Maktaba Wahhabi

آیت نمبرترجمہسورہ نام
1 ام ال کتاب کے فضائل ونکات : قرآن مجید میں اس کا نام ” سبع مثانی ہے ۔ احادیث میں فاتحہ ، کافیہ ‘ ام ال کتاب اور کنز وغیرہ کے ناموں سے موسوم ہے ۔ اس لئے کہ نماز میں اسے بار بار پڑھا جاتا ہے ہے : سبع مثانی “ ہے اس لئے کہ قرآن حکیم کی ابتدا اس سے ہوتی ہے : ” فاتحہ “ ہے اس لئے کہ معارف کا گنج گراں مایہ اس میں پوشیدہ ہے ۔ : کنز “ کہلاتی ہے اس لئے کہ تمام اس لئے کہ تمام اساسی وضروری اصول اس میں مذکور ہیں ۔ ام ال کتاب یا کافیہ کے نام سے یاد کی جاتی ہے یہ سارے قرآن ذی شان کا عطر سمجھئے ، تمام باتیں بالاجمال اس میں آگئی ہیں ۔ (لا) : رب کائنات کی حمد وستائش جس کی رحمتیں وسیع اور ہمہ گیر ہیں جو فیصلے کے دن کا تنہا مالک ہے ۔ (ب) : ایک خدا کی پرستش کا اعتراف اور ہر کام میں اسی سے استعانت کا اقرار ۔ (ج) : صراط مستقیم یا جادہ ہدایت کی طلب جس پر چل کر تمام برگزیدہ لوگوں نے انعام حاصل کئے اور جس سے ہٹ کر چاہ غضب وضلالت میں گر گئے ۔ اسی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ۔ یہ قرآن میں عظیم ترین سورۃ ہے ۔ (ی) : امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) جو مفسر امت اور پہلے مفسر قرآن صحابی ہیں ‘ فرماتے ہیں فاتحہ دو ثلث تقریبا آجاتے ہیں یعنی دو تہائی مضامین (ف ١) بسم اللہ سے قرآن کا آغاز ہوتا ہے اور یہ ہر نوع کے آغاز کے لئے اس درجہ موزوں ہے کہ بسم اللہ کے معنی ہی آغاز یا شروع کے ہوگئے ۔ حدیث شریف میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کل امر ذی بال لم یبدا باسم اللہ فھو ابتر “۔ یعنی ہر کام کا آغاز بسم اللہ سے ہو ‘ ورنہ ناکامی ہوگی ۔ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ ہر کام میں مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھا جائے جو بسم اللہ میں بتائے گئے ہیں ۔ بسم اللہ ایک پیغام عمل ہے جسے غلطی سے ایک فسوں سمجھ لیا گیا ہے ۔ (١) کام کا مقصد نیک ہو اللہ کی رضا اس میں مستتر ہو (٢) خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے قانون کے ماتحت شروع کیا جائے یعنی بتدرئھ استقلال اور رجا کو ہاتھ سے دیا جائے ۔ (٣) مایوسی اور قنوط طبیعت پر نہ چھا جائے ۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ رحمن ورحیم ہے ۔ وہ کسی طرح بھی ہمارے نیک اعمال ضائع ہونے نہیں دیتا ۔ یہ سہ گانہ اصول ہیں جو بسم اللہ میں بتائے گئے ۔ ظاہر ہے انہیں ہر وقت ملحوظ رکھنا ہر کام میں کامیابی حاصل کرنے کے مترادف ہے ۔ الفاتحة
2 (ف ٢) خدا کے متعلق قرآنی تخیل یہ ہے کہ وہ ساری کائنات کا رب ہے ۔ اس کی خدائی زمان ومکان کی قیود سے بالا و بلند ہے ۔ حل لغات : الحمد ، مصدر تعریف وستائش اس صورت میں جبکہ ممدوح مختار اور فعل جمیل وخیر ہو ۔ رب : اسم صفت جو تخلیق واختراع کے بعد کائنات کا ہر منزل میں خیال رکھے یعنی ایجاد و تصویر سے لیکر تکمیل و تزئین تک ہر مرحلے میں اس کا التفات کرم فرما رہے ۔ العلمین : جمع عالم اسم آلہ خلاف قیاس ، دنیا یا کائنات ، ہر شے ہر جگہ ، ہر چیز ، الرحمن ، رحم رحمنہ سے اسم صفت رحم سے مطلق ہے یعنی ماورانہ شفقت کی انتہائی تنزیہی صورت ، مہرومحبت کا پاکیزہ ترین پیکر ، اھد ۔ مصدر ہدایت ، صیغہ امر لطف ومحبت سے رہنمائی کرتا ۔ دھیرے دھیرے پیار سے منزل مقصود تک پہنچانا ۔ الصراط المستقیم : سیدھی ، قریب ترین اور بےخوف ومضطرراء ۔ الفاتحة
3 الفاتحة
4 (ف ٣) مکافات عمل کی آخر صورت فیصلے کا دن ہے جس میں کسی کو مداخلت کا حق نہیں ۔ تمام جھگڑوں کو نپٹائے گا ۔ والامر یومئذ للہ الفاتحة
5 (ف ٤) قرآن کا یہ احسان ہے ساری دنیائے انسانیت پر کہ اس نے بندہ و خدا کے درمیان جتنے پردے حائل تھے چاک کر دئے ، اب ہر شخص براہ راست اسے پکار سکتا ہے ، نہ عبادت کے لئے کسی وسیلے کی ضرورت ہے نہ استعانت کے لئے کسی شفیع کی حاجت الفاتحة
6 (ف ٥) اللہ نے راہ طلب کی وسعتوں کو غیر محدود بنایا ہے مسلمان عرفان وسلوک کے ہر منصب کے بعد بھی ” طالب “ کے درجہ سے آگے نہیں بڑھتا یعنی خدا کا انعام وفضل بےپایاں وبیحد ہے ‘ اس لئے ایک عاصی سے لیکر حضور علیہ الصلوۃ والسلام تک یہی دعا مانگتے چلے آئے ہیں کہ اے خدا ہمیں صراط مستقیم پرچلا ۔ راہ اکرام وافضال کے دروازے بند نہ ہوں ۔ الفاتحة
7 (ف ٦) ضال ومغضوب سے وہ لوگ مراد ہیں جو صراط مستقیم سے بھٹک گئے ہیں اور پھر تمرود سرکشی کی وجہ سے کسی نہ کسی طرح عذاب میں گرفتار ہیں ۔ الفاتحة
0 البقرة
1 البقرة
2 حروف مقطعات کا فلسفہ : قرآن کی انتیس سورتوں کے آغاز میں یہ حروف آتے ہیں ، مفسرین نے مختلف معانی ان کے بیان فرمائے ہیں جو کھلا ہوا ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ حروف بےمعنی نہیں ۔ قطرب ، مبرو ۔ فراء اور محققین کا ایک عظیم القدر گروہ اس بات پر متفق ہے کہ یہ حروف قرآن کے ان حروف تہجی سے مرکب ہیں جس سے قرآن کے الفاظ بنے ہیں ، مقصد یہ ہے کہ قرآن اپنے طرز بیان الفاظ کی شوکت اور معنویت کے اعتبار سے جو معجزہ ہے تو اس کی ترتیب میں انہیں روز مرہ کے حروف سے کام لیا گیا ہے تمہیں اگر اس کی ساحری ومعجز نمائی سے انکار ہے تو آؤ ایک سورۃ ہی ایسی لکھ دو جو قرآن کی کسی سورت سے لگاؤ کھا سکے ، علامہ زمخشری نے کشاف میں ایک باریک نکتہ یہ بیان کیا ہے کہ یہ حروف جو مقطعات کی شکل میں آئے ہیں سب قسم کے حروف کا یک بہترین اور زیادہ تر استعمال ہونے والا مجموعہ ہے ، غور کرکے دیکھو ان حروف کے بعد جہاں جہاں یہ آئے ہیں عموما کتاب آیات ‘ ذکر ‘ تنزیل قرآن وغیرہ کا ذکر ہے جو اس بات پر دال ہے کہ یہ آیات بینات ‘ ذکر جمیل ‘ یہ قرآن معجزہ طراز انہیں حروف کے الٹ پھیر کا نتیجہ ہے حوصلہ ہے تو تم بھی میدان میں آکر دیکھو ، ان حروف کا فلسفہ یہ بھی ہے کہ قرآن نے جس طرح اپنے ادب کو ملحوظ رکھا ہے ، جس اس کا لغت اس کی تشریح ، اس کی تفسیر اور اس کا انداز بیان بغیر کسی تغیر وتبدل کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سینوں میں محفوظ ہے ، اسی طرح اس کے حروف کا تلفظ بھی محفوظ رہنا چاہیے تھا ۔ حروف مقطعات سے یہ ضرورت پوری ہوجاتی ہے ، گویا قرآن تلفظ وترتیل سے لے کر تشریح وتوضیح تک سب کچھ اپنے اندر رکھتا ہے اور کسی چیز بیرونی چیز کا مرہون منت نہیں ۔ (ف ١) سورۃ سجدہ میں فرمایا (آیت) ” تنزیل ال کتاب لا ریب فیہ من رب العلمین یعنی اس صحیفہ ہدی کے الہامی ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں طرز بیان کی دلربائی ، دلائل کا احصاء ضروریات انسانی کا لحاظ اور فطرت حق سے تطابق یہ سب چیزیں پڑھنے اور سننے والے کے دماغ کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہیں پھر یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ یہ کلام خدا کا غیر مشکوک کلام ہے ۔ (ف ٢) : ہدایت کے چار مرتبے ہیں ، الہام فطرت یا معارف ضروریہ کا علم جیسے (آیت) ” ربنا الذی اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی “۔ یا وحی نبوت جیسے (آیت) ” وجعلنا منھم ائمۃ یھدون بامرنا “۔ یا توفیق و تیسیر جیسے (آیت) ” والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا “۔ اور یا اللہ کے انعامات کی طرف راہنمائی جیسے اہل فردوس یہ کہیں گے ۔ (آیت) ” الحمد للہ الذی ھدانا لھذا “۔ یہاں یہ آخری معنی مراد ہیں ، مطلقا راہنمائی مقصود نہیں ، وہ تو ہر شخص کے لئے ہے چاہے مانے چاہے نہ مانے ۔ حل لغات : تقوی ۔ وقایۃ سے مشتق ہے جس کے معنی بچاؤ کے ہیں ۔ مراد ایسی حالت ہے نفس کی جو گناہوں اور لغزشوں سے بچائے ، غیب : ہر وہ جو ہمارے جوارح کی دسترس سے بالا ہو ۔ اقامت الصلوۃ ۔ پوری طرح خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا ۔ البقرة
3 (ف ٣) : اللہ کا وہ انعام جسے وہ کلام کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے ‘ یونہی نہیں مل جاتا ، اس کے لئے تمام مغیبات پر ایمان لانے کی ضرورت ہے اور پھر صحیح معنوں میں نماز پڑھنے کی حاجت ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ اللہ کی راہ میں کچھ دینے کی بھی اور پھر یہ بھی خیال رہے کہ قرآن پر پورا پورا ایمان ہو ۔ سابقہ کتب کی بھی احترام کی نگاہ سے دیکھے اور نظام اخروی پر غیر متزلزل یقین رکھے یعنی ایمان وعمل دونوں تابحد کمال ہوں ۔ البقرة
4 البقرة
5 البقرة
6 البقرة
7 البقرة
8 ناقابل اصلاح گروہ : آفتاب نبوت جب چمکتا ہے تو چند آنکھیں بینائی کھو بیٹھتی ہیں اور ایسے شپرہ چشم لوگ پیدا ہوجاتے ہیں جنہیں نصف النہار کے وقت بھی حق سوجھائی نہیں دیتا ، جب اللہ کی عنایت وکرم کے بادل گھر کے آتے ہیں تو ایسی زمین بھی ہوتی ہے جو شور اور سنگلاح ہو ، وہاں روئیدگی کی قطعا امید نہیں ہوتی ، کفر وعناد کا زقوم تو وہاں اگتا ہے ، مگر ایمان کا گل وریحان نہیں اگتا ، یہاں اسی چیز کا ذکر ہے ۔ ایک ناقابل اصلاح گروہ جس کا تمرد حد سے بڑھ گیا ہے تو تیئیس سال تک چشمہ فیض سے سیراب ہوتا ہے لیکن انکار وناشکری سے باز نہیں آتا جو خود کہتا ہے (آیت) ” قلوبنا غلف “ کہ ہمارے دلوں میں حق کے لئے کوئی جگہ نہیں کیونکر ہدایت پذیر ہو سکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے اور ان کے کانوں پر بھی ، نہ کان حق کی آواز کو سنتے ہیں اور نہ دل ہی حق نیوش ہے ، آنکھوں کی بصیرت بھی نہیں رکھتے ، اس پر بھی تعصب وعناد کی پٹی بندھی ہے ۔ یعنی یہ لوگ صحیح استعداد کھو بیٹھے ہیں ۔ آپ ان کی مخالفت سے نہ کڑھیں ، یہاں چند نکات ملحوظ رہیں : ۔ (ا) ختم کا لفظ محض ان کی حالت کو واضح کرنے کے اختیار کیا گیا ہے ‘ ورنہ اللہ تعالیٰ ایک طبیب کی طرح کسی حالت میں بھی مریض کفر سے مایوس نہیں ہوتا ہے ۔ (ب) قلب ، سمع اور بصر کا ذکر بجائے خود دلیل ہے اس بات کی ، مراد دل انقلاب پذیر ہے جو ٹھس گیا ہے ۔ اور اس کے کان جن میں فطرت نے سماعت کی قوت رکھی تھی اب نہیں رہی اور ایسی آنکھیں ہیں جو بصارت سے بہرہ ور تھیں اب محروم ہوگئی ہیں ۔ ورنہ قلب کی جگہ فواد اور سمع کی جگہ اذن اور بصر کی جگہ عین کا استعمال کیا جاتا ۔ (ج) اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ تبلیغ واشاعت روک دیں یہ کہا کہ ان کی حالت یہ ہے کہ نہ مانیں گے ، نہ یہ کہ آپ بھی اپنے فرائض سے تغافل برتیں ، یعنی (آیت) ” سوآء علیھم فرمایا سواء لک نہیں کہا ۔ کیونکہ مصلح کو کسی وقت بھی مایوس نہ ہونا چاہئے (د) حدیث میں اس انداز بیان کی تشریح نہایت حکیمانہ طرز میں مذکور ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں جب کوئی انسان پہلی دفعہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو دل پر ایک سیاہ نقطہ سا پڑجاتا ہے ، دوسری دفعہ دو نقطے پڑجاتے ہیں اور بار بار اکتساب معصیت سے دل سیاہ دھبوں سے اٹ جات ہے یعنی پہلے پہل اقدام گناہ پر ضمیر ملامت کرتا ہے اور عادت ہونے پر اس کی زندگی ختم ہوجاتی ہے ۔ ان آیات کا یہی مفہوم ہے کہ یہ لوگ مردہ ضمیر ہوچکے ہیں گناہ کا احساس باقی نہیں رہا ۔ (ف ١) یہ وہ گروہ ہے جو منہ سے تو اسلام کا اعتراف کرتا ہے لیکن دلوں میں بدستور کفر کی غلاظت موجود ہے ۔ اس لئے فرمایا کہ درحقیقت یہ لوگ مومن نہیں یہ کوشش کرتے ہیں کہ خدا اور خدا پر ست لوگوں کو دھوکہ میں رکھیں ۔ لیکن اس حرکت کا کیا فائدہ ؟ زہر تو تریاق سمجھ لینے سے اس کی مضرت تو زائل نہیں ہوجاتی ، جب دلوں میں کفر ہے تو زبان کا اقرار اور اعتراف کسی طرح بھی مفید نہیں ۔ حل لغات : کفروا : جمع کفر فعل ماضی معلوم ، مذکر غائب ، مصدر کفر کے معنی اصل میں چھپانے کے ہیں کسان کو ، رات کو ، گھنے جنگل کو ، پڑ ہول وادی کو بھی کافر کے لفظ میں تعبیر کرتے ہیں ، کیونکہ یہ سب چیزیں کسی نہ کسی طرح مفہوم کی حامل ہیں مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ بار بار وضاحت کے باوجود بھی جانتے ہوئے خود صداقت کو چھپاتے ہیں ۔ (آیت) ” یخدعون “۔ فعل مضارع ، باب مفاعلہ اصل خدع کے معنی ہوتے ہیں ، مخالف کو ایسی بات کے یقین دلانے کی کوشش کرتا جو اس کا مقصد نہیں اور ایسے طریق سے کہ وہ بظاہر فریب دہ نہ ہو ۔ البقرة
9 البقرة
10 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ یہ جتنا اسلام کی کامیابی پر کڑھتے ہیں ، اللہ تعالیٰ اسی سے اسلام کو کامیابی بخش رہا ہے نتیجہ یہ ہے کہ دل میں نفاق وحسد کا مرض بڑھتا ہی جاتا ہے کم نہیں ہوتا اس کو اپنی طرف منسوب کرنا یہ بتانا ہے کہ سب کام اللہ کی قدرت سے ہوتے ہیں گو اس کا منشاء یہ نہیں کہ لوگ کفر اختیار کریں ۔ البقرة
11 البقرة
12 البقرة
13 (ف ٢) ایمان وکفر میں ہمیشہ دانائی وسفاہت کی حدود الگ الگ رہی ہیں ، ایمان کی دعوت عقل وبصیرت کی دعوت ہے اور کفر وضلالت کی طرف بلانا درحقیقت بےعلمی وجہالت پر آمادہ کرنا ہے کفر والے ہمیشہ اس غلط فہمی میں رہے کہ ایمان قبول کرنا گھاٹے اور خسارے کو خواہ مخواہ مول لینا ہے ، قرآن حکیم کا ارشاد ہے ۔ (آیت) ” الا انھم ھم السفھآء “۔ درحقیقت وہ خود بےوقوف ہیں نفع و نقصان کو صرف مادیات تک محدود سمجھتے ہیں ، نگاہوں میں بلندی نہیں ہے ‘ ورنہ دین ودنیا کی نعمتوں کا حصول کسی طرح بھی خسارہ نہیں ۔ اور مذہب تو کہتے ہیں اس نظام عمل کو جس کو مان کر فلاح دارین حاصل ہوجائے ، حل لغات : السفھآء ۔ جمع سفیہ ، کم عقل ، بےوقوف ۔ خلوا ۔ ماضی مصدر خلوا ۔ خلا الیہ کے معنی ہیں گزرنے کے ۔ شیطین جمع شیطن ، ایک شخص مبتدع جو رشد و ہدایت سے محروم ہے اور خدا کی رحمتوں سے دور ، یہاں مراد شریر لوگ ہیں جو شیطان کی طرح مفسد ہیں ۔ البقرة
14 (ف ١) یہ بےعلم منافق اس قدر دلوں کے کمزور اور بودے ہیں کہ نہ کفر پر ثبات واستقلال ہے اور نہ ایمان واستحکام جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو منہ پر ایمان کے نعرے ہوتے ہیں اور جب اپنے لگے بندھوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ تو محض مذاق تھا ، مانتا کون ہے ، دل کا یہ مرض لاعلاج ہے اور اس سے دلوں کی آلودگی خطرناک اور مہلک ہے ۔ البقرة
15 البقرة
16 البقرة
17 (ف ٢) اللہ ایسے لوگوں سے دنیا وآخرت میں سلوک بھی اسی طرح کا روا رکھتے ہیں کہ جو بجائے خود ایک قسم کا مذاق ہو نہ ایمان وذوق کی شیرینی سے یہ جماعت بہرہ ور ہوتی ہے اور نہ کفر والحاد کے فوائد ظاہری سے متمتع ، کفر اگر تذبذب کے خرخشوں سے معرا ہو تو کم از کم ظاہری وعارضی لذات سے محروم نہیں اور ایمان و عقیدت اگر شک وارتباب سے پاک ہو تو پھر دونوں جہان کے مزے ہیں ۔ اللہ بھی خوش ہے اور دنیا بھی تابع ۔ امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ قیامت کے دن جب یہ جنت کی طرف بڑھیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ یہ مقام سرور وجسور ہمارے لئے ہے تو یکایک ان میں اور جنات نعیم مین ایک دیوار حائل ہوجائے گی اور گویا یہ بتایا جائے گا کہ یہ جواب ہے تمہارے اس مذاق و استہزاء کا جسے تم فخریہ اپنے رؤساء دین سے ظاہر کیا کرتے تھے ۔ منافق کا نفسی تذبذب : ان آیات میں نہایت ہی بلیغ انداز میں منافقین کے نفسی تذبذب کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ کبھی تو ایمان کی مشعل فروزاں سے مستیز ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی پھر کفر کی تاریکیوں میں جا کرتے ہیں ، ان کی مثال ایسے متحیر اور پریشان شخص کی ہے جو آگ جلا کے روشنی پیدا کرلے اور پھر یکایک اندھیرا ہوجانے پر اندھیاری میں ٹامک ٹونیاں مارتا پھرے ۔ ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایمان روشنی ہے اور نفاق ظلمت وتاریکی ، مسلمان کے سامنے اس کا مستقبل ‘ اس کا نصب العین واضح اور بین طور پر موجود ہوتا ہے ، بخلاف منافق کے کہ اس کی زندگی کا کوئی روشن مقصد نہیں ہوتا ۔ حل لغات : یستھزی ۔ مضارع معلوم ، مصدر استہزاء ، مذاق کرنا ، توہین کرنا ۔ یمدھم ، مضارع معلوم ، ڈھیل دیتا ہے ، یعمھون ۔ مضارع معلوم ، اصل العمہ ، دل کا بصیرت سے معلوم ہوتا ۔ بصیرت کے اندھے کو اعمہ ۔ کہتے ہیں ، صمم ، بہرہ جس کے کان میں نقص ہو ، بکم ۔ جمع ابکم ، گونگا ، قوت گویائی سے محروم ، عمی ۔ جمع اعمی ، اندھا ، صیب ۔ بارش ، پانی سے لبریز بادل ، رعد ۔ بجلی کی کڑک اور گرج ، برق ، بجلی کی لمعاتی چمک ۔ البقرة
18 البقرة
19 البقرة
20 (ف ١) پہلی مثال تو کفر کے تحیر کی تھی ، اس مثال میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ لوگ بہرحال مطلب کے پورے ہیں ۔ جب اسلام لانے سے کچھ مطلب براری ہوتی ہے تو پھر انہیں بھی اعلان کرنے میں دریغ نہیں ہوتا اور جب آزمائش وابتلا کا وقت ہو تو صاف انکار کردیتے ہیں یعنی جہاں ان کا ذاتی مفاد روشن طور پر نظر آرہا ہو ، مسلمانوں کا ساتھ دیتے ہیں اور جہاں مشکلات کی تاریکی نظر آئی ، رک گئے ، انہیں تنبیہہ فرمائی کہ ایسا نہ کرو ، ورنہ اللہ کا عذاب آجائے گا اور پھر تم میں یہ استعداد بھی باقی نہ رہے گی ، دعوت عبادت واتقاء : قرآن نے ساری کائنات کو دعوت دی ہے کہ وہ رب خالق کی عبادت کرے اور اس طرح تمام انسانوں کو ایک مرکز پر جمع کرنے کی کوشش کی ہے ، وہ کہتا ہے جب تمہارا اور تمہارے آباؤ اجداد کا خدا ایک ہے تو پھر یہ اختلافات کیسے ؟ ایک خدا کے سامنے جھکو ایک کی محبت اپنے دل میں رکھو ، اس طرح تم سب میں اتقاء پیدا ہوجائے گا اور تم سب ایک صف میں جمع ہوجاؤ گے ، رنگ وبو کا اختلاف ، نون ونسل کے قضیئے ایک دم مٹ جائیں گے ۔ حل لغات : اصابع ، جمیع اصبع ، انگلی ، کانوں میں انگلی کا اگلا حصہ ٹھونسا جاتا ہے جسے عربی میں انملۃ کہتے ہیں لیکن یہاں قرآن حمید اصابع ۔ کہہ کے گویا اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ بصورت مبالغہ رعد وگرج سے ڈرتے ہیں اور پوری انگلیاں کانوں میں ڈال دیتے ہیں ۔ اذان ۔ جمع اذن ، کان ، صواعق ، جمع صاعقۃ ، بجلی یا کڑک ، وہ آواز جو ابر کے اعتکاک سے پیدا ہوتی ہے ۔ حذر ۔ ڈر ، خوف ، اندیشہ ، محیط ۔ گھیرے ہوئے ، اسم فاعل ہے ، اصل ہے احاطہ ۔ یعنی گھیرنا ، مقصد یہ ہے کہ یہ نافرمان اس کے علم میں ہیں اور ہر وقت اس کے قبضہ واختیار میں ہیں جیسے کوئی چاروں طرف سے گھر گیا ہو ۔ یخطف ۔ مضارع مصدر خطف ۔ اچک لینا ۔ اعبدوا ، امر مصدر عبادت مذقل وانکسار طریق معبد ۔ پامال راستہ شرعا مراد ہے ، وہ طریق عجزوانکسار جس کا اظہار اپنے رب کے سامنے قیام وکوع کی صورت میں کیا جائے یا دوسرے فرائض کی ادائیگی ، ہر وہ بات جو جذبہ عبودتیت کو ابھارے ۔ خلق ، فعل ماضی مصدر ، خلق ۔ پیدا کرنا بنانا ، اختراع وایجاد کرنا ۔ فراش ، اسم بچھی ہوئی چیز ، زمین کو فرش سے تشبیہہ دی ہے جس طرح بچھونے میں آرام حاصل ہوتا ہے اسی طرح زمین بھی ہمیں آسودگی بخشتی ہے ۔ بنآء ۔ چھت بنی ہوئی چیز ، مقصد یہ ہے کہ آسمان بھی اللہ تعالیٰ نے تمہارے فائدے کے لئے بنایا ہے جو بظاہر چھت کی طرح تمہیں گھیرے ہوئے ہے ، محض تشبیہہ ہے ۔ یہ مطلب نہیں کہ آسمان واقعی چھت ہے ۔ انزل ۔ ماضی مصدور انزال ، مادہ نزول ، اتارا ، نازل کیا ۔ البقرة
21 البقرة
22 (ف ١) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے انعام گنائے ہیں اور توجہ دلائی ہے غافل انسان کو یہ کہ وہ زمین کی طرف دیکھے کس قدر آرام دہ ہے آسمان کی طرف نظر دوڑائے کیونکہ چھت کی طرح ہم پر سایہ فگن ہے ۔ آسمان کی طرف سے پانی پرستا ہے اور ہمارے روکھے سوکھے باغ لہلہا اٹھتے ہیں اور اثمار ونتائم کا انبار لگ جاتا ہے ، کیا یہ نعمتیں ایک خدا کی طرف سے نہیں ؟ قرآن حکیم روزہ مرہ کے مشاہدات کی طرف ہماری توجہ مبذول کرتا ہے ، اور قیمتی نتائج پیدا کردیتا ہے ، وہ کہتا ہے ، ان سب چیزوں کو بنظر غور وتعمق دیکھو ، ایک خدا کی خدائی کس طرح واضح اور بین طور پر نظر آ رہی ہے ، قرآن حکیم کا اصرار ہے کہ اس کی پیش گاہ جلالت میں کوئی دوسرا خدا نہ ہو ، مسلمان کے دل میں صرف اسی کی محبت ہو ۔ وہ صرف اسی رب اکبر سے ڈرے اور اپنی حاجتوں کو اسی سے وابستہ سمجھے ، وہ توحید کا پیغام ہے ۔ وحدہ کے سوا کوئی کسی دوسری چیز پر مطمئن نہیں اس کے ہاں شرک کائنات انسانیت کے لئے بدترین لعنت ہے ۔ لاجواب کتاب : یوں تو خدا کے کلام کو لاجواب ہونا ہی چاہئے مگر قرآن حکیم بالتخصیص بےنظیر ہے ، اس وقت جبکہ عرب کا بچہ بچہ شاعر تھا ۔ خطابت تکلم پر ان کو ناز تھا ، اس وقت قرآن حکیم نازل ہوتا ہے اور اس تحدی کے ساتھ کہ یہ قطعا انسانی کلام نہیں ہمت ہے تو اس کا مقابلہ کر دیکھو ، مگر تیرہ صدیاں گزر جاتی ہیں اب تک جواب تو کیا سنجیدگی کے ساتھ مقابلہ ہی نہیں کیا گیا ، عربوں کی غیرت وحمیت مشہور ہے ، مگر قرآن حکیم کی اس تحدی کے بعد ان کی گردنیں جھک گئیں اور وہ جو مخالف تھے وہ بھی کہہ اٹھے ۔ ان لہ لحلاوۃ وان علیہ الطلاوۃ وان اصلہ لمغدق وان اعلاہ لمثر ۔ کہ قرآن کیا ہے عسل وشرینی کا مجموعہ ہے ۔ الفاظ میں تازگی اور جمال ہے ۔ نہایت پر مغز اور نتیجہ آفرین کلام ہے ۔ قرآن کا دوسرا دعوی یہ تھا کہ انسانی ہمتیں ایسا نہ کرسکیں گی ۔ چنانچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسا نہ ہوسکا ، قرآن تیئس سال کی مدت میں نازل ہوا اور ان کو موقع دیا گیا کہ وہ آسانی کے ساتھ مقابلہ کرسکیں ، مگر تاریخ شاہد ہے ، قرآن کے زور فصاحت کے سامنے زبانیں طمنگ ہوگئیں ۔ یہ قرآن کا بےنظیر معجزہ ہے جو قیامت تک قائم رہے گا ، قرآن لوگوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ ایسی پر مغز ، حکیمانہ ، قابل عمل ، فصیح وبلیغ کتاب لکھیں جو اس کی ہم پایہ ہو سکے ، جو ایسی شیریں ‘ بااثر اور پرکیف ہو ، جو اسی طرح قوموں کو بدل دینے کی قدرت رکھتی ہو ، جو انقلاب آفرین ہو ۔ جو ہر حالت میں پڑھنے اور یاد رکھنے کے قابل ہو جس میں صحیح معنوں میں رہنمائی کی تمام قوتیں رکھ دی گئی ہوں ، جس کا تعلق زمانہ اور زماضیات سے نہ ہو ، ہر وقت ہر زمانے میں ہر قوم کے لئے یکساں قابل ہو ۔ زبان کی قید نہیں ۔ وقت کا خیال نہیں ۔ صرف ایک شخص کو مقابلہ کے لئے نہیں بلایا گیا ، سب مل کر کسی زبان میں قیامت تک کوئی کتاب لکھیں جو اس درجہ بلند اور سحر آفرین ہو ، کتنا بڑا ، کتنا عظیم الشان اور حیران کن دعوی ہے ، کیا دنیا اس کا جواب دے گی ؟ (آیت) ” ولن تفعلوا ۔ حل لغات : اخرج ۔ ماضی مصدر اخراج مادہ خروج ، نکالا ، ثمرات ، واحد ثمرۃ ۔ پھل ، اندادا ۔ جمع ند ، شریک وسہیم ، ندیدا اور ند دونوں کا ایک ہی معنی ہے ۔ شھدآء ۔ جمع شھید ، ساتھی دوست ، مددگار ، رفیق ، وقود ، ایندھن جس سے آگ جلائی جائے ۔ حجارۃ ۔ پتھر ۔ البقرة
23 البقرة
24 البقرة
25 جنت (ف ١) ودوزخ کی حقیقت : جس طرح دنیا میں دو جماعتیں ہیں ، ایک ماننے اور عمل کرنے والی ، دوسری انکار کرنے والی اور فسق وفجور میں مبتلا رہنے والی ۔ اسی طرح اللہ کی رضا اور غضب کے دو مقام ہیں ، دوزخ یا جہنم نام ہے کے مقام غضب وجلال کا اور جنت کہتے ہیں اس کی رضا ومحبت کے مظہر اتم کو ۔ چونکہ انسان روح ومادہ سے مرکب حقیقت کا نام ہے اور اس میں دونوں کے الگ الگ مقتضیات ہیں ‘ اس لئے ضروری ہے کہ سزا اور جزا میں دونوں چیزوں کا خیال رکھا جائے ، نہ صرف مادہ متاثر ہو اور نہ صرف روح منفعل ۔ قرآن حکیم نے اس نکتے کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے ، وہ کہتا ہے جہنم میں تمہارے جسم کو بھی ایذا دی جائے گی اور تمہاری روح کو بھی ، اسی طرح جنت میں صرف روحانی کوائف نہ ہوں گے ، بلکہ جسمانی لذائذبھی ہوں گے ، مگر پاکیزگی اور نزاکت کے ساتھ ، وہ تمام چیزین جو ہمارے لئے باعث سرور وعیش ہیں ‘ وہاں ملیں گی ، مگر اس طور پر کہ ہم نہ پہچان سکیں ۔ حدیث میں آتا ہے کہ جنت میں وہ کچھ ملے گا جسے ان کی آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا اور جن کے متعلق ان کانوں نے کچھ نہیں سنا اور اب تک وہ انسان کے دل میں بھی نہیں کھٹکا ، مالا عین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر ۔ ایک تمثیل : جنت کا ذکر کرکے یہ فرمایا ہے کہ یہ نعمتیں جو بیان کی گئی ہیں ان کی حقیقت اصل میں ایک حقیر مچھر سے بھی کم ہے مگر یہ کور باطن لوگ جنت کے لذائذ کو سن کر معترض ہوتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ یہی چیزیں تو ہم چاہتے ہیں مگر وہ لوگ جو اہل حق وصداقت ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے سمجھانے کے لئے ہے ، ورنہ جنت کے کوائف نہایت لطیف ‘ پاکیزہ اور بالا از حواس ہیں ۔ سورۃ مدثر میں اہل جہنم کا ذکر کرکے بالکل انہیں کلمات کو دہرایا ہے کہ یہ لوگ یہ چیزیں جہنم کے متعلق سن کر کہتے ۔ (آیت) ” ماذا اراداللہ بھذا مثلا “۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تمثیل سے مراد جنت ودوزخ کے کوائف کی تمثیل ہے ، ورنہ سارے قرآن میں خدا تعالیٰ نے کہیں مچھر کا ذکر نہیں کیا اور ربط آیات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کے یہی معنے لئے جائیں ۔ واللہ اعلم ۔ حل لغات : جنت : جمع جنۃ ، باغ ۔ محفوظ ۔ خلدون ۔ جمع خالد ، ہمیشہ رہنے والا ۔ مادہ خلود بمعنی دوام ۔ البقرة
26 خائب (ف ١) وخاسر لوگ : فلاح وسعادت کی راہ ایمان وعمل کی راہ ہے ۔ وہ جو فاسق ہیں اللہ کی حدود کی پرواہ نہیں کرتے ، ان کے لئے خسارہ ہے ۔ نہ دنیا میں وہ کامیابی کی زندگی بسر کرسکتے ہیں اور نہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ ہے ، منافق کی تین علامتیں ہیں : ۔ (ا) نقض عہد ، یعنی خدا کے بنائے ہوئے اور بندھے ہوئے قوانین کا توڑتا ۔ (ب) علائق ضرورت سے قطع تعلق یعنی ان تمام رشتوں سے تغافل جو انسانی فلاح وبہبود کے لئے از بس ضروری ہیں ۔ (ج) فساد فی الارض ۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ رب فاطر کے بتائے ہوئے قوانین کا خیال نہیں رکھتے جو اپنوں سے دشمنوں کا سا سلوک کرتے ہیں ، جو ساری زمین میں فتنہ وفساد کی آگ کو روشن رکھتے ہیں ، ان سے کوئی بھلائی کرے گا اور وہ کس طرح ایک سعادت مند انسان کی زندگی بسر کرسکیں گے ۔ البقرة
27 حل لغات : ینفضون : مضارع معلوم ، مصدر نقض ، توڑنا ، قطع کرنا ۔ الخاسرون : گھاٹے میں رہنے والے جمع خاسر ۔ استوی : قصد کیا ، توجہ فرمائی ، اصلاح وتزئین کے لئے ۔ البقرة
28 (ف ٢) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ زبان سے تو اللہ تعالیٰ کا انکار کیا جا سکتا ہے ، مگر حقیقتا انکار ممکن نہیں ، جب تک موت وحیات کا ہمہ گیر قانون موجود ہے اور فنا وزیست کے واقعات سے بہرحال مفر نہیں ‘ اس وقت تک ایک زبردست حی وقیوم خدا پر ایمان ضروری ہے ۔ پھر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کائنات کی تمام چیزیں انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں ، آفتاب سے لے کر ذرہ تک اور ذرہ سے پہاڑ تک سب اسی کے لئے زندہ ومصروف عمل ہیں ، تو ہمیں واشگاف طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ اس سارے نظام آفادہ کے پس پردہ کوئی رحمن ورحیم کرم فرما ہے ۔ (آیت) ” خلق لکم ما فی الارض جمیعا “۔ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان ساری کائنات کا مخدوم و مقصد ہے ۔ البقرة
29 البقرة
30 (ف ١) پہلا انسان : سلسلہ انسانیت کا پہلا بطل وہ ہے جسے کائنات ارض کا مالک بنانے والا ہے ۔ اللہ کی عنایات اسے زمین کا تاج وتخت بخشنے والی ہیں ۔ اس کی استعداد وقوت فرشتوں سے بھی زیادہ شاندار ہے ۔ وہ اس لئے بنایا جارہا ہے تاکہ خدا کے جلال وجمال کو دنیا کے کونوں تک پہنچائے اور ساری زمین پر خدا کی بادشاہت ہو ۔ یعنی وہ خلیفۃ اللہ فی الارض ہے ۔ (ف ٢) فرشتوں کو اعتراض ہے کہ ایسے انسان کی کیا ضرورت ہے وہ کہتے ہیں ، جب کائنات کے روحانی نظام کو ہم چلا رہے ہیں ، تیری تسبیح وتقدیس کے کلمے ہر وقت ہمارے لبوں پر نغمہ زن رہتے ہیں جب تیری حمد وستائش کے بےریا ترانے ہم ہر وقت الاپتے رہتے ہیں اور جب ہماری قدوسیت وپاکیزگی کے چار دانگ عالم میں چرچے ہیں تو پھر ایک انسان کو پیدا کرکے کن چیزوں میں اضافہ ہوگا ؟ وہ کہتے ہیں ، انسان زمین میں خود غرضی کی وجہ سے فساد پھیلائے گا ۔ اپنی قوت کا ناجائز استعمال کرے گا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ ساری زمین جنگ وجدال کا میدان بن جائے گی ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، چپ رہو مصلحت یہی ہے ۔ (آیت) ” انی اعلم مالا تعلمون “۔ فرشتوں کو انسانی مستقبل کی دھندلی سی تصویر خود انسان کی ساخت سے نظر آجاتی ہے ۔ وہ جان جاتے ہیں کہ جو انسان مختلف عناصر سے بنایا جائے گا ، اس کی فطرت میں اختلاف رہے گا ۔ مگر خدائے حکیم کا جواب یہ ہے کہ ہم وحدت ویکسانی کی خوبصورتی دیکھ چکے ، اب اختلاف وتنوع کے جمال کو ملاحظہ کرنے دو اور یہ پہلے سے اللہ کے علم میں ہے اور اس لئے مقدرات میں سے ہے ۔ فرشتوں کو یونہی بتا دیا گیا ہے تاکہ وہ انسانی شرف ومجد سے آگاہ ہوجائیں ۔ البقرة
31 (ف ٣) پہلا انسان عالم تھا : اللہ نے ایک جواب تو فرشتوں کو یہ دیا کہ تم خاموش رہو ۔ دوسرا جواب آدم (علیہ السلام) کی قوتوں کا مظاہرہ تھا ، اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی فطرت میں علم کا جذبہ رکھا ، اسے تمام ضروریات سے آگاہ کیا ، معارف حیات بتلائے اور فرشتوں کے سامنے بحیثیت ایک عالم کے پیش کیا ۔ فرشتے بھی عالم تھے مگر تسبیح وتقدیس کے آئین وقانون کے فرمانبرداری واطاعت کے طریقوں کے ، انہیں حیات وفنا کے اسرار سے ناآشنا رکھا گیا ، موت وزیست کے جھمیلوں سے الگ ، یہ بغیر کسی کھٹکے اور خرخشے کے عبادت واطاعت میں مصروف تھے ، آدم (علیہ السلام) کو جو علم دیا گیا وہ فرشتوں کے علم سے بالکل مختلف تھا ، اسے مقتضیات انسانی بتائے گئے ، موت وحیات کا فرق سمجھایا گیا ، عبادت واطاعت کے علاوہ دنیا کی آبادی وعمران کے اسرار ورموز سے بہرہ ور کیا گیا ۔ سیاست وحکمرانی کے اصول وضوابط انہیں سکھائے گئے اور وہ تمام چیزیں بتلائی گئیں جو اسے خلیفۃ اللہ بنا سکیں ، فرشتوں کی حیثیت مطیع وفرمانبردار کی تھی اور آدم کی خلافت اس کے وارث کی ، اس لئے جب موازنہ کے وقت فرشتوں کو آدم (علیہ السلام) کے منصب رفیع کا علم ہوا تو معذرت خواہ ہوئے ، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نہ کہتا تھا ۔ (آیت) ” انی اعلم غیب السموت والارض “۔ کو غیوب کا لعم صرف مجھے ہے تم نہیں جانتے ۔ حل لغات : ملآئکۃ : جمع ملک ، فرشتہ ، یسفک مضارع معلوم ، مصدر ، سفک ۔ خون بہانا ، انبؤنی ، مجھے بناؤ ، مادہ انباء ، خبر دینا ۔ البقرة
32 البقرة
33 البقرة
34 (ف ١) مسجودانسان : پھر اس لئے کہ فرشتوں کو انسان کو حقیقی قدر ومنزلت کا علم ہو ‘ اللہ نے تمام کو آدم (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ کرنے کا کہا ، سب کو آدم (علیہ السلام) کے سامنے جھکایا ، اسلامی فلسفہ تخلیق ہی یہی ہے کہ تمام کائنات انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے ۔ (آیت) ” وخلق لکم ما فی الارض جمیعا “۔ ذرہ سے آفتاب تک اور زمین سے آسمان تک سب کچھ حضرت انسان کے لئے ، حتی کہ شمس و قمر بھی اسی کے خادم ہیں ۔ (آیت) ” وسخرلکم الشمس والقمر دآئبین “۔ یوں سمجھ لیجئے کہ آدم قبلہ مقصود ہے ہر چیز کا ، ساری کائنات کا محور انسان ہے ، شیطان جو ایک مشخص برائی ہے ، اس حقیقت کو نہ سمجھا اور اکڑ بیٹھا ، قرآن حکیم نے بتایا ہے کہ وہ اپنی فطرت سے مجبور تھا ۔ (آیت) ” وکان من الکافرین “۔ اس لئے ضروری تھا کہ وہ انسانی شرف ومجد کا انکار کر دے ۔ البقرة
35 (ف ٢) : پہلے انسان کی پہلی جگہ : قرآن حکیم ، انسانی خلافت ‘ انسانی علم کے بعد پہلے انسان کے لئے جو جگہ تجویز فرماتا ہے ، وہ جنت ہے یعنی رضائے الہی کا آخری مظہر ۔ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ انسان کی اصلی جگہ جنت ہے فطرت نے پیدا اسے اس لئے کیا ہے کہ وہ بارگارہ رحمت وفیض میں عیش وخلود کی زندگی بسر کرے ، چنانچہ ارشاد باری ہے کہ تم یہیں رہو ۔ مگر اس درخت کو استعمال میں نہ لانا ورنہ رحمت باری سے دور ہوجاؤ گے اور تمہیں کچھ عرصے کے لئے اپنے اصلی مقام سے الگ رہنا پڑے گا ۔ یہ قید اس لئے لگا دی تاکہ آدم (علیہ السلام) کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ بعض افعال کے ارتکاب سے ناراض ہوجاتا ہے ، اس کا خیال رہے یہی مطلب ہے اس حدیث کا ۔ ان الجنۃ حفت بالمکارہ “۔ یہ جنت میں آدمی ابتلاء وآزمائش میں پورا اترنے کے بعد جا سکتا ہے ، ان سب آیات سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کا جو مرتبہ قرآن کے بیان کیا ہے وہ دنیا کی کسی کتاب میں مذکور نہیں ہے ، قرآن کہتا ہے پہلا انسان اللہ کا نائب ہے ۔ عالم اشیاء وحقائق ہے ، مکین جنت وفردوس ہے اور ساری کائنات کا مرکز مقصود ہے ، فرشتوں کا مسجود ہے ۔ (ف ١) آدم (علیہ السلام) بوجہ بشریت شیطان کے بھرے میں آگئے اور درخت کے متعلق انہیں غلط فہمی ہوگئی وہ نیک نیتی کے ساتھ یہ سمجھے کہ خدا کا منشاء کسی خاص درخت سے ممانعت کرتا ہے ، حالانکہ خدا کا منشاء مطلقا اس نوع کے اشجار سے روکنا تھا ، چنانچہ حضرت آدم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نیکی نیتی پر خدا نے شہادت دی ۔ (آیت) ” فنسی ولم نجدلہ عزما “۔ اس لئے یہ لغزش محض منشاء یا مفہوم کے اعتبار سے ہے ۔ الفاظ کی مخالفت نہیں ۔ حل لغات : تبدون وتکتمون : ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو ۔ مصدر ابدا وکتم ، سجدوا ، فعل ماضی مادہ سجدہ ، جھکنا ، اظہار تذلل کرنا ۔ ابلیس ، شیطان کا نام ہے ، ابلاس کے معنی ناکامی کے ہوتے ہیں ابلیس چونکہ خائب وخاسر شخص کا نام ہے اس لئے ابلیس کہا جاتا ہے ۔ رغدا : فراوانی ، بےکھٹکے ۔ البقرة
36 البقرة
37 البقرة
38 گناہ عارضی ہے : (ف ٢) : آدم (علیہ السلام) اجتہادی لغزش کی بنا پر جنت سے الگ کردیئے گئے اور انہیں کہہ دیا گیا کہ تم میں اور شیطان میں باہمی عداوت ہے ، اس لئے کچھ ومدت تک زمین پر رہو ‘ وہاں دونوں کا صحیح طور پر مقابلہ رہے گا ، پھر اگر تم وہاں اس کی گرفت سے بچ گئے تو اس اصلی وحقیقی مقام میں آجاؤ گے ، ورنہ تمہارا بھی وہی حشر ہوگا جو شیطان کا ہوا ہے ۔ آدم (علیہ السلام) کو عارضی طور پر اس لئے بھی زمین پر اتارا گیا ، تاکہ وہ شیطان کی تمام گھاتوں سے واقف ہوجائے اور پھر کبھی اس کی گرفت میں نہ آئے اور مقابلہ سے اس میں روحانیت کی ایک خاص کیفیت پیدا ہوجائے جو اس کو بارگاہ قدس کے قریب ہونے کے لائق بنا دے ، یہ سزا نہ تھی ، جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے بلکہ علاج تھا آدم (علیہ السلام) کی بشری وفطری کمزوریوں کا ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی درخواست پر انہیں معاف کردیا ، لیکن پھر بھی انہیں مقررہ وقت سے پہلے جنت میں جانے کی اجازت نہیں دی ۔ توبہ کی قبولیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہ بالکل عارضی اور غیر مستقل کیفیت کا نام ہے ، رب العزت کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف بجائے خود بخشش کی ضمانت ہے ۔ (آیت) ” ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا “۔ قرآن حکیم کا اعلان عام ہے کہ گناہوں سے لدے ہوئے انسان اس کے عتبہ جلال پر جب بوسہ دیتے ہیں تو وہ ان کے تمام گناہوں پر خط عفو کھینچ دیتا ہے ۔ (آیت) ” الا من تاب وامن وعمل عملا صالحا “۔ کا استثناء قرآن میں بار بار دہرایا گیا ہے جس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ گناہ انسانی سرشت کا جزو لاینفک نہیں ‘ بلکہ ایک عارضی کیفیت ہے جو ندامت کے آنسوؤں سے زائل ہو سکتی ہے ۔ (ف ١) ان آیات میں بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا جذبہ فیض ربوبیت تمہیں زمین کی پستی سے اٹھانے میں ہمیشہ کوشاں رہے گا ۔ اس کی طرف سے رہنمائی کے سارے سامان مہیا ہوں گے ، رسول بھی آئیں گے ، مصلح اور ہادی بھی پیدا ہوں گے ، تمہارا فرض ہے کہ ان کو مانو اور یاد رکھو ، وہی لوگ جو ایمان دار ہوں گے ، بےخوف وخطر زندگی بسر کرسکیں گے اور وہ جو اللہ کے احکام کی تکذیب کریں گے اور رسولوں کو جھٹلائیں گے کسی طرح بھی اللہ کے عذاب سے نہ بچ سکیں گے ۔ الشجرۃ : درخت ، عربی میں جھگڑنے کے معنی ہیں ۔ شجرۃ بالتاء استعمال نہیں ہوتا ، عدد : دشمن ، مخالف ، مستقر : ٹھکانا ، جائے استقرار ، فتلقی : حاصل کرنا ، لینا ، تاب علیہ : اس نے معاف کیا ۔ بخشا ، اصل ، توب : ہے یعنی رجوع کرنا ۔ لوٹنا ۔ اھبطوا ۔ اتر جاؤ ، مصدر ھبوط ، اترنا ، نازل ہونا ۔ البقرة
39 البقرة
40 (ف ٢) اولاد یعقوب (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ، ان میں متعدد رسول آئے ہیں اور ان پر بےشمار نعمتیں ہیں کہ جن کا ظہور ہوا ، لیکن یہ ویسے کے ویسے ہی رہے ، ان آیات میں زمانہ رسالت کے بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو مت بھولو ۔ اس کے عہد کی تصدیق کرو ، یعنی تم میں سے وعدہ تھا کہ ہر سچائی کو قبول کرو گے ، پھر تمہیں یہ کیا ہوگیا ہے کہ اس بہت بڑی صداقت کا انکار کرتے ہو ۔ البقرة
41 قرآن حکیم تمام سچائیوں کا معترف ہے : (ف ٣) ان آیات میں بنی اسرائیل کو دعوت دی ہے کہ وہ قرآن کی آواز پر لبیک کہیں ، کیونکہ قرآن حکیم تمام پہلی کتابوں کا مصدق ہے تمام سبابقہ سچائیوں کا معترف ہے وہ اس پر ایمان لائیں ، کیونکہ اس میں وہی روشنی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کو وادی ایمن میں نظر آئی اس میں وہی صداقت ہے ‘ جس کا اظہار صبح ناصری نے کیا ، اس کے بعد ان کے تجر قلبی پر انہیں ملامت کی اور فرمایا کہ دنیا طلبی کو صرف سفلی خواہشات تک محدود رکھو ، مذہب کو اور صداقت کو کسی قیمت پر بھی نہ بیچو ، اس لئے دیانتداری کو جس قیمت پر بھی فروخت کیا جائے گا وہ غلط ہوگی اور کم ہوگی اور فرمایا کہ صرف مجھ سے ڈرو ، رسم ورواج کے ڈر کو قوم کی مخالفت کے ڈر کو ، دلوں سے نکال دو ۔ اگر اسلام میں تمہیں کوئی نقص نظر نہیں آتا تو پھر قوم کی مخالفت کی چنداں پروا نہیں ، قبول کرلو ۔ (آیت) ” ولا تکونوا اول کافر بہ “۔ البقرة
42 (ف ٤) اپنے مطالب اور اپنی خواہشات کے لئے نفس مذہب کو بدل دنیا بہت بری عادت ہے ، یہودی اس میں مبتلا تھے اسی طرح کتمان حق کسی حالت میں بھی درست نہیں لیکن یہودی اس سے بھی باز نہیں آتے تھے ، قرآن حکیم نے انہیں اس عادت پر متنبہ کیا اور کہا تم جانتے بوجھتے اس قسم کی بدقماشی کا ارتکاب کیوں کرتے ہو ، یہ تو گوارا کیا جا سکتا ہے کہ تم مجرم بن جاؤ ، اللہ کے حکموں کی مخالفت کرو ، لیکن اللہ تعالیٰ کے حکموں کو تاویل وتعمق سے بدل ڈالنا تو کسی طرح برداشت نہیں کیا جا سکتا ۔ حل لغات : اولئک اصحاب النار : جہنم میں رہنے والے ۔ اول : پہلے یعنی تم کفر میں اوروں کے لئے نمونہ نہ بنو ، اول کے معنی ہیں ، من یؤول الیہ الامر کے لا تلبسوا : نہ ملاؤ ، نہ مختلط کرو ، مصدر لبس ، ملا دینا مختلط کردنیا ۔ البقرة
43 (ف ١) جماعتی زندگی ہمیشہ سے ایک ممدوح اور شان وار زندگی رہی ہے ۔ کوئی قوم جماعتی احساس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ، قرآن حکیم نے اس ظرف بالخصوص توجہ فرمائی ہے ، غور کرو ، جماعتوں کو اپنے بقا وتحفظ کے لئے دو چیزوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ، اتحاد کی اور سرمایہ کی یعنی ایسے اسباب وعوامل پیدا ہوجائیں جس سے تمام افراد جماعت ایک مسلک میں منسلک ہوجائیں اور ساری جماعت میں ایک وحدت قومی نظر آئے ، پھر ایسا مشترک سرمایہ ہو جس کو قومی ضروریات پر خرچ کیا جا سکے ، تاکہ قوم بحیثیت ایک قوم کے دوسروں سے بالکل بےنیاز ہوجائے ، سوچو کیا نماز باجماعت سے زیادہ کوئی مؤثر بہتر اور آسان طریق تنظیم وملت کا ہو سکتا ہے ؟ اسی طرح قومی فنڈ کی کیا زکوۃ سے اچھی قابل عمل اور اعلی صورت ہو سکتی ہے ؟ اسی طرح بنی اسرائیل کو بھی نماز باجماعت کی تلقین فرمائی ہے اور قیام زکوۃ کی طرف توجہ دلائی کیونکہ ان چیزوں کے بغیر قوموں کی تعمیر ناممکن ہے ۔ البقرة
44 تنظیم جماعت کے اصول : (ف ٢) قرآن حکیم بار بار جس غلط فہمی کو دور کردینا چاہتا ہے وہ قول وعمل میں عدم توافق ہے قرآن کہتا ہے کہ تبلیغ واشاعت کا آغاز ، رہنمائی اور قیادت کا شروع اپنے نفس سے ہو ، اپنے قریبی ماحول سے ہو ، ورنہ محض شعلہ مقال کوئی چیز نہیں (آیت) ” لم تقولون ما لا تفعلون “۔ یہودیوں اور عیسائیوں میں بےعملی کا مرض عام ہوچکا تھا ، ان کے علماء واولیاء محض باتوں کے علماء تھے عمل سے معرا ‘ اخلاق سے کورے اور زبان کے رسیلے لوگ خدا کو پسند نہیں ۔ وہ تو عمل چاہتا ہے جدوجہد کا طالب ہے ، اس کے حضور میں کم گو لیکن ہمہ کاہش لوگ زیادہ مقرب ہیں البقرة
45 (ف ٣) ان آیات میں کشاکشہائے دنیا کا علاج بیان فرمایا ہے ، یعنی جب تم گھبرا جاؤ یا کسی مصیبت میں مبتلا ہوجاؤ تو پھر صبر کے فلسفے پر عمل کرو ۔ (آیت) ” وبشرالصابرین “۔ اور عقل وتوازن کو نہ کھو بیٹھو ، تاکہ مشکلات کا صحیح حل تلاش کیا جا سکے ، وہ جو مصیبت کے وقت اپنے آپے میں نہیں رہتے ، کبھی کامیاب انسان کی زندگی نہیں بسر کرسکتے قرآن حکیم چونکہ ہمارے نوع کے اضطراب کا علاج ہے ‘ اس لئے وہ ہمیں نہایت حکیمانہ مشورہ دیتا ہے جس سے یقینا ہمارے مصائب کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے ، پھر دوسری چیز جو ضروری ہے وہ نماز ودعا ہے ، (آیت) ” الا بذکر اللہ تطمئن القلوب “۔ اس وقت جب دنیا کے امانت کے سب دروازے بند ہوجائیں ، جب لوگ سب کے سب ہمیں بالکل مایوس کردیں ، اللہ کی بارگاہ رحمت میں آجانے سے دل کو تسکین ہوجاتی ہے ، حدیث میں آتا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کوئی مشکل پیش آجاتی تو آپ نماز کے لئے کھڑے ہوجاتے ، امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) کا واقعہ ہے ، وہ سفر میں تھے کسی نے آکر آپ کو آپ کے لخت جگر کے انتقال کی خبر سنائی ، وہ سواری سے اترے اور جناب باری کے عتبہ وجلال وجبروت پر جھک گئے ، حل لغات : زکوۃ ، اصلی معنی نشونما کے ہیں ، چونکہ اس نظام شرعی سے مال و دولت میں برکات نازل ہوتی ہیں اس لئے اس کا نام زکوۃ ہے ۔ البر : نیکی ، حسن سلوک ، شریعت کی اطاعت ، تنسون ، مادہ نسیان ، بھول جانا ، تتلون : پڑھتے ہو ، مادہ تلاوۃ ، الخشعین : خدا سے ڈرنے والے عاجز ومنکسر بندے ۔ البقرة
46 البقرة
47 البقرة
48 (ف ١) ان آیات میں دوبارہ بنی اسرائیل کو مخاطب کیا ہے تاکہ ان پر وہ تمام انعام جو کئے گئے ہیں ، گنائے جائیں اور انہیں دین حنیف کی طرف مائل کیا جائے ، اولا یہ فرمایا کہ تمہیں ہم نے اپنے تمام معاصرین پر مادی وروحانی فضیلت دی ، ثانیا ان کو ان کے موجودہ مزعومات سے باز رہنے کی تلقین فرمائی کہ تم یہ نہ سمجھو کہ تمہارے احباء وعلماء تمہارے اولیاء وشہداء تمہیں مکافات عمل کے ہمہ گیر قانون کی گرفت سے بچا لیں گے ، اس قسم کی سفارش جو ذاتی عمل سے معرا ہو ۔ قطعا سود مند نہیں ہے ۔ قرآن حکیم نے عام طور پر شفاعت کی نفی کی ہے اور کہیں کہیں (آیت) ” الا من اذن لہ الرحمن “ کہہ کر ایک نوع کے لوگوں کو مستثنے قرار دیا ہے جس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ سفارش کا وہ مفہوم جو یہ لوگ سمجھے ہوئے تھے ‘ بالکل غیر موزوں ہے یعنی شریعت کی مخالفت کے باوجود شفاعت پر بھروسہ ، یہ محض فریب نفس ہے ، جس میں یہ لوگ مبتلا تھے ، اس لئے قرآن حکیم نے اس عقیدے کی پرزور تردید کی اور انہیں عمل پر آمادہ کیا ۔ البقرة
49 (ف ٢) یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ سے بنی اسرائیل مصر میں آکر آباد ہوئے ، موسیٰ (علیہ السلام) تک ان کو تقریبا چار صدیاں ہوئی ہیں ، اس عرصے میں قبطیوں نے تمام مناصب پر قبضہ جما لیا اور سارے نظام حکومت پر چھا گئے ، بنی اسرائیل کے لئے سوائے محنت ومزدوری اور کوئی کام باقی نہ رہا ، ادھر فراعنہ نے جب یہ دیکھا کہ بنی اسرائیل زیادہ قوی اور ذہین ہیں تو انہیں خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں ساری حکومت ہی ان کے ہاتھ میں نہ آجائے ، عموما حکومتیں زور آور توانا قوموں سے خائف رہتی ہیں ، اس لئے انہوں نے اور زیادہ مظالم توڑے تاکہ ان میں رہی سہی قوت بھی جاتی رہے ، بالاخر جب کاہنوں نے فرعون کو ڈرایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شان دار انسان پیدا ہونے والا ہے جس سے تیری جابرانہ حکومت خطرہ میں پڑجائے گی تو اس نے بچوں کے قتل عام کا حکم دے دیا اور بچیوں کو خدمت وغیرہ کے لئے زندہ باقی رکھا ، ان آیات میں ان ہی واقعات کی طرف اشارہ ہے کہ دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس ذلت وخفت سے نجات دی ، تم میں موسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا جس نے تمہیں آزادی وحریت کی نعمتوں سے بہرہ ور کیا ۔ البقرة
50 (ف ٣) البحر سے مراد یہاں دریائے قلزم ہے ، موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو آمادہ کرلیا کہ وہ راتوں رات ارض مصر سے نکل جائیں نہ یہ ہجرت اس لئے تھی کہ تاکہ فرعون کے اثر سے الگ رہ کر ان میں صحیح طریق پر دین کی روح پھونکی جائے ، غلامی سے دماغی اور ذہنی قوی کمزور ہوجاتے ہیں ‘ اس لئے ضرورت تھی کہ آزاد آب و ہوا میں انہیں لے جایا جائے ، فرعون کو جب یہ معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل ہاتھ سے نکلے جاتے ہیں تو اس نے باقاعدہ بنی اسرائیل کا تعاقب کیا اور دریائے قلزم پر ان کو جالیا ، وہ دریا کے پھٹ جانے کی وجہ سے پار اتر گئے اور فرعون بمعہ اپنے لشکر کے دریا میں ڈوب گیا ، یہ اس لئے تھا کہ بنی اسرائیل اپنی آنکھوں سے دشمن کا عبرت ناک انجام دیکھ لیں اور ان میں جرات پیدا ہو ‘ انہیں خدا کے بھیجے ہوئے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتوں پر یقین ہو اور وہ دیکھ لیں کہ جو قوم اپنی فلاح وبہبود کے لئے ذرا بھی کوشاں ہوتی ہے اللہ کی رحمتیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں ، دریا کا پھٹ جانا اور بنی اسرائیل کو راستہ دے دینا محض اتفاقی نہ تھا بلکہ بطور خرق عادت کے تھا صرف حسن اتفاق ہوتا تو فرعون بھی اس سے فائدہ اٹھالیتا ، حل لغات : عدل : معاوضہ ، بدل ، قسمت ، یسومون : تکلیف دیتے تھے ، دکھ دیتے تھے ۔ بلاء : امتحان ، آزمائش ۔ تکلیف ۔ فوقنا : فعل ماضی جمع متکلم ، مادہ فوق ، پھاڑنا ۔ البقرة
51 (ف ١) موسیٰ (علیہ السلام) سے چالیس دن کے لئے وعدہ لیا گیا کہ وہ چالیس دن تک طور پر زہد وعبادت کی زندگی اختیار کریں اور اپنے آپ کو نبوت کے بارگراں کے لئے تیار کریں ، جب جا کے توریت کا نزول ہوگا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) اس کے لئے تیار ہوگئے اور ہارون (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل میں چھوڑ گئے بنی اسرائیل مصر سے بت پرستی کے جذبات لے کر آئے تھے ، جب سامری نامی ایک شخص نے بچھڑا جس میں آواز پیدا کی گئی تھی ، اسرائیلیوں کے سامنے پیش کیا تو وہ سب اسے پوجنے لگے ، ان آیات میں انہیں واقعات کی طرف اشارہ ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت یہودیوں کو بتایا گیا ہے کہ تم ہمیشہ سے ایسے ہی رہے ہو کہ ذرا شریعت کا احتساب تم سے اٹھا اور تم پھرگئے ، اس کے بعد اس کا ذکر ہے کہ ہم نے باوجود اتنی بڑی جرات کے تمہیں تھوڑی سی سزا دے کر معاف کردیا جس کی تفصیل آگے آئے گی اور پھر تمہیں زندگی کے نشیب وفراز سمجھنے کے لئے مکمل دستور العمل عنایت کیا لیکن تم اس پر بھی امل نہ رہے ۔ البقرة
52 البقرة
53 البقرة
54 (ف ٢) قوموں کا آپریشن : جس طرح بدن کے بعض حصے اس لئے کاٹ دینا پڑتے ہیں کہ وہ سارے نظام بدن کو بیکار نہ کردیں ، اسی طرح قوموں میں جب ناقابل اصلاح خرابیاں پیدا ہوجائیں تو پھر آپریشن کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ، بنی اسرائیل کی ایک جماعت نے باوجود ہارون (علیہ السلام) کے موجود ہونے دوبارہ بچھڑے کی پوجا شروع کردی جس کے وہ مصر میں عادی تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ ان لوگوں کو جن کی رگ رگ میں شرک کے مہلک جراثیم موجود ہیں ‘ ہلاک کردیا جائے ، ورنہ خطرہ ہے کہ تمام بنی اسرائیل اس روحانی مرض میں مبتلا نہ ہوجائیں اور پھر اصلاح کی کوئی توقع نہ رہے گی ۔ اس میں شک نہیں کہ خدا رحیم ہے لیکن یہ بھی یقین ہے کہ وہ حکیم بھی ہے ، رحمت کا تقاضا یہ تھا کہ بنی اسرائیل کو کسی طرح اس مرض سے بچا لیا جائے اور حکمت کا تقاضا یہ تھا کہ بدن کے متعفن حصے کو الگ کردیا جائے ، اس لئے جو کچھ ہوا ، یہ ضروری تھا ، اسی لئے ارشاد ہے ، (آیت) ” ذالکم خیرلکم عند بارئکم “۔ حل لغات : العجل : بچھڑا ۔ جھرۃ : بالمشافہ رودر رو ، بالکل سامنے ، الفرقان : حق وباطل میں امتیاز کرنے والا معجزہ بین اور واضح دستور العمل ۔ بارئکم : ابلاری خدا کا نام ہے پیدا کرنے والا ۔ البقرة
55 البقرة
56 (ف ١) بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ ہمیں جس خدا کی طرف تو بلاتا ہے ‘ وہ بالمشافہ دکھا ، تاکہ ہم دیکھ کر اس پر ایمان لائیں ، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ خدا کے متعلق نہایت ہی ناقص فہم کا تخیل رکھتے تھے ، ان کا خیال تھا کہ خدا بھی انسانوں کی طرح مجسم ہے اور اسے دیکھا جا سکتا ہے ، اس مطالبہ کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ متواتر ومسلسل بت پرستی کی وجہ سے وہ مشاہدات سے زیادہ مرغوب تھے اور کوئی تنزیہی تخیل جو بالا از تجربہ واحساس ہو ‘ انہیں اپنی طرف جذب نہ کرسکتا تھا ، موسیٰ (علیہ السلام) نے جب خدائے تعالیٰ کی توحید کی جانب ان کو ملتفت کرنا چاہا تو وہ اکڑ گئے کہ جب تک خدا کو صورت تمثال کے رنگ میں نہ دیکھ لیں گے نہ مانیں گے ، موسیٰ (علیہ السلام) ہرچند اس ضد کی معقولیت کو سمجھتے تھے تاہم بطور اتمام حجت کے ان کے چند آدمیوں کو لے کر پیش گاہ جبروت میں حاضر ہوگئے ، وہاں جب اللہ تعالیٰ نے اپنے جلال وحشمت کا ادنی سا اظہار فرمایا تو عقل وحواس کی دنیا میں کھلبلی سی مچ گئی ، ابھی حریم اقدس ونور کے چند پردے ہیں چاک ہوئے تھے کہ قلب ودماغ کا توازن کھو بیٹھے اور موت آگئی ، اس کے بعد اللہ کے فضل سے وہ سنبھلے ، جان میں جان آئی تو فرمایا ، جاؤ خدا کا شکریہ ادا کرو ، عقل واستعداد کو کام میں لاؤ اور خدائے قدوس پر غائبانہ ایمان رکھو ۔ البقرة
57 (ف ٢) سب سے بڑا فضل جو بنی اسرائیل پر ہوا ، وہ فکر معاش سے بےنیازی تھی ، تاکہ وہ پورے انہماک کے ساتھ دینی کاموں میں مشغول ہو سکیں ، ان پر من وسلوی کی نعمتیں نازل کی گئیں ، انہیں عام تکالیف سے بھی بچایا گیا ، جنگل کی دھوپ سے بچنے کے لئے ابر کا سایہ مہیا کیا گیا ، تاکہ انہیں کوئی شکایت باقی نہ رہے اور وہ پورے وقت ، قوت اور استعداد کے ساتھ اللہ کے مشن کو پورا کریں لیکن وہ انعامات الہیہ سے صحیح صحیح استفادہ نہ کرسکے ، شہریت کے تین اصول : بنی اسرائیل کو جب امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) کی روایت کے مطابق اریحاء میں داخلے کی اجازت مل گئی ، جو عمالقہ کا ایک مشہور شہر تھا تو ان پر چند قیود عائد کردی گئیں جو تمدن صحیح کی جان ہیں اور شہری زندگی کے لوازم میں ہے ، ورنہ خطرہ تھا کہ وہ شہریت وتمدن کی تعیش وفجور کا ہم معنی نہ سمجھ لیں ، وہ تین چیزیں قرآن کی الفاظ میں یہ ہیں : ۔ (ا) ۔ اللہ سے بہرحال تعلق قائم رہے ۔ اس کا آستانہ جلال ہمارے سجدہ ہائے خلوص سے ہمیشہ معمور رہے ۔ (ب) ہم اپنے گناہوں کا جائزہ لیتے رہیں ، تمدن وشہریت کو مذہب کے کناروں میں محصور رکھیں اور ہر وقت اللہ کی رحمت ومغفرت کے جویاں رہیں ۔ (ج) ۔ احسان اور جذبہ اصلاح وتکمیل پیش نظر رہے ۔ ان سہ گانہ اصولوں کو قرآن حمید نے اپنی معجزانہ زبان میں اس طرح ادا فرمایا ہے ۔ (آیت) ” وادخلوا الباب سجدا “۔ کے شہر میں عجزوانیاز مندی لئے ہوئے رہنا ، (آیت) ” وقولوا حطۃ “ اور ہر آن بخشش مانگتے رہنا ، اور جان رکھو کہ وہ لوگ جو محسن ہیں ان کے درجے ہم اور بڑھائیں گے ، ظاہر ہے یہ باتیں نہایت قیمتی نصائح کی حیثیت رکھتی تھیں ، مگر بنی اسرائیل نے تغافل سے کام لیا ، شہری فسق فجور میں مبتلا ہوگئے نتیجہ یہ ہوا کہ عذاب الہی نے آگھیرا ۔ بعض آثار میں آتا ہے کہ عذاب طاعون کی شکل میں آیا مسلم میں حدیث ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ۔ طاعون بقیہ قوموں کا عذاب ہے جس کسی جگہ آجائے تو تم بھاگو نہیں اور نہ مطعونہ شہر میں جاؤ ۔ حل لغات : ظللنا : ماضی معلوم ۔ مادہ الضل ، سایہ ۔ المن : ترنجبین (جمہور مفسرین) ایک قسم کا میٹھا گوند (قاموس) شہد ۔ کوئی میٹھی چیز ۔ ابن عباس (رض) کی رائے بالکل صاف ہے وہ کہتے ہیں ۔ من : مصدر ہے تمام ان چیزوں کو شامل ہے جو بلاتعب وکسب حاصل ہوجائیں ، بخاری ومسلم میں حدیث ہے ، ان الکماۃ من المن “۔ جس سے اس عموم کی توضیح ہوجاتی ہے ۔ سلوی : بٹیریں (جمہور مفسرین) شہد (علامہ جوہری) بٹیرایک ایسا پرندہ (ابن عطیہ) ایک طرح کا پرندہ (ابن عباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ) صحیح چیز یہ ہے کہ یہ بھی من کی طرح عام المعنی ہے ، ہر وہ شے موزون جس کے کھانے سے تسکین وتسلی حاصل ہو (راغب) ۔ القریۃ : شہر ۔ البقرة
58 البقرة
59 البقرة
60 (ف ١) بارہ چشمے : جنگل میں بنی اسرائیل موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ آئے تھے ، وہ بےآب وگیاہ جنگل تھا ، پانی کی سخت تکلیف تھی ، اس لئے ان کی درخواست پر موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے درخواست کی حکم ہوا پتھر پر معجز طراز لٹھ رسید کرو تعمیل کی گئی اور بطور اعجاز کے بارہ چشمے پتھر سے پھوٹ نکلے جو بنی اسرائیل کے بارہ قبائل کے لئے کافی تھے ۔ قرآن حکیم کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض اتفاق نہ تھا ، درخواست تھی ، پھر تکمیل درخواست کو اس معجزانہ شکل میں پیش کیا ، وہ لوگ جو اس کی تاویل کرتے تھے ، صحیح مسلک پر نہیں ہیں قرآن حکیم کے الفاظ کسی تاویل کے مستحق نہیں اور نہ متحمل ۔ حل لغات : رجز : عذاب تکلیف ۔ اضرب : مار ۔ امر ہے ضرب سے ، چلنے معنی اس وقت ہوتے ہیں جب اس کا صلہ فی ہو ، جیسے ضرب فی الارض ۔ جب اس کا صلہ با ہو تو اس کے معنی بجز مارنے کے اور کچھ نہیں ہوتے ۔ عین : متعدد معانی ہیں ، یہاں مراد ہر چشمہ ہے ۔ البقرة
61 (ف ١) شوق تنوع : من وسلوی کھا کھا کے بنی اسرائیل اکتا گئے ، جنگل کی زندگی سے طبیعت بیزار ہوگئی تو انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا ، ہم ایک ہی طرح کی طرز معیشت پر قانع نہیں رہ سکتے ، اللہ سے دعا کیجئے ہمیں پھر گہیؤں عنایت ہوں ہم خود زراعت کریں گے ، اللہ ہمارے کھیتوں میں برکت دے یہ شوق تنوع تھا ۔ (ف ٢) اللہ نے جواب عنایت فرمایا کہ تم بلا تعب ومشقت اب آزوقہ حیات فراہم کرلیتے ہو ، پھر تمہیں محنت کرنا پڑے گی کہ تم اس آسانی اور یسر کو مشکلات سے تبدیل کرنا چاہتے ہو مقصد یہ تھا کہ پیٹ کے دھندوں سے فارغ ہو کر صحیح تربیت حاصل کرو ، مگر وہ برابر مصر تھے ، وہ پہلی سی مادی اور جدوجہد کی زندگی بسر کرنا چاہتے تھے ، وہ تزکیہ وطن سے بھاگتے تھے ، انہیں اس نوع کی تربیت سے نفرت تھی ، وہ کسی طرح بھی اس خست سے نکلنے کے تیار نہ تھے ، اللہ تعالیٰ یہ چاہتے تھے کہ تربیت واصلاح کے بعد شہری زندگی میں پڑ کر بگڑ گئے ، دماغوں میں کفر و طغیان کے خیالات پیدا ہوئے ، طبیعتوں میں معصیت وتشدد کا زور ہوا ۔ اللہ کے حکموں کو ٹھکرایا گیا ، انبیاء علیہم السلام جو انہیں سمجھانے بجھانے کے لئے آئے تھے ، ان کی زیادتیوں کی آماجگاہ بن گئے ، وہ ان سے لڑے انہیں ناکام رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ، ان کی جان کے لاگو ہوئے ، یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ وہ تربیت واصلاح سے پہلے شہروں میں آباد ہوگئے اور تعیش وتفحش میں ملوث ہو کر راہ راست سے بھٹک گئے ، انبیاء علیہم السلام کی آمد کا مقصد اللہ کے پیغام کو پہنچانا ہوتا ہے تو وہ زندہ رہ کر اس مقصد کی تکمیل میں کوشش کرتے ہیں اور کبھی خدا کی راہ میں شہید ہو کر اپنی تعلیمات کو پایندہ وتابندہ بنا جاتے ہیں ، اس لئے ان سے جنگ وجدال اگر مضر ہے تو ان کے مخالفین کے لئے وہ تو بہرحال کامیاب رہتے ہیں ۔ (ف ٣) اس انتہائی قساوت قلبی اور بےدینی کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہودی رشد وہدایت کی تمام صلاحیتوں سے محروم ہوگئے ، اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا اور ذلت ومسکنت کی زنجیروں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باندھ دیئے گئے ، یہودیوں کی ساری تاریخ ان کی یبوست ، کور باطنی اور بےدینی کا مرقع ہے ، مادی طور پر بھی وہ آج تک ذلیل وخوار ہیں ، آج باوجود اعلی تعلیم اور کافی سرمایہ کے دنیا میں ان کی حیثیت کیا ہے ؟ خدا کی ساری زمین میں ان کے لئے کوئی گوشہ عافیت نہیں جسے وہ اپنا وطن کہہ سکیں ، اس سے زیادہ ذلت ومسکنت اور کیا ہو سکتی ہے ؟ حل لغات : بقل : ہر وہ حشیشہ ارض جو سردیوں میں نہ اگے (راغب) ہر چیز جو زمین میں آگے (زمخشری) جس کے ساق نہ ہو (عام لغت میں) قتاء : بالکسر والضم ککڑی ، فوم : گندم ، گیہوں ۔ لہسن (ابن عباس رضی اللہ عنہ) عدس : مسور ، بصل : پیاز ۔ ھادوا ۔ ماضی معنوم ، یہودی ہوئے ، مادہ یھودا ۔ البقرة
62 ہمہ گیر دعوت : (ف ١) مذہب کا مقصد نوع انسانی میں وحدت ویگانگت کا عظیم الشان مظاہرہ ہے انبیاء علیہم السلام اس لئے تشریف لائے کہ ان تمام جماعتوں اور گروہوں کے خلاف جہاد کریں جنہوں نے ردائے انسانیت کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے ہیں خدا ایک ہے اور اس کا منشاء تخلیق یہی ہے کہ سب لوگ اس کے آستانہ عظمت پر جھکیں ، تفرق وتشثت کا کوئی نشانی نظر نہ آئے چنانچہ خدا کے ہر محبوب فرستادہ نے لوگوں کے سامنے ایسا کامل واکمل پروگرام رکھا کہ اسے مان کر رنگ وقومیت کا کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا ، وہ آتے ہیں تاکہ جو بکھر گئے ہیں انہیں ایک روحانی رشتے میں منسلک کردیں ، ان کے سامنے کوئی مادی رشتہ نہیں ہوتا ، وہ اخوت انسانی کی بنیادیں ایمان وعمل کی مضبوط چٹان پر رکھتے ہیں جسے کوئی تعصب نقصان نہیں پہنچا سکتا ، چنانچہ قرآن حکیم یہودیوں اور عیسائیوں کو کہتا ہے ، تم سب اسلام قبول کرسکتے ہو اور سب اس ہمہ گیر دعوت پر ایمان لا سکتے ہو ۔ یہ کسی خاص فرقے کو موروثی مذہب نہیں ع : صلائے عام ہے یاران نکتہ دان کے لئے : یہ یاد رہے کہ قرآن حکیم جہاں جہاں ایمان وعمل کی دعوت دیتا ہے وہاں مقصود قرآن حکیم کا پیش کردہ پورا نظام اسلامی ہوتا ہے ، اس لئے اس کے سوا کوئی ایسا لائحہ عمل نہیں جس میں تمام انسانوں کو ایک سلک میں منسلک کردینے کی پوری پوری صلاحیت ہو ، (آیت) ” ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ “۔ البقرة
63 میثاق بنی اسرائیل : (ف ٢) اسی پارے میں اس میثاق کی تشریح فرما دی ہے کہ وہ کن باتوں پر مشتمل ہے ، (١) خدا کی عبادت (آیت) ’’ واذا اخذنا میثاق بنی اسرآء یل لا تعبدون الا اللہ ‘‘۔ (٢) ماں باپ سے حسن سلوک ۔ (آیت) ’’ وبالوالدین احسانا ‘‘۔ (٣) اقربا سے اور یتامی ومساکین سے اچھا برتاؤ ۔ (آیت) ’’ وقولوا للناس حسنا ‘‘۔ (٥) صلوۃ وزکوۃ کا قیام وتنظیم ۔ (آیت) ’’ واقیموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ ‘‘۔ یہ عہد تھا جو بنی اسرائیل سے لیا گیا ۔ وہ دامن کوہ میں رہتے تھے اس لئے پہاڑ کو اٹھا کر ان کے سامنے کیا اور کہا ، اگر ان باتوں پر عمل کرتے رہو گے تو پہاڑ کی طرف مضبوط وسربلند رہو گے اور اگر انکار کرو گے تو پھر مصائب وحوادث کا پہاڑ تمہیں پیس کر رکھ دے گا ۔ اس آیت میں اس طرف اشارہ ہے ۔ (آیت) ’’ خذوا ما اتینکم بقوۃ ‘‘۔ قرآن میں یہ کہیں نہیں آیا کہ پہاڑ ان کی مرعوب کرنے کے لئے اکھاڑا گیا تھا ، اس لئے کہ دل میں تسکین وطمانیت جب تک موجود نہ ہو ، محض جبرواکراہ سے کیا فائدہ ؟ دودھ بھی اگر عدم اشتہاء کے وقت پیا جائے تو مضر پڑتا ہے ۔ حل لغات : والنصاری : عیسائی ، منسوب بہ ناصرہ ۔ صائبین ۔ صابی ایک فرقہ تھا جس کی چند باتیں بظاہر اسلام سے ملتی جلتی تھیں ، لیکن اکثر باتوں میں وہ مجوسی تھے ۔ طور : پہاڑ ایک خاص پہاڑ ۔ تولیتم : ماضی معروف ، مصدر تولی ۔ اباو ، انکار اقرار کر کے پھر جانا ۔ البقرة
64 البقرة
65 بنی اسرائیل کی طبع حیلہ جو ۔ (ف ١) یہودیوں نے مذہب کے بارے میں سخت ٹھوکریں کھائی ہیں ، انہوں نے سمجھ لیا کہ خدا کا مقصد صرف الفاظ کے ظاہری مفہوم کو پورا کرتا ہے ، چاہے اصل منشاء کی مخالفت ہی ہو ۔ چنانچہ جب سبت کے دن کام کاج سے ان کو روکا گیا تو وہ ایک اور حیلے تراشنے میں کامیاب ہوگئے ، یعنی دریا کے کنارے کنارے کچھ حوض کھود رکھے تاکہ مچھلیاں سبت کے دن بھی ہاتھ نہ جانے پائیں ، اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب موزوں دیا ، ان کو ان کی ظاہری صورت سے محروم کردیا اور ان کو باطنی معنویت سے بالکل الگ شکل میں تبدیل کردیا اور بتایا کہ اللہ کی آیات کو مسخ کرنے کا یہ نتیجہ ہے ، مذہب صرف الفاظ وظاہر کی پابندی کا نام نہیں ‘ بلکہ معنویت وبطون کا خیال بھی رکھنا چاہئے وہ جو بےعمل وملحد ہوتے ہیں وہ یا تو اتنے ظاہر پرست ہوجاتے ہیں کہ صرف الفاظ کو سامنے رکھتے ہیں اور یا پھر اس قدر تعمق وتفکر کے عادی کہ ظاہر و باہر مفہوم سے تغافل اختیار کرلیتے ہیں اور انہیں محسوس بھی نہیں ہوتا ۔ اسلام کی ہدایت اس باب میں یہ ہے کہ کسی قسم کا حیلہ جو نفس منشائے الہی کے خلاف ہو ، الحاد ہے اور کفر ، الفاظ ومعانی میں ایک ربط رہنا چاہئے ، جہاں یہودی ظاہر پرستی کی وجہ سے خشک اور یا بس ہو کر رہ گئے وہاں عیسائیوں نے یہ بڑی غلطی کی کہ روحانیت میں خلوکی وجہ سے بےپرواہ ہوگئے اور شریعت کے احکام کو لعنت سے تعبیر کرنے لگے ، اسلام نے آکر بتایا کہ ہمیشہ سے مزہب کا مقصد ظاہروباطن کا تزکیہ رہا ہے : جس طرح وہ وکیل جو قانون کے الفاظ سے ناجائز فائدہ اٹھائے اور قانون کے مقصد کی مخالفت کرے ‘ حکومت کا مجرم ہوتا ہے ، اسی طرح وہ علمائے دین جو ظاہری الفاظ سے اپنے مفاد کے ماتحت حیلہ تراش لیں ‘ خدا تعالیٰ کے مخالف ہوں گے ، دین دار اور متورع اشخاص تو کسی طرح بھی اس نوع کے حیل کی اجازت نہیں دے سکتے ، البتہ اصحاب حرص وآزا اور ارباب عزت وجاہ جن کا مقصد ارذل ترین دنیا کا حصول ہوتا ہے ۔ وہ ضرور کوشاں رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح دین کو جلب زر کا ذریعہ بنایا جائے ، جب کسی قوم کی یہ ذہینت ہوجائے کہ وہ دنیا کو مقدم رکھے اور دین کو محض اپنے سلسلۃ العیش کی ایک کڑی سمجھے تو پھر ہلاکت قریب ہے ، اس وقت دین کا احترام اٹھ جاتا ہے ، زیادہ سے زیادہ الفاظ کے ظاہری مفہوم کو ادا کرلینا ہی وہ کافی سمجھتے ہیں طرح طرح کے حیلوں سے اپنے مفاد ووقار کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل کے قصہ ہمیں سنائے جارہے ہیں ان کے اقبال وادبار کی پوری داستانیں دہرائی جارہی ہیں ۔ تاکہ ہم ان کے نقش قدم پر نہ چلیں اور آنے والی ہلاکت سے بچیں ۔ حل لغات : اعتدوا : مصدر اعتداء زیادتی کرنا ، السبت : اصل معنی قطع کرنے کے ہیں ، رات کے متعلق ارشاد ہے ۔ وجعل اللیل سباتا : یعنی رات انکار سے چھڑا دینے والی ہے ۔ سبت کے معنی ہوئے اس دن کے جس میں کام کاج نہ کیا جائے ، مراد ہفتہ کا دن ہے ، نکالا : عبرت انگیز سزا ۔ قررۃ : بندر ۔ خاسئین : جمع خاسئہ بمعنی ذلیل ورسوا ۔ بقرۃ ۔ گائے اور بیل ۔ ھزوا ، مذاق ، فارض : عمررسیدہ ۔ عوان : جوان ۔ البقرة
66 البقرة
67 البقرة
68 اخفائے جرم : بنی اسرائیل کی قوم میں جہاں صدہا عیوب پیدا ہوگئے تھے وہاں سب سے بڑا عیب اخفائے جرم کا جذبہ تھا اور ظاہر ہے اس کا مطلب صاف صاف یہ ہے کہ قوم میں احساس گناہ نہیں رہا اور وہ بدمذہبی کے اس دور میں سے گزر رہی ہے جس کی اصلاح از بس دشوار ہے ۔ بائیبل میں لکھا ہے کہ جب کوئی شخص قتل ہوجاتا اور اس کے قاتل کا کوئی پتہ نہ چل سکتا تو پھر وہ ایک بیل ذبح کرتے اور اس کے خون سے ہاتھ دھوتے ، قاتل اگر اس جماعت میں ہوتا تو وہ اس سے انکار کردیتا ، خیال یہ تھا کہ قاتل اگر دھوئے گا تو وہ ضرور نقصان اٹھائے گا ، یہ کوئی شرعی بات نہ تھی ، محض ان کا وہم تھا جس پر ان کو یقین تھا جس طرح جاہل قوموں کے معتقدات ہوتے ہیں کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ، تاہم اس پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے ، جب بنی اسرائیل میں سے ایک شخص قتل ہوگیا اور انہوں نے عمدا اخفائے جرم کی ٹھان لی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے مسلمہ قانون کے مطابق بیل ذبح کرنے کا حکم دیا ، اس پر چونکہ ان کے دلوں میں چور تھا ، اس لئے حیلے تراشے ، بار بار سوال کیا بیل کس طرح کا ہو ، کیا رنگ ڈھنگ ہو کس نوع کا ہو نیت یہ تھی کہ کسی طرح بات آئی گئی ہوجائے ، حدیث میں آتا ہے کہ اگر وہ کوئی سا بیل ذبح کردیتے تو منشائے الہی کی تکمیل ہوجاتی مگر یہ سب تفاصیل تو اس لئے پوچھی جا رہی تھیں کہ عمل کی نوبت ہی نہ آئے ، اس طرز عمل مین باریک اشارہ اس طرف بھی ہے کہ وہ قومیں جن میں تفصیل طلبی کا جذبہ پیدا ہوجائے وہ عمل سے محروم ہوجاتی ہیں ، جب تک مذہب اپنی سادہ حالت میں رہے لوگوں میں جوش عمل موجود رہتا ہے اور جب ہر بات ایک معمہ بن جائے ، ہر مسئلہ ایک مستقل بحث قرار پائے اس وقت عمل کے لئے طبیعتوں میں کوئی جذبہ موجود نہیں رہتا ۔ بہرحال بنی اسرائیل آخر مجبور ہوگئے بیل ذبح کرنا پڑا اور معجزانہ طور پر بیل کے لمس سے وہ مقتول زندہ ہوگیا اور اس نے قاتل کا پتہ بتادیا ۔ اس معجزہ نے حکیمانہ طور پر انسان کی نفسیات پر روشنی ڈالی کہ وہ حتی الوسیع جرائم کے باب میں اخفا سے کام لیتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتلایا کہ فطرت ہمیشہ مجرم کو بےنقاب کرکے رہتی ہے گویا جرم و گناہ میں اور علام الغیوب خدا کے بتائے ہوئے منصفانہ قوانین میں ایک جنگ برپا ہے ، ناممکن ہے کوئی گناہ سرزد ہو اور فطرت کی طرف سے ان پر سزا نہ ملے ۔ (ف ١) ان آیات سے معلوم ہوا کہ استہزاء علم ومتانت کے شایان شان نہیں ، البتہ مزاح ہو پاکیزہ ہو ، جس سے کسی کا دل نہ دکھے اور جو خلاف واقع نہ ہو ‘ جائز ہے ۔ (ف ٢) (آیت) ” فافعلوا ما تؤمرون “۔ کا مقصد یہ ہے کہ ان کو صحیح مذہب سے متعارف کرایا جائے ، انہیں بتایا جائے کہ مذہب کی اصل روح تسلیم ورضا ہے ، جرح ونقد نہیں ، ایک دفعہ ایک نظام عمل کو مان لینے کے بعد صرف عمل کے لئے گنجائش رہ جاتی ہے پس تم سے بھی یہی مطالبہ ہے البقرة
69 حل لغات : لون ۔ رنگ ۔ صفرآء : زرد ، فاقع : گہرا ، واضح صاف ۔ ذلول : ہل میں جتا ہوا ۔ تثیرالارض : مادہ الشارۃ ۔ زمین درست کرنا ۔ شیۃ : داغ ، دھبا ، عیب ۔ البقرة
70 البقرة
71 البقرة
72 البقرة
73 (ف ١) اصل میں ایک ہی واقعہ ہے لیکن قرآن حمید نے کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ شبہ ہوتا ہے کہ شاید دو الگ الگ قصے ہیں ، اس طرز بیان کو اختیار کرنے کی حکمت یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی دو بہت بری عادتوں پر بالتفصیل روشنی پڑ سکے اور یہ معلوم ہو سکے کہ ان میں یہ دونوں مرض بالاستقلال موجود ہیں ، ایک بلا وجہ بلاضرورت تفاصیل میں جانے کا ، دوسرے اخفاء جرم کا ، آیات کے پہلے حصے کو اس بات پر ختم کیا کہ (آیت) ” وما کادوا یفعلون “۔ کہ وہ کسی طرھ بھی عمل پر آمادہ نہ تھے ۔ دوسرے حصہ کے آخر میں فرمایا (آیت) ” ویریکم ایتہ لعلکم تعقلون “۔ کہ خدا اپنے نشان تمہیں دکھاتا ہے تاکہ تم جان لو ، غرض یہ ہے کہ ایک طرف تو ان کی حیلہ جوئی اور کسل اور تساہل فی الدین کو بےنقاب کیا جائے اور دوسری طرف اخفائے جرم اور اللہ کے قانون پر روشنی ڈالی جائے کہ جرائم بجائے خود اعلان اعتراف کی دوسری شکل ہے ۔ البقرة
74 قساوت قلبی کی آخری حد : (ف ٢) جب کسی قوم کی مذہبی حس مردہ ہوجائے تو پھر احساس وتاثر کی تمام قوتیں سلب کرلی جاتی ہیں ، بنی اسرائیل پہیم انکار وتمرد کی وجہ سے اس درجہ قاسی القلب ہوگئے کہ انہیں متاثر کرنا ناممکن ہوگیا ، ان آیات میں قدرت کے ایک ہمہ گیر قانون کی طرف غافل انسانوں کو متوجہ کیا گیا ہے ، بتایا گیا ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ رب خاطر کی بنائے ہوئے قوانین میں بندھا ہوا ہے اور اپنے احساس کے لئے مجبور ہے کہ ان قوانین کی پیروی کرے ، پتھر ایسی ٹھس اور ٹھوس چیز بھی اس احساس اطاعت سے محروم نہیں ، دیکھو بعض پتھروں میں سے پانی رستا ہے بعض میں سے سوتے کے سوتے پھوٹتے ہیں اور دریائے ذخار کی شکل اختیار کرلیتے ہیں ، پھر دیکھو ایسے بھی ہیں جو چند مختص قوانین کی اطاعت کرتے ہوئے اونچی اونچی جگہ چھوڑ دیتے ہیں اور لڑھک کر نیچے آرہتے ہیں ۔ کیا بنی اسرائیل پتھروں سے بھی گئے گزرے ہیں ، عقل وبصیرت کے علاوہ انہیں بےدرپے انبیاء کے ذریعہ سے الہام ووحی کی برکات سے نوازا گیا ہے مگر اس کی قساوت قلبی کی یہ حد ہے کہ یہ بالکل غیر متاثر رہے ۔ اس مفہوم کو عجیب بلیغ استعارہ تبیعہ تمثیلہ کے رنگ میں بیان کیا گیا ہے ، یہ مقصد نہیں کہ پتھر بھی دل ودماغ رکھتے ہیں ، البتہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ ساری کائنات کا ایک مذہب ہے ، اشجار سے لے کر انسان تک ایک حی وقیوم کے فرمانبردار ہیں ، دانستہ یا نادانستہ سب اس کے قوانین طبیعہ کی اطاعت میں مصروف ہیں ، مگر انسان بالخصوص مجرم انسان اس کو محسوس نہیں کرتا ۔ حل لغات : قسمت : مادہ قساوۃ ۔ دل کا غیر متاثر ہوجانا ۔ یتفجر : اصل تفجر ، پھوٹنا ، نکلنا ، بہنا ، جھرنا ، یھبط : مصدر ھبوط ، بمعنے گرنا : البقرة
75 تحریف بائبل : (ف ١) یہودیوں میں ایک جماعت ایسی بھی تھی جن کا وظیفہ حیات احکام خدا وندی میں تحریف کرنا تھا ، ادھر وہ کلام الہی کو سنتے ، ادھر اپنی مرضی کے موافق ڈھال لیتے ، نتیجہ یہ ہوا کہ بائبل ایک غیر محفوظ کتاب ہو کر رہ گئی ، موجودہ بائبل ہر طرح مشکوک ہے ، صحائف کی تعداد میں اختلاف ہے یقین میں اختلاف ہے اور پھر خود توریت کے بعض حصوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحیفے ضائع ہوگئے ہیں بخت نصر نے جب یروشلم میں آگ لگا دی ، بنی اسرائیل کی کثیر تعداد کو ما ڈالا اور بائبل کے تمام نسخوں کو جلا دیا تو عزرا نامی ایک شخص نے از سر نو بطور یاد دا اشت کے چند کتابیں لکھیں ، یہی موجودہ توریت ہے ، اس لئے یہ کسی طرح بھی محفوظ اور یقینی نہیں شمار کی جاسکتی ۔ یہودیوں کا تعصب : تعصب کی آخری حد کتمان حق ہے یہودی جو اس وصف میں ممتاز تھے ، اعلان حق سے بہت گھبراتے ، ایک مختصر گروہ ان کا مسلمانوں میں بددلی پیدا کرنے کے لئے بظاہر مسلمان ہوگیا ، اب جو ان کے منہ سے کبھی کوئی سچی بات نکل گئی اسلام کی تعریف میں تو دوسرے یہودیوں نے ملامت کرنا شروع کردی کہ یہ تم کیا غضب ڈھاتے ہو ؟ ایسا کبھی نہ کرنا ، مسلمان دلیر ہوجائیں گے ، گویا ان کے نزدیک حق وصداقت کی کوئی قیمت نہیں بجز اسلام دشمنی کے ، عبداللہ بن سلام جب مسلمان ہوئے تو انہوں نے فرمایا ذرا میری قوم سے میرے متعلق کچھ پوچھئے ، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعیان یہود سے پوچھا کہ عبداللہ بن سلام میں کیسے آدمی ہیں ؟ انہوں نے کہا ، بہت خوب آدمی ہیں ، مگر جب انہیں بتایا گیا کہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں تو اسی ” بہترین “ انسان کو محض تعصب کی بنا پر گالیاں دینے لگے ۔ البقرة
76 البقرة
77 البقرة
78 (ف ٢) جاہل یہودی صرف عقائد پر قانع تھے ، ہر قسم کی بےعملی کے باوجود انہیں اپنی نجات کا یقین تھا ، فرمایا یہ محض ایک خوش کن امید ہے جو کبھی شرمندہ عمل نہ ہوگی ، نجات کے لئے عمل کی ضرورت ہے ، بتائے ہوئے قوانین پر چلنا ضروری ہے ، صرف خوش اعتقادی کافی نہیں ۔ حل لغات : یحرفون : تحریف سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں بدلنے کے ، ایک بات کی جگہ دوسری بات کہنے کے ، فتح ، مصدر فتح کھولنا ، مگر فتح اللہ علیہ کے معنی ہوتے ہیں ، خدا نے اسے بتایا ۔ امیون : جمع امی ، ان پڑھ یعنی ابتدائی حالت میں ، جس حالت میں کہ اس کی ماں نے اسے پیدا کیا ۔ امانی : جمع امنیۃ ، بمعنی خواہش ، اندازہ اور پڑھنا ۔ البقرة
79 البقرة
80 فریب خیال : (ف ١) یہودی اس فریب خیال میں مبتلا تھے کہ چونکہ ہم انبیاء کی اولاد سے ہیں ، اس لئے اللہ کے زیادہ سے زیادہ مقرب ہیں ، (آیت) ” نحن ابناء اللہ واحباء ہ “۔ اور اس لئے ضروری ہے کہ ہماری نجات ہو ۔ اور ہم جو چند دن جہنم میں رہیں گے بھی تو وہ محض تزکیہ اور گناہوں کے کفارہ کے لئے ورنہ درحقیقت کوئی یہودی جہنم کے لئے پیدا نہیں کیا گیا ، گویا وہ مذہب کی حقیقت صرف اس قدر سمجھتے تھے کہ یہ ایک قسم کا انتساب تھا اور بس ، عیسائی بھی اس نوع کے غرور نفس میں یہودیوں سے کسی طرح پیچھے نہیں ، انجیل میں لکھا ہے کہ ” تو خداوند خدا پر ایمان لا تاکہ تو اور تیرا گھرانا نجات پائے “۔ گویا صرف مسیح (علیہ السلام) کی قربانی کا اعتراف سارے گھرانے کی نجات کے لئے کافی ہے ، اسلام کہتا ہے کہ اللہ نے کسی قوم سے کبھی اس قسم کا وعدہ نہیں کیا ، نجات قول وعمل کے اجتماع کانام ہے اور مجرم چاہے کون ہو ، سزاوار تعزیر ہے ۔ (آیت) ” لیس بامانیکم ولا امانی اھل الکتب من یعمل سوء یجزبہ ۔ اس آیت میں یہ بھی بتایا کہ خدا کے وعدے جھوٹے ثابت نہیں ہوتے کیونکہ خدائی دعوی کے معنی یہ ہیں کہ وہ پورے علم وقدرت کے ساتھ ظہور پذیر ہوا ہے ۔ تکمیل عہد کا مطالبہ : بنی اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ صرف ایک خدا کی عبادت کرو ، والدین اور دیگر اقرباومساکین کے ساتھ حسن سلوک روا رکھو ، اور لوگوں کو اچھے الفاظ میں مخاطب کرو ، نماز پڑھو اور زکوۃ دو ، اور آپس میں لڑو جھگڑو نہیں ، مگر وہ تھے کہ ان باتوں سے روگردان رہے ، حل لغات : ویل : خرابی ۔ ہلاکت ، مصیبت ۔ خطیئۃ : لغزش ۔ گناہ ۔ البقرة
81 البقرة
82 البقرة
83 (ف ١) خدا کی عبادت کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک اور سب اقرباء ومستحقین کے ساتھ مشفقانہ تعلقات کو اس لئے ضروری قرار دیا گیا کہ مذہب کی تکمیل بلا اس طرز کے ناممکن ہے ، وہ انسان جو خدا پرست ہے ، لازمی ہے کہ کائنات کے ساتھ اس کا نہایت گہرا اور محبانہ تعلق ہو ۔ بالخصوص والدین اور عزیز جو قریبی رشتہ ، الفت وشفقت رکھتے ہیں ضرور ہماری توجہ کے مستحق ہیں ، اور یاد رکھو جو اپنے عزیزوں اور بزرگوں کے حق میں بھی اچھا انسان نہیں وہ خدا کے حق میں بھی نیک انسان نہیں ہوسکتا ، گویا قرآن تقوی وصلاح کا معیار ظاہری رسوم دین نہیں قرار دیتا ، بلکہ اس کے نزدیک فلاح ونجات موقوف ہے حسن معاملت اور حقوق شناسی پر وہ کہتا ہے تم لوگوں کو محراب ومنبر میں نہ دیکھو کہ بدترین لوگ بھی زہد ورورع کے مقدس مقامات میں زینت افروز ہو سکتے ہیں ، صحیح معیار گھر کی چار دیواری ہے جو اپنے قریب ترین ماحول میں بےحسن ہے ‘ وہ معرفت الہی کی فضاء بعید اور اطراف میں کیونکر سانس لے سکتا ہے ؟ اس طور پر قرآن حکیم نے مسجد اور گھر میں ، دنیا ودین میں ایک مضبوط ربط قائم کردیا ہے اور وہ کسی قابل اخفاء زندگی کا قائل نہیں ، البقرة
84 (ف ٢) (آیت) ” دمآء کم اور انفسکم “ کے معنی یہ ہیں کہ سارے بنی اسرائیل ایک قوم اور ایک جسم ہیں ، ان سب میں انبیاء کا خون موجزن ہے ، اس لئے ان کا آپس میں جنگ وجدل میں مصروف رہنا وحدت قومی کو شدید نقصان پہنچاتا ہے ، نیز اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ کوئی قوم اس وقت تک قوم کہلانے کی مستحق نہیں ہوسکتی جب تک وہ قومی حرمت واعزاز کو محسوس نہ کرے ، مذہب کا مقصد جہاں نسلی اور قبائلی نقیضات کو ختم کرتا ہے ، وہاں ایک مضبوط اور غیور اور باحمیت قوم کی تخلیق وتعمیر بھی ہے ، تاکہ وہ خدا کے مشن کو دلیرانہ پورا کرسکے ، وہ لوگ جو قوم کے رشتہ قومیت کو توڑتے ہیں ، وہ قوم کے مجرم ہیں اور خدا کے بھی ، اس لئے بنی اسرائیل کو لڑائی جھگڑے سے سختی کے ساتھ روکا گیا ہے کہ اس سے زیادہ قومی وقار کو ختم کردینے والی اور کوئی چیز نہیں ۔ اسلام نے قتل مومن کی سزا نہایت سنگین رکھی ہے ، (آیت) ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزآءہ جہنم “۔ کیونکہ قتل مومن کے معنی یہ ہیں کہ اس کے دل میں اسلام کا کوئی وقار نہیں مسلمانوں کی محبت نہیں وہ نفس خدا اور قوم کے سامنے غدار وخائن کی حییثت رکھتا ہے اس کا جرم قطعا ناقابل معافی ہے اور اسی لئے ناقابل عفو بھی ۔ حل لغات : احسانا : حق واجبی سے زائد یعنی والدین کے احکام کی بجا آوری ہی کافی نہیں ، بلکہ حقوق سے بہت کچھ زیادہ ، از راہ احسان ومحبت ان سے سلوک کیا جائے جو کسی طرح بھی معمولی نہ ہو ۔ الیتمی : جمع ، یتیم ، وہ بچہ جو شفقت مادری وپدری سے محروم ہوجائے ، وہ عورت جس کا خاوند نہ رہے ، ۔ المسکین : جمع مسکین کی ، سکون سے نکلا ہے ، وہ شخص جو بےبسی کے باعث کوئی حرکت نہ کرسکے یا جسے افلاس وناداری نے ہر طرح کی شوخی سے روک رکھا ہو ۔ تشھدون : شھادۃ ۔ سے نکلا ہے معنی ہیں تم دیکھتے ہو ، گواہ ہو ۔ البقرة
85 ایمان بالبعض وکفر بالبعض : (ف ١) یہودیوں کا یہ وطیرہ مذہب کے باب میں اس مذہبی اہلیت کا پتہ دیتا ہے جو ان کے دلوں میں مستتر تھی ، غالبا وہ برائے نام یہودی تھے اور کسی نہ کسی طرح مذہبی رکھ رکھاؤ کا خیال تھا ، ورنہ مذہب کے صحیح ذوق سے وہ محض کورے تھے ۔ مدینے میں اوس وخزرج نامی دو قومیں آباد تھیں جن میں آئے دن کوئی نہ کوئی جنگ رہتی ، یہودی بحیثیت حلیف ہونے کے ان کا ساتھ دیتے رہے ، کچھ لوگ اوس کی طرف ہوجاتے اور کچھ خزرج کا ساتھ دیتے ۔ اور اس بےدریغی سے لڑتے کہ گویا یہی اصل فریق متخاصم ہیں اور جب ایک دوسرے کے ہاتھ میں بحیثیت قیدی کے پیش ہوتے تو پھر توریت کے اس حکم کا خیال آتا کہ یہودی یہودیوں کے ہاتھوں غلام نہیں رہ سکتا ، لہذا کچھ روپیہ بطور فدیہ کے دے کر قیدی چھڑا لیتے ، قرآن حکیم کہتا ہے کہ یہ کیا مذاق ہے ؟ اور تلعب ہے توراۃ کے احکام کے ساتھے کہ جب آپس میں لڑنا ہی جائز نہیں تو پھر فدیہ کا سوال کیوں پیدا ہوتا ہے ، مگر تمہارے دلوں میں یہودیت کی اتنی عزت ہے کہ تم اس کی ذلت ورسوائی نہیں دیکھ سکتے تو پھر تم لڑتے ہی کیوں ہو ؟ جو اس کا سب سے بڑا باعث ہے ، یہ فعل بالکل اس قسم کا ہے کہ ایک شخص کو بلاوجہ مار ڈالا جائے اور پھر اس کے بچوں کی تربیت کی حمایت کی جائے کہ بےچارے یتیم ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ان کے یتیم ہونے کا باعث کون ہے ؟ تم جو قیدیوں سے اتنی ہمدردی رکھتے ہو اور اس کا اظہار فدیہ کی صورت میں کرتے ہو ‘ اس سے کیا فائدہ ؟ جبکہ ایک یہودی کو قتل کردینا عملا تمہارے ہاں درست اور جائز ہے ۔ قرآن حکیم کہتا ہے ، ایمان کی یہ شکل کہ بعض حصے مان لئے جائیں اور بعض کا انکار کردیا جائے قطعی سود مند نہیں ، ایمان نام ہے ایک کامل نظام عمل کا ، اگر اس میں ایک چیز کو بھی عمدا چھوڑ دیا جاتا ہے تو ایمان نہیں رہے گا ، البتہ اس کو تجارت کہیئے جو چیز پسند آئی ، خرید لی ، جو مرغوب نہ ہوئی ، ترک کردی ، اور مذہب کے بارے میں اس قسم کی تجارت الحاد وزندقہ ہے جو قطعی برداشت نہیں کیا جاسکتا ، یہ نرمی لامذہبی اور کفر ہے ، ایسے لوگ خدا کے ہاں کبھی کامیاب نہیں رہتے جن کے پاس نہ کفر خالص ہے اور نہ ایمان ہی کامل ۔ چنانچہ یہودی اس بےاعتقادی کی بنا پر اور اس تشتت وافتراق کی وجہ سے اپنی تمام نو آبادیوں سے محروم ہوگئے ، ان کے نخلستان چھین لئے گئے ، ان کی بستیاں نذر آتش کردی گئیں اور آخرت میں ان کے لئے جو مقدرو متعین ہے وہ اس سے زیادہ سخت اور ہولناک ہے ۔ حل لغات : تضھرون علیھم : تظھر علیہ ، اس کے خلاف دشمن کو مدد دی ، ظھیر : کے معنی ہوتے ہیں مددگار اور ناصر کے ۔ اسری : جمع اسیر بمعنی قیدی ۔ خزی : ذلت ورسوائی ۔ البقرة
86 البقرة
87 انبیاء علیہم السلام عوام کے جذبات کی پرواہ نہیں کرتے : (ف ١) موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت نامی کتاب دی گئی جو الواح کی صورت میں تھی خط مسماری کا ان دنوں رواج تھا ، اس لئے کتابیں عموما پتھروں پر کندہ ہوتیں موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد مسلسل بنی اسرائیل میں انبیاء علیہم السلام آئے ، تاکہ اللہ کے پیغام کو پوری وسعت وقوت کے ساتھ بندوں تک پہنچا سکیں ، مگر بنی اسرائیل برابر جہل وجمود کے تاریک گڑھوں میں گرے رہے ، زیادہ سے زیادہ چند ظاہری رسوم ان کا متاع تدین تھا روح اور مفر سے محروم تھے ، اس لئے فسق وفجور کے باوجود اپنے آپ کو اللہ کے مقرب ہی سمجھتے رہے ، بالآخر اللہ تعالیٰ نے مسیح (علیہ السلام) کو بھیجا ایک کتاب مقدس دے کر جو ان کے تاریک دلوں میں اجالا کر دے ، جو ان کے گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے اور جو ان کے اخلاق پاکیزہ تر بنا دے ، روح کا اطلاق قرآن میں کتاب پر ہوا ہے ، قرآن حکیم کے متعلق ارشاد (آیت) ” وکذلک اوحینا الیک روحا من امرنا “۔ یعنی قرآن بھی ایک روح ہے جسے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے ، اس لئے روح القدس سے مؤید ہونے کے معنی صرف یہی ہوں گے کہ انہیں انجیل جیسا پاک صحیفہ دیا گیا جس میں تذکروتزکیہ کی پوری قوت ہے ، مگر بنی اسرائیل نے انجیل کی پاک اور بلند اخلاق تعلیم پر بھی عمل نہ کیا ، اس لئے کہ اس میں انہوں ان کی کاریوں پر صاف صاف ٹوکا گیا تھا ، لیکن اس سے خدا کا قانون اصلاح ورشد نہیں بدل سکتا ، انبیاء کی بعثت کا مقصد عوام کے جذبات کی رعایت نہیں بلکہ اصلاح ہے ، البقرة
88 (ف ٢) صاف صاف اعتراف کہ ہماری دلوں میں نور وہدایت کے لئے کوئی جگہ نہیں ‘ انتہائی بدبختی کی دلیل ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ دل کی تمام خوبیاں ان سے چھین لی گئی ہیں ۔ خدا کی لعنت کے معنی گالی دینا نہیں ، بلکہ اپنی آغوش رحمت سے دور رکھنا ہے اور وہ لوگ جو اپنے لئے زحمت وشقاوت پسند کریں رحمت ومؤدت کو ٹھکرا دیں ، ظاہر ہے کہ خود بخود رؤف ورحیم خدا سے دور ہوجاتے ہیں ۔ حل لغات : ۔ یخفف ، مصدر تخفیف ۔ کم کرنا ۔ وقفینا : فعل ماضی معلوم مصدر تقفیۃ مسلسل یکے بعد دیگرے بھیجنا ۔ البینت : جمع بینۃ ، واضح ظاہر وباہر دلائل وہ نشان جو روشن تر ہوں ۔ تھوی : مصدر ھوی ، خواہش نفس ۔ فریقا : ایک گروہ ، جماعت : غلف : جمع اغلف ، غیر مختون ، محجوب ، ڈھکا ہوا ، مستور ۔ البقرة
89 (ف ١) نزول قرآن سے پہلے یہودی ایک سرخ وسپید ” نبی کے منتظر تھے ، جس کے ہاتھ میں آتشین شریعت ہو ، بحری ممالک جس کی راہ تکیں ، جو فاران کی چوٹیوں پر سے چمکے ، دس ہزار قدوسی جس کے ساتھ ہوں ، مگر جب وہ گورا چٹا نبی صحرائے عرب کی جھلس دینے والی فضا میں ظہور پذیر ہوا ، جس کے ہاتھ میں آتشین شریعت تھی جس کی فتوحات سمندروں تک پہنچیں تو انہوں نے انکار کردیا ، حالانکہ اس سے پہلے وہ مخالفین سے ہمیشہ یہ کہتے کہ جب ہمارا موعود نبی آئے گا تو ہم غالب ہوجائیں گے اور ہماری موجودہ پستی بلندی سے بدل جائے گی ، قرآن حکیم پہلی کتابوں کا مصدق ہے ، وہ تمام صداقتوں کی تائید کرتا ہے ، تمام سچائیاں اس کے نزدیک قابل قبول ہیں ، مگر اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ وہ باقبل کو حرف بحرف صحیح سمجھتا ہے ، وہ ان مشترک سچائیوں کی تائید وتصدیق کرتا ہے جو مختلف فیہ نہیں ، ورنہ سینکڑوں ایسی باتیں ہیں کہ یہود نے محض بربنائے تعصب بدل دی ہیں ، تاکہ ان کا کوئی وقار قائم نہ رہے ۔ البقرة
90 معیار نبوت : (ف ٢) بفی الجرح محاورہ ہے جس کے معنی ہیں ، زخم بگڑگیا ، بنی اسرائیل کے مرض انکار کو بھی بگڑے ہونے زخم سے تشبیہہ دی ہے یعنی ان کی ذہنیت ناقابل اصلاح ہے اور اچھے سے اچھا مرہم بھی ان کے ناسور کے لئے مفید نہیں ۔ اعتراض یہ تھا ان کا کہ کیوں نبوت کسی اسرائیل کو نہیں ملی ؟ اور اس کے لئے مکہ کے ایک یتیم ونادار انسان کو کیوں منتخب کیا گیا کیا بنی اسرائیل کے گھرانے سے برکت اٹھ گئی ہے یا پھر کوئی اور سرمایہ دار اس کا مستحق نہ تھا ؟ قرآن حکیم نے ان آیات میں اس کا جواب یہ دیا کہ نبوت اللہ کا ایک فضل ہے ، یہ موہبت کبری ہے جو خاص حالات میں خاص اشخاص کو دی جاتی ہے ، اس میں کسب واکتساب کو اور جدوجہد کو کوئی دخل نہیں ، اسرائیل جب اس بار امانت کے متحمل نہ رہے تو یہ امانت اسمعیل کے گھرانے کے سپرد کردی گئی اس میں تم اعتراض کرنے والے کون ہو ؟ یہ ضروری نہیں کہ انبیاء کا انتخاب سرمایہ داروں میں سے ہو ، تمہارے نزدیک تو دنیوی وجاہت قابل اعتنا ہے لیکن خدا کی نگاہ میں اس کی کوئی وقعت نہیں ، یہ درست ہے کہ انبیاء قوموں کو دین ودنیا کی نعمتوں سے مالا مال کرنے کے لئے مبعوث ہوتے ہیں لیکن خود دنیا میں ان کا بہت کم حصہ ہوتا ہے گو وہ روپیہ پیسہ نہیں رکھتے لیکن ایمان وتیقن کی گراں قدر پونجی ان کے پاس سب سے زیادہ ہوتی ہے ، وہ حوصلے کے بلند اور دل کے مطمئن ہوتے ہیں سیم وزر ان کے پاؤں چومتا ہے اور وہ کبھی روپے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ، اس لئے تمہارا محض اس بنا پر انکار کہ رسول بنی اسرائیل کے گھرانے میں پیدا نہیں ہوا اور یہ کہ وہ سرمایہ دار نہیں محض غیر معقول ہے ۔ حل لغات : مصدقا : تصدیق کرنے والا ، یستفتحون ، مصدر استفتاح ، فتح طلب کرنا ، بغیا : تمردوسرکشی ، مھین : اھانۃ کے معنی ہوتے ہیں کمزور کردینے کے ۔ ہڈی توڑنے کے ۔ عذاب مھین : سے سخت ضعف وذلت آفرین عذاب مراد ہے ۔ البقرة
91 (ف ١) جب یہودیوں کو قرآن حکیم کی دعوت دی گئی تو انہوں نے توریت کے سوا اور سب چیزوں کے ماننے سے انکار کردیا ، انہوں نے کہا ، ہم تو وہی ماننے کے مکلف ہیں جو ہمارے نبی پر نازل ہوا ہے ، اس پر قرآن حکیم نے دو اعتراض کئے ہیں ایک یہ کہ اگر یہ واقعہ ہے تو تمہاری پہلے انبیاء سے کیوں جنگ رہی ؟ گزشتہ انبیاء کیوں تمہارے ظلم وستم کا نشانہ بنے رہے ؟ وہ تو سب اسرائیلی تھے ، دوسرا یہ کہ توریت وقرآن کے پیغام میں کیا اختلاف ہے قرآن حکیم تو وہی پیغام پیش کرتا ہے جو توراۃ کا موضوع اشاعت تھا پھر انکار کیوں ؟ بات اصل میں یہ ہے کہ تم نے نہ کبھی توراۃ کو مانا ہے اور نہ اب قرآن کو ماننے کے لئے تیار ہو ، ورنہ ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں ، پیغام ایک ہے مقصد ایک ہے تعلیم ایک ہے ، فرق صرف اجمال وتفصیل کا ہے یا نقص وکمال کا قرآن حکیم مصدق ہے مہیمن ہے اور ساری کائنات کے لئے اتحاد عمل ہے ، اس میں کوئی تعصب نہیں کوئی جانب داری نہیں ۔ البقرة
92 (ف ٢) موسیٰ (علیہ السلام) معجزات ونبوت کے تمام آلات سے مسلح ہو کر آئے لیکن تم نے پھر بھی نہ مانا اور گوسالہ پرستی شروع کردی ، معلوم ہوتا ہے ، مصر میں گائے کی پرستش کا عام رواج تھا ، جیسا کہ آج کی اثری تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے مصر کے قدیم معاہد میں سے اس قسم کی کثیر التعداد تصوریں نکلی ہیں جن سے ان کا ذوق بت پرستی ظاہر ہوتا ہے ۔ البقرة
93 (ف ٣) (آیت) ” سمعنا وعصینا “ کے معنی یہ نہیں کہ وہ ایک دم سنتے بھی تھے اور انکار بھی کردیتے تھے ، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ان کی ساری مزہبیت سماع تک محدود تھی ، جہاں عمل کا وقت ہوتا ، وہ یکسر عصیاں ہوجاتے ، (آیت) ” سمعنا وعصینا “ ان کی ساری تاریخ مذہبیت کی پوری پوری اور صحیح تفسیر ہے ، ہمیشہ وہ باتوں اور موشگافیوں کے شائق رہے اور عمل سے بیزار ، مختصر سے مختصر لفظوں میں یہودیوں کی ذلت ونفسیات کا جو مرقع قرآن حکیم نے ان دو لفظوں میں کھینچا ہے وہ ناقابل اضافہ ہے ۔ حل لغات : الحق : سچا معقول اور مفید مصلحت ۔ البقرة
94 فیصلہ کا ایک طریق : (ف ١) یہودیوں کا تفاخر دینی مشہور ہے ، وہ کہتے تھے ، آسمان کی بادشاہت میں ہمارے سوا اور کسی کا حصہ نہیں ، بہشت کے دروازے صرف بنی اسرائیل کے لئے کھولے جائیں گے ، قرآن نے اس غور کو بار بار توڑا ہے اور ایک آخری طریق فیصلہ یہ پیش کیا ہے کہ تم موت کی خواہش کرو ، یعنی جھوٹے کے لئے ہلاکت کی دعا کرو ، جیسا کہ امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے اس صورت میں معلوم ہوجائے گا کہ تمہیں اپنے سچا اور پاکباز ہونے پر کتنا یقین ہے ، یہ طریقہ فیصلہ ایک شدید تیقن ، محکم اور مضبوط ایمان کی خبر دیتا ہے جو نبی اسلام کے سینہ میں موجود تھا ، دلائل وبراہین سے جب فیصلہ نہ ہو سکے ، افہام وتفہیم کے تمام دروازے جب بند ہوجائیں تو اس وقت بھی یہی ایک صورت فیصلہ باقی رہ جاتی ہے کہ اپنے آپ کو رب عادل کے عتبہ حق وانصاف پر جھکا دیا جائے ، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ خدا پر ایمان واثق ہو ، اس پر اور اس کی عدالت پر پورا پورا وثوق اور یقین ہو ، ایک کمزور ایمان والا انسان کبھی اس قسم کے فیصلے کے لئے آمادہ نہیں ہو سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے پہلے سے اعلان فرما دیا کہ یہودیوں کو اپنی سیہ کارویوں کے سبب ان سے کبھی اس نوع کے ایمان طلب فیصلے پر لبیک کہنے کی جرات نہ ہوسکی ، تاریخ شاہد ہے ، تیرہ صدیاں گزرنے پر بھی یہ قوم اس کے جواب کے لئے تیار نہیں ہوئی ، یہ چیلنج یہودیوں سے مخصوص نہیں ، جنگ خدا پرست اور باطل پرست گروہ کے درمیان ہے پس ہر وہ شخص جو حق والوں کا مقابلہ کرنا چاہے ، آخری طریق فیصلہ کے لئے آمادہ ہو سکتا ہے ، خدا کا نہ ٹلنے والا وعدہ ہے ، (آیت) ” حقا علینا نصر المؤمنین “۔ حل لغات : بئسما : بہت برا ۔ لن یتمنوا : مصدر تمنی ، خواہش ، آرزو اور چاہت ۔ احرص : حریص ترین ۔ یود : مصدر ود ۔ دوستی ، محبت ۔ البقرة
95 البقرة
96 حریص ترین قوم : (ف ١) حق وباطل میں ، شرک وتوحید میں ایک متمائز فرق ہے ، مشرک وباطل پرست کی خواہشیں بےانتہا ہوتی ہیں اور موحد حق پرست انسان بالطبع قانع ہوتا ہے ، یہودیوں کی دنیا پر ستی قرآن حکیم کے ان الفاظ سے واضح ہوتی ہے کہ (آیت) ” سمعون للکذب اکلون السحت “۔ کہ پرلے درجے کے جھوٹے اور سود خوار ہیں ۔ آج بھی یہودی سود خواری میں اس درجہ مشہور ہے کہ مغربی ممالک میں یہودی اور سود خوار باہم مترادف لفظ ہیں ۔ قرآن حکیم نے یہاں انہیں (آیت) ” احرص الناس “۔ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہزار سال کی عمر بھی یہ پائیں تو بھی دین کے لئے یہ کچھ کرسکیں گے ۔ البقرة
97 البقرة
98 (ف ٢) جہلا نے یہود جبرائیل (علیہ السلام) کے نام سے بہت پریشان ہوتے تھے ، ان کا خیال تھا کہ یہ فرشتہ ہماری بربادی اور بدبختی کا باعث ہوا ہے اس لئے اب اس کے لائے ہوئے پیغام کو ہم کبھی نہ مانیں گے ، یہ ایک ضد اور جاہلانہ خیال تھا ، ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا ، وہ جو کچھ لاتا ہے پیغام خدا کے نظام وحی وتنزیل کا انکار ہے ۔ البقرة
99 (ف ٣) قرآن حکیم کے متعدد نام قرآن میں مذکور ہیں ، ان میں سے آیات بینات بھی ہے یعنی واضح اور روشن آیات جو لوگ اللہ کی اس کتاب کے ساتھ لگاؤ رکھتے ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ اس کے دلائل اس کا طرز بیان ، اس کا پیغام سب واضح ہیں اور روشن ، یہ حقائق ومعارف کا وہ سمندر بےساحل ہے کہ جس کی ہر موج صد ہزار موتی اپنے وامان گہر بار میں لئے ہوئے ہے ، ہمہ آفادہ اور ہمہ خوبی اگر کوئی کتاب ہو سکتی ہے تو وہ یہ قرآن حکیم ہے ، اس کے وضوح پر درخشندہ مثال یہ ہے کہ اس طویل عرصے کے بعد بھی یہ ویسی ہی سمجھی جا سکتی ہے ، جیسے قرون اولی میں نفس تعلیم میں کوئی تحریف نہیں ، حالانکہ انجیل دو سو سال کے بعد بالکل بدل گئی اور وید چند صدیاں بھی حوادث کا مقابلہ نہ کرسکا ۔ حل لغات : الف : ایک ہزار ۔ مزحزح : ہٹانے والا ، دور کرتے والو ۔ بشری : خوش خبری ۔ البقرة
100 (ف ١) بنی اسرائیل ایک آنے والے نبی کے منتظر تھے اور انہوں نے اس کی اعانت ونصرت کا عہد کر رکھا تھا ، لیکن جب وہ آگیا جس کا انتظار تھا تو منکر ہوگئے ، وجہ یہ تھی کہ ان کے دل دولت ایمان سے محروم تھے ، مال ودولت کے سوا انکی زندگی کا اور کوئی مقصد نہ تھا (آیت) ” اکثرھم “ کہہ کر قرآن نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ کچھ لوگ یہودیوں میں ایسے بھی تھے جو نیک سرشت تھے ، یہ حالت اکثریت کی نہ تھی ۔ البقرة
101 (ف ٢) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے من عند اللہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کا پیغام براہ راست مستفادہ ہوتا ہے ، جناب قدس سے (آیت) ” وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی “ اس کی ساری زندگی آئینہ ہوتی ہے ، رضائے الہی کا (آیت) ” وھم بامرہ یعملون “ اور وہ تمام پہلی تعلیمات کا مصدق ہوتا ہے لیکن اہل کتاب کی شومی عقل ملاحظہ ہو کہ باوجود ان سب چیزوں کے دیکھنے کے منکر ہی رہے ۔ البقرة
102 سحر کفر ہے : (ف ٣) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا عہد حکومت نہایت شاندار عہد حکومت تھا جن وانس کی ایک کثیر التعداد فوج ان کے زیر قیادت تھی ، ان کی دانائی اور حکمت زبان زد عوام وخواص تھی ، اس لئے بعض لوگوں کو یہ خیال کرنے کا موقع ملا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جادو جانتے تھے جس سے ہمزاد ان کے قبضے میں تھے ، قرآن حکیم اس خیال کی تغلیط کرتا ہے ، اس لئے کہ تقدیس انبیاء اس کا فرض ہے وہ کہتا ہے سحر کفر ہے اور سلیمان (علیہ السلام) ہرگز کفر کی تعلیم نہیں دے سکتے ، اس کے کفر ہونے کی دو بڑی وجہ ہیں ، ایک تو یہ کہ ساحر کا ایمان اللہ تعالیٰ پر پختہ اور مضبوط نہیں ہوتا ۔ توکل وصبر کے جذبات نہیں رہتے ، اور دوسرے یہ کہ اس سے فسق وفجور میں بہت مدد ملتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس قماش کے لوگ ہمیشہ آوارہ اور بدکردار ہوئے ہیں ان کا مقصد جلب زر اور لوگوں کے ناموس وعزت کو خطرہ میں ڈالنا ہوتا ہے اور اس کے لئے وہ عجیب عجیب حیلے تراشتے ہیں ، سحر کے معنی اصل میں باریک اور رقیق الفہم چیز کے ہیں ، ان کے شعبدے عام اذہان کی دسترس سے چونکہ بالا ہوتے ہیں ، اس لئے سحر کے لفظ سے تعبیر کئے جاتے ہیں ۔ جادو سیکھنے کا دوسرا ذریعہ ہاروت ماروت نامی دو فرشتے تھے ، جنہیں بابل میں رکھا گیا تھا اور جن کے متعلق مشہور تھا کہ وہ جادو سکھاتے ہیں ، قرآن حکیم ان کی بھی برات کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ پہلے لوگوں کو روک دیتے تھے اور کہہ دیتے تھے کہ یہ کفر کا کام ہے لیکن جب وہ بضد ہوتے تو انہیں سکھا دیا جاتا ، مگر وہ سیکھتے کیا ؟ عورت و مرد میں نفاق ڈالنے کے طریقے ، آج بھی اس قسم کے شعبدہ باز مسلمانوں میں کثرت سے ہیں جو حب کے تعویذ لکھ کردیتے ہیں جن سے ہزاروں گھروں میں نااتفاقی اور ناچاقی بڑھتی ہے ، سینکڑوں گھرانے ان کی بدمعاشیوں کی وجہ سے برباد ہوجاتے ہیں اور یہ ہیں کہ لوگوں کی بیوقوفی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ قرآن حکیم سحر وجادو کی تاثیرات کے متعلق فرماتا ہے (آیت) ” وما ھم بضآرین بہ من احد الا باذن اللہ “ کہ اس سے کچھ نہیں ہوتا ، نہ نقصان اور نہ نفع ، البتہ خدا جب چاہتا ہے تو اپنے کسی بندے کو آزمائش میں ڈال دیتا ہے اور جب چاہتا ہے اسے آزمائش کے کڑے لمحات سے نکال لے جاتا ہے ، حدیث میں آتا ہے کہ اگر ساری دنیا مل کر کسی کو نقصان پہنچانا چاہے ، اور اللہ کی مرضی نہ ہو تو وہ اس پر قادر نہیں ہو سکتے ، اسی طرح اگر ساری کائنات جمع ہو کر کسی کو کوئی فائدہ پہنچانا چاہے اور قدرت کا منشا نہ ہو تو وہ ناکام رہیں گے ، اس لئے مسلمانوں کو اسے ہتھکنڈوں سے بچنا چاہئے اور قطعا ان لوگوں سے خائف نہ ہونا چاہئے ، ان لوگوں کے اختیار میں کچھ ہو تو وہ اپنی حالت نہ سنوار لیں ، یوں مارے مارے کیوں پھریں اور کیوں بھیک مانگیں ۔ وہ لوگ جو شعبدہ بازی ان مذموم اغراض کے لئے سیکھتے ہیں وہ آخرت میں خائب وخاسر رہیں گے اور جنت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ، اس لئے کہ دنیا میں انہوں نے اپنا محور ہمیشہ فریب وجہل رکھا ہے اور کبھی اس پر غور نہیں کیا کہ اس کے نتائج ان کی روحانی زندگی کے لئے کس حد تک خطرناک ہو سکتے ہیں ۔ حل لغات : نبذ ، پھینکا ، نظر انداز کیا ، ماضی مصدر نبذ ۔ ورآء : پیچھے ۔ ظھور ، جمع ظھر پشت ، پیٹھ ، تتلوا : مصدر تلاوۃ : پڑھنا ، اطاعت کرنا ۔ علی ملک سلیمان : سلیمان کے عہد حکومت میں ۔ شیطین : جمع شیطان ، فطرت کی راہ مستقیم سے دور ، برا دوست ۔ یہاں مراد شریر اور مذموم شخص ہے ۔ (ف ١) تھوڑی عقل کے لوگ شعبدے اور کرشمے دیکھ کر جلد متاثر ہوجاتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیزیں صرف سحر وجادو کے ذریعہ ہی سے انجام دی جا سکتی ہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، ایمان وتقوی اگر دلوں میں موجود ہو تو اس کے نتائم سحر وجادو سے زیادہ محیر اور باثمر ہو سکتے ہیں ، وہ ہر شے جو کاہن اور جادوگر کفر وخیانت کے وسائل سے حاصل کرتے ہیں ‘ وہ مومن اللہ کی رضا جوئی میں حاصل کرلیتا ہے ، اور یہ اس لئے کہ جو رب کائنات کا پیارا ہوجائے ، کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے تابع ہوجاتا ہے ، مگر یہ لوگ اس سراطاعت و ایمان سے غافل ہیں ۔ حل لغات : فتنۃ : آزمائش ۔ اصل میں سونے کو آگ میں ڈال کر دیکھنا ہے ۔ اس لئے سنار کو فتان کہتے ہیں ۔ آزمائش کے معنی میں اس لئے استعمال ہوتا ہے کہ یہ بھی ایک قسم کی آگ ہے جس سے کھرے کھوٹے میں امتیاز ہوجاتا ہے ۔ ضآرین : جمع ضار ، نقصان دہ ۔ خلاق : خصہ ، بہرہ ۔ مثوبۃ : اجر ۔ انجام اور ثمر ۔ البقرة
103 البقرة
104 حرمت رسول : (ف ١) مسلمانوں کے نزدیک حب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ گرانمایہ متاع ہے جس سے وہ کسی حالت میں بھی دست بردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ والہانہ شیفتگی اصل ایمان ہے ، صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین جب دربار رسالت میں ہوتے اور مختلف مسائل کے سلسلہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توجہ عالی کو اپنی طرف مبذول کرانا ہوتا تو کہتے (آیت) ” راعنا “۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارا بھی خیال رہے لیکن بدباطن اور بدعقیدہ یہودی مسلمانوں کی اس عقیدت کو برداشت نہ کرسکے ، انہوں نے از راہ تمسخر وتحقیر راعنا ، کہنا شروع کردیا ، جس کے معنی ان کے ہاں کم عقل کے ہوتے ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، تم اس موقع پر (آیت) ” انظرنا “ کہا کرو ، یعنی دیکھئے تو ، اس میں انہیں خبث باطن کے اظہار کا کوئی موقع نہیں ملے گا ، اس آیت سے حرمت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت مقصود ہے اور یہ تلقین ہے کہ کوئی ایسا کلمہ جو توہین کا موہم بھی ہو ‘ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے استعمال نہ کرو ، ایسا نہ ہو کہ دلوں سے عقیدت مندی وارادت کے جذبات محو ہوجائیں اور بجائے ایمان کے نرا کفر ہمارے حصہ میں آئے ، البقرة
105 (ف ٢) ان آیات میں کفار واہل کتاب کی ذہنیت بتائی ہے کہ وہ کسی طرح بھی مسلمانوں کو اچھی حالت میں نہیں دیکھ سکتے ، کفر و ایمان کی یہ آویزش آج بھی موجود ہے ، مسلمان کی ہر بات کفر کے سینہ تنگ میں کھٹکتی ہے ، غیر مسلم ہرگز برداشت نہیں کرسکتے کہ مسلمانوں پر رحمت باری کا نزول ہو اور برکات الہیہ کا مہبط بن جائیں لیکن خدا صاحب فضل عنایات ہے ، اس کی مہربانیاں احاطہ شمار سے باہر ہیں ۔ وہ جسے چاہے جب چاہے نواز دے ۔ پچھلی کتابوں کا نعم البدل : جیسے عالم انسانیت میں ترقی ہوتی گئی ، صحائف آسمانی بدلتے رہے بلکہ یوں کہئے کہ کتب الہیہ نے آہستہ آہستہ کائنات انسانی میں رفعت وتقدم پیدا کیا اور ہر صحیفہ آسمانی میں حالات وفضا کا خیال رکھا گیا تاکہ کوئی چیز بھی ان لوگوں کے لئے غیر مانوس نہ ہو ۔ جب سلسلہ ارتقاء دین کی آخری کڑی قرآن مجید نازل ہوا تو ضرور تھا کہ پہلی تعلیمات یا تو فراموش ہو چکتیں یا پھر فضا وحالات کے ناموافق ہونے کی وجہ سے منسوخ ، کیونکہ ارتقاء وتقدم کا فطری قانون یہی چاہتا ہے ، مگر اہل کتاب نے اس پر اعتراض کیا کہ یہ کیا بات ہے ، قرآن حکیم کے نزول کے بعد توراۃ وانجیل منسوخ ہوجائے ؟ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا ، تم یہ نہ دیکھو کہ توریت کے بعض احکام کو بدل دیا گیا ہے یا انجیل کی بعض تعلیمات میں اصلاح کی گئی ہے ، تم یہ دیکھو کہ جو چیز تمہیں دی گئی ہے ‘ وہ کسی طرح بھی توریت وانجیل سے رتبہ وشرف میں کم ہے ؟ یا پھر یہ بتایا کہ جب مادہ کے ذرہ ذرہ پر خدا کی حکومت ہے اور تم ساری کائنات میں وقت وحالات کے موافق تبدیلی وتغیر روز دیکھتے ہو تو پھر اخلاق وشریعت کے قانون میں کیوں تبدیلی نہیں ہو سکتی ؟ قرآن حکیم ان تمام کتابوں کا جو اس سے پہلے نازل کی گئیں بہترین بدل ہے اور بہترین مجموعہ ، ارتقاء وتدریج کی یہ آخری کڑی ہے جس کے بعد کوئی کتاب نہ اترے گی اور نہ کوئی نبی ہی پیدا ہوگا ۔ حل لغات : ننسخ : مادہ نسخ ۔ بدلنا ، ازالۃ شی بشیء یتلقیہ (مفردات) ننسھا ۔ تاخیر میں ڈالتے ہیں مادہ انساء بمعنی تاخیر وتمہیل : البقرة
106 البقرة
107 البقرة
108 (ف ١) ابو مسلم کا خیال ہے کہ اس آیت کے مخاطب نئے نئے مسلمان ہیں ، وہ کہتے تھے ، ہمیں بھی عجم کی طرف بت پرستی کی اجازت دی جائے ، امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اس کے مخاطب مشرکین مکہ ہیں ۔ ان میں کا ایک معزز عبداللہ بن امیہ مخرومی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اس وقت تک ہم ایمان نہیں لانے کے جب تک کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں چشمے نہ بہا دیں ، یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے باغات کی سرسبزی وشادابی ہو ‘ یا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قصر ومحل سونے کا ہو ‘ اور یا پھر آپ آسمان پر چڑھ کر قرآن حکیم نہ اتار لائیں ، سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد یہودی ہیں ، اس لئے کہ اس کے آگے پیچھے انہیں کا ذکر ہے ، اور اس لئے بھی کہ یہ سورۃ مدنی ہے ، یوں جواب میں عموم ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے از خود بلا ضرورت کچھ نہ پوچھو وہ اللہ کی طرف سے مامور ہے ، بجز اس کی اجازت کے اسے بولنے کی اجازت نہیں ۔ یہودیوں میں یہ بری عادت تھی کہ وہ انبیاء علیہم السلام کو عموما سوالات کا تختہ مشق بنائے رکھتے اور عمل کم کرتے تھے ، موشگافیاں اور تفاصیل طلبی کا شوق حد سے زیادہ تھا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، رشد وہدایت کے آجانے کے بعد یہ کج بحثیاں کیوں اختیار کرتے ہو ؟ یاد رکھو کہ جس قوم میں یہ ذہنیت پیدا ہوجائے اس سے عملی قوت چھین لی جاتی ہے اور وہ راہ راست سے بھٹک جاتی ہے ۔ حل لغات : ملک : بادشاہت ، سلطنت : ولی : دوست ۔ نصیر : مددگار ۔ سوآء السبیل : راہ راست ۔ یردون : مادہ رد لوٹاتا ، کفارا جمع کافر ۔ البقرة
109 (ف ١) مخاض بن عاذ وراء اور زید بن قیس یہودی نے جب دیکھا کہ غزوہ احد میں عارضی شکست ہوگئی ہے تو انہوں نے حضرت حذیفہ (رض) اور حضرت عمار (رض) سے کہا ، آؤ پھر سے یہودی ہوجاؤ ، کیوں ہزیمت اٹھاتے ہو مسلمان رہ کر حضرت عمار (رض) نے فرمایا ، تمہارے مذہب میں نقض عہد کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے ؟ انہوں نے کہا ۔ بہت بری نظر سے ، فرمایا تو سن رکھو ، میں نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ جیتے جی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیزار نہیں ہونے کا ، حضرت حذیفہ (رض) نے فرمایا ، میں تو بہرحال اللہ سے خوش ہوں ، اس کے دین سے خوش ہوں ‘ اس کی کتاب سے خوش ہوں ، اس کے بنائے ہوئے قبلہ سے خوش ہوں اور مسلمانوں کی ہمہ گیر اخوت پر خوش ہوں ، یہ سن کر وہ مایوس ہوگئے بہرحال ان کی کوشش یہی تھی کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں میں اسلام کے متعلق بدظنی پیدا کی جائے ، ان آیات میں فرمایا کوئی مضائقہ نہیں ، تم ان سب سیاہ کاریوں کو برداشت کرو اور معاف کر دو وقت آئے گا کہ حق خود بخود ظاہر ہوجائے گا ، اس لئے کہ اللہ کے لئے حالات کا بدل دینا کوئی مشکل نہیں ۔ البقرة
110 عفوعمیم کی تعلیم : (ف ٢) حسد وجمود بدترین لعنتیں ہیں ۔ حدیث میں آتا ہے ، ھی الحالقۃ لا اقول حالقۃ ولکن حالقۃ الدین یعنی حسد وبغض دین ودیانت کو بیخ وبن سے اکھاڑ دینے والی چیز ہے ، ایک حدیث میں فرمایا ہے ، یہ واء الامم ہے یعنی تمام قوموں کی مشترکہ بیماری جس سے قومیں ہلاکت کے قریب پہنچ جاتی ہیں ، ضرور تھا کہ اس کی روک تھام کے لئے کوئی عملی قدم اٹھایا جائے اور بالخصوص جب کہ اس سے پہلی آیتوں میں یہودیوں کے راہ راست سے بھٹک جانے کا ذکر ہے اور اس کا سبب بتایا ہے کہ حسد وبغض کی انتہا ۔ ان آیات میں تین چیزوں کی ہدایت کی گئی ہے ، نماز ، زکوۃ اور تقدیم خیر کی ، نماز سے روح کی جلا ہوتی ہے ، قلب سے دوئی کا خیال اٹھ جاتا ہے ، سب خدا کے حضور میں بلا امتیاز جھک جاتے ہیں اس لئے حسد وبغض کی گنجائش نہیں رہتی ، زکوۃ سے محتاج وغنی میں رشتہ مودت واخوت قائم ہوجاتا ہے ، اور تقدیم خیر سے عام تعاون باہمی پر آمادہ کیا گیا ہے ، ظاہر ہے کہ ان تینوں چیزوں کے ہونے کے بعد کسی قوم میں حسد و بغض کی مہلک وبا نہیں رہتی ۔ ان آیات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کوئی نیکی ضائع نہیں جاتی تم جو کچھ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرو گے ‘ اس کا بہترین ثمرہ ضرور ملے گا ، اس لئے کہ خدا ہمارے اعمال کو دیکھ رہا ہے ۔ البقرة
111 مذہب دلائل پرمبنی ہے : (ف ٣) اہل دین کی یہ خطرناک غلطی ہے کہ وہ ظاہری رسوم کو اصل دین سمجھ لیتے ہیں کہ اور اس کی روح سے ناواقف ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان میں اختلا واقع ہوتا ہے ۔ ورنہ روح وروائح کے لحاظ سے تمام آسمانی ادیان ایک ہیں اور اسلام ان سب ادیان کی آخری اور مکمل صورت ہے یہودی نے اسی بنا پر عیسائیت کا انکار کای اور عیسائی نے یہودیت کا ، اور پھر غرور مذہبی کی بھی حد ہوگئی کہ دونوں نے اپنے فرقوں کو نجات کا واحد اجارہ دار سمجھ لیا ، قرآن حکیم کہتا ہے ، تم اپنے تعصب کو عقل وبرہان کی روشنی میں دیکھو ، کیا اس کی کچھ بھی قیمت رہ جاتی ہے ، اگر خدا ایک ہے ، آدم (علیہ السلام) سے لے کر اسرائیل تک تو پھر اس کا دین بھی ایک ہونا چاہئے ۔ اگر موسیٰ (علیہ السلام) نبی ہیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ مسیح (علیہ السلام) خدا کے برگزیدہ نبی نہ ہوں ۔ دلائل وبراہین کا استعمال کرو ، ان تعصبات کا خاتمہ ہوجائے گا ، اس کے بعد اصل دین ، روح ، مذہب اور خالص روحانی تخیل پیش کیا ، جس کا جاننا مدار نجات ہے اور انکار کفر ، اور وہ ہے ، اسلام “ یعنی کامل نظام کے ساتھ اللہ کے سامنے جھک جانا ۔ اس کے سوا نہ یہودیت کسی کام کی ہے اور نہ عیسائیت ” خلوص واسلام “ ہونا چاہئے ، پھر دنیا وعقبی کی ہر منزل بےخوف وخطر طے ہوجائے گی ۔ حل لغات : تبین : ظاہر ہوا ۔ فاعفوا واصفحوا ، مادہ عفو ، معاف کردینا ، اور صفح ، درگزر کردینا ہے امر : بات حکم ، چیز ۔ بلی : ہاں ضرور ۔ البقرة
112 البقرة
113 تعصب جہالت ہے : (ف ١) اس کشاکش کو جو یہودی اور عیسائی میں مدت سے قائم ہے ، قرآن مجید جہالت سے تعبیر کرتا ہے ، تعجب ہے کہ ایک قوم توریت کو جانتے ہوئے کس طرح اس درجہ گمراہ ہو سکتی ہے کہ ایک دوسرے کو کافر کہے ، بجز اس کے کہ وہ توریت کو پڑھتے تو ہوں مگر اس کی تعلیمات کو حقیقۃ نہ جانیں ۔ بالکل یہی مرض آج مسلمانوں میں ہے ، قرآن مجید پڑھتے ہیں ، لیکن پھر شغل تکفیر سے باز نہیں آتے ، ایک خدا ۔ ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ایک کتاب کو مان کر آپس میں کیوں مختلف ہیں ، صرف اس لئے کہ تعصب ہے اور حرص شہرت نے انہیں آپس میں ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا ہے ، یہ سب جہالت کی باتیں ہیں ، دانا اور علم رکھنے والی قومیں تعصب نہیں رکھتیں ، ان میں رواداری اور مساوات کا مادہ ہوتا ہے ، وہ عمل کے بارے میں تو ضرور متعصب ہوتے ہیں مگر زبان کے میٹھے اور بات کے رسیلے ہوتے ہیں ، حل لغات : یحکم : فیصلہ کرے گا ، مادہ حکم ۔ یوم القیمۃ : وقت مکافات ، جب لوگ جی اٹھیں گے ، سعی : کوشش کی ، مادہ سعی : البقرة
114 اسلامی مساجد انسانی اتحاد کا مرکز ہیں : (ف ١) مختلف معاہدنے ہمیشہ انسانی جماعتوں کو مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کردیا ہے ، زہرہ کے پجاری مشتری کے ماننے والوں کو اپنے مندروں میں نہیں گھسنے دیتے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے نام لیوا عیسائیوں کو نازک سمجھتے ہیں اور اپنے کلیساؤں میں انہیں وہ محل ہونے کی اجازت نہیں دیتے ، غرضیکہ معاہدجن کی غرض انسانیت کا تزکیہ وتطہیر ہوسکتی ہے بجائے خود محاذ جنگ کی حیثیت رکھتے ہیں ، ہر عبادت گاہ اپنے پس پشت ایک جماعت رکھتی ہے جو اس کے نام پر نسل انسانی میں تفریق پیدا کرے ، پھر معزز اور غیر معزز کا سوال بھی ہزاروں سال سے قائم ہے ہر مندر میں ‘ ہر معبد میں ‘ ہر کلیسا و کنیسا میں ہر حیثیت کا انسان داخل نہیں ہو سکتا ، بلکہ رنگ وبو کے ہزاروں دیوتا ہیں جن کی پرستش کرنا پڑتی ہے اور جو عبد و معبود کے پاک اور براہ راست راستہ میں روک ہیں ، اسلام کہتا ہے ، خدا کے تمام بندے ‘ ہر نوع کے انسان اگر خدا کے نام پر کسی معبد میں جمع ہوتے ہیں تو انہیں قطعا نہ روکو ، اس سے بڑھ کر اور کوئی ظلم نہیں ہوسکتا کہ ایک چاکر اپنے مالک کے پاس آئے اور روکا جائے ، وہ جو اس کے آستانہ رحمت پر سجدہ کرنا چاہتا ہے ‘ اس کی اعانت کرو ، تم کون ہو جو اللہ کے بندوں کو اللہ کے گھر سے نکالتے ہو ، مسجدیں دنیا میں ہمہ گیر پیغام اخوت کے مراکز ہیں ، یہاں رنگ ونسل کے تمام بت توڑوئے جاتے ہیں ہر شخص کو ہر وقت ہر مسجد میں ماللہ کے سامنے رکوع و سجود کا اختیار ہے اور حق ۔ البقرة
115 البقرة
116 خدا کا کوئی ولد نہیں : (ف ٢) اسلام سے پہلے مشرک فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے ، حضرت مسیح (علیہ السلام) خدا کے اکلوتے اور پہلوٹھے بیٹے ہیں ، قرآن حکیم کہتا ہے سبحانہ یعنی اللہ جل جلالہ اس قسم کے مشرکانہ اوصاف سے پاک ہیں : دلیل یہ ہے کہ ساری کائنات اس کے قبضہ قدرت میں ہے ، ہر چیز اس کی تسبیح وقنوت میں مصروف ہے ، آفتاب سے لے کر ذرہ تک سب اس کی حمد وثنا کر رہے ہیں ، کیا تمہیں آسمانوں اور زمینوں میں کوئی اور قوت کار فرما نظر آتی ہے ؟ فرشتے بھی اس کے محکوم ہیں ، حضرت عزیز (علیہ السلام) اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو بھی اس نے پیدا کیا ہے اور دوسری مخلوق کو بھی ، کیا ایک قانون بھی قدرت کا ایسا ہے جس سے فرشتے بےنیاز ہوں اور عزیز ومسیح علیہما السلام الگ ‘ کیا فرشتے اس کے حکموں کے ماتحت نہیں ؟ اور کیا عزیر (علیہ السلام) ومسیح (علیہ السلام) تمام انسانی عوارض سے مبرا ہیں ؟ پھر (آیت) ” کل لہ قانتون “۔ کی اس صداقت کے بعد شرک کے لئے کیا گنجائش رہ جاتی ہے ، دوسری دلیل اس کی توحید وتفرید پر یہ ہے کہ اسے اقنوم وشریک کی کیا ضرورت ہے ، جبکہ اس کی قدرتیں غیر محدود طور پر وسیع ہیں ، اس نے آسمان وزمین کی تمام کائنات بغیر کسی ساجھی اور دوست کی اعانت کے پیدا کی ہے ، اگر کوئی دوسرا خدا ہوتا تو اس کی ضرورت اس آفرینش کے وقت تھی نہ اس وقت جبکہ وہ سب کچھ پیدا کرچکا اس کی قدرت کا غیر مبہم کمال یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کے پیدا کرنے کا فیصلہ کرلے ‘ وہ پیدا ہوجاتی ہے ، اسے کسی مادہ یا کسی مستعد تخلیق چیز کی حاجت نہیں ہوتی ، وہ اپنے ارادے سے اپنی قدرت سے اپنے کمال الوہیت سے ساری کائنات کو پیدا کرلیتا ہے پھر ایسے قادر مطلق ، ایسے مرید باجبروت اور ایسے کامل خدا کے لئے اقانیم کی کیا حاجت ہے ؟ کن کہنا اور دنیا کا پیدا ہوجانا یہ ایک انداز بیان ہے ، مقصد یہ ہے کہ کہا اور چیز بن گئی ، وہاں کوئی مختلف یا انتظار نہیں ہوتا ، یہ مراد نہیں کہ واقعی اسے تخلیق کے لئے کن کہنا پڑتا ہے یا کن کوئی طلسم ہے جس کے ورد سے وہ دنیا پیدا کرتا ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ توریت میں بھی اسی اعلی قسم کے الفاظ آئے ہوں گے جس سے عیسائیوں کو ٹھوکر لگی ، انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ کلام کوئی الگ صفت ہے جس سے دنیا کو پیدا کیا گیا ، چنانچہ انجیل میں ہے کہ ابتدا میں کلام تھا اور پھر یہ لکھا ہے کہ کلام کے وسیلے سے ساری چیزیں پیدا ہوئیں ، حالانکہ اس احکم الحاکمین خدا کو بجز ایک ارادے کے اور کسی چیز کی کیا حاجت ہے ؟ یہ درست ہے کلام اس کی صفت ہے ، قدرت بھی اس کی صفت ہے یعنی وہ قادر ہے اور اپنے خاص بندوں پرکلام نازل کرنے والا بھی ، یہ نہیں کہ کلام یا قدرت کوئی الگ چیزیں ہیں اور وہ خدا ہیں ۔ بلکہ خدا نام ہی ہے اس ذات اقدس کا جس میں علم قدرت ارادہ ایسا صفات کمال بدرجہ غایت موجود ہوں ۔ حل لغات : وجہ اللہ : رخ اور منہ ، کنایہ ہے اللہ کے فضل وکرم سے ۔ بدیع : بلا مددواستعانت پیدا کرنے والا ۔ البقرة
117 البقرة
118 (ف ١) ان آیات میں بتلایا گیا ہے کہ قریش مکہ کو معجزہ طلبی اور کرشمہ پسندی کا ایک مرض تھا ، یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح وہ یہ کہتے کہ خدا ہم سے براہ راست کیوں گفتگو نہیں کرتا اور وہ کیوں ہمیں نشان نہیں دکھلاتا ، فرمایا : (آیت) ” تشابھت قلوبھم “۔ یعنی ان نسب کی ذہنیت ایک ہی ہے ، کیا وہ نہیں دیکھتے کہ قرآن کی ایک ایک آیت معجزہ ہے ، رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کا ہر لمحہ وثانیہ اپنے اندر ایک جہان عقل وبصیرت رکھتا ہے ، بات یہ ہے کہ یقین ایمان کا ” ذوق “ ان میں نہیں رہا ۔ البقرة
119 بشیر ونذیر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : (ف ٢) تمام انبیاء (علیہ السلام) کی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منصب بھی بشارت ونذار ہے ، یعنی وہ جو ان کی اطاعت کریں ، دین واخری کی خوشخبریاں اور مژدے ان کے لئے ہیں اور جو انکار ومخالفت میں پیش پیش ہیں ، دونوں جہان کی رسوائیاں انکے حصہ میں ہیں ۔ البقرة
120 (ف ٣) یعنی یہودی اور عیسائی اپنے غلط عقائد پر قانع ہیں ، چاہتے ہیں کہ آپ انکی گمراہیوں کا ساتھ دیں ، مگر یہ کیسے ممکن ہے ، آپ کا یہ منصب نہیں کہ آپ ان کے خیالات کو کوئی وقعت دیں ۔ حل لغات : جحیم : دوزخ : (ف ١) وہ جن کو کتاب دی گئی اور وہ اسے پڑھتے ہیں ، اس کے مصداق کون لوگ ہیں ؟ مفسرین کا اس میں اختلاف ہے ، بعض کے خیال میں اس سے مراد مسلمان ہیں ، کیونکہ اس کے بعد فرمایا ہے کہ یہی لوگ اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے بعد یہ فرمایا کہ جو شخص انکار کرے گا ‘ وخائب وخاسر رہے گا ، ظاہر ہے کہ قرآن حکیم کے سوا کوئی کتاب اس درجہ شائستہ عمل نہیں کہ اسے چھوڑ کر خسران لازمی طور پر ہو ، بعض کی رائے ہے کہ ” کتاب “ سے مراد توریت وانجیل ہے ، آیات کا سیاق وسباق یہی بتاتا ہے کہ اس صورت میں مرقومہ بالاشبہات کا جواب یہ ہوگا کہ توراۃ وانجیل گو انسانی وبشری ودستبرد سے محفوظ نہیں ، دونوں محرف ومبذل ہیں تاہم ان میں اتنی سچائیاں ضروری ہیں کہ یہودی وعیسائی فراخ دلی اور تعمق سے کام لیں تو پھر ان میں اور مسلمانوں میں زیادہ اختلاف نہ رہے اور وہ اسلام و ایمان کے زیادہ قریب ہوجائیں گے ، وجہ یہ ہے کہ قرآن اس صداقت مثقلہ اور حق مجرد کا نام ہے جس کا انکار ہر اس شخص کے لئے ناممکن ہے جسے ذرا بھی الہامی کتب سے ذوق وعقیدت ہے ، اسی وجہ سے قرآن حکیم کہتا ہے کہ اہل کتاب اگر اپنی ہی کتابوں کو بغور پڑھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اسلام سے دور رہیں ۔ حل لغات : ولی : دوست کلمت : جمع کلمۃ ، بات ۔ البقرة
121 البقرة
122 البقرة
123 البقرة
124 منصب امام و نبوت : (ف ١) ان آیات میں تین باتیں بتائی ہیں ۔ حضرت ابراہیم کا ابتلا ، امامت کی خوشخبری ، حضرت ابراہیم کا مطالبہ اور اس کا جواب ابتلا کے متعلق حضرت ابن عباس کا خیال ہے کہ وہ دس خصائل ہیں جنہیں فطرت انسانی کی اصلاح سے گہرا تعلق ہے اور حضڑت ابراہیم ان میں کامیاب نکلے ۔ یعنی ان پر پوری طرح عمل کیا ، دس باتیں یہ ہیں ۔ (١) کلی کرنا (٢) ناک میں پانی دینا (٣) کنگھار کرنا (٤) مونچھیں تراشوانا (٥) مسواک کا استعمال کرنا (٦) ختنہ کرانا (٧) بغل کو صاف رکھنا (٨) بال زیر ناف صاف کرنا (٩) ناخن کٹوانا (١٠) اور پانی سے طہارت کرنا ۔ اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ حضرت ابراہیم فطرت کے قوانین کو سمجھتے ہیں اور ان پر عمل پیرا ہوتے ہیں تو امامت کی خوش خبری سنائی ۔ امامت سے مراد وہ امامت ہے جو نبوت کے مترادف ہے اس لیے کہ نبی کہتے ہی ایک کامل اور جامع امام کو ہیں جسے اللہ لوگوں کی اصلاح کے لیے مامور فرمائے ۔ حضرت ابراہیم نے درخواست کی کہ خدایا یہ منصب و نبوت میری اولاد میں رہے یعنی میری اولاد کو بھی توفیق دے کہ وہ تیرے نام کی اشاعت کریں اور تیرے دین کو چار دانگ عالم میں پھیلائیں ۔ اللہ نے جواب دیا ، نبوت و امامت ایسی شیے نہیں جو وراثۃ خاندانوں میں منقتل ہوتی رہے ۔ نبوت کے لیے ایک خاص استعداد ، ایک خاص کردار اور ایک خاص دل و دماغ کی ضرورت ہے ۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ کا ارادہ بھی ہو ، صرف کمالات نبوت کا جمیع ہوجانا کافی نہیں ۔ اس لیے جو لوگ تیری اولاد میں ہمارے معیار انتخاب میں آئیں گے ، وہ تو لئیے جاسکیں گے لیکن ضڑوری نہیں کہ ہر شخص کو عہد نبوت سے سرفراز کیا جائے ، وہ جو ظالم ہیں قطعا محروم رہیں گے ۔ قرآن حکیم میں انبیاء علیہم السلام کے متعلق جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، وہ یہ ہیں یصطفی ، یجتبی ، ارسل یعنی ایک خاص انتخاب ہے ، اور ایک خاص عنایت ، یعنی نبوت اکتسابی نہیں ، کہ جدو جہد اور حسن عمل سے حاصل ہوسکے ، بلکہ وہی ہے ، یعنی خدا کی بخشش ، گویا درست ہے کہ انبیا کا عمل نبوت سے پہلے حسن و خوبی اور کمال و جامعیت کا بہترین نمونہ ہوتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر نیک اور صالح شخص نبی قرار پائے ۔ البقرة
125 کائنات کا مرکز عبادت : (ف ٢) مثابۃ کے معنی مرجع عام اور جاذب مرکز کے ہیں جس طرف لوگ کسی مضبوط تعلق کی وجہ سے کھینچے آئیں ، اسلام کی صداقت کی بہت بڑی دلیل اس کی ہمہ گیری جاذبیت بھی ہے ، اور جذب و کشش کا سب سے بڑا مرکز بیت اللہ ہے ، آج سے کئی ہزار سال پہلے دانیال نبی نے بطور مکاشفہ کہا تھا میں آسمان سے نیا یروشلم اترتا ہوا دیکھتا ہوں ۔ حضرت ابراہیم نے کئی سو سال پہلے وادی غیر ذی زرع میں بےآب و گیاہ زمین میں اللہ کا ایک گھر بنایا اور دعا کی ، فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیھم کہ ساری کائنات کے دل اللہ کے اس گھر کے ساتھ وابستہ ہو یہ امن و سعادت کا بہت بڑا مقام قرار پائے ۔ یہاں کے لوگ دنیوی لذائذ و ثمرات سے ہمیشہ متمع رہیں ، دیکھو یہ دعا کس درجہ قبول ہوئی ، لوگ دور دراز سفر طے کر کے جاتے ہیں کارواں در کارواں روانہ ہوتے ہیں ، مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک کوئی قطعہ ارض ایسا نہیں جہاں دعوت ابراہیمی پر لبیک نہ کہا جاتا ہو ، یہ مرکزیت عالم زائرین کا یہ عظیم و مقدس ہجوم جس کا مقصد طواف و عکوف اور رکوع و سجود کے سوا کچھ نہیں کیا کسی اور جگہ بھی ہے ؟ ان آیات میں یہ دکھانا بھی مقصود ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) جن کی تم سب مشترکہ عزت کرتے ہو ان کے صحیح جانشین ہم ہیں واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی پر ہمارے سوا کون عامل ہے اور یہ کہ خدا کے پرستاروں کی یہ جماعت موحدین کا یہ گروہ یقینا ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں کا نتیجہ ہے اس لیے اسے درخور اعتنا نہ سمجھیں اور باطل جاننا درست نہیں ۔ حل لغات : امام : قائد ، قابل پیروی شخص مثابۃ : مرجع عام ، مرکز ، معبد مصلی : جائے نماز ، عھدنا : مادہ عھد ، معنی حفظ الشیئ و مراعاتہ حالا بعد حال یعنی کسی شے کی مسلسل و پیہم حفاظت کرنا یہاں مراد قابل رعایت و عمل حکم ہے ۔ البقرة
126 البقرة
127 خلوص کا پھل : ( ف ١) ابراہیم (علیہ السلام) جس وقت تعمیر کعبہ میں مصروف تھے ان کے منہ سے جو کلمات نکل رہے تھے وہ یہ تھے کہ ربنا تقبل منا یعنی اے خدا ہمارے خلوص و ایثار کو قبول فرما ، گو وہ نہیں جانتے تھے کہ کعبہ کی تعمیر ایک قوم و ملت کی تعمیر ہے ، انسنایت کے مرکز عظمی کی بنیدیں ہیں جو رکھی جارہی ہیں ، لیکن خدا کو یہی منظور تھا کہ حضرت ابراہیم کے منہ سے نکلے ہوئے کلمات قبولیت کا خلعت فاخرہ پہنیں ، تاکہ دنیا کو معلوم ہوجائے کہ خلوص کی خدا کے نزدیک کیا قیمت ہے ۔ یہ محض فریب نفس ہے کہ مخلص انسان کی قدر نہیں ہوتی ، یہ خدا کے بنائے ہوئے قانون کے خلاف ہے ، خدا کے نزدیک خلوص اور صرف خلوص ایسی چیز ہے جو اجر کے قابل ہے ۔ دیکھو حضرت ابراہیم ایسے وقت میں جو بالکل غیر تاریخی زمانہ ہے ایسی جگہ پر جو اپنے اندر کوئی جاذبیت نہیں رکھتی ، ایک اللہ کا گھر بناتے ہیں جو آخر میں مرجع انام بن جاتا ہے ۔ کیا یہ صرف ابراہیم (علیہ السلام) کے خلوص کا نتیجہ نہیں ۔ قبولیت کے لیے ظاہری اذرات اور ذرائع کی قطعا ضرورت نہیں اخبار و رسائل یا محراب و منبر گو اس وقت شہرت کا ایک کامیاب ذریعہ ہیں لیکن اللہ کے نزدیک اس نوع کی شہرت جس میں خلوص و حسن نیت نہ ہو ۔ وبال ایمان ہے ، ایک اللہ کا بندہ شہروں سے دور جنگلوں میں اگر خلوص و حسن نیت کے ساتھ کہیں ڈیرہ ڈال کے بیٹھ جائے تو تم آج بھی دیکھ لو گے کہ شہر اور شہر کے تمام اسباب شہرت اس کے قدم چومیں گے اور جنگل میں منگل کا لطف پیدا ہوجائے گا ۔ بات یہ ہے کہ ہم مخلص نہیں اور پھر یہ گلہ بھی ہے کہ کوششیں رائیگاں جاتی ہیں ربنا تقبل منا کا منظر اگر آج بھی دیکھنا ہو تو ابراہیمی ذوق و شوق پیدا کرو ۔ حل لغات : قواعد : بنیادیں ، اساس مناسک : جمع منسک ، احکام و آداب البقرة
128 البقرة
129 دعائے خلیل اور نوید مسیحا : (ف ١) حضرت ابراہیم نے سات دعائیں اللہ سے کیں ۔ (١) رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا (٢) وَّارْزُقْ اَھْلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ (٣) رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا (٤) رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ (٥) وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا (٦) وَتُبْ عَلَیْنَا (٧) رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا ۔ پہلی دعا بلد امین کے متعلق ہے ۔ دوسری وہاں کے رہنے والوں کے لیے ، تیسری میں قبولیت کے لیے استدعا ہے ، چوتھی میں اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے اسلام و اخلاص طلب کیا ۔ پانچویں میں مناسک و احکام کی تشریح چاہی ہے ، چھٹی میں توبہ و رحمت کی درخواست کی ہے اور ساتویں میں فرمایا کہ اللہ ان میں ایک ایسا شان دار رسول بھی جو تیرے احکام انہیں سنائے ۔ جو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور جو ان کے دلوں اور دماغوں کو پاک اور بلند کردے ۔ اب سوال یہ ہے کہ جب چھ کی چھ دعائیں قبول ہوگئیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو ۔ پھر ساتویں کیوں قبول نہیں ہوئی ، قرآن مجید کہتا ہے یہ بھی قبول ہوئی ، بلد حرام کو کس نے حرمت بخشی ، تین سو ساٹھ بتوں کو نکال کر کس نے خدا کے گھر میں عبادت کی اور وہ کون ہے جس نے بیت اللہ کو ، شوکت کا گھر ، بنایا جس نے ساری دنیا کے لیے اسے مفید قرار دیا اور جس نے کائنات کے ہر انسنا کو اس کے آستانہ جلال پر جھکا دیا ، جواب ملے گا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، پھر یہ بھی دیکھو کہ اللہ کی آیات کون دکھاتا ہے ، کون خدا کے کلمے پڑھ پڑھ کر سناتا ہے ، کتاب و حکمت کے دریا کون بہاتا ہے اور کون ہے جو دلوں اور دماغوں کی اصلاح کرتا ہے ۔ وہ مذکر و معلم اس کے سوا کون ہے جس نے حضرت ابراہیم کی طرح مکہ جیسی زمین کو دعوت و اشاعت کا مرکز بنایا اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگ اس کو ماننے لگے ، قبولیت عامہ کا یہ فخر کیا فریب کار اور جھوٹوں کو بھی دیا جاتا ہے جس طرح کعبہ تمام معاہد ارضی کا مرکز ہے اسی طرح محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ساری کائنات کا آخری فقط عقیدت و محبت ہے ۔ البقرة
130 (ف ٢) ان آیات میں بتایا ہے کہ دعوت ابراہیم کا انکار نری حماقت ہے اور یہ کہ سلام ہر لحاظ سے دعوت ابراہیمی کا دوسرا نام ہے ۔ البقرة
131 (ف ٣) ان آیات میں یہ بتایا ہے حضرت ابراہیم کس قدر سلیم الفطرت تھے ، صحیح بات مانتے ہیں انہیں کبھی تامل نہیں ہوا ، خدا نے جب انہیں اسلام و توحید کی دعوت دی تو ابراہیم فورا اسلمت پکار اٹھے اور اس کے بعد ساری زندگی تسلیم و رضا کی زندگی ہے ۔ خواب میں بھی دیکھ پایا کہ خدا کی راہ میں بچے کی قربانی ضروری ہے ۔ تو آمادہ ہوگئے اور بیٹے کی گردن پر چھری رکھ دی ، قوم نے جب مخالفت کی اور حرقوہ کی صدائیں چاروں طرف سے آنے لگیں اس وقت آپ ڈرے نہیں تسلیم و رضا کا پیکر بنے ہوئے آگ میں کود پڑے ۔ حل لغات : الحکمۃ : دانائی کی بات ، اسوہ رسول ویزکیھم : مصدر تزکیہ ، پاک کرنا ، دلوں اور دماغوں میں لطافت و نزاکت پیدا کرنا یعنی جذبہ و خیال میں آخری ارتقا کے سامان بہم پہنچانا ۔ یرغب : رغبت کا صلہ ، جب عن ہو تو اس کے معنی نفرت کے ہوجاتے ہیں اصطفینہ : مصدر اصطفاء ، چننا ، انتخاب کرنا البقرة
132 البقرة
133 (ف ١) پھر اولاد کو بھی یہی بتایا کہ خدا نے تمہارے اسلام کو بہترین دین قرار دیا ہے ، اسے ہاتھ سے نہ دینا ، جو تو اس کے لیے وہ تو اس کو سینے سے لگاتے ہوئے تمہارے آخری لمحات زندگی بھی خڈا کے تشکر و حمد میں بسر ہوں ، مایوسی کی وجہ نہیں آخری سانس تک اللہ کی عنایتوں کے امیدار ہو ، اور مرو تو یہ یقین لے کر مرو کہ مصلحت اسی میں ہے اور اللہ کا دین سچا ہے اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ، ان آیات میں اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ مسلمان بالطبع راجی پیدا کیا گیا ہے اور موت جیسی مہیب چیز بھی اس کے پائے استقلال میں لغزش نہیں پیدا کرسکتی ۔ البقرة
134 بہترین جائیداد : (ف ٢) جس طرح حضرت ابراہیم نے اپنی اولاد کو اسلام پر قائم رہنے کی تلقین کی اسی طرح حضرت یعقوب نے بھی اپنے آخری لمحات زندگی میں اپنے بیٹوں کو بلا کر پوچھا کہ تم میرے بعد کس کی پرستش کرو گے ؟ وجہ یہ تھی کہ مصر میں جہاں حضرت یعقوب آرہے تھے ، کثرت سے بت پرست رائج تھی ، آپ نے اس لیے کہ ان میں توحید کا احساس باقی رہے ، بلا کر پوچھا اور غرض یہ تھی کہ اولاد کسی حالت میں بھی اعلاء کلمۃ اللہ سے غافل نہ ہو ۔ حضرت ابراہیم و یعقوب علیہما السلام کی وصیت اس چیز کا پتہ چلتا ہے کہ ان کی ساری زندگی کس کے حصول میں گزری ، وہ اپنے آخری اوقات میں مال و دولت سپرد نہیں کرتے ، جائیداد کے متعلق ہدایات نہیں دیتے ، کوئی خانگی بات نہیں جو ان کو کھٹک رہی ہو ، دنیا سے قلب مطمئن لے کر جاتے ہیں ۔ البتہ اگر کوئی چیز بےچین کرنے والی ہے تو وہ اولاد کی روحانی تربیت ہے ۔ اس میں یہ جلیل القدر اسوہ ہے کہ شفیق اور بزرگ باپ اولاد کے لیے کیا چھوڑ کر مرے ، دنیوی مال و دولت بھی اچھی چیز ہے ، مگر اصل دولت ایمان تقوی کی دولت ہے جو اولاد کے لیے بہترین سرمایہ حیات ہے اور والدین کے لیے باعث سکون و برکت ، وہ والدین جو مال و دولت کے انبار تو اولاد کے لیے جمع کرجاتے ہیں لیکن ان کی تربیت روحانی کی طرف سے غافل رہ جاتے ہیں ، وہ اولاد پر کوئی احسان نہیں کرتے ، بلکہ یہ ایک قسم کا ظلم ہے کہ ان کی ساری جدوجہد اولاد کی ظاہری آسائش کے لیے ہے اور باطنی اصلاح کے لیے وہ کچھ نہیں کرتے ۔ سعادت مند اور صالح اولاد بجائے خود ایک جائیداد ہے اور بدکردار کے پاس اگر قارون کے خزانے بھی ہوں تو بھی وہ ان کا جائز وارث ثابت نہیں ہوتا ۔ بہرحال حضرت یعقوب کی اولاد نے انہیں یقین دلایا کہ ہم توحٰد کے جادہ مستقیم سے نہیں ہٹیں گے ، اور اسماعیل و اسحاق کے بتائے ہوئے مسلک توحید پر قائم رہیں گے ۔ وہ باپ کتنا خوش قسمت ہے جو یہ یقین لے کر مرے کہ میرے بعد میری اولاد صالح و سعادت مند رہے گی اور کس درجہ سعادت مند ہے وہ اولاد جنہیں حضرت ابراہیم و یعقوب علیہما السلام جیسا بزرگ باپ ملے جو آخری وقت تک ان کی روحانیت کا خیال رکھتا ہے ۔ حل لغات : شھداء : جمع شھید بمعنی حاضر امۃ : گروہ ، جماعت ، کسی ایک بات پر متفق ہونے والے لوگ وصی : مصدر توصیۃ وصیت کرنا ، ضروری بات بتانا البقرة
135 (ف ١) ان آیات میں یہودیوں اور عیسائیوں کے اس زعم باطل کی تردید ہے کہ انبیاء سے انتساب انہیں نجات دلا سکے گا ، فرمایا تم ان لوگوں کے اعمال کے ذمہ دار نہیں ہو ، تم سے صرف تمہارے اعمال کی بابت پوچھا جائے گا ، پھر یہ بتایا کہ اسلام میں قطعا تخرب وتفریق کی گنجائش نہیں ، نجات یہودیت وعیسائیت کے محدود دائروں مین نہیں بلکہ توحید واسلام کے وسیع حلقہ میں ہے جس میں بت پرستی وشرک کی تنگ دلانہ ذہنیت کی بجائے توحید وتفرید کی آزادی ووسعت قلبی ہے ۔ البقرة
136 البقرة
137 حلقہ توحید کی سعتیں : (ف ٢) اسلام ہر قسم کی تنگ دلی سے بالا ہے ، وہ کسی خاص تعلیم پر ایمان لانے کی تاکید نہیں کرتا ، بلکہ وہ کہتا ہے کہ تم ہر صداقت کو مانو ، ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی مانو اور اسمعیل (علیہ السلام) کو بھی موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی اور مسیح (علیہ السلام) کو بھی علیہم السلام اجمعین ۔ اور ہر اس چیز پر یقین رکھو جو اللہ کے پیغمبروں کی وساطت سے ہم تک پہنچی ہے ، اس لئے کوئی تفصیل نہیں مسلمان مجبور ہے کہ وہ ہر سچائی کا احترام کرے ، اس لئے اسے تو اللہ سے محبت ہے ، اور جب اس کی اطاعت وفرمانبرداری کا جوا جو اپنے کندھوں پر ڈال لیا تو پھر ہر حکم جو اس کی طرف سے وصول ہوا شائستہ اعتناء ہے وہ لوگ جو خدا کی محبت کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لاتے تو اپنے دعوے میں سچے نہیں ۔ کیونکہ آپ خدا کے سب سے بڑے دوست اور محب ہیں ۔ البقرة
138 انکار کا نتیجہ : (ف ٣) ان آیات میں بتایا کہ ایمان وہی ثمر و سود مند ہے جو کامل ہو ، یعنی پورے نظام اسلامی کو مانا جائے ورنہ راہ راست سے بھٹک جانے کا خطرہ ہے اور وہ لوگ جو اسلام کے نظام وحدت پر عمل پیرا نہیں ہیں ، ان کا شقاق واختلاف کے مرض ہیں مبتلا رہنا لازمی وناگزیر ہے ، اس لئے کہ اسلام کے سوا جتنی راہیں ہیں ‘ ان سب میں تعصب وجہالت کے کانٹے بچھے ہیں ، سب غیر مستقیم ہیں ، اسلام اور صرف اسلام ہی رواداری ، مسالمت اور اطاعت حق کا سچا مبلغ ہے ۔ الہی رنگ : حضرت قتادہ (رض) سے روایت ہے کہ صبغ فلان سے مراد کسی خاص عقیدہ کی تلقین کرنا ہے یعنی صبغۃ اللہ سے مراد اللہ کا دین ہے ، دین کو اللہ کے رنگ سے تشبیہہ دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ دل بمنزلہ سفید کپڑے کے ہے اسی لئے (آیت) ” وثیابک فطھر “ میں کپڑوں سے مراد دل ہے جس کو مختلف انواع کے رنگوں سے رنگ لیا جاتا ہے کوئی یہودی ہے اور کوئی عیسائی کوئی مجوسی ہے اور کوئی آتش پرست ، قرآن حکیم کہتا ہے ، اللہ کا رنگ ان سب الوان سے جدا ہے اور بہتر ہے اس میں یہودیت بھی ہے اور عیسائیت بھی ، اس میں تعصب وجہالت کا کوئی رنگ نہیں (آیت) ” ونحن لہ عبدون “ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ مسلمان جس رنگ میں ظاہر ہوتا ہے ‘ وہ عبودیت اور خاکساری ہے ، وہ ہر وقت اللہ کی فرمانبرداری واطاعت میں مصروف نظرآئے گا اس کی زندگی کو کوئی لمحہ ضائع نہیں ہوتا ۔ اس کی پہچان خدا کی عبادت ‘ اس کی محبت اور اپنی عبودیت کا اظہار ہے نیز اس کی طرف بھی اشارہ ہے کہ عیسائی جو اصطباغ کو بہت بڑی دینداری سمجھتے ہیں ‘ وہ جان لیں کہ ظاہر داری کے رنگ چھڑک دینے سے کوئی نجات کا مستحق نہیں بن سکتا ، رسم اصطباغ سے کپڑے تو رنگے جا سکتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ دل بھی خدا کے رنگ میں ڈوب جائیں ، اس لئے ان ظاہر پرستیوں کو چھوڑ کر روح وباطن کی طرف عود کرو اور رسوم و رواجات سے پلٹ کر حقائق ومعارف کی جانب بڑھو کہ خدا کو ظاہر داریاں پسند نہین جن میں ذرہ بھر شائبہ خلوص نہ ہو وہ تو دل کی گہرائیوں میں خلوص ومحبت کے خزانے دیکھنا چاہتا ہے ۔ حل لغات : اسباط : جمع سبط ، ۔ اولاد ، شقاق ، اختلاف ۔ صبغۃ : رنگ ، احسن ، اچھا مادہ حسن ۔ البقرة
139 (ف ١) اس آیت میں یہودیوں ‘ عیسائیوں اور مشرکوں سے مشترکہ خطاب ہے کہ تم خدا کے احکام ونواہی کے متعلق ہم سے کیوں بحث ومناظرہ کرتے ہو جبکہ ہم سب کا وہ رب ہے ، جو مناسب سمجھتا ہے وہ فرماتا ہے اور فرماتا ہے اور جس کو مناسب سمجھتا ہے اس منصب کے لئے منتخب فرمالیتا ہے ہم اور تم اعتراض کرنے والے کون ؟ یہ تو خالصتا اس کے اختیار میں ہے پھر اگر بفرض محال عہدہ نبوت کا تعلق اعمال اکتساب سے بھی ہو تو بھی کیا تم سے زیادہ اخلاص وعادات کو سنوارو ، پھر اسلام پر اعتراض کرو ۔ البقرة
140 (ف ٢) ان آیات میں پھر اس وہم کی تردید ہے کہ سابقہ ابنیاء یہودی تعصب اور عیسائی جہالت کے متعقد تھے ، فرمایا کہ یہ سب خرافات اور غلط عقائد جو ان میں رائج ہوگئے ہیں اور جن سے یہ آج دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں کتمان شہادت کا نتیجہ ہیں ، اگر یہ خدا کے احکام صحیح صحیح صورت میں رہنے دیتے اور اپنی نفسانی خواہشات کے تابع نہ بناتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ جو کچھ کہا گیا ہے ‘ اس میں کسی طرح شک وشبہ نہیں ، فرمایا تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ہر بات کو دیکھ رہے ہیں ، وہ تمہاری بداعمالیوں سے غافل نہیں ، تمہیں غرہ ہے اپنی مال ودولت کا اور تم یہ سمجھتے ہو کہ مال ودولت سے بہرہ وری تمہارے حسن اعمال کا نتیجہ ہے حالانکہ یہ ڈھیل ہے تمہیں دی جا رہی ہے تمہاری ایک ایک حرکت رب ذوانتقام کی نگاہ میں ہے ، اس لئے تم رب الافواج کے قہر سے ڈرو اور اپنی اصلاح کرلو ۔ حل لغات : عبدون : جمع عابد ، بمعنی پر ستار ، تحاجون تم جھگڑا کرتے ہو مادہ حجۃ ۔ دلیل ۔ مخلصون ، جمع مخلص ، بےریا ، بےغرض ، غافل : بےخبرغیر آگاہ ۔ البقرة
141 البقرة
142 تعیین قبلہ : (ف ١) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت تھی کہ جب تک صاف وصریح حکم کسی چیز کے متعلق نازل نہ ہوجاتا ، اہل کتاب کی موافقت فرماتے اس لئے کہ وہ بہرحال مشرکین مکہ سے زیادہ راہ راست پر تھے ، اسی بنا پر جب تک قبلہ کی تعین نہ ہوئی آپ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھتے رہے سترہ اٹھارہ ماہ تک تو بیت المقدس کو قبلہ بنائے رکھا ، اب انکار ہے قرآن حکیم نے ان شبہات کے متعلق فرمایا کہ یہ محض سفاہت وعدم تدبر پر مبنی ہیں ، ورنہ صرف تعیین قبلہ کا مسئلہ اتنا اہم نہ تھا کہ یہ اس پر اس قدر معاندانہ توجہ صرف کرتے ، جب کہ اصول میں اور عقائد میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور جب کہ اب بھی مسلمان ویسے نماز اور خدا کے فرمانبردار ہیں جیسے کہ پہلے تھے ، کیا صرف جہت کی تبدیلی سے مسلک تبدیل ہوجاتا ہے ؟ کیا صرف اس لئے کہ مسلمان اب کعبہ کو مرکز سمجھتے ہیں تمام خوبیوں سے معرا ہوگئے ہیں ؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم ان اعتراضات کو بیوقوفی سے تعبیر کرتا ہے ، کیونکہ ان میں سے کوئی بات بھی اصول اسلامی پربراہ راست اثرانداز نہیں ہوتی ۔ اصولا جواب یہ دیا کہ خدائے تعالیٰ جہاں تک جہت الکعبہ کا تعلق ہے کسی جہت خاص سے کوئی اختصاص نہیں رکھتا مشرق ومغرب اور شمال وجنوب سب یکساں حیثیت رکھتے ہیں ، البتہ خدا نے کعبہ کو قبلہ عبادت ٹھہرایا تاکہ ہماری نیاز مندیاں ایک نظام میں منسلک ہوجائیں اور مسلمان ہر لحاظ سے وحدت کا جو اس کا فطری خاصہ ہے ، مظہراتم ہو ، نہ اس لئے کہ جہت مغربی مشرق سے زیادہ مقدس ہے ، صراط مستقیم سے مراد یہی ہے کہ وہ چند نفوس ہوتے ہیں جنہیں مسئلہ کی حیثیت پر غور کرنے کی توفیق ارزانی ہوتی ہے ، وہ ہمیشہ مغزوحقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، فروع میں الجھ کر ایمان ضائع نہیں کرتے ۔ البقرة
143 زمین میں خدا کے مبلغ : (ف ٢) اس آیت میں مسلمان کے منصب ودرجہ کی توضیح ہے ۔ ” کذلک “ سے یہ مراد ہے کہ جس طرح کعبہ تمام کائنات کا روحانی مرکز ہے ، اسی طرح مسلمان کو خدا نے تمام انسانوں کا مرکز عمل بنایا ہے ، لوگوں کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں کے نقش قدم پر چلیں ، اس لئے کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں جسے عمل وتبلیغ کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہوں وہ دنیا کے لئے حیات وعمل کا بہترین نمونہ ہے (آیت) ” شھدآء علی الناس کی تفسیر ہے ، مبلغین وعاملین کی جماعت سے اسی آیت کی تشریح میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو فرمایا کہ ” انتم شھدآء اللہ فی الارض “ یعنی تم زمین میں خدا کے مبلغ ہو ۔ تحویل قبلہ کا فلسفہ : (ف ٣) تبدیلی قبلہ سے غرض یہ بھی تھی کہ اہل ایمان کو امتحان ہوجائے کہ کون رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برحق کا بہرحال ساتھ دیتا ہے اور وہ کون ہے جو شبہات وسواس میں گرفتار ہوجاتا ہے ، قاعدہ ہے کہ سالک مرشد کامل کی ہدایات کو حسن ظن کی نظر سے دیکھے ورنہ اندیشہ محرومی ہے ع بہ مئے سجادہ رنگین کن گرت پیر مغاں گوید ۔ چنانچہ اہل ایمان وسلوک کی ایک جماعت نے جب تبدیلی قبلی کی خبر پائی تو نماز ہی میں گھوم گئے ، بتلانا یہ مقصود تھا کہ غیر مسلم دیکھیں کہ خدا کے یہ بندے کس درجہ جذبہ اطاعت سے سرشار ہیں ۔ دوسری آیت میں اس شبہ کا جواب ہے کہ وہ لوگ جو تعیین قبلہ سے پہلے مر گئے ہیں ان کا کیا حشر ہوگا ؟ فرمایا خدا ایمان صحیح کے ساتھ ہر عمل کو قبول کرلیتا ہے ، ان لوگوں تک چونکہ یہ حکم پہنچا ہی نہیں اس لئے معذور ہیں ۔ حل لغات : قبلۃ : اصل معنی جانب وطرف کے ہیں جو جاذب التفات ہو اصطلاھات وہ بیت العبادۃ ہے جس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جائے ، وسطہ : درمیان ، بہترین ، افراط تفریط سے پاک ، عادل ۔ البقرة
144 ملکہ نبوت : (ف ١) ان آیات میں بتایا کہ تحویل قبلہ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ تم (یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) یہی چاہتے تھے ہم نے تمہاری رضا مندی کو ملحوظ رکھتے ہوئے قبلہ بدل دیا ، بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام میں ایک ملکہ نبوت ہوتا ہے جو پہلے سے موجود رہتا ہے اور جس کی روشنی سے انبیاء علیہم السلام استفادہ کرتے ہیں ، یہ سراج نبوت ان کے دماغ میں ہر وقت روشن رہتا ہے ۔ صحف انبیاء اور قبلہ : (ف ٢) اس آیت میں ” تحویل قبلہ “ کو حق کہا ہے اور فرمایا ہے اہل کتاب اس کو جانتے ہیں لیکن انہیں یہ منظور نہیں کہ بیت المقدس کی تقدیس چھین کر بیت اللہ کو دے دی جائے بائیبل میں ” شوکت کا گھر “ بیت الحرام کا ٹھیٹھہ ترجمہ ہے ، دانیال (علیہ السلام) کے مکاشفہ میں ہے کہ میں نے آسمان سے نیا یروشلم اترتا ہوا دیکھا ، جس پر خدا کا نیا نام کندہ ہے ، کیا یہ تبدیل قبلہ کی پیش گوئی نہیں ۔ زبور میں حضرت داؤد (علیہ السلام) اسی گھر کی زیارت کے شوق میں گیت گاتے ہیں ۔ حل لغات : شطر : جانب ، طرف ۔ البقرة
145 (ف ١) ان آیات میں فرمایا کہ یہودی باوجود جاننے کے اعتراض ضرور کریں گے وہ کسی بات پر مطمئن نہیں ہوں گے ، ان کی ذہنیت مسخ ہوچکی ہے اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جماعت بلا کسی خدشہ کے حق کے تابع رہے اور ان کے شبہات اور اعتراضات کی جانب بالکل توجہ نہ کرے ، ورنہ خطرہ ہے کہ خدا کے ہاں ظالم نہ ٹھہرائے جائیں گے ، آیت کا خطاب گو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن مراد عام مسلمان ہیں لیکن ان کا منصب انہیں ہر نافرمانی سے روکتا ہے ، وہ بحیثیت نبی ہونے کے خدا کی منشاء کے خلاف کوئی حرکت کر ہی نہیں سکتے ۔ (آیت) ” بل ھم عباد مکرمون لا یسبقونہ بالقول وھم بامرہ یعملون “۔ یعنی گروہ انبیاء خدا کا وہ نیک گروہ ہے جو اس کی مخالفت نہیں کرتا ، بلکہ اس کے اوامر کا ماننے والا ہے ، اس طرز خطاب سے یہ بتانا مقصود نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب بھی یہود کی خواہشات کو مان کر خدا کی نافرمانی کا ارتکاب کرسکتے ہیں بلکہ یہ ان کے جذبات کی پاسداری وضوح حق کے بعد اتنا بڑا جرم ہے کہ اگر تم بھی اس کا ارتکاب کرو تو بایں جلالت قدر ہرگز معافی کے مستحق نہیں ہو ، یعنی بحث امکان ظلم سے نہیں ‘ بلکہ جرم کی اہمیت سے ہے کہ کس قدر زیادہ ہے ۔ البقرة
146 (ف ٢) (آیت) ” یعرفونہ “ کی ضمیر یا تو تحویل قبلہ کی طرف راجع ہے ، جیسا کہ ظاہر سباق سے واضح ہے اور یا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف جو گو مذکور نہیں لیکن سننا سمجھے جا سکتے ہیں یعنی جس طرح یہ اپنے بچوں کو بغیر کسی دلیل منطقی کے پہنچان لیتے ہیں اور کبھی انہیں شبہ نہیں ہوتا اسی طرح یہ خوب جانتے ہیں کہ تحویل قبلہ درست وصحیح ہے یعنی ان کی مذہبی کتابوں میں جب اس کا ذکر ہے تو پھر شک وشبہ کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے ۔ اگر ضمیر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو طرف راجع ہو تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اس قدر جلی اور اظہر ہے کہ کم از کم ان لوگوں کے لئے انکار کی کوئی وجہ نہیں ، وہ جو صبح ومساتین سال تک متواتر آپ کے انوار وتجلیات کو برملا دیکھتے ہیں وہ کیسے انکار کرسکتے ہیں جس طرح ایک باپ اپنی اولاد کے متعلق قطعی وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ یہ میری اولاد ہے اور جس طرح اسے نفسیاتی یقین ہوتا ہے ، جسے کوئی منطق اور کوئی فلسفہ شک وشبہ سے نہیں بدل سکتا ، اسی طرح ان میں کے اہل حق وبصیرت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں اور وہ نفسیاتی طور پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہچانتے ہیں ، مگر باطل اور کتمان حق کی مرتکب جماعت جن کا شیوہ حیات ہی لوگوں کو گمراہ کرنا ہے ‘ انہیں روکتی ہے ۔ البقرة
147 البقرة
148 (ف ٣) ان آیات میں بتایا ہے کہ ہر امت وگروہ کا ایک قبلہ عبادت ہوتا ہے ، اس لئے بحث ومناظرہ کی ضرورت نہیں ، تم جہاں کہیں بھی ہو اور جس قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہو بہرحال اپنے اعمال کے جواب دہ ہو اس میں اشارہ ہے کہ صرف استقبال سے تم نے کیوں سمجھ لیا کہ مسلمان صحیح راستے پر نہیں رہے تم یہ دیکھو کہ ان میں سبقت الی الخیرات کا جذبہ موجود ہے یا نہیں یعنی نمازوں کا مقصد وفائدہ اکثر قائم ہے اور مسلمان حسب سابق خدا کی اطاعت میں سرگرم ہیں اور حصول تقوی میں وہ پہلے کی طرح پرجوش ہیں تو صرف اس لئے انہوں نے جہت کی تبدیلی کرلی ہے اور وہ بھی خدا کے حکم اور اجازت سے محروم ہوگئے ہیں ، یعنی اصل شے جو صداقت کا معیار ہے نمازوں کی کیفیت وترتیب نہیں ، بلکہ حسن عمل ہے تم دیکھو کہ ان میں جذبہ اطاعت کس درجہ مضبوط ہے کہ سترہ اٹھارہ مہینے کے عمل کو اللہ کے ایک اشارہ سے بدل دیا ہے ۔ حل لغات : اھوآئ: جمع ھوآء یعنی خواہش ۔ یعرفون : مادہ عرفان بمعنی پہچاننا ۔ ممترین ، مصدر امتراء بمعنی شک وشبہ ۔ وجھہ : طرف ۔ جانب ۔ مولی : منہ پھیرے ۔ وجہ : منہ چہرہ ۔ البقرة
149 البقرة
150 آیات کے تکرار کا سبب : (ف ١) فول وجہ : کو تین دفعہ ذکر کیا ہے ، اس لئے بھی کہ مقصود تاکید ہے جو ان مواقع میں ضرور ہوجاتی ہے جبکہ کوئی اہم اور موجب شبہات حکم نازل ہو اور اس کے لئے ضروری تھا کہ ہر وجہ کے بعدمعلول بھی ذکر کیا جائے یا یہ کہ پہلی صورت میں اس حالت کا ذکر ہے جب آپ کعبہ کے سامنے ہوں ، دوسری صورت وہ ہے جس میں آپ شہر کی دیگر مساجد میں نماز پڑھیں اور تیسری صورت میں مراد یہ ہے کہ جب تم مسافر ہو تو بھی تمہارا قبلہ کعبہ ہی رہے یعنی بہرحال مسلمان کا ہر جسدہ اور اس کی ہر عبادت نہایت درجہ منسلک اور ایک نظام کے ماتحت ہونی چاہئے ، ان آیات میں یہ بتایا کہ تحویل قبلہ سے دو فائدے یہ بھی ہیں کہ یہودیوں اور مشرکین مکہ کا اعتراض اٹھ گیا ، یہودی پہلے کہا کرتے تھے کہ مسلمان بھی عجیب ہیں ، نماز تو ہمارے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے پڑھتے ہیں اور ہمارے مذہب کی مخالفت کرتے ہیں ۔ مشرکوں کا اعتراض تھا کہ دیکھئے دعوی تو یہ ہے کہ ہم مذہب ابراہیمی کے پابند ہیں اور مرکز عبادت بیت المقدس ہے ، اب جبکہ بیت المقدس سے منہ موڑ کر کعبہ کو قبلہ مان لیا گیا تو دونوں گروہوں کو تشفی ہوگئی ، پھر اتمام نعمت اور ہدایت ارزانی کا بھی سامان ہوگیا یعنی سارے دنیائے انسانیت کو ایک مرکز پر جمع ہونے کی دعوت دی اور عملا حج میں اس طرح کے وظائف اور ارکان داخل کئے جنہیں دیکھ کر قلب میں رقت طاری ہوجائے اور اسلام کی حقیقی شان وجدت وانکسار آنکھوں میں پھرجائے ، جن لوگوں نے حج کے کوائف پر نفسیانی غور کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس میں کس قدر بصائر ومعارف پنہاں ہیں اور کس طرح ہر نوع کے انسانوں کو چن چن کر اکٹھا کیا ہے اور سب کو ایک خدا کے سامنے جھکا دیا ہے ، لبیک لبیک کی مخلصانہ آوازیں کتنی ایمان پرور اور روح میں نزہت پیدا کرنے والی ہیں ۔ حل لغات : حجۃ : اصل میں معنی دلیل کے ہیں یعنی مراد اعتراض ہے ۔ البقرة
151 وظیفہ رسالت : (ف ١) (آیت) ” کما ارسلنا “۔ سے مقصد یہ ہے کہ کعبہ کی ہادیانہ حیثیت اسی طرح ہے کہ جس طرح ایک رسول آیت اللہ کی تلاوت کرے اور تعلیم وتزکیہ کے رموز سمجھائے ، یا یہ بتانا مقصد ہے کہ تعین اس طرح کی ایک نعمت ہے جس طرح کہ بعثت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضمنا یہ بتایا ہے کہ وظیفہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہے ، یا انبیاء اور عام مصلحین میں کیا بین امتیاز ہے ؟ وہ یہ کہ عام مصلحین صرف کہتے ہیں ، صرف تعلیم دیتے ہیں ، لیکن انبیاء علیہم السلام تعلیم وتدریس کے ساتھ ساتھ قلوب کو جلا بھی دیتے ہیں ، جیسے دماغوں کو معارف وحکم سے منور کرتے ہیں ‘ ویسے دلوں کی تاریک دیا کو بھی اجالے بخشتے ہیں ، ان کی نگاہیں علم ومعرفت کی سطح پر ہی مرکوز ہو کر نہیں رہ جاتیں ، بلکہ وجدان وطمانیت کی گرائیوں تک نفوذ کر جاتی ہیں ، وہ دنیا میں قول وعمل کا ایک بہترین امتزاج ہوتے ہیں یعنی جوامع الکلم کے ساتھ مکارم اخلاق کا اجتماع صرف انکے ساتھ ہی مخصوص ہوتا ہے ۔ البقرة
152 البقرة
153 (ف ٢) ان آیات میں دعوت ذکر ہے اور فلسفہ یاد الہی کا یہ بتایا ہے کہ جس طرح کا ایمان کسی شخص کے دل میں ہوگا اسی درجہ اللہ کی عنایات اس پر زیادہ ہوں گی ، حدیث میں آتا ہے ۔ انا عند ظن عبدی بی “ کہ میں بالکل ویسا ہی لوگوں سے سلوک روا رکھتا ہوں ‘ جیسا کہ وہ مجھ سے متوقع ہیں ، اس کے بعد اس کا ذکر ہے کہ جب تم کسی مصیبت میں گرفتار ہوجاؤ تو صبر سے کام لو ، گھبراؤ نہیں ، یعنی مصیبتیں اس لئے نہیں آتیں کہ مرد و مومن کے مضبوط دل میں رخنہ انداز ہوں اور اسے جادہ عافیت سے دور ہٹا دیں ، بلکہ اس لئے کہ وہ برداشت کرنے کا عادی ہوجائے اور خدا کے آستانہ پر وہ اور عبادت کے لئے جھک جائے ، یعنی کسی حالت میں بھی مسلمان مایوس نہیں ہوتا ، ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا امیداوار رہتا ہے ۔ البقرة
154 شہید زندہ ہیں : (ف ٣) جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جائیں اور خدا کے حضور اپنے خون کا ارمغان ثمین پیش کریں ‘ وہ ہر گو نہیں مرتے ، تاریخ کے صفحات میں ‘ دل کی گہرائیوں میں ‘ بہادروں کے تذکرے ہیں اور اللہ کے ہاں وہ زندہ ہوتے ہیں ، یعنی میدان جنگ میں مرنا موت نہیں ، بستر مرگ پر بزدلانہ جان دینا موت ہے کفار ان لوگوں کو جو جہاد میں شہید ہوجائیں ، کہتے ہیں کہ وہ ناحق مر گئے ، منافقین کا خیال تھا کہ وہ اگر میدان جنگ میں نہ جاتے تو موت کے مضبوط چنگل سے بچ جاتے ، قرآن حکیم کہتا ہے تم جسے موت سمجھتے ہو ‘ اس پر ہزار زندگیاں قربان ، اللہ کے ہاں جو ان کے مرتبے ہیں وہ تمہارے نہیں ، یہ زندگی جو شہدا کے لئے ‘ عام مادی زندگی سے مختلف ہے ، یہ مدارج ومراتب کی زندگی ہے نہ معمولی محسوس زندگی ، اس لئے فرمایا کہ تم اس زندگی کے لطف کو نہیں جان سکتے ۔ حل لغات : اصوات : جمع میت ۔ مردہ مرا ہوا نبلون : مصدر بلآء آزمائیں ۔ خوف : ڈر : البقرة
155 البقرة
156 البقرة
157 بلند نصب العین : (ف ١) الہی کتب کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ وہ انسان کو کشاکش ہائے حیات کے لئے پوری طرح تیار کر دے ، یعنی اس کے دل ودماغ کو اتنا بلند اور آمادہ صبر کر دے کہ وہ سخت سے سخت مصیبت کے وقت بھی مرکز عقل ودانش سے نہ ہٹیں ، قرآن حکیم نے اس مقصد کو جس خوبی سے پورا کیا ہے ، دنیا کی کوئی کتاب اس کی اس میں شریک وسہیم نہیں ، قرآن حکیم کا نظریہ حیات یہ ہے کہ دنیا میں مصائب وحوادث کا وقوع فطری اور ناگزیر ہے ، کبھی خوف وہراس سے دل دہل جاتے ہیں اور پھر کبھی ایسابھی ہوتا ہے کہ عزیز جانوں کا ضیاع ہونا اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں ۔ غرضکہ جب تک اس دنیا میں ہیں ‘ ان مصائب سے خلاصی نہیں ۔ البتہ وہ جو ” صابر “ ہیں ، انہیں کوئی خطرہ نہیں ۔ ان کے لئے یہ ابتلاء امتحان کا یہ خارمستان بھی گل کدہ عیش ہے ، کیونکہ وہ اپنی زہنی افق کو اس درجہ بلند ابتلا کرلیتے ہیں کہ وہاں مصائب کا کوئی خیال تکدر پیدا نہیں کرسکتا ، اس لئے یقین ہوتا ہے کہ ہماری زندگی اور موت سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے ، اس لئے اگر سکھی ہیں تو بہرحال اس کو اپنے فرائض عبودیت سے غافل نہیں ہونا چاہئے ، اس ایمان کے بعد کوئی بڑے سے بڑا دکھ بھی تکلیف دہ نہیں ہوسکتا ، اس لئے الم کا تعلق ہونے والے واقعات سے نہیں ، بلکہ احساسات سے ہے قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ اس قسم کے لوگ ہی راہ راست پر ہیں اور یہی وہ ہیں جو اللہ کی رحمتوں کے سزاوار اور مستحق ہیں ۔ البقرة
