی اور اس کی یگانگت کے بارے میں ہمیشہ جھگڑتا رہتا ہے گویا یہ حقیقتیں ثابت نہیں، یہ نشانیاں کبھی ظہور ہی میں نہیں آئیں۔ قرآن کا عام اسلوب بیان یہ ہے کہ توحید ربوبیت و خالقیت سے توحید الوہیت پر استدلال کرتا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی آیت (١٤) سے سلسلہ بیان اسی طرف پھر گیا ہے۔ فرمایا عبودیت کی سچی پکار رہی ہے جس کا خطاب اللہ سے ہو، جو لوگ اس کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی مٹھی میں پانی بند کرنا چاہے اور اسے اپنے تشنہ لبوں تک لے جانا چاہے۔ معلوم ہے کہ وہ اپنی کوشش میں کبھی کامیاب نہ ہوگا، اس کی کوششیں بھٹک بھٹک کر رہ جائیں گی۔ الرعد
12 الرعد
13 الرعد
14 (١) پانی کو مٹھی میں لینا چاہتو و وہ کسی جمی ہوئی چیز کی طرح کبھی مٹھی میں نہیں آئے گا۔ اس لیے عربی میں کہتے ہیں فلاں آدمی قبض علی الماء کی کوشش کرتا ہے۔ یعنی ایسی بات کے درپے ہے جو ملنے والی نہیں، اردو میں بھی کہتے ہیں، پانی مٹھی میں بند کرنا چاہتا ہے، پس یہاں فرمایا جو لوگ اپنے بنائے ہوئے معبودوں کو پکارتے ہیں، ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی پیاسا مٹھی میں پانی بند کرنا چاہے، حالانکہ یہ بات ہونے والی نہیں، وہ کتنی ہی مرتبہ پانی کو مٹھی میں لے گا، پانی ٹکے گا نہیں، اور اس کے لب تشنہ کے تشنہ ہی رہ جائیں گے۔ الرعد
15 آیت (١٥) میں فرمایا : تمام مخلوقات اسی کے آگے چارو ناچار جھکی ہوئی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ہر آنکھ دیکھ سکتی ہے کہ حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں، تم جو احکام الہی سے سرتابی کرنی چاہتے ہو خود اپنے سایے کو دیکھ لو۔ جو اندازہ اس بارے میں بنا دیا گیا ہے کہ اس سے کبھی وہ باہر نہیں جاسکتا۔ صبح کو چڑھتی دھوپ میں اس کا ایک خاص ڈھنگ ہوتا ہے، شام کو ڈھلتی دھوپ میں ایک خاص ڈھنگ، اگر غور کرو تو قدرت الہی کے احکام و قوانین کے آگے ٹحیک اسی طرح تمہاری ہستیاں بھی مسخر ہیں۔ خواہ تمہیں اقرار ہو، خواہ انکار۔ الرعد
16 الرعد
17 آیت (١٧) مہمات معارف میں سے ہے اور سورت کے تمام مواعظ کے لیے مرکزی موعظت ہے۔ فرمایا یہ جو کچھ بھی ہے حق اور باطل کی آویزش ہے۔ لیکن حق اور باطل کی حقیقت کیا ہے ؟ کون سا قانون الہی ہے جو اس کے ااندر کام کر رہا ہے ؟ یاں واضح کیا ہے کہ یہ بقائے انفع کا قانون ہے یعنی اللہ نے کائنات کے قیام و اصلاح کے لیے یہ قانون ٹھہرا دیا ہے کہ یہاں وہی چیز باقی رہ سکتی ہے جس میں نفع ہو۔ جس میں نفع نہیں وہ ٹھہر نہیں سکتی، اسے نابوو ہوجانا ہے۔ اس نازک اور دقیق حقیقت کے لیے کیسی صاف اور عامۃ الورود مثال بیان کردی جس کے معائنہ سے کوئی انسانی نگاہ بھی محروم نہیں ہوسکتی؟ فرمایا جب پانی برستا ہے اور زمین کے لیے شادابی و گل ریزی کا سامان مہیا ہونے لگتا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ تمام وادیاں نہروں کی طرح رواں ہوجاتی ہیں لیکن پھر کیا تمام پانی رک جاتا ہے ؟ کیا میل کچیل اور کوڑا کرکٹ اپنی اپنی جگہ تھمے رہتے ہیں؟ کیا زمین کی گود ان کی حفاظت کرتی رہتی ہے ؟ نہیں زمین کو اپنی نشوونما کے لیے جس قدر پانی کی ضرورت ہوتی ہے وہ جذب کرلیتی ہے، ندی نالوں میں جس قدر سمائی ہوتی ہے اتنا پانی وہ روک لیتی ہیں، باقی پانی جس تیزی کے ساتھ گرا تھا ویسی ہی تیزی سے بہہ بھی جاتا ہے۔ میل کچیل کوڑا کرکٹ جھاگ بن بن کر سمٹتا اور ابھرتا ہے۔ پھر پانی کی روانی اسے اس طرح اٹھا کرلے جاتی ہے کہ تھوڑی دیر کے بعد وادی کا ایک ایک گوشہ دیکھ جاؤ، کہیں ان کا نام و نشان بھی نہیں ملے گا۔ اسی طرح جب چاندی، سونا یا اور کسی طرح کی دھات آگ پر تباتے ہو تو کھوٹ الگ ہوجاتا ہے، خالص دھات الگ نکل آتی ہے۔ کھوٹ کے لیے نابود ہوجانا ہے، خالص دھات کے لیے باقی رہنا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس لیے کہ یہاں بقائے انفع کا قانون کام کررہا ہے۔ یہاں باقی رہنا اسی کے لیے ہے جو نافع ہو۔ جو نافع نہیں وہ چھانٹ دیا جائے گاْ یہی حقیقت حق اور باطل کی ہے۔ حق وہ بات ہے جس میں نفع ہے پس وہ کبھی ٹلنے والی نہیں۔ ٹکنا، ثابت ہونا، باقی رہنا اس کا قدرتی خاصہ ہے اور حقق کے معنی ہی قیام و ثبات کے ہیں۔ لیکن باطل وہ ہے جو نافع نہیں اس لیے اس کا قدرتی خاصہ ہی یہ ہوا ہے کہ مٹ جائے، محود ہوجائے، ٹل جائے۔ (ان الباطل کان زھوقا) اسی حقیقت کا ایک گوشہ ہے جسے ہم نے بقائے اصلح کی شکل میں دیکھا ہے۔ لیکن قرآن نے اصلح نہیں کہا انفع کہا۔ کیونکہ صالح وہی ہے جو نفافع ہو۔ کارخانہ ہستی کی فطرت میں بناوٹ اور تکمیل ہے اور تکمیل جب ہی ہوسکتی ہے جبکہ صرف نافع اشیا ہی باقی رکھی جائیں۔ غیر نافع چھانٹ دی جائیں۔ یہی حقیقت ہے جسے قرآن نے جابجا قضاء بالحق سے بھی تعبیر کیا ہے۔ یعنی حق کا فیصلہ۔ مزید تشریح کے لیے تفسیر فاتحہ کا مطالعہ کرنا چاہے۔ الرعد
18 پھر آیت (١٨) میں وضاحت کرتے ہوئے فرمایا۔ اسی قانون کا یہ نتیجہ ہے کہ جو لوگ احکام حق قبول کرتے ہیں ان کے لیے کو بی ہوتی ہے، جو نہیں کرتے ان کے لیے محرومی ہوتی ہے۔ کیونکہ جنہوں نے قبول کیا ان کے اعمال نافع ہوگئے۔ اب نافع عمل مٹ نہیں سکتا۔ جنہوں نے انکار کیا وہ غیر نافع ہوگئے، غیر نافع باقی نہیں رہ سکتا۔ الرعد
19 آیت (١٩) میں فرمایا : جسے حق کا علم و عرفان حاصل ہوگیا اور جس نے جان لیا کہ یہ بات سچائی ہے یہ سچائی نہیں، کیا اس کا اور اس آدمی کا ایک ہی حکم ہوسکتا ہے جو تاریکی میں ہے اور حق کے مشاہدہ سے اندھا ہورہا ہے ؟ یعنی پہلا تو علم و بصیرت پیش کر رہا ہے۔ دوسرے کے پاس سکے سوا کچھ نہیں کہ کہتا ہے مجھے دکھائی نہیں دیتا۔ پس پہلے کی جگہ علم کی ہوئی۔ دوسرے کی جہل و کوری کی ہوئی، دونوں کیسے برابر ہوسکتے ہیں؟ (انما یتذکر اولوا الالباب) نصیحت پذیر وہی ہوسکتے ہیں جو اصحاب دانش ہیں۔ جنہوں نے دانش و فہم سے منہ موڑ لیا ان سے کوئی توقع نہیں۔ اس کے بعد ان لوگوں کے اعمال گنائے ہیں جنہوں نے احکام حق قبول کیے اور دنیا کے لیے نافع ہوگئے۔ یہ اعمال کیا کیا ہیں؟ (ا) اللہ کی بندگی کا عہد پورا کرتے ہیں، اپنی عبودیت میں سچے اور کامل ہیں۔ (ب) اللہ نے جو رشتے جوڑد یے ہیں انہیں ظلم و ناانصافی سے توڑتے نہیں بلکہ ہر رشتہ کا پاس کرتے اور ہر علاقہ کا حق ادا کرتے ہیں۔ اس عمل میں تمام حقوق العباد آگئے جس طرح پہلی بات میں حقوق اللہ آگئے ہیں۔ (ج) آخرت کی فکر سے بے پروا نہیں ہوتے، جو کچھ کرتے ہیں، اس میں خوف آخرت کی کھٹک موجود ہوتی ہے، وہ یقین رکھتے ہیں کہ کسی کے آگے ایک دن حساب دینا ہے اور حساب کی سختی پیش آنے والی ہے۔ (د) اللہ کی محبت میں ہر طرح کی ناگوار حالتیں صبر و ثبات کے ساتھ جھیل لیتے ہیں۔ شدتوں اور محنتوں سے منہ نہیں موڑتے۔ آزمائشوں کو پیٹھ نہیں دکھاتے۔ (ہ) نماز اس کی ساری شرطوں کے ساتھ قائم رکھتے ہیں َ (و) جو کچھ کماتے ہیں اسے صرف اپنے نفس ہی پر خرچ نہیں کرتے، دوسروں پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ اور ہر حال میں خرچ کرتے ہیں، کھلے طور پر بھی، پوشیدہ طور پر بھی۔ (ز) بدی کے بدلے بدی کرنا ان کا شیوہ نہیں، کوئی ان کے ساتھ کتنی ہی برائی کرے یہ بھلائی ہی سے پیش آئیں گے۔ الرعد
20 الرعد
21 الرعد
22 الرعد
23 الرعد
24 الرعد
25 الرعد
26 الرعد
27 الرعد
28 الرعد
29 الرعد
30 الرعد
31 آیت (٣١) میں یہ حقیقت واضح کی کہ اللہ کی کتاب ہدایت خلق کے لیے نازل ہوتی ہے۔ عجائب آفرینیوں کے لیے نازل نہیں ہوئی۔ اگر کوئی کتاب اس لیے نازل ہوئی ہوتی کہ پہاڑوں کو چلا دے اور مردوں سے صدائیں نکال دے تو تم پر بھی ایسی ہی چیز اترتی، لیکن نہ ایسا ہوا ہے نہ اب ہوگا۔ اس طرح کی عجائب آفرینیوں کی فرمائش اس بات کی دلیل ہے کہ دلوں میں سچائی کی طلب نہیں، اگر طلب ہوتی تو پہاڑوں کے چلنے کا انتظار نہ کرتے۔ یہ دیکھتے کہ انسانوں کے دلوں کو کس راہ چلاتی ہے اور مردہ جسموں کی جگہ مردہ روحوں کو کس طرح زندہ کردیتی ہے ؟ الرعد
32 الرعد
33 الرعد
34 الرعد
35 الرعد
36 الرعد
37 الرعد
38 آیت (٣٨) میں فرمایا : (لکل اجل کتاب) اس کا ایک مطلب تو وہ ہے جو ہم نے ترجمہ میں اختیار کیا ہے۔ دوسرا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہر بات کے مقررہ وقت کے لیے ایک نوشتہ ہے۔ یعنی طے شدہ میعاد ہے اور وہ اس سے پہلے ظہور میں نہیں آسکتی۔ الرعد
39 الرعد
40 آیت (٤٠) سے آخر سورت تک سورت کے تمام مواعظ کا خلاصہ ہے۔ فرمایا تمہارے ذمہ جو کچھ ہے وہ تو یہ ہے کہ پیام حق پہنچا دو۔ محاسبہ اللہ کا کام ہے اور وہ حساب لے کر رہے گا۔ ہوسکتا ہے کہ جن جن باتوں کا وعدہ کیا گیا ہے تمہاری زندگی ہی میں ظاہر ہوجائیں۔ ہوسکتا ہے کہ تمہارے بعد ظہور میں آئیں۔ یہ بات کہ ان نتائج و عواقب کا ظہور تمہارے سامنے نہ ہوا۔ مواعید الہی کی صداقت پر کچھ اثر نہیں ڈال سکتی۔ یہ بات مختلف سورتوں میں بار بار کہی گئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مقصود صرف یہی نہیں تھا کہ مستقبل کی خبر دے دی جائے بلکہ یہ حقیقت بھی واضح کرنی تھی کہ کوئی شخصیت کتنی ہی اہم ہو لیکن پھر شخصیت ہے اور کاروبار حق کا معاملہ اس کی موجودگی و عدم موجودگی پر موقوف نہیں، جو کچھ ہونا چاہیے اور جو کچھ ہونے والا ہے بہرحال ہو کر رہے گا۔ خواہ پیغمبر اپنی زندگی میں اس کا ظہور دیکھ لے یا نہ دیکھ سکے۔ پھر غور کرو، نتائج کا ظہور بھی ٹھیک ٹھیک اسی طرح ہوا۔ جن باتوں کی خبر دی گئی تھی ان کا بڑا حصہ تو خود پیغمبر اسلام کی زندگی ہی میں ظاہر ہوگیا یعنی انہوں نے دنیا چھوڑنے سے پہلے تمام جزیرہ عرب کو حلقہ بگوش اسلام پایا۔ البتہ بعض باتوں کا ظہور آپ کے بعد ہوا۔ مثلا منافقوں کا استیصال، بیرونی فتوحات کا حصول اور خلافت ارضی کے وعدہ کی تکمیل۔ الرعد
41 آیت (٤١) میں خبر دی گئی ہے کہ وہ سریع الحساب ہے اس لیے ظہور نتائج کا وقت دور نہیں۔ نیز یہ کہ دعوت حق کی فتح مندی اس طرح ظہور میں آئے گی کہ بتدریج مکہ کے اطراف و جوانب قریش مکہ کے تسلط سے کٹتے جائیں گے اور بالآخر مکہ بھی فتح ہوجائے گا۔ آخری آیت میں واضح کردیا کہ حق و باطل کی موجودہ آویزش کا نقطہ نزاع کیا ہے ؟ فرمایا تمہارا دعوی ہے کہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہو، منکر کہتے ہیں نہیں، تم بھیجے ہوئے ہیں، اب قانون قضاء بالحق کے مطابق فیصلہ اللہ کے ہاتھ اور اس کی شہادت بس کرتی ہے۔ اللہ کی شہادت سے مقصود بھی قضاء بالحق ہے اور بقائے انفع کے قانون کا نفاذ ہے جو ظاہر ہو کر بتلا دیتا ہے کہ حق کس کے ساتھ تھا اور باطل کا کون پرستار تھا۔ مزید تشریح کے لیے تفسیر سورۃ فاتحہ کا مطالعہ کرو۔ الرعد
42 الرعد
43 الرعد
0 ابراھیم
1 اس سورت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں انبیاء کے ظہور اور اسکے احوال و ظروف اور نتائج کو مجموعی طور پر پیش کیا گیا ہے۔ بیان حضرت موسیٰ کی زبانی ہے، یعنی اس باب میں ان کی موعظت نقل کی گئی ہے، پھر سلسلہ بیان دعوت قرآن کے ظہور پر متوجہ ہوگیا ہے اور واضح کیا ہے کہ جو نتائج ہمیشہ نکل چکے ہیں ویسے ہی نتائج اب بھی نکلیں گے۔ آخرت میں اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ دعوت قرآن دراصل دعوت ابراہیمی کی تجدید ہے اور اسی عہد الہی کا ظہور ہے جو حضرت ابراہیم سے کیا گیا ہے۔ ایک خاص بات یہ بھی نمایاں ہے کہ خطاب کا رخ زیادہ تر روسائے قریش کی طرف ہے جن کے ہاتھ میں ملک کی ریاست و پیشوائی کی بات تھی۔ ہدایت روشی ہے اور ضلالت تاریکی ہے، سنت الہی یہ ہے کہ جب تاریکی پھیل جاتی ہے تو وہ ہدایت کے ذریعہ سے انسانوں کو تاریکی سے نکالتا ہے ور روشنی میں لاتا ہے۔ چنانچہ قرآن کا ظہور اسی روشنی کا پیام ہے اور ایسا ہی پیام حضرت موسیٰ نے بھی دیا تھا۔ سورۃ ہود کے آخری نوٹ میں یہ بات واضح کی جاچکی ہے کیونکہ گزشتہ اقوام کے وقائع و ایام کو ایام اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہاں فرمایا کہ حضرت موسیٰ کو وحی الہی سے ایمان ہوا تھا کہ اپنی قوم کو ایام اللہ کی عبرتیں اور بصیرتیں یاد دلائیں، کیونکہ ان میں صبر و شکر کرنے والوں کے لیے فتح و کامرانی کی بڑی بڑی نشانیاں پوشیدہ ہیں۔ بنی اسرائیل مصر میں عرصہ تک مظلوم و مقہوری کی زندگی بسر کرچکے تھے۔ اس لیے طبیعتوں میں مایوسی و بے ہمتی سرایت کرگئی تھی۔ مستقبل کے فتح، اقبال کی بشارتیں سنتے مگر اپنے دل میں عزم و ثبات کے ولولے نہیں پاتے تھے۔ پس حضرت موسیٰ کو حکم ہوا کہ انہیں ایام اللہ کے تذکرے سناؤ۔ ان تذکروں میں قوانین حق کی بڑی بڑی نشانیاں ہیں، یعنی بڑی بڑی دلیلیں ہیں، یہ دلیلیں واضح کردیں گی کہ جو لوگ مصائب و محن کے مقابلہ میں ہمت نہیں ہار دیتے، سچائی کی راہ میں جمے رہتے ہیں اور سعی و عمل سے گھبراتے نہیں، ان کی کامیابی قطعی اور اٹل ہوتی ہے اور ہمیشہ ایسے ہی لوگ فتح و مراد سے ہم آغوش ہوتے ہیں۔ ابراھیم
2 ابراھیم
3 ابراھیم
4 ابراھیم
5 یہی وجہ ہے کہ آیت (٥) میں فرمایا : اس تذکرہ میں صبر و شکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ صبر کے معنی یہ ہیں کہ مشکلوں مصیبتوں کے مقابلہ میں جمے رہنا۔ شکر کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی بخشی ہوئی قوتوں کی قدر کرنا اور انہیں ٹھیک ٹھیک کام میں لانا۔ ابراھیم
6 ابراھیم
7 آیت (٧) میں فرمایا : خدا کا یہ مقررہ قانون ہے کہ جو قوم شکر کرتی ہے، یعنی خدا کی بخشی ہوئی نعمتوں کی قدر بجا لاتی ہے اور انہیں ٹھیک طور پر کام میں لاتی ہے خدا اسے اور زیادہ نعمتیں عطا فرماتا ہے جو کفران نعمت کرتی ہے یعنی قدر شناسی نہیں کرتی، وہ محرومی و نامرادی کے عذاب میں گرفتار ہوجاتی ہے اور یہ اللہ کا سخت عذاب ہے، جو کسی انسانی گروہ کے حصے میں آتا ہے۔ غور کرو حقیقت حال کی کتنی سچی تعبیر ہے ؟ جو فرد یا گروہ خدا کی بخشی ہوئی نعمتوں کی قدرت کرتا ہے۔ مثلا خدا نے اسے فتح مندی و کامرانی عطا فرمائی ہے وہ اس نعمت کو پہچانتا، اسے ٹھیک طور پر کام میں لاتا اور اس کی حفاظت سے غافل نہیں ہوتا، وہ اور زیادہ نعمتوں کے حصول کا مستحق ہوجاتا ہے یا نہیں؟ جو ایسا نہیں کرتا کیا اس کی نامرادی و تباہی میں کوئی شک ہوسکتا ہے ؟ سورۃ ہود کے آخری نوٹ میں ایما و وقائع کا مبحث گزر چکا ہے۔ اسے پیش نظر رکھو اور دیکھو، یہاں تمام ایام و وقائع کے مجموعی نتائج و سنن کس طرح بیان کیے جارہے ہیں اور کس طرح ان کے جزئیات کو ایک کلی حقیقت کی صورت میں پیش کیا جارہا ہے۔ یعنی سب کا ظہور ایک ہی طرح ہوا تھا، سب کے ساتھ ان کی قوموں نے ایک ی طرح کا سلوک کیا تھا، سب کی دعوت ایک ہی تھی، سب کو جوابات ایک ہی طرح کے ملے تھے اور پھر نتیجہ بھی ہر واقعہ میں ایک ہی طرح کا نکلا۔ ہر رسول اور اسکے ساتھی کامیاب ہوئے، ہر سرکش اور مقابل نامراد ہوا۔ قرآن کے یہی مقامات ہیں جنہوں نے ایما و وقائع کے سنن و بصائر صاف واضح کردیے ہیں اور اس باب میں ہم نے جو مبادی و اصول مرتب کیے ہیں وہ تمام تر انہی تصریحات سے ماخوذ ہیں۔ حضرت موسیٰ نے فرمایا : کیا پچھلی قوموں کے ایما و وقائع تم تک نہیں پہنچے؟ یعنی تم نہیں سن چکے ہو؟ پھر تین قوموں کا ذکر کیا جن کے حالات سے نہ تو بنی اسرائیل بے خبر تھے، نہ مصر کے باشندے بے خبر ہوسکتے تھے جہاں ان کی نشوونما ہوئی تھی، بقیہ قوموں کا حال چونکہ اس درجہ مشہور نہ تھا اس لیے صرف اشارہ کر کے چھوڑ دیا ( والذین من بعدھم لا یعلمھم الا اللہ) میں یہ پہلو بھی موجود ہے کہ بہت سی قومیں تھیں جن کا شمار اللہ ہی کو معلوم ہے۔ تم ان کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ ابراھیم
8 ابراھیم
9 ابراھیم
10 آیت (١٠) پر غور کرو، قوموں کا ہمیشہ یہی جواب رہا کہ ہمیں تمہاری دعوت کی سچائی میں شک ہے ہم نہیں مانتے لیکن پیغمبروں کی پکار بھی یہی رہی ہے کہ (افی اللہ شک فاطر السموات والارض) کس بارے میں تمہیں شک ہورہا ہے ؟ اللہ کے بارے میں جو آسمان و زمین کا بنانے والا ہے ؟ یعنی اس ہستی کے بارے میں جس کا اعتقاد تمہاری طرف فطرت کے خمیر میں موجود ہے اور تمہارے دل کا ایک ایک ریشہ کہہ رہا ہے کہ ایک (فاطر السموات والارض) ہستی موجود ہے؟ دنیا کی ہر بات میں تم شک کرسکتے ہو لیکن اس بارے میں تم شک نہیں کرسکتے، تم کیونکر جرات کرسکتے ہو کہ اپنے دل کے یقین سے انکار کردو، اپنی روح کے اعتقاد سے منکر ہوجاؤ، خود اپنی نسبت شک کرنے لگو؟ یہ قرآن کی معجزانہ بلاغت ہے کہ صرف ایک چھوٹے سے جملے اور استفہام تقریری میں وہ سب کچھ بیان کردیا جو زیادہ سے زیادہ اس بارے میں کہا جاسکتا ہے اور جو استدلال کی اتنہا، اثبات کی تکمیل، اور سارے برہانوں اور حجتوں کا جامع و مانع خلاصہ ہے۔ یعنی (افی اللہ شک شک فاطر السموات والارض) (تفصیل کے لیے دیکھو تفسیر سورۃ فاتحہ) ابراھیم
11 ابراھیم
12 آیت (١٢) میں پیغمبروں کا قول نقل کیا ہے کہ (وما لنا الا نتوکل علی اللہ وقد ھدنا سبلنا) اس آیت میں ہدایت اور سبیل سے مقصود ہدایت وحی اور سبیل دین نہیں ہے جیسا کہ مفسروں اور مترجموں نے سمجھا ہے بلکہ ہدیات ربوبیت کا عام فیضان ہے اور اسی میں اسلوب خطاب کا استدلال پوشیدہ ہے، یعنی ہم تمہارے ظلم و تشدد سے کیوں ہراساں ہوں؟ کیوں اللہ کی تائید و نصرت پر بھروسہ نہ کریں؟ جس ہستی نے زندگی و معیشت کی تمام راہوں میں ہماری رہنمائی کا سامان کردیا ہے، کیا حق و باطل کی اس آویزش میں ہم پر راہ نجات نہ کھول دے گی؟ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد کہا : (ولنصبرن علی ما اذیتمونا) ہم ضرور صبر کریں گے اور ضرور ایسا ہوگا کہ صبر کا نتیجہ ہمارے حصہ میں آئے۔ اگر یہاں ہدایت کو ہدایت وحی سمجھا جائے تو خطاب کا سارا زور اور استدلال مفقود ہوجاتا ہے۔ ابراھیم
13 ابراھیم
14 ابراھیم
15 ابراھیم
16 ابراھیم
17 ابراھیم
18 آیت (١٨) پر حضرت موسیٰ کا وعظ اور ایام اللہ کا تذکرہ ختم ہوگیا۔ ابراھیم
19 آیت (١٩) سے نیا خطاب شروع ہوتا ہے۔ البتہ یہ خطاب بھی پچھلے بیان ہی کا تتمہ ہے۔ فرمایا کیا تم تخلیق بالحق کی حقیقت پر غور نہیں کرتے؟ یعنی اس بات پر غور نہیں کرتے کہ کائنات ہستی کی ہر چیز اس طرح واقع ہوئی ہے کہ صاف نظر آتا ہے یہ سب کچھ کسی خاص مصلحت و مقصد سے بنایا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ بغیر کسی سوچے ہوئے مقصد اور ٹھہرائی ہوئی مصلحت کے ویسے ہی ظہور میں آگیا ہو۔ پھر اگر تم دیکھ رہے ہو کہ آسمان و زمین کی ہر چیز کسی مصلحت کے ساتھ بنائی گئی ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ خود تمہاری ہستی کی پیدائش میں کوئی خاص مصلحت پوشیدہ نہ ہو اور کرہ ارضی کی یہ سب سے بڑی اور اشرف مخلوق محض بے کار و عبث بنا دی گئی ہو؟ اگر وہ چاہے تو تمہیں چھانٹ دے اور ایک نئی قوم کی تخلیق کا سامان کردے کیونکہ اس کا ٹھہرایا ہوا قانون یہی ہے کہ جو جماعت غیر نافع ہوجائے اسے مٹ جانا ہے اور اس کی جگہ نافع و اصلح جماعت کو ظہور میں آنا ہے۔ (وما ذلک علی اللہ بعزیز،) ابراھیم
20 ابراھیم
21 آیت (٢١) میں جماعتوں کی گمراہی کی ایک سب سے بڑی علت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یعنی اپنے گمراہ سردروں امیروں اور بادشاہوں اور پیشواؤں کی اندھی تقلید و اطاعت کرنا اور خود اپنی عقل و بصیرت سے کام نہ لینا۔ فرمایا کیا تمہارے یہ پیشوا تمہیں نتائج اعمال کی گرفت سے بچا سکتے ہیں؟ قیامت کے دن جماعتوں کے کمزور افراد یعنی عوام اپنے اپنے پیشواؤں اور سرداروں سے کہیں گے۔ دنیا میں ہم نے تمہاری پیروی کی تھی، آج عذاب الہی کی پکڑ سے ہمارا بچاؤ کردو، وہ کہیں گے ہم خود اپنے کو نہیں بچا سکتے، تمہیں کس طرح بچائیں؟ آیت میں قریش مکہ کی طرف اشارہ ہے جو قوم کے سردار و پیشوا تھے، اور نہ صرف قبائل حجاز بلکہ تمام باشندگان عرب ان کے طور طریقہ کی پیروی کرتے تھے، جب انہوں نے دعوت اسلام کی مخالفت میں قدم اٹھایا تو تمام قبائل عرب نے ان کی پیروی کی۔ قرآن نے ہر جگہ ایمان کی خصوصیت یہ بتلائی ہے کہ سرتا سر سلامتی ہے۔ اور کفر کی پہچان یہ بتلائی ہے کہ سرتاسر اضطراب و محرومی ہے، یہی وجہ ہے کہ جنت کی نزدگی کے مرقع میں بھی سب سے زیادہ نمایاں یہی نظر آتی ہے۔ وہ سلامتی کی زندگی ہوگی اور وہاں ہر طرف سے سلامتی ہی کی پکاریں سنائیں دیں گی۔ ابراھیم
22 ابراھیم
23 ابراھیم
24 آیت (٢٤) قرآن کے مہمات معارف میں سے ہے۔ لیکن افسوس ہے ہمارے مفسروں کو اس کی مہلت نہ ملی کہ اس کے حقائق کی وسعت کا مشاہدہ کرسکتے۔ فرمایا : عجائب آباد ہستی کا کوئی گوشہ دیکھو۔ تمہیں دو طرح کی باتیں نظر آئیں گی، ایک کو قرار ہے، دوسری کو قرار نہیں۔ ایک میں جماؤ ہے، دوسری میں جماؤ نہیں، ایک اس لیے ہے کہ پھلے پھولے، دوسری اس لیے ہے کہ پامال ہو، پہلی کلمہ طیبہ ہے، دوسری کلمہ خبیثہ ہے، یعنی پہلی اچھائی ہے، پاکیزگی ہے، نفع و فیضان ہے، دوسری برائی ہے، گندگی ہے، ضرر و نقصان ہے۔ پہلی کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھا درخت، اچھے درخت کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں؟ جڑ کی مضبوطی کہ اکھڑنے والی نہیں، شاخوں کی بلندی کہ جھکنے والی نہیں۔ دوسری کی مثال ایسی ہے جیسے ایک نکما درخت زمین میں جگہ پکڑ نہیں سکتا، ٹہنیاں معدوم، پھل نابود، جب چاہو پکڑ کے کھینچ لو، جڑ سمیت اکھڑ آئے۔ اس کے بعد فرمایا اللہ کا قانون یہ ہے کہ جو ایمان لاتے ہیں وہ انہیں جمنے والی اور مضبوط باتوں کے ساتھ جماؤ دے دیتا ہے۔ ان کی یہ خصوصیت دنیا کی زندگی میں بھی نمایاں ہوتی ہے اور آخرت میں بھی نمایاں ہوگی، لیکن جو لوگ ظلم و نافرمانی کی راہ اختیار کرتے ہیں انہیں یہ بات نہیں مل سکتی، ان پر جماؤ اور استقرار کی راہ بند ہوجاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل ایمان کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کی ساری باتیں جماؤ اور مضبوطی کی باتیں ہوتی ہیں۔ ٹلنے والی، اکھڑ جانے والی اور اپنی جگہ سے ہل جانے والی نہیں ہوتیں۔ ان کا اعتقاد، ان کا عمل، ان کا طور طریقہ، ان کے دلائل شواہد، ان کے تمام کام القول الثابت ہوتے ہیں اور ان کی مثال شجرہ طیبہ کی ہوتی ہے لیکن جو لوگ ایمان حق سے محروم ہیں ان کی کوئی بات بھی القول الثابت کی بات نہیں ہوسکتی۔ ان کی مثال شجرہ خبیثہ کی ہوتی ہے کہ : (مالھا من قرار) ابراھیم
25 ابراھیم
26 ابراھیم
27 ابراھیم
28 اس کے بعد آیت (٢٨) میں قریش مکہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ملک کی ریاست و پیشوائی کی باگ انہی کے ہاتھ میں تھی اور عامۃ الناس انہی کے پیچھے چلتے تھے۔ فرمایا ان کی محرومی دیکھو کہ کس طرح اللہ کی نعمت کی ناشکری کر رہے ہیں۔ اور کلمہ طیبہ کی جگہ کلمہ خبیچہ کو اپنا شعار بنا لیا ہے؟ اللہ نے انہیں قوم کی پیشوائی دی تھی، پس ان کا فرض تھا کہ دعوت حق کی قبولیت میں سب سے آگے ہوتے اور قوم کی سچی رہنمائی کرتے مگر انہوں نے استبدال نعمت کی راہ پسند کی۔ خود بھی گمراہ ہوئے اور اپنی قوم کو بھی گمراہی میں دھکیل دیا۔ قریش مکہ کے کفران نعمت کے ذکر کے بعد ہی روئے سخن مومنوں کی طرف متوجہ ہوگیا ہے۔ آیت (٣١) میں فرمایا : انہیں چاہیے کہ نعمت الہی کی قدر بجا لائیں اور ناشکری سے بچیں۔ اس شکر گزاری نعمت کے سب سے بڑے اعمال کون سے ہیں؟ فرمایا : قیام صلوۃ اور انفاق فی سبیل اللہ۔ ان دو عملوں میں سرگرم رہیں۔ ابراھیم
29 ابراھیم
30 ابراھیم
31 ابراھیم
32 آیت (٣٢) میں برہان ربوبیت کا استدلال ہے۔ فرمایا اپنی زندگی کی احتیاجوں کو دیکھو اور پھر ربوبیت الہی کی بخششوں اور کارر فرمائیوں پر نظر ڈالو، زندگی کی کوئی قدرت احتیاج ایسی ہیں ہے جس کا قدرتی انتظام نہ کردیا گیا ہو اور کارخانہ عالم کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جو تمہارے لیے افادہ و فیضان نہ رکھتا ہو۔ حتی کہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز صرف اسی لیے بنی ہے کہ تمہاری کوئی نہ کوئی ضرورت پوری کردے اور کسی نہ کسی شکل میں خدمت و نفع رسانی کا ذریعہ ہو۔ پھر کیا ممکن ہے کہ یہ سب کچھ بغیر کسی ارادہ کے ظہور میں آگیا ہو اور کوئی ربوبیت رکھنے والی ہستی موجود نہ ہو۔ اور اگر ایک ہستی موجود ہے تو ہر طرح کی عبادتوں کی مستحق اس کی ذات ہے یا ان کی جو اپنی احتیاجوں میں خود کسی پروردگار کی پروردگاریوں کے محتاج ہیں؟ ابراھیم
33 ابراھیم
34 اس مقام میں (اتکم من کل ماسالتموہ وان تعدوا نعمت اللہ لا تحصوھا) کہہ کر جس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ نہایت اہم اور تشریح طلب ہے، تشریح اس کی سورۃ فاتحہ میں ملے گی۔ پچھلی آیت میں انسان کی اس غفلت کا ذکر کیا تھا کہ وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر گزار نہیں، اور یہی گمراہی اس کی تمام محرومیوں کا سرچشمہ ہے : (ان الانسان لظلوم کفار) اب آیت (٣٥) میں اس ناشکری کی ایک مناسب مقام مثال بیان کردی، فرمایا اس سے بڑھ کر ناشکری اور کیا ہوسکتی ہے کہ جو قریش مکہ نے کی ہے ؟ وہ دنیا کے ایک ایسے گوشہ میں سکونت رکھتے ہیں جو انسانی آبادی کے لیے زیادہ سے زیادہ ناموزوں مقام تھا۔ کہ ایک بے آب و گیاہ ریگستان، جہاں درندے بھی بھٹ نہ بنائیں اور پرند بھی ہوا میں اڑنا پسند نہ کریں، لیکن اللہ نے اپنے فضل و کرم سے اسے ایسا دلچسپ اور معمور مقام بنادیا کہ انسانی گروہوں کے دل بے اختیار اس کی طرف کھنچنے لگے اور زمین کی ساری پیداواریں جو کسی سرسبز و شاداب ملک میں مل سکتی ہیں اس بنجر زمین میں مہیا ہوگئیں، یہ انقلاب حال کیونکر ظہور میں آیا؟ اس طرح کہ حضرت ابراہیم نے یہاں دین حق کی عبادت گاہ بنائی اور اس کی پاشبانی اپنی اولاد کے سپرد کی۔ انہوں نے دعا مانگی تھی کہ خدایا ! اس ویرانے کو اباد کردیجیو، چنانچہ ان کی دعا مقبول ہوئی اور یہ ویرانہ سا طرح آباد ہوگیا کہ تمام عرب و اطراف عرب کے سالانہ اجتماع کا مرکز بن گیا۔ روسائے قریش انہی کی نسل سے ہیں ور انہی کی برکتوں کا ظہور ہیں لیکن انہوں نے اس نعمت کا حق کس طرح ادا کیاَ ؟ یوں ادا کیا کہ ملت ابراہیمی سے منحرف ہوگئے، ظلم و گمراہی کو اپنا شیوہ بنا لیا وہ دین حق جس کے قیام کے لیے یہ عبادت گاہ بنائی گئی تھی اصنام پرستی سے بدل گیا اور اب اپنی تمام طاقتیں اس دعوت کی مخالفت میں خرچ کر رہے ہیں جو اسی ملت ابراہیمی کی تجدید ہے۔ ابراھیم
35 ابراھیم
36 ابراھیم
37 ابراھیم
38 ابراھیم
39 ابراھیم
40 ابراھیم
41 ابراھیم
42 ابراھیم
43 ابراھیم
44 ابراھیم
45 ابراھیم
46 ابراھیم
47 ابراھیم
48 آیت (٤٨) سے معلوم ہوا کہ جس حادثہ کو قرآن نے قیامت سے تعبیر کیا ہے وہ اجرام سماویہ کا کوئی ایسا حادثہ ہوگا جو کرہ ارضی کو بالکل بدل دے گا۔ نہ تو زمین وہ زمین رہے گی جیسی کہ اب ہے، نہ آسمان ویسا آسمان ہوگا جیسا اب نظر آرہا ہے۔ آخری آیت میں فرمایا : یہ سورت ایک پیام حق ہے اور یہ پیام اس لیے بھیجا گیا ہے کہ : (ا) لوگ فساد و بدعملی کے نتائج سے متنبہ کیے جائیں۔ (ب) یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ (ج) ارباب فہم و دانش کے لیے سرمایہ نصیحت ہو۔ اب سورت کے تمام مطالب پر از سر نو نظر ڈالو اور دیکھو ان تینوں مقاصد پر وہ مشتمل ہے یا نہیں؟ ابراھیم
49 ابراھیم
50 ابراھیم
51 ابراھیم
52 ابراھیم
0 الحجر
1 قرآن نے جابجا اپنے اس وصف پر زور دیا ہے کہ وہ مبین ہے۔ یعنی ظاہر ہے، نمایاں ہے، روشن ہے۔ لیکن کس بات میں؟ اپنے مطالب میں اپنی دعوت میں، اپنے دلائل و آیات میں، یعنی اس کی کوئی بات نہیں جو الجھی ہوئی ہو، مشکل ہو، ناقابل فہم ہو، ہر ذہن اسے بوجھ لے سکتا ہو، ہر دل اسے قبول کرلے سکتا ہے، ہر روح اس پر مطمئن ہوجاسکتی ہے، وہ زیادہ سے زیادہ سیدھی ساھی بات ہے جو انسان کے دل و دماغ کے لیے ہوسکتی ہے۔ کیونکہ وہ سچائی ہے اور سچائی کی کوئی بات مشکل اور الجھی ہوئی نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اپنے آپ کو النور بھی کہا ہے۔ یعنی روشنی، روشنی کا خاصہ ہے کہ ہر بات کو نمایاں کردیتی ہے، کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی، اگر وضاحت اور نمود نہیں ہے تو پھر اجالا بھی نہیں، اجالا جب کبھی ہوگا نمودوہ وضاحت اپنے ساتھ لائے گا۔ جب لوگوں نے اس کے خلاف انکار و سرکشی کی راہ اختیار کیے وہ اپنی ہلاکت کا اپنے ہاتوں سامان کر رہے ہیں لیکن انہیں معلوم نہیں، ایک دن آنے والا ہے جب وہ حسرت و ندامت کے ساتھ کہیں گے۔ کاش ہم نے انکار نہ کیا ہوتا۔ الحجر
2 الحجر
3 الحجر
4 الحجر
5 الحجر
6 الحجر
7 الحجر
8 الحجر
9 الحجر
10 الحجر
11 الحجر
12 الحجر
13 الحجر
14 الحجر
15 الحجر
16 یہاں آیت (١٦) میں، نیز دو اور مقامات میں بھی قرآن نے برج کا لفظ استعمال کیا ہے۔ (تبارک الذی جعل فی السماء بروجا وجعل فیھا سراجا وقمرا منیرا) (والسماء ذات البروج) چونکہ بعد کو عربی زبان میں برج کا لفظ ستاروں کی ان بارہ فرضی اشکال کے لیے مستعمل ہوگیا ہے جو قدماء نے دورہ سمشی کے انضباط کے لیے قرار دی تھیں اس لیے سوال پیدا ہوا کہ قرآن میں بھی یہ لفظ اسی مصلطحہ معنی میں بولا گیا ہے اور مقصود بارہ برج ہیں؟ یا لغوی معنی میں مستعمل ہوا ہے اور مقصود بڑے بڑے روشن ستارے ہیں جو بحروبر کی ظلمتوں میں مسافروں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ بارہ برجوں کی تقسیم سب سے پہلے اہل بابل نے کی، پھر سریانی اقوام ان سے آشنا ہوئیں اور بالآخر یونانیوں نے اختیار کرلیا۔ عربی زبان اپنی ابتدائی شکلوں میں عراق، مصر ور شام کی حکمراں زبان رہ چکی ہے اور ان ممالک کے ساتھ عربوں کے قدیم تجارتی تعلقات بھی معلوم و مسلم ہیں۔ پس اگر چاند کی منزلوں کی طرح سورج کے بارہ برجوں سے بھی عربی زبان آشنا ہوچکی ہو تو یہ کوئی عجیب بات نہ ہوگی لیکن اس میں شک نہیں کہ عرب جاہلیت کے کلام سے اس کا کوئی چبوت نہیں ملتا۔ عبدالرحمن بن عمر الصوفی الکواکب والصور میں ان تمام کواکب کے نام جمع کردیے ہیں جو عرب جاہلیت میں مشہور تھے اور جن کی تعداد ڈھائی سو کے قریب ہے لیکن ان میں بارہ برجوں کی صورتوں کا کوئی ذکر نہیں ہے اور تبریزی نے ابو العلاء کا قول نقل کیا ہے لم تکن العرب تعرفھا فی القدیم۔ پس زیادہ صاف بات یہی معلوم ہوی ہے کہ یہاں برج سے مقصود روشن کواب ہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عباس سے ایسی ہی تفسیر منقول ہے اور ترجمہ میں ہم نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ اس آیت میں فرمایا : (وزیناھا للناظرین) ہم نے اس فضا کو جو تمہارے اوپر پھیلی ہوئی ہے اس طرح بنادیا کہ دیکھنے والوں کے لیے اس میں خوشنمائی پیدا ہوگئی یہ مقام بھی منجملہ ان مقامات کے ہے جہاں قرآن نے جمال فطرت سے استدلال کیا ہے۔ یعنی اس بات سے استدلال کیا ہے کہ کائنات ہستی کے تمام مظاہر اس طرح واقع ہوئے ہیں کہ ان میں حسن و جمال کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور یہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ رحمت و فیضان کا کوئی ارادہ یہاں ضرور کام کر رہا ہے جو چاہتا ہے کہ جو کچھ بنے حسن و خوبی کے ساتھ بنے اور اس میں روحوں کے لیے سرور اور نگاہوں کے لیے عیش و نشاط ہو۔ اگر ایک صاحب رحمت ہستی کی یہ کافر فرمائی نہیں ہے تو پھر کس کی ہے ؟ نہیں، تمہاری فطرت کہہ رہی ہے کہ یہ سب کچھ کسی ایسی ہستی کی کاری گری ہے جو حسن و جمال ہے اور جس نے چاہا ہے کہ حسن و جمال کا فیضان ہو۔ یہاں فرمایا کہ آسمون کو دیکھو، عربی میں سماء کے معنی بلندی کے ہیں، مکان کے لیے اس کی چھت اس کی سماء ہوتی ہے۔ پس یہ جو بلندی تمہیں نظر آرہی ہے کس طرح دیکھنے والوں کے لیے حسین و جمیل بنا دی گئی ہے ؟ چاندنی راتوں میں چاند کی شب افروزیاں دیکھو، اندھیری راتوں میں ستاروں کی جلوی ریزیوں کا نظارہ کرو۔ صبح جب اپنی ساری دلفریبیوں کے ساتھ آتی ہے، شام جب اپنی ساری رعنائیوں کے ساتھ چھپتی ہے، گرمیوں میں صاف و شفاف آشمان کا نکھرنا، بارش میں بادلوں کا ہر طرف سے امنڈنا شفق کی لالہ گونی، قوس قزح کی بوقلمونی، سورج کی زرافشانی، غرض کہ آسمان کا کون سے منظر ہے جس میں نگاہوں کے لیے زینت نہیں؟ جس میں دلوں کے لیے راحت و سکون نہیں؟ یہ استدلال مہمات دلائل قرآنی میں سے ہے اور ضروری ہے کہ تفسیر سورۃ فاتحہ کے مبحث برہان فضل و رحمت کا مطالعہ کرلیا جائے۔ الحجر
17 آیت (١٧) سے معلوم ہوتا ہے کہ اجرام سماوی کی حفاظت کا سامان نہ کردیا گیا ہوتا تو ایسی شیطانی قوتیں تھیں جو ان کے اعمال میں خلل انداز ہوتیں، نیز یہ کہ جب کوئی ایسی قوت ٹوہ لگانا چاہتی ہے تو شعلے بھڑکتے ہیں اور انہیں قریب نہیں آنے دیتے۔ آیت میں شہاب مبین کا لفظ اایا ہے، شہاب شعلہ کو کہتے ہیں ِ لیکن چونکہ اس کا اطلاق اس ستارے پر بھی ہوتا ہے جو راتوں کو ٹوٹتا ہوا دکھائی دیتا ہے اس لیے مفسرین نے خیال کیا یہاں شہاب سے مقصود وہی ستاروں کا ٹوٹنا ہے لیکن قرآن میں کوئی ایسی تفصیل نہیں جس سے یہ بات متعین کی جاسکے۔ صرف شہاب کا لفظ ہے اور اس کے معنی شعلے کے ہیں۔ باقی رہی اس معاملہ کی حقیقت تو یہ عالم غیب کے معاملات میں سے ہے جسے ہم اپنے وسائل علم و اداراک سے معلوم نہیں کرسکتے۔ وحی الہی نے جس قدر تصریح کردی ہے اس پر یقین کرنا چاہیے اور مزید کاوش میں نہیں پڑنا چاہیے۔ زمین گیند کی طرح گول ہے لیکن حکمت الہی نے اس کی کرویت کا نشیب و فراز اس طرح پھیلا دیا ہے کہ کوئی آنکھ اونچ نیچ محصوس نہیں کرسکتی اور اس کا ہر گوشہ اپنی جگہ ایک بچھے ہوئے فرش کی طرح مسطح ہے۔ اگر سطحیت کی یہ حالت پیدا نہ ہوتی تو وہ تمام ارضی خصوصیات بھی ظہور میں نہ آتیں جنہوں نے زمین کو زندگی کی معیشت کے لیے خوشگوار بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن جابجا اس کی سطح کے پھیلاؤ پر زور دیتا ہے اور کہتا ہے خدا نے اسے فرش کی طرح بچھا دیا، یہاں بھی آیت (١٩) میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لیکن زمین کے قابل معیشت و سکون ہونے کے لیے صرف اسی قدر کافی نہ تھا۔ اس کی بھی ضرورت تھی کہ اس میں جابجا ایسی بلندیاں ہوتی جو پانی کے خزانے جمع کرتیں اور پھر بلندی سے اس طرح گراتیں کہ سینکڑوں کو سوں تک بہتا ہوا چلا جاتا اور میدانی علاقوں کو سرسبز و شاداب کردیتا، پس فرمایا : (والقینا فیھا رواسی) ہم نے اس کی سطح پھیلا دی، پھر اس میں پہاڑ پیدا کردیے جو اس لحاظ سے بھی کہ طرح طرح کی معدنیات کا سرچشمہ ہیں، اور اس لحاظ سے بھی کہ دریاؤں کی روانی کا منبع ہیں زمین کی افادی نوعیت کے لیے ایک ضروری عنصر تھے۔ الحجر
18 الحجر
19 آیت (١٩) میں زمین کی نسبت تین باتیں ہیں۔ پہلی یہ کہ بچھی ہوئی ہے۔ دوسری یہ کہ پہاڑوں کی بلندیاں ہیں۔ تیسری یہ کہ جتنی چیزیں اس میں اگتی ہیں سب موزوں ہیں۔ موزوں یعنی وزن کی ہوئی، اگر کسی چیز کو ٹھیک ٹھیک کسی خاص اندازہ پر رکھنا ہوتا ہے تو اسے کانٹے میں تول لیا کرتے ہیں کہ رتی بھر بھی ادھر ادھر نہ ہوجائے۔ پس ہر چیز کے موزوں ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ زمین میں جتنی نباتات اگتی ہیں سب کے لیے حکمت الہی نے ایک خاص اندازہ ٹھہرا دیا ہے۔ ہر چیز اپنی نوعیت، اپنی کمیت، اپنی کیفیت میں ایک جچی تلی حالت رکھتی ہے جس سے کبھی باہر نہیں جاسکتی۔ ممکن نہیں خہ گھاس کی ایک شاخ بھی ایسی اگ آئے جو گھاس کے مقررہ انداز اور تناسب کے خلاف ہو۔ طرح طرح کے غلے، طرح طرح کے پھول، طرح طرح کے پھل، طرح طرح کی سبزیاں، طرح طرح کے درخت، طرح طرح کی گھاسیں، ہر طرف اگ رہی ہیں اور نہیں معلوم کب سے اگ رہی ہیں لیکن کوئی چیز بھی ان میں ایسی ہے جس کی شکلم ڈیل ڈول، رنگت، خوشبو، مزہ اور خاصہ ایک خاص مقررہ اندازہ پر نہ ہو؟ اور ٹھیک ٹھیک کانٹے کی تول نہ ہو؟ گہیوں کا ایک دانہ اٹھاؤ پھول کی ایک کلی توڑ لو، گھاس کی ایک پتی سامنے رکھ لو اور دیکھو ان کی ساری باتیں کس طرح تلی ہوئی اور کسی دقیقہ سنجی کے ساتھ سانچے میں ڈھلی ہوئی ہیں؟ اگر حجم ہے تو اس کا ایک مقررہ اندازہ ہے۔ لاکھ مرتبہ بوؤ، کروڑ مرتبہ بوؤ، اس اندازہ میں فرق آنے والا نہیں، اگر شکل ہے تو اس کا ایک خاص اندازہ ہے۔ وہ چیز جب اگے گی اسی شکل میں اگے گی۔ اگر رنگت ہے، خوشبو ہے، مزہ ہے، خاصہ ہے، گو سب کا ایک مقررہ اندازہ ہے اور یہ اندازہ قطعی ہے، دائمی ہے، اٹل ہے، انمٹ ہے، اور ہمیشہ اس یکسانی کے ساتھ ظہور میں آتا ہے گویا مٹی کے ایک ایک ذرہ میں ایک ایک ترازو رکھ دیا گیا ہے اور وہ ایک ایک دانے، ایک ایک پتی، ایک ایک پھل کو تول تول کر بانٹ رہا ہے۔ ممکن نہیں اس تول میں کبھی خرابی پڑے۔ موزوں میں تناسب و اعتدال کا مفہوم بھی داخل ہے۔ یعنی جتنی چیزیں اگتی ہیں اپنی ساری باتوں میں تناسب و اعتدال کی حالت رکھتی ہیں۔ کوئی شے نہیں جو اپنی کمیت و کیفیت میں غیر متناسب اور غیر معتدل ہو۔ الحجر
20 تفسیر سورۃ فاتحہ میں نظام ربوبیت کی بحث گزر چکی ہے۔ آیت (٢٠) کا اسی روشنی میں مطالعہ کرو اور دیکھو کتنے مختصر اور کیسے سیدھے سادھے لفظوں میں کتنی بڑی حقیقت بیان کردی گئی؟ فرمایا (جعلنا لکم فیھا معایش) ہم نے زمین میں تمہارے لیے زندگی و معیشت کے سارے سروسامان مہیا کردے۔ لیکن کس طرح مہیا کیے؟ اس طرح کہ اگرچہ ہر چیز کے ہمارے پاس ذخیرے ہیں لیکن ان کی بخشش ایک مقررہ اندازے ہی کے ساتھ ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ بغیر کسی اندازہ اور نظام کے تمام چیزیں بکھیر دی ہوں، اور یہ جو ایک مقررہ اندازہ کا نظام ہے، یعنی تقدیر اشیا کا تو یہی ہے جو بتلا رہا ہے کہ یہاں کوئی اندازہ مقرر کرنے والی اور اسے قائم رکھنے والی ہستی ضرور ہے۔ کیونہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس اندازہ و شناسی اور انضباط کے ساتھ ہر ضروری چیز کی بخشش کا نظام قائم ہوجاتا۔ الحجر
21 الحجر
22 پھر اس کے بعد بارش کی مثال دے کر مزید وضاحت فرما دی۔ فرمایا بارش زمین کی شادابی اور روئیدگی کا ذریعہ ہے۔ اگر ہی نہ ہو تو زمین کی روئیدگی بھی نہ ہو۔ لیکن دیکھو، کس طرح یہ معاملہ ظہور میں آتا ہے اور کس طرح مقررہ اندازوں اور پیمانوں کا ایک پورا نظام کام کررہا ہے؟ پہلے سمدنر سے بھاپ اٹھتی ہے، وہ پانی کے ذروں سے باردار ہو کر (یعنی انہیں اپنے اندر لے کر) بلندی کی طرف چڑھتی ہے، پھر بلندی میں ابر کی چادریں بنتی ہیں اور چادریں فضا میں پھیل جاتی ہیں، پھر وہی چادریں بارش کے قطرے بن کر گرنے لگتی ہیں اور زمین کے ایک ایک ذرے کو شاداب کردیتی ہیں، تم نے پانی کے ذخیرے جمع کر کے نہیں رکھے تھے لیکن آسمان جمع کرتا رہتا ہے اور پھر ٹھیک ٹھیک تمہاری احتیاج کے مطابق مطلوبہ مقدار تمہیں بخش دیتا ہے۔ یہ بات کے پانی کے جمع ہونے اور ایک خاص ترتیب اور اندازہ کے ساتے برستے رہنے کا ایک پورا کارخانہ بنا ہوا ہے اور وہ زمین کی احتیاج کے ٹھیک ٹھیک مطابق ہے، یہاں استدلال کا اصلی نقطہ ہے، کیونکہ تقدیر و نطم کی یہ حالت بغیر اس کے نہیں ہوسکتی کہ ربوبیت کا کوئی ارادہ پس پردہ کام کررہا ہو۔ اسی حقیقت کو ہم نے تفسیر سورۃ فاتحہ میں نظام ربوبیت سے تعبیر کیا ہے اور ضروری ہے کہ اس پر نظر ڈال لی جائے۔ الحجر
23 اس کے بعد فرمایا : ہم ہی ہیں کہ جلاتے ہیں اور موت طاری کرتے ہیں اور اس کا علم رکھتے ہیں کہ کون پہلے آنے والوں میں ہوئے کون پیچھے آنے والوں میں۔ یعنی جس طرح ہم نے تمام چیزوں کی تقدیر کردی ہے یعنی مقررہ اندازہ ٹھہرا دیا ہے اسی طرح موت و حیات کا بھی ایک خاص اندازہ ٹھہرا دیا ہے اور قوموں کے تقدم و تاخر کے لیے بھی مقررہ اندازہ ہے۔ ہر ہستی جو پیدا ہوتی ہے اپنے مقررہ اندازہ کے مطابق پیدا ہوتی ہے اور ہستی جو مرتی ہے مقررہ اندازہ کے مطابق مرتی ہے، تقدیر اشیا و اجسام کا قانون عالمگیر قانون ہے۔ ہستی کا کوئی گوشہ نہیں جو اس سے باہر ہو، یہاں سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ قرآن میں قدر اور تقدیر کا مطلب کیا ہے ؟ نیز ان تمام غلط فہمیوں کا ازالہ ہوگیا جو اس بارے میں پھیلی ہوئی ہیں۔ الحجر
24 الحجر
25 اس کے بعد آیت (٢٥) میں فرمایا : (وان ربک ھو یحشرھم انہ حکیم علیم) یعنی ایسا ضرور ہونے والا ہے کہ تمہارا پروردگار جزائے عمل کے لیے انہیں اپنے حضور جمع کرے کیونکہ تمام باتوں کی طرح اس بات کے لیے بھی اس نے ایک اندازہ ٹھہرا دیا ہے، وہ حکیم و علیم ہے اور جب وہ حکیم ہے تو ممکن نہیں کہ اس نے انسان کے اعمال کے لیے کوئی اندازہ نہ ٹھہرا دیا ہو اور جب وہ علیم ہے تو ممکن نہیں کہ انسان کے اعمال اس کی نظر سے پوشیدہ رہ سکیں۔ الحجر
26 اس کے بعد یہ حقیقت واضح کی کہ قدرت الہی نے کس طرح ایک حقیر ترین چیز سے جو ہمیشہ تمہارے قدموں سے پامال ہوتی رہتی ہے تمہاری ہستی پیدا کی اور اسے اس درجہ تک بلند کیا کہ ملائکہ کی مسجود ہوگئی اور دنیا کی تمام قوتیں اس کے اعتبار و تصڑف میں دے دی گئیں، البتہ ایک قوت تمہارے آگے نہیں جھکی، وہ ابلیس کی تھی، یہ تمہارے آگے جھکتی نہیں بلکہ تمہیں اپنے آگے جھکانا چاہتی ہے۔ فرمایا جو انسان اس سے مغلوب ہوگیا اس نے راہ سعادت گم کردی، جو مغلوب نہیں ہوا بلکہ اسے اپنے سے مغلوب رکھا وہ اللہ کا سچا بندہ ہوا۔ یعنی اس نے انسانیت کا وہ بلند ترین مقام پالیا جو حکمت الہی نے اسے عطا فرمایا ہے۔ الحجر
27 نیز فرمایا جو اللہ کے مخلص بندے ہیں ان پر ابلیس کا داؤ چلنے والا نہیں، مغلوب وہی ہوتے ہیں جو راہ عبودیت سے بھٹک گئے۔ قرآن حکیم نے مختلف سورتوں میں نوع انسانی کی پیدائش کا ذکر کیا ہے۔ ضروری ہے کہ ان تمام مقامات پر بحیثیت مجموعی نظر ڈالی جائے اور معلوم کیا جائے کہ اس بارے میں قرآن کی تصریحات کیا کیا ہیں۔ چونکہ آگے چل کر سورۃ ص میں یہ بیان پھر آنے والا ہے اس لیے یہاں صرف ربط مطالب کی تشریح پر اکتفا کرتے ہیں۔ باقی تمام تشریحات سورۃ مذکورہ کے تشریحی نوٹ میں ملیں گی۔ اس آیت میں جان کی پیدائش کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ جان اور جن کے لیے سورۃ جن کا نوٹ دیکھنا چاہیے۔ الحجر
28 الحجر
29 الحجر
30 الحجر
31 الحجر
32 الحجر
33 الحجر
34 الحجر
35 الحجر
36 الحجر
37 الحجر
38 الحجر
39 الحجر
40 الحجر
41 الحجر
42 الحجر
43 الحجر
44 الحجر
45 الحجر
46 الحجر
47 الحجر
48 الحجر
49 پھر آیت (٤٩) میں واضح کردیا کہ اس بارے میں قانون الہی کیا ہے ؟ فرمایا بخشش اور رحمت ہے، لیکن جو لوگ اس سے فائدہ نہ اٹھائیں تو ان کے لیے عذاب بھی ہے اور یہ عذاب بڑا ہی دردناک ہوتا ہے۔ اس کے بعد گزشتہ قوموں کے ایام و وقائع کی طرف توجہ دلائی ہے کہ انکار و بدعملی اور شرارت و سرکشی کا نتیجہ کیسے دردناک عذابوں کی شکل میں ظاہر ہوا؟ اس سلسلہ میں صرف تین قوموں کا ذکر کیا ہے جن کی آبادیوں پر سے عرب کے قافلے گزرتے رہتے تھے اور ان کی ہولناک ہلاکتوں کے مناظر ان کی نگاہوں سے اوجھل نہ تھے۔ یعنی قوم لوط جس کی بستیاں عرب اور فلسطین کے درمیان شاہراہ عام پر واقع تھیں، قبیلہ مدین جس کی بستی بحر قلزم کے کنارے تھی اور حجاز سے فلسطین کی طرف جائیں خواہ مصر کی طرف، ان کے کھنڈر راہ میں ضرور پڑتے تھے، شہر حجر میں بسنے والی قوم یعنی قوم ثمود جس کا مقام بھی اسی شاہراہ پر واقع تھا، یعنی حجاز اور شام کی شاہراہ پر۔ قرآن میں الساعۃ کا لفظ کہیں تو روز قیامت کے لیے بولا گیا ہے کہیں ایک ایسے فیصلہ کن دن کے لیے جو دعوت حق اور اس کے مخالفوں کے درمیان فیصلہ کردے گا۔ آیت (٨٥) میں الساعۃ سے مقصود ایسا ہی دن ہے قیامت کا دن نہیں ہے جیسا کہ اکثر مفسروں اور مترجموں نے قرار دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح پچھلے رسولوں سے مقابلہ کرنے والے ناکام رہے، اسی طرح اب بھی مخالف و سرکش ناکام رہیں گے اور وہ دن دور نہیں جب حق و باطل کی اس کشمکش کا فیصلہ ہوجائے گا۔ الحجر
50 الحجر
51 الحجر
52 الحجر
53 الحجر
54 الحجر
55 الحجر
56 الحجر
57 الحجر
58 الحجر
59 الحجر
60 الحجر
61 الحجر
62 الحجر
63 الحجر
64 الحجر
65 الحجر
66 الحجر
67 الحجر
68 الحجر
69 الحجر
70 الحجر
71 الحجر
72 الحجر
73 الحجر
74 الحجر
75 الحجر
76 الحجر
77 الحجر
78 الحجر
79 الحجر
80 الحجر
81 الحجر
82 الحجر
83 الحجر
84 الحجر
85 اس کے بعد فرمایا : (فاصفح الصفح الجمیل۔ ان ربک ھو الخلاق العلیم) یعنی جب صورتحال ایسی ہے تو چاہیے کہ لوگوں کی سرکشی و شرارت سے آزردہ خاطر نہ ہو اور حسن و خوبی کے ساتھ درگزر کرتے رہو۔ اللہ سب کا پیدا کرنے والا اور سب کی حالت جاننے والا ہے، پس اس کے بندوں کا معاملہ اسی پر چھوڑ دینا چاہیے۔ کسی بات سے درگزر کرنے کی ایک صورت تو یہ ہوتی ہے کہ آدمی بے بس ہوتا ہے اس لیے مجبور ہو کر بدلہ نہیں لیتا۔ درگزر کردیتا ہے لیکن دل نفرت و انتقام سے لبریز رہتا ہے، یہ صفح ہے، مگر صفح جمیل نہیں ۃ ے۔ صفح جمیل یہ ہے کہ مجبور ہو کر نہیں بلکہ خود اپنی مرضی اور خواہش سے درگزر کرلیا جائے اور نفرت و انتقام کا کوئی جذبہ دل میں نہ اٹھے، اگر اٹھے تو غالب نہ آسکے۔ مغلوب ہو کر رہ جائے۔ پس فرمایا تمہیں مخالفوں کے ساتھ صفح جمیل کرنا چاہیے۔ الحجر
86 الحجر
87 آیت (٨٧) سے آخر سورت کا خاتمہ ہے اور اس کی تمام موعظت و ارشاد خلاصہ۔ خطاب اگرچہ پیغمبر اسلام سے ہے مگر فی الحقیقت مومنوں کی وہ ابتدائی جماعت مخاطب ہے جو مکہ میں ایمان لائی تھی اور مظلومی و بے سروسامانی کی زندگی بسر کر رہی تھی۔ فرمایا تم دیکھتے ہو کہ مخالفوں کے پاس ہر طرح کی دنیوی آسائشیں اور دنیوی طاقتیں ہیں۔ تمہارے پاس ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں، لیکن تم بھولتے ہو، تمہارے پاس بھی ایک چیز ہے جس سے تمہارے مخالف یک قلم تہی دست ہیں، اور وہ اللہ کا کلام ہے : (ولقد اتینک سبعا من المثانی والقران العظیم) اور اگر یہ نعمت تمہارے پاس موجود ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ تم مخالفوں کی موجودہ خوشحالیوں کو حسرت و رشک کی نظر سے دیکھو۔ یہی ایک نعمت تمہیں دین و دنیا کی تمام نعمتوں سے سرفراز کردینے والی ہے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ یہاں (سبعا من المثانی) سے مقصود سورۃ فاتحہ ہے۔ یہاں خصوصیت کے ساتھ سورۃ فاتحہ کا اس لیے ذکر کیا کہ وہ قرآن کی تمام تعلیم کا خلاصہ اور ایمان و عمل کی زندگی کا روزانہ دستور العمل ہے اور جس فرد اور جماعت کی زندگی ان سات آیتوں کی ورد و مدامت میں بسر ہورہی ہو ممکن نہیں کہ وہ دینی و دنیوی سعادتوں سے محروم رہے۔ نیز اس کے اس وصف پر زور دیا کہ وہ دہرائی جانے والی چیز ہے۔ یعنی ایک مومن زندگی کے لیے شب و روز کا ورد اسی میں ہے۔ وہ ہر روز اپنی نمازوں میں اور نماز کی ہر رکعت میں اسے دہراتا رہتا ہے۔ اس پر صبح آتی ہے تو اسی کی صدائیں چھیڑتی ہے، شام ہوتی ہے تو اسی کی صدائیں اٹھتی ہیں، اس کی دوپہر کا نغمہ بھی یہی ہوتا ہے اور اس کی راتوں کا ترانہ بھی اس کے سوا کوئی نہیں : جز نغمہ محبت سازم نوا نہ دارد !!! اس آیت سے سورۃ فاتحہ کی بڑی ہی خصوصیت اور فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ لیکن تشریح کی یہاں ضرورت نہیں کیونکہ یہ مبحث تفسیر فاتحہ میں گزر چکا ہے۔ اس آیت سے یہ بات بھی متحقق ہوگئی کہ سورۃ فاتحہ کی سات آیتیں ہیں اور اس کے کلمات کی کوئی ایسی تقسیم صحیح نہیں ہوسکتی جس سے آیتوں کی یہ تعداد گھٹ جائے یا بڑھ جائے۔ چنانچہ جب اس اعتبار سے دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یا تو بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی اس میں شامل ہے، یعنی اس کی پہلی آیت ہے یا پھر (صراط الذین انمعت علیم) اور (غیر المغضوب علیھم ولا الضالین) دو آیتیں ہیں، ایک آیت نہیں ہے۔ کیونکہ بغیر اس کے سات آیتوں کی تعداد بنتی نہیں۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ و تابعین کی ایک بڑی جماعت اس طرف گئی ہے کہ بسم اللہ اس کی پہلی آیت ہے۔ مفصل بحث البیان میں ملے گی۔ اور پھر یہی وجہ ہے کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت سورۃ فاتحہ ہمیشہ سات وقفوں کے ساتھ پڑھا کرتے تھے اور ہر آیت کا آخری لفظ کسی قدر کھینچ کر ختم کرتے تھے جو اختتام صوت کی قدرت صورت ہے۔ ایسا نہیں کرتے تھے کہ صرف تین وقفوں میں پوری سورت ختم کردیں۔ یعنی الحمد سے لے کر یوم الدین تک ایک سانس میں، پھر اھدنا الصراط المستقیم سے لے کر ولا الضالین تک ایک سانس میں۔ جیسا کہ آج کل قرات کا عام طریقہ اختیار کرلیا گیا ہے۔ راوی نے صرف اتنی ہی تصریح پر قناعت نہیں کی ہے بلکہ آیتیں پڑھ کر بتلا بھی دیا ہے کہ آپ اس طرح ہر آیت الگ الگ کر کے پڑھتے تھے، اور اس طرح ہر آیت پر وقفہ کرتے تھے۔ یعنی الحمدللہ رب العالمین۔ (وقف) الرحمن الرحیم (وقف) مالک یوم الدین (وقف) ایاک نعبد وایاک نستعین (وقف) اھدنا الصراط المستقیم (وقف) اور فی الحقیقت سورۃ فاتحہ کے پڑھنے کا قدرتی اور صحیح طریقہ یہی ہوسکتا ہے۔ سورۃ فاتحہ ایک دعا ہے اور اس کی ہر آیت سائل کی زبان سے نکلی ہوئی طلب و الحاح کی ایک صد کا حکم رکھتی ہے۔ جب ایک سائل کسی کے آگے کھڑا ہوتا ہے اور اس کی مدح و ثنا کر رکے حرف مطلب زبان پر لاتا ہے تو ایسا نہیں کرتا کہ ایک خطیب کی طرح مسلسل تقریر کرنا شروع رکدے اور ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ جائے بلکہ طلب و نیاز کے لہجہ میں ٹھہر ٹھہر کر ایک ایک بات کہے گا۔ طلب و نیاز اور عجز و الحاض کی حالت اسے مہلت ہی نہ دے گی کہ ایک مرتبہ میں سب کچھ کہہ جائے مثلا کہے گا۔ آپ فیاض ہیں، آپ کریم ہیں ِ آپ کی جو دو سخا کی دھوم ہے، اگر آپ سے نہ مانگوں تو کس سے مانگوں، اور ان میں سے ہر بول دوسرے بول سے ملا کر نہیں کہے گا الگ الگ کر رکے اور ٹھہر ٹھہر کر کہے گا۔ بلاشبہ ان میں سے ہر جملہ باعتبار مطلب کے دوسرے سے ملا ہوا ہے۔ بات ایک ہی جملہ میں پوری نہیں ہوجاتی، لیکن وقف اتصال کے لیے صرف اتنی ہی بات کافی نہیں ہے۔ طریق خطاب وکلام کا اادا شناس جانتا ہے کہ زور کلام اور حسن خطاب کے لیے کہاں وقفہ کرنا چاہیے، کہاں نہیں کرناچا ہیے۔ یہ حقیقت اور زیادہ واضح ہوجاتی ہے جب قرآن کے ان تمام مقامات پر نظر ڈالی جائے جہاں آنحضرت کا وقف کرنا روایات سے ثابت ہوتا ہے۔ ان میں متعدد مقامات ایسے ہیں جہاں متاخرین قرا کے نزدیک وقف نہیں ہونا چاہیے لیکن آنحضرت کا وقف کرنا ثابت ہے اور اگر مقام کی نوعیت پر غور کرو گے تو واضح ہوجائے گا کہ طریق کلام کا خطیبانہ اسلوب یہی چاہتا ہے کہ یہاں وقفہ ہو۔ بغیر اس کے زور کلام ابھرتا نہیں۔ اور گو آیت میں بات پوری نہیں ہوئی ہے لیکن موقع کا قدرتی اسلوب خطاب یہی ہے کہ وقفہ کیا جائے۔ اتصال صوت نہ ہو۔ الحجر
88 الحجر
89 الحجر
90 الحجر
91 الحجر
92 الحجر
93 الحجر
94 الحجر
95 الحجر
96 الحجر
97 الحجر
98 الحجر
99 الحجر
0 النحل
1 یہ سورت منجملہ ان سورتوں کے ہے جو مکی عہد کے آخری ایام میں نازل ہوئیں۔ امر اللہ سے مقصود اللہ کی یہ ٹھہرائی ہوئی بات ہے کہ دعوت وحی کامیاب ہوتی ہے اور اس کی مخالفت قوتیں ناکام رہتی ہیں، اسی حقیقت کو قرآن نے قضا بالحق اور شہادت الہی سے بھی تعبیر کیا ہے۔ منکر اس بات کی ہنسی اڑاتے تھے اور کہتے تھے اگر سچ مچ کو ایسا ہونے والا ہے تو کیوں نہیں ہوچکتا؟ یعنی کیوں اللہ کا حکم ظہور میں نہیں آجاتا؟ ابتدائی عہد کی سورتوں میں کہا گیا تھا کہ قانون حق نے ہر بات کے لیے ایک وقت ٹھہرا دیا ہے اور وہ اپنے وقت ہی پر ظاہر ہوتی ہے۔ اس سورت میں فرمایا وہ وقت آگیا ہے، یعنی اب بالکل قریب ہے، کیونکہ اب مخالفوں کا ظلم و تشدد انتہائی حد تک پہنچ چکا تھا، مومنوں پر زندگی دشوار ہوگئی تھی، عنقریب ہجرت مدینہ کا معاملہ ظہور میں آنے والا تھا اور اس کا ظہور فیصلہ امر کا اعلان تھا۔ النحل
2 قرآن نے جابجا وحی الہی کو الروح سے تعبیر کیا ہے۔ یہاں آیت (٢) میں بھی الروح سے مقصود وحی ہے اور ظاہر ہے کہ وحی کے لیے اس سے بہتر تعبیر نہیں ہوسکتی۔ وہ نظر نہیں آتی لیکن جس جسم پر اتری ہے وہ اس سے معمور ہوجاتا ہے اور اس کے اندر سے اس کی صدائیں اٹھنے لگتی ہیں، نیز اس اعتبار سے بھی وہ الروح ہے کہ انسانی سعادت کی زندگی اسی سے قائم ہے۔ (استجیبواللہ وللرسول اذا دعا کم لما یحیکم) حضرت مسیح (علیہ السلام) نے اسی حقیقت کو روح القدس سے تعبیر کیا ہے اور حواریوں نے بھی اسی معنی میں اسے استعمال کیا ہے۔ گرچہ بعد میں اس کی حقیقت عیسائیوں پر مشتبہ ہوگئی۔ النحل
3 آیت (٢) میں فرمایا تھا کہ یہ اللہ کی مقررہ سنت ہے کہ وہ ہدایت خلق کے لیے کسی بندہ کو چن لیتا ہے اور اسے وحی کی روح سے معمور کردیتا ہے، اور اس ہدایت وحی کی دعوت کیا ہوتی ہے ؟ توحید الہی کی تلقین یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، پس صرف اسی کی بندگی کرو۔ اب آیت (٣) سے توحید الہی کے دلائل کا بیان شروع ہوتا ہے۔ مبدء استدلال تخلیق بالحق کی حقیقت ہے جس کی تشریح پہلے گزر چکی اور مزید تشریح کے لیے تفسیر فاتحہ دیکھنی چاہیے۔ النحل
4 آیت (٤) میں قدرت الہی کی اس کرشمہ سازی پر توجہ دلائی ہے کہ نطفہ کے ایک قطرہ حقیر سے ایک ایسا عقیل و مفکر وجود پیدا ہوجاتا ہے جس میں بحث و نزاع کی قوت ہوتی ہے اور جو بال کی کھال اتارنے لگتا ہے۔ پس یہاں فاذا ھو خصیم مبین سے مقصود بیان واقعہ ہے نہ کہ مذمت وملامت جیسا کہ بعض دوسرے مقامات میں ہے۔ پہلے تخلیق بالحق کی حقیقت پر توجہ دلائی کہ کارخانہ ہستی کی ہر چیز کسی سوچی سمجھی ہوئی مصلحت سے بنائی گئی ہے۔ بے کار و عبث نہیں نبی ہے۔ اس کے بعد فرمایا۔ انسان خود اپنی خود اپنی ہستی کو دیکھے اور اپنے چاروں طرف نظر ڈالے، کس طرح ہر شے بول رہی ہے کہ مجھے کسی رب و رحیم ہستی نے بنایا ہے جو پرورش کرنا چاہتی ہے، فائدہ پہنچانا چاہتی ہے، ساری احتیاجیں اور ضرورتیں پوری کر رہی ہے اور سرتاسر بخشش، فضل احسان اور رحمت ہے؟ پھر ایک ایسی ربوبیت و رحمت رکھنے والی ہستی موجود ہے تو ہر طرح کی پرستاریوں کا مستحق اسے ہونا چاہیے یا انہیں جو خود اپنی پرورش کے لیے اس کے پروردگاری کے محتاج ہیں؟ اور اگر وہ پروردگار ہستی تمہاری تمام جسمانی ضرورتوں اور آسائشوں کا انتظام کر رہی ہے تو کیا ضروری نہ تھا کہ تمہاری روحانی سعادت و زدنگی کا بھی سرور سامان کردیتی؟ یہی سروسامان ہے جو ہدایت وحی اور تسیل رسل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ پھر کیوں تمہیں اس پر انکار و تعجب ہو؟ النحل
5 النحل
6 النحل
7 النحل
8 النحل
9 النحل
10 النحل
11 النحل
12 النحل
13 النحل
14 النحل
15 النحل
16 النحل
17 النحل
18 النحل
19 النحل
20 آیت (٢٠) اور اس کے بعد کی آیتوں میں دلائل سے نتیجہ نکلا ہے۔ ایسا نتیجہ جو خود بخود ابھر رہا اور ہر نگاہ کے کے سامنے آرہا تھا۔ یعنی جس پروردگار نے اپنی پروردگاریوں کا یہ تمام کارخانہ پیدا کردیا ہے کیا کوئی دوسری ہستی اس کے برابر ہوسکتی ہے ؟ کیا وہ ہستی جو یہ سب کچھ پیدا کر رہی ہے اور جو پیدا نہیں کرسکتی دونوں برابر ہوسکتی ہے ؟ اگر نہیں ہوسکتیں تو اس سے بڑھ کر عقل کی کوری اور روح کی موت کیا ہوسکتی ہے۔ کہ تم دوسری ہستیوں کو بھی پروردگار عالم کے ساتھ معبودیت میں شریک کر رہے ہو؟ آیت (١٨) میں فرمایا ان چند اشیاء کی پیدائش ہی پر موقوف نہیں، اس کی نعت میں تو اتنی ہیں کہ اگر گننا چاہو تو تمہاری طاقت سے باہر ہے کہ گن سکو۔ تمہاری زندگی کا ہر سانس اس کی کسی نہ کسی نعمت کا رہین منت ہے۔ کارخانہ ہستی کا ہر ذرہ کسی نہ کسی بخشش و کرم کی نشانی ہے۔ درختوں کا ہر پھول، دھوپ کی ہر کرن، ہوا کا ہر جھونکا، بارش کا ہر قطرہ، چاند کی ہر نمود، ستاروں کی ہر چمک، پرندوں کی ہر چہچہاہٹ اس کی ربوبیت کی ایک پروردگار اور اس کی رحمت کی ایک چارہ سازی ہے، تم اگر درختوں کے سپز پتے، پھولوں کے رنگین ورق اور سورج کی سنہری کرنیں گن سکتے ہو تو اس کی نعمتیں بھی گن لو۔ تم درختوں کے ہر پتے سے پوچھو، بارش کے ہر قطرہ سے سوال کرو، سورج کی ہر کرن کا منہ دیکھو، تمہیں یہی جواب ملے گا کہ (ان اللہ لغفور رحیم) جس نے یہ سب کچھ بنایا ہے وہ بڑا ہی بخشنے والا بڑی ہی رحمت والا ہے۔ برائی اور معصیت کرنے کو ہر جگہ قرآن نے (ظلموا انفسھم) اور (اسرفوا علی انفسھم) سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی انہوں نے اپنی جانوں کے ساتھ ناانصافی کی اور اپنی جانوں پر زیادتی کی۔ یہاں بھی آیت (٢٨) میں ایسی ہی تعبیر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے نزدیک کفر و بدعملی کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ یہ خود اپنے ہاتھوں اپنی جانوں کو نقصان و ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ اس بات کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی آدمی کو ہم سنکھیا کھاتے دیکھتے ہیں تو بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں کہ کیوں اپنی جان کے پیچھے پڑے ہو؟ اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاک کر رہے ہو؟ قرآن کے نزدیک کفر ومعژیت بھی ایسی ہی چیز ہے۔ یہ دودھ پینے کی جگہ سنکھیا کھانا ہے اور جو کھاتا ہے وہ خود اپنی جان کے ساتھ ناانصافی کرتا ہے اور خود اپنے اوپر زیادتی کرنے والا ہوتا ہے۔ النحل
21 النحل
22 النحل
23 النحل
24 آیت (٢٤) سے آیت (٣٢) تک دو گروہوں کی دو متضاد حالتیں اور متضاد نتیجے بیان کیے ہیں : ایک گروہ منکروں کا ہے۔ ایک متقی انسانوں کا۔ منکروں کے نزدیک وحی الہی کی حقیقت کیا ہے ؟ (قالو اساطیر الاولین) یہ تو وہی اگلوں کے افسانے ہیں، اس کے سوا کچھ نہیں، لیکن جو لوگ متقی ہیں ان کے نزدیک اس کی حقیقت کیا ہے ؟ قالوا خیرا۔ سرتاسر خیر و برکت۔ پہلے گروہ پر جب موت آتی ہے تو اس حال میں آتی ہے کہ برائیوں میں سرگرم ہوتے ہیں : (تتوفھم الملائکۃ ظالمی انفسھم) لیکن دوسرے گروہ پر جب ااتی ہے تو وہ ویمان و یقین اور پاکی عمل کی روح سے خوشحالی ہوتے ہیں۔ (تتوفھم الملائکۃ طیبین) جزاء عمل کے لحاظ سے بھی دونوں کی حالتیں متضاد ہوئیں۔ پہلے گروہ کو کہا جائے گا : (ادخلوا ابواب جھنم) دوسرے سے کہا جائے گا : (ادخلوا الجنۃ) پہلے لیے خواری و عذاب کا پیام ہوا : (ان الخزی الیوم والسوء علی الکافرین) دوسرے کے لیے سلامتی کا پیام : (سلام علیکم ادخلوا الجنۃ) پہلے نے گھمنڈ کیا تھا تو گھمنڈ کرنے والوں کا کیا ہی برا ٹھکانا ہوا : (فلبئس مثوی المتکبرین) دوسرے نے تقوی کی روش اختیار کی تھی تو تقوی کی راہ چلنے والوں کا کیا ہی اچھا ٹھکانا ہوا۔ (ولنعم دار المتقین) پہلے لیے عذاب دائمی ہوا : (خالدین فیھا) دوسرے کے لیے نعیم و سرور کی زندگی دائمی ہوئی : (جنات عدن یدخلونھا) قرآن نے جابجا مشرکوں کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر شرک برائی ہے تو خدا کیوں ہمیں برائی کرنے دیتا ہے ؟ اگر وہ چاہتا کہ اس کے سوا اور کسی کی بندگی نہ کی جائے تو کبھی ایسا نہ ہوسکتا کہ ہم اور ہمارے آباؤاجداد ایسی بات کرسکتے۔ اگر وہ چاہے تو اب بھی ہمیں روک دے سکتا ہے، اس شور و ہنگامہ کی جگہ تو تم نے بپا کر رکھا ہے، کیوں خدا سے نہیں کہتے کہ ہمیں روک دے ؟ چنانچہ یہاں بھی آیت (٣٥) میں ان کا یہی قول نقل کیا ہے اور پھر اس کا جواب دیا ہے۔ فرمایا : یہ کوئی نئی بات نہیں ہے جو انہوں نے کہہ دی، پہلے بھی لوگ ایسی ہی روش اختیار کرچکے ہیں۔ لیکن یہ روش گمراہی اور ہٹ دھرمی کی روشن ہے۔ اللہ کے رسول اس لیے نہیں آتے کہ لوگوں سے برائی کرنے کی طاقت سلب کرلیں اور انہیں ایسا بنا دیں کہ برائی کر ہی نہ سکیں۔ وہ تو پیام حق پہنچانے والے ہیں اور پیام پہنچانے والے کا کام صرف یہ ہے کہ صاف صاف اور روشن طریقہ پر پیام پہنچا دے۔ اب اسے ماننا یا نہ ماننا یہ سننے والوں کا کام ہے۔ پیام پہنچانے والا اس کے لیے ذمہ دار نہیں۔ اور جب اللہ کی مشیت یہ ہوئی کہ انسان کو کسی ایک حالت پر مجبور نہ کردیا جائے بلکہ ہر طرح کی حالت اختیار کرنے کی قدرت دی جائے تو اللہ کے رسولوں سے کیوں اس کی توقع کی جائے کہ لوگوں سے یہ قدرت سلب کرلیں؟ پھر فرمایا : دنیا کی کوئی امت نہیں جس میں اللہ کا رسول نہ آیا ہو اور اس نے توحید و خدا پرستی کی تعلیم نہ دی ہو، پھر کسی نے مانا اور اللہ نے فلاح و سعادت کی راہ اس پر کھول دی۔ کسی نے نہیں مانا اور گمراہی کی بات ثابت ہوگئی اور گمراہی کا نتیجہ پیش آگیا۔ پس اللہ کا قانون ہدایت و شقاوت ایسا ہی چلا آیا ہے۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ لوگوں کو جبرا ہدیات یافتہ بنا دیا گیا ہو۔ یہ اعتقاد کہ انسان کی زندگی صرف اتنی ہی نہیں ہے جتنی دنیا میں بسر کرتا ہے بلکہ اس کے بعد بھی ایک نزدگی ہے اور اس زندگی میں جزائے عمل کا معاملہ پیش آنے والا ہے تمام مذاہب عالم کا عالمگیر اعتقاد ہے، لیکن مشرکین عرب اس سے بے خبر تھے اس لیے جب قرآن نے آخرت کی زندگی اور حشر اجساد کا اعلان کیا تو انہیں بڑی ہی عجیب بات معلوم ہوئی۔ وہ کہتے تھے جب آدمی مرگیا تو مرگیا پھر اس کے بعد زندگی کیسے ہوسکتی ہے ؟ چنانچہ قرآن نے جابجا ان کے اقوال نقل کیے ہیں اور جواب دیا ہے۔ یہاں آیت (٣٨) میں فرمایا : یہ لوگ یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ اللہ مردوں کو دوبارہ زندہ نہیں کرے گا لیکن نہیں جانتے کہ اللہ کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ اس کا وعدہ ہے یعنی اس کی ٹھہرائی ہوئی بات ہے اور ضروری ہے کہ ظہور میں آئے۔ یہ اس کا وعدہ کیونکر ہے؟ اس طرح کہ خود دنیوی زندگی کی ہر بات کہہ رہی ہے کہ اسے ایسا کرنا ہے اور وہ ضرور کرے گاْ چنانچہ اس کے بعد فرمایا : (لیبین لھم الذی یختلفون فیہ ولیعلم الذین کفروا انھم کانوا کاذبین) تاکہ جن متقیوں کا انسان دنیوی زندگی میں فیصلہ نہیں کرسکتا اور اختلاف پیدا ہوتے رہتے ہیں ان کا فیصلہ ہوجائے اور حقیقت سب کے سامنے آجائے، نیز اس لیے کہ گمراہ اور بدمعلی اپنی گمراہی و بدعملی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ یعنی دنیوی زندگی میں پردوں کا نہ اٹھنا اور مشاہدہ حقیقت کا نہ ہونا بتلا رہا ہے کہ کوئی اور زندگی ضرور ہے جہاں بالآخر پردے اٹھیں گے۔ پس یہ صورت حال گویا خالق ہستی کی طرف سے ایک وعدہ ہوئی کہ اب نہیں لیکن آئندہ ایسا ہونے والا ہے۔ اور ضروری ہے کہ یہ وعدہ پورا ہو کر رہے۔ النحل
25 النحل
26 النحل
27 النحل
28 النحل
29 النحل
30 النحل
31 النحل
32 النحل
33 النحل
34 النحل
35 النحل
36 النحل
37 النحل
38 النحل
39 النحل
40 آیت (٤٠) میں فرمایا تمہیں انسان کے دوبارہ زندہ ہونے پر اس لیے تعجب ہورہا ہے کہ اللہ کی قدرت کا صحیح اندازہ نہیں۔ تم اسی ترازو سے اس کے کام بھی تولنا چاہتے ہو جس سے اپنے کام تولا کرتے ہو۔ وہ کسی چیز کے ظہور میں لانے کے لیے نہ تو کسی سروسامان کا محتاج ہے نہ کسی دوسری ہستی کی موجودگی کا۔ صڑف اس کا ارادہ ہی ہر طرح کی علت ہے، ہر طرح کا سروسامان ہے، ہر طرح کا مواد ہے، وہ جب چاہتا ہے کہ ایک چیز ظہور میں آجائے تو بس اس کا چاہنا ہی سب کچھ ہے، جونہی اس کی مشیت کا فیصلہ ہوا، ہر چیز ظہور میں آگئی۔ یاد رہے کہ ان یقول لہ کن کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عربی لفظ کن جو کاف اور نون سے مرکب ہے بولنے آتا ہے۔ یا کلمہ خطاب و امر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چیزیں وجود میں آجاتی ہیں بلکہ صاف مطلب یہ ہے کہ صرف اس کا ارادہ تخلیق کے لیے کافی ہے اور اس کی قدرت کا یہ حال ہے کہ جس بات کا حکم دے د یتا ہے وہ بجمرد حکم ظہور میں آجاتی ہے۔ وہ اپنے ارادہ اور حکم کے نفاز میں کسی دوسری چیز کا محتاج نہیں۔ پس ہمارے مفسرین نے یہاں جس قدر فلسفیانہ کاوشیں کی ہیں اور خطاب بہ معدوم وغیرہ کے سوالات اٹھائے ہیں سب بے محل اور بے معنی ہیں اور درخور التفات نہیں۔ غور کرو کس طرح چند لفظوں کے اندر اللہ کی خالقیت و قدرت کی کامل تصویر کھینچ دی ہے ؟ ایسی تصویر کہ اس سے زیادہ انسانی تصور نہ تو کچھ سوچ سکتا ہے نہ سوچ سکنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس نے تمام کارخانہ ہستی کیونکر پید اکیا؟ وہ جو کچھ پیدا کرنا چاہتا ہے کس طرح ظہور میں آجاتا ہے؟ اس طرح کہ اس کا حکم ہوتا ہے اور اس کا حکم ہی ساری علتوں کی علت اور سارے سببوں کا آخری سبب ہے۔ جب دشمنوں کا ظلم و تشدد اس حد تک پہنچ گیا کہ مسلمانوں پر زندہ رہنا دشوار ہوگیا تو پیغمبر اسلام نے اجازت دے دی کہ حبش (ابی سینا) کی طرف ہجرت کرجائیں، چنانچہ پہلے بارہ مرد اور چار عورتوں کا قافلہ مکہ سے نکلا جس کے رئیس حضرت عثمان بن عفان تھے اس کے بعد اور لوگ نکلے جن کی تعداد ٧٣ مردوں اور ١٨ عورتوں تک پہنچ گئی۔ تاریخ اسلام کی یہ پہلی ہجرت ہے، دوسری ہجرت یثرت کی ہجرت تھی۔ النحل
41 آیت (٤١) میں جن مہاجرین کا ذکر کیا ہے اس سے مقصود ابی سینا کہ مہاجرین ہیں۔ فرمایا انہوں نے اللہ کی سچائی کی راہ میں اپنا گھر بار چھوڑا ہے اور ہجرت کی مصیبتیں برداشت کی ہیں تو ضروری ہے کہ اللہ ان کا مددگار ہو اور ان کے لیے دنیا میں اچھا ٹھکانا پیدا کردے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ابی سینا کا دار غربت ان کے لیے امن و عزت کا مہمان سرا بن گیا۔ یہ وہی ابی سینا ہے جس کے ایک سپہ سالار ابرہہ نے پچاس برس پہلے مکہ پر حملہ کیا تھا لیکن اب اسی مکہ کے مظلوموں کا اخلاص و محبت کے ساتھ استقبال کر رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مظلومیت کی یہ ہجرت تبلیغ حق کی کامرانیوں کا ایک عجیب و غریب وسیلہ بن گئی۔ یعنی ابی سینا کے بادشاہ کا دل قبولیت حق کے لیے کھل گیا اور دعوت اسلام پر ایمان لے آیا۔ چنانچہ سورۃ مائدہ کی آیت (٨٣) میں اس کا ذکر گزر چکا ہے۔ قوانین الہی کی عجائب آفرینیوں میں سے ایک عجیب و غریب منظر ظلم یعنی اجسام کے سایے کا ہے۔ نظام شمسی کے تمام کرشمے اس چیز میں ہم دیکھ لیتے ہیں۔ یہ ہمارے جسم کے ساتھ ساتھ رہتا ہے اور ساتھ ساتھ چلتا ہے لیکن لاکھوں میل فاصلہ کی خبر دے دیتا ہے۔ سورج کا طلوع، عروج، زوال، غروب، ساری حالتیں ہم اس آئینہ میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ کبھی بڑھتا ہے، کبھی گھٹتا ہے، کبھی ابھرتا ہے، کبھی غائب ہوجاتا ہے، کبھی کھڑا ہوتا ہے، کبھی جھکتا ہے، کبھی داہنے ہوتا ہے، کبھی بائیں۔ اس کی ان تمام حالتوں کا قانون اس درجہ قطعی اس درجہ یکساں اس درجہ منظم ہے کہ اس میں فتور پڑجانے کا ہمیں وہم و گمان بھی نہیں ہوسکتا۔ جس وقت تک گھڑیاں ایجاد نہیں ہوئی تھیں یہی سایہ گھڑی کا کام دیتا تھا اور اسی سے دھوپ گھڑی بنی تھی۔ آج کل بھی میدانوں اور دیہاتوں میں جہاں گھڑیاں نہیں ہوتیں دہقان سایہ دیکھ کر معلوم کرلیتا ہے کہ کتنا دن چڑھ چکا ہے، کتنا ڈھل چکا ہے۔ سایہ جب مساوی ہوجائے تو دوپہر کا وقت ہے، جب گھٹنے بڑھنے لگے تو اس کی ہر مقدار گھڑی کی سوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن قوانین الہی کے احاطہ و نفاذ کا ذکر کرتے ہوئے سایے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور کہتا ہے یہ تم سے دور نہیں۔ ہر وقت تمہارے جسم کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے ہمیشہ اس پر تمہاری نگاہیں رہتی ہیں، کیونکہ اسی سے وقت کا اندازہ لگایا کرتے ہو۔ پس غور کرو اس کی حقیقت کیا ہے ؟ کس طرح یہ شہادت دے رہا ہے کہ یہاں کی ہر چیز کسی مدبر و حکیم ہستی کے احکام کے آگے سربسجود ہے۔ اور اس نے جس چیز کے لیے جو حکم نافذ کردیا ہے، ممکن نہیں کہ اس کی تعمیل میں بال برابر بھی انحراف ہو۔ یہاں بھی آیت (٤٨) میں اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد ہی فرمایا : وللہ یسجد ما فی السموات ومافی الارض من دابۃ۔ انسان میں مرد اور عورت کا امتیاز ہے۔ لوگوں نے خیال کیا کہ اسی طرح روحانی قوتوں میں بھی دونوں جنسیں ہونی چاہیں۔ مرد دیوتا ہیں، عورتیں بیبیاں ہیں۔ چنانچہ دنیا کی تمام اصنام پرست اقوام کی دیوبانیوں میں یہ خیال عام طور پر نمایاں رہا ہے۔ مشرکین عرب میں بھی یہ تخیل پیدا ہوگیا تھا۔ قبیلہ خزاعہ اور کنانہ کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ وہ فرشتوں کا تصور بیبیوں کی شکل میں کرتے تھے اور کہتے تھے یہ خدا کی بیٹیاں ہیں۔ قرآن نے جابجا یہ خیال نقل کیا ہے وار اسکی سخافت پر توجہ دلائی ہے۔ (یہاں (٥٧) میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔ وہ فرشتوں کو تو خدا کی بیٹیاں سمجھتے تھے، لیکن خود عورتوں کی جنس کے لیے ان کے تصورات کیا تھے؟ یہ کہ زیادہ سے زیادہ ذلیل و حقیر مخلوق ہے، جب کسی کے یہاں بیٹی پیدا ہوتی تو اسے بڑی غمگینی اور بدنصیبی کی بات سمجھتا۔ بعض قبائل جنہیں اپنے نسلی شرف کا بڑا گھمنڈ تھا بیٹی کے باپ ہونے میں ایسی ذلت سمجھتے کہ اکثر حالتوں میں اسے خود اپنے ہاتھ سے زندہ گاڑ کر مار ڈالتے۔ جب ان میں سے کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خبر ملتی تو مارے شرم کے لوگوں کے سامنے نہ آتا اور سوچنے لگتا کہ ذلت گوارا کر کر کے بیٹی والا بن جائے یا ایک باعزت آدمی کی طرح اسے زمین میں زندہ دفن کردے۔ یہاں ایک طرف تو ان کے عقیدے کی سخافت دکھلائی ہے کہ جس بات کو خود اپنے لیے زلت کی بات سمجھتے ہیں اسے خدا کے لیے تجویز کرنے میں انہیں باک نہیں۔ دوسری طرف اس گمراہی کا ابطال کیا ہے کہ عورت کی جنس کو جو مرد ہی کی طرح ایک انسانی جنس ہے زلیل و حقیر سمجھتے ہیں۔ حتی کہ اپنی اولاد کو خود اپنے ہاتھوں قتل کردینے کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ آیت (٥٩) میں فرمایا : (الاساء ما یحکمون) دیکھو کیا ہی برا فیصلہ ہے جو انہوں نے اس معاملہ میں کیا۔ مردوں کا عورتوں کے ساتھ معاملہ ظلم و معصیت کی ایک مسلسل سرگزشت ہے۔ اور اس سرگزشت کا ایک سب سے زیادہ وحشیانہ واقعہ دختر کشی کی رسم ہے۔ اسلام کا جب ظہور ہوا تو عرب کے اکثر قبیلوں میں یہ رسم اسی طرح جاری تھی جس طرح ہندوستان کی مختلف قوموں میں پچھلی صدی تک جاری رہ چکی ہے۔ لوگ اس پر فخر کرتے تھے اور کہتے تھے ہمارے قبیلہ کے افراد بیٹی کے باپ ہونے کا ننگ گوارا نہیں کرسکتے۔ لیکن اسلام نے نہ صرف یہ رسم مٹا دی بلکہ وہ ذہنیت بھی مٹا دی جو ان تمام وحشیانہ مظالم کے اندر کام کر رہی تھی۔ اس نے اعلان کیا کہ مرد اور عورت کا جنسی اختلاف کسی فضیلت اور محرومی کی بنیاد نہیں ہوسکتا۔ دونوں کو اللہ نے بحیثیت انسان ہونے کے ایک ہی درجہ میں رکھا ہے اور دونوں کے آگے یکساں طریقہ پر ہر طرح کی فضیلتوں کی راہ کھول دی ہے : (للرجال نصیب مما اکتسبوا وللنساء نصیب مما اکتسبن واسئلوا اللہ من فضلہ) سورۃ تکویر میں جہاں قیامت کے دن کی ہولناکیوں کا نقشہ کھینچا ہے وہاں پرسش اعمال میں سب سے زیادہ وہ نمایاں جگہ اسی ظلم کو دی ہے : (واذا الموءدۃ سئلت بای ذنب قتلت) انسان کے لیے اس بات کے تصور سے بڑھ کر اور کوئی تصور قدرتی اور حقیقی نہیں ہوسکتا کہ ایک خالق و پروردگار ہستی موجود ہے لیکن وہ ہستی کیسی ہے؟ اس کی صفتوں کا بھی تصور کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اور اگر کیا جاسکتا ہے تو وہ صفتیں کیا کیا ہیں اور کس نوعیت کی ہیں؟ یہاں سے انسانی عقل کی درماندگیاں شروع ہوجاتی ہیں اور پھر کوئی گمراہی ایسی نہیں ہے جس میں وہ گم ہوجانے کے لیے مستعد نہ ہوجاتا ہو۔ حتی کہ بعض اوقات بھٹکتے بھٹکتے اتنا دور چلا جاتا ہے کہ جس درجہ پر خود کھڑا ہے اس سے بھی خدا کا تصور نیچے گرا دیتا ہے : (ویجعلون للہ ما یکرھون) مشرکین عرب کی سخافت تصور کا ذکر کرنے کے بعد آیت (٦٠) میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ النحل
42 النحل
43 النحل
44 النحل
45 النحل
46 النحل
47 النحل
48 النحل
49 النحل
50 النحل
51 النحل
52 النحل
53 النحل
54 النحل
55 النحل
56 النحل
57 النحل
58 النحل
59 النحل
60 النحل
61 آیت (٦١) میں قانون امہال کی طرف اشارہ کیا ہے جس کی تشریح پچھلی سورتوں کے نوٹوں میں گزر چکی ہے اور مزید تشریح کے لیے تفسیر فاتحہ دیکھنی چاہیے۔ قرآن نے جابجا کہا ہے کہ ہدایت وحی کا ظہور تبیین حقیقت اور رفع اختلاف کے لیے ہوتا ہے۔ یعنی جن باتوں کو انسان اپنی عقل و ادراک سے نہیں پاسکتا، اور اس لیے طرح طرح کے اختلافات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ کوئی کچھ سمجھنے لگتا ہے کوئی کچھ، وحی الہی نمودار ہوتی ہے تاکہ ان اختلافات کو دور کردے اور بتلا دے کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ چنانچہ یہاں بھی آیت (٦٤) میں قرآن کے نزول کا ایک مقصد یہ بتلایا کہ (لیبین لھم الذی اختلفوا فیہ) یہ باتیں کون سی ہیں جن میں لوگ اختلاف کرتے ہیں اور جن کا اختلاف بغیر اس کے دور نہیں ہوسکتا کہ کتاب الہی آئے اور پردہ اٹھا دے؟ وہ تمام باتیں جو انسان کے عقل و ادراک کی سرحد سے ماوری ہیں۔ اللہ کی صفات، مرنے کے بعد کی زندگی، عالم معاد کے احوال و ارادات جزائے عمل کا قانو، عالم غیب کے حقائق، یعنی وہ ساری باتیں جن کے اعتقاد و عمل کی درستی سے روحانی سعادت کی زندگی پیدا ہوسکتی ہے۔ انسان جب کبھی اس راہ میں وحی الہی کی روشنی سے الگ ہو کر قدم اٹھاتا ہے اختلاف کی تاریکیوں میں گم ہوجاتا ہے۔ لیکن جونہی اس روشنی کی نمود میں اا جاتا ہے حقیقت واضح ہوجاتی ہے اور ہر طرح کے اختلافات و شکوک معدوم ہوجاتے ہیں۔ النحل
62 النحل
63 النحل
64 آیت (٦٤) میں فرمایا تھا کہ الکتاب کا نزول ہدایت و رحمت ہے۔ آیت (٦٥) میں فرمایا یہ معاملہ ایسا ہی ہے جیسے باران رحمت کا نزول۔ وہ مردہ زمین کو زندہ کردیت ہے۔ یہ مردہ دلوں کو زندہ کردیتا ہے۔ اس اسلوب موعظت کی تشریح پچھلی سورتوں کے نوٹوں میں گزر چکی ہے۔ نیز تفسیر فاتحہ میں۔ النحل
65 النحل
66 آیت (٦٦) سے (٦٩) تک ربوبیت الہی کی بخشائشوں کا نقشہ کھینچا ہے۔ ساتھ ہی اس کی صنعت و حکمت کی کرشمہ سازیوں پر بھی توجہ دلائی ہے اور بحیثیت مجموعی ربوبیت، رحمت اور حکمت کا استدلال ہے۔ فرمایا تمہاری غزا میں تین چیزیں سب سے زیادہ مفید اور لذیذ ہیں، دودھ، پھلوں کا عرق اور شہد۔ تم میں سے کوئی نہیں جو ان تین نعمتوں سے آشنا نہ ہوا ہو۔ یہ تمہاری روزانہ غذا کا جو ہر، لذت طعم کا ذریعہ اور جسمانی شفا کا نسخہ ہے۔ لیکن یہ دودھ جو طفولیت سے لے کر بڑھاپے تک تمہاری سب سے زیادہ دل پسند غذا ہوتی ہے، کس طرح اور کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟ تم نے کبھی غور کیا؟ اگر غور کرو تو تمہارے فہم و عبرت کے لیے صرف یہی ایک بات کافی تھی۔ یہ اسی جسم میں بنتا ہے جس میں غلاظت بنتی ہے، جو طرح طرح کی آلائشوں سے بھرا ہوا ہے۔ جس میں اگر کوئی سیال شے موجود ہوتی ہے تو خون ہے جسے کبھی ہونٹوں سے لگانا پسند نہ کرو۔ پھر دیکھو جانروں میں اس کے اترنے کا مخرج کہاں ہے؟ وہیں جس کے قریب ہی بول وبراز کا مخرج ہے۔ یعنی ایک ہی کارخانہ میں، ایک ہی مادہ سے اور ایک طرح کے ظروف میں، ایک طرف تو غلاظت بنتی اور نکلتی رہتی ہے جسے تم دیکھنا بھی پسند نہ کرو، دوسری طرف ایک ایسا جوہر غذا و لذت بھی بنتا اور نکلتا ہے جسے تم دیکھتے ہی اٹھا لو اور بے غل و غش ایک ایک قطرہ پی جاؤ۔ کون ہے جس کی حکمت نے یہ عجیب و غریب کارخانہ بنادیا؟ کون ہے جو ایسے عجیب طریقوں سے زندگی کے بہترین وسائل بخش رہا ہے اور پھر کیا ممکن ہے کہ قدرت کی یہ کارفرمائی، حکمت کی یہ صنعت طرازی، ربوبیت کی یہ چار سازی، بغیر کسی قدیر، حکیم اور رب العالمین ہستی کے ظہور میں آگئی ہو؟ پھلوں میں طرح طرح کے خوش ذائقہ عرق پیدا ہوتے ہیں اور انہیں مختلف طریقوں سے تم کام میں لاتے ہو۔ مثلا کھجور اور انگور کے درخت ہیں۔ ان کے عرق سے نشہ کی چیز بنا لیتے ہو اور اچھی اور جائز غذائیں بھی اس سے بنتی ہیں۔ لیکن یہ پھل پیدا کس طرح ہوئے؟ کھجور اور انگور کا ہر دانہ شیرینی اور غذائیت کی ایک سربہ مہر شیشی ہے جو درختوں میں لٹکنے لگتی ہے اور تم ہاتھ بڑھا کرلے لیتے ہو، لیکن یہ بنتی کس کارخانہ میں ہے ؟ زمین اور مٹی میں، یعنی اس مٹی میں جس کا ایک ذرہ بھی تمہارے منہ میں پڑجاتا ہے تو بے اختیار ہو کر تھوکنے لگتے ہو۔ تم خشک گٹھلیاں مٹی میں پھینک دیتے ہو، مٹی وہی گٹھلی ان نعمتوں کی شکل میں تمہیں واپس دے دیتی ہے۔ کون ہے جس کی ربوبیت و حکمت مٹی کے ذروں سے یہ خزانے اگلوا رہی ہے؟ خوشبو، ذائقہ، اور غذائیت کے خزانے؟ پھر شہد کے چھتوں کو دیکھو۔ یہ کارخانے ہیں جن میں تمہارے لیے شب و روز شہد تیار ہوتا رہتا ہے۔ تم دنیا کے سارے پھول اور پھل جمع کر کے چاہو کہ شہد کا ایک قطرہ بنا لو تو کبھی نہ بنا سکو گے، لیکن ایک چھوٹی سی مکھی بناتی رہتی ہے اور اس نظم و انضباط، محنت و استقلال، تحسین و تدقیق، ترتیب و تناسب، اجتماع و اشتراک اور یکسانی وہم آہنگی کے ساتھ بناتی رہتی ہے کہ اس کی ہر بات ہماری عقلوں کو درماندہ کردینے والی اور ہماری فکروں کی ساری توجیہوں اور تعلیلوں پر دروازہ بند کردینے والی ہے۔ قرآن کے الفاظ پر غور کرو، کس طرح معاملہ کے دقائق واضح کردیے ہیں؟ چونکہ شہد کی مکھی کی یہ صنعت گری جدوجہد، نظم و انضباط اور سرگرمی و باقاعدگی کا ایک پورا سلسلہ ہے جو عرسہ تک جاری رہتا ہے اور یکے بعد دیگرے بہت سی منزلوں سے گزر کر مکمل ہوتا ہے اس لیے اس کے کاموں کو سبل سے تعبیر کیا۔ یعنی عمل کی راہوں سے (فاسلکی سبل ربکا) اور پھر چونکہ اس بات پر توجہ دلانا مقصود تھا کہ جوراہ عمل ٹھہرا دئی گئی ہے اس پر ٹھیک ٹھیک چلتی رہتی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوسکتا کہ ذرا بھی ادھر ادھر ہو اس لیے فرمایا ذللا، حکم الہی کے آگے جھکی ہوئی کام کیے جا۔ چنانچہ اس کا ہر فرد اس طرح حکم الہی کے آگے جھک گیا ہے کہ ممکن نہیں کسی کو راہ عمل سے منحرف ہوتا ہوا پاؤ۔ یاد رہے کہ جس وقت تک ہندوستان کا گنا دوسرے ملکوں میں نہیں پہنچتا تھا میٹھی غذاؤں کے بنانے کا تمام تر دارومدار شہد ہی پر تھا۔ یا پھر ایسے پھلوں پر جو بہت زیاہد میٹھے ہوتے ہیں۔ جیسے کھجور، سکندر اعظم جب ہندوستان آیا تھا اور یونانیوں نے یہاں کی قندکھائی تھی تو خیال کیا تھا یہ بلور کی طرح کوئی معدنی چیز ہے جس کا مزہ شہد کی طرح میٹھا ہوتا ہے۔ غالبا سب سے پہلے عربوں نے ہندوستانی گنے کی کاشت مصر میں کی اور پھر مصر سے مصری یورپ میں پہنچی۔ پس شہد کا ذکر خصوصیت کے ساتھ اس لیے کیا گیا کہ دنیا کے اکثر حصوں میں مٹھاس کا مادہ اس کے سوا اور کچھ نہ تھا، نیز یہ محض لذیذ غذا ہی نہیں بلکہ کتنی ہی بیماریوں کے لیے نسخہ شفا بھی ہے۔ وحی مخفی اشارہ کو کہتے ہیں اور یہاں لغوی معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔ فرمایا یہ ربوبیت الہی کی وحی ہے جو تمام مخلوقات کو ان کے کاموں پر لگاتی ہے اور جس نے ایک حقیر سے جانور میں سعی و عمل کی ایسی حیرت انگیز قوت پیدا کردی ہے۔ دنیا میں انسانی معیشت کا کارخانہ اس طرح چل رہا ہے کہ ہر طرح کے فوائد و وسائل کے حصول کا دروزہ ہر انسان اور ہر گروہ پر کھول دیا گیا ہے۔ مگر کوئی چیز کسی کو خود نہیں مل جاتی۔ اسی کو ملتی ہے جو اس کے لیے جدوجہد کرے اور وہ تمام طریقے کام میں لائے جو حصول مقصد کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن ہر انسان کی ذہنی و جسمانی استعداد یکساں نہیں ہوتی اور چونکہ یکساں نہیں ہوتی اس لیے وسائل معیشت کے حصول کے اعتبار سے بھی سب کی حالت یکساں نہیں ہوئی۔ کسی نے وسائل معیشت پر زیادہ قبو پالیا کسی نے کم، کسی کو کمانے کے زیادہ مواقع حاصل ہوگئے کسی کو تھوڑے۔ پہلے جسمانی قوت میں مقابلہ ہوا اور طاقتور نے کمزور کو مغلوب کیا، پھر ذہن و جسم کا مقابلہ شروع ہوا اور ذہنی قوت نے جسمانی قوت کو مقہور کرلیا۔ النحل
67 النحل
68 النحل
69 النحل
70 النحل
71 آیت (٧١) بھی قرآن کی ان آیتوں میں سے ہے جن سے ہم معلوم کرسکتے ہیں کہ اس بارے میں قرآن کی تعلیم کا رخ کس طرف ہے؟ اس سے معلوم ہوا ہے کہ قرآن اس صورتحال سے تو تعرض نہیں کرتا کہ معیشت کے اعتبار سے تمام انسانوں کی حالت یکساں نہیں، کسی کے پاس زیادہ سامان معیشت ہے، کسی کے پاس کم، لیکن وہ یہ صورتحال برداشت نہیں کرسکتا کہ حصول رزق کے اعتبار سے لوگوں کی حالت یکساں نہ ہو۔ کسی کو ملے، کسی کو نہ ملے۔ وہ کہتا ہے ہر انسان جو دنیا میں پیدا ہوا دنیا کے سامان و رزق سے حصہ پانے کا یکساں طور پر حقدار ہے اور کسی فرد اور گروہ کو حق نہیں کہ اس سے اسے محروم کردے۔ خواہ وہ طاقتور ہو یا کمزور، تندرست ہو یا بیمار، قابل ہو یا ناقابل، دولت مندوں کے گھر پیدا ہو یا فقیروں کے، لیکن اگر انسان ہے تو ماں کے پیٹ سے وہ یہ حق لے کر آیا ہے کہ زندہ رہے اور زندگی کا سروسامان پائے۔ لیکن ہر فرد زندگی کا سروسامان کیونکر پاسکتا ہے؟ جو کمور ہے یا جو ایسے حالات میں پڑگیا ہے کہ کمانے کا موقع نہیں پاتا، یا جو معذور اور لاچار ہوگیا ہے وہ سروسامان معیشت کہاں سے پائے گا؟ قرآن کہتا ہے اس طرح کہ جن لوگوں کو کمائی کا زیادہ موقع ملا ان کے ذمے خرچ کرنے کا فرض بھی عائد ہوگیا ہے۔ وہ اپنی کمائی کا ایک حصہ کمزوروں کو لوٹا دیں۔ لوٹا دیں، کیونکہ فی الحقیقت کمائی کی یہ زیادہ مقدار ان افراد کے لیے تھی جو کمزوری کی وجہ سے حاصل نہ کرسکے۔ اب چلی گئی ہے طاقتور افراد کے پاس اس لیے چاہیے کہ حقداروں کو لوٹا دی جائے۔ یعنی جو ان کا حق ہے وہ انہیں مل جائے۔ وہ کہتا ہے یہ بات کہ تمہیں سامان معیشت کے زیادہ کمانے کا موقع مل گیا ہے تمہیں اس بات کا حقدار نہیں بنا دیتی کہ اپنی ساری کمائی صرف اپنی انفرادی زندگی ہی کے لیے روک لو۔ کیونکہ دنیا کے وسائل زندگی کسی خاص انسان کی حقیقی ملکیت نہیں ہوسکتے۔ یہاں جو کچھ ہے تمام نوع کے لیے ہے۔ پس اگر ایک فرد نے زیادہ کما لیا تو کما سکتا ہے لیکن ایسا نہیں سمجھ سکتا کہ ساری کمائی اسی کی ہوگئ۔ جو کچھ اس نے کمایا ہے دراصل نوع انسانی کی ایک امانت ہے اور اس کے قبضہ میں آگئی ہے۔ وہ اس پر قابض ہوسکتا ہے لیکن اسے صرف اپنے ہی لیے خاص نہیں کرسکتا۔ اس کا فرض ہے کہ خود بھی کھائے اور ان کمزوروں کو بھی کھلائے جو حصول معیشت و محروم رہ گئے ہیں۔ دراصل قرآن کی اس تعلیم کی تہ میں یہ بنیادی اسل کام کررہی ہے کہ وہ نوع انسانی کے مختلف افراد اور جماعتوں کو ایک دوسرے سے الگ اور منقطع تسلیم نہیں کرتا بلکہ سب کو ایک گھرانے کے مختلف افراد قرار دیتا ہے۔ ایسے افراد کو آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ایک دوسرے کے شریک حال ہیں اور ایک دوسرے سے تعاون کرنے والے ہیں۔ بلاشبہ ان میں کاہر فرد اپنے اپنے طور پر اپنی اپنی استعداد کے مطابق جدودجہد معیشت میں لگا ہوا ہے اور کوئی زیادہ کامیاب ہوتا ہے اور کوئی کم لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک فرد دوسرے فرد کی حالت سے بے پروا ہوجائے۔ جو زیادہ کماتا ہے وہ اپنی کمائی دوسرے کو اٹھا کر نہیں دیتا۔ لیکن ایسا بھی نہیں کرسکتا کہ دوسرے کی یک قلم محرومی برداشت کرلے۔ اور اس کے لیے اپنے کو ذمہ دار نہ سمجھے۔ جو زیادہ کماتا ہے اس کے پاس زیادہ کمائی رہتی ہے اور جو کم کماتا ہے اس کے پاس کم رہتی ہے لیکن کھاتے پیتے سب ہیں۔ بھوکا کوئی نہیں رہ سکتا، کمائی میں سب الگ الگ جدو جہد کریں گے۔ کھانے میں سب ایک دوسرے کے شریک ہوجائیں گے۔ دنیا میں نسل و تواراث کے قریبی رشتوں نے خاندانوں کی بنیاد ڈال دی ہے۔ یہ خاندانی زندگی ٹھیک ٹھیک اس زندگی کا ایک نمونہ ہے جو قرآن چاہتا کہ تمام نوع انسانی کی ہوجائے۔ ایک خاندان میں مختلف افراد ہوتے ہیں اور استعداد کار کے لحاظ سے تمام افراد کی حالت یکساں نہیں ہوتی۔ کوئی فرد زیادہ کماؤ ہوتا ہے کوئی کم۔ کوئی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ نہیں کماتا، یا کچھ نہیں کما سکتا، جو زیادہ کماتا ہے وہ اپنی کمائی اپنے ہی پاس رکھتا ہے۔ ایسا نہیں کرتا کہ اٹھا کر دوسرے کو دے دے، لیکن باہم رشتہ داری نے باہمی فرائض و تعاون کا جو فرض عائد کردیا ہے اسے خاندان کا کوئی فرد نظر انداز نہیں کرسکتا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ خاندان کا ایک فرد خود تو عیش و عشرت کی زندگی بسر کرے لیکن دوسروں کو فقرو و فاقہ کی حالت میں ہلاک ہونے کے لیے چھوڑ دے۔ کمانے میں سب کی راہیں الگ ہوتی ہیں اور نتائج بھی سب کو ایک طرح کے پیش نہیں آتے لیکن کھانے میں سب اویک دوسرے کے شریک ہوتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کی فکر سے غافل نہیں ہوسکتے۔ اگر خاندان کا ایک فرد زیادہ کماتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ خرچ کرنے کی ذمہ داری بھی اس پر زیادہ عائدہ ہوگئی ہے اور دوسرے بھی سمجھتے ہیں کہ یہ زیادہ کماتا ہے تو اسے ہماری خبر گیری بھی دوسروں سے زیادہ کرنی چاہیے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی خاندان کے مختلف افراد ہوتے ہیں مگر باہمی تعاون و اشتراک کا فرض بھلا دیتے ہیں۔ ایک بھائی لاکھوں کماتا ہے، دوسرا بھائی بھوکا مرتا ہے، لیکن دنیا ایسے آدمی کو ملامت کرے گی، وہ کہیے گی یہ ننگ خاندان ہے، اس نے یہ بات کیسے گوارا کرلی کہ خود تو عیش و عشرت کی زندگی بسر کرے اور اس کا بھائی ایک ایک دانہ کو ترسے۔ قرآن چاہتا ہے، ایسا ہی اعتقاد نوع انسانی کے تمام افراد میں پیدا ہوجائے، وہ کہتا ہے تمام افراد انسانی دراصل ایک ہی گھرانے کے مختلف افراد ہیں، انسانیت ان کی نسل ہے اور کرہ ارضی ان کا وطن ہے۔ بلاشبہ ان کا ہر فرد حق رکھتا ہے کہ اپنی اپنی حالت اور اپنی اپنی استعداد کے مطابق معیشت کے وسائل حاصل کرے، لیکن اس کا حق نہیں رکھتا کہ اپنی کمائی کو صرف اپنے ہی لیے سمجھ لے اور پانے کمزور بھائی کے لیے کچھ نہ نکالے۔ کمانے میں سب کی راہیں الگ ہوں گی، قبضہ و تصرف میں بھی سب الگ الگ رہیں گے لیکن کھانے میں الگ نہیں رہ سکتے۔ یہ خدا کے اس عالمگیر گھرانے کا ہر فرد قدرتی حق ہے۔ وہ کما سکے یا نہ کما سکے لیکن اسے زندہ رہنے کا سامان ملنا چاہیے۔ وہ کہتا ہے کمائی کے حق کا دامن انفاق کی ذمہ داری سے بندھا ہوا ہے۔ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں، تم انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کرسکتے، یہاں کمائی کرنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ خرچ کرنے کی ذمہ داری اٹھائی جائے، اگر تم کچھ نہیں کما سکتے تم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے، جونہی تم کمانے لگو تم پر ذمہ داری عائد ہوگئی، اب یہ جتنی بڑھتی جائے گی انفاق کی ذمہ داری بھی بڑھتی جائے گی، ہر پیشہ جو تمہاری جیب میں آئے گا انفاق کی ایک تازہ ذمہ داری اپنے ساتھ لائے گا۔ تمہاری کمائی کی راہ میں کوئی روک نہیں، تم جس قدر کما سکتے ہو کماؤ، بلکہ چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ کماؤ لیکن یہ نہ بھولو کہ زیادہ سے زیادہ کمانا زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کو کہتے ہیں۔ وہ کہتا ہے افراد کے ہاتھ کمائی کے لیے ہیں لیکن جماعت کا حق خرچ کرانے کا ہے، افراد جتنا کما سکتے ہیں کمائیں لیکن ڈھیر لگانے کے لیے نہیں خرچ کرنے کے لیے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکتناز کو روکنا چاہتا ہے، یعنی چاندی سونے کے ڈھیر لگانے کو، اور کہتا ہے ان کے لیے عذاب الیم کی بشارت ہے جو ڈھیر لگاتے ہیں اور خرچ نہیں کرتے (والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا) شرح اس کی سوربہ توبہ میں گزر چکی ہے۔ اس تمام تفصیل سے معلوم ہوا کہ جہاں تک نظام میعشت کا تعلق ہے قرآن نے اکتساب مال کا معاملہ انفاق مال کے ساتھ وابسہ کردیا ہے وہ فرد کے حق اکتساب سے تعرض نہیں کرتا لیکن اس حق کو انفاق کی ذمہ داری کے ساتھ باندھ دیتا ہے۔ جس قدر کما سکتے ہو کماؤ لیکن کوئی کمائی جائز تسلیم نہیں کی جاسکتی اگر انفاق سے انکار کرتی ہو۔ ہر وہ کمائی جو محض اکتناز کے لیے ہو اور انفاق کے لیے دروزہ کھلا نہ رکھے قرآن کے نزدیک ناجائز، ناپاک، اور مستحق عقوبت ہے۔ چنانچہ یہاں آیت (٧١) میں فرمایا : (واللہ فضل بعضکم علی بعض فی الرزق) سروسامان رزق کے اعتبار سے سب کی حالت یکساں نہ ہوئی۔ کسی کے پاس زیادہ ہے، کسی کے پاس کم ہے، کوئی بالکل محروم ہے۔ (فما الذین فضلوا برادی رزقھم علی ما ملکت ایمانھم) پھر جن لوگوں کو رزق میں برتری دی گئی ہے وہ ایسا کرنے والے نہیں کہ اپنے کمائے ہوئے رزق اپنے غلاموں اور زیر دستوں کو دے دیں۔ (فھم فیہ سواء) حالانکہ جو رزق انہوں نے کمایا ہے وہ کچھ ان کا خلق کیا ہوا نہیں ہے، اللہ ہی کا دیا ہوا ہے اور اس لیے رزق کے حقدار ہونے میں وہ سب برابر ہیں۔ خواہ کوئی زیردست ہو کر محروم ہوگیا ہو خواہ کوئی زبردست ہو کر خوشحالی ہوگیا ہو۔ (افبنعمۃ اللہ یجحدون) پھر کیا یہ اللہ کی نعمت کے منکر ہیں؟ اللہ کی نعمت ہے، کیونکہ دنیا میں جس قدر سروسامان معیشت ہے وہ دراصل فطرت ہی کی پیداوار ہے۔ کسی فرد انسانی کی پیدا کی ہوئی نہیں ہے اور اگر ایک فرد کے قبضہ میں آجاتی ہے تو یہ ایک اللہ کا فضل ہے، پس چاہیے کہ اس کی شکر گزاری بجا لائی جائےْ نہ یہ کہ کفران نعمت کیا جائے، اس کی شکر گزاری کیا ہے ؟ ان افراد پر خرچ کرنا جو اس کے حصول سے محروم ہیں۔ اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ سروسامان معیشت سب کے پاس یکساں نہیں اور یہ اختلاف حال قدرتی ہے، اسی لیے اسے اللہ نے براہ راست اپنی طرف منسوب کیا۔ دوسری یہ کہ رزق کے حقدار ہونے میں سب برابر ہوئے۔ خواہ کوئی آقا ہو، کوئی مملوک، کوئ طاقتور، کوئی زیردست۔ چونکہ یہ دونوں باتیں یکجا ہو کر اس سوال پر روشنی ڈالتی ہیں کہ نظام معیشت کے معاملہ میں قرآن کا رخ کس طرف ہے اس لیے ضروری تھا کہ مندرجہ صدر تشریحات اسی محل میں کردی جائیں۔ اس آیت میں (فھم فیہ سواء) کا مطلب قرار دیتے ہوئے بعض مفسرین نے اسے عدم تساوی حال پر محمول کیا ہے اور تقدیر عبارت یوں قرار دی ہے کہ افھم فیہ سواء؟ بعضوں نے فھم کی فا کو حتی کے معنوں میں لیا ہے لیکن جملہ کا صاف صاف مطلب وہی ہے جو ہم نے قرار دیا ہے۔ یعنی یہ صریح تساوی حال کی خبر ہے نہ کہ اس کی نفی، اور جب مطلب ٹھیک ٹھیک بیٹھ رہا ہے تو پھر کون سی وجہ ہے کہ جگہ سے ہٹنے کے لیے مضطرب ہوں۔ النحل
72 آیت (٧٢) میں ربوبیت الہی کی نعمتوں میں سے تین نعمتوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک یہ کہ اس نے انسان کی زندگی دو مختلف جنسوں مرد اور عورت میں تقسیم کردی، اور پھر ایک کو دوسرے کا ساتھی بنا دیا۔ یعنی ازدواجی زندگی کا نظام قائم کردیا۔ دوسری یہ کہ ازدواجی زندگی سے خاندانی زندگی پیدا ہوگئی۔ اولاد پیدا ہوتی ہے پھر ان کی اولاد ہوتی ہے اور اس طرح ایک دائرہ قریبی رشتہ داروں کا بن جاتا ہے جس کا ہر فرد دوسرے فرد سے وابستہ ہوتا ہے اور اسی وابستگی سے اجتماعی زندگی کی ساری برکیں اور راحتیں حاصل ہوتی ہیں۔ تیسری یہ کہ اس کی غذا کے لیے اچھی چیزیں پیدا کردیں جو نہ صرف مفید ہیں بلکہ خوشگوار ہیں، خوش رنگ ہیں، خوشبو ہیں۔ اس مقام کی تشریح کے لیے تفسیر فاتحہ کا مبحث تسکین حیات دیکھنا چاہیے۔ النحل
73 النحل
74 آیت (٧٤) میں فرمایا : (لاتضربوا للہ الامثال) اپنے جی سے اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو۔ انسان کی ساری درماندگی اس راہ میں یہ ہے کہ اپنے معیار خیال سے اللہ کا تصور آراستہ کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے مثالیں تراشتا ہے، حالانکہ اس کے سارے تصور، اس کے سارے قیاسات، اس کی ساری تمثیلیں، اس کے لیے ٹھوکروں پر ٹھوکریں اور گمراہیوں پر گمراہیاں ہوجاتی ہیں۔ وہ اپنی سوچی ہوئی تمثیلیوں میں جتنا بڑھتا جاتا ہے اتنا ہی حقیقت سے دور ہوتا جاتا ہے کیونکہ وہ جتنی بھی تمثیلیں بناتا ہے اپنے ادراک و احساسات کے اندر رہ کر بناتا ہے، اور ذات مطلق اس دائرہ کی رسائی سے ماوی ہے : اے بروں از وہم و قال و قیل من۔۔۔۔ خاک بر فرق من و تمثیل من !! جہاں تک تصور الہی کی تنزیہہ کا تعلق ہے قرآن کی دو چھوٹی چھوٹی آیتوں میں سب کچھ کہہ دیا گیا ہے جن میں سے ایک آیت یہ ہے دوسری (لیس کمثلہ شیء) تنزیہہ کے بارے میں تم جو کچھ بھی کہو اس سے زیادہ نہیں کہہ سکتے، اس کے لیے تمثیلیں نہ گھڑو۔ وہ ان ساری چیزوں میں سے کسی چیز کے بھی مثل نہیں ہے جس کا تم تصور کرسکتے ہو۔ لیکن اگر قرآن کے تصور الہی کی تنزیہہ کا یہ حال ہے تو پھر کیوں اس نے صفات کا اثبات کیا؟ صفات کے اثبات کا لازمی نتیجہ تشخص ہے اور تشخص پیدا ہوا تو اطلاق باقی نہ رہا اور اطلاق باقی نہیں رہا تو تنزیہہ بھی اپنی بلندی سے نیچے اتر آئی۔ اس لیے کہ اگر تنزیہہ کا مطلب یہ سمجھا جائے تو انسان کے تصور کے لیے کچھ باقی نہیں رہتا۔ خدا کا تصور محض ایک سلبی تصور ہوجاتا ہے۔ اور سلبی تصور سے خدا پرستی کی زندگی پیدا نہیں ہوسکتی۔ خدا کا ایسا تصور اس کی فطرت کے لیے ایک ناقابل برداشت بوجھ ہوجائے گا۔ وہ وجدانی طور پر ایک خالق و پروردگار ہستی کا یقین رکھتا ہے اور جب یقین رکھتا ہے تو جاگزیر ہے کہ اس کا تصور بھی کرے اور جب تصور کرے گا تو تشخص کے ساتھ ہی کرے گا۔ غیر مشخص اور سلبی حقیقت کا تصور اس کی فطری طاقت سے باہر ہے اور اگر بہ تکلف وہ ایسا تصور پیدا بھی کرنا چاہے تو یہ اس کے لیے کوئی زندہ اور عامل تصور نہیں ہوسکتا۔ یہ بات کہ اس کی فطرت میں ایک ایسی ہستی کا وجدانی اعتقاد موجود ہے اس بات کا بھی فطری ثبوت ہے کہ اسے اس کا تصور کرنا چاہیے۔ یعنی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ تصور کرے، وہ وجدانی طور پر مجبور ہے کہ تصور کرے لیکن جب وہ تصور کرے گا تو یہ ایک انسان ہی کا تصور ہوگا، ماورائے انسانیت تصور نہیں ہوگا اور انسانی تصور تشخص کی پرچھائیں سے منزہ نہیں ہوسکتا۔ اس تصور کا ولولہ انسان کی فطرت میں کیوں ابل رہا ہے اس لیے کہ اس کے معنوی ارتقا کے لیے ایک نصب العین کی ضرورت تھی اور یہ نصب العین اللہ کی ہستی کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ مخلوقات میں جتنی چیزیں ہیں سب اس سے پست ہیں۔ وہ بلند ہونے کے لیے ان کی طرف نہیں دیکھ سکتا۔ اسے ایک ایسی ہستی کی ضرورت ہے جو سب سے بلند تر ہو اور زیادہ سے زیادہ بلندیوں تک اسے کھینچنے والی ہو۔ یہ صرف اللہ کا تصور ہے۔ یہی تصور ہے جو اس کے لیے اڑنے اور اونچے ہونے کا ایک ایسا نصب العین بہم پہنچا دیتا ہے جس سے بلند تر کوئی نصب العین نہیں ہوسکتا اور یہاں جو کچھ ہے سب اس سے فروتر ہے، یہ اس کے آگے مقام انسانیت کی غیر محدود ترقیوں کی شاہراہ کھول دیتا ہے۔ پس ضروری ہے کہ وہ اپنے سامنے ایک تصور رکھے، اور تصور رکھے تو یہ ایک ایجابی تصور ہو۔ محض نفی و سلب نہ ہو، نفی و سلب اسے کچھ نہیں دے سکتا۔ اسے کھینچ نہیں سکتا، سے اپنی آغوش میں لے نہیں سکتا، اور اس کا وجدان ایک ایسی ہستی کے لیے تشنہ ہے جو دینے والی ہو، بلانے والی ہو، کھینچنے والی ہو، اپنے حسن و جمال کی صفتوں کے اندر سے جھانکنے والی ہو۔ اس کی پیاس صرف اس سے نہیں بجھ سکتی کہ اسے بتلا دیا جائے خدا کی ذات ایسی نہیں ہے، ایسی نہیں ہے، اس کی طلب و احتیاج تو کسی ایسے کو ڈھونڈ رہی ہے جو بتلائے میں ایسا ہوں، اور مجھ میں ایسی ایسی صفتیں ہیں۔ پھر تمام کائنات ہستی کی پکار کیا ہے جو انسان کے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے؟ اور خود اس کی ہستی کا ایک ایک لمحہ کیا کہہ رہا ہے؟ کیا ممکن ہے کہ انسان اس کی طرف سے کان بند کرلے؟ کیا ہوسکتا ہے کہ وہ آنکھیں کھولنے سے انکار کردے؟ یہاں کی ہر چیز گواہی دے رہی ہے کسی بنانے والے میں بنانے اور سنوارنے کی صفتیں ہیں اور اس کی صفتوں کے ہم نقش و نگار ہیں، انسان یہ سارے نقش و نگار دیکھتا ہے اور ان میں حقیقتیں پاتا ہے۔ پس ان کا تصور اسے کرنا ہی پڑے گا۔ وہ دیکھتا ہے کہ یہاں حسن و جمال ہے، اس لیے اسے تصور کرنا ہی پڑے گا کہ اس میں حسن و جمال ہے، وہ دیکھتا ہے کہ یہاں پروردگاری ہے، اس لیے اسے تصور کرنا ہی پڑے گا کہ وہ پروردگار ہے۔ پس اس راہ کی ٹھوکر اثبات صفات میں نہ ہوئی۔ اس میں ہوئی کہ صفات کیسی ہونی چاہیئں؟ ذہن انسانی نے جب کبھی نقشہ کھینچنا چاہا تو اپنی رسائی فکر کے مطابق تمثیلیں بنائین اور اسی میں گمراہ ہوا۔ انبیائے کرا کی دعوت کا مقصد یہ رہا ہے کہ اس گمراہی سے دنیا کو نجات دلائیں اور صفات الہی کا صحیح تصور پیدا کردیں قرآن کا تصور الہی اسی لیے تصور کی تکمیل ہے کہ اس نے تنزیہہ کا مقصد بھی پورا کردیا اور صفات الہی کا کامل نقشہ بھی کھینچ دیا۔ اس نے ایک طرف تو ہر طرح کے تمچل و تجسم کا دروازہ بند کردیا کہ (لا تضربوا للہ الامثال اور لیس کمثلہ شیء) اور دوسری طرف اس کی صفتوں سے بھی ہمیں آشنا کردیا جو تمام تر حسنی ہیں۔ یعنی حسن و خوبی کی صفتیں ہیں اور جنہیں ہم کائنات ہستی کے ایک ایک ذرہ سے پوچھ سکتے ہیں اور ایک ایک ذرہ کے منہ سے سن سکتے ہیں۔ (شھد اللہ انہ لا الہ الا ھو والملائکۃ والوا العلم قائما بالقسط لا الہ الا ھو العزیز الحکیم) اس کی تنزیہہ بھی کامل ہے کیونکہ تشبہ اور تجسم کی پرچھائیں بھی برداشت نہیں کرسکتی، اس کی بتلائی ہوئی صفتیں بھی اعلی ہیں، کیونکہ سرتاسر حسن، سرتاسر کبریائی، سرتاسر عظمت و جلال ہیں۔ اسی سورت کی آیت (٦٠) میں گزر چکا ہے : (للذین لایومنون بالاخرۃ مثل السواء وللہ المثل الاعلی) افسوس ہے کہ اس آیت کا مطلب لوگوں نے نہیں سمجھا، اس میں بھی یہی حقیقت واضح کی گئی ہے۔ قرآن اس سے نہیں روکتا کہ انسان خدا کے تصور کے لیے ایک بات دھیان میں لائے لیکن وہ بات کیسی ہونی چاہیے؟ یہیں اسے ہمیشہ ٹھوکر لگی۔ وہ اسے نہیں پاسکتا۔ وہ حسن و جمال، کبریائی و کمال اور علو و عظمت کی بات تھی لیکن اس نے گمراہی فکر سے بری باتیں، گری ہوئی باتیں، ناسزا باتیں گھڑ لیں، یعنی مثل السوء سے کام لیا۔ المثلی الاعلی نہ پاسکا۔ حالانکہ اللہ کے لیے جو بات ہوگی المثلی الاعلی ہی کی ہوگی، مثل السوء کی نہیں ہوسکتی۔ قرآن نے اسی المثل الاعلی کا جمال حقیقت نمایاں کردیا ہے۔ اور یہی المثل الاعلی ہے جسے سورۃ اعراف میں الاسماء الحسنی سے تعبیر کیا اور مثل السوء کے لیے الحاف دی الاسماء کی تعبیر اختیار کی : (وللہ الاسماء الحسنی فادعوہ بھا وذروا الذین یلحدون فی اسمائہ سیجزون ماکانوا یعملون) ایک دوسری جگہ فرمایا : (لہ الاسماء الحسنی یسبح لہ ما فی السموات والارض وھو العزیز الحکیم) اس کے لیے حسن و خوبی کی صفتیں ہیں اور آسمانوں میں اور زمین میں جتنی مخلوقات ہیں سب اس کی تسبیح کر رہی ہیں یعنی تمام کائنات ہستی ان صفتوں کی شہادت دے رہی ہے، آسمان و زمین کی ہر چیز ان صفتوں کا اعتراف ہے، ان صفتوں کی نمود ہے، سا کی پاکی و کبریائی کے اعلان میں تسبیح کی زبان ہے، تقدیس کی پکار ہے۔ بہرحال اثبات صفات ایک ایسی حقیقت ہے جس کی وجدانی طلب فطرت انسانی میں موجود ہے اور اس لیے اس حد تک تشخص کا ہونا فطری مطالبہ پورا کرنا ہے۔ اگر اس سے اعراض کیا جائے گا تو غیر فطری بات ہوجائے گی اور انسان کی وجدانی پیاس کبھی نہیں بجھے گی۔ ہندوستان کے فلسفہ ویدانت نے اور اس کے بعد بدھ مذہب کے حکما نے نفی صفات کا مسلک اختیار کیا اور تشخص کو مٹانا چاہا، لیکن عملا نتیجہ کیا نکلا؟ یہ نکلا کہ نہ صرف تشخص کی بلکہ تجسم تک کی لوگوں کو اجازت دے دینی پڑٰ، کیونکہ انہوں نے محسوس کیا کہ غیر مشخص تصور سے خدا پرستی کی پیاس بجھ نہیں سکتی اور ضروری ہے کہ فکر انسانی کے سامنے ایک چیز لائی جائے۔ْ اس کا وجدان بغیر اس کے مطمئن نہیں ہوسکتا کہ کوئی نہ کوئی صورت سامنے دیکھے، اگر صفات کی صورت نہ ہوگی تو پتھر کی مورتی تراش لے گا : کرے کیا کعبہ میں جو سر بت خانہ سے آگہ ہے۔۔۔۔ یہاں تو کوئی صورت بھی ہے واں اللہ ہی اللہ ہے !!! یا تو تنزیہہ میں اس قدر بلند ہونا چاہا تھا کہ اثبات صفات بھی ان پر شاق گزرا حتی کہ اس کے بھی روادار نہ ہوئے کہ اس کی طرف وہ کہہ کے اشارہ کریں کیونہ ہمارا وہ بھی تشخص کی آلودگی سے منزہ نہیں ہوسکتا۔ یا پھر تجسم کی پستی میں گرے تو ایسے گرے کہ نہ صڑف تشخص کو اس کی ساری تمثیلوں اور جسمانیتوں کے ساتھ جائز کردیا بلکہ اس کے سب سے زیادہ ادنی ور اسفل درجہ کی بھی اجازت دے دی، یعنی مورتی پوجا کی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ویدانت کی توحید وجودی کا مسلک اور بودھسٹ حکما کے سلب و نفی کا تصور فلسفہ کا ایک مذہب بن گیا لیکن انسان کا عملی مذہب نہ بن سکا۔ عملی مذہب کے لیے اصنام پرستی ہی اختیار کرنی پڑی۔ نفی صفات اور استغراق اطلاق کا یہی مسلک ہے جسے اصحاب حدیث نے تعطیل سے تعبیر کیا ہے۔ قرآن کی توحید تنزیہہ پر مبنی ہے، تعطیل پر نہیں ہے۔ تاریخ اسلام میں سب سے پہلے نفی صفات کی صڈا جہم بن صفوان نے بلند کی جس کی طرف جہمیہ منسوب ہیں پھر متکلمین و نظار کے مختلف گروہ اس سے کم و بیش متاثر ہوئے، باطنیہ کا مذہب اثبات و نفی بھی اسی پر مبنی تھا۔ یعنی وہ اثبات کے ساتھ نفی بھی کردیتے تھے، النور لانور اور الحکیم لاحکیم توجیہ اس کی یہ کرتے تھے کہ اثبات حقیقت صفات کے لیے ہے، نفی تشبہ کے لیے۔ اس آیت کے بعد دو مثالیں بیان کی ہیں : (ضرب اللہ مثلا عبد مملوکا) اور (وضرب اللہ مثلا رجلین احدھما ابکم) پہلی مثال میں فرمایا اگر تمہیں احتیاج ہو تو تم کس کے پاس جاؤ گے؟ ایک غلام کے پاس جو کسی دوسرے کے اختیار میں ہے اور خود کوئی اختیار نہیں رکھتا، یا اس کے پاس جو مالک و مختار ہے اور جس طرح چاہے اپنا مال خرچ کرسکتا ہے۔ کیا دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ ایک بے بس غلام اور ایک مالک و مختار آقا؟ اگر نہیں ہوسکتے تو اس سے بڑھ کر عقل کی ہلاکت اور کیا ہوسکتی ہے کہ تم اپنی حاجتوں اور مصیبتوں میں ان کے آگے جھکتے ہو جو خود اللہ کے بندے ہیں اور اپنی ساری احتیاجوں میں اس کی بخشائش کے محتاج، اور اس کی طرف سے گردن موڑ لیتے ہو جس کے اختیار میں سب کچھ ہے، اور کوئی نہیں جو اس کا ہاتھ پکڑنے والا ہو؟ دوسری مثال ایمان اور کفر کی مثال ہے، فرمایا فرض کرو دو آدمی ہوں۔ ایک گونگا بہرا، اپنے ساتھیوں کے لیے بوجھ، کوئی کام بھی اس سے بن نہ پڑے۔ دوسرا متکل اور رہنما۔ فلاح و کامیابی کی راہ چلنے والا اور دوسروں کو بھی راہ دکھانے والا، تو کیا ان دونوں کی حالت میں تمہیں کوئی فرق نہیں دکھائی دے گا؟ تمہاری نگاہ میں دونوں کا حکم ایک ہی ہوگا؟ اگر نہیں ہوگا اور تم بے اختیار بول اٹھو گے کہ کہاں ایک گونگا بہرا اور کہاں ایک گویا اور کافر فرما تو پھر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم ایمان کی زندگی پر کفر کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو؟ ایمان کی زندگی کیا ہے؟ عقل و بصیرت کی زدندگی جو خدا کے دیے ہوئے حاسوں سے کام لیتی، خود بھی سدیھی راہ چلتی اور دوسروں کی بھی رہنمائی کرتی ہے۔ کفر کی زندگی کیا ہے؟ بہری گونگی زندگی، عقل و حواس تاراج کردینے والی، جس راہ میں قدم اٹھائے، کوئی خوبی کی بات حاصل نہ کرسکے۔ قرآن ہر جگہ ایمان کو عقل و بصیرت اور ہدایت و رہنمائی کی راہ قرار دیتا ہے اور کفر کو جہل و ہیچ کاری سے تعبیر کرتا ہے۔ النحل
75 النحل
76 النحل
77 النحل
78 النحل
79 النحل
80 النحل
81 النحل
82 النحل
83 النحل
84 النحل
85 النحل
86 النحل
87 آیت (٨٧) میں فرمایا : وہ کون ہے جس نے عقل و حواس کا چراغ تمہارے نہاں خانہ دماغ میں روشن کردیا ہے؟ جب تم پیدا ہوتے ہو تو تمہاری تمام ذہنی قوتیں بظاہر معدوم ہوتی ہیں لیکن پھر جوں جوں بڑھتے جاتے ہو حواس کی قوتیں ابھرنے لگتی ہیں، ادراک کا جوہر ابلنے لگتا ہے اور عقل کا چراغ روشن ہوجاتا ہے۔ اس آیت اور اس کی ہم معنی آیات میں ربوبیت الہی کی معنوی پروردگاریوں سے استدلال کیا ہے اور یہ حقیقت واضح کی ہے کہ اللہ کی ربوبیت نے انسان کے لیے عقلی ہدایت کا سروسامان کردیا اور یہی ہدایت ہے جس نے اسے تمام مخلوقات ارضی میں سب سے بلند مقام پرر پہنچا دیا ہے۔ تشریح کے لیے تفسیر فاتحہ کے مبحث برہان ربوبیت کا مطالعہ کرو۔ اس کے بعد کی آیات میں بھی ربوبیت الہی کی بخشائشوں پر توجہ دلائی ہے کہ کس طرح کرہ ارضی کی ہر پیداوار میں تمہارے لیے افادہ و فیضان کی نوعیت پیدا ہوگئی ہے اور کوئی شے نہیں جو تماہری کسی نہ کسی کار برآری کا ذریعنہ ہو۔ اس مقام کی تشریح تفسیر فاتحہ کے مبحث افادہ و فیضان فطرت میں ملے گی۔ النحل
88 النحل
89 آیت (٨٩) میں سلسلہ بیان نے یہ رخ اختیار کیا تھا کہ (نزلنا علیک الکتاب) ہم نے تجھ پر ایک کتاب نازل کی جو دین کی تمام باتیں واضح کرتی ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدیات، رحمت اور بشارت ہے۔ لیکن وہ مسلمانوں کے لیے ہدایت، رحمت اور بشارت کیونکر ہوئی؟ اس طرح ہوئی کہ انہیں فلاح و سعادت کی راہ پر چلاتی ہے۔ بدعملیوں کی راہوں سے روکتی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد ہی سلسلہ بیان مسلمانوں کی طرف متوجہ ہوگیا اور فرمایا (ان اللہ یامر بالعدل والاحسان) اللہ کا تمہارے لیے فرمان یہ ہے کہ عدل کو اپنا شیوہ بناؤ، نیک کرداری میں سرگرم رہو، قرابت والوں کے حسن سلوک کرو، فحش کاموں سے بچو، ہر طرح کی برائیوں سے اجتناب کرو، ظلم و زیادتی سے کبھی آلودہ نہ ہو۔ جو لوگ مسلمان ہوچکے تھے ان کے لیے اب آزمائش عقائد میں تھہ، اعمال میں تھی اس لیے اس آیت میں عملی زندگی کی تمام مہمات بیان کردیں، یہ گویا قرآن کے اس وصف کی تفسیر ہے جو پچھلی آیت میں بیان کیا گیا تھا کہ (تبیانا لکل شیء) اسی لیے مفسرین نے اسے جوامع آیات میں شمار کیا ہے۔ النحل
90 عدل تمام محاسن اعمال کی اصل ہے، جس انسان کے اندر یہ بات پیدا ہوگئی کہ جو بات کرنی چاہیے انصاف کے ساتھ کرنی چاہیے اس نے سب کچھ پالیا، احسان سے یہاں مقصود حسن عمل ہے، جو بات کرو، حسن و خوبی کی کرو، نیکی وار بھلائی کی کرو، یعنی بنیاد و عمل بھلائی ہو۔ برائی نہ ہو۔ جس نے یہ بات پالی اس کے لیے اور کیا باقی رہا؟ پھر جو ہم سے قریب کا رشتہ رکھتے ہیں وہ ہمارے حسن سلوک کے زیادہ حقدار ہیں اس لیے وایتای ذی القربی کی رعایت بھی ضروری ہوئی اور اس حکم پر اوامر کا معاملہ پورا ہوگیا، پھر فحشاء منکر اور بغی سے روک کر نواہی کے سارے مقاصد پورے کردیے، فحش سے مقصود وہ برائیاں ہیں جو حد درجہ کی برائیاں تسلیم کرلی گئی ہیں۔ مثلا زنا، کنجوسی، افترا پردازی، منکر میں ہر طرح اور ہر قسم و درجہ کی برائیاں آگئیں، بغی میں ہر طرح زیادتی آگئی، کسی گوشہ اور شکل میں کی گئی ہو۔ جو کتاب ایسے سانچے لے کرآئی ہو جس سے ایسے اعمال ڈھلتے ہوں جو ایسی زندگیاں بناتی ہو، اگر ہو ہدایت، رحمت اور بشارت نہیں ہے تو اور کس نام سے سے پکارا جاسکتا ہے ؟ النحل
91 اس کے بعد خصوصیت کے ساتھ ایک خاص معاملہ پر زور دیا جو عموما طرح طرح کی لغزشوں کا باعث ہوتا ہے اور مسلمانوں کو بحیثیت ایک جماعت کے سب سے زیادہ اس میں سرگرم و استوار ہونے کی ضرورت تھی۔ یعنی ایفائے عہد پر، جب تم نے کسی فرد سے یا جماعت سے کوئی قول و قرار کرلیا تو اب یہ قرآن کے نزدیک عہد اللہ ہوگیا۔ یعنی ایسا عہد جس کے لیے تم اللہ کے آگے ذمہ داری ہوگئے، اگر تم نے اسے پورا نہیں کیا تو اللہ کے آگے جوابدہ ہوگے۔ چنانچہ فرمایا (واوفوا بعھد اللہ اذا عاھدتم) عہد و میثاق کے معاملات میں سب سے زیادہ اہم اور سب سے زیادہ ناک معاملہ جماعتوں کے معاہدوں کا ہے، اور اسی میں اس کی اصلی آزمائش ہے افراد بحیثیت فرد کے بہت کم عہد شکنی کرتے ہیں اور کریں تو اس کے نتائج شخصی دائرہ سے باہر نہیں جاتے، لیکن جماعتیں بحیثیت جماعت کے اکثر عہد شکن ہوتی ہیں اور اس کے نتائج سینکڑوں ہزاروں افراد کے حصہ میں آتے ہیں۔ بسا اوقات ایک جماعت کے افراد کبھی گوارا نہیں کریں گے کہ اپنی انفرادی زندگی کے معاملات میں عہد شکنی کا عار گوارا کریں۔ لیکن اگر انہی لوگوں کو بحیثیت ایک جماعت، قوم اور حکومت کے بدعہدی کرنی پڑے تو لمحہ کے لیے بھی اس میں تامل نہیں کریں گے اور اسے جماعتی کام جوئی فتح مندی کی ایک ہشیاری اور دانشمندی سمجھیں گے۔ خصوصا اگر بدعہدی کسی ایسے گروہ کے ساتھ کرنی پڑے جس سے دشمنی اور لڑائی ہو۔ آج بیسیویں صدی میں دنیا کی متمدان اقوام کا سیاسی اخلاق ہمارے سامنے ہے۔ ان کے جو افراد چھوٹی سی چھوٹی بات میں بھی یہ گوارا نہیں کرسکتے کہ وعدہ خلاف ثابت ہوں، قومی اور سیاسی معاملات میں ہر طرح کی بدعہدیاں اور خلاف ورزیاں جائز سمجھتے ہیں اور تاریخ کے اوراق کو آج تک اس کی مہلت نہیں ملی کہ سیاسی معاہدوں کی شکست کی افسانہ سرائی سے فارغ ہوجائے۔ ایک انگریز، ایک فرنچ، ایک جرمن کی انفرادی زندگی کی سیرت (کیرکٹر) دیکھو، وہ اپنے وعدں میں سچا اور اپنے قول و قرار میں بے داغ ہوگا۔ اس کے لیے اس سے بڑھ کر توہین کی کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ اس کے وعدہ میں شک کیا جائے، لیکن انہی افراد کا مجموعہ جب ایک جماعتی ذہنیت کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور قومی اور سیاسی معاہدوں کی پابندی اس کی خود غرضانہ کام جوئیوں کی راہ میں حائل ہونے لگتی ہے تو پھر کیا ہوتا ہے ؟ کیا ایک لمحہ کے لیے بھی یہ انفرادی سیرت جماعتی بدعہدی کی راہ روک سکتی ہے؟ نہیں بلکہ سب سے بڑا مدبر انسان وہی سمجھا جاتا ہے جو سب سے زیادہ عہد شکنیوں میں بے باک ہو۔ جس جماعت کے افراد ایک فرد واحد کے ساتھ بد عہدی کرنا گوارا نہیں کرسکتے وہ لاکھوں کروڑوں افراد کے ساتھ بدعہدی کرنے میں کوئی بداخلاقی محسوس نہیں کرتے۔ ہندوستان میں انگریز اقتدار کی تخم ریزی اس وقت شروع ہوئی جبکہ انگریزی قوم کی قومی سیرت اپنے بہترین سانچوں میں ڈھل رہی تھی اور ان کا اخلاقی پیمانہ ٠ روز بروز اونچا ہورہا تھا۔ یعنی اٹھارویں صدی کے اوائل میں، لیکن ہمیں دور جانے کی ضرورت نہیں، ہم صرف ہندوستان کی گزشتہ دو صدیوں کی تاریخ ہی میں دیکھ سکتے ہیں کہ اس بارے میں انگریزی قوم کے جماعتیں اخلاق کا معیار کیا رہا ہے ؟ ہر معاہدہ جو طاقتور فریق کے ساتھ کیا گیا اور وہ طاقتور رہا، معاہدہ تھا، ہر معاہدہ جو کمزور فریق کے ساتھ کیا گیا اور وہ کمزور ہی رہا، معاہدہ نہ تھا۔ امی چند، میر جعفر، میر قاسم، شاہ عالم، راجہ چیت سنگھ، نواب فیض اللہ، سعادت علی خاں، نظام علی خاں، برار، جے پور، میران سندھ کے لیے معاہدے کچھ مفید نہ ہوسکے۔ لیکن حیدر علی ہلکر اور رنجیت سنگھ کے معاہدوں کی اخلاقی قدرو قیمت سے انکار نہیں کیا گیا۔ جماعتیں معاہدے اگر پورے کیے جاتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ کہ معاہدے ہیں اور معاہدوں کاپورا کرنا ضروری ہے بلکہ اس لیے کہ طاقتور فریق سے کیے گئے ہیں اور ان کی شکست مفید ہونے کی جگہ مضر ہوگی۔ عہد جاہلیت میں عربوں کا بھی یہی حال تھا۔ وہ وفائے عہد کی اخلاقی قیمت سے بے خبر نہ تھے۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے اور اپنے قبیلہ کے مفاخر میں سب سے زیادہ نمایاں جگہ وفائے عہد ہی کو دیتے تھے لیکن جہاں تک جماعتی معاہدوں کا تعلق ہے وفائے عہد کا عقیدہ کوئی عملی قدرت و قیمت نہیں رکھتا تھا۔ آج ایک قبیلہ ایک قبیلہ سے معاہدہ کرتا تھا، کل دیکھتا تھا کہ اس کے مخالف زیادہ طاقتور ہوگئے ہیں تو بے دریغ اس سے جا ملتا تھا اور معاہد و حلیف پر حملہ کردیتا تھا۔ اگر کسید شمن فریق سے امن کا معاہدہ کرتے اور پھر دیکھتے کہ اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا موقع پیدا ہوگیا ہے تو ایک لمحہ کے لیے بھی معاہدہ کا احترام انہیں حملہ کردینے سے نہیں روکتا تھا۔ اور بے خبر دشمن پر جاگرتے۔ لیکن قرآن راست بازی کی جو روح پیدا کرنی چاہتا تھا وہ ایک لمحہ کے لیے بھی یہ بد اخلاقی گوارا نہیں کرسکتی تھی۔ اس نے وفائے عہد اور احترام مواثیق کا جو معیار قائم کیا ہے وہ اس درجہ بلند، قطعی، بے لچک اور عالمگری ہے کہ انسانی اعمال کا کوئی گوشہ بھی اس سے باہر نہیں رہ سکتا۔ وہ کہتا ہے فرد ہو یا جماعت، ذاتی معاملات ہوں یا سیاسی، عزیز ہو یا اجنبی، ہم قوم و مزہب ہو یا غیر قوم و مذہب، دوست ہو یا دشمن، امن کی حالت ہو یا جنگ کی، لیکن کسی حال میں بھی عہد شکنی جائز نہیں۔ وہ ہر حال میں جرم ہے، معصیت ہے، اللہ کے ساتھ ایک بات کر کے اسے توڑ دینا ہے، عذاب عظیم کا اپنے کو مستحق ثابت کرنا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جابجا وفائے عہد پر زور دیا ہے اور جہاں کہیں مومنوں کے ایمانی خصائل کی تصویر کھنینچی ہے یہ وصف سب سے زیادہ ابھرا ہوا نظر آتا ہے۔ (والموفون بعھدھم اذا عاھدوا) (والذین ھم لاماناتھم وعھدھم راعون) اور احادیث میں ہر جگہ منافق کی یہ پہچان بتلائی گئی ہے کہ (اذا وعد اخلف) (صحیحین) جب وعدہ کرے گا، پورا نہیں کرے گا۔ النحل
92 یہاں خصوصیت کے ساتھ جماعتی عہد و قرار کے احترام پر زور دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا (تتخذون ایمانکم دخلا بینکم ان تکون امۃ ھی اربی من امۃ) اگر تم نے ایک گروہ سے معاہدہ کیا ہے اور کل کو اس کا مخالف گروہ زیادہ طاقتور نظر آئے تو محض اس لیے کہ طاقتور کا ساتھ دینا تمہارے لیے زیادہ مفید ہوگا، نہ کہ کمزور کا، بد عہدی پر آمادہ ہوجاؤ۔ جب تم نے ایک گروہ سے قول و قرار کرلیا تو ہر حال میں اس کا پورا کرنا لازمی ہوگیا۔ خواہ وہ کمزور ہوگیا ہو، خواہ طاقتور، اگر اس کے مخالف طاقتور ہوگئے ہیں اور ان کے خلاف جانے میں تمہارے لیے خطرات ہیں تو تمہارا فرض ہے کہ خطرات برداشت کرو، کیونکہ تم عہد کرچکے ہو۔ پھر اس طرح کی بدعہدی کی مثال کیا ہے ؟ فرمایا (کالتی نقضت غزلھا من بعد قوۃ انکاثا) اس عورت کی سی ہے جس نے بڑی جانفشانی سے سوت کا تا اور پھر خود ہی ٹکڑے ٹکڑے کر کے برباد کردیا۔ یعنی جب ایک شخص یا ایک گروہ کوئی معاہدہ کرتا ہے تو اس کی پختگی کے لیے بڑی بڑی باتیں کرتا ہے اور ہر طرح دوسرے فریق کو یقین دلاتا ہے۔ پھر اگر ایک بات اتنی کوشش کے بعد پختہ کی گئی ہے، تو کیونکر جائز ہوسکتا ہے کہ جس نے کل پختہ کی تھی وہی آج اسے اپنے ہاتھوں سے توڑ کر رکھ دے؟ النحل
93 النحل
94 اس کے بعد آیت (٩٤) میں فرمایا : اپنی قسموں کو لوگوں کے لیے ٹھونکر نہ بناؤ، کیونکہ اگر تم نے بدعہدی کی تو لوگوں کا یقین تم سے اٹھ جائے گا وہ کہیں گے ایسے لوگوں کا دین کیا جو اپنی بات کے پکے نہیں۔ اس طرح تم نہ صرف بدعہدی کے مجرم ہوگے بلکہ راہ حق سے لوگوں کو روکنے کا باعث ہوگے۔ سورۃ انعام میں گزر چکا ہے کہ مشرکین عرب نے اپنے اوہام سے طرح طرح کی چیزیں حرام ٹھہرا دی تھیں۔ یہودیوں نے بھی کھانے پینے میں طرح طرح کی رکاوٹیں اختیار کرلی تھیں اور سمجھتے تھے یہ شریعت کا حکم ہے۔ النحل
95 النحل
96 النحل
97 النحل
98 النحل
99 النحل
100 النحل
101 النحل
102 النحل
103 النحل
104 النحل
105 النحل
106 النحل
107 النحل
108 النحل
109 النحل
110 النحل
111 النحل
112 النحل
113 النحل
114 النحل
115 النحل
116 آیت (١١٦) میں فرمایا اپنی زبانوں کو کذب سرائی کے لیے بے لگام نہ چھوڑ دو کہ جس چیز کو چاہا اپنی رائے اور قیاس سے حرام ٹھہرا دیا، جس کو چاہا حلال کہہ دیا، حلال و حرام ٹھہرانے کا حق تو صرف وحی الہی کو ہے اور تمہارے پاس اپنے اوہام و آراء کے سوا کوئی وحی روشنی نہیں جو قرآن کے خلاف پیش کرسکو۔ یہ آیت ان لوگوں کے خلاف حجت قاطع ہے جو محض اپنے گھڑے ہوئے قیاسوں کی بنا پر جس چیز کو چاہتے ہیں حرام ٹھہرا دیتے ہیں۔ اگرچہ کوئی نس قطعی موجود نہ ہو، اصل قرآنی اس بارے میں یہ ہے (جیسا کہ سورۃ اعراف کی آیت (٣٢) میں تصریح گزر چکی ہے) کہ خدا کی تمام پیدا کی ہوئی چیزیں انسان کے برتنے کے لیے ہیں، الا وہ جو مضر ہیں اور وحی الہی نے ان سے روک دیا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ہر چیز مباح ہے جب تک کہ شریعت اسے حرام نہ ٹھہرا دے۔ اور شریعت کے معنی قرآن و سنت کے نصوص قطعیہ ہیں نہ کہ کسی فرد یا گروہ کی مجرد رائے اور قیاس۔ مشرکین عرب اپنے اوہام و خرافات کو حضرت ابراہیم کی طرف منسوب کرتے تھے۔ آیت (١٢٠) میں اس نسبت کی تغلیط کی ہے اور واضح کیا ہے کہ ان کی راہ وہی راہ تھی جس کی طرف پیغمبر اسلام دعوت دے رہے ہیں۔ ایک اور شبہ جو حلت و حرمت کے بارے میں کیا گیا تھا یہ تھا کہ سبت کے دن کا شکار یہودیوں پر حرام کردیا گیا تھا۔ پس کیوں قرآن اس سے نہیں روکتا؟ فرمایا یہودیوں کو جو اس سے روکا گیا تھا اس لیے نہیں کہ سبت کے دن حلال جانور شکار کیا جائے تو وہ حرام ہوجاتا ہے بلکہ یہ ان کے اختلاف اور عدم اطاعت کی ایک سزا تھی۔ یعنی جب انہوں نے احکام سبت کی تعمیل نہ کی اور حیلے بہانے نکال کر شکار کرنے لگے تو سدا سبت کے شکار کا گوشت ممنوع قرار دیا گیا۔ النحل
117 النحل
118 النحل
119 النحل
120 النحل
121 النحل
122 النحل
123 النحل
124 النحل
125 آیت (١٢٥) میں واضح کیا ہے کہ دعوت الی الحق کا طریقہ کیا ہے ؟ فرمایا سرتا سر حکمت اور موعظہ حسنہ ہے حکمت یعنی دانائی کی باتیں۔ موعظہ حسنہ یعنی پندو نصیحت کی باتیں جو حسن وخوبی کے ساتھ کی جایئیں۔ اس کے بعد فرمایا (وجادلھم بالتی ھی احسن) اور اگر بحث و نزاع کرنی پڑے تو کرسکتے ہو لیکن ایسی ہی بحث و نزاع جو نہایت اچھے طریقہ پر ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعوت حق کا طریقہ حکمت اور موعظ حسنہ کا طریقہ ہے، اور بحث و نزاع کی اجازت صرف اس صورت میں ہے کہ احسن طریقہ پر ہو۔ پس ہر بحث و نزاع جو احسن طریقہ پر نہ ہو دعوت کا طریقہ نہیں ہوگی۔ احسن طریقہ سے مقصود کیا ہے ؟ یہ کہ مقصود طلب حق ہو، اپنی بات کی پچ نہ ہو، مخالف کے اندر یقین پیدا کرنا ہو، اسے باتوں سے ہرانا نہ ہو، اگر وہ چپ ہوگیا اور دل کا کانٹا نکلا تو بحث سے کیا فائدہ ہوا؟ ایسا اسلوب، ایسا طریق خطاب، ایسا لب و لہجہ، اس طرح کے الفاظ اختیار نہ کیے جائیں جو مخالف کے دل کو دکھ پہنچانے والے ہوں یا اسے سننے والوں کی نظروں میں زلیل ورسوا کرنے والے ہوں۔ کیونکہ اگر بحث سے مقصود عوت حق ہے تو مخاطب کے دل کو نرمی سے محبت سے حق کی طرف متوجہ کرنا چاہیے نہ یہ کہ صدمہ پہنچانا، ضد میں لانا اور جوش نفرت سے بھر دینا۔ بدقسمتی سے دنیا میں طلب حق کی راہ بھی محض جدل و نزاع کیر اہ بن گئی ہے۔ ہم اپنے دنیوی اغرض و مقاصد کے لیئے لڑنے جھگڑنے کے عادی ہیں جب کبھی کوئی ایسا جھگڑا پیش آجاتا ہے تو صرف اپنی جیت ہی کے لیے لڑتے ہیں۔ اس خیال سے نہیں لڑکے کہ حق و انصاف کیا ہے؟ اکثر اوقات خود ہمارا ضمیر گواہی دیتا ہے کہ ہم برسر حق نہیں ہیں اور انصاف مخالف کے ساتھ ہے لیکن چونکہ اپنا مطلب کسی نہ کسی طرح حاصل کرنا ہوتا ہے اس لیے کبھی اعتراف حقیقت کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ حق اور انصاف ہم سے جس قدر الگ ہوتا جاتا ہے بحث و نزاع کی سرگرمی اتنی ہی زیادہ بڑھتی جاتی ہے۔ اگر ہمارا مقدمہ سب سے زیادہ کمزور ہوگا تو ہم خیال کریں گے کہ ہماری بحث و نزاع کی سرگرمی سب سے زیادہ ہونی چاہیے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ کم از کم دین کے معاملہ میں ہم ایسا نہ کرتے۔ دنیوی معاملات میں کچھ نہ کچھ لینا دینا ہوتا ہے اس لیے غرض پرست آدمی اپنی ابت کی پچ کرتا ہی رہے گا۔ لیکن دین کی راہ لین دین کی راہ نہیں ہے سچ کو سچ مان لینے کی راہ ہے۔ اور جونہی ہم نے کسی بات کو سچ نہ سمجھ کر بھی سچ ثابت کرنا چاہا، دین کی راہ نہ رہی، عین اس کی ضد ہوگئی۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہم نے سچائی کے کام کو بھی جھوٹ کا کاروبار بنا دیا ہے۔ ہم دین کے بارے میں بھی ٹھیک اسی طرح جھگڑتے ہیں جس طرح دنیا کے معاملات میں، ہم جب کبھی کسی سے بحث کریں گے تو ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ خیال نہیں گزرے گا کہ اس راہ میں اصل مقصود طلب حق ہے اور جونہی حق سامنے آجائے ہمارا فرض ہے کہ اعتراف کرلیں، بکہ بحث کریں گے ہی، اس لیے کہ اپنی اور اپنے فریق کی بات منوانی ہے اور خواہ کچھ ہو فریق مخالف کو ہرانا ہے۔ اگر دیکھیں گے کہ حق اور معقولیت ہمارے ساتھ نہیں ہے، تو غیر متعلق باتوں پر زور دینے لگیں گے، بدزبانی پر اتر آئیں گی، مارنے مرنے کے لیے تیار ہوگے اور پھر کہیں گے کہ ہم جیت گئے۔ قرآن کہتا ہے یہ جدل کا طریقہ ہے۔ دعوت کا طریقہ نہیں ہے اور دین کی راہ دعوت کی راہ ہے، جدل کی نہیں ہے۔ اگر جدل کرنا ہی پڑے تو صرف اسی حالت میں کیا جاسکتا ہے کہ احسن طریقہ پر ہو، یعنی راست بازی، دیانت، شیریں زبانی، اور شائستگی کے ساتھ کیا جائے۔ آگے چل سورۃ عنکبوت میں بھی تمہیں یہی حکم ملے گا : (ولا تجادلوا اھل الکتاب الا بالتی ھی احسن) النحل
126 اس کے بعد فرمایا : (وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم بہ ولئن صبرتم لھو خیر للصبرین) اگر مخالف ناحق کو شی میں سرگرم ہے اور سختی و زیادتی پر اتر آیا ہے تو ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ تم بھی آپے سے باہر ہوجاؤ۔ ایسا کرنا راست بازی کا طریقہ نہ ہوگا۔ ایک برائی کے جواب میں دوسری برائی کا ارتکاب ہوگا جو ممکن ہے کہ پہلے سے بھی زیادہ سخت برائی ہوجائے۔ بہتری تو اس میں ہے کہ سختی کا جواب سختی سے نہ دو، جھیل جاؤ، پروا نہ کرو، بخش دو۔ اسی میں تمہاری اصلی جیت ہے۔ لیکن اگر طبیعت پر قابو نہیں پاتے اور سختی کا جواب سختی سے دینا ہی چاہتے ہو تو پھر انصاف کا سر رشتہ ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ جتنی اور جیسی سختی تمہارے ساتھ کی گئی ہے ویسی ہی اور اتنی ہی تم بھر کرلو۔ اس سے آگے نہ بڑھو۔ ذرا بھی بڑھے تو یہ ظلم ہوگا اور ظلم راستی کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا۔ غور کرو۔ قرآن کا محض ایک لفظ یا محض ایک ترکیب کس طرح مقاصد و مسائل کے فیصلے کردیا کرتی ہے؟ پہلے بصیغہ امر دعوت کا حکم دیا گیا تھا : (ادع الی سبیل ربک) پس چاہیے تھا کہ یہاں بھی بدلہ لینے کا حکم دیا جاتا اور کہا جاتا، اگر تمہارے ساتھ سختی کی گئی ہے تو تم بھی ویسی ہی سختی کرو، مگر نہیں ایسا نہیں فرمایا، بلکہ کہا : (وان عاقبتم) اگر ایسا ہو کہ تم مخالف کی سختی کے جواب میں سختی کرنا چاہو، تو چاہیے کہ حد سے نہ بڑھو۔ اس سے معلوم ہوا کہ سختی کے جواب میں سختی کا حکم نہیں ہے۔ محض اجازت ہے۔ یعنی اگر ایک آدمی وہ مقام حاصل نہیں کرسکتا جو اس بارے میں بہتری اور خوبی کا اصلی مقام ہے، جھیل جانا اور بخش دینا، تو پھر اسے بدلے کی اجازت دے دی گئی ہے لیکن اجازت کو (بمثل ما عوقبتم) سے مقید کردیا ہے تاکہ زیادتی کا دروازہ بکلی بند ہوجائے۔ اب دو ہی راہیں کھلی رہ گئیں : عزیمت تو اس میں ہوئی کہ جھیل جاؤ اور بخش دو۔ رخصت اس کی ہوئی کہ جتنی سختی کی گئی ہے اتنی ہی تم بھی کرلو۔ اس سے آگے قدم نہیں بڑھا سکتے۔ اس آیت کی تفسیر میں امام غزالی کی ایک تقریر بہت مقبول ہوئی ہے جو انہوں نے قسطاس السمتقیم میں لکھی ہے اور بعد کے فمسرین نے عموما اسے اختیار کرلیا ہے۔ وہ کہتے ہیں استعداد و فہم کے لحاظ سے ہر انسان کی طبیعت یکساں نہیں اور ہر ذہنی حالت ایک خاص طرح کا اسلوب خطاب چاہتی ہے۔ ارباب دانش کے لیے استدلال کی ضرورت ہوتی ہے، عوام کے لیے موعظت کی، اور اصحاب خصوصیت کے لیے جدل کی۔ پس اس آیت میں قرآن نے تینوں جماعتوں کے لیے یہ تینوں طریقے بتلا دیے ہیں، ارباب دانش کو حکمت کے ساتھ مخاطب کرو۔ عوام کو موعظت کے ساتھ اور ارباب خصومت کے لیے جدل کی بھی اجازت ہے مگر بطریق احسن۔ آخر میں سورت ختم کرتے ہوئے پیغمبر اسلام کو مخاطب کیا ہے کہ : (ا) صبر کرو اور تیرا صبر کرنا اللہ ہی کی مدد و توفیق سے ہے۔ (ب) منکروں کی محرومی پر غم نہ کھا، جو ماننے والے نہیں ہیں وہ کبھی نہیں مانیں گے۔ (ج) دعوت حق کی مخالفت میں وہ جو کچھ مخفی تدبیریں اور سازشیں کر رہے ہیں ان سے بھی دل تنگ نہ ہو۔ (د) یہ قانون الہی یاد رکھ کہ اللہ کی نصرت انہی کا ساتھ دیتی ہے جو برائیوں سے بچتے ہیں اور جن کی زندگی نیک کرداروں کی زندگی ہوتی ہے۔ النحل
127 النحل
128 النحل
0 الإسراء
1 ہجرت مدینہ سے تقریبا ایک سال پہلے پیغمبر اسلام کو اسری کا معاملہ پیش آیا جو عام طور پر معراج کے نام سے مشہور ہے، اس سورت کی ابتدا اسی واقعہ کے ذکر سے کی گئی ہے اور واضح کیا ہے کہ اس معاملہ سے مقصود کیا تھا : (لنریہ من ایتنا) تاکہ اللہ کی نشانیاں ان کے مشاہدہ میں آجائیں۔ یعنی دلائل حقیقت کا عینی مشاہدہ کرلیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ معاملہ وحی کی تکمیل تھا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد فرمایا : (واتینا موسیٰ الکتاب) اسی طرح حضرت موسیٰ کا معاملہ وحی بھی کوہ طور کے اعتکاف میں مکمل ہوا تھا کہ (ولما جاء موسیٰ لمیقاتنا وکلمہ ربہ) اور انہیں کتاب شریعت دی گئی تھی۔ (انہ ھو السمیع البصیر) وہی ہے جو سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ پس جسے چاہیے اس سے زیادہ سنا دے، جتنا سب سن رہے ہیں اور اس سے زیادہ دکھا دے، جتنا سب دیکھ رہے ہیں۔ یہاں مسجد حرام سے مقصود مکہ ہے، اور مسجد اقصی سے بیت المقدس کا ہیکل۔ اسے اقصی اس لیے فرمایا کہ عرب کے لیے قریب کی عبادت گاہ خانہ کعبہ اور دور کی عبادت گاہ ہیکل۔ الإسراء
2 الإسراء
3 الإسراء
4 آیت (٤) میں کتاب سے مقصود انبیاء بنی اسرائیل کے صحیفے ہیں۔ چنانچہ یسعیاہ، یرمیاہ اور حزقیل کی کتابوں میں بنی اسرائیل کے دو بڑے فسادوں اور دو بڑی بربادیوں کی خبر دی گئی تھی۔ پہلی بار بادی بابل کے بادشاہ نبوکدرز (بخت نصر) کے حملہ سے ہوئی، دوسری رومیوں کے حملہ سے جو ٹیٹس کے زیر قیادت ہوئی تھی۔ بابل کے حملے نے صرف یہود کی آبادیوں ہی کو پامال نہیں کیا تھا بلکہ بنی اسرائیل کی نسل و قومیت بھی ہلاک و منتشر ہوگئی تھی۔ لیکن ایک صدی کے بعد گردش زمانہ نے پھر پلٹا کھایا اور کارساز قدرت نے وقت کی سب سے بڑی فاتح شہنشاہیت کو ان کی اعانت و دستگیری کے لیے کھڑا کردیا یعنی شہنشاہ فارس کو۔ اب یہود یا کی تمام اجڑی بستیاں پھر آباد ہوگئی اور یہودی جمعیت کا جسم مردہ پھر زندہ ہوگیا۔ الإسراء
5 الإسراء
6 آیت (٦) میں اسی عہد کی طرف اشارہ کیا ہے۔ فرمایا اگر تم نے اچھے کام کیے تھے تو اپنے ہی لیے کیے تھے۔ یعنی اس کے نتائج تمہارے ہی حصہ میں آئے اور بدعملیاں کی تھیں تو وہ بھی اپنے ہی لیے کی تھیں۔ اس کی پاداش بھی تمہارے ہی حصہ میں آئی۔ چنانچہ جب اسیا ہوا کہ اس دوسری مہلت کی بھی تم نے قدر نہ کی اور اپنی توبہ وا نابت کے وہ تمام عہد بھلا دیے جو بابل کی اسیری کے زمانہ میں کیے تھے تو پھر دوسری ہلاکت کا وقت نمودار ہوگیا یعنی رومی حملہ کا۔ یہ بنی اسرائیل کی آخری ہلاکت تھی۔ اس کے بعد پھر نہ سنبھل سکے۔ الإسراء
7 الإسراء
8 آیت (٨) نے دو لفظوں کے اندر وہ سب کچھ کہہ دیا جو جزائے عمل کے بارے میں کہا جاسکتا ہے اور اس سے قرآن کی معجزانہ بلاغت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے : (وان عدتم عدنا) اگر تم پھر انہی شرارتوں کی طرف لوٹے تو ہم بھی لوٹیں گے۔ یعنی اگر تم بدعملیوں کی طرف لوٹو گے تو اللہ کا قانون مجازات بھی پاداش و عقوبت کی طرف لوٹے گا۔ جونہی تم نے برائی کا رخ کیا، نتائج عمل کا قانون بھی پاداش و عقوبت میں سرگرم ہوگیا۔ عمل اور نتیجہ دو ایسی لازم و ملزوم حقیقتیں ہیں جو کسی حال میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتیں۔ نتیجہ عمل کا سایہ ہے۔ جہاں عمل اایا اس کا سایہ بھی ساتھ آگیا۔ تم نے اچھے عمل کی طرف رخ کیا، اور اچھے نتائج بھی تمہاری طرف تکنے لگے۔ تم نے برے عمل کی طرف قدم اٹھایا، برے نتائج کے بھی قدم اٹھ گئے۔ اس راہ میں جتنے بڑھتے جاؤ اور جس قدر بھی غور کرو، حقیقت ہر جگہ یہی نظر آئے گی کہ (ان عدتم عدنا) آیت کا مطلب یہ ہے کہ دو ہلاکتیں ہوچکیں۔ اب تیسری مہلت تمہیں ملی ہے۔ یعنی دعوت حق کے ظہور نے رحمت الہی کی بخشائشوں کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اگر انکار و سرکشی سے باز آجاؤ تو تمہارے لیے سعادت و کامرانی ہے۔ باز نہ آؤ گے تو پھر جس طرح دو مرتبہ نتائج عمل کا قانون اپنی عقوبتیں دکھلا چکا ہے۔ تیسری مرتبہ بھی دکھلائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ یہودویوں نے جس طرح اس مہلت سے فائدہ نہیں اٹھایا تھا جو حضرت مسیح کے ظہور نے انہیں دی تھی اسی طرح دعوت اسلام سے بھی فائدہ نہ اٹھایا اور محرومی و نامرادی کی مہر ہمیشہ کے لیے ان کی قسمت پر لگ گئی۔ آیت (٨) میں فرمایا تھا عجب نہیں کہ پروردگار تم پر رحم فرمائے اگر سرکشی و فساد سے باز آجاؤ اور دعوت حق پر لبیک کہو۔ پس آیت (٩) میں اس کی مزدی تشریح کی اور فرمایا : (ان ھذا القرآن یھدی للتی ھی اقوم) قرآن ہدیات کی ایسی راہ دکھاتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھی راہ ہے اور ان لوگوں کے لیے جو اس راہ پر چلیں ہر طرح کی کامیابیوں کی بشارت ہے۔ قرآن نے اپنے جس قدر اوصاف بیان کیے ہیں ان سب میں جامع ترین وصف یہی ہے۔ زندگی اور سعادت کے ہر گوشہ میں اس کی رہنمائی سیدھی سے سیدھی بات کے لیے ہے۔ کسی طرح کی کجی، کسی طرح کا پیچ و خم، کسی طرح کا الجھاؤ، کسی طرح کی افراط تفریط اس کی رہنمائی میں نہیں ہوسکتی۔ یہی حقیقت دوسری جگہ صراط مستقیم اور دین القیم سے تعبیر کی گئی ہے۔ الإسراء
9 الإسراء
10 الإسراء
11 آیت (١١) میں انسان کی اس کمزوری کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ خیر و شر میں امتیاز نہیں کرتا اور بسا اوقات شر کا اس طرح طالب ہوجاتا ہے جس طرح اسے خیر کا خواستگار ہونا چاہیے۔ یہ حالت اسے کیوں پیش آتی ہے؟ اس لیے کہ اس کی طبیعت میں جلد بازی ہے یعنی ایسی خواہشیں ہیں جو فورا پورا ہونا چاہتی ہیں اور جب چھا جاتی ہیں تو ایک لمحہ کے لیے بھی صبر و انتظار نہیں کرسکتیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اچھائی کی طلبگاری کرتے ہوئے برائیوں کا طلبگار ہوجاتا ہے اور نہیں جانتا کہ اس کی طلبگاری اسے برائیوں کی طرف لے جارہی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ اسے ایسی رہنمائی کی ضرورت ہے جو خیر و شر کا امتیاز سکھلائے اور خواہشوں کی ٹھوکروں سے اس کی حفاظت کرے۔ یہی رہنمائی ہدیات وحی کی رہنمائی ہوئی اور اسی لیے انسان کسی ایسی رہنمائی کا بالطبع محتاج ہوا۔ الإسراء
12 اس کے بعد آیت (١٢) میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ کس طرح ربوبیت الہی نے تمہاری ہدایت کا فطری سامان کردیا ہے اور کس طرح کارخانہ ہستی کا ہر معاملہ تمہاری کار براریوں کا ذریعہ ہے۔ اور جب ربوبیت الہی کی یہ کارفرمائیاں شب و روز دیکھ رہے ہو تو اس سے تمہیں کیوں انکار ہوا گر وہ وحی و نبوت کے قیام کے ذریعہ سے تمہاری ہدایت کا مزید سامان کردے؟ آیت (١٢) سے آیت (١٧) تک یہ حقیقت واضح کی ہے کہ انسان اپنے اعمال کے نتائج سے بندھا ہوا ہے اور جو برائی بھی اسے پیش آتی ہے اسی کے اعمال کی پیداوار ہے۔ یہ مقام تشریح طلب ہے، اس کی تشریح سورت کے آخری نوٹ میں ملے گی۔ الإسراء
13 الإسراء
14 الإسراء
15 الإسراء
16 الإسراء
17 الإسراء
18 آیت (١٨) میں فرمایا ہے کہ نتائج عمل کے لحاظ سے انسان کے دو گروہ ہوگئے ہیں۔ ایک وہ ہے جس کی ساری طلب دنیا کی چند روزہ زندگی ہی کے لیے ہے۔ دوسرا وہ ہے جو یقین رکھتا ہے کہ اس زندگی کے بعد بھی ایک زندگی ہے اور اس لیے اس دوسری زندگی کی سعادت کا بھی طالب ہے۔ جہاں تک دنیا کی زندگی کا تعلق ہے ہمارا قانون یہ ہے کہ دونوں کے آگے یکساں طریقہ پر دنیوی نتائج کا دروازہ کھول دیا ہے اور سب کو کارخانہ ربوبیت کا فیضان مل رہا ہے۔ انہیں بھی صرف دنیا کے ہورہے۔ انہیں بھی جو آخرت کے بھی طالب ہوئے۔ لیکن جہاں تک آخرت کی سعادتوں کا تعلق ہے۔ پہلے کے لیے محرومیاں ہوں گی۔ دوسرے کے لیے کامرانیاں۔ الإسراء
19 آیت (١٩) نے یہ حقیقت بھی واضح کردی کہ سعادت اخروی کی شرائط کیا ہیں۔ فرمایا دو شرطیں ہیں۔ اول یہ کہ سعادت اخروی کے لیے کوشش کرے۔ لیکن کیسی کوشش؟ ویسی کوشش جو اس کے لیے صحیح کوشش ہوسکتی ہے۔ یعنی جو اللہ کی وحی نے بتلا دی ہے۔ دوسری یہ کہ اللہ پر اور اس کی صداقتوں پر ایمان ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ آخرت کی سعادت کی کوئی سعی بغیر ان دو شرطوں کے مقبول نہیں ہوسکتی۔ الإسراء
20 الإسراء
21 الإسراء
22 آیت (٢٢) سے سلسلہ بیان اوامر و نواہی کی طرف متوجہ ہوا ہے اور واضح کیا ہے کہ طالب آخرت گروہ کے اعمال کیسے ہونے چاہیئں۔ طالبین آخرت کی کامیابی اس سے مشروط کردی تھی کہ (وسعی لھا سعیھا) اب اس کی تشریح کی ہے کہ سعادت اخروی کے لیے سعی اس طرح کرنی چاہیے۔ سب سے پہلے توحید فی العبادت کی تلقین کی کہ اللہ کے سوا اور کسی کی بندگی نہ کرو۔ کیونکہ نفس توحید کا اعتقاد تو تمام پیروان مذاہب میں موجود تھا۔ لیکن توحید فی العبادت کی حقیقت مفقود ہوگئی تھی۔ پھر والدین کے حقوق پر توجہ دلائی، کیونکہ انسان کے لیے والدین کی ربوبیت الہی کا پر تو ہے اور اس لیے عبودیت الہی کے بعد جو عمل اس کے لیے مقدم ہوسکتا ہے وہ یہی ہے کہ والدین کے حقوق پرورش سے غافل نہ ہو۔ الإسراء
23 والدین کی خدمت و اطاعت کی آزمائش کا اصلی وقت ان کے بڑھاپے کا وقت ہوتا ہے۔ کیونکہ بڑھاپے کی کمزوریاں انہیں دوسروں کی خدمت و اعانت کا محتاج بنا دیتی ہیں اور اولاد اپنی جوانی کی امنگوں اور عیش پرستیوں میں اس کی بہت کم مہلت پاتی ہے کہ اپنے محتاج اور معذور ماں باپ کی خبر گیری کرے۔ پس یہاں سب سے زیادہ زور اسی بات پر دیا۔ کیونکہ جو اولاد اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت و اطاعت میں کوتاہی نہیں کرے گی وہ دوسرے وقتوں میں کب کوتاہی گوارا کرسکتی ہے۔ انسان کی احتیاج کے دو ہی وقت ہوتے ہیں۔ طفولیت اور بڑھاپا۔ طفولیت میں ماں باپ نے خدمت کی تھی، بڑھاپے میں اولاد کو کرنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ فرمایا : (رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا) ماں باپ کے بعد قرابت داروں کے حقوق ہیں اور پھر ان سب کے ہیں جو ہماری خبر گیری کے محتاج ہوں۔ پس آیت (٢٦) میں اس کا حکم دیا اور فرمایا (ولاتبذر تبذیرا) تمہارے خرچ کرنے کا صحیح محل یہ ہے۔ پس مال و دولت بے محل خرچ نہ کرو۔ پھر فرمایا جو لوگ تبذیر کرتے ہیں یعنی خدا کی دی ہوئی دولت بے محل خرچ کر ڈالتے ہیں۔ مثلا محض اپنے نفس کی عیش پرستیوں میں اڑار دیں گے۔ تو وہ شطیان کے بھائی بندوں میں سے ہیں کیونکہ شیطان کی راہ کفران کی راہ ہے اور انہوں نے بھی کفران نعمت کی راہ اختیار کی۔ مال و دولت کے بے جا استعمال کی دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی نہ تو اپنے اوپر خرچ کرے نہ دوسروں پر، محض جمع کر کے رکھے۔ دوسری یہ کہ صرف اپنے اوپر خرچ کرے، دوسروں پر خرچ نہ کرے۔ قراان نے دونوں صورتوں کو معصیت قرار دیا ہے۔ پہلی صورت اکتناز کی ہے : (والذین یکنزون الذھب والفضۃ) دوسری تبذیر کی۔ یہاں تبذیر سے روکا ہے۔ الإسراء
24 الإسراء
25 الإسراء
26 الإسراء
27 الإسراء
28 الإسراء
29 آیت (٢٩) جوامع مواعظ میں سے ہے۔ فرمایا : مال و دولت خرچ کرنے میں اور ہر بات میں اعتدال کی راہ اختیار کرو۔ کسی ایک ہی طرف کو جھک نہ پڑو۔ مثلا خرچ کرنے پر آئے تو سب کچھ اڑا دیا۔ احتیاط کرنی چاہی تو اتنی کی کہ کنجوسی پر اتر آئے۔ دراصل تمام محاسن و فضائل کی بنیادی حقیقت توسط و اعتدال ہے اور جتنی برائیاں بھی پیدا ہوتی ہیں افراط و تفریط سے پیدا ہوتی ہیں۔ قرآن نے قتل نفس کو انسان کی سب سے بڑی معصیت قرار دیا ہے۔ شرک کے بعد اگر کوئی برائی ہوسکتی ہے تو وہ یہی ہے : (والذین لا یدعون مع اللہ الھا آخر ولا یقتلون النفس التی حرم اللہ الا بالحق) اس بارے میں طبیعت انسانی کے لیے اصلی آزمائش کا وقت وہ ہوتا ہے جب انتقام کا جوش ابھر آتا ہے وار بسا اوقات ایک قتل کے بدلے سینکڑوں جانوں کا خون بہا دیا جاتا ہے۔ پس یہاں آیت (٣٣) میں خصوصیت کے ساتھ اس فتنہ پر توجہ دلائی : (فلایسرف فی القتل) جو شخص ظلم سے مارا جائے تو اس کے وارثوں کو قصاص کے مطالبہ کا حق دیا گیا ہے لیکن اس حق کا بے جا استعمال نہیں ہونا چاہیے کہ ایک خونریزی کے بدلے بہت سی خوں ریزیاں ہوجائیں َ الإسراء
30 الإسراء
31 الإسراء
32 الإسراء
33 الإسراء
34 الإسراء
35 الإسراء
36 آیت (٣٦) مہمات معارف قرآنی میں سے ہے۔ اس کی تشریح آخری نوٹ میں ملے گی۔ الإسراء
37 الإسراء
38 الإسراء
39 الإسراء
40 الإسراء
41 الإسراء
42 الإسراء
43 الإسراء
44 آیت ٤٤) میں فرمایا : کائنات ہستی میں کوئی چیز نہیں جو اللہ کی حمد و تسبیح نہ کر رہی ہو لیکن تم میں سمجھ نہیں کہ ان کی تسبیح و تقدیس پر غور کرو۔ یہ تسبیح جو کائنات ہستی کی ہر چیز کر رہی ہے کیا محض صداؤں کی تسبیح ہے؟ نہیں وہ اپنی ہستی میں، اپنی بناوٹ میں، اپنی صوت میں، اپنے افعال و خواص میں مجسم و تقدیس ہیں۔ ان کی ہستی ہی تسبیح کا ترانہ اور ان کی موجودگی ہی سرتاسر حمد و ثنا ہے۔ وہ اپنی ہر بات میں کسی بنانے والے کی صنعت، کسی پرورش کرنے والے کی پرورش اور کسی حسین کے کمال کی حسن افروزیاں ہیں، اور اس لیے زبان حال سے اس کی خالقیت و حکمت اور ربوبیت و رحمت کی تحمید و تسبیح کررہی ہیں۔ عربی میں من ذوی العقول کے لیے آتا ہے اس لیے پہلے فرمایا آسمان اور زمین میں جتنی ذوی العقول ہستیاں ہیں سب تسیح الہی میں سرگرم ہیں۔ پھر فرمایا (وان من شیء) اور کانئات ہستی میں کوئی شے نہیں جو اس تسبیح میں ان کی شریک نہ ہو۔ عربی میں شے کا اطلاق نہ صرف ان چیزوں پر ہوتا ہے جس جسم و حجم رکھتی ہوں بلکہ ہر بات اور ہر حاثہ پر ہوتا ہے ،۔ حتی کہ دروازہ کھلنے کی آواز کو بھی شے کہیں گے۔ پس مطلب یہ ہوا کائنات ہستی کا ہر وجود، ہر ہستی، ہر چیز، ہر حالت، ہر حادثہ اپنے بنانے والے کی یکتائی اور صنعت گری کی تصویر ہے اور خود تصویر سے بڑح کر اور کس کی زبان ہوسکتی ہے جو مصور کے صنعت و کمال کا اعلان کرے؟ ا اگر ایک باکمال سنگ تراش موجود ہے تو اس کی صناعی و کمال کی تعریف تم زبانوں سے نہیں کرسکتے، اس کی مجسم تعریف و توصیف خود اس کی بنائی ہوئی مورتی ہوتی ہے۔ اس مورتی کا حسن، اس کا تناسب، اس کا انداز، اس کی ساری باتیں اپنے سنگ تراش کے دست صناعی کی ابھرتی ہوئی تعریف اور ابلتی ہوئی مدح و ثنا ہوتی ہے۔ اس آیت نے یہ حقیقت بھی واضح کردی کہ کارخانہ ہستی میں جو کچھ ہے سرتاسر حسن و خوبی ہی ہے، کیونکہ حمد کے معنی ثنائے جمیل کے ہیں اور تمام چیزوں کا صدائے حمد ہونا اس امر کا ثبوت ہے کہ بنانے والے نے جتنی چیزیں بنائی ہیں حسن و خوبی ہی کی بنائی ہیں اگرچہ تمہاری کوتاہ بینی اسے نہ پاسکے۔ اس مقام کی مزید تشریح کے لیے تفسیر فاتحہ کا مبحث برہان رحمت دیکھنا چاہیے۔ لیکن کیا کائنات ہستی کی یہ تسبیح محض صدائے حال ہی کی تسبیح ہے، صدائے مقال کا اس میں کوئی حصۃ نہیں؟ کون ہے جو ایسا کہنے کی جرات کرسکتا ہے ؟ چند آیتوں کے بعد اسی سورت میں تم پڑھو گے : (وما اوتیتم من العلم الا قلیلا) الإسراء
45 پچھلی آیت میں منکرین حق کی یہ حالت بیان کی تھی کہ (لا تفقھون تسبیحھم) اب آیت (٤٥) میں فرمایا : یہی حال ان کا قرآن کے بارے میں ہے کہ اس کی طرف رخ نہیں کرتے، اسے سننا نہیں چاہتے، اسے سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ اللہ کا مقررہ قانون یہ ہے کہ اگر تم آنکھیں نہیں کھولو گے تو تمہارے آگے ایک سیاہ پردہ حائل ہوجائے گا۔ اگر تم سننا نہیں چاہو گے تو تمہارے کان بہروں کے کان ہوجائیں گے، اگر تم سوچنے سے انکار کردو گے، تو تمہاری عقل پر پردے پڑجائیں گے۔ اس کی روشنی کام ہیں دے سکے گی۔ قرآن نے انکار و اعراض کی یہ حالت جابجا بتلائی ہے، اور یہاں بھی اس طرف اشارہ کیا ہے۔ منکروں کی یہ حالت خود انہی کی پسند کی ہوئی حالت تھی۔ یہ قانون اللہ کا ٹھہرایا ہوا ہے کہ نہ دیکھنے ولے کی آنکھوں پر پردہ پڑجاتا ہے لیکن اسی وقت پڑتا ہے جب دیکھنے والا دیکھنے سے انکار کردیتا ہے۔ یہاں تین باتیں بیان کی گئی ہیں۔ آنکھوں کے آگے حجاز، کانوں میں گرانی اور عقل پر تہ در تہ غلافوں کا چڑھ جانا۔ لیکن یہ وہی تین حالتیں ہیں جو خود منکروں نے اپنے لیے پسند کرلی تھیں : (وقالوا قلوبنا فی اکنۃ مما تدعونا الیہ وفی اذاننا وقر ومن بیننا وبینک حجاب) (حجابا مستورا) یعنی ایسا پردہ حال تو ہوجاتا ہے مگر دکھائی نہیں دیکھا۔ اور دکھائی دے کس طرح؟ وہ لکڑی کا یا اینٹوں کا پردہ تو ہوتا نہیں۔ وہ تو اعراض و غفلت کا پردہ ہوتا ہے جسے تمہاری ظاہر بیں نگاہیں پا نہیں سکتیں۔ قرآن حکیم نے جابجا نشاۃ اولی سے نشاۃ ثانیہ پر استدلال کیا ہے۔ یعنی جس خالق و قدیر نے تمہیں پہلی مرتبہ زندگی دی کیا وہ تمہیں دوبارہ زندگی نہیں دے سکتا؟ پھر اس پر اچنبھا کیوں ہو؟ الإسراء
46 الإسراء
47 الإسراء
48 الإسراء
49 الإسراء
50 الإسراء
51 یہاں بھی آیت (٥١) میں یہی استدلال ہے۔ پہلی زندگی سے مراد نوع کی زندگی بھی ہوسکتی ہے اور فرد کی بھی۔ ہر فرد اپنی ہستی میں غور کرسکتا ہے۔ اس کا وجود نہ تھا مگر ظہور میں آگیا اور کس طرح ظہور میں آیا؟ محض نطفہ کے ایک خرد بینی کیڑے سے جو عقلہ کی طرح ہوتا ہے، یعنی جونک کی طرح، پھر اگر کیڑے کے ایک ذرہ سے اس کا وجود بن سکتا تھا تو کیا اس کے پورے وجود کے ذرات سے دوبارہ وجود نہیں بن سکتا؟ (مالکم کیف تحکمون) الإسراء
52 الإسراء
53 آیت (٥٣) میں مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ منکرین اسلام سے گفتگو کرو تو پسندیدہ طریقہ پر کرو۔ اس طرح کی باتیں نہ کہو جس سے باہم فتنہ و فساد پید اہو اور بجائے کھنچنے کے اور زیادہ لوگ متنفر ہوجائیں۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض مسلمانوں نے بعض مشرکوں سے کہا تھا (انکم من اھل النار) تم جہنمی ہو۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو اس بات سے روکا گیا کہ تعین کے ساتھ کسی انسان یا جماعت کو ایسا نہ کہیں خہ تم جہنمی ہو۔ کیونکہ کوئی نہیں جانتا کس آدمی کا خاتمہ کس حال پر ہونے والا ہے ؟ بہت ممکن ہے جسے تم جہنمی کہہ رہے ہو، اسے ہدایت کی توفیق ملنے والی ہو اور اس کی جگہ جنتیوں میں ہو۔ بلاشبہ تم کہہ سکتے ہو۔ یہ بات حق ہے اور یہ حق نہیں، لیکن کسی خاص جماعت یا فرد کی نسبت حکم نہیں لگا سکتے کہ یہ ضرور جہنمی ہے۔ ایسا کہنے کا کسی انسان کو حق نہیں۔ اس موقع پر سورۃ انعام کی یہ آیت بھی یاد کرلو کہ (ولا تسبوا الذین یدعون من اللہ فیبسوا اللہ عدوا بغیر علم کذلک زینا لکل امۃ عملھم ثم الی ربھم مرجعھم فینبئھم بما کانوا یعملون) اور یہ حکم بھی نہ بھولو کہ (وجادلھم بالتی ھی احسن) جو پچھلی سورت کے خاتمہ میں گزر چکا ہے۔ غور کرو۔ کس طرح قرآن قدم قدم پر یہ بات یاد دلاتارہتا ہے کہ فکر میں رواداری ہونی چاہیے۔ حکم میں احتیاط ہونی چاہیے۔ تم جس بات کو حق سمجھتے ہو اس پر جم جاؤ اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دو مگر یہ نہ بھولو کہ انسان کی نجات و عدم نجات کی ٹھیکے داری تمہیں نہیں دے دی گئی ہے۔ کون نجات پانے والا ہے اور کس کے لیے بالآخر محرومی ہے ؟ اس کا علم خدا ہی کو ہے، تمہیں حق نہیں کہ اس طرح کے حکم لگاتے پھرو۔ علاوہ ازیں اگر ایک انسان غلط راہ پر چل رہا ہے تو تمہارے جہنمی کہہ دینے سے وہ جنتی نہیں بن جائے گا،۔ بلکہ بہت ممکن ہے اور زیادہ اپنی غلطی میں ضدی ہوجائے۔ پس جو کچھ بھی زبان سے نکالو، حسن و خوبی کی بات ہو، سختی و خشونت کی بات نہ ہو۔ چنانچہ فرمایا (ان الشیطان ینزغ بینھم) شیطان چاہتا ہے لوگوں میں تفرقہ و فساد ڈالے۔ یعنی اس طرح کا طریق کلام تفرقہ و فساد پیدا کرتا ہے اور اصل مقصود کہ ہدایت و ارشاد ہے، مفقود ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا (ربکم اعلم بکم) یہ اللہ کا کام ہے کہ جسے چاہے نجات دے دے۔ جسے چاہے عذاب میں ڈالے (وما ارسلنک علیھم وکیلا) اے پیغمبر ! ہم نے تجھے لوگوں پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا ہے کہ لوگوں کی نجات و عدم نجات کے لیے ذمہ دار ہو۔ اور جب خود پیغمبر کو یہ منصب حاصل نہیں تو اور کسی کے لیے کب جائز ہوسکتا ہے کہ اپنے کو جنت و دوزخ کا داروغہ سمجھ لے۔ الإسراء
54 الإسراء
55 الإسراء
56 الإسراء
57 الإسراء
58 آیت (٥٨) میں افراد کا ذکر نہیں ہے۔ جماعتوں اور قوموں کی بستیوں کا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں ہر بد اعمال گروہ کو اس کے اعمال بد کی پاداش کامل جانا ضروری ہے۔ خواہ ہلاکت کی صورت میں ہو، خواہ کسی دوسرے عذاب کی صورت میں۔ الإسراء
59 آیت (٥٩) نے قطعی طور پر یہ حقیقت واضح کردی تھی کہ پیغمبروں نے جو نشانیاں دکھائی تھیں ان کی حقیقت کیا تھی؟ فرمایا (وما نرسل بالایات الا تخویفا) نشانیاں اس لیے نہیں دی گئیں کہ سچائی کی دلیل تھیں یا ہدایت کا معاملہ ان پر موقوف ہوتا ہے بلکہ صرف اس لیے کہ وہ ظہور عذاب کا مقدمہ تھیں۔ یعنی جو قومیں سرکشی سے باز نہیں آئیں انہیں ظہور نتائج کی خبر دے دی گئی اور اس خبر کا ظہور ایک نشانی کی صورت میں ہوا۔ چنانچہ قوم ثمود جب سرکشی سے باز نہ آئی تو اونٹنی کا معاملہ اس کے لیے ایک فیصلہ کن نشانی ہوگئی اور اس نشانی کے بعد موعودہ عذاب ظہور میں آگیا۔ آیت میں خطاب منکرین عرب سے ہے جو اپنی بات بنانے کے لیے نشانیوں کی فرمائشیں کرتے تھے۔ فرمایا جو طالب حق ہیں ان کے لیے سچائی کی دعوت ہی سب سے بڑٰ نشانی ہے اور جو ماننے والے نہیں ان کے لیے کوئی نشانی سود مند نہیں ہوتی۔ چنانچہ پچھلے عہدوں میں ہمیشہ ایسا ہی ہوچکا ہے ْ۔ کوئی نشانی بھی سرکشوں کے لیے سود مند نہ ہوسکی۔ نیز فرمایا ہمارا قانون یہ ہے کہ اس طرح کی نشانیوں تخویف و انذار ہی کے لیے نمودار ہوتی ہیں۔ پس اگر اب بھی ان تک نوبت پہنچی تو منکروں کے لیے ظہور عذاب ناگزیر ہوگا اور مشیت الہی کا یہ فیصلہ نہیں ہے کہ عذاب ظہور میں آئے۔ الإسراء
60 اس کے بعد آیت (٦٠) میں دو باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے : اسری کا واقعہ اور اس درخت کا معاملہ جس کا قرآن میں ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی (ان شجرۃ الزقوم طعام الاثیم) جہنم میں تھوہر کا درخت مجرموں کی غذا ہوگی۔ منکروں نے ان دونوں باتوں کی ہنسی اڑائی تھی، جیسا کہ روایات صحیحہ سے ثابت ہے۔ اسری کا معاملہ جب بیان کیا گیا تو کہنے لگے یہ جنون کی انتہا ہے اور جہنم کے اہوال و شدائد کی جب آیتیں سنائی گئیں تو کہنے لگے، جہنم بھی عجیب جگہ ہوئی ہے جہاں آگ کے شعلوں میں درخت پیدا ہوں گے۔ فرمایا ان دونوں باتوں میں ان لوگوں کے لیے آزمائش ہوئی۔ اگر طالب حق ہوتے تو ہنسی اڑانے کی جگہ عقل و بصیرت سے کام لتیے۔ الإسراء
61 آیت (٦١) میں ابلیس کی سرکشی کا تذکرہ کیا تاکہ واضح ہوجائے احکام حق کے مقابلہ میں سرکشی کی چال چلنا، ابلیس کی چال ہے اور یہ قدیم سے چلی آتی ہے۔ الإسراء
62 الإسراء
63 الإسراء
64 الإسراء
65 الإسراء
66 پھر آیت (٦٦) سے سلسلہ بیان انسان کی غفلت و گمراہی کے تذکرہ پر متوجہ ہوگیا ہے اور جن حالات کی طرف اشارہ کیا ہے ان کی تشریحات گزشتہ سورتوں کے نوٹوں میں گزر چکی ہیں۔ الإسراء
67 الإسراء
68 الإسراء
69 الإسراء
70 الإسراء
71 الإسراء
72 الإسراء
73 آیت (٧٣) میں فرمایا : اگر وحی الہی کی روشنی تیری رہنمائی کے لیے موجود نہ ہوتی تو وقت کی تاریکی اتنی شدید تھی کہ ممکن نہ تھا اس بے لاگ ثبات و استقامت کے ساتھ اپنی راہ چلتا رہتا۔ کام کی دشواریاں ضرور تجھے مغلوب کرلیتیں، لوگوں کی مقاومتیں ضرور تجھے تھکا دیتیں، طاقتور افراد کی منتیں اور التجائیں ضرور تجھے متوجہ کرلیتیں، طرح طرح کی مصلحتیں ضرور دامن گیر ہوجاتیں، لغزشیں ٹھوکریں قدم قدم پر نمودار ہوتیں۔ لیکن اب کوئی چیز بھی تیری راہ نہیں روک سکتی، کوئی فتنہ بھی تجھے قابو میں نہیں لاسکتا۔ یہ وحی الہی کی رہنمائی ہے۔ اور وحی الہی کی رہنمائی پر کوئی انسانی طاقت غالب نہیں آسکتی۔ الإسراء
74 الإسراء
75 الإسراء
76 الإسراء
77 الإسراء
78 آیت (٧٨) نے نماز کے وقات معین کردیے۔ فرمایا سورج کے ڈھلنے سے لے کر رات کے اندھیرے تک نماز کے اوقات ہیں۔ یعنی ظہر، عصر، مغرب اور عشا کے اوقات۔ نیز صبح کی تلاوت ہے یعنی صبح کی نماز ہے۔ نفل کے معنی کسی ایسی بات کے ہیں جو اصل مطلوب سے زیادہ ہو۔ پس فرمایا (نافلۃ لک) رات کا بھی کچھ حصہ جاگنے اور عبادت میں صرف کیا کرو۔ یہ تمہارے لیے عبادت کی مزید زیادتی ہوگی۔ اس آیت میں خطاب اگرچہ پیغمبر اسلام سے ہے لیکن حخم عام ہے اس سے معلوم ہوگیا کہ شب بیداری کی عبادت یعنی تہجد ایک مزید عبادت ہے اگر بن پڑے۔ الإسراء
79 آیت (٧٩) میں مقام محمود سے مقصود ایسا درجہ ہے جس کی عام طور پر ستائش کی جائے۔ فرمایا کچھ بعید نہیں کہ تمہارا پروردگار تمہیں ایسے مقام پر پہنچا دے جو عالمگیر اور دائمی ستائش کا مقام ہو۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب پیغمبر اسلام کی مکی زندگی کے آخری سال گزر رہے تھے اور مظلومیت اور بے سروسامانی اپنے انتہائی درجوں تک پہنچ چکی تھی۔ حتی کہ مخالف قتل کی تدبیروں میں سرگرم تھے۔ ایسی حالت میں کون امید کرسکتا تھا کہ انہی مظلومیتوں سے فتح و کامرانی پیدا ہوسکتی ہے؟ لیکن وحی الہی نے صرف فتح و کامرانی ہی کی بشارت نہیں دی کیونکہ فتح و کامرانی کی عظمت کوئی غیر معمولی عظمت نہ تھی۔ بلکہ ایک ایسے مقام تک پہنچنے کی خبر دی جو نوع انسانی کے لیے عظمت و ارتفاع کی سب سے آخری بلند ہے۔ یعنی (عسی ان یبعثک ربک مقاما محمودا) حسن و کمال کا ایسا مقام جہاں پہنچ کر محمودیت خلائق کی عالمگیر اور دائمی مرکزیت حاصل ہوجائے گی۔ کوئی عہد ہو، کوئی ملک ہو، کوئی نسل ہو، لیکن کروڑوں دلوں میں اس کی ستائش ہوگی، ان گنت زبانوں پر اس کی مدحت طرازی ہوگی، محمود یعنی سرتاسر ممدوح ہستی ہوجائے گی : ما شئت قل فیہ، فانت مصدق۔۔۔۔ فالحب یقضی والمحاسج تشھدا !!! یہ مقام انسانی عظمت کی انتہا ہے۔ اس سے زیادہ اونچی جگہ اولاد آدم کو نہیں مل سکتی۔ اس سے بڑح کر انسانی رفعت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انسان کی سعی و ہمت ہر طرح کی بلندوں تک اڑ جاسکتی ہے لیکن یہ بات نہیں پاسکتی کہ روحوں کی ستائش اور دلوں کی مداحی کا مرکز بن جائے۔ سکندر کی ساری فتوحات خود اس کے عہد و ملک کی ستائش اسے نہ دلا سکیں، اور نپولین کی ساری جہاں ستانیاں اتنا بھی نہ کرسکیں کہ کورسیکا کے چند غدار باشندوں ہی میں اسے محمود ممدوح بنا دیتیں، جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔ محمودیت اسی کو حاصل ہوسکتی ہے جس میں حسن و کمال ہو، کیونکہ روحیں حسن ہی سے عشق کرسکتی ہیں اور زبانیں کمال ہی کی ستائش میں کھل سکتی ہیں ِ لیکن حسن و کمال کی مملکت وہ مملکت نہیں جسے شہنشاہوں اور فاتحوں کی تلواریں مسخر کرسکیں۔ غور کرو جس وقت سے نوع انسانی کی تاریخ معلوم ہے نوع انسانی کے دلوں کا احترام اور زبانوں کی ستائشیں کن انسانوں کے حصے میں آئی ہیں؟ شہنشاہوں اور فاتحوں کے حصہ میں یا خدا کے ان رسلوں کے حصے میں جنہوں نے جسم و ملک کو نہیں روح و دل کو فتح کیا تھا؟ یہ مقام محمود ہے جس کی خبر ہمیں ایک دوسری آیت میں دی گئی ہے ور خبر کے ساتھ امر بھی ہے۔ (ان اللہ وملائکتہ یصلون علی النبی یا ایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما) بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام کا ایک مشہد وہ معاملہ ہوگا جو قیامت کے دن پیش آئے گا۔ جب کہ اللہ کی حمد و ثنا کا علم آپ بلند کریں گے اور بلاشبہ محمودیت کا مقام دنیا و آخرت دونوں کے لیے ہے۔ جو ہستی یہاں محمود خلائق ہے وہاں بھی محمود و ممدوح ہوگی۔ الإسراء