158 اللہ کے شعائر : (ف ٢) صفا اور مروہ دو پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان دوڑ ہوتی ہے ، یہ ان معنوں میں اللہ کے شعائر ہیں کہ ان سے مناسک کا وہ حصہ وابستہ ہے جس کی ادائیگی سے عجیب طرح کی للہیت پیدا ہوتی ہے اور اس لئے بھی کہ یہ مقام خلوص و ایمان کے بےپناہ جذبات کے پیدا کرنے میں ممدو معاون ہیں ۔ انہیں اللہ کے شعائر اس لئے کہا کہ ہم مناسک کی روحانیت کو فراموش نہ کریں اور صرف ظاہری رسوم کو صحیح نہ سمجھیں ، بلکہ اس کی روحانیت اور اثر کو برقرار رکھیں ، (آیت) ” لا جناح “ اس لئے کہا کہ پہلے ان دو پہاڑیوں پر بت رکھتے تھے ، صحابہ (رض) عنہم اجمعین نے اس لئے کہ شائبہ شرک نہ ہو ‘ طواف کرنے سے تامل کیا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، کوئی مضائقہ نہیں مسلمان مشرک نہیں ہوسکتا ، اس لئے اس انداز بیان سے مضائقہ نہیں مسلمان مشرک نہیں ہو سکتا ، اس لئے اس انداز بیان سے وجوب سعی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، نفی تخرج کی ہے نہ عدم سعی کی ، اس لئے جمہور وفقہا کا مذہب ہے کہ سعی واجب ہے ، عبداللہ بن عمر (رض) ، حضرت جابر (رض) اور جناب عائشہ صدیقہ (رض) ابھی اس طرح گئی ہیں ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ اور اس کی تائید صحیحین کی اس حدیث سے ہوئی ، جس میں لا جناح کی تشریح حضرت عائشہ (رض) نے فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ مسلمان انصار اسلام سے پہلے مناۃ کی پوجا اور اعزاز میں سعی کرتے تھے ، جب اسلام لائے تو انہوں نے سعی وطواف میں تامل کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ کوئی مضائقہ نہیں تمہاری نیتیں نیک ہیں ۔ حل لغات : صلوات : جمع صلوۃ بمعنی رحمت البقرة
159 (ف ٣) ان آیات میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ” مروہ “ کا ذکر بائیبل میں موجود ہے لیکن یہودی اپنی عادت کتمان کے بموجب اس کو چھپاتے ہیں ، اس لئے ان پر اللہ کی لعنت ہے اور تمام لوگوں کی یعنی کتمان حق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے دور ہیں اور تمام ایماندار اشخاص بھی انہیں قابل رحم نہیں سمجھتے ، یہی وجہ ہے کہ یہودی آج بھی باوجود تمول وتعلیم کی فراوانی کے تمام دنیا کی نظروں میں ذلیل ہیں اور انہیں کوئی اخلاقی وروحانی درجہ نہیں دیا جاتا ، بلکہ مغرب میں ” یہودی “ ایک قسم کی گالی ہے جسے کوئی غیر یہودی سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا ۔ البقرة
160 (ف ١) خدا تعالیٰ کی جہاں اور صفات حسنہ ہیں ‘ وہاں اس کا تواب ورحیم ہونا بھی ایک صفت ہے یعنی وہ ہمارے گناہوں کی توبہ ‘ گناہوں سے کامل نفرت کے بعد بخش دیتا ہے ، ان آیات میں یہودیوں کو دعوت استغفار ہے کہ وہ اگر سچے دل سے اپنی بداعمالیوں کا اقرار کرلیں اور آئندہ کے لئے اصلاح کرلیں اور پھر اپنی تمام شرارتیں جو انہوں نے کتاب کی تحریف کے سلسلہ میں کی ہیں ۔ ظاہر بھی کردیں تو اللہ انہیں اپنی آغوش رحمت میں لے لے گا اور ان کے گناہ معاف کر دے گا ۔ اس لئے کہ گناہ کرنے سے خدا کی ذات کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور نہ سعی کرنے سے اس کی خدائی میں کچھ اضافہ ہوتا ہے ، یہ سب اعمال تو انسان کی اپنی اصلاح کے لئے ہیں ، اس لئے بڑے سے بڑا گناہ کرنے کے بعد بھی اگر ہم اصلاح کرلیں تو اللہ تعالیٰ معاف فرماتے ہیں ۔ البقرة
161 البقرة
162 (ف ٢) وہ لوگ جو کفر وعصیان کی حالت میں مرتے ہیں اور حقائق ودلائل کے باوجود انکار پر مصر رہتے ہیں ‘ ان کے لئے نجات کی کوئی گنجائش نہیں ۔ وہ ہمیشہ اللہ کے غضب اور پاک سرشت فرشتوں کی ناراضگی میں اور تمام لوگوں کی نگاہ نفرت میں زندگی بسر کرتے ہیں اور اللہ کی رحمتوں سے دور ‘ ملائکہ کی توجہات روحانی سے محروم اور پاکباز گروہ کی عنایات سے الگ ذلت ولعنت کے عمیق گڑھوں میں رہیں گے ، نہ تو ان کے عذاب میں کوئی تخفیف ہوگی اور نہ ان کے فرد واعمال پر نظر ثانی کی جائے گی ، وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی میں حق کی طرف کبھی نہیں جھکے اور اسلام کی عالمگیر صداقتوں پر انہیں نے اپنے اوقات کا ایک لمحہ صرف نہیں کیا ، لہذا انہیں سزا بھگتنے کے لئے آزاد چھوڑ دیا جائے گا ۔ (آیت) ” ولا ھم ینظرون “ سے مراد یہ نہیں کہ اللہ کی نظریں ان پر نہیں پڑیں گی ، یا وہ اللہ کے احاطہ علم ونظر سے دور ہوجائیں گے ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ شفقت ورحمت کی نظروں سے محروم رہیں گے ، یعنی خدا تعالیٰ کا جذبہ رحم ان کے لئے موجزن نہ ہوگا اور جس طرح دنیا میں وہ اللہ سے کھچے کھچے رہے ہیں ، اللہ بھی آخرت میں ان سے بےنیازی سے رہے گا ۔ البقرة
163 (ف ٣) ان آیات میں یہ بتایا ہے کہ جس طرح اس کا کوئی شریک وسہیم نہیں اسی طرح اس کا رحم وکرم بےپایاں ہے ۔ وہ رحمن ہے وہ رحیم ہے ، اس لئے وہ نہیں چاہتا کہ ایک نفس منصوص بھی جہنم میں جائے یا اس کے غضب وجلال کا مستحق ہو ، کیونکہ یہ اس کی ذات کرم آیات کے خلاف ہے ، اس لئے اگر کوئی خواہ مخواہ اس کی مخالفت کرے ، یا اس کی آغوش رحمت سے نکلنا چاہے تو وہ مجبور نہیں کرتا ۔ البقرة
164 قرآن کا اسلوب تفہیم : (ف ١) قرآن کا طرز استدلال اس قدر جاذب ، فطری اور سادہ ہے کہ منطق ہزار جان سے بلائیں لیتی ہے ۔ وہ مصنوعی اصطلاحات کے گورکھ دھندوں میں ہمیں نہیں پھنساتا ، بلکہ روز مرہ کے اصولیی مشاہدات اس طور پر ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے کہ غور وفکر کی تمام قوتیں بیدار ہوجائیں اور معارف وحکم کے دریا بہنے لگیں ، اس طرز استدلال کی مثال یہ ہے کہ وہ سمندر کی تعریف نہیں کرتا اس شخص کے سامنے جس نے سمندر نہیں دیکھا یعنی وہ یہ نہیں کہتا کہ سمندر ایک بہت بڑا ذخیرہ جس نے سمندر نہیں دیکھا یعنی وہ یہ نہیں کہتا کہ سمندر ایک بہت بڑا ذخیرہ آب ہے بلکہ براہ راست طالب کو ساحل سمندر پر لا کھڑا کرتا ہے ، تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے سمندر کے تلاطم و تموج کو دیکھے ، طریق تفہیم اس درجہ کامیاب وصحیح ہے کہ کوئی شخص وشبہ نہیں رہتا ، مثلا ان آیات میں خدا تعالیٰ کو اپنی ذات کا اظہار اور ثبوت بتانا ہے ، یہ بتانا ہے کہ وہ صرف ایک ہے ۔ یہ بتانا ہے کہ کائنات کی تخلیق کا ایک مقصد ہے اور نظام حشر و قیامت ایک حقیقت ثابتہ ہے تو وہ الگ موضوع قائم نہیں کرتا ۔ دلائل کی مصنوعی تحلیل وتقریب میں نہیں الجھتا ، بلکہ مشاہدات کو اس طرح نظروں کے سامنے رکھ دیتا ہے کہ مضرات عقل میں خود بخود تحریک پیدا ہوجاتی ہے اور ذہن انسانی ان تمام باتوں کو خود بخود جان جاتا ہے اور اس کے بعد بھی غور وفکر کی وسعتیں ختم نہیں ہوتیں ، یعنی وہ کہتا ہے کہ رات ودن کے اختلاف میں ‘ جہاز وکشتی کے چلنے میں ‘ ابروباراں کے حیات بخش ماثرات میں ‘ زمین پر مختلف النوع حیوانات کے رہنے میں ‘ ہواؤں کے ادھر سے ادھر جانے میں اور ابر کی تسخیر میں عقل مندوں کے لئے دلائل ہیں ، دیکھئے کس سادگی سے قرآن حکیم نے کلام وفلسفہ کے تمام مدارج طے کردیئے ہیں ۔ اس حیثیت سے کہ یہ ساری چیزیں ایک افادہ ونظام کے ماتحت ہیں ایک باشعور وباارادہ ذات کو چاہتی ہیں ، یہ اثبات باری ہے اس حیثیت سے کہ ان میں ایک وحدت پر پردہ کار فرما ہے ، توحید کی متقاضی ہیں اور پھر اس لئے کہ ان سب میں ایک نفع ہے مقصد ومنتہا کر چاہتی ہیں ۔ اثبات حشرونشر ہے ۔ کیا کوئی کتاب اتنا بلیغ ، واقعی اور جاذب غور وفکر ، نہج استدلال اپنے طرز تفہیم وتبیین میں رکھتی ہے ۔ ؟ حل لغات : الفلک : کشتی ۔ بث : پھیلایا ، آباد کیا ۔ دآبۃ : ہر جان دار ۔ انداد : شرکاء ، ساجھی ، جمع ند ۔ البقرة
165 مشرک کی بیچارگی : (ف ١) یہ محبوب ومہربان خدا جو اپنی طرف سے کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھنا چاہتا ۔ ہر گناہ کو بخش سکتا ہے ، مگر شرک کو نہیں ، اس میں اس کی عظمت وکبریائی کی توہین ہے ، اس کا غضب جوش میں آجاتا ہے وہ کہتا ہے کہ یہ ظالم قیامت کے دن سخت ترین عذاب کے مستحق ہوں گے اور اس وقت یہ محسوس کریں گے کہ آج قوت واختیار کے تمام خزانے صرف خدا کے ہاتھ میں ہیں ۔ وہ جنہیں دنیا میں اپنی قسمتوں کا مالک ومختار سمجھتے تھے ، آج انتہائی بےچارگی میں پائیں گے ، تمام رشتے اور تمام تعلقات ٹوٹ جائیں گے ، مشیخت وارادت کے علائق منقطع ہوجائیں گے ، وہ جنہیں دنیا میں رہبر ورہنما سمجھتے تھے ، ہٹ مار اور مجرم ثابت ہوں گے ، وہ جن کی پرستش کرتے تھے آج ان سے ابتری اور بےزاری کا اظہار کریں گے ، کوئی باپ بیٹے کی سفارش نہ کرسکے گا ، کوئی شیخ اپنے مرید کو اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے گا ، ہر شخص اپنے اعمال کا آپ ذمہ دار ہوگا ، مشرکین کی حالت اس وقت عجیب بےچارگی کی ہوگی ، اس کی تمام توقعات باطلہ خاک میں مل جائیں گی ، وہ چاہے گا کہ اسے دوبارہ دنیا میں جانے کا موقع ملے تاکہ وہ اعمال کی اصلاح کرسکے ، لیکن یہ خدا کے مقرر کردہ قانون کی توہین ہے ، وہ کسی کو دوبارہ موقع نہیں دیتا ، وقت کے جو لمحات گزر جاتے ہیں ‘ وہ پھر واپس نہیں آتے ، شاخ گل مرجھا جانے کے بعد کاٹ لی جاتی ہے ، دوبارہ ہری نہیں ہوتی ، بچہ مرنے کے بعد دوبارہ بطن مادر میں نہیں بھیجا جاتا ، زندگی کا تیز قدم آگے ہے ۔ پیچھے ہٹنا قدرت کی تیز روی کے متناقض ہے ، اس لئے ان کا یہ مطالبہ مسترد کردیا جائے گا اور ان کے یہ اعمال بد ان کے لئے ہمہ حسرت بن جائیں گے ۔ حل لغات : الاسباب : رشتے ، جمع سبب ۔ کرۃ : دوبارہ ، دوسری دفعہ ۔ نتبرا : اصل مادہ تبراء یعنی اظہار ۔ جرات : البقرة
166 البقرة
167 البقرة
168 اکل حلال : (ف ١) عرب میں ایسے قبائل بھی تھے ثقیف وخزاعہ کی طرح جو حلال چیزوں کو حرام قرار دے لیتے تھے اور ایسے بھی تھے جو حرام اور مکروہ چیزیں استعمال میں لاتے تھے ، قرآن حکیم نے ان آیات میں اکل حلال کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ حلت وحرمت کا مسئلہ اس نے قابل لحاظ ہے کہ خوراک کا مسئلہ براہ راست ہمارے اخلاق سے تعلق رکھتا ہے ، اباحت مطلقہ جہاں صحت کے لئے مضر ہے ‘ وہاں اخلاق کے بھی مفید نہیں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خاص خاص قسم کی غذائیں خاص خاص نوع کے اخلاق وعادات پیدا کرنے میں ممدومعاون ہوتی ہیں اس لئے وہ مذہب جو اصلاح اخلاق کا مدعی ہے ، ضرور ہے کہ خوراک کے مسئلے سے شدید تعرض کرے ، ماکولات ومشروبات استعمال نہیں کرتی اور ذوق سلیم گوارا نہیں کرتا (ب) وہ چیزیں جو سخت مضر ہیں وہ بھی حرام ہیں (ج) وہ اشیاء جو مضر اخلاق وعادات پیدا کریں ، ان کا استعمال سے شرک پھیلنے کا اندیشہ ہو ۔ ان کے علاوہ ہر چیز جو پاکیزہ ہو ، ذوق سلیم پر اس کا کھانا گراں نہ ہو ، حلال ہے طیب کے معنی یہ ہیں کہ اسے جائز وسائل سے حاصل کیا گیا ہو ، یعنی ایک چیز اگر حلال ہے لیکن اسے چوری سے حاصل کیا گیا ہو تو اس کا کھانا درست نہیں ۔ اسلام چونکہ دنیا کا پاکیزہ ترین مذہب ہے ، اس لئے وہ زندگی ہر شعبے میں پاکیزگی چاہتا ہے ، نیز ان آیات میں بتایا ہے کہ خواہ مخواہ لذائذ کو اپنے نفس پرحرام قرار دے لینا درست نہیں ہر چیز جو اللہ نے پیدا کی ہے ، اگر وہ حلال وطیب ہے تو اس کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ، پرہیزگاری یا تورع اس پر موقوف نہیں کہ خدا کی نعمتوں کو نہ استعمال کیا جائے بلکہ اس میں ہے کہ باندازہ نعمت اللہ کا شکریہ ادا کیا جائے اور شیطان کی اطاعت سے گریز کیا جائے اس کی تمام راہوں سے احتراز کیا جائے ، وہ جو لذائذ سے محروم ہے ‘ وہ بھی گناہ گار ہو سکتا ہے اور وہ جس کو سب نعمتیں حاصل ہیں وہ بھی اللہ کی نافرمانی کرسکتا ہے اس لئے اصل چیز ترک لذت نہیں بلکہ اللہ کا ڈر ہے ۔ البقرة
169 البقرة
170 (ف ٢) ان آیات میں مشرکین مکہ کے ہر دو تقلد کو واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح وہ وضوح حق کے باطل پر اڑے رہتے ہیں اور کسی طرح بھی آباد وعلماء کے غلط مذہب سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتے ، خواہ ان کے مقتدا کتنے ہی بےسمجھ وگمراہ ہوں حالانکہ معیار قبول وہدایت ہے ‘ نہ کورا نہ اطاعت ۔ حل لغات : خطوت : جمع خطوۃ ، دو قدموں کے درمیان ، فاصلہ نقش پا ، قدم بہ قدم ۔ السوٓء : برائی ۔ الفحشآء : بہت بری بات ۔ ینعق : مادہ فعوق ، مال ڈھور کے پیچھے چلانا ۔ البقرة
171 البقرة
172 (ف ١) ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ محرمات منصوصہ کے سوا اللہ کی تمام نعمتیں قابل استعمال ہیں ، تمام پاکیزہ چیزیں حلال ہیں ، اللہ کی عبادت کا مفہوم بجزا ادائے شکر کے اور کچھ نہیں ، ترک لذات غیر اسلامی اصول ہے ، قرآن حکیم نے کھانے پینے کی چیزوں میں کوئی مضائقہ نہیں رکھا ، البتہ حرام اور ناجائز اشیاء سے پرہیز ضروری ہے ، شریعت کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان تمام قوموں سے زیادہ خدا کا شکر گذار ہو زیادہ خدا کا شکر گذار ہو زیادہ مطیع وفرماں بردار ہو ، نہ یہ کہ خدا کی نعمتوں کا استعمال نہ کرے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو زہد وتقوی کا آخری نمونہ ہیں ، کبھی اس قسم کا پرہیز نہیں کیا ، بہتر سے بہتر چیز میسر آگئی تو وہ کھالی اور جب کچھ نہیں ملا ، کئی کئی دن کے فاقے ہیں اور پرواہ نہیں ۔ البقرة
173 زندہ رہنے کی کوشش کرو : (ف ٢) محرمات کے سلسلے میں مفصل بتایا جا چکا ہے کہ اس میں ذوق سلیم صحت انسانی اور اخلاق کا خیال رکھا گیا ہے ، اس لئے محرمات کی جو فہرست بتائی ہے ‘ اس کے لئے دلائل کا ذکر غیر ضروری سمجھا ہے ، کیونکہ ہر شخص جسے ذوق صحیح سے بہرہ وافر ملا ہو ‘ وہ اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ ان کی حرمت بین وظاہر ہے ، سب سے پہلے مردار کی حرمت کو لیجئے کیا کوئی مہذب اور شائستہ قوم مردار کھالے کے لئے آمادہ ہو سکتی ہے ، یہ ازمنہ وحشیہ کی یادگار ہے ، چنانچہ اب بھی وہ قومیں جو تہذیب وتمدن کی برکات سے محروم ہیں ، مردار کھاتی ہیں اور شرفاء اسی وجہ سے ان سے نفرت کرتے ہیں نیز مردار خوری سے پست وذلیل قسم کے اخلاق پیدا ہوتے ہیں جن میں کوئی زندگی نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ مردار خوار قومیں ادنی درجہ کی عادات میں مبتلا رہتی ہیں ، خون کھانا بھی اسی قبیل سے ہے ، اس میں بھی وحشت وبربریت مترشح ہے اور اس سے خوانخواری کے جذبات بڑھتے ہیں ۔ نیز خون صحت انسانی کے لئے سخت مضر ہے ، بالخصوص معدے اور دانتوں کے لئے ، عرب خون کو باقاعدہ منجمد کرکے کھاتے تھے اس لئے اس کا ذکر فرمایا سور کے کھانے میں کئی خرابیاں ہیں ، ایک تو یہ کہ اس کے گوشت میں جراثیم کثرت سے ہوتے ہیں جنہیں رودۃ الخنزیر کہتے ہیں اور وہ مضر ہوتے ہیں ، دوسرے اس سے قلب کے گردا گرد ایک خاص قسم کی چربی پیدا ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے قلب کی حرکت میں خلل آجاتا ہے ، اسے ” تشحم “ کہتے ہیں ، اطبائے امریکہ کا خیال ہے کہ فوری موت جو حرکت قلب بندہ ہونے سے واقع ہوتی ہے اکثر وبیشتر نتیجہ ہوتی ہے سور کھانے کا یہی وجہ ہے کہ وہاں کی ایک سوسائٹی نے اس کے خلاف علم جہاد بلند کردیا ہے اور وہ اس کی سخت مخالفت کر رہے ہیں ۔ اور ایک وجہ یہ ہے کہ خنزیر کھانے سے بےغیرتی پیدا ہوتی ہے دیکھ لو خنزیر کھانے والی قومیں غیرت وحمیت کے تمام جذبات سے محروم ہیں اور فواحش ان میں حد اعتدال سے بڑھ رہا ہے ، (آیت) ” وما اھل “ میں وہ سب چیزیں داخل ہیں جنہیں غیر اللہ کے ناموں پر تبرکا مشہور کیا جائے ، یہ اس لئے کہ ایسی چیزیں گو فی نفسہ حلال ہوں ، لیکن شرک پھیلانے کا موجب بنتی ہیں ۔ اس کے بعد مخصوص حالات میں جب کہ ہم مجبور ہوجائیں اور ہمارے سامنے موت وحیات کا سوال در پیش ہو ‘ بقدر ضرورت ان کے استعمال کی اجازت مرحمت فرمائی ہے کہ مسلمان کی جان بہرحال عزت واحترام کے قابل ہے لیکن یہ وہ وقت ہوگا جبکہ ایک طرف کامل اضطرار ہو مثلا سخت بھوک ہو اور سوائے ان محرمات کے کوئی چیز میسر نہ ہو اور موت کا خدشہ بلکہ یقینی ہو ، دوسروی طرف اس کا یقین ہو کہ ان کے استعمال سے میں بچ سکتا ہوں ، اس کے علاوہ معمولی حالات میں جب کہ ان کا بدل مل سکے اور شفاء قطعی نہ ہو ، استعمال ممنوع ہے ۔ البقرة
174 البقرة
175 البقرة
176 (ف ١) قوم کے لئے جب کتاب اللہ سے تمسک قائم رہے ، فرق وجماعات الگ اگل نہیں بنتیں اور جب کتاب اللہ میں تحریف وتاویل کے ذریعہ مختلف قسم کے فرقے بناتے جائیں تو پھر وحدت دینی اور اخوت مذہبی مفقود ہوجاتی ہے ، یہودیوں نے جب تک توراۃ کو اللہ کی کتاب سمجھا ، غالب رہے اور تعصب نے انہیں مختلف قوموں میں بانٹ دیا ، قومی حیثیت سے مٹ گئے ، اس لئے اصل شے جو مدار قومیت ہے ، جب وہی نہیں تو پھر قومیت کہاں ؟ ان آیات میں یہی بتایا گیا ہے کہ ان لوگوں نے تورایت کی جو کتاب حق ہے ، مخالفت کی ، اس لئے اب ان میں اختلافات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ مٹائے نہیں جا سکتے ۔ حل لغات : بطون : جمع بطن ۔ پیٹ ۔ شقاق : پھوٹ ۔ بر : نیکی ۔ وجھہ : منہ جمع وجوہ ۔ البقرة
177 نیکی کا مفہوم : (ف ١) عام لوگ رسوم ظاہری تک ہی تقوی کا مفہوم محدود رکھتے ہیں اور دیگر حالات پر غور نہیں کرتے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب دین کی روح باقی نہ رہے اور قشہ وظاہر پر سختی سے عمل ہو ، جب کسی قوم کی یہ حالت ہو تو سمجھ لیجئے وہ حقائق دین سے قطعا محروم اور برائے نام مسائل پر محض رکھ رکھاؤ کے لئے عامل ہے ، نزول قرآن مجید کے وقت یہودیوں اور عیسائیوں کی بالکل یہی کیفیت تھی فسق وفجور میں ہر وقت سرشاری کے باوجود ایک دوسرے کو کافر کہتے ، چھوٹے چھوٹے مسائل پر جھگڑتے ، معمولی اختلافات ڈالتے یا اختلاف عمل ان کے لئے ناقابل برداشت ہوجاتا لیکن عملی زندگی میں بڑی سے بڑی بدمعاشی ان کے لئے نہ صرف گوارا ہوتی بلکہ راحت جان ، تحویل قبلہ کے موقع پر ان لوگوں نے شور مچا دیا کہ دیکھئے مسلمان بدل گئے ، انبیاء کے مسلمہ قبلہ سے روگردان ہوگئے اور الحاد وزندقہ میں مبتلا ہوگئے ، قرآن حکیم نے اس اعتراض کے متعدد جواب دیئے اور آخر جواب وہ دیا جو ان آیات میں مذکور ہے کہ مدار مذاہب ظاہر شعائرہ رسوم نہیں ، ان کس مغز اصل ہے ، بیت المقدس یا کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ لینا ہی کافی نہیں ‘ بلکہ ان کے لئے ضروری ہے لوازم کا بھی خیال رہے کیا تم سمجھتے ہو کہ بیت المقدس کو قبلہ مان کر تم شریعت کی ہر ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتے ہو ؟ کیا اس کے بعد تمہارے لئے ہر برائی جائز ودرست ہوجاتی ہے ؟ کیا تمہارا خیال ہے کہ جب تک مشرق ومغرب کی تعیین نہ ہو ، نیکی کا مفہوم ہی غلط رہتا ہے ؟ نہیں ، کعبہ ہو یا بیت المقدس ، ان کو قبلہ بنانے کا مقصد یہ نہیں جو تم سمجھتے ہو کہ ظواہر پر اکتفا کردیا جائے ، اور بس بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ تمہارے دل میں شریعت کا پورا پورا احترام ہو ، ظاہر کے ساتھ باطن کی باریکیوں پر بھی تمہاری نظر ہو ، جذبہ عمل پورے جوش کے ساتھ کار فرما ہو ، جہاں دل کی گہرائیاں ایمان باللہ کی روشنی سے روشن ہوں ‘ وہاں اس کے نتائج بھی عیاں ہونے چاہئیں ، تم ادعائے پاک باطنی کے ساتھ بظاہر بھی پاک بننے کی کوشش کرو ۔ دس احکام : اس توضیح کے بعد وہ دس چیزیں بتائیں جو اساس الدین ہیں اور جو حقیقی معنوں میں صلاح وتقوی کا معیار ہیں اور جن سے صدق وصفا کو واقعی طور پر پرکھا جا سکتا ہے ۔ (١) ایمان باللہ ، یعنی اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ ، اس سے پوری پوری محبت ۔ یہ احساس اخلاق ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے بےنیازی قطعا صحیح اخلاق پیدا کرنے میں ممدو معاون نہیں ہو سکتی ۔ (٢) ایمان بالاخرۃ : یعنی مکافات عمل کے نظام پر محکم ایمان ۔ ظاہر ہے جب تک اعمال کے اثمار ونتائج کو قطعی نہ مانا جائے ، نیکی کے لئے دل میں کوئی تحریک پیدا نہیں ہو سکتی اور نہ برائی سے کوئی خوف پیدا ہو سکتا ہے ۔ (٣) ایمان بالملئکۃ : یعنی فرشتوں کے وجود وظائف پر ایمان ہو ، یہ ایمان بالکتب کی تمہید ہے ۔ (٤) ایمان بالکتب : یعنی خدا کے نوشتوں پر ایمان کہیں ہوں ، کسی زبان میں ہوں ، اللہ کا کوئی رسول لے کر آیا ہو ۔ (٥) ایمان بالنبین : یعنی سلسلہ انبیاء کی تمام کڑیوں کو ماننا ، تمام فرستادوں کا بلاتخصیص احدے احترام کرنا کہ تعصب پیدا نہ ہو اور سارے انسان متحد ومتفق ہو کر رہ سکیں ۔ (٦) خدا کی راہ میں دینا یعنی بخل وامساک کی عادت نہ ہو ، فیاضی وسیر چشمی پیدا کرے ، اپنے اقربا کی حتی الوسع مدد کرے ، مسکینوں اور یتیموں کی ضروریات کو پورا کرے ، مسافر اور دیگر سائلین کی حاجات کا مداوا بننے اور غلاموں کی آزادی میں ساعی ہو ۔ (٧) اقامت الصلوۃ : یعنی پابندی اور شرائط ولوازم کے ساتھ نماز پڑھے ، تاکہ اس میں سچے معنوں میں روحانیت پیدا ہو ۔ (٨) اداء زکوۃ ۔ (٩) ایفائے عہد ۔ (١٠) صبر واستقامت : ظاہر ہے کہ جس میں یہ دس صفات ہوں گی وہ خدا کا محبوب ہوگا نہ وہ جو صرف ظواہر ورسوم پر مغرور ہو ، خطاب یہود سے ہے کہ دیکھو یہ چیزیں مسلمانوں میں موجود ہیں یا نہیں ، اگر موجود ہیں تو معلوم ہوا تحویل قبلہ نے ان کے اعمال اور ان کی خدا پرستی میں کوئی مضرت پیدا نہیں کی ۔ حل لغات : الرقاب : جمع رقبۃ ، گردن یعنی وہ جس کی گردن میں غلامی کا جوا ہو ۔ البقرة
178 آزاد کے بدلے آزاد : (ف ١) اسلام سے پہلے قصاص وانتقام کا مفہوم بھی صاف نہیں تھا یہودی اگر قاتل امیر ہوتا تو چھوڑ دیتے اور اگر غریب ہوتا تو کچھ روپیہ لے کر معاف کردیتے اور اگر غلام ہوتا تو پھر ان کی شریعت نوازی جوش میں آجاتی جس کے معنی یہ ہیں کہ تعزیرات کا باب صرف غربا کے لئے ہے اور روپیہ خدا کے قانون میں نرمی پیدا کرسکتا ہے ، قریش مکہ بھی اس مذموم ذہنیت سے آلودہ تھے ، ان کے سردار وصنادید بھی محض سرمایہ داری کے بل پر ہر تعزیر سے بچ جاتے ، قرآن حکیم جو عدل وانصاف کا اعلان ہے ، بھلا کب اس ظلم اور جنبہ داری کو برداشت کرسکتا تھا ۔ چنانچہ اس نے فرمایا کہ قصاص کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں آزاد کے بدلے آزاد مارا جائے اور عزت وسرمایہ کو کوئی درجہ نہ دیا جائے ، اس لئے کہ خدا کے ہاں سب کا درجہ یکساں ہے اس کے کسی ایک بندے کو حقوق زندگی سے محروم کردینا بہرحال سزاوار تعزیر ہے ۔ عفو بہتر ہے : قاتل کے ورثاء اگر مقتول کو کچھ دے دلا کر راضی کرلیں یا مقتول کے ورثاء انتقام نہ لینا چاہیں اور معاف کردیں تو فرمایا یہ بہتر ہے ۔ (آیت) ” من اخیہ “ کہہ کر گویا ترغیب دی ہے کہ عام حالات میں معاف کردیا کرو ، اخوت وہمدردی کا یہی تقاضا ہے اس سے معلوم ہوا کہ اسلام عفو کو بہرحال مقدم سمجھتا ہے ، بات بھی یہی درست ہے کہ تاحد مقدور حسن سلوک بجائے خدا ایک کڑی سزا ہے جس اثر نہایت گہرا ہوتا ہے مگر ہر حالت میں نہیں بعض حالات میں ۔ قصاص ہی میں عافیت ہے : وہ طبیعتیں جو شریر اور فتنہ پرداز ہیں وہ کسی طرح معافی سے متاثر نہیں ہوتیں ‘ بلکہ بعض دفعہ اس قسم کی نرمی کا اثر ان کے طبائع پر الٹا پڑتا ہے وہ اس حسن سلوک کو جبن وبزدلی سے تعبیر کرتی ہیں ، ان کا علاج بجز انتقام وقصاص کے کوئی نہیں ، تعزیرات کے باب میں اسلام کی خصوصیت دیگر مذاہب سے یہ ہے کہ اس میں عام نفسیات کا پوری طرح خیال رکھا جاتا ہے جن مذاہب میں ” دانت کے بدلے دانت “ کی کی سزا مقرر ہے اور معافی کے لئے کوئی گنجائش نہیں وہ بھی فطرت انسانی سے دور ہیں اور وہ جو ہمیشہ ہمہ عفو ہے ‘ اسے بھی صحیح نہیں کہا جاسکتا ، اسلام میں یہ جامعیت ہے کہ وہ ہر شے کا لحاظ رکھتا ہے ، اسے معلوم ہے کہ بعض دفعہ معاف کردینا نتائج کے لحاظ سے زیادہ بہتر ہوتا ہے اور بعض دفعہ سزا دینا جب فطرت انسانی قبول وتاثر کے لحاظ سے مختلف ہے تو پھر ایک سچے فطری مذہب کے لئے اس کی رعایت رکھنا نہایت ضروری ہے ” دشمن سے بھی پیار کرو “۔ نہایت اچھے لفظ ہیں ، یقینا ان سے بلند اخلاق کا اظہار ہوتا ہے لیکن عملی دنیا میں اس پر کہاں تک عمل ہو سکتا ہے ، اس کا پتہ لگانا ہو تو یورپ کا موجودہ طرز سیاست دیکھو اس میں جس اصول پر عمل کیا جاتا ہے ‘ وہ یہ ہے کہ ” دوستوں کو بھی دشمن سمجھو “۔ کیا اس حقیقت کے بعد بھی مسحی مبلغین اس تعلیم پر نازل کریں گے جس پر کبھی عمل نہیں کیا گیا ، عیسائیت اور اسلام میں بڑا امتیاز یہ ہے کہ اخلاق وتعزیرات کے بارے میں عیسائیت نے صرف فرد کو ملحوظ رکھا ہے جماعتی مصالح اس کے پیش نظر نہیں ، مگر اسلام نے فرد وجماعت ہر دو کی تکمیل کو مد نظر رکھا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات بہرحال قابل عمل ہیں ، مثلا یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک کامل اور بردبار انسان شریر کا مقابلہ نہ کرے اور مار کھاتا رہے ، لیکن شریر سے یہ توقع کیوں رکھی جائے کہ وہ بھی شرافت سے متاثر ہوگا ، کیا یہ نری سادگی نہیں ؟ اور پھر یہ اصول قوموں میں رائج کیسے ہو سکتا ہے ؟ یورپ کے مستعمرانہ اعتراض ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ نہی پر عمل کرے ، یہ عجیب بات ہے کہ دولوگ جنہیں عفو وصلح کی تعلیم دی گئی تھی وہی سب سے بڑھ کر ظالم وسفاک ثابت ہوئے ، ان کی تاریخ کا ہر ورق بربریت ووحشت کا بدترین نمونہ ہے ، اور وہ جنہیں بقول عیسائیوں کے سوا جہاد اور قصاص کے کچھ سکھایا نہیں گیا اور دنیا میں سب سے زیادہ شائستہ ‘ غیر متعصب اور صلح جو رہے ۔ کیا یہ واقعہ نہیں ؟ حل لغات : القصاص : بدلہ ، مجازات ، انتقام ۔ الحر : آزاد ۔ العبد غلام ۔ البقرة
179 البقرة
180 وصیت : (ف ١) ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ کوئی شخص مال کثیر رکھتا ہو (خیرا سے مراد مال کثیر ہے) تو وہ والدین اور اقرباء کے لئے علاوہ مقرر حصوں کے کچھ اور بھی بطور احسان ومونت کے وصیت کرے بعض لوگوں نے اس حکم کو آیہ وارثت کی وجہ سے منسوخ سمجھا ہے لیکن یہ صحیح نہیں اس لئے کہ آیت کا انداز بیان اس کی مخالفت کرتا ہے ، (آیت) ” حقا علی المتقین “ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ یہ غیر منسوخ آیت ہے اور یہ مال کی بہتات کی صورت میں کوئی حرج نہیں کہ وصی والدین کے لئے کچھ زائد وصیت کر جائے ، کیونکہ اس صورت میں دوسرے ورثا گھاٹے میں نہیں رہتے ، بعض کے خیال میں یہاں والدین واقربا سے وہ مراد ہیں جو بسبب غیر مسلم ہونے کے وارث نہ ہو سکیں ، مگر آیت میں اس قسم کا کوئی قرینہ موجود نہیں ۔ البقرة
181 البقرة
182 البقرة
183 فرضیت صیام : (ف ١) صیام کے لفظی معنے رکنے اور باز رہنے کے ہیں ، اصطلاح قرآن میں مراد ہے روزہ رکھنا یعنی ضبط نفس کی بہترین شکل اسلام سے پہلے روزہ رکھنے کا رواج کم وبیش تمام قوموں میں موجود تھا اور سب اس کی تقدیس کے قائل تھے ، روما والے بھی روزہ رکھتے تھے اور اہل کتاب بھی ، ہنود کی کتابوں میں بھی برت کا ثبوت ملتا ہے لیکن جس تکمیل کے ساتھ اسلام نے روزہ کا مفہوم پیش کیا ہے وہ پہلی قوموں میں نہیں ملتا پہلے روزہ اور فاقہ میں کوئی فارق شے نہ تھی ، اسلام نے بتایا کہ روزہ سے مقصود فاقہ نہیں تزکیہ نفس ہے ۔ فرضیت صیام کا واقعہ ہجرت سے تقریبا دو سال بعد کا ہے اس لئے کہ اس میں ایک طرح کی روحانی ریاضت ہے اور جب تک نفوس میں اس اہم قربانی کے لئے ایک استعداد پیدا نہ ہوجاتی ، اس کی تلقین بےموقع تھی ، ان آیات میں اعلان فرضیت ہے اور یہ بتایا ہے کہ روزہ قدیم روایات ودستور کی ایک مکمل صورت ہے کوئی بالکل نئی چیز نہیں ، تاکہ مسلمانوں کے دل میں اس کی اہمیت پیدا ہوجائے ۔ روزہ کا فلسفہ : یہ بتایا ہے کہ (آیت) ” لعلکم تتقون “۔ یعنی روزہ تم میں تقوی واصلاح کی محض قوتوں کو پیدا کرنے کے لئے فرض کیا گیا ہے ، اسلامی علم الاخلاق میں تقوی اور روزہ کی حیثیت ایک ہے ، تقوی کے معنی تمام ممکن محاسن کا حصول اور تمام برائیوں سے احتراز جس کے معنی یہ ہیں کہ روزہ اخلاق وروح کی آخری معراج ہے ، دیکھئے تو کامل ایک ماہ تک ضبط خواہش کتنا مشکل کام ہے لیکن مسلمان صرف اللہ کی رضا جوئی کے لئے تیار ہوجاتا ہے ۔ خالص روحانی واصلاحی تدبیر سے کھانے پینے کی بےاعتدالیوں اور بےضابطگیوں پر ایک ناقدانہ نظر اور ان کا مکمل مداوا ، روزہ دار اور غیر روزہ دار میں ایک محسوس اور بین فرق ہوتا ہے ، حدیث میں آیا ہے ” روزہ دار وہ ہے جو گالی گلوچ سے پرہیز کرے اور اگر اسے کوئی مجبور کرے تو کہہ دے کہ میں صائم ہوں “ روزخالص اللہ کے لئے ہے ، اس لئے اللہ فرماتا ہے ۔ ” الصوم لی وانا اجزی بہ “ یعنی روزہ دار بھوک پیاس کی تلخیوں کو صرف میرے لئے برداشت کرتا ہے اس لئے اسے مخصوص اجر سے نوازوں گا یعنی مسلمان گرمیوں کے موسم میں جن کے ہونٹ سوکھ رہے ہوں ‘ پیاس کی شدت بےچین کر رہی ہو اور اس طاقت ووسعت میں ہو کہ برفاب کے کو زے منہ سے لگا لے ، مگر خدا سے ڈرتا ہے اور پیاس ہی کو آب سرد سمجھ کر پی جاتا ہے اور کامل ایک ماہ تک اس ریاضت کو جاری رکھتا ہے ، تاکہ خدا کے لئے بھوک اور پیاس کی سختیوں کو برداشت کیا جا سکے ، روزہ امیر اور غریب کو ایک ماہ کے لئے ایک سطح پر لے آتا ہے ، سب خدا کی راہ میں بھوک اور پیاسے رہتے ہیں ۔ گویا روزہ مساوات انسانی کا ایک عظیم مظاہرہ ہے اور خالص تربیت ہے جس سے مقصود سال بھر کی تیاری ہے کہ روزہ دار غریبوں کی بھوک اور پیاس کا خیال رکھے ۔ البقرة
184 بیمار کے لئے رخصت : (ف ٢) جو شخص بیمار ہو اور روزہ رکھنا اس کے لئے مضر ہو یا وہ مسافر ہو ، اس کے لئے یہ رعایت رکھی ہے کہ وہ صحت وحضر کے دنوں میں روزہ رکھ لے اور وہ لوگ جو قطعا روزے نہیں رکھ سکتے وہ ایک آدمی کو کھانا کھلا دیں ، تاکہ فرض کا احساس باقی رہے اور وہ بہرحال اس نظام صوم میں منسلک رہیں ، اس رعایت میں حاملہ ومرضعہ عورت بھی داخل ہے ۔ البقرة
185 رمضان کے فضائل : (ف ١) قرآن حکیم جو ساری دنیا کے لئے رحمت وہدایت ہے جس کے تمام مضامین دلائل وبراہین پرمبنی ہیں ‘ وہ ایام رمضان ہی میں نازل ہونا شروع ہوا ، اس لئے روزوں کی فضیلت اور بڑھ جاتی ہے اور اس میں باریک اشارہ اس طرف بھی ہے کہ روزہ رکھنے سے قرآن حکیم کے حقائق ومعارف قلب پر زیادہ روشن ہوتے ہیں اور دل کلام الہٰی کے ذوق وشوق سے معمور ہوجاتا ہے اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن حکیم کی تلاوت ان دنوں میں کثرت سے فرماتے اور اس لئے تراویح میں قرآن شریف پڑھا جاتا ہے تاکہ لوگ سال میں ایک ماہ بالالتزام قرآن پاک سنیں اور اپنی زندگی کو قرآن حکیم کے موافق بنائیں ۔ البقرة
186 (ف ٢) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو دعا کے لئے یقین دلایا ہے کہ وہ سنی جاتی ہے ، سابق رمضان میں اس کو اس لئے ذکر فرمایا ، تاکہ معلوم ہو کہ روزہ میں کثرت سے ذکر ودعا کا سلیلہ جاری رہے ، فرمایا کہ میں قریب ہوں اجابت وقبولیت کے لحاظ سے تم مجھ پر ایمان واعتماد رکھو پھر دیکھو میں کسی طور تمہاری التجاؤں کو شرف قبول بخشتا ہوں ۔ البقرة
187 روزہ کا مقصد : (ف ٣) ازدواجی تعلقات کو رات کے وقت برقرار رکھتا قرآن حکیم نے جائز ومباح قرار دیا ، اس لئے کہ روزہ کا مقصد رہبانیت یا فاقہ نہیں ، بلکہ تحسین اخلاق ہے اور کیا بیوی سے پیار بہترین اور پاکیزہ تر حسن اخلاق نہیں ؟ حدیث میں جو آتا ہے کہ دن کے وقت بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ازواج مطہرات سے محبانہ پیش آتے اور بوس وکنار میں کوئی مضائقہ نہ سمجھتے تھے تو اس کے یہ ہیں کہ روزہ زاہدانہ یبوست نہیں ، خشک ریاضت نہیں بلکہ ہر خواہش میں اور ہر جذبہ میں تابحد لطافت اعتدال پیدا کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ کھانا پینا ممنوع ہے لیکن نہانا دھونا اور دیگر پاک تفریح کی چیزوں کی اجازت دیتا ہے اسی طرح صنفی جذبات کی تکمیل تو ممنوع ہے دن کو البتہ لطافت کے ساتھ ان کے اظہار میں کوئی حرج نہیں ، رات کو بھی تکمیل میں کوئی مضائقہ نہیں ، مطلب بہرحال یہ ہے کہ روزہ ایک قسم کی شگفتہ ریاضت ہے اسلام فطرت انسانی کا بہترین نمونہ اور نباض ہے اس میں اس کی تمام کمزوریاں ملحوظ رکھی گئی ہیں اور کہیں بھی ناقابل برداشت تکلیف نہیں دی گئی ، وظائف زوجیت بھی ایک خلقی وفطری ضرورت ہے ، جس سے بےنیازی ناممکن ہے اور یا مضر ہے اس لئے اس ناگریز حقیقت کو ان الفاظ میں ظاہر کیا کہ تم میں اور عورتوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے کس طرح تم ایک دوسرے سے الگ رہ سکتے ہو ؟ عورت کا درجہ : (ف ١) (آیت) ” ھن لباس لکم وانتم لباس لھن “۔ کہہ کر فلسفہ تدبیر منزل کے بہترین نکات بتائے ہیں ، قرآن حکیم کا یہ مخصوص انداز بیان ہے کہ وہ باتوں ہی باتوں میں معاشرت واخلاق کی مشکل ترین گتھیاں سلجھا دیتا ہے ، لبات کی تین اغراض ہوتی ہیں ۔ : (١) بچاؤ ۔ (٢) اخفائے ستر ۔ (٣) تزئین وآرائش ۔ اس لئے گویا مرد و عورت کی حیثیت صحیح معنوں میں شریک حیات کی ہے ، دونوں ایک دوسرے کے لئے لباس کی مانند زمانہ کے سرد وگرم کا مقابلہ کرنے والے ہیں ، دونوں ایک دوسرے کے عیب پوش باعث عزت وآبرو ہیں اور دونوں کے وجود سے سوسائٹی کی عزت وآبرو ہے ، کس خوبصورتی سے قرآن حکیم نے دونوں کے منصب وفرائض کی تشریح فرمائی ہے ، تاکہ ان میں کوئی ایک دوسرے سے بےنیاز نہ رہ سکے ۔ عام مسائل : روزہ میں سحری دیر سے کھانا اور افطار میں جلدی کرنا مسنون ہے کیونکہ مقصد اطاعت ہے مشقت نہیں ، کھانے پینے کی چیزیں استعمال کرنا ممنوع ہے ، مسواک کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ رات کو تراویح پڑھنا بہت اجر کا باعث ہے ، حدیث میں آتا ہے ، آپ نے فرمایا کہ من قام رمضان ایمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذبنہ “۔ یعنی جو شخص رمضان میں قیام لیل کو اختیار کرے گا اور شرائط عبادت کو ملحوظ رکھے گا ۔ حل لغات : تختانون : مادہ خیانت بمعنے نقصان یعنی تم اپنے جائز فطری حق سے محروم تھے ۔ البقرة
188 (ف ١) ان آیات میں نیک چلن رہنے کی تلقین فرمائی ہے اس لئے کہ روزہ مقصد ہی کردار واخلاق میں پاکیزگی پیدا کرنا ہے ، فرمایا کہ باطل اور مضر اخلاق وسائل سے روپیہ حاصل نہ کرو یعنی خواہ مخواہ کی مقدمہ بازی اور دلالی جس سے مقصود روپیہ کا حصول ہو ، ناجائز ہے ۔ وکالت کی موجودہ صورت جس میں صرف قانون کی نزاکت اور لچک کا خیال رکھا جاتا ہے ، اس ضمن آجاتی ہے موجودہ تہذیب کی متعدد لعنتوں میں سے ایک لعنت وکالت بھی ہے جو قوم کے اخلاق کو بدرجہ غائت تباہ کرنے والی ہے ، اس کا مقصد اکثر جلب زر ہوتا ہے ، چاہے اسکی سچے انسان کا خون ہوجائے ، ان آیات میں تصریح موجود ہے کہ کسی جرم کے علم ہوجانے کے بعد اس کی حمایت ناجائز ہے ، صرف یہ عذر کہ قانون میں گنجائش ہے ، کافی نہیں ، اس لئے وکلاء یقینا جانتے ہیں کہ بعض اوقات قانون کے الفاظ ہمارا ساتھ نہیں دیتے یا کم از کم ان کا منشا یہ نہیں ۔ اس لئے اسلام کے نظام عدالت میں پیشہ ور وکیلوں کا کہیں ذکر نہیں ۔ کیونکہ اس سے براہ راست جرائم پھیلتے ہیں ۔ جب مجرم کو یہ معلوم ہو کہ ہر جرم کے لئے چاہے وہ کتنا ہی سنگین ہو ‘ ایک قابل وکیل مل سکتا ہے جو اس کا جرم ثابت نہ ہونے دے گا تو اس کے شوق جرم میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اس طرح دنیا میں جرائم کی افزائش ہوتی ہے جو عدل وانصاف کے خلاف ہے ۔ البقرة
189 قمری مہینوں کا فلسفہ : (ف ٢) معاذ بن جبل (رض) اور ثعلبہ بن عتبہ (رض) نے سوال کیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاند کیوں بڑھتا اور گھٹتا ہے ، اس پر یہ جواب دیا گیا کہ (آیت) ” قلھی مواقیت للناس والحج “۔ یعنی بجائے اس کے کہ لم بیان کی جائے ، حکمت و فلسفہ بیان کردیا اور اس طریق سے یہ بتایا کہ سوال غلط ہے ، یہ مذہب کے موضوع سے متعلق نہیں ، البتہ یہ پوچھ سکتے ہو کہ چاند کے بڑھنے اور گھٹنے سے شرعی طور پر کیا فوائد مرتب ہوتے ہیں ؟ اسلام نے حج ، صوم اور دیگر ضروریات دین کے لئے قمری مہینوں کو پسند فرمایا ہے ، حالانکہ شمسی مہینے مہینے زیادہ واضح اور متعین ہوتے ہیں ، اس کی متعدد وجوہ ہیں : (١) اس لئے کہ اسلام دین فطرت ہے جس میں اہل حضر سے لے کر اہل بادیہ تک سب لوگوں کی رعایت رکھی گئی ہے شمسی مہینے شہر کے متمدن لوگوں کو تو معلوم ہو سکتے ہیں لیکن خانہ بدوش اور غیر شہری نہیں جان سکتے ۔ (٢) اس لئے بھی کہ اسلام کا مقصد صرف تعین وتقرر ہی نہیں ، جبکہ تشویق وترغیب بھی ہے ، مثلا رمضان اگر شمسی تاریخوں میں ہوتا تو بلا کسی انتظار کے کھٹ سے آموجود ہوتا اور اس وجہ سے دلوں میں پہلے سے کوئی شوق واضطراب نہ ہوتا لیکن اب لوگ ماہ صیام کا چاند دیکھنے کے لئے بےتاب ہوجاتے ہیں اور اس طرح طبیعتوں میں ماہ صیام کے لئے زبردست شوق پیدا ہوجاتا ہے یعنی مقصد بھی حاصل ہوجاتا ہے اور خود بخود تحریک بھی پیدا ہوجاتی ہے ۔ (٣) پھر ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے موسم بدلتے رہتے ہیں ، شمسی مہینوں میں رمضان ہمیشہ ایک ہی موسم میں ہوا کرتا ، یا گرما میں یا سرما میں ، اس طریق سے موقع ملتا ہے اور تنوع قائم رہتا ہے ، ان اسباب وجوہ کی بنا پر ضروری تھا کہ مہینوں کا حساب چاند سے متعلق ہو ۔ (ف ٣) انصار جب اثنائے حج میں گھروں کو لوٹتے تو دروازوں سے داخل نہیں ہوتے تھے ، بلکہ پچھواڑے سے دیواریں پھاند کر آتے تھے ، ان کا خیال تھا کہ محرم کے سر پر سوا آسمان کے اور کسی چیز کا سایہ نہ ہونا چاہئے قرآن حکیم نے بتایا کہ یہ محض وہم ہے ، دروازوں سے داخل ہونا بہت ہے ۔ حج کا مقصد تو تقوی واصلاح کے جذبات کو پیدا کرنا ہے ، وہ ان ادہام وظنون سے پیدا نہیں ہوتے ، ہوسکتا ہے یہ ایک ضرب المثل ہو ، مطلب یہ ہے کہ ہر کام اس طریق سے کرنا چاہئے جو درست وصحیح ہو اور جس کام سے کوئی فائدہ ہوتا ہو ، بیکار کاوش سے حاصل ؟ پہلی آیت سے اس کا تعلق یہ ہوگا کہ چاند کے متعلق ایسے سوال کرنا جو شرعی لحاظ سے غیر صحیح اور غیر مفید ہیں ، محض بےسود ہے تم یہ پوچھو کہ قمری مہینوں میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ البقرة
190 جنگ کن سے ہے ؟ (ف ٤) ہجرت سے پہلے مسلمان کفر کی طرف سے ہر زیادتی کو برداشت کرتے رہے اور ان کا عمل (آیت) ” فاعف عنھم واصفح “ کی تصویر رہا ، مگر جب ان کی زیادیتاں حد سے بڑھ گئیں اور مسلمانوں کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ تم ان لوگوں سے مصروف جہاد ہوجاؤ جو تمہیں دق کرتے ہیں یعنی وہ لوگ جو مسلمانوں سے تعرض نہیں کرتے اور ان سے دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں ان سے جنگ درست نہیں ، وہ لوگ جو اسلام کو بدنام کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھتے ، وہ ان آیات کو غور سے پڑھیں اور یہ دیکھیں کہ اسلام نے جہاد میں بھی آداب واخلاق کی پابندی کو ضروری قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ دیکھنا دشمن پرکسی قسم کی زیادتی نہ ہونے پائے کیا آج مہذب سے مہذب قوم بھی جنگ میں ” اخلاق “ کو ملحوظ رکھتی ہے ؟ جنگ عظیم کی روئیداد تمہارے سامنے ہے ، دیکھوکس طرح تہذیب واخلاق کا گلا گھونٹا گیا ہے ۔ البقرة
191 شرارگ جنگ سے زیادہ خطرناک ہے : (ف ١) فتنہ کے معنی ابتلا وآزمائش کے ہیں ، کفار مکہ نے مسلمانوں پر اتنی سختیاں روا رکھیں کہ وہ سخت امتحان میں پڑگئے وہ سوچنے لگے کہ کیا کریں کیا وہ ان ادہام وظنون کو قبول کر کے راحت کی زندگی بسر کریں یا خدا کی راہ میں جان دے دیں اور شہادت کے درجہ عظمی کو حاصل کریں ۔ قرآن حکیم نے کفار مکہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ یہ پوزیشن ناقابل برداشت ہے ، شرارت جب اس حد سے بڑھ جائے تو پھر جنگ ناگزیر ہوجاتی ہے اور جنگ اس صورت میں یقینا اس مسلسل وپہیم شرارت وفتنہ انگیزی سے کہیں کم اہمیت رکھتی ہے ، اس لئے جب انہوں نے تمہیں گھروں سے نکال دیا اور تکلیف پر تکلیف پہنچا رہے ہیں تو تم بھی مردانہ وار میدان میں نکل آؤ اور انہیں کچل دو ، جہاں پاؤ قتل کرو ۔ ان نااہلوں کی یہی سزا ہے البتہ حرم کے قرب ونواح میں جنگ نہ ہو ، اور اگر وہ مجبور کریں تو پھر وہاں بھی کوئی مضائقہ نہیں جنگ اس وقت تک جاری رہے جب تک کہ اس شرارت کا کلی استیصال نہ ہوجائے اور پرامن فضا نہ پیدا نہ ہوجائے ، جس میں ایک خدا کی کھلے بندوں پرستش کی جائے اور اگر وہ باز آجائیں تو پھر تم بھی رک جاؤ البقرة
192 البقرة
193 البقرة
194 جنگ اور رعایت اخلاق : (ف ١) اسلام نے جہاں زندگی کے ہر شعبہ میں اصلاح کی ہے ، وہاں شعبہ حرب کو بھی فراموش نہیں کیا ، اسلام سے پہلے لوگ جن میں کسی قسم کی رعایت کو ملحوظ رکھنا ضروری نہیں سمجھتے تھے ، اسلام نے بتایا کہ جنگ میں بھی اخلاق وتدین کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہئے ، اس لئے کہ جنگ اخلاق مندوں سے نہیں ‘ بلکہ ایک اخلاق باختہ قوم سے ہے ، مقصد یہ ہے کہ اخلاق دین کے تحفظ کے لئے آخری قطرہ خون بھی بہا دیا جائے ، مکہ والے ذی قعد ، ذی الحجہ ، محرم اور رجب میں جنگ کو روک دیتے تھے اور ان چار مہینوں کو احترام کے قابل سمجھتے تھے ، قرآن حکیم نے بھی ان کی اس حرمت کو برقرار رکھا اور فرمایا کہ اگر وہ زیادتی کریں اور ان مہینوں کی حرمت کا خیال نہ رکھیں تو پھر تم بھی مجبور نہیں ہو ، بہرحال اتقاء وخشیت الہی کو ہر آن مد نظر رکھو اور جان رکھو کہ فتح ونصرت ہمیشہ اخلاق ودین داری کے ساتھ ہے وہ لوگ جو اخلاق کو کھو کر غلبہ حاصل کرتے ہیں درحقیقت ان کی شکست ہے اور وہ بظاہر مغلوب رہتے ہیں اور کسی مرحلے پر بھی تہذیب ومتانت کو ہاتھ سے نہیں دیتے وہ غالب ہیں ، ان کی فتح ہے ، اس لئے کہ اصل فتح روح کی فتح ہے نہ کہ مادہ کی ۔ البقرة
195 بزدلی ہلاکت ہے : (ف ٢) جہاد کے لئے جس طرح سرفرشی ضروری ہے ، اسی طرح مالی اعانت بھی لابدی ہے ان آیات مین یہ بتایا گیا ہے کہ وہ قومیں جو خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے دریغ کرتی ہیں ان کی ہلاکت قطعی ہے ان کا پنپنا اور دنیا میں رہنا محال ہے قوموں کی زندگی ان کے جذبہ ایثار وقربانی سے وابستہ ہے ، اس لئے وہ لوگ جو قومی احساس نہیں رکھتے جن کے دل تو قوم کے مصائب پر نہیں پسیجتے وہ غورکریں کہ ان کے زندہ رہنے کی کیا صورت ہے ۔ بعض فریب خوردہ لوگ (آیت) ” ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ “ کے معنی یہ سمجھتے ہیں کہ جہاد میں شرک نہ کی جائے اور جن بچائی جائے اس لئے کہ ہلاکت میں پڑنے سے اللہ تعالیٰ منع فرماتا ہے ، حالانکہ یہ غلط ہے وہ نہیں سوچتے کہ سیاق جہاد میں اس کا ذکر کرنا اس پر دال ہے کہ جہاد میں شرکت نہ کرنا اور مال ودولت سے حد سے زیادہ پیار کرنا ہلاکت ہے ، چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاری (رض) جو اسلام کے ایک باہمت مجاہد ہیں فرماتے ہیں کہ ہم (یعنی صحابہ (رض) عنہم اجمعین) ہمیشہ بزدلی اور تکلف عن الجہاد کو ہی ہلاکت سمجھتے رہے ، وہ موت وہلاکت جو خدا کی راہ میں آئے جس سے اسلام اور مسلم کی عزت میں اضافہ ہوتا ہو ‘ ہزار زندگی سے بہتر ہے اور وہ زندگی جو بزدلی اور آسائش میں گزرے موت سے بھی بدتر ہے ۔ البقرة
196 آداب حج : (ف ١) حج فرض ہے اور عمرہ محض تطوع ، عمرہ دراصل آداب زیارت کا نام ہے ، آیت کا مقصد یہ ہے کہ حج وعمرہ جب شروع کیا جائے تو پھر اس میں شروط ولوازم کا خیال رکھا جائے اور کوئی بات ایسی نہ اختیار کی جائے جس سے نقص لازم آئے اور اجر وثواب میں کمی ہو ۔ اگر راستے میں کسی سبب سے زائر یا حاجی رک جائے اور آگے نہ جا سکے تو وہیں احرام کھول دے اور میسر قربانی کر دے ۔ احصار میں چونکہ لغۃ اختلاف ہے ، اس لئے قضا میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک احصار عام ہے ، مرض اور دشمن دونوں اس میں داخل ہیں اور بعض کے نزدیک صرف دشمن ، بہرحال جب لغوی معنوں میں وسعت موجود ہے تو پھر اس کو قائم رکھنا چاہئے اس کے بعد ایک عام حکم ہے کہ جب تک قربانی کا جانور حرم میں نہ پہنچ جائے تم احرام باندھے رہو ، البتہ اگر کوئی شخص بیمار ہوجائے یا اس کے سر میں تکلیف ہو اور وہ سر منڈانا چاہے تو پھر وہ بطور فدیہ کہ تین روزے رکھے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلائے اور یا ایک بکری ذبح کرے جیسا کہ کعب بن عمرہ (رض) کے واقعہ سے ظاہر ہے کہ جب اس کے سر میں جوئیں پڑگئیں تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سرمنڈانے کی ان شرائط کے ماتحت اجازت دیدی جو اوپر مزکور ہیں ۔ حج کی تین قسمیں : (ف ٢) حج کی تین قسمیں ہیں ۔ افراد ، تمتع اور قران ۔ افراد وہ حج ہے جس میں قران وتمتع نہ ہو ۔ تمتع کی صورت یہ ہے کہ شہر حج میں کوئی عمرہ کے آداب سے ظاہر ہوجائے پھر انہیں مہینوں میں حج کا احرام باندھے ۔ قران یہ ہے کہ نسکین کو اکٹھا ادا کرے ۔ فقہاء کا اختلاف ہے اس امر میں کہ تینوں صورتوں میں افضل کون ہے ، بعض کے نزدیک افراد افضل ہے ، بعض کے نزدیک تمتع اور بعض کے نزدیک قران ، ان آیات میں تمتع کا ذکر ہے اور یہ اس لئے کہ قریش تمتع کو درست نہیں جانتے تھے ، تمتع میں چونکہ ترتیب حج پر اثر پڑتا ہے اس لئے ہدی ضروری قرار دی ہے جو شخص معذور ہو یعنی وہ ہدی نہ لاسکے وہ دس روزے رکھے ، تین ایمان حج میں اور ساتھ لوٹ کر یا لوٹتے ہوئے اس میں اختلاف ہے ۔ تلک عشرۃ کاملۃ : سوال پیدا ہوتا ہے کہ عشرہ کہہ دینے کے بعد کاملہ کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے ؟ کیا کوئی عشرہ ناقصہ بھی ہوتا ہے ؟ جب اعداد میں تعیین یقینی و قطعی ہے تو پھر اس زیارت کا فائدہ :؟ جواب یہ ہے کہ عشرہ کی صورت میں ہوسکتا تھا کہ کوئی تغیر کا مفہوم لے لے یعنی یہ سمجھ لے کہ تین یا سات میں جس صورت کو چاہے ، اختیار کرلے ، حالانکہ مطلب یہ نہیں ۔ مبرد کا خیال ہے ، یہ تاکید ہے جو عربی اصول کے بالکل مطابق ہے ، عرب کہتے ہیں ۔ کتبت بیدی حالانکہ ہمیشہ ہاتھ سے ہی لکھا جاتا ہے ، ہو سکتا ہے کہ مقصد یہ ہو کہ اس میں کوئی کمی نہ ہوگی ، یہ روزے قربانی کی پوری نیابت کریں گے ، ذلک کا مشارالیہ یا تو نفس تمتع ہے اور یا حکم ، پہلی صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ مقامی لوگوں کو تمتع کی اجازت نہیں ، امام ابو حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مذہب ہے ، دوسری صورت میں مقصد یہ ہوگا کہ مقامی آدمی کے لئے تمتع کی صورت میں قربانی ضروری نہیں ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے تلامذہ اسی طرف گئے ہیں اس کے بعد تقوی کی طرف سب کو دعوت دی ہے اور فرمایا ہے کہ عدم تقوی شعائر اللہ کی توہین ناقابل برداشت ہے اور موجب غضب الہی ہے ۔ البقرة
197 ملحوضات حج : (ف ١) ان آیات میں بتایا کہ حج تطہیر روحانیات کا بہترین ذریعہ ہے ، اس لئے اس میں لغویات وممنوعات سے بکلی احتراز لازم ہے اس لئے اس میں نہ تو رفث درست ہے یعنی مقاربت وتعلقات جنسی نہ فسوق درست ہے یعنی حدود شرعی سے تجاوز ، نہ جدل وبغض ، بلکہ کوشش کرنا چاہئے کہ روحانی حالت نہایت بہتر رہے ، زیادہ سے زیادہ رضائے الہی کو تلاش کیا جائے اور حاصل کیا جائے ۔ بہترین زاد راہ : بعض لوگ بلا زاد راہ کے حج کے لئے روانہ ہوجاتے ہیں ، وہ کہتے ہیں ہم متوکل ہیں اور اس کے بعد دوسرے حجاج کے لئے تکلیف کا موجب ثابت ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، یہ حرکت خلاف تقوی ہے ، جب تک زاد راہ میسر نہ ہو حج فرض نہیں ، نہ توکل اس طرح کا جو تعطل کے مترادف ہے باعث فضیلت نہیں ہے بلکہ تقوی باعث اجر ہے اور یہی بہترین زاد راہ ہے ۔ البقرة
198 ایام حج میں تجارت : (ف ٢) اسلامی عبادات میں اور دیگر مذاہب کے نظام عبادت میں ایک بہت بڑا امتیاز یہ ہے کہ اسلامی عبادات صرف ذکر خدا تک محدود نہیں ، بلکہ وہ وسیع تر مفہوم اپنے اندر پنہاں رکھتی ہے ، اسلامی عبادت ذکر الہی کے علاوہ ضروریات تمدن پر حاوی ہے ، اس لئے حج میں جو خالصہ ذکر وریاضت کی ایک اعلی صورت ہے ، تجارت کی اجازت دی اور فرمایا اس میں کوئی مضائقہ نہیں ، بلکہ اپنے فضل کے لفظ سے تعبیر کرکے ترغیب دی کہ مسلمان اس عظیم الشان اجتماع سے مادی فائدہ بھی اٹھائیں اور یہ اجتماع ہر محافظ سے مسلمانوں کے لئے باعث برکت وسعادت ہو ۔ (ف ٣) عربوں کا قاعدہ تھا کہ جب مناسک حج سے فارغ ہوتے تو ایک مجلس مفاخرہ قائم کرتے جس میں اشعار پڑھتے اور اپنے اپنے آباؤ واجداد کے مناقب وفضائل بیان کرتے جس سے حج کا مقصد بالکل فوت ہوجاتا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فخر وغرور کے یہ نعرے جائز نہیں ، حج کا مقصد تو اعلائے کلمۃ اللہ ہے ، اس لئے اسی کا ذکر اور اسی کی تمحید وتقدیس میں تمہاری زبانیں مصروف رہنی چاہئیں اور خدا نے بزرگ وبرتر یقینا تمہارے آباؤ اجداد سے زیادہ حمد وثنا کا استحقاق رکھتے ہیں ، اس لئے تم کیوں غیر اللہ کی مدح وستائش میں اپنی زبانوں کو آلودہ کرتے ہو ، کیونکہ تمہارے دلوں میں خدا کی محبت نہیں ۔ حل لغات : اشھر : جمع شھر ، مہینہ ، رفث : ہر وہ حرکت جو عورتوں سے متعلق ہو ، فسوق : حدود اصلیہ سے تجاوز ۔ جدال ، بےسود جھگڑا ، لڑائی جنگ ۔ زاد : راستے کا خرچ ، افضتم : مصدر افاضۃ ۔ لوٹنا ، پھرنا ۔ البقرة
199 البقرة
200 دو گروہ : (ف ١) اس کے بعد دو جاعتوں کا ذکر فرمایا ، ایک تو وہی ہیں جن کی دعائیں اور مطالبے صرف دنیا طلبی تک محدود رہتے ہیں ، جو سوا دنیا کی آسائش وکشائش کے اور کچھ نہیں چاہتے ، جو حرص وآز کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں جن کے طائر خواہشات کی پرواز بالکل سطح ارض تک ہے جو مادہ پرست ہیں اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے فرمایا ہو سکتا ہے ، ان کی دنیا میں سن لی جائے اور یہاں سیم وزر کے انبار کے انبار ان کے سپرد کردیئے جائیں لیکن یہ جان لیں کے آخرت یعنی دوسری زندگی میں ان کے لئے حصہ نہیں ، چونکہ اس دنیا میں ان کی خواہشیں بلند نہیں ہوتیں اور آخرت کے لئے عملا انہوں نے کچھ نہیں کیا ، اس لئے وہ اس سے زیادہ کے مستحق نہیں ، دوسرے وہیں جو دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کا بھی خیال رکھتے ہیں ، جو روح ومادہ کے درمیان توازن قائم رکھتے ہیں جن کی خواہشیں دنیا تک ہی محدود نہیں بلکہ آخری زندگی بھی ان کے مد نظر رہتی ہے ، وہ جہاں دولت وسرمایہ کے ڈھیر جمع کرتے ہیں ، وہاں زاد آخرت کا بھی حصہ وافر حاصل کرلیتے ہیں ، یہ لوگ زیادہ کامیاب ہیں ، ان کے ایک ہاتھ میں دنیا کی نعمتیں ہوتی ہیں اور دوسرے ہاتھ میں دین کی سعادتیں ، ان آیات میں بتلایا کہ مسلمان اور غیر مسلم میں فرق کیا ہے ، غیر مسلم کا نصب العین پست اور ذلیل ہوتا ہے اور مسلمان کی نظریں بلند ہوتی ہیں غیر مسلم کی ساری کاوشیں اور کوششیں مادی خواہشات کے لئے ہوتی ہیں ، اور مسلم دنیا کے لئے بھی کوشاں ہوتا ہے اور آخرت کے لئے بھی گویا ‘ نصب العین اور نتائج کے لحاظ سے مسلمان کافر سے اچھا رہتا ہے مسلم کے معروف معنی غلط ہیں ، وہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کے معنی دنیا کی نعمتوں سے محرومی ہے ‘ وہ اپنے خیال کی تصحیح کرلیں ، اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی افلاس کو پسند نہیں فرمایا ۔ حل لغات : مناسک : جمع منسک ۔ احکام حج ۔ خلاف : حصہ ۔ نصیب : بہرہ بخرہ ۔ البقرة
201 البقرة
202 البقرة
203 (ف ١) مکہ والے تعجیل کی صورت کو برا جانتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو رعایت بخشی کہ اگر وہ جلد فارغ ہو سکے ، اس سے تو کوئی مضائقہ نہیں اور اس طرح اگر تیسرے دن پر اٹھا رکھے تو بھی حرج نہیں دونوں صورتوں میں جائز ومباح ہیں ۔ مکہ والے چھوٹی چھوٹی چیزوں پر اصرار کرتے تھے اور بڑی بڑی چیزوں کو فراموش کردیتے تھے ، وہ تاجیل وتعجیل کو تو بڑی اہمیت دیتے تھے ، لیکن توحید ان کے نزدیک بےوقعت چیز تھی ، اہتمام بالصغائر اور تساہل عن الکبائر ، یہ وہ مرض ہے جو مردہ اور بےحس قوموں میں پیدا ہوجاتا ہے ، وہ مقاصد واصول کو پس پشت ڈال دینے میں کوئی باک نہیں سمجھتے اور غیر اہم جزئیات کو اہمیت دیتے ہیں اور اسی کو دین ومذہب کا نام دینے لگتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان جزئیات کو بالخصوص بیان فرمایا اور بتایا کہ ان کا درجہ بہرحال جزئیات سے زیادہ نہیں ۔ اصل شے تقوی وصلاح ہے ، جو تم میں نہیں اور جس کے حصول کے لئے تمہیں کوشاں رہنا چاہئے ، البقرة
204 خوش گفتار منافق : (ف ٢) بعض لوگ زبان کے اتنے میٹھے اور رسیلے ہوتے ہیں کہ ان کے خبث باطن کا کسی طرح علم نہیں ہو سکتا ، یہ بہت خطرناک ثابت ہوتے ہیں ، ان کا ظاہر بڑا فریب وہ ہوتا ہے ، مگر دل میں دنیا جہان کی خرابیاں پنہاں ہوتی ہیں ، قرآن حکیم جو علیم بذات اللہ اور خدا کی کتاب ہے ، وہ تمام برائیاں واشگاف کرکے رکھ دیتا ہے ، جو دل کی پنہائیوں میں پوشیدہ ہے وہ کہتا ہے کہ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو دنیا داری کے لحاظ سے نہایت اچھے معلوم ہوتے ہیں لیکن حق کے قبول کرنے کے لئے ان میں ذرہ بھر بھی استعداد نہیں ، ان کی قلبی خباثتوں پر گواہ ہے ، ان کا وطیرہ خدا کی پرامن زمین میں فساد پھیلانے ہے اور جب انہیں اللہ سے ڈرنے کی دعوت دی جاتی ہے تو اسی وقت دنیوی عزت وجاہ ان کو قبول حق میں آڑے آتی ہے ۔ یعنی اس لئے کہ انہیں سچائی کے لئے کچھ ایثار کرنا پڑے گا اس سے محروم رہتے ہیں ۔ فرمایا کہ یہ لوگ یاد رکھیں ، قیامت کے دن یہ جھوٹی عزتیں اور مصنوعی وقار کام نہ آسکیں گے اور یہ مع اپنی تمام عزتوں کے جہنم کا ایندھن بنیں گے ۔ حل لغات : الدالخصام : سخت جھگڑالو ۔ حرث : کھیتی : البقرة
205 البقرة
206 البقرة
207 جاں فروش مومن : (ف ١) ان آیات میں بتایا کہ کچھ لوگ مخلص بھی ہیں اور اس درجہ مخلص ہیں کہ وہ اپنی جانیں خدا کی راہ میں دینے سے بھی دریغ نہیں ۔ جہاں منافقین عزت نفس کے لئے ایمان کی گرانمایہ پونجی کو ضائع کردیتے ہیں ۔ وہاں یہ لوگ جان تک خدا کی مرضی کے بھینٹ چڑھا دینے میں تامل نہیں کرتے ، اس لئے یہ خدا کی آغوش رحمت میں رہیں گے انہیں عبودیت کے مرتبہ سے نوازا جائے گا اور خدائے رؤف کی تمام رحمتیں ان کے شامل حال رہیں گی ۔ البقرة
208 پورا پورا اسلام : (ف ٢) اسلام ایک نظام عمل عقائد ہے ، جب تک کسی نظام کو پوری طرح نہ مانا جائے متوقع فوائد کا مرتب ہونا ناممکن ہے ، اسی طرح وہ لوگ جو چند باتوں کو تو مان لیتے ہیں لیکن اکثر کا عملا انکار کردیتے ہیں ، وہ اسلام کو بحیثیت ایک نظام کے نہیں مانتے ، یہودیوں اور عیسائیوں میں آخر کار یہی مرض پیدا ہوگیا تھا ، جس پر قرآن حکیم نے ڈانٹا (آیت) ” افتؤمنون ببعض الکتب وتکفرون ببعض “۔ (کہ تم کتاب کے بعض مفید مطلب حصوں پر تو عمل پیرا ہو ، مگر اہم اور ایثار طلب حصے تمہارے دائرہ عمل سے خارج ہیں ، یہ کیا تماشہ ہے ؟ مسلمانوں سے بھی قرآن حکیم کا مطالبہ یہی ہے کہ اگر اسلام ہمہ صداقت ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ تمہارے لئے مشعل راہ نہ ہو ، مانو تو پورا پورا مانو ۔ ورنہ شیطان کی راہیں کشادہ کشادہ ہیں اور جان لو کہ اسلام کو چھوڑ کر مسلمان کے لئے اس آسمان کے نیچے کہیں فلاح وبہبود کی امید نہیں کی جاسکتی ، شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے ۔ اس کی پیروی خدا سے مخالفت کرتا ہے مسلمان کے سامنے صرف دو راہیں ہیں ، یا تو اسلام کی راہ اور یا شیطان کی درمیان میں کوئی تیسری راہ نہیں ۔ وہ شخص جو زندگی کے کسی شعبہ میں مسلمان نہیں ‘ وہ شیطان کی پیروی کر رہا ہے اور خدا کی اطاعت شیطان کی پیروی کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی پس ضروری ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو کاملا اسلام کے گہرے رنگ میں ڈبو دیں اور ہمارے اعمال ہر طرح اسلامی ہوں ۔ حل لغات : بشری : مصدر شرآء بعضے بیچنا ۔ زللتم : مصدر ذلۃ ، پھسلنا ، پاؤں کا رپٹ جانا ۔ البقرة
209 البقرة
210 خدا کی آمد : (ف ١) وہ لوگ جو منکر ہیں ان کو ہرچند دلائل وبراہین سے قائل کرنے کی کوشش کی گئی ، لیکن وہ بغض وعناد پر ہی قانع رہے یعنی جب انہیں عاقبت کی سختی سے ڈرایا جاتا تو وہ کہتے ، ہم نہیں ماننے کے ، ہم پر کیوں عذاب نہیں آجاتا ، آخر اس میں تامل کیا ہے ؟ چنانچہ قرآن حکیم نے ان کے اس مقولے کو نقل فرمایا کہ (آیت) ” فاسقط علینا کسفا “۔ یعنی ہم پر آسمان ٹوٹے پڑے ، ہم بالکل اس کے لئے آمادہ ہیں ۔ اس آیت میں بھی ان کی اس ذہنیت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ ان کی سرکشیاں حد سے گزر گئی ہیں اور عذاب الہی کے سوا یہ مجاز ہے مقصد عذاب الہی کی آمد ہے ، قرآن حکیم نے اس طرح کے انداز بیان کو دوسری جگہوں میں استعمال کیا ہے ۔ جیسے (آیت) ” فاتی اللہ بنیانھم من القواعد “۔ یا (آیت) ” فاتھم اللہ من حیث لم یحتسبوا “۔ ورنہ وہ ہر طرح کی جسمانیت سے پاک اور برتر ہے ۔ البقرة
211 البقرة
212 شاہان فقر : (ف ٢) ابتدائے اسلام میں مسلمان بیچارے غریب اور مفلس تھے ، روسائے قریش انہیں دیکھ دیکھ کر ہنستے اور کہتے کیا وہ لوگ ہیں جو دنیا کو بدل دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں ان کے خیال میں غربت وافلاس ایک جرم تھا ناقابل عفو ، قرآن حکیم نے بتایا کہ ان کے پاس گو دولت دنیا کی فراوانی نہیں ، مگر ان کے دل ایمان کی دولت گرانمایہ سے مالا مال ہیں ، گو وہ بیش قیمت ملبوسات سے محروم ہیں ، مگر رضائے الہی کا پر فخر تاج انہیں کے لئے تکلیف دہ ہے مگر جنات ونعیم اور کوثر وتسنیم کی نعمتیں انہیں شاہان فقر کے حصہ میں آئیں گی اور تم جو سرداریوں کے مالک اور خزانوں کے سمیٹنے والے ہو ، خدا کی بادشاہت میں مفلس وقلاش ٹھہرائے جاؤ گے ، تمہارے ہاتھ میں ایک حبہ نہیں ہوگا ۔ تمہارا کبر وغرور تمہیں بےحد ذلیل ورسوا کر دے گا ، تم دیکھو گے کہ وہ جو مطاعن واستہزاء کی آماجگاہ ہیں آج سلام وتحیات کے تحفے وصول کر رہے ہیں اور تم ہر طرف سے لعن وطعن سن رہے ہو ۔ معیار عروج وصدقات : تم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ دولت کی کثرت معیار عروج وصداقت ہے ، حالانکہ یہ غلط ہے ، اللہ کی بخششوں کا کوئی خاص معیار نہیں ، وہ جسے چاہے ‘ دولت کے انبار بخش دے اور جس سے چاہے چشم زدن میں چھین لے ، بڑے بڑے قابل وشریف اور معزز بھوکوں مرتے ہیں اور جو کمینے اور ذلیل ہیں ان کی تجوریاں بھری رہتی ہیں ۔ اسی طرح کفار وفساق کے خزانے معمور ہیں اور مومن ومسلم کوڑی کوڑی کا محتاج ہے ، یہ اس کی بےنیازیاں ہیں کہ وہ بلاحساب ومعیار کے دیتا ہے جس کو چاہے دے ، جتنا چاہے دے ، اس کا ہاتھ روکنے والا کون ؟ البتہ اس چیز کو سلبا یا ایجابا معیار حق وباطل نہ سمجھنا چاہئے ، ایک اللہ کا پیارا بندہ سلیمان (علیہ السلام) ایسی حکومت بھی حاصل کرسکتا ہے اور مسیح (علیہ السلام) ایسا فقیر پیٹ پر پتھر بھی باندھ سکتا ہے ، اور کونین کی بادشاہتیں بھی حاصل کرسکتا ہے ، اس لئے وہ جن کے پاس دولت ہے مگر ایمان کی دولت سے محروم ہیں ‘ مغرور نہ ہوں اور وہ مسلمانوں کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں ، اور وہ جو ایمان کے گنج گراں مایہ سے بہرہ ور ہیں ‘ وہ قلت وفقر کی شکایت نہ کریں اور کفر کے غنا کو دیکھ کر جلیں نہیں ، اس لئے کہ نہ دینے میں اسے دیر لگتی ہے اور نہ چھیننے میں ۔ البقرة
213 (ف ١) ان آیات میں پہلی بات تو یہ بتلائی کہ ابتداء تمام لوگ ایک ہی خیال وفکر کے تھے ، آہستہ آہستہ ضروریات بڑھیں اور اختلاف ہوتا گیا اور جب اختلاف حد سے بڑھ گیا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء مبعوث فرمائے ، تاکہ وہ اختلافات میں انسانی جماعت کی صحیح رہنمائی فرمائیں ، دوسری بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کو کتابیں اور صحیفے دیئے گئے ، اس لئے کہ ان کے بغیر اختلاف کا مٹنا ناممکن تھا اور میری بات یہ کہ مومنین کی جماعت میں اختلاف نہیں ہوتا ، وہ مشکوۃ نبوت کی روشنی مین اپنے خیالات وانکار کو پرکھتے رہتے ہیں ۔ اس لئے ان میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں رہتی ، ان آیات سے مندرجہ ذلیل اصول معلوم ہوئے : ۔ (١) انبیاء علیہم السلام شدید اختلاف رونما ہونے کے وقت آتے رہے ۔ (٢) انہیں فیصلہ کن کتابیں دی جاتی رہیں جس سے اختلافات مٹ جائیں ۔ (٣) ان کے آنے کے بعد متحد الخیال والفکر جماعت پیدا ہوجاتی ہے اور یہی صراط مستقیم ہے ۔ یہ خیال رہے کہ مسیح (علیہ السلام) کے متعلق جو عیسائیوں نے غلو اختیار کیا وہ ان کی غیر حاضری میں پیدا ہوا ، وہ جو کتاب لائے ، اس میں کسی طرح شرک کی تعلیم نہ تھی اور ان کے سچے حواری جن کا قرآن حکیم میں ذکر ہے وہ متحد ومشفق تھے ۔ حل لغات : امۃ : ہر وہ جماعت جو کسی ایک بات میں اشتراک رکھتی ہے ۔ بعث : بھیجا ۔ البقرة
214 راہ عشق کی دشواریاں : (ف ١) غزوہ احزاب میں جب مسلمانوں کے خلاف عرب کی تمام قومیں جمع ہو کر چڑھ آئیں اور اسلام کفر کے عین درمیان گھر گیا تو اس وقت بعض کمزور دل مسلمان گھبرا گئے ، منافقین کو موقع ملا اور انھوں نے ان کی کمزوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو اسلام سے برگشتہ کرنے کی ٹھانی اور کہا کہ دیکھو اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے ہوتے تو آج اس طرح کیونکر کفار کے نرغے میں پھنس جاتے ، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ، جس سے دل مضبوط ہوگئے اور نور یقین سے جگمگا اٹھے اور منافقین کا پھیلایا ہوا ہم رنگ زمین جال تار تار ہوگیا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، اتنی سی آزمائش میں گھبرا گئے ہو ، ہم تک پہنچنے کے لئے کس قدر مصائب جھیلنا پڑتے ہیں ؟ تم سے پہلی قوموں لے کیا کیا دکھ اٹھا لئے ؟ کیا کیا سختیاں برداشت کیں ؟ جانتے ہو ان پر مصائب وحوادث کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ، انہیں دار پر کھینچا گیا ، انہیں زندہ جلایا گیا ، انہیں تنگدستی وافلاس کے ہولناک دوروں سے گزرنا پڑا ، مگر پھر بھی ایمان کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا ، مصیبتیں اس قدر آئیں کہ ان کے پاؤں اکھڑ گئے ابتلا اور آزمائش کی سخت گھڑیوں میں ان کے پاؤں نہیں جمتے تھے ۔ رسول جو پیکر صبر وعزیمت ہوتے ہیں ، چلا اٹھے کہ (آیت) ” متی نصر اللہ “۔ خدایا ! کب مدد پہنچے گی ؟ جب جا کر اللہ نے ان کی سنی اور نصرت واعانت سے انہیں نوازا اور تم ہو کہ یونہی گھبرا گئے ہو ۔ یہ قاعدہ ہے کہ مقصد یا نصب العین جس قدر بلند اور عظیم ہوگا ، اس کا حصول اسی قدر کٹھن ہوگا ۔ اللہ کی رضا ، اس کی خوشی جس پر ہماری تمہاری مسرتیں قربان ہیں ‘ کتنا بلند مقصد ہے ، اس لئے ضرور ہے کہ اس کا حصول بھی مشکل ہو ، ان آیات میں یہی بتایا گیا ہے کہ راہ کی دشواریوں سے سالک گھبرا نہ جائے ، راستے میں قدم قدم پر ابتلاء وآزمائش کے کانٹے بچھے ہیں ، سب سے الجھنا ہوگا ، چپہ چپہ اور گوشے گوشے میں حرص وآز کے جال میں بچھے ہیں جن سے ایک دم دامن بچا کے نکل جانا ہوگا اور یہ کہنا ہوگا ۔ ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے : البقرة
215 (ف ٢) یہ ضروری نہیں کہ (آیت) ” یسئلونک “ سے پہلے کوئی سوال بھی ہو ۔ بات یہ ہے کہ قرآن حکیم ضروریات انسانی کے موافق نازل ہوا ۔ اس لئے وہ چیزیں جن کی ہم کو ضرورت ہوتی ہے ‘ وہ اسے (آیت) ” یسئلونک “ کے رنگ میں ذکر کردیتا ہے ، یہ انداز بیان ہے اس لئے اچھے ہر موقع پر شان نزول کی تلاش چنداں مفید نہیں ۔ یہ بھی قرآن حکیم کا مخصوص طرز بیان ہے کہ وہ سوالات جو پیدا ہوتے ہیں ان کا رخ زیادہ اہم اور زیادہ سائستہ اعتناباتوں کی طرف پھیر دیتا ہے ۔ ان آیات میں سوال بظاہر یہ ہے کہ کیا خرچ کریں ، جواب یہ ہے کہ ان ان مقامات پر خرچ کرو ، مقصد یہ ہے کہ بتایا جائے کہ کچھ بھی خرچ کرو ، بہرحال اس کا مصرف صحیح ہونا چاہئے بعض اوقات گراں قدر صدقات بھی صحیح مصرف نہ ہونے کی وجہ سے بیکار ہوجاتے ہیں ، مصرف یہ ہیں ، سب سے پہلے والدین ‘ اس کے بعد اقربا ‘ اس کے بعد یتمی اور مساکین اور اس کے بعد مسافر ، مگر آج ان آیات پر کن کا عمل ہے ہمارے یتیم خانے کہاں ہیں ، مقروض اور مسکین مسلمانوں کے لئے کہاں ٹھکانا ہے ؟ مسافر خانے کس قوم نے تعمیر کئے ہیں ؟ ان سوالات کے جواب مسلمان قرآن حکیم کی روشنی میں سوچیں ۔ حل لغات : الباساء : تکلیف ۔ الضرآء : نقصان ، خیر : بھلائی ۔ مال ۔ ابن السبیل : مسافر ۔ البقرة
216 فرضیت جہاد : (ف ١) ان آیات میں یہ بتایا ہے کہ منجملہ تمام آزمائشوں کے سب سے بڑی آزمائش جہاد ہے ، مال ودولت کی قربانی آسان ہے ، گر سربکف ہو کر میدان جہاد میں نکل آنا مشکل ۔ ہوسکتا ہے کہ بعض طبیعتیں اسے زیادہ کڑی آزمائش تصور کریں ، لیکن اس کے فوائد کے مقابلہ میں یہ کوئی چیز نہیں ، قوموں کی زندگی ان کے جذبہ جہاد سے وابستہ ہے ، وہ جو جنگ سے جی چراتے ہیں ، ان کا قدرت سخت ترین امتحان لیتی ہے ، وہ جن کے ہاتھ اپنی حفاظت میں نہیں رہتے ‘ وہ کچل دیئے جاتے ہیں ، بزدیوں اور کمزوریوں کو جو اپنے سامنے حق کا خون ہوتا دیکھیں اس دنیا میں رہنے کا کوئی حق نہیں ۔ البقرة
217 (ف ١) مکہ والے مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکال چکے انہیں ہر طرح کی تکلیفیں پہنچا چکے ، اب الٹے مسلمانوں پر معترض ہیں کہ یہ کیوں شہرحرام میں ہم سے نبرد آزمائیں ۔ اعتراض کا جواب یہ دیا کہ اشہر حرم کی حرمت وعزت مسلم ، و لیکن تمہاری شرارتیں کیا اس جہاد سے زیادہ خطرناک نہیں ؟ مقصد یہ ہے کہ مسلمان ہر رواداری کے لئے تیار ہے ، مگر حق کی فی بین وہ ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کرسکتا ۔ حل لغات : صد : روکنا ۔ مرتد کے عمل ضائع جاتے ہیں : (ف ٢) کفر کی ہمیشہ یہ کوشش وہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اسلام کو اپنا ہمنوا بنالے ۔ کفار مکہ اور یہودیوں نے ارتداد کے لئے ذلیل سے ذلیل وسائل اختیار کئے ، مگر ایمان کے پکے اور عقائد کے مضبوط مسلمان ہمیشہ ایمان کو بچائے گئے اور وہ خائب وخاسر رہے جو مسلمانوں کے ارتداد کا خواب دیکھا کرتے تھے ۔ ان آیات میں بتایا کہ مرتد جو دین حنیف کا انکار کر دے صراط مستقیم سے دور ہٹ جائے اور جادہ صدق وصفا کو چھوڑ کر نفاق وکفر کی پگڈنڈیوں پر ہولے ، وہ کبھی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا ، اس کی کوشش رائیگاں جائے گی اور اس کے اعمال اسے ذرہ برابر فائدہ نہیں پہنچائیں گے ، ارتداد اسلام کا بحیثیت مجموعی انکار کرتا ہے ، اس کی سزا عقبی میں سخت ترین ہوگی ، دنیا میں قتل ہے ، چنانچہ بنی اسرائیل جب موسیٰ (علیہ السلام) کی غیر حاضری میں مرتد ہوگئے اور بچھڑے کو پوجنے لگے تو (آیت) ” فاقتلوا انفسکم “ کی سزا ان کے لئے تجویز کی گئی ، عرنینن جب جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں مرتد ہو کر بھاگ گئے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی انہیں قتل کی سزا دی ، اور یہ بھی فرمایا کہ (آیت) ” من بدل دینہ فاقتلوہ “ کہ مرتد کی سزا قتل ہے ، اس آیت میں بھی (آیت) ” حبطت اعمالھم فی الدنیا “۔ کا لفظ ان کے قتل کی طرف اشارہ کر رہا ہے اور یہ اس لئے کہ اسلام عقل ودانش کا دین ہے ، وہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ سوچ سمجھ کر اسلام کو قبول کرو ، اور جب تک سوفی صدی یقین نہ آجائے ، ایمان نہ لاؤ اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص اسلام کو ترک کرتا ہے تو وہ توہین مذہب کا مرتکب ہوتا ہے جس کی سزا قطعی قتل ہونا چاہئے ۔ البقرة
218 (ف ٢) مجاہدین ومہاجرین ہی اللہ تعالیٰ کی بیش قیمت نعمتوں کے سزا وار ومستحق ہیں ، اس لئے کہ یہی پاک نفوس وہ ہیں جنہوں نے لذات نفس سے کنارہ کشی کی اور حق کے لئے ہر طرح کی مصیبت کو گوارا کیا ، اسلام مسلمانوں کے لئے دو راہیں تجویز کرتا ہے ، یا تو وہ باطل سے معرکہ آراہوں اور یا اس زمین کو چھوڑ دیں جو ان کے لئے فتنہ کا باعث ہو ، گویا مسلمان ضمیر کا آزاد پیدا کیا گیا ، وہ غلامی اور بزدلی کو قطعا برداشت نہیں کرسکتا ۔ وہ اپنے آرام وآسائش کو ترک کرسکتا ہے ، مگر حق سے کنارہ کشی وعلیحدگی اس کے لئے سخت مشکل ہے ، (آیت) ” واللہ غفور رحیم “۔ کے معنی یہ ہیں کہ جہاد سب سے بڑی عبادت ہے اور مجاہد سب سے بڑا مرتاض ، اس لئے خدا کی رحمتیں اس کے لئے نسبتا زیادہ وسیع ہوں گی ، اس لئے چاہئے کہ مسلمان بھی مجاہدین کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے متہم نہ کریں ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی بڑی منزلت ہے ، وہ شخص جو اپنا سر لے کر خدا کے حضور میں پہنچ جائے ، اس سے اور کس چیز کی امید رکھتے ہو ؟ کیا اس سے کوئی اور بڑی قربانی ہو سکتی ہے ؟ البقرة
219 شراب اور جوا : (ف ٣) اسلام سے پہلے جوئے اور شراب کے سختی سے عادی تھے اور وہ شخص جو شراب نہ پئے اور جوا نہ کھیلے اسے کہتے تھے ‘ یہ ” برم “ ہے یعنی کمینہ ہے اور سوسائٹی کے لئے باعث توہین ہے ۔ حضرت عمر (رض) جو انوار نبوت کے اکتساب میں یدطولی رکھتے تھے اس کو بہت برا جانتے تھے ، انہوں نے دعا کی ، اے اللہ ! شراب کے متعلق فیصلہ کن حکم نازل فرما ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ شراب اور جوئے میں گو عارضی فائدے بہت ہیں ، لیکن مستقل نقصان کہیں زیادہ ہے ، اس لئے یہ دونوں چیزیں بری ہیں ۔ اس کے بعد حضرت عمر (رض) نے فرمایا ، اس سے بھی زیادہ واضح حکم نازل ہو تو سورۃ نساء کی یہ آیات نازل ہوئیں ۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تقربوا الصلوۃ وانتم سکری “۔ مگر اس میں بھی تھوڑی سی رعایت تھی ، اس لئے پھر مطالبہ کیا گیا تو آخری اور فیصلہ کن آیت نازل ہوئی کہ (آیت) ” فھل انتم منتھون “ کہ رکتے بھی ہو یہ نہیں ۔ اس پر انتھینا انتھینا کی صدائیں بلند ہوئیں ، ساغر ومینا کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے گئے اور صدیوں کے رسیا ایک دم پارسا بن گئے یہ اسلام کا اعجاز ہے ۔ حل لغات : یرتدد : ارتداد ، پھر جانا ۔ الخمر : ہر وہ چیز جو دماغ وعقل کو بےقابو کر دے ۔ میسر : جوا ۔ قمار بازی ۔ (ف ١) جوئے اور شراب کی حرمت کے بعد جذبہ سخاوت کو کہاں صرف کیا جائے ، ان آیات میں اس کا جواب دیا ہے کہ جو ضروریات سے زائد ہو ، اسے شراب وقمار کی بجائے نیک کاموں میں صرف کرو ۔ البقرة
220 (ف ٢) یتامی کے متعلق اسلام نے سختی سے ان کے اولیا اور سرپرستوں کو ڈانٹا کہ ان کا مال کھانے سے باز آؤ چنانچہ فرمایا (آیت) ” ولا تقربوا مال الیتیم “۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ وہ لوگ جو دیانت دار تھے اور یتامی سے سچی ہمدردی رکھتے تھے ، ڈرے اور ان کے لئے یتامی کی تربیت سخت مشکل مسئلہ بن گئی ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر مقصد اصلاح ہو تو پھر مخاطب میں جو ناگزیر حالات تک ہو مضائقہ نہیں اس لئے کہ وہ بھی تو آخر تمہارے بھائی ہیں اور اچھے سلوک کے مستحق ہیں ، البتہ یہ ملحوظ رہے کہ ادنی سی بےانصافی بھی اللہ تعالیٰ سے چھپی نہیں رہ سکتی ، وہ خوب جانتا ہے کون اصلاح کے ارادہ سے یتامی پرداری کر رہا ہے اور کون وہ ہے جس کی نیت ان کو لوٹنے کی ہے ، اسلام نے یتامی کی تربیت پر بہت زور دیا ہے ، اس لئے کہ یہ قوم کے بچے ہوتے ہیں اور کوئی قوم اس وقت تک کود دار قوم نہیں کہلا سکتی جب تک وہ اپنے یتیم بچوں کی پرورش نہ کرے ۔ حل لغات : امۃ : لونڈی ۔ باندی بندی ۔ البقرة
221 مشرکین سے رشتہ ناطہ ممنوع ہے : (ف ١) مشرک اور مشرکہ کی اصطلاح قرآن حکیم میں غیر کتاب یا غیر الہامی قوموں میں ہے ، عیسائی بھی مشرک ہیں اور یہودی بھی لیکن قرآن حکیم نے ان سے رشتہ مناکحت کو جائزتصور فرمایا ہے (اس صورت میں کہ مرد مسلم ہو) اس کی ایک معقول وجہ ہے عام طور پر ازدواجی تعلقات وحدت خیال اور وحدت مذاق کو دوسری تمام ترجیحات سے ضروری قرار دیا جاتا ہے اور یہ اس لئے کہ اس کے بغیر یہ رشتہ قائم نہیں رہتا ، شادی کا مقصد ہی جب کامل سکون ہے اور بیوی ہوتی ہی یہ ہیں کہ اس کے ساتھ وابستہ ہو کر مرد تمام پریشانیوں کو بھول جائے جیسا کہ قرآن حکیم نے فرمایا (آیت) ” لتسکنوا الیھا “۔ تو ضروری ہے کہ جانبین زیادہ سے زیادہ حدتک خیالات اور رجحانات میں ہم آہنگ ہوں ۔ اہل کتاب اصولا توحید کے قائل ہیں ، کم از کم ان کی کتابوں میں تو ذکر ہے سلسلہ نبوت کو جانتے ہیں ، حشر ونشر پر ان کا اعتقاد ہے تمام انبیاء سے متعارف ہیں ، اس لئے وحدت خیال کے بہت سے موقع موجود ہیں ۔ اس لئے اسلام نے اجازت دے دی کہ ان سے ازدواجیات کے تعلقات ہو سکتے ہیں ۔ مگر مشرک مرد اور مشرک عورت کے طبیعت اور خیالات میں زمین وآسمان کا فرق ہے ، اس لئے ان سے رشتہ ناطہ ممنوع ہے اور اس حد تک ممنوع ہے کہ مال ودولت یا حسن وجمال کی فراوانی بھی وجہ جواز نہیں بن سکتی ۔ قرآن حکیم نے فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ مشرک عورتیں تمہیں زیادہ جاذب اور خوبصورت معلوم ہوں یہ بھی ممکن ہے کہ مشرک مرد تمہیں زیادہ کامیاب اور فارغ البال نظر آئیں مگر اس لئے کہ روح کی خوبصورتی سے محروم ہیں اور دولت ایمان نہیں رکھتے ، یہ کسی طرح بھی مومن مرد اور مومن عورت کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ اس قسم کے رشتہ جن میں عقائد وخیالات کی چنداں پرواہ نہیں کی جاتی تربیت اولاد کے حق میں سخت مضر ثابت ہوتے ہیں بچے عام طور پر والدہ اور والد کے خیالات کے تابع ہوتے ہیں اور اگر وہ دیکھیں کہ دونوں ماں اور باپ مذہب کے اعتبار سے مختلف ہیں تو وہ کسی خاص خیال کو دل میں جگہ نہیں دیتے اور دہریت والحاد میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ (آیت) ” اولئک یدعون الی النار “ ۔ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ رشتہ مناکحت بجائے خود ایک دعوت ہے اس لئے وہ لوگ جو کامل مسلمان نہیں ہیں ‘ عیسائی عورتوں سے حتی الوسع بچیں ، ایسا نہ ہو کہ وہ انہیں بھی عیسائیت کے سیلاب میں بہا کرلے جائیں اعاذنا اللہ ۔ البقرة
222 (ف ٢) قرآن حکیم ایسی کتاب ہے جس میں ہماری تمام ضروریات زندگی کو برملا بیان کردیا گیا ہے اور تمام آداب حیات کو واضح طور پر ظاہر کردیا گیا ہے تاکہ مسلمان کسی بات میں جاہل نہ رہیں ۔ حسن معاشرت اخلاق کا ایک اہم حصہ ہے اور وظائف جنسی کی تشریح وتوضیح ان حالات میں اور بھی ضروری ہوجاتی ہے ، جبکہ قوم میں شہوانی جذبات زیادہ ہوں ، قرآن حکیم کے زمانہ میں ایسے لوگ تھے جو اس معاملے میں جائز وناجائز کا خیال نہیں رکھتے تھے ، جیسا کہ ابو الاجداح کے سوال سے مترشح ہوتا ہے ، اس لئے فرمایا کہ حیض کے دنوں میں مباشرت ممنوع ہے ، اخلاقا بھی اور طبعا بھی ” اذی کا لفظ وسیع ہے اور ان دونوں معنوں کو شامل ہے ۔ حل لغات : عبد : غلام خدا کا بندہ ۔ محیض : بمعنی حیض ۔ البقرة
223 تربیت اولاد : (ف ١) اس لئے پیشتر کی آیات میں بتایا گیا تھا کہ عورت کی عزت وحرمت کے یہ منافی ہے کہ تم اس سے ہر حال میں جنسی جذبات کی توقع رکھو ان آیات میں بتایا کہ عورت کی حیثیت ودرجہ کیا ہے ۔ اسلام سے پہلے عورتوں سے نہایت برا سلوک کیا جاتا تھا ، اسلام نے آکر بتایا کہ عورتیں عزت واحترام کی مستحق ہیں اور کھیتی کی مانند ہیں ، جس طرح ایک کسان اور زمیندار اپنی کھیتی کا خیال رکھتا ہے اس کی حفاظت کرتا ہے اور اسے اپنی قیمتی متاع سمجھتا ہے اسی طرح مسلمان کو عورت کی عزت کرنا چاہئے ، جس طرح کھیتی سے ہمارے لئے مختلف النوع چیزیں مہیا ہوتی ہیں ، اسی طرح عورتیں ہمارے لئے ہماری اولاد پیدا کرتی ہیں اور جس طرح ایک کاشت کار کی غرض یہ ہوتی ہے کہ پیداوار قیمتی ہو ، اسی طرح مرد کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ نیک اور تندرست نسل پیدا کرے جو اس کے لئے اور امت مسلمہ کے لئے باعث برکت ثابت ہو ، یعنی ان کی تربیت میں شدید سے شدید محنت برداشت کرے ، بالکل کسان کی طرح کہ وہ سخت جاڑوں میں بھی صبح صبح کھیت میں پہنچ جاتا ہے ، (آیت) ” وقدموا لانفسکم ، وبشرالمؤمنین “ کا مطلب صاف صاف یہ ہے کہ تم اس رشتہ کی اہمیت کو سمجھو ، صرف وضائف جنسی کا کسی نہ کسی طرح ادا کردینا کوئی قابل اجر بات نہیں ، البتہ نیک ومستعد اولاد پیدا کرنا ضرور لائق بشارت وتبریک ہے ۔ البقرة
224 (ف ٢) ان آیات میں یہ بتلایا گیا ہے کہ خدا کی قسم سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ ، یعنی اگر کسی اچھے کام کے نہ کرنے پر قسم کھالو تو اسے توڑ دو میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ حدیث میں آیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب کوئی شخص کسی بات کے متعلق قسم کھالے اور اس کے بعد اسے محسوس ہو کہ اس نے غلطی کی ہے تو قسم توڑ دے اور کفار دے دے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی حالت میں بھی مسلمان کو نیکی کرنے سے نہیں روکتے ۔ البقرة
225 (ف ٣) قسم کھانے کی ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق قصد وارادہ سے نہیں ہوتا ، بلکہ عادۃ یونہی اس نوع کے کلمات منہ سے نکل جاتے ہیں قضاءً اور عنداللہ بہ حلف نہیں سمجھا جائے گا ۔ البقرة
226 ایلاء کا حکم : (ف ١) ایلاء کے مفہوم میں اختلاف ہے لغۃ قسم کھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، شرعا متفق علیہ مفہوم جس پر جمہور کا اتفاق ہے ، وہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی عورت کی مقاربت سے چار مہینے سے زائد مدت کے لئے پرہیز کا عہد کرلے اور ہم کھالے کہ وہ اس عرصے میں عورت کے نزدیک نہیں جائے گا اور چار مہینے یا اس سے کم مدت کے لئے قسم کھائے تو اس کا حکم یمین بعض کا حکم ہوگا ایلاء کا نہیں ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر فقہائے عظام کا یہی مذہب ہے ۔ جب یہ صورت حالات پیدا ہوجائے تو پھر یا تو چار مہینے صبر کرکے رجوع کرلے تو اس صورت میں کوئی کفارہ نہ ہوگا اور یا اگر مدت سے پہلے رجوع کرلے تو کفارہ یمین دے اور اگر کوئی طور پر انقطاع کا قصد ہو تو طلاق دے دے ، رجوع کے متعلق فرمایا (آیت) ” واللہ غفور حلیم “۔ یعنی نباہ کرنا بہرحال بہتر ہے قسم کی پرواہ نہ کرو ۔ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیں گے اور طلاق کے متعلق فرمایا ۔ (آیت) ” فان اللہ سمیع علیم “۔ یعنی اللہ تعالیٰ مانتے اور سنتے ہیں کہ تم دونوں میں سے کون ظالم اور کون مظلوم ہے لہذا طلاق کے معاملے میں احتیاط ضروری ہے ، ذرا سی غفلت میں دونوں زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں ۔ البقرة
227 البقرة
228 مطلقہ اور اس کی عدت : (ف ٢) اسلام نے جہاں عورت کی عزت وحرمت کا جائز اعتراف کیا ہے وہاں اس نے اس کی نفسیات کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے اور جو بات کہی ہے وہ عین فطرت نسوانی کے لئے مفید ہے ، مثلا طلاق اصولا دونوں دونوں طرف سے ہو سکتا ہے اور دونوں کو ایک دوسرے سے اس درجہ شکایت ہو سکتی ہے کہ وہ علیحدہ ہوجانے پر مجبور ہوں ، مگر عورت از خود اس کی مجاز نہیں اور یہ اس لئے کہ عورت فطرتا عقل سے جذبات کی زیادہ تابع ہوتی ہے ، اسے اگر طلاق وتخلی کے اختیارات دے دیئے جائیں تو وہ اپنی زندگی نہایت تکلیف میں بسر کرے اور تلخ کرلے ۔ وہ لوگ جنہوں نے اسلامی نظام طلاق کا مطالعہ نہیں کیا ، معترض ہیں کہ دیکھئے اسلام نے کس طرح عورت کے حق ازواج کو چھین لیا ہے اور ہر وقت اسے طلاق کے ڈر سے سہما رکھا ہے ، حالانکہ طلاق کی حیثیت بغض المباحات کی ہے یعنی ناپسندیدہ مگر ناگزیر علیحدگی کی کیا اس قسم ونوع کے حالات پیدا نہیں ہوتے ، کہ میاں بیوی الگ ہوجائیں ، اس سے دونوں کی عزت محفوظ ہوجاتی ہے ، دونوں ایک دوسرے کی جانب سے عافیت میں ہوجاتے ہیں اور دونوں آزاد ہوجاتے ہیں کیا شادی کرلینے کے بعد مرد بہرحال نباہ کرنے پر مجبور ہے جبکہ اس کا دل نہیں چاہتا ۔ بات یہ ہے کہ ہم معاملات کو واقعات اور انسانی فطرت کی روشنی میں نہیں دیکھتے بلکہ ان کی محض منطق وقیاس کی رو سے دیکھتے ہیں ۔ یعنی ہم صرف معاملہ کے اس پہلو کو بھول جاتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا ۔ قرآن حکیم نے مطلقات کو تین قروء کی جو رعایت دی ہے اس لئے ہے کہ شاید دونوں میں صلح ہوجائے اور دونوں پھر بدستور میاں بیوی رہیں ، مطلقات سے مراد وہ عورتیں ہیں جو مدخولہ ہوں اور حاملہ نہ ہوں ، غیر مدخولہ کا حکم الگ ہے ، اس کے متعلق فرمایا (آیت) ” فمالکم علیھن من عدۃ تعتدونھا “۔ حاملہ کے متعلق ارشاد فرمایا : (آیت) ” واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن “۔ قروہ کے متعلق اختلاف ہے ، بعض کے نزدیک اس سے مراد مدت ظہر ہے اور بعض کے نزدیک مدت حیض اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ قروء زوات الاضداد میں سے ہے ، اس کا اطلاق حیض اور ظہر دونوں پر ہوتا ہے ، قروء کے اصل معنی مدت واجل کے ہیں جیسے ھبت الریاح لقرونھا ، چونکہ ظہر وحیض دونوں ایک قسم کی مدت ہیں ‘ اس لئے دونوں پر لغوا اطلاق درست ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن و احادیث میں یہ لفظ دونوں معانی میں برابر استعمال ہوا ہے حیض کے لئے جیسے فرمایا ” دعی الصلوۃ ایام اقرائک بالطلاق الامۃ تطلیقتان وعدتھا حیضتان “۔ ظہر کے لئے جیسے قرآن میں فرمایا (آیت) ” فطلقوھن لعدتھن “ اور ظاہر ہے کہ عدت طلاق طہر ہے ، مگر مقصد چونکہ مہلت دینا ہے ‘ اس لئے اوسع اور تین مراد لیا اور یہ منشائے شریعت کے زیادہ مطابق ہوگا ، لہذا حیض زیادہ قرین قیاس ہے اور یوں دونوں معانی کے لئے گنجائش ہے ، عورت کو یہ ہدایت کی کہ ہو جو کچھ اس کے رحم میں ہے چھپائے نہیں ، اس لئے کہ فیصلہ اس صورت میں صرف عورت کی بات پر ہوگا ۔ یہ بھی فرمایا کہ اثنائے عدت میں مردوں کو اختیار رجوع ہے ، اگر وہ اصلاح چاہیں ، اس کے بعد یہ بتایا کہ عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے ، بجز اس کے کہ مردوں کے ذمہ نفقہ وقیام کی ذمہ داریاں ڈال دی گئی ہیں ، اس لئے معمولی باتیں طلاق وتخلی کا باعث نہ بنیں اور حتی الوسع صلح کرلی جائے ۔ البقرة
229 (ف ١) ان آیات میں طلاق کی تحدید فرما دی ، زمانہ جاہلیت میں لوگ بار بار طلاق دیتے اور رجوع کرلیتے جس کی وجہ سے عورتیں بیچاری مردوں کے مظالم کی تختہ مشق بنی رہتیں ، اسلام نے عورتوں پر یہ احسان کیا کہ طلاق کی تحدید کردی ، (آیت) ” تسریح باحسان “ کے معنی یہ ہیں کہ حسن معاشرت اور اخلاق عالیہ بہرحال قائم رہیں ، عورت کو طلاق دینے کے معنی صرف یہ ہونا چاہئیں کہ وہ باعزت طور پر رشتہ مناکحت کو توڑ دے اور بس عورت کو بدنام کرنا یا اس کی توہین کرنا درست نہیں ، بلکہ اگر ایسے مواقع پر عورت کو کچھ دے دے ، بطور الوداعی تحفے اور یادگار کے طور پر تو یہ زیادہ موزوں ہے ، وہ عورت جو مدتوں تمہاری رفیق حیات رہی ہے ‘ کیا اس وقت تمہارے حسن اخلاق کی مستحق نہیں ۔ احسان کی ایک صورت یہ ہے کہ جو کچھ اسے دیا گیا ہے طلاق کے وقت واپس نہ لیا جائے ، حل لغات : تسریح : چھوڑ دینا ۔ افتدت : فدیہ یا معاوضہ دیا ۔ البقرة
230 حق خلع : البتہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اگر عورت کی طرف سے مطالبہ تخلی ہو تو وہ دے دلا کر مرد کو راضی کرلے اور طلاق حاصل کرلے ، اس کا نام اسلامی اصطلاح میں خلع ہے ، یہ عورت کا حق ہے جو اسلام نے بخشا ہے مگر افسوس کہ آج عورتیں اس حق سے محروم ہیں ۔ (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ جب عدت میں رجوع کی گنجائش ہو اور اس وقت دو ہی صورتیں ہیں ، یا تو حقوق زوجیت ادا کیا جائے اور پھر انہیں باقاعدہ شرافت کے ساتھ الگ کردیا جائے ، انہیں محض دیکھ دینے کے لئے بار بار رجوع کرنا ، جیسے جاہلیت کے زمانہ میں کرتے تھے ، ناجائز ہے کیونکہ نکاح ایک مقد عہد ہے جس کی رعایت حتی الوسع ضروری ہے اور جب آدمی مجبور ہی ہوجائے تو پھر الگ ہوجائے ، مگر تکلیف نہ دے ، اس لئے یہ اخلاق وتقوی کے خلاف ہے ۔ (آیت) ” بلغن اجلھن سے مراد اس زمانہ آخری کے قریب قریب پہنچنا ہے کیونکہ وقت گزر جانے کے بعد تو اسلام نے رجوع کا حق ہی نہیں رکھا ، تاوقتیکہ وہ مطلقہ عورت کسی دوسرے مرد سے شادی نہ کرے اور وہ اپنی مرضی سے اسے دوبارہ طلاق نہ دے دے ، جسے فرمایا (آیت) ” حتی تنکح زوجا غیرہ “۔ اس صورت میں دوبارہ نکاح ہو سکے گا ۔ اسلام نے یہ سختی اس لئے روا رکھی کہ جانبین کو طلاق کی خرابیوں کا پورا پورا احساس ہو اور وہ جان لیں کہ ایک دوسرے سے باقاعدہ الگ ہوجانے کے بعد مل بیٹھنے کا پھر کوئی موقع نہیں ، تاکہ ان کے جذبہ وغیرت وحمیت کو ٹھیس لگے اور وہ اس مشنوم اقدام سے باز آجائیں اور تاکہ دونوں کو معلوم ہوجائے کہ کس طرح ایک دوسرے سے باقاعدہ الگ رہ کر زندگی کے دن پورے لئے جا سکتے ہیں ، یوں جہاں تک نظام طلاق کا تعلق ہے ، اسلام نے اسے نہایت مشکل مسئلہ بنا دیا ہے ، مرد و عورت کو اصلاح حالات کا پورا پورا موقع دیا ہے ، مثلا یہ فرمانا کہ (آیت) ” فطلقوھن لعدتھن “ ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی عارضی نفرت نہ ہو جو مرد کو طلاق پر آمادہ کرے ، (آیت) ” الطلاق مرتن “۔ کہہ کر گویا مہلت دی ہے کہ اس عرصے میں رجوع کرلے ، پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فرمانا کہ ” الطلاق ابغض المباحات “۔ کہ طلاق بدترین جواز ہے ، بجائے خود یہ ترغیب مصالحت ہے ، ان حالات کے بعد بھی اگر کوئی مجبور ہوجائے تو پھر ظاہر ہے کہ ان کو ایک مدت تک الگ ہوجانا چاہئے اور انتظار کرنا چاہئے ، اگر عورت بیوہ ہوجائے یا دوسرا خاوند طلاق دیدے اور عورت پر نکاح پر راضی ہو تو پھر رشتہ ازدواجی میں منسلک ہوجائیں ، ورنہ اپنے کئے کی سزا بھگتیں ۔ البقرة
231 آیات اللہ سے استہزا : (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو استخفاف واستہزاء کی صورت میں نہ بدل دینا چاہئے جاہلیت میں عرب طلاق دے دیتے اور بعد میں کہتے کہ میں تو محض مذاق کر رہا تھا ، یہ ممنوع ہے ، آج کل بھی تحلیل کے لئے حیلے تراشے جاتے ہیں ‘ وہ نہایت مضحکہ خیز ہیں اور ان سے شریعت غزا کی توہین ہوتی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلالہ سے منع کیا ہے اور محلل کو ملعون قرار دیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس سے زیادہ اللہ کی حدود کی توہین نہیں کی جا سکتی ، بعض لوگ درخت سے مرغے سے اور اس قسم کی دوسری چیزوں سے نکاح کردیتے ہیں ‘ اور بعد میں کہتے ہیں کہ اب تحلیل کا مقصد پورا ہوگیا ہے حالانکہ یہ شریعت اسلامیہ سے محض مذاق ہے ، اسلام جو ہمہ حکمت وموعظت ہے اور جس کی کوئی بات فلسفہ ولم سے خالی نہیں ۔ ہرگز اس نوع کی باتوں کا متحمل نہیں ، یہ بالکل وہی مرض ہے جو یہودیوں میں پایا جاتا تھا ، اس سے نصوص کا احترام اٹھ جاتا ہے اور بدعملی والحاد پھیلتا ہے ۔ اعاذنا اللہ منھا ۔ البقرة
232 (ف ٢) عضل کے معنی روکنے اور مشکل میں ڈالنے کے ہیں دجاجۃ معضلۃ اس مرغی کو کہتے ہیں بمشکل انڈے دے : مضلت الناقۃ اس وقت بولتے ہیں جب اونٹنی کے لئے بچہ جننا مشکل ہوجائے ، داء عضال اس بیماری کا نام ہے جو بمشکل دور ہو ۔ مقصد یہ ہے کہ عدت ختم ہونے کے بعد عورت کو دوسرے نکاح کا حق حاصل ہے اور تمہارے لئے جائز و درست نہیں کہ تم انکے نکاح میں روڑ اٹکاؤ اور ان کی مشکلات میں نہ ڈالو ۔ آیت کا روئے سخن یا تو پہلے خاوندوں سے ہے اور یہ اولیاء سے ، عام طور پر جاہل خاوند طلاق دینے کے بعد کوشش کرتے ہیں کہ ان کی سابقہ بیوی کسی دوسرے سے نکاح نہ کرسکے اس لئے کہ یہ بظاہر ان کی عزت کے خلاف ہے ، وہ ان کے خلاف لوگوں کو اکساتے ہیں ، یہ ناجائز ہے ، اولیاء اور عورت کے دوسرے بزرگ بھی بعض دفعہ انہیں دوسرے نکاح سے روکتے ہیں یہ بھی مصالح کے خلاف ہے ، اس لئے فرمایا کہ ایسا نہ کرو حالات ومستقبل کا علم تمہیں نہیں ، اللہ کو ہے ، وہ خوب جانتا ہے کہ نتیجہ کیا ہوگا ، اس لئے جو حق اللہ نے انہیں دے رکھا ہے ، تمہیں اس سے محروم رکھنا کسی طرح زیبا وجائز نہیں ۔ البقرة
233 مدت رضاعت : (ف ١) اسلام ایسا کامل نظام مذہب ہے کہ اس میں جزئیات تک خاموش نہیں کیا گیا ، لیکن اس حد تک کہ شگفتگی باقی رہے ۔ بظاہر رضاعت کا مسئلہ اتنا اہم نہیں کہ قرآن حکیم ایسی اصولی اسلوب اس کی تفاصیل پر روشنی ڈالے ، مگر جب بغور دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یقینا اس کی ضرورت تھی ۔ دودھ انسانی کی پہلی خوراک ہے جس سے بچے کے ہونٹ مضبوط ہوتے ہیں اور یہ پہلا غذا ہے جو تولید لحم ودم میں بیشتر حصہ بنتا ہے ، اگر اسے زیادہ عرصہ تک جاری رکھا جائے تو بعض اعضا رونما سے بالکل رک جائیں گے اور بچہ باوجود بڑھنے کے اور طاقتور ہونے کے کمزور وناتواں رہے گا یہی وجہ ہے کہ حیوانات بھی دو سال سے زیادہ بچوں کو دودھ نہیں پلاتے ، امکان یہ تھی کہ ماں بتقاضائے محبت رضاعت کو زیادہ وسیع نہ کرے ، اس لئے قرآن حکیم نے جو بجائے خوش شفائے کامل ہے دو سال کی تحدید کردی دوددھ کون پلائیں ۔ (آیت) ” والوالدات یرضعن “ کہہ کر قرآن حکیم نے اخلاق کے بہت پیچیدے مسئلے کو حل فرما دیا ہے ، عام طور پر لوگوں کی نگاہیں اخلاق کے اس پہلو تک نہیں پہنچیں حالانکہ تربیت اطفال کے لئے یہ ایک ہم نکتہ ہے ” ماں کی گود بچے کی تعلیم گاہ ہے “ مشہور فقرہ ہے مگر بہت کم لوگ ہیں جو اس کی حقیقت کو سمجھتے ہیں ۔ قرآن حکیم فرماتا ہے کہ بےشک ماں درسگاہ اطفال میں پہلی معلمہ ہے مگر اس کا طریق تعلیم دودھ ہے ۔ وہ اپنے دودھ کے ذریعے سے بچے کی رگ رگ میں عادات واخلاق غیر محسوس طریق پر داخل کردیتی ہے ، اسلئے ضروری ہے کہ تعلیم یافتہ مائیں اور نیک عورتیں بچوں کو اپنا دودھ پلائیں اور ادنی درجہ کے اخلاق کی عورتوں کے سپرد نہ کریں ۔ ایک اور فائدہ : اس طرح اگر مائیں اپنے بچوں کو اپنی چھاتی سے دودھ پلائیں تو ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ بچوں کے دل میں ابتدا ہی سے محبت وشفقت مادری کے گہرے نقوش کندہ ہوجائیں گے جو آئندہ زندگی میں انہیں سعادت مند اور نیک ” اولاد “ ظاہر کرنے میں زیادہ ممدو معاون ہوں گے بخلاف اس کے وہ بچے جو پیدا ہوتے ہیں نرسوں کے سپرد ہوجائیں ، بڑے ہو کر کسی سکول میں محصور کر دئے جائیں اور جب ہوش آئے تو یورپ کے کالجوں میں پڑھ رہے ہوں ۔ کیا ان سے سعادت مندی اور نیاز مندی کے جذبات کی توقع رکھی جا سکتی ہے ؟ موجودہ تہذیب کے لاتعداد امراض میں سے ایک مرض احساس ” انفرادیت “ بھی ہے جس کے بقا سے مہر ومحبت کا قدرتی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ، قرآن حکیم اسی لئے فرماتا ہے کہ مائیں بچوں کو حتی الوسع اپنی آغوش شفقت سے الگ نہ کریں اور ابتداء سے ان کو ” اجتماعیت “ کا عملی درست دیں ، تربیت اور اخلاق کا یہ کتنا اہم نکتہ ہے جو قرآن حکیم نے یونہی بیان فرما دیا ہے ، (ف ٢) ان آیات میں مندرجہ ذیل مسائل بتائے ہیں : ۔ (١) باپ بچوں کی ماں کا کفیل ہے ، رزق وکوست اس کے ذمہ ہے ۔ (٢) رزق وکسوت عرف عام کے تحت ہونا چاہئے اور اس میں وسعت وطاقت کا پورا پورا خیال رہے ۔ (٣) بچہ کی وجہ سے ماں خاوند کو کوئی ناجائز تکلیف نہ دے اور نہ باپ بیوی کو ۔ (٤) بچے کے دودھ چھڑانے میں دونوں کی رضا جوئی ضروری ہے ۔ (٥) بچے دایہ کے سپرد کئے جاسکتے ہیں ، بشرطیکہ اس کا حق اسے دیدیا جائے ، ۔ (٦) ان سب معاملات میں اتقاء ضروری ہے ۔ ان مسائل کو سیاق طلاق میں اس لئے بیان فرمایا کہ درحقیقت طلاق ہی کی صورت میں بچہ کے متعلق مشکلات پیش آتی ہیں ۔ حل لغات : الرضاعۃ : دودھ پلانا ۔ المولودلہ : باپ ، تشاور : باہم مشورہ کرنا ۔ تسترضعوا : مصدر استرضاع ۔ دودھ پلوانا ۔ البقرة
234 بیوہ کی عدت : (ف ١) قرآن حکیم کی اصطلاح میں زوج کا اطلاق بیوی اور خاوند پر یکساں ہوتا ہے ، اس لئے کہ دونوں ایک دوسرے کے لئے سرمایہ راحت وسکون ہیں اور دونوں کا وجود ایک دوسرے کے لئے ضروری وناگزیر ہے موجودہ تہذیب عورت کو ” نصف بہتر “ سے حیثیت دینے کے لئے تیار نہیں ۔ مگر قرآن حکیم عورت کو ” کل بہتر “ کہتا ہے اور اس لئے اس کے لئے زوج کے لفظ کو استعمال کرتا ہے ، تاکہ معلوم ہو کہ خاوند بیوی سے الگ ومستقل کوئی وجود ہی نہیں رکھتا کہ اس کا کوئی دوسرا نام ہے ۔ ان آیات میں ازواج کا ذکر ہے ، اس سے مراد بیوہ عورتیں ہیں انکی لذت کا ذکر ہے ، چار مہینے دس دن تک انتظار کریں ، اس کے بعد انہیں اختیار ہے ۔ اس مدت میں جنین کا پتہ چل سکتا ہے تین ماہ کے بعد عام طور پر جنین مذکر میں حرکت پیدا ہوجاتی ہے اور جنین مؤنث بھی چار ماہ تک متحرک ہوجاتا ہے ، دس دن اس لئے بڑھا دیئے ہیں کہ تاکہ اگر جنین زیادہ کمزور ہو تو بھی ظاہر ہوجائے ۔ جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ حاملہ کی عدت الگ ہے یعنی اگر ایک عورت بیوہ اور حاملہ ہو تو اس کی عدت بیوہ کی مدت نہیں ہوگی ، چار مہینے اور دس دن ، بلکہ وضع حمل کی عدت ہوگی ، چنانچہ خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سبیعہ ، سلمیہ کو وضع حمل کے بعد نکاح کی اجازت دے دی ، بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اسے بعد الوجلین کو عدت ٹھہرانا چاہئے ، تاکہ عموم وخصوص میں جمع ہوجائے ، یعنی اگر وضع حمل کی مدت زیادہ ہے تو وہ عدت ٹھہرے گی اور اگر عدت کی مدت زیادہ ہے تو وہ سلسلہ جنبانی : بیوہ سے نکاح کے لئے یہ ہدایات دیں کہ تعریض یعنی اشاروں کنایوں میں اظہار مطلب کرنا گناہ نہیں ۔ البتہ ان کی رائے پر جبر کرکے الگ ان سے کوئی وعدہ لے لینا مذموم ہے اور یہ کہ اثنائے عدت میں نکاح کے لئے کوئی پختہ عہد کرنا بھی درست نہیں جب عدت گزر جائے تو پھر اختیار ہے ، اس میں حکمت یہ ہے کہ ایسے معاملات میں جلدی اور انجام کار عجلت اچھی نہیں ہوتی ، بیوہ کو موقع دینا چاہئے کہ وہ اچھی طرح سوچ سمجھ لے ، اس کی رائے آزادنہ ہونی چاہئے دباؤ کسی صورت بھی مفید نہیں ہو سکتا ۔ ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرآن حکیم نے نکاح کے معاملے میں عورت کی آزادی رائے کی کس قدر حفاظت کی ہے اور نسوانی حرمت وعزت کا کس قدر خیال رکھا ہے ، وہ لوگ جو معاملات میں ان باریکیوں کا خیال نہیں رکھتے بالعموم تکلیف اٹھاتے ہیں اور پشیمان ہوتے ہیں ۔ نکاح بیوگان ایک ایسا قانون ہے جس کی صحت اب مخالف حلقوں میں تسلیم کی جارہی ہے ، اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لئے اس نے آج سے چودہ سوسال پہلے اجازت مرحمت فرما دی اور بات بھی معقول ہے جب نکاح ایک دفعہ درست ہے اور سوسائٹی اسے معیوب قرار نہیں دیتی تو پھر یہ دوسری دفعہ کیوں درست نہیں ؟ نکاح بیوگان کی مخالفت قانون فطرت کے خلاف ہے جس سے بہت سی برائیاں پیدا ہونے کا امکان ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمسایہ قومیں اس کو بشدت محسوس کونے لگی ہیں اور عملا اسلام کی اس سچائی کی معترف ہو رہی ہیں ۔ البقرة
235 البقرة
236 البقرة
237 البقرة
238 نماز اور معاملات خانگی : (ف ١) ان آیات میں جو بات قابل غور ہے ، وہ یہ ہے کہ نکاح وطلاق کے عین درمیان نماز کا ذکر ہے ، اس سیاق کا فلسفہ کیا ہے ؟ نکاح وطلاق کے مسائل جو یکسر خانگی معاملات ہیں ‘ نماز سے کیا تعلق وربط رکھتے ہیں جو خالص روحانی عبادت ہے اور کیوں نماز کو عین ان مسائل کے درمیان بیان کیا ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ قرآن حکیم مضامین کے بیان کرنے میں کسی اکتسابی اسلوب بیان کا محتاج نہیں ، اس کا انداز بیان اپنا ہے اور فطری ہے ، جس طرح انسان سوچتے وقت کسی خاص منطقی طریق کا پابند نہیں ہوتا اور خیالات تنوع کے ساتھ دماغ میں آتے ہیں ، اسی طرح قرآن حکیم کے مضامین اپنے اندر ایک عجیب تنوع لئے ہوئے ہیں جن میں گو مصنوعی ترتیب نہیں ہوتی ، مگر قدرتی ربط اس نوع کا ہوتا ہے کہ پڑھنے میں دلچسپی قائم رہتی ہے ۔ دوسری خاص وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بتانا یہ مقصود ہے کہ نماز ومعاملات میں ایک گہرا ربط ہے ، وہ لوگ جو نماز تو پڑھتے ہیں ، مگر معاملات خانگی ہیں اچھے ثابت نہیں ہوتے ، وہ نماز کا مفہوم نہیں سمجھتے ، نماز ایک خاص نوع کی روحانی ریاضت ہی کانام نہیں ، بلکہ اس کا تعلق اعمال کے ساتھ ہے اور اس حد تک ہے کہ وہ لوگ جو حقوق الناس کا خیال نہیں رکھتے صحیح معنوں میں عبادالرحمن نہیں ، نماز کے معنی ایک ذہنی عملی انفرادی اور اجتماعی انقلاب کے ہیں جو نماز میں پیدا ہوجاتا ہے یعنی نماز پڑھنے سے نماز کا ہر حصہ زندگی متاثر ہوتا ہے ، بلکہ بدلتا ہے ۔ (آیت) ” ان الصلوۃ تنھی عن الفحشآء والمنکر “۔ کا یہی مفہوم ہے ۔ صلوۃ وسطی سے مراد بہتر ، زیادہ مراتب ودرجات کی حامل نماز کے ہیں ، اس لئے لفظ وسط جس کے معنی درمیان کے ہوتے ہیں ، اس سے تفصیل کا صیغہ مشتق نہیں ہوتا ، پھر اس کے مصدوق میں اختلاف ہے ۔ زیادہ قرین صحت یہ ہے کہ اس سے مراد عصر کی نماز ہے ۔ نماز کی تاکید اس قدر زیادہ ہے کہ حالت جنگ میں بھی اسے ترک نہیں کیا جاسکتا ، اگر سواری کی صورت میں ممکن ہو تو سواری پر پڑھ لے ، ورنہ کھڑے کھڑے ادا کرلے ، بہرحال معاف نہیں ہو سکتی ، اس لئے کہ یہی تو وہ چیز ہے جس سے فرائض کا احساس ہوتا رہتا ہے اور جس سے مسلمانوں کی فلاح وبہبود وابستہ ہے ۔ البقرة
239 البقرة
240 (ف ٢) ان آیات میں یہ بتایاس ہے کہ اگر بیوہ عورتوں کے متعلق ان کے خاوند وصیت کرجائیں کہ انہیں ایک سال تک مکان سے نہ نکالا جائے تو اس پر عمل کیا جائے ، اگر وہ خود اس عرصہ میں نکلنا چاہیں تو مضائقہ نہیں ۔ سلف میں اس آیت کے متعلق اختلاف ہے کہ یہ منسوخ ہے یا محکم ، اکثریت کی رائے ہے کہ منسوخ ہے ، آیت وصیت کی وجہ سے اور آیت عدت کی وجہ سے ۔ مگر ان آیات میں تطبیق بھی ممکن ہے آیت وصیت وعدت میں احکام ہیں اور اس آیت میں فوق الاحکام ، حسن سلوک یعنی اگر کوئی شخص حقوق سے زیادہ کچھ دینا چاہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ حل لغات : قنتین : خشوع وخضوع ، مادہ قنوت : البقرة
241 (ف ١) (آیت) ” وللمطلقت متاع “۔ کے معنی ہیں کہ طلاق محض اختلاف رائے کا نتیجہ ہے ، کسی بغض وعناد کا نتیجہ نہیں ، یعنی اگر طلاق دو تو اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ تم بعض وجوہ کی بنا پر اکٹھے نہیں رہ سکتے ۔ نہ یہ کہ مطلقہ حسن سلوک کی مستحق نہیں رہی ، قرآن حکیم کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان بہرحال اخلاق عالیہ کا مظاہرہ کرے اور کسی حالت میں بھی حسن سلوک کی فضیلت کو فراموش نہ کرے ۔ حل لغات : الوف : ہزاروں ، جمع الف ۔ حذر : خوف ، ڈر ۔ البقرة
242 البقرة
243 (ف ١) اس سے پیشتر کی آیات میں قوم بنی اسرائیل کا واقعہ ذکر فرمایا ہے کہ کس طرح وہ جہاد سے ڈر کر بھاگ کھڑے ہوئے اور کس طرح موت کے چنگل میں گرفتار ہوگئے اور پھر کیونکر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندگی بخشی مقصد یہ ہے کہ جہاد کی اہمیت بتلائی جاوے اور یہ بتلایا جاوے کہ موت بہرحال آنے والی چیز ہے ، اس سے مفر نہیں ، اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ موت خدا کی راہ میں آئے ۔ اس کے بعد دعوت جہاد ہے اور اس کا ذکر ہے ، کہ خدا کو قرض دو ، تاکہ قیامت کے دن اسے کئی گنا زیادہ کرکے تمہیں اجر کی صورت میں بدل دے ۔ اللہ تعالیٰ بےنیاز ہے ۔ اسے ہمارے مال ودولت کی ضرورت نہیں ، اس کے خزانے بھرے پڑے ہیں ، البتہ ہمیں توشہ آخرت کی سخت حاجت ہے ، اس لئے فرمایا کہ تم اپنے لئے اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں اعمال کی دولت کو جمع کراؤ وہ اسے بڑھاتا رہے گا اور تمہیں کئی گنا نفع کے ساتھ واپس کرے گا ۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوالاجداح انصاری (رض) نے پوچھا کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگتے ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” ہاں “ تو کہا ہاتھ بڑھائیے ، اس کے بعد باغ کو اللہ کی راہ میں دینے کا اعلان فرما دیا جس میں تقریبا چھ سو درخت کھجور کے تھے ۔ آیت کو ان الفاظ پر ختم فرمایا کہ (آیت) ” واللہ یقبض ویبصط والیہ ترجعون “۔ مقصد یہ ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے آدمی مفلس وقلاش نہیں ہوجاتا ، یہ تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور یہ جان لو کہ تمہیں اس کے حضور میں پیش ہونا ہے ، تم چاہتے ہو کہ تم احکم الحاکمین کی جناب میں خالی ہاتھ جاؤ ۔ حل لغات : الملا : شرفاء کی جماعت ۔ البقرة
244 البقرة
245 البقرة
246 بنی اسرائیل کی بزدلی : (ف ١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد جب عنان نبوت حضرت شموئیل (علیہ السلام) کے ہاتھ میں آئی تو بنی اسرائیل نے کہا ، ہمیں جہاد کرنے میں کوئی تامل نہیں ، آپ ایک امیر مقرر فرما دیجئے ، اس پر کہا گیا کہ اس کی کیا ضمانت ہے کہ تم بالضرور جہاد پر آمادہ ہوجاؤ گے ، تو ایسا تو نہیں کہ فرضیت جہاد کے بعد تمہاری ہمتیں جواب دے جائیں ، انہوں نے کہا ایسا کیونکر ممکن ہے ؟ جبکہ ہم مظلوم ہیں اور مہاجر ہیں ، مگر جب جہاد فرض کردیا گیا اور حکم آگیا کہ اب لڑو تو بجز چند بہادروں کے سب پھرگئے ، اس سارے قصہ سے جو بہت طوالت کے ساتھ دہرایا گیا ہے مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہر طرح جہاد کے لئے آمادہ وتیار کردیا جائے اور پہلے راہ کی مشکلات بتا دی جائیں ، تاکہ بعد میں وہ بھی بنی اسرائیل کی طرح عذرومعذرت نہ کریں اس سے مراد امیر جماعت ہے جو نبی کی غیر حاضری میں سالار عسکر ہو ، یہ غلط ہے کہ اس وقت چونکہ حضرت شموئیل بوڑھے تھے ، اس لئے ایک امیر کی ضرورت پڑی کیونکہ نبی جب تک دنیا میں رہتا ہے اس کی قوتیں جوان رہتی ہیں اور وہ ایک لمحہ کے لئے بےکار نہیں ہوتا ، یہ بھی غلط ہے کہ بنی اسرائیل میں نبوت وامارت دو الگ الگ شعبے تھے ، اس لئے نبی وہ جامع کمال شخصیت ہوتی ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے مستقل وجود کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ۔ حل لغات : بعث : بھیجا ، مقرر کیا ۔ انی : کیونکر ، کیسے سعۃ : فراوانی ، کشائش ۔ البقرة
247 معیار امارت : (ف ١) جناب طالوت (علیہ السلام) کو حضرت شموئیل (علیہ السلام) نے امیر مقرر کردیا اور بنی اسرائیل سے کہا ، تمہارا مطالبہ پورا ہوا ۔ اب جہاد کے لئے تیار ہوجاؤ تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ طالوت کو ہم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ، اعتراض یہ تھا کہ طالوت (علیہ السلام) کے پاس مال ودولت کے ڈھیر نہیں اور وہ سرمایہ دار نہیں آپ نے جواب دیا کہ میں نے ایسا اللہ کی اجازت سے کیا ہے اور وہ قوت وعلم میں تم سب پر فائق ہے ، جس کے معنی یہ ہیں کہ معیار امارت نسل ونسب کا امتیاز نہیں اور نہ دولت وسرمایہ کی فراوانی بلکہ علم وقوت ہے ، جو زیادہ عالم ، زیادہ بہادر اور جسور ہے ، وہی امارت کا اہل ہے ۔ البقرة
248 تابوت بنی اسرائیل : (ف ٢) اس کے حضرت شموئیل (علیہ السلام) نے فرمایا طالوت (علیہ السلام) کی اہلیت امارت کو ثابت کرنے کے لئے کیا یہ کافی نہیں کہ وہ تابوت جو تم سے عمالقہ بزور چھین کرلے گئے ہیں وہ واپس لے آئے ۔ اس تابوت میں انبیاء سابقہ کے وصایا وہدایات تھیں اور وہ بنی اسرائیل کے لئے طمانیت وسکون کا روحانی سامان تھا ، حضرت شموئیل (علیہ السلام) نے فرمایا ، یہ تابوت واپس آجائے گا ، اگر تم نے جناب طالوت (علیہ السلام) کا ساتھ دیا تو (آیت) ” تحملہ الملئکۃ “ کے معنی یا تو یہ ہیں کہ فرشتے اس تابوت کو بطور اعجاز وتائید کھینچ کرلے آئیں گے اور یا جیسا کہ بائیبل میں لکھا ہے ، اس تابوت پر فرشتوں کی تصویریں کندہ تھیں اور یہ دکھایا گیا تھا کہ فرشتے اس صندوق کو اٹھائے ہوئے ہیں ، یعنی صندوق جس کی یہ علامتیں ہیں واپس آجائے گا ۔ البقرة
249 قلت کی فتح کثرت پر : (ف ١) ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل بالآخر قائل ہوگئے اور بجبر واکراہ طالوت کی امارت قبول کرلی ، وہ ان کو لے کر نکلا ، راستے میں اردن وفسطین کے درمیان ایک دریا پڑتا تھا ، آپ نے فرمایا دیکھو دریا سے سیر کر پانی پینا تمہارے لئے ممنوع ہے ۔ البتہ اگر چلو سے منہ تر کرلو تو مضائقہ نہیں مقصد ان کا امتحان لینا تھا کہ ان میں مجاہدانہ جفاکشی کی عادت بھی ہے یا نہیں اس امتحان میں چند آدمیوں کے سوا سب ناکام رہے ، آگے بڑھ کر جالوت کا لشکر جرار تھا ، یہ دیکھ کر گھبراگئے اور کہہ اٹھے کہ ہم میں تو جنگ کی ہمت نہیں سوا ان قلیل نفوس کے جن کے دلوں میں صحیح ایمان جاگزین تھا اور وہ سوا اللہ کے اور کسی سے نہیں ڈرتے تھے ، وہ ثابت قدم ہے ، اس لئے کہ وہ سمجھتے تھے فتح کثرت تعداد یا سازوسامان کی چمک دمک سے نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت سے ہے بہت سی قلیل التعداد جماعتیں اپنے ایمان واستقلال کی وجہ سے بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کی صحت میں کوئی شبہ نہیں ۔ البقرة
250 اللہ سے طلب اعانت : (ف ٢) اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ صرف مادی سازوسامان پر بھروسہ درست نہیں ، اللہ تعالیٰ کی اعانت خاص کا بھی متوقع رہنا چاہئے ، اس لئے کہ حالات کی تبدیلی اسی کے اختیار میں ہے ، وہ چاہئے تو ابرہہ کے لشکر جرار کو چھوٹی چھوٹی چڑیوں سے غارت کر دے اور غیب سے کچھ سامان پیدا کر دے جس کا کوئی مداوا نہ ہو سکے ۔ مومن و کافر کی ذہنیت میں یہی عظیم فرق ہے کافر ظاہری آلات حیات کو دیکھ کر مطمئن ہوجاتا ہے اور کسی دوسری چیز کی خواہش نہیں رکھتا ، مگر تمام ممکن تیاریوں کے بعد طالب نصرت رہتا ہے ۔ وہ ہر دم افراغ صبر اور ثابت قدمی کی دعائیں کرتا رہتا ہے اور جب ان مختلف ذہنیت رکھنے والوں میں تصادم ہوگا ، فتح انہیں لوگوں کی ہوگی جن کا نصب العین بلند ہے اور جن کی ہمتوں کے ساتھ تائید ایزدی بھی کار فرما ہے ، اس لئے جب بھی طالوت کے لشکر کی جالوت کے ساتھ مڈ بھیڑ ہوئی تو فتح ونصرت انہیں کے حصہ میں آئی جو خدا کے فرمانبردار تھے اور اس طرح لشکر طالوت کے سامنے جالوت مقتول ہوا جو بہت شان وشوکت کا سالار عسکر تھا ۔ اس قصے میں جتنے نام آتے ہیں ، کوئی ضروری نہیں کہ بائیبل ان سے متفق ہو ، اس لئے کہ قرآن حکیم بجائے خود اقوام سابقہ کی تاریخ ہے جس پر اس زمانے کے اہل کتاب نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ حل لغات : غرفۃ : چلو بھرنا ۔ جنود : لشکر جمع جند ۔ فئۃ : گروہ ۔ البقرة
251 جہاد کیوں ضروری ہے ؟ (ف ١) قرآن حکیم نے جہاد پر بڑا زور دیا ہے اور یہ اس لئے کہ اگر ظالم کے خلاف جنگ نہ کی جائے ، سرکش کی زیادیتوں کو نہ روکا جائے مظلوم کی حمایت نہ کی جائے اور ہر متمرد وفرعون کو موقع دیا جائے کہ وہ جس طرح چاہے ، اپنے ملوکیت پر ستانہ اغراض پورے کرلے تو پھر عدل وانصاف کا قیام ناممکن ہوجائے گا دنیا کا نظام درہم برہم ہوجائے گا ، اور اللہ کی وسیع وعریض زمین پر کوئی عافیت کی جگہ نہیں رہے گی ۔ البقرة
252 (ف ٢) ان آیات میں بتایا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو خود امی ہیں اور امی ماحول میں پلے ہیں ، جب ایسے ایسے معرکۃ الآرا مسائل حل فرما دیتے ہیں اور اخلاق ، سیاست ، مذہب کے باریک نکات سلجھاتے ہیں تو لامحالہ یہ غیب خداوندی پر اطلاع ہے اللہ تعالیٰ براہ راست حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آیات وبراہین تلقین فرماتے ہیں ، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم قطعی کسی انسانی استفادہ کا نتیجہ نہیں ۔ کیا یہ ممکن ہے ، کوئی انسان صحرائے عرب کے قلب میں بیٹھا ہوا معرفت وحکمت کے چشمے بہائے کیا ہو سکتا ہے کہ بجز اللہ کی تائید کے کوئی شخص اس ترتیب ، اس نظم کے ساتھ تعلیمات کو پیش کرے ؟ کیا بجز رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خدا کے فرستادہ کے ممکن ہے کہ وہ اقوام گزشتہ کے حالات بہ تفصیل بیان کرے اور ان کے اغلاط پر انہیں برملا متنبہ کرے ۔ حل لغات : ھزموا : شکست دی ۔ البقرة
253 انبیاء کے درجے : (ف ١) نفس نبوت میں تو اللہ تعالیٰ کے تمام رسول (علیہ السلام) برابر کے شریک وسہیم ہیں ، مگر حالات واستعداد کے ماتحت سب ایک دوسرے سے مختلف اور الگ الگ ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) وصف خلت میں ممتاز ہیں ، (آیت) ” اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا “۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو شرف مکاملہ سے سرفراز کیا گیا ، (آیت) ” وکلم اللہ موسیٰ تکلیما “۔ اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کو روح القدس کی تخصیص سے نوازا گیا اور بعض ایسے بھی ہیں جن کا ذکر نہیں کیا گیا ، مگر ان کے مراتب بھی اعلی بلند ہیں (آیت) ” ورفع بعضھم درجت “۔ مقصد یہ ہے کہ سب خداے فرستادہ ہیں ، سب اس کے پیارے ہیں سب کو درجہ محبوبیت پر فائز کیا گیا ہے ، اس لئے ان کے نام نزاع اور جنگ جائز نہیں یہی مقصد ہے اس حدیث کا جس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” لا تفصلوا بین الانبیآئ“ یعنی انبیاء کے درمیان مفاصلہ پیدا نہ کرو ، روح القدس سے یا تو جبرائیل (علیہ السلام) مراد ہیں ، حضرت حسان (رض) کا شعر ہے ۔ وجبریل رسول اللہ فینا ورح القدس لیس لہ کفاء : جبریل (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے رسول اور روح القدس ہماری تائید کے لئے میں موجود ہیں ، ان کا مقابلہ کرنا ناممکن ہے ، اور یا روح سے مراد انجیل ہے کیونکہ اس میں زیادہ تر روحانی اصلاح سے تعرض کیا گیا ہے ۔ چنانچہ قرآن حکیم کو بھی روح اللہ کا خطاب دیا گیا ہے ارشاد ہے (آیت) ” وکذلک اوحینا الیک روحا من امرنا “۔ اقدس کے معنی مقدس کے ہوں گے ، یعنی ایسی کتاب جو تزکیہ وتقدیس کے لئے نازل کی گئی ہو ، مطلب بہرحال یہ ہے کہ تمام انبیاء احترام کرو ، سب میں فضائل ومزا یا کا معتد بہ حصہ ہے ۔ تمام انبیاء میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا درجہ کیا ہے ؟ بس یہ سمجھ لو ، ان تمام خوبیوں کا جو فردا فردا تمام رسل میں پائی جاتی ہیں ، اگر کسی ایک انسان میں جمع کردی جائیں تو وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ع آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری : اس لئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جتنے پیغمبر آئے وہ محدود وقت اور متعین گروہوں کے لئے مبعوث ہو کر آئے تھے ، مگر آپ کی نبوت زمان وقوم کی حدود سے باہر ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر قوم اور ہر زمانے کے لئے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فضائل غیر محدود اور لاتحصی ہیں ۔ (ف ٢) ان آیات میں بتایا کہ باوجود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت ودرجات کے بعد لوگ منکر رہے ۔ یہ اس لئے کلیۃ کفر کا اٹھ جانا اللہ کی مرضی پرموقوف ہے ۔ وہ چاہے تو دنیا میں کوئی اختلاف باقی نہ رہے ، مگر وہ کسی شخص کو ایمان پر مجبور نہیں کرتا ، ہر شخص اپنے عقیدہ میں آزاد ہے ، اس لئے کفر ومخالفت کا ہونا بھی ناگزیر ہے ۔ البقرة
254 (ف ١) انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب قرآن حکیم کی متعدد آیات میں مزکور ہے جس کے دو معنی ہیں ، ایک تو یہ کہ مسلمان دنیا میں دولت وسرمایہ کے لحاظ سے مستعفی ہو ، اس کی حیثیت دینے والے کی نہ ہو ۔ العید العلیا خیر من ید التغلی ۔ دوسرے یہ کہ جو کچھ بھی اس کے پاس ہو وہ اللہ کی راہ میں خرچ ہو سکے ۔ وہ لوگ جو قومی طور پر فیاض نہیں ہوتے اور قومی ضروریات کو محسوس نہیں کرتے قطعی طور پر زندہ رہنے کی اہلیت اور استعداد نہیں رکھتے ، قیامت کے دن پورا پورا محاسبہ ہوگا نہ تو سرمایہ کام آسکے گا اور نہ کوئی دوستی ہی ، اور وہ لوگ جنہوں نے یہاں بخل وکفر سے کام لیا ہے ‘ وہاں بھی کسی بخشش اور رحمت کے متوقع نہ رہیں ، اس لئے کہ انہوں نے شرک وانکار کی وجہ سے اپنے آپ کو بالکل محروم کر رکھا ہے ۔ ” شفاعت “ کی قرآن حکیم نے عام طور پر نفی کی ہے اور مستقلا سارے قرآن مجید میں ایک جگہ بھی ” شفاعت “ کے مسئلہ کی تائید نہیں ملتی ، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہودی اور عیسائی جس سفارش اور شفاعت کے قائل تھے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ یہودیت اور عیسائیت کے اقرار کرلینے کے بعد ہر معصیت اور ہر گناہ جائز ہے ، قرآن مجید اس نوع کی شفاعت کی کلیۃ نفی کرتا ہے ، البتہ اللہ کے نیک بندوں کو اذان دیا جا سکتا ہے اور وہ ایک دوسرے کی سفارش کرسکیں گے ۔ اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی پابند صوم وصلوۃ مسلمانوں کی سفارش کریں گے جن سے بتقاضائے بشریت گناہ سرزد ہوگئے ہوں ۔ البقرة
255 بیدار خدا : (ف ٢) ان آیات میں اللہ کی توحید وصفات کو نہایت خوبصورتی اور نزاکت سے بیان فرمایا ہے جس سے ایک طرف تو رب ذوالجلال کی عظمت وعزت دلوں میں پیدا ہوتی ہے اور دوسری طرف تمام شبہات جو اس کے متعلق یہودیوں اور عیسائیوں کے دلوں میں تھے ‘ دور ہوجاتے ہیں ۔ (آیت) ” اللہ لا الہ الا ھو “۔ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک وسہیم نہیں ہے اللہ اپنی وحدت وقدرت میں بےنظیر ہے ۔ ایک ہے ، اس کا کوئی اقنوم نہیں ‘ جسے اس کا حصہ وعنصر ٹھہرایا جائے ۔ الحی کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور کائنات میں جو زندگی نظر آ رہی ہے ‘ وہ اس کا عطیہ وفیضان ہے ، اسی کیوجہ سے وہ قائم ہے ۔ ” القیوم “ کا مقصد یہ ہے کہ وہ صرف خالق ہی نہیں اور صرف زندگی عطا کرنے والا ہی نہیں ، بلکہ تربیت وتقویم بھی اسی کا حصہ ہے ، وہ پیدا کرتا ہے ۔ زندگی بخشتا ہے اور اس کے بعد اس کی تربیت اور اصلاح کا بھی خیال رکھتا ہے ۔ (آیت) ” لا تاخذہ سنۃ ولا نوم “۔ ایک شبہ کا ازالہ ہے ۔ جاہلوں کی طرف سے سوال پیدا ہوتا تھا کہ وہ خدا جس کی سلطنت اتنی وسیع ہے ، اور کیا سوتا بھی ہے ؟ فرمایا کہ وہ تو جھپکی بھی نہیں لیتا یعنی وہ ہمہ آن بیدار رہتا ہے ، اس کا علم ہر وقت اپنا کام کرتا رہتا ہے ۔ (آیت) ” لہ ما فی السموت “۔ اس کے وسیع اختیارات پر دال ہے ، آسمان کی بلندیاں اور زمین کی پستیاں سب اس کے احاطہ ، اختیار وملک میں ہیں ۔ اس لئے ایسے خدا کے سامنے جھوٹی سفارش کی کسے جرات ہو سکتی ہے جو آگے پیچھے کی ہر چیز کو جانتا ہو ۔ (آیت) ” وسع کرسیہ السموت “۔ کے معنی علامہ ابن جریر الطبری نے علم کی وسعت کے لئے ہیں ، یعنی اللہ کا علم ہمہ گیر ہے ، اس سے کوئی چیز خارج نہیں ، چنانچہ کراسی علماء کی جماعت کو کہتے ہیں اور کراسیۃ اس کتاب کو کہتے ہیں جس میں علم کی باتیں لکھی جائیں ۔ (آیت) ” ولا یؤدہ حفظھما “ میں یہودیوں اور عیسائیوں کی تردید ہے ، توراۃ میں لکھا ہے کہ خدا نے سبت کے دن آرام کیا جس کے معنی یہ ہیں کہ خدا بھی انسانوں کی طرح کثرت کام سے تھک جاتا ہے ، قرآن حکیم فرماتا ہے ، یہ مادی صفات خدا کے وقار کے لئے باعث توہین ہیں ، وہ بلند وبالا ہے ، اس نوع کی صفات کا انتساب اس کی جانب گناہ ہے ۔ حل لغات : کرسی : اصل معنی تکرس کے جمع ہونے کے ہیں کتاب کو چونکہ ورق ورق جمع کر کے بنایا جاتا ہے ، اس لئے کہتے ہیں ۔ ثانوی معنی اس کے علم کے ہیں ۔ البقرة
256 اسلام میں جبر نہیں : (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ اسلام حقائق وبراہین کی حیثیت سے اس درجہ واضح وبین ہے کہ ہر سلیم الفطرت انسان اسے قبول کرے گا اور اس کی صداقت پر ایمان لائے گا ، اس لئے جبرواکراہ کی قطعا کوئی حاجت نہٰں ، وہ لوگ جو اسلام پر تلوار کے زور سے پھیلنے کا الزام لگاتے ہیں ، اس آیت پر غور کریں کہ قرآن حکیم کس فصاحت سے اعلان کرتا ہے کہ دین ومذہب کے بارے میں کسی جبر کی احتیاج نہیں ۔ اسلام بجائے خود اتنا روشن ‘ اتنا سچا اور اتنا مدلل مذہب ہے کہ بجز طاغوت پرست لوگوں کے کوئی اس کا انکار نہیں کرسکتا ، اسلام اللہ تک پہنچانے کا وہ مضبوط وسیلہ ہے جو تشکیک وارتباب کے حملوں سے ٹوٹتا نہیں ، مگر اسے قبول وہی کرتا ہے جو اللہ پر ایمان رکھے اور طاغوت سے انکار کرے ۔ البقرة
257 مسلمان روشنی میں کافر تاریکی میں : (ف ٢) اللہ تعالیٰ کی نصرتیں ، اعانتیں اور تائیدیں صرف مسلمانوں کے شامل حال رہتی ہیں ، کفر اس سے محروم ہے ، لہذا اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کفر وشرک کی تاریکی سے نکالتا ہے اور ایمان وبصیرت کی روشنی میں داخل کرتا ہے ، مگر وہ لوگ جو خدا کے دوست نہیں ہیں ، جنہیں طاغوت سے محبت ہے وہ ہر وقت تاریکی اور ظلمت میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں ۔ البقرة
258 حجت ابراہیمی امام (علیہ السلام) : (ف ١) قاعدہ ہے کہ چھوٹے دل کے لوگ بڑی عزت کو برداشت نہی کرسکتے ، نمرود کو بابل ونینوا کی حکومت جب دی گئی تو آپے سے باہر ہوگیا اور لگا خدائی کا دعوی کرنے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جو خدا کی طرف سے اس تمرد و غرور کے لئے تازیانہ عبرت ہو کر آئے تھے توحید کا وعظ کہا اور لوگوں کو اس خدا کی چوکھٹ پر جھکنے کی دعوت دی جس نے نمردوں اور فرعونوں کو پیدا کیا ہے اور چشم زون میں ان کو کس طرح مار کر آپ قلزم میں غرق کرسکتا ہے ۔ اس وقت کے نمرود نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بلایا اور پوچھا میرے سوا اور کس کی بادشاہت کا تم اعلان کرتے ہو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا ، موت وزندگی کے مختار کی بادہشاہت کا اعلان مقصد یہ تھا کہ اگر تو مجھے سزائے موت دے تو میں ڈرنے والا نہیں میں تو اپنی زندگی کو اپنے رب کے ہاتھ میں سمجھتا ہوں ۔ اس پر اس نے چمک کر کہا میں بھی تو احیاء واماتت کا اختیار رکھتا ہوں جس کو چاہوں صلیب پر کھینچ دوں اور جس کی چاہوں جان بخشی کر دوں ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تاڑ گئے کہ موت کی دھمکی دی جارہی ہے پہلو بدل کر فرمایا کہ میرا رب تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے ، تو بھی اگر خدا ہے تو اس نظام کو تبدیل کر کے دکھا اس عقل وفرزانگی اور اس اخلاق پر نمرود بھونچکا سا رہ گیا اور ایمان کی بصیرت کفر کی چالاکیوں پر غالب آگئی ۔ بات یہ ہے کہ نمرود کو ہرگز توقع نہ تھی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس طرح میری کج حجتیوں کا جواب کامیابی سے دیں گے ، وہ انہیں اتنا دانا اور زیرک نہ سمجھتا تھا ۔ غور کرو ، ایک باجبروت بادشاہ کی عدالت میں توحید کا اعلان اس خوبصورتی سے کیا بجز انبیاء کے کسی دوسرے شخص نے ممکن ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا طریق بحث یہ نہیں کہ وہ پیش کردہ دلیل پر معارضہ کریں اور اس سے کہیں دیکھئے صاحب آپ موضوع بحث کے خلاف جارہے ہیں ، بلکہ جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ایک دلیل اس کے لئے فہم کا موجب نہیں ہوئی تو فورا دوسری دلیل پیش کردی ، یہ طریق بحث خالصا پیغمبرانہ ہے یعنی مقصد مخالف کی تسلی کرنا ہے ‘ نہ کہ چپ کرانا ۔ حل لغات : بھت : متحیر ہوا ، خلاف توقع نادم ہوا ؟ مر : گزرا مصدر مرور ۔ خاویۃ : گرا ہوا ۔ عروش : جمع عرش بمعنی چھت ۔ البقرة
259 (ف ١) (آیت) ” اوکالذی کا مطلب یہ ہے کہ ہدایت خدا کی دین ہے ‘ جسے چاہے دے اور جس طریق سے چاہے دے ، نمرود کو تم نے دیکھا کیونکر دلائل ہی سے گھبرا گیا ، اب اس شخص کا قصہ سنو جس نے جب تک موت وزندگی کو تجربۃ نہ دیکھ لیا ، یقین نہیں کیا ۔ یہ کون شخص ہے جس پر موت وزندگی وارد ہوئی ؟ اس میں اختلاف ہے ، کوئی صحیح حدیث ایسی نہیں ملی جو تعین کرسکے ۔ بعض کا خیال ہے ، حضرت عزیر (علیہ السلام) مراد ہیں ، بعض کے نزدیک حضرت خضر (علیہ السلام) کا قصہ ہے ، بائیبل میں لکھا ہے ، حضرت خزقیل (علیہ السلام) نے بحالت کشف ہڈیوں کو زندہ ہوتے دیکھا ، قرآن حکیم کا انداز بیان بتا رہا ہے کہ یہ واقعہ ہے کشف نہیں ، زیادہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت المقدس جب بخت نصر میں ظالمانہ تاخت کے بعد تباہ وبرباد ہوگیا تو یہودی بہت مایوس ہوگئے اور انہیں خدا کی نصرت وتائید کی کوئی توقع نہ رہی ، حضرت خزقیل (علیہ السلام) کو بھیجا گیا ، تاکہ وہ یہود کو بتائیں یہ تمہاری نافرمانی کی سزا تھی ، ورنہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اب بھی تمہارے شامل حال ہوسکتی ہیں ، بشرطے کہ تم دین دار بن جاؤ ، حضرت خزقیل (علیہ السلام) نے فرمایا ، ایسی مردہ قوم کی رگوں میں ہدایت وتقوی کی روح کس طرح دوڑائی جا سکے گی ، البتہ اللہ تعالیٰ نے خود حضرت خزقیل (علیہ السلام) کو (١٠٠) سوسال کی موت سے دوچار کیا اور پھر زندگی بخشی ، مقصد یہ تھا کہ انہیں معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ جب حقیقی طور پر موت کو زندگی میں تبدیل کرسکتے ہیں تو یہ بھی ان کے امکان میں ہے کہ اجڑے ہوئے بیت المقدس کو دوبارہ عزت وحشمت بخش دیں ، اور ان کے دیکھتے دیکھتے گدھے کی ھڈیاں گوشت پوست میں تبدیل ہونا شروع ہوگئیں اور مرا ہوا گدھا اللہ تعالیٰ کی عنایت خاص سے زندہ ہوگیا ، حضرت خزقیل (علیہ السلام) یہ دیکھ کر پکار اٹھے کہ بےشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اس سارے قصہ میں پرلطف بات یہ ہے کہ لیل ونہار کے تاثرات نے کھانے پر کوئی اثر نہیں کیا اور وہ بدستور (١٠٠) سوسال تک تازہ ہی رہا ۔ خدائے ذوالجلال کے لئے کوئی بات بھی ناممکن نہیں جس نے زمانہ کو پیدا کیا ہے ‘ وہ اس کے اثرات کو بھی روک سکتا ہے ، البتہ اس کے ذکر کرنے سے ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ باوجود بنی اسرائیل کی اخلاقی موت کے اب تک ان کی خوراک یا تعلیمات میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوا اور کوئی قوم حقیقی موت اس وقت اختیار کرتی ہے جب وہ روحانی غذا سے محروم ہوجائے ، اس کے بعد پھر واقعی نپپنے کی کوئی امید نہیں رہتی ۔ حل لغات : لبثت : مصدر لبت ۔ رہنا ۔ لم یتسنہ : نہیں گلا سڑا ۔ تسمنہ کے معنی کھانے کے بگڑ جانے کے ہوتے ہیں ، ننشوز : مصدر انشاز بمعنی ترکیب واصلاح ۔ البقرة
260 ولکن لیطمئن قلبی : (ف ١) انبیاء علیہم السلام ایک مضبوط ومحکم عقیدہ لے کر مبعوث ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں قوت تاثیر نسبتا دوسرے لوگوں کے بہت زیادہ ہوتی ہے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے اسے یقین واثق کی توثیق چاہی جو مشاہدات پر مبنی ہو اور جو قطعی محسوس اور غیر مشکوک ہو ، تاکہ جب وہ نظام آخرت کی طرف لوگوں کو دعوت دیں تو دل کی گہرائیوں کے ساتھ خود بھی اس پر ایمان رکھتے ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا کیا اس حقیقت پر ایمان نہیں رکھتے کہ مزید مشاہدہ کی ضرورت پڑے ؟ آپ (علیہ السلام) نے جوابا عرض کیا ، ایمان تو موجود ہے ، اطمینان خاطر مطلوب ہے ، تو اللہ تعالیٰ نے اس پر ایمان مشہود کی ایک صورت پیدا کردی ، فرمایا ، چار پرندے لو انہیں ہلا لو اور ان کے ٹکڑے ہر پہاڑ پر رکھ دو پھر بلاؤ ، دیکھو قدرت ایزدی سے دوڑے ہوئے آئے گے ، اس کے بعد کا واقعہ محذوف ہے ، اور قرآن حکیم کا عام انداز بیان ہے کہ وہ غیرضروری واقعات کو حذف کردیتا ہے ، اس لئے انہیں خود سیاق کلام سے سمجھا جاسکتا ہے ، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ پرندوں کو ذبح نہیں کیا گیا ، یونہی مانوس کرکے بلایا گیا اور وہ آ گئے جس سے مقصد یہ تھا کہ جس طرح وہ تھوڑے تعلق کی وجہ سے تمہارے پاس آگئے ہیں ‘ اس طرح ہم چونکہ ساری کائنات کے رب ہیں جب بلائیں گے تو انہیں زندہ ہونا پڑے گا اور ہماری طرف آنا پڑے گا ۔ مگر یہ تاویل دو وجہ سے زیادہ قرین یقین نہیں ، ایک اس لئے کہ (آیت) ” کیف تحی الموتی “۔ کا سوال زندگی اور مشاہدہ طلب ہے ، اور ” اطمینان خاطر “ کی غرض کا تقاضا یہ ہے کہ جواب سرسری نہ ہو ۔ دوسرے اس لئے کہ اجعل کا لفظ زندہ پرندوں کے لئے نہیں بولا جاتا ، جزءا کے لفظ میں تو گنجائش ہے ، لیکن اجعل کا لفظ قطعا ناقابل تاویل ہے ، اب سوال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایسے بلند مرتبہ نبی طمانیت قلب کی نعمت سے کیوں محروم تھے اس کا جواب اس اصول کے سمجھنے پر موقوف ہے کہ نبی باوجود جلالت قدر کے انسان ہوتا ہے اور اس میں دو طرح کی نفسیات ہوتی ہیں ، انسانی وبشری اور نبوی و پیغمبرانہ ، اور دونوں تقاضوں کا باہمی اختلاف بالکل ظاہر ہے ، اس لئے گو بحیثیت نبی و پیغمبر ہونے کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حشر ونشر کے کوائف پرپورا پورا ایمان تھا مگر بحیثیت بشروانسان کے وہ چاہتے تھے کہ اس کو دیکھ بھی لیا جائے ۔ البقرة
261 (ف ٢) ان آیات میں بتایا ہے کہ جس طرح فطرت کا قانون ہر دانے کو جو بویا جانے ، کمیت وکیفیت میں بڑھاتا رہتا ہے ، اسی طرح ہمارے اعمال میں بھی ثمر جاری رہتا ہے اور یہ نمود واضافہ اللہ کی رحمت بےپایاں پر موقوف ہے ، ورنہ ہمارے اعمال ہرگز اس درجہ کے نہیں ہوتے کہ انہیں قبول بھی کیا جائے ۔ حل لغات : صر : اصل صیر بمعنی قطع کرنا ، مگر جب اس کا صلہ نفی ہو تو اس کے معنی ہلانے اور مانوس کرنے کے ہوتے ہیں ۔ البقرة
262 (ف ١) اچھے سے اچھا عمل اگر اگر سوء نیت کا نتیجہ ہے تو اللہ تعالیٰ کی نظر میں کوئی قیمت نہیں رکھتا ، مال ودولت کے ڈھیر بھی خدا کی راہ میں خرچ کردیئے جائیں اور دل میں خلوص نہ ہو تو اجر نہیں ملے گا ، (آیت) ” لکل امرء ما نوی “۔ البقرة
263 (ف ٢) ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ اگر دل میں وسعت نہ ہو اور فراخ دلی سے خدا کی راہ میں خرچ نہ کرسکو تو یہی بہتر ہے کہ نرمی سے سائل کو مطمئن کردو ۔ اسے جھڑکنا اور گالیاں دینا اور دل آزار کلمات سے مخاطب کرنا درست نہیں (آیت) ” واللہ غنی حلیم “۔ کہہ کے یہ بتایا ہے کہ خدا کے راہ میں دینا اپنے نفس کی پاکیزگی کے لئے ہے ، خدا کو تمہارے صدقات کی ضرورت نہیں ‘ اس لئے جب کبھی بھی دو تو یہ دیکھ لو کہ تمہارے دل کی اصلاح کس حد تک اس سے وابستہ ہے ۔ البقرة
264 (ف ٣) پیشتر کی آیات میں انفاق فی سبیل اللہ کے ساتھ ساتھ خلوص وحسن نیت کی بزور تاکید کی ہے اور فرمایا ہے کہ احسان جتلا کر اپنے اعمال کو ضائع نہ کروان آیات میں معیار اعمال کی نہایت بلیغ مثال سے تشریح کی ہے ۔ فرمایا ہے کہ وہ شخص جو خدا پر ایمان نہیں رکھتا جس کا آخرت پر عقیدہ نہیں ، اس کے اعمال ہرگز درخور اعتنانہیں ، اس کے اعمال کی مثال پتھر کی ایک چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو اور مینہ کا ایک پرزور چھینٹا اسے بہا کرلے جائے ، اور وہ لوگ جو خدا کی رضا جوئی کے لئے اور دل کی پاکیزگی وطہارت کے لئے روپیہ صرف کرتے ہیں ان کا فعل ثمر آوری میں اس سرسبز وشاداب باغ کی طرح ہے جو عام زمین سے ذرا بلندی پرواقع ہو ، تاکہ کھلی ہو اور تازہ روشنی ہر وقت وہاں پہنچ سکے ، وہاں پانی برسے اور باغ میں شان دار تازگی پیدا کر دے ، پیداوار کے اعتبار سے وہ دوگنا چوگنا ہوجائے یعنی اعمال کا معیار حسن نیت وارادہ ہے ، نہ حسن عمل ریا کاری کی چٹان پر حسن اعمال کے بیج نہیں بوئے جاسکتے ، البتہ خلوص وللہیت کے جذبات اعمال کی خوبصورتی میں اضافہ کردیتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کے ہاں مشقت وکوفت کی کوئی قدر نہیں ، وہاں تو دلی کوائف کی عزت ہے ، وہ جو دل کا پاک اور سخی ہے ، اس کا تھوڑا بھی بہت ہے اور وہ جو خلوص وحسن نیت کی نعمت سے محروم ہے ، وہ اگر سیم وزر کے انبار بھی تقسیم کرے تو لائق اجر نہیں ، کیونکر اس طرح کے ریا کارانہ صدقات سے اسکی طبیعت میں کوئی اصلاح نہیں ہوتی ۔ اعمال حسنہ کے لئے قرآن حکیم نے ایمان باللہ کو ضروری قرار دیا ہے ، اس لئے کہ جب تک ایمان صحیح موجود نہ ہو ‘ دنیا میں اخلاق کا کوئی معیار ہی نہیں رہتا ۔ اور ہر شخص حالات وظروف کے ماتحت اپنے اعمال کی کوئی نہ کوئی تاویل کرلے گا غور کرو ، اگر نظام آخرت پر اعتقاد نہ ہو تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اعمال صالحہ کا ارتکاب ہی کیوں کیا جائے ؟ صرف اس لئے کہ لوگ اچھا کہیں ؟ اور وہ سوسائٹی جس میں ہم رہتے ہیں ‘ خوش رہے ، یا یہ کہ دنیا کا نظام برقرار رہے اور اس میں کوئی برہمی پیدا نہ ہو ، مگر سوال یہ ہے کہ ہم اپنی مسرتوں کو دوسروں کی اغراض کے لئے کیوں قربان کریں ، سوسائٹی کی ناخوشی سے ہم ذاتی لذائذ وحظوظ کی شاد کامی سے کیوں محروم رہیں ، کیا یہ سراسر بےوقوفی نہیں ؟ اور اس کا کیوں فکر کریں کہ دنیا کا نظام برقرار رہے ، کیا ہم کائنات کے اجارہ دار ہیں ؟ جس نے دنیا کو بنایا ہے وہ اس کی خود حفاظت کرے گا ، ہم تو وہی کریں گے جس سے ہم کو فائدہ ہو ، تو گویا اللہ تعالیٰ کے انکار کے بعد ” انفرادیت “ اور ” ذاتیت “ کا دور دورہ شروع ہوجاتا ہے ، اور نیک اعمال کا کوئی معیار ہی قائم نہیں رہتا ، اس لئے ضروری ہے کہ ایمان باللہ کی قید کو بڑھایا جائے ، جس سے اعمال کی قیمت مقرر ہو اور دلوں میں نیکی کے لئے ترغیب پیدا ہو اور نصب العین بلند ہوجائے ، شہرت دریا کاری نہایت پست قسم کے جذبات ہیں ، (آیت) ” وتثبیتا من انفسھم “۔ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ صدقات اس طرح کے ہونے چاہئیں کہ ان سے واقعی نفس سے ایک جنگ کرنا پڑے اور بالآخر ضمیر مطمئنہ نفس خادمہ پر غالب آجائے نہ یہ کہ کم قیمت اور غیر ضروری چیزیں اللہ کی راہ میں دے دی جائیں ۔ حل لغات : صفوان : چٹان بعض کے نزدیک جمع ہے اور بعض کے نزدیک مفرد ۔ وابل : موسلادھار بارش ۔ صلدا : صاف پتھر : حل لغات : طل : پھوار شبنم ۔ نخیل : کھجور ۔ اعناب : انگور ۔ البقرة
265 البقرة
266 البقرة
267 (ف ١) ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کی راہ میں پاکیزہ چیزیں دو گری پڑی اشیاء کا تصدق کسی طرح موزوں نہیں ۔ اس لئے کہ جب تک اللہ کی راہ میں دینے سے دل تکلیف محسوس نہ کرے نفس اور ضمیر میں ایک جنگ بپانہ ہو ، نفس کی اصلاح نہیں ہو سکتی اور نہ بخل دور ہو سکتا ہے ، یہ ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ رب السموت والارض ہے جس کے خزانے معمور ہیں ، ہمارے صدقات کا قطعا محتاج نہیں ، وہ تو غنی ہے ، بےنیاز ہے ، اس لئے تقاضا یہ ہے کہ خدا کی راہ میں دے کر ہمیں کیا ملتا ہے ؟ کیا طبعیت کا بخل دور ہوگیا ہے ؟ کیا دل میں خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے آمادگی کا احساس بڑھ گیا ہے یا کیا ؟ پھر فرمایا کہ تم دنیا میں تحائف وصول کرتے ہو تمہیں بھی چیزیں دی جاتی ہیں تمہاری خواہش یہ نہیں ہوتی کہ بہترین چیزیں تمہیں دی جائیں نقص اور نکمی چیز کو تم اپنے لئے ہرگز پسند نہیں کرتے پھر اللہ تعالیٰ کے لئے تم معمولی اور غیر ضروری اشیاء کیوں پسند کرتے ہو ؟ جس چیز کی تمہیں ضرورت نہیں ، اس کی اللہ تعالیٰ کو کیا حاجت ہے ؟ البقرة
268 افلاس کا ڈر : (ف ٢) جب خدا کی راہ میں خرچ کیجئے شیطان وسوسہ اندازی کرتا ہے اور کہتا ہے کیوں مال ضائع کرتے ہو ، اس طرح تو تم غریب ہوجاؤ گے ، البتہ اگر فضول خرچی اور اسراف کا سوال ہو یا برائی کی اعانت کا موقع ہو تو اس وقت شیطان کہتا ہے کہ دل کھول کر کیوں خرچ نہیں کرتے کیا چند روپے عزت وناموس کے لئے خرچ کردینے سے تم مفلس وقلاش ہوجاؤ گے ، مگر اللہ تعالیٰ کی جانب سے مغفرت وفضل کا وعدہ ہے ، وہ کہتا ہے کہ تم میری راہ میں خرچ کرو ، میں تمہارے مال ودولت میں برکت دوں گا ۔ میں تمہارے لئے رزق کے مواقع پیدا کروں گا جس قدر تم مجھے دو کے میں اس سے کہیں زیادہ دوں گا غرضیکہ شیطان افلاس پر آمادہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ فضل ودولت پر ، دیکھ لو وہ لوگ جو خدا کی سیدھی سادی شریعت پر چلتے ہیں عیش وکامرانی کے لطف اٹھاتے ہیں اور جو رسوم ورواج کے پیچھے دوڑتے ہیں تباہ و برباد ہوجاتے ہیں ۔ البقرة
269 حکمت اللہ کی نعمت ہے : (ف ١) اسراف وامساک میں فرق محسوس کرنا ، بخل وسخاوت میں تفاوت جاننا اور ہر برائی کے نقصانات اور نیکی کے فوائد کا علم رکھنا حکمت ہے پس وہ لوگ جو دنیا کی بےثباتی و بےوقعتی اور آخرت کی اہمیت وحرمت کو جانتے ہیں حکیم ہیں اور سمجھ دار ہیں اور وہ جو اپنی تگ ودو صرف دنیا تک محدود رکھتے ہیں بےوقوف ہیں ، کیونکہ عاجل کو صرف اس لئے ترجیح دیتا ہے کہ وہ نقد ہے اور آجل کو ترک کردینا کہ وہ نسیہ ہے بغیر یہ جاننے کے کہ دونوں میں کوئی نسبت ہی نہیں ‘ حماقت ہے ، قرآن حکیم حکمت کو پسند کرتا ہے ، اس کے مخاطب بھی سمجھ دار لوگ ہیں ، جو نفع ونقصان پر گہری نظر رکھتے ہیں ، بےپرواہ اور بےخوف انسان اپنے متعلق کچھ نہیں سوچ سکتا ، اس لئے اس سے کوئی توقع ہی نہیں رکھنی چاہئے ۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ جسے یہ دانش عطا ہو ‘ وہ گویا دنیا کا بہترین نعمتوں سے بہرہ وار ہے اور وہ جو حکیمانہ مزاج نہیں رکھتا ، وہ اگر دنیا جہان کی چیزیں بھی رکھتا ہو تو حقیقی مسرت سے محروم ہے ، البقرة
270 البقرة
271 (ف ٢) ان آیات میں بتایا ہے کہ صدقات کا اظہار واعلان اگر نیک نیتی کے ساتھ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ، اسی طرح اگر اخفاء ریا کے ڈر سے ہو تو بہتر ہے اور یہ کہ اس سے تکفیریات ہوتی رہتی ہے یعنی جب ہم دوسروں کی ضروریات کو پورا کردیتا ہے اور ہمارے گناہوں پر خط عفو کھینچ دیتا ہے ، کتنی بڑی حوصلہ افزائی ہے ۔ حل لغات : الباب : جمع لب بمعنی عقل ۔ نذر : منت ماننا ۔ تبدوا مصدر ابدآء بمعنی اظہار ۔ البقرة
272 ہدایت خدا کے ہاتھ میں ہے : (ف ١) پیغمبر یا رسول کا کام صرف اعلان حق ہے ، ماننا نہ ماننا لوگوں کا اختیار ہے اس آیت میں اس حقیقت کی وضاحت کی گئی ہے کہ جب یہ توفیق صحیح سے محروم ہیں تو تیرے احاطہ اختیار سے باہر ہے کہ تو انہیں ہدایت دے دے ، راہنمائی وراسموئی تو فرائض نبوت میں ہے ، مگر شرح صدر اور توفیق یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور یہ اس کو عطا ہوتی ہے جو اس کے حصول کی کوشش کرے ۔ (ف ٢) ان آیات کا مقصد یہ ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ تمہارا ہر صدقہ قبول ہے اور تمہیں پورا پورا اجر دے گا ، چاہے وہ فعل موزوں پر خرچ ہوا ہے اور چاہے موزوں پر ، اس لئے کہ تمہارا مقصد بہرحال اصلاح ہے ، ممکن ہے تمہاری نیک نیتی کا اثر اس کے اعمال پر بھی پڑے اور وہ ان کاموں کو چھوڑ دے البتہ زکوۃ صرف مسلمانوں کا حصہ ہے ۔ اپنی طرف سے کوشش کرنی چاہئے کہ لفظ جو آئے ” لا یاکل طعامک وتقی “ عام صدقات سے مسلمانوں کی امانت ہے ۔ البقرة
273 (ف ٣) مستحق کون ہے ؟: ان آیات میں فقراء ومجاہدین کا ذکر ہے جو مجاہدانہ مشاغل کی وجہ سے کسب معاش سے محروم ہیں ، ان میں عفت اور پاس عزت اس قدر ہے کہ بظاہر غنی معلوم ہوتے ہیں ، مگر وہ ہیں اعانت کے مستحق ، فرمایا ان لوگوں کی بالخصوص اعانت کرو ، رسالتمآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں ایک گروہ اصحاب صفہ کا تھا جس کا کام صحبت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شرف استفادہ کرنا تھا وہ دن رات ارشاد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اکتساب ضوء میں مصروف رہتے اور ایک لمحہ غفلت ان کے نزدیک ناقابل تلافی محرومی کے حصول کا مترادف تھا وہ مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں رہتے ۔ ذرائع معاش کو برروئے کار لانے کے لئے ان کے پاس وقت ہی نہیں تھا ، ان لوگوں کے لئے عام مسلمانوں میں اعلان کیا کہ وہ انہیں اپنی امانتوں کا سب سے زیادہ مستحق سمجھیں ، مگر آیت کا عموم باوجود خصوص محل کے باقی ہے ، اس میں بتایا ہے کہ پیشہ ور گداگر جنہوں نے بھیک مانگنے کو ایک فن بنا لیا ہے اور وہ ہر طرح سے لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ‘ وہ ہرگز اعانت کے مستحق نہیں ، اعانت کے مستحق وہ باوضع مجاہدین اور خدام دین ہیں جن کا کوئی ذریعہ معاش نہیں اور وہ رات دن خدمت دین میں مصروف ہیں ، قوم کو چاہئے کہ ان کی مدد کریں اور انہیں بےنیاز بنا دیں ، تاکہ وہ اپنا پورا وقت خدا کی راہ میں صرف کرسکیں ، اور پورے طریق پر دین کی خدمت بجا لا سکیں ، اسلام بھیک مانگنے کے حق میں نہیں ہے ، وہ کہتا ہے جو بھیک مانگتا ہے قیامت کے دن اس کا چہرہ بےرونق ہوگا اور محروم ہوگا ، اس لئے دنیا میں اس نے اپنی عزت کی پرواہ نہیں کی اور شرف انسانیت کی توہین کی ، اس لئے قیامت کے دن بالکل اس کے مساوی اور متبادل سزا دی جائے گی ، اس کا چہرہ بےآب اور زخم خوردہ ہوگا ۔ البقرة
274 (ف ١) امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ اس سے مقصود ارباب خیل ہیں یعنی وہ لوگ جو جہاد کے لئے گھوڑے رکھتے ہیں اور دن رات ان کی خدمت کرتے ہیں ، تاکہ جہاد کے لئے تیار ہوجاتے ہیں ، حضرت سعید بن مسیب (رض) فرماتے ہیں کہ یہ آیت جناب عثمان (رض) اور عبدالرحمن بن عوف (رض) کے حق میں نازل ہوئی ، اس لئے کہ انہوں نے جیش عسرت کی تیاری میں مدد دی ، مگر آیت کا مفہوم عام ہے ، اس میں ایک تو یہ بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ انفاق فی سبیل اللہ جن کی عادت ثانیہ ہوگیا ہے اور وہ مسلسل دن رات جب ضرورت محسوس ہو خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتے ، اللہ کی حقیقی نعمتوں کے سزاوار ہیں اور یہ کہ اعلان واخفاء دونوں حالتوں میں ان کے دل میں ریا ، و شہرت کے جذبات نہیں ہوتے ، بلکہ دو طریق ہیں ادا کے ‘ جسے حالات کے موافق تصور کرنے میں اختیار کرتے ہیں ، اس لئے یہ بحث کہ دونوں طریقوں میں سے افضل کونسا طریق ہے غیر ضروری ہے بعض لوگ اخفاء کی صورت میں بھی ریاکاری کا شکار ہوجاتے ہیں اور بعض اتنے مخلص ہوتے ہیں کہ اعلان میں بھی ان کا دل ملوث نہیں ہوتا ۔ اس لئے اپنی اپنی طبیعت اور موقع ومحل پرموقوف ہے کبھی اخفاء افضل ہے اور کبھی اعلان ۔ البقرة
275 سود خوار کی حالت نفسی : (ف ٢) انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب کے بعد سود کی حرمت کا ذکر کیا ، تاکہ معلوم ہو کہ سود خوری باہمی تعاون کے جذبے کو روک دیتی ہے اور سود خواری کے جواز کے معنی انسانی ہمدردی سے فقدان وضیاع کے ہیں ۔ ان آیات میں نہایت بلیغ انداز سے سود خوار کی حالت نفسی کی تشریح کی ہے کہ وہ اس طرح فنا فی المال رہتے ہیں جس طرح کوئی آسیب کی لپیٹ میں آگیا ہو ، ایک ہی دھن ہے اور ایک ہی خیال یعنی وہ حرص وآز کے اس درجہ پر پہنچ گئے ہیں کہ جہاں دماغی توازن برقرار نہیں رہتا ، گویا ان کا دماغ بجز سرمایہ کے کسی چیز پر غور کرنے کا اہل نہیں ، آپ دیکھیں گے قرآن کریم نے کس درجہ سچی تصویر پیش کی ہے ، سود خوار مہاجن اور یہودی صحیح معنوں میں مسرت وسعادت سے محروم رہتا ہے ، وہ گو دولت کے خزانے جمع کرلیتا ہے ، مگر طمانیت قلب جو صرف قناعت سے حاصل ہوتی ہے کھو بیٹھتا ہے ، وہ ہر وقت ایک سوچ اور فکر میں ڈوبا رہتا ہے ، اس کے لئے ” آسامی “ کا وجود ہی ایک معصیت رہ جاتا ہے ، وہ سوچتا رہتا ہے کہیں اسامی مر نہ جائے ، کہیں دیوالہ نہ نکال دے ، غریبوں کے خون میں ہاتھ رنگنا اس کے لئے بہترین مشغلہ ہے وہ دوسروں کے لئے روپیہ ضرور جمع کرجاتا ہے ، مگر اپنے لئے اس کے پاس سوائے کفاف وخساست اور کچھ نہیں ہوتا ۔ کیا یہ جنون نہیں ؟ سود اور تجارت : (ف ١) اور یہ خرابی اس لئے پیدا ہوئی کہ تجارت وسود میں جو فرق تھا وہ نظر انداز کردیا گیا ، خدا نے تجارت کی تو اجازت دی ہے مگر سود کو حرام قرار دیا ہے ، اس لئے کہ اس سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور انسان اپنے بہترین جوہر تعاون کو کھو دیتا ہے ۔ البقرة
276 یمحق اللہ الربوا : (ف ٢) اس آیت اک ایک سیدھا سادا مفہوم تو یہ ہے ربو یا سود میں برکت نہیں ہوتی اور صدقات میں خدا اضافہ ونمود کی استعداد پیدا کردیتا ہے یعنی سود خوار کا مال بالآخر برباد ہوتا ہے ، اس کی نالائق اولاد اہل اور عیاش ہوجاتی ہے ، جس سے مال ودولت جو محنت سے جمع کیا جاتا ہے ، سرعت سے برباد ہوجاتا ہے ، بخلاف مرد مومن کے جو اپنا منتہائے نظر بلند اور وسیع رکھتا ہے ، اس کے مال میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اس کی اولاد صالح ہوتی ہے ، وہ دیکھتی ہے ہمارا والد کس درجہ اصالح تھا ، وہ اس کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہے ، اس لئے کہ ان کا باپ ان کے لئے ایک بہترین اسوہ حیات چھوڑ کر مرتا ہے ، وہ مال ودولت کے ڈھیر گو اولاد کو سونپ کر نہیں جاتا ، مگر اخلاق وسادات کا متاع گرانمایہ وہ ضرور اولاد کے ہاتھوں میں دے جاتا ہے جس سے وہ اپنی زندگی سنوار لیتے ہیں ، اس سے زیادہ برکت وسعادت اور کیا ہوسکتی ہے ؟ دوسرا مفہوم ذرا زیادہ دقیق ہے اور وہ یہ ہے کہ سود سے اصل سرمایہ میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا اور قوم کے لئے یہ خسران مبین کا باعث ہوتا ہے ، اقتصادیات کا یہ اصول ہے کہ دولت میں اس وقت اضافہ ہوتا ہے ، جب اسے زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے ، اور سود سے روپیہ بجائے پھیلنے کے چند ہاتھوں میں سمٹ کے رہ جاتا ہے ، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم کی تمدنی ترقی رک جاتی ہے ، بخلاف اس کے اگر تعاونی جذبات کی ترقی ہو ، روپیہ محدود ہاتھوں میں نہ رہے اور پھیلتا رہے تو قوم کے سرمایہ میں اضافہ ہوگا ۔ دیکھئے قرآن حکیم نے کس خوب صورتی سے سرمایہ کے مسئلہ کو آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے حل کردیا ہے ، (آیت) ” فھل من مدکر “۔ حل لغات : سلف : گزر چکا ۔ یمحق : مٹاتا ۔ یربی : بڑھانا ۔ البقرة
277 البقرة
278 البقرة
279 سود خوار سے اعلان جنگ : (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ مسلمان تحریم سے پیشتر کے سودی معاہدات توڑ دیں اور اصل مال لے لینے پر اکتفا کریں ، ورنہ خدا سے اعلان جنگ ہے ، سود خوار قومیں صحیح مذہبی روح سے قطعا خالی ہوتی ہیں ، یہودیوں کی ساری تاریخ سامنے ہے کیا کبھی انہوں نے ایثار وقربانی سے کام لیا ہے ؟ یہ حقیقت ہے کہ سرمایہ کی محبت اور خدا کی محبت ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتی ۔ البقرة
280 رحم دل مسلمان : (ف ٢) اس سے پہلے کی آیت میں اصل مال لینے کی اجازت دی تھی اور فرمایا تھا کہ (آیت) ” لا تظلمون ولا تظلمون “ یعنی مسلمان نہ تو بحیثیت ظالم کے اللہ کو پسند ہے اور نہ بحیثیت مظلوم کے ، نہ تو وہ اپنا نقصان کرے ‘ نہ دوسرے کا ، یعنی جس طرح ظالم بننا اور سود لینا گناہ ہے ‘ بالکل اس کے متوازی سود دینا گناہ ہے ، کیونکہ مسلمان کو عادل اور ایک بہترین نمونہ بنا کر بھیجا گیا ہے ، اس کی زندگی کا مقصد دوسروں سے کہیں بلند ہے ، وہ اس لئے دنیا میں آیا ہے کہ خیر محض کا درس دے اور اپنے اعمال سے دوسروں کے لئے ایک ممتاز شاہراہ قائم کرے ، یہی وجہ ہے کہ اسے معاملات میں نہایت صالح رہنے کی تعلیم دی گئی ہے اور اسے کہا گیا ہے کہ حسن معاملہ بھی نصف دین ہے ، اس آیت میں فرمایا کہ اگر روس اموال واپس میں کرنے میں انہیں دقت ہو تو تم فراغت وکشائش تک انتظار کرو ۔ یعنی اسے موقع دو کہ وہ بآسانی قرض اتار دے ، مقروض کو تنگ کرنا مسلمان کے بلند اخلاق کے منافی ہے اور معاف کردینا تو بہت زیادہ بہتر ہے ، (آیت) ” ان کنتم تعلمون “۔ میں اشارہ ہے اس روحانی لذت کی طرف جو معاف کردینے کے بعد مسلمان کو حاصل ہوتی ہے اور اس اجر عظیم کی طرف جس کا وہ مستحق ہوجاتا ہے ۔ اس آیت میں جس رحم دل مگر سرمایہ دار مسلمان کا تخیل خدا نے پیش کیا ہے وہ دنیا کے لئے درجہ عافیت پسند اور مفید ہو سکتا ہے کیا ان ہدایات کے بعد بھی کسی دوسری تعلیم کی ضرورت باقی رہتی ہے ۔ حل لغات : رء وس اموالکم : اصل مال ۔ ذوعسرۃ : تنگ دست ۔ میسرۃ : فراغت ۔ البقرة
281 البقرة
282 حساب میں باقاعدگی : (ف ١) قرآن حکیم ایک ایسا مکمل دستور العمل ہے کہ اس کی ہدایات ہر طرح ضروریات انسانی کے لئے کفیل ہیں ، اس میں معاملات کی جزئیات تک جو ضروری ہیں ۔ مکمل ومفصل بیان کردی گئی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس پر کوئی عمل کرے ‘ فائدہ اٹھائے ، یہ دودھ ہے خالص ‘ جو پئے گا ، قوت وتوانائی کرے گا ۔ عام طور پر مسلمان کے متعلق خیال یہ ہے کہ وہ روزانہ معاملات میں نہایت بےضابطہ ہوتا ہے اور اس بےضابطی کی وجہ سے اکچر نقصان بھی اٹھاتا ہے ، اخیار اس کی سادگی اور سادہ لوحی سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں ، مگر یہ ہے کہ کبھی قرآن حکیم اٹھا کر نہیں دیکھتا کہ اس نسخہ کیمیا میں اس کے لئے کیا کیا قیمتی پندونصائح درج ہیں اور یہ کہ قرآن حکیم کے اوراق میں اس کو کس قسم کا مسلمان بننے کی ہدایت کی گئی ہے ، قرآن حکیم جس نوع کا مسلمان پیش کرتا ہے ‘ اور نہایت دانا ‘ یرک اور محتاط ہے ، وہ بذریعہ غایت باضابطہ اور بااصول ہے ، وہ کبھی دوسروں کو دھوکا نہیں دیتا اور نہ خود دھوکا کھاتا ہے اس کا حساب متعین اور صاف ہوتا ہے ، وہ کبھی بےاصولی بات نہیں کہتا چنانچہ اسے مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل پیرا ہونا پڑتا ہے : ۔ ١۔ لین دین کے معاملہ میں باقاعدہ حساب رکھے ۔ ٢۔ کاتب یعنی لکھنے والا عدل وانصاف سے کام لے اور فریقین میں سے کسی کو بھی گھاٹے میں رکھنے کی کوشش نہ کرے ۔ ٣۔ دستاویز کی عبارت وہ لکھائے جو لے رہا ہے ، کیونکہ جھگڑے کے وقت اسی کی شہادت معتبر ہوگی ۔ ٤۔ اگر خود معاملہ فہم نہ ہو تو اس کے ولی لکھائیں ، مگر ایمان اور دیانت کا خیال رہے ۔ ٥۔ دو گواہ ہوں مرد ، اگر دو مرد میسر نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں ہوں ، تاکہ اگر ایک کو بھول جائے تو دوسری یاد دلا دے ۔ مرد افضل ہے یا عورت ؟ (ف ٢) اسلام نے عورت کے درجہ ومنصب کی تعیین میں کوئی مبالغہ نہیں کیا ، اس کے نزدیک عورت ہر اس اعزاز کی مستحق ہے جو مردوں کا حصہ ہے ، اس کے نزدیک دونوں کے دائرہ حیات الگ الگ ہیں ، دونوں ایک دوسرے کے محتاج ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے رفیق ، وہ نفس وروح کے لحاظ سے دونوں میں سے کسی کو بھی فضیلت نہیں دیتا ۔ البتہ وہ کہتا ہے ، مرد بعض ذمہ داریوں کی وجہ سے قوام ہے اور عورت نہیں ، مرد عقل وفرزانگی میں عورت سے آگے ہے اور عورت جذبات وخواطر میں ۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر جدید علمائے نفسیات وتشریح کا کلی اتفاق ہے ، ایک مرد کا بھیجا ایک عورت کے بھیجے سے زیادہ وزنی ہوتا ہے ۔ ہاں وہ یہ کہتے کہ عورت کو بھی اگر مرد کی طرح آزاد کردیا جائے تو وہ ایک صدی کے بعد مرد کے برابر عقل مند ہوجائے گی اور جذبات اس میں کم ہوتے جائیں گے ، مگر سوال یہ ہے کہ آزادی کے بعد عورت اپنی دوسری نسوانی خصوصیات کھو بیٹھے گی اور جب تک اس کا بھیجا مرد کے برابر ہو ، مجلس کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا ، اس لئے ضروری ہے کہ اسے فطرت کی حدود کے اندر رکھا جائے ، خدا جانے ان لوگوں کس نے بتا دیا ہے کہ تنہا عقل وفرزانگی معیار فضیلت ہے جس کے لئے تمام دوسری خوبصورتیوں کو قربان کردیا جائے ، کیا پاکیزہ جذبات کی اتنی بھی ضرورت نہیں ، جتنی کہ عقل کی ، کیا خشک پروفیسری اور معلمی کے سلیقے سے بچوں کی تربیت کے جذبات زیادہ قابل قدر نہیں ؟ کیا ماں بننا لائق فخر نہیں ؟ کیا بیوی ہونا سہل ہے ؟ یعنی ان جذبات سے جو فطرت انسان کا لاریب حسن ہیں ، قطع نظر کی جا سکتی ہے ؟ یہ ٹھیک ہے عقل وتجربہ میں مرد بڑھا ہوا ہے ، مگر دنیا کی مسرتوں میں اضافہ کرنے میں عورت برابر کی شریک نہیں ؟ مرد صرف اس لئے اچھا پڑتا ہے کہ وہ عورت سے زیادہ عقل مند ہے اور عورت یہ سن کر ملول ہوجاتی ہے کہ وہ عقلی لحاظ سے مرد سے بالمعموم پیچھے ہے ، حالانکہ اس سے علاوہ بھی وجہ فضیلت تلاش کی جا سکتی ہیں ، اور اس کا فیصلہ کرنا سخت دشوار ہے کہ دنیا کو عقل کی ضرورت زیادہ ہے یا جذبہ کی ، اور جب تک اس کا فیصلہ نہ کرلیا جائے ، مرد کو کفی افضل قرار دینا مشکل ہے ۔ اسلام جو فطرت کا دوسرا نام ہے ‘ وہ کسی طرح بھی دونوں کو دھوکا میں نہیں رکھنا چاہتا ، وہ صاف صاف بتا دیتا ہے کہ مرد اور عورت میں کیا فرق ہے اور معاملات میں ان کو کیا درجہ دیا جائے ؟ اس آیت میں ایک مرد کے مقابلہ میں دو عورتوں کو رکھا ہے ، اس لئے کہ یہاں سوال بالکل برابری کا نہیں ‘ معاملات کا ہے اور عورتیں معاملات میں زیادہ ہشیار نہیں ہوتیں ، ان کے دوسرے مشاغل انہیں ان جھنجٹوں میں پھنسنے کی اجازت نہیں دیتے ، اس لئے شہادت میں بجائے ایک عورت کے دو کو رکھا ، تاکہ اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے ، کتنا صحیح اور فطری فیصلہ ہے ۔ ان آیات میں بتایا ہے کہ مسلمان نہایت محتاط اور باضابطہ ہے چھوٹے سے چھوٹے معاملہ میں بھی تساہل نہ کرے اور لکھ لے ، اس سے آئندہ جھگڑے کا امکان نہیں ہے ، البتہ اگر لین میں قرض وسودا سلف کا ذکر نہیں تو نہ لکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ (ف ٣) گواہوں کو اور لکھنے والوں کو بےایمانی اور تخریف پر مجبور نہ کیا جائے ، کیونکہ ایسا کرنا خود فسق میں مبتلا ہونا ہے ۔ (آیت) ” واتقوا اللہ “۔ کے معنی یہ ہیں کہ معاملات میں صفائی اور پاکیزگی ہی اتقاء ہے اور وہ لوگ جو دینداری کا مفہوم یہ سمجھتے ہیں کہ ظواہر کو ادا کریں اور معاملات کی پرواہ نہ کریں ‘ وہ غلطی پر ہیں ۔ حل لغات : تداینتم : مصدر تداین ، قرض لینا دینا ۔ اشتقاق دین سے بمعنی قرض ۔ یملل : مصدر اضلال ، لکھانا ۔ قسئموا : مادہ سامۃ اکتا جانا ۔ اقسط : مادہ قسط زیادہ قرین انصاف ۔ اقوم : زیادہ درست ۔ البقرة
283 (ف ٢) ان آیات میں رہن کی اجازت دی ہے ، اس لئے ناواقفی کے وقت اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ۔ البتہ یہ ہدایت کی ہے کہ اگر یونہی اعتبار پر کوئی شخص قرض دے دے تو مدیون کو چاہئے کہ اس کے حسن سلوک کا خیال رکھے اور اس کی پائی پائی چکا دے ۔ اس کے بعد عام ہدایت ہے کہ کتمان شہادت اسلام میں درست وجائز نہیں کیونکہ اس سے باہمی اعتماد اٹھ جاتا ہے ۔ حل لغات : اثم : مصدر اثم ، مجرم ۔ اثم : بمعنی گناہ ۔ البقرة
284 محاسبہ نفس : (ف ١) اس سے پہلے کی آیات میں کتمان شہادت سے منع فرمایا اور بتایا کہ ہر دھوکے اور فریب سے بچو ، اس آیت میں اعلان کیا ہے کہ دوسروں کے متعلق برے خیالات رکھنا بھی موجب گناہ ہے یعنی مسلمان کو اعمال وجوارح سے لے کر قلب وخیال کی گہرائیوں تک پاکیزہ ہونا چاہئے ، مطلب صاف اور واضح ہے مگر چونکہ اس کے بعد ہی (آیت) ” لا یکلف اللہ نفس الا وسعھا “ کی آیت ہے یعنی خدا تکلیف مالایطاق نہیں دیتا ، اور حدیث میں آتا ہے کہ ” ان اللہ غفر لھذہ الامۃ ما حدثت بہ انفسھم “۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس امت پر فضل کیا ہے کہ وساوس کو قابل عضو ٹھہرایا ہے ، اس لئے شبہ پیدا ہوا کہ پھر نفس کے خیالات وافکار پر محاسبہ کیسا ؟ بعض نے اس کی تاویل یہ فرمائی کہ اس سے مراد کتمان شہادت ہے بعض نے فرمایا ، اس کا مقصد کفر ونفاق کا خیال ہے ، کہا یہ منسوخ ہے آیت ما بعد سے مگر اگر غور کیا جائے اور خیال وفکر کے نتائج پر نظر معان نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک حقیقت نفسی ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے اور کسی آیت وحدیث سے معنا اس کا تصادم نہیں ہوتا ، اس لئے تخصیص اور تنسیخ کا سوال ہی غلط ہے ، دماغ وقلب میں جتنے خیالات وجذبات پیدا ہوتے ہیں ان کا اثر ہوتا ہے جو بعض دفعہ نہایت لطیف وکمزور ہونے کی وجہ سے جوارح تک منتقل نہیں ہوتا ، اور نفس کی اگر تحلیل کی جائے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ خیالات وافکار میں محاسبہ کا عمل کار فرما ہے ، چھوٹے سے چھوٹا خیال جو برا ہو ‘ وہ بلا ذہنی تعزیر کے نہیں رہتا ، اسی طرح اچھا خیال وجذبہ ذہن کے لئے باعث مسرت ہوتا ہے ، کیا یہ حقیقت نہیں کہ تمام برے اعمال برے خیالات کا نتیجہ ہوتے ہیں اور کیا برائی برے خیال کی عملی سزا نہیں ؟ اس آیت میں اسی نفسیاتی اصول محاسبہ کو بیان فرمایا ہے اور مقصد یہ ہے کہ مسلمان جذبہ تاثر کے لحاظ سے بھی بہترین انسان ثابت ہو ۔ حدیث وآیت ما بعد کا تعلق اس نفس محاسبہ سے نہیں ، بلکہ اس محاسبہ سے ہے تو قضا یا خارج سے تعلق رکھتا ہے یعنی کسی چور کو محض اس لئے سزا نہیں دی جائے گی کہ اس کے دل میں چوری کے خیالات ہیں ، بلکہ اس وقت وہ سزا کا مستحق ہوگا ، جب یہ خیالات اسے چوری کے لئے مجبور کردیں ، البتہ خدا کے نزدیک اسے پاکیزہ دماغ اور پاکیزہ نفس انسان نہیں کہا جا سکے گا اور ایسے انسان میں جس کے دل میں چوری کا کوئی خیال نہیں ، یقینا زیادہ فضیلت ہے ۔ البقرة
285 (ف ٢) ان آیات میں بتایا ہے کہ ان حقائق پر جو اس سورۃ میں بیان کئے گئے ہیں ، سب ایمان رکھتے ہیں اور مسلمان حق وصداقت کا اس درجہ شیدائی ہے کہ بلاتفریق احد دوسرے ہر پیغمبر کو ماننا ہے ، اس کا شیوہ انکار وتمرد نہیں ، سمع واطاعت ہے ، وہ ہر وقت خدا کی بخشش ورحمت کا جویاں رہتا ہے اور حق کے قبول کرنے میں کوئی تعصب اس کے حائل نہیں ہوتا ۔ حل لغات : المصیر : انجام ۔ البقرة
286 (ف ١) ان آیات میں مسلمانوں کو ایک نہایت ہی عجیب دعا سکھائی گئی ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ مسلمان ان تمام گمراہیوں اور لغزشوں سے بچے جن کی وجہ سے پہلی قومیں ہلاک ہوئیں یعنی وہ خطاء نسیان سے بچے ، خواہ مخواہ تعمق کی وجہ سے مصائب کے بوجھ کر اپنے سر پر نہ لاوے جیسے پہلی قوموں نے کیا اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے نصرت وعفو کا طالب رہے اور کوشش کرے کہ طاقت وقوت میں کفر اس سے بازی نہ لے جائے ۔ البقرة
0 ال عمران : یہ سورۃ قرآن حکیم کی تیسری سورۃ ہے ، مدینہ میں ٩ ھ ؁ میں نازل ہوئی ، اس میں وفد نجران کے عقائد ومعترضات سے بحث کی ہے عام طور پر اس کے مخاطب عیسائی ہیں ۔ آل عمران
1 آل عمران
2 (ف ٢) ان آیات میں بتایا ہے کہ خدائے واحد کے سوا کوئی عبادت ونیاز کا مستحق نہیں ، سارے سجدے اور تمام عبادتیں اسی کو زیبا ہیں ، اس لئے کہ زندہ اور قیوم خدا وہی ہے ، اس کے سوا سب فنا کے گھاٹ اترنے والے ہیں ، سب فانی اور حادث ہیں سب احاطہ امکان کے اندر ہیں اور سب ایسے ہیں جو اس کی عبادت کرنا باعث فخر ومباحات سمجھتے ہیں ، سب کا وظیفہ زندگی اس کی پرستش کرنا اور تسبیح و تقدیس کے مشغلوں میں مست رہنا ہے ، آل عمران
3 قرآن مصدق ہے : (ف ٣) نزول قرآن کے وقت متعدد صحائف موجود تھے جن کے متعلق خیال تھا کہ یہ الہامی ہیں ، قرآن حکیم جب نازل ہوا ہے طبعا یہ سوال اٹھا کہ قرآن کریم کی حیثیت کیا ہے ؟ فرمایا کہ یہ پہلی تمام کتابوں کا جو خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں ‘ مصدق ہے ۔ تصدیق کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ جس قدر سچائیاں اور صداقتیں پہلے موجود ہیں ، قرآن حکیم ان کا بکمال وسعت قلبی اعتراف کرتا ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ توریت وانجیل کو بالکل تخریف ونصیحت سے مبرا مانتا ہے تصدیق صحیح اور درست کتاب کی ہے نہ اغلاط وتخریفات کی ، جیسا کہ قرآن حکیم کے دوسرے مواضع سے صاف ظاہر ہے ، وہ باوجود تصدیق کے ان کے غلط عقائد پر انہیں متنبہ کرتا ہے اور سختی کے ساتھ ٹوکتا ہے اور برملا کہتا ہے کہ (آیت) ” لقد کفرالذین قالوا ان اللہ ثالث ثلثۃ “۔ یعنی جہاں تک پیغام کی روح اور مغز کا تعلق ہے ۔ وہ ہمیشہ ایک ہی رہا ہے ، اس میں کبھی کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی اسی وجہ سے ہر الہامی کتاب کا فرض ہے کہ اس روح و رانحہ کی تائید کرے ۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ توراۃ وانجیل کے انجیل کے نزول کے بعد بھی روح انسانی تشنہ فیض تھی کہ وہ حسب وعدہ ایک مکمل شریعت سے بہرہ ور ہو ، یہ تشنگی اور ضرورت مسیح (علیہ السلام) کے ان الفاظ سے واضح ہے کہ ” دیکھو دنیا کا سردار آتا ہے “ ۔ اور یہ کہ ” میں بعض چیزیں تمہیں نہیں بتلاتا ، مگر وہ روح تمہیں سب کچھ بتائے گی ، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تھا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ میں تیرے بھائیوں میں سے تجھ جیسا ایک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نازل کروں گا ، حضرت داؤد (علیہ السلام) اپنی ایک زبور میں اس سرخ وسفید شاہ عرب کے انتظار میں عزل سرا ہیں ۔ دانیال (علیہ السلام) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک مکاشفے میں دیکھتے ہیں اور یسعیاہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کتاب میں اس قدوسی کی تعریف ہے ‘ جس کے ہاتھ میں آتشین شریعت ہے اور جس کی فتوحات روحانی سمندروں تک پھیل جائیں گی ، قرآن حکیم کہتا ہے میں مصدق ہوں ، یعنی ان تمام وعدوں ، امیدوں اور تمناؤں کو پورا کرنے کے لئے آیا ہوں ۔ تصدیق کا لفظ ان معنوں میں ادبیات عربی میں بکثرت مستعمل ہے ۔ ایک شاعر چند شاہسواروں کے متعلق کہتا ہے ۔ ع فوارس صدقت فیھم ظنونی : یعنی ان لوگوں نے میری تمام امیدوں کو پورا کردیا ۔ حل لغات : اصرا : بوجھ ۔ مولی : کارساز ۔ آل عمران
4 آل عمران
5 آل عمران
6 (ف ١) (آیت) ” المصور “۔ خدا تعالیٰ کی لاتعداد صفات ہیں ، ان میں سے ایک صفت مصور بھی ہے ، یعنی کائنات کو ایک موزون شکل میں پیدا کرنے والا ہے ، انسان ہی کو دیکھ لیجئے ، احسن تقویم کا کتنا اچھا مرقع ہے ۔ الہام روحی کے سیاق میں اس کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے ، ہم مذہب کی اہمیت کو پورا محسوس کریں ، اور جانیں کہ تعلق اللہ کے سوا عالم انسانیت کی جو شکل بھی ہوگی ، وہ غیر فطری اور بھونڈی ہوگی ، وہ خدا جو ہمیں مادی صورت میں پیدا کرتا ہے وہ چاہتا ہے ، ہماری روح کی تشکیل بھی ایک خاص ڈھب پر ہو ، اللہ کے پیغمبر ‘ اس کی کتابیں ‘ ان سب کا مقصد انسانیت کی مصوری ہے یعنی انسان کو جسم وروح کے لحاظ سے خوبصورت بنایا ۔ حل لغات : محکمت : واضح ، حکیمانہ اور قابل تاویل آیات ۔ متشابھات : محل تاویل وتفسیر ۔ متشابہات : آل عمران
7 متشابہات : (ف ٢) قرآن حکیم کی تقسیم محکمات ومتشابہات میں دائر ہے ، وہ لوگ جن کے دل نور ہدایت سے مستتیز ہیں ‘ اس تقسیم کو قدرتی اور طبعی خیال کرتے ہیں ، مگر وہ لوگ جن کا مقصد راہ راست سے بھٹک جانا ہے ، وہ محکمات کو جو اساس دین میں چھوڑ دیتے ہیں اور متشابہات جو محض برسبیل استطرادوتوثیق کے لئے بیان کی گئی ہیں ، وجہ نزاع ومخاصمت بنا لیتے ہیں اور گمراہ ہوجاتے ہیں ۔ قرآن حکیم میں عقائد سے لے کر معاشرت کے ادنی سے ادنی مسائل تک سب کو بیان کیا گیا ہے اور پھر ایک ایک مطلب ومقصد کو متعدد وسائل اور اسالیب بیان سے ادا کیا گیا ہے کبھی تشبیہ سے کام لیا جاتا ہے اور کبھی استعارے سے کبھی حقیقت جلوہ آرا ہے اور کبھی مجاز اور پھر ہر طریق ادا میں ظاہر ہے کچھ اختلاف بھی ہے اور یہی نوع بلاغت کی جان ہے ، مگر بایں ہمہ اس اختلاف وتنوع کے ایک وحدت جھلک رہی ہے اور ایک مخصوص رنگ یکساں نمایاں ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کے سامنے کچھ چیزیں بطور اساس ومرکز کے ہیں اور کچھ ایسی ہیں جن کا مرتبہ توثیق وتوقیع کے سوا اور کچھ نہیں ، اب چاہیے تو یہ کہ قرآن فہمی کے لئے ان اساسی ومرکزی عقائد کو سامنے رکھا جائے اور دوسری آیات کو توضیح وتشریح کے لئے سمجھا جائے ، حقیقت کو مجاز پر قربان نہ کیا جائے اور وہ چیز جو واشگاف طور پر کہی گئی ہے اسے اصل قرار دیا جائے اور جو استعارے کے رنگ میں ادا کی گئی ہے ‘ اسے اس کی تائید کے لئے استعمال کیا جائے ، مگر اہل زیغ والحاد جن کے دل بصیرت سے محروم ہیں ‘ ہمیشہ الٹا چلتے ہیں ، وہ حقائق کو چھوڑ کر اساسی مرکز سے قطع نظر کر کے چند عقیدے از خود تراش لیتے ہیں اور پھر اس کے بعد آیات تلاش کرتے ہیں جو ان کی تائید کریں ۔ قرآن حکیم ہی کی یہ خصوصیت نہیں ، ہر کلام بلیغ میں یہ تنوع موجود ہوتا ہے ، صاحب فہم وبصیرت حضرات یہ دیکھتے ہیں کہ کیا اس تنوع میں کسی وحدت کو ڈھونڈا جا سکتا ہے ؟ اور وہ جو مخالف ہوتے ہیں وہ اس تنوع کو رفتار پر محمول کرتے ہیں ۔ اور اصل شے سے بالکل الگ ایک مفہوم تراش لیتے ہیں ۔ ہر فرقہ جو گمراہ ہوتا ہے وہ اسی سبب سے کہ محکمات ومتشابہات میں فرق وامتیاز اٹھا دیتا ہے ، مثلا عیسائی کیوں تثلیث کی طرف مائل ہوئے ؟ اس لئے کہ جب وہ یونانی عقائد ذمیمہ سے دوچار ہوئے اور متاثر ہوئے تو انہوں نے انجیل سے اس بت پرستانہ عقیدہ کو استنباط کرنا چاہا ، انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کے لئے ” ابن اللہ “ کا لفظ اکثر استعمال کیا گیا ہے اور یہ کہ خدا اپنے لئے اکثر متکلم مع الغیر کا صیغہ استعمال کرتا ہے ۔ لہذا وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ تثلیت ایک درست اور صحیح عقیدہ ہے ، حالانکہ یہ صحیح نہیں ، اگر وہ مرکز واساس کو ہاتھ سے نہ دیتے اور حقیقت ومجاز میں فرق وامتیاز قائم رکھتے تو ایسی خطرناک ٹھوکر ہرگز نہ کھاتے ۔ ” ابن اللہ “ بطور مجاز کے مستعمل ہوا ہے جس کے معنی محبوب وپیارے کے ہیں ۔ انجیل اور دیگر کتب سماویہ کی مرکزی تعلیم توحید ہی ہے ، انجیل میں صاف لکھا ہے کہ کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا ، توریت میں بار بار یہودیوں کو بت پرستی پر ٹوکا گیا ہے ۔ غرضیکہ قرآن حکیم جو کفر وزندقہ کے تمام احتمالات کو بیان فرماتا ہے ، یہ کہتا ہے کہ فتنہ وتاویل کے لئے قرآن حکیم کی ورق گردانی نہ کرو عمل و ایمان کے لئے قرآن حکیم محکمات وبینات سے معمور ہے ، متشابہات اور قابل تاویل واحتمال آیات کو انہیں بینات پر ڈھالنے کی کوشش کرو اور کہو کہ (آیت) ” کل من عند ربنا “۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ ہمارے دل میں زیغ والحاد کی آلودگیاں پیدا نہ ہوں اور یہ کہ ہم قرآن حکیم پر عمل کرنے کی وجہ سے اس کی رحمتوں کے سزاوار اور مستحق ہوں ۔ حل لغات : الراسخون فی العلم : علم میں کامل دستگاہ رکھنے والے ۔ آل عمران
8 آل عمران
9 آل عمران
10 آل عمران
11 (ف ١) ان آیات میں یہ بتایا ہے کہ کذب وافترا کی آخری حد عذاب الہی ہے ، وہ لوگ جو اب تک اسلام کے پیغام صداقت شعار کا انکار کرتے چلے آرہے ہیں ‘ وہ متنبہ رہیں کہ ان کا مال ودولت انہیں ہرگز اللہ کی پکڑ سے نہ بچا سکے گا ، یہ خدا کا قانون ہے ‘ اس کی سنت ہے وہ نافرمانوں کو ہمیشہ سخت سزائیں دیتا رہا ہے ۔ دیکھ لو فرعون کس جاہ وحشم اور کس ٹھاٹھ سے رہتا تھا ، مگر ضرب موسوی کی تاب نہ لا سکا اور بنی اسرائیل کے سامنے دریا میں ڈوب گیا ۔ آل عمران
12 ایمان کی فتح اور کفر کی شکست : (ف ٢) (آیت) ” قل للذین کفروا ستغلبون “ میں یہود کو مخاطب کرکے فرمایا گیا کہ تم عنقریب مسلمانوں کے غلبہ واقتدار کے قائل ہو جاؤگے ، تمہیں تمہاری بستیوں سے نکال دیا جائے گا اور تمہارے باغات ویران کر دئے جائیں گے ، یہ اس لئے یہود کو اپنے مال ودولت پر بہت نازل تھا اور وہ قوت وعظمت کے نشہ میں سرشار تھے ، ضرورت تھی کہ انہیں خواب غفلت سے بیدار کیا جائے ، ضمنا اس آیت میں کفر کی دائمی مغلوبیت کی طرف اشارہ کردیا ، یعنی علو واقتدار ‘ بلندی وقوت صرف ایمان کے حصہ میں آئی ہے ، کفر ہمیشہ ہمیشہ پست اور ذلیل رہے گا ، چنانچہ ان کے سامنے بدر کا نقشہ رکھا ۔ مسلمان کل تین سوتیرہ تھے ، ستر اونٹ ‘ دو گھوڑے ‘ سات زرہیں اور آٹھ تلواریں زاد حرب سمجھئے ، دوسری طرف کفار کا لشکر جرار پوری تیاری کے ساتھ صف آراء تھا ، جس کے تمام سرداروں نے اس فراغ دلی اور فیاضی کے ساتھ حصہ لیا تھا ، فخر وغرور تکبر وتمکنت اور قوت وکثرت کا یہ طوفان مسلمانوں کو ” مشت غبار “ کی طرح منتشر کردینا چاہتا تھا ، کفر وضلالت کے تاریک اور سیاہ بادل آمادہ تھے کہ خرمن ایمان وبصیرت پر بجلیاں گرائیں ، کفر و ایمان کی یہ پہلی اور خطرناک سازش تھی ، ایمان کی بےبضاعتی اور باب کفر کے لیے باعث صد خندہ تھی شیطان ہنس رہا تھا ، اور خوش تھا کہ اللہ والے آج مٹنے کو ہیں ، مگر رب ذوانتقام کی ظاہر فوجیں مسلمانوں کے ساتھ تھیں ، تائیدغیبی نے ان کے دلوں کو فولاد بنا دیا ، وہ لڑے اور اس بےجگری کے ساتھ کہ کفر بایں کثرت وحشمت بری طرح ذلیل اور رسوا ہوا ، ایمان ہمیشہ کے لئے سربلند ہوگیا اور کفر سرنگوں ، کیا یہ واقعہ اس بات کی دلیل نہیں کہ ایمان بجائے خود فاتح ومنصور ہے اور کفر مغلوب ومقہور ۔ آل عمران
13 آل عمران
14 ذلت کے اسباب : (ف ١) یہ مژدہ ایمان پرور سننے کے بعد کہ مسلمان ہمیشہ مظفر وکامران رہتا ہے ، سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کون سی چیزیں مسلمان کو ذلت وپستی کی طرف کھینچ لے جاتی ہیں ، اور وہ کیوں بعض حالات میں اپنے اصلی مقام رفعت وعظمت کو چھوڑ کر قفل وتعبد کی گرانبار زنجیروں کو زینت غلو بنا لیتا ہے ، قرآن حکیم کی زبان میں اس کا سبب ایک اور صرف ایک ہے ، یعنی خواہشات نفس کا ضرورت سے زیادہ احترام ۔ مسلمان خار زار دنیا میں بھیجا گیا ہے ، تاکہ آبلہ پائی کی تمام کی تمام مصیبتوں کو وہ برداشت کرے ، کانٹے کانٹے سے الجھے ، مگر دامن ایمان کو صاف بچا لے جائے ، وہ دنیا کی ہر لذت سے استفادہ کرے مگر جائز حد تک ، وہ عدل ومساوات اور ضبط ونظم کا محسوس پیکر بنے مسلمان کی زندگی جب عیش وعشرت کا رنگ اختیار کرے ، بیوی اور بچے جب اس کی تمام توجہات کو اپنی طرف جذب کرلیں ، سونے چاندی کا ڈھیر اس کا مقصد ٹھہریں اور خیل وحشم اس کا منہائے نظر کھیت اور باغات سے آگے اس کی جولانیاں نہ ہوں تو سمجھ لیجئے کہ متاع غرور نے اس کے پاؤں پکڑ لئے ہیں اور اس کی نگاہیں پاور گل ہو کر رہ گئی ہیں ، اب حسن مآب سے قطعا بیگانہ ہوگیا ہے اور آخری زندگی کی شادکامیاں اس کی نظر سے اوجھل ہوگئی ہیں ، ہاں اگر وہ ان رنگین زنجیروں کو زیب گلو نہ بنائے تو پھر فتح وظفر صرف اسی کا حصہ ہے ۔ حسن الماب : (ف ٢) ان آیات میں بتایا ہے کہ مادی خواہشات سے زیادہ قابل قدر جنات نعیم کی نعمتیں اور اللہ کی رضا مندی ہے ، وہ لوگ جو متقی ہیں ، جن کی طبیعتیں ایمان وبصیرت کی طرف زیادہ مائل ہیں ، وہ جو بالا صالت صرف خدا اور خدا کے دین سے محبت رکھتے ہیں ، جو دنیا سے بلند و بالا ہو کر رہتے ہیں ، جنہیں دنیا کی دلفریبیاں اپنی طرف نہیں کھینچتیں وہ اس کے مستحق ہوتے ہیں ، ان کی زندگی دائمی مسلسل اور پہیم خوشیوں کا نام ہے ۔ حل لغات : شھوت : جمع شھوۃ ، خواہش ، طلب ۔ القناطیر : جمع قنطار ، ایک ہزار اوقیہ یا مال کثیر ۔ الخیل المسومۃ : خوبصورت اور شان دار گھوڑے ۔ آل عمران
15 آل عمران
16 آل عمران
17 اللہ کے بندے : (ف ١) اس سے پہلے کی آیت میں اللہ بندوں کے انعامات گنائے گئے تھے ۔ اس آیت میں یہ بتایا کہ اللہ کے بندے کون ہیں ؟ وہ مومن جنہیں احساس گناہ ہر وقت طلب مغفرت پر مجبور کرتا رہے ، وہ جو صابر ہوں یعنی صبر علی الطاعات ہو ، صبر علی المحارم ہو ، تکلیفوں پر برداشت کی قوت رکھتے ہوں ، باطل کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ ہوں ، یہ سب چیزیں صبر کے مفہوم میں داخل ہیں ، وہ جو صادق ہوں ، زبان ودل میں ان کے کوئی اختلاف نہ وہ ، سرا وجہرا ان میں کوئی تفاوت نہ پایا جائے ، ان کی خلوتیں جلوتوں سے بہتر ہوں ، وہ جو قانتین ہوں ، فرائض کی بجا آوری میں ہمہ تن رضا کار ہوں ، وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہوں اللہ کے بندوں سے انہیں الفت ہو ، ان کی ضروریات کو وہ سمجھتے ہوں اور ہنگام سحر جب لوگ میٹھی نیند سو رہے ہوں ‘ ان کے پہلو بستروں سے جدا ہوں ، وہ رات کی تاریکیوں میں دل کے اجالے مانگ رہے ہوں ، بخشش وطلب کے لئے بےچین ہوں اور مضطرب ہوں ، ایسے لوگ اللہ کے بندے ہیں ، اس کے پیارے ہیں ۔ اور انعامات کے مستحق ہیں ۔ حل لغات : القسط : انصاف وعدل ۔ آل عمران
18 خدا کی گواہی : (ف ١) خدا کی توحید ایک اصل اور حقیقی عقیدہ ہے ، جس میں کبھی اختلاف نہیں ہوا لیکن مشرکین بایں ہمہ اس محسوس صداقت سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں ، اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ خدا کی شہادت ، فرشتوں کی شہادت اور علماء کی شہادت ہمیشہ توحید ہی کے حق میں رہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ خدا برست موحدوں کی اعانت کی ہے انبیاء بھی توحید ہی کا پیغام لے کر زمین پر آئے ہیں اور علماء حق نے بھی عجز توحید کے کسی پر قناعت نہیں کی یہ تین شہادتیں ہیں اور ان کے اثبات کے لئے تین زبردست دلائل ہیں ، کفر و ایمان کی ساری تاریخ پڑھ جاؤ ، تمہیں کبھی بھی حق دبتا ہوا نظر نہ آئے گا ، کتابیں اور صحیفے جو خدا کی طرف سے ہیں ، توحید کے پیغام سے پر ہیں ، اسی طرح وہ لوگ جو صحیح معنوں میں عالم ہیں ، ہمیشہ توحید ہی کے قائل رہے ہیں ، کیا توحید پر ان سے زیادہ صاف ، اور مضبوط اور کھلی شہادت پیش کی جا سکتی ہے ؟ آل عمران
19 صداقت کی ایک ہی راہ : (ف ٢) سچائی اور صداقت کی ایک ہی راہ ہے جس کا نام اسلام کی منزل مقصود تک اور شاہد عرفان تک بجز اسلام کے اور کوئی راستہ نہیں جاتا ، اللہ کی محبت ، اس کی توحید اور نسل انسانی کی فلاح وبہبود کا سامان جس قدر اسلام میں میسر ہے ، دوسرا کوئی مذہب اس کا مدعی نہیں ہو سکتا ، اس لئے اسلام کے سوا جس قدر راستے ہیں وہ مخدوش ہیں ، منزل مقصود سے دور لے جانے والے ہیں اور گمراہ کرنے والے ہیں ، اس لئے کہ نسل انسانی کا مشترکہ مذہب صرف اسلام ہے ، ساری دنیا کو یہی مذہب عنایت کیا گیا ، سب کو یہی پیغام ہدایت سنایا گیا ، وہ پیغام جو آسمان سے زمین پر نازل ہوا ، وہ ایک ہے ، اس میں کوئی اختلاف نہیں ، تمام انبیاء اور تمام مصلح ایک ہی پیغام لے کر آئے ہیں اور یہ جو اختلاف نظر آرہا ہے ‘ خواہشات کا اختلاف ہے نفس امارہ کی بوقلمونیاں ہیں اور اہل کتاب کی ہوا وہوس کا نتیجہ ہے ، ورنہ آدم (علیہ السلام) سے لے کر مسیح (علیہ السلام) تک سب اسی حقیقت ثابتہ کی منادی کرتے آئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مخالف حلقے اسلام کی تعریف میں رطب اللسان ہیں اور نادانستہ اسلام کو قبول کرتے چلے جاتے ہیں ، سب اس کی صداقتوں کو محسوس کرتے ہیں اور عملا کوشاں ہیں کہ اسلام کی تمام مجوزہ اصلاحات کو قبول کرلیں ، وہ وقت نہایت قریب ہے جب ساری دنیا میں اسلام کو بطور ایک مشاہدہ اور نظریہ کے تسلیم کرلیا جائے گا اور شاید لفظی اختلاف باقی نہیں رہے گا ۔ حل لغات : العزیز : غالب ۔ زبردست ۔ آل عمران
20 آل عمران
21 شہید انبیاء : (ف ١) قساوت قلبی اور شومئی قسمت کی بدترین صورت ہے کہ کوئی شخص اپنے محسن سے دشمن کا ساسلوک کرے ۔ انبیاء علیہم السلام نسل انسانی کے سب سے بڑے محسن ہوتے ہیں ، کیونکہ وہ روح وجسم کی تربیت واصلاح کے لئے آتے ہیں اور ہر مصیبت کو برداشت کرنے کے لئے آمادہ ہوتے ہیں ، مگر حق وصداقت اور فلاں وبہبود انسانی سے دستبردار ہونے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوتے ۔ یہودی ہمیشہ ضدی رہے ہیں ، ان کی طرف اللہ تعالیٰ نے پہیم اور مسلسل نبی بھیجے ، تاکہ وہ راہ راست پر آجائیں ، مگر وہ وہیں رہے اور ان کے جمود وتساہل میں ذرہ برابر تحریک پیدا نہیں ہوئی بلکہ تمرد ہوگئے اور بعض کو شہید ہی کر ڈالا ، اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، ان کے تمام اعمال ضائع ہوگئے ، اور وہ ایک زبردست عذاب کے لئے تیار رہیں ۔ (آیت) ” ومالھم من نصرین “۔ چنانچہ خدا کی غیرت حرکت میں آئی ، اس کا غضب وجلال بھڑکا اور طے ہوگیا کہ بنی اسرائیل کو اس قساوت قلبی کی بدترین سزا دی جائے بخت نصر آیا اور کشت وخون کا بازار گرم ہوگیا ، یہودی بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کئے گئے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ، تورات کے اوراق الاؤ کا ایندھن بنے اور قتل وسفاکا وہ طوفان اٹھا کہ دنیا چلا اٹھی ، اکثر یہودی مارے گئے ، جو بچ گئے انہیں بابل ونینوا کے جیل خانوں میں بند کردیا گیا اور مدت تک قیدوبند کی سختیاں جھیلتے رہے ، یہ کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ وہ خدا کی طاقت کے سامنے جھکیں اور عبرت حاصل کریں ۔ بعض لوگوں نے یہ حرمت نبوت کے منافی خیال کیا ہے کہ نبی شہید ہوجائے اس لئے ان کی خیال میں (آیت) ” یقتلون “ کے معنی باہمی آویزش وتصادم کے ہیں ، مگر یہ صحیح نہیں ، ایک تو قرآن کے الفاظ صاف ہیں دوسرے تورات میں قتل انبیاء کی کئی مثالیں ملتی ہیں ، تیسرے یہ کوئی ضروری نہیں کہ انبیاء طبعی موت سے ہی دوچار ہوں اور شہادت سے محروم رہین ۔ یہ درست ہے کہ حق ہمیشہ غالب رہتا ہے مگر حق کو سربلند رکھنے کے لئے کبھی کبھی جان تک کو پیش کرنا پڑتا ہے ، شہید ہوجانا اس وقت وظیفہ نبوت کے منافی ہوتا ہے جب نبی اپنے مشن کو پیش کرنے سے قاصر رہے اور اس سے پیشتر کہ لوگوں تک اپنا پیغام پہنچائے ، زندگی سے محروم کردیا جائے اور اگر وہ سب کچھ پہنچا چکا ہو ، ضرورت صرف اس بات کی رہ جائے کہ وہ اس باغ کی آبیاری اپنے خون سے کرے جس کو اس نے اپنے ہاتھوں بڑی محنت سے لگایا ہے تو اس وقت سے کرے جس کو اس نے اپنے ہاتھوں بڑی محنت سے لگایا ہے تو اس وقت اس کا فرض ہوتا ہے کہ اپنی جان پر کھیل جائے ، جب بستر مرگ پر جان دینا منصب نبوت کے منافی نہیں تو میدان جنگ میں شہادت سے سرفراز ہونا کیوں منافی ہو ؟ اصل شبہ عصمت انبیاء کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے مگر یہ یاد رہے کہ ” مجرد نبوت “ اس کے لئے کافی نہیں ، وہ انبیاء جنہیں اس کا وعدہ دیا گیا ہے وہی دشمنوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہتے اور دوسرے کوئی ضروری نہیں کہ محفوظ رہیں ، یہی وجہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (آیت) ” واللہ یعصمک من الناس “ کی ایک خصوصیت بخشی ورنہ کہہ دینا کافی تھا کہ آپ نبی ہیں اور انبیاء دشمنوں سے ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں ۔ حل لغات : بشرھم : خوشخبری سنا ، بطور طنز کے ہے نصیب : ایک حصہ : آل عمران
22 آل عمران
23 آل عمران
24 یہودیوں کا غرور مذہبی : (ف ١) یہودیوں کو قرآن مجید کی طرف دعوت دی جاتی اور کہا کہ اس چشمہ فیض سے استفادہ کرو تو وہ اعتراض کرتے رہو کہتے کہ جہنم میں اگر جائیں گے بھی تو چند روز کے لئے ، اس لئے میں کسی دوسرے مذہب کو قبول کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ فرمایا ، یہ فریب نفس ہے ، اللہ تعالیٰ کے ہاں بخشش ومغفرت ہی کے لئے جو حق کو قبول کرتا ہے اور نیک رہتا ہے ، صرف یہودی یا عیسائی کہلانا کافی نہیں ۔ آل عمران
25 آل عمران
26 مالک الملک : (ف ٢) یہودیوں کو اپنے مال ودولت پر فخر تھا ، مدینہ اور آس پاس بستیاں ان کے اقتدار میں تھیں اس لئے وہ فاقہ مست مسلمانوں طرف کوئی توجہ نہ دیتے ، قاعدہ ہے ایک باعروج قوم اپنے تمدن وتہذیب پر قانع ہوتی ہے ، قرآن حکیم میں بطور دعا کے اس حقیقت کو واضح کیا کہ مالک الملک صرف خدا ہے جس کی بادشاہتیں ہمیشہ رہیں گی اس کے خزانے کبھی ختم نہ ہوں گے ، وہ جسے چاہے اور نگ وپہیم کا مالک بنا دے اور جس سے چاہے تاج ونگین چھین لے ، عزت وذلت صرف اس کے قبضے میں ہے ! اس لئے کوئی تاجور اس کا انکار نہ کرے اور حکومت کے نشے میں احکم الحاکمین کی بادشاہت کو تحقیر کی نظروں سے نہ دیکھے کہ وہ پل بھر میں حکومت کے تختے کو الٹ سکتا ہے اس کی قدرت کے یہ ادنی کرشمے ہیں کہ وہ چشم زدن میں بڑے بڑے فرعونوں اور نمرودوں کو غرق وہلاک کردے ، اسی طرح غلام ومفلس اپنے مقدر سے مایوس نہ ہوں کہ وہ پستیوں کو بلندیوں میں تبدیل کرسکتا ہے ، وہ خارستان کو ابر رحمت کے چند قطروں سے باغ ارم بنا سکتا ہے اور اس کی دلیل لیل ونہار کے اختلاف میں ظاہر ہے ، دیکھ لو کس طرح دن کی روشنی رات کی تاریکی میں تبدیل ہوجاتی ہے ، اور کس طرح شب دیجور کی گود میں خورشیدتاباں کھیلنے لگتا ہے اور پھر کس طرح ایک قطرہ آب حیوان ناطق بن جاتا ہے ، غرضیکہ وہ بادشاہوں کا بادشاہ اور مالکوں کا مالک ہے ، سب اس کی چاکری کا اعتراف کرتے ہیں ، پس یہودی اپنے مال ودولت پر نہ اترائیں کہ خدا انہیں کفر وذلت کے مصائب میں مبتلا کرسکتا ہے اور مسلمان نہ گھبرائیں کہ خدا ان کی مایوسیوں کا امیدوں اور کامرانیوں میں بدل سکتا ہے ، یہ انداز بیان کتنا خدا پرستانہ اور موحدانہ ہے ، کس قدر مؤثر اور دلپذیر ہے ؟ مقصد یہ ہے کہ لوگ غلط فہمی میں نہ رہیں اور اللہ تعالیٰ کی بےانداز قدرتوں کا اعتراف کریں ، یہ کہ حکومت وعزت صرف خدا کی دین ہے اور اس میں ہمارے کسب واختیار کو کوئی دخل نہیں ، اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے حصول کے لئے قواعد بنا رکھے ہیں ، ان کی رعایت رکھنا نہایت ضروری ہے عزت وغلبہ اور حکومت واختیار یونہی بلا محنت حاصل ہونے والی چیزیں نہیں ، بلکہ یہ موقوف ہیں حاکمانہ اخلاق کے حصول پر ، اسی طرح غلامی ونکبت کے لئے بھی اسباب ہیں ، البتہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو پستی سے اٹھانا چاہتے ہیں تو ایسے اسباب کے حصول کی جو ضروری ہیں انہیں توفیق دے دیتے ہیں ۔ آل عمران
27 آل عمران
28 کفار سے موالات : (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ مسلمان کافروں سے موالات نہ کریں اور ہرگز کسی غیر کو لائق محبت نہ سمجھیں ، اس مضمون کو متعدد آیات میں واضح کیا گیا ہے ، (آیت) ” لایتخذوا بطانۃ من دونکم “۔ پھر یہ بھی فرمایا (آیت) ” ومن یتولھم منکم فانہ منھم “۔ اس آیت میں ارشاد ہے کہ (آیت) ” ومن یفعل ذلک فلیس من اللہ فی شیئ“۔ یعنی کفر سے دوستی ایمان سے ’ دشمنی کے مترادف ہے ، وہ جو اسلامی مفاد کو چھوڑ کر اور مسلمانوں سے رشتہ اخوت توڑ کر کفار سے تعلقات محبت استوار کرتا ہے ‘ وہ اسلام اور مسلمانوں کا غدار ہے اور ہرگز قابل اعتماد نہیں اور اس موالات میں کسی قوم وفرقہ کی تخصیص نہیں ، سارے کافر اسلام سے دشمنی رکھتے ہیں ، اور سچ اور جھوٹ میں کبھی اتحاد ممکن نہیں ، اگر رات اور دن ایک نہیں ہو سکتے تو ضرورت ہے کہ کفر اور اسلام میں بھی کوئی تعلق نہ ہو ۔ مقصد یہ ہے کہ مسلمان نہایت محتاط بن کر رہیں اور کسی طرح کے فریب کا شکار نہ ہوں یہی مطلب ہے ان الفاظ کا کہ (آیت) ” الا ان تتقوا منھم تقۃ “۔ البتہ ناگزیز معاشی وسیاسی تعلقات میں مضائقہ نہیں ، اسلام یہ نہیں چاہتا ہے کہ مسلمان کا کوئی حقیقی دوست نہیں ، اپنے مصالح کے لئے وہ مسلمانوں سے محبت کا اظہار کرتے ہیں ورنہ ان کے دل بغض وحسد سے معمور ہیں (آیت) ” وما تخفی صدورھم اکبر “۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ مسلمان نے اس سے تغافل برت کر سخت نقصان اٹھایا ہے ہمیشہ اغیار نے دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے ، اس لئے ضرورت تھی کہ اس حقیقت کا اظہار کردیا جائے ۔ وہ لوگ جو مخلصانہ مسلمانوں سے تعلقات رکھتے ہیں قرآن حکیم نے کھلے الفاظ میں ان کی تعریف کی ہے اور اپنے متعلقین کو تلقین کی ہے کہ ان کے ساتھ حسن سلوک روا رکھا جائے ۔ حل لغات : اولیائ: حقیقی دوست ۔ نفسہ : یہاں اس کے معنی بذات خود کے ہیں ۔ آل عمران
29 آل عمران
30 آل عمران
31 تقرب الہی کا واحد ذریعہ : (ف ١) انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ قول وفعل سے اللہ کے بندوں میں اللہ کی محبت پیدا کردیں اور گم کردہ راہ لوگوں کو جادہ مستقیم پر ڈال دیں ، وہ انسانوں کو ہدایت ورہنمائی کا پہلا اور آخری وسیلہ ہیں ، اس لئے ان سے قطع نظر کسی طرح جائز ودرست نہیں ۔ اس آیت میں محبت الہی کے دعوے داروں کو اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اتباع سید الابرار (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب دعوت دی ہے اور کہا ہے کہ خدا تک پہنچنے کے لئے بجز اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور کوئی طریق نہیں ، قیامت تک کے لئے محبوبیت ومقبولیت کا تاج فرق اقدس کے سوا اور کسی کے سر پر زیب نہیں دیتا ، وہ جو تقرب وتالف کے مدارج طے کرنا چاہتے ہیں وہ آئیں اور اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی راہوں پر گامزن ہوں کہ اس کے سوا منزل تک پہنچنے کے لئے کوئی راہ نہیں اسلام کی شاہراہ کے عام کے لئے وا ہوجانے کے کے بعد رشد وہدایت کے تمام راستے مسدود ہیں ، سلوک ومعرفت کے تمام مروجہ طریقے غلط ہیں اور گمراہ کن ہیں ‘ اگر ان میں اطاعت واتباع کا خیال نہیں رکھا گیا اور خدا رسی کے تمام ذرائع باطل ہیں ‘ اگر ان میں مشکوۃ نبوت کی روشنی نظر نہیں آتی ۔ اگر اطاعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جذبہ دلوں میں موجزن ہے تو پھر اللہ کی محبت ومغفرت بہرحال شامل حال ہے اور اگر اس سے محرومی ہے تو یہ جان لو کہ (آیت) ” فان اللہ لا یحب الکافرین “۔ حل لغات : امد : فاصلہ ۔ عباد : جمع عبد ۔ بندے اصطفے : مصدر اصطفا ۔ انتخاب ، چننا ۔ آل عمران
32 آل عمران
33 آل عمران
34 آل عمران
35 تین قصے : (ف ١) رسالت مآب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر یہودیوں کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہ اسرائیل نہیں اور اللہ تعالیٰ نے کیوں بنی اسرئایل اسمعیل سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت کے عہدہ جلیلہ کے لئے منتخب کیا ، یہودی چونکہ حد درجہ ظاہر پرست تھے ، اس لئے وہ اس خرق عادت کو باور نہ کرسکے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذیل میں تین قصے بیان کئے ہیں جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مصالح کو کوئی نہیں جانتا اور اس قسم ونوع کے خوارق اکثر پیش آتے رہتے ہیں اور یہ کہ خود یہودی ان واقعات کو تسلیم کرتے ہیں ، اس لئے چاہئے کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سلسلہ اسماعیلیہ میں ہونا بھی قابل اعتراض نہ سمجھیں ، نبوت اللہ کی دین ہے ، جب تک اسرائیل اس بار امانت کو اٹھانے کے اہل رہے ‘ اللہ نے انہیں میں سے انبیاء بھیجے ، جب ان میں یہ اہلیت نہ رہی تو بنی اسمعیل کو اس شرف سے نوازا گیا ۔ یہ پہلا قصہ حضرت مریم علیہا السلام کی نذر کا ہے ، ان کی والدہ چاہتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں فرزند نرینہ بخشیں تو وہ یروشلم کی خدمت کے لئے اسے وقف کردیں ، مگر اللہ تعالیٰ کا یہ رسم توڑنا مقصود تھا ، اس لئے بجائے لڑکے کے لڑکی پیدا ہوئی اور اسے خلاف روایات یہود بہت المقدس کی خدمت کے لئے حضرت زکریا (علیہ السلام) کے سپرد کردیا گیا یہ قدیم روایات کے خلاف ایک خرق ہے ۔ دوسرا قصہ حضرت یحیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کا ہے یعنی حضرت یحیٰ بھی اس وقت پیدا ہوئے جبکہ بظاہر کوئی توقع نہیں کی جا سکتی تھی یہ دوسرا خرق ہے ، تیسرا قصہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی ولادت باسعادت کا کہ بلا باپ پیدا ہوئے یہ تیسرا خرق ہے ۔ جب اتنے خوارق کو مان لینے میں یہودیوں کو کوئی تامل نہیں ہے تو پھر وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا صرف اس لئے کیوں انکار کرتے ہیں کہ وہ مقررہ عادت کے خلاف تشریف لائے ہیں کہ کیا رسم عادت مصالح کے تابع نہیں اور کیا اللہ ہی مصالح کو بہتر طریق پر نہیں جاوے پھر کیا وجہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کردیا جائے ، ان آیات میں پہلے قصے کی توضیح کی ہے کہ کس طرح حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ نے منت مانی اور کس طرح حضرت مریم علیہا السلام زکریا (علیہ السلام) کی کفالت میں آئیں ۔ حل لغات : محررا : آزاد ۔ آل عمران
36 آل عمران
37 آل عمران
38 حضرت زکریا کی دعا : (ف ١) حضرت مریم علیہا السلام کی حضرت زکریا (علیہ السلام) کی کفالت میں اس لئے دیا گیا تاکہ وہ بہترین تربیت حاصل کریں اور آیندہ چل کر اخلاق کے متعلق انہیں مہتم نہ کیا جائے ، مریم علیہما السلام ابھی بچی ہی تھیں کہ ان کا دل معرفت وسلوک کی تمام منزلیں طے کرچکا تھا ، زکریا (علیہ السلام) نے جب ان سے پوچھا کہ بچی ، یہ رزق کہاں سے آیا ہے تو آپ نے جواب دیا ، اللہ کی جانب سے ۔ یہ جواب سن کر حضرت زکریا (علیہ السلام) نہایت محفوظ ہوئے اور دل میں اس خواہش نے چٹکی لی کہ میرے گھر میں بھی ایسی ہی روح آئے ، چنانچہ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے مولا ! تو دعاؤں کا سننے والا اور قبول کرنے والا ہے ، مجھے بھی نیک اولاد عنایت کر ۔ اس دعا میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انبیاء علیہم السلام اولاد چاہتے بھی ہیں تو ایسی جس سے نسل انسانی کا فائدہ ہو ، اور اولاد کے لئے صرف باری تعالیٰ کا باب اجابت کھٹکھٹاتے ہیں ، دوسروں کے دروازوں پر جبہ سائی نہیں کرتے ۔ حل لغات : للمحراب : حجرہ ۔ عبادت گاہ ، بالاخانہ ۔ آل عمران
39 (ف ١) دعا چونکہ دل سے نکلی تھی اور بلند خواہشات کے ماتحت کی گئی تھی ، اس لئے فورا شرف قبولیت سے نوازی گئی ، فرشتے حضرت زکریا (علیہ السلام) کے پاس آئے اور کہا کہ خدا تمہیں حضرت یحی کے تولد کی بشارت دیتا ہے جو خدا کے کلام کی تصدیق کرے گا قوم میں اس کی سیادت وقیادت مسلم ہوگی ، پاکباز اور نبی ہوگا ۔ آل عمران
40 (ف ٢) حضرت زکریا (علیہ السلام) نبی ہونے کے ساتھ ساتھ چونکہ انسان بھی تھے ، اس لئے بشری نفسیت برابر کام کرتی رہی ، آپ نے از راہ استبعاد اور تعجب پوچھا ، اللہ ! یہ کیسے ممکن ہے جب کہ میں حد سے زیادہ بوڑھا ہوچکا اور میری بیوی بھی جوان نہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” کذلک اللہ یفعل ما یشآء “۔ یعنی یہ معتاد قوانین تمہارے لئے ہیں اللہ تعالیٰ کسی قانون کا پابند اور محتاج نہیں وہ کبھی کبھی اپنی قدرت کے اظہار کے لئے ایسے خوارق ضرور پیدا کرتا ہے ، تاکہ بےدین اور ملحد لوگ اس کی جلالت قدر کا صحیح اندازہ کریں ، جب لوگ اسباب ووسائل کی غیر معمولی اہمیت دے دیتے ہیں اور ہر بات کو مادی ذرائع کے ماتحت سمجھتے ہیں اس وقت اللہ تعالیٰ ایسی محیر العقول باتیں ظاہر فرماتے ہیں جن سے یہ معلوم ہو کہ ایک عزیز وقاہر ہستی ایسی بھی ہے جو ہر قانون سے بالا اور بلند ہے اور تمام باتیں جس کے اشارے سے ظہور پذیر ہوتی ہیں ۔ آل عمران
41 روحانی وسائل : (ف ٣) حضرت زکریا (علیہ السلام) نے بشارت کی تحقیق کے لئے پوچھا کہ اس کے وقوع کی علامات کیا ہوں گی ؟ خدا نے فرمایا ، تیری زبان گنگ ہوجائے گی اور تو تین دن تک بجز اشارات کے اظہار مطلب نہ کرسکے گا اور اس اثنا میں تو رب العزت کی صبح وشام تسبیح وتقدیس کر ، ان آیات میں یہ بتایا کہ مرد مومن محض مادی اسباب ووسائل پر بھروسہ نہیں رکھتا ، بلکہ وہ اللہ تعالیٰ سے روحانی وسائل کا طالب رہتا ہے ، ایک مادہ پرست انسان تلقین سن کر ہنس دے گا کہ وظیفہ تولید کو عبادت سے کیا تعلق ؟ لیکن جن کے دماغ فلسفہ سے یا بس اور خشک نہیں ہوگئے ، اس بات کو تسلیم کریں گے کہ ہر مادی نتیجہ معلول ہوتا ہے روحانی اسباب ووسائل کا ، یہ درست ہے کہ ہماری نظریں صرف مادیت تک محدود رہتی ہیں ، مگر اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ کائنات میں صرف مادیت ہی مادیت ہے ، اللہ والے اور نیک لوگ ظاہری اسباب ووسائل سے کام تو لیتے ہیں ، مگر ان کے تابع نہیں رہتے ۔ حل لغات : مصدقا بکلمۃ من اللہ : یعنی پیغام الہی کے مصدق ۔ حصور : پاکباز ، مناہی سے پرہیز کرنے والا ، اپنے آپ کو خواہشات نفس سے محفوظ رکھنے والا ، محتاط ضابطہ ۔ عاقر : وہ عورت جس کے اولاد نہ ہو ، جو عمر کے ایسے حصے میں جہاں اولاد نہیں ہوتی ۔ رمز ۔ اشارہ کنایہ ۔ ابکار : صبح ۔ آل عمران
42 مریم کاملہ (علیہ السلام) : (ف ١) حدیث میں آیا ہے ، ” مکمل من الرجال کثیر ولم مکمل من النسآء الا مریم بنت عمران واسیۃ امرۃ فرعون وافضل عائشۃ علی النسآء کفضل الثرید علی الطعام “۔ (مجتبائی : ص ٤٢) یعنی مردوں میں سے تو بہتیرے درجہ بنوع وکمال تک فائز ہوئے ہیں ، مگر عورتوں میں مریم علیہا السلام ، آسیہ (رض) اور عائشہ (رض) کے سوا اور کوئی اس فضیلت کو حاصل نہیں کرسکی ، دوسری حدیث میں حضرت خدیجہ (رض) اور حضرت فاطمۃ الزہرا (رض) کا نام بھی آیا ہے ، مقصد یہ ہے کہ ہر زمانے میں حالات واستعداد کے مطابق عورتیں بھی کمال وفضل سے بہرہ وافر حاصل ہوسکتی ہیں ، اس آیت میں حضرت مریم علیہا السلام کا ذکر ہے ۔ بالخصوص حضرت مریم علیہا السلام کی تقدیس وتطہیر اس لئے فرمائی کہ یہود ان کی نسبت نہایت ہی ناپاک خیالات رکھتے تھے ، یہ قرآن حکیم کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے حضرت مریم علیہا السلام کے دامن عفت کو ہر آلودگی سے پاک رکھا ۔ اصطفاء کا نقطہ قرآن حکیم میں خاص انتخاب یا ہم خدمات کے لئے چن لینے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ حضرت مریم علیہا السلام کے متعلق اس آیت میں دو دفعہ اصطفاء کا لفظ آیا ہے ، پہلے اصطفاء سے مراد ذاتی فضائل کا اظہار ہے دوسرے سے مقصود یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کی والدہ ہونے کا شرف حاصل کرنا بجز مریم کاملہ کے اور کسی کے بس کی بات نہ تھی ، آپ نے محض اللہ کے لئے ہر نوع کی گستاخیوں اور ملامتوں کو برداشت کیا ، صرف اللہ کے دین کی خدمت کے لئے دلخراش طعنوں کو سنا ۔ آل عمران
43 آل عمران
44 قصوں کا مقصد : (ف ٢) (آیت) ” ذلک من انبآء الغیب “۔ کہہ کر قرآن حکیم نے بتایا ہے کہ یہ قصے بطور دیل وبرہان کے بیان کئے گئے ہیں غور کرو سینکڑوں برس پہلے واقعات جن پر تصحیف وتحریف کے کئی پردے پڑچکے ہیں کس طریق پر ایک امی کے منہ سے واشگاف طور پر ظاہر ہو رہے ہیں کیا یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر زبردست دلیل نہیں ؟ آل عمران
45 کلمتہ اللہ : (ف ٣) ابن مریم علیہا السلام کو کلمۃ اللہ اس لئے فرمایا کہ ان کی پیدائش غیر مادی اسباب کی بنا پر ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے خرق عادت کے طور پر محض اختیار کن فیکون سے کام لیتے ہوئے آپ کو مادہ پرست لوگوں کے لئے ایک زبردست نشان بنایا ۔ بارعب اور وجہ مسیح (علیہ السلام) : (ف ٤) ان کو جلال ورعب عنایت کیا یہودی باوجود وسیع مادی قوت کے مسیح (علیہ السلام) کو گرفتار نہ کرسکے ، انجیل میں جو یہ لکھا ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کو دو چوروں کے ساتھ صلیب پر لٹکا دیا گیا یہ سراسر غلط اور جاہت ووقار کے خلاف ہے ، کوئی نبی اپنے آپ کو اس بےچارگی کے ساتھ کفر کے سپرد نہیں کردیتا نبی آخر وقت تک باطل سے لڑتا اور جہاد کرتا ہے ۔ آل عمران
46 (ف ١) اس آیت میں حضرت مریم علیہا السلام کو خوشخبری سنائی ہے کہ تیرا بیٹا اللہ کا نبی ہوگا اور اس کا کام لوگوں کی اصلاح وتربیت ہوگا ۔ جھولے میں گفتگو کرنے کا مطلب وہ نہیں جو بعض قرآن نا آشنا لوگوں نے سمجھا ہے کہ وہ معمولی اور عادی گفتگو ہے ، اس لئے کہ مقام بشارت میں اس کا ذکر خصوصیت فاضلہ چاہتا ہے اور پھر ” الناس “ کی طرف تکلم کا انتساب متقاضی ہے کہ اس سے مراد وہ گفتگو ہو جس کا تعلق منصب اصلاح ورشد سے ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کے علاوہ تین اور بچوں نے بھی بچپن میں باقاعدہ گفتگو کی ہے ، شاہد یوسف ، صاحب جریج اور ماشتہ صاحب فرعون نے ، بات یہ ہے کہ انبیاء فطرۃ ملکہ نبوت لے کر پیدا ہوتے ہیں ابتدا ہی سے ان کے دلوں میں نبوت کے انوار روشن رہتے ہیں اور حسب موقع ان کا اظہار ہوتا ہے ۔ کھلا سے مراد یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کی عمر تا بکہولت پہنچے گی اور وہ عمر کے آخری لمحوں میں بھی تبلیغ واشاعت میں مصروف رہیں گے ۔ حل لغات : المھد : گہوارہ ۔ اخلق : مادہ ومصدر خلق ، بنانا ۔ ھیئۃ : صورت ۔ آل عمران
47 آل عمران
48 آل عمران
49 حضرت مسیح (علیہ السلام) کا عہد رسالت : (ف ١) یہودیوں میں جب حضرت مسیح (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا گیا ہے ، اس وقت ان کی حالت نہایت بگڑ چکی تھی ، ان میں مادیت کے جراثیم بری طرح سرایت کرچکے تھے اور سرمایہ کا حصول ان کی زندگی کا سب سے بڑا نصب العین تھا ، وہ دنیا میں سب سے زیادہ مال دار تھے ، اور چاہتے تھے کہ دنیا بھر کے ذخائر وخزائن ان کے پاس جمع رہیں اور ساری دنیا ان کی محتاج ہو ، اس مادیت کے ساتھ ساتھ وہ مذہبیت کے دعوے دار بھی تھے چند رسوم وظواہر کے سوا ان کے پاس اور کچھ نہ تھا ، روحانیت اور اخلاق حمیدہ سے وہ کوسوں دور تھے ۔ اس لئے ان کے ہاں مسیح (علیہ السلام) ایسے روحانی شخص کو بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ ان کی مادیت کے طلسم کو توڑ دے اور انہیں یقین دلادے کہ ایک قوت مادہ سے وراء اور بلند بھی ہے جس کے اختیارات زیادہ وسیع ہیں چنانچہ مسیح (علیہ السلام) نے انہیں چند معجزات وخوارق دکھائے جو مادیت کے قلعہ عقل وفلسفہ پرکاری ضرب کی حیثیت رکھتے ہیں ، پرندے بنائے ، مادرزاد اندھے اور کوڑھیوں کو شفا بخشی اور ان کو بتایا کہ تمہاری ضروریات اکل وشرب کے لئے کتنا کافی ہے اور کس قدر تم جمع کرتے ہو حضرت مسیح (علیہ السلام) کے یہ روحانی کرشمے ان کی مادیت کا صحیح جواب تھے ، نقطہ نگاہ کی غلطی : وہ لوگ جو مسیح (علیہ السلام) کے معجزات کا انکار کرتے ہیں اس لئے کہ خیال میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معاذ اللہ توہین ہوتی ہے ، انہیں ان آیات پر دیانتداری سے غور کرنا چاہئے اور صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ قرآن حکیم کے الفاظ کیا پیش کرتے ہیں ، اگر ان آیات کے الفاظ میں تاویل کی کوئی گنجائش نہ ہو تو پھر محض تمہاری محدود عقل جو قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتی ہے ، ہرگز قابل اعتنا نہیں ، ایک مسلمان کو سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ قرآن حکیم کے الفاظ کیا چاہتے ہیں اور ان کا سادے سے سادہ مطلب کیا ہے ؟ اس کے بعد وہ اپنے ذخیرہ علم کا جائزہ لے اور اس کی عقلی تحلیل کرے ۔ اور یہ کہنا کہ اس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توہین کا پہلو نکلتا ہے ، غلط ذہنیت پر مبنی ہے یہ درست ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام فضائل وکمالات کے جامع ہیں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مطلقا منصب نبوت کے آئینہ ہیں جس میں نبوت کے تمام کمالات کو بیک نظر دیکھا جا سکتا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معجزات وخوارق دکھانے میں بھی سابق ماحول کے پابند ہیں ، حضرت مسیح (علیہ السلام) کا ان معجزات کی نسبت باذن اللہ کہنا تمام شبہات کو دور کردیتا ہے ، اس لئے کہ خدا کی اجازت سے سب کچھ ہو سکتا ہے اور اس کے بعد اعتراض وتاویل کی قطعا ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ ترجمہ : آل عمران
50 آل عمران
51 حضرت مسیح (علیہ السلام) کی تعلیم : (ف ١) آپ (علیہ السلام) نے فرمایا میں تورات کی تصدیق کرتاہوں اور ان پابندیوں کو اٹھاتا ہوں جن کو خواہ مخواہ تم نے اپنے اوپر عاید کرلیا ہے ، اور فرمایا کہ میرا رب اور تمہارا رب صرف ایک ہے ، اسی کی پوجا اور پرستش صراط مستقیم ہے ۔ آل عمران
52 آپ (علیہ السلام) کے اصحاب ارادت : (ف ٢) حضرت مسیح (علیہ السلام) کی یہ تعلیم توحید وروحانیت یہودیوں کو ناگوار محسوس ہوئی ، اس لئے انہوں نے پوری طرح مخالفت کی ٹھان لی حکومت وقت کو آپ کے خلاف آمادہ تعزیر کیا ۔ اس پر آپ (علیہ السلام) نے مخلصین کی ایک جماعت کو دعوت ارادت دی اور (آیت) ” من انصاری الی اللہ “۔ کا نعرہ لگایا ، جس کو سن کر حواریین نے لبیک کہا اور نصرت واعانت کا مضبوط عہد کیا ۔ قرآن حکیم نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو تقدیس کے ساتھ ساتھ حواریوں کو بھی شرف خلعت سے نوازا ، مگر انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کے حواریوں نے حضرت مسیح (علیہ السلام) کو دھوکا دیا اور گرفتار کرا دیا اور انکار کیا ، معلوم ہوتا ہے یہ تحریف ہے ۔ حل لغات : حواریون : جمع حواری ، مخلص دوست ، ارادت مند ۔ مکروا : مصدر مکر ، معنی تدبیر محکم وخفیہ ۔ توفنی : پورا پورا دے گا ، (آیت) ” انی متوفیک “۔ کے معنی پورا پورا لے لینا بھی ہے یعنی میں تمہیں بحفاظت تمام لے لوں گا ۔ ورافعک : کے معنی ہوں گے تعبین نوع کے عینی ، توفی بصورت رفع واقع ہوگی ۔ آل عمران
53 آل عمران
54 آل عمران
55 حیات مسیح (علیہ السلام) : (ف ١) ایک طرف یہودیوں نے مسیح (علیہ السلام) کے خلاف وسیع پیمانے پر سازش کی اور حکومت وقت کو مجبور کردیا کہ وہ انہیں باغی سمجھے اور سزا دے ، اسی کا نام قرآن حکیم کی زبان میں ” مکر “ ہے ، یعنی تدبیر محکم اور خفیہ ارادہ ، دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے ارادے کام کر رہے تھے ، اللہ تعالیٰ حضرت مسیح (علیہ السلام) کو دشمنوں کی زد سے صاف بچا لینا چاہتے تھے ، اور یہودیوں کو دکھانا چاہتے تھے کہ آسمانوں پر ایک زبردست اور علیم وحکیم خدا بھی موجود ہے جو تمہاری سازش کو جانتا ہے اور اس کی قدرت واختیار میں ہے کہ تمہیں تمہارے ارادوں میں ناکام رکھے ، (آیت) ” واللہ خیر الماکرین “۔ جب مقابلہ ہوا انسانی تدابیر وحیل کا اور مادی وارضی منصوبوں کا احکم الحاکمین رب عرش عظیم کی قدرت ومنشا سے تو ظاہر ہے الہی ارادے کامیاب رہیں گے اور شیطان خائب وخاسر ، اگر مان لیا جائے کہ مسیح (علیہ السلام) یہود کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے اور صلیب پر لٹک گئے تو بتاؤ فتح کس کی ہے خدا کی یا شیطان کی ؟ خدا نے واشگاف طور پر فرما دیا ہے کہ ہم نے یہودیوں کو ناکام رکھنے کے لئے مضبوط ومستحکم ارادہ کرلیا اور یہ بھی فرما دیا کہ ہمارے ارادے زیادہ بہتر اور کامیاب ہوتے ہیں تو پھر اس بےچارگی وبے بسی کے کیا معنی کہ مسیح (علیہ السلام) کو دشمنوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے ، مسیح (علیہ السلام) اگر صلیب پر لٹک کر بچ بھی جائیں تو اس میں یہودیوں کے دعوے (آیت) ” انا قتلنا المسیح “۔ پر کیا اثر پڑتا ہے وہ اس سے زیادہ اور کیا کرسکتے تھے کہ مسیح (علیہ السلام) کو موت کے دروازے پر لا کھڑا کریں ، ایک دشمن جو کچھ کرسکتا ہے ‘ وہ بقول بعض کیا جا چکا پھر خدا کی تدبیریں کیا ہوئیں ؟ خدا کے ارادے کہاں گئے ؟ مسیح (علیہ السلام) اگر مرہم لگا کر جانبر ہوگئے تو یہ ان کی خوش بختی کی ہے ، خدا کی فتح مندی ونصرت کی دلیل نہیں ؟ حالانکہ کہا گیا ہے کہ خدا ان کے تمام منصوبوں کے مقابلہ میں زیادہ کامیاب ہے ، بتاؤ اس صورت میں زیادہ کامیاب کون رہتا ہے ؟ کیا وہ جس کے اختیار میں ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کو اپنے برگزیدہ کو کوئی گزند نہ پہنچنے دے ، یا وہ جو مسیح (علیہ السلام) کو موت کے قریب لا سکتے تھے وہ جنہوں نے مسیح (علیہ السلام) کو دار تک لاکھڑا کیا اور وہ تمام سزائیں دیں جو ان کے اختیار میں تھیں ، مگر خدا نے اپنے وسیع اختیارات سے کوئی کام نہ لیا ، بتاؤ اس میں یعنی اس صورت میں مقابلہ میں کس کا پلہ زیادہ بھاری رہتا ہے ؟ چاروعدے : (ف ٢) ان حالات میں جبکہ یہودی حضرت مسیح (علیہ السلام) کے مشن کو تباہ کردینا چاہتے تھے اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کے دشمن ہو رہے تھے ، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح (علیہ السلام) سے چار وعدے کئے اور انہیں بشارت دی کہ تم مطلقا کوئی فکر نہ کرو ، ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔ ٍ پہلا وعدہ : یہ تھا کہ (آیت) ” انی متوفیک “ یعنی تیری موت طبعی ہوگی تو دشمنوں کے ہاتھوں محفوظ رہے گا اور وہ تجھے کوئی نقصان یا گزند نہ پہنچا سکیں گے ۔ دوسرا وعدہ : یہ تھا کہ (آیت) ” ورافعک الی “۔ یعنی میں تمہیں اٹھالوں گا ” رفع “ کے معنی عزت ورفعت دینے کے بھی ہوتے ہیں ، مگر بصلہ الی نہیں اگر یہاں مقصود عزت ورفعت ہوتی تو عبارت یوں ہوتی ” ورافعک لدی “۔ تیسرا وعدہ : یہ تھا کہ (آیت) ” ومطھرک “۔ یعنی کفرونفاق کی تمام تہمتوں سے تمہیں پاک رکھوں گا ، اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کی طرف نہایت باریک اشارہ ہے ۔ چوتھا وعدہ : یہ تھا کہ (آیت) ” وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا “۔ یعنی تیرے ماننے والے تیرے نہ ماننے والوں پر غالب رہیں گے کفر واتباع دونوں کو قرآن حکیم نے مطلق رکھا ہے ، اس لئے دونوں کا عموم بحال رہے گا ، یعنی مسیح کا ہر ماننے والا اس کے ہر منکر پر غالب رہے گا اس صورت میں اس میں مسلمان بھی شامل ہیں ۔ آل عمران
56 آل عمران
57 آل عمران
58 آل عمران
59 آل عمران
60 آل عمران
61 مباہلہ : (ف ١) مسیح (علیہ السلام) کے متعلق آیات سابقہ میں بکرات یہ بیان کیا جا چکا کہ ان کی حیثیت ایک محترم ومکرم رسول سے زائد نہیں مگر عیسائی ہیں کہ غلو سے کام لیتے ہوئے انہیں ابن اللہ سمجھنے پر مصر ہیں ، ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب مگر آخری فیصلہ کی طرف دعوت دی ہے اور وہ یہ ہے کہ دونوں متخاصم مل کر اللہ سے جھوٹے کی ہلاکت چاہیں اور دیکھیں کہ خدا کس کی تائید میں ہے ، کون باقی رہتا ہے اور کس کے حق میں ہلاکت مقدر ہے ، یہ طریق فیصلہ اس وقت اختیار کیا گیا جب منطق وبرہان کے تمام حربے ناکام رہے اور عقیدت میں غلو ہر دلیل وفلسفہ پر غالب رہا ، جب بحث کے تمام دروازے بند ہوگئے اور غور وفکر کے لئے تمام راہیں تعصب وجہالت کی وجہ سے مسدود ہوگئیں ، ظاہر ہے ان حالات میں ایک زبردست انسان کے لئے سوا اس کے چارہ ہی کیا رہتا ہے کہ وہاحکم الحاکمین کی پیشگاہ وعدل وانصاف میں حاضر ہو اور داد خواہ ہو ۔ احادیث میں آیا ہے کہ جب وفد نجران سے گفتگو ہوئی اور نجران کے عیسائیوں نے ضد سے کام لیا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعوت مباہلہ دی ، انہوں نے کہا ہم سوچ کر کل اس کا جواب دیں گے اور دوسرے دن مقابلہ میں آنے سے انکار کردیا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، اگر وہ میدان مباہلہ میں آجاتے تو ان پر آسمان سے آگ برسائی جاتی اور ایک بھی ان میں سے بچ کر نہ جاتا ، اسلام سے پہلے طریق فیصلہ میں مباہلہ کا ذکر نہیں ، جس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس کو اپنی حقانیت پربیش از بیش یقین ہے اور اصرار ہے اور وثوق ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت اس کی تائید ونصرت میں کار فرما ہے ، کیا عین الیقین کی یہ صورت کوئی دوسرا مذہب پیش کرسکتا ہے ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد پھر مباہلہ جائز ہے یا نہیں ۔ علامہ دوانی نے اس پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے اور ثابت کیا ہے کہ امور مہمہ شرعیہ میں مباہلہ کرنا اب بھی درست ہے ۔ (کذا فی ردالمختار المعروف بہ شامی) آیت کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ مباہلہ ان امور میں ہونا چاہئے جو اصولی ہوں اور کفر واسلام میں دائر ہوں اور انکا مبنی برحق ہونا از قبیل قطعیات ہو ، اس لئے فرمایا (آیت) ” من بعدما جآءک من العلم “۔ اور مجتہدات فقہیہ میں اختلاف رائے مباہلہ تک نہ پہنچے تو اچھا ہے ۔ (آیت) ” نسآء نا ونسآء کم میں پہلی ازواج اور پھر دوسری عورتیں ثانوی حیثیت سے داخل ہیں ، اسی طرح ” ابنآء نا “ کا لفظ مجازا دوہتوں اور پوتوں کے لئے استعمال ہوا ہے ، مقصد یہ ہے کہ امہات المومنین آیت مباہلہ میں بطور اولین مفہوم کے داخل ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں انتخاب میں نہیں لیا اور صرف حضرت فاطمہ (رض) پر اکتفا کیا ۔ حل لغات : نبتھل : مادہ ابتھال ۔ بتضرع آرزو کرنا ۔ آل عمران
62 آل عمران
63 آل عمران
64 دعوت اتحاد : (ف ١) قرآن حکیم دنیا سے تفریق واختلاف کو مٹانے آیا ہے وہ چاہتا ہے کہ ساری دنیا کو ایک مرکز پر لا کھڑا کرے اور جتنے فتنے تشدد وافتراق کی وجہ سے بپا ہیں یکسر محو ہوجائیں اور اگر یہ نہ ہو سکے تو بھی تعصبات ختم ہوجائیں مہمات مسائل پر اتفاق ہوجائے اور کم از کم چند چیزیں ایسی مسلمانہ میں سے ہوں جس پر دنیا کے تمام انسان متفق ہوں ، کتنا سچا اور مقدس مسلک ہے ، اس آیت میں اسی دعوت اتحاد کی تشریح ہے ، اہل کتاب کے ہر دو فرقوں کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ آؤ ہم دونوں مسلمات پر اتفاق کریں اور وہ یہ ہیں کہ ایک اللہ کی پرستش کریں ، کسی دوسرے کو عبادت اور پرستش کے قابل نہ سمجھیں اور اپنے جیسے انسانوں کو (آیت) ” اربابا من دون اللہ “ تصور نہ کریں ، ایک خدا کی بادشاہت ہو اور وہ ایک ہیہو جو ساری دنیا کا رب ٹھہرے ۔ حل لغات : القصص : بیان ، بات ، قصہ ، معاملہ ، تعالوا : آؤ ۔ آل عمران
65 آل عمران
66 آل عمران
67 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مذہب : (ف ١) مکہ کے مشرک ، مدینے کے یہودی اور جاہل عیسائی یہ سمجھتے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) میں تقریبا ایک ہزار سال کا وقفہ ہے ، پھر کس طرح یہ ممکن ہے کہ انہیں یہودی یا عیسائی کہا جائے ؟ مشرکین سے کہا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پورے موحد تھے ان کا دین شرک کی آلودگیوں سے قطعا پاک تھا ۔ ان کی ساری عمر شرک کے خلاف جہاد کرنے میں گزری پھر یہ کیونکر قرین قیاس ہے کہ انہیں لات وہبل کے پرستاروں میں شامل کیا جائے ۔ بات یہ ہے کہ انبیاء کا مسلک ٹھیٹ اسلام ہوتا ہے ، وہ بجز توحید اور عدل وانصاف کے اور کسی چیز کے وادار نہیں ہوتے ، انہیں ما بعد کے تعصبات میں گھیرنا سوء فہم ہے ، وہ یہودیت ‘ عیسائیت اور اس نوع کے دوسرے تعصبات سے بالا ہوتے ہیں ، وہ اسلام اور صرف اسلام پیش کرنے کے لئے تشریف لاتے ہیں ، ان کے نزدیک خدا کے بتائے ہوئے طریق کے سوا کوئی دوسرا طریق قابل اطاعت نہیں ہوتا ۔ آل عمران
68 (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے اختصاص رکھنے والے تم نہیں ہو ، بلکہ وہ لوگ جنہوں نے ان کی اطاعت کی اور یہ نبی ہیں جو انکے مسلک کی تشریح کر رہے ہیں اور تمام مسلمان ہیں جو رہتی دنیا تک تو حیاء کے علمبردار رہیں گے ۔ اللہ کن کو دوست رکھتا ہے ؟ (آیت) ” اللہ ولی المؤمنین “۔ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ خدا کی دوست اور محبت صرف مسلمانوں کے حصہ میں آئی ہے ، اس کی رحمتوں انعاموں کے مستحق صرف رب کعبہ کے پرستار ہیں ، مگر اس وقت جب ان کے دل واقعی ماسوی اللہ سے متنفر ہوں اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور ایمان ہو ۔ حل لغات : حنیف : عام روش سے الگ چلنے والا ، لوگوں کے مزعومات کا ساتھ نہ دینے والا ۔ آل عمران
69 آل عمران
70 آل عمران
71 اہل کتاب کا تعصب : (ف ١) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اسلام کی روشنی سے سارا عالم بقعہ نور سا بنا دیا تو سپرہ چشم یہودی برداشت نہ کرسکے اور حیلوں اور بہانوں سے اس شمع ہدایت کو بجھانے میں ہوگئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تلبیس سے کیوں کام لیتے ہو حق وباطل کو کیوں ملا دیتے ہو اس کہ دونوں میں کوئی تمیز نہ رہے تم جانتے ہوئے اور علم رکھتے ہوئے بھی حق پوشی سے کام لیتے ہو ، کیا یہ نری بدبختی نہیں ؟ بات یہ تھی کہ یہودی ایک طرف تو اسلام کے متعلق غلط باتیں مشہور کرتے اور عوام میں اسے بدنام کرنے کی کوشش کرتے ، دوسری طرف توریت کی ان آیات میں تحریف سے کام لیتے جن میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کا تذکرہ ہے ، قرآن حکیم نے ان کی اس دو گونہ تحریف کو کتمان حق سے تعبیر کیا ہے یعنی وہ سچائی محض اس لئے چھپاتے ہیں کہ اسے واشگاف صورت میں بیان کردینے کی صورت میں ان کا وقار جاتا رہتا ہے اور انکی جاگیریں چھن جاتی ہیں ۔ آل عمران
72 ایک سازش : (ف ٢) دین حنیف کی یہ ایک خصوصیت ہے کہ ایک دفعہ جو اسے سمجھ سوچ کر قبول کرلے ، پھر ارتداد اختیار نہیں کرتا اس لئے کہ اس سے زیادہ سادہ صحیح اور معقول مذہب دنیا میں موجود ہی نہیں ، یہ انسانی بیماریوں کی آخری دوا ہے ، وہ جو اسلام سے مطمئن نہیں وہ بجزدہریت کے کسی دوسرے عقیدے پر مطمئن نہیں ہو سکتا اور دنیا کا دوسرا مذہب اسے اپنی طرف نہیں کھینچ سکتا ، یہی وجہ ہے کہ ہرقل نے ابو سفیان سے منجملہ دیگر سوالات کے یہ بھی پوچھا کہ کوئی اسلام کو قبول کرکے مرتد تو نہیں ہوجاتا ؟ ابو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ، ہرقل کے پاس اسلامی سفیر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مکتوب گرامی لے کر پہنچا تھا جس میں اسے مسلمان ہونے کی دعوت دی گئی تھی ، اس لئے اس نے مناسب سمجھا کہ ابو سفیان سے رسول عربی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات پوچھے جائیں ، ابو سفیان نے جوابا کہا کہ نہین ! ہرقل جو نہایت سمجھ دار بادشاہ تھا ‘ بول اٹھا کہ ایمان صادق کی یہی علامت ہے کہ ایک دفعہ دل جب اس کی چاشنی سے لطف اندوز ہوجائے تو پھر کبھی محروم ذوق نہیں رہتا بات یہ ہے کہ فطرت انسانی کے سانچے میں بجز اعتقاد وصحیح کے اور کوئی چیز نہیں ڈھل سکتی اور انسان بالطبع صرف ایک ہی مذہب کے قبول کرنے کے لئے پیدا ہوا ہے ، وہ اس وقت تک بھٹکتا رہتا ہے جب تک فطری مذہب اسے اپنی طرف نہیں کھینچ لیتا اور جہاں وہ اسلام کی طرف آگیا ‘ پھر اس کا اس کی چوکھٹ سے ہٹنا ناممکن ہے ، ۔ یہودی اسلام کی اس جاذبیت سے واقف تھے وہ چاہتے تھے کہ عوام میں اسلام کی طرف سے بددلی اور بد اعتمادی پیدا کی جائے چنانچہ عبداللہ بن الصیف ‘ عدی بن زید اور حارث بن عوف ایسے ذلیل لوگ اس سازش پر آمادہ ہوگئے کہ بظاہر اسلام قبول کرلو اور پھر یہ کہہ کر انکار کر دو کہ ہمیں اسلام طمانیت قلب نہیں بخش سکا ، تاکہ عام لوگ جو اسلام کی طرف مائل ہوگئے ہیں ، وہ متنفر ہوجائیں اور یہ کہیں کہ جب ایسے سمجھ دار لوگ مرتد ہوگئے تو ضرور اسلام میں کوئی نقص ہے ، اللہ تعالیٰ نے جو علام الغیوب ہے ‘ اس سازش کا بھانڈہ پھوڑ دیا اور بتا دیا کہ ان لوگوں کے ارادے مخلصانہ نہیں ۔ حل لغات : تلبسون : مادہ لیس ۔ ملانا ، مختلط کرنا ۔ آل عمران
73 آل عمران
74 (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ یہودیوں کی مخالفت محض اس بنا پر تھی کہ مسلمان کیوں اس نعمت اسلام ہے سے بہرہ اندوز ہیں یعنی بجز تعصب کے نہ روکے ، اور کوئی چیز انہیں اسلام کی صداقتوں کے قبول کرنے سے نہیں روکتی ، وہ نہیں سوچتے کہ یہ خدا کی دین ہے ، جسے محروم رکھے ، اس کی مصلحتوں کو اس کے سوا اور کون جانتا ہے ۔ حل لغات : قنطار : خزانہ ، مال کثیر ۔ سبیل : اصل معنی راہ اور راستے کے ہیں ، یہاں مراد ہے کہ ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ، کوئی طریق اعتراض والزام نہیں ۔ آل عمران
75 بدترین تعصب : (ف ١) اہل کتاب میں یہودی بدترین تعصب کے حامل تھے ان کی ہر وقت یہ کوشش رہتی کہ مسلمانوں کو لوٹا جائے اور ان کے خون سے ہاتھ رنگے جائیں ، مسلمانوں کے باب میں وہ ہر قسم کے عذر اور خداع کو جائز قرار دیتے اور کہتے ، یہ ان پڑھ اور غیر سرمایہ دار لوگ ہر وقت ہماری جوع البقری کا شکار ہو سکتے ہیں اور ان کو دھوکا دینے اور لوٹنے میں مذہبا کوئی مضائقہ نہیں گویا یہ اصول کہ اقوی اضعف کو پامال کرے ‘ بڑا اصول ہے موجودہ یورپ نے اسے یہودیوں سے سیکھا ہے یہی وجہ ہے کہ تمام سفید فام اور باقتدار حکومتیں ضعیف اور ناتوانوں کو اپنا آزوقہ حیات سمجھتی ہیں اور اخلاقا وعرفا انہیں محکم دینے میں کوئی مضائقہ خیال نہیں کرتیں ۔ قرآن حکیم کہتا ہے کہ یہ طرز عمل اللہ تعالیٰ کے قانون انصاف وعدل کے خلاف ہے اور خدائے قدوس پر یہ زبردست الزام ہے اللہ تعالیٰ کسی حالت میں بھی تعصب کو جائز ودرست قرار نہیں دیتے ، انصاف وعدل بہرحال قابل لحاظ ہے ۔ آل عمران
76 آل عمران
77 (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ حق فروشی چاہے کسی قیمت پر ہو ‘ اس کی حیثیت ثمن قلیل سے زائد نہیں ، سچائی اور صداقت کی محبت بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ اسے مانا جائے اور اس کی تائید کی جائے ، وہ لوگ جو دنیوی مفاد کے لئے آخرت کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور دین مستقیم کی صداقتوں پر کان نہیں دھرتے ان کا عالم جودانی میں کوئی حصہ نہیں ، جس طرح انہوں نے اللہ کی آواز سنی اور پکارنے والے کی آواز پر توجہ نہ دی ‘ خدا بھی اس دن ان سے کوئی رعایت ومحبت کی گفتگو نہیں کرے گا اور انہیں ہر نوع کے مکالمہ شفقت سے محروم رکھے گا ، جس طرح انہوں نے آنکھیں رکھتے ہوئے خدا کے پھیلائے ہوئے دلائل وشواہد کو نہ دیکھا اور اندھے بن گئے ‘ اسی طرح وہ بھی انہیں نظرالتفات سے محروم رکھے گا اور قطعا ان کی طرف دھیان نہیں دے گا ، پھر جس طرح انہوں نے تزکیہ وتطہیر کی طرف کبھی التفات نہیں کیا ، اللہ تعالیٰ بھی مکافات کے طور پر انہیں پاکیزگی کا موقع نہیں دے گا اور وہ اپنے گناہوں کی غلاظتوں میں پھنسے ہوئے عذاب الیم سے دوچار رہیں گے ، حل لغات : ایمان : جمع یمنہ بمعنی قسم ۔ خلاق : حصہ ۔ آل عمران
78 بددیانتی : (ف ١) لی کے معنی میل وانحراف کے ہیں نری براسہ کے معنی سر کو ایک طرف جھکا دینے کے ہیں ، (آیت) ” یلون السنتھم بالکتب “۔ کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ الفاظ کو اس طرح پڑھتے ہیں کہ معانی میں ایک قسم کی تحریف وانحراف پیدا ہوجاتا ہے ۔ یعنی اہل کتاب میں ایک فریق یہودیوں کا ایسا ہے جو اپنی طرف سے کچھ عبارتیں وضع کرلیتا ہے اور اسے تورات کی طرف منسوب کردیتا ہے ، یا وہ تورات کے الفاظ کو اس طرح پڑھتا ہے جس سے معانی میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے ، بات یہ ہے کہ عبرانی رسم الخط اس قسم کا ہے کہ بعض حروف تھوڑی سی صوتی تبدیلی سے کیا سے کیا ہوجاتے ہیں ، اس لئے محرفین کو موقع ملتا ہے کہ وہ اس کمزوری سے جو رسم الخط سے تعلق رکھتی ہے ‘ اپنی خواہشات کے مطابق ناجائز فائدہ اٹھائیں ۔ قرآن کریم یہودیوں کی اس بددیانتی پر انہیں برملا ٹوکتا ہے اور کہتا ہے کہ اس افترا اور جھوٹ سے باز آؤ اور جانتے بوجھتے اس فعل شنیع کے مرتکب نہ بنو ۔ آل عمران
79 تحریف وبدیانتی کی روشن ممثال : (ف ٢) اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ کوئی نبی جسے کتاب وحکمت کی پر از معارف نعمت سے نوازا گیا ہے ‘ ناممکن ہے کہ اپنی پوجا کرائے اور غیر اللہ کی پرستش کا حکم دے ، اس لئے جو لوگ انبیاء کی طرف اس نوع کی تعلیمات کو منسوب کرتے ہیں ‘ وہ راہ راست پر نہیں اور انہوں نے اپنی تعلیمات کو بدل لیا ہے ، انبیاء علیہم السلام تو اس لئے تشریف لاتے ہیں کہ بھٹکے ہوئے اور روٹھے ہوئے لوگوں کو پھر سے خدا کے حضور میں لا کھڑا کریں اور ان کے دلوں میں خدا کی محبت و عقیدت کے بےپناہ جذبات پیدا کردیں ، وہ دنیا میں خدا پرستی کی تعلیم دینے کے لئے آتے ہیں ، بالذات ان کا کوئی اپنی مقصد نہیں ہوتا ، وہ محض وسائل وذرائع سے اللہ تک پہنچتے ہیں ، وہ کبھی حدود بشریت سے تجاوز نہیں کرتے ، اس لئے کہ نبوت معراج انسانیت ہے ، اور علم کی آخری حد یہ ہے کہ خدا کی لامحدود قدرتوں کا بزور اعتراف کیا جائے اور اپنی بےچارگی اور عجز کو زیادہ سے زیادہ محسوس کیا جائے ، انبیاء علیہم السلام ” عبودیت “ کے اس بلند مفہوم کو سمجھتے ہیں اس لئے وہ کبھی اس قسم کی غلطی میں نہیں مبتلا ہوتے کہ لوگوں سے اپنی پرستش کرائیں ۔ پس وہ کتابیں جن میں کسی نبی کو خدا کو درجہ دیا گیا ہے ظاہر ہے محرف تھیں اور خدائے ذوالجلال کی طرف سے نہیں تھیں ، اس طریق سے قرآن حکیم نے ثابت کردیا کہ جب تک تثلیث کا عقیدہ بقول عیسائیوں کے موجودہ اناجیل میں موجود ہے ‘ اس وقت تک اسے تحریف سے مبر خیال نہیں کیا جاسکتا ۔ حل لغات : الحکمۃ : حکمت ۔ دانائی ۔ ربانیون : جمع ربانی ، خدا پرست ۔ اللہ والا ۔ تدرسون : مضارع ، مصدر درس پڑھا ۔ آل عمران
80 آل عمران
81 نبیوں علیہم السلام کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ف ١) تمام نبیوں علیہم السلام کا دائرہ تبلیغ عام انسانوں تک ہے اور وہ صرف اس حد تک مکلف ہیں کہ وضیفہ رشد وہدایت کو مفروضہ قوم کے لئے جاری رکھتیں ، یعنی سب کے مخاطب عام انسان ہیں جن کو ان پر ایمان لانا ضروری ہے ، مگر پیغمبر کون خواجہ عالم وعالمیان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت عام انسانوں سے گزر کر انبیاء علیہم السلام کے لئے بھی ضروری ہے ، اس آیت میں یہی بتایا گیا ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام کو عالم برزخ میں پیدا کیا گیا تو ان سے کہا گیا کہ باوجود اس کتاب وحکمت کے جو تمہیں دی گئی ہے ‘ تم پر لازم ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منصہ شہود پر آئیں تو ان پر ایمان لاؤ اور ان کی نصرت میں اقدام کرو ، سب نے کہا منظور ہے اور ہم اس حقیقت نیرہ کے شاہد وگواہ ہیں ، گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو مانا جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیغمبروں کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور نبیوں کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا پیغمام تمام صداقتوں کا حامل اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت تمام انبیاء کی مصدقہ ہے ۔ بات یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جس قدر انجم فلک کائنات پر جلوہ گر ہوئے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کا اعلان تھے اور اس کتاب ہدی کا مقدمہ یا دیباچہ تھے جو حضرت انسان کو عنایت ہونے والی تھی ، جس طرح سپیدئہ سحری صبح جان نواز کا پیشہ خیمہ ہوتی ہے ، اسی طرح سابقہ نبوتیں پہلے پیغام ‘ سب اس نبی اکبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور خاتم پیغمبران کی تمہید سمجھئے یا سرمانہ خط ۔ وہ جو مقصود حاصل ہے وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات بالشمائل ہے یہی وجہ ہے کہ تمام سابقہ کتابوں میں اس محبوب اصل کے خدوخال کا ذکر پایا جاتا ہے ، کہیں اسے ” سرخ وسفید “ کہا گیا ہے کہیں ” فارقلیط “۔ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ۔ کہیں ” آتشیں شریعت کا پیش کرنے والا “ کہا گیا ، کہیں صاف صاف ” محمدیم “ کہہ کر ہر شبہ کو اڑا دیا گیا اور ہر پردہ کو چاک کردیا ۔ مگر باجود اس وضاحت اور صراحت کے بعد طبیعتیں ایسی ہیں جو بجز انکار اور سرکشی کے کسی چیز پر قانع نہیں ہوتیں ۔ فرمایا وہ لوگ جو آفتاب عقل کی درخشانی کے بعد بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ماننے میں متامل ہیں ‘ ان سے زیادہ بدقسمت اور فاسق کون ہے ؟ حل لغات : اقررتم : مصدر اقرار بمعنی ماننا ، اعتراف کرنا اور قبول کرلینا ۔ اصر : عہد قول ۔ آل عمران
82 آل عمران
83 اللہ کا دین : (ف ١) وہ پیام تسکین جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس دنیائے اضطراب کے لئے لے کر آئے وہ اللہ کا خالص دین ہے اور اللہ وہ ہے جسے آسمانوں اور زمینوں کا ذرہ ذرہ مانتا ہے اور جس کا اقرار طوعا وکرہا کسی نہ کسی طرح کرنا ہی پڑتا ہے ۔ جس طرح اس کی ربوبیت عامہ کا انکار فطرت انسانی سے نہیں بن پڑتا ، اسی طرح اس کے دین سے ابا جو ربوبیت کا خاصہ ہے ناممکن ہے کسی نہ کسی وقت اور مشکل میں ہر انسان اس کی اطاعت پر مجبور ہے ، یہ الگ بات ہے کہ وہ زبان سے اس کا اقرار نہیں کرتا ، مگر وہ اپنے افعال وحرکات سے ہمیشہ یہ ثابت کرتا رہتا ہے کہ اس میں اللہ کے بنائے ہوئے قانون کی مخالفت کا کوئی جذبہ نہیں ۔ آل عمران
84 (ف ٢) اللہ کا دین وہ ہے جسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت مسیح (علیہ السلام) تک سب نے پیش کیا ، اس لئے ضروری ہے کہ ہر مسلم بلاتفریق احدے سب پر ایمان لائے اور یہ یقین رکھے کہ خدا کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برحق ہیں اور یہ کہ حق تمام قوموں میں مشترکہ حقیقت کی حیثیت رکھتا ہے ، سچائی اور صداقت کو جہاں پائے جس صورت میں پائے قابل قبول سمجھے اور کسی تعصب وجہالت سے کام نہ لے ۔ حل لغات : الاسباط : جمع سبط ۔ بمعنی اولاد ۔ الاسلام ، عاجزی وفروتنی ، یہاں دین کامل مراد ہے ۔ آل عمران
85 دین مقبول : (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ خدا پرستی کے تمام راستے جو شاہراہ اسلام سے الگ ہیں شاہد حقیقت تک رسائی نہیں رکھتے اور بجز دین حنیف کے تمام ادیان باطل ‘ محدوش اور غیر محفوظ ہیں ، اس لئے جو چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حریم عزت وعظمت تک پہنچے ، ضرور ہے کہ اپنے لئے اسلام کی سیدھی اور محفوظ رہ اختیار کرلے ، ورنہ ہر طریق غیر مصائب ‘ نادرست اور نامکمل ہے ، اسلام سے پہلے جس قدر تعلیمات موجود تھیں ، وہ وقتی ضروریات کے لئے تھیں اور جب تک ان کی ضروریات کے لئے تھیں اور جب تک ان کی ضرورت رہی ‘ ان کو باقی رکھی گیا ، مگر آفتاب حقیقت کے طلوع ہونے پر یہ انجم باوجود اپنی تابانی کے آنکھوں سے اوجھل ہوگئے اور اب بجز اس کے طالبان حق کے لئے اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ اسی شمس بازغہ سے اکتساب ضوء کریں ، جیسے ایک اور ایک کا جواب دو ہے اور دو اور دو کا چار ، اسی طرح انسانی مشکلات کا حل اسلام ہے یعنی اسلام اور کفر میں کوئی تیسری راہ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر قوم وملت کے ارباب فکر وتامل اپنی قوم کے لئے ایسے مذہب کی طرح ڈال رہے ہیں جسے دوسرے لفظوں میں اسلام کہا جا سکتا ہے ، وہ نادانستہ طور پر ایسی اصلاحات نافذ کررہے ہیں جو خالص اسلامی اصلاحات ہیں ، جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ” دین مقبول “ کے راز کو پاگئے ہیں اور جانتے ہیں کہ کون کون چیزیں قوم کے روشن خیال طبقے میں مقبول ہو سکتی ہیں ، اور وہ وقت قطعا دور نہیں جب قوموں کے تجربے انہیں اسلامی حقانیت کا ثبوت بہم پہنچا دیں گے اور وہ خود عملا اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ بجز اسلامی نقطہ نگاہ کے کوئی دوسری تعلیم قبولیت فائقہ کا درجہ حاصل نہیں کرسکتی ۔ حل لغات : لعنۃ : دوری اور بعد ۔ آل عمران
86 آل عمران
87 آل عمران
88 آل عمران
89 آل عمران
90 مرتد : (ف ١) وہ لوگ جو اسلام کو قبول کرکے چھوڑ دیتے ہیں ، قرآن کی اصطلاح میں مرتد ہیں ، قرآن حکیم کہتا ہے ، یہ نوع کی ہدایت سے محروم رہتے ہیں ، ان پر اللہ کا غضب ہوتا ہے ، یہ فرشتوں اور تمام نیک لوگوں کی ناراضگی خریدتے ہیں ، یہ لوگ جہنم کا کندہ ہیں ، ان کے عذاب میں کوئی تخفیف نہ ہوگی اور نہ یہ اس قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف نظر التفات کرے ، البتہ وہ لوگ جو توبہ کرلیں اور پھر سے اسلام میں داخل ہو کر اصلاح اعمال میں مصروف ہوجائیں ‘ ان کے لئے اللہ کی بخشیش عام ووسیع ہیں اور وہ جو معاند ہوں اور کفر کے بعد ان کا بغض وعناد زیادہ ترقی کرجائے ، ان کی توبہ ہرگز قبول نہیں ۔ آخرت میں مرتدین کے لئے کوئی روحانی اعانت قبول نہ کی جائے گی اور نہ کوئی مادی صلہ ان کو عذاب الہیم سے نہ بچا سکے گا ۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے اسلام ایسی سچائی کو ٹھکرا دیا اور ایک ایسے نظام عمل و ایمان کی توہین کی جو ساری دنیا کے لئے مشترکہ آئیں کی حیثیت رکھتا ہے ، ترک اسلام کے معنی یہ ہیں کہ اس نے ساقی ازل کی بخشش عام کی تحقیر کی ہے اور مئے معرفت کے ساغر کا انکار کیا ہے جس کا ہر قطرہ وجرعہ آب حیات ہے ۔ حل لغات : ذھب : سونا ۔ آل عمران
91 آل عمران
92 ایثار : (ف ١) محبت کا اشتقاق حبۃ سے کیا گیا ہے جس کے معنی سودائے قلب کے ہیں ، اس لئے اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ کدا کی راہ میں وہ چیزیں دو جنہیں تم دل کی گہرائیوں سے چاہتے اور عزیز رکھتے ہو یہی وجہ ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ (رض) عنہم اجمعین نے مختلف طریق ایثار کے استعمال کئے ، حضرت ابو طلحہ (رض) نے فرمایا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے ہر برحا زیادہ پسند ہے ، اسے قبول فرمائیے ، عبداللہ بن عمر (رض) نے ارشاد فرمایا کہ مجھے میری لونڈی مرجانہ بہت مرغوب ہے ، اسے آزاد کئے دیتا ہوں اور زید بن حارثہ (رض) نے کہا ، مجھے اپنے گھوڑے سبل سے عشق ہے ، یہ مجاہدین کے لئے صدقہ ہے ، گویا جو جن کے پاس تھا وہ خدا کی راہ میں دے دیا گیا آیت کا مفہوم بھی یہی ہے کہ بلا کسی تخصیص کے ہر محبوب اور عزیز شے اس قابل ہے کہ خدا کی راہ میں اسے دے دیا جائے ، مقام بروتقوی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مال ودولت عزت وجاہ ہر چیز کو اس کے حصول کے لئے وقف کردیا جائے ، آل عمران
93 (ف ٢) خدا کا دین چونکہ فطرت انسانی کی کمزوریوں کو سامنے رکھ کر تجویز کیا گیا ہے اس لئے اس میں کوئی بات بھی مضر یا غیر مرغوب نہیں ، البتہ بعض وقت علماء فکر ونظر اپنی طرف سے اس میں بعض تفاصیل ایسی پیدا کردیتے ہیں جو آیندہ چل کر دین کی سہولت وشگفتگی کے لئے مضر پڑتی ہیں ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں توضیح فرما دی کہ اصل دین میں یہودیوں کے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال تھیں اور کھانے پینے کے معاملہ میں کوئی ناجائز پابندی نہ تھی ، مگر انہوں نے از راہ احتیاط بعض چیزیں تقشف اور زہد کو بڑھانے کے لئے اپنے اوپر حرام قرار دے لیں ، مثلا اونٹ کا گوشت حضرت یعقوب (علیہ السلام) عرق النساء کی وجہ سے استعمال نہیں فرماتے تھے ، مگر ان لوگوں نے مطلقا اس سے احتراز مناسب سمجھا ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسے حلال قرار دیا تھا ۔ فرمایا اس نوع کی زیادتیاں افتراعلی اللہ کے مترادف ہیں اور وہ شخص ظالم ہے جو زہد وتقشف کے نام پر خواہ مخواہ دین میں دشواریاں پیدا کرتا ہے ۔ (ف ٣) یہودیوں کو مسلک ابراہیمی پر گامزن ہوجانے کی تلقین کی ہے جو توحید وفطرت کی راہ ہے جس میں شرک وبدعات کی رسوم کو قطعا دخل نہیں ، واضح ، سہل اور بالکل صحیح مذہب ہے ۔ حل لغات : البر : بھلائی ، کامل نیکی ۔ حل : حلال : جائز ودرست ۔ آل عمران
94 آل عمران
95 آل عمران
96 پہلا گھر : (ف ١) خدا کا گھر جو تمام نسل انسانی کا مرکز عبادت ہے ‘ وہ صرف بیت اللہ الحرام ہے ، جہاں برکات وہدایات کے ہزاروں چشمے پھوٹتے ہیں اور جس میں عبادت ونیاز مندی کی لاکھوں نشانیاں پنہاں ہیں ، جو مقام ابراہیم (علیہ السلام) کے شرف سے مفتحز ہے اور جو روح وقلب کی عام سعادتوں کی ضامن وکفیل ہے اس لئے یہ دلیل ہے ، اس بات کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خدا کے سچے پیغمبر تھے اور وہ لوگ جو ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں ‘ وہ بھی صداقت وصفا کے پیکر ہیں ، غور کرو ایک غیر معروف شخص ایک بنجر اور سنگلاخ زمین میں ایک عبادت گاہ بناتا ہے ، جو بالکل سادہ ہے فن تعمیر کے لحاظ سے جس میں کوئی خوبی نہیں لیکن اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے ہر گوشے سے زائرین وعقیدت مند کھینچے چلے آتے ہیں ، کیا یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خلوص وجاذبیت کی بہترین دلیل نہیں ؟ اور کیا یہ اسلام کی صداقت کا بولتا ہوا ثبوت نہیں کہ اس گھر کو ساری دنیا کا گھر بنانے والے وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جو مکے جیسے گمنام شہر میں رہنے والے ہیں جن کے پاس نشرواشاعت کے وسائل قطعا موجود نہیں جو امی محض ہیں اور یتیم ہیں کہ باپ کے ظل شفقت ومحبت بالکل محروم ! ایسا انسان کعبۃ اللہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہے ، اس کی مرکزیت کی طرف بلاتا ہے اور کہتا ہے آؤ سب ابراہیم (علیہ السلام) کے خلوص کو زندہ کریں ، سب رب بیت کی چوکھٹ پر جھک جائیں ، نتیجہ یہ ہے کہ ستر کروڑ انسان پانچ وقت مسجدوں میں پہنچتے اور کعبہ کی طرف سجدہ کناں ہوجاتے ہیں ، (آیت) ” فیہ ایت بینت مقام ابرھیم “۔ آل عمران
97 حج بیت اللہ : (ف ٢) اسلام کے ارکان خمسہ میں سے حج ایک بہت اہم رکن ہے ، اس آیت میں اس کی فرضیت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ ہر شخص جو استطاعت رکھتا ہو ، مکلف ہے کہ بیت اللہ پہنچے اور مناسک حج ادا کرے مگر استطاعت کیا ہے ؟ اس کے مفہوم میں اختلاف ہے ، بعض کے نزدیک صرف زاد راہ اور راحلہ کافی ہے ، اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نددیک نفس قوت کفایت کرتی ہے ، اگرچہ زاد راہ نہ ہو ، ابن زبیر شعبی رحمۃ اللہ علیہ اور عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ اسی طرف گئے ہیں ، ضحاک رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اگر کوئی شخص مضبوط اور تندرست ہو تو حج کے لئے چاکری یا ملازمت اختیار کرے ، جب ازاد راہ کا سامان ہوجائے تو حج کو چلا جائے ، گویا ان کے نزدیک بھی صرف جسمانی قوت واستعداد ہی استطاعت کے مفہوم میں داخل ہے ۔ اصل چیز یہ ہے کہ استطاعت سبیل کا لفظ عام ہے ، جس میں جسمانی قوت واستعداد سے لے کر زاد راہ ‘ راحلہ اور دیگر سفر تک سب چیزیں شامل ہیں ۔ یعنی ہر وہ چیز جس کا حصول سفر کے امکانات میں سہولت پیدا کردے ‘ وہ استطاعت کے دائرے میں موجود ہے اور احادیث میں جو زاد وراحلہ کو استطاعت سے تعبیر کیا ہے تو وہ بطور تفسیر کے ہے ‘ تحدید کے نہیں یعنی عام طور پر چونکہ یہی وہ چیزیں اولا خیال کی جاتی ہیں ‘ اس لئے ان موجود ہونا ضروری ہے ۔ (آیت) ” ومن کفر فان اللہ غنی عن العلمین “۔ کا مطلب یہ ہے کہ حج مبرور سے جس کا صلہ حیات ونعیم کی لازوال نعمتیں ہیں ، محرومی کفر ہے یعنی اگر کوئی شخص باوجود استطاعت کے فریضہ حج ادا نہیں کرتا تو پھر اسے اپنے اسلام کا جائز لینا چاہئے ، قرآن حکیم اس کے لئے کفر کا خوفناک لفظ تجویز کرتا ہے اس سے اس کی اہمیت واضح ہے اور یہ اس لئے ہے کہ حج میں صرف عبادت وزہد کا سامان فراواں ہی موجود نہیں ‘ بلکہ ایمان وعقیدت کے لئے مکہ کا ذرہ ذرہ وادی ویمن ہے اور پھر وہ اجتماع عظیم ہوتا ہے جس میں ملک ووطن کی تمام تفریقیں اٹھ جاتی ہیں اور سارے انسان ایک خاص لباس میں رب اکبر کے سامنے جھک جاتے ہیں ، اور وحدت ویکسانی کا ایک متلاطم سمندر ہوتا ہے ، بادشاہ سے لے کر فقیر تک ہیں کہ ایک ساتھ مناسک حج ادا کرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ اجتماع ابراہیمی کا سب سے بڑا اجتماع ہے اس لئے حج کا مسئلہ صرف عبادت وزہد کا مسئلہ نہیں ، بلکہ اس کا تعلق اجتماعات سے بھی ہے ، اس لئے اس کا انکار چاہے وہ حکم سے ہو اور چاہے قول سے ‘ ایک بہت بڑا گناہ ہے ، آل عمران
98 آل عمران
99 آل عمران
100 (ف ١) ان آیات میں اہل کتاب کی مخالفانہ اور معاندانہ کوششوں کا ذکر ہے کہ وہ جانتے ہوئے بھی حق وصداقت کا انکار کرتے ہیں اور صرف انکار پر ہی کفایت نہین کرتے بلکہ چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ دوسرے مسلمان بھی شریک ہوجائیں اور اراتداد اختیار کرلیں ، فرمایا مسلمانوں سے اس قسم کی توقعات رکھنا درست نہیں ، اس لئے کہ وہ صبح وشام قرآن حکیم کی آیات سنتے ہیں جن میں تمہارے ہر فریب کی تشریح موجود ہے اور ان کے شبہات دور کرنے کے لئے خود اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں موجود ہے جو بجائے خود ہر کفر ونفاق کا ایک مستقل جواب ہے ، جب تک اس کا وجود مسعود مسلمانوں میں موجود ہے ، انہیں ارتداد کا خوف نہیں ، اور اگر کوئی بخت پہلے سے دل میں نفاق وکفر پوشیدہ رکھتا ہو یا ذوق ایمان نے اسے یقین واستقلال کی دولت گرانمایہ نہ بخشی ہو ، ایسی صورتوں میں تو ارتداد ممکن ہے ، کیونکہ اصل میں یہ ارتداد ہی نہیں ‘ بلکہ اندرونی کفر ونفاق کا اظہار ہے ، پس وہ شخص جو درحقیقت مومن ہے ، جس کا دل ودماغ قرآن کے حقائق ومعارف سے منور وروشن ہے ‘ وہ کبھی بھی صراط مستقیم سے منحرف نہیں ہو سکتا ۔ حل لغات : شھید : گواہ ، جاننے والا ۔ تصدون : روکتے ہو ، مصدر ۔ : بمعنے روکنا ، منع کرنا ، عوجا ، ٹیڑھا پن ، کجی ، یعتصم : مصدر ومادہ ۔ اعتصام ۔ کسی چیز کو مضبوطی سے پکڑ لینا تھامنا اور پکڑنا ۔ آل عمران
101 آل عمران
102 آل عمران
103 پیغام اخوت : (ف ١) پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمان بجز اسلام کے اور کسی چیز پر قانع نہیں رہ سکتا اور اس کی فطرت کے موافق اسلام کے سوا اور کوئی پیغام نہیں ، اس لئے اسے حکم دیا گیا کہ (آیت) ” ولا تموتن الا وانتم مسلمون “۔ یعنی اگر موت بھی آئے تو اسلام پر ، اس کے بعد (آیت) ” واعتصموا بحبل اللہ “ کی تائید کی ہے یعنی مسلمان کا خدا کے ساتھ اتنا مضبوط تعلق ہو اور اس درجہ وابستگی ہو کہ دنیا کا کوئی اور رشتہ اسے منقطع نہ کرسکے ، وہ صرف خدا کے لئے زندہ رہے اور خدا کے لئے مرے اس کا اپنا مفاد اپنے اغراض یکسر مٹ جائیں ، اور اس کے تمام تعلقات اسلام وصداقت کے لئے ہوں ، کفر اور جھوٹ سے اسے قطعا محبت نہ ہو اور وہ دنیا کے تمام مادی رشتوں کو کاٹ دے اور اسلام کے حبل متین سے اپنے آپ کو وابستہ کرلے ۔ ظاہر ہے اس درجہ اخلاص کے بعد جبکہ سچائی اور صداقت کے سوا اور کوئی چیز اپنی نہ رہے ‘ اختلاف اٹھ جاتا ہے اور تفریق وتشتت کے امراض پیدا نہیں ہوتے ، اس لئے قرآن حکیم مسلمانوں کو کہتا ہے کہ دیکھو تم میں تفریق وانتشار کے جھکڑ نہ چلنے لگیں تم ہمیشہ ہی اخلاص پر قائم رہو ‘ جسے اللہ نے اسلام کے ذریعہ تم میں پیدا کیا ، عربوں میں اسلام کے پیغام اخوت سے پہلے انتہادرجہ کی تھیں وہ ہمیشہ ایک دوسرے سے برسرپیکار رہتے اور اپنے دلوں میں صدہا سال کے کینوں کو پالتے رہتے اور اس فطرت کینہ توزی پر فخر کرتے ، ایک دفعہ جب لڑائی کی آگ سلگتی تو پھر اس وقت تک اس کے شعلے نہ بجھتے جب تک کہ سارا عرب اس سے نہ جھلس جاتا وہ اپنے ان ” ایام غرر “ پر نازاں تھے اور اس وصف زبوں کو بہادری اور جماست سے تعبیر کرتے ، ذرا ذرا سی بات پر ان کا غم وغصہ مستقل جنگ کی شکل اختیار کرلیتا اور وہ برسوں تک اس شغل وتفریق کو جاری رکھتے ، اس وجہ سے وہ بالکل تباہ ہوچکے ، اور ہلاکت وموت کے عمیق غار میں گرنے ہی کو تھے کہ اسلام پیام مودت ومحبت نے ان کے دلوں کو جوڑ دیا اور سارے عمر اخوت وبرادری کی ایک لہر دوڑا دی ۔ وہ جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے (آیت) ” رحمآء بینھم کے لقب سے نوازے گئے اور اخوت ودوستی کے وہ روح پرور نظارے دنیا والوں کے سامنے پیش کئے کہ آنکھیں اس سے پہلے اس نوع کے نظاروں سے قطعی محروم تھیں ، اس آیت میں تالیف قلب کے اسی موضوع کی طرف مسلمان کی توجہ کو مبذول کیا گیا ہے اور اس سے کہا گیا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی تاریخ میں اس قسم کے واقعات دہراتا رہے اور بھول کر بھی جماعت بندی اور گروہ بندی کے جھگڑوں میں نہ پھنسے اس لئے کہ اسے بجز تباہی کے اور کچھ حاصل نہیں ۔ آل عمران
104 فریضہ تبلیغ : (ف ١) (آیت) ” ولتکن منکم “ میں من بیانہ ہے یعنی تم سارے مسلمان تبلیغ واشاعت کے لئے مکلف ہو اور تم میں ہر مسلمان مبلغ ہے اس مفہوم کو دوسری جگہ ان الفاظ میں ظاہر فرمایا ہے ۔ (آیت) ” کنتم خیر امت اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر “۔ کہ تم میں اور دیگر جماعتوں میں فرق یہ ہے کہ تم سب کے سب خدا کے دین کے پھیلانے والے ہو اور وہ نہیں ، یہی وجہ ہے کہ مسلمان کو شھدآء اللہ فی الارض “ کا معزز خطاب دیا گیا ہے یعنی تبلیغ واشاعت فرض کفایہ نہیں کہ صرف علماء تک محدود ہو ، بلکہ ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ بقدر استطاعت اسلام سیکھے اور بقدر امکان اس کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرے ۔ حل لغات : اعدآء : جمع عدو ۔ بمعنی دشمن ۔ الف : مصدر تالیف ، محبت پیدا کرنا ، دلوں کو جوڑنا ۔ شفا : کنارہ ۔ حفرۃ : گڑھا خار ۔ آل عمران
105 آل عمران
106 آل عمران
107 آل عمران
108 آل عمران
109 آل عمران
110 حدود تبلیغ : (ف ١) اس آیت میں تمام مسلمانوں کو فریضہ تبلیغ کی ادائیگی کے لئے آمادہ کیا ہے مگر خود تبلیغ کی حدود کیا ہیں ؟ یہ ایک سوال ہے ۔ قرآن حکیم نے تبلیغ واشاعت کو دو لفظوں سے تعبیر کیا ہے ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ۔ یعنی نیکی ‘ بھلائی اور سچائی کی تلقین اور برائی سے اظہار نفرت وتحقیر ۔ ظاہر ہے یہ دو لفظ انتہا درجہ کی وسعت اپنے اندر پنہاں رکھتے ہی ، معروف کا اطلاق نیک اقدام پر ہو سکتا ہے اور منکر کا ہر برے اقدام پر ، چونکہ ان دو لفظوں میں فرد وجماعت کی تمام نیکیاں اور برائیاں آجاتی ہیں ، اس لئے جواب بالکل آسان اور واضح ہے کہ تبلیغ کی حدود فرد وجماعت کی تمام وسعتوں پر حاوی ومحیط ہیں ، دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ایک ایسی پاکیزہ اور بلند عادات رکھنے والی جماعت کا نام ہے جس کا ہر فرد مبلغ ہے ، صالح ہے اور مصلح ہے اور پھر تبلیغ کا طریق صرف پندوموعظت ہی نہیں ‘ بلکہ طاغوت کے خلاف جنگ بھی اس مفہوم میں داخل ہے مسلمان صرف محراب ومنبر ہی میں محدود رہ کر اعلاء کلمۃ اللہ کا سامان پیدا نہیں کرتا بلکہ کبھی کبھی وہ دارورسن کو بھی دعوت امتحان دیتا ہے اس کا امکان تبلیغ صرف پرشور جلسے اور ہنگامہ خیز مجھے ہی نہیں ہوتے بلکہ سیف وسنان کے مرکز اور توپ وتفنگ کے میدان بھی اس کے دائرہ فتوحات میں شامل ہیں ، وہ صرف قلم وزبان کو ہی جنبش نہیں دیتا بلکہ وقت پڑنے پر نیزہ بھالا اور برچھی سب اس کے اشارہ پر رقص کناں ہوتے ہیں ۔ حل لغات : الفاسقون : حدود اصلیہ اسلامیہ سے تجاوز کرنے والا ۔ الادبار : جمع دبر بمعنی پشت ۔ آل عمران
111 آل عمران
112 کفر کی شکت : ان آیات میں بتایا ہے کہ یہ لوگ مسلمانوں کو کوئی مادی فائدہ نہیں پہنچا سکتے ، جب مسلمانوں کے مقابلہ میں آئیں گے تو خائب وخاسر ہی لوٹیں گے ، ان کے کفر والحاد کی وجہ سے کہ انہوں وحدت حق کو ٹھکرایا ہے اور انبیاء کی مخالفت کی ہے ، انہیں ذلت ومسکنت سے دو چار ہونا پڑے گا ، الا یہ کہ خدا کے جبل متین کو مضبوطی سے پکڑ لیں ، دیکھو ! قرآن حکیم کی یہ پیشگوئی کس قدر واضح طور پر ثابت ہوئی ، اہل کتاب باوجود کثرت کے شکست کھا گئے ان کے علم رفیع کے سامنے سرنگوں ہوگئے ، قرآن حکیم علی الاعلان یہ کہتا ہے کہ کفر ہمیشہ مغلوب رہے گا ان کی ہمیشہ فتح ہوگی ، اس لئے کہ حق وباطل کی آویزش میں حق کا پلہ بھاری رہتا ہے ۔ اور باطل کے پاؤں نہیں ہوتے ۔ یہ وقت ہے جب مقابلہ صحیح مومن اور کافر کے درمیان ہو ۔ مسلمان برائے نام ہو اور کافر تمام اچھی صفات صفات سے متصف ہونا وقت ضروری نہیں کہ خدا کی رحمتیں ایسے مسلمانوں کے شامل رہیں ۔ آج کل بالکل یہی کیفیت ہے ، وہ جو غیر مسلم ہیں ‘ ان میں اکثر اسلامی خوبیاں موجود ہیں ، وہ آپس میں اتفاق رکھتے ہیں ، ان میں تعاون وہمدردی کا مادہ موجود ہے ، وہ تعلیم وحرفت میں ‘ دولت وسرمایہ میں مسلمان سے کہیں آگے ہیں ، اور مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریبان ہے ، مفلس ہے اور جاہل ، بتائیے ان حالات میں کیونکر وہ خدا کی نعمتوں کا مستحق ٹھہر سکتا ہے کیا اس لئے کہ اس کا نام عبداللہ یا عبدالرحمان ہے یا اس لئے کہ وہ موروثی طور پر مسلمان ہے ۔ آل عمران
113 آل عمران
114 ایمان باللہ کے معنی : (ف ٢) ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ جہاں ایک کتاب میں یہودی ذلت ومسکنت کے عذاب الیم میں گرفتار ہیں ‘ وہاں چند سعید روحیں بھی ہیں جو بدرجہ غایت خدا پرست ہیں ، ان کے دلوں میں ایمان واتقاء کی قندیل روشن ہے ، وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور اعلان حق میں ہر آن کوشاں رہتے ہیں ، یہ صالح اور نیک لوگوں کی جماعت ہے ، ان کی نیکیاں محض اس لئے ضائع نہیں ہونگی کہ وہ پہلے یہودی تھے ، خدا علیم بذات الصدور ہے ، وہ خوب جانتا ہے کہ یہ خدا پرست اور متقی ہیں ‘ اس لئے انکی ہر سعی مقبول وماجور ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں تعصب وانتقام کو کوئی دخل نہیں ، کوئی انسان کسی وقت بھی حق کو قبول کرلے ، اللہ کا مقبول بندہ بن جاتا ہے ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اپنی کمزوریوں کا احساس ہو اور بس توبہ وانابت کے بعد اس کے دامن میں پناہ لینے کا سب کو استحقاق ہے ۔ یہی مفہوم ہے جس کو آیات میں واضح کیا گیا ہے ، بعض لوگوں کو اس قبیل کی آیات سے دھوکا ہوا ہے اور انہوں نے سمجھا ہے کہ شاید ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے بعد ایمان بال رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ضروری نہیں اور بغیر مسلمان ہونے کے ہر شخص نجات حاصل کرسکتا ہے ، مگر یہ صحیح نہیں ، قرآن حکیم ایک مستقل پیام نجات ہے ، وہ لوگ جو اسے نہیں مانتے ، وہ کسی طرح بھی حق پرست نہیں ہیں ، قرآن حکیم اخلاق ومعاشرت کا ایک معین پروگرام ہے ‘ اس لئے اس سے قطع نظر عنوان بھی درست نہیں ، یہی مقصد ہے اس آیت کا (آیت) ” ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ “۔ اسلام کے سوا کوئی راہ نجات نہیں ، صرف ایمان باللہ جو کوئی شخص پیام نہ رکھتا ہو ، یہ ناکافی ہے ۔ بات یہ ہے کہ دھوکا ‘ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے الفاظ سے ہوتا ہے ۔ ان کا عموم ان کے لئے وجہ لغزش بن جاتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک اصطلاح ہے ، قرآن حکیم میں متقی و مومن کا اطلاق اسی شخص پر ہوتا ہے جو کاملا اسلام کو مان لیتا ہے ، علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس نکتہ کو کس طرح بھانپ لیا ہے ، وہ لکھتے ہیں : ” وقد بینا ان ال ایمان باللہ یستلزم ال ایمان بجمیع انبیآئہ ورسلہ وال ایمان بالیوم الاخر یستلزم الحذر من المعاصی “۔ یعنی ایمان باللہ مستلزم ہے تمام انبیاء ورسل پر ایمان لانے کو اور ایمان بالاخرت کے معنی ہیں تمام برائیوں سے بچنا ۔ اور یہ کوئی تک نہیں قرآن حکیم کے عمیق مطالعہ سے یہی معلوم ہوتا ہے جسے فاضل رازی رحمۃ اللہ علیہ کی دقیقہ رس نگاہوں نے سرسری طور پر معلوم کرلیا ہے ۔ آل عمران
115 آل عمران
116 (ف ١) قریش مکہ کے بڑے بڑے رئیسوں کو اور بنو نضیر کے بڑے بڑے مہاجنوں کو مال ودولت کی کثرت اور اہل وعیال کی فراخ بالی پر بڑا ناز تھا اور انہیں مسلمان نہایت ذلیل نظر آتے تھے ، وہ کہتے تھے جو یہاں اللہ کی نعمتوں سے محروم ہیں ، انہیں قیامت کے دن کیا ملے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بتایا ہے کہ مال ودولت کی فراوانی وہاں کام نہیں آئے گی اور نہ اولاد وعیال خدا کے عتاب سے چھڑا سکیں گے ، وہاں اعمال حسنہ ہی پونجی سمجھی جائے گی اور وہ ان کے پاس ہے نہیں ۔ حل لغات : ریح : ہوا ۔ صر : تیز سردی ، ٹھنڈک ۔ آل عمران
117 (ف ١) ان مال داروں کی تمام کوششیں رائیگاں جائیں گی ، ان لوگوں کی طرح جن کا کھیت سرد ہوا کے جھونکوں سے تباہ ہوجائے کیونکہ ان کے دلوں میں ایمان وانصاف کا جذبہ موجود نہیں مقصود اعمال نہیں بلکہ اعمال حسنہ ہیں جو خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ادا کئے جائیں ۔ آل عمران
118 نفاق سے دوستی : (ف ٢) (آیت) ” بطانۃ “ کے معنی رابطہ قلبی کے ہیں (آیت) ” من دونکم کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی مفاد کو ٹھکرا کر ایسے تعلقات کفر کے ساتھ وابستہ رکھے جائیں ، اس لئے ظاہر ہے کہ آیت کا مقصد عام معاشی ومجلسی تعلقات سے روکنا نہیں ، بلکہ یہ ہے کہ کفر پر کلی اعتماد نہ کیا جائے اور کبھی غیر مسلموں کو اپنا سچا خیر خواہ نہ سمجھا جائے ، یہ بہترین سیاسی سبق ہے جو مسلمانوں کو دیا گیا ہے اور اس کی وجوہ یہ بیان فرمائیں کہ (آیت) ” لا یالونکم خبالا “۔ تم کو نقصان پہنچانے میں انہوں نے کبھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ، تم چاہے کتنا ہی اخلاص کا ثبوت دو ‘ وہ تمہارے ساتھ دھوکے ہی سے پیش آئیں گے ، (آیت) ” ودواماعنتم “ یہ ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں کہ تمہیں مصائب میں مبتلا رکھا جائے ، (آیت) ” قد بدت البغضآء من افواھہم “۔ دشمنی کی باتیں باوجود اخفا کے ان کے منہ سے نکل جاتی ہیں (آیت) ” وما تخفی صدورھم اکبر “ اور ان کے دلوں میں اس سے زیادہ بغض وعناد بھرا ہے جتنا کہ ظاہر ہوتا ہے ، باوجود اس کے (آیت) ” اولآء تحبونھم “ تم ان سے محبت کرتے ہو ، وہ بظاہر گو نہایت مخلص نظر آتے ہیں ، مگر بباطن تم پر دانت پیستے ہیں اور خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور اگر تم کامیابی ومسرت سے دو چار ہوجاؤ تو جلتے ہیں اور غیظ وغضب میں بھر جاتے ہیں ۔ کہئے ان حالات کے بعد بھی ان سے تعلقات رکھے جائیں ؟ آج بھی کفر کی ہی حالت ہے مسلمان کی سادگی کی حد ہے کہ وہ سب کے ساتھ مخلصانہ ملتا ہے ، اس کے دل میں تعصب وعناد کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔ وہ انتہا درجہ کا روادار ہے ، مگر ساری دنیائے کفر اس کی مخالف ہے ، مسلمان کو جب کبھی بھی کوئی تکلیف پہنچی ہے ، کفر کی باچھیں کھل گئی ہیں اور ان کے اخبارات اس خوشی کو چھپا نہیں سکتے ۔ حل لغات : بطانۃ : ولی دوستی ، قلبی رابطہ : الی یالوا : کے معنی اصل میں کسی کام میں کمی رکھنے کے ہیں ۔ لایالون : کے معنی بہ ہیں کہ کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھتے ۔ خبال : فساد ، نقصان ۔ آل عمران
119 آل عمران
120 (ف ١) قرآن حکیم علیم بذات الصدور خدا کی کتاب ہے ‘ اس لئے ضرور ہے کہ مخالفین کی ایک ایک نفسیت کو بیان کیا جائے اور بتایا جائے کہ مخالف مخالف ہے اور موافق موافق ، تاکہ مسلمان کسی دھوکے میں نہ رہیں ، ان کے نفاق کا علاج بھی بتا دیا فرمایا (آیت) ” وان تصبروا وتتقوا لا یضرکم کیدھم شیئا “ یعنی اگر تم گھبرا نہ جاؤ اور پوری استقامت سے کام لو اور محتاط رہو تو تمہیں کوئی نقصان نہیں ۔ مسلمان کو جس قدر تدبر ‘ استقلال اور احتیاط واعتدال کی تلقین کی گئی ہے ، وہ اسی قدر بےوقوف کاہل اور غیر معتدل ہے ۔ حالات یہ ہیں کہ مسلمانوں نے یہودیون پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کیا ، انہوں نے دھوکا دیا ، منافقین کے ساتھ وفق ومسالمت سے کام لیا ، وہ مخالفین کے ساتھ مل گئے ، عیسائیوں کی تعریف کی ‘ وہ بگڑ گئے ، اس صورت میں ضروری تھا کہ ان سب سے ایک دم تعلقات منقطع کر لئے جائیں اور انہیں بتا دیا جائے کہ ہم تمہاری تمام منافقانہ چالوں سے واقف ہیں ۔ حل لغات : حسنۃ : نیکی ، یہاں مراد مسرت ہے ۔ مساعد : نشستیں ، مورچے ، بیٹھنے کی جگہیں ۔ آل عمران
121 آل عمران
122 آل عمران
123 غزوہ احد : (ف ١) غزوہ بدر کے بعد مقام احد پر کفار جمع ہوئے مقصود یہ تھا کہ بدر کا انتقام لیا جائے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اطلاع ملی تو صحابہ (رض) عنہم اجمعین سے مشورہ طلب کیا اور عبداللہ بن ابی ابن سلول کو خصوصیت سے بلایا ، اس نے مشورہ دیا کہ آپ مدینہ ہی میں رہ کر مدافعت کریں ، اس لئے کہ ہم جب بھی مدینہ سے باہر رہ کر لڑے ہیں ہمارا نقصان ہوا ہے مقصد یہ تھا کہ مخالف آسانی سے مدینہ پر قبضہ کرلیں ، یہ ایک چال تھی ، دیگر صحابہ (رض) عنہم اجمعین نے فرمایا ، ہم چاہتے ہیں کہ میدان میں نکل کر جام شہادت پئیں ، ایسا نہ ہو کہ مخالف ہمیں بزدل سمجھیں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے خواب مین دیکھا ہے کہ گائے ذبح کی جا رہی ہے اس سے میں نیک فال اخذ کی ہے ، میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ میری تلوار آگے سے ٹوٹ گئی ہے ، اس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ قدرے شکست ہوگی ، صحابہ (رض) عنہم اجمعین نے زور دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکل کر لڑیں ، انہیں شوق شہادت نے بےقرار کر رکھا تھا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اندر گئے اور مسلح ہو کر باہر نکلے ، اب صحابہ (رض) عنہم اجمعین بچھتائے کہ کہیں ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارادہ کے خلاف تو انہیں مجبور نہیں کیا ، کہنے لگے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو خواہش ہو وہ بہتر ہے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، خدا کا بہادر پیغمبر جب ایک دفعہ مسلح ہوجائے تو ہتھیار نہیں اتارتا ، اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوچ فرمایا ، صحابہ (رض) عنہم اجمعین ساتھ ساتھ چلے ۔ عبداللہ بن ابی نے جب یہ دیکھا کہ مسلمان میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں تو سخت مایوس ہوا اور اپنے تین سو آدمی لے کر الگ ہوگیا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں پہنچے ، صفیں درست کیں ایک ایک سپاہی کی جگہ مقرر کی ، عبداللہ بن جبیر (رض) کو تیراندازوں کا امیر مقرر کیا اور فرمایا ، اس درے پر مضبوطی سے کھڑے رہنا ۔ جب جنگ شروع ہوئی اور مسلمان مخالفین پر چھاگئے تو غنیمت کے لالچ میں اور یہ سمجھ کر کہ اب تو میدان ہمارے ہی ہاتھ میں ہے مسلمان مال غنیمت سمیٹنے میں مصروف ہوگئے ، مخالفین نے مسلمانوں کے تغافل سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور مسلمانوں پر پل پڑے ، نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں بھاگڑ مچ گئی ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چوٹیں آئیں ، اگلے دانٹ ٹوٹ گئے اور چہرہ مبارک لہولہان ہوگیا ، عام مسلمانوں میں یہ مشہور کردیا گیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید کردیئے گئے ہیں جس سے سخت بددلی پھیل گئی ، اس کے بعد چند جان نثار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچ گئے اور بڑی بےجگری سے لڑے ۔ ان آیات میں یہی بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرتیں ہمیشہ مسلمانوں کے ساتھ رہی ہیں ، دیکھو بدر میں تمہاری تعداد بہت کم تھی اور کفار کا ایک لشکر جرار مقابلہ پر تھا پھر بھی فتح اسلام کے شیدائیوں کو ہوئی ، فرشتوں کا نزول خدا پرستوں کی تائید وتثبیت کے لئے تھا مادیت پر ست لوگ ممکن ہے اس کو تسلیم نہ کریں ، مگر واقعہ یہ ہے کہ خدا ہمیشہ اپنے عقیدت مندوں کو عزت وغلبہ سے نوازتا رہتا ہے ۔ فرشتے بدر میں نازل ہوئے تھے جیسا کہ جمہور مفسرین کا خیال ہے اور سیاق کلام سے بھی ظاہر ہوتا ہے ، احد میں نہیں ۔ (آیت) ” اذ غدوت من اھلک “۔ الخ میں یہ بتایا ہے کہ نبی صرف محراب ومنبر میں ہی نہیں گرجتا ‘ بلکہ میدان جنگ میں بھی وہ سپاہیانہ حصہ لیتا ہے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ جامعیت کبری کے وصف سے متصف تھے ، اس لئے ضروری تھا کہ وہ تدابیر جنگ سے بھی کما حقہ ‘ واقف ہوں ، یہی وجہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں دین ودنیا کی خوبیاں جمع ہیں ، ایک طرف مسجد میں امام ہیں اور دوسری طرف جنگ میں بطل فنا ۔ آل عمران
124 آل عمران
125 آل عمران
126 آل عمران
127 آل عمران
128 آل عمران
129 اللہ کی شان بےنیازی : (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ آسمان وزمین جو کچھ ہے وہ خدائے متعال کے قبضہ قدرت میں ہے ، زمین کی بستیان اور آسمان کی بلندیاں سب اس کی قوت وعظمت پردال ہیں ۔ اور کوئی نہیں جو اس کی خدائی سے باہر ہو ۔ وہ اگر بدترین لوگوں کو اپنی آغوش رحمت میں لے لے اور جنت ونعیم کی نعمتوں سے بہرہ ور ہونے کا موقع دے تو کوئی شخص اسے روک نہیں سکتا اور اگر محبوب ترین اشخاص کو دہکتے ہوئے جہنم میں ڈال دے تو کوئی قوت اسے روک نہیں سکتی وہ باجبروت وباملکوت خدا ہے ، یہ صحیح ہے کہ وہ ایسا نہیں کرے گا ، اس کا عدل ورحم اسے شفقت ورحم پر مجبور کریگا مگر جہاں تک اس کے جلال وقدرت کا تعلق ہے ‘ وہ ہر ضابطہ اور قانون سے اعلی وارفع ہے اور جو چاہے کرسکتا ہے ۔ (آیت) ” یغفرلمن یشآء ویعذب من یشآء واللہ غفور رحیم “ ۔ حل لغات : طرف : حصہ جانب ۔ پہلو ۔ یکبتھم ، مصدر کبت ، ذلیل کرنا ۔ خآئیبین ، جمع خآئب ۔ نامراد اور ذلیل وناکام ۔ آل عمران
130 اضعافا مضاعفۃ : (ف ١) سود کی مکمل بحث سورۃ بقرہ میں گزر چکی ہے یہاں اس کی مزید شناعت آئی ہے کہ یہ کیا انصاف ہے ، تم اصل رقم سے کئی گنا زیادہ وصول کرلیتے ہو اور پھر تمہارا قرض باقی رہتا ہے ، بات یہ ہے کہ جاہلیت میں ایک شخص متعین حد تک کے لئے سود پر روپیہ دیتا ، جب وہ مقررہ وقت آتا اور مقروض نہ دے سکتا تو اس سے کہا جاتا کہ اصل رقم میں اضافہ کرو تو مدت بڑھائی جا سکتی ہے ، اسی طرح سود (آیت) ” اضعافا مضاعفۃ “ ہوجاتا جو قطعا ناقابل برداشت ہے ، اسلام نے اس سے روکا ہے ، اس کا یہ مقصد نہیں کہ جائز مقدار میں سود کا لینا دینا جائز ہے ، جیسا کہ بعض نافہم لوگوں نے سمجھا ہے ، یہ قید (آیت) ” اضعافا مضاعفۃ “۔ کی امر واقعہ کے اظہار کے لیے ہے ، نہ تعبین وتحدید کے لئے ، آل عمران
131 مزید ناراضی : (ف ٢) سورۃ بقر میں سود خور کو خدا کے خلاف اعلان جنگ کرنے والا بتایا تھا ، یہاں اسے مستحق عذاب قرار دیا ہے اور عذاب بھی وہ جو کفار کے ساتھ مخصوص ہے جس کے صاف صاف معنی یہ ہیں کہ اسلام سود کو کسی صورت میں بھی جائز قرار نہیں دیتا ، اس لئے کہ سود خوری نسل انسانی کو بےکار بنا دیتی ہے اور ایک ایسا گروہ پیدا کردیتی ہے جو جماعت کے لئے نہایت مضر ثابت ہوتا ہے ، عوام میں جس قدر برائیاں پھیلتی ہیں ، وہ گروہ امراء کی بدولت پھیلتی ہیں ، انکی تعیش پسندانہ زندگی عوام کے اخلاق کے لئے مستقلا خطرہ ہے ، اسلام جو اخلاق واصلاح کا علمبردار ہے کیسے سود کی اجازت دے سکتا ہے ۔ حل لغات : اضعافا مضاعفۃ : زائد از زائد ۔ والکاظمین الغیظ : غصہ پی جانے والے ، کظم کے اصل معنی روکنے اور بند کرنے کے ہیں ۔ آل عمران
132 آل عمران
133 آل عمران
134 آل عمران
135 (ف ١) ان آیات میں مسلمان کے نصب العین کو واضح کیا ہے کہ وہ مجسمہ اطاعت ہوتا ہے ، اس کا ہر ارادہ اللہ اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ماتحت ہوتا ہے ، اور وہ دنیا کی دلفریبیوں پر نہیں ریجھتا ، وہ جنت ومغفرت سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہوتا ، مغفرت کے معنی مختلف آئے ہیں ، امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں اس سے مراد اسلام ہے ، حضرت علی (رض) کا ارشاد ہے کہ اس سے مقصود ادائے فرائض ہے ، حضرت عثمان (رض) فرماتے ہیں ، پانچ نمازیں ہیں ، سعید بن جبیر (رض) کہتے ہیں ، تکبیر اعلی سے تعبیر ہے ۔ مگر لفظ کی وسعتیں کسی تخصیص کی متحمل نہیں ، ان اقوال میں بھی تضاد نہیں ، ان بزرگوں نے اپنے اپنے مذاق کے مطابق جس طرز عمل کو زیادہ اچھا سمجھا ، مغفرت کا اولین مصداق قرار دیا ، مقصود بہرحال یہ ہے کہ مسلمان کی نگاہیں بہت بلند ہیں ، وہ مقام رضا ومغفرت کو لپک لپک کر اور دوڑ دوڑ کر حاصل کرنا چاہتا ہے ، (آیت) ” عرضہا السموت “۔ سے مراد وسعت وکشادگی کی تشریح ہے ، ” بلاد عریضہ “۔ بڑے بڑے ملکوں کو کہتے ہیں ۔ مقصود یہ ہے کہ زمین وآسمان کی بلندیاں اور پہنائیاں جنت کی وسعت بےپایاں کا ایک حصہ ہیں ، بعض لوگوں نے ” عرض “ کے بھی کہئے ہیں ، مگر عربیت کے لحاظ سے کچھ زیادہ جچتے نہیں ۔ آل عمران
136 ستہ ضروریہ : (ف ٢) ان آیات میں چھ ان صفات کی توضیح کی گئی ہے جن سے مغفرت کا حصول ہوتا ہے ، (١) عسرویسر حالت میں خدا کی راہ میں خرچ کرنا ۔ (٢) مقدر وقوت کے باوجود غصہ کو ضبط کرلینا ، مبروجو بڑے نجومی ہیں ‘ کہتے ہیں کظلم کا لفظ اس وقت بولا جاتا جب مشکیزہ بھر جائے اور بہتے ہوئے پانی کو بند کیا جائے چنانچہ کظم السقاء کے معنی ہوتے ہیں ، کتم علی امتلائہ منہ “ یعنی خوبی جب ہے جب غصہ سے آنکھوں میں خون اتر آئے ، بدن میں کپکپی اور تھرتھری پیدا ہوجائے اور پھر خدا کا ڈر اور حسن سلوک کا جذبہ تمہیں انتقام سے روک دے ، یہ وہ جذبہ ہے جو انسان کو حقیقی معنوں میں بہادر بنا دیتا ہے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پہلوان وہ نہیں جو دشمن کو گرا دے ، بلکہ وہ ہے جو غصہ کو پچھاڑ دے ، (٣) معاف کردینے کا درجہ غصہ پی جانے سے زیادہ بلند ہے ، یعنی انتقام نہ لینے کے بعد دل سے بھی بغض وعناد کے خیالات کو دور کر دے اور پوری پاکیزگی کے ساتھ دشمن سے ملے (٤) احسان یعنی حسن سلوک سے کام لے ، فرمایا ، خدا کو ایسے ہی بندے پسند ہیں ، (آیت) ” واللہ یحب المحسنین “۔ (٥) احساس زیاں یعنی برائی کے بعد فورا پشیمانی ۔ (٦) عدم اسرار وقبول واعتراف کا جذبہ ۔ ظاہر ہے یہ وہ ستہ ضروریہ ہے جس پر اسلامی اخلاق کی بنیاد ہے اور جو مقام جنت کے حصول کے لئے از بس ضروری ہے کیا اس کے بعد بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ اسلام آئیڈیل اخلاق پیش نہیں کرتا ۔ آل عمران
137 (٣) اس آیت میں مسلمان کو تلقین کی ہے کہ وہ عبرت وبصائر کو ڈھونڈے اور تلاش کرے اور دیکھے کہ وہ لوگ جو آسمانی ہدایات کو نہیں مانتے اور اخلاق واصلاح کی مخالفت کرتے ہیں ان کا کتنا عبرت ناک حشر ہوتا ہے اور کس طرح وہ آنے والی نسلوں کے لئے سرمایہ بصیرت بنتے ہیں اور زبان حال سے کہتے ہیں ۔ ان اثار ما تدل علینا فانظروا بعدنا الی الاثار : حل لغات : سنن : طریق ۔ رستے ۔ آل عمران
138 آل عمران
139 انتم الاعلون : (ف ١) اس آیت میں مسلمانوں کو بشارت دائمی کی خبر سنائی ہے کہ مسلمان اگر مسلمان ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ کفر سے مغلوب رہے اور یہ اس لئے کہ اسلام نام ہی ایک ایسے زندہ طرز عمل کا ہے جو فلاح دارین کا کفیل وضامن ہے ، اس کے اصول اتنے پاکیزہ اور حیات بخش ہیں کہ مان لینے کے بعد علو واختیار کی تمام نصیحتیں از خود حاصل ہوجاتی ہیں ، مگر شرط وہی ایمان کامل ہے جس سے عمل پہیم الگ نہیں ، قرآن حکیم کی اصطلاح میں ” مومن “ صرف چند اصول وفروع کو مان لینے والے کا نام نہیں ‘ بلکہ ایسے زبردست خدا پرست انسان کا نام ہے جس کی رگوں میں خون کی بجائے اسلام کی کہریائی رو دوڑ رہی ہو ‘ جو بےچین اور مضطرب داغ دماغ کا مالک ہو ‘ جس کی عملیت فولاد کو برما دے اور پتھر اور چٹانوں میں جان پیدا کردے ‘ جو انتہا درجہ کا صابر ، منتظم اور باقاعدہ ہو جس میں پوری عسکری روح ہو ، جو دنیا کو تہ وبالا کردینے کا عزم صمیم اپنے اندر رکھتا ہو ‘ وہ نہ جامد اور غیر متحرک ہو جو غلام اور ذلیل ہو ‘ جس میں کوئی ارادہ نہ ہو اور جس کا ایمان منطقی حدود سے آگے نہ بڑھے ۔ آل عمران
140 (ف ٢) ان آیات میں بزدل مسلمانوں کو تسلی دی ہے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ، جیسے چوٹیں تم نے کھائی ہیں ‘ ویسے ہی تمہارے دشمن بھی زخمی ہوئے ہیں اور یہ عارضی غلبہ جو کفار کو ہوگیا ہے ، اس لئے ہے ، تاکہ مخلصین کا امتحان ہوجائے ، (آیت) ” تلک الایام نداولھا بین الناس “۔ سے مراد یہ نہیں کہ غلبہ کبھی تمہیں میسر ہوتا ہے اور کبھی کفار کو بلکہ مقصود یہ ہے کہ یہ تکلیف کے دن اور آزمائش کی گھڑیاں سب کے لئے یکساں ہیں ، مومن کے لئے ابتلا ہے اور کافر کے لئے عذاب ، ورنہ اصل نصرت وفتح صرف مسلمانوں کے لئے مختص ہے ۔ حل لغات : قرح : زخم ۔ چوٹ ۔ یمحص : مصدر تمحیص ۔ خالص بنانا ۔ آل عمران
141 آل عمران
142 آل عمران
143 گمان باطل : (ف ١) اسلام قبول کرنے کے معنی یہ ہیں کہ تمام باطل قوتوں کے ساتھ جنگ چھڑ جائے ، اس لئے کہ جو شخص حق نواز ہوگا ‘ ضرور ہے کہ طاغوت کا دشمن ہو ، شیطان کی دوستی اور اسلام یہ دو مختلف چیزیں ہیں جو کبھی ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتیں اس لئے جو مومن ہے اور جس کا نصب العین جنت کا حصول ہے ، وہ اس گمان باطل میں نہ مبتلا رہے کہ بغیر جہاد کئے اور مصیبتیں جھیلے خدا کی رضا کو حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ ان آیات میں مسلمانوں کو عام جماعت کو مخاطب کیا ہے کہ تم غزوہ احد سے پہلے شوق شہادت میں بےچین تھے ، اب تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ کیوں نہیں اٹھ کر اپنی عزیمیت وقوت کا ثبوت دیتے اور کیوں ثابت نہیں کردیتے کہ ہم جنت کے وارث ومستحق ہیں ۔ (آیت) ” ولما یعلم “ سے مراد یہ ہے کہ مجاہدین وصابرین کا گروہ متمیز طور پر الگ ہوجائے اور واضح طور پر الگ ہوجائے کون خدا کی راہ میں جان دیتا ہے اور کون ہے جو جی چراتا ہے ، نہ یہ کہ خدا جان لے اس لئے کہ اس کے علم میں واقعات وحوادث سے کوئی اضافہ نہیں ہوتا ۔ اس کا علم ہمیشہ سے کامل اور ہمہ گیر ہے ۔ حل لغات : خلت : خلایۃ کے معنی ہوتے ہیں ، وہ خلوت میں اس سے ملا ، رجل خلی بےکار آدمی کو کہتے ہیں ، خلا کے معنی ہیں ہو گزرا مجازا اس کا اطلاق موت پر بھی ہوتا ہے ۔ آل عمران
144 آل عمران
145 آل عمران
146 تلقین عزیمت : (ف ١) جب غزوہ احد میں بھاگڑ مچی اور عبداللہ ابن قیمہ نے یہ مشہور کردیا کہ رسالتمآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید ہوگئے ہیں تو بعض مسلمان ہمتیں ہار بیٹھے اور جم کر نہ لڑ سکے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” الی عباداللہ “ کہ خدا کے بندو ادھر آؤ ، لوگ حضور کے گردا گرد جمع ہوگئے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پوچھا کہ یہ تمہیں ہوگیا جو تم بھاگ کھڑے ہوئے ؟ انہوں نے کہا ، ہم نے جب سنا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم میں نہیں رہے تو ہم گھبرا گئے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی حیثیت ایک پیغمبر سے زائد نہیں ، اس سے پہلے بہت سے پیغمبر ہو گزرے ہیں ، ہوسکتا ہے آپ اس دنیا کو چھوڑ جائیں ، کیا اس صورت میں تم دین مستقیم کو چھوڑ دو گے ؟ دوسرے لفظوں میں بتانا یہ مقصود تھا کہ انبیاء علیہم السلام ایک خاص مشن کی تکمیل کے لئے تشریف لاتے ہیں اور جب وہ تکمیل پذیر ہو چکتا ہے ‘ رفیق اعلی سے جاملتے ہیں ، یہ قطعا ضروری نہیں ہے کہ وہ قیامت تک امت میں زندہ رہیں اور امت کو راہ راست پر لاتے رہیں ، بلکہ ہر نبی کے لئے ایک وقت مقرر ہوتا ہے ، جب وہ وقت آجاتا ہے تو پھر عام انسانوں کی طرح قفس عنصری کو چھوڑ جاتے ہیں ، اس لئے یہ عذر قرین دانش نہیں کہ چونکہ پیغمبر ہم میں نہیں ‘ اس لئے دین چھوڑ دیا جائے یا ان کی حمایت چھوڑ دی جائے چنانچہ حضرت انس بن نضر (رض) اس نکتہ کو بھانپ لئے ، جب لوگ بھاگ رہے تھے اس وقت انہوں نے للکار کر کہا کہ اے قوم آؤ ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد جی کر کیا کرو گے ؟ اگر وہ فوت ہوگئے تو ان کا خدا تو زندہ ہے ہم اس کی محبت میں مر جائیں ، یہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد زندہ رہنے کی ذلت سے زیادہ موزوں ہے ، تقریبا اسی قسم کے جرات آموز الفاظ صدیق اکبر (رض) کے تھے ، جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوا ۔ آپ (رض) نے یہی آیت صحابہ (رض) عنہم اجمعین کے سامنے پیش کی اور بتایا کہ یہ خدا کا زبردست قانون ہے کہ جو اس دنیا میں آیا ہے ، وہ ضرور ایک نہ ایک دن اس دنیا کو چھوڑنے پر مجبور ہوگا ۔ یہ آیت کا سلیس اور صحیح مطلب ہے بعض لوگوں نے خواہ مخواہ اسے وفات مسیح (علیہ السلام) پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے ، آیت مذکورہ صرف اس حقیقت کو بیان کرتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے بھی انبیاء ہو گزرے ہیں وہ بھی انسان تھے اور انسانی حوادث سے ہو کر گزرے ہیں ، اس لئے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اوروں سے الگ حقیقت نہیں رکھتے ۔ اس آیت میں مسیح (علیہ السلام) کا کہیں ذکر نہیں ، البتہ عموم ہے ، کلیت واستغراق نہیں اور دوسرے مواضح پر جہاں ان کا نام ہے ، وضاحت سے حیات مسیح (علیہ السلام) کا ثبوت ملتا ہے ، منطقی طور پر مخصوص ومتعین دعوی کے لئے ومتعین دلائل ضروری ہیں ، مگر ہمارے مخالفین ہمیشہ خطابیات سے کام لیتے ہیں ۔ آل عمران
147 آل عمران
148 اللہ والوں کا جہاد : (ف ٢) جس طرح ایک مادہ پرست انسان کے نصب العین میں زمین وآسمان کا فرق اسی طرح ان کے طریق کار ہیں اور عام لوگوں کی روش میں عظیم امتیاز پایا جاتا ہے ، مادیت پرست لوگ مادی خواہشات کے حصول کے لئے لڑتے ہیں اور اللہ والے بلند نصب العین کے ماتحت میدان جہاد میں کودتے ہیں ۔ دنیا داروں کے سامنے خدا کی بادشاہت پھیلانے کا مقصد ہوتا ہے ، ظالم اپنے نفس امارہ کے لئے لڑتے ہیں اور خدائی مجاہد اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے ، پھر جس طرح ان کے مقاصد میں اختلاف ہے ، اسی طرح ان کے طریق جنگ میں بھی اختلاف ہے ۔ دنیا کے قیاصر واکاسرہ مادی قوتوں کو جمع کرتے ہیں اور اقلیم ایمان عقیدت کے شہنشاہ بصیرت ونیاز مندی کے متاع عزیز کو ۔ ان آیات میں اسی نقشہ کو پیش کیا ہے کہ انبیاء کا ساتھ دینے والے سپاہی جنگ ولے کے نغموں سے مست ہو کر نہیں لڑتے ، شراب و لے سے مخمور ہو کر دشمنوں کا مقابلہ نہیں کرتے ، بلکہ ایمان ومغفرت کا افشردہ پیتے ہوئے جنگ میں نبرد آزما ہوتے ہیں ، خدا سے ڈرتے ہوئے اپنی لغزشوں سے معافی چاہتے ہوئے (آیت) ” ثبت اقدامنا “۔ کے نعرے لگاتے ہوئے جنگ کی آگ میں کودتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا دنیا کا ثواب اور عقبی وآخرت کی فیروز مندیاں ان پر سے نچھاور کردیتا ہے ، اس لئے کہ وہ جنگ میں بھی جہاں عام سپاہی اخلاق پش پشت ڈال دیتے ہیں ، احسان ومروت کا پیکر ہوتے ہیں ، ان کی دشمنی سوائے باطل اور باطل پرست کے اور کسی شے سے نہیں ہوتی ، وہ اللہ کے لئے لڑتے ہیں اور اللہ کے لئے لڑتے ہیں اور اللہ کے لئے جیتے ہیں ، ان کی کوئی حرکت اور ان کا کوئی اقدام ان کے اپنے لئے نہیں ہوتا ، وہ پوری بےغرضی اور بےلوثی کے ساتھ رہتے ہیں ۔ (آیت) ” واللہ یحب المحسنین “۔ آل عمران
149 (ف ١) ان آیات کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنے فرائض دینی میں پوری توجہ سے منہمک رہیں اور ان کفار کی قطعا پرواہ نہ کریں ، یہ تو چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح مسلمانوں کو ضرور گمراہ کرلیا جائے ، فرمایا اگر تم خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہدایات پڑھتے رہے تو وہ بہترین معاون وناصر ہے ۔ آل عمران
150 آل عمران
151 اسلامی رعب : (ف ٢) ان آیات میں وعدہ ہے کہ ہم کفار کے دل میں مسلمانوں کی طرف سے ہمیشہ رعب طاری رکھیں گے اور یہ اس لئے کہ وہ مشرک ہیں اور مشرک ہمیشہ بزدل ہوتا ہے یعنی بت پرست اور مشرک انسان ہر قوت وعظمت کے سامنے جھکتا ہے وہ دشمن کی بھی پوجا کرتا ہے ، اور دوست کی بھی اس لئے اس میں تاب مقاومت نہیں رہتی ، بخلاف مسلمان کے کہ وہ موحد ہے اور بجز خدا تعالیٰ کے اور کسی کے سامنے نہیں جھکتا ۔ یہی چیز اسے دلیر بنائے رکھتی ہے ۔ دیکھ لو آج بھی مسلمان مخالفین کے لئے کتنا مرعوب کن ہے ، یہ مانا کہ وہ اس وقت دم توڑ رہا ہے ، مگر کون ہے جو میرے ہوئے شیر کا سامنا گوارا کرتا ہے ؟ (آیت) ” مالم ینزل بہ سلطنا “۔ کے معنی یہ ہیں کہ شرک اور بت پرستی کے لئے شروع سے کوئی دلیل ہی نہیں یعنی یا تو خدا ایک ہے اور یا پھر دنیا میں کوئی خدا نہیں عقل وبرہان کے لئے تیسری راہ نہیں ، یہی وجہ ہے کہ اسلامی کلمہ توحید ” لا الہ الا اللہ “ ہے یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا وجود ہے اور یقینا ہے تو وہ ” الا “ کے ساتھ ہے ، ورنہ ” لا الہ الا اللہ “ کی دہریت ۔ حل لغات : اعقاب : جمع عقب بمعنی ایڑی ۔ تحسون : اوجس ، جڑ سے کاٹنا کلی استیصال بےدریغ قتل ۔ آل عمران
152 آل عمران
153 عصیاں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نتیجہ : (ف ١) احد میں جب مسلمانوں کو شکست ہوئی تو ضعیف ال ایمان لوگ ڈگمگا گئے ، انہیں شک نے آگھیرا کہ خدا نے جو نصرت واعانت کا وعدہ کیا تھا ‘ وہ پورا نہیں ہوا ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ خدا کا وعدہ سچا ہے ، اس میں کبھی تخلف نہیں ہوا ، کیا تم نے جب تک پارس اطاعت کو ملحوظ رکھا ، کامیاب نہیں رہے ؟ اولا تو ایسا ہوا کہ مسلمان مخالفین پر چھا گئے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میدان حرب اب انہیں کا حصہ ہے ، وہ لوگ جنہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیر اندازی کے لئے درہ پر متعین کردیا تھا اور فرمایا تھا کہ آخر تک تم یہیں رہنا ۔ ان میں بعض لوگ غنیمت کے لالچ ہیں ایک ہوگئے اور لگے مال غنیمت لوٹنے ، خالد بن ولید (رض) نے جو اس وقت کفار کے لشکر کے سردار تھے ، اور درہ کی طرف سے مسلمانوں پر حملہ کردیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت ترک کردی اور دنیا طلبی کے جذبہ سے متاثر ہو کر مال ودولت جمع کرنے میں مصروف ہوگئے ، یہ درست ہے کہ نصرت کا وعدہ تھا ، اور یہ بھی درست ہے کہ وعدہ کو ہر حال میں پورا ہونا چاہئے مگر یہ تو سوچئے ، وعدہ کن سے تھا ، کیا وعدے کے مخاطب صرف وہی لوگ نہیں تھے جو ہر حال میں فرمودہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قابل اتباع سمجھیں ، اس صورت حال میں ظاہر ہے کہ منافقین کا اعتراض بالکل لغو ہوجاتا ہے ، (آیت) ” ولقد عفاعنکم “ کے معنی یہ ہیں کہ آکر مسلمانوں کو اپنی اس نافرمانی کا احساس ہوا اور وہ بارگاہ ایزدی میں توبہ کے لئے جھک گئے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا ، اس لئے کہ اس کا شیوہ ہی عفو ورحم ہے ، اس آیت کے بعد بھاگنے والوں پر کوئی الزام نہیں جب اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا تو ہم اعتراض کرنے والے کون ؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں شرف صحبت حاصل ہے ۔ جنہوں نے براہ راست انوار وتجلیات نبوی کا مشاہدہ کیا ہے اور جمال یار کو بالمشافہ دیکھا ہے ، اس لغزش بشری پر انہیں موردالزام محض الحاد ہے ، وہ آنکھیں جو بعقیدت چہرہ اقدس کو دیکھتی رہی ‘ وہ کبھی محروم دیدار نہیں رہیں گی ، اس کے بعد بھاگر کا نقشہ کھینچا ہے کہ کس طرح تم بھاگے چلے جاتے تھے ، فرط بدحواسی میں تم نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز کو بھی نہیں سنا ، وہ تمہیں (آیت) ” الی عباد اللہ “ کی پکار سے اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا اور تم تھے کہ بھاگے چلے جا رہے تھے ، تمہاری ان غلطیوں کا خمیازہ آلام وہموم تھے جن سے تمہیں دو چار ہونا پڑا ، تم نے دیکھا کہ تمہارے سامنے کئی مسلمان جام شہادت پی گئے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ اقدس کو لہولہان کردیا گیا اور اس پر مستزاد یہ کہ مشہور کردیا گیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید ہوگئے ہیں ۔ یہ سب کچھ صرف اس لئے ہوا کہ تم جادہ اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے الگ ہوگئے اور تم نے پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایات کی پروا نہیں کی اور یہ نہیں سوچا کہ فتح ونصرت تو محض رہن اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے ۔ حل لغات : تصعدون : اصفاد فی الارض کے معنی ہیں ۔ اوپر کی طرف چڑھے چلے جانا ۔ آل عمران
154 سکون خاطر کی حیران کن مثال : (ف ١) باوجود ان مصائب کے جن سے مسلمانوں کو غزوہ احد میں گزرنا پڑا ، سکون خاطر کی یہ حالت ہے کہ عین حالت جنگ میں نیند نے آگھیرا کیا ، اس سے بہتر طمانیت قلب کی کوئی مثال پیش کی جا سکتی ہے ؟ میدان جنگ میں جہاں اچھوں اچھوں کے حواس باختہ ہوجاتے ہیں ، اللہ والے کچھ اس طرح داد شجاعت دے رہے ہیں کہ تلواریں ہاتھ سے چھوٹ رہی ہیں ، اونگھ رہے ہیں اور نبرد آزمائیاں ہو رہی ہیں ، اس طرح نیند کا آجانا اللہ کا خاص فضل تھا جس کا ان آیات میں اظہار ہے ، اس سے مسلمان کچھ دیر کے بعد بالکل تازہ دم ہوگئے اور تمام کوفت بھول گئے ۔ حل لغات : نعاس ۔ اونگھ ، جھپکی ۔ ظن الجاھلیۃ : زمانہ جاہلیت کے خیالات ، برز : مصدر بروز ، بمعنی ظاہر ہونا ، مضاجع : جمع مضجع ۔ خواب گاہ ۔ آل عمران
155 تقدیر : (ف ١) عبداللہ بن ابی اور دوسرے منافق احد کی شکست کو اسلام کے خلاف بطور دلیل استعمال کرتے اور کہتے کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سچے ہوتے تو ضرور فتح ہوتی اور ہمارے ساتھی کبھی میدان جنگ میں نہ مارے جاتے ، اس شبہ کا جواب گزشتہ آیات میں دیا جا چکا ہے کہ شکست نافرمانی ومعصیت کا نتیجہ ہے ۔ اگر تیر انداز درہ نہ چھوڑتے تو کبھی شکست نہ ہوتی میدان مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا ۔ ان آیات میں ان کی دوسری کج حجتی کا جواب دیا ہے ، وہ یہ کہ مسلمان اگر جہاد کے لئے نہ نکلتے تو نہ مارے جاتے ، دوسرے لفظوں میں وہ ضعیف الاعتقاد مسلمانوں میں بد دلی اور بزدلی کے جذبات پیدا کرنا چاہتے تھے کہ موت وحیات ہمارے اختیار میں ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، یہ غلط وہم ہے ، زندگی اور اس سے محرومی اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے ، جب خدا تمہاری موت کا فیصلہ کرچکا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ تم بچے رہو ۔ تقدیر الہی قطعی اور حتمی ہے جس میں ذرہ برابر شک وشبہ نہیں ، وہ جو خدا کے علم میں ہے ہو کر رہے گا ۔ دنیا کی کوئی قوت اسے روک نہیں سکتی ، بڑے سے بڑا انسان بھی اپنی پوری دانش وعقل کے ساتھ تقدیر کے فیصلوں کے سامنے بیچارہ وعاجز ہے ، جس وقت سے انسان عرصہ شہود پر آیا ہے ، موت کے آہنی پنجہ میں گرفتار ہے اور یہ وہ قید ہے جس سے قطعا رہائی نہیں ۔ بڑے بڑے نماردہ اور فراعنہ اور وہ جنہیں خدا پر یقین نہیں ؟ موت کا شکار ہوتے ہیں اور اس ذلت کے ساتھ کہ سارا کبر وغرور خاک میں مل گیا ہے ، مگر مجبوری کے یہ معنی نہیں کہ ہمیں کبھی بھی اختیار نہیں ۔ مسلمانوں میں تقدیر وتدبیر کے متعلق دو گروہ ہیں ، ایک مطلقا اپنے آپ کو مجبور سمجھتے ہیں ، ایک وہ ہیں جو افعال میں اپنے آپ کو مختار سمجھتے ہیں ، دونوں کا منشانیک ہے ، مگر صحیح راہ درمیان واعتدال کی ہے یعنی نہ تو ہم اس درجہ مجبور ہیں کہ تکلیف شرعی سے ہی بےنیاز ہوجائیں اور نہ اس درجہ آزاد وخود مختار ہیں کہ خدا کی قدرت مطلقہ پر حرف آئے ، ان دونوں کے بین بین ہمیں اختیار بھی حاصل ہے ، اور قدرے مجبور بھی ہیں ، اور جس حد تک ہم مختار ہیں ‘ اپنے افعال کے ذمہ دار ہیں ، کوئی سمجھ دار انسان اس سے انکار نہیں کرسکے گا کہ ہمارے بعض افعال ضرور ایسے ہیں جنہیں ذمہ دارانہ افعال کہا جا سکتا ہے اور یہی وہ قدر ہے جس پر جزا وسزا مرتب ہوگی ۔ (ف ٢) ان آیات میں دوبارہ بعض صحابہ (رض) عنہم اجمعین کی لغزش کو ظاہر کیا ہے اور ساتھ ہی اعلان عفو بھی فرمایا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اب ان پر اعتراض کرنا گناہ ہے اور ہم تو قطعی اسحقاق نہیں رکھتے کہ صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین کے طرز عمل پر تنقید کریں ، ہم جو سر سے پاؤں تک گناہوں میں لتھڑے ہوئے ہیں ، کیونکر ان پاکیزہ روح لوگوں پر اعتراض کریں جو (آیت) ” عفا اللہ عنھم “ کا درجہ حاصل کرچکے ہیں ، ہمارے اعمال کی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے تمام نیکیاں ان کے ایثار وخلوص کے مقابلہ میں پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی جگہ وہ بتقاضائے بشری اپنی کمزوریوں سے واقف ہوں اور خائف ہوں ہم جس مقام میں ہیں ہمیں قطعا زیبا نہیں کہ مزکی اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) عنہم اجمعین پر زبان طعن دراز کریں ۔ اعاذنا اللہ عنہ ۔ آل عمران
156 آل عمران
157 آل عمران
158 بہترین پونجی : (ف ١) خدا کی راہ میں مر جانا اور جان سے کھیل جانا بہترین زاد راہ ہے جو آخرت کی کٹھن منزل میں ہمارے کام آئے گا ، وہ لوگ جو دنیا کی لذات میں ” خود فراموشی “ کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں اور اپنے نصب العین کو بھول جاتے ہیں ‘ ایسے بےوقوف مسافر کی طرح ہیں جو راہ کی دلچسپیوں میں پڑ کر مقصود سفر کر کھو دیتے ہیں ، اور جو شاہد مقصود تک پہنچنے کے لئے اپنی پوری قوتوں کے ساتھ کوشاں ہوتے ہیں ، وہ قطعی ساحل مراد پر پہنچ کر رہتے ہیں ، ان دو آیتوں میں شہادت کے اس متاع ثمین کو حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے ۔ آل عمران
159 بادشاہ اقلیم وعفو : (ف ٢) عسکری قانون یہ ہے کہ جو لوگ میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں ، انہیں جان سے مار دیا جائے ، مگر شہنشاہ اخلاق چونکہ صرف سالار عسکر ہی نہیں تھے ‘ طبیب امراض قلوب بھی تھے ‘ اس لئے لوگوں کو معاف کردیا اور خندہ پیشانی سے پیش آئے ، اس آیت میں اسی خلق عظیم کی تشریح ہے کہ آپ رحمت خداوندی کے مظہر اتم ہیں اور بالخصوص خدائے رحیم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوائے عفو واخلاص دے کر بھیجا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہزاروں پروانے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گردا گرد جمع ہیں اور اکتساب ضو میں مصروف ہیں ، پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے عفو واستغفار کا سلوک روا رکھیں اور ہر بات میں ان سے مشورہ کرلیں تاکہ ایک طرف ان کی دلجوئی ہوجائے اور دوسری طرف یہ لوگ اپنی ذمہ داری محسوس کریں ۔ شورائی نظام حکومت : (ف ٣) باوجود اس کے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صاحب الہام ووحی ہیں ، ہر آن مظہر مہبط انوار وتجلیات ہیں ، مجبور ہیں کہ نظام حکومت شورائی رکھیں ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نطق ، نطق خدا ہے ، پھر بھی خطاکاروں سے مشورہ طلبی کا حکم ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اسلام بہرحال ایک ایسے نظام حکومت کا مؤید ہے جس میں تمام قوم کے جذبات وخیالات کی صحیح صحیح ترجمانی ہو ۔ یورپ آج جمہوریت کے تخیل کو وضع کرسکا ہے اور اس میں بھی صدہا نقائص ہیں ، مگر اسلام آج سے تیرہ صدیاں پہلے اس حقیقت کو بیان کرچکا ہے ۔ صدر شورائیہ کے اختیارات : (ف ١) (آیت) ” فاذا عزمت فتوکل علی اللہ “۔ میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب فرمایا ہے ، یعنی مشورہ طلبی کا مطلب صرف یہ ہے کہ قوم کے خیالات معلوم کئے جائیں ، مگر آخری اختیارات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہیں ۔ اس سے موجودہ نظام جمہوریت کا بنیادی نقص واضح ہے یعنی امیر جماعت یا خلیفہ صرف نمائندہ ہی نہیں ہوتا ، بلکہ قائد بھی ہوتا ہے ، اس لئے صرف کام لینا چاہئے موجودہ نظام میں سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ صدر محض نمائندہ ہوتا ہے اور اس طرح ووٹ دیانتداری پر مبنی نہیں ہوتے ، محض پارٹی بازی کے لئے ووٹ بڑھائے جاتے ہیں ، صدر کو آخری اختیارات تفویض کردینے کے معنی یہ ہیں کہ پارٹی بازی ختم ہوجائے گی ، آل عمران
160 آل عمران
161 (ف ٢) اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ نبی (علیہ السلام) انتہا درجہ کا دیانت دار ہوتا ہے ، اس کی طرف ادنی خیانت کا انتساب بھی گناہ ہے ، امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ بعض شرفاء نے خواہش کی تھی کہ بعض شرفاء نے خواہش کی تھی کہ ہمیں ہمارے مقررہ حق سے کچھ زاید دیا جائے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نبی (علیہ السلام) اس نوع کی غیر منصفانہ تقسیم کا ارتکاب نہیں کرسکتا ۔ لفظ غلول بہرحال عام ہے نبی (علیہ السلام) ہر نوع کی خیانت سے بالا ہے ۔ حل لغات : یغل : مصدر غلول ، خیانت ، بددیانتی ۔ بآء ، لوٹا ۔ پھرا ۔ ماوی : ٹھکانا ، جگہ ۔ آل عمران
162 آل عمران
163 (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ مجاہدین جو اللہ کی رضا جوئی کے لئے اپنے آرام وآسائش کو چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے ہیں وہ ان سے یقینا بہتر ہیں جو گھروں میں بیٹھے ہوئے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے ہیں ۔ مجاہدین کی نسبت ارشاد ہے کہ (آیت) ” ھم درجت “ یعنی وہ اپنی جانفروشیوں کی قیمت آپ ہیں ، وہ مجسمہ اجر وثواب ہیں ۔ آل عمران
164 نوع انسانی کا سب سے بڑا محسن : (ف ٢) اس آیت میں اللہ نے اس احسان عظیم کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کیا ہے جس کی وجہ سے انہیں نے کونین کی لذتوں کو حاصل کیا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد سے پہلے مطلع عالم پر جہل وجمود کے تاریک بادل چھا رہے تھے ، دنیا اخلاقی برائیوں کی انتہا کو پہنچ چکی تھی ، قتل وغارت گری کا بازار گرم تھا ، ایران سے لے کر روم تک انسانیت کا کہیں نام ونشان نہ تھا ، ہندوستان جو حکمت و دانائی کے لئے ہمیشہ سے مشہور ہے ‘ اس وقت عقیم ہوچکا تھا ۔ زبردست زیردستوں کا خون چوس رہے تھے اور زیر دست نہایت انکسار کے ساتھ زندگی کے دن گزار رہے تھے ، علم کا آفتاب غروب ہوچکا تھا ، سارے عرب میں چند لوگ تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ، باقی جزیرہ جہل ونادانی کے اتھاہ سمندر میں غرق تھا ، ان حالات میں دنیا کا ہر ذرہ ایک آفتاب ہدایت کا منتظر تھا ، جو آئے اور دنیا والوں کو ثور وعرفان سیمجلی کو دے ، چنانچہ وہ آیا ، فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا رات کو ظلمت دن کی تابندگی سے بدل گئی ، خلاق واصلاح کا غوغا بلند ہوا ، امن وصلح عام کی طرح ڈالی گئی اور ایک دفعہ پھر انسانیت کو معراج کمال پر پہنچا دیا گیا ، ساری دنیا حکمت ومعرفت کے نشے میں چور ہوگئی ، زیردست زبردست ہوگئے اور قلم کا پرچم نہایت شان سے لہرانے لگا ، یہ کیوں ہوا ؟ اس لئے جو رسول آیا ‘ وہ کامل تھا ، جہاں اس نے اللہ کی آیات کے تفصیل وتوضیح کی ‘ وہاں تزکیہ وتطہیر سے بھی کام لیا ، جہاں دماغوں کو روشنی بخشی وہاں دلوں کی دنیا کو بھی جلوؤں سے معمور کردیا ۔ حل لغات : من : احسان کیا ۔ آل عمران
165 آل عمران
166 (ف ١) ان آیات میں مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ عارضی شکست پر گھبراؤ نہیں ۔ یہ سب کچھ خدائے متعال کی مرضی وارادے سے ہوا ہے مقصد یہ تھا کہ ایمان دار اور منافق میں امتیاز ہوجائے اور تم دوست اور دشمن کو پہچان لو ۔ آل عمران
167 (ف ٢) اس آیت میں ترک جہاد کو کفر سے تعبیر کیا ہے ، یعنی وہ لوگ جو وقت آنے پر حیل وتدابیر تراشتے رہتے ہیں ‘ ان کی دوں ہمتی انہیں میدان جہاد میں نکلنے نہیں دیتی ، انہیں اپنے ایمان کی تجدید کرنا چاہئے ، مسلمان روز ازل سے توحید کا اقرار کرچکا ہے ، اس کے لئے ناممکن ہے کہ ایک لمحہ بھی کفر سے موالات رکھے ، کم از کم اس کے دل میں ضرور کفر واستبداد کے خلاف جذبات نفرت وحقارت موجزن رہتے ہیں اور اگر یہ بھی نہیں تو قرآن حمید کی یہ ڈانٹ سن رکھیں (آیت) ” ھم للکفر یومئذ اقرب منھم لل ایمان “۔ یعنی اس دن وہ لوگ ایمان کی نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے ۔ آل عمران
168 (ف ١) قعود استعارہ ہے تخلف عن الجہاد سے ، یعنی وہ منافقین جو جہاد میں شریک نہیں ہوتے اور طرح طرح کے فلسفے چھانٹتے ہیں ، جن کی حیثیت فریب نفس سے زیادہ نہیں ، وہ کہتے ہیں اگر مجاہدین جہاد میں شرکت نہ اختیار کرتے تو ضرور بچ جاتے آج بھی منافقین اور پست ہمت لوگوں کا یہی وطیرہ ہے ۔ جہاد اور قربانی کے نام سے کانپ اٹھتے ہیں اور جب مجاہدین پابجولاں کشاں کشاں جیلوں میں جاتے ہیں تو یہ ناصح مشفق بن کر نہایت ہمدردانہ انداز میں کہتے ہیں کہ اس شورش کا کیا صلہ ملا ؟ یہی ناکہ یہ لوگ قید وبند کی سختیاں جھیلیں گے ۔ قرآن حمید نے ان کے ان اعذار باردہ کو اس لئے دوبارہ سہ بارہ ذکر کیا ہے ‘ تاکہ مسلمان ہر زمانہ میں منافقین کی وسوسہ پردازیوں سے محفوظ رہیں ، کیونکہ یہ گروہ دشمنوں سے بھی زیادہ مضر ہے ، دشمن تو واشگاف طور پر مقابلہ پر آتا ہے ، یہ مسلمان بن کر شجر اسلامی کی بیخ کنی میں مصروف رہتے ہیں ۔ جو سامنے سے آئے ، اس کا علاج تو ممکن ہے ، مگر گھن کا کیا علاج اس لئے اس گروہ سے بچنا نہایت ضروری ہے ۔ آل عمران
169 شہید زندہ ہیں : (ف ٢) منافقین نے جب عام مسلمانوں میں موت کا ڈر پیدا کرنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے شہداء کو حیات جاوید کی خوش خبری سنائی اور منافقین کو بتایا کہ جس کو تم موت سمجھتے ہو وہ قابل صد رشک زندگی ہے اور تمہیں کوئی حق نہیں کہ تم انہیں عام انسانوں کی طرح مردہ قرار دو ، جو لوگ اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیتے ہیں ‘ خدا انہیں بہترین زندگی سے نوازتا ہے اور وہ صبح وشام اللہ تعالیٰ کے حضور میں انواع واقسام کے مرزوقات سے کام ودہن کی تواضع کرتے رہتے ہیں ۔ یہ یاد رہے کہ شہیدجس نوع کی زندگی بسر کرتے ہیں وہ ہماری زندگی سے مختلف ہے ، اتنا تو مسلم ہے کہ شہداء مرنے کے بعد شہید قرار پاتے ہیں ، اس لئے انہیں یہ کہنا کہ وہ میرے ہی نہیں یہ سراسر غلط ہے ، البتہ مرنے کے بعد ان کی روحانی زندگی اتنی پاکیزہ ‘ بلند اور شان دار ہے کہ اسے عام موت سے تعبیر کرنا جس سے تحقیر وتوہین ٹپکتی ہو ، گناہ ہے ۔ شہید زندہ ہیں ‘ خدا کے حضور میں ‘ تاریخ کے اوراق میں اور لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں ۔ ع ثبت است برجریدہ عالم دوام ما ۔ حل لغات : فرحین : جمع فرح ۔ خوش وخرم ۔ آل عمران
170 آل عمران
171 (ف ١) حدیث میں آیا ہے کہ شہداء کی سب روحیں طیور خوش منظر کی شکل میں شاداں وفرحاں جنت کے آب رواں پر مصروف پرواز رہتی ہیں ، اس وقت انہیں احساس ہوتا ہے کہ اے کاش ہم اس حیات جادواں کے کوائف روح پرور کو اپنے اعزء واقربا تک پہنچا سکتے اور ان کے اعمال میں بھی شہادت کے جام ارغوانی کے لئے گدگدی پیدا کرسکتے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ انہیں بھی اس زندگی سے مطلع کردیا گیا ہے ، اس لئے ان کی خواہشوں میں اور اضافہ ہوجاتا ہے ، (آیت) ” ویستبشرون بالذین لم یلحقوا بھم “۔ آل عمران
172 (ف ٢) مسلمان جب غزؤہ احد سے واپس ہوئے ہیں ، ابو سفیان (رض) کو خیال آیا کہ ہم نے کیوں نہ مسلمانوں کو بالکل مار ڈالا ، اس نے ارادہ کیا کہ چل کر ایک دفعہ پھر مسلمانوں سے جنگ ہو اور جو بچے کھچے رہ گئے ہیں ‘ انہیں بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس ارادہ کی اطلاع ہوگئی ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چند جانباز صحابہ (رض) عنہم اجمعین کو بلایا اور کہا وہی لوگ میرے ساتھ نکلیں جو پہلے ثابت قدم رہے ہیں اس پر مسلمان باوجودیکہ مجروح تھے اور زخموں سے چور چور تھے ‘ اٹھ کھڑے ہوئے ان کی شان منفعت نشان میں یہ آیت نازل ہوئی ۔ آل عمران
173 مجاہدین کا نعرہ مستانہ : (ف ٣) بدر صغری کا واقعہ ہے ، ابو سفیان نے جب محسوس کیا کہ حسب وعدہ مسلمان مقام جنگ تک پہنچ جائیں گے تو اس نے نعیم کو بھیجا تاکہ مدینہ میں جا کر مسلمانوں کو مرغوب کرے ، اس نے آکر کہا ، مسلمانو ! تم کیا غضب کر رہے ہو ، ابو سفیان پوری تیاری کے ساتھ آرہا ہے ، مدینہ سے باہر قدم رکھا تو یاد رکھو ایک بھی تم میں سے بچ کر نہیں آ سکے گا ، اگر مسلمان مجاہدانہ نکلے اور سالم وفائم واپس مدینہ لوٹے اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ فوج کی کثرت ‘ سازوسامان کی چمک دمک مسلمان کے لئے مرعوب کن نہیں ہو سکتی ، اس سے تو اس کے دل میں اور قوت وتوانائی پیدا ہوجاتی ہے ، اور وہ (آیت) ” حسبنا اللہ “ کا نعرہ مستانہ لگا کر میدان جنگ میں کود پڑتا ہے ۔ حل لغات : استجابوا : قبول کیا ، مان لیا ۔ لبیک کہا الفرح : زخم ، حسبنا : ہمیں بس ہے ۔ ہمارے لئے کافی ہے ۔ سوء : تکلیف ۔ آل عمران
174 آل عمران
175 (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ خوف وحزن شیطان کی طرف سے ہے ۔ وہ رگوں کو بزدل بنا دیتا ہے اور عواقب ونتائج کی بھیانک اور خوفناک تصویر پیش کرکے کم حوصلہ اور پست ہمت لوگوں کو ولولہ جہاد سے روک دیتا ہے ، مگر وہ لوگ جو خدا پرست ہیں ‘ وہ بجز احکم الحاکمین کے اور کسی سے نہیں ڈرتے ، ان کا دل ہر قسم کے خوف وہراس اور ہر نوع کے حزن سے پاک ہوتا ہے ، وہ دنیا میں پوری بےخوفی سے رہتے ہیں ، وہ انجام سے بےپرواہ ہوتے ہیں ، وہ صرف یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ فی الحال ان کے فرائض کیا ہیں وہ اس چیز کی مطلقا پرواہ نہیں کرتے کہ انہیں اس کے بعد کن نتائج وعواقب سے دوچار ہونا پڑے گا ، وہ پورا پورا یقین رکھتے ہیں کہ خدا انکا ہر آن معاون ومددگار ہے ۔ آل عمران
176 (ف ٢) انبیاء علیہم السلام کو جو محبت اپنی قوم کے ساتھ ہوتی ہے ‘ اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہر وقت قوم کے درد میں بےچین رہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب یہ دیکھتے کہ باوجود میری ہر ممکن سعی اصلاح کے یہ لوگ کفر وطغیان کی جانب زیادہ مائل ہیں اور برے کاموں سے انہیں زیادہ رغبت ہے تو مارے دکھ اور تکلیف کے بےقرار ہوجاتے ، اس پر اللہ تعالیٰ بطور تسلی فرمایا کہ آپ بےکل نہ ہوں ، یہ لوگ اپنی معاندانہ روش سے اللہ تعالیٰ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے آپ جس مشن کو لے اٹھے ہیں ‘ ضرور کامیابی عنایت ہوگی اور لوگ جوق در جوق دین حنیف کو قبول کرلیں گے اور بہت سی سعید روحیں ایسی ہیں جو اس سعادت سے بہرہ ور ہونے کے لئے تڑپ رہی ہیں ، یہ اگر نہیں مانتے تو نہ ان کا اپنا ہی نقصان ہے ۔ حل لغات : اولیآء : دوست ، بھائی بند ۔ حضا : حصہ ۔ بہرہ بخرہ ۔ آل عمران
177 آل عمران
178 آل عمران
179 امتیاز حق وباطل : (ف ١) یہ آیت بھی سیاق احد میں ہے مقصد یہ ہے کہ یہ تمام مصائب جو اس جنگ میں برداشت کرنے پڑے ہیں ‘ یہ سب اس لئے تھے ، تاکہ حق وباطل میں فرق ہوجائے ، اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے کہ زیادہ دیر تک منافقین کم ہمت لوگ مسلمانوں میں طے جلے رہیں اور مسلمانوں کو دھوکا دیتے رہیں ۔ وقت آگیا ہے کہ دونوں فریق الگ الگ اور ممتاز ہوجائیں ۔ (آیت) ” وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب “ کہہ کر یہ بتایا ہے مخلص وغیر مخلص میں جو اختلاف ہے ‘ یہ تمہاری نظروں سے اوجھل ہے یہ نہیں جانتے تھے کہ کون دل میں ایمان کی پونجی مستتر رکھتا ہے اور کون ہے جس کا دل خبث ونفاق سے متعفن ہے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے تمہیں آگاہ اور یہ خدا کا قانون ہے کہ وہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے ہی امور طلب کی اطلاع دیا کرتا ہے ، اس سے مقصود پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اہمیت محسوس کرانا ہے کہ اس کا وجود مسعود کتنا باعث برکت وسعادت ہے اس آیت میں چند نکات قابل غور ہیں : ۔ ١۔ یہ کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بجائے خود محبت ودلیل ہے ، اس کی وساطت تشریحات امور غیبیہ کے لئے از بس ضروری ہے ، اس کا ہر قول اور ہر فعل شریعت وقانون ہے جس سے بےنیازی الحاد ہے ۔ ٢۔ یہ کہ نبوت اجتباء الہی کا ثمرہ و نتیجہ ہے ‘ کسب واجتہاد کا نہیں ۔ ٣۔ یہ کہ بجز رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ” اطلاع علی الغیب “ یقینی وحتمی طور پر اور کسی کے لئے نہ ماننا چاہئے ۔ (آیت) ” فامنوا باللہ ورسلہ “ میں عام دعوت ایمان ہے ، رسل کو بصیغہ جمع رکھنے میں مصلحت یہ پیش نظر ہے کہ اسلام انبیاء علیہم السلام میں تفریق کو پسند نہیں کرتا ، وہ بیک وقت اسلام اور تمام انبیاء علیہم السلام پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے ، اس کے نزدیک ایک سچے نبی کا انکار تمام انبیاء علیہم السلام کا انکار ہے ، فاضل رازی کہتے ہیں ” فمن اقربنبوۃ واحد منھم لزمۃ الاقرار بنبوۃ الکل “۔ بعض فریب خوردہ جہلا نے یہ سمجھا ہے کہ شاید حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد آنے والے انبیاء علیہم السلام کی طرف اشارہ ہے ، یہ بھی فرقان حمید کے نظام عقائد کے خلاف ہے ، قرآن حکیم میں واضح طور پر نبوت کے دروازوں کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ہمیشہ کے لئے مسدود کردیا گیا ہے ۔ ” الغیب “ کے معنی قرآن کی اصطلاح میں امور شرعیہ ہیں جو عام انسان اپنی عقل وتدبر سے نہیں جان سکتے ، مطلقا امور کون مراد نہیں کیونکہ ان کا علم بجز خدا کے کسی کو حاصل نہیں ۔ (آیت) ” ولا یعلم الغیب الا ھوہ “۔ حل لغات : نملی : مصدر املاء ڈھیل دینا ۔ الخبیث : ناپاک ۔ آل عمران
180 (ف ١) ان آیات میں سرمایہ داری کی مخالفت نہایت مؤثر انداز میں بیان کی گئی ہے اور بتایا ہے کہ مال ودولت کا وہ حصہ جو خدا کی راہ میں خرچ نہ ہو ‘ قیامت کے دن ان کے لئے طوق وسلاسل ہوجائے گا ۔ (ف ٢) اس آیت میں اشتراکیت کا وہ بلند اصول بتایا گیا ہے جس تک ہنوز ہمارے سوشلسٹ نہیں پہنچ سکے ۔ قرآن حکیم کہتا ہے کہ میراث وملک حقیقۃ صرف رب السموت کے لئے ہے ، البتہ دنیاداروں کو بطور امانت کے سپرد کردیا گیا ہے ‘ تاکہ وہ اس کا صحیح استعمال کریں ۔ آل عمران
181 (ف ٣) بعض دفعہ یہودی سرمایہ داری کے نشے میں بےخود ہو کر ایسے کلمات کہہ جاتے ہیں جس سے خداوند ذوالجلال کی توہین مترشح ہوتی ، مثلا جب حضرت ابوبکر (رض) کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعوت تامہ دے کر قبیلہ بنی قینقاع کی طرف بھیجا ، جس میں لکھا تھا کہ تم اسلام قبول کرلو اور صلوۃ وزکوۃ ادا کرو ، تو انہوں نے از راہ مزاح کہا ۔ ” کیا خدا فقیر ہے کہ اسے ہمارے صدقات کی ضرورت ہے “۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ یہ سخت گستاخی ہے ۔ یاد رکھو تمہاری اس گستاخی کا علاج سخت ترین عذاب ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ جلال میں اس نوع کے کلمات بہت برے ہیں ۔ حل لغات : یطوقون : مادہ تطویق ، طوق پہنانا ۔ بغیر حق : نادرست طور پر ، ناحق ، ناجائز ۔ آل عمران
182 آل عمران
183 سوختی قربانی : (ف ١) امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ کعب اشرف ‘ کعب بن اسد اور دوسرے اکابر یہود حضور انور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ توراۃ میں لکھا ہے جب تک کوئی نبی سوختی قربانی کا معجزہ نہ دکھائے ، قابل تسلیم نہیں ۔ اور اس کی صورت یہ ہے کہ ذبیحر ایک مخصوص مکان میں رکھا جائے جس کی چھت نہ ہو ۔ آسمان سے آگ نازل ہو جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور وہ آکر اس ذبیحہ کو جلا دے ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ اس نوع کا مطالبہ یہودیوں کی طرف سے بعید نہیں اس لئے کہ وہ سخت جامد اور ادہام پرست تھے ، مگر مشکل یہ ہے کہ توراۃ میں سرے سے نبوت کا یہ معیار ہی مذکور نہیں اور قرآن حکیم کے الفاظ یہ ہیں کہ یہودی کہتے تھے ۔ (آیت) ” ان اللہ عھد الینا “ ۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہودیوں کو اپنے مذہبی عقیدہ کی بنا پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے متعلق شبہ تھا مگر وہ مذہبی عقیدہ کیا تھا ؟ اس کی پوری تفصیل قرآن حکیم میں مذکور نہیں ۔ توراۃ کے عمیق مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سوختی قربانی کا یہودیوں میں بہت رواج تھا ، ممکن ہے یہودیوں نے جب یہ دیکھا ہو کہ مسلمان قربانی کو جلاتے نہیں کھاتے ہیں تو ان کے دل میں شبہ پیدا ہوا ہو کہ یہ ہماری روایات مذہبی کے خلاف ہے اس لئے صحیح نہیں ۔ قرآن حکیم کے الفاظ میں آگ کے آسمان سے اترنے کا کہیں ذکر نہیں اور نہ کسی صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ پہلے آگ آسمان سے اترا کرتی تھی ، (بجز اس قسم کی روایات کے جو تفسیر کی کتابوں میں مذکور ہیں اور مستند نہیں) اس لئے صاف ظاہر معنی یہ ہوں گے کہ یہودیوں کا مطالبہ تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سوختی قربانی کو ان کے سامنے پیش کریں ۔ اس شبہ کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ تم ان سے پوچھو کہ انہوں نے پہلے انبیاء علیہم السلام کیوں انکار کیا ؟ حالانکہ انہوں نے ان کے عام مطالبات کو پورا کیا تھا ۔ بات یہ ہے کہ لوگ انکار کرنے کے بعد دل کو تسلی دینے کے لئے اس قبیل کے بہانے گھڑ لیتے ہیں ، ورنہ خدا کے سچے پیغمبروں علیہم السلام نے ان کے اطمینان کے لئے کیا کیا نہیں کیا ۔ دلائل وبراہین کا انبار لگا دیا ۔ معجزات وخوارق سے یہ ورطہ حیرت میں گم ہوگئے مگر پھر بھی انکار بدستور رہا اور یہی کہتے رہے ، یہ جادو ہے اور ہماری آنکھیں عمل سحر سے متاثر کرلی گئی ہیں ۔ حل لغات : تاکلہ النار : آگ نے اسے بھسم کردیا ، جلا دیا ۔ زبر : کتابیں ، صحیفے ۔ آل عمران
184 آل عمران
185 (ف ١) اس آیت میں حیات فانی کی بےثباتی کا نقشہ کھینچا ہے کہ ہر شخص جرعہ موت سے کام ودہن تر کرے گا ، اس لئے وہ جو مقصود اصلی ہے نظروں سے اوجھل نہ ہو ، عمر عزیز کا ایک ایک لمحہ نصب العین کی طرف اقدام میں صرف ہو ۔ وہ شخص جو دائمی واخروی زندگی میں آگ کے عذاب سے بچ گیا اور جنت کے زینوں پر چڑھ گیا ، جان لیجئے کہ وہ کامیاب ہے اور جس کی ساری تگ ودو دنیا کے حصول تک محدود رہی ‘ وہ دھوکے میں ہے ۔ دنیا کو (آیت) ” کہنا درست واقعہ ہے ، بڑے بڑے سمجھ دار لوگ دنیا کی صحیح حیثیت سمجھنے سے قاصر ہیں ، قرآن حکیم کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا سے فائدہ نہ اٹھایا جائے ، بلکہ یہ ہے کہ دنیا کو نصب العین کا درجہ نہ دیا جائے جس کی تشریح آیندہ آیات میں مذکور ہے ۔ آل عمران
186 (ف ٢) یعنی مال ودولت کا حصول گناہ نہیں البتہ اللہ کے امتحانوں میں پورا نہ اتروا معصیت وکجروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے کہ مسلمان کے لئے کڑی مصیبتیں آئیں گی ، وہ مجبور ہے کہ برداشت کرے ، شرک وکفر کے حلقوں سے اسے دکھ پہنچے گا ، مگر وہ صبر اور استقامت سے کام لے ، یہی بات اللہ کو پسند ہے اور یہی عزیمت ہے ۔ حل لغات : زحزح : دور کیا گیا ، ہٹا دیا ۔ متاع الغرور : فریب والا سودا ۔ آل عمران
187 (ف ١) اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ہر اہل کتاب مکلف ہے کہ خدا کے احکام کو بالوضاحت دوسروں تک پہنچائے اور کسی قسم کی تحریف سے کام نہ لے مگر یہودیوں نے محض اس لئے حقائق کو بدل دیا کہ اس سے ان کا دنیوی مفاد متعلق تھا ۔ ہر معاوضہ جو حق وصداقت کے بدلے قبول کیا جائے ، قرآن مجید کی اصطلاح میں وہ ثمن قلیل ہے یعنی ایک ایسی حقیر رقم جو بمقابلہ اخروی انعام کے نہایت کم ہے ۔ آل عمران
188 (ف ٢) آیت کے نزول میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک یہ منافقین کے حق میں نازل ہوئی ہے ۔ جیسے حضرت ابی سعید خدری (رض) سے روایت ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد محرفین یہود ہیں اور اصل بات یہ کہ دنای کا ہر بدباطن اور برا آدمی قدرتی طور پر چاہتا ہے کہ میرے ایمان کی تعریف کی جائے قرآن نے درحقیقت اسی نفسیت ستائش طلب کی توضیح کی ہے اور بتایا ہے کہ اہل حق وصداقت سے ان لوگوں کی اس قسم کی توقعات ناجائز ہیں وہ ان کے نفاق تحریف اور مداہنت کی تعریف نہیں کرسکتے ۔ (ف ٣) مقصد یہ ہے خدا کی قدرتیں نہایت وسیع ہیں ، یہ لوگ دھوکے میں نہ رہیں ، وہ ان کے حالات کو خوب جانتا ہے اور اس میں یہ طاقت ہے کہ ایک لمحہ میں زمین وآسمان کو الٹ دے اور ان کو پیس کر رکھ دے ۔ آل عمران
189 آل عمران