80 اس سورت کے بعض مقامات کی تشریحات رہ گئی ہیں۔ ضروری ہے کہ ان پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ واقعہ اسرای : واقعہ اسرای کی نوعیت کیا تھی ؟ یہ عالم بیداری میں پیش آیا یا عالم خواب میں؟ صرف روح پر طاری ہوا تھا یا جسم بھی اس میں شریک تھا۔ اس بارے میں صحابہ و سلف کا اختلاف معلوم ہے۔ اکثر صحابہ و تعابعین اس طرف گئے ہیں کہ روح و جسم دونوں پر طاری ہوا، لیکن حضرت عائشہ، حذیفہ بن الیمان، حسن، معاویہ، ابن اسحاق وغیرہم سے مروی ہے کہ یہ ایک روحانی معاملہ تھا۔ اصل یہ ہے کہ انبیائے کرام کے احوال و وارات ایک ایسے عالم سے تعلق رکھتے ہیں جس کے لے ہماری عام تعبیرات کام نہیں دے سکتیں۔ ہماری ہر تعبیر کسی ایسی حالت کا تصور پیدا کردے گی جو عام طور پر ہمیں پیش آتی رہتی ہیں لیکن انبیائے کرام کو جو حالات پیش آتے ہیں، ان کی نوعیت ہی دوسری ہوتی ہے۔ وہ ہمارے محسوسات و مفہومات کے دائرہ سے باہر کے معاملات ہیں۔ خود نبوت کی حقیقت کیا ہے ؟ وحی کا معاملہ کیونکر انجام پاتا ہے ؟ کیا اس بارے میں ہماری کوئی تعبیر بھی حقیقت حال کی کامل تعبیر ہوسکتی؟ صحیحین ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا جب وحی آتی ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے صلصلۃ الجرس کی آواز ہو۔ ظاہر ہے یہ ایک تمثیل ہے جو اس لیے اختیار کی گئی ہے کہ اس معاملہ کا ایک قریبی تخیل ہمارے اندر پیدا ہوجائے۔ ورنہ وحی کی آمد محض گھنٹیوں کی آواز کی طرح نہیں ہوسکتی۔ پس اسری کے معاملہ کے لیے بھی ہماری محدود تعبیرات کام نہیں دے سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کے تاثرات مختلف ہوئے۔ جن لوگوں نے اس کی نفی کی کہ بیداری میں پیش اایا تھا وہ اس طرف گئے کہ یہ ہماری جسمانی نقل و حرکت کی طرح کا معاملہ نہ تھا۔ جن لوگوں نے اس پر زور دیا کہ بیداری میں پیش آیا تھا وہ اس طرف گئے کہ اسے محض خواب کی طرح کا معاملہ نہیں کہہ سکتے۔ اور اس میں شک نہیں دونوں اپنے تاثرات میں برسرحق تھے۔ خود صحیحین کی حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا، میں اس وقت ایک ایسے عالم میں تھا کہ نہ تو سوتا تھا نہ جاگتا تھا۔ بین النائم والیقظان۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ اس معاملہ کو نہ تو ایسا معاملہ قرار دے سکتے ہیں جیسا ہمیں جاگتے میں پیش آیا کرتا ہے، نہ ایسا جیسا سوتے میں دیکھا کرتے ہیں۔ وہ ان دونوں حالتوں سے ایک مختلف قسم کی حالت تھی اور ہماری تعبیرات میں اس کے لیے کوئی تعبیر نہیں ہے۔ اس مقام کی مزید تشریح البیان میں ملے گی۔ آیت (٦٠) (وما جعلنا الرویا التی ارینک الا فتنۃ للناس) میں رویا سے مقصود یہی واقعہ ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن عباس، سعید بن جبیر، حسن، مسروق، قتادہ، مجاہد، عکرمہ، ابن جریج وغیرہم سے ایسا ہی مروی ہے اور حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس پر محققین تفسیر کا اجماع ہوچکا ہے۔ پس جن مفسروں نے یہاں رویا سے مراد کوئی دوسری رویا لی ہے۔ مثلا فتح مکہ کی رویا، وہ قابل اعتناء نہیں۔ کیونکہ سورت بالاتفاق مکی ہے اور وہ معاملہ ایک عرسہ کے بعد مدینہ میں پیش اایا تھا، اور تطبیق کے لیے طرح طرح کے تکلفات کرنا قرآن کو چیستان بنا دینا ہے۔ ان مفسروں نے یہ تکلفات اس لیے کیے کہ رویا کہ اطلاق خواب پر ہوتا ہے، اور اگر اس رویا سے مقصود واقعہ اسری ہو تو پھر ان صحابہ کا قول تسلیم کرلینا پڑے گا جو اس کے بیداری میں ہونے کے قائل نہیں۔ لیکن تعجب ہے کہ ان لوگوں نے حضرت عبداللہ بن عباس کی تفسیر پر نظر نہ ڈالی۔ حضرت عبداللہ بن عباس ان صحابہ میں ہیں جو معراج کو عالم بیداری کا معاملہ سمجھتے تھے اور اس مذہب کے سب سے بڑ؁ پیشرو تھے۔ بایں ہمہ انہوں نے بھی اس ایت میں رویا کی یہی تفسیر کی ہے کہ واقعہ اسرای مراد ہے۔ رویا عین اریھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (بخاری) ایک آنکھوں سے دیکھی ہوئی رویا جو لیلۃ الاسری میں آنحضرت کو دکھائی گئی تھی۔ اگر حضرت ابن عباس کو اس آیت کی اس تفسیر میں کوئی وقت پیش نہ آئی جو اس مذہب کے سب سے بڑے قائل تھے تو پھر اور لوگوں کو کیوں دور ازکار توجہیوں کی ضرورت پیش آئے؟ اور یہ جو حضرت ابن عباس نے فرمای رویا عین اریھا تو اس نے سارا مسئلہ حل کردیا اور وہ حقیقت آشکارا ہوگئی جس کی طرف ابھی ابھی اشارہ کرچکے ہیں۔ یعنی یہ جو کچھ پیش آیا تھا تو رویا، لیکن کیسی رویا؟ ویسی ہی رویا جیسی عالم خواب میں ہم دیکھا کرتے ہیں؟ نہیں رویا عین ایسی رویا جس میں آنکھیں غافل نہیں ہوتیں۔ بیدار ہوتی ہیں، جو کچھ دیکھا جاتا ہے وہ ایسا ہوتا ہے جیسے آنکھوں سے دیکھا جارہا ہو۔ (مازاغ البصر وما طغی۔ لقد رای من ایت ربہ الکبری) اعراض اور مایوسی دونوں میں ہلاکت ہے : آیت (واذا انعمنا علی الانسان اعرض ونابجانبہ واذا مسہ الشر کان یوسا) میں انسان کی اس کمزوری کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جب اسے خوش حالی ملتی ہے تو غافل ہوجاتا ہے اور جب رنج و غم پہنچتا ہے تو مایوس ہوجاتا ہے۔ حالانکہ دونوں حالتوں میں اس کے لیے نامرادی ہے۔ سعادت کی راہ یہ ہے کہ خوش حالی میں غافل نہ ہو، کیونکہ غفلت کا نتیجہ محرومی ہے، بدحالی میں مایوس ہو کر بیٹھ نہ رہے، کیونکہ مایوسی کا نتیجہ ہلاکت ہے۔ غور کرو، طبیعت انسانی کی کیسی سچی تصویر ہے؟ انسان جب اپنی کوششوں میں کامیاب ہوتا ہے تو خوشحالی کا گھمنڈا اسے غافل و سرشار کردیتا ہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ اب میرے لیے کوئی کھٹکا نہیں رہا، حالانکہ نہیں جانتا کتنا ہی خوش حال ہوجائے، اگر غفلت میں پڑگیا ہے تو اس کے لیے کھٹکا ہی کھٹکا ہے۔ اس کی خوش حالیاں کبھی پائدار نہیں ہوسکتیں۔ پھر جب ایسا ہوتا ہے کہ اس کی کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں تو بجائے اس کے کہ اپنی طلب و سعی میں اور زیادہ سرگرم ہوجائے یک قلم مایوس ہوجاتا ہے اور سمجھنے لگتا ہے کہ اب میرے لیے کچھ نہیں رہا۔ حالانکہ نہیں جانتا کہ اس کے لیے سب کچھ ہے بشرطیکہ ہمیت نہ ہارے اور اللہ کے فضل و کرم سے مایوس نہ ہو۔ کتنے ہی انسان ہیں جنہوں نے خوش حالیاں پائیں لیکن ان کی خوش حالیاں بدحالیوں سے بدل گئیں کیونکہ غفلت میں پڑگئے اور خوشحالی کی قدر نہ کی۔ کتنے ہی ناکام انسان ہیں جواچانک کامیاب ہوگئے کیونکہ ناکامیاں انہیں مایوس نہ کرسکیں اور کسی حال میں بھی وہ خدا کے فضل سے نازمید نہ ہوئے۔ فی الحقیقت انسانی سعی و طلب کی ساری نامرادیاں انہی ود دروازوں سے آتی ہیں۔ غفلت اور مایوسی، کامرانیوں اور خوشحالیوں کے متوالے غفلت کے زہر سے مرتے ہیں اور ناکامیوں اور بدحالیوں کے نامراد مایوسی کے زہر سے۔ جس فرد اور گروہ نے ان دو ہلاکتوں سے اپنی نگرانی کرلی ہے اس نے فلاح و سعادت کی ساری دولتیں پالیں۔ اس کی کامرانیوں کے لیے کبھی زوال نہ ہوگا۔ اس کی سعی و طلب ضرور بار آور ہو کر رہے گی۔ مادیات کی طرح روحانیات میں بھی یہی قانون کام کر رہا ہے۔ دنیا کی طرح آخرت کی محرومیاں بھی انہی دو مہلک راہوں سے آتی ہیں۔ عابدوں اور پارساؤں کے لیے گھمنڈ میں موت ہے اور گنہگاروں کے لیے مایوسی میں۔ جو نیک و پارسا ہو کر غرور میں مبتلا ہوگیا، اس نے اپنی پارسائی کی ساری کمائی ضائع کردی۔ جو گناہوں کے بوجھ سے دب کر مایوسی میں پڑگیا اس نے رحمت الہی کی چارہ سازیوں سے اپنے کو محروم کردیا۔ جس فرد نے ان دو ہلاکتوں سے اپنی نگہداشت کرلی، پارسائی کی کمائی پر مغرور نہ ہوا، نافرمانی و گناہ کی حالت میں مایوس نہ ہوا اس نے جاودانی سعادت پالی اور اس کے لیے نامرادی کا کوئی کھٹکا باقی نہ رہا۔ تفسیر (کل یعمل علی شاکلتہ) عربی میں شکل بکسر کے معنی ہیئت کے ہیں اور شکل بالنصب کے معنی طریقہ کے۔ چنانچہ ایسے راستے کو جس سے بہت سی راہیں ادھر ادھر نکلی ہوں طریق ذو شواکل کہتے ہیں، اور بول چال میں عام طور پر کہا جاسکتا ہے : لست علی شکلی ولا علی شاکلتی۔ پس آیت (قل کل یعمل علی شاکلتہ فربکم اعلم بمن ھو اھدی سبیلا) کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا میں ہر انسان کا کوئی نہ کوئی طریقہ ہے اور وہ اسی کے مطابق کام کررہا ہے۔ کوئی اس طرف جارہا ہے، کوئی اس طرف، کسی نے ڈھنک اختیار کیا ہے کسی نے دوسرا۔ کسی کو ایک طرح کی بات بھاتی ہے، کسی کو دوسری طرح کی، اور اللہ جانتا ہے، کون سیدھی راہ پر ہے، کون کامیاب ہونے والا ہے۔ بعض مفسرین نے شاکلہ کو جبلت کے معنوں میں لیا ہے۔ یعنی ہر آدمی کی ایک فطری بناوٹ ہے اور وہ اسی کے لیے مطابق کام کرتا ہے، لیکن مندرجہ صدر تصریح سے واضح ہوگیا کہ شاکلہ کے معنی جبلت کے نہیں ہوسکتے۔ طریقہ اور مسلک کے ہیں۔ (قل الروح من امر ربی) ترمذی، نسائی اور مسند میں ہے کہ قریش مکہ نے علمائے یہود سے سن کر یہ سوال کیا تھا کہ روح کیا ہے ؟ اس پر یہ آیت اتری : (ویسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی) تورات اور انجیل میں روح کا لفظ فرشتہ کے لیے بولا گیا ہے اور قرآن نے فرشتہ اور وحی دونوں کے لیے استعمال کیا ہے۔ پس یہاں الروح سے مقصود جسم انسانی کی روح ہے یا فرشتہ؟ اس بارے میں ائمہ تفسیر کی رائیں مختلف ہوئیں۔ لیکن اکثر مفسر اس طرف گئے ہیں کہ یہاں الروح سے مقصود جسم انسانی کی روح ہے نہ کہ فرشتہ۔ بہرحال سوال دونوں کی نسبت ہوسکتا ہے اور جواب بھی دونوں کے لیے مطابقت رکھتا ہے، اور آیت کیا صلی موعظت سوال کی تفصیل میں نہیں ہے، جواب کی نوعیت میں ہے۔ فرمایا (من امر ربی) اس معاملہ کے لیے جو کچھ بھی تمہیں بتلایا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کا حکم کام کر رہا ہے۔ اس سے زیادہ تم پا نہیں سکتے اور اس سے زیادہ پانے کی کاوش کیوں کرو؟ (وما اوتیتم من العلم الا قلیلا) تمہارا دائرہ علم نہایت محدود ہے، تم اپنے علم و اداراک میں ایک خاص حد سے آگے بڑھ نہیں سکتے۔ تم علم میں سے جو کچھ پاسکتے ہو وہ اصل حقیقت کے مقابلہ میں بہت ہی تھوڑا ہے، وہ اس سمندر میں چند قطروں سے زیادہ نہیں اور تمہیں اسی پر قناعت کرنا ہے۔ انسان کے علم و ادراک کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ کہ اسے حواس دیے گئے ہیں ْ انہی کے ذریعہ سے وہ محسوسات کا ادراک حاصل کرتا ہے۔ لیکن خود محسوسات کے دارئرہ کا کیا حال ہے ؟ یہ کہ کائنات ہستی کے سمندر میں ایک قطرہ سے زیادہ نہیں پھر اگر انسان تمام عالم محسوسات کا علم حاصل بھی کرلے تو اس کی مقدار حقیقت کے مقابلہ میں کیا ہوگی؟ ایک قطرہ کا علم، اس سے زیادہ نہیں، اور حالت یہ ہے کہ انسان محسوسات کے بھی کامل علم کا دعوی نہیں کرسکتا۔ وہ ہمیشہ اسی ایک قطرہ کے لیے پیاسا رہا اور آج تک پیاسا ہے۔ اس پہلو پر بھی نظر رہے کہ فرمایا (من امر ربی) میرے پروردگار کے حکم سے یعنی وہ پروردگار ہے اور پروردگاری یہی چاہتی تھی کہ یہ جوہر پیدا ہو۔ آیت (٨٩) سے (٩٦) سے جو بات بیان کی گئی ہے وہ اگرچہ پچھلی سورتوں میں بھی گزر چکی ہے اور آئندہ بھی آئے گی لیکن یہاں زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے اور مہمات معارف میں سے ہے۔ اچنبھوں کی فرمائش اور قرآن کا جواب : قرآن نے جابجا منکرین حق کے عقائد و اقوال نقل کر کے دو خاص گمراہیوں پر توجہ دلائی ہے۔ ایک یہ کہ لوگ سمجھتے ہیں روحانی ہدایت کا معاملہ ایک ایسا معاملہ ہے جو محض انسان کے ذریعہ سے ظاہر نہیں ہوسکتا۔ ضروری ہے کہ انسانیت سے کوئی بالاتر ہستی ہو۔ اسی خیال نے دیوتاؤں کے ظہور اور ان کی عجائب آفرینیوں کا اعتقاد پیدا کیا۔ چنانچہ سورۃ اعراف اور ہود میں گزر چکا ہے کہ ہر داعی حق کے منکروں نے یہ بات ضرور کہی (مانراک الا بشرا مثلنا) تم تو ہماری ہی طرح کے ایک بشر ہو۔ پھر تمہارا یہ دعوی کیسے مان لیں۔ مشرکین مکہ بھی یہی کہتے تھے (مالھذا الرسول یاکل الطعام و یمشی فی الاسواق) یہ کیسا خدا کا فرستادہ ہے کہ ہماری طرح کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ دوسری یہ کہ سچائی کو خود سچائی میں نہیں ڈھونڈتے، اچنبھوں اور کرشموں کی ڈھونڈ میں رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں جو آدمی سب سے زیادہ عجیب قسم کی باتیں کر رکھائے وہی سب سے زیادہ سچائی کی بات بتلانے والا ہے۔ گویا سچائی اس لیے سچائی نہ ہوئی کہ وہ سچائی ہے۔ بلکہ اس لیے کہ عجیب عجیب طرح کے کرشمے اس کے پیچھے کھڑے ہیں۔ چنانچہ یہاں بھی فرمایا (ولقد صرفنا فی ھذا لقران لیذکروا وما یزیدھم الا نفورا) ہم نے قرآن میں عبرت و موعظت کی تمام باتیں دہرا دہرا کر بیان کردیں، مگر یہ باتیں انہی کے دلوں کو پکڑ سکتی ہیں جن میں سچائی کی طلب ہے، ورنہ اکثروں کا یہ حال ہے کہ انکار و سرکشی میں بڑھے ہی چلے جاتے ہیں ْ پھر ان کی انکار و سرکشی کی باتیں نفل کی ہیں۔ فرمایا وہ کہتے ہیں ہم تو جبھی مانیں گے جب تم ہمیں اس طرح کی باتیں کر دکھاؤ۔ مثلا مکہ کی ریگستانی زمین میں اچانک ایک نہر پھوٹ نکلے۔ آسمان کے ٹکڑے ہو کر گر پڑیں۔ اللہ اور اس کے فرشتے ہمارے سامنے آجائیں۔ سونے کا ایک بنا بنایا محل نمودار ہوجائے۔ تم ہمارے سامنے آسمان پر چڑھ دوڑو اور وہاں سے ایک لکھی لکھائی کتاب لاکر ہمارے ہاتھوں میں پکڑاؤ۔ پھر پیغمبر اسلام کو حکم دیا ہے کہ ان فرمائشوں کے جواب میں کہہ دو : (سبحان ربی ھل کنت الا بشرا رسولا) میرے پروردگار کے لیے پاکی ہو۔ میری حیثیت اس کے سوا کیا ہے کہ ایک آدمی ہوں خدا کا بھیجا ہو۔ دعوی اور دلیل کی مطابقت : سبحان اللہ قرآن کی معجزانہ بلاغت کے اس جملہ کے اندر وہ سارے دفتر آگئے جو انکار و سرکشی کی ان صداؤں کے جواب میں کہے جاسکتے تھے۔ (ھل کنت الا بشر رسولا) میں نے کچھ خدائی کا دعوی نہیں کیا ہے، میں نے یہ نہیں کہا ہے کہ آسمان کو زمین اور زمین کو آسمان بنا دینے و الا ہوں اور دنیا کی ساری قوتیں میرے تصرف واختیار میں ہیں، میرا دعوی جو کچھ ہے وہ تو یہ ہے کہ ایک آدمی ہوں پیام حق پہنچانے والا، پھر تم مجھ سے یہ فرمائشیں کیوں کرتے ہو؟ کیوں میرے لیے ضروری ہو کہ میں سونے کا محل دکھاؤں اور آسمان پر سیڑھی لگا کر چڑھ جاؤں۔ اس پہلو پر غرو جس پر جواب کا اصلی زور پڑ رہا ہے۔ اگر ایک شخص نے کسی بات کا دعوی کیا ہے تو ہم دیکھیں گے اس کا دعوی کیا ہے اور اسی کے مطابق اس سے دلیل مانگیں گے۔ اگر اس شخص نے دعوی کیا ہے کہ لوہار ہے، تو ہم دیکھیں گے کہ وہ لوہے کا سامان بنا سکتا ہے یا نہیں؟ اگر ایک شخص نے دعوی کیا ہے کہ طبیب ہے تو ہم دیکھیں گے کہ علاج میں ماہر ہے یا نہیں اور بیماروں کو اس سے شفا ملتی ہے یا نہیں۔ ایسا نہیں کریں گے کہ کسی نے دعوی تو کیا ہو طبابت کا اور ہم اس سے دلیل وہ مانگنے لگیں جو ایک لوہار سے مانگنی چاہیے۔ یعنی کہیں، ہمیں لوہے کے شہتیر بنا کر دکھا دو، اگر ایسا کریں گے تو یہ صریح بے عقلی کی بات ہوگی۔ یہ بات یعنی دعوی اور دلیل کی مطابقت ایک ایسی عام اور قدرتی بات ہے کہ ہر آدمی خواہ کتنی ہی موٹی عقل کا ہو، خودبخود اسے پالیتا ہے۔ جونہی ایک آدمی کہے گا میں لوہار ہوں، وہ سنتے ہی فرمائش کرے گا کہ قفل بنا دو، کبھی اس کی زبان سے یہ نہیں نکلے گا کہ شیشے کا برتن بنا دو۔ اچھا ایک انسان آتا ہے اور کہتا ہے میں رسول ہوں، پیام حق پہنچانے والا ہوں، اب اس کا دعوی کیا ہوا؟ یہ کہ خدا نے اس پر سچائی کی راہ کھول دی ہے اور وہ دوسروں کو بھی اسی راہ چلانا چاہتا ہے۔ جب دعوی یہ ہوا تو اسی کے مطابق دلیل بھی ہونی چاہیے۔ قدرتی طور پر اس کی دلیل یہی ہوسکتی ہے کہ دیکھا جائے وہ سچائی کی راہ پر ہے یا نہیں، اور اس کی بتلائی ہوئی راہ پر چل کر سچائی ملتی ہے یا نہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دعوی تو اس نے سچائی کی راہ دکھانے کا کیا ہو اور ہم دلیل یہ مانگنے لگیں گے کہ پہاڑ کو سونا بنا دے یا آسمان پر اڑ کر چلا جائے؟ طبیب کہتا ہے میں بیماروں کو چنگا کردیتا ہوں اور ہم دیکھتے ہیں اس کے علاج سے بیمار چنگے ہوئے یا نہیں۔ اسی طرح خدا کا رسول کہتا ہے میں روح و دل کی بیماریاں دور کردیتا ہوں اور اگر ہم طالب حق ہیں تو ہمیں دیکھنا چاہیے اس کے علاج سے روح و دل کے بیماروں کو شفا ملتی ہے یا نہیں؟ اگر ہم طبیب سے کہیں تیرا دعوی ہم جبھی مانیں گے جب تو آسمانن پر اڑ کر چلا جائے تو یقینا وہ کہے گا، میں نے طبابت کا دعوی کیا ہے، آسمان پر اڑنے کا نہیں کیا ہے، ہوسکتا ہے کہ خدا مجھے اڑنے کی بھی طاقت دے دے لیکن طبابت کا اڑنے سے کیا واسطہ؟ اگر میرا دعوی پرکھنا چاہتے ہو تو آؤ تمہارا علاج کر کے اپنی طبابت کا ثبوت دے دوں۔ ٹھیک یہی معنی اس جواب کے ہیں کہ (ھل کنت الا بشر رسولا) میں نے یہ کب کہا کہ میں آسمان و زمین کے قلابے ملادوں گا؟ میرا دعوی تو صرف یہ ہے کہ پیام حق پہنچانے والا ہوں۔ پس اگر طالب حق ہو تو میرا پیام پرکھ لو، میرے پاس نسخہ شفا ہے کہ نہیں؟ میں صراط مستقیم پر چلا دے سکتا ہوں کہ نہیں؟ میں سرتاسر ہدایت اور رحمت ہوں کہ نہیں۔ پھر اس جواب میں صرف یہی نہیں کہا کہ میں رسول ہوں بلہ بشرا کے لفظ پر بھی زور دیا، کیونکہ جو بات منکروں کے دماغ میں کام کر رہی تھی وہ یہی تھی کہ ایک آدمی جس میں کوئی مافوق انسانیت کرشمہ نہیں پایا جاتا، خدا کا فرستادہ کیسے ہوسکتا ہے اور کیوں ہم اس پر ایمان لائیں؟ فرمایا میں تو اس کے سوا کچھ نہیں ہوں کہ ایک آدمی ہوں، پیام حق پہنچانے والا آدمی، میں نے یہ دعوی نہیں کیا کہ فرشتہ ہوں یا کوئی ماورائے انسانیت مخلوق۔ اس کے بعد فمرایا (وما منع الناس ان یوموا اذ جائھم الھدی الا ان قالوا ابعث اللہ بشرا رسولا جب کبھی دنیا میں خدا کی ہدایت نمودار ہوئی تو ہمیشہ اسی خیال فاسد نے لوگوں کو قبولیت حق سے روکا کہ کہنے لگے : کیا خدا نے ایک آدمی کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا ہے؟ یعنی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہماری ہی طرح کا ایک کھانے پینے والا آدمی خدا کا پیغمبر ہوجائے۔ پھر اس کو جواب دیا ہے کہ (قل لو کان فی الارض ملئکۃ یمشون مطمئنین لنزلنا علیھم من السماء ملکا رسولا) اگر زمین میں انسانوں کی جگہ فرشتے بسے ہوتے تو ان کی ہدایت کے لیے فرشتے ہی اترتے، لیکن یہاں تو انسان بستے ہیں اور انسانوں ہی کی ہدایت مقصود ہے، پس ان کی ہدایت کی صدائیں انسانوں ہی کی زبان سے نکلیں گے۔ فرشتے نہیں اتر سکتے اور نہ کبھی فرشتے اترے ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ منکروں کی یہ فرمائشیں حجت و برہان کے طلب میں نہ تھیں بلکہ محض سرکشی اور ہٹ دھرمی کی باتیں تھیں جو اس لیے کہی جاتی تھیں کہ کوئی نہ کوئی بات کہہ کر اپنے انکار کے لیے سہارا پیدا کیا جائے۔ْ اور ہمیشہ راست بازوں کے مقابلہ میں نہ ماننے والوں کا ایسا ہی طرز عمل رہا ہے۔ جب کبھی سچائی کی کوئی بات کہی جاتی ہے تو طلب حق رکھنے والی طبیعتیں اور کسی طرف نہیں جاتیں۔ خود اسی بات پر غور کرتی ہیں اور جب سچائی پالیتی ہیں تو فورا قبول کرلیتی ہے۔ لیکن ایک سرکش اور ہٹ دھرم آدمی کبھی ایسا نہیں کرتا، وہ پہلے سے طے کرلیتا ہے کہ کبھی ماننے والا نہیں۔ پھر کوشش کرتا ہے کہ اپنے نہ ماننے کے لیے کوئی بات بنا لے۔ وہ طرح طرح کی باتیں ادھر ادھر کی نکالے ل گا۔ کبھی ایک بات کہے گا، کبھی دوسری۔ پہلے کسی ایک بات پر زور دے گا کہ اس کا جواب کیا ہے ؟ جب اس کا جواب مل جائے گا تو کوئی دوسری بات ڈھونڈ نکالے گا اور کہے گا، اس کا جواب تمہارے پاس کوئی نہیں، یہاں تک کہ اگر تم اس کی ساری کٹ حجتیوں کا جواب دے دو اور ساری شرطیں اور فرمائشیں پوری کردو جب بھی وہ کوئی نہ کوئی اور بات ڈھونڈ نکالے گا اور راست بازی کی راہ کبھی نہیں چلے گا۔ چنانچہ قرآن نے جابجا منکروں کی اس حالت کا ذکر کیا ہے۔ اور واضح کیا ہے کہ وہ کبھی ماننے والے نہیں۔ اگر ماننے والے ہوتے تو اس طرح کی روش کبھی اختیار نہ کرتے۔ سورۃ انعام کی آیت (١١١) میں گزر چکا ہے : (ولو اننا نزلنا الیھم الملائکۃ وکلمھم الموتی وحشرنا علیھم کل شیء قبلا ما کانوا لیوموا الا ان یشاء اللہ ولکن اکثرھم یجھلون) ان آیات میں ان کے جو اقوال نقل کیے ہیں، ان پر غور کرو، پہلے کہا، نہر بہادو، باغ اگادو، سونے کا محل لا دکھاؤ، خود اللہ اور اسکے فرشتوں کو ہمارے سامنے لا کھڑا کرو، پھر کہا آسمان پر چڑھ جاؤ، لیکن کیا آسمان پر چڑھ جانا کافی ہوگا؟ نہیں اس پر بھی وہ ماننے والے نہیں، یہ بھی ہونا چاہیے کہ وہاں سے ایک لکھی لکھائی کتاب اپنی بغل میں دابے ہوئے واپس آؤ، اور پھر وہ لکھی ہوئی بھی ایسی ہو کہ وہ کود اسے پڑح کر جانچ سکیں۔ تب کہیں جاکر ان کی شرط پوری ہوگی۔ ظاہر ہے کہ کسی راست باز آدمی کی زبان سے ایسی باتیں نہیں نکل سکتیں، اس کے معنی صریح یہی تھے کہ وہ کبھی ماننے والے نہیں۔ الإسراء
81 الإسراء
82 الإسراء
83 الإسراء
84 الإسراء
85 الإسراء
86 الإسراء
87 الإسراء
88 الإسراء
89 الإسراء
90 الإسراء
91 الإسراء
92 الإسراء
93 الإسراء
94 الإسراء
95 الإسراء
96 الإسراء
97 الإسراء
98 الإسراء
99 الإسراء
100 برہان رحمت اور حیات اخروی : آیت (١٠٠) میں حیات اخروی پر رحمت الہی کی وسعت سے استدلال کیا ہے اس کی حقیقت سمجھ لینی چاہیے۔ انسان کی زندگی کیا ہے ؟ قرآن کہتا ہے اللہ کی رحمت کا فیضان ہے۔ یہ رحمت جو چاہتی تھی کہ وجود ہو، بناؤ ہو، حسن ہو، کمال ہو، اور اس لیے سب کچھ ظہور میں آگیا۔ اچھا، اگر رحمت الہی کا یہ مقتضا ہوا کہ انسان کو زندگی ملی تو کیا اسی رحمت کا مقتضا یہ نہیں ہونا چاہیے کہ زندگی صڑف اتنی ہی نہ ہو، اس بعد بھی ہو اور رحمت کا فیضان برابر جاری رہے ؟ اس کی رحمت ابدی ہے۔ پھر کیا اس کا فیضان دائمی نہ ہوگا؟ اگر دائمی ہونا چاہیے تو کیوں انسانی زندگی اس سے محروم رہ جائے؟ کیوں اس گوشہ میں کہ مخلوقات ارضی کا سب سے بلند گوشہ ہے، وہ ایک بہت ہی محدود اور حقیر حد سے آگے نہ بڑھے؟ انسان کی دنیوی زندگی کی مقدار کیا ہے ؟ محض چند گنے ہوئے دنوں کی زندگی۔ پھر کیا خدا کی رحمت کا فیضان اتنا ہی تھا کہ چار دن کی زندگی پیدا کردے، اور وہ ہمشیہ کے لیے ختم ہوجائے؟ اس سے زیادہ وہ کچھ نہیں دے سکتی تھی ؟ چنانچہ فرمایا (قل لو انتم تملکون خزائن رحمۃ ربی اذا لامسکتم خشیۃ الانفاق) ان منکروں سے کہہ دو اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے قبضہ میں ہوتے تو ضرور تم ہاتھ روک روک کے خرچ کرتے کہ کہیں خرچ نہ ہوجائے۔ لیکن وہ تمہارے قبضہ میں نہیں ہیں، وہ اس کے قبضہ میں ہیں جس کی بخشش کی کوئی انتہا نہیں، جس کے خزانے کبھی ختم ہونے والے نہیں، جس کا فیضان دائمی اور لگاتار ہے۔ اس مقام کے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ تفسیر فاتحہ کے مبحث برہان فضیلت و رحمت کا مطالعہ کرلیا جائے۔ تفسیروں میں یہ چیز نہیں ملے گی۔ الإسراء
101 الإسراء
102 الإسراء
103 الإسراء
104 الإسراء
105 الإسراء
106 الإسراء
107 الإسراء
108 الإسراء
109 الإسراء
110 وحدت مسمی اور کثرت اسماء : آیت (١١٠) (قل ادعوا اللہ او ادعوا الرحمن ایاما تدعوا فلہ الاسماء الحسنی) میں ایک بہت بڑی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اور افسوس ہے کہ لوگوں کی نظر بحث و تفسیر میں اس طرف نہیں گئی۔ دنیا میں انسان کے اکثر اختلافات محض لفظ و صورت کے اختلافات ہیں۔ وہ معنی پر نہیں لڑتا، لفظ پر لڑتا ہے، بسا اوقات ایک ہی حقیقت سب کے سامنے ہوتی ہے لیکن چونکہ نام مختلف ہوتے ہیں، صورتیں مختلف ہوتی ہیں، اسلوب اور ڈھنگ مختلف ہوتے ہیں، اس لیے ہر انسان دوسرے انسان سے لڑنے لگتا ہے اور انہیں جانتا کہ یہ ساری لڑائی فقط لفظ کی لڑائی ہے، معنی کی لڑائی نہیں، مولانا روم نے چار دوستوں کی نزاع کا قصہ سنایا ہے جن میں سے ہر شخص انگور کا خواہشمند تھا، لیکن چونکہ ایک آدمی عنب کہتا تھا دوسرا تاک اس لیے تلواریں نیام سے نکل آئی تھیں۔ اگر دنیا صرف اتنی بات پالے تو نوع انسانی کے دو تہائی اختلافات جنہوں نے دائمی نزاعوں اور جنگوں کی صورت اختیار کرلی ہے ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں۔ اس آیت میں اور اس کی ہم معنی آیات میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مشرکین عرب اللہ کے لفظ سے آشنا تھے کیونکہ یہ لفظ پروردگار عالم کے لیے بطور اسم ذات کے قدیم سے مستعمل رہا ہے لیکن دوسرے ناموں سے آشنا نہ تھے جن کا قرآن نے اس کی صفتوں کے لیے اعلان کیا تھا۔ مثلا الرحمن رحمن کا لفظ بولا جاتا تھا لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ اسے اللہ کے لیے بولنا چاہیے۔ پس جب ایسے اسماء سنتے تو متعجب ہوتے اور طرحح طرح کے اعتراضات کرتے۔ قرآن کہتا ہے تم اسے اللہ کہہ کر پکارو یا الرحمن کہہ کر پکارو جس نام سے بھی پکارو، پکار اسی کے لیے ہے اور ناموں کے تعدد سے حقیقت متعدد نہیں ہوسکتی۔ اس کا نام ایک ہی نہیں، اس کے بہت سے نام ہیں لیکن جتنے نام ہیں حسن و خوبی کے نام ہیں۔ کیونکہ وہ سرتاسر حسن و کمال اور کبریائی و جلال ہے تم ان ناموں میں سے کوئی نام بھی لو، تمہارا مقصود و مطلوب وہی ہوگا۔ عباراتنا شی وحسنک واحد۔۔۔۔ وکل الی ذاک الجمال یشیر ! الإسراء
111 الإسراء
0 الكهف
1 سچائی کے لیے دنیا کی عالمگیر تعبیر یہ ہے کہ وہ سیدھی بات ہے، اس میں ٹیڑھ پن نہیں۔ جس بات میں کجی ہو، پیچ و خم ہو، الجھی ہو، وہ سچائی کی بات نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے سعادت کی راہ کو صراط مستقیم سے تعبیر کیا اور ہر جگہ وہ اپنا وصف یہ بیان کرتا ہے کہ اس میں کوئی بات بھی کجی کی بات نہیں ہے، وہ اپنی ہر بات میں دنیا کی زیادہ سے زیادہ سیدھی بات ہے۔ چنانچہ اس سورت کی ابتدا میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اس کے بعد اس کے نزول کا مقصد واضح کیا کہ تبشیر اور تنذیر ہے، کیونکہ ہدایت وحی جب کبھی ظاہر ہوئی ہے اسی لیے ظاہر ہوئی ہے کہ ایمان و عمل کے نتائج کی بشارت دے انکار و بدعملی کے نتائج سے متنبہ کردے۔ یہ سورت بھی مکی عہد کی آخری سورتوں میں سے ہے، یہ وہ وقت تھا کہ منکروں کی سرکشی انتہائی حد تک پہنچ چکی تھی، اور پیغمبر اسلام کا قلب مبارک لوگوں کی شقاوت و محرومی کے غم سے بڑا ہی دلگیر ہورہا تھا، ان کے جوش دعوت و اصلاح کا یہ حال تھا کہ چاہتے تھے ہدایت گھونٹ بنا کر پلا دوں، اور منکروں کا یہ حال تھا کہ سیدھی سے سیدھی بات بھی ان کے دلوں کو نہیں پکڑتی تھی۔ انبیاء کرام ہدایت و اصلاح کے صرف طالب ہی نہیں ہوتے، عاشق ہوتے ہیں۔ انسان کی گمراہی ان کے دلوں کا ناسور ہوتی ہے اور انسان کی ہدایت کا جوش ان کے دل کے ایک ایک ریشہ کا عشق، اس سے بڑھ کر ان کے لیے کوئی غمگینی نہیں ہوسکتی کہ ایک انسان سائی سے منہ موڑ لے۔ اس سے بڑھ کر ان کے لیے کوئی شادمانی نہیں ہوسکتی کہ ایک گمراہ قدم راہ راست پر آجائےْ قرآن میں اس صورت حال کی جابجا شہادتیں ملتی ہیں۔ یہاں آیت (٦) میں اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کی یہ گمراہی عجب نہیں تجھے شدت غم سے بے حال کردے لیکن جو گمراہی میں ڈوب چکے ہیں وہ کبھی اچھلنے والے نہیں، پھر اس کے بعد آیت (٧) میں واضح کیا ہے کہ قانون الہی اس بارے میں ایسا ہی واقع ہوا ہے۔ یہ دنیا آزمائش گاہ عمل ہے۔ یہاں جو چیز کارآمد نہیں ہوتی چھانٹ دی جاتی ہے۔ پس جن لوگوں نے اپنی ہستی خراب کردی ہے ضروری ہے کہ وہ چھانٹ دیے جائیں۔ ان کی محرومی پر غم کرنا لاحاصل ہے۔ الكهف
2 الكهف
3 الكهف
4 الكهف
5 الكهف
6 الكهف
7 الكهف
8 الكهف
9 آیت (٩) سے اصحاب کہف کی سرگزشت شروع ہوئی، اس کی تشریح سورت کے آخری نوٹ میں ملے گی۔ فرمایا یہ چند نوجوان تھے جنہوں نے اللہ کی رحمت پر بھروسہ کیا تھا اور ایک پہاڑ کے غار میں جا چھپے تھے، کسی برسوں تک یہ اس میں پوشیدہ رہے، آبادی سے ان کا کوئی علاقہ نہیں رہا، زندگی کی کوئی صدا ان کے کانوں تک نہیں پہنچتی تھی، پھر وہ اٹھائے گئے، یعنی ظاہر ہوئے اور یہ سارا معاملہ اس لیے ہوا کہ واضح ہوجائے دونوں جماعتوں میں سے کون سی جماعت ایسی تھی جو وقت کے واقعات اور ان کے نتائج کا بہتر اندازہ کرسکتی تھی۔ الكهف
10 الكهف
11 الكهف
12 الكهف
13 دو جماعتوں سے مقصود اصحاب کہف اور ان کی قوم و ملک کے لوگ ہیں۔ یہ گویا اس تمام معاملہ کا ماحصل ہے اس کے بعد کی ضروری تفصیلات آتی ہیں۔ چنانچہ آیت (١٣) میں فرمایا : (نحن نقصد لیک نباھم بالحق) (ا) ایک گمراہ اور ظالم قوم سے چند حق پرست نوجوانوں کا کنارہ کشی کرلینا اور ایک پہاڑ کے غار میں جاکر پوشیدہ ہوجانا، ان کی قوم چاہتی تھی انہیں سنگ سار کردے یا جبرا اپنے دین میں واپس لے آئے۔ انہوں نے دنیا چھوڑ دی مگر حق سے منہ نہ موڑا۔ (ب) وہ جب غار میں اٹھے تو اس کا اندازہ نہ کرسکے کہ کتنے عرصہ تک یہاں رہے ہیں، انہوں نے اپنا ایک آدمی شہر میں کھانا لازنے کے لیے بھیجا اور کوشش کی کہ کسی کو خبر نہ ہو لیکن حکمت الہی کا فیصلہ دوسرا تھا، خبر ہوگئی اور یہ معاملہ لوگوں کے لیے تذکیر و عبرت کا موجب ہوا۔ (ج) جس قوم کے ظلم سے عاجز ہو کر انہوں نے غار میں پناہ لی تھی وہی ان کی اس درجہ معتقد ہوئی کہ ان کے مرقد پر ایک ہیکل تعمیر کیا گیا۔ (د) اس واقعہ کی تفصیلات لوگوں کو معلوم نہیں، طرح طرح کی باتیں مشہور ہوگئی ہیں، بعض کہتے ہیں وہ تین آدمی تھے۔ بعض کہتے ہیں پانچ تھے، بعض کہتے ہیں سات تھے۔ مگر یہ سب اندھیرے میں تیر چلاتے ہیں۔ حقیقت حال اللہ ہی کو معلوم ہے اور غور کرنے کی بات یہ نہیں ہے کہ ان کی تعداد کتنی تھی؟ دیکھا چاہیے کہ ان کی حق پرستی کا کیا حال تھا؟ الكهف
14 الكهف
15 الكهف
16 الكهف
17 الكهف
18 الكهف
19 (١) قرآن میں ورق کا لفظ ہے۔ ورق چاندی کے ٹکڑے کو کہتے ہیں، خواہ مسکوک ہو خواہ مسکوک نہ ہو۔ لیکن قرینہ کہہ رہا ہے کہ مقصود سکہ تھا، اس لیے ہم نے ترجمہ میں یہی لفظ اختیار کیا۔ الكهف
20 الكهف
21 الكهف
22 آیت (٢٢) میں فرمایا جو کھلی ہوئی اور پکی بات ہے وہ تذکیر و عبرت کے لیے کفایت کرتی ہے اس سے زیادہ کاوش میں نہ پڑو اور نہ بحث و نزاع کرو اور نہ کبھی کسی ایسی بات کے لیے جس کا علم اللہ ہی کو ہے زور دے کر کہو کہ میں ضرور ایسا کر کے رہوں گا۔ یہ اللہ کے ہاتھ ہے کہ جتنی باتیں چاہے وحی کے ذریعہ سے بتلا دے۔ غیبی امور میں انسان کی کاوشیں کچھ کام نہیں دے سکتیں۔ الكهف
23 آیت (٢٣) میں اس طرف اشارہ ہے کہ عنقریب ایسا ہی معاملہ تمہیں بھی پیش آنے والا ہے یعنی اپنی قوم سے راہ حق میں کنارہ کشی کرو گے اور غار ثور میں کئی دن تک مقیم رہو گے۔ پھر تم پر فتح و کامرانی کی ایسی راہ کھولی جائے گی جو اس معاملہ سے بھی کہیں عظیم تر ہوگی۔ الكهف
24 الكهف
25 الكهف
26 الكهف
27 آیت (٢٧) میں فرمایا اللہ کی کتاب کی تلاوت میں مشول رہو، کلمات وحی نے جن باتوں کا اعلان کیا ہے انہیں کوئی بدل نہیں سکتا۔ اور انقلاب حال کا وقت اب دور نہیں ہے۔ جو ماننے والے نہیں ان کی فکر نہ کرو، جو ایمان لائے ہیں اور شب و روز اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں وہی تمہارے لیے بہت ہیں۔ انہی میں جی لگاؤ یہی دعوت حق کے چند بیج ہیں جو عنقریب ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرلیں گے۔ الكهف
28 آیت (٢٨) میں مزید تشریح کی۔ فرمایا آخری اعلان کردو کہ خدا کی سچائی سب کے سامنے آگئی ہے۔ اب جس کا جی چاہیے مانے، جس کا جی چاہے نہ مانے، جو مانیں گے ان کے لیے ان کا اجر ہوگا، جو نہیں مانیں گے ان کے لیے ان کا عذاب۔ پہلے فرمایا تھا جس کا جی چاہے مانے جس کا جی چاہے نہ مانے، جو نہ مانیں گے انہیں اپنی بدعملیوں کا نتیجہ بھگتنا ہے، جو مانیں گے ان کے لیے ان کی نیک عملیوں کا اجر اہے، پھر اخروی عذاب و ثواب کا نقشہ کھینچا تھا کہ منکروں کے لیے آگ کی جلن ہوگی۔ مومنوں کے لیے ہمشیگی کے باغ، اب یہ حقیقت واضح کی ہے کہ آخرت کی طرح دنیا میں بھی منکرین دعوت کو محرومیاں ملنے والی ہیں، وہ اپنی موجودہ خوشحالیوں پر مغرور نہ ہوں اور نہ مومن اپنی موجودہ بے سروسامانیاں دیکھ کر دل تنگ ہوجائیں۔ دنیا کی خوشحالیوں کا کوئی ٹھکانا نہیں۔ وہ جب مٹنے پر آتی ہیں تو لمحوں میں مٹ جاتی ہیں اور انسان کی کوئی سعی و تدبیر انہیں بچا نہیں سکتی۔ الكهف
29 الكهف
30 الكهف
31 الكهف
32 الكهف
33 الكهف
34 الكهف
35 الكهف
36 الكهف
37 الكهف
38 الكهف
39 الكهف
40 الكهف
41 الكهف
42 الكهف
43 الكهف
44 الكهف
45 چنانچہ اس حقیقت کے لیے ایک مثال بیان کی، فرض کرو دو آدمی تھے ایک کو سب کچھ میسر تھا، دوسرے کو کچھ میسر نہ تھا، پہلا گھمنڈ میں آکر دوسرے کو حقیر سمجھتا اور کہتا میں تم سے زیادہ خوشحال ہوں اور میری خوشحالی کبھی بگڑنے والی نہیں، دوسرا اسے سمجھاتا کہ ان خوش حالیوں پر مغرور نہ ہو، کون جانتا ہے ہل کے پل میں کیا سے کیا ہوجائے؟ چنانچہ ایک دن کیا ہوا کہ اس کے سارے باغ جن کی شادابیوں پر اسے ناز تھا اچانک اجڑ گئے اور وہ اپنی نامرادیوں پر کف افسوس ملتا رہ گیا۔ اس مثال میں خوشحال آدمی سے مقصود روسائے مکہ ہیں اور دوسرے آدمی سے مقصود مومنوں کی جماعت ہے، یہی وجہ ہے کہ خوشحالیوں کے لیے باغوں کا تصور پیدا کیا گیا۔ عرب میں اس سے بڑھ کر تمول و خوشحالی کی اور کوئی بات نہیں ہوسکتی تھی کہ شام کے تاکستانوں کی طرح باغ ہوں۔ گردا گرد کھجور کے درختوں کا احاطہ، وسط میں قدرتی نہر، نہر کے دونوں طرف لہلہاتی ہوئی کھیتیاں۔ پھر جو کچھ بھی ہو دنیا کی یہ خوشحالیاں ہیں کیا؟ محض چار گھڑی کی دھوپ، اس سے زیادہ انہیں قرار نہیں، اس سے زیادہ ان کی کوئی قدروقیمت نہیں۔ دنیوی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے زمین کی روئیدگی آسمان، آسمان سے پانی برستا ہے اور طرح طرحح کی سبزیوں اور لالیوں سے زمین کا گوشہ گوشہ بہشت زار ہوجاتا ہے۔ جس طرف نگاہ اٹھاؤ پھولوں کا حسن و جمال ہے یا دالوں اور پھلوں کا فیضان و نوال۔ لیکن پھر اس کے بعد کیا ہوتا ہے؟ وہی کھیت جن کا ایک ایک درخت زندگی کا سرمایہ اور بخشش نوال کا کارخانہ تھا اچانک کس عالم میں نظر آنے لگتے ہیں؟ (ھشیما تذروہ الریاح) بھوسے کے زرے جنہیں ہوا کے جھونکے اڑا کے منتشر کردیتے ہیں۔ نہ کوئی انہیں بچانا چاہتا ہے نہ وہ کسی مصرف کے ہوتے ہیں، بہت کام دیں گے تو چولھے میں جلنے کے لیے ڈال دیے جائیں گے۔ انسان کی دنیوی زندگی اور اس کی جدوجہد کی یہ کیسی مثال ہے؟ جس پہلو سے بھی دیکھو گے اس سے بہتر مثال نہیں ملے گی۔ (ا) دنیوی زندگی کی دلفریبیاں جب نکھرتی ہیں تو ٹھیک ٹھیک ان کا ایسا ہی حال ہوتا ہے۔ (ب) لیکن عارضی ہوتی ہیں۔ پائدار نہیں، قدرت نے جو وقت مقرر کر رکھا ہے جو نہی وہ پورا پوا پھر کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ (ج) زمین ایک ہے، پانی بھی ایک ہی طرح کا ہے، روئیدگی بھی ایک ہی طرح پر ہوتی ہے، مگر پھل یکساں نہیں۔ یہی حال دنیوی زندگی کا ہے، زندگی ایک طرح کی ہے مگر ہر زندگی کا پھل یکساں نہیں، فطرت کی بخشش سب کی یکساں طور پر رکھوالی کرتی ہے مگر سب ایک طرح کا پھل نہیں لاتے، کوئی اچھا ہوتا ہے کوئی ناقص کوئی بالکل نکما۔ (د) عذاب و ثواب اور سعادت و محرومی کا مسئلہ بھی حل ہوگیا، تم زمین میں کاشت کرتے ہو، لیکن کیوں کرتے ہو؟ دانے اور پھل کے لیے، پتوں اور شاخوں کے لیے نہیں، جب فصل پکتی ہے تو دانے لے لیتے ہو، جس میں تمہارے لیے نفع ہے، باقی سب کچھ چھانٹ دیتے ہو جس میں نفع نہیں، یہی حال دنیوی زندگی کا بھی ہے۔ فطرت نے وجود انسانی کی کاشت کی ہے اور اس لیے کی ہے کہ (ایکم احسن عملا) کون درخت ہے جو اچھے عمل کا پھل لاتا ہے، پس وہ پھل لے لیتی ہے، باقی جو کچھ بچ جاتا ہے چھانٹ دیتی ہے، تم سوکھی شاخوں اور پتوں کو کیا کرتے ہو؟ چولھے میں جلاتے ہو، اس نے بھی ایک چولھا گرم کر رکھا ہے اسی کا نام دوزخ ہے۔ قرآن کا یہ اسلوب کیوں ہوا کہ ایک ہی مطلب بار بار دہرایا جاتا ہے اور مختلف موقعوں پر اور مختلف شکلوں میں ایک ہی بات لوٹ لوٹ کر آتی ہے؟ ایسا نہ ہوا کہ ہماری علمی کتابوں کی طرح ضبط و ترتیب کے ساتھ تمام مطالب مدون کردیے جاتے؟ قرآن خود اس بات کو جابجا آیتوں، مثالوں اور نصیحتوں کی تصریف سے تعبیر کرتا ہے یعنی لوٹا لوٹا کر بیان کرنے سے، چنانچہ یہاں بھی اس طرف اشارہ کیا ہے اور ان مقامات پر غور کرنے سے اس کے اسلوب بیان کی علت واضھ ہوجاتی ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت (٤١) میں گزر چکا ہے : (ولقد صرفنا فی ھذا القرآن لیکذکروا) یعنی قرآن میں مطالب کا لوٹ لوٹ کر بیان میں آنا اس لیے ہے کہ تذکیر و موعظت کا ذریعہ ہو، پس معلوم ہوا اس اسلوب بیان کی علت تذکیر ہے۔ اس بات پر غور کرتے جاؤ قرآن کے اسلوب بیان کے سارے بھید کھلتے جائیں گے قرآن کا مقصد تذکیر تھا، اور تذکیر کا مقصد اسی طرح حاصل ہوسکتا تھا کہ اسلوب بیان ایک واعظ و خطیب کی موعظت کا ہو، ایک فلسفی کے درس کا نہ ہو۔ الكهف
46 الكهف
47 الكهف
48 الكهف
49 الكهف
50 الكهف
51 الكهف
52 الكهف
53 الكهف
54 آیت (٥٤) سے (٥٧) تک فرمایا تھا کہ منکرین قرآن کی شقاوت انتہائی حد تک پہنچ چکی ہے، طلب حق کی جگہ جدل و نزاع اور عبرت پزیری کی جگہ تمسخر و استہزا ان کا شیوہ ہے۔ ان کی عقلیں ماری گئی ہیں اور حواس معطل ہوچکے ہیں۔ تم کتنی ہی رہنمائی کرو، راہ پانے والے نہیں۔ پھر آیت (٥٨) میں فرمایا منکروں کی ان سرکشیوں کا نتیجہ کیوں اچانک ظہور میں نہیں آجاتا؟ کیوں ان کے لیے خوشحالیاں ہیں اور پیروان حق کے لیے درماندگیاں؟ اس لیے کہ تمہارا پروردگار رحمت والا ہے اور یہاں رحمت کا قانو کام کر رہا ہے، رحمت کا مقتضا یہی تھا کہ ایک خاص وقت تک سب کو مہلت کار ملے۔ چنانچہ مہلت کی رسی ڈھیل دے رہی ہے، لیکن جونہی مقررہ وقت آگیا پھر نتائج ٹلنے والا نہیں، اب آیت (٦٠) میں اسی معاملہ کا ایک دوسرا پہلو واضح کیا ہے، اور یہ فی الحقیقت کائنات ہستی کے مسائل میں سے ایک نہایت اہم مسئلہ کا حل ہے۔ فرمایا بلاشبہ موجودہ حالت ایسی ہی ہے کہ سرکشوں کے لیے کامرانیاں دکھائی دیتی ہیں، مومنوں کے لیے محرومیاں، لیکن صرف اتنی ہی بات دیکھ کر حقیقت حال کا فیصلہ نہ کرلو۔ یہاں معاملات کی حقیقت وہی نہیں ہوا کرتی جو بظاہر دکھائی دیا کرتی ہے۔ کتنی ہی اچھائیاں ہیں جو فی الحقیقت برائیاں ہوتی ہیں اور کتنی ہی برائیاں ہیں جو فی الحقیقت اچھائیاں ہوتی ہیں۔ تمہاری عقل صرف ظواہر دیکھ کر حکم لگادیتی ہے مگر نہیں جانتی ان ظواہر کی تہ میں کیسے بواطن پوشیدہ ہیں؟ سرکشوں کے لیے اس وقت کامرانیاں ہیں مومنوں کے لیے محرومیاں، لیکن کیا فی الحقیقت سرکشوں کی کامرانیاں، کامرانیاں ہیں اور مومنوں کی محرومیاں، محرومیاں ؟ اس کا تم فیصلہ نہیں کرسکتے، جب پردہ اٹھے گا تو دیکھ لوگے کہ حقیقت حال کیا تھی۔ اس حقیقت کی وضاحت کے لیے ایک واقعہ بیان کیا ہے، جو حضرت موسیٰ کو پیش آیا تھا۔ الكهف
55 الكهف
56 الكهف
57 یعنی ہم نے ایسا ہی قانون ٹھہرا دیا کہ جو سچائی سے اعراض کرتا ہے اس کے دلوں پر پردے پڑجاتے ہیں۔ تشریح اس کی پچھلی سورتوں کے نوٹوں میں بار بار گزر چکی ہے۔ الكهف
58 الكهف
59 الكهف
60 حضرت موسیٰ کی ملاقات جس شخص سے ہوئی اس کی نسبت فرمایا ہم نے اسے اپنے پاس سے ایک علم عطا فرمایا تھا قرآن جب کبھی کسی ایسی بات کو اس طرح بولتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ بات براہ راست ظہور میں آئی تھی۔ یعنی دنیوی ولائل کو اس میں دخل نہ تھا، پس معلوم ہوا وہ شخص صاحب وحی تھا اور اللہ نے اسے براہ راست علم عطا فرمایا تھا۔ چنانچہ آگے چل کر اس کا قول آتا ہے (ما فعلتہ عن امری) میں نے جو کچھ کیا اللہ کے حکم سے کیا اپنی سمجھ سے نہیں کیا۔ یہ علم خاص جو اسے دیا گیا تھا یقینا یہ تھا کہ بعض امور کے بواطن و اسرار اس پر کھول دیے گئے۔ حضرت موسیٰ نے ارادہ کیا تھا کہ خاموش رہیں گے لیکن ان کا ارادہ چل نہ سکا۔ ہر مرتبہ بول اٹھے اس سے معلوم ہوا انسانی عقل مجبور ہے کہ ظواہر پر حکم لگائے۔ وہ اس سے رک نہیں سکتی مگر یہیں ٹھوکر کھاتی ہے۔ کیونکہ بواطن و حقائق تک نہیں پہنچ سکتی۔ حضرت موسیٰ کے ساتھی نے تین باتیں کیں تینوں کا ظاہر برا تھا لیکن تینوں کی تہہ میں بہتری ہی بہتری تھی۔ حضرت موسیٰ ظاہر دیکھ رہے تھے لیکن ان کے ساتھی پر اللہ نے باطن روشن کردیا تھا، اگر اسی طرح ظواہر کا پردہ اٹھ جائے اور وہ حقیقتیں سب کے سامنے آجائیں جو حضرت موسیٰ کے ساتھ کے سامنے آگئی تھیں تو دنیا کا کیا حال ہو؟ سارے احکام کس طرح بدل جائیں؟ لیکن نہیں، حکمت الہی یہی ہے کہ پردہ نہ اٹھے کیونکہ اسی پردہ سے عمل کی ساری آزمائش قائم ہے اور ضروری ہے کہ آزمائش ہوتی رہے۔ اہل کتاب سے معلومات حاصل کر کے لوگوں نے بعض سوالات کیے تھے، انہی میں ایک سوال ذوالقرنین کی نسبت تھا، یہاں اس کا جواب دیا ہے، فرمایا ہم نے اسے زمین میں حکمرانی دی تھی، اور فتوحات کے سارے سازوسامان مہیا کردیے تھے۔ پھر اس کی تین مہموں کا ذکر کیا ہے : (ا) وہ پچھم کی طرف بڑھتا گیا، یہاں تک کہ ایک ایسے سمندر کے کنارے پہنچ گیا جس کا پانی کیچڑ سے ملا ہوا گدلا تھا اور معلوم ہوتا تھا روز سورج اسی پانی میں ڈوب جاتا ہے، کیونکہ حد نگاہ تک خشکی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ (ب) پھر وہ اتر کی طرف چلا، یہاں تک کہ وحشی قبائل کی ٹولیاں اسے ملیں، وہ کھلے میدانوں میں زندگی بسر کرتے تھے۔ (ج) پھر وہ نکلا اور ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں دو پہاڑوں نے دو دیواروں کی شکل اختیار کرلی ہے۔ یاجوج اور ماجود اسی راہ سے آتے تھے اور اس طرف کی بستیوں میں لوٹ مار کرتے تھے، وہاں کے باشندوں کی استدعا پر اس نے وہاں ایک دیوار بنا دی جس کی وجہ سے حملہ آوروں کا رستہ بالکل بند ہوگیا۔ جب دیوار تیار ہوگئی تو ذوالقرنین نے کہا یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ ایسا عظیم الشان کام میرے ہاتھوں انجام پایا گیا۔ اب اسے کوئی ڈھا سکتا، ہاں جب وہ مقررہ وقت آئے گا جس کی اللہ نے خبر دے دی ہے تو بلاشبہ یہ ریزہ ریزہ ہو کر رہ جائے گی اور یہاں ہر چیز کو بالآخر فنا ہونا ہے۔ الكهف
61 الكهف
62 الكهف
63 الكهف
64 الكهف
65 الكهف
66 الكهف
67 الكهف
68 الكهف
69 الكهف
70 الكهف
71 الكهف
72 الكهف
73 الكهف
74 الكهف
75 الكهف
76 الكهف
77 الكهف
78 الكهف
79 الكهف
80 الكهف
81 الكهف
82 الكهف
83 الكهف
84 الكهف
85 الكهف
86 الكهف
87 الكهف
88 الكهف
89 الكهف
90 الكهف
91 الكهف
92 الكهف
93 الكهف
94 الكهف
95 الكهف
96 الكهف
97 الكهف
98 الكهف
99 ذوالقرنین کے اس قول پر اس کی سرگزشت ختم ہوگئی۔ اب آیت (٩٩) میں فرمایا، مقررہ وقت آئے گا تو یہ قومیں نکلیں گی اور سمندر کی موجوں کی طرح ایک دوسرے پر آپڑیں گی، پھر ایک وقت آئے گا جب سب کو اکٹھا ہوجانا ہے اور اس وقت منکرین حق دیکھ لیں گے کہ دوزخ ان کے سامنے ہے۔ جب لوگوں کو جمع کرنا مقصود ہوتا ہے تو نر سنگھا پھونکا جاتا ہے، اور اس کی آواز سنتے ہی ہر گوشہ سے لوگ نکل آتے ہیں۔ْ فرمایا ایک ایسی ہی بات اس دن بھی ہونے والی ہے نر سنگھا پھونکا جائے گا کہ سب اکٹھے ہوجائیں۔ الكهف
100 الكهف
101 الكهف
102 آیت (١٠٢) سے سلسلہ خطاب پھر منکرین دعوت کی طرف متوجہ ہوگیا ہے اور اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ان کی تمام کوششیں اکارت جانے والی ہیں اور کلمہ حق کی کامیابی اٹل ہے۔ الكهف
103 آیت (١٠٣) میں انسان کی نامرادیوں کی کیسی کامل تصویر کھینچ دی ہے؟ جن لوگوں کی کوششیں اس زندگی میں کھوئی جاتی ہیں اور وہ اس دھوکے میں رہتے ہیں کہ ہم بڑے بڑے کارخانے بنا رہے ہیں۔ غور کرو۔ کتنی ہی زندگیاں ہیں جن کا ہر لمحہ طرح طرح کی کوششوں میں بسر ہوتا ہے لیکن ان کی کوئی کوشش بھی کامیاب نہیں ہوتی اور جب پردہ غفلت ہٹتا ہے تو صاف دیکھ لیتے ہیں کہ جدوجہد کی ساری نزدگی رائیگاں گئی، وہ ہمیشہ اسی دھوکے میں رہتے ہیں کہ ہم نے فلاں بات بنا لی اور فلاں کارخانہ درست کرلیا، حالانکہ بنتا ونتا کچھ بھی نہیں، سرتاسر بگڑتا ہی جاتا ہے۔ الكهف
104 الكهف
105 الكهف
106 الكهف
107 اصحاب کہف : مسیحی مذہب کے ابتدائی قرنوں میں متعدد واقعات ایسے گزرے ہیں کہ راسخ الاعتقاد عیسائیوں نے مخالفوں کے ظلم و وحشت سے عاجز آکر پہاڑوں کے غاروں میں پناہ لے لی اور آبادیوں سے کنارہ کش ہوگئے۔ یہاں تک کہ وہیں وفات پاگئے، اور ایک عرصہ کے بعد ان کی نعشیں بر آمد ہوئیں۔ چنانچہ ایک واقعہ خود روم کے اطراف میں گزرا تھا، ایک انطاکیہ کی طرف منسوب ہے، ایک افسس میں بیان کیا جاتا ہے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سورت میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ کہاں پیش آیا تھا؟ قرآن نے کہف کے ساتھ الرقیم کا لفظ بھی بولا ہے اور بعض ائمہ تابعین نے اس کا یہی مطلب سمجھا تھا کہ یہ ایک شہر کا نام ہے، لیکن چونکہ اس نام کا کوئی شہر عام طور پر مشہور نہ تھا، اس لیے اکثر مفسر اس طرف چلے گئے کہ یہاں رقیم کے معنی کتابت کے ہیں، یعنی ان کے غار پر کوئی کتبہ لگا دیا گیا تھا اس لیے کتبہ والے مشہور ہوگئے۔ الرقیم : لیکن اگر انہوں نے تورات کی طرف رجوع کیا ہوتا تو معلوم ہوجاتا کہ رقیم وہی لفظ ہے جسے تورات میں الرقیم کہا گیا ہے اور یہ فی الحقیقت ایک شہر کا نام تھا جو آگے چل کر پیڑا کے نام سے مشہور ہوا اور عرب اسے بطرا کہنے لگے۔ عالمگیر جنگ کے بعد آثار قدیمہ کی تحقیقات کو جو نئے نئے گوشے کھلے ہیں ان میں ایک پیٹرا بھی ہے اور اس کے انکشافات نے بحث و نظر کا ایک نیا میدان مہیا کردیا ہے۔ جزیرہ نمائے سینا اور خلیج عقبہ سے سیدھے شمال کی طرف بڑھیں، تو دو پہاڑی سلسلے متوازی شروع ہوجاتے ہیں اور سطح زمین بلندی کی طرف اٹھنے لگتی ہے۔ یہ علاقبہ نبطی قبائل کا علاقہ تھا اور اسی کی ایک پہاڑ سطح پر راقیم نامی شہر آباد تھا۔ دوسری صدی عیسوی میں جب رومیوں نے شام اور فلسطین کا الحاق کرلیا تو یہاں کے دوسرے شہروں کی طرف راقیم نے بھی ایک رومی نو آبادی کی حیثیت اختیار کرلی اور یہی زمانہ ہے جب پیٹرا کے نام سے اس کے عظیم الشان مندروں اور تھیٹروں کی شہرت دور دور تک پہنچی۔ ٦٤٠ ء میں جب مسلمانوں نے یہ علاقہ فتح کیا تو راقیم کا نام بہت کم زبانوں پر رہا تھا، یہ رومیوں کا پیٹرا اور عربوں کا بطرا تھا۔ جنگ کے بعد سے اس علاقہ کی ازسر نو اثری پیمائش کی جارہی ہے اور نئی نئی باتیں روشنی میں آرہی ہیں۔ ازاں جملہ اس علاقہ کے عجیب و غریب غار ہیں جو دور دور تک چلے گئے ہیں اور نہایت وسیع ہیں۔ نیز اپنی نوعیت میں ایسے واقع ہوئے ہیں کہ دن کی روشنی کسی طرح بھی ان کے اندر نہیں پہنچ سکتی۔ ایک غار ایسا بھی ملا ہے جس کے دہانے کے پاس قدیم عمارتوں کے آثار پائے جاتے ہیں اور بے شمار ستونوں کی کرسیاں شناخت کی گئی ہیں۔ خیال کیا گیا ہے کہ یہ کوئی معبد ہوگا جو یہاں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس انکشاف کے بعد قدرتی طور پر یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ اصحاب کہف کا واقعہ اسی شہر میں پیش آیا تھا اور قرآن نے صاف صاف اس کا نام الرقیم بتلا دیا ہے۔ اور جب اس نام کا ایک شہر موجود تھا تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ رقیم کے معنی میں تکلفات کیے جائیں اور بغیر کسی بنیاد کے اسے کتبہ پر محمول کیا جائے۔ علاوہ بریں دوسرے قرائن بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ قرآن نے جس طرح اس واقعہ کا ذکر کیا ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی عرب میں شہرت تھی، لوگ اس بارے میں بحثیں کیا کرتے تھے، اور اسے ایک نہایت ہی عجیب بات تصور کرتے تھے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ مشرکین عرب کے وسائل معلومات محدود تھے بہت کم امکان ہے کہ دور کی باتیں اب کے علم میں آئی ہوں۔ پس ضروری ہے کہ قرب و جوار ہی کی کوئی بات ہو اور ان لوگوں کی زبانی سنی جاسکے جن سے ہمیشہ عربوں کا ملنا جلنا رہتا ہو۔ ایسے لوگ کون ہوسکتے تھے؟ اگر اسے پیٹرا کا واقعہ قرار دیا جائے تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔ اول تو خود یہ مقام عرب سے قریب تھا، یعنی عرب کی سرحد سے ساٹھ ستر میل کے فاصلہ پر۔ ثانیا نبطیوں کی وہاں آبادی تھی اور نبطیوں کے تجارتی قافلے برابر حجاز میں آتے رہتے تھے۔ یقینا نبطیوں میں اس واقعہ کی شہرت ہوگی اور انہی سے عربوں نے سنا ہوگا۔ خود قریش مکہ کے تجارتی قافلے بھی ہر سال شام جایا کرتے تھے اور سفر کا ذریعہ وہی شاہراہ تھی جو رومیوں نے ساحل خلیج سے لے کر ساحل مارمورا تک تعمیر کردی تھی پیٹرا اسی شاہراہ پر واقع تھا۔ بلکہ اس نواح کی سب سے پہلی تجارتی منڈی تھی، اس لیے اس سے زیادہ قدرتی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہ واقعہ ان کے علم میں آگیا ہو۔ اس سلسلہ میں چند باتیں اور تشریح طلب ہیں : اصل واقعہ : (الف) آیت (٩) (ام حسبت ان اصحب الکھف والرقیم کانوا من ایتنا عجبا) کا اسلوب خطاب کہہ رہا ہے کہ کچھ لوگ اصحاب کہف والرقیم کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کا معاملہ قدرت الہی کا ایک عجیب و غریب کرشمہ سمجھا جاتا ہے۔ لوگوں نے پیغمبر اسلام سے ان کا ذکر کیا ہے اور اب وحی الہی اس معاملہ کی حقیقت واضح کر رہی ہے۔ چنانچہ پہلے مجملا اس کا خلاصہ اور نتیجہ بتلا دیا کہ جو کچھ پیش آیا تھا وہ اس سے زیادہ نہیں ہے اور جو کچھ عبرت و تذکیر کی بات ہے وہ یہ ہے۔ پھر آیت (١٣) میں فرمایا (نحن نقص علیک نباھم بالحق) اب ہم تجھے ان کی سچی خبر سنا دیتے ہیں۔ یعنی واقعہ کی چند ضروری تفصیلات بیان کردیتے ہیں چنانچہ اس کے بعد تفصیلات بیان کی ہیں۔ یہ مجمل خلاصہ جو آیت (١٠) سے (١٢) تک بیان کیا ہے، تمام سرگزشت کا ماحصل ہے، اسی کی روشنی میں بقیہ تفصیلات پڑھنی چاہیں۔ فرمایا چند نوجوان تھے جنہوں نے سچائی کی راہ میں دنیا اور دنیا کی راحتوں سے منہ موڑا اور ایک غار میں پناہ گزین ہوگئے۔ ان کے پیچھے ظلم و ستم کی قوتیں تھیں سامنے غار کی تاریکی و وحشت۔ تاہم وہ ذرا بھی ہراساں نہ ہوئے، انہوں نے کہا، خدایا ! تیری ہی رحمت کا آسرا ہے، اور تیری ہی چارہ سازی پر بھروسہ۔ چنانچہ کئی سال تک وہ وہیں رہے اور اس طرح رہے کہ دنیا کی صداؤں کی طرف سے ان کے کام بالکل بند تھے۔ پھر ہم نے انہیں اٹھا کھڑا کیا تاکہ واضح ہوجائے ان دونوں جماعتوں میں سے کون گروہ تھا جس نے اس عرصہ میں نتائج عمل کا بہتر اندازہ کیا ہے؟ ای الحزبین احصی؟ یعنی صورت حال نے دو جماعتیں پیدا کردی تھیں۔ ایک اصحاب کہف تھے، ایک انکے مخالف، ایک نے حق کی پیروی کی، دوسرے نے ظلم و تشدد پر کمر باندھی۔ یہ چند برسوں کی مدت دونوں جماعتوں پر گزری تھی، اس پر بھی جو غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوئی اور اس پر بھی جس نے غار میں پناہ لینے کے لیے انہیں مجبور کیا۔ اب دیکھا یہ تھا کہ دونوں میں سے کس نے کمایا ہے؟ اور کس نے کھویا ہے؟ کون ان دونوں میں وقت کا بہتر اندازہ شناس تھا؟ چنانچہ آگے چل کر جو تفصیلات آتی ہیں ان سے واضح ہوجاتا ہے کہ ظالم جماعت کی عمر بہت تھوڑی تھی اور بالآخر وہی راہ فتح مند ہونے والی تھی جو اصحاب کہف نے اختیار کی تھی۔ کیونکہ بالآخر مسیحی دعوت تمام ملک میں پھیل گئی اور جب کچھ عرصہ کے بعد وہ غار سے نکلے اور ایک آدمی کو آبادی میں بھیجا، تو اب مسیحی ہونا کوئی ناقابل معافی جرم نہیں تھا، عزت و سربراہی کی سب سے بڑی عظمت تھی۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان پرستار ان حق کی استقامت ہی تھی جس نے دعوت حق کو فتح مند کیا۔ اگر وہ مظالم سے تنگ آکر اتباع حق سے دست بردار ہوجاتے تو یقینا یہ انقلاب ظہور میں نہ آتا۔ (ب) اس کے بعد واقعہ کی بعض تفصیلات واضح کردی ہیں، جو لوگ خدا پرستی کی راہ اختیار کرتے تھے ان کی مخالفت میں تمام باشندے کمر بستہ ہوجاتے۔ اور اگر وہ اپنی روش سے باز نہ آتے تو سنگسار کرتے۔ یہ حالت دیکھ کر انہوں نے فیصلہ کیا، آبادی سے منہ موڑیں اور کسی غار میں معتکف ہو کر ذکر الہی میں مشغول ہوجائیں۔ چنانچہ ایک غار میں مقیم ہوگئے۔ غار کی نوعی : ان کا ایک وفادات کتا تھا، وہ بھی ان کے ساتھ غار میں چلا گیا۔ جس غار میں انہوں نے پناہ لی اور اس طرح کی واقع ہوئی ہے کہ اگرچہ اندر سے کشادہ ہے اور وہاں نہ کھلا ہوا لیکن سورج کی کرنیں اس میں راہ نہیں پاسکتیں، نہ تو چڑھتے دن میں نہ ڈھلتے میں۔ جب سورج نکلتا ہے تو داہنی جانب رہتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ جب ڈھلتا ہے تو بائیں جانب رہتے ہوئے غروب ہوجاتا ہے۔ یعنی غار اپنے طول میں شمال و جنوت رویہ واقع ہے۔ ایک طرد ہانہ ہے، دوسری طرف منفذ۔ روشنی اور ہوا دنوں طرف سے آتی ہے لیکن دھوپ کسی طرف سے بھی راہ نہیں پاسکتی۔ اس صورت حال سے بیک وقت دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک کہ زندہ رہنے کے لیے وہ نہایت محفوظ اور موزوں مقام ہے۔ کیونکہ ہوا اور روشنی کی راہ موجود ہے مگر دھوپ کی تپش پہنچ نہیں سکتی۔ پھر اندر سے کشادہ ہے، جگہ کی کمی نہیں، دوسری یہ کہ بارہ سے دیکھنے والوں کے لیے اندر کا منظر بہت ڈراؤنا ہوگیا ہے۔ کیونکہ روشنی کے منافذ موجود ہیں اس لیے بالکل اندھیرا نہیں رہتا۔ سورج کسی وقت سامنے آتا نہیں اس لیے بالکل اجا الا بھی نہیں ہوتا، روشنی اور اندھیری کی ملی جلی حالت رہتی ہے اور جس غار کی اندرونی فضا ایسی ہو، اسے باہر سے جھانک کردیکھا جائے تو اندر کی ہر چیز ضرور ایک بھیانک منظر پیش کرے گی۔ انقلاب حال : یہ لوگ کچھ عرصہ تک غار میں رہے، اس کے بعد نکلے تو انہیں کچھ اندازہ نہ تھا کتنے عرصے تک اس میں رہے ہیں۔ وہ سمجھتے تھے باشندوں کا وہی حال ہوگا جس حال میں انہیں چھوڑا تھا۔ لیکن اس عرصہ میں یہاں انقلاب ہوچکا تھا، اب غلبہ ان لوگوں کا تھا جو اصحاب کہف ہی کی طرح خدا پرستی کی راہ اختیار کرچکے تھے۔ جب ان کا ایک آدمی شہر میں پہنچا تو اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی، اب وہی لوگ جنہوں نے انہیں سنگسار کرنا چاہا تھا ان کے ایسے معتقد ہوگئے کہ ان کی غار نے زیارت گاہ عام کی حیثیت اختیار کرلی اور امرائے شہر نے فیصلہ کیا کہ یہاں ایک ہیکل تعمیر کیا جائے۔ ضرب علی الآذان : (ج) اصحاب کہف نے یہ مدت کس حال میں بسر کی تھی؟ اس بارے میں قرآن نے صرف اس قدر اشارہ کیا ہے کہ (فضربنا علی اذانھم فی الکھف سنین عددا) ضرب علی الآذان کے صاف معنی تو یہ ہیں کہ ان کے کان دنیا کی طرف سے بند ہوگئے تھے۔ یعنی دنیا کی کوئی صدا ان تک نہیں پہنچتی تھی لیکن مفسرین نے اسے نیند پر محمول کیا ہے یعنی ان پر نیند طاری ہوگئی تھی اور چونکہ نیند کی حالت میں آدمی کوئی آواز نہیں سنتا اس لیے اس حالت کو ضرب علی الاذان سے تعبیر کیا گیا۔ اس تفسیر میں اشکال یہ ہے کہ عربی میں نیند کی حالت کے لیے ضرب علی الآذان کی تعبیر ملتی نہیں، لیکن وہ کہتے ہیں یہ ایک طرح کا استعارہ ہے۔ گہری نیند کی حالت کو ضرب علی الاذان کی حالت سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ففی الکلام تجوز بطریق الاستعارۃ التبعیہ۔ اصل یہ ہے کہ اصحاب کہف کا جو قصہ عام طور پر مشہور ہوگیا تھا وہ یہی تھا کہ غار میں برسوں تک سوتے رہے اس لیے یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ بعد کو بھی اسی طرح روایتیں مشہور ہوگئیں۔ عرب میں قصہ کے اصلی روامی شام کے نبطی تھے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اس قصہ کی اکثر تفصیلات تفسیر کے انہی روایوں پر جاکر منتہی ہوتی ہیں جو اہل کتاب کے قصوں کی روایت میں مشہور ہوچکے ہیں مثلا ضحاک اور سدی۔ بہرحال اگر یہاں ضرب علی الآذان سے مقصود نیند کی حالت ہو تو پھر مطلب یہ قرار پائے گا کہ وہ غیر معمولی مدت تک نیند کی حالت میں پڑے رہے اور (ثم بعثناھم) کا مطلب یہ کرنا پڑے گا کہ اس کے بعد نیند سے بیدار ہوگئے۔ یہ بات کہ ایک آدمی پر غیر معمولی مدت تک نیند کی حالت طاری رہے اور پھر بھی زندہ رہے طبی تجارب کے مسلمات میں سے ہے اور اس کی مثالیں ہمیشہ تجربہ میں آتی رہتی ہیں۔ پس اگر اصحاب کہف پر قدرت الہی سے کوئی ایسی حالت طاری ہوگئی ہو جس نے غیر معمولی مدت تک انہیں سلائے رکھا تو یہ کوئی مستبعد بات نہیں۔ البتہ قرآن حکیم کی تصریح اس بارے میں ظٓہر اور قطعی نہیں ہے اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ جزم و یقین کے ساتھ کچھ نہ کہا جائے۔ آیت (١٨) (وتحسبھم ایقاظا وھم رقود) میں اس صورت حال کی طرف اشارہ کیا ہے جو نزول قرآن کے وقت تھی یا جو حالت اس غار کی ایک مدت تک رہی۔ اس سے معلوم ہوا کہ انقلاب حال کے بعد اصحاب کہف نے غار کی گوشہ نشینی ترک نہیں کی تھی، اسی میں رہے، یہاں تک کہ انتقال کرگئے۔ ان کے انتقال کے بعد غار کی حالت ایسی ہوگئی کہ باہر سے کوئی دیکھے تو معلوم ہو زندہ آدمی موجود ہیں۔ دہانے کے قریب ایک کتا دونوں ہاتھ آگے کیے بیٹھا ہے۔ حالانکہ نہ تو آدمی زندہ ہیں نہ کتا ہی زندہ ہے۔ تفسیر : (وتحسبھم ایقاظا وھوم رقود : لیکن باہر سے دیکھنے والا انہیں زندہ اور جاگتا کیوں سمجھے؟ اگر ان کی نعشیں پڑی ہیں تو نعشوں کو کوئی زندہ تصور نہیں کرسکتا، اگر رقود سے مقصود سونے کی حالت ہے اور وہ لیٹے ہوئے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک لیٹا ہوا آدمی دیکھنے والے کو جاگتا دکھائی دے۔ مفسرین نے یہ اشکال محسوس کیا لیکن اس کا کوئی حل دریافت نہ کرسلے۔ بعضوں نے کہا وہ اس لیے جاگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ آنکھیں کھلی ہوئی ہیں لیکن اگر ایک بے حس و حرکت نعش پڑی دکھائی دے اور اس کی آنکھیں کھلی ہوں تو دیکھنے والا اسے ہوشیار بیدار کیوں سمجھنے لگا؟ یہی سمجھے گا کہ مرگیا ہے مگر آنکھیں کھلی رہ گئی ہیں۔ بعضوں نے کہا (نقلبھم ذات الیمین وذات الشمال) کی وجہ سے وہ بیدار دکھائی دیتے ہیں یعنی چونکہ دہنے بائیں کروٹ بدلتی رہتی ہے اس لیے دیکھنے والا خیال کرتا ہے یہ بیدار ہیں۔ لیکن یہ توجیہ پہلے سے بھی زیادہ بے معنی ہے۔ اول تو کروٹ بدلنا بیداری کی دلیل نہیں، آدمی گہری سے گہری نیند میں ہوتا ہے اور کروٹ بلدتا ہے۔ ثانیا اگر کروٹ بدلتے ہوں گے تو کچھ وقفہ کے بعد بدلتے ہوں گے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ہر آن کروٹ بدلتے ہی رہتے ہوں اور جب کبھی کوئی جھانک کر دیکھے انہیں کروٹ بدلتا ہی پائے۔ لطف یہ ہے کہ (نقلبھم ذات الیمین وذات الشمال) کی تفسیر میں یہی مفسر ہمیں بتلاتے ہیں کہ بعضوں کے نزدیک سال میں دو دفعہ کروٹ بدلتی ہے، بعضوں کے نزدیک ایک مرتبہ۔ بعض کہتے ہیں تین سال بعد، بعض کہتے ہیں نو سال بعد۔ علاوہ بریں قرآن نے یہ بات جس اسلوب و شکل میں بیان کی ہے اس پر ان نکتہ سنجوں نے غور نہیں کیا (لواطلعت علیھم لولیت منھم فرارا ولملئت منھم رعبا) یعنی غار کے اندر کا منظر اس درجہ دہشت انگیز ہے کہ اگر تم جھانک کر دیکھو تو خوف کے مارے کانپ اٹھو اور الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہو۔ اس سے معلوم ہوا غار کے اندر اصحاب کہف کے اجسام نے ایسا منظر پیدا کردیا ہے جو بے حد دہشت انگیز ہے۔ اگر کوئی آدمی باہر سے دیکھے تو دیکھنے کے ساتھ ہی اس پر دہشت چھا جائے۔ معا الٹے پاؤں بھاگ کھڑا ہو۔ اب اگر اندر کا منظر صرف اتنا ہی تھا کہ چند آدمی لیٹے ہوئے ہیں اور آنکھیں کھلی ہوئی ہیں تو یہ کوئی ایسی بات نہ تھی جس سے اس درجہ دہشت انگیزی پیدا ہوسکے۔ علاوہ بریں جو آدمی باہر سے جھانکے گا وہ اتنا باریک بیں نہیں ہوسکتا کہ غار کی تاریکی میں لیٹے ہوئے آدمیوں کی آنکھیں بھی بہ اول نظر دیکھ لے اور وہ بھی اس حالت میں کہ دہنے یا بائیں کروٹ پر لیٹے ہوئے ہوں۔ مفسرین کی حیرانیاں اور انکشاف حقیقت : دراصل یہ سارا معاملہ ہی دوسرا ہے اور جب تک مفسرین کے پیدا کیے ہوئے تخیل سے بالکل الگ ہو کر تحقیق نہ کی جائے، اصلیت کا سراغ نہیں مل سکتا۔ سب سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جو حالت اس آیت میں بیان کی گئی ہے وہ کس وقت کی ہے؟ اس وقت کی ہے جب وہ نئے نئے غار میں جاکر مقیم ہوئے تھے؟ یا اس وقت کی جب انکشاف حال کے بعد دوبارہ معتکف ہوگئے؟ مفسرین نے خیال کیا اس کا تعلق پہلے وقت سے ہے اور یہی بنیادی غلطی ہے جس نے سارا الجھاؤ پیدا کردیا ہے، دراصل اس کا تعلق بعد کے حالات سے ہے، یعنی جب وہ ہمیشہ کے لیے غار میں گوشہ نشین ہوگئے، اور پھر کچھ عرصہ کے بعد وفات پاگئے تو غار کے اندرونی منظر کی یہ نوعیت ہوگئی تھی (وتحسبھم ایقاظا وھم رقود) میں ایقاظ سے مقصود ان کا زندہ ہونا ہے اور رقوم سے مردہ ہونا۔ نہ کہ بیداری اور خواب۔ چنانچہ عربی میں زندگی و موت کے لیے یہ تعبیر عام و معلوم ہے۔ پھر یہ بات سامنے لانی چاہیے کہ یہ واقعہ مسیحی دعوت کی ابتدائی صدیوں کا ہے، اور جنہیں پیش آیا تھا وہ عیسائی تھے، صرف اتنی بات پر غور کرنے سے سارا معاملہ حل ہوجاتا ہے۔ مسیحی دعوت کے ابتدائی قرنوں ہی میں زہد و انزوا کی ایک خاص زندگی شروع ہوگئی تھی جس نے آگے چل کر رہبانیت (مناسٹک ازم) کی مختلف شکلیں اختیار کرلیں۔ اس زندگی کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ لوگ ترک علائق کے بعد کسی پہاڑ کی غار میں یا کسی غیر آباد گوشہ میں معتکف ہوجاتے تھے۔ اور پھر ان پر استغراق عبادت کی ایسی حالت طاری ہوجاتی تھی کہ وضع و نشست کی جو حالت اختیار کرلیتے اسی میں پڑے رہتے۔ یہاں تک کہ زندگی ختم ہوجاتی۔ مثلا اگر قیام کی حالت میں مشغول ہوئے تھے تو برابر کھڑے ہی رہتے اور اسی حالت میں جان دے دیتے۔ اگر گھٹنے کے بل رکوع کی حالت اختیار کی تھی تو یہی حالت آخر تک قائم رہتی۔ اگر سجدے میں سر رکھ دیا تھا تو پھر سجدے ہی میں پڑے رہتے اور مرنے کے بعد بھی اسی وضع میں نظر آتے، زیادہ تر گھٹنے کے بل رکوع کی وضع اختیار کی جاتی تھی۔ کیونکہ عیسائیوں میں تعبد و تضرع کے لیے یہی وضع رائج ہوگئی تھی۔ غذا کی طرف سے یہ لوگ بالکل بے پروا ہوتے تھے، اگر آبادی قریب ہوتی تو لوگ روٹی اور پانی پہنچا دیا کرتے، نہیں ہوتی تو یہ اس کی جستجو نہیں کرتے، عبادت کا استغراق جستجو کی مہلت ہی نہیں دیتا۔ اس اعتبار سے ان کی حالت ویسی ہی تھی جیسی ہندوستان کے یوگیوں کی رہ چکی ہے اور اب بھی گاہ گاہ نظر آجاتی ہے۔ جس طرح زندگی میں انہیں کوئی نہیں چھیڑتا تھا، اسی طرح مرنے کے بعد بھی کوئی اس کی جرات نہ کرتا، مدتوں تک ان کی نعشیں اسی حالت میں باقی رہتیِ جس حالت میں انہوں نے زندگی کے آخری لمحے بسر کیے تھے۔ اگر موسم موافق ہوتا اور درندہ سے حفاظت ہوتی تو صدیوں تک ڈھانچے باقی رہتے اور فاصہ سے دیکھنے والا انہیں زندہ انسان تصور کرتا۔ چنانچہ ویٹی گان کے تہ خانوں میں بے شمار ڈھانچے آج تک محفوظ ہیں جو اسی طرح کے مقامات سے بر آمد ہوئے تھے اور اپنی اصلی وضع و ہیئت پر باقی تھے۔ ابتدا میں اس غرض سے زیادہ تر پہاڑوں کی غاریں یا پرانی عمارتوں کے کھنڈر اختیار کیے گئے تھے، لیکن آگے چل کر یہ طریقہ اس درجہ عام ہوگیا کہ خاص خاص عمارتیں اس غرض سے تعمیر کی جانے لگیں۔ یہ عمارتیں اس طرح بنائی جاتی تھیں کہ ان میں آمد و رفت کے لیے کوئی دروازہ نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ جو جاتا تھا وہ پھر باہر نہیں نکلتا تھا۔ صرف ایک چھوٹی سی سلاخ دار کھڑکی رکھی جاتی تھی جو ہوا اور روشنی کا ذریعہ ہوتی اور اسی کے ذریعہ سے لوگ غذا بھی پہنچا دیتے۔ بعد کو جب مناسٹک ازم (رہبانیت) کے باقاعدہ ادارے قائم ہوگئے تو اس طرح کے انفرادی انزوا کی مثالیں کم ہوتی گئیں۔ تاہم تاریخ کی شہادت موجود ہے کہ ازمنہ و سطی تک یہ طریقہ ععام طور پر جاری تھا اور یورپ کی کوئی آبادی ایسی نہ تھی جو اس طرح کی عمارتوں سے خالی ہو۔ ان مقامات کو عام طور پر Sogette کہتے تھے اور جب ایک راہب یا راہبہ کا ان میں انتقال ہوجاتا تو ان پر یہ لاطینی لفظ کندہ کردیا جاتا کہ TU- ORA یعنی اس کے لیے دعا کرو۔ تمام تاریخیں متفق ہیں کہ مسیحی رہبانیت سب سے پہلے مشرق میں شروع ہوئی اور اس کا بڑا مرکز فلسطین اور مصر تھا۔ پھر چوتھی صدی مسیحی میں یہ یورپ پہنچی اور سینٹ بینی ڈکٹ (Benedict) نے سب سے پہلے اس کے قواعد و ضوابط منضبط کیے۔ سینٹ بینی ڈکٹ نے بھی ایک پہاڑ کی غار ہی میں گوشہ نشینی اختیار کی تھی۔ مسیحی رہبانیت کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اس کی ابتدا اضطراری حالات سے ہوئی تھی۔ آگے چل کر اس نے ایک اختیاری عمل کی نوعیت پیدا کرلی۔ یعنی ابتدا میں لوگوں نے مخالفوں کے ظلم و تشدد سے مجبور ہو کر غاروں اور جنگلوں میں گوشہ نشینی اختیار کی، پھر ایسے حالات پیش آئے کہ یہ اضطرای طریقہ زہد و تعبد کا ایک اختیار اور مقبول طریقہ بن گیا۔ مزید تشریح اس مقام کی سورۃ حدید کی تشریحات میں ملے گی۔ بہرحال معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب کہف کا معاملہ بھی تمام تر اسی نوعیت کا تھا، ابتدا میں قوم کے ظلم نے انہیں مجبور کیا تھا کہ غار میں پناہ لیں، لیکن جب کچھ عرصہ تک وہاں مقیم رہے تو زہد و عبادت کا استغراق کچھ اس طرح ان پر چھا گیا کہ پھر دنیا کی طرف لوٹنے پر آمادہ نہ ہوسکے اور گو ملک کی حالت بدل گئی تھی لیکن وہ بدستور غار ہی میں معکتف رہے۔ یہاں تک کہ ان کا انتقال ہوگیا، انتقال اس حال میں ہوا کہ جس شخص نے ذکر و عبادت کی جو وضع اختیار کرلی تھی وہی وضع آخری لمحوں تک باقی رہی، ان کے وفادار کتنے بھی آکر تک ان کا ساتھ دیا۔ وہ پاسبانی کے لیے دہانے کے قریب بیٹھا رہتا تھا جب اس کے مالک مرگئے تو اس نے بھی وہیں بیٹھے بیٹھے دم توڑ دیا۔ اب اس واقعہ کے بعد غار کے اندرونی منظر نے ایک عجیب دہشت انگیز نوعیت پیدا کرلی، اگر کوئی باہر سے جھانک کر دیکھے تو اسے راہبوں کا ایک پورا مجمع ذکر و تعبد میں مشغول دکھائی دے گا۔ کوئی گھٹنے کے بل رکوع کی حالت میں ہے، کوئی سجدے میں پڑا ہے، کوئی ہاتھ جوڑے اوپر کی طرف دیکھ رہا ہے، دہانے کے قریب ایک کتاب ہے، وہ بھی بازو پھیلائے باہر کی طرف منہ کیے ہوئے ہے۔ یہ منظر دیکھ کر ممکن نہیں کہ آدمی دہشت سے کانپ نہ اٹھے۔ کیونکہ اس نے یہ سمجھ کر جھانکا تھا کہ مردوں کی قبر ہے، مگر منظر جو دکھائی دیا وہ زندہ انسانوں کا ہے۔ (ز) یہ تفسیر سامنے رکھ کر معاملہ کے تمام پہلوؤں پر نظر ڈالو، ہر بات اس طرح واضح ہوجاتی ہے گویا تمام قفلوں کو کھلنے کے لیے صرف اسی ایک کنجی کا انتظار تھا (وتحسبھم ایقاظا وھم رقود) کا مطلب بھی ٹھیک ٹھیک اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ کسی دوراز کار توجیہ کی ضرورت باقی نہیں رہی کیونکہ اس طرح کا منظر یہی خیال پیدا کرے گا کہ لوگ زندہ ہیں۔ حالانکہ زندہ نہیں۔ (لواطلعت علیھم لولیت منھم فرارا ولملئت منھم رعبا) کی علت بھی سامنے آگئی اور وہ تمام بے معنی توجیہیں غیر ضروری ہوگئیں جن پر امام رازی مجبور ہوگئے ہیں۔ اگر تم کسی قبر کے اندر جھانک کر دیکھو اور تمہیں مردہ نعش کی جگہ ایک آدمی نماز پڑھتا دکھائی دے تو تمہارا کیا حال ہوگا؟ یقینا مارے دہشت کے چیخ اٹھو گے۔ اسی طرح (نقلبھم ذات الیمین وذات الشمال) کی تفسیر میں بھی کسی تکلف کی احتیاج باقی نہ رہی۔ غار شمال و جناب رویہ واقع تھا۔ اور ان دونوں جہتوں میں ہوا اور روشنی کے منافذ تھے۔ جیسا کہ آیت (وتری الشمس اذا اطلعت) سے متبادر ہوتا ہے۔ پس بالمقابل منافذ ہونے کی وجہ سے ہوا برابر اندر چلتی رہتی اور ان کے ڈھانچے دہنے سے بائیں اور بائیں سے دہنی جانب اس طرح متحرک رہتے تھے، جیسے ایک زندہ آدمی ایک طرف سے پلٹ کر دوسری طرف دیکھے۔ ذلک من ایات اللہ : اس تفسیر کے بعد اس سوال کا جواب بھی خودبخود مل گیا کہ قرآن نے خصوصیت کے ساتھ یہ بات کیوں بیان کی کہ سورج کی کرنیں غار کے اندر نہیں پہنچتیں جیسا کہ آیت (١٧) میں ہے اور کیوں اسے قدرت الہی کی ایک نشانی فرمایا کہ (ذلک من آیات اللہ) معلوم ہوگیا کہ یہ دراصل اس بات کی تمہید تھی جو بعد کو آیت (١٨) میں بیان کی گئی ہے کہ (تحسبھم ایقاظا وھم رقود) یعنی چونکہ یہ بات بیان کرنی تھی کہ مرنے کے بعد ان کی نعشیں عرصہ تک باقی رہیں حتی کہ دیکھنے والوں کو زندہ انسانوں کا گمان ہوتا تھا اس لیے پہلے اس کی علت واضح کردی کہ جس غار میں معتکف ہوئے تھے وہ اس طرح کی غار تھی کہ انسانی جسم زیادہ سے زیادہ عرصہ تک اس میں قائم رہ سکتا تھا۔ کیونکہ سورج کی روشنی اس میں پہنچتی رہتی تھی، لیکن سورج کی تپش کا اس میں گزر نہ تھا، جو چیز نعش کو جلد گلا سڑا دیتی ہے وہ سورج کی تپش ہے اور جو چیز تازگی پیدا کرتی ہے وہ ہوا اور روشنی ہے۔ ہوا چلتی رہتی تھی روشنی پہنچتی رہتی ہے مگر تپش سے پوری حفاظت تھی۔ وذلک من ایات اللہ۔ (ثلاث مائۃ سنین) کی تفسیر : (ح) (ولبثوا فی کھفھم ثلاث مائۃ سنین وازدادوا تسعا) کا کیا مطلب ہے؟ کیا یہ خود قرآن کی تصریح ہے کہ وہ لوگ اتنی مدت تک غار میں پڑے رہے؟ لیکن اگر ایسا ہے تو پھر اس کے بعد کیوں فرمایا کہ (قل اللہ اعلم بما لبثوا) مفسرین کو اس اشکال کے دور کرنے میں طرح طرح کے تکلفات کرنے پڑے حالانکہ صاف مطلب وہی ہے جو حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے، یعنی جس طرح پہلے ان کی تعداد کے بارے میں لوگوں کے مختلف اقوال نقل کیے تھے اسی طرح یہاں مدت بقا کے بارے میں لوگوں کا قول نقل کیا ہے۔ یعنی لوگ کہتے ہیں غار میں تین سو برس تک رہے، بعضوں نے اس پر نو برس اور بڑھا دیے، تم کہہ دو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ فی الحقیقت کتنی مدت گزر چکی ہے۔ پس یہ قرآن کی تصریح ہے لوگوں کا قول ہے اور سیقولون سے نقل اقوال کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اسی سلسلہ کی یہ آخری کڑی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی ایسی ہی تفسیر مروی ہے۔ (ط) امام قرطبی نے حضرت ابن عباس کا قول نقل کی ہے کہ اولئک قوم فنوا وعدموا منذ مدۃ طویلہ۔ یعنی اصحاب کہف کی موت پر ایک مدت گزر چکی ہے۔ ان کے اجسام فنا ہوگئے جس طرح ہر جسم فنا ہوجاتا ہے۔ ایک روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شام کی غزوات میں بعض صحابہ کا گزر اصحاب کہف کی غار پر ہوا تھا اور انہیں ان کی ہڈیاں ملی تھیں۔ اگر یہ روایت صحیح ہو تو اس سے اس کی بھی مزید تصدیق ہوگئی کہ یہ واقعہ پیٹرا میں پیش آیا تھا۔ مسیحی رہبانیت کے طریقہ کی نسبت مندرجہ صدر بیان میں جو اشارات کیے گئے ہیں، ان کی تفصیلات کے لیے حسب ذیل کتابیں دیکھنی چاہیے : The paradise of Garden of the Holy fathers, By E.A.W Budge. The Evolution of the Monaste Ideal, By H.Workman. Five Centuries of Religion, by G.G Coulton The Medieval Mind, By H.۔ Taylor صاحب موسیٰ (علیہ السلام) : آیت (٦٥) میں حضرت موسیٰ کے جس شخص سے ملنے کا ذکر کیا گیا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ نے ایک خاص علم عطا فرمایا تھا وہ کون تھا؟ اس بارے میں قرآن نے کوئی تصریح نہیں کی ہے، لیکن صحیحین کی روایت سعید بن جبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا نام خضر تھا۔ اس بارے میں بہت سی روایتیں مفسرین نے نقل کی ہیں جن کی صحت نظر ہے اور تصریحات متناقص، اور زیادہ تر اسرائیلیات سے ماخوذ ہیں۔ ذوالقرنین : اس سورت میں تیسرا واقعہ جو بیان کیا گیا ہے وہ ذوالقرنین کا ہے، کیونکہ لوگوں نے اس بارے میں سوال کیا تھا۔ تمام مفسرین متفق ہیں کہ سوال یہودیوں کی جانب سے تھا، اگرچہ غالبا مشرکین مکہ کی زبانی ہوا، کیونکہ سورت مکی ہے۔ (الف) قرآن نے ذوالقرنین کی نسبت جو کچھ بیان کیا ہے اس پر بحیثیت مجموعی نظر ڈالی جائے تو حسب ذیل امور سامنے آجاتے ہیں : اولا : جس شخصیت کی نسبت پوچھا گیا ہے وہ یہویوں میں ذوالقرنین کے نام سے مشہور تھی یعنی ذوالقرنین کا لقب خود قرآن نے تجویز نہیں کیا ہے، پوچھنے والوں کا مجوزہ ہے کیونکہ فرمایا (ویسئلونک عن ذی القرنین) ثانیا : اللہ نے اپنے فضل و کرم سے اسے حکمرانی عطا فرمائی تھی اور ہر طرح کا سازوسامان جو ایک حکمراں کے لیے ہوسکتا تھا اس کے لیے فراہم ہوگیا تھا۔ ثالثا : اس کی بڑی مہمیں تین تھیں۔ پہلے مغربی ممالک فتح کیے، پھر مشرقی، پھر ایک ایسے مقام تک فتح کرتا ہوا چلا گیا جہاں پہاڑی درہ تھا اور اس کی دوسری طرف سے یاجوج ماجوج آخر لوٹ مار مچایا کرتے تھے۔ رابعا : اس نے وہاں ایک نہایت محکم سدی تعمیر کردی اور یاجوج و ماجوج کی راہ بند ہوگئی۔ خامسا : وہ ایک عادل حکمراں تھا۔ جب وہ مغرب کی طرف تح کرتا ہوا دور تکچ لا گیا تو ایک قوم ملی جس نے خیال کیا کہ دنیا کے تمام بادشاہوں کی طرح ذوالقرنین بھی ظلم و تشدد کرے گا۔ لیکن ذوالقرنین نے اعلان کیا کہ بے گناہوں کے لیے کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ جو لوگ نیک عملی کی راہ چلیں گے، ان کے لیے ویسا ہی اجر بھی ہوگا۔ البتہ ڈرنا انہیں چاہیے جو جرم و بدعملی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ سادسا : وہ خدا پرست اور راست باز انسان تھا اور آخرت کی زندگی پر یقین رکھتا تھا۔ سابعا : وہ نفس پرست پادشاہوں کی طرح طامع اور حریص نہ تھا۔ جب ایک قوم نے کہا یاجوج ماجوج ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ آپ ہمارے اور انکے درمیان ایک سد تعمیر دکیں، ہم خراج دیں گے، تو اس نے کہا (ما مکنی فیہ ربی خیر) جو کچھ خدا نے مجھے دے رکھا ہے وہی میرے لیے بہتر ہے۔ میں تمہارے خراج کا طامع نہیں، یعنی میں خراج کی طمع سے یہ کام نہیں کروں گا۔ اپنا فرض سمجھ کر انجام دوں گا۔ تاریخ قدیم کی جس شخصیت میں یہ تمام اوصاف و اعمال پائے جائیں، وہی ذوالقرنین ہوسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کون شخص تھا؟ مفسرین کی حیرانی : سب سے پہلا حل طلب مسئلہ جو مفسرین کے سامنے آیا وہ اس کے لقب کا تھا۔ عربی میں بھی اور عبرانی میں بھی قرن کے صاف معنی سینگ کے ہیں۔ پس ذوالقرنین کا مطلب ہو اور دو سینگوں والاں، لیکن چونکہ تاریخ میں کسی ایسے بادشاہ کا سراغ نہیں ملا جس کا ایسا لقب رہا ہو اس لیے مجبورا قرن کے معنی میں طرح طرح کے تکلفات کرنے پڑے۔ پھر چونکہ فتوحات کی وسعت اور مغرب و مشرق کی حکمرانی کے لحاظ سے سکندر مقدونی کی شخصیت سب سے زیادہ مشہور رہی ہے اس لیے متاخرین کی نظریں اسی کی طرف اٹھ گئیں۔ چنانچہ امام رازی نے سکندر ہی کو ذوالقرنین قرار دیا ہے۔ اور اگرچہ حسب عادت وہ تمام اعتراضات نقل کردیے ہیں جو اس تفسیر پر وارد ہوتے ہیں لیکن پھر حسب عادل ان کے بے محل جوابات پر مطمئن بھی ہوگئیے ہیں۔ حالانکہ کسی اعتبار سے بھی قرآن کا ذوالقرنین سکندر مقدونی نہیں ہوسکتا، نہ تو وہ خدا پرست تھا، نہ عادل تھا، نہ مفتوح قوموں کے لیے فیاض تھا اور نہ اس نے کوئی سد ہی بنائی۔ بہرحال مفسرین ذوالقرنین کی شخصیت کا سراغ نہ لگا سکے۔ دانیال نبی کا خواب : اگر ذوالقرنین کے مفہوم کا کوئی سراغ ملتا تھا تو وہ صڑف ایک دور کا اشارہ تھا جو حضرت دانیال کی کتاب میں ملتا ہے۔ یعنی ایک خواب جو انہوں نے بابل کی اسیری کے زمانے میں دیکھا تھا۔ بابل کی اسیری کا زمانہ یہودیوں کے لیے نہایت مایوسی کا زمانہ تھا۔ ان کی قومیت پامال ہوچکی تھی ان کا ہیکل منہدم ہوچکا تھا۔ ان کے شہر اجاڑ تھے اور وہ نہیں جانتے تھے کہ اس ہلاکت کے بعد ان کی زندگی کا کیا سامان ہوسکتا ہے۔ اسی زمانہ میں حضرت دانیال کا ظہور ہوا جو اپنے علم و حکمت کی وجہ سے شاہان بابل کے دربار میں نہایت مقرب ہوگئے تھے، انہی کی نسبت تورات میں بیان کیا گیا ہے کہ بیلش ضار شاہ بابل کی سلطنت کے تیسرے برس انہوں نے ایک خواب دیکھا تھا اور اس خواب میں انہیں آنے والے واقعات کی بشارت دی گئی تھی۔ چنانچہ کتاب دانیال میں ہے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ندی کے کنارے ایک مینڈھا کھڑا ہے جس کے دو سینگ ہیں، دونوں سینگ اونچے تھے لیکن ایک دوسرے سے بڑا تھا اور بڑا دوسرے کے پیچھے تھا، میں نے دیکھا کہ پچھم اتر اور دکھن کی طرف وہ سینگ مارتا ہے۔ یہاں تک کہ کوئی جانور اس کے سامنے کھڑا نہ رہ سکا اور وہ بہت بڑا ہوگیا۔ میں یہ بات سوچ ہی رہا تھا کہ دیکھو، پچھم کی طرف سے ایک بکرا آکے تمام روئے زمین پر پھر گیا۔ اس بکرے کی دونوں آنکھوں کے درمیان ایک عجیب طرحح کا سینگ تھا۔ وہ دو سینگ والے مینڈھے کے پاس آیا اور اس پر غضب سے بھڑکا اور اس کے دونوں سینگ توڑ ڈالے اور مینڈھے کو قوت نہ تھی کہ اس کا مقابلہ کرے۔ (دانیا : ١: ٨) پھر اس کے بعد ہے کہ جبرئیل نمایاں ہوا اور اس نے اس خواب کی یہ تعبیر بتلائی کہ دو سینگوں والا مینڈھا مادہ اور فارس کی بادشاہت ہے اور بال والا بکرا یونان کی، جو بڑا سینگ اس کی آنکھوں کے درمیان دکھائی دیا ہے وہ اس کا پہلا بادشاہ ہوگا۔ (١٥: ٨) دو سینگوں والی شہنشائی : اس بیان سے معلوم ہوا کہ مادہ (میڈیا) اور فارس کی مملکتوں کو دو سینگوں سے تشبیہ دی گئی تھی اور چونکہ یہ دونوں مملکتیں ملکر ایک شہنشاہی بننے والی تھیں اس لیے شہنشاہ مادہ و فارس کو دو سینگوں والے مینڈھے کی شکل میں ظاہر کیا گیا۔ پھر اس مینڈھے کو جس نے شکست دی وہ یونان کے بکرے کا پہلا سینگ تھا یعنی سکندر مقدونی تھا جس نے فارس پر حملہ کیا اور کیانی شہنشاہی کا خاتمہ ہوگیا۔ اس خواب میں بنی اسرائیل کے لیے بشارت یہ تھی کہ ان کی آزادی و خوشحالی کا نیا دور اسی دو سینگوں والی شہنشاہی کے ظہور سے وابسہ تھا۔ یعنی شہشناہ فارس بابل پر حملہ کر کے فتح مند ہونے والا تھا، اور پھر اسی کے ذریعہ سے بیت المقدس کی ازسرنو تعمیر اور یہودی قومیت کی دوبارہ شیرازہ بندی ہونے والی تھی۔ چنانچہ چند برسوں کے بعد سائرس کا ظہور ہوا۔ اس نے میڈیا اور پارس کی مملکتیں ملا کر ایک عظیم الشان شہنشاہی قائم کردی ہے اور پھر بابل پر پے در پے حملے کر کے اسے مسخر کرلیا۔ چونکہ اس خواب میں میڈیا اور فارس کی مملکتوں کو دو سینگوں سے تشبیہ دی گئی تھی، اس لیے خیال ہوتا تھا کہ عجب نہیں فارس کہ شہنشاہ کے لیے یہودیوں میں ذوالقرنین کا تخیل پیدا ہوگیا ہو۔ یعنی دو سینگوں والی شہنشاہی اور وہ اسے اس لقب سے پکارتے ہوں۔ تاہم یہ محض ایک قیاس تھا۔ اس کی تائید میں کوئی تاریخی شہادت موجود نہ تھی۔ سائرس کے مجسمہ کا انکشاف : لیکن ١٨٣٨ ء کے ایک انکشاف نے جس کے نتائج بہت عرصہ کے بعد منظر عام پر آئے، اس قیاس کو ایک تاریخی حقیقت ثابت کردیا اور معلوم ہوگیا کہ فی الحقیقت شہنشاہ سائرس کا لقب ذوالقرنین تھا اور یہ محض یہودیوں کا کوئی مذہب تخیل نہ تھا بلکہ خود سائرس کا یا باشندگان فارس کا مجوزہ اور پسندیدہ نام تھا۔ اس انکشاف نے شک و تخمین کے تمام پردے اٹھا دیے۔ یہ خود سائرس کی ایک سنگی تماثل ہے جو اصطخر کے کھنڈروں میں دستیاب ہوئی اس میں سائرہ کا جسم اس طرح دکھایا گیا ہے کہ اس کے دونوں طرف عقاب کی طرح پر نکلے ہوئے ہیں اور سر پر مینڈھے کی طرح دو سینگ ہیں۔ اوپر خط میخی میں جو کتبہ کندہ تھا اس کا بڑا حصہ ٹوٹ کر ضائع ہوچکا ہے مگر جس قدر باقی ہے وہ اس کے لیے کافی ہے کہ تمثال کی شخصیت واضح ہوجائے۔ اس سے معلوم ہوگیا کہ ماد اور فارس کی مملکتوں کو دو سینگوں سے تشبیہ دینے کا تخیل ایک مقبول اور عام تخیل تھا۔ اور یقینا سائرس کو ذوالقرنین کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ تمثال میں پروں کا ہونا اس کے ملکوتی صفات و فضائل کی طرف اشارہ ہے کیونکہ نہ صرف پارسیوں میں بلکہ تمام معاصر قوموں میں یہ اعتقاد عام طور پر پیدا ہوگیا تھا کہ وہ ایک غیر معمولی نوعیت کا انسان ہے۔ دو سینگوں کا تخیل ابتدا میں کیونکر پیدا ہوا؟ کیا اس کی بنیاد دانیال نبی کا خواب تھا یا بطور خود سائرس نے یا باشندگان پارس نے یہ تصور پیدا کیا؟ اس کا فیصلہ مشکل ہے لیکن اگر تورات کی روایات تسلیم کرلی جائیں تو سارئس سے لے کر ارٹازر کسیز (ارتششت) اول تک تمام شہنشاہان پارس انبیائے بنی اسرائیل سے عقیدت رکھتے تھے، اور اس لیے ہوسکتا کہ اسی خواب سے ذوالقرنین کا لقب پیدا ہوگیا ہو۔ بہرحال اب اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہی کہ سائرس کو ذوالقرنین سمجھا جاتا تھا اور یقینا عرب کے یہودی بھی اسے اسی لقب سے پکارا کرتے تھے۔ (ب) اس حقیقت کی وضاحت کے بعد جب سائرس کے ان حالات پر نظر ڈالی جاتی ہے تو یونانی مورخوں کی زبانی ہم تک پہنچے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے بیان کی ہو بہو تصویر ہے اور دونوں بیان اس درجہ باہم مطابقت رکھتے ہیں کہ ممکن نہیں کسی دسری شخصیت کا وہم و گمان بھی کیا جاسکے۔ سائرس کے حالات کے تاریخی مصادر : زمانہ حال کے محققین تاریخ نے فارس کی تاریخ کو تین عہدوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا عہد حملہ اسکندر سے پہلے کا ہے۔ دوسرا پار تھوی یا ملوک الطوائف کا۔ تیسرا ساسانی سلاطین کا۔ فارسی شہنشاہی کی عظمت کا اصلی عہد وہی ہے جو حملہ اسکندر سے پہلے گزرا اور جس کی تاریخ سائرس کے ظہور سے شروع ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے اس عہد کے حالات معلوم کرنے کے براہ راست ذرائع مفقود ہوگئے ہیں۔ جس قدر بھی حالات روشنی میں آئے ہیں تمام تریونانی تحریروں سے ماخوذ ہیں۔ ان میں زیادہ معتمد تین مورض ہیں : ہیروڈوٹس (Herdotus) ٹی سیاز (Ctesias) اور زینوفون (Xenophon) فتح ایران کے بعد جب مورخین نے ایران کی تاریخ مرتب کرنی چاہیے تو انہیں جس قدر مواد ہاتھ آیا وہ تمام تر پارسیوں کی قومی روایات پر مشتمل تھا۔ ان روایات میں حملہ اسکندر سے پہلے کا زمانہ اسی طرح کے قومی افسانوں کی نوعیت رکھتا ہے جس طرح ہندوستان میں پرانوں کے افسانے یا مہا بھارت اور راماین کے قصے ہیں۔ البتہ پچھلے دو عہدوں کی روایتیں تاریخی بنیادوں پر مبنی تھیں۔ جب دقیقی اور فردوسی نے شاہنامہ نظم کرنا چاہا تو انہیں عربی میں یہی مواد ملا اور اسی کو انہوں نے نظم کا جامہ پہنا دیا۔ پس یہ تمام ذخیرہ قبل از سکندر عہد کے لیے کچھ سود من نہیں ہے، اور سائرس کے حالات کے لیے تمام تر یونانی مورخین کی شہادت ہی پر اعتماد کرنا ہے۔ حضرت مسیح سے پانچ سو ساٹھ برس پہلے ایران کی سرزمین دو مملکتوں میں بٹی ہوئی تھی۔ جنوبی حصہ پارس کہلاتا تھا اور شمال مغربی میڈیا۔ چونکہ ان کے ہمسایہ میں آشوری اور بابی حکومتیں انتہا عروج تک پہنچ چکی تھیں اس لیے قدرتی طور پر ان سے دبی ہوئی تھیں۔ دونوں مملکتوں میں مختلف قبائل کے امراء تھے جو اپنے اپنے حلقوں میں بقائلی حکومت رکھتے تھے۔ ٦١٢ قبل مسیح میں جب نینوی تباہ ہوگیا اور آشوری فرماں روائی ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی تو میڈیا کے باشندے آزاد ہوگئے اور بتدریج ایک قومی حکومت نشوونما پانے لگی۔ اسی طرح پارس کے امرائے قبائل میں سے بھی بعض امیروں کو سر اٹھانے کا موقع ملا اور حکمران خاندان پیدا ہوگیا تاہم یہ دونوں مملکتیں وقت کی بے اثر حکومتیں تھیں اور بابل کی شہنشاہی جسے نبوت کدرزر (بخت نصر) کی قہارانہ فتح مندیوں نے تمام ایشیا میں سربلند کردیا تھا سب پر چھائی ہوئی اور سب کو مقہور کیے ہوئے تھی۔ سائرس کا ظہور : لیکن ٥٥٩ قبل از مسیح میں ایک غیر معمولی شخصیت غیر معمولی حالات کے اندر اببھری اور اچانک تمام دنیا کی نگاہیں اس کی طرف اٹھ گئیں۔ یہ پارس کے ایک یمی نیز خاندان کا ایک نوجوان گورش تھا جسے یونانیوں نے سائرس، عبرانیوں نے خورس اور عربوں نے کے خسرو کے نام سے پکارا۔ اسے پہلے پارس کے تمام امیروں نے اپنا فرماں روا تسلیم کرلیا۔ پھر بغیر کسی خوں ریزی کے میڈیا کی مملکت پر فرماں روا ہوگیا اور اس طرح دونوں مملکتوں نے ملکر ایران کی ایک عظیم الشان شہنشاہی کی صورت اختیار کرلی۔ پھر اس کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا، وہ فتوحات نہیں جو ظلم وقہر کی خوں ریزی کے ذریعہ سے حاصل کی جاتی تھیں بلکہ انسانیت و عدالت کی فتوحات جو تمام تر اس لیے تھیں کہ مظلوم قوموں کی داد رسی اور پامال ملکوں کی دستگیری ہو۔ چنانچہ ابھی بارہ برس کی مدت بھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ بحر اسوس سے لے کر بکڑیا (باختر) تک ایشیا کی تمام عظیم الشان مملکتیں اس کے آگے سربسجود ہوچکی تھیں۔ ابتدائی زندگی : دنیا کی تمام غیر معمولی شخصیتوں کی طرح سائرس کے ابتدائی حالات نے بھی ایک ہراسرار افسانہ کی نوعیت اختیار کرلی ہے۔ اور ہمیں اس کی جھلک شاہنامہ کے افسانوں میں صاف صاف نظر آجاتی ہے۔ اس کا اٹھان زندگی کے عام اور معمولی حالات میں نہیں ہوا بلکہ ایسے عجیب حالات میں جو ہمیشہ پیش نہیں آتے اور جب کبھی پیش آتے ہیں تو یہ قدرت کی ایک غیر معمولی کرشمہ سنجی ہوتی ہے۔ قبل اس کے کہ وہ پیدا ہو اس کے نانا اسٹیاگس (Astyages) نے اس کی موت کا سامان کردیا تھا لیکن وہ ایک حیرت انگیز طریقہ پر بچا لیا جاتا ہے اور اس کی ابتدائی زندگی جنگلوں اور پہاڑوں میں بسر ہوتی ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ اس کی غیر معمولی قابلیتیں اور اعلی اخلاق و خصائل اسے ملک میں نمایاں کرتے ہیں اور اس کی خاندانی شخصیت پہچان لی جاتی ہے۔ اب اسے پورا موقع حاصل تھا کہ اپنے دشمنوں سے انتقام لے لیکن اسے ایک لمحہ کے لیے بھی اس کا خیال نہیں گزرتا۔ حتی کہ خود اسٹیاگس کی زندگی بھی اس کے ہاتھوں محفوظ رہتی ہے۔ لیڈیا کی فتح : تخت نشینی کے بعد سب سے پہلی جنگ جو اسے پیش آئی وہ لیڈیا (Lydia) کے بادشاہ کروئسیس (Croesus) سے تھی۔ لیکن تمام مورخین متفق ہیں کہ حملہ کروئسیس کی طرف سے ہوا تھا، اور اس نے سائرس کو دفاع پر مجبور کردیا تھا۔ لیڈیا سے مقصود ایشیائے کو چک کا مغرب اور شمالی حصہ ہے جو یونانی تمدن کا ایشیائی مرکز بن گیا تھا اور اس کی حکومت بھی اپنے تمام خصائص میں ایک یونانی حکومت تھی۔ جنگ میں سائرس فتح یاب ہوا۔ لیکن رعایا کے ساتھ کسی طرح کی بدسلوکی نہیں کی گئی۔ انہیں محسوس بھی نہیں ہوا کہ ملک ایک انقلاب جنگ کی حالت سے گزر رہا ہے۔ البتہ کروئسیس کی نسبت یونانی روایت یہ ہے کہ اس کے عزم و ہمت کی آزمائش کے لیے سائرس نے حکم دیا تھا، چتا تیار کی جائے اور اسے جلا دیا جائے لیکن جب اس نے دیکھا کہ وہ مردانہ وار چتا پر بیٹھ گیا تو فورا اس کی جاں بخشی کردی اور اس نے بقیہ زندگی عزت و احترام کے ساتھ بسر کی۔ مشرقی فتوحات : اس جنگ کے بعد اسے مشرق کی طرف متوجہ ہونا پڑا کیونکہ گیڈروسیا (مکران) اور بکٹریا (بلخ) کے وحشی قبائل نے سرکشی کی تھی۔ یہ مہم ٥٤٥ اور ٥٤٠ قبل مسیح کی درمیان مدت میں واقع ہوئی ہوگی۔ فتح بابل : تقریبا یہی زمانہ ہے جب باشندگان بابل نے اس سے درخواست کی ہے کہ بیل شازار (Beslshazzar) کے مظالم سے انہیں نجات دلائے۔ نینوی کی تباہی نے ایک نئی بابلی شہنشاہی کی بنیادیں استوار کردی تھیں اور نبو کدرزار (بخت نصر) کی قاہرانہ فتوحات نے تمام مغربی ایشیا کو مسخر کرلیا تھا۔ اس کا حملہ بیت المقدس تاریخ کا ایک انقلاب انگیز واقعہ ہے۔ وہ صرف بادشاہ کو مسخر ہی نہیں کرتا تھا بلکہ قوموں کو غلام بناتا اور ملکوں کو تباہ کر ڈالتا تھا۔ لیکن اس کے مرنے کے بعد کوئی ایسی شخصیت پیدا نہیں ہوئی جو اس کی جنگ جو یا یا نہ قوتوں کی جانشیں ہوتی۔ اس کے بعد بابل کے مندروں کے پچاریوں نے (جو ملک میں سب سے زیادہ اثر و مقبولیت رکھتے تھے) نابونی دس (Nabonidus) کو تخت نشین کیا تھا لیکن اس نے حکومت کا تمام کاروبار بیل شازار کے ہاتھ چھوڑ دیا جو ظلم و عیاشی کا مجسمہ تھا۔ اسی کی نسبت دانیال نبی کے صحیفہ میں ہم پڑھتے ہیں کہ بیت المقدس کے ہیکل کے مقدس پیالوں میں اس نے شراب پی تھی اور ایک غیبی ہاتھ نے نمایاں ہو کر منے منے تقیل و فرسین کے الفاظ دیوار پر لکھ دیے تھے۔ (دانیال : ١: ٥) تمام مورخین متفق ہیں کہ اس عہد میں بابل سے زیادہ مستحکم اور ناقابل فتح کوئی شے نہ تھی اس کی چار دیواری اتنی موٹی، نہ در تہ اور اوانچی تھی کہ اسے مسخر کرنے کا وہم و گمان بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ بایں ہمہ سائرس نے باشندگان بابل کی فریاد پر لبیک کہا اور دو آبہ کا تمام علاقہ فتح کرتا ہوا شہر کے سامنے نمودار ہوگیا۔ چونکہ خود باشندگان شہر بیل شازار کے مظالم سے تنگ آگئے تھے اور سائرس کے لیے چشم براہ تھے اس لیے انہوں نے ہر طرحح اس کا ساتھ دیا۔ خود بابلی مملکت کا ایک سابق گورنر گوب ریاس (Gobryas) اس کی فوج کے ساتھ تھا۔ ہیروڈوٹس کا بیان ہے اسی شخص نے دریا میں نہریں کاٹ کر اس کا بہاؤ دوسری طرف ڈال دیا اور دریا کی جانب سے فوج شہر میں داخل ہوگئی۔ قبل اس کے کہ خود سائرس شہر میں پہنچے شہر فتح ہوچکا تھا۔ بنی اسرائیل کی رہائی اور ہیکل کی تعمیر : تورات کی شہادت یہ ہے کہ سائرس کا ظہور بابل کی فتح بنی اسرائیل کے لیے زندگی و خوشحالی کا نیا پیام تھا اور یہ ٹھیک اسی طرح ظہور میں آئی جس طرح یسعیاہ نبی نے ایک سو ساٹھ برس پہلے اور یرمیاہ نے ساٹھ برس پہلے وحی الہی سے مطلع ہو کر خبر دے دی تھی۔ چنانچہ سائرس نے دنیال نبی کی نہایت توقیر کی، یہودیوں کو یروثلم میں بسنے کی اجازت دے دی، نیز اپنی تمام مملکت میں اعلان کیا کہ خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ یروثلم میں اس کے لیے ایک ہیکل بناؤن (یعنی قدیم برباد شدہ ہیکل سلیمان کو از سر نو تعمیر کروں) پس تمام لوگوں کو ہر طرح کا سازو سامان اس کے لیے مہیا کرنا چاہیے۔ اس نے سونے چاندی کے وہ تمام ظروف جو نیوکدرزار ہیکل سے لوٹ کر لایا تھا بابل کے خزانہ سے نکلوائے اور یہودیوں کے ایک امیر شیش بضر کے حوالے کردیے کہ ہیکل کی تعمیر کے بعد اس میں بدستور رکھ دیئے جائیں۔ (عزرا۔ باب اول) بابل کی فتح کے بعد سائرس کی عظمت تمام مغربی ایشیا میں مسلم ہوگئی۔ ٥٣٩ قبل مسیح میں صرف اسی تنہا شخصیت عظمت و حکمرانی کے عالمگیر تخت پر نمایاں نظر آتی ہے۔ بارہ برس پہلے وہ پارس کے پہاڑوں کا ایک گمنام انسان تھا لیکن اب ان تمام مملکتوں کا تنہا فرمانروا ہے جو صدیوں تک قوموں کی ابتدائی عظمتوں اور فتح مندیوں کا مرکز رہ چکی ہیں۔ فتح بابل کے بعد وہ تقریبا دس برس تک زندہ رہا اور ٥٣٩ قبل مسیح میں انتقال کرگیا۔ سائرس کے ظہور کی پیشین گوئیاں : اب قبل اس کے کہ قرآن کے بیان کردہ حالات پر نظر ڈالی جائے اس بات پر غور کرلینا چاہیے کہ انبیائے بنی اسرائیل کی پیشین گوئیاں اس شخصیت کے بارے میں کیا تھیں اور یہودیوں کے اعتقاد میں کس طرح وہ حرف بہ حرف پوری ہوئیں؟ اس سلسلہ میں سب سے پہلے پیشین گوئی یسعیاہ نبی کی ہے جن کا ظہور سائرس کے فتح بابل سے ایک سو ساٹھ برس پہلے ہوا تھا۔ انہوں نے پہلے بیت المقدس کی تباہی کی خبر دی ہے کہ بابل کے ہاتھوں ظہور میں آئے گی۔ اس کے بعد اس کی دوبارہ تعمیر کی بشارت دی ہے اور اس سلسلہ میں خورس (سائرس) کے ظہور کا ذکر کیا ہے : خداوند تیرا نجات دینے والا یوں فرماتا ہے کہ یروثلم پھر آباد کیا جائے گا۔ْ یہودا کے شہر بنائے جائیں گے، میں اس کے ویران مکانوں کو تعمیر کروں گا، میں خورس کے حق میں کہتا ہوں کہ وہ میرا چرواہا ہے، وہ میری ساری مرضی پوری کرے گا، خداوند اپنے مسیح خورس کے حق میں یوں فرماتا ہے کہ میں نے اس کا داہنا ہاتھ پکڑا تاکہ قوموں کو اس کے قابو میں کردوں اور بادشاہوں کی کمریں کھلوا دوں اور دہرے دروازے اس کے لیے کھول دوں۔ ہاں میں تیرے آگے چلوں گا۔ میں ٹیڑھی جگہوں کو سیدھا کروں گا۔ میں پیتل کے دروازوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔ میں گڑھے ہوئے خزانے اور چھپے ہوئے مکانوں کے گنج تجھے عطا کروں گا۔ اور یہ سب کچھ اس لیے کروں گا تاکہ تو جان لے کہ میں خداوند اسرائیل کا خدا ہوں جس نے اپنی برگزیدہ قوم اسرائییل کے لیے تجھے تیرا نام صاف صاف لے کے بلایا ہے۔ (یسعیاہ : ٢٤: ٢١) اس پیشین گوئی میں خدا کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ خورس (سائرس) میرا چرواہا ہوگا اور میں نے اسے اس لیے پکارا ہے کہ بنی اسرائیل کو بابلیوں کے ظلم سے نجات دلائے، نیز اسے خدا کا مسیح بھی کہا ہے۔ اسی طرح یرمیاہ نبی نے ساٹھ برس پہلے پیشین گوئی کی تھی قوموں کے درمیان منادی کردو اور اسے مت چھپاؤ، تم کہو، بابل لے لیا گیا، بعل رسوا ہوا، مردوک سراسیمہ کیا گیا، اس کے بت حجل ہوئے، اس کی مورتیں پریشان کی گئیں، کیونکہ اتر سے ایک قوم اس پر چڑھتی ہوئی آرہی ہے جو اس کی سرزمین اجاڑ دے گی یہاں تک کہ اس میں کوئی نہیں رہے گا۔ (١: ٥٠) یرمیان نبی نے اس کی بھی پیشین گوئی کردی تھی کہ ستر برس تک یہودی بابل میں قید رہیں گے اور اس کے بعد بیت المقدس کی نئی تعمیر ہوگئی۔ خداوند کہتا ہے۔ جب بابل پر ستر برس گزر چکیں گے تو میں تمہاری خبرلینے آؤں گا۔ تب تم مجھے پکارو گے اور میں جواب دوں گا۔ تم مجھے ڈھونڈو گے اور مجھے پالو گے۔ میں تمہاری اسیری ختم کردوں گا۔ تمہیں مکانوں میں واپس لے آؤں گا۔ (١٠: ٢٩) اس پیشین گوئی میں خدا نے اپنی رحمت کی واپسی کو فتح بابل کے واقعہ سے وابستہ کردیا ہے۔ گویا سائرس کا ظہور اس کی رحمت کا ظہور ہوگا جو بنی اسرائیل پر پھر لوٹ آئے گی۔ پیشین گوئیوں کی تاریخی حیثیت : تورات سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جب سائرس نے بابل فتح کیا تو دانیال نبی نے (جو شاہان بابل کے وزرا میں داخل ہوگئے تھے) اسے یسعیاہ نبی کی پیشین گوئی دکھائی کہ ایک سو ساٹھ برس پہلے اس کے ظہور کی خبر دے دی گئی تھی، یہ بات دیکھ کر وہ بے حد متاثر ہوا اور بیان کیا جاتا ہے کہ اسی کا نتیجہ وہ فرمان تھا جو اس نے تعمیر ہیکل کے لیے جاری کیا۔ زمانہ حال کے نقادان پیشین گوئیوں کی اصلیت پر مطمئن نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ پیشین گوئیاں واقعات کے ظہور کے بعد بڑھا دی گئی ہوں۔ خصوصیا یسعیاہ کی پیشین گوئی جس میں صریح خورس (سائرس) کا نام موجود ہے۔ لیکن وہ اس اشتباہ کی تائید میں عقلی استغراب کے سوا اور کوئی دلیل پیش نہیں کرسکتے اور محض عقلی استغراب ان صحائف کے خلاف حجت نہیں ہوسکتا جن کی نسبت یقین کیا گیا ہے کہ الہام سے لکھے گئے تھے۔ علاوہ بریں تورات کے آخری صحائف جو فتح بیت المقدس کے اثنا میں یا اسیری بابل کے زمانے میں لکھے گئے ہیں۔ تاریخی حیثیت سے محفوظ تسلیم کرلیے گئے ہیں۔ کیونکہ وہ اس وقت سے برابر یہودیوں میں متداول رہے اور کوئی حادثہ رونما نہیں ہوا کہ ان کے نسخے نابود ہوگئے ہوں۔ ممکن ہے کہ یسعیاہ نبی کی پیشین گوئی میں بھی دانیال نبی کے خواب کی طرح خورس کا نام نہ بتلایا گیا ہو۔ صرف قوم و ملک کا ذکر ہو اور بعد کو یہ نام بڑھا دیا گیا ہو لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہودیوں کا عام اعتقاد برابر یہی رہا کہ سائرس کا ظہور نبیوں کی پیشین گوئی کے مطابق ہوا تھا۔ اور وہ خدا کی ایک پسندیدہ ہستی تھی جو اسی لیے پیدا کی گئی تھی کہ مظلوموں کی داد رسی ہو اور بابلیوں کے ظلم و شرارت سے قوموں کو نجات ملے۔ قرآن کی تصریحات اور سائرس : اب غور کرو۔ قرآن کی تصریحات نے جو جامہ تیار کیا ہے وہ کس طرح ٹھیک ٹھیک صرف سائرس ہی کے جسم پر راست آتا ہے؟ ہم نے اس مبحث کے آغاز میں تصریحات قرآنی کا خلاصہ دے دیا ہے جو سات دفعات پر مشتمل ہیں۔ ان پر پھر ایک نظر ڈال لو۔ سب سے پہلے اس بات پر غور کرو کہ ذوالقرنین کی نسبت سوال بالاتفاق یہودیوں کی جانب سے ہوا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ اگر کسی غیر یہودی بادشاہ کی شخصیت یہودیوں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھ جاسکتی تھی تو وہ صرف سائرس ہی کی تھی۔ نبیوں کی پیشین گوئیوں کا مصداق، دانیال نبی کے خواب کا ظہور، رحمت الہی کی واپسی کی بشارت، بنی اسرائیل کا نجات دہندہ، خدا کا فرستادہ چرواہا اور مسیح، یروشلم کی تعمیر ثانی کا وسیلہ۔ پس اس سے زیادہ قدرتی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسی کی نسبت ان کا سوال ہو؟ سدی کی ایک روایت میں بھی جو قرطبی وغیرہ نے نقل کی ہے اس طرف صریح اشارہ ملتا ہے۔ قال، قالت الیھود، اخبر عن نبی لم یذکرہ اللہ فی التورات الا فی مکان واحد، قال ومن ؟ قالوا ذوالقرنین۔ یعنی یہودیوں نے آنحضرت سے کہا۔ اس نبی کی نسبت ہمیں خبر دیجیے جس کا نام تورات میں صڑف ایک ہی مقام پر آیا ہے۔ آپ نے فرمایا وہ کون؟ کہا ذوالقرنین، چونکہ سائرس کے ذوالقرنین ہونے کا اشارہ صرف دانیال نبی کے خواب ہی میں آیا ہے اس لیے یہودیوں کا یہ بیان ٹھیک ٹھیک اسی طرف اشارہ تھا۔ علاہ بریں سائرس کے تمثال کے انکشاف نے قطعی طور پر یہ بات آشکارا کردی ہے کہ اس کے سر پر دو سینگوں کا تاج رکھا گیا تھا اور یہ فارس اور مادہ کی مملکتوں کے اجتماع و اتحاد کی علامت تھی۔ تفسیر (انا مکنا لہ فی الارض) اس کے بعد قرآن کی تصریحات سامنے لاؤ۔ سب سے پہلا وصف جو اس کا بیان کیا ہے یہ ہے کہ (انا مکنا لہ فی الارض واتینہ من کل شیء سببا) ہم نے اسے زمین میں قدرت دی تھی اور ہر طرح کا سازوسامان مہیا کردیا تھا۔ قرآن جب کبھی انسان کی کسی کامرانی و خوشحالی کو براہ راست خدا کی طرف منسوب کر کے کہتا ہے جیسا کہ یہاں کہا ہے تو اس سے مقصود عموما کوئی ایسی بات ہوتی ہے جو عام حالات کے خلاف محض اس کے فضل و کرم سے ظہور میں آئی ہو۔ مثلا حضرت یوسف کی نسبت فرمایا (وکذلک مکنا لیوسف فی الارض) اس طرحح ہم نے سرزمین مصر میں یوسف کو حکومت دے دی، ہم نے دے دی، کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ حضرت یوسف کو ہر طرح کے ناموافق حالات میں محض فضل الہی سے ایک غیر معمولی بات حاصل ہوگئی تھی۔ یہ بات نہ تھی کہ عام حالات کے مطابق ظہور میں آئی ہو۔ پس ضروری ہے کہ ذوالقرنین کو بھی حکمرانی کا مقام ایسے ہی حالات میں ملا ہو جو بالکل غیر معمولی قسم کے ہوں اور انہیں محض توفیق الہی کی کرشمہ سازی سمجھا جاسکے۔ کیونکہ اس کے تمکن فی الارض کو براہ راست خدا کی طرف نسبت دی ہے۔ لیکن اس اعتبار سے سائرس کی زندگی ٹھیک ٹھیک اس آیت کی تصویر ہے اس کی ابتدائی زندگی ایسے حالات میں بسر ہوئی جنہیں حیرت انگیز حوادث نے ایک افسانہ کی شکل دے دی ہے۔ قبل اس کے کہ پیدا ہو خود اس کا نانا اس کی موت کا خواہشمند ہوگیا تھا۔ ایک وفادادر آدمی اس کی زندگی بچاتا ہے اور وہ شاہی خاندان سے بالکل الگ ہو کر ایک گمنام گڈریے کی طرح پہاڑوں میں زندگی بسر کرتا ہے۔ پھر اچانک نمایاں ہوتا ہے اور بغیر کسی جنگ و مقابلہ کے میڈیا کا تخت اس کے لیے خالی ہوجاتا ہے۔ یقینا یہ صورت حال واقعات و حوادث کی عام رفتار نہیں ہے جو ہمیشہ پیش آتی ہو۔ نوادر ہستی کی ایک غیر معمولی عجائب آفرینی ہے اور صاف نظر آرہا ہے کہ قدرت کا مخفی ہاتھ کس خاص مقصد سے ایک خاص ہستی تیار کر رہا ہے اور زمانہ کی عام رفتار تھم گئی ہے تاکہ اس کی راہ صاف ہوجائے۔ تین مہمیں : اس کے بعد اس کی تین بڑی مہموں کا ذکر آتا ہے۔ ایک مغرب الشمس کی طرف یعنی پچھم کی طرف، ایک مطلع الشمس کی طرف یعنی پورپ کی طرف۔ تیسری ایک ایسے مقام تک جہاں کوئی وحشی قوم آباد تھی اور یاجوج اور ماجوج وہاں آکر لوٹ مار مچایا کرتا تھا اب دیکھو یہ تمام تفصیلات کس طرح ٹھیک ٹھیک سائرس کی فتوحات پر منطبق ہوتی ہیں؟ مغربی مہم : اوپر پڑھ آئے ہو کہ سائرس نے ابھی فارس اور میڈیا کا تاج سر پر رکھا ہی تھا کہ ایشیائے کو چک کے باداہ کروئسس نے حملہ کریا۔ ایشائے کو چک کی یہ بادشاہت جو لیڈیا کے نام مشہور ہوئی پھچلی صدی کے اندر ابھری تھی، اس کا دار الحکومت سارڈیس (Sarrdis) تھا۔ سائرس کی تخت نشینی سے پہلے میڈیا اور لیڈیا میں کئی جنگیں ہوچکی تھیں، بالآخر کروئسس کے باپ نے سائرس کے ننا اسٹیاگس کے باپ سے صلح کرلی اور باہمی اتحاد کے استحکام کے لیے باہمی ازدواج کا رشتہ قائم ہوگیا۔ لیکن کروئسس نے یہ تمام عہدو پیمان اور باہمی علائق بھلا دیے۔ وہ سائرس کی یہ کامرانی برداشت نہ کرسکا کہ فارس اور میڈیا کی مملکتیں متحد ہو کر ایک عظیم مملکت کی حیثیت اختیار کر رہی ہیں، اس نے پہلے بابل، مصر اور اسپارٹا کی مملکتوں کو اس کے خلاف ابھارا اور پھر اچانک حملہ کر کے سرحدی شہر پیٹریا (Pteria) پر قبضہ کرلیا۔ اب سائرس مجبور ہوگیا کہ بلاتوقف اس حملہ کا مقابلہ کرے، وہ میڈیا کے دار الحکومت ہگ متانہ سے (جو اب ہمدان کے نام سے پکارا جاتا ہے) نکلا اور اس تیزی کے ساتھ بڑھا کہ صرف دو جنگوں کے بعد جو پیٹریا اور سارڈیس کے قریب واقع ہوئی تھیں لیڈیا کی تمام مملکت پر قابض ہوگیا۔ ہیرو ڈوٹس نے اس جنگ کی سرگزشت پوری تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے اور اس کی بعض تفصیلات نہایت دلچسپ اور اہم ہیں لیکن یہ موقع اطناب کا نہیں۔ وہ کہتا ہے سائرس کی فتح مندی ایسی عجیب اور معجزانہ تھی کہ پیٹریا کے معرکہ کے بعد صرف چودہ دن کے اندر لیڈیا کا مستحکم دار الحکومت مسخر ہوگیا اور کروئسس ایک جنگی قیدی کی حیثیت میں سائرس کے آگے سرنگوں کھڑا تھا۔ وجدھا تغرب فی عین حمئۃ: اب تمام ایشیائے کو چک بحر شام سے لے کر بحر اسود تک اس کے زیر نگین تھا۔ وہ برابر بڑھتا گیا، یہاں تک کہ مغربی ساحل تک پہنچ گیا، قدرتی طور پر اس کے قدم یہاں پہنچ کر اسی طرح رک گئے جس طرح بارہ سو سال بعد طارق کے قدم افریقہ کے شمالی ساحل پر رک جانے والے تھے۔ اس کے فتح مند قدموں کے لیے صحراؤں کی وسعتیں اور پہاڑوں کی بلندیاں روک نہ ہوسکیں، اس نے فارس سے لے کر لیڈیا تک چودہ سو میل کا فاصلہ طے کرلیا تھا لیکن سمندر کی موجوں پر چلنے کے لیے اس کے پاس کوئی سواری نہ تھی، اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو حد نظر تک پانی ہی پانی دکھائی دیتا تھا اور سورج اس کی لہروں میں ڈوب رہا تھا۔ یہ لشکر کشی جو اسے پیش آئی، صریح مغرب کی لشکر کشی تھی، کیونکہ وہ ایران سے مغرب کی طرف چلا اور خشکی کے مغربی کنارہ تک پہنچ گیا۔ یہ اس کے لیے مغرب الشمس کی آخری حد تھی۔ ایشیائے کو چک کا مغربی ساحل نقشہ میں نکالو تم دیکھو گے کہ تمام ساحل اس طرح کا واقع ہوا ہے کہ چھوٹے چھوٹے خلیج پیدا ہوگئے ہیں اور سمرنا کے قریب اس طرح کے جزیرے نکل آئے ہیں، جنہوں نے ساحل کو ایک جھیل یا حوض کی سی شکل دے دی ہے لیڈیا کا دار الحکومت سارڈیس مغربی ساحل کے قریب تھا اور اس کا محل موجودہ سمرنا سے بہت زیادہ فاصلہ پر نہ تھا۔ پس جب سائرس سارڈیس کی تسخیر کے بعد آگے بڑھا ہوگا تو یقینا بحرا یجبین کے اسی ساحلی مقام پر پہنچا ہوگا جو سمرنا کے قرب و جوار میں واقع ہے۔ یہاں اس نے دیکھا ہوگا کہ سمندر نے ایک جھیل کی سی شکل اختیار کرلی ہے، ساحل کے کیچڑ سے پانی گدلا ہورہا ہے، اور شام کے وقت اسی میں سورج ڈوبتا دکھائی دیتا ہے۔ اسی صورت حال کو قرآن نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے کہ (وجدھا تغرب فی عین حمئۃ) اسے ایسا دکھائی دیا کہ سورج ایک گدلے حوض میں ڈوب رہا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ سورج کسی مقام میں بھی ڈوبتا نہیں لیکن ہم سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر دیکھتے ہیں تو ایسا ہی دکھائی دیتا ہے کہ ایک سنہری تھا لی آہستہ آہستہ سمندر میں ڈوب رہی ہے۔ مشرق مہم : دوسری لشکر کشی مشرق کی طرف تھی۔ چنانچہ ہیوڈٹس اور ٹی سیاز دونوں اس کی مشرق لشکر کشی کا ذکر کرتے ہیں جو لیڈیا کی فتح کے بعد اور بابل کی فتح سے پہلے پیش آئی تھی اور دونوں نے تصریح کی ہے کہ مشرق کے بعض وحشی اور صحرا نشین قبائل کی سرکشی اس کا باعث ہوئی تھی۔ یہ ٹھیک ٹھیک قرآن کے اس اشارہ کی تصدیق ہے کہ (حتی اذا بلغ مطلع الشمس وجدھا تطلع علی قوم لم نجعل لھم من دونھا سترا) جب وہ مشرق کی طرف پہنچا تو اسے ایسی قوم ملی جو سورج کے لیے کوئی آڑ نہیں رکھتی تھی۔ یعنی خانہ بدوش قبائل تھے۔ یہ خانہ بدوش قبائل کون تھے؟ ان مورخین کی صراحت کے مطابق بکڑیا یعنی بلغ کے علاقہ کے قبائل تھے۔ نقشہ پر اگر نظر ڈالو گے تو صاف نظر آجائے گا کہ بکٹریا ٹھیک ٹھیک ایران کے لیے مشرق اقصی کا حکم رکھتا ہے کیونکہ اس کے آگے پہاڑ ہیں اور انہوں نے راہ روک دی ہے۔ اس کا بھی اشارہ ملتا ہے کہ گیڈروسیا کے وحشی قبیلوں نے اس کی مشرقی سرحد میں بدامنی پھیلائی تھی اور ان کی گوشمالی کے لیے اسے نکلنا پڑا۔ گیڈروسیا سے مقصود وہی علاقہ ہے جو آج کل مکران کہلاتا ہے۔ اس سلسلہ میں ہندوستان کی طرف ہمیں کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ اس لیے قیاس کہتا ہے کہ مکران سے نیچے اس کے قدم نہیں اترے ہوں گے۔ اور اگر اترے ہوں گے تو دریائے سندھ سے آگے نہیں بڑھے ہوں گے۔ کیونکہ دارا کے زمانہ میں بھی اس کی جنوب مشرقی سرحد دریائے سندھ ہی تک معلوم ہوتی ہے۔ شمالی مہم : تیسری لشکر کشی اس نے ایسے علاقہ تک کی جہاں یاجوج ماجوج کے حملے ہوا کرتے تھے یہ یقینا اس کی شمالی مہم تھی جس میں وہ بحر خزر (کاسپین) کو داہنی طرف چھوڑتا ہوا کا کیشیا (Causcasus) کے سلسلہ کوہ تک پہنچ گیا تھا اور وہاں اسے ایک درہ ملا تھا جو دو پہاڑی دیواروں کے درمیان تھا، اسی راہ سے یاجوج ماجوج آکر اس طرف کے علاقہ میں تاخت و تاراج کیا کرتے تھے اور یہیں اس نے سد تعمیر کی۔ قرآن نے اس مہم کا حلا ان لفظوں میں بیان کیا ہے کہ (حتی اذا بلغ بین السدین وجد من دونھما قوما لا یکادون یفقھون قولا) یہاں تک کہ وہ دو (پہاڑی) دیواروں کے درمیان پہنچ گیا۔ ان کے اس طرف اسے ایک قوم ملی جو کوئی بات بھی سمجھ نہیں سکتی تھی۔ پس صاف معلوم ہوتا ہے سدین سے مقصود کا کیشیا کا پہاڑہ درہ ہے۔ کیونکہ اس کے داہنی طرف بحر خرز ہے جس نے شمال اور مشرق کی راہ روک رکھی ہے۔ بائیں جانب بحر اسود ہے جو شمال مغرب کے لیے قدرتی روک ہے۔ درمیانی علاقے میں اس کا سربفلک سلسلہ کوہ ایک قدرتی دیوار کا کام دے رہا ہے۔ پس اگر شمالی قبائل کے حملوں کے لیے کوئی راہ باقی رہی تھی تو وہ صرف اس سلسلہ کوہ کا ایک عریض درہ یا واسطی وادی تھی اور یقینا وہیں سے یاجوج ماجوج کو دوسری طرف پہنچنے کا موقع ملتا تھا۔ اس راہ کے بند ہوجانے کے بعد نہ صڑف بحر خزر سے لے کر بحر اسود تک کا علاقہ محفوظ ہوگیا بلکہ سمندروں اور پہاڑوں کی ایک ایسی دیوار قائم ہوگئی جس نے تمام مغربی ایشیا کو اپنی پاسبانی میں لے لیا اور شمال کی طرف سے حملے کا کوئی خطرہ باقی نہ رہا اب ایران، شام، عراق، عرب۔ ایشیائے کو چک، بلکہ مصر بھی شمال کی طرف سے بالکل محفوظ ہوگیا تھا۔ نقشہ میں یہ مقام دیکھو، تمام مغربیا یشیا نیچے ہے اوپر شمال میں بحر خزر ہے اس سے بائیں جانب شمال مغرب میں بحر اسود ہے۔ درمیان میں بحر خزر کے مغربی ساحل سے بحر اسود کے مشرقی ساحل تک کا کیشیا کا سلسلہ کوہ چلا گیا ہے۔ ان دو سمندروں اور درمیانکے سلسلہ کوہ نے ملکر سینکڑوں میلوں تک ایک قدرتی روک پیدا کردی ہے۔ اب اس روک میں اگر کوئی شگاف رہا گیا تھا جہاں سے شمالی اقوام کے قدم اس روک کو پھلانگ سکتے تھے تو وہ صڑف یہی دو پہاڑوں کے درمیان کی راہ تھی۔ ذوالقرنین نے اسے بھی بند کردیا اور اس طرح شمال اور مغربی ایشیا کا یہ درمیانی پھاٹک پوری طرح مقفل ہوگیا۔ شمالی قوم : باقی رہا یہ سوال کہ وہاں جو قوم ذوالقرنین کو ملی تھی اور جو بالکل ناسمجھ تھی وہ کون سی قوم تھی؟ تو اس سلسلہ میں دو قومیں نمایاں ہوتی ہیں اور دونوں کا اس زمانہ میں وہاں قریب قریب آباد ہونا تاریخ کی روشنی میں آچکا ہے۔ پہلی قوم وہ ہے جو بحر خزر کے مشرقی ساحل پر آباد تھی اسے یونانی مورخوں نے کا سپین کے نام سے پکارا ہے اور اسی کے نام سے بحر خزر کا نام بھی کا سپین پڑگیا ہے۔ دوسری قوم وہ ہے جو اس مقام سے آگے بڑھ کر عین کا کیشیا کے دامن میں آباد تھی۔ یونانیوں نے اسے لوجی یا کول شی کے نام سے پکارا ہے۔ اور دارا کے کتبہ اصطخر میں اس کا نام کوشیہ آیا ہے۔ انہی دو قوموں میں سے کسی نے یا دونوں قوموں نے ذوالقرنین سے یاجوج ماجوج کی شکایت کی ہوگی، اور چونکہ یہ غیر متمدن قومیں تھیں اس لیے ان کی نسبت فرمایا کہ (لایکادون یفقھون قولا) سائرس کے غیر معمولی فضائل : اس کے بعد ذوالقرنین کا جو وصف سامنے آتا ہے وہ اس کی عدالت گستری اور خدمت انسانی کی فیاضانہ سرگرمی ہے اور یہ اوصاف سائرس کی تاریخی سیرت کی اس درجہ آشکارا حقیقتیں ہیں کہ مورخ کی نگاہ کسی دوسری طرف اٹھ ہی نہیں سکتی۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے مغرب میں جو قوم ملی تھی اس کی نسبت حکم الہی ہوا تھا : (یذا القرنین اما ان تعذب واما ان تتخذ فیھم حسنا) یعنی یہ قوم اب تیرے بس میں ہے جس طرح چاہے تو اس کے ساتھ سلوک کرسکتا ہے۔ خواہ سزا دے، خواہ انہیں اپنا دوست بنا لے، یقینا یہ لیڈیا کی یونانی قوم تھی، اس کے بادشاہ کروئسس نے تمام عہد وپیمان اور باہمی رشتہ داریاں بھلا کر بلا وجہ سائرس پر حملہ کردیا تھا اور صرف خود ہی حملہ آور نہیں ہوا تھا بلکہ وقت کی تمام طاقتور حکومتوں کو بھی اس کے خلاف ابھار کر اپنے ساتھ کرلیا تھا۔ اب جب تائید الہی نے اپنا کرشمہ دکھایا اور تمام لیڈیا مسخر ہوگیا تو حکم الہی ہوا۔ یہ لوگ بالکل تیرے رحم پر ہیں، تو جو چاہے ان کے ساتھ کرسکتا ہے کیونکہ یہ اپنے ظلم و شرارت کی وجہ سے ہر طرح دزا کے مستحق ہیں۔ مطلب یہ تھا کہ تائید الہی نے تیرا ساتھ دیا۔ دشمنوں کو مسخر کردیا۔ اب وہ بالکل تیرے اختیار میں ہیں لیکن تجھے بدلہ نہیں لینا چاہیے۔ وہی کرنا چاہیے، وج نیکی و فیاضی کا مقتضا ہے۔ چنانچہ ذوالقرنین نے ایسا ہی کیا : (قال اما من ظلم فسوف نعذبہ ثم یرد الی ربہ فیعذبہ عذابا نکرا۔ واما من امن وعمل صالحا فلہ جزاء ن الحسنی وسنقول لہ من امرنا یسرا) اس نے اعلان کیا کہ میں پچھلے جرم کی بنا پر کسی کو سزا نہیں دینا چاہتا۔ میری جانب سے عام بخشش کا اعلان ہے، البتہ آئندہ جو کوئی برائی کرے گا بلاشبہ اسے سزا دوں گاْ پھر اسے مرنا ہے اور آخرت کا عذاب سخت جھیلنا ہے۔ اور جو لوگ میرے احکام مانیں گے اور نیک کردار ثابت ہوں گے تو ان کے لیے ویسا ہی بہتر اجر بھی ہوگا اور وہ میرے احکام بھی بہت آسان پائیں گے، میں بندگان خدا پرستی کرنا نہیں چاہتا، یہ ہو بہو اس طرز عمل کی تعبیر ہے جس کی تفصیل ہمیں یونانی تاریخوں کے صفحات میں ملتی ہے اور جسے زمانہ حال کے تمام محققین تاریخ نے ایک مسلمہ تاریخی حقیقت تسلیم کرلیا ہے۔ تمام یونانی مورخ بالاتفاق شہادت دیتے ہیں کہ سائرس نے فتح کے بعد باشندگان لیڈیا کے ساتھ جو سلوک کیا وہ صرف منصفانہ ہی نہ تھا، وہ اس سے بھی زہاد تھا، وہ فیاضانہ تھا، وہ اگر اپنے دشمنوں کے ساتھ سختی کرتا، تو یہ انصاف ہوتا کیونکہ زیادتی انہی کی تھی۔ لیکن وہ صرف منصف ہونے پر قانع نہیں ہوا۔ اس نے رحم و بخشش کا شیوہ اختیار کیا، ہیروڈوٹس لکھتا ہے سائرس نے اپنی فوج کو حکم دے دیا تھا کہ دشمن کی فوج کے سوا اور کسی انسان پر ہتھیار نہ اٹھائیں اور دشمن کی فوج میں سے بھی جو کوئی نیزی جھکا دے اسے ہرگز قتل نہ کیا جائے۔ کروئسس شاہ لیڈیا کی نسبت صریح حکم تھا کہ کسی حال میں بھی اسے گزند نہ پہنچائی جائے۔ اگر وہ مقابلہ کرے جب بھی اس پر تلوار نہیں اٹھانی چاہیے۔ اس حکم کی فوج نے اس دیانت داری کے ساتھ تعمیل کی کہ باشندوں کو جنگ کی مصیبت ذرا بھی محسوس نہ ہوئی۔ یہ گویا محض فرماں روا خاندان کا ایک شخص انقلاب تھا کہ کروئسس کی جگہ سائرس نے لے لی۔ اس سے زیادہ کوئی انقلاب ملک و قوم کو محسوس ہی نہیں ہوا۔ کروئسس کا واقعہ اور یونانی روایت : یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سائرس کی فتح یونانی دیوتاؤں کی شکت تھی، کیونکہ وہ اس مصیبت سے اپنے پرستار کروئسس کو نہ بچا سکی، حالانکہ حملہ سے پہلے اس نے مندروں کے ہاتف سے استصواب کرلیا تھا، اور ڈلفی کے ہاتف نے فتح و کامرانی کی بشارت دی تھی۔ پس قدرتی طور پر واقعات کی یہ رفتار یونانیوں کے لیے خوشگوار نہ ہوسکی اور اس امر کی کوشش شروع ہوگئی کہ اس شکست میں بھی اخلاقی اور مذہبی فتح مندی کی شان پیدا کردی جائے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کروئسس کا معاملہ اچانک ایک پراسرار افسانہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور یونانی دیوتا اپنے سارے معجزوں کے ساتھ نمایاں ہوجاتے ہیں۔ ہیروڈوٹس لیڈیا کے باشندوں کی یہ رویت نقل کرتا ہے کہ ڈلفی کے ہاتف کو جواب غلط نہ تھا مگر کروئسس نے جنگ کے جوش و طلب میں اس کا صحیح مطلب نہیں سمجھا۔ ہاتف نے کہا تھا اگر اس نے پارسیوں پر حملہ کیا تو وہ ایک بڑی مملکت تباہ کردے گا۔ یعنی خود اپنی مملکت تباہ کردے گا، مگر اس نے خیال کیا بڑی مملکت سے مقصود پارسیوں کی مملکت ہے۔ نیز وہ کہتا ہے پہلے سائرس نے حکم دیا تھا کہ لکڑیوں کی چتا تیار کی جائے اور اسپ کروئسس کو بٹھا کر آگ لگا دی جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور آگ لگا دی گئی لیکن پھر جب کروئسس کی بعض باتیں سنیں تو بے حد متاثر ہوا اور آگ بجھانے کا حکم دیا۔ لیکن اب آگ پوری طرح مشتعل ہوگئی تھی۔ ممکن نہ تھا کہ اسے بجھا دیا جائے یہ حال دیکھ رک کروئسس نے اپالو دیوتا کو پکارا اور باوجویکہ آسمان بالکل صاف تھا اچانک بارش شروع ہوگئی اور اس طرح اس معجزے نے بروقت ظاہر ہو کر اس کی جان بچالی۔ لیکن خود ہیروڈوٹس اور زینوفن کی تصریحات سے جو حقیقت معلوم ہوتی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ سائرس یا تو کروئسس کے عزم و صبر کا امتحان لینا چاہتا تھا یا یہ کہ بات آشکارا کردینی چہاتا تھا کہ یونانیوں کے خود ساختہ دیوتا اپنے عبادت گزاروں کی کچھ مدد نہیں کرسکتے اور جن دیوتاؤں کی مزعومہ بشارت پر اعتماد کر کے جنگ کی گئی تھی ان میں اتنی طاقت نہیں کہ اپنے پرستار کو زندہ جلنے کے عذاب سے بچا لیں۔ یعنی مقصود یہ تھا کہ پہلے اسے چتا پر بٹھایا جائے، آگ بھی لگا دی جائے لیکن جب وہ خود اور تمام لوگ دیکھ لیں کہ دیوتاؤں کا کوئی معجزہ ظاہر نہیں ہوا، تو پھر اسے بخش دے اور عزت و احترام کے ساتھ اپنے ہمراہ لے جائے۔ دوسری علت زیادہ قوی معلوم ہوتی ہے کہ کیونکہ خود ہیروڈٹس کی روایت میں اس کی جھلک موجود ہے، اور یونانی افسانہ میں اپالو کے معجزہ کی نومد بھی اسی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ سائرس نے اپنے عمل سے جو حقیقت آشکارا کردی تھی یونانی افسانہ نے اسی کو توڑ کرنے کے لیے اپالو کا معجزہ گھڑ لیا۔ الكهف
108 سائرس کے احکام و قوانین : قرآن نے ذوالقرنین کا یہ اعلان نقل کیا ہے کہ آئندہ جو ظلم کرے گا، سزا پائے گا، جو حکم مانے کا اور نیک عمل ہوگا اسے انعام ملے گا۔ بعینہ زینوفن کی بھی ایسی ہی روایت ہے۔ قرآن میں ہے کہ (وسنقول لہ من امرنا یسرا) اگر لوگوں نے نیک عملی اختیار کی، تو دیکھ لیں گے میرے احکام و قوانین میں ان کے لیے سختی نہ ہوگی۔ تمام مورخ بالاتفاق شہادت دیتے ہیں کہ اس کے احکام و قوانین ایسے ہی تھے۔ وہ مفتوحہ ممالک کے باشندوں کے لیے سرتاسر شفقت و رحمت تھا۔ اس نے ان تمام بوجھل ٹیکسوں اور خراجوں سے رعایا کو نجات دے دی جو اس عہد کے تمام حکمراں وصول کیا کرتے تھے اس نے جس قدر احکام و فرامین نافذ کیے وہ زیادہ سے زیادہ نرم زیادہ سے زیادہ ہلکے تھے۔ یہ تو اس کی مغربی فتح مندی کی سرگزشت تھی۔ اب دیکھنا چاہیے کہ اس کے اعمال کی عام رفتار کیسی رہی؟ اور قرآن کا بیان کردہ وصف کہاں تک اس پر راست آتا ہے؟ مورخین کی عام شہادت : لیکن قبل اس کے کہ ہم یونانی مورخوں کی شہادتوں پر متوجہ ہوں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یونانی مورخ سائرس کے ہم قوم نہیں تھے۔ ہم وطن نہیں تھے، ہم مذہب نہیں تھے اتنا ہی نہیں بلکہ دوست بھی نہیں تھے، سائرس نے لیڈیا کو شکست دی تھی اور لیڈیا کی شکست یونانی قومیت، یونانی تہذیب اور سب سے زیادہ یہ کہ یونانی مذہب کی شکست تھی۔ پھر سائرس کے جانشینوں نے براہ راست یونانیوں کو زیر کیا تھا اور ہمیشہ کے لیے دونوں قومیں ایک دوسرے کی حریف ہوگئی تھی۔ ایسی حالت میں قدرت طور پر یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ یونانی دماغ اپنے حریف کی مدحت سرائی کا شائق ہوگا۔ تاہم ہم دیکھتے ہیں کہ ان میں سے ہر مورخ اس کی غیر معمولی عظمتوں اور ملکوتی صفتوں کی مدحت سرائی میں رطب اللسان ہے اور اس لیے تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس کے محاسن نے ایک ایسے عالمگیر اعتراف و تاثر کی نوعیت اختیار کرلی تھی کہ دوست و دشمن کا کوئی امتیاز باقی نہیں رہا تھا۔ سب کے دلوں میں ان کا اعتقاد پیدا ہوگیا تھا، سب کی زبانوں پر ان کی مدحت سرائی تھی اور محاسن وہی ہیں جن کی حریفوں کو بھی شہادت دینی پڑے : وملیحۃ، شھدت بھا ضراتھا۔۔۔۔ والفضل ما شھدت بہ الاعدا ! زینوفن لکھتا ہے، سائرس ایک نہایت دانشمند، سنجیدہ اور ساتھ ہی رحم دل فرمانروا تھا، اس کی شخصیت ہر طرح کے شاہی اوصاف اور حکیمانہ فضائل کا ایک اعلی ترین نمونہ تھی۔ یہ بات عام طور پر تسلیم کرلی گئی ہے کہ اس کی شوکت و حشمت سے کہیں زیادہ اس کی عالی حوصلگی اور سیر چشمی تھی اور اس کی فیاضی اور رحم دلی اپنی کوئی دوسری مثال نہیں رکھتی۔ انسان کی خدمت اور ہمدردی اس کی شاہانہ طبیعت کا سب سے بڑا جوہر تھا۔ وہ ہمیشہ اس فکر میں رہتا تھا کہ مصیبت زندہ انسانوں کی خبر گیری کرے، مظلوموں کو ظلم سے نجات دلائے، درماندہ انسانوں کا ہاتھ پکڑے، غم زدوں کے دکھ درد میں شریک ہو، پھر ان تمام عالی صفتوں کے ساتھ عاجزی و خاکساری اس کے حسن و جمال کا سب سے بڑا زیور تھی۔ اس نے ایک ایسے تخت پر بیٹھھ کر جس کے آگے تمام قوموں کے سر جھک گئے تھے اور ایک ایسے خزانہ کا مالک ہو کر جس میں تمام دنیا کی دولت سمٹ آئی تھی کبھی گوارا نہیں کیا کہ فخر و غرور کو اپنے دماغ میں جگہ دے۔ ہیروڈوٹس لکھتا ہے وہ ایک نہایت ہی مخیر بادشاہ تھا۔ اسے دنیا کے تمام بادشاہوں کی طرح دولت جمع کرنے کی حرص نہیں تھی بلکہ جود و سخاوت کا جوش تھا۔ وہ کہتا تھا سب سے بڑی دولت یہ ہے کہ نوع انسانی کی بھلائی کا موقع ملے اور مظلوموں کی داد رسی ہو۔ ٹی سیاز لکھتا ہے اس کا عقیدہ یہ تھا کہ دولت بادشاہوں کے ذاتی عیش و آرام کے لیے نہیں ہے بلکہ اس لیے ہے کہ رفاہ عام کے کاموں میں خرچ کی جائے اور ماتحتوں کو اس سے فیض پہنچے۔ چنانچہ اس کی اسی فیض رسانی نے اس کی تمام رعایا کے دل اس کے ہاتھوں میں دے دیے تھے، وہ اس کے لیے خوشی خوشی اپنی گردنیں کٹوا دیتے۔ سائرس کی شخصیت کی غیر معمولی نمود : سب سے زیادہ نمایاں بات جو ان تمام مورخوں کے صفحات پر ملتی ہے وہ سائرس کی شخصیت کی غیر معمولی نمود ہے۔ سب کہتے ہیں کہ وہ جس عہد میں پیدا ہوا اس کی مخلوق نہیں تھا۔ ایک بالا تر شخصیت تھی جسے قدرت نے اپنا کرشمہ دکھانے کے لیے نمودار کردیا تھا۔ دنیا کے کسی حکیم نے اس کی تربیت نہیں کی، وقت کے متمدن ملکوں میں سے کسی ملک میں اس کی پرورش نہیں ہوئی۔ وہ محض قدرت کا پروردہ تھا اور قدرت ہی کے ہاتھوں نے اسے اٹھایا تھا۔ اس کی تمام ابتدائی زندگی صحراؤں کی گود اور پہاڑوں کی آغوش میں بسر ہوئی، وہ فارس کے مشرقی پہاڑوں کا چرواہا تھا۔ تاہم یہ کیسی عجیب بات ہے کہ یہی چرواہا جب دنیا کے سامنے آیا تو حکمرانی کا سب سے بڑا جلوہ، دانش کا سب سے بڑا پیکر، فضیلت کا سب سے بڑا نمونہ ان کے سامنے تھا۔ سائرس اور سکندر : سکندر اعظم کو ارسطو کی تعلیم و تربیت نے تیار کیا تھا اور بلاشبہ وہ بہت بڑا فاتح نکلا لیکن کیا انسانیت و اخلاق کا بھی کوئی گوشہ فتح کرسکا؟ سائرس کے لیے ہمیں کوئی ارسطو نہیں ملتا۔ اس نے انسانی حکمت کی درستاہ کی جگہ قدرت کی درسگاہ میں پرورش پائی تھی تاہم اس نے سکندر کی طرح صرف ملکوں ہی کو نہیں بلکہ انسانیت و فضائل کی مملکتوں کو بھی مسخر کرلیا تھا۔ سکندر کی تمام فتوحات کی عمر اس سے زیادہ نہ تھی جتنی خود اس کی عمر تھی لیکن سائرس کی فتوحات نے جو اینٹیں چن دی تھیں وہ دو سو برس تک نہ ہل سکیں۔ سکندر کے دم توڑتے ہی اس کی مملکت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے لیکن سائرس نے جب دنیا چھوڑی تو اس کی مملکت روز بروز وسیع و مستحکم ہونے والی تھی۔ اس کی فتوحات میں صرف مصر کا خانہ خالی رہ گیا تھا۔ اس کے فرزند کیقباد نے اسے بھی بھر دیا اور پھر چند برسوں کے بعد دنیا کی وہ عالمگیر سلطنت ظہور میں آگئی جو ایشیا، افریقہ اور یورپ کے اٹھائیس ملکوں میں پھیلی تھی اور اس پر سائرس کا جانشین دارایوش تن تنہا حکمراں تھا۔ سکندر کی فتوحات صرف جسم کی فتوحات تھیں جنہیں قہر و طاقت نے سر کیا تھا لیکن سائرس کی فتوحات روح و دل کی فتوحات تھیں جنہیں انسانیت و فضیلت نے سر کیا تھا، پہلی سر اٹھاتی ہے لیکن ٹک نہیں سکتی، دوسری ٹک جاتی ہے اور پھر ٹلتی نہیں۔ سائرس فتح بابل کے بعد دس برس تک زندہ رہا۔ اب اس کی حکومت عرب سے لے کر بحر اسود تک اور ایشیائے کو چک سے بلخ تک پھیلی ہوئی تھی، اور ایشیا کی تمام قومیں اس کے ماتحت آچکی تھیں۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اس تمام عرصہ میں بغاوت اور سرکشی کا ایک حادثہ بھی نہیں ہوا کیونکہ زینوفن کے لفظوں میں وہ صرف بادشاہ ہی نہ تھا بلکہ انسانوں کا شفیق مربی اور قوموں کا رحیم باپ تھا، اور رعایا سخت گیر حکمرانوں سے بغاوت کرسکتی ہے لیکن اولاد اپنے شفیق باپ سے باغی نہیں ہوسکتی۔ موجودہ زمانے کے تمام مورخین تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایک حیرت انگیز خصوصیت تھی، یہ ایسی خصوصیت تھی جو آگے چل کر رومن امپائر کو بھی نصیبت نہ ہوئی۔ سب مفقہ شہادت دیتے ہیں کہ اس عہد کے بادشاہوں کی سخت گیری، قساوت قلبی اور ہیبت انگیز طریق تعذیب کی چھوٹی سے چھوٹی مثال بھی سائرس کے عہد میں نہیں ملتی۔ زمانہ حال کے محققین کی شہادت : یاد رہے کہ یہ محض قدیم یونانی مورخوں کی روایات ہی نہیں ہیں بلکہ موجودہ زمانے کے تمام محققین تاریخ کی تاریخی مسلمات ہیں۔ بالاتفاق یہ بات تسلیم کرلی گئی ہے کہ سائرس تاریخ قدیم کی سب سے بڑی شخصیت ہے جس میں بیک وقت فتوحات کی وسعت، فرمانروائی کی عظمت، اور اخلاق و انسانیت کی فضیلت جمع ہوگئی تھی اور وہ جس عہد میں ظاہر ہوا اس عہد میں اس کی شخصیت ہر اعتبار سے انسانیت کا ایک پیام اور قوموں کی نجات تھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جی۔ بی گرنڈی (G.B Grundy) جو موجودہ زمانہ میں تاریخ قدیم کے ایک مستند ماہر ہیں اور جن کی کتاب گریٹ پرشین وار نہایت مقبول ہوچکی ہے لکھتے ہیں : یہ حقیقت بالکل آشکارا ہے کہ سائرس کی شخصیت اپنے عہد کی ایک غیر معمولی شخصیت تھی اس نے اپنی تمام معاصر قوموں کے دلوں پر اپنا حیرت انگیز تاثر نقش کردیا۔ اس کی ابتدائی نشوو نما بالائی فارس کے غیر آباد اور دور دراز گوشوں میں ہوئی جس کی سرگزشت نے ایک افسانہ کی حیثیت اختیار کرلی ہے، اس کی ابتدائی تربیت کی روایتیں اس سے ڈیڑھ سو برس بعد زینوفن نے مدون کیں جو سقراط کا شاگرد تھا اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان تمام روایتوں میں اس کے فضائل انسانیت کا جو ہر ععام طور پر نمایاں ہے۔ خواوہ ہم ان روایتوں کو اہمیت دیں یا نہ دیں تاہم یہ حقیقت ہر حال میں غیر متزلزل رہتی ہے کہ اس کی تدبیر و سیاست کا دامن اس کی انسانیت و فضیلت کے جوہر سے بندھا ہوا تھا اور جب یہ خصوصیت آشوری اور بابلی شہنشاہوں کی بدعملیوں کے مقابلہ میں لائی جاتی ہے تو اس کی شریفانہ نمود اور زیادہ درخشندہ ہوجاتی ہے۔ پھر آگے چل کر لکھتے ہیں : یہ فی الحقیقت ایک حیرت انگیز کامیابی تھی، بارہ برس پہلے وہ ایک چھوٹی سی ریاست انشان کا ایک گمنام رئیس تھا اور اب ایشیا کی وہ تمام ملکتیں اس کے زیر فرمان تھیں جہاں پھچلی قوموں کی بڑی بڑی عظمتیں ظہور میں آچکی تھیں۔ ان تمام بادشاہتوں میں جنہوں نے زمین کے مالک ہونے کے دعوے کیے ایک بادشاہت بھی ایسی نہ تھی جو اب اپنی ہستی کا کوئی موثر ظہور رکھتی ہو آکادمی مملکت کے نیم اصنامی سارگون سے لے کر نبوکدر زار (بخت نصر) تک سب کی مملکتیں اس کے آگے سربسجود ہوگئی تھیں۔ وہ صرف ایک بڑا فاتح ہی نہیں تھا۔ وہ ایک بڑا حکمراں تھا، قوموں نے یہ نیا دور صرف قبول ہی نہیں کیا بلکہ اس کا استقبال کیا، ان دس برسوں میں جو فتح بابل کے بعد گزرے اس کی تمام وسعی مملکت میں ایک بغاوت کا واقعہ بھی نظر نہیں آتا۔ بلاشبہ اس کی رعایا پر اس کی طاقت کا رعب چھایا ہوا تھا لیکن وہ کوئی وجہ نہیں رکھتی تھی کہ اس کی سخت گیری سے ہراساں ہو۔ اس کی حکومت قتل و سلب کی سزاؤں سے بالکل ناآشنا رہی۔ اب تازیانوں سے مجرموں کو نہیں پیٹا جاتا تھا، اب قتل عام کے احکام صادر نہیں ہوتے تھے، اب قوموں اور قبیلوں کو جلاوطن نہیں کیا جاتا تھا۔ برخلاف اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے آشوری اور بابلی بادشاہوں کے تمام مظٓلم کے اثرات یک قلم محو کردیے۔ جلاوطن قومیں اپنے وطنوں میں لوٹائی گئیں، ان کے معبد اور معبود انہیں واپس دے دیے گئے، قدیم رسموں اور عبادتوں کے خلاف کوئی جبر و تشدد باقی نہیں رہا، ہر قوم کے ساتھ پوری طرح داد رسی کی گئی، ہر مذہب کے پیروؤں کو پوری مذہبی آزادی دی گئی، دنیا کی گزشتہ عالمگری دہشت ناکی کی جگہ ایک عالمگیر رواداری اور عفو و بخشش کا مبارک دور شروع ہوگیا۔ غور کرو، قرآن نے چند لفظوں کے اندر جو اشارات کردیے ہیں آج تاریخ کا داستان سراکس طرح اس کے ایک ایک حرف کی شرحح و تفصیل سنا رہا ہے۔ صحائف تورات کی تصریحات : اب چند لمحوں کے لیے ان تصریحات پر غور کرو جو تورات کے صحائف میں مندرج ہیں، کس طرح وہ سائرس کی شخصیت کی سب سے بڑی خصوصیت واضح کر رہے ہیں اور کس طرح قرآن کے اشارات بھی ٹھیک ٹھیک ان کی تصدیق ہیں؟ یسعیاہ نبی کی کتاب میں ہے کہ خداوند کہتا ہے خورس میرا چرواہا ہے، اور پھر یہ بھی کہا ہے کہ وہ میرا مسیح ہے اور یرمیاہ نبی کا بیان اوپر گزر چکا ہے کہ وہ بابلیوں کے ظلم سے نجات دلائے گا۔ اب دیکھو اس کی شخصیت ٹھیک ٹھیک ایک موعود اور منتظر نجات دہندہ کی شخصیت تھی یا نہ تھی؟ موعود و منتظر ہستی : جب ہم اس عہد کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر سائرس کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں، توبہ اول نظریہ حقیقت آشکارا ہوجاتا ہے کہ اس کا ظہور ٹھیک ٹھیک ایک ایسی شخصیت کا ظہور تھا جس کے لیے وقت کی تمام قومیں چشم براہ ہوں، قوموں کا انتظار ان کی زبانوں پر نہیں ہوتا، ان کے حالات کے قدرتی تقاضے میں ہوتا ہے، غور کرو اس عہد کی رفتار زمانہ کا قدرتی تقاضا کیا تھا؟ یہ تاریخ کے صبح تمدن کی وہ نمود تھی جس کی روشنی میں ہم انسانی حکمرانی کی ساری تاریکیاں پھیلی ہوئی دیکھتے ہیں۔ صاف دکھائی دیتا ہے کہ اس وقت تک انسانی فرمانروائی کی عظمت صرف قہر و غضب ہی کی نقاب میں رونما ہوئی تھی اور سب سے بڑا حکمراں وہی سمجھا جاتا تھا جو سب سے زیادہ انسانوں کے لیے خوفناک ہو۔ آشور بنی پال نینوا کا سب سے بڑا بادشاہ تھا اس لیے کہ وہ شہروں کے جلانے اور آبادیوں کے ویران کرنے میں سب سے زیادہ بے باک تھا۔ بابل کی نشاۃ ثانیہ میں نبو کدرزار سب سے بڑا فاتح تھا، اس لیے کہ قوموں کی ہلاکت اور مملکتوں کی ویرانی میں سب سے زیادہ قہر مان تھا۔ مصریوں، آکادیوں، ایلامیوں، آشوریوں اور بابلیوں سب میں انسانی حکومت و عظمت کے مظاہر خوفناکی اور دہشت انگیزی کے مظاہر تھے اور ان کی شخصیتوں نے دیوتائی الوہیت کی تقدیس سے ملکر انسانوں کے قتل و تعذیب کا ہولناک استحقاق حاصل کرلیا تھا۔ سائرس کے ظہور سے پچاس برس پہلے نبوکدرزار کی شہنشاہی کا ظہور ہوا اور ہمیں معلوم ہے کہ اس نے بیت المقدس پر پیہم تین حملے کر کے نہ صرف دنیا کا سب سے بڑا زرخیز علاقہ تاراج و ویران کردیا، بلکہ فلسطین کی پوری آبادی کو اس طرح ہنکا کر بابل لے گیا جو زیفس کے لفظوں میں کوئی سخت سے سخت بے رحم قسائی بھی اس وحشت و خونخواری کے ساتھ بھیڑوں کو مذبح میں نہیں لے جاتا، پھر کیا ان حالات کا قدرتی تقاضا یہ نہ تھا کہ دنیا ایک نئی شخصیت کے لیے چشم براہ ہو؟ قومیں ایک نجات دہندہ کی راہ تک رہی ہوں؟ ایک ایسے نجات دہندہ کی جو انسانوں کے گلہ کے لیے خدا کا بھیجا ہوا چرواہا ہو جوان کی بیڑیاں کاٹے اور ان کے سروں کا بوجھ ہلکا کردے۔ جو دنیا کو اس ربانی صداقت کا سبق دے دے کہ انسانی حکمرانی نوع انسانی کی خدمت کے لیے ہونی چاہیے، دہشت انگیزی اور خوفناکی کے لیے نہیں؟ خدا کا بھیجا ہوا چرواہا؟ دنیا بادشاہوں کے ہاتھوں سے تنگ آچکی تھی، اب وہ ایک چرواہے کے لیے مضطرب تھی اور یسعیاہ نبی کے لفظوں میں خدا کا وہ فرستادہ چرواہا نمودار ہوگیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ زینوفن کے لفظوں میں قوموں نے اسے قبول ہی نہیں کیا بلکہ اس کے استقبال کے لیے بے اختیار لپکیں، کیونکہ وہ وقت کی جستجو کا قدرتی سراغ اور زمانہ کی طلب کا قدرتی جواب تھا اور اگر رات کی تاریکی کے بعد صبح کی روشنی کا خیر مقدم کیا جاتا ہے تو ممکن نہ تھا کہ انسانی شقاوت کی اس طولانی تاریکی کے بعد صبح سعادت کی اس جہاں تابی کا استقبال نہ کیا جاتا۔ غور کرو یسعیاہ نبی کا یہ جملہ صورت حال کی کیسی ہو بہو تصویر ہے کہ وہ میرا چرواہا ہوگا۔ وہ میری ساری مرضی پوری کرے گا۔ میں اس کا داہناا ہاتھ پکڑ کے قوموں کو اس کے قابو میں دے دوں گا اور بادشاہوں کی کمریں اس کے آگے کھلوا ڈالوں گا۔ میں اس کے آگے چلوں گا۔ میں ٹیڑے راستے اس کے لیے سیدھے کردوں گا۔ (٢٨: ٤٤) سارے مورخ گواہی دے رہے ہیں کہ وہ ایک چرواہے کی طرح آیا اور اس نے بندگان خدا کی رکھوالی کی۔ سب کہہ رہے ہیں کہ اس نے جس ملک کا رخ کیا اس کی شقاوت ختم ہوگئی وہ جس قوم کی طرف بڑھا، اس کی بیڑیاں کٹ گئیں، اس نے جس گروہ کے سر پر ہاتھ رکھا، اس کے سارے بوجھ ہلکے ہوگئے، وہ صرف بنی اسرائیل ہی کا نہیں بلکہ تمام قوموں کا نجات دہندہ تھا۔ خدا کا مسیح : یاد رہے کہ یسعیاہ نبی کی اسی پیشن گوئی میں اسے خدا کا مسیح بھی کہا ہے اور تورات کی اصطلاح میں مسیح وہ ہوتا ہے جسے خدا اپنی برکتوں کے ظہور کے لیے برگزیدہ کرلے اور خدا کے براہ راست ممسوح ہونے کی وجہ سے مقدس ہو۔ چنانچہ حضرت داؤد کی نسبت بھی آیا ہے کہ مسیح تھے، سائرس کی نسبت ببھی یہی کہا ہے اور اسی طرح بنی اسرائیل کی نجات کے لیے ایک آخری مسیح کی بھی پیشین گوئیاں موجود ہیں۔ سائرس کو مسیح کہنا، اس میں شک نہیں کہ اس کے تقدس اور الہی برگزیدگی کی سب سے زیادہ واضح اور قطعی اسرائیلی شہادت ہے۔ اس سلسلہ میں آخری وصف جو ذوالقرنین کا سامنے آتا ہے وہ اس کا ایمان باللہ ہے۔ قرآن کی آیتیں اس بارے میں ظاہر و قطعی ہیں کہ وہ ایک خدا پرست انسان تھا، آخرت پر یقین رکھتا تھا احکام الہی کے مطابق عمل کرتا تھا اور اپنی تمام کامرانیوں کو اللہ کا فضل و کرم سمجھتا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سائرس کا بھی ایسا ہی اعتقاد و عمل تھا؟ لیکن تمام پھچلی تفصیلات پڑھنے کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ نہیں تھا؟ یہودیوں کے صحائف کی واضح شہادت موجود ہے کہ خدا نے اسے اپنا فرستادہ اور مسیح کہا اور وہ نبیوں کا موعود و منتظر تھا۔ ظاہر ہے کہ ایسی ہستی خدا کی نافرمان ہستی نہیں ہوسکتی۔ جس کا داہنا ہاتھ خدا نے پکڑا ہو۔ اور جس کی ٹیڑھی راہیں وہ درست کرتا جائے۔ یقینا وہ خدا کا ناپسندیدہ بندہ نہیں ہوسکتا۔ خدا صرف انہی کا ہاتھ پکڑتا ہے جو برگزیدہ اور مقدس ہوتے ہیں اور صرف انہی کو اپنا فرستادہ کہتا ہے جو اس کے چنے ہوئے اور اس کی ٹھہرائی ہوئی راہوں پر چلنے والے ہوتے ہیں۔ اسرائیلی نبیوں کی شہادت : آج کل کے اصحاب نقد و نظر یسعیاہ نبی کی اس پیشین گوئی کو مشتبہ سمجھتے ہیں کیونکہ یہ سائرس سے ڈیڑھ سو برس پہلے کی گئی تھی۔ لیکن اگر اس سے قطع نظر کرلی جائے جب بھی صورت حال پر کوئی اثر پڑتا، کیونکہ خود سائرس کے عہد میں جو اسرائیلی نبی موجود تھے ان کی شہادتیں موجود ہیں اور وہ صاف کہہ رہی ہیں کہ یہودیوں کا عام اعتقاد تھا اور اسی حیثیت سے اس کا استقبال کیا تھا۔ حزقی ایل اور دانیال سائرس کے معاصر تھے اور دانیال دارا کے عہد تک زندہ رہے۔ ان دونوں کی تصریحات سائرس کی نسبت موجود ہیں۔ پھر دارا کے زمانہ میں حجی اور زکریاہ کے صحیفے مرتب ہوئے اور زرکسیس (اردشیریا ارتخششت) کے عہد میں عزرا اور نحمیاہ کا ظہور ہوا۔ ان سب کی شہادتیں بھی موجود ہیں، اور ان سب سے قطعی طور پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سائرس بنی اسرائیل کی ایک موعود ہستی تھی اور خدا نے اسے برگزیدگی کے لیے چن لیا تھا۔ اگر یہودیوں کا عام اعتقاد یہ تھا تو کیا ایک لمحہ کے لیے یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ وہ ایک بت پرست انسان کی نسبت ایسا اعقاد رکھنے کی جرات کرتے؟ فرض کرو یہ تمام پیشین گوئیاں سائرس کے ظہور کے بعد بنائی گئیں لیکن یہ ظٓہر ہے کہ یہودیوں ہی نے بنائیں اور یہودیوں ہی میں پھیلیں، حتی کہ ان کی مقدس کتاب میں داخل ہوگئیں۔ پھر کیا ممکن تھا کہ ایک بت پرست انسان کے لیے ایسی پیشین گوئیاں بنائی جاسکتیں؟ کیا ممکن تھا کہ ایک بت پرست کو اسرائیلی وحی کا ممدوح اور اسرائیلی نبیوں کا موعود بنایا جاتا؟ یہودیوں کا اعتراف : یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اجنبیوں اور غیر اسرائیلیوں کے خلاف یہودیوں کا تعصب بہت ہی سخت تھا۔ ان کے نسلی غرور پر اس سے زیادہ کوئی بات شاق نہیں گزرتی تھی کہ کسی غیر اسرائیلی انسان کی بزرگی کا اعتراف کریں۔ ظہور اسلام کے وقت بھی یہی عصبیت انہیں اعتراف حق سے روکتی تھی کہ (ولا تومنوا الا لمن تبع دینکم) تاہم وہ سائرس کی فضیلت کے آگے جھک گئے جو ان کے لیے ہر اعتبار سے اجنبی تھا اور نہ صرف اس کی بزرگی ہی کا اعتراف کیا بلکہ نبیوں کا موعود اور خدا کا برگزیدہ تسلیم کرلیا، یہ صورت حال اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ سائرس کی شخصیت ان کے لیے بڑی ہی محبوب شخصیت تھی اور اس کی فضیلتیں ایسی قطعی اور آشکارا تھیں کہ ان کے اعتراف میں نسلی عصبیت کا جذبہ بھی حائل نہ ہوسکا۔ ظاہر ہے کہ ایک بت پرست انسان کے لیے جو اجنبی بھی ہو یہودیوں میں ایسی محبوبیت نہیں پیدا ہوسکتی تھی۔ اگر ایک بت پرست بادشاہ نے انہیں نجات دلائی تھی تو وہ اس کی شاہانہ عظمتوں کی مداحی کرتے مگر خدا کا مسیح اور برگزیدہ کبھی نہ سمجھتے۔ ضروری ہے کہ اس کی فضیلتیں مذہبی ہوں۔ ضروری ہے کہ مذہبی حیثیت سے بھی عقائد کا توافق موجود ہو۔ یہ یہودیوں کی پوری تاریخ میں غیر اسرائیلی فضیلت کے اعتراف کا تنہا واقعہ ہے، اور ممکن نہیں کہ ایک ایسے انسان کے لیے ہو جسے وہ مذہبی حیثیت سے محترم نہ سمجھتے ہوں۔ سائرس کے دین کا تعین : لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سائرس کے دینی عقائد کے بارے میں ہماری معلومات کیا ہیں۔ تاریخی حیثیت سے یہ قطعی ہے کہ سائرس زردشت کا پیرو تھا جسے یونانیوں نے زار و سترو کے نام سے پکارا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ غالبا اسی کی شخصیت ہے جو اس نئی دعوت کی تبلیغ و عروج کا ذریعہ ہوئی۔ اس نے فارس اور میڈیا میں نئی شہنشاہی کی بنیاد ہی نہیں رکھی تھی بلکہ قدیم مجوسی دین کی جگہ نئے زردشتی دین کی بھی تخم ریزی کی تھی۔ وہ ایران میں نئی شہنشاہی اور نئے دین دونوں کا بانی تھا۔ زرتشت کے ظہور کا زمانہ : زردشت کی ہستی کی طرح اس کے ظہور کا زمانہ اور محل بھی تاریخ کا ایک مختلف فیہ موضوع بن گیا ہے اور انیسیوں صدی کا پورا زمانہ مختلف نظریوں اور قیاسوں کے ردو کد میں بسر ہوچکا تھا۔ بعضوں کو اس کی تاریخی ہستی ہی سے انکار ہوا۔ بعضوں نے شاہنامہ کی روایت کو ترجیح دی اور گشتاسب والا قصہ تسلیم کرلیا۔ بعضوں نے اس کا زمانہ ایک ہزار برس قبل مسیح قرار دیا۔ بعضوں نے یہ مدت دو ہزار برس قبل مسیح تک بڑھا دی۔ اسی طرح محل کے تعین میں بھی اختلاف ہوا۔ بعضوں نے باختر، بعضوں نے خراسان، بعضوں نے میڈیا اور شمالی ایران قرار دیا۔ لیکن اب بیسیوں صدی کی ابتدا سے اکثر محققین تاریخ گلڈنز کی رائے پر متفق ہوگئے ہیں اور عام طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے کہ زردشت کا زمانہ وہی تھا جو سائرس کا تھا۔ اور گشتاسپ والی روایت اگر صحیح ہے تو اس سے مقصود وہی گشتاسپ ہے جو دارا کا باپ اور ایک صوبہ کا گورنر تھا۔ زردشت کا ظہور شمال مغربی ایران یعنی آزربائجان میں ہوا جسے اوستا کے حصہ دیندی داد میں ایریا نہ دیجو سے تعبیر کیا ہے البتہ کامیابی باختر میں ہوئی جس کا گورنر گشتاسپ تھا۔ اس تحقیق کے مطابق زردشت کا سال وفات تقریبا ٥٥٠ قبل سمیح سے لے کر ٥٨٣ قبل مسیح تک ہونا چاہیے اور سائرس کی تخت نشینی بالاتفاق ٥٥٠ قبل مسیح میں ہوئی۔ یعنی زردشت کی وفات کے بیس سال بعد، یا عین اسی سال۔ سائرس دین زردشتی کا پہلا حکمراں تھا : لیکن اگر سائرس زردشت کا معاصر تھا تو کیا کوئی براہ راست تاریخی شہادت موجود ہے جس سے اس کا دین زردشی قبول کرنا ثابت ہو؟ نہیں ہے لیکن اگر وہ تمام قرائن جمع کیے جائیں جو خود تاریخ کی روشنی نے مہیا کردیے ہیں تو یقینا ایک بالواسطہ شہادت نمایاں ہوجاتی ہے اور اس میں کچھ شبہ باقی نہیں رہتا کہ سائرس نہ صرف دین زردشتی پر عامل تھا بلکہ اس کا پہلا حکمران داعی تھا اور اسی نے یہ ورثہ اپنے جانشینوں کے لیے چھوڑا جو دو سو برس تک بلا استثنا دین زردشتی پر عمل پیرا رہے۔ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ روشنی جن واقعات سے پڑتی ہے وہ دو ہیں اور دنوں کی تاریخی نوعیت مسلم ہے۔ پہلا واقعہ گوماتہ کی بغاوت کا جو سائرس کی وفات کے آٹھ برس بعد ظہور میں آئی۔ دوسرا دارا کے کتبے ہیں جن سے اس کے دینی عقائد کی نوعیت آشکارا ہوگئی ہے۔ سائرس کا بالاتفاق ٥٢٩ قبل مسیح میں انتقال ہوا اس کے بعد اس کا بیٹا کم بی سیز (کمبوچیہ یا کیقباد) تخت نشین ہوا۔ اس نے ٥٢٥ قبل مسیح میں مصر فتح کیا۔ لیکن ابھی مصر ہی میں تھا کہ معلوم ہوا ایران میں بغاوت ہوگئی ہے اور ایک شخص گوماتہ نامی نے اپنے آپ کو سائرس کا دوسرا لڑکا سمرڈیز (فارسی : بردیہ) مشہور کردیا ہے جو بہت پہلے مرچکا تھا یا مار ڈالا گیا تھا۔ یہ خبر سن کر وہ مصر سے لوٹا لیکن ابھی شام میں تھا کہ ٥٢٢ ق۔ م میں اچانک انتقال کرگیا۔ اب چونکہ سائرس کی براہ راست نسل سے کوئی شہزادہ موجود نہ تھا اس لیے اس کا عم زاد بھائی دارا بن گشتاسپ تخت نشین ہوگیا۔ دارا نے بغاوت فرو کی، گوماتہ کو قتل کیا، اور نئی مملکت کو اس کے عروج و کمال تک پہنچا دیا۔ دارا کی تخت نشینی بالاتفاق ٥٢١ ق م میں ہوئی ہے۔ پس اسا کا عہد سائرس کے انتقال سے آٹھ برس بعد شروع ہوگیا تھا۔ یونانی مورخوں کی شہادت موجود ہے کہ یہ بغاوت میڈیا کے قدیم مذہب کے پیروؤں کی بغاوت تھی اور خود دارا اپنے کتبہ بے ستون میں گومانہ کو موگوش لکھتا ہے۔ یعنی مجوسی، اور مجوسی مذہب سے مقصود قدیم مذہب ہے، تاریخ میں اس کا بھی سراغ ملتا ہے کہ پرانے مذہب کے پیروؤں کی سرکشی اس کے بعد بھی جاری رہی۔ چنانچہ دوسری بغاوت پر اور تش نامی مجوسی نے کی تھی جسے دارا نے ہمدان میں قتل کیا اور تیسری چتر خمہ نامی نے جواربیل میں قتل ہوا۔ دوسرا واقعہ دارا کے کتبوں سے روشنی میں آیا ہے، یہ دنیا کی خوش قسمتی ہے کہ دارا نے بعض کتنے پہاڑوں کی محکم چٹانوں پر نقش کرائے جنہیں سکندر کا حملہ بھی برباد نہ کرسکا۔ ان میں سب سے زیادہ اہم کتبہ بے ستون کا ہے۔ جس میں دارا نے گوماتہ مجوسی کی بغاوت اور اپنی تخت نشینی کی سرگزشت قلمبند کی ہے۔ دوسرا استخر کا ہے جس میں اپنے تمام ماتحت ممالک کے نام گنوائے ہیں۔ ان دونوں میں وہ بار بار اہور موزدہ کا نام لیتا ہے اور اپنی تمام کامرانیوں کو اس کے فضل و کرم سے منسوب کرتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اہور مزدہ زردشت کی تعلیم کا اللہ ہے۔ ان دو واقعوں پر ایک تیسرے واقعہ کا بھی اضافہ کردینا چاہیے یعنی تاریخ میں کوئی اشارہ اس کا نہیں ملتا کہ کم بی سیز نے کوئی نیا دین قبول کیا تھا یاوارا کو اس طرح کا کوئی معاملہ پیش آیا تھا۔ ہیروڈوٹس نے دارا کی وفات سے پچاس ساٹھ برس بعد اپنی تاریخ لکھی ہے۔ اس کے لیے دارا کے عہد کے واقعات بالکل قریبی زمانے کے واقعات تھے اور لیڈیا میں فارسی حکومت قائم ہوجانے کی وجہ سے یونانیوں اور فارسیوں کے تعلقات ببھی روز بروز بڑھ رہے تھے۔ تاہم وہ کسی ایسے واقعہ کا ذکر نہیں کرتا۔ پس سائرس کی وفات اور دارا کی تخت نشینی کے درمیان آٹھ برس کی جو مدت گزری ہے ہم وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس عرصہ میں کسی نئی مذہبی دعوت کے ظہور و قبول کا کوئی واقعہ نہیں گزرا۔ اب غور کرو ان واقعات کا لازمی نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ اگر سائرس کے بعد کم بی سیز اور دارا نے کوئی نئی دعوت قبول نہیں کی تھی اور دارا دین زردشتی پر عامل تھا تو کیا اس سے ثابت نہیں ہورہا ہے کہ دارا اور کم بی سیز سے پہلے زردشتی دین خاندان میں آچکا ہے؟ اگر سائرس کی وفات کے چند سال بعد قدیم مذہب کے پیرو اس لیے بغاوت کرتے ہیں کہ کیوں ایکنیا مزہب قبول کرلیا گیا ہے تو کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ سائرس نیا مذہب قبول کرچکا تھا اور تبدیل مذہب کا معاملہ نیا نیا پیش آیا تھا؟ پھر اگر زردشت سائرس کا معاصر تھا تو کیا یہ اس بات کا مزید ثبوت نہیں ہے کہ سب سے پہلے سائرس ہی نے یہ دعوت قبول کی تھی اور وہ فارس اور میڈیا کا نیا شہنشاہ بھی تھا اور نئی دعوت کا پہلا حکمراں دای بھی؟ زردشت اور سائرس : اتنا ہی نہیں بلکہ ہم گور کرتے ہیں تو اس زنجیر کی کڑیاں اور آگے بڑھتی جاتی ہیں۔ البتہ ہم اسے ایک قیاس سے زیادہ کہنے کی جرات نہیں کریں گے۔ اگر سائرس زردشت کا معاصر تھا اور سائرس کا ابتدائی زمانہ خاندان سے الگ اور گمنامی میں بسر ہوا تو کیا اسی زمانہ میں دونوں شخصیتیں ایک دوسرے کے قریب نہیں پہنچ جاتیں؟ اور کیا ایسا نہیں سمجھا جاسکتا کہ اسی زمانہ میں سائرس زردشت کی تعلیم و صحبت سے بہرہ مند ہوا؟ سائرس کی ابتدائی زندگی کی سرگزشت تاریخ کی ایک گم شدہ داستا ہے، پھر کیا اس داستان کا سراغ ہمیں ان دونوں شخصیتوں کی معاصرت کے واقعہ میں نہیں مل جاتا؟ مورخ زینوفن نے سائرس کی ابتدائی زندگی کا افسانہ ہمیں سنایا ہے، اس افسانہ میں ایک پراسرار شخص کی پرچھائیں صاف نظر آرہی ہے جو دشت و جبل کے اس پر دردہ قدرت کو آنے والے کارناموں کے لیے تیار کر رہا تھا۔ کیا اس پر چھائیں میں ہم خود زردشت کی مقدس شخصیت کی نمود نہیں دیکھ رہے؟ اگر زردشت کا ظہور شمال مغربی ایران میں ہوا تھا اور اگر سائرس کی ابتدائی گمنامی کا زمانہ بھی شمالی کوہستانوں میں بسر ہوا، تو کیوں یہ دونوں کڑیاں باہم ملکر ایک گمشدہ داستان کا سراغ نہ بن جائیں؟ سائرس کی شخصیت وقت کے تمام ذہنی اور اخلاقی رجحانات کے برخلاف ایک انقلاب انگیز شخصیت تھی، ایسی شخصیت کسی انقلاب انگیز داعی کی دعوت ہی سے پیدا ہوسکتی ہے اور صاف نظر آرہا ہے کہ وہ داعی شخصیت زردشت ہی کی تھی۔ بہرحال سائرس نے اپنی ابتدائی گمنامی کے عہد میں نئی دعوت قبول کی ہو یا تخت نشینی کے بعد لیکن یہ قطعی ہے کہ وہ دین زردشتی پر عام تھا۔ دین زردشتی کی حقیقی تعلیم : لیکن اگر ذوالقرنین دین زردشتی پر عامل تھا اور قرآن ذوالقرنین کے ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کا اثبات کرتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اسے ملہم من اللہ قرار دیتا ہے تو کیا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ زردشت کی تعلیم دین حق کی تعلیم تھی؟ یقینا لازم آتا ہے کوئی وجہ نہیں کہ اس لزوم سے بچنے کی ہم کوشش کریں۔ کیونکہ یہ حقیقت اب پوری طرح روشنی میں آچکی ہے کہ زردشت کی تعلیم سرتاسر خدا پرستی اور نیک عملی کی تعلیم تھی اور آتش پرستی اور ثنویت کا اعتقاد اس کا پیدا کیا ہوا اعتقاد نہیں ہے بلکہ قدیم میددی مجوسیت کا رد عمل ہے۔ جس طرح روم کی مسیحیت قدیم رومی بت پرستی کے رد عمل سے محفوظ نہ رہ سکی اسی طرح زردشت کی خالص خدا پرستانہ تعلیم بھی قدیم مجوسیت کے رد عمل سے بچ نہ سکی۔ خصوصا ساسانی عہد میں جب وہ از سر نو مدون ہوئی تو اصل تعلیم سے بالکل ایک مختلف چیز بن چکی تھی۔ میڈیا کا قدیم مذہب : زردشت کے ظہور سے پہلے فارس اور میڈیا کے باشندوں کے عقائد کی بھی نوعیت وہی تھی جو انڈو یوروپین آریاؤں کی تمام دوسری شاخوں کی رہ چکی ہے۔ ہندوستان کے آریوں کی طرح ایران کے آریوں میں بھی پہلے مظاہر قدرت کی پرستش ہوئی، پھر سورج کی عظمت کا تصور پیدا ہوا، پھر زمین میں آگ نے سورج کی قائم مقامی پیدا کرلی کیونکہ تمام مادی عناصر میں رشنی اور جرات کا سرچشمہ وہی تھی، یونانیوں میں ایسے دیوتاؤں کا تصور پیدا ہوا جن سے اچھائی اور برائی دونوں ظہور میں آتی تھیں لیکن ایرانیوں کے تصور نے دیوتاؤں کو دو متقابل قوتوں میں تقسیم کردیا۔ ایک قوت پاک روحانی ہستیوں کی تھی جو انسان کو زندگی کی تمام خوشیاں بخشتی تھی، دوسری قوت برائی کے عفریتوں کی تھی جو نوع انسان کے جانی دشمن تھے، روحانی ہستیوں کی نمود روشنی میں ہوئی اور شیطانوں کی تاریکی میں، نور و ظلمت کی یہی کمشکش ہے جس سے تمام اچھے برے حوادث ظہور میں آتے ہیں۔ چونکہ روشنی پاک روحانیتوں کی نمود ہے اس لیے ہر طرح کی عبادتیں اور قربانیاں اسی کے لیے ہونی چاہیں۔ اس روشنی کا مظہر آسمان میں سورج اور زمین میں آگ تھی۔ اچھائی برائی کا جس قدر تصور تھا وہ یونانیوں کی طرح صرف مادی زندگی کی راحتوں اور محرومیوں ہی میں محدود تھا۔ روحانی زندگی اور اس کی سعادت و شقاوت کا کوئی تصور پیدا نہیں ہوا تھا۔ آگ کی پرسش کی قربان گاہیں بنائی جاتی تھیں اور اس کے خاص پچاریوں کا ایک مقدس گروہ بھی پیدا ہوگیا تھا۔ اس کے افراد موگوش کے لقب سے پکارے جاتے تھے، آگ چل کر اسی لقب نے آتش پرستی کا مفہوم پیدا کرلیا۔ زردشت کی تعلیم : لیکن زردشت نے ان تمام عقائد سے انکار کدیا، اس نے خدا پرستی، روحانی سعادت و شقاوت اور آکرت کی زندگی کا عقیدہ پیدا کیا۔ اس نے کہا، یہاں نہ تو خیر کی بہت سی روحانی ہستیاں ہیں، نہ شر کے بہت سے عفریت، یہاں صرف ایک اہور موزدہ کی ہستی ہے، جو یگانہ ہے، نور ہے، قدوس ہے، حق ہے، حکیم ہے، قدیر ہے، اور تمام کائنات ہستی کی خالق ہے، کوئی ہستی نہیں جو اس کے مثل ہو یا اس کے ہمتا ہو یا اس کی شریک ہو تم نے جن روحانی قوتوں کو خیر کا خالق سمجھ رکھا ہے وہ خالق و قادر نہیں ہیں، بلکہ اہورموزدہ کے پیدا کیے ہوئے امش سپند ہیں۔ یعنی ملائکہ ہیں اور شر کا ذریعہ دیووں کی خوفناک قوت نہیں ہے بلکہ انردمین (اہرمن) کی ہستی ہے۔ یعنی شیطان کی ہستی ہے، یہ اپنی وسوسہ اندازیوں سے انسان کو تاریکی کی طرف لے جاتی ہے۔ تعلیم کی عملی خصوصیت : زردشت کی تعلیم کا عملی پہلو سب سے زیادہ اہم ہے، یونانیوں کی طرح اس کا اخلاقی تصور مذہب سے الگ نہیں تھا بلکہ عین مذہب میں تھا، اس نے مذہب کو محض ایک قومی اور ملکی مذہب کی شان نہیں دی بلکہ انفرادی زندگی کا روزانہ دستور العمل بنا دیا۔ نفس کی طہارت اور اعمال کی درستی اس کی تعلیم کا اصلی محور ہے انسانی زندگی کا ہر خیال، ہر قول، ہر فعل ضروری ہے کہ اس معیار پر پورا اترے۔ فکر کی راستی، گفتار کی راسی اور کردار کی راستی پرستار ان اہوز موزدہ کے لیے تین بنیادی اصول تھے۔ پروفیسر گرنڈی کے لفظوں میں اس کا مذہب حقیقت اور عمل کا مذہب تھا۔ یونانی مذہب کی طرح محض رسموں اور ریتوں کا مذہب نہ تھا۔ اس نے مذہب کو ایرانیوں کی روزانہ زندگی کی ایک حقیقت بنا دیا اور اخلاق اس مذہب کا مرکزی عنصر تھا۔ عبادت کا تصور : اس کی عبادت کا تصور ہر طرح کے اصنامی اثرات سے پاک تھا، عبادت ہمیں اس لیے نہیں کرنی چاہیے کہ خدا کے غضب و انتقام سے بچیں بلکہ اس لیے کہ برکتیں اور سعادتیں حاصل کریں۔ اگر ہم اہور موزدہ کی عبادت نہیں کریں گے تو وہ ہمیں یونانی اور ہندوستانی دیوتاؤں کی طرح اپنے غضب کا نشانہ نہیں بنائے گا، لیکن خود ہم سعادت سے محروم رہ جائیں گے۔ آخرت کی زندگی : اس کی تعلیم کا سب سے زیادہ نمایاں پہلو آخرت کی زندگی کا اعتقاد ہے، وہ کہتا ہے انسان کی زندگی صرف اتنی ہی نہیں ہے جتنی اس دنیا میں گزرتی ہے، اس کے بعد بھی ایک زندگی پیش آئے گی۔ اس زندگی میں دو عالم ہوں گے ایک اچھائی اور سعادت کا، دوسرا برائی اور شقاوت کا، جن لوگوں نے اس زندگی میں نیک عمل کیے ہیں وہ پہلے عالم میں جائیں گے، جنہوں نے برے عمل کیے ہیں، دوسرے عالم میں اور اس کا فیصلہ اس دن ہوگا جسے وہ آخری فیصلہ کا دن قرار دیتا ہے۔ بقائے روح کا مسئلہ اس کے مذہب کی بنیادی چٹان ہے، انسان فانی ہے مگر اس کی روح فانی نہیں، وہ اس کے مرنے کے بعد بھی باقی رہتی ہے اور ثواب و عقاب کے دو عالموں میں سے کسی عالم میں داخل ہوجاتی ہے۔ پیروان زردشت کا اخلاقی تقدم : موجودہ عہد کے تمام محققین تاریخ متفق ہیں کہ زردشت کی تعلیم نے انسان کے اخلاقی اور فکری ارتقا میں نہایت موثر حصہ لیا ہے اس نے پانچ سو برس قبل مسیح ایرانیوں کو اخلاقی پاکیزگی کی ایک ایسی سطح پر پہنچا دیا تھا جہاں سے ان کے معاصر یونانیوں اور رومیوں کی زندگی بہت ہی پست دکھائی دیتی ہے۔ ایک ایسا مذہب جس کی تعلیم کا رخ سرتاسر انفرادی زندگی کی پاکیزگی کی طرف تھا اور جو اپنے پیروؤں کی اخلاقی روش کے لیے نہایت بلند مطالبے رکھتا تھا ضروری تھا کہ اعمال و خصائل کے بہتر سانچے ڈھال دے اور تاریخ شہادت دے رہی ہے کہ اس نے ڈھال دیے تھے۔ یہ شہادت کن لوگوں کے قلم سے نکلی ہے ؟ ان لوگوں کے قلم سے جو کسی طرح بھی ایرانیوں کے دوست نہیں سمجھے جاسکتے۔ پانچویں اور چوتھی قبل مسیح کا تمام زمانہ ایرانیوں اور یونانیوں کی مسلسل آویزش کا زمانہ رہا ہے اور ہیروڈوٹس اور زینوفون نے جب تاریخیں لکھی ہیں تو یونان کے حریفانہ جذبات پوری طرح ابھرے ہوئے تھے۔ تاہم ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایرانیوں کی اخلاقی فضیلت سے انکار نہیں کرسکتے۔ انہیں ماننا پڑتا ہے کہ ان میں بعض ایسی عظیم فضیلتیں ہیں جو یونانیوں میں نہیں پائی جاتیں۔ ہم یہاں پروفیسر گرنڈی کے الفاظ پھر مستعار لیں گے کہ ایرانی سچائی اور دیانت کی ایسی فضیلتیں رکھتے تھے جو اس عہد کی قوموں میں عام طور پر کھائی نہیں دیتی۔ ان کی راست بازی، رحم دلی، شجاعت اور بلند نظری کا سب اعتراف کرتے ہیں اور یہ یقینا زردشت کی تعلیم کے لازمی نتائج تھے۔ دارا کے فرامین : دارائے اول کا زمانہ اس مذہب کی بلند آہنگی کا شاندار زمانہ ہے اس کے کتبوں میں ہمیں زردشتی تعلیم کی صدائیں صاف سنائی دے رہی ہیں اور ان سے ہم حقیقت حال معلوم کرلے سکتے ہیں۔ استخر کا کتبہ ڈھائی ہزار برس پیشتر کی یہ منادی آج تک بلند کر ررہا ہے : خدائے برتر اہور موزدہ ہے، اسی نے زمین پیدا کی، اسی نے آسمان بنایا، اسی نے انسان کی سعادت بنائی اور وہی ہے جس نے دارا کو بہتوں کا تنہا حکمراں اور آئین ساز بنایا۔ دارا اعلان کرتا ہے کہ اہور موزدہ نے اپنے فضل سے مجھے بادشاہت دی، اور اسی کے فضل سے میں نے زمین میں امن و امان قائم کیا، میں اہور موزدہ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے، میرے خاندان کو، اور ان ملکوں کو محفوظ رکھے۔ اے اہور موزدہ میری دعا قبول کر۔ صراط مستقیم کی دعوت : اے انسان ! اہور موزدہ کا تیرے لیے حکم یہ ہے کہ برائی کا دھیان نہ کر۔ صراط مستقیم کو نہ چھوڑ گناہ سے بچتا رہ۔ یاد رہے کہ دارا سائرس کا معاصر تھا اور اس کی وفات سے صرف آٹھ برس بعد تخت نشین ہوا، پس دارا کی صداؤں میں ہم خود سائرس کی صدائیں سن رہے ہیں، اس کا بار بار اپنی کامرانیوں کو اہور موزدہ کے فضل و کرم سے منسوب کرنا ٹھیک ٹھیک ذوالقرنین کے اس طریق خطاب کی تصدیق ہے کہ (ھذا رحمۃ من ربی) زردشتی مذہب کا انحطاط و تغیر : لیکن چوتھی صدی قبل مسیح کے بعد زردشتی مذہب کا تنزل شروع ہوگیا۔ ایک طرف قدیم مجوسی مذہب نے آہستہ آہستہ سر اٹھایا، دوسری طرف خارجی اثرات بھی کام کرنے لگے۔ یہاں تک کہ انٹانین (Antonine) شہنشاہ روم کے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ سارئس اور دارا کے عہد کے زردشتی مذہب نے بالکل ایک دوسری ہی شکل اختیار کرلی ہے۔ پھر سکندر اعظم کی فتوحات کا سیلاب اٹھا اور وہ ایران کی دو صد سالہ شہنشاہی ہی نہیں بلکہ اس کا مذہب بھی بہا لے گیا۔ ایرانیوں کا قوی افسانہ کہتا ہے کہ زردشت کا مقدس صحیفہ اوستا بارہ ہزار بیلوں کی مدبوغ کھالوں پر آب زر سے لکھا ہوا تھا جو سکندر کے حملہ استخر میں جل کر راکھ ہوگیا۔ بارہ ہزار بیلوں کی کھلا کا قصہ تو محض مبالغہ ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ بخت نصر کے حملہ بیت المقدس نے جو سلوک تورات کے ساتھ کیا تھا وہی سکندر کے حملہ ایران نے اوستا کے ساتھ کیا۔ یعنی دونوں جگہ مذہب کا اصلی نوشتہ مفقود ہوگیا۔ پھر جب پانچ سو پداش برس کے بعد ساسانی دور حکومت شروع ہوا تو مذہب زردشت کی از سر نو تدوین کی گئی اور جس طرح قید بابل کے بعد عزرا نے نئی تورات مرتب کی تھی اسی طرح ارد شیر بابکانی نے از سرنو اوستا کا نسخہ مرتب کرایا لین اب مذہب کی تمام حقیقی خصوصیات طرح طرح کی تبدیلیوں، تحریفوں اور اضافوں سے یک قلم مسخ ہوچکی تھیں۔ چنانچہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ ساسانی عہد کا مذہب قدیم مجوسیت، زردشیت اور یونانیت کا ایک مخلوط مرکب ہے۔ اور اس کا بیرونی رنگ و روغن تو تمام تر مجوسیت ہی نے فراہم کیا ہے۔ اسی ساسانی اوستا کا ایک ناقص محرف ٹکڑا ہے جو ہندوستان کے پارسیوں کے ذریعہ سے ہم تک پہنچا ہے اور جس کے لیے ہم ایک فرنچ مستشرق آنک تیل کی اولو العزمیوں اور علمی قربانیوں کے شکر گزار ہیں۔ اہور موزوہ کی مزعومہ شبیہ : اس سلسلہ میں ایک بحث طلب سوال اور ہے ضروری ہے کہ اس پر بھی نظر ڈال لی جائے۔ یہ مسلم ہے کہ پیروان زردشت میں بت پرستی کی کوئی شکل بھی سر نہ اٹھا سکی۔ قدیم مجوسی مذہب میں بھی اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا، لیکن ایران میں دسارا اور اس کے بعد کے عہد کے جو آثار ملے ہیں ان میں ایک خاص صورت کا نقش پایا جاتا ہے۔ یہ بادشاہ کی تصویر نہیں ہوسکتی کیونکہ بادشاہ کی شخصیت مرقع میں الگ نمایاں ہے، اس کا محل ہر جگہ بلندی میں اور سب سے اوپر واقع ہوا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ کود بادشاہ سے بھی ایک بلند تر ہستی ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون ہستی ہے ؟ سب سے پہلے یہ صورت بے ستوں کے مرقع میں زیر بحث ہوئی، جب ١٨٤٧ ء میں کرنیل رالین سن نے اپنی شرح و حل کے ساتھ اصل مرقع کا چربہ شائع کیا، پھر یہی صورت متعدد نقوش میں ملی۔ مثلا دارا کی سرکاری مہر کے مرقع میں، نقش رستم میں جو دراصل دارا کی قبر ہے، استخر کے محل شاہی کے دروازہ پر جو غالبا درمیانی دروازہ ہے۔ رالین سن سے پہلے سر رابرٹ کیر پورٹر نے یہ نظریہ قائم کرلیا تھا کہ یہ کوئی مافوق انسانیت ہستی ہونی چاہیے جو خود بادشاہ سے بھی اوپر اپنی جگہ رکھتی ہے۔ رالین سن ایک قدم اور آگے بڑھا اور اس نے فیصلہ کرلیا کہ یہ اہور موزدہ کی ہستی ہے یعنی خدا کی۔ چنانچہ اس وقت سے یہ رائے برابر مقبول ہوتی گئی۔ اب عام طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے کہ ایرانی اگرچہ بت پرستی سے مجتنب رہے لیکن انہوں نے اہور موزدہ کی ہستی کے لیے ایک مرموز (Symbilic) تشخص کا تصور ضرور قائم کرلیا تھا جو ان تصویریں میں نمایاں ہے اور یہ مصریوں اور آشوریوں کے مرموز تجسم کا اثر تھا جس سے وہ بھی متاثر ہوگئے۔ لیکن ١٩١٢ ء سے (جبکہ میں نے پہلے پہل ایرانی آثار قدیمہ کا بغور مطالبہ کیا) میں محسوس کر رہا ہوں کہ یہ قیاس اول دن سے غلط رخ پر چلا ہے اور تمام تاریخی اور عقلی قرائن اس کے خلاف ہیں : اولا : تمام تاریخی شہادتیں اور خود پارسیوں کا مسلسل تعامل ثابت کر رہا ہے کہ انہوں نے الوہیت کا تصور کبھی کسی انسانی جسم و صورت میں نہیں کیا، اور کبھی کسی مجسمہ کو تقدیس کی نظر سے نہیں دیکھا۔ ثانیا : اگر امتداد زمانہ سے یہ چیز پیدا بھی ہوگئی ہو جب بھی کسی طرح یہ بات سمجھ میں نہیں آسکتی کہ خود دارا کے عہد میں پیدا ہوگئی ہو جو زردشت کی تعلیم کا ابتدائی عہد تھا اور جب یونانی مورخوں کی شہادت کے مطابق ایرانی، یونانی بت پرستی کو حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے۔ ثالثا اس شبیہ میں کوئی ایسی بات نہیں جو معبودیت و الوہیت کی کوئی خاص شان رکھتی ہو۔ ہر جگہ اس کی ایک ہی صورت اور وضع ہے اور وہ ایک معمولی انسان کی ہے جس نے اس زمانہ کا عام لباس پہن رکھا ہے۔ وہی لبھاس جو خود دارا اور اس کے جانشینوں کا تصویروں میں دکھایا گیا ہے۔ صڑف اتنی بات اس میں زیادہ ہے کہ ایک حلقہ اس کی کمر سے نیچے چاروں طرف بنایا گیا ہے، اگر یہ رائے تسلیم ببھی کرلی جائے، جب بھی یہ اس کے لیے کافی نہیں کہ محض یہ مشتببہ حلقہ اور مشتببہ لہریں ایک خالق ہستی کے تصور کے لیے پیروان زردشت کا منتہائے خیال تھا۔ رابعا : اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ اس حلقہ اور لہروں میں ایک ماورائے انسانیت ہستی کا تصور مرموز تھا جب بھی یہ اہور موزدہ کی ہستی کیوں ہو جس کی نسبت زردشت نے تقدیس و علو کا اس درجہ بلند تصور قائم کیا ہے ؟ کیوں یہ کسی ایسے انسان کی صورت نہ ہو جو اگرچہ انسان تھا مگر اپنی انسانیت کی رفعت و تقدیس کی وجہ سے ایک غیر معمولی ہستی سمجھا جاتا تھا؟ مثلا خدا کی ایک فرستادہ ہستی؟ بہرححال اس رخ پر ہم جس قدر بڑھتے ہیں یہ بات واضح ہوتی جاتی ہے کہ اسے اہور موزدہ کی ہستی سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ یہ یا تو خود زردشت کی تصویر ہے جو ایرانی مذہب کا بانی تھا، یا سائرس کی ہے جو اس مذہب کا حکمراں پیغمبر اور ہخامنسی شہنشاہی کا پہلا تاجدار تھا۔ چونکہ اس صورت کے بائیں ہاتھ میں ہر جگہ ایک حلقہ دکھلایا گیا ہے اور قدیم تصورات میں حلقہ کی شکل حکومت و مالکیت کی علامت سمجھی جاتی تھی اس لیے زیادہ قرین قیاس یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سائرس کی تصویر ہو۔ کیا ذوالقرنین نبی تھا؟ جہاں تک قرآن کی تصریحات کا تعلق ہے ایک اہم سوال اور باقی رہ گیا ہے، قرآن میں ہے (قلنا یا ذالقرنین) ہم نے کہا اے ذوالقرنین، اس خطاب کا مطلب کیا ہے ؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ذوالقرنین براہ راست وحی الہی سے مخاطب تھا؟ مفسرین نے اس پر طبع آزمائیاں کی ہیں اور چونکہ امام رازی سکندر مقدونی کو ذو القرنین بنانا چاہتے ہیں، اور وہ بنتا نہیں، اس لیے مجبور ہوئے ہیں کہ یہاں قلنا کے منطوق پر اس کے مفہوم کو ترجیح دیں۔ اس میں شک نہیں کہ قلنا کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بالواسطہ خطاب ہو۔ یعنی اس عہد کے کسی پیغمبر کے ذریعہ سے ذوالقرنین کو مخاطب کیا گیا ہو۔ جیسا کہ (فقلنا اضربوہ ببعضھا) میں ہے۔ یا خطاب قولی نہ ہو، تکوینی ہو، جیسا کہ (قیل یارض ابلعی ماءک ویسماء اقلعی) اور (قلنا ینارکونی بردا وسلما علی ابراہیم) وغیرہا آیات میں ہے۔ لیکن اس طرح کا مطلب جب ہی قرار دینا اہیے کہ اس کے لیے قوی وجوہ موجود ہوں، اور یہاں کوئی وجہ موجود نہیں۔ آیت کا صاف صاف مطلب یہی ہے کہ ذوالقرنین کو اللہ نے براہ راست مخاطب کیا اور اس پر اللہ کی وحی نازل ہوئی تھی۔ باقی رہی یہ بات کہ یہ وحی نبوت کی وحی تھی یا اس طرح کی وحی تھی جیسی حضرت موسیٰ کی والدہ کی نسبت بیان کی گئی ہے کہ (و اوحینا الی ام موسیٰ ان ارضعیہ) تو صحابہ و سلف سے جو تفسیر منقول ہے وہ یہی ہے کہ ذوا لقرنین نبی تھا اور متاخرین میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد حافظ ابن کثیر بھی اسی تفسیر کی تائید کرتے ہیں۔ اور غور کرو قرآن کا یہ بیان سائرس پر کس طرح ٹھیک ٹھیک منطبق ہورہا ہے؟ تاریخ اس کی پیغمبرانہ شخصیت کی شہادت دے ہی ہے اور عہد عتیق کے انبیاء اسے صریح خدا کا برگزیدہ اس کا مسیح اور اس کی مرضی پوری کرنے والا کہہ رہے ہیں۔ عزرا نبی کی کتاب میں اس کا جو فرمان تعمیر بیت المقدس کے لیے نقل کیا گیا ہے اس میں وہ خود اعلان کرتا ہے : خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ یہودیا کے ملک میں اس کی عبادت کے لیے ایک ہیکل تعمیر کروں، اس کا یہ کہنا کہ خدا نے مجھے حکم دیا ہے ٹھیک ٹھیک (قلنا یا ذالقرنین) کی تصدیق ہے ہم اس سے پہلے اس کی خدا پرستی کے اثبات میں جو کچھ لکھ چکے ہیں اس میں سے ہر بات ٹھیک ٹھیک اس کی نبوت کے ثبوت میں بھی کہی جاسکتی ہے۔ یاجوج و ماجوج : اب صرف ایک معاملہ کی تشریح باقی رہ گئی ہے یعنی یاجوج و ماجوج سے کون سی قوم مراد ہے؟ اور جو سد سائرس نے بنائی تھی اس کی تاریخی نوعیت کیا ہے؟ قرآن مجید نے یاجوج اور ماجوج کا دو جگہ ذکر کیا ہے۔ ایک تو یہاں ہے، دوسرا سورۃ انبیاء میں ہے : (حتی اذا فتحت یاجوج و ماجوج وھم من کل حدب ینسلون) یاجوج اور ماجوج کا نام سب سے پہلے عہد عتیق میں آیا ہے۔ حزقیل بنی کتاب کتاب میں جنہیں بخت نصر اپنے آخری حملہ بیت المقدس میں گرفتار کر کے بابل لے گیا تھا اور جو سائرس کے ظہور تک زندہ رہے، یہ پیشین گوئی ملتی ہے : حزقی ایل نبی کی پیشین گوئی : اور خداوند کا کلام مجھ تک پہنچا، اس نے کہا اے آدم زاد ! تو جوج کی طرف اپنا منہ کر کے اس کے برخلاف نبوت کر، جوج کی طرف جو ماجوج کی سرزمین کا ہے اور روس، مسک اور توبال کا سردار ہے۔ خداوند یہوداہ یوں کہتا ہے کہ میں تیرا مخالف ہوں۔ میں تجھے پھرا دوں گا۔ تیرے جبڑوں میں بنسیان ماروں گا، تیسرے سارے لشکر اور گھوڑوں اور سواروں کو جو جنگی پوشاک پہنے جو پہریاں اور سپر لیے ہوئے ہیں اور سب شمشیر بکف ہیں، کھینچ نکالوں گا۔ اور میں ان کے ساتھ فارس اور کوش اور فوط کو بھی کھینچ نکالوں گا جو سپر لیے ہوئے اور خود پہنے ہوں گے۔ نیز جو مر اور شمال بعید کے اطراف کے باشندگان تجربہ اور ان کا سارا لشکر۔ اس کے بعد دور تک تفصیلات چلی گئی ہیں، اور چار باتیں خصوصیت کے ساتھ کہی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ جوج شمال کی طرف سے آئے گا تاکہ لوٹ مار کرے، دوسری یہ کہ ماجوج اور ان پر جو جزیزروں میں سکونت رکھتے ہیں تباہی آئے گی، تیسری یہ کہ جو لوگ اسرائیل کے شہروں میں بسنے والے ہیں وہ بھی ماجوج کے مقابلہ میں حصہ لیں گے اور ان کے بے شمار ہتھیار ان کے ہاتھ آئیں گے۔ چوتھی یہ کہ ماجوج کی تباہی کا گورستان مسافروں کی وادی میں بنے گا جو سمندر کی پورب میں ہے، ان کی لاشیں عرصہ تک وہاں پڑی رہیں گی۔ لوگ انہیں گاڑتے رہیں گے تاکہ رہ گزر صاف ہوجائے۔ یہ واضح رہے کہ اس پیشین گوئی سے پہلے سارئس کے ظہور اور یہودیوں کی آزادی و خوش حالی کی پیشین گوئی بیان کی جاچکی ہے اور اس پیشین گوئی کا محل ٹحیک اس مکاشفہ کے بعد ہے جس میں حزقی ایل نبی نے بنی اسرائیل کی سوکھی ہڈیوں کو زندہ ہوتے دیکھا تھا اور جسے قرآن نے بھی سورۃ بقرہ کی آیت (او کالذی مر علی قریۃ وھی خاویۃ علی عروشھا) میں بیان کیا ہے۔ پس ضروری ہے کہ جوج اور ماجوج کا معاملہ بھی اسی زمانے کے لگ بھگ پیش آنے والا ہو۔ یعنی سائرس کے زمانہ میں، اور یہ سائرس کے ذو القرنین ہونے کا ایک مزید ثبوت ہے۔ کیونکہ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ اسی نے یاجوج و ماجوج کے حملوں کی روک تھام کے لیے ایک سد تعمیر کی تھی۔ عہد عتیق کے بعد یہ نام ہمیں مکاشفات یوحنا میں ملتا ہے۔ جس میں بیان کیا گیا ہے کہ جب ہزار برس پورے ہوچکیں گے تو شیطان قید سے چھوڑ دیا جائے گا اور وہ ان قوموں کو جو زمین کے چاروں طرف ہوں گی، یعنی یاجوج و ماجوج کو گمراہ کرنے اور لڑنے کے لیے جمع کرنے لگے۔ ان کا شمار سمندر کی ریت کے برابر ہوگا، وہ تمام زمین کی وسعتوں پر چڑھ جائیں گے۔ گاگ اور مے گاگ : یاجوج اور ماجوج کے لیے یورپ کی زبانوں میں (Gog) اور (Magog) کے نام مشہور ہوگئے ہیں اور شارحین تورات کہتے ہیں کہ یہ نام سب سے پہلے تورات کے ترجمہ سبعینی میں اختیار کیے گئے تھے۔ لیکن کیا اس لیے اختیار کیے گئے کہ جوج اور ماجوج کا یونانی تلفظ یہی ہوسکتا تھا یا خود یونانی میں پہلے سے یہ نام موجود تھے؟ اس بارے میں شارحین کی رائیں مختلف ہیں۔ لیکن زیادہ قوی بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ دونوں نام اسی طرح یا اس کے قریب قریب یونانیوں میں بھی مشہور تھے۔ شمال مشرقی قبائل : اب سوال یہ ہے کہ یہ کون قوم تھی؟ تمام تاریخی قرائن متفق طور پر شہادت دے رہے ہیں کہ اس سے مقصود صڑف ایک ہی قوم ہوسکتی ہے، اس کے سوا کوئی نہیں، یعنی شمال مشرقی میدانوں کے وہ وحشی مگر طاقتور قبائل جن کا سیلاب قبل از تاریخ عہد سے لے کر نویں صدی مسیحی تک برابر مغرب کی طرف امنڈ تا رہا، جن کے مشرقی حملوں کی روک تھام کے لیے چینیوں سینکڑوں میل لمبی دیوار بنانی پڑی تھی، جن کی مختلف شاخیں تاریخ میں مختلف ناموں سے پکاری گئی ہیں۔ اور جن کا آخری قبیلہ یورپ میں میگر کے نام سے روشناس ہوا اور ایشیا میں تاتاریوں کے نام سے، اسی قوم کی ایک شاخ تھی جسے یونانیوں نے سیتھین (Scythian) کے نام سے پکار اہے، اور اسی کے حملوں کی روک تھام کے لیے سائرس نے سد تعمیر کی تھی۔ منگولیا : شمال مشرق کے اس علاقہ کا بڑا حصہ اب منگولیا کہلاتا ہے۔ لیکن منگول لفظ کی ابتدائی شکل کیا تھی؟ اس کے لیے جب ہم چین کے تاریخی مصادر کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ہمیں اسی طرف رجوع ہونا چاہیے کیونکہ وہ منگولیا کے ہم سایہ میں ہے۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ قدیم نام موگ تھا، یقینا یہی موگ ہے جو چھ سو برس قبل مسیح یونانیوں میں میگ اور مے گاگ پکارا جاتا ہوگا، اور یہی عبرانی میں ماجوج ہوگیا۔ چین کی تاریخ میں ہمیں اس علاقہ کے ایک اور قبیلہ کا ذکر بھی ملتا ہے جو یواچی (Yueh-Chi) کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہی یواچی ہے جس نے مختلف قوموں کے مخارج و تلفظ سے گزر کر کوئی ایسی شکل اختیار کرلی تھی کہ عبرانی میں یاجوج ہوگیا۔ اس امر کی وضاحت کے لیے ضروری ہے کہ ان نتائج پر ایک اجمالی نظر ڈال لی جائے جو مختلف قوموں کے نسلی، جغرافیائی اور لغوی علائق کی بحث و تنقیب سے پیدا ہوئے ہیں اور جو موجودہ زمانے میں تاریخ اقوام کے طے شدہ مبادیات ہیں۔ منگولیا کا قبائلی سرچشمہ اور اقوام قدیم کا انشعاب : کرہ ارضی کی بلند سطح وہ حصہ جو شمال مشرق میں واقع ہے اور جسے آج کل منگولیا اور چینی ترکستان کے نام سے پکارا جاتا ہے تاریخ قدیم کی بے شمار قوموں کا ابتدائی گہوراہ رہ چکا ہے۔ یہ نسل انسانی کا ایک ایسا سرچشمہ تھا جہاں پانی برابر ابلتا اور جمع ہوتا رہتا اور جب بہت بڑھ جاتا تو مشرق و مغرب کی طرف امنڈنا چاہتا۔ اس کے مشرق میں چین تھا، مغرب و جنوب میں مغربی اور جنوبی ایشیا اور شمال مغرب میں یورپ۔ چنانچہ یکے بعد دیگرے قوموں اور قبیلوں کے سیلاب امنڈتے رہے، کچھ وسط ایشیا میں آباد ہوگئے، کچھ آگے بڑھے اور شمال یورپ تک پہنچ گئے، کچھ وسط ایشیا سے نیچے اتر گئے اور جنوبی اور مغربی ایشیا پر قابض ہوگئے، یہ قبائل جو اس علاقہ سے نکلتے تھے مختلف ملکوں میں بس کر وہاں کی خصوصیت اختیار کرلیتے تھے اور رفتہ رفتہ ایک مقامی قوم بن جاتے تھے لیکن ان کا وطنی سرچشمہ اپنی اصلی حالت پر باقی رہتا۔ یہاں تک کہ پھر بقائل کا ایک نیا سیلاب اٹھتا اور کسی نئے علاقہ میں پہنچ کر نئی مقامی قومیت کی تخلیق کردیتا۔ یہ علاقہ صدیوں تک اپنی اصلی وحشیانہ حالت پر باقی رہا لیکن جو قبائل یہاں سے نکل نکل کر مختلف ملکوں میں بستے گئے انہوں نے مقامی خصوصیات اختیار کر کے تہذیب و تمدن کی طرف بڑھنا شروع کردیا، یہاں تک کہ چند صدیوں کے بعد ان کی حالت اس درجہ مختلف ہوگئی کہ ان میں اور ان کے قدیم ہم وطنوں میں کوئی بات بھی مشترک باقی نہیں رہی۔ وہ اب مہذب ہورہے تھے، یہ بدستور وحشی تھے، وہ تہذیب کے صناعی ہتھیاروں سے لڑتے تھے، وہ وحشت کی قدرتی ہمجیت اور درندگی سے، ان میں زراعت، صناعت اور ذہنی ترقی کی مختلف شاخیں ابھر رہی تھیں۔ وہ ان سب سے نا آشنا تھے۔ سرد علاقہ کی صحرائی زندگی اور وحشیانہ خصائل کی خشونت نے انہیں وقت کی شائستہ اقوام کے لیے ایک خوفناک ہستی بنا دیا تھا۔ قبل اسکے کہ تاریخی عہد کی صبح طلوع ہو، شمال مشرقی قبائل کی یہ مہاجرت شروع ہوچکی تھی اور اس کا سلسلہ تاریخی عہد میں بھی بدستور جاری رہا۔ آریا : انہی قبائل کا ایک ابتدائی گروہ وہ تھا جو آرین نسل کے نام سے پکارا گیا ہے، اس کا ایک حصہ وسط ایشیا سے یورپ کی طرف بڑھ گیا ایک نیچے اتر کر پنجاب میں آباد ہوگیا۔ ایک مغرب کی طرف بڑھا اور فارس اور میڈیا اور اناتولیا میں بس گیا۔ اسے اب انڈو یوروپین میں آریا کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ ہندوستان اور یورپ، دونوں کی آریائی اقوام کے مورث اعلی تھے۔ ان کا جو حصہ شمالی ہند میں بس گیا تھا، اس نے اپنا نسلی خطاب برابر یاد رکھا اور اپنے کو آریا ورتھ کہتا رہا۔ جو فارس اور میڈیا میں بسا اس نے اپنی ابتدائی قیام گاہ کو ایریانہ کے نام سے موسوم کیا۔ (جسے اوستا میں ایریانہ ویگو کہا گیا ہے) اور یہی ایریانہ ایران ہوگیا۔ جو قبائل اناتولیا تک پہنچ گئے تھے، وہ (غالبا) ہٹٹی (Hittite) کے نام سے پکارے گئے جنہیں تورات کی کتاب پیدائش میں حتی کہا گیا ہے اور مصر کے قدیم نوشتوں میں حنتتی پایا گیا۔ یورپ کے قبائل : جو قبائل یورپ میں پہنچے، وہ گوتھ، فرانک، الامان، ونڈال، ٹیوٹان، اور ہن کے نام سے مشہور ہوئے اور انہی کی ایک وسیع شاخ وہ تھی جو بحر اسود سے لے رک دریائے ڈینیوب کی بالائی وادی تک پھیل گئی اور سیتھین کے نام سے پکاری گئی، وسط ایشیا کے مشرقی قبائل بھی جو بکٹر یا (بلخ) پر تاخت و تاراج کرتے رہتے تھے، سیعھین ہی تسلیم کیے گئے ہیں اور خود ارانے اپنے کتبہ استخر میں انہیں اسی نام سے پکارا ہے۔ اقسام ثلاثہ : ان قبائل کی جو تین شاخیں شمالی ہند اناتولیا (ایشیائے کو چک) اور ایران میں بس گئی تھی انہیں ایسا ماحول ملا جو زراعت کے لیے موزوں تھا، اس لیے بہت جلد انہوں نے زراعتی زندگی اختیار کرلی اور پھر تہذیب و حضارت کی طرف بڑحنے لگیں لیکن جو شاخیں یورپ کی طرف بڑھیں انہیں ایسا ماحول میسر نہیں آیا، اس لیے صحرائی زندگی کی تمام خصوصیات ان میں بدستور باقی رہیں اور صدیوں تک متغیر نہ ہوئیں۔ اب گویا ان قبائل کی تین حالتیں ہوگئی تھیں۔ اولا : منگولیا کے اصلی باشندے جو یک قلم وحشی اور صحرائی تھے اور ان کی یہ حالت بغیر کسی تغیر کے برابر قائم رہی۔ ثانیا : بحر اسود کے شمالی ساحل اور شمالی یورپ کے قبائل جو گو اپنے مولد اصل سے الگ ہوگئے تھے لیکن ان کی وحشیانہ خصوصیات نہیں بدلی تھی۔ ثالثا : ہندوستان ایران اور اناتولیا کے قبائل جو بتدریج شہریت و حضارت میں ترقی کرنے لگے اور پھر آگے چل کر تین قدیم تہذیبوں کے بانی ہوئے۔ یاجوج و ماجوج کا اطلاق : تقریبا ٧٠٠ قبل مسیح سے لے کر پانچویں صدی مسیحی تک یاجوج و ماجوج یاگواگ اور مے گگ کا اطلاق پہلی دو قسموں پر ہوتا رہا۔ پہلی پر اس لیے کہ قومیت اور مقام کے لحاظ سے وہی یاجوج و ماجوج تھی۔ دوسری پر اس لیے کہ گو اپنے مولد و مقام سے الگ ہوچکی تھی لیکن اپنی وحشیانہ خصوصیات میں بالکل متغیر نہیں ہوئی تھی۔ تیسری قسم چونکہ یک قلم منقلب ہوچکی تھی اس لیے اب وہ یاجوج و ماجوج نہیں رہی تھی بلکہ خود یاجوج و ماجوج کی غارت گریوں کا نشانہ بن گئی تھی۔ البتہ جب پانچویں صدی مسیحی میں یورپ کے قبائل کی حالت بھی منقلب ہونا شروع ہوگئی اور مسیحت اختیار کر کے تہذیب وحضارت کی طرف بڑھنے لگے تو قوموں کے حافظہ سے ان کا نام بھی اتر گیا اور یاجوج و ماجوج کا اطلاق صرف اسی خطہ میں سمٹ آیا جہاں سے پھیلنا شروع ہوا تھا۔ یعنی صرف منگولیا کے صحرا نورد قبائل ہی یاجوج و ماجوج سمجھے جانے لگے۔ چنانچہ قرآن نے سورۃ انبیاء میں ان کے جس خروج کی خبر دی ہے وہ منگولیا کے تاتاریوں کا آخری خروج تھا۔ یورپ کی تمام موجودہ قومیں (لاطینی نسل مستثنی کردینے کے بعد) براہ راست اہی قبائل کی نسل سے ہیں۔ جیسا کہ معلوم و مسلم ہے۔ صحرا نوری اور توطن کا اختلاف معیشت : اس موقع پر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ نسل انسانی نے اکثر حالتوں میں پہلے صحرا نوردی اور خانہ بدوشی کی زندگی بسر کی ہے۔ پھر توطن اور اقامت گزینی اختیار کی ہے اور اس اختلاف حالت نے ہمیشہ دو طرح کے انسانی گروہوں سے دنیا کو آباد رکھا ہے۔ صحرا نورد قبائل کے گروہ اور اقامت گزین قبائل کے گروہ۔ معیشت کی یہ دونوں حالتیں اس درجہ مختلف تھیں کہ ایک ہی نسل کے دو قبیلوں میں سے ایک قبیلہ اگر صحرا نور در رہتا تھا اور دوسرا اقامت گزین ہوجاتا تھا تو چند صدیوں کے بعد نہ صرف ایک دوسرے سے اجنبی ہوجاتے تھے بلکہ بالکل متضاد قسم کی مخلوق بن جاتے تھے۔ صحرا نورد قبائل کو غذا کے لیے جانوروں کے دودھ اور شکار کے گوشت پر اعتماد کرنا پڑتا تھا۔ اقامت گزین قبائل کو اناج پر، وہ گھوڑوں کی برہنہ پیٹھ پر زندگی بسر کرتے۔ یہ کھیتوں میں اور مکانوں کی چار دیواری میں، ان کی زندگی کا ماحول صحرائیت تھی، ان کا ماحول شہریت، ان کو نشو نما کے لیے جنگ کی ضرورت تھی۔ ان کو امن کی، ان کا جسم روز بروز طاقتور اور محنت پسند ہوتا جاتا تھا۔ ان کا روز بروز کمزور اور راحت پسند، وہ روز بروز وحشت و خونخواری میں بڑھتے جاتے تھے، یہ روز بروز تہذیب و حضارت میں، تہذیب و حضارت کا لازمی نتیجہ تھا کہ جذبات و خصائل میں لطافت اور نرمی پیدا ہو۔ صحرائیت و خانہ بدوشی کا لازمی نتیجہ تھا کہ جذبات تند اور خصائل میں وحشت و خشونت ہو۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ جوں جوں اقامت گزیں قبائل شائستہ ہوتے جاتے، صحرا نورد قبائل کی ہستی ان کے لیے ہولناک اور ناقابل مزاحمت ہوتی جاتی، جب کبھی دونوں میں مقابلہ ہوتا، تو شہری قبائل دیکھتے کے صحرا نورد قبائل عفریتوں کی طرح خوفناک اور درندوں کی طرح خونخوار ہیں ِ، اور صحرا نورد قبائل معلوم کرلیتے کہ ان کی غارت گریوں کے لیے شہری آبادیوں سے زیادہ کوئی سہل شکار نہیں۔ البتہ صحرا نورد قبائل متفرق تھے اور اقامت گزینی کے طریقوں سے نا آشنا، اقامت گزین قبائل باہم مربوط تھے، اور معیشت کے منظم طریقوں سے آشنا، اس لیے قدرتی طور پر صحرا نوردوں کے حملے ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتے تھے۔ وہ خوفناک درندوں کی طرح آبادیوں پر گرتے اور قتل و غارت کر کے نکل جاتے۔ لیکن جم کر ٹک نہیں سکتے تھے اور نہ علاقے فتح کر کے اپنے قبضے میں رکھ سکتے تھے۔ مگر جب کبھی صدیوں کے بعد ان میں کوئی حکمراں قائد پیدا ہوجاتا اور وہ بہت سے قبیلوں کو متحد کر کے ایک فوج کی نوعیت دے دیتا تو پھر قتل و غارت گری کی ایک ایسی منظم طاقت پیدا ہوجاتی جو صرف وقتی حملوں ہی پر قانع نہیں رہتی بلکہ مملکتوں اور قوموں پر قابض ہوجاتی اور شہری آبادیوں کی بڑی قوتیں بھی اس کی راہ نہیں روک سکتیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ صحرا نورد اور غیر متمدن اقوام کے مقابلہ میں شہری اور متمدن اقوام کا ہمیشہ ایسا ہی حال رہا۔ یہاں تک کہ علم و صناعت نے ایسے ہتھیار اور جنگی وسائل پیدا کردیے جن کے مقابلے سے غیر متمدن اقوام عاجز آگئیں۔ یاجوج و ماجوج صحرا نوردی کی خوفناک قوت تھی : چنانچہ ان شمال مشرقی قبائل کی پوری تاریخ اسی حقیقت کا افسانہ ہے، ان کی جن شاخوں نے اقامت گزینی کی زندگی اختیار کرلی تھی وہ بالکل ایک دوسری قوم بن گئیں اور جنہیں ایسے حالات میسر نہیں آئے وہ بدستور صحر نوردر ہیں۔ اقامت گزین قبائل کے لیے صحرا نورد قبائل صرف اجنبی ہی نہیں ہوگئے تھے بلکہ خوفناک بھی ہوگئے تھے کیونکہ ان کی روز افزوں شہریت ان کی صحرائی وھشت ناکیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔ یہ جب کبھی موقع پاتے قرب و جواب کی آٓبادیاں غارت کرتے اور اگر بقائل کا کوئی قائد نکل آتا تو ان کی غارت گریاں دو دور تک بھی پہنچ جاتیں۔ صدیوں تک ان کی حالت ایسی ہی رہی۔ پھر جب چوتھی صدی مسیحی سے ان کے اندر ایسے قائد پیدا ہونے لگے جنہوں نے نظم و اطاعت کا راز پالیا تھا تو اچانک ان کی طاقت کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پانچویں صدی میں اٹیلا (Attila) نے جوہن قبیلہ کا قائد تھا ایک عظیم فاتح کی حیثیت اختیار کرلی اور رومن امپائر کی دونوں مشرقی و مغربی مملکتوں کو لرزہ براندام کردیا۔ پھر یہی قبائل ہیں جو بالآخر اس طرح تمام یورپ پر چھا گئے کہ نہ صرف رومن امپائر کو بلکہ روی تمدن کو ہمیشہ کے لیے پامال کردیا۔ چند صدیوں کے بعد تاریخ یہ منظر پھر دہراتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خود منگولیا میں ایک نیا منگولی قائد چنگیز خان پیدا ہوگیا ہے۔ وہ تمام تاتاری قبائل کو اپنے ماتحت ایک قوم بنا دیتا ہے اور پھر فتح و تسخیر کا ایک ایسا ہولناک سیلاب امنڈتا ہے جسے اسلامی ممالک کی کوئی متمدن قوت بھی نہ روک سکی۔ وسط ایشیا سے لے کر عراق تک جو ملک اس کے سامنے آیا، خس و خاشاک کی طرح بہہ گیا۔ منگولی نسل کے انشعاب کے مختلف دور : بہرحال اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یاجوج و ماجوج سے مقصود یہی منگولین قوم اور اس کی تمام صحرا نورد اور وحشی شاخیں ہیں۔ اب ہم چاہتے ہیں ان کے خروج وظہور کے مختلف دور تاریخی ترتیب سے منضبط کرلیں۔ اسی ضمن میں یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ سائرس کے زمانہ میں یہ قوم کہاں تھی، اور کیوں اسے سد تعمیر کرنے کی ضرور پیش آئی؟ اس بارے میں تاریخ کی شہادتوں کا خلاصہ حسب ذیل ہے : (١) پہال دور تاریخی عہد سے پہلے کا ہے جب شمال مشرق سے ان قبائل کے ابتدائی گروہ نکلے اور وسط ایشیا میں آباد ہوئے پھر جنوب اور مغرب میں پھیلنے لگے، اس خروج و انشعاب کی رفتار بہت سست رہی ہوگی اور بے شمار منزلیں پیش آئی ہوں گی۔ (٢) دوسرا دور صبح تاریخ کا ہے لیکن روشنی ابھی دھندلی ہے، اب اقامت گزینی اور صحرا نوردی کی دو مختلف اور متوازی معیشتوں کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔ شمالی ہند، ایران اور اناتولیا کے قبائل اقامت گزینی کی زندگی میں بدل چکے ہیں مگر وسط ایشیا سے لے کر بحر اسود تک صحرا نورد قبائل کے جتھے پھیلتے جاتے ہیں اور مشرق سے نئے نئے قبیلوں کے اقدام کا سلسلہ برابر جاری ہے۔ یہ زمانہ تقریبا ٣٠٠٠ قبل سمیح سے ١٥٠٠ قبل مسیح تک کا تصور کرنا چاہیے۔ (٣) تیسرا دور تاریخ کی روشنی میں پوری طرح نمایاں ہے۔ یہ تقریبا ایک ہزار سال قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ اب بحر خزرا اور بحر اسود کا علاقہ ایک وحشی اور خونخوار قوم کا مرکز بن چکا ہے اور وہ مختلف ناموں میں اور مختلف جہتوں سے نمایاں ہوتی رہتی ہے۔ پھر اچانک تاریخ کے افق پر سیتھین قوم کا نام ابھرتا ہے یہ وسط ایشیا سے لے کر بحر اسود کے شمالی کناروں تک آباد ہے اور اطراف و جوانب میں برابر حملہ آور ہوتی رہتی ہے۔ یہ زمانہ اشوری تمدن کے ظہور اور بابل اور نینوی کے عروج کا تھا۔ اور ہیروڈوٹس کی زبانی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آشورین کی شمالی سرحد پر سیتھین قبائل کی غارت گریاں برابر جاری ہیں َ یہ شمالی سرحد بحر خزر کے جنوبی ساحل اور آرمینیا کے سلسلہ کوہ تک پہنچی ہوئی تھی وار وہ کا کیشیا کے دورے سے اتر کر آشوری آبادیوں پر حملہ آور ہوتے تھے۔ پھر ٦٣٠ قبل مسیح میں اچانک ان کا ایک عظیم گروہ اسی راہ سے اترتا ہے اور ایران کا تمام مغربی حصہ پامال کردیتا ہے۔ یونانی مورخ کہتے ہیں کہ آشوری مملکت کی تباہی کا ایک بڑا باعث غارت گری تھی۔ (٤) چوتھا دور ٥٥٠ قبل مسیح کا قرار دینا چاہیے جب سائرس کا ظہور اور فارس اور میڈیا کی متحدہ شہنشاہی کی بنیاد پڑی۔ اس عہد میں مغربی ایشیا کا تمام علاقہ سیتھین حملوں سے محفوظ ہوجاتا ہے اور صدیوں تک ان کے حملوں کی کوئی صدا تاریخ کی سماعت تک نہیں پہنچتی، اس عہد میں صرف دو موقعوں پر ان کا ذکر آتا ہے۔ پہلا سائرس کے زمانہ میں جب وہ فتح بابل سے پہلے سیتھین قبائل کے سرحدی حملوں کا تدارک کرتا ہے۔ دوسرا دارا کے زمانے میں جب وہ باسفورس عبور کر کے دریائے ڈینیوب کی وادیوں میں پہنچ جاتا ہے اور ان قبائل کو دور تک بھگا دیتا ہے۔ دارا کے حملہ کے بعد ان کا دباؤ شمالی یورپ کی طرف بڑھنے لگا۔ (٥) پانچواں دور تیسری صدی قبل مسیح کا ہے۔ اس عہد میں منگولین قبائل کا ایک نیا سیلاب اٹھتا ہے اور پہلے چین کی آبادیوں پر ٹوٹتا ہے پھر آہستہ آہستہ وسط ایشیا کی قدیم شاہراہ اخٹیار کرتا ہے، چین کی تاریخ میں انہیں ہیونگ نہ (Hiung nu) کے نام سے پکارا گیا ہے، اور یہی نام آگے چل کر ہن ہوگیا ہے۔ یہی زمانہ ہے جب شہنشاہ چینن شین ہوانگ ٹی نے ان حملوں کے روکنے کے لیے وہ عظیم الشان دیوار تعمیر جو دیوار چین کے نام سے مشہور ہے اور پندرہ سو میل تک چلی گئی ہے۔ اس کی تعمیر ٢١٤ قبل مسیح میں شروع ہوئی اور بیان کیا جاتا ہے کہ دس برس میں ختم ہوئی۔ اس نے شمال اور مغرب کی طرف سے منگولین قبائل کے حملوں کی تمام راہیں مسدود کردی تھیں۔ اس لیے ان کا رخ پھر وسط ایشیا کی طرف مڑ گیا۔ (٦) چھٹا دور تیسری صدی مسیحی کا ہے جب ان قبائل نے یورپ میں ایک نئی کروٹ لی اور بالآخر رومی مملکت اور رومی تمدن کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیا۔ (٧) ساتواں اور آخری دور بارہویں صدی مسیحی اور چھٹی صدی ہجری کا ہے جب منگولیا میں تازہ دم قبائل کی ایک بڑی تعداد پھر تیار ہوگئی اور چنگیز خان نے انہیں متحد کر کے ایک نئی فتح مند طاقت پیدا کردی۔ ذوالقرنین کے عہد میں یاجوج ماجوج : مندرجہ صدر خلاصہ سے یہ بات بھی واضھ ہوگئی کہ چھٹی صدی قبل مسیح میں مغربی ایشیا کا تمام علاقہ سیتھین قبائل کے حملوں سے غارت ہورہا تھا اور جس ہاتھ نے اچانک ظاہر ہو کر ان کے حملے روک دیے اور پھر ہمیشہ کے لیے مغربی ایشیا یک قلم محفوظ ہوگیا اور سائرس کا ہاتھ تھا۔ پس یقینا منگولین نسل کے یہی سیتھین قبائل تھے جو یاجوج و ماجوج کے نام سے پکارے جاتے تھے اور ذوالقرنین یعنی سائرس نے انہی کی راہ روکنے کے لیے سد تعمیر کی۔ جس طرح تین صدیوں کے بعد چینی مجبور ہوئے کہ انہیں روکنے کے لیے ایک دیوار تعمیر کریں۔ سیتھین قبائل اور درہ کا کیشیا : اب غور کرو سیتھین قبائل کے یہ حملے کس جانب سے ہوتے تھے؟ ہیروڈوٹس وغیرہ یونانی مورخ بتلاتے ہیں کہ صرف ایک راہ سے، یعنی کا کیشیا کے درہ سے، یہی مقام صدیوں تک دونوں علاقوں میں درمیان کا پھاٹک رہا ہے۔ اب اگر سائرس ان حملوں سے محفوظ ہونا چاہتا تھا تو کیا اس کے لیے ضروری نہ تھا کہ یہ پھاٹک بند کردے؟ قدرتی طور پر ضروری تھا اور اس لیے اس نے سد تعمیر کر کے یہ راہ مسدود کردی۔ چونکہ ان حملوں کی صرف یہی ایک راہ تھی اور وہ اس طرح بند کردی گئی، اس لیے یاجوجی حملوں کا بھی یک قلم خاتمہ ہوگیا۔ حزقیل کی پیشین گوئی کا مصداق : الكهف
109 حزقیل کی پیشین گوئی کا مصداق : اب پھر حزقیل ایک نبی کی پیشین گوئی پر ایک نظر ڈال لو، اس میں جوج کو روش، مسک اور توبال کا سردار کہا ہے اور یہ ٹھیک ٹھیک انہی قبائل کے نام ہیں۔ روشن وہی ہے جس سے رشیا نکلا، مسک وہی ہے وج موسکو ہوا اور توبال بحر اسود کا بالائی علاقہ تھا۔ْ پھر کہا ہے کہ میں تجھے پھرادوں اور تیرے جبڑوں میں بنسیاں ماروں گا، یہ وہی واقعہ ہے کہ سائرس نے سیتھین قبائل کے منہ پھرا دیے اور سد تعمیر کر کے ان پر ان کی راہ روک دی۔ پھر کہا ہے ایسا معاملہ واقع ہوگا کہ ان کے تمام ہتھیار جلا دیے جائیں گے، اور روزگزروں کی ایک وادی میں جو سمندر کے پورب میں ہے ان قوموں کا گوستان بنے گا، نیز عرصہ تک لاشیں گاڑتے رہیں گے تاکہ راہ صاف کریں۔ یہ وہ واقعہ ہے جو دارا کے حملہ یورپ میں پیش آیا، دارا کی فوج مملکت کی تمام اقوام سے مرکب تھی اس میں یہودیوں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی وہ باسفورس عبور کر کے مشرقی یورپ میں پہنچ گیا تھا اور اگرچہ یونانیوں کی بے وفائی کی وجہ سے اسے واپس ہونا پڑا، لیکن اس لشکر کشی میں بے شمار سیتھین مارے گئے اور ان کی قوت عرصہ تک کے لیے مضمحل ہوگئی۔ مکاشافات یوحنا کا معمہ : باقی رہی وہ پیشین گوئی جو مکاشفات یوحنا میں ملتی ہے تو مکاشفات کے اکثر مقامات کی طرح اس مقام کی بھی کوئی جمتی ہوئی تفسیر شارحین انجیل نہ کرسکے۔ اس میں ایک ہزار برس کی مدت بتلائی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مدت سے مقصود کون سی مدت ہے اور کب سے شروع ہوتی ہے؟ اگر حضرت مسیح سے شروع ہوتی ہو تو ظاہر ہے کہ دسویں صدی مسیحی میں کوئی ایسا واقعہ ظہور میں نہیں آیا۔ ہوسکتا ہے کہ ہزار برس سے مقصود وہ مدت ہو جو سقوط بابل سے شروع ہوتی ہے کیونکہ اس معاملہ سے پہلے بابل کی تباہی کا ذکر کیا گیا ہے اگر ایسا ہی ہے تو پھر ایک بات بن سکتی ہے۔ بابل کا سقوط چھٹی صدی قبل مسیح میں ہوا ہے اور چوتھی صدی مسیحی میں یورپ کے منگولین قبائل نے رومی مملکت پر حملے شروع کردیے ہیں۔ پس یاجوج ماجوج کا یہ خروج بابل کے ہزار برسر بعد ضرور ہوا۔ کتاب پیدائش کی تفریح : ماجوج کا ذکر تورات کی کتاب پیدائش میں بھی آیا ہے جہاں حضرت نوح کے تین لڑکوں سام، حام اور یافث سے اقوام عالم کا پیدا ہونا بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ یافث کی نسبت لکھا ہے کہ اس سے جمر، ماجوج، مادی، یونان، توبال، مسک اور تیراس پیدا ہوئےْ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ماجوج سے مقصود منگولین نسل ہے، کیونکہ قدیم مورخوں نے اسی تصریح کی بنا پر اہیں یافثی نسل قرار دیا ہے۔ علاوہ بریں اگر یہ صحیح ہے کہ کتاب پیدائش کا مواد قیل بابل کے زمانے میں تیار ہوا ہے تو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس زمانہ میں ماجوجج اور مادیوں کو ہم نسل سمجھا جاتا تھا۔ یہ یاد رہے کہ اگرچہ دنیا عرصہ تک کتاب پیدائش کے اس بیان پر مطمئن رہی اور عام طور پر تسلیم کرلیا گیا کہ تمام قومیں حضرت نوح کے تین لڑکوں ہی سے پیدا ہوئی ہیں لیکن اب اس کی علمی قدرو قیمت یک قلم مشتبہ ہوگئی ہے اور اسے کوئی بھی اس نظر سے نہیں دیکھتا جس نظر سے ایک تاریخی بیان کو دیکھنا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ایک ایسا نوشتہ ہے جس میں ہمیں ٥٠٠ قبل مسیح کے یہودی تصورات نظر آجاتے ہیں۔ بلاشبہ ان میں ایک عنصر ان مقدس روایتوں کا بھی ہے جو قومی حافظی نے محفوظ رکھی تھیں لیکن ساتھ ہی بابلی اور آشوری روایتوں کا بھی ایک عنصر شامل ہوگیا ہے جو قیام بابل کی طویل مدت کا قدرتی نتیجہ تھا۔ سدیا جوج : اب ہمیں یہ معلوم کرنا چاہیے کہ سائرس نے جو سد تعمیر کی تھی اس کا صحیح محل کیا تھا اور موجودہ زمانہ کے نقشہ میں اسے کہاں ڈھونڈنا چاہیے؟ دیوار دربند : بحر خزر کے مغربی ساحل پر ایک قدیم شہر در بند آباد ہے یہ ٹھیک اس مقام پر واقع ہے جہاں کا کیشیا کا سلسلہ کوہ ختم ہوتا اور بحر خزر سے مل جاتا ہے۔ اس مقام پر قدیم زمانے سے ایک عریض و طویل دیوار موجود ہے جو سمندر سے شروع ہو کر تقریبا تین میل تک مغرب میں چلی گئی ہے اور اس مقام تک پہنچ گئی ہے جہاں کا کیشیا کا مشرقی حصہ بہت زیادہ بلند ہوگیا ہے۔ اس طرح اس دیوار نے ایک طرف بحر خزر کا ساحلی مقام بند کردیا تھا دوسری طرف پہاڑ کا تمام وہ حصہ بھی روک دیا تھا جو ڈھلوان ہونے کی وجہ سے قابل عبور ہوسکتا تھا۔ ساحل کی طرف یہ دیوار دہری ہے یعنی اگر آذربائجان سے ساحل ہوتے ہوئے آگے بڑھیں تو پہلے ایک دیوار ملتی ہے جو سمندر سے برابر مغرب کی طرف چلی گئی ہے، اس میں پہلے ایک دروازہ تھا، دروازہ سے جب گزرتے تھے تو شہر در بند ملتا تھا۔ اب یہ صورت باقی نہیں رہی۔ دربنددے آگے پھر اسی طرح کی ایک دیوار ملتی ہے لیکن یہ دہری دیوار صرف دو میل تک گئی ہے۔ اس کے بعد اکہری دیوار کا سلسلہ ہے، دونوں دیواریں جہاں جاکر ملی ہیں وہاں ایک قلعہ ہے۔ قلعہ تک پہنچ کر دونوں کا درمیانی فاصلہ سو گز سے زیادہ نہیں رہتا، لیکن ساحل کے پاس پانچ سو گز ہے اور اسی پانچ سو گز کے عرض میں دربند آباد ہے۔ اس دہری دیوار کو ایرانی قدیم سے دوبارہ کہتے آئے ہیں۔ یعنی دہرا سلسلہ۔ یہ قطعی ہے کہ ظہور اسلام سے پہلے ساسانی عہد میں یہ مقام موجود تھا اور اسے دربند کہا جاتا تھا یعنی بند دروازہ، کیونکہ مقدسی، ہمدانی، مسعودی، اصطخری، یاقوت اور قزوینی وغیرہ تمام مسلمان مورخوں اور جغرافیہ نویسوں نے اسی نام سے اس کا ذکر کیا ہے اور سب لکھتے ہیں کہ ساسانی عہد میں یہ مقام شمالی سرحد کا سب سے زیادہ اہم مقام تھا۔ کیونکہ اسی راہ سے شمال کے حملہ آور ایران کی طرف بڑھ سکتے تھے۔ یہ ایرانی مملکت کی کنجی تھی، جس کے ہاتھ یہ کنجی آجاتی، وہ پوری مملکت کا مالک ہوجاتا، اسی لیے ضروری ہوا کہ اس کی حفاظت کا اس درجہ اہتمام کیا جائے۔ باب الابواب : مسلمانوں نے پہلی صدی ہجری میں جب یہ علاقہ فتح کیا تو ساسانیوں کی طرح انہوں نے بھی اس مقام کی اہمیت محسوس کی، وہ اسے باب الابواب اور الباب کے نام سے پکارنے لگے۔ کیونکہ مملکت کے لیے یہی مقام شمال کا دروازہ تھا اور ان بہت سے دروازوں میں سے آخری دروازہ جو اس دیوار کے طول میں بنائے گئے تھے، بعضوں نے اسے باب الترک اور باب الخزر کے نام سے بھی پکارا ہے کیونکہ تاتاریوں اور تاتاری النسل کا کیشین قبیلوں کی آمد و رفت کی راہ یہی تھی۔ درہ داریال کی دیوار : اس مقام سے جب مغرب کی طرف کا کیشیا کے اندرونی حصوں میں اور آگے بڑھتے ہیں تو ایک اور مقام ملتا ہے جو درہ دریال (Darial Pass) کے نام شے مشہور ہے، اور موجودہ زمانہ کے نقشہ میں اس کا محل ولاڈی کیوکز (Vladi Kaukaz) اور ٹفلس کے درمیان دکھایا جاتا ہے۔ یہ کا کیشیا کے نہایت بلند حصوں میں سے ہو کر گزرا ہے اور دور تک دو بلند چوٹیوں سے گھرا ہوا ہے۔ یہاں بھی قدیم زمانے سے ایک دیوار موجود ہے اور ارمنی روایتوں میں اسے آہنی دروازہ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ نوشیراں کا انتساب : اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دیوار کس نے تعمیر کی تھی ؟ تمام عرب مورخوں کا بیان ہے کہ نوشیراں نے تعمیر کی تھی۔ چنانچہ مسعودی نے اس کی تعمیر کی بعض تفصیلات بھی بیان کی ہیں اور بعد کے تمام مصنف اسے نقل کرتے آئے ہیں۔ لیکن جب ہم قبل از اسلام عہد کے تاریخی نوشتوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نوشیراں کے عہد سے بہت پہلے یہاں ایک دیوار موجود تھی اور اس نے شمال سے جنوب کا راستہ روک رکھا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلی صدی مسیحی میں مشہور عبرانی مورخ جوزیفس اس کا ذکر کرتا ہے۔ پھر پروکوپیٹس (Procopius) چھٹی صدی مسیحی کے اوائل میں خود اپنا عینی مشاہدہ نقل کرتا ہے۔ کیونکہ ٥٢٨ مسیحی میں جب رومن جنرل بلی ساریوس (Belisarius) نے اس علاقہ پر حملہ کیا تو یہ اس کے ہمراہ تھا نوشیرواں کا زمانہ ٥٣١ م سے ٥٧٩ م تک تھا۔ اس لیے ظاہر ہے کہ یہ استحکامات اس کے بنائے ہوئے نہیں ہوسکتے۔ سکندر کا انتساب : اب یہاں ایک اور الجھاؤ پڑتا ہے، جو زیفس اور پروکوپیئس دونوں یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ ان استحکامات کا بانی سکندر تھا۔ حالانکہ سکندر کی فتوحات کا کوئی واقعہ تاریخ کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہے اور کہیں سے بھی ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اس علاقہ میں آیا ہو یا یہاں کوئی جنگ کی ہو۔ زمانہ حال کے ایک مورخ مسٹر اے وی۔ لیمس جیکسن (پروفیسر کو لمبیا یونیورسٹی) نے اس علاقہ کی سیاحت کی ہے اور اس کے تفصیلی حالات اپنے سفر نامہ میں بیان کیے ہیں۔ وہ اس مشکل کا یہ حل تجویز کرتے ہیں کہ سکندر کے کسی جنرل نے یہ استحکامات تعمیر کیے ہوں گے۔ کم از کم درہ داریال کے استحکامات، بعد کو ساسانی فرمانرواؤں نے انہیں اور زیادہ وسیع اور مکمل کردیا۔ چونکہ ابتدائی تعمیر سکندر کے عہد کی تھی اس لیے سکندر کی طرف منسوب ہوگئی۔ لیکن جب سکندر کے تمام فوجی اعمال خود اس کے عہد میں اور خود اس کے ساتھیوں نے قلمبند کردیے ہیں اور ان میں کہیں بھی کا کیشیا کی لڑائی یا کا کیشیا کے استحکامات کی تعمیر کا اشارہ نہیں ملتا تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ اس طرح کی توجیہات قابل اطمینان تسلیم کرلی جائیں؟ اسی طرح کے غیر معمولی استحکامات جبھی تعمیر کیے جاسکتے ہیں جبکہ امن و حفاظت کی ضرورت نے انہیں ناگزیر کردیا ہو۔ لیکن سکندر کو اپنی تمام فتوحات میں اس طرح کی کوئی ضرورت پیش ہی نہیں آئی۔ اس کے زمانہ میں یہ علاقہ ایران کی قدیم شہنشاہی کے ماتحت تھا۔ اس نے شام کی راہ سے ایران پر حملہ کیا اور پھر وسط ایشیا ہوتا ہوا ہندوستان چلا گیا۔ ہندوستان سے واپسی پر ابھی بابل ہی میں تھا کہ انتقال کرگیا۔ ایسی حالت میں وہ کون سے حالات ہوسکتے ہیں جو کا کیشیا کے استحکامات پر اسے مجبور کرسکتے تھے؟ اور اگر پیش آئے تو کب؟ سکندر کا انتساب صحیح نہیں : اصل یہ ہے کہ یہ استحکامات سکندر سے دو سو برس پہلے سائرس نے تعمیر کیے تھے اور درہ داریال کی سد وہی سد ہے جس کا قرآن نے ذکر کیا ہے۔ حسب ذیل وجوہ قرائن سے اس رائے کی تائید ہوتی ہے : اولا : سائرس اور سکندر کی دو باتیں تاریخ کی قطعی روشنی میں آچکی ہیں۔ سائرس کے زمانے میں یہاں سے سیتھین قوم کے حملے ہور ہے تھے، سکندر کے زمانے میں کوئی حملہ آور نہیں تھا، سائرس کے لیے ضروری تھا کہ یہ وراہ روکے، سکندر کو کوئی ایسی ضرورت پیش نہیں آئی۔ سائرس کی نسبت ہیروڈوٹس اور زینوفن کی شہادت موجود ہے کہ فتح لیڈیا کے بعد سیتھین قوم کے سرحدی حملوں کی روک تھام کی، سکندر کی نسبت کوئی ایسی شہادت موجود نہیں، ان باتوں کے جمع کرنے سے جو تاریخی قرینہ پیدا ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ یہ سد سائرس نے تعمیر کی ہوگی۔ نہ کہ سکندر کے حکم سے اس کے کسی افسر نے۔ ثانیا : پروکوپیس کے علاوہ قدیم مورخوں نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ ثلا ٹسی ٹس (Tacitus) اور لیڈس (Lydus) نے، وہ ہمیں بتلاتے ہیں کہ رومی اسے کا سپین پورٹا کے نام سے پکارتے تھے، یعنی باب کا سپین۔ لیکن اسطرف کوئی اشارہ نہیں کرتے کہ یہ سکندر کے عہد کی تعمیر ہے۔ ثالثا : ایک مثبت شہادت بھی موجود ہے جو سائرس کی طرف ذہنن منتقل کردیتی ہے یہ ارمنی نوشتوں کی شہادت ہے جسے قرب محل کی وجہ سے مقامی شہادت تصور کرنا چاہیے۔ ارمنی زبان میں اس کا قدیم نام پھاک کورائی اور کا پان کورائی چلا آتا ہے۔ دونوں ناموں کا مطلب یہ ہے کہ کورکا درہ سوال یہ ہے کہ کور سے مقصود کیا ہے ؟ کیا یہ گوش کی بدلی ہوئی شکل نہیں ہے جو سائرس کا اصلی نام تھا جیسا کہ دارا کے کتبہ استخر میں پڑھا جاچکا ہے ؟ پروفیسر جیکسن اس ارمنی نام کا ذکر کرتے ہیں لیکن وہ کور کا تلفظ سور کرتے ہیں، اور پھر عربی کے ایک نام سول کا اسے ماخذ قرار دیتے ہیں، اس طرح لفظ کی حقیقت گم ہوجاتی ہے۔ اب ایک سوال اور غور طلب ہے، ذوالقرنین نے جو سد تعمیر کی تھی وہ درہ داریال کی سد ہے، یا دربند کی دیوار؟ یا دونوں؟ متذکرہ قرآن سد درہ داریال کی سد ہے نہ کہ دربند کی : قرآن میں ہے کہ ذوالقرنین دو پہاڑی دیواروں کے درمیان پہنچا، اس نے آہنی تختیوں سے کام لیا، اس نے درمیان کا حصہ پاٹ کے برابر کردی، اس نے پگھلا ہوا تانبا استعمال کیا، تعمیر کی یہ تمام خصوصیات کسی طرح بھی دربند کی دیوار پر صادق نہیں آتیں، یہ پتھر کی بڑی بڑی سلوں کی دیوار ہے اور دو پہاڑی دیواروں کے درمیان نہیں ہے بلکہ سمندر سے پہاڑ کے بلند حصے تک چلی گئی ہے۔ اس میں آہنی تختیوں اور پگھلے ہوئے تانبے کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ پس یہ قطعی ہے کہ ذوالقرنین والی سد کا اطلاق اس پر نہیں ہوسکتا۔ البتہ درہ داریال کا مقام ٹھیک ٹھیک قرآن کی تصریحات کے مطابق ہے۔ یہ دو پہاڑی چوٹیوں کے درمیان ہے اور جو سد تعمیر کی گئی ہے اس نے درمیان کی راہ بالکل مسدود کردی ہے۔ چونکہ اس کی تعمیر میں آہنی سلوں سے کام لیا گیا تھا، اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جارجیا میں آہنی دروازہ کا نام قدیم سے مشہور چلا آتا ہے، اسی کا ترجمہ ترکی میں وامرکپو مشہور ہوگیا۔ بہرحال ذوالقرنین کی اصلی سد یہی سد ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے بعد خود اس نے یاس کے جانشینوں نے یہ دیکھ کر کہ کا کیشیا کا مشرقی ڈھلوان بھی خطرہ سے خالی نہیں دربندہ کی تعمیر کردی ہو اور نوشیراں نے اسے اور مضبوط کیا ہو۔ یا ممکن ہے فی الحقیقت نوشیرواں ہی کی تعمیر ہو۔ دربندی کی دہری دیوار ١٧٩٦ ء، تک موجود تھی جس کی تصویر ایک روسی سیاح کی بنائی ہوئی ایچ والد (Eichwald) نے اپنی کتاب کو اکیسیس میں نقل کی ہے، لیکن ١٩٠٤ ء جب پروفیسر جیکسن نے اس کا معائنہ کیا تو گو آثار باقی تھے لیکن دیوار گرچکی تھی، البتہ اکہری دیوار اکثر حصوں میں اب تک باقی ہے۔ موجودہ زمانہ کے شارحیں تورات میں بھی ایک جماعت اسی طرف گئی ہے کہ یاجوج ماجوج سے سیتھین قوم مراد تھی، لیکنن وہ حزقی ایل کی پیشین گوئی کا محل ان کا وہ حملہ قرار دیتے ہیں جو ہیروڈٹس کے قول کے مطابق ٦٣٠ قبل مسیح میں ہوا تھا۔ لیکن اس صورت میں یہ مشکل پیدا ہوجاتی ہے کہ حزقی ایل کی کتاب بابل کی اسیری کے زمانہ میں لکھی گئی ہے۔ کیونکہ وہ خود بھی بخت نصر کے اسیروں میں سے تھے اور سیتھین حملہ اس سے بہت پہلے ہوچکا تھا۔ اس باب میں مزید تفصیلات کے لیے انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا اور جویش انسائیکلوپیڈیا میں لفظ (Gog) کا مقالہ دیکھنا چاہیے۔ ہم نے ذوالقرنین کے مبحث میں پوری تفصیل سے کام لیا ہے، کیونکہ زمانہ حال کے معترضین قرآن نے اس مقام کو سب سے زیادہ اپنے معاندانہ استہزا کا نشانہ بنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں ذوالقرنین کی کوئی تاریخ اصلیت نہیں ہے۔ یہ محض عرب یہودیوں کی ایک کہانی تھی جو پیغمبر اسلام نے اپنی خوش اعتقادی سے صحیح سمجھ لی اور نقل کردی۔ اس لیے ضروری تھا کہ یہ ایک مرتبہ یہ مسئلہ اس طرح صاف کردیا جائے کہ شک و تردد کا کوئی پہلو باقی نہ رہے۔ استدارک : ہم نے سائرس کے جس مجمسہ کا اوپر ذکر کیا ہے اجس سے قطعی طور پر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ذوالقرنین اسی کا لقب تھا وہ قدیم سنگ تراشی کی صناعیوں کا ایک نہایت نادر نمونہ ہے اور موجودہ عہد کے تمام اہل نظر کا فیصلہ ہے کہ یونانی سنگ تراشی کے نمونوں کی صف میں اگر کوئی ایشیائی نمونہ رکھا جاسکتا ہے تو وہ یہی سائرس کا مرمری مجمسہ ہے۔ یہ ایران کے قدیم دار الحکومت استخر سے تقریبا پچاس میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہاں دارا نے شاہی محل تعمیر کیا تھا۔ اب اس کا بقیہ صڑف چند مرمری ستون رہ گئے ہیں۔ انہی میں سے ایک مربع ستون پر یہ مجسمہ ابھارا گیا تھا۔ سب سے پہلے ١٨٣٧ ء میں جیمس موریر (Morior) نے اس کی موجودگی سے علمی دنیا کو روشناس کیا، پھر چند سال بعد سر رابرٹ کیر پورٹر (Robert Ker Porter) نے اس مقام کی علمی پیمائش تحقیق کر کے مفصل معلومات بہم پہنچائیں اور اپنے سفرنامہ جارجیا وایران میں مجسمے کی وہ نقل کی بھی شائع کردی جو اس نے پنسل سے تیار کی تھی۔ اس وقت تک قدیم پہلوی زبان اور میخی خطوط کا مسئلہ پوری طرح حل نہیں ہوا تھا۔ تاہم یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ مجسمہ سائرس ہی کا ہے۔ بعد کی تحقیقات نے مزید تصدیق کردی۔ پھر ١٨٨٤ ء میں ڈی لافو (Dieulafoy) نے اپنی مشہور کتاب (L art antique en perse) میں اس کا اصلی عکس شائع کردیا ہے اور اس طرح مجسمہ کی اصلی نوعیت دنیا کے سامنے آگئی۔ اس وقت سے لے کر یہ مجمسہ تاریخ قدیم کے مباحث کا ایک عام موضوع رہا ہے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ آج تک کسی یورپین مستشرق کا ذہن اس طرف منتقل نہیں ہوا کہ اس کی نوعیت میں قرآن کے ذوالقرنین کی صریح اور قطعی تصدیق نمایاں ہوگئی ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ تغافل مذہبی تعصب کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ ان میں کافی تعداد ایسے اہل علم کی ہے جو یقینا ان تعصبات کی آلودگیوں سے اپنی حفاظت کرسکتے ہیں۔ تاہم اس میں شک نہیں یہ تغافل علم و نظر کے عجائب مستثنیات میں سے ہے۔ اس مجسمہ میں سائرس کے سر پر دو سینگ نکلے ہوئے ہیں اور اطراف میں عقاب کے سے پر، سینگوں کا مطلب واضح ہوچکا ہے، لیکن عقاب کے سے پر کیوں بنائے گئے؟ اس کا جواب بھی ہمیں یسعیاہ نبی کے صحیفہ سے مل جاتا ہے، اس میں جہاں سائرس کے ظہور کی خبر دی گئی ہے، وہاں یہ بھی ہے کہ : دیکھو میں ایک عقاب کو پورب سے بلاتا ہوں، اس شخص کو یاک دور کے ملک سے آکر میری ساری مرضی پوری کرے گا۔ (باب : ١١: ٤٦) اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح دو سینگوں کا معاملہ دنیال نبی کا مکاشفہ سے تعلق رکھتا ہے اسی طرح عقاب کی تشبیہ یسعیاہ نبی کی پیشین گوئی میں آچکی ہے، خواہ یہ پیشین گوئیاں بعد میں بنائی گئی ہوں خواہ فی الحقیقت پیشتر کی ہوں لیکن یہ ظاہر ہوگیا کہ سائرس کے لیے دو سینگوں کا اور عقاب کا تخیل پیدا ہوچکا تھا اور ٹھیک ٹھیک یہی تخیل ہے جو اس مجسمہ میں متشکل ہوگیا ہے۔ الكهف
110 الكهف
0 مريم
1 مريم
2 نزول کے اعتبار سے یہ پہلی سورت ہے جس میں حضرت مسیح کے ظہور کے حالات بہ تفصیل بیان کیے گئے ہیں اور ان گمراہیوں کا ازالہ کیا ہے جو یہودیوں اور عیسائیوں میں اس مقدس شخصیت کے بارے میں پھیلی ہوئی تھی۔ تمام انجیلیں متفق ہیں کہ حضرت یحی (یوحنا) کا ظہور دعوت مسیحی کے ظہور کا مقدمہ تھا۔ چنانچہ لوقا کی انجیل میں پہلے حضرت یوحنا کی پیدائش کا واقعہ بیان کیا ہے، پھر اس کے بعد حضرت مسیح کا، قرآن نے بھی یہاں اسی طریقہ پر بیان شروع کیا ہے۔ لوقا کی انجیل میں ہے کہ ابیاہ کی جماعت میں سے زکریاہ نام ایک کاہن تھا۔ اس کی بیوی الیشع ہارون کی اولاد میں سے تھی۔ دونوں راست باز اور خداوند کے حکموں پر بے عیب چلنے والے تھے۔ ان کے اولاد نہ تھی، کیونکہ الیشع بانجھ تھی، اور دونوں عمر رسیدہ تھے۔ ہیکل کی مقدس رسوم ادا کرنے کے لیے کاہن مقرر تھے۔ اور ہر جماعت کے آدمی کی نوبت مقرر تھی۔ ایک مرتبہ جب حضرت زکریا کی نوبت آئی اور وہ قربان گاہ میں خوشبو جلانے کے لیے داخل ہوئے تو خداوند کا فرشتہ انہیں نظر آیا۔ اس نے کہا تیری دعا قبول ہوئی، تیری بیوی بیٹا جنے گی۔ تو اس کا نام یوحنا رکھیو۔ انجیل میں ہے زکریا نے کہا میں یہ بات کس طرح جانوں کیوں میں بوڑھا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے؟ جبریل نے کہا جس دن تک یہ باتیں واقع نہ ہولیں تو چپکا رہے گا اور بول نہ سکے گا۔ جب زکریاہ باہر آیا تو وہ لوگوں سے اشارے کرتا تھا۔ بول نہیں سکتا تھا۔ (لوقا : ١٨: ١) قرآن نے یہ نہیں کہا ہے کہ حضرت زکریا گونگے ہوگئے تھے۔ یہ یقینا بعد کی تعبیرات ہیں جو حسب معمول پیدا ہوگئیں۔ صاف بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت زکریا کو روزہ رکھنے اور مشغول عبادت رہنے کا حکم ہوا، اور یہودیوں کے یہاں روزہ کے اعمال میں سے ایک عمل خاموشی بھی تھی۔ چنانچہ حضرت یحی پیدا ہوئے، لڑکپن ہی سے ان کی زندگی زہد و عبادت اور گوشہ نشینی و اعتکاف کی زندگی تھی۔ انجیل میں ہے کہ ان کی تمام ابتدائی زندگی صحرا میں بسر ہوئی، پھر وہیں ان پر اللہ کا کلام نازل ہوا، تب انہوں نے دریائے یردن کے نواح میں توبہ و انابت کی منادی شروع کردی، وہ پکارتے تھے کہ آنے والے وقت کے لیے تیار ہوجاؤ۔ (لوقا، باب : ٣) انجیل میں ہے کہ مندرجہ صدر واقعہ کے چھ ماہ بعد جبریل مریم پر نمودار ہوا، جس کی منگنی یوسف نامی ایک نوجوان سے ہوچکی تھی اور اسے کہا تو حاملہ ہوگی اور بیٹا جنے گی، اس کا نام یسوع رکھیو۔ (لوقا : ٢٦: ١) نیز یہ کہ مریم زکریاہ کی بیوی الیشع کی رشتہ دار تھی، اور بشارت کے بعد اس سے ملنے گئ۔ مريم
3 مريم
4 مريم
5 مريم
6 مريم
7 مريم
8 مريم
9 مريم
10 مريم
11 مريم
12 مريم
13 مريم
14 مريم
15 مريم
16 آیت (١٦) میں (مکانا شرقیا) کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مریم ہیکل چھوڑ کر جہاں ان کی پرورش ہوئی تھی اپنے آبائی وطن ناصرہ میں چلی گئیں، یہ یروشلم کے شمال مشرق میں واقع ہے اور باشندگان یروشلم کے لیے مشرق کا حکم رکھتا ہے۔ انجیل سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کیونکہ وہ اس معاملہ کا محل وقوع ناصرہ ہی بتلاتے ہیں۔ (لوقا : ٢٦: ١) مريم
17 مريم
18 مريم
19 مريم
20 مريم
21 آیت (٢١) میں حضرت مسیح کی نسبت دو باتیں فرمائی ہیں۔ اللہ کی نشانی ہوں گی، اور اسکی رحمت، غور کرو ان دو لفظوں نے کس طرح ان کی شخصیت کی پوری تصویر نمایاں کردی ہے؟ وہ اپنی ساری باتوں میں کرشمہ ساز قدرت کی ایک نشانی تھی۔ ان کے ظہور کا تمام تر پیام نوع انسانی کے لیے رحم و محبت کا پیام تھا۔ گویا ان کی شخصیت کی پوری تاریخ ان دو لفظوں میں سمٹی ہوئی ہے (ایۃ للناس ورحمۃ منا) مريم
22 مريم
23 مريم
24 مريم
25 مريم
26 آیت (٢٦) سے واضھ ہوگیا کہ ایک طرح کا یہودی روزہ یہ بھی تھا کہ آدمی خاموش رہے، چنانچہ حجرت زکریا کو بھی ایسا ہی روزہ رکھنے کا حکم ہوا تھا، یہودیوں کے یہاں روزہ کی یہ صورت اب بھی تسلیم کی جاتی ہے۔ مريم
27 مريم
28 آیت (٢٨) میں اخت ہارون سے مقصود حضرت مریم کا ایک رشتہ دار ہے جو نہایت پارسا شخص تھا، اس لیے ملامت کرنے والوں نے اس کی طرف نسبت دے کر ملامت کی، مسلم و ترمذی کی حدیث مغیرہ بن شعبہ میں یہ تفسیر خود آنحضرت سے منقول ہے۔ مريم
29 مريم
30 مريم
31 مريم
32 مريم
33 آیت (٣٣) تک حضرت مسیح کے ظہور اور دعوت کا بیان تھا۔ اب فرمایا اس بارے میں قول حق صرف یہ ہے، اس سے زیادہ عیسائیوں نے جو کچھ بنا لیا ہے وہ جہل و گمراہی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد عیسائیوں کی اس گمراہی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا بنا لیا۔ سینٹ پال کی طرف اہنیت کی جو تعلیم منسوب ہے اس کی تمام تر بنیاد اس خیال پر رکھی گئی ہے کہ نوع انسانی کی سرشت میں گناہ ہے، پس اس کی نجات کے لیے ضروری تھا کہ کفارہ ہو۔ کفارہ کی یہی صورت ہوسکتی تھی کہ خدا کی صفت رحمت ابن اللہ کی شکل میں اترے، اور اپنی قربانی کے خون سے اولاد آدم کا گناہ دھو ڈالے۔ قرآن اس اصنامی تخیل کا رد کرتے ہوئے خدا کی بے نیازی اور قدرت کا اثبات کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے تم نے خدا کو اتنا بے بس اور محتاج کیوں سمجھ لیا کہ جب تک ایک انسان کو اپنا بیٹا بنا کر سولی پر نہ چڑھا دے وہ اپنے بندوں کو نجات دینے کی راہ نہیں پاسکتا، یہ تو وہ کرے جو اپنے کاموں کی انجام دہی میں دوسروں کا محتاج ہو۔ لیکن تم خود مانتے ہو کہ خدا محتاج نہیں ہوسکتا۔ صرف اس کا چاہتا ہی کاموں کا انجام پاجانا ہے۔ مريم
34 مريم
35 مريم
36 مريم
37 آیت (٣٧) اور (٣٨) میں قیامت کے دن کا ذکر ہوچکا ہے کہ (من مشھد یوم عظیم) اور (یوم یاتوننا) اس کے بعد (٣٩) میں فرمایا : وانذرھم یوم الحسرۃ اور انہیں یوم الحسرت دن سے بھی خبردار کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس یوم الحسرت سے مقصود قیامت کا دن نہیں ہے، یہ کوئی دوسرا آنے والا دن ہے۔ چنانچہ بعد کی آیت نے اس دن کی نوعیت ظاہر کردی ہے۔ یہ کونسا دن تھا؟ یقینا کوئی ایسا دن جو عیسائیوں کو عنقریب پیش آنے وال تھا، اور جس میں ان کے لیے بڑی ہی حسرت و مایوسی تھی۔ چنانچہ سورۃ مریم کے نزول پر ابھی پچیس برس بھی نہیں گزرے تھے کہ یہ دن نمودار ہوگیا، اور تمام عیسائی دنیا یہ سن کر ششدر رہ گئی کہ مسیحیت کا صدر مقام اور قبلہ و مرکز طاری ہوگئی۔ کیونکہ مسیحیت کی اس سب سے بڑی توہین کو نہ تو مذہب کا کوئی متوقع معجزہ روک سکا، نہ باز نطینی شہنشاہی کا لشکر جرار۔ پھر یہ صرف بیت المقدس ہی کی فتح نہ تھی، تمام ایشیا اور افریقہ میں مسیحی فرمانروائی کا خاتمہ تھا۔ ہر قل (ہرکولس) کے یہ الفاظ جو اس نے تختہ جہاز پر لبنان کی چوٹیوں کو مخاطب کر کے کہے تھے، آج تک مورخوں کی زبانوں پر ہیں، الوداع سرزمین شام، ہمیشہ کے لیے الوداع، غور کرو، کیا یہ دن اپنے کامل معنوں میں مسیحیت کے لیے یوم الحسرۃ نہ تھا؟ مريم
38 مريم
39 پھر آیت کے اس ٹکڑے پر غور کرو کہ (وھم فی غفلۃ وھم لا یومنون) اے پیغمبر ! یہ لوگ اس وقت اپنی کامرانیوں کی غفلت میں سرشار ہیں، یقین کرنے والے نہیں، تاہم تم اعلان کردو۔ نیز بعد کی آیت کہ انا نحن نرث الارض ومن علیھا کس طرح یہ تمام مطلب آشکارا کر رہی ہے ؟ افسوس ہمارے مفسروں کو اس عالم کی خبر ہی نہیں، وہ جہاں یوم کا لفظ دیکھتے ہیں، جھٹ اسے یوم القیامہ سمجھ لیتے ہیں۔ مريم
40 مريم
41 اس کے بعد آیت (٤١) سے (٥٧) تک حضرت ابراہیم، اسحاق، یعقوب، موسی، ہارون، اسماعیل اور ادریس کی نبوتوں کی طرف اشارہ کیا ہے اور پھر آیت (٥٨) میں اس تمام تذکرہ کا نتیجہ نکالا ہے۔ حضرت ابراہیم کی زندگی کا جو واقعہ بیان کیا گیا ہے زیادہ تفصیل کے ساتھ سورۃ انعام کی آیت (٧٤) میں گزر چکا ہے اور آئندہ سورتوں میں بھی آئے گا۔ ماحصل اس کا یہ ہے کہ اور کے تمام باشندوں کی طرح ان کا چچا بھی بت پرست تھا۔ اس نے غیظ و غضب میں آکے انہیں نکال دیا، انہوں نے بھی راہ حق میں تمام ملک و قوم سے کنارہ کشی کرلی اور کنعان آکر مقیم ہوگئے۔ پھر اللہ نے ان کی نسل میں برکت دی اور اسرائیلی اور اسماعیلی سلسلوں کے بانی ہوئے۔ جزیرہ نمائے سینا کے داہنی جانب عرب ہے، بائیں جانب مصر ہے۔ اسی داہنی جانب کے ساحل پر قبیلہ مدین کی بستی آباد تھی۔ جہاں حضرت موسیٰ مصر سے نکل کر مقیم ہوگئے تھے۔ پس (من جانب الطور الایمن) کا مطلب یہ ہے کہ یہ معاملہ طور کی مشرقی جہت میں پیش آیا تھا۔ نہ کہ مغربی میں جو مصر کے مقابل ہے۔ مريم
42 مريم
43 مريم
44 مريم
45 مريم
46 مريم
47 مريم
48 مريم
49 مريم
50 مريم
51 مريم
52 مريم
53 مريم
54 مريم
55 مريم
56 مريم
57 مريم
58 آیت (٥٨) اور اس کے بعد کی آیتیں اس تذکرہ کا خلاصہ ہے۔ فرمایا ان تمام نبیوں نے خدا پرستی اور نیک عملی کی دعوت دی تھی، وہ ان میں سے تھے جن پر خدا کا انعام ہوا اور کامیابیوں کے لیے چن لیے گئے، لیکن ان کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوگئے جنہوں نے حقیقت ضائع کردی اور اپنی خواہشوں کے پرستار ہوگئے۔ اب ان کے نام لیواؤں کے جتنے گروہ ہیں سب کا یہی حال ہے اور سب کو اپنی بدعملیوں کا نتیجہ بھگتنا ہے۔ ہاں جو گمراہیوں سے باز آجائیں، اور دعوت حق پر عمل کریں گے ان پر ہر طرحح کی کامرانیوں کی راہ کھل جائے گی۔ اسی طرح جس طرح پہلے کھل چکی ہے۔ مريم
59 آیت (٥٩) میں پچھلوں کی گمراہی بیان کرتے ہوئے صرف (اضاعوا الصلوۃ واتبعوا الشھوات) فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ نماز یعنی عبادت کا جوہر ایمان ہے، اس کی حقیقت گئی تو سب کچھ چلا گیا۔ دراصل ایک خدا پرست اور ایک غیر خدا پرست میں عملی امتیاز اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ پہلا کسی کی بندگی میں لگا رہتا اور کسی کو پکارتا رہتا ہے، دوسرا اس سے بے پروا رہتا ہے، اسی لی دعا اور عبادت ایمان باللہ کی اصلی علامت ہوئی اور اسی لیے تمام مذاہب نے اسی عمل پر مذہبی زندگی کی ساری عمارتیں اٹھائیں، جونہی یہ عمل بگڑا، مذہبی زندگی کی ساری بنیادیں ہل گئیں۔ مريم
60 مريم
61 مريم
62 آیت (٦٢) میں فرمایا تھا کہ جنت کی زندگی سلامتی اور طہارت کی زندگی ہوگی۔ وہاں سلام کی صداؤں کے سوا اور کوئی صدا سننے میں نہیں آئے گی۔ پھر آیت (٦٤) میں فرمایا : جنتیوں پر فرشتوں کا نزول ہوگا جو سلامتی کا پیام پہنچائیں گے وہ کہیں گے تمہارا پروردگار بھول جانے والا نہ تھا۔ دیکھ لو، جو کچھ تم نے ماضی میں کیا تھا آج اس کے نتائج تمہارے دامن میں ہیں اور قانون نتائج کے حافظہ نے کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی نہیں بھلایا ہے۔ (وما کان ربک نسیا) کی حقیقت پر غور کرو۔ علم و قدرت کے جوازلی قوانین ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں ان کا حافظہ کیسا اٹل اور ان کا حساب و کتاب کیسا بے داغ ہے؟ کیا ممکن ہے کہ ایک پل کے لیے بھی ان پر سہو و نسیان طاری ہوجائے؟ مريم
63 مريم
64 مريم
65 آیت (٦٥) میں خطاب پیغمبر اسلام اور ان کے ساتھیوں سے ہے۔ فرمایا دو باتوں میں لگے رہو، ساری کامیابیاں انہی سے ملیں گی اس کی عبادت کرو۔ اس کی عبادت کی راہ میں جتنی بھی مشکلات پیش آئیں جھیلتے رہو۔ مريم
66 مريم
67 مريم
68 مريم
69 مريم
70 مريم
71 آیت (٧١) میں وان منکم الا واردھا کا خطاب تمام نوع انسانی سے نہیں ہے بلکہ ان منکرین حق سے ہے جن کا ذکر پہلے سے چلا اتا ہے اور جن کی نسبت پھچلی آیت میں فرمایا (الذین ھم اولی بھا صلیا) اور اسی لیے اس درجہ زور دے کر فرمایا (کان علی ربک حتما مقضیا) جزائے عمل کا قانون طے شدہ قانو ہے، کبھی ٹلنے والا نہیں۔ سورۃ مریم مکی عہد کی وسطی تنزیلات میں سے ہے اس وقت پیروان دعوت کمزور اور بے سروسمان تھے، منکروں کو ہر طرح کی دنیوی خوشیاں حاصل تھیں، پیغمبر اسلام مومنوں کے ساتھ بیٹھتے تو فقیروں اور بے نواؤں کی مجلس ہوتی، منکرین حق دار الندوہ میں جمع ہوتے تو سرداروں اور امیروں کا مجمع ہوتا، اس صورت حال کا قدرتی نتیجہ یہ تھا کہ قرآن کی بشارتیں سن کر کفار ہنسی اڑاتے وہ کہتے بتلاؤ ہم دونوں میں سے کس کا مقام بلند ہے اور کس کی مجلس معزز؟ مريم
72 مريم
73 آیت (٧٣) سے (٧٦) تک منکروں کی اسی سرکشی کا بیان ہے فرمایا انہیں خدا کے قانون کی خبر نہیں، اس نے نتائج عمل کا قانو ایسا ٹھہرا دیا ہے کہ گمراہوں کو ڈھیل پر ڈھیل دی جاتی ہے راہروؤں کو رہنمائی پر رہنمائی ملتی ہے، جس نے آنکھیں بند کرلیں اس کے لیے تاریکی ہی ہوگی لیکن فورا نہیں گرے گا یکے بعد دیگرے مہلتیں پائے گا۔ جس نے آنکھیں کھلی رکھیں، اسے راہ ملے گی، لیکن فورا منزل مقصود پر نہیں پہنچ جائے گا، درجہ بدرجہ رہنمائی پائے گا، یہاں اچھائی اور برائی، دونوں کے لیے تدریج و امہال کا قانون کام کر رہا ہے پس ایک خاص وقت کی حالت دیکھ کر مغرور نہیں ہونا چاہیے، ظہور نتائج کا نتظار کرنا چاہیے۔ تفصیل کے لیے تفسیر فاتحہ میں قانون امہال کا مبحث پڑھنا چاہیے یہ مقام مہمات معارف میں سے ہے۔ مريم
74 مريم
75 مريم
76 مريم
77 آیت (٧٧) میں انسان کی غفلت اور سرکشی کی اس حالت کی طرف اشارہ کیا ہے جب کہ وہ اپنی عارضی خوشحالیوں کے گھمنڈ میں سمجھنے لگتا ہے ہر طرح کی خوش حالیاں میرے ہی حصہ میں آنے والی ہیں اور بھول جاتا ہے کہ زندگی اور زندگی کے حوا ادث کا ایک پل بھی اس کے اختیار میں نہیں۔ یہاں فرمایا کیا اس سرکش نے غیب کی باتیں دیکھ لی ہیں یا خدا سے کوئی پٹہ لکھوا لیا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیا ہے جس پر بھولا بیٹھا ہے؟ مريم
78 مريم
79 مريم
80 مريم
81 مريم
82 مريم
83 مريم
84 آیت (٨٤) کے چند لفظوں نے جزائے عمل کے قانون کی ساری حقیقت کس طرح واضح کردی ہے ؟ فرمایا (فلا تعجل علیھم انما نعدلھم عدا) جلدی نہ کر، یہ دیر صڑف اس لیے ہے کہ ان کے دن گنے جارہے ہیں۔ یعنی ہر حالت کی تکمیل و ظہور کے لیے ایک مقررہ مدت ہے اور نتائج عمل کا قانون بھی اس سے باہر نہیں۔ کفار مکہ جو ڈھیل مل رہی ہے وہ صرف اس لیے ہے کہ دن گنے جارہے ہیں وقت قریب آگیا ہے مگر دن ابھی پورے نہیں ہوئے، جونہی پورے ہوں گے نتیجہ خود بخود اچھل کر آشکارا ہوجائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ دشمنان حق کی خوشحالیوں کے صرف گنے ہوئے دن باقی رہ گئے تھے سورۃ مریم کے نزول پر پورے دس برس بھی نہیں گزرے تھے کہ سارے معاملہ کا فیصلہ ہوگیا۔ مريم
85 اب کہ سورت ختم ہورہی ہے سلسلہ بیان پھر اسی مطلب کی طرف رجوع ہوگیا ہے جو اوائل سورت میں چھڑ گیا تھا، یعنی حضرت مسیح کی شخصیت کے بارے میں عیسائیوں کی گمراہی۔ چنانچہ آیت (٨٥) میں فرمایا قیامت کے دن تمام انسان دو گروہوں میں بٹ جائیں گے، ایک متقیوں کا ہوگا، دوسرا مجرموں کا، متقی اپنے ایمان و عمل کی جزا میں نجات پائیں گے، مجرم اپنے انکار و بدعملی کی پاداش میں عذاب۔ یہ بات کسی کے اختیار میں نہ ہوگی کہ دنیا کے درباروں کی طرح جسے چاہے اپنی سفارش سے چھڑا لے، پس عیسائیوں نے جو حضرت مسیح کو نوع انسانی کے گناہوں کا کفارہ دینے والا اور اس کا شفیع و منجی تصور کرلیا ہے وہ صریح گمراہی نہیں ہے تو کیا ہے۔ مريم
86 مريم
87 مريم
88 پھر الوہیت اور رابنیت مسیح کی گمراہی کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا انسانی گمراہی کی یہ انتہا ہے اس سے زیادہ سخت گمراہی اور کیا ہوسکتی ہے کہ فاطر السموات ولارض کو ایک بیٹے کی ہستی کا محتاج تصور کرلیا جائے۔ مريم
89 مريم
90 مريم
91 مريم
92 مريم
93 اس کے بعد صرف ایک آیت کے اندر وہ سب کچھ کہہ دیا ہے جو اس عقیدے کے رد میں کہا جاسکتا ہے، یہ زیادہ سے زیادہ واضح اور فیصلہ کن حجت ہے مگر منطقی طریقہ کی نہیں جو دلوں کو نہیں پکڑ سکتی، قرآنی طریقہ کی جو دل کے ایک ایک ریشہ میں اتر جاتی ہے : (ان کل من فی السموات والارض الا اتی الرحمن عبدا) تم خود تسلیم کرتے ہو کہ کائنات خلقت میں جو کوئی بھی ہے اس کے حضور بندہ ہی کی حیثیت رکھتا ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ یعنی یہاں آقائی و معبودیت صرف خدا کے لیے ہے، باقی سبب کے لیے بندگی و نیاز مندی ہے اچھا اگر اس سے تمہیں انکار نہیں تو پھر مسیح کو بھی عبد ہونا چاہیے نہ کہ معبود۔ غلام ہونا چاہیے کہ آقا، محکوم ہونا چاہیے نہ کہ حکم فرما، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا کے آگے تو سب بندے ہوں مگر مسیح بندہ نہ ہو؟ مريم
94 مريم
95 مريم
96 آیت (٩٦) سے آخر تک سورت کی اختتامی موعظت ہے، اس میں دو باتوں کی خبر دی گئی ہے، ایک یہ کہ جو لوگ ایمان و عمل کی راہ اختیار کریں گے عنقریب خدا ان کے لیے انسانوں کے دل کھول دے گا اور وہ قوموں اور ملکوں کے محبوب ہوجائیں گے۔ (سیجعل لھم الرحمن ودا) دوسری یہ کہ حق کے مقابلہ ہٹ دھرمی کرنے والوں کو وہی نتیجہ پیش آنے والا ہے جو پچھلی تباہ شدہ جماعتوں کو پیش آچکا ہے کہ آن ان کا نام و نشان تک باقی نہیں۔ (ھل تحس منھم من احد او تسمع لھم رکزا) شرح ؛ سیجعل لھم الرحمن ودا): تاریخ کا داستاں سر اشہادت دیتا ہے کہ دنیا نے یہ دونوں باتیں چند برسوں کے اندر دیکھ لیں۔ ایمان و عمل کی اس دعوت نے مسلمانوں کا جو گروہ پیدا کردیا تھا انسانوں نے اسے قبول ہی نہیں کیا، بلکہ اس کا والہانہ استقبال کیا۔ وہ خوف و دہشت کی طاقت نہ تھے جس سے لوگ بھاگتے، نیکی و عدالت کا پیام تھے جس کی طرف لوگ دوڑتے تھے، قوموں نے انہیں بلاوے بھیجے، شہروں نے ان کے لیے پھاٹک کھولے، قلعوں نے اپنی کنجیاں آگے رکھ دیں اور وقت کی ساری مظلوم آبادیوں نے انہیں نجات دہندہ سمجھا۔ اجنا دین اور یرموک کے میدانوں میں بانطینی شہنشاہی ان سے لڑ رہی تھی لیکن شام کی آبادیاں محبت کے پیام بھیج رہی تھیں۔ بصری نے اپنے دروزے خود کھول دیے تھے، حمص کے باشندوں نے منتیں کی تھیں، طرابلس پہلے سے چشم برا تھا، صور کے پھاٹک بند ہی نہیں کیے گئے، اسی طرح جب انہوں نے مصر کا رخ کیا، تو خود مصر کے عیسائی ہی تھے جنہوں نے بڑھ کر ان کا استقبال کیا تھا، وہ جن جن راستوں سے گزرتے، سڑکوں کو درست اور پلوں کو تیار پاتے اور ہر طرح کی رسد فوج کے لیے مہیا ہوتی۔ باقی رہی دوسری بات تو محتاج تشریح نہیں، اس آیت کے نزول پر پورے پندرہ برس بھی نہیں گزرے تھے کہ دعوت قرآن کی تمام معاند قوتیں بے نام و نشان ہوچکی تھیں۔ حضرت مریم کی ابتدائی سرگزشت اور انجیل : حجرت مسیح اور مسیحیت کی نسبت بعض مہمات مباحث ہیں جن کے اشارات آئندہ سورتوں کی تشریحات میں ملیں گے۔ لیکن یہاں دو باتوں کی طرف اشارہ کردینا ضروری ہے : (الف) قرآن نے حضرت مسیح کے ظہور کا ذکر زیادہ تفصیل کے ساتھ دو جگہ کیا ہے۔ یہاں اور سورۃ آل عمران کی آیات (٦٣۔ ٣٥) میں، یہاں یہ ذکر حضرت زکریا کی دعا اور حضرت یحی کی پیدائش کے بیان سے شروع ہوا ہے، اور اناجیل اربعہ میں سی سینٹ لوقا کی انجیل ٹھیک ٹھیک اسی طرح یہ تذکرہ شروع کرتی ہے۔ لیکن سورۃ آل عمران میں یہ تذکرہ اس سے بھی پیشتر کے ایک واقعہ سے شروع ہوتا ہے۔ یعنی حضرت مریم کی پیدائش اور ہیکل میں پرورش پانے کے واقعہ سے اور اس بارے میں چاروں انجیلیں خاموش ہیں۔ لیکن انیسویں صدی میں متروک اناجیل کا جو نسخہ ویٹیکان کے کتب خانہ سے برآمد ہوا اس نے حضرت مریم کی پیدائش کا یہ مفقود ٹکڑا مہیا کردیا ہے اس سے معلوم ہوا ہے کہ کم از کم چوتھی صدی عیسوی کے اوائل تک سرگزشت کا یہ ٹکڑا بھی اسی طرح الہامی یقین کیا جاتا تھا جس طرح بقیہ ٹکڑے یقین کیے جاتے ہیں۔ متروک اناجیل سے مقصود وہ اکیس سے زیادہ انجیلیں ہیں جو پہلی صدی سے لے کر چوتھی صدی کے اوائل تک عیسائیوں میں رائج اور معمول بہ تھیں، لیکن ٣٢٥ میں نائسیا کی کونسل نے چار منتخب کرلیں اور باقی متروک سمجھ لی گئیں، یہ انتخاب کسی تاریخی یا علمی اصل کی بنا پر نہیں کیا گیا تھا بلکہ ایک طرح کی فال دیکھی گئی تھی اور اس کا اشارہ فیصلہ کن تھا۔ قرآن اور حضرت مسیح کی پیدائش : (ب) قرآن کا جب ظہور ہوا تو حضرت مسیح کے بارے میں عیسائیوں کے عام بنیادی عقائد یہ تھے : (اولا) بغیر باپ کے پیدائش (ثانیا) مصلوب ہونے کے بعد پھر زندہ ہوجانا (ثالثا) الوہیت مسیح اور اقانیم ثلاثہ (رابعا) کفارہ اور یہ اعتقاد کہ اب نجات کی راہ عمل نہیں بلکہ مسیح کے کفارہ پر ایمان ہے۔ قرآن نے یہ واقعہ صلیب کا رد کیا اور کہا کہ وہ مصلوب نہیں ہوئے بلکہ حقیقت حال لوگوں پر مشتبہ ہوگئی، الوہیت اور ابنیت کا بھی رد کیا اور کہا ایسا کہنا صریح کفر ہے۔ کفارہ کا بھی رد کیا اور جابجا اس پر زور دیا کہ نجات کی بنیاد ایمان باللہ اور عمل ہے نہ کہ مسیح کے کفارہ کا اعتقاد۔ اب قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بغیر باپ کے پیدائش کا اعتقاد بھی انہی عقائد کی طرح باطل تھا تو کیا ضروری نہ تھا کہ قرآن اسی صراحت کے ساتھ اس کا بھی رد کردیتا جس صراحت کے ساتھ دوسرے عقائد کا کیا ہے ؟ یقینا ضروری تھا۔ لیکن قرآن نے اس کے رد میں ایک حرف نہیں کہا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ سورۃ آل عمران اور سورۃ مریم میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اگر اس پر نظر ڈالی جائے اور یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھی جائے کہ تزکرہ ایک ایسی پیدائش کا ہورہا ہے جو بغیر باپ کے تسلیم کرلی گئی ہے تو بغیر کسی تامل کے تسلیم کرلینا پڑتا ہے کہ بیان کی صاف روح یہی ہے کہ قرآن اس عام اعتقاد کا منکر نہیں۔ کم از کم اس کا رجحان اس کے خلاف نہیں جارہا۔ بلاشبہ قرآن میں یہ الفاظ کہیں نہیں ملتے کہ حضرت مسیح بغیر باپ کے پیدا ہوئے، یعنی کوئی ایسی مثبت تصریح نہیں جو اپنے منطوق میں ظاہر و قطعی ہو، اس کی جتنی آیتوں سے اس طرح کے اشارات نکل رہے ہیں اگر انہیں ایک دوسرے سے الگ کرلیا جائے تو ہر آیت کے مطلب کے لیے ایک دوسرا جامہ بھی تراش لیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ مرحوم سید احمد خاں اور ڈاکٹر توفیق صدقی وغیرہما نے کوشش کی ہے۔ لیکن جب تمام بیان پر بہ حیثیت مجموعی نظر ڈالی جائے اور محل کے قدرتی مقتضیات اور قرائن بھی پیش نظر ہوں تو بلاتامل تسلیم کرلینا پڑتا ہے کہ قرآن اس اعتقاد کے حق میں ہے اس سے منکر نہیں۔ پھر یہ حقیقت نظر رہے کہ حضرت مسیح کی پیدائش کا معاملہ یہودیوں اور عیسائیوں میں بالکل متضاد سمتوں کا انتہائی گوشہ بن گیا تھا۔ یہودی ان کی پیدائش کو ناجائز تعلق کا نتیجہ قرار دیتے تھے۔ برخلاف اس کے عیسائی نہ صرف جائز بلکہ ایک ربانی معجزہ تصور کرتے تھے۔ قرآن کا فرض تھا کہ بحیثیت ایک ثالث کے دونوں میں فیصلہ کردے۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کردیا، اس نے حضرت مریم کی پاکی کا اعلان کیا : (ان اللہ اصطفک وطھرک واصطفک علی نساء العالمین) یہودیوں کے الزام کو افترائے عظیم قرار دیا : (وبکفرھم وقولھم علی مریم بھتانا عظیما) اور پیدائش مسیح کی سرگزشت ٹھیک ٹھیک اسی طرح بیان کردی جس طرح انجیل میں بیان کی گئی ہے۔ (قالت انی یکون لی غلام ولم یمسسنی بشر ولم اک بغیا۔ قال کذلک قال ربک ھو علی ھین و لنجعلہ ایۃ للناس ورحمۃ منا وکان امرا مقضیا) مریم نے فرشہ سے کہا۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ جب کہ میں مرد سے واقف نہیں؟ اس نے کہا ایسا ہی ہوگا روح القدس تجھ پر نازل ہوگی اور خدا کی قدرت تجھے اپنے سایہ میں لے لے گی۔ (لوقا : ٣٤: ١) ان اگر یہودیوں کی طرح عیسائیوں کا اعتقاد بھی قرآن کے نزدیک غلط تھا تو کیا ضروری نہ تھا کہ جس طرح اس نے یہودیوں کے الزام کا رد کیا اسی طرح عیسائیوں کے غلو کا بھی صاف صاف رد کردیتا؟ لیکن وہ اس کے رد میں ایک حرف نہیں کہتا بلکہ پیدائش کی جس روداد سے عیسائیوں نے یہ اعتقاد پیدا کیا تھا اسے حرف بہ حرف انجیل ہی کی طرح بیان کردیتا ہے۔ اگر اس کے نزدیک حقیقت نہ تو وہ تھی جو یہودیوں نے بنائی اور نہ وہ جو عیسائیوں نے سمجھی بلکہ ایک تیسری ہی بات تھی، یعنی مریم کا اپنے شوہر یوسف سے حاملہ ہونا، تو کیونکر اس کے لیے جائز ہوسکتا تھا کہ وہ سب کچھ کہہ دے لیکن اس بارے میں کچھ نہ کہے؟ وہ اس فریق کا صاف صاف رد کردے جو اس میں تفریط کر رہا ہے مگر اس کا رد نہ کرے جو افراط کا مرتکب ہورہا ہے؟ اور پھر اصل حقیقت پر اسی طرح پردہ پڑا رہنے دے جس طرح پہلے سے پڑا ہوا تھا اور اپنا یہ وصف یک قلم بھول جائے کہ وہ تمام پھچلے اختلافات کے لیے حکم اور تمام ظنون و شکوک کے لیے علم و حقیقت کا اعلان ہے؟ یہودیوں اور عیسائیوں کی نزاع صرف اسی باب میں نہیں ہوئی بلکہ حضرت مسیح کی ساری باتوں میں ہوئی، دونوں نے تفریط و افراط کی دو انتہائی جہتیں اختیار کرلی تھیں۔ یہودی انکار میں اتنے دور نکل گئے کہ انہیں شعبدہ بازار فریبی سمجھ لیا۔ عیسائی اعتقاد میں اتنے دور نکل گئے کہ انہیں خدا بنا لیا، قرآن دونوں کا ارد کرتا ہے اور کہتا ہے دونوں افراط و تفریط میں کھو گئے۔ پھر اگر پیدائش مسیح کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا تو کیا ضروری نہ تھا کہ جس طرح اس بارے میں دونوں کا رد کیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ دونوں حقیقت سے محروم ہیں اسی طرح پیدائش کے بارے میں بھی یکساں طور پر دونوں کا رد کردیتا ہے اور صاف صاف بتلا دیتا کہ حقیقت سے دونوں محروم ہیں؟ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ عیسائیوں نے ابنیت کے اعتقاد کے لیے جو سہارے ڈھونڈے تھے ان میں سب سے بڑا سہارا اسی پیدائش کے اچنبھے کا تھا، اسکندریہ کے فلسفہ آمیز اصنامی تخیل سیراپیز (Serapis) سے تثلیثی وحدت کی اصل لی گئی، اور ایزیز (Isis) کی جگہ حضرت مریم کو اور ہورس (Horus) کی حضرت مسیح کو دی گئی۔ پس اگر قراان کے نزدیک یہ اعتقاد بے اصل ہوتا تو وہ الوہیت وابنیت کا رد کرتے ہوئے سب سے پہلی ڑب اسی سہارے پر لگاتا۔ کیونکہ اس کے گرنے کے بعد اصنامی مسیحیت کی ساری عمارت خودبخود گر جاتی، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن نے ایسا نہیں کیا، وہ صرف ایک لفظ کہہ کر کہ یوسف مسیح کا باپ تھا، سارا کارخانہ درہم برہم کر دے سکتا تھا، مگر وہ نہیں کہنا چاہتا، وہ اس کی طرف اشارہ بھی نہیں کرتا، اس کے بحث و احتجاج کا اسلوب ہر جگہ ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے اسے غیر معمولی پیدائش کے معاملہ سے تو انکار نہیں، لیکن وہ کہتا ہے اس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ ایک بندہ، خدا یا خدا کا بیٹا ہوجائے؟ ایک انسان جو تمام انسانوں کی طرح انسان تھا اور اپنی پیدائش کے لیے ماں کے پیٹ کا محتاج، بہرحال انسان ہی ہوگا۔ خدا یا خدا کا بیٹا کیوں مانا جائے؟ جو لوگ قرآن کو غیر معمولی پیدائش کا منکر ثابت کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے اپنی توجیہات کی ساری بنیاد اس مقدمہ پر رکھی ہے کہ رخصتی سے پہلے یوسف اور مریم میں زوجیت کا تعلق قائم ہوگیا تھا اور یہ اگرچہ شریعت موسوی کے خلاف نہ تھا لیکن وقت کے رواج کے خلاف ضرور تھا۔ اسی لیے لوگوں پر بچہ کی پیدائش گراں گزری۔ وہ اسے ناجائز حمل کا نتیجہ قرار دینے لگے۔ لیکن اول تو یہ محض ایک ظنی بنیاد ہے جس کے لیے تاریخی قرائن کا کوئی سہارا موجود نہیں، ثانیا خود یہودیوں کی قدیم روایات بالکل اس کے خلاف جارہی ہیں، انہوں نے حضرت مریم کو متہم کرتے ہوئے یوسف کا نام نہیں لیا تھا بلکہ پنتھرا ٹالی کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ بہرحال قرآن کو اس بارے میں منکر قرار دینا، شرح وتفسیر کا ایک ایسا اقدام ہے جس پر کسی طرح ایک دیانت دار شارح کا ضمیر مطمئن نہیں ہوسکتا۔ ہمیں قرآن کا مطالعہ نہ تو اس طرح کرنا چاہیے کہ اسے عجائب پرستیوں کی داستان بنانے کے خواہشمند ہوں۔ نہ عجائب پرستی کے الزام سے بچنے کے لیے اس درجہ مضطرب ہونا چاہیے کہ ہر بے محل سے بے محل توجیہ قبول کرلیں، قرآن عربی زبان کی ایک کتاب ہے اور دنیا کی تمام زبانوں کی طرح عربی الفاظ و تراکیب کے بھی ڈھلے ہوئے سانچے ہیں اور اسلوب بیان کے معین اور قطعی دلالات۔ پس چاہیے کہ علم و دیانت کے ساتھ اس کا مطالعہ کریں اور جو مطلب صاف صاف نکل رہا ہو اسے بغیر کسی جھجک کے قبول کرلیں، اگر ہم نے بہ تکلف ایک بات اس کے منہ میں رکھ دی جسے خود اس کی زبان قبول نہیں کر رہی تو گو ہم نے اپنے خیال میں ایک بات بنا لی ہو مگر فی الحقیقت بننے والی نہیں، یہاں علم و حقیقت کی بے لاگ عدالت موجود ہے، وہ ہر بناوٹ کو اصلیت سے جدا کرلے گی؟ باقی رہا یہ سوال کہ یہ اور اس طرح کے دوسرے معاملات کیونکر عقلا تسلیم کیے جاسکتے ہیں؟ تو یہ ایک اصولی مبحث ہے اور اس کا محل ترجمان القرآن نہیں، مقدمہ تفسیر ہے۔ مريم
97 مريم
98 مريم
0 طه
1 بالاتفاق یہ سورت سورۃ مریم کے بعد نازل ہوئی ہے اور مکی عہد کی وسطی تنزیلات میں سے ہے۔ یہ زمانہ تاریخ دعوت کا سب سے زیادہ پر آشوب زمانہ تھا، انکار و جحود کا ہر طرف سے ہجو تھا اور قبولیت کی رفتار بہ ہی دھیمی اور محدود تھی۔ قدرتی طور پر یہ صورت حال پیغمبر اسلام پر گراں گزرتی تھی۔ جو دل تمام نوع انسانی کی ہدایت کے لیے پھنک رہا تھا وہ اپنے قریبی بنائے وطن کو بھی قبولیت کے لیے آمادہ نہ پاتا تھا، کون ہے جو اس غم و اضطراب کا اندازہ کرسکتا ہے جس کی مقدس آگ آپ کے قلب مبارک میں سلگ رہی ہوگی؟ یہی وجہ ہے کہ اس عہد کی تمام تنزیلات تسکین و تشفی کی روح سے معمور ہیں اور یہی روح اس سورت میں بھی بول رہی ہے۔ خطاب براہ راست آپ سے ہے اور بالواسطہ آپ کے ساتھیوں سے۔ فرمایا قرآن اس لیے نازل نہیں ہوا ہے کہ تم اپنے کو رنج و محنت میں ڈالو، وہ تو نصیحت کی بات ہے، جو مستعد ہیں قبول کریں گے۔ جنہوں نے استعداد کھودی وہ سننے والے نہیں۔ اور نتیجہ کا ظہور اپنے وقت پر ہوگا۔ طه
2 طه
3 طه
4 طه
5 طه
6 طه
7 طه
8 طه
9 آیت (٩) میں فرمایا کیا حضرت موسیٰ کی سرگزشت پر تم نے غور نہیں کیا؟ ان کی پوری سرگزشت کس طرح اس حقیقت کی مجسم شہادت ہے، پھر حضرت موسیٰ کی ابتدائی زندگی کا وہ واقعہ بیان کیا ہے جب وہ مدین کی بستی میں مقیم تھے اور اپنے خسر کا گلہ چرایا کرتے تھے، اسی زمانہ میں ان کا گزر سینا کے قرب و جوار میں ہوا اور وہیں یہ معاملہ پیش آیا۔ تورات میں اس جگہ کو حورب کہا ہے۔ یہ سینا کا مشرقی گوشہ تھا۔ تورات میں ہے کہ انہوں نے درخت میں آگ دیکھی اور متعجب ہو کر قریب گئے۔ (خروج : ٣: ٣) لیکن قرآن سے معلوم ہوتا ہے محض رفع تعجب کے لیے نہیں گئے تھے بلکہ آگ کی جستجو میں تھے۔ سورۃ نمل کی آیت (٧) سے مزید وضاحت ہوگئی ہے وہ مع اہل و عیال کے بیابان میں تھے، رات ٹھنڈی تھی اور سوچ رہے تھے کہیں سے آگ مل جائے تو تانپے کے لیے الاؤ جلائیں۔ اتنے میں دور پر ایک روشنی آگ کی طرح نظر آئی۔ یہ سمجھے وہ آگ ہے، لیکن جب قریب پہنچے تو کار فرمائے قدرت نے پکارا۔ اے موسیٰ تو اس آگ کی چنگاری لے کر کیا کرے گا؟ تیرے ہاتھوں ایک دوسری ہی آگ روشن ہونے والی ہے۔ (انا اخترتک فاستمع لما یوحی) بال بکشاؤ صفیر از شجر طوبی زن۔۔۔۔ حیف باشد چو تو مرغے کہ اسیر قف سے جوتی اتار دینے کا حکم اس لیے ہوا کہ تعظیم کی جگہ ننگے پاؤں ہوجانا قدیم اور عام رسم تھی،۔ چنانچہ بابل اور مصر میں بادشاہ کے حضور برہنہ پا ہو کر آتے تھے، تورات میں بھی اس حکم کا ذکر ہے۔ (خروج : ٦: ٣) طه
10 طه
11 طه
12 طه
13 طه
14 طه
15 آیت (١٥) میں الساعۃ سے مقصود روزی قیامت نہیں ہے جیسا کہ مفسروں نے سمجھا ہے بلکہ وہ وقت ہے جو بنی اسرائیل کی نجات اور فرعون کی شکت کے لیے ظہور میں آنے والا تھا۔ چنانچہ سیاق و سباق صاف اس کی شہادت دے رہا ہے۔ طه
16 مصر کی غلامی نے بنی اسرائیل کے اخلاق و عواطف بالکل پژمردہ کردیے تھے، عزم وہمت کا کوئی ولولہ ان میں باقی نہیں رہا تھا۔ جب حضرت موسیٰ نے فتح و اقبال کے آنے والے وقت کی بشارت سنائی تو اکثروں کو یقین نہیں آیا۔ چونکہ یہ بات علم الہی میں تھی اس لیے یہاں آیت (١٦) میں پہلے سے خبردار کردیا کہ کہیں ایسا نہ ہو ایسے لوگوں کی محرومیاں تمہیں بھی اقدام عمل سے روک دیں۔ طه
17 لاٹھی کے سانپ بننے ہتھیلی کے چمک اٹھنے اور ہارون کے وزیر و شریک ہونے کا ذکر تورات میں بھی ہے (خروج : ٤) نیز یہ کہ خدا نے فرمایا اب تو جا، میں تجھے فرعون کے پاس بھیجتا ہوں۔ (خروج : ١٠: ٣) رب اشرح لی صدری۔ کی تشریح سورۃ الم نشرح میں ملے گی۔ طه
18 طه
19 طه
20 طه
21 طه
22 طه
23 طه
24 طه
25 طه
26 طه
27 طه
28 طه
29 طه
30 طه
31 طه
32 طه
33 طه
34 طه
35 طه
36 طه
37 حضرت موسیٰ کو ان کی پیداش کا واقعہ اس لیے یاد دلایا گیا کہ انہیں معلوم ہوجائے مشیت الہی کا ہاتھ اول دن سے انہیں چن چکا ہے اور ایسے عجیب و غریب حالات میں ان کی پرورش ہوئی ہے جو بغیر قدرت کی کرشمہ سازیوں کے ظہور میں نہیں آسکتے، پھر ان کا مصر سے نکلنے پر مجبور ہونا اور مدین کے بیابانوں میں صحرا کی زندگی بسر کرنا اسی لیے تھا کہ پیش آنے والے معاملہ کے لیے ان ساری باتوں کی ضرورت ھی۔ جب یہ سب کچھ ہوچکا اور شخصیت تیار ہوگئی تو پردہ غیب چاک ہوا اور ندائے حق نے نمودار ہو کر کام پر لگا دیا۔ چنانچہ اسی لیے فرمایا (وفتناک فتونا) ہم نے تجھے ہر طرح کی حالتوں میں ڈال کر آزمایا (ثم جئت علی قدر یا موسی) پھر بالآخر تم اس اندازہ پر ٹھیک اتر آئے جو تمہاری تکمیل کے لیے ٹھہرا دیا گیا تھا۔ طه
38 طه
39 طه
40 طه
41 اس کے بعد فرمایا : (واصطنعتک لنفسی) میں نے تجھے اپنے لیے بنایا اور تیار کیا، اپنے لیے اپنے کام کے لیے، کائنات کی ہر چیز اللہ ہی کے لیے بنتی ہے لیکن جن انسانوں کا ظہور اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی سچائی اور عدالت کے قیام کا ذریعہ ہوں انہیں وہ خصوصیت کے ساتھ اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور یہ وحی کی عام اصطلاح ہے۔ گویا قدرت انہیں اس لیے بناتی ہے کہ اور کسی کام کے لیے نہ ہوں، صرف اسی ایک کام کے لیے پیدا ہوں، زندہ رہیں اور جان دے دیں۔ طه
42 طه
43 طه
44 آیت (٤٤) انبیا کے طریق دعوت کی اصل الاصول ہے، تشریح اس کی پچھلی سورتوں میں گزر چکی ہے۔ یاد رہے جس فرعونن کی طرف اب حضرت موسیٰ جارہے ہیں، یہ وہ نہیں ہے جس کے محل میں ان کی پرورش ہوئی تھی، وہ مرچکا تھا اور دوسرا فرعون تخت نشین ہوچکا تھا۔ ادھر تو حضرت موسیٰ کو یہ حکم ہوا اور مصر کی طرف چلے، ادھر مصر میں ہارون کو اشارہ غیبی ہوا کہ موسیٰ کی جستجو میں نکلیں۔ چنانچہ راہ میں دونوں کی ملاقات ہوگئی۔ اب چونکہ دونوں یکجا ہوچکے تھے اس لیے وحی الہی نے دوسری متبہ مخاطب کیا تو دونوں کو کیا۔ پس آیت (٤٣) میں اذھبا کا خطاب پہلے واقعہ سے تعلق نہیں رکھتا، بعد کا واقعہ ہے۔ حضرت موسیٰ نے تین چار لفظوں میں جو کچھ کہہ دیا کیا اس سے زیادہ دنیا کی کوئی زبان خدا کے بارے میں کچھ کہہ سکتی ہے؟ پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کو اس کا وجود بکشا اور پھر اس کی زندگی و بقا کے لیے جن جن باتوں کی ضرورت تھی ان سب کی راہ انہیں دکھا دی، یعنی ایسا وجدان، ایسے حواس، ایسی معنوی قوتیں دیدیں جو ان کی رہنمائی کرتی تھیں : (من نطفۃ خلقہ فقدرہ۔ ثم السبیل یسرہ) (الذی خلق فسوی۔ والذی قدر فھدی) مزید تشریح کے لیے دیکھو تفسیر فاتحہ۔ طه
45 طه
46 طه
47 طه
48 طه
49 طه
50 طه
51 پھر ان کا کیا حال ہونا ہے جو پچھلے زمانوں میں گزر کے ہیں۔ یعنی اگر پروردگار عالم وہی ہے جس کا تم نام لے رہے ہو تو یہ بات پہلوں نے کیوں نہ کہیں؟ کیا وہ سب گمراہی میں پڑے؟ علمھا عند ربی فی کتاب۔ حضرت موسیٰ نے کہا مجھے کیا معلوم ان کا کیا حال تھا اور انہیں کیا پیش آئے گا؟ اور تمہیں اس کی فکر کیوں ہوں؟ اس کا علم اللہ کے نوشتہ میں ہے۔ ہر فرد اور ہر گروہ اپنی حالت کے مطابق اپنا نتیجہ پائے گا۔ ہم اپنی فکر کریں، پچھلوں کی فکر میں کیوں پڑیں؟ (لھا ما کسبت ولکم ما کسبتم ولا تسئلون عما کانوا یعملون) اس مکالمہ سے اندازہ کرو کہ انبیا کا طریق موعظت مجادلہ و مناظرہ کے طریقہ سے کس درجہ مختلف ہے؟ طه
52 طه
53 طه
54 طه
55 طه
56 طه
57 طه
58 طه
59 طه
60 طه
61 طه
62 طه
63 طه
64 طه
65 طه
66 یخیل الیہ من سحرھم۔ یعنی جادوگروں کی رسیاں اور لاٹھیاں سانپ نہیں بن گئی تھیں بلکہ ان کی شعبدہ گری کی وجہ سے دیکھنے والا خیال کرنے لگتا سانپ کی طرح کر رہی ہیں، چنانچہ آگے چل کر کہا : (انما صنعوا کید ساحر، ولا یفلح الساحر حیث اتی) یہ جادوگروں کا فریب نظر ہے اور جادوگر کیسا ہی تماشہ دکھائے حقیقت کی طرح کامیاب نہیں ہوسکتا۔ سورۃ اعراف میں اس واقعہ کی تشریحات گزر چکی ہیں اور آئندہ سورتوں میں مزید تشریحات ملیں گی۔ سورۃ اعراف میں گزر چکا ہے شکست کھانے کے بعد فرعون نے جادوگروں سے کہا، یہ تمہاری ملی بھگت ہے کہ موسیٰ کو جتا دیا۔ یہاں اس کے قول کا دوسرا حصہ نقل کیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ تمہارا سردار ہے تم جادو میں اس کے شاگرد ہو، اس لیے اس کے آگے گر پڑے، مقصود اس سے یہ تھا کہ عوام پر حقیقت حال مشتبہ کردے اور شکست کی ذلت چھپائے۔ جادوگروں کا مقولہ آیت (٧٣) پر ختم ہوگیا۔ اس کے بعد کی تین آیتوں میں ان کے ایمان باللہ اور امید مغفرت و رضوان کی تصدیق کی ہے اور واضح کیا ہے کہ عذاب اخروی انہی کے لیے جو زندگی میں مجرم رہے، جو ایمان لے آئے اور نیک عملی اختیار کرلی تو ان کے لیے درجوں کی بلندی اور روحانی زندگی کی کامرانیاں ہوں گی۔ اس میں اشارہ ہے کہ سحرہ فرعون کا اللہ کے حضور بڑا درجہ ہوا، کیونکہ انہوں نے قبولیت حق کی استعداد اور اس کی استقامت دونوں کا ثبوت دے دیا۔ ان کا کفر ساری زندگی کا کفر تھا اور ایمان صرف چند لمحوں کا ایمان لیکن چند لمحوں کے ایمان نے عمر بھر کا کفر محو کردیا۔ ان کا دل صدیقوں کا دل اور ان کی صدا شہدائے حق کی صدا ہوگئی۔ مصری شہناہی کا سارا قہر و جلال ایک پل کے لیے بھی ان کی استقامت ایمانی پر غالب نہ آسکا۔ طه
67 طه
68 طه
69 طه
70 طه
71 طه
72 طه
73 طه
74 طه
75 طه
76 طه
77 آیت (٧٧) اور (٧٨) حضرت موسیٰ اور فرعون کے معاملہ کا خلاصہ و ماحصل ہے۔ اس کے بعد ان حالات کی طرف اشارہ کیا ہے جو مصر سے خروج کے بعد دشت سینا میں پیش آئے تھے اور (٨٣) سے سامری کا واقعہ شروع ہوتا ہے۔ طه
78 طه
79 طه
80 طه
81 طه
82 طه
83 پچھلی سورتوں میں گزر چکا ہے کہ جب حضرت موسیٰ طور پر معتکف ہونے کے لیے گئے تو قوم کو حضرت ہارون کی نگرانی میں چھوڑ گئے تھے، ان کی عدم موجودگی میں سامری کا فتنہ ظہور میں آیا۔ یہاں آیت (٨٣) میں اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ حضرت موسیٰ جب قوم کو پیچھے چھوڑ کر طور پر پہنچ گئے تو وحی الہی نے انہیں مخاطب کیا، کس بات نے تجھے قوم کی طرف سے اس درجہ مطمئن کردیا کہ فورا انہیں چھوڑ کر چلا آیا؟ حضرت موسیٰ جو پیش آنے والے واقعہ سے بے خبر تھے بولے میں نے مقررہ وقت پر آنے میں جلدی کی کہ تو رضا مند ہو اور قوم میرے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ فرمایا ہاں مگر قوم کا یہ حال ہے کہ اتنے ہی دنوں میں گمراہ ہوگئی۔ طه
84 طه
85 طه
86 طه
87 آیت (٨٧) میں فقذفناھا تک لوگوں کا جواب ہے اس کے بعد فذلک سے قرآن واقعہ کی تفصیل بیان کرتا ہے، یہ لوگوں کے جواب کا ٹکڑا نہیں، صرف اتنی سی بات پر غور نہ کرنے کی وجہ سے مفسروں اور مترجموں نے اس مقام کا پورا مطلب خبط کردیا اور اسلوب کلام کی بھی ساری کل بگڑ گئی۔ اب ہم نے جس طرح ترجمہ کیا ہے اس پر غور کرو۔ مصری گردن اور سر پر سونے کے بھاری بھاری زیور پہنتے تھے، یہودیوں نے بھی وہ اختیار کرلیے تھے، اور جب نکلے تو پہنے ہوئے نکلے، انہی کو گلا کر سامری نے بچھڑا بنایا تھا۔ اب جب حضرت موسیٰ نے پرسش کی تو لوگوں نے اپنا بچاؤ یہ کہہ کر کرنا چاہا کہ ہمارا اور کچھ قصور نہیں، مصری زیوروں کا بڑا بوجھ ہمارے سروں پر پڑا تھا۔ ہم نے چاہا اسے پھینک دیں، ہمیں کیا معلوم تھا کہ سامری اس سے ایک عجیب و غریب چیز بنا کر ہمیں گمراہ کردے گا۔ قرآن کہتا ہے ہوا تھا ایسا ہی، انہوں نے اپنا سب زیور اتار دیا اور سامری نے اسے گلا کر بچھڑا بنا لیا۔ طه
88 طه
89 طه
90 طه
91 طه
92 طه
93 طه
94 طه
95 طه
96 طه
97 جب حضرت موسیٰ نے سامری سے پوچھا تو دین حق سے کیوں پھر گیا؟ جب حضرت موسیٰ نے سامری سے پوچھا تو دین حق سے کیوں پھر گیا؟ تو اس نے کہا، میں نے اللہ کے رسول کی (یعنی آپ کی) ایک حد تک پیروی کی۔ کیونکہ جو بات میری قوم کے دوسرے آدمی نہ پاسکے تھے میں نے پالی تھی۔ مگر پھر میں نے آپ کا طریقہ چھوڑ دیا، میری طبیعت کے بے اختیارانہ ولولے نے مجھے اس کے لیے مجبور کردیا تھا کیونکہ میرا آبائی طریق عبادت یہی ہے۔ اس پر حضرت موسیٰ نے اسے جماعت سے باہر کردیا اور حکم دیا کوئی اس سے کسی طرح کا تعلق نہ رکھے۔ ان تقول لا مساس۔ کا مطلب ہے کہ لوگ تجھ سے اس درجہ نفرت کرنے لگیں گے کہ تیری چھوت سے بھاگیں گے۔ تو لا مساس یعنی اچھوت ہوجائے گا۔ کہتا پھرے گا مجھے کوئی نہ چھوئے۔ طه
98 آیت (٩٨) پر سرگزشت ختم ہوگئی ہے اور اس کے بعد سلسلہ بیان منکرین دعوت کی طرف متوجہ ہوگیا ہے، فرمایا جس طرح حضرت موسیٰ پر ہدایت وحی اتری تھی اسی طرح ہم نے تجھے بھی ایک سرمایہ نصیحت یعنی قرآن عطا فرمایا ہے اور اس کے منکروں کے لیے بھی وہی ہونا ہے جو پہلے ہوچکا ہے۔ لوگوں کو اکٹھا کرنے کا پرانا دستور یہ چلا آتا ہے کہ نر سنگھا پھونکا کرتے ہیں، آشوریوں، مصریوں، ہندوستانیوں، ایرانیوں، چینیوں سب میں یہ طریقہ پایا گیا ہے اسی لیے نر سنگھا پھونکنے کا مطلب یہ ہوگیا کہ جمع ہونے کی پکار بلند ہوئی۔ تورات اور انجیل کی یہ عام اصطلاح ہے اور قرآن نے بھی جابجا نفخ فی الصور کی ترکیب استعمال کی ہے۔ طه
99 طه
100 طه
101 طه
102 طه
103 آیت (١٠٣) کا وہی مطلب ہے جو پچھلی سورتوں میں گزر چکا ہے، آدمی سو کر اٹھتا ہے تو نہیں جانتا کتنی دیر سویا، یہی حال دوسری زندگی میں ہوگا، انسان اپنی پچھلی زندگی یاد کرے گا تو ایسا معلوم ہوگا جیسے چند دن پہلے کی بات ہو۔ ایک کہے گا ہفتہ عشرہ کی بات ہے، دوسرا جو اندازہ لگانے میں زیادہ تیز ہوگا، کہے گا نہیں صرف ایک دن کی بات، دوسری جگہ اس سے بھی کم اندازہ کی تعبیر آئی ہے۔ (عشیۃ او ضحاھا)۔ طه
104 طه
105 طه
106 طه
107 طه
108 آیت (١٠٨) میں قیامت کے منظر کی جو تصویر کھینچی گئی ہے اس کا سارا زور مترجموں نے ضائع کردیا۔ ایک میدان میں بے شمار آدمی چل رہے ہوں مگر سب کے ہوش اڑے ہوئے ہوں اور سب کی زبانیں ہیبت نے گونگی کردی ہوں، تو اس منظر کا کیا حال ہوگا؟ ایک دہشت انگیز سناٹا، جس میں قدموں کی آہٹ کے سوا اور کوئی آواز مخل نہ ہوگی، اور ریہ آزوا بھی زندگی کی خوشگواری پیدا نہیں کرے گی بلکہ منظر کی دہشت میں اور اضافہ کردے گی۔ لیث یدق الاسد الھموسا۔۔۔ ولا یھاب الفیل والجاموسا طه
109 طه
110 طه
111 طه
112 طه
113 طه
114 آیت (١١٤) میں فرمایا جب تک سلسلہ وحی پورا نہ ہوجائے اس بارے میں جلدی نہ کر اور منتظر رہ کہ فیضان غیب کی بخشائشیں کہاں تک مالا مال کرتی ہیں َ تیری زبان حال کی صدا تو یہ ہونی چاہیے کہ (رب زدنی علما) یعنی میری تشنگی کی سیرابی کے لیے علم کے یہ سارے دریا اور عرفان حقیقت کی یہ ساری بارشیں بھی کافی نہیں۔ اے علم کی لا انتہائی اور حقیقت کی ناپید کناری، اپنی بخششیں اور زیادہ کر۔ اس آیت نے واضح کردیا کہ پیغمبر اسلام کے مقام علم و عرفان کی وسعت و عظمت کا کیا حال تھا؟ وہ کسی حد پر بھی رکنا نہیں چاہتی تھی۔ اس کے لیے کوئی زیادتی بھی نہ تھی۔ اس کے لیے ہر افاضہ نئے استفاضہ کا اشارہ تھا۔ اس کے لیے ہر عطیہ نئے عطیہ کا تقاضا تھا۔ وہ یکسر طلب تھی، پیہم رب زدنی کا سوال تھی، یہ معلوم ہے کہ یہاں مطلوب کی وسعت کے لیے کوئی انتہا نہیں ہوسکتی لیکن یہ کونکر معلوم کیا جائے کہ طالب کی طلب کہاں جاکر منتہی ہوئی تھی؟ طه
115 طه
116 طه
117 طه
118 طه
119 طه
120 طه
121 طه
122 طه
123 آیت (١٢٣) اور (١٢٤) مہمات معارف میں سے ہے۔ ان دو آیتوں سے ہم وہ سب کچھ معلوم کرسکتے ہیں جو قرآن انسان کی روحانی سعادت و شقاوت کے بارے میں بتلانا چاہتا ہے۔ فرمایا جوہدایت وحی پر چلے گا نہ تو کامیابی کی راہ سے بے راہ ہوگا، نہ دکھی۔ پس معلوم ہوا کہ یہ ہدایت اس لیے ہے کہ انسان کو بے راہی اور اس کے لازمی نتیجہ سے محفوظ کردے۔ غور کرو، انسان کی ساری محرومیوں کی تصویر کس طرح صرف دو لفظوں کے اندر کھینچ دی ہے؟ ضلالت اور شقاوت، انسان کو جتنی ٹھوکریں بھی لگتی ہیں بے راہ ہوجانے سے لگتی ہیں ہر گوشہ میں کامیابی و سعادت کی ایک مقررہ راہ ہے۔ جونہی اس سے قدم بے راہ ہوئے، شقاوت میں گر گئے، پھر فرمایا جس نے ہمارے ذکر سے اعراض کیا تو اسے دو حالتیں پیش آئیں گی، دنیا میں اس کی زندگی ضیق میں پڑجائے گی، یعنی وہ بظاہر کتنا ہی نہال ہوجائے لیکن دل کی طمانیت اور روح کا انبساط اسے کبھی نہیں ملے گا، اور آخرت میں بینائی سے محروم ہوجائے گا۔ سعید انسانوں کی نگاہیں روشن ہوں گی، اس کی اندھی، وہ جمال الہی کا نظارہ کریں گی، اس کے آگے پردہ پڑا ہوگا۔ (کلا انھم عن ربھم یومئذ لمحجوبون) وہ اندھا کیوں ہوجائے گا؟ اس لیے کہ آخرت کی زندگی دنیوی زندگی کا نتیجہ ہے، اس نے دنیا میں قدرت کی نشانیوں سے آنکھیں بند کرلی تھیں اس لیے آخرت میں بھی اس کی آنکھیں بند رہیں گے (من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی و اضل سبیلا) یہاں سے معلوم ہوگیا کہ قرآن کے نزدیک ثواب آخرت کی حقیقت یہ ہے کہ نگاہیں جمال الہی کے نظارہ سے شاد کام ہوں گی۔ عذاب کی یہ ہے کہ اندھی ہو کر محجوب ہوجائیں گی۔ طه
124 طه
125 طه
126 طه
127 طه
128 طه
129 آیت (١٢٩) میں فرمایا اگر پہلے سے اللہ کا یہ قانون موجود نہ ہوتا کہ انکار و بد عملی کے نتائج اپنے مقررہ وقت اور مقررہ حالت کے مطابق ظہور میں آئیں تو یہ لوگ اپنی سرکشیوں کی وجہ سے کب کے ملزم ہوچکے تھے لیکن یہاں ہر گوشہ میں رحمت الہی نے ڈھیل دے رکھی ہے اور ضروری ہے کہ مقررہ وقت کا انتظار کیا جائے۔ لیکن یہ انتظار کس طرح کیا جائے؟ اس طرح کہ صبر اور صلوۃ کی روح سے معمور ہوجاؤ۔ یہی وہ دو عنصر ہیں جن سے ہر طرحح کی کامرانی و فتح مندی ڈھل سکتی ہے اور ظہور میں آسکتی ہے۔ طه
130 طه
131 طه
132 طه
133 طه
134 طه
135 سورت ختم ہوگئی لیکن چند مقامات کی مزید تشریح ضروری ہے : فرعون اور حضرت موسیٰ کا مکالمہ : (الف) آیت (٤٩) میں حضرت موسیٰ اور فرعون کا جو مکالمہ نقل کیا ہے وہ اگرچہ دو تین جملوں سے زیادہ نہیں ہے لیکن حقائق معارف کے دفاتر میں پنہاں ہیں۔ فرعون کا پہلا سوال یہ تھا کہ (من ربکما یا موسی) جس پروردگار کا ذکر کرتے ہو وہ کون ہے؟ اس سوال کی نوعیت سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے معلوم کرلیا جائے مصریوں کے عقائد کیا تھے؟ مصری مختلف دیوتاؤں کی پرستش کرتے تھے جن میں سے بعض تو خاص خاص قبیلوں اور علاقوں کے تھے، جیسے نیفات، فتا، اور مات اور بعض عالمگیر قوتوں کے الگ الگ مظاہر تھے۔ جیسے اوزیرس (عالم آخرت کا خدا) میہاورت (آسمان کا خدا) کنیمو (جسم بنانے والا) ایزیز (روح بخشنے والی دیبی) طوط (عمر کی مقدار مقرر کرنے والا) ہو اس (درد و غم دور کرنے والا) حاثور (گائے) رزق بخشنے والا، اور ان سب سے بلند تر آمن رع تھا۔ یعنی سورج دیوتا۔ نیز مصریوں میں الوہیت آمیز شاہی کا تصور بھی پوری طرح نشوونما پاچکا تھا اور تاجداران مصر نے نیم خدا کی حیثیت اختیار کرلی تھی۔ ان کا لقب فاراع اسی لیے ہوا کہ وہ راع یعنی سورج دیوتا کے اوتار سمجھے جاتے تھے۔ من ربکما یا موسیٰ : پس جب حضرت موسیٰ نے کہا : میں خدا کا فرستادہ ہوں تو فرعون نے متعجب ہو کر پوچھا۔ کس خدا کے؟ آمن رع، جس نے مجھے اپنا مظہر ٹھہرایا ہے؟ ایزیز دیبی کے جو روحپیدا کرنے والی ہے؟ کنیو دیوتا کے، جو جسم و خلقت بنانے والا ہے؟ حضرت موسیٰ نے فرمایاَ: نہیں (الذی اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی) ہمارا پروردگار تو وہ ایک ہی پروردگار ہے جس نے دنیا کی ہر چیز کو اس کا جسم ووجود بھی بخشا، اور پھر ہر طرح کی ضروری قوتیں دے کر اس پر زندگی و عمل کی راہ بھی کھول دی۔ غور کرو۔ فرعون کے استفسار میں اس کے عقائد و تصورات کے بے شمار پہلو پوشیدہ تھے، اور اگر حضرت موسیٰ کا طریقہ جدل و مناظرہ کا ہوتا تو ان میں سے ہر بات الجھا لینے کے لیے کافی تھی لیکن انہوں نے اور کسی بات سے تعرض نہیں کیا، صرف ایک ہی بات کہی، مگر ایسی بات جو اس کے سوال کا براہ راست جواب بھی تھی، اس کے تمام تصورات کا بالواسطہ ابطال بھی تھا اور صرف دعوی ہی نہ تھا، دعوے کے ساتھ اس کی خاموش دلیل بھی موجود تھی۔ اس کے تمام تصورات کا ابطال کیونکر ہوا؟ اس طرح کہ میں تمہارے ان گھڑے ہوئے معبودوں کا قائل نہیں جن میں سے کسی کو تم نے خلقت دینے والا سمجھ رکھا ہے، کسی کو روح بخشنے والا، کسی کو رزق و تندرستی کا سرچشمہ، میں تو صرف اس ایک ہی ہستی کا پرستار ہوں جو جسم بھی دیتی ہے اور وہ سب کچھ بھی دیتی ہے جو جسم کے نشوو نما و قیام کے لیے ضروری ہے۔ خالق بھی وہی ہے راہنمائے زندگی بھی وہی ہے، اس کے سوا کوئی نہیں۔ چنانچہ پھر آگے چل کر انہوں نے اس اعتقاد کی تفصیل بھی کردی ہے۔ پھر اس جملہ کی جامعیت اور مانعیت دیکھو، کائنات ہستی میں جو کچھ بھی ہے وہ اس کے سوا کیا ہے کہ یا تو وجود ہے یا وجود کی وہ معنوی قوتیں ہیں جو اسے قائم و باقی رکھتیں اور قیام و عمل کی راہوں پر لگاتی رہتی ہیں۔ انہی دو حقیقوں کو یہاں خلقت اور ہدایت سے تعبیر کیا ہے اور ان دو لفظوں نے وجود اور حیات کے تمام گوشے شمیٹ لیے ہیں۔ دعوے کے ساتھ دلیل کیونکر ہوئی؟ اس کے لیے تفسیر سورۃ فاتحہ کا مبحث ربوبیت دیکھنا چاہیے۔ فما بال القرون الاولی : اس کے بعد فرعون نے دوسرا سوال کیا اور بطریق جدل کیا : (فما بال القرون الاولی) اچھا اگر حقیقت حال ایسی ہی ہے تو جو لوگ پچھلے عہدوں میں گزر چکے ان کے لیے کیا ہونا ہے؟ وہ راہ صواب پر تھے یا گمراہی پر؟ انہیں تو تمہارے اس نئے اعتقاد کی خبر بھی نہ تھی۔ اب دیکھو یہاں پھر وہی صورت پیدا ہوگئی ہے اگر یہ سوال امام فخر الدین رازی سے کیا جاتا تو اسی بحث میں صبح کردیتے اور سارا معاملہ اسی میں الجھ کر رہ جاتا لیکن حضرت موسیٰ داعی تھے، مجادل اور مناظر نہ تھے، انہوں نے صرف ایک بات کہہ کر ساری بحث ہی ختم کردی۔ (علمھا عند ربی فی کتاب) اس کا علم اللہ کو ہے۔ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اور ہمیں اس کی فکر کیوں ہو؟ ہمارے جاننے کے لیے صرف اتنا کافی ہے (لا یضل ربی ولا ینسی) خدا انسانوں کی طرح نہیں ہے کہ غلطی میں کھویا جائے یا کوئی بات بھول جائے۔ اس کا قانون یہ ہے کہ ہر انسان کا جیسا اعتقاد و عمل ہوگا ٹھیک اسی کے مطابق اسے نتائج بھی ملیں گے۔ پس پچھلوں کا جیسا حال رہا ہوگا ویسا ہی نتیجہ بھی بھگتیں گے۔ ہم کو اپنا حال دیکھنا ہے۔ اور اپنے ہی سامنے کی باتوں کا ہم علم بھی رکھتے ہیں۔ ہم اس کاوش میں کیوں پڑیں کہ پچھلوں کا کیا حال تھا اور وہ بخشے جائی گے یا نہیں۔ غور کرو فرعون کا سوال مجادلانہ تھا اور ایسا تھا کہ بحث و کاوش کی قسم کا کوئی جواب بھی دیا جاتا، مسکت اور مختتم کبھی نہیں ہوسکتا تھا۔ جو بات بھی کہی جاتی بحث طلب ہوتی اور ایک نیا سوال پیدا کردیتی۔ لیکن انبیاء کرام کا طریق دعوت یہ نہیں ہوتا کہ بحث میں الجھیں یا دوسرے کو الجھائیں۔ پس حضرت موسیٰ نے اس کاوش میں پڑنے ہی سے انکار کردیا۔ انہوں نے کہا ہم یہ جناتے ہی نہیں اور ہمیں اس کا خواہشمند بھی نہیں ہونا چاہیے کہ اسے جانیں۔ اور پھر غور کرو انہوں نے اس جملہ کے اندر جو بات کہہ دی وہ انسان کی فکری گمراہیوں کی کتنی راہیں بند کردیتی ہے۔ بشرطیکہ لوگ اسے سمجھیں؟ مگر مصیبت یہ ہے کہ لوگ ہمیشہ اسی کاوش کی پیروی کرتے رہے جو فرعون کے سوال سے ٹپک رہی ہے وہ حقیقت نہ پاسکے جو حضرت موسیٰ کے جواب میں مضمر ہے۔ حضرت موسیٰ کے جواب نے ہمیں یہ اصل عظیم بتلا دی ہے کہ جن گوشوں کا ہمیں علم نہیں اور جن کی کاوش ہمارے لیے سود مند بھی نہیں ان کی فکر میں ہمیں نہیں پڑنا چاہیے، اور ان کا حکم اللہ کے حوالہ کردینا چاہیے، اگر لوگ اس اصل عظیم پر عامل ہوجائیں تو مذاہب کے کتنے ہی گمراہ کن جھگڑے ختم ہوجائیں۔ ابھی دور نہ نکلو، اسی گوشہ میں رہو جو فرعون کے اس مجادلانہ سوال کی اصلی جگہ ہے۔ اور غرو کرو مذہب کے نام سے کتنے جھگڑنے بنا لیے گئے ہیں جن میں سے ہر جھگڑا (فما بال القرون الاولی) کی فرعونی صدا کا ٹھیک ٹھیک اعادہ ہے؟ اب سے پہلے فلاں گروہ جو گزرا ہے اہل حق میں تھا یا اہل باطل میں؟ فلاں انسان جو گزر چکا، نیک تھا یا بد؟ فلاں بزرگ کا رتبہ خدا کے نزدیک زیادہ ہے یا فلاں بزرگ کا؟ افضل کون ہے؟ زید یا عمرو؟ ولایت و طریقت میں سب سے بڑا کون رہا؟ فلاں یا فلاں؟ پھر اس میں بحثیں ہیں، تصنیفیں ہیں، لڑائیاں ہیں، فرقہ بندیاں ہیں۔ گویا انسان کی نجات کے لیے صرف یہی فکر کافی نہیں کہ خود اسے کیا کرنا چاہیے۔ وہ اس فیصلہ کے لیے بھی ذمہ دار بنا دیا گیا ہے کہ اب سے پانچ سو برس پہلے کسی نے کیا کیا تھا اور ایک ہزار برس پہلے کون کیسا تھا۔ پھر ان میں سے ہر فریق اس طرح حکم لگانا شروع کردیتا ہے، گویا خدا کے دفتر کا رجسٹر ابھی ابھی پڑھ کر اٹھا ہے اور اسے علم قطعی حاصل ہوگیا ہے کہ فلاں کا نام فلاں درجہ میں لکھا ہوا ہے، فلاں کا فلاں درجہ میں : پچاس برس ہوئے شام میں مسلمانوں کے ایک گروہ نے دوسرے گروہ کی بستیاں صرف اس لیے جلا دی تھیں کہ ایک کہتا تھا، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی سب سے بڑے ولی ہیں، دوسرا کہتا تھا نہیں شیخ احمد عارفی، ہندوستان کا یہ حال ہے کہ آج تک میرے پاس نہایت سنجیدہ عبارت میں لکھے ہوئے استفتا آتے رہتے ہیں، زید کہتا ہے بڑے پیر صاحب سے بڑھ کر کوئی نہیں، عمرو کہتا ہے مجدد الف ثانی سے بڑھ کر کوئی نہیں، نماز کس کے پیچھے جائز ہے؟ ایک مرتبہ میرے جی میں آیا، لکھ دوں، دونوں کے پیچھے نہیں۔ فقہ کے مذاہب اربعہ جب مشخص و مدون ہوگئے اور تقلید شخصی کا التزام قائم ہوگیا تو سوال پید اہوا، ان چاروں اماموں میں فضل کون ہیں؟ حضرت امام ابو حنیفہ یا امام شافعی؟ اب بحث شروع ہوئی اور بحث نے جنگ و قتال کی شکل اختیار کی، چنانچہ ہلاکو خان کو اسلامی ممالک پر حملہ کی سب سے پہلی ترغیب خراسانیوں کے اسی جھگڑے سے ملی تھی۔ حنفیوں نے شافعیوں کی ضد میں آکر بلاوا بھیجا اور شہر کے پھاٹک کھول دیے، پھر جب تاتاریوں کی تلوار چل گئی تو اس نے نہ شافعی کو چھوڑا نہ حنفی کو (فجاسوا خلال الدیار، وکان وعدا مفعولا) شیعہ سنی اختلاف نے مسلمانوں کو دو مختلف امتوں میں متفرق کردیا، لیکن اس تمام اختلاف کا ماحصل بھی کیا ہے ؟ یہی کہ (فما بال القرون الاولی) اور تیرہ سو برس گزر گئے مگر اتنی بات کسی کے سمجھ میں نہیں آتی کہ (علمھا عند ربی فی کتاب، لا یضل ربی ولا ینسی) بہرحال یاد رکھنا چاہیے کہ اس طرح کی تمام کاوشوں کے اندر وہی فرعون والی مجادلانہ روح کام کیا کرتی ہے اور طریق موسوی یہ ہے کہ (علمھا عند ربی فی کتاب) کہہ کر سارے جھگڑے ختم کر ڈالنا اور سرے سے ان کاوشوں میں پڑنا ہی نہیں۔ قرآن اور صاحب وحی نے ہمیں جن امور کی خبر دے دی ہے ان کا علم ہمیں حاصل ہوگیا ہے۔ اور ہمارا فرض ہے کہ ان باتوں کو اسی طرح یقین کریں جس طرح بتلا دی گئی ہیں۔ لیکن ان سے زیادہ جو سوال بھی دینی عقائد کی بنا پر اٹھایا جائے گا، ہمارا جواب یہی ہوگا۔ (علمھا عند ربی فی کتاب، لا یضل ربی ولا ینسی) خدا نے اپنے دفتر کی مثلیں ہمارے پاس نہیں بھیج دی ہیں اور نہ ہمیں لوگوں کی سعادت و شقاوت اور مدارج و فضائل کے فیصلہ کی ٹھیکیداری عنایت فرمائی ہے۔ ہمیں معلوم نہیں، حقیقت حال کیا ہے۔ البتہ خوش قسمتی سے معاملہ ایسے محاسب کے ہاتھ ہے جو نہ تو غلطی کرسکتا ہے نہ بھول چوک میں پڑ سکتا ہے۔ پس دوسروں کی فکر میں تمہیں گھلنے کی ضرورت نہیں، اپنی خبر لو اور ان کا معاملہ ان کے خدا پر چھوڑ دو۔ سامری اور گو سالہ پرستی کا معاملہ : آیت (٨٧) میں بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اور یہ مقام بھی من جملہ ان مقامات کے ہے جن میں قرآن کی تصریحات تورات کے موجودہ نسخہ سے مختلف واقع ہوئی ہیں اور اس کی صریح تحریفات نمایاں کرتی ہیں۔ خروج (١: ٣٢) میں ہے کہ سنہرا بچھڑا خود حضرت ہارون نے بنایا تھا۔ لیکن قرآن نے یہاں صاف صاف کہہ دیا ہے کہ حضرت ہارون کا دامن اس شرک سے پاک تھا یہ دراصل سامری کی کارستانی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سامری کون تھا؟ یہ اس کا نام تھا یا قومیت کا لقب؟ قیاس کہتا ہے کہ یہاں سامری سے مقصود سمیری قوم کا فرد ہے کیونکہ جس قوم کو ہم نے سمیری کے نام سے پکارنا شروع کردیا ہے عربی میں اس کا نام قدیم سے سامری آرہا ہے اور اب بھی عراق میں ان کا بقایا اسی نام سے پکارا جاتا ہے یہاں قرآن کا السامری کہہ کے اسے پکارنا صاف کہہ رہا ہے کہ یہ نام نہیں ہے، اس کی قومیت کی طرف اشارہ ہے، یعنی وہ شخص اسرائیلی نہ تھا، سامری تھا۔ سمیری تمدن : حضرت مسیح سے تقریبا ساڑھے تین ہزار برس پہلے دجلہ و فرات کے دو آبہ میں دو مختلف قومیں آباد ہورہی تھیں اور ایک عظیم الشان تمدن کی بنیادیں اٹھا رہی تھیں، ان میں سے ایک قوم جو جنوب سے آئی تھی عرب تھی، دوسری جس کی نسبت خیال کیا جاتا ہے کہ شمال سے تری سمیری تھی، اسی قوم کے نام سے تاریخ قدیم کا شہر سامر اور اور آباد ہوا تھا جس کا محل اب تل العبید میں دریافت ہوا ہے اور وہاں سے پانچ ہزار برس پیشتر کے بنے ہوئے زیور اور سنہری ظروف برآمد ہورہے ہیں۔ سمیری قوم کی اصل : سمیری قوم کی اصل کیا تھی؟ اس بارے میں اس وقت تک کوئی قطعی رائے قائم نہیں کی جاسکے، لیکن نینوا میں آشور بنی پال (متوفی ٦٢٦ قبل مسیح) کا جو کتب خانہ نکلا ہے اس میں تختیوں کا ایک مجوعہ سے کوئی بعیدی تعلق رکھتے ہوں جن کے لیے ہم نے تورات کی اصطلاح سامی اختیار کرلی ہے۔ نسل انسانی کے دو قبائل سرچشمے : اصل یہ ہے کہ جس طرح عہد قدیم میں منگولیا کا علاقہ صحرا نور و قبائل کا ابتدائی سرچشمہ رہا ہے اور یہاں سے انسانی گروہوں کے قافلے نکل کر وسط ایشیا، ہندوستان، ایران، اناتولیا، اور پھر تمام یورپ میں پھیل گئے، ٹھیک اسی طرح نسل انسانی کے اقدام و انشعاب کا ایک مرکزی سرچشمہ جزیرہ نمائے عرب بھی رہ چکا ہے۔ یہاں کے صحراؤں میں یکے بعد دیگرے نسل انسانی کا مواد بنتا ہے رہا اور پھر ابل ابل کر دور دور تک پھیلتا گیا۔ فلسطین، شام، مصر، عراق، آرمینیا، اور خلیج فارس کی ساحلی آبادیاں، سب اسی مرکزی نسل کا انشعاب تھیں اور سب کا تمدن اسی عربی نسل کا تمدن تھا، قوم عیلام جس کا ذکر کتاب پیدائش میں آیا ہے اور جو جنوبی ایرانی میں آباد تھی، عجب نہیں دراصل اسی نسل کی ایک شاخ ہو (اس مقام کی مزید تفصیل سورۃ نوح کی تشریحات میں ملے گی) بہرحال سمیری قبائل کا اصلی وطن عراق تھا، مگر یہ دور دور تک پھیل گئے تھے۔ مصر سے ان کے تعلقات کا سراغ ایک ہزار سال قبل مسیح تک روشنی میں آچکا ہے۔ پس معلوم ہوتا ہے اسی قوم کا ایک فرد حضرت موسیٰ کا بھی معتقد ہوگیا، اور جب بنی اسرائیل نکلے، تو یہ بھی ان کے ساتھ نکل آیا، اسی کو قرآن نے السامری کے لفظ سے یاد کیا ہے۔ سامری کا ایمان اور پھر ارتدا : گائے، بیل، اور بچھڑے کی تقدیس کا خیال سمیریوں میں بھی تھا اور مصریوں میں بھی۔ مصری اپنے دیوتا حورس کا چہرہ گائے کی شکل کا بناتے تھے اور خیال کرتے تھے، کرہ زمین میں ایک گائے کی پشت پر قائم ہے، جب سامری نے دیکھا، بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کی عدم موجودگی سے مضطرب ہورہے ہیں تو اس نے کہا مجھے سونے کے زیور لادو، پھر انہیں گلا کر بچھڑے کی ایک مورتی بنا دی، مصری مندروں کی مخفی کاریگریاں اسے معلوم تھیں، اس نے مورتی کے اندر ہوا کے نفوذ و خروج کی ایسی کل بٹھا دی کہ اس سے ایک طرح کی آواز نکلنے لگی۔ سامری حضرت موسیٰ کا معتقد ہوگیا تھا لیکن اسرائیلی توحید پر اس کا دل جما نہیں تھا۔ چند دنوں اسی طریقہ پر کار بند رہا۔ پھر منحرف ہوگیا۔ اسی لیے جب حضرت موسیٰ نے پوچھا، یہ تو نے کیا کیا؟ تو اس نے کہا (بصرت بما لم یبصروا بہ) مجھے ایسی بات سجھائی دی جو دوسروں کو نہیں سوجھی، یعنی بچھڑا بنانا۔ (فقبضت قبضۃ من اثر الرسول فنبذتھا) میں نے رسول کی پیروی میں تھوڑا بہت حصہ لے لیا تھا مگر پھر چھوڑ دیا۔ یعنی گو میں نے آپ کی پیروی میں چند قدم اٹھا دیے تھے مگر میرا دل اس پر جما نہیں تھا۔ (وکذلک سولت لی نفسی) کیا کروں، میری طبیعت کا ایسا ہی تقاضا ہوا۔ میں آپ کے پیچھے چل نہ سکا۔ عربی میں جب کہیں گے قبضت قبضۃ میں نے صرف ایک مٹھی اٹھائی، تو اس کے معنی تقلیل کے ہوں گے، قبضت قبضۃ ای شیء قلیل، والقبضۃ القدر المقبوض (ابن سیدہ) اردو کا بھی محاورہ ہے میں نے تو صرف ایک ہی مٹھی اٹھائی ہے، یعنی بہت تھوڑار حصہ لیا ہے۔ گوسالہ کی نسبت یہودی خرافہ : یہودیوں نے اپنی قومی بریت کے لیے یہ کہانی گھڑ لی تھی کہ گو سالہ پرستی کے معاملہ میں ایک روحانی طاقت کا ہاتھ کام کر رہا تھا۔ ورنہ ہمارے اسلاف کیوں ایسی گمراہی میں پڑتے؟ وہ کہتے تھے، بچھڑے کی گویائی اس مٹی کا معجزہ تھا جو حضرت جبریل کے گھوڑے کے سموں سے پامال ہوئی تھی۔ جب بنی اسرائیل مصر سے نکلے تو ان کے آگے آگے جبریل جارہے تھے اور زندگی کے فرشتہ پر سوار تھے جس نے گھوڑے کی شکل اختیار کرلی تھی۔ اس گھوڑے کے سم جس مٹی پر پڑتے تھے اس میں زندہ کردینے کی خاصیت پیدا ہوجاتی تھی۔ یہ بات کسی نے نہیں دیکھی لیکن سامری نے دیکھ لی۔ پس اس نے بچھڑا بنا کر اس میں (آب حیات کی جگہ) اس خاک حیات کی ایک مٹھی ڈال دی۔ بس پھر کیا تھا وہ زندہ ہو کر بولنے لگا۔ مفسرین کا تسامح : افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ کہانی تفسیر کی روایتوں میں بھی داخل ہوگئی اور اثر الرسول کا مطلب یہ بنا لیا کہ جبریل کے نقش قدم کی ایک مشت خاک سامری نے اٹھا لی تھی۔ لیکن یاد رہے کہ یہ تفسیر کسی طرح بھی صحیح نہیں ہوسکتی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ایسی تفسیر کرنا قرآن کے اس مقام کو تمسخر انگیز حد تک بے معنی بنا دینا ہے۔ اولا : قرآن نے اس معاملہ کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے اور یہ بات بلاغت قرآنی کے صریح خلاف ہے کہ ایک ایسا واقعہ جو قیاس اور قرینہ سے معلوم نہیں کیا جاسکتا بیان نہ کرے اور پھر اچانک صرف اثر الرسول کہہ کر اس کی طرف اشارہ کردے۔ ثانیا : قرآن میں جہاں کہیں بھی بغیر اضافت و اسناد کے الرسول کہا گیا ہے، اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے یعنی پیغمبر، پس یہاں الرسول سے فرشتہ سمجھنا صحیح نہیں ہوسکتا۔ ثالثا : ایسا سمجھنا صریح قرآن کو جھٹلانا ہے۔ اس لیے کہ قرآن کہیں یہ نہیں کہتا کہ بچھڑے کی مورتی میں زندگی پیدا ہوگئی تھی بلکہ صاف صاف کہتا ہے کہ (جسدا لہ خوار) ایک بے جان دھڑ تھا جس سے آواز نکلتی تھی، اگر ایک ملکوتی کرشمہ نے اسے زندہ کردیا ہوتا تو قرآن اسے (عجلا جسدا) کیوں کہتا؟ رابعا : قرآن صاف صاف کہتا ہے کہ اس مورتی میں کوئی بات نہ تھی۔ محض ایک شعبدہ تھا، کیونکہ وہ بنی اسرائیل کے استعجاب و تاثر کو ان کی حد درجہ بے وقوفی قرار دیتا ہے اور کہتا ہے (افلا یرون الا یرجع الیھم قولا) یعنی ان عقل کے اندھوں نے اتنی بات بھی نہ دیکھی کہ اگر یہ کوئی زندہ وجود ہے تو ان کی بات کا جواب کیوں نہیں دیتا؟ خالی بھاں بھاں کیوں کرتا رہتا ہے ؟ پھر اگر مفسروں کی یہ کہانی مانلی جائے تو سلیم کرلینا پڑے گا کہ قرآن کا یہ بیان یک قلم غلط ہے۔ کیونہ اس میں تو ایک ملکوتی معجزہ تھا، اس کے اندر تو جبریلی زندگی کی ایک روح دوڑ رہی تھی۔ خامسا : یہ کہانی خود اپنی بناوٹ ہی میں ناقابل تسلیم ہے، اگر فی الحقیقت کوئی ایسا ملکوتی مظاہرہ ہوا تھا اور (بصرت بما لم یبصروا بہ) کے یہی معنی ہیں تو مان لینا پڑے گا کہ سامری کی روحانی بصیرت تمام بنی اسرائیل سے حتی کہ حضرت ہارون سے بھی کہ پیغمبر تھے بڑھی ہوئی تھی، کیونکہ یہ کرشمہ الہی کوئی نہد یکھ سکا۔ صرف اس کی نگاہ حقیقت شناس کام کرگئی۔ بلکہ کہنا پڑے گا، خود حضرت موسیٰ سے بھی بڑھی ہوئی تھی، کیونکہ وہ بھی یہ بات نہ پاسکے، لیکن کیا ایسا مانا جاسکتا ہے؟ حمزہ، کسائی اور اعمش کی قرات میں (بما لم یبصروا بہ) کی جگہ (بما لم تبصروا بہ) (المثناۃ) ہے۔ اگر یہ قرات اختیار کلی جائے تو صریح مطلب یہ ہوگا کہ میں نے وہ بات دیکھ لی جو تم نہ دیکھ سکے۔ یعنی حضرت موسیٰ بھی نہ دیکھ سکے، پھر کیا بصرت کو اس کہانی پر لے جانا صحیح ہوسکتا ہے ؟ سادسا : خود یہی مفسر (عجلا جسدا لہ خوار) کی تفسیر میں یہ قول بھی کرتے ہیں کہ خوارہ کان بالریح، لانہ کان عمل فیہ خر وقافا ذا دخلت الریح جوفہ خار ولم یکن فیہ حیاۃ۔ یعنی اس میں زندگی نہ تھی، محض ہوا کے نفوذ سے بچھڑے کی سی آواز نکلنے لگی تھی۔ پھر جب یہ تفسیر بھی موجود ہے تو کون سی وجہ ہے خواہ مخواہ حضرت جبریل کو گھسیٹا جائے اور فرشتوں کو گھوڑا بننے کی زحمت دی جائے۔ سابعا : جن رایتوں کی بنا پر یہ کہانی چلی ہے، اگر ان کے متن سے قطع نظر کرلی جائے تو باعتبار اسناد کے بھی لائق اعتنا نہیں۔ بس سے زیادہ زور ابن منذر، ابن ابی حاتم اور حاکم کی روایت پر دیا جاتا ہے جس میں حضرت علی کا قول نقل کیا گیا ہے لیکن وہ بھی مجروح ہے اور حاکم کی تصحیح کی جو قدر و قیمت ہے وہ ہم امام ذہبی کی زبانی سن چکے ہیں۔ طه
0 الأنبياء
1 یہ سورت بھی ان سورتوں میں سے ہے جو مکی عہد کے اواخر میں نازل ہوئی ہیں۔ یہ بالاتفاق سورۃ ابراہیم کے بعد اور مومنون سے پہلے اتری۔ سورت کی ابتدا، اس کا وسط، اس کا خاتمہ سب اعلان کر رہے ہیں کہ محاسبہ کا وقت قریب آگیا اور ضروری ہے کہ فیصلن کن معاملہ ظہور میں آجائےْ چنانچہ وقت فی الحقیقت قریب آگیا تھا، تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ہجرت مدینہ کا واقعہ ظہور میں آیا اور دعوت حق کے فتح و اقبال اور معاندین حق کے خسران و ادبار کا دور شروع ہوگیا۔ الأنبياء
2 الأنبياء
3 پیغمبر اسلام کی صداقت اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ ان کے سخت سے سخت معاند بھی اس عجیب و غریب کشش و تاثیر سے انکار نہیں کرسکتے تھے جو آپ کی شخصیت اور آپ کی تعلیم میں پائی جاتی تھی؟ اور چونکہ اعتراف حقیقت کے لیے تیار نہ تھے اس لیے مجبور ہوجاتے تھے کہ اسے جادو سے تعبیر کریں یہاں آیت (٣) میں فرمایا وہ پیغمبر اسلام کے پاس جانے سے لوگوں کو روکتے ہیں اور کہتے ہیں تم ان کے پاس گئے اور جادو میں پھنسے وہاں تو جادو ہی جادو بھرا ہے۔ نیز وہ کہتے اس آدمی میں وحی و نبوت کی تو کوئی بات نظر نہیں آتی، کیونکہ یہ ہماری ہی طرح ایک آدمی ہے، پس جو کچھ اس کا اثر و نفوذ ہے جادو ہی کی وجہ سے ہے۔ سچائی کی سب سے بڑی شناخت یہ ہے کہ اسے سچائی کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اگر کچھ اور کہنا چاہو گے تو خواوہ کتنا ہی زور لگاؤ، بات بنے گی نہیں، بنے گی اس وقت جب سر جھکا دو دے کہ ہاں یہ سچائی ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ نفس انسانی کی گمراہی و سرکشی پر حقیقت کا اعتراف ہمیشہ گراں گزرتا ہے۔ وہ بغیر لڑے کبھی ہتھیار نہیں رکھے گی۔ وہ مانے گی (کیونکہ سچائی بغیر منوائے رہ نہیں سکتی) مگر اسی وقت جب ماننے پر مجبور ہوجائے گی۔ پیغمبر اسلام نے جب کلام حق کی منادی شروع کی تو قریش مکہ کا یہی حال ہوا۔ وہ سچائی دیکھ رہے تھے مگر اسے سچائی کہنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ کبھی کہتے یہ مجنون ہوگیا ہے، خواب و خیال کو وحی و نبوت سمجھ رہا ہے۔ پھر تاثیر و نفوذ دیکھتے تو کہتے یہ جادوگر ہے۔ پھر ہی بات بھی نہ بنتی تو کہتے، چالاک مفتری ہے۔ من گھڑت باتوں کو خدا کا پیغام بتلاتا ہے، پھر یہ بات بھی چل نہ سکتی تو کہتے کچھ نہیں یہ شاعری کا کرشمہ ہے۔ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قریش دار الندوہ میں جمع ہوئے اور یہ ساری باتیں آپس میں کہیں (ابن ہشام) قرآن نے پچھلی قوموں کی ہلاکتوں کی سرگزشتیں سنائی ہیں اور کہا ہے جب خدا کے رسول جھٹلائے گئے تو انہوں نے ظہور عذاب کی خبر دی، یہ سرگزشت سن کر قریش مکہ کہتے تھے ایسی ہی کوئی نشانی تم کیوں نہیں لا دکھتے؟ الأنبياء
4 الأنبياء
5 الأنبياء
6 آیت (٦) میں فرمایا اگر کوئی ایسی خبر دے دی جائے تو کیا تم فورا ایمان لے آؤ گے؟ تم سے پہلے جتنی سرکش قومیں ہلاک ہوئیں ان میں سے تو کوئی بھی ایمان نہیں لایا تھا اور پرستار ان حق کی طرح پرستار ان باطل کی سنت بھی ہمیشہ ایک ہی رہی ہے اور ہمیشہ ایک ہی رہے گی۔ الأنبياء
7 آیت (٧) میں ان کے اس وہم کا رد کیا ہے کہ نبیوں کو آدمیوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے۔ کچھ اور ہونا چاہیے، فرمایا : یہودیوں اور عیسائیوں سے پوچھ لو، خدا کے جو پیغمبر پہلے آچکے ہیں وہ آدمیوں ہی کی طرح تھے، یا ہوا میں اڑا کرتے تھے ؟ مشرکین مکہ از راہ تحقیر کہا کرتے تھے ( ما لھذا الرسول یاکل الطعام و یمشی فی الاسواق؟) یہ کیسا نبی ہے کہ آدمیوں کی طرح غذا کا محتاج ہے اور بازاروں میں پھرتا ہے ؟ فرمایا ہم نے کسی کو ایدا دھڑ نہیں دیا کہ اسے غذا کی احتیاج نہ ہو اور ہمیشہ زندہ رہے۔ ہمارا قانون حیات یہی ہے کہ جسم ہوگا تو اسے قائم رہنے کے لیے غذا کی احتیاج بھی ہوگی۔ الأنبياء
8 الأنبياء
9 الأنبياء
10 پھر آیت (١٠) میں صاف صاف کہہ دیا، اگر سچائی کی طلب ہے تو قرآن کو دیکھو، اس کی موعظت سے بڑھ کر سچائی اور کون سی نشانی ہوسکتی ہے؟ اس مقام نے اور اسی طرح کے اور بے شمار مقامات نے یہ حقیقت قطعی طور پر واضح کردی ہے کہ پیغمبر اسلام نے اپنی صداقت کے لیے جس چیز پر بطور ایک نشانی کے زور دیا ہے وہ صرف قرآن ہے۔ چنانچہ سورۃ عنکبوت میں اس کی مزید وضاحت ملے گی۔ الأنبياء
11 الأنبياء
12 الأنبياء
13 الأنبياء
14 الأنبياء
15 الأنبياء
16 آیت (١٦) قرآن کے مہمات دلائل میں سے ہے لیکن ہمارے مفسروں کو اس پر حسب عادت غور کرنے کی مہلت نہ ملی۔ اس سے پہلے پچھلی قوموں کی ہلاکت اور ان کی جگہ نئی جماعتوں کے ابھرنے کا ذکر کیا تھا۔ فرمایا یہ انقلاب حال کیوں پیدا ہوا؟ آباد و خوشحالی بستیاں کیوں کٹے ہوئے کھیتوں کی طرح اجڑ گئیں؟ زندگی اور حرکت کے بھڑکتے ہوئے شعلے کیوں بجھ کے رہ گئے؟ اس لیے کہ یہاں ہمارا ایک عالمگیر قانون کام کر رہا ہے۔ یعنی حق و باطل کے تزاحم و کشاکش کا قانون۔ ہم نے کائنات ہستی کا یہ پورا کارخانہ ایک فعل عبث کی طرح نہیں بنایا ہے۔ کسی طے شدہ مصلحت و مقصد ہی سے بنایا ہے۔ وہ مقصد کیا ہے ؟ یہ کہ کئنات ہستی پستی سے بلندی کی طرف برابر ترقی کرتی جائےْ یہاں تک کہ علو رفعت کے اس انتہائی نقطہ تک پہنچ جائے جو کار فرمائے قدرت نے اس کے لیے ٹھہرا دیا ہے۔ اس مقصد کے لیے کون سا ہاتھ کام کر رہا ہے ؟ حق و باطل کی کشاکش کے قانون کا ہاتھ یعنی یہاں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس لیے ہوتا ہے کہ حق باقی رہے اور باطل بانود ہوجائےْ حق اس لیے باقی رہتا ہے کہ اسی سے بقا اور علوو ارتفاع ہے۔ باطل اس لیے نابود ہوجاتا ہے کہ وہ نقص، فساد اور زوال ہے۔ چنانچہ زندگی اور وجود کے ہر گوشہ میں یہ کشاکش جاری ہے، فطرت حق کے ہتھیار سے باطل پر ضرب لگاتی ہے اور وہ ٹک نہیں سکتا۔ کیونکہ حق کے مقابلہ میں اس کے لیے ٹکنا نہیں، پھر اچانک ایسا ہوتا ہے کہ باطل ملیا میٹ ہوگیا اور میدان میں صرف حق ہی کی نمود باقی رہ گئی۔ الأنبياء
17 الأنبياء
18 الأنبياء
19 الأنبياء
20 الأنبياء
21 الأنبياء
22 الأنبياء
23 الأنبياء
24 آیت (٢٤) پر ہمارے مفسروں نے زیادہ غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی، لیکن تم سرسری نظر ڈال کے گزر نہ جاؤ۔ ایک لمحہ کے لیے رک جاؤ۔ یہ استدلال وحدت ادیان کی اصل عظیم کا استدلال ہے جس پر قرآن نے اپنی دعوت کی تمام بنیادیں استوار کی ہیں۔ وہ کہتا ہے یہ تعلیم حق ہے جو میرے ساتھیوں کے پاس ہے اور اسی طرح وہ تمام تعلی میں بھی موجود ہیں جو مجھ سے پہلے دی جاچکی ہیں۔ تم کسی تعلیم سے بھی یہ ثابت کر دکھاؤ کہ سچائی کی بات وہ نہیں ہے جو میں پیش کر رہا ہوں؟ پھر اگر بغیر کسی اختلاف کے دنیا کے ہر عہد اور ہر گوشہ کی دینی تعلیم ایک ہی رہی ہے اور سب نے توحید و خدا پرستی ہی کی طرف بلایا ہے تو کیا یہ عالمگیر وحدت تعلیم اور باہم دگر تصدیق و توثیق حقیقت کی موجودگی کا ایک قطعی ثبوت نہیں ہے ؟ چنانچہ آیت (٢٥) میں وضاحت کردی کہ دعوت قرآن سے پہلے جتنی دعوتیں بھی دنیا میں آچکی ہیں ان سب کی پکار اس کے سوا کچھ نہیں رہی ہے کہ (لا الہ الا انا فاعبدون) یہی بات آگے چل کر سورۃ احقاف میں بھی ملے گی (ائتونی بکتاب من قبل ھذا او اثارۃ من علم ان کنتم صدقین) مزید تشریح کے لیے تفسیر فاتحہ مبحث وحدت ادیان دیکھو۔ قرآن کا عام اسلوب موعظت یہ ہے کہ توحید ربوبیت و خالقیت سے توحید الوہیت پر استدلال کرتا ہے۔ چنانچہ آیت (٣٠) میں فرمایا کیا منکرین حق اس بات پر غور نہیں کرتے کہ کس کی قدرت و حکمت نے یہ تمام کارخانہ خلقت پیدا کیا ہے اور کس کی ربوبیت نے اسے زندگی اور زندگی کی ساری احتیاجوں کے لیے اس درجہ اوفق و اصلح بنا دیا ہے ؟ اس طریق استدلال کی تشریح تفسیر فاتحہ میں ملے گی۔ تخلیق کائنات کی جو حالت یہاں بیان کی گئی ہے اس کی تشریح سورۃ یونس کے آخری نوٹ میں گزر چکی ہے۔ جب انسان کسی کے بغض و عناد میں کھویا جاتا ہے تو پھر اپنی زندگی کا اتنا خواہشمند نہیں رہتا جتنا اس کی موت کا آرزو مند ہوجاتا ہے۔ دعوت حق کے معاندوں کا بھی یہی حال تھا۔ وہ پیغمبر اسلام کی موت کے خیال سے اپنا جی خوش کرتے تھے اور کہتے تھے اور تو کچھ ہونے والا نہیں، ہا اسی طرح دعوے کرتے کرتے ختم ہوجاؤ گے۔ آیت (٣٤) میں منکروں کی انہی خام خیالیوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ فرمایا : دنیا میں ہر جان کے لیے مرنا ہے، یہاں کسی کے لیے دائمی زندگی نہ ہوئی۔ پس اصلی سوال کرنے کا نہیں ہے، سوال تو یہ ہے کہ (نبلوکم بالشر والخیر فتنۃ) ہم نے آزمائش عمل میں ڈالنے کے لیے خیر و شر کی آزمائشیں پید اکردی ہیں۔ ان آزمائشوں سے کون کس طرح عہدہ بر آ ہوتا ہے ؟ خیر کا سرمایہ جمع کرتا ہے یا شر کا؟ یہ تمہاری موت کے خیال سے اپنا جی خوش کرتے ہیں مگر خود اپنی زندگی کی خبر نہیں لیتے۔ الأنبياء
25 الأنبياء
26 الأنبياء
27 الأنبياء
28 الأنبياء
29 الأنبياء
30 الأنبياء
31 الأنبياء
32 الأنبياء
33 الأنبياء
34 الأنبياء
35 الأنبياء
36 الأنبياء
37 قرآن نے جابجا انسانی طبیعت کے اس خاصہ کا ذکر کیا ہے کہ وہ اپنی خواہشوں، رایوں اور اقدام عمل میں جلد باز واقع ہوا ہے۔ یہاں بھی آیت (٣٧) میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔ فرمایا : جن نتائج کے ظہور کی خبر دی جارہی ہے وہ عنقریب ظٓہر ہونے والے ہیں لیکن یہ منکر شور مچا رہے ہیں کہ فورا ظاہر کیوں نہیں ہوجاتے۔ اچھا تھوڑا سا انتظار اور کریں۔ بہت جلد سامنے آجائیں گے۔ اس سلسلہ میں یہ بات یاد رکھینی چاہیے کہ اگر انسانی طبیعت میں جلد بازی ہے تو قرآن اس خاصہ کی مذمت نہیں کرتا۔ کیونکہ اس کے نزدیک فطرت انسانی کا کوئی خاصہ بھی نفسہ برائی کے لیے نہیں ہے۔ (لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم) ضروری تھا کہ اس کی طبیعت میں جلد بازی ہوتی۔ لیکن خواص یہی جلد بازی ہے جو اس کے اندر سعی عمل کا فوری ولولہ پیدا کرتی ہے اور اس کی ساری سرگرمیوں کے لیے ایک محرک کا کام دیتی ہے۔ لیکن خواص طبیعت کے ہر گوشہ کی طرح یہاں بھی اسے ٹھوکر اصل خاصہ کے تقاضا میں نہیں لگتی بلکہ اس کے بے محل اور بے اعتدالانہ استعمال میں لگتی ہے۔ اسے جہاں صبر کرنا چاہیے وہاں بے صبری کرنے لگتا ہے، اور جب فیصلہ کرنے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے تو بےدھڑک فیصلہ کردیتا ہے۔ پس قرآن انسان کی ہر گمراہی کی طرح اس گمراہی میں بھی سوء استعمال کی مذمت کرتا ہے نہ کہ طبیعت اور خواص طبیعت کی۔ الأنبياء
38 آیت (٣٨) سے (٤٧) تک مشرکین مکہ کو ان کی سرکشی و غفلت پر سرزنش کی ہے کہ سچائی کی نشانیاں دیکھتے تھے بشارت و نذارت کے پیہم اعلانات سنتے تھے مگر شرارت سے باز نہیں آتے تھے اور نصیحت پکڑنے کی جگہ اعلان حق کی ہنسی اڑاتے تھے۔ الأنبياء
39 الأنبياء
40 الأنبياء
41 الأنبياء
42 الأنبياء
43 الأنبياء
44 الأنبياء
45 آیت (٤٥) نے دعوت حق کی پوری حقیقت واضح کردی ہے میں تمہیں وحی الہی سے خبر پاکر متنبہ کر رہا ہوں۔ مگر جانتا ہوں، جو بہرے ہیں، انہیں کتنا ہی خبردار کیا جائے، سننے والے نہیں۔ الأنبياء
46 الأنبياء
47 آیت (٤٧) میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ فطرت کا ترازو بڑا ہی دقیقہ سنج ہے۔ ایک ذرہ ہے ایک ذرہ بھی اس کی تول میں کم نہیں ہوسکتا۔ کوئی عمل کتنا ہی حقیر ہو مثلا تم نے کسی مصیبت زدہ پر ہمدردی کی ایک اچٹتی ہوئی نظر ڈالی دی، راہ چلتے ایک پتھر ہٹا دیا، ایک پیاسی چیونٹی کے آگے پانی کا قطرہ ٹپکا دیا، مگر ضروری ہے کہ اس کے وزن میں آجائے۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ رائگاں جائے۔ اور تم خود اپنی زندگی ہی میں دیکھ لو۔ فطرت کے قانون مجازات کی دقائق اندیشوں کا کیا حال ہے؟ تم نے ایک پل کے لیے کسی پر ہمدردی کی نظر ڈالی اور معا تمہارے اندر حسن اخلاق کا ایک نقش جم گیا، تم نے کسی جانور پر بھی بے رحمی کی نگاہ ڈالی اور تمہارے آئینہ اخلاق میں قساوت کا بال پڑگیا۔ تمہاری کوئی چھوٹی سے چھوڑی بات بھی تمہیں بدلہ دیے بغیر نہیں رہ سکتی اور بدلہ ٹھیک ٹھیک نپا تلا ہوتا ہے۔ رائی برابر بھی ادھر ادھر نہیں۔ الأنبياء
48 آیت (٤٨) سے سلسلہ بیان اس طرف متوجہ ہوگیا ہے کہ متذکرہ صدر مقاصد پر گزشتہ دعوتوں اور قوموں کی سرگزشتوں سے استشہاد کیا جائے۔ چنانچہ پہلے حضرت موسیٰ کی دعوت کی طرف اشارہ کیا جن کی کتاب وحی کا حال عام طور پر معلوم و مسلم تھا۔ فرمایا اسی طرح قرآن کا بھی نزول ہوا ہے۔ پھر اگر وہ اس سے منکر ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ تمام سلسلہ وحی و تزیل سے منکر ہیں۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم کی زندگی کا وہ ابتدائی واقعہ بیان کیا ہے جو ان کے وطن اور میں پیش آیا تھا۔ جہاں سے ہجرت کر کے وہ کنعان آئے اور وہیں بقیہ عمر کے لیے بس گئے۔ حضرت ابراہیم نے جب دیکھا کہ بتوں کی عظمت لوگوں کے دلوں میں اس طرح جم گئی ہے کہ عقل و بصیرت کی کوئی صدا بھی اسے متزلزل نہیں کرسکتی، تو اعلان حقیقت کے لیے انہوں نے ایک دوسرا طریقہ اختیار کیا، ایسا طریقہ کہ تمام لوگوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، ان کے معبود خود ان سے بھی زیادہ عاجز اور بے بس ہیں اور وہمی اور وایتی عقیدت کے سوا کوئی حقیقت موجود نہیں۔ تشریں اسی سورت کے آخر میں ملے گئی۔ جب لوگ اس مقابلہ میں عاجز و درماندہ ہوگئے تو پھر جیسا کہ جہل و تعصب کا قاعدہ ہے ظلم و تشدد پر اتر آئے۔ انہوں نے چاہا حضرت ابراہیم کو زندہ آگ میں جلا دیں۔ لیکن اللہ نے ان کے سارے منصوبے خاک میں ملا دیے اور حضرت ابراہیم زندہ سلامت وہاں سے نکل کر کنعان چلے گئے، ان کے ساتھ ان کے بھتیجے حضرت لوط بھی تھے ان دونوں کے توطن کنعان کی تفصیل بہ ضمن آیت (٦٩) سورۃ ہود میں گزر چکی ہے۔ اگر ایک آدمی ایک طرف کھیت بوئے، دوسری طرف رات کو اپنی بکریاں بھی کھول دیا کرے تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ یہی کہ ساری فصل تباہ ہوجائے گی۔ وہ جتنا چر سکیں گی چر لیں گی، جتنا روند سکیں گی روند جائیں گی۔ یہی حال یہودیوں کا تھا، وہ ایک طرف بناتے تھے دوسری طرف خود اپنے ہاتھوں اسے اجاڑ دیتے تھے۔ حضرت داؤد نے انہین فلسطینیوں پر فتح مند کرایا اور تمام ملک ساحل بحر تک ان کے قبضہ میں آگیا لیکن پھر بھی ان میں نظم و اطاعت کی روح پیدا نہی ہوئی۔ البتہ حضرت سلیمان کے زمانہ میں ایک نیا انقلاب رونما ہوا، اور انہوں نے اپنی دانش و حکمت و نبوت سے یہودیوں کی حالت ایسی پلٹ دی کہ ایک عظیم الشان عبرانی مملکت قائم ہوگئی۔ الأنبياء
49 الأنبياء
50 الأنبياء
51 الأنبياء
52 الأنبياء
53 الأنبياء
54 الأنبياء
55 الأنبياء
56 الأنبياء
57 الأنبياء
58 الأنبياء
59 الأنبياء
60 الأنبياء
61 الأنبياء
62 الأنبياء
63 الأنبياء
64 الأنبياء
65 الأنبياء
66 الأنبياء
67 الأنبياء
68 الأنبياء
69 الأنبياء
70 الأنبياء
71 الأنبياء
72 الأنبياء
73 الأنبياء
74 الأنبياء
75 الأنبياء
76 الأنبياء
77 الأنبياء
78 آیت (٧٨) میں اسی صورت حال کی طرف غالبا اشارہ کیا گیا ہے۔ آیت کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے الحرث سے مقصود کوئی خاص کھیتی ہو اور غنم القوم سے کسی خاص گروہ کی بکریاں یعنی کسی کا کھیت تھا اور کسی کی بکریاں اس میں جا پڑی تھیں۔ اس جھگڑے کا فیصلہ دونوں نے کیا۔ حضرت داؤأد نے بھی اور حضرت سلیمان نے بھی اور فیصلہ حضرت سلیمان کا زیادہ قوی اور اوفق تھا۔ مزید تشریح عام تفاسیر میں ملے گی۔ الأنبياء
79 آیت (٧٩) میں یسبحن کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک جو ان من شیء الا یسبح بحمدہ میں ہے۔ دوسرا یہ کہ جب حضرت داؤد حمد الہی کے نغمے گاتے تھے تو سماں بندھ جاتا تھا اور چٹانیں تک وجد میں آجاتی تھیں۔ حضرت داؤد بڑے ہی خوش آواز تھے، وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے عبرانی موسیقی مدون کی اور مصری اور ہابلی مزامیر کو ترقی دے کر نئے نئے آلات ایجاد کیے۔ تورات اور روایت یہود سے معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر بیٹھ کر حمد الہی کے ترانے گاتے اور اپنا برطب بجاتے تو شجر و حجر جھومنے لگتے تھے۔ روایات تفسیر سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ پرندوں کی تسخیر کو بھی دونوں باتوں پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ اس پر بھی کہ ہر طرح کے پرند ان کے محل میں جمع ہوگئے تھے اور اس پر بھی کہ ان کی نغمہ سرائیوں سے متاثر ہوتے تھے۔ کتاب زبور دراصل ان گیتوں کا مجمعہ ہے جو حضرت داؤأد نے الہام الہی سے نظم کی تھیں َ ہم نے نہیں اپنی رحمت کے سایہ میں۔ جس وقت تک آتشیں اسلحہ ایجاد نہیں ہوا تھا جنگ میں حفاظت کا بڑا ذریعہ آہنی لباس کا استعمال تھا یعنی زرہ کا۔ الأنبياء
80 آیت (٨٠) سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت داؤد نے اس صنعت کو بہت فروغ دیا تھا، اور اس میں طرح طرح کی نئی ایجادات کی تھیں۔ تاریخ آثٓر سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ ایک ہزار سال قبل مسیح تک زورہ کا استعمال قوموں میں دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن اس کے بعد سے خود کا استعمال شروع ہوجاتا ہے اور پھر دوسری چیزیں بھی مستعمل ہونے لگتی ہیں۔ یہاں تک کہ سکندر کے عہد میں یونانی اور ایرانی، دونوں سرتاسر آہن پوش ہوگئے تھے۔ الأنبياء
81 آیت (٨١) میں فرمایا ہم نے سمندر کی بادتند سلیمان کے لیے مسخر کردی تھیں۔ یعنی بادبانی کے بڑے بڑے جہاز چلنے لگے تھے، اور خشکی کے جانوروں کی طرح سمندر کی ہوائیں بھی ان کے ل یے بار برداری اور نقل و حرکت کا ذریعہ ہوگئی تھیں۔ سمندر کی ہواؤں کا معاملہ بھی قدرت کے عجائب مظاہر میں سے ہے۔ جس وقت تک دخانی قوت کا انکشاف نہیں ہوا تھا، بحری سیر وسیاحت کا ذریعہ یہی ہوائیں تھیں۔ یہ مختلف جہتوں میں چلتی ہیں اور مختلف وقتوں میں چلتی ہیں اور ان کی جہتیں اور اوقات اس درجہ معین اور منضبط ہیں کہ کبھی ان میں فرق نہیں پڑ سکتا۔ پھر ان کی تندی و طاقت کا یہ حال ہے کہ بڑے بڑے جہازوں کو تنکوں کی طرح سمندر کی سطح پر دوڑاتے ہوئے لے جاتی ہیں۔ قدیم عہدوں میں حضرت سلیمان پہلے شخص ہیں جنہوں نے جہازوں سے اس طرح کام لینا شروع کیا کہ ہندوستان اور مغربی جزائر تک بحری آمد و رفت کا منظم سلسلہ قائم ہوگیا۔ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تجارتی بیڑہ وقت کا سب سے زیادہ طاقتور بیڑہ تھا۔ بحر احمر میں اس کا مرکز ترسیس تھا جو خلج عقبہ میں واقع تھا۔ اور بحر متوسط میں صور، طائر، یافہ کی بندرگاہیں۔ فلسطین کا علاقہ ایسے گوشہ میں واقع ہوا ہے کہ اس کے مغرب و شمال میں بحر متوسط ہے اور جنوب میں بحر احمر۔ پس اسے متضاد سمتوں کی ہوائیں چاہیں تاکہ دنیا کے جہاز اس کے ساحلوں تک پہنچ سکیں۔ یعنی بحر احمر میں شمالی ہوا اور متوسط میں جنوبی اور مشرقی۔ اور اگرچہ دونوں سمندروں کا باہمی فیصلہ کچھ زیادہ نہیں لیکن قدرت الہی نے ان کی ہواؤں کی سمتیں ایسی ہی رکھ دی ہیں بیک وقت بحر احمر میں بادشمال کے جھونکے چلتے ہیں اور متوسط میں باد جنوب کے اور دونوں یکساں طور پر سواحل شام و فلسطین کے لیے مفید ہیں۔ اس تفصیل کے بعد الی الارض التی بارکنا فیھا : کا مطلب بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ قرآن میں شیطان کا اطلاق شیاطین الجن پر بھی ہوا ہے اور شیاطین الانس پر بھی۔ مثلا (انما ذلکم الشیطان یخوف اولیائہ) میں شیطان سے مقصود قریش مکہ کا بھیجا ہوا جاسوس ہے یا (واذ زین لھم الشیطان اعمالھم) میں شیطان کا اطلاق سراقہ بن مالک ابن جعشم پر کیا گیا جو قریش کو لڑائی پر ابھارتا تھا مگر پھر بھاگ گیا۔ الأنبياء
82 پس یہاں آیت (٨٢) میں بھی معلوم ہوتا ہے شیاطین کا اطلاق شیاطین الانس ہی پر ہوا ہے۔ یعنی فلسطین اور شام کی ان شریر اور سرکش قوموں پر جو حضرت سلیمان کے عہد میں بالکل مطیع و منقاد ہوگئی تھیں اور انہوں نے ہیکل کی تعمیر میں تیرہ برسر تک ہر طرح کی سخت سخت خدمتیں انجام دی تھیں۔ ہیکل کی بنیاد حضرت داؤد نے ڈال دی تھی لیکن تعمیر حضرت سلیمان نے کی۔ تورات کی کتاب سلاطین اول سے معلوم ہوتا ہے ہے کہ تیس ہزار آدمی تیرہ برس تک کام میں لگے رہے تب کہیں جاکر عمارت تیار ہوئی تھی۔ عہد عتیق میں ایوب کے نام سے ایک صحیفہ ہے اور اس میں اس نام کے ایک راست باز اور صابر انسان کی سرگزشت لکھی ہے۔ الأنبياء
83 آیت (٨٣) میں اسی طرح اشارہ کیا گیا ہے۔ سرگزشت کا خلاصہ یہ ہے کہ عوض کے ملک میں ایوب ایک کامل اور راست باز انسان تھا۔ خدا نے اسے بڑا خاندان اور بڑی دولت دے رکھی تھی۔ اس کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ سات ہزار بھیڑیں، تین ہزار اونٹ، ایک ہزار بیل، اور پانچ سو بار برداری کے گدھے تھے۔ اس کے نوکر چاکر بے شمار تھے، اور اہل مشرق میں اس درجہ مال دار کوئی نہ تھا۔ وہ اس دولت و شوکت کے لیے خداوند کا شکر گزار تھا اور ہمیشہ بدی سے دور رہتا تھا۔ لیکن پھر زندگی کی ساری مصیبتیں ان پر آپڑیں۔ ان کے مویشی لوٹ لیے گئے، نوکر چاکر قتل ہوگئے، اولاد مرگئی، جاہ و حشم نابود ہوگیا، اور زندگی کی خوشحالیوں میں سے کوئی چیز بھی باقی نہ رہی، پھر بربادیوں کے یہ تمام زخم ایک ایک کر کے نہیں لگے کہ سنبھلنے اور جھیلنے کی مہلت ملی ہو، بیک وقت لگے اور اچانک دنیا کچھ سے کچھ ہوگئی۔ لیکن عین اس حالت میں بھی حضرت ایوب کی زبان سے کلمہ صبر و شکر کے سوا اور کچھ نہیں نکلا۔ وہ سجدے میں گر پڑا، اور کہا میں اپنی ماں کے پیٹ سے برہنہ پیدا ہوا تھا اور برہنہ ہی دنیا سے جاؤں گا۔ خداوند نے مجھے دیا تھا اور خدا وند نے لے لیا۔ اس کے نام کے لیے ساری پاکیاں اور مبارکیاں ہوں۔ (ایوب : ٢٢: ١) سب کچھ جاچکا تھا۔ صرف جسم کی تندرستی باقی رہ گئی تھی۔ اب اس نے بھی جاب دے دیا، اور ایوب کے تلوے سے لے کر سر کی چاندی تک سارے جسم میں جلتے ہوئے پھوڑے نکل آئے۔ وہ ایک ٹھیکرا لے کر اپنا جسم کھجاتا اور راکھ پر بیٹھا رہتا۔ لیکن اس پر بھی ان کی زبان ایک لمحۃ کے شکوہ و شکایت سے آلودہ نہ ہوئی۔ اب درد و مصیبت کی یہ حالت برابر بڑھتی ہی جاتی ہے۔ لیکن جوں جوں بڑھتی جاتی ہے روح یقین دل کا صبر اور زبان کا زمزمہ شکر بھی بڑھتا جاتا ہے۔ چنانچہ تما صحیفہ ایوب انہی دلنشین مواعظ کا مجموعہ ہے جو ان کے درد و غم کی آہوں اور کرب و اذیت کی صداؤں کے اندر نمایاں ہوئے۔ ان کی ہر آہ حمد و ثنا کا نغمہ تھی اور ہر پکار صبر و شکر کی تلقین۔ اسلوب بیان یہ ہے کہ تین دوست مصیبت کا حل سن کر آتے ہیں اور اللہ کے کاموں اور حکمتوں پر ان سے روکد کرتے ہیں۔ پھر اللہ کی وحی انہیں مخاطب کرتی ہے اور ان کی آزمائش کا دور ختم ہوجاتا ہے اور خداوند نے ایوب کی حالت بدل دی، اسے پہلے کی سنبت دو چند دولت عنایت کی۔ اس کے تمام عزیزوں کو اس کے گرد جمع کردیا۔ اسے آخری عمر میں پہلے کی طرح اولاد ملی وہ ایک سو چالیس برس تک جیا اور پانی نسل کی چار نشتیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ (١٠: ٤٢) اس بات کے اظہار کے لیے یہ حضرت ایوب کے لیے ایک آزمائش تھی پیرایہ بیان یہ اختیار کیا گیا ہے کہ شطیان نے کہا ایوب کی خدا پرستی و راست بازی اس لیے ہوئی کہ خدا نے اسے ہر طرح کی خوشحالیاں دے رکھی ہیں۔ اگر وہ ان سے محروم ہوجاتے تو پھر کبھی خدا کا شکر گزار نہ ہو، لیکن وہ خوشحالیوں سے محروم ہوگئے، پھر بھی ان کا ایمان و یقین گھٹنے کی جگہ اور زیادہ بڑھ گیا۔ قرآن نے صبر و شکر کی یہ پوری داستان صرف چند جملوں میں بیان کردی ہے اور اس کا ایجاز بلاغت اتنا ہی موثر ہے جتنا صحیفہ ایوب کے پچاس صفحوں کا شاعرانہ اطناب ہے۔ آیت (٨١) سے (٨٤) پر مکرر نظر ڈالو (وایوب اذا نادی ربہ انہ مسنی الضر وانت ارحم الراحیم۔ فاستجبنا لہ فکشفنا ما بہ من ضر واتیناہ اھلہ و مثلھم معھم رحمۃ من عندنا وذکری للعابدین) انی مسنی الضر میں ان کے درد و مصیبت کی ساری داستان آگئی۔ کوئی گوشہ بھی نہیں چھوٹا، ساتھ ہی اسلوب خطاب یہ ہوا کہ میں دکھ میں پڑگیا ہوں، یہ نہ ہوا کہ تو نے مجھے دکھ میں ڈال دیا ہے۔ کیونکہ وہ تو کسی کو بھی دکھ میں نہیں ڈالتا۔ اس نے جو کچھ بھی بخشا ہے سرتاسر سکھ اور راحت ہی ہے۔ جو حالت بھی ہمارے لیے دکھ ہوجاتی ہے خود ہماری ہی صورت حال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے انبیائے کرام کے مخاطبات میں ہر جگہ یہ حقیقت نمایاں ہوئی۔ حضرت آدم نے کہا (ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخاسرین) خدایا ! ظلم ہم نے کیا ہے اور مغفرت کی طلبگاری تجھ سے ہے اسی طرح حضرت ابراہیم کی موعظت سورۃ شعراء میں آئے گی : (وذا مرضت فھو یشفین) جب میں بیمار پڑجاتا ہوں تو وہی ہے جو مجھے شفا دیتا ہے۔ یعنی بیماری میں پڑنا میری حالت ہوئی، شفا دینا اس کا کام ہوا۔ کیونکہ اس کے پاس جو کچھ ہے شفا ہی شفا ہے۔ اس کی رحمت نے دار الشفا بنایا ہے۔ بیماریاں بانٹنے کا کوئی گھر نہیں بنایا ہے۔ وما اھسن قول الشاعر العارف : کفر ہم نسبت بہ خالق حکمت ست۔۔۔۔ چوں بہ ما نسبت کنی، کفر آفت ست ! حضرت ایوب کی دعا اور شرح انی مسنی الضر : اور یہی وجہ ہے کہ فرمایا : تعز من تشاء وتذل من تشاء بیدک الخیر۔ (٢٦: ٣) تو جسے چاہے عزت دے دے، جسے چاہے ذلیل کردے ہر طرح کا خیر تیرے ہی ہاتھ ہے، یعنی جسے عزت ملی وہ بھی خیر کی بات ہوئی، جسے ذلت ملی وہ بھی خیر کی بات ہوئی۔ حالانکہ جسے ذلت ملی اس کے لیے تو شر ہی کی بات ہوئی، خیر کی بات نہیں ہوئی۔ لیکن قرآن کہتا ہے اس کے لیے اور اس کی اضافت سے شر کی بات ہوئی۔ فی الحقیقت شر کی بات نہ ہوئی۔ کیونکہ خدا جو کچھ کرتا ہے خیر ہی خیر ہے۔ شر کا یہاں گزر ہی نہیں۔ یہ ہم ہیں ور ہماری حالت ہے جو شر کا جامہ پہن لیا کرتی ہے : ہر چہ ہست از قامت ناساز و بے اندام ماست۔۔۔ ورنہ تشریف تو بر بالائے کس دشوار نیست !ً مسلم کی حدیث ابو ذر میں یہی حقیقت واضح کی گئی ہے : یا عبادی انما ھی اعمالکم، احصیھا لکم ثم اوفیکم ایاھا فمن وجد خیرا فلیحمد اللہ، ومن وجد غیر ذلک فلا یلومن الا نفسہ۔ اے میرے بندو ! یہ تمہارے اعمال ہی ہیں جنہیں میں تمہارے لیے ضبط کرتا ہوں اور پھر ان کے نتائج پورے پورے لوٹا دیتا ہوں۔ پس تم میں سے جو کوئی خیر پائے تو اللہ کی ستائش کرے اور جس کسی کو کوئی دوسری حالت پیش آجائے تو اور کسی کا شکوہ نہ کرے۔ خود اپنے نفس کو ملامت کرے۔ و انت ارحم الراحمین : اس کے بعد کہا (وانت ارحم الرحمین) اور غور کرو اس ایک جملہ میں سفر ایوب کے کتنے صٖفحے آگئے؟ اس میں حمد و ثنا بھی آگئی، صبر و شکر کا دامن بھی نہیں چھوٹا، طلب والحاح کا ہاتھ بھی دراز ہوگیا، اور عجز و نیاز کی پیشانی بھی بندگی و تذلل کی زمین پر پڑگئی، خدایا ! میں دکھی ہوں اور تجھ سے بڑھ کر کون ہے جو رحم کرنے والا ہو؟ طوبی لعبد تکون مولاہ ! اگر ایک فقیر بادشاہ سے ہے : میں محتاج ہوں اور تجھ سے بڑھ کر کوئی سخی نہیں، تو پھر اس کے بعد اور کیا رہ گیا جو اس نے نہیں کہا؟ اور کیوں اس سے زیادہ اس کی زبان سے کچھ نکلے؟ بلاشبہ یہ عرض حال ہے، طلب و سوال نہیں لیکن !!! در حضرت کریم تقاضا چہ حاجت است؟؟؟ الأنبياء
84 آیت (٨٤) کی جامیعت : اس کے بعد صرف ایک آیت کے اندر پوری سرگزشت اور اس کا ماحصل بیان کردیا۔ غور کرو کس طرح یہ آیت ایک پورے صحیفہ کا کام دے رہی ہے اور کس طرح اس کا ہر جملہ اپنی جگہ ایک پورا باب ہےَ ؟ (ا) فاستجنبا لہ۔ ہم نے اس کی پکار سن لی، یعنی وحی الہی کی وہ اجابت جو سفر ایوب کے چار بابوں میں بیان کی گئی ہیں۔ ٣٨ سے ٤٢ تک۔ (ب) فکشفنا ما بہ من ضر۔ پس درد و مصیبت میں سے جو کچھ اسے پیش آیا تھا سب ہم نے دور کردیا، اس میں وہ ساری مصیبتیں آگئیں جن کی تفصیلات دو بابوں میں آئی ہیں۔ (ج) واتیناہ اھلہ : اس کا گھرانا اسے دے د یا۔ دے دیا۔ یعنی اس سے کھویا گیا تھا، پھر اسے واپس مل گیا۔ اس اشارے نے خاندانی مصیبت اور تفرقہ کی ساری داستان بتلا دی۔ (ہ) ومثلھم معھم : اتناہ اور بھی، یعنی گھر بار کا جمگھٹا پہلے سے دوچند کردیا۔ (د) لیکن یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ اور اس سرگزشت کا ماحصل کیا ہے ؟ (رحمۃ من عندنا) یہ ہماری طرف سے رحمت کا ظہور تھا۔ کیونکہ رحمت کو پکارا گیا تھا وانت ارحم الرحمین۔ پس ضروری تھا کہ رحمت جواب دے۔ (ز) وذکری للعابدین : اور اس لیے کہ بندگی کرنے والوں کے لیے اس میں نصیحت ہو۔ یعنی یہ حقیقت آشکارا ہوجائے کہ جو عبادت گزاران حق ہیں وہ کبھی رحمت الہی کی بخششوں سے محروم نہیں رہ سکتے۔ قرآن کے قصص اور اشارات کا یہی حال ہے۔ ترجمان القرآن میں اس کی گنجائش نہیں نکل سکتی تھی کہ ہر مقام کی تفسیر اس تفصیل کے ساتھ کی جائے۔ پس صرف اس مقام کی تفسیر کرد ی گئی، تاکہ اہل نظر کے لیے ایک نمونہ کا کام دے اور تمام مقامات کا مطالعہ اسی روشنی میں کرسکیں۔ اس سلسلہ میں چار باتیں اور یاد رکھنی چاہیئں۔ حضرت ایوب عرب تھے : اولا : محققین تورات میں سے اکثر اس طرف گئے ہیں کہ حضرت ایوب عرب تھے، عرب میں ظاہر ہوئیے تھے، اور سفر ایوب اصلا قدیم عربی میں لکھی گئی تھی۔ حضرت موسیٰ نے اسے قدیم عربی سے عبرانی میں منتقل کیا۔ سفر ایوب میں ہے کہ وہ عوض کے ملک میں رہتے تھے اور آگے چل کر تصریح کی ہے کہ ان کے مویشی پرشیبا (سبا) کے لوگوں نے اور کسدیوں (بابلیوں) نے حملہ کیا۔ (١٥: ١) ان دونوں تصریحوں سے بھی اس کی تصدیق ہوجاتی ہے، کیونکہ کتاب پیدائش اور تواریخ اول میں عوض کو ارام بن سام بن نوح کا بیٹا کہا ہے، اور ارامی بالاتفاق عرب عاربہ کی ابتدائی جماعتوں میں سے ہیں۔ انیسویں صدی کے اواخر تک یہ بات پوری طرح واضح نہیں ہوئی تھی لیکن اب اس میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا ہے۔ پھر اس مقام کا ایسی جگہ ہونا جہاں سبا اور بابل کے باشندے آکر حملہ آور ہوتے تھے ایک مزید جغرافیائی روشنی ہے۔ کیونکہ ایسا مقام بجز عرب کے اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ یقینا یہ عرب کا وہی مقام ہوگا جو قوم عام کا مسکن تسلیم کیا گیا ہے۔ یعنی عمان سے لے کر حضرموت تک کا علاقہ۔ یوباب : کتاب پیدائش اور تواریخ اول میں ایک اور سامی نام بھی ہمیں ملتا ہے، یعنی یوباب یہ بنی یقظان میں سے تھا، یقظان عبر سے پیدا ہوا، اور عبر سلح بن ارفکسد بن سام سے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یوباب اور ایوب ایک ہی نام نہیں ہیں؟ بالاتفاق یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ تورات میں سب سے زیادہ قدیم صحیفہ یہی ہے اور حضرت ایوب کا زمانہ حضرت موسیٰ سے بہت پہلے تھا۔ لیکن اگر یوباب سے مقصود ایوب ہیں تو انہیں حضرت ابراہیم کا معاصر ہونا چاہیے۔ یا کم از کم حضرت اسحاق اور یعقوب کا۔ سفر ایوب منظوم کتاب ہے : ثانیا : سفر ایوب کا ایک ایک جملہ کہہ رہا ہے کہ میں شعر ہوں۔ نثر نہیں ہوسکتا۔ اسی لی محققین تورات نے اسے بھی امثال اور زبور کی طرح اسلا کتاب منظوم ہی قرار دیا ہے۔ بلاغت کلام، شعریت بیان اور بلندی اسلوب کے لحاظ سے یہ اس درجہ کی کتاب ہے کہ عہد عتیق کا کوئی صحیفہ امثال و زبور مستثنی کردینے کے بعد اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ عربی علم ادب کی قدامت : ثالثا : معلوم ہوگیا کہ عربی علم ادب کی تاریخ اس عہد سے بہت پہلے شروع ہوجاتی ہے جو عہد عام طور پر سمجھ لیا گیا تھا۔ کیونکہ اگر حضرت موسیٰ سے پہلے سفر ایوب جیسی نظم عربی میں لکھی جاسکتی تھی تو یقینا عبرانی علم و ادب کے نشوونما سے صدہا سال پہلے عربی علم ادب پوری طرح ترقی یافتہ ہوچکا تھا۔ بلاشبہ سفر ایوب کی عربی وہ عربی نہ ہوگی جو نزول قرآن کے وقت بولی جاتی تھی۔ یقینا عربی کی کوئی ابتدائی شکل ہوگی جس کی اخوات ہمیں آرای، کلدانی اور آشوری کتبات کے الفاظ و اسماء میں نظر آرہی ہیں اور قدیم مصری بھی اس کی جھلک سے خالی نہیں۔ تاہم وہ عربی زبان ہی ہوگی اور اسی عربی نے موجودہ عربی کے تمام عناصر و مواد بہم پہنچائے ہوں گے۔ اصل یہ ہے کہ عہد جاہلیت کی عربی اگرچہ صحرائیوں کی عربی تھی لیکن زبان کی نوعیت بول رہی ہے کہ یہ صحرائی قبائل کی پروردہ نہیں ہوسکتی۔ اتنی وسعی، اتنی ہمہ گیر، اتنی دقیقہ سنج، اس درجہ متمول زبان ضروری ہے کہ صدیوں کی متوارث اور مسلسل ادبی زندگی سے ظہور پذیر ہوئی ہو۔ جو زبان قرآن کے معانی و دقائق کی متحمل نہیں ہوگئی کیونکر ممکن ہے کہ اسے غیر متمدن قبائل کی ایک بدوی زبان تسلیم کرلیا جائے؟ اتنا ہی نہیں بلکہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے جس عربی میں امرء القیس نے اشعار کہے ہیں اس عربی کی لغوی تاریخ اس سے بہت زیادہ قدیم اور بہت زیادہ متمدن ہونی چاہیے جتنی اس وقت تک سمجھی گئی ہے۔ جدید اثری انکشافات اور عربی کی قدامت : گزشتہ صدی تک عربی کی لغوی تاریخ کا یہ مسئلہ ایک لاینحل مسئلہ سمجھا جاتا تھا۔ حتی کہ بعض محققین نے مجبور ہو کر یہ رائے قائم کرلی تھی کہ زبانوں کی تخلیق اور نشوو نما کا اسے ایک فوری تحول تسلیم کرلینا چاہیے لیکن اب اثری تحقیقات کے آخر میں مواد نے بحث و تعلیل کا ایک نیا میدان پیدا کردیا ہے اور عربی نسل اور عربی زبان کی تاریخ بالکل ایک نئی شکل میں نمودار ہورہی ہے۔ یہ زبان جس پر زندگی و خلود کی آخری مہر قرآن نے لگائی، دراصل مدنی نشوو نما کے اتنے مرحلوں سے گزر چکی ہے کہ دنیا کی کوئی زبان بھی اس وصف میں اس کی شریک نہیں۔ سمیری اور اکادی اقوام کا تمدن، نینوا اور بابل کی علمی کامرانیاں، قدیم مصری لغات کا عمرانی سرمایہ، آرای زبان کا عروج و احاطہ، کلدانی اور سریانی کا ادبی تمول، دراصل ایک ہی زبان کی لغوی تشکیل و تکمیل کے مختلف مرحلے تھے اور اسی نے آگے چل کر چوتھی صدی قبل مسیح کی عربی کا بھیس اختیار کیا۔ جو زبان حضارۃ و تمدن کی اتنی بھیٹوں میں سے پک کر نکلی ہو۔ ظاہر ہے کہ اس کے اسماء و مصادر کسی مفلس اور خام زبان کے اسماء و مصادر نہیں ہوسکتے۔ تابوت احیرام کا انکشاف اور عربی کتبہ : آج ہم تعجب کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ ظہور مسیح سے آٹھ نو سو برس پہلے آشوری اور بابلی زبان میں طبق، ملک، شمس، سماء، فلک، نجم، ارض وغیرہ الفاظ ٹھیک ٹھیک انہی معنوں میں مستعمل تھے جن معنوں میں آج مستعمل ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ١٩٢٣ ء کے ایک جدید اکنشاف نے تو ہمیں تیرہ سو برس قبل مسیح تک پیچھے ہٹا دیا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ عربی زبان کے ابتدائی مواد نے ایک کتابی اور ادبی زبان کی حیثیت حاصل کرلی ہے اور اس میں نہ صڑف موجودہ اسماء و مصادر ہی پائے جاتے ہیں بلکہ بعض حروف نحویہ تک موجود ہیں۔ مثلا حرف عطف وہی و ہے اور اپنی ابتدائی فینقیی شکل ( رض) میں لکھا جارہا ہے۔ الف لام بدستور حرف تعریف ہے اور ہر اسم کے پہلے اپنی نمود رکھتا ہے۔ مثلا الملک، الجبل۔ ذی (بمعنی ذو۔ ذو الجلال، ذوالقرنین) ہر جگہ نمودار ہے۔ اسم اشارہ وہی ھو ہے۔ علی اسی معنی میں مستعمل ہے جس میں اب مستعمل ہوتا ہے۔ نیز ملک فعل، طمع، فتح ٹھیک انہی معنوں میں بولے گئے ہیں جو بعد کو لغت قریش میں بولے گئے۔ عربی کا یہ کتبہ ایک تابوت پر منقش ہے۔ اس میں احیرام ملک یبلیس کی نعش رکھی گئی تھی اور اس کے بیٹے ثوبعل کے حکم سے تیار ہوا تھا۔ احیرام کا نام تورات میں بھی آیا ہے اور تاریخی حیثیت سے اس کا زمانہ بالاتفاق ١٢٥٠ قبل مسیح ہے۔ کتبہ کا خط وہی ہے ابتدائی عربی خط ہے جسے عام طور پر فینقیی خط کے نام سے پکارا جاتا ہے اور جس نے آگے چل کر آرامی، سریانی، اور نبطی خطوط کی شکلیں اختیار کی ہیں۔ اس انکشاف نے تاریخ کے متعدد گوشوں کے لیے بحث و نظر کے نئے نئے چراغ روشن کردیے۔ ازاں جملہ یہ کہ معلوم ہوگیا، تورات کے نزول اور کتب خانہ بابل کی الواح سے بھی پہلے عربی زبان کے مواد و مصادر نے ایک مکتوب و مرسوم زبان کی نوعیت اختیار کرلی تھی یعنی اس درجہ تک پہنچ چکی تھی کہ اس میں اعلانات و فرامین لکھے جاتے تھے۔ محض بول چال ہی کی زبان نہ تھی۔ نیز یہ کہ اگر ١٢٥٠ قبل مسیح عربی زبانی کی ایک ابتدائی شکل کا یہ حال تھا تو یہ بات کیوں عجیب سمجھی جائے کہ حضرت موسیٰ سے پہلے حضرت ایوب نے عربی میں کوئی منظوم صحیفہ لکھا تھا اور شریعت حمورابی بھی اصلا عربی کی کتابت ہے۔ قرآن کا عربی میں نزول : علاوہ بریں یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ قرآن کا عربی میں نازل ہونا اور جابجا اس پر زور دینا کہ (انا انزلنہ قرانا عربیا) ہم نے قرآن کسی اور زبان میں نازل نہیں کیا، عربی میں نازل کیا۔ صرف اتنے ہی معنی نہیں رکھتا جس قدر اس وقت تک سمجھے گئے ہیں بلکہ ایک بہت زیادہ وسیع اور گہری حقیقت اس میں مضمر ہے، تفصیل اس مقام کی مقدمہ میں ملے گی۔ دنیا کی قدیم ترین نظم سفر ایوب ہے : رابعا : اگر سفر ایوب کی یہ نوعیت تسلیم کرلی جائے تو مان لینا پڑے گا کہ شعر و ادب کا سب سے قدیم نمونہ یہی ہے جو اس وقت تک ہماری معلومات میں آیا ہے۔ اور اگر قدامت کے اعتبار سے دنیا کی کوئی کتاب منظوم اس سے معارضہ کرسکتی ہے تو وہ صرف ہندوستان کا رگ وید ہے بشرطیکہ اسفار ہند کی قدامت کا وہ مذہب تسلیم کرلیا جائے جو رگ وید کو ١٥٠٠ قبل مسیح یا اس سے بھی پیچھے لے جانا چاہتا ہے۔ اس وقت تک غیر غنائی شاعری کا سب سے زیادہ قدیم نمونہ ہومر کی الیڈ تسلیم کی گئی ہے۔ لیکن اگر ہومر کا عہد وہی قرار دیا جائے جو ہیروڈٹس کے بیان سے متبادر ہوتا ہے، تو زیادہ سے زیادہ ٩٠٠ قبل مسیح ہے لیکن سفر ایوب کا زمانہ اس سے بھی پہلے کا زمانہ ہونا چاہیے۔ پس قدیم تر نظم ہومر کی نہ ہوئی، سفر ایوب کی ہوئی۔ ہندوستان کی دور زمیہ نظمیں مہا بھارت اور رامائن بھی قدیم نظمیں ہیں لیکن ان کا زمانہ تصنیف بھی محققین عصر کے نزدیک چوتھی صدی قبل مسیح سے زیادہ پیچھے نہیں جاسکتا، اور زمانہ تدوین بہ شکل کتاب تو اکثروں کے نزدیک زیادہ سے زیادہ سنہ مسیحی کے ابتدائی قرون ہیں۔ الأنبياء