190 (ف ١) یعنی جس طرح نظام کواکب میں ہر آن تبدیلی ہوتی رہتی ہے ، اور وقت وزمانہ صبح ومسا کے تغیرات سے محفوظ نہیں اسی طرح کفر و ایمان میں باہمی آویزش سے اور ضرور ہے کہ کفر کی تاریکی کے بعد ایمان کی روشنی کا زمانہ آئے اور پھر جس طرح رات اور دن میں اختلاف ہے ، اسی طرح حق وباطل میں بین اور واضح امتیاز ہے اور جس طرح رات کے بعد سپیدہ سحر نمودار ہوتا ہے ‘ اس طرح مایوسیوں کے بعد امیدوں کا افتاب طلوع ہوتا ہے اور جس طرح یہ درست ہے کہ تاریکیاں اجالے سے بدل جاتی ہیں ‘ اسی طرح موت کے اندھیرے حیات ما بعد کی صورت اختیار کریں گے اور جس طرح یہ حقیقت ہے کہ آفتاب صبح کے طلوع ہونے کے بعد آسمان پر کوئی ستارہ نہیں چمکتا ایس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد جو خاور نبوت ہیں آسمان ہدایت پر کوئی اور ستارہ طلوع نہیں ہوگا ۔ اسی طرح کے کئی دلائل وشواہد ہیں جو روز مرہ کے اختلاف لیل ونہار میں مخفی ہیں ، ضرورت اس کی ہے کہ اہل عقل ودانش اس جانب متوجہ ہوں ۔ یہ قرآن حکیم کا اعجاز بیان ہے کہ وہ ایک جملہ میں معارف ونکات کا دریا بہا دیتا ہے ۔ آل عمران
191 فسلفہ مذہب : (ف ٢) اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ عقل مند اور خوردودانش وہ لوگ ہیں جو اٹھتے بیٹھتے اور ہر حالت میں خدائے ذوالجلال کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان رہتے ہیں ، جو آسمان وزمین کے اسرار وخفایا کے متعلق غور وفکر سے کام لیتے ہیں اور بےاختیار کہہ اٹھتے ہیں کہ اے رب ! تونے کسی چیز کو بےکار نہیں پیدا کیا اور اس کے بعد وہ اپنی زندگی بالکل قدرتی اور طبعی بنا لیتے ہیں ، تاکہ عذاب وسخط الہی سے بچ جائیں ۔ مقصد یہ ہے کہ طبیعات اور ناموسات الہیہ میں غوروفکر انسان کو خدا پرست بنا دیتا ہے اور اس میں یہ یقین پیدا کردیتا ہے کہ کائنات کی چیزیں بخت واتفاق کا نتیجہ نہیں ، بلکہ زبردست قدرت وعقل کا کرشمہ ہیں ۔ اور وہ لوگ جو حکم وفلسفہ کو مذہب کے منافی خیال کرتے ہیں وہ یا تو مذہب کی روح سے ناواقف ہیں یا عقل وفکر کی حدود سے نابلد اور بےبہرہ ! آل عمران
192 آل عمران
193 دعوت ایمان : (ف ١) ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ آسمان وزمین کے متعلق صحیح غور وفکر ذوق عبادت و ایمان کی روح پیدا کردیتا ہے ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو اٹھتے ، آسمان کی طرف چشم بصیرت سے دیکھتے اور غور و فکر کی وجہ سے بےاختیار پکار اٹھتے کہ (آیت) ” ربنا ما خلقت ھذا باطلا “۔ اور سوچو کیا یہی وہ نتیجہ نہیں جو ایک مفکر طبیعات کے دماغ میں پہلے پہل چمکتا ہے ، تم خود کائنات کے اسرار وکفایا کے متعلق حکیمانہ تدبر سے کام لو ذرہ ذرہ سے یہی صدا سنائی دے گی (آیت) ” ربنا ما خلقت ھذا باطلا ۔ قرآن حکیم کا یہ مخصوص انداز دلائل ہے کہ وہ ایسے حقائق پیش کرتا ہے جو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہی غور وفکر کے نتائج ہیں ۔ یہ آیات فلسفہ ومذہب کے قریب ترین حدود سے ہمارا تعارف کراتی ہے ، ہر صحیح الدماغ اور عقل مند انسان جب دعوت ایمان وایقان پر غور کرتا ہے تو کہہ اٹھتا ہے ” امنا “ کہ اے رب ہم نے تیری طرف بلانے والے کی آواز کو سنا ، اس لئے ہم آج سے ایمان کے شیدائی ہیں ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے مطالبہ استغفار وتکفیر گناہ ہے ، اور خدا کا وعدہ ہے کہ ہم تمہارے اعمال کو ضائع نہیں کریں گے تمہیں جنت میں جگہ دیں گے اور تمام گناہوں کو معاف کردیں گے یہ اس لئے تم نے صرف ہماری خاطر آرام وآسائش کو چھوڑا ۔ ہجرت اختیار کی اور کڑی سے کڑی مصیبتیں جھیلیں ، اہل کفر سے لڑے اور جام شہادت نوش کیا ، یعنی حسن ماب یا بہترین زندگی ایثار وقربانی ہی سے حاصل ہوتی ہے اور صحیح ایمان وہی ہے جو مسلمان کو کفر والحاد پر آتش زیر پا کر دے ، وہ مجبور ہوجائے کہ اس سے لڑے ۔ حل لغات : الابرار : نیک ۔ صالح ۔ آل عمران
194 آل عمران
195 آل عمران
196 (ف ١) یعنی اہل کفر کا مختلف شہروں میں رہنا ، ان کی وسعت مادی ۔ سازوسامان کی کثرت درحقیقت کوئی چیز نہیں ۔ بات یہ تھی کہ قریش مکہ تجارت کے سلسلہ میں سارے ملک میں گھومتے پھرتے ، یہودی بھی دولت مند ہونے کی وجہ سے عیش وعشرت سے بسر کرتے تھے ، مسلمان جب دیکھتے تو انہیں خیال ہوتا کہ ہم خدا کو ماننے والے ہیں اور عسرت وتنگ دستی میں بسر کرتے ہیں اور جو مستحق عذاب ہیں ، رفاہت سے ہیں یہ کیا بات ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، یہ چند دنوں تک ایسا ہے تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے کہ ان کی امارت وتمول برباد ہوگیا اور نہایت ذلت اور مسکنت سے زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ اہل کفر کو اس وقت تک ڈھیل دیتے ہیں جب تک وہ معصیت وسرکشی کی حدود سے نہیں گزر جاتے اور جب تک وہ معصیت وسرکشی کی حدود سے نہیں گزر جاتے اور جب تک کہ وہ خود اپنی ہلاکت کا سامان پیدا نہیں کرلیتے ، اور جب وہ بالکل آمادہ موت ہوتے ہیں تو زمانہ کی ایک ہی گردش سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فنا ہوجاتے ہیں ۔ آل عمران
197 آل عمران
198 آل عمران
199 (ف ٢) اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ بعض اہل کتاب ایسے بھی ہیں جو قطعا متعصب نہیں ، وہ جب کتاب اللہ کو سنتے اور سمجھتے ہیں تو ایمان لے آنے میں انہیں کوئی تامل نہیں ہوتا اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جن آیات میں اہل کتاب کے ایمان لے آنے کا ذکر ہے ‘ اس سے مراد کامل اسلام قبول کرنا ہے نہ کہ صرف ایمان باللہ کیونکہ اس آیت میں (آیت) ” وما انزل علیکم “ کی تصریح موجود ہے ۔ حل لغات : تقلب : چلنا پھرنا ۔ نزل : مہمانی ، جو شے سب سے پہلے مہمان کے سامنے رکھی جائے ، اہل جنت کو مہمان کہنے کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح مہمان کی خاطر ومدارات میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا جاتا ، اسی طرح یہ لوگ مہمانوں کی طرح خدا کے ہاں رہیں گے ۔ آل عمران
200 (ف ١) اس آیت میں سورۃ ال عمران کا اختتام ہے اور اس میں تقریبا تمام ان اوصاف کا ذکر کیا ہے جو کامیاب انسان کے لئے ضروری ہے ، صبر ‘ مصابرہ اور رباط ، یہ تین چیزیں ہیں جن کا اس آیت میں ذکر ہے صبر کے معنی حسب ذیل ہیں :۔ ١۔ توحید ومعرفت میں غور وفکر ۔ ٢۔ فرائض ومندوبات پر مدامت ۔ ٣۔ مشتبہات سے احتراز ۔ کیونکہ ان ہر سہ معافی میں مشقت وکوفت ہے جس کا برداشت کرلینا صبر ہے ، وقت نظر کی مشکلات سے کون ناواقف ہے ، فرائض ومندوبات پرمداومت بھی دشوار ہے ، اور منہیات سے احتراض سے احتراز تو بہت ہی مشکل امر ہے ۔ اس کے بعد ” مصابرہ “ کا درجہ ہے ، مصابرہ کہتے ہیں ہر اس تکلیف کے برداشت کرنے کو جس کا تعلق دوسرے نفس سے ہے یعنی اعزہ واقارب کی تکلیفیں ‘ اہل ملک وملت کی تکلیفیں اور مخالفین غیر حکومت کے مصائب ومظالم ، جو شخص ان مشکلات کو برداشت کرلے وہ مصابر ہے ۔ اس کے بعد ” رباط “ کی تلقین ہے ، رباط لغۃ گھوڑے باندھنے کو کہتے ہیں مقصد یہ ہے کہ مخالفین کے لئے ہر وقت خیل وحشم کے ساتھ تیار رہو ۔ آل عمران
0 سورۃ نسآء : یہ سورۃ مدنی ہے جس فلسفہ تدبیر منزل سے بحث ہے اور بتایا ہے کہ وہ کون سے رشتے ہیں جو قابل لحاظ ومروت ہیں اور عورتوں کے حقوق واجبات کیا ہیں ۔ درمیان میں کئی مسائل آگئے مگر چونکہ سورت کا اہم مضمون عورتوں کا منصب ودرجہ کی تعیین ہے ‘ اس لئے سورت کا نام ہی نساء رکھ دیا قرآن حکیم اس حیثیت سے دنیائے مذاہب کی پہلی اور آخری کتاب ہے جس میں بالخصوص عورتوں کو قابل درجہ درجہ دیا گیا ہے اور ان کے نام پر قرآن مجید کا ایک حصہ موسوم کردیا گیا ہے ۔ النسآء
1 (ف ٢) اس آیت میں اس عظیم حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ سارا عالم انسانیت ایک کنبہ ہے جس کے تمام افراد مرد و عورت اور اطفال اولاد کی شکل میں زمین پر پھیلے ہوئے ہیں ، اس لئے ضروری ہے کہ خدا کی عبادت کے ساتھ ساتھ بندوں پر شفقت کا جذبہ بھی موجود رہے ، اور دین ومذہب کا منشاء اس وقت تک پورا نہیں ہوتا جب تک کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا بھی خیال نہ رکھا جائے ، اسلام نے اس مسئلہ پر بڑا زور دیا ہے کہ مذہب کے مفہوم کو صرف عبادت پر محصور وموقوف نہ سمجھا جائے ، بلکہ اس میں اتنی وسعت دے کہ تمام مدنی ضروریات سما جائیں ۔ حل لغات : رقیبا ۔ نگہبان اور محافظ : النسآء
2 (ف ١) اس آیت میں یتامی کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم ہے ۔ لوگ عام طور پر تربیت کے نام پر ان کا مال کھاتے یا بدل لیتے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے روکا اور بتایا ہے کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔ النسآء
3 تعددازو واج : (ف ٢) اسلام نے عورت کو جو حقوق دیئے ہیں دنیا کا قانون حیران وششدر ہے ، اس نے اس کا درجہ اتنا بلند اور رفیع قرار دیا ہے کہ وہاں تک غیر مسلم عورتوں کی رسائی ناممکن ہے ، مگر تعدد ازواج ایک مسئلہ ہے جو بظاہر عقل وانصاف رکھنے والوں کے دل میں کھٹکتا ہے اور غیر مسلم دنیا کے دل میں عورت کی حیثیت کی نسبت شکوک پیدا کردیتا ہے ، اور وہ یہ دیکھ کر کہ اسلام بیک وقت چار عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے ، کہہ اٹھتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں سے کوئی اچھا سلوک روا نہیں رکھا ، حالانکہ ایسا نہیں ، تعدد ازواج کے متعلق مندرجہ ذیل حقائق سامنے رکھنے چاہئیں ۔ اسلام سے پہلے کثرت بعول اور کثرت ازواج کی بلا تعین اجازت تھی ، یعنی مرد جس قدر چاہتے ، عورتیں نکاح میں رکھتے اور اسی طرح عورتیں جس قدر چاہتیں ‘ خاوند بنا لیتیں ۔ ١۔ اسلام نے کثرت بعول کی جو درحقیقت غیر مہذب زمانے کی رسم ہے قطعی ممانعت کردی اور کثرت ازواج کی تحدید کردی ، اس لئے اسلام تعدد ازواج کا حامی بصورت تعیین ہے ‘ نہ موجد ومخترع کی حیثیت سے ۔ ٢۔ اسلام سے پہلے عدل وانصاف کی شرط غیر ضروری تھی ، سلام نے اس شرط کو ضروری قرار دیا ۔ ٣۔ تعدد ازواج کو ہر حال میں اسلام نے اچھا نہیں سمجھا البتہ حالات کے مطابق اس کو موزوں قرار دیا ۔ ٤۔ مرد بالطبع تنوع پسند ہے اور یہی وجہ ہے یورپ میں وحدت زوج کی سکیم کامیاب نہیں رہی ۔ ٥۔ عورت ایک آلہ تولید ہے جس کی کثرت میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ ٦۔ مرد مادی حیثیت سے اتنا قوی ہے کہ بعض اوقات وہ ایک عورت پر اکتفا نہیں کرسکتا ۔ ٧۔ ملکی حالات بعض دفعہ مجبور کردیتے ہیں کہ کثرت ازدواج کی رسم کو جاری کیا جائے ، جسے یورپ میں جنگ عظیم کے بعد ، کیا ان حقائق کی روشنی میں کثرت ازواج کی اجازت نہ دینا انسانیت پر بہت بڑا ظلم نہیں ؟ اور آج جب کہ ” اقلیت واکثریت “ کا مسئلہ دنیا کی سیاسیات کا اہم عنصر ہے ‘ تعدد ازواج کی خوبیوں سے کون انکار کرسکتا ہے ہندوستان میں اگر مسلمان کثرت ازدواج پر عمل کرنے لگیں تو صرف پچاس سال کے بعد اقلیت بغیر کسی تبلیغ کے مبذل بہ اکثریت ہوجائے ۔ عورت کی صنفی کمزوریاں اور بیماریاں بجائے خود تعددازواج کی دعوت ہیں ، مگر چونکہ ہندوستان میں اس کا رواج نہیں ۔ اس لئے ہم اسے اچھا نہیں سمجھتے اور یہ ہماری غلطی ہے ، یورپ آج کثرت اولاد پر بڑا زور دے رہا ہے ، مگر اسلام نے پہلے سے لوگوں کو اس کی ترغیب دلائی ہے اور اس کی صورت تعدد ازواج ہے عام عورتوں میں کوئی خاص تعداد معین نہیں ۔ (آیت) ” الا تقسطوا فی الیتمی “ کے معنی یہ ہیں کہ اگر تم یتیم عورتوں کو اپنے عقد میں لا کر انصاف نہ کرسکو تو پھر دوسری عورتوں کے ساتھ جو تمہیں پسند ہوں نکاح کرلو ، تاکہ بےانصافی کا موقع نہ رہے ۔ (آیت) ” ماطاب “۔ میں بتایا ہے کہ جو عورت جسم وروح دونوں کے لحاظ سے تمہیں اچھی معلوم ہو ‘ اور اس قابل ہے کہ رفیقہ حیات بنائی جائے ۔ النسآء
4 شادی کا تحفہ : (ف ١) اسلام جس حسن سلوک کو میاں بیوی میں دیکھنا چاہتا ہے ‘ اس کا اندازہ رسم ” صداق “ سے ہو سکتا ہے یعنی عہد مؤدت وصداقت کی یاد گار ۔ مسلمان شوہر مجبور ہے کہ حسب توفیق عورت کو شادی کا تحفہ یعنی مہر دے ۔ النسآء
5 النسآء
6 (ف ٢) ان آیات میں بھی یتامی کے ساتھ بہتر سلوک کی تعلیم دی ہے اور ہدایت کی ہے کہ ان کے مال کو حتی الامکان نقصان نہ پہنچایا جائے اور اس وقت تک انہیں ان کا مال واپس نہ دیا جائے ‘ جب تک کہ وہ خود اس سے استفادہ کے قابل نہ ہوجائیں اور صاحب حیثیت امراء اگر بہت کم ضروریات پر ان کا مال صرف کریں اور خود اس میں سے کچھ نہ لیں تو زیادہ بہتر ہے ، اور جب مال دیں تو گواہ مقرر کرلیں ، تاکہ آیندہ چل کر کوئی خرابی نہ نکلے ۔ النسآء
7 اسلام اور تقسیم میراث : (ف ١) نوع انسانی کے لئے اجتماعی زندگی میں ایسے روابط کی سخت ضرورت ہے جو باہمی تعاون وتوافق کے زیادہ سے زیادہ ترغیب کا باعث ہو سکیں اور جو یہ بتا سکیں کہ انسانی عائلہ کس طریق پر ایک دوسرے سے وابستہ ہے اور ان کے آپس کے تعلقات کس درجہ فطری اور طبعی ہیں ، اسلام جو اجتماعی فلاح وسعادت کا سب سے بڑا حامی ہے کیونکر ایسے اہم رشتے کو فراموش کرسکتا تھا ۔ اس نے سب سے پہلے باہمی انس وتعاون کی بنیاد ڈالی اور ہر مسلمان کو ” وصیت “ پر آمادہ کیا چنانچہ اول اول لوگ اپنے مال سے کچھ حصہ بطور ” وصیت “ کے بلا تخصیص قرابت وضع کر جاتی تھی ، مقصد یہ تھا کہ مسلمان اس جذبہ تعاون وتوافق کی اہمیت کو محسوس کریں بعد میں میراث کی آیتیں نازل ہوئیں ، جن میں قرابت والوں کے حصے بیان کئے گئے اور یہ اس وقت نازل ہوئیں جب فتوحات اسلامی بہت وسیع ہوگئیں اور مسلمان خاصے مال دار ہوگئے ، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک عام انسانی تعلق زیادہ قابل اعتناء ہے ۔ زمانہ جاہلیت میں عورتیں حقوق میراث سے محروم قرار دی جاتیں ، عرب کہتے تھے ، میراث کا وہ حق دار ہے جو میدان جنگ میں قومی عزت کے لئے لڑے اور مال غنیمت جمع کرے ، عورتیں ہرگز اس کی مستحق نہیں ۔ موجودہ کتب مذہبی بھی تقریبا تمام عورتوں کو حقوق میراث سے محروم رکھتی ہیں ، قرآن مجید نے بیان کیا کہ عورتیں بھی اسی طرح حق دار ہیں جس طرح مرد ۔ اس لئے کہ فطرت نے سوا جنسی عوارض ولوازم کے عورت اور مرد میں اور کوئی تقسیم جائز نہیں رکھی ، تمام عورتیں نفس انسانیت میں مرد کے برابر ہیں ، اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ انہیں اس انسانی حق سے محروم رکھا جائے ، وہ مذاہب جو عورت کے اس طبعی وفطری حق کے حامی نہیں وہ کس منہ سے اس کے احترام کا دعوی کرسکتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے سوا اور کسی مذہب نے مرد اور عورت کے صحیح معنوں کو نہیں سمجھا ۔ النسآء
8 (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ بانٹتے وقت اگر کچھ لوگ اپنے عزیز یا دوسرے محتاج ومستحق جمع ہوجائیں تو انہیں بھی کچھ نہ کچھ دے دو ‘ تاکہ وہ دل شکستہ نہ ہوجائیں اور ان سے اس طرح پیش آؤ جس سے کہ ان کے وقار اور ناموس کو ٹھیس نہ پہنچے ۔ حل لغات : نصیب : حصہ ۔ فروضا : مقرر ومتعین ۔ غیر مشکوک ۔ النسآء
9 (ف ١) یہ خطاب ان لوگوں سے ہے جو مریض کے پاس بیٹھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ وہ دوسروں کے لئے زیادہ سے زیادہ وصیت لکھوا لیں اور اصل ورثا کو محروم رکھیں ، فرمایا یہ حرکت نہایت مذموم ہے ، ان کو سوچنا چاہئے کہ اگر یہی پوزیشن انکی ہو تو وہ کیا کریں ، یعنی یعنی اگر ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں تو کیا یہ گوارا کریں گے کہ ان کے لئے کچھ نہ چھوڑ جائیں ۔ النسآء
10 (ف ٢) ان آیات میں بتایا ہے کہ یتیموں سے ناجائز وسائل کی بنا پر مال حاصل نہ کیا جائے ، عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ یتامی کو وراثت سے محروم رکھنے کے لئے طرح طرح کی چالیں چلی جاتی ہیں ، فرمایا جو یتیموں کے مال کو کھائے گا ، اسے یقین رکھنا چاہئے کہ وہ جہنم کی آگ نگل رہا ہے یعنی اس سے بڑا گناہ اور کیا ہوگا کہ تم ان لوگوں کو نقصان پہنچاؤ جو سچے سرپرستوں کو ضائع کرچکے ہیں ، ان کے ماں باپ زندہ نہیں اور تم بجائے اس کے کہ ان کا خیال رکھو ان کو لوٹتے ہو ۔ النسآء
11 تقسیم حصص : (ف ٣) حضرت سعد (رض) شہید ہوئے تو ان کی دو بچیاں ‘ ایک بیوہ اور ایک بھائی زندہ تھے بھائی نے تمام جائیداد پر قبضہ کرلیا ، سعد (رض) کی بیوی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں شکایت لے کر آئیں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انتظار کر ، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔ (آیت) ” یوصیکم اللہ “ کے معنی یہ ہیں کہ تقسیم جائیداد بھی ایک اہم ضرورت دینی ہے اور وہ لوگ جو اس میں تساہل وتغافل برتتے ہیں ‘ یقینا اللہ کے ہاں مجرم ہیں ، (آیت) ” للذکر مثل حظ الانثینین “ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ لڑکیاں تقسیم میراث کے سلسلہ میں اصل ومعیار کی حیثیت رکھتی ہیں ، زمانہ جاہلیت میں جس طرح عورتیں زندگی کے تمام لوازم سے محروم تھیں ، اسی طرح حق وراثت سے بھی محروم تھیں ، اسلام جب دنیا میں آیا ہے اور اس کا آفتاب نصف شعار چمکا ہے تو تاریکیاں چھٹ گئیں اور عدل وانصاف دور دورہ ہوا ۔ اسلام نے آکر بتایا کہ لڑکوں کے ساتھ لڑکیاں بھی تمہاری جائیداد میں شریک ہیں اور انہیں جائیداد سے محروم رکھنا کسی طرح زیبا و درست نہیں ۔ آج بھی بعض سرمایہ دار زمیندار زمانہ جاہلیت کی نخوت وبغاوت اپنے سینوں میں مضمر رکھتے ہیں اور عدالتوں میں جا کر صاف صاف کہہ دیتے ہیں ہم رواج کو شریعت پر مقدم سمجھتے ہیں ، یہ کھلا ارتداد ہے ، ان کے سامنے دو راہیں ہیں ، یاتو اسلام کو پوری طرح قبول کرلیں اور لڑکیوں کو حصہ دیں اور یا اسلام کو چھوڑ دیں ، تیسری کوئی راہ نہیں ، یہ بےوقوف یہ نہیں سمجھتے کہ جس طرح ہماری جائیداد دوسروں کے گھروں میں جائیگی ، اسی طرح دوسروں کی جائیداد بھی تو تمہارے ہاں آئیگی ، ضرورت شریعت کے احکام کو رواج دینے کی ہے ۔ اس سے کوئی شخص گھاٹے میں نہیں رہتا ۔ لڑکی کا حصہ لڑکے سے آدھا ہوتا ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ اسلام کے نزدیک لڑکیاں سرے سے احترام وعزت کی مستحق ہی نہیں ، بلکہ بات یہ ہے کہ اسلام کے سامنے چونکہ ہر طرح کی مشکلات ہیں جن سے مرد دو چار ہوتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ سرمایہ کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں ، اس لئے ان سے لڑکوں کو زیادہ حصہ دلایا ہے ۔ (آیت) ” من بعد وصیۃ یوصین بھا اودین “۔ کے معنی یہ ہیں کہ مال موروثہ اس وقت تک تقسیم نہ ہو سکے گا جب تک کہ میت کے سر سے قرض نہ اتر جائے ، وصیت وقرض کے بعد جو مال بچے گا ‘ اس میں ورثا کو تقسیم کا حق ہے ۔ قرآن حکیم نے جو حصص مقرر فرمائے ہیں ضرور حکیمانہ ہیں اور ان میں ہر ایک حصہ کی ایک وجہ ہے مگر ہمارا تجربہ چونکہ محدود ہے اور ہمارا علم قاصر ‘ اس لئے ہم قطعی اور حتمی رائے نہیں قائم کرسکتے ، اس لئے فرمایا ۔ (آیت) ” لا تدرون ایھم اقرب لکم نفعا “۔ یعنی تم نہیں جانتے تمہارے لئے کون زیادہ مفید ہے اور کس کو زیادہ حصہ دیا جائے یعنی حصص کی تقسیم توفیقی ہے منطقی نہیں ۔ حل لغات : قولا سدیدا : ڈھب کی بات ۔ حظ : حصہ ۔ النسآء
12 النسآء
13 (ف ١) ان آیات میں اللہ کے احکام ونواہی کو حدود سے تعبیر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ان حدود سے تجاوز کرنا گناہ ہے اس لئے کہ یہ فرائض ومنکرات حق وباطل اور جنت ودوزخ کے درمیان بطور حدود کے ہیں کہ وہ لوگ جو ان کا خیال رکھتے ہیں اور ہر لحظہ خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت میں مصروف رہتے ہیں ، وہ فوز عظیم پالیتے ہیں اور وہ جن کے خمیر میں معصیت وکبر سرشت ہے ، وہ انکار کردیتے ہیں ، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ سخت ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے ۔ حل لغات : کللۃ : اس مرد یا عورت کو کہتے ہیں جس کا کوئی اصل وفرع موجود نہ ہو ۔ النسآء
14 النسآء
15 فاحشہ کی سزا : (ف ١) اس آیت میں فاحشہ کی سزا کا ذکر ہے کہ اگر کوئی عورت فحش کا ارتکاب کرے اور ثابت ہوجائے تو اسے گھر میں بند کر دو تاکہ آیندہ فتنہ کی گنجائش نہ رہے ۔ اور اگر مرد برائی کا ارتکاب کرے تو اسے سزا دو ، تاآنکہ وہ توبہ کرلے ، پھر اس سے تعرض نہ کرو ۔ ان ہر دو آیات کے مصداق ومحل میں اختلاف ہے جمہور مفسرین کی رائے یہ ہے کہ اس سے مراد زانی مرد اور عورت ہے اور یہ حکم تقرر حد سے پہلے کا ہے چنانچہ جب حد کا تقرر ہوا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” خذوا عنی قد جعل اللہ لھن سبیلا “۔ کہ آؤ میں بتاؤں اللہ تعالیٰ نے ان کے فیصلہ کی سبیل بتا دی ہے اس صورت میں یہ حدیث آیت کی مخصص ہوجائے گی ، ابومسلم کہتے ہیں ، یہ دونوں آیتیں تفاحش جنسی کے بیان میں ہیں ، اس میں زنا کا ذکر نہیں یعنی اگر دو عورتیں مل کر ارتکاب فحش کریں اور شہادت ہوجائے تو پھر انہیں بطور سزا کے گھروں میں محبوس رکھا جائے ، اور اگر مرد شہوت جنسی کا ارتکاب کرے تو اسے سزا دی جائے ، مگر یہ تاویل گو چلتی ہوئی ہے لیکن درست نہیں ، اس لئے کہ حدیث میں توضیح آچکی ہے اور اس لئے بھی کہ زانیہ کے لئے تو گواہوں کی ضرورت ہے ، اس کے لئے تو ذرا سختی کے ساتھ تادیب کافی ہے ۔ حل لغات : الفاحشۃ : برائی زنا ۔ النسآء
16 نفسیات اخلاق کاباریک نکتہ : (ف ١) (آیت) ” فاعرضوا عنھما “۔ میں اخلاق کے اس دقیق نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ بعض دفعہ حد سے زیادہ سزا اور ملامت ذوق گناہ کو اور بھڑکا دیتی ہے ، مقصد یہ ہے کہ مجرموں کے دل میں شدید احساس پیدا کردیا جائے اور بس جب یہ پیدا ہوجائے تو انہیں زیادہ تنگ نہ کرنا چاہئے ، اس طرح وہ خود بخود رک جاتے ہیں ۔ النسآء
17 (ف ٢) فرمایا ، تائب وہ ہے جو نادانستہ گناہ کر بیٹھے اور پھر فورا ہی جان لینے کے بعد توبہ کرلے ، وہ نہیں جو عمدا توبہ کے بھروسہ پر گناہ کرے ، حدیث میں آیا ہے ، التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ “۔ کے صحیح معنوں میں توبہ کرنے والا بالکل معصوم انسان کی طرح ہوجاتا ہے ۔ النسآء
18 توبہ کا وقت : (ف ٣) فحش وحرام کاری کے بعد ضروری تھا کہ فلسفہ توبہ پرروشنی ڈالی جائے اس آیت میں یہی بتایا ہے کہ توبہ اس وقت مفید ہو سکتی ہے جب گناہ کے ارتکاب کی پوری ہمت موجود ہو اور وقت مساعد ہو ، ورنہ اس وقت جب کاروان منزل تک پہنچ چکا ہو اور ہمت وقوت جواب دے چکی ہو ، توبہ سے کیا حاصل ؟ اس وقت کی توبہ کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اپنے گناہوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں ، جب زندگی ہی نہیں تو ارتکاب گناہ کیسا ؟ بات یہ ہے کہ اسلامی فرائض ومناہی استدلال ومنطق پر مبنی ہیں اور جب عالم غیب کی بہت سی چیزیں بلاغور وفکر کئے آنکھوں کے سامنے آموجود ہوں اور فطرت کے راز ہائے سربستہ خود اپنی چہرہ کشائی پر آمادہ ہوں تو اس وقت خیر وشر میں تمیز کی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔ حل لغات : اذوھما : تکلیف دو ، سزا دو ، مادہ ایذا ۔ اعرضوا : پیچھا چھوڑ دو ۔ النسآء
19 عورتیں مال ڈھور نہیں : (ف ١) جاہلیت میں عورت مال ڈھور کی طرح قابل بیع وشرا تھی اور جب کوئی ؤدمی مر جاتا تو اس کی سوتیلی اولاد اس کی وارث ٹھہرتی ، ان آیات میں بتایا کہ تم ان پر جبر وستم روا نہیں رکھ سکتے ، وہ تمہاری طرح جذبہ عزت نفس سے بہرہ ورہ ہیں اور انہیں بھی تمہاری طرح پوری عزت کے ساتھ زندہ رہنے کا حق ہے اور یہ طریق بالکل ناجائز ہے کہ تم انہیں محض اس لئے تنگ رکھو کہ وہ تمہیں کچھ دے کر طلاق حاصل کریں ۔ (آیت) ” وعاشروھن بالمعروف “ کے معنی یہ ہیں کہ عورت سے حسن سلوک از قبیل فرائض وواجبات ہے ۔ (آیت) ” فعسی ان تکرھوا “ میں ازدواجی زندگی کا ایک بیش قیمت نکتہ بیان فرمایا ہے یعنی بیوی میں اگر کوئی امر نقیض نہ ہو تو حتی الوسع چشم پوشی اور ایثار سے کام لینا چاہئے ، ہو سکتا ہے کہ تمہارا یہ ایثار بیوی کے دل میں تمہارے لئے بہت زیادہ احترام پیدا کر دے جس سے تمہاری زندگی مزے سے کٹے گی ، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اکثر اس بات سے ملول رہتے ہیں کہ ان کی بیوی ان کے معیار مطابق قبول صورت نہیں یا اتنی مال دار نہیں ، جیسا کہ وہ چاہتے ہیں ، اور یا وہ اس درجہ تعلیم یافتہ نہیں جو ان کے لئے باعث فخر ہو سکے ، یہ لوگ اگر تھوڑے سے ایثار سے کام لیں تو یہ ملال دور ہو سکتا ہے کیا ان لوگوں نے کبھی یہ غور کیا ہے کہ خود ان کی کیا قوت ہے ۔ ہندوستان اور پاکستا کی شریف اور اطاعت گزار عورتیں بدصورتی ، غربت اور بدوضعی کے تمام عیوب کے باوجود اپنے خاوندوں سے محبت رکھتی ہیں ، کیا یہ رویہ قابل صد تحسین نہیں ۔ حل لغات : کرھا : بجبر ۔ زبردستی ۔ النسآء
20 مہر واپس نہ لو : (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ بیوی لو طلاق دینے کے بعد مہر یا وہ تحائف جو تم نے وقتا فوقتا اسے دیئے ہیں واپس نہ لو کہ یہ مروت اور حسن معاشرت کے منافی ہے یعنی طلاق کے معنی باقاعدہ اور آداب کے مطابق علیحدگی کے ہیں ، نہ اظہار بغض وعداوت کے ۔ اسلام نے ہر مرحلہ پر انسان کو اخلاق کی بلند شاہراہ پر قائم رہنے کی تلقین کی ہے ، اسی لئے وہ کہتا ہے کہ تم طلاق وعلیحدگی کے بعد بھی حسن سلوک کے اصول کو نہ بھولو ۔ النسآء
21 النسآء
22 النسآء
23 کن کن عورتوں سے نکاح درست نہیں ؟ (ف ٢) اسلام میں خوبی یہ ہے کہ وہ الہیات کی مشکل گتھیاں بھی سلجھاتا ہے اور معاشرت کے نکات بھی اس کے ریاض توحید میں عالم غیب کے اسرار بھی ہیں اور عالم شہود کے واقعات بھی ، اخلاق کے دقیق ابواب معاشرت کے چھوٹے چھوٹے مسائل تک ہے اور بہرحال یہ دعوی درست ہے کہ اسلام ایک کامل ومفصل مذہب ہے ، یہ بات کتنی افسوسناک ہے کہ وہ مذاہب جن میں الہیات کے اسرار وغوامض پر تو بحث ہے مگر روز مرہ کے واقعات سے تعرض نہیں ‘ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور وہ مسلک جس میں جامعیت وکمال تابحد مبالغہ ہے ، بدنام ہے ۔ ان آیات میں محرمۃ النکاح عورتوں کا بیان ہے ۔ یعنی وہ عورتیں جن سے نکاح درست نہیں ۔ اور وہ یہ ہیں : ١۔ منکوحہ آب ، یعنی باپ کی بیوی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے خیال میں ” مزنیہ اب بھی اس میں داخل ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اسے صرف جائز ازواج تک محدود رکھتے ہیں ، قرآن حکیم کے الفاظ سے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تائید ہوتی ہے اور مفہوم ومنشاء کے اعتبار سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ۔ (آیت) ” الا ما قد سلف “۔ سے مراد یہ ہے کہ گزشتہ واقعات اس تعزیر میں شامل نہیں جو ہو شکا سو ہوچکا ، مگر نزول کے بعد ایسا شادیاں ناجائز ہیں ۔ اس لئے حضور نے بہت سے ایسے واقعات میں تفریق کرا دیں ۔ ٢۔ مائیں ، بیٹیاں ، بہنیں ، پھپھیاں ، خالائیں ، بھتیجیاں اور بھانجیاں ‘ اس لئے کہ فطرت انسانی ان رشتوں کو احترام وشفقت کی نظر سے دیکھتی ہے ، اس لئے طبیعت اس طرف مائل ہی نہیں ہوتی ۔ ٣۔ رضاعی رشتے یعنی وہ عورتیں جن سے دودھ کا رشتہ ہو ، ظاہر ہے رضاعت سے لڑکے کے دل میں وہی جذبات پیدا ہوجاتے ہیں جو حقیقی ماں کی نسبت اس لئے ان رشتوں کو بھی احترام وعزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے ، ٤۔ ساس اس لئے کہ ساس بھی بمنزلہ ماں کے ہے ، ٥۔ ربائب ، یعنی وہ زیر تربیت بچیاں جو تمہاری بیویوں کی آغوش شفقت میں رہی ہوں ، حرمت کی وجہ ظاہر ہے ۔ ٦۔ بہو ۔ ٧۔ (آیت) ” جمع بین الاختین “ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں فطرت نے جو دو بہنوں میں محبت رکھی ہے ، وہ رقابت کے بدترین جذبے سے بدل جائے گی اور اسلام یہ نہیں چاہتا کہ کوئی تعلق کسی بدمزگی کا باعث ہو ، اسلام تو دنیا میں محبت ورفائیت پیدا کرنے آیا ہے نہ رقابت ودشمنی کے لئے ۔ حل لغات : قنطارا : مال کثیر ۔ افضی بعضکم الی بعض : سے مراد ہے تعلقات جنسی ۔ سلف : جو گزر چکا ، جو ہوچکا ۔ مقت : نفرت وناراضگی ۔ حجور : جمع حجر ۔ گود ۔ حلآئل : جمع حلیلۃ بمعنی بیوی ۔ النسآء
24 متعہ حرام ہے : (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ شادی شدہ عورتیں کسی طرح بھی دوسروں کے لئے جائز نہیں البتہ مملوکہ عورتیں چونکہ بوجہ عین بمنزلہ منکوحات کے ہیں اور ان کا سابقہ نکاح فسخ ہوچکا ہے ، اس لئے وہ ” محصنات “ کی فہرست میں داخل نہیں ۔ ذیل کے الفاظ سے بعض لوگوں نے متعہ کا جواز نکالا ہے ، (آیت) ” ان تبتغوا باموالکم فما استمتعتم بہ منھن فاتوھن اجورھن “۔ حالانکہ آیت کے سیاق وسباق سے ظاہر ہے کہ بیان نکاح کا ہو رہا ہے جس کے معنی دائما کسی کو حبالہ عقد میں لے آنے کے ہیں نہ متعہ کا ، جو وقتی جذبات کے ماتحت یکسر حیوانی حرکت ہے ، (آیت) ” محصنین غیر مسافحین “ کی تصریح ہرگز کسی شک وشبہ کی متحمل نہیں ، اس میں واضح طور پر مفہوم مضمر ہے کہ مرد اور عورت کا تعلق باہمی یا بصورت احصان ودوام ہے اور یا بصورت زنا وسفاح ۔ تیسری کوئی صورت نہیں ، یہ درست ہے کہ زمانہ جاہلیت میں متعہ کا عام رواج تھا اور عہد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بھی بعض لوگ اسے جائز جانتے رہے مگر قرآن حکیم کا ایسے طرز ازواج کو پیش کرنا جو دائمی ہو جس میں عورت کا تمام حقوق زوجیت حاصل ہوں جس میں (آیت) ” عاشروھن بالمعروف “ کی تلقین ہو صاف طور پر متعہ کی مخالفت ہے ، اس لئے یہ کہنا کہ قرآن حکیم میں متعہ کی ممانعت موجود نہیں ‘ تجاہل ہے ۔ زیر خط الفاظ اس وقت موجب وہم وشک ہو سکتے ہیں جب پہلے سے ذہن میں متعہ کے جواز کا خیال ہو ، ورنہ ظاہر ہے ” ابتغآء بللال تمتع اور اجور ۔ ان میں کوئی شے بھی متعہ کے ساتھ مختص نہیں ۔ نکاح میں بھی روپیہ خرچ ہوتا ہے اور متہ میں بھی ، مہر ” صداق “ جس میں ہدیہ محبت وصداقت ہوتا ہے ، اسی طرح ایک قسم کا اجر بھی ، یعنی حلیہ مہر ووفا بھی اور تمتع تو ظاہر ہے جس قدر نکاح میں ہے متعہ میں نہیں ، پھر یہ کہاں سے لازم آگیا کہ ان الفاظ سے متعہ ثابت ہے ، ان الفاظ میں تو نکاح کے لوازم سے بحث ہے ۔ اصل میں غلط فہمی کا منبع یہ مسئلہ ہے کہ مہر بدل استحلال ہے ۔ حالانکہ یہ صحیح نہیں ، مہر تو شادی کا تحفہ ہے ، فتماء نے اسے خواہ مخواہ ” معاوضہ حیوانیت “ سمجھ لیا ہے جس سے اس کی پاکیزگی میں فرق پڑگیا ہے اور اسی بنا پر حضرت تشیع نے متعہ کا جواز نکالا ہے کہ چونکہ اجرت متحقق ہے ، اس لئے تمتع ازدواج کا حق ثابت ہوا ، وہ یہ نہیں جانتے کہ اسلام اس سے بہت بلند ہے کہ صرف چند نقرئی سکوں کے معاوضہ میں استحلال کا حق دے دے ، گو وہ اسے لازمی قرار دیتا ہے مگر اسے ” معاوضہ حیوانیت “ قرار نہیں دیتا اسلام جس شکل اتحاد کو پیش کرتا ہے وہ نہایت بلند اخلاق اساسوں پر قائم ہے ، اس میں دوام اور توریث شرط ہے ۔ حل لغات : المحصنت : آزاد ۔ شادی شدہ ، عفیف اور مسلمان عورتیں ، قرآن حکیم نے چاروں معنوں میں اس کا اطلاق فرمایا ہے ، مسافحین : مادہ سفاح بمعنی پہالا ۔ طول : مقدور گنجائش اور وسعت ۔ النسآء
25 ولا تخذات اخدان : (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ جو لوگ آزاد عورتوں سے قلت سرمایہ کی وجہ سے نکاح نہ کرسکیں ، وہ غلام عورتوں سے نکاح کرلیں ، کیونکہ وہ سستے داموں رشتہ ازدواجی میں منسلک ہوجاتی ہیں ، مگر اس میں چار باتیں ملحوظ رکھیئے ۔ ١۔ مومن ہو ۔ ٢۔ مالک کی اجازت حاصل کرلی جائے ۔ ٣۔ انہیں مہر دیا جائے ۔ ٤۔ اور یہ کہ وہ مالک سے الگ آشنا نہ رکھتی ہوں ۔ یعنی وہ عورتیں جو مالک کے سوا اور احباب ودوست بھی رکھتی ہیں ، ان سے رشتہ مناکحت درست نہیں موجودہ تمدن اس دفعہ کی مکمل تشریح ہے ، فرق یہ ہے کہ اس زمانے میں شرفا کی عورتیں اس سے محفوظ تھیں ، اب شریف وہ ہے جو دس بانچ دوست رکھتی ہو ۔ اللہ اکبر ! اخلاق کی دنیا میں کتنا بڑا انقلاب پیدا ہوگیا ہے ، اب ہر برائی شرافت وتہذیب کے نام پر جائز ہے ، لونڈی کی سزا نصف اس لئے رکھی ہے کہ اسے برائی سے بچنے کے مواقع بہت کم ملتے ہیں ، اب بھی وہ عورتیں جو گھروں میں کام کاج کرتی ہیں بمشکل برائی سے محفوظ رہتی ہیں اور وہ عورتیں جو کونسلوں ، ملوں اور ایوانوں میں مردوں کے پہلو بہ پہلو مل کر بیٹھتی ہیں کیونکر ردا عصمت کو بچا سکتی ہیں ؟ یہ حقیقت ہے کہ مرد و عورت کا اجتماع کسی صورت میں بھی خوش آئندہ نہیں ۔ وہ لوگ جو اس کا دعوی کرتے ہیں ‘ فریب نفس میں مبتلا ہیں میں نہیں کہتا کہ اس میں عورت کا قصور ہے اور نہ مرد کو ملزم ٹھہراتا ہوں ، مگر یہ واقعہ ہے کہ ہر مرد اور عورت کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے ۔ صلی اللہ علی محمد ۔ حل لغات : اخدان : جمع خذن ۔ خفیہ آشنا ۔ دوست ۔ العنت : بدکاری ۔ النسآء
26 (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ اسلام میں کوئی الگ صحیفہ شریعت نہیں ، اس میں وہی قواعد بتائے گئے ہیں جن کو بار بار دہرایا گیا ہے ، یہ وہی صداقت قدیمہ ہے ، جسے زمانہ کی ہر کروٹ کے ساتھ پرکھا گیا ہے ، مقصد یہ ہے ، کہ تم لوگ اسے قبول کرکے اللہ کی وسیع رحمتوں میں شامل ہوجاؤ ، شہوات سے بچو اور اپنی جبلی وفطری کمزوریوں کا خیال رکھو ، بجز خدا کے فضل وعفو کے تم برائیوں سے نہیں بچ سکتے ، اس لئے اس راستہ پر مضبوطی سے گامزن ہوجاؤ جو خدائے غفور نے تمہارے لئے تجویز کیا ہے ۔ النسآء
27 النسآء
28 النسآء
29 (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ ناجائز وسائل سے مال حاصل کرنا گناہ ہے ، البتہ باہم رضا مندی سے تجارت میں کوئی مضائقہ نہیں ، یعنی تجارت کل حلال کا بہترین ذریعہ ہے افسوس ! آج مسلمان تجارت نہ کر کے دنیا بھر میں ذلیل ورسوا ہے ۔ حالانکہ خدا تعالیٰ نے مسلمان کو تاجر پیدا کیا تھا (آیت) ” ولا تقتلوا انفسکم “ کا مطلب یا تو یہ ہے کہ عام طور پر چونکہ جعل وفریب سے لڑائیاں ہوتی ہیں ، اس لئے تم ایک دوسرے کو دھوکا نہ دو اور باہمی رضا جوئی سے کام لو اور یا یہ کہ جو قوم تجارت کو ترک کردیتی ہے وہ مردہ ہے ، اس میں کوئی زندگی باقی نہیں رہتی ۔ دیکھ لیجئے ، آج مسلمان کیا محض اس لئے حقیر نہیں شمار کئے جاتے کہ ان کے پاس دولت نہیں اور کیا صرف مردہ قوموں میں ان کا شمار نہیں کہ یہ تہی دست ہیں ۔ حل لغات : یرید ان یتوب علیکم تاب علیہ : کے معنی حسن التفات کے ہیں ۔ النسآء
30 النسآء
31 اسلامی کفارہ : (ف ١) مذہب کا مقصد یہ ہے کہ گناہگار انسان کو خدا کی بادشاہت تک کامیابی کے ساتھ پہنچا دے اور اس میں ایسی قابلیت اور استعداد پیدا کر دے کہ وہ خدا کی بخشش بےحد کا مستحق ٹھہرے ، قرآن حکیم ایک ایسے ہی مسلک کی طرف بلاتا ہے جو بالکل فطری اور معقول ہے اور جس پر چلنے کے بعد لامحالہ انسان میں ” نجات “ کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے ، چنانچہ وہ کہتا ہے کبائر سے بچنے کی کوشش کرو ، یہ طے کرلو کہ موٹے موٹے اور عام سمجھ میں آجانے والے گناہ ہم سے سرزد نہیں ہوں گے ، نتیجہ یہ ہوگا کہ طبیعت میں پرہیزواتقاء کے جذبات پیدا ہونے لگیں گے اور انسان باقاعدہ اور باضابطہ طور پر گناہوں سے نفرت کرنے لگے گا اور اسے ایک ایسی زندگی عطا ہوگی جو یکسر روحانی اور اعلی زندگی ہے ، یہ اسلامی کفارہ ہے جو بالکل واضح اور یقینی ہے ۔ دوسرا کفارہ وہ ہے جو عیسائی پیش کرتے ہیں کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) نے صلیب پر جان دے کر ہمارے تمام گناہوں کو اپنے اوپر اٹھا لیا ہے ، یہ کس قدر غلط اور غیر منطقی عقیدہ ہے ۔ کیا کسی انسان کی موت دوسروں کے لئے باعث نجات ہو سکتی ہے ؟ اور کیا کوئی انسان تمام لوگوں کو اپنے ذمے لے سکتا ہے ؟ بات یہ ہے کہ یہ ایک بت پرسانہ عقیدہ ہے جو عیش وعشرت کے لئے ایک طرح کی دلیل صحت ہے اور بس یار لوگوں نے مذہب کے نام تعیش وفسق کے لئے ایک وجہ جواز پیدا کرلی ہے ۔ النسآء
32 (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ مرد و عورت کے لئے کسب واکتساب کا ایک وسیع میدان موجود ہے ، دونوں کے الگ الگ فرائض ہیں اور الگ الگ دائرہ عمل ، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں خدا کی رضا جوئی مشترکہ طور پر حاصل کریں ، نہ یہ کہ مرد تانث کے زیور سے آراستہ ہوں اور عورتیں مردانہ اسلحہ سے مسلح ۔ حل لغات : تجتنبوا : مصدر ومادہ اجتناب بچنا ۔ پہلو تہی کرنا ۔ نکفر : مادہ تکفیر ۔ گناہ مٹانا ، دور کرنا بعض لوگ اس لفظ کو ” اکفار “ بمعنی کافر گرداننے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں یہ غلط ہے ۔ النسآء
33 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ میراث میں سب کے ورثہ ہیں اور ان میں باہمی تفاوت ہے ، خدا خوب جانتا ہے کون کتنے حصے کا مستحق ہے ، تم ان کا حصہ بہرحال حسب ہدایت ان تک پہنچا دو ۔ آیت کی ترکیب کچھ اس طرح ہے کہ والدین واقربا وغیرہ وارث بھی قرار دیئے جا سکتے ہیں اور موروث بھی ۔ (آیت) ” والذین عقدت ایمانکم “ سے مراد میاں بیوی ہیں ۔ النسآء
34 الرجال قوامون : (ف ٢) قوام یاقیم کے معنی ہوتے ہیں منصرم یا منتظم کے اس آیت میں فلسفہ تدیبر منزل کی مشکلات کا حل ہے ، عائلہ یا فیملی ایک قسم کی چوٹی سی ریاست ہے جس کے متعدد رکن ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ان کا منتظم ومنصرم کون ہے ، قرآن حکیم کا فیصلہ یہ ہے کہ مرد ۔ اور اس کی وجہ سے مرد عورت کے لئے آذوقہ حیات بہم پہنچانے پر مجبور ہے ، عورت نہیں ، اور اس لئے بھی کہ فطری طور پر مرد ہی منتظم بننے کی صلاحیتیں موجود ہیں ۔ یہ درست ہے عورتیں بھی کام کرسکتی ہیں مگر وہ ہر وقت وہ ایسا نہیں کرسکتیں ان کی جنسی کمزوریاں انہیں بہرحال منصرم رہنے کی اجازت نہیں دیتیں ، بخلاف مرد کے کہ وہ کڑی سے کڑی مصیبتیں برداشت کرلیتا ہے ۔ پس نیک عورتیں وہ ہیں جو اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتی ہیں اور خاوند کی دل سے قدر کرتی ہیں ۔ یہ یاد رہے کہ اس ریاست کا نظام یکسر جمہوری ہے گھر کے چھوٹے چھوٹے کام بھی بلامشورہ نہ ہونے چاہئیں چنانچہ دودھ پلانے کا مسئلہ دوسرے پارے میں گزر چکا ہے کہ وہ بھی باہمی تشاور وتراضی سے ہو ۔ حل لغات : موالی : جمع مولی ۔ آزاد کنندہ ، آزاد شدہ غلام حلیف ابن عم ولی اور عصبہ تمام معانی میں اس کا استعمال ہوتا ہے ۔ (ف ١) یہ حقیقت ہے جس کا بارہا اعتراف کرنا پڑا ہے کہ قرآن حکیم ہماری تمام مشکلات کا حل اس خوبصورتی اور جامعیت سے پیش کرتا ہے کہ بےاختیار دل سے کلمات تحسین نکل جاتے ہیں ، یہ ایک ایسی کتاب ہے جو معاشرت کے تمام ابواب وفصول ہمارے لئے واشگاف کرکے رکھ دیتی ہے ، اس میں فلسفہ وحکمت کے ساتھ ساتھ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں جن پر انسانی سعادت وفلاح کا دارومدار ہے ، اس طرح مذکور ہیں کہ قربان جائیے اور پھر بھی جذبہ احترام میں کمی نہ پیدا ہو ۔ اس آیت میں عورت کے نشوز وتمرد کا علاج بتایا ہے ، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو باوجود تعلیم یافتہ ہونے ان رموزواسرار سے واقف نہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو کافی سرمایہ دار ہیں ‘ لیکن پھر بھی ان کی بیویاں ان سے ناراض رہتی ہیں اور وہ نہایت اضطراب وبے چینی کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ قرآن حکیم ایک طرف تو مرد سے کہتا ہے (آیت) ” وعاشروھن بالمعروف “ ، دوسری طرف عورت کو خاوند کی اطاعت پر مجبور کرتا ہے لیکن اس کے بعد بھی اگر نشوز واختلاف کا خوف ہو تو قرآن کی ہدایت یہ ہے کہ عظوھن “ سب سے پہلے انہیں ” وعظ “ سے بدلنے کی کوشش کی جائے ، ” وعظ “ سے مراد ناصحانہ گفتگو ہی نہیں بلکہ مشفقانہ برتاؤ بھی ہے یعنی اپنے قول وفعل کے لحاظ سے عورت کے لئے اس درجہ محبوب ودل پسند بننے کی کوشش کرو کہ وہ لامحالہ متاثر ہو ، تمہارے بلند اخلاق اسے مجبور کردیں کہ وہ اپنی غلطی کو محسوس کرے اور عورت اگر اس قدر سمجھ دار نہ ہو تو پھر اس کے ” جذبات “ سے اپیل کرو اور اس کا بہترین طریق یہ ہے کہ اسے بستر پر تنہا چھوڑ دو ۔ اور یہ اس وقت زیادہ موزوں ہوگا جب تم اکٹھا ایک بستر پر استراحت اختیار کرو ، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ اس انقطاع کو برداشت نہیں کرے گی ۔ عورت کی یہ فطرت میں داخل ہے کہ وہ ہر چیز برداشت کرسکتی ہے ، بجز اپنے محبوب کے غصہ کے ، اور اگر اس پر بھی تبدیلی نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ بالکل عام عورت ہے ، اس لئے عامیانہ سلوک کی مستحق ہے اسے پٹینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں مگر یہ تیسرا درجہ ہے ۔ جو لوگ ان نکات ازدواج نہیں جانتے ، نہایت معمولی باتوں پر اپنے گھر کو دوزخ بنا لیتے ہیں ورنہ اگر وہ اسلامی اور قرآنی زندگی بسر کریں تو ان کا گھر اس دنیا میں بہشت کا نمونہ بن جائے ، النسآء
35 تدبیر منزل کے تین زرین اصول : آخری صورت : (ف ٢) اگر میاں بیوی میں اختلاف اس درجہ تک بڑھ جائے کہ دونوں اسے مٹانے پر قادر نہ ہوں تو بہترین طریق یہ ہے کہ وہ حکم مقرر کرلیں ، ایک عورت کا عزیز ہو اور اس ایک مرد کا ، دونوں غیر جانبداری سے واقعات کو سنیں اور معاملہ نپٹانے کی کوشش کریں ، اگر مسلمان اس تجویز پر عمل پیرا ہوجائیں تو ان کابہت سا روپیہ عدالتوں میں برباد ہونے سے بچ جائیے ۔ حل لغات : شقاق : اختلاف ۔ النسآء
36 (ف ١) ان آیات میں خدا سے لے کر غلام تک کے ساتھ صحیح تعلق رکھنے کی تلقین ہے کہ جہاں اللہ کی عبادت کرو ‘ وہاں اس کا مظاہرہ تمہارے اعمال سے بھی ہو ۔ حل لغات : وما ملکت ایمانکم : جو تمہارے قبضہ ملک میں ہوں ۔ مختال : مکتبر ۔ فخور : شیخی بگھارنے والا ۔ النسآء
37 النسآء
38 النسآء
39 (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کے معنی یہ ہیں کہ اس میں کسی ریا کاری کو دخل نہ ہو اور نہ کوئی شیطانی جذبہ اس میں کار فرما ہو ۔ خالصۃ اللہ کے لئے ، اللہ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق خرچ کیا جائے ، اگر خدا پر یقین نہ ہو اور آخرت سے دل لرزاں نہ ہو تو یاد رکھیے کوئی عمل قابل قبول نہیں ۔ النسآء
40 (ف ٢) خدائے تعالیٰ اس درجہ رؤف ورحیم ہے کہ باوجود حق واختیار کے وہ کسی کی حق تلفی نہ کرے گا اور نیکیوں کو بڑھاتا رہے گا ار اپنی طرف سے اجر عظیم عنایت فرمائے گا یعنی وہ ہمہ احسان وجمال ہے ‘ ہمارے گناہوں کو بنظر ترحم دیکھے گا اور ہماری حسنات کو بہ نگاہ فضل امتنان ۔ بات یہ ہے کہ اس کی شان کریمی بہر حال آمدہ بخشش ہے ۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کا ایک بھی بندہ جہنم میں جائے ، یہ نیکیوں کو بڑھانا اور گناہ کی تکفیر تو بہانے ہیں اور وسائل وذرائع اپنی آغوش رحمت میں لینے کے اور ظاہر ہے جب تک وہ زائد از استحقاق فضل وعنایات سے کام نہ لے ، عاصی وگنہگار انسان کے لئے نجات کی کیا امید ہو سکتی ہے ، اس کی نعمتیں اس قدر وسیع وبے حد ہیں کہ ساری زندگی کی عبادتیں اور ریاضتیں ” شکریہ “ کے مرتبے سے آگے نہیں بڑھتیں ، پھر یہ اس کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وہ ہماری حقیر ” خدمات “ کو درخور اعتناء جانتا ہے اور ہمیں بخشش عام کا مستحق قرار دیتا ہے ۔ النسآء
41 شاہد اکبر : (ف ٣) اس آیت میں شان رسالت پناہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر جمیل ہے اور آپ کے رتبہ ختمیت وکمال کا تذکرہ ہے ۔ قیامت کے دن جب تمام لوگ جناب باری کے سامنے پیش کئے جائیں گے تو بطور اتمام حجت کے پوچھا جائے گا کہ بتاؤ تمتک ہمارے احکام پہنچے تھے یا نہیں ؟ اور اس کے بعد انبیاء علیہم السلام ورسل کی جماعت فردا فردا بطور گواہ وشاہد کے پیش ہوگی اور کہے گی کہ خداوند ! ہم نے تیرے احکام بلاکم وکاست تیرے بندوں تک پہنچا دیئے ، اور اس کے بعد شاہد اکبر جلوہ فرما ہوگا یعنی خواجہ کون ومکان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور گواہی دے گا کہ سارے نبی سچ کہتے ہیں ۔ انہوں نے تبلیغ حق میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گویا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود بجائے خود تصدیق ہے تمام نبوتوں کی ، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبیوں کے نبی اور تمام رسولوں کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کے بغیر تمام نبوتیں ناقص ہیں ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو درجہ کمال وختمیت عطا کیا گیا ہے کہ آخری فیصلہ شہادت پر موقوف ہے ۔ النسآء
42 (ف ٤) اس وقت وہ لوگ جنہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرتبہ ودرجہ کو نہیں پہچاتا ، پچتائیں گے اور کھلے لفظوں میں اپنے کتمان حق کا اعتراف کریں گے ۔ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) حل لغات : شھید : گواہ ۔ مبلغ ، حاضر ۔ النسآء
43 (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ نماز کے وقت سکرو مستی میں نہ رہو ۔ بات یہ تھی کہ تحریم خمر کی آیات کے نزول سے پہلے شراب عام طور پر استعمال کی جاتی تھی ، حضرت عبداللہ بن عوف (رض) نے صحابہ (رض) عنہم اجمعین کی دعوت کی اور اس میں شراب میں بھی انتظام کیا ، سب نے پی اور مست ہوگئے ، مغرب کی نماز میں امام جب قرآن پڑھنے لگا تو غلط ملط آیا پڑھ گیا جس پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔ (آیت) ” حتی تعلموا ما تقولون “ ۔ کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ الفاظ کی صحت کا خیال رہے اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ نماز پڑھتے وقت نماز کی روح ومعنویت سے واقف رہنا نہایت ضروری ہے ۔ وہ شخص جو نماز کا سادہ سے سادہ ترجمہ بھی نہیں جانتا وہ کیونکر صحیح معنوں میں نماز کے کوائف روحانیہ سے لطف اندوز ہو سکتا ہے ! جہاں تک الفاظ کا تعلق ہے یہ اتنے سخت ہیں کہ بلا ترجمہ وعلم نماز پڑھنا قرآن کے نزدیک بمنزلہ سکرومستی کے ہے ، اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے اور ہماری نمازوں کو قبول فرمائے ۔ فلسفہ تیمم : (ف ٢) معذوری کی حالت میں جب پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کرلینا کافی ہے مقصد یہ ہے کہ مسلمان خدا کی عبادت میں بہرحال کوشاں رہے اور کوئی معذوری اس کے لئے رکاوٹ کا باعث نہ ہو سکے ، چونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان کو باقاعدہ وباضابطہ رہنے کی تلقین کی ہے اس لئے ضروری ہے کہ وہ بہرحال ضبط وانتظام میں فرق نہ آنے دے ۔ تیمم کے معنی قصد وارادہ کے ہیں ۔ یعنی ضرورت اس بات کی ہے کہ ارادہ پاک وبلند رہے ۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ ہر حالت وکیفیت میں پانی ضروری ہو ۔ النسآء
44 (ف ٣) (آیت) ” اوتوا نصیبا من الکتب “۔ سے اس طرف اشارہ ہے کہ اہل کتاب کے پاس احکام خداوندی کا کوئی کامل وصحیح صحیفہ نہیں ۔ گردش روزگار اور ان کی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے چند صداقتیں اور سچائیاں ان کے پاس محفوظ رہ گئی ہیں ۔ مگر یہ ہیں کہ ان کو بھی پس پشت ڈال رہے ہیں اور دنیا کی جھوٹی خواہشات کے لئے حق وصداقت کو قربان کر رہے ہیں ، فرمایا یہ تمہارے اور حق کے لئے کھلے دشمن ہیں یہ جان رکھیں کہ خدائے ذوالجلال تمہیں دیکھ رہا ہے ۔ حل لغات : سکری : جمع سکران ۔ بدمست جنبا ، جنبی ، ناپاک ۔ الغآئط : جائے ضرور ، قضائے حاجت ۔ صعیدا : مٹی ۔ النسآء
45 النسآء
46 تحریف کلمات : (ف ١) ان آیات میں یہود کی عادت تحریف کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ ذوق حق سے قطعا محروم ہیں ، یہ باتیں سنتے ہیں اور اسے بالکل بدل دیتے ہیں پھر طبعتیں اس درجہ مسخ ہوچکی ہیں کہ گستاخی ودل آزاری سے بھی باز نہیں آتے ۔ راعنا کی تفصیل گزر چکی ہے ، ان کا مقصد بہرحال ایذاء رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اپنی گستاخی کا اظہار ہوتا تھا ۔ وہ اس لفظ کو ذرا زبان داب کر کہتے ہیں جس سے ذم کا پہلو زیادہ نمایاں ہوجاتا اور اتنی سی بات سے خوش ہوجاتے ۔ قرآن حکیم کہتا ہے کہ ایسے لوگ اللہ کی رحمت سے دور رہتے ہیں اور بوجہ اپنی گستاخی وملعونیت کے نور ایمان سے ہمیشہ دور رہتے ہیں ۔ حل لغات : مواضع : جمع موضع ، جگہ ، مقام ۔ راعنا : ہماری طرف التفات فرمائیے ۔ کلمہ ترغیب ہے ۔ انظرنا : دیکھیے ، ملاحظہ فرمائیے ۔ النسآء
47 (ف ١) اس آیت میں یہود کو دعوت ایمان دی ہے اور کہا ہے قرآن حکیم سابقہ حقائق ومعارف کا مصدق ہے ۔ یہ انہیں معارف وحکم کو پیش کرتا ہے جن سے تمہارے کان آشنا ہیں ۔ اس لئے تم پرلازم ہے کہ اس کو مانو اور یاد رکھو ، نہ مانو گے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب تمہارے چہرے مسخ کر دئے جائیں گے ۔ طمس کے معنی مٹانے کے ہیں ” مفازۃ طامسۃ “ اس جنگل کو کہتے ہیں جس میں کوئی اثرونشان نہ رہ گیا ہو ۔ طمس اللہ علی بصرہ “ سے مراد ہے خدا نے اس کی بصارت کو ضائع کردیا ، وجوہ ۔ وجہ کی جمع ہے جس کے معنی چہرے کے ہیں ۔ کبھی کبھی وجوہ کا اطلاق اعیان وزعماء قوم پر بھی ہوتا ہے ۔ اس لئے بعض لوگوں نے اس کے یہ معنی بھی لئے ہیں کہ وقت سے پہلے پہلے ایمان لے آؤ جب تمہارے اعیان ووجوہ کو ذلت وحقارت سے نکال دیا جائے اور ان کی عزت خاک میں مل جائے ، چنانچہ عبدالرحمن بن زید کہتے کہ یہ پیش گوئی پوری ہوچکی ۔ یہود قریضہ ونضیر کو ان کی بستیوں سے نکال کر اور ھات ویمانء میں جلا وطن کردیا گیا ۔ یہ معنی درست ہیں مگر تھوڑے سے تکلف کے ساتھ ، قرآن حکیم کی زبان کی شگفتگی اور سادگی ان معنوں کی زیادہ مؤید نہیں ۔ اگر مقصد یہی ہوتا تو فنردھا کی بجائے فنردھم علی ادبارھم ہونا چاہئے تھا ۔ بات یہ ہے کہ قیامت کے دن جو سزائیں مقرر ہیں وہ اعمال سیئہ کے بالکل متناسب ہیں ، دنیا میں ان لوگوں نے چوں کہ قرآن حکیم کی جانب کوئی توجہ نہیں کی ‘ اس لئے آخرت میں ان کے چہروں کو مسخ کردیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہی تمہاری عدم توجہی کی عملی سزا ہے ۔ النسآء
48 ناقابل معافی جرم : (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک وسہیم ٹھہرانا ناقابل عفو گناہ ہے ، سارے گناہ ، تمام عیب بخشے جا سکتے ہیں ، مگر جو اللہ کے جلال وجبروت پر کھلا حملہ ہے کسی طرح بھی نہیں بخشا جا سکتا ہے ۔ النسآء
49 تین بڑے بڑے عیب : (ف ٣) یوں تو یہودی دین فطرت سے کوسوں دور تھے اور ان کی کوئی بات بھی دینی اور مذہبی نہ تھی ، مگر ان کو ہمیشہ یہ وہم رہتا کہ وہ ساری دنیا کے لوگوں سے بہتر وافضل ہیں ، وہ علی الاعلان کہتے ۔ (آیت) ” نحن ابنآء اللہ واحبآء ہ “ کہ ہم خدا کے فرزند اور مقرب ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، اس تزکیہ نفس اور کبر کی تمہیں اجازت نہیں ۔ دوسرا عیب ان میں یہ تھا کہ وہ اپنی خواہشات نفس کے لئے تورات کے احکام بدل دیتے ۔ تیسری برائی مداہنت کی برائی تھی ، وہ مشرکین مکہ کے احوال عواطف کا ہمیشہ ساتھ دیتے اور مسلمانوں کی مخالفت میں اپنے اصول دینیہ کی بھی چنداں پروانہ کرتے ۔ حل لغات : ادبار : جمع دبر پیچھا ، پیٹھ ، اصحب السبت : ہفتہ کے دن خدا کی ہدایات کو پس پشت ڈالنے والے اسرائیلی ۔ النسآء
50 النسآء
51 النسآء
52 (ف ١) ان آیات میں اس منافقانہ ذہنیت کا اظہار ہے فرمایا کہ یہ خدا کی رحمت سے دور ہیں اور جو لوگ اس کی رحمت سے دور ہیں ‘ ان کا کوئی دوست نہیں ۔ حل لغات : الجبت : بت ۔ الطاغوت : کاہن ۔ نقیرا : اقل ۔ قلیل ۔ النسآء
53 النسآء
54 راز حیات : (ف ١) ان آیات میں یہودی بخل وحسد کا ذکر ہے کہ یہ قومیں اخلاق حسنہ سے بالکل عاری ہیں ، اسلام کا انکار بھی اسی جذبہ حسد وبخل کے ماتحت ہے ، یہ نہیں چاہتے کہ دنیا کی کوئی قوم سرفرازی وسربلندی سے مفتحز ہو ۔ اس بناء پر جب یہ دیکھتے ہیں کہ مسلمان خدا کے فضل وعنایات سے بہر کیف بہرہ ور ہیں اور دین ودنیا کی نعمتیں اور کرامتیں انہیں حاصل ہیں تو مارے حسد وبخل کے جل اٹھتے ہیں ، قرآن حکیم ارشاد فرماتا ہے آل ابراہیم (علیہ السلام) کی زندگی تمہارے سامن ہے ، کیا ہم نے انہیں کتاب وحکمت کے ساتھ ساتھ حکومت وخلافت نہیں بخشی اور کیا وہ وعظ وارشاد کے علاوہ تاج وتخت کے وارث نہیں تھے ؟ پھر تمہیں یہ کیا ہوگیا ہے کہ مسلمانوں میں جب دنیا ودین کا اجتماع دیکھتے ہو تو چلا اٹھتے ہو ۔ یہ تو ہماری سنت وطریق ہے کہ جو قوم صحیح معنوں میں ہمارے پیغام کو سمجھ لیتی ہے ہم انہیں کتاب حکیم بھی دیتے ہیں اور فتح عظیم بھی ۔ بات یہ ہے کہ خدائی احکام وشریعت کا منشا صرف جذبہ نیاز مندی کا امتحان ہی نہیں ‘ بلکہ ہماری تمام قوتوں کو ابھارنا بھی ہے وہ قومیں جو اس راز حیات کو سمجھ لیتی ہیں ‘ ہمیشہ فراز ترقی تک پہنچ جاتی ہیں اور جن کے نزدیک مذہب محض جمود قسفل کا نام ہے وہ نکمے اور ذلیل رہتے ہیں ، خیرالقرون میں دیکھئے کہ ایک نکمی ، ذلیل اور جاہلی قوم انہیں نمازوں ، روزوں اور فرائض ونواہی سے ساری دنیا پر چھا جاتی ہے اور اس کی رگ رگ میں زندگی کا خون دوڑنے لگتا ہے ان کا دماغی افق اتنا بلند ہوجاتا ہے کہ اقبال حشمت کا آفتاب انہیں سجدہ کر کے طلوع ہوتا ہے ، ایسا کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ انہوں نے مذہب کی صحیح روح کو سمجھا اور اس پر عمل کیا ، آج بھی اگر مسلمان اسلام کے صحیح روح کو سمجھا اور اس پر عمل کیا ، آج بھی اگر مسلمان اسلام کے صحیح اور سلجھے ہوئے قانون کو مان لیں ، تو ان میں وہی پہلی زندگی پیدا ہو سکتی ہے ۔ النسآء
55 (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ جب حق وصداقت کا آفتاب سطح ارض پر چمکا ہے بعض لوگوں نے اسے چشم بصیرت سے دیکھا اور محسوس کیا ہے اور بعض اندھوں نے انکار کیا ہے ، اس لئے اسلام کے متعلق بھی یہ تقسیم ناگزیر تھی ، آپ (یعنی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ان کے انکار وتمرد پر متعجب نہ ہو ۔ النسآء
56 (ف ٣) مقصد یہ ہے کہ مجرموں کی سزائیں تجدید پذیر ہوتی رہیں گی اور ہر گاہ انہیں تکلیف محسوس ہوتی رہے گی ، قیامت کے دن ہمیں ایک خاص قسم کا جسم عنایت کیا جائے گا جو تفخصات وتعینات کے اعتبار سے بالکل ہمارا یہی جسم ہوگا ۔ مگر بعض خصوصیات اس میں زائد ہوں گی اور انہیں خصوصیات کے مطابق جن کی تفصیل ہم اس دنیا میں نہیں جان سکتے ، وہ اجسام عذاب وثواب کے متحمل ہوں گے ، (آیت) ” سوف نصلیھم “۔ سے مراد تحقیق وقوع ہے یعنی یہ عذاب ضرور آکے رہے گا ، اس کے وقوع وتحقق میں کوئی شک وشبہ نہیں ۔ حل لغات : ملک : بادشاہی ۔ حکومت ، سعیرا : بھڑکتا ہوا ۔ جلود : جمع جلد ، کھلڑی ۔ النسآء
57 (ف ١) اہل ایمان وفلاح کا ذکر ہے کہ انہیں باغات وانہار میں جگہ دی جائے گی اور ان کے لئے گھنے سائے مہیا کئے جائیں گے ۔ یعنی وہاں نظر وقلب کی مسرت کے لئے ہر وہ چیز جو ضروری ہے ، حاصل ہوگی اور عروسان فطرت پوری طرح بن سنور کر اہل جنت حضرات کے لئے جلوہ آراء ہوں گی اور پھر وہاں سب سے بڑی مسرت یہ ہوگی کہ پاک بیویاں بھی زینت دہ آغوش ہوں گی ، یعنی دنیا میں جتنی مسرتیں اور سعادتیں ہیں وہاں سب کا حصول ہوگا اور علی وجہ الکمال کہ کسی طرح کا نقص وتکدر ان میں موجود نہ ہو ۔ النسآء
58 اداء امانت : (ف ٢) امانت کا لفظ جہاں معاملات میں امانت حقوق پر بولا جاتا ہے وہاں پورے دین وضابطہ شرع پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ، چنانچہ ارشاد ہے (آیت) ” انا عرضنا الامانۃ علی السموت والارض والجبال فابین ان یحملنھا “۔ الخ یعنی ذمہ داری کا یہ پروگرام جس کا نام اسلام وفطرت ہے بجز انسانوں نے اور سی کے حصہ میں نہیں آیا ۔ پس ادائے امانت کے معنی نہایت وسیع وعریض ہیں یعنی ہر حق اور فرض کی ادائیگی ۔ اسی لئے اس کی ایک صورت یہ بیان کی کہ جب لوگوں میں فیصلہ کرو تو عدل کو ہاتھ سے نہ جانے دو یعنی مسلمان کی ہر بات عادلانہ ومنصفانہ ہو ، بڑی سے بڑی قوت انہیں حق کے اظہار سے مانع نہ ہو ۔ کوئی لالچ ، کوئی ترغیب اور کوئی ڈر مسلمان کو جورو تعدی پر آمادہ نہیں کرسکتا ، مسلمان دنیا میں پیکر عدل امانت بن کر آیا ہے ، اس لئے اس سے کسی مداہنت ومنافقت کی توقع اس کی فطرت کے خلاف ایک مطالبہ ہے جس کی کبھی تکمیل نہیں ہو سکتی ۔ حل لغات : اولی الامر : صاحب امرونفوذ جماعت ۔ لقد امر امرا ابن ابی کشہ ۔ تنازعتم : مراد اختلاف ہے ۔ النسآء
59 جذبہ اطاعت کا صحیح حل : (ف ١) اس آیت اطاعت میں دراصل اداء امانت کی صحیح تشریح مذکور ہے یعنی ہر شخص کے دل میں ایک جذبہ اطاعت پنہاں ہے ، ہر انسان فطرتا چاہتا ہے کہ وہ کسی زبردست کے سامنے اپنی تمام قوتوں کے ساتھ جھک جائے ، اسے ایک ایسے فارقلیط یا تسلی دینے والے کی ضرورت ہے جو ہر اضطراب اور پریشانی کے وقت اس کے لئے سرمایہ تسکین مہیا کرے ، یعنی جذبہ اطاعت وانقیاد کی تکمیل کیونکر ہو ؟ یہ ایک سوال ہے جو دل میں پیدا ہوتا ہے ۔ قرآن حکیم نے آیت مذکورہ میں اس سوال کا جواب دیا ہے ، فرمایا ، خدا ‘ رسول اور حاکم عادل جو مسلم ہو ‘ اطاعت کے قابل ہیں ۔ یعنی شرعیات واخلاق میں خدا اور رسول کی باتیں مانو اور وقتی اور ہنگامی مصالح میں اپنے میں سے صاحب حکم وامر کی اطاعت کرو ، اور اگر تم میں اور حاکم وقت میں کوئی اختلاف پیدا ہوجائے تو پھر بطور آخری حکم کے صرف اللہ کے رسول کو سمجھو ، مقصد یہ ہے کہ بطور حجت وفیصلہ کے مسلمان صرف خدا اور اس کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تابع ہے اور اسے حق حاصل ہے کہ حاکم یا قوت حاکمہ سے دیانت داری کے ساتھ اختلاف رکھ سکے ۔ اولوالامر کون ہیں : اس لفظ کے مصداق ومحل میں اختلاف ہے اور مندرجہ ذلیل معانی مراد لئے جاتے ہیں ۔ ١۔ اجماع امت ۔ ٢۔ خلفائے راشدین ۔ ٣۔ سالار عسکر ۔ ٤۔ علمائے حق ۔ ٥۔ آئمہ معصومین ۔ اگر تھوڑے سے غور وفکر کو بروئے کار لایا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس سے مراد صاحب نفوذ قوت حاکمہ ہے ، چاہے وہ بصورت اجماع ہو اور چاہے بصورت حکومت ، چاہے علمائے حق کو یہ حاصل ہو اور چاہے آئمہ معصومین کو ، اس لئے کہ امر کے معنی لغۃ اثر ونفوذ کی قوت کے ہیں ۔ مطلقا حاکم وقت اولوالامر نہیں ۔ البتہ جائز امور میں ان کی اطاعت بحکم اطاعت رسول ضروری ہے ۔ النسآء
60 (ف ٢) طاغوت سے مراد ہر غیر شرعی ادارہ حکومت ہے ، مسلمان مجبور ہے کہ اس کی مخالفت کرے ، البتہ شیطان یہ چاہتا ہے کہ مسلمان بزدل رہے اور اس کی گردن ہمیشہ ماسوی اللہ کے ڈر سے جھکی رہے ۔ حل لغات : تاویل : انجام نتیجہ ۔ صدود : رکنا ہٹنا ۔ النسآء
61 النسآء
62 (ف ١) ان آیات میں منافقین کی نفسیات کو بیان کیا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے کتراتے ہیں ، اور حتی الوسع کوشش کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں حب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جذبہ دن بدن کم ہوتا جائے اور جب عناد رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں تو پھر اخلاص ومودت کی قسمیں کھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو محض احسان وتوفیق کے حامی ہیں ، ہماری تمام تگ ودو اس لئے ہے کہ دونوں گروہوں میں صلح وامن قائم ہوجائے ۔ فرمایا یہ منافقت ہے ، خدا خوب جانتا ہے اس لئے آپ (یعنی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ان سے تعرض نہ کریں اور وعظ وحکمت سے انہیں متاثر کرنے کی کوشش نہ کریں ۔ النسآء
63 النسآء
64 رسول بجائے خود مطاع ہے : (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ منافقین اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر سچے دل سے طلب مغفرت کریں اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے خلوص سے متاثر ہو کر ان کے لئے استغفار کرے تو پھر اللہ تعالیٰ انہیں بخش دیں گے ۔ یعنی جب تک ان کے خلوص پر مہر رسالت ثبت نہ ہو اور جب تک خدا کا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ نہ کہہ دے کہ یہ خالصۃ اب میرے ہمنوا ہوگئے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ انہیں عفو توبہ کا مستحق قرار نہیں دیتا ۔ (آیت) ” الا لیطاع باذن اللہ “ سے مراد یہ ہے کہ رسول مطاع مطلق ہے ، اس کا وجود بجائے خود حجت وسند ہے ، اس کی ہر ادا صبغۃ اللہ میں رنگین ہوتی ہے ۔ اس کا ہر قول وفعل مستفاد ہوتا ہے منشائے الہی سے (آیت) ” وما ینطق من الھوی ان ھو الا وحی یوحی “۔ اس لئے یہ کہنا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات وافعال لازم اطاعت نہیں قرآن ناطق کی توہین ہے ۔ وہ لوگ جو منصب نبوت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ، کسی طرح بھی اسوہ حسنہ کو قرآن سے الگ کوئی چیز قرار نہیں دے سکتے ۔ النسآء
65 حکم مطلق : (ف ١) اس آیت میں ربوبیت مطلقہ کی قسم کھا کر بیان کیا ہے کہ اطاعت رسول لازمی ولابدی شے ہے ، یعنی ربوبیت عامہ کا تقاضا یہ ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہر حکم کے سامنے گردنیں جھک جائیں ، جب تک اطاعت وتسلیم کا رضا کارانہ جذبہ دلوں میں موجود نہ ہو ‘ ایمان ویقین کی شمع روشن نہیں ہو سکتی ۔ قرآن حکیم یہی نہیں فرماتا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی گردنوں کو جھکادو ‘ بلکہ وہ یہاں تک اس کی تائید وتوثیق فرماتا ہے کہ دل کے کسی گوشے میں بدعقیدگی کی تاریکی موجود نہ رہے ۔ یقین وثبات کے پورے جذبات کے ساتھ نیاز مندی وعقیدت کے تمام ولولوں کے ساتھ مومن کے لئے ضروری ہے کہ آستانہ رسالت پر جھک جائے ، یعنی جوارح واعضاء کے ساتھ دل کا کونا کونا ضیاء اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بقعہ نور بن جائے ، ورنہ الحاد زندقہ کا خطرہ ہے ۔ وہ لوگ جو قرآن کو تو بظاہر مانتے ہیں لیکن سنت واسوہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرتے ہیں ‘ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ نصوص قرآن کی مخالفت کر رہے ہیں اور وہ اسلام کی اس عملی زندگی سے محروم ہیں جو اصل دین ہے ۔ النسآء
66 النسآء
67 (ف ٢) ان آیات میں نفاق و ایمان کی نفسیات بیان فرمائی ہیں کہ منافق میدان جہاد میں سربکف نہیں نکل سکتے اور تثبت واستقلال کی نعمتوں سے محروم ہوتے ہیں ، یہ اس لئے کہ جہاد وقربانی موقوف ہے جذبہ ایمان وایقان کی مضبوطی پر اور وہ دل جن میں ایمان کی شمع فروزاں کبھی روشن ہی نہیں ہوئی ، کیونکر ایثار وتضحیہ کے لئے آمادہ ہو سکتے ہیں ، پس جہاد و ہجرت اور ایثار وقربانی معیار ہے ایمان کی گہرائیوں کا جس درجہ کوئی نفس زکیہ پرجوش اور مجاہد ہے اسی درجہ اس کا قلب ایمان کی نعمتوں سے مالا مال ہے اور جس قدر اس میں دون ہمتی اور بزدلی ہے وہ نفاق ہے ۔ النسآء
68 النسآء
69 حسن رفاقت (ف ١) آیت کے شان نزول میں معتدد واقعات بیان کئے جاتے ہیں ۔ ١۔ ثوبان (رض) کا اشتیاق رفاقت یعنی اس کا دریافت کرنا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہم بھی شرف زیارت سے اس وقت محفوظ ہو سکیں گے جبکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ” مقام محمود “ کی بلندیاں مختص ہوں گی ؟ ثوبان (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک ادنی غلام تھے ۔ ٢۔ چند انصار کا پوچھنا کہ ہم کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت ورفاقت حاصل کرسکتے ہیں ؟ ٣۔ ایک عاشق رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انصاری کا کہنا کہ حضور ! ہم اس دنیا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ادنی سی مفارقت گوارا نہیں کرسکتے ، قیامت کے دن کیا ہوگا چہرہ انور سے اکتساب مسرت کا موقع کیونکر ملے گا ؟ ٤۔ عام مسلمانوں کا مطالبہ رفاقت وصحبت : مقصد بہرحال یہ ہے کہ جذبہ اطاعت سے سرشار مومنی کے لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں رفاقت کے بہترین درجہ اور مواقع ہیں اور ظاہر ہے صرف صحب ورفاقت ہی ایک گراں قیمت اعزاز ہے ، جو رب ودود کی طرف سے بخشا جائے گا ، یعنی وہ لوگ جو ” صلحائ“ کے درجہ علیا تک نہیں پہنچے ، بجز جذبہ اطاعت وحب صلاح صلحاء کے رفیق ہوں گے اور وہ صلحاء جنہیں مرتبہ ” صدیقیت “ حاصل نہیں ہوا ۔ اور وہ جو ” صدیق “ تو ہیں مگر جام شہادت نوش نہیں کیا ‘ وہ شوق شہادت کی وجہ سے شہداء کی پرانوار محبت سے استفادہ کرسکیں گے ۔ اور جو وہ شہید ہیں پرانبیاء کے مقام رفیع کو نہیں پایا ، انبیاء کے زمرہ عالی قدر میں رہیں گے ۔ جس طرح ستارے ماہتاب کے جلو میں رہنے سے ماہتاب نہیں بن جاتے اسی طرح محض رفاقت انہیں ان درجات پر فائز نہیں کرسکتی اور جس طرح باوجود رفاقت وصحبت کے انجم تاباں اور مہرمنیر میں ایک واضح فرق ہے ‘ اسی طرح ان مدارج میں ایک بین امتیاز باقی رہے گا ۔ یہاں اعطاء مدارج کاسوال نہیں ‘ اعطاء رفاقت کا ذکر ہے یہی وجہ ہے پہلے انبیاء کا ذکر فرمایا ہے ، حالانکہ اگر ذکر مراتب ومدارج کا ہوتا تو پہلے صلحاء کا ذکر چاہئے تھا اور (آیت) ” حسن اولئک رفیقا “۔ کے معنی تو ہرگز ہر گز کسی سلسلے کے متحمل نہیں ۔ النسآء
70 النسآء
71 حذواحذرکم : (ف ٢) حذر کے معنی علامہ زمحشری نے یہ کہے ہیں کہ وہ ہر شے جو تمہیں دشمنوں سے محفوظ رکھے ، چاہے وہ از قبیل تدابیر ہو چاہے از قسم اسلحہ ، یعنی مسلمان بہرحال محتاط ‘ بیدار اور خطرناک رہے ، دشمن اس کے داب وجلال سے لرزہ براندام ہو ، آہ ! آج مسلمان کا علم ان آیات پر بالکل نہیں ، نتیجہ یہ ہے کہ ہر نوع کی ذلتوں اور حقارتوں کا مرکز بنا ہوا ہے ۔ حل لغات : لیبطئن : کسل اور سستی ۔ النسآء
72 (ف ١) منافق میں دون ہمتی اور خود غرضی بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے جبکہ جہاد کے مواقع آتے ہیں ، یہ عملا کسل وتاخیر سے کام لیتا ہے اور پھر اگر مسلمانوں کو کوئی حادثہ پیش آجائے تو خوش ہوتا ہے کہ میں اس میں شریک نہیں تھا اور اگر انہیں حریت وآزادی کی نعمتوں سے کچھ حصہ ملے تو یہ بھی الجھتا ہے کہ اے کاش میں بھی اس کے شریک حال ہوتا ۔ اس آیت میں انہیں منافقین کا حال بیان کیا ہے کہ دیکھئے اپنی اس ذلیل ذہنیت پر کس درجہ قانع ہے ۔ النسآء
73 النسآء
74 النسآء
75 نفیر عام : (ف ٢) ہجرت کے بعد بعض لوگ مکہ میں ایسے رہ گئے جو نہ ہجرت پر قادر تھے نہ جہاد پر مکہ والے انہیں مجبور کرتے کہ وہ اسلام کو چھوڑ دیں ، ان کا ایمان انہیں ہر ابتلاء وآزمائش کو برداشت کرلینے کی تلقین کرتا ۔ ان آیات میں مسلمانوں کو اعلان عام کے ذریعہ سے جہاد پرآمادہ کیا ہے کہ ان کمزور وناتواں مسلمانوں کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہوجائیں ، اس لئے کہ مسلمان ” مظلوم وضعیف “ ہو کر دنیا میں نہیں رہ سکتا ، وہ ضعف وظلم کے خلاف اعلان جنگ ہے ، اس کا ذرہ ذرہ بغاوت وانقلاب میں سمویا ہوا ہے ، اس کی رگوں میں خون کی جگہ آزادی وخلافت کی بجلیاں دوڑ رہی ہیں ، ناممکن ہے کہ وہ مسلمانوں کو کمزور ومضحل دیکھے اور اس کے دل میں غیرت وغصہ کا طوفان نہ بپا ہوجائے ، اس کی فطرت حق وصدق کی تائید کے لئے ہے ، وہ منصہ شہود پر آیا ہی اسی لئے ہے کہ اللہ کی نیابت کا حق ادا کرے اور ظلم وعدوان کے خلاف پرزور آواز بلند کرے ، بلکہ طغیان وسرکشی کے خلاف خود رعد وصاعقہ بن جائے اور زمین استبداد کے لئے تہلکہ کی شکل اختیار کرلے ، یہی وہ توقعات ہیں جو مسلمانوں سے وابستہ ہیں اور اسی لئے خدائے غیور کا خطاب ہے ۔ (آیت) ” ومالکم لا تقاتلون فی سبیل اللہ “۔ یعنی اے جہاد سے پیچھے رہنے والے انسانو ! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم باوجود مسلمان ہونے کے اس فریضہ سے غافل ہوگئے ہو ۔ گویا ظالموں سے جہاد کرنا مرد ، مومن کی شریعت میں داخل ہے جس سے ایک لمحہ بھی تغافل جائز نہیں اس آیت میں تعجب وتوبیخ کو باہم ملا دیا ہے (آیت) ” ومالکم “ کہہ کر اظہار تعجب بھی کیا ہے اور ڈانٹا بھی ہے کہ کیوں جہاد پر آمادہ نہیں ہوتے ۔ حل لغات : فوز : کامیابی وکامرانی ۔ یشرون : شراء : بمعنی بیع بھی آتا ہے ، ابن مصرع کہتا ہے ۔ وشروبرادالیمنی من بعد بردکنت ھامہ ۔ النسآء
76 کید شیطان : (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ مومن ہمیشہ طاغوت و شیطان کے خلاف صف آراء رہتا ہے اور یہ کہ ظلم وعدوان کے پاؤں نہیں ہوتے ، بڑے سے بڑا جابر وقاہر مومن کی ایمانی قوتوں کے سامنے محض ناچیز وحقیر ہے ، بشر طے کہ مومن خود اپنی عظمتوں اور صلاحیتوں سے واقف ہو یعنی مسلمان کو چاہئے کہ وہ کسی نمرود اور کسی فرعون سے مرعوب نہ ہو ، ایمان وہ قوت ہے جو فولاد ہے زیادہ مضبوط اور بارود سے زیادہ مؤثر ہے ۔ حل لغات : کید : تدبیر ۔ حیلہ ۔ النسآء
77 (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ منافقین کی جماعت جب تک جہاد فرض نہیں ہوا تھا ، شور مچا رہی تھی کہ ہمیں لڑنے کی اجازت دی جائے اس وقت انہیں روکا گیا اور کہا گیا کہ صلوۃ وزکوۃ ہی پر اپنی تمام قوتیں مرکوز رہنے دو اور جہاد کا مطالبہ نہ کرو ، کیونکہ یہ ایک ہنگامی و وقتی چیز ہے ، مگر یہ تھے کہ اظہار ایمان وایقان کے لئے بیقرار تھے اور جب جہاد فرض قرار دیا گیا ، وقت آگیا کہ کفر کے خلاف اعلان جنگ کردیا جائے تو یہ انتہا درجے کے بزدل ثابت ہوئے ان کے دلوں میں لوگوں کا ڈر اس درجہ سرایت کر گیا کہ یہ بہانے تلاش کرنے لگے ، حالانکہ مومن سوائے خدا کے اور کسی شخصیت سے مرعوب نہیں ہوتا ، وہ اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ تمام قوتیں اس سے ڈریں اور مرعوب رہیں ، نہ اس لئے کہ وہ خود غیر اللہ اشخاص سے خائف ہو ، فرضیت جہاد کے بعد جس اضطراب اور گھبراہٹ کا اظہار لوگوں نے کیا ، قرآن حکیم نے بتفصیل اسکا ذکر کیا ہے تاکہ ان لوگوں کی جلد بازی اور وقت پر کم ہمتی ہمیشہ یاد رکھیں ، یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ لوگ جو صلح کے زمانے میں زیادہ پرجوش ہوتے ہیں ، جنگ کے زمانے میں نہایت عافیت پسند رہنے کی کوشش کرتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ دیکھو دنیا میں چند دن رہنا ہے ، اس چند روزہ زندگی کے لئے لیت ولعل نہ کرو ، وقت آگیا ہے تو کود پڑو ، انجام وعاقبت ایسے ہی جانبازوں کے لئے ہے ۔ النسآء
78 موت کی ہمہ گیری : (ف ٢) اس آیت میں موت کی ہمہ گیری کا تذکرہ ہے ، مقصد یہ ہے کہ موت کا ڈر وجہ تخلیف نہ ہو ، موت جھونپڑے سے لے کر قصر سفید تک سب کو شامل ہے ، اس کی فرمانروائی اتنی وسیع ہے کہ وہ لوگ بھی جو ہزاروں قسمتوں کے مالک ہیں ، اس سے نہیں بچتے ۔ (ف ٣) منافقین کی بےسمجھی کا ذکر ہے کہ وہ ہر ابتلاء کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تشادم تفاول نہیں بن سکتا ۔ حل لغات : ثقیل : باریک ریشہ جو کھجور کی گٹھلی میں ہوتا ہے ۔ بروج : جمع برج کے معنی ظہر کے ہوتے ہیں ، اس لئے اس سے مراد نمایاں عمارت ہے ۔ النسآء
79 رفع تناقض : (ف ١) ان دو آیتوں میں بظاہر تناقض معلوم ہوتا ہے کہ مصائب کہ من عند اللہ بھی کہا ہے اور من نفسک بھی ، مگر خدا کا کلام ہر تناقض وتعارض سے پاک ہے ، پہلی آیت سے تشادم کی تردید مقصود ہے ، دوسری سے منشا یہ ہے کہ مصائب کے ذمہ دار خود انسان ہیں ، جہاں تک کسی واقعہ کے سبب اول کا تعلق ہے وہ ظاہر ہے خدا کے سوا اور کوئی نہیں اور جہاں اسباب قریبہ کا بیان ہے ‘ واضح ہو کہ وہ انسان خود پیدا کرتا ہے یعنی گوہر مصیبت خدا کی طرف سے ہے مگر ہم حاصل اسے خود اپنے عمل سے کرتے ہیں ۔ اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آنے سے تم مصیبتوں میں مبتلا ہوگئے ہو تو اس کی وجہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری نہیں ، تمہاری بدبختی اور انکار ہے ۔ النسآء
80 رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے ۔ (ف ٢) منصب نبوت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو تمامی اور اقتدار کے لئے چن لیتا ہے ، اس کی ہر بات فشائے الہی میں ڈھل کے نکلتی ہے ، اس کا دل و دماغ انوار و تجلیات سے معمور ہوتا ہے ، اس کی ہر حرکت ترجمان ہوتی ہے رضائے حق کی ، اس لئے کسی شخص کو رسول یا نبی کہہ دینا بجائے خود اسے صحت مند قرار دینا ہے ، مگر بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ذوق عربیت سے محروم ہیں ، اور قرآن کے اسلوب بدیع سے محض نا آشنا ۔ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کو ضروری نہیں جانتے ، ان کے خیال میں قرآن حکیم اپنے موجودہ الفاظ کے ساتھ بالکل کافی ہے اور جو وسائل وذرائع قرآن فہمی کے لئے ضروری ہیں وہ چند لغت وادب کی کتابیں ہیں اور بس ، یہ نادان اتنی سی سمجھ بھی نہیں رکھتے کہ اگر کسی کتاب کو بلا کسی زبردست عمل کے سمجھا جا سکتا ہے تو پھر ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں کود پڑنے کی تکلیف کیوں دی ؟ موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون سے لڑنے کا کیوں حکم ہوا اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بدر و حنین کے معرکے کیوں برروئے کار لانا پڑے ؟ بات یہ ہے کہ دنیا میں کبھی باتوں اور نظروں سے انقلاب پیدا نہیں ہوا ۔ اس کے لئے ضرورت ہوتی ہے زبردست عملی قوت کی ۔ اس آیت میں یہی بتایا گیا ہے کہ جو شخص آپ کے نفش قدم پر چلے گا ، صراط مستقیم پر گامزن رہے اور جو انکار کرتا ہے وہ جان لے کہ اس کی اپنی بدبختی ہے ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجبور نہیں کہ اس کو راہ راست پر لے آئیں اور یہ کہ آپ کی اطاعت براہ راست خدا کی اطاعت ہے ۔ النسآء
81 (ف ٣) طاعۃ بصورت رفع اس کے معنی یہ ہیں کہ اطاعت کا مکہ میں کوئی انقطاع وتجدد نہیں یعنی جب کہ منافق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہوتے ہیں ، اس وقت غیر مشروط اور غیر متغیر اطاعت کا یقین دلاتے ہیں اور جب الگ ہوتے ہیں اسلام کے خلاف حبل وتدابیر تلاش کرتے ہیں ، فرمایا آپ ان سے زیادہ تعرض نہ فرمائیں ، توکل رکھیں ، اللہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ناصر ووکیل ہے ۔ حل لغات : حسنۃ سیئۃ : نیکی اور برائی ، انعام اور مصیبت ۔ النسآء
82 (ف ١) اس آیت میں دعوت تدبر وتفکر ہے جو شخص قرآن حکیم پر دیانت داری کے ساتھ غور کرے گا ، ضرور ہے کہ اس کی عظمت وصداقت پر یقین لے آئے سب سے بڑی بات جو قرآن پاک کی معجزانہ دلیل ہے وہ اس کی وحدت ویکسائی ہے ۔ سارا قرآن پڑھ جاؤ ۔ اس میں ہزاروں نکات و معارف بیان کئے ہیں ، کہیں تضاد وتعارض کانام نہیں ، ایک دریا ہے جو برابر بہتا چلا جاتا ہے اور پڑھنے والے کو بہائے لئے جارہا ہے ، اسلوب بیان بھی بیسوں اختیار کئے ہیں مگر سب میں حیران کن بلاغت ہے کہیں زور کلام کم نہیں ہوتا ، توحید والہیات سے لے کر اخلاق ومعاشرت کے باریک اور نازک مسائل تک بیان کئے ہیں مگر کیا مجال ہے جو شگفتگی وپاکیزگی میں فرق آجائے ، وہی نزاہت وزور جو اس کا مخصوص خاصہ ہے ‘ ہر جگہ نمایاں ہے ۔ النسآء
83 پروپیگنڈا : (ف ٢) منافقین پروپیگنڈا کی مؤثریت سے خوف واقف تھے ۔ جب کبھی کوئی بات ان کے ہاتھ لگتی ، خوب پھیلاتے ، وہ چاہتے تھے کہ نشرواشاعت کا یہ طریق نہایت کارگر ہے ، چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کے اثرات کو تسلیم کیا ہے فرمایا (آیت) ” ولولا فضل اللہ علیکم ورحمتہ لاتبعتم الشیطن الا قلیلا “۔ یعنی اگر خدا کی رحمتیں مسلمانوں کے شامل حال نہ ہوتیں تو وہ بجز چند سمجھ دار انسانوں کے ضرور گمراہ ہوجاتے ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اکاذیب اراجیف کی اشاعت یکسر شیطانی فعل ہے ، اسلامی طریق اشاعت پروپیگنڈا کا مترادف نہیں ، حالانکہ اس کی وسعت دنیا کی تمام زبانوں سے زیادہ ہے ۔ حل لغات : حرص : مصدر تحریض ۔ آمادہ کرنا ۔ ابھارنا ۔ النسآء
84 النسآء
85 (ف ١) شفع ووتر جوڑا اور ایکائی کو کہتے ہیں شفاعت کے معنی ہیں کسی دوسرے کے ساتھ ہو کر کسی مسئلے کو طے کرنے کے ۔ آیت کا مقصد یہ ہے کہ اچھی باتوں کی طرف لوگوں کو مائل کرنا اچھی بات ہے اور برائی کی طرف دعوت دینا برا ہے یعنی جہاد کی ترغیب واشاعت از قبیل حسنات ہے اور وہ لوگ جو مسلمانوں کو کسل ودون ہمتی کی تعلیم دیتے ہیں ، مجرم ہیں ۔ النسآء
86 سلام : (ف ٢) تحیۃ کے معنی اصل میں کلمات دعائیہ کے ہیں جن مخاطب کی درازی عمر مقصود ہو ۔ اسلامی اصطلاح میں مراد اسلام علیکم کہنا ہے ۔ بات یہ ہے کہ جہاد میں بعض دفعہ مسلمان باوجود ” اسلام علیکم “ سننے کے مخاطب کو تلوار کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اس شبہ میں کہ یہ کہیں منافق نہ ہو ۔ قرآن حکیم نے فرمایا جو شخص تمہیں سلام کہے ، تمہارا فرض ہے کہ اسے مسلمان سمجھو اور اسے اس سے سے بہتر ہدیہ سلام پیش کرو ۔ یعنی مسلمان کو کسی حالت میں بھی زیبا نہیں کہ وہ سوء ظن سے کام لے اور خواہ مخواہ مسلمانوں کو کافر سمجھے ہر وہ شخص جو اسلام کا اظہار کرتا ہے ، مسلمان ہے ، باہمی ملاقات کے وقت یہ لفظ اسلام نے ایسا تجویز کیا ہے جو بےحد موزون ہے اور مشرقی لٹریچر کا جزو بن گیا ہے ، یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اسلام دنیا کا کامل ترین مذہب ہے ۔ النسآء
87 شغل تکفیر : (ف ٣) اس آیت کا ماقبل کے ساتھ ایک لطیف ربط ہے اور وہ یہ کہ سابقہ آیت میں شغل تکفیر سے منع کیا ہے اور کہا ہے کہ ہر وہ شخص جو ہدیہ سلام پیش کرتا ہے ، زائد از زائد عزت واکرام کا مستحق ہے تم مجاز نہیں کہ اسے غیر مسلم یا منافق سمجھو ۔ (آیت) ” اللہ لا الہ الا ھو “ ۔ کہہ کر اس مفہوم کی تائید فرمائی ہے یعنی جب خدا وہ ہے جس کی پرستش ضروری ہے اور جو غلام الغیوب ہے تو تمہیں کیا حق حاصل ہے کہ کسی کے باطن کے متعلق فیصلہ کرو اور خواہ مخواہ ناجائز بدظنی سے کام لو ، تم کسی کے خدا نہیں کہ جسے کافر کہہ دو ‘ کافر ہوجائے ، (آیت) ” لیجمعنکم الی یوم القیمۃ “ میں زجر وتوبیخ ہے ان لوگوں کے لئے جو خدائی اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں ۔ ظاہر ہے کفر واسلام کا صحیح اور سچا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے ، اس لئے تکفیر میں حتی الوسع محتاط سے رہنا چاہئے ۔ النسآء
88 منافق گمراہ ہیں : (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ منافق گمراہ ہیں اس لئے کہ ان کے نفاق کی شہادت خود خدا نے دی ہے ، ان کے متعلق مسلمانوں کو دوگونہ حکمت عملی سے کام لینا چاہئے یہ کھلے کافر ہیں ۔ البتہ فرق اسلام جو دیانت داری کے ساتھ جزئیات اسلام میں مختلف ہیں ‘ ان کی تکفیر وتفسیق درست نہیں ۔ اگر اصول ونصوص میں اتفاق ہے ، جزئیات کا اختلاف کوئی وزنی چیز نہیں ۔ ہاں وہ لوگ جو مسلمہ نصوص وحقائق کے متوازی الگ اصول واساس کو مانتے ہیں وہ ہرگز مسلمان نہیں ، اگرچہ ان کو دعوائے اسلام ہی کیوں نہ ہو ۔ النسآء
89 جہاد و ہجرت : (ف ٢) ان آیات میں بتایا ہے کہ ان کفار کی جو تم سے برسرپیکار ہیں ، خواہشات کیا ہیں ؟ یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں اپنی طرح کفر وظلمت کی وادیوں میں ٹامک ٹوٹیاں مارتے دیکھیں ایسے لوگ ہرگز کسی دوستی اور تعلق کا استحقاق نہیں رکھتے ، یہ اس قابل ہیں کہ ان سے کامل بیزاری کا اظہار کیا جائے ۔ ہجرت سے مراد ان آیات میں مخلصانہ اسلام کو قبول کرنا ہے اسلام و ہجرت باہم اس لئے لازم ہیں کہ قبول حق وحقانیت کے بعد باطل سے جنگ قطعی اور واجبی ہے ۔ وہ لوگ جو اسلام قبول کرکے بھی کفروشرک میں بھرے رہتے ہیں ، درحقیقت مسلمان نہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ” انا بری من کل مسلم اقام بین اظھر المشرکین “۔ مجبوری اور اضطرار دوسری بات ہے ، دل میں کفر کی خلاف زبردست غصہ وغضب موجود ہونا چاہئے یہی مطلب ہے اس حدیث کا کہ ” لاھجرۃ بعد الفتح ولکن جھاد “۔ یعنی فتح مکہ کے بعد ہجرت کا اب کوئی موقع نہیں ، مگر دل میں مجاہدانہ ولولے ضرور موجزن رہیں اور قصد وارادہ میں زور ہجرت باقی ہو ۔ مسلمان کسی حالت میں بھی جمود وتسفل کی زندگی پر قانع نہیں رہتا ، وہ مجسم بےچینی اور اضطراب ہے ۔ اس کے نزدیک اس نوع کی قناعت کفر ہے ، وہ یہ چاہتا ہے کہ پوری آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرے ، کفر اسے دیکھ دیکھ کر جلے ، شرک اس کے موخدانہ اقدامات سے کانپ اٹھے ۔ ظلمت وتاریکیاں اس کے نام سے کافور ہوجائیں ۔ یعنی اس کا وجود ہمہ قہر وغلبہ ہے ۔ وہ مقہور ہونا جانتا ہی نہیں ۔ ہوسکتا ہے بعض حالات کی موجودگی وہ ہاتھ میں تلوار نہ لے سکے ، مگر یہ ناممکن ہے کہ اس کا دل ظلم وتسلط کو برداشت کرلے ، وہ آزاد پیدا ہوتا ہے اور حاکم ومسلط رہ کر جیتا ہے ۔ النسآء
90 (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ مسلمان جہاں بہادر وغیور ہے وہاں منصف وروادار بھی ہے ، اس لئے وہ عہد وذمہ داری کی ہر رعایت کو ملحوظ رکھتا ہے اور کسی طرح بھی صلح جو انسانوں کو جنگ کی آگ میں نہیں ڈالتا ۔ حل لغات : حصرت صدورھم : یعنی وہ جو لڑتے ہچکچاتے ہیں ، حصر کے اصلی معنی رکنے کے ہیں ۔ السلم : صلح وصفائی ۔ النسآء
91 (ف ١) ان آیات میں ان لوگوں سے جنگ کی اجازت دی ہے جو بظاہر امن پسند ہیں مگر موقع پیدا ہونے پر ہمیشہ کفر کا ساتھ دیتے ہیں اور جانب داری سے باز نہیں آتے ایسے لوگ قطعی سزا کے مستحق ہیں ۔ النسآء
92 خون بہا : (ف ٢) (آیت) ” وماکان لمؤمن “۔ کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان کی شان کے شایان نہیں کہ اس کا ہاتھ کسی مسلمان پر اٹھے بھول چوک ہوجائے تو دوسری بات ہے ورنہ مسلمان ہرگز مسلمان پر ہاتھ نہیں اٹھاتا ۔ جہاں وہ کفرکے لئے صاعقہ جان سوز ہوتا ہے مسلمان کے لئے نسیم جاں فزا (آیت) ” اشدآء علی الکفار رحمآء بینھم “۔ اس کی ساری عداوتیں اور دشمنیاں کافروں اور منکروں کے لئے ہیں اور مسلمان کے لئے اس کا وجود رافت ورحمت ہے حتی الوسع وہ کوشش کرتا ہے کہ مسلمان کے ساتھ کوئی اختلاف پیدا نہ ہو ۔ قتل کی تین صورتیں ہیں (١) عمد (٢) شبہ عمد (٣) خطائ۔ عمد سے مراد یہ ہے کہ قصدا آلات قتل سے مارا جائے ۔ شبہ عمد سے مقصد یہ ہے کہ مادے تو قصدا مگر آلہ ضرب مقضی الی الموت نہ ہو ۔ خطاء سے مراد یہ ہے کہ بھول چوک سے قتل کیا جائے ، یہاں مراد خطاء ہے ۔ چونکہ خون بہرحال گراں قیمت ہے اس لئے اس کا ضیاع وفقدان کسی صورت میں بلا کفارے کے نہیں رکھا ۔ دیت تخمینا ڈھائی ہزار روپیہ ہے ۔ حل لغات : سلطان : دلیل حجت ۔ غلبہ ۔ تحریر : آزاد کرنا ، رقبۃ ۔ گردن یعنی وہ غلام جس کی گردن میں غلامی کا جوا پڑا ہے ۔ النسآء
93 خون مسلم کی گرانمائیگی : (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ خون مسلم اس قدر گرانمایہ ہے کہ اس کا ضیاع وسفک موجب علو ونار ہے یعنی بلاوجہ مشروح مسلمان کا قتل اتنا بڑا گناہ ہے کہ قابل عفو نہیں ، یہ اس لئے کہ مومن ومسلم دنیا میں حق کا علمبردار ہے ، خدا کی خلافت ونیابت اس سے وابستہ ہے ، وہ اس لئے زندہ ہے کہ خدا کے نام کو بلند کرے اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ دین فطرت کی خدمت واعلاء کے لئے خریدا جا چکا ہے ، اس کا ہر سانس خدائے ذوجلال کی صداقت وحقانیت کا اعلان ہے اور وہ بچپن سے لیکر بڑھاپے کے آخری وقت تک وقف ہے ، اس کا قتل خدا سے بغاوت ہے حق وصداقت میں جنگ ہے انسانیت عظمی کی توہین ہے اور حقوق الہیہ میں زبردست خیانت ۔ النسآء
94 (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ جہاد کے سلسلہ میں بعض دفعہ ایسے لوگ مل جاتے ہیں جن کو تم نہیں جانتے اور وہ السلام علیکم کہتے ہیں اور تم مال غنیمت کی ہوس میں انہیں کافر سمجھ کر قتل کردیتے ہو یہ درست نہیں ، مسلمان کے متعلق پوری احتیاط چاہئے خوب دیکھ بھال لو کہ کوئی شخص تمہاری بدظنی کا شکار نہ ہوجائے تھوڑی سی غفلت میں ایک مسلمان کا خون نہ بہہ جائے ۔ (آیت) ” فتبینوا “ میں ایک باریک نکتہ بھی مضمر ہے کہ بدظنی بری چیز ہے مگر حسن ظن کے معنی کا مل اطمینان کے نہیں باوجود مشرک آدمی کو مسلمان سمجھنے کے تحقیقات وتجسس جاری رکھو ۔ حل لغات : توبۃ من اللہ : یہاں توبہ سے مراد تخفیف ہے ۔ عرض : سامان ۔ مغانم : غنیمتیں ۔ النسآء
95 (ف ١) پیشتر آیات میں قتل خطاء وعمد کی برائی بیان فرمائی تھی ، اس کے بعد جہاد کے لئے سفر کا تذکرہ ہے ان آیات میں براہ راست مجاہد کے فضائل کا احصار ہے ۔ مجاہد کے معنی جدوجہد اور کوشش کے ہیں قرآن حکیم کی اصطلاح میں ضعف واضحلال کے خلاف مؤثر احتجاج کانام جہاد ہے یعنی وہ لوگ مجاہد ہیں جو قوم میں قوت اور رفعت پیدا کرنے کے لئے لڑتے ہیں ۔ قائدین کی جماعت وہ ہے جو عافیت کوش ہیں جن کے دل میں ضعف اور بےبسی کے خلاف کوئی جذبہ نفرت نہیں ، ظاہر ہے پرجوش مجاہدین کے مقابلہ میں کاہل اور کم ہمت بزدل کوئی حیثیت نہیں رکھتے ، ان آیات میں اسی حقیقت جان بخش کا اظہار ہے کہ خدائے قوی وتوانا نے باہمت اور بہادر انسانوں کو بےغیرت اور بےحس لوگوں پر ترجیح دی ہے اور آخرت وعقبی کی زندگی میں ان لوگوں کے درجات وفضائل کے بےشمار انواع ہیں ۔ (آیت) ” اولی الضرر “ سے مراد وہ معذور لوگ ہیں جو جہاد میں شریک نہیں ہو سکتے ۔ (آیت) ” اذا نصحوا للہ ورسلہ “۔ کی شرط کے ساتھ اتفاق رکھتے ہیں یعنی ان کے دل میں خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بےپناہ اخلاص ہے ، ایسے لوگ مجاہدین کے ساتھ برابر کے شریک ہیں ، انہیں بھی مجاہدین کا سا درجہ ملے گا ۔ حل لغات : من : احسان وامتنان فرمانا ۔ النسآء
96 النسآء
97 غلامی عذاب ہے : (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ غلامی وبے بسی اللہ کا عذاب ہے اور وہ لوگ سخت ظالم ہیں جو حریت وآزادی جیسی نعمت سے محروم ہیں ، یہ وہ بخشش ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو عطا کر رکھی ہے ، فرشتے موت کا پیغام لاتے وقت ایسے لوگوں سے پوچھیں گے بتاؤ تم نے اس ضعف وبے بسی کے خلاف جہاد کیوں نہ کیا ؟ اور تم کیوں آزاد مطلق العنان ہو کر نہ رہے ؟ وہ کہیں گے ، ہمارے پاس جرات وجسارت نہ تھی ہم ایسے ملک میں رہتے تھے جہاں رہ کر مقابلہ ناممکن تھا ، فرشتوں کا یہ جواب ہوگا کیا خدا کی ساری زمین تمہارے ارادوں کی تکمیل کے لئے ناکافی تھی ؟ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ تم اس ملک وقوم کو چھوڑ دیتے جو تمہیں غلام رکھے ہوئے ہے اور وہاں جا بستے جہاں آزادی کے ساتھ تم اعلاء کلمۃ اللہ کے فریضے کو ادا کرسکتے ۔ بات یہ ہے کہ اسلام ایک زندہ وکامل نظام عمل اپنے ساتھ لایا ہے اور اس وقت تک اس کی برکات سے پوری طرح متمتع نہیں ہوا جا سکتا جب تک اس کے لئے آزاد فضا نہ پیدا کردی جائے ، اس لئے جہاد خارجی یا غیر متعلق مسئلہ نہیں بلکہ اسلامی نشوا اور تبلیغ واشاعت کے لئے اساس واصل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ النسآء
98 غیر مستطیع کون ہیں ؟ (ف ٢) ہجرت سے وہ لوگ معذور سمجھے جا سکتے ہیں جو غیر مستطیع ہوں یعنی ہجرت کے لئے کوئی حیلہ وامکان ان کے بس میں نہ ہو اور کاملا انکی باغ ڈور دوسروں کے ہاتھ میں ہو یا وہ جسمانی طور اس قابل نہ ہوں کہ ہجرت کرسکیں ، مگر جسمانی ضعف واضمحلال کا معیار کیا ہے ، اس کا اندازہ ذیل کے واقعہ سے کیجئے : حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ میں بچے کھچے لوگوں کو پیغام ہجرت بھیجا اور کہا تم مکہ چھوڑ دو ، یہ آیات ہجرت ان تک پہنچیں ، جندب بن حمزہ (رض) جو شیخ فانی تھے شوق ہجرت میں بےتاب ہوگئے ، کہنے لگو ، بچو ، مجھے چارپائی پر لاد کر مدینے لے چلو ، میں غیر مستطیع ہوں ۔ بوڑھے صحابی کا یہ ولولہ ایمان کیا ہمارے نوجوانوں کو نہ شرمائے گا ؟ النسآء
99 النسآء
100 (ف ١) مراغم کا اشتقاق رغم سے ہے جس کے معنی خاک آلودہ کرنے کے ہیں ۔ علی رغم الف فلاں کا محاورہ اسی سے ماخوذ ہے ، یعنی مہاجرین جب ظلم واستبداد کے خلاف اجتجاج کرتے ہوئے ملک چھوڑ دیں گے تو انہیں ایسی جگہیں مل جائیں گی جو دشمنوں کی پائمالی اور تحقیر کا باعث بنیں گی اور جس کی وجہ سے ظالم وسرکش کا تمام کبر وغرور خاک میں مل جائے گا ۔ ہجرت کے معنی جہاں یہ ہیں کہ بطور احتجاج کے ظالم ومستبد حکومت کا ملک چھوڑ دیاجائے ، وہاں یہ بھی ہیں کہ مسلمان نہایت شریف النفس اور آزاد قوم ہے ضمیر ومذہب کی غلامی اس کے نزدیک بدترین گناہ ہے مسلمان اجنبی ممالک میں رہ کر تکلیف وتنگ دستی کے مصائب کو برداشت کرسکتا ہے مگر ایک لمحہ کی غلامی اس کے لئے ناقابل برداشت ہے ۔ (آیت) ” فقد وقع اجرہ علی اللہ “۔ سے مراد یہ ہے کہ اصل میں جہاد و ہجرت کا تعلق قلب ودماغ کی بےچینی سے ہے ، وہ لوگ جو احساسات وخیالات میں کفر کے لئے سخت اضطراب ونفرت پنہاں رکھتے ہیں وہ مجاہد ہیں گو حالات انہیں منزل مقصود تک پہنچنے کی اجازت نہ دیں ۔ حل لغات : عفو ۔ بدرجہ قصوی معاف کرنے والا ۔ مراغما : ایسی جگہ جو دشمنوں کے لئے باعث توہین وتحقیر ثابت ہو ۔ النسآء
101 فلسفہ صلوۃ خوف : (ف ١) ان آیات میں صلوۃ خوف کا ذکر ہے کہ جب میدان جنگ ہو ، دشمن کی طرف سے زبردست خطرہ ہو تو اس وقت فریضہ نماز کس طرح ادا کیا جائے ؟ مقصد یہ ہے کہ جنگ وجہاد مقصود بالذات نہیں ، دین کا اصل واساس عبادت ونیاز مندی ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ نماز وعبادت کو بہرحال محفوظ رکھا جائے ، جہاد تو اس لئے ہے کہ مسلمان کو خدا کی عبادت کا آزادانہ حق ہو ۔ یعنی مسلمان میدان جنگ میں نماز پڑھ کر یہ ثابت کردیتا ہے کہ وہ بجز خدائے قہار کے اور کسی کے سامنے نہیں جھکتا اور کوئی جنگ اور لڑائی اسے غیر اللہ کی پرستش پر مجبور نہیں کرسکتی ۔ صلوۃ خوف کا فلسفہ یہ بھی ہے کہ مسلمان عین اس وقت جب حیوانی قوتیں بزور ہوتی ہیں اور جب دونوں طرف غیظ وغضب کے شعلے اٹھے ہوئے ہوتے ہیں ، اتنا خدا پرست اور حق وانصاف کے سامنے جھک جانے والا ہوتا ہے کہ ” نماز “ کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ۔ اس کا دل ان حالات میں بھی ملکی قوتوں سے معمور ہوتا ہے ۔ جس مذہب میں تلوار کے سایہ میں بھی شوق عبادت کی تکمیل ضروری ہو ، کیا وہ مادی وحیوانی مذہب ہو سکتا ہے ؟ حل لغات : طائفۃ : گروہ ۔ النسآء
102 مسلح رہو !: (ف ١) (آیت) ” وخذواحذرکم “۔ میں یہ بتایا ہے کہ بجز عذر کے ہر وقت تمہیں مسلح رہنا چاہئے تاکہ سپاہیانہ زندگی میں ہر وقت محسوس کی جائے ۔ مطلقا سفر میں بھی قصر درست ہے ، ان اور اذا کی قیود واظہار واقعہ کے لئے ہیں ، تحدید حکم کے لئے نہیں ، سفر کی حد میں اختلاف ہے ، حضرت عمر (رض) کے نزدیک پورے دن کا سفر ، سفر ہے امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں ‘ دن اور رات دونوں ہوں تو سفر کا اطلاق ہوگا انس بن مالک (رض) کہتے ہیں پانچ فرسخ کا اعتبار ہے ، حضرت امام حسین (رض) کا ارشاد ہے دو راتیں ہونا چاہئیں ۔ شعبی ، نخعی اور سعید بن جبیر (رض) کا قول ہے ۔ کوفہ سے مدائن تک کا فاصلہ سفر ہے یعنی تقریبا تین دن کا سفر ۔ غرضے کہ سفر کی تعریف میں اختلاف صاف صاف بتا رہا ہے کہ ان بزرگوں کے سامنے کوئی متفقہ فیصلہ نہیں جو جس نے عرف سفر کا مطلب سمجھا کہہ دیا ، بات بھی یہی ہے ۔ اصل میں اعتبار صرف عرف کا حاصل ہے ۔ النسآء
103 نماز فرض موقوت ہے : (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ نماز فرض موقوت ہے ، اس کا مقصد باوقت احساس فرائض ہے اور جب ہی حاصل ہوتا ہے جب پوری پابندی کے ساتھ نماز ادا کی جائے ۔ النسآء
104 ولا تھنوا : (ف ١) مقصد یہ ہے کہ مسلمان جہاد وجنگ میں دلیر اور بہادر ثابت ہو ، اس لئے کہ اس کے سامنے جو نصب العین ہے ‘ وہ زیادہ بلند اور پاکیزہ ہے ۔ کفار دنیائے دوں کے لئے لڑتے ہیں اور مسلمان اعلاء حق کے لئے ۔ مسلمان کے سامنے توقعات ویقین کا انبار ہے اور کافر عقبی کی جانب یکسر مایوس ۔ النسآء
105 قرآن حقائق محسوسہ کا نام ہے : (ف ٢) (آیت) ” انا انزلنا الیک الکتب بالحق “ کے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ افق اعلی سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب اقدس پر نازل ہوا ہے وہ حق یعنی قطعی صلت وصفا سے حالات وظروف کے بالکل مطابق ہے ، علوم ومحسوسات کے موافق ہے اور کوئی چیز اس میں غیر موزوں اور غیر متناسب نہیں ۔ (آیت) ” بما ارک اللہ “ ۔ سے مراد یہ ہے ‘ یہ قرآن حتما وسعت ومشاہدہ کے ہم پلہ ہے ، اس کی قطعیت میں کوئی احتمال شک وشبہ نہیں ، یہ محسوس حقیقت ہے جس کی تجلیات قلب اطہر پر جلوہ کناں ہیں ۔ (آیت) ” ولا تکن للخآئنین خصیما “۔ اور اس قبیل کی تمام آیات جو اس کے بعد مذکور ہیں ، منصب نبوت کی توضیح کے لئے ہیں یعنی بتانا یہ مقصود ہے کہ نبی دنیا میں سچا حکم ہو کر آتا ہے اس سے غدر وخیانت کی توقعات اس کے منصب کی توہین ہے وہ ہر وقت جانب باری سے طالب عفو وبرکات رہتا ہے ، وہ کبھی خائن اور جھوٹے گروہ کی حمایت نہیں کرتا ، مگر انداز بیان اس نوع کا اختیار ہے جس سے وہ لوگ جو قرآن کے اسالیب بیان کی حکمتوں اور لطافتوں سے واقف نہیں ‘ بدظن ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں دیکھئے آپ کے پیغمبر معصوم نہیں ۔ قرآن حکیم آپ کو استغفار دے رہا ہے وہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ عصمت ومحفوظیت تو شرط اول ہے ۔ کسی بشر کا عہدہ نبوت پر سرفراز ہونا اس کے معنی ہی یہ ہیں کہ اب وہ لوگوں کو گناہوں سے پاک کرے گا اور معصوم بنائے گا (آیت) ” ویزکیھم “۔ کے عمل تطہیر سے دلوں کی پاکیزگی اور نیکی سے معمور کر دے گا ، اس لئے خود اس کے متعلق عصمت کا درجہ ثابت کرنا ایسا ہی ہے جیسے خدا کے لئے کامل علم وحکمت یا توحید : تفرید ۔ کیونکہ خدا تو کہتے ہی اس ذات والا صفات کو ہیں جو علیم وحکیم ہو اور جس کا کوئی شریک نہ ہو ۔ نبی کا اشتقاق نبوۃ سے ہے جس کے معنی رفعت اور بلندی کے ہیں ۔ یعنی وہ انسان جو عام انسانوں سے بہت بلند وارفع ہے ۔ اصل میں ان آیات میں ایک خاص واقع کی طرف اشارہ ہے ۔ طعمہ ایک شخص تھا جس نے ایک زرہ چرائی اور کہا کہ یہودی نے چرائی ہے اور مسلمانوں کی ایک جماعت کو آمادہ کرلیا کہ وہ اس کی برات کا اظہار کریں اور یہودی کو متہم ٹھہرائیں ۔ یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچی ، آپ متاتل رہے تاآنکہ یہ آیات نازل ہوئیں جس سے طعمہ اور اس کے گروہ کو کامل مایوسی ہوئی ۔ النسآء
106 النسآء
107 النسآء
108 النسآء
109 النسآء
110 (ف ١) اس آیت میں ترغیب استغفار ہے یعنی ہر گناہ بارگاہ عفو میں قابل بخشش ہے ، ضرورت صرف اقدام توبہ کی ہے ، ایک دفعہ گناہوں سے نفرت ہوجائے اور نیکی کے لئے مضبوط عہد کرلے پھر فکر تعزیر نہیں ، خدا غفور اور رحیم ہے ۔ حل لغات : خصیم : جھگڑالو ۔ جھگڑا کرنے والا ۔ یختانون : مصدر اختیان ۔ خیانت کرنا ، نقصان پہنچانا ۔ خوان : بہت خیانت کرنے والا ۔ اثیم : مجرم ۔ النسآء
111 گناہ کی حقیقت : (ف ١) اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ گناہ چونکہ ذات باری سے متعلق نہیں اور اس کا نقصان صرف انسان کی اپنی ذات تک محدود ہے ‘ اس لئے تلافی ناممکن ہے ، یہ غلط عقیدہ ہے کہ گناہ بہرحال قابل تعزیر ہے اور خدا گناہوں کو بوجہ عادل ومنصف ہونے کے بخش نہیں سکتا ، اس طرح کے عقیدے سے ایک طرف تو کامل مایوسی پیدا ہوتی ہے اور دوسری جانب خدا کی توہین لازم آتی ہے ، کیونکہ وہ قادر ومختار کریم ہر وقت ہمارے گناہوں پر خط تنسیخ کھینچ سکتا ہے ، اس کا رحم وکرم ہر آن اسے بخشش وعفو پر آمادہ کرتا رہتا ہے ۔ اس کی ادنی توجہ ہمارے دفتر عصیاں کو پاکیزہ کرسکتی ہے ، اس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ” قانون عدل وانصاف “ کی قوت اس سے زیادہ بڑی ہے ، حالانکہ عدل وانصاف کا مطلب محض خدا کا حکم وارادہ ہے جو کہہ دے وہ انصاف ہے اور جو کر دے وہ عدل ۔ کوئی قانون وضابطہ ایسا نہیں جسے وہ ماننے کے لئے مجبور ہو ۔ وہ بےنیاز ومتعال ہے ، وہ متعنن اور قانون ساز ہے اور کوئی بات ایسی نہیں جو اس کی ذات عالیہ سے بالا ہو ۔ النسآء
112 (ف ٢) اس آیت میں اتہام کے متعلق فرمایا ہے کہ کھلا گناہ ہے ۔ النسآء
113 (ف ٣) مقصد یہ ہے کہ طعمہ اور اس کی جماعت چاہتی یہ تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خائن لوگوں کی حمایت کریں اور یہودی کو محض اس لئے کہ وہ یہودی ہے ‘ مجرم قرار دیں ، مگر اس لئے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی والہام اور تعلیم واکتشاف کی نعمتوں سے بہرہ وافر رکھتے تھے ، ان کے فریب سراسر پاک دامن رہے ۔ حل لغات : یرم : باب رمی یرمی ، مصدر رمی ، معنی پھینکنا ۔ ڈالنا ۔ نجوی : سرگوشی ۔ کاناپھوسی ۔ النسآء
114 (ف ١) اس آیت میں منافقانہ سرگرمیوں سے روکا ہے منافقین کا قاعدہ یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ حیلے اور تدبیریں سوچتے رہتے ، قرآن حکیم نے فرمایا کوئی اہم نیکی کی بات ہو تو اس کے اخفا میں مضائقہ نہیں اور نہ عام سرگوشیاں اور کانا پھوسیاں ممنوع ہیں ۔ النسآء
115 الحاد : (ف ٢) طعمہ بن ایبرق نے جب دیکھا کہ قرآن حکیم نے ہماری چالوں کو واشگاف طور پر بیان کردیا ہے کہ تو مرتد ہوگیا اور مکہ میں جا کر مر گیا ، ایسے لوگوں کے متعلق ارشاد ہے کہ یہ وہ ہیں جو ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد پھر بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرتے ہیں ۔ آیت کا عام مفہوم یہ ہے کہ قرآن حکیم اور رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ہدایت ورشد کے تمام طریق واضح ہوجاتے ہیں ، اس لئے لازم ہے کہ ہر شخص کتاب وسنت کے مستحکم اصول سے تمسک اختیار کرے اور اس سلسلے میں جمہور مسلمانوں کے خلاف الگ عقائد وآراء نہ رکھے ۔ (آیت) ” غیر سبیل المومنین “۔ سے مراد مسلمانوں کے متفقہ اور متحدہ نظام عقائد وعمل کے خلاف الگ راستہ تجویز کرنا ہے بلاشبہ مسلمانوں کی روش عام کے متضاد متوازی عقائد الحاد وزندقہ کے مترادف ہیں جن سے منع کیا گیا ہے ۔ النسآء
116 غیر مغفور گناہ : (ف ٣) اس آیت میں واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ شرک ناقابل عفو گناہ ہے کیونکہ اس سے زیادہ گمراہ کن جاذب ادہام اور کوئی عقیدہ نہیں ، فطرت انسان کو اللہ تعالیٰ نے اتنا پاکیزہ اور بلند پیدا کیا ہے کہ وہ کسی طرح بھی شرک جیسی ذلت کو برداشت نہیں کرسکتی ۔ حل لغات : مرضات اللہ : خدا کی رضا مندیاں ۔ النسآء
117 (ف ١) جہالت کی حد کہ پوجتے بھی ہیں تو اناث کو ، جیسے لات ‘ عزے ، منات یعنی ذہنی پستی کی یہ آخری مثال ہے کہ شرک نے انکے دماغوں کو ماؤف کردیا ہے اب انہیں دیویاں بھی خدا نظر آتی ہیں ۔ حالانکہ خدا کے لئے غلبہ وقوت ایسے خصائل ہیں جو بدیہی ہیں ۔ اناث کے معنی بعض لوگوں نے بتوں کے بھی لئے ۔ قال الحسن لم یکن حتی من احیاء العرب الاولھم صنم یبدونہ ولسمونہ اثنی بن فلان ۔ حضرت عائشہ (رض) کی قرات میں اوثانا بھی آیا ہے ، مگر صحیح وہی معنی ہیں جو قرات متواترہ میں مذکور ہیں ، ہوسکتا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) وحضرت حسن (رض) نے اوثانا کو بطور تشریح معنی کے لکھا ہو ۔ النسآء
118 النسآء
119 (ف ٢) ان آیات میں شیطان کے کام بتائے ہیں کہ وہ گمراہی کے کیا کیا وسائل اختیار کرتا ہے ۔ کہیں جھوٹی امیدیں دلاتا ہے ۔ کہیں تبرک وقربانی کے لئے جانوروں کے کان ، ناک چھدواتا ہے کہیں تغیر خلق وتبدیل فطرت پر آمادہ کرتا ہے ۔ فرمایا کہ ایسے لوگ جو اس کے جھانسے میں آگئے ہیں صریح گھاٹے میں ہیں اور ان کے لئے قیامت کے دن جہنم ٹھکانا ہے ۔ حل لغات : اناث : جمع انثی ۔ مادہ عورت ۔ مرید : سرکش ۔ یبتکن : کان کاٹ دینا مشرکین مکہ کا قاعدہ تھا کہ جب اونٹنی پانچ بچے دے اور پانچواں بچہ نر ہو تو وہ اس کا کان چیر دیتے تھے اور اسے عزت وحرمت کے قابل سمجھتے تھے اس پر سوار نہ ہوتے تھے ، اس لفظ سے اسی رسم کی طرف اشارہ ہے ۔ النسآء
120 النسآء
121 النسآء
122 النسآء
123 معیار نجات : (ف ١) اسلام اور دیگر مذاہب کے تصور نجات میں بڑا فرق ہے ، سب مذاہب میں نجات کہتے ہیں ‘ روحانی مسرت اور عقبی کی کامیابی کو مگر اسلام کے نزدیک نجات ایک ارتقائی صورت فلاح کا نام ہے جس میں ولادت سے لے کر موت کی آغوش تک کا سامان آسائش پہناں ہے وہ مذہب جو عقبی کی بخششوں کا تو ذمہ دار ہے ، مگر دنیا کی کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگاتا ‘ وہ غلط ہے ، اسلام کہتا ہے ، تمہاری نجات اسی دنیا سے شروع ہوتی ہے ، جو یہاں خوش ہے اس کے لئے آسمانوں میں بھی مسرت بےپایاں کے سامان موجود ہیں اور جو یہاں مطمئن نہیں اس میں قطعا استعداد نہیں کہ وہ آخری کی نعمت ہائے جادوانی سے بہرہ وافر حاسل کرسکے ۔ یہ وجہ ہے کہ اسلام جب نجات وکامیابی کی دعوت دیتا ہے تو صرف عقائد واعتراف پر زور نہیں دیتا ، بلکہ عمل صالح اس کے نزدیک بمنزلہ اساس واصل کے ہے ، اس لئے یہی ایک طریق ہے جو بالکل منطقی اور واضح ہے بغیر عمل صالح کے نجات ایسے ہی ناممکن ہے جیسے بغیر وسائل طبعی کے کامیابی (آیت) ” لیس بامانیکم ولا امانی اھل الکتب “۔ کہہ کر گویا ہر نوع کے غرور مذہبی ونسبی کا خاتمہ کردیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ کدا کی پیش گاہ عدوانصاف میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں ۔ (آیت) ” من یعمل کی تعمیم کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسلام عورت ومرد میں کوئی امتیاز نہیں کرتا ، دونوں روحانیت وسلوک کے بلند ترین مدارج تک پہنچ سکتے ہیں اور دونوں اس قابل ہیں کہ زہد وعرفان کے انتہائی زینوں پر چڑھ جائیں دونوں کی روح پاک ہے ، دونوں میں یکساں استعداد عمل ہے ۔ حل لغات : محیص : جائے فرار امانی : جمع امنیہ ۔ خواہش دل ۔ آرزو ۔ النسآء
124 النسآء
125 اچھا دین : (ف ١) اسلام کے معنی پوری توجہ اور پورے التفات کے ساتھ بارگاہ جلال میں جھک جانے کے ہیں ۔ اس کے سارے احکام پورا نظام عمل ‘ اطاعت وتسلیم کا مرقع ہے ۔ اس کی تعلیمات کا مقصد وعطر اسوہ ابراہیم (علیہ السلام) کی اشاعت ہے یعنی تمام خواہشات نام ونمود کو پس پشت ڈال کر کفر وطاغوت کی بھٹی میں جلنا ، ایمان وتوحید کے قیام دین کے سلسلہ میں ہر مصیبت وابتلاء کو برداشت کرنا ، نمرود سے لڑجانا اور ناروا التہاب سے کھیل جانا ، ملت ابراہیمی نام ہے سرفروشی وجانبازی کا ‘ ایثار وخلوص کا ، توحید ومعرفت کی مئے آتشین کے جامہائے لبالب کا ۔ پس وہدین جو ہمہ جہاد وحریت ہو ، وہ ملت جو جانبازوں اور جانثاروں کا عظیم گروہ ہو ‘ اس قابل ہے کہ شائستہ تسلیم ہو ۔ کیا اسلام کے سوا کوئی اور دین ایسا اچھا دین ہے اور کیا ملت ابراہیم (علیہ السلام) کے علاوہ کہیں مجاہدوں اور مخلصوں کا کوئی اور گروہ تمہیں نظر آتا ہے جو خدا کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دے ۔ النسآء
126 النسآء
127 (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ عورتوں اور یتیم بچوں کے ساتھ برا سلوک اس بات کا متقاضی ہے کہ خاص ہدایات نازل کی جائیں جس میں مسلمانوں کو حسن معاشرت کا درس دیا جائے ۔ یہ ضروری نہیں کہ جہاں قرآن حکیم میں استفتاء یا سوال کا ذکر ہے وہاں درحقیقت سائلین کی ایک جماعت بھی موجود ہے یہ قرآن حکیم کا طرز بیان ہے کہ وہ سوال طلب حالات کو استفتاء سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ طبیعتوں میں چونکہ تشویش استفسار کی بین علامتیں موجود ہیں اس لئے اس کا جواب یہ ہے ۔ (آیت) ” یستفتونک “۔ سے مراد یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام بجائے خود حجت وسند ہوتے ہیں اور ان کی یہ حیثیت اس قدر واضح ہے کہ غیر مسلم تک معترف ہیں ۔ (ف ١) عرب نہایت حریص وطمع تھے یتامی کی تربیت محض اس لئے اپنے ذمہ لیتے تاکہ ان کے مال ودلوت سے ناجائز فائدہ اٹھایا جائے اور اس کی کئی صورتیں تھیں (آیت) ” وان تقوموا لیتمی بالقسط “۔ کہہ کر عدل وانصاف پر آمادہ کیا ہے (آیت) ” وما تفعلوا من خیر “۔ میں یہ بتایا ہے کہ تمہیں تو یتیم بچوں اور بچیوں سے عدل وانصاف کے علاوہ حسن سلوک اختیار کرنا چاہئے تھا ، نہ کہ جوروستم ڈھانے لگو ۔ حل لغات : نقیر : حقیر ترین ۔ ذرہ برابر ۔ خلیل : دوست ۔ النسآء
128 (ف ٢) مرد و عورت میں بعض اوقات شکر رنجی ہوجاتی ہے اور عدم التفات کے باعث وہ خوف ناک نتائج پر منتج ہوتی ہے ، قرآن حکیم جو فلسفہ تدبیر منزل کو بالخصوص اہمیت ووضاحت سے بیان کرتا ہے اس باب میں یہ ہدایت دیتا ہے (آیت) ” ان یصلحا بینھما “۔ کہ دونوں صلح ومحبت کی فضا پیدا کرنے میں ایک دوسرے کے ممد ومعاون ہوں ۔ قرآن کے پیش نظریہ حقیقت نفسی بھی ہے کہ بالطبع لوگ ذات وبخل میں زیادہ رغبت رکھتے ہیں یعنی اپنے حقوق سے دست بردار ہونے کے لئے قطعا تیار نہیں ، اس لئے اس کا ارشاد یہ ہے کہ احسان واقعتا اختیار کریں اور دونوں ایثار وخلوص سے کام لیں ۔ یہ واقعہ ہے کہ میاں بیوی دونوں اگر اپنے حقوق سے زیادہ فرائض کی تکمیل پر زور دیں تو کبھی اختلاف پیدا نہ ہو ۔ حل لغات : نشوز : عورت کا خاوند سے موافقت نہ کرنا ۔ الشح : بخل حرص آز ۔ النسآء
129 ممکن عدل : (ف ١) آیت نشوز کے بعد تعدد ازدواج کا ذکر اس بات کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ یہ بجائے خود اختلاف اور عداوت کا باعث ہے ، اس لئے بجز مخصوص حالات کے کسی معمولی قوت ونفوذ کے آدمی کو تعدد وازدواج کی جرات نہ ہونی چاہئے ۔ (آیت) ” ولن تستطیعوا “۔ کے معنی یہ ہیں کہ حقیقی عدل ممکن نہیں جس کا تعلق جذبات سے ہجے ، اس لئے کہ دنای کا سب سے بڑا انسان جو اسوہ جمیل کے ساتھ نوازا گیا ہے ، ان الفاظ میں معذرت خواہ ہے ” ھذا قسمی فبما املک والت اعلم بما لا املک “۔ یعنی اے خدا جہاں میرے امکان میں ہے میں انصاف وعدل کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا مگر بعض منزلیں ایسی بھی ہیں جہاں مساوات قطعا ناممکن ہے ۔ (آیت) ” فلا تمیلوا کل المیل “۔ کہہ کر امکانی حدود کی توضیح فرما دی ہے کہ ایک بیوی پرایسا نہ ریجھ جاؤ کہ دوسری بالکل ہی فراموش ہوجائے ، جن لوگوں نے تعدد ازدواج کی ممانعت اس آیت سے سمجھی ہے وہ غلطی پر ہیں آیت کا انداز بیان صاف طور پر اسے ایک حقیقت مسلمہ قرار دیتا ہے ۔ النسآء
130 (ف ٢) اختلاف جب حد سے بڑھ جائے تو مناسب یہی ہے کہ دونوں ہوجائیں اور پوری بےنیازی سے اپنے اپنے مصالح کے ماتحت زندگی بسرکریں ۔ اس آیت میں اسی حکیمانہ اصول کی وضاحت ہے ۔ حل لغات : وصینا : مادہ وصیۃ ، تاکید اکید ۔ النسآء
131 وصیت کبری : (ف ١) قرآن حکیم اور دوسری مذہبی کتابوں میں سب سے بڑا پیغام تقوی وصلاح کا پیغام ہے یعنی قلب وباطن کی تنویر وتطہیر ۔ ان آیات میں اسی وصیت کبری کی طرف توجہ مبذول کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اللہ سے عشق وخشیت کے تعلقات استوار کرلو ۔ ورنہ جان لو کہ اس کی شان بےنیازی تمہارے کفر وفسق کو زیادہ دیر گوارار نہ کرے گی ۔ وہ چشم زدن میں بڑے بڑے فرعونوں کو قلزم میں بہا دیتا ہے اس کی ادنی جنبش عقاب بستیوں کی بستیاں الٹ دیتی ہے ، عادوثمود کے شہر اور بابل ونینوا کے خوش سواد دیہات آج کہاں ہیں ؟ اس کا کوئی کنبہ نہیں اس کی ذات لم لید کسی قوم وملت سے تعلق خاص نہیں رکھتی ، وہ رب العالمین ہے ، اس کی ربوبیت اسی سے متعلق ہے جن کو باقی رہنے کی صلاحت واستعداد ہے اور وہ جو سرکش اور نافرمانہیں ‘ ہرگز زندہ رہنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ النسآء
132 (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ خدا کے خزانوں میں دین وعقبی کی نعمتوں سے بہرہ کثیر ہے ، مبارک ہیں وہ لوگ جو اپنے نصب العین کو بلند رکھتے ہیں اور جن کی نظریں زمین کی بستی سے گزر کر آسمانوں کی بلندیوں کا جائزہ لیتی ہیں یعنی وہ جو دنیا کی سعادتوں اور مسرتوں کو اپنا مقصود نظر نہیں بناتے بلکہ اخری کی روحانی کیفیتیں ان کا حاصل ہیں ۔ حل لغات : قومین بالقسط : تابحد مبالغہ ۔ انصاف کا حامی ۔ النسآء
133 النسآء
134 النسآء
135 (ف ١) ان آیات میں مسلمان کو ہر حالت میں منصف وعادل رہنے کی تلقین کی ہے ۔ یہ بالکل آسان ہے کہ ہم دوسروں کے معاملات میں حکیم بن جائیں اور عدل وانصاف کے تقاضوں سے ان کا ناک میں دم کردیں مشکل یہ ہے کہ جب سچ بولنے سے اپنے نفس پر زد پڑتی ہو اور اپنے اعزا واقرباء مصائب سے دو چار ہوتے نظر آتے ہوں ‘ اس وقت عادل رہیں اور سچی شہادت دیں ۔ قرآن حکیم نے مسلمان کا جو تخیل پیش کیا ہے ‘ وہ اتنا پاکیزہ اور بلند ہے کہ بےاختیار بلائیں لینے کو جی چاہتا ہے ۔ یعنی قوام بالقسل پیکر عدل وانصاف ، سچائی کے لئے اپنے آپ کو خطرات میں ڈالنے والا ۔ النسآء
136 دعوت تجدید : (ف ٢) ایمان کے کئی درجے اور مقام ہیں سرسری ایمان یہ ہے کہ اسلامی نظام عقائد وعمل کو مان لیاجائے ، ایثار وخلوص شرط نہیں ، اس حالت میں اس نوع کے لوگ سیاسی اعتبار سے مسلمان ہی شمار کئے جائیں گے ، مگر حقیقی اور واقعی ایمان یہ ہے کہ دلوں میں یقین وثبات کہر با دوڑ جائے اور مسلمان درد واضطراب کا مرقع بن جائے ، اس کے ہر بن ومو سے اسلامی شان وشوکت کے فوارے پھوٹیں ، اس آیت کا یہی مقصود ہے کہ مسلمانو ! قشر اور چھلکے کو چھوڑ کر حقیقت ومغز کو پہچانو ! اجمال وابہام سے نکل کر تفصیل وتشریح کی روشنی میں اپنے ایمان کا جائزہ لو اور دیکھو کیا واقعی اللہ کی تمام کتابوں پر تمہارا یمان ہے ؟ اور کیا تم اس کے تمام پیغمبروں کو برابر مانتے ہو ؟ اور کیا آخرت کے لئے تم نے کوئی تیاری کر رکھی ہے ؟ اگر ان میں سے کسی ایک صداقت کا بھی انکار ہے تو جان لو کہ یہ بدترین گمراہی ہے ۔ النسآء
137 النسآء
138 النسآء
139 (ف ١) اس قسم کے لوگ منافق ہیں ، ان کے تعلقات ہمیشہ کفار سے رہتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ وہ دورخی حکمت عملی سے فریقین میں مقبول ومعزز رہیں ۔ ارشاد ہے کہ عزت کے تمام وسائل وذرائع اللہ کے ہاتھ میں ہیں ، وہ جسے چاہے چشم زدن میں عزت ووقار کے عرش بریں سے اتار دے اور جسے چاہے تاج ودہیم کا مالک بنا دے ، اس لئے جھوٹی عزتوں کے لئے منافقت ومداہنت کی کیا ضرورت ہے ۔ النسآء
140 (ف ٢) نزول قرآن کے وقت کفر ونفاق کے جمگھٹے ہوتے ، لوگ چھوٹے چھوٹے گرہوں میں بٹ بٹ کر مذاق واستہزاء کی محفلیں جماتے اور ان میں پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اللہ کی آیات پر پھبتیاں سوجھتیں مقصد یہ ہوتا کہ مقصدیہ ہوتا کہ عام مسلمانوں کے دلوں میں قرآن اور صاحب قرآن کے متعلق کوئی عقیدت باقی نہ رہے ۔ اور ان کے جذبہ حمیت وعصبیت کو ٹھیس لگائی جائے ۔ اس آیت میں بتایا ہے کہ جب اس قسم کے مواقع ہوں تو تم بھٹک جاؤ اور شرک اختیار نہ کرو ‘ ورنہ تم بھی ایسے ہی ہوجاؤ گے ۔ قاعدہ ہے جب کثرت سے کسی عقیدے کے متعلق اعتراضات وملامتیں سنی جائیں تو دل میں اس کے لئے کوئی وقعت نہیں رہتی اور یہ مداہنت آہستہ آہستہ ارتداد تک پہنچا کے رہتی ہے ۔ اس لئے عوام کے لئے احتراز ضروری ہے کہ جو چپکے بیٹھے رہتے ہیں ، اور مدافعت پر قادر نہیں ہوتے ، مگر وہ جو صاحب علم وحمیت ہیں اور ان کے نفاق وکفر کا دندان شکن جواب دے سکتے ہیں اور دیتے ہیں اس سے مستثنی ہیں کیونکہ اسلام تحقیق وتنقید سے نہیں گھبراتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ عوام کا ایمان محفوط رہے اور وہ نہ جانتے ہوئے سادگی سے بدعقیدگی کا شکار نہ ہوجائیں خواص کے لئے اجازت ہے کہ جہاں چاہیں جائیں اور اسلام کے معارف کی اشاعت کریں ۔ حل لغات : ثم کا تکرار تکرار فعل کے لئے ہے یعنی وہ لوگ جو شک وارتیاب کی وادیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں اور جن کے لئے کہیں ثبات وقرار نہیں ۔ اولیآء : دوست واحباب ۔ النسآء
141 مسلمان ابدا غالب ہے : (ف ١) مقصد یہ ہے کہ منافقین دونوں جماعتوں سے بنائے رکھتے ہیں ، مسلمان غالب رہیں تو کہتے ہیں کیا ہم مسلمان نہیں اور اگر دیکھیں کہ کفر عارضی طور پر غالب ہوگیا ہے تو انہیں پھر یہ یقین دلانا پڑتا ہے کہ ہم نے ہر طرح تمہاری جماعت کو مسلمانوں کے حملوں سے بچانے کی کوشش کی ہے ۔ (آیت) ” ولن یجعل اللہ للکفرین علی المؤمنین سبیلا “۔ میں مسلمان کے دائمی غلبہ وتسلط کا اعلان ہے یعنی حجت وبراہین سے لے کر قوت ومنفعت کے تمام ذرائع تک مسلمان کے قبضہ میں ہیں ۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ ابدا کفر ونفاق پر غالب وقاہر رہے گا ، اس کی قوتیں بےپناہ اور غیر محدود ہیں ۔ وہ دنیا میں ایک لمحہ غلامی کے لئے آمادہ نہیں ۔ آزادی وخلافت اس کی وفادار کنیزیں ہیں ، مگر اس وقت جب اس کا ایمان صحیح معنوں میں ایمان ہو ، جب اس کے ایمان کی درخشانی والمعانی چاند اور سورج کو شرمائے جب اس کے ایمان کی حرارت اس کے سینے میں ہمیشہ سوزان وتپاں رہے اور جب اس کے بازو میں قوت حیدری (رض) اور زور عمر (رض) موجود ہو ، نہ اس وقت جبکہ ایمان کی روشنی کفر کی ظلمت کے مشابہ ہوجانے اور نہ اس وقت جب اس کی حرارت کفر کی بردت سے بدل جائے اور نہ اس وقت جب بازوشل ہوجائیں اور قوت جواب دے جائے ، حل لغات : یخوضوا : مصدر خوض ۔ غور فکر بحث وتمحیص ۔ النسآء
142 (ف ١) (آیت) ” وھو خادعھم “۔ سے مراد یہ نہیں کہ خدا ان سے فی الواقع خادعانہ سلوک کرے گا ، بلکہ یہ کہ وہ اس عذاب کو جس سے وہ دو چار ہوں گے ، خادعانہ تصور کریں گے اور وہ ٹھیک ان کی منافقت ومداہنت کو جواب ہوگا ۔ خدع کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تجوز ومجاز ہے ، جیسے (آیت) ” وجزآء سیئۃ سیئۃ مثلھا “۔ النسآء
143 النسآء
144 (ف ٢) ان آیات میں کفار کی دوستی اور مودت سے منع کیا ہے مگر اس صورت میں جب مسلمانوں کو نقصان پہنچے ، یوں شہری تعلقات میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ (آیت) ” من دون المؤمنین “۔ کا یہی مطلب ہے اور یہ بتایا ہے کہ اپنے بدترین اعمال کی وجہ سے ان کا درجہ درک اسفل ہے ۔ حل لغات : کسالی : جمع کسلان ، سست اور کاہل ، یعنی نمازیں نہایت بےدلی اور بےتوجہی سے پڑتے ہیں ۔ مذبذبین : مادہ ذبہ بمعنی مدافعت ، تکرار حروف ، تکرار فعل پر دال ہے یعنی وہ ہر دو فریق کی طرف مدافعت کرتے ہیں ۔ قلیلا : سے مراد عدیما یعنی قطعا خدا کو یاد نہیں کرتے ۔ النسآء
145 النسآء
146 النسآء
147 خدا کو عذاب پسند نہیں : (ف ١) اس آیت میں اس حقیقت کی وضاحت ہے کہ اللہ کا غیظ وغضب بےسبب نہیں بھرتا لوگ اگر اس کی نعمتوں کا جائز استعمال کریں اور ہر وقت اظہار تشکر میں مصروف رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ خواہ مخواہ عذاب بھیج دے ، اس کا عذاب تو اس وقت آتا ہے جب سرکشیاں حد سے بڑھ جائیں اور قوم میں ناشکری کی وبا عام ہوجائے اور ضرورت محسوس ہو کہ اصلاح وعبرت کے لئے ازمائشیں نازل کی جائیں ۔ گویا وہ پیکر رحمت وعفو ہے بجز ضروری اور ناگزیر حالات کے سزا نہیں دیتا ۔ حل لغات : الدرک : طبقہ ، درجہ شاکر : شکریہ قبول کرنے والا ۔ النسآء
148 اظہار اساء ت : (ف ١) پیشتر کی آیات میں منافقین کی ایک ایک برائی کو واشگاف بیان کیا ہے تاکہ مسلمان انکے شر سے محفوظ رہیں ۔ ان دو آیتوں میں معذرت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تنقیص وتحقیر پسند نہیں ۔ الا یہ کہ شر واساءت حد سے بڑھ جائے اس صورت میں نقائص وقبائح کے اظہار میں کوئی مضائقہ نہیں پس منافقین کی مذمت وتذلیل محض مظلومانہ ہے ، ورنہ عیب پوشی اور عفو وحلم ہی بہترین جذبہ ہے ۔ (آیت) ” الجھر بالسوئ“۔ سے مراد وہ افعال ہیں جو فریق ثانی کو صورت تکلف محسوس ہوگا ، یہاں نہیں کیونکہ ان کا جواز کسی حال مین بھی درست نہیں ، قرآن حکیم نے اس سے بشدت روکا ہے چنانچہ ارشاد ہے ۔ (آیت) ” ولا تنبزوا بالالقاب بئس الاسم الفسوق بعد ال ایمان “۔ النسآء
149 النسآء
150 النسآء
151 (ف ٢) ان آیات میں بتایا ہے کہ وہ لوگ جو تفریق وکفر کے حامی ہیں ‘ دراصل اور حقیقتا کفر کا مصداق ہیں کیونکر اسلام نام ہے آئین فطرت کا اور حقائق ومحسوسات کا اور پیغمبر کہتے ہیں ترجمان رحمن کو ، اس لئے اس میں کسی تفریق واصلاح کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ، جس طرح سے سورج ایک ہے ، آسمان ایک ہے اسی طرح ادیان مختلفہ میں وحدت ویکسانی ہے البتہ حالات وظروف کے اختلاف وتضاد کی وجہ سے ہمیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پیغام انتقام مسیح ناصری کے پیغام عفو سے الگ اور جدا معلوم ہوتا ہے ، ورنہ مقصد ومصداق کے لحاظ سے دونوں ایک ہیں دونوں کا مقصد اصلاح نفس وانسانیت ہے ۔ سارے مذاہب اور سارے پیغمبر اس لئے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئے ہیں تاکہ افق انسانیت کو زیادہ سے زیادہ تابندہ وروشن بنا دیا جائے سب کا موضوع اصلی اور مقصود انسان کی خدمت ورہنمائی ہے پس یہ کس درجہ ظلم وجہل ہے کہ اس سلسلہ کے ایک مؤید کو تو مانا جائے اور دوسروں کا انکار کردیا جائے ۔ اسلام کہتا ہے کہ تعصب وجہالت کو چھوڑ دو اور یہ جان لو کہ صداقت ہمہ گیر ہے ، اللہ کی رحمتیں ہرگز گوشہ زمین پر پھیلی ہوئی ہیں ، جس عقیدت اور نیاز مندی سے تم موسیٰ (علیہ السلام) کو مانتے ہو اسی طرح محبت وشیفتگی سے مسیح (علیہ السلام) پر ایمان لاؤ اور جس طرح تمہارے ہاں مسیح ناصری فخر ومباحات کے اہل ہیں ‘ اسی طرح تمام پیغمبرانہ ستائشوں اور تعریفوں کے حامل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اس لئے ضرورت ہے کہ تم سب کو یکساں اللہ کی جانب سے تصور کرو اور ہر تعصب وتخرب کا خاتمہ کرو ۔ حل لغات : السوئ: برائی ۔ عفو : بخشش وعفو کا بحربیکراں ۔ النسآء
152 (ف ١) یہاں ایسے گروہ کا ذکر ہے جو تمام اختلافات سے بالا ہے اور جس کے ہاں تمام پیغمبر (علیہ السلام) تمام صداقتیں اور تمام حقائق یکسان واجب ال ایمان ہیں ، جو سلسلہ نبوت کی پہلی کڑی سے لے کر آخری کڑی تک سب کو مانتے ہیں ۔ النسآء
153 (ف ٢) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب حق وصداقت کے جلوے چاروں طرف بکھیرنے شروع کئے اور یہودیوں نے دیکھا کہ لوگ قرآن کی روشنی سے استفادہ کر رہے ہیں تو مہمل اور لغو اعتراضات سے قرآن کی عظمت واہمیت کو مٹانا چاہا کہنے لگے اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی اللہ کے رسول ہیں اور مہیط انوار الہی ہیں تو کتاب کو آسمان سے اترتے ہوئے دکھائیے ، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس کہنہ عادت کرشمہ پسندی اور معجزہ طلبی کا ذکر فرمایا ہے ، (آیت) ” فقد سالوا موسیٰ اکبر من ذلک “ کہ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بھی یہ بڑا مطالبہ کیا تھا کہ ہمیں محسوس شکل میں خدا دیکھا دیجئے نتیجہ یہ ہوا کہ حریم جلال و جبروت سے حجابات اٹھنے شروع ہوئے اور یہ تاب نظر کھو کر عقل وہوش بھی ضائع کر بیٹھے ، اب کہتے ہیں ’ کتاب نازل ہوتی ہوئی دیکھائیے کیا اس مطالبہ تنزیل کے بعد وہ ایمان لے آئیں گے ؟ حالانکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیم وتوحید کے بعد یہ فورا گوسالہ پرستی میں مبتلا ہوگئے ، بات یہ ہے کہ اس نوع کے لوگ طلب صادق نہیں رکھے ان کے مقصد محض راہ حق وسلوک میں مشکلات پیدا کرنا ہوتا ہے ۔ حل لغات : مھین : خوار رکھنے والا ، رسوائی دینے والا ۔ جھرۃ : واضح طور پر روبرو ۔ الصعقۃ : بجلی ۔ النسآء
154 (ف ١) رفع طور کا مقصد یہ بتانا تھا کہ اگر میثاق وعہد کو ملحوظ رکھو گے تو طور کی بلندی واستقلال تمہیں عطا کیا جائے گا اور اگر انکار کرو گے تو یاد رکھو کہ باجود مادی قوت وشوکت کے ہلاک کئے جاؤ گے (تفصیل کے لئے دیکھو حواشی سورۃ بقر) سجدہ اور اعتدافی السبت کی کیفیت مفصل گزر چکی ہے ۔ النسآء
155 النسآء
156 بہتان عظیم : (ف ٢) ان آیات میں یہودیوں کے موٹے موٹے جرائم بیان کئے ہیں کہ کیونکر وہ خدا کے غضب وغصہ کے مستحق بنے فرمایا نقض میثاق کی وجہ سے یعنی اس لئے انہوں نے ہمیشہ شریعت کی مخالفت کی اور کفر کی وجہ سے دائما اللہ کی نشانیوں کو جھٹلایا اور اس لئے بھی کہ انبیاء علیہم السلام سے مخاصمت ومقاتلہ جاری رکھا ، یہ سب اس لئے کہ وہ کہتے تھے (آیت) ” قلوبنا غلف “۔ یعنی ہمیں تیری باتیں نہیں بھاتیں ، دلوں میں پردے حائل ہیں ، فرمایا ۔ درست کہتے ہیں ان کے دل حق ویقین کی صلاحیت سے قطعا محروم ہوچکے ہیں اور خدا نے مسمرہ قانون کے ماتحت ان کے دلوں پر بالآخر مہر کردی ہے ۔ سب سے بڑا گناہ ان کا یہ خبث نفس ہے کہ مریم علیہا السلام عذرا کو متہم گردانتے ہیں ، حالانکہ ان کو اس حالت میں اس لئے ” والدہ “ کے اعزاز نواز گیا کہ تمہاری مادہ پرست آنکھیں کھلے مجاز کو دیکھیں اور اس لئے بھی کہ تم خرق عادات کو زیادہ اہمیت نہ دو اور مصالح اللہ کے ماتحت خیال کرو تفصیل کے لئے دیکھو سورۃ آل عمران ۔ حل لغات : سبت : ہفتہ ۔ غلف : جمع غلاف ۔ غیر ۔ النسآء
157 النسآء
158 مسیح (علیہ السلام) غیر مصلوب ہیں : (ف ١) قرآن حکیم مکمل صحیفہ آسمانی ہے اس میں جس طرح عقائد وعمل کی گتھیوں کو سلجھایا گیا ہے اسی طرح صدیوں کے شبہات وظنون کو فیصلہ کن صورت میں پیش کیا گیا ہے ، یہ وہ مصحف روشن ہے جس کی برق افگن تجلیاں باطن ومغر تک نفوذ کر جاتی ہیں اور کوئی چیز ظلمت وتاریکی میں نہیں رہتی ۔ سات سوسال سے یہ متفقہ عقیدہ چلا آرہا تھا کہ حضرت مسیح (علیہ السلام) مصلوب ہوگئے ہیں ، یہودی بھی فخر وغرور سے کہتے تھے (آیت) ” انا قتلنا المسیح “۔ اور عیسائی بھی معترف تھے کہ وہ دار پر کھینچے گئے ہیں ۔ قرآن اعظم نازل ہوا تو اس نے کہا ، یہ افسانہ ہی غلط ہے ، بات یہ ہے کہ یہودی سپاہی جب مسیح (علیہ السلام) کو کشاں کشاں صلیب تک لے گئے تو غیرت خداوندی جوش میں آگئی اور مسیح (علیہ السلام) کو آسمان پر زندہ اٹھالیا گیا ، سپاہی جو مسیح (علیہ السلام) کو سزا دینے پر متعین تھے حیران ہونے پھر تدبیریں یہ کی کہ کسی دوسرے آدمی کو سولی دے کر مشہور کردیا کہ ہم نے مسیح (علیہ السلام) کو صلیب پر چڑھا دیا ہے مقصد یہ تھا کہ ہمارے خلاف کوئی محکمانہ کاروائی نہ کی جائے ۔ صدیاں گزر گئیں اور یہ واقعہ اسی طرح تسلیم کیا جاتا رہا ، حتی کہ عیسائیوں نے مسیح (علیہ السلام) کی موت پر کفارے کی بنیادیں رکھیں اور یہودی اپنی اس کور باطنی پر نازاں رہے قرآن حکیم نے (آیت) ” ولکن شبہ لھم “۔ کہہ کر واقعہ کی حیثیت کو ہی بدل دیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ کفارہ کی بنیادیں ہل گئیں اور یہودں کا فخر وغرور بھی خاک میں مل گیا ۔ یہ کہنا کہ مسیح صلیب پر لٹکائے تو گئے تھے ، مرے نہیں قرآن وادب کی مخالفت کرنا ہے ۔ (آیت) ” ماقتلوہ وما صلبوہ “۔ کے صاف معنی یہ ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) غیر مقتول ہیں ۔ کیونکر افعال میں ہمیشہ ابتدا و آغاز کا اعتبار ہے اور نفی کی صورت میں سب سے پہلے اس کی زد ابتداہی پر پڑتی ہے مثلا اکل کے معنی ہیں کھانا شروع کیا اور کھایا ، شرب کا مطلب ہے پانی پینا شروع کیا اور پیا ، جب یہ کہیں گے کہ ما اکل زید ۔ تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ زید نے سرے سے کھایا ہی نہیں اور جب یہ کہیں گے کہ ماشرب عمرو ۔ تو اس کا مطلب بھی یہی ہوگا کہ عمرو نے فعل کا آغاز ہی نہیں کیا ۔ پس (آیت) ” وما قتلوہ وما صلوہ “ کے معنی یہ ہوں گے کہ مسیح (علیہ السلام) کو انہوں نے سولی پر چڑھایا ہی نہیں اور نہ ہی قتل کیا ہے ۔ (آیت) ” بل رفعہ اللہ “ سے مراد یہ ہے کہ خدا نے اپنے ہاں مسیح (علیہ السلام) کو بلا لیا یعنی آسمان جو خدا کی تدبیرات کا مرکز ودفتر ہے (آیت) ” یدبر الامر من السمآئ“۔ مسیح (علیہ السلام) کا عارضی مستقر ٹھہرا ۔ النسآء
159 (ف ٢) یہ آیت حیات مسیح (علیہ السلام) پر زبر دست دلیل ہے (آیت) ” قبل موتہ “ کا مرجع اہل کتاب نہیں مسیح (علیہ السلام) ہے اور (آیت) ” لیؤمنن سے مراد زمانہ مستقبل ہے ، یعنی ایک وقت آئے گا جب یہودیوں کو قرآن کی بتائی ہوئی صداقتوں پر ایمان لانا پڑے گا ۔ النسآء
160 النسآء
161 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ یہودی تمام جائز نعمتوں سے اس لئے محروم ہوگئے کہ انہوں نے خود اس لئے لئے کوشش کی اور زہد وورع کے نام سے کئی چیزیں جو حلال تھیں کھانا چھوڑیں ، پھر جرائم اس قسم کے کئے کہ سزا کے مستحق ٹھہرے ۔ النسآء
162 (ف ٢) اس آیت میں ان علمائے حق کا ذکر ہے جو گو یہود میں پیدا ہوئے مگر ان کا علم وتقوی انہیں حق کے تسلیم کرنے پر مجبور کرتا ہے اور وہ برابر اسلامی وظائف وعمل کو ادا کرتے ہیں ، ان کا ایمان ہے کہ قرآن جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے خدا کی سچی کتاب ہے ۔ حل لغات : صد : روکنا ۔ النسآء
163 (ف ١) یعنی نفس نبوت اور مقام صداقت میں کوئی فرق نہیں حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت مسیح (علیہ السلام) تک اور حضرت مسیح (علیہ السلام) سے لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک سب نے ایک ہی منزل کی طرف لوگوں کو دعوت دی ہے ، پس وہ لوگ جو انصاف پسند ہیں ، انبیاء علیہم السلام ومذاہب کے نام پر انسانیت کو تقسیم نہیں کرتے ، بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ سلسلہ حق وصداقت کی تمام کیوں کو مشترکہ مانا جائے ۔ النسآء
164 (ف ٢) مختلف انبیاء علیہم السلام کا ذکر کرکے اب یہ فرمایا ہے کہ تمام دنیا میں خدا کے پیغمبر (علیہ السلام) آئے ہیں اور ہر گوشہ ارض ان کے قدوم برکت لزوم سے مفتحز ہوا ہے اور یہ کوئی ضروری نہیں کہ قرآن حکیم میں سب انبیاء علیہم السلام کا نام بنام ذکر ہو پس یہ جان لیجئے کہ تمہیں انہیں پیغمبروں کے نام اور حالات بتائے گئے ہیں جن سے تمہارے کان آشنا ہیں ۔ النسآء
165 (ف ٣) اس آیت میں بتایا ہے کہ تمام نبی بشارت وڈرانے کا انداز لے کر آئے ہیں ، تاکہ ہر زمانہ میں لوگ براہ راست ان سے استفادہ کرسکیں اور یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمارے پاس خدا کا کوئی پیغام ہدایت موجود نہیں ۔ حل لغات : اوحینا : وحی کے معنی اشارہ خفیہ کے ہیں ۔ اصطلاح قرآن میں چپکے سے کوئی بات دل میں ڈال دینا مراد ہے ۔ زبور : مطلقا کتاب کو کہتے ہیں ۔ حجۃ : دلیل ۔ عذر ۔ الزام ۔ النسآء
166 خدا اور فرشتوں کی گواہی : (ف ١) ان دو آیتوں میں قرآن حکیم کی عظمت واہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے ، کہا ہے کہ خدا نے قرآن کے الہامی ہونے پر اعلی شہادتیں مرتب کی ہیں اور فرشتے بھی اس سچائی اور صداقت پر گواہ ہیں ، یعنی خدا نے جان بوجھ کر علی وجہ البصیرت قرآن حکیم کو نازل کای ہے اور تم اس میں بےشمار علمی خوارق دیکھ سکتے ، فرشتے بھی شاہد ہیں اور بےشمار علمی خوارق دیکھ سکتے ، فرشتے بھی شاہد ہیں اور یہی وجہ ہے ، فرشتوں نے ہمیشہ قرآن کی تائید کی ہے اور عین جنگ میں ان لوگوں کی حمایت کی ہے جو حامل قرآن ہیں پس وہ لوگ کہ جو اس صداقت مشہود کا انکار کرتے ہیں کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں ۔ النسآء
167 النسآء
168 النسآء
169 النسآء
170 (ف ٢) اس آیت میں تمام لوگوں کو ایمان کی دعوت دی ہے کہ آؤ سب رسول برحق (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مان لیں کیونکہ انسانی فلاح وخیر اسی ایمان پر موقوف ہے ۔ (آیت) ” وان تکفروا فان للہ مافی السموت والارض “۔ سے مراد یہ ہے کہ مذہب کا تعلق تمہاری اصلاح ورہنمائی ہے ، ورنہ خدا کو ضرورت نہیں کہ تم ضرور اسے مانو ۔ کیونکہ آسمان کی بلندیاں اور زمین کی وسعتیں سب خدا کے قبضہ قدرت میں ہیں ، وہ بےنیاز ہے اسے ہماری عبادتوں اور ریاضتوں کی قطعا حاجت نہیں ۔ النسآء
171 تثلیث وتوحید : (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ تثلیث کا عقیدہ غیر معقول اور غیر منطقی عقیدہ ہے اور یہ نتیجہ ہے عقیدت ومحبت میں غلو اور مبالغہ کا ۔ مسیح (علیہ السلام) کی صحیح صحیح حیثیت یہ ہے کہ وہ ابن مریم علیہا السلام ہیں یعنی مریم علیہا السلام عذرا کے بیٹے اور کلمہ تکوین کا اثر کیونکہ آپ کی تخلیق خارق عادات کن فیکونی اختیارات سے ہوئی ہے ، (آیت) ” وروح منہ “ سے مراد تشریف وتفصیل ہے ، جیسے قرآن حکیم کے متعلق فرمایا (آیت) ” وروحا من امرنا “۔ (آیت) ” انتھوا خیرالکم “۔ سے مراد یہ ہے کہ عقیدۃ تثلیث بوقلمون مصائب کا پیشہ خیمہ ہے اس میں توحید ووھدت کا وہ پیغام نہیں جو عقیدہ ” لا الہ الا اللہ “ میاں ہے ۔ (آیت) ” انما اللہ الہ واحد “۔ کہہ کر اس حقیقت ثانیہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ عقل انسانی بجز توحید وتفرید کے کسی عقیدے کو سمجھنے سے قاصر ہے یعنی وجہ ہے ۔ اہل تثلیث آج تک کوئی متصفہ اور متبعین صورت تثلیث کی پیش نہیں کرسکے کبھی تثلیث کے معنی صفات ثلاثہ کے لئے جاتے ہیں اور کبھی ذات ثلاثہ کے ، پھر کبھی ملول واتحاد کا دعوی کیا جاتا ہے اور کبھی لعت ومنوت کا سبحانہ میں یہ باریک نکتہ مضمر ہے کہ خدا کا تصور صحیح اس درجہ پاکیزہ اور بلند ہے کہ کسی کثرت وتثلیث کی گنجائش نہیں رہتی ، یعنی خدا کے معنی ہی ایک بار صرف ایک ذات برحق کے ہیں ۔ حل لغات : لا تغلوا : مادہ غلوا ، بمعنی زیادتی اور مبالغہ ۔ الحق : صداقت : موافق آئین عقل ۔ انتھوا : مصدر ، انتہاء رک جانا ۔ النسآء
172 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ بڑے سے بڑا مرتبہ ” عبودیت “ اور غلامی سے آگے نہیں بڑھتا مسیح (علیہ السلام) اور خدا کے تمام مقرب فرشتے اس کے حلقہ بگوش اور فرمانبردار ہیں ، سب اس کے جلال وجبروت کے سامنے خائف ولرزاں ہیں ، کسی کو مجال ادعاء نہیں ، سب یہ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اس کی رضا ومحبت کو حاصل کیا جائے ، پس مسیح یا کسی دوسرے شخص کو سر پر لاہوت پر لا بٹھانا اس کے منصب الوہیت کی توہین ہے ۔ حل لغات : عبد ، غلام ، حلقہ بگوش ، فرماں بردار ۔ یستنکف : مصدر استنکاف ، انکار کرنا ۔ النسآء
173 النسآء
174 نور وبرہان : (ف ١) قرآن حکیم اور دیگر کتب مذہبی میں ایک ممتاز فرق یہ ہے کہ قرآن عقل ودانش کی مضبوط چٹان پر کھڑا ہے ، اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے منطق وفکر کے مطابق ہے دیگر کتب خطابت وسلسلہ کا مجموعہ ہے ان میں کہا گیا ہے کہ پہلے مانو ، پھر سمجھنے کی کوشش کرو ، مگر قرآن غور وفکر کے بحربیکراں میں کود پڑنے کی دعوت دیتا ہے ، وہ بار بار اعلان کرتا ہے ۔ (آیت) ” افلا یتدبرون القرآن “۔ یعنی قرآن جس نظام مذہب کو پیش کرتا ہے ‘ وہ فوق الفہم اساسات پر مبنی نہیں بلکہ مشاہدہ وتجربہ اس کے سب سے بڑے شاہد ہیں ، اس لئے آؤ اور عقل وخرد کی تمام طاقتوں سے مسلح ہو کر قرآن کے حقائق کو پرکھو ۔ النسآء
175 (ف ٢) اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو اس پیکر نور اور برہان نشان کتاب کو مانتے ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی رحمتوں کے سزاوار ہیں اور جن کے لئے اللہ کی آغوش فضل واہے اور جو صراط مستقیم پر گامزن ہیں ، مگر یاد رہے کہ ایمان کے ساتھ اعتصام شرط ہے ، یعنی استقلال اور عزم کے ساتھ جوش عمل ۔ حل لغات : برھان : واضح دلیل ۔ کلالۃ : بوجھ مرد یا عورت جس کا وارث اصلی موجود نہ ہو یعنی جس کے ماں باپ یا اولاد نہ ہو ۔ النسآء
176 النسآء
0 سورۃ مائدہ : مدینہ میں نازل ہوئی ، بہت سے عظیم المرتبت مسائل پر حاوی ہے ، مائدہ کے معنی خوان نعمت کے ہیں ۔ بنی اسرائیل نے کہا تھا (آیت) ” انزل علینا مائدۃ “۔ اس لئے سورۃ کا نام ہی مائدہ ہوا یعنی یہ سورۃ اہل کتاب کی دنیوی ذہنیت کی آئینہ دار ہے ، اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح ان لوگوں نے ہمیشہ دنیا کو دین پر ترجیح دی ، ہے اور کیونکر ان کی تمام تگ ودوکام ودہن کی تواضع تک محدود رہی ہے ۔ المآئدہ
1 ایفائے عقد : (ف ١) قرآن حکیم نے دائما ایمان وعمل کے معنی یہ بتائے ہیں کہ ادخلوا فی السلم کآفۃ “۔ یعنی کاملا متعقدات واعمال کے لحاظ سے اسلام قبول کیا جائے ۔ اس آیت میں اسی حقیقت قیمہ کی طرف دعوت دی گئی ہے ۔ عقد کے معنی کسی مضبوط ذمہ داری کے ہیں جو انسانیت اخلاق عامہ اور خدا کی جانب سے مائد ہو مقصد یہ ہے کہ ہر فریضہ ووظیفہ کو ادا کیا جائے ۔ بات ایک ہے ، پیرایہ ہائے بیان مختلف ہیں ، کبھی فرمایا ۔ (آیت) ” اوفوا بعھد اللہ “ کبھی ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ولا تنقصوا ال ایمان “۔ اور کبھی کہا جاتا ہے ، (آیت) ” ان تؤدالامنت الی اھلھا “۔ یعنی مختلف طریقوں اور راہوں سے بتانا یہ مقصود ہے کہ دنیا ومذہبی ضرورتوں اور ذمہ داریوں کو محسوس کرو ، یہی احساس ذمہ داری اللہ کا عہد ہے اور یمین اور اسی کا دوسرا نام امانت ہے ، کیونکہ جذبہ واطاعت وانقیاد دراصل اللہ کی گرانقدر ودیعت ہے جو حضرت انسان کو بطور امانت عطا کی گئی ہے ۔ (ف ١) اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ تمام چارپائے باستثناء محرمات حلال وطیب ہیں ، ان کے استعمال میں مضائقہ نہیں فلسفہ ، تحلیل وتحریم کی بحث مفصل گزر چکی ہے ، تفصیل کے لئے دیکھو اوراق گزشتہ ۔ (آیت) ” بھیمۃ الانعام “۔ میں اضافت بیانیہ ہے ، جیسے خاتم فضۃ ۔ امام المفسرین حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں اس سے مراد وہ جانور ہیں جو جنین ہیں اور اند الذبح مادہ کے پیٹ سے برآمد ہوتے ہیں ۔ (آیت) ” وانتم حرم “۔ دونوں صورتوں کو شامل ہے ، اس صورت کو بھی کہ آپ احرام باندھے ہوئے ہوں اور اس صورت کو بھی کہ آپ حدود حرم میں ہوں ۔ حل لغات : عقود : جمع عقد ، گانٹھ ۔ بھیمۃ : حیوان لایعقل ، ابہام واستبہام اسی سے ماخوذ ہے ۔ انعام : جمع نعم ، بمعنی چارپائے جیسے اونٹ گائے وغیرہ یا وہ جانور جو عام طور پر بطور نعمت کے خیال کئے جاتے ہیں اور پالے جاتے ہیں ۔ المآئدہ
2 (ف ٢) اس آیت میں شعائر اللہ کی تفصیل بیان کی ہے یعنی ارض حرم میں ہر نوع کی تکلیف وضرار ممنوع ہے ، اس لئے اگر شکار کی ضرورت محسوس ہو تو اس وقت جائز ہے جب فرائض حج سے فارغ ہوجاؤ ۔ (آیت) ” یبتغون فضلا من ربھم ورضوانا “۔ سے مراد حجاج بیت اللہ ہیں ، کیونکہ ان کے مقاصد میں اتنہا درجے کی وسعت ہوتی ہے وہ جہاں خدا کی رضا ومحبت حاصل کرنے کے لئے ارض بابرکت کا سفر اختیار کرتے ہیں وہاں مال ودولت کا حصول بھی ان کے پیش نظر ہوتا ہے ۔ کسب وتجارت کو فضل سے تعبیر کرنا زبردست ترغیب ہے کہ مسلمان اس کو حاصل کرنے میں ازحد کوشاں رہیں ، حتی کہ عین اس زمانے میں جب وہ مناسک حج ادا کر رہے ہوں ‘ تجارت وتمول کے اسباب پر غور کریں ۔ انتہائی تصفت شعاری : (ف ١) مسلمان جب تک مکے میں رہے ‘ بیت اللہ کے تمامتر اختیارات مشرکین مکہ کے ہاتھ میں رہے اور وہ اجازت نہیں دیتے تھے کہ خدا کے فرمانبردار بندے اس کے اس مقام جلیل میں اکٹھا ہو کر اس کا نام بلند کریں ، ہجرت کے بعد بھی مسلمانوں کو ایک دفعہ مقام حدیبہ پر روک دیا گیا اور اجازت نہ دی گئی کہ وہ مناسک حج کو پوری آزادی سے ادا کرسکیں ، مگر جب مکہ دس ہزار قدوسیوں کے ہاتھ فتح ہوچکا اور مسلمان پوری آزادی سے حج بیت اللہ کو روانہ ہوئے تو انہیں تلقین کی گئی کہ تم ان کو گزشتہ عداتوں اور دشمنیوں کے سبب زیارت وعبادت سے نہ روکنا کیونکہ تمہارا مشن تصفت شعاری اور عدل گستری ہے ۔ حل لغات : شنان : دلی بغض ۔ المآئدہ
3 (ف ٢) ان آیات میں حرام اشیاء کا تذکرہ ہے تفصیل گزشتہ اوراق میں گزر چکی ہے ، خون اس لئے حرام ہے کہ ذوق سلیم اسے گوارا نہیں کرتا ، نیز وحشت وبربریت پیدا کرتا ہے اور مضر صحت بھی ہے سؤر ندارد مہیج اور بداخلاقی کا موجب ہے نیز اس سے ایک مرض تشحم پیدا ہوتا ہے جس سے عام طور پر فوری موت واقع ہوجاتی ہے ، (آیت) ” وما اھل بہ لغیر اللہ “ سے نظام شرک کی تائید ہوتی ہے ۔ منخنقہ اور موقوذہ وغیرہ میں خون اچھی طرح سے نہیں بہتا ۔ شرک کے تھان اور جوئے کے تیروں سے متعلقہ گوشت چونکہ قمار بازی اور شرک کی تائید ہے اس لئے ممنوع ہے ، غرضیکہ تمام حرام چیزیں صرف تعبدی طور پر ہی حرام نہیں ، بلکہ خاص خاص وجوہ کی بنا پر حرام ہیں ۔ تین خوشخبریاں !: (ف ١) اس آیت میں تین شاندار بشارتیں ہیں ، تکمیل دین کی بشارت اتمام نعمت کی بشارت اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رضائے الہی کے حصول کی بشارت : یعنی اسلام بہمہ وجوہ کامل ہے نبوت وحی کی نعمتیں بشکل اتم حاصل ہیں اور خدا خوش ہے کہ تم مسلمان ہو ۔ اس آیت کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ جب تک اسلام موجود ہے ، کتاب وسنت کے اوراق ہمارے لئے رہنما ہیں ، ہیں رضائے الہی کے حصول کے لئے کسی جدید نبوت وتشریح کی ضرورت نہیں ۔ حل لغات : المنخنقۃ : مادہ خنق ، گلا گھونٹنا ۔ الموقوذہ : مادہ وقذ ، چوٹ وضرب ۔ المتردیۃ : مادہ تردی ، معنے گرنا ، النصب : جمع نصبۃ ، تھان ۔ المآئدہ
4 شکار : (ف ٢) مقصد یہ ہے ہر پاکیزہ چیز جو ذوق سلیم پر گراں نہ گزرے اور اخلاقی وبدنی مضرتوں سے خالی ہو ۔ حلال ہے ، (آیت) ” مما علمکم اللہ “ کہہ کر شکار کی فضیلت بیان کی ہے ۔ (آیت) ” واتقوا اللہ “ سے مراد یہ ہے کہ شکار بلا ضرورت مستحسن نہیں کیونکہ اس سے قساوت قلبی کے پیدا ہونے کا اندیشہ نہیں کیونکہ اس سے قساوت قلبی کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہے ، یوں حاجت وضرورت کے مطابق بہترین ورزش ہے جس سے حوصلہ وجرات کے جذبات پیدا ہوتے ہیں صحابہ (رض) عنہم اجمعین میں متعدد لوگ شکار سے ذوق رکھتے تھے ، عدی بن حاتم (رض) کو جو ایک مشہور شکاری ہیں ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں :۔ ” جب کتے کو شکار کے لئے دوڑاؤ تو بسم اللہ کہہ لو ، اگر وہ صحیح سلامت تم تک شکار لے آئے تو ذبح کرلو اگر مجروح ہو تو دیکھ لو کہ راستے میں اس نے اس میں سے کچھ کھایا تو نہیں ، اگر کھاچکاہو تو پھر تم نہ کھاؤ اور اگر نہ کھایا ہو تو وہ تمہارے لئے حلال ہے ، بلاخرخشہ کھاؤ ۔ “ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ضرورتا کتوں کو رکھنا جائز ہے ۔ حل لغات : مخمصۃ : بھوک ۔ الجوارح : ہر شکاری جانور ۔ المآئدہ
5 (ف ١) طعام سے مراد ذبیحہ ہے کیونکہ عام کھانا اگر پاکیزہ برتنوں میں پکایا جائے تو بہرحال حلال ہے ۔ مطلب یہ ہے اہل کتاب میں اور تم میں بتائن نہ رہنا چاہئے اور حتی الوسع کوشش کرنی چاہئے کہ تم اور وہ لوگ جن میں اکثر باتیں مشرک ہیں مل جل کر رو ، تاکہ باہمی موانست سے وہ اسلام کی برکات سے واقف ہوں اور اختلاف قطعی ختم ہوجائے ، اہل کتاب کی عورتوں سے ازدواجی تعلقات رکھنا بھی درست ہے کیونکہ بہت سی باتوں میں اصولا وہ ہمارے ساتھ ہیں اور اکثر روایات وتہذیب میں کوئی وجہ اختلاف نہیں حشر ونشر کو وہ مانتے ہیں فرشتوں کو تسلیم کرتے ہیں انبیاء ان کے اور ہمارے قریبا مشترک ہیں ، توحید کے بھی قائل ہو سکتے ہیں ، کیونکہ ان کی کتابوں میں بھی سوائے ایک ذات کی پرستش کے کسی کا ذکر نہیں اور یہی وہ چیزیں ہیں جو اتحاد خیال کو پیدا کرتی ہیں اور جن کی وجہ سے ازدواجی تعلقات میں عملا کوئی دشواری پیدا نہیں ہوتی ۔ اسلام کی غرض وغایت یہ ہے کہ مسلمان ہر ممکن طریق سے کفر کو اپنے قریب لانے کی کوشش کرے اور دنیا کو بتائے کہ وہ اختلاف دین کو محض اختلافات رائے کا درجہ دیتا ہے اور اس کے نزدیک عقیدہ کا اختلاف بغض وعناد کا ہرگز باعث نہیں ۔ حل لغات : المحصنت : پاک دامن عورتیں ۔ المآئدہ
6 ٹخنوں تک : (ف ١) وضو کی تفصیلات اس لئے بیان کی ہیں کہ سابقہ مذاہب میں عبادت کے لئے یہ طریق نظافت مذکور نہیں ، وضو سے جس طرح میں بالیدگی اور ایک خاص نوع کی روحانی مسرت محسوس ہوتی ہے یہ مقتضی تھی کہ اسے شرط عبادت قرار دیا جائے ، پانچ وقت وضو کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان حد سے زیادہ پاک اور ستھرا رہنے پر مجبور ہے ۔ اعضاء ظاہر کے ہر وقت پاک رہنے سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جراثیم اثر نہیں کرتے ۔ شرط عبادت اس لئے قرار دیا ، تاکہ طبیعت میں ایک خاص قسم کی آمادگی پیدا ہوجائے اور مسلمان ظاہر وباطن کے ساتھ خدا کے سامنے جھک جائے ، وضو کے مسائل میں اہم اختلاف یہ ہے پاؤں دھوئے جائیں یا ان پر مسح کیا جائے ، ۔ اصحاب امامیہ مسح کے قائل ہیں اور جمہور علماء غسل کے ، بات یہ ہے کہ ” ارجلکم “ کا لفظ محل نزاع ہے ، حضرات تشیع اسے ” فامسحوا “ کے ماتحت خیال کرتے ہیں اور جمہور علماء ” فاغسلوا “ کے ، دونوں کے دلائل کتب تفسیر میں مذکور ہیں اور دونوں محل نظر وبحث ۔ قرآن حکیم کا انداز بیان اہل السنت کی تائید میں ہے کیونکہ (آیت) ” الی الکعبین “ ٹخنوں کی تقلید مسح کی صورت میں بالکل مہمل ہوجاتی ہے یہی وجہ ہے کہ (آیت) ” وامسحوا برء وسکم “ میں الی القفاء وغیرہ کی کوئی قید مذکور نہیں ، کیونکہ مسح میں صحیح تعین اکثر دشوار ہوتی ہے ۔ البتہ یہ محل غور ہے کہ ” ارجلکم “ کو خواہ مخواہ کیوں ” وامسحوا “ کے سیاق میں ذکر کیا ۔ غالبا اس کی دو وجہ ہیں ، ایک تو یہ کہ عبادت کی موسیقی قائم رہے اور قرآن حکیم کے مخصوص ترنم میں فرق نہ آئے ۔ اور یایہ کہ پاؤں دھونے میں زیادہ اہتمام نہ کیا جائے اور پاؤں کا غسل بمنزلہ مسح کے ہو ، عام طور پر عادت یہ ہے کہ لوگ پاؤں دھونے میں زیادہ اسراف سے کام لیتے ہیں ۔ (ف ١) تیمم کا ذکر ہے اور بات کو اسلام میں تکلف وتخرج قطعا موجود نہیں ، تفصیل کے لئے دیکھو اوراق گزشتہ ۔ حل لغات : المرافق : کہنیاں ۔ جنب : ناپاک ناپاک ۔ جنبی الغائط : جائے ضرور ۔ المآئدہ
7 المآئدہ
8 (ف ٢) ان آیات میں احصائے نعمت کے بعد مسلمانوں کو تلقین کی ہے کہ وہ اللہ کے فرمانبردار بندے بنے رہیں اور یہ کہ کسی حالت میں بھی عدل وانصاف کو ہاتھ سے نہ دیں ۔ حل لغات : شنان : بغض وعداوت : المآئدہ
9 المآئدہ
10 (ف ١) ان آیات کفر و ایمان کے مال کی طرف توجہ دلائی ہے کہ مومن ” اجر عظیم “ اور مغفرت وبخشش کا مستحق ہے اور کافر ومنکر دوزخ و جہنم کا ، اس لئے کہ دنیا میں مومن نے اپنے اعمال سے اور ایمان مستحکم سے ہمیشہ حصول جنت کی کوشش کی ہے اور کافر تکذیب وانکار کی وجہ سے آتشکدہ جحیم کے قریب ہوتا گیا ہے پس یہ ضرور تھا کہ آخرت میں یہ تفاوت راہ بین اور متمائز ہو ۔ بات یہ ہے کہ ایمان وعمل صالح مرد مومن میں ایک زبردست قوت حیات پیدا کردیتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی آخروی زندگی کامیابی وکامرانی سے گزرتی ہے اور کفر انکار چونکہ نام ہے مقدان عیش کے اسباب موجہ کا ، اس لئے لازما دوزخ و جہنم کی زندگی ہی کافر کے لئے سزاوار ہے ۔ حل لغات : یبسطوا الیکم : بسط اللہ یدہ کے معنی دراز دستی کے ہیں ۔ المآئدہ
11 توکل کی حیران کن قوت تاثیر : (ف ١) مسلمان جب تک مسلمان رہیں اور خدا پر زبردست اعتماد رکھیں ، غیب سے ان کی اعانت کی جاتی ہے اور قدرت اپنے سارے انتظام کے ساتھ ان کی مدد پرکمر بستہ ہوجاتی ہے ۔ کفار نے ہمیشہ کوشش کی کہ اسلام کے چراغ ہدایت کو بجھا دے ، مگر اللہ نے اس کی روشنی کو اور زیادہ پرانوار بنا دیا ۔ بنی نضیر کے یہودیوں نے ایک دفعہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ (رض) عنہم اجمعین کو فریب سے مار ڈالنا چاہا ، مگر آپ پیغمبرانہ فراست سے معاملہ کی اصلیت کو پاگئے اور بچ گئے ، مقام عسفان میں ایک دفعہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وظیفہ نماز میں مشغول تھے کہ اہل شرک کے تیور بدلے مگر اس وقت بھی تدبیر الہی نے ان کو ناکام رکھا ، غزوہ ذات الرقاع سے واپسی کے وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک درخت کے نیچے سستانے کے لئے بیٹھے تھے کہ جھپکی آگئی ، غورث بن حارث وہاں تھا ، اٹھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تلوار ہاتھ میں لے لی ، کہنے لگا کہیئے اس وقت کون بچائے گا ؟ آپ نے فرمایا ” اللہ “ ۔ اس زبردست ایمان وتوکل کو دیکھ کر گھبرا گیا ، کیونکہ ایسے اضطراب کے وقت ضبط نفس کی اس سے بہتر مثال پیش کرنا ناممکن ہے غرضے کہ ایمان وتوکل کی قوتیں بےپناہ ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ایمان وتوکل جمود وبے عملی کا خاکہ نہ ہو ، بلکہ نام ہو زندگی اور حیات دائمی کا ۔ المآئدہ
12 (ف ٢) اس آیت میں اسی حقیقت کا اعادہ ہے کہ بنی اسرائیل کے تمام گروہوں سے نصرت واعانت کا وعدہ تھا بشرطیکہ وہ دین قیم کی اطاعت اختیار کریں اور ایمان وعمل کی سیدھی راہ سے بھٹک نہ جائیں ۔ حل لغات : نقیب : صاحب اسرار سردار ، قوم میں ذمہ دار آدمی ۔ وعزرتموھم : مادہ تعزیر ، تائید کرنا ، اور قوت بازو رہنا ۔ المآئدہ
13 (ف ١) یہودیوں کے مسلسل تمردوطغیان کی وجہ سے دلوں میں بےحسی اور مداہنت کے جذبات پیدا ہوگئے جنہیں قرآن (آیت) ” وجعلنا قلوبھم قاسیۃ “۔ کے الفاظ سے تعبیر کرتا ہے نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے احباء وعلماء نے بےدریغ تورات وصحف انبیاء کو بدلنا شروع کیا اور کوشش کی کہ احکام ونواہی کو حسب اغراض ڈھال لیا جائے (آیت) ” لا تزال تطلع علی خآئنۃ “ کے معنی یہ ہیں کہ عہد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایسے لوگ موجود تھے جو دیانت داری کے ساتھ تورات میں خیانت کا ارتکاب کرتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اس دین کی عظیم خدمت بجا لا رہے ہیں ۔ (آیت) ” فاعف عنھم واصفح “ ۔ سے مراد یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ پیکر عفو ورحم ہیں ، اس لئے باوجود ان کی غداریوں اور افتراپردازیوں کے ہمیشہ اغماض وچشم پوشی سے کام لیتے ہیں ۔ تحریف بائیبل کے متعلق علماء کا اختلاف ہے کہ معنوی ہے یا لفظی ، بعض معنوی کے قائل ہیں ، کیونکہ ان کے نزدیک انتہائی بدعملی کے باوجود بھی کتابیں نہیں بدلی جا سکتیں البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ تاویلات فاسدہ سے کتاب کی اصل روح کو تبدیل کردیا جائے ۔ مگر صحیح بات یہ ہے کہ معنوی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ یہ تبدیلیاں بھی موجودہ تورات میں موجود ہیں اور اس کے کئی اسباب ہیں : ١۔ بائیبل کی زبان کا زندہ نہ رہنا ۔ ٢۔ یہود کی تباہیاں ۔ ٣۔ بخت نصر کا تمام صحف انبیاء کو سپرد آتش کردینا ۔ ٤۔ ہمہ گیر جہالت ۔ اور ان سب اسباب کو قرآن حکیم کے جامع الفاظ میں قساوت قلبی سے تعبیر کرسکتے ہیں کیونکہ جب تک دلوں میں مذہبی حس موجود ہے ، کتاب سینوں میں محفوظ رہتی ہے ، اس کی زبان زندہ ہے اور کوئی عنصر اسے تباہ کرنے پر قادر نہیں ہو سکتا ۔ حل لغات : خآئنۃ : خیانت یا خائن گروہ ۔ المآئدہ
14 اغراء عداوت : (ف ١) عیسائی بھی یہودیوں کی طرح اصل پیغام کو چھوڑ بیٹھے اور لاطائل بت پرستانہ مسائل میں الجھ گئے اور مذہب یہ قرار دیا کہ یہودیوں کی مخالفت کی جائے نتیجہ یہ ہوا کہ یہودی بھی عیسائیوں کے خلاف دل میں کینہ اور بغض رکھنے لگے ۔ قرآن کریم نے اس آویزش کا نام اغراء عداوت وبغض رکھا ہے ۔ (آیت) ” الی یوم القیمۃ “ ۔ سے مراد یہ نہیں کہ یہ دونوں قیامت تک باقی بھی رہیں گے بلکہ مدت سے کنایہ ہے کیونکہ (آیت) ” لیظھرہ علی الدین کلہ “ کے ماتحت ایک وقت آئے گا جب کہ اسلام کی عالم افروزروشنی ساری دنیا کو جگمگا دے گی ۔ المآئدہ
15 المآئدہ
16 روشنی کا لیمپ : (ف ٢) اس آیت میں بتایا ہے کہ قرآن روشنی کا لیمپ ہے جو جہل وتعصب کی تاریکیوں سے نکلتا ہے اور علم ورواداری کی پر نور وادیوں میں جگہ دیتا ہے یہی وہ روشنی ہے جو صراط مستقیم کی طرف ہماری رہنمائی کرتی ہے اور یہی وہ پیغام ہے جس کی لمعانی سے دل کے تمام اندھیرے کافور ہوجاتے ہیں ۔ حل لغات : البغضآء : دشمنی ۔ سبل : جمع سبیل ۔ راہ ۔ المآئدہ
17 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ مسیح ابن مریم علیہا السلام کو اقنوم اور خدا ماننا نرا وہم اور کفر ہے کوئی سمجھ دار انسان اس عقیدے کو قبول نہیں کرسکتا ، کیونکہ خدا ساری دنیا کا مالک ہے ، چاہے تو چشم زدن میں مسیح (علیہ السلام) اور مسیح (علیہ السلام) کے ماننے والے تمام لوگوں کو تباہ کر دے اس کی شان جلالی کے سامنے کون ہے جواب کشائی کرسکے ۔ کیا اس کے بنائے ہوئے قانون ہمہ گیر نہیں ؟ کیا یہ درست نہیں کہ مسیح (علیہ السلام) بھی باوجود دعوئے پیغمبری ومصطفائی کے اس کے بنائے ہوئے تمام قاعدوں کا پابند ہے ، جو مسیح (علیہ السلام) ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے کھاتا اور پیتا ہے اور سارے حوائج بشری سے متصف ہے اور جو ہمہ احتیاج ہے وہ بےنیاز کیسے ہو سکتا ہے ؟ اسے رب اور اقنوم اول کیونکر کہا جائے ۔ بات یہ ہے کہ عقیدت ونیاز مندی میں غلو کی وجہ سے لوگوں نے مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا شریک وسہیم قرار دیا ورنہ وہ خود ہمیشہ ” عبودیت “ اور ” غلامی “ پر ہی نازاں رہے ۔ دوسری صدی مسیحی تک لوگ توحید کے قائل رہے ۔ تیسری صدی مسیحی ہیں جب قسطنطین اعظم بعض سیاسی مصالح کی بنا پر عیسائی ہوگیا تو رومی علم اوصنام کے شیوع کے باعث عیسائی لٹریچر میں تثلیث واقانیم کی بحثیں آنے لگیں اور پھر آہستہ آہستہ تثلیث کو مذہبی عقیدہ قرار دے دیا گیا ۔ المآئدہ
18 (ف ٢) ان آیات میں یہودونصاری کے پندار مذہبی کا ذکر ہے کہ وہ اپنے آپ کو خدا کے نہایت مقرب خیال کرتے ۔ اور اس وجہ سے اسلام کی برکات سے تمتع اندوز ہونے سے قاصر رہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم ہرگز کوئی امتیازی شان نہیں رکھتے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا جہان کی ذلتیں تمہارے شامل حال ہیں ، خدا کا تقرب علو عظمت کا مترادف ہے ، یہ ناممکن ہے کہ کوئی قوم خدا کے ہاں معزز ہو اور پھر دنیا میں اس کے لئے کوئی نعمت نہ ہو اور وہ حقارت وغلامی کی زندگی بسر کرے ۔ حل لغات : ابنآء اللہ ۔ خدا کے بیٹے ۔ احبآؤہ : اسکے دوست ۔ المآئدہ
19 (ف ١) فترۃ کے معنی السکون بعد الحدۃ کے ہیں ، یعنی مسیح (علیہ السلام) تک دمادم رسو آتے رہے اور تقریبا ساڑھے چھ سو سال تک پھر کسی کو خلعت بعثت سے نہیں نوازا گیا ، مقصد یہ تھا کہ عالم انسانیت پر پوری تاریکی چھا جائے اور لوگ بےچینی اور اضطراب کے ساتھ اس آفتاب نبوت کا انتظار کریں جو ایک دم آکر کفر وحبل کی تاریکیوں کو روشنی ونور سے بدل دے ۔ المآئدہ
20 نبوت اور بادشاہت : (ف ٢) یہ واقعہ اس لئے بیان کیا ہے تاکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہو کہ بنی اسرائیل ہمیشہ سے بزدل اور دون ہمت ہیں ۔ ان کی طرف سے اگر گرمجوشی کا اظہار نہیں ہوا تو مضائقہ نہیں آپ بدستور دعوت وتبلیغ کے فرائض ادا کئے جائیں ۔ اس آیت میں بتایا ہے کہ نبوت وبادشاہت اللہ کے زبردست انعام ہیں جن سے بنی اسرائیل کو افتخار بخشا گیا ، مگر یہ ہیں کہ پستی اور ذلت پر قانع ہیں ، حرکت واقدام کی صلاحیتیں قطعا مفقود ہیں اور نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض وبرکات سے استفادہ کریں ۔ نبوت کا مقصد دراصل دنیا میں صحیح اور عادلانہ بادشاہت کا قیام ہے ، ایک نبی کے فرائض میں داخل ہے کہ وہ افراد واشخاص کی تمام مخفی طاقتوں کو روبکار لائے اور انہیں اس قابل بنا دے کہ وہ دنیا میں ٹھاٹھ اور پاکیزگی کی زندگی بسر کرسکیں ۔ حل لغات : فترۃ : انقطاع : انبیآء : جمع نبی ۔ المآئدہ
21 (ف ١) اس آیت میں موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کو دعوت جہاد دی اور فرمایا کہ اگر خزاں وناکامی سے بچنا چاہتے ہو تو مقام رایما میں بےدریغ داخل ہوجاؤ ، مقصود یہ تھا کہ قوم میں بادشاہت وملوکیت کے جذبات پیدا ہوں اور وہ حاکمانہ زندگی بسر کرنا سکھیں ، (آیت) ” کتب اللہ لکم ُ“ سے مراد فرضیت جہاد ہے ، وعدہ نہیں ۔ المآئدہ
22 (ف ٢) بنی اسرائیل چونکہ کئی سال تک غلام رہے تھے اس لئے تاب مقاومت جاتی رہی تھی ، جب انہوں نے دیکھا کہ رایما کے رہنے والے ہم سے زیادہ زور آور اور قوی ہیں تو لڑنے سے انکار کردیا ۔ بات یہ ہے کہ غلامی کے اثرات دیر تک قوموں اور نسلوں کو متالم بنائے رکھتے ہیں اور عرصہ تک احساس آزادی بیدار نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کی ترغیب وترتیب کے ان میں جرات اقدام پیدا نہیں ہوئی ۔ المآئدہ
23 (ف ٣) یوشع بن نون اور کالب بن یوحنا صرف یہ دو آدمی تھے جو مجاہدانہ ولولوں کے ساتھ میدان جنگ میں آکودے ۔ (آیت) ” وعلی اللہ فتوکلوا “ سے مراد یہ ہے کہ خدا پر پورا بھروسہ اور اعتماد مترادف ہے جذبہ جہاد کے وہ لوگ جو کفر کے خلاف توکلا علی اللہ “ صف آراء ہوجاتے ہیں ‘ وہی لوگ غلبہ ونصرت سے دوچار ہوتے ہیں اور وہ جو قلت وکثرت اسلحہ وسامان کے جھگڑوں میں مصروف رہتے ہیں ان کے لئے کامیابی کا کوئی امکان نہیں ۔ حل لغات : ملوک : جمع ملک بمعنی بادشاہ ۔ صاحب اختیار ۔ جبارین : جمع جبار ۔ زبردست ، توانا اور قوی ۔ الباب : شہر کا دروازہ ۔ المآئدہ
24 (ف ١) بدبختی اور شقاوت کی یہ انتہائی مثال ہے کہ قوم اس رکھائی سے خدا کے پیغمبر (علیہ السلام) کو جواب دیتی ہے ان کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ خدا اپنے فرستادوں کو ذلت ورسوائی سے کبھی دوچار نہیں ہونے دیتا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کی دعوت وشمولیت کے معنی یہ تھے کہ بنی اسرائیل قید غلامی سے نکل کر اوج حکومت پر جلوہ آراء ہوجائیں ، مگر وہ لوگ جو ذلت وحقارت کی تمام منزلیں طے کرچکے ہوں کہاں اس درجہ فریس ودانا ہو سکتے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ غلامی جرات وجسارت ہی کو غارت نہیں کرتی عقل وہوش کو بھی مٹادیتی ہے ۔ المآئدہ
25 المآئدہ
26 (ف ٢) آزادی وحکومت کے مواقع سے ایک لمحہ غفلت بعض دفعہ برسوں تک کی مسلسل غلامی پر منتج ہوتی ہے بنی اسرائیل نے جب جہاد سے انکار کیا تو انہیں آبادیوں میں سے دور جنگل میں چالیس سال کے لئے حیران وسرگردان چھوڑ دیا گیا تاکہ انکار وتمرد کی تلخیاں برداشت کریں اور یہ محسوس کریں کہ حکومت واختیار خدا کی زبردست نعمت ہے اور نیز یہ کہ اس طویل عرصے میں بیکار اور مردہ صفت لوگ مٹ مٹا جائیں گے اور آئیندہ نئی نسل مجاہد اور جفاکش پیدا ہو گویا چالیس برس کسی قوم کی ٹرینگ اور تربیت کے لئے ہیں جو بالکل مردہ ہوچکی ہو اس کے بعد ان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ پامردی سے جہاد میں حصہ لیں گے ، حل لغات : یتیھون : مادہ تیہ ، حیرانی وسرگردانی ۔ قربان : نیاز ، ہر وہ عبادت جو انسان کو خدا کے قریب کر دے ۔ المآئدہ
27 پہلا انتقام : (ف ١) حسد وبغض پرانا جذبہ ہے ، قابیل نے جب دیکھا کہ اس کی قربانی خدا کے حضور میں مقبول نہیں ہوئی تو مارے غصے کے بےتاب ہوگیا ، کہنے لگا میں تمہیں ضرور قتل کر دوں گا ، ہابیل نے کہا ، اگر چاہتے ہو کہ تمہاری عبادتیں اور نیازیں اللہ کے ہاں قبول ہوں تو اخلاص وتقوی پیدا کرو ۔ المآئدہ
28 عدم تشدد : (ف ٢) ہابیل نے جب دیکھا کہ تیور اچھے نہیں تو پورے تقوی واستقلال سے کہا کہ دیکھو میں تم پر ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا اور کوشش کروں گا کہ تمہیں ظلم وسفاکی کا موقع دوں ۔ بات یہ تھی کہ ہابیل جہاں ایک متقی انسان تھا وہاں اس کے دل میں اخوت وبرادری کے جذبات بھی موجزن تھے ، وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے ہاتھ بھائی کے خون سے آلود ہوں (آیت) ” لاقتلنک “۔ سے مراد یہ ہے کہ ہابیل نے مدافعت تو کی مگر نقصان نہیں پہنچایا ، کیونکہ ایسا عدم تشدد جس میں ظلم کے خلاف کوئی مدافعانہ کوشش نہ کی جائے اسلام میں جائز نہیں ۔ حل لغات : بسطت الی یدک : دست درازی کرنا ہاتھ اٹھانا ۔ المآئدہ
29 المآئدہ
30 المآئدہ
31 سنت تدفین : (ف ١) اسلام چونکہ دین فطرت اور خالص حق سے اس لئے ضروری ہے کہ اس کی ہر بات عدل کے ترازو میں تل کر نکلے اصول سے لے کر فروع تک ہر چیز میں ایک قدرتی نکھار ہو اور کوئی حصہ مذہب ایسا نہ ہو جسے انانی دماغ کا کرشمہ واختراع کہا جا سکے ، مردوں کے متعلق قدیم سے مختلف زاویہ ہائے نگاہ رہے ہیں ، قدیم مصری لاشوں کو مخفی کر کے خواب گاہوں میں بحفاظت تام رکھتے تھے ہندوؤں کا خیال ہے کہ لاش کو گھی وغیرہ ڈال کر جلا دیا جائے ، اسلام اس باب میں بالکل سادہ اور فطری طریق اختیار کرتا ہے یعنی تدفین ، کوے کا قصہ اس لئے بیان کیا ہے تاکہ ابن آدم کا ذہن فورا تدفین کی طرف منتقل ہو سکے چنانچہ یہی ہوا ۔ المآئدہ
32 (ف ٢) (آیت) ” من اجل ذلک “ سے یہ مراد ہے کہ جب ابن آدم حسد وبغض کے جذبات سے متاثر ہو کر اپنے سگے بھائی کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے تو عام انسانوں کے لئے اس نوع کے اقدام میں کوئی باک نہ ہوگا ۔ لہذا ضروری ہے کہ انہیں اس کی اہمیت جتا دی جائے ، چنانچہ ارشاد ہے کہ انسان کے خون کی قیمت نہایت گراں اور پیش بہا ہے ایک فرد کو قتل کرنا پوری قوم وامت کے قتل کے مترادف ہے اور اسی طرح کسی شخص کو مہلکات سے بچانا پوری ملت کو بچانا ہے ۔ (ف ٣) (آیت) ” ولقد جآء تھم رسلنا “۔ سے یہودیوں کی مذمت مقصود ہے کہ یہ لوگ باوجود انبیاء کی زبان فیض التیام سے امن وعافیت کے برکات سننے کے اور باوجود قتل وسفک کے خلاف تعلیمات سے آگاہ ہونے کے پھر بھی اہل حق وصداقت سے الجھتے ہیں اور اسراف وظلم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ حل لغات : یبحث : مادہ بحث ، کریدنا تلاش کرنا ۔ یواری ، مصدرمواراۃ ، چھپانا ، سوء ۃ : امام راغب فرماتے ہیں : وکنی بہ سوءۃ عن الفرح کما قال بدت لھما سواتھما لیبدی لھما مادوی عنھما سواتھما ۔ احیائ: مصدر احیاء زندہ کرنا اور زندہ رکھنا اور بچانا ۔ المآئدہ
33 (ف ١) اس آیت سے پہلے انفرادی قتل واقدام کی مذمت کی تھی اب یہ بتایا ہے کہ یہی جذبہ عصیان اگر فساد فی الارض کی صورت اختیار کرے اور لوگ دین قدیم کی مخالفت کے جوش میں امن وعافیت کے تمام طریقے چھوڑ دیں اور فتنہ وہلاکت کی آگ لگا دیں تو ضروری ہے کہ امام یا ہیئت حاکمہ انہیں سخت سے سخت سزا دے ، چاہے قتل کردے ، چاہے سولی پر چڑھا دے ، چاہے ہاتھ پاؤں آڑے ترچھے کاٹ دے ، اور چاہے ملک بدر کر دے ، اسے اختیار ہے کہ حالات وظروف کے ماتحت انہیں موزوں سزا دے ، المآئدہ
34 (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ مجرم اگر عدالت سے پہلے پہلے گناہ سے تائب ہوجائے تو مواخذہ نہیں یعنی ہر گناہ کے بعد توبہ وانابت کے دروازے کھلے ہیں ۔ المآئدہ
35 وسیلہ کیا ہے : (ف ٣) اس آیت میں دعوت اتقاء ہے مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ تم تمام کے تمام متقی اور خدا ترس بن جاؤ اور خدا کے ہاں تقرب وتزلف کے تمام وسائل ڈھونڈو اور کوشش کرو کہ تمہیں اس کے حریم قدس تک رسائی ہوجائے اور وہ تمہیں اپنا پیارا اور محبوب بنا لے ، مگر سوال یہ ہے کہ وہ وسائل وذرائع کیا ہیں جو اس بارگاہ جلال تک ہم گنہ گاروں کو پہنچا دیں اور جن کے حصول کے بعد ابدی حیات اور زندگی جاوید عطا ہو ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر وہ سعی واقدام جو اعلاء حق کے لئے روبراء آئے اور بالخصوص جہاد فی سبیل اللہ کہ اس کے بعد خدا کی رضا کے دروازے از خود کھل جاتے ہیں ۔ حل لغات : مسرفون : مصدر اسراف ، زیادتی کرنا ۔ حدود جائزہ سے تجاوز کرنا ۔ الوسیلۃ : ہر وہ چیز جو تقرب میں آگے بڑھا دے یعنی تمام اعمال حسنہ ۔ المآئدہ
36 (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ کفر وہ بندنصیبی ہے جس کی تلافی ساری کائنات دے کر بھی نہیں ہو سکتی ، وہ لوگ جو اس دنیا میں حقائق سے منہ پھیر لیتے ہیں ، حشر میں شفقت ورحمت کے چشموں کو سوکھا ہوا پائیں گے اور کوئی کوشش انہیں جہنم کے عذاب مقیم سے باہر نہ نکال سکے گی ۔ المآئدہ
37 المآئدہ
38 قطع ید کی حکمت : (ف ٢) اسلامی قانون تعزیرات کا مقصد یہ ہے عام انسانوں کو مضرت ونقصان سے بچایا جائے اور اگر اس سلسلے میں چند افراد کڑی سے کڑی سزا بھی جھیل لیں تو مضائقہ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ قرون اولی میں جرائم کی رفتار تقریبا معدوم ہے اور جو چند ایسی مثالیں ملتی ہیں جن کی اخلاقی لحاظ سے مذموم کیا جا سکتا ہے تو وہاں بھی مذامت واعتراف کا یہ شان دار مظاہرہ ہے کہ مجرم خود عدالت میں آگیا ہے تاکہ اسے موزوں ومناسب سزا دی جائے ، یہ درست ہے کہ اسلامی سزائیں ذرا سخت ہیں مگر کیا سختی ہی برکات وسعادات کا موجب نہیں ، بات یہ ہے کہ اگر ایک شخص ہاتھ کٹوا کرناکارہ ہوجاتا ہے تو سیکڑوں انسان اس کی وجہ سے عبرت حاصل کرتے ہیں ۔ اس لیے یہ کہنا سراسر ناانصافی ہے کہ اسلامی سزائیں ازمنہ وحشیہ کی یادگار ہیں ، کیونکہ وحشت تو وہ ہے جس کی وجہ سے دنیا میں مظالم کی کثرت ہو ۔ نہ وہ نظام جو جرائم کو بیخ وبن سے اکھاڑ دے ، آج یورپ کو اپنی انسانیت پر ناز ہے مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ وہاں تمام دنیا سے زیادہ جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے ۔ یہ ٹھیک ہے انسانی عزت وحرمت کا تقاضا ہے کہ زیادہ ہولناک سزا دی جائے ، مگر کیا سوسائٹی کی عزت وحرمت سے زیادہ بیش قمیت نہیں ، یہ یاد رہے کہ سزا دینا کافی نہیں ، ساتھ ساتھ تربیت بھی ہونا چاہئے تزکیہ وتطہیر کو چھوڑ کر صرف تعزیز اکثر مضر پڑتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اخلاق کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور تعزیرات کو مزہب کے ماتحت رکھا ہے تاکہ لوگوں میں روحانیت کی وجہ سے اعلی درجے کی عادات پیدا ہوں اور وہ گناہوں سے از خود نفرت کرنے لگیں ۔ حل لغات : عذاب مقیم : عذاب دائم ۔ نکالا : سزا ۔ المآئدہ
39 المآئدہ
40 (ف ١) بات یہ ہے کہ اسلام چونکہ ایک کامل اور ہمہ گیر دستور العمل کا نام ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ اس میں اخلاق وروحانیت کے پہلو بہ پہلو سیاست ملکی اور تعزیرات کی بھی بہ تفصیل بیان کیا جائے اور چونکہ اس کا انتساب اس ذات گرامی سے ہے جو پاتال سے لے کر طوبی تک حکمران ہے اس لئے لازما اس میں ہمہ گیری کا رنگ نمایاں نظر آنا چاہئے اور یہی وہ چیز ہے جو اسے دوسرے مذاہب سے ممتاز ومتبائن قرار دیتی ہے ۔ (آیت) ” لہ ملک السموت والارض واللہ علی کل شیء قدیر “۔ میں اسی وسعت وتفصیل کی طرف اشارہ ہے یعنی چونکہ خدائے اسلام کی قدرتیں اور اختیارات لامحدود اور وسیع ہیں اس لئے وہ دین بھی جو سچا اور حقیقی دین ہے ، اسی تناسب سے ہمہ گیر اور وسیع ہونا چاہئے ۔ المآئدہ
41 انبیاء علیہم السلام کی بےچینی : (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ رسول چونکہ پیکر ہوتا ہے خلوص اور شفقت کا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ختم الرسل ہیں یعنی خلوص اور شفقت کی انتہائی اور آخری صورت اس لئے ضرور ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفر ونفاق سب سے زیادہ تکلیف دہ محسوس ہو ۔ (آیت) ” لایحزنک “ میں تلقین یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس درد سے بےچین ہیں ‘ اس میں تخفیف پیدا کیجئے کیونکہ جب یہی لوگ کفر ونفاق کی وجہ سے دکھ محسوس نہیں کرتے تو آپ کیوں حزن وملال سے کام لیں ۔ باوجود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفقتوں کے یہ منافقین کا گروہ ہمیشہ اسلام کی برکات سے محروم رہا اور ان کے دل آیات وبراہین دیکھنے کے باوجود خبث وکفر کے حامل رہے ، اس لئے خدا نے فرمایا کہ جب یہی اصلاح و ایمان کے ذوق سے آشنا نہیں ہونا چاہتے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیوں ان کے لئے بےقرار ہیں ۔ بات یہ ہے کہ نبی اپنے عہدے ومنصب کے لحاظ سے مجبور ہے کہ قوم کے لئے بےپناہ درد اپنے سینے مین پنہاں رکھے وہ دن اور رات ہمہ وقت ملت کی اصلاح کے لئے بےچین رہتا ہے اور باوجود سخت تکالیف کے بجز ” اللھم اھد قومی فانھم لا یعلمون “ اور کچھ نہیں کہتا ۔ اس کے بعد یہودیوں کے جرائم گنائے ہیں کہ دیکھو ، یہ کم بخت کتنے جھوٹے ہیں اور کس طرح جاسوسی جیسے فعل شنیع کا ارتکاب کرتے ہیں اور کیونکر احکام الہی کو اپنی حسب منشا بدل لیتے ہیں ان سے خدا نے ہدایت کی توفیق چھین لی ہے اور دنیا اور آخرت میں ان کے سوائے ذلت اور رسوائی کے اور کوئی چیز مقدر نہیں ۔ یہ لوگ جھوٹے اور حرام خور ہیں ، ان کی فطرت مسخ ہوچکی ہے مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگ اگر اسلام کی روشنی کو قبول نہ کریں تو مضائقہ نہیں یہ اس درجہ ہدایت ورشد سے دور ہوچکے ہیں کہ اب ان کا راہ راست پر آنا از قبیل محالات ہے ۔ حل لغات : یسارعون ، مصدر یسارعۃ ۔ جلد بازی کرنا لپک کر اور دوڑ کر کسی چیز میں حصہ لینا ۔ ھادوا ، یعنی یہودی ، یہودا کی طرف منسوب کرنا ۔ فاحذروہ : مادہ حذر ، بچو احتراز کرو ۔ فتنۃ : ۔ آزمائش ۔ ابتلاء ۔ المآئدہ
42 قضیہ تحکیم : (ف ١) یہودی پستی اور ذلت کی اس حد تک پہنچ چکے تھے جہاں احکام الہی کا وقار باقی نہیں رہتا اور طبیعتیں مداہنت وتحریف کی طرف مائل ہوجاتی ہیں اور جہاں مذہب کا مقصود محض ریاکاری اور فریب رہ جاتا ہے ، اس لئے جب ان میں کا کوئی معزز آدمی گناہ کا ارتکاب کرتا تو یہودی علماء تورات میں تحریف معنوی سے کام لیتے اور کہتے ، اس جرم کی سزا زیادہ سنگین نہیں اور جب کوئی غریب اور بےکس انسان بتقاضائے بشریت بھول چوک سے دو چار ہوجاتا تو ان کا جذبہ علم وقضا پورے جوش میں آجاتا ، اور اسے سنگین سے سنگین سزا دیتے ، قصہ یہ ہوا کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر میں کسی بات پر جھگڑا ہوگیا اور جھگڑے نے طول کھینچا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک قریظی مارا گیا ، بنو قریظہ کا مطالبہ یہ تھا کہ اس کے معاوضے میں یا تو قتل کی اجازت دی جائے اور یا ودیت دلائی جائے ، بنو نضیر چونکہ ان سے نسبتا زیادہ معزز تھے اس لئے رعایت کے طالب ہوئے ، علماء یہود نے بنی نضیر کا ساتھ دیا اور کہ ہمارا فیصلہ بالکل درست ہے شک ہو تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم بنالو ۔ اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تخاطب ہے کہ اگر آپ کے پاس یہ لوگ فیصلہ لائیں تو انہیں ہرگز کسی جانب داری کی توقع نہ رکھنی چاہئے آپ صاف صاف بےلاگ فیصلہ کردیں ، مقصود یہ ہے کہ خدا کا نبی تمہاری مداہنتوں اور منافقتوں کا ساتھ نہیں دے گا ۔ المآئدہ
43 (ف ٢) (آیت) ” وکیف یحکمونک “۔ میں اظہار تعجب ہے یعنی جب تورات میں قتل کی سزا واضح طور پر مرقوم ہے تو پھر یہ کیا سمجھ کر آپ کو حکم بنا رہے ہیں مقصد یہ ہے کہ رعایت کے طالب ہیں ، ورنہ صحیح فیصلہ پر انہیں اطمینان خاطر نہیں ۔ حل لغات : بالقسط : یعنی بلارعایت وجانب داری کے شریعت وآئین کے بالکل مطابق ۔ یحکمون : مصدر تحکیم ۔ حکم بنانا ، منصف بنانا ، ربانیون : اللہ والے ۔ المآئدہ
44 (ف ١) یعنی تورات میں ہدایت ونور کا کافی سامان ہے ، تمام گزشتہ انبیاء کا دستور العمل تورات ہی رہی ہے ، احبار وعلماء بھی مکلف تھے کہ تورات کو یاد رکھیں اور بلالومۃ لائم اس کے موافق فیصلہ کریں اور دنیوی اغراض کے لئے خدا کے احکام کو بیچ نہ دیں ۔ آیت کا یہ مقصد نہیں کہ تورات مسلمانوں کے لئے حجت ہے یا اب بھی یہودی تو رات ہی کو ماننے کے مکلف ہیں ، کیونکہ آفتاب ہدایت کے بعد ستاروں کی روشنی ماند پڑجاتی ہے اور دن نکل آنے کے بعد کوئی گھروں میں چراغ نہیں جلاتا ، غرض صرف یہ ہے کہ مسلمات میں تحریف بدترین بدیانتی ہے جس کا یہودی ارتکاب کرتے ہیں ۔ (آیت) ” بما انزل اللہ “ سے مراد صرف قرآن نہیں بلکہ اسوہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ہے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت قرآن حکیم کی رو سے لازم وواجب ہے (آیت) ” ما اتکم ال رسول فخذوہ وما نھکم عنہ فانتھوا “۔ المآئدہ
45 (ف ٢) اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ یہود میں قتل کا قصاص واجب ہے اور اس میں بڑے چھوٹے کی کوئی تخصیص نہیں اور یہودی اس لحاظ سے سخت مجرم ہیں کہ وہ حدود تعزیرات میں تحریف سے کام لیتے ہیں ۔ حل لغات : الانف : ناک ۔ الاذن : کان ۔ السن : دانت ۔ الجروح : جمع جرح ۔ بمعنی زخم ۔ المآئدہ
46 (ف ١) مسیح (علیہ السلام) کی تعلیمات تورات سے قدرے مختلف ہیں اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے غرض ومقصد میں اختلاف وتضاد ہے بلکہ یہ ہے کہ حالات وواقعات کے ماتحت تعلیمات کا بظاہر فروع میں مختلف ہونا لابدی اور ضروری ہے مگر اصول واساس میں پوری وحدت ویکسانی ہوتی ہے جس طرح یہ ضروری ہے کہ قدرت کے دوسرے مظاہر مادیہ میں وحدت یکجہتی ہو اسی طرح شرائع اور ادعیان بھی باوجود تنوع کے ایک محسوس وحدت اپنے اندر پنہاں رکھتے ہیں سب کی غرض وغایت یہ ہوتی ہے کہ انسان کو روح وجسم سمیت ارتقاء کی سب سے اونچی سیڑھی پر چڑھایا جائے اور اس میں حالات وظروف کے ماتھت اس نوع کی استعداد پیدا کی جائے کہ وہ دنیا و عقبی کی سعادتوں کا حامل ثابت ہو یہی وجہ ہے کہ ہر لاحق سابق کی تائید کرتا ہے اور ہر پچھلا پہلے کا مصدق قرار پاتا ہے ۔ (اس آیت میں اسی حقیقت ثابتیہ کی طرف اشارہ ہے کہ تورات وانجیل دونوں کتابیں اللہ کی ہیں اور دونوں پر ایمان لانا اور دونوں کو خدا کی طرف سے ماننا ضروری ہے ۔ المآئدہ
47 انجیلی فیصلے : (ف ٢) ولیحکم سے قبل قلنا محذوف ہے یعنی ہم نے انجیل دینے کے بعد اہل انجیل سے کہا کہ تم ہمیشہ انجیلی فیصلوں کے ماتحت اپنی زندگی گزارو اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ” والیحکم کتبنا “ اور قفینا “ کے سیاق میں درج ہے اور قرآن حکیم میں ایسے مواقع پر الفاظ زائدہ کو محذوف رکھا جاتا ہے ، جیسے اہل جنت کے ذکر میں فرمایا (آیت) ” ولملٓئکۃ یدخلون علیھم من کل باب سلام علیکم “ یعنی جب فرشتے جنت والوں کے پاس آئیں گے تو کہیں گے تم پر سل امتی ہو یہاں ” یقولون “ کا لفظ محذوف ہے ۔ (آیت) ” ومن یحکم بما انزل اللہ “ سے مراد یہ ہے کہ انجیل والے مکلف ہیں کہ اپنی آراء کو شریعت کے باب میں مطلقا ترک کردیں اور صرف خدا کے نازل کردہ احکام کی پیروی کریں ورنہ فسق وکفر کا خلعت انہیں پہنایا جائے گا ۔ حل لغات : قفینا : مصدر تقفی اصل قفا ۔ یعنی پیچھے لگایا ۔ المآئدہ
48 مصدق ومہیمن کتاب : (ف ١) قرآن حکیم کے متعلق یہاں ارشاد ہے کہ وہ حق وصداقت ہے یعنی حالات وضروریات کے بالکل موافق اور مطابق ہے اور مصدق ہے یعنی تمام پیشگوئیاں جو پہلی کتابوں میں مرقوم تھیں ، قرآن پاک کے نزول سے ثابت ومتحقق ہوگئی ہیں یعنی تصدیق کے معنی یہاں سچا ثابت کرنے کے ہیں جیسے شاعر کہتا ہے ۔ ع فوارس صدقت فیھم ظنونی : اور مھیمن بھی ہے یعنی پہلی کتابوں کی صداقت پر شاہد اکبر جیسے حضرت حسان (رض) فرماتے ہیں ۔ ان ال کتاب مھیمن بیننا والحق العرفہ ذوالالباب : (ترجمہ) تورات وانجیل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر گواہ ہیں اور سچائی کو سب عقلمند جانتے پہچانتے ہیں ۔ مقصد یہ کہ قرآن حکیم کی حیثیت گواہ اور شاہد کی ہے یہ نہ ہو تو پہلی کتابیں یکسر مشکوک ٹھہریں (آیت) ” فاحکم بینھم بما انزل اللہ “۔ سے مراد یہ ہے کہ اب قرآن حکیم کے نزول کے بعد قرآن ہی حکم رہے گا ، آپ مجاز نہیں کہ کسی دوسری چیز کو کوئی وقعت دیں ۔ (آیت) ” لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنھا جا “۔ سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کو حالات وظروف کے ماتحت ایک طریق نجات بتایا ہے ، اس لئے یہ اختلاف ادیان بہرحال باقی رہے ، آپ گھبرائیں نہیں خدا کی مشیت کا تقاضا اگر یہ ہوتا کہ سب آپ کی دعوت کو قبول کرلیں تو سرے سے اختلاف ہی پیدا نہ ہوتا اور تمام قومیں ایک قوم کی شکل میں نظر آتیں ، اور جب ایسا نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ مقصد اپنے اپنے زمانے میں خیرات وحسنات کی طرف سبقت لے جانا ہے ۔ اس لئے آپ بدستور (آیت) ” ما انزل اللہ “ کی تبلیغ میں مصروف رہیں اور یہود ونصاری کے جذبات وامیال سے کامل احتراز اختیار کریں ۔ حل لغات : مھیمن : شاہد ۔ اھوآء ھم : خواہشات نفس ۔ المآئدہ
49 المآئدہ
50 (ف ١) جاہلیت کا زمانہ وہ ہے جب آفتاب اسلام طلوع نہیں ہوا تھا اور وہ لوگ پوری تاریکی میں تھے ، اس وقت قاعدہ یہ تھا کہ امراء ومعززین کی رعایت کی جائے اور غربا وبے کس لوگوں کو سزائیں دی جائیں ۔ قرآن حکیم کہتا ہے کیا اہل کتاب بھی اس قسم کے فیصلوں کو چاہتے ہیں جس میں عدل وانصاف کیا گیا ہو ؟ یعنی بنو قریظہ اور بنو نضیر کے معاملہ میں ناانصافی نہیں کی جاسکتی ، دونوں یہودی ہیں اور دونوں یکساں عزت وحرمت کے مالک ہیں ہیں ۔ المآئدہ
51 (ف ٢) اولیآء سے مراد وہ دوست ہیں جو تمہیں بددیانتی اور بداخلاقی پر مجبور کردیں ورنہ عام معاشی اور شہری تعلقات میں کوئی مضائقہ نہیں ، ۔ حل لغات : فاسقون : جمع فاسق ۔ احکام خدواندی کی مخالفت کرنے والے ۔ المآئدہ
52 (ف ١) اگر وہ مناقین در پردہ یہود ونصاری سے ملا رہتا اور وجہ جواز یہ پیش کرتا کہ یہ لوگ مال دار ہیں وقت پڑنے پر کام آئیں گے ۔ اس آیت میں اس وہم کا جواب ہے فرمایا کہ کم بختو ! تمہیں کیا معلوم کہ مسلمانوں کی قسمت چمکنے والی ہے اور وہ زمانہ قریب ہے جب فتوحات کا دائرہ وسیع ہوجائے گا اور غریب ومفلس مسلمان لوگوں کی قسمت کے مالک ٹھہریں گے ، اس وقت ندامت وحسرت سے دو چار ہونا پڑے گا ، اس لئے مداہنت سے باز آجاؤ اور عارضی اعانت کے بھروسے پر ایمان جیسی متاع گراں قدر ہاتھ سے نہ دو ۔ المآئدہ
53 (ف ٢) پہلی آیت سے متعلق ہے ، یعنی جب مسلمانوں کا افلاس عزت وشرف سے بدل جائے گا تو اس وقت وہ منافقین کو مخاطب کرکے از راہ تعجب وتحقیر کہیں گے کیا یہی وہ لوگ ہیں جو ایمان کا منافقانہ اظہار کرتے تھے اور آج یہ کیفیت ہے کہ تمام اعمال ضائع اور تمام کوششیں رائیگاں ہیں ۔ حل لغات : دآئرۃ : پھیر ۔ گردش گردوں ۔ اسروا : مصدر اسرار چھپانا ، ظاہر کرنا ذوات الاضداد سے ہے ، یہاں مراد چھپانا ہے ۔ جھدایمانھم : مضبوط حلف ۔ المآئدہ
54 اسلام ہرگز خطرہ میں نہیں : (ف ١) ایک طرف یہودیوں کی یہ سازش تھی کہ سادہ لوح مسلمانوں کو ارتداد پرآمادہ کیا جائے ، دوسری طرف جھوٹے مدعیان نبوت کوشاں تھے کہ کسی طرح نادان اور بےوقوف لوگوں کے متاع ایمان پر ڈاکہ ڈالا جائے ، نتیجہ یہ تھا کہ چند بےوقوف جن کے دل ذوق ایمان سے صحیح طور پر آشنا نہ تھے ، ارتداد اختیار کرنے لگے ۔ اس آیت میں بتایا کہ یاد رکھو ، تمہاری ان حرکتوں سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ، تم اگر ارتداد اختیار کرلو لے تو خدا اپنے دین کی حمایت کے لئے اور پرجوش اور مخلص مسلمان پیدا کر دے گا جنہیں اللہ اور اس کے دین سے عشق ہوگا اور جو مسلمانوں کے لئے نہایت شفیق ورحیم ہوں گے ، مگر کفر کے لئے صاعقہ جانسوز وہ مجاہد ہوں گے اور خدا کی راہ میں کسی ملامت ولوم کی پرواہ نہیں کریں گے ۔ یعنی اسلام اللہ کا دین ہے ، اسے کسی نقصان اور سازش کا ڈر نہیں وہ بڑھے گا کفر کی ساری کوششیں طاغوت کا سارا زور اسے ترقی سے نہیں روک سکتا ، وہ صرف اس لئے آیا ہے تاکہ سب پر غالب رہے اور تمام لوگ اسے اختیار کرلیں ۔ حل لغات : اذلۃ : جمع ذلیل ۔ اعزۃ : جمع عزیز ۔ المآئدہ
55 المآئدہ
56 (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ مسلمانوں کو اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور تمام مخلص مسلمانوں کی تائید حاصل ہے ، اس لئے یہ گروہ خدا کا گروہ ہے جس کی قسمت میں ابدا نصرت وغلبہ مقدر ہے ۔ المآئدہ
57 المآئدہ
58 (ف ٢) مکے میں جہاں ماننے والے مخلص ایمان دار موجود تھے ، وہاں وہ بھی تھے جو شعائر دین کا مضحکہ اڑاتے ، جب اذان ہوتی اور بندگان خدا کو پیش گاہ عزت وجلال میں دعوت عبادت ونیاز مندی دی جاتی تو ہنستے اور کہتے ، دیکھنے مسلمانوں کی عبادت کتنی خندہ آفرین ہے یعنی رکوع وسجود اور تسبیح وتہلیل کا یہ شان دار مظاہرہ جسے قرآن کی اصطلاح میں صلوۃ سے تعبیر کیا جاتا ہے ان کے لئے ناقابل فہم عمل تھا ۔ قرآن حکیم فرماتا ہے جو لوگ اس نوع کے بد ذوق ہیں اور ایمان واتقاء کی نعمتوں سے انکے دامن یکسر خالی ہیں ‘ ہرگز اس قابل نہیں کہ مسلمانوں کے لئے کوئی جاذبیت اپنے اندر پیدا کرسکیں اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ ان کی صحبت و دوستی سے پرہیز کریں تاکہ نفاق ومداہنت کی باتین سن سن کر ان کی حس مذہبی مردہ نہ ہوجائے ، المآئدہ
59 دشمن کیوں ہو ؟ : (ف ٣) اس آیت میں اہل کتاب سے انکار واستہزاء کا سبب دریافت کیا ہے یعنی ان سے پوچھا ہے کہ ہم آخر مورد عتاب کیوں ہیں ؟ کیا اس لئے کہ ہمارے دلوں میں ایمان باللہ کی آگ روشن ہے اور ہم تمام انبیاء علیہم السلام کا یکساں احترام کرتے ہیں ، نیز ہمارے نزدیک ہر سچائی قابل اعتراف واحترام ہے اس لئے کہ ہم کسی خدا پرست پیغمبر کا انکار نہیں کرتے اور سب کو فیوض وبرکات الہیہ کا حامل ومتکف سمجھتے ہیں کیا توحید جرم ہے اس طلعت حق کا جمال ہر جبین رسالت میں جلوہ آراہ نہیں اور کیا یہ جھوٹ ہے کہ سب رسول اسی کے بحارقدرت وعلم کے شناور ہیں ؟ وجہ کیا ہے کہ ہم پر اتہام وایزا کے تمام تیر برسائے جاتے ہیں یعنی جب تمہاری حالت خود یہ ہے کہ فسق وفجور کا منبع ومخزن ہو تو پھر حق پرستوں سے یہ دشمنی کیوں ؟ حل لغات : ھزوا : ٹھٹھا ۔ مذاق ۔ نادیتم مصدر مناداۃ ۔ بلانا پکارنا ۔ یعنی اذان دینا ۔ تنقمون : مادہ تقمۃ ، عذاب تکلیف ، کینہ ۔ المآئدہ
60 (ف ١) (آیت) ” بشر من ذلک “ سے مراد یہ ہے کہ اگر تم عقائد صحیحہ کو درست اور ٹھیک خیال نہیں کرتے اور توحید تمہارے نزدیک برائی کا نام ہے تو بتاؤ اللہ کی لعنتیں اور غضب وغضہ کو کیا کہو گے ؟ کیا تم ہی وہ نہیں ہو جنہیں نافرمانی وعصیان کے معاوضے میں بندر اور سور بنا دیا گیا اور طاغوت پرستی تمہاری گھٹی میں ڈال دی گئی ؟ پھر کیا تم ہی بدترین اور گمراہ تر نہیں ہو ؟ مقصد یہ ہے ” بشر “ کا لفظ بطور مفروضے کے ہے حقیقت کے نہیں ۔ (آیت) ” وعبدالطاغوت “۔ میں لوگوں نے مختلف قرات کا ذکر کیا ہے جو تمام تر شاذ ہیں اور ساقط الاعتبار یہ خالص عربی انداز بیان ہے جس میں کوئی الجھن نہیں اس لئے یہی موزوں ہے کہ قرات متواترہ کو ترجیح دی جائے اور عبد کو بصورت فعل پڑھا جائے ، المآئدہ
61 (ف ٢) یہودویں میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بغرض استفادہ آتے اور بظاہر ارشادات گرامی سن کر تاثر و ایمان کا اظہار بھی کرتے مگر دلوں میں بدستور کفر وخبث کا انبار پنہاں رکھتے ، اس آیت میں انہیں بدبختوں کا ذکر ہے کہ یہ لوگ معارف وحکم کا دریا بہتا ہوا دیکھتے ہیں ، مگر ان کے لب ہنوز تشنہ ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ سے سچائی اور صداقت کے پھول گرتے ہوئے دیکھتے ہیں مگر قلوب میں کوئی تاثر پیدا نہیں ہوتا ۔ بات یہ ہے کہ نفاق کا حجاب کثیف ایمان کی روشنی میں حائل ہے ورنہ آفتاب نکلے اور تمازت محسوس نہ ہو کیسے ممکن ہے ؟ حل لغات : مثوبۃ : جزائے خیر ، اجر ۔ القردۃ : جمعر قرد ۔ بندر ۔ خنازیر : جمع خنزیر ۔ سور ۔ المآئدہ
62 (ف ١) اس آیت میں یہودیوں کی مذہبی بےحسی اور بدعملی کا ذکر ہے کہ یہ لوگ بےدریغ جھوٹ بولتے ہیں حرام کار ہیں اور حرام خوری ہیں قطعا تامل نہیں کرتے ۔ المآئدہ
63 (ف ٢) اس آیت میں یہودیوں کے علماء کو ڈانٹ پلائی ہے کہ یہ کم بخت کیوں قوم کو جرائم پیشگی پر آمادہ کرتے ہیں ، ان کا منصب اصلاح ورہنمائی انہیں کیوں مجبور نہیں کرتا کہ وہ میدان عمل میں کودیں اور قوم میں تقوی وتورع کی روح پھونک دیں ۔ المآئدہ
64 خدا کے ہاتھ کشادہ ہیں : (ف ٣) (آیت) ” یداللہ مغلولۃ “۔ کنایہ ہے بخل سے یعنی یہودی جاہ وتمول کے نشے میں مخمور ہو کر مسلمانوں سے کہتے تھے تمہارا خدا تمہارے حق میں کشادہ دست نہیں ۔ فرمایا ۔ اس مذاق کا جواب یہ ہے کہ تم پر خدا کا عذاب آئے گا اور سیم وزر کے یہ انبار چھین لئے جائیں گے جن پر تمہارا قبضہ ہے اور جن کی وجہ سے تمہاری آنکھیں بند ہوگئی ہیں ، ہماری جناب میں یہ گستاخی ناقابل عفو ہے یاد رکھو ‘ خدا کے ہاتھ کشادہ ہیں ‘ مگر وہ مجبور نہیں کہ تمہاری مرضی وارادے کے موافق خرچ کرے ، وہ جب چاہے گا مسلمانوں کے لئے رزق کے دروازے کھول دے گا اور تم کو تمہاری سرسبز وشاداب وادیوں سے نکال دے گا ۔ اس کے بعد فرمایا کہ ان لوگوں میں قبولیت کی کوئی استعداد باقی نہیں رہی ، جب بھی خدا کے فیوض کا اظہار ہوگا ان کا تمرد وانکار بڑھتا جائے گا کیونکہ ان کی طبیعتیں مسخ ہوچکی ہیں اور دل سیاہ اس کے بعد ان کے باہمی اختلاف کا تذکرہ ہے کہ یہ لوگ قیامت تک آپس میں دست وگریبان رہیں گے ۔ حل لغات : الاثم : مطلقا برائی ۔ بری بات ۔ ید اللہ : بطور مجاز کے ہے ۔ المآئدہ
65 المآئدہ
66 (ف ١) اس آیت میں یہودیوں اور عیسائیوں کو اقامت دین کے لئے دعوت دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر تم صحیح معنوں میں اہل کتاب ہوجاؤ اور اپنے اعمال سے ثابت کر دو کہ تمہیں دینداری سے بہرہ وافر ملا ہے تو اللہ کی بخششوں کے دروازے کھل جائیں گے ، یعنی ایک طرف اخروی زندگی میں (آیت) ” جنت ونعیم “۔ کے مزے ہیں اور دوسری طرف دنیا میں رزق وعیش کی فراوانی ، مقصد یہ ہے کہ دیندار انسان کسی طرح بھی گھاٹے میں نہیں رہتا ، دنیا وعاقب دونوں جہان کی بشارتیں اس کے لئے مخصوص ہیں ۔ (آیت) ” وما انزل الیہم “ کی تعمیم میں قرآن اور اس کی تمام صداقتیں داخل ہیں ۔ کیونکہ اس وقت تک توریت وانجیل پر عمل نہیں ہو سکتا ، جب تک اس صداقت مشہود کا اقرار نہ کیا جائے جس کا نام قرآن ہے ۔ حل لغات : (آیت) ” الی یوم القیمۃ “۔ کنایہ ہے مدت دید سے ، مراد تابید نہیں ، کیونکہ ایک وقت آئے گا جب سب لوگ اسلامی ہدایات کو قبول کریں گے اور دنیا میں کوئی تفرقہ باقی نہیں رہے گا ۔ ارجلھم : جمع رجل ۔ پاؤں ۔ مقتصدۃ : اعتدال پسند یعنی مسلمان ۔ المآئدہ
67 منصب دعوت اور وعدہ عصمت : (ف ١) نبوت کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص انسانیت کے فراز اعلی پر جلوہ گر ہے اور اس کا دل مہیط انوار الہی ہے اسے حکم ہے کہ اس روشنی کو جو تمہارے قلب پر پر تو فگن ہے عام کر دے اور دیدہ بینا کو موقع دے کہ وہ اس نور خالص سے بقدر تاب وتواں استفادہ کریں ۔ اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت کی گئی ہے کہ خدا کے احکام ومعارف بندوں تک بےکم وکاست پہنچا دیں ورنہ منصب دعوت ورسالت کے خلاف ہوگا ۔ آیت کا مقصد یہ نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی بخل سے کام لیں گے اور فیوض وانوار سے محروم رکھیں گے کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نسبت بتصریح مذکور ہے ۔ (آیت) ” وما ھو علی الغیب بضنین “۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خزینہ غیب تقسیم کرنے میں ممسک نہیں ہیں ۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق اخفاء واسرار کا عقیدہ رکھنا عہدہ رسالت سے ناواقفیت کی دلیل ہے یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمی فیض وافادہ ہیں یہ محض غلط ہے کہ آپ نے چند چیزیں عوام سے پوشیدہ رکھی ہیں اور وہ سینہ بسینہ منتقل ہوتی چلی آرہی ہیں اسلام میں کوئی راز داری نہیں وہ صاف واضح روشن طریق عمل کا نام ہے ۔ (آیت) ” واللہ یعصمک “ میں عصمت ومحفوظیت کا وعدہ ہے یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات دشمنوں کی ہر سیہ کاری سے محفوظ ہیں ۔ قریش مکہ نے جب چاہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے معاذ اللہ ختم کردیا جائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وعدہ عصمت کی بنا پر ان کی آنکھوں میں دھول ڈالتے ہوئے صاف نکل گئے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیمات بھی باوجود ہر سعی الحاد کے ویسی کی ویسی تابندہ وروشن ہیں ۔ المآئدہ
68 (ف ٢) آیت کا مقصد یہ ہے کہ زبانی دعوے دینداری کوئی چیز نہیں ، جب تک تمام منزل من اللہ کتب پر یکساں ایمان نہ ہو ۔ حل لغات : حتی تقیموالتورۃ : اقامت توریت کے معنی اس پر پوری پوری طرح عمل کرنا ہے ۔ المآئدہ
69 من امن باللہ : (ف ١) آیت کے عموم سے بعض روشن خیال لوگوں نے دھوکا کھایا ہے اور یہ سمجھا ہے کہ اسلام صرف ایمان وعمل صالح کا نام ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ماننا ضروری نہیں مگر یہ عقیدہ بوجوہ غلط اور گمراہ کن ہے ۔ ١۔ اس لئے کہ قرآن حکیم نے ایک مستقل نظام حیات پیش کیا ہے جس میں عقائد سے لے کر اعمال کی جزئیات پر تک تلقین کی ہے اور جو تمام انسانی ضروریات پر حاوی ومشتمل ہے صرف عقائد وتوحید کا نام اسلام نہیں کہ مذکورہ بالا عقیدہ کو درست تسلیم کرلیا جائے ۔ ٢۔ قرآن حکیم ایک مرتب اور مربوط کلام ہے اس میں سیاق کا خیال نہ رکھنا انتہا درجہ کی گمراہی ہے ، بیشتر کی آیات میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ قرآن حکیم کو نہ ماننے والے کافر ہیں ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افسوس نہ کریں (آیت ) ” فلا تاس علی القوم الکفرین “۔ ٣۔ ایمان باللہ کے معنی قرآن حکیم کی اصطلاح میں اسلام کو اس کی کامل شکل میں ماننے کے ہیں نہ کہ سرسری عقیدہ توحید کے کیونکہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے کمال وتفصیل کے ساتھ ایمان کی تشریح فرمائی ہے ، دیکھئے وہ مقامات جہاں ایمان باللہ کا ذکر ہے ، آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ خدائے تعالیٰ مومن باللہ سے وہی توقعات وابستہ کئے ہوئے ہیں جو ایک مصلح مسلمان سے کی جا سکتی ہیں ۔ ٤۔ اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس قدر تاکید ہے اور اس کے انکار پر صاف صاف وعیدیں ہیں کہ تاویل کی کوئی گنجائش نہیں ۔ المآئدہ
70 (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ بنی اسرائیل سے اطاعت انبیاء کا عہد لیا گیا مگر وہ ہمیشہ منکر رہے اور صرف انکار ہی نہیں کیا بلکہ بعض اللہ کے پرستاروں کو شہید بھی کر ڈالا اور یہ قطعا نہ سوچا کہ اس ظلم عظیم کی ہمیں کوئی سزا بھی ملے گی ، نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کی غیرت جوش میں آئی اور بخت نصر کے ہاتھوں انہیں ہولناک عذاب میں مبتلا کیا گیا جس سے سارے اسرائیلی لرز اٹھے ۔ حل لغات : فریقا : گروہ ۔ جماعت ۔ فعموا : اندھے ہوگئے ، مصدر عمی ۔ صموا : بہرے ہوگئے ، مصدر صمم : المآئدہ
71 المآئدہ
72 (ف ١) اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ ابن مریم علیہا السلام کو خدا کے مقام رفیع پر فائز سمجھنا بڑا کفر ہے ، حضرت مسیح (علیہ السلام) جب تک زندہ رہے اپنی عبودیت کا اعلان فرماتے رہے اور کہتے رہے کہ اے آل اسرائیل صرف رب اکبر کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا دونوں کا مشترک رب ہے اور کسی شخص کو اس کا ساجھی اور شریک نہ ٹھہراؤ ورنہ جنت کی نعمتوں سے یکسر محروم رکھے جاؤ گے ، المآئدہ
73 ثالث ثلثۃ : (ف ٢) عقیدہ تثلیث کے معنی یا تو یہ ہیں کہ عیسائی مریم علیہا السلام ، مسیح (علیہ السلام) اور خدا کو لاہوت کے اقانیم مانتے ہیں جیسے قرآن حکیم نے فرمایا (آیت) ” انت قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اللہ “۔ اور یا یہ مقصود ہے کہ باپ بیٹا اور روح القدس یہ تینوں مل کر اقانیم بنتے ہیں ۔ دونوں صورتوں میں عقیدہ غیر منطقی گمراہ کن اور غلط ہے ، اس لئے فرمایا لقد کفر الذین قالوا ان اللہ ثالث ثلثۃ ۔ یعنی خڈا کے متعلق تثلیث کا عقیدہ رکھنا اس کی تفریط و توحید کی توہین کرنا ہے جو بدترین قسم کا کفر ہے ۔ بات یہ ہے کہ خدا کی ذات والا صفات کا تقاضا یہ ہے کہ سوائے توحید وتفرید کے کوئی عقیدہ اس کی طرف منسوب نہ کیا جائے ، کیونکہ یہی ایک عقیدہ ہے جو بلند ، صحیح اور جمیل قرار دیا جا سکتا ہے ، اس کے علاوہ مزعومات غلط اور معاندانہ ہیں ۔ (تفصیل کے لئے دیکھو اوراق گزشتہ) حل لغات : ماوی : جگہ ، ٹھکانہ ۔ المآئدہ
74 المآئدہ
75 (ف ١) اس آیت میں الوہیت مسیح (علیہ السلام) کے عقیدے پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ وہ مسیح (علیہ السلام) جو لوازم بشری کے ساتھ متصف ہے کیونکر فکر خدا ہو سکتا ہے اور وہ مریم علیہا السلام جو حوائج انسانی کی حاصل ہے ، کس طرح لاہوت کا ایک اقنوم قرار دی جا سکتی ہے ۔ یعنی جسے بھوک بےقرار کر دے ، جو پیاس کی شدت کو برداشت نہ کرسکے اور قدرت کے تمام قواعد کے سامنے بےبس وبے کس ہو کس طور سے خدائی کا مستحق ٹھہر سکتا ہے ؟ مسیح (علیہ السلام) بھی گزشتہ رسولوں کی طرح ایک رسول ہے جو انسان ہے اور تمام بشری اوصاف ولواحق سے وابستہ پھر کیونکر اور کس بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ وہ خدائے مجسم ہے ۔ المآئدہ
76 (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ سمع اور علم کی تمام قدرتیں خدا کو حاصل ہیں وہی ہے جو مضطر اور بےقرار انسانوں کی سنتا ہے اور حاجت روائی کرتا ہے وہی ہے جو ضرر ونفع کا مالک ہے اور جس کے اختیارات وسیع ہیں پھر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ ایسے قادر وعلیم خدا کو چھوڑ کر ان کی عبادت میں مصروف ہو جو تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے اور نہ ان کے اختیار میں ہے کہ تمہارا کچھ بگاڑ سکیں ۔ حل لغات : قد خلت : خلو کے معنی مطلقا ہو گزرنے کے ہیں موت کے نہیں ۔ لا تغلوا : مادہ غلوا ، زیادتی ۔ افراط ۔ المآئدہ
77 (ف ١) آیت کا مطلب یہ ہے کہ عقیدہ تثلیث محض غلو فی الدین کا نتیجہ ہے جسے حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ گمراہ قوموں سے ماخوذ ہے ۔ المآئدہ
78 ناز بےجا : (ف ٢) بنی اسرائیل کو سب سے بڑا غرور اس بات پر تھا کہ ہماری رگوں میں انبیاء اور صلحاء کا خون دوڑ رہا ہے اور ہم (آیت) ” ابنآء اللہ واحبآء ہ “۔ کے لقب سے متفخر ہیں ۔ قرآن حکیم نے متعدد مواقع پر اس ناز بےجا کا جواب دیا ہے اس آیت میں بھی ان کے طلسم پندار کو توڑا ہے اور کہا ہے کہ کیا تم وہی نہیں جنہوں نے سبت کے معاملہ میں خدا کی صریح نافرمانی کی اور اس کی پاداش میں حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبان فیض ترجمان سے ملعون کا خطاب ملا ، اور کیا یہ واقعہ نہیں کہ تم نے نزول مائدہ کی درخواست کی ، اور اس کے بعد پھر روگردانی کی جس کی وجہ سے حضرت مسیح (علیہ السلام) نے تمہیں لعنتی ٹھہرایا ۔ جب یہ واقعات ہیں تو پھر تمہیں غرور بےجاکا کیا حق حاصل ہے ؟ المآئدہ
79 المآئدہ
80 (ف ٣) ان دو آیتوں میں بیان فرمایا ہے کہ یہودی باوصف اہل کتاب ہونے کے اور بہت سی باتوں میں مسلمانوں کے ساتھ اشتراک رکھنے کے کفار کے زیادہ دوست ہیں ، حالانکہ ان کے تعلقات مسلمانوں سے کہیں مضبوط ہونے چاہئیں ۔ بات یہ ہے کہ یہود کو اسلام کی دشمنی نے اندھا کر رکھا تھا وہ بغض وحسد سے برے اور بھلے میں کوئی تمیز نہ کرسکتے تھے اور فسق وفجور کی وجہ سے انکی مذہبی حس مردہ ہوچکی تھی یہی وجہ ہے کہ وہ خدا کی ناراضگی اور عذاب مخلد کے مستحق ٹھہرے ۔ حل لغات : سوآء السبیل : صرط مستقیم ۔ جادہ معتدل ۔ سیدھی اور آسان راہ ، یتناھون : مادہ تناھی ، رکنا ۔ باز رہنا ۔ المآئدہ
81 المآئدہ
82 (ف ١) قرآن حکیم نے جہاں یہودیوں کی قساوت قلبی کا تذکرہ کیا ہے اور مشرکین مکہ کی عداوتوں کو بیان کیا ہے وہاں نہایت فراخ دلی کیی ساتھ عیسائیوں کی تعریف بھی کی ہے ، فرمایا ہے کہ یہودی اور مشرک مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں ، مگر عیسائیوں میں ایسے فقیر اور صلح جو لوگ موجود ہیں جو کبر وپندار کے مرض سے آلودہ نہیں ہوتے اور جن کے تعلقات مسلمانوں کے ساتھ زیادہ دوستانہ اور محبانہ ہیں ۔ وجہ یہ تھی کہ یہودی مال ودولت کے نشے میں مخمور تھے دینداری اور تورع کے لئے ان کے دلوں میں کوئی جذبہ نہ تھا ، اس لئے وہ طبعا ہر اس تحریک سے متنفر تھے جو انہیں پاکبازی کی دعوت دے اور عیسائی چونکہ رہبانیت کی طرف مائل تھے اس لئے نسبتا زیادہ متاثر اور روادار تھے ۔ حل لغات : مودۃ : دوستی ومحبت ۔ قسیس : اصل میں کشیش تھا جس کے معنی پہلوی میں میرآتشکدہ یا عالم دین کے ہیں ، ممکن ہے ‘ یہ لفظ سنسکرت کے لفظ شیش سے بگڑا ہو جس کے معنی شاگرد کے ہیں ، عربی میں قسیس کے معنی عالم باعمل کے ہیں ۔ المآئدہ
83 جادواثر قرآن : (ف ١) ۔ اہل کتاب میں حق وصداقت کے شیدائی جب قرآن حکیم کی آیات کو سنتے تو سینوں میں عرفان وحقیقت کا دریا مؤجزن ہوجاتا اور آنکھیں بادہ کیف ، سے چھلکنے لگتیں ، یا قرآن کی جادو اثر ہی اس درجہ مسلم ہے کہ کوئی ذی ہوش اور خرد مند انسان اسے سن کر غیر متاثر نہیں رہ سکتا ، شاہ حبشہ نے جب پہلے پہل حضرت جعفر (رض) تیار کی زبان فیض ترجمان سے کلام اللہ کی چند آیتیں سنیں تو بےقرار ہوگیا ، اور دیر تک رقت وانفعال کے تاثرات میں مستغرق رہا ، بات یہ ہے کہ خدا کی باتیں حقیقت سادگی اور جمال کا مرقع ہوتی ہیں ، ناممکن ہے کہ ان کے جلوہ ہائے عریاں کو دیکھا جائے اور (آیت) ” خر موسیٰ صیعقا “۔ کا منظر نہ کھنچ جائے ، (آیت) ” فاکتبنا مع الشھدین “ سے مراد یہ ہے ہمین بھی امت میں تبیغ اشاعت کی توفیق سے شہادت کے معنی عربی میں حق کی گواہی اور بلیغ کے ہیں اسی مناسبت سے مسلمانوں کو شھد اللہ فی الارض کہا گیا ہے اور یہ وجہ ہے کہ انہیں (آیت) ” لتکونوا شھدآئ“ کے دلنواز فخر سے نوازا گیا ہے مقصد یہ ہے وہ اہل کتاب جو تبتل وانقطاع کی زندگی بسر کرتے ہیں ، جب قرآن کی دعوت کو سنتے ہیں ، تو طبیعتوں میں ایک جوش پیدا ہوجاتا ہے اور وہ بدل چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طریق سے اللہ انہیں برزور مبلغ بنا دے اور وہ قرآن یسے چشمہ فیض کو ہر تشنہ کام حقیقت تک پہنچا دیں ، اس دعوت کو عام کردیں یعنی کاغ اہبار سے لے کر قصر امراء تک یہ روشنی پھیل جائے (آیت) ” ویکون الدین کلہ للہ ۔ المآئدہ
84 (ف ٢) اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ قرآن ایمان باللہ اور حق کے دعوت ہے اس لیے اقرار و اعتراف نہ کرنا ، شقاوت وہ بدبختی کے متراوف ہے ۔ حل لغات : تفیض ، مادہ فیض پانی کافراوانی کی وجہ سے چھلک جانا ، فاثاب : مصدر ثواب ، بمعنی اجر ۔ المآئدہ
85 المآئدہ
86 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ نیکی اور برائی کچھ زیادہ فاصلہ نہیں ، ایک قدم کا آگا پیچھا ہے ، حق کی طرف ذرا کھسک جائیے فردوس و جنت کی نعمتیں ہیں ، اور تم ہو ، ورنہ تکذیب وکفر کی وجہ سے ہولناک جہنم ۔ المآئدہ
87 (ف ٢) بیشتر کی آیات میں ” تسلیما اور رھبان “ کی تعریف مذکور ہے صحابہ کی دل میں طبعا دینا سے علیحدگی کی خواہش پیدا ہوئی ، اور انہوں نے ترک لذات کا عہد کرلیا ، گوش نبوت تک جب یہ معاملہ پہنچا ، تو زبان وحی نے اس آیت میں روک دیا اور کہا تحریم لذات جائز نہیں ، دین ترک لذائذ اور تعذیب نفس کا نام نہیں ، بلکہ جذبات میں اعتدال پیدا کرنے کا اس لئے خدا کی سب نعمتیں تمہارے لئے حلال وطیب ہیں ساری اچھی چیزیں کھاؤ ، مگر ایمان والتقاء کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے ، المآئدہ
88 المآئدہ
89 (ف ٣) مقصد یہ ہے کہ اسلام کا تعلق قلب وارادہ سے ہے ، وہ حرکات جو اضطراری ہیں ، لائق مواخذہ نہیں ، حفظ ایمان کے لئے کفارہ مقرر فرمایا ہے تاکہ مسلمان پاس عہد کی اہمیت کو محسوس کرے ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ میں بااختلاف ہے کہ اطعام وکسوت سے مراد تملیک ہے ، ، یا محض تغذیہ واعطاء ، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کھانا کھلا دینا کافی سمجھتے ہیں ، اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ تملک ضروری خیال فرماتے ہیں ۔ حل لغات : ولا تعتدوا : مصدر اعتداء ، زیادتی ، حد ااعتدال سے تجاوز ، عقدتم : عقد ، گرہ دینا ۔ ال ایمان : جمع یمین ، بمعنی قسم ۔ المآئدہ
90 شراب اور جوا : (ف ١) قرآن حکیم نے اخلاق انسانی کی پوری طرح حفاظت کی ہے اور ان تمام چیزوں کو ناجائز ٹھہرایا ہے ، جو اخلاقی طور پر مذموم ہیں اور جن کا استعمال نسل انسانی کے لئے تباہ ہے ، شراب اور جوا دو بہت پرانی بیماریاں ہیں ، عرب کے جاہل سے لے کر یورپ کے مہذب تک اس میں مبتلا ہیں ، آج باوجود تعلیم وتربیت کے ارتقاء کے یہ دونوں چیزیں سوسائٹی کا جزو قرار پاگئی ہیں ، اس لئے ضرورت ہے کہ ان کی برائیاں تفصیل کے ساتھ بیان کی جائیں ۔ قرآن حکیم نے جو برائیاں گنائی ہیں وہ اس درجہ اہم اور درست ہیں کہ ان میں شک وشبہ کی قطعا گنجائش نہیں ، یعنی بعض وعداوت کی تخلیق اور نماز سے تغافل ، شراب پینے اور جوا کھیلنے سے ہمیشہ لڑائیاں ہوتی ہیں ، اور انسانی رقابتیں بروئے کار آتی ہیں ، جس کی وجہ سے امن وسعادت کو ہمیشہ خطرہ ہے نیز نیک جذبات کا خاتمہ ہوجاتا ہے ، ہر وقت دل ودماغ پر بہیمانہ خیالات چھائے رہتے ہیں ، اور انسان کوشاں رہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح آتش ہوس کو ٹھنڈا کیا جائے ، دماغی اور اخلاقی نشونما رک جاتا ہے ، فضا کے زہن میں شہوانی خیالات کے طوفان اٹھتے ہیں ، اور آندھیاں چلتی ہیں ۔ تابش حق کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی ، دل مردہ اور تاریک ہوجاتا ہے ، اللہ کی یاد اور محبت کا کوئی جذبہ نہیں رہتا یعنی مسجود ملائک انسان ہمہ ہوس وشہوت ہو کر رہ جاتا ہے ۔ حل لغات : تحریر : آزاد کرنا غلام اور کنیزک کا ۔ الانصاب : تھاں ، بت پرستی کے مقامات : الازلام : قرعہ کے پانسے ۔ المآئدہ
91 (ف ١) صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین کی اطاعت دیکھئے ، (آیت) ” فھل انتم منتھون “ کی آواز کو سنتے ہیں اور تسلیم ورضا کا پیکر بن جاتے ہیں ، برسوں کے رسیا ایک دم شراب چھوڑ دیتے ہیں ، اور ساغر ومینا توڑ دیتے ہیں ، وہ مجلسیں جن میں شراب وصہبا کے دور چلتے تھے ، اب ذکر وشغل کے حلقوں میں تقسیم ہوگئی ہیں ، صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین مسجدوں میں بیٹھ کر کوثر وتسنیم کے جام لنڈھاتے ہیں اور بادہ کیف آور سے مخمور ہوجاتے ہیں ، یہ ساقی مدینہ کا فیض ہے یثرب کی بھٹی سے وہ خانہ سازا اور تیز وتند شراب پلائی کہ مست ” احسنت “ (آفرین) پکارا اٹھے ہیں ۔ المآئدہ
92 المآئدہ
93 بے علم معذور ہیں : (ف ٢) تکالیف شرعیہ کا اطلاق علم کے بعد ہوتا ہے ایک شخص جو یہ نہیں جانتا کہ اسلامی تعلیمات کیا ہیں ، وہ مکلف بھی نہیں کہ اسلامی احکام کو بجا لائے ۔ جب حرمت شراب کی آیات نازل ہوئیں ، تو صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین کو بالطبع ان لوگوں کو خیال آیا ، جو شراب کی مضرت سے آگاہ نہیں ‘ یا جو ان آیات کے نزول سے پہلے فوت ہوچکے ہیں اور شراب کے عادی تھے ، اس لئے پوچھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کا کیا حشر ہوگا ، کیا وہ بھی ماخوذ ہوں گے ؟ جوابا یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر مے نوشی نے ان کے اخلاق پر برا اثر نہیں ڈالا ، اور وہ پاکباز رہے ہیں ، تو عند اللہ معذور ہیں ، بعض ملاحدہ نے آیت کا مفہوم یہ سمجھا ہے ، کہ اس میں خواص اور اتقیاء کو مئے نوشی کی اجازت دی ہے ، یعنی اگر کوئی شخص شراب پی کر محتاط رہے ، اور صلاح وتقوے کو ہاتھ سے نہ دے تو اس کے لئے اجازت ہے ، مگر یہ بوجوہ غلط ہے ۔ ١۔ اسلام جس نظام تقوی کو پیش کرتا ہے شراب بجائے خود اس میں منافی ہے ، اس غرض کے جو ملحوظ و متعین ہے ، ٢۔ اسلام میں خواص وعوام کی قطعا تقسیم موجود نہیں ، تمام مسلمان تکالیف شرعیہ کے مکلف ہیں ۔ ٣۔ احادیث میں بصراحت تام شراب کا استعمال بہر طور ناجائز قرار دیا گیا ہے ، حتی کہ دوا کے لئے بھی آپ نے فرمایا ، کہ حرام میں شفا نہیں ، ٤۔ دراصل شبہ آیت کے طرز بیان سے پیدا ہوتا ہے لیس کا استعمال ما کے موقع پر اور پھر اذا حرف شرط جو استقبال کے لئے مختص ہے ، اس کا ذکر ‘ یہ قرائن ہیں جن سے اہل زندقہ کو الحاد کے لئے راہ نظر آتی ہے ۔ اس کا ایک جواب تو وہ ہے جو علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ نے دیا ہے ‘ کہ آیت مستقبل کے معنی کو بھی شامل یعنی ، وہ لوگ جو حرمت شراب کے حکم سے آگاہ نہیں ، وہ اس وقت تک معذور ہیں جب تک کہ انہیں اس کا علم نہیں ہوجاتا ، صحیح جواب یہ ہے کہ سرے سے اس آیت میں شراب کا ذکر ہی موجود نہیں ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ نیک اور صالح لوگ جو کچھ بھی کھائیں پیئیں ، صلاح وتقوی کو ملحوظ رکھیں جس کا ادنی درجہ یہ ہے کہ حلال وحرام کی تفریق کو سمجھیں ، تو ان کے لئے پر تکلف اور پرتنعم ملعومات جائز اور درست ہیں یعنی شراب کی حرمت جذبہ رہبانیت کے ماتحت نہیں ، بلکہ اس لئے کہ یہ تقوی واحسان کے خلاف ہے ۔ حل لغات : الصید : شکار ۔ النعم : چہار پایہ ، قتل گائے بکری اونٹ کے ، یعنی وہ جانور جو عربوں کے لئے آسائش کا سبب تھے ، السیارۃ : مسافر ، چلنے پھرنے والے لوگ ، مادہ سیر ۔ المآئدہ
94 المآئدہ
95 المآئدہ
96 (ف ١) ان آیات میں اور اس قبیل کی آیات میں آداب حرم کا ذکر ہے کہ احرام کی حالت میں شکار کے لئے تعرض ناجائز ہے ، البتہ دریا کا شکار یعنی مچھلی پکڑنا اور کھانا درست ہے ، اس میں اختلاف ہے کہ اگر غیر محرم شکار کرے ، تو احرام والے کے لئے کھانا جائز ہے ، یا نہیں ۔ حضرت علی (رض) ، ابن عباس (رض) ، ابن عمر (رض) ، سعد بن جبیر (رض) ، اور طاؤس قطعی حرمت کے قائل ہیں ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ محرم اس دقت کھا سکتا ہے ، جبکہ وہ خود شکار نہ کرے اور اس کے ایماء پر شکار کیا جائے ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ محرم بالواسطہ اعانت نہ کرے ‘ تو جائز ہے ، بصورت اعانت ناجائز ۔ المآئدہ
97 کعبہ ضروریات عامہ کا کفیل ہے : (ف ٢) اس آیت میں بیت الحرام کو (آیت) ” قیام للناس “ ، قرار دیا ہے ، یعنی اس کے ساتھ لوگوں کی ضروریات دینی اور دینوی وابستہ ہیں ، یہ روحانیت اور معارف اللہ کا منبع اور مرکز ہے ، یہ بین الملی اور بین الدینی مصالح کا کفی ہے ، دنیا کے طول وعرض سے لوگ آتے ہیں جو مختلف بولیاں بولتے ہیں ، رنگ وبوکے کے لحاظ سے ان میں کوئی رشتہ موجود نہیں ہوتا ، مگر باوجود اس کے سب لوگ ایک میدان میں ایک لباس میں ، ایک مقصد لئے ہوئے مصروف عبادت نظر آتے ہیں ۔ کون جانتا تھا کہ ایسی غیر آباد بستی کو یہ فروغ حاصل ہوگا اور تم ساری کائنات کا محور قرار پائے گی ، یہ محبوبیت ، یہ ہمہ گیر قبولیت گواہ ہے ، کہ خدا سب کچھ جانتا ہے ، اور اس کا علم نہایت وسیع ہے ۔ المآئدہ
98 (ف ٣) یعنی اللہ تعالیٰ مجرموں اور گنہ گاروں کے لئے جہاں سخت گیر ہے ، وہاں اپنے بندوں کے لئے غفور اور رحیم بھی بدرجہ اتم ہے ، حل لغات : الحرام : عزت ، بیت الحرام ، یعنی عزت کا گھر ۔ المآئدہ
99 المآئدہ
100 المآئدہ
101 غیر ضروری موشگافیاں ممنوع ہیں ! (ف ١) اسلام دین فطرت ہے ، اسے نہایت سادہ اور جامع قرار دیا گیا ہے ، اس میں اصول ومعانی کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے ، زندگی کے ان ابواب سے بحث کی ہے جو ضروری اور واقعی ہیں ۔ اور غیر ضروری تفصیلات کو ترک کردیا گیا ہے ، تاکہ قوائے عمل بیکار نہ ہوجائیں ۔ اس آیت میں اسی تفصیل طلبی کے جذبہ سے روکا ہے ، بات یہ تھی کہ بعض لوگوں نے ایسے سوالات پوچھے ، جن کا جواب ان کے لئے تکلیف دہ تھا ، مثلا عبداللہ بن حذافہ نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرا باپ کون ہے ؟ یہ مشکوک النسب تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، حذافہ بن قیس ، ایک صاحب بول اٹھے ، میرے ابا کہاں ہیں ، حضور نے جواب دیا جہنم میں ، سراقہ بن مالک نے پوچھا نے پوچھا کیا حج ہر سال ہم پر فرض ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، انما ھلک من کان قبلکم بکثرۃ سوالھم “۔ یعنی پہلی قومیں محض ان موشگافیوں کی وجہ سے ہلاک ہوئیں ، میں جو کچھ تم سے کہوں ، بلاکم وکاست مان لو ، اور جن منکرات سے روکوں ، رک جاؤ ۔ المآئدہ
102 المآئدہ
103 (ف ١) یہ مشرکانہ رسوم ہیں ، عرب ان مواشی کو مقدس سمجھنے اور بربنائے عظمت نہ ان کو ذبح کرتے اور انہ اپنے استعمال میں لاتے ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس عقیدہ کی تردید کی ہے ، اور فرمایا ہے ، کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب جانور یکساں ہیں ، اور ان میں قطعا تقدیس موجود نہیں ، ہر جانور بہرحال جانور ہے ، اور کوئی خوبی ان میں ایسی نہیں ، جس کی وجہ سے ان میں سے کسی کو قابل تعظیم سمجھا جائے ، مصیبت یہ تھی کہ وہ محض آباؤ واجداد کی پیروی کرتے تھے ، جب انہیں غور وفکر کی دعوت دی گئی ، انکار کردیا ، اور کہہ دیا ، ہم تو قدیم روایات کو نہیں چھوڑیں گے ، حل لغات : بحیرۃ : جب اونٹنی پانچ بچے جنے ، اور آخری بچہ نر ہو ، تو اس کا کان پھاڑ دیتے تھے ، یہ تقدیس کی علامت ہے ، اس کے بعد حرمت لازم ہوجاتی ، بحر کے معنی پھاڑنے کے ہیں ۔ السآئبۃ : بیماری ، تکلیف ، یا خوشی اور مسرت میں جب کسی اونٹ کو آزاد کردیتے تو سائبہ کہلاتا ، یعنی آزادی سے پھرنے چلنے والا ، ۔ وصیلۃ : بھیڑ بکری کے بطن سے اگر نر اور مادہ دونوں اکٹھے پیدا ہوتے ، تو اسے وصیلہ کہتے یعنی نر اور مادہ کو باہم ملا دینے والی ، حام : معنی حمایت کرنے والا اور بچانے والا اور اونٹنی جو دس بچے جنے ، وہ حام کہلاتی اور مقدس ٹھہرتی ۔ المآئدہ
104 المآئدہ
105 علیکم انفسکم : (ف ١) اس آیت میں بتایا ہے کہ اصلاح سے قبل صلاح وتقوی کی ضرورت ہے ، اگر ہر شخص بجائے خود نیک اور متقی ہوجائے تو تبلیغ واشاعت کی قطعا ضرورت نہیں ، سب سے پہلے خود پرہیزگار اور صالح بننے کی حاجت ہے نہ یہ کہ اصلاح اور قیادت کے میدان میں آجائے اور ذاتی طور پر تقوی اور اصلاح نفس کے اسرار سے نامحرم ہو ، وہ شخص جو عامل نہیں ہے ، کتاب وسنت کی پروا نہیں کرتا فرائض میں سست وکاہلی ہے ، معاملات میں اچھا نہیں تھا ایک کو چنداں اہمیت نہیں دیتا ، اس سے کیا توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں ، وہ جو کچھ کہے گا اور جو کچھ کرے گا ، ریا کاری اور دکھلاوے کے لئے جس کا بالکل اثر نہیں ہوتا ، لہذا قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ پہلے خود نفس کی اصلاح کرو ، عادات واخلاق کو سنوارو ، اچھے اور نیک بنو ، شریعت پر عمل کرو ، خلوص وایثار ، کا شیوہ اختیار کرو ، پھر دیکھو کفر ومعصیت سے تمہیں قطعا نقصان نہیں پہنچے گا تم کامیاب رہو گے ، اور تمہاری ہدایت گمراہی اور ضلالت پر غالب آجائے گی ، المآئدہ
106 (ف ٢) اس سے پیشتر کی آیت میں حفظ مال کا ، واقعہ یہ ہے کہ تمیم انصاری اور اس کا بھائی تجارت کی غرض سے ملک شام کی جانب نکلے ، اس کے ساتھ بدیل عمرو بن عاص کا غلام بھی تھا ، جو مسلمان تھا راستے میں بدیل یکایک بیمار ہوگیا ، اس لئے احتیاطا اس نے اپنے سامان کی ایک فہرست مرتب کرلی ، اور وصیت کی کہ اگر میں مرجاؤں تو میری چیزیں میرے گھر پہنچا دینا ، چنانچہ وہ مر گیا ، اور ان کی نیت میں فرق آگیا ، کچھ چیزیں انہوں نے دیں اور کچھ رکھ لیں ، اتفاقا چیزوں کی فہرست جو انہوں نے دیکھی تو خیانت ظاہر ہوگئی مقدمہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو پیش ہوا ، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔ حل لغات : شھادۃ : گواہی ، عثر : معلوم ہوجائے ، عام طور پر مجہول استعمال ہوتا ہے ۔ المآئدہ
107 المآئدہ
108 المآئدہ
109 (ف ١) مقصد یہ ہے ، کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انبیاء سے ان کی امتوں کے سامنے انہیں نادم کرنے کے لئے پوچھیں گے کہ تمہارے ساتھ ان لوگوں نے کیا سلوک روا رکھاوہ کہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ تو خوب جانتا ہے ، ہمارا علم ناقص ہے ، ہم صرف ظواہر کو جانتے ہیں ، دل کے بھید اور اسرار سے بجز تیری ذات کے اور کون آگاہ ہے یعنی اپنے علم کو اللہ تعالیٰ کی تفویض میں دے دیں گے ، اور منتظر رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کی امتوں کے متعلق کیا فیصلہ صادر فرماتا ہے ۔ یہ انبیاء کا کمال ترحم ہے ، کہ اگر خدا ان کی گنہ گار امتوں کو بخش دے ، تو وہ خوش ہوں گے ، اور انہیں کوئی اعتراض نہ ہوگا یہی وجہ ہے ، وہ اپنے علم کو نامستند قرار دیتے ہیں ، اور اللہ تعالیٰ سے فیصلہ کے متعلق ہیں ۔ حل لغات : الغیوب : جمع غیب ، جمع سے مقصد تنوع فی العلوم والا حوال ہے یعنی تو ہر طرح کے احوال اور علوم سے آگاہ ہے ۔ المآئدہ
110 (ف ١) مھد وکھل : چونکہ متقابل ہیں اس لئے اطراف میں انتہا مقصود ہے ، یعنی عہد طفولیت میں اور عمر کے آخری حصے میں مسیح گفتگو فرمائیں گئے ، گفتگو سے مراد تبلیغ واشاعت ہے ۔ (ف ٢) میسح (علیہ السلام) کے معجزات ہیں کوڑھی اور اندھے کو اچھا کرنا مقصود ہے ، بلکہ ملا حدہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) کوڑھی اور اندھوں کو آزاد بخشتے تھے ، یہ عربیت کے منافی ہے قرآن کے الفاظ سے اس مفہوم کی تائید نہیں ہوتی ” رجل باریٌ کے معنے تندرست آدمی کے ہوتے ہیں ، آزاد کے ۔ نعمت حیات : (ف ٣) آیت کا مقصد یہ ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کو جب یہودیوں نے مار ڈالنا چاہا ، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نعمت حیات سے بہرور کیا اور وہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہو سکجے ۔ حل لغات : الاکمہ : مادر زاد اندھا : الابرص ۔ کوڑھی ، مبروس ۔ المآئدہ
111 مسیح کے حواری : (ف ١) موجودہ اناجیل میں مسیح (علیہ السلام) کے حواریوں کا جو تذکرہ ہے ، وہ نہایت قابل اعتراض ہے ۔ اناجیل میں لکھا ہے کہ مسیح (علیہ السلام) کے تمام حواری غیر مخلص تھے ، اب مسیح (علیہ السلام) کو گرفتار کرنے کے لئے جستجو ہوئی تو ایک حواری نے اپنی خدمات پیش کیں اور کہا جس سے میں زیادہ عقیدت کا اظہار کروں ، وہی مسیح ہے ، اس کو پکڑ لینا تعدیت اور انجیل روایات کے ماتحت مسیح (علیہ السلام) انہیں حواریوں کی وجہ سے گرفتار ہوئے اور صلیب پر لٹکائے گئے ۔ قرآن کہتا ہے مسیح (علیہ السلام) کے حواری پاکباز اور مخلص تھے ، جب حضرت مسیح (علیہ السلام) نے ایمان وتائید کے لئے انہیں مخاطب کیا فورا آمادہ ہوگئے ۔ جس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ قرآن حکیم موجودہ اناجیل کی نسبت مسیح کا زیادہ اخلاص وعظمت سے تذکرہ کرتا ہے ۔ عیسائیوں کو چاہئے کہ وہ قرآن مجید کے ممنون ہوں ۔ المآئدہ
112 مائدہ : (ف ٢) معجزہ طلبی کی عادت قدیم سے بنی اسرائیل میں موجود ہے یہی وجہ ہے انہوں نے اکثر انبیاء سے خوراق ومعجزات طلب کئے ، اللہ تعالیٰ کی عادت قدیم سے بنی اسرائیل میں موجود ہے یہی وجہ ہے انہوں نے اکثر انبیاء سے خوارق ومعجزات طلب کئے ، اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی چیز مشکل نہیں وہ سب کچھ کرسکتا ہے مگر یہ ذہنیت اسے پسند نہیں کہ بات بات پر معجزہ طلب کیا جائے ، اسی لئے جب ان لوگوں نے مائدہ کے نزول کی خواہش کی تو (آیت) ” اتقوا اللہ “ کی تلقین کی گئی یعنی راسخ العقیدہ انسانوں کے لئے زیبا نہیں کہ عجائب پسندی اور کرشمہ آرائی کو مذہب کا احصل قرار دے لیں ، نزول مائدہ کے لئے مسیح (علیہ السلام) نے دعا کی ، اور کہا اس کے بعد تمہیں مزید موقع نہیں دیا جائے گا کیونکہ حجت تمام ہوچکے گی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اطعمہ لذیذ کے خوان بھیج رہا ہوں اس کے بعد بھی انکار وکفر کا اظہار کیا ، تو عذاب شدید کی وعید سن رکھو ، معلوم ہوتا ہے ، اس کڑی شرط کو سن کر حواری راہ راست پر آگئے اور نزول مائدہ کی پھر خواہش نہیں کی ، حل لغات : مائدہ : خوان ، مید سے مشتق ہے ، یعنی حرکت میں رہنے والی چیز خوان مختلف مہانوں کے پیش کیا جاتا ہے ، اس لئے مائدہ کہا جاتا ہے ۔ عید : جشن ، یوم مسرت ۔ المآئدہ
113 المآئدہ
114 المآئدہ
115 المآئدہ
116 المآئدہ
117 میسح کی تعلیم : (ف ١) ان آیات میں قیامت کا ذکر ہے مسیح (علیہ السلام) سے پوچھا جائے گا ، کیا تم نے کہا تھا کہ مجھے اور میری مان کو خدا مانو ، آپ فرمائیں گے ، اللہ مجھے کیونکر اختیار ہے کہ باطل کی تلقین کروں ، میں نے تو ان کو ہمیشہ توحید ہی کی طرف بلایا ہے ، اور میں جب تک ان میں رہا ، اسی کی دعوت دی جب تونے مجھے اٹھا لیا ، اس وقت تو نگہبان تھا ، اور تو سب کچھ جانتا ہے ۔ یہاں تک معذرت ہے اس کے سفارش ہے کیونکہ مسیح (علیہ السلام) خوب جانتے ہیں کہ میرے آسمان پر جانے کے بعد لوگوں میں غلط کے عقائد رائج ہوگئے تھے ، فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ اگر انہیں سزا دے تو تیرے بندے ہی تو ہیں ، اور بخشدے تو کیا مضائقہ ہے ، تو عزیز اور حکیم ہے یعنی اگر بخشدے تو تجھے کوئی روک سکتا ، اور تو جانتا ہے کہ انسان غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے ، دبے الفاظ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کے لئے مغفرت کی خواہش کا اظہار کیا ، یہاں چند باتیں ملحوظ رہیں : ١۔ عیسائی لٹریچر سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ایک گروہ ایسا تھا ، جو مریم کی الوہیت کا قوئل تھا ، سب غالبا ایسا کوئی فرقہ موجود نہیں ۔ ٢۔ اس مقام پر ایک فریق دھوکا دیتا ہے اور کہتا ہے دیکھئے مسیح (علیہ السلام) نے انکار کیا ہے ، اور کہا ہے میرے سامنے کسی شخص نے مجھے خدا نہیں کہا ، حالانکہ اگر اس کی دوبارہ آمد کا مسئلہ صحیح ہے تو اسے یقینا معلوم ہونا چاہئے ، کہ عیسائی اسے خدا سمجھتے ہیں ، ورنہ لازم آتا ہے کہ خدانخواستہ مسیح (علیہ السلام) جھوٹ بول رہے ہیں ، جواب یہ ہے مسیح (علیہ السلام) سے سوال صرف یہ کہا گیا ہے کہ کیا تم نے اس طرح کے عقیدے کی تلقین کی وہ فرماتے ہیں نہیں یہ پوچھا ہی نہیں گیا کہ کیا تم اس واقعہ کے متعلق کچھ جانتے بھی ہوں یا نہیں ؟ اور (آیت) ” ان نعذبھم فانھم عبادک “ ۔ سے معلوم ہوتا ہے ، کہ مسیح اپنے علم کا انکار نہیں کرتے ، بلکہ وبے الفاظ میں اقرار کرتے ہیں کہ مجھے علم ہے ، ٣۔ نیز (آیت) ” ما دمت فھم “۔ سے معلوم ہوتا ہے ، مسیح (علیہ السلام) کی زندگی کے دو حصے ہیں ، ایک وہ جو انہوں نے بنی اسرائیل میں رہ کر گزارا ، اور ایک وہ جبکہ وہ ان میں موجود نہیں تھے ، بہرحال مقصد یہ ہے کہ عیسائیوں کو ڈانٹ دیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ مسیح (علیہ السلام) کی تعلیم توحید ہے ، نہ کہ تثلیث ۔ المآئدہ
118 المآئدہ
119 المآئدہ
120 المآئدہ
0 الانعام
1 ظلمت ونور : (ف ١) مجوسی تنویث کے قائل تھے ، اور نوروظلمت کو الگ عہد اقرار دیتے تھے ، اور اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس عقیدے کی تردید کی ہے ، اور فرمایا ہے کہ اندھیرے اور اجالے کو پیدا کرنے والا میں ہوں ، ظلمت ونور سے مراد کفر اور اسلام میں ہو سکتا ہے یعنی خدا نے دونوں راہیں پیدا کی ہیں ، خدا کے نیک بندے ہدایت وصداقت کی تابناک راہ پسند کرتے ہیں ، اور وہ لوگ جن کے دل سیاہ ہیں ، جن سے ہدایت کی توفیق چھن گئی ہے ظلمت کی پگڈنڈی پر ہو لیتے ہیں ۔ اور خدا کے ساتھ دوسروں کو ساجھی ٹھہراتے ہیں ۔ حل لغات : شھید : گواہ مبلغ ، مطلع ۔ توفیتنی : مادہ توفے ، بمعنی وفات یا اٹھا لینا ، لے لینا ۔ الانعام
2 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ سب مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں تم میں کوئی بڑا اور چھوٹا نہیں سب خدا کے حضور میں عاجز اور محتاج ہیں ۔ اس لئے باہمی تفافس وکبر کو چھوڑ دو ، کسی انسان کے سامنے سر نہ جھکاؤ ، اور سب کو برابر سمجھو مٹی سے پیدا ہونے کے معنی یہ ہیں کہ تمہاری زندگی یکسر ارضیت پر موقوف ہے ، نباتات سے لے کر حیوانات تک سب چیزیں مٹی کی محتاج ہیں اس لئے تمہاری تکوین میں مٹی کو بہت زیادہ دخل حاصل ہے لہذا پیشگاہ خداوندی میں ہمیشہ خشوع وخصوع کا اظہار کرو ، اور اپنی فطری بےکسی اور بےمائیگی کو بھول نہ جاؤ ۔ حل لغات : تمترون ۔ مادہ امتراء بمعنی شک کرنا ۔ انبوائ: جمع نباء ، بمعنی خبرواطلاع ۔ الانعام
3 الانعام
4 الانعام
5 الانعام
6 تباہی گناہوں سے ہے : (ف ١) اللہ تعالیٰ کا قانون ہے ، وہ ہر قوم کو سرسبز وشاداب کرتا ہے ، اور ہر ملت کو نشو وارتقاء کے مواقع بہم پہنچاتا ہے ، اگر قوم میں صلاحیت ہو ، اور خدا کی اطاعت شعار ہے ، تو پھر زمین ان پر فیوض وانعام کے دریا بہا دیتی ہے اور آسمان کی برکتیں بارش کی طرح نازل ہوتی ہیں اور جب گناہ اور معصیت کے جھگڑ چلنے لگیں ، اس وقت اللہ تعالیٰ کا قانون غضب حرکت میں آجاتا ہے اور بڑی بڑی باقتدار قومیں آن واحد میں صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرف مٹا دی جاتی ہیں ۔ (آیت) ” فاھلکنھم بذنوبھم “۔ میں اسی آیت ہلاکت کی طرف اشارہ ہے ۔ الانعام
7 (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ مکے والوں کا جمود وکفر ناقابل اصلاح ہے ، وہ درحقیقت جان بوجھ کر مخالفت کرتے ہیں ، وہ شخص جو سو رہاہو ، اسے بیدار کیا جاسکتا ہے ، مگر جو بیدار ہو ، اسے کون اپنی طرف متوجہ کرسکتا ہے ، ان کی کیفیت یہ ہے کہ قرآن حکیم کو اپنی آنکھوں سے نازل ہوتا دیکھیں ، جب بھی نہ مانیں ، اور صاف کہہ دیں ، اس میں بھی کچھ بھید ہے ۔ بات یہ ہے کہ جب دلوں میں تاریکی ہو اور بصیرت کی آنکھیں بند کرلی جائیں ، تو اس وقت صداقت کی روشنی دلوں تک نہیں پہنچتی ۔ حل لغات : مدارار : خوب برسنے والا ، مادہ در ۔ انشانا : مادہ انشاء پیدا کرنا ۔ الانعام
8 الانعام
9 (ف ١) ان دو آیتوں میں مکے والوں کے ایک مخصوص شبہ کا جواب ہے ، مکے والے یہ کہتے تھے کہ ایک انسان ہمارے لئے کیسے راہنما ہو سکتا ہے ، گویا ان کی نخوت انہیں ایک انسان کو نبی ماننے سے ابا کرتی تھی ، ان کا خیال یہ تھا کہ منصب نبوت کسی فرشتہ کو ملنا چاہئے تھا ، قرآن حکیم نے اس اعتراض کے وہ جواب دیئے ہیں ایک تو یہ کہ اگر فرشتہ پیغمبر قرار پاتا ، تو حجت تمام ہو چکتی ، اور تمہارے لئے انکار وتاویل کی قطعی گنجائش نہ رہتی ، اس صورت میں تمہاری ہلاکت یقینی تھی ، پھر اگر فرشتہ ہوتا ، جب بھی انسانی قالب میں ظاہر ہوتا ، اور تمہار اعتراض بدستور قائم رہتا ۔ الانعام
10 الانعام
11 الانعام
12 (ف ٢) اللہ تعالیٰ انتہا درجے کے رحیم ہیں ‘ جب تک کوئی شخص خود جہنم کا کندا بننے کی کوشش نہ کرے ، وہ بخشتے اور معاف کرتے رہیں گے ، (آیت) ” کتب علی نفسہ الحمۃ “۔ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کی فطرت بخشش پسند ہے ، خسارہ اور گھاٹا ان لوگوں کے لئے ہے جو نعمت ایمان سے محروم ہیں ۔ الانعام
13 (ف ١) دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ کی بادشاہت میں داخل ہے وہی سنتا ہے اور وہی دل کی گہرائیوں سے آگاہ ہے ، آسمانوں کو اور زمین کو اسی نے پیدا کیا ہے تمام مخلوق کو کھانا دیتا ہے ، اپنی ذات کے لئے اسے ایک حبہ کی ضرورت نہیں ، اس لئے عبادت اور ستائش کے لئے بھی وہی زیبا ہے ، (آیت) ” اول من اسلم سے مراد پہلا نہیں بلکہ وہ جو اسلام کا مطحی نمائندہ ہو ، یعنی م ” یرؤن الہ الاسلام : حل لغات : فاطر : پیدا کرنے والا ، مادہ فطرت معنی پیدائش تخلیق بعض علماء لغت کے نزدیک فطرت کے معنی بلا ذرائع طبعی کے کسی چیز کو پیدا کرنے کے ہیں ، مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ زمین اور آسمانوں کو بغیر مادہ کی وساطت اور توسل کے بنایا ہے ۔ الانعام
14 الانعام
15 الانعام
16 الانعام
17 کاشف ضر صرف اللہ ہے : (ف ١) تمام بندوں پر اللہ کی حکومت ہے سب کے مصالح سے وہ آگاہ ہے ، اس کی طرف سے جب کوئی تکلیف آئے تو پھر کسی شخص کی مجال نہیں کہ اسے دور کرسکے ، اور جب وہ کسی کو آزمائش وابتلا میں ڈال دے تو پھر کون ہے جو اسے ابتداء وآزمائش سے نکال باہر کرسکے ۔ اس لئے مسلمانوں کو ادہام سے بچنا چاہئے اور یہ مضبوط عقیدہ رکھنا چاہئے کہ ہر خیر اور ہر شر اللہ کی جانب سے ہے ، الانعام
18 الانعام
19 (ف ٢) قصد یہ ہے کہ قرآن حکیم کا نزول اس لئے ہوا ہے ، تاکہ اس کی ہدایات کو عالمگیر کیا جائے ، اور ہر شخص تک اس کے پیغام پہنچایا جائے ، ھذا القران ۔ سے مراد جلب التفات ہے ، نزول ووحی کا حصر نہیں ۔ یعنی مقصود یہ نہیں کہ قرآن کے علاوہ اور کوئی چیز وحی والہام نہیں ، بلکہ یہ ہے کہ یہ قرآن وحی کی صورت میں نازل اس لئے ہوا ہے تاکہ سب تک پہنچے ۔ حل لغات : تشھدون : مادہ شہادت ۔ گواہی دینا ، اعتراف کرنا ، ماننا ، یہاں مقصود اقرار کرنا ہے ، اس لئے جوابا فرمایا ، قل لا اشھد : یعنی کہدو ، میں نہیں مانتا ۔ الانعام
20 آفتاب نبوت کی درخشانی : (ف ١) اہل کتاب کا جذبہ کتمان حق مشہور ہے اس آیت میں اسی چیز کی طرف اشارہ ہے ۔ یعنی ان کو سابقہ پیشگوئیوں کی وجہ سے یقین ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے سچے اور موعود نبی ہیں ، اور یہ علم اس درجہ واثق اور غیر مشکوک ہے ، جب طرح ایک باپ کو اپنے بیٹے کے متعلق ، مگر محض ضد اور حبیت نفس کی وجہ سے نہیں مانتے ، (آیت) ” کما یعرفون ابنآء ھم “ ۔ سے غرض یہ بھی ہے کہ وہ وجدانی طور پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق قطعی علم رکھتے ہیں اس طرح ایک باپ کو اپنے بیٹے کے لئے یہ یقین کرتا ہے اور وہ اسے بیٹا کہنے کے لئے خارجی دلائل کا محتاج نہیں ہوتا ، بلکہ دل کے اندر ایک پدرانہ محبت اور کشش پاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اسے اپنا بیٹا سمجھنے پر مجبور ہوجاتا ہے ، اسی طرح یہ لوگ دل میں وجدانی طور پر محسوس کرتے ہیں ، کہ آفتاب نبوت کی شعاعیں ہیں ، جو قلب کے تاریک گوشوں کو روشن کر رہی ہیں ، مگر بربنائے تعصب نہیں مانتے ، دل گواہ ہے واقعات شہادت دیتے ہیں پہلی کتابوں کا حرف حرف اور شوشہ شوشہ اعلان کر رہا ہے مگر یہ نہیں سنتے ، اس لئے ظالم ہیں ، اور جان لیں کہ انہیں کامیابی نہیں ہوگی ، دل کی یہ آواز لبوں تک آئے گی ، اور پھر کائنات کے تمام گوشوں میں پہنچے گی ، اس لئے کہ صداقت بجائے خود شہادت ہے ، اور دلیل سچائی میں پھیل جانے اور مقبول ہوجانے کی قدرتی استعداد ہے ۔ آفتاب آمد دلیل آفتاب : بہرحال منکر رہیں گے : الانعام
21 الانعام
22 الانعام
23 الانعام
24 الانعام
25 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ یہ ناقابل اصلاح گروہ ہے ، ان کے لد بےحس ہوچکے ہیں فطرتیں بگڑ چکی ہیں ، اب بالکل صلاحیت موجود نہیں کہ قرآن کے اثر کو قبول کریں ، عذر یہ ہے کہ اساطیر اور قصص ہیں جن میں کوئی جدت وصداقت موجود نہیں ، مگر دلوں میں ڈر اس قدر ہے کہ قرآن کے نزدیک نہیں پھٹکتے خود رکتے ہیں ، مجالس وعظ میں نہیں آتے ، قرآن سننے کی کوشش نہیں کرتے ، دوسروں کو روکتے ہیں کہ مبادا اس کا جادو چل جائے اور یہ متاثر ہوجائیں ، جب حالت یہ ہو تو اصلاح کی کیا توقع کی جا سکتی ہے ، حل لغات : اساطیر : جمع اسطورۃ ، فسانہ کہانی ، بات بےحقیقت ۔ ینھون : مادہ فھی معنی وہ منع بھی کرتے ہیں لیت : کاش ، فسوس ۔ الانعام
26 الانعام
27 الانعام
28 الانعام
29 (ف ١) یہ قول ان میں سے ان لوگوں کا ہے جن پر یاس ومادیت کا غلبہ ہے یعنی وہ صرف اس زندگی پر قانع ہیں ، آخرت پر ایمان ہے اور نہ بھروسہ ۔ یا حکایت حال مقصود ہے غرض یہ ہے کہ ان کے اعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت پر بالکل ایمان نہیں رکھتے ، یعنی ہر قسم کی نافرمانی اور معصیت کو جائز قرار دیتے ہیں ہتک محادم میں بےباق ہیں ، مظالم ڈھانے میں پیش پیش ہیں ، خیانت عذر ، اور دھوکا ان کے نزدیک بلا تامل درست ہے ، ان لوگوں کو اس وقت معلوم ہوگا جب دنیا ان کو چھوڑ دے گی اور رب قدیر کے سامنے یہ جواب دہ ہوں گے ، حل لغات : یخفون : مادہ اخفا ، چھپانا ، پوشیدہ رکھنا ۔ رد : پھیرنا ، واپس کرنا ، وقف : ڈھیل دینا ، کھڑا کرنا ، مطلع ہونا ، بغتۃ : اچانک ، ناگہان ، غیر متوقع انداز میں ، فرطنا : تقصیر اور کوتاہی کرنا ۔ الانعام
30 الانعام
31 (ف ١) قیامت کے کئی نام ہیں ، ان میں ایک الساعۃ بھی ہے یعنی وقت مقرر اور متعین پر آنے والی ۔ بغتۃ : سے مراد یہ ہے کہ گو وہ مقدر ہے ، مگر دنیا والوں کو اس کا صحیح صحیح علم نہیں وہ اچانک غیر متوقع طور پر آجائے گی ، آیت کا مقصد یہ ہے کہ یہ مکے والے جو خدا سے نہیں ڈرتے ، جنہیں یوم حساب کا کوئی خوف نہیں ، بےدھڑک اور بلاتامل نافرمانیوں میں مبتلا اور مصروف ہیں ، یہ اس وقت کیا جواب دیں گے ، جب قیامت اچانک آکر ان کی مسرتوں کا خاتمہ کر دے گا ، اور یہ دیکھتے کے دیکھتے رہ جائیں گے ، گناہوں پر پیٹھ لادنے کے معنی یہ ہیں کہ گناہ کا جذر اور بوجھ نتائج کی شکل میں یہ بھگت رہے ہوں گے یا محسوس کر رہے ہوں گے ، یہ بھی ہو سکتا ہے اس وقت اعمال کوئی جسمانی قالب اختیار کرلیں ، الانعام
32 آخرت کا گھر اچھا ہے : (ف ٢) دنیا کی حیثیت اسلام میں صرف یہ ہے کہ یہ عارضی اور فانی مقام ہے اصل جگہ اور مقام آخرت ہے ، یعنی وہ زندگی جو موت کے بعد شروع ہوتی ہے ۔ الانعام
33 الانعام
34 (ف ١) غرض یہ ہے کہ اللہ کے سچے بندوں کو تکلیفیں پہنچی ہیں ‘ اور انبیاء بالخصوص ستائے جاتے ہیں ، سب پیغمبروں کو جھٹلایا گیا ، سب کو ایذائیں دی گئیں ، اس لئے آپ صبر واستقامت سے کام لیں ، اور گھبرا نہ جائیں آخر میں نصرت واعانت یقینی وحتمی ہے ، یہ خدا کا وعدہ ہے اور خدا کے وعدوں میں کبھی تخلف نہیں ہوتا ۔ الانعام
35 (ف ٢) ان آیات کا مقصد یہ ہے کہ جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شفقت نبوی سے مجبور ہو کر چاہتے ہیں کہ مکے والوں کو اتمام حجت کے لئے وہ سب کچھ دکھایا جائے جس کا وہ مطالبہ کرتے ہیں ، یعنی خوارق ومعجزات اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ نہایت غلط ذہنیت ہے ، ہم معجزہ طلبی کی اس روح کو پسند نہیں کرتے ، ہمارے لئے سب کچھ ممکن ہے اور کوئی معجزہ یا نشانی ہمارے احاطہ قدرت سے باہر نہیں ، مگر یہ کیا ضرور ہے کہ ان کی ہر خواہش پر قدرت کے قوانین بدل جائیں ۔ اور بات یہ ہے کہ یہ چونکہ روحانی طور پر مردہ ہوچکے ہیں ، اس لئے قطعا سزاوار التفات نہیں (آیت) ” ان کان کبرعلیک اعراضھم “ سے غرض یہ ہے کہ آپ اپنی سی کر دیکھیں ان کی ہر خواہش اور ہر مطالبہ کا احترام کریں ، یہ جب بھی نہیں مانیں گے ، (آیت) ” ولو شآء اللہ لجمعھم علی الھدی “ ۔ سے مقصود اللہ کے اس ہمی گیر قانون کی جانب توجہ دلانا ہے کہ اختلاف ناگزیر ہے ، اس لئے آپ ناحق جان کو ان کی محبت میں تکلیف ، پہنچائیں ۔ حل لغات : نفق : سوراخ راہ ، یستجب : مادہ استیجاب یعنی قبول کرنا ۔ الانعام
36 الانعام
37 الانعام
38 قانون ہدایت کی ہمہ گیری : (ف ١) آیت کا مقصد یہ ہے کہ قانون ہدایت وترہیب ہمہ گیر ہے کائنات میں کوئی جاندار چیز اس سے مستثنے نہیں ۔ سب پرندے اور سب حیوان اللہ کی جانب سے ہدایت حاصل کرتے ہیں ، اور اس فطری ہدایت کی وجہ سے زندہ ہیں ، چڑیا سے لے کر چیونٹی تک کے لئے بندھے ہوئے اور مقرر قانون ہیں ، جن سے سرتابی کرنا ان کے لئے ناممکن ہے ، اسی طرح حضرت انسان یعنی روحانی زندگی کے لئے اللہ کی ہدایت کا محتاج ہے ، یعنی مکہ والوں کو بجائے معجزات کے ان حقائق پر غور کرنا چاہئے ، بعض لوگوں نے اس آیت سے تناسخ پر استدلال کیا ہے ، مگر یہ بوجوہ غلط ہے ، ١۔ کیونکہ قرآن میں صاف صاف یوم آخرت کو بطور عقیدہ کے پیش کیا گیا ہے ۔ ٢۔ تمام سامی مذاہب میں آخرت کا عقیدہ موجود ہے ۔ ٣۔ تناسخ صرف آرین مذاہب میں پایا جاتا ہے غالبا ” امم “ کا لفظ محل استدلال ہے مگر ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ امت کے معنی عربی میں مطلقا گروہ کے ہیں جس میں کوئی وجہ اشتراک پائی جائے اس میں حیوانات اور پرندے بھی داخل ہیں ، بلکہ یہ لفظ اس سے بھی عام ہے ہو مشترک الاطراف چیز اس میں داخل ہے ۔ حل لغات : دآبۃ : جانور ، مایدب علی الارض : امم : جمع امت ، علامہ راغب فرماتے ہیں ، ہر وہ مجموعہ جس میں کوئی بات مشترک ہو ۔ الانعام
39 الانعام
40 الانعام
41 الانعام
42 الانعام
43 (ف ١) کبھی کبھی اللہ تعالیٰ انسانوں کو تکلیف میں مبتلا کو دیتا ہے ، تاکہ دلوں وانفعال کے تاثرات پیدا ہوں ، اور وہ خدا سے ڈریں ، مگر مشرکین کا یہ حال ہے کہ ہرچند انہیں عذاب میں مبتلا کیا گیا ، مصائب آکے تکلیفیں پہنچیں ، وہ بدستور انکار کر رہے ہیں ۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ دلوں میں قساوت پیدا ہوگئی ہے روشنی گناہوں کی ظلمت میں ماند پڑگئی ہے حق نفسانیت کے سامنے کمزور ہوگیا ۔ الانعام
44 (ف ٢) خدا کا قانون یہ ہے کہ کوئی قوم اس وقت تک نباہ نہیں ہوئی ، جب تک برائیاں کثرت کے ساتھ ان میں نہ پھیل جائیں ، اور معصیت میں وہ نہ ڈوب جائیں ، جب ہر عیب کو وہ ثواب جاننا شروع کردیتے ہیں ، اور اللہ کی پکڑ سے غافل ہوجاتے ہیں ، تو یکایک اللہ کی غیرت میں جوش پیدا ہوتا ہے اور ان کو ایک دم فنا کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔ حل لغات : الباسآئ: تکلیف اور بؤس ۔ مبلسون : ناامید ، مایوس ، البس ، اسی سے مشتق ہے ، یعنی اللہ کی رحمت سے مایوس ۔ الانعام
45 ظالموں کا نہ رہنا ہی اچھا ہے : (ف ١) مقصد یہ ہے کہ ظالم اور ناحق شناس طبقوں کا دنیا سے مٹ جانا ہی باقی دنیا کے لئے مفید ہے ، کیونکہ جس طرح بیماریاں تباہ کن ہوتی ہیں ، اور متعدی ہوتی ہیں ، اسی طرح روحانی امراض بھی ہولناک صورت اختیار کرلیتے ہیں ، اور اگر ان کو باقی رہنے دیا جائے ، تو تمام قوموں کا اخلاق خطرہ میں پڑجاتا ہے ، اس لئے اللہ تعالیٰ ان کو دنیا میں مٹا دیتا ہے ، تاکہ ان کے مفاسد ان ہی تک محدود رہیں ۔ الانعام
46 الانعام
47 (ف ٢) غرض یہ ہے کہ تم ہر وقت غیر محفوظ ہو تم نہیں جانتجے کب اللہ کا غصہ بھڑکے اور کب تم کو جوارح سے محروم کردیا جائے ۔ اس لئے ہر آن غوروفکر سے کام لو ، اور عقل وہوش کو سنبھالو ، خدا کے دین کو سمجھنے کی کوشش کرو ، ورنہ یاد رہے تباہی اور ہلاکت دور نہیں ۔ حل لغات : دابر : اصل ، جڑھ پیٹھ ، یصدفون : مادہ صدف یعنی روگردانی کرنا ۔ الانعام
48 الانعام
49 الانعام
50 (آیت) ” ولا اعلم الغیب : (ف ١) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا درجہ تمام انبیاء سے بڑھ کر ہے کائنات میں کوئی شخص آپ کا درجے اور مرتبے میں سہیم وشریک نہیں ان کے پاس رشد وہدایت کے اور معارف ونکات کے بےپناہ خزانے موجود تھے ، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ دنیا کے لحاظ سے سرمایہ افلاس کا بہرہ وافر رکھتے تھے ، ان کی قدوسیت اور پاکیزگی میں کس کو شبہ ہے ، مگر بااین ہمہ وہ فرشتہ نہیں تھے ، اسی طرح ان کا علم کائنات میں سب سے زیادہ ہے اور رسول سے بڑھ کر اور کون عالم ہوتا ہے پھر بھی وہ غیب نہیں جانتے تھے ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ یہ صرف اللہ کے ساتھ مختص ہے ، غیب کی تشریح متعدد مواقع پر گزر چکی ہے ، اجمالا یہ سمجھ لیجئے غیب کا جاننا انسانوں کے لئے نہ وجہ فضیلت ہے اور نہ ممکن ۔ اللہ کا یہ بہت بڑا انعام ہے کہ ہم بعض حقائق سے ناواقف ہیں ، آج نہیں اپنی موت کا علم ہوجائے تو کیا کرو ، ایک دم مر جاؤ ، دنیا کے تمام کام رک جائیں ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان مصالح عامہ کی وجہ سے غیب نہیں جانتے تھے یعنی وہ نہیں جانتے تھے کہ کس طرح ان کا لخت جگر کربلا کے میدان میں ذبح کردیا جائے گا ، وہ یقینا اس حقیقت سے ناآشنا تھے کہ طائف میں جسد اطہر کو پتھروں اور اینٹوں سے مجروح کردیا جائے گا ، وہ آگاہ نہیں تھے کہ واقعہ افک میں کیا شرارت کام کر رہی ہے بےچین رہتے ہیں اور جب تک قرآن نازل نہیں ہوتا حضرت عائشہ (رض) عنہا کی جانب سے دل صاف نہیں کیا یہ واقعات ثبوت کے لئے کافی نہیں ؟ اس میں توبین کا کوئی پہلو نہیں ، مقصود صرف یہ ہے کہ رسول کا منصب نبوت جس علوم کا محتاج ہے وہ اسے حاصل ہوتے ہیں ، اس کے لئے یہ جاننا ضروری نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے (آیت) ” افلا تتفکرون “۔ الانعام
51 الانعام
52 الانعام
53 اسلام اور معیار فضیلت : (ف ١) دولتمند اور ذی وجاہت طبقہ ہمیشہ سے امتیازات خصوصی کا طالب رہا ہے ۔ اسلام کو اول اول جب مفلس اور بےمایہ لوگوں نے قبول کیا تو یہ ناک بھوں چڑھانے لگے اور محض اس بنا پر اسلام کی برکات سے محروم رہتے کہ اس کے ماننے والے غریب کیوں ہیں ، وہ یہ بھی چاہتے تھے ، حضور ان لوگوں کو جن کے دل دولت ایمان سے مالا مال ہیں ، اپنے قریب نہ آنے دیں ، اور ہماری آؤبھگت کریں ۔ اس آیت میں دراصل انہیں لوگوں کی تردید مقصود ہے فرمایا یہ مخلص ہیں صبح ومشا وشام اللہ کو یاد کرتے ہیں ، ان کے قلوب میں ایمان کی روشنی ہے ، یہ گو دنیوی وجاہت سے محروم ہیں مگر ان کے دل دارین کی برکتوں سے معبور ہیں ۔ اسلام کا اصول یہی ہے ، وہ صرف جذبات کو دیکھتا ہے ظاہری شان وشکوہ اس کے نزدیک کچھ چیز نہیں ، اس کے دربار معدلتآگین میں گداگر اور شہنشاہ دونوں برابر ہیں ۔ (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ دولتمند ہونا خوبی نہیں ، شاکر ہونا فضیلت ہے ، وہ شخص جو آسودہ حال ہے ، اور خدا کی نعمتوں سے صحیح معنوں میں استفادہ نہیں کرتا یعنی منعم حقیقی کو بھول گیا ہے وہ فضل وامتنان کے قابل نہیں اور وہ جو گوغریب ہے ، مگر اللہ کا شکر گزار ہے اس قابل ہے کہ دربار نبوی میں جگہ پائے حل لغات : ولا تطرد : مادہ طرد ، بمعنی دور رکھنا بہکا دینا ۔ من : احسان کیا ۔ الانعام
54 (ف ١) یعنی مسلمانوں کے لئے سل امتی کا پیغام ہے ، اللہ کی رحمتیں ان کا خیر مقدم کرتی ہیں ۔ ان کی لغزشیں درخور عفو ہیں ، بشرطیکہ توبہ واستغفار کو ہاتھ میں نہ دیں ۔ الانعام
55 الانعام
56 (ف ٢) رسول عوام کی خواہشات نفس کا احترام نہیں کرتا ، بلکہ وہ اس لئے مبعوث ہوتا ہے تاکہ قیادت کے صحیح اصولوں کے ماتحت اہوا ، وفواحش کے خلاف جہاد کرے ۔ الانعام
57 (ف ٣) مقصد یہ ہے کہ اگر دلائل طلب کرتے ہو تو جان لو کہ (آیت) ” انی علی بینۃ من ربی “۔ مجھے اللہ نے دلیل وباہین سے بہر وافر عطا کر رکھا ہے ، میں اپنے ہر دعوے کو علے وجہ البصیرت پیش کرسکتا ہوں ، اور اگر عذاب کا مطالبہ ہے تو یہ اللہ کے علم واختیار میں ہے ، خدا جب چاہے گا کہ علم واختیار میں ہے ، خدا جب چاہے گا ، تم کو حرف غلط کی طرح مٹا دے گا ، اس وقت تم کچھ نہ کرسکو گے ۔ حل لغات : ولتستبین : مادہ بیان ، بمعنے ظاہر ہونا ، اھوآء : جمع ھوا ، محض ، نفس کی خواہش ، الفاصلین : مادہ فصل بمعنی فیصلہ کرنا ، جمع فاصل ۔ الانعام
58 الانعام
59 علم الہی کی ہمیہ گیری : (ف ١) (آیت) ” کتاب مبین “۔ ایک اصطلا ہے ، جو تعبیر ہے علم الہی سے یعنی خدا کے علم میں کائنات کی تمام تفصیلات موجود ہیں ، وہ بحر وبر کی وسعتوں سے آگاہ ہے ، پتے پتے اور ڈال ڈال سے واقف ہے ، زمین کی تاریکیوں میں جو کچھ بھی ہے ، اسے علم ہے ، بعض کے نزدیک کتاب مبین سے مراد قرآن ہے ، مگر یہ صحیح نہیں ، اس لئے کہ سیاق وسباق میں اللہ کے علم اور وسیع اختیارات کا ذکر ہے ، محل اشتباہ لفظ مبین ہے ، جواب یہ ہے کہ مبین کا لازم کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے یعنی کتاب واضح ۔ ان معنوں میں اللہ کا علم مبین بھی ہے کہ قیامت کے دن ہماری تمام لغزشوں کو ظاہر کر دے گا ، بہرحال مقصود خدا کے معارف کی وسعت بیان کرنا ہے ۔ حل لغات : مفاتیح : جمع مفتح ، ، بمعنی گنجی ، چابی یا مفتح ، بمعنی خزانہ ۔ الانعام
60 (ف ١) یعنی موت اور نیند میں صرف بیداری کا امتیاز ہے ، خدا چاہے تو انسان کو بستر ہی پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سلا دے ، یہ اس کا کرم اور نوازش ہے کہ ہمیں زندگی کی دوبارہ مہلت دیتا ہے ، تاکہ دنیا کی تگ ودو میں حصہ لے سکیں ، مگر یہ انتباہ ہے ، تاکہ انسان کبھی عیش چند روزہ پر مغرور نہ ہوجائے ، الانعام
61 الانعام
62 الانعام
63 (ف ٢) انسان میں یہ عجیب نفسی کمزوری ہے ، کہ جب مصیبت میں مبتلا ہو ، جب چاروں طرف سے گھر جائے ، جب مصیبت میں مبتلا ہو ، جب چاروں طرف سے گھر جائے ، اور مخلصی کی تمام راہیں مسدود ہوجائیں جب لق ودق صحراؤں میں گم ہوجائے جب جہاز پر بیٹھے ، اور ہر آن غرق ہوجانے کا خطرہ موجود ہو ‘ اس وقت اللہ کو یاد کرتا ہے ، خلوص وتضرع سے اس کا نام لیتا ہے ، اور اس کی استعانت کے لئے بےقرار ہوجاتا ہے ۔ مگر جہاں مصیبت دور ہوئی ، خطرہ کا وقت گزر گیا پھر سرکشی اور تمرد عود کر آیا ، پھر تغافل اور شرک نوازی میں مشغول ہوگیا ، یا تو صرف اللہ کا نام تھا ، یا اب اپنی قوت اور تدبیر پر اعتماد ہے اپنی عقل کی تعریف ہے دینوی اور مادی سہاروں پر بھروسہ ہے ، یہ نیرلگی وبوالعجمی لائق عبرت ہے ، اس آیت میں اس حقیقت کی جانب اشارہ ہے کہا یہ گیا ہے جب مصیبتوں اور مشکلات میں خدا کو یاد کرتے ہو تو پھر آسودگی اور رفاہیت میں اسے فراموش کردینے ، اور بھول جانے کے کیا معنی ۔ الانعام
64 الانعام
65 عذاب تخرب : (ف ١) مقصد یہ ہے کہ بت پرستی پر اصرار ، حق وصداقت کے خلاف اعلان جنگ یاد رکھو بہتر نہیں خدا ہر وقت قادر ہے ، کہ تم پر عذاب بھیج دے زمین تمہارے لئے پھٹ سکتی ہے ، اور سب سے بڑا عذاب یہ ہے کہ تم میں جمعیت نہ رہے ، اختلاف وتخریب کی آندھیاں چلیں ، اور کفر وطغیان کی تناودرختوں کو جڑ سے اکھاڑ دیں ، حل لغات : شیعا : جمع شیعۃ ۔ گروہ ، جماعت ۔ یخوضون ، مادہ خوض عام طور پر اسلام کے خلاف غور وفکر کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ الانعام
66 الانعام
67 الانعام
68 (ف ١) قرآن حکیم کا انداز بیان عام طور پر اس طرح ہے کہ بظاہر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کیا جاتا ہے ، مگر مقصود اس سے عام مسلمان ہوتے ہیں ، یہ آیت اسی قبیل سے ہے ، مقصد یہ ہے ، کہ عام مسلمان کفر والحاد کی مجلسوں میں شرکت نہ کریں ، جن میں بجز توہین اسلام اور کوئی شغل نہ ہو ، کیونکہ اس طرح مذہبی عصبیت دور ہوجاتی ہے ، اور انسان بری سے بری بکواس کو سننے کا عادی ہوجاتا ہے ۔ الانعام
69 (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ اگر تم ان کی برائیوں میں شریک نہ ہوجاؤ اور الحاد وزندقہ کی باتوں کی تردید کرسکو ، تو شرکت میں مضائقہ نہیں ، اسلام تنگ نظر نہیں ، وہ یہ نہیں چاہتا کہ مسلمان مخالف کی باتیں نہ سنیں ، بلکہ غرض یہ ہے کہ حمیت دینی اور عصبیت ملی اس قسم کے مشغلوں سے زائل ہوجاتی ہے ، اس لئے محتاط رہو ، الانعام
70 دین کو کھیل نہ سمجھو ! (ف ٣) غرض یہ ہے کہ دین کا احترام ضروری ہے یہود ونصاری کی طرح نہ ہوجاؤ جن کے دلوں میں مذہب ایک غیر ضروری مشغلہ کی حیثیت سے زیادہ نہیں ۔ (آیت) ” ولا شفیع “۔ سے شفاعت مطلقہ کی تردید مقصود ہے ‘ یعنی غیر مشروط شفاعت ، اہل باطل کا خیال تھا کہ چونکہ ہم انبیاء کی جانب منسوب ہیں ، اور اس انتساب پر نازاں ہیں اس لئے شفاعت قطعی ہوگی ، مکہ کے مشرک یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے بت ، ہمارے اولیاء اللہ پر دباؤ ڈال کر ہمیں بخشوائیں گے قرآن حکیم نے اس نوع کی سفارش کو ممنوع اور ناجائز قرار دیا ، اور بالکل مایوسی کا اظہار کیا ہے ۔ حل لغات : الذکری : مصدر ہی معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی یاد آنے کے بعد نہ بیٹھو ، ان تبسل : مادہ بسل بمعنی روکنا ، محروم رکھنا ، حمیم : کھولتا ہوا پانی ۔ الانعام
71 الانعام
72 الانعام
73 (ف ١) اسلامی تخیل اللہ تعالیٰ کے باب میں یہ ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ، اسے اسباب وذرائع کی قطعا حاجت نہیں ، وہ جب چاہے ، دنیا کو مجرد مشیت کے فنا کے گھاٹ اتار دے ، اسی طرح اس میں یہ بھی قدرت ہے ، کہ کائنات کو ایک لمحہ کے اندر مہیا کر دے ، اسے صرف ارادہ کرنا ہے ، اس کے بعد شئے مراد کا خلعت وجود اختیار کرلینا ضروری ہے ، اس آیت میں یہ بھی بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک وقت لائے گا جب تمام انسانوں کو پھر سے زندہ ہونے کا حکم دے گا ۔ کن کہنے سے مقصود یہ ہے کہ اس کے ارادہ اور فعل میں کوئی تخلف نہیں ہوتا ، یوں کہہ لیجئے ، اس نے کہا اور چیز موجود ہوگئی ، ورنہ وہ لفظ کن کا محتاج نہیں ، اور لفظ کن میں پیدا کرنے کی تاثیر ہے غرض اس کی قوت کاملہ اور مطلقہ کا اظہار ہے ۔ حل لغات : استھوتہ : استھوا کے معنی سرگشتہ کرنے کے ہیں یعنی اس کا شیاطین نے سرگشتہ کردیا ہو ۔ حیران : بمعنی سرگشتہ ، پریشان ، سرسیمہ شوریدہ سر ۔ (ف ١) نفخ صور کی تفصیلی بحث گذر چکی ہے اجمالا بحث یہ ہے ، کہ : ١۔ قرآن میں مختلف ناموں سے اس تخیل کا وجود پایا جاتا ہے ، اس لئے لفظ صور کی تاویل درست نہیں ۔ ٢۔ احادیث میں صراحت سے نرسنگا اور فرشتہ کا ذکر ہے ۔ اور اس میں کوئی مضائقہ اور استحالہ بھی نہیں ، ممکن ہے ، یہ محض اطلاع اور انتباہ ہو یعنی بالا استقلال فناء حیات کی تاثیر اس میں موجود نہ ہو ، بلکہ مقصود یہ ہو کہ وقت مقرر آپہنچا ہے ۔ اور یہ بھی محال نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں خاص تاثیر ودیعت کر رکھی ہو ، ہم علم الاصوات کی تمام وسعتوں سے آگاہ نہیں ، جب بھی یہ جانتے ہیں کہ آواز میں دس کی قوتیں ہو سکتی ہیں ۔ الانعام
74 دائرہ تبلیغ کا نقطہ آغاز : (ف ٢) اس آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا وعظ ہے جو ان کے والد سے متعلق ہے ، مقصد یہ ہے کہ انبیاء تبلیغ کو گھر سے شروع کرتے ہیں ، اور انہیں حق بات کے کہنے میں کبھی تامل نہیں ہوتا ۔ بعض لوگ یہاں لابیہ کے لفظ سے چچا مراد لیتے ہیں ، کیونکہ ان کے نزدیک انبیاء کے باپ کافر نہ ہونے چاہئیں مگر یہ محض وہم ہے ، اگر رات کی تاریکی سے خورشید خاور کا طلوع ہو سکتا ہے ، تو پھر شرک کی ظلمتوں سے توحید کے بدر منیر کا نکل آنا کیوں ناجائز ہے ۔ حل لغات : صور : نرسنگاہ ۔ ملکوت : بادشاہت نصرت عالم فرشتگان ، عالم ارواح ، جن ، جنون بمعنی چھپانا ۔ الانعام
75 الانعام
76 الانعام
77 الانعام
78 سیر ملکوت : (ف ١) ان آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے انتقالات ذہنی یا واردات توحید کا بیان کیا گیا ہے ، یعنی یہ کہ کیونکر وہ توحید کے راز تک پہنچے جبکہ ان کے گروہ پیش شرک وبت پرستی کی آندھیاں چل رہی تھیں ، یہ واضح رہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ایک لمحہ کے لئے بھی چاند اور تاروں کو معبود نہیں مانا ، بلکہ مقصود یہ ہے کہ حضرت ابراہم (علیہ السلام) فطرتا سلجھے ہوئے دماغ کے آدمی تھے ، وہ فورا بھانپ گئے کہ چمکتے تاروں اور درخشان ‘ مہتاب وجہانتاب میں کوئی بھی خدا ہونے کا استحقاق نہیں رکھتا ، کیونکہ یہ سب افول وزوال سے دوچار ہوتے ہیں البتہ صرف ایک ذات ہے جسے اللہ کے پروقار لفظ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ، اور وہ وہ ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا ، ابراہیم (علیہ السلام) کے سلسلہ فکر کو اس انداز میں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کواکب پرست حضرات توحید کی طرف رجوع کریں ، اور وہ ان حقائق پر غور کریں ، جنہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پیش کیا ہے ۔ توحید دراصل انسانی غور وفکر کا معراج کمال ہے ، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اس کاوش فکر کو سیر ملکوت سے تعبیر کیا ہے ۔ حل لغات : بازغۃ : چمکتا ہوا ، عربی میں شمس مؤنث ہے ، افلت : غروب ہوگیا ، چھپ گیا ، بریئ: پاک ہونا ، آزاد ہونا ۔ الانعام
79 الانعام
80 الانعام
81 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ ایک صادق الخیال انسان سے بت پرستی کی کوئی توقع نہیں ، کی جا سکتی ، وہ جانتا ہے کہ یہ بےجان عقیدہ ہے ، اور یہ معبود ان باطل کسی طرح کا گزند نہیں پہنچا سکتے ۔ (آیت) ” مالم ینزل بہ علیکم سلطنا “۔ سے غرض یہ ہے ، کہ شرک کی تائید میں عقل وفکر کے لئے قطعا گنجائش نہیں ۔ الانعام
82 الانعام
83 حجت حق : (ف ٢) اس آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طرز استدلال کی تعریف کی ہے اسے حجت حق اور برہان قرار دیا ہے ، اور پھر یہ بیان فرمایا ہے کہ (آیت) ” نرفع درجت من نشآء “۔ یعنی توحید ہی رفع درجات کا سبب ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ کی تفرید وتجرید بہترین مشغلہ ہے ، وہ شخص جو مشرک ہے ، معرفت کے بام بلند تک اس کی رسائی ناممکن ہے ، کوئی نیکی اور کوئی عبادت اسے خدا تک نہیں پہنچا سکتی ، اور وہ جو توحید کا قائل ہے توحید پر عامل ہے ، اس کے لئے درجات ومراتب ہیں ، تشریف وتقرب ہے ، وہ اس قابل ہے ، کہ اللہ اسے اپنی آغوش رحمت میں لے لے ۔ حل لغات : حجتنا : حجت کے معنی مضبوط اور ناقابل تردید دلیل کے ہیں ۔ الانعام
84 الانعام
85 الانعام
86 الانعام
87 (ف ١) ان آیات میں توحید کے علمبرداروں کی ایک مختصر سی فہرست پیش کی ہے اور بتایا ہے ، کہ ان کے تمام فضائل ان کی ساری بزرگیاں محض اس وجہ سے تھیں ، کہ یہ لوگ موحد تھے خدا کے پرستار تھے ، صراط مستقیم پر گامزن تھے ، صداقت ، اور سچائی کے رہ سپار تھے ، ورنہ شرک اور بت پرستی اعمال کر ضائع کردیتی ہے ۔ ” اللھم اغفر لکاتیبہ ولمن سعے فیہ ولوالد یھم اجمعین ، امین “۔ الانعام
88 الانعام
89 (ف ١) کتاب حکم اور نبوت ایک ہی چیز کے تین پہلو ہیں یعنی انہیں کتاب یا پروگرام دیا گیا ، حکم کے معنی پیغمبرانہ اجتہاد کے ہیں ، اور نبوت کے معنی اصابت اعمال کے ہیں ۔ الانعام
90 (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اور انبیاء گزشتہ میں قطعا امتیاز موجود نہیں ۔ سب کی راہ ایک ہے منزل مقصود ایک ہے ، طریق تگ و دو ایک ہے ، سب ایک خدا کی طرف بلاتے ہیں ، سب شرک کی تردید کرتے ہیں ، سب توحید کی تلقین کرتے ہیں ، اور سب مخلص ہیں ، سوا اللہ کے اور کسی سے ضروری نہیں چاہتے ۔ الانعام
91 ما قدرو اللہ حق قدرہ : (ف ٣) سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے سب کو اسی نے خلعت حیات سے نوازا ہے ، اسی نے زندہ رکھا اور زندگی کے لوازمات پورے کئے وہی سنتا ہے ، وہی جانتا ہے ۔ دکھ ، درد اور تکلیف ومصیبت میں اسی کی کارسازی بروئے کار آتی ہے ، وہ نہ چاہے تو دنیا میں پتہ نہ ہل سکے ، یہ سب اس کے انعامات ہیں ، مگر انسان ہے کہ اسے نہیں پہچانتا ۔ حق قدرہ : سے یہ مقصود نہیں ہے کہ اللہ کی معرفت کی کوئی حد ہے کس کے بس میں ہے کہ وہ باندازہ نعمت اس کا شکریہ ادا کرسکے ؟ ایک ایک سانس جو ہم لیتے ہیں ہزار در ہزار نعمتوں کو مرہون منت ہے پھر انسان کے لئے یہ کیونکہ ممکن ہے کہ اس کی تعریف وستائش سے کما حقہ عہدہ برآہو سکے ، غرض یہ ہے کہ تم جو کچھ اور جس حد تک کرسکتے ہو ، اس سے تو دریغ نہ کرو یہ تو بالکل سہل اور ممکن ہے ، کہ تمہارا سر کسی دوسرے کے آستانے پر نہ جھکے ، تم شرک سے باز آجاؤ اور ایک اللہ سے تعلق خاطر رکھو ۔ اس کے تشکر کی ایک صورت یہ ہے کہ اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرو ، کیونکہ وہ شخص جو اللہ کے حکموں کو نہیں مانتا وہ اس کی ربوبیت کی نعمتوں سے ناآشنا ہے ، حل لغات : حبط : ضائع ہوگیا ، عمل میں حبط اعمال کے معنی عمل کی نااستواری ہیں ۔ قراطیس : جمع قرطاس بمعنی کاغذ ، ورق : ام القری : مکہ کا نام ، کیونکہ اس نواع کی تمام آبادیوں میں یہ پہلی آبادی ہے ۔ الانعام
92 الانعام
93 تین قسم کے ظالم : (ف ١) وہ شخص جو اللہ کے دین کی طرف غلط باتیں منسوب کرتا ہے بدعات وسیئات کو دین کے نام سے پھیلاتا ہے اور رسوم وعوائد کو دین سمجھتا ہے ، ظالم ہے مفتری ہے ۔ وہ شخص جو مدعی نبوت ہے الہام ووحی کو اپنی ذات سے منسوب کرتا ہے ، اپنی رسالت کا اعلان کرتا ہے ، اور براہ راست اللہ سے استفادہ معارف کا دعویدار ہے ، حالانکہ خدا نے اسے منصب نبوت پر فائز نہیں کیا ، اسے پیغمبر بنا کر نہیں بھیجا ، اور الہام ووحی سے قطعا محروم ہے ظالم ہے ، اور اللہ کی جانب غلط باتوں کو منسوب کرتا ہے اسی طرح وہ بھی ظالم اور مفتری علی اللہ ہے ، جو خدا پیغام کو ٹھکراتا ہے ، اس پر عمل پیر نہیں ہوتا ، اور کہتا ہے میں بھی اسی طرح کا قرآن لکھ سکتا ہوں ۔ تینوں کی سزا یہ ہے کہ موت کی سختیاں جھیلیں گے فرشتے ذلت وحقارت سے پیش آئیں گے ، اور انہیں بدترین رسوائی سے دوچار ہونا پڑے گا ، مرنے کے بعد ان سے پوچھا جائے گا کہ تمہارے پاس تمرد وکبر کے لئے کیا وجہ جواز ہے ، یہ وقت نہایت کڑا اور ذلیل کن ہوگا ، کوئی جواب نہ سوجھے گا اور جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جھونک دیئے جائیں گے ، مقصد واضح ہے کہ افتراء علی اللہ بہت بڑا جرم ہے ، جس کی سزا موت سے شروع ہوگی ۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ جھوٹے نبی کے لئے فورا مرجانا ضروری ہے اور تیس سال تک اگر کوئی مدعی نبوت زندہ رہ جائے تو اس کی صداقت میں شبہ نہیں ہو سکتا غلط کہتے ہیں رسول کے معنی تو یہ ہیں کہ تیس سال تک خدا جھوٹ کو برداشت کرلیتا ہے مگر اس سے بعد نہیں آیت زیر بحث سے صاف صاف معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان لوگوں ڈھیل دیتا ہیں اور موت کے بعد ان کی آنکھیں کھلتی ہیں اس وقت ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ظلم اختیار بہت سنگین جرم ہے ۔ حل لغات : غمرات : جمع غمرۃ ۔ بمعنے استعمال ، الھون : ذلت رسوائی ۔ الانعام
94 عبرتناک انجام : (ف ١) وہ لو جو دنیا میں اللہ کو بھول جاتے ہیں اور دنیا کی دلفریبیاں انہیں غفلت وانکار پر مجبور کردیتی ہیں اور وہ جو مقدس سہاروں کے بل پر زندہ ہیں جن کا عقیدہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد ہمارے شرکاء اور معبود ہمیں خدا کے عذاب سے بچائیں گے ، انہیں اس عبرتناک انجام پر غور کرنا چاہئے کہ وہ تنہا خدا کے حضور میں جائیں گے ، جاہ وحشم کے تمام سامان یہیں رہ جائیں گے ، آسائش وتکلفات ان کا ساتھ نہیں دیں گے ، اور وہ معبود اور سفارشی جن پر ان کا بہت دعوی ہے صاف مکرجائیں گے ، کوئی رشتہ ارادت اور تعلق نیاز مندی باقی نہیں رہے گا (آیت) ” لقد تقطع بینکم “ کا منظر ہوگا ، شیوخ بدعت اور پیران بدکردار مریدوں سے بھاگیں گے اور مرید ہوں گے کہ لپک لپک کر آگے بڑھیں گے ، اس وقت کتنا حسرتناک منظر ہوگا ، الانعام
95 (ف ٢) اصل سہارا وہ ہے جس کے اختیارات وسیع ہیں جو انگوریوں کو پیدا کرنے والا جو موت کو زندگی میں تبدیل کرسکتا ہے ، اور زندگی کو موت میں جو رات کی تاریکی سے صبح کو ہویدا کرتا ہے ، اور رات کو آرام دہ بناتا ہے ، جس نے سورج اور چاند کے لئے ایک خاص نظام مقرر کر رکھا ہے ، اسے عزیز وعلیم کو چھوڑ کر تم کہاں بھاگ رہے ہو ۔ حل لغات : فالق : مادہ فلق پھاڑنا ، چیرنا ۔ حسبانا : بمعنی باقاعدہ حساب سے ۔ الانعام
96 الانعام
97 الانعام
98 (ف ١) خدا کی صفات کے سلسلہ میں یہ بھی بتایا ہے کہ تم سب کو ایک ہی نفس سے پیدا کیا گیا ہے یعنی تم میں باہمی کوئی امیتاز نہیں سب آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہو ، اور احترام کے مستحق ۔ نیز یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ان تمام آیات پر غور کرنا علقمندی اور دانائی ہے ۔ حل لغات : مستقر : مقام استقرار ۔ مستودع : مقام وداع ، عاقبت اور دنیا سے تعبیر ہے ۔ الانعام
99 (ف ١) مقصد یہ ہے ، کہ ایماندار لوگ اللہ کی نعمتوں کو نگاہ میں رکھتے ہیں اور اس کے احسانات کو بھولتے نہیں وہ گردوپیش کے حالات کو جب دیکھتے ہیں تو ہر بات میں انہیں اللہ کی قدرتیں نظر آتی ہیں لہذا شرک میں مبتلا نہیں ہوتے کائنات کا ذرہ ذرہ انہیں دعوت توحید دیتا ہوا نظر آتا ہے ۔ الانعام
100 الانعام
101 (ف ٢) مکے کے مشرک جنات سے ڈرتے تھے اور انہیں براہ راست متصرف خیال کرتے تھے ، نیز فرشتوں کے متعلق کہتے کہ وہ اللہ کی بیٹیاں ہیں عیسائیوں کا عقیدہ مشہور ہے ، وہ مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، یہ بےعلمی کی باتیں ہیں ، خدا ان باتوں سے بالا وبلند ہے ، جب اس کے کوئی بیوی ہی موجود نہیں تو بیٹا کیا ہوگا ۔ حل لغات : خرقوا : مادہ خرق ، یعنی چھیلنا ، یا تراش لینا ، مقصد یہ ہے کہ یہ عقیدہ از خود بنا لیا گیا ہے ، نبوت موجود نہیں ، بنات : لڑکیاں ۔ الانعام
102 الانعام
103 لا تدرکہ الابصار : (ف ١) اسلام نے جو اللہ تعالیٰ کا تخیل پیش کیا ہے وہ نہایت بلند ہے ، اس میں تحیم اور تشکل کو قطعا دخل نہیں ، وہ کہتا ہے آنکھیں جن کی پہنچ ادیات میں سے سب سے زیادہ وسیع ہے اور ہمہ گیر ہے ، اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتیں ، ان میں وہ روشنی اور بینائی ہرگز موجود نہیں ہے ، جس سے رب السموت کا احاطہ کیا جا سکے ، مگر بایں عظمت وعلو ، وہ ہمارے حالات سے پوری طرح آگاہ ہے ، وہ باوجود مادیات سے الگ اور متعال ہونے کے ہماری باریک سے باریک حاجات کو بھی جانتا ہے ، اس لئے کہ لطیف ہے اس آیت سے قیامت میں عدم رؤیت کا ثبوت نہیں ملتا ، قرآن حکیم میں نص موجود ہے ، (آیت) ” وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرۃ “۔ یعنی کچھ خوش بخت چہرے ایسے بھی ہوں گے جو اس کے دیدار سے محروم نہیں رہیں گے ، مقصد یہ نہیں کہ اس وقت ہم اللہ تعالیٰ کو ویسے ہی دیکھیں گے جیسے دنیا کی عام چیزوں کو دیکھتے ہیں بلکہ رؤیت سے مقصود یہ ہے کہ ہم وہاں عجیب ناقابل بیان مسرت حضور ہی محسوس کریں گے اور اس کی جلوہ آرائیوں سے آنکھیوں کو ٹھنڈک پہنچائیں گے یہ تقرب و حضور کا انتہائی درجہ اور مقام ہے جو مسلمانوں کو حاصل ہوگا ۔ الانعام
104 بصآئر : (ف ٢) غرض یہ ہے کہ یہ واشگاف حقائق ہیں جنہیں اسلام کی صداقت اور سچائی کے ثبوت میں پیش کیا گیا ہے ، اور اگر ان دلائل کے بعد بھی جو لوگ ہدایت سے محروم رہیں انہیں چاہئے کہ اپنی کور باطنی کا ماتم کریں ۔ الانعام
105 (ف ٣) ” ولقولوا درست “ غرض یہ ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پڑھے لکھے تو تھے نہیں مگر قرآن کو پیش کیا ہے تو معارف وحقائق سے معمور اس لئے لامحالہ یہی کہیں گے ، قرآن کسی دوسرے شخص کی تصنیف ہے ، بےوقوف یہ نہیں سوچتے کہ اس تسلسل اور پاکبازی کے ساتھ اس تفصیل اور استقلال کے ساتھ کہیں دوسروں کی باتوں کو پیش کیا جا سکتا ہے ، الانعام
106 (ف ٤) یعنی ان لوگوں کے اعتراضات بالکل سطحی ہیں آپ بلا تاسف کے احکام الہی کو دوسروں تک پہنچاتے رہیں ۔ الانعام
107 (ف ٥) غرض یہ ہے کی اختلاف ناگزیر ہے اللہ چاہتا ہے حق وباطل میں امتیاز رہے ، دن اور رات میں تفاوت رہے ، تاکہ موحدین کو اجر دیا جائے اور وہ جو شرک کی تاریکیوں میں گرفتار ہیں ، انہیں سزا دے ، مقصد یہ نہیں کہ خدا شرک وبت پرستی سے خوش ہے ، بلکہ اس کی مشیت تکوینی کا اقتضاء یہی ہے کہ حق کے ساتھ ساتھ باطل کو بھی رکھا جائے ۔ مشیت تشریعی اور مشیت تکوینی میں یہی مابہ الامتیاز ہے ۔ الانعام
108 اسلام کی بےمثال روا داری : (ف ١) بست پرستی کی اسلام نے بیحد مذمت کی ہے اور اس عقیدہ کو بےدلیل اور جاہلانہ عقیدہ قرار دیا ہے ، مگر باوجود اس کے رواداری کا یہ عالم ہے کہ بتوں کو گالیاں دینے سے روکا ہے یعنی ایک غلط اور بےحقیقت عقیدہ کا احترام بھی اس حد تک ضروری ہے کہ اسے اشتعال انگیز صورت میں پیش نہ کیا جائے ۔ تاکہ ایسا نہ ہو کہ جاہل اور ناآشنائے تہذیب مشرک اللہ کو گالیاں دینا شروع کردیں ، یہ ایک واقعہ ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کے دلوں کو بےوسیع بنا دیا ہے ، مسلمان اور تعصب کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے ، وہ لوگ جو مخالفین کے صلحاء اور نیک انسانوں کو گالیاں دیتے ہیں وہ اسلام کے مخالف ہیں اور تمام اس بدزبانی کے ذمہ دار ہیں جو مخالفین سے وہ سنتے ہیں اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ خود خوش گفتار رہو ، اور دوسروں سے خوش گفتاری کی توقع رکھو ۔ حل لغات : جھدایمانھم : مضبوط قسمیں ۔ یعمھون : مادہ عمہ ، بےبصیرتی کور باطنی ، اور دل کا نور معرفت سے محروم ہوجانا ۔ الانعام
109 الانعام
110 الانعام
111 (ف ١) غرض یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کے تمام مطالبات کو پورا بھی کردیا جائے جب بھی یہ منکر ہی رہیں گے ۔ کیونکہ اسلام کو قبول کرلینے کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمام اور نام وخرافات سے دستبردار ہوجائیں ، ایثار وتعاون کو شیوہ بنا لیں ذاتی وجاہتیں اور اعزاز چھوڑ دیں ، اللہ کے لئے جئیں اور اللہ کے لئے مریں ، دنیا کی بجائے دین نصب العین قرار دیں ، مادیت سے علیحدہ ہوجائیں ، دن رات روحانیت کے درپے ہیں ، ایمان ویقین کی دولت کو حاصل کرنے کے لئے آخری لمحہ حیات تک صرف کر ڈالیں ، اور یہ ان کے لئے ازحد مشکل ہے ، کیونکہ ان کے دلوں میں کفر سرایت کرچکا ہے اور ایمان کیلئے جگہ باقی نہیں رہی ۔ الانعام
112 (ف ٢) شیطان کی دوقسمیں ہیں ، ایک تو وہ ہے جو نظروں سے اوجھل ہے دل میں وسوسہ انداز ہوتا ہے اور حواس باطنی پر چھا جاتا ہے اور ایک وہ ہے جو چلتا پھرتا محسوس ہوتا ہے ، یہ انسانوں میں سے بدترین نوع کے لوگ ہیں ، ان کا کام یہ ہے کہ برائیوں کو سنوارکر پیش کریں ، اور گناہ کی باتوں کو ملمع اور فریب کا جامہ پہنائیں تاکہ عوام نہ سمجھ سکیں ، اور پرہیزگاری کی نعمت سے محروم رہ جائیں ۔ الانعام
113 (ف ٣) مقصد یہ ہے کہ اپنی ذمہ داری محسوس کرنے والا شخص شیطان کے پھندے میں نہیں پھنستا ، ایسی باتوں کی طرف وہ ہوتا ہے جو نادان ہو ، اور آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو ، یعنی اعمال کی اہمیت سے بےپروا ہو ۔ حل لغات : قبلا : قبیل کی جمع ہے بمعنی گروہہا یا مصدر ہے ۔ زخرف القول : ملمع سازی کی یعنی ایسی بات جو بظاہر آراستہ اور بباطن خراب ہو ، الانعام
114 حکم صرف خدا ہے : (ف ١) دنیا میں کوئی شخصیت ایسی نہیں جس کی ہر بات براہ راست حجت وسند ہو ، انبیاء علیہم السلام کا منصب یہ ہے کہ وہ اللہ کی اجازت سے لوگوں کو رشد وہدایت کی دعوت دیتے ہیں ، اور دراصل اللہ کی جانب بلاتے ہیں ، اس لئے براہ راست حکم اور سند صرف اللہ ہی کی ذات ہے ۔ مفصلا : سے غرض یہ ہے کہ قرآن میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے دلائل تفصیل سے موجود ہیں ، چنانچہ اہل کتاب کا حق شناس طبقہ کھلے طور پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت کا اعتراف کرتا ہے ۔ تفصیل کا لفظ قرآن عظیم میں جہاں جہاں آیا ہے اس سے غرض دلائل نبوت یا دلائل اسلام کی تفصیل ہے اور اس کا تعلق غیر مسلموں سے ہے یعنی وہ اس نقطہ نگاہ سے جب قرآن کو دیکھیں گے ، تو مکمل اور مفصل پائیں گے ۔ الانعام
115 الانعام
116 اکثریت کی رائے : (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ ساری دنیائے کفر اسلام کی صداقت کو جھوٹ سے نہیں بدل سکتی ، صداقت کے لئے اکثریت شرط نہیں سچائی سچائی ہے ، اگرچہ ایک عالم اس کا مخالف ہو ، مکہ والوں کو ذبیحہ کے متعلق کچھ شبہات تھے ، وہ کہتے تھے اسلام میں ذبیحہ کا اصول عام دنیا سے مختلف ہے اس لئے ناقابل قبول ہے قرآن حکیم کہتا ہے یہی درست ہے ، اکثریت کی پیروی گمراہی ہے ۔ (آیت) ” ان تطع “۔ اور ” یضلوک “ ۔ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے عوام کی پیروی کا امکان ہے بلکہ قرآن کا یہ عام انداز بیان ہے کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرنا ہے اور مراد آپ کے ماننے والے ہوتے ہیں ، ورنہ آپ کے لئے ضلالت کا امکان کہاں ، (آیت) ” وما ضل صابکم وما غوی “۔ کی نص موجود ہے ۔ حل لغات : یخرصون : مادہ خرص ، اندازہ وتخمینہ سے کچھ کہنا ، مقصد یہ ہے کہ مشرکین مکہ کے پاس ضابطہ وقانون نہیں ہے جسے عقل کی کسوٹی پر پرکھا جا سکے محض ادہام ، روایات ہیں جو تخمینہ واندازہ پر مبنی ہیں ۔ الانعام
117 الانعام
118 الانعام
119 (ف ١) ایک اعتراض ذبیحہ پر یہ تھا کہ مسلمان خود مار کر کھا لیتے ہیں اور خدا کا مارا ہوا جانور نہیں کھاتے اس کی کیا وجہ ہے َ اس کا جواب یہ ہے کہ ذبح کرنے یہ راز مضمر ہے کہ اس سے توحید کا اعلان ہوتا ہے ، اللہ سے تعلق پیدا ہوتا ہے ، اور مسلمان کو یہ انتباہ ہوتا ہے ، کہ کسی وقت اللہ کو فراموش نہ کرے ، (آیت) ” الا ما اضطرر تم الیہ “۔ سے غرض یہ ہے کہ اگر کھانے کو کچھ نہ ملے اور زندگی خطرے میں ہو تو حرام بھی کھالے ، زندگی بہرحال زیادہ عزیز ہے ، اور اصل میں حلت وحرمت کی بحث محض بقاء حیات کے لئے وہ چیزیں جو حیات انسان کے لئے مفید ہیں ، شریعت نے ان کے کھانے میں کوئی پابندی نہیں رکھی اور وہ جو مضر ہیں ، انہیں حرام قرار دیا ہے ، حل لغات : اضطررتم : اضطرار کے معنی ہیں ‘ بےاختیاری ، اور بیچارہ ہونے اور بیچارہ کرنے کے ۔ الانعام
120 الانعام
121 (ف ١) وہ ذبیحہ جس پر خدا کا نام نہ لیا جائے حرام ہے ، کیونکہ اس طریق سے نظام شرک کی تائید ہوتی ہے ، اور دنیا میں شرک پھیلتا ہے ، ورنہ دراصل گوشت میں کوئی امتیاز نہیں ۔ اسلام کا مقصد یہ ہے کہ قدم قدم پر مسلمان توجہ الی اللہ کا سبق سیکھے ۔ الانعام
122 اسلام زندگی اور نورہے ! (ف ٢) اسلام اپنے طریق عبادت میں ، عقائد اور اخلاق ورسوم میں ، یکسر زندگی اور نور ہے ، روشنی اور برہان ہے ، اس کی کوئی بات غلط اور بےدلیل نہیں ہوئی ، اس آیت میں بتایا ہے کہ مسلمان کفر کے جمود سے نکلا ہے ، اور ایمان کی نورافروز زندگی میں داخل ہوگیا ہے ، اس لئے یہ اب کفر کو پسندیدہ نظر سے نہیں دیکھ سکتا ۔ حل لغات : الظلمت : جمع ظلمت ، مقصود تشبیہ ہے ، یعنی کفر کی تاریکیاں ، اکابر : بڑے بڑے لوگ ، لفظ عام ہے رؤساء الدار اور رؤساء علم دونوں شامل ہیں ۔ الانعام
123 (ف ١) اکابر نے ہمیشہ مخالفت کی ہے کیونکہ ان کی کبر پسندی اور غرور کو ایمان کی سادگی اور مسکنت سے کوئی تناسب نہیں ، باوجود اس کے کہ اسلام زندگی ہے اور نور ہے پھر بھی قوم کے بڑے بڑے لوگ ابتداء محروم ہی رہے ۔ مکہ کے بڑے بڑے سرداروں نے اسلام کی مخالفت میں کیا کیا نہیں کیا ، آپ کے کام میں کیا کیا مشکلات پیدا نہیں کیں ، مگر بالآخر ان کو معلوم ہوگیا ، کہ ہماری تمام کوششیں رائیگاں گئی ہیں ، اس آیت میں اسی حقیقت کی جانب اشارہ ہے ۔ معیار رسالت : انکار کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ ظاہری عظمت اور برتری کو معیار قرار دیتے تھے ہر فضیلت روحانی کا ان کا خیال یہ تھا کہ ثبوت کا استحقاق ہمیں حاصل ہے ، کیونکہ ہمارے پاس سرداری ہے ، دولت ہے دنیوی عزت کے سامان ہیں ‘ وجاہت ہے قوم میں نام ہے ، اور وہ سب کچھ حاصل ہے ، جو ایک معزز انسان کے لئے ضروری ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم نہیں جانتے ، نبوت ورسالت کے لوازم کیا کیا ہیں ۔ نبوت ایک بخشش ہے ، ایک موہبت ہے جس کے لئے استعداد خاص کی ضرورت ہے ، جس سے تم سب محروم ہو ۔ ہمیں یہی منظور ہے کہ ایک یتیم بےنوا کو ساری کائنات کو سر پرست بنا دیں ، ایک ایسے شخص کو جو تمہاری نظروں میں بےمایہ اور مفلس ہے خزانوں اور ممالک کا مختار کردیں ، ہم یہی چاہتے ہیں ، کہ تمہارے غرور کو کچلا جائے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعزاز کو بلند کیا جائے ، کہو ، کیا اعتراض ہے ؟ ۔ حل لغات : صغائر : ذلت صغر سے ہے یعنی چھوٹا ہے ، حرجا : مکان حرج : اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں گھنے درخت کثرت سے ہوں اور مویشی وہاں نہ جا سکیں ۔ الانعام
124 الانعام
125 مومن کا سینہ : (ف ١) مقصد یہ ہے کہ مسلمان نہایت فراخدل ہوتا ہے ، اس کا سینہ معارف وصداقت کا گنجینہ ہے ، حق بات کے قبول کرلینے میں ذرہ بھر تامل نہیں ہوتا ، اور وہ جو گمراہ ہے ، نہایت متعصب اور تنگدل ہوتا ہے ، سچی بات کو ماننے میں بھی ہزار پس وپیش ہے تامل ہے ، جھجک ہے ، رسم ورواج کے پردے حائل ہیں ، مذہبی تنگ نظری مانع ہے ، تقلید وجمود سنگ راہ ہے ، یعنی اسلام تعصب کی تاریکیوں کو دور کردیتا ہے ، ظلمت وتنگ نظری کے پردے چاک کردیتا ہے ، اور انسان کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ ہر صداقت کا احترام کرے ۔ یہی وجہ ہے ، مسلمان میں ہر عیب موجود ہے ، مگر وہ اب تک تعصب کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوا ، کیونکہ یہ چیز اس کی فطرت کے خلاف ہے ۔ الانعام
126 الانعام
127 سل امتی کا گھر : (ف ٢) جنت کا ایک نام ” دارالسلام “۔ ہے ، یعنی روح وجسم کی سل امتی کا ملجاواء نے ، جہاں ہر اضطراب اور بےچینی کا علاج ہے ، جہاں نفس کی بےقراریاں دور ہوتی ہیں ، جہاں کامل سکون اور طمانیت میسر ہے ، الانعام
128 (ف ١) دنیا میں گناہ کے لئے قدم قدم پر آسانیاں ہیں ، جہاں چاہو ، جب چاہو ، نافرمانی اور معصیت کا ارتکاب کرلو مشکل یہ ہے کہ نیک بنو شرارت اور گناہ کے بےشمار وداعی اور اسباب ہیں ، نیکی اور صداقت کے محرکات کم ہیں ایک طرف نفس امارہ ہے ، اس کی خواہشیں ہیں ، شیاطین کے دامہائے تزویر ہیں ، اور دھوکے ہیں ، کچھ پنہاں ہیں ، کچھ ظاہر ہیں ، دوسری جانب تنہا عقل ، جس کی بیچارگی معلوم ۔ ان آیات میں نہایت سادہ انداز میں اس حکیمانہ حقیقت کو بیان کیا گیا ہے ، قیامت کے دن اللہ شیطانوں سے کہے گا ، تم نے بہت گمراہی پھیلائی ، آج مکافات کا دن ہے ، آؤ تمہیں سزا دیں ، کمزور ایمان کے لوگ جو شیطان کے بھرے میں جلد آجاتے ہیں ، اعتراف کریں گے کہ ہم نے دنیا میں ان سے تعاون کیا ، اور ہم دونوں مجرم ہیں ۔ حل لغات : الا ما شآء اللہ : تاکید مضمون کے لئے ہے یعنی جہنم سے تمہیں کوئی قوت نہیں نکال سکتی ۔ معشر : گروہ ، جماعت ۔ القری : جمع قریۃ ، بمعنی بستی ۔ الانعام
129 الانعام
130 الانعام
131 اتمام حجت : (ف ١) اللہ تعالیٰ نے کائنات میں ہر چیز کے لئے کچھ قواعد تجویز کر رکھے ہیں جن پر عمل پیرا ہونا ، ان کی زندگی اور بقا کے لئے بیحد ضروری ہے ، انسانوں اور جنوں کے لئے بھی خدائے ذوالجلال نے وقتا فوقتا ہدایات نازل کی ہیں ، تاکہ بقاوارتقاء کے لئے وہ انہیں ہمیشہ ملحوظ رکھیں ، جس طرح انسانوں کے لئے انبیاء ورسل ہیں ، اسی طرح جنوں کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی کے طریق مقرر کر رکھے ہیں ، جن بھی انسانوں کی طرح ایک ذمہ دار مخلوق ہے ، جو ہمیں نظر نہیں آتی ، مگر ان کے وجود سے انکار محض بےعقلی ہے ، ایسے شواہد اور دلائل موجود ہیں ، جن سے پتہ چلتا ہے ، کہ جنات ایک نوع کی پراسرار مخلوق ہے ، ہمارے علم نے اس درجہ ترقی نہیں کی کہ ہم ان سے زیادہ متعارف ہو سکتے ۔ البتہ ان کے وجود کا احساس ہوتا رہتا ہے ۔ آیت کا مقصد اتمام حجت ہے یعنی اللہ کا پیغام سب کو برابر پہنچتا ہے ۔ الانعام
132 الانعام
133 (ف ٢) اللہ کی بےنیازی مذکور ہے یعنی اللہ کا منشاء پورا ہو کر رہے گا ، تم رہو نہ رہو اس کا جلال ابد الآباد تک قائم رہے گا ، تم اگر نہ مانو گے ، اور اس کے حکموں کو ٹھکرا دو گے ، تو وہ ایسے اور لوگ پیدا کر دے گا ، جو اطاعت شعار ہوں ، اسے یہی منظور ہے کہ اس کا دین سربلند رہے ، اس کی بات مانی جائے ، اس کے حکموں کو پوری فرمانبرداری کے ساتھ تسلیم کیا جائے ، اور اگر اس کے لئے تیار نہیں ہو ، تو مٹ جاؤ گے ، اللہ کی حکومت بہر حال برقرار رہے گی ، حل لغات : درجت : رتبے ، الانعام
134 الانعام
135 عاقبت کن کی ہے ؟ (ف ١) مقصد یہ ہے کہ ساری دنیائے کفر وضلالت کو چیلنج ہے ، سب لوگ اپنی سی کر دیکھیں ، حق کی پرزور مخالفت کرلیں ، رب کے پیارے اور دوستوں کو وحی بھر کے تکلیفیں دے لیں ، پوری قوت کے ساتھ شیطنت پھیلائیں ، دار درس کو ہاتھ میں لے لیں ، اور جسے چاہیں ، ٹانگ دیں ، آخرت اور عاقبت کے لحاظ سے مظلوموں کی فتح ہوگی حق پرست کامیاب رہیں گے اللہ اپنے بندوں کی اعانت کرے گا ، کیونکہ ظلم واستبداد کے لئے بقا نہیں ، جھوٹ اور شرک فانی وعارضی ہے ، الانعام
136 الانعام
137 (ف ٢) شرک پرستی کے معنی یہ ہیں ، کہ بہت سی ناجائز باتوں کو محض جہالت کی وجہ سے قبول کرلیا جاتا ہے رسوم ورواج کی اندھا دھند پروی کی جاتی ہے ، چاہے جان تک ضائع ہوجائے ، قتل اولاد کس قدر ہولناک جرم ہے مگر مکے کے مشرک اسے جائز قرار دیتے تھے ، محض جذبہ غیرت کی پرستش کے لئے بچیوں کو زندہ گاڑ دیتے تھے یعنی غیرت ایک بت ہے ، جس کی بھینٹ ہزاروں بچیوں کو چڑھا دیا جاتا تھا ، (آیت) ” ولو شآء اللہ مافعلوہ “۔ سے غرض یہ ہے کہ اللہ کی مشیت تکوینی چاہتی ہے ، اجالے کے ساتھ اندھیرا بھی باقی رہے ، ورنہ شرک اسے قطعا پسند نہیں غرض یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادہ غم نہ کریں ، اور ان کی گمراہی پر حد سے زیادہ تاسف نہ فرمائیں ، الانعام
138 الانعام
139 صنمیات قریش : (ف ١) ان آیات میں قریش کی صنمیات کا تذکرہ ہے یعنی وہ کن کن چیزوں کو حرمت وعزت کی نگاہ سے دیکھتے ، اور کن کن چیزوں کو تقدیس کا درجہ دیتے ، بعض کھیت بتوں کے لئے مخصوص ہوتے بعض چراگاہوں کو ناقابل استعمال ٹھہراتے ، پھر اس طرح مال مویشیوں کی بھی ان کے ہاں تقسیم تھی ، بعض مقدس سمجھے جاتے اور چراگاہوں میں آزاد چھوڑ دیئے جاتے ، ان پر سوار ہونا ، یا بوجھ لادنا ممنوع قرار دیا جاتا ، پھر پہلے سے یہ بھی طے کرلیتے کہ اگر اس قسم کی مادہ سے بچہ پیدا ہوا ، تو وہ مردوں کے لئے حلال ہے ، عورتوں کے لئے حرام ، اور اگر بچہ مردہ پیدا ہو تو دونوں شریک رہیں ، یہ اور اس قسم کی بیسوں باتیں محض جہالت اور اختراء ہیں اور یہ مشرکانہ زندگی کا لازمہ ہیں ، قرآن حکیم ان تمام رسوم کو لغو اور بیہودہ قرار دیتا ہے ۔ حل لغات : حجر : حرام ممنوع ، تقدیس وحرمت کی وجہ سے ناقابل استعمال : الانعام
140 الانعام
141 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ کھیت اور باغات انگوریاں اور پھل ، جانور اور تمام آسائش کی چیزیں اللہ نے پیدا کی ہیں ، پھر اس کے ساتھ دوسروں کو کیوں شریک ٹھہرایا جائے ، ان تمام انعامات کا تقاضا تو یہ ہے ، کہ تم صرف اللہ کا شکریہ ادا کرو ، مگر تم ہو کہ ڈھوروں تک کو اس میں شریک اور ساجھی بناتے ہو ، عشر : (ف ٢) جب کھیت کٹے اور غلبہ جمع ہو ، تو اس میں سے دسواں حصہ بطور زکوۃ کے دنیا چاہئے ، بشرطیکہ زمین بارانی ہو ، اور اگر چاہی ہو ، پانی خود مہیا کرو ، یا اس کا ٹیکس ادا کرو ، تو بیسواں حصہ ضروری ہے ۔ حل لغات : فرشا : بچھے ہوئے یعنی بہت چھوٹے قد سے مراد ہے ، خطوت : جمع خطوط ، بمعنے قدم ، الانعام
142 الانعام
143 (ف ١) ان آیات کا مقصد یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے جو بعض جانوروں کو محض تخمین وہ ہم کی بنا پر حرام قرار دیا ہے ، اس کے لئے کوئی علمی دلیل موجود نہیں حرام ہونے کی معنی یہ ہیں کہ اس سے کسی برے ، یا جاہلانہ نظام کی تائید ہوتی ہو ، یا وہ جانور صحت کے لئے مضر ہو یا اس کے کھانے سے اخلاق وروحانیت پربرا اثر پڑے ، یا ذوق سلیم اسے گوارا نہ کرے ، اور جب ان میں سے کوئی بات بھی موجود نہ ہو ، تو محض صنمیات کی پیروی میں کیونکر نر یا مادہ کو ناجائز قرار دے لیں ، حل لغات : وصکم : تمہٰں تاکید کی ۔ توصیۃ : کے معنی بتاکید کسی بات کا اظہار کرنا ہے ۔ الانعام
144 الانعام
145 حرام چیزیں کون کون ہیں ؟ (ف ١) اسلام نے بھی بعض چیزوں کو حرام اور ناقابل استعمال ٹھہرایا ہے ، مگر وہ محض وہم وظن کی بنا پر نہیں ، بلکہ علم وتجز کی روشنی مین ۔ مردار حرام ہے ، اس لئے کہ عہد وحشت کی یادگار سے ، کوئی مہذب اور شائستہ قوم مردار نہیں کھاتی ، اس لئے بھی کہ اس کے تعفن سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں خون بھی حرام ہے ، کیونکہ یہ بھی صحت کے لئے مضر ہے ، اور درندگی کی علامت ہے ، سؤر بھی حرام ہے کیونکہ اس کا کھانا جسم و روح دونوں کے لئے مضر ہے ، تشمم کے مرض کو پیدا کرتا ہے جس سے فوری موت بھی واقع ہوجاتی ہے ، اخلاق کے لئے بھی اس کا کھانا سخت نقصان دہ ہے اس سے غیرت جاتی رہتی ہے ، بتوں اور بزرگوں کے چڑھاوے یا نذرانے بھی حرام ہیں ، کیونکہ اس طرح نظام شرک کی تائید ہوتی ہے ، جو بالکل گوارا نہیں ۔ الانعام
146 یہودیوں کی دشوار پسندی کا نتیجہ : (ف ١) یہودیوں کی عادت تھی کہ وہ از خود بہت سی چیزیں ایجاد کرلیتے اور تقشدو زہد کے لئے بہت سی چیزوں کو ممنوع قرار دے لیتے ، اللہ تعالیٰ نے جب ان کے غلو کو دیکھا تو بطور تعزیر کے واقعی انکی منع کردہ چیزوں کو ممنوع قرار دے دیا ، تاکہ انہیں اپنی بیہودگی کا احساس ہو اور معلوم ہوا کہ اللہ کے دین کو مشکل بنانے میں خود کسی حد تک وہ مشکلات میں مبتلا ہوجائے گا ۔ الانعام
147 (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو نہایت اور حد درجہ رحیم ہے وہ نہیں چاہتا ، اس کے بندے تنگی اور ضیق میں زندگی بسر کریں ، مگر جب وہ خود ہی اپنے لئے پابندیوں اور تکلیفوں کو انتخاب کرلیں ، تو وہ بطور سزا و عذاب کے انہیں مشکلوں میں مبتلا کردیتا ہے ، اور حقیقت میں جب دین اس حد تک پھیل جائے ، اور وسیع ہوجائے کہ ہر لمحہ رسوم وخرافات کی پیروی ضروری ہو ، بات بات میں سختی اور تکلیف کا سامنا ہو تو پھر یہ مذہب نوع انسانی کے لئے عذاب ہوجاتا ہے ۔ وہ لوگ جو دین کو بدعات کا مجموعہ خیال کرتے ہیں اور جنہوں نے بےحد رسمیں ایجاد کرلی ہیں ان کو دیکھو کس قدر مجبوری کی زندگی بسر کر کرتے ہیں ، سوسائٹی کے ڈر سے وہ جوں توں ان رسموں کو ادا کرلیتے ہیں ، مگر دل میں عذاب اور کوفت محسوس کرتے ہیں ، حل لغات : باس : شدت ، تکلیف ، عذاب ۔ الانعام
148 (ف ١) مجرموں کا ایک بہت بڑا عذر یہ بھی ہوتا ہے کہ خدا کو ایسا ہی منظور ہے ، خدا اگر نہ چاہے تو ہم اور ہمارے آباء کے اختیار میں کیا ہے ، جو گناہ کا ارتکاب کریں ، کم بخت یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کو اگر یہ گمراہیاں منظور ہوتیں تو انبیاء کیوں بھیجتا اور کتابیں کیوں نازل فرماتا ، اور نہ ماننے والوں کو سزائیں کیوں دیتا ، مکے کے مشرک بھی یہی کہتے ، اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس عذر کا جواب دیا ہے اور پوچھا ہے ، کہ بتاؤ تمہارے پاس کوئی دلیل ہے جس سے اللہ کی کفر پسندی طور شرک نوازی ثابت ہو ، یامحض اٹکل اور تخمین کی بنا پر ایسا کہتے ہو ، یہ درست ہے ، خدا اگر چاہتا ، تو سب کو ہدایت کی توفیق دیتا ، مگر اس صورت میں تم کسی چیز کے مستحق نہ رہتے ، اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے ساتھ گمراہی کو پیدا کیا ہے ، تاکہ تمہارا امتحان ہو اور معلوم ہو کہ تم نے جو کچھ کیا ہے ، اختیار اور عقل کی بنا پر کیا ہے ، حل لغات : الحجۃ البالغۃ : کامیاب دلیل ۔ اتل ما حرم : مین بعض لوگوں نے حرم کے معنی اوجب کے لئے ہیں ، تاکہ ترتیب درست رہے ۔ الانعام
149 الانعام
150 الانعام
151 خدا کے احکام تسعہ : (ف ١) ان آیات میں اللہ تعالیٰ یہود ومشرکین کو مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ تم محض رسوم شرک کی پیروی کرتے ہو ، اصل باتیں جو انسان کی ہلاکت اور تباہی کا باعث ہیں ، نہیں جانتے ، آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ کیا کیا چیزیں اللہ نے حرام قرار دی ہیں ۔ ١۔ شرک ، کیونکہ اس سے انسانی عزت وحرمت زائل ہوجاتی ہے نفس ذلیل ہوجاتا ہے ، جہالت پھیلتی ہے اور دماغی افق تاریک ہوجاتا ہے ۔ ٢۔ والدین کی نافرمانی ۔ اس سے عقوق وسرکشی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ، احسان فراموشی کی عادت پڑجاتی ہے ، جو شخص والدین کے لئے تکلیف وہ ہے اور سماج یا سوسائٹی کے لئے کبھی مفید ثابت نہیں ہو سکتا ، والدین کی اطاعت شعاری بہترین اخلاق پیدا کرتی ہے ۔ ٣۔ قتل اولاد : اس میں ضبط تولید کا مفہوم بھی شامل ہے ، ٤۔ ارتکاب فواحش : یعنی مسلمان کو بہرنوع پاکباز ہونا چاہئے بےحیائیوں سے نسل انسانی خراب ہوجاتی ہے ، صحت بگڑتی ہے ، افلاس آتا ہے ، اور دل تاریک ہوجاتا ہے ۔ ٥۔ ناجائز قتل ، یعنی بلاسبب شرعی کسی کو مار ڈالنا ، اسلام ایک ضابطہ ہے ، فوضویت باعدم قانون کی روح کو پسند نہیں کرتا ، کیونکہ اس سے انسانی زندگی خطرے میں پڑجاتی ہے ۔ ٦۔ یتیم کا مال نگل جانا : یہ بدترین اور ذلیل ترین قسم کا گناہ ہے ، اسلام حقوق انسانی کا سب سے بڑا پاسبان ہے اس لئے اس نوع کے جرائم گوارا نہیں کرسکتا ۔ ٧۔ کم تولنا : کیونکہ اس سے تجارت عامہ کو نقصان پہنچتا ہے اور بددیانتی پیدا ہوتی ہے ۔ ٨۔ بےانصافی : ٩۔ اللہ کے عہد کیساتھ بیوفائی یعنی شریعت فطرت کے ساتھ بےاعتنائی ، یہ نوحکم دین کی اصل اور اساس ہیں ، وہ لوگ جو ان پر عمل پیرا ہیں کیا یہ بہترین قوم نہیں ؟ الانعام
152 الانعام
153 صراط مستقیم : (ف ١) ان ھذا سے مراد توحید وتفرید ہے والدین کے ساتھ احسان ومروت ہے ، احترام حقوق ہے ، پاکبازی اور پاکددامنی ہے جو مت نفس ہے یتامی پروی ہے عدل وانصاف ہے اور اللہ کے حکموں کی رعایت وفرمانبرداری ہے ، یہی صراط مستقیم ہے ، یہی سیدھی راہ ہے اور یہی وہ پگڈنڈی ہے جو قصر جنت تک برابر چلی گئی ہے ، ان احکام کو چھوڑ کر ادھر ادھر بھٹکنا گمراہی مول لینا ہے ، اور روح ومغز دین سے محمدی ہے ۔ الانعام
154 (ف ٢) ثم اتینا : سے غرض یہ ہے کہ تورات میں بھی انہیں احکام کو بوضاحت بیان کیا گیا تھا یعنی عقائد واخلاق میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی مقصد یہ تھا کہ اہل کتاب میں جذبہ ایمان پیدا ہو آخرت کے محاسبہ سے ڈریں اور اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں ۔ حل لغات : بعھد اللہ : مقصود میثاق شریعت ہے ۔ الانعام
155 (ف ١) قرآن حکیم کتاب مبارک ہے یعنی اس کے استفادے سے خیروبرکت کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں ، اور یہ خوش اعتقادی نہیں ، حقیقت ہے جب بھی اس پر عمل کیا گیا ہے ، اس نے اپنے معجزات وخوارق سے دنیا کو حیران کردیا ہے ۔ آج جس قدر زندگی جس قدر روشنی اور بیداری نظر آرہی ہے یہ قرآن ہی کا طفیل ہے ۔ حل لغات : دراسۃ : پڑھنا مطالعہ کرنا ۔ الانعام
156 الانعام
157 (ف ١) قرآن بینہ بھی ہے اور ہدایت ورحمت بھی یعنی دلائل وبراہین کا مجموعہ ہے ، رشدو ہدایت کا مرقع ہے ، اور رحمت ایزدی کا اعلان اس کے بھی اگر کوئی شخص تکذیب کرتا ہے تو اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے ۔ الانعام
158 (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ اس درجہ وضاحت وتفصیل کے بعد بھی جو نہیں مانتے کو کیا فرشتوں کا انتظار ہے کہ آئیں اور ان کی روحوں کو قبض کرلیں یا عذاب الہی کے متوقع ہیں ، یا یہ چاہتے ہیں کہ قیامت آجائے ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ جب قیامت آگئی تو اس وقت کا پچتانا کام نہیں آئے گا ، (آیت) ” اویاتی ربک “ سے مجازا عذاب الہی مراد ہے ، یعنی خدا اپنی قوتوں کے ساتھ آئے ، جاہ وجلال کا مظاہرہ کرے اور انکو چشم زدن میں غارت کر دے ۔ الانعام
159 فرقہ بندی منظور نہیں !: (ف ٣) انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ وہ آئیں اور خدا کے مقدس نام پر سب کو جمع کر جائیں اس لئے طبعا انہیں گروہوں اور جماعتوں میں تقسیم ہوجانا پسند نہیں ، وہ یہ چاہتے ہیں کہ تمام لوگ توحید کے مضبوط رشتہ کو عملا تھام لیں ، سب ایک ہوجائیں ، ان کی ذاتی مصلحتیں اور ذاتی مفاد فنا ہوجائیں تمام کائنات انسانی ایک وحدت ایک نظام اور ایک رنگ میں نظر آئے سب خدا کے پرستار ہوں ، سب کا مقصد اللہ کے دین کی پیروی اور فرمانبرداری ہو ، کوئی اختلاف اور کوئی امتیاز باقی نہ رہے ، اس آیت کا یہی مقصد ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرقہ بندوں سے کچھ تعلق نہیں ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نسل انسانی کو ایک مرکز توحید پر اکٹھا کرنے کے لئے تشریف لائے ہیں مگر تعجب یہ ہے کہ آج حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی ذات مختلف گروہوں اور جماعتوں میں منقسم ہے ۔ حل لغات : یصدفون : شدید اعراض کو صدف کہتے ہیں ، غالبا صدف ” بعیر سے مستفاد ہے جس کے معنی اونٹ کی ایک ٹانگ کے ٹیڑھا ہوجانے کے ہیں ۔ بہاؤ کے پہلو کو صدف الجبل سے تعبیر کرتے ہیں ، بہرحال شدت اعراض یا سخت کجروی کے معنی ہیں ۔ الانعام
160 (ف ١) حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بدرجہ غایت کرم فرما اور رحیم ہے ، وہ چاہتا ہے کہ سب کو اپنی آغوش رحمت میں لے لے اور کوئی نفس انسانی جہنم کی آگ میں نہ جلے نیکیوں کا دس گنا بڑھ جانا تو ایک شکل ہے اس کے التفات سامی کی ورنہ دراصل اس کا ارادہ ہی یہ ہے کہ اس کے بندے رحمت وبخشش کے فیضان عظیم سے محروم نہ رہیں ۔ الانعام
161 الانعام
162 الانعام
163 معیار حیات کی بلندی : (ف ٢) ان آیات میں زندگی کا جو معیار اور نصب العین پیش کیا گیا ہے وہ یہ ہے کشاکش حیات کا ہر نشیب وفراز تگ ودو کی ہر قسم اور قربانی کی ہر شکل اللہ کے لئے مختص ہو ، مسلمان کا جینا اور مرنا اللہ کے لئے ہو ، اس کی عبادتیں اور نمازیں رب العزت کے لئے وقف ہوں ، اس کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کے لئے ہو ، اللہ کے دین کے لئے ہو ، یعنی مسلمان کی اللہ سے الگ کوئی زندگی نہیں کوئی انفرادی خواہش نہیں ، کوئی ذاتی مطالبہ اور مفاد نہیں ، یہ خلوص واحسان کا آخری مقام ہے ، توحید تفرید کا صحیح مطلب ہے اور خدا پرستی کا سچا اظہار ہے ، یہ نہیں ، تو سمجھ لیجئے ریا کاری ہے اور فریب : حل لغات : قیما : وہ نظام حیات جو امور دین اور امور معاد کے لئے بطور قوام واساس کے ہو ، الانعام
164 ذاتی ذمہ داری کا احساس : (ف ١) قرآن حکیم نے مذہب کا جو تخیل پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہر شخص بجائے خود ذمہ دار ہے ، کفارہ اور مشرکانہ شفاعت غلط ہے تناسخ باطل ہے ، کیونکہ ہر شخص ہر ذات اور ہر تعین اپنے احساسات اور اعمال کا کفیل ہے ، (آیت) ” ولا تزر وازرۃ وزر اخری “۔ بالکل حقیقت نفس الامری ہے ۔ الانعام
165 (ف ٢) اس ایک آیت میں تین حقائق کی جانب اشارہ ہے ، ١۔ یہ واقعہ ہے کہ اللہ نے مسلمان کو خلعت خلافت دے کر بھیجا ہے ۔ ٢۔ یہ ایک صداقت ہے کہ باہمی امتیاز اور تفاضل موجود ہے ۔ ٣۔ یہ ایک سچائی ہے کہ خدا یہاں مجرموں کو سزا دیتا ہے وہاں نیک اور صالح بندوں کے لئے انتہا درجہ کا کرم فرما بھی ہے ۔ الانعام
0 الاعراف
1 الاعراف
2 (ف ١) یہ سورۃ اعراف کی پہلی آیت ہے ، اعراف ایک مقام ہے جنت اور دوزخ کے بین بین ، اس سورت میں چونکہ اس مقام کا ذکر ہے اس لئے اس کا نام اعراف ہے ، آیت میں قرآن حکیم کا تعارف ہے کہ مومنوں کے لئے اس میں ذکر ونصیحت کا ذخیرہ وافر ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیغمبرانہ شفقت کا اظہار کہ آپ کو بےحد روحانی تکلیف ہوتی ہے جبکہ لوگ اس نسخہ کیمیا کو ٹھکرا دیتے ہیں اور نہیں مانتے ۔ الاعراف
3 دعوت حق : (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ سب لوگ صرف کلام الہی کے ماننے کے مکلف ہیں ، اس کو ترک کرکے دیگر ارباب کی پیروی گمراہی ہے ، اسلام انسان کو حریت وآزادی کی تلقین کرتا ہے ، وہ دنیا میں صرف اللہ کا محکوم ہے اور اس کی گردن میں بجز اس کے اور کسی کا راقبہ عقیدت نہیں ۔ الاعراف
4 الاعراف
5 (ف ٣) یعنی جب لوگوں نے احکام الہی کو تمردو سرکشی کی وجہ سے ٹھکرا دیا ہے تو عذاب نے آگھیرا ہے ، رات کو سوئے ہیں ، اور پھر نہیں اٹھے ، یا دن کو دوپہر کے وقت لیٹے ہیں ، اور خدا کی غیر جوش میں آگئی ، بستیاں الٹ گئیں ، اور یہ مٹ گئے ، (آیت) ” فلنسئلن “ سے مراد یہ ہے کہ یہ سب کچھ اتمام حجت کے بعد ہوگا ، مجرم پکار اٹھیں گئے کہ واقعی ہم سزاوار تعزیر تھے اور انبیاء علیہم السلام برملا کہہ دیں گے کہ ہم نے تمام احکام بلاکم وکاست ان لوگوں تک پہنچا دیئے ، حل لغات : بیاتا : سوتے وقت بیات کے معنی رات گزارنے ، کے ہیں ، بیت : اس گھر کو کہتے ہیں جن میں رات گزاری جائیے ، قائلون : ، قیلولۃ یعنی دوپہر کو آرام کرنا ۔ الاعراف
6 الاعراف
7 الاعراف
8 الاعراف
9 وزن اعمال : (ف ١) اعمال کا وزن ضرور ہوگا وہ لوگ جن کے نیک اعمال زیادہ ہوں گے بخشش ورحمت کے سزاوار ہوں گے ، اور جن کے اعمال میزان پر پورے نہ اتریں گے ، گھاٹے اور ٹوٹے میں رہیں گے مگر اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی ہمیں یہ نہیں بتلایا گیا ، کیونکہ اس کا تعلق عالم غیب سے ہے ، البتہ مکافات عمل کے اصول کے مطابق ہمیں یقین ہے کہ محاسبہ قطعی ہوگا ، اور پورے پورے انداز سے ہوگا ۔ حل لغات : مکنکم : مصدر تمکن ثبات ، قرار ۔ الاعراف
10 الاعراف
11 نوع انسانی کی عزت وحرمت : (ف ١) ” خلقنکم “۔ اور ” ثم صورنکم “ میں تمام انسانوں کو مخاطب فرمایا ہے اور اس کے بعد صرف آدم (علیہ السلام) کا ذکر ، اس کے صاف صاف معنی یہ ہیں کہ گو فرشتے آدم (علیہ السلام) کے سامنے جھکے ، مگر مقصود نوع انسانی کا اعزاز تھا ، اور یہ بتانا تھا کہ آدم (علیہ السلام) کی اس عزت افزائی میں تمام بنی آدم (علیہ السلام) شریک وسہیم ہیں یعنی انسان اس درجہ معزز ومفتحز ہے ، کہ کائنات کا حصہ اعلی کھلے بندوں اس کی فضیلت وتمجید کا اعتراف کرتا ہے ۔ شیطان کی نافرمانی کے معنی یہ ہیں کہ جو قومیں تمہارے سامنے نہ جھکیں انہیں مسخر کرنے کی خود کوشش کرو ، آدم (علیہ السلام) اور شیطان کے قصہ کو بار بار مختلف اسالیب میں بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ ایک طرف تو انسان اپنے مرتبہ ومقام کو سمجھے دوسری جانب اسے یہ معلوم ہو ، کہ حق وباطل میں ہمیشہ سے آویزش چلی آتی ہے اور مومن وہ ہے جو بالکل شیطان کی پیروی نہ کرے ۔ الاعراف
12 (ف ٢) شیطان کا یہ استدلال اس لئے صحیح نہیں کہ عزت وشرف خدا کی اطاعت وفرمانبرداری میں ہے اصل ومبنی کے لحاظ سے نہیں ، آدم (علیہ السلام) کہ اس نے عہد الست کا جواب لبیک و بلےٰ سے دیا ، اور شیطان اس لئے راندہ درگاہ رب جلیل ہے کہ اس نے اللہ کی اطاعت سے منہ موڑا ۔ الاعراف
13 الاعراف
14 الاعراف
15 الاعراف
16 الاعراف
17 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ شیطان ہر طریق سے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ دائیں بائیں اور آگے پیچھے ہر جانب سے حملہ آور ہوتا ہے نیک اور شاکر وہ ہے جو اس کے دام تزدیر میں نہیں پھنستا ۔ حل لغات : ایمان : جمع یمین دائیں جانب ، شمآئلھم : جمع شمال ، بائیں طرف ، مذء وما مدحورا : ذام : انتہائی عیب ، دحر : بمعنی ذلیل کرکے نکال دینا ۔ الاعراف
18 الاعراف
19 الاعراف
20 (ف ١) آدم اور اس کی بیوی کو اولا جنت میں جگہ دی گئی ، تاکہ ان کو معلوم ہو کہ ان کا اصلی مقام جنت ہے ، شرط یہ قرار دی کہ مشار الیہ درخت کا استعمال نہ کری ، یہ درخت کون تھا ؟ صحیح طور پر معلوم نہیں ۔ مقصد یہ تھا کہ جب تک اطاعت شعار رہیں گے خدا کے حضور میں رہیں گے اور جب نافرمانی کریں گے اس کی رحمتوں سے دور ہوجائیں گے ۔ شجرۃ کے معنی بعض لوگوں نے جھگڑے اور اختلاف کے کیے ہیں مگر یہ صحیح نہیں اور پھر اس کے بعد جو ذوق شجرۃ کی تاثیر بتاتی ہے اسے تنازع اور جنگ سے کوئی تعلق نہیں ، لغۃ شجرۃ بالتاء کا اطلاق منازعت و مخالفت پر نہیں ہوتا ۔ الاعراف
21 الاعراف
22 احساس عریانی : (ف ٢) معلوم ہوتا ہے جنت میں آدم اور حوا کی زندگی نہایت پاکیزہ اور معصومانہ تھی ، وہ جنسی جذبات سے ناآشنا تھے ، حجاب و ستر کے مفہوم سے بالا تھے ، جب شیطان نے دھوکہ دیا ، اور انہوں نے خلود و ملکیت کے فریب میں آکر شجرہ ممنوعہ کو استعمال کرلیا ، تو ننگے ہوگئے ، عریانی کا احساس ہونے لگا اور جنت کے پتوں سے ستر ڈھانکنے لگے ۔ بات یہ ہے کہ انسانی نفسیات میں یہ ہمہ گیر کمزوری ہے کہ جس بات سے روکا جائے اس کے متعلق خواہ مخواہ دل میں تحریص پیدا ہوتی ہے اور دل میں یہ سوال چٹکیاں لیتا ہے کہ آخر اس میں کیا حکمت ہے ، شیطان نے انسان کی کمزوری سے فائدہ اٹھایا اور یہ کہہ کر بہکایا کہ ہو نہ ہو اس میں راز یہ ہے کہ کہیں تم بھی موت و فنا کے قاعدوں سے مستثنی نہ ہوجاؤ۔ الاعراف
23 الاعراف
24 الاعراف
25 فروگذاشت : (ف ١) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم (علیہ السلام) نے فورا غلطی کا احساس کرلیا ، اور اللہ سے معافی مانگی ، یہی امتیاز ہے انبیاء علیہم السلام میں اور عام انسانوں میں کہ انبیاء علیہم السلام فورا اپنی فروگذاشتوں کو محسوس کرلیتے ہیں اور پیشگاہ جلالت میں عفو خواہ ہوتے ہیں ، اور عام انسان یا تو گناہوں پر متنبہ نہیں ہوتے اور یا تنبیہ کے بعد خدا کے آگے جھکتے نہیں ۔ یہ فروگذاشت محض اجتہادی ہے ، اور نیک نیتی سے ہے آدم (علیہ السلام) کا خیال تھا کہ ممانعت شاید تحریص کے لئے ہے یعنی اس لئے کہ میرے دل میں اس کے استعمال کی شدید خواہش پیدا ہو ، ملکیت یا خلود کی خواہش دراصل اللہ کے تقرب کی خواہش ہے ، شیطان نے آدم (علیہ السلام) کو یہ سمجھایا تھا کہ اس طریق سے تو اللہ کے اور قریب ہوجائے گا ، ظاہر ہے یہ مقصد بجائے خود نہایت نیک اور بلند ہے ، مگر اللہ کا منشاء چونکہ یہ نہیں تھا اس لئے اسے لغزش قرار دیا ۔ یہ یاد رہے ، کہ انبیاء علیہم السلام جب کبھی تسامح فرماتے ہیں ، تو ان کے سامنے ایک عام اور بلند چیز ہوتی ہے ، مگر خدا کا مقصد چونکہ وہ نہین ہوتا ، اس لئے اسے غلطی کہا جاتا ہے ، یعنی نفس واقعہ کے لحاظ سے نیت کے لحاظ سے نہیں کیونکہ خدا کے پیغمبر ہوائے نفس کے تابع نہیں ہوتے ، ان سے اس نوع کا گناہ کبھی سرزد نہیں ہوتا ، کہ جذبات کی پیروی ہو ، یعنی نیت درست اور بلند نہ ہو ، کیونکہ انہیں دنیا کے لئے آسودہ اور نمونہ بنا کر بھیجا جاتا ہے ، وہ عام انسانوں سے بہت اونچے ہوتے ہیں ، وہ عفت وعصمت کا پیکر تنزیہی ہیں وہ اگر خدا کے حکموں کو نہ مانیں ، تو پھر اور کون مانے گا ، بات یہ ہے کہ بعض اوقات ان کے لئے اولے وانسب میں امیتاز مشکل ہوجاتا ہے وہ ایک بات کو بتقاضائے نفس بشری اولے قرار دے لیتے ہیں مگر نفس نبوی فورا انہیں متنبہ کردیتا ہے کہ یہ صحیح نہیں بس یہی لغزش ہے تسامح ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں ، واللہ اعلم ۔ حل لغات : مستقر : جائے قرار ہے ۔ قبیلہ : ایسا گروہ یا جماعت جو ایک باپ کی اولاد سے ہو ۔ الاعراف
26 الاعراف
27 الاعراف
28 (ف ١) اس آیت میں منکرین کا ذکر ہے کہ وہ گناہوں پر اصرار کرتے ہیں اور جب برائی کا ارتکاب کرتے ہیں تو شرماتے نہیں بلکہ وہ دلائل ڈھونڈتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے علماء اور راہنماؤں نے ہمیں ایسا ہی بتایا ہے اور یہ کہ خدا نے بھی یہی تلقین کی ہے یعنی بدعات و رسوم کی پیروی میں اللہ کو بطور سند و حجت کے پیش کرتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ کہیں اللہ بھی فواحش کی تعلیم دے سکتا ہے ۔ الاعراف
29 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ اللہ انصاف وعدل کے سوا اور کسی بات کا حکم نہیں دیتا ، وہ کہتا ہے تزکیہ باطل کے لئے کوشش کرو ، اور اخلاص کے ساتھ کیونکہ تمہیں اس کے حضور میں پیش ہونا ہے اور جواب دینا ہے اپنے اعمال کا ۔ الاعراف
30 الاعراف
31 اسراف ممنوع ہے ! (ف ٢) یعنی زینت وآرائش ممنوع نہیں ، اسراف ممنوع ہے ، اسلام کھانے پینے اور لباس میں کوئی قید عائد نہیں کرتا ، بہتر سے بہتر کھاؤ اور اچھے سے اچھا پہنو ، خدا ناراض نہیں ہوتا ، میں تمہاری طاقت ووسعت کے مطابق ہونا چاہئے یہ خوب سوچ لو کہ کہیں فیشن کا شوق تمہیں تباہ تو نہیں کر دے گا ، (آیت) ” خذوا زینتکم سے مراد یہ ہے کہ نماز کے وقت ماتیسر لباس ضرور پہنو ۔ لباس کو زینت سے اس لئے تعبیر کیا ہے کہ زینت بھی لباس کا ایک مقصد ہے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بدزیبی تقشف ہو تو ہو ، اسلام پسند نہیں کرتا ، اسلام خوش وضعی کو طبعا پسند کرتا ہے ۔ حل لغات : المسرفین : اسراف کے معنی حاجت سے زیادہ اور بےاندازہ خرچ کرنے کے ہیں ، اور کسی کام کے بےاندازہ اور ب یہود طور سے کرنے پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ الطیبات : جمع طیب بمعنی پاک وحلال ولذیذ خلاف خبیث ۔ الاعراف
32 الاعراف
33 (ف ١) مقصد یہ ہے ، کہ فواحش ہر نوع کی حرام ہیں ، چاہے وہ ہوں ، جن کا تعلق ظاہر سے ہے ، اور چاہے وہ ہوں جو بظاہر برائیاں نہیں ہیں ، مگر بباطن برائیاں ہیں ، شرک کے متعلق ارشاد ہے ، کہ یہ بےدلیل وبے برہان ہے یعنی بت پرستی کے لئے عقلی وسمعی کوئی دلیل موجود نہیں محض تقلید وجڑ کا اثر ہے عقل مند اور دانا لوگ توحید کے سوا اور کسی بات پر مطمئن نہیں ہوتے ۔ الاعراف
34 (ف ٢) یعنی ہر گروہ کے لئے اللہ نے مہلت کے کچھ دن مقرر کر رکھے ہیں جب لوگ اس ڈھیل سے فائدہ نہ اٹھائیں ، اور برابر گمراہی میں بڑھتے جائیں ، تو پھر اللہ کا عذاب آجاتا ہے ، جس میں ایک لمحے کا آگا پیچھا نہیں ہوتا ۔ حل لغات : الفواحش : جمع فاحشۃ بمعنی ہر بدی جو حد سے گذر جائے فحش کہتے ہیں ، بدی کے حد سے گزر جانے کو ۔ سلطنا : دلیل غالب ۔ الاعراف
35 رسولوں کی آمد : (ف ١) بنی آدم سے مراد آدم (علیہ السلام) کی اولین اولاد ہے ، انہیں ابتدائی تعلیمات کے بعد کہا گیا ہے ، کہ تمہارے پاس اگر رسول اور پیغمبر آئیں تو ماننے میں تامل نہ کرنا اس لئے کہ اللہ کے نزدیک تقوی واصلاح کا معیار یہی ہے کہ ہر صداقت کو قبول کیا جائے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد یہ سلسلہ ختم ہے ، آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک نبوت جاری رہی ، اب بسوائے خاتم النبین ، نبوت کے تمام دروازے مسدود ہیں ، کیونکہ دین کامل ہوگیا ، اللہ کی نعمتیں پوری ہو چکیں ، اور اب کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں رہی ۔ اس آیت سے بقائے نبوت کا ثبوت بوجوہ غلط ہے ۔ ١۔ بنی آدم سے تعبیر آدم (علیہ السلام) کی اولین اولاد ہے ۔ ٢۔ ما حرف شرط ہے جس سے وقوع ودوام مقصود نہیں ہو سکتا ۔ ٣۔ رسل کا لفظ عام ہے غیر انبیاء بھی اس میں داخل ہیں ۔ ٤۔ ختم نبوت کی تصریحات موجود ہیں ۔ ٥۔ اجماع امت جزئیات نبوت کا مخالف ہے ۔ الاعراف
36 الاعراف
37 اعتراف ندامت : (ف ١) وہ لوگ جو دنیا میں ظالم رہے جنہوں نے اللہ کے رسول کو نہ مانا ، اور ضدا اختیار کی ، وہ جو ہر آن تکذیب پر آمادہ رہے ، وہ جنہوں نے سرکشی اور غرور سے منہ نہ موڑا ، دنیا میں بھی ذلیل رہیں گے اور موت کے وقت بھی فرشتے آئیں گے اور روح قبض کریں گے ، اس وقت وہ پوچھیں گے وہ بت کہاں ہیں اور وہ خدا کہاں ہیں ، جن کی تم پوجا کرتے تھے ، اس وقت انہیں ندامت گھیرے گی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگا اور کہیں گے کہ بیشک ہم کافر رہے ۔ الاعراف
38 (ف ٢) یہ عجیب بات ہے جب یہ لوگ جہنم میں داخل ہوں گے تو یہ چاہیں گے کہ وہ لوگ جنہوں نے ان کی گمراہی میں بہت بڑا حصہ ہے لیا ہے ، اس بری طرح پھنسیں ، اور ان کو یہ عذاب میں دکھ اٹھاتے ہوئے دیکھیں ، اس لئے کہیں گے ، یا اللہ ، ان لوگوں نے ہمیں دینا میں گمراہ کیا تھا ان کو دگنا عذاب دے ، اللہ فرمائے گا سب عذاب بھگت رہے ہیں مگر تمہیں علم نہیں کمبختو ! اگر دنیا میں تمہیں اپنی گمراہی کا احساس ہوتا ، تو ایک بات بھی تھی اس عذاب الیم سے بچ جاتے ، اب کیا فائدہ جو پڑے جھلس رہے ہو ، یہ نہایت خوفناک منظر ہوگا ، وہ لوگ جن سے دنیا میں عقیدت تھی ، جنہیں یہ لوگ خدا اور دیوتا سمجھتے تھے ، جن کی پرستش کرتے تھے ، جو ان کے معبود تھے ، آج ان سے کلی انقطاع کا اعلان ہو رہا ہے ، بلکہ ان کے عذاب کی سفارش کی جا رہی ہے ۔ اور کہا جا رہا ہے ، یہ ملعون ہیں ، یہ لوگ دنیا میں ہماری گمراہی کا باعث تھے ۔ حل لغات : ادارکوا : اصل میں تدارکوا تھا ، درک کے معنی ہیں نیچے آ یہ درج صعود کے لئے ہے اور درک ہبوط کے لئے چنانچہ جنت کے لئے درجات استعمال ہوتا ہے ، اور جہنم کے لئے درکات : ان اللمنافقین فی الدرک الاسفل من النار ۔ الاعراف
39 الاعراف
40 الاعراف
41 (ف ١) آیت کا مقصد یہ ہے کہ وہ لوگ جو متکبر ہیں ، جو محض سرکشی اور نخوت کی وجہ سے صداقت کی نعمت سے محروم ہیں ، جو دنیوی جاہ وجلال کے لئے دنیوی حظوظ ولذات کے لئے اسلام کے رتبہ عقیدت کو زینت گلو نہیں کرتے ، وہ مجرم ہیں اور میں قابل نہیں ، کہ خدا کی بادشاہت میں داخل ہوں ، جس طرح اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نہیں گذر سکتا ، اسی طرح ان کے لئے آسمان کے دروازے بند رہیں گے ۔ حل لغات : ابواب السمآء : جمع باب ، دروازہ راستہ ۔ الجمل : کے معنی عام مترجمین نے اونٹ کے کئے ہیں ، اس لئے کہ یہ معنی زیادہ متبادر نہیں ، الجمل موٹے رسے کو بھی کہتے ہیں ، یہ زیادہ صحیح معنی ہیں کیونکہ اس طرح سوئی اور رسے میں ایک تلازم قائم رہتا ہے ۔ سم : کے معنی ناکہ اور سوراخ کے ہیں ، غواش : جمع غاشیہ اوپر اوڑھنے والی چیز جس سے بدن ڈھک جائے ، الاعراف
42 الاعراف
43 (ف ١) غل کے معنی باہمی عداوت ودشمنی رکھنے کے ہیں ، مقصد یہ ہے کہ جنت کی زندگی میں دلوں میں غبار نہیں رہے گا دل صاف ہوں گے اور ہر شخص سچی اور معصوم زندگی بسر کرے گا ۔ (آیت) ” نزعنا ما فی صدورھم “۔ سے غرض یہ ہے ، کہ دنیا میں بھی دل آپس میں صاف رہنے چاہئیں اگر یہاں کدورت سے عداوت وبغض کی آگ سینے میں بھڑک رہی ہے ، تو پھر ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ خدا کے قرب کی استعداد ہم میں موجود نہیں ۔ الاعراف
44 سچے وعدے : (ف ٢) اللہ تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں اہل جنت اعتراف کریں گے کہ ہمیں جنت میں وہ سب کچھ میسر ہے ، جس کا وعدہ تھا ، اہل جہنم سے پوچھیں گے ، کیا تمہیں بھی موعودہ سزا مل رہی ہے ؟ وہ کہیں گے کیوں نہیں ، ہم بھی سزا بھگت رہے ہیں ، پکارنے والا پکارے گا کہ یہ لوگ اللہ کی رحمت سے دور ہیں ، ان پر اللہ کے عتاب کی نگاہیں پڑ رہی ہیں ۔ حل لغات : مؤذن : سے مراد فرشتہ ہے جو اہل جہنم کا تعارف کرائے گا ۔ الاعراف
45 الاعراف
46 اعراف : (ف ١) جنت اور دوزخ کے بین بین ایک برزخ ہوگا جسے قرآن کی اصطلاح میں اعراف کہا جاتا ہے ان آیات سے معلوم ہوتا ہے ، وہاں ایسے لوگ رہیں گے ، جو جنت میں داخل نہیں ہوئے جن کو یہ معلوم نہیں ، کہ ہمیں کہاں رکھا جائیگا ، جنت والوں کو دیکھ کر وہ خوش ہوتے ہیں ، اور جہنم والوں کو دیکھ کر ڈر جاتے ہیں ، ان کی خواہش یہ ہے ، کہ جنت میں رہیں ۔ بات یہ ہے کہ دنیا میں تین قسم کے لوگ ہیں ایک وہ ہیں جن تک اسلام کی نعمت پہنچی اور انہوں نے قبول کرلی ، ایک وہ ہیں جن تک اسلام پہنچا مگر وہ بدبختی کی وجہ سے محروم رہے باقی سب وہ ہیں جن تک یا تو پیغام پہنچا نہیں یا پہنچا مگر غلط صورت میں لیکن بجائے خود وہ نیک تھے ہر حالت میں موحد رہے جن کی لگن دل میں موجود رہی ، اور کوشش کرتے رہے ، کہ اللہ کے دین کو معلوم کریں ، اسی اثناء میں موت آگئی زندگی نے زیادہ دیر تک وفا نہ کی ، اور انہیں حق شناسی کا موقعہ نہ ملا ، ایسے لوگ ظاہر ہے جہنم میں نہیں جائیں گے ، جنت کے بھی مستحق نہیں ہیں ، لہذا مقام اعراف میں رکھے جائیں گے ، اسلام دین فطرت ہے وہ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا ، اس لئے ضرور تھا ، کہ ایسے نیک لوگ جو معذور ہیں ، جہنم کے عذاب سے بچ جائیں ، اور ایک گونہ راحت میں رہیں ۔ حل لغات : حجاب : پردہ ، برزخ ۔ سیما : بمعنی نشان وعلامت ، مجازا بمعنے پیشانی ۔ الاعراف
47 الاعراف
48 الاعراف
49 (ف ١) (آیت) ” ادخلوا الجنۃ “۔ سے پہلے محذوف ہے عبارت سے سمجھ میں آجاتا ہے کہا گیا ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ ، ” فالیوم ننسھم “۔ سے مراد یہ نہیں کہ اللہ ان کو بھول جائے گا کیونکہ وہ نسیان وسہو سے بلند ہے ، مقصد یہ ہے کہ ان سے بالکل اس قسم کا سلوک روا رکھا جائے گا کہ گویا ہم بھول گئے ہیں ۔ حل لغات : حرمھما : تحریم سے مراد ممانعت ہے یعنی اللہ نے روک رکھا ہے ۔ الاعراف
50 الاعراف
51 الاعراف
52 الاعراف
53 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ قرآن حکیم نہایت تفصیل سے دلائل بیان کرتا ہے علم وہدایت کی باتیں تکمیل اور جامعیت کے ساتھ دہراتا ہے ، اس پر بھی وہ نہ مانیں تو کیا پھر انجام کار کا انتظار ہے ۔ جب وہ وقت آپہنچے گا ، اس وقت یہ پچھتائیں گے ، اور کچھ نہ ہو سکے گا یہ چاہیں گے دوبارہ مہلت مل جائے ، کچھ لوگ بخشش کی سفارش کردیں ، اور یہ دونوں باتیں وہاں نہ مل سکیں گی ، کیونکہ حجت تمام ہوچکی ہے ۔ حل لغات : تاویل : انجام ، عاقبت ، حقیقت ، معنی ۔ الاعراف