85 الأنبياء
86 الأنبياء
87 یونس (علیہ السلام) : آیت (٨٧) میں ذوالنون سے مقصود بالاتفاق حضرت یونس ہیں۔ عہد عتیق میں ان کا عبرانی نام یوناہ آیا ہے اور ان کے نام سے ایک صحیفہ بھی موجود ہے۔ یہاں انہیں ذوالنون کے نام سے پکارا گیا ہے کیونکہ ان پر مچھلی کا حادثہ گزرا تھا اور قدیم عربی میں نون مچھلی کو کہتے تھے۔ چنانچہ آرامی، کلدانی ور مصری میں بھی مچھلی کا یہی نام بولا گیا ہے۔ اس صحیفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ یروشلم میں تھے کہ وحی الہی نے انہیں مخاطب کیا اور حکمد یا باشندگان نینوا کو نزول عذاب کی خبر پہنچا دیں، نینوا اس زمانے میں دنیا کی سب سے زیادہ عظیم الشان آبادی تھی۔ مہم کی گرانباری اور اپنی بے سروسامانی دیکھ کر بہ مقتضائے بشریت طبیعت ہراساں ہوئی۔ بہرحال یافہ سے ایک جہاز پر سوار ہوگئے جو ترسیس جارہ اتھا۔ اثنائے راہ میں طوفان نے گھر لیا۔ قدیم زمانے میں جہاز رانوں کا اعتقاد تھا اگر طوفان عرصہ تک نہ تھمے تو یہ اس کا ثبوت ہوتا ہے کہ کوئی گنہگار آدمی جہاز میں سوار ہے۔ جب تک وہ موجود رہے گا اس کی نحوست سے طوفان بھی جاری رہے گا۔ چنانچہ یہی خیال اس جہاز کے مسافروں کو بھی ہوا۔ وہ قرعہ ڈالنے لگے کہ مجرم کون ہے اور کسی سمندر کے حوالے کریں۔ جب حضرت یونس نے سنا تو کہا ایسا ہی کرنا ہے تو مجھے سمندر میں پھینک دو، مجھ سے زیادہ اس کا کون مستحق ہوسکتا ہے، صحیفہ میں ہے قرعہ کا فیصلہ بھی یہی ہوا تھا۔ جب طوفان نہیں تھما تو لوگوں نے انہیں سمندر میں ڈال دیا۔ سمندر میں ایک بہت بڑی مچھلی تھی، وہ نگل گئی، یہ تین دن تک اس کے اندر رہے، پھر وہ ساحل کی طرف گئی، اور خشکی پر انہیں اگل دیا، اس طرح قدرت الہی نے موت کے منہ میں ڈال دکر پھر اس سے زندہ و سلامت نکال لیا۔ یناہ نبی کے صحیفہ میں ہے کہ اس نے مچھلی کے پیٹ میں خداوند اپنے خدا سے دعا مانگی تھی اور اس نے اس کی پکار سن لی۔ وہ پاتال کے بطن میں سے چلایا اور اس کی آواز سنی گئی۔ قرآن نے یہاں غالبا اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اذ ذھب مغاضبا۔ ای مغاضبا من اجل ربہ۔ کما یقولون غضبت لک ای من اجلک۔ یعنی اللہ کی خطر خشم ناک ہو کر روانہ ہوا۔ (فظن ان لن نقدر علیہ) ان لن نضیق علیہ۔ اس نے گمان کیا کہ ہم اسے تنگی میں نہیں ڈالیں گے۔ حالانکہ اسے ایک آزمائش پیش آنے والی تھی۔ یاد رہے اس جملہ کا مطلب وہ نہیں ہے جو تفسیر کی روایات میں سعید بن جبیر اور حسن کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ ان اللہ لا یقدر علی معاقبہ۔ یعنی یونس نے خیال کیا، خدا اس پر قابو نہیں پاسکتا۔ کیونکہ ایسا اعقتاد تو صریح کفر ہے اور ممکن نہیں ایک لمحہ کے لیے کسی نبی کے قلب میں گزر سکے۔ یقینا یہ ان ائمہ تفسیر کا قول نہیں ہوسکتا۔ بعد کے راویوں کی کج فہمی ہے۔ اس آیت کی ایک تفسیر تو یہ ہے۔ اسی طرح ایک دوسری تفسیر بھی ہوسکتی ہے اور شاید پہلی سے زیادہ موزوں۔ توارات کے اسی صحیفہ میں ہے کہ اس حادچہ کے بعد پھر انہیں نینوا کے لیے حکم ہوا۔ وہ نینوا گئے ور اعلان کیا، چالیس دن کے بعد یہ شہر برباد ہوجائے گا۔ لیکن یہ بات سن کر باشندگان نینوا نے سرکشی نہیں کی بلکہ بادشاہ سے لے کر ادنی باشندے تک سب کانپ اٹھے۔ سب نے خدا کی ہستی پر اعتقاد کیا۔ بادشاہ نے شاہی لباس اتار کر ٹاٹ کا پیرہن پہن لیا اور تمام باشندوں کے نام فرمان کاری کیا کہ ہر کوئی اپنی بری راہ سے اور ظلم و شرارت کی بات سے باز آجائے۔ روزہ رکھے، خدا کے حجور زار نالی کرے۔ توبہ و انابت کا سر جھکائے۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ عذاب ٹل گیا۔ چالیس دن گزر گئے مگر کوئی ہلاکت ظہور میں نہیں آئی۔ یہ بات حضرت یونس پر گراں گزری، وہ مضطرب ہوئے کہ اعلان حق میں تخلف کیوں ہوا؟ وہ شہر کے باہر ایک چھپر بنا کے مقیم ہوگئے تھے، رینڈی کے ایک درخت کی شاخیں چھپر پر پھیل گئی تھیں۔ قضارا اس درخت کیجڑ میں کیڑا لگ گیا۔ ایک دن صبح اٹھے تو کیا دیکھتے ہیں اس کی شاخیں بالکل سوکھ گئی ہیں اور سایہ کی جگہ دھوپ ہے۔ یہ حال دیکھ کر نہایت رنجیدہ ہوئے۔ تب خداوند نے کہا : تو اس رینڈی کے درخت کے سوکھ جانے پر اتنا رنجیدہ ہورہا ہے حالانکہ اس کے بونے اور اگانے میں تو نے کچھ بھی محنت نہیں کی تھی۔ پھر غور کر میرے لیے ضروری نہیں کہ اس عظیم الشان نینوا پر رحمت و شفقت کروں؟ اس نینوا پر جس میں ایک لاکھ بیس ہزار آدمی اور بے شمار مویشی بستے ہیں؟ جنہیں میں نے پیدا کیا اور پروان چڑھایا؟ یعنی عذاب والی بات اپنی جگہ صحیح تھی وہ کبھی غلط نہیں ہوسکتی تھی، لیکن عذاب کا ظہور لوگوں کے انکار و بدعملی ہی کا نتیجہ تھا۔ جب وہ اس سے باز آگئے تو عذاب بھی ٹل گیا، اور یہاں اصل کارفرمائی ہر حال میں عفو و بخشش کی ہے۔ سرزنش و عقوبت کی نہیں ہے، جب یہ حقیقت ان پر کھل گئی تو ان کا سارا رنج و غم دور ہوگیا۔ پس ہوسکتا ہے کہ آیت میں ان کی خشم ناکی سے مقصود وہ حالت ہو جو باشندگان نینوا کا حال دیکھ کر ان پر طاری ہوئی تھی اور ظلمات سے مقصود رنج و غم کی تاریکیاں ہوں۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے درد و غم کی حالت میں اللہ کو پکارا اور اللہ نے حقیقت حال منکشف کر کے ان کے دل مضطر کو تسکین دے دی۔ الأنبياء
88 الأنبياء
89 الأنبياء
90 الأنبياء
91 الأنبياء
92 تفسیر آیت (٩٢): آیت (٩٢) اس تمام تذکرہ کا خلاصہ ہے جو انبیائے کرام کا اوپر گزرچکا ہے۔ یعنی اللہ کے یہ تمام رسول جو مختلف عہدوں اور قوموں میں ظاہر ہوئے ان سب کی دعوت کا ماحصل کیا تھا؟ انہوں نے نسل انسانی کے مختلف عہدوں اور گروہوں کو کس بات کا پیام پہنچایا؟ وہ بات ایک ہی تھی یا ایک سے زیادہ؟ یہ آیت اپنے نپے تلے لفظوں میں جواب دیتی ہے کہ ان سب کا پیام ایک ہی تھا اور وہ یہی تھا کہ (ان ھذہ امتکم امۃ واحدہ وانا ربکم فاعبدون) تم سب ایک ہی امت، تم سب کا پروردگار ایک ہی پروردگار ہے۔ پس الگ الگ نہ ہو اسی کی بندگی کرو، (وتقطعوا امرھم بینھم) لیکن قوموں نے یہ تعلیم بھلا دی اور اپنے دین کا معاملہ آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا یعنی ایک ہی دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے بہت سے دین بنا لیے اور ہر گروہ دوسرے گروہ سے کٹ کر الگ ہوگیا۔ وحدت کی جگہ تفرقہ اور اجتماع کی جگہ اشتات ان کا شعار ہوا۔ (کل الینا راجعون) مگر بالآخر سب کو ہماری طرف لوٹنا ہے۔ اس وقت حقیقت حال آشکارا ہوجائے گی ہر گروہ دیکھ لے گا کہ اس کی حقیقت فراموشیوں نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا تھا؟ مبادی ثلاثہ توحید : سبحان اللہ قرآن کی معجزانہ بلاغت ایک چھوٹی سی آیت کے اندر اس معاملہ کے سارے دفتر کس طرح سمیٹ دیے ہیں؟ اور پھر صرف امر و خبر ہی نہیں ہے بلکہ ترتیب بیان نے خود بخود استدلال کی روشنی بھی پیدا کردی ہے : (ا) (ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ) تم نے کتنے ہی تفرقے پید اکر رکھے ہوں مگر تمہار امت اصلا ایک یہ امت ہے۔ (ب) (وانا ربکم) اور میں ہی تم سب کا تنہا پروردگار ہوں، میرے سوا کوئی نہیں۔ (ّج) (فاعبدون) جب تمام نوع انسانی ایک ہی امت ہوئی اور سب کا پروردگار بھی ایک ہی ہوا تو پھر سب کے لیے بندگی و نیاز کی چوکھٹ بھی ایک ہی کیوں نہ ہو؟ ایک سے دو کیوں ہو؟ پس اسی ایک کی بندگی کرو، کیونکہ تم سب ایک ہی ہو اور ایک ہی کے لیے ہو۔ یہاں ایک سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں ہے۔ غور کرو فاعبدون کی ف یہاں کس طرح بول رہی ہے؟ کس طرح اس نے استدلال کا پہلو پکار دیا ہے؟ توحید امت، توحید ربوبیت، توحید عبادت : ایک آیت کے اندر تینوں توحیدں کا بیان جمع ہوگیا : توحید امت، توحید ربوبیت، روحید دین و عبادت۔ اور یہی تین توحیدیں دعوت قرآنی کا اصل الاصول ہیں۔ وہ ہر جگہ انہی کی صدا بلند کرتا ہے اور انہی پر اپنی تعلیم و تذکیر کی ساری بنیادیں استوار کرتا ہے۔ توحید امید سے مقصد یہ ہے کہ افراد انسانی کی کثرت و انتشار کے پردے میں اس کی وحدت چھپی ہوئی ہے۔ اسے نہ بھولو۔ تمہاری نسل، تمہاری وطن، تمہاری بولیاں کتنی ہی الگ الگ ہوگئی ہوں مگر تم سب ایک ہی نسل انسانی کا گھرانا ہو اور تمہارا گروہ اصل میں ایک ہی گروہ ہے۔ توحید ربوبیت سے مقصود یہ ہے کہ تم نے کتنے ہی مختلف نام رکھ لیے ہوں، کتنی ہی مختلف عبادت گاہیں بنا رکھی ہوں، کتنے ہی مختلف تصور گھڑ لیے ہوں، مگر تمہارے پیدا کیے ہوئے اختلافات سے حقیقت مختلف نہیں ہوجاسکتی۔ جس طرح تم سب کا گروہ ایک ہی ہے اس طرح تمہارا پروردگار بھی ایک ہی ہے۔ اس ایک کے سوا اور کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔ توحید عبادت سے مقصود یہ ہے کہ جب گروہ ایک ہی گروہ ہے اور پروردگار ایک ہی پروردگار ہے تو دین بھی ایک ہی ہونا چاہیے۔ وہ ایک سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ پس سچائی کی راہ یہ ہوئی کہ اسی ایک کی بندگی کرو اور اس راہ میں مختلف اور متفرق نہ ہوجاؤ۔ شرط نجات صرف ایمان و عمل ہے : پھر ایک آیت کے اندر صاف صاف واضح کردیا کہ نجات و سعادت کا قانون کیا ہے؟ یعنی قوموں کے اس تقطع اور گروہوں کے اس تفرق کے بعد بھی قانون نجات و سعادت کیا ہے؟ فرمایا وہ ہمیشہ کی طرح اب بھی یہی ہے کہ (فمن یعمل من الصالحات وھو مومن فلا کفران لسعیہ) نجات کی شرط صرف دو باتیں ہیں۔ ایمان اور عمل صالح۔ جس انسان نے نیک عمل کیے اور اس کے اندر ایمان بھی ہوا تو اس کی سعی کبھی رائیگاں جانے والی نہیں۔ ضروری ہے کہ مقبول ہو۔ فمن کے زور پر غور کرو۔ یہودی کہتے تھے کونوا ھودا۔ نصاری کہتے تھے کونوا نصاری۔ قرآن کہتا ہے نہیں فمن یعمل من الصالحات وھو مومن۔ کوئی ہو لیکن اگر وہ مومن ہوا اور اس نے نیک عمل کی راہ اختیار کیا تو اس کا ایمان و عمل کبھی ضائع نہیں ہوسکتا۔ وہ اپنا اجر ضرور پائے گا۔ (وانا لہ کاتبون) یہ ہمارا ٹھہرایا ہوا قانون ہے۔ ہم اس کا ایمان و عمل لکھ دینے والے ہیں۔ پھر کون ہے جو اسے رائیگاں ٹھہرا سکتا ہے؟ دنیا کا ہر انسان ٹھہرا دے لیکن ہمارے دفتر میں وہ ثبت ہوجائے گا۔ کتنا اہم مقام ہے مگر تفسیریں اٹھا کر دیکھو، کس طرح اس کی ساری اہمیت بے محل بحثوں میں ضائع کردی گئی ہے۔ اہمیت کی وضاحت کے لیے یہ سطریں بھی کافی نہیں ہیں لیکن اس سے زیادہ تفصیل کی گنجائش نہیں۔ الأنبياء
93 الأنبياء
94 الأنبياء
95 الأنبياء
96 فتح یاجوج و ماجوج : سورۃ کہف کے آخر میں یاجوج ماجوج کی تحقیق گزر چکی ہے۔ اس سورت کی آیت (٩٦) میں جس خروج کی خبر دی گئی ہے یہ ان کا آخری خروج تھا۔ یعنی منگولی تاتاریوں کا وہ خروج جو چھٹی صدی ہجری میں منگولیا کی بلندیوں سے امنڈا اور پھر آنا فانا تمام مشرق و مغرب پر چھا گیا۔ مشرق میں چین کی تمام مملکت اس نے مسخر کرلی، مغرب میں بحر اسود کے شمالی ساحل سے گزرتا ہوا ڈینیوب کی وادیوں تک پھیل گیا پھر ہنگری و روس پر قابض ہو کر جرمنی کی سرحد تک پہنچ گیا۔ پھر اسلامی ممالک کی طرف متوجہ ہوا اور چھ صدیوں کے اندر اسلامی تمدن نے جو کچھ تعمیر کیا تھا، جیجون سے لے کر دجلہ تک چشم زون میں پامال کردیا۔ (وکان وعدا مفعولا) تعبیر بیان کے بعض دقائق : غور کرو۔ یہاں صرف چند لفظوں کے اندر اس معاملہ کی خصوصیات کس طرح واضح کردی ہیں؟ یاجوج ماجوج کے اس ظہور کو خروج یا اسی طرح کے کسی دوسرے لفظ سے تعبیر نہیں کیا۔ بلکہ فتح کا لفظ استعمال کیا۔ حتی اذا فتحت یاجوج وماجوج۔ عربی میں جب فتح کا لفظ اشیا کے لیے کہا جاتا ہے تو اس کے معنی صرف کھلنے کے ہوتے ہیں۔ مثلا فتح الباب لیکن جب حیوانات کے لیے بولا جاتا ہے تو اس کے معنی صرف کھلنے ہی کے نہیں ہوتے بلکہ کھل کر اچانک نکل پڑنے کے ہوتے ہیں۔ مثلا ٹڈیوں کا دل کسی گوشہ سے نکل پڑتا ہے تو کہتے ہیں فتحت الجراد۔ پس مطلب یہ ہوا کہ یاجوج و ماجوج کسی گوشہ میں الگ تھلگ پڑے ہیں۔ ایک وقت آئے گا کہ اچانک نکل پڑیں گے اور اس طرح نکل پڑیں گے، جیسے مدتوں سے پانی بند پڑا ہو۔ بند ٹوٹ جائے اور ہر طرف سیلاب امنڈ آئے۔ اب دیکھو کس طرح اس ایک لفظ نے معاملہ کی پوری تاریخی نوعیت آشکارا کردی ہے؟ فتنہ تاتار : سورۃ کہف کی تشریحات میں پڑھ چکے ہو کہ ظہور اسلام سے پہلے منگولیا کا آخری قبائلی سیلاب وہ تھا جو چوتھی صدی مسیحی میں مغرب و شمال کی طرف پھیلنا شروع ہوا اور پھر یورپ کے مختلف قطعات میں منقسم ہو کر تھم گیا۔ اس کے بعد قبائل کے نئے سیلابوں کا خروج رک گیا تھا۔ التبہ جو قبائل وسط ایشیا اور سواحل یورال و خزر کے مختلف حصوں میں متوطن ہوگئے تھے ان کی نسل وہاں نشونما پاتی رہی۔ اسلامی فتوحات نے جب ان اطراف کا رخ کیا تو انہی قبائل کو وہاں آباد پایا۔ یہ بتدریج مسلمان ہوتے گئے۔ چنانچہ ترک، کرغز، خزر، قجر، تاجیک، چرکس، کرد، اوبزک، سلجوق وغیرہ سے مقصود یہی قبائل ہیں۔ یہ سب اگرچہ منگولیا کی پچھلی ہجرتوں کا بقایا تھے لیکن اب ان اک کوئی تعلق اپنے وطن قدیم سے نہیں رہا تھا۔ بلکہ ایک دوسرے کو اجنبیوں اور دشمنوں کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اس عرصہ میں منگولیا کا گوشہ بدستور صحرا نشین قبائل کے نئے گروہ پیدا کرتا رہا۔ اب یہ دنیا سے الگ تھلگ تھے، اطراف کے سرحدی قطعات پر لوٹ مار کے لیے نکل جاتے مگر اس سے آگے بڑھنے کی جرات نہ کرتے۔ بعض گروہ جنوب میں پنجاب تک اور مغرب میں بلخ و ماوراء لنہر تک بھی پہنچ گئے، اور ایک قبیلہ کی ترکتنازیاں تو بنارس تک پہنچ گئی تھیں۔ لیکن جیسے قبائلی سیلاب پہلے اٹھ چکے تھے ویسا کوئی سیلاب اب نہ اٹھ سکا۔ تمام قبائلی مواد منگولیا میں سمنٹا اور بندھا رہا۔ لیکن چھٹی صدی ہجری میں ایک طرف تو ان کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی دوسری طرف ایک غیر معمولی عزم و استعداد کا قائد بھی پیدا ہویا۔ یہ مشہور منگولی قائد چنگیز خاں تھا۔ اس نے تمام منتشرقبائل کو ایک رشتہ اطاعت میں منظم کردیا اور اس طرح ایک عظیم الشان عسکری قوت پیدا ہوگئی۔ اب یہ قتل و غارت کا ایک ایسامنظم سیلاب تھا جسے دنیا کی کوئی انسانی قوت روک نہیں سکتی تھی۔ چنگیز خان کے بیٹے اوکتائی خان کے عہد میں اس سیلاب کا بند ٹوٹا اور پھر اچانک اس طرح ہر طرف پھیل گیا۔ گویا دنیا اپنی بربادی کے لیے صرف اسی بند کے ٹوٹنے کی منتظر تھی۔ اسکے بعد فرمایا (من کل حدب ینسلون) حدب کے معنی کسی چیز کا اٹھا ہوا اور ابھرا ہوا ہونا ہے۔ چنانچہ زمین کے مرتفع حصوں کو حدبۃ الارض کہتے ہیں۔ ای کل اکمۃ من الارض مرتفعہ۔ نسل کے معنی تیزی کے ساتھ دوڑنے کے ہیں، بھیڑیے کے لپکنے کو نسلان الذئب کہیں گے۔ پس مطلب یہ ہوا کہ وہ زمین کے تمام مرتفع حصوں سے دوڑتے ہوئے آگریں گے۔ غور کرو، تاتاریوں کے حملے کی یہ کیسی مکمل تصویر ہے ؟ تمام مورخ متفق ہیں کہ ان کے خروج کی سب سے بڑی خصوصیت یہی تھی۔ ان کا ظہور منگولیا میں ہوا جو کرہ ارضی کی سطح مرتفع ہے۔ مشرق کی طرف بڑھے تو یہ بھی بلندی سے اترنا تھا۔ مغرب کی طرف چلے تو یہ بھی بلندی سے اترنا تھا۔ پھر شمال میں روش تک پہنچ گئے اور جنوب میں تمام مغربی ایشیا کے میدانوں پر چھا گئے۔ یہ بھی بلندیوں سے گرنا ہی تھ کیونکہ وسط ایشنا کی بلندیوں پر نمودار ہوئے اور پھر شمال و جنوب کے زیریں میدانوں پر ٹوٹ پڑے۔ پھر ان کے ظہور کے لیے ینسلون کا لفظ کس درجہ موزوں واقع ہوا ہے؟ ان کی شب و روز کی زندگی منگولیا کے بادرفتار گھوڑوں کی پیٹھ پر بسر ہوتی تھی اور سوسومیل تک بغیر دم لیے چلے جاتے تھے۔ جب ان کے جتھے اسلامی ملکوں پر گرے تو ان کی برق رفتاری کا یہ حال تھا کہ ایک شہر کی تباہی کی خبر دوسرے شہر تک پہنچنے نہیں پاتی تھی کہ وہ خود اس کے دروازے پر نمودار ہوجاتے تھے۔ علمائے عہد کی تصریحات : یہی وجہ ہے کہ اس عہد کے اکثر اصحاب نظر ان کی حالت دیکھتے ہیں بے اختیار پکار اٹھے کہ یاجوج و ماجوج کا موعود خروج یہی ہے۔ امام ذہبی نے تاریخ میں متعدد علماء کا یہ تاثر نقل کیا ہے اور حاظ علم الدین برزالی نے تاریخ دمشق میں اور مقریزی نے درر المئیہ میں تصریح کی ہے کہ اس عہد میں ایک کثیر جماعت اہل علم کی اس فتنہ کو فتح یاجوج و ماجوج قرارد یتی تھی۔ نیز حافظ سیوطی نے اپنے رسالہ فضائل بنی عباس میں مقریزی کے ایک رسالہ ماورد فی بنی امیہ وبنی العباس من الروایات والاقوال کا حوالہ دیا ہے اور اس سے یہی قول نقل کیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے جد مجد الدین ابن تیمیہ صاحب منتقی کہا کرتے تھے۔ اگر یہ خود یاجوج ماجوج نہیں ہیں تو ظاہر ہونے والے یاجوج ماجوج ایسے ہی ہوں گے صاحب تاریخ گزیدہ نے بھی دبے لفظوں میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔ فتح سے مقصود کسر سد نہیں ہے : ہمارے مفسروں نے چونکہ سد ذوالقرنین کی تعمیر کا مطلب یہ سمجھ رکھا تھا کہ جس طرح قیدیوں کو دیوار چن کر بند کردیتے ہیں اسی طرح ذوالقرنین نے یاجوج و ماجوج کو بند کردیا ہے اس لیے یہاں فتحت کا لفظ دیکھ کر جھٹ انہوں نے یہ مطلب ٹھہرا دیا کہ جب دیوار کھل جائے گی اور یاجوج ماجوج آزاد ہو کر نکل پڑیں گے، حالانکہ نہ تو سد سے مقصود قید خانہ کی دیواریں ہیں اور نہ یاجوج ماجوج سے مقصود بھیڑوں کا کوئی گلہ ہے جسے باڑ کھینچ کر بند کردیا گیا ہو۔ دنیا میں اس طرح کوئی کسی قوم کو دیواروں میں چن نہیں دے سکتا، ذوالقرنین کے زمانہ میں یاجوج ماجوج کا حملہ ایک خاص راہ سے ہوتا تھا۔ دوسری راہیں ان پر نہیں کھلی تھیں اس لیے اس نے سد تعمیر کر کے اسے بند کردیا اور صدیوں تک کے لیے ملک محفوظ ہوگیا، اسی طرح چینیوں نے بارہ سو میل لمبی دیوار تعمیر کر کے شمال اور مغرب کی ساری سرحد بند کردی۔ لیکن اب یہ دونوں رکاوٹیں بیکار ہوگئی تھیں کیونکہ چین کے لیے جنوب کی راہ اور مغربی ایشیا کے لیے خراسان کی راہ کھل گئی تھی۔ والقصہ بطولھا۔ فتح یاجوج اور تاریخ اسلام : اس واقعہ نے تاریخ اسلام کو دو بڑی قسموں میں منقسم کردیا ہے، قبل از فتنہ تاتار اور بعد از فتنہ تاتار، پہلے عہد کی تمام دینی، تمدنی، ذہنی اور عملی خصوصیات دوسرے عہد میں یک قلم معدوم ہوگئیں۔ پہلا عہد صڑف عروج ہی کا عہد نہ تھا بلکہ تنزل کا بھی تھا۔ تاہم مسلمانوں کے فکر و عمل کی جو معنوی روح اوائل میں پیدا ہوگئی تھی وہ کسی نہ کسی شکل میں کم و بیش قائم تھی، لیکن اس فتنہ نے پچھلا دور بالکل ختم کردیا اور عالم اسلامی کی خون آلود سرزمین سے جو نیا دور بنا، وہ ہر اعتبار سے ایک مختلف اور متضاد دور تھا اور سر تا سر عہد تنزل کی پیداوار، آج مسلمانوں کے فکر وعمل کا جو ڈھانچا نظر آرہا ہے۔ یہ اسی دور کی پیدوار ہے۔ اس انقلاب حال کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ عربی خلافت کا بکلی خاتمہ ہوگیا۔ عربی خلافت اس سے پہلے بھی خلافت نہیں رہی تھی، خلافت کا محض سایہ تھی۔ تاہم سایہ باقی تھا اور وہ اصلیت کی یاد تازہ کرتا رہتا تھا۔ لیکن سقوط بغداد سے یہ سایہ بھی معدوم ہوگیا۔ حضرت زینب بنت جحش : بخاری کی حدیث زینب بنت جحش میں اس صورت حال کی طرف صاف صاف اشارہ موجود ہے۔ استیقظ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محمرا وجھہہ، یقول لا الہ الا اللہ ویل للعرب من شر قد اقترب، فتح الیوم من ردم یاجوج وماجوج مثل ھذہ (وعقد سفیان تسعین او مائۃ) قیل انھلک وفینا الصالحون؟ قال نعم اذا کثر الخبث۔ یعنی آنحضرت ایک دن سو کر اٹھے تو ان کا چہرہ مبارک شدت تاثر سے سرخ ہوریہا تھا اور فرما رہے تھے لا الہ الا اللہ ! اس شر سے جو قریب آگیا۔ عرب کے لیے افسوس ! آج یاجوج ماجوج کی روک کھل گئی، پھر انگلیوں سے حلقہ بنا کر بتلایا کہ ابھی صرف اتنی راہ کھلی ہے۔ یہ حلقہ روپیہ کے برابر یا اس سے کچھ چھوٹا تھا۔ آخری راوی کو اس بارے میں شبہ پڑگیا، بہرحال مطلب یہ تھا کہ ابھی صرف رخنہ پڑا ہے، پوری راہ نہیں کھلی۔ اس پر عرض کیا گیا کیا ہم ہلاکت میں پڑجائیں گے حالانکہ ہم میں صالح انسان بھی ہوں گے؟ فرمایا جب گندی بڑھ جائے گی۔ اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں : اولا : آنحضرت کے زمانے میں یعنی ساتویں صدی مسیحی میں یاجوج و ماجوج کی روک کھلنا شروع ہوگئی تھی لیکن اتنی نہیں کھلی تھی کہ قدم باہر بڑھا سکیں، یہ حقیقت خواب میں اس طرح دکھائی گئی جیسے ایک دیوار ہے اور اس میں ذرا سا سوراخ بن گیا ہے۔ چنانچہ تاریخ اس کی ہوبہو تصدیق کرتی ہے۔ ٹھیک یہی زمانہ ہے جب منگولی قبائل نے اس راہ کے علاوہ جسے ذوالقرنین بند کرچکا تھا، ایک دوسری راہ کا سراغ پالیا، یعنی بحر خزر اور بحر اسود کی درمیان راہ کی جگہ بحیرہ یورال اور بحر خزر کا درمیانی راستہ۔ چھٹی صدی میں تاتاریوں کے بعض قبائل اس طرف بڑھ آئے اور دریائے جیحوں کی وادیوں میں آباد ہوئے۔ ثانیا یاجوج ماجوج کے ظہور میں عرب کے لیے ہلاکت تھی، کیونکہ ویل للعرب فرمایا للسملمین نہیں فرمایا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو نسل عربی اقتدار و عروج کے انقراض کا باعث ہوئی وہ یہی منگولی نسل ہے اور اس لیے یقینا یاجوج ماجوج سے مقصود یہی نہیں تھی۔ عربی اقتدار کی ہلاکت کی ابتدا بھی اسی نسل کی مختلف شاخوں سے ہوئی۔ یعنی ترکوں اور سلجوقیوں سے اور انتہا بھی اسی کے نئے ظہور سے ہوئی۔ یعنی منگولی تاتاریوں سے۔ تاریخ کی ایک ناقابل فراموش عبرت : اس باب میں بہت سے امور تفصیل طلب ہیں لیکن یہاں مزید اطناب کا موقع نہیں، البتہ تذکیر و عبرت کے لیے ایک تاریخی حقیقت یاد رکھنی چاہیے۔ اسلام کا مورخ کبھی اس وقعہ کے ماتم سے فارغ نہیں ہوسکتا کہ تاتاریوں کی ابتدائی تاخت اور آخری تاخت دونوں کا باعث خود مسلمانوں کی فرقہ بندی اور اس کی جاہلی عصبیت ہوئی۔ یعنی بربادی کا پہلا دروازہ حنیفوں اور شافعیوں کے باہمی جدال سے کھلا اور بربادی کی آخری تکمیل یعنی بغداد کا قتل عام سنیوں اور شیعوں کے اختلاف کا نتیجہ تھا۔ چنگیز خاں نے وسط ایشیا کا بالائی علاقہ خوارزم تک (یعنی خیوا تک) فتح کرلیا تھا لیکن اس سے آگے قدم نہیں بڑھا سکا تھا۔ بعد کو جب اس کے پوتوں میں سلطنت تقسیم ہوئی تو وسط ایشیا اور اس کے ملحقات ہلاکو خان کے زیر حکومت آئے۔ لیکن اسے بھی آگے بڑھنے کی جرات نہیں ہوئی کیونکہ اسلامی مملکتوں کی کوشش صد سالہ عظمت کا رعب ابھی تک دلوں سے محو نہیں ہوا تھا۔ مگر اس اثنا میں اچانک ایک واقعہ ایسا پیش آگیا جس نے خودبخود ہلاکو کے آگے فتح و تسخیر کی راہیں کھول دیں۔ خراسان میں حنفیوں اور شافعیوں میں باہمی جنگ و جدال کا بازار گرم تھا۔ طوس کے حنفیوں نے شافعیوں کی ضد میں آکر ہلاکو کو حملہ کی دعوت دی اور شہر کے دروازے کھول دیے، پھر جب تاتاریوں کی تلوار چمک گئی تو اس نے نہ حنفیوں کو چھوڑا نہ شافعیوں کو۔ دونوں کا خاتمہ کردیا۔ خراسان کی تسخیر نے بغداد کی شاہراہ کھول دی تھی۔ پھر بھی ہلاکو اس کی جرات نہ کرسکا کہ عباسی دار الخلافہ پر حملہ کرے لیکن اب پھر خود مسلمانوں کے باہمی قتال نے اسے بلاوا بھیجا۔ بغداد سنیوں اور شیعوں کے باہمی پیکار کا میدان جنگ بن چکا تھا۔ خلیفہ مستعصم کا وزیر ابن علقمی شیعہ تھا اور سنیوں کے ہاتھوں اذیتیں برداشت کرچکا تھا، اس نے خواجہ نصیر الدین طوسی کے ذریعہ سے (کہ ہلاکو کا وزیر اور معتمد تھا) ہلاکو کو بغداد آنے کی ترغیب دی اور اس طرح تاریخ اسلام کی سب سے بڑی بربادی اپنی آخرت تکمیل تک پہنچ گئی۔ یہی معنی ہیں سورۃ انعام کی اس آیت کے جس میں جماعتی زندگی کے عذابوں میں سے ایک عذاب یہ بتلایا ہے کہ کسی ایک جماعت کا مختلف جماعتوں میں متشیع اور متحزب ہوجانا اور پھر ہر گروہ کا دوسرے گروہ کو اپنی شدت کا مزہ چکھانا (قل ھو القادر علی ان یبعث علیکم عذاب من فوقکم او من تحت ارجلکم او یلبسکم شیعا ویذیق بعضم باس بعض) تاریخی حیثیت سے یہ واقعہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ چنگیز خاں کو خوارزم پر حملہ کرنے کی ترغیب خود خلیفہ الناصر الدین اللہ عباسی نے دی تھی، کیونکہ سلجوقیوں کے بعد خوارزم شاہیوں کا اقتدار قائم ہویا تھا، خلیفہ بغداد اس اقتدار کی وجہ سے سخت ضیق میں تھا۔ چنگیز خان کا نام تیموجن تھا۔ ٦٠١ ھ مطابق ١٢٠٦ ء میں اس نے چنگیز خاں کا شہنشاہی لقب اختیار کیا، ٦١٤ ھ مطابق ١٢١٩ ء میں خوارزم فتح کرلیا۔ سال وفات ٦٢٢ ھ مطابق ٢٢٧ ء ہے۔ اس کے بعد اس کا بیٹا اوکتائی خان جانشین ہوا۔ اوکتائی کے بعد منکو، منکو کے بعد قبلائی، قبلائی کے بھائی ہلاکو کے حصہ میں وسط ایشیا کی فرمانروائی آئی۔ اسی نے ٦٥٦ ھ مطابق ١٢٥٨ ء میں بغداد پر حملہ کیا اور عربی خلافت کا آخری نقش قدم بھی مٹ گیا۔ الأنبياء
97 الأنبياء
98 الأنبياء
99 الأنبياء
100 الأنبياء
101 الأنبياء
102 الأنبياء
103 الأنبياء
104 الأنبياء
105 قانون وراثت ارض ؛ آیت (١٠٥) سے آخرت تک سورت کے مواعظ کا خاتمہ ہے۔ فرمایا (ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصالحون) ہم نے زبور میں اپنے اس مقرر قانون کا اعلان کردیا تھا کہ زمین کے وارث خدا کے صالح بندے ہوتے ہیں۔ یعنی جماعتوں اور قوموں کے لیے یہاں یہ قانون الہی کام کر رہا ہے کہ انہی لوگوں کے حصہ میں ملک کی فرمانروائی آتی ہے جو صالح ہوتے ہیں۔ صلح کے معنی سنورنے سنوارنے کے ہیں۔ فسد کے معنی بگڑنے بگاڑنے کے، صالح انسان وہ ہے جو اپنے کو سنوار لیتا ہے اور دوسروں کو سنوارنے کی استعداد پیدا کرلیتا ہے، اور یہی حقیقت نیک عملی کی ہے۔ مفسد وہ ہے جو بگاڑ میں پڑتا اور بگاڑ نے والا ہوتا ہے اور یہی حقیقت بدعملی کی ہے۔ پس قانون یہ ہوا کہ زمین کی وراثت سنورنے سنوارنے والوں کی وراثت میں آتی ہے۔ ان کی وراثت میں نہیں جو اپنے اعتقاد و عمل میں بگڑ جاتے ہیں اور سنوارنے کی جگہ بگاڑنے والے ہوتے ہیں۔ زبور کا اعلان : زبور کا جو مجموعہ آج ہے اس کے بے شمار ترانوں میں یہ حقیقت صاف صاف بول رہی ہے۔ مثلا زبور ٣٧ میں ہے۔ بد عملی کاٹ ڈالے جائیں گے۔ مگر وہ جو خداوند کی بات کی راہ دیکھتے ہیں زمین کو میراث میں لے لیں گے۔ قریب ہے کہ شریر نابود ہوجائے۔ تو اس کا ٹھکانا ڈھونڈے اور نہ پائے۔ پر وہ جو حلیم ہیں زمین کے وارث ہوں گے اور ہر طرح کی راحتوں سے خوش دل ہوں گے۔ انسانی زندگی سرتاسر ارث و میراث ہے : تورات، انجیل اور قرآن، تینوں نے زمین کی وراثت کی ترکیب جابجا استعمال کی ہے اور غور کرو، یہ ترکیب صورت حال کی کتنی سچی اور قطعی تعبیر ہے ؟ دنیا کے ہر گوشہ میں ہم دیکھتے ہیں، ایک طرح کی بدلتی ہوئی میراث کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے۔ یعنی ایک فرد اور ایک گروہ طاقت و اقتدار حاصل کرتا ہے، پھر وہ چلا جاتا ہے اور دوسرا فرد اور گروہ اس کی ساری چیزوں کا وارث ہوجاتا ہے۔ حکومتیں کیا ہیں؟ محض ایک ورچہ ہیں جو ایک گروہ سے نکلتا اور دوسرے کے حصہ میں آجاتا ہے۔ اگر زمین کا کوئی ایک قطعہ سامنے رکھ لو اور جس وقت سے اس کی تاریخ روشنی میں آئی ہے اس کے حالات کا کھوج لگاؤ تو تم دیکھو گے اس کی پوری تاریخ کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ارث و میراث کی ایک مسلسل داستان ہے۔ ایک قوم قابض ہوئی، پھر مٹ گئی، دوسری اس کی وارث ہوگئی پھر اس کے لیے بھی مٹنا ہوا اور تیسرے وارث کے لیے جگہ خالی ہوگئی۔ وھلم جرا۔ پس قرآن کہتا ہے۔ یہاں ارث و میراث کے سوا اور کچھ نہیں۔ اب سوچنا یہ چاہیے کہ جو ورثہ چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں، کیوں ہوتے ہیں؟ اور جو وارث ہوتے ہیں کیوں وراثت کے حقدار ہوجاتے ہیں؟ فرمایا اس لیے کہ یہاں خدا کا ایک اٹل قانون کام کررہا ہے : (ان الارض یرثھا عبادی الصالحون) وراثت ارضی کی شرط اصلاح و صلاحیت ہے۔ جو صالح نہ رہے ان سے نکل جائے گی۔ جو صالح ہوں گے ان کے ورثہ میں آئے گی۔ (ولن تجد لسنتۃ اللہ تبدیلا) الأنبياء
106 عابدین حق کے لیے پیغام : اس کے بعد فرمایا (ان فی ھذا لبلاغا لقوم عابدین) اس بات میں عبادت گزار ان حق کے لیے ایک بڑا پیام حقیقت مضمر ہے۔ یعنی اس قانون الہی کے تذکرہ میں ان کے لیے وراثت ارضی کا پیام ہے کہ (وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم ولیمکنن لھم دینھم الذی ارتضی لھم ولیبدلنھم من بعد خوفھم وامنا) جس طرح ان سے پہلے خدا کے صالح بندوں کی وراثت میں زمین آچکی ہے، اسی طرح عنقریب ان کی وراثت میں بھی آنے والی ہے۔ اور پھر یہ انقلاب کیوں ہونے والا ہے؟ اس لیے کہ (ما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین) پیغمبر اسلام کا ظہور کرہ ارضی کے لیے رحمت الہی کا ظہور ہے۔ پس ضروری ہے کہ انسانی شقاوت کا خاتمہ ہو۔ ضروری ہے کہ اس کی جگہ رحمت الہی کا سایہ کرہ ارضی پر چھا جائے۔ اس کے بعد واضح کردیا کہ پیغمبر اسلام کی دعوت کا ماحصل کیا ہے؟ (انما الھکم الہ واحد فھل انتم مسلمون؟) باقی رہی یہ بات کہ یہ انقلاب حال کب ظہور میں آنے والا ہے؟ تو (ان ادری، قریب ام بعید ما توعدون) میں جانتا ہوں کہ یقینا ایسا ہونے والا ہے۔ لیکن ابھی اس میں کچھ دیر ہے یا بالکل سامنے آگیا؟ یہ میں نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ اس بارے میں بھی اللہ کے مقررہ قوانین ہیں اور وہ کام کر رہے ہیں۔ (وان ادری لعلہ فتنۃ لکم و متاع الی حین) کون جانتا ہے ہوسکتا ہے کہ جو تاخیر ہورہی ہے وہ اس لیے ہو کہ تمہیں ابھی کچھ دنوں اور آزمائش میں ڈالنا ہے۔ یا اس لیے کہ تمہارے تمتع حیات کے کچھ دن ابھی باقی ہیں۔ یہ سورت کا کتنا اہم مقام ہے ؟ سورت کے تمام بیانات کس طرح کی سب سے بڑی موعظت پر ختم ہورہے ہیں؟ اور پھر کیسی فیصلہ کن بات ہے جس میں مومنین صالحین کے لیے پیام اقبال اور منکرین مفسدین کے لیے پیام ادبار ہے؟ لیکن تفسیریں اٹھا کر پڑھو۔ ہمارے مفسر اس تیزی سے نکل گئے ہیں گویا رکنے اور نظر و تدبر سے کام لینے کی اس میں کوئی بات نہیں ہے۔ الأنبياء
107 رحمۃ للعالمین : یہاں پیغمبر اسلام کے ظہور کا ایک ایسا وصف بیان کیا گیا ہے جو قرآن کے بیان کردہ اوصاف میں سب سے زیادہ اہم اور نمایاں ہے۔ یعنی رحمۃ للعالمین یہ ظہور صرف کسی ایک ملک، کسی ایک قوم، کسی ایک نسل ہی کے لیے ہے بلکہ تمام دنیا کے لیے رحمت کا ظہور ہے۔ یہ وصف بیان کر کے قراان نے ایک کسوٹی ہمارے حوالہ کردی ہے۔ اس پر ہم اس ظہور کی ساری صداقتیں پرکھ سکتے ہیں َ اگر یہ فی الحقیقت تمام نوع انسانی کے لیے رحمت کا ظہور ثابت وہا ہے تو اس کی سچائی میں کوئی شک نہیں، اگر ایسا نہیں ہوا ہے تو پھر سچائی نے قرآن کا ساتھ نہیں دیا۔ ہمارا فرض ہے کہ حقیقت کا حقیقت کے لیے اعتراف کرلیں۔ یہ جانچ تاریخ کی بے لاگ اور بے رحم جانچ ہونی چاہیے۔ ہر طرح کی مزہبی خوش اعتقادیوں سے منزہ، ہر طرح کی خود پرستانہ طرف داریوں سے پاک، کیونکہ یہاں حقیقت کی عدالت موجود ہے اور وہ صرف حقیقت ہی کی شہادت پر کان دھرتی ہے ؟ تاریخ کا فیصلہ : جہل و تعصب نے ہمیشہ اعلان حقیقت کی راہ روکنی چاہی ہے لیکن روک نہیں سکی ہے۔ اس فیصلہ میں بھی تاریخ نے دیر لگائی لیکن بالآخر اسے کرنا پڑا۔ ضروری ہے کہ یہ فیصلہ خود اسی کی زبانی سنا جائے اور ایک معقتد کی طرح نہیں بلکہ ایک مورخ کی طرح عالم انسانیت کے ایک ایک گوشہ سے شہادت طلب کی جائے۔ افسوس ہے کہ اس وقت تک کوئی کوشش ایسی نہیں کی گئی جو اس موضوع پر علمی حیثیت سے وقیع سمجھی جاسکے۔ ہم نے مقدمہ تفسیر میں اس کی کوشش کی ہے اور ایک خاص باب کا موضوع بحث یہی مسئلہ ہے۔ یہاں اتنی تفصیل کی گنجائش نہیں اور اختصار مفید مدعا نہیں، اس لیے مجبورا قلم روک لینا پڑتا ہے۔ الأنبياء
108 حضرت ابراہیم کی بت شکنی کا واقعہ : سورت کی تشریحات ختم ہوگئیں مگر ایک نہایت اہم مبحث باقی رہ گیا ہے۔ یعنی حضرت ابراہیم کی بت شکنی کا واقعہ جو آیت (٥٧) سے (٦٧) تک بیان کیا گیا ہے۔ عام طور پر مفسروں نے یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ حضرت ابراہیم نے تین موقعوں پر ایسی بات کہی جس پر بظاہر جھوٹ کا اطلاق ہوسکت اہے۔ اس میں سے ایک موقع یہ ہے کہ جب ان سے پوچھا گیا : ءانت فعلت ھذا۔ کیا تو نے بتوں کو توڑا ہے؟ تو انہوں نے کہا : بل فعلہ کبیرھم ھذا۔ بلکہ اس بڑے بت نے ایسا کیا۔ حالانکہ فی الحقیقت فعل خود انہی کا تھا۔ اس بارے میں استدلال صحاح کی ایک روایت سے کیا جاتا ہے لیکن سب سے پہلے ہمیں خود اس مقام پر تدبر کرنا چاہیے کہ کیا فی الحقیقت یہاں کوئی ایسا واقعہ بیان کیا گیا ہے جس سے حضرت ابراہیم کا جھوٹ بولنا ثابت ہوتا ہو؟ خواہ وہ جھوٹ کسی درجہ اور کسی نوعیت کا ہو۔ کیا حضرت ابراہیم نے جھوٹ بولا اتھا؟ حقیقت یہ ہے کہ تفسیر قرآن کی تاریخ کی بو العجمیوں میں اس سے بڑھ کر اور کوئی ناقابل توجیہ بو العجمی نہیں۔ قرآن میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے اس اصدق الصادقین کا جھوٹ بولنا نکلتا ہو۔ لیکن بہ تکلف ایک آیت کو توڑ مروڑ کر ایسا بنایا جارہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح جھوٹ بولنے کی بات بن جائے۔ اور اثبات کذب کی یہ مبارک کوشش کیوں کی جارہی ہے؟ صرف اس لیے کہ ایک مزعومہ حدیث موجود ہے۔ پس کہیں یہ قیامت نہ ٹوٹ پڑے کہ اس کے غیر معصوم راویوں کی روایت کمزور مان لینی پڑے۔ گویا اصل اس باب میں غیر معصوم راویوں کا تحفظ ہے، نہ کہ معصوم رسولوں کا اور اگر قرآن میں اور کسی روایت میں اختلاف واقع ہوجائے تو قرآن کو روایت کے مطابق بننا پڑے گا۔ راوی کی شہادت اپنی جگہ سے کبھی نہیں ہل سکتی۔ اب غور کرو یہاں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ خود قرآن کے صاف صاف لفظوں میں کیا ہے ؟ شہر اور کی بت پرستی : سرزمین دجلہ و فرات میں نینوا اور بابل سے پہلے جو شہر آباد ہوئے ان میں ایک شہر اور تھا یہ جنوبی عراق میں فرات کے کنارے آباد تھا۔ اور محل وقوع وہ مقام تھا جو آج کل تل العبید کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کی تنقیب و تحقیق کا سلسلہ ابھی جاری ہے لیکن جس قدر آثار و کتبات روشنی میں آچکے ہیں ان سے باشندگان شہر کے عقائد و اعمال کے بہت سے گوشے واضح ہوچکے ہیں۔ یہاں بت پرستی کی وہ ساری بنیادیں استوار ہوچکی تھیں جو آگے چل کر نینوا اور بابل میں زیادہ وسیع اور منظم شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ پرستش کا مبداء کواکب تھے، سب سے بڑا بت شمس کا تھا، یعنی شمس (سورج) کا۔ اس کے نیچے بہت سے بت مختلف طاقتوں یا مختلف قبیلوں اور آبادیوں کے تھے، خود شہر اور کا محافظ خدا نانعا رتھا، یعنی چاند۔ تل العبید کے ٹیلہ میں جس مندر کے آثار ملے ہیں، یقین کیا جاتا ہے کہ وہ نانعار کا مندر تھا۔ مندر کے خاص پجاریوں اور محافظوں کا ممتاز گروہ بھی پیدا ہوچکا تھا۔ اور انہیں دینی ریاست پیشگی (Priest hood) کی نوعیت حاصل ہوگئی تھی۔ آزر نام نہیں، لقب تھا : حضرت ابراہیم کا ظہور اسی شہر میں ہوا، ان کے والد تارخ کا بچپنے ہی میں انتقال ہوگیا تھا۔ چچا نے پرورش کی تھی اور چونکہ وہ مندر کے پجاریوں میں سے تھا اس لیے آدار کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ آدار قدیم کالدی زبان میں بڑے پجاری یا محافظ معبد کو کہا کرتے تھے۔ یہی آدر ہے جس نے بعد کی عربی میں آذر کی شکل اختیار کرلی اور اسی لیے قرآن نے اس کا ذکر آزر کے نام سے کیا۔ حضرت ابراہیم کا گھرانا : حضرت ابراہیم نے جب آنکھ کھولی تو خود اپنے گھر میں بت پرستی پائی۔ لیکن اللہ نے سچائی کی حجتوں اور دلیلوں کی وحی سے ان کا قلب سلیم اس طرح معمور کردیا تھا کہ نہ تو قوم و وطن کی جہالت و گمراہی اسے چھو سکی نہ خود اپنے عزیزوں اور بزرگوں کا اعتقاد راسخ اسے متاثر کرسکا۔ انہوں نے پہلے اپنے گھرانے میں تبلیغ کی، پھر تمام قوم کو پیام حق پہنچایا۔ دعوت و تبلیغ حق : انہوں نے پہلے شرک و برت پرستی کے خلاف عقل سلیم کی حجتیں اور وجدان صادق کی شہادتیں پیش کیں : (وتلک حجتنا اتینھا ابراہیم الذین علی قومہ نرفع درجات من نشاء ان ربک حکیم علیم) لیکن پھر دیکھا کہ آباؤ اجداد کی تقلید کی ظلمت اس طرح دلوں پر چھا گئی ہے کہ عقل بینش کی کوئی روشنی بھی انہیں دکھائی نہیں دیتی۔ ہر حجت و آیت کا جواب ان کی زبانوں سے یہی نکلتا ہے کہ (وجدنا اباءنا لھا عابدین) نیز انہوں نے دیکھا ایک عرصہ کے تعامل و توارث نے لوگوں کی عقلیں یکسر مفلوج کردی ہیں۔ بتوں کے روحانی اقتدار و تصرف کا عقیدہ ان کی رگ رگ میں سرایت کرگیا ہے۔ ان کی سمجھ میں یہ بات آہی نہیں سکتی کہ الوہیت و قد وسیت کی یہ متمثل روحانیتیں جو طرح طرح کے روایتی معجزوں اور الہامی اچنبھوں کا سرچشمہ چلی آتی ہیں محض بے اختیار مورتیاں ہوجائیں اور جو حقیقت ہمارے آباؤاجداد اور ان کے آباؤ اجداد نہ پاسکے، وہ کل کا ایک نوجوان لڑکا پالے۔ چنانچہ وہ ان کی دعوت و تبلیغ کا تمسخر اڑاتے اور کہتے : (اجئتنا بالحق ام انت من اللاعبین) فی الحقیقت تمہارا ایسا ہی عقیدہ ہے یا ہم سے ہنسی تمسخر کرر ہے ہو؟ یعنی بتوں کی عظمت اور ان کے روحانی اقتدار و تصرف کی ہیبت دلوں پر اس طرح چھائی ہوئی تھی کہ اس کے خلاف کسی کا بے دھڑک زبان کھولنا ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا۔ وہ حضرت ابراہیم کی باتیں سنتے تو متعجب ہو کر کہتے : تمہارے ہوش و حواس کہاں گئے؟ تم سنجیدگی سے ایک بات کہہ رہے ہو یا ہم سے مزاح کر رہے ہو؟ ان کا محسوس کرنا کہ مقلدین جہل کے لیے دلائل بیکار ہیں : جب ابنائے قوم کے جہل و کوری کی یہ حالت دکھائی دی تو حضرت ابراہیم نے محسوس کیا، حجتوں اور دلیلوں کی روشنی ایسے لوگوں کے لیے بالکل بیکار ہے، ان کے دلوں میں بتوں کے اقتدار و تصرف کا وہم اعتقاد بن کر جم گیا ہے۔ جب تک اس پر چوٹ نہیں لگے گی ان کی آنکھیں کھلنے والی نہیں۔ پس ضروری ہے کہ اعلان حقیقت کے لیے ایک دوسرا طیرقہ اختیار کیا جائے اور وہ طریقہ ایسا ہو کہ میری دلیلوں اور موعظوں کی روشنی سے نہیں بلکہ خود اپنی اندھی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ صدیوں کی یہ گھڑٰ ہوئی عظمتیں اور نسلوں کی مانی ہوئی معبودیتیں بے اختیار مورتیوں اور بے جان پتھروں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ اور انسانوں کی کسی بڑی تعداد کا کسی بڑٰ مدت تک ایک بات مان لینا اور کے جانا سچائی کا ثبوت نہیں۔ سچائی کا ثبوت صرف عقل سلیم کی حجت ہے۔ قیام حجت کا عملی طریقہ : یہ طریقہ کیا تھا؟ یہ تھا کہ انہوں نے تمام لوگوں کو کھلا کھلا چیلنج دے دیا : (تاللہ لاکیدن اصنامکم بعد ان تولوا مدبرین) یعنی اگر عقل کی کوئ دلیل بھی تمہارے لیے سود مند نہیں، تم اپنے اس وہم باطل میں جمے ہوئے ہو کہ یہ مورتیاں طاقت و تصرف رکھتی ہیں تو اچھا، خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو، نتیجہ کیا نکلتا ہے، جونہی تم آج اپنے بڑے میلہ میں گئے میں تمہارے ان بتوں کے ساتھ ایک داؤ کھیلوں گا اگر فی الحقیقت ان میں طاقت و تصرف ہے تو وہ کوئی معجزہ دکھا کر اپنے کو بچا لیں۔ یا میرے ہاتھ پاؤں شل کردیں۔ جب ایک جماعت تقلید و وہم پرستی میں اس درجہ ڈوب جائے کہ عقل و بصیرت کی کوئی بات بھی اس کے اندر نہ اتر سکے تو پھر اقناع فکر کی صرف یہی ایک راہ رہ جاتی ہے کہ ان کی عقل کی جگہ ان کے حواس کو مخاطب کیا جائے اور کوئی ایسی بات کر کے دکھا دی جائے جس سے ان کی ساری وہم پرستیوں کا بطلان ہوجائے۔ مثلا ایک بچہ چڑیا کو دیکھ کر ڈرنے لگتا ہے تم ہزار اسے سمجھاؤأ کہ چڑھا کاٹتی نہیں لیکن وہ ماننے والا نہیں۔ اب ایک دانشمند آدمی کیا کرے گا؟ یہ کرے گا کہ دلیلوں کی جگہ مشاہدہ سے کام لے گا۔ وہ اپنی انگلی چڑھا کی چونچ میں ڈال دے گا اور پھر نکال کر بچہ کو دکھا دے گا کہ دیکھ لے اس نے کاٹا ہے یا نہیں کاٹا ہے۔ یہ ایک مشاہدہ بچہ کے اندر جس درجہ یقین پیدا کردے گا وہ ایک سو آدمیوں کی ایک ہزار دلیلوں سے بھی پیدا نہیں ہوسکتا۔ یہی حال عقول فاسدہ کا ہے، تم ان کی عقل و فکر سے کچھ نہیں پاسکتے۔ لیکن تم انہیں مشاہدہ کے ذریعہ سے عاجز کردے سکتے ہو۔ حضرت ابراہیم نے بالآخر یہی طریقہ اختیار کیا۔ انہوں نے کہا، جس حقیقت کو تم عقل و فکر سے نہیں پاسکے میں تمہارے مشاہدہ میں لاکر خود تمہاری زبانوں سے الگوا لوں گا۔ تمہارے دل میں یہ بات جمی ہوئی ہے کہ ان میں طاقت و تصرف ہے، اچھا میں ان پر ہاتھ اٹھاتا ہوں، اب اگر سچ مچ کو ان میں اختیار و تصرف ہے تو یہ اپنے سارے معجزے لے کر نمودار ہوجائیں اور مجھے اس سے روک دیں یا مجھ پر کوئی آسمانی عذاب اتار دیں۔ لوگوں نے ان کا یہ اعلان سنا لیکن چونکہ دلوں میں بتوں کی عظمت و تقدیس رچی ہوئی تھی اس لیے قابل التفات نہیں سمجھا۔ وہ سمجھے یہ ایک مجنونانہ بڑ ہے، بھلا کون ہے جو ان قادر و توانا معبودوں کی جناب میں ایسی جرات کرسکتا ہے ؟ اور اگر کرے تو اسے اس کی مہلت ہی کب ملے گی؟ نہیں معلوم، کیا سے کیا ہوجائے؟ پہلے چیلنج دیا، پھر کر کے دکھا دیا : لیکن حضرت ابراہیم اپنے فیصلہ کا اعلان کرچکے تھے اور اسے کر کے دکھا دینا تھا۔ جونہی معبد خالی ہوا انہوں نے ایک ایک کر کے تمام بت توڑ دیے۔ صرف بڑے بت یعنی شمس کو چھوڑ دیا۔ اس میں مصلحت یہ تھی کہ لعلھم الیہ یرجعون۔ اگر یہ باقی رہے گا تو شاید اس کی طرف لوگ رجوع کریں، یعنی یہ سوال اٹھایا جاسکے کہ اس کے سامنے بتوں پر آفت آئی، اور خود یہ بھی کہ رب الا رباب تھا، کچھ نہ کرسکا، اب اسی سے بتوں کی بتاہی کی کہانی سن لی جائے۔ پجاریوں کی حیرانی اور پھر تجایل : جب لوگ واپس آئے اور انہوں نے دیکھا جو بات ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آتی تھی، وہ وقوع میں آگئی اور سچ مچ کو ابراہیم نے سارے بت پاش پاش کردیے تو غور کرو، ان کے دل و دماغ کا کیا حال ہوا ہوگا؟ اور ایسی حالت میں کیا ہونا چاہیے؟ پہلے حیرت چھائی ہوگی کہ یہ کیا سے کیا ہوگیا؟ کیا یہ مقدس مورتیاں اس طرح توڑ پھوڑ ڈالی جاسکتی تھیں؟ پھر حضرت ابراہیم کی ساری باتیں سامنے آگئی ہوں گی۔ صاف نظر آگیا ہوگا کہ اس بارے میں سچا وہی نکلا۔ ہم جھوٹے ہوئے۔ پھر اپنی شکست کے خیال نے غم وغصہ کی شکل اختیار کرلی ہوگی۔ فتح مند آدمی اتنا غضب ناک نہیں ہوتا جتنا شکست خوردہ ہوجاتا ہے۔ خصوصا جبکہ یہ شکست سخت ذلت و ندامت کی شکست ہو۔ اب پجاریوں کے لیے سب سے زیادہ ضروری بات یہ تھی کہ معاملہ کی شناعت عامۃ الناس سے پوشیدہ رکھی جائےْ اگر انہیں معلوم وہ گیا کہ ابراہیم نے پہلے چیلنچ دے دیا تھا اور پھر کر کے دکھا دیا تو ان کے عقیدے فورا متزلزل ہوجائیں گے۔ پس دکھادے کے لیے پجاریوں نے ایسا انداز اختیار کرلیا گویا ابراہیم والی بات کی انہیں خبر ہی نہیں۔ آپس میں پوچھنے لگے : یہ شرارت کس نے کی ہے؟ جس کسی نے کی ہے وہ بڑا ہی مجرم ہے۔ وہ دیوتاؤں کے سخت عذاب کا مستحق ہوگا۔ اس پر بعض دکھاوے کے لیے بول اٹھے (سمعنا فتی یذکرھم یقال لہ ابراہیم) ہمارے سننے میں اایا ہے ایک نوجوان ان مورتیوں کے بارے میں کچھ باتیں کہتا تھا۔ غالبا اسی نے کیا ہو، اسے ابراہیم کہہ کر پکارتے ہیں۔ غور کرو، کہنے والا اب بھی یہ نہیں کہتا کہ اس نے مورتیوں کے خلاف ایک داؤ کھیلنے کی دھمکی دی تھی۔ بلکہ صرف یذکرھم کہہ کر چپ ہوجاتا ہے۔ کیونکہ کوشش یہ ہے کہ اصل معاملہ عوام سے چھپا یا جائے جو اس حادثہ عظیم کی خبر سن کر وہاں جمع ہوگئے تھے اور جس کا پتہ (فاتوا بہ علی اعین الناس) سے لگتا ہے۔ یعنی پجاریوں نے کہا ابراہیم کو یہاں لوگوں کے سامنے لاؤ۔ بہرحال حضرت ابراہیم بلائے گئے، وہ اب تمام مجمع کے سامنے کھڑے ہیں۔ مجمع میں پجاری اور عوام دونوں ہیں۔ پجاریوں کو سب کچھ معلوم ہے، عوام کو تفصیلات معلوم نہیں۔ حضرت ابراہیم کا مجمع میں آنا اور پجاریوں سے مکالمہ : اب وہ وقت آگیا ہے کہ حضرت ابراہیم نے انکشاف حقیقت کا جو طریقہ اختیار کیا تھا اس کا نتیجہ آشکارا ہوجائے اور جس حقیقت کے اعتراف سے لوگوں کو انکار تھا، وہ خود انہی کے حلقوں سے اگلوا لی جائے۔ اور دیکھو کیسے صاف اور قدرتی طریقہ سے حضرت ابراہیم اپنی اس عملی اور قوی حجت کی سلطانی کا اعتراف کراتے ہیں؟ پجاریوں نے دکھاوے کے لیے بے خبر بن کر پوچھا (ءانت فعلت ھذا بالھتنا یا ابراہیم) کیا ہمارے معبودوں کے ساتھ تو نے یہ حرکت کی ہے؟ اب اگر حضرت ابراہیم ان کے جواب میں کہتے۔ میں تمہیں پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ ایسا کروں گا۔ اس میں پوچھنے کی بات کیا ہے ؟ تو انہیں ردو وکد کرنے کا موقع مل جاتا، مثلا وہ عوام کے سامنے انکار کردیتے کہ تم نے کبھی ایسا نہیں کہا تھا اور اس طرح اصل مسئلہ کی جگہ ایک دوسری بات میں سوال و جواب ہونے لگتا۔ پس انہوں نے جواب میں حجت الزامی کا ایسا طریقہ اختیار کیا کہ ردو وکد کے سارے دروازے بند ہوگئے، اور حقیقت آشکارا ہوگئی : (بل فعلہ کبیرھم ھذا فاسئلوھم ان کانوا ینطقون) بلکہ اس سب سے بڑے بت شمس نے کیا ہے جس کے آگے تم ہمیشہ اپنے سوالات پیش کرتے رہتے ہو اور پھر کہتے ہو کہ اس کی پراسراسر صدائیں تمہیں (یعنی تم پجاریوں کو) سنائی دیتی ہیں۔ یہ ابھی زندہ و سلامت موجود ہے اگر فی الحقیقت مورتیاں سوالوں کا جواب دیا کرتی ہیں تو اسی مورتی سے پوچھ لو۔ مجھ سے کیوں سوال کرتے ہو؟ پجاریوں کا اعتراف پر مجبور ہونا : یہ جواب سنتے ہی سب پر سناٹا چھا گیا۔ کیونکہ اس کان کے پاس کوئی جواب نہت ھا۔ نہ تو یہ کہہ سکتے تھے کہ مورتی سے امید جواب نہیں، نہ مورتی سے سوال ہی کرسکتے تھے۔ ادھر عوام نتیجہ کے منتظر تھے۔ (فرجعوا الی انفسھم) انفسھم یعنی پجاریوں کی جماعت اعوام سے الگ ہو کر آپس میں باتیں کرنے لگی اور چونکہ اب حضرت ابراہیم کا تیر ٹھیک نشانہ پر لگ چکا تھا، اس یے انہیں اقرار کرنا پڑا : (فقالوا انکم انتم الظالمون) بلاشبہ حق سے نافرمانی کرنے والے ہم ہی ہیں۔ ٹھیک بات تو وہی ہے جو ابراہیم کہہ رہا ہے۔ بالآخر مجبور ہوئے کہ جو بات حضرت ابراہیم ان سے کہلوانی چاہتے تھے سرجھکا کر دبی زبان سے کہہ دیں : (لقد علمت ما ھولاء ینطقون) لقد علمت یعنی یہ حقیقت تو تجھے معلوم ہی ہوچکی ہے کہ مورتیوں کی صداؤں اور مندر کے ہاتف غیبی کے جوابوں کا معاملہ وہ نہیں ہے جو عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ مورتیاں بولا نہیں کرتیں۔ پھر تیرا یہ کہنا بڑے بت سے پوچھ کر فیصلہ کرو، کیا معنی رکھتا ہے؟ تب حضرت ابراہیم نے تمام مجمع سے مخاطب ہو کر ندائے حق بلند کی : (افتعبدون من دون اللہ ما لاینفعکم شیئا ولایضرکم؟ اف لکم ولما تعبدون من دون اللہ افلا تعقلون) جب ان مورتیوں کے نطق و الہام کے سارے قصے من گھڑت ہیں اور ان کی عجز و درماندگی کا یہ حال ہے جو تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو تو پھر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش پر جم گئے ہو؟ کیا اتنی موٹی بات بھی سمجھ نہیں سکتے؟ تفسیر (ان کانوا ینطقون): ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں کہ کالڈیا میں پجاریوں کی خاص جماعت پیدا ہوچکی تھی اور بت پرستی کی تاریخ میں اصلی کار فرما جماعت ہمیشہ یہی رہی ہے۔ یہ لوگ عوام سے الگ ہوجاتے تھے، اور پھر عوام کو اپنے قبضہ و اقتدار میں رکھنے کے لیے مندروں کی معجزانہ قوتیں برابر بڑھاتے رہتے تھے۔ چنانچہ مختلف طریقے کام میں لاکر لوگوں کو یقین دلاتے کہ مورتیاں بولتی ہیں سوالوں کا جواب دیتی ہیں، نذرانے قبول کرتی ہیں، ہر طرح کے عجائب و خوارق شب و روز ان سے ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم کا اصلی خطاب انہی پجاریوں سے تھا، وہ گھر کے بھیدی تھے، کیونکہ خود ان کا چچا مندر کے پجاریوں میں سے تھا اور اس طرح وہاں کے تمام حالات و باخبر ہونے کا پورا موقع انہیں حاصل ہوگیا تھا۔ انہوں نے چاہا، عوام کے سامنے حقیقت حال کا پجاریوں سے اعتراف کرائیں اور انہوں نے اعتراف کرا کے چھوڑا، پس ان کے اس قول کا کہ : ان کانوا ینطقون۔ یہ مطلب سمجھنا چاہیے کہ اگر مورتیوں کی پراسرار نداؤں کی وہ بات ٹھیک ہے جس کا تم عوام کو یقین دلاتے رہتے ہو تو اس بڑے بت سے ندائے حق کا مطالبہ کرو، اگر یہ ہمیشہ تمہارے سوالوں کا جواب دیتا ہے تو آج کیوں نہ دے؟ اور ایسے موقع پر کیوں نہ دے جب تمام مندرتہ و بالا ہوگیا؟ یعنی یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر بت عام طور پر نطق و کلام کرتے ہیں تو ان سے بات کراکو۔ کیونکہ بتوں کا عام طور پر آدمیوں کی طرح بات نہ کرنا تو عام طور پر مسلم تھا، کوئی بھی یہ عقیدہ نہیں رکھتا تھا کہ یہ ہماری طرح بولتے چالتے ہیں۔ حضرت ابراہیم کی یہ بات عوام کے دلوں میں قطعا اتر گئی ہوگی، ہر شخص بول اٹھا ہوگا کہ بات ٹھیک کہہ رہا ہے۔ بڑی مورتی سے اس حادثہ میں کیوں نہ رجوع کیا جائےْ لیکن جب حضرت ابراہیم نے مجمع عام میں بت پرستی کے خلاف وعظ شروع کیا تو پجاری ڈرے اور انہوں نے چاہا عوام کے بت پرستانہ جذبات بھڑکا کر اپنا کام نکال لیں۔ انہوں نے کہا : (حرقوہ وانصروا الھتکم ان کنتم فاعلین) اسے زندہ آگ میں جلا دو، کیونکہ تمام قدیم قوموں میں دستور تھا کہ مذہبی اور سیاسی مجرموں کو زندہ جلا دینے کی سزا دیا کرتے تھے۔ چنانچہ کالڈیا میں آخری زمانے تک یہی دستور رہا، کتاب دنیا سے معلوم ہوتا ہے کہ کالڈیوں نے ان یہودیوں کو زندہ جلا چینا چاہا تھا جنہوں نے بادشاہ کی معبودیت سے انکار کردیا تھا۔ فرض الباطل مع الخصم کذب نہیں ہے : اب غور کرو۔ اس تمام سرگزشت میں کون سی بات ایسی ہے جس سے حضرت ابراہیم کا جھوٹ بولنا نکلتا ہو؟ بتوں کو انہوں نے کچھ چوری چھپے نہیں توڑا تھا کہ خلاف واقعہ بات کہہ کے اسے چھپانا چاہتے، تمام پجاریوں کے سامنے صاف صاف اعلان کردیا تھا اور اعلان بھی اس تاکید کے ساتھ کہ (تاللہ لاکیدن اصناکم) خدا کی قسم ! میں ضرور تمہارے بتوں کو اپنے داؤ کا نشانہ بناؤں گا۔ پھر جو بات اس طرح صاف صاف کہہ دی گئی ہو اور علانیہ کی گئی ہو اس میں جھوٹ بولنے کی بات کہاں سے نکل آئی؟ باقی رہا ان کا یہ کہنا کہ (بل فعلہ کبیرھم ھذا) تو ظاہر ہے کہ ایک لمحہ کے لیے اس سے مقصود انکار فعل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ فعل کا تو وہ پہلے سے اعلان کرچکے تھے اور خود پوچھنے والوں میں ایک ایک فرد جانتا تھا کہ انہی کا کیا دھرا ہے۔ بالکل کھلی ہوئی بات ہے کہ یہ محض حجت الزامی تھی، اور حجت الزامی کا وہ طیرقہ جسے ہمارے مناظر فرض الباطل مع الخصم حتی تلزمہ الحجۃ سے تعبیر کرتے ہیں۔ صدق و کذب کا سوال یہاں کیونکر پیدا ہوسکتا ہے۔ اثبات کذب کے لیے ایک غلط توجیہ : چونکہ ہمارے مفسروں کے سامنے ایک روایت موجود تھی اور اس کی تعمیل میں ضروری سمجھتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح جھوٹ کی بات بن جائے اس لیے انہوں نے کوشش کی کہ جو بات قرآن میں نہیں ہے وہ محذوف بنا کر بڑھا دی جائے۔ چنانچہ وہ حضرت ابراہیم کے قول (تاللہ لاکیدن اصنامکم) کو سلسلہ بیان سے الگ کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ بات انہوں نے مخاطبوں سے نہیں کہی تھی۔ اپنے جی میں کہی تھی، یعنی ان کا اعلان نہ تھا۔ جی ہی جی میں ایک سازش سوچی تھی، لیکن یہ محض رائے سے قرآن کے مطالب میں اضافہ کرنا ہے۔ قرآن میں یہ کہیں نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنے جی میں کہا تھا۔ وہ تو صاف صاف کہہ رہا ہے کہ موقع مخاطبہ اور مکالمہ کا تھا۔ اور جب پجاریوں نے یہ بات کہی کہ (اجئتنا بالحق ام انت من اللاعبین) تو اس کے جواب میں حضرت ابراہیم نے اعلان کیا، علاوہ بریں اس طرح کے محذوفات جبھی تسلیم کیے جاسکتے ہیں جبکہ کوئی قطعی قرینہ موجود ہو۔ یہاں بجز اس ضرورت کے کہ حضرت ابراہیم کو کذب گو بنایا جائے اور کون سی ضرورت لاحق ہوگئی ہے کہ یہ محذوف گھڑ لیا گیا؟ روایت صحیحین : باقی رہی صحیحین کی روایت کہ لم یکذب ابراہیم فی شء قط الا ثلاث کلھن فی اللہ۔ تو اگرچہ اس کی توجیہ و تاویل کی بہت سی راہیں لوگوں نے کھول لی ہیں مگر صاف بات وہی ہے جو امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب ہے اور جسے امام رازی نے بھی دہرایا ہے، یعنی ہمارے لیے یہ تسلیم کرلینا نہایت آسان ہے کہ ایک غیر معصوم راوی سے فہم و تعبیر حدیث میں غلطی ہوگئی، بمقابلہ اس کے کہ ایک معصوم اور برگزیدہ پیغمبر کو جھوٹا تسلیم کرلیں؟ اگر ایک راوی کی جگہ سینکڑوں راویوں کی رواتی بھی ناقص ٹھہرا جائے تو بہرحال غیر معصوم انسانوں کی غلطی ہوگی۔ لیکن اگر ایک معصوم پیغمبر کو بھی غلط بیان تسلیم کرلیا گیا تو نبوت و وحی کی ساری عمارت درہم برہم ہوگئی۔ صحت اور عصمت : بلاشبہ روایت صحیحین کی ہے لیکن اس تیرہ سو برس کے اندر کسی مسلمان نے بھی راویان حدیث کی عصمت کا دعوی نہیں کیا ہے نہ امام بخاری و مسلم کو معصوم تسلیم کیا ہے۔ کسی روایت کے لیے بڑی سے بڑی بات جو جہی گئی ہے وہ اس کی صحت ہے۔ عصمت نہیں ہے، اور صحت سے مقصود صحت مصطلحہ فن ہے۔ نہ کہ صحت قطعی و یقینی مثل صحت قرآن۔ اصل معیار رد و قبول : پس ایک روایت پر صحت کی کتنی ہی مہریں لگ چکی ہوں، لیکن بہرحال غیر معصوم انسانوں کی ایک شہادت اور غیر معصوم ناقدوں کا ایک فیصلہ ہے۔ ایسا فیصلہ ہر بات کے لیے مفید حجت ہوسکتا ہے، مگر یقینیات و قطعیات کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ جب کبھی ایسا ہوگا کہ کسی راوی کی شہادت یقینیات سے معارض ہوجائے گی تو یقینیات اپنی جگہ سے ہلیں گی، غیر معصوم کو اپنی جگہ چھوڑنی پڑے گی۔ نبوت اور سچائی لازم و ملزوم ہیں : نبی کا سب سے بڑا وصف جو قرآن نے بتلایا ہے وہ اس کی سچائی ہے اور احتیاج تفصیل نہیں۔ نبوت ایک سیرت ہے جو صرف سچائی ہی سے بنتی ہے اور صرف سچائی ہی کے سانچے میں ڈھل سکتی ہے۔ ایک نبی کسی بات سے عاجز نہیں ہوتا مگر اس بات سے کہ سچ نہ بولے۔ حقیقت اور سچائی کے خلاف جو کچھ ہے خواہ کسی شکل اور کسی درجہ میں ہو، نبوت کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا۔ اگر نبوت ہوگی تو سچائی بھی ہوگی۔ اگر سچائی نہیں ہے تو نبوت بھی نہیں ہے۔ پس انبیائے کرام کی سچائی اور عصمت یقینیات دینیہ و نقلیہ میں سے ہے۔ روایات کی قسموں میں سے کتنی ہی بہتر قسم کی کوئی روایت ہو، بہرحال ایک غیر معصوم راوی کی شہادت سے زیادہ نہیں اور غیر معصوم کی شہادت ایک لمحہ کے لیے بھی یقینیات دینیہ کے مقابلہ میں تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں مان لینا پڑے گا کہ یہ اللہ کے رسول کا قول نہیں ہوسکتا۔ یقینا یہاں راویوں سے غلطی ہوئی ہے اور ایسا مان لینے سے نہ تو آسمان پھٹ پڑے گا اور نہ زمین شق ہوجائے گی۔ صحیحین کے باب میں افراط و تفریط : اصل یہ ہے کہ ہر گوشہ کی طرح اس گوشہ میں بھی متاخرین افراط و تفریط میں پڑگئے ہیں اور اس کیو جہ سے عجیب عجیب الجھاؤ پیش آرہے ہیں۔ ایک طرف فقہائے حنفیہ ہیں جنہوں نے یہ دیکھ کر کہ صحیح بخاری و مسلم کی مرویات کی زد ان کے مذہب پر پڑ رہی ہے اس امر کی کوشش شروع کردی کہ ان دونوں کتابوں کی صحت کی قوت کسی نہ کسی طرح کمزور کی جائے۔ چنانچہ ابن ہمام وغیرہ نے اس طرح کے اصول بنانا شروع کردیے کہ صحیحین کی ترجیح صحیحین کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ محض ان کی شروط کی وجہ سے ہے۔ پس اگر کسی دوسری کتاب کی روایت بھی ان شرطوں پر اتر آئی تو قوت میں صحیحین کی روایت کے ہم پلہ ہوجائے گی۔ حالانکہ صحیحین کی ترجیح محض ان کی شروط کی بنا پر نہیں ہے بلکہ شہرت اور قبول کی بنا پر ہے اور اس پر تمام امت کا اتفاق ہوچکا ہے۔ دوسری طرف عامہ اصحابہ حدیث ہیں جنہوں نے اس باب میں ٹھیک ٹھیک تقلید کی وہی چادر اوڑھ لی ہے جو فقہائے مقلدین کے سروں پر انہوں نے د یکھی تھی اور اسے پارہ پارہ کردینا چاہا تھا، ان کے سامنے جونہی بخاری و مسلم کا نام آجاتا ہے بالکل درماندہ ہو کر رہ جاتے ہیں اور پھر کوئی دلیل و حجت بھی انہیں اس پر تیار نہیں کرسکتی کہ اس کی کسی روایت کی تضعیف پر اپنے آپ کو راضی کرسکیں۔ یہ محل تفصیل کا نہیں لیکن چونکہ ایک اہم اور اصولی سوال ہے اس لیے ضروری ہے کہ مختصرا اشارات کردیئے جائیں، پس اس باب میں تحقیق کی راہ یہ سمجھی چاہیے کہ : مسلک تحقیق : (ا) قرآن کے بعد دین کی ان تمام کتابوں میں جو انسانوں کی ترتیب دی ہوئی ہیں سب سے زیادہ صحیح کتاب جامع بخاری اور جامع مسلم ہے اور ان کی ترجیح محض ان کی شروع ہی کی بنا پر نہیں ہے بلکہ شہرت اور قبول کی بنا پر ہے۔ شہرت یہ کہ ایک کتاب علم و نظر کے تمام عہدوں اور طبقوں میں عالمگیر طور پر مشہور رہی ہو اور اہل علم نسلا بعد نسل اس کی صحت و فضیلت پر مہریں لگاتے رہے ہوں۔ قبول یہ کہ وہ تمام امت کی نظر و بحث کا مرکز بن گئی ہو۔ ہر عہد اور ہر طبقہ میں بے شمار ناقدوں اور محققوں نے اس کی ایک ایک روایت، ایک ایک راوی، ایک ایک متن، ایک ایک لفظ پر ہر طرح کی بحثیں کی ہوں، ہر طریقہ سے جانچا ہو، ہر طرح کی نگاہیں ردو قبول کی ڈالی ہوں، زیادہ سے زیادہ موافق و مخالف شرحیں لکھی ہوں، زیادہ سے زیادہ درس و تدریس میں مانجھتے رہے ہوں اور پھر بھی اس کی مقبولیت یک قلم بے داغ رہی ہو۔ چونکہ یہ دو باتیں تاریخ اسلام میں صرف انہی دو کتابوں کے حصے میں آئی ہیں۔ ولیس لھما ثالث، اس لیے ان کی ہستی بجائے خود ایک دلیل صحت ہوگئی ہے اور بلاشبہ جب کبھی اختلاف ہوگا تو صحیحین کی روایت محض اس لیے بھی قوی تر سمجھی جائے گی کہ وہ صحیحین کی روایت ہے۔ دوسرے مجامیع کی روایات کتنی ہی شروع بخاری و مسلم پر نکال کر دکھا دیں جائیں لینک وہ اس کی قوت کا ہم پلہ نہیں ہوسکتیں۔ (ب) لیکن یہ جو کچھ ہے ان کی صحت کا اعتقاد ہے، یعنی ایسی صحت کا جیسی اور جس درجہ کی صحت ایک غیر معصوم انسان کے اختیارات کی ہوسکتی ہے۔ عصمت کا اعتقاد نہیں ہے اور اس لیے اگر کوئی روایت شاذ یقینیات قطعیہ قرآنیہ سے معارض ہوجائے گی تو ہم ایک لمحہ کے لیے بھی اس کی تضعیف میں تامل نہیں کریں گے۔ کیونکہ اصل ہر حال میں قرآن ہے جس کا تواتر یقینی اور جس کی قطعیت شک و شبہ سے بالا تر ہے، ہر انسانی شہادت اس پر کسی جائے گی، وہ کسی غیر معصوم شہادت اور رائے پر کسا نہیں جاسکتا کہ : غرض اندر میان سلامت اوست !!! اور پھر ہم دیکھ رہے ہیں کہ محققین حدیث نے اس باب میں کبھی ارباب جمود و تقلید کا شیوہ اعمی اختیار نہیں کیا۔ یہ بخاری کی روایت اسری شریک بن عبداللہ بنا بی نمر والی ہے جس کی نسبت تمام محققین نے بے تامل تصریح کردی کہ شریک کو غلط فہمی ہوئی اور صحیح بات وہی ہے جو مسلم کی روایت انس بن مالک میں ہے۔ اسی طرح صحیح مسلم کی حدیث خلق اللہ التربۃ یوم السبت۔ کی نسبت تمام محققین نے اتفاق کیا، اس کا رفع ثابت نہیں اور اسرائیلیات سے ماخوذ ہے، پھر اگر اسی طرح صحیحین کی روایت بھی رد کردی گئی کہ ابراہیم خلیل کی صداقت رد نہ کرنی پڑے تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی؟ قال انی سقیم : اس روایت میں حضرت ابراہیم کی تین باتوں کو کذب سے تعبیر کیا ہے۔ ایک تو یہی بات ہے، دوسری وہ جو سورۃ صافات میں ہے : (فقال انی سقیم) تیسری یہ کہ انہوں نے بادشاہ مصر کے آگے اپنی بیوی سارہ کو بہن کہا تھا۔ آخری بات قرآن میں کہیں نہیں ہے۔ تورات میں ہے، اور ہم اس کے موجودہ نسخہ کی صحت کے ذمہ دار نہیں۔ باقی رہا (انی سقیم) والا قول، تو اس کی شرح صافات میں ملے گی۔ یہاں اس قدر کہہ دینا کافی ہے کہ اس کا کوئی مطلب بھی ٹھہرایا جائے، لیکن اس میں جھوٹ کا پہلو کہاں سے نکل آیا؟ ایک شخص نے کہا میں سقیم ہوں، پھر کیوں اسے جھوٹ پر محمول کیا جائے؟ ہم نے یہاں اصل واضح کردی، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ روایت مشہورہ کے متن و اسناد پر نظر ڈالی جائے، اس کے لیے البیان کا انتظار کرنا چاہیے۔ الأنبياء
109 الأنبياء
110 الأنبياء
111 الأنبياء
112 الأنبياء
0 الحج
1 سورت کی ابتدا حیات اخروی کے اثبات اور قیامت کی ہولناکی کی تذکیر سے ہوئی ہے۔ غور کرو، صرف ایک آیت کے اندر اس ہولناک ترین حادثہ کائنات کی کیسی کامل تصویر کھینچ دی ہے ؟ ماں کی محبت سے بڑھ کر طبعیت انسانی کا کوئی علاقہ نہیں اور اس محبت کے جوش کی سب سے زیادہ تیزی اس وقت ہوتی ہے جب بچہ دودھ پیتا ہوتا ہے اور ہر وقت ماں کی چھاتی سے لگا رہتا ہے، پس ہولناکی کی شدت کی یہ کس درجہ حقیقی اور فطری تصویر ہے کہ ماؤں کو اپنے دودھ پیتے بچوں تک کا ہوش نہ رہا۔ دہشت میں ایسی کھوئی گئیں کہ اپنی گود کے بچوں کو بھول گئیں، جس ہولناکی کا یہ حال ہو اس سے بڑھ کر طبیعت بشری کے لیے اور کون سی ہولناکی ہوسکتی ہے؟ الحج
2 اس کے بعد فرمایا حاملہ عورتیں کہ ابھی ان کے وضع حمل کا وقت نہیں آیا شدت ہول سے بے اختیار جنین گرا دیں گی، اور یہ دہشت کی انتہا ہے، جسم انسانی پر اس سے زیادہ دہشت کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا۔ اور لوگ کس حال میں ہوں گے؟ ایسے جیسے متوالے ہوگئے ہوں، یہ حالت فی الحقیقت متوالے ہونے کی حالت نہ ہوگی بلکہ ہولناکی کی شدت انہیں مخبوط الحواس کردے گی۔ گزشتہ جنگ میں جب جرمن فوج نے یثر اور انیٹورپ پر گولہ باری کی تھی تو وہاں کے بہت سے باشندے بالکل پاگل ہوگئے تھے اگر گولہ باری کی ہولناکی کا یہ اثر ہوتا ہے تو اس حادچہ کا اثر کیسا ہوگا جس میں اجرام سماویہ ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گے؟ الحج
3 الحج
4 الحج
5 پیدائش سے پہلے جنین پر جو مختلف حالتیں طاری ہوتی ہیں ان کی طرف یہاں اشارہ کیا ہے : نطفہ : لغت میں پانی کے ایک قطرے کو کہتے ہیں، چونکہ جنین کی تکوین کی ابتدائی مادہ پانی کے چند قطروں کی طرح ہوتا ہے اس لیے اسے نطفہ کہنے لگے۔ علقۃ: جمے ہوئے خون کے لوتھڑے کو بھی کہتے ہیں اور جونک کو بھی۔ مضغۃ: کے معنی ہیں گوشت کا ایک ٹکڑا۔ مخلقۃ: یعنی اس ٹکڑے میں شکل و صورت کی شان کا پیدا ہوجانا۔ غیر مخلقۃ: بگڑ کے رہ جانا اور متشکل نہ ہونا۔ پیدائش کے بعد کی تین حالتیں بیان کی ہیں : طفولیت، رشد و عقل، ارذل العمر، یعنی بڑھاپا۔ بڑھاپے کو عربی میں زرزل العمر کہتے ہیں کیونکہ اس عمر میں تمام قوتیں جواب دے دیتی ہیں اور طاقت کے بعد پھر کمزوری و بے حسی کا عہد طاری ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی تعلیل واضح کردی کہ یہ رشد و عقعل کے بعد پھر طفولیت کی نادانی و بے عقلی کی طرف لوٹ جانا ہے، گویا انسان کی عمر طفولیت کی نادانی سے شروع ہوتی ہے اور بتدریج بڑھتے بڑھتے رشد و عقل کے بلوغ و کمال تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کمال کے بعد پھر زوال شروع ہوجاتا ہے اور جس حالت سے عمر چلی تھی اسی کی طرف لوٹ آتی ہے۔ قرآن نے جابجا انسان کی ایک ذہنی حالت کو جدال فی اللہ بغیر علم سے تعبیر کیا ہے، تشریح اس کی آخری نوٹ میں ملے گی۔ قرآن نے ہر جگہ یہ حقیقت واضح کی ہے کہ ایمان امیدا اور یقین ہے اور کفر شک اور مایوسی ہے اور وہ بار بار اس بات پر زور دیتا ہے کہ مایوس نہ ہو۔ امید کا چراغ روشن رکھو، ہر حال میں امیدوار فضل و سعادت رہو، یہی مقتضائے ایمان ہے، یہی سرچشمہ زندگی ہے، اسی سے تمام دنیوی اور اخروی کامرانیوں کی دولت حاصل ہوسکتی ہے۔ اگر مایوس ہوگئے، اگر مایوسی پرچھائیں بھی دل پر پڑنے دی تو پھر یہ زندگی کا خاتمہ ہوگا، دنیا کی نامرادی ہوگی، عاقبت کا خسران ہوگا، وہ کہتا ہے زندگی امید ہے اور موت مایوسی ہے، جونہی تم نے امید کی شمع جلائی زندگی و سعادت کے دائرہ میں آگئے۔ جونہی یہ شمع بجھی موت اور نامرادی کی ظلمت میں گر گئے۔ غور کرو قرآن جو کچھ کہتا ہے کیا اس کے علاوہ بھی کچھ اس بارے میں کہا جاسکتا ہے ؟ کیا انسانی زندگی کی ساری کامرانیوں اور فتح مندیوں کی اصل و اساس امید ہی نہیں ہے ؟ اور کیا ناامیدی سے بڑھ کر کوئی موت کا سرچشمہ ہوسکتا ہے ؟ الحج
6 الحج
7 الحج
8 الحج
9 الحج
10 الحج
11 یہاں آیت (١١) میں یہی حقیقت واضح کی ہے، فرمایا کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی بندگی تو کرتے ہیں مگر اس طرح کہ دل میں جماؤ نہیں ہے اور ایمان کی بنیاد یقین پر نہیں ہے۔ زندگی کے عارضی اور وقتی حالات پر ہے، اگر آرام و خوشحالی کی کوئی بات پیش آگئی تو مطمئن ہوئی مصیبت پیش آگئی تو اکھڑ گئے، ایسا آدمی نہ تو دنیا کی زندگی میں کامیاب ہوسکتا ہے نہ آخرت میں، کیونکہ بنائے کامیابی یقین اور امید ہے جو اس روح سے محروم رہا وہ دونوں جگہ نامراد ہوگا اور زندگی کی سب سے نمایاں نامرادی یہی ہے، پھر فرمایا زندگی کی ذارا سی مصیبت بھی انہیں اللہ کی طرف سے ہٹا کر دوسری چوکھٹوں پر گرا دیتی ہے جہاں نہ ان کے لیے نفع ہے نہ نقصان اور گمراہی میں سب سے زیادہ گہری گمراہی یہی ہے۔ آیت (١١) پر غور کرو، انسانی زندگی کی گمراہیوں کی کیسی سچی تصویر ہے؟ کتنے ہی آدمی ہیں جو بظاہر خدا پرستی کے دعوے میں کسی سے پیچھے نہیں ہوتے لیکن جہاں زندگی کے کسی الجھاؤ میں پڑے اور وہ حسب خواہش دور نہیں ہوا، معا انہوں نے خدا سے منہ موڑ لیا، اور گو زبان سے اقرار نہ کریں لیکن ان کی اعتقادی حالت ایسی ہی ہوجاتی ہے کہ اب حاجت براری کے لیے دوسرے آستانے ڈھونڈنے چاہیئں۔ چنانچہ جو چوکھٹ سامنے نظر آجائے گی فورا جھک جائیں گے اور اسے اپنی بندگی و نیاز کا کعبہ بنا لیں گے۔ قرآن کہتا ہے (ذلک ھو الضلال البعید) یہی گمراہی کی سب سے زیادہ گہری حالت ہے۔ الحج
12 آیت (١٢) میں فرمایا، وہ ایسی ہستیوں کو پکارنے لگتے ہیں جن کے نفع سے زیادہ ان کا نقصان اقرب ہے یعنی اگر وہ ذرا بھی سمجھ بوجھ سے کام لیں تو دیکھ لیں ان کے سے نفع پہنچنے کے لیے تو کوئی دلیل موجود نہیں لیکن نقصان میں پڑجانا بالکل واضح اور آشکارا ہے کون سا نقصان؟ ایمان و عقل کا نقصان۔ اگر ایک انسان اپنے ہی جیسی عاجز و محتاج ہستی کو حاجت روائی کے پکارتا ہے تو حاجت پوری ہو یا نہ ہو لیکن اس کے ایمان و عقل کا تو فورا خاتمہ ہو ہی گیا۔ اس نے سچائی اور حقیقت سے منہ موڑا، نجات و سعادت کی راہ اپنے اوپر بند کرلی۔ یہ تو ہوا فوری نقصان باقی رہا نفع، تو اس کے لیے کوئی روشنی موجود نہیں، محض اوہام و ظنون ہیں جو اسے ان چوکھٹوں پر گرا رہے ہیں۔ پس نقصان یقینی اور فوری ہوا، اور نفع محض مظنون و موہوم۔ الحج
13 الحج
14 الحج
15 آیت (١٥) پچھلے بیانات کا خلاسہ ہے۔ فرمایا جس انسان نے امید و یقین کی جگہ شک و مایوسی کی راہ اختیار کی، خواہ دنیا کی زندگی کے لیے ہو خواہ آخرت کے لیے، اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اب اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں، ایسے آدمی کے لیے صرف یہی چارہ کار رہ جاتا ہے کہ گلے میں پھندا ڈالے اور زندگی ختم کر ڈالے۔ سبحان اللہ ! انسانی زندگی کے تمام مسائل اس ایک آیت نے حل کردیے۔ زندگی امید اور سعی ہے، موت مایوسی اور ترک سعی ہے۔ پس اگر ایک بدبخت نے یہ فیصلہ کرلیا کہ خدا کے پاس اس کے لیے کچھ نہیں، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، تو پھر اس کے لیے باقی کیا رہا؟ کیا ہے جس کے سہارے وہ زندہ رہ سکتا ہے؟ اور زندہ رہے تو کیوں زندہ رہے؟ لیکن نہیں ایمان نام ہی امید کا ہے اور مومن وہ ہے جو مایوسی سے کبھی آشنا نہیں ہوسکتا۔ اس کا ذہنی مزاج کسی چیز سے بھی اتنا بیگانہ نہیں جس قدر مایوسی سے، زندگی کی مشکلیں اسے کتنا ہی ناکام کریں لیکن وہ پھر سعی کرے گا، لغزشوں اور گناہوں کا ہجوم اسے کتنا ہی گھیر لے لیکن وہ پھر توبہ کرے گا، نہ تو دنیا کی کامیابی سے وہ مایوس ہوسکتا ہے نہ آخرت کی نجات سے، وہ جانتا ہے کہ دنیا کی مایوسی موت ہے اور آخرت کی مایوسی شقاوت۔ وہ دونوں جگہ رحمت الہی کو دیکھتا ہے اور اس کی بخششوں پر یقین رکھتا ہے کہ (لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا انہ ھو الغفور الرحیم) الحج
16 الحج
17 اس کے بعد آیت (١٧) میں فرمایا کہ دنیا دار العمل ہے اور ہر فرد اور گروہ کو اس کے ایمان و عمل کے مطابق نتیجہ ملنا ہے۔ یہاں حقیقت کا فیصلہ نہیں ہوتا کیونکہ آنکھوں کے آگے پردے پڑے ہیں لیکن قیامت کے دن تمام پردے اٹھ جائیں گے اور سب دیکھ لیں گے کہ اللہ کا فیصلہ حق کیا ہوتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کے علاوہ ان مذہبی گروہوں کا بھی ذکر کیا جو عرب اور عرب کے جوار میں موجود تھے، یہودی، صابی، مسیحی، مجوسی اور مشرک یعنی عرب کے بت پرست۔ آیت (١٨) نے واضح کردیا کہ قرآن کے نزدیک اتبا حق کی حقیقت کیا ہے؟ فرمایا کائنات ہستی میں جس قدر مخلوق ہے سب اللہ کے احکام و قوانین کے آگے جھکی ہوئی ہے۔ اجرام سماویہ سے لے کر درختوں اور پتھروں تک کوئی چیز نہیں جس کے لیے اس نے احکام و قوانین نے ٹھہرا دیے ہوں اور ان کے مطابق ان کی ہستی کا کارخانہ نہ چل رہا ہو۔ پھر اگر یہاں درخت کے ایک پتہ اور پہاڑ کی ایک چٹان کے لیے بھی کسی کے ٹھہرائے ہوئے احکام ہیں تو کیا انسان کے لیے نہیں ہوں گے جو کرہ ارضی کے تمام سلسلہ خلقت کا ماحصل اور تمام کارخانہ تخلیق و تکمیل کا آخرین مظہر ہے ؟ اور اگر سب کی ہستی و بقا اس پر موقوف ہوئی کہ احکام حق کے آگے سر بسجود ہیں تو کیا انسان کی ہستی و سعادت کے لیے ایسا ہونا ضروری نہیں؟ الحج
18 اس آیت کے اسلوب بیان پر غور کرو۔ انسان کو مخلوقات ہستی کی عام صف سے الگ کھڑا نہیں کیا ہے، بلکہ ایک ہی سلسلہ میں سب کا ذکر کیا ہے : (والشمس والقمر والنجوم والجبال والشجر والدواب وکثیر من الناس) یعنی اس اعتبار سے سب ایک ہی صف میں ہیں۔ انسان کا گوشہ عام سلسلہ قوانین فطرت سے کوئی الگ گوشہ نہیں ہے۔ جس طرح سورج، چاند، ستارے، نباتات، جمادات، احکام فطرت کے آگے سر بسجود ہیں، اسی طرح صحیح الفطرت انسانوں کے بھی سر جھکے ہوئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہاں حقیقت کی راہ عمل صرف یہی ہے؟ یہ مقام مہمات معارف قرآنی میں سے ہے اور صرف اس ایک آیت کی تفسیر میں پوری ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ اس کے بعد فرمایا : (وکثیر حق علیہ العذاب) بہت سے انسان ایسے ہیں جو اس دائرہ اطاعت سے باہر ہوجاتے ہیں، اس لیے ان پر تعزیب کا قانون لازم آجاتا ہے۔ (ومن یھن اللہ فما لہ من مکرم) اور جس کسی پر اللہ کے قانون تذلیل کی مہر لگ گئی تو پھر کوئی نہیں جو اسے سربلند کرسکے۔ الحج
19 آیت (١٩) میں فرمایا، دین کے کتنے ہی جتھے بن گئے ہوں مگر راہیں صڑف دو ہی ہیں اور دو ہی منزلوں پر ختم ہوتی ہیں۔ ایک منکروں کی ہے ایک مومنوں کی ہے۔ پہلی انکار، مایوسی اور بدعملی کی راہ ہے۔ دوسری ایمان، امید اور نیک عملی کی، پہلی کو بالآخر عذاب کی منزل پر پہنچنا ہے، دوسری کو نعیم و سرور ابدی پر، انہی دو راہوں پر چلنے والوں کو (خصمان اختصموا فی ربھم) سے تعبیر کیا۔ الحج
20 الحج
21 الحج
22 الحج
23 الحج
24 الحج
25 اس کے بعد آیت (٢٥) سے سلسلہ بیان کفار مکہ کی طرف متوجہ ہوگیا ہے۔ یہ گویا اذن قتال کی تمہید ہے جو آیت (٣٩) میں آنے والا ہے۔ فرمایا : یہ صرف کفر ہی پر قانع نہیں رہے بلکہ ظلم و تشدد پر اتر آئے، یہ مسجد حرام کا اپنے کو مالک سمجھتے ہیں۔ اور جسے چاہتے ہیں وہاں آنے اور عبادت کرنے سے روک دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ انسان کے لیے معبد عام ہے۔ وہ صرف باشندگان مکہ ہی کے لیے نہیں بنایا گیا ہے تمام انسانوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ کسی انسان کو حق نہیں کہ اس کا دروازہ عبادت گزاروں پر بند کردے۔ الحج
26 اس کے بعد آیت (٢٦) سے (٢٩) تک سے واضح کیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم نے اس عبادت گاہ کی بنیاد رکھی تو کیا مقاصد ان کے پیش نظر تھے اور وحی الہی نے کس راہ کی تلقین کی تھی؟ اور پھر حج کا اعلان کیا گیا تو اس کے بنیادی اعمال و مقاصد کیا کیا تھے؟ اور کس طرح وحی الہی نے اس کی رہنمائی کی تھی؟ خلاصہ ان کا یہ ہے کہ : (ا) توحید کا اعتقاد (ب) عبادت گزاران حق کے لیے معبد کی تطہیر (ج) حج کا اجتماع تاکہ اس کے گوناگوں منافع سے لوگ مستفید ہوں اور معین ایام میں ذکر الہی کا ولولہ تازہ ہوتا رہے۔ (د) جو لوگ اس موقع پر جمع ہوں جانوروں کی قربانیاں کریں اور محتاجوں کے لیے غذا کا اہتمام ہو۔ پس جس مرکز عبادت کا قیام اول دن سے ان مبادی و مقاصد کے لیے ہوا ہے کیونکر جائز ہوسکتا ہے کہ قریش مکہ اس کے مالک بن بیٹھیں اور جنہیں چاہیں وہاں آنے دیں، جنہیں چاہیں روک دیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آیت (٢٦) سے (٣٧) تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے یہ سب ان احکام کی حکایت ہے جو حضرت ابراہیم کو دیے گئے تھے لیکن عام طور پر مفسروں نے آخری حصہ کو براہ راست خطاب قرار دیا ہے۔ بہرحال دونوں صورتوں میں یہ تمام تفصیلات اسی بات کی شرح ہیں کہ (جعلناہ للناس سواء العاکف فیہ والباد) یعنی یہ عبادت گاہ صرف باشندگان مکہ ہی کے لیے نہیں بنائی گئی ہے بلکہ بلا امتیاز سب کے لئیے، خواہ مکہ کے رہنے ولے ہوں یا دوسری جگہوں کے۔ چنانچہ اسی لیے حج اور قربانی کا حکم دیا گیا، لوگ دور دور سے یہاں آنے لگے اور قربانی کے جانور لانے لگے۔ خصوصا قربانی کے اونٹ جو صحرا اور جبال طے کر کے حرم مکہ میں پہنچائے جاتے اور لوگ انہیں اس معبد کی نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی تصور کرتے، اب اگر قریش مکہ کا یہ اختیار تسلیم کرلیا جائے کہ جسے چاہیں آنے دیں، جسے چاہیں روک دیں تو پھر نہ کعبہ کعبہ رہا، نہ حج حج۔ ضمنا یہ بات بھی واضح کردی کہ قربانی کی حقیقت کیا ہے ؟ آیت (٢٨) اور (٣٦) میں فرمایا تھا کہ اس کا گوشت خود بھی کھاؤ اور محتاجوں کو بھی کھلاؤ، یعنی مقصود اس سے جانوروں کا خون بہانا نہیں ہے جیسا کہ لوگ سمجھتے تھے بلکہ یہ ہے کہ لوگوں کے لیے غذا کا سامان ہو۔ پھر آیت (٣٧) میں صاف صاف کہہ دیا کہ اصل عبادت تمہارے دلوں کا تقوی ہے۔ نہ کہ قربانی کا گوشت اور خون۔ بت پرست اقوام میں قربانی کی رسم اس طرح چلی تھی کہ انہوں نے خیال کیا انسانوں کی طرح دیوتاؤں کو بھی چڑھاووں کی ضروت ہے اور جانوروں کا خون بہانا ان کا غضب و قہر ٹھنڈا کردیتا ہے۔ قرآن کہتا ہے نہ تو خدا تک گوشت کا چڑھاوا پہنچ سکتا ہے نہ وہ خون بہانے کا شائق ہے، اصل شے جو اس کے حضور مقبول ہوسکتی ہے، دل کی نیکی اور طہارت ہے۔ الحج
27 الحج
28 الحج
29 الحج
30 الحج
31 الحج
32 الحج
33 الحج
34 الحج
35 الحج
36 الحج
37 الحج
38 آیت (٣٨) اور (٣٩) میں مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنے دفاع میں اب ہتھیار اٹھا سکتے ہیں۔ بالاتفاق یہ پہلی آیت ہے جو اذن قتال کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس سے پہلے قریش مکہ کا یہ ظلم بیان کردیا تھا کہ انہوں نے مسلمانوں پر حج کی راہ بند کردی ہے جس کا انہیں کوئی حق نہیں۔ اب یہاں صاف صاف لفظوں میں واضح کردیا کہ جو از قتال کی علت کیا ہے ؟ فرمایا : (بانھم ظلموا) اس لیے کہ مسلمان مظلوم ہیں اور مظلوم کا حق ہے کہ ظالم کے مقابلہ میں اپنا بچاؤ کرے، یہ مظلوم تیرہ برس تک قریش مکہ کے ظلم و تشدد کا نشانہ رہے۔ بالآخر ترک وطن پر مجبور ہوئے، لیکن غربت میں بھی چین سے بیٹھنے نہ دیا گیا، ان کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا گیا، آخر ان کا قصور کیا تھا، صرف یہ کہ یقولوا ربنا اللہ، وہ کہتے تھے ہم اپنے یقین کے مطابق اپنے پروردگار کو یاد کرنا چاہتے ہیں۔ ہم دوسروں کو مجبور نہیں کرتے کہ ہمارا اعتقاد تسلیم کرلیں، لیکن دوسرے ہمیں کیوں مجبور کرتے ہیں کہ اپنے اعتقاد سے دست بردار ہوجائیں؟ اس کے بعد واضح کیا کہ یہ مظلوموں کا قدرتی حق ہے اگر وہ اس حق سے محروم کردیے جائیں تو دنیا میں انسانی ظلم و استبداد کی مدافعت کا کوئی سامان باقی نہ رہے۔ جس گروہ کی بن پڑے دوسرے گروہ کے اعتقاد و عمل کی آزادی ہمیشہ کے لیے پامال کردے۔ چنانچہ فرمایا یہاں اللہ نے ایک جماعت کے ہاتھوں دوسری جماعت کے ظلم وتشدد کو دفع کرانے کا نظام قائم ر کر رکھا ہے۔ اگر یہ سلسلہ مدافعت بعض ببعض نہ ہوتا تو دنیا میں خدا پرستی کا خاتمہ ہوجاتا، کسی گروہ کی عابدت گاہ انسانی ظلم و استبداد کے ہاتھوں محفوظ نہ رہتی۔ الحج
39 الحج
40 الحج
41 آیت (٤١) نے واضح کردیا کہ قرآن کے نزدیک مسلمانوں کے اقتدار و حکومت کا اصلی مقصد کیا تھا؟ فرمایا ان مظلوم مسلمانوں کے اگر قدم جم گئے تو کیا کریں گے؟ یعنی تمکن فی الارض کو کن مقاصد کے لیے کام میں لائیں گے؟ اس لیے کہ نماز قائم کریں، زکوۃ ادا کریں، نیکی کا حکم دیں، برائیوں سے روکیں اور ظلم وبدعملی کی جگہ عدالت و نیکی کی مملکت قائم ہوجائے۔ اس کے بعد فرمایا : یہ انقلاب اسی سلسلہ انقلاب کی ایک کڑی ہے جو دنیا میں ہمیشہ ہوتا رہا ہے پس اگر منکرین حق اسے جھٹلائیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، پہلے بھی ہمیشہ ظلم و غرور کے متوالوں نے حق و صداقت کی آوازیں جھٹلائی ہیں، اگر ان کے دل اندھے نہ ہوگئے ہوتے تو یہ پچھلوں کی سرگزشتوں سے عبرت پکڑتے مگر انسان کے ظلم و غرور کی طبیعت ہی ایسی واقع ہوئی ہے کہ دوسروں کی حالت سے کبھی عبرت نہیں پکڑتا۔ یہاں تک کہ خود اس پر بھی وہ سب کچھ گزر جائے جو دوسروں پر گزر چکا ہے۔ اس بات پر غور کرو کہ یہاں اسلامی اعمال میں سے اور کسی عمل کا ذکر نہیں کیا۔ صرف قیام صلوۃ اور ایتائے زکوۃ کا ذکر کیا، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے نزدیک مسلمانوں کے جماعتی اقتدار کی اسلی علامت یہی دو عمل ہیں۔ جس گروہ کا اقتدار ان دو عملوں کے قیام سے خالی ہو اس کا اقتدار اسلامی اقتدار نہیں سمجھا جاسکتا۔ الحج
42 الحج
43 الحج
44 الحج
45 الحج
46 آیت (٤٦) نے انسان کے ذہنی تعطل اور قلبی غفلت کی کیسی کامل تصویر کھینچ دی ہے؟ فرمایا اگر فہم و بصیرت کی ساری دلیلیں ان کے لیے بے سود ہیں تو کیا آنکھوں کا مشاہدہ بھی کچھ کام نہیں دیتا؟ کیا انہوں نے زمین میں سیر و گردش نہیں کی، حوادث و انقلابات عالم کے نتائج نہیں دیکھے؟ کیا ان کے کان بہرے ہوگئے کہ سن نہیں سکتے اور عقلیں ماری گئیں کہ سمجھ کام نہیں دیتی۔ پھر خود ہی ان سارے سوالوں کا جواب دے دیا کہ (فانھا لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور) اصل یہ ہے کہ جب کسی پر اندھے پن کا وقت آتا ہے تو آنکھوں کی بصارت نہیں جاتی، دل کی بصیرت جاتی رہتی ہے اور اسی کی بصیرت سے ساری بصارت ہے۔ مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مرجائے۔۔۔ کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے ! الحج
47 آیت (٤٧) میں قوانین کائنات کی ایک بہت بڑٰ حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن افسوس ہے کہ ہمارے مفسروں نے اس کی ساری اہمیت ضائع کردی۔ فرمایا یہ عذاب کے لیے جلدی مچاتے ہیں، یعنی از راہ شرارت کہتے ہیں، اگر سچ مچ کو بد عملیوں کا برا نتیجہ پیش آنے والا ہے تو کیوں نہیں آچکتا؟ لیکن یہ نہیں جانتے کہ فطرت کائنات کی اوقات شماری کا وہو حساب نہیں جو دنیا میں لوگوں نے بنا رکھا ہے۔ اس کی گھڑی کا کانٹا بہت دیر میں چلتا ہے، تمہاری تقویم میں ہزار برس گزر جائیں تو اس کی تقویم کا بمشکل ایک دن گزرے، پس ظہور نتائج کا فیصلہ اپنی صبح و شام دیکھ کر نہ کرلیا کرو۔ ٹھہرو اور انتظار کرو، ایک دوسرے موقع پر ہزار برس کی جگہ پچاس ہزار برس کی بھی مدت فرمائی ہے۔ یہ مقام مہمات معارف میں سے ہے۔ تشریح کے لیے سورۃ فاتحہ دیکھو۔ الحج
48 الحج
49 آیت (ّ٤٩) پچھلے ارشادات کا خلاصہ ہے۔ فرمایا اعلان کردو، میرا ظہور تمہارے لیے ایک آشکارا انذار ہے، اور اب راہیں صرف دو ہی ہیں اور نتیجے بھی دو ہی پیش آنے والے ہیں، ایمان و عمل والوں کے لیے آخرت میں مغفرت اور دنیا میں رزق کریم کی بشارت ہے اور سچائی کی نشانیوں سے لڑنے والوں کے لیے نامرادی و عذاب کی وعید، اب جو راہ چاہو اختیار کرلو۔ الحج
50 الحج
51 الحج
52 پھر آیت (٥٢) میں مسلمانوں کو متنبہ کیا ہے کہ راہ کی ٹھوکروں سے غافل نہ ہوجائیں، نتائج کا ظہور یقینی ہے لیکن ساتھ ہی کشمکش بھی ناگزیر ہے، کیونکہ اس بارے میں سنت الہی کی نمود ہمیشہ ایسی ہی رہی ہے، ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ حق و باطل کی کشمکش کے بغیر حق کی فتح مندی آشکارا ہوجائے۔ چنانچہ فرمایا : کوئی رسول اور نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا کہ اس کی طلبگاریوں کی راہ میں یعنی اصلاح و ہدایت کی راہ میں شیطان کی فتنہ پردازیوں نے رخنہ ڈالنا نہ چاہو ہو، اور مفسدانہ قوتیں پوری طرح آمادہ پیکار نہ ہوگئی ہوں۔ پس اس معاملہ کی سچائی کا معیار یہ نہیں ہے کہ شیطانی وسودہ اندازی خلل انداز ہوتی ہے یا نہیں؟ بلکہ یہ ہے کہ بالآخر کامیاب ہوتی ہے یا نہیں اور وحی و نبوت کی ربانی قوتیں اس کے اثرات ملیا میٹ کردیتی ہیں یا نہیں؟ کیونکہ شیطانی قوتیں کسی حال میں بھی نابود نہیں ہوجاسکتیں۔ جب تک انسان موجود ہے شیطان اور اس کی وسوسہ اندازیاں بھی موجود ہیں، لیکن وحی و نبوت کے اعمال کی خصوصیت یہ ہے کہ شیطانی قوتیں کتنی ہی ابھریں، فتح مند نہیں ہوسکتیں۔ فینسخ اللہ ما یلقی الشیطان ثم یحکم اللہ ایاتہ۔ وہ جتنے فتنے بھی اٹھاتی ہیں، اللہ ان کے اثرات محود کردیتا ہے، اور پھر اپنی نشانیوں کو اور زیادہ مضبوط کردیتا ہے، یعنی شیطانی فتنہ جتنا بڑھتا جاتا ہے اللہ کی نشانیوں کا نقش اور زیادہ جمتا اور گہرا ہوتا جاتا ہے۔ الحج
53 پھر آیت (٥٣) اور (٥٤) میں واضح کردیا کہ اس صورت حال میں لوگوں کے لے آزمائش ہوتی ہے جن کے دل روگی ہیں وہ اور زیادہ ضد اور عناد میں بڑھ جاتے ہیں، جو اصحاب علم و بصیرت ہیں ان کا ایمان اور زیادہ پختہ ہوجاتا ہے۔ الحج
54 الحج
55 الحج
56 الحج
57 الحج
58 الحج
59 الحج
60 آیت (٦٠) سے (٦٢) تک تین آیتوں میں تین ذالک آئے ہیں۔ ان کا مطلب سمجھ لینا چاہیے۔ (ذلک ومن عاقب بمثل ما عوقب بہ) یعنی اب صورت حال یہ ہے جو اوپر بیان کردی گئی ہے۔ اور ایسی حالت میں ضروری ہے کہ مظلوموں کو دفع ظلم و تشدید کا موقع دیا جائے۔ پس جو مظلوم مدتوں تک ستائے جانے کے بعد دفع کے لیے آمادہ ہوں گے اور سج طرح ان پر تلوار اٹھائی گئی ہے، ٹھیک اسی طرح خود بھی تلوار اٹھائیں گے اور پھر اس کی وجہ سے ظالم از سر نو ظلم و تعدی پر آمادہ ہوجائیں گے، تو وہ یقین رکھیں۔ اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا، کیونکہ وہ ظالم نہیں ہیں، ظلم کا دفاع کرنے والے ہیں۔ آخر میں کہا ( ان اللہ لعفو غفور) اللہ کی بخشش پر بھروسہ رکھیں۔ یعنی وہ جو قدم اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں، وہ کتنی ہی مجبوری کی حالت میں اٹھایا ہو، مگر پھر قتل و خونریزی کا قدم ہے۔ لیکن چونکہ برائی کو دور کرنے کے لیے چھوٹی برائی اختیار کرلینی پڑتی ہے اس لیے وہ یقین رکھیں۔ اللہ درگزر کرنے والا بخش دینے والا ہے۔ (ذلک بان اللہ یولج الیل فی النھار) اور اللہ کی مدد کیوں ان کا ساتھ دے گی؟ اس لیے کہ قانون الہی یہی ہے کہ یہاں حالت پلٹتی رہے، وہ دن کے اندر سے رات کو ابھارتا اور رات کے اندر سے دن کو نمایاں کرتا ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ ایک ہی حالت سدا قائم رہے، پس ضروری ہے کہ تمہاری حالت میں بھی اب انقلاب ہو۔ (وان اللہ سمیع بصیر) نیز اس لیے کہ وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ یعنی یہاں اندھے بہرے قوانین کی حکومت کام نہیں کر رہی ہے جو نہ تو ظالموں کا ظلم دیکھتی ہو نہ مظلوموں کی فریاد سنتی ہو، بلکہ ایک سمیع و بصیر عدالت کی کارفرمائی ہے۔ پس ضروری ہے کہ دیکھا جائے اور سنا جائے۔ (ذلک بان اللہ ھو الحق) کیوں دیکھا جائے؟ کیوں سنا جائے؟ کیوں دیکھنے اور سننے کا نتیجہ یہی نکلے؟ اس لیے کہ حق اللہ ہی کی ہستی ہے اور یہ منکرین رسالت جنہیں پکار رہے ہیں وہ بطلن کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ پس ضروری ہے کہ حقیقت دیکھنے اور سنے اور بطلان اپنے بطلان کا ثبوت دے دے۔ (وان اللہ ھو العلی الکبیر) نیز اس لیے کہ رفعت و کبریائی اللہ ہی کے لیے ہے، پس ضروری ہے کہ اس کے کلمہ حق کی رفعت اور بڑائی آشکارا ہو کر رہے۔ الحج
61 الحج
62 الحج
63 آیت (٦٣) میں اس انقلاب حال کی مثال دے دی، کیا تم نے یہ منظر نہیں دیکھا ہے کہ سوکھی زمین پر پانی برستا ہے اور پھر وہ اچانک سرسبز ہو کر لہلہانے لگتی ہے؟ ایسا ہی حال اس معاملہ کا بھی سمجھو۔ انسانی سعادت کی زمین پر بھی خشک سالی کا عالم چھا جاتا ہے۔ پھر جب سرسبزی کا موسم آتا ہے تو بارش کا ایک چھنیٹا انقلاب حال پیدا کردیتا ہے وہ موسم اب آچکا اور انقلاب کچھ دور نہیں۔ الحج
64 الحج
65 الحج
66 الحج
67 آیت (٦٧) میں اس اصل عظیم کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اصل دین ایک ہے البتہ مناسک میں یعنی عبادت کے طور طریقہ میں اختلاف ہوا کیونکہ ہر عہد اور ہر قوم کی حالت یکساں نہ تھی۔ جس کی جیسی حالت تھی اس کے مطابق ایک طور طریقہ اسے دے دیا گیا، پس طالب حق کو چاہیے کہ سب سے پہلے اصل کو دیکھے نہ یہ کہ فرع کے پیچھے پڑجائے۔ فرمایا (فلا ینازعنک فی الامر) اس بارے میں تم سے نزاع کرنے کا لوگوں کو حق نہیں۔ جس بات پر انہیں غور کرنا چاہیے وہ تو یہ ہے کہ اصل دعوت کیا ہے ؟ (وادع الی ربک، انک لعلی ھدی مستقیم) اصل دین دعوت الی اللہ ہے اور یہی ہے جو ہدایت کی سیدھی راہ ہے۔ الحج
68 اس کے بعد فرمایا : اگر لوگ اس پر بھی نہ مانیں اور جھگڑا کریں تو پھر اللہ پر معاملہ چھوڑ دینا چاہیے، وہ قیامت کے دن ان تمام نزاعات کا آخری فیصلہ کردے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر دین کے بارے میں لوگ جدل و نزاع سے باز نہ آئیں تو پھر (اللہ اعلم بما تعملون) کہہ کر جھگڑا ختم کردینا چاہیے۔ اس سے زیادہ کسی کے پیچھے پڑنے کا کسی کو اختیار نہیں، اور اگر اللہ کے رسول کے لیے بھی یہی راہ اختیار کرنی تھی اور کسی کو اس سے آگے بڑھنے کا کب حق مل سکتا ہے، اگر پیروان مذاہب صرف اتنی بات سمجھ لیں کہ (ان جادلوک فقل اللہ اعلم بما تعملون) تو مذہبی نزاع و منافرت کے سارے جھگڑے ختم ہوجائیں۔ الحج
69 الحج
70 الحج
71 الحج
72 الحج
73 الحج
74 الحج
75 الحج
76 الحج
77 آیت (٧٧) سے آخر تک سورت کے مواعظ کا خاتمہ ہے۔ فرمایا : (ا) اللہ کی بندگی و نیاز میں سرگرم رہو۔ تمہارے سارے کام خیر و صلاح پر مبنی ہوں، اگر حسن عمل کی یہ روح تم میں بس گئی تو پھر تمہارے لیے فلاح ہی فلاح ہے۔ (ب) جہد فی اللہ تمہاری زندگی کا شعار ہو، جہد کے معنی کمال درجہ کوشش کرنے کے ہیں۔ پس مطلب یہ ہوا کہ زیادہ سے زیادہ کوشش جو ایک انسان کسی مقصد کے لیے کرسکتا ہے وہ تمہیں اللہ کے لیے کرنی چاہیے۔ کیونکہ تمہارے مساعی کا نصب العین اس کے سوا اور کچھ نہیں، یہ کوشش نیت سے بھی ہے، زبان سے بھی، مال سے بھی، ہاتھ پاؤں سے بھی۔ (ج) اس نے تمہیں برگزیدگی کے لیے چن لیا۔ (د) اس نے تمہیں دین کی بہتر سے بہتر راہ دکھا دیا، اس بہتری کا معیار کیا ہے؟ یہ کہ کسی طرح کی بھی تنگی اور رکاوٹ اس میں نہیں ہے۔ سب سے زیادہ سہل، سب سے زیادہ سبک، سب سے زیادہ واضح سب سے زیادہ فکر و عمل کی وسعت رکھنے والی۔ حنیفیۃ السمحۃ لیلھا کنھارھا۔ انسان پر فکرو عمل کے ارتقاء کی راہ جس بات نے روک رکھی ہے وہ یہی دین کی تنگی اور رکاوٹ ہے، اس تنگی نے اس طرح انہیں جکڑ بند کر رکھا ہے کہ ایک قدم بھی وسعت و بلندی کی طرف نہیں اٹھا سکتے۔ اللہ نے اس جکڑ بندی سے تمہیں نجات دے دی، اور یہ اس کا بڑے سے بڑا احسان ہے جو کسی انسانی گروہ پر ہوسکتا ہے۔ (ہ) یہ تنگیاں جس قدر ہیں بعد کو پیدا کرلی گئیں، اصل دین میں نہ تھیں جو تمہارے بزرگ ابراہیم (علیہ السلام) کا دین تھا۔ اسی دین خالص کی راہ تم پر کھول دی گئی۔ (و) اس نے تمہارا نام مسلم رکھا۔ کیونکہ دین خالص اول دن سے اسلام ہی ہے۔ یعنی قوانین حق کی اطاعت، ہی نام پہلے تھا۔ یہی اب ہوا۔ (ز) تمہیں اس لیے چنا گیا کہ اللہ کا رسول تمہارے لیے شاہد ہو، تم تمام انسانوں کے لیے اپنا چراغ اس سے روشن کرو گے، تمہارے چراغ سے تمام دنیا کے چراغ روشن ہوجائیں گے۔ یک چراغ ست دریں خانہ کہ از پر تو آں۔۔۔۔ ہر کجا می نگری، انجمنے سختہ اند (ح) یہ فرض کیونکر انجام پاسکتا ہے؟ اس طرح کہ نماز قائم کرو، زکوۃ کا انظام استوار کرو، اللہ کا سہارا مضبوط پکڑ لو۔ (ھو مولاکم فنعم المولی ونعم النصیر) یہاں سے دو باتیں قطعی طور پر معلوم ہوگئیں۔ ایک یہ کہ دین کی سچائی کی سب سے بڑٰی کسوٹی یہ ہے کہ اس میں تنگ و رکاوٹ نہ ہو۔ دوسری یہ کہ مسلمانوں کے لیے دینی نام صرف مسلمان ہی ہے۔ اس کے سووا جو نام بھی اختیار کیا جائے گا وہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے نام کی نفی ہوگا۔ پس مسلمانوں کے مختلف فرقوں، مذہبوں اور طریقوں نے جو طرح طرح کے خود ساختہ نام گھڑ لیے ہیں اور اب انہی سے اپنے پہنچوانا چاہتے ہیں، وہ صریح سماکم المسلمین سے انحراف ہے۔ بعث بعد الموت اور قرآن کا استدلال : سورت کی ضروری تشریحات ختم ہوگئیں لیکن بعض مقامات کی اہمیت مزید تفصیل کی طالب ہے خصوصا سورت کا ابتدائی حصہ جس میں بعث بعد الموت کا اثبات ہے۔ اس میں پہلے دلائل بیان کیے ہیں ِ پھر ان کی نتائج نکالے ہیں۔ یہ نتائج حسب ذیل ہیں ِ آیت (٦) پر غور کرو۔ (ا) (ذلک بان اللہ ھو الحق) اللہ کی ہستی ایک حقیقت ہے۔ (ب) (وانہ یحیی الموتی) وہ مردوں کو زندہ کردیتا ہے۔ (ج) وانہ علی کل شیء قدیر) اس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔ (د) (وان الساعۃ ایتۃ لا ریب فیھا) ایک مقررہ گھڑٰ آنے والی ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں۔ (ہ) (وان اللہ یبعث من فی القبور) جو مرگئے ہیں اللہ انہیں اٹھا کھڑا کرے گا۔ یہ پانچ باتیں ہیں جن پر اس مقام کی موعظت نے روشنی ڈالی ہے۔ یہ شک کو دور کرتی اور اذعان و یقین کی طمانیت پیدا کردیتی ہے۔ جو موعظت ایسی ہو اسے قرآن اپنی اصطلاح میں دلیل، برہان اور حجۃ سے تعبیر کرتا ہے، نہ کہ دلیل مصطلحہ، منطق و فنون جدلیہ، اب غور کرو، ان پانچوں باتوں کے لیے یہاں دلیل کی روشنی کس طرح نمایاں ہوئی ہے؟ فرمایا : (ان کنتم فی ریب من البعث) اگر تم شک میں پڑے ہو کہ مرنے کے بعد پھر دوبارہ اٹھنا کیسے ہوسکتا ہے تو اس بات پر غور کرو جو بیان کی جاتی ہے۔ تمہارا سارا شک اور ستغراب دور ہوجائے گا۔ تخلیق حیات اور اعادہ حیات : (فانا خلقنا کم من تراب) تمہیں یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ انسان مر کر پھر اٹھ کھڑا ہو۔ یعنی زندگی کا دوسرا اٹھان تمہیں عجیب معلوم ہوتا ہے لیکن اگر یہ بات عجیب ہے تو کیا اس سے زیادہ یہ بات عجیب نہیں کہ زندگی کا پہلا اٹھان ظہور میں آگیا؟ تم اپنی ہسیت میں تو شک نہیں کرسکتے؟ اچھا یہ ہستی کس طرح ظہور میں آئی؟ دوسری مرتبہ اگر انسانی ہستی اٹھے گی تو یہ زندگی کی ابتدا نہیں ہوگی۔ زندگی کا اعادہ ہوگا، لیکن اس کی ابتدا کیونکر ہوئی؟ من تراب مٹی سے، یعنی (من صلصال من حما مسنون) مٹی کا گارا جس میں مدتوں خمیر اٹھتا رہا اور پھر سوکھ کر کھنکھانے لگا۔ سب سے پہلے زندگی کا جرثومہ اسی میں نمودار ہوا تھا۔ پھر حکمت الہی نے اسے درجہ تکمیل تک پہنچایا۔ سوال یہ ہے کہ اگر زندگی عدم حقیقی سے وجود میں آسکتی تھی تو کیا ایک مرتبہ وجود میں آکر پھر دہرائی نہیں جاسکتی؟ زیادہ عجیب بات کون سی ہے؟ کسی چیز کی ابتدائی پیدائش، یا پیدائش کے بعد اعادہ؟ اگر تمہارے لیے ابتدائی پیدائش میں کوئی اچنبھا نہیں تو اعادہ میں کیوں ہو؟ کیوں تم قطعی فیصلہ کردو کہ ایسا نہیں ہوسکتا؟ جس قدرت پر یہ دشوار نہ ہو کہ زندگی پید کردے اس پر یہ کیوں دشوار ہونے لگا کہ پیدا شدہ زندگی کو کہ بکھر گئی ہے، پھر سمیٹ دے؟ اگر کمہار نئی مٹی سے نیا برتن بنا سکتا ہے تو ٹوٹے ہوئے برتن کے ٹکڑوں کو بھی دوبارہ ڈھال لے سکتا ہے۔ پیدائش کا تناسلی سلسلہ اور قانون تحول : اچھا یہ تو ابتدائی پیدائش ہوئی، اس کے بعد پیدائش کا جو سلسلہ قائم ہوا اس کا کیا حال ہے؟ اس کا حال یہ ہے کہ دو حقیقتیں ہر وقت تمہارے سامنے آتی رہتی ہیں۔ ایک یہ کہ انسانی وجود کا پورا درخت صرف ایک بیج سے پید اہوجاتا ہے جس کا نام نطفہ ہے۔ لیکن نطفہ کیا ہے ؟ کیا گوشت پوست ہے؟ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے؟ ڈیل ڈول ہے؟ شکل و صورت ہے؟ عقل و حواس ہے؟ نہیں کچھ بھی نہیں ہے اور پھر سب کچھ ہے۔ ایک قطرہ حقیر مگر اسی سے انسان کا جسم، اس کی قامت، اس کی صورت، اس کی ساری معنوی قوتیں ظہور میں آجاتی ہیں َ دوسری بات یہ کہ یہاں یکسر تغیر و تحول کا قانو جاری ہے۔ شکم مادر میں جنین کو دیکھو، کتنی مختلف حالتوں سے گزرتا ہے؟ نطفہ سے عقلہ، علقہ سے مضغہ، مضغہ سے عظم و لحم، عظم و لحم سے تشکل و صورت۔ پھر پیدائش کے بعد بچے کو دیکھو۔ کس طرح یکے بعد دیگرے نشو و بلوغ کے درجے بدلتا رہتا ہے؟ جو ان آدمی کو دیکھو۔ کس طرح جسم و عقل کے کمال تک پہنچتا اور پھر زوال کی طرف پلٹتا ہے؟ گویا انسان کی ہستی سراسر تبدل ہے۔ تطور ہے، تحول ہے، ایک حالت سے بدل کر دوسری حالت میں داخل ہوتے رہنا ہے۔ عالم نباتات اور اعادہ تحول : یہی حال عالم نباتات کا ہے۔ زمین کی گوود میں بھی زندگیاں اور پیدائشیں ہیں۔ جس طرح یہاں نطفہ ہے وہاں بھی تخم اور تخم کے ذرات ہیں، تم دیکھتے ہو کہ اس کی گود زندگیوں کی نمود سے بالکل خالی ہوگئی۔ پھر دیکھتے ہو کہ زندگیوں کی فراوانی سے شاداب ہوگئی۔ یہ انقلاب کس طرح ظہور میں ٓٓیا۔ اسی طرح کہ محض ایک تخم سے، تخم کے ایک ذرہ سے، حیات نباتی کی ایک جوہری تلفیح سے پورا وجود نباتی پیدا ہوگیا اور تبدل و تحول کی تمام حالتیں اس پر بھی اسای طرح گزریں جس طرح تمہاری ہستی پر گزرتی رہتی ہیں۔ قانون تاجیل : ساتھ ہی غور کرو۔ یہاں ایک تیسرا قانون بھی کام کر رہا ہے۔ تم دیکھتے ہو کہ ہر تبدیل کے لیے ایک اجل مسمی۔ یعنی ایک مقررہ وقت ہے جو نہی وہ وقت آیا احیا و اجسام ظہور میں آگئے۔ نطفہ کو دیکھو (نقر فی الارحام ما نشاء الی اجل مسمی) وہ اندرونی طور پر بنتا رہتا ہے مگر ایک مقررہ وقت تک ارحام کے اندر چھپا رہتا ہے۔ اجسام نباتیہ کو دیکھو، ان کی زندگی کا جوہر موجود ہوتا ہے، مگر ابھرتا نہیں، ابھرتا کب ہے؟ (اذا انزلنا علیھا الماء) جب بارش کی گھڑی آتی ہے اور زندگی کے بروز و نمود کا اعلان کردیتی ہے۔ اس وقت (اھتزت وربت وانبتت من کل زوج بھیج) کا عالم نمایاں ہوجاتا ہے۔ تخم حیات اور اعادہ نشاۃ: یہ انسان و حیوان کی کامل ہستی جو محض نطفہ سے ظہور میں آتی ہے کیوں ظہور میں آتی ہے؟ اس لیے کہ اس میں جوہر حیات بالقوۃ موجود ہے اور پھر وہ بالفعل نمود کرتا ہے۔ اچھا اگر تمہاری روزانہ زندگی کا یہ معاملہ تمہارے لیے عجیب نہیں تو یہ بات کیوں عجیب ہوجائے کہ اسی طرح کوئی نطفہ حیات ہے جو مرنے کے بعد بھی موجود رہتا ہے، اور اس سے دوبارہ وجود انسانی ظہور میں آجائے گا؟ تم کہو گے اس کی کوئی مثال نہیں لیکن تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو جبکہ اس کی مثال ہمیشہ تمہاری نگاہوں سے گزرتی رہتی ہے؟ (وتری الارض ھامدۃ) تم زمین کو دیکھتے ہو، وہی زمی جو کچھ عرصہ پہلے شاداب تھی، یک قلم سوکھ گئی ہے، پھر جب اس کی بندگی کی اجل مسمی آجاتی ہے یعنی پانی برسنے لگتا ہے تو اچانک مری ہوئی شادابی دوبارہ زندہ ہوجاتی ہے اور ہر تخم نباتی اٹھ کھڑا ہوجاتا ہے، جس طرح نباتات کے اعادہ نشاۃ کا یہ منظر ہمیشہ دیکھتے رہتے ہو تو ٹحیک اسی طرح انسانی زندگی کے اعادہ نشاۃ کا معاملہ بھی سمجھو۔ بارش نے نئی زندگی پیدا نہیں کردی، اسی پیدا شدہ زندگی کو دہرا دے گی جو کائنات کی آغوش میں موجود ہے۔ اب تم کہو گے، اگر موجود ہے تو وہ دکھائی کیوں نہیں دیتی؟ لیک تمہیں کون سی چیز دکھائی دیتی ہے ؟ تمہیں نطفہ میں انسان اور تخم میں درخت دکھائی دیتا ہے؟ تم کہو گے مگر نطفہ اور تخم تو دکھائی دیتا ہے اور زندگی کے جو جراثیم آنکھوں سے نہیں دیکھے جاسکتے، آلات کے ذڑیعہ سے دیکھ لیے جاسکتے ہیں َ ہاں دیکھ لیے جاسکتے ہیں مگر اس لیے کہ زیادہ دقیق نہیں، جو دقیقی نہیں تھے وہ تمہیں صاف نظر آتے رہے، جو دقیقی تھے وہ ہزاروں برس تک نظر نہیں آئے۔ یہاں تک کہ تم نے طاقتور فرد بینیں ایجاد کیں، پس تم کیسے حکم لگا دے سکتے ہو کہ ان سے بھی دقیق ترتخم ہائے حیات موجود نہیں؟ اگر تمہیں صرف اتنی سی بات کے لیے دس ہزار برس تک انتظار کرنا پڑا کہ نطفہ حیوانی کے جراثیم دیکھ لو۔ تو تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ ان سے بھی دقیق ترتخم ہائے حیات کے لیے تمہیں چند ہزار برس اور مطلوب نہیں؟ اور ان کا مرئی نہ ہونا اکی معدومیت کا قطعی ثبوت ہے؟ تفصیل استدلال : اب دیکھو، مندرجہ صدر موعظت سے ان پانچوں باتوں پر کس طرح اذعان و یقین کی روشنی پڑ رہی ہے۔ (ا) (ان اللہ ھو الحق) کیونکہ یہ سب کچھ بغیر اس کے نہیں ہوسکتا کہ خالقیت اور قدرت کی ایک حقیقت کام کر رہی ہو، تم وجدانی طور پر ایسا اعتقاد رکھنے پر مجبور ہو۔ (ب) (انہ یحی الموتی) کیونکہ زندگی نہ تھی، اس نے پیدا کی اور پھر برابر اسے دہرا رہتا ہے۔ (ج) (انہ علی کل شی قدیر) کیونکہ جس کی قدرت نے ایک ایسے مواد سے جو مٹی اور پانی کی ملی جلی کیچڑ تھی زندگی کا شعلہ روشن کیا اور اس کا ایسا نظام قائم کردیا کہ نطفہ کے ایک قطرہ اور تخم کے ایک ذرہ سے پیدائش نکلتی اور زندگیاں بنتی رہتی ہیں اس کی قدرت سے کون سی بات بعید ہوسکتی ہے ؟ (د) (ان الساعۃ اتیۃ لا ریب فیھا) ایک مقررہ گھڑی قیامت کی ضرور آنے والی ہے۔ کیونکہ یہاں تبدیلی کا قانون نافذ ہے اور ہر تبدیلی کے لیے ایک اجل مسمی مقرر ہے۔ پس جس طرح بارش کی مقررہ گھڑی تمام اجسام نباتیہ کو موت کی حالت سے زندگی کی حالت میں لے آتی ہے ضروری ہے کہ نوع انسانی کے لیے بھی ایک ایسی ہی اجل مسمی ہو۔ (ہ) (وان اللہ یبعث من فی القبور) اور جب وہ گھڑی آئے تو تمام اموات لہلہاتی ہوئی کونپلوں کی طرح اٹھ کھڑی ہوں۔ قرآن کی اس موعظت کو ٹھیک طور پر سمجھ لینے کے لیے ضروری ہے کہ چند مقامات واضح ہوجائیں۔ قرآن کی اصطلاح میں بعثت : اولا قرآن نے جابجا حیات بعد الموت کو بعث سے تعبیر کیا ہے۔ بعث کے معنی اٹھ کھڑے ہونے کے ہیں۔ گویا اس کے نزدیک یہ معامالہ ایسا ہوگا جیسے کوئی سورہا تھا، پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ اسے خلقت کے اعادہ سے بھی تعبیر کرتا ہے۔ (کما بدانا اول خلق نعیدہ) موت اور احیات : ثانیا موت اور حیات کا اطلاق وہ صرف انہی حالتوں پر نہیں کرتا جو فلسفیانہ اصطلاح کی معدومیت اور تخلیق ہیں بلکہ ہر ایسی حالت پر کرتا ہے جس میں زندگی کی نمود مفقود ہوجائے یا بالفاظ دیگر صورت معدوم ہوجائے اور پھر نمایاں اور متشکل ہوجائے۔ اس باب میں اس کا اطلاق اس درجہ وسیع ہے کہ نیند کی حالت پر بھی اس نے موت کا اطلاق کیا ہے اور دراصل یہ خود عربی زبان کا لغوی اطلاق ہے، بعد کو موت اور حیات نے جو فلسفیانہ معانی پہن لیے وہ قرآن کی زبان نہیں ہے۔ انسان کا عام مشاہدہ اور اعتقاد بھی یہی ہے، نطفہ کو ہم زندہ نہیں کہتے۔ حالانکہ اس میں زندگی کا جرثومہ موجود ہے، آم کی گٹھلی اور پتھر کے ایک ٹکڑے میں ہم کوئی فرق نہیں کرتے، دونوں ہماری زبان، ہمارے اعتقاد اور ہمارے مشاہدہ میں بے جان ہیں، حالانکہ علمی اصطلاح میں گٹھلی بے جان نہیں، اس میں نباتاتی زندگی کا تخم موجود ہے۔ پس قرآن کے اختیارات لغویہ کو کہ لغت کے اعتبار سے ہیں، علمی مصطلحات پر ڈھالنا نہیں چاہیے۔ اس کی زبان میں موت عام ہے، خواہ انعدام محض ہو، خواہ انعدام صورت ہو، اسی طرح حیات بھی عام ہے، خواہ معدومیت محضہ سے تخلیق ہو، خواہ کسی جوہر حیات سے بروز وانبعاث ہو۔ چنانچہ جس طرح وہ اس ابتدائی حالت کو موت سے تعبیر کرتا ہے جو عدم محض کی حالت تھی، اسی طرح نطفہ کی اور تخم ائے نباتات کی حالت کو بھی موت سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے۔ پہلے زندگی مٹی سے ہوئی جبکہ حیات حیوانی میں سے کچھ نہ تھا۔ پھر نطفہ سے ہوتی ہے، جبکہ نطفہ کا جوہر حیات موجود ہوتا ہے۔ انبعاث تخلیق نہیں ہے اعادہ و تبدل حیات ہے : ثالثا اس نے حشر اجساد کے معاملہ کو بھی اسی حالت سے تشبیہ دی ہے جو نطفہ سے زندگی کے ابھرنے اور تخم سے درختوں کے نکلنے کی حالت ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا انسان کی دوسری زندگی کا ظہور اس طرح کا ظہور نہ ہوگا جیسا ابتدائی تخلیق کا ظہور تھا۔ یعنی بغیر کسی اصل حیات کے حیات ظہور میں آگئی تھی۔ بلکہ ایسا ہوگا، جیسا نطفہ سے ایک نئی پیدائش اور بزور نباتات سے اییک نیا انبعاث ظہور میں آجاتا ہے۔ یعنی اصل حیات بالقوہ موجود ہوتی ہے اور بالفعل ظہور میں آجاتی ہے، اسی لیے وہ اسے بعث سے تعبیر کرتا ہے، جیسے کوئی آدمی دیر تک سوتا رہا تھا، پھر اٹھ کھڑا ہوا، اور یہی وجہ ہے کہ اس نے اس ان بعاث کے احساسات و اردرات ایسے بیان کیے ہیں جیسے نیند کے بعد بیدار ہونے پر طاری ہوا کرتے ہیں۔ مثلا جابجا کہا ہے، اس وقت لوگ سوچیں گے، ہم کتنے عرسہ تک بے خبر رہے؟ کوئی کہے گا تھوڑی دیر، کوئی کہے گا زیادہ عرصہ تک، اور پھر یہی وجہ ہے کہ وہ اس حالت کو اعادہ حیات سے تعبیر کرتا ہے، اور عالم ہستی کے تبدل و تحول سے استدلال کرتا ہے۔ یعنی جب فطرت کائنات کے ہر گوشہ میں تبدل حالت کا قانون کام کررہا ہے اور یہاں ہر قدم پر تبدل اور ہر منزل پر تجدد ہے تو کیوں تمہیں اس سے انکار ہو کہ ایک اور تبدل بھی پیش آنے والا ہے اور اس کا نام بعث و حشر ہے؟ انسان اپنی ہستی کی جس منزل تک پہنچ چکا ہے وہاں سے گردن موڑ کر پیچھے کی طرف دیکھے، کتنے بے شمار تبدلات ہیں جن سے اس کی ہستی گزرتی رہی ہے؟ پھر اگر ماضی میں بے شمار تبدلات ہوچکی ہیں تو کیوں مستقبل میں بھی نہ ہوں؟ کیوں تبدلات کا سفر اسی منزل تک پہنچ کر رک جائے؟ کیوں اس پر تعجب ہو کہ جہاں ایک ہزار تبدیلیاں ہوچکی ہیں وہاں ایک آخری تبدیلی اور بھی ہونے والی ہے؟ ہم نے اضافی حیثیت سے یہاں آخری کہہ دیا، ورنہ کون کہہ سکتا ہے کہ وہ تبدل بھی آخری ہوگا؟ (وما اوتیتم من العلم الا قلیلا) یہاں وجود کی حقیقت نہیں مٹتی صورت مٹتی ہے : رابعا ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں جو چیز بھی اپنا وجود پالیتی ہے پھر اس کی حقیقت معدوم نہیں ہوتی، صرف صورت معدوم ہوجاتی ہے، اور اسی صورت کا انعدام ہمارے لیے اس کا معدوم ہوجانا ہوتا ہے۔ تم درخت کو چیر کر تختہ بنا لیتے ہو۔ اب درخت معدوم ہوگیا تختہ پیدا ہوگیا، مگر جو چیز معدوم ہوگئی وہ کیا تھی؟ صورت یا حقیقت؟ محض صورت جو پیدا ہوگئی، وہ کیا پیدا ہوئی؟ نئی حقیقت یا نئی صورت؟ نئی صورت، کیونکہ درخت پر جو تبدیلی طاری ہوئی وہ صرف صورت کی ہوئی۔ حقیقت تختے کی بھی وہی ہے جو درخت کی تھی۔ اب تختہ جلا دو، تختہ نابود ہوگیا، راکھ پیدا ہوگئی، راکھ بھی اڑ دو، راکھ نابود ہوگئی، منتشر ذرات پیدا ہوگئے۔ مگر ان دونوں حالتوں میں بھی جو انعدام ہوا، وہ کس چیز کا ہوا؟ محض صورت کا، اگر تم منتشر ذروں کا بھی تعاقب کرسکتے ہو تو کر دیکھو، صورت بدلتی جائے گی، حقیقت کبھی معدوم نہیں ہوگی کیونکہ یہاں ہر گوشہ میں تبدل صرف صورت کے لیے ہے، حقیقت کے لیے نہیں ہے۔ لیکن صورت کے اس تبدل کا سلسلہ کس نقطہ پر جاکر ختم ہوتا ہے؟ اس کا کھوج ہم آج تک نہ پاسکے۔ ہماری جستجو کا قافلہ ہمیشہ کی طرح اب بھی رواں ہے، ہم نے عرصہ تک عناصر کا خواب دیکھا، ہم مدتوں جز ولا تیجزی کی سراغ رسانی میں رہے، ہم نے ذی مقراطیسی سالمات پر صدیوں تک اعتماد کیا۔ اب ہم الیکڑون کی مثبت اور منفی لہروں میں اسے دیکھ رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ آگے بڑھیں گے یا یہیں رکے رہیں گے۔ البتہ اس آخری منزل نے حقیقت کا ایک نیا جلوہ آشکارا کردیا ہے، یعنی یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مادہ کا آخری بقایا محض ایک جامد ذرہ ہی نہیں ہے بلکہ حرکت و خواص حرکت کی ایک مشتعل قوت ہے اور نہیں معلوم اس نقطہ قوت میں فعل و انفعال کی کتنی دنیائیں پوشیدہ ہیں۔ تبدل صورت اور بقائے حقیقت سے استدلال : قرآن کہتا ہے جب تم دیکھ رہے ہو کہ یہاں تبدل صورت اور بقائے حقیقت کا قانون ہر گوشہ میں کام کر رہا ہے، تو پھر تم نے کیسے سمجھ لیا کہ ایک انسانی ہستی وجود میں آکر پھر مطلقا نابود ہوجاتی ہے اور اس کی کوئی حقیقت جوہری باقی نہیں رہتی؟ فطرت کا جو قانون وجود ہستی کے ہر گوشہ میں نافذ ہے وہ زندگی اور روح کے لیے کیوں معطل ہوجائے؟ وہ انسان کی زندگی کے لیے کیوں معطل ہوجائے جو کرہ ارضی کی تمام مخلوقات کا ماحصل اور سلسلہ تخلیق کا منتہا اور مقصود ہے؟ نہیں یہاں کوئی ہستی بھی جو وجود میں آجائے، نابود محض نہیں ہوسکتی۔ بلاسبہ اس کی صورت مٹ جاتی ہے مگر حقیقت نہیں مٹے گی۔ اس کی صورت پر ہزار تبدیلیاں طاری ہوجائیں مگر بالآخر کوئی نہ کوئی حقیقت جوہری ضرور باقی رہے گی۔ وہ ایک دانہ تخم کی طرح ہو، ایک نطفہ پیدائش کی طرح ہو، ایک ذرہ حیات کی طرح ہو، مگر ممکن نہیں کہ موجود نہ ہو۔ وہ کسی نہ کسی حالت میں ضرور موجود رہتی ہے اور پھر جونہی بعث و اعادہ کی گھڑی آئے گی اور زندگی کا صور پھونکا جائے گا، ہر انسانی زندگی اس سے نمودار ہو کر اٹھ کھڑی ہوگی۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح نطفہ پیدائش سے شکم مادر میں اور تخم نباتی سے آغوش ارضی میں اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ یہاں کوئی ہستی جو پیدا ہوجائے، پھر نابود نہیں ہوجاتی۔ وہ کسی مخفی نشیمن میں سوئی رہتی ہے۔ اب اسے دوبارہ خلق کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ صرف اٹھا دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ نباتات کی ہستی ذرات تخم کے نشیمنوں میں سوئی رہتی ہے جب نمود بروز کا موسم آتا ہے تو وہ نئی ہستیاں پیدا نہیں کردیتا، سوئی ہوئی ہستیوں کو بیدار کردیتا ہے، اسی طرح انسان کی ہستی بھی کسی نہ کسی ذرہ تخم میں بند ہو کر سو رہتی ہے۔ اور جب وقت آئے گا تو اٹھ کھڑٰ وہگی۔ تم اسے دیکھتے نہیں، لیکن تم اور کتنی حقیقتوں کو دیکھ رہے ہو؟ تمہیں اس کا پتہ نہیں۔ لیکن تم نے اور کتنی حقیقتوں کا پتہ لگا لیا ہے؟ تمہارے عدم ادراک سے حقیقت معدوم نہیں ہوسکتی، تم اگر اعتقاد وجود کے لیے مشاہدہ وجود کو شرط سمجھ لو گے تو تمہیں آدھی دنیا سے انکار کردینا پڑے گاْ تم نے اگر ایسا سمجھ لیا ہوتا تو آج حقائق مادیہ کی دو تہائی حقیقتیں غیر معلوم ہوتیں، تم عرفان حقیقت کی راہ میں صرف حواس کے سہارے چل نہیں سکتے۔ تمہیں ادارک عقلی کا سہارا پکڑنا پڑتا ہے، اور پھر جب یہ سہارا بھی جواب دے دیتا ہے تو تم رک جاتے ہو اور انتظار کرتے ہو، تمہیں اس گوشہ میں بھی مان لینا چاہیے اور انتظار کرنا چاہیے۔ مواسم ہستی کی گردش اور تقویم فطرت : خامسا قرآن نے بعث و حشر کے معاملہ کا جس طرح ذکر کیا ہے اور عالم نباتات کے اعادہ حیات کی مقررہ گھڑی سے جس طرح اسے تشبیہ دی ہے اس سے ایسا متبادر ہوتا ہے کہ تبدل کائنات کے معاملہ کو بھی موسموں کی تبدیلیوں کا سا معاملہ تصور کرنا چاہیے۔ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں، خزاں و بہار، خشک سالی سیرابی، گرمی و سردی، کے مختلف موسم آتے رہتے ہیں۔ اسی طرح تبدل کائنات کا بھی ایک موسم ہے اور ہمارے سال کی طرح اس کا بھی کوئی سال اور ہماری روز شماریوں کی طرح اس کی بھی کوئی روز شماری ہے،۔ لیکن ہم اپنی تقویم پر جو کائنات کے صرف ایک حقیر کرہ کی سیر و گردش کا نتیجہ ہے اس کی تقویم کو قیاس نہیں کرسکتے۔ اس کی مدت کوئی بڑی ہی طولانی مدت ہے، اتنی طولانی کہ ہماری وقت شماری کا پچاس ہزار سال اور اس کا صرف ایک دن۔ چنانچہ آگے چل کر سورۃ معارج میں پڑھو گے : (تعرج الملائکۃ والروح الیہ فی یوم کان کان مقدارہ خمسین الف سنۃ) ہمارے سال کے موسموں کی طرح کا بھی ایک موسم ختم ہوتا ہے اور دوسرا موسم شروع ہوتا ہے۔ یہاں جب حیات ارضی کا موسم آتا ہے تو اس کی محرک اول بارش ہوتی ہے، بارش گرتی ہے اور اموات نباتات کو زندگی کا حکم مل جاتا ہے۔ (اھتزت وربت وانبتت من کل زوج بھیج) ٹھیک اسی طرح جب سال کائنات کا وہ مقررہ موسم آئے گا تو بارش ہی کی طرح زندگی کا کوئی صورت پھونک دیا جائے گا : (فاذا نفخ فی الصور نفخۃ واحدۃ) اور بہ مجرم حکم، تمام اموات انسانی اٹھ کھڑی ہوں گی : (یخرجون من الاجداث کانھم جراد منتشر۔ مھطعین الی الداع) علم اس مقام میں نہیں کہ جرات انکار کرے : آخر میں ایک اصل عظیم نہیں بھولنی چاہیے۔ جہاں تک مسئلہ حیات کی حقیقت کا تعلم ہے علم انسانی کے سامنے کوئی یقینی روشنی موجود نہیں۔ ہم اس وقت تک یہ بھی نہ جان سکے کہ زندگی کی حقیقت کیا ہے ؟ ارنست ہیگل (Ernst Haeckel) کے لفظوں میں ہم زیادہ سے زیادہ جو کرسکے ہیں وہ صرف یہی ہے کہ اس کے آنے کا انتظار کریں اور جب آجائے تو اس کے اطوار و احوال اور خواص و افعال کے تعاقب میں نکل جائیں، لیکن وہ کیا ہے ؟ وہ آتی کہاں سے ہے؟ وہ جاتی کہاں ہے ؟ تو اس بارے میں علم انسانی کا قدم اس جگہ سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکا جہاں ہزاروں برس سے متحیر و درماندہ کھڑا ہے۔ جب حقیقت حیات کے بارے میں ہماری عقلی معلومات کا یہ حال ہے تو کیا ہمیں ایسا مقام حاصل ہے کہ وحی الہی کے اعلانات علم و یقین کے مقابلہ میں نفی و انکار کی جرات کریں؟ اگر کریں گے تو یہ ویسی ہی جرات ہوگی جسے اسی صورت میں جدال فی اللہ بغیر علم سے تعبیر کیا ہے : (ومن الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم ولا ھدی ولا کتاب منیر) دلائل بعثت کے بیان کے بعد فرمایا : (ومن الناس من یجادل فی اللہ بغیر علم ولا ھدی ولا کتاب منیر) اور کتنے ہی آدمی جو اللہ کے بارے میں جھگڑنے لگتے ہیں اور ان کی حالت کیا ہوتی ہے ؟ یہ کہ نہ تو علم کی روشنی رکھتے ہیں نہ کوئی رہنمائی کی راہ اور نہ کوئی کتاب روشن، اور عرفان حق کے یہی تین وسائل ہیں جو انسان کو حاسل ہوسکتے ہیں، پس ایسے لوگوں کے لیے سچائی کی کوئی دلیل بھی سود مند نہیں، وہ دلائل بعث کی یہ تمام موعظت سن کر بھی سر ہلا دیں گے کہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ یہ آیت مہمات معارف قرآنی میں سے ہے کیونکہ اس نے جدال فی اللہ بغیر علم کی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہی حالت قرآن کے نزدیک جہل و ضلالت انسانی کا سب سے بڑا مبدء ہے۔ لیکن چونکہ یہ مقام زیادہ تفصیل کے ساتھ آئندہ سورتوں میں آنے والا ہے اس لیے یہاں اس کی تشریح میں جانا ضروری نہیں۔ الحج
78 الحج
0 المؤمنون
1 یہ مکی زندگی کی آخری تنزیلات میں سے ہے، بالاتفاق الانبیاء کے بعد اتری۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت مکہ میں پیدا ہوگئی تھی اور دعوت حق کے فیضان نے اس کے خصائص اسلامی آشکارا کردیے تھے یہ گوہر مریضوں کی پہلی جماعت تھی جو اس شفا خانہ سے تندرست ہو کر نکلی، اب طبیب ان کی طرف اشارہ کر کے کہہ سکتا تھا کہ جسے میری طبابت میں شک ہو وہ انہیں دیکھ لے۔ جو طبیب اپنے نسخہ شفا سے ایسی تندرست روحیں پیدا کردیتا ہے وہ طبیب ہے یا نہیں؟ یعنی یہ جماعت اپنے خصائص ایمانی و عملی میں دعوت حق کی صداقت کی ایک مشہور دلیل بن گئی تھی۔ یہی وجہ ہے اس عہد کی سورتوں میں جابجا اس کے اعمال و خصائص کی طرف اشارات کیے ہیں۔ اس سورت کی ابتدا اسی مرقع سے ہوتی ہے، غور کرو، اس مرقع کے اصلی نقش و نگار کیا کیا ہیں؟ یہاں خصوصیت کے ساتھ پانچ وصف بیان کیے، گویا قرآن کے نزدیک ایمان و عمل کے مرقع میں سب سے زیادہ نمایاں یہی خط و خال ہیں جس زندگی میں یہ خصائص نہہوں وہ مومن زندگی نہیں سمجھی جاسکتی۔ (الف) نماز کی محافظت اور اس کا خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنا، خشوع کا پورا مفہوم کسی ایک لفظ میں ادا نہیں کیا جاسکتا، تم کسی باہیبت و اجلال مقام میں کھڑے ہوجاؤ، تو تمہارے ذہن و جسم پر کیسی حالت طاری ہوجائے گی؟ ایسی ہی حالت کو عربی میں خشوع کی حالت کہتے ہیں۔ (ب) ہر اس بات سے مجتنب رہنا جو نکمی ہو، صرف انہی باتوں کا اشتعال رکھنا جو دین و دنیا میں نافع ہوں۔ (ج) اپنی کمائی اپنے محتاج بھائیوں کے لیے خرچ کرنا۔ (د) زنا سے کبھی آلودہ نہ ہونا (ہ) امانت دار ہونا، اپنے عہدوں کو پورا کرنا۔ المؤمنون
2 المؤمنون
3 المؤمنون
4 المؤمنون
5 المؤمنون
6 المؤمنون
7 آیت (٧) سے معلوم ہوا کہ قرآن کے نزدیک اتحاد تناسلی کا جائز طریقہ صرف ایک ہی ہے اور وہ ازدواج کا طریقہ ہے اس کے علاوہ جو طریقہ بھی اختیار کیا جائے گا ناجائز ہوگا۔ خواہ کسی شکل اور کسی نوعیت کا ہو۔ تمام دنیا کی طرح عرب میں بھی غلامی کی رسم جاری تھی اور لونڈی غلاموں کے معاملہ کو ملک یمین سے تعبیر کرتے تھے۔ یعنی کسی چیز پر قابض ہوجانے سے، یہاں فرمایا وہ زنا شوی کا علاقہ بجز منکوحہ عورتوں کے اور کسی سے نہیں رکھتے۔ ان کی بیبیاں ہوں جو سوسائٹی کے آزاد افراد میں سے ہیں۔ یا لونڈیاں ہوں جو ان کے نکاح میں آگئی ہیں۔ چونکہ وقت کی سوسائٹی میں آزاد اور غلام افراد کی یہ دو قمسیں پیدا ہوگئی تھیں اس لیے ان کا ذکر ناگزیر تھا، باقی رہی یہ بات کہ خود قرآن نے رسم غلامی کے باب میں کیا حکم دیا؟ اور کس طرح اسے مٹانا چاہا؟ تو اس کا جواب سورۃ محمد کی تشریحات میں ملے گا۔ المؤمنون
8 المؤمنون
9 المؤمنون
10 المؤمنون
11 المؤمنون
12 آیت (١٢) میں وہی بات کہی جو سورۃ حج میں گزر چکی ہے، یعنی انسان کی ابتدائی پیدائش کس چیز سے ہوئی؟ (سلالۃ من طین) ایک ایسے جوہر سے جو کیچڑ کا خلاصہ تھا۔ یعنی مرطوب مٹی مدتوں تک خمیر کی حالت میں رہی، پھر اس میں کوئی ایسی چیز پیدا ہوگئی جسے اس کا خلاصہ اور ست سمجھنا چاہیے۔ اسی خلاصہ سے زندگی کی اولین نمود ہوئی اور اسی سے بالآخر وجود انسانی متشکل ہوا۔ یہ تو پہلی پیدائش ہوئی اس کے بعد پیدائش کا سلسلہ کس طرح جاری ہوا؟ توالد و تناسل سے، چنانچہ پہلے نطفہ رحم مادر میں جگہ پکڑتا ہے، پھر اس پر نشو نما کے مختلف دور طاری ہوتے ہیں۔ قرآن نے یہاں اور دوسرے مقامات میں تشکیل جنین کے جو مراتب خمسہ بیان کیے ہیں گزشتہ زمانے میں ان کی پوری حقیقت واضھ نہیں ہوئی تھی، کیونکہ علم تشریح جنین (Embryology) بالکل ناقص حالت میں تھا، لیکن اب انیسیوں صدی کی تشریحی تحقیقات نے تمام پردے اٹھا دیے ہیں اور ان سے پوری طرح ان تطورات کی تصدیق ہوگئی ہے۔ خصوصا (ثم انشاناہ خلقا اخر) کی تفصیل اسی سورت کے آخری نوٹ میں ملے گی۔ انسان اگر غور کرے تو حقیقت کے دلائل و شواہد اسے تین راہوں سے گھیرے ہوئے ہیں۔ خود اس کی ہستی کا ہر گوشہ سرتا سر دلیل حقیقت ہے۔ یہ قرآن کی اصطلاح میں عالم انفس ہے، اس سے باہر جو کچھ ہے وہ بھی حقیقت کا پیام ہے۔ یہ عالم آفاق ہے پھر عالم آفاق کے دلائل کی بھی دو قسمیں ہوئیں۔ کائنات ہستی کی خلقت و قوانین کے مظاہر، یہ آیات کونیہ ہیں۔ اقوام ماضیہ کے احوال و تجارب، یہ براہین عملیہ ہیں۔ قرآن کا اسلوب بیان یہ ہے کہ وہ ان تمام اقسام سے استدلال کرتا اور ایک قسم کے دلائل کے بعد دوسری قسم کے دلائل لاتا ہے۔ اس سورت میں علی الترتیب تینوں قسموں کے دلائل جمع ہوگئے ہیں۔ آیت (١٢) سے (١٧) تک عالم آفاق کے دلائل کونیہ بیان کیے ہیں کہ اپنے نفس سے باہر کے عالم میں تفکر کرے۔ آیت (٢٣) سے (٥٣) تک گزشتہ دعوتوں کی سرگزشتوں سے استدلال کیا ہے کہ حوادث ماضیہ سے حال و مستقبل کے لیے عبرت پکڑے، اس کے بعد آخرت سورت تک جو کچھ بیان ہے وہ اسی سلسلہ استدلال کے قدرتی نتائج و عبر ہیں۔ المؤمنون
13 المؤمنون
14 المؤمنون
15 المؤمنون
16 المؤمنون
17 آیت (١٧) سے (٢٢) تک جن دلائل کونیہ پر توجہ دلائی ہے وہ برہان ربوبیت کا استدلال ہے۔ تفصیل کے لیے تفسیر فاتحہ دیکھو۔ آیت (١٧) میں فرمایا (خلقنا فوقکم سبع طرائق) طرائق کے صاف معنی عربی میں راہ کے ہیں لیکن چونکہ ہمارے مفسروں کے سامنے نظام بطلیموسی موجود تھا اور اس میں کواکب کی جگہ طبقات سماوی کی گردش تسلیم کی گئی تھی، اس لیے مجبھور ہوئے کہ کسی نہ کسی طرح اسے طبقات کے معنوں میں لے جائیں، مگر اب نظام بطلیموسی کا پورا کارخانہ ہی ملیا میٹ ہوگیا۔ سات بڑے ستاروں کا تعین انسانی علم کی نہایت قدیم معلومات میں سے ہے۔ اسی لیے قرآن جابجا ان کی سیر و گردش اور عجائب آفرینش پر توجہ دلاتا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ ان کی خلقت پر اس لیے بھی زور دیا گیا ہے کہ تمام قدیم قوموں میں ان کی پرستش کا اعتقاد پیدا ہوگیا تھا۔ اس لیے ضروری تھا کہ ان کی مخلوقیت کے پہلو پر بار بار زور دیا جاتا۔ المؤمنون
18 المؤمنون
19 المؤمنون
20 آیت (٢٠) میں خصوصیت کے ساتھ زیتون کے درخت کا ذکر کیا ہے۔ فطرت کے افادہ و فیضان عام کا یہ ایک خاصہ گوشہ ہے۔ اس نے دانوں اور پھلوں میں ہر طرح کی ٹھوس غزا ہی پیدا نہیں کردی بلکہ دہنیت کے ایسے ذخیرے بھی مہیا کردیے جن سے بکثرت تیل نکلتا ہے اور انسان کے لیے نہایت مقوی غذا اور دوا کا کام دیتا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ عجیب و نافع درخت زیتون کا درخت ہے۔ اس کا دانہ سرتا سر دہنیت ہے۔ حتی کہ اگر چٹکی میں لے کر زور سے مسل ڈالو تو تیل کے قطرے ٹپکنے لگیں گے۔ خواص کے لحاظ سے کوئی چکنائی اتنی معتدل اور موافق نہیں جتنی زیتون کی ہے۔ شاید بہت کم لوگوں نے اس بات پر غور کیا ہوگا کہ دہنیت کے لیے تمام دنیا کا اعتماد ہمیشہ سے نباتاتی دہنیت ہی پر رہا ہے۔ اور اس میں بھی خصوصیت کے ساتھ زیتون پر، یہ صرف ہندوستان ہے جہاں مکھن کو گھی بنا کر استعمال کرنے کا رواج پیدا ہوا اور لوگ اسے نباتاتی دہنیت پر ترجیح دینے لگے۔ یہی وجہ ہے دنیا کی دوسری زبانوں میں گھی کے لیے کوئی خاص لفظ نہیں ملتا۔ وہ اس سے آشنا ہی نہ تھے۔ زیتون کے لیے طور سینا کی طرف اس لیے اشارہ کیا کہ منابت زیتون میں سے قریب تر مقام جزیرہ نمائے سینا ہی کا علاقہ تھا۔ گویا زیتون کی اصلی دنیا یہاں سے شروع ہوجاتی ہے۔ المؤمنون
21 المؤمنون
22 المؤمنون
23 آیت (٢٣) سے اقوام ماضیہ کی سرگزشتوں کا جو بیان شروع ہوا ہے وہ تمام تر مجمل اشارات پر مشتمل ہے۔ کیونکہ یہاں یہ موعظت مقصود بالذات نہیں ہے۔ پچھلی دو موعظتوں کو دلائل قصس سے مزید تقویت دینی ہے۔ چونکہ گزشتہ دعوتوں کا تزکرہ ہر جگہ حضرت نوح کی دعوت سے شروع کیا گیا ہے اور حضرت مسیح کی دعوت پر ختم ہوجاتا ہے اس لیے یہاں بھی ابتدا دعوت نوحی ہی سے ہوئی اور حضرت مسیح کے تذکرہ پر ختم ہوگئی۔ درمیان میں جو دعوتیں اور قومیں گزریں ان کی طرف صرف اجمالی اشارہ کردیا گیا، البتہ موسیٰ کا خصوصیت کے ساتھ نام لیا گیا۔ کیونکہ ان سے سلسلہ دعوت کے ایک نئے دور کی ابتدا ہوئی تھی۔ ایک صورت حال یہ ہے کہ افراد انسانی پیدا ہوں اور آباد ہوں، ایک یہ ہے کہ ان کی جماعتی زندگی اور اس کی مدنی خصوصیات اس طرح ابھریں اور عروج تک پہنچیں کہ ایک خاص قومی عہد پیدا ہوجائے۔ عربی میں دوسری حالت کو کسی قوم و ملک کے قرب سے تعبیر کریں گے، یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جابجا قرن اور قرون کا لفظ اختیار کیا ہے، یعنی صرف قوموں کا پیدا ہونا اور آبادیوں میں بسنا ہی نہیں بلکہ قومی عروج و اقبال کے دور اور عہد، ہمارے مترجموں اور عام مفسروں نے اس پہلو پر غور نہیں کیا، وہ قرن اور قرون کا مطلب ادا کرنے کے لیے صرف قوم و اقوام کے الفاظ پر قناعت کرلیتے ہیں۔ منکرین ھق کے یہاں جو عقائد و اقوال نقل کیے ہیں ان پر غور کرو، یہ گویا تمام منکرین رسالت کا وجوہ انکار و اعراض کا خلاصہ ہے اور سب کا مشترک اور متفقہ مسلک، کیونکہ یہاں کسی خاص دعوت اور اس کے منکروں ہی کا ذکر نہیں ہورہا ہے بلکہ ان سب کا جنہوں نے حضرت نوح کے بعد اپنے اپنے وقتوں اور اپنے اپنے ملکوں میں دعوت وحی سے روگرانی کی، یہ انکار دو باتوں پر مشتمل ہے، ایک یہ کہ ہماری طرح کا ایک آدمی جو ہماری ہی طرح کھاتا پیتا ہو خدا کی سچائی کا پیام بر کیسے ہوسکتا ہے۔ دوسری یہ کہ مرنے کے بعد پھر زندہ ہونا ہے اور عذاب و ثواب کا پیش آنا نہایت ہی عجیب بات ہے۔ ایسی بات کیونکر مانی جاسکتی ہے۔ حضرت نوح کے بعد قوم نشاۃ کے جس عہد کا کیا ہے یہ غالبا قوم عاد و ثمود کا عہد تھا۔ کیونکہ دوسری جگہ انہیں قوم نوح کا جانشین کہا ہے، پھر ان کے بعد جن قرون کی طرف اشارہ کیا ہے اس سے مقصود وہ بے شمار قومیں ہیں جو حضرت موسیٰ کے ظہور سے پہلے گزری ہیں اور جن کی نسبت سورۃ ابراہیم کی آیت (٩) میں گزر چکا ہے کہ (والذین من بعدھم لا یعلمھن الا اللہ) المؤمنون
24 المؤمنون
25 المؤمنون
26 المؤمنون
27 المؤمنون
28 المؤمنون
29 المؤمنون
30 المؤمنون
31 المؤمنون
32 المؤمنون
33 المؤمنون
34 المؤمنون
35 المؤمنون
36 المؤمنون
37 المؤمنون
38 المؤمنون
39 المؤمنون
40 المؤمنون
41 المؤمنون
42 المؤمنون
43 المؤمنون
44 آیت (٤٤) سے معلوم ہوا کہ ان عہدوں میں بے شمار قومیں ابھریں اور پامال ہوئیں اور خدا کے رسولوں کا بھی بکثرت اور لگاتار ظہور ہوا کیونکہ فرمایا (ارسلنا رسلنا تترا) اور (اتبعنا بعضھم بعضا) یکے بعد دیگرے لگاتار رسول ظاہر ہوتے رہے اور ایک کے بعد ایک قومیں ابھری اور پاداش عمل میں پامال ہوتی رہیں۔ المؤمنون
45 المؤمنون
46 المؤمنون
47 المؤمنون
48 المؤمنون
49 المؤمنون
50 آیت (٥٠) میں حضرت مسیح اور ان کی والدہ (کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : (واویناھما الی ربوۃ ذات قرار و معین) ہم نے انہیں ایک مرتفع مقام میں پناہ دی جو بسنے کی اچھی جگہ اور پانی کی فراوانی سے شاداب تھی۔ غالبا اس سے مقصود وادی نیلم کی بالائی سطحح ہے، یعنی مصر کا بالائی حصہ، اناجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کی پیدائش کے بعد مریم کے شوہر یوسف نے ماں بیٹے کو ساتھھ لیا اور فلسطین سے مصر چلا گیا، چنانچہ حضرت مسیح کا بچپن اور شباب وہیں گزرا۔ جب فلسطین واپس آئے تو جوانی کی عمر تک پہنچ چکے تھے۔ غالبا ان کی زندگی کے اسی واقعہ کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے۔ دریائے نیل کے پانی فراوانی اور اس کے سالانہ سیلابوں کی عجیب و غریب نوعیت سرزمین مصر کا ایک امتیازی وصف رہی ہے۔ اس کی آبادی و سیرابی یعنی اس کا ذات و قرار و معین ہونا ضرب المچل کی طرح زباں زد ہوگیا تھا۔ چنانچہ عبرانی کی یہ قدیم مثل آج تک ملتی ہے کہ فلاں ملک میں پانی کی اتنی فراوانی ہے جیسے مصر میں چونکہ یہ مصر کا ایک امتیازی وصف ہوگیا تھا اس لیے اسی وصف سے اسے یاد کیا گیا۔ اس تعبیر میں یہ پہلو بھی پوشیدہ ہے کہ وہ فلسطین جیسا سرسبز ملک ترک کردینے پر مجبور ہوگئے۔ لیکن اللہ کے فضل نے ایسی جگہ پناہ دے دی جو فلسطین ہی کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ ذت قرار و معین تھی۔ حجرت مریم اس سفر پر کیوں مجبور ہوئیں؟ اناجیل میں اس کا سبب یہ بیانن کیا گیا ہے کہ ہیرودس حاکم شام کے ظلم و تشدد سے، اسے نجومیوں نے پیدائش مسیح خبر دے دی تھی اور وہ چاہتا تھا انہیں قتل کردے، تب فرشتہ نے یوسف کو خواب میں حکم دیا، اٹھ اور بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر مصر بھاگ جا۔ (متی : ١٣: ٢) لیکن قرآن نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا ہے۔ المؤمنون
51 آیت (٥١) میں وحد دین و امت کی وہی اصل عظیم بیان کی گئی ہے جو پچھلی سورتوں میں جابجا گزر چکی ہے اور ابھی ابھی سورۃ انبیاء میں پڑھ چکے ہو۔ فرمایا ان تمام رسولوں پر جو ان بے شمار قوموں میں آتے رہے جو تعلیم نازل کی گئی تھی وہ کیا تھی؟ یہی کہ اچھی چیزیں کھاؤ، نیک عمل کی زندگی بسر کرو، الگ الگ نہ ہو، تمہارا پروردگار ایک ہے اور تمہاری امت بھی ایک ہی امت ہے۔ یہی سچائی کی سیدھی راہ ہے۔ لیکن لوگوں نے وحدت کی جگہ تفرقہ اور جمیعت کی جگہ تشتت و تخرب کی راہ اختیار کی، اب جو جس کے پلے پڑگیا ہے اسی میں مگن ہے۔ المؤمنون
52 المؤمنون
53 غور کرو، آیت (٥٣) میں کل حزب فرمایا کل امۃ نہیں فرمایا۔ کیونکہ قرآن کے نزدیک نوع انسانی کی امت ایک ہی ہے۔ ایک سے دو نہیں ہوسکتی۔ یہ تفرقے جو لوگوں نے گمراہ ہو کر پیدا کرلیے ہیں، حزب ہیں یعنی جتھے ہیں۔ امت نہیں۔ المؤمنون
54 آیت (٥٤) میں خطاب پیغمبر اسلام سے ہے۔ فرمایا ہدایت کی طرح شقاوت کا مزاج بھی ہمیشہ اسیک ہی طرح کا رہتا ہے۔ پس جس طرح پہلے ہوتا رہا ہے اب ببھی ہوگا، اور جو ماننے والے نہیں وہ کبھی نہیں مانیں گے۔ پس انہیں ان کی حالت میں چھوڑدو اور اپنا کام کیے جاؤ۔ المؤمنون
55 آیت (٥٥) سے (ّ٦١) تک قانون امہال کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جس کی تشریح سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں گزر چکی ہے، نیز پچھلی سورتوں کی تشریحات میں بھی۔ فرمایا : یہاں مہلت سب کے لیے ہے، اچھوں کے لیے بھی، بروں کے لیے بھی، پس اگر مفسوں کو دنیوی زندگی کی خوشحالیاں مل رہی ہیں تو یہ اس لیے نہیں ہے کہ ہمارا قانون مجازات معطل ہوگیا ہے اور ہم چاہتے ہیں بدمعلیوں پر بھی انہیں فوائد سے بہرہ اندوز کریں، بلکہ محض اس لیے کہ مقررہ وقت ابھی آیا نہیں، اور یہاں ہر نتیجہ کے لیے ایک اجل مسمی کا قانون کام کررہا ہے۔ اس کے بعد فرمایا خیرات و برکات کے حصول کی اصلی راہ تو ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ایمان و عمل صالح کی راہ اختیار کی، ان کی کامرانیاں کبھی ختم ہونے والی نہیں، ان کی بھلائیاں عارضی اور موجل نہیں، وہ اس لیے بلند نہیں ہوتے کہ زیادہ بلندی سے گریں بلکہ اس لیے کہ اور زیادہ بلند ہوں۔ المؤمنون
56 المؤمنون
57 المؤمنون
58 المؤمنون
59 المؤمنون
60 المؤمنون
61 المؤمنون
62 آیت (٦٢) میں فطرت کائنات کی ایک بہت بڑی حقیقت چند لفظوں کے اندر بیان کردی ہے، فرمایا یہاں فطرت کا یہ قانون کام کر رہا ہے کہ کسی جان پر اس کی جسمانی اور معنوی استطاعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالی جاتی۔ ہر جان سے فطرت کا مطالبہ عمل اتنا ہی ہے جتنے کی اس میں استعداد ودیعت کردی گئی ہے۔ یعنی فطرت نے ہر وجود کو استعداد دی ہے اور اس استعداد کے جواب میں عمل چاہتی ہے لیکن عمل کا یہ تقاضا ٹھیک ٹھیک اتنا ہی ہوتا ہے جتنے کی استعداد اسے دے دی گئی ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی کو استعداد عمل تو چھٹانک بھردی ہو اور مطالبہ عمل کا بوجھ اس پر سیر بھر کا ڈال دیا جائے۔ یہ مطالبہ کس بات میں ہوتا ہے ؟ فرائض ہستی کی انجام دہی میں ہر وجود کو اپنی بقا و تکمیل کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے، لیکن جتنی کچھ اور جیسی کچھ جدوجہد کرنی پڑتی ہے اتنی ہی اور اسی کیفیت کی استعداد بھی اسے دے دی گئی ہے۔ ادائے فرض کا مطالبہ اس سے زیادہ نہیں ہوتا جتنی اس کی طاقت و گنجائش ہے، اگر استعداد اور مطالبہ عمل میں یہ تطابق کلی نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ کوئی جان یہاں زندہ رہ سکتی۔ قرآن کہتا ہے جب اللہ کا یہ قانون ہر جان کے لیے ہے تو ضروری ہے کہ انسان کے لیے بھی ہو، اور جس طرح عالم جسم و صورت میں جاری ہے، ضروری ہے کہ روح و معنی میں بھی ہو۔ پس سعادت روحانی کے لیے بھی جو مطالبہ عمل ہے، وہ ٹھیک ٹھیک انسان کی استعداد عمل کے مطابق ہے، اور یہاں عالم جسم و روح، دونوں کے لیے اس کا قانون ایک ہی ہے۔ یاد رہے کہ اس آیت میں تکلیف کو صرف تکلیف شرعی پر لے جانا صحیح نہیں ہوسکتا۔ یہاں تکلیف عام معنوں میں بولا گیا ہے اور اس میں ہر طرح کی تکلیف آگئی ہے۔ تکلیف کے لیے ہمیں کوئی موزوں لفظ نہیں ملا، اس لیے مجبورا ہم نے ذمہ داری کی ترکیب اختیار کی۔ یہ نئی اردو ترکیب ہے لیک ادائے مفہوم کے لیے نسبتا بہتر اور جامع ہے۔ المؤمنون
63 المؤمنون
64 آیت (٦٤) میں فرمایا : (حتی اذا اخذنا مترفیھم بالعذاب) جب ان میں سے خوش حال اور دولت مند لوگوں کو ہم نے مواخذہ میں پکڑا۔ نیز جابجا ان لوگوں کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا ہے جو قوم کے دولت مند طبقہ میں سے ہوتے ہیں۔ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت (١٦) میں گزر چکا ہے : (امرنا مترفیھا ففسقوا فیھا، فحق علیھا القول) اس سے معلوم ہوا انفرادی زندگی میں بدعملی کا بڑا مرکز دنیوی خوشحالی کی زندگی ہوجاتی ہے۔ اور ہمیشہ حق و صداقت کی مخالفت وہیں سے شروع ہوتی ہے۔ سبب اس کا ظہار ہے خوش حالی و ثروت کی حالت ایک ایسی حالت ہے کہ اگر کسی جماعت میں پھیلی ہوئی ہو تو اس سے بڑھ کر کوئی برکت نہیں، اور اگر صرف چند افراد میں سمٹی ہوئی ہو تو اس سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں، کیونکہ جب دولت صرف چند افرادہی کے قبضۃ میں آگئ باقی افراد جماعت محروم رہ گئے تو قدرتی طور پر ہر طرح کا غلبہ و تسلط چند افراد کے ہاتھ جائے گا۔ اور ایسے غلبہ وتسلط کا نتیجہ غرور باطل اور استکبار عن الحق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن جس جماعتی خوش حالی کو اللہ کا سب سے بڑا فضل قرار دیتا ہے اسی کو انفرادی حالت میں فتنہ اور متاع غرور بھی کہتا ہے چونکہ ہمارے مفسروں کی نظر اس پہلو پر نہ تھی اس لیے یہ مقام واضح نہ ہوسکا۔ آج تمام دنیا میں شور مچ رہا ہے کہ انفرادی سرمایہ داری دنیا کے لیے مصیبت ہے، لیکن قرآن تیرہ سو برس پہلے اسے فتنہ قرار دے چکا اور اس کے لیے اکتناز کا لفظ بول چکا ہے۔ (الذین یکنزون الذھب والفضہ ولا ینفقونھا) مشکل یہ ہے کہ جب تک قرآن کی صدا ہے تمہاری نطر میں جچتی نہیں، جب وہی بات وقت کے ذہن و فکر کے حلقوں سے اٹھنے لگتی ہے، تو تم فورا اس کی پرستش شروع کردیتے ہیں۔ المؤمنون
65 المؤمنون
66 المؤمنون
67 المؤمنون
68 آیت (٦٨) پر غور کرو کس طرح قرآن بار بار اس پہلو پر زور دیتا ہے کہ کیا لوگوں نے اس پر تدبر نہیں کیا؟ کیونکہ اس کا سارا مطالبہ تدبر و تعقل ہی سے ہے۔ وہ کہتا ہے سچائی کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ عقل و بصیرت اسے پالے گی اور جہل و کوری اس سے روگرداں رہے گی۔ پس اگر لوگ قرآن میں تدبر و تفکر کریں تو ممکن نہیں کہ اس کی سچائی انہیں گرویدہ نہ کرلے۔ یہاں سے یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ قرآن کا مطالبہ غور و فکر کا ہے، نہ کہ تقلید کا۔ پس جو شخص قرآن کے مطالب میں غور و فکر نہیں کرتا وہ اس کا مطالبہ پورا نہیں کرتا اور پھر جب قرآن کے لیے وحی الہی ہے تدبر ضروری ہوا تو کیونکر یہ بات جائز ہوسکتی ہے کہ کسی مجتہد اور امام کی تحقیق میں تدبر ضروری نہ ہو؟ اور اہل علم کے لیے ضروری ہو کہ از روئے تقلید سر اطاعت خم کردیں؟ یہاں تین باتیں فرمائیں۔ کیا انہوں نے قرآن پر غور نہیں کیا؟ اگر غور کرتے تو یقینا حقیقت پا لیتے، کیا انہیں رسول کی معرفت نہ ہوئی؟ اگر ضد اور ہٹ دھرمی سے کام نہ لیں تو اس کی پاکی و صداقت کی معرفت سے کبھی انکار نہیں کرسکتے، پھر کیا یہ سمجھتے ہیں یہ مجنون ہوگیا ہے کہ ایسی باتیں کرنے لگا ہے؟ لیکن کیا راست بازی کے ساتھ یہ کہنے کی جرات کرسکتے ہیں کہ سچ مچ کو وہ مجنون ہے؟ یہاں سے معلوم ہوا کہ دعوت اسلام کی معرفت کی دو راہیں ہیں۔ قرآن میں تدبر کیا جائے، اور صاحب قرآن کی زندگی میں۔ المؤمنون
69 المؤمنون
70 المؤمنون
71 آیت (٧١) میں ایک بہت بڑی اصل کائنات کی طرف اشارہ کیا ہے جو قرآن کے مہمات معارف میں سے ہے۔ یعنی قرآن جس حقیقت کو حق سے تعبیر کرتا ہے وہ محض کسی ایک گوشہ ہی کی حقیقت نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر سمجھا گیا ہے کہ بلکہ اصل کائنات کی ایک عالمگیر حقیقت ہے۔ وہ کہتا ہے یہاں اصل تخلیق و تکوین حق اور قیام حق کا قانون ہے۔ اسی کا نام عدل و قسط بھی ہے اور اسی پر تمام نظام کائنات قائم ہے۔ عالم جسم و مادہ کا ایک ایک گوشہ دیکھو، تمہیں ہر گوشہ میں وجود، تکوین، تعمیر، ایجاب، زندگی، بناؤ کی اصل یہی حقیقت ملے گی۔ یہی حقیقت جب افکار و اعمال انسانی میں ظاہر ہوتی ہے تو اسکا نام ایمان اور عمل صالح ہوجاتا ہے، اور یہی حقیقت ہے جس کی طرف ہدایت وحی بلاتی ہے۔ یہاں فرمایا اگر حقیقت ان منکرین حق کی خواہشوں کی پیروی کرے تو تمام نظام ارضی و سماوی درہم برہم ہوجائے کیونکہ انہیں معلوم نہیں، جس حقیقت سے یہ انکار کر رہے ہیں وہی حقیقت ہے جس پر یہ تمام کارخانہ ہستی چل رہا ہے۔ یہ مقام بہت دقیق ہے، تشریح کے لیے تفسیر فاتحہ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ المؤمنون
72 المؤمنون
73 المؤمنون
74 المؤمنون
75 المؤمنون
76 المؤمنون
77 المؤمنون
78 المؤمنون
79 المؤمنون
80 آیت (٨٠) کے چند لفظوں کے اندر قرآن کا ایک بہت بڑا استدلال پوشیدہ ہے۔ جلد نہ گزر جاؤ، اس پر غور کرلو، فرمایا وہی ہے جو جلاتا ہے اور موت طاری کرتا ہے، اور یہ اسی کی کار فرمائی ہے کہ رات دن کے پیچھے آتی رہتی ہے اور دن رات کے پیچھے۔ یہاں اختلاف الیل والنھار کہہ کر اس قانون ہستی کی طرف اشارہ کیا ہے جسے قرآن قانون ازواج سے تعبیر کرتا ہے۔ ہم نے اپنی مقررہ مصطلحات میں اسے قانون تثنیہ کہا ہے۔ یعنی کارخانہ ہستی کے ہر گوشہ میں ہم دیکھتے ہیں یہاں کوئی حقیقت اکہری اور طاق نہیں ہے۔ کسی نہ کسی شکل میں دو دو ہونے کی نوعیت ضرور پائی تجاتی ہے۔ ہر چیز کی تکوین و تشکیل اسی طرح ہوگی کہ دو متماثل اور متقابل نوعیتیں ابھریں گی اور اسی تماثل و تقابل کا تثنیہ ایک مکمل حقیقت کی شکل اختیار کرلے گا۔ مثلا نر کے لیے مادہ، مرد کے لیے عورت، زندگی کے لیے موت، رات کے لیے دن، صبح کے لیے شام، مثبت کے لیے منفی، تکوین کے لیے افسا۔ جس گوشہ میں بھی دیکھو گے ہر حقیقت کے ساتھ اس کا کوئی نہ کوئی مثنی بھی ضرور موجود ہے۔ (ومن کل شیء خلقنا زوجین لعلکم تذکرون) قرآن کا استدلال یہ ہے کہ اگر کارخانہ ہستی کے ہر گوشہ میں دو دو ہونے کی حقیقت کام کر رہی ہے اور یہاں ہستی کی کوئی نمود بغیر اپنے مثنی اور زوج کے نہیں ہے تو پھر تمہیں اس بات پر کیوں تعجب ہوتا ہے کہ انسانی زندگی کی نمود بھی اکہری نہیں ہے دوسری ہے اور دنیوی زندگی کے لیے بھی ایک مثنی ہے، اس کا نام آخرت ہے؟ جس حقیقت کو تم بیس بھیسوں میں دیکھتے ہو اور پہچانتے رہتے ہو اسی کو اکیسیوں بھیس میں دیکھ کر کیوں چونک اٹھتے ہو؟ اسی لیے آیت کا خاتمہ اس پر ہوا کہ (افلا تعقلون) کیونکہ اس معاملہ میں خطاب تعقل سے تھا اور وہی مفقود ہوجاتی ہے۔ اب غور کرو، اس کے بعد کی آیت کسی طرح اس آیت سے مربوط ہوگئی؟ اور اس کی ابتدا میں حرف بل کا آنا کس طرح ٹھیک اپنی جگہ میں بیٹھ گیا؟ (بل قالوا مثل ما قال الاولون۔ قالوا ءاذا متنا وکنا ترابا و عظاما ءانا لمبعوثون؟ مزید تشریح کے لیے دیکھو تفسیر فاتحہ مبحث تسکین حیات۔ المؤمنون
81 المؤمنون
82 تخلیق و تکمیل جنین کے مراتب ستہ : قرآن حکیم نے اس سورت میں اور دوسرے مقامات میں انسانی پیدائش کے مختلف احوال پر توجہ دلائی ہے اور ان سے اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت اور بعث بعد الموت کے وقوع پر استشہاد کیا ہے۔ یہ مراتب تطور چھ ہیں۔ جیسا کہ یہاں آیت (١٣) میں بیان کیے گئے ہیں : (ا) نطفہ : کی حالت جبکہ وہ قرار مکین میں ہوتا ہے۔ (ب) علقہ کی حالت۔ (ج) مضغہ کی حالت۔ (د) خلقنا المضغۃ عظاما کی حالت۔ (ہ) کسونا العظام لحما۔ (و) ایک ایسی آخری حالت جسے خلقا آخر سے تعبیر کیا ہے۔ مفسرین کی حیرانی : ان میں سے آخری حالت کو قرآن نے خلقا آخر سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی اس مرتبہ میں پہنچ کر ایسا انقلاب طاری ہوجاتا ہے کہ بالکل ایک دوسری ہی طرح کی خلقت ظہور میں آجاتی ہے۔ گویا مرتبہ (الف) سے لے کر مرتبہ (ہ) تک جنین کی جو حالتیں رہیں اور جس نوعیت کی مخلوق بنتی رہی، وہ کوئی دوسری طرح کی چیز تھی اور اب اس مرتبہ میں آکر بالکل ایک دوسری طرح کی چیز نمایاں ہوگئی۔ چونکہ مراتب پیدائش کی کوئی ایسی انقلابی حالت ہمارے مفسروں کے سامنے نہ تھی اس لیے قدرتی طور پر اس کی کوئی جمتی ہوئی تفسیر ان سے بن نہ اائی اور مختلف وادیوں میں نکل گئے۔ بعضوں نے کہا اس سے مقصود نفخ روح کی حالت ہے، کیونکہ اس مرتبہ سے پہلے روح نہیں ہوتی۔ بعضوں نے کہا یہ شکم مادر سے باہر نکلنے کی طرف اشارہ کیا کیونکہ وضع حمل اسی کے بعد ہوتا ہے۔ بعضوں نے کہا مقصود بالوں کا پیدا ہونا ہے۔ اس سے پہلے بال نہیں ہوتے، بعضوں نے کہا، نہیں مقصود دانت ہیں، دانت اسی مرتبہ میں پیدا ہوتے ہیں، بعضوں نے جمع و تطبیق آراء کی راہ اختیار کرنی چاہی تو کہا، دراصل مقصود تمام قوی کی تکمیل ہے۔ اس میں بال بھی آگئے، دانت بھی آگئے، مگر ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی تفسیر بھی خلقا آخر کا تقاضا پورا نہیں کرتی، منطوق کے اعتبار سے بھی اور مفہوم کے اعتبار سے بھی۔ اسی طرح پچھلے مراتب تطور کی بھی حقیقت واضح نہ ہوسکی۔ علقہ کو جمے ہوئے خون کے معنوں میں لے گئی اور مضغہ کو گوشت بن جانے کے معنوں میں، اور ترتیب نشاۃ یوں سمجھی گئی کہ پہلے خون پیدا ہوتا ہے اور وہ کلیجی کی طرح جما ہوا ہوتا ہے، پھر یہ منجمد خون گوشت بن جاتا ہے، پھر اس گوشت میں ہڈیاں پیدا ہوتی ہیں۔ پھر ہڈیوں پر چمڑا چڑھ جاتا ہے، اس چمڑے کو کسونا العظام لحما میں مجازا لحم کہا ہے۔ مفسرینن قدیم معذور تھے : لیکن اگر اس مقام کی شرح و تحقیق کا حق ادا نہ ہوسکا تو اسے مفسروں کے قصور فہم پر محمول نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس باب میں وہ یقینا معذور تھے، علم و تحقیق کا یہ گوشہ تمام تر زمانہ حال کی پیداوار ہے اور زمانہ حال کی پیداوار میں بھی سب سے آخری عہد کی پیداوار۔ انیسویں صدی کا ابتدائی زمانہ جو تمام علوم حدیثہ کے انشکاف و تکمیل کا سب سے زیادہ شاندار زمانہ ہے، پورا گزر گیا اور کارخانہ فطرت کے اس گوشہ مستور کے تمام حجاب نہ اٹھ سکے۔ پس اگر اٹھارویں صدی کے حکما معذور تصور کیے جاسکتے ہیں اس بارے میں بالکل غلط رخ پر جارہے تھے حالانکہ خورد بین ایجاد ہوچکی تھی اور انسانی نعش کی تشریح کا باب مسدود کھل چکا تھا۔ تو ظاہر ہے نودیں اور دسویں صدی کے مفسرین قرآن کیوں معذور تصور نہ کیے جائیں جن کے سامنے اس سے زیادہ کچھ نہ تھا جتنا ارسطو اپنی کتاب الحیوانات میں اور جالینوس اپنے مقامات میں لکھ چکا ہے؟ علم الجنین کی مختصر تاریخ : دراصل پیدائش حیوانات کے بارے میں گزشتہ دو ہزار سال تک انسانی علم کی پرواز اسی حد تک رہی۔ علم و نظر کی تمام شاخوں کی طرح علم الجنین (Embryology) میں بھی ارسطو ہی کی تحقیقات پر تمام تر دارومدار تھا۔ ستریوں صدی میں جب خرد بین کی ایجاد ایک خاص حد تک ترقی پذیر ہوئی تو پرندوں کے انڈوں کا خرد بینی مطالعہ شروع ہوا اور بتدریج ایک نئے نظریے کی بنیاد پڑگئی جسے اس وقت نظریہ ارتقا سے تعبیر کیا گیا تھا لیکن اب نمود بروز کے نظریہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی (Preformation Theory) سے۔ اس نظریہ کا ماحصل ہے تھا کہ پیدائش جنس اناث کا مبیض (ovary) ہے۔ جنین پر تطورات کی کوئی نئی حالت طاری نہیں ہوتی بلکہ مبیض میں جو کامل وجود موجود ہوتا ہے وہی کھلنے اور بڑھنے لگتا ہے۔ مثلا انسان کے تخم حیات میں ایک کامل انسان اپنے تمام خارجی و داخلی اعضاء کے ساتھ موجود ہوتا ہے لیکن اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ فرد بین سے بھی اس کا ادراک نہیں کیا جاسکتا۔ اسی کامل و متشکل ذرہ وجود کا بڑھ جانا نطفہ کا انسان بن جانا ہے۔ ١٦٩٠ ء میں جب ایک ڈچ عالم خرد بینی لیون ہاک (Leeuwenhock) نے جسن رجال کے مادہ منویہ کے جراثیم کا انکشاف کیا، تو ایک گروہ پیدا ہوگیا جس نے مبیض اناث کی جگہ جراثیم منویہ کو اصل حیات قرار دیا۔ تاہم اس رائے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی کہ جنین پر تطور کی نہیں بلکہ محض بروز نمود کی حالت طاری ہوتی ہے۔ اٹھارویں صڈی کے وسف تک یہی رائے وقت کی مقبول و معتمد رائے رہی۔ یہاں تک کہ ١٧٥٩ ء میں ایک جرمن محقق فریڈرک ولف نے یہ پورا نظریہ غلط ٹھہرایا اور تولید و تطور کے اصل پر زور دیا۔ پھر ١٨١٧ ء میں پاندر نے اور ١٨٢٨ ء میں بیر نے اسے مزی ترقی دی۔ اسکے بعد اسے اری رخ پر قدم اٹھنا شروع ہوگئے۔ پھر جب ١٨٥٩ ء میں ڈارون کی کتاب اصلیت انواع شائع ہوئی تو اس نے علم کے تمام گوشوں کی طرح اس گوشہ کے لیے بھی ایک نئی روشنی مہیا کردی اور بالآخر انیسویں صدی کے آخری سالوں میں ارنسٹ ہیکل (Ernst Haeckel) کے ہاتھوں یہ تحقیقات تکمیل تک پہنچ گئی۔ اب علم الجنین کا ہر گوشہ نظریوں اور قیاسوں کے سہاروں سے بالکل بے پروا ہوگیا ہے اور جو کچھ ہے تمام تر استقرا و مشاہدات پر مبنی ہے۔ یہ اب فلسفہ کی بحث و تعلیل کا محتاج نہیں۔ کیونہ خود علم کی ایک حقیقت ہے۔ اس باب میں سب سے زیادہ معتمد خود ارنسٹ ہیکل کی دو کتابیں ہیں۔ نیچر ہستری آف کرییشن اور ایوو لیوشن آف مین۔ اس مبحث میں ہمارا اعتماد انہی پر ہے۔ جدید تحقیقات : قبل اس کے کہ قرآن کے بیان کردہ مراتب پر نظر ڈالی جائے معلوم کرلینا چاہیے کہ انسانی وجود کی پیدائش اور اس کے جنین کے احوال و تطورات کے باب میں علم کے حقائق کیا ہیں؟ یہ مبحث بتفصیل مقدمہ میں ملے گا۔ یہاں مختصرا اشارات کریں گے۔ تمام حیوانات کی طرح انسان کی پیدائش بھی ایک بیضہ سے ہوتی ہے جسے اصطلاح میں (ovum) کہتے ہیں۔ یعنی خلیہ تخم (خلیہ یعنی Cell) یہ خلیہ تخم : جنس اثاث میں بھی پیدا ہوتا ہے اور جنس رجال میں بھی، فعل تلقیح اس وقت واقع ہوتا ہے جب جنس رجال کے خلیات تخم جنس اناث کے بیضہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ خلیہ تخم ایک بہت ہی دقیق ذرہ کا سا حجم رکھتا ہے۔ یعنی اس کا قطر ایک انچ کا ایک سو بیسواں حصہ بلکہ اس سے بھی کم ہوتا ہے، یہی خلیہ زندگی اور وجود کا اصلی تخم ہے۔ نطفہ کے قرار پانے کے معنی یہ ہیں کہ جنس رجال کا خلیہ تخم جنس اناث کے مبیض میں جگہ پائے۔ استقرار کے بعد جنین کا تطور شروع ہوتا ہے۔ ابتدا میں وہ محض خلیات کا ایک کروی مجوعہ ہوتا ہے۔ پھر ایک مجوف گیند کی سی شکل اختیار کرلیتا ہے جس کے اطراف کی دیوار خلیات سے مرکب ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ خلیات ایک دوسرے سے بالکل مل جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ ان میں طولانیت پیدا ہونی شروع ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ بالکل ایک فعل نما (Sole Shaped) صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ اب ان میں ایک ایسی ہیکلی ہیئت پیدا ہوتی ہے جیسی مچھلی کی ہوتی ہے۔ پھر یہ ہیئت حیوانات قوازب (Abphibia) کا سا ہیکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس کے بعد حیوانات لبونہ (Mammals) کا ہیکل نمایاں ہوتا ہے۔ لیکن پہلے ادنی درجہ کے حیوانات لبونہ کا، مثلا ایسا جیسا آسٹریلیا کے خلد آبی (Duck Bill) کا ہوتا ہے یا ان حیوانات کا جنہیں ذوات الکیس (Marsupils) کہتے ہیں۔ پھر اونچے درجہ کے حیوانات لبونہ کا۔ مثلا گھوڑا، کتا، بیل۔ پھر یہ مرتبہ ترقی کر کے ایک ایسے ہیکل تک پہنچتا ہے جو ٹھیک ٹھیک بندر کا سا ہوتا ہے۔ دم بھی موجود ہوتی ہے۔ پھر اس میں تبدیلی شروع ہوتی ہے اور بندر کے ترقی یافتہ اعلی اقسام کا سا ہیکل نمایاں ہونے لگتا ہے۔ یعنی گوریلا، شمپازی، گیبون وغیرہ اقسام کا۔ اب اس کے بعد آخری مرتبہ تطور آتا ہے اور اچانک ایک انقلاب حالت طاری ہونے لگی ہے۔ یعنی تمام حیوانی و میمونی خصوصیات مفقود ہوجاتی ہیں، ایک نئی نوعیت کا ہیکل نمایاں ہوجاتا ہے اور وجود انسانی اپنی ساری خصوصیتوں اور رعنائیوں کے ساتھ ابھر آتا ہے۔ ابتدا کے تمام تطورات ایک مہینے کے اندر طاری ہوجاتے ہیں۔ آخری تطورات دوسرے مہینے کے اندر اور پھر حمل کا بقیہ زمانہ جس قدر گزرتا ہے صورت انسانی ہی کی تکمیل پر گزرتا ہے۔ قانون حیات کی عالمگیر وحدت : اس سلسلہ میں جو حقیقت سب سے زیادہ اہم نمایاں ہوئی ہے اور جس نے علم و نظر کے بہت سے گوشوں میں انقلاب پیدا کردیا وہ پیدائش حیات کے قانون کی عالمگیر وحدت ہے۔ نباتات سے لے کر وجود انسانی تک اصل و بنیاد حیات ایک ہی ہے اور جس قدر امتیازی اختلافات پیدا ہوتے ہیں ٹھیک ٹھیک انہی حدود کے اندر اور انہی ترتیبات سے جو قانون نشو نما ارتقا کی بنا پر ضروری ہیں۔ اس اعتبار سے اگر انسان کے جنین پر نظر ڈالی جائے تو حسب ذیل مدارج اور ان کے احکام سامنے آئیں گے۔ مدارج تطور : پہلا درجہ وہ ہے جس میں خلیہ تخم کی حالت ٹھیک ٹھیک ویسی ہی ہوتی ہے جیسی تمام نباتات اور حیوانات کی۔ گویا اس ابتدائی درجہ میں ایک انسان کا جنین بھی ویسا ہی ہوتا ہے جیسا ایک درخت کا، ایک مچھلی کا، ایک چار پائے کا، ایک پرند کا۔ یہ حالت نطفہ کی ابتدائی حالت ہوتی ہے۔ (ب) پھر خلیات کا کروی مجموعہ ایک دوسرے درجہ میں داخل ہوتا ہے۔ اس درجہ میں پہلا امتیاز نمایاں ہوتا ہے، یعنی اب جنین نباتات کے دائرہ سے بلند ہو کر صرف حیوانات کے دائرہ کی چیز بن جاتا ہے، ہم تمام حیوانات کا جنین ایسا ہی پاتے ہیں مگر نباتات کا نہیں۔ یہ حالت دو ہفتہ کے اندر طاری ہوجاتی ہے۔ (ج) تیسرے ہفتہ میں جنین دوگنی طوالت پیدا کرلیتا ہے اور نعل کی سی شکل بن جاتی ہے، نیز ایک نشان ظاہر ہوجاتا ہے جو آگے چل کر سر بننے والا ہوتا ہے۔ یہی نشان تین بنیادی حاسوں کی پہلی داغ بیل ہے۔ اس درجہ میں دوسرا امتیاز نمایاں ہوتا ہے، یعنی اب جنین حیوانات کے عام دائرہ سے نکل کر حیوانات لبونہ کے خاص دائرہ میں آجاتا ہے لیکن ادنی درجہ کے دائرہ میں۔ (د) چوتھے ہفتہ میں سر کا نشان ایک غیر متشکل گنبد کی سی ہیئت پیدا کرنے لگتا ہے، اس کے اندر بھیجے کے چاروں خانے بھی نمایاں ہوجاتے ہیں، عنصری نالیوں بھی ابھر آتی ہیں، دل کے چاروں حصے بھی وجود پذیر ہوجاتے ہیں، اور سب سے زیادہ یہ کہ ریڑھ کی ہڈی کا ڈھانچہ پوری طرح نشوونما پانے لگتا ہے۔ اس درجہ میں پہنچ کر جنین اعلی درجہ کے حیوانات لبونہ کی خصوصیات پیدا کرلیتا ہے۔ یعنی اب انسان کا جنین ایسا ہوجاتا ہے جیسا گھوڑے، بیل کتے وغیرہ شیر خوار جانوروں کا ہوتا ہے۔ اب حمل کا پہلا مہینہ ختم ہوگیا۔ (ہ) پانچویں ہفتہ سے صورت آرائی کا زیادہ مشخص دور شروع ہوتا ہے، لیکن یہ بندر کے سے ہیکل کا ہوتا ہے۔ اس درجہ کے جنین کی تصویر بندر کے جنین کی تصویر کے ساتھ رکھی جائے تو دونوں میں کوئی نمایاں فرق دکھائی نہیں دے گا۔ (و) پھر یہ ہیکل بندر کی اونچی قسم کے ہیکلوں کی طرف بڑھتا ہے اور گوریلا شمپازی وغیرہ کے جنین کی سی ہیئت پیدا کرنے لگتا ہے۔ (ز) اس کے بعد ایک آخری انقلاب طاری ہوتا ہے اور انسانی جسم و صورت کی خصوصیات یکایک ابھرنے لگتی ہیں حتی کہ بالکل ایک نئی قسم کا تناسب و اعتدلال ظہور میں آجاتا ہے۔ دوسرے مہینے کے اختتام پر یہ درجہ پوری طرح صورت پذیر ہوجاتا ہے۔ (ح) اس کے بعد فطرت کی نقاشی زیادہ دقیق قسم کے امتیازات کا نوک پلک درست کرنے لگی ہے۔ یعنی نوع انسانی کے مختلف وقتی، موسمی، نسلی اور معنوی اختلافات ابھرنے اور بننے لگتے ہیں۔ پھر جدی اور آبائی اثرات کی نمود شروع ہوتی ہے اور ہر والدین کو اپنی قوم، اپنے ملک، اپنی نسل اور اپنے ماحولی موثرات کا مولود میسر آجاتا ہے۔ یہ آخری انسانی دور سب سے بڑا دور ہے، یعنی ابتدا کے دو مہینے چھوڑ کر باقی تمام ایام حمل جن کی مدت چار سے سات مہینوں تک پہنچ جاتی ہے اسی دور میں بسر ہوتے ہیں۔ قرآن کی تصریحات : اب ان تمام تفصیلات کو پیش نظر رکھ کر قرآن کی تصریحات پر غور کرو۔ اور پچھلی تفاسیر پر بھی ایک نظر ڈال لو۔ جس وقت تک انسانی جنین کے یہ تمام حقائق منکشف نہیں ہوئے تھے قرآن کے بیان کردہ مدارج ستہ کی تشریح کس درجہ دشوار تھی ؟ قدیم نظروں کا ساتھ دینے کے لیے مفسروں کو کیسی کیسی توجیہیں ڈھونڈنی پڑیں اور پھر بھی بات بنی نہیں؟ لیکن اب ان انکشافات کے بعد کس طرح سارا معاملہ صاف ہوگیا ہے ؟ کس طرح دونوں بیان ٹھیک ٹھیک ایک دوسرے کے مطابق ہیں اور ایک کے اجمال کی دوسرا تفصیل کر رہا ہے ؟ کس طرح آج علم کی آنکھیں بھی وہی دیکھ رہی ہیں جو وحی کی زبان نے آشکارا کردیا تھا؟ وحی کی یہ صدا کس کی زبان سے نکلی تھی ؟ ساتویں صدی عیسوی کے ایک امی کی زبان سے جو ریگستان عرب کے بادیہ نشینوں میں پیدا ہوا اور جس کی ساری زندگی انہی بادیہ نشینوں میں بسر ہوئی تھی۔ قرآن کا سترھویں صدی کے نظریہ سے انکار : سترہویں صڈی میں خرد بینی مطالعہ سے جراثیم حیات کا انکشاف ہوا، لیکن حکمائے اسل عہد حقیقت پر مطلع نہ ہوسکے اور مذہب ظہور و بروز کا نظریہ قائم کرلیا گیا۔ اب دیکھو جس طرح قدیم قیاسات قرآن کا ساتھ نہیں دیتے تھے اسی طرح یہ مذہب بھی ساتھ چلنے سے صاف انکار کر رہا تھا۔ قرآن جنین کے تمام تغیرات کو صاف صاف ایک انقلابی تطور قرار دے رہا ہے۔ (ثم من نطفۃ ثم من علقۃ ثم من مضغۃ) اور (ثم خلقنا النطفۃ علقۃ فخلنا العلقۃ مضغۃ) یعنی تخلیق کی ایک حالت نطفہ کی ہوتی ہے، پھر تخلیق کی دوسری حالت علقہ ہوتی ہے، پھر تخلیق کی تیسری حالت مضغۃ ہوتی ہے، پس یہ محض کسی ایسے کیڑے کا نشو بروز نہیں ہوسکتا جس کے اندر وجود انسانی اپنے تمام اصول و جزئیات کے ساتھ موجود ہو، بلکہ ایک حالت کے بعد صریح دوسری حالت کی پیدائش اور دوسرے کے بعد تیسرے کی اور تیسرے کے بعد چوتھے کی پیدائش ہے اور ہر پیدائش تخلق و تطور کی نوعیت میں ظاہر ہوئی ہے۔ ضروری ہے کہ یکے بعد دیگرے طرح طرح کے تطورات طاری ہوں۔ ضروری ہے کہ ہر تطور ایک نئی پیدائش کا حکم رکھتا ہو۔ جدید مفسرین کی بے نتیجہ و برید : چونکہ انیسیوں صدی کے اواخر تک یہی نظریہ ظہور و بروز عام طور پر تسلیم کیا جاتا تھا اور فن طب و تشریح نے بھی اسی کو اختیار کرلیا تھا جس طرح قدیم مفسروں کو شرح و تحقیق آیت میں دشواریاں پیش آئیں اور طرح طرح کی توجیہات کرنی پڑیں، اسی طرح مصر اور ہندوستان کے بعض نئے مفسروں کو بھی ٹھوکر لگی اور رفاعہ بک طہطاوی، حسن پاشا محمود، سرسید احمد خاں، شیخ محمد عبدہ وغیرہم اسی نظریہ کی وادیوں میں گم ہوگئے۔ انہوں نے کوشش کی کہ قرآن کی تصریحات کو اس کے مطابق کر دکھائیں، مطابق ہو نہیں سکتی تھی اس لیے ہر طرح کا تجوز و تکلف جو لغت و زبان سے کیا جاسکتا ہے، جائز کرلیا گیا۔ اور نہیں سمجھے کہ یہ تمام قطع و برید چند سالون کے بعد یکسر بیکار ہوجائے گی۔ قرآن اپنی جگہ سے نہیں ہلا مگر علم کو ہلنا پڑا : لیکن قرآن کی تصریحات اپنی جگہ بدستور قائم رہیں۔ جس طرح قدیم جامہ ان پر راست نہیں آیا تھا، اسی طرح نئے جامے سے بھی انہوں نے انکار کردیا۔ یہاں تک کہ جمال حقیقت بے پردہ ہوا، اور نظریوں کی شب کوری کی جگہ انکشاف و مشاہدہ کی صبح نمودار ہوگئی۔ اب ہر نگاہ دیکھ لے سکتی ہے کہ قرآن کو اپنی جگہ سے ہلنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ یہ علم کا نقص تھا کہ صحیح جگہ نہ پاسکا۔ آخر اسے اپنی جگہ چھوڑنی پڑی اور وہیں آگیا جہاں تیرہ صدیوں سے قرآن کی صداقت جمی کھڑی ہے۔ (لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ، تنزیل من حکیم حمید) تم علم کی ایک ذرا سی نمود دیکھ کر مرعوب ہوجاتے ہو اور چاہتے ہو قرآن کو فورا اس کی جگہ سے ہٹا دو۔ لیکن اگر تم جلدی نہ کرو تو قرآن کو ہلنے کی ضرورت کبھی نہ ہوگی۔ جلد یا بہ دیر علم اپنی جگہ چھوڑے گا اور آگے بڑھ کر قرآن کی تصدیق کرے گا۔ اب غور کرو، علم کی روشنی میں کس طرح قرآن کی تمام تصریحات واقع ہورہی ہیں، بغیر اس کے کہ لغت و زبان کے قدرتی مقتضیات سے رائی برابر بھی انحراف کیا جائے؟ قرآن کے مدارج ستہ : سب سے پہلے (جعلناہ نطفۃ فی قرار مکین) پر غور کرو۔ استقرار حمل یوں ہوتا ہے کہ جنس رجال کا جنسی خلیہ جنسی اناث کے مبیض میں پہنچتا ہے اور اس طرح ٹک جاتا ہے گویا اپنے اصلی مکان میں پہنچ گیا۔ اس صورت حال کے لیے (فی قرار مکین) کی ترکیب کس درجہ صحیح اور اوفق ہے؟ دو لفظوں کے اندر پوری وضاحت کے ساتھ دونوں حالتیں آگئیں۔ اس کا ٹھہر جاتا اور تمکن کے ساتھ قرار پاجانا۔ یہ استقرار و تمکن کس طرح پیدا ہوا؟ دونوں جنسوں کے خلیوں کے اتحاد سے، اس اتحاد و امتزاج کی ان میں قدرتی طلب تھی۔ بغیر اس کے قرار نہیں پاسکتے تھے۔ اس وقت تک ہم نے اس کا مطلب یہ سمجھا تھا کہ نطفہ رحم میں قرار پا جاتا ہے لیکن فی الحقیقت بات پوری طرح جمتی نہ تھی۔ رحم تو ایک طرح کا مجوف خول ہے اس میں ایک ذرہ تخم کا پڑجانا (فی قرار مکین) سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ تعبیر کہہ رہی ہے کہ کوئی نطفہ ہی کی طرح کا دقیق محل ہونا چاہیے جہاں وہ پہنچ کر اس طرح ٹک جائے جیسے ٹھیک اپنے حجم اور اپنی نوعیت کے مطابق ایک جگہ اسے مل گئی۔ پس یقینا اس سے مقصود مبیض کا خلیہ ہے، نہ کہ پورا عضو رحم۔ اس کے بعد نطفہ پر مختلف حالتیں طاری ہوتی ہیں لیکن سب سے پہلی انقلابی حالت کون سی ہوتی ہے جو بالکل ایک نئی قسم کی نوعیت پیدا کردیتی ہے؟ اور جو تمام آئندہ انقلابوں کے لیے سنگ بنیاد کا کام دیتی ہے؟ وہ حالت، جب خلیات کا کروی مجموعہ اچانک طول میں بڑھنے لگتا ہے اور پھر اس طرح کی لمبی چیز بن جاتا ہے جس کے دونوں سرے کسی قدر پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ پروفیسر ہیکل نے اس مرتبہ کی ابتدائی حالت کو (Sole Shaped) سے اور پختہ حالت کو (Sandal Shaped) سے تعبیر کیا ہے۔ اور ہم نے اس کے لیے صرف نعل نما حالت کی تعبیر اختیار کی ہے۔ اسی مرتبہ تحول کو قرآن نے علقہ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ علقہ کی تعبیر اس مرتبہ کے لیے ہر اعتبار سے اتنی صاف اور چسپاں تعبیر ہے کہ جونہی میری پہلی نظر اس نعل نما جنین کی تصویر پر پڑی تھی، میری زبان سے بے اختیار خلق الانسان من علق نکل گیا تھا۔ جونک کے لیے علوق، علوقہ، عولق، علقہ سامی زبانوں کی نہایت قدیم تعبیر ہے۔ عبرانی میں اسے علقوہ کہتے تھے اور بجنسہ علقہ کا نام بھی ملتا ہے۔ چنانچہ سفر امثال میں ایک جگہ آیا ہے، جونک کی دو بیٹیاں ہیں جو چلاتی رہتی ہیں کہ لاؤ، لاؤ۔ (١٥: ٣٠) عبرانی نسخہ میں یہاں جونک کے لیے علوقہ کا لفظ ہے۔ یہی علوقہ عربی میں علق اور علقہ ہے، اور جونک کے لیے مستعمل ہے۔ اب جونک کی حالت اور صورت کا معائنہ کرو، اس میں ہڈی نہیں ہوتی، محض ایک لوتھڑے کی لمبان ہوتی ہے اور خون پی کر جب سیراب ہوجاتی ہے تو ٹھیک ٹھیک ویسی ہی صورت ہوجاتی ہے جیسی اس مرتبہ جنین کی تصویر میں نظر آتی ہے۔ علقہ کی تعبیر : ہیکل نے اس حالت کو محض اس کی جزئی مشابہت کی بنا پر نعل نما صورت سے تشبیہ دی ہے لیکن قرآن نے علقہ سے دی جو خود سلسلہ حیوانات کی ایک خاص زندہ کڑی ہے اور اس طرح عجب نہیں کہ ایک دوسری مخفی حقیقت کی طرف بھی اشارہ کردیا ہو۔ پیدائش انسانی کے مختلف مدارج کی جو تفصیلات اوپر گزر چکی ہیں ان سے تمہیں پتہ لگ گیا ہوگا کہ قانون نشووار تقا کے مختلف مدارج کس طرح نطفہ انسانی کے مدارج میں جمع ہوگئے ہیں اور کس طرح ہر انسان کا جنین اب بھی ان مدارج سے گزر کر انسان بنتا ہے جن مدارج سے گزر کر انسان اپنے موجودہ مرتبہ خلقت تک پہنچا ہے۔ اچھا اب غور کرو، ان مدارج خلقت میں ابتدائی مخلوقات کا درجہ کون سا ہے؟ آبی مخلوقات کا، یعنی بحکم (وجعلنا من الماء کل شیء حی) زندگی کا سب سے پہلا ظہور پانی میں ہوا۔ اور پہلی مخلوقات آبی مخلوقات ہوئی، ان کے بعد خشکی کی مخلوقات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اچھا آبی مخلوقات میں ابتدائی مراتب کی مخلوقات کون سی ہیں؟ جونک کی قسم کی غیر عظمی مخلوقات، انہی کے ارتقا سے تمام اونچی قسم کی آبی کڑیاں وجود پذیر ہوئیں۔ پس اگر حیوانی نطفہ اپنے تمام ارتقائی تطورات سے گزر کر آخری درجہ تک پہنچا کرتا ہے تو کیا ضروری نہیں کہ اس کا ابتدائی درجہ آبی مخلوقات کی حالت کے درجہ کاہو؟ اور اس میں بھی سب سے پہلے جونک کی قسم اسے علقہ سے تعبیر کرنا گویا اس کے درجہ خلقت کو ٹھیک ٹھیک اس کے اصلی نام سے پکار دینا ہے۔ اس کے بعد تیسرا انقلابی تطور وہ ہے، جب یہ فعل نما چیز اور زیادہ بڑھتی ہے اور اس کے مادہ میں گوشت کی صلابت پیدا ہوجاتی ہے، اسی حالت کو قرآن نے مضغہ سے تعبیر کیا ہے۔ کیونکہ اب جنین بوٹی کی طرح بن جاتا ہے اور چونکہ یہی مرتبہ ہے جس میں ارتسام و انقسام اعضا کی پہلی داغ بیل پڑتی ہے، اس لیے سورۃ حج میں اشارہ کردیا کہ (مخلقۃ و غیر مخلقۃ) یعنی یہی مضغہ کا درجہ ہے جس میں یا تو داغ بیل پڑجاتی ہے یا بگڑ کے رہ جاتا ہے۔ چوتھا درجہ وہ ہے جب اس مضغہ میں ریڑھ کی ہڈی کا ڈھانچہ نشو ونما پانے لگتا ہے اور ایک ایسا ہیکل نمایاں ہوجاتا ہے جسے مچھلی سے مشابہ کہا گیا ہے اسی کو (فخلقنا المضغۃ عظاما) سے تعبیر کیا ہے۔ اسی درجہ میں آکر جنین حیوانات فقاریہ (Vertebrate) کی امتیازی خصوصیات پیدا کرلیتا ہے۔ پھر اس کے بعد ہڈیوں اور گوشت پوست کا التحاق تکمیل تک پہنچتا اور ایک حیوانی متشکل ہو کر نمایاں ہوجاتی ہے۔ اسی کو (فکسونا العظام لحما) کے درجہ سے تعبیر کیا ہے۔ خلقا آخر : لیکن جو صورت اب بنتی ہے وہ کیا انسان صورت ہوتی ہے؟ نہیں ایسی جو تمام حیوانات لبونہ کی مشترک صورت ہوتی ہے، وہ ترقی بھی کرتی ہے تو بندر کی صورت کی طرف، لیکن اس کے بعد نقاش قدرت کی دستکاری اچانک ایک نیا انقلاب و تحول پیدا کردیتی ہے۔ وہی جنین جو محض مضغہ تھا، وہی مضغہ جو مچھلی کی طرح کا ایک ڈھانچا تھا، وہی ڈھانچا جس نے عام حیوانی ہیکل کی شکل اختیار کرلی تھی، وہی حیوانی ہیکل جو بندر کی سی صورت میں ابھر آیا تھا، اچانک انسانی جسم و صورت کی ساری خصوصیتیں اور رعنائیاں پیدا کرلیتا ہے (فتبارک اللہ احسن الخالقین) یہی آخری مرتبہ تحول ہے جسے (ثم انشاناہ خلقا آخر) سے تعبیر کیا ہے۔ المؤمنون