54 تکوین : (ف ١) ایام سے مراد عرصہ ہائے دراز ہے کیونکہ عربی میں یوم کے معنی مدت مدید کے ہوتے ہیں ، قرآن کا عرف بھی یہی ہے (آیت) ” وذکرھم بایام اللہ “۔ ایام عرب تعبیر ہے معرکے کے دنوں سے شاعر کہتا ہے ، ع لنا ایام غرطوال : غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو چھ دن کے عرصے اور مدت میں پیدا کیا ہے ۔ استوی علی العرش ، بطور صفت کے نہیں بلکہ شان کے ہے ، خدا کے لئے بہت شون واصولی ہیں ، جن میں ایک شان استواء بھی ہے ۔ آیت کا مقصد توحید ہے یعنی تمہارا رب وہ ہے جس نے آسمان کی بلندیوں اور زمین کی پہنائیوں کو پیدا کیا ، چاند اور ستارے جس کے مسخر ہیں جس نے سب دنیا کو بنایا ہے ، اور جس کی حکومت قائم ہے ، وہ جو تمام دنیاؤں کا یکسان مربی ہے ، نہ وہ جن کو تم پوجتے ہو ، جو بےجان ہیں ، بےروح ہیں ، جن کا کائنات میں کوئی حصہ نہیں ۔ الاعراف
55 (ف ٢) خدا کو پکارنے کے آداب یہ ہیں ، کہ دل میں خشیت ورعب ہو ، اور ریاکاری سے الگ ہو کر خدا کو پکاریں ، تاکہ اس کی تجلیات سے دل نورانی ہوجائے ۔ حل لغات : حثیثا ۔ دوڑتا ہوا ، جلدی سے ۔ تضرعا : عاجزی سے ۔ الاعراف
56 خوف ورجا کا مقام : (ف ١) بعض لوگوں پر خشیت کا غلبہ ہوتا ہے ، وہ اللہ کے جلال وجبروت سے ہر آن لرزاں رہتے ہیں ، اور بعض وہ ہیں ‘ جو حریص اور مترتب ہی ، وہ اس کی رحمت سے مایوس نہیں ہر لحظہ خدا کے حضور میں مسرور وشاداں رہتے ہیں انہیں اللہ کی رحمت پر کامل بھروسہ ہے ، ایک گروہ وہ ہے جو رجاء وخوف کے بین بین ہے ، یہ بہترین گروہ ہے ، اس آیت میں ان کو ” محسنین “ قرار دیا گیا ہے ، اور انہیں اللہ کے قرب کی خوشخبری سنائی گئی ہے ۔ خوف کے معنی یہ ہیں کہ اللہ سے یہاں تک ڈرو کہ اپنے تئیں ہر وقت مجرم سمجھو ، اور کبھی اس کے غضب سے نڈر نہ ہو ، دل میں اس کے جلال کا تصور آجائے ، تو کانپ جاؤ ، رجاء کا مقصد یہ ہے کہ اس کی رحمت اور نوازش سے قطعی مایوسی نہ ہو ، اپنے تئیں جنت کا واحد مستحق قرار دو ، ہر وقت قناعت ومسرت میں بسر ہو یعنی نہ خوف تمہیں مایوس کرے ، اور نہ رجا تمہیں بےعمل بنائے بلکہ اعمال میں توسط واعتدال رہے ۔ الاعراف
57 (ف ٢) معاد پر استدلال ہے یعنی جس طرح ابر کے چند چھینٹے کھیت اور باغ میں زندگی کی روح پیدا کردیتے ہیں ، اسی طرح قیامت کے روز اللہ کی رحمت سے مردہ تنوں میں زندگی پیدا ہوجائے گی ، الاعراف
58 (ف ٣) لطیف پیرایہ میں اشارہ ہے استعداد کے اختلاف کی جانب ، کہ جس طرح پاک اور اچھی زمین میں پاکیزہ چیزیں پیدا ہوتی ہیں ، اور بری زمین میں ردی ، اسی طرح دلوں کی حالت ہے ، اگر یہ مزرع ہستی کفر ونفاق کے بیچ سے اشترا اور خالی ہے ، تو لامعالہ ایمان اور یقین کے گل وریحان پیدا ہوں گے ، اور نہ کفر وفسوق کے زقوم : حل لغات : نکدا : ہر شئے جو بمشکل مہیا ہو ۔ الاعراف
59 حضرت نوح (علیہ السلام) : (ف ١) نوح (علیہ السلام) ابو الانبیاء علیہم السلام ہیں اور ابو البشر ہیں آپ لے تقریبا ایک ہزار سال تک قوم میں تبلیغ کی اللہ کی توحید کی طرف دعوت دی ، نہایت خلوص اور محبت سے لوگوں کو راہ راست کی جانب متوجہ کیا مگر قوم یہی کہتی رہی ، غلط ہے ، آپ گمراہ ہیں اور ہمیں بھی گمراہ کرنا چاہتے ہیں ۔ انہیں تعجب یہ تھا کہ اللہ نے ہمیں چھوڑ کر اسے کیوں نبوت کے لئے منتخب کیا ہے ، اس میں کیا خصوصیات ہم سے زیادہ ہیں ، بدبختوں کو یہ معلوم نہیں تھا ، یہ اللہ کی دین ہے ، جسے چاہے ، دیدے اس کا معیار قلب کی پاکیزگی اور اعمال کی بلندی ہے یہ موہبت دل نشین ہے ، صلہ وانعام نہیں جو کسب ومحنت کا نتیجہ ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، یہ جتنے تکذیب کرنے والے ہیں ، ہلاک ہوں گے ، ایک کشتی بنانے کا حکم ہوا ، تاکہ نوح ، کے منانے والے اس سفینہ میں بیٹھ کر نجات حاصل کریں ۔ چنانچہ وقت آگیا زمین پھوٹ پڑی آسمان نے دوازے کھول دیئے ، آب اور باران کا وہ طوفان آیا ، کہ تمام منکرین غرق ہوگئے وہ لگ جو آنکھیں بند کرلیں ، اور حقائق نہ دیکھیں ان کی یہی سزا ہے ۔ حل لغات : الملا : معززین ۔ الاعراف
60 الاعراف
61 الاعراف
62 الاعراف
63 الاعراف
64 الاعراف
65 حضرت ہود (علیہ السلام) : (ف ١) نوح (علیہ السلام) کے بعد حضرت ہود (علیہ السلام) نے قوم کی قیادت فرمائی ان کی قوم نہایت قوی ہیکل اور مضبوط تھی ، حضر موت سے لے کر عمان تک یہ لوگ پھیلے ہوئے تھے ، آپ نے بھی یہی کہا ، اے قوم ایک اللہ کی چوکھٹ پر جھکو ، اس خدا کے سوا اور کون ہے جو تمہاری مشکل کشائی کرے ۔ قوم کے اکابر سے ان کو بھی یہی جواب ملا کہ بےوقوف ہو ، اور جھوٹے ہو ، اور لطف یہ ہے ، کہ مخالفت ہمیشہ اکابر نے کی ، اس لئے کہ وہ خوب سمجھتے تھے ، کہ اگر یہ کامیاب ہوگیا ، تو ہمارا کبروغرور خاک میں مل جائے گا ۔ حل لغات : عمین : اندھے ، یعنی دلوں میں بصیرت کا مادہ سلب ہوگیا ۔ الاعراف
66 الاعراف
67 الاعراف
68 الاعراف
69 الاعراف
70 (ف ١) حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم کو یہ ناگوار تھا کہ وہ ایک خدا کو چھوڑ دیں ، جن کی آباء واجداد کے عہد سے وہ پوجا کرتے چلے آتے تھے ، اس لئے انہوں نے عذاب پسند کیا ، اور توحید پسند نہ کی ، وہ معبودان باطل سے کسی طرح بھی رشتہ عقیدت منقطع نہیں کرنا چاہتے تھے ، حل لغات : ناصح : نصیحت کرنے والا ۔ امین : امانتدار ۔ ابآء : جمع اب ، باپ دادا ۔ الاعراف
71 بت صرف نام کے ہیں ! ۔ (ف ١) (آیت) ” اتجادلوننی فی اسمآئ“۔ سے غرض یہ ہے کہ بت اور تمام دیوتا نام کے بت اور دیوتا ہیں ان کے اختیارات کچھ بھی نہیں ، یہ بھی تو ان سے نہیں ہو سکتا ، کہ مکھی اڑا لیں ، پھر تم کیوں ان کی پوجا کرتے ہو ۔ الاعراف
72 الاعراف
73 حضرت صالح (علیہ السلام) : (ف ٢) عاد اولی کے بعد عاد ثانیہ کا زمانہ ہے یعنی ثمود کی قوم ، انکی جانب حضرت صالح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے ۔ انہوں نے بھی حسب سابق اللہ کی عظمت وجلال کا وعظ کہا ، عمر بھر اللہ کی جانب بلاتے رہے ، مگر چند لوگوں کے سوا سب نے انکار کیا ، (ف ١) حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا تم اگر انکار کرو گے ، تو مٹ جاؤ گے ، اللہ کی غیرت جوش میں آجائے گی ، اور سنت اللہ کے موافق تمہیں ہلاک کردیا جائے گا ، مگر وہ نہ مانے ، انہیں اپنے مضبوط قلعوں اور مکانوں پر ناز تھا ، ان کے مکان پتھر کے تھے ، اور بڑی بڑی عمارتیں تھیں ، ان کا خیال یہ تھا کہ کوئی عذاب ہمیں نہیں مٹا سکے گا ، حضرت صالح (علیہ السلام) نے ایک اونٹنی کو بطور آیۃ اور نشانی کے مقرر فرمایا اور کہا کہ دیکھو ، اسے آزادی سے چراگاہوں میں رہنے دو ، اور اس سے کوئی تعرض نہ کرنا ورنہ یاد رکھو ، اللہ کا عذاب تمہیں آ گھیرے گا ۔ حل لغات : رجس : پلیدی وعقومات ۔ گناہ ۔ اونٹنی کی نشانی : ناقۃ اللہ : تشریفا اسے اللہ کی اونٹنی کہا ہے ۔ قصورا : جمع قصر بمعنی محلات ۔ الاعراف
74 الاعراف
75 الاعراف
76 الاعراف
77 الاعراف
78 الاعراف
79 الاعراف
80 الاعراف
81 الاعراف
82 (ف ١) بدبختوں نے جب یہ دیکھا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) ان کو ان کے حیوانی جذبات سے روکتے ہیں ، تو ان کے دشمن ہوگئے ، لگے کہنے ان کو گاؤں سے نکال دو ، یہ ہم سے زیادہ پاکباز رہنا چاہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کے انکار وتمرد کو دیکھ کر عذاب بھیجا ، اور چشم زدن میں بستیوں کی بستیاں الٹ دیں ۔ حل لغات : کیل : ماپ ۔ المیزان : تول وزن سے مشتق ہے ۔ الاعراف
83 الاعراف
84 الاعراف
85 حضرت شعیب (علیہ السلام) (ف ١) مدین والوں میں یہ نقص تھا کہ وہ لین دین میں ایماندار نہیں تھے ، حضرت شعیب (علیہ السلام) نے توحید کے بعد معاملات کی طرف توجہ کی ، اور کہا یہ بددیانتی جائز نہیں ، اس سے اخلاق بگڑتے ہیں ، تم اگر مومن ہو تو ناپ اور تول میں کوئی فریب دغا نہ کرو ، کیونکہ ایمان کا تعلق صرف عبادت اور عبادت گاہ سے نہیں ، بلکہ چھوٹے چھوٹے کاموں میں سے بھی ایمان کا اظہار ہونا چاہئے ، اگر مسجد میں ذکر خدا ہے تو ہاٹ میں بیٹھ کر بھی اسے فراموش نہ کرو ، اور حقیقت میں یہی سچا مذہب ہے ، جو تمہاری ایک ایک بات سے عیاں ہو ، طویل عبادتیں مشکل ریاضتیں معاملات کی صفائی نہ ہو ، تو کوئی قیمت نہیں رکھتیں ، اللہ نے بدمعاملگی کو فساد سے تعبیر کیا ہے یعنی نظام اخلاق میں ابتری ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے ، تجارت کو صداقت اور سچائی پر مبنی ہونا چاہئے یہ محض دھوکا ہے ، کہ تجارت میں جھوٹ کے سوا چارہ نہیں ، بات یہ ہے کہ ہم چونکہ ہر بات میں جھوٹ کے عادی ہو رہے ہیں اس لئے تجارت میں بھی سچائی سے کام نہیں لیتے ورنہ سچائی سے قطعا گھاٹے کا اندیشہ نہیں ، ضرورت اس بات کی ہے کہ بازار میں ساکھ پیدا کرلی جائے ، جب لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے گا ، کہ آپ کے ہیں قیمتیں مقرر ہیں ، اور آپ دھوکا نہیں دیتے تو پھر دیکھئے کس طرح اللہ آپ کی تجارت کو چمکاتا ہے ، اور برکت دیتا ہے ۔ الاعراف
86 الاعراف
87 الاعراف
88 آخری فیصلہ : (ف ١) حضرت شعیب (علیہ السلام) کی نصیحتوں کو ٹھکرا دیا گیا ، اور صاف صاف کہہ دیا گیا ، اگر آپ ہماری خیانتوں اور بددیانتیوں کی تائید نہیں کریں گے تو ہم اپنی بستی سے تمہیں نکال باہر کریں گے گویا برائیوں سے روکنا برائی ہے ، اور ایسا گناہ ہے جو ناقابل عفو اور شائستہ تعزیر ہے ۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے فرمایا یہ ہرگز نہیں ہونے کا کہ ہم تمہارے مسلک کو قبول کرلیں ، اور دعوت حق سے روگردانی کرلیں ، اس کا مطلب یہ ہے ، کہ ہم نے معاذ اللہ ، اللہ پر افتراء کیا ہے ، کیا تم سمجھتے ہو ، ہم پھر اس گمراہی میں آپھنسیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ نے کمال عنایت سے ہمیں نجات دی ہے ، غرض یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا جو قدم حق کی تائید کے لئے اٹھتا ہے ، وہ پھر واپس نہیں ہوتا ، اور وہ پورے استقلال کے ساتھ قوم کی سرکشی اور عداوت کا مقابلہ کرتے ہیں ، وطن وقوم کی محبت ان کے پاؤں میں لغزش نہیں پیدا کرسکتی وہ اللہ کی جانب سے ایک فوق الادراک قوت لے کر دنای میں معبوث ہوتے ہیں ، کوئی دھمکی اور کوئی ترغیب ان کو جادہ مستقیم سے نہیں ہٹا سکتی ، یہ مخالفین کی بھول تھی ، کہ وہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کو اخراج کی دھمکی دے رہے تھے ، آخر میں حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ قوم کی جانب سے سختیاں بڑھ رہی ہیں اور ان میں قبول حق کی ذرہ برابر استعداد نہیں ، تو اللہ سے فیصلہ چاہا ، اور درخواست کی کہ اے اللہ ہم میں اور مخالفین میں ایک سچا فیصلہ فرما تو بہترین حاکم ہے ۔ دعا کے بعد فیصلے کی ساعت آپہنچی کیونکہ انبیاء اس وقت یہ بد دعا کرتے ہیں ، جبکہ قوم میں انتہائی شقاوت قلبی پیدا ہوجائے اور جب کہ اس کا مٹ جانا ہی انسب ہو اللہ نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی سن لی ، اور زمین کانپ اٹھی ، زلزلہ آیا ، اور چشم زدن میں شعیب (علیہ السلام) کی قوم برباد ہوگئی ، جیسے صفحہ ہستی پردہ کبھی موجود ہی نہ تھی ، الاعراف
89 الاعراف
90 الاعراف
91 الاعراف
92 الاعراف
93 (ف ١) آیات کا مقصد یہ ہے کہ رسول تباہی کی درخواست اس وقت اللہ سے کرتا ہے جبکہ پیمانہ صبر لبریز ہوجائے اور جب پوری مایوسی ہو ، جب وہ تمام احکام تم تک پہنچا چکا ہوں ، ساری باتیں سنا چکا ہوں ، اب بھی اگر تم نہ مانو ، تجھے تمہارے مٹ جانے پر قطعا افسوس نہیں ۔ انبیاء علیہم السلام بدرجہ غایت شفیق اور مہربان ہوتے ہیں ، آخرت تک ہوش میں ہوتے ، اور جاگتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح قوم میں اصلاح ہو اور دقت سے بچ جانے ، مگر جب قلب وجگر پر مردنی چھا جائے غفلت وجہالت آنکھوں کی بینائی ضائع کر دے ، تو پھر مہربانی کی کیونکہ توقع کی جا سکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ بھی نہیں چاہتے ، کہ اس کے پیارے بندے ایک دم زندگی سے محروم ہوجائیں ، اور نافرمانوں میں شمار ہوں ، اس لئے وہ رسولوں کے علاوہ مصیبتیں بھیجتا ہے ، مشکلات میں مبتلا کرتا ہے ، تاکہ دل پسیجیں ، متاثر ہوں ، اور طبیعتوں میں گداز پیدا ہو ، اور جب یہ ذرائع ناکام رہیں ، اور امید کی کوئی کرن باقی نہ رہے ، تو پھر ہلاکت کے سوا اور کیا چارہ ہے ۔ حل لغات : کان لم یغنوا فیھا : غنی کے معنی مدت تک کہیں رہنے کے ہیں ، مغنی کے معنی منزل اور مقام اور انسانی جائے معیشت کے ہیں ۔ الاعراف
94 الاعراف
95 ڈھیل : (ف ١) خدا کا عذاب کے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ وہ خوب ڈھیل دیتا ہے ، مصیبتیں اور تکلفیں دور ہوجاتی ہیں ، اور عیش وعشرت کے زور چلتے ہیں ، لوگ یہ سمجھتے ہیں ، اب خطرے سے باہر ہوگئے ہیں اللہ تعالیٰ نے ہماری سن لی ہے اسے ہماری گستاخیاں پسند ہیں ، تو اس وقت اچانک انتقام کا ہاتھ نمودار ہوتا ہے ، اور وہ ہٹا دیئے جاتے ہیں ۔ الاعراف
96 برکات کا نزول : (ف ٢) یعنی اگر یہ لوگ ایمان کی دعوت کو قبول کرلیں اور سچے معنوں میں مسلمان ہوجائیں ، تو پھر دیکھیں اللہ کی رحمتیں کیونکر ان پر نازل ہوتی ہیں ، وہ دیکھیں کہ کس طرح آسمان سے رحمتوں کی بارش ہوتی ہے اور انہیں محسوس ہو کہ ان کے لئے زمین برکات کے خزانے اگل رہی ہے ۔ گویا ایمان واتقاء کے بعد اللہ کی تائید وتضرت شامل حال ہوجاتی ہے ، اور مرد مومن کسی طرح بھی دنیا دار انسان سے حصول نعمت وجاہ میں پیچھے نہیں رہتا ۔ حل لغات : یضرعون : مادہ ضراعۃ معنی عاجزی اور احتقار ۔ السیئۃ : تکلیف ، الحسنۃ مسرت ، خوشی دونوں لفظ برائی اور نیکی کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں ، یہاں مقصود دکھ اور سکھ ہے ۔ الاعراف
97 الاعراف
98 الاعراف
99 الاعراف
100 (ف ١) مقصد یہ ہے ، کہ وہ لوگ جو مجرم ہیں جنہوں نے سرکشی اور تمرد سے دنیائے دین میں طوفان برپا کر رکھا ہے ، اور جو دن رات معصیت اور گناہ میں صرف کرتے ہیں ، جن کے دل بےکیف اور آنکھیں بےنور ہوچکی ہیں جن کے متعلق علم الہی کا فیصلہ یہ ہے ، کہ حرف غلط کی طرح ہٹ جائیں ، وہ مامون کیوں ہیں ، انہیں ہلاکت وتباہی کی فکر کیوں نڈھال نہیں کردیتی ، وہ کیوں نہیں سوچتے کہ عذاب کی گھڑیاں قریب آرہی ہیں ، کیا عذاب الہی کے لئے کوئی دقت ہے جو اس کا انتظار کر رہے ہیں ، ان کو معلوم ہونا چاہئے ، کہ عذاب کے لئے کوئی خاص ذلت نہیں ، وہ اس وقت آسکتا ہے جب کہ یہ سوجائیں ، اور دنیا ومافیہا سے غافل ہوں ، وہ اس وقت آسکتا ہے ، جب کہ یہ لہو ولعب میں مشغول ہوں ، اور بالکل بےخطر ہوں ، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا کی تدبیریں محکم ہیں ، جن سے بچ نکلنا محال ہے ۔ حل لغات : مکر اللہ : بمعنے اللہ کی تدبیر محکم ، حبل فصدوہ ، کہتے ہیں ، مضبوط رسی کو ۔ الاعراف
101 الاعراف
102 نبذعھد : (ف ١) ان تمام قصص کا مقصد یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتایا جائے کہ قومیں کس طرح بار بار اللہ کے بندھے ہوئے میثاق کو توڑتی چلی آئی ہیں اور کیوں کہ ہم نے ان کو سخت ترین سزائیں دی ہیں ، تاکہ ایک طرف آپ کو قریش مکہ کی مخالفت سے مایوسی نہ ہو اور دوسری جانب مکے والوں کے دل میں ڈر پیدا ہو ، اور ان کو معلوم ہو کہ اگر ہم نے رسول اللہ کا کہا نہ مانا اور انکار کیا تو ہمارا حشر بھی یہی ہوگا ۔ ان قصوں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب وقت حق کا اظہار ہوتا ہے اکثریت کی جانب سے پر زور مخالفت ہوتی ہے اور ابتداء حق کو قبول کرنے والے بہت تھوڑے لوگ ہوتے ہیں ۔ الاعراف
103 الاعراف
104 الاعراف
105 الاعراف
106 الاعراف
107 الاعراف
108 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون : (ف ١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے قصہ کو اللہ تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ متعدد مواقع پر ذکر فرمایا ہے کیونکہ اس میں صدہانکات ومعارف پنہاں ہیں ۔ اس میں فرعون اور بنی اسرائیل کی تاریخ ہے آزادی اور حریت کے درس ہیں ، ایمان ویقین کے روح پرور نظارے ہیں معجزات ہیں خوارق ہیں ، بنی اسرائیل کی ذہنیت ہے ، گویا وہ سب کچھ ہے جس کی نسل انسانی کو ضرورت ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ جب مصر میں فرعون نے ظلم واستبداد کا ارتکاب کیا ، اور اسرائیلیوں پر طرح طرح کے ظلم وستم ڈھائے تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا ، تاکہ انکی رہنمائی کرے ، اور انہیں اس عذاب الیم سے نجات دلائے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے کہا ، میں اللہ کا رسول ہوں میرا یہ مطالبہ ہے کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیجدو ، اس نے نبوت ورسالت پر گواہی طلب کی آپ نے لٹھ کو زمین پر پھینکا ، جو اژدھا بن گیا ، اور ہاتھ باہر نکالا تو براق ، اب وہ حیران ہوا ، کہنے لگا ہو نہ ہو ، یہ جادو ہے ، اور بالآخر تمام جادوگروں کو اکٹھا کیا ، اور کہا یہ بہت بڑا جادوگر ہے ، ڈٹ کر اس کا مقابلہ کرو ، ورنہ حکومت چھین لے گا ، اور تم کہیں کے نہ رہو گے ۔ ان دو معجزات میں نہایت لطیف اشارہ اس جانب تھا کہ جس طرح لکڑی ایسی بےضرر چیز سانپ بن گئی ہے اسی طرح مومن اللہ کے فضل سے تیرے لئے خطرناک ثابت ہوں گے اور جس طرح میرا ہاتھ چمک اٹھا ہے ، اسی طرح بنی اسرائیل کی خوابیدہ قسمت چمک اٹھے گی ، وہ لوگ جو معجزات کی خواہ مخواہ تاویل کرتے ہیں انہیں ان دو معجزات پر غور کرنا چاہئے ۔ بات یہ ہے کہ اللہ کے بہت سے قانون ایسے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے ، اور جب کبھی اس قسم کا فوق الادراک قصہ سنتے ہیں افکار کرلیتے ہیں ، اور یہ نہیں سوچتے کہ اللہ کے اختیار میں سب کچھ ہے ، حل لغات : بیضاء سے مراد سفید ہے جو چمکدار ہو ، خطاب مجرمین ۔ الاعراف
109 الاعراف
110 الاعراف
111 الاعراف
112 الاعراف
113 الاعراف
114 الاعراف
115 الاعراف
116 ز (ف ١) سحروا اعین الناس “۔ سے معلوم ہوا کہ جادو کا تعلق محض فریب نظر سے ہے ، یا ایک قسم کی شعبدہ بازی ہے ورنہ حقیقت میں اشیاء میں تبدیل ناممکن ہے ۔ اگر جادو گر واقعی حقائق کو بدل سکیں ، تو بری حالت میں کیوں رہیں ، انہیں کو دیکھئے فرعون سے انعام مانگ رہے ہیں ، حالانکہ اگر واقعی یہ لوگ تحویل طبائع پر قادر ہوں ، تو ان کو احتیاج کس بات کی ہے جو چاہا کردیا ۔ الاعراف
117 الاعراف
118 (ف ٢) موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزے کو اللہ تعالیٰ نے حق سے تعبیر کیا ہے یعنی وہ ایک حقیقت ہے ، مگر مشکل یہ ہے کہ عوام میں یہ امتیاز ہونا دشوار ہے ، ان کے نزدیک تو دونوں خرق عادت میں داخل ہیں ، ماں ایک کھلا تبائن معجزے اور کرشمے میں یہ ہے کہ معجزہ غالب رہتا ہے اور اخلاق ورفعت کے لحاظ سے نبی کا درجہ ساحر سے بہت اونچا ہوتا ہے ، ساحر سحر کو ذریعہ معاش قرار دیتا ہے ، اور انبیاء سراپا وسیلہ ہدایت ہوتا ہے ۔ حل لغات : سحر : وہ چیز جس کا معلوم کرنا باریک اور لطیف ہو ، سحر کے معنی علاوہ جادو اور افسوں کے فریفتہ کرنے اور بیمار بتانے کے بھی ہیں ۔ الاعراف
119 الاعراف
120 (ف ١) جادوگر چونکہ فن سحر سے واقف تھے ، اس لئے جب انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی معجزہ فرمائی دیکھی تو فرط شوق سے سجدے میں گر گئے ، ان کو معلوم ہوگیا ، یہ چابکدستی یافن فریب نہیں حقیقت اور ایک بالادست قدرت ہے ۔ الاعراف
121 الاعراف
122 الاعراف
123 الاعراف
124 الاعراف
125 قوت ایمانی : (ف ٢) فرعون نے یہ دیکھ کر کہ جادوگر ایمان لے آئے ہیں سخت دھمکی دی ، اس نے کہا ، دیکھو معلوم ہوتا ہے ، تمہارا پہلے سے سمجھوتا تھا ، میں تمہیں سولی پر چڑھادوں گا ، تمہارے ہاتھ پاؤں آڑے ترچھے کاٹ دوں گا ، مگر یہاں اس دھمکی کا کیا اثر ہوتا ، جب کہ قوت ایمانی دلوں میں سرایت کرچکی تھی ، جب کہ رگ رگ میں ایمان کی حراست پہنچ چکی تھی ، انہوں نے نہایت صبر واستقلال سے جواب دیا ہمارا تو مقصد ہی اللہ کی جانب رجوع کرنا ہے ، اس سے ملنا ہے تو پھر خوف کس بات کا ؟ یہ عجیب بات ہے کہ ادھر چند لمحوں پہلے ہو جادوگر تھے موسیٰ (علیہ السلام) کو شکست دینے کے لے مقابلہ آراء تھے ، یا یہ انقلاب ہے کہ ایمان نے دلوں کو روشن کردیا ہے ، اور ہمتیں بلا کی قوت اختیار کرگئی ہیں ، فرعون کے جبر واستبداد سے وہ بالکل بےخوف ہیں ۔ بات یہ ہے کہ ایمان چیز ہی ایسی ہے جہاں دلوں میں گھسا ، اجالا ہوگیا ، اور طبیعت یکسر بدلی گئی ۔ الاعراف
126 الاعراف
127 (ف ١) یہ قاعدہ ہے جب کسی قوم میں بیداری پیدا ہو ، تو حکمران طبقہ اسے بہر نوع دبا دینا چاہتا ہے ، اور اس سلسلے میں بڑے سے بڑا ظلم میں روا رکھا جاتا ہے ، فرعون نے جب یہ دیکھا کہ بنی اسرائیل میں کچھ خود دارو متاع ایمان کو عزیز رکھنے والے لوگ پیدا ہوگئے ہیں ، تو کہا میں المناک سزائیں دوں گا اور قہر وتسلط کا پورا پورا مظاہرہ ہوگا ۔ الاعراف
128 (ف ٢) موسیٰ (علیہ السلام) نے اس موقع پر قوم کو تسلی دی اور کہا اگر تم ان مصائب کو برداشت کر گئے ، تو پھر بادشاہت قریب ہے ظلم واستبداد کا اظہار حکمران طبقے کی جانب سے آخری سزا ہے حریت اور دینداری کی ، اس کے بعد طبائع سے خوف دور ہوجاتا ہے ، بےباکی آجاتی ہے ، اور اس نوع کے مظالم طبقہ قاہرہ کو نظروں سے گرا دیتا ہے ، موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ، وراثت ارض دراصل نیک اور پاکباز بندوں کے لئے ہے ، گو تھوڑی مدت کے لئے یہ ظالم اور ناہجار لوگ عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں ۔ الاعراف
129 غلامی کی جھجک : (ف ١) غلامی ایسی بدترین لعنت ہے کہ اس کے بعد قوم میں بزدلی آجاتی ہے ، اور قوم میں دوست ودشمن کی تمیز اٹھ جاتی ہے ، ہر بات میں انہیں اندیشہ ہوتا ہے ، کہیں حکمران طبقہ ہماری مصیبتوں میں اور اضافہ نہ کر دے ، چنانچہ بنی اسرائیل نے صاف صاف کہہ دیا جناب پہلے بھی ہم تکلیفوں میں مبتلا تھے ، اور اب بھی ہماری مشکلات میں اضافہ ہی ہے براہ کرم میں کانٹوں میں نہ گھسیٹئے ۔ موسی (علیہ السلام) نے فرمایا تم گھبراؤ نہیں ، عنقریب تمہارے دشمن ہلاک ہوں گے اور تمہاری غلامی آزادی سے بدل جائے گی ۔ حل لغات : سنین : یعنی عسرت کے سال ، یطیر : بدشگونی ، عرب طائر سے شگون لیتے تھے ، اس لئے تطیر کے معنی تساؤم کے ہیں ۔ الاعراف
130 الاعراف
131 الاعراف
132 الاعراف
133 انکار کی سزائیں : (ف ١) موسیٰ (علیہ السلام) کی متواتر اور مسلسل تبلیغ واشاعت کے بعد جب قبطیوں اور فرعونیوں نے نہ مانا اور کوئی اثر قبول نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے وادی نیل کو ناقابل سکونت بنا دیا ، قبطیوں کو دریائے نیل کی وجہ سے شادابی اور ثروت حاصل تھی یہی دریا ان کے لئے وبال جان ہوگیا ، کثرت سے مینہ برسا ، دریا تمام مصر میں پھیل گیا ، کھیتوں اور باغون کو ٹڈی چاٹ گئی مکانوں میں مینڈک اور دوسرے حشرات گھس آئے ، گرمی کی شدت سے ناک سے خون جانے لگا اور عجیب مصیبت میں پھنس گئے ۔ بات یہ ہے کہ اللہ کے پاس بےحد خزانے ہیں خوارق ومعجزات کے وہ جب چاہے دنیا کو بدل سکتا ہے آل فرعون یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) ایسا بےسروسامان انسان ہمیں کیا نقصان پہنچا سکے گا ، انہیں معلوم نہیں تھا کہ اللہ ان لوگوں کی تائید کے لئے اپنی مخفی قوتوں کو روئے کار لے آنے گا اور فرعون کی حکومت کو ناقابل علاج مصائب میں ڈال دے گا ۔ الاعراف
134 الاعراف
135 (ف ٢) جب ان لوگوں نے دیکھا کہ یہ ساری تکلیفیں ہماری معصیت کی وجہ سے ہیں ، تو ایمان لانے کا وعدہ کرلیا ، اللہ تعالیٰ نے عذاب اٹھا لیا مگر یہ پھر بگڑ گئے ، اس آیت میں بتایا ہے کہ مصیبت کے وقت جو رجوع ہوتا ہے وہ مخلصانہ نہیں ہوتا ، حل لغات : طوفان : طوف سے ہے یعنی آندھی یا وہ تیز بارش جس کے ساتھ زور کی ہوا بھی ہو ۔ القمل : بھینگے حشرات ، علامہ راغب کہتے ہیں ، صغار الذباب ۔ الاعراف
136 (ف ١) فانتقمنا : سے مراد ایسا بدلہ ہے جس کے وہ مستحق تھے ، کیونکہ انتقام کے معنی عربی میں سزا دینے کے ہیں ، اللہ کینہ اور بعض سے پاک ہے ، الاعراف
137 ناتوانوں کی توانائی : (ف ٢) یعنی بالآخر جو کمزور ونزار تھے ضعیف وناتوان تھے وہ صبر واستقلال کیو جہ سے توانا اور قوت والے ہوگئے جن کے لئے ارض مصر میں رہنا مشکل تھا وہ شام کے مشرق ومغرب میں پھیل گئے ، جو غلام تھے انہیں آزادی اور بادشاہت بخشی گئی وہ جو بادشاہ تھے ، انہیں دریائے قلزم میں غرق کردیا ، کیوں ؟ اس لئے کہ بنی اسرائیل نے صبر واستقلال سے کام لیا اور اس لئے کہ فرعون نے سرکشی اختیار کی ۔ الاعراف
138 (ف ١) بنی اسرائیل چونکہ حدیث العہد تھے ، نیا نیا اسلام قبول کیا تھا ، اس لئے جب انہوں نے ایک قوم کو دیکھا کہ وہ بتوں کو پوج رہی ہے تو ان کے دل میں بھی یہی خواہش پیدا ہوئی موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا یہ تو جہالت ہے میں اس کی تائید کیونکر کرسکتا ہوں ، اس سے معلوم ہوتا ہے ، موسے (علیہ السلام) نے اولا اپنی توجہ کو زیادہ تر آزادی واستخلاص پر مرکوز رکھا ، توحید کا درس تو دیا مگر زیادہ زور آزادی کے مسئلہ پر ہی تھا ، الاعراف
139 الاعراف
140 (ف ٢) ان آیات میں موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کی جس کود داری کو بیدار کیا ہے ، اور کہا ہے تم وہ ہو جنہیں اللہ نے خاص مقصد کے لئے قوموں میں سے چن لیا ہے ، اس لئے تم شرک اور بت پرستی کی ذلت کو کیوں برداشت کرو ، اس نے بعد انہیں مصائب کی طرف متوجہ کیا ، اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس شفقت اور مہربانی سے تمہیں فرعون کے دست تظلم سے نجات بخشی ہے ، کیا یہ احسان اس بات کا متقاضی نہیں کہ اس کے اظہار تشکر میں توحید کو قبول کرلیں اور سب دیوتاؤں سے منہ موڑ لیں ۔ حل لغات : متبر : ھالک ، فنا ہونے والا تبار سے مشتق ہے ۔ نسآء : کا اولین اطلاق عورت پر ہوتا ہے ، یہاں بنات کے معنوں میں مستعمل ہے ۔ الاعراف
141 الاعراف
142 چلہ : (ف ١) موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے کسب انوار کے لئے طور پر بلایا اور کہا چالیس راتیں یہاں زہد وتقشف میں بسر کرو ، میری نگرانی میں رہو پھر تمہیں توریت دی جائے گی اور شریعت کے اسرار ورموز سے آگاہ کیا جائے گا مقصد یہ تھا اس طرح ترک علائق سے دل میں یکسوئی پیدا ہوجائے ، بےگانگی اسباب سے دل جمعی واستقلال کی عادت پڑجائے ، اور جناب موسیٰ (علیہ السلام) اس قابل ہوجائیں کہ منصب نبوت کے بار عظیم کو باحسن وجہ اٹھا سکیں ، بات یہ ہے کہ جمال مطلق سے بہرہ اندوز ہونے کے لئے ضروری ہے کہ گوشہ ہائے قلب میں ریاضت کے دئیے روشن ہوں اور شوق ومحبت کے دیئے جلیں ، قلب کا گوشہ گوشہ آغوش انتظار ہوجائے اور بال بال رواں رواں زدن سپاس ہو کر محنت کش حمد ہو ، دل کی دنیا میں سوا ذکر وشغل کی آبادی وعمران کے اور کچھ موجود نہ رہے ، یعنی عملا ثابت کردیا جائے ، کہ سینے میں اللہ کی محبت کے چشمے پھوٹ رہے ہیں ، زبان حمد وستائش کے ترانوں سے حظ اٹھا رہی ہے جبیں آستان یار پر جھکی ہے ، اور آنکھیں راستے میں بچھی جاتی ہیں ، جب جا کر کہیں وہ جہاں آراء دل میں آتا ہے ۔ الاعراف
143 دیدار یار : (ف ٢) اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مکالمہ کے شرف سے نوازا ، یہاں دل میں یہ خیال چٹکیاں لے رہا تھا ، کہ گفتگو کافی نہیں ، دیدار چاہئے ، اللہ نے فرمایا (آیت) ” لن ترانی “ کہ یہ آنکھیں کیونکر تجلیات کو جذب کرسکتی ہیں ، مگر وہاں اصرار وشوق کی فراوانی تھی نقاب کے کچھ حصے سرکے ، اور موسیٰ (علیہ السلام) غش کھا کر گر پڑے ، آنکھوں میں تاب و تواں کہاں کہ برداشت کرسکیں پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا ، اور موسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم ہوگیا کہ اس ذوالجلال کو دیکھنا ناممکن ہے اور اس نوع کا مطالبہ اس کے حسن وجلال کی توہین ہے فورا ” تبت “ کی صدائے ندامت فضاء میں گونجی اور دلائل وبراہین کی آیتوں پر اکتفاکر لیا گیا ۔ الاعراف
144 الاعراف
145 الاعراف
146 (ف ١) توریت میں بنی اسرائیل کی زندگی کے لئے پورا پروگرام درج تھا ہر بات کی تفصیل تھی قرآن کی اصطلاح میں توریت کے معنی صرف اس کتاب کے ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی وہ صحائف جو عہد نامہ قدیم کے نام سے مشہور ہیں توریت نہیں البتہ ان میں توریت کے نصائح اور تعلیمات مذکور ہیں ۔ حل لغات : الالواح : جمع لوح ، بمعنے تختی ، یہ الواح پتھر کے تھے اس وقت خط مسماری رائج تھا ، اس لئے کتابوں کے لئے پتھر تجویز کئے جاتے ، تاکہ اس پر حروف کندہ کئے جائیں ، الاعراف
147 الاعراف
148 بچھڑا : (ف ١) سامری کی گمراہ کن تعلیم سے متاثر ہو کر بنی اسرائیل نے گوسالہ کی پرستش شروع کردی جس میں سے ایک قہم کی آواز آتی تھی سامری ہوشیار آدمی تھا اس نے اسے کچھ اس ترکیب سے بنایا کہ وہ بولنے لگا ہوا اس طرح اس کے منہ سے خارج ہوتی کہ آواز معلوم ہوتی ، بنی اسرائیل سادہ اور سہل اندیش تھے ، اس لئے انہیں گوسالہ ایک معجزہ معلوم ہوا ، دل میں پہلے سے بت پرستی کی خواہش تھی ، تفصیلات اب تک پہنچی نہیں تھیں حضرت ہارون (علیہ السلام) کی چیخ وپکار کو انہوں نے زیادہ اہمیت نہ دنی نتیجہ یہ ہوا کہ قوم کی قوم شرک کی بیماری میں مبتلا ہوگئی ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، کم بختوں نے یہ نہیں سوچا یہ گفتگو تو کرتا نہیں نہ راہنمائی کی اس میں استعداد ہے ، پھر پرستش کے لائق کیونکر ہو سکتا ہے ۔ حل لغات : سقط فی ایدیہ : محاورہ ہے ، جیسے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے یعنی سخت نادم اور پشیمان ہوئے ۔ الاعراف
149 الاعراف
150 پیغمبر کا غصہ : (ف ١) موسیٰ (علیہ السلام) جب تورات لے کر قوم میں واپس آئے تو دیکھا سب میں بت پرستی کے جراثیم پھیل چکے ہیں اور گوسالہ پرستی کا عمل جاری ہے آپ نے نہایت غصے کا اظہار کیا ، ہارون (علیہ السلام) کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور کہا یہ کیا معاملہ ہے ۔ بات یہ ہے انبیاء علیہم السلام میں صبر واستقلال کی استعداد عام لوگوں سے بہت زیادہ موجود ہوتی ہے مگر بےدینی والحاد ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتا ، ذاتی طور پر وہ ناراض نہیں ہوتے ، ان کی انفرادیت ختم ہوجاتی ہے ، ان کا غصہ اور مسرت محض اللہ کے لئے ہے ، غور کرو ، اس سے زیادہ اور کون سی بات صدمہ کی ہوسکتی ہے ، کہ روحانی اولاد بگڑ جائے ، جن کے لئے اتنی مصیبتیں برداشت کیں ، وطن چھوڑا وطن کی آسائشیں چھوڑیں آرام چھوڑا جنگل میں سکونت اختیار کی اور اب یہ لوگ گمراہ ہوجائیں ، موسیٰ (علیہ السلام) غصہ میں آگئے اور حضرت ہارون (علیہ السلام) نے جب جوابا فرمایا کہ میں معذور تھا ، مجھے انہوں نے کوئی اہمیت نہیں دی آپ دشمنوں کو خوش ہونے کا موقعہ نہ دیں ، تو فورا موسیٰ (علیہ السلام) کی سمجھ میں آگیا ، آپ نے اپنے اس غصہ کی اللہ سے معافی چاہی ۔ یہ یاد رہے کہ انبیاء علیہم السلام سے اس نوع کی جسارتیں ایک بلند نصب العین کے حصول کے لئے ہوتی ہیں ، تاکہ وہ قوم کے لئے ہر حالت میں نمونہ اور اسوہ ثابت ہو سکیں ، موسیٰ (علیہ السلام) کے غضب کو غصے میں بھی کردار وعمل کا اعلی سبق ہے ، یعنی وہ موسیٰ (علیہ السلام) جو فرعون کے مقابلہ میں نرم ہیں ، مصائب ومشکلات کو بخندہ پیشانی پرداشت کرتے ہیں قوم کی گمراہی سے طیش میں آجاتے ہیں ، اور پھر جب بھائی کی عذر خواہی سے تسلی ہوجاتی ہے فورا جناب باری میں التجاء عفو کے طالب ہوجاتے ہیں ۔ حل لغات : فلا تشمت : مصدر شمانۃ ، دشمن کی خوبی پر خوش ہونا ۔ الاعراف
151 الاعراف
152 گاؤ پرستی ذلت ہے ! ۔ (ف ١) یہ سزا اس درجہ وموزون اور درست ہے کہ گوبنی اسرائیل میں اب یہ مرض نہیں رہا لیکن جن میں اب تک گائے کا احترام کرتی ہے ، دیکھ لیجئے قومی لحاظ سے ذلیل ہیں ، دولت اور ثروت کے باوجود ذلیل ہیں ، علم وہنر کی فروانی ہے جب بھی ذلیل ہیں ، صدہا سال سے غلام ہیں اب کچھ بیداری کے آثار ہیں مگر یاد رہے ، جب تک توہم پرستی کو نہیں چھوڑیں گے ، آزادی بہت دور ہے ۔ حل لغات : سکت : تھا رکا ، ، استعارہ ہے ، سکون ہے ۔ الاعراف
153 الاعراف
154 الاعراف
155 (ف ١) یہ ستر آدمی وہ تھے جنہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ہم جب تک خدا کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ، مکالمہ ومخاطبہ کو نہیں جان سکتے موسیٰ (علیہ السلام) ان کو طور پر اپنے ساتھ لے گئے ، وہاں پہنے اور موسیٰ (علیہ السلام) نے خواہش کی تو خدا نے آثار غضب ظاہر کئے ، پہاڑ مارے خوف وہراس کے کانپا اور زمین تھرتھرائی اور یہ لوگ عذاب میں گرفتار ہوگئے ۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی اللہ تعالیٰ یہ تو بے وقوف ہیں تیرے جلال و جبروت سے آگاہ نہیں ، شان توحید سے آشنا نہیں ، ان کو کیوں ہلاک کئے دیتا ہے ان کو موقع دے کہ یہ تیری دین کی اطاعت کرسکیں ، اور تیرے جلال کی گواہی دیں ، بات یہ ہے کہ اس نوع کا مطالبہ جناب باری کی بارگاہ جلالت میں جسارت ہے ، انسان کیا ، اور اس کی بساط کیا کہ رب العزت کو دیکھ سکے ، اس جہاں مطلق کا مشاہدہ کیونکر ممکن ہے ، جبکہ آنکھوں میں اس دید کی تاب ہی نہیں ۔ الاعراف
156 رحمت خداوندی کی وسعتیں : (ف ١) (آیت) ” انا ھدنا الیک “۔ سے غرض یہ ہے کہ ہر بات میں اللہ کی ہدایت اور کرم فرمائی ضروری ہے ، ورنہ گمراہی کا احتمال ہے ۔ ” ورحمتی وسعت کل شیء “۔ کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کا غضب اس کے جذبہ رحم سے بسا اوقات مغلوب ہوجاتا ہے ، اور دب جاتا ہے ، مگر شرط یہ ہے کہ ایمان واتقاء کا مظاہرہ کیا جائے وہ لوگ جو صحیح معنوں میں مومن ہیں ، جن کے دلوں میں اتقاء وخشیت کی درشتی ہے ، جو باقاعدہ زکوۃ ادا کرتے ہیں ، اور مال ودولت کی محبت انہیں آپے سے باہر نہیں کردیتی وہ جو پاکباز اور پرہیزگار ہیں ، اعمال صالحہ جن کا وطیرہ اور شغل ہے ایمان جن کے دلوں میں اعتقاد محکم کی شکل میں موجود ہے وہ خدا کی رحمت کے سزاوار ہیں ان پر ہمیشہ اللہ کی رحمتیں چھائی رہتی ہیں ، دنیا ودین میں وہ کبھی نہیں بھٹکتے ، روح اور جسم کی تمام مسترئیں نہیں حاصل ہیں ، اور وہ خوش ہیں کہ اللہ کو انہوں نے پالیا ، اور اللہ سے ان کی دوستی ہے ۔ حل لغات : الامی : ان پڑھ ۔ اصر : بوجھ ۔ اغلال : جمع غل قید ، طوق زنجیر ، استعارہ ہے رسم ورواج کی سختیوں اور دشواریوں سے ۔ الاعراف
157 الاعراف
158 رسول امی : (ف ١) توراۃ وانجیل میں بےشمار پیشگوئیاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق مرقوم ہیں ، یہودی خوب جانتے تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے دعاوی میں سچے ہیں ، منصف عیسائی بھی آپ کے مرتبہ ومقام سے آگاہ تھے ورقہ بن نوفل کا اعتراف ، عبداللہ بن سلام کا اسلام اس حقیقت پر گواہ ہے ۔ توراۃ میں سرخ وسپید ، نبی کا ذکر ہے ، ” محمدیم “ کا لفظ موجود ہے دس ہزار قدسیوں کا حوالہ ہے : آتشین شریعت ، اور نئے یروشلم ، کی پیشگوئی ہے ، یہ بھی لکھا ہے بحری ممالک اس کی راہ تکیں گے ، انجیل میں حضرت مسیح (علیہ السلام) دنیا کی سردار کی خوشخبری سناتے ہیں اور برنباس کی انجیل میں جو مسیح کا حواری تھا ، صاف طور پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام لے کر پیشگوئی کی گئی ہے ۔ قرآن کا یہ دعوے بالکل بجا اور درست ہے کہ توراۃ وانجیل میں امی رسول کے لئے پیشگوئیاں موجود ہیں ، ” سرخ وسپید “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا اور کون ہو سکتا ہے ؟ محمد کس کا نام ہے ، دس ہزار صحابہ فتح مکہ کے وقت کس کے ساتھ تھے ؟ آتشین شریعت کس کی پیش کردہ ہے ؟ کیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ کو قبلہ قرار دے کر نئے یروشلم کو آسمان سے نہیں اتارا ، اور پھر کائنات میں سردار سردار دو جہان کے سوا اور کون ہے ؟ آپ کی خصوصیات حسب ذیل ہیں : ١۔ خیر اور نکوئی کو دنیا کے کناروں تک پھیلاتا اور برائی کے خلاف ہمہ گیر جہاد کرنا ۔ ٢۔ طیبات اور پاکیزہ اشیاء کی ترویج ، خبائث اور مضر صحت واخلاق چیزوں کو حرام وناقابل استعمال قرار دینا یعنی ایک پاکیزہ اور مطہر شریعت کی تاسیس ۔ ٣۔ دنیا میں رسم ورواج کے بوجھ کو ہلکا کرنا ، جہالت وتقلید کے طوق کو گردن سے دور کرنا ، اور انسانوں کو نہایت آسان ٹھیٹ اور خالص دین کی طرف بلانا ۔ (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ اگر تم ہدایت حاصل کرنا چاہتے ہو ، روحانی مدارج میں ترقی چاہتے ہو ، اور یہ چاہتے ہو کہ خدا کی رضا سے بہرہ اندوزی کا موقع ملے ، تو پھر ضروری ہے کہ اس رسول امی کو مانو ، اس کے نقش قدم پر چلو ، اس کی زندگی کو اپنے لئے اسوہ اور نمونہ قرار دو کیونکہ اس کے پاس نور ہے ، ہدایت ہے راہنمائی ہے روشنی ہے فلاح وبہبود ہے ۔ الاعراف
159 الاعراف
160 (ف ١) یہ اس وقت کا ذکر ہے جب بنی اسرائیل کو جنگل میں پانی کی ضرورت محسوس ہوئی موسیٰ (علیہ السلام) نے وحی سے اشارہ پاکر ایک پتھر پر لٹھ مارا ، تو بارہ چشمے پانی کے پھوٹ نکلے ، اور چونکہ بنی اسرائیل کے قبیلے بھی بارہ تھے ، اس لئے پانی کی فروانی کی وجہ سے ان کی سیرابی کا خاصا انتظام ہوگیا ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اضرب کے معنی چلنے کے ہیں ، مقصد یہ تھا موسیٰ (علیہ السلام) لاٹھی ٹیکتے ہوئے پہاڑ پر چڑھیں وہاں بارہ چشمے بہتے ہوئے پائیں گے ۔ یہ تاویل قطعا غلط ہے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ معجزات اور خوارق اللہ کا انکار ہے ، دلائل یہ ہیں :۔ ١۔ ضرب کے معنی چلنے کے ہوتے ہیں تو اس وقت صلہ ب نہیں ہوتا ، فی ہوتا ہے ، قرآن میں ہے (آیت) ” واذا ضربتم فی الارض “۔ یا ” لا یستطیعون فی الارض “۔ ٢۔ ضرب کے ساتھ عصا کا تلازم ظاہر کرتا ہے کہ مارنے کے معنی ہیں ۔ ٣۔ (آیت) ” فانبجست “ میں فا تعقیب فعل کے لئے ہے خود انجاس کا لفظ حودث فعل پر دال ہے ورنہ یہ کہنا چاہئے تھا کہ فتجد ھناک اثنتی عشرۃ عینا جاریۃ “۔ یعنی وہاں چشمے جاری ہوں گے پھوٹ پڑنے کے معنی تو یہ ہیں کہ یہ ضرب مالعصاکا نتیجہ ہے ۔ (آیت) ” وظللنا علیھم الغمام “۔ سے مراد یہ ہے کہ بنی اسرائیل چونکہ کھلے میدان میں رہتے تھے ، اس لئے آفتاب کی تمازت سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بادل کا سایہ کردیا ، تاکہ وہ خدا کی حمایت میں دکھ نہ اٹھائیں ، حل لغات : من وسلوی : وہ چیزیں جو بنی اسرائیل کے لئے طعام وغذا کا کام دیتی تھیں ۔ الاعراف
161 الاعراف
162 تبدیل قول : (ف ١) بنی اسرائیل کو آبادی میں رہنے کے لئے مشروط کردیا تھا کہ وہ توبہ واستغفار کے جذبات کو زندہ رکھیں ، یعنی شہری زندگی میں جا کر اللہ کو اور دین کو بھول نہ جائیں ، مگر جب وہ شہر میں بس گئے تو ان میں وہی خوابیاں پیدا ہوگئیں ، جو شہری زندگی کا خاصہ تھیں ، یہی تبدیل قول ہے ۔ الاعراف
163 قانون اور اس کا منشاء : (ف ٢) یہود کے روحانی امراض میں ایک مرض حیلہ جوئی بھی ہے سبت کا دن اللہ تعالیٰ نے اطاعت وفرمانبرداری کے لئے مقرر کیا ، یہودیوں سے کہا گیا تھا ، کہ سبت کا دن کا ملا فراغت سے گذاریں ، اس ان کوئی دنیوی کام نہ ہو ، صرف اللہ کا ذکر وشغل ہو ، تورایت پڑھیں اور دوسروں کو سنائیں ، مگر ان کی نافرمانی نے اعتداء فی السبت کی راہ نکال لی ، وہ مقام ایلہ میں رہتے تھے ، جو پانی کے قریب واقع ہے ، جب انہوں نے دیکھا کہ ہفتہ کے دن مچھلیاں کثرت سے نمودار ہوتی ہیں ، اور توریت کی رو سے اس دن شکار ممنوع ہے ، تو انہوں نے یہ کیا کہ کنارے کنارے گڑھے کھود لئے تاکہ رات کو جب مچھلیاں ان گڑھوں میں آجائیں تو ہم شکار کرلیں اور آسانی سے پکڑ لیں ، اس صورت میں ان کا خیال تھا ، کیونکہ اس سے سبت کا احترام جاتا رہتا ، جس کی رعایت واجبات میں تھی ، بات یہ ہے کہ قانون کے الفاظ اور قانون کا منشاء دو الگ الگ باتیں ہیں ، ہو سکتا ہے قانون کے الفاظ میں ، جامعیت نہ ہو ، اس حالت میں یہ دیکھنا چاہئے کہ قانون کا منشاء اور مقصود کیا ہے ، یہودیوں نے الفاظ کو تو دیکھا اور یہ نہ دیکھا کہ اللہ کا مقصد کیا ہے ، سبت کے دن کاموں سے اس لئے روکا تھا کہ توجہ الی اللہ کا جذبہ پیدا ہو ، اور اگر دن بھر مچھلیوں کا خیال دل ودماغ پر مستولی رہے تو سبت کا کیا فائدہ ۔ حل لغات : شرعا : جمع شارع ، واضح ۔ الاعراف
164 (ف ١) اہل کتاب میں ایک طبقہ بااحساس بھی تھا ، وہ ان کو منکرات کے ارتکاب سے روکتا اور وعظ ونصیحت سے سمجھانے کی کوشش کرتا ، کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں ، جو یاس وقنوط میں ڈوبے رہتے ہیں ، ان سے نہ خود کچھ ہوتا ہے اور نہ دوسرے کو کچھ کرنے دیتے ہیں ، چنانچہ وہ کہتے بھلا ایسوں کو نصیحت کرنے سے کیا فائدہ ، جو بالکل ہلاکت کے کنارے کھڑے ہیں ، وہ جوابا کہتے ، محض فریضہ تبلیغ سے عہدہ برآ ہونے کے لئے اور ممکن ہے ان کے دلوں میں گداز پیدا ہو ، مقصد یہ ہے کہ بہرحال مبلغین اور اہل علم کو اپنے فرائض کو محسوس کرنا چاہئے ، یہ ضرور نہیں کہ ان کی کوششیں بار آور بھی ہوں ۔ الاعراف
165 الاعراف
166 (ف ٢) جب یہودیوں نے فسق وفجور میں حد سے بڑھ کر تجاوز کیا اور ناصحین کی نصیحتوں کو بھی ٹھکرا دیا ، جب حجت تمام ہوچکی ، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طبیعتوں کو مسخ کردیا جسم وروح میں تبدیلی پیدا ہوئی ، اور دنیا والوں کے لئے عبرت وموعظت کا سامان بن گئے ۔ الاعراف
167 (ف ٣) یہودیوں کی ذلت آج تک قائم ہے ، ہر زمانے میں ان کے لئے ایک بخت نصر موجود ہے ان کی حرص وآز کو دیکھ کر ہر شخص نفور ہے ، اور یہ اللہ کا بدترین عذاب ہے ۔ حل لغات : بئیس : بؤس سے ہے یعنی تکلیف دہ ۔ الاعراف
168 دین فروشی : (ف ١) مقصد یہ ہے کہ ان میں دونوں قسم کے لوگ ہیں صالح اور نیک بھی ہیں ، اور وہ بھی ہیں ، جو دین فروشی میں دنیا کے متاع قلیل پر مغرور ہیں اور لطف یہ ہے ، کہ باوجود اس بددینی کے مغفرت وبخشش کے امیدوار بھی ہیں ، حالانکہ اللہ کا کرم ان لوگوں سے مختص ہے ، جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور جن کا آخرت پر مضبوط ایمان ہے ، جو اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہیں اور اللہ کو دھوکا دینے کی کوشش نہیں کرتے ، ان لوگوں سے مختلف انبیاء علیہم السلام کے ذریعے سے عہد لیا گیا تھا ، کہ دین کی بابت ہمیشہ صداقت وشعار رہیں ، اور کبھی باطل اور جھوٹ کی اشاعت نہ کریں ، مگر یہ ہیں ، کہ دنیا کی مسرتوں کے لئے آخرت کی نعمتوں سے محروم ہیں ۔ آخر میں ان لوگوں کو خوشخبری سنائی ہے جو ان فتنوں کے ہوتے ہوئے بھی کتاب وصلوۃ کا احترام کرتے ہیں جنہیں اللہ نے حق کی اشاعت کے لئے چن لیا ہے ، اور جو برابر اللہ کے مطیع اور فرمانبردار ہیں ، اور یہ مصلح ہیں ، ہم ان کے اجر کو ضائع نہیں کرتے ۔ حل لغات : خلف : برا جانشین ۔ عرض : سامان ۔ الاعراف
169 الاعراف
170 الاعراف
171 (ف ١) یعنی عہد قدیم میں ان لوگوں سے وعدہ لیا گیا تھا کہ کتاب کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رہیں ، اس سے استفادہ کریں ، اور دل کی حالتوں کو سنواریں ، مگر ان لوگوں نے ہر عہد کو ٹھکرایا ، اور میثاق کی مخالفت کی ، پہاڑ کو سر پر اٹھا کر کھڑا کرنے میں حکمت یہ تھی کہ کتاب کی مخالفت سے جو نتائج پیدا ہونے والے ہیں ، ان کو ابھی سے دیکھ لیں ، مقصد یہ تھا کہ اگر تواریت کو یہ پس پشت ڈال دیں گے ، تو مصیبتوں کے پہاڑ ان کے سروں پر ٹوٹ پڑیں گے ، اور یہ مقابلہ نہ کرنے پائیں گے ، اور اگر اطاعت وشعار رہیں گے تو پہاڑ کی سی بلندی ورفعت انہیں حاصل ہوگی ، غرض جبر اور سختی نہ تھی ، حقیقت واقعی کی طرف اشارہ تھا ، کیونکہ اس میں خدا کی حکمت ہے وہ اگر چاہتا تو تمام دنیا کو اسلام پر جمع کردیتا ، مگر اللہ کی حکمت ودانائی نے ایسا نہیں چاہا ، تاکہ لوگ آزادی سے اسلام کی برکتوں سے متمتع ہوں ۔ حل لغات : نتقنا : نتق کے معنی کھینچنے اور اکھاڑنے کے ہیں ، علامہ راغب کہتے ہیں ، نتق الشیء حذبہ ونترعہ ، بعض لوگوں نے ورفعنا فوقھم الطور کے معنی جو بلند کرنے کے کئے ہیں ، غلط ہیں صحیح معنی بلندی پر لاکھڑا کرنے کے ہیں ، جیسا کہ نتقنا سے معلوم ہوتا ہے ۔ الاعراف
172 الاعراف
173 عہد فطرت : (ف ١) ان آیات میں بتایا کہ عہد ومیثاق کا تعلق فطرت وتکوین سے ہے ، انبیاء محض اس لئے مبعوث ہوتے ہیں ، تاکہ وہ اس عہد کو تاکید وتوضیح کے ساتھ ان کے سامنے دوبارہ پیش کردیں ، ورنہ انسانوں کے ضمیر میں اور ان کی گھٹی میں توحید اور اعتراف حق ودیعت ہے ، یعنی اللہ نے جب سے انسان کو پیدا کیا ہے اس کی رگ رگ اور نس نس سے اعتراف و ایمان کے چشمے پھوٹ رہے ہیں ، ناممکن ہے ، کہ انسان اللہ سے بےنیاز ہو سکے ، اور اس کی احتیاج کو برملا محسوس نہ کرے ۔ عہد الست سے یہی مقصود ہے ، (آیت) ” قالوا بلی “۔ میں قول زبان حال سے تعبیر ہے ، جس طرح کہا جاتا ہے ، اذا متلاء الحوض قال قطنی ۔ یعنی انسانی بناوٹ انسانی اعضاء وجوارح میں قدرت الہی کا مظاہرہ ، بند بند اور جوڑ جوڑ میں حکمت ودانائی کا ظہور ، یہ اس بات کا بولتا ہوا ثبوت ہے کہ غالب ودانا خدا کی یہ سب صنعت گری ہے ۔ حل لغات : نباء : مشہور بات ، نبوہ سے مشتق ہے ، جس کے معنی بلندی کے ہیں ، اور جو چیز بلند ہوتی ہے مشہور ہوتی ہے ۔ الاعراف
174 الاعراف
175 الاعراف
176 (ف ١) معلوم ہوتا ہے یہودیوں میں کوئی شخص مشہور تھا ، جسے اللہ تعالیٰ نے علم وفضل سے نوازا مگر جب اس نے رجوع عام دیکھا تو پاؤں پھسل گئے ہواوہوس کی پیروی شروع کردی ، نتیجہ یہ ہوا ، کہ اللہ کی نظروں سے گر گیا ، قرآن حکیم نے نام نہیں لیا ، مقصود حاصل ہے ، یعنی کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں ۔ جو علم وسلوک کی چند منزلیں طے کرلینے کے بعد گمراہ ہوجاتے ہیں نفس کی خواہشیں ان پر غالب آجاتی ہیں ، وہ روحانی رفعت کی بجائے نفسانی پستی کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔ یہود کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہوگئی تھی اسی لئے فرمایا (آیت) ” ذالک مثل القوم الذین کذبوا بایتنا “۔ یعنی بالکل یہی حالت ان مکذبین کی ہے ، یا تو شریعت کے طالب ہیں ، کتاب الہی کے حافظ وعالم ہیں ، یا پھر ہوائے نفس کی پیروی ہے گویا کسی کروٹ چین نہیں ، ان کی حالت نفسی کتے کی طرح ہے کہ ہر حالت میں پریشان ہیں ، نہ عمل کی توفیق میسر ہے نہ فسق وفجور سے مطمئن ۔ الاعراف
177 الاعراف
178 (ف ٢) غرض یہ ہے کہ جب تک توفیق الہی شامل حال نہ ہو ، ہدایت کا حصول ناممکن ہے اور توفیق الہی کے حصول کے لئے طلب صادق اور اخلاص شرط ہے جو ان لوگوں میں موجود نہیں ۔ حل لغات : اخلد الی الارض : زمین میں دھنستا چلا گیا ، یعنی رضیت پسندی اختیار کرلی ۔ الاعراف
179 (ف ١) اس آیت میں وضاحت کردی کہ جو لوگ گمراہ ہیں اور جہنم کے قابل ہیں ، وہ وہ ہیں ، جن کے دل ہیں ، مگر غوروفکر کے عادی نہیں ، آنکھیں ہیں ، مگر حقائق محسوسہ کو نظر انداز کر جاتے ہیں ، کان ہیں ، مگر سماعت حق کی قوت سے محروم ہیں گویا بالکل چوپائے ہیں جن کا مقصد صرف اولے مقاصد حیات کا حصول ہے یعنی غفلت وجمود کی انتہاء (آیت) ” اولئک ھم الغفلون “۔ الاعراف
180 خدا کے نام : (ف ٢) اللہ کے تمام نام جو کتاب وسنت میں وارد ہیں ، اسماء حسنی ہیں ، اور وہ نام جو کتاب وسنت میں نہیں آئے اور ان سے ذم ویاشرک کا پہلو نکلتا ہے ، مذموم ہیں ان ناموں سے اللہ کو پکارنا ناجائز ہے ، مقصد یہ ہے ، کہ اللہ نام ہے صفات کمال کے اجتماع کا ، حسن کامل کا ، اور جمال جامع کا ، خالص خوبصورتی اور رعنائی کا ، اس لئے وہ تعبیرات جن سے ذم اور قبح کا پہلو نمایاں ہوں ، غیر صحیح اور غلط ہیں علماء کرام کے دو گروہ ہیں ، ایک وہ ہیں جو اسماء الہی کو توفیقی کہتے ہیں ، صحیح عقیدہ ان دونوں کے بین بین ہے ان معنوں میں توقیفی ہیں ، کہ ملحدانہ مذموم اور غیر ثابت المنی ناموں کا استعمال درست نہیں ، اور ان معنوں میں قیاسی ہیں ، کہ پاکیزہ اور جائز نام جو دراصل ترجمہ ہوں ان اسماء کا جو کتاب وسنت ہیں وارد ہیں ، لائق قبول ہیں ۔ الاعراف
181 الاعراف
182 الاعراف
183 الاعراف
184 الاعراف
185 الاعراف
186 (ف ١) اضلال اللہ کی جانب جو منسوب ہے تو اس لئے کہ تمام اشیاء کا خالق حقیقی وہی ہے ورنہ مقصود یہ نہیں کہ وہ تبارک وتعالیٰ گمراہی کو پسند کرتا ہے ، غرض یہ ہے کہ ان لوگوں سے توفیق ہدایت چھن جاتی ہے ، یہ ایک پیرایہ بیان ہے ۔ حل لغات : قلوب : سے مراد قرآن کی طرف عقل وفکر ہے چاہے وہ دماغ ہو چاہے دل ۔ الاعراف
187 (ف ١) مکے والوں میں ایک مرض یہ تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خواہ مخواہ کچھ نہ کچھ پوچھتے رہتے ، اور الجھاتے رہتے ، غرض یہ ہوتی ، کہ عوام کو بتایا جائے کہ دیکھو تمہارا رسول سوالات کا جواب نہیں دیتا ۔ قیامت کے متعلق اکثر پوچھتے رہتے ، اور الجھاتے رہتے ، غرض یہ ہوتی کہ عوام کو بتایا جائے ، کہ دیکھو تمہارا رسول سوالات کا جواب نہیں دیتا ۔ قیامت کے متعلق اکثر پوچھتے کہ وہ کب ہے اللہ نے متعدد مواقع پر جواب دیا ہے ، کہ قیامت کا صحیح صحیح ، علم اللہ کو ہے ، کوئی فرد بشر نہیں جانتا ، کہ کب دنیا کا یہ نظام درہم برہم ہوجائے ۔ الاعراف
188 (ف ٢) نبی کا کام کہانت یا پیش خبری نہیں ، وہ رشد وہدایت کے لئے آتا ہے ، یعنی اس لئے کہ نیک اور ابرار کو جنات ونعیم کو خوشخبری سنائے ، اور وہ جو بدعمل اور بدکردار ہیں انہیں جہنم کی آگ سے ڈرائے ، غیب کا علم صرف ذات بےہمت کو ہے ، عالم غیب کی باتیں بجز علیم وخبیر خدا کے اور کوئی نہیں جانتا ۔ اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان فیض ترجمان سے بتلایا گیا ہے کہ میں نفع ونقصان کا مالک نہیں ، یہ چیزیں اللہ کے اختیار میں ہیں ۔ میں اگر غیب کے لا تعداد خزانوں سے آگاہ ہوتا ، تو مجھے تکلیفیں کیوں سہنا پڑتیں ، بدروحنین کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ، دندان مبارک کیوں شہید ہوتے ، حرم محترم پر کھلے حملے کیوں کئے جاتے ، اور ایسا کیوں ہوتا ، کہ واسا کرب وبلا میں تڑپ تڑپ کر جام شہادت نوش کرتے ، اور مجھے علم نہ ہو ، یہ باتیں اس لئے ہوئیں ، کہ مستقبل کی خبریں اللہ ہی جانتا ہے ، اور اسی میں مصلحت ہے ، انسان اگر اس محدود عقل کی بنا پر بعض ہونے والے واقعات کو قبل از وقت جان لے تو اس کے لئے دنیا میں جینا مشکل ہوجائے بعض اوقات نہ جاننا بھی اللہ کی نعمتوں میں شمار ہوتا ہے ۔ حل لغات : مرسہا : قیام ، حفی : واقف وآگاہ ۔ الاعراف
189 (ف ١) عام مفسرین نے یہاں یہ قصہ بیان کیا ہے کہ حواء جب حاملہ ہوئیں ، تو شیطان ان کے پاس آیا اور کہنے لگا جانتی ہو ، اب کیا ہوگا ، تیرے پیٹ سے جانور پیدا ہوگا ، اور خدا جانے کس تکلیف کے انداز میں پیدا ہو ، یا انسانی بچہ پیدا ہو تو ناقص ہو ، میں اللہ کا مقرب ہوں ، اگر میری مانو اور ہونے والے بچے کا نام عبدالحارث رکھو ، تو کوئی اندیشہ نہیں ، حواء اس پر راضی ہوگئیں ، اور بچے کا نام عبدالحارث رکھا ، جو شیطان کا نام ہے ، یہ آیت اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے ، مگر یہ واقعہ حقیقت درست نہیں کیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ خدا کا پیغمبر دوبارہ شیطان کے دھوکے میں آگیا ، حالانکہ مرد مومن بھی دو دفعہ دھوکا نہیں کھاتا ، ” المؤمن لا یلدغ من حجرواحد مرتین “۔ نیز اس واقعہ کے صاف صاف معنی یہ ہیں کیا انبیاء بھی شرکیہ افعال کے مرتکب ہو سکتے ہیں ، دیکھئے قرآن نے میاں بیوی دونوں کو برابر کا مجرم قرار دیا ہے ، (آیت) ” جعلالہ شرکائ“۔ حالانکہ یہ منصب نبوت کے منافی ہے ، ہو سکتا ہے ، کہ اجتہاد وفہم میں تسامح سرزد ہو ، مگر توحید جیسی تین حقیقت میں اشتباہ ناممکن ۔ بات اصل میں یہ ہے کہ یہاں آدم وحواء کا ذکر ہی سرے سے موجود نہیں ، عام انسانوں کا ذکر ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں دیکھو ہم نے تمہیں ایک ہی نفس ونوعیت سے پیدا کیا ہے مگر تم ہو کہ تخلیق اولاد کو دوسروں کی جانب منسوب کرتے ہو ، اس حقیقت کو نہایت دل نشین انداز میں بیان کیا ہے ، یعنی بتایایہ ہے کہ شرک کرتے وقت انسانی نفسیات کیا ہوتی ہیں ۔ عورت جب محسوس کرتی ہے کہ پاؤں بھاری ہیں ، تو خوشی خوشی کام کاج میں مصروف نظر آتی ہے اور اس بوجھ کو لادے لادے پھرتی ہے ۔ (آیت) ” فلما اثقلت “۔ جب یہ جانتی ہے کہ اب ولادت کا وقت قریب ہے تو اس وقت اس کے دل میں خطرہ پیدا ہوتا ہے ، جانے بچہ کس قسم کا پیدا ہو تندرست ہو یا بیمار ، پھر خوف وہراس دور ہوتا ہے ، اللہ کرم کرتے ہیں بچہ تندرست پیدا ہوتا ہے ، اس وقت میاں بیوی دونوں کہتے ہیں کہ یہ سب ” میراں “ کی بخشش ہے ، ” خواجہ “ کی نوازش ہے ۔ ” بڑے پیر “ کی مہربانی ہے حالانکہ ان میں سے کسی بزرگ کو بھی تخلیق وتولید میں کوئی دخل نہیں ۔ (آیت) ” فلما تغشہا “۔ سے لے کر جعلا لہ “۔ تک تمام ماضی کے صیغے مستقبل کے معنوں میں ہیں ۔ حل لغات : تغشی : تغشی سے ماضی کا صیغہ ہے چھا جانے کے معنوں میں ۔ صالحا : چنگا بھلا ، نیکو کار ۔ الاعراف
190 الاعراف
191 الاعراف
192 الاعراف
193 الاعراف
194 الاعراف
195 الاعراف
196 الاعراف
197 الاعراف
198 (ف ١) اس سے قبل بتوں کا ذکر ہے کہ ان میں کوئی خصوصیت نہیں وہ بھی تمہاری طرح عبودیت وتذلل کی زنجیر میں بندھے ہوئے ہیں اور پھر اس درجہ بےبس ہیں کہ چل پھر نہیں سکتے ، نہ ہاتھوں سے چھو سکتے ہیں اور نہ کان ہیں کہ سن کسیں ، اس کے بعد بت پرستوں سے کہا کہ تم ان کو مقابلے کے لئے آمادہ کرو ، اور دیکھو ، اللہ کی دوستی اور حمایت کس طرح روئے کار آتی ہے ، اس کے بعد کی آیات میں تعریض ہے کہ بتوں سے نصرت کی توقع نہیں ہو سکتی ، وہ نہ اپنی مدد کرسکتے ہیں اور نہ تمہاری اس کے بعد خطاب مشرکین سے ہے کہ اگر ان کو ہدایت کی طرف دعوت دی جائے ، تو غور وفکر کی غرض سے کان نہیں دھرتے ، باوجود ان حقائق کے بتوں کی بیچارگی اور بےبسی کے پھر بھی عقیدتمند ہیں ۔ الاعراف
199 (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان مشرکین کے طعن وتشنیع سے درگزر فرمائیں ، ان کی زیادتیوں پر توجہ نہ دیں اور اپنا کام وقار ومتانت سے انجام دیتے رہیں ‘ یہ جہالت ونادانی کی وجہ سے مجبور ہیں ۔ درحقیقت یہ حکم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت مرحمانہ کا ایک تابناک صفحہ ہے ، آپ نے ہمیشہ عفو وکرم سے کام لیا ہے ، اور کبھی کسی شخص سے ذاتی انتقام نہیں لیا ۔ حل لغات : العرف : یعنی معروف ۔ الاعراف
200 کشاکش نفس اور پیغمبر : (ف ١) نزع سے مراد وسوسہ اندازی ہے یعنی جب آپ کے دل میں ان لوگوں کی کجروی اور مخالفت کی وجہ سے شیطان غم وغصہ کی آگ بھڑکانا چاہئے ، تو آپ اللہ کی پناہ میں آجائیں وہ آپ کی دعاؤں کو سنتا اور آپ کے حالات کو جانتا ہے ۔ عصمت انبیاء کا مفہوم یہ نہیں کہ انبیاء کے دل میں خیالات کی کشاکش نہیں ہوتی یا نفس بشری بیکار ہوجاتا ہے ۔ عصمت کا مفہوم یہ ہے کہ انبیاء باوجود زبردست کشاکش نفسی کے پیغمبرانہ وظائف سے محروم نہیں ہوتے ، اور وہ ہر ترغیب وتحریص کو پوری قوت سے وہ کردیتے ہیں جس میں برائی کو ذرا بھی دخل ہو ، بھی ان کے دل میں بتقاضائے بشری وسوسہ اندازی ہوتی ہے ، مگر وہ باطنی قوت سے اس کا مقابلہ کرتے ہیں ، اور شکست دیتے ہیں اور پیغمبرانہ ملکہ عفت انہیں ہر مقام پر محفوظ رکھنا ہے ، الاعراف
201 الاعراف
202 الاعراف
203 قرآن معجزہ ہے !: (ف ٢) اس سے پیشتر کی آیت میں مکہ والوں کا قول نقل ہے کہ آپ مطلوبہ معجزہ کیوں نہیں دکھلاتے ہیں کہ جواب میں آپ نے قرآن کی زبان میں فرمایا میں وحی و الہام کا پابند ہوں اپنی طرف سے کچھ ایزاد نہیں کرسکتا ، اور قرآن میں تمہارے لئے بصائر اور دلائل ہیں ، (آیت) ” ھذا بصآئر من ربکم “۔ یعنی اگر اطمینان مقصود ہے تو قرآن کو پڑھو ، اور اگر یہ نہ ہو سکے ، تو کم از کم جب قرآن پڑھا جائے ، غور سے سنو ، پھر دیکھو قرآن کی صداقت کس طرح تمہیں اپنی جانب کھینچ لیتی ہے اور کیونکہ تمہیں سزاوار کرم بنا دیتی ہے ، ۔ یعنی قرآن بجائے خود معجزہ ہے ، ایک علمی حارقہ ہے ۔ نہایت درجے کا مؤثر کلام ہے ، اس کو پڑھ کر دیکھو انصاف وعدل کے کانوں سے سن لو ، پھر تمہیں خود معلوم ہوجائے گا ۔ کہ یہ کس پایہ کا کلام ہے ۔ حل لغات : نزع : وہ خیال جو دماغ میں گھومے اور مسئلوی ہونے کوشش کرے ۔ الاعراف
204 الاعراف
205 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ آداب ذکر میں ہے کہ انسان دل میں اللہ کو یاد کرے تاکہ شوروشغب سے ان کے قلب میں فرق نہ آئے بات یہ تھی کہ مسلمان جب ذکر وشغل میں مصروف ہوتے مشرکین شور مچاتے ، اور دخل انداز ہوتے اس پر یہ ہدایت ہوئی کہ صبح وشام جب چاہو خدا کو یاد کرو اور عاجزی اور اخفاء کا اظہار ہو ، یہ ضرور سنیں کہ دوسرے بھی سنیں البتہ غفلت نہیں کرنی چاہئے ۔ الاعراف
206 الاعراف
0 الانفال
1 (ف ٢) مدنی ہے بدر میں غنائم کے سلسلہ میں تنازع پیدا ہو تو یہ نازل ہوئی ، اس میں حصص کی تفصیل ہے ، نوجوان یہ کہتے تھے کہ ہم غنیمت کے زیادہ حقدار ہیں شیوخ کو یہ فضیلت تسلیم نہ تھی اللہ تعالیٰ نے اس عقدہ میں فرمایا اصل میں یہ اللہ اور اللہ کے رسول کے قبضہ وملک میں ہے ، وہ جیسا چاہیں ، تقسیم کردیں تمہیں اعتراض نہیں کرنا چاہئے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خمس نکال لینے کے بعد نوجوانوں اور بوڑھوں میں مال برابر تقسیم کردیا ۔ حل لغات : انصتوا ، مصدر انصات کچھ سننے کے لئے خاموش ہوجانا ۔ انفال : جمع نفل ، بمعنی مال غنیمت ۔ الانفال
2 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ مومن کو غیر مشروط طور پر مطیع ہونا چاہئے اس کا دل ایسا اثر پذیر ہوتا ہے کہ خدا کا نام سن کر کانپ جاتا ہے ، قرآن کی آیات کو سنتا ہے تو دل میں ایمان کا سمندر موجزن ہوجاتا ہے ، اس کی بصیرت اور معارف دینیہ میں معتدبہ اضافہ ہوتا رہتا ہے ، وہ متوکل ہے ہر بات میں اللہ پر اسے بھروسا ہے ۔ الانفال
3 (ف ٢) درحقیقت مومن وہ ہے جو صلوۃ وزکوۃ کے نظام پر عمل پیرا ہے ، اس کے لئے روحانی درجات ہیں ، یہی مغفرت الہی کا حصہ دار ہے اور یہی وہ ہے جس کی روزی پاک اور طیب ہے ۔ مگر صلوۃ وزکوۃ کا مفہوم محض مرسومہ اذکار وادعیہ کا ادا کرنا نہیں ، نہ سال کے بعد ایک متعین رقم ادا کرنا ہے ، بلکہ اس کے ساتھ روح ومغز کا حصول ضروری ہے ، نماز پڑھے ، اور نمازی کی عادات وخصائل کا حامل بنے ، زکوۃ دے اور قومی وملی ضروریات سے آگاہ رہے ۔ الانفال
4 الانفال
5 غزوہ بدر : (ف ١) ٢ ھ؁ میں مسلمانوں کو ضرورت محسوس ہوئی کہ مکے والوں کی شرارتوں کا قطعی سدباب کردیا جائے یہ تقریبا ٣٠٠ میل کی دوری کے باوجود مسلمانوں کو چین سے نہیں رہنے دیتے تھے اکثر دھمکیاں دیتے ، کہ ہم یثرب پہنچ کر تمہیں مزہ چکھائین گے ربیع الاول ٢ ھ؁ میں ایک شخص کو زبن جابر الفہری مدینہ پہنچا اور اونٹ لوٹ کرلے گیا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فیصلہ کرلیا ، کہ مدینے سے باہر نکل کر فیصلہ کن جنگ ہوجائے ، تاکہ کفر کو آیندہ ایمان کے خلاف جرات نہ رہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین سے مشورہ کیا ، سب نے رضا مندی کا اظہار کیا یہ ایک جماعت ایسی تھی ، جسے باہر نکل کر کامیابی کا بھروسہ نہ تھا وہ کہتے تھے ہم اچھی طرح تیار نہیں ہیں ، پہلے سے علم ہوتا تو تیاری کرلیتے مگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیصلہ قطعی تھا اللہ تعالیٰ یہ چاہتے تھے کہ احقاق حق ہوجائے ، اور کفر کے سارے ارمان نکل جائیں ، ” احدی الطآئفتین “۔ سے غرض یہ ہے کہ ایک قافلہ ابو سفیان کا جا رہا تھا جس کے تعاقب میں مسلمان نکلے ، مگر کفار مکہ کا لشکر جرار مقابلے کے لئے آرہا تھا ، اللہ یہ چاہتے تھے کہ تمہاری مڈبھیڑ لشکر سے ہو ، تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ ایمان میں کتنی قوت ہے اور تم چاہتے تھے کہ قافلہ ہاتھ آجائے ، تاکہ آسمانی سے مال غنیمت کے حقدار بن جائیں ، اس لئے وہی ہوا جو خدا کا منشاء تھا ۔ حل لغات : یساقون : مصدر سوق ، ہنکانا ۔ الانفال
6 الانفال
7 الانفال
8 الانفال
9 الانفال
10 فرشتوں کی تائید : (ف ١) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بدر میں تین سو تیرہ قدوسی لے کر پہنچے ہیں ، تو کفار ایک ہزار کی تعداد میں تھے ، مسلمان نہایت بےسروسامانی میں تھے ساری فوج میں دو گھوڑے اور سات اونٹ ، غور کرو ، اتنی سی قوت کے ساتھ کفر کے خلاف صف آرائی کا خیال ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی کہ اللہ اگر یہ مخلصین کی چھوٹی سی جماعت کٹ گئی ، تو پھر تیرے نام کو دنیا کے کناروں تک کون پھیلائے گا ، اللہ تعالیٰ نے دعا کو خلعت قبولیت بخشا اور مسلمانوں کی تائید کے لئے ایک ہزار فرشتے نازل فرمائے ۔ آیت کا مقصد یہ ہے کہ فرشتوں کا نزول تمہاری تسکین کے لئے ہے ورنہ اللہ کے پاس اور بھی نصرت واعانت کے بےشمار روحانی وسائل ہیں ۔ الانفال
11 (ف ٢) عین میدان جنگ میں نیند یہ اللہ کی خاص نعمت تھی ، اس سے مسلمان تازہ دم ہوگئے نیز کفار کے لئے یہ امر نہایت مرعوب کن ہے کہ مسلمان مصاف جنگ میں بےخطر ہو کر سوجاتے ہیں ۔ یہ درحقیقت مسلمانوں کی طمانیت قلب کا بہترین نمونہ ہے ۔ پانی کا برس جانا بھی خاص عنایت تھی طبیتیں شگفتہ ہوگئیں ، ضروریات کو پورا کرلیا گیا ، اور دل میں کسی طرح کا میل باقی نہ رہا ۔ الانفال
12 (ف ١) فرشتے اللہ کا حکم پاکر کفر کو مرعوب کرتے رہے ، اور اس کا اثر آج تک مسلمان محسوس کرتا ہے ، وہ ہزار کمزور ہے کفر کے خلاف پوری طرح جانباز ہے گو وہ تمام قوموں سے پیچھے ہے ، گر رعب اب تک قائم ہے ، کفر وطاغوت کی تمام فوجیں مسلمان سے خائف ہیں ، کیونکہ یہی تنہا استعمار کے لئے خطرہ ہے ، حل لغات : مردفین : مردف کی جمع ہے ، یعنی فرشتے ، ردیف دار آتے ہیں گے ، لیربط علی قلوبکم ، ربط علی قلبہ محاورہ ہے مراد حوصلہ افزائی کرنا ہے ۔ الانفال
13 الانفال
14 الانفال
15 الانفال
16 (ف ١) اسلام صلح وآشتی کا مذہب ہے ، مگر جب کفر وطاغوت کا مقابلہ آپڑے ، اس وقت کسی رواداری اور بزدلی کو جائز قرار نہیں دیتا ، میدان جہاد سے فرار بدترین گناہ ہے اسلام بہادروں کا مذہب ہے ، البتہ پینترا بدلنا اور طرح دنیا اس سے مستثنے ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ میدان جہاد میں صرف بہادری اور شہامت کا خطاب نہیں ہونا چاہئے بلکہ عقلمندی اور دانائی کا اداء بھی ضروری ہے ۔ الانفال
17 وما رمیت : (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ تم لوگوں نے میدان جہاد میں محض اپنے فرض کو ادا کیا ہے ، ورنہ کامیابی اور نصرت تو تمہاری کوششوں کی رہین منت نہیں ، تم نے بلاشبہ ان سے جنگ کی اور بہادری کا اظہار کیا ، اور اگر اللہ کفر کو ہزیمت نہ دینا چاہتا ، تو تم فتح پر قادر نہ ہو سکتے ۔ اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق فرمایا ، آپ نے جو مٹی کی مٹھی شاھت الوجوہ کہہ کر پھینکی اور مخالفین کی آنکھیں چندھیا گئیں ، یہ بھی محض اللہ کا فضل تھا ، غرض یہ ہے کہ بڑی سے بڑی کامیابی بھی اللہ کے فضل سے بےنیاز نہیں ۔ حل لغات : متحرفا : حرف کے معنی پہلو یا کنارے کے ہیں ، تحرف سے مراد ایک طرف ہوجانا ہے ۔ بیواؤ کے لئے متحیزا : ” حبز کے معنی جگہ کے ہیں یعنی دوسری جگہ منتقل ہونے والا ۔ الانفال
18 الانفال
19 (ف ١) مکے والے جب گھروں سے جنگ کے لئے نکلے تو یہ کہتے ہوئے نکلے اللہ ہم میں سے جو ہدایت پر ہے اس کی نصرت فرمائیو ، اب بدر کی فتح نے یقین دلا دیا کہ مسلمان حق پر تھے ، کیونکہ باوجود قلت تعداد کے اور بےسروسامانی کے یہ حرت انگیز کامیابی بجز صداقت وتائید ربانی کے کیوں کر مسکن ہے ۔ فرمایا شرارتوں سے اب بھی رک جاؤ تمہیں کثرت تعداد پر مغرور نہ ہونا چاہئے اللہ کی نصرتیں حق وصداقت کے ساتھ ہیں ، کثرت کے ساتھ نہیں ۔ الانفال
20 الانفال
21 الانفال
22 (ف ١) غرض یہ ہے کہ بدترین مخلوق کی توضیح کی جائے اللہ تعالیٰ نے انسان کو کان اس لئے دیئے ہیں کہ وہ حق وصداقت کی آواز سنے زبان اس لئے عطا کی ہے ، تاکہ سچائی کا اعلان کرے ، مگر جب وہ صداقت کی جانب سے کان بند کرلے اور اس کے لب حق کی حمایت میں نہ ہلیں ، تو پرھ اس میں اور حیوانات میں کیا فرق ہے ، یہ تو ان سے بھی بدتر ٹھہرا ، وہ اپنے وظائف نوعی کو ادا کرتے ہیں مگر یہ عقل وخرد سے کام نہیں لیتا ۔ ان آیات میں خطاب منافقین کے گروہ سے ہے کہ کمبخت بالکل متاثر نہیں ہوتے ، اور برابر کفر وشرک کے مرض میں مبتلا رہتے ہیں ۔ الانفال
23 الانفال
24 حیات آفرین پیغمبر : (ف ٢) مسلمان کو اطاعت مطلقہ کی دعوت ہے مسلمان کے لئے لازم ہے کہ وہ ہر دعوت رسول پر لبیک کہے کیونکہ اس کا پیغام حیات آفرین ہے اس کی ہر ادا زندگی ہے اور زندگی کا مرقع ہے ، جب تک مسلمان اپنے پیغمبر کے اسوہ پر عمل پیرا رہے ، زندہ رہے اور جب سے بدعات ورسوم کی پیروی اختیار کی ہے زندگی کے تمام آثار مفقود ہیں ۔ (آیت) ” ان اللہ یحول بین المر ، وقلبہ “۔ سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کے قریب ہیں اور ہر شخص کے قلب میں اس کی قدرتوں کا انعکاس ہے اب جیسا تمہارے قلب کا شیشہ ہے خدا ویسا ہی قلب میں نظر آئے گا ، اگر تم منکر ہو ، تو تمہارے اور ہدایت وپرہیز گاری کے درمیان وہ حائل ہے ، اگر پاکباز ہو تو کفر کے خلاف تمہارے دل میں نفرت پیدا کر دے گا ، یعنی نیک انسان کے لئے نیکی کی توفیق ہے اور برے کے لئے برائی کا میدان وسیع ہے ۔ (آیت) ” واتقوا فتنۃ “۔ الخ ۔ سے مراد یہ ہے کہ بعض دفعہ تبلیغ واشاعت میں تساہل کی وجہ سے دونوں فریق مبتلا ، فتنہ ہوجاتے ہیں ، تم اس سے بچو ، اور منکرات کے خلاف جہاد میں ، کوشاں رہو تاکہ تغافل کی باداش میں تمہیں بھی گرفتار نہ ہونا پڑے ۔ الانفال
25 الانفال
26 (ف ١) یعنی اللہ کا شکریۃ ادا کرتے رہو ، تم قلیل وکمزور تھے تمہیں طاقت وقوت بخشی تم اطمینان وفراغت سے محروم تھے ، اللہ نے جگہ دی ، اور اطمینان بخشا ۔ حل لغات : استجیبوا : قبول کرو ، اور مان لو ، یحول : حائل ہوجاتا ہے ، فتنۃ : عذاب ودیوانگی یعنی اولاد کی محبت میں بسا اوقات انسان ایثار وقربانی سے محروم رہتا ہے ۔ الانفال
27 الانفال
28 الانفال
29 مومن کا امتیاز : (ف ١) مومن کے لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے وعدہ ہے کہ اگر اس کے دل میں اللہ کا ڈر ہو اور وہ سچے دل سے اسلام کے احکام کا احترام کرتا ہو ، تو دنیا میں اس کی زندگی خاص امتیاز سے بسر ہوگی وہ فرقان ، یعنی سلوک خاص کا مستحق ہوگا ، اس میں اور کفر وسلوک خاص کا مستحق ہوگا ، اس میں اور کفر وطاغوت میں تبائن ہوگا ، اس کے خلود وبرتری کا مقابلہ نہ ہو سکے گا ، اور وہ شان سے جلال آلہی کا اظہار کرے گا ، الانفال
30 (ف ٢) احسانات الہی کا ذکر ہے یعنی ایک وقت وہ تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق مشورے کر رہے تھے کچھ کہتے تھے ، اس کو قید کرلو ، کچھ چاہتے تھے زندگی ہی سے محروم ہوجائے اور ایک طبقہ وہ تھا جو مکے سے نکال دینے پر مصر تھا ان کی تمام تدبیریں ناکام رہیں اور اللہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مدینہ پہنچا دیا ، جہاں سینکڑوں جان نثار پیدا ہوگئے ، اور بالآخر یہ تجویزیں سوچنے والے بدر میں ذلیل ہوئے ۔ حل لغات : لیثبتوک : اثبات کے معنی روک لینے کے ہیں یعنی قید کر رکھنا ۔ الانفال
31 (ف ١) یعنی یہ لوگ قرآن کی عظمت حقیقی سے آگاہ نہ ہوسکے ، قرآن کو جب سنتے ، تو کہتے قصے کہانیاں ہیں ، ہم بھی اس طرح کے قصے بیان کرسکتے ہیں ۔ مگر یہ توفیق نصیب نہ ہوئی کہ قبول کریں ، یا قرآن کے مقاصد اصلیہ تک ان کی رسائی ہو ۔ الانفال
32 الانفال
33 (ف ٢) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحمۃ اللعالمینی کا تذکرہ ہے یعنی گو یہ لوگ عذاب طلب کرتے ہیں ، مگر جب تک آپ کو وجود گرامی ان میں رہے گا ، اللہ تعالیٰ عذاب نہیں بھیج سکتے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا احترام عذاب سے مانع ہے ، اور پھر دوسری وجہ یہ تھی کہ عذاب طلبی میں وہ صادق بھی نہ تھے ، دل میں خائف تھے کہ کہیں واقعی عذاب نہ آجائے ، اس لئے چھپ چھپ کر استغفار کرتے ۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ کو چھور دیا اور مدینہ میں رہنے لگے تو اس وقت بدر کی صورت میں قریش کی یہ طلب بھی پوری ہوگئی یعنی عذاب ؤیا ، اور ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے ۔ الانفال
34 (ف ١) غرض یہ ہے کہ وہ کس برتے پر عذاب طلب کرتے ہیں ، کیا انہیں معلوم نہیں کہ مسجد حرام سے مسلمانوں کو روکنا بہت بڑا جرم ہے یعنی جہاں تک ان کے جرائم کا تعلق ہے وہ قطعا سزاوار تعزیر ہیں ۔ الانفال
35 (ف ٢) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب صحن کعبہ میں نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو مکے والے احترام بیت اللہ کو بالائے طاق رکھ کر تالیاں اور سیٹیاں بجاتے ، تاکہ نماز کو آپ دلجمعی اور سکون کے ساتھ نہ ادا کرسکیں ۔ فرمایا اگر ان کی یہی عبادت ہے اور یہی جذبہ احترام ہے تو آج بدر کے دن اس گستاخی کا مزہ چکھیں ۔ الانفال
36 (ف ٣) یعنی مکہ والے پوری قوت کے ساتھ اسلام کے خلاف صف آراء ہوں ، انجام کار انہیں شکست ہوگئی ، کیونکہ فتح وکامرانی کے لئے روپیہ کی ضرورت نہیں ، دولت ایمان کی احتیاج ہے ، مدرسے شکست کھا کر ان لوگوں نے آئندہ کے لئے تیاریاں کیں ، امراء نے مالی امداد دی قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ یہ مال ودولت جو اسلام کی مخالفت میں جمع کیا جا رہا ہے ان کے لئے بالآخر حسرت وندامت کا باعث ہوگا ۔ حل لغات : مکآئ: پرندے کی آواز ، سیٹی بجانا ۔ تصدیۃ : صدی سے ہے یعنی ہاتھ پر ہاتھ مارنا یعنی تالی بجانا ۔ الانفال
37 الانفال
38 الانفال
39 جہاد کی غرض اقصی : (ف ١) اسلام جنگ وجدال کو بالطبع ناپسندیدہ ٹھہراتا ہے ، اس کے نزدیک صلح وآشتی سے بہتر کوئی چیز نہیں ، البتہ جب کفر ” فتنہ “ کا باعث ہوجائے ، یعنی مسلمانوں کی آزادی چھن جائے ، ایمان وجہ ابتلاء بن جائے محض مسلمان ہونا مصیبت قرار پائے اس وقت جہاد فرض ہوجاتا ہے اسلام جہاں صلح ومن کا خواہاں ہے وہاں کفر سے دب کر رہنا بھی پسند نہیں کرتا اور کون نہیں جانتا کہ صلح دامن کے لئے بھی بعض دفعہ خون بہانا پڑتا ہے ، اسلامی جہاد کی غرض وغایت یہ ہے کہ دین میں آزادی ہو ، اللہ تعالیٰ کے دین میں اور کوئی قوت حائل نہ ہو ، ہر مسلمان پوری آزادی سے اسلامی احکام کو ادا کرسکے ، الانفال
40 الانفال
41 خمس : (ف ١) اسلام میں جہاں اخلاق وعقائد کی تشریح ہے وہاں عسکری ضابطوں کی توضیح بھی ہے کیونکہ یہ جامع مذہب ہے جس میں تمام ضروریات انسانی سے بحث ہے ۔ خمس کے معنی پانچویں حصے کے ہیں ، قاعدہ یہ ہے کہ جب مسلمان میدان جنگ میں جائیں ، اور دشمنوں کا مال لے کر لوٹیں تو اس کے پانچ حصے کردیئے جائیں ، پانچواں حصہ بیت المال میں دیں ، وہ دینی وملی ضروریات پر صرف ہو ، اسیرو یہ کہ مساکین یا مسافر جو زاد راہ کے محتاج ہوں انہیں حسب ضرورت واحتیاج دیا جائے باقی چار حصے مجاہدین میں تقسیم کردیئے جائیں ، یہ واضح رہے کہ اسلام کے عہد اول میں باقاعدہ وفوج نہ تھی نہ ان کی تنخواہیں معزز تھیں ہر مسلمان سپاہی تھا ، اور ملت ودین کی حفاظت کے لئے لڑنا ان کا فرض تھا ، جب ضرورت ہوتی ، تمام گھروں سے نکل کھڑے ہوتے ، اور جہاد میں شریک ہوجاتے ، اس لئے شریعت نے باقاعدہ مال غنیمت کے حصے مقرر کردیئے ، اور ہر سپاہی کا اس میں حصہ ہے ، جس کے صاف صاف معنی یہ ہیں کہ سپاہی ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے ، اور جنگ میں وہ ذمہ دار انسان کی طرح شریک ہوتا ہے ۔ الانفال
42 (ف ٢) غرض یہ ہے کہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے تمہاری کفار مکہ کے باقاعدہ لشکر سے مڈبھیڑ کرا دی ، ورنہ اگر لڑ کرکے گھروں سے نکلتے ، تو شاید وقت پر دونوں نہ پہنچ سکتے اللہ تعالیٰ نے اس طرح کا انتظام فرما دیا کہ مسلمان جو ابوسفیان کے قافلہ کے لئے گھروں سے نکلے تھے ، ایک ہزار کے لشکر سے بھڑ گئے اور وہ جو قافلہ کی حفاظت کے لئے آئے تھے مسلمانوں سے دوچار ہوگئے اس طریق سے گھمسان کی لڑائی ہوئی مدینے کہ ادھر مسلمان تھے اور دوسری جانب مکے والے ، قافلہ بچ کر نکل گیا ، لڑائی بیحد حیرت انگیز طریق سے ہوئی مسلمان غالب آگئے اور مخالفین کو یہ معلوم ہوگیا کہ اسلام کے پاس روحانی قوتیں بھی ہیں ، ورنہ اس قلیل جماعت کا یوں آسانی سے کامیاب ہوجانا ، محال تھا ، جب کہ مکہ والے پوری تیاری کرکے آئے تھے ۔ الانفال
43 (ف ١) یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رؤیا میں دکھایا گیا کہ کفار نہایت قلیل تعداد میں ہیں ، یا صنام سے مراد آنکھ ہے جیسا کہ دوسری آیت میں فی اعینکم “ کا لفظ موجود ہے ، بہرحال غرض یہ ہے کہ وہ تمہاری نگاہوں میں کم نظر آئے ، تاکہ تمہاری ہمتیں پست نہ ہوجائیں ، یہ بھی نصرت الہی کی ایک مخصوص سورت ہے ۔ حل لغات : ولذی القربی : رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عزیز واقارب ۔ یوم الفرقان : بدر کا فیصلہ کن دن ، العدوۃ : کنارہ موڑ ، نقطہ ، تجاوز ۔ الانفال
44 الانفال
45 مسلمان سپاہی : (ف ١) اسلامی غزوات چونکہ دینی اور مادی مقاصد کے لئے نہیں ، اس لئے سپاہیوں کو جو ہدایت دی جاتی ہے ، وہ بھی خاص روحانی ہے یعنی ثبات واستقلال کے ساتھ اللہ کا ذکر کثیرہ کیونکہ مسلمان کی جنگ خدا پرستی اور دہریت کی جنگ ہوتی ہے ، یہ جب جہاد میں آتا ہے ، تو مقصد کفر وطغیان کی بیخ کنی کرتا ہے مال ودولت کو سمیٹنا نہیں ۔ اسلامی فتوحات کا راز یہی للہیت ہے ، غیر مسلم سپاہی شراب میں مخمور فسق وفجور کے عادی لعب وشتم کرتے اور واہیات بکتے ہوئے میدان جنگ میں آئے اور مسلمان نشئہ توحید سے سرشار اللہ کا نام بلند کرتے ہوئے پھر جن کے دلوں میں اللہ کی محبت ہے اور جو تلواروں کی جھنکار میں بھی اس محبوب حقیقی کو نہیں بھولتے ، ان کے لئے دنیا کی فتوحات تو کیا آخرت میں بھی کامرانیاں ہیں ۔ یہ مسلمان سپاہی کا کیرکٹر ہے کہ وہ توپوں اور تلواروں کے سامنے بھی ذکر کثیر میں مشغول رہتا ہے ۔ آج کل بھی سپاہی کے لئے آسانیاں مہیا ہیں اور عسکری اخلاق میں حد درجہ بہیمانہ افعال کی اجازت ہے یعنی موجودہ سپاہی سیہ کاری کا مرقع ہے مگر اسلام کہتا ہے کہ ہر حال میں پاکباز رہو ، صفوف نماز میں جس طرح تم تضرع وابتہال کا پیکر ہو ، اسی طرح مصاف جہاد میں خدا کا نام ورد زبان رہے ۔ الانفال
46 (ف ٢) یہ آیت صرف جہاد سے مختص نہیں ، بلکہ ہر حال میں مسلمان کو اطاعت کے شیرازہ میں منسلک رہنا چاہئے ، جب بھی کتاب وسنت کو چھوڑ کر مسلمان اختلاف وتنازع پیدا کریگا ہوا اکھڑ جائے گی ، اور ہمتیں پست ہوجائیں گی ، قوت وغلبہ ” اعتصام بحبل اللہ “ میں مضمر ہے ، ” واصبروا “ قرآن کی اصطلاح میں شمات واستقلال کا دوسرا نام ہے ۔ الانفال
47 (ف ٣) جب قافلہ ابو سفیان کا بچ کر نکل گیا تو لوگوں نے ابوجہل سے کہا ، اب لوٹ چلیں کیونکہ ہم صرف قافلہ کی حفاظت کے لئے جمع ہو کر آئے تھے ، ابو جہل نے کہا یہ نہیں ہو سکتا ہم بدر تک جائیں گے ، اور شان وشکوہ کا اظہار کرتے ہوئے بادہ انگور کے دور چلیں گے ، اونٹ ذبح ہوں گے ، عورتیں گائیں گی اور عرب ہماری کامرانی سے آگاہ ہوں گے ۔ چنانچہ یہ فخر وغرور کا مظاہرہ کرتے ہوئے جام پر جام لنڈھاتے ہوئے آئے اور شکست کھا کر لوٹے ، آیت کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان جب کسی جشن یا جنگ میں شریک ہوں تو متواضع ہو کر وقار ومتانت کو ہاتھ سے نہ دیں ، کیونکہ غرور کا سرنیچا ہے ۔ الانفال
48 (ف ١) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ شیطان سراقہ بن مالک کی شکل میں قریش کے پاس آیا اور کہنے لگا تم ضرور لڑو ، میں بنی کنانہ کی طرف سے ذمہ دار ہوں ، وہ تم سے تعرض نہیں کریں گے قریش اور بنی کنانہ میں باہمی عداوت تھی ) جب مکے والے میدان میں نکلے اور مسلمانوں سے مڈبھیڑ ہوئی تو یہ بھاگ کھڑا ہوا ، لوگوں نے کہا بھاگ رہا ہے ، سراقہ نے جوابا کہا تمہیں کیا معلوم بات کیا ہے ، فرشتے مسلمانوں کی اعانت میں آسمان سے نازل ہو رہے ہیں مجھے وہ کچھ نظر آرہا ہے جو تم نہیں دیکھ سکتے ، الانفال
49 (ف ٢) یعنی یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ منافقین نے کیونکر بزدلی کا ثبوت دیا ، انہیں تعجب تھا کہ مٹھی بھر مسلمان کس طرح غالب آجائیں گے وہ کہتے کہ یہ مذہب کی محبت میں اندھے ہو رہے ہیں ، مگر ان کو معلوم نہیں تھا کہ کامیابی کا تعلق ایمان وتوکل سے ہے ، اللہ اپنے دوستوں کو ذلیل نہیں کرتا ۔ حل لغات : ترآء ت : نظر پڑے ، دکھائی دینے ، نکص لوٹ گیا ، پھر گیا ، غر : غرور سے ہے یعنی دھوکا دیا ۔ الانفال
50 (ف ١) یعنی اگر ان منافقین کو یہ معلوم ہوجائے کو موت کے بعد ان کا کیا حشر ہونے والا ہے ، تو کبھی غداری کا ارتکاب نہ کریں اور آپ دیکھیں تو حیرت زدہ ہوجاویں ۔ الانفال
51 الانفال
52 (ف ٢) کدابھم : خبر ہے ، اور مبتداء محذوف ہے یعنی ان کی حالت بالکل آل فرعون کی سی ہے ، کیا ایمان ویقین کی آیات کو ٹھکراتے ہیں ۔ الانفال
53 اللہ کا قانون : (ف ٣) قوموں کے متعلق اللہ کا قانون یہ ہے کہ جب تک ان میں کوئی تبدیلی نہ پیدا ہو ، وہ خود ان میں تبدیلی پیدا نہیں کرتا ، یعنی ہر قوم جو باعروج ہے اور اس کے عروج کے اسباب وعلل ہیں ، جب تک وہ خود ذلت ومسکنت کے اسباب نہ پیدا کرے ، اللہ تعالیٰ اس کی نعمتوں کو ذلت سے نہیں بدلتا ۔ حل لغات : کداب : داب ، حالت شان ، کیفیت ۔ الانفال
54 الانفال
55 بدترین خلائق : (ف ١) یعنی جن کی آنکھیں انوار نبوت کو شب وروز دیکھیں اور نہ مانیں ، جو تیس سال تک آفتاب نبوت کو چمکتا ہوا دیکھیں ، اور ایمان کی حرارت وتمازت سے متاثر نہ ہوں ، ان کے متعلق اس کے سوا اور کیا کہا جائے ، کہ بدترین لوگ ہیں ۔ الانفال
56 الانفال
57 (ف ٢) یہود سے بنی قریظہ نے غداری کی اور مسلمانوں کے خلاف مشرکین مکہ کو مدد دی ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باز پرس کی تو کہہ دیا ہم بھول گئے تھے آئندہ محتاط رہیں گے ، غزوہ خندق میں پھر ان لوگوں کے ساتھ مل گئے ، اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ بار بار کی کی معاہدہ شکنی ناقابل برداشت ہے ، ان لوگوں کے معاہدہ کو توڑ دو ، اور عبرتناک سزائیں دو ، تاکہ دوسروں کو نصیحت ہو ، اور آئے دن کی شرارتوں سے امن ملے ۔ حل لغات : فشردبھم : تتر بتر کہ ہوئے ، فشرید کے معنی بری طرح منتشر کردینے کے ہیں ۔ الانفال
58 الانفال
59 الانفال
60 (ف ١) قوت کا مفہوم بہت وسیع ہے ، غرض یہ ہے کہ مسلمان تو دشمنوں کے مقابلہ میں ہر وقت صاحب قوت رہنا چاہئے ، توپ وتفنگ کے مقابلہ میں توپ وتفنگ ، اور علم وسنان کے مقابلہ میں علم وسنان ، جس طرح کے حالات ہوں جو ذرائع ہوں ، قوت وغلبہ کے حصول کے لئے وہ سب مسلمان کو معلوم ہونا چاہئیں ۔ ہر زمانے اور ہر دور میں مسلمان کے پاس قوت کا ایک خزانہ ہو ، جس سے وہ دشمنوں کو ڈرا دھمکا سکے ، مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ دشمنوں کے مقابلہ میں خوفناک وخطرناک رہے ، اگر حصول علم قوت کے مفہوم میں داخل ہو تو سب سے زیادہ عالم ہو ، اگر ثروت ودولت کے اسلحہ کی حاجت ہو ، تو سرمایہ دار بنے ، اگر سائنس اور علوم جدیدہ قوت کے مفہوم میں داخل ہوا اور اگر مادی قوتیں زیادہ لائق امتناء ہوں تو ان کا خیال رکھے ، غرض یہ ہے ، کہ بہر حال دوسروں کے مقابلہ میں عاجز نہ ہو ، الانفال
61 مذہب امن : (ف ١) غرض یہ ہے کہ اسلام صلح وآشتی کا مذہب ہے وہ از خود نہیں چاہتا ، کہ جنگ کی آگ بھڑکائی جائے البتہ جب مخالفین مجبور کردیں ، تو وہ بہادری کے ساتھ مقابلہ کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ (آیت) ” وتوکل علی اللہ “۔ سے مقصود یہ ہے کہ صلح کا میلان زیادہ رہے ، اور خدا پر بھروسہ کرکے ایک دفعہ مخالفین کو موقع دیا جائے کہ وہ بااعتماد ثابت ہوں اور جنگ رک جائے ، الانفال
62 الانفال
63 (ف ٢) یعنی مسلمانوں کے دلوں میں جو مضبوط وحدت واخوت کے جذبات ہیں ، اور دل ایک دوسرے سے وابستہ ہیں تو یہ محض اللہ کی مہربانی ہے کوئی دنیوی لالچ ان کو اس طرح ایک مرکز پر جمع نہیں کرسکتا ۔ اسلام سے پہلے عرب ہمیشہ باہم دست وگریبان رہتے ، ہر قبیلہ دوسرے قبیلے کا دشمن ہوتا اور چھوٹی چھوٹی باتیں فتنہ وفساد کی آگ کو بھڑکا دیتیں ، بچے جب پیدا ہوتے ، تو انتقام کی فضا میں بڑھتے ، اور پروان چڑھتے ، اس لئے وہ مخالفت وعداوت کے طوفان میں مبتلا رہتے ، اور بالطبع مسلسل لڑائیوں میں گرفتار ، اسلام آیا تو دلوں کے کینے دور ہوگئے سب مسلمان بھائی بھائی قرار پائے سب کا مفاد یکسان عزیز اور محبوب باہمی تفریق مٹ گئی ، اور مسلمان اللہ کے نام پر جمع ہوگئے ، اس آیت میں اسی نعمت کی طرف اشارہ ہے ۔ حل لغات : حرض : امر ہے ، تحریض کے معنی برانگیختہ کرنے کے ہیں ۔ الانفال
64 الانفال
65 (ف ١) (آیت) ” یفقھون “ سے غرض یہ ہے کہ کفار شہادت کی قدروقیمت سے آگاہ نہیں ، وہ موت سے ڈرتے ہیں اور مسلمان پوری جانبازی سے لڑتا ہے ، وہ جانتا ہے کہ جیئے تو غازی اور مرے تو شہید یعنی مسلمان کے لئے کامیابی کے زیادہ امکانات موجود ہیں اس لئے اسے چاہئے کہ کفار کی کثرت سے ہراساں نہ ہو ، کامیابی اسی کی ہے ۔ الانفال
66 الانفال
67 بدر کے قیدی : (ف ٢) جب بدر میں ستر آدمی قید ہو کر آئے جو نہایت مفسد اور شریر تھے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین سے پوچھا کہ انہیں کیا کیا جائے ، حضرت ابوبکر (رض) نے مشورہ دیا کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے اور جان بخشی کی جائے ، شاید انہیں رجوع کی توفیق مرحمت ہو ۔ حضرت عمر (رض) کی رائے تھی انہیں جان سے مار دیا جائے کیونکہ مفسد ہیں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ابوبکر (رض) کی رائے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور مسیح (علیہ السلام) کی طرح ہے ، دونوں نے مغفرت کی طلب کی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” فمن تبعنی فانہ منی ومن عصانی فانک غفور رحیم “۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے دن یوں فرمائیں گے ، (آیت) ” ان تعذبھم فانھم عبادک وان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم “۔ اور عمر (رض) نے حضرت نوح (علیہ السلام) کا سا مطالبہ کیا ہے (آیت) ” رب لا تذر علی الارض من الکفرین دیارا “۔ اور بالآخر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جذبہ رحم حضرت ابوبکر (رض) اور دیگر صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین کے ساتھ متحد ہوگیا ، جو فدیہ کی رائے دیتے تھے ، قرآن کی نظر میں چونکہ یہ لوگ خطرناک مجرم تھے اور ان کا چھوڑ دینا امن عامہ کے لئے سخت مضر تھا ، اس لءے یہ آیات نازل ہوئیں کہ فدیہ لے کر چھوڑ دینے میں غلطی ہوئی ، انہیں جان سے مار دینا چاہئے تھا ، (آیت) ” یریدون “ سے مراد عوام ہیں جو کہ اخلاص کی وجہ سے نہیں بلکہ مال ومتاع کی وجہ سے فدیہ لینے کی رائے دیتے تھے ۔ الانفال
68 الانفال
69 (ف ١) یہودیوں میں غنیمت کا استفادہ ناجائز تھا انہیں حکم تھا کہ جو کچھ میدان جنگ میں ہاتھ آئے آگ کی نذر کر دو ، کیونکہ وہ بہت درجہ حریص ہوگئے تھے ، ضرورت اس بات کی تھی ، کہ ان میں زیادہ سے زیادہ اخلاص پیدا کیا جائے ، مسلمانوں کو اس آیت میں بتایا کہ تمہیں مال غنیمت کا استعمال درست ہے ، حل لغات : اسری : جمع اسیر ، بمعنے قیدی ۔ حتی یثخن : مصدر اثخان ہے اچھی طرح خون بہانا ، ثخن بمعنی حجم سطری ۔ الانفال
70 الانفال
71 الانفال
72 حفظ عہد (ف ١) مقصد یہ ہے کہ انصار اور مہاجرین باہم بھائی بھائی ہیں ، ان میں باہمی اعانت کا ہر طریق جاری رہنا چاہئے ، مگر وہ لوگ جو مومن تو ہیں ، اور ہجرت سے محروم رہے ، انہیں مہاجرین وانصار کی حمایت وولایت کا قطعی استحقاق نہیں ، جب تک کہ وہ اللہ کے لئے ہجرت اختیار نہ کریں ، البتہ دینی امانتیں بہرحال قائم رہیں گی ، مخالفین اگر ان مسلمانوں کو کمزور سمجھ کر ستائیں یا تکلیف دیں ، تو اس صورت میں ہر مسلمان اخلاقی ودینی طریقی سے اپنے بھائیوں کی اعانت کرے گا ، ہاں اگر مسلمان ان لوگوں سے تعرض کریں ، جن سے مہاجرین وانصار عہد ومیثاق کرچکے ہیں تو اس وقت حفظ عہد کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمانوں کی مدد نہ کی جائے کیونکہ پاس میثاق بہرحال ضروری ہے اور جن سے عہد کیا گیا ہے ، نبھایا جائے ۔ الانفال
73 (ف ١) یعنی بفہوائے الکفر مسلئۃ واحدۃ ۔ تمام کافر کفر کی تائید پر کمربستہ ہیں اور آپس میں اتحاد واخوت کے تعلقات قائم رکھتے ہیں جہاں کہیں اور جب کہیں اسلام سے تصادم ہوتا ہے ، یہ سب اکھٹے ہوجاتے ہیں اور اپنے اختلافات کو بھول جاتے ہیں ، اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ بھی متحد الکلہ رہیں اور پوری طرح ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ رہیں ورنہ کفر مسلمانوں کے خلاف ایک طوفان پیدا کر دے گا ، کیونکہ کفر واسلام میں ایک دائمی جنگ اور ایک مستقبل آویزش ہے ۔ الانفال
74 الانفال
75 (ف ١) (آیت) ” واولوالارحام بعضھم اولی ببعض “۔ سے مقصود یہ ہے کہ ہجرت اور اسلام کے تعلقات میں باہمی تناصر وتعاون ضروری ہے ، مگر میراث قرابت والوں کا حصہ ہے ، اس میں مہاجرین شریک نہیں ہو سکتے ۔ بات یہ تھی کہ انصار نے مہاجرین کو جب بھائی کہا تو اپنے مال سے ان کا حصہ بھی مقرر کیا اس سے قرابت والوں کی حق تلفی ہوئی اس لئے یہ آیت نازل ہوئی ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں محض اسلام کی وجہ سے کس درجہ خلوص تھا کوئی قوم اور کوئی مذہب اس طرح کی عظیم الشان اخوت وبرادری کی مثال نہیں پیش کرسکتا ۔ ان لوگوں کا مطمح نظر محض اللہ کے لئے جینا اور اللہ کے لئے مرنا تھا ، اس لئے وہ مال ودولت کو ایک بھائی کی محبت کے مقابلہ میں نہایت حقیر فی خیال کرتے تھے ۔ الانفال
1 سورہ براء ۃ : حدیث میں اس کے مختلف نام آئے ہیں ’ التوبہ ، الفاصحۃ اور المبحوث ‘ وغیرہا ، یعنی جب میں توبہ کا ذکر ہے ، منافقین کو ذلیل کیا گیا ہے اور مشرکین کے حالات پر پوری بحث کی گئی ہے ، اس کے سرعنوان بسم اللہ درج نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ عرجب نقض عہد کے لئے اعلان لکھتے تو اس میں بسم اللہ نہیں ہوتی تھی ، قرآن نے بھی اس مذاق کی رعایت رکھی ہے اور اس میں بسم اللہ نہیں پڑھا ہے ۔ غالبا اس لئے بھی بسم اللہ کی ضرورت نہیں کہ انفال وتوبہ گو الگ الگ دو سورتیں ہیں مگر معنا متحد ہیں ، اور مضمون کے اعتبار سے دونوں کو ایک ہی سورۃ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ التوبہ
2 اعلان استقلال : (ف ٢) اس سورۃ میں اعلان استقلال ہے مشرکین مکہ نے بار بار نقض عہد کا ارتکاب کیا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تبوک کی طرف جانے لگے تو انہوں نے پوری کوشش کی کہ آپ کی غیر حاضری میں غلط سلط افوائیں مشہور کی جائیں ، اس لئے یہ سورت نازل ہوئی ، جس میں واضح الفاظ میں کہہ دیا گیا کہ آج سے ہم تم سے کوئی عہد ومیثاق نہیں رکھتے تمہیں چار ماہ کی مہلت ہے جہاں چاہو ، ٹھکانا طے کرلو ، اس کے بعد یا اسلام قبول کرو ، اور یا جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ ، اب زیادہ دیر تک تمہاری شرارتوں کو برداشت نہیں کیا جا سکتا ۔ حضرت علی (رض) اور حضرت ابوبکر (رض) حج کے دن یہ اعلان لے پہنچے ، اور ایک ایک کے کان تک اس کو پہنچایا ، غرض یہ تھی کہ اس بلدہ طیبہ میں کفر ونفاق کی جڑ کٹ جائے ، اور یہ خطہ مقدس ہر نوع کی خباثتوں سے پاک ہوجائے ۔ (آیت) ” الا الذین عاھدتم “ سے مقصود وہ لوگ ہیں جنہوں نے نقص عہد کا ارتکاب نہیں کیا اور معادہ حدیبیہ کی پابندی کی ان لوگوں کے متعلق ارشاد ہے کہ اس مدت سے مستثنی ہیں ۔ حل لغات : برآء ۃ : کے معنی انقطاع ، یعنی کسی تعلق ورشتہ کو منقطع کر دیان ۔ اذان : اطلاع ۔ الحج الاکبر : یوم النحر ، اشھرالحرم ، ۔ ذوالقعدہ ۔ ذوالحجہ ، محرم اور رجب ان میں جدال وقتال ممنوع ہے ۔ التوبہ
3 التوبہ
4 التوبہ
5 (ف ١) اعلان جنگ کے بعد جنگ ضروری ہے اس میں کوئی دوستی اور مداہنت روا نہیں ، جب کفر وشرک کی اذیتیں حد سے گذر جائیں جب اللہ کے بندوں کو محض ایمان کی وجہ سے مصائب کا آماجگاہ بنا لیا جائے ، جب اللہ سے دوستی کفر کے لئے باعث تکلیف ہو اور مسلمان کے لئے باعث ابتلا ، تو اس وقت آخری فیصلہ کی حاجت ہے یعنی جنگ اور اعلان کے بعد مشرک کے لئے کہیں جائے پناہ نہیں ، اس وقت بےدریغ قتل کرنا ہی خلق خدا کے ساتھ رحم کرنا ہے اس وقت شرارت وفساد کو بیخ وبن سے اکھاڑ ڈالنا ہی امن وسل امتی ہے ۔ البتہ اگر مشرک تائب ہوجائے ، کافر اسلام قبول کرلے ، اور نیک بننے کا عہد کرلے تو پھر اللہ کی آغوش رحمت واہے ، اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی ، التوبہ
6 پناہ دو : (ف ٢) ان حالات میں محض جبکہ کفر واسلام کے مباین جنگ کا آغاز ہوچکا ہو ، جب تلواریں نیام سے کھچ چکی ہوں ، اور خون کی ندیاں بہ رہی ہوں ، اگر کوئی مشرک تمہاری پناہ میں آجائے تو تمہارا اسلامی فرض یہ ہے کہ اسے پناہ دو کیونکہ اسلام کی جنگ صرف اس سے ہے جو اس کے ساتھ برسرپیکار ہے ۔ التوبہ
7 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ معاہدہ کیوں کر قائم رہ سکتا ہے جب ان کے دلوں میں مسلمان کے خلاف سخت جذبات غیظ وغضب مشتعل ہیں اور موقع آنے پر یہ ذرا بھی نہیں چوکتے ، مسلمان چاہے عزیز ہو ، چاہے قریبی ، یہ لوگ وقت پر وار کرنے سے باز نہیں آتے ۔ زبان سے ضرور کہتے ہیں ہم تمہارے دوست ہیں ، مگر دل میں بدستور خبث پنہاں ہے ۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ آج بھی مشرک کی یہی ذہنیت ہے مسلمان سے جب ملے گا تو نہایت عجز وانکسار کے ساتھ زبان سے نہایت میٹھا ہے ، مگر دل کا کڑوا اور ناپاک ہے ۔ حل لغات : الا : قرابت ، رشتہ داری ۔ ذمۃ : عہد ۔ التوبہ
8 التوبہ
9 التوبہ
10 التوبہ
11 التوبہ
12 التوبہ
13 اسباب جنگ : (ف ١) ان آیات میں بتایا ہے کہ جب مشرکین کی ذہنیت یہ ہے کہ وہ تمہیں نقصان پہنچانے سے باز نہیں آتے جب کہ وہ کسی عہد کی رعایت نہیں رکھتے ، حدیبیہ کے عہد مصالحت کی انہوں نے مخالفت کی جگہ انہوں نے دارالندوہ میں بیٹھ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکال دینے کی سازش کی ، اور جب کہ بدر میں انہوں نے چھیڑ کا آغاز کیا ، کرزبن جابر الفہری کو بھیجدیا ، کہ جا کر مدینے مسلمانوں کے اونٹ چرا لائے ، گویا تین سو میل کے فاصلہ پر بھی وہ مسلمانوں کو چین سے نہیں رہنے دیتے تھے ۔ اور جبکہ وقتا فوقتا انہوں نے اپنے طرز عمل سے دعوت دی ہے تو پھر اب تمہیں ان سے لڑنے میں تامل کیا ہے ۔ ؟ یعنی اب پیمانہ صبر لبریز ہوچکا ہے ، ہر رواداری اور ہمدردی کو بالائے طاق رکھدو ، اللہ نے یہ طے کرلیا ہے کہ کفر ذلیل ہو ، اور انہیں اپنے کئے کی سزا مل جائے ، یاد رکھو ، فتح وکامرانی تمہارے حصے میں آئے ، گی ، ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام یا تو جنگ کو جائز قرار نہیں دیتا ، اور یا پھر جب کہ ضرورت محسوس ہو ، بزدلی کو روا نہیں رکھتا ۔ ان آیات میں صاف صاف مذکور ہے کہ آغاز ان کی جانب سے ہے زیادتی انہیں کی ہے اسلام صرف بہادرانہ مدافعت چاہتا ہے ۔ حل لغات : نکثوا : نکث اور نقض ، مترادف لفظ ہیں ۔ ائمہ : جمع امام یعنی سردار یا لیڈر ۔ التوبہ
14 التوبہ
15 التوبہ
16 (ف ١) غرض ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو امتحان میں ڈالتا ہے اور جب تک مجاہدین اور وہ لوگ جو صرف مسلمانوں کے دوست ہیں ، عام منافقین سے الگ اور ممتاز نہ ہوجائیں ، اللہ برابر ابتلاء آزمائش کے مواقع پیدا کرتا رہتا ہے ۔ (آیت) ” ولما یعلم اللہ “ سے مقصود یہ ہے کہ وہ جب تک ان سے جہاد اور اسلام دوستی کو محسوس طور پر خدا کے علم میں نہ لے آئیں کیونکہ خدا تو بہرحال عالم ہے ۔ التوبہ
17 (ف ٢) غرض یہ ہے کہ بیت اللہ کی تولیت کا مشرکین مکہ کو کوئی استحقاق نہیں کیونکہ وہ بت پرست ہیں اور بانی کعبہ موحد تھا ، اس کی تولیت تو انہی لوگوں کو دی جا سکتی ہے جو مسلک ابراہیم پر کاربند ہیں ، جو مومن ہیں اور صلوۃ وزکوۃ کے پابند ہیں ۔ غرض یہ ہے کہ مساجد پر قبضہ صرف ان لوگوں کا رہے گا جو اللہ کے مشن کو پورا کرتے رہیں گے ، وہ لوگ جنہیں دین سے کوئی واسطہ نہیں جو فسق وفجور میں مبتلا ہیں ، انہیں کیا حق حاصل ہے کہ اللہ کے گھر کی پاسبانی کریں ۔ حل لغات : ولیجۃ : ولوج سے مشتق ہے جس کے معنی اندر آنے کے ہیں ۔ یہ اس شخص کو کہتے ہیں جو محرم راز دوست وہ مفرد وجمع دونوں کے لئے مستعمل ہے ۔ التوبہ
18 مفاخر قریش : (ف ١) قریش مکہ مسلمانوں سے فخریہ کہتے ، ہم تم سے اچھے ہیں ، بیت اللہ کے خادم ہیں ، حاجیوں کو پانی پلاتے ہیں ، ان کی مہمان نوازی کرتے رہیں ، اور بیت اللہ کی آبادی کا خیال رکھتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان مفاخر کا جواب دیا ہے کہ جب تک ایمان نہ ہو ، یہ فضائل قبول نہیں ، جب تم بناء کعبہ کے مقصد سے ہیں نا آشنا ہو تو تمہیں کیا فضیلت حاصل ہوسکتی ہے ، افضل وہ ہیں جو ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہیں ، جن کے دلوں میں ایمان جوش وحرارت ہے ، جو اس کے نام پر دشمنوں سے لڑ سکتے ہیں ، نہ وہ لوگ جو چھوٹی چھوٹی خدمات پر خوش ہیں ، اور روح دین سے بیگانہ ہیں ۔ التوبہ
19 التوبہ
20 التوبہ
21 التوبہ
22 (ف ١) ان آیات میں ان لوگوں کے درجات گنائے ہیں جنہوں نے ایمان کی نعمت کو قبل کیا اور اللہ کی راہ میں مالی وجانی جہاد کی ، فرمایا ان کے مرتبے بہت بلند ہیں ، یہ دراصل فائز اور کامیاب ہیں ، اللہ نے انہیں سند رضا عنایت کر رکھی ہے ، ان کے لئے جنات کے دروازے کھلے ہیں ، یہ اجر عظیم کے مستحق ہیں ، غور کرو ، قران جنہیں مہاجر ومجاہد کے لقب سے نوازے جنہیں جائزوکامران کہے جنہیں ادائے رضا دے جن کے مرتبے بلند کرے ، جنہیں اجر عظیم کا مستحق قرار دے ، انکی شان کتنی بلند ہوگی ، اور ان کا رتبہ کتنا اونچا ہوگا ۔ حل لغات : نعیم مقیم : دائمی نعمت ، ابدا : ہمیشہ ۔ التوبہ
23 (ف ١) غرض یہ ہے کہ اسلام کے بعد پرانے تعلقات منقطع ہوجاتے ہیں ، اور نئے رشتے استوار ہوتے ہیں ، وہ لوگ جو منکر ہیں ، جنہوں نے کفر کو ترجیح دی اور ایمان کو ٹھکرا دیا ، ان سے ایک مسلم کا کوئی رشتہ ناطہ نہیں ‘ وہ اخلاقی اعانت کے مستحق ہیں ، مگر اس بات کی اجازت نہیں کہ مسلمان انہیں معتمد سمجھیں ، اور ان سے مسلمانوں کے راز کی بات کہہ دیں ان پربھروسہ کرنا گناہ ہے کیونکہ ان کے تعلقات ذاتی طور پر مسلمان کے ساتھ ہو سکتے ہیں ، مگر بالعموم وہ اسلام کی شان وشوکت کو نہیں دیکھ سکتے ۔ بات یہ ہے کہ جب اعلان برات ہوا اور صاف طور پر کفر سے علیحدگی اختیار کرلی گئی تو اس وقت صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین نے کہا ، ہمارے مکہ والوں سے تعلقات ہیں ، رشتہ داریاں ہیں ، یہ کیسے لچھوٹ سکتی ہیں ، اس پر اللہ نے فرمایا ، ان سے دوستداری کے اتفاقات منقطع ہیں ، اور جو اس واضح اعلان کے بعد بھی ان سے تعلقات قائم رکھے گا ، وہ ظالم ہے ۔ یعنی سیاسی مصالح کا اقتضاء یہ ہے کہ مخالفین پر اعتماد نہ کیا جائے ۔ التوبہ
24 دین کی محبت : (ف ٢) غرض یہ ہے کہ مسلمان رشتہ اطاعت کو ہر آن ملحوظ خاطر رکھے ، اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں تمام تعلقات کو ٹھکرا دے ۔ اور جو شخص اس طرح دار محبت کی دولت سے بہرہ ور نہیں جس کی لگن دنیوی مال اور عزیز واقارب سے زیادہ ہے جو ان بندھنوں میں بندھا ہے ، اور ایثار وقربانی کے جذبہ سے محروم ہے ، وہ فاسق ہے اسے عذاب الہی کا منتظر رہنا چاہئے مسلمان وہ ہے جو ہر گھاٹے اور نقصان کو برداشت کرلے ، مگر دین کا نقصان اور دین کا گھاٹا اس کے لئے ناقابل برداشت ہو ۔ التوبہ
25 غزوہ حنین : (ف ١) ٨ ھ؁ میں فتح مکہ کے بعد ہوازن وثقیف کے قبیلوں نے جنگ کی طرح ڈال دی ان کا خیال تھا کہ اگر ہم نے مسلمانوں کو شکست دے دی ، تو مکہ والوں کی تمام جائیداد جو طائف میں ہے ، وہ ہماری ہوجائے گی ، اور ہم مسلمانوں سے بت شکنی کا انتقام بھی لے سکیں گے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مقابلہ کے لئے نکلے ، تو ایک جم غفیر ساتھ ہوگیا ، جس کی تعداد تقریبا بارہ ہزار تھی اس لئے مسلمان مغرور تھے ، نہایت بےپروائی سے لڑے ، نتیجہ یہ ہوا کہ شکست کھائی ، اور میدان سے بھاگ نکلے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہاڑ کی طرح کھڑے رہے ، اور آپ نے للکار للکار کر کہا ۔ انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب : آپ کے استقلال کو دیکھ کر اور دعوت کو سن کر مسلمان پھر جمع ہوگئے ، اللہ نے ان کی گھبراہٹ دور کی ، اور فرشتے تسلی کے لئے نازل فرمائے ، اور بالآخر مسلمانوں کو عظیم کامیابی ہوئی ، اس آیت میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔ التوبہ
26 التوبہ
27 التوبہ
28 مشرک ناپاک ہیں !: (ف ١) یعنی مشرک عقیدوں کے ناپاک اور دلوں کے خبیث ہیں ، اس لئے اعلان برات کے بعد انہیں بیت الحرام کے قریب نہ آنے دیا جائے ، مقصد یہ ہے کہ یہ خط پاک خالصۃ ایا ہو جس میں شرک وبت پرستی کے جراثیم کلیۃ ناپیدا ہوں ، تاکہ یہاں سے توحید خالص کے چشمے پھوٹیں اور ایک دنیا کو سیراب کردیں ۔ التوبہ
29 جزیہ : (ف ٢) یہود بنی قریظہ وبنی نضیر باوجود اس کے کہ مسلمانوں سے پرامن رہنے کا وعدہ کرچکے تھے ، پھر بھی شرارت اور انگیخت سے باز وآئے ، اس آیت میں ان سے مقاتلہ وجہاد کی اجازت دی گئی ہے یعنی ان کی شرارتیں چونکہ حد سے زیادہ بڑھ گئی ہیں اور یہ اپنے عہد پر قائم نہیں رہے ، اس لئے ان سے جہاد کرو ، جب تک کہ جزیہ نہ دیں ، جزیہ ایک رقم ہے جو مصالحین سے لی جاتی ہے ، شرعا تعین نہیں کہ کس قدر ہو ، اس ٹیکس کے مقصد دو ہیں ، ایک تویہ کہ ان کی ذلت وتحقیر کا احساس ہو ، اور پھر کبھی مسلمانوں کے خلاف آمادہ جنگ نہ ہوں ، دوسرے کہ یہ ان سے حفظ امن کے لئے بطور معاوضہ کے یہ رقم لی جائے اور انہیں فوجی خدمات سے مستثنے کردیا جائے ، حل لغات : نجس : بفتح الجیم ، عقیدے کا ناپاک ، صاغرون : ذلیل ، جھوٹے ۔ التوبہ
30 (ف ١) یہود مدینہ کا عقیدہ تھا کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) خدا کے بیٹے ہیں ، موجودہ یہودی اس بات کے قائل نہیں ، نصرانی اب تک مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں ۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ یہ بت پرستانہ عقیدہ اللہ کے دین پر افتراء ہے عیسائیوں نے اسے کفار کی تقلید میں گھڑ لیا ہے ۔ التوبہ
31 (ف ٢) احبار ورہبان کو خدا ماننے کے معنی یہ ہیں ، کہ وہ علماء ومشائخ کی باتوں کو اندھا دھند بلا تحقیق کے مان لیتے تھے ، اور وہ اپنا الو سیدھا کرنے کے لئے انہیں ہمیشہ گمراہی میں مبتلا رکھتے اور ہمیشہ الٹی سیدھی باتوں کی تلقین کرتے رہتے ، حالانکہ اللہ نے توحید کی تعلیم دی ہے ، جو روشنی اور تنویر کی تعلیم ہے جس میں انسانیت کا اعزاز ہے ، غرض یہ ہے کہ اندھی عقیدت ناجائز ہے ۔ التوبہ
32 (ف ٣) یعنی کفار چراغ ہدایت کو بجھانے کی فکر میں ہیں ، اور یہ نہیں جانتے کہ اللہ کا فیصلہ کیا ہے ، اللہ چاہتا ہے کہ اس روشنی کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے ، وہ پوری کوشش کر دیکھیں ، یہ مصباح منیر روشن ہی رہے گا ۔ حل لغات : احبار : جمع حبر ، بمعنی دانشمندان وعلماء یہود یعنی عابد وزاہد قوم نصارے وترسایان ۔ التوبہ
33 دین غالب : (ف ١) اسلام کی فطرت میں ایسی خصوصیات موجود ہیں ، جن کی وجہ سے یہ کائنات انسانی کا مشترکہ مذہب قرار دیا جا سکتا ہے ، اس میں توحید ہے ، مساوات ہے ، تمام انسانوں کا احرام ہے ، مکان وزمان کی حدود سے وراء ہے تعصبات سے پاک ہے مختصر ہے ، واضح ہے عمل ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ بادلیل ہے ۔ اس لئے عالمگیر غلبہ وسطوت کے لئے جن محاسن کی ضرورت ہے ، وہ اس میں موجود ہیں ، دنیا کا علم پڑھنے دو تم دیکھو گے کہ اسلام اور عقل تجربہ دونوں ایک ہیں اور ان میں کوئی منافات نہیں ۔ التوبہ
34 (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ (یعنی یہودی) صرف شرک وبت پرستی میں مبتلا نہیں ، ان میں اخلاقی برائیاں بھی موجود ہیں ۔ علماء ومشائخ جو صحیح معنوں میں قومی اخلاق وعادات کے آئینہ دار ہوتے ہیں ، ان کی یہ حالت ہے کہ اکل حلال کی توفیق سے محروم ہیں مشخیت وعلم کو ذریعہ معاش بنا لیا ہے طرح طرح سے لوگوں کو ٹھگتے ہیں ، اور ہر دینی اصلاح کی مخالفت کرتے ہیں ، تاکہ لوگ ان کے دام تزویر میں بدستور پھلے رہیں ، عوام میں حرص وآز کے جذبات زیادہ ہیں ، ان کی زندگی محض روپیہ اکٹھا کرنا ہے ، مذہب وایثار سے کوئی واسطہ ہی نہیں ، دن رات دولت کی دھن میں لگے ہوئے ہیں ، ان کے لئے آخرت میں یہ عذاب ہے ، کہ سونے چاندی کے یہی سکے جو خدا جانے انہوں نے کن کن سے جمع کئے ہیں ، گرم کر کر کے ان کے ہاتھوں پر لگائے جائیں گے ، اور انہیں سے ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی ، اسلام روپیہ اکٹھا کرنے کو ناجائز قرار نہیں دیتا ، البتہ وہ مال جسے غلط اور ناجائز ذرائع سے جمع کیا جائے اور وہ مال ، جس میں سے اللہ کی راہ میں کچھ نہ دیا جائے ، ضرور منحوس ہے ۔ حل لغات : بالباطل : بمعنی ناحق ، ناچیز ، الذھب : سونا ۔ الفضۃ : چاندی ۔ جباھہم : جمع حبہ بمعنی پیشانیاں ۔ التوبہ
35 التوبہ
36 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ مسلمان اشہر حرم میں جدال وقتال کو درست نہیں سمجھتا ، البتہ اگر اسے مجبور کردیا جائے ، تو پھر وہ دریغ نہ کرے ۔ اپنی تمام قوتوں کو کفر کے مقابلہ کے لئے جمع کرے ۔ التوبہ
37 (ف ١) عربوں میں عام قاعدہ یہ تھا کہ حرمت کے چار مہینوں میں جدال وقتال سے باز رہتے ، اور ان مہینوں میں جنگ کو ناجائز خیال کرتے ۔ مگر جب ان کی ذاتی مصلحتیں جنگ کی آگ بھڑکا دیتیں ، اور انہیں اس آگ میں کودناپڑتا ، تو پھر اشہر حرم کا لحاظ نہ کرتے ، اور کہتے اس وقت تو لڑو ، بعد میں چار مہینے نہ لڑیں گے ، اللہ کا منشاء اس سے پورا ہوجائے گا ۔ قرآن کہتا ہے ، یہ کفر ومعصیت ہے ، چار مہینوں کی حد بندی کا مقصد تو یہ تھا کہ تم صلح وامن کی برکات سے آگاہ ہوجاؤ اور جب کہ تم برابر ایک دوسرے کے دشمن ہو ، اس حد بندی کا کیا فائدہ ؟ اس نوع کی حیلہ جوئی ، جس سے اللہ کے قانون کی مخالفت لازم آئے ، ناجائز ہے ۔ حل لغات : النسیٓء : موخر کرلینا ، فعیل ہے مفعول کے معنوں میں ہے ، نسات الشیء کے معنی ہوتے ہیں ، اخرتہ : کے یعنی میں نے اسے مؤخر کردیا ہے ۔ التوبہ
38 التوبہ
39 تخلف گناہ ہے ! : (ف ١) غزوہ تبوک میں کچھ لوگ پیچھے رہ گئے تھے ، ان آیات میں ان کو مخاطب فرمایا ہے ، کہ جب جہاد کا نون عام ہوجائے تمہیں تخلف کی اجازت نہیں ، انداز بیان میں بہت زور ہے ، یوں سمجھ لیجئے ، خطبہ حرب ہے ، ہر شخص کو پکار کر کہا ہے کہ جہاد سے پیچھے نہ رہو ، جب اللہ تمہیں دعوت ایثار دیتا ہے ، تو تخلف کیسا ، کیا دنیا کی حقیر زندگی پر قانع ہوگئے ؟ کیا آخرت میں شہداء کے درجات سے آگاہ نہیں ؟ اس کے بعد یہ بتایا ہے کہ اللہ کی نصرت تمہاری زہین منت نہیں ، تمہیں معلوم ہے کہ جب رسول یکہ وتنہا مکہ سے نکل کھڑے ہوئے تھے ، اور تاریک غار کو انہوں نے اپنا مسکن بنایا تھا ، اس وقت ہم نے ان کی مدد کی ، اور کفار کی نظروں سے انہیں بچائے رکھا ۔ مقصد یہ ہے کہ اب بھی وہ رسول کی نصرت پر قادر ہے (آیت) ” ثانی اثنین “ سے مراد حضرت صدیق ہیں ۔ جو ہجرت میں آپ کے رفیق سفر تھے ، غار میں حضرت صدیق (رض) عشق نبوی کی وجہ سے گھبرا رہے تھے کہ کہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار کی گرفت میں نہ آجائیں ، اسی لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جوابا کہا (آیت) ” ان اللہ معنا “ یعنی اللہ کی نصرتیں ہمارے شامل حال ہیں ، تم بےفکر رہو ۔ بعض کوتاہ اندیشوں نے یہ سمجھا کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو اپنی گرفتاری کا ڈر تھا ، کمبخت یہ نہیں سوچتے کہ جس نے عمر (رض) پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت کی ، جو سب کچھ چھوڑ کر گھر سے نکلا ہے اسے اپنی نسبت کیا خوف ہو سکتا ہے اگر صدیق کی گھبراہٹ اپنی وجہ سے ہوتی تو کہا جاتا ، ان اللہ معک ، کہ گھبراؤ نہیں ، تمہارا خدا تمہارے ساتھ ہے ، کہا یہ گیا ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے یعنی تجھ کو بنائے محبت میری گرفتار کا ڈر ہے اس کو دل سے نکال دے ، التوبہ
40 خدا کی بات : (ف ١) غار ثور میں جب آفتاب نبوت جا کر چھپا ہے تو کرنیں پھوٹ پھوٹ کر باہر نکل رہی تھیں ، دہانہ غار پر کفار موجود تھے ، ان کے پاؤں کی چھاپ صاف سنائی دیتی تھی ، اسی لئے حضرت ابوبکرصدیق (رض) گھبرائے مگر ان کی بصارت گم تھی ، خدا یہ چاہتا تھا کہ اس کی تدبیر کارگر ہو ، اس کی بات بلند ہو ، اور یہ خائب وخاسر رہیں ، چنانچہ یہ لوگ ناکام واپس ہوئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت میں کامیاب ہوئے غار ثور سے جب یہ آفتاب وماہتاب نکلے ہیں تو مدینہ چمک اٹھا ، اللہ کا جلال چاروں طرف پھیلا ، چند ہی دنوں میں مکے والوں کو معلوم ہوگیا کہ انہوں نے سخت غلطی کی ہے ، اور وہ تمام برکات سے محروم ہوگئے ہیں ۔ التوبہ
41 (ف ٢) اعلان عام کے بعد ہر مسلمان پر لازم ہوجاتا ہے کہ میدان جہاد میں نکل کھڑا ہو ، چاہے کیسی حالت ہو ، کیونکہ اسلام کی عزت وحرمت کے لئے کٹ مرنا مسلمان کے لئے عین سعادت وبرکت ہے مسلمان کا اللہ سے عہد ہے ، کہ جب تک جئے گا ، اسلام کی عزت کو بچائے گا ۔ حل لغات : انفروا : لفظ نفر سرعت کو متضمن ہے صاحب ، عام طور پر مخلص کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ، اور آدمیوں کے گروہ کو بھی نفر کہتے ہیں جس میں کم سے کم تین اور زیادہ سے زیادہ دس آدمی ہوں ۔ قاصدا : درمیانہ آسان ۔ الشقۃ : سفر امید ، بعض نے اسے بالکسر بھی پڑا ہے ۔ التوبہ
42 (ف ١) بات یہ ہے تبوک کا مقام دور تھا موسم بھی گرم تھا ، مقابلہ پر رومی تھے ، اس لئے منافقین اور کمزور عقیدے کے لوگ گھبرا گئے بعض لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دھوکا دیا ، انہوں نے یہ ظاہر کیا کہ وہ معذور ہیں ، اگر استطاعت ہوتی ، تو ضرور ساتھ دیتے ، اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں انکی منافقت کا اظہار کردیا ، اور بتا دیا کہ یہ جھوٹے ہیں ۔ التوبہ
43 (ف ٢) مقصد یہ ہے کہ متخلفین کو اجازت دینے میں آپ سے تسامح ہوا ہے ، چاہئے یہ تھا کہ چندے انتظار فرما لیتے اور دیکھ لیتے کہ اللہ تعالیٰ ان کے باب میں کیا تصریحات نازل فرمانے والا ہے ۔ (آیت) ” عفا اللہ عنک “ ۔ کہہ کر بدرجہ غایت تلطف ومہربانی کا اظہار فرمایا ، جس کے معنی یہ ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہر تسامح چونکہ ایک بلند اخلاقی نصب العین کے ماتحت صادر ہوتا ہے ، اس لئے ابتدا ہی سے درخور عفو ہے ، گو اس سے منشاء الہی کی مخالفت ہو ۔ آپ نے انہیں اجازت اس لئے مرحمت فرما دی کیونکہ آپ کی فطرت میں عفو وکرم بدرجہ اتم موجود تھا ، آپ پیغمبرانہ محبت والفت کی وجہ سے مجبور تھے کہ ان کی معذرت قبول فرما لیں ۔ التوبہ
44 التوبہ
45 التوبہ
46 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ اذن طلبی میں مخلص نہیں منافق ہیں ، اگر جہاد کے لئے پہلے سے تیار ہوتے اور ان کے دلوں میں ایمان کی حرارت موجود ہوتی ، تو عذر ومعذرت کی قطعی ضرورت نہ تھی ، یہ تردد یہ بےچینی یہ حیص بیص ان میں بالکل نظر نہ آنا ، اور اصل بات یہ ہے کہ اللہ کو یہ منظور ہی نہیں تھا کہ اس قسم کے کمزور لوگ جہاد میں نکلیں ۔ التوبہ
47 جاسوس : (ف ٢) یعنی یہ لوگ اگر میدان جہاد میں جاتے جب بھی مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہ پہنچاتے اس وقت یہ مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرتے اور مخالفین سے ملے رہتے جس طرح کہ اس سے پہلے ان لوگوں نے ہمیشہ کفر کا ساتھ دیا ہے اس لئے ان کا عدم شمولیت باعث افسوس نہیں باعث مسرت ہے ۔ حل لغات : خبالا ۔ بمعنے تباہی ، گمراہی ہلاک ورنج ، خبل بفتحتین کے معنی دیوانگی کے ہیں ۔ التوبہ
48 التوبہ
49 (ف ١) گویا نفاق وبزدلی بجائے خود فتنہ ہے آزمائش ہے کفر ہے غضب الہی کا سبب ہے ، منافق جہاد سے بچنے کے لئے معذرت کرتے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یاد رکھو ، اللہ تمہارے نفاق سے آگاہ ہے ۔ التوبہ
50 (ف ٢) اس آیت میں منافق کی نفسیات بتائی ہیں کہ یہ مسلمانوں کی مصیبتوں پر خوش ہوتے ہیں اور ان کی کامیابیوں پر جلتے ہیں ۔ التوبہ
51 مولے : (ف ٣) مولے کا اشتقاق ولایت سے ہے ، جس کے معنی نصرت ودوستی کے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ مسلمانوں کا کارساز اور دوست ہے کیا یہ محبت وشفقت کا آخری تخیل نہیں ؟ جہاں وہ رب ہے مالک وقادر ہے وہاں مسلمانوں کے لئے وہ نہایت درجہ رحیم ہے جس کے رحم میں دوستانہ اور محبانہ بےتکلفی اور مرحمت ہے ، خدا کو باپ کہہ کر فخر کرنے والے مولے ، کی جامعیت پر خود غور فرمائیں ۔ التوبہ
52 (ف ١) غرض یہ ہے کہ منافقین مسلمانوں کے لئے دو باتوں کے منتظر رہتے ، غنیمت کے ، اور جامع شہادت کے پہلی صورت میں شرکت وحصہ داری کا خیال اور دوسری میں موت پر اظہار مسرت ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ دونوں باتیں مسلمان کے لئے باعث برکت ہیں کامیاب رہیں تو دنای کے مال ودولت سے حصہ پائیں ، میدان میں کھیت رہیں ، توحیات جاوید کے حقدار ٹھہریں ، البتہ ہم جس چیز کا انتظار کر رہے ہیں وہ تمہارے حق میں اچھی نہیں ۔ ہم اللہ کے عذاب کے منتظر ہیں جو آئے اور تمہارے فتنوں کو ختم کر دے ۔ التوبہ
53 التوبہ
54 (ف ٢) یعنی منافقین گو عام مسلمانوں کے ساتھ ملے رہنے کی کوشش کرتے ہیں ، مگر ان کی عبادت وقربانی مقبول نہیں ، کیونکہ دلوں میں خلوص موجود نہیں وہ چندے دیتے ہیں ، تبرعات ملیہ میں حصہ لیتے ہیں ، مگر مجبوری سے ، اللہ کی محبت سے نہیں ، دفع الوقتی یا شہرت وریا کاری کے لئے نمازیں بھی پڑھتے ہیں روحانی حظ اٹھانے کے لئے نہیں محض بوجھ سمجھ کر ، اور ثقل خیال کرکے ، اس لئے ادا کرتے ہیں کہ لوگ انہیں مسلمانوں سے الگ نہ سمجھیں ۔ اسلامی خدمات وعبادات کا تعلق کیفیت قلب سے ہے دل میں اگر خلوص وایقان کی روشنی موجود نہ ہو تو ظاہری اعمال مقبول نہیں کیا آج کل ہماری مذہبی حالت بالکل یہی نہیں ؟ ہم بھی دینی معاملات میں برائے نام دلچسپی لیتے ہیں ، اس لئے نہیں کہ ہمیں دین سے محبت ہے بلکہ اس لئے کہ ہم شہرت چاہتے ہیں ، عزت چاہتے ہیں ، اور وجاہت کے طالب ہیں ، ہمارے چندے اللہ کے لئے نہیں نفس کے لئے ہیں ہماری نمازیں بھی محض دکھلاوا ہیں ، ریاکاری ہیں ۔ (الا ماشآء اللہ) التوبہ
55 التوبہ
56 التوبہ
57 (ف ١) یعنی منافقین بےحد بزدل ہیں مسلمانوں کے ساتھ محض جبرا وقہرا رہتے ہیں ، ورنہ انہیں ایک لمحہ کی صحبت گوارا نہیں انہیں کہیں ذلیل ترین جگہ بھی پناہ کی مل جائے تو قبول کرلیں ، اور دوڑتے ہوئے جائیں ، حل لغات : کسالی : جمع کسلان ، بےرغبت کاہل سست ۔ مغرت : جمع مغارۃ ، اخفش کہتے ہیں اس کے معنی گڑھے کے ہیں بعض کے نزدیک پہاڑ کے غار کو کہتے ہیں ۔ التوبہ
58 (ف ١) منافقین کے مصائب میں ایک بڑا عیب یہ بھی ہے کہ غلط تنقید کرتے ہیں اگر انہیں صدقات وغیرہ میں کچھ نہ ملے تو بات بات پر اعتراض ہے اور اگر کچھ مل جائے تو پھر خوش ہیں ، گویا ان کی زندگی کا مقصد محض حب نفس ہے ، غور فرمائیے ، قومی اداروں میں انجمنوں میں اور ہماری اسلامی ودینی جمیتوں کیا بالکل یہی کیفیت نہیں ؟ جہاں طعم وغرض ہو ، پردہ داری ہے بددیانتی ہے اور جہاں ایثار کرنا پڑے تنقدات کا طوار ہے اور عدل وانصاف کے نام پر قوم کے جذبات کو ابھارا جاتا ہے حالانکہ غرض محض انتقام کی آگ کو بھڑکانا ہے ۔ التوبہ
59 التوبہ
60 صدقات کے مصرف : (ف ١) اس آیت میں صدقات وتبرعات ملیہ کا مصرف بتایا ہے ، غور فرمائیے کہ اس نظم کے ساتھ صدقات کو ادا کیا جائے ، تو مسلمان ہمیشہ کے لئے چندوں سے بےنیازہو جائیں اور ان کی قوم دنیا کے لئے نمونہ ثابت ہو ، صدقات کو حسب ذلیل صورتوں میں خرچ کرنا چاہئے ۔ ١۔ فقراء کے لئے ، یعنی وہ لوگ جو محتاج ہیں انہیں بھیک مانگنے سے روکا جائے ، اور انکی باقاعدہ مالی امداد کی جائے ۔ ٢۔ ان مساکین کو دیا جائے ، جو اپنے مصارف کو پورا نہیں کرسکتے یعنی عام مسلمانوں کی اقصادی حالت سنواری جائے ، مسکین کے لغوی معنی ہیں ، اس شخص کے جو کشاکش حیات میں زیادہ کامیابی کے ساتھ حصہ نہ لے سکے اور ایک جگہ پڑا رہے ، یعنی ترقی نہ کرسکے ، ٣۔ محصل حاصل کرنے والا ، یعنی صدقات منظم ہوں باقاعدہ چندہ وصول کرنے والے مقرر ہوں ، جنہیں تنخواہ دی جائے ، ٤۔ قابل تالیف لوگ یعنی تبلیغ واشاعت کے ہے ایسے لوگوں کی مدد کی جائے ، جو اسلام سے محبت رکھتے ہوں مگر حالات کی وجہ سے اسلام کو قبول نہ کرسکیں ، ٥۔ عام دینی ضروریات ۔ ٦۔ مسافروں کو جگہ دی جائے ان کی ضیافت دعوت کاسامان کیا جائے ، تاکہ وہ آسانی سے ملی ودینی خدمات کے سلسلہ میں ملک میں گھوم پھر سکیں ۔ یہ زندہ قوموں میں کے لئے امدادی پروگرام ہے جس پر مسلمانوں کا قطعا عمل نہیں اللہ رحم کرے ۔ التوبہ
61 (ف ٢) انبیاء علیہم السلام جہاں انتہاء درجہ کے زیرک ودانا ہوتے ہیں وہاں عفو و کرم کا مادہ بھی ان میں اسی تناسب سے موجود ہوتا ہے وہ حالات کو جانتے ہیں ، مگر بوجہ مرحمت کے اکثر غلطیوں سے درگزر کرتے ہیں ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منافقین آ کر طرح طرح کے عذر سناتے ، آپ قبول فرما لیتے ، اس پر وہ اپنی مجلسوں میں کہتے رسول کیا ہے نراکان ہے ، سن لیتا ہے ، جانتا نہیں کہ ہم اسے دھوکا دے رہے ہیں ، کم بختو ! اس میں تو تمہارا ہی بھلا ہے رسول تو سراپا رحمت وعفو ہے ، جسے تم سادگی پر محمول کرتے ہو ، وہ چشم پوشی اور ستاری ہے ، یہ تنبیہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوئی ۔ التوبہ
62 التوبہ
63 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت : (ف ١) آیت کا مقصد یہ ہے کہ رسول کی مخالفت اس سے عناد ودشمنی عذاب الہی کا باعث ہے محاردۃ کا لغۃ مفہوم مغائرت ہے ، وہ لوگ جو عمدا اسوہ رسول پر عمل پیرا نہیں ، جن کا ہر کام سنت رسول ہے مغائر ہوتا ہے ، انہیں غضب الہی سے ڈرنا چاہئے التوبہ
64 (ف ٢) یعنی یہ سورۃ توبہ منافقین کے نفاق کو کو واشگاف کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے ، اسلئے اب انہیں خوف پیدا ہوگیا ہے اور کہتے ہیں ہم تو بہ سبیل مزاح یہ سب کچھ کہہ رہے تھے ، ورنہ ہمارے دل میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عزت ایسی ہی موجود ہے کہ جیسی مسلمانوں کے دل میں ، اللہ کے نزدیک یہ عذر صحیح نہیں کیونکہ دین کے باب میں استہزاء جائز نہیں ۔ حل لغات : نخوض ونلعب : خوض عام طور پر بری باتوں پر غور اور فکر کرنے کو کہتے ہیں ۔ التوبہ
65 التوبہ
66 التوبہ
67 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ منافقین میں باہمی کوئی امتیاز نہیں ، سب برے ہیں ، عورت مرد یکساں طور پر اسلام کی مخالفت کرتے ہیں ، سب کا نصب العین یہ ہے کہ مسلمانوں میں برائیاں پھیلائی جائیں ، بات یہ ہے ، کہ ہر قوم میں ایک عنصر ایسے بدنیت اور دل کے کمزور لوگوں کا ہوتا ہے جو خبث باطن کو ظاہر نہیں ہونے دیتے ، اور اندر ہی اندر کوشاں ہر تے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح جماعت کو نقصان پہنچایا جائے ، اسلام جب پھیلا ہے ، تو وہ لوگ جو کھلے بندوں صف آراء نہیں ہوسکتے تھے ، منافق ہوگئے ، بظاہر مسلمانوں کے ساتھ رہے ، ان کی تقریبات اور عبادتوں میں شامل رہتے اور عوام کو دھوکا دیتے ، مگر موقع ملنے پر ہوشیاری سے اسلام کی مخالفت کرتے ، اللہ تعالیٰ کو یہ گروہ سخت ناپسند ہے ، کیونکہ اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ یا تو ایمان واسلام کی بابرکت دعوت کو قبول کرلو ، یا اپنے لئے کفر کو پسند کرلو ، بہرحال جو کچھ ہو ، کھلم کھلا ہو ، دھوکا اور فریب مردانگی نہیں ۔ حل لغات : بالمنکر : یعنی امر قبیح وتاشائستہ ونامشروع ، المعروف : بمعنی نکوئی ، فنسیھم کے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے ان سے تغافل اختیار کرلیا ہے اور اب اللہ کی نظر عنایت سے محروم ہوگئے ہیں ، لعنھم : کے معنی نیکی اور ہمت سے دور کرنے کے ہیں اور نفرین کرنے کے بھی ہیں ۔ التوبہ
68 التوبہ
69 نفاق کا انجام تباہی ہے ۔ : (ف ١) ان آیات میں منافقین کو بتایا ہے کہ نفاق کے بادل مطلع حق وصادق پر زیادہ دیر تک چھائے نہیں رہیں گے ، جب آفتاب پوری حرارت سے چمکے کگا تو یہ بادل چھٹ جائیں گے ، ان سے پہلے بھی بدباطن لوگوں نے انبیاء علیہم السلام کی مخالفت کی ہے مگر نتیجہ کیا ہوا ، کہ ان کا تمام غرور مٹ گیا ، مال ودولت کی فراوانی اور اعوان وانصار کی کثرت انہیں عذاب الہی سے نہ بچا سکی اسی طرح تمہارا حشر ہونے والا ہے ۔ حل لغات : المؤتفکت : الٹی ہوئی بستیاں ، مادہ افک ۔ بمعنی تغیر وتحول اور لوٹنے کے ہیں ۔ التوبہ
70 (ف ١) اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ ان لوگوں کو اللہ نے سرکشی اور تمرد کی وجہ سے ہلاک کردیا نوح (علیہ السلام) نے ہرچند قوم کو طویل مدت تک سمجھایا مگر انہوں نے غرق ہونے کی ٹھان لی ، اور باز نہ آئے اسی طرح عاد وثمود کی قومیں نافرمانی وعصیان کی وجہ سے پکڑی گئیں ، ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نہایت متمدن تھی ، وہ بھی عتاب سے نہ بچی حضرت شعیب (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم بھی اپنی بدعنوانیوں کی وجہ سے غارت ہوئی غرض یہ ہے کہ ثبات واستقلال کا قانون صرف ان لوگوں کے لئے ہے ، جو اطاعت شعار ہوں ، نافرمانوں کے لئے بجز تباہی وہلاکت کے اور کوئی چارہ نہیں ، پھر ان منافقین کو کیا ہوگیا ہے ، کہ عبرت حاصل نہیں کرتے ۔ التوبہ
71 (ف ٢) یعنی وہ لوگ جنہوں نے اخلاص کے ساتھ اسلام کو قبول کرلیا ہے ان کی مشاغل پاک ہیں وہ ایک دوسرے کے ممدومعاون ہیں ، نمازیں پڑھتے ہیں اور ملی ضروریات سے آگاہ رہیں ان کی زندگی کا مقصد اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے اس لئے رحمت و عفو کے سزاوار ہیں ۔ التوبہ
72 مومن کا ذوق معرفت : (ف ١) (آیت) ” ورضوان من اللہ اکبر “۔ سے غرض یہ ہے کہ جنت کا حصول مقصود اصلی نہیں ، اس لئے نصب العین اللہ کی رضا ومحبت کا احساس ہے ، اس لئے بلند روحانیت کے لوگ سرف بہشت پر قانع نہیں بلکہ انکی روح توحید میں ارتقاء کامل کی طالب ہے وہ محبوب کی مسرت چاہتے ہیں لذائذ کا درجہ ثانوی ہے ، اصل لذت یہ ہے کہ فراز محبت وعشق پر تمکن واصل ہو ۔ التوبہ
73 (ف ٢) جہاد و غلظت کے معنی یہ نہیں کہ ہر دو فریقین سے جہاد بالسیف ہی ہو بلکہ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے مروی ہے کفار سے جہاد کے معنی یہ ہیں کہ ان کے ساتھ تیغ وسنان کا استعمال کیا جائے اور منافقین سے جہاد یہ ہے کہ انہیں ذلیل کیا جائے اسلامی مجالس میں رسوا کیا جائے ، اور اللہ کی حجت کو پورا کیا جائے ۔ التوبہ
74 (ف ٣) کلمہ اکبر سے مراد عام باتیں ہیں جو کفر و دوستی پر مبنی تھیں منافقین کو چونکہ اصالتا اسلام سے محبت نہ تھی ، اس لئے وہ شرارتا جو چاہتے کہتے رہتے ، الہذ جب ان سے باز پرسی کی جاتی تو صاف مکر جاتے ، آیت کا مقصد یہ ہے کہ ان کی عداوت ودشمنی محض حاسدانہ جذبات کے تابع ہے انہیں دکھ یہ ہے ، کہ مسلمان اللہ اور رسول کی مہربانی سے کیوں دولتمند ہوگئے ہیں ۔ حل لغات : ھموا : ھم سے مشتق ہے ، بمعنی قصدہ ۔ وما نقموا : نقمہ ۔ برا سمجھنا ، نقمت الشیء اذا انکوبہ “۔ التوبہ
75 التوبہ
76 ثعلبہ اور نفس انسانی : (ف ١) اس ضمن میں ثعلبہ کا قصہ مشہور ہے وہ خاصا مسلمان تھا ، نمازیں پڑھتا مسجد میں حاضر رہتا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی خواہش کی بنا پر دعاء کی اور وہ دولتمند ہوگیا ، مدینے سے باہر ڈیرے ڈال دیئے ، مسجد کی حاضری کم ہوگئی ، نماز کی پابندی جاتی رہی ، جمعہ جنازہ میں بھی شرکت سے محروم ہوگیا ، اور آخر تمام پابندیوں سے بےنیاز ہوگیا ، اور اصل بات یہ ہے کہ ہر انسانی نفسیات کی تشریح ہے نفاق کی تفصیل میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے ، وہ عام انسانوں کی نفسی کمزوریاں ہیں مقصد یہ ہے کہ ہمیں اپنے خطرات قلب سے آگاہی حاصل ہو ، اور ہم معنوں میں اللہ کے فرمانبردار ثابت ہوں ۔ التوبہ
77 التوبہ
78 التوبہ
79 جہد المقل : (ف ١) غریب غریب مسلمان جب اسلام کی محبت میں سرشار ہو کر داعیات وقت سے متاثر ہو کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز پرلبیک کہتے ہونے قلیل وحقیر پونجی آپ کے سپرد کردیتے ، تو یہ منافقین ہنستے ، کہتے واہ یہ بھی کوئی خیرات ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان غریبوں پر ہنسو مت ، یہ دل کے توانگر اور حاتم ہیں ، یہ مخلص ہیں اور تم سے بہرحال بہتر ہیں ، اللہ کی نظر کم پر نہیں ، کیف پر ہے ۔ (آیت) ” سخر اللہ منہم “۔ سے مقصود یہ ہے کہ انہیں جو سزا ملے گی ، وہ ان کے مزعومات کے خلاف ہوگی ، اور بالکل استہزاء کے مماثل ہوگی ، یہ دیکھیں گے کہ یہ جن اعمال پر دنیا میں غرور وناز کرتے تھے ، وہ اللہ کے ہاں کس درجہ حقیر ہیں ، اور غریب مسلمانوں کا دیا ہوا جو اگرچہ کم ہے ، اور تھوڑا ہے اللہ کے نزدیک بیش قیمت ہے ۔ حل لغات : نجوی : سرگوشی ۔ یلمزون : کسی کے عیب پر آنکھ سے اشارہ کرنا ، لمز سے مقصد عیب جوئی ہے ۔ جھدھم : بمعنے توانائی وکوشش ورنج ، سبعین مرۃ : محاورہ ہے تعین مراد نہیں ۔ التوبہ
80 التوبہ
81 جہنم کی گرمی : (ف ١) منافقین یہ کہہ کر مسلمانوں کو جہاد سے روکتے کہ بلاکی گرمی ہے اس تپش میں کہاں گھروں سے نکلو گے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، کاش انہیں معلوم ہوتا کہ جہنم کی گرمی اس سے زیادہ شدید ہے اسے کاش ! یہ اس آگ سے بچنے کے لئے کوشش کرتے ۔ التوبہ
82 رونا سزا ہے ! (ف ٢) یعنی منافقین کو چاہئے کہ اپنی ناکامیوں پر ماتم کریں ، اور روئیں کیونکہ اسلام باوجود ان کی مخالفت کے کامیاب رہا ہے اور مسلمان ان کے مزعومات کے علی الرقم بڑھتے ہی چلے گئے ، یہ محرومی وبدبختی ان کے اعمال کی سزا ہے ۔ بعض نادان لوگ جو سال مین ایک دفعہ خوب رونا اور ماتم کرنا موجب ثواب تصور کرتے ہیں ، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام مسرت وطمانیت کا مذہب ہے ، اس طرح رونے کی محفلیں منعقد کرنا عذاب الہی ہے ۔ التوبہ
83 التوبہ
84 دریائے رحمت کی طغیانی : (ف ١) عبداللہ بن ابی ابن سلول جو راس المنافقین تھا ، جب مرا ہے تو اس کا لڑکا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا ، اور تبرکا آپ سے کرتہ مانگا ، یہ بھی درخواست کی کہ آپ نماز جنازہ پڑھائیں ، آپ تیار ہوگئے ، حضرت عمر (رض) نے روکا ، اور کہا اللہ نے تو استغفار سے روکا ہے منافق کا جنازہ نہ پڑھنا چاہئے ، مگر رحمت جوش پر آئی ہوئی کب رکتی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے اختیار دیا گیا ہے ، روکا نہیں گیا ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحمت کی اس فراوانی کو طغیانی سے تعبیر کیا گیا ، اور عمر (رض) کی فراست دینی کی داد میں ۔ حل لغات : القعود : تخلف ہے گناہ ہے ۔ التوبہ
85 التوبہ
86 التوبہ
87 (ف ١) غرض یہ ہے کہ صاحب وسعت رہتے ہیں اور وہ دون ہمتی اور بزدلی میں عورتوں کی مانند ہیں ، ان کے دلوں پر حب نفس کی مہر لگی ہے ، اس لئے بیداری نہیں ، فقھا وفراست سے محروم ہیں ۔ اس لئے جہاد کے فوائد سے آگاہ نہیں ۔ حل لغات : اولوالطول : صاحب وسعت دولتمند ۔ الخوالف : جمع خالفۃ ۔ گھر میں بیٹھنے والی ۔ التوبہ
88 التوبہ
89 التوبہ
90 معذرین : (ف ١) اس وقت تک مدینے والوں کا بیان تھا کہ کس طرح میں منافقین نے بزدلی پھیلائی اور کیونکر وہ جہاد سے پیچھے رہے ان آیات میں دیہات والوں کا قصہ ہے کہ ان میں بھی منافق ہیں ، اعراب اصل میں وہ لوگ تھے ، جو حضرمی زندگی نہیں بسر کرتے تھے ، ہاویہ پیمایا صحرا انور تھے ، ان میں عامر بن طفیل کے آدمی آئے کہنے لگے ، کہ اگر ہم جہاد میں شریک ہوجائیں ، تو بنی طے ہمارے مواشی لوٹ کرلے جائیں گے ، اور ہمارے غیر حاضری میں ہمیں نقصان پہنچائیں گے ، کچھ لوگ وہ تھے جو یوں ہی گھروں میں بیٹھ رہے ، اور عذر ومعذرت کی سرے سے ضرورت ہی نہیں محسوس کی ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، ان میں کوئی بھی عندا للہ معذور نہیں ، کیونکہ جہاد کا اذن عام ہوچکا ، اور ہر وہ شخص جو تخلف اختیار کرلے گا منافق قرار پائے گا ، اور ملت کی جانب سے غداری کی سزا کا مستحق ہوگا ۔ حل لغات : الخیرات : بھلائیاں ۔ الفوز : بمعنے فیروزی ، کامیابی ۔ المعذرون : قراء زجاج ابن الایتاری ، ابی عبید افضل اور ابی حاتم کے نزدیک اس سے مراد معتذر ہیں ، جن کے روز صبح ہوں ، جوہری اور زمخشری کے نزدیک اس کے معنی صحیح عذر والے کے ہیں ، اور یہی معنی درست ہیں ۔ التوبہ
91 جہاد سے کون کون مستثنے ہیں : (ف ١) جہاد ایک اہم اسلامی فریضہ ہے ، جس میں تساہل وتخلف جائز نہیں ، اس آیت میں بتایا ہے کہ مندرجہ ذیل لوگ عموم حکم سے مستثنے قرار پائیں گے ۔ (١) الضعفاء یعنی کمزور وناتوان اشخاص ۔ (٢) مریض ۔ (٣) مفلس ، یعنی جس کے پاس جہاد کی تیاری کے لئے سامان نہ ہو ۔ (٤) جوسواری نہ رکھتا ہو ۔ غرض یہ ہے کہ جہاد میں شرکت کے لئے اچھے طبقے کے لوگ جائیں ، جن کی رگوں میں خون دوڑ رہا ہو ، جو جہاد میں اپنے مصارف برداشت کرسکیں ، جن کے پاس آلات جہاد ہوں اور جنہیں ہر طرح سپاہی قرار دیا جاسکے ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد بابرکت میں کوئی متعین فوج نہ تھی بلکہ ہر شخص بجائے خود سپاہی تھا ، اور ذمہ داری کے فرائض کو پہچانتا تھا اس لئے ہر سپاہی کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ آلات جہاد حتی المقدور خود مہیا کرے ، یہ لوگ جو مستثنے قرار پائے ہیں ، ان کے لئے خلوص ومودت شرط ہے ، یہ ضروری ہے کہ دلوں میں جہاد کا زبردست جذبہ موجود ہو ، اس حد تک کہ جانبازی ذاتی شوق کی صورت اختیار کرلے ، اور جب یہ شوق معذوری کی وجہ سے پورا نہ ہو ، تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوجائیں ۔ یہ صرف حکم نہیں قرون اولے کے مسلمانوں کی سچی تصویر ہے ، کہ ان کے دلوں میں کس درجہ جہاد سے محبت تھی ۔ التوبہ
92 التوبہ
93 (ف ٢) یعنی بےحس سرمایہ دار جسے ثروت و غنا سے محبت ہے ، اور دولت کونین سے نفرت ، جو نفسانی آسائش چاہتا ہے اور ملت کے درد سے تہی قلب ہے جو عین جہاد کے وقت عورتوں کی طرح گھروں میں آرام فرما ہے ملعون ہے اللہ کی رحمت سے دور ہے ۔ حل لغات : نصحوا : مخلص رہنا ۔ تفیض : فاض ۔ الماء اذا اسال متعصبا ، یعنی ابل پڑنا ، پانی آنکھوں سے ابل ابل کر نکلے ۔ التوبہ
94 منافقین کی معذرت : (ف ١) ایک وہ خوش نصیب مسلمان تھے جنہوں نے رسول کی پیروی کی اور توحید کی حفاظت کے لئے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے ، میدان جہاد میں پہنچے اور کفار سے لڑے ، دوسرے وہ محرومان قسمت تھے ، بزدلی میں جن کی راہنمائی کی ، اور گھروں میں گھسے بیٹھے رہے اور اس وقت بیٹھے رہے جبکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ یہ لوگ بربکف ہو کر نکلتے اور اپنے خون سے شجر اسلام کو سینچتے ، یہ جرم واقعی غداری ہے ، اللہ سے غداری ہے رسول سے غداری ہے اور اسلامی مصالح سے غداری ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب آپ لوگ جہاد سے لوٹیں گئے تو یہ لوگ جوق در جوق آپ کے پاس آئیں گے اور جھوٹے عذر پیش کریں گے آپ کو یقین دلانے کی کوشش کریں گے کہ انکے دلوں میں بھی اسلام کی ویسی ہی محبت ہے جیسی دوسرے صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین کے دلوں میں اور یہ چاہئے تھے کہ جہاد میں شریک ہوں اور کفار کی صفوں کو کاٹ کر رکھ دیں ، مگر کچھ ایسی ایسی مجبوریاں تھیں جنہوں نے پاؤں پکڑ لئے فرمایا ، یہ جھوٹے ہیں ، آپ ہرگز تسلیم نہ کیجئے گا ، آپ کہہ دیجئے اللہ نے تمہارے سارے بھید کھول کر بیان کردیئے ہیں ، اور تمہاری ساری شرارتوں کو واضح کردیا ہے ، اس لئے ہم لوگوں کو دھوکہ نہ دو ہم تمہارے حالات سے آگاہ اور باخبر ہیں ، آیندہ بھی اللہ تعالیٰ تمہارے نفاق کے شر سے ہمیں محفوظ رکھے گا ، اور یاد رکھو ، یہ چالبازیاں تمہاری صرف اس دنیا تک کے لئے ہیں ، بالآخر تم کو اللہ کے حضور میں پیش ہونا ہے جو چھپی ڈھکی اور کھلی ، ظاہر ، ہر چیز کو جانتا ہے ، بتاؤ اس وقت کیا عذر پیش کرو گے ، فرمایا ، یہ لوگ اس درجہ ذلیل اور جھوٹے ہیں کہ قسمیں کھائیں گے تاکہآپ ان سے غرض نہ کریں آپ واقعی ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیجئے ، یہ لوگ ناپاک ہیں اور ناقابل التفات ہیں یہ ہزار کوششیں کریں ، اللہ ان سے خوش نہیں ہونے کا ، اس لئے کہ انہوں نے اس کو اس کے دین کو اور صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین اور ان کی مصلحوں کو دھو کہ دیا ہے ، فرامیا ان میں سے جو لوگ دیہاتی ہیں وہ کفر ونفاق میں بہت زیادہ بڑھے ہوئے ہیں انہیں تو یہ معلوم ہی نہیں کہ حدود اسلامی کو ہیں یہ طبائع کے سخت اور اکھڑ ہیں ۔ التوبہ
95 التوبہ
96 التوبہ
97 التوبہ
98 (ف ١) منافق کی ہر بات چونکہ ریاکاری پر مبنی ہوتی ہے اس لئے بالطبع اس کو اسلامی احکام سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ، نمازوں کے لئے آتا ہے تو بےتوجہی کے ساتھ ، اور کچھ دیتا ہے تو تاوان سمجھ کر یہی نہیں ، بلکہ دل سے منتظر رہنا ہے کہ کسی طرح مسلمانوں پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑے ، اور زمانہ کی گردشوں سے وہ بالکل پس جائیں ، مگر ان کی ان ناپاک خواہشات سے کیا ہوتا ہے ، اللہ کو تو یہ منظور ہے کہ یہ لوگ اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ابتلا وآزمائش کی اذیتوں سے بہرہ اندوز ہوں ، اور ان کو معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو رسوا اور ذلیل نہیں کرتا ہے ، اور ہمیشہ ان کے اعزاز وتکریم میں ممدومعاون رہتا ہے ۔ حل لغات : اخبارکم : یعنی حالات ۔ عالم الغیب : اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی چیز بھی دھکی چھپی نہیں ہے ، مقصد یہ ہے کہ جن چیزوں کو تم سمجھتے ہو ، کہ آنکھوں سے اوجھل ہیں ، وہ ان کو بھی جانتا ہے ۔ رجس : ناپاک ، نجس ، اور رجس میں فرق یہ ہے کہ لغۃ نجستی جسم کی ناپاکی کے لئے استعمال ہوتا ہے اور رجس عقیدے کی گندگی کے لئے ، الاعراب : گنوار ، دیہاتی ۔ اجدر : زیادہ موزون ہے ، مناسب یا لائق ہے ۔ مغرما : تاوان جرمانہ ، التوبہ
99 (ف ١) قرآن حکیم نے تمام دیہات والوں کو نفاق سے مہتم نہیں کیا ، بلکہ ارشاد فرمایا ہے کہ ان لوگوں میں ایسے صاحب ایمان وذوق بھی ہیں جن کو اللہ سے محبت ہے اور آخرت وعقبی کے عقیدے پر ایمان رکھتے ہیں ، وہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں سمجھتے ہیں کہ اس سے اللہ کے تقرب کو حاصل کر رہے ہیں ، نیز پیغمبر کی دعاؤں کے مستحق وسزاوار ہو رہے ہیں ، یقینا ان کی یہ آرزوئیں حق بجانب ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کو اپنی آغوش رحمت میں داخل کرے گا اور ان کو رحمت ومغفرت سے نوازے گا ۔ التوبہ
100 سند رضا : (ف ٢) اس آیت میں وضاحت کے ساتھ یہ فرمایا ہے کہ وہ صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین جن کو ایمان میں سبقت کا فخر حاصل ہوا ہے اور مہاجر ہوں یا انصاری اور وہ لوگ جن کو ان کی پیروی کی سعادت نصیب ہوئی ہے مقام رضاء پر فائز ہیں ، یعنی اللہ ان سے خوش ہیں ، اور وہ ہمیشہ اس کی رضاء کے جویاں رہے ، ان کے لئے جنات خلد کے جواب کھلے ہیں ، اور یہی فوز عظیم کی خوشخبری ہے جس سے وہ بہرہ مند ہیں ، کہئے وہ لوگ جو صحابہ کی شان میں گستاخی سے پیش آتے ہیں ، اور ان لوگوں کی توہین کرنا جزو ایمان سمجھتے ہیں ، جو جب تک زندہ رہے ، پیغمبر کی آنکھوں کا نور ہے ، اور جب مرے تو رضا الہی کی سند حاصل کر کے کیا یہ بدبختی ومحرومی نہیں اور کیا اس سے بڑھ کر الحاد وبے دینی کا اور کا تصور کیا ہو سکتا ہے ۔ ان لوگوں کی عقل ودانش پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے ، یہ بدبخت دین حنیف کو گویا خود صاحب دین سے زیادہ سمجھتے ہیں ، اور معاذ اللہ خو پیغمبر سے زیادہ دین کا درد اپنے پہلوم میں رکھتے ہیں پیغمبر تو ان اصحاب کو اپنی محفل میں جگہ دے انکو شرف مصاہرت سے نوازے ، ان کو اپنے عزیز اور دوست قرار دے اور عمل سے واضح کر دے کہ یہ میرے پیارے ہیں ، اور یہ کہیں کہ نہیں یہ دوست نہیں دشمن ہیں ۔ حل لغات : مردوا : اس کے معنی سرکشی کے بھی ہیں اور نیکی سے طبعی محرومی کے بھی اسی مناسبت سے شیطان کو مارد کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ التوبہ
101 (ف ١) تمرد کے معنی سرکشی اور شدت کے ساتھ نافرمانی اور قبائح میں منہمک رہنے کے ہیں یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں جو نفاق کو ظاہر طور پر انجام دے رہے ہیں ، اور مصر ہیں ، غالبا یہ اس وقت کے بعض لوگوں کی جانب اشارہ ہے ، انہیں ودوگونہ عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ، دنیا میں رسوائی وذلت ، اور عاقبت میں جہنم ، اس لئے انہوں نے عیب کو صواب اور گمراہی کو ہدایت قرار دیا ، معصیت اور کفر پر اڑے رہے ۔ التوبہ
102 (ف ٢) غزوہ تبوک سے تحلف کرنے والوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو سخت نادم تھے ابو لبابہ (رض) اور اس کے ساتھیوں نے تعزیرا اپنے آپ کو مسجد کے ستونوں کے ساتھ باند لیا ، اور کھانا پینا ترک کردیا ، حضور جنگ سے جب لوٹے تو لوگوں نے درخواست کی انکو معاف فرما دیجئے ، یہ اب نادم ہیں ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تب تک اللہ ان کی معذرت کو قبول نہ فرما دے میں کسی طرح ان سے خوش ہو سکتا ہوں اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ، غرض یہ ہے کہ اظہار ندامت کے بعد گناہ دھل جاتے ہیں اور اللہ اپنے کرم سے معاف کردیتا ہے ۔ (آیت) ” خذ من اموالھم صدقۃ “۔ سے مقصود یہ ہے کہ مال ودولت کی وجہ سے یہ لوگ رکے رہے اور میدان جہاد میں نہیں جا سکے اس لئے اب تزکیہ باطن کی لئے انہیں اللہ کی راہ میں صدقہ دینا چاہئے تاکہ دلوں سے روپیہ کی بیجا توقیر اٹھ جائے ، التوبہ
103 التوبہ
104 شان کریمی : (٣) یعنی اللہ تعالیٰ احساس گناہ کے بعد فورا گناہ بخش دیتا ہے ، اس لئے اس کی شان کریمی کا تقاضا یہی ہے ، (آیت) ” عن عبادہ “۔ میں لطیف اشارہ ہے بندوں کے عجز اور اللہ کے پیار کی جانب یعنی جب انسان اس کا بندہ ہے تو وہ ضرور اس کی بیچارگی کا خیال رکھے گا ، اور باوجود اس کے نقائص وعیب ان کے نگاہ عفو سے کام لے گا ، کیونکہ بندگی وبیچارگی کے بعد ہماری حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے ، جو گناہوں کو خدا کے مقابلے میں کی چیز عبودیت کا اظہار ضروری ہے اس کے بعد اس کا قلزم عاطفہ ورحمت خود بخود موجزن ہوجاتا ہے ، حل لغات : سکن : وجہ سکون ۔ التوبہ
105 التوبہ
106 التوبہ
107 مسجد ضرار : (ف ١) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مدینے تشریف لے گئے تو اسلام مدینے والوں کا قومی مذہب قرار پایا ، توحید کا اجالا گھر گھر پہنچا اور لوگوں کے سینے پر تو اسلام سے جگمگا اٹھے ، منافقین کے لئے یہ ترقی ناقابل برداشت تھی انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کے دو مرکز ہوگئے ایک قبا اور دوسرا مسجد نبوی ، اور دونوں آباد ہیں ، مومن دونوں جگہ نور ومعرفت سے استفادہ کر رہے ہیں ، اور دونوں جگہوں سے ہدایت ورشد کے چشمے پھوٹ رہے ہیں ، مسجدیں اس زمانے میں ، اسلامیوں کی ہر تحریک خیر وبرکت کی مدار ومحور ہوتی تھیں ، مسجدیں صرف سجدہ گاہیں نہ تھیں ، بلکہ عمل اور جدوجہد کی ہر ابداء یہیں سے ہوتی ، یہ درس گائیں بھی تھیں اور دارالشورے بھی ، حکمت ومعرفت کا منبع بھی اور آستانہ عقیدت وعبودیت بھی ، اس لئے منافقین نے سوچا کہ مسلمانوں کو تکلیف اور نقصان پہنچانے کے ان میں کفر ونفاق پیدا کرنے کے لئے اور انہیں سیاسی سازشوں میں مبتلا کرنے کے لئے اس سے بہتر کوئی صورت ممکن نہیں ، کہ ایک مسجد کی بنیاد ڈالی جائے اور اسے ان ممشؤمہ اغراض کے لئے استعمال کیا جائے ، چنانچہ ابو عامر راہب نے انہیں مشورہ دیا کہ تم ایک مسجد تعمیر کرو ، وہاں اپنے اغراض کے لئے پروپیگنڈا کرو ، جب اس طرح کی جماعت تیار ہوجائے تو مجھے اطلاع دو ، میں قیصر روم سے مل کر تمہیں مدددوں گا ، اور اس طرح چپکے چپکے مدینے سے اسلام کی بڑھتی ہوئی قوت کو ختم کیا جا سکے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام حالات کی اطلاع دے دی اس مسجد میں نماز پڑھنے سے روک دیا اور کہہ دیا کہ مقصد اور نیت نیک نہیں ، لہذا آپ ان کی حوصلہ افزائی نہ کریں ، نتیجہ یہ ہوا کہ مسجد ڈھا دی گئی ، اور اس طرح مسلمان ایک عظیم فتنہ سے پہنچ گئے ، اس قصے میں انہیں واقعات کی جانب اشارہ ہے ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مساجد کی تعمیر سے غرض تقوی اور پاکبازی ہے جو مسجد قبیح اور ناپاک اغراض کے لئے تعمیر کی جائے ، جس سے مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنا مراد ہو ، اور اسلام کے خلاف بطور مرکز استعمال کی جائے ، جہاں تقوی وپاکیزگی ناپید ہو ، اور خبث ونفاق کا سرچشمہ ہو ، جسے ایک قوم کا محاذ جنگ بنایا جائے وہ مسجد ، مسجد ضرور ہے ، مسلمانوں کے لئے اس کا وجود ناقابل برداشت ہے ، وہ بالکل احترام کے لائق وقابل نہیں ۔ حل لغات : مرجون : جنہیں ڈھیل دی جائے ، ارصادا : الرصد الاستعدا ، وللترقب یعنی انتظار کرنا اور طیار رہنا ۔ لمسجد اسس علی التقوی ، مسجد نبوی ہے بعض کے نزدیک قباء سے مراد ہے ، ۔ ریبۃ : پھانس وجہ اضطراب ۔ التوبہ
108 التوبہ
109 التوبہ
110 التوبہ
111 شاندار سودا : (ف ١) غرض یہ ہے کہ مسلمان کی جان عزیز اور متاع نفس خدا کی راہ میں وقف ہے ، اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے ان کی جان اور مال خرید چکا ہے ، یہ طے ہے کہ درم دینار سے لے کر رگ حیات تک سب کچھ محبوب پر قربان ہے ، نہ دولت پر اختیار ہے ، اور نہ زندگی کے قیمتی لمحات پر سودا خدا کی جانب سے ہوچکا ، بات پختہ ہوگئی ، دو حرفی نصب العین ہے ، کہ جنت لو اور دنیا کی تمام آسائشیں دین پر نثار کر دو ، یہ کس قدر بلند نصب العین ہے جس سے نفس میں پاکیزگی اور رفعت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اب ہمیں ترمیم وتنسیخ کی ضرورت نہیں اور ضرورت بھی کیا ہے یہ سودا گھاٹے کا سودا نہیں جب یہ سب کچھ اسی کا ہے جان اس کی ہے مال اس کا ہے دنیا کی آسائشیں اسی کی حلوفت نگاہی کا نتیجہ ہیں تو پھر اسی حیات متعارہ کو اس کے سپرد کردینا کیا جنگل ہے یہ اس کی کریمی ہے کہ وہ اپنی چیز کو بطور مبیع کے قبول فرما رہا ہے ، ورنہ سودا کیسا ، ہم اس کے جنت اس کی وہ جو چاہے سو کرے جسے چاہے جنت عطا کرے اور جسے چاہے ، جہنم میں پھینک دے ، مگر وہ کریم روحیم ہے ، اس کی نوازش نے بندوں کو بہشت میں پہنچانے کے لئے ایک بہانہ پیدا کردیا ہے ، اور بس سودا کیسا ، اور بیع کس کی ، ؟ حل لغات : السائحون : سیاحت کرنے والے ۔ التوبہ
112 (ف ١) اس آیت میں مسلمان کی سات صفتیں گنائی ہیں جن کی وجہ سے وہ بشارت وخوشخبری کا مستحق قرار پاتا ہے ، اس کو خدا سے عشق ہوتا ہے اور وہ ہر وقت اس کے گیت گاتا ہے ، سعی جہاد میں کے گوشہ گوشہ تک پہنچتا ہے ، عابد اور زاہد ہوتا ہے ، گناہوں اور لغزشوں پر نادم ہوتا ہے ، نیکی سے محبت کرتا ہے ، اور برائی سے نفرت ، خدا کی حدود ہر آن نگاہ رکھتا ہے ۔ آج کل کے رسمی مسلمان ، اپنی مذہبی زندگی کا جائزہ لیں کیا ان میں توبہ وعبادت کا جذبہ موجود ہے ، کیا وہ حمد وستائش کے عادی ہیں ، ان کے ہونٹ کبھی خدا کی تعریف میں ہلتے ہیں ، یا ان کے پاؤں جہاد و ہجرت کے لئے کبھی حرکت میں آئے ہیں ، کیا برائیوں سے (نہیں نفرت ہے اور کہاں تک وہ احکام خداوندی کی رعایت ملحوظ رکھتے ہیں ۔ التوبہ
113 التوبہ
114 کفار کیلئے مغفرت طلبی : (ف ٢) سورۃ برات کے ابتداء میں یہ حقیقت واضح کردی گئی ہے کہ ایمان کی طرف سے کفر وشرک کو اعلان بیزاری سنایا جاتا ہے آیندہ مسلمانوں کی دوستی یہ لوگ حاصل نہیں کرسکیں گے اس سے پیشتر کی آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا ہے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ کوئی نفع کی امید وابستہ نہ رکھیں یہ بخشش اور رحمت کا قطعا اس نہیں رکھتے ، اس آیت میں ایک شبہ کا جواب ہے ، وہ یہ کہ جب مسلمان ہوجانے کے بعد کفر سے بالکل بےتعلق خاطر باقی نہیں رہتا ، اور مسلمان دنیائے کفر سے بالکل بےتعلق ہوجاتا ہے ، تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کے لئے کیوں دعائے مغفرت کی ۔ جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکہ نہایت درجہ حلیم الطبع اور شفیق تھے ، اس لئے تمام زیادتیوں کو جو منکرین کی جانب سے کی جاتیں ، بخندہ پیشانی برداشت فرماتے اور بدستور خواہش رہتی کہ یہ لوگ دولت اسلام سے مالا ہوجائیں ایسی خواہش کی بنا پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کی بخشش طلبی کا وعدہ فرمایا اور ایفائے عہد کے لئے دعا بھی کی ، مگر ان کو جلد ہی معلوم ہوگیا کہ پتھروں میں دل نہیں ہوتا ، اس لئے آئندہ کامل طور پر باپ سے الگ ہوگئے غرض یہ نہیں کہ کفر واسلام کا تفاوت پسروپدر کے اخلاق میں حائل ہوجاتا ہے اور باپ کی عزت واعانت سے روکتا ہے ، بلکہ غرض یہ ہے کہ اسلام قبول کرلینے کے بعد روحانی تعلق قریب سے قریب رشتہ دار کے ساتھ بھی باقی نہیں رہتا ۔ یہ بھی مقصود نہیں کہ منکرین کے لئے اظہار ہمدردی ناجائز ہے ، بلکہ مقصود یہ ہے کہ کفر کو قابل عفو سمجھنا گناہ ہے ۔ التوبہ
115 التوبہ
116 التوبہ
117 (ف ١) غزوہ تبوک گرمی کے دنوں میں واقع ہوا ، اس لئے عام صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین میں اضطراب تھا کہ گرمی کی اس شدت میں کیونکر سفر طے ہوگا ، کیونکر ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ دشمن سے لڑیں ، پانی بہت کم تھا ، اثنائے سفر میں یہ خطرہ لاحق ہوگیا ، کہیں ہلاک ہی نہ ہوجائیں ، دور دراز سفر ، گرمی کے دن اور دشمنوں سے جہاد بہت لوگوں نے ہمت ہار دی اللہ تعالیٰ نے ارادوں میں استقلال پیدا کیا ، دلوں کو صبر کی توفیق مرحمت فرمائی تو صحابہ میں ایک زندگی پیدا ہوگئی مخلصین کی ایک جماعت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکل کھڑی ہوئی اس آیت میں اسی توفیق کا ذکر ہے ۔ ّ(آیت) ” لقد تاب اللہ علی النبی “۔ سے غرض یہ نہیں کہ نبی کے پائے استقلال میں بھی معاذ اللہ لغزش پیدا ہوگئی تھی یا ان کی ہمت میں بھی کمزوری اور سستی کا ظہور ہوگیا تھا ، بلکہ محض صحابہ کی حوصلہ افزائی کے لئے عفو کے نام کو ان کے ساتھ ضم کردیا ہے ۔ حل لغات : تاب اللہ علی فلان ، کے معنی التفات ساعی کو مبذول کرنے کے ہیں غرض یہ ہے کہ اللہ نے نبی اور اس کے ساتھیوں کو بہ نگاہ رحمت دیکھا اور ان کے دلوں میں ہمت وقوت پیدا کردی ۔ التوبہ
118 (ف ١) ان تینوں کا ذکر گزشتہ اوراق میں گزر چکا ہے یہ تین کعب بن مالک مرارہ بن ربیع ، اور ہلال بن امیہ واقفی تھے عزوہ تبوک میں شریک نہ ہو سکے ، حضور ناراض ہوگئے ، آپ کی نگاہ کرم کا پھرنا تھا کہ صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین نے بھی چشم التفات پھیر لی اب نہ مسجد میں ان سے علیک سلیک ہے نہ بازار میں کوئی پوچھتا ہے ، گھر میں مستورات نے خدمت سے انکار کردیا ، آخر اللہ نے معذرت قبول کرلی ، اور یہ آیات نازل ہوئیں ؟ ” اللھم اغفر لکاتیبہ ولمن سعے فیہ ولوالد یھم اجمعین ، امین “۔ التوبہ
119 التوبہ
120 نمازیوں کے درجے : (ف ١) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرکز محبت میں مسلمان کے لئے رسول کا وجود باجود باعث صد ہزار برکت ہے ، یہ ہو سکتا ہے کہ اپنی جان کے متعلق تغافل ہوجائے ، مگر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تغافل گناہ ہے ، کفر ہے اور معصیت ہے مسلمان کبھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منشاء وارادہ کی مخالفت نہیں کرسکتا ، اس لئے کہ وہ تو سب کچھ حرمت رسول کے لئے قربان کرچکا ہے ۔ وہ لوگ جو حرمت رسول کے لئے جہاد کرتے ہیں ان کی ہر تکلیف نازش اولیاء ہے ، انکی پیاس اور بھوک میں اجر ہے ، ان کا قدم برکت لزوم ہے ، ان کی تکلیف اللہ کو عزیز ہے ۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو صیح معنوں میں اللہ اور اس کے رسول کے محب ہیں ، جو محسن اور نیک ہیں ، محبت رسول اور عشق رسول عافیت کا نام نہیں ، بلکہ سراپا ابتلاء وآزمائش سے مراد ہے دل میں عارض نبوت اور زلف وحی والہام کا خیال ہو ، اور جہاد سے نفرت ہو ، یہ ناممکن عشق رسول کا جذبہ وہ اضطراب آفرین جذبہ ہے کہ اس کے بعد دل کا چین اور آرام رخصت ہوجاتا ہے ، جو نگاہ نور نبوی سے مستفید ہو ، وہ آرام کی نیند سے تیرہ نہیں ہو سکتی ۔ ان آیات میں بتایا ہے کہ غازی اللہ کے محبوب ہیں ہر دکھ جو اللہ کی راہ میں انہیں پہنچتا ہے ، وہ انہیں اللہ کے اور قریب کردیتا ہے ۔ حل لغات : ظلما : پیاس ، نصب ، تھکن ، ضعف ۔ مخمصۃ : بھوک ۔ ولا ینالون : نال منہ کے معنی دشمن کو دیکھ پہنچاتے التوبہ
121 التوبہ
122 عسکری ترتیب : (ف ١) آیت کا نزول سیاق جہاد میں ہوا ہے ، اس لئے تفقہ فی الدین سے غرض عسکری ترتیب اور ٹریننگ ہے ، یعنی جہاد کا اذن عام ہوجائے ، تو سب لوگ نہ نکل کھڑے ہوں بعض ایسے بھی رہیں جو غازیوں کی تربیت کریں اور انہیں جنگ کے رموزواسرار سے آگاہ کریں ، بات یہ تھی کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاد کے لئے اعلان فرماتے تو تمام صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین شوق شہادت میں غزوہ کے لئے تیار ہوجاتے ، اور مدینہ طیبہ بالکل خالی ہوجاتا اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ بعض لوگوں کو تعلیم وتربیت کے لئے پیچھے رہنا چاہئے جہاد کے لئے لوگوں کو تیار کرنا یہ بھی تو جہاد ہے ۔ بعض مفسرین کے نزدیک یہ آیت طلب علم کے لئے مستقل وبالذات ہے ، اسے سیاق وسباق سے کوئی تعلق نہیں غرض یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کا مشغلہ کتاب وسنت کی خدمت ہو ، جو دین سیکھیں اور دوسروں تک پہنچائیں یعنی دونوں گروہ خدمات تقسیم کرلیں کچھ سیاسیات کے لئے وقف رہیں اور کچھ عملی مشغلوں کے لئے ۔ التوبہ
123 (ف ٢) اس آیت میں اصول جہاد کی تشریح کی گئی ہے کہ سب سے پہلے جو قریب کے دشمن ہیں ، ان سے جنگ کی جائے پھر ان لوگوں سے جو پہلوں سے نسبۃ قریب ہوں ، یعنی اقرب فالاقرب کا اصول مد نظر رکھا جائے ، اس طریق سے طاقت وقوت میں باقاعدہ ترقی ہوتی رہتی ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طریق جہاد پر عمل فرمایا ، سب سے پہلے مکے والوں سے معرکے رہے ، اس کے بعد تمام اہل عرب سے ، پھر اہل کتاب سے یعنی بنی قریظہ و بنی نضیر سے ، اس کے بعد خیبروفدک میں جنگ رہی ، صحابہ کرام (رض) عنہم اجمعین نے بھی اسی آئین کو ملحوظ رکھا ، روم ، شام عراق اور تمام بلاد میں اسی ترتیب وتسلسل کو جاری رکھا ، (آیت) ” ولیجدوا فیکم غلظۃ “۔ کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان کو دشمن کے مقابلہ میں پرہیبت اور پرجلال رہنا چاہئے کافر مسلمان کے کسی بشر کو دیکھے اور لرزہ براندام ہوجائے ، جب جاکر اسلام مکمل ہوتا ہے ۔ (آیت) ” واعلموا ان اللہ ھو المتقین “۔ میں اس بات کی جانب صریح اشارہ ہے کہ صحیح اتقاء ہیبت وجلال کا نام ہے ضعف وناتوانی کا نہیں ، صحیح معنوں میں متقی وہ ہے ، جو کفر کے بدن پر کپکپی طاری کر دے اور جسے دیکھ کر کفر سہم جائے ۔ حل لغات : نفر : نکل کھڑا ہوا ، غلظۃ : سختی تندی ۔ رجسا : غلاظت کفر ونفاق ۔ التوبہ
124 التوبہ
125 التوبہ
126 التوبہ
127 التوبہ
128 مقام محمدی : (ف ١) رسول کی تنکیر تعظیم شان کے لئے ہے یعنی تمہارے پاس اللہ نے ذی وقار پیغمبر بھیجا ہے ، جو تم میں سے ہے ، لوازم بشری کا حامل ہے ، انسان ہے ، انسانوں کی سی ضرورتیں ، اور حاجتیں رکھتا ہے ، بالکل تمہاری طرح اللہ کا ایک بندہ ہے مگر رتبہ ومقام کا یہ عالم ہے کہ تم میں سے بڑے سے بڑا انسان اس کی خاک پاکی برابری نہیں کرسکتا ، وہ انسان ہے ، مگر انسانیت کو اس بےنظیر ہستی پرفخر ہے ۔ حضرت ابن عباس (رض) اسی آیت کو یوں پڑھا کرتے تھے ” من انفسکم “۔ سین کے زبر کے ساتھ یعنی تم سے بہترین ، اعلی وارفع انسان کو بھیجا ہے ، عین تقاضائے رسالت ہے کہ جو پیغمبر ہو کر آئے ، وہ تمام انسانوں سے دل ودماغ ، جسم و روح ، تو قابلیت واستعداد کے لحاظ سے بلند ترین مقام پر فائز ہو ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تین خصوصیات بھی گنائی ہیں ، ١۔ امت کے غمگسار ہیں ۔ ٢۔ قوم کی ہدایت کے لئے بیحد مشتاق ۔ ٣۔ مسلمانوں کے لئے رؤف ورحیم ۔ امت کے غمگساری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت) ” لعلک باخع نفسک “۔ کہ تم ملت کے لئے ہلکان کیوں ہوئے جاتے ہو ، ہدایت کے لئے حرص وشوق کا یہ عالم ہے کہ وقت کا تالمحہ تبلیغ میں صرف ہو رہا ہے ۔ آپ کی رحمتیں اور نوازشیں جن کی وجہ سے آپ کو روف ورحیم کے پر شکوہ لقب سے نوازا گیا ہے ، اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کے ضبط کے لئے دفتروں کی ضرورت ہے ، غرض یہ ہے کہ مسلمان مقام رسالت اور مرتبہ رسول کو پہنچائیں اور سرگرم اطاعت ہوں ، اور فخر کریں کہ ہمیں اللہ نے اتنا بہتر ہادی وراہنما عنایت فرمایا ہے جسے ہم سے زیادہ ہماری فکر ہے ۔ حل لغات : عنتم : عنت سے ہے جس کے معنے تکلیف اور دکھ کے ہیں ۔ التوبہ
129 التوبہ
0 یونس
1 یونس
2 جادو اثری : (ف ١) (آیت) ” ان ھذا لسحر مبین “۔ کے معنے یہ ہیں کہ منکرین کو بھی حضور کی قوت تاثیر اور طاقت جذب وکشش کا اندازہ تھا وہ جانتے تھے کہ یہ شخص اپنے اندر ایک خاص نوع کا مقناطیسی اثر رکھتا ہے ، جو اس کی باتیں سنے گا وہ ضرور متاثر ہوگا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب کھینچا ہوا چلا آئے گا ۔ چناچہ کتب سیر میں بےشمار ایسے واقعات موجود ہیں کہ لوگوں نے انتہائی دشمنی کے باوجود بالاخر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں میں آجانے کی سعادت حاصل کی ۔ یونس
3 کائنات کا دل : (ف ٢) ایام سے غرض مدت ہائے دراز ہیں کیونکہ یوم کے لفظ میں باعتبار لغت و ادب بہ نسبت نہار لفظ کے جس کے معنے دن کے ہیں اور زیادہ وسعت ہے ، (آیت) ” استوی علی العرش “ سے غرض عطوفت الہی کا کائنات کی جانب متوجہ ہونا ہے ، عرش تدابیر الہی کا مقام ومرکز ہے ، جس طرح دل انسان کے لئے تمام ارادوں کا مدار ومحور ہے ، اس طرح عرش کا ئنات مادی کا دل ہے ، یا غیر اعلی سمجھ لیجئے تجلیات تدبیری عرش کی وساطت سے نافذ ہوتی ہیں ، یعنی اللہ کے تمام احکام یہیں سے صادر ہوتے ہیں ، تفصیل گزشتہ اوراق میں گزر چکی ہے ۔ حل لغات : الامر : وہ حقیقت عامہ جو ساری کائنات کو شامل ہے ۔ یونس
4 (ف ١) اس آیت میں حشر ونشر کا ثبوت دیا گیا ہے قرآن چونکہ مدلل کتاب ہے اس لئے کوئی دعوی تشنہ برہان نہیں رہنے دیا ، امکان حشر کے متعلق فرمایا (آیت) ” انہ یبدؤالخلق “۔ کہ وہ اس وقت کائنات کو وجود میں لاتا ہے ، جب کہ وہ کہیں موجود نہیں ہوتی ، بلکہ خود وجود اس کی قدرت کا کرشمہ ہے ، اس لئے جب کائنات کی کیفیت فنا ہوجائے گی ، تو اس وقت بھی اسے دوبارہ پیدا کیا جا سکتا ہے ، جو بات ایک دفعہ ممکن ہے ، وہ دوسری بار کیوں محال ہو ، ضرورت حشر کے متعلق ارشاد فرمایا ، (آیت) ” لیجزی الذین امنوا وعملوا الصلحت بالقسط “۔ یعنی تاکہ صلحاء اور پاکباز لوگوں کو اجر سے بہرہ ور کیا جائے ، اس دنیا میں مکافات عمل کا پورا سامان وانتظام نہیں ہوسکتا ہے ، ایک شخص ڈاکو ہو ، چور ہو ، اور قوم وعدالت کی گناہوں میں معزز ہو ، یہ بھی ممکن ہے ، ایک شخص نیک اور پاکباز ہو ، مگر عوام میں اس کی بدعملی کا شہرہ ہو ، اس لئے ضرورت ہے ، ایک ایسے عالم کے فرض کرنے کی جہاں عدل وظلم میں حلو فاصل موجود ہو ، جہاں نیک وبد میں امتیاز ہو ، جہاں کی عدالتیں جرم سے اغماض نہ کرسکیں ، اور ایک پاکباز انسان کو پاکبازی کی پوری پوری قیمت مل سکے ، یہی عالم آخرت ہے جسے اسلام پیش کرتا ہے ۔ یونس
5 یونس
6 الایات : (ف ٢) قرآن حکیم کا یہ عجب طرزاستدلال ہے کہ وہ زیر بحث مطالب کی کائنات کے مظاہر پیش کرکے آسانی سے ثابت کردیتا ہے ۔ ” لایات “ کہہ دینے سے تمام دعاوی کی جانب ذہن خود بخود منتقل ہوجاتا ہے ، توحید وجود باری ، بعثت ، رسالت اور دیگر قسم کے تمام دعاوی اس مظاہرہ قدرت سے عیاں ہیں ، غور فرمائیے ، دن اور رات کا تعین اور کائنات کی دوسری خوبیاں جو ہر ذرہ میں جاری وساری ہیں ، کیا بغیر خدا کے ممکن ہیں ، کائنات کا نظم وفسق اور ایک مخصوص وحدت کے جلوے کیا توحید کی جانب ذہن انسان کو متوجہ نہیں کرتے کیا یہ سب کچھ بےغرض وغایت ہے آسمان کی بلندیاں اور زمین کی بستیاں بےمطلب ہیں ؟ کیا یہ بعثت وحشر کی طرف صاف اشارہ نہیں ، مادی نظام کی تکمیل کے بعد کیا روحانی نظام کی تکمیل غیر ضروری ہے ، کیا عقل مان سکتی ہے کہ انسان کو اور کارگاہ حیات کو یونہی بےفائدہ اور بےغرض پیدا کیا گیا ہے ، اس کے لئے کوئی پروگرام اور کوئی نصب العین نہیں ؟ کیا یہ احتیاج روحانی بجائے نبوت کی دلیل نہیں ؟ یہ سب مطالب لایات کہہ کر بیان کردیئے ہیں ، یہ قرآن کا اعجاز ہے ۔ یونس
7 یونس
8 یونس
9 یونس
10 (ف ١) یعنی صالحین کی اخروی زندگی اس درجہ کامل ، خوش گوار اور راحت افزا ہوگی کہ وہ بالآخر حمد وستائش کرنے لگیں گے ، اور کہنے لگیں گے کہ اللہ یہ تیری ربوبیت کا کرشمہ ہے اور انسان کہاں اور یہ رتبہ والی کہاں ؟ حل لغات : حمیم : گرم پانی ۔ تحیتھم : تحفہ ملاقات ، سلام ۔ یونس
11 (ف ١) یعنی اللہ میں علم وعلم ہے وہ تمہاری بددعاؤں اور برے مطالبوں کو سنتا ہے مگر قبول اس لئے نہیں کرتا ، کہ تمہارا اسی میں بھلا ہے ۔ یونس
12 (ف ٢) اس آیت میں انسان کی اس نفسی خوبی کو بیان کیا ہے کہ مصیبت کے وقت اس کا دل مجلی ہوتا ہے ، اور اس وقت وہ اللہ کی ضرورت کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کرتا ہے مگر جب تکلیف کا وقت گزر جاتا ہے ، دل پر بدستور غفلت کا حجاب پڑجاتا ہے ، اور فطرت کی آواز دب جاتی ہے ۔ سچا مومن وہ ہے جو دولت وعافیت کے نشوں میں بھی فطرت پر نظر رکھتا ہے ، اور مذہب وملت کی ضروریات کو کسی حالت میں بھی فراموش نہیں کرتا ۔ حل لغات : اجلھم : مدت ۔ القرون : جمع قرن ، بمعنے زمانہ ہائے طول ، یعنی اہل زمانہ ۔ یونس
13 یونس
14 یونس
15 (ف ١) مکے والوں کی سب سے بڑی بدبختی یہ تھی کہ آکر وقت تک انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منصب کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ، ان کا یہ مطالبہ کہ قرآن میں حسب دل خواہ تبدیلیاں کر دو ، اس دعوی پر دلیل ہے ، بھلا کیا انبیاء علیہم السلام اپنی مرضی سے تعلیمات الہیہ میں اصلاح وترمیم کرسکتے ہیں ۔ انبیاء علیہم السلام کے تو معنے ہی یہ ہیں ، کہ وہ ارادہ الہی کے ترجمان ہیں اپنی جانب سے وہ کچھ نہیں کہتے ، انکی ہر بات منشاء الہی کے مطابق ہوتی ہے ، انبیاء علیہم السلام کا نفس بشری اپنی تمام خواہشوں اور اقتضاء کو نفس نبوت کے تابع کرلیتا ہے ، اس لئے اپنی جانب سے تبدیلی اور اصلاح کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اگر نبی اپنے دعوے سے دست بردار ہوجائے اور قوم کے جذبات وخیالات کے ماتحت ہوجائے ، تو پھر اس میں اور فریب کار انسان میں کیا فرق ہے ، انبیاء علیہم السلام کی باتیں محکم اور اٹل ہوتی ہیں ، جو خدا کی جانب سے ہیں ، اس میں انسان مداخلت سراسر بےجا اور بےضرورت ہے ۔ اس آیت میں اسی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے ۔ حل لغات : خلٓئف : قائمقام ، پس آیندگان ۔ یونس
16 معیار رسالت : (ف ١) مکہ والوں نے جب قرآن کی تبدیلی کا مطالبہ کیا تو جوابا فرمایا گیا کہ یہ ناممکن ہے ، انبیاء کو اپنی جانب سے تعلیمات الہیہ میں کمی بیشی کرنے کا مطلقا اختیار نہیں دیا گیا ، وہ تو محض اللہ کے قرابت اور اطاعت شعار ہوتے ہیں منصب نبوت کا مقصد ہی یہی ہے ۔ کہ نفس کی ترجمانی نہ ہو ، منشاء الہی کی تعمیل ہو ، پھر انبیاء سے یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ پیغام خداوندی کو بدل دیں ، ان آیات میں ایک اور طریق سے جواب دیا گیا ہے حضور دعوی نبوت سے قبل چالیس سالہ زندگی کفار مکہ کے سامنے تھی ، آپ سے کہا گیا ہے کہ ان سے پوچھیں کہ کیا تم نے کبھی کوئی بات چالیس (٤٠) سال کے طویل عرصے میں ایسی دیکھی ہے جو قابل اعتراض ہو ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بےلوث بچپن انہوں نے دیکھا ، جوانی دیکھی اور جوانی کے پاکیزہ مشاغل دیکھے ، اور اب جبکہ آفتاب شباب نصف النہار سے آگے گذر چکا ہے ، تم یہ سمجھتے ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نفس کی خواہشات کا شکار ہوچکا ہے ، اور محض جاہ وحشمت کے لئے نبوت کا مدعی ہے ، یہ بات کبھی عقل تسلیم کرسکتی ہے ، کہ جو شخص چالیس (٤٠) برس تک پاکباز رہے ، صادق وامین کہلائے جس کا خیال وعمل معصیت کی آلودگیوں سے پاک رہے ، بنی نوع کا ہمدرد وغمگسار ہو ، اور شاندار سیرت کا مالک ہو ، یکایک اس کی سیرت بدل جائے ، اور وہ خدا پر جھوٹ بولنے لگے ، یہ کیسے ممکن ہے ؟ کیونکر ایک پاکباز انسان اتنے بڑے جھوٹ کی جرات کرسکتا ہے ۔ ” عمرا من قبلہ “ سے غرض شاندار اور غیر معمولی اور معلوم عمر ہے ، کیونکہ کسی شخص کے متعلق کسی برائی کا علم نہ ہونا اور چیز ہے اور اس شخص کا نیک ہونا اور اس طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی نبوت کے قبل کے واقعات زندگی لوگوں کو معلوم ہوں ، اور ان میں وہ بلندی اور رفعت کے لحاظ سے شہرت رکھتا ہوں ورنہ ہر شخص جس کے حالات سے آپ پوری طرح آگاہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ میری پہلی زندگی میں کوئی عیب دکھاؤ ۔ یونس
17 یونس
18 (ف ٢) (آیت) ” بما لا یعلم فی السموت “۔ سے غرض یہ نہیں کہ ایسے معبودان باطل بھی کائنات میں موجود ہیں ، جن کو خدا نہیں جانتا ، بلکہ غرض یہ ہے کہ اللہ کا علم چونکہ نہایت کامل اور حاوی ہے ، اس لئے جب اس کے علم میں اس کا کوئی ساجھی نہیں تو تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اس کے سوا دوسرون کو بھی خدا گردانتے ہو ۔ یونس
19 یونس
20 (ف ١) ایۃ سے مراد مطلوبہ معجزات ہیں ، قرآن کی آیت نہیں ۔ حل لغات : شفعآؤنا : جمع شفیع ، سفارش کرنے والا ۔ امۃ : مشترک العقیدہ جماعت ، ہدایت شرط نہیں ، ہر گروہ جو کسی مقصد میں متحد ہو امت کہلائے گا مگر یہاں صحیح العقیدہ لوگ مراد ہیں ، کیونکہ (آیت) ” فاختلفوا “۔ کا قرینہ اس پر دلالت کر رہا ہے ۔ یونس
21 یونس
22 (ف ١) فطرت کے لحاظ سے ہر شخص کو پاکیزہ پیدا کیا گیا ہے ہر قلب میں اللہ کی توحید کے چشمے بہتے ہیں ، ہر آنکھ جلوہ ہائے طور وسینا کا تماشہ کرسکتی ہے ، مگر ہوتا یہ ہے کہ زندگی کی کثافتوں میں فطرت کی پاکیزگی ضائع ہوجاتی ہے ، خیالات فاسدہ کی وجہ سے دل بےنور ہوجاتا ہے ، اور جہالت تعصب کی وجہ سے بصیرت بھی باقی نہیں رہتی ، عیش وتنعم کی زندگی میں انسان اللہ کو بھول جاتا ہے ۔ مگر جونہی کوئی حوادث سے آنکھیں کھلتی ہیں ، سوئی ہوئی فطرت بیدار نظر آتی ہے ، دل کے تمام حجاب ایک ایک کر کے اٹھ جاتے ہیں ، اور قہر قلب سے توحید کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔ ان آیات میں انسان کی اس فطرت مستور کا حال بیان کیا ہے کہ مصیبت کے وقت یہ ہمیں یاد کرتے ہیں اور جہاں ہم نے اس کی سن لی ، پھر وہی تمردو معصیت پھر وہی گناہوں کا ارتکاب اور جذبہ عیش وتنعم موجزن ہونے لگتا ہے ۔ قرآن چونکہ علیم بذات الصدور “ خدا کی کتاب ہے اس لئے اس میں یہ تمام الجھنیں دور کی گئی ہیں ، جو دلوں میں پیدا ہوتی ہیں ، اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں کہ انسان کس کس راہ سے فریب کھاتا ہے اس لئے ان واردات کو کھول کھول کر بیان کیا ہے ، (آیت) ” یسیرکم فی البروالبحر “۔ سے غرض یہ بھی ہے کہ انسان کے تجربوں کی دنیا وسیع ہونی چاہئے اور چل پر کر اسے دیکھنا چاہئے کہ کائنات میں کیا رہا ہے ۔ حل لغات : عاصف : تیز اور سخت ہوا ۔ یونس
23 یونس
24 یونس
25 دنیا کی ایک مثال : (ف ١) دنیائے دوں ہزار لباس فاخرہ پہن کر جلوہ گر ہو ، مرد مومن سے اس کے عیوب پنہاں نہیں رہ سکتے وہ بالغ النظر ہوتا ہے ، اس کی نظریں محسن ظاہری سے گزر کر تبع باطن تک پہنچ جاتی ہیں ، مگر وہ لوگ جو صرف ظاہر پرست ہیں ، اس کے جلوؤں سے آنکھیں خیرہ کرلیتے ہیں ۔ اس آیت میں آرائش عالم کی کیفیت کو واضح صورت میں پیش کیا ہے ، اور بتایا ہے کہ دنیا کا جو پہلو تمہیں نظر آتا ہے ، وہ حسین نہیں ، غور سے دیکھو ، اس کے چہرہ پر سرور پر فنا اور موت کی کس قدر خوفناک جھریاں پڑی ہوئی ہیں ۔ آج جہاں دولت ہے کل افلاس ہے جس جگہ قصر ومحل تھے وہاں جھونپڑیاں نظر آرہی ہیں جنہیں مخمل وباغات پر قدم رکھنا مشکل تھا جو نازوتنعم کے آغوش میں پروان چڑھے ، آج آغوش لحد میں پڑے ہوئے ہیں ۔ ٍقرآن حکیم کی یہ مثال دنیا عبرت کے لئے بہترین مثال ہے ، دنیا ایک کھیت ہے ، ایک باغ ہے جو پانی برس جانے سے لہہا اٹھتا ہے ، اور سرسبز شاداب نظر آنے لگتا ہے ، پھل کثرت سے پیدا ہوتے ہیں ، مالک سمجھتا ہے کہ اب خوش بختی وخوش حالی میں کون میرا مقابلہ کرسکتا ہے ، کہ اچانک رات کو اللہ کا عذاب آجاتا ہے اور وہ ہرا بھرا باغ اجڑ جاتا ہے ، دنیا کی یہ کس قدر صحیح مثال ہے مگر دیدہ عبرت کہاں جو تماشہ کرے ۔ حل لغات : لم تغن : غنی یغنی ، اس کے معنی باقی رہنے اور قیام کے ہیں ۔ صفائی کے معنی قیام گاہیں ۔ بالامس : سے مراد ماضی قریب کا زمانہ ہے ، قتر : بمعنی گردوغبار ۔ یونس
26 (ف ١) جب کہ دنیا کا یہ حشر ہے تو پھرجائے پناہ کہاں ہے ؟ وہ کون ہے جس کی وجہ سے صحبت وسل امتی کی راہیں کھلتی ہیں ، اس آیت میں اسی سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ اگر فنا وموت کے بعد نجات حاصل کرنا چاہتے ، اور دائمی خوش زندگی کے خواہشمند ہو تو اللہ سے اچھا تعلق پیدا کرو ، وہ حی وقیوم ہے ، اسی کی ذات کو ثبات وقرار ہے ، وہ سل امتی کی دعوت دیتا ہے ، مبارک ہیں وہ لوگ جو اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں ۔ اللھم اغفر لکاتبیہ ولمن سعے فیہ ۔ یونس
27 یونس
28 یونس
29 یونس
30 یونس
31 دعوت توحید : (ف ١) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے توحید کی جانب انسانوں کو دعوت دی ہے ، ان سے پوچھا ہے کہ تمہیں رزق کون دیتا ہے ، کون تمہارے لئے کھانے پینے کا سامان مہیا کرتا ہے ، وہ کون ہے ، جس نے کان عطا کہئے کس نے آنکھیں بخشیں ، زندگی کو موت سے اور موت کو زندگی کے خوشگوار لمحات میں تبدیل کرنے والا کون ہے ؟ کائنات کا نظم ونسق کس کے اشارہ چشم کا محتاج ہے ، ظاہر ہے ان باتوں کا فطرت انسانی کی جانب سے یہی جواب ملے گا ، کہ اللہ قرآن حکیم میں پوچھتا ہے ، کہ جب اللہ ہی اس کارحیات کو چلا رہا ہے ، تو پھر تم میں کیوں توحید کے جذبات پیدا نہیں ہوتے ، تمہیں کیا ہوگیا ہے ، کہ ایسے حکیم وقدیر خدا کو چھوڑ کر دوسروں کے آستانوں پر جھکتے ہو ، یہ کھلی گمراہی اور شرک ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل عفو نہیں ہے ۔ جب موت وحیات اس کے اختیار میں ہے ، اور سب کے لئے فنا وموت لازم ولابد ہے تو یہ سفہاء کیونکر الوہیت کا دعوی کرسکتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک قسم کی محرومی ہے وہ نہ فطرتا انسان توحید کی جانب مائل ہے دل کی گہرائیوں میں توحید کے چشمے ابل رہے ہیں فطرت کی آواز ہے کہ توحید کے سوا کوئی عقیدہ تسلی بخش نہیں ، توحید کے سوا کسی عقیدے میں تسکین قلب کا سامان موجود نہیں مگر یہ نہیں کہ مناسق کو جھٹلاتے ہیں اور اللہ سے نہیں ڈرتے ۔ حل لغات : فسقوا : جنہوں نے حدود فطرت سے تجاوز کیا فسق کے حقیقی معنے فطری حدود سے تجاوز کرنے کے ہیں اور راہ راست سے بھٹک جانے کے ۔ یونس
32 یونس
33 یونس
34 یونس
35 یونس
36 یونس
37 کتاب الہی : (ف ١) قرآن حکیم کا تعارف ہے کہ یہ کتاب دماغی افتراع نہیں ، عقل ودانش انسان کی رہن منت نہیں ، اس کا تعلق الہام ووحی سے ہے ، یہ صحیفہ آسمانی خدا کی جانب سے ، ہے نبوت یہ ہے کہ اس کا تعلق تمام سابقہ کتب سے ہے ، یہ تمام صداقتوں اور سچائیوں کی تصدیق کرتی ہے ، ہر صداقت کا خیر مقدم کرتی ہے ، اور اس میں اور دنیا کی تمام کتابوں میں ایک ربط موجود ہے پھر یہ بھی کہ ضروریات انسانی کی اس میں تفصیل ہے ، تمام معاشی واخلاقی الجھنوں کو سنبھلا گیا ہے زندگی کا لائحہ عمل اور پروگرام اس میں موجود ہے ، قلب وروح کے تمام تقاضوں کی اس میں تکمیل ہے اور غیر مشکوک کلام ہے ، اسے تسلیم کرلینے میں کوئی منطقی اشکال نہیں ، کوئی معاشی الجھن نہیں ، فطرت کا پیغام ہے اور فطرت کی طرح سادہ اور حسین ۔ حل لغات : الا ظنا : یہاں مراد وہم وتخمین ہے ۔ یونس
38 یونس
39 (ف ١) یہ قرآن حکیم کا وہ مطالبہ ہے کہ جس نے چودہ سوسال سے دنیا ، کفر وعناد میں تہلکہ بپا کر رکھا ہے ، قرآن حکیم کہتا ہے تمہیں اگر میرے منزل من اللہ ہونے میں شبہ ہے تو تم پوری قوت واستعداد کے ساتھ مقابلہ پر آجاؤ فصاحت وبلاغت کے سازوسامان کے ساتھ مسلح وآراستہ ہو کر آؤ تم میں یہ ہرگز جرات پیدا نہیں ہو سکے گی کہ تم ایک سورت بھی قرآن کے مقابلہ تصنیف کرسکو ، یہ چیلنج ان لوگوں کو دیا گیا جن کا بچہ بچہ شاعر تھا ، فصاحت وبلاغت جن کی بےدم کنیز تھی جن کی گھٹی میں حذاق سخن پڑا تھا مگر کسی کی ہمت نے قرآن کے اعلان مقابلہ کو قبول نہیں کیا ، یہ چیلنج آج بھی موجود ہے ، دنیا ترقی کی بہت سی منزلیں طے کرچکی ہے عربی کی قید نہیں ، وقت ومکان کی شرط نہیں ، کوئی قوم کسی وقت ایسا کلام پیش کرے ، جس میں قرآن کی سی معرفت اور حقائق ہوں ، قرآن کی سی جامعیت ہو ، جو قرآن کی طرح زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہو ، اور پھر فصاحت وبلاغت کا بھی یہ درجہ ہو کہ لوگ سنیں اور آویزہ گوش بنائیں ، اگر کفر میں دم خم ہے ، اور قرآن کو وہ حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے تو اسے آج بھی دعوت مقابلہ ہے ، قرآن اللہ کی کتاب ہے ، اس لئے انسانی طاقت سے باہر ہے کہ وہ اس کے ہم پلہ کتاب لکھ سکے ، اس لئے جن لوگوں کو قدرت نے سوچنے کا مادہ عطا فرمایا ہے انہیں اس حقیقت پر غور کرنا چاہئے اور قرآن کی برکات سے مستفید ہونا چاہئے ۔ یونس
40 یونس
41 کفر سے بیزاری : (ف ٢) اس نوع کی آیات سے غرض کفر سے اظہار بیزاری ہے یہ سنانا مقصود ہے کہ اسلام کو کفر کے ساتھ کوئی تعلق خاطر نہیں اور اسلام کے نزدیک کفر کے اعمال وعقائد ہمیشہ نفرت انگیز ہیں ، بعض لوگوں نے جو اس قسم کی آیات کو رواداری اور مسالمت سے تعبیر کیا ہے ، اور کہا ہے کہ یہ آیات جہاد کے بعد منسوخ ہوچکی ہیں غلط ہے ۔ (آیت) ” انا بری مما تعملون “۔ کے الفاظ صاف صاف کہہ رہے کہ تم سے کامل بیزاری اور نفرت ہے ۔ (ف ١) تعارف سے مقصود ہے کہ یہ لوگ جب آپس میں ملیں گے تو ایک دوسرے کو ملامت کریں گے یہ ذلت وتحقیر کا تعارف ہوگا ، مرید شیخ سے کہے گا کہ آپ نے ہمیں کیوں گمراہ کیا اور شیخ اپنے مرشدوں برے دوستوں اور راہنماؤں کا دامن پکڑے گا ۔ حل لغات : یستمعون الیک ۔ یعنی بظاہر سنتے ہیں ۔ الصم : جمع اصم بمعنی بہرہ ۔ العمی : جمع اعمے بمعنی اندھا ۔ یونس
42 یونس
43 یونس
44 یونس
45 (ف ١) تعارف سے مقصود ہے کہ یہ لوگ جب آپس میں ملیں گے تو ایک دوسرے کو ملامت کریں گے ، یہ ذلت و تحقیر کا تعارف ہوگا ، مرید شیخ سے کہے گا کہ آپ نے ہمیں کیوں گمراہ کیا ، اور شیخ اپنے مرشدوں برے دوستوں اور رہنماؤں کا دامن پکڑے گا ۔ یونس
46 (ف ١) یعنی منکرین ومعاندین کے لئے دو قسم کی سزائیں ہیں ایک وہ جو دنیا میں واقع ہوں گی اور دوسری کا تعلق آخرت سے ہے ، آیت کا مقصد یہ ہے کہ مخالفین رسول دونوں قسم کی سزاؤں کے مستحق ہیں ، دنیا میں ان کی ذلت وتحقیر آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ، کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کا غضب ان پر نازل ہوتا ہے ۔ ’ اما “ میں ، ان حرف شرط ہے ما تزئین کلام کے لئے اضافہ ہے ، اور جواب شرط محذوف ہے ۔ فتراہ : یعنی ہم تمہیں اگر یہ عذاب جو ان کے لئے مقدر ہے یہاں دکھائیں گے ، تو آپ یہاں دیکھ لیں گے ، ورنہ آخرت میں تو ان کی ذلت آشکارا ہو کر ہی رہے گی ، یونس
47 یونس
48 یونس
49 عذاب کا وقت : (ف ٢) مکے والے بربنائے استہزاء عذاب کے طالب تھے ، کہتے تھے کہ جب آپ شب وروز ہمیں عذاب سے ڈراتے ہیں ، تو پھر وہ آکیوں نہیں جاتا ، اور کیوں ہمیں انکار ومعصیت کے لئے زندہ رہنے دیا جاتا ہے ، گویا ان کے خیال میں اللہ جو انہیں ڈھیل دے رہا ہے ، اور مواخذہ میں تعجیل نہیں کرتا ، تو یہ ان کے لئے ہمت افزائی ہے ، قرآن نے جواب دیا ہے کہ کسی قوم کے متعلق آخری فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے ، پیغمبر نفع وضرر کا مالک نہیں ، اللہ جب تک چاہے مجرموں کو ڈھیل دے ، اور جب ان کے جرائم حد سے تجاوز کر جاتے ہیں ، تب ان کی تباہی کا وقت آجاتا ہے ، اور پھر نہ تاخیر ہوتی ہے اور نہ خرابی میں کسر رکھی جاتی ہے ۔ یونس
50 یونس
51 یونس
52 (ف ١) بعض انبیاء کی بعثت کے بعد یہ یقین ہے کہ جو لوگ معاند ہوں انہیں تباہ کردیا جائے آفتاب ہدایت کے طلوع کے بعد کفر کی تاریکیوں کا چھٹ جانا ضروری ہے اور بدیہی ہے ۔ مکے والے بار بار پوچھتے تھے کہ کیا واقعی عذاب آجائے گا ، اور کیا واقعی ان کا انجام اچھا نہیں ، قرآن حکیم ارشاد فرماتا ہے ، کہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ عذاب آئے گا اور ضرور آئے گا ۔ چنانچہ ان اصرار کرنے والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ، کہ میدان بدر میں کفر کی طاقت وقوت ہمیشہ کے لئے کم ہوگئی ہے ، عذاب طلب کرنے والے عذاب میں مبتلا ہوگئے اور اللہ کی غیرت نے ان کا خاتمہ کردیا ، قرآن کے الفاظ میں اس وقت ان کی آنکھیں کھلیں اور حیرت وحسرت سے انہوں نے دیکھا ، کہ اسلامیوں کی مٹھی بھر جماعت ان سے جنگ آزما ہے اور خرمن کفر وعناد کے لئے برق خاطف ثابت ہو رہی ہے ۔ حل لغات : بیاتا : رات کے وقت بیت کا لفظ بیتوتت سے ماخوذ ہے جس کے معنے رات گزارنے کے ہیں ، اسروالندمۃ : اسرار ذوات الاضداد سے ہے جس کے معنی چھپانے اور ظاہر کرنے دونوں کے ہیں ۔ یونس
53 یونس
54 یونس
55 یونس
56 یونس
57 قرآن بہترین راہ نما ہے ! : (ف ١) ایک گمراہ شخص جب ہدایت قبول کرتا ہے ، اور گمان ویقین کی نعتوں سے بہرہ ور ہوتا ہے تو ضرور ہے کہ چار منزلوں سے ہو کر گزرے ۔ اولا : گناہوں سے آگاہ ہو ۔ ثانیا : شکوک وشبہات سے نجات حاصل کرے ۔ ثالثا : صراط مستقیم کو دیکھ لے ، رابعا : شاہد مقصود سے ہم کنار ہوجائے ، قرآن حکیم کے متعلق اس آیت میں بالکل اسی ترتیب سے فوز وفلاح کا ذکر ہے ۔ یہ موعظت ہے اس کی برکت سے دلوں میں گناہوں کی برائیوں کا احساس پیدا ہوجاتا ہے ۔ یہ شفاء ہے جس کی وجہ سے دل کی تمام بیماریاں دور ہوجاتی ہیں ، شکوک وشبہات کے بادل چھٹ جاتے ہیں ، ھدی : یعنی صراط مستقیم کی جانب راہ نمائی رحمت ہے ، جسے دوسرے لفظوں میں کامیابی وکامرانی کہئے ، گویا قرآن حقیقی معنوں میں واردئے شفا ہے ، جو گنہ گاروں کو خدا کی رحمت کا مستحق بتا دیتا ہے اور تمام منزلوں میں انسان کی راہ نمائی کرتا ہے ۔ یونس
58 یونس
59 (ف ١) یعنی حرام وحلال کے لئے اللہ تعالیٰ کچھ اصول مقرر کر رکھے ہیں ہر شخص کو بجائے خود اختیار نہیں کہ وہ اللہ کی بعض نعمتوں کو حلال قرار دے اور بعض کے متعلق کہدے کہ یہ حرام ہیں ۔ حل لغات : شان : اصل معنے قصد کے ہوتے ہیں عرب کہتے ہیں ، ماء شانت شانہ یعنی ما قصدت قصدہ ، مصدر ہے ، معنی مفعول ، عام طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ افاض : اندفع ۔ کسی کام کو شروع کرنا کسی کام کے درپے ہونا ۔ یونس
60 یونس
61 (ف ١) کتاب مبین سے مراد علم الہی ہے جسے شرع کی اصطلاح میں لوح محفوظ کہتے ہیں ۔ یونس
62 یونس
63 یونس
64 اللہ کے دوست : (ف ٢) اللہ کے دوستوں کی علامت دیوانگی وجنون نہیں ، خرقہ پوشی وفقر وافلاس نہیں ، بلکہ بےخوفی اور کامیابی ہے ۔ اللہ کے حبیب وہ ہیں جن کے دلوں میں ماسوا اللہ کا خوف نہ ہو ، جو کسی باطل قوت سے نہ ڈریں اور نہ وہیں جن کے لئے دنیا کی تمام نعمتیں میسر ہوں ، جو دین ودنیا میں رحمت ایزدی کے آئینہ دار ہوں ، مسلمان کو سوچنا چاہئے کہ کیا آج کل اسے خدا کی دوستی کا فخر حاصل ہے ۔ یونس
65 (ف ٣) صحیح عزت واقتدار مال ودولت سے حاصل نہیں ہوتی ، بلکہ یہ خدا کی دین ہے سچے مخدوم ومحترم وہ ہیں ، جو اللہ کے دین کے خادم ہوں ۔ حل لغات : لکلمت اللہ : قوانین الہی سے تعبیر ہے ۔ العزۃ : غلبہ ، قوت ، اقتدار ۔ یونس
66 (ف ١) شرک کے متعلق قرآن حکیم میں بار بار ارشاد فرمایا گیا ہے کہ سراسر بےثبوت اور بےدلیل بات ہے اس کی تائید میں کوئی حجت پیش نہیں کی جاسکی کیونکہ خدا کے تصور میں توحید داخل ہے ، کسی ذات کو خدا کہہ دینا دوسرے لفظوں میں یہ اعتراف کرلینا ہے ، کہ ہم کسی ذات کے ساتھ عقیدت رکھتے ہیں جس کا کوئی شریک سہیم نہیں اللہ کی بےنیازی ، اس کی تقدیس اور اس کا ہمہ گیر قبضہ وملک بتا رہا ہے کہ کہ اسے زندگی میں ساجھی کی ضرورت نہیں ، یہ بےعلمی کی بات اور جھوٹ ہے ۔ یونس
67 یونس
68 (ف ٢) آیت کا مقصد یہ ہے کہ بت پرست اور تثلیت کے پجاری حقیقی کامیابی کو حاصل نہیں کرسکتے روحانی ارتقاء جو صرف موحدین کا حصہ ہے ، اس سے یہ لوگ یکسر محروم رہتے ہیں ۔ حل لغات : یخرصون : مادہ خرص عین اندازہ ، وتخمین ۔ یونس
69 یونس
70 یونس
71 نباء نوح : (ف ١) نوح (علیہ السلام) کا قصہ عزم واستقلال کا نمونہ ہے ، یہ تقریبا ایک ہزار سال تک پہیم ومسلسل قوم میں تبلیغ کی ، اور دن رات وعظ ونصیحت ، مگر اس کا نتیجہ بجز عصیاں ونافرمانی کچھ نہ نکلا ، چاہئے تو یہ تھا کہ یہ لوگ حضرت نوح (علیہ السلام) کے مواعظ سے دلوں میں تبدیل پیدا کرتے ، برائیوں سے نفرت کرتے ، اور پاکباز و خدا پرست ہلنے کی سعی کرتے ، لیکن ہوا یہ کہ دل بغض وعناد کی غلاظتوں سے آلودہ ہوگئے نافرمانی وانکار کی لعنتوں نے چاروں طرف سے ان کو گھیر لیا ، حضرت نوح (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ ہزار سالہ تبلیغی کوششوں کا صلہ دشمنی اور عداوت کی صورت میں ملا ، آپ نے کمال بےخوفی سے اعلان فرما دیا ، کہ میں صرف اپنے اللہ پر بھروسا رکھتا ہوں ، تم مخالفت ومخاصمت میں پورا زور صرف کرلو ، متحد سازش سے حق کے مقابلہ پرآؤ صاف اور غیر مشکوک الفاظ میں بغض وحسد کا اعلان کر دو ، اور مجھے جینے اور سنبھلنے کی قطعا مہلت نہ دو ، پھر دیکھو میرا اللہ میری کس طرح دستگیری کرتا ہے ۔ حل لغات : امرکم : یعنی تمام وجوہ مکرو فریب غمۃ : خفیہ ۔ یونس
72 (ف ١) انبیاء علیہم السلام بےخوف اس لئے ہوتے ہیں کہ ان کی روزی لوگوں سے وابستہ نہیں ہوتی ، وہ تبلیغ کے گرانقدر فرائض بھی ادا کرتے ہیں ، اور اپنا آذوقہ حیات بھی بہم پہنچاتے ہیں ۔ جو لوگ قوم کے صدقات پر پلتے ہیں ، ان سے حق گوئی کی توقع نہیں کی جا سکتی ، انبیاء علیہم السلام کا اسوہ یہ ہے کہ اس قسم کی پیشہ ورانہ مشیخت کا خاتمہ کردیا جائے ۔ یونس
73 (ف ٢) یعنی بالاخر حق کی فتح ہوئی ، حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو نجات ملی وہ کشتی میں بیٹھ کر محفوظ رہے اور کنارے جا لگے اور جو مجرم تھے جن میں رشد وہدایت کی کوئی استعداد باقی نہیں رہی تھی ، بلکہ وہ تمام نسل انسانی کیلئے گمراہی کا موجب ہو سکتے تھے ، باقی سب غرق کردیئے گئے تاکہ آیندہ نسلیں ان کے شر سے محفوظ رہ سکیں اور گمراہ نہ ہوں ۔ عذاب سے مقصد خدا کے جاہ وجلال کا اظہار نہیں ہوتا ، بلکہ انسانوں کی نافرمانیاں جب حد سے تجاوز کر جاتی ہیں ، اور ان کا وجود دوسرے انسانوں کے لئے مضر ہوجاتا ہے ، اس وقت ان کا مٹا دینا ہی دوسرے انسانوں پر بہت بڑا کرم ہے ۔ جب ہاتھ یا پاؤں بقیہ جسم کے لئے خطرہ کا موجب ہوجاتے ہیں ، تو اس وقت جسم انسانی سے اس کو الگ کردینا ہی بقائے انسانی کی بہترین تدبیر ہوتی ہے ، اس طرح قومیں جب ان کا بعض حصہ مسموم ہوجائے اور ان کی وجہ سے اندیشہ ہو ، کہ زہر سارے جسم انسانی میں سرایت کر جائے گا تو اس وقت بھی مناسب اور ضروری ہوتا ہے کہ اس مضر حصہ کو باقی حصوں سے علیحدہ کردیا جائے ۔ یونس
74 یونس
75 یونس
76 یونس
77 جادوگر کامیاب نہیں ہوتے : (ف ١) سحر وجادوگری کے معنی ذلیل قسم کی کرشمہ سازی اور فن نمائی کے ہیں ، جادوگر کے سامنے کوئی بلند نصب العین نہیں ہوتا ، اور نہ اس میں ایسی قوت ہوتی ہے کہ وہ زندگی کے اہم امور میں کامیاب ہو سکے وہ چند لوگوں کو اپنی چالاکیوں سے حیرت میں ڈال سکتا ہے ، مگر حق وصداقت کے مقابلہ میں کسی طرح کامیابی حاصل نہیں کرسکتا ، کیونکہ ادھر ایک نصب العین ہے مقدس اسوہ ہے اور ادھر صرف فریب دفن ، اس لئے قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ اگر موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی تم جادوگر سمجھتے ہو تو واقعات کا انتظار کرو عنقریب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کامیابیاں اور کامرانیاں تم سے خراج تحسین وصول کرلیں گی ، حل لغات : لتلفتنا : مادہ لغت ، متوجہ کرنا ، پھیرنا ۔ یونس
78 یونس
79 یونس
80 یونس
81 (ف ١) فرعون چونکہ بصیرت سے محروم تھا اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے موقف ومقام اصلی سے آگاہ نہ ہوسکا جادوگروں کو بلایا ، اور کہا کہ اپنے کسب وکمال سے اس کی معجز نمائی کا جواب دو ۔ جادوگر آئے ، اس لئے کہ اس وقت ارض مصر میں اس قسم کی باتوں پرعموما یقین رکھتے تھے ، اور اپنے سحر سے انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو متحیر کرنا چاہا موسیٰ (علیہ السلام) کو یقین تھا کہ (آیت) ” ان اللہ سیبطلہ “۔ خدا حق پرستوں کے مقابلہ میں جھوٹوں کو کبھی کامیابی عنایت نہیں فرماتا ، اس لئے آپ نے بالکل بےخوف ہو کر ان کا مقابلہ کیا اور انجام کار معجزہ کرشمہ سازی پر غالب آیا اور حق کو جھوٹ کے مقابلہ میں فتح نصیب ہوئی ۔ حل لغات : السحرۃ : جمع ساحر ۔ یونس
82 یونس
83 (ف ١) باوجود کامیابی کے پھر بھی ابتدا چند ہی لوگ ایمان لائے کیونکہ ان کے دلوں میں فرعون کا ڈر بےطرح متمکن ہوچکا تھا ، صدیوں کی غلام قومیں جرات وجسارت سے محروم ہوجاتی ہیں ، اور اظہار حق کی قوت ان سے چھن جاتی ہے ، یہ عام قاعدہ ہے ، بنی اسرائیل بھی چار سو سال سے غلام چلے آرہے تھے اس لئے فرعون کے غلبہ سے طبعی طور پر مرعوب ومغلوب تھے ۔ یونس
84 یونس
85 (ف ٢) دین ودنیوی استقلال کے لئے پہلا زینہ جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کے لئے تجویز فرمایا وہ توکل ہے ، یعنی ۔ ١۔ خدا پرکامل ایمان ۔ ٢۔ کامیابی کا پورا یقین ۔ ٣۔ وسائل وذرائع میں دیانت وصیانت کا لحاظ ۔ ظاہر ہے جب قوم میں یہ تین چیزیں پیدا ہوجائیں تو سمجھ لیجئے کہ قوم بیدار ہوچکی ، اور کامرانی کی راہیں اس پر کھل چکی ہیں ۔ اللہ کو اگر چارہ ساز مان لیا جائے تو پھر کامیابی یقینی وقطی ہے ۔ توکل کا صحیح مفہوم یہی ہے آج توکل کے معنے تعلل وبے کاری کے ہیں ، اللہ مسلمانوں کو سمجھ دے ، آمین ۔ حل لغات : المسرفین : مسرف حدود فطرت سے تجاوز کرنے والا ، فتنۃ : وجہ آزمائش ۔ یونس
86 یونس
87 (ف ١) قبلۃ : سے غرض یا تو یہ ہے کہ فرعون نے جب عام کلیساؤں میں بنی اسرائیل کو عبادت سے روک دیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم گھروں میں نماز پڑھ لیا کرو ، اور گھر اس نوع کے بناؤ کہ وہ قبلہ رو ہوں اور بیک وقت اس سے عبادت وسکونت کے دونوں کام لئے جائیں ، اور یا یہ مقصد ہے کہ رہائش مکان باہم متقابل بناؤ یعنی تمہاری ایک الگ نو آبادی ہونی چاہئے ، تاکہ آزادی سے تم ایک دوسرے کی مدد کرسکو ، کامیابی کے لئے نماز دوسری شرط ہے کیونکہ یہی ایک ذریعہ ہے جس سے قوم میں صحیح بیداری پیدا کی جا سکتی ہے یہ وحدت فی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ، نماز سے قوم میں خدا پرستی ، خدا ترسی اور باہمی محبت کے جذبات زندہ رہتے ہیں ، قوم میں اجتماعی زندگی کے بسر کرنے کی استعداد پیدا ہوتی ہے آج بھی کامیابی کے لئے نماز ویسی ہی ضروری ہے جیسی ابتداء میں تھی ، مسلمان اگر جرات واستقلال کی نعمتوں سے بہرہ ور ہونا چاہتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ اس کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ نماز ہے مسلمان کا نصب العین دوسری قوموں سے بالکل جدا ہے اور اس کا طریق جدوجہد دوسری قوموں سے الگ ہے ، مسلمان کی فطرت میں دینداری ہے ، یہ دین کے احیاء کے لئے زندہ ہے ، یہ مال دولت بھی چاہتا ہے آسائش وراحت کا بھی خواہاں ہے ، مگر صرف اس لئے کہ اللہ کے دین کو دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچا سکے ، اصل مقصود اور نصب العین حصول دین اور دین کی اشاعت ہے یعنی یہ اگر آزادی حاصل کرنا چاہتا ہے تو صرف دین کے لئے تاکہ خدا کی پرستش کے آزادانہ مواقع حاصل ہو سکیں ، وہ اس لئے کہ الحاد پھیلے ، وہ آزادی جو غلط اور غیر مشروع وسائل سے حاصل کی جائے گی مسلمان کے لئے مفید نہیں ۔ حل لغات : لیضلوا : کام غایت وعاقبت کے لئے ہے یعنی ان کی دولت وثروت کا حال یہ ہے کہ لوگ گمراہ ہوں ۔ یونس
88 یونس
89 یونس
90 یونس
91 فرعون کا حال : (ف ١) ایمان اس وقت تک قبول ہے جب تک جسم میں جان ہو ، موت کے یقینی علامات وآثار کا ظہور نہ ہوا ہو کیونکہ مقصد عمل ہے اور جب عمل کی تمام امیدیں ہی منقطع ہوجائیں ، تو پھر ایمان کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے ، فرعون عمر بھر تو خدا کی نافرمانی میں مشغول رہا اور جب قلزم میں غرق ہونے لگا موت سامنے دکھائی دینے لگی ، اس وقت تضرع وزاری کرنے لگا ، اللہ نے فرمایا اس وقت جب کہ یاس وقنوط کے بادل تمہارے مطلع دل پر چا رہے ہوں ، ایمان وتوبہ مقبول نہیں ۔ یونس
92 (ف ٢) فرعون کو دوبا کر مار دیا گیا ، اللہ تعالیٰ نے مزید رسوائی اور عبرت کے لئے اسے پانی سے باہر نکال پھینکا تاکہ بنی اسرائیل اس پر شکوہ انسان کی لاش کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں ، جو اس سے قبل کبروغرور کے عرش پر متمکن تھا ، آج وہ عذاب الہی کی وجہ سے بےحس وحرکت پڑا ہوا ہے ۔ یونس
93 یونس
94 (ف ١) قرآن حکیم کا انداز بیان ہے کہ مخاطب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیا جاتا ہے اور مقصود دوسرے ہوتے ہیں ، کیونکہ آپ ترجمان وحی ہیں اور انسانیت کے وکیل بھی اس لئے اللہ تعالیٰ بالوحی انہیں سے تخاطب فرماتے ہیں ، ورنہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شک وریب سے پاک ہیں ، وہ تو سراپا یقین و ایمان ہیں ، حضرت ابن عباس (رض) سعید بن جبیر ، (رض) قتادہ (رض) اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ” لم یسئلک رسول اللہ “۔ یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی شک نہیں پیدا ہوا ۔ اور غور فرمائیے جو دوسروں کو ایمان ویقین کی نعمتیں بانٹ رہا ہے ، جو دلوں کو نور ومعرف سے اجاگر کر رہا ہے کیا وہ خود سرمردود ہو سکتا ہے ۔ غرض یہ ہے کہ قرآن سابقہ کتب کا موید ہے توریت وانجیل میں صدہا پیش گوئیاں موجود ہیں ، جو قرآن کی صداقت پر دال ہیں ۔ حل لغات : حقت علیم کلمت ربک : یعنی جن کی فطرت کے متعلق پہلے سے علم ہے کہ یہ حق کی طرف رجوع نہیں کرینگے وہ کیونکر ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہو سکتے ہیں ۔ یونس
95 یونس
96 یونس
97 یونس
98 قوم یونس : (ف ١) لولا تحضیضیہ ہے ، فھلا کے معنوں میں جیسا کہ حضرت ابی اور عبداللہ بن مسعود (رض) کے مصحف میں تصریح ہے ۔ غرض یہ ہے کہ تباہ شدہ قوموں نے آخری وقت ایمان وتوبہ کا اظہار نہیں کیا آیت میں اظہار مستحسر ہے کہ کیوں ان قوموں کو توبہ کی توفیق نہ ہوئی اور کیوں عذاب الہی سے نہ بچ گئے ؟ (آیت) ” الا قوم یونس “۔ میں الا منقطعہ ہے غرض یہ ہے کہ صرف یونس (علیہ السلام) کی قوم ایسی ہے جنہوں نے عذاب کے علامات وآثار دیکھ کر خالص توبہ کی اور ان پر سے اللہ نے عذاب دور کردیا ، یہ غلط فہمی نہ رہے کہ قرآن نے کسی عذاب کی پیشگوئی کا ذکر نہیں فرمایا ارشاد صرف یہ ہے کہ قوم یونس (علیہ السلام) کی نافرمانی کی وجہ سے عذاب کے علائم وآثار ظور پذیر ہوئے مگر وہ سنبھل گئے چونکہ مقصد عذاب میں مبتلا کرنے کا نہ تھا اس لئے معاف کر دئیے گئے ، سابقہ پیشگوئی کا تقاضا یہ تھا کہ وہ بہرحال پوری ہو کر رہتی ، کیونکہ پیشگوئی کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کو خوب معلوم ہے کہ وہ آخر تک ایمان کی نعمت سے محروم رہیں گے ، لہذا خلف وعید کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔ یونس
99 یونس
100 (ف ٢) مشیت واذن الہی کے دو معنے ہیں ایک کا تعلق تکوین سے ہے ایک کا تشریع سے ، اللہ کے نزدیک پسندیدہ تو یہی ہے کہ سب لوگ ایمان لے آئیں ، مگر تکوین میں اس نے اختلاف رائے کو باقی رکھا ہے تاکہ حق وباطل میں امتیاز قائم رہے ۔ اسی طرح اگر ” الا باذن اللہ “ سے مقصود یہ ہے کہ ایمان کے لئے جہاں تک آسانیوں اور توفیق وتسہیل کا تعلق ہے وہ اللہ کی تکوین کا نتیجہ ہے ، اس لئے وہ شخص جو ان وسائل ہدایت سے محروم ہے ، ہدایت قبول نہیں کرسکتا ، غرض یہ ہے کہ آپ ان لوگوں کی گمراہی پر غم نہ کریں اختلاف رائے مشیت ایزدی ہے ، یہ باقی رہے گا البتہ تلقین ودعوت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے ۔ حل لغات : کشفنا : کھول دیا یعنی عذاب کے بعض اوائل وعلائم سے دو چار ہوچکے تھے ۔ مثل ایام : عذاب کے دن ۔ یونس
101 یونس
102 یونس
103 یونس
104 یونس
105 یونس
106 اعلان توحید : (ف ١) مکے والے چاہتے تھے ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ہم نوا ہو کر بت پرستی اور شرک کی تائید کریں ، ان آیات کے بموجب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھلے لفظوں میں ارشاد فرما دیا ہے کہ مجھ سے تمہیں اس قسم کی توقع نہ رکھنی چاہئے ، میں تمہارے بتوں کے سامنے نہیں جھک سکتا ، میری پیشانی تو اس خدا کے سامنے جھکے گی جس کی جانب سے یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہر آن مومن ہوں ، اور خلوص کے ساتھ توحید سے وابستہ رہوں ، میں ان خداؤں کو ماننے کے لئے تیار نہیں ، جن کے ہاتھ میں نفع وضرر کی کنجیاں نہیں ، جو خود سراپا احتیاج ہیں ، جو نہ نفع پہنچا سکیں ، اور نہ ضرر سے بچا سکیں ، کیونکہ یہ انسانی عقل ودانش ، انسانی شرافت وعظمت اور انسانی عزت وحرمت پر ظلم ہے ، کہ پیکر فضائل انسان کو بےجان اور غیر متحرک پتھروں کے سامنے جھکایا جائے ، وہ انسان جو اس لئے پیدا ہوا ہے کہ کائنات میں حکومت کرے ، اور اللہ کا نائب وخلیفہ ثابت ہو ، وہ اگر دنیا کی حقیر اور بےحقیقت چیزوں کے سامنے جبین عقیدت خم کر دے ، تو اسے بڑھ کر ظلم اور کیا ہو سکتا ہے ۔ یونس
107 (ف ٢) مضرت اور نفع رسانی کا تعلق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے مختص ہے ، کوئی شخص انسانی مشکلات میں چارہ سازی کا اہل نہیں سچا اور حقیقی کارساز وہی خدا ہے جس نے سب کو پیدا کیا ہے اور جو سب کو مناسب طور پر رزق دیتا ہے ۔ حل لغات : حنیفا : اخلاص وتوحید کا حامل ۔ یونس
108 (ف ١) غرض یہ ہے کہ اسلام ایک صداقت ہے اللہ کی نعمت ہے ، اب جو اسے قبول کرتا ہے اپنی عاقبت سنوارتا ہے ، اللہ اور اس کے رسول پر کوئی احسان نہیں کرتا ، اور جو گمراہ ہے ، منکر ہے اس کا نتیجہ بد ، اور نقصان بھی وہی اٹھائے گا نبی یا پیغمبر اس کا ذمہ دار نہیں ۔ یونس
109 یونس
0 ھود
1 (ف ٢) قرآن حکیم کی دو خصوصیتیں بیان فرمائی ہیں ایک احکام ، دوسری تفصیل ۔ احکام سے غرض یہ ہے کہ قرآن حکیم نظم وترتیب کے لحاظ سے اس انداز کا حامل ہے کہ انسانی دخل کا اس میں امکان نہیں ، نہایت محکم اور عجیب طرز بیان ہے ۔ تفصیل سے مراد تو اصل آیات کا بیان ہے ، اور یا ضروریات دین کا موقع موقع اظہار ، یعنی آیات کے اواخر کلمات قرآن حکیم میں نہایت دلکش وزن اور عجیب طرز کے ساتھ واقع ہوئے ہیں جن کے ادا کرنے میں ایک خاص قسم کے ترنم اور سامعہ نوازی کا سامان موجود ہے اور بایہ غرض ہے کہ جس قدر دین ودنیوی ضروریات ہیں قرآن ان سب پر حاوی ہے ۔ وکیل : ذمہ دار ۔ ھود
2 ھود
3 (ف ١) توحید کے بعد اسلامی تعلیمات میں توبہ واستغفار کو خاص اہمیت حاصل ہے یہی وجہ ہے جو یہاں توبہ واستغفار کر خاص اہمیت حاصل ہے ، یہی وجہ ہے جو یہاں توبہ واستغفار کو توحید کے بالکل بعد بیان فرمایا ہے ۔ غرض یہ ہے کہ مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ ہر وقت اپنے گناہوں کا جائزہ لیتا ہے اور اس مرکز قدس سے اکتساب خیر میں مصروف رہے ، کیونکہ گناہوں کا احساس ہی نیکی طرف پہلا قدم ہے جو شخص گناہوں کو محسوس نہیں کرتا ، وہ نیکی جانب کبھی راغب نہیں ہوسکتا ۔ ھود
4 ھود
5 (ف ٢) بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ گناہوں کو اللہ سے چھپا سکتے ہیں ، اس آیت میں اس خیال کی تردید ہے وہ دل کے بھیدوں سے آگاہ ہے اس لئے اس سے کوئی چیز مخفی نہیں رہ سکتی ، حل لغات : یثنون صدورھم : اعراض سے کنایہ ہے یعنی منافقین کلام الہی کو عمدا نہیں سننا چاہتے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھ پاتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں کہ کہیں کلمہ حق کان تک نہ پہنچ جائے ۔ ھود
6 رزق خدا کے ہاتھ میں ہے : (ف ١) اگ لوگ اس حقیقت کو جان لیں کہ رزق کی کشائش اور دولت اللہ کے اختیار میں ہے تو بہت سے گناہوں سے بچ جائیں ، طمع اور بےجا حرص کی تمام آلودگیاں ، فتنہ وفساد کی بیشتر صورتیں اس فلسفہ سے نا آشنائی کا نتیجہ ہیں ، اللہ کا مائدہ فضل رحمت اس درجہ وسیع ہے کہ اس میں کافر و مومن کی کوئی تمیز نہیں وہ سب کو یکساں دیتا ہے ۔ اے کریمے کہ از خزانہ مغیب گبر وتر سا وظیفہ خورداری : بلکہ اس عموم کو اس درجہ وسعت ہے کہ ہر جاندار جو صفحہ ارض پر موجود اس کی رزاقیت سے بحرہ ور ہے ۔ چناں پہن خوان کرم گسترد کہ سیمرغ درقاف روزی خورد : ماں کے پیٹ میں دیتا ہے تاریکی اور ظلمتوں میں دیتا ہے بچپن میں جب منہ دانت نہیں ہوتے ، ہاتھ پاؤں جدوجہد حیات کے قابل نہیں ہوتے ، ماں کی چھاتیوں میں دودھ پیدا کردیتا ہے ، اندھوں کو دیتا ہے اپاہج اس کی نعمتوں سے بہرہ یاب ہیں پتھر میں جو کیڑا ہے اس کی غذا بھی اس کو پہنچاتا ہے ، ان حقائق واقعات کی روشنی میں انسان کے لئے کتنا بڑا یقین اور ایمان کاسامان ہے ۔ خدا کو رازق ماں لینے کے معنی یہ نہیں کہ ہم دنیا میں روٹی کے لئے کسی شخصیت اور قوت کے محتاج نہیں ، ہم مگر اللہ کے مشن کو پورا کریں گے اور فرائض انسانی کو ادا کریں گے ، تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ہمیں بھوکوں مارے کتاب جبیں سے مراد علم الہی یا لوح محفوظ ہے ۔ ھود
7 (ف ٢) یعنی کائنات کی ابتدا پانی سے ہے ، (آیت) ” وجعلنا من المآء کل شی حی “۔ علم الحیات کے ماہرین بےشمار تجارب اور ارتقاء کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ زندگی کی ابتداء ان حیوانات سے ہوتی ہے جو بحری ہیں قرآن نے نہایت بہتر الفاظ میں علم الحیات کے اس مسئلہ کو بیان فرمایا ہے کہ خدا کا عرش حکومت ابتداء پانی سے وابستہ تھا ۔ (آیت) ” لیبلوکم “ میں مقصد حیات کی طرف اشارہ ہے ، یعنی تمہیں اس لئے پیدا کیا گیا ہے تاکہ بہترین اعمال سے زمین کو رشک فردوس بنا دو ۔ حل لغات : دآبۃ : ہر جاندار زمین پر چلنے والا ۔ مستقر : جائے قرار ۔ مستودع : جہاں سونپاجائے امانت کا ، امۃ : مدت ، زمانہ ۔ ھود
8 ھود
9 ھود
10 ھود
11 ھود
12 خزائن رحمت کی فراوانی : (ف ١) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شفقت و رحمت کے پیکر تھے ، تمام تکالیف جو دعوت تبلیغ کی پیش آتیں ، بخندہ پیشانی برداشت کرتے ، قوم کی مخالفت کی ذرہ برابر پرواہ نہ کرتے ، گالیوں ، اور طعنوں اور الزاموں کو سنتے اور صبر کرتے ، دن رات قوم کی اصلاح کے درپے رہتے مگر جب کھلا اور واضح عنا دکی واشگاف دشمنی دیکھتے ، تو پھر فطرتا آپ کو تکلیف محسوس ہوتی ، اور اس وقت آپ باوجود تحمل وبرداشت کے گھبرا اٹھتے ، کیونکہ قوم جب تک بےعلم رہے جاہل اور ناآشنا ہو ، مرشد کامل کا فرض ہے کہ اسے سمجھائے مگر جب جان بوجھ کر بار بار مخالفت وعداوت کی جائے اس وقت ایک مخلص رہنما کو طبعا دکھ ہوتا ہے ، اور یہ دیکھ نتیجہ ہوتا ہے ، انتہائی خلوص وہمدردی کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو رحمۃ العالمین ہیں کبھی کبھی ان لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے بےچین ہوجاتے ، اور بالخصوص جب کہ وہ اس قسم کے طعنے سنتے کہ یہ کیسا رسول ہے جس کے پاس مال ودولت کے خزائن نہیں ، جو نہ خود فرشتہ ہے اور نہ جس کے پاس فرشتے دکھائی دیتے ہیں ، آپ زیادہ اذیت محسوس کرتے ، کیونکہ اس مطالبہ میں ہدایت وسعادت کا کوئی جذبہ نہیں جو کار فرما ہو ، مقصد محض حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ستانا اور چھیڑنا ہے ، ورنہ کون نہیں جانتا آپ کے پاس ہر وقت برکات وفیوض کے خزائن رہتے اور فرشتے آپ کے جلو میں ہوتے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس دولت ایمان کی اس قدر فراوانی تھی کہ دس ہزار عالم سیر ہوجائے اور وہ ختم نہ ہوتی ، بزرگی وحشمت کے اس درجہ آپ مالک تھے کہ فرشتے آپ کے حضور میں آنا وجہ افتخار سمجھیں ۔ ھود
13 (ف ٢) نبی ہی کی نبوت پر زندہ دلیل وہ کلام ہے جس کو اس نے دنیا کے سامنے پیش کیا جس کے شوشے شوشے میں حکمت ومعرفت کے دریا موجزن ہیں جس میں فصاحت وبلاغت کے سمندر پنہاں ہیں جس کی آیت زندگی کا ایک عنوان ہے کائنات کی تشریح ہے جس کے لفظ لفظ میں زندگی اور زندگی کا پروگرام ہے ۔ ان آیات میں تمام دنیائے علم کو دعوت مقاء مت دی کہ آئے اور قرآن جیسی دس آیتین پیش کرے جن میں قرآن کی سی خوبیاں ہوں قرآن کی سی فصاحت وبلاغت ہو ، قرآن کی سی جامعیت ہو ، قرآن کی سی معنویت ہو ، چودہ سوسال گزر چکے ہیں ، قرآن کا اب بھی یہ دعوے موجود ہے ، مگر یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ایک شخص نے بھی معاندین میں سے قرآن کے اس چیلنج کو قبول کرنے کی جرات نہیں کی قرآن کا جواب انسانی طاقت سے باہر ہے قرآن اس خدا کا کلام ہے جو اپنی صفتوں میں لاشریک ہے پھر کیونکر ممکن ہے کہ اس کے کلام کا مقابلہ کیا جا سکے ، ھود
14 ھود
15 ھود
16 ھود
17 قرآن خود دلیل ہے اپنی صداقت کی ! (ف ١) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جودین پیش کیا وہ دلائل وبراہین کا دین ہے ، اس میں کوئی بات ایسی نہیں ، جو محض تقلید کا نتیجہ ہو ، سابقہ کتب میں اس دین کی تصدیق موجود ہے ، یا یوں کہئے کہ تمام سابقہ دین اسلام کے لئے بمنزلہ تمہید کے ہیں ، اسلام اس نقطہ اعتدال وتوازن کانام ہے ، جو افراط تفریط کے ناہموار خطوط کے درمیان واقع ہے ۔ (آیت) ” ویتلوہ شاھد منہ “۔ قرآن کی ایک مخصوص صفت پر دال ہے ، یعنی قرآن کی صداقت پر کھنے کے لئے بروانی شہادتوں اور گواہیوں کی ضرورت نہیں ، قرآن کا لفظ لفظ نقطہ نطقہ اور شوشہ شوشہ دلائل وبراہین کا بحر متواج ہے ، نگاہ اگر دقیقہ رس ہو ، فطرت سعید ہو ، اور عربی کا صحیح ذوق ہو ، تو پھر قرآن کی تلاوت ہی کافی ہے ، یہ سراسر سچائی ہے اور سچائی کی دلیل ۔ حل لغات : شاھد : گواہ دلیل ، شہادت ۔ اماما : مستند ، مانی ہوئی کتاب ، مریۃ : شک : ھود
18 آفتاب آمد دلیل آفتاب : (ف ١) قرآن حکیم افتراء علی اللہ کو بدترین ظلم ٹھہراتا ہے ، اس کے نزدیک خدا پر جھوٹ باندھنا نہایت مذموم فعل ہے ، اس لئے وہ شخص جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان موجود ہے ، نبوت کاذبہ کا مدعی نہیں ہو سکتا ، وہ جھوٹا مدعی مجنون ہوگا ، خلل دماغ کی وجہ سے ایسی باتیں کرتا ہے یا انتہا درجے کا بدمعاش ہوگا جس کے دل میں بالکل خوف خدا نہ ہو ، جو مذہب کو محض فریب جانتا ہو ، یہ ضرور نہیں کہ ایسا شخص بالظاہر بھی برا معلوم ہو ، البتہ اگر آپ نقاب الٹا دیں ، اور اصل چہرے کو دیکھنے کی کوشش کریں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا ، کہ یہ چہرہ جھوٹے اور فریبی انسان کا ہے ، جسے مصنوعی تقدس کے نقاب نے چھپا رکھا تھا ۔ ھود
19 ھود
20 (ف ٢) دوہرے عذاب سے یہ غرض نہیں کہ ان کو استحقاق سے زائد عذاب میں مبتلا کیا جائے گا بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان کا جرم چونکہ دوہرا ہے یعنی وہ منکر بھی تھے ، اور خدا کی راہ سے دوسروں کو روکتے بھی تھے اس لئے انہیں عذاب بھی دگنا دیا جائے گا ۔ ھود
21 ھود
22 (ف ١) یعنی ان کی افتراپردازیاں محض دنیا تک ہیں ، عقبی میں جب مشاہدہ حق ہوگا ، اور یہ خدائے علیم کے حضور میں پہنچیں گے ، تو سب طرح کی چالاکیاں ، بھول جائیں گی ، اور کوئی جھوٹ کسی طرح ان کے کام آسکے گا ۔ ھود
23 (ف ٢) اخبات کے معنی خشوع وطمانیت کے ہیں ، یعنی وہ لوگ جو اپنی خواہشات نفس کو اللہ کے تابع کردیں اور پھر اس ایثار پر مطمئن بھی ہوں ، تکلیفوں اور مصیبتوں کو خدا کی راہ میں برداشت کریں اور اس کے بعد خوش بھی ہوں ، تو یہ لوگ مبارک ہیں ، اور خدا کی رضا کو حاصل کرنے والے ۔ ھود
24 (ف ٣) مسلمان بصارت اور اجرت کا مالک ہے ، کافر کی آنکھیں نہیں ، مسلمان گوش شنوا رکھتا ہے ، منکرین حق نیوش اور بصیرت کی نعمت سے محروم ہیں یعنی مسلمان کبھی حقائق وواقعات کا انکار نہیں کرتا آنکھوں سے دیکھتا اور کانوں سے آواز کو سنتا ہے ، منکروں کو تعصب کی وجہ سے صداقت میں روشنی نظر نہیں آتی ، عناد وجہالت سے روشن ، ترین دلائل کو وہ نہیں دیکھتے ، کانوں پر غفلت کے پردے پڑے ہوئے ہیں ، اس لئے یہ دونوں استعداد کے لحاظ سے ہرگز برابر نہیں ہو سکتے ، مسلمان کے دل میں بصیرت کی روشنی اور چمک ہے گوش حق نیوش ہیں ، مگر منکین ان نعمتوں سے محروم ہیں ۔ حل لغات : لاجرم : بےشک ۔ بالضرور ، قطعی طور پر ۔ ھود
25 ھود
26 ھود
27 حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے دو اعتراض : (ف ١) انبیاء کے متعلق یہ پرانا خیال ہے کہ انہیں فوق البشر ہونا چاہئے ، خلعت بشریت کو کسوت نبوت کے منافی قرار دنیا قدیم سے شیوہ کفر وانکار رہا ہے ، یہ اعتراض بھی قدیم ہے کہ ابتداء دعوت کو لبیک کہنے والے غریب اور مفلس لوگ ہوتے ہیں چنانچہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جب قوم کو ہدایت کی جانب بلایا ، اور کہا کہ مسلک توحید پر گامزن ہوجاؤ ، ورنہ حق کے مقابلہ میں تم نپٹ نہیں سکو گے ، قدرت کا اٹل فیصلہ ہے کہ جو قومیں قانون فطرت کو نہ مانیں انہیں زندہ رہنے کا کوئی استحقاق نہیں ، قوم کے اکابر نے اس وعظ کو سنا ، اور نہایت شوخ چشمی سے کہا تم میں اور ہم میں امتیاز ہی کیا ہے ، تم بھی ایک ضرورت مندا انسان اور ہم بھی انسان نیز تمہیں اشراف قوم نے ٹھکرا دیا ہے ، بڑے بڑے لوگوں نے تمہاری اطاعت قبول نہیں کی ، کیا چند ذلیل لوگوں میں شامل ہونے کے لئے ہمیں دعوت دیتے ہو ، کیا ہم ایمان لا کر ان کی طرح ذلیل ہوجائیں ۔ بعد کی آیات میں ان دونوں اعتراضات کا مفصل جواب دیا ہے غور طلب بات یہ ہے کہ قرآن حکیم نے قوم نوح کے اعتراضات نقل کرکے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آگاہ فرمایا ہے ، کہ جس طرح انسان کی حقیقت ایک ہے ، اسی طرح کفر میں یکساں طور چلا آرہا ہے ، ابتدا سے لے کر اب تک کفار کی ذہنیت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ، حل لغات : بادی الرای : اول فکر یعنی بظاہر ۔ عمیت : عمایت سے ہے ، یعنی اندھا پن تمہارے حصہ میں آیا ہے ۔ ھود
28 ھود
29 دوسرے اعتراض کا جواب : (ف ١) سب سے پہلے قرآن حکیم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی زبان سے دوسرے اعتراض کا جواب دیا ہے اس لئے کہ وہ باوجود بشریت کے حضرت نوح (علیہ السلام) کو پیغمبر مان سکتے تھے ، مگر یہ ان کے کبر وغرور کے لئے قطعا ناقابل برداشت تھا کہ وہ غرباء کم درجہ لوگوں کے دین کو قبول کرلیں ، حضرت نوح (علیہ السلام) نے جوابا ارشاد فرمایا ، میں اپنے دعاوی میں سچا ہوں ، اللہ تعالیٰ نے مجھے صداقت کے دلائل عنایت فرمائے ہیں ، یہ الگ بات ہے کہ تمہیں حق کی راہ سوجھائی نہیں دیتی ، میں تم سے کچھ اجر طلب نہیں کرتا ہوں ، کہ مخلص دیندار غربا کو اپنے پاس سے ہٹا دوں ، تم جاہل ہو اس لئے افلاس وغربت کو معیوب سمجھتے ہو ، اللہ کے نزدیک دیندار مفلس ، سرمایہ دار کافر سے بہتر ہے ، البتہ اگر افلاس برا ہے ، تو تنگدستی کا افلاس نہیں اگر اخلاق و ایمان کا افلاس برا ہے ، اللہ کے نزدیک ذلیل وہ ہے ، جو اخلاق سے تہی دامن ہے اور بجز ذات حق تعالیٰ کے ہر کہ ومہ مخلوق فقیر اور حاجت مند ہے ۔ (آیت) ” واللہ الغنی وانتم الفقرآء “۔ ھود
30 ھود
31 پہلے اعتراض کا جواب : (ف ٢) بشریت کے متعلق اعتراض کا جواب یہ ہے کہ انبیاء نے کبھی یہ دعوے ہی نہیں کیا کہ وہ عام انسانوں کی طرح حوائج بشری سے متصف نہیں ، یا ان کی ضروریات انسانی ضروریات سے مختلف ہیں ، چنانچہ حضرت نوح (علیہ السلام) فرماتے ہیں کمبختو ! میں نے کب یہ کہا ہے کہ میرے پاس خزانے میں اور میں بہت بڑی دولت کا مالک ہوں ، میں تو اللہ کا رسول ہوں ، رسول اگر مالدار نہ ہو تو بھی معارف وحکم کے خزانوں سے اس کا دل معمور ہوتا ہے ، وہ فطرت کے لحاظ سے فرشتہ نہیں ہوتا مگر فرشتے اس کی تقدیس کے معترف ہوتے ہیں وہ غیب نہیں جانتا ، مگر اللہ کے عنایت کہے ہوئے علوم میں وہ کائنات میں کسی دوسرے کو اپنا شریک وسہیم نہیں بناتا ۔ ھود
32 ھود
33 ھود
34 غوایت سے مراد ہلاکت ہے ! (ف ١) (آیت) ” ان کان اللہ یرید “۔ الخ یعنی اگر اللہ کے علم میں یہ حقیقت پہلے سے موجود ہے کہ تم بالآخر گمراہی کو ترجیح دو کے ، اور ہدایت کو قبول نہیں کرو گے ، تو بتاؤ کہ تمہاری گمراہی کو ہدایت سے کون بدل سکتا ہے ۔ (آیت) ” یغویکم “۔ کے معنی ہلاکت کے بھی ہو سکتے ہیں اور ادب عربی میں اس کی مثالیں موجود ہیں ۔ قرآن میں ان معنوں کی تائید کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے ، (آیت) ” فسوف یلقون غیا “۔ ظاہر ہے یہاں گمراہی مراد نہیں ، گمراہی کی عقوبت یا عذاب مراد ہے ، علامہ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، (آیت) ” من یغویکم یھلکم بعذابہ “۔ بنی طے کا استعمال یہ ہے کہ مریض کو غاوی کہتے ہیں ۔ جیسا کہ محاورہ ہے ” اصبح فلان غاویا “۔ ، یعنی مریضا : بہرحال یہ انداز بیان ہے ، ورنہ مقصود یہ نہیں کہ اللہ کو گمراہی پسند ہے ، اللہ اگر گمراہی چاہتا ہے تو پھر یہ بعث انبیاء اور ارسال کتب کا کیا مطلب ہے ؟ ۔ حل لغات : جادلتنا : بحث وتکرار ۔ اجرامی : میرا گناہ ۔ ھود
35 ھود
36 ھود
37 (ف ١) نوح (علیہ السلام) کی قوم نے جب بہت زیادہ مخالفت کی اور پندوعظ سے کامل بیزاری کا اظہار کیا ، تو اللہ کا غضب بھڑکا ، ارشاد ہوا ، کشتی طیار کرو ، ایک عذاب بھیجا جائے گا ، جس سے یہ ہمکنار ہوں گے اور بچ نہیں سکیں گے ، اور جو لوگ اس قابل ہیں کہ صفحہ ہستی سے مٹا دیئے جائیں ، ان کے متعلق سفارش نہ کی جائے ، کیونکہ منشاء ایزدی یہ ہے کہ کفر کا مکمل استیصال کردیا جائے ، اور انہیں بتا دیا جائے کہ خدا کی زمین پر ایسے مجرموں کو بےصرف اور آسائش سے رہنے کا کوئی حق نہیں ، اللہ تعالیٰ زمین کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کرنا چاہتا ہے ۔ ” ربا عیننا “۔ سے غرض نگرانی ہے یعنی ہماری ہدایات کے مطابق یہ مجازی استعمال ہے ، قرآن حکیم ہیں اس نوع کے جس قدر الفاظ وارد ہوئے ہیں ، سب میں مجازی رنگ ہے ، ورنہ وہ تو خود آنکھیں بخشتا ہے ، اور آنکھوں میں نور پیدا کرتا ہے اسے آنکھوں کی حاجت نہیں ، وہ بغیر آلات وجوارح کے کامل ہے ۔ ھود
38 (ف ٢) نوح (علیہ السلام) نے جب کشتی بنانا شروع کیا تو قوم مذاق اڑانے لگی ، ان کے خیال میں یہ مجنونانہ حرکت تھی ، حضرت نوح (علیہ السلام) نے نہایت استقلال اور وثوق کے ساتھ کہا ، اس وقت تم ہنس لو ، عنقریب وقت آنے والا ہے ، جب تمہیں اس تمسخر کی سزا دی جائے گی ، اس وقت تمہاری حماقت ونادانی پرہ میں ہنسی آئے گی ، اور زمین وآسمان کا ذرہ ذرہ تمہاری بربادی کا مضحکہ آڑائے گا ، حل لغات : فلا تبتئس : بوس سے مشتق ہے یعنی تکلیف نہ محسوس نہ کر ۔ مقیم : دائمی ۔ ھود
39 ھود
40 تنور کے مختلف معنی : (ف ١) تنور کے کئی معنے ہیں :۔ ١۔ سطح ارض ، ابن عباس (رض) عکرمہ زہری ، اور ابن عیینہ اسی کے قائل ہیں ۔ ٢۔ روٹی پکانے کا تنور ، (مجاہد عطیہ وحسن کا مذہب ہے) ۔ ٣۔ کشتی میں پانی جمع ہونے جانے کی جگہ ، (بعض کا خیال ہے) ٤۔ طلوع فجر سے کنایہ ہے ، (حضرت علی (رض) سے مروی ہے) ٥۔ مسجد کوفہ ۔ (شعبی حلف اٹھا کر کہا کرتے تھے کہ ابتدا میں پانی کوفہ کی مسجد سے پھوٹا ۔ ٦۔ اونچی جگہیں ، (قتادہ کا ارشاد ہے ) ۔ ٧۔ ایک چشمہ کا نام ہے ، جو ارض شام میں واقع ہے ۔ ٨۔ ہندوستان کی جگہ جہاں حضرت حواء روٹیاں پکایا کرتیں ۔ پہلے معنی لغت وادب کے زیادہ قریب ہیں ، مقصد یہ ہے کہ جب اللہ کا عذاب نازل ہوا ززمین سے سوتے چل نکلے ، اور زمین شق ہوگئی ۔ (آیت) ” من کل زوجین “۔ سے غرض یہ ہے کہ ضروریات کے جانور اپنے ساتھ لے لو ، تاکہ نسل باقی ہے ، یہ عذاب مقامی تھا : نوح (علیہ السلام) کی قوم کے لئے ساری دنیا کے لئے قرآن میں ثبوت نہیں ۔ ھود
41 (ف ٢) نوح (علیہ السلام) مومنین کی ایک قلیل جماعت ساتھ لے کر کشتی میں بیٹھ گئے ، آپ نے سب کو ہدایت کردی کہ خدا کا نام لے کر کشتی میں سوار ہوجاؤ اللہ تمہیں محفوظ رکھے گا ۔ ھود
42 ھود
43 (ف ١) ” واھلک “۔ میں چونکہ اہل کا وعدہ تھا ، اس لئے نوح (علیہ السلام) نے جذبہ پدری سے سرشار ہو کر بیٹے کو آواز دی کہ کشتی میں آجائیے ، بیٹا مغرور تھا کہنے لگا میں پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا ، آپ فکر نہ کریں ، آپ نے فرمایا آج خدائی کی پکڑ سے تمہیں پہاڑ کی بلندیاں نہیں بچا سکیں گی سبحان اللہ ! شفقت پدری بھی کیا چیز ہے ۔ ھود
44 قرآن کی بلیغ ترین آیت : (ف ٢) اس پانی کے طوفان میں تمام منکرین خس وخاشاک کی طرح بہ گئے ، ان کا غرور انکے کام نہ آسکا ، اور خدا کے غضب سے سب غرق ہوگئے ، اس آیت میں قرآن حکیم نے طوفان تھم جانے کی تصویر جن الفاظ میں کھینچی ہے وہ بلاغت کا حیرت انگیز مرقع ہے ، علماء نے اس آیت کے اسرار ونکات پرکتابیں لکھی ہیں ، اس کی معنوی اور لفظی خوبیاں اس قدر حیران کن ہیں ، کہ ہر پڑھا لکھا انسان اعتراف کرتا ہے علامہ ابوحیان اندلسی نے نے بدیع کی اکیس قسموں کو اس میں جلوہ گر دیکھا ہے ، سید محمد بن اسمعیل نے اس ایک مخصوص رسالہ لکھا ہے ، زمخشری جو اسرار ورموز ادب کا سب سے بڑا ماہر ہے ، دلائل الاعجاز میں صفحے کے صفحے لکھ گیا ہے ۔ اس آیت کے الفاظ کا نظم ونسق اتنا بہتر ہے کہ واقع کی تصویر کھینچ جاتی ہے ، اگر تم ترنم وترتیل کے آیت کی تلاوت کرو ، تو معلوم ہوگا ، کہ بادوباراں کا ایک طوفان ہے ، جو تھمتا ہوا نظر آ رہا ہے وہی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔ حل لغات : ابلعی : بلغ یبلع ۔ ھود
45 ھود
46 ھود
47 (ف ١) حضرت نوح (علیہ السلام) جہاں اللہ کے پیغمبر تھے ، وہاں ایک شفیق اور مہربان باپ بھی تھے ، اس لئے بیٹے کو اپنی آنکھوں کے سامنے ڈوبتا ہوا نہ دیکھ سکے ، شفقت پدری جوش میں آگئی ، الفاظ کا بہانہ ڈھونڈا اور اللہ سے درخواست کی کہ اے رب تونے وعدہ کیا تھا کہ تیرے اہل کو بچاؤں گا ، تیرا وعدہ سچا ہے میرا لڑکا بھی تو میرے اہل میں سے ہے ، پھر وہ کیوں کشتی میں نہیں بیٹھ سکتا ، دل میں اللہ کا ڈر بھی موجود ہے ، سفارش کے ساتھ یہ بھی کہے جاتے ہیں ، تو احکم الحاکمین ہے تو فیصلہ فرما دے ، اس میں تنقید کی گنجائش نہیں ۔ اللہ نے جواب دیا ، انبیاء کا مرتبہ صلبی درجوں سے بالا ہے ، اہل وہ نہیں جو تیرا عزیز ہے اہل وہ ہے جو مومن ہے ، جسے تیرے عقائد کے ساتھ محبت ہے ، بیٹے سے زیادہ کون عزیز ہو سکتا ہے ، اور نوح (علیہ السلام) سے زیادہ کون معزز ہے ، پھر جب نوح (علیہ السلام) کی اس باب میں نہیں سنی گئی ، اور اس کے حقیقی بیٹے کو بلحاظ عمل بیٹا قرار نہیں دیا گیا ، تو وہ لوگ جو مسلمان کہلاتے ہیں اور محض جھوٹی نسبتوں پر نازاں ہیں ، کس قدر بےوقوف ہیں ، وہ خدا کے آئین شرف ومجد سے آگاہ نہیں ، اللہ کے نزدیک ایک اچھے آدمی سے تعلقات اور رشتہ داریاں وجہ شفاعت نہیں ہو سکتیں ، نیک اعمال اور عقائد کی درستی ہی سے اللہ کا قرب حاصل کیا سکتا ہے ، حل لغات : انباء : جمع نبا ، خبر ۔ ھود
48 ھود
49 (ف ١) نوح (علیہ السلام) کی دعوت تبلیغ قوم کا انکار ، وجمود بالآخر خدا کی غیرت کا جوش میں آنا ، زمین کا ابال ، آسمان سے بےپناہ بارش لڑکے کے لئے سفارش اور اس کی نامنظوری ، یہ سب باتیں جو قرآن حکیم نے تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں کسے معلوم تھیں ؟ قرآن حکیم انہیں غیب کی خبریں قرار دیتا ہے ، وہ قوم جس میں تعلیم نہیں ، تاریخ اقوام کی تدوین وترتیب کا کوئی سامان نہیں ، اس میں ایک امی شخص کھڑا ہوتا ہے اور تمام گذشتہ قوموں کے کارناموں کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنا شروع کردیتا ہے ، یہ بجز الہام اور تائید ربانی کیونکر ممکن ہے ۔ حل لغات : فطرنی : جس نے مجھے پیدا کیا ، بنایا ۔ مدرارا : وہ ابر جو خوب برسے ۔ ھود
50 ھود
51 ھود
52 دین قوت وعزت کا نام ہے : (ف ١) (آیت) ” یرسل السمآء علیکم مدرارا “۔ کے معنی یہ ہیں کہ حضرت ہود (علیہ السلام) قوم کو دین ودنیا کی بشارتیں سناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دینداری کے معنی ضعف واضمحلال کے نہیں ، فقروافلاس کے نہیں محکومی اور مظلومیت کے نہیں ، بلکہ قوت وعظمت کے ہیں ، اگر تم دیندار ہوجاؤ ، تو آسمان کے بابرکت دروازے تمہارے لئے کھل جائیں گے زمین تمہارے لئے سیم وزر کے خزانے اگلے گی ، اللہ تمہاری قوتوں میں اضافہ کر دے گا ، تم دنیا میں زبردست بن کر زندگی بسر کرو گے ، تمہارا افلاس دولتمندی سے بدل جائے گا ، دل ودماغ میں ایمان ویقین کی شمعیں روشن ہوں گی ، ایمان کے ساتھ دولت وقوت لازم ہے ، خدا سے محبت کا نتیجہ رفعت وبلندی ہے ، یہ غلط بات ہے کہ دینداری محرومی وبدقسمتی ہے ، دیکھ لیجئے ابتداء سے دین کا یہی مفہوم ہے جو انبیاء پیش کرتے چلے آئے ہیں ، کہ تم مومن ہوجاؤ اللہ کی رحمتیں تمہارے شامل حال ہوجائیں گی ، یہ خدا کا اٹل اور مضبوط فیصلہ ہے ، یہ ایک محکم قانون ہے جس میں کبھی تخلف نہیں ہو سکتا ، جس طرح طلوع آفتاب کے ساتھ روشنی اور حرارت ضروری ہے ، جس طرح شگفتگی وتازگی موسم بہار کا خاصہ ہے ، اسی طرح جب ایمان کا آفتاب دلوں میں چمکے تو ضرور ہے کہ تاریکیاں چھٹ جائیں ، جب اسلام کا عہد بہار شروع ہو ، تو دل شگفتہ اور دماغ تازہ ہوجائیں ، بہرحال اسلام ایمان شرط ہے ، اللہ کو ظاہر کے ساتھ باطن بھی پسند ہے ، صرف ظاہری ایمان جو صرف الفاظ تک محدود ہو ، اللہ کے نزدیک قابل وقعت نہیں ، جب تک اس ظاہر کے ساتھ بطن بھی شامل نہ ہو ، جب تک ایمان زندگی بخش نہ ہو ، دلوں میں کوئی تبدیلی نہ پیدا کر دے ، خدا کے نزدیک صحیح معنوں مین ایمان نہیں ، یہ محض فریب خوردگی ہے کہ ہم خدا کی نافرمانی کے باوجود اپنے آپ کو نجات کا مستحق سمجھتے ہیں ، اللہ ہماری معصیتوں کا بخش دے یہ اس کی نوازش ہوگی ، لیکن جہاں تک ہماری جدوجہد کا تعلق ہے وہ حصول نجات کے لئے ناکافی ہے ۔ حل لغات : فکیدونی کیدا ۔ تدبیر ۔ پرسگالی ، حیلہ ۔ ھود
53 ھود
54 ھود
55 ھود
56 (ف ١) ” اخذبنا صیتھا “۔ اصل میں تمثیل ہے تسخیر مخلوقات کی یعنی تمام کائنات اس طرح اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے جس طرح کسی جاندار کو سر سے پکڑ رکھا ہو ، (آیت) ” ان ربی علی صراط مستقیم “۔ سے غرض یہ ہے کہ خدا جس راہ کی جانب اپنے بندوں کو دعوت دیتا ہے حق وصداقت کی رہی راہ ہے ۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت ہود (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ قوم دشمن ہے اور نقصان پہنچانا چاہتی ہے تو آپ نے پورے صبر اور استقلال سے مقابلہ کیا ، دعوت وتذکیر کے عمل کو جاری رکھا اور کہا میں تمہاری شرارتوں سے ڈرتا نہیں اللہ پر میرا بھروسہ ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے ۔ بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کوچونکہ اپنی صداقت پر یقین کامل ہوتا ہے ، اس لئے کوئی عداوت انہیں دبا نہیں سکتی جس قدر ان کی مخالفت کی جاتی ہے ، ان کا جذبہ حق پسندی ترقی پذیر ہوتا ہے ، ان کے عزم واستقلال میں اور اضافہ ہوجاتا ہے وہ پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ خدا کے دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ ھود
57 (ف ٢) ” خدا کے اس ہمہ گیر قانون کی جانب اشارہ ہے کہ قومیں اپنے جذبہ ایمان کی وجہ سے زندہ رہتی ہیں ، کوئی قوم خدا کی خاص محبوب نہیں ، وہ سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے ، اس کے نزدیک سب قومیں برابر بقاء قیام کا استحقاق رکھتی ہیں ، بقاء وفنا کے لئے اللہ تعالیٰ نے قانون وضع کردیا ہے ، جو قوم اس قانون کو اپنے لئے مشعل راہ بنائے گی زندہ وکامیاب رہیگی ، جو نافرمانی کرے گی ، فناء ہوجائے گی ، اللہ کے دین میں قوموں کے عروج وزوال سے کوئی خلل واقع نہیں ہوتا ، جب ایک قوم دین کی حمایت سے دستبردار ہوجاتی ہے ، اللہ دوسری قوم کو لا کھڑا کرتے ہیں جو اس کے دین کے مشن کو پورا کرتی ہے اور اس کے حکموں پر عمل کرتی ہے ۔ حل لغات : جحدوا انکار کے بعد اصرار کا نام ہے ۔ ھود
58 ھود
59 ھود
60 (ف ١) بعد اور لعنت کا اطلاق بطور گال کے نہیں ہوتا ، بلکہ یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کی رحمتوں کے سزاوار نہیں رہے ، اب وہ بخشش اور رحمت سے دور ہیں ۔ ھود
61 خدا قریب ومجیب ہے ! : (ف ٢) حضرت صالح (علیہ السلام) قوم ثمود کی جانب مبعوث ہوئے ثمود اس قوم کا نام ہے جو شام اور مدینہ کے درمیان مقام ہجر میں آباد تھی سابق دین حق کی طرح حضرت صالح (علیہ السلام) کا پیغام بھی یہی تھا کہ ایک خدا کی پوجا کرو ، اللہ کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ، اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے اسی نے تمہیں اپنی زمین پر آباد کیا ہے ، اس سے گناہوں کی بخشش مانگو ، اسی کے آستانہ کرم پر جھکو ، وہ بہت قریب ہے ، سب کی سنتا اور قبول کرتا ہے اس کے دربار میں توسل کی ضرورت نہیں ، انابت وخلوص کافی سفارشیں ہیں ، وہ تمہارے حالات سے براہ راست باخبر اور آگاہ ہے ، اس لئے تم نیاز مندی کے ساتھ اس کے سامنے جھکو ، خواہشات نفس کو ترک کر دو ، اللہ کی پوجا تمہیں اس کے قریب کر دے گی ، تمہاری باتیں سنی جائیں گی اور تمہاری آرزوئیں مقبول ہوں گی ، وہ قریب اور مجیب ہے تمہارے نزدیک ہے تمہاری پکار اور دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہے ۔ ھود
62 (ف ٣) حیف ہے آباء واجداد کی ایسی تقلید پر کہ انہوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کی دعوت توحید کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ ہم باپ دادا کے مسلک کو نہیں چھوڑ سکتے ، چونکہ ہمارے بزرگ بت پرست تھے اور وہ بتوں کو خدا مانتے تھے ، اس لئے اب ہمارے ماتھے خدا کے سامنے نہیں جھک سکتے ، (آیت) ” قد کنت فینا مرجوا “۔ کے معنی یہ ہیں کہ تیرے اعلان توحید سے ہمیں کامل مایوسی ہوئی اس سے قبل ہمیں توقع تھی کہ تیری نیکی پر سعادت مندی ہماری مخالفت پر تجھے آمادہ نہیں کرے گی ہمیں تجھ سے امیدیں تھیں ، مگر توحید کے وعظ نے ہمیں ناامید کردیا ۔ آباء سے مراد آباء علم بھی ہوسکتے ہیں یعنی ہم نے اپنے ملانوں اور مولویوں کو اسی طرح شرک کی آلودگیوں سے ملوث دیکھا ہے ۔ حل لغات : واستعمرکم : استعمار سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی آبادی چاہنے ، اور زندگانی کرنے کے ہیں ۔ مجیب : کے معنی قبول کرنے والے کے ہیں ۔ ھود
63 (ف ١) غرض یہ ہے کہ ابنیاء علیہم السلام کے پاس دلائل ہوتے ہیں ، وہ لوگوں کو علی وجہ البصیرت حق کی جانب بلاتے ہیں انہیں پورا پورا یقین ہوتا ہے کہ اللہ نے انہیں رشد وہدایت کے لئے مامور فرمایا ہے ، وہ کامل وثوق کے ساتھ اللہ کے دین کو پیش فرماتے ہیں ۔ ھود
64 (ف ٢) اونٹنی کو نشانی قرار دینے کا مقصد یہ تھا کہ دیکھیں ان کے بغض وعناد کی مقدار کیا ہے ؟ قاعدہ ہے ، کہ جب ایک شخص سے محبت ہو تو اس کی ہر چیز سے محبت ہوجاتی ہے ، اور اگر بغض ہو ، تو پھر اس کی کوئی چیز دل کو نہیں بھاتی ، حضرت صالح (علیہ السلام) نے اسی اصول پر محبت اور عقیدت کو جانچا ، اور کہا دیکھو اس اونٹنی کو نہ چھیڑنا ورنہ سمجھ لیا جائے گا ، تمہیں ہم سے بیحد عداوت ہے ، اور تمہیں یہ بھی گورار نہیں کہ ہماری اونٹنی زندہ رہے ۔ حل لغات : تخسیر : گھاٹا ، خسارہ ۔ ناقۃ اللہ : یعنی اللہ کی پیش کردہ اونٹنی ۔ نسبت اضافت تشریف کے لئے ہے ۔ اللھم اغفر لکاتبیہ ولمن سعے فیہ ۔ ھود
65 ھود
66 ھود
67 ھود
68 (ف ١) قوم ثمود نے حسب دستور مخالفت کی اور اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں ، اور انتہائی بغض عناد کا ثبوت دیا اللہ تعالیٰ نے پہلے سے آگاہ کردیا تھا ، کہ عذاب تمہارے سر پر منڈلا رہا ہے ، اللہ کے شعائر سے تعرض نہ کرو ورنہ نتیجہ ہلاکت ہوگا ، یہی ہوا کہ سخت آواز نے انہیں آگھیرا اور ایسے مٹ گئے کہ (آیت) ” کان لم یغنوا فیھا “۔ گویا کہ ان میں کبھی آباد ہی نہ تھے ۔ ھود
69 مہمانوں سے حسن سلوک : (ف ٢) یہاں سے حضرت لوط (علیہ السلام) کا قصہ شروع ہوتا ہے بطور تمہید کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر بھی آگیا ہے ، یہی وجہ ہے ، اس قصہ کا انداز بیان دوسروں سے مختلف ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ میں دو باتیں ایسی بیان کی ہیں جن کا تعلق آداب یا عوائد رسمیہ سے ہے جب فرشتے حضرت اسحاق کی تولید کی خوشخبری لے کر آئے تو فورا ہی انہوں نے السلام علیکم کہا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی سلام کہہ کر جواب دیا جس کا مقصد یہ کہ مسلمان جب ایک دوسرے سے ملیں تو سلسلہ گفتگو ان میں علیک سلیک سے شروع ہو ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس رسمی گفتگو کے بعد مہمانوں کے سامنے ماحضر پیش کیا جس سے معلوم ہوا کہ مسلمان میں مہمان نوازی کا جذبہ بہت پرانا ہے ۔ حل لغات : جثمین : سینہ کے بل اوندھے پڑے ہوئے بےحس وحرکت شدگان وہلاک شدگان ۔ حنیئذ : بھنا ہوا ، اوجس : دل میں محسوس کیا ۔ ھود
70 ھود
71 (ف ١) وامراتہ قآئمۃ “۔ سے صاف ظاہر ہے کہ مہمانوں کی عزت افزائی میں عورت بھی شریک ہونی چاہئے ، خاوند کی حاضری میں مہمانوں سے گفتگو شرعا جائز ہے ، البتہ موجود تہذیب کی آزادی اور جلوت وخلوت میں اغیار سے ملاقاتیں ، بالکل جائز نہیں ، کیونکہ اس طریق سے اخلاق کو صدمہ پہنچتا ہے ، عورت کی تخلیق کا مقصد عفاف ہے یہی اس کا زیور ہے ، اور اسی سے اس کی عزت قائم ہے یہ نہیں تو پھر عورت میں تعلیم وتہذیب کی خوبیاں بھی عیب ہیں ، اسلام چونکہ مذہب فطرت ہے ، توازن واعتدال میں سمویا ہوا ہے اس لئے اس کی ہدایات میں توسط واحتیاط کا ہر پہلو موجود ہے ، عورت کو اس حد تک آزادی دی ہے جس حد تک اس کے لئے مفید ہے وہ آزادی جو سراسر آوارگی ہے ، اسلام میں درست نہیں ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی کا فرشتوں کے پاس کھڑے ہو کر باتیں سننا ، جواب دینا ، اور ہنسنا ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خاوند کی موجودگی میں مہمانوں کے ساتھ گفتگو کرنے میں شرعا مضائقہ نہیں اس سے مہمان کی عزت افزائی ہوتی ہے اور وہ سمجھتا ہے مجھے غیر نہیں سمجھا گیا ، ھود
72 ھود
73 سارہ کا تعجب : (ف ٢) حضرت سارہ نے فرشتہ سے جب بچے کی خوشخبری سنی ، تو انہیں تعجب ہوا ، کہنے لگیں ، میں تو اب بوڑھی ہوچکی ابراہیم (علیہ السلام) بھی عمر رسیدہ ہیں ، اس حالت میں پھر کیونکر ” ماں “ بننے کا فخر مجھے عنایت ہوگا فرشتے نے جوابا کہا ، کہ تم خدا کی قدرت سے تعجب کرتی ہو ؟ تعجب انگیز نہٰن ، اس کا کرم ہے ، جب چاہے ، نازل ہوجائے ، اعتراض کیسا ، تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہو نگی اور خدا لائق صد مدح وستائش ہے وہ جو چاہئے کرے یعنی اللہ کی ہر بات ضاطہ اور قانون ہے وہ سب کچھ کرسکتا ہے ، بڑھاپے میں اولاد کی نعمت سے نواز دے یا عین جوانی میں محروم رکھے ، ہر طرح ممکن اور صحیح ہوگا ، اس کے اعمال پر اعتراض کرنا نادانوں کا کام ہے ۔ حل لغات : اھل البیت : خاوند ، بیوی ، اور بچے ، اس لفظ سے جو حضرت سارہ (علیہ السلام) کے لئے بالخصوص استعمال کیا گیا ہے ، یہ معلوم ہوا کہ لفظ اہل الہیت کا اولین اطلاق عورت پر ہوتا ہے ، الروع : ڈر ، خوف ، ہراس ۔ ھود
74 ھود
75 ھود
76 ھود
77 ھود
78 (ف ١) حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم خلاف وضع فطرت کی عادی تھی ، ان کا خبث باطن اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ ہر وقت ان کی نظر انہیں شہوانی مشاغل کی جالب رہتی ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جب فرشتے بطور مہمان کے آئے تو انہیں خوبصورت دیکھ کر خباثت نفس میں جوش پیدا ہوا بھاگتے اور لپکتے ہوئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس آئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ان کی بدمعاشی سے ڈرے کہ کہیں یہ میرے مہمانوں کو ذلیل نہ کریں ، چنانچہ انہیں نصیحت فرمائی کہ کمبختو ! یہ عورتیں موجود ہیں ، جو فطرت کے تسکین نفس کے لئے پیدا کی ہیں ، ان کو چھوڑ کر تم لونڈوں پر کیوں مرتے ہو ، انہوں نے کہا ، آپ کی ان بیٹیوں (یعنی عورتوں) سے ہمیں رغبت نہیں اور آپ اس سے خوب آگاہ ہیں ، ہم تو جس خاص ارادے سے آئے ہیں ، اس کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں ، حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم پہلی قوم ہے جس کی وجہ سے یہ برائی دنیا میں پھیلی ، اور آج بھی یہ مرض تہذیب شائستگی کے زمانے میں موجود ہے ، یہ مرض قوم میں اس وقت پیدا وہتا ہے جب حسن اخلاقی مردہ ہوجائے اور قوم میں شہوانی ماحول پیدا کردیا جائے ۔ انسان الطبع تنوع پسند ہے ، اس لئے جب جائز وناجائز کاسوال اٹھ جائے ، تو پھر تسکین نفس کے لئے عجیب عجیب طریق اختیار کئے جاتے ہیں ، اس بدنفسی سے قومیں تباہ ہوجاتی ہیں ، ذہنی پستی اور مردانہ جذبات ختم ہوجاتے ہیں ۔ حل لغات : ضاق بھم ذرعا : محاورہ ہے یعنی تنگ دل ہوا ، عصیب : دشوار گزار مشکل ۔ یھرعون : لپکتے ہوئے ۔ ھؤلاء بناتی : اشارہ عام عورتوں کی جانب ہے شفقت کے اظہار کے لئے بیٹیاں کہا ہے یعنی یہ بیچاری عورتیں جو میری بیٹیاں ہیں ، تمہارے طرز عمل کی شاکی ہیں ۔ ھود
79 ھود
80 (ف ١) حضرت لوط (علیہ السلام) کا قوت طلب کرنا اس کے صاف صاف معنی یہ ہیں کہ اس مرض کو سختی کے ساتھ روکنے کی کوشش کرنا چاہئے کیونکہ یہ نہایت خوفناک بداخلاقی ہے ۔ ھود
81 (ف ٢) حضرت لوط (علیہ السلام) کی عورت نے دعوت کو قبول نہ کیا اور کفر وفسق میں قوم کا ساتھ دیا ، اس لئے ضرور تھا کہ جلد اور ضروری اس کو بھی معذبین میں شامل کرلیا جائے ، حضرت لوط (علیہ السلام) چونکہ پیغمبر تھے ، انہوں نے اس برائی کے خلاف تو قوم کو بالخصوص لعن طعن کی ، مگر ان کی دعوت وتبلیغ میں بھی تفصیلی ہدایات موجود تھیں ، جن میں توحید سے لے کر اعمال تک تمام دوسری جزئیات شامل تھیں ، آپ کی بیوی نے آپ کی دعوت کا انکار کیا ، اس طرح وہ اس نظام فسق وفجور کا موجب بنی جو قوم کو تباہ کر رہا تھا ، اور اس لئے عذاب میں اس کا شمول ضروری ٹھہرا ورنہ خلاف وضع فطرت کے فعل میں کوئی عورت ساتھ نہیں دے سکتی ، یہ اس نسوانی فطرت کے خلاف ہے جس سے تخلف ناممکن ہے ۔ ھود
82 ھود
83 ناپاک اور خبیث النفس لوگ : (ف ٣) اس بستی کو جہاں یہ ناپاک لوگ رہتے تھے ، اللہ کے عذاب نے آگھیرا اور اسے الٹ دیا گیا ، وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹ گئے ، یہ کیوں ؟ اس لئے کہ جب قوم میں شہوانی خیالات اس درجہ رائج ہوجائیں کہ اٹھتے بیٹھتے انہیں سوا اس کے اور کوئی مشغلہ ہی پسند نہ ہو ، جس کا روز مرہ فحش اور گندا ہو ، جو فطرت کے مضبوط اور مستقیم اصولوں کو پس پشت ڈالدے ، جو خیر خواہوں کی باتوں کا مضحکہ اڑائے ، جو اس درجہ ذلیل ہوجائے کہ نفس کی خباثتیں اس پر غالب آجائیں ، اس قوم کا ہلاک ہوجانا ہی بہتر ہے ۔ ” فبطن الارض خیرمن ظھرھا “۔ ہر پیغمبر توحید کے ساتھ کچھ مخصوص تعلیمات بھی پیش کرتا ہے جن کا تعلق قوم کے ان اخلاقی ومعاشی نقائص سے ہوتا ہے جو زیادہ ابھرے ہوئے اور نمایاں ہوتے ہیں ۔ ھود
84 (ف ١) حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم تجارت سے شغف رکھنے والی قوم تھی ، مگر کم تولنے کی بد عادت میں مبتلا تھی ، اس لئے حضرت شعیب (علیہ السلام) نے انہیں اس برے فعل سے روکا ، اور کہا ، کہ اللہ کی عبادت کے ساتھ معاملات میں بھی منصف اور عادل بننے کی کوشش کرو ، کیونکہ مذہب کا تعلق صرف عقائد سے نہیں ، بلکہ اس کو معاملات میں بھی اصلاحی ہدایات پیش کرنا لازم ہے ، وہ عقیدے اور عبادتیں جو برائیوں سے نہیں روکتیں تمہیں بتاؤ ان کی کیا قیمت ہے ؟ مذہب زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھتا ہے ۔ ھود
85 ھود
86 ھود
87 اکل حلال : (ف ١) حضرت شعیب (علیہ السلام) نے جب توحید کی طرف قوم کو بلایا ، خدا پرستی کی تلقین کی اور کہا کہ عقیدہ تو حید عام اعمال میں بھی نظر آنا چاہئے پورا تول کر دو اور پورا ناپ کرلو ، تو انہوں نے از راہ بدبختی کہا واہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنے کل مال ودولت میں تمہارے تصرفات کو مان لیں ہم جیسا چاہیں گے کریں گے ، اس کے بعد یہ کہہ کر حضرت شعیب (علیہ السلام) کی کچھ چاپلوسی کی ہے ، کہ تم نہایت بردبار اور نیک ہو ، یہ تجارت اور بزنس کے داؤں گھات ہیں تم کیا جانو ، یہ کیا ہیں اس لئے ان چیزوں کی مخالفت نہ کرو ، اور دخل در معقولات سے باز آجاؤ ۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے تو اکل حلال کی تلقین ، کی ، کیونکہ اکل حلال ہی سے صحیح مذہبی روح باقی رہتی ہے ، دل میں جذبات پاکیزہ رہتے ہیں دین کے لئے دلوں میں جوش اور حمیت رہتی ہے ، روح کی بالیدگی اور اعمال کی پاکیزگی کا یہ اولین وسیلہ ہے یہی اصل ریاضت ہے عبادت کی جان ہے اور دین کا اساس ، مگر قوم نے اس کی مخالفت کی اور حرام کھانے کی ٹھان لی ، اس لئے کہ اکل حلال میں مشکلات ہیں ، لوٹنے اور ناجائز طریقوں سے مال حاصل کرنے کا موقع نہیں ملتا ، نفسانی آسائشیں فراوانی سے میسر نہیں ہوتیں یہ لوگ چونکہ محنت کے عادی نہ تھے راحت طلب اور ہوائے نفس کے تابع تھے ، اس لئے شعیب (علیہ السلام) کی دعوت قبول کرنے سے محروم رہے ۔ ھود
88 (ف ٢) قوم کے اعتراضات کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں ، درست ہے ، دلائل کی بنا پر کہہ رہا ہوں ، وہ تجارت یا لین دین کامیاب ہے جو صداقت اور دیانتداری پر مبنی ہو ، میری نیکی سے تم یہ توقع نہ رکھو ، کہ میں ان برائیوں کو نہیں سمجھتا ، اور تمہارا ان میں ساتھ دوں گا میں تو اصلاح چاہتا ہوں ، مجھے تمہاری مخالفت کی پروا نہیں ، کیونکہ میرا تعلق خدائے برتر سے ہے ۔ حل لغات : شقاقی ، میری عداوت ۔ شق سے مشتق ہے ۔ ھود
89 ھود
90 ھود
91 (ف ١) جب قومیں جذبہ دینداری سے عاری ہوجائیں اور ان کا نصب العین دنیا کی پوجا قرار پائے ، جب ہوائے نفس کے بادل قلب ودماغ پر چھا جائیں ، اور دن رات حصول زر کا خیال دامن گیر ہو ، جب دنیا مقصود ٹھہرے اور دین دوسرے درجے کی چیز رہ جائے تو اس وقت پند ونصیحت بیکار ہے ، پھر اخلاقی وعظ ان کے دلوں میں اثر انداز نہیں ہوتے ، اور نہ طبیعتیں قبول حق کے لئے آمادہ ہوتی ہیں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم دنیا داری کے ان درجات کو طے کرچکی تھی ، زر طلبی اور ہوس رانی ، زندگی کا شعار قرار پا چکا تھا ، اس لئے صداقت وسچائی کی راہوں میں کامیابی انہیں مشکل نظر آئی انکی سمجھ میں نہیں آتا تھا ، کہ دیانتداری کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیونکر تجارت میں کامیاب ہو سکتے ہیں ، کاروبار تو جھوٹ اور فریب کے سوا چل نہیں سکتے ، اس لئے انہوں نے صاف صاف کہہ دیا یہ فلسفہ دینداری ہماری عقل سے بالا ہے ، اور جب دیکھا کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی کوششیں برابر جاری ہیں ، اور وہ سب کو پاکبازی اور عدل وانصاف کی دعوت دینے میں بدستور مصروف ہیں اور مایوس نہیں ہوئے تو انہوں نے دھمکی دی کہ دیکھئے آپ ہم میں کمزور ہیں آپ کا مار ڈالنا ہمارے لئے کچھ بھی مشکل نہیں ، ہمیں ان عزیزوں کا خیال ہے ، جو ہمارے بھی عزیز ہیں اور آپ کے بھی اور جو آپ کے ہم عقیدہ نہیں ورنہ کبھی آپ کا کام تمام کردیا ہوتا ۔ حل لغات : ودود : ود سے مشتق ہے یعنی منبع محبت ۔ رھط : گروہ وجماعت مرداں ، واحد پر بھی اس کا اطلاق ہو سکتا ہے ۔ ظھریا : ظہر سے بنا ہے یعنی پس پشت ڈالا ، ہوا ۔ ھود
92 ھود
93 (ف ١) حضرت شعیب (علیہ السلام) نے دھمکی کو صبر وعزیمت کے ساتھ سنا اور کہا ، تمہیں میرے عزیزوں کا تو خیال ہے ، مگر اللہ کا خیال نہیں ، جس کی جانب سے میں مبعوث ہو کر آیا ہوں ، تم اس کی آواز پرکان نہیں دھرتے تمہیں اس بات کی فکر نہیں کہ وہ تمہیں کیا کہے گا تم جو چاہو ، کرتے رہو میں ہرگز تمہارے طرز عمل سے خائف نہیں ، تم عنقریب جان لوگے ، کہ جھوٹا کون ہے ، اور سچا کون ، کس پر اللہ کی رحمتیں ہیں اور کون ذلیل اور کون عذاب کا مستحق ہے ۔ چنانچہ اللہ کا عذاب آیا اور انکار کرنے والے صفحہ ہستی سے ہٹ گئے ، اللھم اغفر لکاتبیہ ولمن سعے فیہ ۔ ھود
94 ھود
95 ھود
96 ھود
97 جہنم کی سرداری : (ف ١) موسیٰ (علیہ السلام) نے جب فرعون کو کبر وغرور سے روکا اور ارکان حکومت کے ساتھ بہترین سلوک روا رکھنے کی تلقین کی ، اس سے کہا گیا کہ بنی اسرائیل پر ظلم نہ کرو ، انہیں آزادی وحریت کی نعمتوں سے ہم کنار ہونے دو ، تو اس کے قیادت پسند مغرور نفس نے اس جائز اور درست مطالبے کو تسلیم نہ کیا جادوگروں کو بلایا ، موسیٰ (علیہ السلام) کو ذلیل ورسوا کرنے کی کوشش کی ، بنی اسرائیل پر اور سختیاں شروع کردیں ، محض اس بنا پر کہ طیبعت میں سیادت وفرمانروائی کا جنون تھا ، دماغ کو کبر غرور کے بام بلند سے نیچے آنا گوارا نہ تھا ، یہ کس طرح پسند نہ تھا کہ بنی اسرائیل اور فرعون ایک دین کے حلقہ بگوش ہوجائیں ایک قبطی اور اسرائیلی دونوں ایک صف میں کھڑے ہوجائیں ، اس طریق سے اس کے جذبہ قیادت وسیادت کو صدمہ پہنچتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے جو سزا تجویز کی ، وہ اس کی نفسیات کے عین مطابق ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ، (آیت) ” یقدم قومہ یوم القیمۃ “۔ یعنی قیامت کے دن بھی اس کی شان قیادت کی لاج رکھی جائے گی ، اپنی قوم کو جہنم میں لے جائے گا اور ان کے آگے آگے ہوگا ، جس طرح دنیا میں اس نے قوم کو قلزم میں غرق کردیا تھا ، اس طرح آخرت میں بھی قوم کو جہنم میں لے جانے کے لئے پیش پیش ہوگا ۔ ھود
98 ھود
99 ھود
100 ھود
101 (ف ٢) ان آیات میں موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ کے درمیان بطور تنوع اللہ تعالیٰ نے چند دوسرے قیمتی امور کا ذکر فرمایا ہے کہ قوموں کی داستان کفر ومعصیت جو بیان کی گئی ہے ، ان کا تعلق امور غیب سے ہے ، جس کی انبیاء علیہم السلام کے سوا اور کسی کو خبر نہیں ہوتی ، ارشاد فرمایا کہ ان قوموں پر جو عذاب آیا ہے ، ان کی اپنی نافرمانی کی وجہ سے ہے ورنہ اللہ ظالم نہیں ، جب عذاب آگیا ، تو پھر ان کے مزعومہ خدا انہیں عذاب سے نہ بچا سکے ، یہ کہا کہ یہ بات اللہ کے انتظام میں داخل ہے ، کہ جب شہروں اور بستیوں میں کفر ومعصیت پھیل جائے اور دل مردہ ہوجائیں ، تو اس وقت خدا کا غضب حرکت میں آتا ہے اور انہیں دنیا سے ہٹا دیا جاتا ہے نیز یہ فرمایا کہ یہ واقعات عبرت ونصیحت کے لئے ہیں تاکہ طبیعتوں میں گداز اور تاثر پیدا ہو ۔ حل لغات : الرفد المرفود : جہنم میں ، داخلے سے تعبیر ہے ، بطور تحکم وتوہین کے در دو نار اعانت مقرار دیا ہے ، ۔ حصید : کٹا ہوا تباہ شدہ تتبیب : ہلاکت ، تباب سے ہے ، ۔ یوم مشہود : قیامت ، جس دن سب خدا کے حضور میں کھڑے کئے جائیں گے ۔ زفیر وشھیق : آگ میں جو آواز پیدا ہوگی ، اس کو زفیر وشہیق سے تعبیر کیا ہے زناٹے کی آگ جلے گی ، ھود
102 ھود
103 ھود
104 ھود
105 ھود
106 ھود
107 ھود
108 رحمت الہی کی فراوانیاں : (ف ١) دنیا میں ہمیشہ دو گروہ رہے ہیں ، ایک وہ جنہیں سعادت ازلی سے بہرہ وافر ملا ہے ، اور دوسرا وہ جن کے حصہ میں محرومی شقاوت کے سوا اور کچھ بھی نہیں ۔ اللہ نے ان گروہوں کے لئے حیات اخروی میں اعمال کے موافق وومقام تجویز فرمائے ہیں ۔ ایک مقام غضب جس کا نام جہنم یا دوزخ ہے اور ایک مقام رحمت وعفو ، جو جنت یا فردوس کے نام سے مشہور ہے ان آیات میں اس حقیقت کی تشریح مذکور ہے ، (آیت) ” مادامت السموت والارض “۔ عربی محاورہ ہے جس سے مراد دوام وتائید ہوتی ہے جیسے ” ما جن اللیل ، ماناح الحمام ما سال سبل ، ماطما جر “۔ وغیرہ محرات میں مقصد دوام ہوتا ہے ۔ عذاب کی آیت میں (آیت) ” الا ما شآء ربک “۔ کہنا اور اس کے بعد (آیت) ” فعال لما یرید “۔ کہنا اور ثواب کی آیت میں استثناء کے بعد (آیت) ” عطآء غیر مجذدود “ کہنا یعنی غیر منقطع انعام اس سے اللہ کی ہمہ گیر رحمت ترشح ہوتی ہے ، ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا دائر عفو ورحمت بہت وسیع ہے ، اس کی اولی رحمت جہنم کی دھکتی ہوئی آگ کو آن وعد میں سرد کرسکتی ہے ، اس کا غصہ اصلاح وہدایت کے لئے ہے انتقام کے لئے ہرگز نہیں ۔ (آیت) ” الا ما شآء ربک “۔ کا استثناء آیت تعذیب میں موصیلہ معنوں کے لئے ہے ۔ اور آیت تبشیر میں تائید حسرت و جنت کے لئے جیسے (آیت) ” سنقرئک فلا تنسے الا ما شآء اللہ “۔ میں یہ منشاء نہیں کہ حضور وحی والہام کو بھول سکتے ہیں ، دوم نسیان کی تاکید فرمائی ہے ، یعنی خدا ہی چاہئے تو نسیان وسہو وی الہام میں پیدا ہو سکتا ہے ، ورنہ نہیں ، آیت بشارت میں بالکل یہی انداز بیان ہے یعنی سعادت مند روحیں ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہیں گی اور سوا خدا کے اور کوئی قوت انہیں جنت کی نعمتوں سے محروم کرسکے گی ، حل لغات : مجذود : کٹا ہوا ۔ جذ کے معنی کاٹنے اور قطع کرنے کے ہوتے ہیں ، جذاذا ، یعنی ٹکڑے ٹکڑے ۔ ھود
109 ھود
110 ھود
111 ھود
112 (ف ١) (آیت) ” فاستقم کما امرت : میں تمام اسلامی تعلیم آجاتی ہے اس میں اشارہ ہے کہ فرائض دینی کو عزم واستقلال کے ساتھ ادا کرو ، خدا کی منشاء کے مطابق تمہارا ہر قدم اٹھے ، مخالفت وعناد سے خوف وہراس درست نہیں مرد مومن وہ ہے جو عقائد کو جب عقل ودانش کے معیار پر پرکھ لے ، تو پھر اس کے پائے ہمت میں کہیں لغزش پیدا نہ ہو ، یہ چھوٹا سا جملہ سورۃ ہود کی جان ہے جس میں جدوجہد کا ایک عالم پہناں ہے اسی لئے حضور فرمایا کرتے تھے ، ” شیبتنی ھود “۔ کہ سورۃ ہود میں ادائے فرض کی تلقین کے فکر نے مجھے بوڑھا کردیا ہے ، اللہ اللہ ! وہ رسول جس کی ہر ساعت خدمت دین میں صرف ہوتی ہے ، اسے اپنی ذمہ داریوں کا کس قدر احساس ہے ۔ ھود
113 ھود
114 (ف ٢) طرفی النھار “۔ سے غرض صبح اور شام کے اوقات ہیں بات یہ تھی کہ مجوسی عین طلوع وغروب کے وقت سورج کو قبلہ مان کر عبادت کرتے اس آیت میں نماز کے اوقات ایسے بتائے ہیں کہ سورج پرستی کے لئے کوئی موقع ہی نہ رہے ، اسلام اس لحاظ سے نہایت مکمل مذہب ہے کہ اس میں ہر ممکن احتیاط موجود ہے ، سارے نظام مذہبی میں کہیں شائبہ شرک نہیں ۔ حضرت حسن (رض) فرماتے ہیں ، طرفین سے فجر وعصر مراد ہے حضرت ابن عباس (رض) کے نزدیک صبح ومغر ہے ، علامہ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس (رض) کے مسلک کی تائید فرمائی ہے ۔ علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت حسن (رض) کے قول کو ترجیح دی ہے کیونکہ (آیت) ” زلفا من اللیل “۔ میں مغرب وعشاء دونوں داخل ہیں ۔ اس کے بعد فرمایا ہے کہ نماز میں حصول تقوی کی بہترین صورتیں ہیں ، اس لئے اگر کوئی شخص نماز کو قائم کرے گا ، اور روح صلوۃ کو سمجھنے کی کوشش کرے گا ، تو نماز اس کے دل میں پاکیزگی کے جذبات پیدا کر دے گی ، اسے نیک بنا دے گی اور وہ گناہ بھی اس نے جہالت کی وجہ سے کئے ہیں ، نیکیوں کے تلے دب جائیں گے ، نماز بہترین وظیفہ طہارت ہے ، اور نمازی بہترین روحانی رفیق ، اس لئے گناہوں کا جوش کم ہوجانا طبعی بات ہے ۔ حل لغات : ولا ترکنوا : رکن یرکن مائل ہونا جھکنا ، زلفا : رات کی پہلی ساعتیں ، زلف جمع زلف ، بمعنی رات کا ایک حصہ وسارا ، اول ۔ ھود
115 ھود
116 ھود
117 ھود
118 قانون اختلاف طبائع : (ف ١) یعنی اختلاف رائے ناگزیر ہے جب تک دل ودماغ دنیا میں رہیں گے ، اختلاف باقی رہے گا ، اللہ تعالیٰ کی مشیت تکوینی نے کچھ ایسا سامان پیدا کردیا ہے کہ اختلاف سے گھبرا نہ جائیں ، اور آپ کا جی تھوڑا نہ ہو ، بتایا یہ ہے کہ ایمان وکفر میں امتیاز قدرتی بات ہے ، آپ استقلال وہمت کے ساتھ اپنا فرض ادا کرتے رہیں ۔ آیت کا مقصد یہ نہیں کہ اللہ نے بعض لوگوں کو عمدا جہنم کے لئے پیدا کیا ہے ، بلکہ مدعا یہ ہے کہ اللہ کی مشیت تکوینی میں جیسے ہدایت کے لئے موافق بہم پہنچائے گئے ہیں ، اس طرح گمراہی کے لئے بھی آسانیاں موجود ہیں ۔ اور اس میں انسانوں اور جنوں میں کوئی تفریق نہیں ، دونوں میں ایسے لوگ موجود رہیں گے جو جہنم کے مستحق قرار پائیں گے ۔ (آیت) ” کلمۃ اللہ “۔ سے مراد ہے اللہ کا ہمہ گیر قانون اختلاف طبائع آیت میں اس قسم کے واضع قرائن موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کا مقصد یہ نہیں کہ لوگ گمراہی اور ضلالت کو قبول کریں البتہ یہ بات ضرور ہے کہ لوگ گمراہی قبول کریں گے ۔ ، مثلا (آیت) ” الا من رحم ربک “۔ (مگر جن پر تمہارا پروردگار رحم کرے) ایک قرینہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو ظل رحمت میں آجائیں اللہ ان سے خوش ہے ۔ (آیت) ” ولذلک خلقھم “۔ دوسرا قرینہ ہے حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ و عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ متفق ہیں کہ ذلک کا مشار الہہ رحمت ہے یعنی اللہ نے لوگوں کو پیدا تو رحمت کے لئے کیا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ وہ شقاوت کو اپنے لئے پسند کریں پھر غور طلب یہ حقیقت ہے کہ اگر آیت کا یہی مفہوم ہو جو اصحاب الحاد سمجھتے ہیں تو پھر دعوت ونبوت ہی میرے سے بےسود ہے ، جب یہ ملے ہے کہ لوگ جہنم میں جائیں تو پھر کیوں رسولوں کو بھیجا گیا ، کیوں کتابیں نازل کیں ، اور قرآن کی کیا ضرورت تھی ، معلوم ہوتا ہے یہ مفہوم قطعی درست نہیں ۔ حل لغات : قرون ، قرن کی جمع ہے ۔ ھود
119 ھود
120 ھود
121 ھود
122 (ف ١) یعنی کفار کو ڈھیل دے دی ہے کہ وہ سب کچھ کر دیکھیں ، ہر سرکشی اور تمرد کو آزما دیکھیں ایک وقت آئے گا جب کہ علم حق وصداقت بلند ہوگا ، اور اہل عناد وبغض حیران ہو کر رہ جائیں گے مگر یہ کب ہوگا ؟ اس کا صحیح صحیح اندازہ صرف اللہ کو ہے ، سب باتیں کسی کے اختیار میں ہیں ‘ وہی اسرار غیب سے آگاہ ہے وہ اپنی مصلحتوں کو خوب جانتا ہے اس لئے مسلم حق نواز کا فرض ہے کہ وہ تائید الہی کا صمیم قلب سے منتظررہے ، اور مایوس نہ ہو ، کیونکہ خدا تمام حالات کو جانتا ہے اس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ۔ ھود
123 ھود
0 یوسف
1 یوسف
2 یوسف
3 بہترین واقعہ : (ف ١) سورۃ یوسف کا نزول اس وقت ہواجب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ چھوڑ رہے تھے ، اور مدینہ کی جانب ہجرت کا ارادہ تھا ، غرض یہ ہے کہ جس طرح برادران یوسف نے جمال ظاہری کو رشک وحسد کی آنکھوں سے دیکھا اور بھائی کو کنوئیں میں پھینک دیا ، اسی طرح یہ برادران قوم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جمال روحانی کی تجلیات کو برداشت نہ کرسکے ، اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار ثور میں پناہ گزیں ہوئے پھر جس طرح یوسف (علیہ السلام) ارض مصر میں حکومت اعلی کے درجہ تک پہنچے اسی طرح حضور کو مدینہ کے لوگوں نے آنکھوں پر بٹھایا ، اس سورۃ کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ آپ کی ہجرت یوسف (علیہ السلام) کی سی ہجرت ہے انشاء اللہ آپ مدینے میں یوسف (علیہ السلام) کی طرف اقتدار حاصل کریں گئے اور یہی برادران یوسف (علیہ السلام) آپ سے عفو وکرم کے طالب ہوں گے ۔ اس سورت میں نفسیات انسانی کی بعض مخفی کیفیتیں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں ، حسد وعناد کا انجام ، محبت کا ذب وصادق میں امتیاز معصیت کی جانب میلان بشری یہ سب چیزیں نہایت عمدگی سے بیان کی ہیں ، درمیان میں بہت سے حقائق ومعارف آگئے ہیں موقع بہ موقع ان کے متعلق تشریحات آگے آئیں گی ۔ حل لغات : احسن القصص : بہترین واقعہ ۔ بہترین اخبار ۔ قصہ کے معنے کہانی یا افسانہ کے نہیں ، بلکہ تعبیر دینے ، یا حقیقت کے ہیں ، کیونکہ قرآن فرضی خبریں نہیں بیان کرتا اس کا مقصد تو واقعات وحقائق کو بیان کرنا ہے ۔ یوسف
4 خواب کی حقیقت : (ف ١) بعض خواب قابل تعبیر ہوتے ہیں ، ان کا تعلق مستقبل کے حالات سے ہوتا ہے ، اور بعض اضغاث واھلام ، یعنی خوابہائے پریشان ، جن کی تعبیر بوجہ اختلاف احوال معقول وغیر معقول نہیں ہے ، خواب کیوں تعبیر طلب ہوتا ہے ؟ اور کیوں اس کا تعلق آئندہ حالات سے ہوتا ہے ؟ مادیت کی رو سے اس کا کوئی جواب نہیں ، البتہ مذہب نے اس حقیقت کو بیشتر سے معلوم کرلیا ہے کہ روح انسانی فیضان آلہی کا نتیجہ ہے اور روح کا تعلق عام ارواح سے ہے جب روح کو کامل تجرد اور علیحدگی کا موقع ملتا ہے ، وہ عالم ارواح کی جانب پرواز کرلی ہے تو اپنے ساتھ بیش بہا معارف ومعلومات لاتی ہے ۔ خواب کی پوری پوری حقیقت اب تک معلوم نہیں ہوسکی بہر حال آیندہ معلومات کی آئینہ داری کی کامل تردید ہے ۔ آیت کا مقصد یہ ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دیکھا کہ آسمان کے گیارہ ستارے مجھے سجدہ کر رہے ہیں ، اور چاند سورج بھی جھکے ہوئے ہیں ، اس لئے انہیں تعجب ہوا ، اور انہوں نے اپنے والد سے استصواب کیا ، یوسف
5 (ف ٢) مشفق باپ نے بتایا ، کہ تعبیر اچھی ہے ، اپنے بھائیوں سے نہ کہنا کہ میں نے یہ خواب دیکھا ہے ، کیونکہ اس طرح ان کے دل میں حسد ورشک کی آگ جل اٹھے گی ، اس آیت میں انسان کی اس نفسیت کی طرف اشارہ ہے کہ انسان بالطبع دوسروں کے عروج کو نہیں دیکھ سکتا ، ایک باپ کی اولاد ہیں ، بھائی بھائی ہیں ، مگر یہ منظور نہیں کہ یوسف (علیہ السلام) کسی بات میں سبقت لے جائے ، یوسف
6 (ف ٣) سچے خواب نبوت کا ایک حصہ ہیں ، کیونکہ قلب جس قدر پاک اور مصفا ہوگا ، اسی قدر معارف عالیہ کے اکتساب کی اس میں استعداد زیادہ ہوگی ، انبیاء جو کچھ بذریعہ خواب دیکھتے ہیں وہ بالکل حق اور حقیقت ہوتی ہے ، اس طرح ان میں یہ ملکہ بھی ہوتا ہے کہ خواب کی صحیح صحیح تعبیر معلوم کرلیں ، حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کو خوشخبری دی کہ تمہیں علم التعبیر سے بہرہ ور کیا جائے گا ، تم خواب کی سچی تعبیر بتا سکو گے ، نیز تم پر اللہ کا فضل ہوگا ، اور تم ابراہیم واسحق (علیہ السلام) کی مسند پر بیٹھو گے ۔ فن تعبیر وجدان صحیح اور ذوق پر موقوف ہے ، علمی طور پر اس کی جزئیات مدون نہیں ۔ یوسف
7 یوسف
8 یوسف
9 یوسف
10 یوسف
11 یوسف (علیہ السلام) کیوں باپ کو پیارے تھے ! (ف ١) اب یوسف (علیہ السلام) کے خلاف سازشیں شروع ہوتی ہیں ، بھائی ملے کرتے ہیں ، کہ یوسف کو تاریک کنوئیں میں ڈال دیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ اس کو بھیڑئیے نے کھالیا ہے تاکہ ہم یوسف (علیہ السلام) کی جگہ لے لیں اور باپ ہم سے زیادہ محبت کرنے لگے ۔ بات یہ تھی کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خلعت نبوت ملنے والا تھا ، یہ باپ کے ہونہار اور سعادتمند صاحبزادے تھے ، باپ کو بالطبع ان سے زیادہ انس تھا ، اور یہ محبت دوسروں کو ناگوار تھی اور قرآن حکیم سے یہ ثابت نہیں ہوتا ، کہ یہ لوگ بھی انبیاء تھے ، بلکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی بدگمانی اور ان کے دوسرے افعال سے ثابت ہوتا ہے ، کہ وہ انبیاء نہ تھے کیونکہ انبیاء کا دل اس نوع کے جذبات سے پاک ہوتا ہے ۔ حل لغات : سجدین : خواب میں چاند اور سورج چونکہ جھک آئے تھے ، اس لئے انہیں انسان فرض کہ لیا گیا اور ساجدین کہا گیا ، ورنہ ساجدۃ ہونا چاہئے تھا ، تاویل ال احادیث : باتوں کی سمجھ بوجھ ، لفظ عام ہے ، مگر مراد یہاں تعبیر رؤیا سے ہے ، ضلال : گمراہی ، مغلوب ہونا ، گم ہونا ، ہلاک ہونا ، ضلال کا لفظ عربی میں وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ لغزش فکر سے لے کر گناہ کبیرہ تک سب کو ضلال کہا جاتا ہے ۔ اس لئے جہاں یہ استعمال ہو ، یہ دیکھ لینا چاہئے کہ کن معنوں میں یہاں استعمال ہوسکتا ہے ، یہاں مغلوب ہونے کے معنی ہیں ۔ ان ابانا لفی ضلال مبین : یعنی ہمارا باپ مغلوب ہے ۔ کہ محبت میں ۔ غیبت الجب : کنوئیں کی تاریک گہرائیاں ۔ یوسف
12 (ف ١) یرتع ویلعب : سے معلوم ہوا کہ کھیل کود ممنوع نہیں بلکہ جائز ومستحسن ہے ، کھیل وہ ممنوع ہے جس میں محض وقت ضائع ہوتا ہے جسم انسانی یا فکر انسانی کو اس سے کوئی راحت نہ ملے ، وہ کھیل یا ورزش جس سے طبیعت میں انشراح وبشاشت پیدا ہو ، درست ہے ۔ قرآن کا مقصد جب کسی واقعہ کو بطور عبرت پیش کرنا ہوتا ہے تو وہ غیر ضروری تفصیلات کو جو آرائش افسانہ کے قبیل سے ہیں ، ترک کردیتا ہے ، اور صرف وہ حصہ ذکر کرتا ہے ، جو اصل مقصود ہے ۔ یوسف
13 یوسف
14 یوسف
15 (ف ٢) خدا کا قانون ہے کہ جب دنیا کی اعانت کے سلسلے منقطع ہوجائیں ، آپس کا رشتہ ٹوٹ جائے ، اور یاس کے بادل آمنڈ آئیں ، اس وقت وہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے جب یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں کا خون سفید ہوگیا ، ان کے دلوں میں شفقت واخوت کے سومے خشک ہوگئے ، اور وہ ظالمانہ سلوک پر مستعد ہوگئے ، تو اس وقت اللہ کی رحمت جوش میں آئی ، اس کا دریائے کرم موزن ہوا اور یوسف کو تاریک کنوئیں ، میں سل امتی وکامیابی کی خوشخبریاں سنائی دینے لگیں ، اللہ نے کہا ، فکر نہ کرو ، ایک وقت آئے گا ، کہ تم انہیں شرمندہ کرو گے ، اور انہیں معلوم نہیں ہوگا ، کہ تم یوسف ہو ، حل لغات : یرتع : آزادی سے کھانا پینا ۔ یوسف
16 یوسف
17 یوسف
18 (ف ١) جب برادران یوسف (علیہ السلام) رات کے وقت ڈھاریں مارتے ہوئے لوٹے تو کہنے لگے کہ ابا ! آپ مانیں یا نہ مانیں ، یوسف (علیہ السلام) کو بھیڑئیے نے کھالیا ہے اور ثبوت میں یوسف (علیہ السلام) کا خون میں تربتر قمیص پیش کردیا جس میں جھوٹ موٹ خون لگا لیا گیا تھا ، حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے فراست پیغمبری سے پہچان لیا کہ یہ جھوٹ ہے ، اس لئے اس سے کہہ دیا ، کہ یہ محض فریب ہے تم نے یہ قصہ میرے سامنے سرخرو ہونے کے لئے بنا لیا ہے ، اس میں کوئی صداقت نہیں ۔ اس کے بعد اس مصیبت عظمی پر اپنے صبر کا اظہار کیا ، اور کہا کہ ان مواقع پر صبر ہی بہترین ہے ، اللہ ہماری مدد کرے گا ۔ حل لغات : سیارۃ : گھومنے پھرنے والے ، سیاح ، واردھم : وارد وہ ہوتا ہے جو قافلے کے آگے آگے چلتا ہے ، تاکہ پانی اور گھاس وغیرہ کی دیکھ بھال کرے ، اور ٹھہرنے کے لئے اچھی جگہ تلاش کرے ۔ یوسف
19 یوسف
20 یوسف
21 یوسف (علیہ السلام) مصر میں : (ف ١) یہاں سے پھر اصل قصہ کا آغاز ہوتا ہے ، حضرت یوسف (علیہ السلام) کو جب بھائی کنوئیں میں ڈال کر چلے گئے تو وہاں سے ایک قافلہ گزرا اور پانی کی تلاش میں وہ اس کنوئیں پر ٹھہر گیا ، کنوئیں میں ڈول ڈالا ، تو معلوم ہوا کہ اس میں ایک خوش طلعت لڑکا موجود ہے ، وہ مارے مسرت کے چلا اٹھے ، کہنے لگے ، زہے قسمت ، ! ہمیں ایک نہایت حسین لڑکا مل گیا ہے ، اس کے بعد یوسف (علیہ السلام) کو قیمتی سرمایہ سمجھ کو چھپا لیا ، اور مصر میں نہایت سستے داموں یعنی چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا ، کیونکہ وہ اس کی حقیقی قدر وقیمت سے آگاہ نہ تھے ، ۔ خریدار عزیز مصر تھا ، گھر لے جا کر بیوی کو تاکید کردی کہ اسے عزت وآرام سے رکھیو عجب نہیں کہ یہ ہمیں فائدہ دے ، یا ہم اسے بیٹا ہی بنالیں ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے لئے میدان صاف کرو یا اور انہیں تمکن فی الارض کے لئے موقع دیا ، یعنی سرزمین مصر میں جگہ دی ، غور کیجئے قدرت اپنے کام کس درجہ منظم طریق پرانجام دیتی ہے ، یوسف جب کنعان میں ہیں شفیق والد ہر وقت نگاہ میں رکھتے ہیں ، ایک لمحہ آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے ایک خواب بھائیوں کے دل میں حسد ورشک کے جذبات پیدا کردیتا ہے ۔ بھائی جنگل میں دور دراز ایک گہرے اور تاریک کنوئیں میں پھینک دیتے ہیں ، کہ ہلاک ہوجائے ، خدائے علیم دیکھ رہے ہیں ایک قافلہ کو بھیج دیتے ہیں ، اور وہ انہیں عزیز مصر کے گھر پہنچا دیتا ہے ۔ کس قدر عبرت کا مقام ہے کہ یوسف (علیہ السلام) ، خاندان نبوت کا چشم وچراغ ، غلاموں کی طرح بکتا ہے اور کس قدر تعجب کا مقام ہے کہ یہی غلامی آقائی کی تمہید بن جاتی ہے ، اللہ اپنے ارادوں کی تکمیل کیلئے حیرت انگیز طریق اختیار کرتا ہے ، ہم چونکہ واقعات کے تمام جہتوں سے کما حقہ آگاہ نہیں ہوتے اور آیندہ کی نسبت علم نہیں رکھتے ہیں اس لئے بعض اوقات مصیبت سے گھبرا اٹھتے ہیں ، اور نہیں جانتے کہ اللہ کو کیا منظور ہے دیکھئے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو کن طریقوں سے مصر کی وزارت ملتی ہے ۔ یوسف
22 یوسف
23 عفت نفس کی بہترین مثال : (ف ١) جب یوسف (علیہ السلام) جوان ہوگئے ، تو عزیز مصر کی عورت نے اظہار عشق ومحبت شروع کردیا ، اور ایک دن موقع پا کر مکان کے دروازے بند کردیئے ، اور دعوت دی کہ یوسف مصروف عیش ہوں ، آپ نے کمال پاکبازی سے جواب دیا ، کہ یہ کیونکر ممکن ہے عزیز مصر نے مجھ پر احسان کئے ہیں ، اور میں انہیں دھوکہ دوں ، یہ ظلم مجھ سے نہ ہو سکے گا ۔ یہ اس وقت کے تمدن کا صحیح نقشہ ہے ، کہ امراء کی عورتیں عام طور پر عصمت فروش ہوتی تھیں ، اور شہوات نفسانی میں اس درجہ غلو تھا ، کہ اپنے غلاموں سے بھی پرہیز نہیں تھا ، آج کل بھی اونچے طبقوں میں یہی کیفیت ہے کیونکہ دولت کی فراوانی کے ساتھ دینی ضبط اور کنٹرول نہیں جس سے نفس کی شورشوں کو روکا جا سکے ، حضرت یوسف (علیہ السلام) کا ضبط نفس دیکھئے ، گناہ پوری طاقت کیساتھ دعوت عمل دے رہا ہے ، خود جوان ہیں ، عزیز مصر کی حسین ومعزز عورت بلا رہی ہے ، مکان بند ہیں ، پوری خلوت ہے مگر یوسف (علیہ السلام) خدا سے پناہ مانگتے ہو کے صاف بچ جاتے ہیں ۔ اور زبان حال سے گویا ہوتے ہیں ۔ ہزار دام سے نکلاہوں ایک جنبش میں ۔ جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے ۔ یوسف
24 (ف ٢) ھمت بہ “۔ پر دراصل وقف ہے اور ” ھم بھا “ پر نہیں ، مقصد یہ ہے کہ عزیز مصر کی بیوی لئے تو پورا پورا بدی کا ارادہ کرلیا تھا ، مگر یوسف (علیہ السلام) متوجہ نہیں ہوئے ، کیونکہ وہ برہان نبوت کو بصیرت کی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے موجودہ قرات صحیح نہیں ، اور بغرض صحت ” ھم بہا “ کے معنی تیہج نفسی کے ہیں ، جو طبعی بات ہے ، انبیاء علیہم السلام قوت رجولیت سے تو بہرحال دوسرے لوگوں سے زیادہ بہرہ مند ہوتے ہیں کیونکہ ان کی قوتیں بےلوث رہتی ہیں ، اور ضائع نہیں ہوتیں ، مگر اس قوت کا استعمال کبھی ناجائز طریق پر نہیں ہوتا ۔ آیت کا مقصد یہ ہوگا کہ اس دعوت معصیت پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کا طبعی حدود تک متاثر ہونا لازم تھا ، مگر برھان نبوت نے انہیں بچا لیا اور حقیقت میں معلوم ہوتا ہے ، کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے باوجود نفسانی کشاکش کے جذبات پرفتح حاصل کرلی ، یہی اصل عفت ہے کہ نفس بشری مجبور کرے اور نفس نبوی آگاہ روک کر کھڑا ہوجائے ، وہ شخص جس کے دل میں گناہ کی تحریک ہی پیدا نہ ہو ، وہ اگر بچ جائے تو کمال نہیں ، کمال یہ ہے کہ باوجود نہایت خواہش نفس کے انسان عفیف رہے ۔ حل لغات : برھان : دلیل ہر وہبات جو اصل معاملہ کو واضح کر دے ، واستبقا : لپکے ، استبق کے معنے دوڑنے اور لپکنے کے ہیں ۔ یوسف
25 یوسف
26 یوسف
27 یوسف
28 (ف ١) (آیت) ” ان کیدکن عظیم “۔ عزیز مصر کا مقولہ ہے کہ تمہارے چرتر بہت خطرناک ہیں ، اور وہ بھی اس زمانے کی عورتوں کے لئے عام عورتوں کے باب میں یہ صحیح نہیں ، اسلام نے عورتوں کو عفیف قرار دیا ہے ، اور ان کی عزت کی ہے ، اور واقع بھی یہی ہے کہ عورتیں عموما مردوں سے زیادہ عفیف ہوتی ہیں ، گناہ کی تحریک مردوں کی جانب سے ہوتی ہے ، اگر مرد خود پاکباز رہیں اور عورتوں کی بہتر تربیت کریں ، تو پھر اس نوع کے خطرات باقی نہیں رہتے ۔ حل لغات : کیدکن “۔ چرتر ، مکر ، فن ۔ یوسف
29 یوسف
30 یوسف
31 ازدیاد محبت : (ف ١) خوشبو اور محبت ہزار پردوں میں ہو ، چھپی نہیں رہتی خاتون مصر کے عشق کا دور دور چرچا ہوگیا ، گھروں میں عورتیں طعنے دینے لگیں کہ ایسی بھی کیا محبت جو اپنے غلام سے ہو ، اور والہانہ ہو یہ صریح گمراہی اور مغلوبیت ہے ، بات یہ ہے کہ جب تک واردات محبت سے کوئی شخص آگاہ نہیں ہوتا ، وردنہاں کا اندازہ نہیں کرسکتا ، انہیں کیا معلوم یوسف (علیہ السلام) میں کیا جادو ہے ، جو عزیز مصر ایسی شریف خاتون عزت وناموس سے بےپروا ہو کر باولی ہو رہی ہے ۔ جب امراۃ العزیز کو معلوم ہوا کہ کچھ عورتیں میرے یوسف (علیہ السلام) پر طعنہ زن ہیں ، اور میری محبت پر حرف گیر تو اس نے ایک دعوت طعام کا انتظام کیا ، عورتیں آ آکر سندوں پر بیٹھ گئیں ، چھریاں ہاتھ میں ہیں اور کھانے پینے میں مصروف ہوگئیں ، ادھر حضرت یوسف (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اس محفل قریب وطن میں داخل ہوں اور اپنے جلوہ پاک سے انہیں مسحور کردیں ، انہیں بتا دیں کہ عزیز مصر کا عشق کسی معمولی شخصیت کے ساتھ نہیں ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) سرداروں ہزار تقدس اس مجلس ناز میں اچانک داخل ہوئے ، عورتوں نے دیکھا کہ محسن ظاہری کے ساتھ حسن باطنی کی بھی کمی نہیں ، اور جبین تقدس سے پاکبازی کی تیز کرنیں نکل رہی ہیں ، تو بےاختیار بول اٹھیں ، سبحان اللہ ، یہ انسان نہیں ، کوئی پاک سیرت اور بزرگ فرشتہ ہے ، ہاتھ بےخودی میں کاٹ لئے ، نازک نازک انگلیاں زخمی ہوگئیں ، عزیز ومصر کو موقع مل گیا ، اس نے چمک کر کہا یہی ہے وہ مرد مقدس جس پر میں سوجان سے عاشق ہوں ، اور اسی کے بارہ میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں میں نے بہتیری کوشش کی کہ کسی طرح اس کو اپنی طرف مائل کروں ، مگر بچارہا ، یہ یاد رہے اب کی میں اسے مجبور کر دوں گی ، اور مگر یہ وہ کام کریگا جو میں اسے کہتی ہوں ، تو جیل میں بھجوا دوں گی ۔ یوسف
32 یوسف
33 یوسف
34 (ف ١) حضرت یوسف (علیہ السلام) نے عزیزہ مصر کا تو یہ جواب دیا ، کہ میں جیل میں جانا پسند کرتا ہوں مگر بہ دعوت معصیت قبول نہیں اور ان عورتوں کے متعلق جو دیدہ حیرت بن کر یوسف کو تک رہی تھیں ، اور چاہتی نہیں کہ کسی طرح ہماری کوئی ادا اسے پسند آجائے ، یہ دعا مانگی ، کہ اللہ ان نازک مواقع پر تو ہی ہے جو اپنے بندوں کو گناہوں سے بچاتا ہے ، جب چاروں طرف سے معصیت کے بادل گھر آئیں ، تو وہی ہے جو پاکدامنی کی توفیق مرحمت فرماتا ہے حقیقت یہ ہے کہ اس مقام پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کا دعا کرنا اور برائی سے متاثر نہ ہونا انتہا درجے کی خدا پرستی ہے ۔ غور کرو ، خوش جمال عورتوں کا براجما بیٹھا ہے ، اور عشق ومحبت کے تیر برسائے جا رہے ہیں ، آتش نفس کو بھڑکایا جارہا ہے مگر وہ اللہ کا بندہ پیشگاہ جلالت میں دست بدعا ہے کہ خدایا اس مصیبت سے بچا ، اس ابتلاء سے مجھے نکال ، اور خالصۃ اللہ کی جانب رجوع ہے ، خدا کا خوف دل پر غالب ہے ۔ حل لغات : شغفھا : غلاف قلب میں محبت سما گئی ، ابو عبیدہ (رض) محبت نے دل پھونک دیا ، جوہری ، باؤلا کردیا ، نخاس ، دل کے ساتھ محبت چپک گئی ، دل کے پردوں کو چاک کرگئی ، سمین ، مختلف معانی ہیں ، غرض ایک ہے یعنی غلبہ ، عشق وجنون ۔ متکا : مسند ، بعض نے تخفیف کے ساتھ بھی پڑھا ہے ، جس کے معنے ترنج کے ہیں ۔ اکبرنہ : مفسرین نے مختلف بھائی کئے ہیں ، جو حد درجہ کیک ہیں ، دراصل اس کے معنی یہ ہیں ، کہ انہوں نے غلاف توقع حضرت یوسف (علیہ السلام) کو نہایت قابل احترام پایا ۔ یوسف
35 یوسف
36 یوسف
37 مسلمان قیدی کے فرائض دینی : (ف ١) اللہ کے نیک بندے جہاں کہیں ہوں اپنے فرائض تبلیغ سے غافل نہیں رہتے ، اور اپنے کردار وعمل سے یہ ثابت کرتے رہتے ہیں کہ ہم نیکی کے داعی ، اور بھلائی کے مناء ہیں ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) جیل میں بھیجدئیے گئے کیونکہ انہوں نے عزیز ، مصر کی محبت کو ٹھکرا دیا تھا اور ہوائے نفس کی مخالفت کی تھی ان کے ساتھ دو اور قیدی تھے ، انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شراب کو نچوڑ رہا ہے ، اور دوسرے کے سر پر روٹیاں ہیں ۔ جنہیں پرندے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو نیک وصالح سمجھ کر تعبیر دریافت کی ، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہا کہ میں ضرور تعبیر بتلاؤں گا پہلے چند گزارشات سن لیجئے ، اس کے بعد ان کا پورا وعظ مذکور ہے ، جس میں انہوں نے نہایت خوبی کے ساتھ مسئلہ توحید کو بیان کیا ، اور ان کی اس عقیدت سے جائز فائدہ اٹھایا ، پوچھا کہ بتاؤ ، تم بہت سے خداؤں کو پسند کرتے ہو ، یا ایک مالک کو جو سب پر حاکم ہو ، غرض یہ تھی کہ یہ لوگ ایمان کی نعمت سے بہرہ ور ہوجائیں ، قرآن چونکہ کامل دستور العمل ہے اس لئے ضرور تھا کہ وہ بتائے کہ قیدیوں کے لئے کیا طریق کار ہو ، وہ قید کے دن کس طرح کاٹیں ، اسوہ یوسف اسیران بالا کے لئے درس حکمت ہے مسلم قیدی کے فرائض میں ہے کہ وہ وہاں بھی نیک اور صالح رہے ، اور لوگ اس کے نیک وجود سے برابر استفادہ کرتے رہیں ، جیل کی چار دیواری میں بھی وہ اس درجہ خود دار ہو کہ (آیت) ” ان الحکم الا للہ “۔ کی تلقین کرے اور سوائے اللہ کے اور کمی سے نہ ڈرے ہوتا یہ ہے کہ کے وقتوں کو انسان پرداشت کرلیتا ہے مگر معصیت وابتلا کی آزمائش کڑی ہوتی ہے حضرت یوسف نے قصر شاہی میں رہ کر عفاف وعصمت کا ثبوت دیا اور جیل کی بند کوٹھڑی میں بھی تبلیغ جاری رکھی ۔ حل لغات : اسمآء : بعضے خالی نام جس میں کوئی حقیقت نہ ہو ، الدین القیم : قائم رہنے والا دین ۔ یوسف
38 یوسف
39 یوسف
40 یوسف
41 یوسف
42 ذریعہ حضوری : (ف ١) : حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دونوں خواب دیکھنے والوں کو تعبیر بتلائی ایک سے کہا تو ساقی گری کے عہدہ کو سنبھالے گا اور دوسرے سے کہا تو سولی دیا جائے گا ، اور پرندے تیرا گوشت نوش نوچ کے کھائیں گے ، جس کے متعلق انہیں خیال تھا کہ یہ فرعون مصر کا ساقی ہوگا ، اس سے کہا کہ مجھے یاد رکھیو ، اور موقع پا کر بادشاہ سے میرا ذکر کیجو اتفاق کی بات ہے کہ وہ رہا ہو کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے عہد کو بھول گیا ، اور اس طرح مدت تک آپ کو جیل میں رہنا پڑا ۔ بعض لوگوں نے (آیت) ” فانسہ الشیطن “ کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کی جانب منسوب کیا ہے یعنی یہ مقام نبوت کے منافی ہے کہ آپ پیغمبر ہو کر مصائب سے گھبرا جائیں ، اور ایک مخلوق سے اعانت کے طالب ہوں ، اس بھول کی یہ سزا تھی کہ آپ کو مدت تک جیل میں رہنا پڑا مگر یہ صحیح نہیں جیل میں رہنا کوئی محبوب شغل نہیں ، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اگر رہائی کے لئے کوشش کی تو یہ بالکل جائز اور بہتر بات تھی اس میں بےصبری کی کوئی بات نہیں ۔ حل لغات : بقرات : بیل ، گائیں ۔ عجاف : جمع جحفاء ، دبلی پتلی ۔ یوسف
43 (ف ١) اللہ کی مدد اور نصرت کے عجیب ڈھنک میں ساقی گو بھول گیا ، مگر اللہ کو اپنے بندے کی بیچارگی یاد تھی ، بادشاہ نے عجیب وغریب خواب دیکھا ، اور مصاحبین سے کہا خواب کی تعبیر بتاؤ اگر تمہیں علم ہے انہوں نے کہا ، یہ خیالات پریشان ہیں اور اصل بات یہ ہے کہ ہم اس فن کے ماہر بھی نہیں اس وقت ساقی کو یاد آیا ، کہ جیل کی کوٹھڑی میں ایک عالم تعبیر بندے اس کی طرف رجوع کرنا چاہئے ، چنانچہ اس نے بادشاہ سے اجازت چاہی اور کہا مجھے جیل میں جانے کی اجازت مرحمت ہو ، میں انشاء اللہ تعبیر بتلا سکوں گا ، چنانچہ اس کو اجازت مل گئی ، یہ یاد رہے کہ شراب ابتدا سے حرام ہے ، یہاں صرف ایک واقعہ کا اظہار ہے کہ پادشاہ وقت شراب کا عادی تھا حلت وحرمت سے قطعی بحث نہیں ۔ حل لغات : اضغاث : جمع ضغث ، خشک وتر گھاس کا ملا ہوا گٹھہ ، احلام جمع حلم بمعنے خواب پس مجموع ، اضغاث احلام بمعنے خوابہائے پریشان کہ جن کی تعبیر درست نہ ہو بجہت احتلاط احوال معقول وغیر معقول ، امۃ : جماعت نیروان انبیاء ملت امام ، پیشوا ۔ یوسف
44 یوسف
45 یوسف
46 یوسف
47 یوسف
48 یوسف
49 تعبیر کا ایک اصول : (ف ١) حضرت یوسف (علیہ السلام) نے خوابوں کی جو تعبیریں ، بتائی ہیں ، ان کو اصل خواب کی ہیئت کے ساتھ گہرا تعلق ہے ، اور معلوم ہوتا ہے کہ ان خوابوں کی یہی تعبیریں ہوسکتی ہیں ، مثلا جو شراب نچوڑ رہا ہے ، وہ ساقی ہے جس کے سر پر سے پرندے روٹیاں نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں ، وہ سولی دیا جائے گا اور پرندوں کا طعمہ بنے گا ، اسی طرح بادشاہ کا خواب جو قحط کی پیشگوئی ہے کس قدر واضح ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعبیر کا علم گو وجدان ہے لیکن یہ مسلم ہے کہ خواب کی کیفیت اور تعبیر میں ایک ربط ہونا چاہئے ، یہ ربط جس قدر صحیح ہوگا اسی قدر صحت کا گمان غالب ہوگا ، یہ ایک اصول ہے جس نے فن تعبیر پر قدرے روشنی پڑتی ہے اور بھی بہت سی چیزیں ہیں ، جن کا لحاظ رکھا جاتا ہے اور وہ تعبیر میں مدد دیتی ہیں ، مثلا خواب دیکھنے والے کے رجحانات اس کا عمل صحت اور عام حالات ، کیونکہ ان چیزوں کی رعایت کے بغیر صحیح نتیجہ پر پہنچنا قطعی درست نہیں ہوتا ۔ حل لغات : یغاث : غیث سے ہے جس کے معنے بادل کے ہیں ۔ ال رسول : ایلچی ، قاصد ۔ یوسف
50 یوسف
51 (ف ١) چوبدار جب رہائی کا مژدہ لے کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے پاس پہنچا ، تو آپ نے فرمایا میں اس طرح جیل سے باہر آنے کے لئے طیار نہیں ، سب سے پہلے میرے جرم کی تحقیقات ہو ، اگر میں بےقصور ثابت ہوجاؤں تو پھر مجھے اس نوادش خسروانہ کے قبول کرنے میں دریغ نہ ہوگا ، ورنہ میں یہ نہیں کہلانا چاہتا کہ مجرم ہوں ، اور سزا کے دن پورے کرکے جیل سے رہائی حاصل کی ہے ۔ بادشاہ نے عورتوں کو بلایا اور پوچھا بتاؤ کیا تم یوسف (علیہ السلام) میں کوئی عیب پاتی ہو ، اور کیا تم نے یوسف (علیہ السلام) کو مائل کرنے کی کوشش کی تھی انہوں نے بالاتفاق اقرار کیا ، کہ یوسف (علیہ السلام) بےعیب ہے ، ہماری شرارت تھی کہ ہم نے اسے ورغلانا چاہا اور اسے ایک عام انسان سمجھ کر اپنے دام تزویر میں پھنسانا چاہا ، عزیزہ مصر نے جب دیکھا کہ حالات منکشف ہوگئے اور میری عصمت کا بھانڈا پھوٹ کر رہے گا ، تو اس نے از خود اقرار کرلیا کہ میں مجرم ہوں اور میرا یوسف بےقصور ہے ۔ اس عجیب طریق سے پورے دربار میں یوسف (علیہ السلام) کی پاکدامنی اور حیرت انگیز عفت کا اظہار ہوگا ، اور یہی حضرت یوسف (علیہ السلام) چاہتے تھے ، غرض یہ ہے کہ اگر نفس گناہ سے آلودہ نہ ہو تو تہمتیں اور سزائیں عارضی ہوتی ہیں ، ایک وقت آتا ہے ، جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو سرخرو کرتے ہیں ، اور تمام لوگ جو اس کی تذلیل میں حصہ لیتے ہیں ، نادم ہوتے ہیں اور خود ذلیل ہوتے ہیں ، تہمتوں کے بادل چھٹ جاتے ہیں ، اور حقیقت پوری شان وشوکت سے جلوہ گر ہوتی ہے ۔ حل لغات : ما خطبکن : خطب کے معنی حالت وکیفیت کے ہیں ، کلمہ رافع نزاع ۔ یوسف
52 یوسف
53 یوسف
54 یوسف
55 یوسف
56 نفس امارہ کی شورشیں ! (ف ١) نفس کا اطلاق قرآن میں کئی معنوں میں ہوا ہے نفس کے معنی خون تن کے اور عین کے ہیں اور روح یا جان کے بھی ۔ تاکید کے لیے بھی اس کا استعمال ہوتا ہے ، یہاں سے مراد ترغیبات کا وہ مرکزی شعور ہے جو گناہوں کی تحریک پیدا کرتا ہے اور برائی کے لیے گوناگوں جواز کے پہلو تلاش کرتا ہے یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ نفس بشری کا تقاضا تو یہی تھا کہ میں دعوت معصیت کو قبول کرتا اور بالخصوص ان حالات میں جب کہ خود عزیزہ مصر اظہار تعشق کر رہی تھی ، مگر نفس نبوی نے روکا پیغمبرانہ عقاف و عصمت آڑے آئی اور میں فسق و فجور کے دام تزویر سے صاف بچ کر نکل گیا اب حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زندگی کا وہ دور شروع ہوا ہے جب وہ غلامی سے آقائی کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں اور عزیز مصر کے مقرب خاص پاتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہماری حکومتوں کے طریقے مختلف اور عجیب ہیں دیکھو باقاعدگی سے ہم نے یوسف (علیہ السلام) کے جوہروں کو نمایاں کیا ہے اور کن کن مشکلوں سے گزر کر انہوں نے اس منصب کو حاصل کیا ہے بات یہ ہے اللہ اپنے خاص بندوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کرتا ہے اخلاق جب اس درجہ بلند ہوں تو نصرت الہی یقینی ہے حل لغات استخلصہ : اپنے لیے چھانٹ لوں ۔ یوسف
57 یوسف
58 یوسف
59 (ف ١ ) اللہ کی حکمت دیکھیے وہ بھائی جو اپنے زعم میں یوسف (علیہ السلام) کو مار چکے تھے اور جو اس کے اقتدار کے دشمن تھے آج اس کے دربار میں کھڑے ہیں اور پہچانتے نہیں ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے بھائی بنیا میں سے ملنا چاہتے ہیں اس لیے کہتے ہیں کہ اپنے بھائی کو آئیندہ اپنے ساتھ لاؤ میں تمہیں اناج پورا پورا دیتا ہوں اور مہمان نواز بھی ہوں اور اگر اسے اپنے ساتھ نہ لاؤ گے تو غلہ نہیں ملے گا حل لغات المنزلین ۔ ٹھرانے والا ۔ نزول بضاعتہ ۔ پونجی ۔ بدل ۔ معیار اشتراک سکہ وغیرہ یوسف
60 یوسف
61 یوسف
62 یوسف
63 برائی کا جواب نیکی سے ! (ف ١) پونجی اور سرمایہ کو واپس کردینا ، کما اخلاق کی دلیل ہے ، بھائیوں نے تو مزعومہ اقتدار کی مخالفت کی اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کی یہ نوازش ہے کہ انہوں نے ان سے یہ احسان کیا ، اناج بھی دیا اور پونجی بھی لوٹا دی ، بات یہ ہے برائی کا بہترین انتقام نیکی ہے وہ لوگ جو بلند اخلاق کے زیور سے آراستہ ہیں ، کبھی برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے ، وہ حسن سلوک اور مروت سے پیش آتے ہیں تاکہ مخالف کے دل میں خود بخود اخلاقی حس بیدار ہو ، اور وہ اپنی غلطی کو پہچانے ، اس طرح سے عداوتیں دوستی سے بدل جاتی ہیں ، اور کدورتیں دل سے زائل ہوجاتی ہیں ، اسلام اسی طرز عمل کو پسند کرتا ہے ، اور بہتر قرار دیتا ہے ۔ یوسف
64 (ف ٢) حضرت یعقوب (علیہ السلام) چونکہ پہلے سے زخم خوردہ تھے ، اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وجہ سے دل پر چھوٹ تھی ، اس لئے آسانی کے ساتھ ان کی باتوں پر اعتماد نہ کرسکے ، ہرچند انہوں نے حفاظت کا یقین دلایا ، حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے باور نہ کیا ، اور کہا کیا تم وہی نہیں ہو ، جنہوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی متعلق تم نے استعمال نہیں کئے ؟ اور اب اس بات کی کیا ضمانت ہے ، کہ بنیامین کے ساتھ تم وفا نہیں کرو گے ، اور اسے صحیح وسالم مجھ تک واپس لے آؤ گے ۔ (آیت) ” فاللہ خیر حفظا “۔ سے غرض یہ ہے کہ مجھے صرف اللہ پر بھروسہ ہے ، وہ بہترین محافظ ہے ، میں اگر تم پر بھروسہ کروں گا بھی تو محض اس لئے میرے اللہ کو بھی منظور ہے ، اگر مولا کی نظر عنایت ہے ، تو مجھے تم سے کوئی خطرہ نہیں ، اور اگر وہی آزمائش میں مبتلا کرنا چاہتا ہے تو پھر میری ہر تدبیر ناکام ہوگی ۔ یوسف
65 یوسف
66 (ف ١) باوجود مضبوط عہد لینے کے پھر بھی اللہ پر بھروسہ کیا ہے اور اسی کو کارساز قرار دیا ہے ، جس کے معنے یہ ہیں کہ کلی طور پر اسباب پر توکل کرنا جائز نہیں ، خدا پرستی یہ ہے کہ ایک طرف ضروری تدابیر اختیار کی جائیں اور دوسری جانب یقین واثق ہو کہ ان اسباب میں خیروبرکت پیدا کرنا اللہ کا کام ہے ۔ یوسف
67 حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا خطرہ : (ف ٢) حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی یہ احتیاط کہ لڑکے مصر میں ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہوں ، اس حکمت وخرم پر مبنی ہے کہ اس طرح اہل شہر کے دلوں میں خدا جانے کیا کیا شکوک پیدا ہوں اور لوگ اجنبیوں اور مسافروں کو ایک گروہ کی شکل میں دیکھ کر کہیں شبہ میں گرفتار نہ کرا دیں ، اور قبل اس کے کہ وہ عزیز مصر تک پہنچیں مختلف بدظنیوں کا شکار نہ ہوجائیں ۔ یہ بات قرین قیاس بھی ہے ، یہ سب بھائی کنعانی تھے ، مصر ان کے لئے پردیس تھا ، اس لئے امکان تھا ، کہ لوگ انہیں اس طرح ایک ساتھ دیکھ کر شور نہ مچا دیں ۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو یہ ڈر تھا ، کہ کہیں میرے لڑکوں کو نظر نہ لگ جائے ، نظر کا اثر مسلم ہے ، آنکھوں میں ایسی مقناطیسی قوت ہوتی ہے ، کہ جس کو دیکھا جائے ، وہ متاثر ہوتا ہے ، حدیث میں آیا ہے ۔ ” العین حق “ یعنی نظر کا لگ جانا درست ہے ۔ آج جدید علوم میں بھی نظر کی قوت وتاثیر کو تسلیم کیا گیا ہے ، مسمریزم اسی فن کی تکمیل کا نام ہے ۔ مگر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے لئے ذو علم “ کالفظ یہ چاہتا ہے کہ مقصود کوئی بلند علم ہو ، اور وہ سیاست ہو سکتا ہے یعنی اولاد یعقوب (علیہ السلام) کا اس حالت میں اکٹھا شہر میں وارد ہونا سیاسی پیچیدگیوں کا باعث ہو سکتا تھا جسے حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی سیاسی بصیرت کی بنا پر معلوم کرلیا ، حل لغات : اولی الیہ ، شفقت وعزت سے جگہ دی ، السقایۃ : پیمانہ ۔ صواع : ماپنے کا پیمانہ قدح ، پیالہ ۔ زعیم : کفیل ۔ یوسف
68 یوسف
69 یوسف
70 یوسف
71 یوسف
72 یوسف
73 یوسف
74 یوسف
75 یوسف
76 حضرت یوسف کا حسن تدبیر : (ف ١) حضرت یوسف کے قصہ میں بات صرف یہ ہے کہ بنیامین آپ کا سگا بھائی ہے ، مدت کے بعد ملاقات ہوئی ہے ، آپ بوجہ بوجہ شفقت ومحبت اسے اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں ، اس لئے بہانے سے اسے طلب کیا ہے ، جبرا وقہرا روک لینا مناسب نہیں ، اس لئے ایک تدبیر کی ہے جو نہایت حکیمانہ ہے ، اناج ناپنے کا پیمانہ بنیامین کی بوری میں رکھوا دیا ، اور اس کے بعد تلاش ہوئی ، برادران یوسف کو طلب کیا گیا اور کہا گیا کہ بادشاہ کا کٹورا غائب ہے ، کہیں تمہارے پاس تو نہیں ہے ، انہوں نے انکار کیا اور صفائی میں کہا تم ہماری حالات سے آگاہ نہیں ہو ، ہم چور نہیں اور نہ اس غرض سے آئے ہیں کہ ایسی بداخلاقی کا مظاہرہ کریں ، اس کے بعد خود یہ سزا تجویز کی ، کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس تمہارا وہ کٹورہ مل جائے تو تم تمہاری غلامی قبول کرنے کے لئے تیار ہیں ، تلاشی کے بعد وہ برتن بنیامین کے سامان سے برآمد ہوا ، اور حسب معاہدہ وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے میر قرار پائے ، اس عجیب وغریب طریقے سے بھائی بھائی سے مل رہا ہے ، رازی داری بھی قائم ہے اور اعتراض کی بھی گنجائش نہیں ، اس سے قبل آپ معلوم کرچکے ہیں ، کہ بیامین سے حضرت یوسف (علیہ السلام) متعارف ہوچکے ہیں اور ان سے کہہ چکے ہیں کہ فکر نہ کرو ، میں تمہارا بھائی ہوں ، گویا اس ارادے سے دونوں بھائی واقف ہیں ، اللہ تعالیٰ اس تدبیر کو اپنی جانب منسوب کرتے ہیں ، اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تعریف کرتے ہیں کہ انہوں نے نہایت قابلیت سے اس طے شدہ تدبیر کو نبھایا ۔ ظاہر ہے اس قصہ میں کہیں حضرت یوسف (علیہ السلام) کی تنقیص کا پہلو نہیں نکلتا اور نہ تاویل کی ضرورت ہے ، اس میں سچ اور اس کے اخفاء کو جھوٹ سمجھا گیا ہے ، جس سے اعتراض پیدا ہوتے ہیں ، حالانکہ سچ اور جھوٹ کے لئے کچھ اور پہلو بھی غور ہوتے ہیں ۔ جھوٹ نتیجہ ہوتا ہے ، پست ترین جذبہ کے اظہار اور دوسروں کو دکھ دینے کا ، اور یہاں ان دونوں باتوں سے کوئی بات نہیں ، بنیامین پہلے آگاہ نہیں ، اخفاء نیک مقصد کے لئے ہے بھائی اپنے عزیز بھائی کی خاطر ایک تدبیر برروئے کار لاتا ہے اس میں کیا حرج ہے ؟ ، مقصود نیک ہے نتیجہ ومال مفید ہے ، دو بچھڑے ہوئے بھائی آپس میں مل رہے ہیں ، یہ ایک قسم کا حسین تدبیر ہے ، معاملہ فہمی ہے ، دقیقہ رسی ہے ، کہ اپنے بھائیوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ بنیامین کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سپرو کردیں ، اس میں کیا مضائقہ ہے ؟ غور طلب یہ حیثیت ہے کہ یوسف (علیہ السلام) اس وقت حاکم ہیں اس صورت میں ایسے اظہار تدبیر کی ضرورت ہے ، جس سے ان کی قانونی قابلیت نمایاں ہو ، نیز یہ غلط ہے کہ ہر مقام پر صادق کی پوزیشن بہتر ہے ، بعض وقت مقابلہ ہوتو ہے عقل وخرد کا ، اور سادہ سچائی کا ، جو پیش خیمہ ہوتی ہے مصیبتوں کا ، ایسے مقامات میں حزواحتیاط سے تغافل دانائی نہیں ہوتی ، پیغمبر جس قدر صادق القول ہوتے ہیں ، اسی قدر ان میں دانائی وحکمت بھی ہوتی ہے جس سے وہ مخالفین کی گھاتوں کو سمجھتے ہیں ، کھری سچائی جس کے ساتھ عقل کی آمیزش نہ ہو ، حماقت ہے ۔ یوسف
77 اس کے بھائی بھی چور تھے : (ف ١) چوری کی نسبت حضرت یوسف (علیہ السلام) کی جانب ہے ، یعنی ہو سکتا ہے کہ بنیامین نے پیمانہ چرایا ہو ، کیونکہ اس کا بھائی اسی قماش کا تھا ، یہ بہتان ہے ، اسی لئے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فورا تردید کردی اور فرمایا ، حقیقت اصلیہ سے اللہ کے سوا اور کوئی آگاہ نہیں ۔ غرض یہ ہے کہ اپنی بےگناہی پیش کی جائے ، اور کہا جائے کہ ہم شرفاء سے ہیں ، یہ بچہ اور اس کا بھائی البتہ خطا کار ہیں ، اس لئے ہمیں معاف فرمائیں ، ان لوگوں کو کیا معلوم تھا ، ہم کس کے دربار میں ہیں ؟ اس لئے پوری بےخوفی سے اتہام تراشا ، دروغ گوئم برروئے تو اسی کو کہتے ہیں ۔ یوسف
78 (ف ٢) جب اس حربہ کو بھی انہوں نے چلتا ہوا نہ دیکھا ، تو دوسری صورت اختیار کی لگے لجاجت کرنے ، کہنے لگے کہ اس کا بوڑھا باپ غم وفراق میں گھل رہا ہوگا ، آپ ہم میں سے کسی ایک کو اپنے مقدمے میں رکھ لیجئے ، اور بنیامین کو چھوڑ دیجئے ، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے قاعدہ کا جواب دیا ، کہ یہ کیونکر ممکن ہے ، ہم تو اسی کو گرفتار کریں گے ، جس کے پاس سے ہمارا مال نکلا ہے ، ہم ظلم کا ارتکاب نہیں کرسکتے ۔ یوسف
79 یوسف
80 یوسف
81 یوسف
82 (ف ١) بالآخر یہ لوگ مایوس ہوگئے ، اور انہوں نے دیکھا کہ اب کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوسکتی ، اب بنیامین کا یہاں سے چھڑا لے جانا ناممکن ہے ، اس لئے اب اس سوچ میں پڑگئے کہ ابا کو کیا جواب دیں گے ، یوسف (علیہ السلام) کی وجہ سے پہلے ہی بدنام ہیں ، اب اور بھی بھرم کھل جائے گا ، ہم ابا کو یقین دلا کر لائے تھے ، کہ پوری پوری حفاظت کریں گے ، اب کس منہ سے کہیں گے کہ وہ ہمارے ساتھ نہیں آسکا ، صلاح ومشورہ کے بعد قرار پایا کہ اصل واقع ان کے گوش گزار کردیا جائے ، اور کہہ دیا جائے کہ آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے ، ہم کیا جانتے تھے کہ یہ اس طرح چور بنے گا ، ہمیں غیب کی کیا خبر تھی ، جو پہلے سے معلوم کرلیتے ، ہم کہیں گے آپ اپنی تسلی کے لئے قافلہ سے دریافت فرما لیجئے ، مصر سے تحقیق کیجئے ، ہم اس معاملہ میں بالکل سچے ہیں ، غرض یہ تھی کہ جب یوسف (علیہ السلام) کے جھوٹے معاملہ کو ہم نے سچائی کا رنگ دے دیا تھا ، اور باپ کو باور کرانے کی کوشش کی تھی ، اس موقع پر تو ہمیں بالکل کسی فریب کی ضرورت نہیں ہمیں سچائی پر پورا اعتماد ہے ، ڈر کی کوئی وجہ نہیں ، یہ ایک قسم کی تسلی تھی ، جس سے انہوں نے اس سانحہ کو فراموش کرنے کی کوشش کی اور دل میں اس کی اہمیت گھٹانا چاہی ۔ حل لغات : فلن ابرح الارض : افعال ناقصہ میں سے ہے ، یہاں ترک کے معنوں میں مستعمل ہے ۔ یوسف
83 (ف ١) جب یہ لوگ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے پاس پہنچے ، اور انہوں نے یہ داستان غم سنائی ، تو آپ نے نہایت تاسف کے ساتھ اس خبر کو سنا ، مگر یقین نہ ہوا ، کیونکہ یہی لوگ تھے جنہوں نے اس سے قبل یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں بھی جھوٹ بولا تھا ، فرمایا تم جھوٹ بولتے ہو ، تم نے یہ قصہ گھڑ لیا ہے ، میں بہرحال صبر کا پتھر چھاتی پر رکھتا ہوں ، اور اس صدمہ کو برداشت کرتا ہوں ، مجھے خدا سے امید ہے کہ یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین دونوں بھائی بالآخر مجھ سے ضرور ملیں گے ، ۔ اور اللہ تعالیٰ ضرور ملاقات کا سامان بہم پہنچائیں گے ، یہ عجیب بات ہے کہ وجدان صحیح سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو یہ تو معلوم ہوجاتا ہے کہ یوسف (علیہ السلام) زندہ ہیں ، اور بنیامین بھی ان کے پاس ہیں ، اور دونوں اکٹھے میرے پاس آئیں گے ، اور میر کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث بنیں گے ، مگر انہیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اس دفعہ یہ لوگ بےقصور ہیں ، دور کی خبر معلوم ہوجاتی ہے ، مگر قریب کے حالات سے آگاہ نہیں ، اس لئے کہ غیب کی کنجیاں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ، وہ جس قدر چاہتا ہے ، اپنے بندوں کو غیب سے مطلع کردیتا ہے ۔ انبیاء کا علم ووجدان جس سے ان کو غیوب پر اطلاع ہوتی ہے محض وقتی ہوتا ہے ، یہ ضرور نہیں کہ ہر وقت انہیں ہر چیز کا علم ہو ، البتہ اللہ کے منشاء کے مطابق وہ ضروریات کے متعلق کچھ نہ کچھ جانتے رہتے ہیں ، یہی وجہ سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) مدت تک اصل حالات سے آگاہ نہیں ہوئے ۔ یوسف
84 حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا غم ! (ف ٢) باپ کا بیٹے کے فراق میں رونا اور غم کھانا قدرتی بات ہے ، مگر حضرت یعقوب (علیہ السلام) صرف یوسف (علیہ السلام) کے باپ ہی نہیں ، بلکہ ایک قوم کے بھی باپ ہیں ، جن کی جانب ان کو خلعت نبوت دے کر مبعوث کیا گیا ہے ، اس لئے غیر موزوں بات ہے کہ ایک پیغمبر اپنے بیٹے کے فراق میں ملت کے درد کو بھول جائے ۔ بات اصل یہ ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) تبلیغ واشاعت کے فرائض مدت سے ادا کر رہے تھے ، اور پیرانہ سالی میں سہارے کی ضروت تھی اپنی اولاد میں یوسف (علیہ السلام) کے سوا کوئی اہل نظر نہ آتا تھا ، جو قوم کا بہترین قائد بن سکے ، اس لئے اس کی گمشدگی کا غم نسبتا زیادہ ہوا ہے ، اور یہ غم واندوہ یوسف (علیہ السلام) کے لئے اس حیثیت سے نہیں ، کہ وہ پیارا بیٹا ہے ، بلکہ اس حیثیت سے کہ وہ آپ کا بہترین وارث ہے ، اس سے قوم کی امیدیں وابستہ ہیں ، یہ دراصل دین وملت کا ہی غم تھا ، جس سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) متاثر تھے ۔ حل لغات : (آیت) ” وابیضت عینہ : یعنی اخر ورقت ، آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ کظیم : جو اندر ہی اندر گھٹتا رہے ۔ اور اظہار غم نہ کرے ۔ (غصہ کا ضبط کرنے والا) اس سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے صبر کے اندازہ ہو سکتا ہے ، روح اللہ : اللہ کی رحمت ، یہ یا تو بربتائے عقیدہ ہے ، کہ مسلمان کسی وقت بھی مایوس نہ ہو ، اور یا فراست پیغمبرانہ ہے کہ امید کا دیا قلب ودماغ میں روشن ہے ۔ یوسف
85 یوسف
86 یوسف
87 یوسف
88 یوسف
89 یوسف
90 یوسف
91 یوسف
92 برادران یوسف (علیہ السلام) کی ندامت : (ف ١) اب وقت آگیا تھا ، کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) اپنے چہرہ انور سے نقاب کشائی کریں ، اور بھائیوں کو بتادیں ، کہ جس یوسف کو تم نے کنعان کے تاریک کنوئیں میں پھینکا تھا ، وہ اس وقت عرش حکومت پر جلوہ گر ہے ، چنانچہ جب بھائی دوبار مصر میں غلہ لینے کے لئے گئے تو حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہا ، کیا تم وہی نہیں ہو جنہوں نے یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کے ساتھ یہ یہ فریب کئے ہیں ، انہوں نے جب دیکھا کہ پتے کی باتیں بتائی جاری ہیں ، اور ان باتوں کا بجز یوسف (علیہ السلام) کے اور کسی کو علم نہیں ہو سکتا ، تو پکار اٹھے کہ کہیں تمہیں تو یوسف (علیہ السلام) نہیں ہو ، یوسف (علیہ السلام) کا کمال یہ ہے کہ باوجود اس علم کے کہ بھائیوں نے تکلیف دی ہے ، ان کا جانب سے معذرت کرتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ یہ جب کی بات ہے ، کہ تم نادان تھے ، اور بھائیوں کا اخلاق یہ ہے کہ فورا غلطی کا اعتراف کرلیتے ہیں ، اور مانتے ہیں کہ اللہ نے تم پر بڑا کرم کیا ہے اور یقینا تمہیں ہم پر فضیلت دی ہے ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ بھائی نادم ہیں اور اپنے کئے پر پچھتا رہے ہیں ، تو نہایت فراخدلی کے ساتھ کہا جاؤ ، آج کے دن تم پر کوئی عتاب نہیں کیا جائے گا میں تم سب کو خالص دل سے معاف کرتا ہوں ۔ یوسف
93 (ف ٢) قمیص دینے سے غرض یہ تھی کہ باپ کو تسلی ہو اور وہ اس نشانی کو دیکھ کر حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زندگانی کا یقین کرلیں ، انہیں معلوم ہوجائے کہ واقعی میرا بیٹا یوسف (علیہ السلام) زندہ ہے ۔ حل لغات : تثریب : سرزنش ، ملامت ۔ یات بصیرا : آگاہ ہوجائے گا ، معلوم کریگا محاورہ ہے ۔ یوسف
94 یوسف
95 (ف ١) ادھر یہ قافلہ یوسف (علیہ السلام) کا پیراہن لے کر چلتا ہے ادھر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو القاء ہوتا ہے کہ ارض مصر سے خوشخبری لے کر قاصد آ رہا ہے ، فرماتے ہیں کہ میں یوسف (علیہ السلام) کی بو سونگھ رہا ہوں ، مجھے معلوم ہو رہا ہے کہ وہ زندہ ہے اور وہ آرہا ہے ، آس باس بیٹھے ہوئے لوگ جن کی بصیرت کو تاء ہے کہتے ہیں ، یہ آپ کا جنون ہے اب یوسف (علیہ السلام) کہاں ؟ اتنے میں قاصد آپہنچتا ہے ، حضرت یعقوب (علیہ السلام) فرط مسرت میں کہہ اٹھتے ہیں کیا میں نے پہلے سے تمہیں نہیں بتا دیا تھا کہ میرے مولا نگاہ کرم کرتے والے ہیں ، بیٹے معافی مانگتے ہیں اور شفیق باپ ان کو معاف کردیتا ہے ، اور بھول جاتا ہے کہ ان لوگوں نے تو بڑھاپے میں مجھے دکھ پہنچایا ہے ۔ حل لغات : ضللک القدیم : شوق وجنون کی وارفتگی ، قدیم غلطی ۔ یوسف
96 یوسف
97 یوسف
98 یوسف
99 والدین کی عزت افزائی : (ف ١) حضرت یوسف (علیہ السلام) کو اللہ نے اقتدار بخشا ہے ، اور وہ اس وقت عرش عزت پر متمکن ہیں ، بھائیوں کو معلوم ہوگیا ہے کہ ہمارا بھائی مسند حکومت پرفائز ہے ، باپ تک اطلاع پہنچ چکی ہے کہ تیرا بیٹا مصر میں برسراقتدار ہے ۔ سب یوسف (علیہ السلام) کی ملاقات کے لئے جمع ہیں ، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے سب کو شرف باریابی بخشا ، والدین کی انتہائی عزت کی ، اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا ، اور وہ خواب پورا ہوا ، بھائی اس وقت اعتراف فضیلت کے طور پر حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سامنے جھک گئے اور کنعانی آداب وتعظیم کو ملحوظ رکھتے ہوئے اظہار فضیلت کیا ۔ ممکن ہے اس وقت تعظیم کے لئے سجدہ روا ہو اب یہ ناجائز ہے کیونکہ اس سے شرک پھیلتا ہے ، اسلام میں یہ خاص صفت ہے کہ اس نے ان راستوں کو مسدود کردیا ہے جن راستوں سے شرک آسکتا تھا ، تمام مظنات شرک کی رعایت کی ہے اور ہر ایسی بات سے روک دیا ہے جس سے شرک پھیلنے کا ضحیف احتمال بھی ہو ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا ، ابا ، آج خواب کی تعبیر پوری ہوچکی ہے ، اللہ نے مجھ پر احسان کیا ہے جیل سے رہائی دلائی آن کو مجھ تک پہنچایا ، اور بھائیوں سے بھی ملاپ نصیب ہوا جب کہ شیطان نے جدائی ڈال دی تھی ۔ یوسف
100 (ف ٢) خالص اسلام یہ ہے کہ جس طرح دکھ اور تکلیف میں انسان اللہ کو اٹھتے بیٹھتے یاد کرتا ہے ، اور ہر پہلو خدا کا نام لیتا ہے ، اسی طرح مسرت کے وقت بھی اس کے احسانات کو بھول نہ جائے ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی زندگی خدا پرستی کا بہترین نمونہ ہے ۔ آپس نے تارک کنوئیں میں اسے پکارا عزیزہ مصر کے دواین ومحل میں اسے یاد کیا ، اور آج جبکہ وہ سر پر آرائے سلطنت ہیں ، اللہ کا شکریہ ادا کر رہے ہیں ، یقینا خدا پرستی کا یہی وہ بلند مقام ہے جو انبیاء کے لئے مخصوص ہے ۔ حل لغات : تاویل : انجام ۔ نتیجہ ، لطیف : مہربان ، لطف وکرم والا ۔ یوسف
101 یوسف
102 یوسف
103 پیغمبر کی آرزو : (ف ١) یعنی اس میں کچھ شبہ نہیں کہ جہاں تک تمہاری آرزو اور خواہش کا تعلق ہے ، وہ یہی ہے کہ یہ لوگ ایمان وعمل صالح کی دولت سے مالا مال ہوجائیں ، مگر ان کی فطرت کا تقاضا یہ ہے ، کہ رحمت خداوندی سے بہرحال دور رہیں ، اب ہدایت پائیں ، تو کیونکر ؟ تو سبب ونوررحمت اور غایت شفقت کے یہی چاہتا ہے کہ ان میں کوئی شخص بھی جہنم میں نہ جائے مگر انکو ضد ہے کہ جہنم میں ہی جائیں گے ، ایسی حالت میں اصلاح کی کب توقع ہو سکتی ہے ، فرمایا اصل مرض یہ ہے کہ دلوں پر غفلت وبے توجہی کے پردے پڑے ہیں ، ورنہ یہاں آسمان اور زمین کی مخلوق میں ہر چیز بجائے خود ایک آیت اور دلیل ہے ، اگر یہ غور وفکر سے کام لیں اور خدا دماغ پر زور ڈالیں ، تو انہیں معلوم ہوجائے کہ یہ کونین کی نعمتیں جو حضرت انسان کو میسر ہیں ، مفت میں نہیں ہیں ۔ بلکہ یہ متقاضی ہیں حمد وستائش اور شکر ومدح کی ، مگر یہ ہیں کہ کمال بےالتفاتی سے گزر جاتے ہیں ، انہیں محسوس تک نہیں ہوتا کہ اس عالم کو کتم عدم سے وجود میں لانے والا خدا ہم سے عبادت کا متوقع ہے ، اور وہ عبادت بھی محض ہماری اصلاح کے لئے ہے ، فرمایا آخر یہ لوگ اس درجہ مطمئن کیوں ہیں ، کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا عذاب ان پر نہیں آئے گا جو ان کو ڈھانپ لے یا ناگہاں قیامت نہیں آئے گی ، یہ بےخوفی ، یہ بےپرواہی اور تغافل آخر کیوں ہے ؟ حل لغات : اجر : یعنی دنیوی معاوضہ : یوسف
104 یوسف
105 یوسف
106 یوسف
107 یوسف
108 اہل حق کا مسلک : (ف ١) علی بصیرۃ سے مراد یہ ہے کہ پیغمبر اور اس کے ماننے والوں کا مسلک دلیل اور برہان پر مبنی ہوتا ہے ، وہ جن چیزوں پر اعتقاد رکھتے ہیں ، ان کو خوب سمجھتے اور جانتے ہیں وہ دنیا میں بصیرت ودانش کی تبلیغ کے لئے تشریف لاتے ہیں ، اور دماغوں سے جہل ونادانی اور تقلید آباء کے زنگاروں کو یک قلم دور کردیتے ہیں ، اس لئے ان سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے ، کہ خود ان کے اپنے پاس دلیل وعقل کی روشنی نہ ہوگی ، اسلام تو نام ہی عقل و فکری بالیدگی کا ہے ، اس کے کشت زار ہدایت میں تقلید وجہل کا زقوم کبھی پیدا نہیں ہوتا ، اور نہ مسلمان بےعقلی کی باتوں کو تسلیم کرتا ہے ۔ حل لغات : غاشیۃ : ڈھانپ لینے والا عذاب ۔ بغتۃ : اچانک ، ناگہان ۔ رجالا : مرد ، یعنی انبیاء جب بھی آئے کہ موت بشری میں آئے ، اور کبھی انہوں نے یہ دعوی نہیں کیا ، کہ ان کا تعلق عالم انسانی سے نہیں ہے ۔ یوسف
109 یوسف
110 انبیاء کی ناامیدی : (ف ١) حق وصداقت کی راہ میں بیشمار آزمائشیں ہیں ، حتی کہ انبیاء علیہم السلام کو بھی آزمایا جاتا ہے ، جب وہ اللہ کے پیغام کو اس کے بندوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ، تو مخالفوں کے طوفان بپا ہوتے ہیں ، بغض وفساد کے شعلے خرمن صبر واستقامت پر گرتے ہیں ، اور انسانی بدبختی ومحرومی کا وہ مظاہرہ ہوتا ہے ، کہ ہدایت بھی شرم سے اپنا بچہ لیتی ہے ، بڑے بڑے پاکبازوں کے پاؤں لڑکھڑا جاتے ہیں ، عین اس وقت انبیاء علیہم السلام دل میں سوچتے ہیں کہ یا اللہ تیری نصرتیں کہاں ہیں ؟ تیری شفقتیں ، اور مہربانیاں کیوں جلوہ گر ہو کر ہم بےکسوں کی دستگیری نہیں کرتیں ؟ کیا ہمیں اذیتوں اور تکلیفوں کے لئے تنہا چھوڑ دیا جائے گا اور تیری بخشش وکرم کا ہاتھ ہماری طرف نہیں بڑھے گا ؟ ٹھیک اس وقت مایوسیوں کے ابر سے امید ونصرت کا افتاب طلوع ہوتا ہے اور یہ ثابت کردیا جاتا ہے کہ مجرموں کا سزا سے بہرہ مند ہونا بہر آئینہ قطعی اور یقینی ہے ۔ یوسف
111 تفصیل کی تفصیل ! (ف ٢) ارشاد فرمایا کہ ان قصص میں صاحب عقل وخرد لوگوں کے لئے عبرت وموعظت کے اسرار پہناں ہیں ، یہ افتراء اور جھوٹ نہیں بلکہ کتب سابقہ کے مضامین ہیں ، جن کو ان کی اصلی حالت میں پیش کیا گیا ہے ۔ اس پیغام رشد وہدایت میں دین کی تمام گتھیوں کو سلجھایا گیا ہے ، اور تمام مسائل کو اس طرح بسط وتفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔ کہ دلوں میں شکوک وشبہات کے کانٹے اب باقی نہیں رہنا چاہئیں یہ واضح رہے ، کہ یہاں جس تفصیل کا ذکر ہے ، وہ اصول سے تعلق رکھتی ہے ، یعنی ضروریات دین کو استیعاب سے بیان کیا گیا ہے ، اور کسی بنیادی اور ضروری مسئلہ کو تشنہ وضاحت نہیں رہنے دیا گیا یہ مقصد نہیں کہ اس میں وہ تفصیلات بھی مذکور ہیں جن کی جستجو ہمیں محنت کے دفتروں میں کرنی چاہئے یا جو جزئیات وفروع سے متعلق ہیں ۔ حال لغات : استایئس : یاس سے ہے ناامید ہوگیا ۔ ظنوا : وہم وگمان سے لے کر خیال غالب اور یقین کے جلب مراتب تک ظن کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ یوسف
0 الرعد
1 الرعد
2 (ف ١) استواء کا مسئلہ مدتوں اسلامی فرقوں میں نزاع کا باعث رہا ہے ، اہل سنت کا مسئلہ اس باب میں بالکل واضح ہے کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں مگر اس کی تفصیلات سے پوری طرح آگاہ نہیں یعنی ہم مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے استواء فرمایا ، مگر کیونکر ؟ اس کا جواب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اپنی عقل کی کمی کا اعتراف کرلیں اجمالا یوں سمجھ لیجئے ، کہ یہ ایک نوع کی تجلی تدبیر تھی یہی وجہ ہے اس کو عین تجلیات تکوین کے درمیان رکھا ہے ۔ اور (آیت) ” یدبر الامر “۔ کی تصریح بھی فرما دی ہے ۔ علوم پڑھو ! (ف ٢) قرآن حکیم کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ دلائل میں قانون قدرت کی ہمہ گیری دوست کو پیش کرتا ہے ، وہ کہتا ہے اگر تم زمین وآسمان میں پھیلے ہوئے قانونوں کو تلاش کرو ، تو اسلام کی حقیقت کو پالو گے ، آسمانوں کو دیکھو کس حیرت انگیز وسعت کے ساتھ پیدا کئے ہیں ستاروں اور آسمانوں کے لئے بظاہر کوئی عماد وستون نہیں مگر وہ مکمل طور پر فضاء میں سایہ فگن ہیں ، چاند ، سورج مستخر ہیں ، انسان کے فائدے کے لئے بنائے گئے ہیں ، ہر ایک کے لئے طلوع وغروب کا وقت مقرر ہے ، جس میں کبھی خلاف نہیں ہوتا ۔ دنیا کے ہر فقہ سے میں اللہ کی تدبیر وحکمت کار فرما ہے ، کہا یہ سب چیزیں آخرت پر دلالت نہیں کرتیں ؟ اور ان سے یہ نہیں معلوم ہونا کہ کارگاہ حیات کی وسعتیں مقصد سے خالی نہیں ہو سکتیں ۔ ” استوی “ کے معنی اللہ کی شان تدبیری کو بیان کرنا ہے ، اللہ تعالیٰ کے متعلق جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کی تین قسمیں ہیں ۔ ١۔ صفات توحید وتجرید جن سے اس کی تنزیہہ ہوتی ہے ۔ ٢۔ مجازات جو بطور مجازوتجور کے استعمال ہوتی ہیں اور مقصود بالذات نہیں ہوتے ۔ ٣۔ شؤن وحالات ، یعنی وہ الفاظ جو اللہ تعالیٰ کے حالات وشؤن سے تعرض کرین ، اور کسی مستقل وصف کو نہ بیان کریں ، استوی اسی قبیل سے ہے تفصیل کے لئے دیکھو ابتدائی حواشی ۔ حل لغات : عمد : ستون ۔ الرعد
3 الرعد
4 (ف ١) ان آیات میں بھی دعوت غو وفکر ہے کہ یہ لوگ فکر وعقل سے اگر کام لیں تو یقینا مذہب سب کی پہنائیوں کو پالیں ، یہ غلط ہے کہ فلسفہ وعلوم کے مطالعہ سے انسان ملحد ہوجاتا ہے ، قرآن حکیم اور اسلام کے متعلق تو یہ نظریہ قطعی غلط ہے ، قرآن تو ہر قسم کے لوگوں کو عقل وفکر کی جانب پکار پکار کر مدعو کرتا ہے ، اور کہتا ہے ۔ زمین کے پھیلاؤ کو دیکھو ، پہاڑوں اور نہروں کے فوائد پر نظر دوڑاؤ پھلوں کے اقسام ملاحظہ کرو ، دن اور رات کو مشاہد کرو ، کیونکہ رات کی تاریکی دن کی تابندگی سے بدل جاتی ہے ، زمین کے مختلف قلمات تمہارے سامنے ہیں ، باغات ہیں کھیت ہیں انگوروں کی چھتریاں ہیں ، کھجوریں ہیں پھر اس پر جو کچھ کہ ایک پانی سب کی خوراک ہے مگر کیوں مزے میں سب مختلف ہیں ۔ یہ سب باتیں سوچنے کی ہیں مسلمان کے علم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ صرف خشک مسائل ہی تک محدود نہ ہو ، بلکہ سائنس اور علم الحیات کے آخری حدود تک پھیلا ہوا ہو ۔ حل لغات : متجورت : ملے جلے ۔ صنوات : جمع صنو ۔ شاخ فرع ایک جڑ سے کئی درخت نکلے ہوئے ۔ الرعد
5 الرعد
6 شدید العقاب کی تشریح : (ف ١) یعنی کفار مکہ میں یہ عیب ہے کہ وہ اسلام کی برکات سے بہرہ مند نہیں ہونا چاہتے ، بلکہ عذاب طلب کرتے ہیں ، اور یہ نہیں سوچتے کہ عذاب کا آجانا کیا مشکل ہے ، کیا اس سے پہلے نافرمانوں کو ہلاک نہیں کیا گیا ؟ کیا عادوثمود کی بستیاں اب تک ماتم کناں نہیں ، تکنے والے کیوں نہ خیال کرتے ہیں کہ وہ بالکل محفوظ ہیں ، اور انہیں ان کی نافرمانیوں کی سزا نہیں مل سکے گی ۔ جو لوگ خدا کے متعلق اسلامی تخیل کو قابل اعتراض ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اسلام کا خدا بہت سخت گیر ہے ، انہیں اس آیت پر غور کرنا چاہئے ۔ قرآن کہتا ہے ، وہ صاحب غفران ہے وہ باوجود گناہوں کے اس کا جوش مغفرت ہمیشہ عفر وکشش سے کام لیتا ہے البتہ جب نافرمانی حد سے متجاوز کر جائے اس وقت اللہ تعالیٰ سرکشی کی پوری سزا دیتا ہے ۔ الرعد
7 (ف ٢) یعنی معجزہ طلبی کی عادت اچھی نہیں ہے غور کرنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا حضور ان تمام صفات حسنہ سے متصف ہیں ، ادیان مذاہب کے لئے ضروری ہیں ، اور کیا صحیح معنوں میں آپ قوم کے قائد ونذیر قرار دیئے جا سکے ہیں ؟ معجزات کا اظہار یقینا نبوت کے علائم ظاہری میں سے ہے ، مگر یہ کیا کم معجزہ ہے کہ دلوں کو بدل دیا جائے اور ان میں نور وعرفان بھر دیا جائے ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سب سے بڑا معجزہ یہی دلوں کو تبدیلی ہے ۔ حل لغات : الاغلال : طوق ہائےْ الرعد
8 الرعد
9 (ف ١) فرض کرو کہ اللہ تمہارے مطالب کو ضرور پورا کرے گا اور کوئی نشان نازل کرے گا جب بھی کون جانتا ہے یہ کب ہوگا غیب کی باتیں تو وہی جانتا ہے ۔ الرعد
10 الرعد
11 (ف ٢) یعنی اللہ کے فرشتے تمہاری بات کو محفوظ کرلیتے ہیں اس لیے تم یہ نا سمجھو کہ تمہارے اعتراضات اللہ تک نہیں پہنچتے ۔ حتی یغیروا ما بانفسھم “۔ میں ہدایت حکیمانہ اصول بتایا ہے کہ قوموں میں انقلاب وتغیر کب پیدا ہوتا ہے ، صرف ہنگاموں اور مظاہروں سے نہیں ، بلکہ جب قومیں درحقیقت انقلاب پذیر ہوجائیں ، جب دلوں اور دماغوں میں حقیقی وواقعی تبدیلی پیدا ہوجائے دیکھ لیجئے دنیا کے کاروبار میں یہ قانون کس درجہ سچا اور درست ہے وہ قومیں جو تعلیم وتربیت میں آگے ہیں ہر انقلاب کی صلاحیت رکھتی ہیں ، اور جو وقتی وہنگامی طور پر حرکت پذیر ہوجاتی ہیں ، ان میں دوام واستقلال نہیں ہوتا ، ان کی ہر تحریک عارضی ہوتی ہے ۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے سب کچھ بتا دیا ہے ، مگر مسلمان ہیں کہ اللہ کے بتائے ہوئے قانونوں سے استفادہ نہیں کرتے ۔ حل لغات : معقبت : آگے پیچھے آنے والے ، فرشتے ۔ الرعد
12 الرعد
13 اسرارفطرت کا علم : (ف ١) یعنی فطرت کے رموز واسرار کو بجز رب فاطر کے اور کون جانتا ہے ؟ بادل گرجنے میں ، بجلی کوندتی ہے ، تو کسان اور زمیندار خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہوگی اور ہمارے سوکھے کھیت لہلہا اٹھیں گے ان کو نہیں معلوم کہ یہ بجلیاں جو کوند رہی ہیں ، عذاب وہلاکت کی بجلیاں ہیں جو کھیتوں پر گریں گی ، اور انہیں راکھ کا ڈھیر کر کے رکھ دیں گی ، یہ عقیدہ لوگ جو اللہ کی قدرتوں میں شک کرتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ وہ کس طرح سامان رحمت کو بصورت عذاب بدل دیتا ہے ، (آیت) ” یسبح الرعد “۔ سے غرض برق ورعد کی تسخیر ہے ۔ الرعد
14 (ف ٢) مشرکوں کو بتایا ہے کہ صرف اللہ کا پکارو ، اسی کو یاد کرنا اور اس کے سامنے اپنی ضروریات پیش کرنا چاہئے ، وہی سنتا ہے اور قبول کرتا ہے وہی ہماری تکلیفوں سے ہمیشہ آگاہ اور واقف رہتا ہے ، وہی حقیقی فریاد رس ہے ، وہی درد پنہاں کا جاننے والا ہے ، وہی قریب ہے مجیب ہے ، اس کے سوا تم جس کو پکارو گے ، وہ نہ کچھ سنے گا اور نہ کوئی مدد کرسکے گا یہ دنیا اسباب وذرائع کی دنیا ہے مگر کوئی شخص چاہے کہ وہ ہاتھ نہ ہلائے اور پانی کو یں میں سے اس کے منہ تک خود بخود آجائے تو ناممکن ہے ، اس کی یہ خواہش پوری نہ ہوگی اسی طرح اگر کوئی شخص توحید وتجرید کے باب اجابت کو چھوڑ کر کسی دوسرے ذریعے اور توسل کو دعا کی قبولیت کے لئے استعمال کرتا ہے تو اس کی یہ خواہش پوری نہ ہوگی کیونکہ جس طرح پانی حاصل کرنے کے لئے ہاتھ ہلانا ضروری ہے ، اسی طرح دعاء کے قبول ہونے کا لئے اللہ کو پکارنا ضروری ہے ، یہی وہ ذریعہ اور وسیلہ ہے جس کو قرآن نے بار بار بیان کیا ہے ۔ حل لغات : شدید المحال : محل کے معنی تکلیف دینے کے ہوتے ہیں مکان ماجل تکلیف دہ جگہ بعض کے نزدیک محال حول ومشقت ہے اور جمع زائد ہے اس صورت میں صرف قوت وطاقت کے معنی ہوں گے ۔ الرعد
15 (ف ١) غرض یہ ہے کہ کائنات کا ہر طوعا وکرہا سجدہ کناں ہے اللہ کا تابع ہے اور مسخر ہے ، ہر چیز کی فطرت کچھ اس طرح بنائی گئی ہے کہ وہ خدا کو یاد کرے ، اس کے حکموں کا مانے اور اس کے بنائے ہوئے قاعدوں کے ماتحت رہے ۔ الرعد
16 مشرک عقل کا اندھا ہے ! (ف ٢) جب یہ حقیقت ہے کہ اللہ کے سوا کوئی رب نہیں اسی نے سب کچھ پیدا کیا ہے ، وہی خیر کا مالک ہے نفع وضرر اس کے ہاتھ میں ہے ، تو پھر اسے چھوڑ کر دوسروں سے رشتہ جوڑنا کیا ظلمت نہیں ؟ کیا یہ اندھا پن نہیں ؟ کہ کمزور وسائل کی پوجا کی جائے ، اور اللہ کو چھوڑ دیا جائے جو احکم الحاکمین ہے ۔ جس طرح کہ وہ اندھا ہے جس کی آنکھیں نہیں ۔ اسی طرح جس میں توحید کی بصیرت نہیں وہ روحانیت کے لحاظ سے اندھا ہے ، موحد کی آنکھیں ہیں وہ بینا اور ہوشمند ہے ، مشرک غور بین اور حق بین نہیں ، اس لئے وہ اندھا ہے اور سمجھ بوجھ سے دور ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جس طرح نور وظلمت میں امتیاز ہے اندھے اور سجا کے میں فرق ہے ، اسی طرح خدا پرستوں اور مشرکوں میں امیتاز ہے ۔ خدا پرست کا دل نور سے معمور ہوتا ہے اور منکر جہالت وتوہم کی اندھیاریوں میں ٹامک ٹویاں مارتا ہے ۔ حل لغات : القھار : غالب ، قہر کے معنی ، غلبہ وتذلیل دونوں کے ہیں ۔ فاما الیتیم فلا تقھر : (یعنی یتیم کو ذلیل نہ کر) یہاں غلبہ وعار مقصود ہے ۔ الرعد