83 المؤمنون
84 المؤمنون
85 المؤمنون
86 المؤمنون
87 المؤمنون
88 المؤمنون
89 المؤمنون
90 المؤمنون
91 المؤمنون
92 المؤمنون
93 المؤمنون
94 المؤمنون
95 المؤمنون
96 المؤمنون
97 المؤمنون
98 المؤمنون
99 المؤمنون
100 المؤمنون
101 المؤمنون
102 المؤمنون
103 المؤمنون
104 المؤمنون
105 المؤمنون
106 المؤمنون
107 المؤمنون
108 المؤمنون
109 المؤمنون
110 المؤمنون
111 المؤمنون
112 المؤمنون
113 المؤمنون
114 المؤمنون
115 المؤمنون
116 المؤمنون
117 المؤمنون
118 المؤمنون
0 النور
1 (١)۔ سورۃ النور بالاتفاق مدنی ہے اور یہ مدنی عہد کی درمیانی تنزیلات میں سے ہے۔ غزوہ بنی المصطلق (غزوہ مریسیع) کے بعد نازل ہوئی ہے اور یہ غزوہ ٦ ھ میں ہوا جو غزوہ احزاب کے بعد ہے محققین نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ (٢) اس سورۃ کے ابتدا میں احکام وحدود بیان فرمائے ہیں اور سورۃ کا آخری حصہ بیان توحید پر مشتمل ہے اور آیت نمبر (١) میں آیات بینات سے دلائل توحید ہی مراد ہیں جن پر (لعلم تذکرون) مترتب ہورہا ہے۔ اب مدینہ میں مسلمانوں کی اجتماعی زندگی پوری نشوونما پاچکی تھی اور ہر طرح کے حوادث وقائع پیش آنے لگے تھے۔ چنانچہ اس سورت کا مرکز موعظت ازدواجی اور اس کے خطرات ومفاسد کا ازالہ ہے۔ اسلامی معاشرہ میں منافق اور شر پسند عناصر ہمیشہ ہی فساد بپا کرنے کی کوشش کرتے چلے آئے ہیں جنگ احزاب کے بعد مسلمانوں کی قوت وشوکت میں اضافہ شروع ہوا تو منافقین نے داخلی طور پر فتنہ انگیزیوں کے ذریعے سے مسلمانوں کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش تیز کردی حتی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حرم پاک بھی ان کی فتنہ انگزیوں سے محفوظ نہ رہ سکے اور غزوہ مریسیع سے واپسی پر حضرت عائشہ پر بہتان طرازی کانمایاں کرداد ادا کیا جوقصہ افک کے نام سے مشہور ہے۔ اس سورۃ میں نہ صرف حضرت عائشہ کی برات کا اعلان کیا بلکہ معاشرتی برائیوں کو ختم کرنے کے لیے احکام وحدود بھی نازل فرمائے، زنا، چوری اور تہمت طرازی کی سزائیں مقرر کیں، معاشرتی آداب اور تنبیہات پر مشتمل آیات نازل فرما کر مسلمانوں پر اپنی رحمت کے خصوصی دروازے کھول دیے۔ سوسائٹی میں بدعناصر سے معاشرتی مقاطعے کا حکم دیا اور معاشرے میں فحاشی اور عریانی پھیلانے والوں کو زجر وتوبیخ کی اور ان کے برے رویہ پر اظہار نفرت کیا۔ الغرض اس قسم کے متعدد احکام پر یہ سورت مشتمل ہے جن کو پرزور لہجے میں فوری طر پر نافذ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ النور
2 (٣)۔ زنا ایک ایسی برائی ہے جسے ہر زمانے میں اخلاقی اور معاشرتی طور پر برا سمجھا گیا ہے اور قرآن نے کبائر کے بیان میں شرک کے ساتھ اسے بھی ذکر کیا ہے مذکورہ سزا کے علاوہ قرآن نے اس کے ذرائع سے بھی دور رہنے کا حکم دیا ہے اور اسے بڑی ہی بے حیائی کی بات اور بڑی برائی کا چلن قرار دیا ہے دراصل نوع انسانی کی بقا اور انسانی تمدن کا قیام دونوں اس بات کے متقاضی ہیں کہ عورت ومرد کا تعلق کسی قانونی اور اخلاقی ضابطہ کے تحت قائم ہونا چاہیے تاکہ انسانی خاندان وجود میں آئیں اور ان پر تہذیب وتمدن کی عمارت قائم ہوسکے لیکن اگر عورت اور مرد کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو انسان کی اجتماعی زندگی تباہ ہو کر رہ جاتی ہے اور انسانی تمد کی تعمیر نہیں ہوسکتی لہذا زنا کی حرمت انسان کی فطرت کا تقاضا ہے۔ مولانا آزاد رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔ اجتماعی زندگی کی سب سے بڑی بنیادنکاح مدنی ہے یعنی یہ بات کہ ایک مرد اور ایک عورت ازدواجی زندگی بسر کرنے کے لیے جنسی رفاقت واشتراک کا عہد کرلیں اور پھر صرف ایک دوسرے ہی کے لیے ہو کر جئیں۔ زنا ٹھیک ٹھیک اس کی ضد ہے یہ مرد اور عورت کو اشتراک حیات کے لیے نہیں، بلکہ محض نفسیاتی تقاضے کی عارضی تسکین کے لیے جمع کرتا ہے اور ازدواجی زندگی کے تمام معاشرتی احساسات فنا کردیتا ہے جس سوسائٹی میں زناکادروازہ کھلا رہے گا وہ کبھی ازدواجی زندگی کی استواری حاصل نہیں کرسکے گی۔ اور اگر ازدواجی زندگی استوار نہ ہوئی تو اجتماعی زندگی کی ساری بنیادیں ہل گئیں یہی وجہ ہے کہ یہاں پہلے اس فساد کی شناعت پر زور دیا پھر اس کی سزا کا ااعلان کیا اصطلاح میں ان سزاؤں کو حد کہتے ہیں۔ النور
3 (٤)۔ آیت نمبر ٣ میں بتایا کہ اس قسم کے بدچلن لوگوں سے معاشرتی مقاطعہ کیا جائے اور ان کی حوصلہ شکنی کی جائے کہ ان سے رشتہ داری قائم نہ کی جائے اور مشرکوں کی طرح ان کواسلامی معاشرہ کافرد ہی نہ بنایا جائے۔ یہاں آیت نمبر ٣ میں نکاح سے مقصود نکاح مصطلحہ شرع نہیں بلکہ لغوی ہے جیسا کہ (حتی تنکح زوجا غیرہ) میں مستعمل ہوا ہے یعنی اتحاد تناسلی کا معاملہ پس مطلب یہ ہوا کہ جس مرد کو زنا کا چسکا پڑجاتا ہے وہ زنا پیشہ عورت ہی سے رسم وراہ پیدا کرتا ہے اور جو عورت بدچلن ہوجاتی ہے وہ اپنے ہی طرح کے مرد کی خواہاں رہتی ہے مگر مومنوں کے لیے ایسے تعلقات یک قلم حرام کردیے گئے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ جس مرد اور عورت سے زنا کا ارتکاب ہوگیا پھر اس سے نکاح شرعی کرنا جائز نہیں کیونکہ توبہ کیبعد ہر گناہ پاک ہوجاتا ہے اور اگر ایک زنا پیشہ فرد تائب ہوکرنکاح کرلے اور پاک دامنی کی زندگی بسر کرے تو اس سے زیادہ خوبی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ زانی اور زانیہ کے ساتھ مشرک اور مشرکہ کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ مشرکین عرب میں نکاح کے جو طریقے رائج تھے ان میں سے بعض صریح زنا تھے اور دونوں کا امتیازی خط زیادہ نمایاں نہ تھا پس اگر ایک مومن مرد کسی مومن عورت سے علاقہ پیدا کرنا چاہتا تو بجزاس کے کوئی صرت ہی نہ تھی کہ نکاح قطعی ہو۔ لیکن ایک مشرک عورت ہر طرح کے جاہلی طریقوں کے لیے آمادہ ہوجاتی تھی یہی حال مشرک مردوں کا تھا۔ النور
4 (٥)۔ ایک اسلامی معاشرہ میں یہ بھی ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو شک وشبہ کی نظر سے نہ دیکھا جائے اور الزام تراشی سے پرہیز کیا جائے چنانچہ کسی مرد یا عورت پر بلا ثبوت زنا کی تہمت لگانے پر اسی کوڑوں کی سزا رکھی ہے جسے اصطلاح میں، حد قذف، کہا جاتا ہے قرآن کے نزدیک ایسے لوگ فاسق ہیں اور کسی موقع پر بھی عدالت میں ان کی شہادت قابل قبول نہیں ہے ہاں اگر اس قماش کے لوگ تائب ہوجائیں اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کرلیں تو فاسق نہیں رہیں گے لہذا توبہ کے بعد ان کی شہادت بھی قابل قبول ہوگی۔ زنا کی حد مقرر کرنے کے ساتھ یہ بھی واضح کردیا کہ اس کے اثبات کے لیے قانونا کس درجے کی گواہی ضروری ہے۔ آیت ٤ میں فرمایا جب تک چار گواہ آنکھ سے دیکھی شہادت نہ دیں اس وقت تک جرم کا اثبات تسلیم نہیں کیا جائے گا معاملے کی نزاکت چاہتی تھی کہ جس سختی کے ساتھ زنا کا دروازہ بند کیا گیا ویسی ہی سختی سے الزام تراشی کی جراتوں کا دروازہ بھی بند کردیا جائے تاکہ مفسدوں کو فتنہ پردازیوں کا موقع نہ ملے چنانچہ آیت ٤ میں فرمایا، جو کسی عورت پر عیب لگائے گا اور چار گواہ نہ لاسکے گا تو وہ بہتان لگانے کا مجرم متصور ہوگا اور ایسے مجرموں پراسی تازیانوں کی حد جاری کی جائے گی۔ یہاں اگرچہ خصوصیت کے ساتھ عورتوں کا ذکر کیا گیا مگر حکم عام ہے خواہ عورت پر عیب لگایاجائے، خواہ مرد پر بہتان لگانے والے پر حد جاری ہوگی۔ النور
5 النور
6 النور
7 النور
8 النور
9 النور
10 (٦) جو شخص اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور اس کے پاس چار گواہ نہ ہوں تو اس کو، حد قذف، نہیں لگے گی بلکہ وہ لعان کریں گے اور اس کے لیے عدالت میں جانا ضروری ہوگا اور اس نوع کے احکام کا بیان کردینا محض اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ عورت اور مرد دونوں کے لیے رہائی کی صورت بیان کردی اور پھر تو، تواب رحیم، سے اشارہ فرمادیا کہ ان کے لیے توبہ اور انابت اللہ کا دروازہ کھلا ہے۔ آیت نمبر ٦ تا ٩ کے تحت مولانا آزاد لکھتے ہیں : اگر خود شوہر اپنی بیوی پر عیب لگائے اور کہے، میں نے خود دیکھا ہے مگر گواہ نہیں لاسکتا۔ تو اس صورت میں کیا کیا جائے؟ آیت ٦ میں اس کے لیے لعان کا حکم دیا ہے۔ یعنی شوہر کو پانچ مرتبہ قسم کھاکراپنا دعوی دہرانا چاہیے۔ اور بصورت کذاب اپنے کو لعنت الٰہی کا مستوجب ٹھہرانا چاہیے۔ اگر بیوی اس کے جواب میں خاموش رہے گی تو الزام ثابت ہوجائے گا (اور) اگر اس نے بھی اسی طرح پانچ مرتبہ قسم کھالی تو پھر عدالت سے بری کردے گی اور اصلیت کا فیصلہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے گا۔ دنیا میں انسان کے مخفی اعمال کے لیے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ النور
11 (٧) آیت ١١۔ اور اسکے بعد کی آیات میں وقت کے ایک خاص معاملے کی طرف اشارہ کیا ہے یعنی اس بہتان کی طرف جو منافقوں نے حضرت عائشہ پر لگانا چاہا اور نامراد رہے تھے یہاں چونکہ الزام تراشی کو، افک، سے تعبیر کیا ہے اس لیے سیرت کی روایات میں اسی لفظ سے یہ واقعہ مشہور ہوگیا۔ آیت میں افک کا لفظ آیا ہے، وھو ماخوذ من افک الشئی اذا قلبہ عن وجھہ فالافک ھوالحدیث المقلوب۔ افک کے معنی بات کے الٹ پھیر کردینے کے ہیں۔ پس صرف بہتان کا لفظ اس لیے کافی نہیں ہوسکتا بعض اردو مترجموں نے اس کاترجمہ، طوفان اٹھانا، کیا ہے لیکن یہ ترکیب تو یہاں اور بھی غلط ہے۔ (٨) اس بہتان کا چرچا پھیلانے کے لیی بعض شریروں نے اپنا ایک جتھا بنالیا تھا (عصبۃ منکم) میں اسی طرف اشارہ ہے۔ (والعصبۃ الجماعۃ الذین یتعصب بعضھم لبعض)، پس اردو میں اس کاترجمہ محض، گروہ، اور جماعت نہیں ہوسکتا۔ جماعت خود قرآن بھی بول سکتا تھا۔ مگر اس نے جماعت اور عصبہ کافرق ملحوظ رکھا ہے۔ لہذا ہم نے یہاں جتھے کے لفظ کو ترجیح دی۔ کیونکہ اردو بول چال میں ایسے سازشی گروہوں کو جوگروہ بندی کی غرض سے بنا کرتے ہیں اسی لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ آیات ١٢ تا ٢٢ حضرت عائشہ کی برات کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہیں اور واقعہ قصہ افک کے نام سے معروف ہے ان آیات کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے اس واقعہ کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے اس لیے یہاں پر ہم اس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی مہم پر جاتے تو قرعہ اندازی سے فیصلہ فرماتے کہ آپ کی بیویوں میں سے کون آپ کے ساتھ جائے چنانچہ، غزوہ بنی المصطلق، کی مہم کے موقع پر قرعہ میرے نام کا نکلا اور میں آپ کے ساتھ چلی گئی واپس پر جب ہم نے مدینہ کے قریب ایک مقام پر پڑاؤ کیا اور رات کے آخری حصہ میں جب لشکر نے کوچ کی تیاری شروع کی تو میں رفع حاجت کے لیے باہر چلی گئی اور جب پلتنے لگی تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے گلے کا ہار ٹوٹ کر کہیں گرگیا ہے میں اس کی تلاش میں (رح) لگ گئی اور قافلہ روانہ ہوگیا اور محافظوں نے میرا ہودج اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا میں جب ہار لے کر پلٹی تو دیکھا کہ قافلہ روانہ ہوگیا ہے اور میرا ہودج اونٹ پر چلا گیا ہے میں ناچار کپڑا اوڑھ کر وہیں لیٹ گئی اور سوچا کہ آگے چل کر جب مجھے نہ پائیں گے تو میری تلاش میں خود ہی واپس آجائیں گے اسی حالت میں مجھے نیند آگئی صبح کے وقت صفوان بن معطل سلمی (رض) وہاں سے گزرے اور مجھے دیکھتے ہی پہچان گئے کیونکہ نزول حجاب سے قبل وہ بارہا مجھے دیکھ چکے تھے انہوں نے اپنا اونٹ روک لیا اور لاکر میرے پاس بٹھا دیا میں اونٹ پر سوار ہوگئی اور وہ نکیل پکڑ کر روانہ ہوگئے اور دوپہر کے وقت قافلہ قیام کررہا تھا کہ ہم وہاں پہنچ گئے۔ اس پر ابن ابی منافق اور اس کے ساتھیوں نے مجھ پر تہمت لگائی۔ اس بہتان کی خبریں اڑیں اور نبی کے کانوں تک بھی پہنچ گئی اور آپ پریشان ہوگئے اور افواہوں کایہ سلسلہ ایک مہینے تک جاری رہا اور اس میں منافقین کے علاوہ مسطح، حسان بن ثابت شاعر اور حمنہ بنت جحش (حضرت زینب کی بہن) کے نام بھی مذکور ہیں۔ اوس وخزرج کے لوگ انتشار وافتراق کا شکا ہوگئے اس پر اللہ تعالیٰ نے میری برات کا اعلان فرمایا گو میں اپنے متعلق یہ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ وحی کے ذریعے سے میری بات کا اعلان ہوگا جو قیامت تک پڑھی جائے گی۔ اس واقعہ کے تحت مولانا آزاد نے ایک اصولی مبحث کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ” جنگ کا زمانہ پر آشوب بالخصوص فن روایت کے اختلال وبے اثری کا ایک ایسا عہد مشوم ہوتا ہے جب تاریخ وقائع نگاری کی حقیقت بالکل معدوم ہوجاتی ہیی۔ نفس انسانی کی کمزوریاں پوری طرح کام کرنے لگتی ہیں اور فن روایت اس عہد میں آکر بالکل بے کار رہ جاتا ہے۔ محدثین اسلام نے اگرچہ ان روایتوں کے متعلق کوئی جدید قاعدہ وضع نہیں کیا بلکہ جرح وتعدیل کے جو عام اصول ہیں، انہی کو ان روایتوں کا بھی معیار بنایا ہے لیکن قرآن مجید نے ان روایوں کی طرف خاص اعتنا کیا ہے اور ان کے قبول کرنے سے جابجا ممانعت کی ہے۔ جن روایتوں میں کسی فریق کے بغض وانتقام کی علایہ جھلک نظر آتی ہے ان کے متعلق قرآن نے عام حکم دے دیا کہ ان روایتوں کی تحقیق کی ضرورت ہی نہیں۔ اس قسم کے موقعوں پر روایوں کی ثقاہت وعدم ثقاہت سے کوئی بحث نہیں کرنی چاہیے بلکہ سننے کے ساتھ ہی شدت سے انکار ردینا چاہیے چنانچہ منافقین نے حضرت عائشہ کو متہم کیا اور نبی نے مختلف ذرائع سے اس کی تحقیق کی جب اس پر بھی تسکین نہ ہوئی تو ایک مہینے تک وحی کا انتظار کیا اس وقت اللہ نے حضرت عائشہ کی برات میں دس آیتیں نازل فرمائیں۔ ایک آیت یعنی ١٢ میں اس روایت کی تحقیق پر اظہار عتاب بھی فرمایا جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ایک فریق کی خباثت اخلاق اور دوسرے کی طہارت کا اثر بھی روایتوں پر پڑتا ہے چونکہ زمانہ جنگ میں اس قسم کے خبیثانہ اخلاق کے نتائج کا ظہور عموما ہوتا رہتا ہے اس لیے اس قسم کی روایتوں کے متعلق کسی تحقیق وتفتیش کی ضرورت ہی نہیں۔ اصلا اس پر کان ہی نہیں دھرنا چاہے۔ (٩) اس واقعہ کی وجہ سے بہت سے لوگوں ک اکردار ابھر کرسامنے آگیا۔ بداندیش لوگوں کی نشاندہی ہوئی، معاشرتی اصلاح کے لیے قوانین وضوابط نازل ہوئے ور مسلمان کو ایسی ہدایات سے نوازا گیا جن پر عمل کرکے ایک مسلم معاشرے کو ہمیشہ کے لیے برائیوں کی پیدوار سے محفوظ رکھا اور فحاشی کو روکا جاسکتا ہے۔ اس بنا پر قرآن نے مسلمانوں کی تسلی اور تشفی کے لیے فرمایا کہ گوبظاہر یہ واقعہ بڑا شرمناک ہے لیکن اس سے نقصان کے بجائے فوائد ہی حاصل ہوں گے۔ (١٠) آیت میں ” والذی تولی کبرہ“ میں اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف ہے جو اس جتھے کاسرغنہ تھا اس کی سب سے بڑی خباثت یہی تھی کہ لوگوں کو ابھارتا اور دوسروں سے اس کی اشاعت کرواتا اس بنا پر اسے سزا بھی سب سے بڑھ کر ملے گی۔ اور آیت نمبر ١٦ میں نصیحت فرمائی کہ اول تو دوسرے مسلمان کے متعلق دل میں بدظنی نہیں آنی چاہیے اور اگر دل میں ایسا خیال آ بھی جائے توایسی ناپاک بات زبان پر نہ لائی جائے اور صاف کہہ دے کہ یہ بہتان عظیم ہے۔ النور
12 (١) البلاغ ” ١١ نومبر ١٩١٥ میں آیت نمبر ١٢ کاترجمہ یوں کیا ہے۔” تم لوگوں نے اس واقعے کے سننے کے ساتھ ہی محض اعتماد نفس کی بنا پر اور اپنے ساتھ نیکی کا گمان کرکے یہ کیوں نہیں کہہ دیا کہ یہ تو کھلی ہوئی تہمت ہے۔ النور
13 النور
14 النور
15 النور
16 النور
17 (١١) آیت نمبر ١٧، ١٨ میں فرمایا کہ اہل ایمان کو چاہے کہ دوبارہ بدباطن منافقین کے چکروں میں نہ آئیں، پیغمبر (علیہ السلام) اور ان کے گھرانوں کی عظمت وشان کو ملحوظ رکھیں اور پہلی آیات میں جو پندونصائح اور صاف صاف احکام بیان ہوئے ہیں ان پر عمل کریں کیونکہ اللہ علیم وحکیم ہے اور اس نے نہایت حکمت ودانائی سے تمہیں یہ ہدایات دی ہیں۔ النور
18 النور
19 (١٢) اس کے بعد آیت نمبر ١٩ میں ان منافقین کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ اس طرح الزام تراشیاں کرکے مسلم معاشرے میں بے حیائی پھیلاتے ہیں اور اہل ایمان کی حرمت وآبرو پر حملے کرتے ہیں وہ دنیا وآخرت میں سخت عذاب کے مستحق ہیں۔ دنیا میں تو حدقذف اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور آخرت میں دوزخ کا عذاب ہے، فی زمانا فحاشی کو فروغ کے جس قدر اڈے قائم کیے گئے ہیں وہ سب اسی ضمن میں آتے ہیں قرآنی معاشرہ قائم کرنے کے لیے ان سب کو دبانا اور مٹانا ضروری ہے کیونکہ ان اعمال ارتکاب شیطان کے نقش قدم پر چلنے کے مترادف ہے جس سے فحش اور بدی کافروغ حاصل ہوتا ہے۔ پھر یہاں روایت کو پرکھنے کا ایک اصول بھی سمجھادیا کہ جس شخص کی عفت مسلمہ ہو اس کے متعلق اگر بدگمان لوگ اپنے بغض وعناد کا اظہار کرتے ہوئے کوئی تہمت تراشیں تو مومنین کو چاہیے کہ اس قسم کی افواہوں کی بلاتامل تکذیب کریں اور کسی طور پر اس پر کان نہ دھریں۔ النور
20 النور
21 النور
22 (١٣) جیسا کہ مندرجہ بالاآیات میں، اہل افک، کو تنبیہ وتادیب کی گئی ہے، اسی طرح آیت نمبر ٢٢ میں حضرت ابوبکر کو تادیب کی گئی ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب حضرت عائشہ کی برات نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر نے قسم کھائی کہ اب مسطح بن اثاثہ (جو ان کے خالہ زاد بھائی تھے) کے ساتھ مالی تعاون نہیں کریں گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی، حضرت ابوبکر کا جذبہ اطاعت دیکھیے کہ انہوں نے اسی وقت مسطح کا وضیفہ بحال کردیا اور کہا کہ ہم ضرور چاہتے کہ اللہ ہمیں معاف فرمائے۔ تواتر سے یہ ثابت ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر کے حق میں نازل ہوئی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابوبکر امت میں صاحب فضیلت تھے اور دین و ایمان میں ذی شان ہونے کے علاوہ صاحب وسعت بھی تھے اور لوگوں پر احسان کیا کرتے تھے جو بہت بڑی نیکی ہے اور ایسے لوگوں کو اللہ کی معیت حاصل ہوتی ہے (ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون) اور حدیث میں ہے بہتر وہ لوگ ہیں جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے، معلوم ہوا کہ اس لحاظ سے بھی حضرت ابوبکر بہتر تھے نیز حضرت ابوبکر کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ مسلمان ہوتے یہ وہ اسلام کے داعی بن گئے اور بہت سے کبار صحابہ نے حضرت ابوبکر کی دعوت پر اسلام قبول کیا۔ مولانا آزاد رحمہ اللہ تعالیٰ آیت نمبر ٢٢ کے تحت لکھتے ہیں۔ آیت نمبر ٢٢ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ معاشرتی زندگی کے اخلاقی فرائض کے لیے قرآن حکیم کا معیار عمل کس درجہ بلند ہے فرمایا اگر خدا نے تمہیں استطاعت دی ہے اور تم اپنے قرابت دار حاجت مندوں اور مسکینوں کی اعانت کرتے ہو تو تمہارا فرض ہے کہ ہر حال میں ان کی اعانت کرو تمہارے لیے کسی طرح یہ بات جائز نہیں کہ ان کے کسی قصور اور جرم سے خشمگین ہو کر دست اعانت کھینچ لو اور عہد کرلو کہ ایسے نالائقوں کی کبھی مدد نہیں کرو گے ان کاجرم کتنا ہی سخت مگر تمہارے عفودرگزر کو کوتاہ نہیں ہونا چاہیے یہاں ہر حال میں اصل عمل عفو وبخشش ہے نہ غضب وانتقام ! کیا تم اس کے طلبگار نہیں کہ خدا تمہارے قصور بخش دے؟ لیکن اگر تم اس کے بندوں کے قصور نہیں بخش سکتے تو تمہیں کیا حق ہے، اپنے قصوروں کے لیے اس کی بخشش کی طلب گاری کرو؟ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ کو جب معلوم ہوا کہ ان کے بعض رشتے داروں نے حضرت عائشہ کے خلاف بہتان لگانے میں حصہ لیا تو انہوں نے قسم کھائی ایسے لوگوں کو آئندہ کچھ مدد نہ دیں گے، چنانچہ حضرت ابوبکر نے بھی اپنے ایک رشتے دار مسطح بن اثاثہ کی اعانت سے ہاتھ کھینچ لیا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔” ولا یاتل“ کاترجمہ عام طور پر یہ کیا گیا ہے کہ قسم نہ کھائیں، اور اسے، الیۃ، سے مشتق سمجھا گیا ہے جس کے معنی قسم کے ہیں۔ لیکن زیادہ قوی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ قصر اور کمی کرنے کے معنوں میں بولا گیا ہو اور الوت فی کذا، اذا قصرت سے ماخوذ ہو، چنانچہ عام طور پر بولتے ہیں، لم آل جھدا ای لم اقصر، ومنہ قول الشاعر، وما المرء مادامت حشاشۃ نفسہ۔۔۔۔ بمدرک اطراف الخطوب والاآل۔ سب سے زیادہ قوی قرینہ اس کی تائید میں یہ ہے کہ خود قرآن نے دوسری جگہ یہ مادہ اسی معنی میں استعمال کیا ہے (لایالونکم خبالا۔ ٣۔ ١١٨)۔ النور
23 النور
24 النور
25 النور
26 (١٤) آیت نمبر ٢٦ کا تعلق بھی، قصہ افک، سے ہے اور اس کا مقصود بھی حضرت عائشہ (رض) کی عفت ونزاہت کو ثابت کرتا ہے یعنی حضرت عائشہ پیغمبر کی بیوی ہیں اور بیوی بھی وہ جسے خصوصی امتیاز حاصل ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ حضرت عائشہ سے اس قسم کا فعل بدصادر ہو اس بنا پر حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ پیغمبر کی بیوی کبھی بدکار نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے ناموس کی حفاظت فرماتا ہے، بعض نے الخبیثات اور الطیبات، سے اقوال وکلمات مراد لیے ہیں یعنی اس قسم کی الزام تراشیاں کرنے والے خبیث اور گندے لوگ ہیں پاکیزہ اخلاق لوگوں کے لیے یہ باتیں زیب نہیں دیتیں لہذا یہ بدقماش لوگ اگر پاکباز لوگوں پر کیچڑ اچھال رہے ہیں تو اس کی کچھ اہمیت نہیں ہے بلکہ یہ تو اپنی خباثت کا ثبوت پیش کررہے ہیں۔ آیت ٢٦ پر پچھلا بیان ختم ہوگیا فرمایا، ازدواجی تعلقات ومعاملات کے بارے میں اصل یہ ہے کہ کہ ہمیشہ ہم جنس طبیعتیں ایک دوسرے سے میل کھائیں گی، پاکی اور گندگی کا باہم پیوند نہیں لگ سکے گا، نیک عورت نیک مرد کے ساتھ خوش رہے گی، نیک مرد نیک عورت کے ساتھ خوشحال ہوگا، جو پاک دامن ہیں انہیں فتنہ پردازوں کے جھوتے الزام عیبی نہیں بناسکتے، اور جوعیبی ہیں وہ کبھی کسی کے کہے سے پاک دامن نہیں بن جائیں گے۔ النور
27 ١٥) ابتدا سورۃ سے یہاں تک ان احکام وحدود کا بیان ہوا ہے جن سے معاشرہ میں پیدا شدہ برائیوں کا تدارک کیا جاسکتا ہے اور اب یہاں آیت ٢٧ سے ان آداب واحکام کا بیان ہورہا ہے جن کی رعایت سے معاشرتی برائیوں کا سدباب ہوسکتا ہے گویاان احکام وآداب کی حیثیت واقعہ افک کے تتمہ کی ہے۔ استیناس دراصل اس انس کو کہتے ہیں جو ہم نشینی کے بعد پیدا ہوتا ہے لیکن یہاں پر اس کے معنی استیذان یعنی اجازت لینے کے ہیں اور آیت کے الفاظ میں تقد م وتاخر ہے (حتی تسلمواعلی اھلھا وتستاذنوا) یعنی جب تک کہ گھروالوں پر سلام کہنے کے بعد ان سے اجازت حاصل نہ کرو جاہلیت میں رواج یہ تھا کہ تحیہ وسلام کے بعد اجازت کا انتظار نہ کرتے اور اندر داخل ہوجاتے اس میں چونکہ بہت سی خرابیاں تھیں اس لیے قرآن نے پابندی لگادی کہ سلام کہنے کے بعد اجازت حاصل کرنا ضروری ہے اور حدیث میں ہے ایک مرتبہ سلام کہنے کے بعد جواب نہ آئے تو دوسری مرتبہ سلام کہو، پھر بھی جواب نہ آئے تو تیسری مرتبہ سلام کہو، اور اگر اس کے بعد بھی جواب نہ آئے تو واپس چلے جاؤ (اذا استاذن احدکم ثلاثا فلم یوذن لہ فلیرجع) اور یہ محاسن آداب سے ہے اور سلام کہنا تو حقوق مسلم میں داخل ہے اور ہاں زور زور سے دروازہ کھٹکھٹانا صاحب خانہ کو چیخ کر پکارنا خلاف ادب ہے۔ آیت نمبر ٢٧ سے سلسلہ بیان نے یہ رخ اختیار کیا ہے کہ معاشرتی زندگی کی شائستگی اور انضباط کے لیے چندبنیادی حدود ضروری ہیں وار ضروری ہے کہ لوگ سختی کے ساتھ ان کی پابندی کریں جو سوسائٹی ان حدود سے بے پروا ہوجائے گی وہ اخلاقی پاکیزگی کا اعلی معیار قائم نہیں رکھ سکے گی۔ ماقل سے ان احکام کاربط واضح ہے پہلے زنا کے جرم کی شناعت واضح کی، پھر اسی طرح بہتان تراشی کو سخت ترین جرم قرار دیا اب میل جول، آمدروفت اور مرد و عورت کے باہمی اختلاط کے ان احکام پر زور دیا ہے جن سے معاشرتی زندگی کی اخلاقی فضا زیادہ سے زیادہ پاکیزہ ہوجائے اور اسی طرح کے جرائم کو سراٹھانے کا موقع ہی نہ ملے۔ النور
28 النور
29 (١٦) آیت نمبر ٢٩ میں (فیھا متاع لکم) ہے اور متاع کا مطلب اردو فارسی کے تمام مترجموں نے مال واسباب ٹھہرایا ہے لیکن بات بنتی نہیں ذکر غیر آباد مکانوں کا ہے ایسی جگہوں میں کوئی اپنا مال اسباب رکھنے کیوں لگا اور اس کے لیے جانے کی ضرورت پیش کیوں آنے لگی؟ دراصل یہاں متاع، لغوی معنی میں مستعمل ہوا ہے جیسا کہ قرآن مجید نے ہر جگہ استعمال کیا ہے یعنی فائدہ اٹھانے اور متمع ہونے کے معنی میں ہیں مطلب یہ ہے کہ کوئی غیر آباد مکان ہو اور تمہیں اس میں جانے کی ضرورت پیش آجائے تو وہ اس حکم سے مستثنی ہے۔ قال العطاء المراد بھا الحرب التی یدخلھا الناس للبول والغائظ۔ النور
30 (١٧) لہـذا کسی مرد یا عورت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ کسی غیر محرم کو بنظر شہوت دیکھے، حدیث میں ہے کہ اس طرح غیر محرم کو دیکھنا آنکھوں کا زنا شمار ہوتا ہے، پہلی نظر اچانک پڑجائے تو معاف ہے مگر دوسری معاف نہیں ہے، دراصل نظر ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے تمام فتنوں کے دروازے کھلتے ہیں اور زنا کاری کے لیے راستہ ہموار ہوتا ہے اس بنا پر قرآن حکیم نے بے حیائی کے انسداد کے لیے اسی پر پابندی لگائی ہے غض بصر کے اس حکم سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ عورتیں کھلے چہرے چل پھرسکتی ہیں کیونکہ اس آیت میں چہر پر نقاب کے باوجود آوارہ نظربازی سے منع فرمایا گیا جو خیالات کو پاکیزہ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ النور
31 (١٨) پھر آیت نمبر ٣١ میں غص بصر اور حفظ ستر کے علاوہ عورتوں کو خصوصیت کے ساتھ یہ حکم دیا گیا کہ ان مذکورہ محارم کے علاوہ کسی کے سامنے اپنی زبیائش کی چیزیں ظاہر نہ کریں ہاں جو زیبائش از خود ظاہر ہوں تو بحالت مجبوری اس کے کھلارہنے میں کچھ مضائقہ نہیں۔ علما نے الا ماظھر منھا، کی تفسیر میں فقی موشگافیاں بھی کی ہیں اور لکھا ہے کہ چہرہ اور ہاتھ ستر میں داخل نہیں ہیں لہذا ان کا کھلا رکھنا جائز ہے مگر یہ بات قابل غور ہے کہ زیر بحث آیت میں ستر کا بیان ہے حجاب کا نہیں اور حجاب ستر سے ایک زائد چیز ہے جو غیر محرم اور عورتوں کے درمیان حائل کردیا گیا ہے لہذا دونوں کے احکام الگ الگ ہیں۔ النور
32 (١٩)۔ آیت میں، ایامی، کا لفظ ہے۔ عربی میں، ایم، کا اطلاق ایسی عورت پر ہوتا ہے جس کا شوہر نہ ہو، خواہ باکرہ ہو خواہ بیوہ ہو اور مطلقہ قال، ابوعمرو والکسائی، اتفق اھل الغۃ علی ان الایم فی الاصل ھی المراۃ التی لازوج لھا بکر اکانت اوثیبا۔ وقال ابوعبید، یقال، رجل ایم والمرۃ ایم، واکثر مایکون فی النساء وھو کالمستعار فی الرجال، ومنہ قول امیہ بن ابی صلت۔ للہ دربنی علی، ایم منھم وناکح۔ (دیوان امیہ بن ابی الصلت فی فحول الشعرا، ص ٢٢) اردو کے مترجموں نے اس کاترجمہ بیوہ عورتیں کیا ہے۔ یہ بلاوجہ عام کو خاص بنادینا ہے۔ (٢٠) تجرد کی زندگی سے جو معاشرتی خرابیاں اور ناہمواریاں پیدا ہوتی ہیں ان کا سدباب کرنے کے لیے قرآن نے ازدواجی زندگی پر زور دیا ہے بلکہ غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کردینے پربھی ترغیب دی ہے بشرطیکہ ان میں ازدواجی زندگی کے نباہ کرنے کی صلاحیت موجود ہو، ایک صالح معاشرے کے لیے یہ بات زیب نہیں دیتی کہ آمدنی کی کمی کی وجہ سے ازدواجی زندگی سے دل چرائیں کیونکہ ازدواجی زندگی بہت سی برکات پیدا کرتی ہیں اور بعض اوقات میاں بیوی کی مشترکہ کوششیں ایک خاندان میں خوشحالی کاموجب بن جاتی ہیں اور برے حالات اچھے حالات میں تبدیل ہوجاتے ہیں لہذا فضل الٰہی پر بھروسہ کرتے ہوئے ہر مجرد شخص کو چاہیے کہ ازدواجی زندگی کی ذمہ داریوں کو قبول کرے، بہت سی احادیث میں نکاح کرلینے کی ترغیب آئی ہے حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، نوجوانو تم میں سے جو شخص شادی کرسکتا ہے اسے بلاپس وپیش کرلینی چاہیے کیونکہ یہ نگاہ کو بدنظری سے بچانے اور باعفت زندگی بسر کرنے کاموجب بنتی ہے اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا تین آدمیوں کی اللہ ضرور مدد کرتا ہے ان میں سے ایک وہ ہے جو پاک دامن رہنے کے لیے نکاح کرلیتا ہے۔ مولاناآزاد رحمہ اللہ تعالیٰ آیت ٣٢ میں لکھتے ہیں، زنا کے سدباب کی کوئی کوشش سود مند نہیں ہوسکتی اگر وہ ان رکاوٹوں کو دور نہیں کردیتی جو نکاح کی راہ میں پیدا کردی گئی ہوں، یہ روکاٹیں دوراہوں سے آتی تھیں، مذہب کی راہ سے کہ لوگوں نے رہبانیت کو روحانی سعادت کے حصول کا ذریعہ سمجھ لیا تھا اور مردوں کو جنسی خود پرستی ور ذاتی غرض مندی کی راہ سے متعدد حالتوں میں عورتوں کو نکاح سے باز رکھنا چاہتے تھے ازاں جملہ ایک حالت بیوگی کی تھی چنانچہ یہاں آیت ٣٢ میں خصوصیت کے ساتھ نکاح کے اہتمام کا حکم دیا اور فرمایا جو جو ان عورتیں بغیر شوہر کے ہوں خواہ باکرہ ہوں خواہ رانڈ انکا نکاح کردو بٹھائے رکھنے کے خواہش مند نہ ہو۔ ساتھ ہی لونڈی غلاموں کے نکاح کے اہتمام کا بھی حکم دیا عرب کے گھر گھر میں لونڈی غلام بسے ہوئے تھے قرآن یہ رسم مٹانی چاہتا تھا لیکن جو لوگ اس حالت میں مبتلا ہوچکے تھے ضروری تھا کہ پہلے ان کے حقوق ومصالح کی اہمیت کا عام اعتراف دلوں میں پیدا کردیا جائے یہی وجہ ہے کہ احکام ومواعظ میں ہر جگہ ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔ النور
33 (٢١) آیت ٣٣ میں ایک بہت بڑے انسانی حقوق کا مسئلہ حل کیا جاتا ہے جو عالمی برداری میں آئینی حیثیت اختیار کرچکا تھا یعنی غلاموں کی آزادی اور اس کو معادرے میں مساوی حقوق دلانے کے لیے پہلا قدم کہ جو غلام، ہنر مندہوں اور محنت کرکے آسان قسطوں پر اپنی قیمت ادا کرسکتے ہوں ان کو رہا کردیا جائے اور مقررہ قسطوں پر ان سے قیمت وصول کرلی جائے عربی میں اس شرط پر رہائی کا مکاتب کہا جاتا ہے قرآن نے غلاموں کی رہائی کے لیے تدریجی قدم اٹھایا ہے کیونکہ اس وقت معاشی اور معاشرتی نظام ان غلاموں پر چل رہا تھا، لہذا اگر یکدکم حقوق ملکیت ساقط کردیے جاتے تو معیشت تباہ ہوجاتی اس ترغیب وتلقین سے لوگوں کو اس بات پر ابھارا کہ طوعا وکرہا غلاموں کو آزاد کردیں چنانچہ صحابہ پر اس خلاق تلقین کا اس قدر گہرا اثر ہوا کہ لوگ کثرت سے غلام آزاد کرنے لگ گئے اور خلفائے راشدین کے زمانہ اختتام تک تقریبا تمام موجود غلام رہا ہوچکے تھے اور آئندہ کے لیے صرف جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کی صرف اس صورت میں اجازت دی کہ ان کی حکومت قیدیوں کاتبادلہ نہ کرے یا معاوضہ ادا کرکے انکو چھڑانے پر راضی نہ ہوں لیکن ساتھ ہی اسلامی معاشرہ میں ان کو اس قدر سہولتیں دی گئیں کہ سوسائٹی میں ان کے حقوق محفوظ کردیے گئے جن کی تفصیلات کتب احادیث میں مذکور ہیں اور محدثین نے غلاموں کے احکام بیان کرنے کے لیے اپنی کتابوں میں مستقل عنوان قائم کیے ہیں جو تدریجا غلاموں کے متعلق اسلامی آئین میں ترمیم پر منتج ہوتے ہیں، مولانا آزاد اس آیت کے تحت لکھتے ہیں : اگر غلام اور آقا میں اس طرح کا سمجھوتا ہوجاتا تھا کہ غلام محنت مزدوری کرکے یا کسی دوسرے ذریعہ سے ایک خاص رقم آقا کو ادا کردے گا اور اس کے معاوضہ میں وہ اسے آزاد کردے گا تو اسے مکاتبہ کہتے تھے یعنی آپس میں آزادی کانوشتہ ہوگیا، قرآن مجید نے غلامی کی رسم مٹانے کے لیے جو تدریجی اصلاحات شروع کی تھیں ان میں ایک اصلاح یہ بھی تھی کہ مکاتب کی درخواست منظور کرلینے کا حکم دیا۔ چنانچہ یہاں آیت ٣٣ میں ان کے نکاح کا حکم دیتے ہوئے اس بات پر بھی زور دیا اور فرمایا نہ صرف ان کی درخواست منظور کرلینا چاہیے بلکہ اس کے لیے انہیں مالی امداد بھی دینی چاہیے کہ مال کو، مال اللہ، کہہ کر یہ حقیقت یاد دلادی کہ مال جو کچھ ہے اللہ ہی کا دیا ہوا ہے پس اس میں اس کے بندوں کا بھی حق ہے۔ کلدانیوں، ہندؤں اور رومیوں کی طرح عربوں میں بھی یہ طریقہ عام تھا کہ لونڈیوں سے پیشہ کراتے تھے اور ان کی کمائی کھاتے تھے۔ ان کے نکاح کا حکم دیتے ہوئے آیت ٣٣ میں اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ اس فساد کا بلکل انسداد ہوجائے۔ النور
34 (٢٢) آیت ٣٣ پر احکام سورت کا پہلاحصہ ختم ہوگیا اور ٣٤ سے سلسلہ بیان تذکیرہ موعظت کی طرف متوجہ ہوگیا ہے تاکہ ازدواجی زنگی اور جنسی پاکیزگی کے جو احکام دیے گئے ہیں ان کے فہم وعمل کے لیے طبیعتیں مستعد ہوجائیں یہ قرآن مجید کا عام اسلوب بیان ہے کہ وہ احکام ونواہی کو بھی موعظت کے پیرائے میں بیان کرتا ہے قانون کی کتابوں کی طرح بیان نہیں کرتا۔ چنانچہ یہاں فرمایا قرآن تین طرح کی باتوں پر مشتمل ہے آیات بینات، پچھلی قوموں کا تذکرہ اور متقیوں کے لیے موعظت۔ پھر ایک خاص موعظت شروع ہوئی ہے اور یکے بعد دیگرے دو مثالیں بیان فرمائی ہیں پہلی ایمان اور ایمان والوں کے کاموں کی ہے دوسری کفر اور اصحاب کفر کے اعمال کی تشریح آخر میں ملے گی۔ النور
35 (٢٣)، روشنی کا قدیم طریقہ یہ تھا کہ چراغ جلاکر طاق میں رکھ دیتے تھے جو دیوار میں اس غرض سے بنایا جاتا تھا کہ اور اب بھی بنایا جاتا ہے لیکن بادشاہوں اور امیروں کے یہاں قندیلیں بھی لٹکائی جاتی تھیں چنانچہ بابل، مصر روم، اور شام کی بے شمار پرانی قندیلیں عجائب خانوں میں موجود ہیں، عربی میں مشکوۃ کے لغوی معنی تو ظرف کے ہیں جس میں کوئی چیز رکھی جائے، اصل المشکوۃ الوعاء یجعل فیہ شئی (ابن سیدۃ)۔ لیکن پھر اس کا اطلاق اس طاق پر بھی ہونے لگا جس میں چراغ رکھا جائے اور قندیل پر بھی جو لٹکائی جائے پس یہاں مشکوۃ سے مقصوددونوں صورتیں ہوسکتی ہیں ہم نے مجاہد رحمہ اللہ کی تفسیر کو ترجیح دی اور قندیل ترجمہ کیا ہے کیوں کہ تمثیل کا مقتضا اجزائے تمثیل کا زیادہ سے زیادہ حسن وتوافق چاہتا ہے اور اس کے لیے قندیل ہی زیادہ موزوں ہے۔ (٢٤) آیت ٣٥ کے تحت مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے مولاناآزاد لکھتے ہیں : روشنی کے تم بھی متلاشی ہو اور میں بھی اس لحاظ سے ہم دونوں کا مطلوب ومقصود ایک ہی ہے لیکن پھر مجھ میں اور تم میں اختلاف حال کا ایک سمندر حائل ہے تم دوڑتے ہو کہ غیروں کے ٹمٹاتے ہوئے چراغوں سے اپنا چراغ روشن کرو، میں پوچھتاہوں کہ تمہاری شمع کیا ہوئی جسکی روشنی سے تمہارے گھر کا کونا کونا منور تھا؟ اس شمع کو کیوں روشن نہیں کرتے یہ کیسی بدبختی ہے کہ جن کے پاس کافوری شمعیں ہیں وہ کسی جھون پر کے دیے کو نظر حسرت سے دیکھیں اسلام آخری دین الٰہی تھا جس نے نہ صرف احکام شریعت ہی میں بلکہ حیات قوی کو ہرشاخ میں ہمیں سب سے آخری اور سب سے بہتر اصول دیے دنیا خواہ کتنی ہی بدل جائے لیکن آزمایاجاسکتا ہے کہ ان اصولوں کی صداقت کو بدلنے کی ضرورت نہیں۔ ؎ ١۔ الہلال ٣٠ جولائی ١٩١٣ ص ٨ اس آیت کاترجمہ یوں کیا ہے۔ اللہ ہی کے نور سے آسمان اور زمین کی روشنی ہے اس کے نور کی مثال ایسی سمجھو جیسے ایک طاق میں چراغ اور چراغ بلور کی قندیل میں، قندیل اس قدر صاف شفاف ہے گویاموتی کی طرح چمکتا ہوا ایک درخشندہ ستارہ۔ پھر اس چراغ کی روشنی ایک ایسے شجرہ مبارکہ زیتون کے تیل سے ہے جو نہ مغربی ہے اور مشرقی، اس کے تیل میں ایک عجیب خاصیت ہے کہ اپنے مشتعل ہونے میں وہ آگ کا محتاج نہیں، آگ اسے نہ بھی چھوئے تاہم وہ آپ سے آپ جل اٹھے گا، اس کے نور کا حال کیا کہا جائے وہ نور علی نور ہے۔ اور اللہ کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے اپنے نور کی طرف ہدایت بخش دے چراغ کا بیان دراصل ایک مثال تھی اور اللہ لوگوں کو سمجھانے کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر شے کی حالت سے واقف ہے۔ النور
36 (٢٥)۔ آیت ٦٣ میں اللہ نے مساجد کا حقیقی مقصدبتادیا جس کے لیے وہ موزوں ہیں۔ ؎ ٢۔ الہلال، ١٥ اکتوبر ١٩١٣ ص ٨ میں آیت کاترجمہ یوں کیا ہے۔ یہ چراغ ایسے گھروں میں روشن کیا جاتا ہے جن کی نسبت اللہ نے حکم دیا ہے کہ ان کی عظمت کی جائے اور ان میں اللہ کا ذکر کیا اور اس کے نام کی تقدیس ہو ان میں اللہ کے دوبندگان مخلص و مومن صبح شام تسبیح وتقدیس میں مشغول رہیں۔ النور
37 النور
38 النور
39 (٢٦) اسراب، مایری فی المفاوزمن لمعان الشمس عنداشتداد حر النھار علی صورۃ الماء وسمی سرابا لانہ یسرب، ای یجری کالماء۔ آیت ٥٣، ٨٣ میں سمجھایا گیا ہے کہ دنیا میں جو بھی ظاہری یا باطنی روشنی پائی جاتی ہے سب اسی کے نور سے مستفاد ہے اور تمام چیزوں کی نمود اسی کے نور سے ہے حتی کہ ہدایت وضلالت کا مدار بھی اللہ کے نور سے مستفیض ہونے اور نہ ہونے پر ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تو ہی آسمان اور زمین کو اجالابخشنے والا ہے اور میرے اعضاء کان، آنکھ، دل اور ہر ہر عضو کو اپنے نور سے منور کردے اور میرے نور کو بڑھا دے، امام غزالی نے اپنے رسالہ، مشکوۃ الانوار میں اس کی خوب تشریح کی ہے نور اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور صفات الٰہی کی کیفیت کو سمجھنا انسانی ادراک سے بالا ہے آگے فرمایا کہ یہ روشنی مسجدوں کے ساتھ خصوصی تعلق سے حاصل ہوتی ہے اس لیے مساجد کی تعظیم وتطہیر کا حکم دیا اور ان میں صبح وشام کے اوقات میں اللہ کو یاد کیا جائے اور جو لوگ مساجد کی تعظیم بجالاتے ہیں اور ان میں صبح وشام کے اوقات میں اس کا ذکر کرتے ہیں ان کے دل ہمیشہ ذکر الٰہی سے منور رہتے ہیں اور دنیا میں معاش کی طلب، ذکر الٰہی سے غافل نہیں کرتی، یہی شان صحابہ کرام کی تھی جن کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی ہے اور انسان کے دل میں یہ صفت اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جو مذکورہ اعمال کا پابند ہو اور ہرآن یوم حساب کا خوف اس پر طاری رہے۔ (٢٧)۔ قرآن کریم میں ہر جگہ اللہ نے ان لوگوں کے اعمال کو جن کے اغراض ومقاصد مرضیات الٰہی کی خواہش اور نور صداقت وحق پژدہی سے خالی ہیں ہمیشہ ان چیزوں سے تشبیہ دی ہے جو اپنے اندر کامیابی کا کوئی نہ کوئی ہنگامی اثر وجلوہ ضرور رکھتی ہے لیکن آخر میں ان کی ناکامی نمایاں ہوجاتی ہے اس آیت میں اعمال ضلالت کی مثال اس شخص کی سی بتلائی جو پیاسا ہو مگر دریا کی جگہ ریگستان کو سمندر سمجھ کر اس کی طرف دوڑے، بالاآخر اسے ناکامی اور نامرادی کے سوا کچھ حاصل نہ ہو۔ ؎ ١۔ الہلال، ٤ جون ١٩١٣ ص ٦ پر آیت ٦٣ کاترجمہ یوں کیا ہے۔ اور جو لوگ منکر ہیں ان کے کام ایسے ہیں جیسے چٹیل میدان میں ریت کاپیاسا دور سے اسے پانی سمجھ کر دوڑتا ہے مگر جب اس کے پاس آتا ہے تو کچھ بھی نہیں پاتا اس نے پایاتو اللہ کو اپنے قریب پایا جس نے اس کا حساب چکادیا اور اللہ بہت جلدی حساب کردینے والا ہے۔ النور
40 (٢٨)۔ یاان کے اعمال ضلالت کی مثال اس شخص کی سی ہے جو مکمل تاریکی میں گھرا ہوا ہو اور روشنی کی ایک کرن بھی اس تک نہ پہنچ سکتی ہو اور معرفت حق سے بہرہ مند نہ ہوسکتا ہو کیونکہ وہ فطرتا ہی کجرو اور کورباطن ہے پھر اسے روشنی حاصل ہو تو کیسے۔ النور
41 (٢٩)۔ قرآن مجید نے اس حقیقت پر توجہ دلائی ہے کہ کائنات ہستی میں جتنی چیزیں ہیں سب اللہ کے آگے جھکی ہوئی ہیں سب اس کی تسبیح وتقدیس میں زمزمہ سج ہیں سب اس کی عبادت میں سرگرم ہیں۔ ولکن لاتفقھون تسبیھم (١٧۔ ٤٤) تمہیں ان کی تسبیح کی فہم وبصیرت نہیں تم انہیں عالم تسبیح وتقدیس میں مگر سمجھتے نہیں۔ اس تسبیح وصلوۃ کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی تشریح گزشتہ سورتوں کے نوٹوں میں کی جاچکی، خصوصا بنی اسرائیل کی آیت ٤٤ کے نوٹ میں اور تفسیر سورۃ فاتحہ میں۔ یہاں آیت ٤١ میں جو مزید اشارات کیے گئے ہیں ان کی تشریح آخر میں ملے گی۔ النور
42 النور
43 (٣٠) یزجی سحابا۔۔۔ از جاء۔ کے معنی کسی چیز کو آہستہ آہستہ چلانے کے ہیں۔ الازجاء۔ السوق قلیلا قلیلا۔ انی اتیتک من اھلی ومن وطنی، ازجی حشاشہ نفس بانھا رمق۔ چونکہ بادل کی چادریں آہستہ آہستہ آتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اس لیے بلاغت چاہتی تھی کہ اسی لفظ سے اسے تعبیر کیا جائے افسوس ہے کہ اردوفارسی کے مترجموں نے الفاظ کی لغوی خصوصیات کی بہت کم رعایت کی ہے چنانچہ اسکاترجمہ بھی محض رواں کردن، اور چلانا، اور ہنکانا، کیا ہے اور اس طرح اصل لفظ کی لغوی خصوصیت گم ہوگئی ہے۔ (٣٠) یزجی سحابا۔۔۔ از جاء۔ کے معنی کسی چیز کو آہستہ آہستہ چلانے کے ہیں۔ الازجاء۔ السوق قلیلا قلیلا۔ انی اتیتک من اھلی ومن وطنی، ازجی حشاشہ نفس بانھا رمق۔ چونکہ بادل کی چادریں آہستہ آہستہ آتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اس لیے بلاغت چاہتی تھی کہ اسی لفظ سے اسے تعبیر کیا جائے افسوس ہے کہ اردوفارسی کے مترجموں نے الفاظ کی لغوی خصوصیات کی بہت کم رعایت کی ہے چنانچہ اسکاترجمہ بھی محض رواں کردن، اور چلانا، اور ہنکانا، کیا ہے اور اس طرح اصل لفظ کی لغوی خصوصیت گم ہوگئی ہے۔ (٣١)۔ آیت میں، یجعلہ رکاما، کے لفظ ہیں۔ اور رکم، کے معنی ہیں چیزوں کا تہ درتہ ہوجانا اور مل جل کر ایک ہوجانا، دونوں مفہوم شامل ہیں۔ یقال : رکم الشئی یرکمہ رکما، ای جمعہ والقی بعضہ علی بعض، والرکمۃ الطین المجموع (ابن سیدہ)۔ (٣٢(۔ قال الاخفش : ان من فی من جبال، وفی، من برد، زائدہ، والجبال والبرد فی موضع نصب، ای ینزل من السماء بردایکون کالجبال (کشاف)۔ (٣٣)۔ آیت ٤٣ میں وہ استدلال ہے جسے ہم نے اپنی جدیدہ تدوینات میں، برہان ربوبیت، سے تعبیر کیا ہے اور یہاں خصوصیت کے ساتھ اس حقیقت پر توجہ دلائی ہے جسے ہم نظام ربوبیت کے عنوان سے تفسیر سورۃ فاتحہ میں لکھ چکے ہیں ضروری ہے کہ اس موقع پر اس مبحث کا مطالعہ تازہ کرلیاجائے۔ النور
44 (٣٤)۔ ان لوگوں کو جن کے دل کی آنکھیں اندھی ہوچکی ہیں نشانات قدرت کا مطاعلہ کرنا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ کے نور کی روشنی سے مستفید ہوسکیں اور ان روشن دلائل کے ذریعہ سے ہدایت ورہنمائی حاصل کرکے صراط مستقیم پر چل سکیں۔ النور
45 (٣٥) قرآن مجید نے یہاں آیت ٤٥ میں اور بعض دوسرے مقامات میں اس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ تمام جاندار اجسام کی پیدائش پانی سے ہوئی، چونکہ زندگی کی ابتدائی پیدائش کے بارے میں طرح طرح کے دوراز کار خیالات پھیلے ہوئے تھے اس لیے اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کو حیرانیاں پیش آئیں بعضوں نے اس کا مطلب یہ بتانا چاہا کہ تمام جانداروں کی زندگی کا دارومدار پانی پر ہے بعض اس طرف گئے کہ پانی سے مقصود نطفہ ہے حالانکہ اگر آیت کے صاف صاف مطلب پر قناعت کرلیتے تو وہ وقت دور نہ تھا جب خود انسانی علم کی کاوشیں اسی حقیقت کا اعلان کرنے والی تھیں، چنانچہ اب علم الحیات کاہرطالب علم جانتا ہے کہ اجسام حیہ کی ابتدائی نشوونما پانی ہی میں ہوئی ہے اور پانی ہی کے حیوانات نے بتدریج خشکی کے حیوانات کا چولا پہنا ہے۔ النور
46 (٣٦)۔ آیت ٤٦ پر موعظت ختم ہوگئی ہے اور خاتمہ اس اعلان پر ہوا کہ، لقد انزلنا آیات بینت، الخ۔ ہم نے اس موعظت میں ایسی دلیلیں بیان کردی ہیں جو ہر طالب حق کے آگے عرفان حقیقت کی روشنی نمایاں کردیتی ہیں اور سعادت کی صراط مستقیم وہ اپنے سامنے پالیتا ہے۔ اس موقع پر یہ بات بھی یاد کرلو کہ قرآن مجید جن دلیلوں کو عرفان حقیقت کی راہ روشن کردینے والی دلیلیں قرار دیتا ہے وہ یہ دلیلیں ہوئین نہ کہ ہمارے گھڑے ہوئے منطقی مقدمات۔ یہ حقیقت امام رازی نے آخر عمر میں پائی جیسا کہ آخری مصنفات میں اعتراف کیا ہے اگر پہلے پالیتے تو اس بیکار کی زحمت سے بچ جاتے جو تفسیر کبیر لکھنے میں انہوں نے برداشت کی اور تمام پچھلے مفسروں کے لیے ایک غلط راہ نمائی کانشان راہ چھوڑ گئے۔ اس کے بعد سلسلہ بیان ایک نہایت اہمبنیادی معاملے پر متوجہ ہوگیا ہے یعنی احکام وقوانین حق کی کامل اطاعت وانقیاد کی ضرورت کیونکہ جماعت کے تزکیہ وسعادت کا تمام تردارومدار اسی بات تھا اور معاشرتی احکام کے اعلان کے بعد خصوصیت کے ساتھ اس پر زور دینا ضروری تھا۔ النور
47 (٣٧) آیت ٤٧ سے ان منافقین کا تذکرہ شروع کیا ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان کا دعوی تو کرتے ہیں مگر عملا خود ہی اپنے دعوی کی تکذیب کرتے ہیں کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے سامنے جھک جانے کو کہا جاتا ہے تو وہ اطاعت سے روگردانی کرلیتے ہیں لہذا ایسے لوگوں کے اپنے دعوائے ایمان جھوٹے ہیں ان کے اس طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ یاتویہ لوگ اپنے اس منافقانہ طرز عمل سے مسلمانوں کودھوکہ دینا چاہتے ہیں اور ان کے دلوں میں شکوک وشبہات سمائے ہوئے ہیں اور یا انہیں اسلامی عدالت سے عدل وانصاف کی توقع نہیں، بہرحال یہ لوگ ظالم ہیں اگر یہ لوگ حقیقتا مومن ہوتے تو اسلامی عدالت کے فیصلہ پر سمع وطاعت کا اظہار کرتے اور فلاح وفوز کی راہ اختیار کرتے۔ مولانا آزاد آیت نمبر ٧٤ تا ٤٩ کے تحت لکھتے ہیں۔ آیت ٧٤ میں ان لوگوں کی حالت بیان کی ہے جنہوں نے زبان سے تو ایمان کا اقرار کیا تھا لیکن دلوں میں اترا نہیں تھا وہ اپنے اقرار وادعا میں پورے مومن تھے مگر عمل میں پورے منکر، قرآن مجید نے انہیں منافق کے لقب سے یاد کیا ہے اور سورۃ توبہ کی تشریحات میں اس کی تفصیلات گزرچکی ہیں۔ یہاں ان لوگوں کے مومن ہونے کی نفی کی ہے جو زبان سے تو اطاعت حق کا اقرار کریں لیکن عمل کایہ حال ہو کہ وقت پر صاف رخ پھیر لیں۔ آیت ٤٩ میں فرمایا اگر کوئی قضیہ ایسا ہوتا ہے جس میں وہ اپنے کو برسر حق پاتے ہیں تو فورا پیغمبر اسلام کے سامنے اپنا معاملہ پیش کردیتے ہیں کیونکہ سمجھتے ہیں یہاں کا فیصلہ حق وانصاف کا فیصلہ ہوگا اور اس قضیے میں انصاف ہمارے ساتھ ہے لیکن جن قضیوں میں انصاف کا تقاضا ان کے خلاف ہوتا ہے ان میں پیغمبر اسلام کے محاکمے سے ہمیشہ بچنا چاہیں گے کیونکہ سمجھتے ہیں یہاں کا فیصلہ ان کی غرض مندی کے لیے مفید نہیں ہوسکتا۔ النور
48 النور
49 النور
50 النور
51 (٣٨) آیت ٥١ کا تعلق اگرچہ معاملہ قضا سے ہے لیکن منشاء اس کا عام ہے یہاں سے معلوم ہوگیا کہ جب قرآن وسنت کا کوئی فیصلہ مسلمانوں کے سامنے آجائے تو انہیں فورا سمعنا واطعنا، کہہ کر اس کے آگے جھک جانا چاہیے اور سارے حیلوں اور حجتوں کا خاتمہ ہوجانا چاہیے پھر یہ جو لوگوں نے مختلف اماموں اور پیشواؤں کے اقوال وآراء کو اپنی تقلید واطاعت کا مرکز بنارکھا ہے اور قرآن مجید کی کوئی آیت ملت کی کوئی تصریح، عقل ودرایت کی کوئی روشنی بھی ان کارخ اس خود ساختہ قبلہ سے نہیں پھرا سکتی، کیا وہ ایسے طریقے کو ایمان باللہ ورسلہ کا سچا طریقہ کہہ سکتے ہیں؟ اگر ان کے سامنے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا فرمان پیش کیا جائے تو ان کی زبانوں کو حرکت نہ ہوگی لیکن جونہی ان کے مشائخ وفقہاء کا قول سامنے آجائے بے اختیار پکاراٹھیں گے، سمعناواطعنا۔ النور
52 النور
53 (٣٩)۔ طاعۃ معروفہ۔ میں اگر، طاعۃ، کو مبتدا محذوف کی خبر قرار دیا جائے تو یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ان لوگوں کی اطاعت جس پر یہ قسمیں کھارہے ہیں مشہور ومعلوم ہے یعنی منافقانہ طاعت ہے لیکن ہم نے طاعت کو مبتدا قرار دیا ہے اور اس کی خبر مقدر ٹھہرائی ہے، ای طاعۃ معروفہ اولی بکم من ایمانکم۔ کیونکہ یہ اس محل میں زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ (٤٠)۔ سچے آدمی کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ کبھی قسمیں کھاکھاکر اپنی سچائی کا یقین نہیں دلائے گا، وہ سیدھے سادھے طریقے پرایک بات کہہ دے گا اور سمجھے گا میں نے جو کچھ کہا ہے سچ ہے اور ضروری ہے کہ ہر آدمی اسے سچ ہی سمجھے۔ بکیش صدق وصفا حرف عہد بے کاراست۔ نگاہ اہل محبت تمام سوگند است۔ لیکن جس کے دل میں چور ہوگا وہ بات بات پر قسمیں کھائے گا اور دس دس مرتبہ اپنی سچائی کا یقین دلائے گا کیونکہ وہ جانتا ہے جو کچھ کہہ رہاں ہو سچ نہیں، اور کوئی وجہ نہیں کہ سننے والا بھی اسے سچ سمجھے۔ آیت ٥٣ میں منافقین کی اسی روش کا ذکر کیا ہے فرمایا، وہ قسمیں کھاکھاکر اپنی اطاعت وانقیاد کا یقین دلاتے ہیں حالانکہ ان کا عمل انہیں صاف جھٹلا رہا ہے ان سے کہہ دو، قسموں سے کچھ نہیں بنتا، اصل شے جو مطلوب ہے وہ عمل ہے۔ آگے چل کر سورۃ نون میں تمہیں بدکردار آدمیوں کاسب سے پہلا نمایاں وصف یہی ملے گا کہ وہ حلاف، ہوتے ہیں یعنی بہت قسمیں کھانے والے۔ النور
54 (٤١) آیت ٥٤ جوامع کلمات میں سے ہے چند لفظوں کے اندر وہ سب کچھ واضح کردیا جو تبلیغ دین کے مقاصد ونتائج کے باب میں کہا جاسکتا ہے جس قدر غور کرتے جاؤ گے مطلب کا دائر وسیع ہوتا جائے گا۔ فرمایا تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو یہی سعادت کی راہ ہے اور اسی میں ساری باتیں آگئیں اور اگر تم اللہ کے رسول سے روگردانی کرتے ہو تو اس کا خمیازہ خود ہی تم کو بھتگنا ہے کسی دوسرے کا کچھ نہیں بگڑے گا اس کے ذمے یہ بات نہیں ڈالی گئی ہے کہ تمہیں جبرا کسی نہ کسی طرح اپنی راہ چلاکرہی چھوڑے، اس کی ذمہ داری تو صرفاتنی ہے کہ پیام حق پہنچا دے سننا، سمجھنا اور کاربند ہونا یہ تمہارا فرض ہے اگر ادا کرو گے کامیاب ہوگے انکار کرو گے ہلاکت میں پڑو گے رسول تمہارے عمل کے لیے ذمے دار نہیں، غور کرو ان چند لفظوں نے مہمات مسائل عمل کے کتنے گوشوں کا احاطہ کرلیا ہے اگر دنیا قرآن کی صرف اس ایک آیت کا مطلب اچھی طرح سمجھ لے تو اختلاف فکر وعمل کے سارے جھگڑے ختم ہوجائیں۔ النور
55 (٤٢) آیت ٥٥ میں جن اہل ایمان سے خلافت کا وعدہ کیا ہے اس کے مخاطب وہ مسلمان ہیں جو شرک سے پاک ہو کر خالص اللہ کی بندگی کرنے والے ہوں پسندیدہ دین کے متبع ہوں اور اخلاق واعمال کے اعتبار سے صالح ہوں نہ کہ منافق اور فسق وفجور کے مرتکب جو مذکورہ بالاصفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کا دعوی کرنے والے ہیں اس کے مخاطب صحابہ کرام ہیں اور بلاشبہ یہ وعدہ خلفائے اربعہ کے دور میں پورا ہوا اور دنیا نے اس عظیم الشان پیشن گوئی کو حرف بحرف پورا ہوتے دیکھ لیا۔ اس آیت سے خلفائے اربعہ کی فضیلت ومنقبت ثابت ہوتی ہے عہد نبوت سے لے کر عہد عثمانی تک جو فتوحات ہوئی ہیں علمائے تاریخ نے ان کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جو اس بات کا تاریخی ثبوت ہے کہ ان کی خلافت برحق تھی اور وعدہ خداوندی کے تحت عمل میں آئی تھی پھر جو لوگ ان تاریخی حقائق سے آنکھیں بند کرکے خلفائے اربعہ کی خلافت اور ان کے فض (رح) وشرف سے منکر ہیں ان کے متعلق ہم اس کے سوا کیا کرسکتے ہیں کہ، ومن یکفر بعد ذالک فاولئک ھم الفاسقون۔ مولانا آزاد اس آیت کے تحت کے لکھتے ہیں، نماز اسلام کی ایک عبادت ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ منہ کعبے کی طف ہو، مگر اسوہ ابراہیمی اسلام کی حقیقت ہے اس کے لیے صرف کعبے کی طرف منہ کردینا کافی نہیں بلکہ بانی کعبہ کی طرح دل کو پھیردینا شرط ہے وہ نماز کا ایک رکن ہے کہ عبادت ہے یہ اسلام کی ایک شرط ہے کہ اصل حقیقت ہے۔ ملۃ ابیکم ابراہیم۔ حضرت ابراہیم کی نسبت کواسی لیے یاد دلایا گیا ہے کہ ان کی زندگی اسلام کی حقیقت کا نمونہ تھی انہوں نے اپنی قربانی کا اسوہ دکھا کر اسلام کی حقیقت ظاہر کردی تھی جہاد فی سبیل اللہ، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، قیام صلوۃ واعلان حق اسی قربانی سے عبارت ہیں۔ اور جب تک ایک قوم اس قربانی کے لیے تیار نہ ہو وہ سعادت عالم وعالمیان کا ذریعہ نہیں بن سکتی، مشہور آیت استخلاف نے جس کا وعدہ الٰہی کی صورت میں اعلان ہوا پھر نصف صدی کے اندر ہی نصرت الٰہیہ نے اس کی تکمیل بھی کردی اس مبحث کے لیے ایک آخری فیصلہ کن بصیرت بخش دی ہے۔ النور
56 النور
57 النور
58 (٤٣)۔ اثنائے کلام میں ضمنا مثالیں بیان کرکے ایمان وکفر کی حقیقت سمجھانے کے بعد اب یہاں سے پھر احکام معاشرت کاسلسلہ شروع ہورہا ہے گذشتہ آیات میں حجاب کے سلسلہ میں اجانب یعنی غیر محارم کو پابند کیا گیا تھا کہ بغیر سلام اور اہل خانہ کی رضامندی حاصل کیے بغیر کسی کے گھر میں داخل ہونا ممنوع ہے، اب یہاں سے ان لوگوں کے احکام بیان ہورہے ہیں جوگومحارم سے تو نہیں ہیں تاہم وہ اہل خانہ کے ساتھ متصل رہتے ہیں اور قضائے حوائج میں ممد اور معاون کی حیثیت رکھتے ہیں، تخلیہ کے تین اوقات بیان کیے ہیں اور ان وقات ثلاثہ کو عورتات سے تعبیر فرمایا ہے۔ جوعورت کی جمع ہے، عربی زبان میں، عورت، کے معنی خلل اور خطرہ کی جگہ کے ہیں، نیز عورت کا لفظ اعضاء کے ان حصوں پربھی بولا جاتا ہے جن کا کھل جانا باعث شرم اور ناگوار ہوتا ہے لہذا آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان اوقات ثلاثہ میں تم لوگ چونکہ ایسی حالت میں ہوتے ہو کہ بچوں اور خدام کابلا اجازت تمہارے پاس آجانا مناسب نہیں لیکن ان تین اوقات کے علاوہ وہ بلا اجازت آسکتے ہیں۔ مولانا آزاد آیت نمبر ٥٨ کے تحت لکھتے ہیں ! آیت ٢٧ میں استیذان کا حکم دیا تھا، یعنی جب کسی کے یہاں جاؤ تو اجازت لے کر مکان میں داخل ہو، یہاں اس امر پر توجہ دلائی ہے کہ خود اپنے گھر کے اندر بھی ایک دوسرے کے کمرے میں جاتے ہوئے استیذان ضروری ہے تشریح اس کی آخر میں ملے گی۔ النور
59 (٤٤)۔ پھر جب بچے بالغ ہوجائیں تو ان کا حکم بھی وہی ہے جو دوسرے مردوں کا ہے، یعنی کسی وقت بھی بلا اجازت تمہارے کمرے میں داخل نہیں ہوسکتے، لڑکے کا بالغ ہونا یہ ہے کہ اسے احتلام ہوجائے اور لڑکی کی بلوغت ایام ماہواری سے شروع ہوجاتی ہے۔ النور
60 النور
61 (٤٥) حضرت ابن عباس، فرماتے ہیں کہ جب آیت، ولاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل (کہ ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ) نازل ہوئی تو لوگ ایک دوسرے کے ہاں کھانا کھانے میں بھی احتیاط برتنے لگے تھے اور بلادعوت کسی دوست یا عزیز کے ہاں کھانا بھی ناجائز سمجھتے تھے تو ان کے اس ذہنی احساس کو دور کرنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی، معذور آدمی تو اپنی بھوک رفع کرنے کے لیے ہر گھر سے کھانا کھاسکتے ہیں اور اس کی معذوری بجائے، خود معاشرے پر اس کا حق قائم کردیتی ہے اور دوسرے آدمی بھی اپنے عزیزواقارب کے ہاں جائیں تو وہ کھانا پیش کریں، توبلاتکلف کھاسکتا ہے، مسلمان اکٹھے بیٹھ کر بھی کھاسکتے ہیں اور علیحدہ بیٹھ کر بھی، اس بارے میں شریعت کی طرف سے ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ مولانا آزاد آیت ٦١ کے تحت تفصیلا لکھتے ہیں ! معذوروں کو لوگ حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے اور بیماروں کو کراہیت کی نظر سے، اس لیے ان کے ساتھ کھانا پینا پسند نہیں کرتے تھے عام رجحان یہ تھا کہ ایسے سے بچتے رہنا چاہیے، اسلام آیا تو اس نے اس طرح کے تمام جذبات مٹا دینے چاہیے۔ چنانچہ اس کی تعلیم کے اثر سے اب لوگ سنبھل گئے تھے، لیکن پھر بھی پچھلے اثرات کبھی کبھی ابھر آتے تھے، خود معذوروں اور بیماروں میں بھی جو خود دار طبیعتیں تھیں وہ پسند نہ کرتیں کہ دوسروں کے ساتھ کھانے پینے کے لیے بیٹھ جائیں اور اپنے کسی کی کراہیت وحقارت کانشانہ بنائیں۔ علاوہ بریں باہمی ارتباط یگانگت کے لیے ضروری تھا کہ کھانے پینے کے معاملے کسی طرح کا تکلف وحجاب باقی نہ رہے، لوگ ایک دوسرے کے یہاں بے تامل کھائیں پئیں، ہر آدمی اپنے دستر خوان کو دوسروں کے لیے کشادہ رکھے، اور دوسروں کے دسترخوان کو اپنا دستر خوان سمجھے، لیکن اس بارے میں طرح طرح کی رکاوٹیں لوگوں نے بنارکھی تھیں، ایک خاندان کے مخالف رشتے دار بھی ایک دوسرے کے گھر کو اپنا گھر تصور نہیں کرتے تھے، پھر ایک اور بھی رسم تھی گو وہ ایک بہت بڑی خوبی کے دروازے سے آئی تھی لیکن اس کی پابندی کا التزام اب تکلف کی حد تک پہنچ گیا تھا، یعنی اکیلے کھانے کو برا سمجھنا اور کسی نہ کسی مہمان کی ڈھونڈ میں ضرور رہنا، نہ ملے تو راہ چلتے کی جستجو کرنا، یہ بات فیاضی طبع اور مہمان نوازی کی راہ سے آئی تھی جیسا کہ حاتم نے کہا ہے، اذا ماصنعت الزاد فالتمسی لہ اکیلا فانی لست اکلہ وحدی۔ لیکن پھر بعض لوگوں نے یہاں تک اس کا التزام کرلیا کہ ہر حال میں اکیلے کھانے کو براسمجھنے لگے، اس سے معیشت کی آزاد روی میں خوامخواہ ایک نئی رکاوٹ پیدا ہوگئی، آیت ٦١ میں انہی امور کی اصلاح کی ہے۔ فرمایا، نہ تو معذور اور بیمار اپنے عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ کھانے میں مضائقہ محسوس کریں اور نہ لوگوں کو اس میں مضائقہ ہونا چاہیے، اس میں کوئی تکلف نہیں ہونا چاہیے کہ تم نے اپنے گھر میں کھانا کھایا، یا اپنے عزیزوں اور دوستوں کے یہاں کھایا، کھانے کا معاملہ ایسا معاملہ ہے جس میں کس طرح کا امتیاز من وتو نہیں ہونا چاہیے، ہرعزیز دوست کے گھر کو بلاتکلف وحجاب اپنا گھر تصور کرو اور پنے گھر کا دروازہ اور تمام عزیزوں اور دوستوں کے لیے کھلا رکھو، اگر خودداری کے بے جاخیالات اور تکلفات کی بے جابندشیں اس معاملے میں راہ پاجائیں گی تو باہمی اخوات کی وہ بے داغ زندگی پیدانہ ہوگی جو قرآن چاہتا ہے کہ انسانی مجامع میں پیدا ہوجائے۔ پھر اس دائرے کو یہاں تک وسیع کیا کہ فرمایا، ماملکتم مفاتحہ، کہ ان لوگوں کے گھر جن کی کنجیاں تمہاری سپردگی میں ۃ وں یعنی اگر کوئی عزیز یا دوست اپنا گھر سپرد کردے اور گھر میں کھانے کا سامان ہو تو اسے برتنے میں تکلف نہیں کرنا چاہیے اور ایسا نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ کوئی عیب کی بات ہوگی۔ مل کرکھاؤ یا الگ الگ کوئی مضائقہ نہیں۔ یعنی اگر ایسی صورت پیش آجائے کہ کوئی ساتھی نہ ہو تو اکیلے کھالینے کو علو نفسی اور فیاض منشی کے خلاف سمجھ کر بہ تکلف نہ روکو۔ خوبی کی بات تو یہی ہے کہ دسترخوان پر اکیلے نہ بیٹھیں لیکن اگر اتفاقا ایسی ہی صورت پیش آگئی ہے تو اکیلے ہی بیٹھ جاؤ کہ اکیلا بیٹھ کرکھالینا کوئی برائی کی بات نہیں۔ آیت کے آخر میں سلام کرنے کا حکم دیا، فسلموا علی انفسکم۔ اس سے پہلے آیت ٢٧ میں بھی سلام کا حکم گزرچکا ہے لیکن وہاں ذکر اس بات کا تھا کہ آدمی دوسرے کے گھر جائے تو کس طرح جائے؟ یہاں عام طور پر حکم دیا کہ جب گھروں میں داخ (رح) ہو خواہ خود تمہارا گھر ہو، خواہ کسی دوسرے کاتوآپس میں ایک دوسرے کو سلام کرلیاکرو، یہ ظاہر ہے کہ یہاں گھر سے مقصود درودیوار نہیں پس ماحصل یہ ہوا کہ جب کبھی ایک آدمی دوسرے آدمی سے ملے تو اسے پہلی بات یہ کرنی چاہیے کہ سلام کرے۔ اس آیت میں خطاب اگرچہ مسلمانوں سے ہے لیکن سلام کرنے کے معاملے میں شرعا مسلمان اور غیر مسلمان کی خصوصیت نہیں مسلمان جس کسی کے گھر جائے گا اور جس کسی سے ملے گا، السلام علیکم، تم پر سلامتی ہو، کیونکہ مسلمان ہر انسان کے لیے امن وسلامتی چاہتا ہے وہ کسی کے لیے تباہی اور ہلاکت کا خواہش مند نہیں ہوسکتا چنانچہ تاریخ نے خود پیغمبر اسلام اور ان کے صحابہ کا طرز عمل آج تک محفوظ رکھا ہے وہ جب کسی سے ملتے تھے تو اس پرسلامتی بھیجتے تھے یا مسلمان ہو خواہ غیر مسلمان۔ ایک دوسرے سے ملتے ہوئے اور رخصت ہوتے ہوئے سلامتی کا کلمہ کہنا سامی اقوام کی نہایت قدیم رسم ہے تورات کے صحائف سے معلوم ہوتا ہے کہ عبرانیوں میں یہ طریقہ رائج تھا اور شعرائے جاہلیت کے کلام میں مردوں کے لیے، علیک سلام اللہ، اور زندوں کے لیے سلام علیکم، کی ترکیبیں جابجاآئی ہیں خود قرآن مجید نے گزشتہ واقعات بیان کرتے ہوئے یہ ترکیب استعمال کی ہے اور سورۃ مریم میں پڑھ چکے ہو کہ حضرت ابراہیم کا اپنے باپ سے رخصت ہونا ان لفظوں میں بیان کیا گیا کہ، سلام علیک ساستغفرلک ربی۔ اچھا سلام۔ میں رخصت ہوتا ہوں۔ پس اسلام اس کلمے کا واضع نہیں ہے البتہ اس نے یقین واہتمام کے ساتھ اسے مقرر کردیا ہے اور اس پر اتنا زور دیا کہ سلام کا جواب دینا فرض ہوگیا۔ مصر وشام میں جہاں مسلمان اور غیر مسلمان سب عربی بولتے ہیں آج بھی یہ بات دیکھی جاسکتی ہے کہ سلام کا عاصم کلمہ یہی، السلام علیکم ہے بعلبک کے ہوٹل کی مالکہ ایک مسیحی خاتون تھی لیکن جب مجھے دیکھتی تو السلام علیکم کہتی تھی، البتہ اب متوسطہ طبقے کے جدید تعلیم یافتہ گھرانوں نے، صبحکم اللہ بالخیر، اور مساکم اللہ بالخیر، پر قناعت کرلی ہے اور اعلی طبقے نے فرنچ کلمات اختیار کرلیے ہیں۔ النور
62 النور
63 (46) یہاں سے خصوصیت کے ساتھ جماعتی نظم وضبط کاسلسلہ شروع ہوا ہے اور مخلص مومنین پر ان قواعد وضبواط کی پابندی لازم قرار دی ہے۔ (الف) اجتماعی امور میں امیر جماعت کی اجازت کے بغیر مجلس میں اٹھ کر چلے جانا مجلس کو برخاست کرنا جائز نہیں، یہ منافقین کا شیوہ ہے کہ اجتماعی امور میں صرف حاضری لگوانے کی غرض سے آجاتے ہیں پھر موقع پر کھسک جاتے ہیں نیز حکم دیا کہ مخاطبت کے وقت حضور کے آداب وعظمت کاپورا پورا خیال رکھو، عام لوگوں کی طرح، یا محمد، وغیرہ کہہ کرخطاب نہ کرو بلکہ یا، رسول اللہ، یانبی اللہ، جیسے تعظیمی القاب سے پکارو، دیکھو، پیغمبر (علیہ السلام) کے حکم کی نافرمانی پر دنیا میں کسی آفت کا شکار ہوسکتے ہیں ایسے لوگوں کو چاہیے کہ آخرت میں دردناک عذاب میں مبتلا ہونے سے بچیں۔ مولانا آزاد ان آیات کے تحت لکھتے ہیں، سورت کے آخر میں پھر اطاعت رسول پر زور دیا ہے کیونکہ بغیر ان کے احکام وقوانین کے انقیاد کی سچی روح پیدا نہیں ہوسکتی تھی پیغمبر اسلام جب کبھی کسی اہم معاملے کے لیے لوگوں کو جمع کرتے تو منافق دکھاوے کے لیے آتے پھر نظر بچا کے کھسک جاتے فرمایا مومنوں کایہ شیوہ نہیں انہیں جب کسی اہم معاملے کے لیے طلب کیا جائے جوجماعت وامت کی مصلحت کا معاملہ ہے تو چاہیے کہ پوری طرح جی لگا کے اس میں حصہ لیں اور جب تک معاملہ انجام نہ پاجائے جلسے سے اٹھنے کا نام نہ لیں، ہاں اگر کوئی ایسی ہی مجبوری پیش آگئی ہو تو اٹھ سکتے ہیں مگر نظر بچا کے نہیں بلکہ رخصت لے کر، پھر متنبہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول کے بلانے کو ویسا بلانا نہ سمجھو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو اس کی ہر صدا تمہارے لیے قانون ہے اور ہر بلاوا واجب التعمیل۔ یہاں سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ جو شخصیت جماعت کی ہدایت وقیادت کا مرکز ہو، ضروری ہے کہ اس کی صدائیں احترام کے ساتھ سنی جائیں ورنہ نظم جماعت درہم برہم ہوجائے گا۔ النور
64 النور
0 الفرقان
1 الفرقان
2 تفسیر وتشریح۔ (١) سورۃ الفرقان میں دوسری مکی سورتوں کی طرح توحید ورسالت اور معاد کے ثبوت پر زور دیا گیا ہے اور ضمنا شرک کی نفی کی گئی ہے مخالفین کو انجام بد سے ڈرایا گیا ہے اور تاریخی شہادتیں پیش کرکے بتایا گیا ہے کہ جن قوموں نے بھی اپنے رسول کی مخالفت کی وہ انجام کار ہلاک کردی گئیں لہذا مشرکین قریش اور مخالفین اسلام کو چاہے کہ ان قصوں سے عبرت حاصل کریں اور اپنے پیغمبر کی مخالفت ترک کردیں ورنہ ان کا انجام بھی وہی ہوگا جو پہلی امتوں کا ہوا ہے۔ سورۃ الفرقان بھی مکی ہے اور اس کا زمانہ نزول مکی زندگی کا وسطی دور ہے جبکہ مشرکین کی مخالفت اس حد تک پہنچی ہوئی تھی کہ وہ لوگوں کواسلامی تحریک سے روکنے کے لیے الزام تراشیوں پر اتر آئے تھے اور مخالفانہ پروپیگنڈا بھی زور شور سے شروع کردیا تھا اس بنا اس خطاب کار زیادہ تر تعلق ان اعتراضات وشبہات سے ہے جو اس دور کی مکی سورتوں میں مختلف اسالیب سے مذکور ہیں چنانچہ ان کاسب سے پہلا اعتراض وحی الٰہی پر تھا کہ قرآن وحی الٰہی نہیں ہے بلکہ تصنیف بندہ ہے اور کچھ دوسرے لوگ اس سازش میں ان کے شریک کار ہیں، اس کے جواب میں قرآن نے مختلف صورتوں میں تحدی کی ہے کہ اگر یہ بات صحیح ہے تو تم سب فصحاء وبلغاء مل کر ایسا کلام پیش کردکھاؤ۔ اس سورت میں قرآن کو الفرقان، کے خاص نام سے یاد کیا ہے کیونکہ نزول قرآن سے قبل دنیا کفر وشرک کی تاریکیوں میں گم تھی اور حق وباطل کا امتیاز ختم ہوچکا تھا، سو لوگوں کی ہدایت کے لیے ایسی کتاب نازل کی جس نے حق وباطل کے درمیان واضح خطوط قائم کردیے اور کفر وشرک کی وجہ سے جو وبال آنے والا تھا اس سے دنیائے جہان کو آگاہ کردیا، اور یہ سب اللہ تعالیٰ کی رحمت وبرکت کا نتیجہ ہے اس لیے سورۃ کی ابتداء، تبارک الذی، سے کی، سورۃ کی ابتدائمیں توحید باری تعالیٰ پر استدلال ہے، اور پھر نبوت پر ان کے شبہات کے جوابات دیے ہیں اور معاد کو ثابت کیا ہے۔ نزول قرآن کی شان : ہر سال حج کاموسم آتا ہے تولاکھوں انسانوں کے اندر سے اسوہ خلیل اللہ جلوہ نما ہوتا ہے یہ تو اسوہ ابراہیمی کی یادگار تھی لیکن جب وہ آیا جس کے لیے خود ابراہیم خلیل نے خداوند کریم کے حضور التجا کی تھی تودنیا کے لیے اسوہ محمدی کی حقیقت الحقائق کی اعلی رونمائی ہوئی اور ہدایت وسعادت کی تمام (دیگر) حقیقتیں بے اثر ہوگئیں۔ اس اسوہ عظیمہ کاسب سے پہلا منظر وہ عالم ملکوتی کا استغراق تھا جب کہ صاحب فرقان نے انسانوں کو ترک کرکے خدا کی صحبت اختیار کرلی تھی اور انسان کے بنائے گھروں کوچھوڑ کر غار حرا کے غیر مصنوع حجرے میں عزلت گزیں ہوگیا تھا، اس عالم میں متصل بھوکاپیاسا رہتا تھا اور پوری پوری راتیں جمال الٰہی کے نظارے میں بسر کردیتا تھا، تاآنکہ اس تنگ وتاریک غار کی اندھیاری میں طلیعہ قرآنی کانور بے کیف طلوع ہوا اور مشرقستان الوہیت سے نکل کر اس کے قلب مقدس میں غروب ہوگیا۔ وہ بھوکا پیاسا رہتا تھا پس تمام مومنوں کو حکم دیا گیا کہ تم بھی ان ایام (شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن) میں بھوکے پیاسے رہو تاکہ ان برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤ جونزول قرآنی کے ایام اللہ کے لیے مخصوص ہیں وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر ایک تنہا گوشے میں خلوت نشین تھا، پس ایسا ہوا کہ ہزاروں مومن وقانت روحیں ماہ مقدس میں اعتکاف کے لیے مسجد نشین ہونے لگیں۔ اس طرح غار حرا کے اعتکاف کی یاد ہر سال تازہ ہونے لگی، وہ راتوں کو حضور الٰہی میں مشغول عبادت رہتا تھا، پس پیروان اسوہ محمدیہ اور متبعین سنت احمدیہ یہ بھی رمضان المبارک کی راتوں میں قیام لیل کرنے لگے۔ الفرقان
3 الفرقان
4 الفرقان
5 (٢)۔ شروع آیات میں توحید کا بیان اور شرک کی تردید تھی اب نبی کی رسالت پر ان کے پانچ شبہات پیش کرکے ان کے جواب دیے جارہے ہیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق پر سب سے بڑی دلیل قرآن پاک ہے، اس لیے مخالفین قرآن کے آسمانی کتاب ہونے سے انکار کرتے اور اسے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصنیف کردہ کتاب قرار دیتے ہیں۔ الفرقان
6 (٣) کفار نے قرآن کو اساطیر الاولین کہہ کر جس طرح اس کے وحی الٰہی ہونے سے انکار کیا ہے اسی طرح گویا اس کے خالی ازحکمت ہونے پر بھی اشارہ کا ہے لیکن گزشتہ اقوام کے عبرت ناک انجام واساطیر کہنا بھی صداقت کو منہ کوچڑانا ہے۔ اس لیے قرآن نے ان کے جواب یہ کہہ کر تنبیہ وطنز کی ہے کہ اس کو نازل کرنے والی وہ ذات ہے جو کائنات کے اسرار ورموس سے خوب واقف ہے اور اس کتاب میں ماضی کی عبرتیں اور انسانی زندگی کی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کا بیان ہے۔ الفرقان
7 الفرقان
8 الفرقان
9 (٤) پھر وہ پیغمبر (علیہ السلام) پر بھی اعتراض کرتے اور آپ کی نبوت کی تکذیب کے لیے طنز واستہزاء سے کہتے ہیں کہ جو شخص ہماری طرح کھانے پینے کا محتاج ہو اور کسب معاش کے لیے ہماشما کی طرح بازاروں میں پھرتا ہو وہ اللہ کارسول کیسے ہوسکتا ہے اگر اللہ نے رسول بھیجنا ہوتا تو ضروری تھا کہ کوئی فرشتہ ان کے ساتھ ہوتا جو لوگوں کو انجام بد سے ڈراتا اس کے پاس خزانے ہوتے یا کوئی شاندار باغ ہوتا وغیرہ پھر جب یہ ساری چیزیں نہیں ہیں تو پھر آخر ہم اس کو اللہ کارسول کیسے مان لیں؟ اور مسلمانوں سے کہتے کہ بس تم توایک پاگل اور جادوزدہ شخص کی اتباع کررہے ہو۔ قرآن نے متعجبانہ انداز میں کہا ہے لوگ خود پاگل ہیں جو اس قسم کی بہکی بہکی باتیں بنارہے ہیں کوئی اعتراض سوجھتا نہیں پھر جو زبان پر آتا ہے بکتے چلے جاتے ہیں۔ الفرقان
10 (٥) اب یہان آیت ١٠ سے اصل اعتراضات کے جوابات دینے شروع کیے ہیں اور ان شبہات کے اصل محرکات کی نشان دہی کی ہے اور ان کو انجام بد سے ڈرایا ہے اور صحابہ کو صبر واستقامت کی تلقین کی ہے یعنی اللہ ان چیزوں سے بہتر چیزیں بھی عنایت کرسکتا ہے اور بتایا کہ دراصل یہ لوگ قیامت کے منکر اور مکافات عمل پر ایمان نہیں رکھتے اور پھر دنیوی سازوسامان کی فروانی نے ان کو بدمست کررکھا ہے اور دولت کے نشہ میں تمہاری دعوت کا انکار کررہے ہیں اور اب رہا پیغمبر کا بازاروں میں پھرنا اور طعام نوشی، تو یہ منصب رسالت کے منافی نہیں ہے پہلے بھی جتنے پیغمبر ہوگزرے ہیں وہ سب بلا استثنا بشر تھے کھانا بھی کھاتے اور بازاروں میں گھوما کرتے تھے قریش حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی نبوت ورسالت کے قائل تھے بلکہ ان کی ذریت ہونے پر ان کو فخر تھا وہ بھی مافوق بشرنہ تھے اسی طرح بنی اسرائیل بھی اپنے انبیاء میں سے کسی کے مافوق بشر ہونے کے قائل نہ تھے، اس بنا پر نبوت ورسالت کے سلسلہ میں قریش کو اہل کتاب کی طرف رجوع کا بھی حکم دیا اور حضرت عیسیٰ اور مریم علیہما السلام کے متعلق دعوائے الوہیت کی نفی کے سلسلہ میں فرمایا کہ یہ دونوں بھی کھانا کھاتے تھے۔ الفرقان
11 الفرقان
12 الفرقان
13 الفرقان
14 الفرقان
15 الفرقان
16 الفرقان
17 الفرقان
18 الفرقان
19 الفرقان
20 الفرقان
21 الفرقان
22 (٦) آدم (علیہ السلام) کی اولاد دو کی محکوم نہیں ہوسکتی وہ ایک سے لے گی دوسرے کوچھوڑے گی، ایک سے جڑے گی دوسرے سے کٹے گی پھر مومن کی اقلیم دل کس کی بادشاہت قبول کرے گی، دنیا اور اور اس کی بادشاہیاں فانی ہیں ان کے جلال وجبروت کو ایک دن مٹنا ہے خدائے منتقم وقہار کے بھیجے ہوئے فرشتے ہائے عذاب انقلاب وتغیرات کے حربے لے کر اترنے والے ہیں ان بادشاہوں کے قلعے مسمار ہوجائیں گے ان کی تلواریں کند ہوجائیں گے ان کے خزانے کام نہ آئیں گے ان کی طاقتیں نیست ونابود کردی جائیں گی ان کا تاج غرور سر سے اتر جائے گا ان کا تخت جلال وعظمت واژگوں نظر آئے گا۔ آیت ٢١، ٢٢ میں ان کے اس اعتراض کا جواب دیا جو کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ فرشتہ نذیر (ڈرانے والا) بن کرکیوں نہیں آیا؟ اس کے جواب میں فرمایا کہ یہ سنت الٰہی کے خلاف ہے کہ انسانوں کو آگاہ کرنے کے لیے فرشتے بھیجے جائیں اگر ہم فرشتہ بھیجتے تو وہ بھی مردانہ (انسانی) شک میں ہی ظاہر ہوتا دوراصل بات یہ ہے کہ فرشتے یا تو عذاب کے موقع پر نازل ہوتے ہیں اور یا پھر قیامت کے دن نازل ہوں گے اس لیے ان کایہ مطالبہ سراسر غلط ہے پھر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ آج پیغمبر کی تکذیب کررہے ہیں قیامت کے دن ان کی حسرت قابل دید ہوگی، اور دنیا میں تو یہ لوگ دعوت حق کو دبانے کے لیے ایک دوسرے کے معاون بنے ہوئے ہیں مگر قیامت کے دن ایک دوسرے پر لعنت کریں گے۔ الفرقان
23 الفرقان
24 الفرقان
25 الفرقان
26 الفرقان
27 الفرقان
28 الفرقان
29 الفرقان
30 الفرقان
31 الفرقان
32 (٧) آیت ٣٢ میں ان کے چوتھے شبہ کا جواب دیا وہ کہتے تھے کہ اگر یہ خدا کی نازل کردہ کتاب ہے تو یہ پوری کی پوری بیک مرتبہ ہی کیوں نہ نازل کی گئی، معلوم ہوتا ہے کہ محمد دوسرے لوگوں سے مدد لے کر کچھ نہ کچھ بنالاتا ہے اور اسے وحی الٰہی کے طور پر پیش کرتا ہے قرآن نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہ کتاب بیک مرتبہ بھی نازل کرسکتا ہے مگر تدریجی نزول سے مقصد یہ ہے کہ آپ کو ثبات قلب حاصل ہو اور اس کو اچھی طرح یاد کرلیں اور مخالفین کی طرف سے جوا عتراض ہو اس کابرموقع صحیح اور مسکت جواب مل سکے۔ ہمارے بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ قرآن سے پہلے جو کتابیں نازل ہوئیں یعنی تورات، انجیل اور زبور یادیگر صحیفے وہ سب بیک مرتبہ نازل ہوتے تھے اور قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جو بتدریج نازل ہوئیں مگر یہ ایک تاریخی غلطی ہے کتب سابقہ میں سے کسی کتاب کے متعلق ہم یہ دعوی نہیں کرسکتے کہ وہ بیک وقت نازل ہوئی، موسیٰ (علیہ السلام) کو جوالواح دی گئی تھیں وہ کل تورات نہ تھیں بلکہ تورات کا ایک حصہ تھیں اور ان میں صرف احکام عشرہ درج تھے قرآن کریم میں حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کی جوتاریخ مذکور ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ پر بتدریج احکام نازل ہوتے رہے یہی حال دوسری سماوی کتابوں کا ہے۔ واللہ اعلم۔ الفرقان
33 الفرقان
34 الفرقان
35 الفرقان
36 الفرقان
37 الفرقان
38 الفرقان
39 الفرقان
40 (٨) ان آیات میں حضرت نوح سے لے کر حضرت موسیٰ تک قوموں کی تاریخ اور ہلاکت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس سے ایک طرف تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا مقصود ہے اور دوسری طرف مخالفین کو متنبہ کرنا ہے اقوام سابقہ کی سرگزشت بیان کرنے سے جو مقصد قرآن کے پیش نظر ہے اس پر مفصل بحث کے لیے ترجمان القرآن جلد دوم، سورۃ اعراف اور سورۃ ہود ملاحظہ کرلی جائے، ہم نے بھی اپنے مقالہ قصص القرآن میں تمام مباحث کا استیعاب کیا ہے۔ الفرقان
41 (٩) ان کی بدبختی اور محرومی کایہ عالم ہے کہ وہ آپ کو دیکھ کر آپ کا مذاق اڑانا شروع کردیتے ہیں اور تحقیر آمیز لہجہ میں کہتے ہیں کہ دیکھو یہ وہی ہے جسے اللہ نے پیغمبر بناکربھیجا ہے اور اگر ہم ثابت قدم نہ رہے ہوتے تو ضرور ہی ہمارے معبودوں سے ہمیں برگشتہ کردیتا اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کو تسلی دی کہ ان کو اپنی گمراہی کا احساس تو اس وقت ہوگا جب عذاب سامنے نظر آئے گا دنیا میں یہ لوگ اپنی خواہشوں کے غلام بنے ہوئے ہیں اور چوپایوں سے بھی گئے گزرے بن گئے ہیں لہذا آپ ان کی اصلاح وہدایت کے ذمہ دار نہیں ہیں اور نفسانی خواہش کی غلامی سے انسانی عقل وفکر تباہ ہوجاتی ہے اور انسان فطرت کے حدود کو توڑ کر چوپایوں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔ الفرقان
42 الفرقان
43 الفرقان
44 الفرقان
45 الفرقان
46 الفرقان
47 الفرقان
48 الفرقان
49 الفرقان
50 (١٠) اب آیت ٤٥ سے ٥٠ تک توحید پر کوئی دلیل پیش کیے ہیں اور یہ وہ کونی اور آفاقی دلائل ہیں جن پر قرآن نے بار بار غوروفکر کی دعوت دی ہے اس لیے آخر میں فرمایا (ولقد صرفناہ بینھم لیذکروا) کہ ہم نے گوناگوں اسالیب سے ان کو واضح کردیا ہے تاکہ وہ یاد دہانی حاصل کریں۔ الفرقان
51 الفرقان
52 (١١) آیت ٥١، ٥٢ میں اس حقیقت کو واضح کیا کہ نبی کی بعثت کسی ایک علاقے کے ساتھ مختص نہیں بلکہ آپ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے مبعوث ہوئے ہیں لہذا آپکو چاہیے کہ بڑے وسیع پیمانے پر جدوجہد کریں اور اقامت دین کے لیے کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہ کریں آپ نے سمندروں کو طوفانوں اور موجوں کی صورت میں دیکھا ہے کہ پانی کی سرکشیاں کیسی شدید ہوتی ہیں لیکن اس سرکش اور مغرور دیو پر جب حقیقت اسلامی کی اطاعت کا قانون نافذ ہوا تو اس عجز وتذلیل کے ساتھ اس کاسرجھک گیا کہ ایک طرف میٹھے پانی کا دریا بہ رہا ہے اور دوسری طرف کھاری پانی کا بحزخار ہے دونوں اس طرح ملے ہوئے ہیں کہ کوئی شے ان کے درمیاں نہیں مگر نہ تو دریا کی یہ مجال ہے کہ سمندر کی سرحد میں قدم رکھے اور نہ سمندر بہ ایں ہمہ قوت وقہاری اس کی جرات رکھتا ہے کہ اپنی سرکش موجوں سے دریا پر حملہ کرے۔ ازدواجی زندگی سے توالد وتناسل کا ایک ایسا سلسلہ قائم ہوگیا کہ ہر وجود پیدا ہوتا ہے اور ہر وجود پیدا کرتا ہے ایک طرف وہ نسب کارشتہ رکھتا ہے جو اسے پچھلوں سے جوڑتا ہے دوسری طرف صبر یعنی دامادی کارشتہ رکھتا ہے جو اسے آگے آنے والوں سے مربوط کردیتا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ ہر وجود کی فردیت ایک وسیع دائرے کی کثرت میں پھیل گئی ہے رشتوں اور قرابتوں کا ایسا حلقہ پیدا ہوگیا ہے جس کی ہر کڑی دوسری سے مربوط ہے۔ الفرقان
53 الفرقان
54 (١٢) اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کرشمے ہیں کہ سمندر میں مختلف مقامات پر شریں پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں اور وہ سمندر کے تلخ پانی کے درمیان اپنی مٹھاس پر قائم ہیں یہی حال انسانی معاشرے کے سمندر کا ہے کہ معاشرہ خواہ کسی قدر بگڑ جائے پھر بھی اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے ان میں صالح رہنما پیدا کردیتا ہے۔ الفرقان
55 الفرقان
56 الفرقان
57 الفرقان
58 الفرقان
59 (١٣) آسمانوں وزمین کوچھ دنوں میں پیدا کرنے سے مراد چھ ادوار بھی ہوسکتے ہیں جیسا کہ تورات میں مذکور ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خدائی ایام مراد ہوں، وان یوما عندربک کالف سنۃ مماتعدون۔ اس پر مفصل بحث کے لیے ترجمان القرآن جلد دوم میں، سورۃ یونس، کی تفسیر کے آخر میں نظر ڈال لینا ضروری ہے، خلق السماوات والارض پر حافظ ابن کثیر نے، البدایہ والنہایہ میں مفصل بحث کی ہے اور قرآن پاک کی مختلف آیات کو یکجا کردیا ہے۔ الفرقان
60 (١٤) کفار مکہ اسمائے حسنی میں اسم پاک اللہ سے متعارف تھے جو اللہ کا ذاتی اسم ہے مگر دوسرے اسمائے حسنی، خصوصا اسم، الرحمن سے ناواقف تھے اس لیے جب ان کو خدائے رحمن کو سجدہ کرنے اور اس کی عبادت کی دعوت دی جاتی تو متکبرانہ انداز میں جواب دیتے کہ رحمن کیا چیز ہے؟ اور اظہار نفرت کرتے اور عوام کو نبی کے خلاف بھڑکاتے، قرآن نے سورۃ بنی اسرائیل میں بھی ان کی حماقت پر توجہ دلائی ہے اور پھر یہاں بھی اس کا اعادہ کیا ہے۔ الفرقان
61 الفرقان
62 (١٥)، ملکوت السماوات۔ کے ان اجرام عظیمہ کو دیکھوجن کے مرئیات مدہشہ سے یہ سطح نیلگوں ادارک انسانی کاسب سے بڑا منظر تحیر ہے یہ عظیم الشان قہرمان تجلی جو روز ہمارے سروں پر چمکتا ہے جس کی فیضان بخشی حیات تمیز قرب وبعید سے ماوراء ہے جس کاجذب وانجذاب کائنات عالم کے لیے مرکز قیام ہے جس کاسرچشمہ ضیاء ونوراجسام سماویہ کے لیے تنہا وسیلہ وتنویر ہے اور جس کا قہر حرارت کسی تجلی گاہ حقیقی کاسب سے بڑا عکس وظلال ہے غور کرو، اپنے اندر حقیقت اسلامی کی کیسی موثر شہادت رکھتا ہے جس کی جبروت وعظمت کے آگے تمام کائنات عالم کاسرجھکا ہوا ہے کیسے مسلم شعار انہ انکسار کے ساتھ فاطر السماوات کے آگے سربہ سجود ہے کہ ایک لمحے ایک عشر دقیقہ کے لیے بھی اپنے اعمال وافعال کے مقرر کردہ حدود سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا۔ قرآن میں لفظ بروج دو اور مقامات پر استعمال ہوا ہے، دیکھیے سورۃ الحجر آیت ١٦ اور سورۃ البروج آیت ١۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بروج سے مراد دوبارہ منازل ہیں جو علمائے فلکین نے دورہ شمس کے انضباط کے لیے مقرر کی ہیں یا یہ لفظ لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے اور مقصود بڑے بڑے ستارے ہیں جو بحر وبر کی ظلمتوں میں مسافروں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ان بارہ برجوں کی تقسیم سب سے پہلے اہل بابل نے کی پھر سریانی قوم ان سے متعارف ہوئیں اور بالاآخر یونانیوں نے انہیں اختیار کرلیا، جاہلیت میں عرب ان بارہ منزلوں سے متعارف نہ تھے، چنانچہ تبریزی نے ابوالعلا کا قول نقل کیا ہے، لم تکن العرب تعرفھا فی القدیم۔ اس بنا پر متاخرین میں سے محققین نے لکھا ہے کہ ان سے مراد وہ مستحکم خطے ہیں جن میں سے ہر ایک کی سرحدیں دوسرے سے الگ ہیں اور ان میں سے ایک خطے کو عبور کرکے دوسرے خطے میں چلاجانا نہایت مشکل ہے یا وہ سرحدیں مراد ہیں جن سے آگے شیاطین کا گزر نہیں ہوسکتا بہرحال ان سے مقصود یہ ہے کہ وحی الٰہی شیاطین کی دراندازیوں سے محفوظ رہے۔ واللہ اعلم۔ مفصل بحث کے لیے ترجمان القرآن جلد دوم تفسیر سورۃ الحجر ملاحظہ ہو۔ الفرقان
63 (١٦) اس سے قبل عبادالشیطان اور ان کی صفات مذکور ہوتی رہیں اب یہاں آیت ٦٣ سے عبادالرحمن کا بیان شروع ہوا ہے جو سورۃ کے آخر تک چلا گیا ہے پھر آخری آیت میں مخالفین کودھمکی دی ہے۔ الفرقان
64 الفرقان
65 الفرقان
66 الفرقان
67 الفرقان
68 الفرقان
69 الفرقان
70 (١٧)۔ عمل صالح انسان کے دل کو سنوارتا ہے اس لیے پچھلے گناہوں کاجوداغ دل میں ہوتا ہے اسے بھی مٹا دیتا ہے خدا گناہوں کی ناکام زندگی، نیکی کی سعید وکامیاب زندگی سے بدل دیتا ہے، مثلا حضرت عمر جب تلوار لے کر نبی کے قتل کے لیے چلے تو یہ تلوار کسی مفسدانہ نظر آتی ہوگی مگر اب اس کے ہر جوہر میں ایمان واصلاح کے جلوے چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کیا یہ نیکی کو بدی سے بدل دینا نہیں؟۔ الفرقان
71 الفرقان
72 الفرقان
73 الفرقان
74 الفرقان
75 الفرقان
76 الفرقان
77 الفرقان
0 الشعراء
1 الشعراء
2 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور سورۃ الفرقان کی طرح یہ سورت بھی نبی صلی اللہ کی رسالت اور قرآن کے وحی الٰہی کے اثبات پر مشتمل ہے یہ سورۃ بھی مکی زندگی کے دور متوسط میں نازل ہوئی ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ پہلے سورۃ طہ نازل ہوئی پھر واقعہ اور اس کے بعد الشعراء۔ اور یہ معلوم ہے کہ سورۃ طہ حضرت عمر کے قبول اسلام سے پہلے نازل ہوچکی تھی، سورۃ الفرقان کی مثل اس سورۃ میں بھی کفار مکہ کے پیہم جحود وانکار کا بیان ہے اور نبی سے کوئی نشانی دکھانے کا مطالبہ کررہے ہیں، کبھی آپ کوشاعر اور کاہن کہتے ہیں اور کبھی کہتے ہیں کہ اس (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متبعین نادان اور ادنی طبقے کے لوگ ہیں اگر آپ سچے نبی ہوتے تو قوم کے اشراف اور شیوخ اس کے قبول کرنے میں سبقت کرتے نبی انہیں بار بار سمجھاتے مگر وہ اپنی ہٹ دھرمی چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے اس پر آپ پر غمزدہ ہوتے، ان حالات میں یہ سورۃ نازل ہوئی اور آپ کو تسلی دی گئی کہ یہ لوگ ہٹ دھرم ہیں۔ اگر نشانیاں دیکھ کر ایمان لانے والے ہوتے تو ان کے گردوپیش زمین پر ہر طرف نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جنہیں دیکھ کر حقیقت کو پہچان سکتے ہیں پھر جب یہ لوگ قدرت کی نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائے تو یہ لوگ اس وقت تک اپنے کفر وشرک پر قائم رہیں گے جب تک اللہ تعالیٰ کے عذاب کی گرفت میں نہ آجائیں پھر اس مناسبت سے سات نامور قوموں کے حالات پیش کیے ہیں جنہوں نے اپنے انبیاء کے مقابلہ میں ہٹ دھرمی سے کام لیا اور بالاآخر تباہ وبرباد کردیے گئے گذشتہ اقوام کے ان قصوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور میں انبیاء کی تکذیب کے لیے ایک ہی قسم کے اعتراضات کیے گئے اور تمام انبیاء کی اساسی تعلیم بھی ایک جیسی رہی ہے۔ پھر آخر میں کفار کو خطاب ہے کہ اگر تم نشانیاں ہی دیکھتا چاہتے ہو تو اس قسم کی نشانیوں پر کیوں اصرار کرتے ہو جو تباہ شدہ قوموں نے دیکھیں یہ قرآن بجائے خود نبی کی صداقت پر معجزہ ہے کیا یہ شاعرانہ کلام ہے؟ اگر تم صدق دل سے اس کلام پر غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ کہانت یا شاعری سے اس کا دور کا واسطہ بھی نہیں ہے اسی سے اندازہ کرسکتے ہو کہ تمہارا نجام کیا ہوگا۔ (٢) قرآن کتاب مبین ہے جو حقائق کو کھول کر بیان کرتی ہے اسلوب سے بیان میں کوئی ابہام اور پیچیدگی نہیں ہے اس کے مضامنی اور پیش کردہ حقائق خود ہی بتارہے ہیں کہ علیم وخبیر کی طرف سے نازل کی گئی ہے اس کی ہر آیت ایک معجزہ ہے جو نبی کی نبوت کا یقین کرنے کے لیے کافی ہے کفار مکہ جو آپ سے معجزات کے طالب تھے ان کے لیے کتاب مبین کی آیات موجود ہیں آپ کو کاہن، یا شاعر کہنے والے اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ کلام کسی کاہن یا شاعر کی زبان سے نہیں نکل سکتا۔ الشعراء
3 الشعراء
4 (٣) آیت ٤ میں فرمایا کہ ہمارے لیے یہ کچھ مشکل نہیں ہے کہ آسمان سے ایسا نشان نازل کریں جو تمام کفار کو ایمان وطاعت پر مجبور کردے مگر ایسا جبری ایمان اس کو مطلوب نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی مشیت تو یہ ہے کہ لوگ اس کتاب مبین کی آیات کو پڑھ کر خود ہی راہ ہدایت اختیار کریں اور آفاق وانفس میں جو آیات پائی جاتی ہیں اور ان پر غوروفکر کرکے حق کو پہچانیں، یہی وجہ ہے کہ اللہ نے انسان کو اختیار روارادہ کی آزادی دی ہے اور اس کے اندر خیروشر کے دونوں رجحان رکھ دیے ہیں اور امتحان کے مقام پر کھڑا کردیا ہے کہ وہ کفر وفسق کی راہ اختیار کرتا ہے یا ایمان وطاعت کی، اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبرہو تو امتحان کا مقصد ہی فوت ہوجاتا، اس مضمون کو قرآن نے متعدد مقامات پر بیان فرمایا ہے سورۃ یونس میں اس کی تفصیل گزرچکی ہے دیکھیے ترجمان القرآن جلد دوم حاشیہ ٥٣، ٥٤) الشعراء
5 الشعراء
6 الشعراء
7 الشعراء
8 الشعراء
9 الشعراء
10 الشعراء
11 (٤) مختصر تمہید کے بعد اب گذشتہ اقوام کے وقائع کو تاریخی شواہد کے طور پر پیش کیا کہ جن قوموں نے بھی اپنے پیغمبروں کی مخالفت کی وہ تباہی سے دوچار ہوگئیں۔ (الف) دس سال مدینہ میں رہنے کے بعد حضرت موسیٰ اپنے اہل کے ساتھ واپس آرہے تھے جب سینا کے قرب وجوار میں پہنچے تو دور سے آگ دکھائی دی اپنے اہل کو وہیں ٹھہرا کرآگ کے پاس پہنچے تو یہ واقعہ پیش آیا، تورات میں اسی جگہ کو، حورب، کہا ہے جو سینا کا مشرقی گوشہ ہے۔ (ب) مصری مختلف دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے، بڑا دیوتا سورج تھا جسے، رع، کہتے تھے اور چونکہ بادشاہ کو اس کا اوتار سمجھتے تھے اس لیے اس کالقب فارع تھا، یہی فارع عبرانی میں فاراعونی اور عربی میں فرعون بن گیا۔ (ج) حضرت موسیٰ یہ پیغام سن کر اپنی کمزوریوں کا اظہار کرنے لگے اور اپنے بھائی ہارون کو ساتھ لے جانے کے لیے ان کے لیے بھی رسالت کی درخواست کی، جیسا کہ سورۃ طہ میں ہے کہ میرے گھروالوں میں سے ہارون کو میرا وزیر بنادیجیے چنانچہ حضرت موسیٰ مصر کوروانہ ہوئے ادھر حضرت ہارون کو اشارہ غیبی ہوا کہ موسیٰ علیہما السلام کی تلاش میں نکلیں، چنانچہ راہ میں دونوں کی ملاقات ہوئی اسی لیے آیت ١٦ میں دونوں کو مخاطب کرکے فاتیاتثنیہ کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ (د) حضڑت موسیٰ اور ہارون کو دوہرے مشن پر بھیجا گیا، فرعون کو دعوت توحید اور بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نکالنا، قرآن نے کسی جگہ پر پہلے مشن کا ذکر کیا ہے اور کسی جگہ دوسرے کا، جیسے یہاں پر آیت ١٨ میں اشارہ ملتا ہے کہ جس فرعون کی طرف حضرت موسیٰ جارہے ہیں یہ وہ نہیں ہے جس کے محل میں ان کی پرورش ہوئی تھی بلکہ اس کا بیٹا ہے جو تخت نشین ہوچکا تھا۔ (ہ) فرعون نے حضرت موسیٰ کو ناسپاس ہونے کا طعنہ دیا اور واقعہ قتل کی طرف بھی اشارہ کیا، مگر حضرت موسیٰ نے جواب دیا کہ وہ قتل نادانستہ ہوگیا تھا اس لیے قابل مواخذہ نہیں، اب رہا تمہارے محل میں پرورش پانا تو یہ تیرے ظلم کی وجہ سے تھا کہ تو نے بنی اسرائیل پر ظلم ڈھارکھے تھے اور تیرے ظلم کی وجہ سے میری ماں نے مجھے تابوت میں ڈال کر دریا میں بہادیا تھا۔ (و) پھر جب حضرت موسیٰ نے رب العالمین کی طرف دعوت دی تو فرعون بوکھلا گیا اور کہنے لگا کہ تمہارا یہ پیغمبر تو پاگل ہے اس پر جب حضرت موسیٰ نے اللہ کی ربوبیت عامہ کی مزید تشریح کی تو فرعون نے دھمکی دی کہ مصر میں تو اگر تو نے میرے سوا کسی اور کے الہ و معبود ہونے کا نام لیا تو جیل میں ڈال دیے جاؤ گے۔ (ز) اس کے جواب میں حضرت موسیٰ نے حق کی نشانیاں دکھلائیں مگر فرعون نے حضرت موسیٰ پر ماہر جادوگر ہونے کا الزام لگایا اور اپنے درباریوں سے کہنے لگا کہ یہ شخص بغاوت کرکے سلطنت کا تختہ الٹنا چاہتا ہے اور اقتدار پر قابض ہونا چاہتا ہے اس پر درباریوں نے مشورہ دیا کہ کیونہ ملک کے ماہر جادوگر اس کے مقابلہ کے لیے جمع کیے جائیں چنانچہ جادوگروں کو جمع کیا گیا، یہاں پر (میقات یوم معلوم) فرمایا ہے کہ ایک معین دن کے خاص وقت پر جمع کیے گئے، سورۃ طہ میں ہے کہ وہ قومی تہوار (عید کا دن) تھا۔ (ح) مصر کے جادوگروں کا اجتماع اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مقابلہ۔ سورۃ اعراف میں جادوگروں کی نسبت فرمایا، انہوں نے لوگوں کی نگاہیں جادو سے مار دی تھیں، مطلب یہ کہ جادو کے شعبدوں کی کوئی حقیقت نہیں، محض نگاہ کا دھوکا تھا، چنانچہ سورۃ طہ ٦٦ میں اسے تخیل کی تاثیر سے بھی تعبیر فرمایا ہے اور یہاں (مایافکون) فرمایا یعنی اس کی نمائش جھوٹی تھی۔ (ط) جادو کا اعتقاد دنیا کی قدیم اور عالمگیر گمراہیوں میں سے ہے اور نوع انسانی کے لیے بڑی مصیبتوں کا باعث بن چکا ہے جس حد تک اس کی جزوی تاثیرات کا تعلق ہے وہ تو احادیث سے بھی ثابت ہے لیکن جادو کے ذریعہ سے اشیاء کی ماہیت کو تبدیل کرنا، اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے چنانچہ حضرت موسیٰ کے مقابلہ میں جادوگربری طرح ہار گئے اور اللہ رب العالمین پر ایمان لے آئے۔ (ی) جب فرعون نے دیکھا کہ تمام باشندگان ملک کے سامنے اسے شکست ہوئی اور جن جادوگروں پر بھروسہ کیا تھا وہ ایمان لے آئے ہیں تو ڈرا کہیں ایسا نہ ہولوگ حضرت موسیٰ کے معتقد ہوجائیں، اس نے جادوگروں پر مکروسازش کا الزام لگایا اور کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمہارا سردار ہے اور تم جادو میں اس کے شاگرد ہو اس لیے اس کے آگے گر پڑے، اس سے فرعون کایہ مقصد تھا کہ عوام پر حقیقت حال مشتبہ کردے اور شکست کی ذلت کوچھپائے اور پھر جادوگروں کو قتل وتعذیب کی دھمکی دی۔ (ک) مگر سچا ایمان اگرچہ ایک لمحہ کا ہو وہ انسان میں ایسی روحانی طاقت بھر کردیتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اسے مرعوب ومسخر نہیں کرسکتی وہی جادوگر جوفرعون سے صلہ وانعام کی التجائیں کررہے تھے ایمان لانے کے بعد معا ایسے بے پروا ہوگئے کہ سخت جسمانی اذیت کی دھمکی بھی انہیں متزلزل نہ کرسکی۔ (ل) اب یہاں آیت ٥٢ سے حضرت موسیٰ کا دوسرا مشن شروع ہوتا ہے یعنی بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانا اور ان کو لے کر ملک شام کو چلے جانا، چنانچہ فرعون سے مقابلہ کے کئی سال بعد جب اللہ نے مناسب سمجھا تو حضرت موسیٰ کو بنی اسرائیل سمیت ہجرت کا حکم دیا، بنی اسرائیل کی آبادیاں چونکہ متفرق تھیں اس لیے حضرت موسیٰ نے تمام بستیوں میں ہدایات بھیج دیں کہ لوگ ہجرت کے لیے تیار ہوجائیں اور اس سفر کے لیے ایک خاص رات مقر کردی اور ہدایت کے مطابق رات کو ساری قوم متعین راستہ پر نکل کھڑی ہوئی۔ (م) فرعون کو جب پتہ چلاتواس نے ہنگامی حالت کا اعلان کردیا اور فوری امداد کے لیے فوج طلب کرلی، وہ دل میں خوف زدہ تھا مگر ظاہر یہ کیا کہ ان لوگوں نے ہمیں غصہ دلایا ہے اور اس لیے ہم انہیں سزا دینا چاہتے ہیں۔ فرعون کی ہلاکت اور بنی اسرائیل کی وراثت ارض : (ن) قانون الٰہی یہ ہے کہ ظالم قومیں جن مظلوم قوموں کو حقیر وکمزور سمجھتی ہیں ایک وقت آتا ہے کہ وہی شاہی وجہانداری کی وراثت ہوجاتی ہیں آیت ٥٧ تا ٥٩ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن باغات، چشموں، خزانوں اور بہترین قیام گاہوں سے فرعونیوں کو نکالا تھا انہی باغات وغیرہ کا وارث بنی اسرائیل کو کردیا جس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل مصر چلے گئے اور آل فرعون کے باغات پر قابض ہوگئے قرآن نے یہی پیرایہ بیان سورۃ الدخان اور القصص میں اختیار کیا ہے اور امام بغوی نے بعض علمائے تفسیر سے نقل کیا ہے کہ وہ اسی کے قائل ہیں مگر قرآن کے دوسرے مقامات اور تاریخ اس کے خلاف ہے اس لیے اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ بنی اسرائیل کو جن باغات وچشموں کا وارث بنایا جارہا ہے اس سے مراد ارض فلسطین اور شام ہے اور قرآن نے اس سرزمین کو بابرکت سرزمین سے تعبیر فرمایا ہے ملاحصہ سورۃ اعراف آیت ١٣٦، ١٣٧، نیز سورۃ طہ۔ اور تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل مصر کی طرف پلٹنے کے بجائے فلسطین کی طرف چلے گئے اور پھر حضرت داؤد (علیہ السلام) کے زمانہ تک جو واقعات پیش آئے وہ سب اسی سرزمین میں پیش آئے۔ الشعراء
12 الشعراء
13 الشعراء
14 الشعراء
15 الشعراء
16 الشعراء
17 الشعراء
18 الشعراء
19 الشعراء
20 الشعراء
21 الشعراء
22 الشعراء
23 الشعراء
24 الشعراء
25 الشعراء
26 الشعراء
27 الشعراء
28 الشعراء
29 الشعراء
30 الشعراء
31 الشعراء
32 الشعراء
33 الشعراء
34 الشعراء
35 الشعراء
36 الشعراء
37 الشعراء
38 الشعراء
39 الشعراء
40 الشعراء
41 الشعراء
42 الشعراء
43 الشعراء
44 الشعراء
45 الشعراء
46 الشعراء
47 الشعراء
48 الشعراء
49 الشعراء
50 الشعراء
51 الشعراء
52 الشعراء
53 الشعراء
54 الشعراء
55 الشعراء
56 الشعراء
57 الشعراء
58 الشعراء
59 الشعراء
60 الشعراء
61 الشعراء
62 الشعراء
63 الشعراء
64 الشعراء
65 الشعراء
66 الشعراء
67 الشعراء
68 الشعراء
69 (٥) اس کے بعد حضرت ابراہیم کی زندگی کا ابتدائی واقعہ بیان کیا ہے جوان کے وطن، اُور، میں پیش آیا جہاں سے ہجرت کرکے وہ کنعان آئے اور وہیں بقیہ عمرے کے لیے بس گئے۔ حضرت ابراہیم کی ہر بات اسلام تھی حقیقت اسلامی میں ان کا وجود اس طرح فنا ہوگیا تھا کہ خود ان کی کوئی ہستی باقی نہیں رہی تھی انہوں نے جب آنکھ کھولی تو ان کے چاروں طرف بت پرستی کے مناظر تھے انہوں نے خود اپنے گھرکے اندر جس کو دیکھا اسکے ہاتھ میں سنگتراشی کے اوزار اور بتوں کے ڈھانچے تھے، وہ کالڈیا کے بازاروں میں پھرے، جس طرف دیکھا بتوں کے آگے سر جھکے ہوئے تھے، جس طرف کان لگایا، خدا فراموشی کی صدائیں آرہی تھیں، پھر وہ کون سی چیز تھی جس نے تمام ان چیزوں سے ہٹا کر جو آنکھوں سے دیکھی اور کانوں سے سنی جاتی ہیں ان کے دل میں ایک ان دیکھے محبوب کے عشق کی لگن لگادی، ان کے سامنے توبتوں کی قطاریں تھیں جنہیں ان کی آنکھیں دیکھتی تھیں پھر وہ کون تھا جوان کے اندر بیٹھا ہوا خدائے قدوس کو دیکھ رہا تھا اور اس قدرتی جوش وقوت کے ساتھ جو کسی بلندی سے گرنے والے آبشار یا زمین سے ابلتے ہوئے چشمے میں ہوتا ہے ؟ دراصل یہ وہی حقیقت اسلامیہ تھی جس نے ان کے وجود کو آنے والی امتوں کے لیے اسوہ حسنہ بنادیا، صالحین کو ابدی شہرت حاصل ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ قائم رہتی ہے اور بقا ودوام، استمرار اصلاح کے لازمی خواص ہیں۔ (الف) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اس سوال سے مقصد ان کو ان بتوں کی حقیقت کی طرف متوجہ کرنا تھا کہ جب یہ تمہارے معبود کسی قسم کے نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں تو ان کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ ان کی طرف سے وہی جواب دیا گیا جو ہر بت پرست قوم نے اپنے رسول کو دیا کہ ہمارے باپ دادا کے وقتوں سے یونہی چلاآتا ہے گویا وہ اعتراف کررہے ہیں کہ ہم تو اپنے باپ دادا کی اندھی تقلید کررہے ہیں ہم بھی جانتے ہیں کہ یہ لکڑی اور پتھر کی مورتیاں لیں لیکن ہمارے آباء واجداد بیوقوف تھے؟ حضرت ابراہیم نے فرمایا اچھا تم اور تمہارے آباء واجداد ان کی پوجا کرتے رہو، میں تو رب العالمین کے سوان سب کو اپنا دشمن سمجھتا ہوں مطلب یہ تھا کہ صرف ایک رب العالمین ہی وہ ذات ہے جو عبادت کی مستحق ہے اور پھر وہ وجوہ بیان کیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ ہی عبادت کا مستحق ہے۔ (ب) اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دعا کرتے ہیں اور پھر آخر میں اپنے مشرک باپ کے لیے بھی دعائے مغفرت کرتے ہیں تو اب یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مشرک کے لیے دعائے مغفرت کرنا جائز ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مشرک کے لیے دعائے مغفرت قطعا جائز نہیں ہے اور قرآن نے حضرت ابراہیم کی اس دعا کی وجہ سورۃ توبہ میں بیان کی ہے کہ حضڑت ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے مغفرت کی دعا کرنامحض وعدہ کی بنا پر تھا مگر جب ان پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بے زاری کا اظہار کردیا، حضرت ابراہیم کے قصہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۃ الانبیاء، ترجمان القرآن جلد دوم۔ آیت ٨٩ کے تحت مولانا آزاد لکھتے ہیں : یہی وہ انسان کی فطرت اصلی ہے جسے قرآن کریم نے اسلام کے سوا قلب سلیم سے یاد کیا ہے، فی الحقیقت اسوہ ابراہیمی میں سے پہلا اسوہ یہی قلب سلیم یا ذوق فطرت کی صحت ہے، مولانا روم کی اس نکتے پر نظر تھی انہوں نے مثنوی کے کئی موقعوں میں اس پر نہایت لطیف بحث کی ہے۔ آیت ١٠٣ کے تحت لکھتے ہیں : (انقلاب حالت کے تمام مظاہر) فی الحقیقت انہیں قوانین الہیہ اور نوامیس فطریہ کے ماتحت ہیں جنہیں فاطر السماوات والارض نے اس عالم کے نظام وقوام کے لیے روز ازل ہی سے مقرر کردیا ہے پھر جن افراد واقوام ان قوانین کے مطابق راہ امید اختیار کی ان کے لیے امید کی زندگی ہے اور جنہوں نے اس سے روگردانی کی ان کے لیے نامرادی وناکامی کی مایوسی ہے، قانون جرم کی سزا دیتا ہے یہ مجرم کو جرم کرنے کے لیے مجبور نہیں کرتا، پس شکایت کارساز قدرت کی نہیں، بلکہ خود اپنی ہونی چاہیے، خدا نے امیدکادروازہ کسی پر بند نہیں کیا اور زمین کی وراثت کسی ایک قوم کو ورثہ میں نہیں دے دی، اس نے پھول اور کانٹے دونوں پیدا کیے۔ اگر ایک بدبخت کانٹوں پر چلتا ہے، مگر پھول دامن میں جمع نہیں کرتا تو اسے اپنی محرومی پر رونا چاہیے، باغباں کا کیا قصور؟۔ الشعراء
70 الشعراء
71 الشعراء
72 الشعراء
73 الشعراء
74 الشعراء
75 الشعراء
76 الشعراء
77 الشعراء
78 الشعراء
79 الشعراء
80 الشعراء
81 الشعراء
82 الشعراء
83 الشعراء
84 الشعراء
85 الشعراء
86 الشعراء
87 الشعراء
88 الشعراء
89 الشعراء
90 الشعراء
91 الشعراء
92 الشعراء
93 الشعراء
94 الشعراء
95 الشعراء
96 الشعراء
97 الشعراء
98 الشعراء
99 الشعراء
100 الشعراء
101 الشعراء
102 الشعراء
103 الشعراء
104 الشعراء
105 (٦) پچھلی امتوں میں سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت نمایاں ہوتی ہے جن کا ظہور دریائے دجلہ وفرات کے دوآبہ میں ہوا تھا جو انسانی تمدن کاسب سے عظیم گہوارہ ہے اور جہاں غالبا سب سے پہلے بت پرستی کا ظہور ہوا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسانی جمعیت اپنی ابتدائی اور فطرت ہدایت کی راہ سے سب سے پہلے گمراہ ہوئی۔ (الف) حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ کا ڈر سنایا اور کہا دیکھو میں ایک امانت دار رسول ہیں اس لیے میری اطاعت بجالاؤ اور پھر اس میں مجھے کسی قسم کالالچ یا طمع نہیں ہے۔ (ب) ایک شخص کا امانت دار یامخلص ہونا اس کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہوسکتی ہے مگر قوم نے پائے حقارت سے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور من جملہ دوسری باتوں کے منکرین نے یہ بھی کہا جو ہم میں کمینے ہیں انہی لوگوں نے تمہاری پیروی اختیار کی ہے پھر ہم ان میں کیسے شامل ہوسکتے ہیں؟ حضرت نوح (علیہ السلام) نے کہا میرا کام تو بس صاف طور پر ڈرانا ہے میں ان مومنوں کو جن کو تم رذیل سمجھ رہے ہو اپنے سے دور نہیں کرسکتا۔ (ج) اس پر قوم کے سردارمخالف ہوگئے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کو دھمکی دی کہ اگر تو ان دلائل ومواعظ سے باز نہ آیا تو ہم تمہیں سنگسار کردیں گے۔ (د) آخر کار جب نوح (علیہ السلام) کو وحی کے ذریعہ سے جتلایا گیا کہ جو ایمان لاچکے ہیں ان کے سوا کوئی ایمان لانے والا نہیں ہے اور یہ کہ ملک طوفان سے غرق ہونے والا ہے تو حضرت نوح نے فیصلہ کے لیے دعا کی اور اپنے ساتھیوں کے لیے راہ نجات طلب کی تو حکم ہوا کہ ایک کشتی بنالو، سورۃ ہود میں ہے کہ منکرین نے اس پر تمسخر اڑایا۔ (ہ) حسب وعدہ طوفان ظاہر ہوا حضرت نوح (علیہ السلام) اپنے ساتھیوں سمیت کشتی میں سوار ہوگئے اور ظالموں کو ان کی بداعمالیوں کی پاداش میں ہلاک کردیا گیا قرآن اس کو بہت عبرت کی نشانی قرار دیتا ہے حضرت نوح کا قصہ سورۃ الاعراف اور ہود میں گزرچکا ہے (ترجمان القرآن جلد دوم میں ملاحظہ کرلیاجائے)۔ الشعراء
106 الشعراء
107 الشعراء
108 الشعراء
109 الشعراء
110 الشعراء
111 الشعراء
112 الشعراء
113 الشعراء
114 الشعراء
115 الشعراء
116 الشعراء
117 الشعراء
118 الشعراء
119 الشعراء
120 الشعراء
121 الشعراء
122 الشعراء
123 (٧) قوم نوح کی تباہی کے بعد عرب میں قوم عاد کو عروج ہوا، ان کی آبادیاں عمان سے لے کرحضرموت اور یمن تک پھیل گئی تھیں حضرت ہود (علیہ السلام) کا انہی میں ظہور ہوا۔ (الف) یہاں پر بھی اسی بیان کو دہرایا جس سے حضرت نوح کا تذکرہ شروع کیا تھا یعنی قوم عاد نے رسولوں کی تکذیب کی، اس لیے کہ گوانہوں نے انکار ایک رسول کا کیا تھا لیکن اس کی تعلیم تمام رسولوں ہی کی تعلیم تھی، پس ایک کو جھٹلانا سب کو جھٹلانا ہے۔ (ب) حضرت ہود (علیہ السلام) نے اللہ کا ڈر سنانے کے بعد سب سے بڑی خرابی، جس پر یہاں زور دیا ہے وہ فساد وتمدن ہے جس پر وہ اسی طرح فریفتہ ہوں گے گویا دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے، جب کسی قوم میں عیاشی حد سے تجاوز کرجاتی ہے اور مال ودولت کی فراوانی کبرونخوت پیدا کردیتی ہے تو مالدار طبقہ شاندار عمارتوں کے قائم کرنے کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور اس میں شوق جنون، نمائش اور تفاخر وتنافس کی صورت اختیار کرلیتا ہے اور وہ ہر اہم مقام پر بنگلوں اور کوٹھیوں کی تعمیر میں لگ جاتے ہیں، حالانکہ دوسری طرف قوم کے مفلوک الحال طبقے کو سرچھپانے کو جھونپڑا بھی میسر نہیں ہوتا حضرت ہود (علیہ السلام) نے اس پر گرفت کی اور ان کی غلط روش پرانہیں آگاہ کیا اور مال ودولت کے بے جا تصرف پر ٹوکا۔ (ج) دوسری سب سے بڑی برائی جو ان میں پائی جاتی تھی کہ وہ اپنے گردوپیش کی کمزور قوموں پر سخت مظالم ڈھارہے تھے جو بھی ان کے ظلم وتشدد کے پنجہ میں آجاتا اسے مروا کررکھ دیتے ہیں حضرت ہود (علیہ السلام) نے ظلم وفساد سے روکا اور کہا کہ اب بھی وقت ہے کہ اللہ سے ڈر جاؤ اور ظلم وستم سے باز آجاؤ۔ (د) مگر قوم عاد نے حضرت ہود (علیہ السلام) کی اس تمام تذکیر وتنبیہ کا جواب نہایت تحقیر واستہزا کے ساتھ دیا جس کے بعد ہم نے انہیں ہلاک کردیا، مزید تفصیل کے لیے سورۃ الاحقاف ملاحظہ ہو۔ الشعراء
124 الشعراء
125 الشعراء
126 الشعراء
127 الشعراء
128 الشعراء
129 الشعراء
130 الشعراء
131 الشعراء
132 الشعراء
133 الشعراء
134 الشعراء
135 الشعراء
136 الشعراء
137 الشعراء
138 الشعراء
139 الشعراء
140 الشعراء
141 (٨) قوم عاد کے بعد ثمود کو عروج حاصل ہوا (الاعراف ٧٤) قوم ثمود عرب کے اس حصے میں آباد تھی جوحجاز اور شام کے درمیان وادی القری تک چلا گیا ہے اسی مقام کو دوسری جگہ الحجر سے تعبیر کیا گیا ہے ثمود نے جب سرکشی اختیار کی تو اس میں حضرت صالح (علیہ السلام) کا ظہور ہوا۔ (الف) ان کو اللہ تعالیٰ نے خوشحالی اور ہر قسم کی نعمتوں سے نواز رکھا تھا، ان کی تمدنی ترقی نے بھی بالاآخر قوم عاد کی روش اختیار کرلی کہ میدانی علاقوں اور پہاڑوں میں عالی شان قصر اور عمارتیں تعمیر کررہے تھے (الاعراف ١٤٩)۔ معاشرہ میں بت پرستی کا زور تھا اور زمین میں ظلم وستم پھیلا رہے تھے۔ (ب) قوم میں حضرت صالح نے جن کی امانت ودیانت مسلم تھی (ہود ٦٢) ان کو اللہ کا ڈر سنایا اور کہا کہ تمہاری یہ عیش دائمی نہیں ہے اور یہ جو کچھ تم اپنے فن کی نمائش کے لیے کررہے ہو سب جھوٹی نمائش ہے۔ (ج) حضرت صالح کایہ کہنا کہ حد سے بڑھ جانے والوں کی اطاعت نہ کرو جو زمین میں فساد بپا کرتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے، اس سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ قتل وغارت، لوٹ مار، شروفساد میں مصروف ہوگئے تھے اور امن وعدالت کا کوئی احساس باقی نہ رہا تھا۔ (د) بالآخر انہوں نے حضرت صالح سے صداقت کانشان طلب کیا تو حضرت صالح (علیہ السلام) نے ایک اونٹنی کو اللہ کے نام پر نامزد کردیا، یہ قوم کی آزمائش تھی مگر انہوں نے اونٹنی کو زخمی کرکے ہلاک کرڈالا جس کے نتیجہ میں تباہ وبرباد ہوگئے۔ الشعراء
142 الشعراء
143 الشعراء
144 الشعراء
145 الشعراء
146 الشعراء
147 الشعراء
148 الشعراء
149 الشعراء
150 الشعراء
151 الشعراء
152 الشعراء
153 الشعراء
154 الشعراء
155 الشعراء
156 الشعراء
157 الشعراء
158 الشعراء
159 الشعراء
160 (٩) حضرت لوط (علیہ السلام) کی دعوت اور باشندگان سدوم کی ہلاکت : توراۃ میں ہے کہ حضرت لوط حضرت ابراہیم علیہما السلام کے بھتیجے اور حاران کے بیٹے تھے، یہ حضرت ابراہیم کے ساتھ شہر، اُور، سے آئے اور سدوم میں مقیم ہوگئے، جو دریائے اردن کی ترائی میں واقع تھا، یہ سدوم، ادمہ، عمورہ، ضغر کا علاقہ فلسطین کاسب سے شاداب علاقہ تھا جواب بحیرہ مردار میں غرق ہے اور اسے بائبل میں، وادی سدیم، کا نام دیا گیا ہے اہل سدوم خوشحالی اور رفاہیت میں مست ہو کر فطرت کے حدود توڑ کر بہت دور نکل گئے اور ان میں امرد پرستی نے ایک فیشن کی حیثیت اختیار کرلی، حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں اس برائی پر متنبہ کیا مگر انہوں نے پروا نہ کی۔ بالاآخر حضرت لوط کو انہوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر اس قسم کے مواعظ سے باز نہ آئے تو ملک بدر کردیے جاؤ گے حضرت لوط نے بھی دھمکی کا جواب برملا اظہار نفرت سے دیا اور کہا کہ میں تنہا نہیں بلکہ ہر سلیم الفطرت آدمی اس فعل سے بے زاری کا اظہار کرے گا حضرت لوط (علیہ السلام) نے اندازہ کرلیا کہ اب ان پر عذاب کی گھڑی قریب آچکی ہے چنانچہ انہوں نے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لیے نجات کی دعا کی، عذاب آیا اور وہ پتھروں کی بارش سے ہلاک ہوگئے، تورات میں ہے کہ سدوم اور عمورہ پرآگ اور گندھک کی بارش ہوئی، قرآن میں ہے کہ پتھر گرے، دونوں بیانوں کے جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی حالت پیش آئی ہوگی جیسے آتش فشاں پہاڑوں کے پھٹنے سے واقع ہوتی ہے، چنانچہ بحیرہ مردار کے جنوب مشرق میں جو ویران علاقہ نظر آتا ہے اس میں موجود کھنڈروں سے پتہ چلتا ہے کہ کسی زمانہ میں یہ علاقہ نہایت شاداب اور آباد تھا، آثار قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس علاقہ کی آبادی وخوشحالی کا دور ٣٠٠ ق م سے ١٩٠٠ ق م تک رہا ہے اور اسی دور میں تقریبا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہوئے اس علاقہ میں نفط اور اسفالٹ کے گڑھے تھے طبقات الارض کے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ زلزلے کے (جسے قرآن میں الصحیۃ کہا گیا ہے) کے ساتھ پٹرول، گیس اور اسفالٹ بھڑک اٹھے اور سارا علاقہ دلدل سا بن گیا خود بائبل میں اس کی تفصیل ملتی ہے مولانا آزاد نے ترجمان القرآن حصہ دوم میں بھی کچھ اشارات کیے ہیں۔ (١٠) قبیلہ مدین میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی دعوت کا ظہور ہوا : (الف) تورات میں ہے کہ قطورا کے بطن سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے چھ لڑکے ہوئے جن میں سے ایک کا نام مدیان تھا، یہی مدیان عربی میں مدین ہوگیا اس کی اولاد بحرقلزم کے کنارے آباد ہوگئی تھی جن میں حضرت شعیب کا ظہور ہوا بنی اسرائیل انہیں بنی قطورا کہتے تھے بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اصحاب الایکہ اور اصحاب مدین ایک ہی قبیلہ کے دونام ہیں اور بعض نے ان کو الگ الگ دو قبیلے قرار دیا ہے دراصل یہ دوالگ قبیلے ہیں مگر ایک ہی نسل کی دو شاخیں ہیں، اصحاب مدین کی آبادی شمالی حجاز سے فلسطین کے جنوب تک، وہاں سے جزیرہ ونما سینا کے آخری گوشے تک بحر قلزم اور خلیف عقبہ کے سوا حل پر پھیل گئی، ان کا صدر مقام شہر مدین تھا، بنوقطورا کی دوسری شاخ شمالی عرب میں تیما تبوک اور العلاء کے درمیان آباد ہوئی اور ان کا صدر مقام تبوک تھا اسی تبوک کا قدیم نام ایکہ ہے ان کی طرف بھی حضرت شعیب (علیہ السلام) ہی مبعوث تھے۔ ان میں تجارتی بدعنوانیاں نمایاں تھیں اور دیگر اخلاقی بیماریوں میں بھی مبتلا تھے۔ (ب) مدین کا جائے وقوع : یہ جگہ شام، افریقہ اور عرب کے تجارتی قافلوں کا نقطہ اتصال تھی، اس لیے اشیائے تجارت کے تبادلہ کی بڑی منڈی بن گئی تھی اور یہ لوگ بہت خوشحال ہوگئے تھے۔ لیکن جب ان کے اخلاق فاسد ہوگئے تو کاروبار میں خیانت کرنے لگے اور ماپ تول کے انصاف سے ناآشنا ہوگئے اور پھر تجارتی شاہر اہ پر واقع ہونے کی وجہ سے انہوں نے بڑے پیمانے پر راہزنی کاسلسلہ جاری کررکھا تھا اور بیرونی تجارتی قافلوں کو بھاری خراج کے بغیر نہ گزرنے دیتے تھے اصحاب الایکہ کے متعلق سورۃ الاعراف میں ہے، ولاتقعدوا بکل صراط توعدون۔ یعنی لوگوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے راستوں کی ناکہ بندی نہ کرو، یہی وجہ ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے انہیں خصوصیت کے ساتھ ان دونوں قسم کی معصیت سے روکا۔ (ج) بائبل میں ہے کہ یہ لوگ، بعل فعور، کی پوجا کرتے تھے اور بنی اسرائیل جب مصر کے علاقہ سے نکل کر ان کے علاقہ سے گزرے تو ان کے اندر بھی انہوں نے شرک اور بت پرستی پھیلا دی، سورۃ ہود آیت ٨٧ میں ہے کہ انہوں نے حضرت شعیب کو جواب دیا کہ تمہاری نمازیں یہ بھی حکم دیتی ہیں کہ ہمیں اس راہ سے ہٹاؤ جس پر ہمارے باپ دادا چلتے آئے ہیں؟ یا ہم اپنے اموال میں آزادی سے جیسے چاہیں تصرف نہ کریں؟ معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا میں تم ہی ایک نیک اور خوش معاملہ آدمی رہ گئے ہو۔ (د) بالآخر انہوں نے ہٹ دھرمی سے کام لیا اور حضرت شعیب سے عذاب کا مطالبہ کرنے لگے اور کہا، فاسقط علینا کسفا من السماء۔ کہ ہم پر آسمان سے ٹکڑے گرادیجئے۔ اس طرح انہوں نے حضرت شعیب کی تکذیب کی، اس پر ان کو سائبان والے دن کے عذاب نے آپکڑا یعنی ان پرایک بادل چھایا رہا، دوسری جگہ، الرجفہ، اور ایک آیت میں، فاخذتھم الصیحہ، آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عذاب ان پر سائبان کی طرح چھایارہا، گویاپہلے، الصیحہ، یعنی دھماکہ ہوا اور پھر اس نے الرجفہ یعنی زلزلے کی شکل اختیار کرلی، واللہ اعلم۔ الشعراء
161 الشعراء
162 الشعراء
163 الشعراء
164 الشعراء
165 الشعراء
166 الشعراء
167 الشعراء
168 الشعراء
169 الشعراء
170 الشعراء
171 الشعراء
172 الشعراء
173 الشعراء
174 الشعراء
175 الشعراء
176 (١١) آغاز سورۃ میں قرآن کی حقانیت کا بیان شروع ہوا تھا پھر اس سلسلہ میں کفار قریش کے نشانات کے مطالبہ کے جواب میں گزشتہ اقوام کے چند وقائع بطور عبرت کے ذکر فرمائے اب ان کے خاتمہ پر پھر سے وہی مضمون شروع ہوگیا۔ (الف) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کاتنزیل ربانی ہونا بالکل واضح ہے، اسے واضح عربی زبان میں اتارا ہے اور سابق صحیفوں میں اس کی پیش گوئی موجود ہے اور ان سے علمائے اسرائیل خوب آگاہ ہیں گوان کی اکثریت نے کتمان سے کام لیا، تاہم ان کے اندر ایسے علمائے حق پرست موجود ہیں جو برملا اس کا اظہار کررہے ہیں اور یہ نبی کی صداقت کے لیے کافی ہے اور اگر ہم اس کو عربی مبین کے بجائے کسی اور زبان میں نازل کرتے اور یہ پیغمبر ان کو پڑھ کرسناتا تو یہ اعتراض کرسکتے تھے کہ رسول عربی اور کلام عجمی لیکن اب کیا عذر پیش کریں گے؟ اس دور کی مکی سورتوں میں اکثر اس مضمون کو دہرایا گیا ہے، دیکھیے حم السجدہ آیت ٤٤، اور سورۃ نحل، ١٠٣۔ (ب) اس کے بعد نبی کو تسلی دی ہے اور عذاب کے لیے جلدی مچانے والوں کو تنبیہ کی ہے۔ (ج) آیت ٢١٠ سے مخالفین کے اوہام کی تردید ہے کہ یہ قرآن شیطان کا اتارا ہوا نہیں ہے کیونکہ اولا تو اس کے مضامین شیاطین کے مقصد کے خلاف ہیں اور پھر ایسا کلام اتارنے کی ان میں طاقت بھی کہاں ہے اس میں قریش کو ایک طرح کی تحدی ہے کہ اگر طاقت ہے تو تم بھی اپنے کاہنوں کو جمع کرکے ایسا کلام بنالاؤ مگر حقیقت یہ ہے کہ شیاطین توایسا کلام سننے سے ہی روک دیے گئے ہیں یہ مضمون بھی متعدد سورتوں میں مذکور ہے۔ (د) قرآن پر مخالفین کے شبہات کی تردید کے بعد نبی کو تبلیغ دعوت کے سلسلہ میں چند آداب تلقین کیے ہیں اور اسکے بعد اس حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ دراصل شیاطین کا مہبط کون لوگ ہوسکتے ہیں اور شعراء کے کلام کی نوعیت وحیثیت کیا ہے۔ (ہ) پہلی آیات میں نبی کے کاہن ہونے کی تردید تھی اور آیت ٢٢٤ سے آپ پر شاعر ہونے کے الزام کی تردید ہے۔ (و) شاعر خواہ کتنا مشہور کیوں نہ ہو اس کے کلام سے تو اوباش اور عیاش قسم کے لوگ متاثر ہوتے ہیں اور اس کے برعکس پیغمبر کے متبعین کو دیکھیے وہ شریف النفس اور نیک طینت لوگ ہیں، مبین تفاوت راہ کجاتا کجا۔ پھر بھی قرآن کو کلام شعری اور نبی کو شاعروں کو زمرہ میں شمار کرنا کس قدر ظلم کی بات ہے، اسے کیا کہیے؟۔ (ز) شاعروں کی شاعری بے مقصد ہوتی ہے وہ صرف اپنے واردات نفس کو ذہنی عیاشی کے لیے شعر کہتے ہیں، نیک وبد ہر قسم کے مضامین باندھتے پھرتے ہیں اور ان کے کلام سے تضاد فکری مترشح ہوتا ہے مگر قرآن کے مضامین پر غور کیجئے کہ اس کے سامنے ایک ہدف متعین ہے اور دلائل وبراہین سے اس کو ثابت کررہا ہے چھوٹی سورت ہو یابڑی قرآن نے اپنے ہدف سے سرموانحراف نہیں کیا ہے یہی وجہ ہے کہ تئیس سالہ منزل شدہ کلام میں کسی قسم کے تضاد وتناقض کا شائبہ تک نہیں ہے۔ (ح) شاعر صرف گفتار کے غازی ہوتے ہیں کردار کے نہیں، پھر کیا کسی انقلابی تحریک کی بنیاد شاعری پر رکھی جاسکتی ہے اور کسی صالح تحریک کا قائد شاعر ہوسکتا ہے؟ اس کے برعکس پیغمبر کی عملی زندگی دیکھیے کہ وہ قرآن کی عملی تفسیر ہے۔ الغرض ان حقائق کی موجودگی میں نبی کو کاہن یا شاعر کے لقب سے یاد کرنا اور قرآن کو کسی کاہن اور شاعر کا مصنوع کلام قرار دینا بہت بڑا ظلم اور زیادتی ہے اور آن ظالموں کاجوانجام ہونے والا ہے وہ جلد ہی ان کے سامنے آجائے گا۔ آیت ٢٧٧ کے تحت مولانا آزاد لکھتے ہیں : ” مصلحین کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ عدل الٰہی کے قیام کے لیے اپنی تمام قوتوں کو وقف کردیتے ہیں اور جب کبھی ان پر ظلم کیا جاتا ہے تو پتھر اور گھاس کی طرح بے حس وحرکت نہیں پڑے رہتے بلکہ انسانوں کی طرح اٹھتے ہیں اور ظالموں سے ان کے ظلم کا بدلہ لیتے ہیں تاکہ ظالم کو سزا ملے اور عدل قائم ہو، اس بارے میں ان کا ارادہ اور فعل یکساں ہوتے ہیں جیسا کہتے ہیں کہ ویسا کرکے دکھادیتے ہیں ان کی زندگی کی بنیاد محض ارادہ ہی نہیں بلکہ عمل بھی ہوتا ہے۔ الشعراء
177 الشعراء
178 الشعراء
179 الشعراء
180 الشعراء
181 الشعراء
182 الشعراء
183 الشعراء
184 الشعراء
185 الشعراء
186 الشعراء
187 الشعراء
188 الشعراء
189 الشعراء
190 الشعراء
191 الشعراء
192 الشعراء
193 الشعراء
194 الشعراء
195 الشعراء
196 الشعراء
197 الشعراء
198 الشعراء
199 الشعراء
200 الشعراء
201 الشعراء
202 الشعراء
203 الشعراء
204 الشعراء
205 الشعراء
206 الشعراء
207 الشعراء
208 الشعراء
209 الشعراء
210 الشعراء
211 الشعراء
212 الشعراء
213 الشعراء
214 الشعراء
215 الشعراء
216 الشعراء
217 الشعراء
218 الشعراء
219 الشعراء
220 الشعراء
221 الشعراء
222 الشعراء
223 الشعراء
224 الشعراء
225 الشعراء
226 الشعراء
227 الشعراء
0 النمل
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور مکی عہد کی وسطی تنزیلات سے ہے جو پرآشوب عہد ہے اسدور میں نبی اور قرآن پر طرح طرح کے الزام لگائے جارہے تھے اور قرآن کو تعلیم کو بے اثر کرنے کے لیے اس کو شاعری، کہانت، اساطیرالاولین وغیرہ کہا جارہا تھا اس لیے اس عہد کو تنزیلات خصوصا رسالت ووحی کی صداقت کے بیان پر مشتمل ہیں اور ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی تشفی دی گئی ہے اور مخالفین کو انجام بد سے ڈرایا گیا ہے۔ (الف) اس سورۃ میں بھی یہ وضاحت کی گئی ہے کہ قرآن کو اللہ نے ہدایت وبشارت بناکربھیجا ہے تاہم اس پر ایمان کی سعادت سے وہی لوگ بہرور ہوں گے جن کے دلوں میں آخرت کا خوف ہے رہے وہ لوگ جو دنیا کے عیش وآرام میں مگن ہیں اور برے اعمال پر ریجھ کر اندھے ہورہے ہیں ان پر قرآن کی نصیحت کارگر نہیں ہوسکتی۔ (ب) پھر اس پر گزشتہ اقوام واشخاص کے واقعات کو تاریخی شہادت کے طور پر پیش کیا ہے ان میں سب سے پہلا نمونہ فرعون کا ہے جس نے آیات ومعجزات دیکھنے کے باوجود حضرت موسیٰ کی بات ماننے سے انکار کردیا یہی حال قوم، ثمود، قوم لوط کا تھا جو بالاآخر سب کے سب ہلاکر دیے گئے۔ (ج) دوسرانمونہ اللہ کے شکر گزار بندوں کا ہے یعنی حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام جنہوں نے اللہ کی نعمتوں کی شکرگزاری کی اور دنیاوآخڑت کی سعادت سے سرفراز ہوگئے۔ (د) تیسرانمونہ ملکہ سبا کا ہے جو بہت نامور قوم کی حاکم تھی وہ اور اس کی قوم شرک میں مبتلا تھے مگر جب ملکہ کے سامنے حق ظاہرہوگیا تو وہ ضد اور ہٹ دھرمی کے بجائے فورا ایمان لے آئی۔ النمل
2 النمل
3 النمل
4 النمل
5 النمل
6 النمل
7 (٢) حضرت موسیٰ کی شروع زندگی کا وہ واقعہ بیان کیا ہے جب وہ مدین کی بستی میں مقیم تھے جب وہ مدین سے رخصت ہو کر اپنے اہل وعیال سمیت وادی سینا کے جبوی حصہ میں پہنچے تو وہیں یہ معاملہ پیش آیا تورات میں اس جگہ کو، حورب، کہا گیا ہے اور یہ کوہ طور کے دامن میں واقع ہے یہاں پر ایک کنیسہ تعمیر ہے جو کہتے ہیں کہ رومی سلطنت کے عیسائی بادشاہ قسطنطین نے تعمیر کروایا تھا جو آج تک محفوظ ہے تورات میں ہے کہ انہوں نے درخت میں آگ دیکھی اور متعجب ہوکروہاں گئے اور قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ محض رفع تعجب کے لیے نہیں گئے بلکہ آگ کی جستجو میں تھے، رات ٹھنڈی تھی اور سوچ رہے تھے کہ کہیں آگ مل جائے تو تاپنے کے لیے الاؤ جلائیں، اتنے میں دور سے ایک روشنی نظر آئی یہ سمجھ کہ وہ آگ ہے لیکن جب قریب پہنچے تو کارفرمائے قدرت نے پکارا، تو آگ کی چنگاری لے کر کیا کرے گا، یہ تو نور ہدایت کی آگ ہے اس سے روشنی حاصل کر۔ (الف) آیت نمبر ٨ کے الفاظ، بورک من فی النار، سے ذات باری تعالیٰ کے لیے تحدید اور مکانیت کا وہم ہورہا تھا اسلیے سبحان اللہ کلمہ تنزیہہ فرماکر اس کا ازالہ فرمادیا۔ (ب) آیت ١٠ میں عصا کو، کانھاجان، سے تعبیر فرمایا ہے جب کہ اعراف اور شعراء میں اس کے لیے ثعبان (اژدہا) کا لفظ استعمال کیا ہے امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جسامت میں تو وہ اژدھا تھا مگر سرعت حرکت کی وجہ سے اسے جان سے تعبیر فرمایا ہے اور سورۃ طہ میں، حیۃ تسعی، کے الفاظ ہیں، اور حضرت موسیٰ کا اژدھا سے ڈر کربھاگنا طبعی گھبراہٹ کی بنا پر تھا جیسا کہ ابتدا میں حضرت جبرائیل کو دیکھ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی کپکی کی حالت طاری ہوگئی تھی۔ (ج) لاٹھی کے سانپ بننے اور ہتھیلی کے چمک اٹھنے کا ذکر تورات میں بھی ہے (خروج ٤) نیز یہ کہ خدا نے فرمایا، اب تو جا، میں تجھے فرعون کے پاس بھیجتا ہوں (خروج ٣۔ ١) سورۃ بنی اسرائیل میں، تسع آیات بینات، ہے یعنی ہم نے موسیٰ کو تو آشکارا نشانیاں دیں اور سورۃ الاعراف میں ان کی تفصیل مذکور ہے۔ (د) آیت ١٤ میں اصل مقصڈ کا اظہار فرمایا کہ جو لوگ آخرت پریقین نہیں رکھتے اور مادہ پرستیوں میں اندھے ہوجاتے ہیں وہ ایک دو کیا، نو کھلے معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے اور اس کا انکار کا اصل سبب ان کا ظلم وعلو ہے ورنہ ان کے دلوں کو پیغمبرکی حقانیت کا یقین ہوتا ہے۔ النمل
8 النمل
9 النمل
10 النمل
11 النمل
12 النمل
13 النمل
14 النمل
15 (٣) اب آیت ١٥ میں فرعون کے مقابل حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کا ذکر ہورہا ہے جو بہت بڑی مملکت کے مالک ہونے کے باوجود اللہ کی نعمتوں کے شکرگزار بندے بنے رہے اور کبھی ظلم وستم سے کام نہیں لیا۔ الف) حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کو جوعلم عطا ہوا تھا اس کا مظہر زبور اور امثال ہیں اور یہ وہ علم ہے جس کی بدولت انہوں نے ایک عظیم سلطنت قائم کرلی تھی جو اپنی بری اور بحری قوت کے اعتبار سے بہت بڑی سلطنت تھی۔ (ب) حضرت داؤد کے بعد حضرت سلیمان ان کے وارث ہوئے سورت الانبیاء میں گزرچکا ہے کہ حضرت سلیمان نے اپنی بری فون کے ساتھ بحری بیڑا بھی تیار کیا جودنیا کاسب سے بڑا طاقت ور بیڑا تھا اور انکوپرندوں کی منطق کا خصوصی علم دیا گیا اور وہ انکی تربیت کرکے اپنی فوج میں ان سے نامہ بری، خبر رسانی اور سراغ رسانی کا کام لیتے تھے گویا یہ پرندے ان کی فضائی فوج تھی اور اس سے انکار یاتاویل کی گنجائش نہیں، آخرہمارے زمانے میں کتوں سے بھی تو سراغ رسانی اور جاسوسی کا کام لیا جارہا ہے۔ (ج) ایک مرتبہ حضرت سلیمان نے اپنا لشکر پریڈ کے لیے جمع کیا تو وہ چلتے ہوئے، وادی النمل، چیونٹیوں کی وادی پر پہنچ گئے تو ایک چیونٹی نے اپنے دل کو خطرے سے آگاہ کیا کہ اے چیونیٹوا اپنے بلوں میں گھس جاؤ مبادا کہ سلیمان اور اس کی فوجیں تمہیں پامال کردیں۔ (د) امام رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں، چیونٹی کا گفتگو کرنا عقلا مستبعد ہیں بلکہ قرآن مجید نے توبتایا کہ ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہیی مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکھتے اگر یہ تسبیح زبان حال سے ہو تو اسے تو ہم سمجھتے ہیں اور پھر فی زمانہ چیونٹیوں کے متعلق سائنس نے جو حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں ان کی بنا پر قرآن کے بیان کردہ واقعہ میں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی، لہذا ان میں کسی قسم کی تاویل وتحریف کی ضرورت نہیں اس جگہ سلیمان کاتبسم خوشی اور سرور کے مفہوم میں ہے اس واقعہ سے اصل مقصد حضرت سلیمان کی شکرگزاری کا ذکر ہے مگر ہمارے زمانہ کے بعض ماڈرن، مفسرین، جنہیں قرآن مجید میں معجزات کے ذکر سے شرم آتی ہے اس آیت میں تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں کہ بنو نمل ایک قوم تھی جہاں سے حضرت سلیمان کا گزرا ہوا تھا اور یہ نہیں سوچتے کہ پھر حضرت سلیمان کے علم کی خصوصیت کیا رہ گئی جسے بڑی اہمیت سے قرآن مجید نے ذکر کیا ہے اور تاریخی طور پر بھی اس نام کا کوئی قبیلہ ثابت نہیں کیا جاسکتا اور حضرت سلیمان کی متعجبابہ ہنسی اور ان کے احساسات شکرگزاری کی اہمیت جسے قرآن بیان کررہا ہے بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ النمل
16 النمل
17 النمل
18 النمل
19 النمل
20 (٤) ہدہد کے اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان کی فوج میں باقاعدہ تربیت پائے ہوئے مختلف قسم کے پرندے بھی تھے جن سے وہ پیغام رسانی، سراغ رسانی اور دریافت احوال کی مہمات میں کام لیتے تھے۔ پرندوں سے یہ کام لینے کا طریقہ اور ان کی تربیت کافن بہت قدیم ہے بلکہ ابتدائے تاریخ سے موجود ہے اور موجودہ سائنس نے جو معلومات فراہم کی ہیں ان سے بھی اس خیال کی تائید ہوتی ہے، لہذا بعض عقل پرستوں کا اس کی تاویل کرنا اور اس سے ہدہدنامی کوئی شخص مراد لینا قرآنی تحریف کے مترادف ہے۔ النمل
21 النمل
22 (٥) سباجنوبی یمن کی مشہورتجارت پیشہ قوم تھی جس کا دارلحکومت مآرب، موجود یمن کے دارالسلطنت صنعاء سے پچپن میل بجانب شمال مشرق واقعہ تھا اس کا زمانہ عروج معین کی سلطنت کے زوال کے بعد تقریبا گیارہ سو ق م سے شروع ہوا اور ایک ہزار سال کے بعد ایک سوپندرہ ق م میں جنوب عرب کی دوسری مشہور قوم حمیر نے اس کی جگہ لے لی، عرب میں یمن اور حضرموت اور افریقہ میں حبش کے علاقہ پر ان کا قبضہ تھا ہندوستان ومصر وشما کی تجارت پر یہ قوم چھائی ہوئی تھی، تجارت کے علاوہ ان کی خوشحالی کاسبب ان کانظام آبپاشی تھا جس سے انا کاپورا علاقہ جنت بنا ہوا تھا۔ حضرت سلیمان اس قوم سے بخوبی واقف تھے بلکہ حضرت داؤد بھی ان سے شناسا تھے اس لیے ہدہد کے قول کا صرف یہ مطلب ہے کہ قوم سبا کے مرکز میں چشم دید واقعات میں دیکھ کرآیا ہوں وہ ابھی تک آپ کو نہیں پہنچے، ہدہد کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آفتاب پرست تھے ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ جب ہد ہد حضرت سلیمان کا خط لے کر پہنچا تو ملکہ سبا سورج کی پرستش کے لیے جارہی تھی، حضرت سلیمان نے جب ہدایا واپس بھیج دیے اور دھمکی دی جو کہ آیت ٣٧ میں مذکور ہے تو ملکہ نے خود حضرت سلیمان کی خدمت میں حاضر ہونا مناسب سمجھا چنانچہ وہ اپنے خد وحشم کے ساتھ فلسطنی کی طرف روانہ ہوئی اور جب بیت المقدس سے ایک دن کے فاصلہ پر تھی کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس کا تخت منگوا کر اس میں کچھ تبدیلی کروادی۔ سبا سے بیت المقدس کا فاصلہ ایک پرند کی اڑان کے لحاظ سے کم ازکم ڈیڑھ ہزارمیل ہے اتنے فاصلے سے آن واحد میں اس تخت کا لاحاضر کرنا کسی خدائی قوت کے بغیر ممکن نہیں جس کی طرف قرآن نے، الذی عندہ علم من الکتاب، کہہ کراشارہ کیا ہے، ملکہ سبا کی حضرت سلیمان سے ملاقات پر پہلا سوال یہ ہوا، اھکذا عرشک، تو اس نے کہا، کانہ ھو، یعنی ہ تو گویا وہی ہے اس حیرت انگیز کارنامے کو دیکھ کر اسے یقین ہوچکا تھا کہ یہ اللہ کے نبی ہیں محض ایک سلطنت کے فرمانروا نہیں ہیں اس کے بعد جب قصر شاہی میں داخل ہونے کے لیے اسے کہا گیا جس کا فرش شیشے کا تھا اور اسکے نیچے پانی چھوڑا گیا تھا تو اس نے ملکہ کی آنکھیں کھول دیں اور اسے یقین ہوگیا کہ یہ اللہ کے نبی ہیں چنانچہ اس نے سابقہ گناہوں کی اللہ سے معافی طلب کی اور سلیمان کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا اور اس کے بعد اپنے ملک کوروانہ ہوگئی اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ہدایت کے مطابق حکومت چلاتی رہیں اس قدر تفصیلات جو بائبل اور یہودربیوں کی روایات میں مذکور ہیں وہ قرآن سے ملتی جلتی ہیں لیکن حضرت سلیمان کا اس سے مجامعت کرنا اور اس حرامی نسل سے بخت نصر کاپیدا ہونا یہ سب بکواس ہے جوایک نبی کی شان سے بعید ہے۔ النمل
23 النمل
24 النمل
25 النمل
26 النمل
27 النمل
28 النمل
29 النمل
30 النمل
31 النمل
32 النمل
33 النمل
34 النمل
35 النمل
36 النمل
37 النمل
38 النمل
39 النمل
40 النمل
41 النمل
42 النمل
43 النمل
44 النمل
45 (٦۔ قوم ثمود میں حضرت صالح (علیہ السلام) کا ظہور۔ (الف) جونہی حضرت صالح نے دعوت کا آغاز کیا قوم دوگروہوں میں بٹ گئی یعنی ایک مومن اور دوسرا منکر اس تفرقہ کے ساتھ ہی ان میں کشمکش شروع ہوگئی ایک طرف قوم کے سردار تھے اور دوسری طرف حضرت صالح کے ساتھ غریب اور پسا ہوا طبقہ تھا یہی حالت مکہ میں مسلمانوں اور کفار قریش کی تھی اس لیے یہ قصہ ان حالات کے عین مطابق تھا۔ (ب) متکبر لوگ ہمیشہ خٰر کے بجائے شر مانگتے ہیں چنانچہ قوم ثمود کے سرداروں نے بھی عذاب کی درخواست کی اور حضرت صالح کو منحوس اور شرپسند کا خطاب کیا۔ (ج) قوم ثمود کے نوسرداروں نے ایکا کرلیا کہ انہیں رات کی تاریکی میں قتل کردیا جائے اور پھر ولی الدم کے سامنے انکار کردیا جائے کچھ ایسی ہی سازش کے بارے میں کفار مکہ نبی کے متعلق سوچ رہے تھے۔ النمل
46 النمل
47 النمل
48 النمل
49 النمل
50 النمل
51 النمل
52 النمل
53 النمل
54 (٧۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کا ظہور۔ الف) حضرت لوط حضرت ابراہیم کے بھتیجے تھے اور بحرمیت کے کنارے سدوم میں مقیم تھے یہ معاملہ وہیں پیش آیا تورات میں ہے کہ ان پر آگ اور گندھک کی بارش ہوئی تھی قرآن میں ہے کہ پتھر گرے تھے دونوں بیانوں کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی حالت پیش آئی ہوگی جیسی آتش فشاں پہاڑوں کے پھٹنے سے واقع ہوتی ہے سورۃ ہود میں مفصل قصہ مذکور ہے۔ النمل
55 النمل
56 النمل
57 النمل
58 النمل
59 (٨) اب خاتمہ سورۃ میں توحید پر اس کے آفاتی دلائل پیش کرکے بتادیا کہ منکرین کے انکار کا اصل سبب آخرت کا انکار ہے، اس طرح خاتمہ سورۃ تمہید کے ساتھ مربوط ہوگیا ہے۔ (الف) اللہ نے کائنات کاجومربوط نظام قائم کیا ہے اور زمین میں و آسمان میں زندگی کے جو سامان مہا کیے گئے ہیں یہ تمام چیزیں اللہ کے سوانہ تو کوئی بناسکتا ہے اور نہ ہی اس نظام کو چلاسکتا ہے تو پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ مشرکین اللہ کے سوادوسروں کو کیوں شریک ٹھہرارہے ہیں۔ (ب) زندگی میں جب مشکلات پیش آتی ہیں تو ہم لاچار ہو کر اللہ کو پکارتے ہیں اور اللہ ہی مصیبت کو کھولتا ہے اور تمہیں زمین میں اختیارات اسی نے تفویض کیے ہیں، بحر وبر کی تاریکیوں میں ہدایت کے لیے اس نے ستاروں کانظام قائم کردیا ہے الغرض یہ سارانظام اللہ کا قائم کیا ہوا ہے پھر دوسروں کو اس کے ساتھ کیوں شریک کرتے ہو، اگر اللہ کے ساتھ کسی کے شریک ہونے پر تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کرو اگر تم سچے ہو، الغرض ان آیات میں خلق وتدبیر اور رزاقی کے اعتبار سے اللہ کے الہ واحد ہونے پر استدلال کیا گیا ہے۔ النمل
60 (٩) قرآن کا اسلوب بیان یہ نہیں کہ نظر مقدمات اور ذہنی مسلمات کی شکلیں ترتیب دے، پھر اس پر بحث وتقرر کرکے مخاطب کو ردوتسلیم پر مجبور کرے، اس کا تمام ترخطاب انسان کے فطری وجدان وذوق سے ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ خدا پرستی کا جذبہ انسانی فطرت کا خمیر ہے اگر ایک انسان اس سے انکار کرنے لگتا ہے تو یہ اس کی غفلت ہے ضروری ہے کہ اسے غفلت سے چونکادینے کے لیے دلیل پیش کی جائے لیکن یہ دلیل ایسی ہونی چاہیے کہ جو محض ذہن ودماغ میں کاوش پیدا کردے بلکہ ایسی ہونی چاہیے جو اس کے نہاں خانہ دل پر دستک دے اور اس کا فطری وجدان بیدار کردے۔ ان آیات میں جو سوالات ہیں ان میں سے ہر سوال اپنی جگہ ایک مستقل دلیل ہے کیونکہ ان میں سے ہر سوال کا صرف ایک ہی جواب ہوسکتا ہے اور وہ فطرت انسانی کا عالمگیر اور مسلمہ اذعان ہے ہمارے متکلموں کی نظر اس پہلو پر نہ تھی اس لیے قرآن کا اسلوب استدلال ان پر واضح نہ ہوسکا اور وہ دوردراز گوشوں میں بھٹک گئے، قرآن خود انسان کی فطرت ہی سے انسان پر حجت لاتا ہے۔ النمل
61 النمل
62 النمل
63 النمل
64 النمل
65 (١٠) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک ہم صفت ذکر کی ہے یعنی کہ اللہ کے سوا کسی کو علم غیب نہیں ہے جن فرشتے انبیاء اور الیاو سب کا علم محدود ہے صرف اللہ ہی ہے جس سے اس کائنات کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔ النمل
66 النمل
67 النمل
68 النمل
69 (١١) دراصل یہ لوگ آخرت کے بارے میں شک وشبہ میں پڑے ہوئے ہیں بلکہ اندھے ہورہے ہیں کبھی یہ کہتے ہیں کہ جب ہم اور ہمارے آباواجداد گل سڑ گئے تو پھر وہ دوبارہ زندہ کرکے کیسے اٹھائے جائیں گے اس قسم کے وعدے ہمارے آبا واجداد سے بھی کیے گئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ی بے سروپاکہانیاں ہیں قرآن کہتا ہے کہ اگر عذاب میں شبہ ہو تو زمین میں سفر کرکے دیکھ لو جھٹلانے والوں کا حشر کیا ہوا ہے۔ النمل
70 (١٢) آیت ٧٠ میں نبی کو تسلی دی ہے کہ ان سازشوں سے تنگ دل نہ ہوں عنقریب عذاب کا کچھ حصہ ان پر آکر رہے گا، کفار قریش کے ساتھ یہود بھی سازشوں میں شریک ہورہے تھے اس لیے قرآن کی حفاظت کے سلسلہ میں ان کو بھی مخاطب کیا ہے۔ النمل
71 النمل
72 النمل
73 (١٣) جس طرح تم مادیات میں دیکھتے ہو کہ فطرت چھانٹی رہتی ہے جو چیز نافع ہوتی ہے باقی رکھی جاتی ہے جو نافع نہیں ہوتی اسے محو کردیتی ہے ٹھیک ٹھیک ایسا ہی عمل معنویات میں بھی جاری ہے جو عمل حق ہوگا قائم اور ثابت رہے گا جو باطل ہوگا وہ مٹ جائے گا قرآن مجید نے اسے قضابالحق سے تعبیر کیا ہے، یعنی فطرت کا فیصلہ حق۔ کیا قضا بالحق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہر باطل عمل فورانابود ہوجائے قرآن کہتا ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا، اور رحمت کا مقتضا یہ ہے کہ ایسانہ ہو مادیات کی طرح معنویات میں بھی تدریج ومہال کا قانون کام کرتا ہے قرآن مجید میں جابجا ایسی مثالیں موجود ہیں کہ منکروں نے پیغمبروں سے کہا عذاب جلد لے آؤ، جن نتائج وعوقب سے ڈرا رہے ہو وہ کیوں ظاہر ہوجاتے ؟ قرآن کہتا ہے اگر کائنات ہستی میں اس حقیقت اعلی کا ظہور نہ ہوتا جسے رحمت کہتے ہیں تو یقینا یہ نتائج یکایک ظاہر ہوجاتے، قانون رحمت کا مقتضا یہی ہے کہ حق کی طرح باطل کو بھی زندگی ومعیشت کی مہلتیں دے اور توہ، رجوع، اور عفو ودرگزر کا دروازہ ہر حال میں باز رکھے فطرت کائنات میں اگر یہ رحمت نہ ہوتی تو یقینا وہ جزائے عمل میں جلد باز ہوتی، لیکن اسمیں رحمت ہے اس لیے نہ تو اس کی مہلت بخشیوں کی کوئی حد ہے اور نہ اس کے عفو درگزرکے لیے کوئی کنارہ۔ النمل
74 النمل
75 النمل
76 النمل
77 النمل
78 النمل
79 النمل
80 النمل
81 النمل
82 (١٤) پھر آثار قیامت کے ضمن میں خروج دآبہ کا ذکر کیا ہے حدیث میں ہے کہ جب امر بالمعروف ونہی عن المنکر کاسلسلہ منقطع ہوجائے گا تو اللہ تعالیٰ ایک جانور کے ذریعہ سے اتمام حجت کرے گا، ایک دوسری حدیث میں ہے کہ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا اور خروج دآبہ، خروج دجال اور دخان قیامت کے نشانیوں سے ہیں جویکے بعد دیگرے ظاہر ہوں گی، اس کے بعد قیامت بپا ہوگی تو نفخ صور ہوگا، جس سے ہر شخص بے ہوش ہوجائے گاہاں البتہ نیکو کار لوگ اس کے اثر سے محفوظ رہیں گے اور کفار کواوندھے منہ دوزخ میں گرایاجائے گا۔ النمل
83 النمل
84 النمل
85 النمل
86 (١٥) مولانا آزاد لکھتے ہیں : نیند، سکون کامل کا نام ہے اس لیے وہ اعضائے انسانیہ میں ہر عضو کو محبوب ہے اور اس قدر محبوب ہے کہ اس کے لطف وصل کو رشک ورقابت متعفن نہیں کرسکتے پس اس سے ہر عضو ایک ساتھ فائدہ اٹھاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بستر خواب سے اٹھنے سے تمام قوائے انسانیہ کی تجدید ہوجاتی ہے، جسم کے جو پرزے چلتے چلتے گھس جاتے ہیں وہ اپنی اصلی حالت پر آجاتے ہیں اور تمام اعضاء ایک مسرت تازہ ایک انبساط جدید سے مسلح ہو کر اپنے وظائف طبعیہ کے لیے از سر نوتیار ہوجاتے ہیں۔ النمل
87 النمل
88 النمل
89 النمل
90 النمل
91 (١٦) آخر میں نبی نے اپنامشن بیان فرمایا ہے کہ رب حرم کی عبادت کرنا، مسلم بن کررہنا، اور قرآن پڑھ کرسنانا یہ وہ باتیں ہیں جن پر کاربند رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ النمل
92 النمل
93 النمل
0 القصص
1 القصص
2 تفسیر وتشریح۔ (١) اس سورت کا تعلق بھی مکی عہد کی وسطی تنزیلات سے ہے حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ سورۃ الشعراء اور سورۃ نمل اور سورۃ قصص یکے بعد دیگرے نازل ہوئی ہیں مضامین سے بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ ان تینوں کا زمانہ نزول قریب قریب ہی ہے ان تینوں سورتوں میں حضرت موسیٰ کا قصہ مذکور ہے پہلی دونوں سورتوں میں قصہ کے کچھ اجزاء قدرے اجمال سے مذکور ہیں اس سورت میں تفصیل کے ساتھ آگئے ہیں اس سورۃ کا مضوع بھی ان شبہات کو رفع کرنا ہے جونبی کی رسالت پر کیے جارہے تھے حضرت موسیٰ کا قصہ آنحضرت کے حالات زندگی سے ملتا جلتا ہے اس لیے اس قصہ کو پہلے رکھا گیا ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب ایک امی نبی دوہزار سال قبل کا ایک تاریخی سچا واقعہ اس تفصیل سے من وعن بیان کررہے ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ وحی کی معلومات ہیں ورنہ سب جانتے تھے کہ آپ کے لیے ان معلومات کے حاصل کرنے کا بظاہر کوئی ذریعہ نہ تھا۔ ان کے باربار کے اس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ یہ نبی وہ معجزے کیوں نہیں لایا جو اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) لائے تھے اور کفار مکہ کو شرم دلائی کہ کچھ عیسائی مکہ میں آئے اور آنحضرت سے قرآن سن کر ایمان لے آئے مگر مکہ کے باشندے اس نعمت سے مستفید نہیں ہوتے۔ پھر سورۃ کے آخر میں کفار قریش کی نبی کے ساتھ دشمنی کے اصل محرک پر تفصیل سے گفتگو کی ہے کہ اگر ہم اہل عرب کے دین شرک کو چھوڑ کر اس نئے دین کو قبول کرلیں تو اس ملک سے ہماری مذہبی، معاشرتی اور معاشی سیادت ختم ہوجائے گی اور ہمارے لیے کوئی جائے پناہ نہ ہوگی۔ القصص
3 القصص
4 (٢) حضرت یوسف کی وفات کے تقریبا ایک ہزار سال بعد مصر میں ایک قوم پرستانہ انقلاب آیا اور قبطیوں نے اقتدار پر قبضہ کرلیا اس نئی حکومت نے بنی اسرائیل کو کمزور کرنے کی کوشش کی، صرف انہیں ذلیل وخوار کرنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ان کی تعداد کم کرنے کے لیے لڑکوں کو قتل کرنے اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑنے کی پالیسی اختیار کی، تاکہ تدریجا ان کی عورتیں قبطیوں کے قبضے میں آتی جائیں اور ان سے قبطی نسل پیدا ہو قرآن نے یہاں فرعونیوں کی اسی پالیسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی سرگزشت کا آغاز : حضرت موسیٰ (علیہ السلام)، حضرت یعقوب کے بیٹے لادی کی اولاد سے تھے جب پیدا ہوئے تو ماں کو حکم ہوا کہ اسے دودھ پلاتی جا اور جب خطرہ محسوس ہوتوبچہ کو ایک تابوت میں رکھ کردیا میں ڈال دو چنانچہ ارشا باری تعالیٰ کے مطابق ماں نے انہیں دریا میں بہادیا اس طرح حضرت موسیٰ شاہی محلات میں پہنچ گئے اور ان کی پرورش کا سامان ہوگیا۔ ذکر سلطنت فرعون کا ہے لیکن غور کرو کہ آیہ کریمہ کے اندر قرآن کریم نے کس طرح ایک قانون الٰہی کو خبر دے دی، وہ بتلاتا ہے کہ قوت کے جاہ وجلال کی نمائش گاہ اور کمزوریوں کی ہلاکت مقتل ہے طاقت ور قومیں کمزوروں کو اپنا غلام اور محوکم بناتی ہیں ان میں پھوٹ ڈالتی ہیں مختلف قوموں اور گروہوں کو باہم ملنے نہیں دیتیں کیونکہ اگر وہ مل کر ایک ہوجائیں تو کمزور نہ رہیں اور اتفاق ویگانگت کی طاقت ناموں کا تختہ الٹ دے۔ ” جابر قوموں کی قوت فنا ہوتی ہے توایک عادلانہ نظام قائم ہوجاتا ہے فرعون کی جابرانہ سلطنت کا زوال ایک دوسری قوم کی عادلانہ حکومت کا مقدمہ تھا اس لیے خدا نے فرعونیوں کی ہلاکت کے ساتھ عدل الٰہی کے قیام کامژدہ بھی سنادیا۔ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ کو فرعون کا تاج وتخت الٹنے اور بنی اسرائیل کی حکومت قائم کرنے کے لیے ایک تیغ برہنہ کی صورت میں نمایا کرنا چاہتا تھا اس لیے دیکھو کس طرح بچپن ہی سے انہیں میدان جنگ کے شدائد مصائب برداشت کرنے کا خوگر بنادیا، ابھی انہوں نے دنیا میں پہلا ہی قدم رکھا تھا کہ ماں کی آغوش محبت سے جدا ہوگئے۔ حضرت موسیٰ کی والدہ نے لخت جگر کو دریا کی لہروں میں ڈال دیا لہریں اس امانت مقدس کو اس کے محتل تک بہ حفاظٹ لے گئیں جس کے سرغرور کو کچلنے کے لیے ایک دن یہ شیر خوار بچہ اٹھنے والا تھا، اس میں اللہ تعالیٰ کی بڑی مصلحت یہ تھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پرورش شاہی محل میں ہوگی تو بادشاہوں کے جاہ وجلال باطل کارعب ان کے دل سے نکل جائے گا۔ جب ان کی ذہنی نشوونما مکمل ہوگئی تو ہم نے اسے علم وحکمت سے نوازا اس طرح حضرت موسیٰ امن واطمینان کے ساتھ رہ رہے تھے کہ قبطی کے قتل کا واقعہ پیش آگیا اور پھر ایک شخص کی اطلاع پر مصر سے نکلے اور مدین چلے گئے یہ مدین شہر خلیج عقبہ کے غربی ساحل پر مقنا سے چند میل بجانب شمال واقع تھا آج کل اسے، البدع، کہتے ہیں اور وہاں ایک چھوٹا سا قصبہ آباد ہے جو مدین کی جگہ پر واقع ہے۔ حضرت موسیٰ نے مدین پہنچ کر جن لڑکیوں کے مال مویشیوں کو پانی پلایا تھا عام طور پر مشہور یہ تھا کہ ان کے والد حضرت شعیب (علیہ السلام) تھے لیکن قرآن میں اس پر صراحت کے ساتھ تو کجا، کوئی قرینہ بھی نہیں ہے ہاں بعض روایات میں حضرت شعیب کا نام مذکور ہے تاہم حافظ ابن کثیر نے ان کو ضعیف الاسناد قرار دیا ہے لہذا ہم اس کی تعین نہیں کرسکتے۔ بائبل میں اس بزرگ (شیخ کبیر) کے ایک دونام مذکور ہیں، یعنی، رعوایل، یاحوباب، اس کالقب یتھرو تھا جو بڑے درباری یا بادشاہ کے لیے استعمال ہوتا ہے، بہرحال حضرت موسیٰ اس بزرگ کے داماد بن کر مدین میں رہنے لگے اور آٹھ دس سال اپنے خسر کا گلہ چراتے رہے اور اس کے بعد وہاں سے واپس آئے۔ القصص
5 القصص
6 القصص
7 القصص
8 القصص
9 القصص
10 القصص
11 القصص
12 القصص
13 القصص
14 القصص
15 (٣) (بنی اسرائیل کے خلاف مصڑیوں کا) یہ ظالمانہ طرز عمل صرف فرعون کے قصر شاہی تک محدود نہ تھا بلکہ اس کانظارہ ہر گلی گوچے میں دیکھا جاسکتا تھا حاکم قوم اپنی قومی حکومت کے گھمنڈ میں بنی اسرائیل کے ہر فرد کو اپنا زرخرید غلام سمجھتی تھی ظلم کی ہمہ گیری کے ثبوت میں صرف یہی کہہ دینا کافی ہے کہ حضرت موسیٰ کو ایک مرتبہ نہیں دو مرتبہ بازار میں ظلم کے واقعات نظر آئے۔ القصص
16 القصص
17 القصص
18 القصص
19 القصص
20 القصص
21 (٤) فرعون کے غلبے اور جبر واستبداد کے خوف سے حضرت موسیٰ گھبرا گئے لیکن قومی حمیت کی آگ دل میں برابر سلگتی رہی سوئے اتفاق سے دوسرے دن پھر وہی ناگوار موقع پیش آیا شہر میں اس واقعے کی شہرت ہوگئی اور حضرت موسیٰ کے سامنے جلاوطنی کا مقدس مرحلہ پیش آگیا جوہر حقانی جددجہد کی پہلی منزل ہے۔ القصص
22 القصص
23 القصص
24 القصص
25 (٥) مصر سے نکل کر انہیں خدا کے اس صالح بندے کی باریابی کا شرف حاصل ہوا جو مصر کی غلامانہ اور مستبدانہ آبادی کی جگہ آزادی کی آب وہوا میں آزادانہ زندگی بسر کررہا تھا حضرت موسیٰ کی دعوت حریت کے لیے یہ دوسری منزل تھی کہ ایک آزاد اور خودمختار سرزمین میں رہ کر آنے والے وقت کے لیے تیار ہوں۔ القصص
26 القصص
27 القصص
28 القصص
29 (٦) الغرض مدت پوری ہونے کے بعد جب حضرت موسیٰ اپنے اہل وعیال کے ساتھ واپس مصر جارہے تھے تو طور کی جانب میں انہوں نے آگ دیکھی تورات میں ہے کہ انہوں نے درخت میں آگ دیکھی تو متعجب ہو کر قریب گئے لیکن قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ رفع تعجب کے لیے نہیں بلکہ وہ پہلے آگ کی جستجو میں تھے تاکہ الاؤ جلا کر تاپ سکیں چنانچہ وہاں پہنچنے پر یہ واقعہ پیش آیا، یہاں پر، انی انااللہ رب العالمین، اور سورۃ نمل میں، انی انااللہ العزیز الحکیم، ہے، اس کے بعد ان کو دومعجزے دکھائے گئے تاکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یقین ہوجائے کہ وہ فی الواقع رب العالمین سے ہی مخاطب ہیں اور پھر فرعون کے پاس نہایت دل جمعی سے جائیں۔ آیت ٣٢ میں، واضمم الیک جناحک من الرھب۔ دراصل، اسلک یدک فی جیبک، کا بیان ہی ہے جیساکہ سورۃ طہ وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے۔ القصص
30 القصص
31 (٧) لاٹھی کے سانپ بننے، ہتھیلی کے چمک اٹھنے اور حضرت ہارون کے وزیر شریک ہونے کا ذکر توراۃ میں بھی ہے (خروج ٤) نیز یہ کہ خدا نے فرمایا ہے اب تو جا میں تجھے فرعون کے پاس بھیجتا ہوں (خروج ٣۔ ١)۔ اللہ تعالیٰ کودنیا کے ایک سب سے بڑے سرکش اور مستبد بادشاہ اور سب سے بڑے ظالم حکمران قوم کو ہلاک کرنا منظور تھا لیکن ابھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس مہم کے پہلے مرحلے میں تھے اور اقتضائے بشریت سے ان کے دل میں خوف وہراس باقی تھا۔ وہ جب اپنی تنہائی اور فرعونیوں کی کثرت وقوت کا مقابلہ کرتے تھے توقدرتی طور پر ان کے اندر ہراس پیدا ہوجاتا تھا پس قوت مربیہ الٰہیہ نے سب سے پہلے ان کے قلب کو مختلف طریقوں سے عزم وثبات کا کامل جوہر بخشا اور دکھلادیا کہ طاقت صرف انسانوں کی قلت وکثرت میں مخفی نہیں حق اور ربانی نصرت کی روح سے معمور ہو کر ایک تنہا انسان لاکھوں انسانوں پر غالب آسکتا ہے حضرت موسیٰ کے ہاتھ نے اب تک تک تلوار کا قبضہ نہیں پکڑا تھا لیکن اللہ نے انہیں دکھلادیا کہ جو ہاتھ حق کی حمایت میں اٹھتا ہے اس کے پاس گولوہے کی تلوار نہ ہو لیکن وہ خود اپنی انگلیوں ہی کے اندر تلوار کی چمک رکھتا ہے حضرت موسیٰ اگرچہ معجزانہ آلات حرب سے مسلح ہوگئے تھے لیکن سیاسی میدان میں تلوار کی چمک اور توپوں کی گرج سے زیادہ دل کی قوت اور زبان کی طلاقت وروانی کام آتی ہے اس لیے انہوں نے اپنی کمزوریوں کا عذر کیا اللہ تعالیٰ نے ان کی تمام دعائیں قبول کی، اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی مدد سے ان کے دست وبازو کو مضبوط کردیا۔ القصص
32 القصص
33 القصص
34 القصص
35 القصص
36 القصص
37 القصص
38 القصص
39 (٨) فرعون نے معجزات کو تو مصنوعی طلسم کا کرشمہ قرار دیا اور دعوت میں جاباتیں پیش کیں ان کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ یہ ہمارے آباء واجداد کی روایات کے بالکل خلاف ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر قریش کی طرف سے رسول اللہ کواسی طرح کے جواب کا ذکر ہے، ماسمعنا بھذا۔۔ تا۔۔۔ الا اختلاق۔ فرعون بذات خود بہت سے دیوتاؤں کی پوجا کرتا تھا جیسا کہ سورۃ الاعراف آیت ١٢٧ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے باوجود یہاں پر فرعون کایہ کہنا، ماعلمت لکم من الہ غیری۔ کسی معنی میں ہوسکتا ہے صاحب تفہیم لکھتے ہیں، یہاں پر الہ بمعنی مطاع اور حاکم مطلق کے ہے یعنی سرزمین مصر کا مالک میں ہی ہوں یہاں پر میرا حکم چلے گا لیکن اصل بات یہ ہے کہ مصری فرعون کو سب سے بڑے دیوتا سورج کا اوتار سمجھتے تھے اور اس لیے اس کی پرستش بھی کرتے تھے اسی بنا پر اس نے قوم کو بیوقوف بنایا اور، اناربکم الاعلی، کا دعوی کردیا قرآن میں ہے، فاسخف قومہ، فاطوعوہ۔ القصص
40 القصص
41 القصص
42 القصص
43 (٩) اب یہاں آیت ٤٣ میں بنی اسرائیل کی تاریخ کے ایک نئے دورکا آغاز ہوتا ہے یہاں پر غربی جانب سے مراد جزیرہ نمائے سینا کا وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسیٰ کولواح کی شکل میں احکام شریعت دیے گئے تھے یہ علاقہ حجاز کے شمال مغربی جانب میں واقع ہے۔ القصص
44 القصص
45 (١٠) یہ تینوں خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے اثبات میں اس وقت پیش کیے جب کہ کفار قریش یہود ونصاری سمیت آپ کی مخالفت پر تلے ہوئے تھے اور ان میں سے کوئی بھی یہ بات نہیں کہہ سکا کہ تم (محمد) یہ باتیں یہودونصاری کے علماء سے حاصل کرکے یہاں آخر سنادیتے ہو کیونکہ وہ اس قسم کا کوئی ثبوت مہیا کرنے سے عاجز تھے یہ بہتان تو آج کل کے مستشرقین نے تراش کر اسے فروغ دیا ہے اور واضح رہے کہ قرآن نے یہ چیلنج متعدد آیات میں پیش کیا ہے۔ ملاحظہ ہوآل عمران آیت ٤٤، سورۃ یوسف آیت ١٠٢، سورۃ ہود آیت ٤٩۔ القصص
46 (١١) آیت ٤٦ میں قرآن کایہ کہنا کہ، آپ ان کو ڈرائیں جن کے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، اس بنا پر حضرت اسماعیل اور حضرت شعیب علیہما السلام کے بعد تقریبا دوہزار سال کی اس طویل مدت میں کوئی نبی نہیں ہوا۔ القصص
47 القصص
48 القصص
49 (١٢) آیت ٤٨ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ان کے اعتراض کا جواب دیا ہے اور پھر چیلنج کیا ہے کہ تمہارے پاس اگر کوئی کتاب ہے جو قرآن اور تورات سے بہتر ہوتوپیش کروہم بلاتامل اس کی پیروی کریں گے۔ القصص
50 القصص
51 القصص
52 (١٣) اس کے بعد حبش کے اہل کتاب کے اس وفد کی طرف اشارہ کیا ہے جوہجرت حبشہ کے بعد نبی کی بعثت کی خبریں سن کر مکہ معظمہ آیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن سن کر کر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے انہوں نے قرآن کے وحی الٰہی ہونے کی تصدیق کی اور آپ پر ایمان لے آئے، یہ واقعہ مسجد حرام میں پیش آیا جب کہ کفار قریش گردوپیش کھڑے ہو کر اس منظر کو دیکھ رہے تھے سیرت ابن ہشام اور البدیہ (ابن کثیر) میں یہ واقعہ مفصل مذکور ہے۔ القصص
53 (١٤) آیت ٥٣ میں، انا کنا من قبلہ مسلمین، سے ایک عالمگیر حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر تمام رہنما یان عالم نے جس دین کی دعوت دی ہے وہ یہی اسلام ہے اہل کتاب کی فرقہ بندیوں کی مذمت کرتے ہوئے قرآن نے متعددآیات میں اس اصل عظیم کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور اسکے بعد کفار قریش کو ملامت کی ہے۔ القصص
54 القصص
55 القصص
56 القصص
57 (١٥) کفار قریش دین اسلام قبول نہ کرنے کے لیے عذر کے طور پر یہ کہتے کہ ہمارا تعلق ایک معزز خاندان سے ہے ہم کعبہ کے متولی ہیں اور ہمیں تمام عرب کی مذہبی پیشوائی کا شرف حاصل ہے اور اردگرد کے ممالک سے ہمارے تجارتی تعلقات ہیں اگر ہم بت پرستی کوچھوڑ کردین اسلام اختیار کرلیں گے توہمارا تمام کاروبار تباہ ہوجائے اور ہمارے مذہبی اثر ورسوخ کا خاتمہ ہوجائے گا اس پر اللہ نے انہیں یاد دلا کہ حرم امن میں ہم نے تمہیں رسوخ بخشا ہے جس کی تمام عرب تعظیم بجالاتے ہیں اس نعمت کی شکرگزاری کا تقاضا یہ تھا کہ تم اس دعوت اسلامی کو قبول کرلیتے مگر تم بغاوت کرکے اپنی بربادی کا سامان پیدا کررہے ہو۔ القصص
58 القصص
59 (١٦) تم سے پہلے بہت سی آبادیاں بربادیوں میں تبدیل ہوچکی ہیں اس لیے کہ انہوں نے تمہاری طرح اپنی خوشحالی کی وجہ سے تکبر کیا اور بالآخر وہ ملیامیٹ کردی گئیں بہرحال دنیا کی زندگی چند روزہ ہے اس کی خاطر آخرت کی ابدی زندگی کو تباہ وبرباد کرنا کوئی عقل مندی کی بات نہیں ہے، تماشا گاہ ہستی کا ایک بہت بڑا منظر وہ تغیرات ہیں جن کے طوفان قوموں اور ملکوں کے اندر اٹھتے ہیں اور بڑی بڑی آبادیوں کو تہ وبالا کردیتے ہیں حتی کہ آبادیوں کی جگہ ویرانیوں سے مبدل جاتی ہے زندگی کی رونق پر موت کاسناٹآ چھا جاتا ہے اور انسانی عیش ونشاط کے بڑے بڑے محل مدفن قبور ومقبرہ وخرابہ سلب ونہب ہو کر بودومفقود ہوجاتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ یہ بات عدل الٰہی کے خلاف ہے کہ ایک گروہ اپنے اعمال بد کے لیے جواب دہ ٹھہرایاجائے حالانکہ اس کی ہدایت کے لیے کوئی رسول نہ بھیجا گیا ہو۔ القصص
60 القصص
61 القصص
62 القصص
63 (١٧) اہل دوزخ کے بعض احوال وورادات جو عالم آخرت میں پیش آئیں گے پیروان باطل کی پیروی کرنے کا حسرت انگیز نتیجہ جوان کے بدقسمت پیرووں کے حصہ میں آئے گا قیامت کے دن حکم ہوگا کہ اب شرکاء کو پکارو چنانچہ وہ پکاریں گے لیکن کوئی جواب نہ پاکر حسرت سے کہیں گے، لوانھم کانو یھتدون۔ سورۃ اعراف میں ہے کہ پچھلی امتیں اپنے سے پہلی امتوں پر لعنت بھیجیں گی کہ ان کی تقلید وپیروی میں ہم گمراہ ہوئیں یہ سب دوگنا عذاب کے مستحق ہوں گے۔ القصص
64 القصص
65 القصص
66 القصص
67 القصص
68 (١٨) اب یہاں سے دلائل توحید شروع ہورہے ہیں کہ جس مالک نے تمہیں یہ مذکورہ نعمتیں بخشی ہیں وہ عبادت کا مستحق ہے دنیا اور آخڑت میں اس کی فرمانروائی ہے اسی نے رات، دن کایہ سلسلہ بنایا ہے اور کوئی نہیں جوا سکے جاری کردہ نظام میں تبدیلی کرسکے پھر اس کے عبد کفار قریش کی بصیرت کے لیے قارون کا واقعہ پیش کیا ہے جو بہت بڑا مال دار تھا لیکن جب اس نے بغاوت کی راہ اختیار کی تو تباہ وبرباد ہوگا ی اور اس کی دولت مندی کسی کام نہ آئی۔ القصص
69 القصص
70 القصص
71 القصص
72 القصص
73 القصص
74 القصص
75 القصص
76 القصص
77 (١٩) ایک شخص کے پاس بہت دول تہے اس کی ضرورتوں سے بہت روپیہ بچ رہتا ہے دوسرے انسان محتاج ہیں ان کی حالت کی اصلاح کی ضرورت ہے مگر وہ شخص اپنے خزانے مقفل رکھتا ہے اور خدا کے بندوں کے لیے خدا کی بخشی ہوئی دولت میں سے کچھ نہیں نکالتا (تویہ فساد ہے) صلحاء کا دل حرص وطمع سے خالی ہوتا ہے رشک وحسد سے انہیں نفرت ہوتی ہے وہ جزائے اخروی کے آگے دنیوی دولت کو ہیچ سمجھتے ہیں القصص
78 القصص
79 القصص
80 القصص
81 القصص
82 القصص
83 (٢٠) جو شخص دنیا میں جبر واستبداد پھیلانا چاہتا ہے تو وہ مفسد ہے اس کے اعمال مفسدانہ ہیں۔ القصص
84 القصص
85 (٢١) آیت ٨٥ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی اور بشارت دی ہے کہ جس نے تم پر یہ ذمہ داری ڈالی وہ تجھے کامیابی سے ہم کنار بھی کرے گا یہ نبوت ورسالت موہبت ربانی ہے اس میں تمہاری طلب کو دخل نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص رحمت ہے لہذا اس کی تبلیغ میں کسی قسم کی مداہنت کام نہ لیں، دعوت دیتے رہیں اور مخالفین کی پروا نہ کریں۔ القصص
86 القصص
87 القصص
88 القصص
0 العنكبوت
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور اس دور کی تنزیلات سے ہے جب کہ مسلمان مصائب وآلام کے دور سے گزر رہے تھے اور دعوت اسلامی کا قبول کرلینے کی وجہ سے دردناک اذیتوں سے دوچار ہورہے تھے، اس لیے ابتداء میں پیروان دعوت حق کو آگاہ کردیا کہ مومن ہونے کے لیے صرف یہی کافی نہیں کہ تم ایمان کا اقرار کرلیا اور جنتی ہوگئے بلکہ پیغام حق کی خدمت عظیم کے لیے ان تمام آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑے گا جو تم سے پہلے حق پرستوں کو پیش آچکی ہیں اور یہ اس لیے ضروری ہے کہ کھرے اور کھوٹے میں امتیاز ہوجائے اس کے بعد مخالفین کو سرزنش کی ہے جب کہ مومنین کو دوہری بشارت دی ہے۔ العنكبوت
2 العنكبوت
3 العنكبوت
4 العنكبوت
5 العنكبوت
6 العنكبوت
7 العنكبوت
8 (٢) اس وقت بعض نوجوانوں پر ان کے والدین زور ڈالتے ہیں کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ساتھ چھوڑ دو اس کے جواب میں آیت نمبر ٨ نازل ہوئی۔ العنكبوت
9 العنكبوت
10 العنكبوت
11 (٣) مکی دور میں بھی کچھ کمزور ایمان لوگ تھے جو کفار کی سختی کے سامنے گھٹنے ٹیک رہے تھے اور دعوت توحید سے دست بردار ہونے کو تیار تھے ایسے ہی لوگوں کو آیت نمبر ١١ میں منافقین کہا گیا ہے جو دنیوی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کے سامنے زبانی اعتراف تو کرتے مگر راۃ حق میں کوئی مصیبت اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوتے۔ العنكبوت
12 العنكبوت
13 (٤) پھر بعض نو مسلم ایسے بھی تھے جن کو ان کے قبیلے کے لوگ کہتے کہ آخرت کا عذاب وثواب ہماری گردن، پر تم ہمارا کہا مانو اس شخص (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے الگ ہوجاؤ۔ آیت ١٢، ١٣، میں اسی کا جواب دیا گیا یعنی اول تو ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی دوسراشخص کسی کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لے، اور گناہ کرنے والے مکافات عمل سے بچ جائے اور پھر انہیں تو یوں بھی دوہرا بوجھ اٹھانا پڑے گا، ایک بوجھ خود گمراہ ہونے اور دوسرا گمراہ کرنے کا (دیکھیے، سورۃ النحل آیت ٢٥)۔ العنكبوت
14 (٥) ابتدائے سورۃ سے ان قصوں کی مناسب ظاہر ہے، یعنی اہل ایمان کو آزمائش میں ڈالاجائے گا جیسا کہ پہلے لوگوں کو ڈالا گیا اور کفار اللہ کی گرفت سے بچ کر نہیں نکل سکتے، انہی دوچیزوں پر استدلال کے لیے امم سابقہ کا تذکرہ شروع ہوگیا ہے جو درحقیقت دلائل وحجج کا ایک پورا سلسلہ ہے اس سلسلہ کی پہلی کڑی حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت ہے۔ (٦)۔ یعنی نبوت پرسرفراز ہونے کے بعد طوفان تک پورے ساڑھے نوسوبرس، حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم کی اصلاح کے لیے، سعی فرماتے رہے اور ان کی زیادتیاں برداشت کرتے رہے لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری، اہل ایمان کو بھی چاہیے ان کے سے صبر واستقلال سے کام لیں اور ان پر جوظلم وستم ڈھائے جارہے ہیں اس سلسلہ میں حضرت نوح کے دور کو سامنے رکھیں، چنانچہ سورۃ ہود میں اس قصہ کے خاتمہ پر فرمایا، فاصبر ان العاقبۃ للمتقین۔ العنكبوت
15 (٧) آیت ١٥ میں فرمایا، وجعلناھا آیۃ للعالمین۔ بظاہر اس سے مراد خود کشتی ہے جوپہاڑ کی چوٹی پر صدیوں موجود رہی اور بعد کی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنی رہی، سورۃ القمر میں بھی ہے کہ ہم نے اس کشتی کو نشانی بنا کرچھوڑ دیا، ابن جریر نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ عہد صحابہ میں جب مسلمان الجزیرہ کے علاقہ میں گئے تو انہوں نے کوہ جودی پر ایک کشتی کو دیکھا، اس دور کی تکیشفات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کشی کے آثار تاحال موجود ہیں۔ العنكبوت
16 (٨) حضرت نوح کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کا ذکر ہے قول وعمل سے بت پرستی کے خلاف جہاد کیا، مگر قوم بجائے اس کے کہ ان کے دلائل پر غور کرتی، اس نے حضرت ابراہیم کی مخالفت شروع کردی اور بالآخر دلائل سے عاجز آکر حضرت ابراہیم کو آگ میں زندہ جلادینے کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے سارے منصوبے خاک میں ملادیے اور حضرت ابراہیم وہاں سے زندہ وسلامت نکل کرکنعان چلے گئے، ان کے ساتھ ان کے بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) بھی تھے جیسا کہ سورۃ ہود میں گزر چکا ہے۔ العنكبوت
17 العنكبوت
18 العنكبوت
19 العنكبوت
20 العنكبوت
21 العنكبوت
22 العنكبوت
23 العنكبوت
24 العنكبوت
25 العنكبوت
26 العنكبوت
27 (٩) حضرت ابراہیم جب وہاں سے کل کر فسلطین میں مقیم ہوئے تو اللہ نے ان کی نسل میں خیروبرکت کی اور حضرت عیسیٰ تک نبوت و کتاب کاسلسلہ حضرت اسحق کی اولاد میں جاری رہا، جو بنی اسرائیل کے لقب سے مشہور ہوئے اور اس سرزمین پر حکمرانی بھی کرتے رہے صرف مدیانی شاخ میں حضرت شعیب مبعوث ہوئے اور اسماعیلی شاخ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ کوئی نبی نہیں آیا۔ معلوم ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک نبوت ورسالت کاسلسلہ حضرت ابراہیم کی نسل میں قائم رہا، الغرض دنیاکوان چالیس صدیوں میں جو بھی ہدایت کی روشنی میسر آئی وہ اسی ایک انسان اور ان کی اولاد کی بدولت میسر آئی ہے آخرت میں جواجرعظیم ان کو ملے گا وہ بے حساب ہوگا۔ العنكبوت
28 العنكبوت
29 (١٠) قرآن نے بتایا کہ اہل سدوم دوبڑھ گھناؤنے جرائم کے مرتکب تھے، ایک مردوں سے شہوت رانی، دوسرے رہزانی، چنانچہ حضرت لوط ان میں مبعوث ہوئے اور انہوں نے ان جرائم سے انہیں منع کیا تو وہ حضرت لوط کے سر ہوگئے، اور ان سے عذاب کا مطالبہ کرنے لگے، یعنی فحش اور بدکاری کے کام چھپ کر نہیں بلکہ اپنی مجلسوں میں کھلم کھلا کرتے ہو، جیسے سورۃ نمل میں فرمایا، اتاتون الفاحشۃ وانتم تبصرون۔ جو انسان ایک وقت میں اپنے بچوں کی قوت احتساب کو ترقی دے سکتا ہے ایک وقت آتا ہے کہ خود اپنی قوت محستسبہ ہی فناکردیتا ہے اور اس کے تمام حواس ظاہری اور باطنی خارجی ضلالت کے اثر سے معطل ہو کر رہ جاتے ہیں یہاں تک کہ ہر شخص علانیہ منکرات ومعاصی کا ارتکاب کرنے لگتا ہے اور اپنی فطرت سلیمہ کو مسخ کرلیتا ہے یہی حال قوم لوط کا تھا۔ العنكبوت
30 العنكبوت
31 العنكبوت
32 العنكبوت
33 (١١) اللہ تعالیٰ نے ان کے عذاب کے لیے فرشتے بھیجے وہ پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے اور انہوں نے ایک طرف تو حضرت ابراہیم کو اسحاق (علیہ السلام) اور ان کے بعد حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی خوشخبری دی اور دوسری طرف یہ بتایا کہ ہمیں تو قوم لوط کو تباہ کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے، آیت ٣١ میں اس بستی سے قوم لوط کے علاقے مراد ہیں جہاں پر اب بحیرہ مردار کے نشیبی علاقہ میں پانی پھیلا ہوا ہے جرون (بلدہ خلیل) کی پہاڑیوں سے وہ علاقہ چونکہ صاف نظرآتا ہے اس لیے فرشتوں نے اشارہ کرکے کہا کہ، اس بستی کو ہلاک کرنے والے ہیں۔ ان دونوں میں بظاہر کوئی علاقہ نہیں مگر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پہلی خبر میں ایمان اور انیک عملی کی کامرانیوں کا اعلان ہے اور دوسری میں انکار وبدعملی کی ہلاکتوں کا، یعنی ہلاکت کی خبر کے ساتھ یہ بشارت دی گئی کہ نیک عملی کے نتائج میں ایک نئی نسل تیار کررہے ہیں اور وہ عنقریب اس تمام ملک پر حکمرانی کرنے والی ہے۔ ایک طرف یہ بتایا کہ جوزمین علاقہ بھر میں زیادہ سرسبز وشاداب نظر آتی ہے وہ بدعملیوں کی پاداش میں ایسی اجڑے گی کہ کبھی آباد نہ ہوسکے گی، اور جوشجر امید بالکل سوکھ چکا ہے وہ اچانک اس طرح سرسبز وشاداب ہوجائے کہ اس کی شاخیں صدیوں تک بارآور رہیں گی۔ العنكبوت
34 العنكبوت
35 العنكبوت
36 العنكبوت
37 العنكبوت
38 (١٢) عاد وثمود جن علاقوں میں آباد تھے ان سے عرب بخوبی واقف تھے اور ان کی آبادیوں کے آثار تجارتی قافلوں کو تجارتی شاہراہ سے نظر آتے تھے اس لیے قرآن نے قدتبین لکم من مساکنھم، فرمایا ہے۔ العنكبوت
39 العنكبوت
40 (١٣) آیت ٤٠ میں ان عذابوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جو کہ بالترتیب قوم عاد وثمود، قوم لوط، قارون اور آل فرعون پر نازل ہوئے اور وہ اپنی بداعمالیوں کی پاداش میں ہلاک کردیے گئے۔ العنكبوت
41 (١٤) یہ تمام ہلاک شدہ قومیں مشرک تھیں اور اپنے معبودوں کو اپنا کارساز اور حامی سمجھتے تھے لیکن جب ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب آیاتو ان کے معبود کسی کام نہ آئے، یہی حال ان مشرکین کا ہے جو اپنے حقیقی مالک کوچھوڑ کر اپنے اختراعی بتوں کی پوجا کررہے ہیں اور ان کو نفع نقصان کا مالک سمجھتے ہیں یہ اپنے گرد جو حصار قائم کررہے ہیں اس کی حیثیت مکڑی کے جالے سے کچھ زیادہ نہیں اور دنیا میں اگر کوئی کمزور ترین سہارا ہوسکتا ہے تو وہ یہی مکڑی کا جالا ہے لہذاان کو پکاڑنا نہ پکارنا برابر ہے۔ جوکام رشتہ الٰہی اور تعلق ایمان سے خالی ہوتے ہیں ان کی حیثیت مکڑی کے جالے کی ہوتی جب تک وہ قائم رہے نہایت مرتب ومنظم نظرآتا ہے لیکن جونہی ہوا کی ایک ہلکی سی موج بھی اس پر گزری وہ ھباء منثورا، ہوگیا۔ العنكبوت
42 العنكبوت
43 العنكبوت
44 (١٥) یعنی ان کے بنانے میں بندوں کی مصلحتوں اور ضرورتوں کا خیال رکھا گیا ہے بعض نے حق سے مراد کلام اور قدرت بھی لی ہے۔ انسان عقل وبصیرت سے کام لے تو دیکھے گا کہ کائنات کی خلقت اور اس کی ہر چیز کی بناوٹ کچھ اس طرح واقع ہوئی ہے کہ ہر چیز ضبط وترتیب کے ساتھ ایک خاص نظام وقانون میں منسلک ہے اور کوئی شے نہیں جو حکمت ومصلحت سے خالی ہو، اسی کو قرآن نے تخلیق بالحق سے تعبیر کیا ہے۔ العنكبوت
45 (١٦) اس عہد میں مسلمان جن مصائب اور حوصلہ شکن حالات سے دوچار ہیں شروع سورۃ سے یہاں تک صبر واستقامت کی تلقین کی ہے اور اب ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کو کچھ عملی احکام پرکاربند رہنے کا حکم دیا جارہا ہے اور وہ ہے قرآن کی تلاوت اور اقامت صلوۃ۔ کیونکہ یہی دوچیزیں ایسی ہیں جوکسی مسلمان کے کردار میں مضبوطی کاسبب بن سکتی ہیں لیکن ان دونوں عبادتوں سے اخلاقی طاقت جبھی حاصل ہوسکتی ہے کہ قرآن کا حق تلاوت ادا کرے اور صحیح معنوں میں نماز ادا کرے۔ جوکام قبیح ہوں جیسے حرام کاری، ان کو فحشاء کہتے ہیں اور قانون اسلام نے جن کی اجازت نہ دی وہ منکر ہیں آیت کریمہ کی تفسیر میں ابوالعالیہ کا قول ہے کہ نماز کی تین خصلتیں ہیں ان میں کوئی بھی خصلت کسی نماز میں نہ ہو تو وہ نماز ہی نہیں، وہ خصلتیں یہ ہیں (١) خلوص۔ ٢۔ خوف خدا۔ ٣ یادالٰہی۔ خلوص کا فعل یہ ہے کہ وہ نماز پڑھنے ولے کو نماز کا حکم دیتا ہے، خوف خدا اسے بدی سے روکتا ہے اور یاد الٰہی (قرآن) کا فعل امر ونہی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ العنكبوت
46 (١٧) اہل کتاب سے مجادلہ بہتر طریق سے ہونا چاہیے کیونکہ ان کے اور تمہارے درمیان بہت سے بنیادی امور میں اشتراک پایا جاتا ہے وہ وحی ورسالت اور توحید کے قائل ہیں اور تم بھی تمام نازل شدہ کتابوں پر ایمان رکھتے ہو، اور اہل کتاب میں سے جو منصف ہیں وہ بھی قرآن مجید کے کتاب الٰہی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں لہذا ان کے ساتھ بحث ومناظرہ میں معقولیت اور شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو، یہاں پر گواہل کتاب کے بارے میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ مگر قرآن مجید نے وعظ وارشاد اور تبلیغ دین کے بارے میں عمومی ہدایات بھی دی ہے۔ دیکھیے سورۃ نحل ١٢٥، حم السجدہ ٣٤۔ العنكبوت
47 العنكبوت
48 (١٨) آیت نمبر ٤٨ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر استدلال کیا ہے کہ اگر آپ اس سے پہلے لکھنا پڑھنا جانتے ہوتے تو بلاشبہ باطل پرست لوگ شک وشبہ اظہار کرسکتے تھے مگر آپ کے امی ہونے سے تو یہ لوگ خوب واقف ہیں۔ پھر اس کے باوجود آپ انبیائے سابقین کے حالات اس طرح سنارہے ہیں جیسے ایک عینی شاہد بیان کرتا ہے تو ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ علم وحی ہے نہ اخذ واکتساب سے حاصل شدہ ہے اس قسم کا استدلال پہلے سورۃ یونس اور قصص میں بھی گزرچکا ہے۔ العنكبوت
49 العنكبوت
50 العنكبوت
51 (١٩) یعنی یہ لوگ معجزات کا مطالبہ کرتے ہیں کیا امی ہونے کے باوجود آپ پر قرآن جیسی کتاب کا نازل ہونا بجائے خود اتنا بڑا معجزہ نہیں ہے کہ آپ کی رسالت کی تصدیق کے لیے کافی ہو اور یہ سرتاسر رحمت کا خزینہ ہے قرآن، رحمت سے وحی وتنزیل کی ضرورت پر بھی پھر وہ بار بار مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر تم رسول اللہ ہو اور ہم واقعی حق کو جھٹلارہے ہیں تو ہم پر وہ عذاب کیوں نہیں لے آتے جس سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے تو اس کے جواب میں فرمایا کہ عذاب الٰہی کے کے لیے توایک وقت مقرر ہے اور وہ آکررہے گا آگے اس عذاب کی ہولناکی بیان فرمائی ہے العنكبوت
52 العنكبوت
53 العنكبوت
54 العنكبوت
55 العنكبوت
56 (٢٠) آیت نمبر ٥٦ میں ہجرت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جب عبادت الٰہی کے لیے حالات ناسازگار ہیں تو قوم وطن کوچھوڑ کر وہاں چلے جاؤ جہاں خدا پرستی کے لیے حالات سازگار ہوں۔ یہ خویش واربا اور وطن تو آخرایک دن چھوڑنا ہی ہے موت آئے گی تو سب کچھ دھرا رہ جائے گا اسکے بعد ان مومنین کی خوشخبری سنائی ہے جو مشکلات اور مصائب کے باوجود ایمان پر قائم رہے، اور فرمایا کہ ہجرت کرنے میں فکر روزگار سے بھی پریشان نہیں ہونا چاہیے اللہ ہی سب کو رزق پہنچانے والا ہے۔ العنكبوت
57 العنكبوت
58 العنكبوت
59 العنكبوت
60 العنكبوت
61 (٢١) آیت ٦١ تا ٦٣ میں مشرکین مکہ سے خطاب ہے اور قرآن مجید عموما توحید ربوبیت سے توحید الوہیت پراستدلال کرتا ہے چنانچہ یہاں بھی یہی فرمایا جب ساری نعمتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں اور تم اس کا اعتراف کرتے ہو تو ضروری ہے کہ شکر بھی اسی کا ادا کرو اور اسکی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرو۔ توحید اسلامی کے متعلق یہ ایک عالمگیر ضلالت ہے جس میں آج مختلف صورتوں کے اندر عالم اسلام گرفتار ہے لوگ بھول گئے ہیں کہ اسلام کا مایہ شرف محض اعتقادتوحید نہیں بلکہ تکمیل توحید ہے اور تکمیل توحید کی اصل اساس توحیدفی الصفات ہے مشرکین مکہ کبھی اللہ تعالیٰ کے منکر نہ تھے وہ کبھی یہ نہیں کہتے تھے کہ جن بتوں کی ہم پوجا کرتے ہیں یہی خالق ارض وسماوات ہیں خدا کے سوا کسی کو نفع ونقصان کا مالک تصور کرنا یا اللہ کی اس طرح تعظیم بجالانا سب شرک فی الصفات کی صورتیں ہیں اس لیے منافی توحید اور یہی حالت مشرکین عرب کی تھی۔ العنكبوت
62 العنكبوت
63 العنكبوت
64 العنكبوت
65 العنكبوت
66 العنكبوت
67 (٢٢) آیت ٦٧ میں کفار قریش کو متوجہ کیا کہ وہ حرم کے اندر امن کی زندگی گزار رہے ہیں حالانکہ مکہ کے آس پاس کے علاقوں میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے پھر اس کی نعمت کی ناشکری کررہے ہیں۔ قدرت الٰہی کا اس سے بڑا نشان کیا ہوگا کہ چند پتھروں سے چنی ہوئی چاردیواری (حرم کعبہ) کے گرد دعائے ابراہیمی نے ایک ایسا آہنی حصار کھینچ دیا کہ پانچ ہزار برس کے اندر انقلاب ارضیہ وسماویہ نے سمندروں کو جنگل اور انسانی آبادیوں کو سمندروں میں بدل دیا لیکن آج تک اس چاردیواری کی بنیادوں کو کوئی حادثہ اور کوئی مادی قوت صدمہ نہ پہنچاسکی یہاں تک کہ تاریخ عالم میں وہی ایک سرزمین ہے جس کی نسبت تاریخ دعوی کرسکتی ہے کہ اس کی مقدس اور محترم خاک آج تک غیرقوموں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے محفوظ ومصئون ہے۔ العنكبوت
68 العنكبوت
69 (٢٣) ہم بھی ان پر اپنی راہیں کھول دین گے یعنی نیکی کے راستے پر چلنے کی زیادہ توفیق دیں گے۔ ہدایت کے چار مرتبے ہوتے ہیں، یعنی ہدایت وجدان، ہدایت حواس، ہدایت عقل اور ہدایت وحی، پہلے دو مرتبوں میں انسان اور حیوان مشترک ہیں، جوہرعقل اس قوت کی ایک ترقی یافتہ حالت ہے جس نے حیوانات میں وجدان اور حواس کی روشنی پیدا کردی، عقل کی ہدایت نہ تو ہر حال میں کافی ہے اور نہ موثر۔ لہذا اللہ کی ربوبیت نے ایک چوتھے مرتبہ ہدایت کا سامان کردیا، یہی مرتبہ ہدایت ہے جسے وہ وحی ونبوت کی ہدایت سے موسوم کرتا ہے انسان کی روحانی سعادت وشقاوت وحی نبوت کی ہدایت سے ہی متعلق ہے۔ العنكبوت
0 الروم
1 الروم
2 الروم
3 الروم
4 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی عہد کی وسطی تنزیلات سے ہے اور اس میں بھی موضوع سخن رسالت ونبوت، معاد اور توحید ہیں تاہم اسلوب بیان مختلف ہے۔ سورۃ کی ابتداء میں ہی دوایسی پیش گوئیاں مذکور ہیں جو تاریخی طور پر قرآن مجید کی صداقت اور اس کے وحی الٰہی ہونے کی دلیل ہیں لہذا ان تاریخی واقعات کا جائزہ ضروری ہے جوان آیات سے تعلق رکھتے ہیں۔ قیصر روم ماریش شاہ ایران خسروپرویز کا محسن تھا جب اس کے خلاف بغاوت ہوئی اور فوکس نامی شخص نے روما پر قبضہ کرلیا تو شاہ ایران نے اپنے محسن کا انتقام لینے کے لیے روم پر حملہ کردیا اس حملہ کا آغاز ٦٠٣ ء میں ہوا، چند سال کے اندر اس نے معتد بہ علاقے فتح کرلیے، روم کے اعیان سلطنت نے جب دیکھا کہ فوکس ملک کو نہیں بچاسکتا تو وہ افریقہ کے گورنر سے مدد کے طالب ہوئے اور اس نے اپنے بیٹے ہر قل کو ایک طاقتور بیڑے کے ستھ قسطنطنیہ بھیج دیا اور فوکس کو معزول کرکے خود قیصر بن گیا، یہ واقعہ ٦١٠ ء کا ہے اور یہ وہی سال ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی طرف سے منصب نبوت پرسرفراز ہوئے اب اس جنگ نے مجوسیت اور مسیحیت کی جنگ کارنگ اختیار کرلیا اور یہودیوں نے بھی عیسائیت کو نیست ونابود کرنے کے لیے مجوسیوں کا ساتھ دیا، حتی کہ چھبیس ہزار یہودیوں نے خسروپرویز کی فوج میں بھرتی دی، اور مجوسیوں نے پیش قدمی کرکے بیت المقدس پر قبضہ کرلیا، عیسائیوں کا قتل ہوا، اور ان کاسب سے بڑا کلیسا (کنیسہ القیامہ) برباد کردیا گیا اور پھر آگے بڑھ کر جزیرہ نمائے سینا کے پورے علاقہ پر قابض ہو کر حدود ومصر تک پہنچ گئے۔ یہ وہ دور تھا جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کفار قریش کے درمیان معرکہ آرائی جاری تھی اور ٦١٥ ء میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہجرت کرکے حبش کی عیسائی سلنطت میں پناہ گزین تھی (جوروم کی حلیف تھی) مشرکین مکہ خوش تھے کہ ایران کے آتش پرست غالب ہورہے ہیں اور مذہب پرست عیسائی مغلوب ہورہے ہیں۔ ان حالات میں یہ سورۃ نازل ہوئی جس میں رومیوں کے غالب ہونے کی پیش گوئی کی گئی کہ یہ چند سال کے اندر پوری ہوگی حالانکہ اس وقت کے حالات کے پیش نظر کوئی شخص گمان تک نہ کرسکتا تھا کہ رومی غالب آسکتے ہیں اور اسی روز مسلمان بھی اللہ کی دی ہوئی فتح سے خوشی ہوں گے۔ چنانچہ ٩ سال کے اندر یہ پیش گوئی اس دن پوری ہوئی جبکہ ٦٢٤ ء میں مسلمانوں نے معرکہ بدر سرکیا، اسی روز رومیوں نے بھی اپنے تمام علاقے واگزار کرالیے تھے اور اب ایران کی سرزمین میدان جنگ بن چکی تھی اور ہر قل نے آذربائیجان میں گھس کر زرتشت کے مقام پیدائش کو تباہ کردیا جوایرانیوں کاسب سے بڑا آتش کدہ تھا اس کے بعد رومی فوجیں مسلسل آگے بڑھتی چلی گئیں اور ٦٢٧ ء کونینوی کی جنگ نے توایران کی کمر توڑ دی۔ اس کے بعد شاہان ایران کی قیام گاہ دستگرد کو تباہ کردیا اور رومی ایران کے دارالسلطنت طیفوس تک پہنچ گئے، حتی کہ ٦٢٨ ء میں خسرو پرویز کے قتل کے بعد اس کے بیٹے قباد ثانی نے ہر قل سے صلح کی اور یہی وہ سال ہے جس میں صلح حدیبیہ ہوئی، جس کو قرآن مجید نے فتح عظیم قرار دیا ہے۔ ویومئذ یفرح المومنون۔ وللہ الحمد۔ سورۃ کے خاتمہ میں وحی کی برکات اور ضرورت کی طرف اشارہ کیا ہے اور تمثیل کے پیرایہ میں سمجھایا ہے کہ جس طرح بارش سے مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے اسی طرح وحی ونبوت سے مردہ انسانیت کو زندگی حاصل ہوجاتی ہے گویا یہ بھی باران رحمت ہے جس کانزول انسانی زندگی کے لیے موجب خیروبرکت ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ گے تو خیروفلاح حاصل کرلوگے ورنہ اپنانقصان کرو گے اور تلافی کا کوئی موقع نہیں مل سکے گا۔ الروم
5 الروم
6 الروم
7 الروم
8 الروم
9 (٢) آیت نمبر ٩ قرآن مجید نے امم سابقہ واقوام پیش کا تذکرہ صرف اس لیے کیا ہے کہ قانون ہدایت وشقاوت کے نتائج پر انسان کو توجہ دلائے جب انہوں نے احکام الٰہیہ کو پس پشت ڈال دیا اور خدا کی حکومت میں رہ کر اس سے بغاوت اور سرکشی شروع کردی تو کوئی انسان سعی وتلاش فلاح ان کو ہلاکت وبربادی سے نہ بچاسکی، یہاں تک کہ آج ان کے آثار بھی دنیا میں باقی نہیں۔ مظاہر قدرت : قرآن حکیم نے جہاں کہیں قدرت الٰہی اور مظاہر خلقت کے عجائب وغرائب پر انسان کو توجہ دلائی ہے وہاں خاص طور پر رنگوں کے مظاہر متنوعہ اور عجائب مختلفہ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ اختلاف الوان کے متعلق جو کچھ شارحین اور عالمین علم نے تحقیق کیا ہے اس میں ابھی تحقیق مزید کی بہت بڑی گنجائش ہے موجودہ تحقیقات سے بھی ثابت ہوتا ہے اختلاف الوان کے اندر حکمت الٰہیہ نے بعض عجیب وغریب اسرار ومصالح رکھے ہیں آگے چل کر نہیں معلوم کہ کس قدر اسرار منکشف ہوں قرآن حکیم نے اسی زمانہ میں جبکہ انسان کی معلومات محدود تھیں اختلاف الوان کو اللہ کی قدرت وحکمت کی نشانی قرار دیا ہے پھر کیا یہ اسی کا قول نہیں جس کے فعل کے اسرار ومقاصد کی تحقیقات جاری ہے۔ اس کے بعد قرآن نے آیت چوبیس میں بارش اور مردہ زمین کی زندگی سے بعث بعدالموت پراستدلال کیا ہے۔ دنیاعالم کون وفساد ہے، یہاں ہر بننے کے ساتھ بگڑتا ہے کائنات عالم کا تمام بگاڑ بھی اسی لیے ہے کہ بناؤ اور خوبی کا فیضان ظہور میں آئے سمندر میں طوفان نہ اٹھتے تو میدانوں کو زندگی وشادابی کے لیے ایک قطرہ بارش میسر نہ آتا، اگر بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک نہ ہوتی تو باران رحمت کا فیضان نہ ہوتا اگر آتش فشاں پہاڑوں کی چوٹیاں نہ پھٹیں تو زمین کے اندر کھولتا ہوا مادہ اس کرہ کی سطح کو پارہ پارہ کردیتا تم بول اٹھو گے یہ مادہ پیدا ہی کیوں کیا لیکن جاننا چاہیے کہ اگر یہ مادہ نہ ہوتا تو زمین کی قوت نشوونما کا ایک ضروری عنصر مفقود ہوتا۔ الروم
10 الروم
11 (٣) قرآن مجید نے جابجا خلق بالحق سے قیامت پراستدلال کیا ہے آیت نمبر ١١ میں بھی اسی قسم کا استدلال ہے اور گزشتہ اقوام کی تاریخ کو بطور عبرت پیش کیا ہے اور قیامت کے دلائل قائم کیے ہیں۔ الروم
12 الروم
13 (٤) آیت نمبر ١٢، ١٣ میں صراحت کے ساتھ فرمادیا ہے کہ آج جو لوگ رسولوں کی تعلیم وہدایت کو قبول کرنے سے انکار کررہے ہیں اور آخرت کی جواب دہی کے منکر ہورہے ہیں قیامت کے دن جب ان پر گرفت ہوگی تو یہ حواس باختہ ہوجائیں گے اور ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا جن چیزوں کو یہ اللہ کے شریک ٹھہرارہے ہیں قیامت کے دن ان کی عبادت کا انکار کریں گے۔ الروم
14 الروم
15 الروم
16 الروم
17 الروم
18 (٥) پہلے مبدء ومعاد میں اپنی عظمت کا ذکر فرمایا اب آیت نمبر ١٧، ١٨ میں، ان اوقات میں اپنی تنزیہ وتحمید کا حکم دیا کیونکہ ان اوقات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کامل ظہور ہوتا ہے اور تسبیح قلب ولسان اور جوارح تینوں سے ہوتی ہے اور نماز بھی تینوں قسم کی تسبیح پر مشتمل ہے اس لیے علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ یہاں تسبیح سے مراد نماز پڑھنا ہے اور اس آیت میں پانچوں نمازوں کا ذکر آگیا ہے (رازی، ابن کثیر)۔ علماء نے ان اوقات میں عبادت کی تاثیر اور اس کافلسفہ بیان کیا ہے حجۃ اللہ اور احیاء غزالی میں اوقات کے اسرار وحکم پر خوب بحث کی گئی ہے، علاوہ ازیں، رات دن کا اختلاف صرف رات دن کا اختلاف نہیں بلکہ ہر دن مختلف حالتوں سے گزرتا ہے اور ہر رات مختلف منزلیں طے کرتی ہے اور ہر حالت ایک خاص طرح کی تاثیر رکھتی ہے اور ہر منزل کے لیے ایک خاص طرح کا منظر ہوتا ہے صبح طلوع ہوتی ہے اور اس کی ایک خاص تاثیر ہوتی ہے دن ڈھلتا ہے اور اس کا ایک خاص طرح کا منظر ہوتا ہے اوقات کایہ روزانہ کا اختلاف ہمارے احساسات کا مزہ بدلتا رہتا ہے اور یکسانیت کی افسردگی کی جگہ تبدیل وتجدید کی سرگرمی پیدا ہوتی ہے۔ الروم
19 الروم
20 (٦) آیت ٢٠ سے آخر رکوع تک جو نشانیاں بیان کی جارہی ہیں وہ ایک طرف تو حیات اخروی کے امکان وقوع پر دلالت کرتی ہیں اور دوسری طرف اللہ کے خالق ومالک اور مدبر کائنات ہونے پر اس لیے یہ رکوع اپنے ماقبل اور مابعد دونوں کے ساتھ مربوط ہے۔ ” قانون فطرت نے انسان کو دومختلف جنسوں (مردوعورت) میں تقسیم کردیا ہے پھر ان میں فعل وانفعال اور جذب وانجذاب کے کچھ ایسے وجدانی احساسات ودیعت کردیے کہ ہرجنس دوسری جنس سے ملنے کی قدرتی طلب رکھتی ہے تاکہ محبت اور سکون ہو، اور دوہستیوں کی باہمی رفاقت واشتراک سے زندگی کی محنتیں اور مشقتیں سہل وگوار ہوجائیں اللہ تعالیٰ نے تین چیزیں پیدا کیں جن کے بغیر انسان مطمئن اور خوشحال زندگی بسر نہیں کرسکتے (١) سکون (٢) مودت (٣) رحمت۔ سکون عربی میں ٹھہراؤ اور جماؤ کو کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ انسان کی طبعیت میں ایسا ٹھہراؤ اور جماؤ پیدا ہوجائے جسے زندگی کی بے چینیاں اور پریشانیاں ہلانہ سکیں، مودت سے مقصود محبت ہے قرآن مجید کے نزدیک ازدواجی زندگی کی تمام تر بنیاد محبت پر ہے لیکن یہ محبت کارشتہ پائیدار نہیں ہوسکتا اگر رحمت کا سورج دلوں پر نہ چمکے رحمت سے مقصد یہ ہے کہ میاں بیوی نہ صرف ایک دوسرے سے محبت کریں بلکہ ایک دوسرے کی خطائیں اور کمزوریاں نظر انداز کردیں رحمت کا جذبہ خود غرضانہ محبت کوفیاضانہ محبت میں بدل دیتا ہے خودغرضی میں انسان اپنی ہستی کو سامنے رکھتا ہے لیکن رحیمانہ محبت میں اپنی ہستی کو بھول جاتا ہے رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ دوسرے کی غلطیاں بخش دے غضب وانتقام کی پرچھائیں دل پر نہ پڑنے دے۔ الروم
21 الروم
22 الروم
23 الروم
24 الروم
25 الروم
26 الروم
27 الروم
28 (٧) یہاں تک تو آخرت اور توحید کے مشترکہ دلائل تھے، اب آیت نمبر ٢٨ سے خالص توحید کے دلائل بیان ہورہے ہیں (رازی)۔ مشرکین ایک طرف تو زمین و آسمان اور سب چیزوں کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ کو مانتے اور پھر اس کی مخلوق میں سے اس کے شریک بھی ٹھہراتے ان کے سامنے نذرونیاز پیش کرتے تو ان کے اس رویہ کی تمثیل بیان فرمائی ہے جس کا منشایہ ہے کہ خدا کے دیے ہوئے مال میں تمہارے غلام تو شریک قرار نہیں پاسکتے، تو پھر خدا کی پیدا کی ہوئی کائنات میں خدا کی پید اکردہ مخلوق کیسے شریک بن سکتی ہے؟۔ الروم
29 الروم
30 (٨) گزشتہ آیات میں توحید کے دلائل بیان کرنے کے بعد آیت ٣٠ سے بالواسطہ مسلمانوں کو حکم دیا کہ اب تمہیں بھی چاہیے کہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کرو، اور ہر طرف سے رخ پھیر کر دین اسلام کی پیروی کرو، یہی وہ فطرت ہے جس پر تمام لوگ پیدا کیے گئے ہیں احادیث میں اس کی تشریح مذکور ہے کہ ہر بچہ اسلامی فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر والدین اسے عیسائی، یہودی یا مجوسی بناڈالتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ یہ جتنی فرقہ بندیاں ہیں دین فطرت سے علیحدہ ہو کر بنائی گئی ہیں ہر گروہ اپنے خود ساختہ عقیدہ پر نازاں وفرحان ہے کہ اپنی غلطی کا امکان اس کے تصور میں نہیں آتا لیکن عقل اور فطرت انسانی کی شہادت صاف طور پر شرک کارد کرتی ہے۔ ” قرآن کہتا ہے یہی راہ عمل نوع انسانی کے لیے خدا کاٹھہرایا ہوا فطری دین ہے اور فطرت کے قوانین میں کبھی تبدیلی نہیں ہوسکتی یہی، الدین القیم، ہے یعنی سیدھا اور درست دین، جس میں کسی قسم کی خامی نہیں، یہی دین حنیف ہے جس کی دعوت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دی تھی، اس کا نام اصطلاح میں، الاسلام، ہے یعنی خدا کے ٹھہرائے ہوئے، قوانین کی فرمانبرداری “۔ الروم
31 الروم
32 الروم
33 الروم
34 الروم
35 الروم
36 الروم
37 الروم
38 (٩) آیت نمبر ٣٨ میں مسلمانوں کو حقوق معاشرہ کی طرف متوجہ کیا کہ جب یہ سب نعمتیں اللہ کی دی ہوئی ہیں تو تمہیں چاہیے کہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے قرابت داروں، مساکین اور مسافروں کے حقوق ادا کرو اور سود سے دولت کی افزائش نہیں ہوتی بلکہ زکوۃ ایک ایسا عمل ہے جس سے آخرت میں انسان کو دوہرا اجر ملے گا، اس کے بعد پھر سلسلہ کلام توحید وآخرت کی طرف پھر گیا ہے۔ الروم
39 الروم
40 الروم
41 (١٠) آیت نمبر ٤١ میں بتایا کہ عالم بروبحر میں جو فتنہ فساد بپا ہے اور آسمان کے نیچے جو ظلم وستم ڈھائے جارہے ہیں یہ سب شرک کی وجہ سے ہیں، جب سے لوگوں نے توحید (دین فطرت) کوچھوڑ کر شرک کی راہیں اختیار کی ہیں اس وقت سے یہ ظلم وستم بھی بڑھ گیا ہے اور شرک جیسے قولی واعتقادی ہوتا ہے اسی طرح شرک عملی بھی ہوتا ہے جو فسق وفجور اور معاصی کاروپ دھار لیتا ہے شروع سورۃ میں ایران وروم کی جس جنگ کا ذکر تھا اس آیت میں اس سے فتنہ وفساد کے اسباب کی طرف اشارہ فرمادیا ہے۔ الروم
42 الروم
43 الروم
44 الروم
45 الروم
46 الروم
47 (١١) دنیا میں جن لوگوں نے بھی اپنے پیغمبروں کو جھٹلایا ہے ان سے ہم نے انتقام لیا ہے اور مومنوں کی مدد کی ہے۔ آیت نمبر ٤٧ میں مومنین کو تسلی دی اور کفار کو تنبہ کی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی دوسرے پیغمبروں کی طرح اللہ تعالیٰ کے سچے پیغمبر ہیں پھر جیسے ان کے مخالفین سے انتقام لیا گیا اسی طرح آپ کے مخالفین سے بھی بدلہ لیاجائے گا۔ الروم
48 الروم
49 الروم
50 (١٢) اوپر ہی رسولوں کے بھیجنے کا تذکرہ تھا اور یہاں بارش بھیجنے کا اس میں اشارہ ہے کہ رسول کی آمد بھی انسان کی اخلاقی وروحانی زندگی کے لیے ویسی ہی رحمت ہے جیسے اس کی مادی ومعاشی زندگی کے لیے بارش کی آمد۔ بارش سے اگر زمین زندہ ہوتی ہے اور لوگوں کی مادی زندگی میں انقلاب کا پیش خیمہ ہوتی ہے تو رسول کی آمد سے بھی انسانوں کے دلوں کی کھیتیاں سرسبز ہوجاتی ہیں اس سے نبوت کی ضرورت پراستدلال ہے کہ جس نے تمہاری جسمانی ضروریات کابندوبست کیا ہے اس کی ربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ تمہاری روحانی اصلاح کا بھی بندوبست کرے، اور آیت کریمہ ٥٠ میں، انظر، کا کلمہ اللہ تعالیٰ کی قدرت عظیمہ پرتنبیہ کے لیے ہے۔ ” دنیا میں صرف یہی نہیں کہ پانی موجود ہے بلکہ ایک خاص نظام وترتیب سے موجود ہے کیوں یہ سب کچھ ایساہی ہوا؟ کیوں ایسا نہ ہوا؟ کہ پانی موجود ہوتا مگر موجودہ انتظام اور ترتیب سے نہ ہوتا؟ قرآن کہتا ہے اس لیے کہ کائنات ہستی میں ربوبیت کارفرما ہے اور ربوبیت کا مقتضاء یہی ہے کہ پانی اسی ترتیب سے بنے اور اسی ترتیب ومقدار سے تقسیم ہو، یہ رحمت وحکمت تھی جس نے پانی پیدا کیا مگر یہ ربوبیت ہے جو اسے اس طرح کام میں لائی کہ پرورش اور رکھوالی کی تمام ضرورتیں پوری ہوگئیں“۔ الروم
51 الروم
52 الروم
53 الروم
54 (١٣) آیت ٥٤ میں انسانی زندگی کے ادوار ثلاثلہ کی طرف اشارہ ہے یعنی بچپن، جوانی اور بڑھاپا، اور یہ ساری حالتیں اسی کی پیدا کردہ ہیں اور یہ اسی کے علم وقدرت کے کرشمے ہیں۔ اوپر دلائل آفاق کا ذکر تھا اب یہاں دلائل نفس کی طرف اشارہ فرمادیا ہے (رازی)۔ ” قوموں کی زندگی کا بھی یہی حال ہے کہ قوم پیدا ہوتی ہے بچپنے کا عہد بے فکری سے کاٹ کرجوانی کی طاقت آزمائیوں میں قدم رکھتی ہے یہ وقت کاروبار زندگی کا اصلی اور قومی صحت وتندرستی کا عہد نشاط ہوتا ہے جہاں جاتی ہے اوج واقبال اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جس طرف قدم اٹھاتی ہے دنیا اس کے استقبال کے لیے دوڑتی ہے اس کے بعد جوزمانہ آتا ہے اسے پیری وصدعیب کا زمانہ سمجھیے، طرح طرح کے اخلاقی وتمدنی عوارض پیدا ہونے لگتے ہیں جمعیت واتحاد کاشیرازہ بکھر جاتا ہے اجتماعی قوتوں کا اضمحلال نظام ملت کو کمزور کردیتا ہے “۔ الروم
55 (١٤) آخرت کی زندگی انسان پر طاری ہوگی تو وہ تمام مدت جو مرنے کے بعد سے نشاۃ ثانیہ تک گزرتی ہے ایسی محسوس ہوگی جیسے ایک بہت قلیل مدت کا درمیانی وقفہ گزرا ہو، یہ حقیقت قرآن نے مختلف تعبیرات میں بیان کی ہے۔ الروم
56 الروم
57 الروم
58 الروم
59 الروم
60 (١٥) سورۃ کی آخری آیت میں پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر واستقامت اور حوصلہ مندی سے کام لینے کی تلقین کی گئی ہے اور حکم دیا ہے کہ دعوت واصلاح کے کام میں لگے رہیے، اللہ تعالیٰ نے جو فتح ونصرت کا وعدہ فرمایا ہے وہ پورا ہوکررہے گا، اس لیے آپ ان کی تضحیک واستہزاء کی وجہ سے اپنے مقام سے جنبش نہ کریں، گویا دعوت واصلاح کا کام کرنے والوں کو دل برداشتہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ صبر وتحمل سے تکالیف کو برادشت کرنا چاہیے۔ الروم
0 لقمان
1 لقمان
2 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور اس کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ العنکبوت اور یہ دونوں سورتیں ایک ہی دور میں نازل ہوئی ہیں۔ اس سورۃ میں شرک کی تردید اور توحید کی طرف دلائل کے ساتھ دعوت دی گئی اور آثار کائنات سے اس پر استدلال کیا گیا ہے حضرت لقمان کے قصہ سے شہادت پیش کی گئی ہے کہ وہ بھی توحید کے علمبردار تھے اور انہوں نے اپنے پند ونصائح میں شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے یہ قصہ غالبا اس لیے پیش کیا گیا ہے کہ کفار قریش میں سے بعض لوگ حضرت لقمان کی پند وحکمت کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں پیش کرتے اور کہتے کہ اس قسم کی باتیں تو ہم بھی کرسکتے ہیں۔ سورۃ کی ابتدا میں ہی قرآن مجید کے کتاب حکمت اور ہدایت و رحمت ہونے پر زور دیا ہے مگر اس سے فائدہ وہی لوگ اٹھاسکتے ہیں جوحسن کردار کا طریقہ اختیار کرتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے بالمقابل وہ لوگ بھی ہیں جو، لہو الحدیث، کے دلدادہ بنے ہوئے ہیں اور یہ لفظ اپنے وسیع ترمفہوم کے اعتبار سے گانا بجانا افسانے، ناول اور ہرقسم کی فحاشی کوشامل ہے، ایک روایت میں ہے کہ نضربن حارث عراق گیا اور وہاں سے شاہان عجم کے قصے اور رستم واسفند یار کی داستانیں لاکرقصہ گوئی کی محفلیں لگا کر قرآن کا مقابلہ کرنے لگا۔ ” قرآن کریم میں ہر جگہ اسلام کے ساتھ منکرین اسلام کے لیے، ولی، اور اعراض، کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ولی عن الشئی، کے معنی اعراض کے ہیں، تولی عنہ ای اعراض عنہ، ہر جگہ پاؤ گے یعنی کسی چیز کی طرف سے منہ موڑلینا اور گردن پھیر لینا۔ لقمان
3 لقمان
4 لقمان
5 لقمان
6 لقمان
7 لقمان
8 لقمان
9 لقمان
10 (٢) اوپر کی تمہید کے بعد اب آیت نمبر ١٠ سے اصل مقصد، یعنی شرک کی تردید اور توحید کی دعوت کا آغاز ہے عالم، افلاک، تاروں اور سیاروں کایہ نظام غیر مرئی سہاروں سے قائم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے ان چیزوں کو فضا میں روک رکھا ہے اور زمین پر پہاڑ ڈال دیے تاکہ اس میں توازن قائم رہے، اور اسے نباتات کے قابل بنایا اب تم ہی بتاؤ کہ اللہ کے سوا جن چیزوں کی تم پوجا کرتے ہو، کیا ان کے تخلیقی کارنامے دکھاسکتے ہو؟ اور اگر ایسا نہیں ہے تو تم کیوں بہک رہے ہو اور ان مورتیوں کو اللہ کا شریک ٹھہرارہے ہو؟۔ لقمان
11 لقمان
12 (٣) لقمان کی شخصیت ایک حکیم دانا کی حیثیت سے مشہور ومعروف تھی، اہل عرب کے پڑھے لکھے لوگوں کے پاس، صحیفہ لقمان، کے نام سے ایک مجموعہ بھی تھا، روایات میں ہے کہ ہجرت سے تین سال پہلے مدینہ کا پہلا شخص جونبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متاثر ہوا وہ سوید بن صامت تھا وہ حج پر گیا اور اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خطابات سنے تو کہنے لگا کہ ایسے اقوال میرے پاس بھی موجود ہیں اور مجلہ لقمان ہے اس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے پاس اس سے بہتر کلام ہے اور آپ نے اسے قرآن پڑھ کرسنایا۔ لقمان کی شخصیت کے بارے میں مورخین کے اقوال مختلف ہیں بعض لوگ لقمان کو قوم عاد کافرد اور یمن کا بادشاہ قرار دیتے ہیں قوم عاد سے جو لوگ حضرت ہود کے ساتھ بچ گئے تھے لقمان انہی کی نسل میں سے تھے لیکن بعض صحابہ وتابعین نے کہا ہے کہ وہ ایک حبشی غلام تھے لیکن ان کی زبان عربی تھی کیونکہ اصل مدین کے رہنے والا تھے، لقمان حکیم کے نام سے بعض مجموعے بھی شائع ہوچکے ہیں۔ لقمان
13 لقمان
14 لقمان
15 لقمان
16 لقمان
17 لقمان
18 لقمان
19 لقمان
20 لقمان
21 (٤) آسمان وزمین کی تمام چیزیں انسان کی مسخر ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسے ضابطوں کا پابند کردیا ہے اور انسان ان سے فائدہ اٹھاسکتا ہے اس طرح انسان اللہ کی ظاہری اور باطنی نعمتوں میں ڈوبا ہوا ہے ظاہر نعمتوں سے مراد مادی اور حسی نعمتیں ہیں اور باطنی نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو تاحال انسان پر مخفی ہیں لیکن پھر بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کی وحدانیت اور اس کے شئون وصفات میں جھگڑا کرتے ہیں جس کی بنیاد کسی ہدایت یاکتابی دلیل پر نہیں ہے بلکہ باپ دادا کی اندھی تقلید ہے۔ لقمان
22 لقمان
23 لقمان
24 لقمان
25 (٥) قرآن نے توحید کی طرف دعوت دینے اور کفر وشرک کی تردید کے سلسلہ میں مکرر بیان فرمایا ہے کہ جب آسمان وزمین اور کائنات کا خالق اللہ ہے اور مالک بھی ہے تو معبود بھی وہی ہے، یہ عالمگیر انسانی گمراہی ہے کہ وہ خالق ارض وسما تو اللہ تعالیٰ کو مانتا ہے اور عبادت اللہ کے سوا دوسروں کی کرتا ہے انہی کو حاجت رواسمجھتا ہے اور سورج چاند اور سیاروں کے سامنے سجدہ کرتا ہے۔ لقمان
26 لقمان
27 لقمان
28 لقمان
29 لقمان
30 لقمان
31 لقمان
32 (٦) انسان اگر اپنے بحری سفر پر غوروفکر کرے تو صبر وشکر کے بہت سے دلائل اخذ کرسکتا ہے دیکھیے جب یہ لوگ طوفانی موجوں کے چکر میں پھنس جاتے ہیں تو بڑی عقیدت مندی اور اخلاص سے خدا کو پکارتے ہیں لیکن جب مصیبت ٹل جاتی ہے تو کچھلوگ ایسے ہیں جو اعتدال کی راہ پر قائم رہتے ہیں ورنہ اکثر تو اسے خدا کا فضل وکرم نہیں سمجھتے بلکہ اپنے ٹھہرائے ہوئے آستانوں پر جھکنے لگتے ہیں۔ لقمان
33 (٧) آیت ٣٣ میں اصل عظیم کی طرف اشارہ ہے کہ آخرت کی سزائیں دیا کی سزاؤں کی طرح نہیں ہیں کہ لڑکا اپنے باپ، یا باپ اپنے بیٹے کی مدد سے رہائی حاصل کرے بلکہ ہر انسان اپنے نفس کے لیے جواب دہ ہوگا۔ لقمان
34 (٨) کفار مکہ قیامت کا ذکر سن کرباربار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کرتے کہ آخر وہ گھڑی کب آئے گی؟ تو اس کے جواب میں فرمایا اور مزید چار جملے بڑھادیے کہ ان چیزوں کاجب یقینی علم انسان کو حاصل نہیں ہے تو اس انقلابی حادثے کا علم کیسے ہوسکتا ہے جس سے کائنات کاموجود نظام بالکل ہی تباوہ وبرباد ہوجائے گا؟ اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ ہی علیم وخبیر ہے۔ احادیث میں ان پانچ چیزوں کو مفاتیح الغیب سے تعبیر کیا گیا ہے اور حضرت جبرائیل نے جب ایک سائل کی حیثیت سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قیامت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا مسئول (یعن مجھ) کو بھی اس کے متعلق سائل سے زیادہ علم نہیں ہے ہاں اس کی میں علامات بتاسکتا ہوں اس کے بعد آپ نے علامات قیامت بیان فرمائیں۔ لقمان
0 السجدة
1 السجدة
2 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور وسطی عہد کی تنزیلات سے ہے اس عہد کی سورتوں میں توحید ورسالت اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے اور ان کے متعلق لوگوں کے شبہات کو رفع کیا گیا ہے۔ وحی رسالت کی حقانیت، کائنات میں آفاقی وانفسی دلائل سے توحید پر استدلال کیا ہے اور آثار کائنات کو دوبارہ زندگی پر بطور استدلال پیش کیا خصوصا عالم آخرت میں جزاوسزا کا منظر بیان کرکے لوگوں کو برے انجام سے ڈرایا گیا ہے اور گزشتہ اقوام کے وقائع سے عبرت حاصل کرنے کی طرف متوجہ کیا ہے اور خاتمہ کلام پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے اور کفار کو تنبیہ کی ہے کہ آخری فیصلے کے دن کا انتظار کرو وہ ضرور آکررہے گا۔ ” کائنات ہستی کے اسرار وغوامض بے شمار ہیں لیکن روح حیوانی کاجوہر ادراک زندگی کاسب سے زیادہ لاینحل عقدہ ہے حیوانات میں کیڑے مکوڑے تک ہر طرح کا احساس وادراک رکھتے ہیں اور انسانی دماغ کے نہاں خانہ میں عقل وتفکر کا چراغ روشن ہے چیونٹی کو دیکھو اس کے دماغ کا حجم سوئی کی نوک سے شاید ہی کچھ زیادہ ہوگا لیکن مادے کے اس حقیر ترین عصبی ذرے میں بھی احساس وادراک، محنت واستقلال، ترتیب وتناسب، نظم وضبط اور صنعت واختراع کی ساری قوتیں مخفی ہوتی ہیں، شہد کی مکھی کی کارفرمائیاں ہر روز تمہاری نظروں سے گزرتی رہتی ہیں کون ہے جس نے ایک چھوٹی سی مکھی میں تعمیر وتحسین کی ایسی منتظم قوت پیدا کردی۔ قرآن کہتا ہے یہ اس لیے کہ رحمت کا مقتضا جمال تھا اور ضروری تھا کہ جس طرح اس نے جمال ظاہری سے دنیا آراستہ کردی ہے اسی طرح جمال معنوی کی آسائشوں سے بھی اسے مالامال کردے۔ السجدة
3 (٢) گوآنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل چند پیغمبر اہل عرب میں گزرے تھے جیسے حضرت ہود، حضرت صالح اور پھر حضرت ابراہیم وحضرت اسماعیل (جن کے دین پر ہونے کے کفار قریش مدعی تھے) اور حضرت شعیب علیہم السلام۔ مگر چونکہ ان پر بہت لمبا عرصہ گزرچکا تھا اس لیے قرآن نے، ما اتاھم من نذیر من قبلک، کہہ دیا ہے یعنی آپ سے پہلے قریبی دور میں ان کے پاس کوئی پیغمبر نہیں آیا۔ السجدة
4 (٣) اب آیت ٤ سے توحید کا بیان ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کا عرش پر ہونابیان کیا ہے جو بہت سی احادیث اور آثار سے ثابت ہے حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس پر سلف کا اجماع ہے حافظ ابن قیم، اغاثہ کبیر، میں لکھتے ہیں کہ ارسطو سے پہلے تمام فلاسفہ حدوث عالم کے قائل تھے اور یہ کہ صانع عالم موجود اور عام مخلوق سے الگ، الغرض تمام اہل شریعت اور عقائد اس پر متفق چلے آتے ہیں صرف معتزلہ نے اس کی نفی کی ہے اور متاخرین اشاعرہ نے ان کے بالتبع آیات، استوی علی العرش، کی تاویل کی ہے اور قرآن نے آسمان وزمین کی خلق اور پھر انسان کی خلق سے اللہ تعالیٰ کے خالق ومالک اور مدبر کائنات ہونے پر استدلال کیا ہے۔ السجدة
5 السجدة
6 السجدة
7 السجدة
8 السجدة
9 السجدة
10 (٤) رسالت وتوحید کے بعد آخرت پر ان کے اعتراض کی تردید کی اور کفار یہ بات انکار وتعجب کے انداز سے کہتے مگر وہ اس بات پر غور نہ کرتے کہ موت تو روح کے جسم سے الگ ہونے کا نام ہے اس سے انسان معدوم نہیں ہوجاتا بلکہ روح انسانی دوسرے مقام پر منتقل ہوجاتی ہے اور اسے آخرت میں نیاجنم دے دیا جائے گا اور وہ جزا وسزا سے دوچار ہوگی۔ السجدة
11 السجدة
12 السجدة
13 السجدة
14 السجدة
15 السجدة
16 السجدة
17 السجدة
18 (٥) خدا کے حضور میں مجرمین کی پیشی اور اعتراف جرم۔ ان لوگوں نے دنیا کے عیش میں گم ہو کر اس بات کو بھلادیا تھا کہ اپنے رب کے سامنے بھی جانا ہے۔ ان کے بالمقابل ایک دوسراگروہ ہے جو رات بھر عبادت میں مصروف رہتا ہے وہ خوف اور طمع کی حالت میں اپنے رب کو پکارتے رہتے ہیں قرآن کہتا ہے یہ دونوں گروہ برابر نہیں ہوسکتے نہ دنیا میں اپنے طرز فکر وعمل کے اعتبار سے یکساں ہوسکتے ہیں اور نہ آخرت میں ان کے ساتھ یکساں معاملہ ہوگا بلکہ فریق فی الجنۃ وفریق فی السعیر۔ السجدة
19 السجدة
20 السجدة
21 السجدة
22 السجدة
23 (٦) آیت ٢٣ میں منکرین رسالت کو مخاطب کیا ہے جو قرآن کے وحی ہونے کا انکار رہے تھے اور کہہ رہے تھے یہ قرآن اس (پیغمبر) نے خود گھڑ لیا ہے۔ اس کے جواب میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت کو بطور شاہد پیش کیا جس کے کفار مکہ معترف تھے بلکہ کہا کرتے تھے، لولا اوتی مثل ما اوتی موسی۔ حضرت موسیٰ کو جو کتاب دی گئی وہ بنی اسرائیل کے لیے ہدایت تھی اور اس پر عمل کرنے اور صبر واستقامت کا مظاہرہ کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی پیشوائی مل گئی، پھر جب انہوں نے باہم اختلاف اور فرقہ بندی کرکے تورات کے احکام سے روگردانی کی تو وہ ایمان ویقین کی دولت سے محروم ہوگئے اور ذلت ونکبت میں گرفتار ہوگئے۔ السجدة
24 السجدة
25 السجدة
26 (٧) آیت ٢٦ میں کفار قریش کی تنبیہ کی ہے کہ تاریخ کے مسلسل عمل اور تجربے سے سبق حاصل کرو جس قوم نے بھی اللہ کے رسول کو جھٹلایا ہے وہ دنیا سے مٹ گئی، آج تم اپنے پیغمبر سے بار بار عذاب کا مطالبہ کرتے ہو، لیکن یاد رکھو کہ جب وہ عذاب آئے گا تو پھر تم کو سنبھلنے کا موقع نصیب نہیں ہوگا اور اس وقت ایمان لانا لاحاصل ہوگا لہذا اے پیغمبر آپ ان کی تباہی کا کچھ دیرانتظار کریں جیسا کہ یہ لوگ تمہاری تباہی کے منتظر ہیں۔ السجدة
27 السجدة
28 السجدة
29 السجدة
30 السجدة
0 الأحزاب
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ مدنی ہے اور اس کے مضامین جن واقعات پر مشتمل ہیں یعنی غزوہ احزاب، غزوہ بنی قریظہ اور حضرت زینب (رض) کا نکاح، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ٥ ہجری کے آخر میں اس کانزول ہے۔ زینب (رض) کو جب طلاق ہوگئی تو اللہ کی طرف سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ جاہلی رسم کو توڑنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ زینب سے آپ نکاح کرلیں، مگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مخالفین کے پروپیگنڈہ کی وجہ سے اس میں کچھ تامل فرمارہے تھے کیونکہ زینب اس سے قبل آپ کے متبنی (منہ بولے بیٹے) حضرت زید کے نکاح میں تھیں جنہوں نے آپ کو نااتفاقی کی بنا پر طلاق دے دی تھی آغاز سورۃ میں اسی اندیشہ کو رفع کرنا مقصود ہے یعنی ایک پیغمبر کا منصب یہ ہے کہ وہ بلاتامل وحی کی پیروی کرے اللہ پر توکل کرے اور مخالفین کے طعن وتشنیع کی پروا نہ کرے قرآن نے بتایا کہ جس طرح ایک شخص کے سینہ میں دو دل نہیں ہوسکتے اور بیوی کو ماں کہنے (یعنی ظہار کرنے) سے وہ حقیقی ماں نہیں بن سکتی اسی طرح منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں بن سکتا لہذا مخالفین کاپروپیگنڈہ محض حسد وبغض پر مبنی ہے اور اس کی کوئی قانونی یا اخلاقی اساس نہیں ہے۔ الأحزاب
2 الأحزاب
3 الأحزاب
4 الأحزاب
5 (٢) حضرت زید بن حارثہ کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متبنی بنایا تھا اور اسوقت کے جاہلی رواج کے مطابق لوگ انہیں زید بن محمد کہہ کرپکارتے تھے اللہ نے اصلاح فرمائی اور حکم دیا کہ منہ بولے بیٹوں کو ان کے حقیقی باپوں کی طرف نسبت کرکے پکارو تاکہ نسب میں اختلاط نہ ہو۔ چنانچہ اس کے بعد لوگ ان کو زید بن حارثہ کہہ کرپکارنے لگے جیسا کہ ترمذی اور نسائی اور صحیحین میں حضرت عبداللہ بن عمر سے ایک روایت منقول ہے، آیت نمبر ٥ میں اسی کا حکم بیان ہے۔ الأحزاب
6 (٣) آیت نمبر ٦ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حقوق واحترام کا بیان ہے کہ آپ مسلمانوں کے لیے ماں باپ اور اولاد سے بھی بڑھ کر عزیز ہیں اسی طرح ان کے لیے وہ ان کی اپنی ذات سے بھی بڑھ کر خیرخواہ اور شفیق ہیں بنابریں ایک امتی کایہ فرض ہے کہ اپنے والدین اور اولاد سے بھی بڑھ کر آنحضرت کی تعظیم اور محبت بجالائے۔ صحیین کی ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا، لایومن احدکم حتی اکون احب الیہ من ولدہ ووالدہ والناس اجمعین، کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اس کے والدین اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں۔ اسی بنا پر ازواج مطہرات کو حرمت وتعظیم میں مومنوں کی مائیں قرار دیا ہے اور ان کی تعظیم کو واجب قرار دیا ہے اور ان کے ساتھ نکاح حرام۔ تاہم ازواج مطہرات پر بھی یہ واجب کردیا ہے کہ غیرمحرموں سے پردہ کریں مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دختر ان سے نکاح جائز ہے۔ الأحزاب
7 الأحزاب
8 (٤) آیت ٧ میں پانچ پیغمبروں کا ذکر ہے، یہ اولوالعزم پیغمبر کہلاتے ہیں اور یہ عہد وہی ہے جو سورۃ الشوری کی آیت ١٣ میں مذکور ہے کہ اقامت دین کے لیے سعی کرنا اور فرقہ بندیوں کو ختم کرکے متفقہ طور پر اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لینا لہذا اس آیت کو سمجھنے کے لیے سورۃ الشوری کی آیت کو سامنے رکھا جائے۔ الأحزاب
9 الأحزاب
10 الأحزاب
11 (٥) آیات ٩ تا ٢٧ غزوہ احزاب اور غزوہ بنی قریظہ کے واقعات پر مشتمل ہیں لہذا ان آیات کو سمجھنے کے لیے ان غزوات کی تفصیلات کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ غزوہ احزاب : جنگ احد (٣ ھ) میں چند تیراندازوں کی غلطی کی وجہ سے لشکر اسلام کو جوعارضی شکست کا سامنا کرناپڑا تھا اس کی وجہ سے مخالفین کے حوصلے بلند ہوگئے تھے چنانچہ مدینہ منورہ کی ریاست کو اردگرد سے بہت سے خطرات نے گھیر لیا تھا مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عزم وتدبر اور صحابہ کرام کے جذبہ فداکاری کی وجہ سے حالات کارخ تبدیل ہوگیا۔ اسباب : جب بنی نضیر نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شہید کرنے کی کوشش کی تو اس راز کے فاش ہوجانے پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مدینہ سے جلاوطن کردیا اور وہ لوگ خیبر، وادی القری اور شام میں چلے گئے اسی طرح اردگرد کے قبائل کے خطراب کو بھی آپ نے دبادیا، اس طرح سارے عرب میں اسلامی ریاست کارعب بیٹھ گیا اور لوگوں نے سمجھ لیا کہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت بڑے لشکر کی ضرورت ہے ایک دو قبیلے مل کر ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ بنی نضیر کے لیڈر جوجلاوطن ہو کر شام اور خیبر میں چلے گئے تھے انہوں نے سارے عرب میں چکر لگایا اور قریش سمیت بہت سے قبائل کو اس بات پر آمادہ کیا کہ ایک بڑی جمعیت کے ساتھ مدینہ پر حملہ کیا جائے چنانچہ پانچ ہجری میں ایک بہت بڑی جمعیت جس کی تعداد دس بارہ ہزار تھی مدینہ پر حملہ آور ہونے کے لیے روانہ ہوئی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب معلوم ہوا کہ تمام مخالفین مل کر مدینہ منورہ پر حملہ آور ہورہے ہیں تو آپ نے مدینہ کے شمال غربی جانب ایک خندق کھدوالی اور کوہ سلع کو پشت پر لے کر تین ہزار فوج کے ساتھ خندق کی آڑ میں مدافعت کے لیے تیار ہوگئے جس کی وجہ سے لشکر کفار کو طویل محاصرہ کے لیے تیار ہوناپڑا، اس اثنا میں کفار نے بنو قریظہ یہودی قبیلے کو غداری پر آمادہ کیا جو مدینہ کے جنوب مشرق میں آباد تھے حالانکہ ان سے مسلمانوں کا حلیفانہ معاہدہ تھا اور اس معاہدہ کی رو سے انہیں مسلمانوں کا ساتھ دینا چاہیے تھا ادھر منافقین نے لشکر اسلام میں بددلی پھیلانی شروع کردی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب ہی اطلاع ہوئی تو پہلے بنی غطفان سے صلح کی بات چیت کی، مگر جب انہوں نے صلح کے لیے کڑی شرطیں پیش کی تو یہ تدبیر سامنے آئی کہ کسی طرح سے بنو قریظہ اور کفار کے لشکر کے مابین پھوٹ ڈال دی جائے۔ چنانچہ نعیم بن مسعود (رضی اللہ عنہ) کو اس مہم پر مقرر کیا گیا اور وہ کفار سے بنوقریظہ کو علیحدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے اس طرح وہ خطرہ ٹل گیا جو بنوقریظہ کے پیچھے سے حملہ کرنے کی صورت میں نظرآرہا تھا اور کفار پچیس دین کے محاصرہ کے بعد اچانک طوفان باد کی وجہ سے میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ غزوہ خندق سے فارغ ہونے کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنوقریظہ پر ان کی غداری کی بنا پر حملہ کردیا اور انہیں محصور کرکے بالآخر ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا جس سے بہت ساسامان حرب مسلمانوں کے ہاتھ آیا اور یہودی خطرہ سے ہمیشہ کے لیے مامون ہوگئے آیات میں اسی واقعہ کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے اور منافقین کے کردار پر تنقید کی گئی اور مومنین کے کردار پر ان کی تعریف کی گئی ہے۔ الأحزاب
12 الأحزاب
13 الأحزاب
14 الأحزاب
15 الأحزاب
16 الأحزاب
17 الأحزاب
18 الأحزاب
19 الأحزاب
20 الأحزاب
21 (٥)۔ (ب) آیت ٢١ میں پیچھے رہنے والوں پر عتاب ہے اور جنگ کے موقع پر بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عملی زندگی کواسوہ قرار دیا ہے علماء نے لکھا ہے کہ یہ آیت گوجہاد کے باب میں نازل ہوئی ہے لیکن یہ ہر موقع ومحل کے لیے اور مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے کسی معاملے میں اپنے آپ کو رسول اللہ کاپیروی سے مستثنی سمجھیں۔ ” قرآن کریم میں ایک بڑا حصہ انبیائے سابقین کے قصص واعمال کا ہے اور اس کا عام انداز بیان یہ ہے کہ وہ پہلے ایک خاص تعلیم پیش کرتا ہے پھر اس کی صداقت کے لیے امم گزشتہ اور اعمال انبیائے سابقہ کے حالات وواقعات سے ایک خطابی استدلال پیش کرتا ہے لیکن تمام قرآن میں اگر مسلمانوں کے سامنے کوئی کامل زندگی کے ازسرتاپا اعمال بطور نمونہ پیش کیے گئے ہیں ان کے اتباع کی دعوت دی گئی ہے تو وہ صرف دو نمونے ہیں خوش شریعت اسلامیہ کے داعی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم اور ملت حنیفی کے داعی حضرت خلیل اللہ علی نبینا وعلیہ السلام، اسوہ کا صحیح مطلب سمجھ لینا چاہیے، امام راغب، مفردات میں لکھتے ہیں : اسوہ مثل قدوہ، کے ہے اور قدوہ اس حالت کو کہتے ہیں جسے کسی دوسرے انسان میں دیکھ کر انسان اس کی پیروی کرے پس اسوہ سے مقصود پیش نظر حالت ہے جس کی پیروی اور متابعت کی جائے“۔ دراصل یہ باب، اسایاسر نصر، کا مصدر ہے جس کے اصل معنی زخم کی مرہم پٹی کرنا ہے قرآن مجید نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع اور پیروی کواسوہ قرار دے کراشارہ فرمایا ہے کہ تمہارے تمام دکھوں اور دردوں کا علاج آپ کی زندگی میں علی وجہ الاتم موجود ہے بشرطیکہ تمہارے دلوں میں اللہ کا خوف اور یوم آخرت پر ایمان ہو اور اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرنے والے بن جاؤ۔ الأحزاب
22 الأحزاب
23 الأحزاب
24 الأحزاب
25 الأحزاب
26 الأحزاب
27 الأحزاب
28 الأحزاب
29 (٦) جنگ احزاب اور بنی قریظہ کے متصل زمانہ میں ہی خانگی طور پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ مشکل پیش آئی کہ ازواج مطہرات نے کچھ زیب وزینت اور زیوارت کے مطالبے شروع کردیے چنانچہ ایک دن آپ اس مخصمے میں ازواج مطہرات کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر تشریف لائے اور انہوں نے واقعات سے باخبر ہو کر اپنی صاحبزادیوں کو زجر وتوبیح شروع کردی کہ تم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں پریشان کررہی ہو؟ ایک طرف کفر واسلام کی جنگیں ہورہی تھیں اور دوسری طرف گھریلو پریشانی سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہایت ملول ہورہے اس پر آیات ٢٨ تا ٣٥ نازل ہوئیں، جن میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو اختیار دیا گیا کہ اگر اسی حالت پر قانع رہ کر آپ کے حرم میں رہنا چاہتی ہیں تو، فبھا، ورنہ انہیں رخصت کردیا جائے گا اس قسم کے الفاظ کواسلامی فقہ میں، تخیر، کا جاتا ہے جس کے معنی تفویض طلاق کے ہیں جس کے احکام سنت میں مذکور ہیں اور محدثین نے اس کی فقہی اہمیت کو واضح کیا ہے، اس وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حرم میں غالبا پانچ بیویاں تھیں، حضرت سودہ، حضرت عائشہ، حضرت حفصہ، حضرت ام سلمہ، اور غالبا حضرت زینب۔ ان آیات کے نزول کے بعد سب سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ کو بلایا اور انہیں اختیار دیا لیکن انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کو پسند فرمایا اور طلاق لینے سے انکار کردیا، پھر اسی طرح پر دوسری ازواج مطہرات نے کیا یہ نزاع ختم ہوگیا پھر ساتھ ہی قرآن مجید نے پردہ کے احکام بیان فرمادیے اور ازواج مطہرات امہات المومنین کو اس سلسلہ میں خصوصی ہدایات دیں۔ ” ازواج مطہرات نے توسیع نفقہ اور طلب اسباب کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پرزورڈالا اور اس مطالبہ میں تمام بیبیاں متفق ہوگئی تھیں حتی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایلاء کرکے ایک ماہ کے لیے ان سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ ایک مرتبہ ہمیشہ کے لیے فیصلہ ہوجائے اور دونوں راستے ان کے آگے پیش کردیے جائیں یاتواللہ اور اس کے رسول کی راہ میں آرام وراحت دنیوی کو بالکل خیر وباد کہیں یا دنیا کے نعائم ولذیذ کے لیے اللہ کے رسول کی رفاقت ترک کردیں ازواج کا متفقہ فیصلہ ہی تھا کہ انہوں نے ہر چیز پر اللہ اور اس کے رسول کو ترجیح دی “۔ اس حکم کے نزول کی بہت سی مصلحتیں پوشیدہ تھی یہ ازواج مطہرات کے لیے بہت بڑی آزمائش تھی دنیا کو دکھلانا تھا کہ جن لوگوں کو اللہ کے رسول نے اپنی زندگی میں شریک کیا ہے ان کے تزکیہ باطن اور خدا پرستی کا کیا حال ہے؟ حکم اگرچہ صرف ازواج مطہرات کے متعلق تھا مگر دراصل اس راہ کے لیے ایک عام بصیرت پوشیدہ ہے اللہ نے ظاہر کیا کہ وہ چیزیں ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتیں جو دل خدا اور اس کے رسول کی محبت ومرضاۃ کے طالب ہوں انہیں چاہیے کہ پہلی ہی نظر میں دنیا اور اہل دنیا کی طرف سے دست بردار ہوجائیں۔ الأحزاب
30 الأحزاب
31 الأحزاب
32 الأحزاب
33 (٧) تبرج، کے اصل معنی نمایاں طور پر ظاہر ہونے کے ہیں یہان پر، تبرج جاہلیت سے مراد یہ ہے کہ عورت اس طرح بناؤ سنگھار کرکے نمایاں ہو کر نکلے کہ نظریں اس پر جم کررہ جائیں۔ علماء نے لکھا ہے کہ عورت کا اپنے محاسن کا اس طرح اظہا کرنا دیکھنے والوں کے جنسی جذبات بیدار ہوجائیں، تبرج، میں داخل ہے قبل از اسلام زمانہ جاہلیت میں چست اور نیم عریاں لباس پہن کر، میک اپ کرکے عورتیں نکلا کرتی تھیں قرآن مجید نے اسے جاہلی رسم قرار دیا جسے آج ہم، ثقافت کے نام سے رائج کررہے ہیں۔ یہاں پر آیت ٣٢ میں، ازواج مطہرات، کو اہل بیت کہہ کرپکارا گیا ہماری زبان میں اس کے معنی گھروالوں کے ہیں اور قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کسی مرد کی وجہ کو اہل البیت کہا گیا ہے۔ یوں تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ایک دعا میں علی، فاطمہ، حسن اور حسین کو بھی اپنے اہل بیت میں شامل کیا ہے مگر قرآن میں یہ صرف زوجہ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ الأحزاب
34 الأحزاب
35 الأحزاب
36 الأحزاب
37 (٨) آیت ٣٧ میں، اس شخص، سے مراد زید بن حارثہ ہیں جن کا اصل تعلق قبیلہ کلب سے تھا اور ان کی والدہ سعید بنت ثعلبہ قبیلہ طے کی شاخ بنی معن سے تھیں حضرت زید کو آٹھ سال کی عمر میں بنی قین نے اٹھالیا اور طائف کے میلہ عکاظ میں لے جاکر فروخت کردیا جسے حضرت خدیجہ کے بھتیجے حکیم بن حزام نے خرید لیا اور نہوں نے مکہ لا کر اپنی پھوپھی خدیجہ کی خدمت میں دے دیا، نبی نے جب خدیجہ سے نکاح کرلیا توحضرت زید نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کے لیے مختص کردیے گئے اس وقت ان کی عمر پندرہ سال تھی کچھ مدت کے بعد ان کے باپ اور چچا کو پتا چلا تو وہ حضرت زید کا فدیہ لے کر مکہ آئے تاکہ انہیں چھڑاکر لے جائیں مگر آپ نے فدیہ لینے سے انکار کردیا اور حضرت زید کو اختیار دیا کہ اگر وہ اپنے خاندان میں جانا چاہیں تو ان پر کوئی پابندی نہیں ہے مگر انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس رہنا پسند کرلیا اس پر آپ نے اس وقت کے رواج کے مطابق مجمع عام میں انہیں بیٹا بنالینے کا اعلان کردیا، اس بنا پر لوگ انہیں زید بن محمد کہہ کرپکارنے لگے اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے تو حضرت زید کی عمر تیس سال تھی انہوں نے حضرت ابوبکر، حضرت خدیجہ اور حضرت علی کے ساتھ اسلام قبول کرلیا۔ ٤ ہجری میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پھوپھی کی لڑکی حضرت زینب سے حضرت زید کا نکاح کردیا گیا مگر ان کے تعلقات استوار نہ ہوسکے، بالآخر حضرت زید نے انہیں طلاق دے دی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب سے خود نکاح کرلیا قرآن مجید نے اس نکاح کو، زوجنکھا، سے تعبیر فرمایا ہے کہ ہم نے اسے تیری زوجیت میں دے دیا، مگر عرب سوسائٹی میں اپنے پروردہ کی مطلقہ بیوی سے نکاح معیوب تھا اس بنا پر آپ ہچکہچا رہے تھے مگر اللہ تعالیٰ کے حکم کو مانے بغیر چارہ بھی نہ تھا تذبذب کی اسی کیفیت کی طرف قرآن مجید نے، وتخشی الناس واللہ احق ان تخشہ، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیثیت اور آپ کے فریضہ دعوت کی وضاحت کرنے کے بعد آیت ٤٨ میں اس سورۃ کی پہلی آیت کا مفہوم دوہرا کر اس مضمون کو ختم کردیا ہے۔ اس کے بعد طلاق قبل از مسیس کا حکم مذکور ہے اور پھر محلات کا بیان ہے اور یہ آیات پہلے مضمون کے ساتھ مربوط ہیں اور اجنبی (بے جوڑ) نہیں ہیں زید نے حضرت زینب کو طلاق قبل از مسیس ہی دی تھی اور حضرت زینب جن کے نکاح پر کفار اور منافقین اعتراض کررہے تھے آنحضرت کی پھوپھی زاد بہن بھی تھی لہذا مضمون وہی حضرت زینب کا نکاح اور اس کے متعلقات ہی ہیں پھر یہاں پر کچھ ایسے احکام بیان فرمائے جن کا تعلق خاص طور پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہے۔ الأحزاب
38 الأحزاب
39 الأحزاب
40 الأحزاب
41 الأحزاب
42 الأحزاب
43 الأحزاب
44 الأحزاب
45 الأحزاب
46 (٩) آیت ٤٥، ٤٦ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقام ومرتبہ اور تبلیغی حیثیت کی وضاحت کی ہے آپ نے اپنے قول عمل سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دی اور قیامت کے دن اپنی امت کے گواہ ہوں گے کہ آپ نے ان کو اللہ کا پیغام بے کم وکاست پہنچایا تھا بلکہ دوسری امتوں کی بھی گواہی دیں گے کہ ان کے انبیاء علیہم السلام نے ان تک اللہ کا پیغام پہنچایا تھا جیسے سورۃ (رح) البقرہ کی آیت ١٤٣ میں گزر چکا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرتبہ اور عظمت بیان کرنے سے مقصود مخالفین کو تنبیہ ہے اور ساتھ ہی اللہ اور رسول کو ایذا پہنچانے پر وعید فرمائی ہے سورۃ الاسراء میں آپ کے اس مقام ومرتبہ کو مقام محمود سے تعبیر فرمایا ہے۔ الأحزاب
47 الأحزاب
48 الأحزاب
49 الأحزاب
50 الأحزاب
51 الأحزاب
52 الأحزاب
53 الأحزاب
54 الأحزاب
55 الأحزاب
56 ” مقام محمود سے مقصود ایسادرجہ ہے جس کی عام طور پر ستائش کی جائے حسن وکمال کا ایسا مقام جہاں پہنچ کر محمودیت خلائق کی عالمگیر اور دائمی مرکزیت حاصل ہوجائے گی کوئی عہد ہو کوئی ملک ہو اور کوئی نسل ہو لیکن کروڑوں دلوں میں اس کی ستائش ہوگی یہ مقام انسانی عظمت کی انتہاء ہے اس سے زیادہ اونچی جگہ اولاد آدم میں سے کسی اور کو نہیں مل سکی انسان کی سعی وہمت ہر طرح کی بلندیوں تک اڑ کرجاسکتی ہے لیکن یہ بات نہیں پاسکتی کہ روحوں کی ستائش اور دلوں کی مداحی کا مرکز بن جائے“۔ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام کا ایک مشہد وہ معاملہ ہوگا جو قیامت کے دن پیش آئے گا جب اللہ کی حمد وثنا کا آپ علم بلند کریں گے اور بلاشبہ محمودیت کا مقام دنیا اور آخرت دونوں کے لیے جو ہستی یہاں محمود خلائق ہے وہاں بھی محمود وممدوح ہوگی۔ الأحزاب
57 (١١) یہاں پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو ایذا دینے سے تعبیر فرمایا ہے اور اللہ کے رسول کو طعن کرنا بھی ان کو اذیت پہنچانا ہے۔ الأحزاب
58 الأحزاب
59 (١٢) آیت ٥٩ میں حجاب یعنی پردہ کے احکام بیان فرمائے ہیں جوتمام مسلمان عورتوں کے لیے یکساں طور پرواجب ہیں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے باہر نکلیں تو اپنی چادروں کے پلواپنے اوپر ڈال کراپنا منہ چھپا لیاکریں اور صرف آنکھیں کھلی رکھیں، جمہور صحابہ وتابعین نے اس آیت کا یہی مفہوم بیان کیا ہے آیت کریمہ میں وبنتک بلفظ جمع ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) متعدد بیٹیاں تھیں جیساکہ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں ہے کہ آپ کی چار صاحبزادیاں تھیں، سب سے بڑی کا نام زینب، پھر رقیہ اس سے چھوٹی فاطمہ اور سب سے چھوٹی کا نام ام کلثوم ہے حضرت خدیجہ کی پہلے دو خاوندوں سے ایک لڑکی ہند اور دوسرا لڑکا ہند ابن ابوہالہ تھے۔ الأحزاب
60 الأحزاب
61 الأحزاب
62 (١٣) آیت ٦٢ میں جس سنت الٰہی کا بیان ہے وہ ایک تاریخی حقیقت ہے یعنی ہر زمانہ میں اللہ کی یہ سنت رہی ہے کہ اسلامی معاشرہ میں اوباش اور بدمعاش قسم کے لوگوں کو نیپنے کا موقع نہیں دیا جاتا بلکہ پہلے تو انہیں اپنی روش بدلنے پر تنبیہ کی جاتی ہے اور پھر طاقت کے ذریعہ سے ان کا علاج کیا جاتا ہے اور توراۃ میں یہ بھی تقید ہے کہ مفسدوں کو اپنے اندر سے باہر کردو۔ ” قرآن کہتا ہے کہ کائنات ہستی کے ہر گوشے کی طرح قوموں اور جماعتوں کے لیے بھی خدا کا قانون سعادت وشقاوت ایک ہی ہے ہر عہد اور ملک میں ایک ہی طرح کے احکام ونتائج رکھتا ہے اس کے احکام میں کبھی تبدیلی نہیں ہوسکتی اگر ماضی میں شہد ہمیشہ شہد کا خاصہ رکھتا آیا ہے اور سنکھیا کی تاثیر سنکھیا ہی کی ہوگی۔ الأحزاب
63 الأحزاب
64 الأحزاب
65 الأحزاب
66 الأحزاب
67 الأحزاب
68 الأحزاب
69 (١٤) آنحضرت سے عموما منافقین اور کفار سوال کرتے کہ قیامت کب بپا ہوگی؟ وہ یہ سوال بطور استہزا کرتے ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی اور قیامت کے دن کا منظر پیش کردیا، اور پھر مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ تم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسا طرز عمل اختیار نہ کرو جیسا کہ یہود نے حضرت موسیٰ سے اختیا کیا تھا۔ الأحزاب
70 الأحزاب
71 الأحزاب
72 (١٥) اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر جوفطرۃ ہدایت کی قوت ودیعت کی ہے وہ کسی دوسری مخلوق میں نہیں انسان ہی ایک ایسی مخلوق ہے جو بالفعل عدل وعلم کے اوصاف کے ساتھ متصف نہ بھی ہو مگر اس میں عدل وعلم کے ساتھ متصف ہونے کی صلایت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہی اس امانت (خلافت ارضی) کا فریضہ تفویض کیا تاکہ نفاق وبغاوت کی صورت میں اللہ کے غضب اور اطاعت وفرمانبرداری صورت میں اللہ تعالیٰ کے غفران و رحمت کا مظہر بن سکے۔ انسان نے اس بارعظیم کی ذمہ داری تو لے لی، مگر اسے نبھایا نہیں یہی اس کی بڑی بیباکی اور نادانی ہے، یہ بات نوع انسانی کے اکثر افراد کے لحاظ سے فرمائی گئی ہے جنہوں نے اپنی فطرت سلیمہ ذمہ داری قبول کرنے کے تقاضے ٹھکرا دیے۔ الأحزاب
73 الأحزاب
0 سبأ
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ مکی ہے اور متوسط دور کی تنزیلات سے ہے جب کہ کفار آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز دبانے کے لیے جھوٹے الزامات تراش رہے تھے اور اس دعوت کو بے اثر کرنے کے لیے تضحیک واستہزا سے کام لے رہے تھے مکی سورتوں میں عموما توحید وآخرت پر ایمان کی دعوت دی گئی ہے اور کفار کے الزامات اور شبہات کا جواب دیا گیا ہے اور ضمنا انہیں کفر وانکار کے برے نتائج سے ڈرایا بھی گیا ہے اور اسی سلسلے میں حضرت داؤد سلیمان (علیہ السلام) اور قوم سبا کے قصے بیان کیے گئے ہیں کہ ایک طرف تو دو شکرگزار بادشاہ اور برگزیدہ پیغمبر ہیں اور دوسری طرف عیش وتنعم میں غرق شدہ قوم ہے جو اپنی مادی طاقت کے نشہ میں آخرت کو بھول گئی اور بالآخر اس طرح پارہ پارہ ہوگئی اس کے بس افسانے ہی رہ گئے۔ سبأ
2 سبأ
3 (٢) منکرین آخرت ازراہ مذاق یہ بات کہتے کہتم (محمد) ہمیں قیامت سے ڈراتے ہو مگر ایں خیال است ومحال است وجنوں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جب سارے انسان مر کرمٹی ہوجائیں گے اور تو دوباہ زندہ ہوکرجمع ہوجائیں۔ قرآن مجید نے اس شبہ کے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اور ہر چیز اس کے دفتر میں موجود ہے لہذا اس پر کوئی مشکل نہیں ہے کہ انسانوں کو دوبارہ زندہ کرکے اٹھالائے اور مکافات عمل کے لیے ایسا کرنا ضروری بھی ہے۔ سبأ
4 سبأ
5 سبأ
6 سبأ
7 سبأ
8 سبأ
9 سبأ
10 (٣) حضرت داؤد قبیلہ یہوداہ کے ایک نوجوان تھے ایک معرجہ میں جالوت کو قتل کرکے انہوں نے ناموری حاصل کرلی اور تدریجا بنی اسرائیل کے بادشاہ منتخب ہوگئے انہوں نے یروشلم کو فتح کرکے اسے دولت اسرائیل کا پایہ تخت بنایا جس سے بنی اسرائیل کی ریاست کو وسعتحاصل ہوگئی اور ساحل بحر تک تمام ملک ان کے قبضہ میں آگیا لیکن پھر بھی بنی اسرائیل میں نظم واطاعت کی روح پیدا نہ ہوئی۔ یہاں پر حضرت داؤد پر جن انعامات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے وہ پہاڑؤں اور پرندوں کی حضرت داؤد کے ساتھ مل کر تسبیح کرنا ہے اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک وہ جو، ان من شئی الا یسبح بحمدہ، سے ظاہر ہے اور دوسرا یہ کہ جب حضرت داؤد حمد الٰہی کے نغمے گاتے توسماں بندھ جاتا تھا اور چٹانیں تک وجد میں آجاتی تھیں۔ حضرت داؤد خوش آواز تھے جس کی تائید احادیث اور روایات سے بھی ہوتی ہے وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے عبرانی موسیقی مرتب کی اور مصری اور بابلی مزامیر کو ترقی دے کر نئے نئے آلات ایجاد کیے، جب وہ پہاڑیوں کی چوٹیوں پر بیٹھ کر حمد الٰہی کے ترانے گاتے اور اپنا بربط بجاتے تو شجر وحجر جھومنے لگتے تھے اس طرح پرندوں کی تسخٰر کو بھی دونوں باتوں پر محمول کیا جاسکتا ہے کتاب زبور دراصل انہیں نظموں کا مجموعہ ہے جو حضرت داؤد (علیہ السلام) نے الہام الٰہی سے نظم کی تھیں۔ اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کی لوہے پر قدرت اور جنگی اغراض کے لیے زرہ بانی کو بھی قرآن مجید نے خاص طور پر بیان کیا ہے جب تک آتشیں اسلحہ ایجاد نہ ہوئے تھے جنگ میں حفاظت کابڑا ذریعہ آہنی لباس کا استعمال تھا حضرت داؤد نے اسے فروغ دیا اور طرح طرح کی نئی ایجادات کیں تاریخی آثار سے بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے ایک ہزار سال قبل مسیح تک زرہ کا استعمال قوموں میں دکھائی نہیں دیتا لیکن اس کے بعد سے زرہ خود کا استعمال شروع ہوجاتا ہے یہی زمانہ تقریبا داود (علیہ السلام) کا ہے اس کے بعددوسری چیزیں بھی استعمال ہونے لگتی ہیں یہاں تک کہ سکندر کے عہد میں یونانی اور ایرانی دونوں سرتاپا آہن پوش ہوگئے تھے اور پھر ادوم کے علاقہ میں کھدائی بکثرت ایسی جگہوں کے آثار ملے ہیں جہاں لوہا پگھلانے کی بھٹیاں لگی ہوئی تھیں عقبہ اور ایلہ کے متصل حضرت سلیمان کے عہد کی بندرگاہ عصیون جابر کے آثار قدیمہ میں جو بھٹی ملی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں بعض وہ آلات استعمال کیے گئے ہیں جو آج جدید ترین دور میں استعمال ہوتے ہیں۔ سبأ
11 سبأ
12 سبأ
13 (٤) حضرت سلیمان کو مزید ایک بڑی نعمت سے نوازا کہ سمندر کی باد تندان کے لیے مسخر کردی تھی قدیم عہد میں حضرت سلیمان پہلے شخص ہیں جنہوں نے جہازوں سے اس طرح کام لینا شروع کیا کہ ہندوستان اور مغربی جزائر تک بحری آمد ورفت کا منظم سلسلہ قائم ہوگیا۔ توراۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا تجارتی بیڑہ وقت کاسب سے طاقت ور بیڑہ تھا بحراحمر میں اس کا مرکز ترسیس تھا جوخلیج عقبہ میں واقع تھا اور بحر متوسط میں صور طائر یافہ کی بندرگاہیں۔ ادوم کے علاقہ عربہ میں خام لوہے اور تانبے کی کانیں تھیں اندازہ یہ یہیں سے خام تانبا لاکربھٹی میں گلایا جاتا اور پھر کام میں لایا جاتا، واسلنالہ عین القطر، کا غالبا یہی مفہوم ہے۔ سبأ
14 (٥) آیت ١١، ١٢ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شیاطین حضرت سلیمان کے تابع تھے جوان کے لیے مختلف خدمات سرانجام دیتے تھے اور ان جنوں کے متعلق مشرکین عرب کا عقیدہ تھا کہ وہ غیب جانتے ہیں مولنا آزاد لکھتے ہیں : ” یہاں پر جنات اور شیاطین سے مراد فلسطین اور شام کی وہ شریر قومیں ہیں جو حضرت سلیمان کے عہد میں مطیع ومنقاد ہوگئی تھیں اور انہوں نے ہیکل کی تعمیر تیرہ برس تک ہر طرح کی سخت خدمتیں سرانجام دی تھیں“۔ مگر قرآن مجید کے الفاظ میں اس کی تاویل کی قطعا کوئی گنجائش نہیں ہاں یہ تاویل تورات کے مطابق ہے چنانچہ تورات کی کتاب سلاطین اول سے معلوم ہوتا ہے کہ تیس ہزار کالشکر تیرا برس تک کام میں لگے رہے تب کہیں جاکر عمارت تیار ہوئی۔ سبأ
15 سبأ
16 سبأ
17 (٦) قوم سبا کا قصہ بھی مکافات عمل پر بہت بڑی دلیل ہے اور اس قصہ کو آیت کہنا بایں معنی بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کیا انسان شکرگزاری کرے تو اللہ کی طرف سے مزید نوازشات ہوتی ہیں اور اگر کفران نعمت پر اتر آئے تو یہ گویا عذاب الٰہی کو دعوت دیتا ہے اور قصہ قوم سبا اس پر بڑی شہادت ہے۔ سیل العرم : عرم کے معنی بند کے ہیں اور سیل العرم سے مراد وہ سیلاب ہے جو بند ٹوٹنے کی وجہ سے آیا سبا کے لوگوں نے پہاڑوں کے درمیان بند باندھ کر نہریں جاری کی ہوئی تھیں اور آب پاشی کے اس نظام کی وجہ سے وہ علاقہ جنت نظیر بنا ہوا تھا مگر جب اللہ کا عذاب آیا تو وہ بند ٹوٹ گیا اور سارا نظام درہم برہم ہوگیا باغات کے بجائے وہ علاقہ خودروجنگلی درختوں سے بھر گیا اور اس میں کھانے کے قابل کوئی چیز رہ گئی تھی تو وہ محض جھاڑی بوٹی کے بیر تھے۔ ” قری ظاھرۃ“: یعنی وہ بستیاں جوشاہراہ عام پر واقع تھیں یا مطلب یہ کہ وہ بستیاں متصل تھیں ایک کے بعددوسری بستی نظر آنے لگتی تھی ان کی سفر کی منزلیں مقرر تھیں اور راستہ کے آباد ہونے کی وجہ سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہ تھا لیکن جب انہوں نے ناشکری کی تو ہم نے ان کو قصہ پارینہ بنادیا مختلف قبیلے اپنا وطن چھوڑ کر عرب کے مختلف علاقوں میں جابسے غسانیوں نے اردن اور شام کارخ کیا اور اوس اور خزرج کے قبیلے مدینہ (یثرب) میں چلے آئے بنوخزاعہ نے جدہ کے قریب تہامہ میں سکونت اختیار کرلی اسی طرح دوسرے قبائل نے مختلف مقامات کارخ اختیار کیا حتی کہ سبا نام کی کوئی مستقل قوم اس دنیا میں باقی نہ رہی۔ الافریقا من المومنین۔ کے استثنا سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم سبا میں کچھ لوگ موحد بھی تھے موجودہ دور میں عصری تحقیقات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ سبأ
18 سبأ
19 (٧)۔ سبا جنوبی عرب کی ایک بہت بڑی قوم کا نام ہے جو چند بڑے قبائل پر مشتمل تھی اور قدیم زمانہ سے دنیا میں اس کاشہرہ تھا بائبل میں کثرت سے اس کا ذکر ملتا ہے یہ قوم یمن کے علاقہ میں سکونت پذیر تھی اور ١١٠٠ ق م سے اس کے عروج کے دور شروع ہوتا ہے آغاز میں یہ ایک کتاب پرست قوم تھی جب اس کی ملکہ حضرت سلیمان کے ہاتھ پر مسلمان ہوگئی تو ممکن ہے کچھ دوسرے لوگ بھی توحید پرست بن گئے ہوں مگر اکثریت مشرک ہی چلی آرہی تھی اور وہ بہت سے دیوتاؤں کی پوجا کرتے تھے مورخین کے مطابق ٦٥٠ ق م سے پہلے اس کے بہت سے بادشاہ ہوئے ہیں جن کالقب مکرب سبا ہوتا تھا غالبا اسی زمانہ میں سدمآرب کی بنیاد رکھی گئی اور یکے بعد دیگرے ہونے والے بادشاہ اسے وسعت دیتے رہے۔ پھر ٦٥٠ قم کے بعد ان کا پایہ تخت مآرب بنا جوکہ سمندر سے ٣٩٠٠ فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور صنعا یمن سے ٦٠ میل جانب مشرق میں واقع ہے پھر اس کے بعد ١١٥ ق م سے ٣٠٠ ء تک کے دور ہم تیسرا اس قوم کا دور کہہ سکتے ہیں اس دور میں قبیلہ حمیر برسراقتدار تھ اجوقوم سبا کا ایک قبیلہ تھا انہوں نے مآرب کوچھوڑ کر، ریدان، کو پایہ تخت بنالیا جو بعد میں ظفار کے نام سے مشہور ہوا اور اسی دور میں اس قوم کا زوال شروع ہوتا ہے۔ ٣٠٠ ء کے بعد آغاز اسلام تک کا دور قوم سبا کی ہلاکت اور تباہی کا دور ہے اس دور میں ان کے ہاں مسلسل خانہ جنگیاں ہوئیں تجارت برباد ہوگئی زراعت نے دم توڑ دیا اور آخرکار آزادی تک کا خاتمہ ہوگیا پہلے حبشیوں نے قبضہ کیا ان سے آزادی حاصل ہوئی تو سدمآرب میں رخنے پڑنے شروع ہوگئے حتی کہ ٤٥٠، میں بندٹوٹنے سے وہ عظیم سیلاب آیا جسے قرآن مجید نے سیل العرم کے نام سے ذکر کیا ہے اگرچہ اس کے بعد ابرہہ کے زمانہ تک اس بند کی مرمتیں ہوتی رہیں مگر آبپاشی کانظام بحال نہ ہوسکا۔ ٥٢٣ ء میں یمن کے یہودی بادشاہ ذونواس نے اس نجران عیسائیوں پر ظلم وستم ڈھائے جسے قرآن مجید نے، اصحاب الاخدود، کے نام سے ذکر کیا ہے اس کے نتیجے میں حبش کی عیسائی سلطنت نے یمن کو فتح کرلیا اس کے بعد یمن کے حبشی وائسرائے ابراہہ نے عرب کے پوری مغربی علاوہ کو رومی حبشی اثر لانے کے لیے ٥٧١ ء میں مکہ معظمہ پر حملہ کیا اور اس کی فوج (اصحاب الفیل) پر تباہی آئی، بالآخر ٥٧٥ میں یمن پر ایرانیوں نے قبضہ کرلیا اور وہ قبضہ ٦٢٨ میں ختم ہوا جب کہ ایرانی گورنر باذان نے اسلام قبول کرلیا۔۔ سبأ
20 سبأ
21 سبأ
22 (٨) گزشتہ دورکوع میں آخرت کے متعلق بحث تھی اب آیت ٢٢ سے تردید شرک کاموضوع شروع ہورہا ہے اس کے بعد آیت ٢٨ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے عالمگیر ہونے کا اعلان فرمایا ہے۔ سبأ
23 سبأ
24 سبأ
25 سبأ
26 سبأ
27 سبأ
28 سبأ
29 سبأ
30 سبأ
31 (٩) پیروان باطل کی پیروی کرنے کا حسرت انگیر نتیجہ جوان بدقسمت پیرووں کے حصہ میں آئے گا آیت نمبر ٣١، تا ٣٣ سے ظاہر ہے اللہ کے حضور پہنچ کر جماعتوں کے کمزور افراد اپنے سرداروں اور لیڈروں پر الزام دیں گے کہ انہوں نے ہمیں گمراہ کیا۔ مگر لیڈر کہیں گے نہیں بلکہ یہ تمہاری اپنی اختیار کردہ گمراہی تھی ورنہ ہم کون تھے جو تمہیں گمراہ کرتے۔ سبأ
32 سبأ
33 سبأ
34 سبأ
35 سبأ
36 سبأ
37 (١٠) انبیاء (علیہ السلام) کی دعوت کا مقابلہ سب سے پہلے خوش حال طبقوں نے کیا ہے کیونکہ وہ سمجھتے کہ اگر دعوت حق کامیاب ہوگئی تو ان کے ظالمانہ اختیارات کا ختامہ ہوجائے گایہ لوگ اپنی دولت واقتدار کے نشے میں یہ کہہ کرانبیاء (علیہ السلام) کی دعوت ٹھکراتے رہے کہ ہم تم سے زیادہ اللہ کے ہاں پسندیدہ ہیں اگر اللہ ہم سے راضی نہ ہوتا تو ان نعمتوں سے ہمیں کیوں نوازتا۔ لہذا ہم آخرت میں عذاب میں مبتلا نہیں ہوں گے قرآن مجید نے متعدد مقامات پر دنیا پرستوں کی اس گمراہی اور غلط فہمی کی تردید کی ہے۔ سبأ
38 سبأ
39 سبأ
40 (١١) تاریخ کے مختلف ادوار میں، مشرکین، فرشتوں کی دیوی اور دیوتا قرار دے کر ان کی پوجا کرتے چلے آئے ہیں قیامت کے دن عام لوگوں کے سامنے اللہ تعالیٰ فرشتوں سے یہ سوال کریں گے۔ آیت ١٧ میں گزرچکا ہے کے یہ سوال ان تمام ہستیوں سے کیا جائے گا جن کی لوگ دنیا میں پوجا کرتے تھے۔ سورۃ المائدہ آیت ١١٠، ١١١ میں ہے کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) سے بھی یہی سوال ہوگا اور حضرت مسیح (علیہ السلام) اس سے براءت کا اظہار کریں گے۔ سبأ
41 سبأ
42 سبأ
43 (١٢) شرک وکفر اور انکار آخرت کی بنیادسراسر جہالت اور آباواجداد کی کورانہ تقلید پر مبنی ہے ورنہ اس سے پہلے نہ تو اللہ کی طرف سے کوئی کتاب ایسی آی ہے اور نہ کسی رسول ہی نے یہ تعلیم دی ہے کہ اللہ کے سواہماری یا دوسروں کی بھی پوجا کرو بلکہ ہر پیغمبر نیاپنے بشر ہونے کا دعوی کیا اور کہا ہے کہ میں تمہارے جیسا انسان ہوں تاہم اللہ نے مجھ پر وحی بھیجی ہے اس کے سوا میں کچھ نہیں ہوں۔ سبأ
44 سبأ
45 سبأ
46 سبأ
47 سبأ
48 سبأ
49 سبأ
50 سبأ
51 سبأ
52 سبأ
53 سبأ
54 (١٣) آج جو لوگ کفر کررہے ہیں پیغمبروں کی تکذیب کررہے ہیں اور ان پر طرح طرح کے الزام لگارہے ہیں قیامت کے دن یہ لوگ اپنے ایمان کا اظہار کریں گے حالانکہ اب ایمان کیسا ؟ وہ موقع نکل گیا جب ایمان لاکر اپنے آپ کو بچاسکتے تھے یہ موقع دنیا میں حاصل تھا قیامت کے دن ان کی یہ آرزو پوری نہ ہوگی۔ سبأ
0 فاطر
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ مکی ہے اور عہد وسطی کی تنزیلات سے ہے اور اس کا دوسرا نام سورۃ الملائکہ ہے اس سورۃ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت پر تنبیہ کی گئی ہے اور ناصحانہ انداز میں فہمائش بھی آخرت کے ثبوت کے طور پر دلائل پیش کیے گئے ہیں اور خود انسان کی بدء خلق سے اس کے اعادہ کے امکان پر استدلال کیا گیا ہے۔ سلسلہ کلام میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی کہ جیسا کہ مکی سورتوں کا انداز ہے اور بتایا ہے کہ آپ کا کام ان کو سمجھانا ہے سو وہ فریضہ آپ نے ادا کردیا ہے اب آپ ان کے رویے پر غمگین نہ ہوں اور ان کوراہ راست پرلانے کی فکر میں اپنی جان نہ گھلائیں علاوہ ازیں ایمان قبول کرنے والوں کو بشارتیں دی ہیں تاکہ ان کے دل مضبوط ہوں اور وہ راہ حق میں ثابت قدم رہیں۔ فاطر
2 فاطر
3 (٢) سورۃ کی تمہیدی آیات توحید وصفات کے بیان پر مشتمل ہیں اور قرآن مجید عموما توحید ربوبیت پر استدلال کرتے ہوئے اللہ کی نعمتوں کا ذکر کرتا ہے۔ قرآن اس نظام ربوبیت سے توحید الٰہی پراستدلال کرتا ہے کہ جورب العالمین تمام کائنات کی پرورش کررہا ہے اور جس کی ربوبیت کا اعتراف تمہارے دل کے ایک ایک ریشے میں موجود ہے اس کے سوا کون اس کا مستحق ہوسکتا ہے کہ بندگی ونیاز کاسر اس کے آگے جھکایا جائے؟۔ فاطر
4 (٣) آیت ٤ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ ان کی تکذیب پر دل برداشتہ نہ ہوں کیونکہ یہ تو پہلے سے مشرکین کی سنت چلی آرہی ہے قیامت تو برحق ہے لیکن دنیا کی زندگی اور شیطان نے لوگوں کودھوکہ میں ڈال رکھا ہے۔ فاطر
5 فاطر
6 فاطر
7 فاطر
8 (٤) اوپر کی آیات میں عوام الناس کو خطاب تھا، اب آیت ٨ سے وہ لوگ مخاطب ہیں جونبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں پورازورصرف کررہے تھے۔ فاطر
9 فاطر
10 فاطر
11 فاطر
12 فاطر
13 فاطر
14 (٥) آیت ١٤ میں قیامت کے دن ان معبودوں کی بے بسی بیان کی ہے کہ قیامت کے دن ان کے یہ معبود ان کے شرک کی تردید کریں گے اور اپنی عبادت کرنے والوں سے بے زاری کا اعلان کریں گے جس سے معلوم ہوا کہ اللہ کا شریک نہیں ہے اور یہ مزعومہ رب اور دیوتا سب باطل ہیں۔ فاطر
15 فاطر
16 فاطر
17 (٦) انسان ہر آن اپنے وجود بقا میں ذات باری تعالیٰ کا محتاج ہے اور ذات باری تعالیٰ نے باوجود بے پروا ہونے کے، انسان کے لیے زندگی کے اسباب فراہم کیے لہذایہ مت خیال کرو کہ تم فنا ہوگئے تو اس کی عظمت وسلطنت میں کچھ فرق آجائے گا ہرگز نہیں اگر وہ چاہے تو تمہیں فنا کرکے دوسری نئی مخلوق لے آئے۔ ” خدا تعالیٰ اپنے کلمہ توحید کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کی اعانت کا محتاج نہیں بلکہ ہم اس کے فضل کے محتاج ہیں جوقوم فرض الٰہی ادا کرتی ہے تاج اقبال اور سریر عظمت پر اس کا قبضہ رہتا ہے جب احکام الٰہیہ کی سرکشی اور نافرمانی میں مبتلا ہوجاتی ہے تو خدا اپنی دنیا کو حکم دے دیتا ہے کہ اس کی فرمانبرداری سے سرکش ومتمرد ہوجائے جو اپنے حاکم کا مطیع نہیں اسے کیا حق ہے کہ اس کے ماتحت اس کی اطاعت کریں“۔ فاطر
18 (٧) مکہ معظمہ میں جو لوگ اسلام قبول کررہے تھے ان سے ان کے مشرک رشتہ دار کہتے کہ تم ہمارے کہنے سے اس نئے دین کو اختیار نہ کرو اور آبائی دین پر قائم رہو تمہارا عذاب تو اب ہماری گردن پر۔ قرآن مجید نے وضاحت فرمائی کہ قیامت کے دن ہر شخص اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہوگا اور کسی دوسرے پر بوجھ ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جب قیامت آئے گی تو ہر ایک کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوں گے کوئی کسی کاذرہ برابر بوجھ بھی اپنے اوپر لینے کے لیے تیار نہ ہوگا۔ فاطر
19 فاطر
20 فاطر
21 فاطر
22 فاطر
23 فاطر
24 فاطر
25 فاطر
26 فاطر
27 فاطر
28 (٨) آیت ٢٧، ٢٨ میں بتایا کہ اس کائنات میں ہر مرحلہ پر اختلاف اور تنوع پایا جاتا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کائنات کو کسی زبردست حکیم نے پیدا کیا ہے پھر خاص انسانی طبائع اور اذہان کے اختلاف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ حکمت تخلیق کا شاہکار ہے۔ فاطر
29 فاطر
30 فاطر
31 فاطر
32 فاطر
33 (٩) اہل ایمان کے تین طبقے قرار دے کرمولانا آزاد اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : (الف) جونفوس پر ظلم کررہے ہیں کیونکہ خدا سے غافل اور اس کے رشتے کی عزت کو بھولے ہوئے ہیں، دلوں میں اعتقاد اور حسن ایمانی تو ضرور رکھتے ہیں پر ایمانی قوت میں ضعف بدرجہ کمال ہے اور عمل مفقود۔ (ب) درمیانی طبقہ جو غفلت سے متنبہ ہوا اعمال حسنہ اختیار کیے اور امرالٰہی کے آگے سراطاعت خم کیا۔ (ج) اعلی ترین طبقہ جونہ صرف خیرات ومحاسن کا انجام دینے والا ہے بلکہ ان میں اوروں سے پیش رو بھی ہے اور نیکی کی صفوں میں سب سے آگے بڑھنے والا۔ الغرض یہ تیسرا طبقہ وارثین کتاب میں صف اول کے لوگ ہیں۔ اور یہ صحابہ کرام میں مہاجرین وانصار میں السابقون الاولون لوگ ہیں جن میں سرفہرست بالترتیب خلفائے اربعہ اور عشرہ مبشرہ شامل ہیں۔ بعض علمانے اس آیت کو سورۃ واقعہ کی آیت کا ہم معنی قرار دیا ہے اور اپنی جان پر طلم کرنے والوں سے منافق اور کافر مراد ہیں۔ مگر یہ تفسیر سیاق قرآن کے خلاف ہے کیونکہ یہاں تین گروہوں کا ذکر فرمایا ان کاجنتی ہونا بیان کیا ہے اور اس کے بعد اہل دوزخ کا ذکر فرمایا ہے لہذا یہاں پر ظالم لنفسہ، سے گناہ گار مسلمان مراد ہیں، جو بالآخرت جنت میں چلے جائیں گے جیسا کہ متعدد آثار صحابہ سے ثابت ہے اور جمہور مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے اور حدیث، شفاعتی لاھل الکبائر من امتی، سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے، واللہ اعلم۔ فاطر
34 فاطر
35 فاطر
36 فاطر
37 (١٠)۔ ان وارثین کتاب کے بالمقابل ایک دوسراگروہ جن کا انجام آیت ٣٦، ٣٧ میں بیان فرمایا ہے اس کے بعد پھر توحید کا بیان اور شرک کی تردید آخر سورۃ تک چلی گئی ہے۔ فاطر
38 فاطر
39 فاطر
40 فاطر
41 فاطر
42 فاطر
43 (١١) آیت ٤٣، ٤٤، میں قانون فطرت کے تحت پاداش عمل پر تنبیہ کی ہے کہ اگر یہ لوگ اپنی روش سے باز نہیں آئیں گے تو پچھلے کافروں کی طرح ان پر بھی عذاب نازل ہوکررہے گا ان کے بارے میں اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوسکتی۔ ” جس طرح ہر بات کے لیے فطرت کے مقررہ قانون ہوئے اسی طرح قوموں اور جماعتوں کی سعادت وشقاوت اور حیات وممات کا بھی ایک قانون ہوا اور جس طرح فطرت کے تمام قوانین یکساں عالمگیر اور غیر مبدل ہیں اسی طرح یہ قانون بھی ہمیشہ ایک ہی طرح رہا ہے قوانین فطرت میں تبدیلی نہیں یہ طبعیت انسانی کا وجدان اذعان ہے یہ اعتقاد کہ آگ جلاتی ہے انسان کو صرف اتنی ہی بات سے حاصل ہوگیا کہ آگ نے ایک مرتبہ جلایا تھا“۔ طبعیت انسانی کا یہی وجدانی تاثر ہے جس نے ہمارے ذہن میں استقراء کا اعتقاد پیدا کیا یعنی جزئیات کا تجربہ کرنا اور اس کے ذریعہ سے کلیات تک پہنچنا اب ہمارے تمام علوم کاسنگ بنیاد ہی یہی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اعمال انسانی کے سلسلے میں یہ حقیقت معطل نہیں ہوگئی کہ پہلے بھی بے شمار قومیں اسی زمین میں گزرچکی ہیں ان کی بھی آبادیاں تھیں، قوتیں تھیں، شوکتیں تھیں، دنیا کی سیر کرو، مٹی ہوئی نشانیوں کا کھوج لگاؤ پھر دیکھو سعادت وشقاوت کے قانون کا کیسا عمل درآمد ہوچکا ہے۔ فاطر
44 فاطر
45 (١٢) یعنی اگر بنی آدم کے اعمال پر فوری گرفت ہوتی تو کوئی متنفس زمین پر باقی نہ رہتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ڈھیل دے رکھی ہے اور جزائے اعمال کے لیے ایک وقت مقرر کردیا ہے۔ اگر تدریج وامہال کی یہ فرصتیں اور بخششیں نہ ہوتیں تودنیا میں ایک وجود بھی فرصت حیات سے فائدہ نہ اٹھاسکتا، ہر غلطی ہر کمزوری، ہر نقصان، ہرفساد اچانک، بیک دفعہ بربادی وہلاکت کا باعث ہوجاتا۔ واللہ اعلم۔ فاطر
0 يس
1 يس
2 يس
3 يس
4 يس
5 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور عہد وسطی کی تنزیلات سے ہے۔ اس سورۃ میں کفار قریش کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایمان نہ لانے اور ظلم وستم سے اس کا مقابلہ کرنے کے انجام سے ڈرایا گیا ہے تاہم دوسری مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی تینوں امور پر استدلال کیا گیا ہے جن کا تعلق بنیادی عقائد سے ہے۔ (الف) آثار کائنات سے توحید پراستدلال (ب) آخرت پر استدلال (ج) رسالت محمدی پر استدلال۔ کہ انبیاء اپنی تبلیغ پر کچھ اجرت طلب نہیں کرتے اور ان کی دعوت عقل سلیم کو اپیل کرتی ہے لہذا وہ سچے نبی ہیں۔ يس
6 يس
7 يس
8 (٢) یعنی طوقوں کی وجہ سے نہ سرنیچے جھکاسکتے ہیں اور نہ ادھر ادھر پھیر سکتے ہیں، اس لیے وہ اپنے سراٹھائے کھڑے ہیں۔ مراد ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔ انسان کے تمام کاموں کی جڑ یقین اور اعتقاد کا استحکام ہے۔ اسی کو شریعت، ایمان، کے لفظ سے تعبیر کرتی ہے خدا کا تصور یاتوانسان کو محبت کی شکل میں اپن طرف کھنچتا ہے یا خوف کی عظمت وہیبت دکھلا کراپنے آگے جھکالیتا ہے لیکن جن کے گلوں میں نفس و شیطان کے طوق پر گئے ہیں ان کی فطرت کو عبودیت الٰہی سے گویا اجنبیت ہوگئی ہے۔ يس
9 يس
10 يس
11 يس
12 يس
13 (٣) اس بستی سے مراد شام کاشہرانطاکیہ ہے اور رسولوں سے مراد وہ رسول ہیں جو حضرت عیسیٰ نے تبلیغ کے لیے بھیجے تھے نیز بیان کیا گیا ہے کہ اس زمانہ میں انطیخش اس علاقے کا بادشاہ تھا مگر تاریخی حیثیت سے یہ قصہ بے بنیاد ہے کیونکہ انطاکیہ میں ان بادشاہوں (یعنی سلوتی خاندان) کا دور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے ختم ہوچکا تھا۔ حضرت عیسیٰ کے زمانہ میں انطاکیہ رومیوں کے زیرتسلط تھا اور کسی عیسائی روایت سے بھی ثابت نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس شہر میں مبلغ بھیجے تھے اور پھر بائبل کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انطاکیہ وہ پہلاشہر ہے جہاں کثرت سے غیراسرائیلیوں نے مسیحت کو قبول کیا، حالانکہ قرآن مجید کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے انبیاء کی دعوت کورد کیا اور بالآخر عذاب الٰہی میں گرفتار ہوگئے اس قصہ سے مقصد قریش کو تنبیہ کرنا ہے کہ تم ہٹ دھرمی سے باز آجاؤ ورنہ تمہارا انجام بھی وہی ہوگا جوان لوگوں کا ہوا ہے۔ يس
14 يس
15 (٤) مشرکین مکہ اور اہل ضلالت زمانہ قدیم سے اس گمراہی میں مبتلا چلے آئے ہیں کہ بشر (انسان) اللہ کارسول نہیں ہوسکتا، اس مفروضہ کی بنا پر انہوں نے تمام انبیاء علیھم السلام کی دعوت کو یہ کہہ کرٹھکرا دیا کہ تم توہماری طرح انسان ہو ہماری طرح کھانے پینے کے محتاج ہو اور بازاروں میں چلتے پھرتے ہو گویانبوت ورسالت اور بشریت، یہ دونوں متضاد ہیں (دیکھیے سورۃ الفرقان ٧ تا ٢٠، الانبیاء، ٣، ٧، ٨، المومنون، ٢٤، ٣٣، ٣٤، ابراہیم، ١٠، ١١، التغابن، ٦، بنی اسرائیل ٩٤، ٩٥) يس
16 يس
17 يس
18 (٥) آئندہ آیت ١٨ میں جس طعن کا ذکر ہے اس قسم کی جہالت کا اظہار قدیم زمانہ سے لوگ اپنے انبیاء کے متعلق کرتے چلے آئے ہیں (دیکھیے سورۃ الاعراف ١٣٠، النمل : ٤٧) خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بھی کفار اور منافقین نے ایسی ہی بات کہی (النساء ٧٧)۔ يس
19 يس
20 يس
21 (٦) انبیاء کی دعوت ذاتی مفاد سے بالا اور بے لوث ہوتی ہے اور پھر ان کے قول وفعل میں تضاد نہیں ہوتا یہی ان کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ مولانا آزاد رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ” اب سے اٹھارہ سو برس پہلے رومیوں کے عظیم الشان شہر انطاکیہ کے کنارے سے دعوت حق کی صدا اٹھی تھی وہ ایک پاک روح تھی جس نے لوگوں کو نبیوں اور رسولوں کے اتباع کی طرف بلایا تھا اور کہا تھا کہ ان بتوں کی پوجا چھوڑ دو جو تمہیں کچھ بھی نفع وضرر نہیں پہنچاسکتے، اس کے سچے رسولوں کے اتباع میں بڑی بڑی سزاؤں اور جسمانی عقوبتوں کی پروا نہ کی، حتی کہ اس راہ میں شہید ہوگیا“۔ مگر ہم نے اپنے حواشی قرآن (اشرف الحواشی) میں توضیح کی ہے کہ اس بستی سے انطاکیہ مراد نہیں بلکہ دوسری کوئی بستی مراد ہے ملاحظہ ہو، سورۃ یسین وضاحت نمبر ٢، واللہ اعلم۔ يس
22 يس
23 يس
24 يس
25 يس
26 يس
27 يس
28 يس
29 يس
30 يس
31 يس
32 يس
33 يس
34 يس
35 (٧) یہاں تک تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سچا مرسل ہونے کا بیان تھا، اور اصحاب القریہ کا قصہ بیان کرکے گویا کفار مکہ کو، ان کے انکار وتکذیب اور مخالفت حق کے رویہ پر ملامت کی ہے اب یہاں آیت ٣٣ سے توحید وآخرت کا مضمون شروع ہورہا ہے جونبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کفار کے مابین باعث نزاع بنا ہوا تھا۔ يس
36 (٨) قرآن مجید نے ہر مقام پر توحید وآخرت کے اثبات میں ان حقائق کو پیش کیا ہے جوشب روز ان کے مشاہدہ میں آتے ہیں مثلا مردہ زمین سے نباتات کا ظہور، رات دن کا اختلاف اور اس میں نظام شمسی کی کارفرمائی جونہاتی احکام اور باقاعدگی سے اپنا کرم کررہا ہے، پھر یہ نظام شمسی اپنی عظمت اور حیرت انگیزی کے باوجود ایک بہت بڑی کہکشاں کا ایک حصہ ہے اور جس کہکشاں میں ہمارا یہ نظام شمسی شامل ہے اس میں تقریبا تین ہزار ملین آفتاب پائے جاتے ہیں یہ سارا کائناتی نظام کسی عزیز وحکیم کی قدرت وعلم کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا اور یہ تمام نظام ربوبیت جس طرح اللہ تعالیٰ کی ہستی پر زبردست دلیل ہے اسی طرح توحید وآخرت پر بھی بہت بڑی دلیل ہے اسی لیے قرآن حکیم نے ان حقائق کی طرف، آیت محکم، فرماکر انسان کو متوجہ کیا ہے۔ آیت نمبر ٣٦:” کائنات میں وہ قانون بھی کارفرما ہے جسے قرآن مجید نے قانون وتزویج سے تعبیر کیا ہے ہم اسے قانون تثنیہ بھی کہہ سکتے ہیں یعنی ہر چیز کے دو دو ہونے یا متقابل یا متماثل ہونے کا قانون، کائنات خلقت کا کوئی گوشہ بھی دیکھو تمہیں کوئی چیز یہاں اکہری اور طاق نظر نہیں آئے گی۔ ہر چیز میں جفت اور دو دو ہونے کی حقیقت کام کررہی ہے، رات کے لیے دن ہے صبح کے لیے شام ہے نر کے لیے مادہ ہے مرد کے لیے عورت ہے زندگی کے لیے موت ہے۔ نظام کائنات اس قدر محکم بنایا ہے کہ تمہارے سیارے اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں اسے مولانا آزاد حقیقت اسلامی سے تعبیر کرتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں : ” حقیقت اسلامی کی اطاعت وانقیاد نے ہر مخلوق کو اپنے اپنے دائرہ عمل میں محدود کردیا ہے اور ہر وجود سرجھکائے ہوئے اپنا اپنا فرض انجام دینے میں مشغول ہے، تمام ستاروں کا باہمی جذب محیط ہمیشہ اس تسویہ ومیزان کے ساتھ قائم ہے کہ عظیم الشان قوتوں کے پہاڑ آپس میں نہیں ٹکراتے۔ ان کی حرکت وسیر کی مقدار اوقات مقررہ میں طلوع وغروب ایک ایسا غیر ممکن التبدیل قانون ہے جس میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی“۔ يس
37 يس
38 يس
39 يس
40 يس
41 يس
42 (٩) آیت ٤١ کے تحت، بھاری جہازوں کا سمندر کو پار کرنا مذکور ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس پر انسان کے معاشی اسباب وذرائع کا انحصار ہے۔ يس
43 يس
44 يس
45 يس
46 يس
47 يس
48 (١٠) دلائل توحید کے بعد اب آخرت کا بیان شروع ہورہا ہے پہلے آخرت کا منظر پیش کیا ہے اور اس کے بعد آخر سورۃ میں اس کے دلائل ذکر کیے ہیں جو آیت، اولم یرو، سے شروع ہوتے ہیں۔ يس
49 يس
50 يس
51 يس
52 يس
53 يس
54 يس
55 يس
56 يس
57 يس
58 يس
59 يس
60 (١١) شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے کو اس کی عبادت کہا ہے۔ یہاں شیطان کی اطاعت کو بندگی اور عبادت سے تعبیر کیا ہے اور عبادت الٰہی کے اس میثاق کو یاد دلا جو، الست بربکم، کے سوال کے جواب میں تمام بنی آدم سے لیاجاچکا ہے پس حقیقت اسلامی چاہتی ہے کہ انسان قوت شیطانی سے باغی ہو کر صرف اللہ تعالیٰ کا ہوجائے۔ يس
61 يس
62 يس
63 يس
64 يس
65 يس
66 يس
67 يس
68 يس
69 يس
70 (١٢) آیت ٦٩، ٧٠ میں کفار کے الزامات کی تردید ہے کفار قریش کو آپ کی دعوت کورد کرنے کے لیے کوئی اور بہانہ نہ ملتا تو آپ کی باتوں کوشاعرانہ تخیل قرار دے کربیوقعت ٹھہرانے کی کوشش کرتے، ان کے جواب میں فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبوت ورسالت کے جس مقام پر فائزہیں شاعری کو اس سے کوئی مناسبت نہیں شاعری کا حسن اور کمال تو جھوٹ، مبالغہ آرائی، بلندخیالی، بلند پروازی اور فرضی نکتہ آفرینی ہے جب کہ نبی (علیہ السلام) کی شان ان چیزوں سے بلند وبالا ہے اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبعیت ہی ایسی بنائی تھی کہ باوجود خاندان عبدالمطلب سے ہونے کے جس کاہرفرد فطرۃ شاعر ہوتا پوری عمر میں کوئی شعر نہ کہا۔ یوں رجز وغیرہ کے موقع پر زبان مبارک سے کبھی کوئی مقفی عبارت ایسی نکل گئی جوشعر کا وزن رکھتی تھی تو وہ الگ بات ہے اسے شعر یا شاعری نہیں کہا جاسکتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود تو کیا شعر کہتے کسی دوسرے شاعر کا کوئی شعر یا مصرع تک اس کے ٹھیک وزن پر ادا نہ کرپاتے (یانہیں کیا کرتے) تھے۔ يس
71 يس
72 يس
73 يس
74 يس
75 يس
76 يس
77 يس
78 يس
79 يس
80 يس
81 يس
82 يس
83 يس
0 الصافات
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور عہد وسطی کی تنزیلات سے ہے اس کاموضوع بھی توحید وآخرت اور رسالت ہے کفار قریش ان تینوں کے منکر تھے اور جب آپ توحید وآخرت کی طرف دعوت دیتے تو مخالفین اسے شاعری یا جنون کہہ کرٹال دیتے اور تمسخر واستہزاء سے اس دعوت کا مقابلہ کرتے اس سورۃ میں ان کو تنبیہ کی گئی ہے اور صاف صاف خبردار کردیا گیا کہ جس پیغمبر کا تم مذاق اڑارہے ہو وہ تم پر غالب آکررہے گا۔ تنبیہ کے ساتھ ساتھ تفہیم وترغیب کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے توحید وآخرت پردلائل کے ساتھ عقیدہ شرک کی لغویت بیانکی ہے اور اسکے برے نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ اہل ایمان کو خوشخبری دی ہے اور اس سلسلہ میں تاریخی وقائع ذکر کیے ہیں۔ الصافات
2 الصافات
3 الصافات
4 الصافات
5 (٢) شروع سورۃ میں اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ جو اس کائنات کا خالق ومالک ہے وہی اصل معبود ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ خالق ومالک اور مربی تو کوئی اور ہستی ہو، اور الہ (مستحق عبادت) کوئی اور ہو۔ الصافات
6 الصافات
7 (٣) عرب میں کہانت کا بہت چرچا تھا اور کاہن غیب کی خبریں دیتے رہتے تھے ان کا دعوی تھا کہ جن وشیاطین ہمارے قبضہ میں ہیں اور وہ انہیں ہر طرح کی خبریں لاکردیتے ہیں جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبوت کا دعوی کیا تو کفار مکہ نے آپ پر بھی کہانت کا الزام لگایاان کے جواب میں اللہ نے فرمایا کہ ملا اعلی تک شیاطین کی رسائی ممکن نہیں اگر وہ ملا اعلی سے کوئی خبر سننے کی کوشش کرتے ہیں تو شہاب ثاقب ان کا تعاقب کرتا ہے اس طرح ملا اعلی کے اس نظام میں شیاطین کی دخل اندازی ممکن نہیں۔ الصافات
8 الصافات
9 الصافات
10 الصافات
11 الصافات
12 الصافات
13 الصافات
14 الصافات
15 الصافات
16 الصافات
17 الصافات
18 (٤) آخرت کے بارے میں کفار یہ شبہ پیش کرتے کہ آخرت ممکن نہیں اس لیے مرنے کے بعد انسان کا جی اٹھنا محال ہے ان کے جواب میں فرمایا کہ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے پھر جس نے پہلی مرتبہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے وہ اسے دوبارہ بھی پیدا کرسکتا ہے۔ الصافات
19 الصافات
20 الصافات
21 الصافات
22 الصافات
23 (٥) ومایعبدون من دون اللہ، سے مراد اصنام وشیاطین وغیرہ ہیں، نیز فرشتے، انبیاء اور صالحین جن کی لوگ پوجا کرتے ہیں اس سے مستثنی نہیں۔ الصافات
24 الصافات
25 الصافات
26 الصافات
27 الصافات
28 الصافات
29 الصافات
30 الصافات
31 (٦) قیامت کے دن پیروؤں اور پیشواؤں کا مباحثہ ہوگا کمزور اپنے پیشواؤں سے کہیں گے کہ تم نے ہمیں گمراہ کیا ان کے پیشوا جواب دیں گے تم ہم پر الزام رکھتے ہو، ہمارا تم پر کیا زور تھا تم نے خود ہی عقل وانصاف کی راہ چھوڑ دی تھی اور ہمارے بہکاوے میں آگئے تھے سوآج ہم سب کو اپنی اپنی غلط کاریوں کا مزہ چکھنا ہے۔ الصافات
32 الصافات
33 الصافات
34 الصافات
35 الصافات
36 الصافات
37 الصافات
38 الصافات
39 الصافات
40 الصافات
41 الصافات
42 الصافات
43 الصافات
44 الصافات
45 الصافات
46 الصافات
47 (٧) اب یہاں سے اہل جنت کا منظر پیش کیا جارہا ہے جنت کی نعمتوں میں خصوصیت کے ساتھ شراب کا ذکر کیا ہے جوہر قسم کی جسمانی اور روحانی ضرررسانی سے پاک ہوگی اور اہل جنت سرور حاصل کرنے لیے اس کے جام پئیں گے اور اس کے بعد دوزخ اور دوزخیوں کے عذاب کا ذکر ہے دوزخ میں جانے کی سب سے بڑی وجہ جو بیان کی گئی ہے کہ ہم نے ان میں منذر (ڈرانے والے) بھیجے لیکن وہ اپنے باپ دادا کی روش پر چلتے رہے۔ الصافات
48 الصافات
49 الصافات
50 الصافات
51 الصافات
52 الصافات
53 الصافات
54 الصافات
55 الصافات
56 الصافات
57 الصافات
58 الصافات
59 الصافات
60 الصافات
61 الصافات
62 الصافات
63 الصافات
64 الصافات
65 الصافات
66 الصافات
67 الصافات
68 الصافات
69 الصافات
70 الصافات
71 الصافات
72 الصافات
73 الصافات
74 الصافات
75 الصافات
76 الصافات
77 الصافات
78 الصافات
79 الصافات
80 (٨) آیت ٧٥ سے ان منذرین کا اجمالا ذکر کیا گیا۔ (الف) حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی قوم کو دعوت دینے کے بعد جب مایوس ہوگئے تو اللہ سے دعا کی کہ میں مغلوب ہوگیا ہوں اب ان سے میرا انتقام لے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو اس کرب عظیم یعنی طوفان سے نجات دی اور تمام کفار کو غرق کردیا۔ (ب)۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی نسل ہی دنیا میں باقی رہ گئی باقی سب ہلاک ہوگئے یا اس کا مطلب ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی نسل تو باقی رہ گئی اور مخالفین نیست ونابود ہوگئے۔ ” سورۃ صافات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے تذکرہ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ ان کے سلام کے ساتھ، فی العالمین، کا لفظ فرمایا لیکن اور انبیاء کی نسبت صرف سلام پر اکتفا کیا، یہ دراصل اسی کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت نوح کی دعوت کسی خاص نسل اور قوم کے زندہ کردینے کے لیے نہ تھی بلکہ اقوام وملل کی ہرنس اس کے دامن میں پناہ لے سکتی ہے“۔ الصافات
81 الصافات
82 الصافات
83 (٩) یہاں پر حضرت ابراہیم کو حضرت نوح علیہما السلام کاشیعہ قرار دیا ہے۔ قرآن میں حضرت ابراہیم کے علاوہ کسی نبی کو نوح کاشیعہ کا یامتبع نہیں کیا ہے حضرت ابراہیم کو ان کی طرف منسوب کیا کیونکہ حضرت نوح نے قوم کی بنیادرکھی تھی اور یہی مشن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تھا۔ چونکہ سب انبیاء علیہم السلام کا مشن ایک ہی ہوتا ہے اس لیے حضرت ابراہیم کے متعلق فرمایا کہ وہ بھی حضرت نوح (علیہ السلام) کے طریق پر چلنے والے تھے۔ الصافات
84 الصافات
85 الصافات
86 الصافات
87 الصافات
88 الصافات
89 الصافات
90 الصافات
91 الصافات
92 الصافات
93 الصافات
94 الصافات
95 الصافات
96 الصافات
97 الصافات
98 (١٠) قرآن مجید کے مختلف مقامات پر غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ قوم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینک دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں معجزانہ طور پر بچالیا اس طرح مشرکین کو نیچا دکھا دیا۔ الصافات
99 الصافات
100 الصافات
101 الصافات
102 (١١) انبیاء علیہم السلام کا خواب چونکہ ایک قسم کی وحی ہوتا ہے اس بنا پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے بیٹے کی قربانی کے لیے تیار ہوگئے اور بیٹے کو کنپٹی کے بل لٹایا جیسا کہ ذبیحہ کولٹا جاتا ہے بعض علماء نے جبین کاترجمہ پیشانکی کیا ہے، یعنی اسے اوندھے منہ لٹادیا تاکہ ذبح کرتے وقت بیٹے کا چہرہ دیکھ کر شفقت ومحبت پدری ہاتھ میں لرزش پیدا نہ کردے، بعض صحابہ سے بھی یہی تفسیر منقول ہے۔ واللہ اعلم۔ الصافات
103 الصافات
104 الصافات
105 (١٢) تو نے خواب سچ کردکھایا کیونکہ خواب میں صرف یہ دکھایا گیا کہ تھا کہ ذبح کررہے ہو یہ نہیں کہ تم نے ذبح کردیا اس سے مقصود تمہارا امتحان لینا تھا یہ مقصد نہیں تھا تمہارے ہاتھ سے بچے کو ذبح کرا دیا جائے یہان پر جس بڑی قربانی کا فدیہ مذکور ہے اس سے مراد مینڈھا ہے جیسا کہ روایات میں مذکور ہے اور بائبل میں اس کی تائید ہوتی ہے اس طریقہ سے قیامت تک کے لیے قربانی کی سنت جاری ہوگئی کہ اسی تاریخ کو تمام اہل ایمان دنیا بھر میں جانور ذبح کرکے اس عظیم الشان واقعہ کی یاد تازہ کرتے ہیں اس لیے اسے بڑی قربانی تعبیر کیا گیا ہے۔ ” جب حقیقت اسلامی کی آخری مگر اصلی آزمائش کا وقت آیا تو وہ اسلام ہی تھا جس نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی گردن جھکا دی تاکہ اپنی جان عزیز کو اس کی راہ میں قربان کردے جب باپ نے بیٹے کو مینڈھے کی طرح پکڑ کر زمین پر گرادیا تو وہ اسلام ہی کا ہاتھ تھا جوحجرت ابراہیم کے اندر کام کررہا تھا اور جب بیٹے نے ذوق وشوق کے ساتھ جو مدتوں کے پیاسے کو آب شیریں سے ہوتا ہے اپنی گردن مضطرب ہوکرچھری سے قریب کردی تو وہ حقیقت اسلامی ہی کی محویت کا استیلاء تھا جس نے نفس اسماعیل کو فنا کردیا تھا اور اسی فنا سے مقام ایمان کو بقا ہے“۔ الصافات
106 الصافات
107 الصافات
108 الصافات
109 الصافات
110 الصافات
111 (١٣) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جس لڑکے کی قربانی پیش کی اور جنہوں نے خود کو قربانی کے لیے پیش کیا وہ کون تھے ؟ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) تھے بائبل میں اکلوتے بیٹے کی قربانی کا ذکر ہے اور یہ ظاہر ہے کہ وہ اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل ہی ہوسکتے ہیں نہ کہ حضرت اسحق، کیونکہ بائبل میں ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) حضرت اسحق سے چودہ برس بڑے تھے جب حضرت اسماعیل پیدا ہوئے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عمر چھیاسی برس کی تھی اور حضرت اسحاق کی پیدائش کے وقت سو سال کے ہوچکے تھے پھر حضرت اسحق اکلوتے بیٹے کیسے ہوسکتے ہیں؟۔ اس مسئلہ میں گوہمارے مفسرین نے دونوں قول نقل کیے ہیں مگر اصح یہی ہے کہ ذبیح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہی تھے۔ (الف) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کے جواب میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی بشارت دی گئی اور انہیں غلام حلیم، کہا۔ اور پھر اس لڑکے متعلق ارشاف فرمایا، فلمابلغ معہ السعی قال یابنی انی اری فی المنام انی اذبحک فانظر ماذاتری، مگر حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی خوش خبری حضرت سارہ کودی گئی اور قرآن مجید نے انہیں غلام علیم کہا ہے اور ظاہر ہے کہ ذبح کا حکم، غلاحلیم، کے لیے ہے نہ غلام علیم کے لیے۔ (ب) حضرت اسحق (علیہ السلام) کی بشارت دیتے وقت یہ بھی فرمایا کہ ان کے ہاں حضرت یعقوب (علیہ السلام) پیدا ہوں گے جیسا کہ سورۃ ہود آیت ٧١ میں ہے تو پھر حضرت ابراہیم کون ان کے ذبح کا حکم کیونکر دیاجاسکتا ہے؟ (ج) قرآن مجید نے ذبح کاسارا قصہ بیان کرنے کے بعد حضرت اسحاق کی خوشخبری کا ذکر کیا ہے اور فرمایا کہ وہ، نبیامن الصالحین، ہوگا تو پھر انہیں ذبح کرنے کا حکم کیسے دیا جاسکتا ہے۔ ؟ (د) معتبر روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے فدیہ میں جو مینڈھا ذبح کیا گیا تھا اس کے سینگ خانہ کعبہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر کے زمانہ تک محفوظ رہے تھے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعہ خانہ کعبہ (مکہ) میں پیش آیا تھا نہ کہ شام میں اور خانہ کعبہ کی تعمیر میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) شریک تھے حافظ ابن کثیر مندرجہ بالا دلائل کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے ذبح ہونے کے متعلق جس قدر بھی آثار ہیں وہ سب کعب احبار سے منقول ہیں جو حضرت عمر کے زمانہ میں مسلمان ہوئے تھے اور لوگوں کواسرائلیات سنایا کرتے تھے لہذایہ آثار قابل اعتماد نہیں ہوسکتے۔ الصافات
112 الصافات
113 الصافات
114 الصافات
115 الصافات
116 الصافات
117 الصافات
118 الصافات
119 الصافات
120 الصافات
121 الصافات
122 الصافات
123 (١٤) حضرت الیاس کا شمار انبیائے بنی اسرائیل میں ہوتا ہے ان کا زمانہ ٨٧٥ اور ٨٥٠ ء کے درمیان متعین کیا گیا ہے وہ جلعاد کے رہنے والے جوکہ دریائے یرموک کے جنوب میں واقع ہے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کے بعد شمالی فلسطین میں جواسرئیلی ریاست قائم ہوئی اس میں شرک وبت پرستی اور فسق وفجور روز افزوں ہوتا گیا حتی کہ اسرائیل کے بادشاہ اخیاب نے سامریہ (صدرمقام) میں بعل کامندر اور مذبح تعمیر کیا اور اس کی پرستش شروع کردی اور اس بت کے نام پر قربانیاں دی جانے لگیں، ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف حضرت الیاس کو مبعوث کیا حضرت الیاس نے بتوں کی مذمت کی اور ایک اللہ وحدہ لاشریک کی طرف دعوت دی اس پر قوم دشمن ہوگئی حضرت الیاس ملک چھوڑ کر کوہ سینا کے دامن میں پناہ گزین ہوگئے اور پھر چند سال تک تبلیغی مہم جاری رکھی مگر قوم راہ راست پر نہ آئی آخر حضرت الیاس کو اللہ نے اس دنیا سے اٹھالیا۔ الصافات
124 الصافات
125 الصافات
126 الصافات
127 الصافات
128 الصافات
129 الصافات
130 الصافات
131 الصافات
132 الصافات
133 الصافات
134 الصافات
135 الصافات
136 الصافات
137 الصافات
138 الصافات
139 (١٥) حضرت یونس کا عبرانی نام یوناہ تھا جوعربی میں یونس ہوگیا یہ بھی انبیائے بنی اسرائیل میں سے ہیں ان کا زمانہ ٦٠، ٨٧٤ ء ق م بتایا جاتا ہے اور عہد عقین کے نوشتوں میں سے ایک نوشتہ ان کے نام سے بھی ہے اس نوشتہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اہل نینوی کو اطلاع دی تھی کہ چالیس دن کے بعد تمہارا شہر تباہ ہوجائے گایہ سن کر وہ بجائے سرکشی کے توبہ واستغفار کرنے لگے اور تباہی سے بچ گئے (سورہ یونس ٩٨)۔ نینوی شہر جو آشوریوں کا مرکز تھا دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے پر موصل شہر کے عین بالمقابل واقع تھا اس کا محیط ساٹھ میل تھا جس سے اس شہر کی وسعت کا پتہ چلتا ہے اس پر حضرت یونس حکم خداوندی کے بغیر دوڑ کر کشتی میں سوار ہوگئے کشتی گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی تھی اثنائے سفر میں مسافروں کو بچانے کے لیے ایک شخص دریا میں اتارنا ضروری تھا چنانچہ قرعہ اندازی میں حضرت یونس کا نام نکل آیا اور وہ سمندر میں پھینک دیے گئے اور ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا ان تاریکیوں میں پہنچ کرانہوں نے اللہ کی طرف رجوع کیا اور تسبیح کرنے لگے اس مچھلی نے ان کو ساحل پر اگل دیا اور حضرت یونس (علیہ السلام) معجزانہ طور پر زندہ نکل آئے ساحل چونکہ چٹیل میدان تھا اللہ نے اس پر بیل اگادی اس کے پتوں نے حضرت یونس (علیہ السلام) پر سایہ کا کام دیا اور اس کے پھل سے غذا حاصل کرتے رہے بالآخر اللہ نے ان کو ایک لاکھ سے زائد آبادی کی طرف مبعوث کیا اور وہ حضرت یونس کی دعوت پر ایمان لے آئے اور ایک وقت تک انہیں مہلت دے دی گئی۔ چنانچہ حضرت یوناہ، کے بعد ٦٩٠ ق م میں ان کا ظلم وفساد بڑھ گیا ارایک اسرائیلی نبی، ناموم، نامی نے انہیں پیش آنے والی تباہی کی خبر دی اس انذار تبشیر کے ستر برس بعد اہل بابل نے ان پر حملہ کیا اور دجلہ کے سیلاب سے نینوی کی چار دیواری میں دراڑیں پڑگئیں اور حملہ آوروں کے لیے کوئی روک باقی نہ رہ گئی۔ چنانچہ آشوری تمند کایہ مرکز اس طرح نابود ہوا کہ ٢٠٠ ق م اس کا جائے وقوع بھی لوگوں کو معلوم نہ تھا۔ الصافات
140 الصافات
141 الصافات
142 الصافات
143 الصافات
144 الصافات
145 الصافات
146 الصافات
147 الصافات
148 الصافات
149 الصافات
150 الصافات
151 الصافات
152 الصافات
153 الصافات
154 الصافات
155 الصافات
156 الصافات
157 (١٦) آیت نمبر ١٤٩ میں اہل مکہ سے سوال کیا گیا کہ، فاستفتھم، اب یہاں دوسرا سوال ہے اس طرح سورۃ کے مضمون میں ربط پیدا ہوا گیا ہے اس سوال سے مقصود اہل مکہ کو ان کی جہالت پر متنبہ کرنا مقصود ہے۔ (الف) روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض قبائلی عربوں کا عقیدہ یہ تھا کہ ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں، قرآن مجید نے بتلایا کہ ملائکہ کو، بنات اللہ، قرار دینے کی اساس یہی ہوسکتی ہے کہ یاتودعوی کرنے والے نے مشاہدہ کیا ہواوریا پھر اس کے پاس کوئی کتابی دلیل ہو جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں پھر جب یہ دونوں چیزیں نہیں توایسا دعوی کرنا سراسر جہالت ہے۔ (ب) یہاں پر، الجنہ، سے مراد ملائکہ بھی ہوسکتے ہیں جیسا کہ بعد کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے۔ (ج) اللہ کے لشکر غالب ہیں، پیغمبروں نے جوحقائق پیش کیے ہیں وہ باقی ہیں اور انسان کے خودساختہ فلسفے ختم ہوگئے پس یہاں پر غلبہ سے مراد دلیل وبرہان کاغلبہ اور ان کا اخلاق تفوق ہے اب رہا سیاسی غلبہ تو یہ ضروری نہیں ہے۔ الصافات
158 الصافات
159 الصافات
160 الصافات
161 الصافات
162 الصافات
163 الصافات
164 الصافات
165 الصافات
166 الصافات
167 الصافات
168 الصافات
169 الصافات
170 الصافات
171 الصافات
172 الصافات
173 الصافات
174 الصافات
175 الصافات
176 الصافات
177 الصافات
178 الصافات
179 الصافات
180 الصافات
181 الصافات
182 الصافات
0 ص
1 ص
2 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور اعلان دعوت کے بعد یہ سورۃ نازل ہوئی ہے جوکہ تقریبا ٤ بعثت کے بعد ہے بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوطالب کے مرض الموت کے زمانہ میں یہ سورۃ نازل ہوئی جو کہ، ١٠، ١١، بعثت ہے۔ اس کاموضوع بھی توحید ونبوت ہے اور ضمنا آخرت کا ذکرب ھی آگیا جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعوت توحید کا آغاز فرمایا اور برملاطور پر بتوں کی مذمت شروع کی توقریش کے سردار جمع ہو کر سردار ابوطالب کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کا بھتیجا ہمارے بتوں کی مذمت نہ کرے اور ہمیں ہماری حالت پرچھوڑ دے تو ہم اسے اس کے دین پر چھوڑ دیتے ہیں اور اس سے کچھ تعارض نہیں کریں گے اس پر ابوطالب نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلایا اور سرداران قریش کا فیصلہ سنایا اس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، چچاجان میں تو ان کے سامنے ایساکلمہ پیش کرتا ہوں اگر یہ اسے مان لیں تو عربان کا تابع فرمان اور عجم ان کا باج گزار ہوجائے۔ اس پر انہوں نے کہ اایک نہیں ہم ایسے دس کلمے کہنے کو تیار ہیں مگر بتاؤ توسہی کہ وہ کلمہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا، لا الہ الا اللہ۔ یہ سن کر وہ سب یکبارگی اٹھ کرکھڑے ہوگئے اور وہ باتیں کہنے لگے جن کا اس ابتدائی سورۃ میں ذکر ہے۔ ص
3 ص
4 ص
5 ص
6 ص
7 ص
8 (٢) دراصل یہ میرے ذکر کے بارے میں شک میں پڑے ہوئے ہیں، یعنی یہ لوگ دراصل آپ کو نہیں جھٹلا رہے ہیں بلکہ میرے کلام کی تکذیب کررہے ہیں نبوت ایک وہبی چیز ہے اور اللہ جسکوچاہے عطا کردے لہذاان کایہ کہنا فضول ہے کہ کیا تمہارے درمیان یہی ایک شخص رہ گیا ہے جس پر اللہ کا ذکر نازل کیا گیا، یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے نبی بنانا ہوتا توقریش کے سرداروں میں سے کسی ایک کو نبی بنا دیتا ۔ ص
9 ص
10 ص
11 ص
12 ص
13 ص
14 ص
15 ص
16 ص
17 (٣) آیت ١٧ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کی تلقین کی اور حضرت داؤد کا اسوہ سامنے رکھنے کی ہدایت فرمائی کہ انہوں نے طالوت کے عہد حکومت میں بہت صبر کیا آخر حکومت انہیں ملی اور مخالفین زیر ہوئے یاجیسے حضرت داؤد (علیہ السلام) پر مخالفین نے الزام لگائے حالانکہ وہ بری تھے اسی طرح یہ لوگ آپ پر الزام لگارہے ہیں۔ یہاں پر حضرت داؤد کو، ذالاید، فرمایا ہے یعنی جسمانی لحاظ سے آپ نہایت قوی تھے۔ بائبل میں حضرت داؤد (علیہ السلام) پر زنا کرنے اور پھر اوریاہ حتی کو ایک جنگ میں قصدا مرواکر اس کی بیوی سے نکاح کرلینے کا صاف صاف الزام ہے مگر قرآن مجید نے اس واقعہ کو کنایتہ زکر کیا ہے جس سے یہ تو احساس ہوتا ہے کہ حضرت داؤد سے کوئی غلطی ہوئی ہوگی لیکن اس کی تصریح نہیں ہے۔ ہمارے بعض غیرمحتاط مفسرین نے تو اسرائیلی قصہ کو جوں کاتوں تسلیم کرلیا ہے اور بعض نے انکار کرکے رد کردیا ہے۔ حافظ ابن کثیر بائبل میں مذکور قصہ کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں، قد ذکر المفسروں ھناقصہ اکثرھا ماخوذ من الاسرائیلیات ولم یثبت فیھا عن المعصوم حدیث یجب اتباعہ۔ اسی طرح حافظ ابن حزم نے، الفصل، میں ان کی تردید کی ہے۔ دراصل اس قصہ میں قرآن مجید نے جو کچھ بیان کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بلاشبہ حضرت داؤد (علیہ السلام) اور یاہ کی بیوی پر مائل ہوئے اور طلاق کا مطالبہ کیا اگر اسرائیلی شریعت میں بھی طلاق مان لیاجائے مگر یہ مطالبہ کوئی کبیرہ گناہ نہ تھا تاہم نبی اور بادشاہ کی شان کے شایان بھی نہ تھا جب کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے حرم میں پہلے ہی متعدد بیویاں تھیں اس پر حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس دوشخص دنبیوں کا قضیہ لے کر آئے اور وہ بھی دیوار پھاند کرآئے جب کہ عدالت کا وقت ختم ہوچکا تھا۔ حضرت داؤد نے ان کے درمیان صحیح فیصلہ تو کردیا مگر ساتھ ہی انہیں تنبہ ہوا کہ اور یاہ سے میرا مطالبہ بھی تو اسی طرح ناحق ہی ہے چنانچہ انہوں نے اپنے مطالبہ سے رجوع کرلیا اور اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ بجالائے۔ قرآن مجید نے جس انداز سے یہ قصہ بیان کیا ہے اس سے نہ تو نبی کی عصمت مجروح ہوتی ہے اور نہ حضرت داؤد ہی کے مقرب الٰہی ہونے میں فرق آتا ہے مگر بائبل میں یہود کی حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے دشمنی نے اس قصہ کو طول دے دیا ہے کہ ایک توحضرت داؤد پر زنا کی تہمت ہے اور دوسری طرف حضرت سلیمان کو معاذ اللہ زنا کا نطفہ بتایا ہے حالانکہ قرآن مجید نے سلیمان کو اللہ کی بخشش قرار دیا ہے۔ ص
18 ص
19 ص
20 ص
21 ص
22 ص
23 ص
24 ص
25 ص
26 ص
27 (٤) اب یہاں آیت ٢٧ سے جزاوسزا کی ضرورت اور اس کے وقوع پر دلیل دی جاہی ہے جسے قرآن مجید نے متعدد مقامات پر پیش کیا ہے یعنی آسمان اور زمین میں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے محض کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا گیا کہ اس پر کوئی برایابھلا نتیجہ مرتب نہ ہو بلکہ یہ تخلیق باحکمت اور مقصد کے تحت ہے اور نیک وبد یکساں نہیں ہوسکتے۔ ص
28 ص
29 ص
30 ص
31 ص
32 ص
33 ص
34 ص
35 (٥) قصہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) : جس طرح حضرت داؤد (علیہ السلام) کی تعریف کے بعد ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے اسی طرح حضرت سلیمان کی تعریف کے بعد اس فتنہ کا ذکر کیا ہے جس میں وہ مبتلا ہوئے اور پھر اپنی غلطی پر متنبہ ہوکرانہوں نے معافی مانگ لی اور اپنے رب کی طرف رجوع ہوئے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے متعلق قرآن مجید نے مختصر الفاظ میں جو واقعہ بیان کیا ہے اس کے پس منظر میں بعض نے لمباچوڑا افسانہ ذکر کیا ہے اسرائیلی روایات میں ہے کہ حضرت سلیمان جس انگوٹھی کی بدولت حکمرانی کرتے تھے وہ کسی نہ کسی طرح شیطان نے چھین لی اور وہ حکمران بن بیٹھا، ایت میں، القینا علی کرسیہ جسد ثم اناب، کا یہی مفہوم بیان کیا گیا ہے، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں : ” رویت ھذہ القصۃ مطولۃ عن جماعۃ من السلف (رض) وکلھا متعلقاہ من قصص اھل الکتاب واللہ اعلم بالصواب“۔ بعض مفسرین نے بیان کیا ہے کہ حضرت سلیمان نے ایک روز قسم کھائی کہ آج رات اپنی ستربیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر ایک سے مجاہد پیدا ہوگا مگر وہ انشاء اللہ کہنابھول گئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف ایک بیوی حاملہ ہوئی اور ان سے بھی ایک ادھورا بچہ پیدا ہوا جودائی نے لاکر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی کرسی پر ڈال دیا، یہ دیکھ کر حضرت سلیمان ندامت کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع ہوئے اور انشاء اللہ نہ کہنے پر استغفار کیا۔ یہ واقعہ مختلف طریق سے مروی ہے مگر بعض جدت مفسرین نے صحت سند کے باوجود اس لیے اس کی تکذیب کی ہے کہ اس کا مضومن صریح عقل کے خلاف ہے پھر انہوں نے تورات کی رو سے آیت کی تاویل پیش کی ہے کہ دراصل حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے لڑکے رحبعام کو اپنا وارث بنانا چاہتے تھے لیکن وہ نالائق ثابت ہوا اسی کو اللہ نے حضرت سلیمان کے حق میں فتنہ قرار دیا ہے اس پر حضرت سلیمان (علیہ السلام) متنب ہوئے اور بالآخر اللہ سے دعا کی جو قرآن مجید میں مذکور ہے اس کے بعد حضرت سلیامن نے اپنی جانشینی کے لیے نہ وصیت کی اور نہ کسی کی اطاعت کے لیے لوگوں کو پابند کیا حضرت سلیمان کے بعد اعیان سلطنت نے رحبعام کو تخت پر بٹھایا۔ مگر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ بنی اسرائیل کے دس قبیلے شمالی فلسطین کا علاقہ لے کرالگ ہوگئے اور صرف یہوداہ کا قبیلہ بیت المقدس کے تخت سے وابستہ رہ گیا۔ ص
36 ص
37 ص
38 ص
39 ص
40 ص
41 (٦) عہد عتیق میں ایوب کے نام سے ایک صحیفہ ہے اور اس میں اس نام کے ایک راست باز اور صابر انسان کی سرگزشت لکھی ہے آیت ٤١ میں اس کی طرف اشارہ ہے اور چند الفاظ میں سارے صحیفہ کے مضمون کو سمیٹ دیا گیا ہے۔ مولانا آزاد رحمہ اللہ نے ترجمان القرآن، جلد دوم کے آخر میں ان کی سرگزشت پر بہت کچھ لکھا ہے اور ان کو عربی نژاد قرار دیا ہے اور پھر عربی زبان کی قدامت پر تاریخی شہادتیں پیش کی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عربی زبان ویدوں کی زبان سے قدیم تر ہے زیادہ سے زیادہ ہم رگ وید کی تدوین کو عربی کا معاصر قرار دے سکتے ہیں اور قرآن مجید کا اپنے آپ کو عربی مبین کہنا وسیع ترمعنی کے اعتبار سے ہے جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ صاحب تفہیم القرآن سورۃ انبیا کے توضیحی نوٹ ٧٦ میں پہلے تو مولانا آزاد کے بضد سفر ایوب کو ناقابل اعتمار قرار دیتے ہیں اور پھر لکھتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ قابل اعتماد شہادت اگر کوئی ہے تو وہ یہ ہے کہ یسعیاہ نبی اور حرزقیل نبی کے صحیفوں میں انکاذکر آیا ہے اور یہ صحیفے تاریخی حیثیت سے مستند ہیں اور یہ دونوں بالترتیب آٹھویں صدی اور چھٹی صدی قبل مسیح میں گزرے ہیں اس لیے یہ امر یقینی ہے کہ ایوب (علیہ السلام) نویں صدی یا اس سے پہلے کے بزرگ ہیں اب رہی قومیت، تو سورۃ نساء اور سورۃ انعام میں جس طرح انکاذکر آیا ہے اس سے گمان ہوتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل ہی میں سے تھے مگر وہب بن منبہ کایہ بیان بھی کچھ بعیداز قیاس نہیں کہ وہ حضرت اسحاق کے بیٹے عیسیٰ کی نسل سے تھے۔ واللہ اعلم۔ حضرت ایوب کے اس قصے کو قرآن مجید نے اس انداز سے بیان فرمایا ہے گویا حضرت ایوب (علیہ السلام) صبر کا مجسمہ تھے مگر بائبل میں انہیں شاکی اور بے صبر انسان کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔ ص
42 ص
43 ص
44 ص
45 ص
46 ص
47 ص
48 (٧) انبیائے کرام کے سلسلے میں حضرت الیسع اور ذوالکفل کا نام مذکور ہے حضرت الیسع بنی اسرائیل کے اکابر انبیاء سے تھے دریائے اردن کے کنارے ایک مقام ابیل محولہ کے رہنے والے تھے اور حضرت الیاس کے پروردہ تھے تقریبا بارہ سال حضرت الیاس کے زیرتربیت رہے پھر جب ان کو اللہ نے اٹھالیا تو یہ ان کی جگہ مقرر ہوئے شمالی فلسطین کی اسرائیلی ریاست جب شرک وبت پرستی اور خلاقی برائیوں میں غرق ہوگئی تو انہوں نے ایک بادشاہ کی مدد سے بت پرستی کا خاتمہ کیا لیکن حضرت الیسع کی وفات کے بعد وہی برائیاں پھر لوٹ آئیں۔ علامہ آلوسی، روح المعانی، میں لکھتے ہیں کہ یہودیوں کایہ دعوی کہ حزقیال نبی ہیں جو بنی اسرائیل کی اسیری کے دوران میں ٥٧٩ ق م کے زمانہ نبوت سے سرفراز ہوئے اور نہر خابور کے کنارے ایک بستی میں فرائض نبوت سرانجام دیتے رہے۔ مولانا ابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ، تفہیم القرآن، میں لکھتے ہیں کہ بائبل کے صحیفہ حزقی اہل دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ واقعی صابر وصالح تھے جیسا کہ قرآن مجید نے ان کے اوصاف بیان کیے ہیں۔ بخت نصر نے عراق میں اسرائیلی قیدیوں کی ایک نوآبادی دریائے خابور کے کنارے قائم کردی تھی جس کا نام، تل ابیب، تھا اسی مقام پر ٥٩٤، ق م میں حزقی ایل نبوت سے سرفراز ہوئے اور مسلسل بائیس سال تک تبلیغی خدمات سرانجام دیتے رہے بائبل کا صحیفہ حزقی ایل پڑھ کر واقعی یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ الہامی کلام ہے۔ ص
49 ص
50 ص
51 ص
52 ص
53 ص
54 ص
55 ص
56 ص
57 ص
58 ص
59 ص
60 ص
61 ص
62 ص
63 ص
64 ص
65 (٨) اب آیت ٦٥ سے پھر وہی مضمون شروع ہورہا ہے جس سے اس سورۃ کا افتتاح ہوا تھا یعنی نبوت وحی کی صداقت اور آخرت پر استدلال، نبوت ورسالت پر کفار کے اعتراضات کے مختلف جوابات دیے گئے ہیں پہلاجواب یہ دیا کہ اللہ کی رحمت کے خزانوں کے تم مالک نہیں ہو اب آخری آیت میں سرداران قریش کو متنبہ کیا ہے کہ ابلیس کی طرح تم حسد وبغض اور تکبر سے کام لے رہے ہو۔ اور پھر پیغمبروں کی صداقت پر قرآن مجید نے بار بار اس دلیل کو ذکر کیا ہے کہ انبیائے کرام ذاتی اغراض سے پاک ہوتے ہیں اور وہ تبلیغ ودعوت کے اجر کے طالب نہیں ہوتے۔ ص
66 ص
67 ص
68 ص
69 ص
70 ص
71 ص
72 ص
73 ص
74 ص
75 ص
76 ص
77 ص
78 ص
79 ص
80 ص
81 ص
82 ص
83 ص
84 ص
85 ص
86 ص
87 ص
88 ص
0 الزمر
1 تفسیر وتشریح۔ (١) آیت ١٠ میں ہجرت حبشہ کی طرف ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہی سورت ہجرت حبشہ سے پہلے نازل ہوچکی تھی دوسری مکی سورتوں کی طرح اس سورۃ میں بھی توحید آخرت کا بیان ہے اور پیغمبر (علیہ السلام) کو صبر وثبات کی تعلیم دی گئی ہے کہ کفار کے ظلم وستم کے مقابلہ میں وطن چھوڑا جاسکتا ہے مگر اس دعوت سے دست بردار نہیں ہوا سکتا۔ الزمر
2 (٢) قرآن کی حقانیت بیان کرنے کے بعد دعوت اسلامی کے مقصد اصلی کی نشان دہی کی ہے یعنی اللہ کی عباسدت کرنا اور دین کواسی کے لیے خالص کرنا۔ الزمر
3 (٣) کفار کا عقیدہ تھا کہ خالق اللہ ہی ہے اور وہی اصل معبود ہے لیکن اس کی بارگاہ بہت بلند ہے اور اس تک بلاواسطہ ہماری رسائی نہیں ہوسکتی اس لیے ہم بزرگ ہستیوں کو ذریعہ بناتے ہیں تاکہ یہ ہماری دعائیں اور التجائیں اللہ تک پہنچا دیں یہی بات بالعموم دنیا بھر کے مشرکین کہتے آئے ہیں آئندہ آیت ٣ میں مشرکین کے اسی عقیدہ کی تردید کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ الزمر
4 (٤) پھر کچھ مشرک ایسے تھے جو اللہ کی طرف اولاد کی نسبت کرتے تھے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے۔ بعض انباء (عیسی، عزیر علیہما السلام) کوابن اللہ کہتے، یہاں پر اسی عقیدہ کی تردید ہے۔ الزمر
5 (٥) آیت ٥ میں واضح کیا کہ کائنات کایہ نظام حق پر قائم ہے اور صاف شہادت دے رہا ہے کہ ایک خدا اس کا خالق ہے اور ایک ہی خدا اس کا مالک ومدبر ہے اس کے برعکس اگر کوئی شخص یہ فرض کرتا ہے کہ اس دنیا کا کوئی خالق نہیں ہے یافرض کرتا ہے کہ یہاں بہت سے خدا ہیں تو ان مفروضات کی بدولت حقیقت تبدیل نہیں ہوگی۔ الزمر
6 (٦) قرآن مجید بار بار، توحید ربوبیت، سے توحیدالوہیت، پر استدلال فرماتا ہے یعنی جب وہی کائنات کا خالق اور مالک ہے توعبادت بھی اسی کی کرنی چاہیے لیکن معلوم نہیں کہ انسان کیسے بہک رہا ہے؟۔ الزمر
7 الزمر
8 (٧) آیت ٨ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ رنج ومصیبت کی حالت میں انسان کے اندروجدانی طور پرولولہ اٹھتا ہے کہ ایک بالاتر ہستی موجود ہے جو میرے دکھ درد کو دور کرسکتی ہے اور اسی کو پکارنا چاہیے لیکن جب مصیبت دور ہوجاتی ہے تو پھر عیش وراحت کی غفلتوں میں پڑ کر اسے بھول جاتا ہے اور دوسروں کو اللہ کے ہمسر بنانے لگ جاتا ہے قرآن مجید نے جابجا اس فطری حالت سے استشہاد کیا ہے کہ انسانی فطرت اپنے اندرونی ادراک میں خدا کی ہستی کا ادراک رکھتی ہے اور عراض وغفلت اور شرک کی حالت وجدانی نہیں بلکہ خارجی اثرات کا نتیجہ ہے۔ الزمر
9 (٨)، جوجانتے ہیں، یعنی اللہ و رسول کی بتائی ہوئی باتوں کو مانتے ہیں اور جو نہیں مانتے یہ دونوں کب برابر ہوسکتے ہیں؟۔ ” یادرہے کہ یہ ایک نہایت اہم اور بصیرت طلب آیت کریمہ ہے ایک ایسے قانت ومنقطع شخص کی مثال دے کر فرمایا، ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون۔ غور کیجئے کہ بہ ظاہر اسے علم وجہل سے کیا تعلق تھا؟ اصل یہ ہے کہ جو حالت زار شخص (قانت ومنقطع) کی بیان کی گئی ہے وہی فی الحقیقت علم وحکمت حقیقۃ کا انتہائی مرتبہ ہے اور وہی حالت ہے جسے علم کا اصلی نتیجہ یقین کرنا چاہیے“۔ الزمر
10 الزمر
11 الزمر
12 الزمر
13 الزمر
14 الزمر
15 الزمر
16 الزمر
17 الزمر
18 الزمر
19 الزمر
20 الزمر
21 (٩) آیت ٢١ میں ایک قانون قدرت کی طرف اشارہ کیا ہے جو سب میں یکساں جاری وساری ہے یعنی بارش سے کھیتی کا اگنا اور مختلف مدارج طے کرنے کے بعد اس کا فنا ہوجانا اس کو عقل مندوں کے لیے نصیحت فرمایا کیونکہ خود انسان کی بھی یہی حالت ہے پہلے بچہ ہوتا ہے پھر جوان ہوتا ہے پھر پختہ ہوکربوڑھاہو جاتا ہے اور آخر کار دنیا سے سدھار جاتا ہے۔ اور یہی حال دنیا کا ہے اس کی سب زینتیں عارضی اور چند روزہ ہیں اور آخرکار اس کی ہر چیز کو فنا ہے اس کے ہر کمال کو انحطاط ہے اور ہر عروج کا زوال ہے۔ ” نظام ربوبیت کی یکسانی اور ہم آہنگی ہر وجود اور گوشے میں نظر آتی ہے انسان کا بچہ درخت کاپودا تمہاری نظر میں کتنی ہے بے جوڑ چیزیں ہیں لیکن اگر ان کی نشوونما کا کھوج لگاؤ گے تو دیکھ لو گے کہ قانون پرورش کی یکسانی نے دونوں کو ایک ہی رشتے میں منسلک کردیا ہے یہاں تک کہ ہر وجود اپنے سن کمال تک پہنچ جاتا ہے اور جب سن کمال تک پہنچ گیا تواز سرنوضعف وانحطاط کا دورشروع ہوجاتا ہے پھر اس دور کا خاتمہ بھی سب کے لیے ایک ہی طرح کا ہے کسی دائرے میں اسے مرجانا کہتے ہو کسی میں مرجھا جانا اور کسی میں پامال ہوجانا۔ الزمر
22 الزمر
23 الزمر
24 الزمر
25 الزمر
26 الزمر
27 الزمر
28 الزمر
29 الزمر
30 الزمر
31 الزمر
32 الزمر
33 الزمر
34 الزمر
35 الزمر
36 الزمر
37 الزمر
38 الزمر
39 الزمر
40 الزمر
41 الزمر
42 (١٠) آیت ٤٢ میں دراصل انسان کو یہ احساس دلایا ہے کہ موت اور زیست اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے نیند کی حالت میں روحوں کے قبض سے مراد احساس وشعور فہم وادراک اور ارادہ کی قوتوں کا معطل کردینا ہے اسی بنا پر مثل مشہور ہے النوم اخوالموت۔ اگر انسان نوم ویقطہ کی اس حالت پر غور کرے توسمجھ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی وسعت وقدرت سے مردوں کو بھی زندہ کرسکتا ہے۔ الزمر
43 الزمر
44 الزمر
45 (١١) آیت ٤٥ میں مشرک کی حالت بیان کی ہے کہ گویہ لوگ زبان سے اللہ کی عظمت اور محبت کا اعتراف کرتے ہیں مگر اکیلے خدا کی حمدوثنا پر خوش نہیں ہوتے جب تک کہ دوسرے پیروں فقیروں اور دیوتاؤں کی کرامات کا ذکر نہ کیا جائے آج کل بھی خالص توحید کا وعظ کہنے والوں کو منکراولیاء سمجھا جاتا ہے اور واعظ بھی سامعین کو خوش کرنے کے لیے ادھر ادھر کی گپیں ہانکنا ضروری خیال کرتے ہیں الغرض اس آیت کے مضمون کی میزان پر ہر شخص اپنے ایمان اور عقیدہ توحید کو تول سکتا ہے۔ الزمر
46 الزمر
47 الزمر
48 الزمر
49 الزمر
50 الزمر
51 الزمر
52 الزمر
53 الزمر
54 الزمر
55 الزمر
56 الزمر
57 الزمر
58 الزمر
59 الزمر
60 الزمر
61 الزمر
62 الزمر
63 الزمر
64 الزمر
65 الزمر
66 الزمر
67 الزمر
68 الزمر
69 الزمر
70 الزمر
71 الزمر
72 الزمر
73 الزمر
74 الزمر
75 الزمر
0 غافر
1 غافر
2 تفسیر وتشریح۔ (١) اس سورۃ کے تین نام ہیں : سورۃ مومن، سورۃ غافر اور سورۃ طول۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ اس کانزول سورۃ زمر کے بعد ہے اس سورۃ کے مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں کفار مکہ ایک طرف تو بحث ومباحثہ اور الزام تراشیوں سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کررہے تھے اور قرآن مجید پر مختلف قسم کے اعتراضات کررہے تھے اور دوسری طرف آپ کو (معاذ اللہ) قتل کردینے کے منصوبے بنارہے تھے اور اس کے لیے فضا ہموار کررہے تھے۔ اس سورۃ میں مومن آل فرعون کا قصہ، اتقتلون رجلا ان یقول ربی اللہ ! اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس میں تنبیہ وسرزنش کے علاوہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے متبعین کو صبر وثبات اور ان ظالموں سے اللہ کی پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مکی سورتوں میں توحید وآخرت کے دلائل دیے گئے ہیں اور بتایا کہ عنقریب فیصلے کا دن قریب آرہا ہے ہر چیز کاٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا جائے گا۔ غافر
3 غافر
4 (٢) آیت ٤ میں جھگڑے کی مذمت کی ہے اس سے کچ بحثیاں مراد ہیں ورنہ قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے بحث کرنا ممدوح اور اہل علم کا مشغلہ چلاآیا ہے۔ غافر
5 غافر
6 غافر
7 غافر
8 غافر
9 غافر
10 غافر
11 غافر
12 غافر
13 غافر
14 غافر
15 غافر
16 غافر
17 غافر
18 غافر
19 غافر
20 غافر
21 غافر
22 (٣) جو لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کررہے ہیں انہیں چاہیے کہ گزشتہ اقوام کے وقائع سے عبرت حاصل کریں وہ لوگ ان سے زیادہ طاقت ور تھے مگر جب انہوں نے اللہ کے رسول کو جھٹلایا تو وہ اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکے۔ غافر
23 غافر
24 (٤) قارون بنی اسرائیل میں سے سب سے زیادہ مالدار تھا جو موسیٰ (علیہ السلام) کے خلاف فرعونی سیاست سے وابستہ تھا اور ہامان فرعون کا درباری اور وزیر تھا اور یہ ہامان وہ نہیں ہے جوایران کے بادشاہ اخسو یرس کے دربار میں امیر تھا جیسا کہ بعض مستشرقین نے اعتراض کیا ہے۔ غافر
25 (٥) قرآن مجید نے بیان کیا ہے ہم نے موسیٰ کو آیات اور سلطان مبین دے کر بھیجا، اور عطف سے ظاہر ہے کہ یہ سلطان مبین آیات کے علاوہ ہے اس لیے علماء نے اس کی مختلف تاویلیں بیان کی ہیں۔ ممکن ہے کہ آیات سے مراد عام معجزات ہوں اور سلطان مبین، خاص قسم کی تائید ربانی کا نام ہوجوپیغمبروں کے چہرے پر نمایاں طور پرنظرآتی ہے۔ جب حضرت موسیٰ مبعوث ہوکرآئے اور آپ نے معجزات اور نشانیاں دکھاکرثابت کردیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو فرعون نے بالآخر بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل اور لڑکیوں کو جیتا چھوڑ دینے کا حکم نامہ جاری کردیا، تاکہ حضرت موسیٰ کے حامیوں کو خوف زدہ کردیا جائے اور وہ ڈر کے مارے ان کا ساتھ چھوڑ دیں۔ غافر
26 غافر
27 غافر
28 (٦) ایسامعلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھوں ظہورپذیر ہونے والے حیرت انگیز معجزات دیکھ کر فرعون کے اعیان سلطنت میں سے کوئی شخص دل ہی دل میں ایمان لے آیا ہو اور فرعون کو ان کے قتل پرآمادہ دیکھ کر ضبط نہ کرسکا ہو، مگر مغربی مستشرقین اس شخص کے کردار سے انکار کرتے ہیں اور قرآن مجید کی روشن صداقتوں پرخاک ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غافر
29 (٧) فرعون نے جب دیکھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت سے کسی طور پر انکار ممکن نہیں تو اس نے ایک سیاسی چال چلی اور کہنے لگا کہ یہ شخص تمہارا نظام حکومت تبدیل کرکے ملک میں فساد برپا کرنا چاہتا ہے اس لیے تحفظ امن عامہ کے تحت اسے گرفتار کرکے قتل کردینا چاہیے۔ مگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ان دھمکیوں کاذرہ برابر اثر نہ ہوا۔ غافر
30 غافر
31 غافر
32 غافر
33 غافر
34 غافر
35 غافر
36 غافر
37 غافر
38 غافر
39 غافر
40 غافر
41 غافر
42 غافر
43 غافر
44 غافر
45 غافر
46 (٨) آیت ٤٦ سے بعض علماء نے استدلال کیا ہے کہ عالم برزخ (قبر) میں کفار کو عذاب ہورہا ہے قرآن مجید کی دوسری آیت میں بھی اس قسم کے اشارے ملتے ہیں اور حدیث میں بھی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ موت کے بعد ہر آدمی کو اس کا ٹھکانا جنت یا جہنم میں صبح وشام دکھایا جاتا ہے اور اس کی دلیل میں یہی آیت تلاوت فرمائی۔ (شوکانی)۔ یہ آیت مکی ہے اور متعدد طرق سے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کہ ایک یہودی عورت میرے پاس آئی اور دوران گفتگو اس نے کہا، وقاک اللہ من عذاب القبر (کہ اللہ تمہیں عذاب قبر سے محفوظ رکھے) مجھے تعجب ہوا اور میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ واقعہ بیان کیا آپ نے فرمایا، کذبت الیھودیہ۔ کہ اس عورت نے جھوٹ کہا ہے مگر چند روز کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ دیا اور فرمایا لوگو عذاب قبر سے پناہ مانگا کرو بے شک عذاب قبر برحق ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ آیت اور حدیث میں تعارض نہیں آیت سے صرف ارواح کا صبح وشام معذب ہونا ثابت ہوتا ہے اور احادیث سے روح مع الجسد کا جس کا علم بذریعہ وحی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ میں اس یہودیہ کے واقعہ کے بعد ہوا۔ علمائے سنت کے نزدیک عذاب قبر برحق ہے اور اس کا انکار بدعت ہے۔ امام سیوطی نے اپنے رسالہ شرح الصدور میں ان تمام احادیث کو یک جا کردیا ہے اس مسئلے سے متعلق ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے بھی شرح مشکوۃ میں مفصل بحث کی ہے۔ غافر
47 غافر
48 غافر
49 غافر
50 غافر
51 غافر
52 غافر
53 غافر
54 غافر
55 غافر
56 غافر
57 غافر
58 غافر
59 غافر
60 غافر
61 غافر
62 غافر
63 غافر
64 غافر
65 غافر
66 غافر
67 غافر
68 غافر
69 (٩) آیت ٦٩، ٧٠ میں اللہ تعالیٰ کی آیات میں جھگڑا کرنے والوں اور ان کی تکذیب کرنے والوں کا انجام ذکر کیا گیا ہے جبکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ غافر
70 غافر
71 غافر
72 غافر
73 غافر
74 غافر
75 غافر
76 غافر
77 غافر
78 (١٠) کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کرتے کہ اگر آپ اللہ کے رسول سچے ہیں توہ میں فلاں فلاں معجزہ دکھادیجئے یہاں آیت ٧٨ سے ان کے اسی مطالبے کے متعدد جوابات دیے جارہے ہیں۔ (الف) کوئی نبی از خود معجزہ دکھانے پر قدرت نہیں رکھتا، بلکہ اس کے لیے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اذن وامر ہوناضروری ہے۔ (ب) یہ معجزہ کوئی کھیل تماشانہیں ہوتا بلکہ اس کے ظاہرہوجانے کے بعد اگر کوئی قوم انکار کی راہ اختیار کرے تو پھر اس پر عذاب الٰہی ٹوٹ پڑتا ہے اس لیے تم خود ہی سوچ لو کہ کس چیز کو دعوت دے رہے ہو۔ (ج) اگر تم واقعی حق طلبی کے لیے معجزہ طلب کررہے ہو توزمین پر اللہ تعالیٰ کی بہت سی نشانیاں ہیں جو تمہاری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں ان پر غور کرکے تم اپنا اطمینان کرسکتے ہو۔ غافر
79 غافر
80 غافر
81 غافر
82 غافر
83 غافر
84 غافر
85 (١١) اس سورۃ کے خاتمہ پر کفار مکہ کو گزشتہ اقوام کے وقائع اور ان کے انجام پر غور کرکے عبرت حاصل کرنے کی ترغیب دلائی کہ وہ تم سے زیادہ دنیوی جاہ وجلال کے مالک تھے اور انہیں اپنے علم وفلسفہ پر بہت ناز تھا، جس کے گھمنڈ میں آکرانہوں نے انبیاء کے لائے ہوئے علوم کو جھٹلایا تو اللہ کے عذاب میں گرفتار ہوگئے اور پھر ان کی توبہ وانابت سے بھی انہیں کچھ فائدہ نہ دیا۔ غافر
0 فصلت
1 فصلت
2 فصلت
3 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی عہد کی سورتوں سے ہے اور اس کا زمانہ نزول حضرت حمزہ کے ایمان لانے کے بعد اور حضرت عمر کے ایمان لانے سے پہلے ہے علمائے سیرت نے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ عتبہ بن ربیعہ کفار مکہ کے مشورہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خد مت میں حاضر ہوا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے مفاہمت کی متعدد صورتیں پیش کیں اور سرداران قریش کی طرف سے پیش کش کی ہم آپ کو اپنا لیڈر بنا لیتے ہیں بشرطیکہ آپ اس تحریک سے دست بردار ہوجائیں اس پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سورۃ کی ابتداء سے ٣٨ آیات سنائیں اور عتبہ نے متاثرہوکر اپنی قوم سے کہا، بخدا یہ کلام نہ شعر ہے اور نہ سحر وکنایت ہے اس کی تاثیر کچھ عجیب سی ہے اس لیے میری بات مانو اور اس شخص کو اس کی حالت پرچھوڑ دو اس سورۃ کے مضمون پر غور کرنے سے یہ چیز سامنے آتے ہے کہ کفار نہایت ہٹ دھرمی سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کی مخالفت کررہے تھے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب قرآن مجید سنانے کے لیے کھڑے ہوتے توہنگامہ بپاکردیتے تاکہ قرآن کی آواز کسی کے کان میں نہ پڑے۔ ” عام مشرکین عرب جن کے پاس ایمان و خدا پرستی کی کوئی تعلیم موجود نہ تھی محض رسوم واوہام کے پجاری اور تقلید آباء واجداد کی مخلوق تھے ان میں اکثر کی طبعتیں گمراہی وفساد کی پختگی سے اس درجہ مسخ ہوگئی تھیں کہ کتنی ہی اچھی بات کہی جائے ماننے والے نہ تھے “۔ پھر قرآن مجید کی باتوں کو الٹے معنی پہناتے اور عجیب عجیب قسم کے اعتراضات کرتے، مثلا وہ کہتے کہ قرآن مجید عربی زبان میں پڑھتا آپ کا کوئی معجزہ نہیں ہے یہ معجزہ تو جب ہوتا کہ کسی دوسری زبان میں یہ قرآن اترا ہوتا، وغیرہ۔ اس سورۃ میں ان کی کچھ اسی قسم کی مخالفت کے جوابات دیے گئے ہیں اور ساتھ ہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر اور اخلاق حسنہ سے پیش آنے کی تلقین کی ہے۔ فصلت
4 فصلت
5 فصلت
6 فصلت
7 فصلت
8 فصلت
9 فصلت
10 فصلت
11 (٢) قرآن مجید نے متعدد مقامات پر تصریح فرمائی ہے کہ تمام کائنات ایک ہی دم ظہور میں نہیں آگئی بلکہ تخلیق کے مختلف دوریکے بعد دیگر ظاہر ہوئے اور یہ دورکل چھ تھے۔ اس لیے یہاں پر، اربعۃ ایام۔ کا مطلب یہ ہوگا کہ زمین کی تخلیق دو دوروں میں ہوئی پھر زمین کی سطح کی درستی پہاڑوں کی نمود ورقوت نشوونما کی تکمیل دو دوروں میں اور باقی دو دنوں میں آسمان کی خلق اور تسویہ ہوا اس طرح آسمان وزمین کی پیدائش میں چھ دن صرف ہوئے جیسا کہ دوسری آیات میں تصریح پائی جاتی ہے۔ قرآن مجید کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان وزمین کی پیدائش ایک ایسے مادہ سے ہوئی جسے قرآن مجید نے، دخان، سے تعبیر فرمایا ہے یعنی مادہ کی وہ ابتدائی حالت میں وہ کائنات کی تخلیق سے قبل فضا میں بھاپ کی شکل میں پھیلاہوا تھا ممکن ہے یہ وہی مادہ ہو جسے موجودہ سائنس دان، سحاب، سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ مادہ دخانیہ ابتدا میں ملا ہوا تھا پھر اس کے مختلف حصے ایک دوسرے سے الگ کردیے گئے اور ان سے اجرام سماویہ کی پیدائش ظہور میں آئی جیسا کہ فرمایا، ان السماوات والارض کانتا رتقا ففتقناھما (١٢۔ ٣)۔ گویا کائنات بیک مرتبہ ظہور میں نہیں آئی بلکہ اس پریکے بعد دیگرے چھ دور گزرے جسے قرآن مجید نے ستہ ایام سے تعبیر فرمایا ہے ان میں دو دورہ ہیں جن میں سات ستاروں کی تکمیل ہوئی اور دو دوروں میں زمین کی پیدائش، پھر سطح زمین کی درستی، پہاڑوں کی نمودار قوت ونشوونما کی تکمیل دو دوروں میں مکمل ہوئی اس طرح اس ساری کائنات کی تکمیل کے چھ دو بنتے ہیں۔ موجودہ زمانہ میں اجرام سماویہ کی ابتدائی تخلیق اور کرہ ارضی کی نشوونما کے جونظریے تسلیم کرلیے گئے ہیں قرآن مجید کے اشارات سے بظاہر ان کی تائید ہوتی ہے لیکن نظریات بہرحال نظریات ہیں جوجزم ویقین کا کام نہیں دے سکتے اس بنا پر ان کی روشنی میں قرآن مجید کے مجمل اشارات کی تفسیر کرنا صحیح نہ ہوگا فرض کیجئے آج ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ دخان، سے مراد وہ منتشر الاجزاء مادہ کی حالت ہے جسے موجودہ دور کے سائنس دان سحابیے سے تعبیر کرتے ہیں مگر کل کو یہ نظر یہ تبدیل ہوجاتا ہے تو پھر قرآن مجید کی اس تفسیر کا کیا حشر ہوگا؟۔ دراصل ان اشارات سے قرآن مجید کا مقصد تخلیق عالم کی شرح وتحقیق نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی قدرت وحکمت کی طرف انسان کی توجہ دلانا اور توحید ورسالت پراستدلال کرنا ہے اسی لیے قرآن مجید نے کائنات کی تخلیق کا ذکر کرنے کے معابعد فرمایا، فان اعرضو، یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت وحکمت کی ان نشانیوں کو دیکھ کربھی اگر یہ لوگ توحید کا اقرار نہیں کرتے تو آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں تم کو اچانک آجانے والے عذاب سے ڈراتا ہوں۔ ” آسمان کی خلق ایسے مادہ سے ہوئی جسے قرآن مجید نے دخان سے تعبیر کیا ہے اس دھویں سے قدیم مفسرین نے پانی کے بخارات مراد لیے ہیں اور انہی کو موجودہ سائنس دارن، سدی، یا، سحابیہ سے تعبیر کرتے ہیں یعنی بادلوں کے منتشر اجزاء تمام اشارات کا ماحصل بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں مادہ دخانی تھا پھر اس میں انقشام ہوا یعنی بہت سے ٹکڑے ہوئے پھر ہر ٹکرے نے ایک قرص کی شکل اختیار کرلی پھر زمین نے کوئی ایسی شکل اختیار کرلی کہ، دخانیت کی جگہ مائیت نے لے لی، یعنی پانی پیدا ہوگیا پھر خشکی کے قطعات درست ہوئے پھر پہاڑوں کے سلسلے نمایاں ہوئے پھر زندگی کانمو شروع ہو اور نباتات ظہور میں آگئیں۔ لیکن یہ معاملہ غیب سے تعلق رکھتا ہے جس کی حقیقت ہم اپنے علم وادراک سے نہیں معلوم کرسکتے، اور قرآن کا مقصود ان اشارات سے تخلیق عالم کی شرح وتحقیق نہیں بلکہ خدا کی قدرت وحکمت کی طرف انسان کو توجہ دلانا ہے پیدائش عالم کے بارے میں مفسرین نے بہت سی روایات نقل کردی ہیں جن کی صحت ثابت نہیں۔ فصلت
12 فصلت
13 فصلت
14 فصلت
15 فصلت
16 (٣) قوم عاد کو طوفانی ہوا سے ہلاک کردیا گیا جو مسلسل سات رات اور آٹھ دن چلتی رہی اور لوگوں کو اٹھاکر زمین پر اس طرح پچھاڑ دیا جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے گرے پڑے ہوں۔ فصلت
17 فصلت
18 (٤) قوم ثمود کا مرکزی شہر الحجر تھا جواب مدائن صالح کے نام سے مشہور ہے اور وہاں اس قوم کے تباہ شدہ آثار اب بھی موجود ہیں یہ علاقہ شہر، العلا سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے حجاز سے جو قافلے شام جاتے ہیں وہ لازما اس سے گزر کرجاتے ہیں اور یہ اس ریلوے لائن کا ایک اسٹیشن بھی ہے جو مدینہ سے دمشق کو جاتی ہے۔ قوم ثمود عرب کے اس حصے میں آباد تھی جوحجاز اور شام کے درمیان وادی القری تک چلا گیا ہے اسی مقام کو دوسری جگہ الحجر سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ فصلت
19 (٥) آیت ١٩ سے ٢٥ تک سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عالم آخرت محض ایک روحانی عالم نہیں ہوگا بلکہ انسان وہاں اپنے جسم وروح کے ساتھ دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور انہی اجسام کے ساتھ زندہ ہوں گے جن میں وہ اب رہتے ہیں۔ اس دن اجزائے جسم انسان کے خلاف شہادت دیں گے مطلب یہ کہ قرآن مجید جس حشر (دوبارہ زندگی) کا ذکر کرتا ہے وہ حشر اجساد ہے۔ فصلت
20 فصلت
21 فصلت
22 فصلت
23 فصلت
24 فصلت
25 فصلت
26 (٦) آیت ٢٦ میں کافروں کے اس منصوبے کا ذکر ہے جو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت تبلیغ کے کام کو روکنے کے لیے کام میں لارہے تھے کہ قرآن نہ خود سنو اور نہ کسی دوسرے کوسننے دو۔ اس طرح کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب قرآن سناناشروع کریں تو شوروغل سے آپ کی آواز دبانے کی کوشش کرو۔ فصلت
27 فصلت
28 فصلت
29 فصلت
30 فصلت
31 فصلت
32 فصلت
33 (٧) گزشتہ آیات میں اہل ایمان کی ہمت بندھائی ہے اور انہیں ثابت قدم رہنے کی تلقین ہے اب یہاں آیت نمبر ٣٣ سے اہل ایمان کو اس طرف توجہ دلائی جارہی ہے کہ خود نیک عمل کرو اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دو اور مخالفین سے کہہ دو کہ ہم مسلمان ہی ہیں۔ فصلت
34 فصلت
35 (٨) ایسی صورت میں جب کہ دعوت حق کا مقابلہ ہٹ دھرمی سے ہورہا تھا اور مخالفین نے اخلاق اور انسانیت کی تمام حدیث توڑ دی تھیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ساتھیوں پر ہرقسم کی الزام تراشیاں جاری تھیں ایسے وقت میں ایک بہت بڑا اخلاقی اصول بتایا جس پر عمل کرنے سے بدترین دشمن جگری دوست بن جائیں گے اور وہ ہے برائی کا مقابلہ نیکی اور خوش خلقی سے کیا جائے۔ اور اس پر عمل کو حوصلہ مندی اور صبر وبرداشت قرار دیا جائے نیز بتایا کہ جو لوگ اللہ کے ہاں بلند مرتبہ اور اعلی صفات کے مالک ہیں وہی اس اصول پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں ورنہ یہ ہر وکہ دمہ کا کام نہیں۔ ” قرآن مجید نے صرف یہی نہیں کہا دشمنوں کے شدائد صبر کے ساتھ تحمل کرو یہ بھی کہا، تحمل کرو اور احسان کرو، برائی کو انگیز کرو اور اس کی جزا نیکی کے ساتھ دو کہ حصول امن کا ذریعہ اور کسب صلح وسلام کی تدبیر ہے۔ لیکن یہ عفو وحلم اور تحمل وانگیز کب تک؟ اس وقت تک جب اس شر اور بدی کا اثر شخص واحد تک محدود اور صرف ایک ذات خاص کے منافع خصوصیہ میں محصور ہو (ہیبت اجتماعیہ پراثر انداز ہونے والے جرائم ومعاصی کے لیے فروکو کو حق عفو نہیں دیاجاسکتا) دنیا میں دو چیزیں ہیں اخلاق اور قانون۔ اخلاق کا تعلق انسان کی ذات سے ہے قانون کا تعلق حکومت اور مجتمع انسانی عفو ودرگزر انسان کا بہترین وصف ہے لیکن ہیبت اجتماعیہ میں گناہ عظیم، اجرت آموز جرائم ہے اور برہم کن امن انسانی۔ فصلت
36 فصلت
37 فصلت
38 فصلت
39 فصلت
40 فصلت
41 فصلت
42 فصلت
43 فصلت
44 فصلت
45 فصلت
46 فصلت
47 فصلت
48 فصلت
49 فصلت
50 فصلت
51 فصلت
52 فصلت
53 (٩) آیت ٤٣ میں، انہ الحق، کی ضمیر قرآن اور پیغمبر کے لیے بھی ہوسکتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے بھی، پہلی صورت میں آیات سے مراد فتوحات ہوں گی اور مطلب یہ ہوگا کہ عنقریب ہی جب گردوبیش کے ممالک اور خود ان (قریش) پر فتوحات حاصل ہوں گی (جونبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عہد میں حاصل ہوئیں) تب انہیں یقین ہوجائے گا کہ قرآن یاپیغمبر برحق تھے اور یہ ناحق ان کی تکذیب کرتے رہے اور دوسری صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ان دلائل پر غور کریں جو خود ان کے اندر اور باہر آفاق میں پائے جاتے ہیں تو ان کو اللہ تعالیٰ کے یکتا اور خالق ومالک ہونے کا یقین ہوجائے پہلے مطلب کوابن جریر نے اختیار کیا ہے اور دوسری توجیہ بعض تابعین سے منقول ہے۔۔ فصلت
54 فصلت
0 الشورى
1 الشورى
2 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور حم سجدہ کے بعد نازل ہوئی ہے قریش کے سردار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اندھی بہری مخالفت کررہے تھے مگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبر وتحمل اور حسن اخلاق سے ان کا مقابلہ کررہے تھے سورۃ حم سجدہ میں کفار کو تنبیہ کی گئی اور اس سورۃ میں تفہیم کا طریقہ اختیار کیا ہے گویادونوں سورتیں ایک ہی مقصد کے تحت نازل ہوئی ہیں۔ الشورى
3 (٢) ابتدئے سورۃ میں بتایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی نرالی بات پیش نہیں کررہے ہیں اور نہ ہی یہ وحی کا معاملہ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پیش آیا ہے بلکہ اس طرح کی ہدایات پہلے انبیاء پر بھی نازل ہوچکی ہیں اور وہ لوگوں کے سامنے نظریہ توحید پیش کرتے رہے ہیں۔ الشورى
4 الشورى
5 (٣) شرک کانظریہ اس قدر شنیع اور برانظریہ ہے کہ عجب نہیں اس کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑے۔ الشورى
6 (٤) انبیاء لوگوں کی قسمتوں کے مالک نہیں ہوتے وہ تو صرفلوگوں کو خواب غفلت دے بیدا کرنے کے لیے بھیجے جاتے ہیں اور وہ قوم کے خیرخواہ ہوتے ہیں۔ الشورى
7 (٥) دین اسلام یادین محمدی کیا ہے؟ یہی کہ اللہ تعالیٰ خالق کائنات اور مالک حقیقی ہے اور انسانوں کے درمیان حق اور ناحق کا فیصلہ کرنا بھی اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کوشارع بننے کا حق نہیں ہے جس طرح تمام تکوینی امور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں اسی طرح تشریعی اختیارات بھی اسی کو حاصل ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ابتداہی سے انسان کے لیے ایک دین مقرر کردیا ہے اور اسی دین کی طرف دعوت دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء مبعوث فرمائے ہیں۔ الشورى
8 الشورى
9 الشورى
10 الشورى
11 الشورى
12 (٦) آیت ٩ سے ١٢ تک جن حقائق کا ذکر ہے ان کے ضمن میں توحید وآخرت کے دلائل پیش کیے ہیں اور ہدایت سے اعراض کرنے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے۔ الشورى
13 (٧(آیت ١٣ میں پانچ اولوالعزم پیغمبروں کا نام لے کربتادیا کہ سب کو ایک ہی دین دے کر بھیجا گیا تھا یہ دین محض چند اصول وعقائد ہی کا نام نہیں بلکہ اس میں شرائع کے بنیادی احکام بھی داخل ہیں جیسا کہ سورۃ البینہ میں فرمایا، وما امروالالیعبدواللہ مخلصین لہ الدین ویقیموا الصلوۃ یوتوالزکوۃ واذالک دین القیمہ۔ یعنی انہیں حکم دیا گیا تھا کہ اللہ کے لیے دین کو خالص کرتے ہوئے یکسوہوکر اس کی عبادت کریں نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اسی طرح محرمات شرعیہ کو تکمیل دین قرار دیا ہے (المائدہ ٣) اور پھر آیت ٢٩ سورۃ التوبہ میں اللہ اور آخرت پر ایمان لانے کے ساتھ حلال وحرام کے احکام کو ماننا بھی دین میں داخل ہے اور سورۃ النور میں حدود الٰہیہ کے قیام کودین قرار دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فوجداری احکام بھی دین میں داخل ہیں۔ الغرض یہ الدین، کا اجمالی خاکہ ہے جس کی طرف دعوت دینے اور اسے قائم کرنے کے لیے پیغمبر بھیجے گئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اسی دین کی طرف دعوت دینے کے لیے مبعوث ہوئے یہ دعوت، مشرکین پر گراں گزرتی، اس بنا پر کبھی تو وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر اعتراض کرتے اور کبھی مصالحت کا اظہار کرکے کچھ نرمی اختیار کرنے کو کہتے مگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) استقامت کے ساتھ ان مخالفانہ حربوں کو برداشت کرتے رہے اور دین کے معاملہ میں کسی قسم کی رواداری اور مداہنت سے کام نہ لیا۔ الشورى
14 الشورى
15 الشورى
16 الشورى
17 الشورى
18 الشورى
19 الشورى
20 الشورى
21 (٨) آیت ٢١ میں شرکاء سے مراد وہ بت نہیں ہیں جن کی وہ پوجا کرتے تھے بلکہ ان سے وہ روسا مراد ہیں جوان کے لیے حلال وحرام کے طریقے مقرر کرتے اور اللہ کے حکم کے خلاف اپنے پاس سے شریعت وفقہ کی تدوین کرتے جیسے یہودی علماء کے متعلق فرمایا : یکتبون الکتاب بایدیھم ثم یقولونو ھذا من عنداللہ۔ الشورى
22 الشورى
23 (٩) یہاں، القربی، کے معنی قرابت رشتہ داری کے ہیں پیغمبروں نے اپنی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہی یہ پیش کی ہے کہ میرا یہ دعوتی کام کسی طمع یالالچ کی بنا پر نہیں ہے بلکہ خالصتا اللہ کے لیے ہے یہاں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے یعنی میں تم سے اس کام پر کسی قسم کے اجر کا طالب نہیں ہوں مگر یہ ضرور کہوں گا کہ تم کم ازکم اس رشتہ داری کا پاس کرو جو میرے اور تمہارے درمیان ہے کہ اگر میری بات نہیں مانتے تو مجھ پر ظلم وستم نہ کرو اور مجھے اللہ کا پیغام سنانے کے لیے آزاد چھوڑ دو آیت کے یہ معنی صحیین اور حدیث کی کتابوں میں حضرت ابن عباس سے منقول ہیں اور یہی راجع ہیں۔ بعض نے القربی کے معنی طاعت کے ذریعہ سے اللہ کا تقرب مراد لیا ہے کہ میں تم سے اس کے سواکچھ نہیں چاہتا کہ تم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو بس ہی میرا اجر ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا، قل ما اسئلکم علیہ من اجر الامن شاء ان یتخذ الی ربہ سبیلا (الفرقان ٥٧)۔ بعض علماء نے، المودۃ فی القربی، سے رشتہ داروں سے محبت کیے ہیں اور آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ میں تم سے اس پر کچھ اجر نہیں چاہتا ماسواس کے کہ میرے اہل بیت یعنی حضرت فاطمہ اور ان کی اولاد سے محبت کرو۔ یہ تفسیر اگرچہ بعض تابعین سے منقول ہے مگر آیت کی یہ تفسیر کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے خصوصا جب یہ آیت مکی ہے اور جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت تک حضرت علی اور حضرت فاطمہ کا نکاح نہی نہیں ہوا تھا کجایہ کہ ان کے ہاں اولاد ہوتی۔ اور پھر رسول اللہ جس بلند مقام پر کھڑے ہو کر دعوت الی اللہ کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے اس مقام پر سے یہ اجر مانگنا کہ تم میرے رشتہ داروں سے محبت کرو نبی کی شان سے گری ہوئی بات ہے۔ علاوہ ازیں قرآن مجید میں جس قدر انبیاء کے قصے مذکور ہیں سب نے، ان اجری الاعلی اللہ کانعرہ لگایا ہے اور کسی نے بھی اپنے مخالفین سے ایسی عرض وگزارش نہیں کی پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بلندی شان کے ساتھ یہ بات کیونکر کہہ سکتے ہیں۔ الشورى
24 الشورى
25 الشورى
26 الشورى
27 الشورى
28 (١٠) آیت ٢٨ میں مینہ برسانے کو اللہ کی رحمت قرار دیا ہے کیونکہ اس سے زمین کی آبادی ہے اور بارش بھی اللہ کے حکم واختیار میں ہے جاہلیت میں لوگ بارش کوستاروں کی تاثیر قرار دیتے حدیث قدسی میں ہے کہ اس قسم کا عقیدہ شرک ہے۔ قرآن مجید میں آثار وقدرت الٰہی کو بیان کرتے ہوئے بارش کے نزول اور زمین کی حیات نباتاتی پر جابجازور دیا گیا ہے مگر فی الحقیقت یہ ایک تمثیل ہے جس کے ذریعے سے ہر طرح کی اخلاقی وروحانی ہلاکت اور حیات بخشی کا سمجھانا مقصود ہے۔ عربی میں یاس اور قنوط ناامید کے معنی میں مترادف ہے مگر قنوط کا اطلاق اس ناامید پر ہوتا ہے جو یاس سے بھی زیادہ سخت شدید ہو نیز جس میں نیک توقعات سے مایوسی ہو۔ الشورى
29 الشورى
30 الشورى
31 الشورى
32 الشورى
33 الشورى
34 الشورى
35 الشورى
36 الشورى
37 الشورى
38 (١١) آیت ٣٨ میں اہل ایمان کی بہتری صفات میں سے، وامرھم شوری بینھم، فرمایا ہے اور سورۃ آل عمران ١٥٩ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احکام منصوصہ کے سوا ہر قسم کے مصالح ملکی کے بارے میں صحابہ سے مشورہ کرتے اور ان کے مشورے قبول فرمایا کرتے تھے اور بعد میں خلافت راشدہ کی بنیاد ہی، شوری پر رکھی گئی اور حضرت ابوبکر کا انتخاب بھی اسی اصل کے تحت ہوا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی نظام اجتماعی اسلامی طرزحیاتکاستون اور امتیازی خصوصیت ہے۔ موجودہ جمہوریت اور سلامی شورائی نظام میں بنیادی اور اہم فرق یہ ہے کہ جدید جمہوریت میں نمایدگان جمہوری قانون سازی کے وسعی اختیار رکھتے ہیں لیکن اسلام میں کتاب وسنت کے نصوص کی موجودگی میں خلیفہ کو مشاورت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جب کسی امر کے متعلق کتاب وسنت کا فیصلہ نہ ملتا ہو تو پھر پیش آمد اجتماعی امور میں، مجلس مشاوت مجاز ہے کوئی فیصلہ کرے تاہم اس شوری کی بنیاد کن امور پر ہونی چاہیے یہ مسئلہ تفصیل طلب ہے۔ الشورى
39 (١٢) آیات ٣٩ تا ٤٣ میں مومنین کی صفات کا بیان ہے اور بتایا کہ قانونی لحاظ سے انتقام لینا جائز ہے مگر اپنے مسلمان بھائی کو معاف کردینا عالی حوصلگی اور بلند اخلاقی درجہ ہے۔ مسیح (علیہ السلام) کی تعلیم صرف اخلاق ہے اور موسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیم صرف قانون ہے لیکن وہ جس نے کہا میں نبوت کی آخری اینٹہوں وہ جسطرح ایک معلم اخلاق تھیاسی طرح ایک مقنن آئین وقانون ساز بھی تھے اسلام اور شرائع سابقہ کایہ فرق ایک نہایت اہم اور اصولی نکتہ دقیق ہے۔ الشورى
40 الشورى
41 الشورى
42 الشورى
43 الشورى
44 الشورى
45 الشورى
46 الشورى
47 الشورى
48 الشورى
49 الشورى
50 الشورى
51 (١٣) کفار مکہ کو دوباتوں پر سب سے زیادہ تعجب تھا اور ان کو ماننے کے لیے وہ کسی صورت تیار نہ تھے یعنی کسی بشر کارسول ہونا اور مرنے کے بعد زندہ ہوجانا اور محاسبہ کے لیے اللہ کے سامنے پیش ہونا توحید کے ساتھ یہ دوچیزیں تھیں جن کی طرف مکی سورتوں میں دعوت دی گئی یہاں آیت ٥١ میں بشر کی طرف وحی کی مختلف صورتیں بیان کی گئیں ہیں۔ (الف) وحی بمعنی القاء اور الہام، دل میں کوئی بات ڈال دینا یا خواب میں کچھ دکھادینا، جیسے حضرت ابراہیم کا خواب تھا حدیث میں ہے، رویا الانبیاء وحی۔ کہ انبیاء کا خواب بھی ایک قسم کی وحی ہوتی ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی (ب) من وراء حجاب۔ یعنی بندہ آواز توسنے لیکن کچھ دکھائی نہ دے جیسے حضرت موسیٰ کے ساتھ ہوا کوہ طور کے دامن میں ایک درخت سے آواز آئی مگر حضرت موسیٰ کو کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ (ج) اویرسل رسولا۔ یہ وحی کی وہ صورت ہے جوانبیاء کے ساتھ مخصوص ہے اور جس کے ذریعہ سے تمام آسمانی کتابیں انبیاء تک پہنچتی ہیں اور فرشتہ کبھی غیر مرئی شکل میں آتا ہے اور کبھی انسانی شکل میں آتا ہے جیسا کہ احادیث میں ہے کہ حضرت جبرائیل دحیہ کلبی کی شکل میں آتے تھے بہرحال آیت میں وحی کی تمام صورتوں کا بالاستیعاب ذکر نہیں۔ واللہ اعلم۔ (د) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف مذکور ہر سہ طریق سے وحی آتی رہی اس لیے آیت ٥٢ میں، کذالک، سے مذکورہ تینوں طریق مراد ہیں۔ ١۔ بخاری، باب بدالوحی، میں حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پروحی آنے کی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی تھی اور احادیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت خواب مذکور ہیں اور قرآن مجید میں ھی آپ کے ایک خواب کا ذکر ہے (سورۃ الفتح ٢٧) مگر کوئی ایسی تصریح نظر سے نہیں گزری کہ ابتدائے وحی میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب سے پہلے فلاں خواب دیکھا تھا۔ ٢۔ معراج کے موقع پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ سے مکالمہ کا شرف حاصل ہوا صحیح احادیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پچاس نمازوں کا حکم دیا گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے باربارعرض معروض کرنے سے آخر کار پانچ نمازوں کا حکم ہوا اور اللہ جل شانہ نے فرمایا (لایبدل القول لدی، یعنی اب اس میں تبدیلی نہیں ہوگی۔ یہ تمام مکالمہ، من وراء حجاب، ہی تھا۔ ٣۔ فرشتے کے وحی لے کرآنے کی مختلف صورتیں تھیں فرشتہ کبھی انسانی شکل میں رونما ہوجاتا تھا اور کبھی اپنی اصلی شکل میں آپ کے سامنے آتا۔ حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو مرتبہ حضرت جبرائیل کو ان کی اصل شکل میں دیکھا ہے کہ ان کے چھ سو بازو ہیں۔ قرآن مجید نے بتایا کہ نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے آپ نہ تو کسی آسمانی کتاب سے آگاہ تھے اور نہ ایمان واسلام کی تفصیلات کبھی آپ کے ذہن میں آئی تھیں اور یہ دونوں باتیں ایسی تھیں جن کی تردید اہل مکہ بھی نہیں کرسکتے تھے اور یہی عدم علم آپ کی صداقت پر دلیل تھا جسے قرآن مجید نے مختلف اسالیب سے، متعدد مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔ تفصیلات کی قید ہم نے اس لیے لگائی ہے کہ وحی سے قبل انبیاء توحید اور نفس ایمان کے ساتھ متصف ہوتے ہیں جیسا کہ جمہور اہل علم نے تصریح کی ہے اور انبیاء کی سیرت کا مطالعہ اس امر کی شہات کے لیے کافی ہے۔ الشورى
52 الشورى
53 الشورى
0 الزخرف
1 الزخرف
2 الزخرف
3 الزخرف
4 تفسیر وتشریح۔ (١) ان سورتوں کے مضامین پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ المومن، حم السجدہ، الشوری، ایک ہی سلسلے کی متعدد سورتیں ہیں اور ان کا زمانہ نزول بھی قریب قریب ایک ہی ہے اس سورۃ میں ان جاہلانہ عقائد واوہام کی تردید کی گئی ہے جن پر اہل عرب اور قریش آباواجداد سے مصر چلے آرہے تھے اور کسی طرح ان کوچھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔ قرآن مجید وحی الٰہی ہے اور عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے یہ ناممکن ہے کہ تمہارے مسرفانہ رویہ کی وجہ سے اس کی تنزیل کو روک دیا جائے۔ ام الکتاب کے معنی اصل کتاب کے ہیں، مراد لوح محفوظ ہے جس سے تمام سماوی کتابیں الگ کرکے نازل کی گئی ہیں چنانچہ سورۃ واقعہ میں اسی کو، کتاب مکنون، اور سورۃ بروج میں، لوح محفوظ، فرمایا ہے یعنی ایسی کتاب یالوح جو ہرقسم کی دراندازی سے محفوظ ہے۔ سورۃ شعراء میں قرآن مجید کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا، وانہ لفی زبرالاولین، کہ یہ اگلے لوگوں کی کتابوں میں موجود ہے نیز سوۃ الاعلی میں کچھ احکام بیان کرنے کے بعد فرمایا، ان ھذا لفی الصحف الاولی صحف ابراہیم وموسی، کہ قرآن مجید کے یہ مضامین پہلی کتابوں میں بھی درج ہیں، اسی بنا پر قرآن مجید کو، مصدقا لمابین یدیہ اور مھیمن، بھی قرار دیا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ جب واقعہ یہ ہے تو قرآن مجید کا انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ اس کا انکار پہلی تمام کتابوں کے انکار کے مترادف ہے۔ الزخرف
5 الزخرف
6 الزخرف
7 الزخرف
8 الزخرف
9 الزخرف
10 (٢) کرہ ارضی کی ساخت اللہ تعالیٰ نے اس طرح بنائی کہ انسان آرام وسکون سے اس پر اس طرح زندگی بسر کررہا ہے جیسے بچہ گہوارے میں آرام وسکون محسوس کرتا ہے اور انسان کی نقل وحرکت کے لیے پہاڑوں کے درے اور دریا قدرتی راستوں کا کام دے رہے ہیں حالانکہ زمین ایک کرہ ہے جوفضا میں معلق ہے اور ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے محور پرگھوم رہا ہے اور نہ جانے اس کی تہ میں اللہ تعالیٰ نے کتنے خزانے جمع کررکھے ہیں جو انسانی آبادی کی ترقی کے لیے تاقیامت نہ ختم ہونے والے ہیں۔ الزخرف
11 الزخرف
12 الزخرف
13 الزخرف
14 الزخرف
15 (٣) اس سورۃ میں مشرکین کے جاہلی عقائد پرتنقید کی ہے اور اس سلسلے میں حسب ذیل عقائد ذکر کیے ہیں : (الف) بعض بندوں کو اللہ کی اولاد قرار دے دیا اور انہیں اللہ کی ذات میں شریک ٹھہرالیا، اس کو قرآن مجید نے بہت بڑی ناشکری قرار دیا ہے۔ (ب) وہ کہتے فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں ان کی مورتیاں بناکرپوجتے تھے قرآن مجید نے اس پرزور دار تنقید کی کہ تم اپنے لیے تونرینہ اولاد پسند کرتے ہو اور اللہ کے لیے مادینہ اگر کسی کے گھر میں لڑکی پیدا ہوجائے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے پھر یہ کہاں کا انصاف ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ فرشتے اللہ کے بندے ہیں۔ (ج) اپنی گمراہی پر تقدیر سے استدلال کرتے چنانچہ آیت ٢٠ میں اسی گمراہی کا بیان ہے کفار نے اپنی گمراہی اور شرک وکفر کی راہ پر چلنے کے لیے ہر دور میں اپنے آباواجداد کی اندھی تقلید کو پیش کیا اور اس پرانے نظام پر جمے رہنے پر اصرار کیا جس سے ان کے مفاد وابستہ تھے۔ قرآن مجید نے کفار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر آباواجداد کی تقلید ہی کرنی ہے تو پھر حضرت ابراہیم کی پیروی کیوں اختیار نہیں کرتے کہ انہوں نے آبائی دین کوچھوڑ کرتوحید کی راہ اختیار کرلی تھی اور ایک اللہ کو اپنا معبود بنالیا تھا۔ مولانا آزاد رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم کی بتوں سے بے زاری اور اپنے خالق کے ساتھ حقیقی لگاؤ کے اظہار پرلکھتے ہیں : فطرت صحیحہ اور خلقت مستقیمہ انبیائے کرام کے اندر سے نمایاں ہوتی ہے اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر بار بار کرتے ہیں یہی فطرت اصلیہ صالحۃ ہے جوان کے عصر دور کی عام تاریکی وضلالت کے اندر چمک کرحقیقت محجوبہ کاروشن راستہ دکھادیتی ہے۔ (د) کفار یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر اللہ نے کوئی رسول بھیجنا ہوتا اور اس پر اپنی کتاب نازل کرنے کا ارادہ کرتا تو دو مرکزی شہروں مکہ اور طائف میں کسی بڑے سردار یہ کلام نازل کردیتا یہ بات کہنے والے وہ لوگ تھے جواول تو کسی بشر کی رسالت کے قائل ہی نہ تھے۔ اور پھ رجب مجبور ہو کر انہیں قائل ہوناپڑا تو انہوں نے دوسرا اختیار کرلیا کہ بشر ہی رسول سہی مگر وہ کوئی بڑا آدمی ہونا چاہیے جو مالدار اور جتھے والا ہو۔ بہرحال محمد بن عبداللہ اس کاہل نہیں ہے (معاذ اللہ) قرآن مجید نے آیت ٣٢ میں اسی اعتراض کا جواب دیا کہ : بلاشبہ مال ودولت میں لوگوں کے مختلف درجے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیت سے رکھے ہیں اسی طرح منصب نبوت سے سرفرازی سراسر اللہ کی رحمت ہے اور یہ ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ جس پر چاہے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ الزخرف
16 الزخرف
17 الزخرف
18 الزخرف
19 الزخرف
20 الزخرف
21 الزخرف
22 الزخرف
23 الزخرف
24 الزخرف
25 الزخرف
26 الزخرف
27 الزخرف
28 الزخرف
29 الزخرف
30 الزخرف
31 الزخرف
32 الزخرف
33 الزخرف
34 الزخرف
35 الزخرف
36 الزخرف
37 الزخرف
38 الزخرف
39 الزخرف
40 الزخرف
41 الزخرف
42 الزخرف
43 الزخرف
44 الزخرف
45 الزخرف
46 الزخرف
47 الزخرف
48 الزخرف
49 الزخرف
50 الزخرف
51 الزخرف
52 الزخرف
53 (٤) جس طرح کفار مکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حقیر سمجھ کرآپ کی دعوت کا مذاق اڑارہے ہیں اسی طرح فرعونیوں نے حضرت موسیٰ کا مذاق اڑایا تھا چنانچہ حضرت موسیٰ کے معجزات دیکھ کر جب فرعون تنگ آگیا تو اس نے اپنی قوم کو بے وقوف بنانے کی وہی طرز اختیار کی تھی جو آج کفار قریش نے نبی کے مقابلہ اختیار کررکھی ہے یعنی یہ قلاش ہے اگر یہ سچا ہے تو سونے کے کنگن پہن کر دکھائے یا فرشتوں کو فوج اس کے ہم رکاب ہو۔ الزخرف
54 الزخرف
55 الزخرف
56 الزخرف
57 الزخرف
58 (٥) گزشتہ آیات میں قرآن مجید نے جب یہ کہا کہ پہلے پیغمبروں کی تعلیمات پڑھ دیکھو کہ کیا کسی نے بھی یہ حکم دیا ہے کہ خدائے رحمن کے سوادوسرے معبود کی بندگی کی جائے؟ اس پر عبداللہ بن الزبعری نے کہا کہ حضرت عیسیٰ کی بندگی کیوں کی جاتی ہے؟ کیا ہمارے معبود عیسیٰ (علیہ السلام) سے کم درجہ کے ہیں؟ آیت ٥٧ سے اسی بے ہودگی کا جواب دیا جارہا ہے کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ کی مثال پر بڑا شور کررہے ہیں اور جدال کے طور پر اسے پیش کررہے ہیں حالانکہ وہ اللہ کابندہ تھا اللہ نے ان پر انعام کیا اور بنی اسرائیل کے لیے ایک نمونہ بنادیا اور انہیں وہ معجزات دیے تھے جوان سے پہلے کسی کو نہ دیے گئے تھے۔ الزخرف
59 الزخرف
60 الزخرف
61 (٦) آیت ٦١ میں حضرت عیسیٰ کو قیامت کانشان قرار دیا ہے اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہوں اور آخرزمانہ میں قیامت کے قریب آسمان سے نزول کریں جیسا کہ احادیث میں آیا ہے۔ الزخرف
62 الزخرف
63 الزخرف
64 الزخرف
65 الزخرف
66 الزخرف
67 الزخرف
68 الزخرف
69 الزخرف
70 الزخرف
71 الزخرف
72 الزخرف
73 الزخرف
74 الزخرف
75 الزخرف
76 الزخرف
77 الزخرف
78 الزخرف
79 الزخرف
80 الزخرف
81 الزخرف
82 الزخرف
83 الزخرف
84 الزخرف
85 الزخرف
86 الزخرف
87 الزخرف
88 الزخرف
89 الزخرف
0 الدخان
1 الدخان
2 تفسیر وتشریح۔ (١) اس سورۃ کانزول بھی سورۃ زخرف اور اس سے پہلے کی چند سورتوں کا ہے جب کفار مکہ نے سخت مخالفت کی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے حق میں بددعا کی : اللھم سنی کسنی یوسف۔ کہ اے اللہ یوسف کے قحط جیسے قحط سے میری مدد فرما۔ اور یہ بددعا اس لیے کہ شاید مصیبت میں پڑ کر ان کے دل نرم ہوجائیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور سارے علاقہ میں ایسا قحط پڑا کہ لوگ بلبلا اٹھے۔ آخرکار ابوسفیان اور بعض دوسرے سرداران مکہ حضور کے پاس آئے کہ اپنی قوم کو اس مصیبت سے نجات دلانے کے لیے اللہ سے دعا کریں اسی موقع پر یہ سورۃ نازل ہوئی۔ اس سورۃ میں بھی کفار کو فہمائش اور تنبیہ کی ہے اور قرآن مجید کی عظمت کو واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ہی زمین و آسمان کا خالق اور پروردگار ہے اور موت وحیات اسی کے قبضہ میں ہے تو پھر عبادت کا مستحق بھی وہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کایہ بھی تقاضا ہے کہ تمہاری رہنمائی کا انتظام کرے اسی راہنمائی کے لیے اس نے رسول بھیجا اور کتاب اتا ری ہے۔ الدخان
3 الدخان
4 الدخان
5 الدخان
6 الدخان
7 الدخان
8 الدخان
9 الدخان
10 (٢) آیت ١٠ میں جس ” صریح دھواں“ کاذکر ہے اور اس کو عذاب الیم قرار دیا ہے اس کی تعیین مفسرین کے مابین مختلف فیہ ہے بعض نے کہا ہے یہ دھواں قیامت کے دن ظاہر ہوگا اور کفار منافقین کو اندھا بہرا کردے گا مگر اہل ایمان پر اس کا اثرزکام کی طرح ہوگا حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس تفسیر کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ دھواں وہ ہے جوزمانہ قحط میں رونما ہوا تھا شدت بھوک کی وجہ سے لوگ آسمان کی طرف دیکھتے تو دھواں ہی دھواں نظر آتا۔ اور بڑی گرفت سے مراد جنگ بدر کے دن کی گرفت ہے بعض اکابر صحابہ اور تابعین نے کہا ہے کہ قرآن مجید میں جس دھویں کی خبر دی گئی ہے وہ قیامت کے قریب ظاہر ہوگا اور تمام زمین پرچھاجائے گا اور احادیث میں اس دھویں کو علامات قیامت میں سے شمار کیا گیا ہے۔ الدخان
11 الدخان
12 الدخان
13 الدخان
14 الدخان
15 الدخان
16 الدخان
17 الدخان
18 (٣) آیت ١٨ میں حضرت موسیٰ نے فرعون کے آگے اپنی تبلیغ کا مقصد یہ نہیں بتایا کہ فسق وفجور چھوڑ دو، گناہ اور شرارت سے باز آجاؤ، اولین مطالبہ یہ کیا کہ خدا کے جن بندوں کے پاؤں میں محکومی اور غلامی کی زنجریں ڈال دی ہیں انہیں چھوڑ دو خدا کے بندے خدا کی امانت ہیں ظالم ومستبد اس امانت کا مستحق نہیں، لفظ، ادو، الاداء، سے ہے جس کے معنی دفع الحق کے ہیں یعنی کوئی چیز دے دینا جولینے والے کا حق تھا۔ الدخان
19 الدخان
20 الدخان
21 الدخان
22 الدخان
23 الدخان
24 الدخان
25 الدخان
26 الدخان
27 الدخان
28 (٤) آیت ٢٨ میں دوسری قوم سے مراد وہ لوگ ہیں جوفرعون کے بعد مصر کے وارث ہوئے کیونکہ تاریخوں سے کہیں بھی ثابت نہیں ہے کہ مصر سے نکلنے کے بعد کبھی بنی اسرائیل واپس گئے ہوں اور اس سرزمین کے وارث ہوئے ہوں مگر سورۃ شعراء میں ہے، کذالک و اور ثنھا بنی اسرائیل، اسی ہم نے بنی اسرائیل کو اس کا وارث بنادیا۔ سورۃ اعراف کی آیت ١٣٧ سے یہی مفہوم ہوتا ہے شاہ صاحب نے اپنی توضیحات میں بنی اسرائیل ہی مراد لیے ہیں اور لکھا ہے کہ فرعون کے غرق ہونے کے پیچھے بنی اسرائیل کا دخل مصر میں ہوا۔ تاریخ کی رعایت کرتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فراعنہ کی شان وشوکت کا وارث بنی اسرائیل کو بنادیا۔ الدخان
29 الدخان
30 الدخان
31 الدخان
32 الدخان
33 الدخان
34 الدخان
35 الدخان
36 الدخان
37 (٥) قوم تبع سے مراد یمن کی قوم سبا ہے جس کی تباہی کا حال سورۃ سبا میں گزرچکا ہے تبع دراصل اس قوم کے قبیلہ حمیر کے بادشاہوں کا لقب تھا عموما مورخین نے ان کا زمانہ حضرت عیسیٰ سے پہلے بتایا ہے ان میں سے ایک بادشاہ نے دنیا میں بہت فتوحات حاصل کی تھیں اور اسی نے شہر سمرقند بسایا اس نے خانہ کعبہ کا طواف بھی کیا اور واپس یمن پہنچ کر یہودی مذہب کی تبلیغ بھی کی چنانچہ یمنی عوامنے یہ دین اختیار کرلیا لیکن اس کی وفات کے بعد پھر کافر ہوگئے اسی بادشاہ کے متعلق مسند احمد، طبرانی وغیرہ میں روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، تبع کو گالی نہ دو اس لیے کہ وہ مسلمان ہوگیا تھا۔ واللہ اعلم۔ الدخان
38 الدخان
39 (٦) آیت نمبر ٣٩۔ یعنی آسمان وزمین اپنی حکمت کاملہ اور صحیح مقصد کے تحت پیدا کیے ہیں۔ یہاں تخلیق بالباطل کو، تلعب، سے تعبیر کیا ہے یعنی کوئی کام کھیل کود کی طرح بغیر کسی مقصد کے کرنا۔ الدخان
40 الدخان
41 الدخان
42 الدخان
43 الدخان
44 الدخان
45 الدخان
46 الدخان
47 الدخان
48 الدخان
49 الدخان
50 الدخان
51 الدخان
52 الدخان
53 الدخان
54 الدخان
55 الدخان
56 الدخان
57 الدخان
58 الدخان
59 الدخان
0 الجاثية
1 الجاثية
2 تفسیر وتشریح۔ (١) سورۃ الجاثیہ مکی ہے اور سورۃ الدخان کے قریبی دور میں نازل ہوئی ہے دونوں سورتوں کے مضامین میں مشابہت پائی جاتی ہے اس سورۃ میں بھی توحید وآخرت کے متعلق مشرکین کے شبہات کے جوابات دیے گئے ہیں کفار کی ہٹ دھرمی اور استکبار پرانہیں ملامت کی ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کی تلقین ہے۔ الجاثية
3 الجاثية
4 الجاثية
5 (٢) توحید کے سلسلہ میں قرآن مجید نے ہر مقام پر آسمان وزمین میں قدرت کی پھیلی ہوئی نشانیوں کو پیش کیا ہے جس میں خود انسان کی پیدائش اور حیوانات کی افزائش کاسلسلہ رات دن کا اختلاف اور آسمان سے بارش کے ذریعہ سے انسانی غذا کا انتظام سبھی داخل ہیں۔ یہ اللہ کا قانون ہے کہ باران رحمت نمودار ہوتا اور زندگی کی برکتوں سے زمین کے ایک ایک کونے کو مالا مال کردیتا ہے پھر کیا ضروری نہیں کہ جب عالم انسانیت ہدایت وسعادت کی شادابیوں سے محروم ہوجائے تو باران رحمت نمودار ہوکرایک روح کو پیام زندگی پہنچا دے روحانی سعادت کی یہ بارش کیا ہے؟ وحی الٰہی ہے تم اس منظر پر کبھی متعجب نہیں ہوتے کہ پانی برسا اور مردہ زمین میں زندہ ہو پھر اس پر کیوں چونک اٹھو کہ وحی الٰہی ظاہر ہوئی اور مردہ روحوں میں زندگی کی جنبش پیدا ہوگئی؟ الجاثية
6 الجاثية
7 الجاثية
8 الجاثية
9 الجاثية
10 الجاثية
11 الجاثية
12 الجاثية
13 الجاثية
14 الجاثية
15 الجاثية
16 الجاثية
17 الجاثية
18 الجاثية
19 الجاثية
20 الجاثية
21 الجاثية
22 الجاثية
23 الجاثية
24 (٣) آخرت کا انکار دراصل وہ لوگ کرتے ہیں جوخواہشات نفس کی بندگی کرنا چاہتے ہیں انسان کو انسانیت کے دائرہ میں اگر کوئی چیز رکھ سکتی ہے تو وہ خدا کے حضور جوابدہی کا تصور ہی ہوسکتا ہے قرآن مجید نے بتایا کہ جو لوگ آخرت کا انکار کرتے ہیں انہوں نے اپنے گمان سے یہ بات گھڑ لی ہے کہ دنیا میں موت وحیات کاسلسلہ یونہی خود سے جاری ہے آدمی محض گردش ایام سے مر کرفنا ہوجاتا ہے۔ پھر جب دوبارہ زندگی کے دلائل ان کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں تو بجائے ان کے کہ وہ ان دلائل پر غور کریں جھٹ سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ اگر انسان دوبارہ زندہ ہوسکتا ہے توہمارے آباواجداد کو زندہ کرکے دکھاؤ۔ آیت ٢٦ سے ان کے اسی قسم کے ظنون کا جواب دیا جارہا ہے۔ الجاثية
25 الجاثية
26 الجاثية
27 الجاثية
28 الجاثية
29 الجاثية
30 الجاثية
31 الجاثية
32 الجاثية
33 الجاثية
34 الجاثية
35 الجاثية
36 الجاثية
37 الجاثية
0 الأحقاف
1 الأحقاف
2 تفسیر وتشریح۔ (١) اس سورۃ میں جنوں کے قرآن سن کرجانے کا واقعہ مذکور ہے اور حدیث وسیرت کی کتابوں سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ١٠ بعثت کا واقعہ ہے یعنی ہجرت سے تین سال قبل پیش آیا اس سے سن نزول ازخود متعین ہوجاتا ہے۔ ١٠ نبوی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں انتہائی سختی کا سال تھا قریش کا مقاطعہ کی وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے خاندان اور اصحاب سمیت محصور ہوچکے تھے پھر جب محاصرہ ٹوٹا تو ابوطالب وفات پاگئے جونبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ڈھال کا کام دے رہے تھے اور اس کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفیقہ حیات حضرت خدیجہ بھی اس جہان سے رخصت ہوگئیں ان مسلسل صدموں کی وجہ سے یہ سال گویا عام الحزن تھا۔ ایک مرتبہ آپ اس ارادے پر طائف تشریف لے گئے کہ بنی ثقیف کواسلام کی دعوت دیں مکہ سے طائف کاساراسفر پیدل طے فرمایا مگر انہوں نے آپ کی بات سننے سے انکار کردیا اور کہہ دیا کہ ہمارے شہر سے نکل جاؤ انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ واپسی پر غندوں کو آپ کے پیچھے لگادیا جو آپ کا تعاقب کرتے آپکو پتھر مارتے اور آوازیں کستے رہے حتی کہ آپ زخموں سے چور ہوگئے۔ دل شکستہ ہو کر جب آپ قرآن المنازل میں پہنچے تو حضرت جبرائیل سامنے آئے اور کہا : اگر آپ چاہیں تو ان پر پہاڑ الٹ دیے جائیں، مگر نبی الرحمہ نے جواب دیا کہ نہیں، میں امید کرتا ہوں کہ ان کی نسل سے مسلمان پیدا ہوں گے۔ اس کے بعد آپ نخلہ میں جاکرٹھہرے اور وہیں جنوں کے قرآن سننے کا واقعہ پیش آیا۔ الغرض ان حالات میں یہ سورۃ نازل ہوئی اس سورۃ میں کفار کو ان کی گمراہیوں کے نتائج سے خبردار کیا گیا ہے اور ان کی تردید کی ہے توحید کا تصور پیش کیا ہے رسالت کے خلاف ان کے خیالات کی تردید کی ہے اور ان سے مطالبہ کیا ہے کہ شرک کی صحت میں کسی آسمانی کتاب سے دلیل پیش کرویا کوئی، علمی روایت، ہی دکھاؤ جوقابل اعتماد ذریعہ سے پہنچی ہو۔ (قرآن کہتا ہے کہ) اگر تمہیں میری تعلیم کی سچائی سے انکار ہے تو کسی مذہب کی الہامی کتاب سے ہی ثابت کردکھا کہ دین حقیقی راہ اس کے سوا کچھ اور بھی ہوسکتی ہے بلکہ علم وبصیرت کے کسی قول اور روایت سے ثابت کردکھاؤ کہ جو کچھ میں بتلارہاہوں یہی پچھلی دعوتوں کی تعلیم نہیں رہی؟۔ الأحقاف
3 الأحقاف
4 الأحقاف
5 الأحقاف
6 الأحقاف
7 الأحقاف
8 الأحقاف
9 الأحقاف
10 (٢) آیت ١٠ میں، شاھد من بنی اسرائیل، سے مراد حضرت عبداللہ بن سلام ہیں جو مدینہ منورہ کے مشہور یہودی عالم تھے اور ہجرت کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لے آئے تھے یہ واقعہ چونکہ مدینہ منورہ کا ہے اس لیے بعض مفسرین نے اس آیت کو مدنی قرار دیا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ یہ سورۃ بتمامہ مکی ہے اور شاہد بنی اسرائیل سے مراد کوئی خاص آدمی نہیں ہے بلکہ جیسا کہ حافظ ابن کثیر نے تصریح کی ہے بنی اسرائیل کا ایک عام آدمی مراد ہے آیت کا منشایہ ہے کہ قرآن مجید کی یہ تعلیم جو تمہارے سامنے پیش کی جارہی ہے یہ کوئی انوکھی چیز نہیں ہے جو دنیا میں پہلی مرتبہ تمہارے ہی سامنے پیش کی گئی ہو بلکہ اس سے پہلے یہی باتیں بنی اسرائیل کے سامنے بھی پیش کی جاچکی ہیں اور ان کے ایک عام آدمی سے پوچھ سکتے ہو وہ اس کی شہادت دے گا۔ الأحقاف
11 الأحقاف
12 الأحقاف
13 الأحقاف
14 (٣) نجات کے لیے ایک مرتبہ کا اقرار کافی نہیں بلکہ اقرار کے بعد استقامت بھی شرط ہے : ” ہمیشہ دو ہی خیال دماغوں میں پیدا ہوئے بعض نے سمجھا کہ کچھ نہیں کرسکیں گے اور بعض نے خیال کیا کہ چاہیں گے تو سب کچھ کرلیں گے۔ پہلے خیال کا نتیجہ یہی نکلا کہ کچھ نہ ہوا دوسرے نے چٹیل میدانوں کو ایوان ومحل، ویران جنگلوں کو آباد شاداب، غلاموں کو آزاد ایک گڈریے کو صاحب تاج وتخت اور ایک مردہ قوم کو زندہ قائم کردیا، البتہ استقامت شرط راہ اور دلیل وصول بارگاہ ہے“۔ الأحقاف
15 آیت ٤ میں اشارہ ہے کہ اولاد پر ماں کا حق باپ کی بہ نسبت زیادہ ہے اس لیے کہ وہ اولاد کے لیے مسلسل تکلیف میں مبتلا رہتی ہے اور بچے کی تربیت کا تعلق بھی ماں سے ہے اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے ماں کے دل میں شفقت ومحبت بھی زیادہ رکھی ہے۔ ربوبیت الٰہی کی کارسازی پر غور کرو، کس طرح ماں کی فطرت میں بچے کی محبت ودیعت کی گئی ہے اور کس طرح اس جذبے کو طبیعت بشری کے تمام جذبات سے زیادہ پرجوش اور ناقابل تسخیر بنادیا گیا ہے (پھرجب) بچے کا عہد رضاعت پورا ہوجاتا ہے اور اس کا معدہ عام غذاؤں کے ہضم کرنے کی استعداد پیدا کرلیتا ہے ماں کا دودھ خشک ہوناشروع ہوجاتا ہے یہ گویاربوبیت الٰہی کا اشارہ ہوتا ہے کہ اب اس کے لیے دودھ کی ضرورت نہیں رہی۔ الأحقاف
16 الأحقاف
17 الأحقاف
18 الأحقاف
19 الأحقاف
20 الأحقاف
21 (٥) قریش کے سردار اپنی بڑائی کا زعم رکھتے اور انہیں اپنی ثروت ومشیخت کا بڑا گھمنڈ تھا اس لیے ان کو قوم عاد کا قصہ سنایا جو قدیم زمانہ میں اس سرزمین میں سب سے زیادہ طاقتور قوم تھی۔ (٦) احقاف جمع ہے، حقف، کی اور حقف کے معنی اس لمبے ٹیلے کے ہیں جو بلندی میں پہاڑ کی حد کو نہ پہنچے وہ قوم عرب کے اس علاقے میں آباد تھی جوصحرائے اعظم (ربع خالی) کہلاتا ہے اس میں حضرت موت حضرت ہود کا مزاربنا ہوا ہے اس بناپرقرین قیاس یہی ہے کہ یہ لوگ اسی علاقے میں آباد تھے اور ان کا علاقہ عمان سے یمن تک پھیلاہوا تھا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرموت کایہ علاقہ ہزاروں سال پہلے سرسبز وشاداب تھا بعد میں آب وہوا کی تبدیلی نے اسے کھنڈر میں تبدیل کردیا یہ بہت نشیبی علاقہ ہے جہاں پہنچنا بہت دشوار ہے ان کی تفصیل سورۃ ہود میں گزرچکی ہیں۔ الأحقاف
22 الأحقاف
23 الأحقاف
24 الأحقاف
25 الأحقاف
26 الأحقاف
27 الأحقاف
28 الأحقاف
29 الأحقاف
30 الأحقاف
31 الأحقاف
32 الأحقاف
33 الأحقاف
34 الأحقاف
35 (٧) قیامت کی ہولناکیوں کو دیکھ کر انہیں دنیا میں اپنے عیش وآرام کا زمانہ بہت ہی مختصر معلوم ہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آخرت کے دن برزخی زندگی ایک گھڑی معلوم ہو، آخرت کی زندگی جب انسان پر طاری ہوگی تو وہ تمام مدت، جو مرنے کے بعد سے نشاۃ ثانیہ تک گزرتی ہے ایسا محسوس ہوگی جیسے ایک بہت ہی قلیل مدت کا درمیانی وقفہ، سورۃ مومنون کی آیت ١١٢، سورۃ روم کی آیت ٣٠، سورۃ نازعات کی آخری آیت میں بھی اسی حقیقت کو بیان فرمایا ہے۔ الأحقاف
0 محمد
1 تفسیر وتشریح۔ (١) اس سورۃ کا دوسرا نام سورۃ القتال بھی ہے یہ سورۃ ہجرت کے بعد جنگ بدر سے پہلے نازل ہوئی اس کاموضوع مسلمانوں کو جنگ کے لیے تیار کرنا اور اس کے متعلق ابتدائی ہدایات دینا ہے اس لیے اس سورۃ میں مسلمانوں کی ہمت بندھائی ہے اور کفار کو تباہی سے ڈرایا ہے اور منافقین کے اعمال کی بربادی کا اعلان کیا گیا ہے۔ جب سورۃ کے آخر میں مسلمانوں کو انفاق فی سبیل اللہ کی دعوت دی گئی ہے اور جس قدر ہوسکے مالی وسائل کو کام میں لانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ محمد
2 محمد
3 (٢) اس وقت دوگروہ بالمقابل کام کررہے ہیں ایک وہ جنہوں نے اس تعلیم وہدایت کو ماننے سے انکار کردیا ہے جونبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پرنازل کی گئی ایسے لوگوں کی تمام کوششیں گمراہی کو پھیلانے میں صرف ہورہی ہیں دوسراگروہ وہ ہے جو ایمان لاچکا ہے اور عمل صالح میں زندگی گزاررہا ہے ان کی برائیاں دور کردی جائیں گی اور ان کی موجودہ پریشانی کی حالت کو ختم کردیا ہے۔ عمل صالح انسان کے دل کو سنوارتا ہے اس لیے پچھلے گناہوں کاجوداغ دل میں ہوتا ہے اسے بھی مٹا دیتا ہے۔ محمد
4 محمد
5 محمد
6 (٣) حق وباطل کے مابین مقابلہ تورہتا ہی ہے پھر اگر جنگ شروع ہوجائے تو مسلمانوں کو ثبات وشجاعت سے کام لینا چاہے باطل کا زور جبھی ٹوٹے گا کہ بڑے بڑے شریر مارے جائیں جب مسلمانوں کی دھاک بیٹھ جائے تو اس وقت تم قیدی بناسکتے ہوجیسا کہ سورۃ انفال میں فرمایا، ماکان لنبی ان یکون لہ اسری حتی یثخن فی الارض۔ اس کے بعد حسن اخلاق سے یاتواحسان کرکے رہا کرواوریا کچھ فدیہ لے کر۔ یا مسلمان قیدیوں کے عوض رہا کردو، اور یہ حرب وضرب اور قیدوبند کاسلسلہ تاآں جاری رہے کہ جنگ موقوف ہوجائے۔ محمد
7 محمد
8 محمد
9 محمد
10 محمد
11 محمد
12 محمد
13 محمد
14 محمد
15 محمد
16 محمد
17 محمد
18 (٤) آیت ١٨ میں فرمایا کہ قیامت کی علامت تو ظاہر ہوچکی ہیں ان میں سب سے بڑی علامت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہے کہ ان کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے حدیث میں ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا، بعثت انا والساعۃ کھاتین۔ یعنی جس طرح ان دوانگلیوں کے درمیان تیسری انگلی نہیں ہے اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی اور نبی مبعوث ہونے والا نہیں ہے میرے بعد اب قیامت ہی آئے گی۔ محمد
19 محمد
20 (٥) نفاق کا ہمیشہ یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ مشکل اوقات میں اطاعت سے پہلوتہی کے لیے بہانے تلاش کرنے لگ جاتا ہے اور اپنی جان ومال کے لیے کوئی خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں ہوتا، اس طرح نمائشی اسلام کالبادہ اتار کرپھینک دیتا ہے اور الٹا موقع پاکر ظلم وفساد اور برادرکشی پر اترآتا ہے یہی حال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں منافقین کا تھا اسی لیے آیت ٣٢ میں برملا چیلنچ کردیا کہ منافقین اور یہود جونبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کے ظاہر ہوجانے کے باوجود ضد وعداوت سے آپ کی مخالفت کررہے ہیں وہ اپنی مکاریوں اور چالبازیوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے بلکہ یہ ذلیل ہوں گے اور کیے پر پچھتائیں گے۔ محمد
21 محمد
22 محمد
23 محمد
24 محمد
25 محمد
26 محمد
27 محمد
28 محمد
29 محمد
30 محمد
31 محمد
32 محمد
33 محمد
34 محمد
35 (٦) آیت ٣٥ کے مضمون سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اسلام صلح پسندی کے خلاف ہے بلکہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایسی حالت میں صلح جوئی جائز نہیں ہے جب اسے کمزوری پہ محمول کیا جائے اور دشمن اور زیادہ دلیر ہوجائیں بلکہ مسلمانوں کو چاہیے کہ پہلے اپنی طاقت کالوہا منوالیں پھر صلح کے لیے جو بات چیت کریں تو کچھمضائقہ نہیں ہے۔ محمد
36 محمد
37 محمد
38 محمد
0 الفتح
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ مدنی ہے اور ١ ہجری میں صلح حدیبیہ سے واپسی کے موقع پر نازل ہوئی۔ اس واقعہ (صلح حدیبیہ) کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک روز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب دیکھا کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ مکہ معظمہ تشریف لے گئے ہیں اور وہاں عمرہ ادا کیا ہے انبیاء کا خواب چونکہ وحی ہوتا ہے گوبہ ظاہر اس خواب کے پورا ہونے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی مگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آئندہ سال عمرہ کے لیے صحابہ کو تیاری کا حکم دیا اور اعلان کرایا کہ ہم عمرہ ادا کرنے جارہے ہیں جوہمارے ساتھ چلنا چاہے وہ آجائے چنانچہ آپ ١٤٠٠ صحابہ کی معیت میں اس سفر پرروانہ ہوگئے۔ ذی القعدہ ٦ ہجری کو یہ قافلہ مدینہ سے روانہ ہوا۔ ذوالحلیفہ (بئرعلی) پہنچ کرسب نے احرام باندھا قربانی کے اونٹ ساتھ لیے اور ان کے گلے میں ہدی کی علامت کے طور پر قلادے ڈال دیے اور لبیک کہتا یہ قافلہ بیت اللہ شریف کوروانہ ہوا۔ کفار کے ساتھ تعلقات نہایت کشیدہ تھے ابھی پچھلے سال ٥ ہجری میں غزوہ احزاب ختم ہوا تھا اس بنا پر جب یہ قافلہ رواں ہوا توتمام عرب میں اس کی دھوم مچ گئی اور سب قبیلے نتائج کا انتظار کرنے لگے ماہ حرام میں اس قافلے کی خبر سن کر قریشی پریشان ہوگئے کیوں کہ اس مہینہ میں جو قافلہ حج یا عمرہ کے لیے جاتا تو اس کو روکنے کا کسی کو حق نہ تھا اور نہ ہی دشمن قبائل ہی راستے میں تعرض کرسکتے تھے اب اگر انکو روکتے ہیں تو عربقبائل کے منحرف ہوجانے کا خطرہ ہے اور اگر اجازت دیتے ہیں تو ان کی کمزوری پر اسے محمول سمجھا جاتا ہے مگر بالآخر انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ کسی قیمت پر مسلمانوں کو مکہ میں داخلہ کی اجازت نہ دی جائے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی کچھ مخبر بھیج رکھے تھے انہوں نے خبر دی کہ قریش پوری تیاری کے ساتھ ذی طوی مقام میں جمع ہوگئے ہیں اور انہوں نے خالید بن ولید کو دوسوسواروں کے ساتھ، کراع النعیم، کی طرف آگے بھیج دیا ہے تاکہ وہ آپ کاراستہ روکیں۔ ان کی یہ کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح سے اشتعال دلاکرلڑائی چھیڑ دی جائے اور عرب میں مشہور کردیا جائے کہ یہ لوگ دراصل لڑنے آئے تھے اور عمرہ کا بہانہ بنارہے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باربار ان سے فرمایا کہ ہم عمرہ کرنے آئے ہیں اس لیے ہمارا راستہ نہ روکاجائے مگر وہ اپنی ضد پر اڑے رہے اور انہوں نے احابیش کے سردار حلیس بن علقمہ کو ان کے پاس بھیجا تاکہ وہ آپ کو واپس جانے پر آمادہ کرسکے، مگر وہ یہ منظر دیکھ کر کہ اونٹوں کی گردنوں میں قلادے پڑے ہوئے ہیں اور یہ لوگ لڑنے کے لیے نہیں بلکہ بیت اللہ کا طواف کرنے آئے ہیں تو واپس چلا گیا اور قریش سے کہا کہ یہ لوگ زیارت بیت اللہ کے لیے آئے ہیں اس لیے ان کو روکنا نہیں چاہیے۔ پھر قریش نے عروہ بن مسعود ثقفی کو بھیجا مگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واپسی سے انکار فرمادیا اس طرح انہوں نے باربارکوشش کی مگر ناکام رہے بالآخر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عثمان کو ایلچی بناکر مکہ بھیجا اور پیغام دیا کہ ہم عمرہ کرنے کے لیے آئے ہیں اس لیے ہمیں عمرہ ادا کرنے سے نہ روکیں عمرہ کرتے ہی ہم واپس چلے جائیں گے لیکن انہوں نے حضرت عثمان کو روک لیا اور مشہور ہوگیا کہ حضرت عثمان شہید ہوگئے یہ معاملہ چونکہ بہت اہم تھا اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عثمان کا بدلہ لینے کے لیے درخت کے نیچے بیعت لی جو بیعت رضوان کے نامسے مشہور ہوئی۔ مگر بعد میں معلوم ہوا کہ یہ خبرغلط تھی اور حضرت عثمان خود واپس تشریف لائے اور قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو ایک وفد لے کرحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوا اور صلح نامہ طے پایا کہ اس سال وہ واپس چلے جائیں اور آئندہ سال عمرہ کے لیے آجائیں اور مندرجہ ذیل شرائط طے پائیں : (الف) دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بندرہے گی اور کسی کے خلاف خفیہ یاعلانیہ کوئی کاروائی نہ کی جائے گی۔ (ب) اس دوران میں جو شخص بھاگ کرمدینہ آجائے مسلمان اس کو واپس کردیں گے لیکن صحابہ کرام میں سے جو شخص مکہ چلاآئے گا وہ واپس نہ ہوگا۔ (ج) قبائل عرب میں سے جوقبیلہ بھی کسی کا حلیف بن کر اس معاہدہ میں شامل ہونا چاہے تو اسے اختیار حاصل ہوگا۔ (د) آئندہ سال آپ صحابہ کرام کی معیت میں عمرہ کے لیے آئیں گے مگر تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہرسکیں گے ان تین دنوں میں اہل مکہ شہر کو خالی کردیں گے اور آپ صرف پر تلوں میں تلوار لے کرآئیں گے۔ صحابہ کرام کو گوبعض شرائط سے اتفاق نہ تھا مگر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں منظور کرلیا تو انہیں بھی تسلیم کرنا پڑا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو سمجھایا کہ اس سال نہیں تو آئندہ سال عمرہ ادا کرلیں گے اور شرائط صلح کے مطابق بیت اللہ شریف کا طواف بھی کریں گے۔ صلح سے فارغ ہو کر آپ نے فرمایا اب یہیں قربانی کرکے سرمنڈاؤ اور احرام ختم کردو۔ اس پر جب حرکت نہ ہوئی تو سب سے پہلے آپ نے قربانی کی اور اپنا سرمنڈایا اس کے بعد لوگوں نے اس پر عمل کرناشروع کردیا۔ اس کے بعد جب یہ قافلہ واپس ہوا اور لوگ اپنی شکست محسوس کررہے تھے تو ضجنان کے مقام پر یہ سورۃ نازل ہوئی اور قرآن مجید نے اس صلح کو بہت بڑی فتح قرار دیا اور اس کے بعد مدت گزرنے کے ساتھ جب اس صلح کے فوائد سامنے آئے تولوگوں کو یقین ہوگیا کہ واقعی یہ فتح عظیم تھی اس کے نتائج حسب ذیل تھے : ١۔ اس سے مسلمانوں کی پوزیش مضبوط ہوگئی اور انہوں نے اپنی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرالیا۔ ٢۔ مسلمانوں کے لیے زیارت بیت اللہ کا حق تسلیم کرلیا گیا اور آئندہ کے لیے تمام روکاٹیں دور ہوگئیں۔ ٣۔ دس سال کی جنگ بندی کی وجہ سے امن قائم ہوگیا جس سے اسلام کی اشاعت کا موقع مل گیا اور کثرت سے لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے چنانچہ دو سال بعد جب قریش کی عہد شکنی کی وجہ سے مکہ پر آپ نے چڑھائی کی تو آپ کے ہمراہ دس ہزار کالشکرجرار تھا اور آئندہ فتوحات کے لیے دروازہ کھل گیا، پھر ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چار نعمتوں سے نوازا اور ان کا اعلان بھی کردیا۔ پہلی چیز غفران ذنوب ہے۔ یوں تو انبیائے کرام سبھی مغفوالذنوب ہوتے ہیں مگر اس اعلان کا شرف اور کسی کو حاصل نہیں ہوا اور اسی وجہ سے قیامت کے دن شفاعت کبری کے لیے آپ کا نام پیش ہوگا اور آپ اس شفاعت کے لیے مقام محمود میں کھڑے ہوں گے گوآنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مغفور الذنب تھے مگر آپ ہمیشہ عبداشکورابن کررہے۔ الفتح
2 الفتح
3 الفتح
4 الفتح
5 الفتح
6 الفتح
7 الفتح
8 الفتح
9 الفتح
10 الفتح
11 الفتح
12 (٢) آیت ١١، ١٢ میں منافقین کی حالت اور ان کے کردار کابیا ہے جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ سے روانہ ہوئے تو بجزبن یقیس کے مسلمانوں کے کوئی منافق نہ آیا اور بہانے بناکربیٹھ رہے انہوں نے خیال کیا کہ، مڈبھیڑ، ضرور ہوگی اور مسلمان لڑائی میں تباہ ہوں گے ہم کیوں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالیں۔ الفتح
13 الفتح
14 الفتح
15 (٣) حدیبیہ سے واپس آکر آپ نے خبیر پر چڑھائی کی جہاں غدار یہود آباد تھے اور انہوں نے جنگ احزاب میں بدعہدی کرکے کفار کا ساتھ دیا ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی کہ وہ گنوار جوحدیبیہ نہیں گئے اب خیر کے معرکہ میں تمہارے ساتھ جانے کو کہیں گے کیونکہ وہاں غنیمت کی امید ہے آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تمہاری اس استدعا سے قبل ہی اللہ تعالیٰ ہمیں مطلع کرچکا ہے کہ تم اس سفر میں ہمارے ساتھ نہیں جاسکتے۔ اب اگر جاؤ گے تو گویا اللہ کا فرمان بدل گیا جوکسی طرح ممکن نہیں ہے۔ الفتح
16 (٤) آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم اس لڑائی میں نہیں جاسکتے لیکن آگے بہت معرکے پیش آنے والے ہیں بڑی سخت جنگجو قوموں سے مسلمانوں کے مقابلے ہوں گے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا اگر تمہیں واقعی شوق جہاد ہے تو اس وقت میدان میں آکر شجاعت دینا۔ علمانے لکھا ہے کہ ان جنگجو قوموں سے مراد بنوحنیفہ وغیرہ کے قبائل ہیں جو مسلیمہ کذاب کی قوم تھی یابنی ہوازن وثقیف مراد ہیں جن سے جنگ حنین میں مقابلہ ہوا یافارس وروم کی قومیں مراد ہیں جن سے خلفائے راشدین نے جنگیں کیں۔ الفتح
17 الفتح
18 (٥) اس درخت سے کیکر کا وہ درخت مراد ہے جس کے نیچے بیعت ہوئی تھی اور اس بیعت پر چونکہ قرآن مجید نے، لقدرضی اللہ عنہ) کی خوشخبری دی ہے اسلیے اس بیعت رضوان کہتے ہیں۔ الفتح
19 الفتح
20 الفتح
21 (٦) آیت ١٩ میں جن بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کیا ہے وہ آئندہ حاصل ہونے والی تھیں۔ اور غنائم خیبر چونکہ اس وقت حاصل ہوگئی تھیں اس لیے اسے فعجل لکم ھذہ، سے تعبیر فرمایا۔ الفتح
22 الفتح
23 الفتح
24 الفتح
25 الفتح
26 الفتح
27 الفتح
28 الفتح
29 (٧) آخر سورۃ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کی شان بیان فرمائی ہے اور اسلامی تحریک کے بتدریج تنومند ہونے کی خوش خبری دی ہے چنانچہ شروع اسلام میں مسلمانوں کی حیثیت، کھیتی کی اس کونپل سے زیادہ نہ تھی جوہوا کے جھونکوں سے ادھر ادھر گرتی رہتی ہے مگر یہ تعداد بتدریج بڑھتی گئی اور آخرکار ان کے اجتماعی وسیاسی نظام کی بنیادیں مستحکم ہوگئیں اور کفار اپنے حسد کی آگ میں جل بھن کررہ گئے۔ آیت کریمہ میں صحابہ کے جواوصاف بیان ہوئے ہیں ان میں اخلاقی بلندی اور عبادت گزاری کے وصف پر زور دیا ہے کہ وہ ہر وقت رکوع وسجود میں لگے رہتے ہیں اور کثرت وسجود سے ان کے چہرے دمک رہے ہیں۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ جب صحابہ کرام کی فوجیں شام میں داخل ہوئیں تو وہاں کے عیسائی انہیں دیکھ کر کہنے لگے کہ ہمیں مسیح کے حواریوں کی جوشان معلوم ہے ان کی شان اسے بھی کہیں زیادہ ہے۔ الفتح
0 الحجرات
1 تفسیروتشریح۔ (١)۔ یہ سورۃ مدنی ہے اور مختلف مواقع پر نازل شدہ احکام واہدایات کا مجموعہ ہے اور اکثر احکام مدینہ طبیہ کے آخری دور میں نازل ہوئے ہیں اس سورۃ میں ان آداب کی تعلیم دی گئی ہے جو اہل ایمان کے لیے ضروری ہے۔ الحجرات
2 الحجرات
3 الحجرات
4 الحجرات
5 (٢)۔ ابتدائی پانچ آیات میں وہ آداب بتائے ہیں جن کو اللہ اور رسول کے معاملہ میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ الف۔ ایمان کا اولین تقاضا یہ ہیکہ اپنی رائے وخیال کو اللہ و رسول کے فیصلے پر مقدم نہ رکھے۔ ب۔ نبی کے ساتھ ملاقات اور بات چیت میں آپ کے احترام کو ملحوط رکھیں کہ کسی شخص کی آواز آپ سے بلند نہ ہو، عام آدمیوں کی طرح آپ سے خطاب نہ کیا جائے اس کے مخاطب گو وہ لوگ ہیں جو آپ کے زمانہ میں موجود تھے مگر اب بھی یہ ضروری ہے کہ جب نبی کا ذکر ہورہا ہو یا آپ کی احادیث سنائی جارہی ہوں تو پھر بھی یہی ادب ملحوظ رہنا چاہیے آپ کے ساتھ بے ادبی یاگستاخی تمام اعمال کے ضائع ہونے کاسبب بن سکتی ہے۔ (ج)۔ بارہا ایسے ناشائستہ لوگ بھی آپ کی ملاقات کے لیے آجاتے ہیں جو بجائے اطلاع دینے کے، ازواج مطہرات کے حجروں کے گرد چکر کاٹ کر باہر ہی سے آپ کو بلاتے ہیں نبی کو ان کی حرکات سے سخت تکلیف ہوتی، آخرکار اللہ نے ان ناشائستہ حرکات پر انہیں ملامت کی اور انہیں ہدایت دی کہ اس طرح پکارنے کے بجائے بیٹھ کر انتظار کرلیاکرو۔ الحجرات
6 (٣)۔ اکثر مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ آیت (٦) ولیدب ن عقبہ بن ابی معیط کے حق میں نازل ہوئی ہے مولانا آزاد لکھتے ہیں، قبیلہ بنو مصطلق تمام احکام اسلام کا مطیع ہوچکا تھا نبی نے ولید بن عقبہ کو صدقے کا مال وصول کرنے کے لیے بھیجا ان لوگوں کو خبر ہوئی تو استقبال کے لیے جمعیت عظیم کے ساتھ آگے بڑھے، لیکن ولید کے دل میں بدگمانی پیدا ہوگئی وہ سمجھے کہ یہ لوگ لڑنے کے لیے آرہے ہیں چنانچہ وہ وہیں سے پلٹ آئے، نبی کو خبر دی کہ وہ لوگ دائرہ اطاعت سے باہر ہوگئے، پس آپ نے ان پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ولید بن عقبہ نبی کے صحابی تھے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ آیت ان کے حق میں نازل ہوئی ہو؟ اس بات کو حافظ بن کثیر نے بھی محسوس فرمایا، چنانچہ وہ لکھتے ہیں، سلف کی ایک جماعت نے ایسے ہی ذکر کیا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ کے حق میں نازل ہوئی ہے واللہ اعلم، مولانا آزاد اس پر مزید لکھتے ہیں، مفسرین کرام کو اس شان نزول پر یہ شبہ ہے کہ غلطی کی بنا پر ولید بن عقبہ جیسے جلیل القدر صحابی کو فاسق نہیں کہا جاسکتا لیکن اس آیت کا تعلق درحقیقت ان کی ذات سے مخصوص نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایک عام اصول کے طور پر بتادیا ہے کہ جب زمانہ جنگ میں خود مسلمان غلطی کرسکتے ہیں تو فاسق لوگوں کی روایات کو تو اور بھی احتیاط سے قبول کرنا چاہیے۔ یہ بھی ممکن ہے ولید بن عقبہ کو کسی شریر شخص نے اس استقبال کے متعلق غلط خبر دی ہو اور اسے اقدام وہجوم کی شکل میں دکھایا ہو اور اس پر اللہ نے فاسق کا اطلاق اسی شخص پر کیا۔ الحجرات
7 الحجرات
8 الحجرات
9 الحجرات
10 (٤)۔ آیت نمبر ٩، ١٠ میں مسلمانوں کی باہمی لڑائی کے متعلق ضروری ہدایت دی ہیں کہ ان میں صلح کرادو اور اگر ان میں سے کوئی ایک فریق صلح پر آمادہ نہ ہو اور وہ ظلم اور زیادتی کررہا ہو تو اسے راہ راست پر لاؤ، حدیث میں ہے کہ اگر کوئی مسلمان دوسرے پر ظلم کرے تو اسے ظلم سے روکنا بھی اس کی مدد میں داخل ہے۔ الحجرات
11 الحجرات
12 (٥)۔ آیت ١١، ١٢ میں بتایا کہ دین کے مقدس رشتے کی بنا پر سب مسلمانبھائی بھائی ہیں اور ان میں باہم نفاق وشقاق پیدا کرنے والی برائیوں سے منع فرمایا ہے کسی مسلمان پر طعن کرنا، اس کا مذاق اڑانا برے نام سے پکارنا، بدظنی اور بدگمانی کرنا، کسی کے راز کو ٹٹولنا، اور اس کی کمزوریاں معلوم کرنا خصوصا حکمران طبقہ جب لوگوں کے عیب تلاش کرنے لگ جائے تو معاشرہ میں باہم اعتماد کی فضا قائم نہیں رہتی اسی طرح غیبت کرنا اور غیبت یہ ہے کہ کسی شخص کی عدم موجودگی میں اس کے متعلق کوئی قابل اعتراض بات کرنا، وغیرہ معاشرتی برائیاں ہیں جن سے قرآن مجید نے نصا منع فرمایا ہے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، مسلمانو تمہاری جانیں، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں تم میں سے ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح یہ مہینہ اور یہ دن باحرمت ہے (ابن کثیر)۔ الحجرات
13 (٦)۔ تمام انسانی برادری ایک ہی اصل سے پیدا ہوئی ہے اور وطن وقومیت کا تعصب ان کے لیے تباہ کن ہے اس لیے انسانیت کی بھلائی اسی میں ہے کہ تمام انسانوں کو یکساں نظر سے دیکھاجائے اور سب سے یکساں سلوک کیا جائے خصوصا مسلم معاشرے کو ان خرابیوں سے محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ جاہلیت میں ترجیح وبرتری کی بنیاد نسلی امتیازات پر تھی، قرآن مجید نے اسلامی معاشرہ کی بنیاد، انسانی ہمدردی، پر رکھی اور نسلی امیتازات کو یکسر ختم کردیا اور فرمایا کہ قوموں اور برادریوں کی یہ تقسیم محض تعارف کا ذریعہ ہے اور اسے اسی حد تک باقی رہنا ضروری ہے لیکن اکرام واعزا پرہیزگاری اور تقوی کی وجہ سے ہے۔ الحجرات
14 الحجرات
15 الحجرات
16 الحجرات
17 الحجرات
18 الحجرات
0 ق
1 تشریح۔ (١)۔ یہ سورت مکی ہے اور عہد وسطی کی تنزیلات سے ہے اس کاموضوع آخرت ہے نبی اکثر عیدین کی نمازوں اور جمعہ کے خطبہ میں اس سورۃ کو تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ (٢)۔ قرآن مجید کی ایک صفت، مجید، بھی ہے یعنی بلند مرتبہ اور کثیر العطا قرآن کانظم اور معنی کے اعتبار سے اعجاز اس کے بلند مرتبہ ہونے کی دلیل ہیی اور قرآن مجید کی اتباع سے جوفوائد اور منافع حاصل ہوتے ہیں وہ بجائے خود ہی اس کے کثیر العطا ہونے کی دلیل ہیں اس بنا پر قرآن مجید کو ہی نبی کی رسالت پر بطور دلیل پیش کیا گیا ہے اور پھر بتایا کہ یہ پیغمبر تمہیں میں سے ہے اس کی باتوں پر غور کرو۔ ق
2 ق
3 ق
4 ق
5 (٣)۔ کفار کا آخرت سے انکار نہایت بے معنی بات ہے اس کے بعد آیت ٦ سے آخرت پر دلائل کاسلسلہ شروع ہورہا ہے اور ان دلائل میں عالم بالا کے نظام اور زمین کی خلقت کو نمایا حیثیت حاصل ہے اور پھر کائنات کایہ سارا مستحکم نظام صرف امکان آخرت کی ہی دلیل نہیں ہے بلکہ اس سے توحید کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ جس طرح قرآن مجید نے ربوبیت کے اعمال ومظاہرے سے استدلال کیا ہے اسی طرح وہ رحمت کے آثار وحقائق سے بھی جابجا استدلال کرتا ہے، ممکن نہیں کہ فضل و رحمت کی یہ پوری کائنات موجود ہو اور فضل و رحمت کا کوئی زندہ ارادہ موجود نہ ہو، چنانچہ وہ مقامات جن میں کائنات خلقت کے افادہ وفیضان، زینت وجمال واعتدال، تسویہ، وقوام اور تکمیل واتقان کا ذکر کیا گیا ہے دراصل اسی استدلال پر مبنی ہے۔ ق
6 ق
7 ق
8 ق
9 ق
10 ق
11 ق
12 ق
13 ق
14 (٤)۔ آیت ١٢ سے آخرت کے امکان پر تاریخی استدلال ہے عرب اور اس کے گرد وپیش کی قوموں کے تاریخی انجام کو بطور دلیل پیش کیا ہے کہ آخرت کا عقیدہ عین حقیقت کے مطابق ہے کیونکہ اس کے منکرین میں ایسا اخلاقی بگاڑ پیدا ہوا کہ وہ بالاآخر تباہ وبرباد ہوگئے۔ ق
15 (٥)۔ آیت ١٥ میں آخرت کے ثبوت پر عقلی استدلال کیا ہے۔ ق
16 ق
17 ق
18 ق
19 ق
20 ق
21 ق
22 ق
23 ق
24 ق
25 ق
26 ق
27 ق
28 ق
29 ق
30 ق
31 ق
32 ق
33 ق
34 ق
35 ق
36 ق
37 ق
38 ق
39 ق
40 ق
41 ق
42 ق
43 ق
44 ق
45 ق
0 الذاريات
1 الذاريات
2 الذاريات
3 الذاريات
4 الذاريات
5 تفسیر وتشریح۔ (١)۔ یہ سورۃ بھی مکی ہے اور عہد وسطی کی تنزیلات سے ہے، اس کاموضوع بھی آخرت اور توحید کا اثبات ہے اور بتایا ہے کہ جن لوگوں نے بھی دعوت رسول کا انکار کیا وہ تباہ وبرباد ہوچکی ہیں۔ (٢)۔ ان ہواؤں کی قسمیں کھائی ہیں کہ ہوا اور بارش کایہ نظام شاہد ہے کہ آخرت کا وعدہ سچا اور انصاف ہوناضروری ہے۔ الذاريات
6 الذاريات
7 (٣)۔ آسمان کی قسم کھاکر بتایا کہ تم نے آخرت کے بارے میں خوامخواہ جھگڑے ڈال رکھے ہیں حالانکہ اگر صرف آسمان کے نظم ونسق پر غور کیا جائے تو یقین ہوجاتا ہے کہ اس مسئلہ میں جھگڑنا حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں، ذات الحبک، صاف شفاف اور پر رونق آسمان ہے جس پرستاروں کا جال بچھا ہوا نظر آرہا ہے یہاں اس قسم سے یہ مطلب نہیں ہے کہ جیسے آسمان پر تاروں کے مختلف جھرمٹ نظر آتے ہیں ایسے ہی تمہارے اقوال بھی مختلف ہیں۔ بلکہ آسمان کے اس نظام کو گواہ بنایا ہے کہ آخرت کے متعلق تمہارا یہ جھگڑا بالکل فضول ہے۔ الذاريات
8 الذاريات
9 الذاريات
10 الذاريات
11 الذاريات
12 الذاريات
13 الذاريات
14 الذاريات
15 الذاريات
16 الذاريات
17 الذاريات
18 الذاريات
19 الذاريات
20 الذاريات
21 الذاريات
22 الذاريات
23 الذاريات
24 الذاريات
25 الذاريات
26 الذاريات
27 الذاريات
28 (٤)۔ مجموعہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم کو جس لڑکے کی بشارت دی گئی وہ حضرت اسحاق ہیں چنانچہ جب خوش خبری ملی تو حضرت سارہ چیختی ہوئی آگے بڑھیں اور بائبل میں ہے کہ اس وقت حضرت ابراہیم کی عمر سو سال اور حضرت سارہ کی عمر ٩٠ سال تھی۔ الذاريات
29 الذاريات
30 الذاريات
31 الذاريات
32 الذاريات
33 الذاريات
34 الذاريات
35 الذاريات
36 الذاريات
37 (٥)۔ آیت ٣٧ میں جس نشانی کی طرف اشارہ فرمایا ہے اس سے مراد بحیرہ مردار ہے جس کاجنوبی علاقہ آج بھی ایک عظیم الشان تباہی کے آثار پیش کررہا ہے۔ الذاريات
38 الذاريات
39 الذاريات
40 الذاريات
41 الذاريات
42 الذاريات
43 الذاريات
44 الذاريات
45 الذاريات
46 (٦)۔ آیت ٣١ سے ٤٢ تک انبیا اور بعض گزشتہ قوموں کے انجام کی طرف پے درپے اشارات کیے ہیں جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کا قانون اور مکافات برابر کام کرتارہا ہے اور نیکوکاروں کے لیے انعام اور ظالموں کے لیے سزا کی مثالیں مسلسل پائی جاتی ہیں جب دنیا میں مکافات عمل کاسلسلہ جاری ہے تو اس طبعی نظام کے ختم ہوجانے کے بعداعمال کے نتائج کا کامل طور پر نہایت ضروری ہے۔ الذاريات
47 الذاريات
48 الذاريات
49 الذاريات
50 الذاريات
51 الذاريات
52 الذاريات
53 الذاريات
54 الذاريات
55 الذاريات
56 الذاريات
57 الذاريات
58 الذاريات
59 الذاريات
60 الذاريات
0 الطور
1 تفسیر (١) یہ سورۃ مکی ہے اور اس میں بھی آخرت پر شہادت کے آثار پیش کیے گئے ہیں علاوہ ازیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر اعتراض کرنے والے لوگوں کے رویہ پر تنقید کی ہے اور نبی کو ہدایت فرمائی ہے کہ ان معاندین کے الزامات اور اعتراضات کی پروا کیے بغیر دعوت تذکیر کا کام مسلسل جاری رکھیں اور ان کا صبر وتحمل سے مقابلہ کریں۔ الطور
2 الطور
3 الطور
4 الطور
5 الطور
6 الطور
7 (٢) ابتدائے سورۃ میں پانچ چیزوں کی قسم کھاکر بتایا ہے کہ قیامت ضرور آئے گی۔ الطور
8 الطور
9 الطور
10 الطور
11 الطور
12 الطور
13 الطور
14 الطور
15 الطور
16 الطور
17 الطور
18 الطور
19 الطور
20 الطور
21 (٣) آیت ٢١ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اگر اولاد کسی نہ کسی درجہ ایمان میں بھی اپنے آباء کے نقش قدم کی پیروی کرتی رہی تو خواہ اپنے عمل کے لحاظ سے وہ اس مرتہ کی مستحق نہ ہو جوان کے آباء کو ملا ہیی لیکن پھر بھی یہ اولاد ان کے ساتھ ملادی جائے گی۔ الطور
22 الطور
23 الطور
24 الطور
25 الطور
26 الطور
27 الطور
28 الطور
29 الطور
30 الطور
31 الطور
32 الطور
33 الطور
34 الطور
35 الطور
36 الطور
37 الطور
38 الطور
39 الطور
40 الطور
41 الطور
42 الطور
43 الطور
44 الطور
45 الطور
46 الطور
47 الطور
48 الطور
49 الطور
0 النجم
1 تفسیر (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور ہجرت حبش کے بعد ٥ نبوی میں نازل ہوئی، ابن سعد کا بیان کہ پانچ نبوی میں جب صحابہ کرام اجمعین کی ایک مختصر جماعت ہجرت کرکے حبش چلی گئی تو اسی سال رمضان المبارک میں یہ واقعہ پیش آیا کہ رسول اللہ نے قریش کے ایک مجمع میں سورۃ نجم پڑھ کر سنائی اور کافر اور مومن سب نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔ یہ واقعہ حبش کے مہاجرین کے پاس اس شکل میں پہنچا کہ کفار مکہ مسلمان ہوگئے ہیں اس خبر کو سن کر کچھ لوگ شوال پانچ نبوی میں مکہ میں واپس آگئے مگر یہاں آکر معلوم ہوا کہ ظلم وستم اسی طرح ہورہا ہے جس پر بہت سے لوگ ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے۔ یہ سورت جب قریش کے ایک مجمع میں آپ پڑھ کرسنارہے تھے تو شدت تاثیر کی وجہ سے سجدہ کے موقع پر مخالفین بھی سجدہ میں گرپڑے مگر جب انہیں ملامت ہوئی تو کہنے لگے کہ اس سورۃ میں لات، منات، اور عزی (بتوں) کا ذکر آیا ہے اور محمد کی زبان سے ہم نے یہ الفاظ بھی سنے ہیں، تلک الغرانقۃ العلی، وان شفاعتھن لترتجی۔ یہ قصہ مفسرین نے بھی نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ الفاظ شیطان نے نبی کی زبان سے پڑھ کر سنادیے تو اس پر سورۃ الحج کی وہ آیت نازل ہوئی جس میں ہے، وما ارسلناک من قبلک من رسول۔۔ تا۔۔ آخر۔ مگر یہ قصہ سراسر باطل ہے وحی میں کسی طور شیطان کا دخل نہیں ہوسکتا۔ النجم
2 النجم
3 النجم
4 النجم
5 النجم
6 النجم
7 النجم
8 النجم
9 النجم
10 النجم
11 النجم
12 النجم
13 النجم
14 النجم
15 النجم
16 النجم
17 النجم
18 النجم
19 النجم
20 النجم
21 النجم
22 النجم
23 (٢) مشرکین مکہ ان بتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے اور ان کو الوہیت کا مقام دے کر ان کی پوجا کرتے، قرآن مجید نے بتایا کہ وہ بے ہودہ عقیدہ ایجاد کرتے وقت تم نے یہ سوچا کہ تم اپنے لیے تولڑکی کو ذلت سمجھتے ہو اور نرینہ اولاد پسند کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ کے لیے لڑکیاں تجویز کرتے ہو؟ اسی طرح یہ لوگ محض وہم گمان کی پیروی کرتے ہوئے فرشتوں کو بھی اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے ہیں اور انہیں اپنا سفارشی مانتے ہیں۔ النجم
24 النجم
25 النجم
26 النجم
27 النجم
28 النجم
29 النجم
30 النجم
31 النجم
32 النجم
33 النجم
34 النجم
35 النجم
36 النجم
37 النجم
38 النجم
39 النجم
40 النجم
41 النجم
42 النجم
43 النجم
44 النجم
45 النجم
46 النجم
47 النجم
48 النجم
49 (٣) شعری کا آسمان کاروشن تارا ہے جسے، مرزم الجوزاء، بھی کہتے ہیں یہ سورج سے ٢٣ گنا زیادہ روشن ہے مگر زمین سے اس کا فاصلہ آٹھ سال نوری سے بھی زیادہ ہے اس لیے یہ سورج سے چھوٹا نظر آتا ہے اہل مصر اس کی پرستش کیا کرتے تھے جاہلیت میں اہل عرب کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ یہ ستارہ لوگوں کی قسمتوں پر اثر انداز ہوتا ہے قرآن مجید نے اس کی تردید کی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی شعری کا بھی رب ہے۔ النجم
50 (٤)۔ عاد اولی، سے قدیم قوم عاد مراد ہے جس کی طرف حضرت ہود (علیہ السلام) بھیجے گئے تھے یہ قوم حضرت ہود کو جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک ہوگئی اور وہی لوگ باقی رہ گئے جو حضرت ہود پر ایمان لائے تھے ان کی نسل کو تاریخ میں عاد اخری یاعاد ثانیہ بھی کہا جاتا ہے۔ النجم
51 النجم
52 النجم
53 النجم
54 النجم
55 النجم
56 النجم
57 النجم
58 النجم
59 النجم
60 النجم
61 النجم
62 النجم
0 القمر
1 تفسیر (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اس میں واقعہ شق القمر کا ذکر ہے جوہجرت سے پانچ سال پہلے پیش آیا۔ اس سے اس کا زمانہ نزول متعین ہوجاتا ہے اس سورۃ میں کفار کو ان کی ہٹ دھرمی پر متنبہ کیا گیا ہے جوانہوں نے نبی کی دعوت کے مقابلہ میں اختیار کررکھی ہے کہ ان سے پہلے بہت سی قوموں نے رسولوں کو جھٹلایا تو وہ دردناک عذاب میں مبتلا کردی گئیں۔ (٢) یعنی چاند کا پھٹ جانا اس بات کی علامت ہیکہ قیامت کی گھڑی آچکی ہے اور اس کی آمد پرنظام عالم درہم برہم ہوجائے گا، نیز اتنے بڑے کرہ کا شق ہوجانا اس بات کا کھلاثبوت ہے کہ قیامت بپا ہوسکتی ہے۔ شق القمر یہ واقعہ قرآن مجید سے صریح الفاظ سے ثابت ہے صرف روایات پر اس کا انحصار نہیں ہے اور ہجرت سے تقریبا پانچ سال قبل کا واقعہ ہے اور علمائے امت کے ایک بڑے گروہ نے اسے حضور کے معجزات میں شمار کیا ہیی اور اس سائنسی دور میں بھی اس کے امکان کورد نہیں کیا جاسکتا اور یہ چونکہ لحظہ بھر میں ہوا ہے اس لیے دنیاوالوں کو اس کا احساس ضروری نہیں ہے تاہم مالابار کی تاریخوں میں اس کا وقع مذکور ہے کہ اس رات وہاں کے راجہ نے یہ منظر خود دیکھا تھا۔ القمر
2 القمر
3 القمر
4 القمر
5 القمر
6 القمر
7 القمر
8 (٣) جب انہیں مثالیں دے کر سمجھایاجاچکا ہے کہ انکار آخرت کے نتائج کیا ہوتے ہیں پھر اگر یہ اپنی ہٹ دھرمی سے اب بھی باز نہیں آتے تو آپ انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دیجئے۔ القمر
9 القمر
10 القمر
11 القمر
12 القمر
13 القمر
14 القمر
15 (٤) آیت 15 میں، ترکتھا، کی ھا ضمیر کا مرجع کشتی بھی ہوسکتی ہے اور یہ واقعہ بھی ہوسکتا ہے بعض نے کشتی کو عبرت بنادینے کو ترجیح دی ہے یعنی وہ کشتی ایک بلندوبالا پہاڑ پرسیکڑوں سال سے موجود ہے جو اس بات کی یاد ہے کہ اس سرزمین پر خدا کی ایک نافرمان قوم ہوگزری ہے جوتباہ ہوئی اور ایمان لانے والو کو اللہ نے نجات دی ہے اور روایات میں مذکور ہے کہ مسلمانوں کے فتح عراق اور الجزیرہ کے زمانہ میں یہ کشتی جودی پر پہاڑ پر موجود تھی، موجودہ زمانے میں بھی ہوائی جہازوں پر سفر کرتے ہوئے بعض لوگوں نے اس پہاڑ پر کشتی جیسی چیز دیکھی ہے جس پر شبہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ سفینہ نوح ہے۔ القمر
16 القمر
17 القمر
18 القمر
19 القمر
20 القمر
21 القمر
22 القمر
23 القمر
24 القمر
25 القمر
26 القمر
27 القمر
28 القمر
29 القمر
30 القمر
31 القمر
32 القمر
33 القمر
34 القمر
35 القمر
36 القمر
37 القمر
38 القمر
39 القمر
40 القمر
41 القمر
42 القمر
43 القمر
44 القمر
45 القمر
46 القمر
47 القمر
48 القمر
49 القمر
50 القمر
51 القمر
52 القمر
53 القمر
54 القمر
55 القمر
0 الرحمن
1 تفسیر وتشریح۔ (١) سورۃ کے مضمون اور روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے گوبعض صحابہ سے اس کا مدنی ہونا منقول ہے اس سورۃ میں اول سے آخر تک اللہ کی صفت و رحمت کے مظاہر کا بیان ہے، اس اعتبار سے بھی نام کے ساتھ مناسبت پائی جاتی ہے۔ (٢) اس سورۃ میں انسان کے ساتھ جنوں کو بھی مخاطب کیا گیا ہے دونوں کو اللہ تعالیٰ کی بے حد وحساب نعمتیں یاد دلا کر فرمانبرداری کے بہتر نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے اور نافرمانی کے بدانجام سے ڈرایا گیا ہے علاوہ ازیں قرآن مجید کا منزل من اللہ ہونا، کائنات کے نظام کا عدل پر قیام، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عجائب وکمالات، ماسواللہ تعالیٰ کے سب کا فانی ہونا، آخرت میں محاسبہ، نافرمانوں کا انجام وغیرہ یہ سب باتیں ایک خاص اسلوب کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ الرحمن
2 الرحمن
3 الرحمن
4 (٣)، اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا ہی نہیں کیا بلکہ اسے اظہار مافی الضمیر پر بھی قدرت بخشی ہے اور اسے دوسری مخلوق پر برتری اور اخلاقی حسن عطا کی ہے، آیت ٤ میں اسی کا ذکر ہے۔ الرحمن
5 الرحمن
6 الرحمن
7 الرحمن
8 الرحمن
9 الرحمن
10 الرحمن
11 الرحمن
12 الرحمن
13 الرحمن
14 الرحمن
15 الرحمن
16 الرحمن
17 الرحمن
18 الرحمن
19 الرحمن
20 الرحمن
21 الرحمن
22 الرحمن
23 الرحمن
24 الرحمن
25 الرحمن
26 الرحمن
27 الرحمن
28 الرحمن
29 الرحمن
30 الرحمن
31 الرحمن
32 الرحمن
33 الرحمن
34 الرحمن
35 الرحمن
36 الرحمن
37 الرحمن
38 الرحمن
39 الرحمن
40 الرحمن
41 الرحمن
42 الرحمن
43 الرحمن
44 الرحمن
45 الرحمن
46 الرحمن
47 الرحمن
48 الرحمن
49 الرحمن
50 الرحمن
51 الرحمن
52 الرحمن
53 الرحمن
54 الرحمن
55 الرحمن
56 الرحمن
57 الرحمن
58 الرحمن
59 الرحمن
60 الرحمن
61 الرحمن
62 الرحمن
63 الرحمن
64 الرحمن
65 الرحمن
66 الرحمن
67 الرحمن
68 الرحمن
69 الرحمن
70 الرحمن
71 الرحمن
72 الرحمن
73 الرحمن
74 الرحمن
75 الرحمن
76 الرحمن
77 الرحمن
78 الرحمن
0 الواقعة
1 الواقعة
2 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ مکی ہے، علامہ سیوطی نے، الاتقان، میں حضرت عکرمہ سے ایک روایت نقل کی ہے پہلے سورۃ طہ نازل ہوئی پھر الواقعہ اور اس کے بعد الشعراء۔ حضرت عمر کے قبول اسلام کے قصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت یہ سورتیں نازل ہوچکیں تھیں اور ان کا ایمان لانا ہجرت حبشہ کے بعد پانچ نبوی میں بیان کیا جاتا ہے۔ اس سورۃ میں بھی وحی، آخرت، توحید کی حقانیت کے اثبات پرزور دیا جارہا ہے شروع میں بتایا کہ قیامت کے روز انسان تین طبقات میں تقسیم ہوجائیں گے اور یہ سلسلہ آیت ٥٧ تک چلا گیا ہے مولانا آزاد لکھتے ہیں ! اصحاب الجنۃ اور اصحاب النار کی ایک اور تقسیم بھی ہے جو ان دونوں جماعتوں کے متعلق قرآن مجید میں نظر آتی ہے بعض خاص حالات اور خصائض کی بنا پر انہیں، اصحاب المیمنہ، اور اصحاب المشئمہ، کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے یعنی داہنی جانب کی جماعت اور بائیں جانب کا گروہ۔ (تیسری جماعت) السابقون الاولون (کی ہے) اس سے وہی لوگ مراد ہیں جن کی نسبت سورۃ انبیاء میں فرمایا، ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولئک عنھا مبعدون (سورہ انبیاء آیت ١٠١)، مذکورہ بالا دو جماعتوں کے اعمال وخصائض کی تشریح سورۃ بلد میں ہے، نیز انہیں آگے چل کر، اصحاب الیمین، اور اصحاب الشمال کہا گیا ہے۔ اس کے بعد توحید وآخرت کے دلائل بیان کیے گئے ہیں اور قرآن مجید کے متعلق کفار کے شکوک وشبہات کی تردید کی گئی ہے اور پھر موت کا منظر پیش کیا ہے جس سے کسی نفس کو تحفظ نہیں مل سکتا۔ الواقعة
3 الواقعة
4 الواقعة
5 الواقعة
6 الواقعة
7 الواقعة
8 الواقعة
9 الواقعة
10 الواقعة
11 الواقعة
12 الواقعة
13 الواقعة
14 (٢) آیت ١٣، ١٤ میں، اولین، سے پہلی امتوں کے لوگ مراد ہیں اور آخرین سے امت محمدیہ کے، یا دونوں سے امت محمدی کے اولین اور آخرین مراد ہیں۔ الواقعة
15 الواقعة
16 الواقعة
17 الواقعة
18 الواقعة
19 الواقعة
20 (٣) جنت کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت جس کا قرآن مجید میں بہ تکرار ذکر آیا ہے یہ ہے کہ وہاں کی سوسائٹی نہایت پاکیزہ اخلاق ہوگی، ان میں بدتمیزی اور بدزبانی کا نام ونشان تک نہ ہوگا، ان کی گفتگو ہر قسم کے عیوب سے پاک ہوگی، ملاحظہ، آیت ٢٥، ٢٦۔ الواقعة
21 الواقعة
22 الواقعة
23 الواقعة
24 (٤) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بندوں پر اپنے فضل وکرم اور انعامات کا ذکر فرمایا ہے جس سے ایک طرف تو اپنی خالقیت کو ثابت کیا ہے اور دوسری طرف اشارہ کیا ہے کہ ربوبیت کایہ نظام کسی پروردگار کے بغیر نہیں قائم ہوسکتا۔ قرآن مجید نے جس طرح جابجا خلقت سے استدلال کیا ہے یعنی دنیا میں ہر چیز مخلوق ہے اس لیے ضروری ہے کہ خالق بھی ہواسی طرح وہ ربوبیت سے بھی استدلال کرتا ہے یعنی دنیا میں ہر چیز مربوب ہے اس لیے ضروری ہے کہ کوئی رب بھی ہو اور دنیا میں ربوبیت کامل اور بے داغ ہے اس لیے ضروری ہے کہ رب کامل اور بے عیب ہو، زیادہ واضح لفظوں میں اس یوں ادا کیا جاسکتا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ہر چیز کو پرورش کی احتیاج ہے اور اسے پرورش مل رہی ہے پس ضروری ہے کہ کوئی پرورش کرنے والا بھی موجود ہو، پرورش کرنے والا یقینا وہ نہیں ہوسکتا جو خود پروردہ اور محتاج پروردگاری ہو۔ الواقعة
25 الواقعة
26 الواقعة
27 الواقعة
28 الواقعة
29 الواقعة
30 الواقعة
31 الواقعة
32 الواقعة
33 الواقعة
34 الواقعة
35 الواقعة
36 الواقعة
37 الواقعة
38 الواقعة
39 الواقعة
40 الواقعة
41 الواقعة
42 الواقعة
43 الواقعة
44 الواقعة
45 الواقعة
46 الواقعة
47 الواقعة
48 الواقعة
49 الواقعة
50 الواقعة
51 الواقعة
52 الواقعة
53 الواقعة
54 الواقعة
55 الواقعة
56 الواقعة
57 الواقعة
58 الواقعة
59 الواقعة
60 الواقعة
61 الواقعة
62 الواقعة
63 الواقعة
64 الواقعة
65 الواقعة
66 الواقعة
67 الواقعة
68 الواقعة
69 الواقعة
70 الواقعة
71 الواقعة
72 الواقعة
73 الواقعة
74 الواقعة
75 (٥) تاروں اور ستاروں کے مواقع (مقامات ومنازل) کی قسم کھانے کا مطلب ی ہے کہ جس طرح عالم بالا میں اجرام فلکی کانظام نہایت محکم اور مضبوط ہے ویسا ہی مضبوط اور محکم یہ کلام بھی ہے جس خدا نے وہ نظام بنایا ہے اسی خدا نے یہ کلام بھی نازل کیا ہے، کائنات کی بیشمار کہکشاؤں اور ان کے اندر بے حد وحساب تاروں اور سیاروں میں جس طرح کمال درجہ ربط ونظم قائم ہے اسی طرح یہ کتاب بھی ایک کمال درجہ منظم اور مضبوط ضابطہ حیات پیش کرتی ہے جس میں انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پر مفصل ہدایات دی گئی ہیں حالانکہ یہ نظام فکر ٢٣ سالہ دور نبوت پر پھیلا ہواہ ے۔ الواقعة
76 الواقعة
77 الواقعة
78 (٦) کتاب مکنون سے مراد لوح محفوظ ہے کیونکہ اس تک کسی کی رسائی نہیں ہے اور ہر مخلوق کی دسترس سے باہر ہے۔ الواقعة
79 الواقعة
80 الواقعة
81 الواقعة
82 الواقعة
83 الواقعة
84 الواقعة
85 الواقعة
86 الواقعة
87 الواقعة
88 الواقعة
89 الواقعة
90 الواقعة
91 الواقعة
92 الواقعة
93 الواقعة
94 الواقعة
95 الواقعة
96 الواقعة
0 الحديد
1 تفسیر وتشریح (١) یہ سورۃ مدنی ہے غالبا جنگ احد اور حدیبیہ کے درمیانی دو میں نازل ہوئی ہے اور اس اعتبار سے اس کا زمانہ نزول، ٤، ٥ ہجری قرار دیا جاسکتا ہے یہ دور چونکہ جہاد کا دور تھا اور جاہلیت اور اسلام کے مابین فیصلہ کن ٹکر ہورہی تھی اس لیے خصوصیت کے ساتھ اس سورۃ میں مالی، قربانیوں پر زور دیا گیا ہے۔ الحديد
2 الحديد
3 الحديد
4 الحديد
5 الحديد
6 الحديد
7 الحديد
8 الحديد
9 الحديد
10 (٢) اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مراد محض غرباء پر خرچ کرنا نہیں ہے بلکہ اس جدوجہد کے مصارف میں حصہ لینا بھی ہے جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے رسول اللہ کی قیادت میں برپا تھی۔ الحديد
11 الحديد
12 الحديد
13 الحديد
14 الحديد
15 الحديد
16 الحديد
17 الحديد
18 الحديد
19 الحديد
20 الحديد
21 الحديد
22 الحديد
23 الحديد
24 الحديد
25 الحديد
26 الحديد
27 (٣) آیت ٢٧ سے دین میں رہبانیت کی حیثیت واضح ہوجاتی ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ان پر فرض نہیں کی گئی تھی بلکہ انہوں نے خود اپنے اوپر فرض کرلی تھی، اور اس سے بزعم خود وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے تھے مگر اسلام نے اس قسم کی رہبانیت اور عزلت نشینی کی نفی کی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، لارھبانیۃ فی الاسلام، کہ رہبانیت ایک غیر اسلامی چیز ہے اور میری امت کی رہبانیت جہاد فی سبیل اللہ ہے عیسائیوں نے اس سلسلہ میں دوہری غلطی کی، ایک یہ کہ اپنے اوپر وہ پابندیاں عائد کیں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا تھا اور پھر ان پابندیوں کی صحیح طور پر رعایت بھی نہ کرسکے۔ حضرت عیسیٰ کے بعد دو سو سال تک عیسائی کلیسا رہبانیت سے ناآشنا تھا مگر مسیحت میں ایسے تخیلات پائے جاتے تھے جن پر بعد میں رہبانیت کی اساس قائم ہوئی بلکہ دنیاوی کاروبار سے علیحدگی اور تجرد کی زندگی کو افضل سمجھا جاتا تھا مگر تیسری صدی میں اس تخیل نے ایک فتنے کی شکل اختیار کی اور رہبانیت ایک وبا کی طرح مسیحت میں پھیل گئی، شہوانیت اور بدکاری کو روکنے کے لیے عورت اور مرد کے باہمی تعلق کو نجس قرار دیا گیا اور مذہب کی توسیع کے لیے بدعات کو فروغ دیا گیا اولیا پرستی، مسیح اور مریم کے مجسموں کی پوجا، تعویذ، گنڈے، جن بھوت نکالنے کا عمل، یہ سب باتیں عیسائی درویشوں میں مقبول ہوگئیں۔ پھر چونکہ تنہا انجیل کے اندر کوئی ضابطہ حیات نہ تھا اس لیے عیسائی علما نے مستعار فلسفوں کو اپنانا شروع کردیا اور بدھ مذہب کے بھکشوؤں اور جوگیوں، ایران کے مانویوں اور افلاطون کے پرواشراقیوں سے بہت سے طور وطرق اخذ کرلیے اس طرح قرآن مجید کے زمانہ نزول میں اس مذہب کے بڑے بڑے علما خود راہب اور رہبانیت کے علمبردار بن گئے تھے اور انہیں کی کوششوں سے کلیسا میں رہبانیت نے رواج پایا۔ یہ رہبانیت کیا تھی؟ سخت ریاضتوں سے اپنے جسم کو تکالیف میں مبتلا رکھتے تھے اور خانقاہوں میں نفس کشی کے لیے مشقتیں کی جاتی تھیں اس سلسلہ میں ان کی ریاضتیں مشہور ہیں اور یہی راہب ان کے اولیاء اللہ کہلاتے تھے اسی بگاڑ کی طرف قرآن مجید نے مختصر الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے۔ الحديد
28 الحديد
29 الحديد
0 المجادلة
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مدنی ہے اس سورۃ میں قانون ظہار کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ غزوہ احزاب کے بعد نازل ہوئی ہے، اور اس سورۃ میں مسلمانوں کو ان مختلف مسائل کے متعلق ہدایات دی گئی ہیں جو اس وقت درپیش تھے۔ (الف) ظہار کے شرعی احکام (ب) منافقین کی روش پر گرفت (ج) آداب مجلس کی تعلیم (د) معاشرتی برائیوں سے اجتناب جو اس وقت معاشرہ میں رائج تھیں مثلا کسی کے گھر جا کر جم کربیٹھ جانا اور صاحب خانہ کی مجبوریوں کالحاظ نہ کرنا مجلس عام میں بیٹھے ہوئے سرگوشی کرنا۔ (ھ) ایک مسلم معاشرہ میں اخلاص کا معیار کیا ہے، وغیرہ۔ احادیث میں ہے کہ خولہ بنت ثعلبہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر ظہار کے سلسلہ میں اپنے خاوند اوس بن صامت انصاری کی شکایت کی، اس صحابیہ کی فریاد بارگاہ الٰہی میں مسموع ہوئی اور یہ سورۃ نازل ہوئی۔ شریعت کی اصطلاح میں ظہار کے معنی ہیں اپنی بیوی کو، انت علی کظہر امی، کہنا کہ تو میرے اوپر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ، یعنی تجھ سے کبھی مباشرت نہیں کروں گا، قرآن مجید نے بتایا کہ ظہار سے عورت حقیقی ماں نہیں بن جاتی اور نہ اس کو وہ حرمت حاصل ہوسکتی ہے جو ماں کو حاصل ہوتی ہے۔ ظہار پر قرآن مجید نے ہلکی سی سزا تجویز کی اور وہ بھی عبادت اور نیکی کی شکل میں، جس سے لوگوں کی اصلاح ہو، یعنی رقبہ (غلام) آزاد کرنا، اگر یہ نہ کرسکے تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے اور اگر روزہ رکھنے کی ہمت وفرصت نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلادے یہ ظہار کا کفارہ ہے اس کے ادا کرنے کے بعددوبارہ عورت سے مقاربت کرسکتا ہے ظہار کے مفصل احکام کتب احادیث میں مذکور ہیں۔ المجادلة
2 المجادلة
3 المجادلة
4 المجادلة
5 المجادلة
6 المجادلة
7 (٢) آیت ٧ میں فرمایا یعنی اللہ تعالیٰ اپنے علم کے ذریعہ سے ان کے پاس موجود ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونے کے اس مفہوم پر بعض مفسرین نے اجماع کیا ہے مولانا آزاد لکھتے ہیں، اسلوب تعبیر کی دوحیثیتیں ہیں حقیقت اور مجاز، محل حقیقت ومجاز میں مختلف حیثیتیں پیدا ہوا کرتی ہیں اس آیت میں حقیقت اس مجاز سے وابستہ تھی کہ تین ہم صحبتوں کا چوتھا شریک اور پانچ شرکائے مجلس کا چھٹا جلیس، ان کے مکالمے سے آگاہ ہوتا ہے ان کی راز داریاں اس پر منکشف ہوتی ہیں اور وہ ان کے خفایائے امور سن اور سمجھ سکتا ہے۔ المجادلة
8 (٣) منافقین نے مسلم معاشرے میں یہ طریقہ اختیار کررکھا تھا کہ بہ ظاہر وہ مسلمانوں میں شامل تھے مگر خفیہ طور پر مسلمانوں سے الگ ایک جتھا بنارکھا تھا اور آپس میں سرجوڑ کر کھسرپھسر کرنے لگتے اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے، طرح طرح کے منصوبے بناتے اور نئی نئی افواہیں تیار کرتے۔ اور ان کایہ بھی رویہ تھا کہ جب نبی کی خدمت میں حاصر ہوتے تو، السلام علیکم، کے بجائے، السام علیک (نعوذ بااللہ) کہتے، یعنی تجھ پر ہلاکت ہو اور دل میں سمجھتے کہ اگر یہ اللہ کے رسول ہوتے تو ہماری ان حرکتوں کی بنا پر ہم عذاب نازل ہوجاتا اب چونکہ کوئی عذاب نہیں آتا، لہذا یہ اللہ کے رسول نہیں ہیں۔ المجادلة
9 (٤) آیت ٩ میں اس امر کی وضاحت کی کہ، نجوی، سرگوشی بجائے خود ممنوع نہیں ہے بلکہ اس کے جائز وناجائز ہونے کا انحصار ان لوگوں پر ہے جو ایسی بات کرتے ہیں اور حالات اور معاملہ کی نوعیت پر ہے حدیث میں ہے اگر تین آدمی بیٹھے ہوں تو وہ آپس میں کھسر پھسر نہ کریں کیونکہ یہ تیسرے آدمی کے لیے باعث رنج ہوگا۔ المجادلة
10 المجادلة
11 (٥) مطلب یہ کہ سچا ایمان اور صحیح علم آدمی کو ادب وتہذیب سکھلاتا ہے اور اس سے انسان کے درجے بلند ہوتے ہیں، مولانا آزاد لکھتے ہیں ! جو قانون ارتقاء لامارک، ابن مسکویہ اور ڈارون نے دریافت کیا ہے وہ صرف مخلوقات کے جسم ہی تک محدود ہے لیکن محمد رسول اللہ کا قانون ارتقاء بتلاتا ہے کہ مرتبہ انسانیت تک پہنچنے کے بعد ارتقائے جسمی تو ختم ہوجاتا ہے اور ارتقائے روحانی کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور جسم انسانی انسان کا ہیکل اختیار کرنے کے بعد بھی انسان بننے کے لیے بہت کچھ بنتا اور ترقی کرتا رہتا ہے۔ المجادلة
12 المجادلة
13 المجادلة
14 المجادلة
15 المجادلة
16 المجادلة
17 المجادلة
18 المجادلة
19 المجادلة
20 المجادلة
21 المجادلة
22 (٦) آیت ١٢٢ میں اس بات کی وضاحت کردی گئی کہ ایمان اور کفار سے دوستی یکجا جمع نہیں ہوسکتے اس لیے جن لوگوں نے اسلام اور مخالفین اسلام سے بیک وقت رشتے جوڑ رکھے ہیں تو وہ اپنے دعوائے ایمان میں سچے نہیں ہیں اور جو سچے مومن ہیں انہوں نے یہ رشتے محض اسلام کی محبت کے لیے قطع کرڈالے ہیں۔ المجادلة
0 الحشر
1 تفسیر وتشریح۔ (١) سورۃ الحشر مدنی ہے اور غزوہ بنی نضیر کے بارے میں نازل ہوئی تھی جس طرح سورۃ انفال غزوہ بدر کے بارے میں نازل ہوئی اس لیے اس سورۃ کا نام سورۃ النضیر بھی منقول ہے یہ غزوہ ٤ ھ میں ہوا، اور غزوہ بیر معونہ کے بعد پیش آیا اور بیر معونہ کا سانحہ جنگ احد کے بعد رونما ہوا اس لیے صحیح یہ ہے کہ یہ چار ہجری کا واقعہ ہے۔ تاریخی پس منظر۔ عرب کے یہودی دنیا بھر کے یہودیوں سے الگ شمار ہوتے ہیں اس لیے عرب سے باہر کے یہودی مورخین نے ان کا ذکر تک نہیں کیا اس لیے ان کے حالات ان اقوال سے ماخوذ ہیں جو اہل عرب میں مشہور تھے ان یہودیوں کا کہنا ہے کہ ہم حضرت موسیٰ کے آخری عہد میں یہاں حجاز میں آکر آباد ہوئے تھے حضرت موسیٰ نے جو لشکر عمالقہ سے جنگ کے لیے بھیجا تھا انہوں نے اپنے نبی کی نافرمانی کی تھی لہذا دوسرے یہودیوں نے اس لشکر سے مقاطعہ کردیا، جس کی وجہ سے وہ یثرب میں مقیم رہنے پر مجبور ہوگئے مگر یہ قصہ خود ساختہ ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ دوسری روایت یہ ہے کہ جب بخت نصر نے بیت المقدس کو تباہ کیا تو اس زمانے میں متعدد قبائل وادی القری، تیماء اور یثرب میں آکر آباد ہوگئے دراصل بات یہ ہے کہ جب رومیوں نے فلسطین میں یہودیوں کا قتل عام کیا تھا تو ١٣٢ ء میں بہت سے یہودی قبائل بھاک کر یثرب میں آکر آباد ہوگئے اور جوڑ توڑ اور سود خواری کے ذریعہ سے اپنا قبضہ جمالیا۔ یثرب میں آباد ہونے والے قبائل میں بنی نضیر اور بنی قریظہ زیادہ مشہور تھے ان کو مذہبی سیادت حاصل تھی اس کے بعد ٤٥٠ ء یا ٥١ میں جب یمن میں سیلاب عظیم آیا جس کا ذکر سورۃ سبا میں ہے تو قوم سبا کے مختلف قبائل یمن سے نکل کر عرب کے اطراف میں پھیل گئے جن میں اوس اور خزرج بھی تھے یہ مدینہ میں آکر آباد ہوئے اور انہوں نے تدریجا یثرب پر قبضہ کرلیا، اس بنا پر بنی نضیر اور بنی قریظہ تو یثرب سے باہر جاکر آباد ہوگئے لیکن بنو قینقاع مدینہ ہی کے اندر سکونت پذیر رہے۔ ان قبائل نے عربی تہذیب اختیار کرلی اور انہوں نے تجارت وزراعت پر اپنا رسوخ قائم کرلیا، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ تشریف لائے تو بنی قریظہ اور بنونضیر اوس کے حلیف تھے اور بنی قینقاع خزرج کے۔ جنگ بعاث میں اوس اور خزرج کے ساتھ ان کے حلیف بھی برسرپیکارتھے، نبی نے مدینہ پہنچ کر یہود اور مسلمانوں کے مابین ایک معاہدہ طے کیا جس میں یہ بھی شرط تھی کہ اگر کوئی باہر سے حملہ آور ہوگا تو سب مل کر دفاع کریں گے مگر انہوں نے نبی کی مخالفت کو اپنا نصب العین بنالیا اور ہر طرح آپکو اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ہتکھنڈے استعمال کرنے اور ان کے مابین پھوٹ ڈالنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے لگے خصوصا اوس اور خزرج کے درمیان پرانی عداوتوں کو ہوا دیتے تاکہ اسلامی اخوت کارشتہ تار تار ہوجائے جب جنگ بدر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی تو یہود کی دشمنی اور زیادہ بیدار ہوگئی اور بنی نضیر کاسردار کعب بن اشرف مکہ پہنچ کر کفار کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کے لیے اکسانے لگا آخر کار اس کی شرارتوں سے تنگ آکر نبی نے تین ہجری میں محمد بن مسلمہ انصاری کو بھیج کر اسے قتل کرادیا۔ بنو قینقاع نے بھی شرارتیں شروع کردیں اور مسلمان عورتوں سے برسرعام چھیڑ چھاڑ کرنے لگ گئے حتی کہ ایک روز ان کے بازار میں ایک مسلمان عورت کو برہنہ کردیا گیا جس کے نتیجہ میں ایک مسلمان اور یہودی قتل ہوگئے بالاآخر نبی ان کے محلہ میں تشریف لائے اور انہیں راہ راست پر آنے کی تلقین کی مگر اہوں نے الٹے جواب دینے شروع کردیے اس کے نتیجہ میں آپ نے دو ہجری کے آخر میں ان کے محلہ کا محاصرہ کرلیا اور انہوں نے پندرہ دن کے اندر ہتھیار ڈال دیے اب عبداللہ بن ابی منافق ان کی حمایت میں کھڑا ہوگیا اور اصرار کیا کہ ان کو معاف کردیا جائے چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی درخواست قبول کرلی ور انہیں مدینہ بدر ہونے کا حکم دے دیا۔ پھر جب تین ہجری میں بدر کا بدلہ لینے کے لیے قریش نے مدینہ پر حملہ کیا تو انہ یہودیوں نے دیکھا کہ قریش کی تین ہزار فوج کے مقابلہ میں مسلمان صرف ایک ہزار نکلے اور ان میں سے بھی تین سوکے قریب منافقین الگ ہو کر پلٹ آئے ہیں تو انہوں نے معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور مدافعت کے لیے مسلمانوں کے ساتھ شریک نہ ہونے کا ارادہ کرلیا، پھر جب اس معرکہ (جنگ احد) میں مسلمانوں کو نقصان پہنچا تو یہودی اور زیادہ جری ہوگئے حتی کہ بنی نضیر نے نبی کو قتل کرنے کی سازش کی جو عین وقت پر پکڑی گئی تو ان کی اس غداری کی بنا پر انہیں بلاتاخیر الٹی میٹم دے دیا گیا کہ دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جاؤ اس کے بعد اگر کوئی یہودی مل گیا تو اس کی گردن مار دی جائے گی۔ اس حکم کے خلاف عبداللہ بن ابی منافق نے یہودیوں کی پیٹھ ٹھونکی کہ میں دو ہزار آدمیوں سے تمہاری مدد کروں گا اور بنی قریظہ اور بنی غطفان بھی تمہاری مدد کے لیے آئیں گے اس لیے تم مدینہ نہ چھوڑو اور یہیں ڈٹ جاؤ اس بنا پر یہودیوں نے نبی کو جواب دیا کہ ہم مدینہ نہیں چھوڑیں گے جو کچھ تم سے ہوسکتا ہے کرگزرو۔ اس پر ربیع الاول چار ہجری میں ان کا محاصرہ کرلیا گیا بالآخر وہ مدینہ چھوڑنے پر مجبور ہوگئے وار شام اور خیبر کی طرف چلے گئے اب صرف بنوقریظہ رہ گئے تھے جو مدینہ سے باہر آباد تھے اس سورۃ میں اسی جلاوطنی کے واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ الحشر
2 (٢) آیت ٢ میں لاول الحشر کے معنی پہلی یلغار کے ہیں یعنی ابھی مسلمان ان سے لڑنے کے لیے جمع ہی ہوئے تھے اور ابھی کشت خون کی نوبت بھی نہ آئی تھی کہ اللہ کی قدرت سے وہ جلاوطنی کے لیے تیار ہوگئے۔ الحشر
3 الحشر
4 الحشر
5 (٣) بنی نضیر کی طاقت مضبوط تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ ہمارے قلعے اور گڑھیاں ہمیں بچالیں گی انہوں نے معاہدہ توڑا اور نبی کو قتل کرنے کی سازش کی اس بنا پر مدینہ سے نکل جانے کے لی دس دن کانوٹس دے دیا گیا اور بالاخر وہ جلاوطنی کے لیے تیار ہوگئے انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے گھروں کو برباد کرنا شروع کردیا اور مسلمان فوج نے محاصرہ کے لیے ان کے باغات کاٹ دیے اس پر منافقین اور بنوقریظہ اور خود بنونضیر نے شور مچا دیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فساد فی الارض کے مرتکب ہورہے ہیں اس پر آیت نمبر ٥ نازل ہوئی اور بتایا کہ یہ فساد فی الارض نہیں ہے۔ الحشر
6 (٤) بنی نضیر کی جلاوطنی کے بعد جو جائداد حکومت اسلامی کے قبضہ میں آئی اس کے متعلق آیت ١٠ تک بیان کیا کہ اس کا انتظام کیسے کیا جائے چنانچہ واضح فرمایا کہ یہ اموال فے چونکہ کسی لڑائی کے بغیر قبضہ میں آئے ہیں اس لیے ان کا حکم اموال غنیمت کا نہیں ہے کتب حدیث میں اموال غنیمت اور اموال فے کے مفصل احکام مذکور ہیں۔ الحشر
7 الحشر
8 (٥) آیت نمبر ٨ میں انصار کی تعریف بیان فرمائی ہے کہ انہوں نے اپنے اموال کو مہاجرین میں تقسیم کرنے کے لی پیش کردیا۔ الحشر
9 الحشر
10 الحشر
11 (٦) اب یہاں آیت ١١ سے منافقین کی کمزوریوں کا بیان شروع ہورہا ہے ان کی پہلی کمزوری یہ بتائی کہ وہ بزدل ہیں اور خدا سے ڈرنے کے بجائے لوگوں سے ڈرتے ہیں پھر یہ لوگ کسی اعلی مقصد کے لیے جمع نہیں ہوئے تھے بلکہ مسلمانوں سے بغض انہیں جمع ہونے پر مجبور کررہا تھا لہذا بنی نضیر کے محاصرہ میں ان منافقین کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ الحشر
12 الحشر
13 الحشر
14 الحشر
15 الحشر
16 الحشر
17 الحشر
18 الحشر
19 الحشر
20 الحشر
21 الحشر
22 الحشر
23 الحشر
24 (٧) اسمائے حسنی اللہ تعالیٰ کے لیے جتنے بھی صفات وکمال ہیں انہیں قرآن مجید اسمائے حسنی سے تعبیر کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا کی کوئی صفت نہیں جو حسن وخوبی کی صفت نہ ہو، ان میں ایسی صفتیں بھی ہیں جو بہ ظاہر قہر وجلال کی صفتیں ہیں، مثلا جبار، قہار۔ لیکن قرآن کہتا ہے وہ بھی اسمائے حسنی ہیں۔ کیوں کہ ان میں قدرت وعدالت کا ظہور ہوا ہے اور قدرت وعدالت حسن وخوبی ہے (یہی وجہ ہے کہ ان آیات میں) صفات رحمت وجلال کے ساتھ قہر وجلال کا بھی ذکر کیا ہے، پھر متصلا ان سب کو، اسمائے حسنی، قرار دیا ہے۔ الحشر
0 الممتحنة
1 تفسیر وتشریح (١) یہ سورۃ مدنی ہے اور صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی اس سورۃ میں حاطب بن ابی بلتعہ کے اس فعل پر سخت گرفت کی گئی ہے کہ انہوں نے اپنے اہل وعیال کو بچانے کے لیے ایک نہایت اہم جنگی راز سے دشمنوں کو آگاہ کرنے کی کوشش کی اگر بروقت اس کو ناکام نہ کردیا جاتا تو فتح مکہ کے موقع پر بہت کشت وخون ہوجاتا۔ اس کے بعد ایک اہم معاشرتی مسئلے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اس وقت پیچیدگی پیدا کررہا تھا مکہ میں بہت سی مسلمان عورتیں ایسی تھیں جن کے شوہر کافر تھے اور وہ کسی نہ کسی طرح ہجرت کرکے مدینہ طیبہ پہنچ رہی تھیں اسی طرح مدینہ میں بہت سے مسلمان ایسے تھے جن کی بیویاں کافر تھیں اور وہ مکہ میں رہ گئی تھیں اب سوال یہ پیدا ہورہا تھا کہ کہ ان کے درمیان رشتہ ازدواج کا کیا حکم ہے؟ قرآن مجید نے اس کے متعلق فیصلہ فرمایا کہ مسلمان عورتوں کے لیے کافر شوہر حلال نہیں ہیں اور نہ مسلمان مردوں کے لیے کافر بیویاں جائز ہیں۔ آخر میں نبی کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ جوعورتیں اسلام قبول کریں ان سے بڑی بڑی برائیوں سے بچنے کا عہد لیاجائے اور وہ آئندہ کے لیے اقرار کریں کہ وہ بھلائی کے ان تمام راستوں کا اتباع کریں گی جن کا انہیں دیا جائے گا۔ (٢) ابتدائے سورۃ میں کافروں سے قطع تعلق کا حکم دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں حضرت ابراہیم کا اسوہ ان کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ الممتحنة
2 الممتحنة
3 الممتحنة
4 الممتحنة
5 الممتحنة
6 الممتحنة
7 الممتحنة
8 الممتحنة
9 الممتحنة
10 الممتحنة
11 الممتحنة
12 الممتحنة
13 (٣) سورۃ کے آخر میں اسی مضمون کو دہرایا ہے جس سے سورۃ کی ابتداء ہوئی تھی کہ کفار سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھو، یہ لوگ آخرت کے منکر ہیں جیسا کہ اصحاب قبور کے دوبارہ زندہ ہونے سے کفار بالکل مایوس ہیں۔ الممتحنة
0 الصف
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مدنی ہے اور غالبا جنگ احد کے بعد نازل ہوئی ہے اس میں مسلمانوں کو ایمان واخلاص اختیار کرنے کی تلقین کی ہے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جانثاری پر ابھارا ہے اس کے بعد یہود ونصاری سے ساز باز رکھنے والے منافقین کو تحدی کی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھانے کی کتنی ہی کوششیں کردیکھیں، مگر یہ دنیا میں پھیل کررہے گا اور رسول برحق کالایا ہوا دین تمام ادیان پر غالب آکر رہے گا۔ آخر میں اہل ایمان کو تلقین کی گئی ہے کہ حضرت عیسیٰ کے حواریوں کی طرح ان کو بھی چاہیے کہ انصار اللہ بنیں تاکہ کفار کے مقابلہ میں ان کو بھی اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل ہو جس طرح پہلے ایمان والوں کو حاصل ہوئی تھی۔ الصف
2 الصف
3 الصف
4 الصف
5 الصف
6 (٢) حضرت عیسیٰ کایہ کہنا کہ، میں تورات کا مصدق (تصدیق کنندہ) ہوں اس کے معنی یہ ہیں کہ میں ان بشارتوں کا مصداق ہوں جو میری آمد کے متعلق تورات میں موجود ہیں، لہذا میری مخالفت کے بجائے تمہیں چاہیے کہ میرا خیر مقدم کرو، اور اسکے بعد والے فقرے کو ملا کرپڑھیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ میں اللہ کارسول احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق تورات کی دی ہوئی بشارت کی تصدیق کرتا ہوں اور کو دبھی ان کے آنیکی بشارت دیتا ہوں تورات میں جو بشارت نبی کے متعلق مذکور ہے وہ حضرت موسیٰ کی زبان سے دی گئی ہے اور حضرت عیسیٰ نے اس کی تصدیق کا اعلان کیا ہے، چنانچہ باب، ١٨، آیات ١٥۔ ١٩، استثناء میں مذکور ہے۔ میں ان کے لیے انہی بھائیوں میں سے تیزی مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں حکم دوں گا، وہ وہی ان سے کہے گا، الخ۔ تورات کی یہ صریح پیش گوئی ہے جو نبی کے سوا کسی اور پر چسپاں نہیں ہوسکتی، اس میں حضرت موسیٰ اپنی قوم کو یہ ارشاد سنا رہے ہیں کہ میں تیرے لیے ہی بھائیوں سے ایک نبی برپا کروں گا اور بنی اسرائیل کے بھائیوں سے مراد لامحالہ بنواسماعیل ہیں جو حضرت ابراہیم کی اولاد سے ہونے کی وجہ سے ان کے بھی رشتہ دار ہیں، دوسری بات جو پیش گوئی میں ہے وہ یہ ہے کہ جو نبی برپا کیا جائے گا وہ حضرت موسیٰ کی مانند ہوگا، یعنی حضرت موسیٰ کی مانند مستقل شریعت کا حامل ہوگا، اور ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کے بعد گوہت سے نبی ہوئے لیکن مستقل شریعت لانے والے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہوسکتے ہیں نیز اس آیت میں حضرت عیسیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خصوصی نام لے کرآپ کی آمد کی بشارت دی ہے اور تورات میں فارقلیط (پیراکلیٹس) والی پیش گوئی حرف بحرف نبی پر صادق آتی ہے جس کے معنی، محمد، کے ہیں، یونانی میں برقلیطس ہے، اصل لفظ سریانی، منحمنا، ہے اور برناس کی انجیل میں تو صاف طور پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق پیش گوئیاں موجود ہیں تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر حقانی وتفہیم القرآن تفسیر سورۃ الصف۔ الصف
7 الصف
8 (٣) آیت ٨ میں جو پیش گوئی مذکور ہے یہ اس وقت کی ہے جب اسلام صرف مدینہ تک محدود تھا اور مسلمانوں کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہ تھی اور سارا عرب اس دین کو مٹانے پر تلا ہوا تھا علاوہ ازیں جنگ احد میں مسلمانوں کی شکست نے اور بھی حالات خراب کردیے تھے ایسے حالات میں قرآن مجید نے پیش گوئی فرمائی کہ اللہ کایہ نور کسی کے بجھائے نہ بجھ سکے گا بلکہ پوری دنیا کو روشن کرے گا، یہ پیش گوئی حرف بحرف سچی ثابت ہوئی جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر بہت بڑی دلیل ہے۔ الصف
9 الصف
10 الصف
11 الصف
12 الصف
13 الصف
14 الصف
0 الجمعة
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مدنی ہے ابتدائی حصہ فتح خیبر کے موقع پر یا اس کے بعد نازل ہوا دوسرا رکوع ہجرت کے بعد قریبی زمانہ میں نازل ہوا۔ الجمعة
2 (٢) یہاں، امیین، سے مراد رب ہیں یاغیر یہودی، یعنی جو اہل کتاب نہیں ہیں مطلب یہ ہے کہ پہلے پیغمبر بنی اسرائیل سے مبعوث ہوتے رہے اور اب اللہ نے بنواسماعیل میں اپنا آخری نبی مبعوث فرمایا ہے اس نبی کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ کی سب سے بڑی کتاب انہیں پڑھ کرسناتا ہے کتاب الٰہی کی تعلیم دیتا ہے اور انہیں مہذب بناتا ہے اور یہ نبی صرف امیین ہی کی طرف منسوب نہیں ہے بلکہ دوسری اقوام عالم کی طرف بھی مبعوث ہے۔ اور حکمت سے مراد وہی چیز ہے جسے عام اصطلاح میں سنت یاحدیث سے تعبیر کیا جاتا ہے اس کی تعلیم کو نبی کے فرائض منصبی میں سے ایک اہم فریضہ قرار دیا ہے۔ الجمعة
3 الجمعة
4 الجمعة
5 (٣) آیت ٥ میں بتایا کہ یہود پر تورات کابوجھ ڈالا گیا تھا لیکن انہوں نے اس کی تعلیمات اور ہدایات کی پرونہ کی اور انہ اس پر عمل پیرا ہوئے بلاشبہ تورات علم وحکمت کا خزینہ تھی مگر جب یہ اس سے منقطع نہیں ہوئے تو ان کی مثال گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں اور اسے کچھ معلوم نہیں کہ اس کی پیٹھ پر کیا ہے؟۔ (٤) تورات میں جو بشارت نبی آخرالزمان کے متعلق تھیں اور جو دلائل وبراہین آپ کی رسالت پر قائم کیے تھے ان کو جھٹلانا گویا اللہ تعالیٰ کی کتاب کو جھٹلانا ہے۔ الجمعة
6 الجمعة
7 الجمعة
8 (٥) یہود اس زعم میں مبتلا تھے کہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں اور اللہ کے پیارے، ہم تنہا ہی جنت کے حقدار ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اگر تم اپنے اس دعوی میں سچے ہو تو پھر تم موت کی تمنا کرو لیکن یہودی اور موت کی تمنا دو متضاد باتیں ہیں یہ موت سے ڈرتے ہیں اس کے برعکس مسلمان شہادت کی تمنا کرتا ہے اور میدان جنگ میں بے دریغ لڑتا ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ مرنے کے بعد اسے شہادت کا مرتبہ نصیب ہوگا اور جنت نصیب ہوگی۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ الہ کے دوستوں ی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ جب انہیں جان دینے اور زندگی اور اس کی لذتوں سے دست بردار ہونے کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ لبیک کہتے ہیں اور اس طرح دوڑتے ہیں گویا بھوکوں کو غذا اور پیاسوں کو پانی کی پکار سنائی دی، پر جو جھوٹے ہیں اور اللہ کی ولایت سے محروم، انکار کردیتے ہیں اور یہ ان کے جھوٹے ہونے کی مہر ہے جوانہوں نے خود اپنے اوپر لگالی موت کی تمنا سے ہرگز یہ مقصود نہیں کہ کوئی آدمی موت کو پکارے ور اس کے لیے التجا کرے مقصود یہ تھا کہ خدا کے لیے اور اس کے کلمہ حق کے لیے ایسے کاموں میں پڑو جن میں جان دینے اپنا خون بہانے اپنے جسم کو طرح طرح کی مہلک مشقتوں میں ڈالنے اور زندگی کو عیش ونشاط سے محروم ہونے کی ضرورت ہے۔ (الہلال ١٥ جولائی ١٩١٤ ص ٥)۔ الجمعة
9 الجمعة
10 الجمعة
11 (٦) آیت نمبر ٩ تا ١١ کا تعلق نماز جمعہ سے ہے جمعہ کی اذان کے بعد خریدوفروخت کو حرام قرار دیا گیا ہے اذان سنتے ہی نہایت مستعدی سے جمعہ کے لیے آنا واجب ہے دوڑنے سے مراد نہایت اہتمام کے ساتھ آنا ہے۔ یہود نے ہفتہ کے دن کو عبادت کے لیے مقرر کررکھا تھا اور نصاری نے اپنے اجتہاد سے اتوار کا دن مقرر کیا کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ اس دن حضرت عیسیٰ قبر سے نکل کر آسمان پر چلے گئے تھے پھر ٣٢١ ء میں رومی سلطنت نے ایک حکم کے ذریعہ سے اتوار کو عام تعطیل کا دن قرار دے دیا، اسلام نے ان دونوں سے الگ جمعہ کے دن اجتماعی عبادت کے لیے خاص کیا۔ الجمعة
0 المنافقون
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مدنی ہے غزوہ بنی مصطلق سے واپس پر یا تو دوران سفر میں اس کانزول ہوا اور یانبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدینہ منورہ پہنچنے کے فورا بعد اس کانزول ہوا، اور غزوہ بنی مصطلق چھ ہجری کا واقعہ ہے۔ اس سورۃ کانزول ایک خاص واقعے کے تحت ہوا جس کی تفصیل کتب حدیث وسیرت میں مذکور ہے غزوہ بنی مصطلق سے فرغ ہونے کے بعد ابھی لشکراسلام اسی بستی میں قیام پذیر تھا جو مریسیع نامی کنویں پر آباد تھی کہ کنویں سے پانی لینے پر دو آدمیوں کا جھگڑا ہوگیا ان میں سے ایک جہجاہ بن مسعود غفاری، حضرت عمر (رض) کے ملازم تھے اور دوسرے صاحب سنان بن وبرالجہنی تھے جن کا قبیلہ خزرج کے ایک قبیلے کا حلیف تھا جہجاہ نے سنان کے ایک لات رسید کی اس پر سنان نے انصار کو مدد کے لیے پکارا اور جہجاہ نے مہاجرین کو آواز دی عبداللہ بن ابی منافق نے اس موقع پر فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور اوس اور خزرج کو مہاجرین کے خلاف بھڑکانا شروع کردیا، قریب تھا کہ دونوں فریق آپس میں لڑ پڑتے شور سن کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے آپ نے فرمایا، مابال دعوی الجاہلیۃ، دعوھا فانھا ذمیمہ۔ منافقین نے اس واقعہ کو بہت ہوا دی اور کہا کہ ان غریب اور ذلیل لوگوں کو تم نے جگہ دی اور آج یہ تمہارے سر پرسوار ہورہے ہیں ان کی مثال ایسی ہے کہ اپنے کتے کو کھلاپلاکر موٹا کرنا کہ تجھی کو پھاڑ کھائے خدا کی قسم مدینے پہنچ کر ہم میں جو عزت والا ہے ذلیل کو نکال دے گا اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی۔ چنانچہ اس سورۃ میں منافقین کی روش پر بہت تنقید کی اور ان کی منافقانہ شہادت کو جھوٹ قرار دیا اور بتایا کہ بلاشبہ آپ اللہ کے رسول ہیں مگر یہ لوگ دل سے یہ شہادت نہیں دے رہے اس لیے جھوٹ ہے اور یہ جھوٹی قسمیں اٹھا اٹھا کر اپنے جان ومال کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ قسم کے معنی شہادت اور دلالت کے ہیں مفسرین متاخرین نے اس حقیقت پر غور نہیں کیا وہ اس دھوکے میں پڑگئے کہ قسم اس چیز کی کھائی جاتی ہے جس میں بڑائی اور عظمت ہو، اس لیے تمام قسموں میں عظمتوں ہی کو تلاش کرتے رہو۔ المنافقون
2 المنافقون
3 المنافقون
4 (٢) آیت ٤ میں ان کی علامات کی نشان دہی کی ہے اور ان کولکڑی کے کندوں کے ساتھ تشبیہ دے کر سمجھایا ہے کہ یہ اخلاق کی روح سے خالی ہیں جو اصل جوہر انسانیت ہے ان کے ضمیر مجرم ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ وہ ایمان کے ظاہری پردے کی آڑ میں منافقت کا کھیل کھیل رہے ہیں اس لیے انہیں ہر وقت دھڑکا لگارہتا ہے کہ نامعلوم کب ان کے جرائم کاپردہ فاش ہوجائے۔ آج کل منافقین مسلمین پربھی ان تمام لامتوں کو ایک ایک کرکے منطبق کرلیجئے کہ انکی وضع کیسی شاندار اور قیمتی ہے کہ خوامخواہ نظروں میں کھب جاتی ہے باتیں سنیے، علی الخصوص اس وقت کی جب مسائل قومیہ واصلاحیہ میں رب اللسان ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ دلوں کی باگیں انہی کے ہاتھ میں ہیں پھر جب کانفرس کی سٹیجوں پر سرگرم سامعہ نوازی ہوتے ہیں اور پرزور جملے ادا کرنے کے بعد تن کرکھڑے ہوجاتے ہیں تو واقعی معلوم ہوتا ہے کہ، کانھم خشب مسندہ۔ آخری علامت یہ بتلائی کہ کوئی بات زور سے کہیے سمجھیں گے کہ یہ ہماری ہی طرف اشارہ ہے۔ المنافقون
5 المنافقون
6 (٣) آیت ٦ میں بتلایا کہ انکے حق میں دعائے مغفرت بھی مفید نہیں ہوسکتی عام آدمی تو کیا خود اللہ کے رسول ان کے حق میں دعائے مغفرت کریں تو بھی انہیں معاف نہیں کیا جاسکتا۔ المنافقون
7 المنافقون
8 المنافقون
9 المنافقون
10 المنافقون
11 المنافقون
0 التغابن
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مدنی ہے مدینہ طیبہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی بعض کے نزدیک اس کا ابتدائی حصہ مکی ہے اور اس سورۃ میں ایمان وطاعت کی طرف دعوت دی گئی ہے اور اس میں اخلاق حسنہ کی تعلیم ہے۔ التغابن
2 (٢) آیت ٢ میں بتایا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بااختیار مخلوق بنایا ہے ایمان لانا چاہیے تو ایمان لاسکتا ہے اور کفر کرنا چاہے تو کفر بھی اختیار کرسکتا ہے اس پر کسی قسم کاجبر نہیں ہے۔ حدیث میں ہے کہ ہر بچہ صحیح فطرت پر پیدا ہوتا ہے اس کے بعد اپنے ماں باپ کے زیر اثر یہودیت یا نصرانیت یا مجوسیت اختیار کرلیتا ہے بہرحال انسان پیدائشی طور پر گناہ گار نہیں ہے حتی کہ مسیح (علیہ السلام) کے کفار کے ذریعہ سے اس کو نجات کی ضرورت ہو بلکہ انسان اپنے ارادہ سے کفر کی راہ اختیار کرتا ہے اور راہ ہدایت بھی۔ التغابن
3 (٣) تخلیق بالحق کا مطلب یہ ہے کہ فطرت کائنات میں تحسین وآرائش کا قانون کام کررہا ہے اور جو چاہتا ہے کہ جو کچھ ہو ایسا ہو کہ اس میں حسن وجمال اور خوبی وکمال ہو۔ التغابن
4 التغابن
5 التغابن
6 (٤) آیت نمبر ٦ میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول نشان صداقت لے کرآتے رہے مگر انہوں نے یہ کہہ کر ان کی دعوت کوٹھکرا دیا کہ یہ توہمارے جیسے بشر ہیں ہماری ہدایت کے لیے تو کوئی فرشتہ آنا چاہیے تھا۔ التغابن
7 التغابن
8 التغابن
9 التغابن
10 التغابن
11 التغابن
12 التغابن
13 التغابن
14 التغابن
15 التغابن
16 التغابن
17 التغابن
18 التغابن
0 الطلاق
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بی مدنی ہے مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ سورۃ البقرہ کی ان آیات کے بعد نازل ہوئی ہے جن میں طلاق کے احکام بیان فرمائے گئے ہیں۔ اس سورۃ میں زیادہ ترطلاق کے احکام دیے گئے ہیں اس لیے حضرت عبداللہ بن مسعود نے اسے سورۃ النساء القصری کہا ہے گویا سورۃ البقرہ کے بعد جس قدر عائلی قوانین رہ گئے تھے یانئے پیدا ہوئے تھے اس سورت میں ان کی تکمیل کردی گئی ہے۔ (٢) عورت کو طلاق ایسے وقت میں دنی چاہیے جب عدت کا آغاز ہوسکے، یعنی حالت حیض میں طلاق نہ دی جائے بلکہ ایسے طہر میں طلاق ہوجس میں عورت سے مجامعت نہ کی گئی ہو، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ میں نے اپنی عورت کو طلاق دی جبکہ وہ حیض کی حالت میں تھی حضرت عمر نے نبی کے سامنے اس کا تذکرہ کردیا توحضور اس پر ناراض ہوئے اور فرمایا اسے کہوکہ رجوع کرلے پھر جب حیض سے پاک ہوجائے اور اس میں مباشرت نہ کی ہو تو طلاق دے، یہ وہ عدت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ اس حدیث مرفوع اور صحابہ وتابعین کے اقوال سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہاں عدت سے مراد وہ طہر ہے جس میں عورت سے مباشرت نہ کی گئی ہو یاعدت سے مراد وہ زمانہ ہے جبکہ عورت کا حمل ظاہرہوچکا ہو، کیونکہ ایسی صورت میں احصائے عدت، وضع حمل سے ہوگا پھر جب عورت کو طلاق رجعی ہوجائے تو اختتام عدت تک عورت کانان ونفقہ اور سکونت اخراجات خاوند کے ذمہ ہوں گے ہاں اگر عورت کسی فاحشہ (فحش گناہ) کی مرتکب ہوجائے توایسی صورت میں خاوند اسے اپنے گھر سے نکال سکتا ہے فاحشہ سے مراد زنا ہے بعض نے فاحشہ کی تعبیر بدزبانی سے بھی کی ہے۔ آیت کے جملہ لاتدری لعل اللہ یحدث بعد ذالک امرا۔ سے ثابت ہے کہ طلاق بائنہ کی صورت میں عورت حق سکنی سے محروم ہوجاتی ہے اور فاطمہ بنت قیس کی حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔ طلاق اور رجعت دونوں صورتوں میں گواہ بنانا ضروری ہے ابن ماجہ اور ابوداؤد میں ہے کہ عمران بن حصین سے سوال کیا گیا کہ بغیر شہادت کے طلاق ورجوع جائز ہے یا نہیں؟ تو انہوں نے فرمایا ایسی طلاق اور رجوع جوشہات کے بغیر ہوسنت کے خلاف ہے۔ الطلاق
2 الطلاق
3 الطلاق
4 الطلاق
5 (٣) وہ مطلقہ عورتیں جو کبر سنی کی وجہ سے حیض سے مایوس ہوچکی ہوں ان کی مدت تین مہینے ہے یہی حکم ان عورتوں کا ہے جوابھی تک حیض کی عمر کو نہ پہنچی ہوں اور حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔ الطلاق
6 الطلاق
7 الطلاق
8 (٤) آیت ٨ میں بتایا کہ جن قوموں نے اپنے رسولوں کی نافرمانی کی وہ تباہ وبرباد ہوگئیں اس لیے جو احکام بیان کیے گئے ہیں ان کی پابندی کرو ایسا نہ ہو کہ تم بھی اللہ کے عذاب کے مستحق ہوجاؤ۔ الطلاق
9 الطلاق
10 الطلاق
11 الطلاق
12 الطلاق
0 التحريم
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ مدنی ہے اور اس میں واقعہ تحریم کا ذکر ہے، قرآن مجید نے یہ ذکر کیا کہ وہ حرام کردہ چیز کیا تھی، اس بنا پر مفسرین نے اس کی تعین میں دو مختلف مواقع ذکر کیے ہیں ایک واقعہ حضرت ماریہ قبطیہ کی تحریم کا ہے اور دوسرا حضرت زینت کے گھر میں شہد نہ کھانے کا ہے۔ ماریہ لونڈی تھیں جو مقوقس شاہ مصر نے آپ کی خدمت میں ٧ ہجری میں بطور ہدیہ پیش کی تھی ایک روز حضرت حفصہ کے مکان میں ان سے مباشرت پر حضرت حفصہ نے احتجاج کیا، اس کے نتیجہ میں نبی نے ان سے دوبارہ استمتاع نہ کرنے کی قسم کھائی جس پر یہ آیات نازل ہوئیں، اس سبب نزول کے پیش نظر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تحریم کا واقعہ ٧ ہجری کے بعد پیش آیا۔ حافظ ابن کثیر نے مختلف الفاظ کے ساتھ اس واقعہ کو ذکر کرنے کے بعدلکھا ہے کہ شہد کی تحریم والا واقعہ زیادہ صحیح ہے۔ مولانا آزاد لکھتے ہیں : اس سورۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سرور کائنات (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کوئی واقعات پیش آئے تھے۔ اس سورۃ سے معلوم ہوا کہ حضرت سرورکائنات (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کئی واقعات پیش آئے تھے۔ (١) ازواج مطہرات اور علی الخصوص دو بیویوں کا طلب نفقہ کرنا (٢) افشائے راز (٣) کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرلینا۔ یہ تین الگ الگ واقعات ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایلاء کرنا اور بیویوں سے کنارہ کش ہونا صرف پہلے واقعہ (نفقہ) کا نتیجہ تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عصر کے بعد ازواج مطہرات کے ہاں تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے جایا کرتے تھے ایک مرتبہ کئی دن حضرت زینب کے ہاں زیادہ بیٹھے معلوم ہوا کہ حضرت زینب شہد پیش کرتی تھیں، بعض ازواج نے بہ تقاضائے رشک بشری یہ تدبیر اختیار کی کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت زینب کے ہاں سے اٹھ کر آئیں تو کہا جائے آپ کے منہ سے مغافیر کی بوآتی ہے مغافیر کے پھول سے شہد کی مکھیاں شہد چوستی ہیں اور اس کی بواچھی نہیں ہوتی، یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قسم کھائی کہ آئندہ شہد نہ کھائیں گے۔ توسیع نفقہ کے سلسلہ میں سورۃ احزابط کی آیت تخییر نازل ہوئی یعنی ازواج مطہرات کو اختیار دیا کہ چاہیں تو دنیا لیلیں اور چاہیں تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں رہیں اور آخرت لیں، معاملہ یہاں تک پہنچا تو سب نے بالاتفاق آخرت کو ترجیح دی۔ التحريم
2 التحريم
3 التحريم
4 التحريم
5 التحريم
6 التحريم
7 (٢) آیت ٦ میں تنبیہ کی ہے کہ ایک شخص کی صرف یہی ذمہ داری نہیں ہے کہ اپنی ذات کو خدا کے عذاب سے بچانے کی کوشش کرے بلکہ اس کی ذمہ داریہ بھی ہے کہ جس دن خاندان کی سربراہی کابوجھ اس پر ڈالا گیا ہے اس کو بھی اس سے بچانے کی کوشش کرے، حدیث میں ہے کہ نبی نے فرمایا تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے معاملہ میں جواب دہ ہے۔ حکمران راعی ہے اور وہ اپنی رعیت کے معاملہ میں جواب دہ ہے اسی طرح مرد اپنے تمام گھروالوں کاراعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے اور عورت اپنے شوہر کے بچوں اور گھر کی راعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے۔ التحريم
8 (٣) نبی نے فرمایا کہ، خالص توبہ یہ ہے کہ جب تم سے کوئی قصور سرزد ہوجائے تو اس پر ندامت کا اظہار کرو، شرمندگی کے ساتھ اس پر اللہ سے استغفار کرو اور آئندہ کبھی اس فعل کا ارتکاب نہ کرو۔ حضرت عمر فرماتے ہیں توبہ نصوح یہ ہے کہ اس کے بعد گناہ کا ارتکاب تو درکنار، اس کا ارادہ بھی نہ کرو، آیت میں اسی توبہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ التحريم
9 (٤) حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کی خیانت اخلاقی نہ تھی کہ انہوں نے کسی بدکاری کا ارتکاب کیا تھا بلکہ ان کی خیانت دینی تھی یعنی انہوں نے ایمان لانے میں ان کا ساتھ نہیں دیا تھا، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ : کسی نبی کی بیوی کبھی بدکار نہیں رہی ہے۔ التحريم
10 التحريم
11 التحريم
12 (٥) آخری آیت میں یہودیوں کے اس الزام کی تردید ہے کہ حضرت مریم کے بطن سے حضرت عیسیٰ کی پیدائش معاذ اللہ کسی گناہ کا نتیجہ ہے، سورۃ نساء کی آیت ١٥٦ میں ان کے اس الزام کو بہتان عظیم قرار دیا ہے۔ التحريم
0 الملك
1 تفسیر وتشریح۔ (١) سورۃ الملک مکی ہے اور مکہ معظمہ کے ابتدائی دور کی تنزیلات میں سے ہے اس دور کی سورتوں کی خصوصیت یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات اور آنحضرت کی بعثت کا مقصد بیان کرتی ہیں۔ الف) کائنات عالم کانظام نہایت محکم ہے اور اس میں کوئی نقص یاخلل نہیں۔ یہ خوبی اور ارتقان (کائنات ہستی کا درستی اور استواری کے ساتھ ہونا) اس لیے ہے کہ رحمت رکھنے کی کاریگری ہے اور رحمت کا مقتضا یہی تھا کہ حسن وخوبی ہو اتقان وکمال ہو، نقص وناہمواری نہ ہو۔ (ب) کفر کے نتائج ہولناک ہوں گے جو آخرت میں نکلنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو بھیج کر ان سے خبردار کردیا ہے۔ (ج) خالق اپنی مخلوق سے بے خبر نہیں ہے وہ ہر کھلی اور چھپی ہوئی بات حتی کہ دلوں کے خیالات تک سے واقف ہے۔ (د) انسان کو چاہیے کہ اپنے پیش پا افتادہ حقائق پر غور کرے۔ (ہ) آخر کار تمہیں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ (و) دنیا میں مرنے اور جینے کایہ سلسلہ امتحان کے لیے ہے۔ الملك
2 الملك
3 (٢) تفاوت کے معنی عدم تناسب کے ہیں یعنی پوری کائنات میں کہیں بھی تمہیں بے نظمی اور بے ربطی نظر نہیں آئے گی۔ الملك
4 (٣) اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ یہی تارے شیطانوں پر مارے جاتے ہیں اور نہ یہ مطلب ہے کہ شہاب ثاقب صرف شیطانوں کو مارنے کے لیے گرتے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ تاروں سے جو شہاب ثاقب نقل ہو کر کائنات میں گھومتے رہتے ہیں وہ اس امر میں مانع ہیں کہ زمین کے شیطان عالم بالا میں جاسکیں۔ الملك
5 الملك
6 الملك
7 الملك
8 الملك
9 الملك
10 الملك
11 الملك
12 الملك
13 الملك
14 الملك
15 الملك
16 الملك
17 الملك
18 الملك
19 الملك
20 الملك
21 الملك
22 الملك
23 الملك
24 الملك
25 الملك
26 الملك
27 الملك
28 الملك
29 الملك
30 الملك
0 القلم
1 القلم
2 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور ابتدائی عہد کی تنزیلات سے ہے اس سورۃ میں مخالفین کو تنبیہ کی گئی ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر واستقامت کی تعلیم دی گئی ہے، نیز کفار مکہ کے اس الزام کی تردید کی گئی ہے (معاذ اللہ) کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجنون ہیں، چنانچہ فرمایا یہ قرآن مجید کاتبین وحی کے قلم سے لکھا جارہا ہے اور یہ خود اس بات پر شاہد ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرستادہ اور سچے نبی ہیں۔ القلم
3 القلم
4 القلم
5 القلم
6 القلم
7 القلم
8 القلم
9 القلم
10 القلم
11 القلم
12 القلم
13 القلم
14 القلم
15 القلم
16 القلم
17 القلم
18 القلم
19 القلم
20 القلم
21 القلم
22 القلم
23 القلم
24 القلم
25 القلم
26 القلم
27 القلم
28 القلم
29 القلم
30 القلم
31 القلم
32 القلم
33 القلم
34 القلم
35 (٢) مکہ کے سردار کہتے تھے کہ ہم دنیا میں جونعمتیں مل رہیں وہ ہماری اللہ کے ہاں مقبول ہونے کی علامت ہے لہذا اگر کوئی آخرت ہے تو وہاں بھی ان نعمتوں سے سرفراز کیا جائے گا اس کے جواب میں آیت ٣٥ سے فرمایا کہ یہ بات عقل سے بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمانبرداربندوں اور مجرموں میں فرق نہ کرے، خالق کائنات کے ہاں اندھیر نہیں ہے۔ القلم
36 القلم
37 القلم
38 القلم
39 القلم
40 القلم
41 القلم
42 القلم
43 (٣) آیت ٤٢، ٤٣، میں اس حقیقت کو ظاہر فرمایا کہ قیامت کے دن جب پنڈلی کھلی گی اور سب لوگ سجدے کے لیے بلائے جائیں گے تو اس آیت کی یہ تفسیر حدیث سے ثابت ہے جوصحیحین اور دوسری کتابوں میں متعدد اسانید سے آئی ہے (شوکانی) بعض مفسرین نے کہا ہے کہ، کشف ساق، شدت سے کنایہ قرار دیا ہے یعنی قیامت کا دن بہت سخت ہوگا۔ القلم
44 القلم
45 القلم
46 القلم
47 القلم
48 القلم
49 القلم
50 القلم
51 القلم
52 القلم
0 الحاقة
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ بھی مکہ معظمہ کے ابتدائی دور میں نازل شدہ سورتوں سے ہے جبکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت شروع ہوچکی تھی۔ اس کا پہلا رکوع آخرت کے بیان میں ہے اور دوسرا رکوع قرآن مجید کے منزل من اللہ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برحق ہونے کے بیان پر مشتمل ہے۔ (٢) قیامت کا نام الحاقہ ہے یعنی وہ واقعہ جو لازما پیش آکر رہے گا اور اس کی آمد میں کسی قسم کاشک وشبہ نہیں ہے۔ یہ واقعہ تو ہونی شدنی ہے جن قوموں نے بھی اس کی تکذیب کی وہ اخلاقی گراوٹ میں مبتلا ہو کر تباہ وبرباد ہوگئیں۔ الحاقة
2 الحاقة
3 الحاقة
4 الحاقة
5 الحاقة
6 الحاقة
7 الحاقة
8 الحاقة
9 الحاقة
10 الحاقة
11 الحاقة
12 الحاقة
13 الحاقة
14 الحاقة
15 الحاقة
16 الحاقة
17 (٣) اللہ تعالیٰ مستوی علی العرش ہے یہ کلمہ برحق ہے مگر اس کی کیفیت ہم نہیں جان سکتے اسی بنا پر سلف صالحین نے فرمایا، نومن بہ ولانعلم کیف، معناہ معلوم والکیف مجہول۔ آیت ١٧ میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ الحاقة
18 الحاقة
19 الحاقة
20 الحاقة
21 الحاقة
22 الحاقة
23 الحاقة
24 الحاقة
25 الحاقة
26 الحاقة
27 الحاقة
28 الحاقة
29 الحاقة
30 الحاقة
31 الحاقة
32 الحاقة
33 الحاقة
34 الحاقة
35 الحاقة
36 الحاقة
37 الحاقة
38 الحاقة
39 الحاقة
40 (٤) آیت ٤٠ میں فرمایا ہے کہ یہ قرآن بلاشبہ رسول کریم کی گفتار ہے، یہاں پر رسول اکرم سے مراد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مراد ہیں اور سورۃ تکویر آیت نمبر ١٩ میں اس سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا جبرائیل کا کلام کس معنی میں کہا گیا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے سن رہے تھے جبکہ آپ اسے جبرائیل سے سن رہے تھے اس اعتبار سے اسے حضور یا جبرائیل کا کلام کہہ دیا گیا ورنہ درحقیقت تو قرآن مجید کلام اللہ کا ہے چنانچہ آگے چل کروضاحت فرمادی ہے کہ یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے خود رسول اللہ کا لفظ ہی اسب ات پر دلالت کرتا ہے کہ کہ نبی پیغام رساں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے کلام کو پہنچانے والے ہیں۔ الحاقة
41 الحاقة
42 الحاقة
43 (٥) آیت ٤٤ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ نبی کو اپنی طرف سے وحی میں کمی بیشی کا اختیار نہیں ہے اگر وہ ایسا کرے گا تو اسے سخت سزا ملے گا۔ الحاقة
44 الحاقة
45 الحاقة
46 الحاقة
47 الحاقة
48 الحاقة
49 الحاقة
50 الحاقة
51 الحاقة
52 الحاقة
0 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ مکی ہے اور اس کے نزول کا زمانہ بھی سورۃ الحاقہ کا ہے اس سورۃ میں بھی کفار کو تنبیہ کی گئی ہے جو قیامت اور جنت ودوزخ کا مذاق اڑاتے تھے اور کہتے تھے، لے آؤ وہ قیامت جس سے تم ڈراتے ہو، اور رسول اکرم صلی اللہ کو صبر وتحمل کی تلقین کی گئی ہے کہ آپ ان کے تمسخر کی پروا نہ کریں، یہ اپنے بے ہودہ مشغلوں کا انجام خود دیکھ لیں گے۔ المعارج
1 (٢) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نضر بن حارث بن کلدہ نے عذاب کا سوال کیا تھا اور کہا تھا، اللھم ان کان ھو حق من عندک فامطر علینا حجارۃ من السماء او اتنا بعذاب الیم۔ المعارج
2 المعارج
3 (٣) اللہ تعالیٰ ذی المعارج ہے، یعنی اس کی ذات بلند وبالا ہے اور اس کے حضور باریاب ہونے کے لیے فرشتوں کو پے درپے بلندیوں سے گزرنا ہوتا ہے، آیت ٤ میں روح سے مراد حضرت جبرائیل ہیں۔ المعارج
4 (٤) سورۃ السجدہ میں ہے کہ ” یدبرالامر من السماء الی الارض۔۔۔ تا۔۔۔ مماتعدون۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور وہ ایک دن میں چڑھ جاتے ہیں جس کی مقدار تمہارے اندازوں کے مطابق ایک ہزار سال ہے، لیکن یہاں پر جس دن کو پچاس ہزار سال کا فرمایا ہے وہ قیامت کا دن ہے۔ المعارج
5 المعارج
6 المعارج
7 المعارج
8 المعارج
9 المعارج
10 المعارج
11 المعارج
12 المعارج
13 المعارج
14 المعارج
15 المعارج
16 المعارج
17 المعارج
18 المعارج
19 المعارج
20 المعارج
21 المعارج
22 (٥) قرآن مجید جب بھی انسان کی اخلاقی کمزوریوں کا ذکر فرماتا ہے تو اس سے ایمان والوں اور راہ راست اختیار کرنے والے لوگوں کو مستثنی کرلیتا ہے چنانچہ یہاں بھی ان لوگوں کو مستثنی کیا ہے اور ان کی صفات بیان فرمائی ہیں۔ المعارج
23 المعارج
24 المعارج
25 المعارج
26 المعارج
27 المعارج
28 المعارج
29 المعارج
30 المعارج
31 المعارج
32 المعارج
33 المعارج
34 المعارج
35 المعارج
36 المعارج
37 المعارج
38 المعارج
39 المعارج
40 المعارج
41 المعارج
42 المعارج
43 المعارج
44 المعارج
0 تفسیر وتشریح۔ یہ سورۃ بھی مکی ہے اور مکہ معظمہ کی ابتدائی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے اس میں حضرت نوح کاپورا قصہ بیان کیا گیا ہے اور یہ قصہ برائے قصہ نہیں بلکہ کفار کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تم محمد کے ساتھ وہی رویہ اختیار کررہیہ و جو حضرت نوح کے ساتھ ان کی قوم نے اختیار کیا۔ نوح
1 (٢) حضرت نوح (علیہ السلام) کی بعثت کا مقصد قوم کو ان کی گمراہیوں اور اخلاقی خرابیوں پر متنبہ کرنا، ایک اللہ کی عبادت کی طرف دعوت دینا، اللہ تعالیٰ سے ڈرانا اور پیغمبر کی اطاعت اختیار کرنے کا حکم دینا تھا۔ چنانچہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ڈرایا اور ساڑھے نوسو سال تک انہیں توحید کی طرف دعوت دی لیکن جب قوم نہ مانی اور اللہ کی طرف سے بھی حضرت نوح کو بتادیا گیا، انہ لن یومن من قومک الامن قد آمن)۔ تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے یہ دعا کی جواوپر مذکور ہے۔ نوح
2 نوح
3 نوح
4 نوح
5 نوح
6 نوح
7 نوح
8 نوح
9 نوح
10 نوح
11 نوح
12 نوح
13 نوح
14 نوح
15 نوح
16 نوح
17 نوح
18 نوح
19 نوح
20 نوح
21 نوح
22 نوح
23 (٣) حضرت نوح (علیہ السلام) کے دور میں جن بڑے بڑے بتوں کی پوجا ہوتی تھی ان میں سے صرف وہ معبود ذکر کیے ہیں جنہیں بعد میں اہل عرب نے بھی پوجنا شروع کردیا تھا، چنانچہ، ود“ قبیلہ قضاعہ کی شاخ کلب بن وبرہ کا معبود تھا، جس کا استھان انہوں نے دومۃ الجندل میں بنارکھا تھا۔ ” سواع“ قبیلہ ہذیل کی دیوی تھی اور اس کابت عورت کی شکل میں بنایا گیا تھا۔ ” یغوث“ قبیلہ طے کی شاخ انعم اور قبیلہ مذحج کی بعض شاخوں کا معبود تھا۔ ” یعوق“ یمن کے علاقہ ہمدان قبیلہ ہمدان کا معبود تھا۔ ” نسر“ قبیلہ حمیر کی شاخ آل ذوالکلاع کا معبود تھا۔ نوح
24 نوح
25 نوح
26 نوح
27 نوح
28 نوح
0 الجن
1 الجن
2 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اپنے چند اصحاب کے ساتھ باز ارعکاظ میں تشریف لے جارہے تھے راستے میں مقام نخلہ پر آپ نے صبح کی نماز پڑھائی، اس وقت ادھر جنوں کا ایک گروہ گزر رہا تھا وہ قرآن مجید کی آواز سن کرٹھہر گئے اس سورۃ میں اسی واقعہ کا ذکر فرمایا ہے اور یہ قصہ طائف والے سفر کے قصہ کے علاوہ ہے جس کا ذکر سورۃ احقاف میں آیا ہے کیونکہ اس موقع پر جنوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ پر ایمان رکھتے تھے لیکن یہاں پر جنوں کا ذکر ہے وہ مشرک اور منکرآخرت ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ابتدائی دورنبوت کا ہے جبکہ طائف کاسفر ١٠ نبوی کو پیش آیا تھا، تاریخی اعتبار سے بھی یہ دو واقعے معلوم ہوتے ہیں۔ الجن
3 الجن
4 الجن
5 الجن
6 الجن
7 الجن
8 الجن
9 الجن
10 الجن
11 الجن
12 الجن
13 الجن
14 الجن
15 الجن
16 الجن
17 الجن
18 (٢) مفردات، میں ہے، المسجد بکسرالجیم موضع السجود۔ اگرچہ مسجد کے مفہوم کے متعلق مفسرین نے طرح طرح کے اقوال نقل کیے ہیں مگر صاف بات یہی ہے جوامام راغب اصفہانی نے لکھی ہے، یعنی، مسجد، بکسرجیم ہے اور اس سے وہ مقام مراد ہے جہاں فاطرالسماوات والارض کے آگے جبین نیاز، زمین پر رکھی جائے اس کی جمع ہے مساجد۔ پس مسجد کا مفہوم اس کے نام سے ظاہر ہے، سورۃ جن کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس مفہوم کی تحدید کی کہ، وان المساجد للہ۔ کہ مسجدیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوا کہ مساجد کے متعلق پہلا حکم یہ ہے کہ وہ صرف اللہ ہی کے لیے ہے، یعنی ان کے اندر صرف وہی اعمال انجام دیے جاسکتے ہیں جو اللہ کے لیے مخصوص ہیں، اس کے بعد فرمایا، فلاتدعوا مع اللہ احدا۔ پس مسجدوں میں اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی نہ کرو۔ اس جملے نے ان تمام اعمال کی نہی عام کردی جو خدا کے سوا کسی اور کے لیے انجام دیے جائیں خواہ وہ لسانی ہوں یابدنی۔ امام طبری نے حضرت ابن عباس سے یہ تفسیر نقل کی ہے۔ ” افردوا المساجد بذکر اللہ تعالیٰ والاتجعلوا لغیر اللہ فیھا نصیبا“۔ مسجدوں کو صرف اللہ کے ذکر کے لیے مخصوص کرواللہ تعالیٰ کے سواغیروں کے لیے وہاں ذکر وعبادت میں کوئی حصہ نہ ہو۔ امام طبری، امام رازی، حافظ ابن کثیر، وغیرہم اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ ” قال قتادہ، کانت الیھود والنصاری اذا دخلوا کنائسھم اشرکوابااللہ فامر اللہ بنبیہ ان یوحدوہ وحدہ“ قتادہ نے اس آیت کے شان نزول میں کہا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا قاعد تھا کہ جب اپنے گرجوں میں جاتے تھے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے ذکر میں بندوں کو بھی شریک کرتے تھے پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ مسجد کو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے مخصوص اور صرف اسی کے ذکر کے لیے محدود کریں۔ اور ان اقتباسات سے مندرجہ ذیل نتائج مقصد مساجد کے متعلق حاصل ہوتے ہیں۔ ١۔ مساجد کی تعمیر اور ان کا قیام صرف اس لیے ہے کہ وہ عمارتیں اللہ تعالیٰ کے نام سے مخصوص کردی جائیں، ان کا مقصد صرف یہ ہونا چاہیے کہ اللہ کے لیے ہوں اور اسی کے ذکر وعبادت کے لیے وہاں لوگ جمع ہوں۔ ٢۔ یہود ونصاری کا قاعدہ ہے کہ وہ اپنے گرجوں میں خدا کے ساتھ انسانوں کا بھی ذکر کرتے ہیں اور اس عقیدت وطاعت اور ذوق عبادت کے ساتھ جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے مخصوص ہے اس آیت میں اس سے روکا گیا اور فرمایا کہ مسجدیں اللہ کے لیے ہیں نہ کہ انسانوں کے ذکر کے لیے۔ سورۃ جن کی اسی آیت کے ساتھ کاٹکڑا ہے :” وانہ لما قام عبداللہ یدعوہ کادو یکونون علیہ لبدا“ اور جب اللہ تعالیٰ کابندہ مخلص (یعنی حضرت داعی اسلام) اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو لوگ اس کے گرداگرد جمع ہوجاتے ہیں اور اس طرح نزدیک آآکر دیکھتے ہیں گویا کہ قریب ہے کہ لپٹ پڑیں گے۔ اس آیت کے شان نزول میں متعدد اقوال ہیں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے یا قرآن مجید پڑھتے تو حرص استمتاع میں لوگ ہجوم کرکے ایک دوسرے پر گرنے لگتے اور نہایت قریب آجاتے، اللہ تعالیٰ نے اس کی ممانعت فرمائی، امام ابن جریر رحمہ اللہ تعالیٰ نے تفسیر میں بروایت سعید بن جبیر (رض) دوسرا قول نقل کیا ہے، لمارواہ یصلی واصحابہ یرکعون برکوعہ ویسجدون بسجودہ، قال عجبوا من اطاعۃ اصحابہ لہ۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اصحاب کو نماز میں اس طرح دیکھتے کہ سب کے سب ان کے جھک جانے کے ساتھ ہی جھک جاتے ہیں اور ان کے سجدہ کرنے کے ساتھ ہی سجدہ میں گر جاتے ہیں تو ان کی اس عجیب اطاعت وفرمانبرداری پر ان کو نہایت تعجب ہوہوتا اور متحیر ہوہو کردیکھنے لگتے۔ حافظ عماد الدین ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں بروایت حسن رحمہ اللہ نقل کیا ہے۔ ” قال الحسن : لماقام رسول اللہ یقول لا الہ الا اللہ ویدعوا الناس الی ربھم کارت العرب تلبد علیہ جمیعا (حاشیہ فتح البیان ج ١، ص ٩٥)۔ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوتے، لا الہ الا اللہ کہتے اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے تو اہل عرب ہجوم کرکے پہنچتے اور ایک دوسرے پر چڑھ آتے۔ اصل یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس حالت کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جو آغاز اسلام میں آنحضرت اور آپ کے ساتھیوں کی تھی، جب آپ نماز پڑھنے کے لیے قیام فرما ہوتے توا یک جماعت آپ کے جانثاروں کی آپ کے پیچھے صف بستہ کھڑی ہوجاتی اور خشوع اور خضوع اور انقطاع وقنوت کیسا تھ یہ مقدس گروہ ایک ان دیکھی ہستی کے تصور میں بے خودانہ مصروف رکوع وسجود مشغول تسبیح وصفوف ومتابعت امام کی عظمت ورعب سے مبہوت ہوجاتے پھر انہوں نے اپنی شوخی وسرکشی سے اس منظر عبادت کو ایک تماشا سابنالیا اور نماز کے وقت جمع ہوہو کر ہجوم کرنے لگے اور دیکھنے کے شوق میں ایک دوسرے پر ٹوٹنے لگے وہ اکثر تماشا دیکھنے والوں کی طرح بڑھتے بڑھتے اس قدرت قریب آجاتے گویا لپٹ پڑنے کے ارادے سے بڑھ رہے ہیں، پس یہی اصل حقیقت ہے جس کی طرف امام ابن جریر رحمہ اللہ نے ایک روایت نقل کرکے اشارہ کیا ہے۔ الجن
19 الجن
20 الجن
21 الجن
22 الجن
23 الجن
24 الجن
25 الجن
26 الجن
27 الجن
28 الجن
0 المزمل
1 تفسیر وتشریح۔ (١) سورۃ مزمل کاموضوع تنزیل یہ تھا کہ تبلیغ حق کی مشکلات ومقامات کی نسب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آگاہی بخشی اور بتلا دیا جائے کہ حق کا ظہور ہمیشہ ابتدا میں مظلومی دبے سروسامانی کے ساتھ ہوتا ہے پر آخر میں فتح مندی چمکتی ہے چنانچہ آیات آئندہ میں راہ حق کی مشکلات وتکالیف پر اور اس انکار وسرکشی پر جو باطل پرستوں میں نظر آتی ہے آپ کو تسکین وتسلی دی ہے اور فرمایا ہے کہ ان حالات کو دیکھ کر اپنے اندر مایوسی نہ لاؤ یہ حق کی ابتداء ہے مگر تھورے سے صبر وانتظار کے بعد اس کی انتہابھی آنے والی ہے۔ المزمل
2 المزمل
3 المزمل
4 المزمل
5 المزمل
6 المزمل
7 المزمل
8 المزمل
9 المزمل
10 المزمل
11 المزمل
12 المزمل
13 المزمل
14 المزمل
15 المزمل
16 (٢) آیت ١٥، ١٦ میں کفار قریش کو تنبیہ ہے کہ اگر تم نے بھی اپنے رسول کی نافرمانی کی تو تمہارا بھی وہی حال ہوگا جو فرعون کا ہوا۔ سورۃ مزمل کے موضوع تنزیل اور آیت زیر بحث کے سیاق سباق سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں حضرت موسیٰ سے ایہ نساء (انا اوحینا الیک کما اوحینا الی نوح۔ الآیۃ۔ پ ٦) کی طرح دعوت اور داعی کی تشبیہ نہیں دی گئی بلکہ دعوت وداعی کے انکار اور منکر میں دی گئی ہے پس یہ تشبیہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور موسیٰ (علیہ السلام) میں نہ ہوئی منکر موسیٰ (علیہ السلام) اور منکر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ہوئی۔ المزمل
17 المزمل
18 المزمل
19 المزمل
20 (٣) آخر آیت ٢٠ میں قیام اللیل میں تخفیف کا حکم دیا گیا ہے اور فرمایا تم اس کو ہمیشہ نبھا نہ سکو گے اس لیے جس قدر سہولت کے ساتھ قرآن مجید پڑھا جاسکے پڑھ لیا کرو۔ اور سلف میں اکثر نے اس آیت کو پہلے حکم کا ناسخ قرار دیا اور وقت کی تحدید کو ختم کردیا ہے تاہم اس کا استحباب باقی ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیام اللیل کے تارک کو ملامت کی ہے حدیث میں ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص صبح تک سویا رہتا ہے اور تہجد کی نماز کے لیے نہیں اٹھتا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کے دونوں کانوں میں شیطان نے پیشاب کردیا ہے۔ متعدد احادیث میں قیام لیل کی ترغیب دی ہے خصوصا جو لوگ قرآن مجید کے حافظ ہیں انہیں زیادہ تاکید فرمائی ہے ایک روایت میں آپ نے فرمایا، من لم یوتر فلیس منا۔ المزمل
0 المدثر
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور اس کی پہلی سات آیات تو مکہ کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہیں، بلکہ جابر بن عبداللہ سے منقول ہے کہ یہ قرآن پاک کی اولین آیات ہیں لیکن جمہور علماء کے نزدیک سب سے پہلی وحی سورہ، اقراء، کی ابتدائی آیات ہیں حدیث میں ہے کہ اس کے بعد وحی کاسلسلہ بند ہوگیا اور تقریبا تیس مہینے تک بند رہا، پھر اچانک وحی آئی اور سورۃ مدثر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں، معلوم ہوا کہ فترۃ کے بعد یہ پہلی وحی ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ سورۃ العلق کے نزول کے ساتھ آپ نبی بن گئے اور سورۃ المدثر کے نزول پر جب، قم فانذر، کا جملہ نازل ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رسالت کابوجھ ڈال دیا گیا۔ المدثر
2 المدثر
3 المدثر
4 المدثر
5 المدثر
6 المدثر
7 المدثر
8 المدثر
9 المدثر
10 المدثر
11 المدثر
12 المدثر
13 المدثر
14 المدثر
15 المدثر
16 (٢) جب رسول اللہ کی طرف سے علانیہ تبلیغ اسلام کاسلسلہ شروع ہوا اور پہلی مرتبہ حج کا موقع آیا تو کفار قریش نے باہم مشورہ کیا کہ باہر سے آنے والے حاجیوں کو قرآن اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روکنے کے لیے مہم چلائی جائے ان آیات میں اسی کاروائی کی طرف اشارہ ہے اور آیت ١١ میں، اس شخص سے مراد ولید بن مغیرہ ہے جس کے دس لڑکے تھے، وبنین شھودا، میں انہی کی طرف اشارہ ہے۔ ” بے شک چاند نکل آیا، رات جبکہ ختم ہوگئی اور دن جب کہ روشن ہوا، یہ حادثہ بڑے بڑے انقلابات میں سے ایک بڑا ہی انقلاب ہے اور غافل انسانوں کو غفلتوں کی پاداش سے سخت ڈرانے والا ہے تو تم میں سے جو بڑھنا چاہے اس کے لیے اب بڑھنا ہے اور جوپیچھے ہٹنا چاہے اس کے لیے غافل ہو کر تباہ ہونا“۔ المدثر
17 المدثر
18 المدثر
19 المدثر
20 المدثر
21 المدثر
22 المدثر
23 المدثر
24 المدثر
25 المدثر
26 المدثر
27 المدثر
28 المدثر
29 المدثر
30 المدثر
31 المدثر
32 المدثر
33 المدثر
34 المدثر
35 المدثر
36 المدثر
37 المدثر
38 المدثر
39 المدثر
40 المدثر
41 المدثر
42 المدثر
43 المدثر
44 المدثر
45 المدثر
46 المدثر
47 المدثر
48 المدثر
49 المدثر
50 المدثر
51 المدثر
52 المدثر
53 المدثر
54 المدثر
55 المدثر
56 المدثر
0 القيامة
1 تفسیر وتشریح (١) یہ سورۃ مکی ہے، اور آیت نمبر ١٦، لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل ابتدائی زمانہ کی تنزیلات سے ہے جس میں اسلام کی بنیادی تعلیمات (عقائد واخلاق) نہایت اختصار سے پیش کیے گئے ہیں۔ القيامة
2 (٢) قرآن پاک میں نفس انسانی کی تین صفات مذکور ہیں ایک وہ جو انسان کو برائی پر اکساتا ہے اس کا نام، نفس امارہ، ہے دوسرا وہ جو نفس غلط کام کرنے پر انسان کو ملامت کرتا ہے اس کا نام نفس لوامہ ہے تیسرا وہ جوصحیح راہ اختیار کرنے پر اطمینان محسوس کرتا ہے اس کا نام، نفس مطمئنہ، ہے۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن اور نفس لوامہ کی قسم کھاکر جو بات بیان کی ہے وہ مذکور نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ دوبارہ زندہ کرے گا اور وہ ایسا کرنے پر قادر ہے۔ القيامة
3 القيامة
4 القيامة
5 القيامة
6 القيامة
7 القيامة
8 القيامة
9 القيامة
10 القيامة
11 القيامة
12 القيامة
13 (٣)۔ قیامت کے پہلے مرحلے پر نظام عالم کے درہم برہم ہوجانے کی مختصر کیفیت بیان کی ہے۔ القيامة
14 القيامة
15 القيامة
16 القيامة
17 القيامة
18 القيامة
19 (٤) وحی کے ابتدائی دور میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کوشش فرماتے کہ وحی کے نصوص یاد ہوجائیں اور کوئی لفظ حافظہ سے اتر نہ جائے۔ اس لیے جب وحی نازل ہوتی تو آپ اس کو ساتھ ساتھ پڑھنے کی کوشش فرماتے، چنانچہ اثنائے وحی میں ہدایت دی گئی کہ آپ وحی کے نصوص یاد کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ غور سے سنتے رہیں اسے یاد کرادینا اور بعد میں ٹھیک ٹھیک پڑھوادینا ہمارے زمہ ہے اس بات کا سورہ طہ میں اور سورۃ اعلی میں اعادہ کیا گیا ہے۔ القيامة
20 القيامة
21 القيامة
22 القيامة
23 القيامة
24 القيامة
25 (٥) انسان چونکہ فسق وفجور کی کھلی چھٹی چاہتا ہے اور ان اخلاقی پابندیوں سے بچنا چاہتا ہے جو آخرت کو ماننے سے لازم آتی ہیں اس لیے وہ آخرت کا انکار کرتا ہے۔ القيامة
26 القيامة
27 القيامة
28 القيامة
29 القيامة
30 القيامة
31 القيامة
32 القيامة
33 القيامة
34 القيامة
35 القيامة
36 القيامة
37 القيامة
38 القيامة
39 القيامة
40 القيامة
0 الإنسان
1 تفسیر وتشریح۔ (١) جمہور کے نزدیک یہ سورۃ مکی ہے اور اس کے انداز وبیان سے ان کی تائید ہوتی ہے بعض نے اسے مدنی قرار دیا ہے مگر صحیح یہ ہے کہ سورۃ مکی ہے اور جس روایت کی بنا پر اسے مدنی قرار دیا گیا ہے وہ روایت صحیح نہیں ہے۔ (٢) دنیا میں انسانکوچاہیے کہ اپنی حقیقت پر غور کرے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کاشکربجالائے یہاں پر، ھل، بمعنی، قد، ہے، دھر، یعنی لامتناہی زمانے کے اندر ایک طویل مدت ایسی گزرچکی ہے جس سرے سے نوع انسانی موجود نہ تھی پھر اس نوع کا آغاز ہوا۔ الإنسان
2 (٣)، نطفۃ امشاج،(آیت نمبر ٢) سے مراد یہ ہے کہ انسان کی پیدا ئش مرد اور عورت کے دوالگ الگ نطفوں سے نہیں ہوئی بلکہ دونوں نطفے جب مل کر ایک ہوگئے تب اس مرکب نطفے سے انسان پیدا ہوا۔ (٤) اس پر رواہ عمل کھول دی، کہ یا تو خدا کی دی ہوئی قوتیں کام میں لائے اور فلاح وسعادت کی راہ اختیار کرے یاان سے کام نہ لے اور گمراہ ہوجائے۔ الإنسان
3 الإنسان
4 الإنسان
5 الإنسان
6 الإنسان
7 الإنسان
8 الإنسان
9 الإنسان
10 الإنسان
11 الإنسان
12 الإنسان
13 الإنسان
14 الإنسان
15 الإنسان
16 الإنسان
17 الإنسان
18 الإنسان
19 الإنسان
20 الإنسان
21 (٥) جنت کی ان نعمتوں کا ذکر سورۃ الکہف میں بھی بیان ہوا ہے اور بعض دیگر سورتوں میں بھی یہ ذکر ملتا ہے جنت میں جو شراب پیش ہوگی ایک تو وہ ہوگی جس میں کافور کی آمیزش ہوگی اور دوسری وہ کہ جس میں زنجیل (سونٹھ) کی آمیزش ہوگی، اس کے بعد یہاں اب فرمایا کہ اللہ تعالیٰ انہیں شراب طہور پلائے گا۔ الإنسان
22 الإنسان
23 (٦) آیت نمبر ٢٣ میں قرآن مجید کی حقانیت پرزور دیا ہے اور فرمایا کہ ان کفار کے کہنے پر آپ قرآن مجید کی تبلیغ کو ترک نہ کریں بلکہ صبح وشم اللہ کا ذکر کیجئے اور رات کو اللہ کے سامنے سجدہ ریز رہیے۔ الإنسان
24 الإنسان
25 الإنسان
26 الإنسان
27 (٧) دنیا پرستی ایک ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے انسان اخلاق وعقائد کی گمراہیوں میں مبتلا ہوتا ہے یہاں پر (آیت ٢٧ میں) یہی فرمایا کہ یہ لوگ دنیا سے محبت کرتے ہیں جب کہ آخرت کو ان لوگوں نے پس پشت ڈال رکھا ہے۔ الإنسان
28 الإنسان
29 الإنسان
30 الإنسان
31 الإنسان
0 المرسلات
1 تفسیر وتشریح۔ (١، ٢) یہ سورۃ مکی عہد کی تنزیلات سے ہے اس کاموضوع قیامت اور آخرت ہے اور اس کے نتائج سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔ چنانچہ ابتدائی آیات میں ہواؤں کو گواہ بناکر فرمایا ہے کہ قرآن مجید جس قیامت کے آنے کی خبر دے رہا ہے وہ آکررہے گی جس قادر مطلق نے زمین پر یہ حیرت انگیز انتظامات قائم کررکھے ہیں اس کی قدرت قیامت برپا کرنے سے عاجز نہیں ہے، اور انسانی تاریخ بتارہی کے جن قوموں نے بھی عالم آخرت کا انکار کیا وہ آخرکار بگڑیں گی اور تباہی سے دوچار ہوں گئیں، اس سے ثابت ہوا کہ قیامت اور جزا وسزا کانظریہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو قومبھی اس سے متصادم ہوئی اسے برے انجام سے دوچار ہوناپڑا۔ اور پھر یہاں کائنات میں جونظام چل رہا ہے وہ محض طبعی نظام نہیں بلکہ قانون اخلاق بھی کام کررہا ہے جس کے تحت اس دنیا میں مکافات عمل کاسلسلہ جاری ہے لیکن اس دنیا میں یہ مکافات مکمل نہیں ہوسکتی ہے اسلیے لازما ایک ایسا دن مقرر کیا گیا ہے جس میں مکمل سزا دی جائے گی۔ دنیا میں جس قدر تکوینی انقلابات آتے ہیں یہ سب ہواؤں کے کرشمے ہیں اس لیے قیام قیامت پر بھی انہی ہواؤں کی مختلف حالتوں کا ذکر کرکے بطور شہادت پیش کیا۔ ” عربی زبان میں جس کثرت سے ہوا کی مختلف قسموں اور حالتوں کے لیے سماء وصفات ہیں شاید ہی کسی زبان میں ہوں، اور صرف ہوا پر موقوف نہیں اس کی وسعت کے لیے ہر شے پیش کی جاسکتی ہے سورۃ مرسلات اور سورۃ ذاریات وغیرہ میں مرسلات، ذاریات، عاصفات، ناشرات، معصرات، صرصر وغیرہ جس قدر الفاظ آتے ہیں مختلف ہواؤں کے نام ہیں جوعرب جاہلیت نے اپنی میدانی اور صحرائی زندگی میں رکھ لیے تھے۔ عربی میں ہواؤں کی اصل قسمیں، جو بمنزلہ مہارت ریاح سمجھی جاتی ہیں چار ہیں، شمال، جنوب، صبا، دبور، پھر ان چار قسموں کی بہت سی قسمیں قرار دیں، بعض کی کیفیت یہ ہے۔ ١۔ صبا : ہوا کی معتدل، مفرح، آہستہ خرام، کشت پرور، لیکن ابروباراں کے ساتھ آنے والی اقسام ہوا میں سے ہے۔ ٢۔ جنوب : اس سے مخالف۔ ٣۔ سموم : گرم ہواؤں کی ایک قسم۔ ٤۔ خازم : ٹھنڈی ہواؤں کی نوقسموں میں سے ایک نہایت سرد قسم۔ ٥۔ سہام : نہایت گرم لو کی لپٹ۔ ٦۔ شمال : نہایت تھنڈی اور خنک ہوا، جسے شام کی طرف منسوب کرتے ہیں، صبا۔ یمن کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ ٧۔ نسیم : نہایت ہلکی اور غیر محسوس ہوا۔ المرسلات
2 المرسلات
3 المرسلات
4 المرسلات
5 المرسلات
6 المرسلات
7 المرسلات
8 المرسلات
9 المرسلات
10 المرسلات
11 المرسلات
12 المرسلات
13 المرسلات
14 المرسلات
15 المرسلات
16 المرسلات
17 المرسلات
18 المرسلات
19 المرسلات
20 المرسلات
21 المرسلات
22 المرسلات
23 المرسلات
24 المرسلات
25 المرسلات
26 المرسلات
27 المرسلات
28 المرسلات
29 (٣)۔ نیک اور بدکار لوگوں کا انجام کیا ہوگا؟ اس سلسلہ میں آیت بالا میں جنت اور دوزخ کا منظر پیش کیا ہے۔ المرسلات
30 المرسلات
31 المرسلات
32 المرسلات
33 المرسلات
34 المرسلات
35 المرسلات
36 المرسلات
37 المرسلات
38 المرسلات
39 المرسلات
40 المرسلات
41 المرسلات
42 المرسلات
43 المرسلات
44 المرسلات
45 المرسلات
46 المرسلات
47 المرسلات
48 المرسلات
49 المرسلات
50 المرسلات
0 النبأ
1 النبأ
2 تفسیر وتشریح۔ (١) اس سے پہلی اور اس کے بعدکی سورتوں کا مضمون ایک دوسرے مشابہ ہے اور یہ سب مکہ معظمہ کے ابتدائی دور کی تنزیلات سے ہیں اس سورۃ میں بھی قیامت اور آخرت کا اثبات اور اس پر ایمان اور عدم ایمان کے نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے کفار مکہ زیادہ ترآخرت کا مذاق اڑاتے اور اس کو ماننے سے تیارنہ تھے اس لیے ابتدائی دور کی سورتوں میں اسی عقیدہ کے اثبات اور رسوخ پر زیادہ زوردیا گیا ہے۔ (٢)، النباء العظیم، سے مراد قیامت ہے جس کے متعلق وہ مختلف قسم کی چہ میگوئیاں کرتے یوں بھی دنیا کے انجام کے بارے میں لوگ ایک ذہن نہیں رکھتے تھے بعض تو آخرت کے بارے میں شک وشبہ میں مبتلا تھے اور بعض قطعی طور پر اس کے منکر تھے اور کچھ دہریے تھے جو مرنے جینے کے لیے گردش ایام کو محو قرار دیتے تھے۔ النبأ
3 النبأ
4 النبأ
5 النبأ
6 النبأ
7 النبأ
8 النبأ
9 (٣)۔ آیت ٩ تا ١١ میں فطری لحاظ سے نیند کافلسفہ بیان کیا ہے اور پھر دن رات کے اختلاف میں جو فوائد پنہاں ہیں ان کی طرف اشارہ فرمایا ہے، زمانہ قدیم میں اس کی جستجو بیکار تھی کہ وہ خواب غفلت کا زمانہ تھا دورجدید کے بعض علمائے قدیم کا خیال تھا کہ نیند خون کی اس کثرت مقدار کا نتیجہ ہے جس کی رولیٹنے سے انسان کے دماغ میں دفعتۃ پہنچ جاتی ہے تجارت علمیہ اس خیال کی تائید نہیں کرتے، کیمسٹری کے اصول وقواعد نے نیند کی جوحقیقت بیان کی ہے یہ کہ انسان کا جسم درحقیقت ایک ٹرین کی طرح ہے جوہروقت چلتی رہتی ہے لیکن جب کوئلہ ختم ہوجاتا ہے اور اس جگہ انجن میں راکھ بھرجاتی ہے تو اسے مجبورا رک جانا پڑتا ہے یہی حال انسان کے دماغ کا ہے جب ایندھن ختم ہوجاتا ہے اور اس کی جگہ فضلات جمع ہوجاتے ہیں توانجن کی طرح وہ بھی دفعتۃ رک جاتا ہے اور اسی کو ہم خواب شیریں سے تعبیر کرتے ہیں۔ اعصاب دماغیہ اپنے وظائف عملیہ میں ہمیشہ دواجزا کے محتاج ہوتے ہیں آکسیجن اور کروماتوفیل، اس لیے دماغ آکسیجن کا ایک معتدبہ ذخیرہ جمع کرتا رہتا ہے کروماتوفیل کی کافی مقدار ہمیشہ خلایائے عصبیہ میں جمع رہتی ہے اور نیند اس خزانے میں اور اضافہ کردیتی ہے جب انسان سرگرم عمل رہتا ہے تو صرفوہ اجزا فنا ہی نہیں ہوتے جو دماغ کے انجن کا کوئلہ ہیں بلکہ جس قدر فنا ہوتے ہیں اسی نسبت سے اس میں فضلات بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ تجربے سے ثابت ہوا کہ نیند کاسبب خون یافضلات رد یہ نہیں بلکہ وہ سیال مادہ ہے جو مبدائے اعصاب کے اطراف میں پھیلا ہوا ہے لیکن اس مادے کی حقیقت کیا ہے ؟ فطرت نے یہ رازابھی تک اپنے خزانے میں محفوظ رکھا ہے خدا نے اور دیگر تمام فطری چیزوں کے ساتھ آج سے تیرہ سو برس پہلے اپنا ایک احسان یہ جتایا تھا اب تحقیق جدیدکامتحرک قدم بھی اس نقطے پر پہنچ کررک گیا ہے جہاں سے پرکار کی حرکت اولی شروع ہوئی تھی چنانچہ بعض علما کا خیال ہے کہ نیند بلکل فطری چیز ہے۔ النبأ
10 النبأ
11 النبأ
12 النبأ
13 (٤) سراجا وھاجا، سے مراد سورج ہے اور ان آیات میں بہت سے آثار وشواہد ذکر کرکے منکرین قیامت کو بتایا گیا کہ اگر تم اس سارے نظام پر گہرائی سے غورو کرو تو معلوم ہوگا کہ یہ سارا نظام زبردست قوت کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا اور نہ اس باقاعدگی کے ساتھ جاری رہ سکتا ہے اور مذکورہ آثار وشواہد ایسے ہیں کہ ان میں سے ہر چیز خاص مقصد کے تحت کام کررہی ہے تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان جیسی باتمیز وبااختیار مخلوق کو یونہی بے مقصد چھوڑ دیا جائے اور اچھے برے اعمال پر کوئی مواخذہ نہ کیا جائے؟ النبأ
14 النبأ
15 النبأ
16 النبأ
17 النبأ
18 النبأ
19 النبأ
20 النبأ
21 النبأ
22 النبأ
23 النبأ
24 النبأ
25 النبأ
26 النبأ
27 النبأ
28 النبأ
29 النبأ
30 النبأ
31 (٥) پہلے اہل دوزخ کے احوال بیان فرمائے ہیں اور اب یہاں آیت ٣١ سے متقین یعنی آخرت پر ایمان رکھنے والوں کے حالات کا آغاز ہورہا ہے۔ النبأ
32 النبأ
33 النبأ
34 النبأ
35 النبأ
36 النبأ
37 النبأ
38 النبأ
39 النبأ
40 النبأ
0 النازعات
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور اس کاموضوع حیات بعدالممات ہے چنانچہ ابتدائے سورۃ میں اس کائنات کے نظام پر متعین فرشتوں کی قسم اٹھا کربتایا ہے کہ قیامت ضرور آئے گی اور انسان کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کیا جائے گا اس کے بعد مختصر طور پر حضرت موسیٰ وفرعون کا قصہ بیان کیا ہے تاکہ فرعون کے انجام سے عبرت حاصل کریں۔ پھر آخرت میں حیاۃ بعدالمماۃ کے دلائل ذکر کیے اور بتایا کہ قیامت کا علم اللہ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے، رسول کا کام صرف آگاہ کردینا ہے۔ النازعات
2 النازعات
3 النازعات
4 النازعات
5 النازعات
6 النازعات
7 النازعات
8 النازعات
9 النازعات
10 النازعات
11 النازعات
12 النازعات
13 النازعات
14 النازعات
15 النازعات
16 النازعات
17 النازعات
18 النازعات
19 النازعات
20 النازعات
21 النازعات
22 النازعات
23 النازعات
24 النازعات
25 النازعات
26 النازعات
27 (٢) آیت نمبر ٢٧ میں خلق سے مراد انسانوں کی دوبارہ خلق ہے اور آسمان سے مراد پورا عالم بالا ہے جس میں بے شمار ستارے اور سیارے بے حد وحساب شمسی نظام اور ان گنت کہکشاں پائے جاتے ہیں۔ النازعات
28 النازعات
29 النازعات
30 النازعات
31 النازعات
32 النازعات
33 النازعات
34 النازعات
35 النازعات
36 النازعات
37 النازعات
38 النازعات
39 النازعات
40 النازعات
41 النازعات
42 (٣) کفار کا قیامت کے متعلق یہ سوال اس کا وقت معلوم کرنے کے لیے نہ تھا بلکہ اس قسم کے سوالات وہ قیامت کا مذاق اڑانے کے لیے کرتے تھے۔ النازعات
43 النازعات
44 النازعات
45 النازعات
46 النازعات
0 عبس
1 عبس
2 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے مفسرین نے اس کاسبب نزول بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ مکہ کے چند سرداروں کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور ان کو تبلغ کررہے تھے کہ اتنے میں ایک نابینا شخص ابن ام مکتوم آگیا اس نے بھی اسلام کے متعلق کچھ دریافت کرنا چاہا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ مداخلت ناگوارگزری اور آپ نے اس سے بے رخی برتی۔ اس پر اللہ کی طرف سے یہ سورۃ نازل ہوئی۔ عبس
3 عبس
4 عبس
5 (٢) ان آیات میں بہ ظاہر تو رسول اللہ مخاطب ہیں مگر دراصل سرداران قریش کو ملامت کی گئی ہے۔ عبس
6 عبس
7 عبس
8 عبس
9 (٣) ایک داعی حق کایہ فرض ہے کہ جویان حق خواہ کتنے ہی ناداراورادنی درجہ کے لوگ کیوں نہ ہوں ان کی تربیت پر اپنی توجہات کو مرکوز رکھے اور جو لوگ غروروتکبر کی وجہ سے حق کی پروار نہیں کرتے ان کے پیچھے پڑ کراپنا وقت ضائع نہ کرے قرآن مجید نے متعدد مقامات پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بحیثیت مربی وداعی ہونے کے اس کی تلقین فرمائی ہے یہاں پر بھی اسی اصول کو پیش نظر رکھنے کی ہدایت ہے۔ عبس
10 عبس
11 عبس
12 عبس
13 عبس
14 عبس
15 عبس
16 عبس
17 عبس
18 عبس
19 ) انسان اگر اپنی اصل پر غور کرے کہ کیسی حقیر چیز سے پیدا ہوا ہے ہم نے اپنی مہربانی سے اس میں حس وشعور پیدا کیا ہے اور عقل وادراک کی نعمتیں بخشی ہیں مگر یہ سب نعمتوں کوفراموش کرکے ناسپاس بنا ہوا ہے۔ عبس
20 عبس
21 عبس
22 عبس
23 عبس
24 (٥) اب آیت ٢٤ سے اس کی زندگی اور بقا کے سامان یاد دلائے ہیں۔ عبس
25 عبس
26 عبس
27 عبس
28 عبس
29 عبس
30 عبس
31 عبس
32 عبس
33 عبس
34 عبس
35 عبس
36 عبس
37 عبس
38 عبس
39 عبس
40 عبس
41 عبس
42 عبس
0 التكوير
1 تفسیر وتشریح۔ (١) الف۔ یہ سورۃ بھی مکی ہے اور مکہ کے ابتدائی دور کی تنزیلات سے ہے اس میں آخرت اور رسالت سے بحث کی ہے۔ (ب) قیامت کے پہلے مرحلہ میں جو انقلاب آئے گا ابتدائی آیات میں اس کی منظر کشی کی ہے پھر اس کے بعد کی آیات میں دوسرے مرحلے کا ذکر ہے جبکہ روحیں جسموں کے ساتھ جوڑدی جائیں گی نامہ اعمال کھولے جائیں گے اور انسان سے باز پرس ہوگی اور جنت ودوزخ کا منظر سامنے آجائے گا۔ (ج)۔ اس کے بعد آخر سورۃ میں رسالت کا تذکرہ ہے اور کفار مکہ کے اعتراضات کی تردید۔ التكوير
2 التكوير
3 التكوير
4 التكوير
5 التكوير
6 التكوير
7 التكوير
8 (٢) آیت ٨ میں، المودوۃ، سے مراد وہ لڑکی ہے جسے زندہ درگور کیا گیا اس سے سوال کا مطلب یہ ہے کہ اسے کہا جائے کہ تم خود ہی اپنی داستان سناؤ کہ کس جرم کے عوض تمہیں ظلم وستم کانشانہ بنایا گیا اور کسی نے تمہاری داد رسی نہ کی؟ گویا اس پیرایہ بیان سے اس کے والدین پرسخت غضب ناکی اور ان سے نفرت کا اظہار مقصود ہے۔ التكوير
9 التكوير
10 التكوير
11 التكوير
12 التكوير
13 التكوير
14 التكوير
15 التكوير
16 التكوير
17 التكوير
18 التكوير
19 (٣) آیت ١٩ میں، رسول کریم، سے وحی لانے والا فرشتہ مراد ہے جیسا کہ بعد کی آیات سے معلوم ہوتا ہے فرشتہ وحی کے مبلغ ہونے کی حیثیت سے قرآن مجید کو اس کا کلام کہا گیا ہے ورنہ یہ ظاہر ہے کہ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور متعدد آیات میں اس کی تصریح موجود ہے۔ التكوير
20 التكوير
21 التكوير
22 التكوير
23 التكوير
24 التكوير
25 التكوير
26 التكوير
27 التكوير
28 التكوير
29 التكوير
0 الإنفطار
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور اس کا مضمون سورۃ تکویر کے مشابہ ہے یہ سورۃ بھی بیان آخرت پر مشتمل ہے۔ الإنفطار
2 الإنفطار
3 الإنفطار
4 الإنفطار
5 الإنفطار
6 الإنفطار
7 الإنفطار
8 الإنفطار
9 الإنفطار
10 الإنفطار
11 الإنفطار
12 الإنفطار
13 الإنفطار
14 الإنفطار
15 الإنفطار
16 الإنفطار
17 الإنفطار
18 الإنفطار
19 الإنفطار
0 المطففين
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور ابتدائی دور کی تنزیلات سے ہے اس وقت اہل مکہ میں جوعام کاروباری بددیانتی اور بے ایمانی پھیلی ہوئی تھ اس پر گرفت کی گئی ہے اور یہ سراسر آخرت سے غفلت کا لازمی نتیجہ ہے اگر کسی کو یہ احساس ہوا کہ ایک روز خدا کے سامنے پیش ہونا ہے اور کوری کوری کا حساب دینا ہے تو کسی طور پر یہ ممکن نہیں کہ انسان معاملات میں راست بازی اختیار نہ کرے اگر آدمی کے اندر دیانت داری پیدا ہوسکتی ہے تو صرف خدا کے خوف اور آخرت پر یقین سے ہوسکتی ہے۔ ماپ تول میں کمی معاشرہ میں بہت بڑی خرابی کی علامت ہے اور یہ مرض خصوصیت کے ساتھ امم سابقہ میں پایا جاتا تھا، چنانچہ سورۃ الانعام، بنی اسرائیل، اور سورۃ الرحمن میں اس پر سرزنش کی گئی اور ماپ تول صحیح رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ المطففين
2 المطففين
3 المطففين
4 المطففين
5 المطففين
6 (٢) آیت ٥ میں یوم قیامت کو یوم عظیم فرمایا ہے اس لیے کہ اس روز تمام لوگ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں حاضر ہوں گے اور ان کے متعلق عذاب وثواب کے اہم فیصلے کیے جائیں گے۔ المطففين
7 (٣) اس کے بعد جنت اور دوزخ کا منظر پیش کیا ہے۔ المطففين
8 المطففين
9 المطففين
10 المطففين
11 المطففين
12 المطففين
13 المطففين
14 المطففين
15 المطففين
16 المطففين
17 المطففين
18 المطففين
19 المطففين
20 المطففين
21 المطففين
22 المطففين
23 المطففين
24 المطففين
25 المطففين
26 المطففين
27 المطففين
28 المطففين
29 المطففين
30 المطففين
31 المطففين
32 المطففين
33 المطففين
34 المطففين
35 المطففين
36 المطففين
0 الانشقاق
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور ابتدائی عہد کی تنزیلات سے ہے اس کاموضوع بھی قیامت اور آخرت ہے۔ اس دور کی اکثر مکی سورتوں کی طرح اس سورۃ میں بھی قیامت کا کیفیت اور اس کا منظر پیش کیا گیا ہے۔ الانشقاق
2 الانشقاق
3 الانشقاق
4 الانشقاق
5 الانشقاق
6 الانشقاق
7 الانشقاق
8 الانشقاق
9 الانشقاق
10 الانشقاق
11 الانشقاق
12 الانشقاق
13 الانشقاق
14 الانشقاق
15 الانشقاق
16 الانشقاق
17 الانشقاق
18 الانشقاق
19 الانشقاق
20 الانشقاق
21 الانشقاق
22 الانشقاق
23 الانشقاق
24 الانشقاق
25 الانشقاق
0 البروج
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ مکہ معظمہ کے اس دور میں نازل ہوئی جب مسلمانوں کو ظلم وستم کے ذریعہ سے ایمان سے پھیرنے کی پوری شدت کے ساتھ تحریک جاری تھی لہذا اس سورۃ میں حالات کے مطابق ایک طرف تو مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے اور دوسری طرف کفار کو ان کے ظلم وستم کے برے انجام سے خبردار کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اصحاب الاخدود کا واقعہ سنایا گیا ہے کہ انہوں نے اہل ایمان پر ظلم وستم ڈھائے اور ان کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں پھینک دیا۔ آگ کے گڑھوں میں جلانے سے متعلق متعدد قصے بیان کیے گئے ہیں جن میں سب سے مشہور واقعہ نجران کا ہے کہ حمیر کے بادشاہ نے یثرب کے یہودیوں سے متاثر ہو کر یہودیت قبول کرلی اور مدینہ سے دو یہودی عالم ساتھ لے گیا اور یمن میں یہودیت کی خوب اشاعت کی اس کا بیٹاذونواس اس کا جانشین ہوا اس نے نجران پر حملہ کیا تاکہ وہاں عیسائیت کو ختم کردے نجران میں اس نے یہودیت کی طرف دعوت دی مگر انہوں نے انکار کردیا اس پر اس نے بکثرت لوگوں کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں ڈال کر جلوادیا اور کچھ کو قتل کردیا، الغرض مجموعی طور پر ٢٠ ہزار آدمی قتل ہوگئے اہل نجران سے ایک شخص نے شاہ روم یا شاہ حبش کے پاس جاکر اس ظلم کی شکایت کی آخرکار حبش کی ستر ہزار فوج ان پر حملہ آور ہوئی اور یمن کو فتح کرکے حبش کی سلطنت کا ایک حصہ بنالیا۔ اس روایت کی دوسرے تاریخی ذرائع سے بھی تائید ہوتی ہے یمن پر حبش کے عیسائیوں کا قبضہ ٣٤٠ ء، سے ٣٧٨ تک قائم رہا، اس عرصہ میں عیسائی مشنری یمن میں داخل ہونا شروع ہوئے اور ایک عیسائی سیاح فیمون نامی کی تبلیغ سے اہل نجران عیسائی ہوگئے ان کے سردار تین تھے، سید عاقب اور اسقف، یہ تیسرا مذہبی پیشوا ہوتا تھا۔ جنوبی عرب میں نجران کی بہت اہمیت حاصل تھی یہ ایک تجارتی اور صنعتی مرکز تھا چنانچہ سیاسی اور معاشی وجوہ کی بنا پر ذونواس یمنی نے اس پر حملہ کیا اور آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں مرد، عورت، بچے وربوڑھے لوگوں کو پھینکوا دیا مجموعی طور پر مقتولین کی تعداد چالیس ہزار بیان کی جاتی ہے۔ اس کے جواب میں ٥٢٥ ء میں حبشیوں نے یمن پر حملہ کرکے ذونواس اور اس حمیری سلطنت کا خاتمہ کردیا اس کی تصدیق، حصن غراب، کے کتبے سے ہوتی ہے جو یمن میں موجودہ زمانے کے محقیقین آثار قدیمہ کو ملا ہے۔ حبشی عیسائیوں نے نجران پر قبضہ کرنے کے بعد یہاں کعبہ کی ایک شکل کی ایک عمارت بنائی تھی جسے وہ مکہ کے کعبہ کی جگہ مرکزی حیثیت دینا چاہتے تھے اس کے اساقفہ عمامے باندھتے تھے اور اس کو حرم قرار دیا گیا تھا چنانچہ اسی کعبہ کے پادری اپنے سید، عاقب اور اسقف کی قیادت میں مناظرے کے لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مباہلہ کا وہ مشہور واقعہ پیش آیا تھا جس کا ذکر سورۃ آل عمران آیت ٦١ میں کیا گیا ہے۔ البروج
2 البروج
3 البروج
4 البروج
5 البروج
6 البروج
7 البروج
8 البروج
9 البروج
10 البروج
11 البروج
12 البروج
13 البروج
14 (٢) آیت ١٤ میں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا ہے، فرماکر امید دلائی ہے کہ مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھانے والے لوگ اگر ظلم سے تائب ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ کے دامن رحمت میں جگہ پاسکتے ہیں۔ البروج
15 البروج
16 البروج
17 البروج
18 البروج
19 البروج
20 البروج
21 البروج
22 البروج
0 الطارق
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور دورثالث کی تنزیلات سے ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری کا تصور پیش کیا ہے اور قرآن مجید کو قول فیصل قرار دیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے خلاف انکار کی کوئی تدبیر اور چال کامیاب نہیں ہوسکتی۔ الطارق
2 الطارق
3 الطارق
4 (٢) نگہبان سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو آسمان وزمین کی ہر چھوٹی اور بڑی چیز کی حفاظت کررہی ہے اس کے بعد انسان کو دعوت دی ہے کہ وہ خود اپنی ہستی پر غور کرے کہ وہ کس طرح پیدا کیا گیا ہے باپ کے جسم سے اربوں جرثوموں میں سے ایک جرثومے اور ماں کے اندرسے نکلنے والے بکثرت بیضوں میں سے ایک بیضے کا انتخاب کرکے دونوں کو کسی وقت جوڑ دیتا ہے اور اس سے ایک خاص انسان کا استقرار حمل ہوجاتا ہے پھر اسکی مسلسل نگہبانی کرتا ہے وہی ذات اس کو دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ الطارق
5 الطارق
6 الطارق
7 الطارق
8 الطارق
9 (٣) آیت نمبر ٩ میں پوشیدہ اسرار سے مراد ہر شخص کے وہ اعمال بھی ہیں جو دنیا میں ایک راز بن کر رہ گئے ہیں اور وہ معاملات بھی جن کے پیچھے خفیہ نیتیں اور خواہش کام کررہی تھیں۔ الطارق
10 الطارق
11 (٤) آسمان کے، ذات الرجع، ہونے کے یہ معنی ہیں کہ بارش باربار اپنے موسم میں اور خلاف موسم پلت پلٹ کرآتی ہے اور وقتا فوقتا برستی رہتی ہیں یا اس کے لیے بارش برستی ہے اور پھر بھاپ بن کر اوپر چلی جاتی ہے اور دوبارہ قطرے بن کرزمین پر گرتی ہے۔ الطارق
12 الطارق
13 الطارق
14 الطارق
15 الطارق
16 الطارق
17 الطارق
0 الأعلى
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور ابتدائی دور کی تنزیلات میں سے ہے اس سورۃ میں توحید وآخرت کے علاوہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چند ہدایات بھی دی گئی ہیں۔ (٢) اللہ تعالیٰ کی تسبیح کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف کسی نقص کی نسبت نہ کی جائے شرک وکفر کی جتنی صورتیں بھی ہر زمانہ میں رائج رہی ہیں اور فی زمانہ رائج ہیں وہ سب تسبیح کے منافی ہیں کیونکہ ان میں سے ہر صورت کسی نقص کی صفت کو متضمن ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ذات وصفات میں یکتا ماننا چاہیے، یہی معنی، الحمدللہ، کے ہیں۔ لہذا تسبیح (تنزیہہ) وتحمید عقیدہ توحید کو مستلزم ہیں اور، سبحان اللہ وبحمدہ، کلمہ جامعہ ہے جس کا دور عبادت کاملہ کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ الأعلى
2 الأعلى
3 (٣) پھر اس پر راہ عمل کھول دی، یعنی آدمی کو خیر وشر اور سعادت وشقاوت کی راہ بتائی۔ یہاں ہدایت سے مقصود ہدایت حواس وعقل ہے۔ الأعلى
4 الأعلى
5 الأعلى
6 (٤) آیت ٦ میں اسی مضمون کی طرف اشارہ ہے جو سورۃ القیامہ میں گزرچکا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ وحی کا پڑھوانا اور حفط کرانا ہمارا ذمہ ہے لہذا آپ کو کسی طرح سے بھی فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ الأعلى
7 الأعلى
8 الأعلى
9 الأعلى
10 الأعلى
11 الأعلى
12 الأعلى
13 الأعلى
14 الأعلى
15 الأعلى
16 الأعلى
17 الأعلى
18 الأعلى
19 (٥) سورۃ کے آخر میں حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کے صحیفوں کا حوالہ دیا گیا ہے اس سے پہلے سورۃ النجم میں یہ بحث گزرچکی ہے۔ الأعلى
0 الغاشية
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور ابتدائی عہد کی تنزیلات سے ہے ان سورتوں میں توحید وآخرت کے موضوع کا اعادہ ہے مگر اسلوب اور انداز بیان دوسرا ہے۔ الغاشية
2 (٢) اس سورۃ میں جنت اور جہنم کا منظر پیش کیا گیا ہے اور آخرت کے دلائل کے بیان میں آیات کونیہ کو ذکر کیا ہے۔ الغاشية
3 الغاشية
4 الغاشية
5 الغاشية
6 الغاشية
7 الغاشية
8 الغاشية
9 الغاشية
10 الغاشية
11 الغاشية
12 الغاشية
13 الغاشية
14 الغاشية
15 الغاشية
16 الغاشية
17 الغاشية
18 الغاشية
19 الغاشية
20 الغاشية
21 الغاشية
22 الغاشية
23 الغاشية
24 الغاشية
25 الغاشية
26 الغاشية
0 الفجر
1 تفسیر وتشریح۔ (١) سورۃ الفجر مکی ہے اور عہد وسطی کی تنزیلات سے ہے اس میں آخرت کی جزاوسزا کا اثبات ہے جس سے اہل مکہ انکار کررہے تھے۔ الفجر
2 الفجر
3 الفجر
4 (٢) جزوسزا کے استدلال کے سلسلہ میں اولا قرآن مجید نے چار چیزوں کی قسم کھائی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ان چار چیزوں کو بطور شہادت پیش کیا ہے کہ جزائے اعمال برحق ہے شب روز کایہ سلسلہ جس نظام کے ساتھ جاری ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک رب قدیر اس پر فرمانروائی کررہا ہے اسکے بعد انسانی تاریخ سے استدلال کیا ہے جوایک حقیقت ہے کہ جن قوموں نے بھی آخرت کو جھٹلایا وہ اخلاقی گرواٹ میں مبتلاہوکرآخرکار تباہ وبرباد ہوگئیں۔ الفجر
5 الفجر
6 الفجر
7 (٣) عاد ارم سے مراد وہ قدیم قوم عاد ہے جسے قرآن مجید نے اور تاریخ عرب میں عاد اولی کا نام دیا گیا ہے۔ سورۃ النجم میں ہے، وانہ اھلک عاد الاولی، یعنی اس نے قدیم قوم عاد کو ہلاک کیا اور یہ وہ قوم ہے جس کی طرف حضرت ہود (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تھے اور ان کو عاد ارم اس لیے کہا گیا کہ یہ لوگ سامی نسلی کی اس شاخ سے تعلق رکھتے تھے جو ارم بن سام بن نوح سے چلی آتی تھی۔ الفجر
8 الفجر
9 الفجر
10 الفجر
11 الفجر
12 الفجر
13 الفجر
14 الفجر
15 الفجر
16 (٤) انسان کی خلقت میں جلدبازی اور تعجیل کارفرما ہے جب کبھی وہ اپنی کسی توقع میں ناکامی دیکھتا ہے تو فورا مایوس ہوکربیٹھ جاتا ہے پھر جب کامیابی کی خبر سن لیتا ہے توامید ومسرت کے ضبط سے عاجز ہو کر اچھل پڑتا ہے حالانکہ نہ تو اسے ان اسباب کی خبر ہے جونامرادی کے پیچھے ظاہر ہونے والے ہیں اور نہ ان نتائج وعواقب کی خبر ہے جو بشارت امید کے بعد پیش آنے والے ہیں اس کی خدا پرستی بھی اس جلد بازانہ یاس وبیم سے شکست کھاجاتی ہے اگر کوئی خوشی حاصل ہوتی ہے توسمجھتا ہے کہ خدامیرے ساتھ ہے اور اگر مشیت الٰہی کسی ابتلاء دمصیبت میں ڈال دیتی ہے تو مایوس ہوجاتا ہے کہ خدا نے مجھے چھوڑ دیا۔ الفجر
17 الفجر
18 الفجر
19 الفجر
20 الفجر
21 الفجر
22 الفجر
23 الفجر
24 الفجر
25 الفجر
26 الفجر
27 الفجر
28 الفجر
29 الفجر
30 الفجر
0 البلد
1 تفسیر وتشریح۔ (١) سورۃ البلد مکی ہے اور ابتدائی دور کی تنزیلات سے ہے۔ البلد
2 البلد
3 (٢)، ووالد وماولد، اس سے مراد آدم (علیہ السلام) اور ان کی ذریت ہے۔ البلد
4 (٣) ان چیزوں کی قسم اٹھا کر بتایا کہ انسان یہاں دنیا میں مزے کرنے اور چین کی بنسری بجانے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا یہ دنیا محنت ومشقت اور سختیاں جھیلنے کی جگہ ہے اور کوئی انسان بھی اس حالت میں گزرے بغیر نہیں رہ سکتا۔ البلد
5 البلد
6 البلد
7 البلد
8 البلد
9 البلد
10 البلد
11 (٤) آیت ١١ میں بتایا کہ ان دوراستوں میں سے ایک راستہ دشوار گزار بلندی کی طرف جاتا ہے اس پر چڑھنے کے لیے آدمی کو اپنے نفس اور اس کی خواہشوں سے نیز شیطان کی ترغیبات سے لڑ کرچلنا پڑتا ہے جب کہ دوسرا راستہ پستی کی طرف جاتا ہے۔ البلد
12 البلد
13 (٥) پہلے شخص کی فضول خرچیوں کے مقابلے میں اب آیت ١٣ سے ان کاموں کا بیان ہے جن کو انجام دینے کے لیے دل گردے کی ضرورت ہے اور ایثار وقربانی سے کام لیناپڑتا ہے۔ البلد
14 البلد
15 البلد
16 البلد
17 البلد
18 (٦) آخر میں صالح معاشرہ کے مبارک لوگوں کی خصوصیات بیان فرمائی ہیں یعنی ایک دوسرے کو صبر اور رحم کی تلقین کرنا اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنا۔ البلد
19 البلد
20 البلد
0 الشمس
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکہ معظمہ میں ابتدائی دور کی تنزیلات سے ہے اس میں نیکی اور بدی کے درمیان فرق کو سمجھایا گیا ہے اور جو لوگ برے انجام سے نہیں ڈرتے ان کو ڈرایا ہے۔ الشمس
2 الشمس
3 الشمس
4 الشمس
5 الشمس
6 الشمس
7 الشمس
8 (٢) قرآن مجید نے بے شک انسان کو نیکی اور بدی کا الہای علم دیا گیا ہے مگر اس الہام کو کافی نہیں سمجھا، بلکہ اس کے بعد ہدایت ووحی بھیج کر تفصیل سے برواثم کے تمام شعبے سمجھادیے ہیں۔ دنیا کانظام فطرت تین شعبوں سے مکمل ہوتا ہے۔ مادہ قوت، اور ان دونوں سے بالاتر ایک ذی شعور طاقت جوان دونوں میں ربط واتحاد پیدا کرتی ہے اور وہ فطرت صالحہ وسلیمہ ہے جو اصلا خود انسان کے اندر موجود ہے اللہ تعالیٰ نے نظام عالم کی ان تین کڑیوں کا ذکر بالترتیب اس سورۃ میں کیا ہے۔ قرآن کریم نے آخرت کے وجود کا اذعان جن جن دلائل سے کیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز اپنا کوئی نہ کوئی متقابل وجود یامثنی ضرور رکھتی ہے پس ضروری ہے کہ دنیوی زندگی کے لیے بھی کوئی متقابل ومثنی زندگی ہو، دنیوی زندگی کی متقابل زندگی، آخرت کی زندگی ہے، چنانچہ بعض سورتوں میں انہی متقابل مظاہر سے استشہاد کیا ہے مثلا اسی سورۃ میں فرمایا، والشمس وضحھا۔۔ تا۔۔ وما طحھا۔ الشمس
9 الشمس
10 الشمس
11 الشمس
12 الشمس
13 الشمس
14 الشمس
15 (٣) قوم وثمود کا قصہ بیان کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ میں بھی اس وقت وہی حالات موجود تھے جو صالح (علیہ السلام) کے مقابلہ میں قوم ثمود کے اشرار نے پیدا کررکھے تھے، اس لیے ان کو یہ قصہ سنادینا بجائے خودیہ سمجھا دینے کے لیے کافی تھا کہ تمہارا حشر بھی اہل ثمود کاسا ہونے والا ہے۔ الشمس
0 الليل
1 تفسیر وتشریح۔ (١) اس سورۃ کا مضمون بھی سورۃ الشمس کے مضمون کے مشابہ ہے (A) گویا دونوں سورتیں ایک دوسری کی تفسیر ہیں (A) پہلی سورۃ کے مضمون کو ایک دوسرے اندازسے سمجھایا گیا ہے۔ الليل
2 الليل
3 الليل
4 (٢) یعنی جیسے رات اور دن، نر اور مادہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ان میں سے ہر دو کے آثار ونتائج بھی باہم متضاد ہیں اسی طرح انسانی کوششیں بھی مختلف اور متضاد ہیں۔ پہلی قسم سعی کی یہ ہے کہ زرپرستی میں مبتلا نہ ہوبلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرے نیکی اور بھلائی کے کاموں میں صرف کرے دوسرے یہ کہ اس کے دل میں خوف خدا ہو اور اس کے تمام اعمال پر یہ اثر انداز ہو، تیسرے یہ کہ بھلائی کی تصدیق کرے اور شرک ودہریت کوچھوڑ کر توحید ورسالت اور آخرت کو برحق جانے ان تین خصلتوں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان فطرت کے مطابق آسان راہ پر چل کرکامیابی حاصل کرے گا۔ دوسری قسم کی سعی یہ ہے کہ انسان زرپرستی میں مبتلا ہوجائے اور نیکی کی تکذیب کرے تو ایسے شخص سے خیر کی توفیق سلب ہوجاتی ہے اور اس کے سامنے برائی کے راستے کھل جاتے ہیں اور وہ تنگی کی راہ کو آسان سمجھنے لگتا ہے بروخیر کے کام اس کو پہاڑ نظر آنے لگتے ہیں۔ الليل
5 الليل
6 الليل
7 الليل
8 الليل
9 الليل
10 الليل
11 (٣) آیت ١٢ سے آخر سورۃ تک دونوں قسم کی مساعی کے نتائج بیان فرمائے ہیں۔ قرآن مجید کا عام اسلوب بیان یہ ہے کہ خدا کے ٹھہرائے قوانین واسباب سے جونتائج پیدا ہوتے ہیں انہیں براہ راست خدا کی طرف نسبت دیتا ہے مثلا یہ کہ جو لوگ سمجھ سے کام لینے کی جگہ اندھی تقلید کرنے لگتے ہیں رفتہ رفتہ ان کی عقلیں ماری جاتی ہیں قرآن اس حالت کو یوں تعبیر کرے گا کہ خدا نے ان کے دلوں پر مہرلگادی (ان کے راستے میں مشکلات پیدا کردیں) یعنی یہ صورت حال اللہ کے ٹھہرائے ہوئے قانون کا قدرتی نتیجہ ہے۔ الليل
12 الليل
13 الليل
14 الليل
15 الليل
16 الليل
17 الليل
18 الليل
19 الليل
20 الليل
21 الليل
0 الضحى
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اور ابتدائی دورکی تنزیلات سے ہے۔ الضحى
2 الضحى
3 (٢) اس سورۃ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے اور اس پریشانی کو دور کیا ہے جونزول وحی کے سلسلہ کے رک جانے کی وجہ سے آپ کو لاحق ہوگئی تھی۔ (٣) تفسیری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کچھ مدت کے لیے وحی کاسلسلہ رک گیا جس پر آپ کو سخت غم لاحق ہوگیا اور ام جمیل (ابولہب کی عورت) نے جو آپ کی چچی تھی آپ سے کہا معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے (العیاذ باللہ) اور مشرکین نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ان کارب ان سے ناراض ہوگیا ہے اس شماتت اعداء کی وجہ سے آپ پریشان ہوئے تو یہ سورۃ نازل ہوئی جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی اور آپ پر اللہ کی طرف سے جونوازشات ہوئی تھیں ان کا بیان فرمایا ہے۔ الضحى
4 الضحى
5 الضحى
6 الضحى
7 الضحى
8 الضحى
9 الضحى
10 الضحى
11 الضحى
0 الشرح
1 تفسیر وتشریح۔ (١) سورۃ الم نشرح مکی ہے اور ابتدائی عہد کی تنزیلات سے ہے اسکا مقصد بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے نیزآپ کو بتایا گیا کہ مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشقت دکھاناضروری ہے۔ الشرح
2 الشرح
3 الشرح
4 الشرح
5 الشرح
6 الشرح
7 الشرح
8 الشرح
0 التين
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہے اس کاموضوع جزاوسزا کا اثبات ہے اور اس میں اولوالعز پیغمبروں کے جائے ظہور کی قسم کھاکر بتایا گیا ہے کہ انسان نفسانی خواہشات کی پستی سے اسی صورت میں نجات پاسکتا ہے جبکہ ایمان اور اعمال صالحہ کی دولت سے مالامال ہو۔ تفسیر سورۃ تین۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر سورۃ والتین سے پہلے اسی سورۃ کی تفسیر از قلم مولانا مظہر الدین شیرکوٹی آپ کے مطالعہ میں آئے گی جوالبلاغ، ١٧ دسمبر ١٩١٥ میں شائع ہوئی۔ اس پر مولوی وصی احمد صاحب بلگرامی نے مولانا ابوالکلام آزاد کی خدمت میں چند ضروری استفسارات پیش کیے جن کے جواب میں مولانا نے تفسیر سورۃ تین لکھی، جوالبلاغ ٢٥ فروری اور ٣ مارچ ١٩١٦ میں شائع ہوئی قارئین کے استفادہ کے لیے یہ پوراسلسلہ شامل اشاعت کیا جارہا ہے۔ تفسیر سورۃ والتین (مولانا مظہرالدین شیرکوٹی)۔ انسان جب غوروفکر کی آنکھیں کھولتا ہے تو دیکھتا ہے کہ نیچے زمین ہے اور سر پر آسمان ہے ان کی وسعت اس کے خیال سے بالاتر اور ان کی قدامت اس کے ادراک سے باہر ہے ایک طرف وہ عظیم الشان پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے جن کی چوٹیاں نامعلوم بلندیوں تک مرتفع ہیں دوسری طرف بلاخیزسمندروں کی لہریں اس کے اردگرد طوفان خیز ہیں جن کے سامنے انسان کی ہستی توکی اس کی زمین بھی کائی کی طرح چھٹ جاتی ہے ان عظیم ترین ہستیوں سے قطع نظر کرکے جب وہ چھوٹے چھوٹے جسموں (ایٹم) کی قوت پر توجہ کرتا ہے تو اور زیادہ متعجب ہوتا ہے کہ ہستی وحیات کے یہ حقیر ذرات طاقت وعمل کی کیسی حیرت انگیز مثالیں اپنے اندر رکھتے ہیں۔ وہ ڈسنے والے سانپوں کی برق رفتاری پرخیال کرتا ہے، خونخوار جانوروں کی طاقت کو دیکھتا ہے ابر کے ایک معمولی ٹکڑے سے برے بڑے شہروں کا زیروزبر ہونا اس کے سامنے آتا ہے پھونک سے اڑ جانے والی چنگاری کی قوت اس کے پیش نظر ہوتی ہے اور جب ان تمام مناظر قدرت کو اپنے سامنے لاتا ہے تو بے اختیارپکاراٹھتا ہے کہ اے ہستی انسانی، تو کیا ہے؟ تیری حقیقت کچھ بھی نہیں بحر وجود میں پانی کا ایک بلبلہ، عالم خلق میں ہوکا ایک جھونکا میدان تکوین میں مجموعہ غبارکا ایک نقش پا۔ لیکن سورۃ مبارکہ، والتین، میں قرآن حکیم نے اس خیال کی تردید فرمائی ہے اور شرف انسانی کے دلائل مبینہ طور پر پیش کیے ہیں اس نے بتایا ہے کہ عالم وجود کی دوسری چیزوں کے ساتھ انسان کو کیا نسبت ہے بلاشبہ انسان پانی کا ایک بلبلہ ہے مگر کون سا پانی ؟ وہ جو آب بقا کا ایک سرچشمہ ہے کچھ شک نہیں کہ انسان ہواکا ایک جھونکا ہے مگر کس ہوا کا؟ وہ جو باغ وحدت کی ایک لہر ہے ہاں یقینا انسان کا وجود ایک نقش پا ہے مگر کیسا نقش پا؟ وہ جو وجود بحث کاسب سے زیادہ مکمل نشان ہے خلاصہ یہ کہ سریرظہور کا تاجدار اور منصہ شہود کی رونق وجود انسانی ہی ہے۔ انسان کا اشرف خلائق ہونا ایک ایسا بین دعوی ہے جس کے لیے احتیاج دلیل نہ تھی لیکن اپنی ہستی سے خود فراموشی ہی کبھی کبھی مانع کارہوجاتی ہے اور اکثر دنیا کے بڑے بڑے اعمال صرف اسی لیے ناتمام رہ جاتے ہیں کہ ان کے کرنے والے اپنے آپ کو نہایت ضعیف وناتواں سمجھ کر ہمت ہاردیتے ہیں لہذا ایک ایسے ناموس الٰہی کے لیے جو تبیانا لکل شئی، اور نور مبین کی حیثیت رکھتا ہوضروری تھا کہ انسانی فضیلت کی کامل حقیقت کو اس کے سامنے صاف صاف پیش کردے۔ علاوہ ازیں دین حنیف کے اس اہم ترین رکن کی ایک تمہید اور مقدمہ بھی تھا جسے حضرت شاہ والی اللہ کی اصطلاح میں، قانون مجازات کے لقب سے تعبیر کروں گا۔ پس اس سورۃ کے مضمون کی تقسیم دو قسموں میں ہوسکتی ہے۔ : ١۔ اشراف انسانی کا ثبوت۔ ٢۔ قانون مجازات۔ مبحث اول : (والتین والزیتون، وطور سنین، وھذالبلدالامین، لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم)۔ ” انجیر، زیتون، طورسینا، مکہ معظمہ اس دعوی پر شاہد ہیں کہ ہم نے انسان کو بہتر سے بہتر حالت میں پیدا کیا ہے۔” تقویم“ کی تفسیر میں قاضی بیضاوی تحریر فرماتے ہیں۔” تعدیل بان خص بانتصاب القامۃ وحسن صورۃ واستجماع خواص الکائنات ونظائر سائر الممکنات۔ (انتھی)۔ تقویم کے معنی تعدیل کے ہیں اور اس سے مراد یہ ہے کہ انسان سروقامتی حسن صورت اور کائنات کے تمام خواص اور تمام ممکنات کی تمثیلات کا مجموعہ ہے۔ اسی مضمون کو امام رازی ان الفاظ میں ادا کرتے ہیں۔ تقویم کے معنی کسی شے کا ایسی حالت میں پیدا کرنا جس کے لائق وہ اپنی تالیف وتعدیل میں تھی ایسے موقع پر جب کوئی چے چند چیزوں سے ترتیب دے کربنائی گئی ہو اور وہ درست ہوتواہل عرب کہا کرتے ہیں، قومتہ تقویما فاستقام وتقوم۔ محدث ابن جریر طبری اپنی شرہ آفاق تفسیر میں تقویم کے مختلف معنی نقل کرتے ہوئے اپنی رائے ان الفاظ میں ظاہر فرماتے ہیں۔ تقویم کے معنی میں بہترین قول یہ ہے کہ اس کے معنی احسن واعدل حالت کے ہیں۔ یہ تینوں مفسر اور ان کے سوا اور مفسرین بھی اگرچہ ترتیب الفاظ تعبیر مقصد میں مختلف ہیں تاہم منشاء ومال سب کا ایک ہے یہ ضرور ہے کہ بیجاوی نے نہایت مفصل اور جامع الفاظ میں تقویم کا مفہوم ادا کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ، کیا بہ لحاظ حسن صورت اور کیا بہ لحاظ بلندی قامت انسان تمام ممکنات کی تمثیل اور کل کائنات کے خواص کا مجموعہ ہے اور یہ انسانی شرف کی بہت بری دلیل ہے کہ جواوصاف (مثلا حیوانات میں حرکت اور ارادہ وانتقام، نباتات میں نشوونما ملائکہ میں طاعت رب کریم وغیرہ وغیرہ) فردا فردا دیگر مخلوقات میں موجود ہیں وہ سب کے سب ایک وجود انسانی میں مکنون ہیں۔ فلینظر الناظرون ویمحص المشتاقون۔ اسی مضمون کو قرآن حکیم نے دوسرے مقامات پر بھی بیان فرمایا ہے صرف اجمال اور تفصیل کافرق ہے ورنہ مقصود ایک ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے : (وصورکم فاحسن صورکم)۔ اے انسانو اللہ تعالیٰ نے تم کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے۔ یہاں صورت سے مراد صرف نقش ونگار جسمانی یاخدوخال نہیں بلکہ صورمعقولہ وقوائے ادراکیہ بھی ہیں، کماصرح الاصفہانی فی الذریعۃ والمفسرون فی تفاسیرھم) دوسری جگہ بہت زیادہ تفصیل سے اس طور پر مذکور ہے۔ (ولقد کرمنا بنی آدم حملناھم فی البر والبحر ورزقناھم من الطیبا۔۔۔ تا۔۔ تفضیلا۔ ہم نے بنی آدم کو بزرگی عطا فرمائی اور تری وخشکی میں ان کے چلنے کے لیے سواریاں بنائیں عمدہ عمدہ چیزیں کھانے کودیں یہاں تک کہ مخلوقات کے اکثر حصہ پر ان کو فضیلت وسیادت حاصل ہے۔ اور ان تمام آیات کو ایک دوسرے کے ساتھ ملاکرپڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مقصود فضیلت انسانی کا ثبوت ہے اور سورۃ تین میں اس دعوی کی کو مدلل پیش کیا گیا ہے اور ثبوت میں چار دلیلیں بصورت قسم پیش کی گئیں ہیں۔ محققین نے محاورات عرب واشعار جاہلیت سے اس کا فیصلہ کردیا ہے کہ قسم اپنے مابعد بیان کے لی شہادت ودلیل ہوتی ہے امام رازی سوہ ذاریات کی تفسیر میں لکھتے ہوئے شروع ہی میں تحریر فرماتے ہیں :” تمام وہ قسمیں جو اللہ نے قرآن مجید میں بیان فرمائی ہیں سب کی سب قسم کی صورتوں میں دلائل ہیں جس طرح کوئی اپنے محسن کاشکریہ ادا کرنے کے لیے کہتا ہے، وحق نعمتک الکثیرۃ انی لا ازال اشکرک۔ اور اس قول میں نعمتوں کا ذکر دوام ام شکر کے لیے سبب قرار دیتا ہے۔ اس مسئلے کو پیش نظر رکھتے ہوئے اب ہمارا فرض ہے کہ ہم یہ ثابت کریں (لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم) پر یہ چار قسمیں ہیں۔ تین۔ زیتون۔ طورسنین۔ بلدامین۔ کیونکر دلیل ہوسکتی ہیں؟۔ تین وزیتون کی شہادت : تین کے معنی بعض مفسرین نے دمشق کے ایک پہار اور بعض نے بیت المقدس کے ایک پہاڑی مقام کے بیان کیے ہیں لیکن یہ سب اقوال مرجعح ہیں اور ان کے ضعف کی طرف بیضاوی وغیرہ مفسرین نے اشارہ بھی کیا ہے مناسب ہی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ اسکے معنی اسی پھل کے کیے جائیں جس کو ہم اپنی زبان میں انجیر کہتے ہیں اسی طرح زیتون بھی مراد وہی پھل ہے جس سے روغن نکالا جاتا ہے اور جو اہل عرب کی ہر دل عزیز وجان پردر غذا ہے۔ ابن جریر لکھتے ہیں :” حضرت حسن سے مروی ہے کہ قرآن مجید میں تین سے مراد وہ پھل ہے جسے لوگ کھاتے ہیں اور زیتون سے مراد بھی وہی ہے جس سے روغن نکالتے ہیں۔ امام رازی اپنی تفسیر میں تین وزیتون کے معنی بیان کرتے ہوئے حضرت ابن عباس کا قول نقل کرتے ہیں :” اے اہل عرب) تین وزیتون سے مرادیہی تمہارے مشہور پھل ہیں۔ ان دونوں الفاظ کے معنی متعین ہوجانے کے بعد غور کرو کہ یہ شرف انسانی برکس طرح شاید ہیں؟ تم جانتے ہو کہ انجیرایک نہایت چھوٹا ساپھل ہے لیکن غذا ودوا میں اس کے بے شمارفوائد ہیں ذائقہ کے لحاظ سے نہایت شیریں ہے باعتبار فوائد کے قاع بلغم، ملین طبع، مطہر کلیتین، مسمن بدن وغیرہ اس کے معمولی خواص ہیں۔ پس انجیر شاہد ہے کہ جس طرح یہ جسم صغیر ہوکربے شمار فوائد کا مجموعہ ہے اسی طرح وجود انسانی بھی جسما مختصر لیکن مختلف قوتوں کا پتلا گوناگوں جذباتکاسرپا، بوقلموں اسرار کا مجموعہ ہے بے شک اس کی مٹھی بھرہڈیوں کا ڈھانچہ عالم تکوین کی غیر محدود کوہ پیکر ہستیوں کے سامنے کچھ حقیقت نہیں رکھتا مگر ان ہڈیوں میں وہ طاقت ہے جوپہاڑوں کی چوٹیوں اور سمندروں کے طوفانوں کو مسخر کرسکتی ہے۔ دوسری شہادت زیتون کی ہے وہ یہ کہ جس طرح زیتون میں روغن حلول کیے ہئے ہے اور زیتون کی قدر اس کے روغن ہی کی وجہ سے ہے اسی طرح انسان کے جسم میں روح انسانی کا حلول ہے اور اس کا شرف بھی اس کی اس روح ہی سے ہے ورنہ انسان مٹی کا ایک ڈھیر یا حشرات الارض کی گھناؤنی غذا ہے اور بس۔ یہاں پر دوسوال اور قابل غور ہیں ایک یہ کہ جناب باری تعالیٰ نے زیتون ہی کو شہادت کے لیے کیوں منتخب کیا جبکہ یہ فائدہ دیگر روغن دار پھلوں یا اسی قسم کے تخموں سے بھی حاصل ہوسکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل عرب جو قرآن حکیم کے اولین مخاطب ہیں ان کے سامنے جو چیز بکثرت موجود تھی وہ زیتون ہے اور اس سے جوفوائد غذا ودوا کے اعتبار سے انہیں حاصل ہورہے تھے وہ بالکل ان پر واضح وآشکارا تھے۔ دوسراسوال یہ ہوسکتا ہے کہ جب کہ روح جسم سے اعلی واشرف اور اس پر حاکم ہے تو اس کی شہادت کو جسم کی شہادت سے مقدم ہونا چاہیے اور اس لیے والتین کی جگہ والزیتون کے لفظ سے سورۃ کو شروع کرنا چاہیے تھا۔ یہ درست ہے مگر یاد رکھنا چاہییکہ دلیل واثبات کے موقع پر مقدم ہونے کا وہ چیزیں حق رکھتی ہیں جوتجارت ومحسوسات کے دائرہ میں ہوں قطع نظر فلسفہ جدیدہ کے جس کی بنیاد کاسنگ اولین ہی تجربہ ہے اگر ارسطو وافلاطون کے فلسفہ کو دیکھو اور کم ازکم علامہ بہاری کی سلم کے آخر میں برہان کی بحث سامنے رکھو تو معلوم ہوجائے گا کہ دلیل مفید یقین وہی ہوسکتی ہے جس کے مقدمات کی ترتیب امور یقینہ اور تجربہ پر ہو یا کم ازکم ایسے مقدمات کی طرف ان کی تحصیل ہوتی ہو بہرحال جسم اور اس کے فوائد محسوس بالکل ظاہر ہیں اور روح غیر محسوس ہے پس اس لیے جسم کی شہادت کو حق تھا کہ وہ روح کی شہادت پر مقدم ہو اور سورۃ کو والتین ہی کے لفظ سے شروع کیا جائے۔ نکتہ : زیتون کے لفظ میں ایک اور لطیف اشارہ ہے وہ یہ کہ جب زیتوں سے روغن نکال لیا جاتا ہے تو اس سے دوسرے فوائد کے علاوہ چراغ بھی روشن ہوسکتا ہے اور وہ اپنے اردگرد کی تمام چیزوں کو منور کردیتا ہے اسی طرح وہ روح جو قفس عنصری میں مقید ہے اگر بقدر طاقت بشری اس کو بھی علائق مادیہ سے پاک وصاف کرلیاجائے تو پھر اس سے بہت سی تاریک روحیں منور اور ظلماتی قلوب روشن ہوسکتے ہیں۔ طورسینین کی شہادت : طورسینین کی تفسیر میں تمام مفسرین اپنی عادت قدیم کے موافق بہت سے احتمالات بیان کرتے ہیں مگر دراصل یہ سب تکلف ہے اس سے مراد وہی پہاڑ ہے جو حضرت موسیٰ کے لیے جلوگاہ ربانی اور بنی اسرائیل کے لیے قانون شریعت کا مہبط تھا ابن جریرنے بھی اسکوپسند فرمایا ہے چنانچہ لکھتے ہیں : کہ صواب ترقول اس بارے میں اس شخص کا ہے جو کہتا ہے کہ طورسینین سے مراد مشہور معروف پہاڑ ہے۔ یہ شہادت ایک عجیب وغریب شہادت ہے جوثابت کرتی ہے کہ ضعیف ناتواں انسانی پتلے میں مادی ترقی کی قوت کہاں تک ہے اور وہ اپنے کمال کے بازوؤں سے اڑ کر کہاں تک پہنچ سکتا ہے اس سے پہلے تم بنی اسرائیل کی حالت پر غور کرو وہ ایک ایسی قوم تھی جس نے اسرائیلی برکت اور حضرت ابراہیم کے خدا کے وعدے کوفراعنہ کے قدموں میں پامال کردیا تھا اس بدبخت قوم نے فطرت کی سب سے زیادہ گراں قدر نعمت (یعنی حریت) کو ہمیشہ غیروں کی چوکھٹوں پر قربان کیا۔ یہی بدنصیب بنواسرائیل تھے جو انسانی عبدیت کے خون سے پیدا ہوئے غلامی کے دودھ سے پہلے، استبداد کی آب وہوا میں بڑھتے رہے یہاں تک کہ شرف قومی کا پاک جذبہ، جس کی حفاظت دل کے خون اور دماغ کی روح سے ہونی چاہیے تھی فراموش کردیا گیا آہ، صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے دیکھا کہ ظالم مصریوں کی خون آشام تلواریں اپنی پیاس ان کے معصوم بچوں کے خون سے بجھاتی ہیں اور ان کی محذرات (مستورات) کی عصمت فرعونیوں کے وحشت کدہ پر قربانی ہورہی ہے۔۔۔ (یذبحون ابناء ھم ویستحیون نساء ھم)۔ مگر تاہم اس بے حسی کی صدا سے باز نہ آئے کہ (فاذھب انت وربک فقاتلا اناھھنا قاعدون)۔ بدقسمت عبرانیوں کی یہ حالت تھی مگر جب جبل طورپ رموسی (علیہ السلام) کو قانون ملت عطا ہوا اور اس پرآئندہ نسل نے عمل کیا تو پھر وہ حالت ہوئی کہ جوغلام تھے وہ شہنشاہ ہوگئے جس قوم کو مصر میں سوکھی روٹیوں کے ٹکڑے بھی پیٹ بھرنے کے لی چین سے نصیب نہیں تھے اس کے قدموں پر شام کے خزانے جمع کیے کنعانیوں اور حبشیوں کے دل فریب سبزاہ ساروں کی یہ قوم مالک ہوئی، اموریون اور فرزیوں، حویوں، اور بیوسیوں کی دودھ وشہد بنانے والی زمین ان کے قبضہ میں آگئی اس رعب وشوکت نے مصر کے ایونوں کو ہلاکررکھ دیا یہ سب کیوں ہوا؟ صرف اسلیے کہ پہلے وہ صراط مستقیم وراہ حق سے بے خبر تھی اور اب اس پر عامل ہوگئی پہلے وہ اس قانون الٰہی سے جوطور پرنازل ہوجوترقی کے بے شمار اسرار سے معمور تھا محروم تھی اور اب اس کی پرستار بن گئی پس اللہ نے اسی طور کو جس سے ایک بہت بڑی قوم کے عروج وزوال کی تاریخ وابستہ تھی بطورشاہد کے پیش کیا کہ دیکھو یہ طور شاہد ہے کہ انسان کو ہم نے اشرف ترین پیدا کیا کیا باوجود ایک حقیر وضعیف ہستی ہونے کے اس کی پروز سب سے زیادہ بلند نہیں ہے؟۔ جس طرح کہ پہلے جسم کی شہادت اور اس کے بعد روح کی شہادت پیش کی گئی تھی اسی طرح تیسری شہادت میں پہلے جسمانی ومادی ترقی کا ثبوت دے کرچوتھی شہادت، البلدالامین، اس کی روحانی ترقی کی دلیل قرار پائی۔ بلدامین کی شہادت : امینــ“ امن سے مشتق ہے جس کے معنی حفاظت کرنے کے ہیں امانت کو امانت اسی لیے کہتے ہیں کہ اس کی حفاظت کی جاتی ہے امین اگر اسم فاعل کا صیغہ ہے تو اس کے معنی ہوں گے حفاظت کرنے والا، یامثل قتیل بمعنی مقتول اسم مفعول کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے تو اس کے معنی ہوں گے محفوظ، بہرحال دونوں صورتوں میں بلدامین سے مراد مکہ معظمہ ہے۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہے کہ خانہ کعبہ فار عن الدم (جوشخص کسی کو قتل کرکے بیت اللہ میں آچھپے) کے قصاص سے اور جانوروں کے شکار سے جبکہ وہ حرم میں داخل ہوجائیں حفاظت کرنے والا ہے کیونکہ نص قرآنی میں دوسری جگہ حرما آمنا موجود ہے۔ دوسری صورت میں مطلب یہ ہے کہ یہ کعبہ محترمہ قتل وغارت، جنگ جدل وغیرہ سے محفوظ ہے یہ چوتھی قسم ہے اور انسانی شرف کے جس شعبہ پر شرط لائی گئی ہے اس کو ہم اوپر لکھ آئے ہیں اس کی تفصیل کے لیے ایک مختصر مقدمہ پیش نظر رہنا ضروری ہے۔ محبت کے دو درجے ہیں ایک یہ کہ محبوب اور اس کے جمیع متعلقات سے الفت ہو، اس کے دریار ولباس کی یاد بھی وہی اثر دل پر کرے جو اس کی چشم بہار کے اشارے کرتے ہیں امراء القیس نے جب ایک سفر میں اپنی محبوبہ کے قیام کو آثار کو دیکھاتوبے خود ہوگیا اور یاران سفر سے کہنے لگا : قفانبک من ذکری حبیب ومنزل بسقط للوی بین الدخول فحومل۔ دوسرامرتبہ یہ ہے کہ محبوب کے سواکسی سے محبت نہ ہو اس کاروئے آتشین قلب میں وہ آگ روشن کردے کہ ماسوا کی الفت خاکستر ہوجائے اور یہ عالم ہو کہ۔۔۔۔۔ جدھر دیکھتا ہوں ادھر توہی تو ہے۔ یہ مرتبہ پہلے سے اعلی ہے اور اسی کا نام مرتبہ خلت ہے جس کانمونہ حضرت ابراہیم واسماعیل تھے حضرت ابراہیم کے لیے تو یہ مقام ظاہر ہے کہ جب ان سے ان کے جگر گوشہ وچشم وچراغ اسماعیل کی قربانی کے لیے ارشاد ہوا تو وہ بلاتامل تیار ہوگئے اور اس پر حضرت باری سے یہ خطاب عطا ہوا۔ (واتخذاللہ ابراہیم خلیلا) اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو اپنا خلیل بنایا۔ لیکن حضرت اسماعیل بھی اس مقام خلت سے محروم نہ تھے چنانچہ جب راہ حق میں ان کو قربان کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے بلاتامل عرض کیا،(یا ابت افعل ماتومر۔ الخ) یعنی اے باپ اگر آپ قربان کرنے کے لیے تیار ہیں تو میں بھی قربان ہونے کے لیے حاضر ہوں۔ کعبہ مکرمہ جوانہی پرستاران حق وفد اکاران ملت کی بناکردہ تعمیر ہے گویاتعلیم خلت کی درسگاہ ہے جو یہ بزرگوار تعمیر کرتے جاتے تھے اور اپنے جذبہ عشق میں معمور ہوکرکہتے جاتے تھے (ربنا تقبل منا انک۔۔۔ تا۔۔۔ الحکیم۔ البقرہ ع ١٥)۔ ترجمہ۔ کہ اے ہمارے خدا توہمارے اس کام بنائے کعبہ کو قبول فرما اس لیے کہ توہی ہماری دعا کوسننے والا اور ہمارے کاموں کو جاننے والا ہے اے پروردگار اب تو ہم کو اپنا فرمانبردار بنا لے اور ہماری نسل سے ایک مطیع ومنقاد امت قائم کر، اے خدا اپنے ارکاب عبادت ہم کو ہدایت کر اور ہم پر رحمت نازل فرما کیونکہ تو ہی تواب رحیم ہے اور پھر اس امت میں ایک ایسا رسول مبعوث فرما جو ان میں سے ہو وہ رسول تیرے احکام کوسنادے اور تیری کتاب وحکمت کی باتیں ان کو سکھا دے تو سب کچھ کرسکتا ہے اس لیے کہ تو سب پر غالب اور سرچشمہ حکمت ہے۔ پس درسگاہ خلت یعنی بیت ابرہیمی اس پر شاہد ہے کہ انسانی روح کہاں تک ترقی کرسکتی ہے اور اس کی انتہا کیا ہے تم کو معلو ہوگیا کہ اس کی ترقی اس حد تک ہے جہاں پہنچ کر ایک ہی مقصود ایک ہی مطلوب اور ایک ہی شاہد مشہود سامنے ہوتا ہے جس کی چشم وابرو کے اشاروں اور دہن حق طلب کی مسکراہٹ پر اپنی عزیز ترین چیزوں کو بھی قربان کردیا جاتا ہے۔ اے گم گشتگان طریق حق۔ اگر دین حنیف تمہارے ہاتھوں میں، اسماعیلی خون تمہاری رگوں میں اور ابراہیمی دعا کی امت مسلمہ تم ہو تو پھر تمہارے لیے ذریعہ فلاح ونجات وہی خلت وہی جوش محبت وہی سودائے عشق وہی طریق ابراہیمی ہے جس کی شہادت تمہارا کعبہ مکرمہ بزبان حال پیش کررہا ہے اور اس کی صدا اس کے درودیوارے آرہی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں اس امر کو مفصل بیان کیا ہے کہ روح وجسم کا وجود اور ان کا اجتماع دوسرے جانداروں میں بھی ہے لیکن حصول سلطنت اور مقام خلت، جن پر تیسری وچوتھی قسم شاہد ہے یہ انسان ہی کے ساتھ مخصوص ہے ان دوآخری خصوصیتوں میں سے پہلی قوت حیوانیہ انسانیہ اور دوسری قوت ملکوتیہ کا خاصہ ہے پس ان خصائض وقوی، ان فوائد ومنافع کے انکشاد کے بعد کون ہے جو اس میں شک کرسکتا ہے۔ (لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم)۔ التين
2 تفسیر سورۃ والتین۔ (مولانا ابوالکلام آزاد)۔ قرآن حکیم کے فہم ودرس کاجوذوق آپ کے خط سے ظاہر ہے اس سے یہ فقیر نہایت خوش وقت ہوا اللہ تعالیٰ آپ کے اس ذوق میں برکت وثبات عطا فرمائے اور آپ کے امثال ونظائر سے ہمارے جدیدی مدارس کی عمارتیں معمور ہوجائیں۔ آپ کا سوال دراصل مسئلہ اقسام القرآن سے تعلق رکھتا ہے یعنی قرآن حکیم کی جن سورتوں میں اللہ تعالیٰ نے حروف قسم کے ساتھ بعض اشیاء کا ذکر فرمایا ہے ان کی حقیقت اور جواب قسم سے ان کاربط وتعلق۔ ازاں جملہ سورۃ والتین ہے اور اسمیں سب سے پہلے تین وزیتون کی قسم نظر آتی ہے درس وفہم حقائق قرآنیہ کی مختلف راہیں ہیں اور بسا اوقات ان کی حقیقت مختلف نظروں کو مختلف روشیوں میں نظر آتی ہے تین وزیتون کے متعلق ایک تفسیر امام رازی کی تھی جس کو مولانا مظہرالدین صاحب نے اپنے مضمون میں نہایت خوبی سے پیش کیا ہے اور ان کے خصائض کو نوع انسانی کے جسم وحقیقت کے خصائض سے تشبیہ دی ہے لیکن اسمیں کوئی شک نہیں کہ سورت کے موضوع اور بقیہ اقسام کے ربط کے لیے صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے مزید غوروفکر اور جستجوئے حقیقت کے لی قدم اٹھانا چاہیے۔ چند مقامات مہمہ : سب سے پہلے چند مقامات آپ کے سامنے آجائیں جن پر ہمارے تمام مباحث تفسیر مبنی ہیں۔ ١۔ قرآن حکیم کی ہر سورت کا ایک موضوع ہے اور اول سے آخر تک وہ سورت اسی پر مبنی ہے جس قدر مطالب درمیان میں آگئے ہیں وہ سب کے سب اسی ایک موضوع اصلی کے ناگزیر وضروری اطراف بحث وتعلیم ہیں۔ ٢۔ ہر سورت کی ابتداء وانتہاء اس موضوع معلوم کرنے کی کنجی ہے۔ ٣۔ جب ہر سورت کا ایک موضوع ہے تو یہ چیز بھی ضمنا آپ کو معلوم ہوگئی کہ قرآن مجید کی تمام آیات باہم مربوط ومسلسل ہیں اور ایک نظم واسلوب حقیقی کے ساتھ سلسلہ بیان بتدریج اجمال سے تفصیل، دعوی سے دلیل، اور تعلیم سے امثال ونظائر کی طرف بڑھتا اور کھلتا جاتا ہے اسی کو قرآن نے تصریف آیات سے جابجا تعبیر کیا ہے صرف کے معنی لغت میں، رد الشئی من حالۃ الی حالۃ کے ہیں کما صرح بہ الاصفہانی)۔ ٤۔ قسم کے معنی شہادت ودلائل کے ہیں قرآن نے جس چیز کو حروف قسم کے ساتھ پیش کیا ہے وہ ایک شاہد ہے جو اپنے مابعد دعوی کے لیے دلیل پیش کرتا ہے ہم خدا کی قسم کھاتے ہیں یعنی کہتے ہیں کہ خدا شاہد ہے کہ ہم نے جھوٹ نہیں بولا۔ سورۃ والفجر میں ہے : ھل فی ذالک قسم الذی حجر۔ یعنی ان چیزوں میں صاحب عقل کے لیے بڑی ہی شہادت ہے۔ منافقین کہتے تھے کہ : نشھد انک لرسول اللہ۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تکذیب میں فرمایا، اتخذوا ایمانھم جنۃ۔ انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنالیا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ منافقین نے شہادت دی تھی کہ قسم نہیں کھائی تھی پس اللہ نے خود ہی شہادت کو قسم سے تعبیر کرکے حقیقت کھول دی۔ لیکن چونکہ عام مفسرین متاخرین نے اس حقیقت پر غور نہیں کیا اس لیے وہ اس دھوکے میں پڑگئے کہ قسم اس چیز کی کھائی جاتی ہے جس میں بڑائی اور عظمت ہو اس لیے تمام قسموں میں صرف عظمتوں ہی کو تلاش کرتے رہے ان کی شہادت حق ودلالت حقائق پرنظر نہ ڈالی۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ قسم ایک طرح کی دلیل ہے لیکن چونکہ اصل حقیقت سے پوری طرح متاثر نہیں ہیں اس لیے اس غلطی کو شروع کردیتے ہیں جو اعتراف معنی دلیل کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی تھی یعنی تین اور زیتون کی عظمت اور بزرگی کو ثابت کرنا چاہتے ہیں پھر جب اور کچھ نظر نہیں آتا تو فرماتے ہیں کہ تین کا مزہ بہت اچھا اور وہ معدے کے لیے مسہل وملین ہے اور زیتون کی لکڑی کے اندر تیل ہے گویا نہ تو دنیا کے اندر کوئی اور پھل ملین ہے اور نہ کوئی اور شے اپنے اندر روغن رکھتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ متاخرین میں یہ فضیلت ومزیت اللہ تعالیٰ نے صرف حضرت شیخ الاسلام ابن یمیہ اور ان کے ارشد تلامذہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے لیے مخصوص کردی تھی کہ حقائق ومعارف کتاب وسنت کے جمال حقیقی کو بے نقاب کریں اور جو پردے متاخرین نے یکے بعد دیگرے ڈال دیے ہیں اسکو اللہ کی بخشی ہوئی قوت مجددہ ومصلحہ سے چاک چاک کردیں چنانچہ تاریخ سلام کے ان دوعظیم الشان انسانوں نے اقسام القرآن کی اس حقیقت کو جابجا واضح کیا ہے اور موجودہ زمانے میں سب سے بڑا خوش نصیب انسان وہ ہے جس کے دل کو اللہ تعالیٰ ان مصلحین حقیقی کی تصنیفات کے فہم ودرس کے لیے کھول دے کہ ان کانور علم، مشکوۃ نبوت سے براہ راست ماخوذ تھا۔ موضوع سورۃ والتین۔ دنیا میں انسان اپنے اندر دیکھتا ہے کہ تو اس کو جذبات موثرات کا ایک عجیب مخلوط اور متضاد ہجوم نظر آتا ہے باہر دیکھتا ہے تو اس کی مایوسیاں اور ناکامیوں اور اس کی کامیابیوں اور امیدوں سے زیادہ نظر آتی ہیں۔ جذبات کے اعتبار سے وہ ایک ہی وجود ہے جو کبھی فرشتوں کی طرح محبت وہمدردی اور شرافت وعفت کا پیکر ہے اور کبھی قتل وہلاکت اور خونریزی وسفاکی میں سانپوں کے زہر سے بدتر اور درندوں کے پنجوں سے اسفل ہے وہی انسان جوجانوروں کو تکلیف میں دیکھ کر ہمدردی کے جذبات سے معمور ہوجاتا ہے بسا اوقات اپنے بھائیوں کے بے دریغ خون بہانے لگتا ہے تاکہ ان کے خون سے اپنی خود غرضی کی پیاس بجھائے۔ خارجی اعمال کے لحاظ سے اس کی بوقلمونی اور زیادہ عجیب ہے وہ ایک ہی وجود ہے جوکبھی تاج وتخت حکومت پر جلوہ آرا ہوتا ہے اور کبھی کتوں کی طرح غلامی کی خاک پر لوٹتا ہے کبھی اس کی ہمت سربہ فلک عمارتوں کے بنانے، پہاڑوں کو کاتنے، سمندروں کو مسخر کرنے سے نہیں تھکتی اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پتوں کی ایک دیوار کھڑی کرنا بھی اسکے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ کبھی بجلی سے ڈرتا ہے طوفان سے لرزتا ہے آسمان کو دہشت وخوف سے دیکھتا ہے اور پھر اس قدران کے مظاہرہ وشئون سے مرعوب ہوجاتا ہے کہ ان کی پرستش وبندگی شروع کردیتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ان کے آگے صرف جھکنے اور عاجزی ہی کے لیے ہوں ان کے تنزل وتسفل کے لے یہ مثال بھی کافی نہیں ایک وقت آتا ہے جبکہ دنیا میں ان پتھروں کے ٹکڑوں کے لیے جو راستوں میں ٹھوکریں کھاتے ہیں عزت ہوتی ہے پر انسان کے لیے کوئی عزت باقی نہیں رہتی وہ انسان ہو کر پتھروں کے آگے ماتھا ٹیکتا، ان کو اپنے آقا اور خداوند کی طرح پوجتا اور اپنی حیات وممات کو ان کی رضا وغضب میں منحصر یقین کرتا ہے کتازیادہ سے زیادہ انسان کے آگے جھکتا ہے کہ وہ کتے سے اشرف واعلی ہے گھوڑا اور ہاتھی انسان کے چاکر بن جاتے ہیں کہ انسان کی عظمت کا مقابلہ نہیں کرسکتے مگر انسان کتے سے بھی بدتر اور گھوڑے اور ہاتھی سے بھی اسفل ہے کہ اپنے سے اعلی کے آگے نہیں بلکہ اپنے ہی جیسے کے سامنے یا اپنے سے بھی بدتر کے آگے جھکتا اور اوندھا ہوتا ہے۔ تم کسی کتے کو نہیں دیکھو گے کہ وہ کسی کتے کے آگے عاجزی کرے لیکن یہ انسان ہی ہے کہ اپنے جیسے ایک دوسرے انسان کو چاندی وسونے کے تخت پر بٹھاتا ہے اور پھر کتوں کی طرح اس کے آگے زمین پر لوٹتا اور گردمذلت چاٹتا ہے۔ اعمال انسانی کے اس اختلاف وتضاد اور انفعالات وتاثرات عملیہ کی اس بوقلمونی ورنگارنگی میں انسانی فطرت اصلیہ کی حقیقت گم ہوجاتی ہے کچھ نہیں کھلتا کہ یہ عجیب جانور جو سب سے بڑا بھی ہے اور سب سے چھوٹا بھی اس کی اصلی متاع فطرت کیا تھی جو اسے دی گئی تھی وہ فی نفسہ شیطان ہے یافرشتہ؟ بھیڑیا ہے یا بکری؟ تاریکی ہے یاروشنی؟ نیک ہے یابد؟ اچھا ہے یابرا؟۔ مسئلہ خیر وشر فطرت انسانی : یہ سوال انسان کی اصلی فطرت وجبلت کی نیکی اور بدی کا ہے یعنی کیا بالطبع وہ نیک بنایا گیا ہے یابد؟ یا دونوں؟ اس کے داخلی جذبات وداعیات کی کشائش اور خارجی اعمال ونتائج کامیدان تو بظاہر نوروظلمت، ملکوتیت وبہیمیت، حسن وبدروئی، علو وتسفل، عظمت وذلت، نیکی وبدی دونوں کا مجموعہ نظر آتا ہے اور کچھ پتا نہیں چلتا کہ دراصل وہ کیا ہے؟۔ د نیا میں ابتدا سے لے کراب تک اس سوال کے متعلق تین مختلف مذاہب نظر آتے ہیں :۔ ١۔ انسان کی اصلی جبلت وفطرت وبدی ہے لیکن باہر کی تربیت اس کو عارضی طور پر خوشنما کردیتی ہے وخصائص فطرت کے اعتبار سے ایک خالص حیوان ہے لیکن تربیت پذیریری کے اعتبار سے ان پر فوقیت رکھتا ہے درخت کی جڑ اور شاخیں متناسب نہیں ہوتیں لیکن ان کا کاٹ کر اور چھیل کرہم درست کرلیتے ہیں فطرت کی تمام خلقت کا یہی حال ہے اصل فطرت میں قوم واعتدال نہیں ہوتا چھیل چھال کر اسے سڈول بنایاجاسکتا ہے یہی حال انسان کا ہے باہر کی صناعی تربیت سے ایک نیارنگ اپنے اوپر چڑھالیتا ہے لیکن جب اوپر کارنگ کمزور ہوجاتا ہے تو اصلی تہ نظرآتی ہے بڑے سے بڑے مہذب انسان بھی غسہ وانتقام میں درندہ بن جاتا ہے اس لیے کہ اس کا مصنوعی رنگ اتر گیا اور اس کی اصلی فطرت شر ابھر آئی۔ یہ مذہب، مذہب شریا، مذہب یاس ہے وہ دنیا کی ہر چیز کو شر اور یاس کی نظر سے دیکھتا ہے یونان میں، دیوجانسی کلبی،(ڈائیگونس) اسی فلسفہ اخلاق کا مشہور پیشوا گزرا ہے۔ ٢۔ دوسرامذہب ان لوگوں کا ہے جو انسان کی فطرت کو بالکل ایک سادہ حالت میں دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں نہ تونیکی ہے اور نہ بدی ہے نہ وہ کانٹوں کی چبھن ہے اور نہ پھولوں کی مہک۔ وہ محض ایک منفعل اثر پذیر اور نقش انگیز وجود ہے جو اپنے ساتھ کچھ نہیں لاتا مگر دنیا میں آخر جو کچھ پاتا ہے لے لیتا ہے وہ ایک دامن ہے جس کے اندرسوائے گنجائش وعمق کے اور کچھ نہیں اسمیں ہر طرح کابوجھ بھرلینے کی صلاحیت ہے مگر ابھی کوئی چیز اس میں بھری نہیں گئی ہے اب اگر اس کو پتھر ملا ہے تو اسی کو بھرلے گا پھول ملے ہیں تو ان کا اٹھالے گایہ تشبیہ واضح تریہ کہ انسان کی فطرت ایک سفید کاغذ ہے جس پر کوئی نقش نہیں ہوتا نہ تو کانٹے کی تصویر ہوتی ہے اور نہ پھول کی اب جو کچھ اس پر بنایاجائے گا بن جائے گا۔ حکمائے یونان اس مذہب کا ایک دور رہ چکا ہے معتزلہ نے بھی زیادہ تراسی کی پیروی کی تھی آج یورپ میں بھی حکمائے اخلاق کا ایک بڑاگروہ یہی کہتا ہے۔ ٣۔ تیسرامذہب، جامع خیر وشر، ہے یعنی وہ کہتا ہے کہ آدمی زادہ طرفہ معجون ست۔ نیکی اور بدی دونوں اس کی فطرت میں موجود ہیں بالقوۃ وہ شیطان اور فرشتہ دونوں ہے قوت ملکوتی اور بہمی دونوں رکھتا ہے دنیا میں آخر جس قسم کے خارجی موثرات ملتے ہیں انہی کے مطابق اس کی کوئی قوت نشوونما پاتی اور بروز کرتی ہے اگر وہ اثرات اس کے لیے جمع ہوجائیں جن کو تم نیکی کے لقب سے پکارتے ہو تو اس کی قوت ملکوتی ابھرگی اور چمکے گی لیکن اگر برخلاف اس کے بدی کا گردوغبار چھاجائے گا تونیکی کی چمک ماند پڑجائے گی اور بدی کی تاریکی پھیل جائے گی اس مذہب کے پیروں کے نزدیک انسان کے اندر بالقوہ ملکوتیت وبہیمیت دونوں ہیں مگر ان کا فعل تربیت وتاثرات سے نمود پکڑتا ہے گویا نیکی اور بدی دوبیج ہیں جن کو انسان اپنے ساتھ دنیا میں لاتا ہے پھر جس بیچ کو تربیت تاثر کا پانی مل جاتا ہے وہی پھولتا پھلتا اور تنا وردرخت بنتا ہے۔ دنیائے قدیم وجدید دونوں میں اس مذہب نے بہت ترقی مقبولیت حاصل کی ہے ارسطو کا بھی یہی مذہب تھا اور تقریبا تمام حکمائے اسلام نے اسی کو قبول کیا ہے ابن مسکویہ جس نے یونانی اخلاق کو سب سے زیاہ مشرح ومنظم لکھا ہے اسی مذہب کا داعی ہے دور جدید کے حکمائے اخلاق میں بھی یہی مذہب زیادہ مقبول ہے امام فخرالدین رازی وغیرہ تمام مفسرین قرآن میں اسی مذہب کو پیش نظر رکھتے ہیں اور وھدیناہ النجدین، اور فالھمھافجورھا وتقوھا۔ وغیرہ ایات کریمہ کی تفسیر اسی بنا پر کرتے ہیں کہا جاسکتا ہے کہ مسئلہ خیر وشر فطرت کے متعلق دنیا کا غالب اور عام اعتقاد یہی ہے اور چونکہ انسانی اعمال ونتائج میں خیر وشر دونوں نظرآتے ہیں اس لیے ہر شخص سمجھتا ہے کہ یہی مذہب زیادہ صحیح واحق ہے۔ القرآن الحکیم : قرآن حکیم نے دین الٰہی کا دوسرانام العلم رکھا ہے۔ (والئن التبعت اھواء ھم بعدالذی جاءک من العلم) اور اگر تو نے انکی خوہشوں کی پیروی کی بعد اس کے کہ تیرے پاس علم یعنی دین الٰہی آچکا ہے۔ ہر جگہ گمراہ قوموں کی بغی وضلالت پر ملامت کرتے ہوئے کہا،(فما اختفلوا الا من بعد ماجاء ھم العلم بغیا بینھم) جاثیہ ع ٢)۔ عاملین قرآن کی نسبت کہا (فی صدورالذین اوتوالعلم) وہ ان کے سینوں میں ہے جن کو علم دیا گیا ہے۔ نیز کہا کہ یہ برہان ہے بصائر ہے نور ہے بصیرت ہے اور ہر جگہ کفر کو کہا کہ وہ ظن ہے، شک ہے، تخمین ہے، اور اٹکل کی باتیں اور قیاسات ہیں (مالھم بذالک من علم ان ھم الایظنون)۔ پھر دین الٰہی کو ماننے اور اطاعت کرنے کو ایمان کہا اور ایمان والوں کو مومن ایمان امن سے ہے اور امن کے معنی طمادیہ النفس۔ اور زوال خوف وشک کے ہیں ان تمام تصریحات سے واضح ہوا کہ دنیا میں علم ویقین صرف ایک ہی ہے اور وہ وحی الٰہی ہے اور اس کے سواجس قدر ادعائے علم کے اعلانات ہیں ظن اور شک سے آگے نہیں بڑھ سکتے نیزیہ کہ ایمان کے معنی یقین حاصل کرنے کے ہیں اور مومن وہ ہے جس کے پاس شک کی جگہ یقین ہو یہی وجہ ہے کہ مومن اور غیر مومن کو، الذین یعلمون، اور والذین لایعلمون، اور الاعمی، اور البصیر، سے تشبیہ دی یعنی، صاحبان علم، اور بینا۔۔ اور ارباب جہل اور اندھے۔ اس بنا پر علم اضافی اور محدود تو دنیا کے پاس ہے مگر علی الاطلاق، العلم، قرآن کے سوا اور کوئی نہیں اور قرآن جس کے پاس ہے وہی دنیا میں سب سے بڑا عالم اور سب سے بڑا جاننے والا ہے۔ پس شک وظن کے تمام اختلافات کواسی، العلم، اور البصائر، کے آگے عرض کرنا چاہیے کہ وہی ایک حکم حقیقی ہے۔ اس عاجز نے جہاں تک غور کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ خیروشر فطرت کے متعلق قرآن حکیم کا فیصلہ ان تینوں مذہبوں سے الگ اور تمام دنیا میں وہ پہلی آواز ہے جو انسانیت کے شرف فطری وخیریت کو ان تمام ظنون واوہام کی پیدا کردہ ذلتوں سے نجات بخشی ہے۔ ان تینوں مذہبوں میں پہلا مذہب فطرت انسانی کو زمین کو گھاس اور مٹی کے تودوں سے زیادہ حقیر قرار دیتا ہے گھاس حیوانات کی غذا ہے اور مٹی سے دیوار بنائی جاسکتی ہے مگر یہ مذہب کہتا ہے کہ انسانی فطرت میں مضرت کے سوا کوئی نفع نہیں یہ مغرور انسان کا اپنی نسبت پہلا مایوس فیصلہ تھا۔ اس کے بعد دوسرامذہب سامنے آتا ہے اور اس کو ایک سادہ صفحہ قرار دیتا ہے جس میں نہ تونیکی کا نقش ہے اور نہ بدی کا، بلاشبہ یہ مذہب انسان کے لیے پہلے مذہب جیسا بے رحم نہیں تاہم یہ بھی اس کی فطرت کو کوئی شرف نہیں بخشتا اور ایک منفعل اور ہر طرح کے اثر کو قبول کرنے والا قرار دے کر چھوڑ دیتا ہے۔ تیسرامذہب سب سے زیادہ مقبول ہے اور سب سے زیادہ عام اور اس بارے میں انسانی علم کی سب سے بری جست ہے لیکن وہ بھی پھولوں کے ساتھ کانٹوں کو برقرار رکھتا ہے انسان کو فرشتگی اور شیطنت کا مساوی حصہ بخشتا ہے اس کی غایت تحقیق یہ ہے کہ بالفطرت اس میں نیکی بھی ہے اور بدی بھی پس وہ جس طرح اچھا ہے برابھی ہے اگر بدی کاپلہ نہ جھکا تونیکی کے پلے کو بھی زیادہ وزن نصیب نہیں نتیجہ کے اعتبار سے اس کی فطرت یہاں بھ شرافت واحترام سے محروم ونامراد ہے۔ وذالک مبلغھم من العلم۔ ان تینوں مذہبوں نے فطرت انسانیہ کی حقیقت کو کھودیا اور وہ اپنا سراغ نہ پاسکے۔ یہ مذاہب حکمائے اخلاق اور عام افکار وآرائے انسانی کے ہیں لیکن آج جس قدر مذاہب دنیا میں موجود ہیں ان کا فیصلہ بھی یہی ہے اکثر حالتوں میں تو وہ پہلے مذہب کی دعوت دیتے ہیں بعض حالتوں میں اگر ان کے شارحین تاویلات رکیکہ سے کسی بلند درجہ کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بھی آخری مذہب سے آگے ان کا قدم نہیں بڑھتا۔ لیکن قرآن مجید یعنی، العلم، دنیا میں اس لیے نہیں آیا کہ فطرت کے محجوب جمال کو اور زیادہ مستور کردے بلکہ اس کی دعوت کی اولین حقیقت یہ تھی کہ انسانی ضلالت وظنون نے فطرت وحقیقت پر جو پردے ڈال دیے ہیں انکواس طرح چاک چاک کردے کہ انسان اپنے ہی آئینہ کے اندر اپنی صورت دیکھ لے پس وہ اولین آواز ہے جس نے سب سے پہلے اس گمشدہ حقیقت کاسراغ بتلایا اور دعوی کیا کہ انسان کی فطرت نہ تو محضصفحہ سادہ ہے نہ صرف بدی اور شرکی ناپاکی ہے اور نہ ملکوتیت اور بہیمیت ہی کا مرکب ہے بلکہ وہ ایک خالص وکامل نیکی ہے جس میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں اور کوئی قوت اس کے اندر ایسی نہیں رکھی گئی ہے جس میں بدی اور برائی کا اصلا بیج ہو، وہ صرف نیکی ہی لے کر دنیا میں آتا ہے نیکی ہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور صرف نیکی ہی کے لیے اس کو سب کچھ دیا گیا ہے لیکن وہ دنیا میں آکر فطری نیکی کی حفاظت نہیں کرت اس کی نشوونما کی راہیں بند ہوجاتی ہیں اور اس کے طبیعی ابھار کو اسطرح دبادیا جاتا ہے جس طرح کسی پودے پرایک پتھر رکھ کر اس کی قوت پامال کردی جائے پس انسان کے اندر جو کچھ ہے وہ خالص نیکی ہے اور جس قدر بھی برائی ہے وہ اس کا کسب خارجی ہے نیکی اس کا فطری عمل ہے اور بدی غیرفطری، خارجی اور یکسرصناعی، اگر وہ نیک ہے تو یہ فطرت ہے اگر بد ہے تو یہ تصنع ہے اس کو بیج ایک ہی دیا گیا ہے جو صرف نیکی کا ہے جب وہ ابھرتا ہے تو تم کہتے ہو کہ یہ نیکی ہے جب پامال کردیا جاتا ہے تو تم کہتے ہو کہ بدی ہے حالانکہ تم نہیں جانتے کہ پھل اور پتوں کانہ لگنا کوئی الگ وجود نہیں بلکہ درخت کی نشوونما کے عدم کا نام ہے۔ خدا نے اس کو روشنی دی ہے اور اس کے اندر آئینہ رکھ دیا ہے مگر وہ دنیا میں آتا ہے اور باہر کے پردوں سے اندر کی روشنی کو ڈھانپ دیتا ہے باہر کے گردوغبار سے اندر کے آئینہ کو مکدر کردیتا ہے اب تم کہتے ہو کہ وہ تاریک ہے مگر نہیں سوچتے کہ اس کی اصل روشنی تھی، تاریکی نہ تھی اس نے روشنی کو چمکنے نہ دیا تم کہتے ہو کہ اس کے دامن میں زنگ اور غبار تھا حالانکہ زنگ اور غبار نہ تھا بلکہ صافی وشفاف آئینہ تھا باہر سے گرد اڑ رہی تھی اس کو چاہیے تھا کہ دامن سے ڈھانپ لیتا مگر اس نے گردوغبار کو پسند کیا اور آئینہ کی چمک کی قدر نہ کی۔ اب وہ غبار آلودہے، کچھ دنوں کے بعد بالکل تاریک ہو کر لوہے کا ایک سیاہ ٹکڑابن جائے گا مگر اس لیے نہیں کہ اس کے پاس لوہا تھا بلکہ صرف اس لیے کہ آئینہ کو صاف نہ رہنے دیا۔ یہی انسان کی وہ فطرت اصلی ہے جس کو قرآن حکیم فطرت صالحہ قرار دیتا ہے یعنی وہ فطرت جو بالکل اپنی اصلی نیکی کی حالت میں ہے اور باہر کی کسی بدی سے اس کو آلود نہیں کیا گیا ہے یہی فطرت صالحہ دین الٰہی ہے یہی دین قیم ہے یہی دین حقیقی ہے یہی صراط مستقیم ہے یہی فطرت اللہ ہے یہی صبغت اللہ ہے اور قرآن مجید کی اصطلاح میں سب سے زیادہ جامع وحاوی نام اسی کا، اسلام ہے۔ اور اسی لیے قرآن کہتا ہے کہ انسان کی اصلی فطرت اسلام ہے اور کفر ایک صناعی اور غیر فطری عمل ہے اگر ایک انسان مسلم ہے توس کو یوں کہو کہ وہ اپنی اصلی فطرت صالحہ پر قائم ہے اس کی فطری روشنی نور رے رہی ہے اس کی فطرت خیر کی قندیل کو باہر کا کوئی طوفان بجھانہ سکا اور وہ ویسا ہی ہے جیسا فطرت نے اسے بنایا تھا لیکن اگر ایک انسان مسلم نہیں ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ فطرت حقیقی کا چراغ بجھ گیا اس کے اندر کا آئینہ زنگ آلود ہوگیا گردوغبار کی تو برتو تہوں نے اس کوسیاہ کردیا اور وہ فطرت کی صورت حقیقی کی جگہ ایک مسخ شدہ غیر فطری ومصنوعی جانور بن گیا معصیت سے یہ فطری آئینہ زنگ آلود ہوتا ہے اور کفر زنگ آلودگی کی وہ آخری حالت ہے جبکہ آئنہ بالکل سیاہ ہوگیا اور ایک دھندلی سی چمک بھی اسمیں باقی نہ رہی۔ (ختم اللہ علی قلوبھم وعلی سمعھم، وعلی ابصارھم غشاوہ) اور (سواء علیھمء انذرتھم ام لم تنذرھم لایومنون) وغیرہ تصریحات قرآنیہ میں اسی ضلالت کی طرف اشارہ ہے اور لھم قلوب لایفقھون بھا (وجعلنا علی قلوبھم اکنۃ ان یفقھوہ) اولئک کالانعام بل ھم اضل) میں اسی فطرت صالحہ کی پامالی اور ایک غیر فطری حالت مسخ وانقلابات کو واضح کیا گیا ہے یہ وقت تفصیل کا نہیں اشارات پر اکتفا کیجئے۔ اور ٹھیک ٹھیک یہی معنی ہیں مسلم کی اس مشہور حدیث کے جس کی شرح میں عجیب عجیب حیرانیاں لوگوں کو ہورہی ہیں کہ ” ما من مولود الا یولد علی الفطرۃ وابواہ یھودیۃ وینصرانیہ۔ دنیا میں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا مگر اپنی اصلی فطرت پر۔ پھر (یہودی) والدین اسے یہودی بنالیتے ہیں اور (نصرانی) والدین نصرانی۔ ایک دوسری روایت میں ہے۔ ترجمہ۔ جس قدر بچے پیدا ہوتے ہیں سب ملت اسلام پر پیدا ہوتے ہیں۔ انسان کی فطرت صالحہ ہی کا نام اسلام ہے اور ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے اپنی اصلی اور بے میل فطرت پر ہی پیدا ہوتا ہے پس انسان کاہر بچہ اسلام پرپیدا کیا گیا اب وہ دنیا میں آتا ہے اور باہر کی ہوائیں اس کے اندر روشنی کو تہ وبالا کرنے لگتی ہیں اگر یہودیت کے اثرات اس نے پائے تویہودیت کا جھونکا اس کے چراغ فطرت گل کردے گا اگر مجوسیت کا طوفان اٹھاتواسی میں اس کی کشتی فطرت ڈگمگانے لگے گی۔ پر یہ جو کچھ ہوگا باہر کا اثر وکسب ہے اس کے اندر کی فطرت اسلام تھی یعنی صرف نیکی وخیر تھی۔ تمہید بڑھتی جاتی ہے اور یہ مبحث خود ایک مستقل مبحث ہے اگر اس بارے میں قرآن حکیم کی مزید تصریحات جمع کی جائیں تو صحیفوں کے صفحے اسی میں صرف ہوجائیں یہی معنی ہیں ذریت انسانی کے، بلی، کہنے کے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھا، الست بربکم، کیا میں ہی تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟ پس انسان کی فطرت اصلی تصدیق ہے جو اس کے اندر ودیعت کردی گئی اور اب اگر بلی، کی جگہ یعنی تصدیق ربوبیت کی جگہ وہ انکار کرتا ہے تو یہ اس کی فطرت کی صدا نہیں ہے ایک غیر فطری صناعی ہے۔ اور اسی فطرت صالحہ کا نام قرآن حکیم نے، قلب سلیم، رکھا ہے یعنی وہ دل جو بالکل صحیح وسالم ہو اور اپنی اصلی تندرستی واعتدال پر قائم ہو کوئی نیاعارضہ اور بیماری اسے نہیں لگ گئی ہے حضرت ابراہیم کی نسبت فرمایا کہ، اذ جاء ربہ بقلب سلیم، جبکہ وہ اپنے رب کے حضور قلب سلیم یعنی فطرت صالحہ غیرآلودہ کے ساتھ حاضر ہوئے تم کو معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم کی یہ فطرت صالحہ وہ تھی جس کو باہر کا کوئی بڑے سے بڑا جلوہ بھی مرعوب نہ کرسکا اور اس کے اندر کی روشنی پکاراٹھی کہ : (انی وجھت وجھی للذی فطرالسموات والارض حنیفا وماانا من المشرکین)۔ اور یہی وجہ ہے کہ خدا کی شریعت کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ اس فطرت صالحہ پر انسان نے صناعی وخارجی ضلالت کاجوزنگ چرھادیا ہے اسے دور کردے اور اس کی اصلی روشنی پھر چمک اٹھے یہی وجہ ہے کہ ہدایت الٰہی کو قرآن مجید نے، ذکر، کے لفظ سے تعبیر کیا اور ضلالت وکفر کو، نسیان، کہا۔ ذکر، کے معنی حفظ، اور یاد، کے ہیں نسیان، بھولنے کو کہتے ہیں چونکہ فطرت اصلی کو انسان بھلا دیتا ہے اور اسی کا نام ضلالات ہے پس، ضلالت، نسیان ہوئی اور، ہدایت، فطرت اصلی کے بھلائے ہوئے سبق کو پھر تازہ کردینا ہے اسی لیے اس کو ذکر کہا۔ نسیان کی انتہاء غفلت ہے غفلت کو قرآن مجید نے منتہائے ضلالت قرار دیا ہے ارشاد باری تعالیٰ : (لھم قلوب لایفقہون بھاولھم اذان لایسمعون بھا ولھم اعین لایبصرون بھا اولئک کالانعام بل ھم اضل والئک ھم الغافلون)۔ ترجمہ۔ ان کے دل ہیں جن سے سمجھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے سنتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے دیکھتے نہیں (چونکہ ان قوی سے کام نہی لیتے اس لیے) یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ جانوروں سے بھی زیادہ گمراہ۔ یہ لوگ وہ ہیں جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ایک اور آیت بھی نسیان کے متعلق اسی سرسری نظر میں سن لو : (الذین نسواللہ فانسھم انفسھم) وہ لوگ کہ انہوں نے اللہ کے رشتے کو بھلایا اور نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے نفسوں کوہی بھول گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے نفسوں کو یعنی اپنی فطرت صالحہ کو بھول گئے کیونکہ فطرت صالحہ تو وہ تھی جس نے کہا، بلی، یعنی خدا کی ربوبیت اور اس کے رشتہ کا اقرار کیا تھا اب اگر وہ اس ہستی کے رشتے کو بھلا رہے ہیں جن کے آگے فطرت اصلی، بلی، کہہ چکی ہے تو اس رشتے کو نہیں بھلا رہے ہیں بلکہ انی فطرت ہی کو بھلا رہے ہیں۔ عود الی المقصود : بہرحال قرآن حکیم انسان کی فطرت کو خالص نیکی قرار دیتا ہے اور بدی سے اس کی فطرت صالحہ کو پاک بتلاتا ہے وہ کہتا ہے کہ اس کی فطرت صرف تندرستی ہے۔ سورۃ والتین کاموضوع اصلی یہی حقیقت ہے یعنی اس میں انسان کی فطرت صالحہ کی اسی گمشدگی اصلیت کو واضح کیا گیا ہے اس موضوع کے لیے قرآن مجید نے مفصل درس بھی دیے ہیں لیکن یہ من جملہ مجمل مگر جامع وحاوی دروس کے ہے۔ گزشتہ صحبت میں یہ مسئلہ ایک حد تک واضح ہوچکا کہ سورۃ والتین کاموضوع اصلی فطرت صادقہ انسانی کے شرف وخیریت کا اعلان ہے اور یہ بتلانا ہے کہ انسان نے اپنی حقیقت وفطرت کے معلق جس قدر مایوس فیصلے کیے ہیں وہ سب غلط ہیں نہ تو اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت کو شر اور بدی کے لیے بنایا ہے اور نہ اس کی حقیقت اس قدر حقیروذلیل ہے کہ وہ کائنات ہستی کے ہر وجود ظہور کے آگے جھک جائے اور ان کے کرشموں کے سامنے اپنے تئیں حقیر ولاچار سمجھ لے۔ اگر وہ اپنی فطرت صادقہ کو عمل غیرصالح پامال نہ کرے تو وہ دنیا میں بڑی سے بڑی عظمت حاصل کرسکتا ہے۔ اس موقع پر اس قدر اور سمجھ لینا چاہیے کہ انسان کا اپنی فطرت صادقہ سے بے خبر رہنا دراصل اس کی تمام ناکامیوں کی جڑ ہے۔ کائنات عالم کے دائرہ حقیقت کے لیے اس کا وجود بمنزلہ ایک نقطہ ومرکز کے ہے۔ پس جب تک انسان اپنے نفس کی حقیقت کو نہیں پائے گا وہ تمام عالم کی حقیقت کو نہیں پاسکتا۔ اور حقیقت کو نہیں پاسکتا تو اپنی تخلیق کی غرض ومقصد کو بھی پورانہیں کرسکتا۔ سب سے پہلی چیز یہ تھی کہ وہ سمجھے کہ دنیا میں جو کچھ ہے اس کے لیے ہے وہ کسی کے لیے نہیں ہے لیکن اپنے شرف وعظمت اور خیریت وحرمت کے احتجاب نے اس حقیقت تک پہنچنے نہ دیا، وہ کائنات عالم کے ادنی ادنی جلووں سے مرعوب وہیبت زدہ ہوگیا اور سمجھنے لگا کہ جب بجلی کی چمک مجھ سے بڑی ہے سمندر کا طوفان مجھ سے زیادہ قہار ہے شیر کاپنجہ مجھ سے زیادہ قوی ہے ہاتھی کا وجود مجھ سے زیادہ عظیم ہے حتی کہ مچھر کی ڈنک اور رینگنے والے زہریلے کیڑوں کا زہر بھی میرے لیے سخت خوفناک ہے تو پھر میری ہستی کیا ہے اور مجھ میں کون سی بڑائی ہوسکتی ؟ اسی خیال کا نتیجہ ہے کہ ایک طرف تو اس نے اینٹ اور پتھر تک کی پوجا شروع کردی اور دوسری طرف اپنے وجود کو اس قدر ذلیل سمجھ لیا کہ جھکنے، گرنے، لوٹنے اور بندگی کرنے کے لیے اس کے اندر ایک قوی اور دائمی استعداد پیدا ہوگئی۔ اس صناعی وخارجی ضلالت سے ہر قوت نے غیر فطری فائدہ اٹھایا اور جب چاہا ایک ادنی کرشمہ قوت دکھلا کر اس کے جسم ودماغ کو اپنے آگے جھکادیا۔ تحقیر وتذلیل نفس انسانی کی یہ انتہائی حالت اسی کا نتیجہ تھی کہ اس نے اپنی فطرت کی خیریت کو نہ سمجھا اور ہمیشہ اس کے خلاف فیصلہ کیا۔ اس نے چارپایوں کو دیکھا اور سانپوں اور بھیڑیوں کی درندگی وخوفناکی پرنظر ڈالی، پھر اسی طرح اپنی نسبت بھی فیصلہ کرلیا کہ اسمیں بدی اور بہیمیت کے سوا کچھ نہیں ہے اور اگر نیکی کا جز ہے بھی تو وہ بدی کے ساتھ ممزوج ومخلوط یعنی ملا جلاہے۔ یہ تنزل انسانی کی اصلی علت اور انسانیت اعلی اور خلقت کبری کی گمشدگی تھی سورۃ والتین نے اس کاسراغ بتلایا ہے پس فی الحقیقت اس کاموجوع انسانیت اعلی کا اعلان ہے۔ انسان کے اندر جو کچھ ہے وہ اس کا نفس ہے باہر جو کچھ ہے وہ آفاق ہے قران حکیم نے جابجا اسے تنبیہ کی ہے کہ اپنے اندر بھی دیکھیے اور اپنے سے باہر کو بھی سمجھیے یعنی انفس وآفاق دونوں میں تفکر کرے۔ (سنریھم آیاتنا فی الافاق وفی انفسھم حتی یتبین لھم انہ الحق)۔ عنقریب وہ اللہ کی نشانیاں آفاق اور انفس میں یعنی اپنے سے باہر اور اپنے اندر دیکھیں گے یہ مشاہدہ حقیقت اصلی کو ان پرکھول دے گا اور وہ پالیں گے کہ بلاشبہ دین الٰہی کی دعوت حق ہے۔ دوسری جگہ زور دیا (وفی انفسھکم افلا تبصرون) تم اپنے اندر نہیں دیکھتے کہ کیا ہے؟۔ اگر تم دیکھو تو معلوم ہوجائے کہ شریعت الٰہی کوئی نئی چیز تم سے نہیں چاہتی، تمہاری فطرت اصلی ہی کا ظہور خالص چاہتی ہے اسی کا نام دین قیم ہے۔ استشہاد وطریق استشہاد : سورۃ والتین نے اسی حقیقت کو بیان کیا ہے اس پر شہادت پیش کی ہے بیان بمنزللہ دعوی کے ہے اور شہادت اس کی دلیل ہے دعوی تمہیں معلوم ہوچکا ہے ،(لقد خلقناالانسان فی احسن تقویم) ہم نے انسان کو بہترین حالت میں پیدا کیا ہے۔ اب دلیل کا حصہ باقی ہے لیکن قبل اس کے کہ دلائل پر نظر ڈالیں اس پر غور کرلینا چاہیے کہ اس غلطی کا صلی سبب کیا تھا جس کو سورۃ والتین دور کرنا چاہتی ہے؟۔ اس کا اصلی سبب اعمال سبب انسان کی رنگا برنگا اور بوقلمونی تھی انسان نے جب اپنے آپ کو دیکھنا چاہا تو اپنی فطرت کو نہ دیکھ سکا کہ وہ محجوب ومستور ہوگئی تھی اس نے اپنے اعمال وافعال کو دیکھا، اور ان کے اندر ایک عجیب متضاد اختلاف نظر آیا۔ اس نے دیکھا کہ نیکی اور بدی دونوں باہم دست وگریبان ہیں اگر ایک طرف اس کے اندر نیکی وشرافت کے رقیق ولطیف جذبات نظر آتے ہیں تو دوسری طرف درندگی وبہیمت کی خوفناکی بھی نظر آتی ہے اگر وہ فرشتوں کی طرح محبت واحسان کی آنکھیں رکھتا ہے تو بھیڑیوں اور بچھوؤں کی طرح اس کے پاس حرص وغرض کاپنجہ اور خون ریزی وسفاکی زہریلی ڈنک بھی ہے اگر ایک طرف بادشاہوں کے زرنگارتخت اور حاکموں اور فرماں رواؤں کی عطمت وکبریائی نظر آتی ہے جو انسانی عطمت وجلال کی شہادتیں دے رہی ہیں توانہی کے سامنے غلاموں کی پابہ زنجیر صفیں بھی دست بستہ کھڑی ہیں جو انسان کو کتے اور بلی سے بھی زیادہ حقیرثابت کررہی ہیں کہ نہ توکتے نے اپنے جیسے کتے کے آگے سرجھکایا اور نہ بلی نے کبھی بلی کو سجدہ کیا۔ اس نے دیکھا کہ یہی انسان حاکم بھی ہے محکوم بھی، ساجد بھی ہے مسجود بھی، عالم بھی ہے جاہل بھی، عاقل بھی ہے ابلہ بھی، نیک بھی ہے بد بھی، شہنشاہی کا تخت، حکمرانی کا فرمان، فتح مندی کی تلوار، نیکی کی فرشتگی اور سچائی کی قدوسیت بھی وہی ہے اور غلامی کی خاک، محکومی کی ذلت، مقتول کی گردن، بدی کی شیطنت اور شرکی رذالت بھی اس کے سوا اور کوئی نہیں۔ یہی انسان ہے جو رات کو دروازوں پر پاسبانی کرتا ہے تاکہ اس کے ہم جنس گھر کے اندر امن سے سوئیں اور یہی انسان ہے کہ دوسری طرف سے آکر مکان میں نقب بھی لگاتا ہے تاکہ اپنے ہم جنسوں کو دکھ اور نقصان پہنچائے۔ اگر عبادت گاہوں کے اندر فرشتے نہیں آتے بلکہ انسان ہی ہوتے ہیں تو ڈاکوؤں کے جتھوں کے اندر بھی بھیڑیے جمع جمع نہیں ہوتے بلکہ آدم ہی کی اولاد ہوتی ہے۔ پس اعمال انسانی کی اس رنگا رنگی اور نور وظلمت کے اس اختلاط کو دیکھ کر وہ اس دھوکے میں پڑگیا کہ جس مخلوق کے اعمال کایہ حال ہے اس کی فطرت کا بھی یہی حال ہوگا اگر وہ اپنے اعمال کے اندر نیکی اور بدی اور عظمت وذلت دونوں رکھتا ہے تو اس کی فطرت کے اندر بھی نیکی وبدی اور فوز خسران دونوں ہوں گے اگر وہ اپنے اعمال اور نتائج اعمال کے اندر عظمت کا تخت اور ذلت کی بندگی دونوں جلوے دکھلاتا ہے تو اپنی فطرت کے اندر بھی طاقت وتسلط اور مقہوریت ومخذولیت دونوں رکھتا ہوگا۔ اس نے اعمال کو دیکھ کر فطرت کے لیے حکم لگانا چاہا اور اس نے افراد کی حالت کو دیکھ کرنوع کے لیے فیصلہ کردیا۔ اسی غلطی نے اس کے اندر یہ عقیدہ پیدا کردیا کہ ہم صرف بڑائی اور نیکی ہی کے لیے نہیں ہیں جیسا کہ بعض افراد نظر آتے ہیں بلکہ حقیر ہونے اور برے رہنے کے لیے بھی ہیں جس طرح کی اکثر افراد شہادت دیتے ہیں پس نیکی اور برائی دونوں کے لیے اس میں ایک مایوس قناعت پیدا ہوگئی ہے اور اس غیرصالح قناعت نے عزم اور ہمت کی پیاس کو باکل بجھادیا ہے ایک غلام ساری عمر غلامی اور بندگی میں خوش خوش گزار دیتا ہے اور کبھی اس کے اندر یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ میں بھی ویسا ہی انسان ہوں جیسا میرا آقا۔ پھر میں کیوں صرف بندگی کے لیے ہوں اور یہ کیوں آقائی کے لیے ؟ ایک محکوم قوم ویسی ہی خوشی اور سکھ کے ساتھ غلامی کی خاک پر لوٹتی ہے جس طرح ایک حاکم قوم عزت وعظمت کے تخت پر فرمانروائی کرتی ہے اور کبھی اس کے اندر یہ بے قرار نہیں اٹھتی کہ ہم بھی انسان ہیں ہمارے پاس بھی وہ سب کچھ ہے جوان حاکموں کے پاس ہے پھر ہم کیوں ذلت کے لیے ہیں اور یہ کیوں عظمت وفرماں روائی کے لیے؟ ہزاروں مزدور ہیں جوکارخانوں میں پھر کیوں کی طرح چکرکھاتے ہیں اور اس میں اتنے ہی خوش ہوتے ہیں جس قدر کارخانہ کا مالک۔ لیکن کبھی ان میں یہ تڑپ نہیں اٹھتی کہ اگر ہم بھی چاہیں تو کارخانہ کے مزدوری کی جگہ کارخانہ کے مالک بن سکتے ہیں اور یہ کیا ہے کہ ہماری ہی طرح کے انسان ہمارے مالک بن گئے؟ پھر اسی طرح دیکھو کہ ہزارہا انسان ہیں جوطرح طرح کی بدیوں اور خباثتوں کی گندگیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں مگر کبھی نہیں سوچتے کہ نیک وپاک انسان بھی آخرہماری ہی طرح انسان ہیں یہ کیوں ہے کہ وہ نیک ہیں مگر ہم نیکی کے لیے جنبش نہیں کرسکتے۔ ہر طرح کی مثالیں سامنے لاؤ اور ادنی واعلی حالتوں کے اختلاف کے جس قدر پہلو ہوسکتے ہیں ان سب پر نظر ڈالو تم پاؤ گے پستی وذلت اور بدی وشرارت کی ہرزندگی کے اندر ایک باطل قناعت وبے حسی، قوتوں کو پامال اور انسانیت اعلی کی تمام بڑی سے بری طاقتوں کو ضائع کررہی ہے۔ اب غور کرو کہ یہ حالت کیوں پیدا ہوئی ؟ اس کاسبب بجز اس کے اور کچھ نظر نہیں آئے گا کہ چونکہ انسان کے اعمال اور اس کے ثمرات متضاد اور مخلوط ہیں اور اکثر حالتوں میں پستی وناکامی کے نمونے زیادہ اور عظمت وکامرانی کے امثال کم ہیں اس لیے ہر نامرادی کی حالت میں انسان نے نامرادوں پرنظر ڈالی اور ہر برائی کی زندگی میں اس نے بروں کو دیکھا یعنی نامرادوں کو دیکھ کر اپنی نامردای پر، گرے ہوؤں کو دیکھ کر اپنی گری ہوئی حالت پر بروں کو دیکھ کر اپنی برائیوں پر وہ ایک طرح کا استدلال کرنے لگا اور ان سے شہادت لاکر اپنی حالت کو فطری اور لابدی سمجھنے لگا۔ اس غلط استشہاد نے اس کے اندر غلط وقناعت پیدا کی اس کے احساس کو فنا کردیا، اس کی طلب بجھ گئی اور وہ اپنی ذلت اور برائی کو اصلی اور شدنی چیز سمجھ کر ایک بناوتی خوش حالی میں مبتلا ہوگیا۔ غلام کے اندر آقا بننے کا کیوں جوش نہیں اٹھتا ؟ اس لیے کہ وہ اپنے جیسے غلاموں کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ صرف میرے ہی لیے نہیں ہے بلکہ سب کے لیے ہے اور اس لیے کہ ایک قدرتی چیز ہے جس پر صرف صبر ہی کرلینا چاہیے پس اس نے غلاموں پر نظر ڈالی اور غلاموں سے اپنی غلام پر شہادت لایا۔ اگر وہ غلاموں کی جگہ آقاؤں کو دیکھتا اور ان سے شہادت لیتا کہ آخر وہ بھی توانسان ہی ہیں اور اسی کرہ ارضی کی پیٹھ پربستے ہیں تو فورا اس کا احساس مردہ زندہ ہوجاتا اور اپنی فطرت کے شرف وخیریت کو پالیتا۔ ایک مزدور کیوں اسی میں خوش ہے کہ اٹھارہ گھنٹے کی محنت کے معاوضہ میں صرف ایک روتی پائے؟ اس لیے کہ وہ اپنی ادنی حالت کے لیے اپنے ہی جیسے ادنی حالت کے مزدوروں کو دیکھتا ہے اور ان سے استشہاد کرتا ہے اگر وہ ان سے استشہاد کرتا جن کی وہ مزدوری کرتا ہے تو اس کے اندر بھی ولولہ عزم وطلب پیدا ہوتا ایک بد انسان کس طرح برائی میں اپنے اندر تسکین وقناعت پیدا کرلیتا ہے اس لیے کہ وہ بروں ہی کودیھتا ہے اور انہی سے استشہاد کرتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ انسان اس لیے بھی بنایا گیا ہے کہ برائی کرے جیسا کہ سب کررہے ہیں اور جب سب کررہے ہیں تو وہاں ایک اور سہی۔ بیا کہ رونق ایں کارخانہ کم نہ شود ز زہد ہم چوتوئی یابہ فسق ہم چومنی۔ پس حاصل مبحث یہ ہے کہ انسان نے فطرت انسانی کی حقیقت وخیریت کے سمجھنے میں غلطی کی کیونکہ اس نے : ١۔ اعمال انسانی کو خیر وشر اور عظمت وذلت کا مجموعہ دیکھا۔ ٢۔ پس وہ سمجھا کہ انسان کی فطرت میں بھی خیر وشر اور ذلت وعظمت دونوں ہیں۔ ٣۔ اس نے اعمال کی راہ سے فطرت کو دیکھنا چاہا اور افراد کی حالت کو دیکھ کر نوع کو بھی اسی پر قیاس کرلیا۔ ٤۔ اسی اعتقاد کا اثر اس کے تمام اعمال حیات پر پڑا۔ جب اس نے انسانی فطرت کو خیر وشر کا مجموعہ سمجھ لیا تو اس کے اندر شر تسفل کی حالت میں ایک گمراہ قناعت پیدا ہوگئی وہ سمجھنے لگا کہ جب برائی فطرت ہی میں ہے تونیکی کانہ ہونا کوئی ایسی چیز نہیں جس پر افسوس کیا جائے اور جس کے لیے اچنبھا ہو۔ اس کی یہ حالت دراصل ایک استشہاد واستدلال ہے جو وہ تمام ادنی وسافل حالتوں کے افراد سے کرتا اور عموما اعمال شر وتسفل کو اپنے سامنے لاتا ہے۔ سورۃ والتین کے مطالب کی ترتیب :۔ سورۃ والتین کاموضوع اور مسئلہ خیر وشر فطرت کے متعلق انسان کی غلطی کے اصلی اسباب معلوم ہوگئے اب دیکھو کہ سورۃ والتین نے اس حقیقت کے اظہار وثبوت کے لیے مطالب کی ترتیب کیا اختیار کی ہے؟۔ ١۔ اس نے دعوی کیا کہ انسان کی فطرت ہم نے نیک وصالح پیدا کی ہے وہ صرف شرف وعظمت کے لیے ہے اس کو بہترین حالت عدل پر ہم نے پیدا کیا اور عدل ہی خیر کی حقیقت ہے (لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم)۔ ٢۔ ساتھ ہی اس نے غلطی کا ازالہ کیا جس کی وجہ سے انسان نے اپنی فطرت کے متعلق ایسی عظیم الشان غلطی کی اس کی بڑی غلطی یہ تھی کہ وہ انسان کی فطرت کے معلوم کرنے کے لیے انسان کے اعمال کو دیکھتا ہے اور برے انسانوں کو دیکھ کر فطرت کی برائی پر استشہاد کرتا ہے پس سورۃ واتین نے انسانی اعمال کی عظمت وجبروت کے لیے انسان کی عظمت وشرف سے استشہاد کیا اور یہ کہا کہ تم گرے ہوؤں کو دیکھ کر اپنی فطرت کو کیوں گرا ہوا سمجھتے ہو؟ ان کو نہیں دیکھتے جوگرنے کی جگہ بلند ہوئے؟ یہ لوگ جوفطرت صادقہ کو قائم رکھ کربلند ہوئے وہی لوگ ہیں جن کی طرف (والتین والزیتون، وطور سنین، وھذالبلدالامین) کے تین جملوں میں اشارہ کیا گیا ہے اور یہی وہ انعام یافتہ الٰہی گروہ ہیں جن کی راہ صراط مستقیم ہے اور جن کی راہ کی طلب سورۃ فاتحہ میں سکھلائی گئی ہے (صراط الذین انعمت علیھم) ان کی راہ جن پر خدا نے انعام کیا یہی حزب اللہ ہیں یہی اولیاء اللہ ہیں یہی خیرالبریہ ہیں یہی البصیر ہیں اور یہی اصحاب الجنہ ہیں۔ ٣۔ رہا اعمال انسانی کی بوقلمونی اور خیر وشر کا سوال تو یہ اس لیے نہیں کہ انسان کی فطرت برائی ہے اس کی فطرت تو عدلوخیرخواہی ہے البتہ وہ جب اس کو ضائع کردیتا ہے اور اعمال سافلہ میں مبتلا ہوجاتا ہے تو جس طرح اس کی خلقت سب سے اعلی تھی اسی طرح اس کا اکتساب عمل اس کو سب سے زیادہ ادنی بھی بنا دیتا ہے حتی کہ اپنی حقیقت انسانی کو مسخ کرکے بسا اوقات چارپایون اور درندوں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے تم یہ حالت مسخ دیکھ کر کہتے ہو کہ یہ فطرت ہے مگر نہیں سمجھتے کہ فطرت نہیں خارج وکسب وعمل ہے پس اعمال انسانی میں خیروشر اور عظمت وتسفل جو تمہیں نظر آتا ہے اس میں تفریق کرو، نیکی وعظمت اس کی خلقت ہے اور شر تسفل اس کی ضلالت عمل اور ضیاع فطرت۔ یہ اس کا عمل ہی ہے جس نے اسے چارپایوں سے بھی بدتر بنادیا ہے (ثم رددناہ اسفل سافلین) یعنی ادنی سے بھی ادنی تر حالت تک گرے ہوئے وہی ہیں جن کے نام مغضوب ورضالین ہیں پھر حزب الشیطان، اولیاء الطاغوت، شرالبریہ الاعمی اور اصحاب النار بھی وہی ہیں۔ ٤۔ یہ غلطی اس لیے ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے قانون جزا ومکافات سے بے خبر ہو اس کا قانون ہے کہ ہر بیج پھل لاتا ہے اور اسی طرح انسان کاہر عمل ایک نتیجہ پیدا کرتا ہے زہر جب کھایاجائے گا انسان مرے گا اور معصیت جب کبھی کی جائے گی عذاب آئے گا پس اعمال کی جزا ہی سے تمام نتائج پیدا ہوتے ہیں اگر تمہارے اعمال فطرت صالحہ یعنی دین الٰہی کے مطابق ہیں اور تم نے اس کو ضائع نہیں کیا ہے تو تم اپنی فطری بڑائی اور نیکی حاصل کرو گے اگر تم نے ضائع کردیا پھرتم مسخ ہوجاؤ گے اور تم سے برا جانور زمین کی پیٹھ پر اور کوئی نہ ہوگا جانور نے اپنی اصلی فطرت کو ضائع نہیں کیا۔ وہ سافل ہے تم نے اپنی فطرت ہی کو ضائع کردیا پس تم سافلوں سے بھی اسفل اور بد سے بھی بدتر ہوگئے۔ ٥۔ پس جن لوگوں نے اپنی فطرت کو عمل غیر صالح سے ضائع کردیا وہ انسانیت سے گر گئے مگر جنہوں نے ایمان باللہ سے انکار نہ کیا اور ایسے اعمال اختیار کیے جو صالح ہیں اور اس لیے نور فطرت کو قائم رکھنے والے اور چمکانے والے ہیں سو وہ اعلی سے اعلی مراتب انسانیہ تک فائز ہوئے اور ہمیشہ ایسا ہی ہوگا اس دوسری جماعت کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے عمل صالحہ کا درخت ہمیشہ پھل دے گا ان کے نتائج حقہ کی برکتیں اور نعمتیں کبھی ختم نہ ہوں گی وہ اسفل سافلین کی حالت میں نہ ہوں گے کہ فنا اور ہلاکت ان پر طاری ہو وہ شجرہ خبیثہ نہیں ہیں بلکہ شجرہ طیبہ ہیں لہذا فرمایا (فلھم اجر غیر ممنون)۔ التين
3 اصل تفسیر : (والتین والزیتون۔۔ تا۔۔۔ الحاکمین)۔ ” انجیر اور زیتون، طور سینا اور مکہ معظمہ شاہد ہیں کہ بلاشبہ ہم نے انسان کو بہترین حالت عدل پر پیدا کیا پھر اس کو بد سے بدتر حالت میں پھینک دیا مگر وہ لوگ کہ ایمان لائے اور عمل صالح کیے تو ان کے اعمال کے نتائج صرف بہتری ہی کے لیے ہیں ان کے عمل صالحہ کا بدلہ کبھی منقطع نہ ہوگا ہمیشہ پھل دے گا پس اس حقیقت کے سمجھ لینے کے بعد کون ہے جو اعمال کے نتائج سے انکار کرے گا اور اس بارے میں رسول کی تعلیم کو جھٹلائے گا؟ کیا سب سے بڑا حکم کرنے والا خدا ہی نہیں ہے ؟ جس کے قانون جزاوسزا میں کبھی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ تفصیل استشہاد : حضرت نوح کے بعد دین الٰہی کاسلسلہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ سے شروع ہوتا ہے اور ظہور اسلام اسی کا آخری مکمل ظہور ہے حضرت ابراہیم کی نسل سے بنواسرائیل پیدا ہوئے جن کے احیاء کے لیے حضرت موسیٰ کی دعوت کا اظہار ہوا اور انہوں نے بنی اسرائیل کو مصریوں کی غلامی سے نکال کر عزت وخلافت کے درجہ پر پہنچا دیا۔ ان کے بعد جب بنی اسرائیل نے پھر اللہ تعالیٰ کے احکام سے سرتابی کی اور اصلاح کی جگہ فساد کا طریق اختیار کیا تو روزبروز تنزل وتسفل میں مبتلا ہونے لگے پس انبیائے مجددین کاسلسلہ شروع ہوا اور وہ یکے بعد دیگرے اصلاح کرتے رہے لیکن سلسلہ تنزل بھی برابر بڑھتا گیا حتی کہ وراثت ارضی سے بنواسرائیل محروم ہوگئے اور ان پر یکسر تباہی وبربادی طاری ہوگئی اس وقت حضرت عیسیٰ کی دعوت کا ظہوروا جن پر چند غریب اور فاقہ مست انسان ایمان لائے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہی غریب مچھیروں اور فقیروں کو یہ درجہ دیا کہ ان کی دعوت وتبلیگ عالم میں پھیلی اور تمام روم یونان میں مسیحی مذہب پھیل گیا۔ پس انسان کے اعمال عظیمہ وصالحہ کے ان مظاہرے کے تین قریبی درجے ہوئے۔ ١۔ دین الٰہی کی وہ بنیاد جو بیابان حجاز میں حضرت ابراہیم واسماعیل نے ڈالی اور اس کی اینٹیں رکھتے ہوئے امت مسلمہ کے ظہور کی دعا مانگی (واذ یرفع ابراہیم القواعد من البیت واسماعیل ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم) البقرہ ع ١٥)۔ اور جب ابراہیم واسماعیل خانہ کعبہ کی بنیاد رکھ رہے تھے تو ان کی زبانوں پر یہ پاک دعا جاری کی تھی، اے پروردگار ہمارے اس کام کو قبول کرلے تو دعاؤں کاسننے والا ہے اور توہماری نیتوں کو خوب جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول کیا نسل اسماعیل سے امت مسلمہ کا ظہور ہو اور وہ آخری معلم ربانی آگیا جس نے تعلیم کتاب وحکمت اور تربیت تزکیہ الٰہی سے جماعت مومنین پیدا کردی۔ ٢۔ دعوت موسوی کی وہ روشنی جوطور سینا پر چمکی اور وادی ایمن کے بقعہ مبارکہ سے، انی انااللہ رب العالمین، کی صدائے حق اٹھی : (فلما اتھا نودی من شاطئی۔۔۔ تا۔۔۔ رب العالمین)۔ پس جب موسیٰ کوہ طور کے پاس پہنچے تو وادی ایمن کے کنارے کہ زمین کا ایک مبارک حصہ تھا درخت سے ندا اٹھی، اے موسیٰ : میں ہوں تمام جہانوں کاپروردگار۔ یہی کوہ طور کی وادی ایمن کی روشنی تھی کہ جس نے بنواسرائیل کو ظلمت وتنزل وتسفل سے نجات دلائی اور عظمت وخلافت الٰہی کے درجے تک مرتفع کیا۔ ٣۔ دعوت مسیحی کا وہ ظہور جو سلسلہ اسرائیلی کا آخری ظہور تھا اور جو بیت المقدس کی سرزمین میں ہوا : (فامنت طائفۃ من بنی اسرائیل وکفرت طائفۃ۔۔ تا۔۔۔ ظاہرین) ترجمہ۔ پس بنواسرائیل کی ایک جماعت اس پر ایمان لائی اور ایک جماعت نے انکار کیا تو مومنوں کو ہم نے ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد دی نتیجہ یہ نکلا کہ ایمان والوں کی کامیابی اور فتح مندی ظاہر ہوگئی۔ قرآن حکیم کی مخاطب جوجماعتیں تھیں ان کی معلومات میں بھی انسانی عظمت وقدوسیت کے بالاتفاق یہی تین جلوے تھے اہل کتاب حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ کے نام لیوا تھے اور مشرکین مکہ کابڑا ادعائی شرف یہ تھا کہ وہ اپنے تئیں حضرت ابراہیم کی طرف منسوب کریں۔ پس سورۃ والتین میں سعادت انسانی کے انہی تین ظہوروں سے انسان کی فطرت صالحہ وعظمت وشرف پر شہادت لائی گئی ہے تین اور زیتون سے مقصود سرزمین شام ہے جہاں حضرت عیسیٰ کا ظہور ہو اور جوتمام انبیائے مجددین اسرائیل کا مقام ظہور ہے طورسنین سے اشارہ دعوت موسوی کی طرف ہے جس کی تجلی کا مطلع اسی مقدس پہاڑ کا دامن تھا بلد امین یعنی ہمیشہ امن میں رہنے والا گھر خانہ کعبہ ہے اور اس میں اشارہ ہے کہ حضرت ابراہیم کی دعوت موسسہ ابراہیمیہ اور اس کے نتائج کی طرف ہے۔ استشہاد کی ترتیب شاخ سے اصل کی طرف، نسل سے مورث کی طرف فاضل سے افضل کی طرف اور حسن سے احسن کی طرف ہے یعنی ظہور سعادت انسانی کے اس سلسلہ میں افضل ترین بنیادی مرتبہ دعوت ابراہیمی کا ہے اس کے بعد مرتبہ قیام شریعت موسوی کا اس کے بعد مرتبہ تجدید انبیائے بنی اسرائیل کا عموما اور حضرت عیسیٰ کا خصوصا (علی نبینا وعلیہم الصلوۃ والسلام) پس ترتیب جڑسے شاخ کی طرف نہیں ہے بلکہ شاخ سے جڑکی طرف ہے اور اس میں بالترتیب تینوں درجوں کے مراتب یکے بعد دیگرے ملحوظ رکھے گئے ہیں چونکہ سب سے آخری ظہور مسیحی سب سے زیادہ قریب تھا اس لیے سب سے پہلے اس کا ذکر کیا گیا اس کے بعد اس سے اعلی مرتبہ دعوت موسوی کا تھا پس اس کا ذکر کیا پھر سب سے اعلی ترین مرتبہ بمنزلہ اصل وحقیقت الحقائق کے مقام خلت کبری حضرت ابراہیم کا تھا پاس پر مدارج ثلاثہ ختم ہوگئے۔ تین وزیتون : تین وزیتون سے سرزمین شام کامراد لینا بالکل واضح ہے : ١۔ طور سنین اور بلدامین دونوں میں اشارہ اس سرزمین کی طرف کیا گیا ہے جہاں ان دعوتوں کا ظہور ہوا پس معلوم ہوا کہ اس سورت میں سرزمین کی طرف اشارہ کرکے اس سرزمین کی مشہور دعوت وامت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے اس بنا پر تین وزیتون میں بھی اشارہ کسی سرزمین ہی کی طرف ہوگا جیسا کہ مابعد کی دوشہادتوں میں ہے۔ ٢۔ دنیا کی تمام سرزمینوں میں اس وقت بھی جبکہ قرآن حکیم نازل ہوا اور اب بھی جبکہ ملکوں کی طبعی پیدوار کی فہرست ہمارے سامنے موجود ہے انجیر اور زیتون ایک مخصوص پیداوار سرزمین شام کی ہے جس کثرت کے ساتھ اور جس قدر اعلی درجہ کی یہ دونوں چیزیں وہاں ہوتی ہیں کہیں نہیں ہوتیں۔ زیتون کا تیل شام کی ایک عام غذا ہے گھی کی جگہ اسی کواستعمال کرتے ہیں عیسائیوں کے بڑے بڑے مذہبی اعمال کا اب تک یہ ایک مقدس جز ہے ان کے تمام مذہبی رسوم میں اسی تیل کو مقدس تیل کہا جاتا ہے روم کے تمام عیسائی بادشاہ جب تخت نشین ہوتے تھے تو مقدس تیل ان کے سینے پر لگایا جاتا تھا اور کہتے تھے کہ یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اتباع ہے آج تک تاج پوشی کی رسم میں ایک پیالی روغن زیتون کی بھی رکھی جاتی ہے قطع نظر ان تمام خصوصیات کے اس سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تمام عرب میں یہ دوچیزیں شام کی مخصوص وممتاز پیداوار سمجھی جاتی تھیں اور اس قدر مشہور تھیں کہ بچہ بچہ جانتا تھا اشارہ کے لیے کافی ہے۔ ٣۔ پس جب تین وزیتون کا اشارہ بھی کسی ملک کی طرف ہونا چاہیے اور وہ شام کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا تو پھر یہ ظاہر ہے کہ شام کا سب سے بڑا آخری ظہور حق حضرت عیسیٰ کی دعوت ہے اوساتھ ہی یہ سرزمین تمام اسرائیلی انبیائے مجددین کے ظہور کا بھی گھر ہے۔ نیز چونکہ اس کے بعد ہی دعوت موسوی کی طرف اشارہ موجود ہے اس لیے ربط بھی یہی چاہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی دعوت کیطرف بھی اشارہ ہے۔ ٤۔ سب سے زیادہ یہ کہ تین وزیتون کی تفسیر کے متعلق صحابہ کرام وتابعین عظام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو جوروایات موجود ہیں ان سب پر مجموعی نظرڈالنے کے بعد یہی تفسیر راجح ثابت ہوتی ہے اور قرآن حکیم کی سب سے زیادہ صحیح تفسیر وہی ہے جو صحابہ (رض) کی تفسیر کے مطابق ہو کہ ان کے علوم حامل وحی سے براہ راست ماخوذ تھے۔ امام ابن جریر طبری نے تمام روایتیں جمع کردی ہیں ان پر نظر ڈالو سب سے پہلے حضرت کعب کا ایک قول سامنے آتا ہے کہ التین، مسجد دمشق والزیتون بیت المقدس۔ تین مسجد دمشق ہے اور زیتون بیت المقدس۔ پھر حضرت عبداللہ بن عباس کی نسبت سے اس قول کی شہرت ثابت ہوتی ہے کہ، الزیتون بیت المقدس۔ یعنی زیتون بیت المقدس ہے۔ لیکن اس کے بعد بعض کبارتابعین کی تصریحات سامنے آتی ہیں جنہوں نے اس امر پرزور دیا کہ ھو تینکم وزیتونکم۔ یعنی تین اور زیتون سے یہی انجیر اور زیتون مراد ہے جو تم استعمال کرتے ہو اور کوئی چیز مقصود نہیں حضرت حسن، عکرمہ، مجاہد، قتادہ وغیرہ سب نے یہی کہا ہے۔ اب ان دونوں تفسیروں کو جمع کرو جن صحابہ (رض) سے اس قول کو شہرت ہوئی کہ تین اور زیتون سے مراد مسجد دمشق اور بیت المقدس ہے انکا مقصود یہ نہ تھا کہ دمشق کی کسی عمارت کا نام تین ہے اور بیت المقدس کا نام زیتون۔ بلکہ یہ واضح کرنا تھا کہ تین وزیتون میں اشارہ سرزمین شام کی طرف ہے کیونکہ وہاں ان دوچیزوں کی پیداوار بکثرت ہوتی ہے اور یہ اس کے خصائص میں سے ہیں پس زیتون یعنی بیت المقدس سے مطلب یہ تھا کہ زیتون میں اشارہ بیت المقدس کی طرف ہے۔ لیکن بہت سے لوگوں کو اس میں غلطی ہوئی اور انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ طور سیناء کی طرح زیتون بھی بیت المقدس کے کسی پہاڑ کا نام ہے اور پھر طرح طرح کی مزید تاویلیں اس میں بڑھ گئیں یہ حال دیکھ کر بعض اجلہ تابعین نے غلطی کو دور کرنا چاہا اور زور دے کر کہا، ھو تینکم وزیتونکم کہ تین اور زیتون کسی پہاڑ کا نام نہیں وہ یہی انجیر اور زیتون ہے جو تم استعمال کرتے ہو گویاانہوں نے واضح کیا کہ تین وزیتون سے اس کی جائے پیدائش مقصود ہے یہ نہیں کہ خود اس سرزمین کا نام ہی تین وزیتون ہو۔ چنانچہ امام ابن جریر کا بھی قریب قریب یہی خیال ہے تمام روایتیں جمع کرکے لکھتے ہیں :” والصواب من القول فی ذالک عندنا من قال التین ھوالتین الذی یوکل والزیتون ھو الزیتون الذی یعصر منہ الزیت لان ذالک ھو المعروف عند العرب۔ الا ان یقول قائل اقسم ربنا بالتین والزیتون والمراد من الکلام القسم بمنا بیت التین ومنابت الزیتون فیکون ذالک مذھبا (ج ٣، ص ١٥٤)۔ ترجمہ۔ کہ اس بارے میں ہمارے نزدیک انہی لوگوں کا قول ٹھیک ہے جنہوں نے کہا تین وہی تین ہے جو کھایا جاتا ہے اور زیتون وہی زیتون کا درخت ہے جس سے تیل نکلتا ہے کیونکہ عرب میں یہ معروف تھا اور اس نام کے کسی پہاڑ کو وہ نہیں جانتے تھے ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین اور زیتون کی قسم کھائی مگر مقصود اس سے تین اور زیتون کی پیدائش کے مقامات کی قسم کھانا ہے سواگر یہ کہا جائے تو یہ ایک مذہب ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جولوتین وزیتون سے یہی پھل اور درخت مراد لیتے ہیں ان کو صرف اس سے انکار ہے کہ کسی ملک یا پہاڑ کا نام تین وزیتون نہیں ہے اور یہ بالکل واضح ہے لیکن اس سے وہ انکار نہیں کرتے کہ ان چیزوں سے ان چیزوں کی پیدائش کی سرزمین مراد نہ ہو۔ احسن تقویم : احسن تقویم میں تقویم ٹھیک ٹھیک بمعنی تعدیل کے ہے یعنی ہم نے انسان کو بہترین قوام وعدل پر پیدا کیا تعدیل خلقت میں جسم اور فطرت ظاہر وباطن سب داخل ہیں اور جن صحابہ وتابعین سے، فی اعدل خلق واحسن صورۃ، بکثرت منقول ہے نیز جو صحابہ استقامت صورت وجسم کو پیش کرکے حقیقت تعدیل خلقت کو سمجھانا چاہتے تھے اور ان سب کا مقصود ہی تعدیل فطرت ہے اور اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کسی نے کہا انسان کا قد دیکھو کسی نے کہا جسم کاتناسب دیکھو کوئی اور آگے بڑھا اور کہا کہ خلقت کی تعدیل معنوی پر بھی نظر ڈالو تعدیل کا ایک بڑا نمونہ انسان کا قد ہے اس کی بڑی نمود اس کے تناسب اعضا وجسم میں ہے اور پھر اس کی فطرت عدل وقوام صالح پیدا کی گئی ہے پس سب نے ایک ہی حقیقت کو واضح کیا اور اسی کو مختلف تعبیرات سے سمجھانا چاہا۔ التين
4 التين
5 التين
6 التين
7 التين
8 التين
0 العلق
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورت مکی ہے۔ اس کی پہلی پانچ آیتیں بالاتفاق پہلی وحی شمار ہوتی ہیں جیسا کہ صحیحین میں حضرت عائشہ (رض) کی روایت سے ثابت ہوتا ہے۔ اس سورۃ کا دوسرا حصہ اس وقت نازل ہوا جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرم میں نماز پڑھنی شروع کی اور ابوجہل نے ڈرا دھمکا کرآپ کو روکنے کی کوشش کی۔ سورۃ کے آخر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی ہے کہ بلاخوف وخطر نماز پڑھتے رہیے اور ان دھمکیوں کی پروا مت کیجئے۔ العلق
2 العلق
3 العلق
4 العلق
5 العلق
6 العلق
7 العلق
8 العلق
9 العلق
10 العلق
11 العلق
12 العلق
13 العلق
14 العلق
15 العلق
16 العلق
17 العلق
18 العلق
19 العلق
0 القدر
1 تفسیر وتشریح۔ (١) اکثر کے نزدیک یہ سورۃ مدنی ہے اور بعض کے نزدیک مکی ہے اور مضمون سے بعض کے قول کی تائید ہوتی ہے اس لیے ہم نے اسے مکی سورتوں کی فہرست میں رکھا ہے۔ (٢) اسی لیلۃ القدر کو سورۃ دخان میں، لیلۃ مبارکہ، فرمایا ہے کہ یہ رات برکت والی ہے اور یہ رات چونکہ رمضان المبارک ہی کی ایک رات ہے اس لیے سورۃ بقرہ میں فرمایا (شھررمضان الذی انزل فیہ القرآن) کہ ماہ رمضان المبارک میں قرآن مجید نازل کیا گیا۔ یعنی اس ایک رات میں پورا قرآن مجید حامل وحی فرشتوں کے حوالہ کردیا گیا پھر ٢٣ سال کی مدت میں حالات اور واقعات کے مطابق حضرت جبرائیل وہ سورتیں نازل کرتے رہے اگر لیلۃ القدر میں نازل کرنے کایہ مفہوم لیاجائے کہ اس کے نزول کی ابتداء لیلۃ القدر میں ہوئی تو یہ بھی صحیح ہے۔ اور وہ دونوں صورتوں میں مطلب ایک ہی رہتا ہے کہ قرآن مجید کانزول اس مبارک رات میں شروع ہوا اور اسی رات کو سورۃ العلق کی پانچ ابتدائی آیات کانزول ہوا۔ القدر
2 القدر
3 (٣) ہزار مہینوں سے بہتر ہے یعنی اس رات کا عمل خیر ہزار مہینوں کے عمل خیر سے بہتر ہے جن میں شب قدر شمار نہ ہو۔ اس بنا پر احادیث میں اس رات میں عبادت کی بڑی فضیلت آئی ہے حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے : من قام لیلۃ القدر ایمان واحتسابا غفرلہ ماتقدم من ذنبہ۔ جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ سے اجر کی خاطر عبادت میں مشغول رہا اسکے تمام پچھلے گناہ معاف ہوگئے۔ القدر
4 (٤) اس سورۃ میں الروح سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام)۔ اور ان کے فضل وشرف کی بنا پر دیگر فرشتوں سے ان کا ذکر الگ کیا گیا ہے۔ تفسیر سورۃ القدر۔ (مولانا ابوالکلام آزاد)۔ عالم تقدیر خاموش نہیں ہے وہ ایک امام ناطق ہے اس نے مجموعی طور پرتمام عالم کی قسمت کا فیصلہ ازل ہی میں کردیا تھا لیکن اشخاص واقوام کی تقدیر کا فیصلہ ہمیشہ رہتا رہتا ہے۔ کارکنان قضا وقدر بہت سی قوموں کی قسمت کا فیصلہ کرچکے تھے مگر ایک بادیہ نشین قوم پہاڑوں کے دامن دبی پڑی تھی انہی پہاڑوں کے غار سے آتشین شریعت کا ایک شرارہ اڑا اور دفعۃ خرمن جہل وضلالت پر برق خاطف بن کرگرا۔ اس مردہ قوم کی سوئی ہوئی تقدیر نے مدت کے بعد ایک خاص رات میں کروٹ بدلی۔ اس لیے اس رات کولیلۃ القدر کہا گیا کیونکہ اسی رات میں اس کے کارنامہ اعمال کو قرآن حکیم کے ذریعہ سے معین ومقدر کردیا گیا تھا۔ (انا انزلناہ فی لیلۃ القدر) ” ہم نے اس کولیلۃ القدر میں نازل فرمایا۔ لیلۃ القدر قیل لیلۃ الشرف والفضل وقیل لیلۃ التدبیر والتقدیر وھواقرب۔ (احکام القرآن لابن عربی)۔ یہاں فرمایا کہ قرآن کریم لیلۃ القدر میں اترا۔ اور سورۃ بقرہ میں فرمایا کہ رمضان (شھررمضان الذی انزل فی القرآن )۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ لیلۃ القدر سے رمضان ہی کی رات مراد ہے نزول قرآنی سے مقصود یہ ہے کہ نزول کا آغاز لیلۃ القدر اور رمضان المبارک میں ہوا ورنہ یہ ظاہر ہے کہ پورا قرآن مجید نجما نجما ٢٣ برس میں نازل ہوا۔ قرآن اور الکتاب کا اطلاق جس طرح کل پر ہوتا ہے اسی طرح اس کے ایک جز پر بھی ہوسکتا ہے قرآن مجید کے ہر ٹکڑے کو اللہ تعالیٰ نے قرآن اور الکتاب کہا ہے۔ لیکن بعض مفسرین کو خیال ہوا کہ (انا انزلناہ فی لیلۃ القدر) سے مقصود پورے قران کانزول ہے اس لیے انہوں نے طرح طرح کی تاویلیں کی ہیں مثلا کہا گیا کہ قرآن کریم رمضان کی بیس راتوں میں جبرائیل کودیا گیا اور انہوں نے بیس سال کے اندر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پرنازل کیا لیکن قاضی ابوبکر ابن عربی لکھتے ہیں : ” ومن جھالۃ المفسرین انھم قالوا ان السفرۃ القتہ الی جبرائیل فی عشرین لیلۃ والقاہ جبرائیل الی محمد علیھما السلام فی عشرین سنۃ وھذا باطل لیس بین جبرئیل وبین اللہ واسطۃ ولابین جبرائیل و محمد علیہما السلام واسطۃ۔ (احکام القرآن جلد ٢ ص ٣١٧)۔ اور مفسرین کی یہ جہالت ہے جو کہتے ہیں قرآن کریم بیس راتوں کے اندر اللہ تعالیٰ نے جبرائیل کودیا اور انہوں نے بیس سالوں کے اندر محمد پر نازل کیا سوایسا کہنا بالکل باطل ہے نہ تو اللہ تعالیٰ اور جبرائیل میں کوئی واسطہ ہے اور نہ جبرائیل اور نبی میں کوئی واسطہ۔ عربی زبان میں متکلم کے لیے، انی، اور، انا، کی دو ضمیریں ہیں جو بہ ترتیب واحدمتکلم وجمع متکلم کے لیے مستعمل ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم کودنی اکی نشاۃ اولی کاموسس بنانا چاہاتو فرمایا (انی جاعل فی الارض خلیفہ)۔ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے لیے معمولی صیگہ واحد متکلم کا استعمال کیا ہے کیونکہ اشیاء وامثال کاپیدا کرنا اس کی قدرت کاملہ کے نزدیک کوئی غیر معمولی اہمیت نہ رکھتا تھا لیکن بطون وارواح کی نشاۃ جدید دنیا کے لیے مایہ صد رحمت وبرکت تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے جب کسی پیغمبر کو اس نشاۃ حقیقہ کا ذریعہ بنایا ہے تو اس موقع پر اپنے لیے ضمیر متکلم کا صیغہ استعمال کیا ہے جو واحد کی نسبت تعظیم وشرف کا پہلورکھتا ہے یہ تعظیم درحقیقت اس جدید روح سعادت وہدایت کی اہمیت وعظمت کو نمایاں کرتی ہے جو دنیا میں ظہور پذیر ہونا چاہتی ہے۔ حضرت آدم نے دنیا کا قالب موزوں تیار کردیا تھا لیکن وہ روح سے یعنی ترقی یافتہ دین الٰہی کی حقیقی روح سے خالی تھا اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضرت نوح کو یہ امانت دے کربھیجا جوایک عظیم الشان روحانی انقلاب تھا پس ضمیر تعظیمی سے اس کا اظہار فرمایا۔ (انا ارسلنا نوحا) کہ ہم نے نوح کو بھیجا۔ لیکن یہ روح امتداد زمانہ سے فرسودہ ہوگئی تھی بلکہ یہ سچ ہے کہ بالکل مردہ ہوگئی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے ذریعہ سے اس روح مروہ کو اس گل یژمردہ کو اس بخت جفتہ کو پھر زندہ کیا شگفتہ کیا، بیدار کیا، یہ ایک عظیم الشان انقلاب تھا جس نے نقشہ عالم کو پلٹ کردیا تھا پس ہمیشہ اس کی اہمیت بھی ضمیر تعظیمی کے پردے میں نمایاں کی گئی۔ (انا نحن نزلناالذکر) ہم ہی ہیں کہ ہم نے اپنے ذکر کو نازل کیا۔ (انا انزلناہ فی لیلۃ القدر) ہم نے اس کولیلۃ القدر میں نازل کیا۔ اسی کتاب ذوالحظر والبال کو خدا نے کو ثر بھی کہا ہے کہ وہ مایہ خیرکثیر ہے۔ (انااعطیناک الکوثر) ہم نے تم کو کوثر یعنی قرآن عطا فرمایا۔ یہاں بھی قرآن کا ذکر متکلم جمع تعظیمی سے کیا۔ اسی کے ذریعہ سے دین ابراہیمی زندہ ہوا اسی لیے اس تیغ خیر کے عطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی سب سے بڑی یادگار قربانی کے قائم کرنے کا حکم دیا، چنانچہ اسی سورۃ الکوثر میں فرمایا (فصل لربک وانحر) تو اپنے خدا کی نماز پڑھ اور قربانی کر۔ اللہ تعالیٰ نے اسی دین کے ذریعہ سے ابراہیم کی یادگار اور ذکر عظیم کو قائم رکھا۔ (وجعلنا لھم لسان صدق علیا)۔ اور ہم نے ان کے ذکر خیر کو رفعت وبلندی عطا کی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر جمیل بھی اسی کی برکت سے غلغلہ انداز عالم روح و ایمان ہے۔ (ورفعنالک ذکرک) اسی لیے ان دونوں مقامات میں بھی جمع متکلم کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ مذہب کی پاک روح مردہ ہوگئی تھی لیکن اس رات میں اعادہ معدوم اور حیات بعدالممات ہوا وہ کتم عدم سے عالم شہود میں اتری۔ (تنزل الملائکۃ والروح فیھا باذن ربھم) اسی رات میں فرشتے اور روح اپنے رب کے حکم سے اترتے ہیں۔ فرشتے اور روح اس رات میں اترتے ہیں مگر بتدریج پورے ایک مہینے میں اترتے ہیں کیونکہ دنیا کا دامن دفعۃ ان برکات وفضائل کے سمیٹنے کی وسعت نہیں رکھتا۔ دامان نگہ تنگ، گل حسن تو بسیار گل چین نگاہ توز دامان گلہ دارد لیکن یہ ملائکہ کیا ہیں اور اس روح کی حقیقت کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے خود اسی آیت میں اس حقیقت کو واضح کردیا ہے (من کل امر سلام) یعنی وہ ملائکہ اور روح امن اور سلامتی ہیں جو دنیا کو یکسر منیت وسلامتی کی برکتوں سے معمور کردیتے ہیں۔ یہ سکون یہ اطمینان کامل یہ سلامتی، یہ امن عام جو ہم پرآسمان سے اترا صرف عرب کے لیے مخصوص نہ تھا بلکہ وہ مشرق ومغرب دونوں کو محیط ہے ہمارا آفتاب اگرچہ مغرب سے طلوع ہوا تھا جوہمارا قبلہ ایمان ہے لیکن اس کی شعاعوں نے مشرق کے افق کو بھی روشن کردیا جہاں سے دنیا کا سورج نکلتا ہے اور جہاں سے صبح کا ستارہ طلوع ہوتا ہے۔ (ھی حتی مطلع الفجر)۔ طلوع ہونے کی جگہ تک یعنی مشرق تک پہنچ جائے گا۔ دنیا نے اس وعدے کی صداقت کو دیکھ لیا جب خدا کے پاک فرشتے یعنی قرآن نے مشرق ومغرب دونوں کو اپنے اپنے پروں کے نیچھے چھپالیا (ان اللہ علی کل شئی محیط)۔ امن عالم کایہ پیغام کیا ہے؟ اور وہ کیونکر مشرق ومغرب تک پہنچایاجائے گا۔ قرآن حکیم نے دوسری آیتوں کے ذریعہ سے اس نکتہ کو حل کردیا ہے۔ (انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ۔۔۔ تا۔۔۔ ھوالسمیع العلیم) ترجمہ۔ ہم نے قرآن کو ایک مبارک رات میں اتارا کیونکہ ہم دنیا کو اس کی ضلالت کے نتائج سے ڈرانے والے تھے تمام انتظامات الٰہیہ جوحکمت ومصلحت عالم پر مبنی ہیں اسی رات میں طے پاتے ہیں ازاں جملہ قرآن مجید کانزول جواسی رات میں شروع ہوانیز ہمیں اپنا رسول بھیجنا مقصود تھا جس کا ظہور اللہ تعالیٰ کی رحمت کانزول ہے۔ اب ان دونوں سورتوں کے تطابق وتشاکل پر غور کرنا چاہے اللہ تعالیٰ نے سورۃ قدر میں فرمایا (اناانزلناہ فی لیلۃ القدر) اور یہاں فرمایا (اناانزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ) اسی لیے یہ دونوں راتیں ایک ہی ہیں وہاں فرمایا (تنزل الملائکۃ والروح فیھا باذن ربھم من کل امر سلام) اور یہاں فرمایا (فیھا یفرق کل امرحکیم، امرمن عندنا) اس بنا پر امر سلام اور امر حکیم جس کی تنزیل وتقسیم لیلۃ القدر میں خدا کے حکم سے کی گئی ہے دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ لیکن یہ سوال ہے کہ خود وہ امر سلام اور امرحکیم کیا چیز ہے؟ دوسری آیتوں نے اس کی بھی تفسیر کردی ہے۔ (الر۔ تلک آیات الکتاب الحکیم۔ اکان للناس عجبا۔۔۔ تا۔۔۔۔ عندربھم) یونس)۔ ترجمہ۔ یہ قرآن حکیم کی آیات ہیں پھر کیا لوگوں کو تعجب ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک آدمی پروحی کی تاکہ وہ لوگوں کو ڈرائے اور مومنوں کو اس بات کامژدہ سنائے کہ اللہ تعالیٰ کے تخت کے نیچے ان کا قدم جم گیا ہے؟۔ اس لیے یہ امر حکیم اور یہ امر سلام خود قرآن حکیم ہے جولیلۃ القدر میں نازل کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ قدر میں قرآن حکیم کی چند خصوصیات کا اجمالی ذکر فرمایا تھا لیکن اس آیت میں وہ خصوصیتیں بہ تفصیل بیان فرمائی ہیں۔ سورۃ قدر میں فرمایا تھا کہ وہ سورج طلوع ہونے کی جگہ تک پھیل جائے گا یہ نہایت مجمل طرز خطاب تھا سورۃ دخان میں اس کی تفسیر بھی کردی۔ (فیھا یفرق من کل امر حکیم۔ امر من عندنا)۔ یعنی قرآن حکیم کی آیتیں ہمارے حکم سے ایک پیغمبر پر تقسیم کی جاتی ہیں تاکہ وہ دنیا کے سامنے ان آیات کولے کے جائے اور ہر شخص کے آگے اس خوان کرم کو بچھادے تاکہ ہر شخص اپناحصہ لے لے۔ (انا کنا مرسلین رحمۃ من ربک) لیکن دنیا غفلت کی نیند سورہی تھی۔ اس لیے یہ ابر رحمت پہلے گرج جاتا کہ دنیا جاگ اٹھے اس نے اپنی چادر غیب سے پہلے اسی ہاتھ کو نکالا جس میں بجلی کا تازیانہ تھا۔ (یا ایھا المدثر قم فانذر) اور چادراوڑھنے کی ضرورت تھی اس لیے وہ گرجا، چمکا، تڑپا۔ (انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ انا کنامنذرین) لیکن درحقیقت اس کایہ وصف عارضی تھا ورنہ رفق وملاطفت اس کا مایہ خمیر اور عنصر حقیقی ہے۔ (عزیز علیھم ماعنتم حریص علیکم بالمومنین روف رحیم) اس لیے وہ روئی کے گالے سے بھی زیادہ نرم وسفید بادل کاٹکڑا تھا جو آب شیریں کا خزانہ اپنے ساتھ رکھتا تھا اگرچہ ابتدا میں بجلی کی کڑک اس کا مظہر ورود ہوئی یہ انداز وعید یہ قہر وغضب اس قوم کی شامت اعمال کا نتیجہ تھی ورنہ پیغمبر امی خدا کی طرف سے صرف بشارت اور لطف وکرم کا مجسمہ بناکربھیجا گیا تھا،(انا کنا مرسلین رحمۃ من ربک) لیکن اللہ تعالیٰ کی یہ رحمت صرف عرب کے ساتھ نہ تھی بلکہ اس ابر کرم نے تمام مشرق ومغرب کو جل تھل ایک کردیا۔ چنانچہ دوسری جگہ رحمۃ من ربک کی تفسیر کردی گئی (وما ارسلناک الارحمۃ للعالمین) ہم نے تجھ کو تمام دنیا کے لیے رحمت ہی رحمت بناکربھیجا۔ لیلۃ القدر کو تمام راتوں پر صرف اس لیے فضیلت نہیں ہے کہ اس میں عبادت کا ثواب تمام راتوں سے زیادہ ملتا ہے بلکہ اس بنا پر بھی کہ اسمیں ہم کو ایک کتاب دی گئی اور مشرق ومغرب میں ہم کو اس کی منادی کرنے کا حکم دیا گیا بادشاہوں کی منادی طبل وعلم کے ساتھ کی جاتی ہے لیکن خدا کی منادی تکبیر وتہلیل کے ساتھ ہونی چاہیے۔ رمضان کے بعد عید کا حکم اسی لیے دیا گیا تاکہ تکبیر وتہلیل کی مقدس صداؤں میں اسلام کے جاہ وجلال، نفوذ وقوت اور وسعت واثر کا سماں دنیا کو نظر آجائے (ولتکبرواللہ علی ماھداکم ولعلم تشکرون)۔ پھرآہ تمہاری غفلت کیسی شدید اور تمہاری گمراہی کس قدر ماتم انگیز ہے کہ تم لیلۃ القدر تو ڈھونڈتے ہو پر اس کو نہیں ڈھونڈتے جولیلۃ القدر میں آیا ہے اور جس کے ورود سے اس رات کی قدرومنزلت بڑھی اگر تم اسے پالو تو تمہارے لیے ہر رات لیلۃ القدر ہے۔ ہر شب، شب قدر است، اگر توقدر بدانی۔ القدر
5 القدر
0 البينة
1 تفسیر وتشریح۔ (١) اس سورۃ کو جمہور نے مدنی قرار دیا ہے لیکن بعض صحابہ سے اس کا مکی ہونا بھی منقول ہے چنانچہ صاحب احکام القرآن نے اس کے مکی ہونے کو ترجیح دی ہے۔ اس سورۃ میں بتایا گیا ہے کہ ایک رسول بھیجنا کیوں ضروری تھا چنانچہ فرمایا کہ اس وقت دنیا کے لوگ، اہل کتاب ہوں یا مشرکین کفر کی ایسی حالت میں مبتلا ہوچکے تھے کہ ایک رسول کے بغیر ان کاراہ راست پر آنا ممکن نہ تھا۔ البينة
2 البينة
3 البينة
4 البينة
5 (٢)۔ اہل کتاب چونکہ واضح بیان آچکنے کے بعد مختلف ہوچکے تھے ان کو خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت، اقامت صلوۃ اور ادائے زکوۃ کا حکم دیا گیا تھا مگر انہوں نے اختلاف کیا، اب یہ رسول اسی اختلاف کو ختم کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اب اس رسول کے ساتھ جوکفر کرے گا اس کا انجام بھی بیان کردیا ہے اور جو ایمان لائے گا اس کا نتیجہ بھی ذکر کردیا ہے۔ البينة
6 البينة
7 البينة
8 البينة
0 الزلزلة
1 تفسیر وتشریح (١) یہ سورۃ مدنی ہے بعض نے اسے مکی قرار دیا ہے نفس مضمون سے اس کے مکی ہونے کی تائید ہوتی ہے۔ اس سورۃ میں موت کے بعد دوسری زندگی اور اس میں ان سب اعمال کاپورا پورا محاسبہ ہونے کا ذکر ہے۔ (٢) جب قیامت کا زلزلہ آئے گا توزمین کے اندر جو کچھ ہے وہ اگل کرباہر پھینک دے گی اور وہ اپنے اوپر گزرے ہوئے تمام حالات بیان کردے گی۔ الزلزلة
2 الزلزلة
3 الزلزلة
4 الزلزلة
5 الزلزلة
6 الزلزلة
7 الزلزلة
8 الزلزلة
0 العاديات
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی یا مدنی ہے یعنی بعض نے اسے مکی قرار دیا ہے اور بعض نے مدنی، لیکن انداز بیان کے اعتبار سے اس کا مکی ہونا راجح ہے۔ العاديات
2 العاديات
3 العاديات
4 العاديات
5 العاديات
6 (٢) ابتدائی پانچ آیتوں میں گھوڑوں کی مختلف حالتوں کی قسم کھاکر بتایا ہے کہ انسان اپنے رب کابڑا ناسپاس اور ناشکرگزار ہیی وہ مال کی محبت میں لوٹ مار کرتا ہے شب خون مارتا ہے لیکن اسے یہ معلوم نہیں کہ قیامت کے دن ان کے دلوں کی نیتوں تک کو ظاہر کردیا جائے گا اور ہر عمل اور نیت کا حساب ہوگا۔ واضح رہے کہ دل کے افعال دو قسم پر ہے ایک وہ خیالات جو وساوس کی شکل میں آتے ہیں اور گزرجاتے ہیں ان کو خطرات کہا جاتا ہے یہ عفو کے حکم میں ہیں جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے دوسرے وہ اعمال قلب جن کے انجام دینے کے لیے انسان ہر وقت کوشاں رہتا ہے اور برے ارادے اور بری نیت اس کے ذہن وقلب پر سوار رہتی ہے اس قسم کے ارادے اور نیات حساب و کتاب کے ضمن میں آئیں گے (وحصل مافی الصدور)۔ العاديات
7 العاديات
8 العاديات
9 العاديات
10 العاديات
11 العاديات
0 القارعة
1 تفسیر وتشریح۔ (١) سورۃ القارعہ مکی ہے اس میں قیامت کی زلزلہ خیزی کا ذکر ہے اور بتایا ہے کہ قیامت کے کے پہلے مرحلہ پر جو انقلاب آئے گا اس کے نتیجہ میں دنیا کایہ نظام درہم برہم ہوجائیگا اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ کی عدالت میں لوگ پیش ہوں گے اور اعمال پر جزا وسزا مرتب ہوں گے اس حالت کو بیان کیا ہے۔ القارعة
2 القارعة
3 القارعة
4 القارعة
5 القارعة
6 القارعة
7 القارعة
8 القارعة
9 القارعة
10 القارعة
11 القارعة
0 التکاثر
1 تفسیر تشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مدنی ہے یعنی بعض نے اسے مکی قرار دیا ہے اور بعض نے مدنی۔ اس سورۃ میں انسان کو اس کی مال کی حرص اور غفلت پرچونکا یا گیا ہے نیز دنیا پرستی کے برے انجام سے خبردار کیا گیا ہے۔ التکاثر
2 التکاثر
3 التکاثر
4 التکاثر
5 التکاثر
6 التکاثر
7 التکاثر
8 التکاثر
0 العصر
1 العصر
2 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی ہی لیکن اس کا مکی ہونا راجح ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ انسان کا فلاح کا راستہ کیا ہے اور تباہی وبربادی کی راہ کون سی ہے۔ امام شافعی نے اس سورۃ کی جامعیت کے پیش نظر فرمایا ہے کہ اگر لوگ اس سورۃ پر غور کریں تو یہی ان کی ہدایت کے لیے کافی ہے صحابہ کرام بھی اس سورۃ کو بہت اہمیت دیتے اور دو آدمی ملنے کے بعد اس وقت جدا نہ ہوتے جب تک کہ سورۃ عصر کا ایک دوسرے کوسنالیتے۔ (٢) تاریخ انسانی کے انقلاب وتغیرات کو گواہ بناکر فرمایا ہے کہ انسانیت سراسر خسارے میں جاری ہے اور اس خسارے سے بچنے کے لیے صرف چاررہنما اصول ہی انسان کے کام آسکتے ہیں۔ ١۔ ایمان بااللہ۔ ٢۔ عمل صالح۔ ٣۔ ایک دوسرے کو حق کی وصیت۔ ٤۔ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین۔ قرآن مجید نے ان چاراصولوں کی تشریح کی ہے جو قرآن مجید کے مختلف مقامات پڑھ لینے کے بعد انسانی فکر میں راسخ ہوسکتے ہیں۔ تفسیر سورۃ العصر۔ قرآن حکیم کاہر اچھے مقصد کے لیے یہ اعلان ہے کہ آسمان کے نیچے نوع انسان کے لیے، انسانوں کی تلاشی کے لیے جستجوؤں کے لیے اور امیدوں کے لیے بڑی بڑی ناکامیاں ہیں بڑے بڑے گھاٹے، ٹوٹے ہیں لیکن دنیا کی اس عام نامرادی سے کون انسان ہے کون جماعت ہے کہ بچ سکتی ہے اور ناکامیابی کی جگہ کامیابی پاسکتی ہے؟ ناامیدی کی جگہ اس کے دل میں آشیانہ بناسکتی ہے ؟ وہ کون انسان ہیں وہ انسان کہ جو دنیا میں ان چارشرطوں کو قولا وعملا واپنے اندر پیدا کرلیں۔ جب تک یہ پیدانہ ہوں گی اس وقت تک دنیا میں نہ کوئی قوم کامیاب ہوسکتی ہے اور نہ ملک، حتی کہ ہوا میں اڑنے والے پرندے بھی دنیا میں کامیابی نہیں پاسکتے۔ ان چار شرطوں سے گھبرا نہ جانا، اور اگر ایک چیز عربی بھیس میں آجائے تو کیا تم انکار کرو گے چاہے وہ پہچانی ہوئی ہو؟ پہلی شرط وہ ہے جس کا نام قرآن مجید کی بولی میں، ایمان، ہے۔” الالذین آمنوا۔ تم جبھی کامیابی پاسکتے ہو جب تمہارے دلوں کے اندر روح کے اندر وہ چیز پیدا ہوجائے کہ جس کا نام قرآن مجید کی زبان میں ایمان ہے۔ ” ایمان“ کے معنی عربی می، زوال شک، کے ہیں یعنی کامل درجہ کابھروسہ اور کامل درجہ کا اقرار تمہارے دل میں پیدا ہوجائے جب تک کامل درجہ کا یقین تمہارے دلوں کے اندر پیدا نہ ہوگا کامیابی کا کوئی دروازہ تمہارے لیے نہیں کھل سکتا۔ شک کا اگر ایک کانٹا بھی تمہارے دل میں چبھ رہا ہے تو تم کو اپنے اوپر موت کا فیصلہ صادر کرنا چاہیے تم کامیابی نہیں ہوسکتی۔ سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ تمہارے دل کے اندر ایمان، اطمینان، یقین، تمکن، اور اقرار پیدا ہو۔ لیکن کیا محض دل کایہ کام، دماغ کایہ فعل، تصور کایہ نقشہ کامیابی کو پورا کردے گا؟ نہیں۔ فرمایا کہ ایک دوسری منزل اس کے بعد آتی ہے جب تک وہ دوسری منزل بھی کامیابی کے ساتھ طے نہ کرلوگے۔ اس ایک پہلی منزل کو طے کرکے کامیابی نہیں پاسکتے۔ اس کا نام قرآن حکیم کی بولی میں، عمل صالح، ہے (وعملوالصالحات) یعنی وہ کام جو اچھائی کے ساتھ کیا جائے جس کام کو جس صحت اور جس طریقہ کے ساتھ کرنا چاہیے جوطریقہ اس کے لیے سچا طریقہ ہوسکتا ہے اس کام کو اس کے ساتھ انجام دینا۔ قرآن حکیم کایہ اصول توعام ہے ایمان کے معنی ہیں وہ یقین، وہ کامل اطمینان، وہ کامل اقرار کہ جو عمل سے پیدا ہوتا ہے وہ چیز جودماغ میں موجود تھی وہ ارادہ جودماغ میں پیدا ہوا تھا وہ پہلی منزل ہوئی جو مذہب میں آکر، ایمان، کا نام اختیار کرلیتی ہے بالکل جیسے وہ عمل دماغ ہے وہ عمل تصور ویقین ہے اس بناپرپہلی منزل ایمان کی ہے پہلی چیز یہ ہے کہ تمہارے دل کے اندر سچا ارادہ پیدا ہو۔ سچا عزم پیدا ہو۔ دوسری منزل یہ ہے (عملوالصالحات) صرف دماغ کی منزل طے کرکے قدم نہ ٹھہرجائیں بلکہ عمل بھی کرو، اور وہ جو صالح ہو، یعنی جوصبح طریقہ ہے اس کام کے انجام دینے کا۔ جب اس کو پورا کرلیا تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ فتح مندی اور کامیابی کی دو منزلیں تم نے کامیابی کے ساتھ طے کرلیں مگر پھر کیا تمہارا کام ختم ہوگیا ؟ اس کے بعد کیا تم منزل مقصوڈ تک پہنچ جاؤ گے؟ قران مجید کی عالمگیر صداقت کہتی ہے کہ نہیں بلکہ ان دو منزلوں کے بعد دو منزلیں اور بھی باقی ہیں۔ اپنی ہمت تو آزمالو کہ ان کے لیے تمہارے تلوے تیار ہیں یا نہیں؟ تمہاری کمرہمت مضبوط ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہے توممکن ہے کہ یہ پہلی دو منزلیں بھی تمہارے لیے سود مند ہوں۔ کیا ایک کڑی کے درست کرلینے کے بعد زنجیر کاپورا کام ہوگیا ؟ ایک منت کے لیے بھی نہیں۔ تم کیا ہو؟ اس بکھری ہوئی شکل میں بیکار ہو، اس میں تمہارا کوئی وجود نہیں، قرآن وجود مانتا ہے اجتماع کا۔ اس کے نزدیک وجود کڑیوں کا نہیں بلکہ زنجیر کا نام ہے تم میں سے ہر وجود ایک کڑی ہے اس کا کام پورا نہیں ہوسکتا، جب تک کہ وہ باقی کڑیوں کی خبر نہ لے جب تک باقی کڑیاں مضبوط نہ ہوں گی، زنجیر مضبوط نہیں ہوسکتی۔ اس لیے فرمایا کامیابی کاسفر کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک تیسری منزل تمہارے سامنے نہ آئے۔ وہ تیسری منزل ان فصیح وبلیغ معنوں میں ہے کہ : (وتواصو ابالحق وتواصو بالصبر)۔ تیسری منزل، وتواصوا بالحق۔ کہ تم جوایک کڑی تھے جس کو تم نے ایمان اور عمل صالح کی مضبوطی سے استوار کیا تمہارا کام ختم نہیں ہوا تمہارا فرض ہے کہ اس زنجیر کی دوسری کڑیوں کی طرف بھی توجہ کرو، اس کو یوں درست کرسکتے ہو کہ دنیا میں خدا کی سچائی کا پیغام پہنچاؤ۔ جب تک تم میں یہ بات نہ ہوگی کہ تمہارا دل سچائی کے اعلان کے لیے تڑپنے لگے جب تک توصی حق نہ کرو گے کامیابی تم کو نہیں مل سکتی۔ لیکن اگر تیسری منزل کے لیے تم تیار ہوگئے اگر توفیق الٰہی نے تمہاری دستگیری کی تو پھر آخری منزل کون سی ہے؟ وہ ہے کہ جوحق کی منزل کے لیے لازم ملزوم ہے اس کے ساتھ اس کی گردن اس طرح جڑی ہوئی ہے کہ جدا نہیں کی جاسکتی۔ فرمایا کہ حق کی وہ وصیت کریں گے چنانچہ وہ حق کا پیغام سنائیں گے حق کی دعوت پہنچائیں گے حق کایہ حال ہے کہ حق کی راہ میں کوئی قدم نہیں اٹھ سکتا جب تک وہ قربانیوں کے لیے قدم نہ اٹھائیں فرمایا کہ صرف حق ہی کاپیام وہ نہ پہنچائے بلکہ صبر کا بھی پہنچائے۔ (وتواصوا بالحق وتواصوابالصبر)۔ تم نے پانی بدبختی سے نہ صرف شریعت کے حکم کو بدلا ہے بلکہ اپنے طریق عمل سے شریعت کے لفظوں کو بھی بدل ڈالا، صبر کے معنی کیا ہیں؟ تم سمجھتے ہو کہ صبر کے معنی ہیں بے عزتی اور باطل کی پرستش وپوجا، جو شخص صبر کے معنی یہ سمجھتا ہے اس سے بڑھ کر قرآن تحریف لفظی کرنے والا کوئی نہیں۔ تحریف معنوی توبہت علماء کررہے ہیں لیکن تحریف لفظی یہ ہے کہ صبر کے معنی یہ کیے جائیں کہ اگر تمہارے اوپر حق کے مقابلہ میں مصیبت آجائے تو تم کو چاہیے کہ صبر کے گوشے میں پناہ لو۔ یعنی ہر طرح کی بے عزتی کو باچارگی کو، باطل پرستی کو قبول کرلو۔ صبر کے معنی بالکل اس سے مختلف ہیں۔ صبر کے معنی ہیں برداشت، کے صبر کے معنی ہیں، جھیلنے، کے صبر کے معنی ہیں، تحمل کے کہ جوقدم تم مقصد کی راہ میں اپنے محبوب وپیارے مقصد کے لیے اٹھاؤ اور اس میں طرح طرح کی مصیبتیں آئیں طرح طرح کی ڈراؤنی صورتیں آئیں، زنجیریں اور ہتھکڑیاں آئیں بلکہ ممکن ہے کہ تمہارے سامنے تختہ دار ہو اور اس پرایک پھندا لٹکے۔ یہ سب تمہارے سامنے آئے گا لیکن اگر حق کے پرستار ہو تو تمہارا فرض ہونا چاہیے کہ تمہارے اندر صبر ہو، تمہارے اندر برداشت کی وہ اٹل طاقت ہو وہ پہاڑ برداشت کا تمہارے اندر موجود ہو کہ دنیا کی کوئی مشکل، کوئی تاج وتخت اس پر فتح یاب نہ ہوسکے۔ یہ معنی صبر کے ہیں چنانچہ قرآن مجید کے مواقع استعمال پراگرغور کیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ ہر جگہ صبر کے یہی معنی ہیں۔ مقصد یہ تھا کہ قرآن مجید نے جوصداقت نوع انسانی کے آگے کامیابی کے لیے پیش کی ہے اور اب سے تیرہ سو برس پیشر جوایک اٹل اور لازوال پروگرام بنادیا ہے اس کی چار دفعات ہیں اگر وہ کوئی سفر ہے تو یہ اس کی چار منزلیں ہیں ہم کو ایک منٹ کے لیے غور کرنا چاہیے کہ کیا دنیا میں کوئی بھی کامیابی بلا ایمان مل سکتی ہے؟ کیا تم شک کاروگ اپنے پہلو میں لے کر دنیا کی چھوٹی چھوٹی کامیابیاں پاسکتے ہو؟ کیا تم دنیا میں ایک مٹھی بھر جواورچاول بھی پاسکتے ہو؟ جب تک تمہارے اندر حق کے لیے طلب نہ ہو۔ کیا ایک لمحہ کے لیے دنیا کی کوئی کامیابی تمہیں اپناچہرہ دکھاسکتی ہے جب تک تم حق کی راہ میں قربانیاں چڑھانے کے لیے تیار نہ ہو، خدا کی اس کاینات کے ایک ایک ذرہ میں اس حقیقت کی ایک عالمگیر تصدیق موجود ہے۔ اور اس دنیا میں کامیابی کا کوئی چہرہ نہیں دیکھ سکتاجب تک وہ ایمان، عمل صالح، حق اور صبر کی منزل سے نہ گزرے۔ اللہ تعالیٰ کاہرقانون ہر اڑنے والے پرندے کے لیے ہے، کیا خدا اپنا قانون تمہارے لیے بدل دے گا؟ کیا خدا تمہاری غفلتوں کا ساتھ دے گا۔ اگر تم اپنی غفلت کی وجہ سے اس دھوکا میں پڑے ہو تو تم سے بڑھ کر اپنی موت کی طرف جانے والا کوئی نہیں۔ اسلام ایک مکمل مذہب کے تمام اجزاء کا مجموعہ ہے اس لیے اس نے عقائد وعبادات کے سلسلے میں اخلاق کو بھی نمایاں جگہ دی۔ لیکن خاص طور پر جن اخلاق حسنہ کی تعلیم دی وہ تمام ترفوجی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس نے صبر توکل اور عزم واستقلال کی ہر موقع پر تعلیم دی، اور یہی چیزیں ہیں جن کے ذریعے سے کوئی فوج میدان جنگ میں ثابت قدم رہ سکتی ہے اسلام دنیا میں حق وصداقت کی اشاعت کے لیے آیا حق وصداقت کامیدان صرف جہاد کے ذریعے سے فتح ہوسکتا ہے صبر جہاد کی حقیقت کے لیے اصل شرط ہے۔ پس اس نے (اسلام نے) ہمیشہ حق وصبر کو لازم ملزوم قرار دیا۔ قرآن مجید نے ایمان اور اہل ایمان کی نسبت جو کچھ کہا ہے اس میں کوئی بات بھی اس قدر نمایاں نہیں، جس قدر یہ کہ سچے اہل ایمان خوف اور غم دونوں سے محفوظ ہوجائیں۔ حقیقت یہی ہے کہ انسانی زندگی کی سعادت کے لیے اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کی شقاوت کی ساری سرگزشت انہی دو لفظوں میں سمٹی ہوئی ہے خوف اور دکھ۔ جونہی ان دوباتوں سے رہائی مل گئی ساری سعادتیں اس کے قبضے میں آگئیں قرآن حکیم نے یہ حقیقت دوسر پیرائے میں بھی بیان کی۔ مثلا سورۃ عصر اسی حقیقت کا اعلان ہے۔ العصر
3 العصر
0 الهمزة
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ مکی ہے اس سورۃ میں اخلاقی برائیوں کی مذمت کی گئی ہے جوجاہلی معاشرے میں پائی جاتی تھیں۔ اور آخرت میں ان لوگوں کا جو انجام ہوگا اس کا منظر پیش کیا گیا ہے۔ (٢) ہمز اور لمز کے تقریبا ایک ہی معنی ہیں۔ یعنی کسی کی تحقیر کرنا اور اس کے نسب پر طعنہ زنی کرنا اور پیٹھ پیچھے اس کی برائی بیان کرنا۔ اس قسم کے اخلاق کے عادی مجرم کو ہمزہ اور لمزہ کہا جاتا ہے۔ الهمزة
2 الهمزة
3 الهمزة
4 الهمزة
5 الهمزة
6 الهمزة
7 الهمزة
8 الهمزة
9 الهمزة
0 الفیل
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ مکی ہے اور اس کے تاریخی پس منظر کے جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ مکہ کے ابتدائی دور میں نازل شدہ سورتوں سے ہے۔ سورۃ البروج میں گزرچکا ہے کہ یمن میں یہودی فرمانروا ذونواس نے عیسائیوں پر جوظلم وستم ڈھائے تھے اس کا بدلہ لینے کے لیے حبش کی عیسائی سلطنت نے یمن پر حملہ کیا اور ٥٢٥ میں اس پورے علاقے پر حبشی حکومت قائم ہوگئی۔ اس حملے کا باعث محض مذہبی انتقام نہ تھا بلکہ اس کے کچھ سیاسی اور مذہبی عوامل بھی تھے اس حملہ آور فوج کی قیادت دوامیروں کے ہاتھ میں تھی ایک اریاط اور دوسرا ابرہہ۔ بعد میں اریاط مارا گیا اور ابرہہ نے پوری قیادت پر قبضہ کرلیا۔ اور شاہ حبش کی رضامندی سے یمن میں گورنر مقرر ہوگیا۔ پھر رفتہ رفتہ یمن کا خود مختار بادشاہ بن گیا۔ اس کے بعد اس نے عرب میں عیسائیت کی تبلیغ کے لیے یمن کے دارالسلطنت صنعاء میں ایک کلیسا تعمیر کروایا جو القلیس کے نام سے مشہور ہوا اور اس نے عربوں کو حج کعبہ سے اس طرف موڑنے کی کوششیں شروع کردیں اور یمن میں علی الاعلان اس کی منادی بھی کرادی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح عربوں کو غصہ دلائے اور مکہ پر حملہ کاجواز مل جائے۔ چنانچہ اس کے اعلان پر غضب ناک ہوکرایک عرب نے کسی نہ کسی طرح کلیسا میں گھس کررفع حاجت کرڈالی۔ جس کی اطلاع پر ابرہہ طیش میں آگیا اور اس نے کعبہ پر حملہ کا منصوبہ بنالیا۔ اور ساٹھ ہزار، کی فوج کے ساتھ جس میں ٩ ہاتھی بھی شامل تھے مکہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ یہ لشکر جب طائف کے قریب پہنچاتوبنوثقیف نے ایک معاہدہ کے تحت اس کی رہنمائی کے لیے ایک شخص ابورعال نامی کو اس کے ساتھ کردیا، المغمس نامی جگہ پر پہنچ کرابورغال مرگیا، اور عرب مدتوں تک اس کی قبر پرسنگ باری کرتے رہے۔ یہ مقام مکہ سے قریبا تیس کوس کے فاصلے پر تھا اس سے آگے بڑھا تو محمود نامی ہاتھی نے مکہ میں داخل ہونے سے انکار کردیا اور وہیں بیٹھ گیا اتنے میں پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ چونچوں میں سنگریز لیے آئے اور اس لشکر پرسنگ باری شروع کردی جس کسی پر یہ پتھر گرتے اس کا جسم گل جاتا۔ یہ دیکھ کر ان لوگوں نے افراتفری میں یمن کی طرف بھاگنا شروع کردیا اور سارالشکر تباہ وبرباد ہوگا۔ یہ واقعہ وادی محصب کے قریب محسر کے مقام پر پیش آیا اور پھر ہوا کہ یمن کے اندر حبشی اقتدار ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا اس سورۃ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ الفیل
2 الفیل
3 الفیل
4 الفیل
5 الفیل
0 قریش
1 تفسیر وتشریح۔ (١) سورۃ قریش کو بعض نے مدنی قرار دیا ہے لیکن اکثر مفسرین نے اسے مکی ہی کہا ہے۔ اور (رب ھذالبیت) کے الفاط اس کے مکی ہونے کی تائید کرتے ہیں اس سورۃ کے مضمون کو سمجھنے کے لیے بھی اس کے تاریخی پس منظر کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جد اعلی قصی بن کلاب وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے قریش کو متفرق مقامات سے بلاکر مکہ میں جمع کیا اس بنا پر قصی کعمجمع، کالقب دیا گیا اس نے حج کے نظام کو بہتر بنایا اور حاجیوں کی خدمت کا انتظام کیا۔ جس سے قریش کا اثر ورسوخ تمام عرب میں قائم ہوگیا اور وہ احترام کی نظر سے دیکھے جانے لگے۔ قصی کے بعد اس کے دوبیٹوں عبدمناف اور عبدالدار کے درمیان اسی شہری ریاست کے مناصب تقسیم ہوگئے مگر عبدمناف کو ناموری حاصل رہی۔ عبدمناف کے چاربیٹے تھے ہاشم، عبدشمس، مطلب اور نوفل۔ ان میں ہاشم نے بین الاقوامی تجارت میں حصہ لینا شروع کردیا جوعر کے راستہ بلادمشرق اور شام ومصر کے درمیان ہوتی تھی اس دور میں ایران کی ساسانی حکومت اس بین الاقوامی تجارت پر قابض تھی جوشمالی علاقوں اور خلیج فارس کے راستوں رومی سلطنت اور بلاد مشرقی کے درمیان ہوتی تھی اس لیے کاروبار بہت تیزی سے ہورہا تھا دوسرے عرب کے قافلوں کی بہ نسبت قریش کو سہولت حاصل تھی اور تمام قبائل بیت اللہ کے خام ہونے کی وجہ سے ان کی عزت کرتے تھے اور قریش کے قافلے نہایت امن سے آتے جاتے تھے اور ان بھائیوں نے مختلف ممالک سے اپنے تعلقات قائم کرلیے تھے اور گردورپیش سے ان تعلقات کی بنا پر ان کو اصحاب الایلاف کہا جاتا تھا اور مکہ جزیرۃ العرب کا نہایت اہم تجارتی مرکز بن گیا اور ابرہہ کا حشر دیکھ کر قبائل اور زیادہ قریش کے معتقد ہوگئے اور بیت اللہ کا طواف بیت اللہ سمجھ کر کرنے لگے تھے اس بنا پر قریش نہایت امن وامان سے تجارت کرتے تھے اور کوئی بھی ان سے تعرض کی جرات نہیں کرتا تھا۔ اس مختصر سورۃ میں قریش پراسی احسان کو دہرایا گیا ہے اور اسے یاد دلاکر انہیں ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی گئی ہے۔ قریش
2 قریش
3 قریش
4 قریش
0 الماعون
1 تفسیر وتشریح۔ (١) سورۃ الماعون بھی مکی مدنی سورت ہے۔ اس سورۃ میں ریاکاری کی عبادت اور معمولی استعمال کی چیزوں کو روک رکھنے کو تکذیب بالدین قرار دیا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سورۃ مدنی ہے کیونکہ اس قسم کی منافقت مدینہ میں پائی جاتی تھی۔ الماعون
2 الماعون
3 الماعون
4 الماعون
5 الماعون
6 الماعون
7 الماعون
0 الكوثر
1 الكوثر
2 الكوثر
3 تفسیر وتشریح۔ (١) سورۃ الکوثر مکی ہے یا مدنی ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت انس بن مالک کی روایت کی بنا پر امام نووی نے اس کے مدنی ہونے کو ترجیح دی ہے۔ (٢) نبوت کے ابتدائی دور میں جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے چند ساتھی انتہائی مشکلات کے دور سے گزررہے تھے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسکین قلب کی خاطر متعدد سورتیں نازل ہوئیں جن میں سے ایک سورۃ الکوثر بھی ہے۔ اس میں بھی نبی کو تسلی دی گئی اور مخالفین کے تباہ وبرباد ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ الكوثر
0 الكافرون
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ بھی مکی سورتوں میں سے ہے دعوت اسلام سے گوقریش نے مخالفت کا طوفان کھڑا کررکھا تھا مگر قریش اس بات سے مایوس نہ تھے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی طور مصالحت پرآمادہ کرلیں گے اس لیے وقتا فوقتا آپ کے پاس مصالحت کی تجویزیں لے کرآتے۔ من جملہ ان کے انہوں نے یہ تجویز پیش کی ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں گے اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی۔ اس سورۃ نے یہ اصول دیا کہ جس رواداری سے مذہب کے اساسی عقیدہ پر زد پڑتی ہو ایسی رواداری کی گنجائش نہیں ہے۔ الكافرون
2 الكافرون
3 الكافرون
4 الكافرون
5 الكافرون
6 الكافرون
0 النصر
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ مدنی ہے اور نزول کے اعتبار سے قرآن مجید کی آخری سورۃ ہے اس سورۃ کے نزول سے تین ماہ بعد آپ فوت ہوگئے ہیں حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ کہ اس سورۃ میں نبی کو تعلیم دی گئی کہ جب عرب کے لوگ اسلام میں داخل ہوجائیں تو (آپ سمجھ لیں کہ) آپ کا کام مکمل ہوگیا۔ اس کے بعد آپ کو حکم دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی حمدوتسبیح میں مشغول ہوجائیں اور اس انقلاب میں اگر کوئی کوتاہی یابھول چوک ہوگئی تو اس کے لیے اللہ سے استغفار کریں۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ اس کے بعد آپ نہایت محنت اور ریاضت میں مشغول رہتے۔ النصر
2 النصر
3 النصر
0 الہب
1 تفسیر وتشریح۔ (١) یہ سورۃ مکی ہے اس میں ابولہب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ کے آخر دور میں نازل ہوئی ہوگی جبکہ ابولہب کا کردار اسلام کی راہ میں سخت رکاوٹ بنا ہوا تھا ممکن ہے یہ سورۃ اس دور میں نازل ہوئی ہوجبکہ قریش نے شعب ابی طالب میں بنوہاشم کا مقاطعہ کررکھا تھا ابولہب وہ شخص تھا جس نے اسلام دشمنی کے لیے تمام اخلاقی اصولوں کو پس پشت ڈال دیا تھا اور صلہ رحمی جوعرب معاشرہ میں بہت اہم چیز سمجھی جاتی تھی اس کا بھی لحاظ نہ کیا۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت عام پیش کرنے کا حکم دیا گیا اور آپ پر یہ ہدایت نازل ہوئی کہ آپ اپنے قریب ترین عزیزوں کو سب سے پہلے ڈرائیں تو آپ نے صبح سویرے کوہ صفا پر چڑھ کر بلندآواز سے پکارا، یاصباحاہ۔ اس پر قریش کے سب لوگ جمع ہوگئے پھر آپ نے قریش کے ایک ایک خاندان کا نام لے لے کرپکارا۔ اے بنی ہاشم، اے بنی عبدالمطلب، اے بنی فہر، اے بنی فلاں وفلاں، جب سب اکٹھے ہوگئے تو فرمایا اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر تم پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہے تو تم میری بات مان لوگے؟۔ لوگوں نے کہا، ہمیں کبھی تم سے جھوٹ سننے کا تجربہ نہیں ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا، تو میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ آگے سخت عذاب آرہا ہے۔ اس پر قبل اس کے کوئی اور بولتا، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابولہب نے کہا، تبالک الھذا جمعتنا؟ تیرے لیے ہلاک ہو، کیا تو نے اس لیے ہمیں یہاں جمع کیا تھا؟ اس موقع پر یہ سورۃ نازل ہوئی۔ نیز روایات میں ہے کہ ابولہب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قریب ترین ہمسایہ بھی تھا دونوں کے درمیان صرف ایک دیوار حائل تھی یہ آپ کو بہت تکلیف دیتا ابولہب کی بیوی ام جمیل نے تو یہ وتیرہ اختیار کررکھا تھا کہ رات کے وقت آپ کے دروازہ پرخاردار جھاڑیاں لاکر ڈال دیتی تھی تاکہ صبح سویرے جب آپ یا آپ کے بچے باہر نکلیں تو کوئی کانٹا ان کے پاؤں میں چبھ جائے۔ نبوت سے قبل آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دو صاحبزادیاں ابولہب کے دو بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے بیاہی ہوئی تھیں مگر اسلام دشمنی کے سبب ابولہب نے اپنے بیٹوں سے دونوں کو طلاق دلوادی، بلکہ عتیبہ نے تو شدت نفرت سے آپ پرتھوکنے کی مذموم کوشش بھی کی تھی جس پرآنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللھم سلط علیہ کلبا من کلابک۔ چنانچہ ایک شیر نے اسے پھاڑ ڈالا۔ الغرض اس طرح کے متعدد واقعات ہیں جن کی بنا پر یہ سورۃ نازل ہوئی جس میں ابولہب اور اس کی بیوی کے کردار کی مذمت کی گئی اور ان کے انجام بد کی خبردی۔ الہب
2 الہب
3 الہب
4 الہب
5 الہب
0 الاخلاص
1 تفسیر وتشریح۔ (١) سورۃ الاخلاص مکی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا تصور پیش کیا گیا ہے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول اللہ سے کہا کہ آپ اپنے رب کانسب ہمیں بتائیے اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی۔ (٢) احادیث میں اس سورۃ کو ثلت قرآن قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس سورۃ میں اسلام کے بنیادی عقائد (توحید نبوت اور آخرت) میں سے ایک توحید کو چار مختصر فقروں میں جامع طور پر بیان کردیا گیا ہے۔ الاخلاص
2 الاخلاص
3 الاخلاص
4 الاخلاص
0 الفلق
1 تفسیر وتشریح۔ (١) سورۃ الفلق اور سورۃ الناس یہ دونوں سورتیں مکی مدنی ہیں اور ان دونوں کا نام، معوذتین، رکھا گیا ہے بعض روایات میں ہے کہ مدینہ میں یہود نے جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا تھا اور اس کے اثر سے حضور بیمار ہوگئے تھے اس پر یہ دونوں سورتیں نازل ہوئیں۔ مکہ میں دشمنوں کی شدید مخالفتیں ان سورتوں کے نزول کاسبب بنیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دشمن سے پناہ مانگنے کے لیے ان سورتوں کی تعلیم دی گئی۔ الفلق
2 الفلق
3 الفلق
4 الفلق
5 الفلق
0 الناس
1 تفسیر وتشریح۔ ایک اہم مبحث : حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے ان دونوں سورتوں کو اپنے مصحف سے خارج کردیا تھا اور وہ ان کو قرآنی سورتیں ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس روایت کی بناپرمخالفین اسلام نے قرآن مجید کے مختلف ہونے کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور قرآن میں تحریف کا شوشہ چھوڑا ہے۔ لیکن اولاتوحضرت عبداللہ بن مسعود کایہ تفرد اور شذوذ قابل حجت نہیں ہے اور پھر حضرت عثمان نے سرکاری طور پر جو مصحف جمع کروایا تھا اس کی اجماعی حیثیت مسلم تھی اور اس میں یہ دونوں سورتیں درج تھیں لہذا حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت کی بنا پر اان کی قرآنیت سے انکار کرنا سراسر باطل ہے۔ خصوصا جبکہ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سورتوں کو نماز میں پڑھا ہے اور دوسروں کو پڑھنے کی تلقین کی ہے۔ ابوبکر باقلانی لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کو ان کے قرآن ہونے میں شبہ نہیں تھا مگر جبکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مصحف میں لکھنے کے لیے نہیں فرمایا اس لیے وہ انہیں مصحف کے اندر درج کرنے میں متامل تھے اور عین ممکن ہے کہ عبداللہ بن مسعود نے اپنی غلطی کو تسلیم کرلیاہو۔ دوسرا مبحث : روایات میں ہے کہ مدینہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا گیا تھا اور تاریخی حیثیت سے یہ ثابت ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے متاثر ہوئے تھے اور لبید بن اعصم یہودی نے جادوچلایا جو انصار کے قبیلہ بنی زریق سے تعلق رکھتا تھا اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بال اور کنگھی کسی طریقہ سے حاصل کرلی اور موئے مبارک اور کنگھی کے دندانوں کو بنی زریق کے کنویں ذروان یاذی اروان کی تہ میں دبادیا تھا اس سے آپ کے مزاج مبارک میں تغیر آگیا تھا مگر یہ تمام آپ کی ذات تک محدود ہے حتی کہ کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ آپ پر کیا گزری ہے وحی پر اس کا کوئی اثرنہ تھا۔ اس حد تک یہ واقعہ بالکل صحیح ہے جسمانی طور پر نبی کو اذیت پہنچنے سے منصب نبوت پر کوئی اثر نہیں پڑتا مگر بعض لوگوں نے ان جادو والی احادیث کا ہی انکار کردیا ہے اور ان احادیث کو ان تتبعون الارجلامسحورا۔ کے خلاف سمجھا ہے مگر یہ تمام توجیہات غلط ہیں جیسا کہ ہم واضح کرچکے ہیں۔ اس کے بعد اب ہم ان سورتوں کے الفاظ کی وضاحت کرتے ہیں۔ بعض مضرات اسی قسم کی ہوتی ہیں کہ انسان ان کے دفع کرنے سے عاجز ہوتا ہے اور فطرتا کسی مافوق الفطرت ہستی کی طرف رجوع کرتا ہے اس عقیدے کی بنا پر کہ وہ ہستی عالم اسباب پر حکمران ہے اور ہمارے ادراک سے بالاتر ہے اور وہ حفاظت کرسکتی ہے۔ سورۃ فلق و سورۃ الناس میں اسی قسم کی پناہ مراد ہے بلکہ قرآن و حدیث میں جہاں بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا ذکرآیا ہے اس سے یہی قسم مراد ہے اور عقیدہ توحید کا تقاضا یہ ہے کہ اس نوع کا تعوذ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے نہ کیا جائے۔ مشرکین اس قسم کے استعاذے غیر اللہ سے کرتے تھے مادہ پرست لوگ مادی ذرائع ووسائل کی طرف رجوع کرتے ہیں مومن کے لیے لازم ہے کہ اس قسم کے خطرات سے بچنے کے لیے صرف اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آئے۔ فلق سے مراد صبح کی سپیدی ہے جو رات کی تاریکی کو پھاڑ کرظاہر ہوتی ہے پس (اعوذ برب الفلق) کے معنی یہ ہوئے کہ میں صبح کے مالک کی پناہ مانگتا ہوں (کہ وہ مجھے مخلوق کے ہرقسم کے شر سے محفوظ رکھے)۔ العقد۔ یہ عقدہ کی جمع ہے، عقدہ کے معنی گرہ کے ہیں اور، نفث، کے معنی پھونکنے کے ہیں جبکہ گرہ میں پھونکنے کا محاورہ عموما کنایتا جادو سے ہوتا ہے پس آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ میں جادوگرنیوں کے شر سے (اللہ رب العزت کی) پناہ چاہتا ہوں۔ (الواسواس الخناس)۔ سے مراد وسوسہ اندازی کرنے والا شیطان ہے جو وسوسہ ڈال کرپیچھے ہٹ جاتا ہے۔ الناس
2 الناس
3 الناس
4 الناس
5 الناس
6 الناس
Flag Counter