17 (ف ١) یعنی قرآن واسلام کے فیوض ، باران رحمت کی طرح ہیں ، جیسے بارش سے ہر قطعہ زمین بقدر استعداد واستفادہ کرتا ہے اسی طرح اس سے ہر شخص بقدر ظرف جرمہ آشام ہوتا ہے ۔ پھر جس طرح ابتداء میں پانی کی کثرت سے جھاگ اٹھتا ہے اور بالآخر نتھر جاتا ہے اسی طرح مسلمان باقی رہ جائے گا اور مخالفت کا یہ جھاگ چھٹ جائے گا ، غرض یہ ہے کہ اسلام سراسر حق وصداقت ہے نفع وسود مندی ہے ، اس لئے اس کا برقرار رہنا ضروری ہے ، قانون فطرت ہے ، کہ کفر جھوٹ ہے ، باطل ہے اور جھاگ ہے ااس لئے اس کا ضیاع وفقدان لازم ہے ۔ حل لغات : جفآء : ضائع ، بےسود ، یونہی ۔ الرعد
18 الرعد
19 قرآن عقلمندوں کے لئے ایک نعمت ہے : (ف ١) قرآن حکیم نے بار بار اس حقیقت کو دہرایا ہے کہ میرے مخاطب عقلمند اور ذی ہوش لوگ ہیں ، اندھے اور بےبصیرت افراد قرآن کی برکات سے استفادہ نہیں کرسکتے یہ وہ نور ہے جسے شپرہ چشم نہیں دیکھ سکتا ، یہ علم ہے ہدایت ہے ، اس کے معارف کی وسعت سے وہی آگاہ ہو سکتا ہے ، جسے مبدا فیاض سے فہم وبصیرت کا حصہ وافر بلاہو ، قرآن حکیم کو ارتقائے عقل سے کوئی خطرہ نہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اس زمانہ کے لوگ قرآن کی طرف بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور اب قرآن حکیم کے مطالعہ کا عام شغف لوگوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے ، بات یہ ہے کہ قرآن حیم رب دانا وبرتر کی کتاب ہے ، اس لئے ضرور ہے کہ اس میں دانش کا ذخیرہ ہو عقل کا خزانہ ہو ۔ الرعد
20 (ف ٢) اسلام چونکہ دین فطرت ہے اور قلب انسانی کی گہرائیوں میں اس کے سوتے اور چشمے بہتے ہیں اس لئے اسلام پر عمل پیرا ہونے کو وہ عہد ومیثاق سے تعبیر کرتا ہے ، اور ہر انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اسلام کے حقائق کے سامنے سرتسلیم خم کر دے کیونکہ اس کے بیان کردہ حقائق ، فطرت انسانی کے صحیح ترجمان ہیں ۔ الرعد
21 (ف ٣) خدا نے صلہ رحمی ورشتوں کے تعلقات کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور اسے جزو ایمان ٹھہرایا ہے ، تاکہ لوگ باہم محبت ومؤدت سے رہیں اسلامی عقائد وعمل میں جس قدر وسعت ہے کسی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی زنگی کا ہر شبہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے جہاں خدا پرستی اور توحید پر زور دیا گیا ہے ، نمازوں کی تاکید کی گئی ہے اور محبت واطاعت رسول کی اہمیت واضح کی گئی ہے وہاں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اپنوں سے محبت کرنا حقوق انسانی کی رعایت رکھنا اور محبت ومؤدت سے رہنا بھی اسلام شعائر میں سے ہے ۔ الرعد
22 الرعد
23 الرعد
24 (ف ١) جو لوگ نادانی کی وجہ سے اسلام پر معترض ہوتے ہیں اور اسلامی تعلیمات میں انہیں انتقام کی آگ بھڑکتی ہوئی نظر آتی ہے ، انہیں اس آیت کے معارف پر غور کرنا چاہئے قرآن کہتا ہے عاقبت میں ان لوگوں کا حصہ ہے ، جو برائی جواب نیکی سے دیتے ہیں ، مخالف سے درگزر کرتے ہیں ، اور انہیں حسن سلوک سے نادم کرتے ہیں ، کیا اس سے بہتر تعلیم اور پیرایہ بیان آپ کو کہیں اور جگہ مل سکتا ہے ؟ جس میں اس قدر اعلیٰ سلوک کی ترغیب موجود ہو ، حل لغات : المیثاق : مضبوط ۔ یدرء ون : الدر ، الدفع ، دور کرنا ، عقبی الدار : انجام ۔ الرعد
25 اسلام امن چاہتا ہے ! ۔ (ف ١) اس آیت میں ان لوگوں کا بیان ہے جو دین فطرت کی مخالفت کرتے ہیں اللہ کے عہدوں کو توڑتے اور اس کے حکموں سے تجاوز کرتے ہیں ، اور زمین میں شرک وبدعات کی وجہ سے ابتری پھیلاتے ہیں یہ جہنم کے سزاوار ہیں ، ان کا انجام برا ہے ، یہ اللہ کی نظر رحمت سے دور ہیں ۔ اسلام بحثییت مجموعی امن وطمانیت انسانیت کا علمبردار ہے اس لئے ہر وہ جو ازروئے اسلام باطل ہے ، اسلام کی اصطلاح میں فساد فی الارض کے مترادف ہے ، شرک بھی فساد ہے ، غیر مشروع تحریکات بھی فساد کے ضمن میں آجاتی ہیں ۔ فسق وفجور بھی ایک نوع کا فساد ہے یعنی اسلام سراپا امن ہے سکون ہے ، اور کفر اختلال وتخریف ۔ الرعد
26 (ف ٢) عام طور پر حق کی مخالفت اس لئے کی جاتی ہے ، کہ ایثار میں بظاہر خسارہ ہے ، بھوک وافلاس کا خطرہ ہے ، دیندار انسان کے لئے تکلفات کا حصول ناممکن ہے ، قرآن حکیم اس ہمہ گیر مغالطہ کی تردید فرماتا ہے ، ارشاد ہوتا ہے کہ رزق کی کشائش اللہ کے ہاتھ میں ہے ، اس کا تعلق بےدینی اور الحاد سے نہیں ، بہت سے ملحد ایسے ہیں جو بھوکوں مر رہے اور بہت سے مومن ہیں کہ اللہ کی بہت نعمتیں انہیں میسر ہیں ، اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ کے بہت سے بندوں کو گاڑھا اور کزی نہیں ملتا ، کہ تن ڈھانک اور بےدین بدمعاش مخمل وکمخواب کے بستروں پر محو خواب ہیں ، یہ خدا کا دین ہے ، جسے جو چاہے دے اور جسے چاہے محروم رکھے ، البتہ اس نے رزق کے حصول کے کچھ قواعد ضرور ارشاد فرمائے ہیں ، وہ قومیں جو ان اصولوں کو ملحوظ رکھتی ہیں ، اور ان پر عمل پیرا ہوتی ہیں ، مالدار ہیں اور وہ جو ان قواعد سے تغافل کرتی ہیں ، افلاس میں مبتلا ہیں ۔ مومن و کافر میں امتیاز یہ ہے کہ مومن دنیا کو نصب العین نہیں ٹھہراتا اور باوجود تمام آسائشوں کے اسے ضمائے آخرت کے مقابلہ میں متاع قلیل ٹھہراتا ہے ، اور کافر کی تمام جدوجہد دنیا کے لئے ہے غرض یہ ہے کہ دنیا کے لئے دین کو مت ضائع کرو ، اگر دین کی نعمتوں سے تم نے اپنا دامن بھر لیا ، تو دنیا بھی تمہیں حاصل ہوجائے ، اور اگر صرف دنیا چاہو کے تو دین سے محرومی ہی ممکن ہے ، دنیا بھی نہ ملے اور تم (آیت) ” خسرالدنیا والاخرہ “۔ کا مصداق بن جاؤ ۔ الرعد
27 (ف ٣) یہ انداز بیان ہے مقصود یہ نہیں کہ خدا گمراہی کو پسند کرتا ہے یہی وجہ ہے ، ہدایت کے لئے انابت کی وضاحت کردی ہے ، یعنی جو خدا کی طرف جھکے گا ، اسے ضرور ہدایت ہوگی ، اور جو انابت کی جذبے سے محروم ہے ، وہ ہدایت ونور سے کیونکر استفادہ کرسکتا ہے ۔ حل لغات : سوء الدار : برا انجام ۔ ویقدر : قدر کے معنی اندازہ کرنے کے بھی ہیں اور تنگ کرنے کی بھی ۔ الرعد
28 الرعد
29 (ف ١) دنیا داروں کے لئے اس میں نہایت عارفانہ درس حکمت ہے ارشاد ہے کہ دل کا اطمینان اور سکون خاطر روپے اور سونے پرموقوف نہیں ، دنیا کی آسائشوں اور تکلفات میں نہیں بلکہ اللہ کے ذکر میں ہے ، اس کے ساتھ محبت وشوق میں ہے خدا پرست انسان جس درجہ روحانی لطف حاصل کرتا ہے دنیا دار باوجود تعیش کی فراوانی کے اس نعمت سے محروم رہتا ہے ، اس لئے مبارک ہیں وہ لوگ جو دل کی مسرتوں کو اللہ کی یاد میں تلاش کرتے ہیں ۔ حل لغات : طوبی : اظہار مسرت وفرحت کے لئے آتا ہے ، یعنی خوشی وخوش طبعی مؤنث طیب کا ہے ، اور طیب کے معنے بوئے خوش اور خوش طبعی کے ہیں متاب ، جائے رجوع ۔ الرعد
30 الرعد
31 ولو ان قرانا : (ف ١) مکے والوں کی انتہاء بدبختی یہ ہے کہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کو آخر وقت تک نہ پہچانا ، قرآن گو سراپا روشنی ہے اور نور ہے ، ہدایت نامہ ہے اور پیغام ہے ، اس میں دلوں کو بدل دینے کی صلاحیت اور سعادت انسانی کے مخفی خزائن ہیں نیز انقلاب آفرین گونج ہے ، ہنگامہ خیز آواز ہے مردوں کو جلانے والا سحر ہے ، پہاڑوں کو کاٹ کا رکھ دینے والا جادو ہے ، مگر پھر بھی مکے والوں کی چشم بصیرت بند ہے ، وہ ظاہری اور مادی کرشمہ سازیوں کے منتظر ہیں ، نہایت متعصب دشمنان اسلام کو اسلام قبول کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ، مگر پھر بھی یہ چاہتے ہیں کہ مکہ کے پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جائیں ، کیا دلوں کی تبدیلی پہاڑوں کو ہلا دینے سے زیادہ مشکل نہیں ؟ وہ ہر آن دیکھتے ہیں کہ خدا کی زمین میں ہدایت وسعادت کے سوتے پھوٹ رہے ہیں اور اسلام کا پیغام ہر جگہ پہنچ رہا ہے ، مگر ان کا تقاضا یہی ہے کہ مادی طور پر یہاں چشمے بہہ نکلیں جب چاہیں ہر وقت مردے زندہ ہوتے رہیں ، کفر وشرک کی حاملین قرآن کے حیات آفرین پیغام کو سن کر نئی روحانی زندگی حاصل کرتے رہتے ہیں ، مگر یہ ہیں کہ گڑے مردے اکھاڑنا چاہتے ہیں ، اور اس وقت تک مطمئن نہیں ، جب تک ان کے آباء واجداد ان کے سامنے نہ لا کھڑے کئے جائیں ، اللہ فرماتے ہیں ، اگر قرآن میں یہ تاثیر بھی پیدا ہوجائے ، تاہم یہ لوگ نہیں مانیں گے ، کیونکہ ان کے دلوں میں تعصب وعناد کی آگ بھڑک رہی ہے ، ان کے دلوں میں بصیرت کی استعداد باقی نہیں رہی ۔ بات اصل یہ ہے کہ فطرت کا منشاء یہی نہیں کہ سب کے سب ہدایت قبول کرلیں ، گو کہ یہ صلائے عام ہے ، اور توفیق وآسانی کے لئے سب کو یکساں مواقع حاصل ہیں ، مگر ہدایت وہی قبول کریں گے جن کے سینے پہلے سے روشن ہیں اور تعصب کی آلودگیوں سے پاک ہیں ۔ (آیت) ” ان اللہ لا یخلف المیعاد “۔ سے مراد یہ ہے کہ اللہ کا عذاب ان بدبختوں پر آکر رہے گا ، کیونکہ یہی قاعدہ ہے ، اور قاعدے کے خلاف نہیں ہوا کرتا ۔ حل لغات : قارعۃ : سختی ، وحادثہ زمانہ ۔ الرعد
32 الرعد
33 (ف ١) یعنی چونکہ برائیوں سے انہیں نفرت نہیں بلکہ طبیعت کا میلان معصیت کی جانب زیادہ ہے ، اس لئے گمراہ ہیں اور ناقابل ہدایت جب کوئی شخص معصیت کے اس مقام پر پہنچ جائے ، جہاں احساس زیاں اٹھ جائے ، اس وقت ہدایت کا حصول ناممکن ہوجاتا ہے اس آیت میں قرآن حکیم نے اپنے مخصوص انداز میں یہی حقیقت بیان کی ہے ۔ الرعد
34 الرعد
35 جنت کا سادہ اور واقعی تخیل : (ف ٢) متقی اور پرہیز گار لوگ دنیا میں اپنی خواہشات نفس کو اللہ کے تابع کردیتے ہیں ، ان کا کوئی ارادہ نہیں رہتا ، خواہشیں اور مطالبے سب منشاء ایزدی کے ماتحت ہوجاتے ہیں ، کیونکہ اپنی مستی کو اللہ میں گم کردینے کا نام ہی تو اتقا ہے ، نتیجہ یہ ہے کہ آخرت میں ان لوگوں کے لئے حسرت وابتہاج کے تمام سامان موجود ہیں ، جس طرح دنیا میں کامیابی کا نتیجہ اور نشانی دنیوی آسائشوں کا دفور ہے ، اس طرح آخرت میں جو کہ انسانی زندگی کی تکمیل کا نام ہے ، ضروری ہے کہ تمام مادی مسرتیں جو جائز ہیں موجود ہوں ۔ یہ انسان کی فطرت ہے تمام انسان دل سے چاہتے ہیں کہ انہوں زندگی کے ایسے پرامن لمحات میسر ہوں جن میں مرض وعلالت کا شائبہ نہ ہو ، جس میں کم مائگی وافلاس کا خطرہ نہ ہو ، ظاہر ہے یہ لمحات یہاں میسر نہیں ہیں ، یہاں ہزاروں ارمان ہوتے ہیں ، ارمان ہوتے ہیں ، جو قبر تک ساتھ جاتے ہیں ، کیا یہ فطرت کی آواز نہیں کیا یہ مصنوعی تقاضے ہیں ؟ جواب ملے گا نہیں یہ عین انسانی خواہش ہے ، یہ وہ آرزو ہے جو ہر دل میں موجزن ہے ، پھر اس کی تکمیل کہاں ہوگی ؟ قرآن کہتا ہے تم اگر یہاں خواہشات نفس کے منہ میں لگام دو ، اور اپنی زندگی کو خدا کے تابع بنا دو تو آخرت میں اللہ تمہاری اس آرزو کو پورا کر دے گا کتنا سادہ اور واقعی تخیل ہے ، جنت کا جس کو اسلام پیش کرتا ہے ۔ مگر وہ لوگ جو جاہل ہیں ، اس حقیقت پر معترض ہیں ، دنیا میں ان کی تمام تگ ودو کا مقصد دنیا کی انہیں خواہشوں کی تکمیل ہے ، یہ بات اللہ کو محبوب ہے ، کہ تم مسلمان ہوجاؤ یہ سب کچھ تمہیں دوسری زندگی میں مل جائے گا ۔ حل لغات : السبیل : راہ حق ، اسلام کے نزدیک چونکہ ایک ہی راہ حق ہے ، اس لئے وہ صرف السبیل کے لفظ کے ساتھ اس کو تعبیر کرتا ہے ۔ مثل کے معنی وصف کے بھی آتے ہیں جیسے (آیت) ” مثلھم کمثل الذی استوقد “ ۔ میں ہے ۔ الرعد
36 الرعد
37 الرعد
38 ظہور آیات کیلئے ایک وقت مقرر ہے : (ف ١) مکہ والوں کی ذہنیت یہ تھی کہ وہ بات بات پر اظہار عجائب کی خواہش کرتے کبھی کہتے ، یہاں چشمے پھوٹیں ، کبھی کہتے ہمارے اسلاف کو زندہ کر دو کبھی کہتے مکے کے پہاڑ سونے چاندی کے بن جائیں ، غرضیکہ ، خوائے بدرابہانہ ہابسیار ۔ ان دو آیتوں میں قرآن حکیم نے اصولی جواب دیا ہے ، ارشاد ہے کہ اظہار کو ارق کا تعلق منشاء ایزدی سے ہے ، رسول کے اختیار میں نہیں کہ جب چاہے کوئی کرشمہ کر دکھا دے ، یہ اللہ کی مرضی پر موقوف ہے کہ جب مصلحت جائے انبیاء علیہم السلام کے ہاتھوں عجائب وخوارق کا اظہار کر دے ، اس لئے یہ ضرور نہیں کہ رسول تمہاری ہر خواہش کو براہ راست پورا کرے ۔ (آیت) ” لکل اجل کتاب “۔ سے غرض یہ ہے کہ ہر مدت موعود کے لئے جو وقت مقرر ہے ، اسے خدا ہی جانتا ہے ، تم نہیں جانتے یہ غرض نہیں کہ ہر صدی کے بعد رسول کی ضرورت ہے ، یا کتاب شریعت کی حاجت ہے ، یہ مقصود ہے کہ ہر نبوت کے لئے ایک دور ہے جب وہ ختم ہوجائے تو کتاب کا نزول ہوتا ہے یہ سب باتیں ملحدانہ ہیں آیت کے سیاق وسباق کو اس سے کوئی تعلق نہیں ۔ (آیت) ” یمحوا اللہ ما یشآء ویثبت “ کا بھی یہی مدعا ہے کہ ظہور آیات کے لئے خاص قسم کے حالات وفضا کی ضرورت ہے ، بعض دفعہ وہ گناہوں اور لغزشوں سے درگز کرتا ہے ، اور مہلت دیتا ہے کہ منکرین سنبھل جائیں ، مگر جب توجہ اور رجوع کے تمام درجے ملے ہوجاتے ہیں تو اس وقت وہ عذاب بھیجتا ہے ۔ الرعد
39 الرعد
40 (ف ٢) یعنی آپ بھی ظہور آیات کے منتظر نہ رہیں ، یہ کوئی ضروری نہیں کہ جن جن باتوں کا وعدہ ہے وہ سب آپ کی زندگی میں ہی پوری ہوجائیں آپ کا فرض یہ ہے کہ بلا انتظار ، تبلیغ واشاعت میں مصروف رہیں ، محاسبہ ہمارے ذمہ ہے ۔ الرعد
41 (ف ٣) فتوحات اسلامی کی وسعت کی جانب اشارہ ہے یعنی مسلمان سیلاب کی طرح کفر کی مملکت پر چھا رہے ہیں کیا اس کامیابی کو مخالفین بنظر امعان نہیں دیکھتے ؟ اور کیا اس وسعت اور پھیلاؤ میں ان کے لئے کرشمہ سازی کا کوئی سامان نہیں ؟ کیا یہ کم معجزہ ہے کہ مٹھی بھر مسلمان دنیائے کفر فتح کرلینے کا عزم رکھتے ہیں ، اور ہر آفتاب جو طلوع ہوتا ہے ، اسلامی اقبال وعروج کی خبر دیتا ہے ۔ الرعد
42 الرعد
43 الرعد
0 ابراھیم
1 روشن کتاب : (ف ١) یعنی قرآن حمید نورروشن کی دعوت ہے ، اجالے کی جانب بلاوا ہے ، ظلمت وتاریکی سے بیزاری ہے اس میں وہم وتخ میں کو داخل نہیں ، لا یعنی رسوم وخرافات کا وجود نہیں ، جو بات ہے علم ویقین کی جچی تلی ، حشو وزوائد کا شائبہ نہیں ۔ سراسر ضروریات وحقائق کا مرقع ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوتا ہے کہ آپ اس مستقل ہدایت کو ہاتھ میں لے کر سارے عرب میں اجالا کردیں ، لوگوں کو تعصب وجہالت کی تاریکیوں سے نکالیں ، اور علم وعرفان کی روشنی میں لائیں ، ان کو خرافات وظنون کی وادیوں سے نکالیں ، اور سلوک واحسان کے مرغزاروں میں لا بسائیں ، یہ نسخہ تاریکی جہالت اور تعصب دور کرنے کا مجرب نسخہ ہے ، دنیا کی تمام مصیبتیں اس کتاب ہدی پر عمل پیرا ہونے سے دور ہوجاتی ہیں ، اس پر عمل کرنے سے عزتو وسعت حاصل ہوتی ہے ، قومیں نصرت وغلبہ کے ہم قرین ہوجاتی ہیں ، اور قابل ستائش بن جاتی ہیں ، کائنات کفر میں چھا جاتی ہیں ، ظفر وتسلط ان کے پاؤں چومتے ہیں ، کیونکہ یہ عزیز وحمید خدا کی کتاب ہے ، مالک الملک خدا کا پیغام ہے زمین اور وآسمانوں کے مالک کا کلام ہے ، بدبخت ہیں وہ نفوس جو انکار کرتے ہیں ، اور اس کے فیض وبرکت سے محروم رہتے ہیں ۔ حل لغات : اجل : وقت ، وقت مقررہ ، کتاب ، مصدی معنے مراد ہیں ، ام ال کتاب : علم الہی سے تعبیر ہے اطرافھا ، بعض نے شیوخ واشراف مراد لئے ہیں المکر : تدبیر ورائے ۔ ابراھیم
2 ابراھیم
3 ابراھیم
4 (ف ١) پیغمبر وقت قوم کی زبان اور قوم کی نفسیات سے خوب واقف اور آگاہ ہوتا ہے ، تاکہ قول بیلغ سے ان کے دلوں میں جگہ حاصل کرسکے اس کا الہام قوم کے محاوارت وادب کے ماتحت ہوتا ہے ، تاکہ انحام محبت ہو سکے قوم یہ نہ کہے اور عذر نہ کرسکے کہ رسول کی زبان ہمارے لئے ناقابل فہم تھی ۔ عرب چونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخاطب اول تھے منشاء الہی یہ تھا کہ اس مرکز ضلالت وگمراہی کو اولا درست کیا جائے ، وہاں کے عقائد واعمال کی اصلاح کی جائے تاکہ دوسروں کے لئے چراغ راہ بنیں ، اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو قرآن دیا گیا ، وہ عربی زبان میں ہے تاکہ یہ لوگ آسانی سے اپنی گمراہیوں کا مطالعہ کرسکیں ، اور دوسروں کے لئے نمونہ ہوں ۔ حل لغات : ویل : بمعنے وائے وکلمہ افسوس وبمعنے سختی ، عداوت وشور و فغاں پر مصیبت وبمعنے ہلاکت ۔ ابراھیم
5 ابراھیم
6 (ف ١) داستان استقلال : (ف ١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وفرعون کا قصہ قرآن میں بار بار آیا ہے ، اس لئے کہ یہ واقعہ صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وفرعون کا واقعہ نہیں ، بلکہ حریت وآزادی کی داستان ہے استقلال قومی کا نمونہ ہے ، غلامی کے مضر اثرات کا مرقع ہے ، قوموں کے عروج وزوال کی بحث ہے ، اس میں یہ مذکور ہے کہ جب قوم میں فرعون پیدا ہوتے ہیں ، اللہ کی غیرت جوش میں آتی ہیں ، اور موسیٰ (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر انقلاب پسند حضرات پیدا ہوتے ہیں ، اور کس طرح صدیوں کی غلام قومیں بیدار ہوجاتی ہیں ، اور آزادی کی نعمت سے ہمکنار ہوتی ہیں ۔ بنی اسرائیل چار سوسال سے غلام تھے قبطی ان پر طرح طرح کے ستم ڈھا رہے تھے ، سچوں کو ذبح کیا جاتا عورتوں کو زندہ رہنے دیا جاتا ، عہدوں اور منصبوں پر فرعونی قابض تھے ، محنت ومشقت کے ذلیل کام بنی اسرائیل کے سپرد تھے ، نتیجہ یہ تھا کہ قوم کمزور ہو رہی تھی زندگی کی تمام آسائشوں سے محروم ہوتی جاتی تھی ، غلامی رگ رگ میں سرائیت کرچکی تھی ، اور قریب تھا ، قوم کی قوم فنا کے گھاٹ اتر جائے ۔ اللہ نے ایوان فرعون میں موسیٰ (علیہ السلام) کی تربیت کی جو فرعون شان وشوکت کے طول وعرض سے آگاہ تھے انہوں نے قوم کو انقلاب وآزادی کی دعوت دی اسلام وتوحید کی جانب بلایا ، اور فرعون سے ڈنکے کی چوٹ کہہ دیا کہ اب اسرائیلی غلام نہیں رکتے جا سکیں گے ۔ حل لغات : باسم اللہ : وقائع عذاب ، عبرتناک حوادث ، تاذن : بڑا کہہ دیا ۔ ابراھیم
7 ابراھیم
8 (ف ١) ان آیتوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کو زندگی کا پیغام دیا ہے ، اور فرمایا ہے کہ جب تک تم شاکر رہو گے ، اللہ کے حکموں کو مانتے رہو گے ، اسی کی اطاعت کا دم بھرتے رہو گے ، اور اس کے سوا ہر معبود کا انکار کرو گے ، تو اللہ تعالیٰ تمہیں سرفرازی عنایت کرے گا ، غنی رکھے گا ، نعمتیں زیادہ سے زیادہ دے گا ، اور اگر انکار کرو گے ، تو یاد رکھو ناشکری سے قوموں کو عذاب شدید دیا جاتا ہے ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی سمجھا دیا کہ تمہاری عبادت اور اطاعت سے اللہ کو کوئی فائدہ نہیں ہے ، اس کی اطاعت سے دنیا تمہاری اطاعت کرے گی ، اور اگر تم اور تمہارے ساتھی انکار کردیں ، تو یاد رکھو ، اللہ ہے یا نہ ہے ، اور ہر طور پر قابل ستائش ومدح غرض یہ ہے کہ جس قدر تم میں بیداری ہوگی اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا ، اور جس قدر تم غفلت وبے اعتنائی سے کام لو گے ، اللہ کی رحمتوں سے دور رہو گے ۔ حل لغات : نباء : قصہ ، بات ۔ فاطر : بغیر استمداد کے پیدا کرنے والا ۔ ابراھیم
9 ابراھیم
10 ایمان افروز استفہام : (ف ١) ” افی اللہ شک “۔ کا انداز بیان نہایت یقین افزا اور ایمان پرور ہے یعنی دنیا کی ہر بات میں شک وشبہ کی گنجائش ہے مگر یہ ناممکن ہے کہ رب خاطر کے باب میں کسی شبہ کا اظہار کیا جائے ۔ ٍقرآن حکیم کے نزدیک اللہ کا وجود اور اس کی توحید مسلمات فطرت میں سے ہے ، یعنی یہ ایسی حقیقت ہے جس کا اقرار ہر دل میں موجود ہے ، اس لئے قرآن تعجب سے پوچھتا ہے ، کیا تمہیں اللہ کی نسبت شک ہے ؟ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ۔ قرآن نے الفاظ میں استفہام پیدا کرکے مضمون میں عجیب اثر پیدا کر دے ، وہ لوگ جو عربی ذوق سے آشنا ہیں جب اس جملہ کو پڑھیں گے تو بےاختیار ان کا جی چاہے گا کہ قلب ودل کو معارف توحید سے معمور کرلیا جائے ، یہ حقیقت ہے کہ ” افی اللہ شک “ پڑھ کر ایک دہریہ بھی محسوس کرے گا ، کہ کسی نے اسے ہلا کر خواب غفلت سے بیدار کردیا ہے ، بشرطیکہ اس کے پہلو میں دل ہو ۔ اور مذاق ادب سے بھی آشنا ہو ، ان تین حروف میں وہ اثر ہے جو شاید ہزاروں دلائل میں نہیں ۔ اس قسم کی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ قرآن ایک علمی اور ادبی معجزہ ہے ۔ ان تین حروف میں کفر وشرک پر اظہار تعجب ہے یقین افروزی ہے ۔ زجر وتوبیخ ہے ۔ فطرت وقلب کی جانب رجوع کی دعوت ہے ، جلال وہیبت ہے ، اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ایک زبردست قوت کند سے پکڑ کر جھنجھوڑ رہی ہے ، اور آنکھیں لال پیلی کرکے پوچھ رہی ہے کہ کیوں بےوقوف ! تمہیں اب اللہ کا بھی انکار ہے ؟ سبحان اللہ ! اصل بات یہ ہے ، قلم وزبان میں طاقت نہیں ، کہ وہ ان حروف کے اثر کو بیان کرسکیں ، اس مختصر سی آیت میں غفلت وتساہل کی مذمت ہے ، توحید وتفرید کی جانب دعوت ہے ۔ گویا یوں معلوم ہوتا ہے ، جیسے کسی چیز نے چونکا دیا ہے ، اور قلب سے تمام حجاب ایک ایک کرکے اٹھ رہے ہیں ، اور وہ روشنی جو دل میں موجود تھی اور اندر پڑگئی تھی ، اب پھر اجاگر ہوگئی ہے ، اور توحید کی کرنوں سے دل جگمگا اٹھا ہے ۔ حل لغات : سبلنا : یعنی کامیابی وکامرانی کی راہیں ۔ جبار : سرکش ومتکبر ، جبکہ اللہ کی صفت ہو ، تو اس کے معنی شکستہ حالات کو درست کرنے والے کے ہوتے ہیں ۔ ابراھیم
11 ابراھیم
12 ابراھیم
13 ابراھیم
14 ابراھیم
15 ابراھیم
16 ابراھیم
17 (ف ١) سرکشوں اور معاندوں کے لئے سزا کا ذکر ہے ، جن کا سرکسی دوسرے کے سامنے تو جھکے ، مگر اللہ کے آستانہ جلال پر نہ جھکے ، جو محض عناد ودشمنی کے لئے حق وصداقت کی مخالفت کریں ، جو سچائی کی آواز کو سنیں ، دلائل وبراہین ان کے سامنے موجود ہوں ، اور دل میں حرارت ایمان پیدا نہ ہو ، ایسے لوگوں کے لئے جہنم جگہ ہے ، جو اللہ کی جانب سے مقام عتاب ہے ، یہاں دنیا میں یہ لوگ کام ودہن کی لذتوں کے لئے زندہ رہے ، آخرت میں انہیں چیزوں کے لئے بےقرار ہوں گے ، اور یہ چیزیں انہیں میسر نہ ہو نگی ، اس لئے انہیں محسوس ہوگا ، کہ ہم نے دنیا میں اگر صرف خواہشات نفس کو جائز وناجائز طریق سے پورا کیا ہے ، تو کوئی بڑا کام نہیں کیا ، جو لائق اعتناء ہو ، اور یہاں جن چیزوں کی ضرورت ہے ، وہ ہمارے پلے نہیں ، نتیجہ خسران اور گھاٹا ہے ابراھیم
18 شیرازہ اعمال : (ف ٢) اعمال کے لئے ایک شیرازہ کی ضرورت ہے ، اور جب تک یہ شیرازہ موجود نہ ہو ، اعمال میں غرض وترتیب پیدا نہیں ہوتی جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے ، کیا اعمال ضائع ہوجاتے ہیں ، قرآن حکیم کہتا ہے ، یہ شیرازہ ایمان صحیح ہے ، ایک دیوانہ ہے اس کے افعال کو کیوں آپ قابل اعتنا نہیں سمجھتے ، اور اس کی تمام حرکتیں کیوں عبث قرار پائی ہیں ۔ اس لئے کہ اس کے اعمال میں شیرازہ عقل موجود نہیں ، اسی طرح وہ شخص جو خیر وعمل صالح کے مفہوم سے آگاہ نہیں جو انسانیت کے صحیح پروگرام سے واقف نہیں کیونکہ صالح قرار دیا جا سکتا ہے ، جبکہ اس کے اعمال میں شیرازہ ایمان موجود نہیں قرآن حکیم نے اس حقیقت کو نہایت عمدہ مثال میں بیان فرمایا ہے ، فرمایا ان کے اعمال عدم وزن اور ثبات وقرار کے لمحات سے یوں ہیں جیسے کوئی شخص پتھر پر راکھ کا ڈھیر جمع کر دے اور آندھی چلنے پر وہ سب کے سب اڑ جائے ، ان کے اعمال بھی اسی طرح کے ہیں ، وہ راکھ کے ڈھیر سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے ، جب کفر ریاکاری کی آندھیاں چلتی ہیں تو اعمال کی راکھ اڑ جاتی ہے ، اور نشان تک باقی نہیں رہتا ۔ ابراھیم
19 ابراھیم
20 (ف ١) قرآن حکیم نے متعدد بار اس حقیقت کو دہرایا ہے ، کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہے ، جب تک تم اس مقصد کو پورا کرتے رہو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی نعمتوں سے مشرف فرماتے رہیں گے ، اور جہاں تم نے انکار کیا ، وہ تم سے روگردانی کرے گا ، اور تمہیں دنیا سے حرف غلط کی طرح ہٹا دے گا ، اور وہ ایک دوسری قوم کو پیدا کر دے گا ، جو اس کے مقصد کو سمجھے گی ، اور پورا کرے گی ، اور اس میں کچھ بھی دقت اللہ تعالیٰ محسوس نہیں کریں گے ، یہ اس کا اٹل قانون ہے ۔ ابراھیم
21 کمزوروں کی فریاد بڑوں بڑوں سے : (ف ٢) جب لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور جمع ہوں گے اور اپنے اپنے نامہ اعمال سے آگاہ ہوجائیں گے ، تو اسی وقت زمین کا وہ طبقہ جو ضعفاء اور کمزور لوگوں کا ہے ۔ کبراء اور بڑے بڑے لوگوں سے کہے گا ، ہم تو دنیا میں تمہارے تابع تھے ، جب تم نے عیش تکلیف کی محفلیں آراستہ کیں ، شراب و لے سے شغل کیا تو ہم نے تمہاری تقلید کی ، ہم سمجھے ، جب سمجھدار اور بڑے بڑے لوگ ان باتوں میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھے ، تو واقعی یہ بات جائز ہوگی ، ہم نے بےخوفی سے گناہ کی جانب قدم بڑھائے ، کیا آج تمہارے یہاں شنوائی نہیں ہے ؟ تمہارا اثرورسوخ کیا ہوا ، کیا یہاں رشوت نہیں چلتی ، اور کیا تم ہمیں عذاب سے نہیں بچا سکو گے ، کبراء کہیں گے یہاں ہم اور تم دونوں برابر کے مجرم ہیں ، اس لئے سوائے صبر کے چارہ نہیں ، یہ وہ مقام ہے جہاں بڑے چھوٹے میں کوئی امتیاز نہیں رہتا ، اور سب ایک صف میں کھڑے کئے جاتے ہیں ۔ ابراھیم
22 (ف ١) وہ شیطان جس نے دنیا میں عیب کو ہمیشہ صواب دکھایا ، جس نے گناہوں کو سنوار سنوار کر پیش کیا ، کہے گا ، جناب اللہ کا وعدہ سچا ہے ، میں نے اب تک جو کچھ کہا ، جھوٹ کہا مگر میں آپ کو گمراہ کرنے کا ذمہ دار نہیں میں نے تو صرف دعوت دی ہے ، وسوسہ اندازی سے کام لیا ہے ، برے خیالات کی تائید کی ہے ، لیکن یہ تمہارا قصور ہے ، کہ تم نے میری دعوت پر کان دھرا ، اور میری رائے سے اتفاق کیا ، آج میں تمہارے کام نہیں آسکتا ، اور نہ تم مجھے کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہو ، ہم دونوں ظالم ہیں ، اور دونوں کے لئے عذاب مقدر ہے ۔ (آیت) ” وما کان لی علیکم من سلطن “۔ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے ، کہ ان شریر نفوس کی حدود امتیاز کیا ہیں ؟ مضبوط اور پکے عقیدے کے لوگ ان کے شر سے محفوظ رہتے ہیں ، اور ضعیف ال ایمان وسوسہ اندازیوں کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ حل لغات : بمصرخکم : فریاد رس ۔ ابراھیم
23 ابراھیم
24 پاک درخت : (ف ١) نیک بات ، پاکیزہ خیالات کی مثال عظمت وبقاء اور اور نفع کے لحاظ سے ایک خوش منظر درخت کی سی ہے جس کی جڑیں مضبوط ہوں ، جس کی بلندی آسمان سے باتیں کرے ، اور ہر وقت پھلوں سے لدا رہے ۔ غرض یہ ہے کہ اسلام جڑوں کے لحاظ سے مضبوط ہے ، دنیا کی کوئی قوت اسے اکھاڑ نہیں سکتی ، اس کی عظمت ورفعت کا یہ عالم ہے ، کہ آسمان تک بلند ہے ، ہر وقت نسل انسانی اس کے پھلوں سے استفادہ کرتی رہتی ہے اس کے برکات وفیوض ہمیشہ جاری رہتے ہیں ، یعنی اسلام شجرہ طبیہ ہے ، ایک پاک اور نفع رساں درخت کی مانند ہے ۔ ابراھیم
25 ابراھیم
26 کفر وشرک شجرہ خبیثہ : (ف ٢) کفر وشرک کو ایک ایسے درخت سے تشبیہ دی ہے ۔ جو بےاصل ہو ، بدوضع اور مکروہ ہو ، بےفائدہ ہو ، جس کی جڑیں زمین پرپھیلی ہوں ، اور قطر زمین میں گڑی ہوئی نہ ہوں ، یعنی جو بےبنیاد ہو ، دلائل ومنطق جس کی تائید نہ کریں ، عقل سلیم ٹھکرائے ، قلب وضمیر قبول نہ کرے ، اور اس کے تعلق لادلائل کی وجہ سے دنیا اسے مردہ قرار دے ۔ یہ کفر وشرک کی کتنی عمدہ مثال ہے ، پاک قلب اور سلجھے ہوئے دماغ کے لوگ کبھی کفر کو قبول نہیں کرتے ، ان کے لئے اس میں کوئی جاذبیت نہیں ہوتی ، اور بڑی بات یہ ہے کہ اس نوع کے عقائد کو ثبات وقرار نہیں ہوتا ، ایمان کے مقابلہ میں یہ پنپ نہیں سکتے ، صداقت اور سچائی کو دوام حاصل ہے اور کفر وضلال کو فنا وزوال ۔ حل لغات : احتثت : اکھاڑ دیا جائے ، جثہ سے مشتق ہے جس کے معنی اس جسم کے ہوتے ہیں جو ابھرا ہوا ہو ۔ والحث ھا ارتفع من الارض کالاکمۃ ۔ ابراھیم
27 قول ثابت : (ف ١) حدیث میں آیا ہے کہ قبر کی تنہائی میں کام آنے نہیں پائے ، قول ثابت یعنی حقیقت توحید ہے ، جو لوگ وحدت و توحید کی حقیقت سے آگاہ ہیں وہ نہ تو دنیا میں مصائب سے گھبرائے ہیں اور نہ عالم قبر میں ان کے لیے فزع و خوف ہے ، اللہ ان کو توحید کے وسیلے سے توفیق دیتا ہے کہ جرات سے دنیا میں مشکلات کا مقابلہ کریں ۔ ان کے دل منور ہوجاتے ہیں توحید کا نور قلب میں جاگزین ہوجاتا ہے اور قبر کی تاریکی میں یہی نور جنت کی روشنی میں تبدیل ہوجاتا ہے ، اور وہ لوگ جنہیں اس دنیا میں اس حقیقت سے آگاہی نہیں دنیا و آخرت میں خائب و خاسر رہتے ہیں نہ یہاں انہیں کامیابی و کامرانی میسر ہوئی اور نہ آخرت میں ۔ ابراھیم
28 ابراھیم
29 ابراھیم
30 ابراھیم
31 (ف ٢) یعنی ایمان کے لیے ضروری ہے کہ عمل کی توفیق بھی ہو ورنہ صرف اقرار و اعتراف اللہ کے نزدیک کوئی وقعت نہیں ، مومن وہ ہے جو اعمال صالح سے ایمان کا نبوت ، اس کا سر صبح کو خدا کے سامنے جھکے ، جو عین عبودیت کی نشانی ہے ، دیکھنے والا آگاہ ہو ، جو اللہ تعالیٰ میں اور بندے میں تعلق ہے ، نیز مال خدا کی راہ میں خرچ کرے اپنی قوت خڑچ کر کے نیکی جمع کرے غافل نہ ہو کیونکہ وقت ایسا آنے والا ہے کہ فرصت حیات ختم ہوجائے گی اور سا وقت نہ کچھ خریدا اور بیچا جاسکے گا ، دوستی محبت اور تعلقات اس وقت کام ہیں آئیں گے ۔ حل لغات : دار البوار : ہلاکت کا گھر ، یعنی دوزخ خلال : دوستی ، دوستاں ابراھیم
32 ابراھیم
33 ابراھیم
34 چاند سورج مسخر ہیں ! (ف ١) اسلام نے انسان کا مرتبہ بہت بلند رکھا ہے ، اسے کائنات میں مرکزی مقام عنایت فرمایا ہے ، اور کہا ہے کہ جو کچھ دنیا میں ہے ، وہ تمہارے لئے ہے چاند ، سورج ، رات ، دن ، نہریں اور سمندر سب تمہارے تابع ہیں ، تمہاری حکومت اور تسخیر کا دائرہ وسیع ہے تمہیں اللہ نے ہر نوع کی نعمتیں بخشی ہیں ، مگر تمہیں کہ اللہ کی نعمتوں سے استفادہ نہیں کرتے ، اس نے تمہارے لئے سمندر مسخر کئے چاند اور سورج کو تمہارے تابع بنایا ۔ رات اور دن تمہارے فائدے کے لئے بنائے مگر تم بعضے کافر نعمت ہو کہ ذرے ذرے کے سامنے جھکتے ہو ، ہر چیز کو اپنا معبود کہتے ہو اور اپنے ماتھے کو ہر بلند وبالا شے کے سامنے جھکا دیتے ہو ، یہ ظلم ہے انسانیت کے حق میں اور کفر ہے شرافت نوع کا ۔ حل لغات : ظلوم : ناانصاف ۔ ابراھیم
35 نقطہ توحید کی تعمیر ! (ف ١) یہ اس وقت کی بات جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کعبہ کی تاسیس کی اخلاص وتوحید کی بنیاد رکھی ، جب قوم کے لئے ایک مرکز وحدت تعمیر کای جب معبد عمومی نقطہ عبادت منصہ شہروپر جلوہ گر ہوئے ۔ اس وقت قرب وجوار کے لوگوں میں بت پرستی کا رواج تھا لوگ غیر اللہ کی پوجا میں منمک تھے ، اور اللہ کی چوکھٹ کو چھوڑ کر جبینوں کو غیروں کے آگے جھکایا جا رہا تھا ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی کہ مولا اس اخلاص وتوحید کے گھر کو دارالامن بنانیویہ یہاں روحانی اور مادی بےچینوں سے لوگ رہائی حاصل کریں ، مجھے اور میری اولاد کو توفیق دیجیو کہ لوگوں کو بس مرکز توحید پر جمع کردیں ، اور بت پرستیہ نہ کریں نیز اس غیر ذی ذرع آبادی کو جو میری اولاد کا مسکن قرار فرمایا ہے ، بارونق بنا نیو ، اسے اسیا جازب نظر بنا کہ لوگ کینچھے ہوئے دور دور سے اس کی زیارت کے لئے آئیں ، اور تیرا نام بلند کریں ، انہیں رزق کی نعمت سے سرفراز فرمانیو ۔ درمیان میں اللہ کی نعمت کا ذکر فرمایا ، کہ اس نے ہمیشہ میری دعاؤں کو سنا ہے ، اور مایوسیوں کے وقت انعامات سے نوازتا ہے ، اس وقت اولاد بخشی ہے ، جب عام لوگ مایوس ہوجاتے ہیں ، اور یقین افروز انداز میں فرمایا ہے کہ میرا رب یقینا دعاؤں کو سنتا ، اور قبول کرتا ہے ، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دعاء کے وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قلبی کیفیت کیا تھی ، لب ہل رہے تھے اور دل میں ایمان کود رہا تھا ، کہ دعاء قبول ہو رہی ہے حقیقت یہ ہے جب اللہ پر اس درجہ بھروسہ اور اعتماد ہو تو دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں ۔ حل لغات : الاصنام : بت ، جمع صنم ۔ افئدۃ : دل ، جمع فواد ۔ تھوی : ھوی الیہ ، جھکاؤ ، مائل ہوا ۔ ابراھیم
36 ابراھیم
37 ابراھیم
38 ابراھیم
39 اخلاص کی پکار : (ف ١) دعاء کا بقیہ حصہ یہ ہے ، کہ اللہ اپنا نیاز مند بنائیو ، رکوع وسجود کی توفیق دیجؤ، مجھے اور میرے والدین کو اپنے آغوش رحمت میں جگہ دیجؤ، مخلص دل سے نکلی ہوئی یہ دعا قبول ہوئی ، آج کئی ہزار سال گزرنے کے بعد بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے معبد کی وہی شان ہے زائرین کا ہر وقت تانتا لگا ہوا ہے ، لاکھوں کی تعداد میں لوگ بالخصوص ہر سال زیارت کعبہ کے لئے جاتے ہیں ، ” حوللیہ من کل فج عمیق “۔ روزی کی ہر چیز فراوانی کے ساتھ موجود ہے ، غور فرمائیے ایک غیر معروف شخص ایک لق ودق صحرا میں ایک معبد تعمیر کرتا ہے ، اخلاص اور قوت روحانی کا یہ اثر ہے کہ دور دور سے لوگ کھنچے چلے آتے ہیں ، اور بالآخر کعبہ مرکز حیات وروحانی قرار پاتا ہے ۔ سوچنے کی یہ بات ہے کہ کعبہ فن عمارت کے لحاظ سے کوئی خاص خوبصورت چیز نہیں ، نہایت سادہ چار دیواری ہے مگر انوار وتجلیات کی مینا کاری نے اسے دنیا جہان کے لئے قابل رشک بنا دیا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ دل میں اخلاص ہو ، باتوں میں صداقت ہو ، اللہ کی جانب سے مقبولیت کا خلعت عطا ہو ، تو اس کے اور نشرواشاعت کی ضرورت نہیں ، شان وشکوہ کی حاجت نہیں کہیں بیٹھ جائیے ، آبادیوں سے دور اپنا مسکن بنائیے دل کھنچے ہوئے چلے آئیں گے ، اور صداقت وسچائی کو قبول کریں گے ۔ اور اگر سچائی کی نعمت سے آپ محروم ہیں ، تو پھر باوجود منظم سامان کے کامیابی ممکن نہیں ۔ ہندوستان کی تبلیغی تاریخی ملاحظہ فرمائیے ، چند نفوس قدیسہ آن کر جنگلوں میں بیٹھ گئے ہیں ، اور ان کی روحانیت سے دور دور تک اسلام پھیل گیا ہے ، آج ہندوستان میں جس قدر مسلمان موجود ہیں ، وہ انہیں لوگوں کی برکات کا ثمرہ ہے اور ہندوستان میں ہزار سالہ حکومت اسلامی نے وہ کام نہیں کیا ، جو ان اللہ والوں نے کیا ہے آج جب کہ تبلیغ کے وسائل زیادہ وسیع ہیں ، لوگ زیادہ قابلیت کے ساتھ اسلام کو پیش کرسکتے ہیں ، تو کیوں اسلام کی ترقی کی رفتار نہایت حوصلہ شکن ہے ؟ محض اس لئے کہ اب دعوت وتبلیغ کا ہنگامہ تو خاصہ موجود ہے ، مگر اخلاص وعمل کا وہ جذبہ موجزن نہیں ، زبان میں حلاوت ہے ، مگر وہ روحانی گھلاوٹ نہیں ، جو ان لوگوں کا حصہ تھا ، حل لغات : تشخص : التشخص ۔ دور سے جو انسانی شکل کھڑی نظر آئے ۔ تشخصتالابصار : آنکھیں چڑھ گئیں ۔ مھطعین : دراصل اونٹ جب گردن اٹھائے ، اس ہئیت کو کہتے ہیں ھطع ۔ افئدتھم ھوآئ: بدحواسی سے کنایہ ہے ۔ ھواء کے لغوی معنے فارغ اور خالی کے ہیں ۔ ابراھیم
40 ابراھیم
41 ابراھیم
42 ابراھیم
43 ابراھیم
44 ابراھیم
45 ابراھیم
46 ابراھیم
47 خلف وعید اور مسئلہ ندا : (ف ١) اس سے قبل یہ فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کی ظالمانہ حرکات سے غافل نہیں ہے ۔ وہ ضرور ان کو کیفر کردار تک پہنچائے گا ، یعنی وہ لوگ جنہوں نے دنیا کو اپنے گناہوں سے معمور کردیا ہے اور جو یہاں عقوبت الہی سے بچ گئے ہیں ، یہ نہ سمجھیں کہ اللہ کا قانون مکافات ناقص ہے ، اور جب وہ یہاں سزا سے بچ گئے ہیں تو قیامت میں بھی اللہ کی گرفت سے چھوٹ جائیں گے ایسا ہونا ناممکن ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کی زبان سے جو کہلوانا ہے ، ضرور اس کو پورا کرے گا ، ایک دن ضرور ایسا آئے گا ، جب مجرم پابجولاں اس کے سامنے انصاف کے لئے حاضر کئے جائیں گے ، اس وقت ان سب کو ان کی بداعمالیوں کی سزا دی جائے گی ، آگ ان کے چاروں طرف چھا جائیگی اور ان کے چہرے جھلس جائیں گے ۔ ان آیات میں اسی قانون کو وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور کہا ہے کہ اللہ نے جو کچھ حشر کے کوائف کے متعلق ارشاد فرمایا ہے ، وہ صرف تخویف نہیں بلکہ حقیقت ہے (آیت) ” فلا تحسبن اللہ مخلف وعدہ رسلہ “۔ سے صاف ظاہر ہے کہ خلف وعید کی صورت میں پیغمبروں کی رسوائی ہے ، وہ چونکہ اللہ کے محبوب ہیں ، اور ان کے ذریعے اسلام پھیلتا ہے ، اس لئے ناممکن ہے کہ وہ اپنی بات کو پورا نہ کر کے انہیں لوگوں کے سامنے ذلیل کرے ، نیز خلف وعید میں یہ بھی عیب ہے ، کہ اس سے علم آلہی کی وسعتوں میں نقص لازم آتا ہے ، اور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا علم ہمہ گیر نہیں ، جبھی تو وہ بعض مصالح کی بنا پر اپنے وعدوں کو پورا نہیں کرتا ، اور یہ مصالح وہ ہیں ، جن کا وعدہ کرتے اسے علم نہیں ” اعاذنا اللہ من شرور انفسنا “۔ بات اصل یہ ہے کہ خلف وعید کا عقیدہ عقیدہ ہذا سے لیا گیا ہے ۔ جو جھوٹے خدا پرستوں نے اپنی تنبیات کی پردہ پوشی کے لئے ایجاد کرلیا تھا ، آج بھی اس عقیدہ کی ضرورت اس لئے محسوس ہوتی ہے کہ بعض غلط پیشگوئیاں جو از قبیل خرافات ہیں ، نقد ونظر سے بچ جائیں ، اور آسانی سے ان کے متعلق کہا جاسکے کہ یہ بعض مصالح کی بنا پر خلف وعید میں شامل ہیں درحقیقت اس قسم کا عقیدہ بدترین قسم کا الزام ہے جناب باری پر جسے اسلام کی خدا دوستی ہرگز قبول نہیں کرسکتی ۔ حل لغات : ذوانتقام : اعمال بد کا بدلہ لینے والا ۔ سنا دینے والا ۔ نقمت کے معنی سزا کے ہیں ۔ القھار : غالب ۔ مقرنین : بندھے ہوئے ۔ الاصفاد : جمع صفدا ۔ قید زنجیر ۔ ابراھیم
48 ابراھیم
49 ابراھیم
50 ابراھیم
51 ابراھیم
52 ابراھیم
0 الحجر
1 الحجر
2 جب نشہ غفلت کافور ہوجائیگا : (ف ١) اصل تقسیم سورتوں کی ہے ، پاروں کی تقسیم اور کی ہے اور اس میں مضمون کی رعایت نہیں ہوتی ، یہی وجہ ہے بعض دفعہ بارپ شروع ہوجاتا ہے مگر مضمون کا تعلق سابقہ آیات سے ہوتا ہے ۔ سورہ الحجر شروع ہے ، ایک آیت ادھر ہے اور ایک آیت بعد پارہ شروع ہوجاتا ہے ، حالانکہ مضمون کا تقاضا یہ تھا کہ پارہ کو ابتداء سورت سے شروع کردیا جاتا ۔ سورت میں قرآن حکیم کا تعارف ہے کہ یہ واضح اور بین ہدایت نامہ ہے ، آج گو منکرین اس کے حقائق ومعارف کا انکار کر رہے ہیں مگر ایک وقت آئے گا جب یہ لوگ پچھتائیں گے ، اور کہیں گے اے کاش ! ہم نے اسلام کی ہدایت کو قبول کرلیا ہوتا ، اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوتا ہے کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیجئے اور ان کی جہالت و حماقت پر افسوس نہ کیجئے ، انہیں دنیا کی عیش کونسی لوں میں حصہ لینے دیجئے ، خوب کھا پی لیں ، باطل امیدیں در غلط بھروسے انہیں دین کی جانب سے غافل رکھیں ، وہ وقت قریب ہے ، جب ان کی آنکھیں کھلیں گی ، اور انہیں معلوم ہوگا کہ ہم نے عمر عزیز کا کتنا قیمتی حصہ ضائع کیا ہے ۔ الحجر
3 الحجر
4 الحجر
5 (ف ٢) جس افراد کی زندگی ہے اسی طرح جماعتوں کی زندگی ہے ، جس طرح افراد کے لئے مہلک بیماریوں ہوتی ہیں ، اسی طرح قوموں کے بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں ، جو ان کو فنا کردیتے ہیں ، عذاب الہی کے معنے قوموں کی ہلاکت اور موت کے ہیں ، جب وقت آجائے قوموں کی زندگی کا پیمانہ لبریز ہوجائے ، جب ان کی معصیتیں اور گناہ اور ان کی زندگی کو مختصر بنا دیں اور موت کو قریب کردیں اس وقت ایک لمحہ توقف نہیں ڈرتا ۔ یہ اصول ہلاکت ان لوگوں کو اس لئے بتایا جا رہا ہے ، تاکہ انہیں معلوم ہو کر قرآن زندگی وحیات کا سرچشمہ سے اگر تم نے اس کے مجرموں سے نفس کو تازہ دم نہ کیا تو کفر وشرک تمہارے جسموں کو مدقوق کردیں گے اور تمہاری ہلاکت قطعی اور یقینی ہوجائے گی اس وقت کوئی قوت زندہ تو نہیں رکھ سکے گی ۔ حل لغات : الحجر
6 دانائے عرب کے متعلق جاہلوں کا فتوی : (ف ٣) مجنون کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کی مادی آنکھیں روحانی قوتوں کو محسوس نہیں کرسکتیں ، جب انہوں نے نبوت کی حقیقت کو نہ سمجھا ، تو سہل کاروں سے کہہ دیا ، کتاب کا دماغ مختمل ہے ۔ ضرورت یہ تھی کہ یہ لوگ خود دیوانے اور عقل وبصیرت سے بیگانہ تھے نبوت چونکہ ایک فرق العقل حساسئہ بصیرت وادراک کانام ہے ، اس لئے یہ کوتاہ فہم اس کو نہیں سمجھ سکے ، کیا یہ جنون ہے کہ بصائر ومعارف کا دریا بہا دیا جائے ، لوگوں کو سکون خاطر کی نعمت سے سرفراز کیا جائے انسان کو پورا کیا جائے ، اور انسانوں کو زندگی کا مکمل بروکر عنایت فرمایا جائے ۔ جس کی امت کے ادنی افراد فلسفہ وحکمت کے استاد کامل ہوں تو وہ خود کیا عقل وہوش سے عاری ہو سکتا ہے ، جس کے ماننے کائنات پر چھاجائیں ، اور تہذیب وتمدن کا حیات آفرین درس دیں کیا اس کے باب میں یہ گستاخی رواء اور جائز ہے ؟ ۔ الحجر
7 الحجر
8 الحجر
9 قرآن کیونکر محفوظ ہے ! (ف ١) قرآن حکیم کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ یہ محفوظ ہے اس کی زبان محفوظ ہے ، ادب محفوظ ہے ، ترجمہ ومعانی محفوظ ہیں ، مطالب ومقاصد محفوظ ہیں ، اور وہ تمام چیزیں محفوظ ہیں ، جو قرآن کے لئے ضروری ہیں ، قرآن کے الفاظ اس باب میں نہایت حکیمانہ ہیں ارشاد یہ نہیں ہے کہ قرآن محفوظ ہے بلکہ ذمہ داری یہ ہے کہ ” ذکر “ محفوظ رہے گا یعنی قرآن مع اسباب و شدہ ہدایت کے ، کیونکہ صرف قرآن کی حفاظت الفاظ وحروف کی صورت میں بےمعنی ہے ، جب تک قرآنی تہذیب وتمدن قرآنی مفہوم ومقصد قرآنی پیغام اور قرآنی عمل محفوظ نہ ہو ، الفاظ وحروف کا مجموعہ اگر محفوظ میں رہ جائے تو دنیا کے لئے مفید نہیں ہو سکتا ، جب تک کہ قرآن ناطق ، صحیفہ مجسم ، حضور والا صفات کی سیرت کے نقوش ہمارے سامنے نہ ہوں ، چنانچہ عجیب بات یہ ہے کہ قرآن کا حرف حرف سینوں میں مرتسم ہے ، حضور کی تمام ادائیں ضبط تحریر میں آچکی ہیں ، اور آج دنیا میں محفوظ اور غیر مشکوک پیغام کو اگر کوئی پیش کرسکتا ہے تو وہ اسلام کا نمائندہ ہے ۔ الحجر
10 الحجر
11 الحجر
12 الحجر
13 الحجر
14 الحجر
15 (ف ٢) یعنی مکہ والوں کا تعصب اس قدر زیادہ ہے کہ اگر حقائق کو بین طریق پر دیکھیں پر دیکھیں کہ اس کے دروازے ان کے لئے وا ہیں ، اور وہ آسمان کی جانب پرواز کر رہیں ہیں ، جب بھی یہی کہیں گے ، ہماری آنکھوں پر عمل سحر کردیا گیا ہے ، ورنہ دراصل ہم آسمان کی جانب نہیں اڑ رہے ہیں ۔ یہ اس لئے فرمایا کہ مکے والے کہتے تھے فرشتے نازل ہوں تو ہم جانیں تم اللہ کے رسول ہو ، قرآن کہتا ہے فرشتے تو فرشتے تم خود بھی اگر آسمان پر چڑھ جاؤ جب بھی نہ مانو ، محض نہ ماننے کے لئے ڈھکوسلے ہیں ورنہ طبیعتون میں وہ استعداد ہی باقی نہیں جس کی وجہ سے ہدایت حاصل ہوتی ہے ۔ الحجر
16 الحجر
17 الحجر
18 اطلاع علی الغیب کے تمام دروازے مسدود ہیں : (ف ١) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل شیاطین آسمان تک پہنچ جایا کرتے تھے اور کچھ کچھ غیوب سماوی سے معلوم کرلیتے تھے ، جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے اور آپ کو خلعت نبوت عطا ہوا تو اس وقت اطلاع علی الغیب کے تمام ابواب ان پر مسدود ہوگئے ، اب جو خبیث روحوں نے آسمان کی جانب رجوع کیا تو بلند اور چمکتے ہوئے شعلوں نے ان کا خیر مقدم کیا اور ان کو بےنیل ومرام واپس ہونا پڑا ، قرآن چونکہ اطلاع علی الغیب کی آخری صورت ہے ، اور حضور کے بعد کوئی شخص علوم نبوت کا وارث نہیں ، اس لئے اللہ نے معلومات غیب کے تمام ذرائع علما بند کردئیے ہیں ، یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی افضیلت خاتمیت کی بہترین دلیل ہے ۔ حل لغات : بروج : برج کی جمع ہے برج حل کو کہتے ہیں یہاں مقصود ستارے ہیں جیسے مجاہد کی روایت ہے یا منازل ہیں ۔ رواسی گڑے ہوئے اور چھپے ہوئے ۔ الحجر
19 الحجر
20 الحجر
21 الحجر
22 (ف ١) ان آیات میں تذکیر بآیات اللہ کے اصول کے موافق اللہ نے مظاہر مدبرت کی جانب توجہ دلائی ہے اور کہا ہے کہ تم ان فطرت کے کرشموں پر غور کرو ، تمہیں یقین آجائے گا کہ اللہ نے ان چیزوں کو بےفائدہ پیدا نہیں کیا بلکہ ان تمام چیزوں کے پیدا کرنے کا ایک مقصد ہے ، اس سلسلہ میں ایک عجیب چیز یہ بتائی ہے کہ ہوائیں جو پائی برساتی ہیں تو وہ پانی یہیں سے لیتی ہیں ۔ اور حاملہ عورت کی طرح وقت پر قطرات بارش کی ولادت ہوتی ہے ۔ یہ حقیقت اس وقت ظاہر فرمائی ہے جب عرب بارش کی متعلق صرف اس قدر جانتے تھے کہ آسمان پر دریا بہتے ہیں اور وہی سے پانی آتا ہے اور ہوائیں اسی پانی سے بوجھل ہو کر برستی ہیں ، علاوہ ازیں تشبیہ کس قدر عجیب ہے گویا سورج اور پانی کی جنسی کارفرمائیوں کا نتیجہ ہے کہ ہوائیں اٹھائے اٹھائے پھرتی ہیں اور ایک وقت منفرد پر برس جاتی ہیں ۔ الحجر
23 الحجر
24 الحجر
25 الحجر
26 الحجر
27 جنوں کا وجود : (ف ٢) جنوں کی پیدائش آدم سے پہلے ہے انکی فطرت اجزائے ناریہ سے ہے اسلئے یہ انسان سے زیادہ لطیف اور سبک ہوتے ہیں گویہ نظر نہیں آتے ، مگر ان کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا ؟ آج نئے تجربوں نے ہی ثابت کردیا ہے کہ کچھ لطیف اجسام ایسے ہیں جو ہمیں نظر نہیں آتے مگر ہو ہماری طرح ایک خاص قسم کے زندگی رکھتے ہیں ، ان کے اجسام ہیں ، ان کی خاص شکلیں ہیں ان کے اپنے مخصوص مشاغل ہیں ۔ یورپ میں بعض ایسی علمی مجلسیں ہیں جنہوں نے برسوں کی تحقیقات کے بعد یہ ثابت کیا ہے جنات کا انکار واقعات کا انکار کرنا ہے ، آج سے نصف صدی پیشتر ان کا انکار روشن خیالی میں داخل تھا کہ آج مفتی کہہ رہا ہے جنوں کا وجود برحق ہے اس لئے اب مجال انکار نہین ، مشرق تو صدیوں سے قائل تھا مگر اب دانایان مغرب بھی قائل ہوگئے ہیں اس لئے تاویل کی ضرورت نہیں حقیقت یہ ہے کہ زمانہ جیسے جیسے ترقی کرے گا ، بہت سے حقائق مستور آشکارا ہوجائیں گے ۔ الحجر
28 الحجر
29 الحجر
30 الحجر
31 (ف ١) حضرت آدم کے قصے کو قرآن حکیم نے متعدد مقامات پربیان کیا ہے ، غرض یہ ہے کہ انسان اپنے شرف ومجد سے آگاہ ہو ، اسے معلوم ہو ، کہ اللہ نے اس کا درجہ کتنا بلند بنایا ہے آدم (علیہ السلام) کے سامنے فرشتے جھکتے ہیں ، اس لئے چاہئے کہ اس کا سر ہمیشہ اونچا رہے ، وہ اس جبین پر وقار کو جو مسجود ملائک رہ چکی ہے ، بجز رب العالمین کے اور کسی کے آگے نہ جھکائے ، اللہ نے فرشتوں کو اسی لئے جھکایا ، اور سجدہ کا حکم دیا ، تاکہ ابتداء ہی سے آدم کے دل میں خود شناسی کا مادہ پیدا ہو ، اور وہ اپنے مرتبت سے واقف ہو ، اسے معلوم ہو کہ میں فرشتوں کو اپنے سامنے جھکا سکتا ہوں ، اور اللہ نے مجھے تمام مخلوقات میں اشرف بنایا ہے ۔ شیطان نے انکار کیا ، وہ آج بھی انسانی فضیلت کا معترف نہیں ، غرج یہ ہے کہ آدم اپنی زندگی کی تگ ودو میں دشمنوں سے آگاہ رہے ، اور شیطانی حربوں سے ہوشیار رہے ۔ حل لغات : من روحی : روح کا انتساب اپنی جانب تشریف کے لئے ہے ۔ الحجر
32 الحجر
33 الحجر
34 الحجر
35 الحجر
36 الحجر
37 شیطان کی وجہ تخلیق : (ف ١) شیطان کو سجدہ نہ کرنے کی یہ سزا ملی کہ ہمیشہ کیلئے معتوب الہی ہوا ، اسے حکم دیا گیا ، کہ تم اب آسمان کی وسعتوں سے نکل جاؤ اور مکرو فریب کے لئے زمین پر رہو ، تمہیں قیامت تک مہلت ہے اپنی شیطنت کو بروئے کار لاؤ ، پوری قوت کے ساتھ اولاد آدم کو گمراہ کرنے کی کوشش کرو ، یاد رکھو وہ لوگ جو پاکباز اور متقی ہیں ، وہ تیری دستبر سے ہمیشہ بالا رہیں گے ، اور نفوس قدسیہ کو گمراہ نہیں کر سکوگے ، سوائے ان چند شریر النفس لوگوں کے جو تیرے ہم خیال ہیں ، اور کوئی تیری دوستی کا دم نہیں بھرے گا اور بالاخر تم سب لوگ جہنم کا ایندھن بنوگے ، شیطان اپنے تمام گروہ کے ساتھ جہنم میں داخل ہوگا ، اور کوئی قوت انہیں عذاب الہی سے نہیں بچا سکے گی ۔ اس مقام پر دو شبہے قدرتی طور پر پیدا ہوتے ہیں ، ایک یہ کہ اللہ نے شیطان کو کیوں قیامت تک مہلت دی ، کہ وہ اس کی بھولی بھالی مخلوق کو گمراہ کرتا رہے ، کیا وہ گمراہی کو پسند کرتا ہے ؟ اور کیا اسے شیطان کے مشاغل محبوب ہیں ؟ دوسرے یہ کہ شیطان کو آخر نافرمانی کی جرات کیوں ہوئی ، جب کہ وہ جناب باری کے بالکل قریب تھا ، نافرمانی کا ارتکاب تو اس وقت ہوتا ہے جب دوری کے حجاب دل پر چھائے ہوں ، ابلیس جیسی شخصیت نے جس کو قرب حاصل تھا ، جو خدا سے بالمواجہ باتیں کر رہا ہے ، کیونکہ انکار کیا ؟ پہلے شبہ کا جواب یہ ہے کہ دنیا میں اللہ نے مختلف چیزیں پیدا کی ہیں اور اس اختلاف وتنوع میں ہی دنیا کی زندگی مستور ہے ، دن پیدا کیا تو ساتھ رات کی تاریکی لگا رکھی ہے ۔ پھولوں کی پتیاں پیدا کی تو کانٹے بھی ہیں ، عسل ولبن کی اگر فروانی ہے تو حنطل وزقوم بھی ہے ، غرض کہ دنیا کی رونق اس کو قلمونی پر موقوف ہے ، شیطان کا وجود انسان کے ساتھ ساتھ ایسا ہی ضروری ہے جیسے آفتاب کے بعد تاریی اور ظلمت کی حکمرانی ، پھول کے ساتھ کانٹے اور شہد کے ساتھ زہر ۔ شیطان نے انکار اس لئے کیا کہ اس کی آنکھوں پر بھی غرور وحسد کے پردے پڑگئے ، اسے گو قرب حاصل تھا ، مگر پھر بھی بہت سے حجاب ایسے تھے ، جن کی وجہ سے گمراہ ہوا ، ہمارے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جیسے بعد و حجاب ہے ، اسی طرح فرشتوں اور اللہ کے درمیان بھی بےشمار پردے حائل ہیں ، جن کی تفصیل کو ہم نہیں جانتے اسلئے شیطان کی گمراہی تعجب خیز نہیں ۔ حل لغات : الغوین : گمراہ ، غوایۃ سے مشتق ہے ۔ الحجر
38 الحجر
39 الحجر
40 الحجر
41 الحجر
42 الحجر
43 الحجر
44 الحجر
45 الحجر
46 الحجر
47 الحجر
48 الحجر
49 خدا اصل میں غفور ورحیم ہے ! (ف ١) ان دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے نہایت وضاحت سے ارشاد فرمایا ہے کہ صفات میں حقیقتا عفو ومغفرت ہے ، اللہ تعالیٰ چاہتے تو یہی ہیں کہ اس کے بندے ہمیشہ اس کے انعامات سے متمتع رہیں ، اور اس کی رحمتیں ابدا اس کے بندوں پر چھائی ہیں ، مگر جب بندے دائرہ عبودیت سے نکل جائیں ، اور اللہ کے کرم وعفو سے استفادہ نہ کریں تو پھر اس کے غضب میں جوش پیدا ہوتا ہے اور اس کا غصہ نافرمانوں پر بھڑکتا ہے ، یہ غصہ اور غضب بھی درحقیقت غفران ورحمت کا نتیجہ ہے ، جس طرح والدین ناراض ہوتے ہیں اور ان کی ناراضگی میں بھی شفقت کا ایک رنگ ہوتا ہے ، اسی طرح اللہ جو والدین سے زیادہ رحیم ہے ، جب ناراض ہوتا ہے تو اس کی ناراضگی میں بھی الوان شفقت کی جھلک ہوتی ہے ۔ یہ عجب لطیفہ ہے کہ رحمت کو تو مؤکد ترین انداز میں ذکر فرمایا ہے ۔ (آیت) ” انی ، انا ، وغفور ، ورحیم “ ، کی تکرار ، اور پھر الف لام کے ساتھ تعرفی وتخصیص ، مگر عذاب الیم کو بیان کرنے میں اس قدر تاکیدات کا اظہار نہیں فرمایا ، جس سے صاف ظاہر ہے کہ رحمت کا پہلو بہت غالب ہے ، اس کا دریائے رحمت جب جوش میں آجائے تو پھر عذاب وثواب کس قطار وشمار میں ۔ حل لغات : غل : کینہ ، خیانت ، وکدورت ، سرر : جمع سریر ، تخت ، نصب : تکان ، تھکن ، تکدر باتکلیف وجلون : خوفزدہ ۔ الحجر
50 الحجر
51 الحجر
52 الحجر
53 الحجر
54 الحجر
55 (ف ١) قرآن حکیم کا یہ مخصوص شیوہ بیان ہے کہ احکام کا ذکر کرتے ہوئے عبروبصائر کا انبار لگا دیتا ہے ، اور درمیان میں قوام وملل کے قصص بھی بیان کرتا جاتا ہے کہ حالات کا موازنہ ہوتا رہے ۔ اس سے قبل دعوت رسالت کا ذکر تھا ، پھر مکے والوں کے تعصب کو بیان کیا ، پھر نوع انسانی کو اپنے ابتدائی حالات کی جانب توجہ دلائی ، تاکہ وہ اپنے اصلی مقام کو پہچانیں ، اب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ اور قوم لوط (علیہ السلام) کے حالات ہیں ، ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ میں (آیت) ” انی انا الغفور الرحیم “۔ کی تشریح ہے ، اور قوم لوط (علیہ السلام) کی داستان میں (آیت) ” وان عذابی وھو ال عذاب الالیم “۔ کی ۔ بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جب فرشتے آئے تو انہوں نے سلام عرض کیا ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب دیا مگر ڈرتے ڈرتے ، خیال یہ تھا کہ کہیں دشمن اور مخالف نہ ہوں ، انہوں نے کہا آپ ڈریں نہیں ہم آپ کے لئے خوشخبری لائے ہیں ، اللہ آپ کو ایک لائق بچہ عنایت فرمانے والے ہیں ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکے اور تعجب سے کہا ، اس بڑھاپے میں اب اولاد ہوگی ، فرشتوں نے سمجھا ، مایوس ہے اس لئے تردیدا انہوں نے کہا ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں ، حق اور واقعہ ہے ، آپ مایوس نہ ہوں ، اللہ ضرور آپ کو ایک بچہ مرحمت فرمائیں گے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے معاملہ سمجھ لیا ، اور کہا میں نے بربنائے مایوسی نہیں کہا ، کیونکہ مایوسی تو گمراہی ہے ، بلکہ اس لئے کہ عادتا اس عمر میں اولاد نہیں ہوتی ، اس کے بعد تشریف آوری کی وجہ پوچھی ، انہوں نے کہ ہم قوم لوط (علیہ السلام) کے گناہ گاروں کی جانب آئے ہیں کہ انہیں ہلاکت وتباہی کا پیغام سنائٰں اس قصہ میں مندرجہ ذیل اسباب موجود ہیں ۔ (١) مہمان جب آئے پہلے سلام کہے ۔ (٢) مہمان کے متعلق کوئی شبہ ہوتو فورا اس کا ازالہ کرلے ۔ (٣) خدا کی رحمت سے بہرنوع مایوس نہ ہو ۔ (٤) حق بات کو فورا قبول کرلے ۔ حل لغات : خطبکم : حالت کیفیت ۔ الحجر
56 الحجر
57 الحجر
58 الحجر
59 الحجر
60 الحجر
61 الحجر
62 الحجر
63 الحجر
64 الحجر
65 الحجر
66 قوم لوط کی ہلاکت : (ف ١) حضرت لوط (علیہ السلام) جس قوم کی جانب معبوث ہو کر آئے یہ وہ لوگ تھے جو حد درجہ کے شہوانی تھے ، یہ فواحش کے ارتکاب میں نہایت دلیر تھے ، اور اس درجہ پست اور ذلیل قسم کے جذبات کے مالک تھے کہ تسکین نفس کے لئے لونڈوں کو بہ نسبت عورتوں کے پسند کرتے ، قوم کی قوم اس خبیث مرض میں مبتلا تھی ، اخلاقی حس مردہ ہوچکی تھی ، ہر آن شہوت پرستی میں مشغول اور بدمست رہتے ۔ حضرت لوط کو ان کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ، انہوں نے ہرچند عفت وپاکبازی کی تلقین کی ، مگر یہ بدبخت کہاں مانتے تھے بدمعاشی رگ رگ میں سرایت کرچکی تھی ، بالآخر اللہ کی غیرت نے فیصلہ کرلیا کہ اس ناپاک قوم کو فنا کر کے گھاٹ اتار دیا جائے ، تاکہ بدمعاشی کے جراثیم دوسری نسلوں تک منتقل نہ ہونے پائیں ، اور انہوں ان کی بداخلاقی کی سزا مل جائے ، چنانچہ اللہ کے فرشتے آئے ، مگر حضرت لوط (علیہ السلام) نے انہیں اولا نہ پہچانا ، جب انہوں نے اپنا تعارف کرایا تو حضرت لوط (علیہ السلام) کو معلوم ہوا کہ قوم کی تباہی کا وقت آپہنچا ہے ۔ فرشتوں نے کہا ، آج ہی رات اپنے اہل وعیال کو لے کر یہاں سے نکل جاؤ ، کیونکہ یہ فیصلہ ہوچکا ہے ، کہ صبح ہوتے ہوتے قوم کو تباہ کردیا جائے ، اور ان کی ساری نسل کو برباد کردیا جائے ، مزید یہ بھی بتلایا ، کہ جس وقت جاؤ ، سرعت سے جاؤ پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا بلکہ ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر اس ارض سے جلد تر دور نکل جانے کی کوشش کرو ، شہر والوں نے جب سنا کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے ہاں نہایت خوبصورت لڑکے مہمان آئے ہیں تو خوش خوش ان کے ہاں کے ہاں آئے اور اپنی خواہش نفس کا اظہار کیا ، مضرت لوط نے کہا کمبختو ، یہ تو دیکھو کہ یہ میرے مہمان ہیں کیا تم میں ذرہ بھر بھی شرافت باقی نہیں رہی ، اللہ سے ڈرو ، اور تم اپنی بدکرداریوں سے مجھے رسوا نہ کرو ، مگر وہ نصیحت اور پاکبازی کی باتوں کو کہاں سنتے تھے ، ان کے دل تو خباثت نفس کی وجہ سے سیاہ ہوچکے تھے ، وہ شہوت سے اندھے ہو رہے تھے ، انہوں نے اصرار کیا ، حضرت لوط (علیہ السلام) نے کہا نہیں میری بہو ، بیٹیوں (یعنی عورتوں) سے کیوں نفرت ہے ، تم کیوں ان سے جذبہ شہوت کی تسکین نہیں کرتے ، یہ واقعہ اس لئے ذکر کیا ہے تاکہ ان کے اخلاقی تسفل کا آپ کو اندازہ ہو سکے ، اور آپ جان سکیں کہ کس طرح وہ سارا دن بدمعاشی کی ٹوہ میں لگے رہتے تھے ، جہاں برائی کے لئے کان میں بھنک پڑتی ، اٹھ دوڑتے ، انکی بدمعاشیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ بستی کو تہ وبالا کردیا گیا ، اور قوم لوط زمانہ کے لئے عبرت قرار پائی ۔ حل لغات : بقطع : رات کے آخری حصہ کو کہتے ہیں ۔ الحجر
67 الحجر
68 الحجر
69 الحجر
70 الحجر
71 الحجر
72 الحجر
73 الحجر
74 الحجر
75 الحجر
76 الحجر
77 قوم کا وجود اخلاق سے تعبیر ہے : (ف ١) حضرت لوط (علیہ السلام) کے قصہ کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے ذکر کیا ہے ، تاکہ بدکردار لوگوں کو معلوم ہو کہ بدکرداری کا حشر کیا ہوتا ہے ، وہ قوم جس میں فواحش پھیل جائیں ، اور اخلاقی روحانیت کا اس میں خاتمہ ہوجائے ، اس کی ہلاکت قطعی اور یقینی ہے ، قومیں اپنے مادی سازوسامان کی وجہ سے زندہ نہیں رہتیں ، بلکہ ان کا قیام وبقاء دراصل اپنی اخلاقی قوتوں پر موقوف ہوتا ہے ، اس لئے بلاتخصیص کے یہ کلیہ درست ہے کہ جو قوم بگڑ چکی ہے جس کی حس اخلاقی مردہ ہوچکی ہے ، اس کے تن مردہ میں بقاء وحیات کے روح نہیں پھونکی جا سکتی ، اس کا ہٹ جانا حتمی اور لابدی ہے ۔ الحجر
78 (ف ٢) اصحاب ایکہ سے مراد حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم ہے جو جنگلوں میں آباد تھی ، ان کا اصل مسکن مدین تھا ۔ الحجر
79 الحجر
80 (ف ٣) اصحاب الحجر ، قوم ثمود کا نام ہے ، ان کی جانب حضرت صالح (علیہ السلام) مبعوث ہو کر آئے ، یہ قوم خوشحال تھی پہاڑوں میں رہتی ، حضرت صالح (علیہ السلام) سے انہیں سخت عناد تھا ، یہی وجہ ہے باوجود منع کرنے کے انہوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کو ذبح کردیا ، جس کا نتیجہ ہوا کہ ان کو ہلاک کردیا گیا ۔ دراصل یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے مختلف اوقات میں اللہ کے رسولوں کی مخالفت کی ، ان کے گناہ حد اعتدال سے تجاوز کر گئے نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فنا کے گھاٹ اتار دیا ۔ حل لغات : لبامام : راستہ ۔ طریق ۔ الحجر
81 الحجر
82 الحجر
83 الحجر
84 الحجر
85 (ف ١) یعنی اس کار گاہ حیات کو کسی مقصد کے ماتحت پیدا کیا گیا ہے ، اور وہ مقصد انسان کی تکمیل ہے ، انسانی جدوجہد کا امتحان ہے ، تقوی وپرہیزگاری کی آزمائش ہے ، یہ ناممکن ہے کہ اتنا بڑا کارخانہ چل رہا ہو ، جس میں لاکھوں قانون کام کر کررہے ہیں ، اور اس کا کوئی مقصد نہ ہو ، انسان کے لئے یہی کافی نہٰں کہ وہ کھائے پئے اور مر جائے ، بلکہ ضروری ہے کہ وہ دنیا میں اپنے اصل موقف کو معلوم کرے ، اپنی اہمیت کو جانے اور اپنے فرائض محسوس کرے ، اسے معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کس سمندر کا قطرہ اور کس کل کا جزو ہے ، وہ کیوں زندہ ہے ، اور اس کی زندگی کو کیونکر مفید ودائمی بنایا جا سکتا ہے ۔ الحجر
86 الحجر
87 (ف ٢) ” سبع مثانی “ کے معانی میں اختلاف ہے بعض کے نزدیک اس سے مقصود فاتحہ ہے ، بعض کے نزدیک سات سورتیں ہیں بعض کہتے ہیں اس سے غرض سات مضامین ہیں بعض کہتے ہیں سارا قرآن مقصود ہے مگر قوی قول یہ ہے کہ اس سے مراد فاتحہ ہے ۔ واللہ اعلم ۔ الحجر
88 حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کے دو پہلو : (ف ٣) قرآن حکیم کے جس قدر احکام میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کیا گیا ہے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل کی یہ تصویر ہے ، اور امت کو ان کے اسوہ کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کے دو پہلو بیان کئے گئے ہیں ، ایک تو یہ کہ آپ دنیا کے تکلفات پر ریجھے ہوئے نہیں طبیعت میں انتہاء درجہ کا استغا ہے ، اور ایک یہ کہ آپ مسلمانوں کے لئے آیہ رحمت ہیں آپ کے دل میں امت کے لئے شفقت کا بےپناہ جذبہ موجزن ہے ۔ غور فرمائیے ، حضور دعوت عام دے چکے ہیں ، مخالفت کی آگ بھڑک چکی ہے ، لوگوں نے ابو طالب سے کہ اپنے بھتیجے کو سمجھا لو ، ورنہ ہم تم سے بھی تعرض کریں گے ، ابوطالب نے آکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حقیقت حال سے آگاہ کیا آپ نے فرمایا چچا اگر وہ میرے داہنے ہاتھ پر آفتاب اور بائیں ہاتھ ماہتاب رکھ دیں ، جب بھی میں دعوت توحید سے نہیں رک سکتا ، کس قدر استغنا ہے قوم سونے چاندی کے ڈھیر نذر کرتی ہے حسین وجمیل رشتے پیش کئے جاتے ہیں مگر حضور آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ، رحمت ورافت کا یہ عالم ہے ، کہ وہ لوگ جو منافق ہیں ، آپ کو تکلیفیں پہنچاتے ہیں ، ان سے ہر طرح اغماض وچشم پوشی کرتے ، عبداللہ ابن ابی مرتا ہے ، تو آپ پیراہن مبارک تبرک کے لئے بھیج دیتے ہیں ۔ الحجر
89 الحجر
90 (ف ١) مقتسمین “۔ سے مرا دمکے والوں کا وہ گروہ ہے ، جو مکے کی پہاڑیوں میں پھیل جاتا تھا ، اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتا تھا ، جب دیکھتا کہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں تو طرح طرح کے الزام تراشتے کبھی کہتے ، ساحر ہے کبھی کہتے اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے ، بدعقیدہ ہے ، غرض یہ ہوتی کہ کسی نہ کسی طریق سے لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متنفر ہوجائیں ، اور حق کی پکار کو نہ سنیں ۔ (آیت) ” جعلوا القرآن عضین “۔ کا مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ قرآن کے اعتراض والے حصوں کو اپنے زعم باطل کے مطابق چھانٹ لیتے ، اور لوگوں کے سامنے رنگ آمیزی کے ساتھ انہیں پیش کرتے ۔ مگر باوجود ان مکاریوں اور خباثتوں کے اسلام پھیل کر رہا ، اور ان کی کوششیں بالکل رائیگاں گئیں ، دنیا نے دیکھ لیا کہ آفتاب نبوت کی کرنیں کس طرح دور دور تک پھیل گئی ہیں اور یہ لوگ کیونکر ناکام رہے ۔ حل لغات : مثانی بمعنے دو تائے ۔ یعنی سورۃ فاتحہ کہ ہر رکعت میں دوبارہ پڑھی جاتی ہے ۔ عضین : ٹکڑے ٹکڑے ، اور حصے حصے ، اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ قرآن میں ایک خاص نوع کا ربط ہے جب اس ربط سے اسے الگ کردیا جائے تو وہ پارہ پارہ ہوجاتا ہے ، اور معنویت ضائع ہوجاتی ہے ۔ الحجر
91 الحجر
92 الحجر
93 الحجر
94 الحجر
95 الحجر
96 الحجر
97 الحجر
98 الحجر
99 الحجر
0 النحل
1 عذاب آ چکا !: (ف ١) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مخالفین سے کہا کرتے تھے ، کہ اگر تمہارا کفر وعناد اسی طرح قائم رہا ، اور نفس کی ظغیانیوں میں کوئی فرق پیدا نہ ہوتا اور تم بدستور اللہ کی نعمتوں کو ٹھکراتے رہے ، تو یاد رکھو ، قانون انتقام برروئے کار آئے گا ، اور تمہیں بیخ وبن سے اکھاڑ دیا جائے گا ۔ وہ لوگ بار بار ازراہ تمسخر کہتے ، وہ عذاب کہاں ہے ؟ کیوں آسمان نہیں ٹوٹ پڑتا ، اور کیوں زمین نہیں پھٹ جاتی ، اللہ کی غیرت کیوں جوش میں نہیں آتی ؟ اور یہ کیا ہے کہ ہم باوجود نافرمانیوں کے زندہ ہیں ؟ کیا اللہ کو ہمارا کفر پسند ہے ، کیا ہم حق پر ہیں ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، گھبراتے کیوں ہو ؟ جلدی نہ کرو ، عذاب آچکا ، اللہ کے ہاں تمہاری تباہیوں اور بربادیوں کا فیصلہ ہوچکا ، قضا وقدر نے تمہیں صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا تہیہ کرلیا ، اس وقت تک تمہیں مہلت دی گئی تھی تاکہ گناہوں سے باز آؤ ، اور اللہ کی طرف جھک جاؤ ، اور اب جبکہ تم نے اللہ کی دی ہوئی ڈھیل سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا ، تمہارا فنا کے گھاٹ اتر جانا یقینی ہے ۔ بدر کے میدان میں تم سے انتقام لیا جائے گا موت تمہارے سر پر منڈلا رہی ہے ، قیامت قریب ہے ، جب وقت آئے گا بات پوری ہوجائے گی ، اور تم عذاب میں مبتلا ہو گے اس وقت تمہیں کوئی نہیں بچا سکے گا ، اور کوئی قوت تمہارے کام نہیں آسکے گی ، النحل
2 (ف ٢) یعنی نبوت اللہ کی بخشش وموہبت ہے ، اس میں کسب واکتساب کو دخل نہیں ، یہ اللہ کا دین ہے جسے چاہے ، دیدے ، روح سے مراد وحی ہے ، یا جبرائیل ہے جو حامل وحی ہیں ، غرض یہ ہے کہ فرشتے جب نبوت کا خلعت لے کر آتے ہیں تو ان کی تلقین یہی ہوتی ہے کہ ایک خدا کے سامنے جھکو ایک اللہ کی عبادت کرو ، وہ شرک کی تائید کے لئے نہیں آتے ۔ غیر اللہ کی پرستش کے لئے وہ نہیں کہتے ان کا نصب العین توحید کی اشاعت اور اطاعت الہی ہوتا ہے ۔ النحل
3 النحل
4 (ف ١) نطفۃ سے مراد آب معانی ہے ، قرآن حکیم عام طور پر ایسے مقامات میں بہترین الفاظ استعمال کرتا ہے جن سے ذوق سلیم ابانہ کرے ، غرض یہ ہے کہ انسان اپنی حقیقت پر غور کرے اور سوچے کہ کیونکر اللہ تعالیٰ نے پانی کے ایک قطرے سے جیتا جاگتا انسان بنا دیتا ہے ۔ النحل
5 النحل
6 (ف ٢) ان آیات میں حیوانات کا ذکر ہے کہ کیونکر اللہ نے ان کو تمہارے لئے مفید بنایا ہے ، ان میں کس قدر تمہارے لئے منافع ہیں ۔ انداز بیان ان لوگوں کے لئے جو دیہاتی زندگی کی ضروریات سے آگاہ ہیں نہایت دلچسپ وجاذب ہے ۔ (آیت) ” ویخلق ما لا تعلمون “۔ میں ان بےشمار ایجادات نو کی جانب اشارہ ہے جو باربرداری اور سواری کے کام آسکتی ہیں اور جن سے بجائے حیوانات کام لیا جا سکتا ہے ۔ نزول قرآن کے وقت یہی گھوڑا ، گدھا ، اور اونٹ وغیرہ موجود تھے ، اس لئے ان کے منافع گنائے ہیں مگر چونکہ یہ کتاب تمام زمانوں کے لئے راہنما ہے ، اس لئے ارشاد فرمایا ، کچھ ایسے برتی اور غیر برتی حیوانات بھی ہیں ۔ جن کو اس وقت تم نہیں جانتے ۔ مگر آئندہ زمانے میں وہ ظاہر ہوں گے ۔ حل لغات : خصیم : جھگڑالو ۔ دف : حرارت گرمی ۔ تمرحون : سرح کے معنی مطلق مال ڈھور کو چراگاہ میں چھوڑنے کے ہیں ۔ النحل
7 النحل
8 النحل
9 فلسفہ اختلاف : (ف ١) یعنی اللہ تعالیٰ نے کائنات میں اختلاف رنگ وبو کو قائم رکھا ہے ، اور اس گلشن حیات میں جو زندگی رکھی ہے ، وہ بھی بو قلموں اشجار پر لیل ونہار میں اختلاف ہے ، اندھیرے اور اجالے میں اختلاف ہے پھول ، پتے ، اور کانٹے میں اختلاف ، آہن وسیم ، میں اختلاف ہے ، حقیقت وملمع میں اختلاف ہے ، سچ اور جھوٹ میں اختلاف ہے ، حق وباطل میں اختلاف ، اللہ نے اس بزم کو انواع واقسام کے لوگوں سے آراستہ کیا ہے ۔ گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن ۔ اے ذوق اس جہان کو ہے زیب اختلاف ہے ۔ کچھ وہ ہیں کہ فطرت میں سلامتی ہے حق کے جویاں ہیں ، طبیعت میں غور اور فکر کرنے کا مادہ ہے ، یہ ہدایت پر ہیں ، کچھ ایسے ہیں جو گٹھل ہیں ، کند ذہن لے کر آتے ہیں ، جن کے کان حق کی آواز کو نہیں سنتے جو دل کے مقفل ہیں اور معارف الہیہ سے محروم ہیں ، یہ تقسیم خدا کی طرف سے ہے ، اللہ اگر چاہتا تو سب کو ہدایت دے دیتا ، مگر اس لئے کہ حق وباطل میں امتیاز ہوسکے ، اور حق پوری تابانی کے ساتھ چمک سکے باطل کی تاریکی باقی رکھا ہے ۔ آیت کا یہی مقصد ہے کہ توفیق اللہ کی جانب سے عطا ہوتی ہے ، اور بندوں کا کام ہدایت کے لئے سعی وطلب کو جاری رکھنا ہے ۔ النحل
10 النحل
11 النحل
12 النحل
13 (ف ١) قرآن چونکہ کتاب فطرت ہے ، اس لئے وہ عجائب مخلوقات سے استدلال کرتا ہے ، وہ کہتا ہے آسمان کو دیکھو پانی اور بارش کے فوائد پر غور کرو ، کیونکر کھیت اور باغات ہرے بھرے ہوجاتے ہیں ، اور کیونکر بہترین پھل اور اثمار پیدا ہوئے ہیں کیا اس میں غور وفکر کے لئے کافی سامان موجود نہیں ؟ ۔ رات اور دن کی ترتیب سورج چاند اور ستاروں کی باقاعدہ گردش ان میں جولانی عقل کے لئے کس قدر میدان ہے اسی طرح اشجار رنگا رنگ میں قدرت کی کس قدر صنعت کاریاں نمایاں ہیں ، اور باعث تذکیر ونصیحت ہیں ۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے ، کہ ان سب باتوں کو سوچو ، غور کرو ، تو فکر عقل اور ذکر کا تمہیں وافر ذخیرہ ملے گا ، غرض یہ ہے کہ مسلمان ، حیوانات ، نباتات ، اور علم الفضا سب علوم کے ماہر ہوں ، اور اللہ کا شکر ادا کریں ، تمام نعمتوں سے فائدہ اٹھائیں اور صحیح معنوں میں اللہ کے شاکر بندے بنیں ۔ (آیت) ” ولعلکم تشکرون “۔ سمندر کے ان فوائد سے متعلق ہے جو زمانہ حال میں ظاہر ہوئے ، آج سمندر پر قبضہ واستیلاء استعمار کے لئے بہترین ذریعہ ہے ، افسوس مسلمان ” شکر “ کے اس عظیم ووسیع مفہوم اور نفع سے آگاہ ومتمتع نہیں ۔ حل لغات : ذرا : پیدا کیا ذریت اسی سے مشتق ہے ۔ لحما طریا : یعنی مچھلی ۔ النحل
14 النحل
15 النحل
16 النحل
17 النحل
18 النحل
19 النحل
20 بتوں نے کیا پیدا کیا ہے جو اسن کی پوجا کرتے ہو ۔ (ف ١) مکے والے بت پرست تھے لات ومنات کی پوجا کرتے ، پتھروں کی پرستش کرتے اور ان اصنام کو خدا جانتے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، کیا ان بتوں کا کائنات میں کچھ ہے ؟ کیا زمین وآسمان میں کسی چیز کو انہوں نے پیدا کیا ہے ؟ یا یہ کہ خود مخلوق ہیں ۔ اللہ کی نعمتیں بےشمار ہیں ، ایک ایک سانس جو ہم لیتے ہیں ، اس کے لئے اللہ کے ہزاروں قانون سرگرم عمل ہیں ، عمر بھر اگر اس کی توصیف میں صرف کردیں ، جب بھی اس کی حمد سے عہد برآء نہ ہو سکیں ، وہی تو ہے جس نے ہمیں خلعت وجود بخشا ہے ۔ اور زندگی عنایت کی ہے ہمیں ضمیر اور عقل سے نوازتا ہے نعمتیں دی ہیں ، اور ہمیں اس قابل بنایا ہے کہ دنیا میں مصائب کا مقابہ کرسکیں ، ایسے محسن خدا کو چھوڑ کر پتھروں کو پوجا کہاں کی دانشمندی ہے ۔ مذکور باطن ہو اسے برہمن ذرا تو چشم تیز ذاکر خدا کا بندہ بتوں کو سجدہ خدا خدا کو خدا خدا کر ۔ مکے والوں سے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کچھ تو سوچو ، اور غور کرو تم کہاں تک حق بجانب ہو ، وہ بت جو نعمت حیات سے محروم ہیں مردہ ہیں ، وہ تمہاری ضروریات کو کیونکر پورا کرسکتے ہیں ، اور کس طریق سے تمہیں زندگی بخش سکتے ہیں ؟ ع کل کے ترشے ہوئے بت آج خدا بنتے ہیں ۔ “ عجیب بات یہ ہے کہ باوجود اس فضیلت کے جو عقید توحید میں موجود ہے ، لوگ زیادہ تر شرک ہی کی جانب مائل ہیں حالانکہ عقل کا تقاضا یہی ہے کہ تمام لوگ ایک اللہ کی چوکھٹ پر جبہ سائی کریں ۔ حل لغات : اموات غیر احیآء : بےجان لاشیں ، حضرت قتادہ (رض) کہتے ہیں ، بتوں کے متعلق ہیں ۔ النحل
21 النحل
22 (ف ١) آخرت کے عقیدہ کو اسلام نے نہایت اہمیت کے ساتھ پیش کیا ہے ، کیونکہ جب تک نظام مکافات پر یقین نہ ہو ، اور جزاء وسزا کو نہ مانتا ہو ، ناممکن ہے کہ اخلاق وعادات کی درستی ہو سکے ، مگر جب آخرت کا ڈر دل سے اٹھ جاتا ہے تو دلوں میں انکار و وتمرد پیدا ہوجاتا ہے ، کیونکہ جب زندگی یہی تک محدود ، قیامت ، حشرنشر ، سب افسانہ ہے ، اگر جوابدہی اور مکافات عمل کا مسئلہ غلط ہے ، اور مرنے کے بعد جی اٹھنا محال ہے تو شرافت اور نیکی کی ضرورت ہے ، ؟ جب ظالم اور مظلوم دونوں کے لئے ابدی فنا ہے ، تو پھر کوئی شخص ظلم سے کیوں باز آئے رحم مروت ، انصاف اور حسن سلوک کی کیا حاجت رہی ، اور انسان کیوں نہ انتہا درجہ کا خود غرض اور طماع بن جائے ؟ آیت کا یہی مقصد ہے ، کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ، ان کے دلوں میں انکار وکبر پیدا ہوجاتا ہے ، وہ خود غرض ہوجاتے ہیں ، کیونکہ ایسے بلند نصب العین کا انکار گویا برائیوں کا اقرار واعتراف ہے ۔ حل لغات : اساطیر : جمع اسطورہ ، کہانی ، قصہ ، اوزارھم : اوزار ، وزرکی جمع ہے ، بمعنے بارگراں وبمنعے گناہ ۔ النحل
23 النحل
24 النحل
25 النحل
26 چاہ کن را چاہ درپیش ! (ف ١) پہلے لوگوں کے حالات بیان فرمائے ہیں کہ انکار وتمرد کی عادتیں پرانی ہیں ، ابتداء سے بعض بدبخت ایسے موجود ہیں رہے ہیں جنہوں نے کفر وعناد سے حصہ وافر پایا ہے ۔ اور حق کے خلاف سازشیں کی ہیں شمع ہدایت کو گل کرنے کی سعی کی ہے ، گلشن حق وصداقت کی بربادی کے منصوبے باندھے ہیں ، مگر اللہ نے انہیں کے دام میں انہیں گرفتار کیا ہے ، جس طریق سے انہوں نے حق پرستوں کے خلاف عناد کا اظہار کیا ہے ، اسی طریق سے اللہ نے انکو بربادی کی راہیں دکھائی ہیں ۔ اس آیت میں تمثیل کے ذریعے اس حقیقت کو سمجھایا ہے کہ فرض کرو ، کہ ایک شخص نے ایک بڑا قلعہ طیار کیا ہے ، تاکہ اس کے ذریعے حق پرستوں کی مخالفت کرے ، ان کو شکست دے ، اللہ تعالیٰ کی تدبیر یہ ہے کہ وہی قلعہ ان لئے بربادی کا سامان بن جائے ، قلعہ کی چھت گر جائے ، دیواریں اپنی جگہ سے آڑہیں ۔ اس سورت میں یہی حصارحفاظت ان کے لئے مصیبت و عذاب کی شکل اختیار کرلے ، (آیت) ” فاتی اللہ بنیانھم “۔ ہلاکت سے تعبیر ہے ، ورنہ اللہ کے لئے آنا جانا کے الفاظ بےمعنی ہیں ۔ بعض مفسر ان کی رائے میں اس آیت میں ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ ہے اس میں اختلاف ہے کہ وہ کون ہے اس آیت میں جس کی بربادی کا ذکر ہے بعض کے نزدیک نمرود ہے جس نے ایک نہایت اونچا اور بلند محل طیار کیا تھا ، تاکہ اللہ سے جنگ کرے بعض کی رائے میں بخت نصر ہے ، بعض کے خیال میں کوئی قبطی فرمانروا ہے ، بہرحال آیت میں عموم ہے اور کسی خاص واقعہ کی تاویل کے لئے ضرورت نہیں ۔ النحل
27 النحل
28 (ف ٢) موت کے فرشتے کئی ہیں جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے ملک الموت حضرت عزرائیل کا مخصوص نام ہے جو موت کے عملہ کا اعلی افسر ہے ۔ دنیا میں جس قدر حادثے ہوتے ہیں ان کے اسباب دو قسم کے ہیں ، ایک وہ جو مادی ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جن کا تعلق فوق العادۃ قوتوں اور طاقتوں سے ہوتا ہے ، یہ دوسری قسم کے اسباب ملائکہ ہیں ، جو مادی اسباب پر اثر انداز ہوتے ہیں ، چنانچہ موت کے لئے کچھ اسباب ظاہری ہیں جنہیں امراض کہتے ہیں کچھ باطنی اسباب ہیں ، یہ فرشتے ہیں صوفیا کے نزدیک امراض ہی ملائکہ موت ہیں ۔ النحل
29 النحل
30 النحل
31 النحل
32 فرشتے روح کا استقبال کرتے ہیں ! (ف ١) جس طرح ولادت کے وقت بچے کا استقبال کرنے کے لئے عزیز واقرباء موجود ہوتے ہیں ، سہولتیں بہم پہنچانے کے لئے قابلہ اور نرسیں ہوتی ہیں ، اور بچہ اگر خوبصورت اور تندرست ہو تو مبارک سلامت کی آوازیں بلند ہوتی ہیں ، اور اگر بدصورت یا بیمار پیدا ہو ، تو سب کو انقباض ہوتا ہے اسی طرح جب انسان دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو دوسرے عالم میں فرشتے استقبال کے لئے موجود ہوتے ہیں ، اگر روح نیک اور صالح ہو ، تو فرشتے مرحبا کہتے ہوئے خوشی اور مسرت سے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں ، اور ملاء اعلی سے شادیانے بجتے ہیں ، اور اگر بد اور مکروہ ہو ، تو روحانی تعفن کی وجہ سے فرشتے بھی منقبض ہوتے ہیں ، آج تخاطب ارواح کے نظریہ نے اس چیز کو خوب واضح کردیا ہے کہ آخرت میں بھی روح کے خبر مقدم میں کوئی اشکال نہیں جدید اکتشافات روحانی ، قرآنی نظریات کی تائیدکر رہے ہیں ۔ حل لغات : تشآقون : مخالفت کرنا ، شق ، سے اشتقاق ہے ۔ مثوی : ٹھکانا ۔ النحل
33 (ف ١) آیت کے دو مقصد ہو سکتے ہیں یا تو یہ کہ مکہ والے فرشتوں کو آدمیوں کے روبرو نازل ہونے کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق کا معیار قرار دیتے تھے ، اور کہتے تھے ، کہ اگر آپ حق پر ہیں ۔ اور واقعی فرشتے آپ پر نازل ہوتے ہیں ، تو ہم بھی دیکھیں ، کہ کیونکر فرشتے نازل ہوتے ہیں ؟ قرآن کہتا ہے کہ یہ فرشتوں کے نزول کا انتظار کر رہے ہیں ، اور حق کو ماننے کے لئے تیار نہیں ، اور یا آیت کا مقصد ہے کہ یہ لوگ عذاب کے فرشتوں کا انتظار کر رہے ہیں ، اور کہتے ہیں ، کہ ہمارے گناہوں کی وجہ سے فرشتے نازل ہوں ، اور ہماری بستیوں کو الٹ دیں ، کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے ، کہ اگر تم حق کا انکار کرو گے ، اور تمہارے انکار وتمرد کا یہی عالم رہا تو یاد رکھو ، تمہاری ہلاکت قریب ہے ، اس اصول کی بنا پر وہ لوگ از راہ تمسخر عذاب طلب کرتے تھے ، اور کہتے تھے اگر ہم سچائی پر نہیں ہیں ، اور آپ اللہ کی جانب سے رسول ہیں ، تو پھر کیوں اللہ کا غضب نہیں بھڑکتا ، اور ہم کیوں فنا نہیں ہوتے ۔ حل لغات : امر ربک : اللہ کا حکم ، یعنی عذاب ۔ فاصابہم سیات ما عملوا : یعنی ان کے اعمال بدہی ان کے لئے اسباب عذاب بن گئے ، النحل
34 النحل
35 کیا ہم مجبور ہیں ؟ : (ف ١) مشرکین کو ایک شبہ یہ تھا کہ نبوت کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ جب کہ ہم سب معصیت پر مجبور ہیں ، اگر اللہ تعالیٰ چاہتے کہ ہم شرک کی آلودگیوں میں مبتلا نہ ہوں ، اور اپنی مرضی سے چیزوں کو حلال وحرام نہ ٹھہرائیں ، تو بھلا یہ کب ہو سکتا تھا کہ ہم شرک کا ارتکاب کرتے ، اللہ نہ چاہے اور ہم کریں ، یہ کیونکر ممکن ہے ، گویا مسئلہ جبر کو ان لوگوں نے بربنائے جہالت انکار کا سبب بنایا ۔ اس شبہ کو اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات میں ذکر فرمایا ہے سورۃ انعام میں ہے (آیت) ” لوشآء اللہ ما اشرکنا ولا ابآء نا “۔ یعنی اگر ہم مشرک ہیں تو معاذ اللہ یہ اللہ کا قصور ہے ، وہ ہمیں موحد پیدا کرتا ، اس نے کیوں ہمیں سمجھ بوجھ نہ دی ؟ کیوں توفیق نہ ملی ، کہ ہدایت کو قبول کریں ، اور ضلالت کو چھوڑ دیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا ہے ، کہ انبیاء کا کام تم تک آواز حق کو پہنچا دینا ہے ماننا یا نہ ماننا تمہارے اختیار میں ہے ، اللہ نے تمہیں مجبور پیدا نہیں کیا بلکہ بڑی حد تک مختار پیدا کیا ہے ، جبھی تو انبیاء اور رسول بھیجے ہیں ، تاکہ تم کو گمراہی کے گڑھے سے نکالیں ، اور ہدایت کے بلند بام پر لا بٹھائیں ، اللہ چاہتا تو یہی ہے کہ تم سب کے سب رشد وہدایت کی رسی کو مضبوط پکڑ لو ، اس نے تمہیں آزاد پیدا کیا ، اور اختیار دیا ہے کہ اس کی دعوت کو قبول کرو ، یانہ کرو ، البتہ بعض حالات میں انسان مجبور بھی ہوتا ہے ، مگر یہ صحیح نہیں کہ وہ سب باتوں میں مجبور ہوتا ہے ، اللہ کی گرفت اس حد تک ہے ، جہاں تک اختیار کا تعلق ہے ۔ پس یہ اعتراض کسی صورت سے درست نہیں ہوسکتا ۔ النحل
36 النحل
37 (ف ٢) اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ پیغمبران خدا انسانوں کی ہدایت کے لئے کس درجہ بےقرار ہوتے ہیں ، ان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ سب لوگ ہدایت کو قبول کرلیں ، اور اللہ کی آغوش رحمت میں آجائیں ، وہ دن رات شفقت انسانی کی وجہ سے بےچین رہتے ہیں ، انہیں گمراہی اور ضلالت کی وجہ سے روحی تکلیف ہوتی ہے ، اور ان کے دن اور ان کی راتیں کرب واضطراب میں گزرتی ہیں ، نوع انسانی کی ہمدردی کے لئے وہ اپنے سکھ اور چین کو برباد کرلیتے ہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب فطرتی تقسیم یہ ہے کہ ایک طبقہ طاغوت کا طالب رہے ، حق کو عمدا ترک کر دے ، راہ صواب سے ہٹ جائے تو پھر آپ کی ہمدردی بےسود ہے ، جو شخص گمراہی پر اصرار کرنے اور روحانیت کی صدائے حق کو نہ مانے تو آپ ہی خیال کیجئے ، کہ آپ کیونکر اس کو متاثر کرسکیں گے ، جو کان بند کرنے ، کیا وہ آواز سن سکتا ہے ؟ جو ناک بند کرلے ، کیا خوشبو اس کے دماغ کو معطر کرسکتی ہے ؟ اگر آپ کو جواب یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا ، تو پھر جو سچائی کی آواز نہ سننا چاہے ، آپ کیونکر اپنی آواز کو اس تک پہنچائیں گے وہ اسلامی برکات وفیوض سے محروم رہنا چاہتا ہے اس لئے توفیق ہدایت اسے نہیں ملے گی ، لہذا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہوتا ہے ، کہ آپ ایسے بدبختوں کے لئے اپنا جی تھوڑا نہ کریں ۔ ضمیر وقلب کی مظلومیت ناقابل برداشت ہے ! ۔ حل لغات : الطاغوت : شیطان ، کاہن ، بت ، مقتدائے گمراہاں ، سب معانی پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ طغیان سے مشتق ہے ، یعنی راہ حق وصواب سے تجاوز ۔ النحل
38 النحل
39 النحل
40 النحل
41 ضمیر وقلب کی مظلومیت ناقابل برداشت ہے : (ف ١) یہ آیت حضرت صہیب ‘ بلال ، عمار ، خباب ، عابس ، اور عمیر کے حق میں نازل ہوئی ، بات یہ تھی ، مکہ والوں نے اسلام قبول کرنے پر ان لوگوں کو بہت سخت سزائیں دیں ، بلال (رض) کی پیٹھ پر دہکتے ہوئے کوئلے رکھے ، حضرت عمار (رض) کی تکلیفوں کو دیکھ کر حضور نے فرمایا صبرا یا آل یاسر ۔ صہیب نے اپنی ساری جائداد دے دی جب جاکر شدائد سے رہائی حاصل کی ۔ جب ان لوگوں پر حد سے زیادہ سختیاں ہونے لگیں اور مسلمان مظلومیت کی زندگی بسر کرنے لگے ، اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ لوگ مکہ چھوڑ دیں ، اور اپنے لئے کوئی وطن اختیار کرلیں ، کیونکہ اسلام میں ضمیر کی مظلومیت ومجبوری ناقابل برداشت ہے ، مسلمان ہر طرح کی آزمائش کو جھیل سکتا ہے ، ہر تکلیف کو برداشت کرسکتا ہے ، مگر ضمیر وقلب کی مجبوریاں ناقابل احتمال ہیں یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی مسلمان اظہار حق سے باز آجائے ، آیت کا مقصد یہ ہے کہ وہ شخص جو اللہ کے لئے اپنی آسائشوں کو چھوڑے گا ، محض دین کے لئے وطن عزیز کو ترک کرے گا اور ہمیشہ کے لئے وطن سے دوری قبول کرے گا ، اللہ اس کے ایثار کو ضائع نہیں کرے گا ، اسے اجر دے گا ، اس کی دنیا سنوار دے گا ، اور آخرت میں اس کے لئے اجر عظیم مستزاد ہوگا ۔ یہ بات دیکھنے اور سمجھنے کی ہے ، کہ صحابہ (رض) عنہم اجمعین نے جب مکہ چھوڑ دیا ، اور مدینہ کو وطن قرار دیا ، اس وقت اللہ تعالیٰ نے انہیں کس درجہ عظیم الشان زندگی عنایت کی ، وہ لوگ جو گھروں کو چھوڑ گئے تھے ، ملکوں اور قوموں کے وارث ہوئے ، اور پھر مکہ میں جو داخل ہوئے ہیں ، تو فاتحانہ انداز میں حق یہ ہے کہ جو لوگ رب کریم پر بھروسہ کرتے ہیں اللہ انہیں ضرور اپنی گوناگون رحمتوں سے مشرف فرماتا ہے ۔ النحل
42 النحل
43 (ف ١) مکے والوں کا خیال تھا کہ انبیاء کو فوق البشر ہونا چاہئے انسان اس قابل نہیں کہ نبوت کے خلعت کو زیب تن کرسکیں ، اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں بار بار اس اعتراض کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے کہ انبیاء ہمیشہ بشر اور انسان ہوتے ہیں چنانچہ اس آیت کا مقصد بھی یہی ہے ، کہ تاریخ رشد وہدایت میں پیغمبر انسانی لباس میں آتے ہیں ، اہل کتاب سے پوچھو ، دلائل وبراہین کی روشنی میں غور کرو ، تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ اس حقیقت میں کس قدر صداقت ہے ، (آیت) ” لتبین للناس “۔ سے معلوم ہوا کہ تفصیلات کو دوسروں تک پہنچانا ضروری ہے ، اور تفصیلات کا پہنچانا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے ہے ، قرآن احکام الہی کو بیان کرتا ہے اور اسوہ رسول احکام کی تفصیلات کو ۔ حل لغات : رجالا : یعنی انسان : اھل الذکر ، اہل کتاب ، اصحاب فہم وبصیرت ، والزبر : دلائل ، کتابیں ۔ النحل
44 النحل
45 النحل
46 النحل
47 النحل
48 (ف ١) اس آیت میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے ، کہ بجز انسان کے کائنات کی ہر چیز فطرت کے قوانین کی تابع ہے ، آفتاب سے لے کر ذرہ تک اور ملائکہ سے ادنی قسم کے حیوانات تک سب اطاعت کا دم بھرتے ہیں یعنی قدرت کی جانب سے جو فرائض ان پر عائد کئے گئے ہیں ۔ وہ ان کو پورا کرتے ہیں ، مگر حضرت انسان ہے کہ اللہ کی نافرمانی میں سرگرم ہے ، پہاڑ اپنی جگہ پر قائم ہیں ، چاند ، سورج ، روزانہ خدا کے حکم کے تحت طلوع وغروب کے فرائض انجام دیتے ہیں ، کائنات کا حقیر سے حقیر ذرہ اپنے وظائف حیات ادا کر رہا ہے ، یہی قرآن کی اصطلاح میں سجدہ ہے ، یہ انسانی کی بدقسمتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس نہیں کرتا ، اور مذہب کی جانب سے جو فرائض اس پر عائد کئے گئے ، ان کو پورا کرنے میں کوتاہی کا اظہار کرنا ہے ۔ النحل
49 النحل
50 النحل
51 ثنویت کا عقیدہ غلط ہے ! (ف ٢) اسلام توحید کا دین ہے ، وہ کہتا ہے جب ساری کائنات اللہ کی مطیع ہے ، تو پھر کیونکر دو خداؤں کا تخیل ممکن ہوسکتا ہے ، ثنویت کا عقیدہ اول اول ایران سے نکلا ہے ، ان کے نزدیک کائنات میں دو قسم کے عناصر ہیں ، شروخیر ، شر کا خدا اور ہے ، خیر کا اور ، قرآن اس مجوسیت کا منکر ہے ، وہ کہتا ہے صرف ایک خدا کا وجود عقلا ممکن ہے ، کیونکہ کائنات میں ایک قانون ایک ارادہ اور ایک مشیت کار فرما ہے ، کائنات کے مظاہر میں اختلاف وثنویت نہیں ۔ لہذا دو خداؤں کا وجود عقل وبصیرت کی رو سے صحیح نہیں ۔ دنیا میں اگر دو خدا ہوں ، یا زیادہ تو پھر لازم آئے گا کہ دو باہم مختلف اراء سے دنیا میں کام کر رہے ہیں ، اور اس صورت میں دنیا کا نظام درہم برہم ہوجائے گا ، کائنات کے نظام میں چونکہ وحدت اور یکسائی ہے ، ہر چیز کے لئے ایک وقت اور کیفیت مقرر ہے جس میں خلاف نہیں ہوتا ، اس لئے خدا بھی ایک ہے ، نیز صحیح وجدان دو خداؤں کے تخیل کو قطعی طور پر قبول نہیں کرسکتا ، وجدان کہتا ہے ، قلب کی گہرائیوں میں ایک ہی محبوب جلوہ گر ہے ۔ النحل
52 (ف ١) یعنی اطاعت وانقیاد کا جذبہ اللہ کے لئے وقف ہے ، اطاعت شعاری اور فرمانبرداری صرف رب السموت کے لئے مختص ہے مسلمان اصلا کسی دوسرے کا محتاج نہیں ہوتا ۔ حل لغات : یتغیؤا : اصل میں فئی کے معنی رجوع کے ہوتے ہیں ، سایہ چونکہ اپنی جگہ چھوڑ دیتا ہے اس لئے اسے بھی فئی کہتے ہیں داخر : ذلیل ، اثنین : کا اعادہ مزید تنفر پیدا کرنے کے لئے ہے ۔ واصبا : وصب کے معنی لازم دائم کے ہیں بیمار کو بھی واصب کہتے ہیں ، کیونکہ بیماری اسے چمٹ جاتی ہے اور اس کے لئے لازم ہوجاتی ہے ۔ النحل
53 النحل
54 النحل
55 النحل
56 النحل
57 خدا کی صفات میں تنزیہہ لازم ہے ۔ (ف ١) حجاز میں مختلف مذاہب رائج تھے ، کچھ دہریئے تھے ، جو خدا کے قائل ہی نہ تھے ، کچھ مشرک تھے ، مشرکین کی بھی کئی قسمیں تھیں ، کچھ تو بتوں کو پوجتے ، کچھ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے ، ان آیات میں دوسرے گروہ کا ذکر ہے ۔ قبیلہ خزاعہ وکنانہ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے تھے ۔ قرآن حکیم کہتا ہے ، یہ لوگ بھی عجیب ہیں جس چیز کو اپنے لئے پسند نہیں کرتے ، اسے خدا کی جانب منسوب کرتے ہیں ان کی اپنی کیفیت یہ ہے کہ بچیوں کے انتساب سے گھبراتے ہیں مگر ان سے کوئی کہہ دے کہ تمہارے ہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے تو تیور بدل جاتے ہیں چہر سیاہ پڑجاتا ہے ، مارے شرم وندامت کے لوگوں سے چھپا پھرتا ہے ، اور یہ سوچتا ہے ، کہ کیونکر اس کو زمین میں گاڑ دے ، اور اس ذلت سے رہائی حاصل کرلے ۔ مقصد یہ نہیں کہ قرآن عربوں کی طرح لڑکیوں کو ذلیل خیال کرتا ہے اور اس حقارت آمیز سلوک میں ان کا ہم نواہے ، بلکہ غرض یہ ہے کہ انہیں حقیقت حال سے آگاہ کرے انہیں یہ بتائے کہ جس صورت حال کو تم اپنے لئے پسند نہیں کرتے وہ اللہ کے لئے کیونکہ بہتر صورت ہو سکتی ہے ، کیونکہ اللہ کو اپنے سے اعلی اور برتر قرار دیا جاتا ہے اس لئے تنزیہ لازم ہے ۔ النحل
58 النحل
59 النحل
60 (ف ٢) یعنی اللہ تو بلند ترین نصب العین کا نام ہے ان کے معنی تو یہ ہیں کہ اس کے لئے اعلی ترین صفات کو پیش کیا جائے ، مگر یہ بدبخت ہیں کہ اس کے لئے بری بری مثالیں بیان کرتے ہیں ، کوئی اسے قسم سمجھتا ہے ، کوئی اس کے لئے بیٹے ثابت کرتا ہے ، کوئی جورو کے انتساب سے نہیں شرماتا کوئی اس کے بیٹیاں بتلاتا ہے اس کو اس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ اللہ نام ہے بہترین اور مقدس ترین اوصاف وشمائل کے حامل کا اس کا نام بلند ہے ، اس کی صفات بلند ہیں ، اور اس کی خدائی میں اس کا کوئی شریک و سہیم نہیں ۔ النحل
61 (ف ١) غرض یہ ہے کہ انسان کے گناہ ناقابل شمار ہیں یہ اللہ کا کرم ہے کہ اسے ڈھیل دیتا ہے تاکہ یہ اپنے کئے پرپشیمان اور حق کی جانب رجوع ہو ، اگر وہ اغماض اور چشم پوشی سے کام نہ لے تو ہم یہاں دنیا میں ایک لمحہ کے لئے زندہ و برقرار نہ رہ سکیں ۔ النحل
62 النحل
63 (ف ٢) غرض یہ ہے انکار وتمرد کی عادت بہت پرانی ہے ان کفار مکہ سے قبل بھی لوگوں نے دعوت حق کو جھٹلایا ہے ، شیطان نے اس سے پہلے بھی اولاد آدم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے ، اس لیے آج اگر یہ لوگ اپنے آباؤ واجداد کے نقش قدم پر جارہے ہیں تو تعجب کی کونسی بات ہے ۔ ہو سکتا ہے (آیت) ” ولیھم الیوم “۔ سے مراد قیامت کا دن ہو ، یعنی دنیا میں جب ان لوگوں نے شیطان کے ورغلانے پر گناہوں کا ارتکاب کیا ہے تو آج بھی انہیں شیطان ہی کی رفاقت حاصل ہوگی ۔ حل لغات : کظیم : یعنی جس کا دل غصے اور غم سے معمور ہے ۔ یدسہ : گاڑ دے ، دھنسا دے ۔ المثل الاعلی : بلند مثال ۔ تاللہ : اصل میں واللہ تھا واو قسمیہ کو تا سے بدل دیا گیا ہے ۔ ولیھم : دوست ، رفیق ، ساتھی ، یعنی عذاب وتکلیف میں ان کا شریک ہے ۔ النحل
64 رسول فیصلہ کن تفصیلات بیان کرتا ہے ! : (ف ١) ان آیات میں یہ بیان کیا ہے کہ پیغمبر خدا کا درجہ ومنصب کیا ہے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل عقائد کے باب میں کثیر اختلاف تھا ، یہودی اور عیسائی باہم دست وگربیان تھے ، مجوسی اور مشرکین مکہ باہم دشمن تھے اسی طرح دہریوں میں اور دوسرے مذہب والوں میں اختلاف رائے تھا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منصب یہ ہے کہ ان کے درمیان حکم ہوں ، اور تمام اختلافات کو مٹا دیں ، فیصلہ کن تفصیلات سے سب کو آگاہ کردیں ، تاکہ جدال ومناظرہ کی گنجائش باقی نہ رہے ۔ (آیت) ” لتبین لہم “۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ تفصیلات کا فرض عائد کیا گیا ہے ، جو لوگ اسوہ رسول کی حجت مسند نہیں سمجھتے ، انہیں اس آیت پرغور کرنا چاہئے ۔ (آیت) ” لتبین “ ۔ کے معنی کسی بات کو وضاحت کے ساتھ پیش کرتا ہے ، گویا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کے احکام کو تفصیل وتشریح کے رنگ میں پیش کرتے ہیں اور اپنے اسوہ وعمل سے قرآن کے معضلات ومشکلات تو سلجھاتے ہیں ۔ النحل
65 النحل
66 النحل
67 (ف ٢) یعنی اللہ تعالیٰ قطب ماہیت پر قادر ہیں ، وہ چاہیں تو کفر وعناد کو محیت وعقیدتمندی سے بدل دیں ، انکار وکفر کو دم میں ایمان یقین کا لباس پہنا دیں ، وہ بنجر اور شور زمینوں کو زندہ کردیتا ہے خشک کھیت اور باغات بارش کی وجہ سے لہلہا اٹھتے ہیں ، گوشت اور خون میں سے سفید دودھ جیسی لطیف شے پیدا کردیتا ہے ، کھجور اور انگور میں طرح طرح کے مزے اور غذائیت رکھی ہیں ، اسی طرح یہ ممکن ہے کہ وہ دلوں کے خبث کو ایمان کی لطافت سے تبدیل کر دے ، ” سکرا “ کے معنی عام مترجمین نے شراب کے کئے ہیں اور کہا ہے کہ بعد کی آیات میں اسے منسوخ قرار دیا ہے ، مگر یہاں مشکل یہ ہے کہ ” سکرا “ کے لفظ کو بطور اظہار نعمت کے ذکر کیا ہے اور جو چیز نعمت ہے وہ کبھی حرام نہیں ہو سکتی ، قرآن کی شان کے خلاف ہے کہ کسی حرام ہونے والی چیز کی تعریف کرے ، بائبل میں یہ نقص ہے کہ اس میں بےشمار الفاظ تشبیہات و متعارات کے رنگ میں ایسے موجود ہیں جو مے نوشی پر آمادہ کرتے ہیں اور جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شراب کوئی اچھی چیز ہے یہی وجہ ہے کہ اہل کتاب نے کبھی شراب سے احتراز نہیں کیا ۔ مگر قرآن میں ایسا کوئی لفظ موجود نہیں جس میں شراب نوشی کو اچھا شغل قرار دیا ہو ، قرآنا کا انداز بیان بالکل اچھوتا اور نہایت لطیف وپاکیزہ ہے ۔ اس لئے سکرا کے معنی شراب یا مسکر شے کے نہیں ہو سکتے ، ابو عبیدہ (رض) کہتے ہیں اس کے معنی مطلقا طعام کے ہیں جو صحیح ہیں ، علامہ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اس معنی کی تائید کی ہے اور تائید میں ایک شعر پیش کیا ہے جو کہتا ہے : جعلت اعراض الکرام سکرا : یعنی تونے لوگوں کی دعوتوں کو طعام سمجھ کر کھا لینے کا تہیہ کرلیا ہے ۔ حل لغات : سائغا : خوشگوار ۔ النحل
68 شہد کی مکھی اور یورپ ! (ف ١) عجائب مخلوقات میں سے شہد کی مکھی بھی ہے جو پتے پتے پر بیٹھتی ہے اور پھول پھول سے رس حاصل کرتی ہے اور بڑی محنت سے شہد مہیا کرتی ہے ، اللہ نے اسے شہد اکٹھا کرنے کا عجب سلیقہ عطا کیا ہے ، تم اگر اس کی فراست اور کوشش کو دیکھو تو حیران رہ جاؤ کہ کس طریق سے وہ شجر سے استفادہ کرتی ہے اس کا چھتہ اور اس کے مسدس خانے حیرت انگیز صنعت کاری ہے ۔ قرآن حکیم نے سب سے پہلے شہد کی مکھی کے عجائبات کی جانب توجہ دلائی ہے مسلمان اس سے غافل رہے ، حالانکہ قرآن مجید نے فرمایا ہے کہ اس کے مطالعہ میں غور وفکر کا وافر سامان موجود ہے مگر یورپ نے شہد کی مکھی پر سینکڑوں کتابیں لکھی ہیں عجیب عجیب تجربے کئے ہیں اور لاکھوں روپے کا شہد حاصل کر کے یورپ ، ہندوستان اور دنیا کے دوسرے حصوں میں بھیج رہا ہے ، بیسیوں دوائیں ہیں ، جن میں شہد استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن کہتا ہے ، اس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے یہ بہترین غذا اور بہترین دوا ہے ، مگر اس کی اہمیت سے ہمارے ہندوستانی مسلمان کہاں تک آگاہ ہیں ؟ (آیت) ” اوحی ربک الی النحل “۔ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے چھوٹے جانوروں کو بھی عقل عنایت کی ہے جسے نوعی الہام کہتے ہیں ، آج جدید تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کا یہ نظریہ بالکل درست ہے عقل وفراست کی نعمت سے صرف انسان ہی بہرہ ور نہیں ، بلکہ دوسری مخلوقات حیوانات وغیرہ بھی بہرہ ور ہیں ، انسانی عقل اور حیوانی عقل میں فرق یہ ہے کہ انسان میں تفصیلی عقل ہے اور حیوانات میں نوعی اور جنسی جو ضروریات طبعی تک محدود ہوتی ہے ۔ النحل
69 النحل
70 (ف ٢) اللہ کے بےشمار مظاہر قدرت میں سے آیا ، مسئلہ کہلوت اور شیخوخت انسانی کا بھی ہے کہ کس طرح آیک انسان جوانی سے پیر فرقرت بن جاتا ہے اور چہرہ پر بڑھاپے کی جھریاں کس طرح نمودار ہوجاتی ہیں ؟ اگر زندگی محض مادی اسباب وذرائع کی رہین منت ہو تو پھر شباب کی قوتوں کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے ، مگر چونکہ یہ اللہ کا مقررہ قانون ہے اس لئے آج بھی باوجود سائنس کی حیرت انگیز ترقیوں اور کمال کے انسان کہولت وپیری کو دور نہیں کرسکا ۔ علم التشریح نے آج بےانتہاء ترقی کرلی ہے اور نظریہ تجدید شباب بھی کامیاب ہورہا ہے ، مگر اس کا اثر محض بڑھاپے کے آثار سے ہے ، نفس کہولت کو دور نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ حل لغات : النحل : شہد کی مکھی ، تذکیر وتانیث میں برابر استعمال ہوتا ہے ، لغت حجاز میں یہ لفظ مونث ہے ، اسی لئے قرآن حکیم نے اس کی رعایت رکھی ہے ۔ حفدۃ : جمع حافد ، خدمت گزار ‘ رجل محفود : یعنی مرد مخدوم ، پوتے چونکہ زیادہ مخلصانہ خدمت کرتے ہیں ، اس لئے ان پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ، چنانچہ کسی شاعر نے کہا ہے : ع حفد الولائد بینھن : النحل
71 النحل
72 النحل
73 (ف ١) مختلف انعام ذکر کرنے کے بعد نعمت توحید کی جانب توجہ دلائی ہے ، کہ یہ مشرک اللہ کی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں ، مگر شکریہ ادا نہیں کرتے ، بلکہ ان نعمتوں کا انتساب اور الٹا دوسروں کی طرف کرتے ہیں ، اور کہتے ہیں فلان ولی نے ہمارے حال پر کرم کیا ہے ، اور ہمیں رزق کی نعمت سے نوازا ہے فلان فقیر نے ہماری مشکلوں کو آسان کردیا ہے ، فلان قطب اور شیخ نے ہماری سن لی ہے ، اور بیماریاں دور کردی ہیں ، یہ نہیں جانتے کہ یہ اللہ کی ناشکری ہے وہ سارے پیر فقیر خود اس کے در کے بھکاری ہیں ، انہیں جو کچھ ملتا ہے ، اس کے فیض سے ملتا ہے ، وہ تمہیں کیا دیں گے ، وہ بذات خود اسی کے محتاج ہیں ، نادار ، نادار کی کیا مدد کرسکتا ہے ، اس سے مانگو ، جو سب کا داتا ہے جو سب کو دیتا ہے ، جس کے خزانے ہر وقت بھر پور رہتے ہیں ، کہتے ہیں خدا تک پہنچنے کے لئے وسیلے کی ضرورت ہے ، درست ہے مگر کیا تمہاری بیچارگی ، حاجت مندی یہ خود وسیلہ نہیں ؟ تمہاری بندگی اور ھق عبودیت یہ ذریعہ نہیں ؟ توحید اور ایک اللہ پر بھروسہ کیا یہ کافی نہیں ؟ (آیت) ” الیس اللہ بکاف عبدہ “۔ کیا تمہارے اعمال تمہاری سفارش نہ کریں گے ؟ اور کچھ نہیں تو تمہاری گناہگاری اور اللہ کی کریمی بجائے خود بخشش اور قبولیت کا ایک زبردست بہانہ ہو سکتا ہے ، فرمایا اللہ کا دربارامراء اور بڑے بڑے لوگوں ہی کے لئے نہیں کہ وہاں منصب داروں کی سفارش کی حاجت ہو ، اس کا دربار غریبوں اور امیروں دونوں کے لئے یکساں کھلا ہے اس لئے دنیا کی مثالیں اس پر منطبق نہ کرو ۔ النحل
74 النحل
75 (ف ٢) مومن اور مشرک کی مثال بیان کی ہے مومن دل کا فیاض ہوتا ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے اور مشرک ممسک اور بخیل ہوتا ہے ، اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا بلکہ اپنی خواہشات وضروریات پر خرچ کرتا ہے ۔ یا مقصد یہ ہے کہ جس طرح مملوک کے اختیار میں کچھ نہیں مجبور اور مختار دونوں برابر نہیں ہوسکتے ، اسی طرح اللہ کے سوا سب اس کی مخلوق ہے اس لئے خالق اور مخلوقات میں کیونکر مساوات ہو سکتی ہے ؟ النحل
76 (ف ١) مبلغ خیر اور ابکم شریر کی تمثیل ہے ، کہ نیک آدمی ہمیشہ نیکی کی تلقین کرتا ہے دنیا میں بھلائی پھیلاتا ہے اور وہ جو شریر ہے گونگا ہے برائیوں سے روکتا نہیں بلکہ گونگے شیطان کی ماند لڑائیوں کا دیکھتا ہے اور خاموش ہوتا ہے ۔ حل لغات : کل : بوجھہ دوجہ ملال وتکدر الا کلمح البصر : آنکھ کا جھپکنا مراد عجلت سے ہے ۔ النحل
77 النحل
78 انسان کی عقلی تربیت : (ف ١) انسان اگر اپنے اندر نظر دوڑائے ، تو معلوم ہو کہ خود اس میں کس قدر معارف وعلوم کا خزانہ پہناں ہے ۔ اس آیت میں داخلی تفکیر کی جانب توجہ دلائی ہے غور کرو اللہ نے لطف بےپایاں سے تمہاری عقلی وذہنی تربیت کی ہے جب تم پیدا ہوئے تھے ، اس وقت تم نہیں جانتے تھے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے ، آہستہ آہستہ تمہاری عقل بڑھی اور تم اپنے حواس سے کام لینے لگے ، ایک وقت آیا کہ وہ عقل درجہ تکمیل تک پہنچ گئی ، اور تم ہر معاملہ کے حسن وقبح کو پہچاننے لگے بتاؤ جس خدا نے ابتداء سے تمہاری عمل ضروریات کو پورا کیا ہے وہ دنیا تمہاری دینی ومذہبی ضروریات کو پورا نہ کرے گا ، کیونکہ مذہب بھی درحقیقت ایک قسم کی ذہنی تسکین کا نام ہے ہر شخص قلبی طور پر کچھ عقیدے اپنی طمانیت کے لئے مقرر کرلیتا ہے ، تاکہ دن کو سکون وراحت حاصل ہو ، اس لئے ضرور ہے کہ وہ خدا جس نے ابتداء سے ہماری ذہنی وجسمانی تربیت کی ہے وہ دینی ضروریات کو بھی پورا کرے ۔ النحل
79 (ف ٢) پرندے فضا میں اڑ رہے ہیں ، یہ پرواز اللہ کے ایک مقرر قانون کے ماتحت ہے ۔ (آیت) ” مایمسکھن الا اللہ “۔ مگر وہ لوگ جو دانا ہیں ، اس قانون کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے قانون پر غور کرنے کے لئے مسلمان کو ترغیب دی تھی ، مگر کافر اس کی جانب متوجہ ہورہے ہیں ، وہ پرندوں کی طرح ہوؤں اور فضاؤں میں اڑ رہے ہیں ، ان کے پاس بےشمار ہوئی جہاز ہیں ، طیارے ہیں جن کی وجہ سے آج وہ ربع سکون پر حکومت کر رہے ہیں ۔ کیا مسلمان کبھی غور کرے گا کہ (آیت) ” ان فی ذلک لایت “۔ میں کس قدر غور طلب حقائق ہیں ؟ قرآن نے ہر نکتے کی جانب ہماری توجہ کو مبذول کیا ہے مگر افسوس کہ ہم ہر راہ ارتقاء سے دور بیٹھے ہیں ۔ حل لغات : سکنا : مستقل اور ناقابل انتقال مکان ، ظعنکم : ظعن کے معنے کوچ کرنے اور سیر کرنے کے ہیں ، اور ظاعن مسافر کو کہتے ہیں ۔ النحل
80 النحل
81 (ف ١) رہائش کے متعلق انعامات گنائے ہیں کہ کیونکر تمہارے لئے اللہ نے سہولتیں مہیا کی ہیں ، تمہیں مکانات دیئے ہیں ، جو آرام وراحت کا باعث ہیں یہ مسکن ہیں تمہارے لئے خیموں اور قناتوں کا انتظام کیا ہے ، کہ جہاں چاہو ، گھر بنا لو ، اور جو بہت غریب ہیں ان کے لئے دامن کوہ میں سایہ کا انتظام کیا ہے ، وہ گھنے درختوں کے تلے آرام پاتے ہیں ، تمہیں ملبوسات عطا کئے ہیں جو سردی اور گرمی کے لئے جدا جدا اور گوناگون ہیں کچھ وہ ہیں جو جنگ میں کام آتے ہیں غرض یہ ہے کہ تم اللہ کی ان تمام نعمتوں کا استعمال کرو اور شکریہ ادا کرو ۔ النحل
82 النحل
83 (ف ٢) یعنی وہ لوگ جو اللہ کی نعمتوں کو پہچانتے تو ہیں مگر اقرار نہیں کرتے ، اور عملا اس بات کا ثبوت نہیں دیتے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی نعمتوں سے مشرف کر رکھا ہے ۔ قیامت کے دن یہ لوگ دربار خداوندی میں لاحاضر کئے جائیں گے ، پیغمبر اور اللہ کے فرستادے ان کے خلاف شہادتیں دیں گے ، اور کہیں گے کہ تم وہ ہو ، جنہوں نے اللہ کی بہت بڑی نعمت کو ٹھکرا دیا یعنی تمہارے پاس اللہ کا رسول آیا تم نے انکار کیا ، تمہارے ہاں اللہ کا ہادی اور مصلح آیا تونے منہ پھیر لیا حالانکہ وہ تمہارے بھلے اور فائدے کے لئے آیا تمہیں جہل وتاریکی کی سمندروں سے نکالنے کے لئے آیا تم کو علم ومعرفت کا سبق دینے کیلئے آیا ، اور تمہارے لئے برکات وفیوض کا خزانہ لایا ، لیکن تم نے صدائے حق کو نہیں سنا ، اس لئے آج قیامت کے دن تمہاری نہیں جائے گی ، تمہاری معذرت قبول نہیں کی جائے گی اور تمہیں کچھ کہنے سننے کی بھی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ حل لغات : سرابیل : سربال ، کی جمع ہے معنی پیراہن ، پاجامہ ، قمیص ، یا کرتہ ، شھیدا ، گواہ ، شاہد ۔ النحل
84 النحل
85 النحل
86 (ف ١) قیامت کے دن جب وہ اپنے معبودوں کو دیکھیں گے ، تو ان سے کہیں گے کہ اللہ میاں یہی وہ ایک میں ، جن کی ہم نے پرستش کی تھی اور اس وقت اللہ تعالیٰ سے مصالحانہ طریق سے گفتگو کریں گے اس وقت انہیں معلوم ہوگا کہ خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانا جرم ہے اور گناہ عظیم ہے ، اور یقینا توحید ہی صواب وحق کی راہ ہے ۔ حل لغات : السلم : صلح وآشتی ۔ النحل
87 النحل
88 النحل
89 آخری شہادت : (ف ١) جب تمام پیغمبر شہادتیں دے چکیں گے تب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں گے ، اور یہ شہادت دیں گے کہ ان تمام انبیاء نے اپنے فرائض منصبی کو باحسن وجوہ پورا کیا ہے ۔ تمام شہادتوں کے بعد آپ کی شہادت ہونے کے صاف معنی یہ ہیں کہ آپ پر نبوت کا اختتام ہوچکا ہے ، اور اب کسی دوسرے نبی کے لئے توقع وامید نہیں ، کیونکہ آپ سب کے آخر میں شہادت دیں گے آپ سارے نبیوں کے نبی اور کل پیغمبروں کے پیغمبر ہیں ، آپ ہی عنایات الہیہ کے آخری مرکز التفات ہیں ، آپ کے بعد نبوت کے دروازے بند ہیں ، کیونکہ قرآن کامل ہے ، اس میں ضروریات دینی کی سب چیزیں مذکور ہیں ، اب تشریع وتہذیب کے لئے مزید انتظار کی حاجت نہیں ۔ (آیت) ” تبیانا لکل شیئ“۔ یعنی ضروریات دینی کی تمام اصولی چیزیں قرآن میں مذکور ہیں ۔ یہ ضروری نہیں کہ سب کچھ دنیا جہان کی تفصیلات اس میں بتائی گئی ہیں ، کیونکہ یہ کتاب ہدے رشد وہدایت کے لئے صحیفہ ہے اس میں ہدایت انسانی کا پورا پورا ذخیرہ موجود ہے ، قرآن میں لفظ کل کا استعمال عربی انداز کے مطابق ہے ، اس لئے استغراق مقصد نہیں ، بلکہ عموم مقصود ہے ۔ النحل
90 روح اخلاق : (ف ٢) اس آیت میں اسلام کی اساس تعلیمات کا ذکر ہے یعنی اللہ کے احکام کے خلاصہ ذکر کردیا ہے ، یہ حصہ مکارم اخلاق کا ہے ، بلکہ اسے اگر روح اخلاقی سے تعبیر کیا جائے تو بجا ہے ۔ عدل کے معانی میں اختلاف ہے ، حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں ، اس سے مقصود توحید ہے ، بعض کہتے ہیں دین متوسط یعنی اسلام ہے ، بعض کی رائے میں معاملات ہیں ، مساوات کا حکم ہے ، مگر لفظ عام ہے ، یہ تمام اصناف عدل پریکساں بولا جاتا ہے ، توحید اس لئے عدل ہے کہ یہی اعتدال وتوازن کی راہ ہے ، بت پرستی اپنی تمام جزئیات کے ساتھ مذموم ہے ، اور جہالت میں غلو مغالات ہے دین متوسط اس لئے ہی کہ اس سے قبل کے تمام ادیان میں افراط وتفریط ہے ، یہودیت میں کھراپن اور ظاہر یت زیادہ ہے ، تشدود تصنع کی آمیزش ہے عبادت میں شریعت سے بےنیازی ہے ، صرف اخلاقی نصائح کا ذکر ہے ، کوئی قانون اور قاعدہ نہیں ، مجوسیت نرا الحاد ہے ، آرین مذاہب میں تعین نہیں ، وہاں ہر بات موجود ہے خرافات وادہام کا حصہ بہت زیادہ ہے ، وہ مذہب جس میں ظاہریت بھی ہو اور روحانیت بھی اجمال اور شریعت کی تفصیل بھی ، معارف الہی کا ذکر بھی ہو اور فلسفہ وحکمت بھی ، تو وہ صرف اسلام ہے ، جو اعتدال وتوازن میں سمویا ہوا ہے ، کوئی بات زائد نہیں ، ہر حکم فطرت کے ترازو میں تلا ہوا ، اور قدرت کے پیمانہ میں نپا ہوا ہے ۔ عدل کے معنے معاملات میں مساوات کے عام طور پر ہیں عرض یہ ہے کہ مسلمان پیکر انصاف ہو ، معدلت شعار ہو ، احسان مرتبہ اخلاص کا دوسرا نام ہے ، معاملات میں احسان کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم اپنے فرائض منصبی سے زیادہ کچھ کریں ، اس کے بعد اللہ کا حکم یہ بھی ہے کہ اقرباء کی خدمت کی جائے ، ان سے مروت ومراعات کا سلوک کیا جائے ان کو ہر طرح پر ترجیح دی جائے ، برائیوں اور فواحش سے باز رہنے کی بھی تلقین ہے ” فحشآء “ پس ہر وہ برائی مراد ہے جو نمایاں اور ظاہر ہے ہو ، منکر کے معنے اس عیب کے ہیں جسے قلب وضمیر برا سمجھے غرض یہ ہے کہ مسلمان اخلاق کا نہایت بہتر نمونہ ہو ۔ النحل
91 النحل
92 (ف ١) ان آیات میں وفاء عہد کی تلقین کی ہے اور بتایا ہے کہ تمہیں عہد ومعاہدہ کے معاملہ میں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرنا چاہئے ، ایسا نہ ہو کہ مضبوط عہد کرنے کے بعد محض اس لئے کہ تم طاقتور حلیف کا ساتھ دو ، عہد توڑ دو ، کیونکہ تمہاری مثال پھر اس دیوانی کی سی ہوگی ، جو سوت کات کر تاگا تاگا کر دے ۔ قرآن کی اصطلاح میں عہد وہ التزام ہے جو شرع ، اخلاق یا مجلس کی جانب سے تمہارے اوپر عائد ہوتا ہو ، یا جیسے تم خود اپنے اوپر لازم بنا لو ۔ حل لغات : انکاثا : (ٹکرے ٹکڑے) جمع نکث بمعنی توڑنا اور کاٹنا دخلا : عذر کرنا ، عقل و قرائن کا تباہ ہونا ۔ النحل
93 النحل
94 النحل
95 مسلمان خادم دین ہوتا ہے : (ف ١) یعنی اسلام کو اپنی اغراض نفسانی کے لئے دین فروشی کسی طرح مناسب اور مؤدن نہیں کیونکہ دنیا کی تمام نعمتیں عارضی اور فانی ہیں ، اور اللہ کے پاس جو کچھ ہے وہ باقی اور دائم ہے ، اس لئے عقل مند وہ ہے جو دائم اور باقی رہنے والی چیز کا سودا عارضی اور فانی چیز سے نہ کرے ۔ غرض یہ ہے کہ مسلمان دینی مفاد کو دنیوی مفاد پر ترجیح دیتا ہے ، دنیا میں اس کا مطح نظر ہوتا ہے کہ میرے ہر اقدام سے دین کی خدمت ہو ، یہ یاد رہے کہ اس طرح دیندار کسی طرح گھاٹے اور ٹوٹے میں نہیں رہتے ، بلکہ ان کو دنیا ودین دونوں کی نعمتیں حاصل ہوجاتی ہیں ، مسلمان کا زاویہ نگاہ بلند اور وسعی ہوتا ہے ۔ وہ دنیا طلب تو ضرور کرتا ہے ، مگر دینی خواہشوں کی تکمیل کی حد تک ، دراصل وہ صرف دیندار ہوتا ہے ، اور یہ دین کی جامعیت ہے کہ وہ دنیا کی کسی نعمت سے بھی محروم نہیں رہتا دیندار اور دنیا دار حرص کے لحاظ سے بڑھا ہوتا ہے وہ خواہشات نفس کا تابع ہوتا ہے ، اور دیندار انسان محض اللہ کا فرمانبردار ہوتا ہے ، اور خواہشات نفس پر پورا پورا قابو رکھتا ہے ۔ حل لغات : بعھد اللہ : یعنی دینی التزام : النحل
96 النحل
97 (ف ١) اسلام نے حصول مراتب میں مرد اور عورت کی کوئی تخصیص نہیں کی اسلام کی نگاہ میں مرد و عورت مساوی طور پر اللہ کی چوکھٹ پر جھک سکتے ہیں اعمال صالحہ کے میدان میں دونوں یکساں دوڑ سکتے ہیں نئی اور پاک زندگی کے حصول میں دونوں برابر کوشش کرسکتے ہیں ۔ اس لئے قرآن کہتا ہے کہ مرد و عورت میں جو کوئی بھی بشرط ایمان نیک عمل کرے گا وہ نہایت پاکیزہ زندگی بسر کرے گا ۔ النحل
98 (ف ٢) قرآن اللہ کی کتاب ہے اس کے نزدیک نقطہ نگاہ کی تقدیس ضروری ہے ، ذہن وخیال کی پاکیزگی لازم ہے ، تاکہ اس مقدس کلام کی پہنائیوں تک رسائی ہو سکے ، وہ شخص جو نفس کا ناپاک ہے ، جس کے قلب میں خباثت ہے ، جس کا باطن درست نہیں وہ اس کے فیوض وبرکات سے استفادہ نہیں کرسکتا اسی لئے ارشاد ہے کہ جب قرآن پڑھو تو شیطانی وساوس کو دور کرلو ، دل کا پاک اور یکسو کرلو ، اعوذ پڑھ لو ، اور غرض یہ ہے کہ پوری پاکیزگی کے ساتھ اس پاک کتاب کا مطالعہ کیا جائے ۔ حل لغات : فاستعذ باللہ : خدا کی پناہ میں آ یعنی حصار توحید میں جگہ حاصل کر ۔ النحل
99 النحل
100 النحل
101 النحل
102 قرآن اختراع نہیں ہے : (ف ١) بعض لوگ کہتے تھے کہ قرآن دماغی اختراع ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اختراع کیا ہے ، اور اللہ کی جانب اسے منسوب کردیا ہے اس کا جواب دیا ہے اور کہا ہے کہ اسے روح القدس لے کر آئے ہیں ، یہ حق وصداقت کا اعلان ہے ، تاکہ جو لوگ ذہنی وقلبی اضطراب میں مبتلا ہیں ان کی تسلی وتسکین ہو ، اس میں ہدایت ہی بشارت ہے ، مگر ایمان وتجربہ شرط ہے ۔ وہ کتاب جس نے قوم کے اخلاق کو بدل دیا ہو ، جس نے گمراہی وضلالت سے نکالا ہو ، رشد وہدایت کی طرف راہنمائی کی ہو ، اور قوم کو خوشخبریوں کا صبط بنایا ہو ، کیا وہ دماغی اختراع ہو سکتی ہے ۔ ؟ کیا یہ اختراع اور جھوٹ کا نتیجہ ہے کہ قوم ترقی کے فراز اعلی تک پہنچ گئی ؟ پستی اور حضیض سے نکل کر ایمان کی بلند ترین چوٹیوں پر متمکن ہوگئی ، کیا جھوٹ میں یہ قوت ہے ، کہ اخلاق کو بدل دے ، عادات کو سنوار دے ، ذہنوں کو بلند کر دے ، اور خاص نو کے ارتقاء کو بیدار کر دے ۔ النحل
103 (ف ٢) مخالفین کا خیال تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآنی معارف کو کسی شخص سے سیکھ لیا ہے ، اور ان کے اپنے علم وبصیرت کا یہ نتیجہ وثمرہ نہیں ہے ، اور وہ آدمی جس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سیکھا ہے عجمی ہے ، اس لئے نام میں اختلاف ہے کوئی کہتا ہے یعیش ہے ، کیس کے خیال میں عداس ہے کسی کی رائے میں ابو مسیرہ ہے ، بہرحال وہ کوئی عجمی ہے ۔ قرآن کہتا ہے اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عجمی سے سیکھا ہے تو قرآن میں یہ فصاحت وبلاغت کیوں ہے ؟ کیوں عجمی اثرات اس میں نمایاں نہیں ۔ بات یہ ہے کہ اصل میں اس نوع کے اعتراض محض حاسدانہ ہے ورنہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ساری زندگی مخالفین کے سامنے ہے آپ نے اپنی ساری زندگی میں کہیں تعلیم حاصل نہیں کی ایک وہ دو صحبتوں میں پورا نظام دین کسی آدمی سے سیکھ لینا عقلا محال ہے ، اور پھر وہ استاذ کیوں سامنے نہ آگیا اور اسے کیوں نہ کہہ دیا کہ میاں یہ تو میرا لکھایا پڑھایا ہے تم پریشان نہ ہوجاؤ ، کہیں وہ شخص جو مجدد اور علم وبصیرت کا مالک ہو ، اس نوع کی حیرت انگیز کتاب پیش کرسکتا ہے جو علوم ومعارف کا خزانہ ہو ۔ حل لغات : روح القدس : پاکیزہ کرنے والی ، یعنی جبرئیل علیہ السلام اعجمی : غیر عربی ، عجمی ، مراد غیر فصیح ۔ النحل
104 النحل
105 النحل
106 (ف ١) (آیت) ” الا من اکرہ “۔ الا یہ یہ جملہ معترضہ ہے غرض یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور ارتداد اختیار کرتے ہیں وہ جھوٹے ہیں ، اور عذاب کے مستحق ہیں الا یہ کہ وہ مجبور ہوں مخلصی کے لئے اور کفر کا اظہار کردیں ، مگر دل میں ایمان کا دریا موجزن ہو یہ لوگ اس علم سے مستثنی ہیں ۔ یہ پوزیشن مجبوری کے وقت جائز تو ہے مگر بہتر نہیں ، اس لیے اس کا ذکر بطور استثناء کے کیا ہے ۔ النحل
107 النحل
108 (ف ٢) اس آیت میں واضح طور پر بیان فرمایا دیا ہے ، کہ کن لوگوں کے دل پر مہریں لگی ہیں کون محروم ہیں جن پر وعظ ونصیحت کا اثر نہیں ہوتا ۔ ارشاد ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے عمدا دنیا کو دین پر ترجیح دی ، جنہوں نے جان بوجھ کر کفر کو قبول کیا ، اور جو دین کے معارف سے آگاہ نہیں ، تفصیل کے لئے دیکھو پہلے پارہ کی ابتدائی آیات جن میں (آیت) ” ختم اللہ علی قلوبھم پر بحث کی گئی ہے ۔ حل لغات : من شرح بالکفر صدرا : یعنی کشادہ دلی کے ساتھ اظہار کفر کرے ۔ قلوبھم وسمعہم وابصارھم : یعنی بدلنے والے دل میں تبدیلی کی استعداد نہین رہی دیکھنے والی آنکھ بصیرت ہے ۔ والی : یعنی جبرائیل (علیہ السلام) ، اعجب ۔ النحل
109 النحل
110 اسلام جرات آموز ہے ! (ف ١) یعنی وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی راہ میں مصیبتوں کو برداشت کیا ، جنہوں نے گھر اور وطن کی آسائشوں کو چھوڑا جنہوں نے مسافرت اور ہجرت اختیار کی جنہوں نے نفس اور باطل قوتوں کے خلاف جہاد کیا ، ان کے لئے اللہ کی بخششیں اور عنائتیں ہیں وہی اس کی مغفرت اور رحمت کے مستحق ہیں ۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بحالات مجبوری شر سے محفوظ رہنے کے لئے کفر کا اظہار جائز ہے ، بہتر نہیں ، یعنی اللہ ایسے اہل کفر پر مواخذہ نہیں کرے گا ، مگر اس کے یہ معنی نہیں ، کہ یہ فضیلت کی چیز ہے ، اس جواز کو جو مخصوص حالات میں قابل استفادہ ہے عام کردینا ، اور اسے فضیلت دینا دین فطرت کی توہین کرنا ہے ۔ اسلام جرات اور اظہار حق کو بہترین فضیلت قرار دیتا ہے ، وہ مسلمان کو مجاہد دیکھنا چاہتا ہے جو پوری جسارت کے ساتھ باطل کے خلاف صف آراء ہو سکے ، اور جو بزدل ہے ، جہاد سے جی چراتا ہے ، مجاہد نہیں کہلا سکتا ، یہ کمزوری اور بزدلی کا کھلا اعتراف ہے ، اسلام خفیہ فریب کاریوں کا قطعا پسند نہیں کرتا ، اس کی تعلیم واضح اور بین ہے وہ ہرگز تعلیمات وعقائد کو چھپانا نہیں چاہتا ۔ النحل
111 النحل
112 النحل
113 (ف ١) غرض یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت اور اس کی سپاس گزاری بہترین نعمتوں کی کفیل ہے ، جو خدا کی نعمتوں کا انکار کرتا ہے وہ تمام تکلیفوں کو دعوت دیتا ہے ۔ وہ بھوکا رہ کر بھی افلاس کو یاد کرتا ہے ۔ اور خوف وحزن کو اپنے اوپر مسلط کرلیتا ہے ۔ ” اللھم اغفر لکاتیبہ ولمن سعے فیہ ولوالد یھم اجمعین ، امین ‘ ثم امین ‘۔ النحل
114 النحل
115 کون کون سی چیزیں حرام ہیں ؟ : (ف ١) قرآن حکیم ایک مکمل شریعت ہے اس میں توحید وتفرید کے معارف بھی ہیں ، اور ضروری آداب وعوائد بھی ، کامل نظام مذہب کے معنی ہی یہ ہیں کہ اس میں ضروریات انسانی کی ہر چیز موجود ہو ، چنانچہ قرآن سب باتوں پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالتا ہے ۔ کھانا پینا بھی چونکہ تہذیب انسانی کا ایک ضروری جزو ہے اس لئے قرآن اس کے متعلق بھی ضروری ہدایات سے مشرف کرتا ہے ، قرآن کہتا ہے پاکیزہ چیزیں بلا تکلف کھاؤ جن میں مضرت نہ ہو ، جو ناپاک نہ ہوں ، جن کو ذوق سلیم گوارا کرلے ، جن کے کھانے سے اخلاقی ومذہبی مضرتیں نہ پیدا ہوں ، اور جو چیزیں ان صفات سے عاری ہوں ، وہ غذا کے قابل نہیں وہ حرام ہیں ، اور وہ یہ ہیں ۔ ١۔ مردار ، اس کے کھانے سے خساست پیدا ہوتی ہے قلب مردہ ہوجاتا ہے ، زندہ قومیں اس کے کھانے سے پرہیز کرتی ہیں ، صحت کے لئے بھی مضر ہے ، پیٹ میں تعفن پیدا کرتا ہے ۔ ٢۔ خون : یہ عہد وحشت کی یادگار ہے ، اس سے درندگی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ، دانتوں اور معدہ کے لئے سخت مضر ہے ، عرب خون کو رکھ لیتے تھے اور دہی کی طرح جم جانے پر کھاتے تھے ۔ ٣۔ سور کا گوشت : یہ تشنج کے مرض کو پیدا کرتا ہے جدید تحقیقات کے مطابق اس کے کھانے سے فوری موت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ، چنانچہ امریکہ میں اس کے خلاف بہت سے مضمون لکھے گئے ، یہ قوائے شہوت میں تحریک پیدا کرتا ہے ، اور اس کے کھانے والی قومیں بےغیرت ہوجاتی ہیں ان میں جنسی غیرت کا مادہ اٹھ جاتا ہے ، یہی وجہ ہے آج یورپ میں سب کچھ موجود ہے مگر غیرت عنقا ہے ، کیونکہ وہ کثرت سے سور کا گوشت کھاتے ہیں ، روحانی لحاظ سے یہ جرص وآز کے جذبات کو ابھارتا ہے ، ٤۔ غیراللہ کے نام کی چیز : اس سے نظام شرک کی تائید ہوتی ہے ، اسلام چونکہ توحید کا مذہب ہے ، اس لئے تمام ایسے ذرائع بند کردینا چاہتا ہے جن سے شرک کے پھیلنے کا احتمال ہو ، حل لغات : اھل : مشہور کیا جائے الا لا ل کے معنے مشہور کرنے کے ہیں کیونکہ ھا ، اور دو لام شہر کے معنوں کو متضن ہیں چاند کو بھی ہلال اس لئے کہتے ہیں کو جب وہ طلوع ہوتا ہے تو اس کی جانب انگلیاں اٹھتی ہیں ۔ النحل
116 النحل
117 النحل
118 النحل
119 النحل
120 النحل
121 النحل
122 النحل
123 النحل
124 جمعہ کا احترام : (ف ١) اسلام اور دیگر ادیان میں اصولا کوئی اختلاف نہیں البتہ بعض لوگوں نے اپنی خواہشات نفس کی اطاعت میں اللہ کے حکموں میں اختلاف وتشتت پیدا کرلیا ۔ جمعہ کا دن ہمیشہ سے دینی فرائض کے لئے مختص رہا ہے ، مگر یہود ونصاری نے اس میں اختلاف کیا ، چنانچہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے ہم سے پہلی قوموں پر بھی جمعہ کا احترام واجب تھا ، مگر انہوں نے از راہ ضد اس میں اختلاف کیا ، اور اللہ نے اس معاملہ میں ہماری صحیح راہنمائی فرمائی ہمیں توفیق مرحمت کی کہ جمعہ کے احترام کو قائم رکھیں اس صورت میں ” اختلفوا “ کے معنے یہ ہوں گے کہ انہوں نے نبی کی تعلیمات میں اختلاف پیدا کیا نہ یہ کہ سبت کے تعین میں اختلاف کیا ۔ حل لغات : حنیفا : موحد توحید کے لئے وقف ۔ سبت : احترام کا دن ، عیسائیوں میں اتوار اور یہودیوں میں ہفتہ ۔ النحل
125 (ف ١) دعوت وبشارت کا صحیح ترین اصول بتایا ہے یعنی جب خدا کے دین کی طرف لوگوں کو بلایا جائے تو نہایت حکیمانہ انداز میں موعظت اور پند کے طریق پر صلح جوئی اور رواداری کے ساتھ اگر اختلاف کا موقع آئے تو احسن طریق سے اس کو نبھایا جائے مقصد جدل وتعصب نہ ہو ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہی طریق دعوت وتبلیغ تھا ، یہی وجہ تھی ، لوگ کھچے ہوئے اسلام کی قریب آتے ، اور اسے قبول کرلیتے حضور جب مخالف کو سمجھاتے تو ایسے جاذب طریق سے کہ دل میں اتر جائے ۔ آج حضرات علماء کے اخلاق بگڑ چکے ہیں وہ تبلیغ واشاعت کی نفسیات سے آگاہ نہیں ، وہ نہیں جانتے قول بیع کیا ہے کس طریق سے لوگوں کو حق وصداقت کی طرف بلانا چاہئے قاعدہ ہے کہ اچھی بات بھی برے انداز میں پیش کیجئے تو لوگ ٹھکرا دیں گے اس لئے ضروری ہے کہ کلمہ حق کا اظہار کیا جائے مگر سلجھے ہوئے انداز میں جس میں زمانہ کی نفسیات کی رعایت نہ ہو ۔ النحل
126 النحل
127 (ف ٢) اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفقت وہمدردی کا ذکر ہے ، اور آپ سے کہا گیا ہے کہ ان کی بدبختی پر غم نہ کھاؤ ، جی تھوڑا نہ کرو ، ان کو آزاد چھوڑ دو یہ تمام باطل تدبیروں کو آزما دیکھیں تمہارے خلاف سازشیں کرلیں اللہ انہیں ناکام رکھے گا اور یہ اپنے مقصد میں ذلیل وخوار ہوں گے ۔ النحل
128 النحل
0 الإسراء
1 روح اور جسم کی انتہائی پرواز : (ف ١) عین اس وقت جب مکہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام لیواؤں کو ناقابل برداشت تکلیفیں دی جارہی تھیں ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وطن مالوف سے نکال باہر کرنے کی سازشیں کی جارہی تھیں ، عین اس وقت جب زمین والوں نے گلشن رسالت کو برباد کردینے کا تہیہ کرلیا تھا ، جب یہ طے پا چکا تھا ، کہ اس شمع ہدایت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گل کردیا جائے ، آسمان پر آپ کے عروج وارتقاء کے سامان ہو رہے تھے ، قضاء قدر کے دفاتر میں معراج وتقدم کے ہنگامہ خیز چرچے تھے ۔ اللہ کی مشیت نے آپ کو اٹھایا اور مسجد اقصے تک لے اڑی پرواز اور اڑان کا یہ منظر اس لئے تھا ، تاکہ آپ کو فتوحات اسلامی کی وسعت کا اندازہ ہو کفار ، ومعاندین کو معلوم ہو کہ یہ شخص تنگنائے وطن سے نکل کر شام کے مرغزاروں تک پھیل جائے گا ، یعنی جس شخص کو تم وطن سے نکال رہے ہو ، ساری دنیا اس کا وطن قرار پائے گی ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آسمان تک گئے ، اور عجب راستار کو چیرتے ہوئے جناب باری تک پہنچ گئے ، باتیں ہوئیں ، اسرار دین سمجھائے گئے نمازیں عطا ہو میں شریعت کی تفصیلات دی گئیں ، اور سب سے بڑی بات یہ کہ قرب آلہی کا بلند ترین مقام حصہ میں آیا ۔ یہ امر کہ یہ پرواز جسم وجسد کے ساتھ تھی ، یا روح و نسحہ کے ساتھ محل بحث ونظر ہے ، ائمہ حدیث وتفسیر کی اکثریت معراج جسمانی کی قائل ہے اور میں سمجھتا ہوں ‘ عارف باللہ حضرت صدیق اکبر (رض) نے ایک جملہ میں اس تمام کدو کاوش کا فیصلہ کردیا ہے ، ان کی قوت ایمانی نے اجتہاد ونظر کا وہ مرحلہ طے کرلیا ہے ، ان کی قوت ایمانی نے اجتہاد ونظر کا وہ مرحلہ طے کرلیا ہے جو عقل وفکر کو سعی بلیغ کے بعد بھی میسر نہ ہوسکا وہ یہ ہے کہ ” انا اصدقم با بعد منہ ، اصدقم بخیر من السمآء “۔ یعنی جب میں نے آپ کی نبوت ورسالت کے کوائف کو مان لیا ، جب یہ تسلیم کرلیا ، کہ آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں ، کتابیں عطا کی جاتی ہیں ، اور لاہوت وناسوت میں ایک رشتہ محبت ہے ، تو پھر معراج میں کیا استحالہ ہے ؟ خدا نے قدیر اپنے محبوب ترین بندے کو اپنے ہاں بلا رہا ہے ، اس میں کیا اعتراض ہے ، فلسفہ وعقل کی شام بحثیں بےسود ہیں ، جو خط زمین کو حرکت دے سکتا ہے جو آفتاب کو محوری گردش پر مجبور کرسکتا ہے جس کے ادنی اشارہ پر تمام انجم گھوم رہے ہیں کیا وہ ایک لطیف وسبک جسم کو آسمان پر نہیں اٹھا سکتا ۔ انسان کی تو یہ ہمت ہے کہ فضائے آسمانی میں اڑ رہا ہے ، اور طیاروں کی ایجاد پرانی ہوچکی ، اس نوع کے پر بن گئے ہیں جنہیں لگا لو اور پرندوں کی طرح اڑتے پھر ، چاند اور مریخ تک پہنچنے کی جدوجہد ہو رہی ہے کیا خدا کی وسعتوں میں یہ نہیں کہ اپنے محبوب کو اپنے یہاں بلا لے معلوم ہوا اس باب میں فلسفہ اور سائنس کی بحثیں بیکار ہیں ، البہ یہ نکتہ قابل غور ہے کہ قرآن کیا کہتا ہے ، احادیث میں کیا مذکور ہے ، اور ائمہ حدیث وتفسیر کی اکثریت کی رائے کیا ہے ؟ سو میں کہہ چکا کہ افسوس معراج جسمانی کی تائید میں احادیث میں انداز بیان اس نوع کا ہے کہ ارتقاء روحانی کی تائید نہیں ہوتی ، ائمہ تفسیر ہی کثرت کے ساتھ معراج جسمانی کے قائل ہیں ، تاویل کے مجتہد اعظم علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ سے خدشہ ہو سکتا تھا لیکن وہ بھی جسمانی معراج کے معترف ہیں اور نہایت رفیق دلائل پیش فرمائے ہیں ۔ اصل میں اس قسم کے اعتراضات اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب بصیرت دینی سے محرومی ہو اور دماغ پر دیو عقل مسلط ہو ۔ حل لغات : سبحن : تقدیس کے لیے ہے ، یعنی معراج کے سلسلہ میں جس قدر اعتراضات عقل کی واماندگیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے اللہ ان سے اعلی و بلند ہے ۔ الإسراء
2 الإسراء
3 الإسراء
4 الإسراء
5 بنی اسرائیل کی تباہی : (ف ١) اللہ کا قانون ہے کہ جب قوموں کا اخلاق بگڑ جائے ، فواحش کا ارتکاب کھلم کھلا ہونے لگے ، دین کا اعزاز واحترام دلوں سے اٹھ جائے شہوت کا زور ہو ، تو اس قوم کی ذلت کے سامان پیدا کردیتا ہے ، رسوائی کو قریب کردیتا ہے ، اور کسی دوسری زبردست قوم کو ان پر مسلط کردیتا ہے تاکہ غلامی کی صعوبتوں سے دوچار ہوں اور انہیں آزادی کے ناجائز استفادہ کا نتیجہ معلوم ہو ، تاکہ وہ یہ جائیں کہ اللہ سے بےاعتنائی ناقابل عفو جرم ہے ۔ حل لغات : سبحن : تقدس کے لئے ہے یعنی معراج کے سلسلہ میں جس قدر اعتراضات عقل کی ماندگیوں کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اللہ ان سے اعلی اور بلند ہے ۔ بنی اسرائیل نے جب حق وصداقت سے روگردانی کی اور طرح طرح کی برائیاں ان میں پھیل گئیں ، تو وہ جالوت کے محکوم بنا دیئے گئے ، اس نے ان کو سخت سزائیں دیں ، پھر توبہ واستغفار اور رجوع وانابت کے بعد حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اس سے جہاد کیا ، اور فتحیاب ہوئے اس کے بعد پھر بنی اسرائیل بگڑ گئے ، ان میں بدستور دین کی بےحرمتی ہونے لگی اور کھلے بندوں اخلاق کی حدوں سے تجاوز کیا جانے لگا ، تو اللہ نے بخت نصر کو ان پر مسلط کردیا ، اس نے ہزاروں کو تیغ وخنجر کے گھاٹ اتارا ہزاروں کو اسیر بنایا ، لاکھوں روپے کا سونا چاندی لوٹا بیت المقدس کو ڈھایا ، ان کی قیمتی املاک چھین لیں ، عین بیت المقدس میں بنی اسرائیل کو ذبح کیا ، عورتوں کی بےحرمتی کی ، توریت کے نسخے آگ میں پھونک دیئے ، مذہبی صحیفوں کو پاؤں تلے روندا تاکہ یہ لوگ ذلیل ہوں ان کی جھوٹی مذہبیت کو صدمہ پہنچے ، اور یہ اپنی بدمعاشیوں کا مزا چکھیں ، اس کے بعد پھر ان کی سنی گئی ، اور انہیں ان ذلتوں سے مخلصی ملی ، کیونکہ وعدہ یہ تھا کہ جب تک سیدھے رہو گے اللہ کا فضل تم پر سایہ افگن رہے گا اور جب بگڑو گے ، اللہ بھی نظریں پھیر لے گا ۔ حل لغات : اولی باس : اصحاب قوت و شدت ، جاسوا : پھیل گئے الإسراء
6 الإسراء
7 الإسراء
8 الإسراء
9 (ف ١) یعنی قرآن حکیم جس مسلک کی دعوت دیتا ہے وہ قدیم ہے عقل ودانش کے قرین اور موافق ہے ، سعادت انسانی کی تمام راہیں اس میں مذکور ہیں ، انسانی بقاء ودوام کا راز اس میں مضمر ہے ، اس کی تعلیمات ایسی ہیں جو سب کے لئے قابل عمل ہیں ، سب کے لئے مفید ہیں اس کی تعلیم چھوٹے بڑے سب کے لئے یکساں قابل عمل ہے یہ شک وشبہ سے بالا ہے ، مگر بشارت وخوشخبری ان کے لئے ہے جو مومن ہیں ، جن کے دلوں میں ایمان وتیقن کا اجالا ہے ، متعصب نہیں ، اور جو آنکھوں اور دلوں کو ہمیشہ کھلا رکھتے ہیں ۔ حل لغات : حصیرا : حصر کے معنی احاملہ کرنے اور تنگی کرنے کے ہیں واحصروھم ۔ الی ضیقوا ، علیہم یہاں قید خانہ اور تکلیف ومقام کے ہیں ۔ الإسراء
10 الإسراء
11 الإسراء
12 (ف ١) یعنی دن رات میں ان کی تبدیلی وتفسیر میں غور وفکر کرنے والے کے لئے نشان ہیں ، جس طرح رات اور دن دونوں مخلوقات کے لئے یکساں مفید ہیں اسی طرح عبرت ونصیحت کے لئے ایمان وکفر کا باقی رہنا ضروری ہے ، کیونکہ جب تک کفر کی تاریکی اور سیاہی موجود نہ ہو ، ایمان کی روشنی کس طرح ظاہر ہو سکتی ہے ۔ (آیت) ” وکل شیء فصلنہ تفصیلا “۔ سے مقصود یہ ہے کہ قرآن حکیم نے ہدایت وابتداء کے تمام وسائل سے بحث کی ہے ، اور وہ تمام چیزیں بیان کردی ہیں ، جن کی ہمیں بطور ذرائع راہنمائی کے حاجت ہے ۔ الإسراء
13 نامہ اعمال ہر شخص کے اندر موجود ہے : ! (ف ٢) (آیت) ” الزمنہ طیرہ فی عنقہ “۔ سے مقصود یہ ہے کہ نامہ اعمال ہر شخص کے اندر حتمی طور پر موجود ہے اتمام اعمال لوح قلب پر مرنسم ہیں ، تمام نقوش دماغ میں ثبت ہیں ، جب ضرورت ہوگی ، یہی نقوش ابھر آئیں گے ، اور اعمال روشن طور پر ہمارے سامنے آجائیں گے اور کہا جائے گا ، جو کچھ تم نے دنیا میں کیا ہے ، یہاں صاف صاف پڑھ لو ، صحیفہ اعمال کھلا ہے ۔ انسانی دماغ کی صنعت کاریاں عجیب ہیں ، اس میں بعض ایسے مخفی زاوے موجود ہیں ، جن میں ہمارے اعمال کا پورا پورا ریکارڈ محفوظ رہتا ہے ، قیامت کے دن نگاہوں میں تیزی پیدا ہوجائے گی ، اور ہم خود ان نقوش کا مطالعہ کرسکیں گے ، تمام ذہنی واردات ہمارے لئے موجود ہونگی اور ہم عبرت کا مرقع بنے ہوئے چشم حیرت سے فرد اعمال کو دیکھیں گے اور دل ہی دل میں نادم ہوں گے ۔ الإسراء
14 الإسراء
15 (ف ١) اسلامی قانون مکافات یہ ہے ، کہ ہر شخص بجائے خود اپنے اعمال کا ذمہ دار ہیں ، اس لئے تناسخ غلط ہے ، اور ہدیہ وکفارہ بھی صحیح نہیں ، ہر شخص اپنے اعمال کا جواب وہ ہے کوئی شخص کسی کے کام میں نہیں آسکے گا ۔ (آیت) ” وما کنا معذبین حتی نبعث رسولا “۔ سے مراد یہ ہے کہ عذاب کے لئے تکذیب کی ضرورت ہے ، اور تکذیب کے لئے پیغام کی حاجت ہے ، اس لئے ضرور ہے کہ عذاب سے قبل اتمام حجت ہوچکے ، تاکہ انہیں یہ کہنے کا موقعہ نہ ملے کہ ہم نے اعمال صالحہ کے لئے مقدور بھر کوشش کی تھی اور ہمیں ناحق عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے ۔ یہ یاد رہے ، کہ عذاب سے مراد تمام تکالیف نہیں ، نہ عادی مصائب مقصود ہیں ، بلکہ عذاب وہ ہے جسے متعین طور پر عذاب کہا جا سکے ، جس کے متعلق تصریحات ہوں کہ یہ عذاب ہے ۔ دوسری بات غور طلب یہ ہے کہ نبعث سے غرض یہ نہیں کہ ہر عذاب سے قبل ایک نبوت کا ظہور ضروری ہے ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ہر عذاب سے قبل اتمام حجت ضروری ہے ، مثلا اس زمانہ میں اگر عذاب آئے تو یہ کسی نئی نبوت کے انکار کا نتیجہ نہ ہوگا ، بلکہ اس لئے عذاب آئے گا کہ خدا کا پیغام اسلام کی شکل میں موجود ہے ، اس کو تسلیم نہیں کیا گیا ، اور اس کی بےحرمتی کی گئی ہے ۔ حل لغات : امرنا : یعنی امرنا بطاعۃ ، بعض نے امرنا سے مراد کثرنا ، لیا ہے یعنی ہم امراء کو تعداد میں بڑھا دیتے ہیں اور تائید میں یہ حدیث پیش کی ہے ، کہ خیر المال موصوۃ مامورۃ اے کثیر النسل ہو سکتا ہے امر سے غرض تقہ رہو ، کیونکہ عرب یہ بھی کہتے ہیں ، ھوا امیر غیر ما مور ۔ الإسراء
16 الإسراء
17 الإسراء
18 الإسراء
19 الإسراء
20 نیکی اور برائی دونوں کے لئے یکسان مواقع موجود ہیں : (ف ١) اللہ نے دنیا میں دو قسم کے گروہ پیدا کئے ہیں ، ایک وہ ہے جس کا نصب العین دین کی بھلائیوں کو حاصل کرنا ہے ، جو اپنی تمام قوتوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہے ، جس کا مقصد حیات گلشن اسلام کی آبیاری ہے ، اور دوسرا وہ ہے جو دن رات دنیا طلبی میں مصروف رہتا ہے ، جس کی تگ ودو محض نفس کی خواہشات تک محدود ہے ، اور آخرت سے بےپروا اور غافل ہے ۔ اللہ اس گروہ کو جو طالب حق ہے ، دیندار ہے ، پاکبازی اور تدبن کی توفیق عنایت فرماتا ہے ، اور ان کی مشکلات میں راہنمائی فرماتا ہے ، اور وہ جو صرف جیفہ دنیا کا گرویدہ ہے ، جس کی کوتاہ ہمتی اسے دنیا کی حدود سے تجاوز نہیں کرنے دیتی ہمیشہ برائی کے لئے کوشاں رہتا ہے ، اور اللہ نے ایسے سامان پیدا کر رکھے ہیں کہ اسے طریق معصیت میں بھی لذت ملتی ہیں ۔ (آیت) ” کلا نمد ھؤلآئ“۔ کے یہی معنی ہیں ، کہ اللہ نے انسانی فطرت اور دنیا کو اس ڈھب پر بنایا ہے کہ نیکی اور برائی دونوں کے لئے مواقع اور تسہیلات ہیں ، پاکباز انسان نیک مواقع سے استفادہ کرتا ہے ، اور بدکردار برے حالات سے بہرہ حاصل کرتا ہے ، کیونکہ دنیا کا نظام یا کارگاہ فطرت دونوں کے لئے یکساں معین ومددگار ہیں ۔ حل لغات : العاجلۃ : دنیا ۔ محظورا : منقوص ، یا ممنوع ۔ الإسراء
21 الإسراء
22 الإسراء
23 (ف ١) ان آیتوں میں وہ چیزوں کا ذکر فرمایا ہے ، توحید کا اور والدین کی اطاعت اور آداب کا ، اس لئے کہ ان دونوں میں ایک قسم کی نسبت اور مشابہت کا ، والدین کی پرورش ، ان کی شفقت ومحبت ربوبیت کبری سے مشابہ ہے ، جو شخص والدین کا اطاعت شعار ہے وہ ربوبیت کبری کا بھی پہچان سکے گا ، جس کا نام توحید ہے ، اور جو والدین کا مطیع وفرمانبردار نہیں ، جو عارضی ربوبیت سے غافل ہے ، وہ اصلی رب کا بطریق اولی منکر ہوگا ، یعنی جو خدا پرست ہے ، وہ حقوق انسانی کی نگہداشت کرسکے گا ، اور جس کے دل میں اللہ کا ڈر نہیں ، وہ انسانی فرائض کو کیونکر محسوس کرسکتا ہے ؟ جو انسان کا شکر گزار نہیں ، وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں ہوسکتا ۔ آیت کا مقصد یہ ہے کہ توحید اصل اصول ہے خدا کا فیصلہ ہے ، عقل کا تقاضا ہے ، اسی طرح والدین کی فرمانبرداری ضروری ہے ، ان کے ساتھ مروت واخلاق لازم ہے ، گستاخی کے کلمات سے احتراز چاہئے ، انہیں ناملائم اور درشت انداز میں مخاطب کرنا جائز نہیں ۔ حل لغات : فلا تقل لھما اف : یعنی کلمہ تحقیر سے انہیں مخاطب نہ کرو ، جس سے والدین اذیت وذلت محسوس کریں ۔ الإسراء
24 الإسراء
25 الإسراء
26 الإسراء
27 انسانی حقوق کی رعایت : (ف ١) اسلام جہاں عقائد پر زور دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ اللہ کی چوکھٹ پر جھک جائیں ، پاکباز بنیں ، اور تخلق باخلاق اللہ کے زبور سے آراستہ ہوں ، وہاں وہ حقوق انسانی کی مراعات کو بالخصوص ذکر کرتا ہے ، اور کہتا ہے عزیز داری اور قرابت کا خیال رکھو رشتہ وتعلق کی حرمت کو ملحوظ رکھو ، مسکینوں اور محتاجوں کا خیال رکھو ، مسافروں اور غریب الوطن لوگوں کی مدد کرو ، یعنی اسلام صرف زہد و تورع کانام نہیں ، پرہیزگاری اور عبادت سے تعبیر نہیں ، بلکہ اسلام میں یہ بھی داخل ہے کہ تمہارے ماں باپ تم سے خوش ہوں ، تمہارے عزیزوں سے تمہارے تعلقات بہتر ہوں ، تمہارے دل میں مسکینوں اور غریبوں کے لئے ہمدردی کا جذبہ موجزن ہو ، تمہارا گھر مسافروں اور مہمانوں کے لئے کھلا رہے ، اور اگر تمہیں ان لوگوں سے اختلاف کرنا پڑے ، تو لڑائی اور جنگ درست نہیں ، بلکہ دل نشین انداز میں ان کو سمجھا دو ، عزیزوں سے لڑائی ، انسانی حقوق سے تغافل ، والدین کی نافرمانی و ناخوشی ، مسافر اور غریبوں سے بدسلوکی ، یہ جائز نہیں ، مسلمان وہ ہے ، جو اللہ کو خوش رکھے ۔ اور اس کی مخلوق کو بھی ۔ (آیت) المبذرین “۔ وہ لوگ ہیں ، جو اللہ کے دیئے ہوئے مال کو معصیت کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کو استعمال نہیں کرتے ، عبداللہ بن مسعود (رض) سے پوچھا گیا ، تبذیر کسے کہتے ہیں ، اس نے جواب دیا ، ” انفاق المال فی غیر حقہ “۔ یعنی ناحق اور نامناسب طور پر دولت کو صرف کرنا ۔ یہ یاد رہے کہ تبذیر واسراف کا اطلاق صرف گناہوں کے کاموں پر ہوتا ہے ، اگر ایک شخص معصیت کے لئے ایک پائی بھی صرف کرتا ہے تو یہ تبذیر اور اسراف میں داخل ہے تحدیث نعمت یا مقدور کے موافق لباس وخوراک اسراف میں داخل نہیں ، اگر ایک شخص نیک ہے اور صالح ہے اور مالدار بھی ہے تو وہ بےشک ٹھاٹ کے ساتھ رہے ، تاکہ اللہ کی نعمتوں کا اظہار ہو ، ریاکاری اور غریبوں کو مرعوب کرنا مقصود نہ ہو حل لغات : للاوابین : ادب کے معنی رجوع کرنے کے ہیں ۔ اواب : وہ شخص ہے جو ارادہ نہ رکھے اور اپنی خواہشوں کو اللہ کے تابع بنا وے ۔ کفورا : ناشکرا ، کفران سے مشتق ہے ۔ مغلولۃ الی عنقک ۔ بخل کی تشبیہ ہے ، گویا بخیل کے ہاتھ کشادہ نہیں ہوتے ۔ الإسراء
28 الإسراء
29 (ف ٢) اس آیت میں مسلمانوں کو اعتدال کے ساتھ رہنے کی تلقین کی ہے ، اور اسے کہا ہے کہ اپنی مالی حالت کا جائزہ لیتا رہے ۔ نہ اس قدر شاہ خرچ ہو ، کہ جو کچھ ہاتھ لگے صرف کردیا جائے ، اور بعد میں پشیمانی اٹھانا پڑے ، اور نہ بخل وامساک کا اظہار ہو ، بین بین رہے ، افسوس مسلمان آج خرچ کے معاملہ میں بالکل محتاط نہیں ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بکمال مہربانی ہے ہر بات سمجھا دی ہے ۔ مسلمان محنت سے روپیہ کماتا ہے ۔ اور رسم ورواج کی پابندیوں میں اڑا دیتا ہے ۔ اور وہ روپیہ جو اللہ کی نعمت ہے محض فضول باتوں میں ضائع ہوجاتا ہے ، آج کسب واکتساب کے جس قدر اسباب ہیں ، وہ سب مسلمانوں کے قبضہ میں ہیں مگر پھر بھی مسلمان مفلس ہے ، جس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی آمد وخرچ میں تناسب نہیں ، وہ آمدنی سے زیادہ خرچ کرتا ہے ، اس لئے ہمیشہ محتاج رہتا ہے ۔ چو خلت نیست خرچ آہستہ زکن ! کہ می گوئیند ملا حان سرودسے ! بکوہستان اگر باران نہ بارد ! بہ سالے دجلہ گرودخشک رودے ، حل لغات : سلطنا : یعنی انتقام کا حق تین باتوں کی وجہ سے ایک مجرم کا خون بہانا مباح ہوجاتا ہے ، قتل زنا ، ارتداد ۔ الإسراء
30 الإسراء
31 الإسراء
32 الإسراء
33 الإسراء
34 الإسراء
35 الإسراء
36 حرمت نفس اور دیگر اخلاقی نصائح : (ف ١) ان تمام اخلاق وآداب کو اللہ تعالیٰ نے حکمت سے تعبیر کیا ہے یعنی بہترین دانائی یہ ہے ، کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خیال رکھا جائے ، جو شخص اللہ اور اس کے بندوں کو نہیں پہچانتا ، وہ بےوقوف اور بےعقل ہے ۔ اس سے قبل والدین کی اطاعت ، توحید ، عزیزوں اور قرابت داروں کے متعلق حسن سلوک کی تلقین کی تھی ، اسراف وتبذیر سے روکا تھا ، میانہ روی اور اقتصاد پر ابھارا تھا عربوں کو قتل اولاد کے فعل شفیع سے یہ کہہ کر روکا تھا کہ رزق کا ذمہ دار اللہ ہے جب اس نے پیدا کیا ہے ، تو وہ اس کے لئے رزق کا سامان بھی پیدا کر دے گا تم محض بھول اور افلاس کی وجہ سے ان کی موت نہ چاہیؤ۔ زنا کے متعلق فرمایا تھا کہ یہ بدترین فعل ہے اس سے نسلیں تباہ ہوجاتی ہیں ، جرات وغیرت تباہ ہوجاتی ہے ، قوم میں بزدلی اور جبن (بددلی) پیدا ہوجاتا ہے اور اخلاقی لحاظ سے قوم مردہ ہوجاتی ہے ۔ ان آیات میں چند اخلاقی احکام اور فرامین ہیں جو یہ ہیں ۔ ١۔ حرمت نفس : یعنی یہ جائز نہیں کہ ، بلا کسی وجہ کسی شخص کو زندگی کے حق سے محروم کردیا جائے ، کیونکہ اس طرح دنیا میں ابتری اور بدنظمی پھیل جاتی ہے ۔ ٢۔ یتیم کی عزت ، یتیم کے مال کو اس کے مفاد کے لئے صرف کرو ، اور جب تک وہ جوان نہ ہو ، دیانتداری کے ساتھ مال کی نگہداشت کرو ، ٣۔ پورا پورا تولو ، اور پورا ماپ کردو ٤۔ بےتحقیق بات نہ مانو ، کیونکہ اللہ نے قلب ودماغ کو ذمہ دار اور مسؤل بنایا ہے ۔ ٥۔ فکر کا اظہار نہ کرو ۔ (٦) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ۔ یہ عام معاملات کی باتیں ہیں ، جن پر دنیا کا نظام حکمرانی قائم ہے ، جب تک ان باتوں پر عمل نہ ہو ، دنیا کا امن مخدوش رہتا ہے ، اسلام چونکہ فطرتا استعماری وتمدنی مذہب ہے ، اس لئے وہ ان اساسی حقائق کو پوری اہمیت کے ساتھ ظاہر کرتا ہے ۔ حل لغات : لاتقف : تتبع نہ کر ، پیچھے نہ لگ ۔ مرحا : اظہار مسرت میں غلو ، اترانا تکبر کرنا ۔ مدحورا : راندہ ہوا ، دحر کے معنی ہیں ، دفع کرنا ، چلانا ، اور دور پھینکنا ۔ الإسراء
37 الإسراء
38 الإسراء
39 الإسراء
40 الإسراء
41 الإسراء
42 (ف ١) اللہ کی توحید خالص اسلامی عقیدہ ہے ، جس کو قرآن حکیم نے مختلف طریقوں سے بیان فرمایا ہے ، کبھی مظاہر فطرت کی یکسائی کو تائید میں پیش کیا کبھی خود نفس انسانی کی بوالعجیبوں کی طرف توجہ دلائی کبھی مشرکین کے عقائد کی تردید کی ، اور فرمایا کہ شرک عقلا محال ہے چنانچہ اس آیت میں مشرکین کے عقیدہ شرک پر اعتراض کیا ہے ارشاد ہے کہ اگر واقعی یہ بت خدا ہیں ، جنہیں تم پوجتے ہو ، تو پھر ہونا یہ چاہئے کہ انہیں صاحب عرش کا قرب خاص حاصل ہو ، اور اللہ کے نزدیک یہ ذی مرتبت وجاہت ہوں ورنہ تمہیں یہ قرب کیونکہ عطا کروا سکتے ہیں ؟ جبکہ خود درجہ قرب سے محروم ہیں ، آیت کا دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ مگر اللہ کے سوا اور خدا بھی موجود ہیں تو پھر اللہ کے ساتھ انہیں ہر بات میں تعرج کرنا چاہئے ، لڑائی اور فساد ہونا چاہئے ، اور پھر اس صورت تخالف میں دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہوجاؤ لازم ہوا ۔ الإسراء
43 (ف ٢) یہ کلمہ تقدیس قرآن حکیم اللہ کے تخیل کو نہایت اعلی سے پاک ہے اس کی لزاہت ووحدانیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بےمثل ہو ، کسی وصف میں اس کا کوئی شریک اور مددگار نہ پایا جائے ، وہ ہر لحاظ سے جسم ومکان سے بھی بےنیاز ہو ، الإسراء
44 اللہ کی تسبیح ! (ف ٣) یعنی اس کے لئے شرک کیسے جائز ہو سکتا ہے جبکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی حمد وستائش کر رہا ہے ، اور عمل وقول سے اطاعت شعاری کا اظہار کر رہا ہے ، ہر چیز تسبیح کناں ہے ، اگرچہ ناشکرا اور نافرمان انسان اشیاء کی تسبیح کو سمجھ نہیں پاتا ، مگر یہ حقیقت ہے کہ سب چیزیں اس کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان ہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے ، کہ ہر شے کے لئے قدرت کے تولید اور بقاوفنا اور فطرت کی جانب سے ایک قاعدہ مقرر ہے ، ہر چیز مقروہ نظام کے ماتحت برقرار اور قائم ہے ، یہ اطاعت شعاری اور فطرت کے قوانین کی پابندی بےجان چیزوں کی تسبیح ہے ۔ حل لغات : سبیلا : جھگڑے اور فساد کی راہ یا تقرب کا راستہ : الإسراء
45 (ف ٤) غرض یہ ہے کہ کفار اپنی فطری صلاحیتوں کو ضائع کرچکے ہیں کہ ان میں قبول کا مادہ نہیں رہا ، جب یہ قرآن سنتے ہیں ، تو تعصب وجہالت کی دیواریں انکے آگے کھڑی ہوجاتی ہیں ، اس لئے استفادہ سے محروم رہتے ہیں ۔ الإسراء
46 الإسراء
47 حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سحر زدہ نہیں تھے ! (ف ١) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سحر زدہ کوتاہ نظری کی وجہ سے کہتے تھے ، جب دیکھتے کہ نبوت کے اسرار ان کی سمجھ سے بالا ہیں اور اسلام کے عجیب وغریب نظام کو سمجھنے کی صلاحیت ان میں موجود نہیں تو حیرت واستعجاب میں ڈوبے ہوئے اس کیفیت نافہمی کو جادو وسحر کی جانب منسوب کردیتے ، بات یہ ہے کہ نبوت انتہاء درجے کی دانائی وعقل کا نام ہے ، نبی فہم وفراست کے لحاظ سے انسانیت کا آخری نقطہ ہوتا ہے ، اس کے اعمال وافعال میں نظم وترتیب قائم رکھنے کیلئے پیغمبرانہ بصیرت کی حاجت ہے ، جو لوگ اس بصیرت وآگاہی سے محروم ہوتے ہیں ، وہ سہل اندیشی کی بنا پر کہہ دیتے ہیں ان کے اعمال میں ترتیب اور غرض ومقصد کی سطحیت نہیں اس لئے یہ دیوانہ یا سحر زدہ ہے ، ورنہ اصل میں پیغمبر نہایت بلند نگاہ انسان ہوتا ہے ، جس طرح ایک گنوار شائستہ اور مہذب شہری کے اعمال وافعال سمجھنے سے قاصر ہے ، اور وہ مجبور ہے کہ اس کی بعض حرکات کو محض جنون سے تعبیر کرے ، اسی طرح یہ گنوار بھی مجبور تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعمال کو جنون وسحر کہیں ۔ حل لغات : وترا : بوجھ ، ثقل ۔ وفاتا : ماتکر وتفرق من لمتین ۔ ہڈیوں کا ٹوٹ کر اور بوسیدہ ہو کر بھوسے کی طرح چورا ہوجانا ۔ الإسراء
48 الإسراء
49 الإسراء
50 الإسراء
51 (ف ١) مکہ والوں کا ایک شبہ آپ کی تعلیمات کے متعلق یہ تھا کہ اس میں حشر ونشر کے کوائف کا ذکر ہے ، وہ کہتے تھے ، یہ کیونکر ممکن ہے ، کہ مرا ہوا انسان جی اٹھے ، اور مردہ ہڈیوں میں حرکت وعمل پیدا ہوجائے ان کے خیال میں یہ زندگی جب ختم ہوجائے تو پھر اس کا اعادہ نہیں ہو سکتا ، اور ہم ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سو جاتے ہیں ، قیامت اور حشراجساد کا عقیدہ ان کے لئے نہایت حیرت انگیز تھا ۔ قرآن حکیم فرماتا ہے ، تمہیں اس میں کیا اعتراض ہے ، کیا اللہ نے تم کو کتم عدم سے لا کر وجود کی دنیا میں آباد نہیں کیا ہے ، کیا اس نے تمہیں بغیر کسی مادی ذریعہ کے پیدا نہیں کیا ؟ جب اسی نے اس سے پہلے تمہیں پیدا کیا تھا ، تو وہ تمہیں پھر بھی زندگی بخش سکتا ہے ، جب حقائق واسباب کو اسی نے پیدا کیا ہے تو اس کے اختیار میں یہ بھی ہے کہ ان کو بدل بھی دے وہ پتھر اور لوہے کو انسانوں میں تبدیل کرسکتا ہے ، اس لئے قرآن کہتا ہے ، کہ تم جو کچھ بھی ہوجاؤ تم میں لوہے اور پتھر کی سی سختی اور صلاحیت بھی پیدا ہوجائے تب بھی وہ تمہیں زندہ انسانی صورت میں تبدیل کر دے گا ، یہ سب کچھ اس کے اختیار میں ہے ۔ ” اللھم اغفر لکاتیبہ ولمن سعے فیہ ولوالد یھم اجمعین ، امین ‘ ثم امین ‘۔ الإسراء
52 الإسراء
53 الإسراء
54 الإسراء
55 فرق مراتب : (ف ١) اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ تمام انبیاء یکساں طور پر قابل احترام ہیں ، سب کی عزت کرنا چاہئے اور سب کو اللہ کی جانب سے عہدہ نبوت پر فائز سمجھنا چاہئے ، البتہ مرتبے اور درجے کے لحاظ سے فرق مراتب ہے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خلت کا خلعت عطا کیا گیا ، جناب موسیٰ (علیہ السلام) کو شرف مکالمہ بخشا گیا ، حضرت مسیح (علیہ السلام) رفعت سے نوازے گئے سلیمان (علیہ السلام) کو بادشاہت اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کو زبور دی گئی غرضیکہ سب انبیاء اپنے اندر کچھ نہ کچھ خصوصیات رکھتے ہیں جن کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے افضل ہیں ۔ الإسراء
56 الإسراء
57 (ف ٢) مکے والے فرشتوں کی عبادت کرتے تھے عیسائی مسیح (علیہ السلام) وعزیز (علیہ السلام) کو پوجتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ تم جن لوگوں کی عبادت کرتے ہو ، وہ تو خود محتاج ہیں ، اللہ کی عبادت کرتے ہیں ، ان کی بڑی کوشش یہی رہتی ہے ، کہ اللہ کا تقرب حاصل کیا جائے جب ان کی یہ حالت ہے ، تو کیونکر وہ تمہارے شرک پر خوش ہو سکیں گے ؟ حل لغات : تحویلا : تبدیلی ، پھیرنا ، ہٹانا ۔ الإسراء
58 الإسراء
59 (ف ١) مشرکین کا ایک اعتراض یہ تھا کہ ہمارے مطالبے کیوں پورے نہیں ہوتے ؟ کیوں مکہ کے پہاڑ درمیان سے نہیں ہٹ جاتے ؟ اور کیوں نہریں نہیں بہتیں ؟ یعنی ہم جو کچھ چاہتے ہیں ، اس کو کیوں پورا نہیں کیا جاتا ؟ قرآن کہتا ہے ، تمہیں معجزہ طلبی کی عادت ہوگئی ہے ، تم عجائب پرستی کے مرض میں مبتلا ہو ، تم سے پہلے تمام معجزات دکھائے جا چکے ہیں ، مگر انکار کرنے والوں نے ہمیشہ انکار ہی کیا ، اور ایماندار لوگوں نے ایمان کی دعوت کو قبول کرلیا ، اس لئے آج اگر تمہارے مطالبوں کو پورا بھی کردیا گیا ، جب بھی تم انکار ہی کرو گے تم سے ایمان کی توقع نہیں ، آیات ومعجزات کا مقصد تو یہ ہے کہ تمہارے دلوں میں خوف پیدا ہو ، تم اللہ سے ڈرو ، اور جب خوف واتقاء کی نعمتوں سے تم تہی دامن رہتے ہو ، تو اب معجزات دکھائے جا چکے ہیں ، مگر انکار کرنے والوں نے ہمیشہ انکار ہی کیا ، اور ایماندار لوگوں نے ایمان کی دعوت کو قبول کرلیا ، اس لئے آج اگر تمہارے مطالبوں کو پورا بھی کردیا گیا ، جب بھی تم انکار ہی کرو گے ، تم سے ایمان کی توقع نہیں ، آیات ومعجزات کا مقصد تو یہ ہے کہ تمہارے دلوں میں خوف پیدا ہو تم اللہ سے ڈرو ، اور جب خوف واتقاء کی نعمتوں سے تم تہی دامن رہتے ہو ، تو اب معجزات دکھانے سے کیا فائدہ ؟ ثمود کی قوم کودیکھو ، انہوں نے ہلاکت کے لئے معجزہ طلب کیا ، انہیں اونٹنی کا معجزہ دیا گیا ، ان سے کہا گیا ، اس اونٹنی کا وجود بطور نشانی کے ہے ، اس کی بیحرمتی نہ کرنا ، ورنہ مٹ جاؤ گے ، انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں ، نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کا عذاب آگیا ، کیا تم بھی یہی چاہتے ہو ، کہ قوم ثمود کی طرح مٹ جاؤ ۔ حل لغات : بالایت : خوارق ، معجزات : الرؤیا : حضرت ابن عباس (رض) کہتے ہیں شاہد ، یعنی کو رؤیت سے تعبیر کیا ہے ۔ والشجرۃ الملعونۃ : کھانے کی ہر چیز جو مرغوب ہو ، عرب اسے زقوم اور ملعون کہتے تھے ۔ الإسراء
60 مدارک روحانیہ کا ارتقاء : (ف ١) اس آیت بتایا ہے کہ معراج جسمانی کا معجزہ قابل انکار نہ تھا ، مگر تم نے انکار کیا ، حالانکہ اس میں کیا استحالہ ہے ؟ چاہئے تو یہ تھا کہ آپ لوگ اس حیرت انگیز ارتقاء سے عبرت حاصل کرتے ، اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مدارک روحانیہ کی برتری کے قائل ہوتے اور یہ کہ انکار کرتے ہو ۔ اسی طرح قرآن میں شجر زقوم کا ذکر کیا گیا ، اور تمہیں اعتراض سوجھا ، کہ آگ میں کیونکر اشجار پیدا ہو سکتے ہیں ، حالانکہ تم وہاں کی آگ کی نوعیت سے واقف نہیں ، اور تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کے سب کچھ اختیار میں ہے ۔ جب ان باتوں نے تم میں سوائے انکار کے اور کوئی جذبہ پیدا نہیں کیا تو مزید معجزات سے کیا حاصل ۔ الإسراء
61 (ف ٢) آدم (علیہ السلام) اور فرشتوں کے قصہ کو قرآن حکیم نے متعدد مقامات پر ذکر کیا ہے ، مقصد یہ ہے کہ بنی نوع انسان کو دینی قدومنزلت سے آگاہی ہو اور وہ اپنے رتبہ فضیلت سے آشنا ہو ، اس میں جذبہ خوداری پیدا ہو ، اور وہ سوائے اللہ کے اور کسی کے چوکھٹ پر نہ جھکے ، انہیں معلوم ہو کہ فرشتے تک ہمارے احترام میں جھک جاتے ہیں ، یہ قصہ بائیبل میں مذکور نہیں ہے ، یہ حضور کے غیوب مختصہ میں سے ہے کہ ابتدائے آفرینش کے واقعات بیان فرمائے ہیں ۔ الإسراء
62 (ف ٣) شیطان کو مہلت دی گئی ، کہ وہ ایک وقت مقررہ تک زندہ رہے ، مگر اس کی زندگی کے یہ معنی نہیں ہیں ، کہ وہ لامحالہ سب کو گمراہ کر دے گا ، بلکہ صاف صاف کہہ دیا گیا ، کہ تم اپنی تمام قوتوں کو برروئے کار لے آؤ ، تم انسانوں کو گمراہ کرنے کے لئے وہ سب کچھ کر دیکھو ، جو تمہارے اختیار میں ہے ان سے جھوٹے وعدے کرو ، خواہشات نفس پر قبضہ کرو ، دل کی گہرائیوں میں سما جانے کی کوشش کرو ، اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ متاع ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کرو ، مگر یاد رکھو ، میرے خاص بندے تیری دسترس سے باہر ہیں ، ان پر تیرا قبضہ نہیں ہو سکتا ، جن کے دلوں میں میری محبت ہے ۔ الإسراء
63 الإسراء
64 الإسراء
65 الإسراء
66 الإسراء
67 فطرت انسانی کا اقرار : (ف ١) انسانی فطرت ہے کہ مصائب ومشکلات کے وقت دل کی تمام قوتیں بیدار ہوجاتی ہیں ، اور ایمان کے مخفی نقوش جو ہواہوس کے توغل کی وجہ سے دب جاتے ہیں ابھر آتے ہیں ، جب کہ مصیبت کے بادل مطلع قلب پر اضطراب وانتشار بن کر چھا جاتے ہیں ، توحید الہی کے عقدوں کو کھلنے کا موقع ملتا ہے ، اسرار منکشف ہوتے ہیں ، اور دل کی گہرائیوں میں یقین چمکنے لگتا ہے ، اس آیت مین اس کیف وحال کی جانب قرآن حکیم نے انسان کو متوجہ کیا ہے ، اور فرمایا ہے جب تم تکلیفوں اور مصیبتوں میں اللہ کو یاد کرتے ہو ، اور اس کے نام کے ساتھ تسلی وتسکین حاصل کرتے ہو تو عافیت وامن کی حالت میں کیوں اس حقیقت کو فراموش کردیتے ؟ کیا وہ خدا جس نے تمہیں مشکلات سے نجات دی ہے پھر تمہیں مشکلات میں نہیں پھنسا سکتا ؟ تم عذاب الہی سے اپنے تئیں محفوظ خیال کرتے ہو ؟ جس نے جنگل کی تاریکیوں میں تمہاری راہنمائی کی ، متلاطم سمندر سے تمہاری کشتی کو پار لگایا اور اگر وہ زمین میں تمہیں دھنسا دے تو یہ اس کی قدرت میں ہے ، اس طرح وہ تمہیں سمندر میں غرق بھی کرسکتا ہے ، یہ سب اس کی قدرت کا ادنی کرشمہ ہے ، جب انسانی بےچارگی اور بےبسی کا یہ عالم ہے تو پھر جو لمحہ عافیت سے گزر جائے اسے اللہ کی بخشش اور نوازش سمجھنا چاہئے کہ اس نے ہمیں مہلت دی ، اور ہمارے گناہوں کی ہمیں فی الفور سزا نہیں دی ۔ الإسراء
68 الإسراء
69 الإسراء
70 (ف ١) اسلام سے قبل انسان کو فی نفسہ گناہگار اور مجرم قرار دیا جاتا تھا ، انسان کے لئے ضروری تھا کہ وہ کائنات کی ہر چیز کا احترام کرے وہ پہاڑوں کے سامنے جھکے دریاؤں کو پوجے بتوں کو سجدہ کرے ، آفتاب ماہتاب اور ستاروں کو معبود سمجھے سانپ اور بچھوؤں کو دیوتا قرار دے ، صندل کی معمولی لکڑی اس کی جبین ناز کا قشقشہ بنے ہر آن ان معبودوں سے خائف رہے ، دنیا کی ہر چیز کو قابل عبادت سمجھے ۔ قرآن نے انسان کے مرتبہ کو بلند قرار دیا جنت اس کا مسکن ٹھہرایا اور فرشتے اس کی تعلیم کے لئے جھکے ، احسن تقویم اور تکریم کا خلعت عطا ہوا ، اور طے پایا کہ انسانی مخلوق کائنات کی ہر شے سے افضل ہے ، بحر وبر کی حکومتیں اس کے سپرد ہیں چاند اور ستارے اس کے مسخر ہیں ، سورج اس کا خادم ہے ، اللہ تعالیٰ نے اسے عزت دی ہے اسے مکرم ومحترم بنایا ہے ۔ ابروبادومہ وکورشید فلک کا راند تا تونانے بکف آوری اجلت نخوری ۔ ہمہ از بہر تو سرگشتہ وفرماں بردار شرط انصاف بنا شد کہ تو فرمان نبری ۔ حل لغات : حاصبا : اگر حصب سے مشتق ہو ، تو اس کے معنی شدت سے پھینکنے کے ہوں گے اور اگر حصباء سے نکلا ہو ، تو اس صورت سنگریزے برسانے والی آندھی یا اولے برسانے والے ابر ہونگے ، کیونکہ حصباء کے معنی پتھر اور کنکر کے ہیں ۔ قاصفا : قصف کے معنی توڑنا ، وہ تیز ہوا جو درختوں کو اکھاڑ دے اور سخت آواز ۔ تبیعا : تعاقب کرنے والا ۔ بامامھم : امام کے معنی عربی میں قابل اقتدار کے ہیں یہاں مفسرین نے پانچ معانی بیان فرمائے ہیں ۔ ١۔ نبی مراد ہیں حضرت ابوہریرہ (رض) سے مرفوعا روایت ہے ، ٢۔ کتاب اعمال مراد ہے ، حسن ربیع اور ابولبابہ کا یہی مذہب ہے ، ٣۔ مذہبی کتب مثل قرآن وتوریت وغیرہ مقصود ہے ، ٤۔ ام کی جمع ہے یعنی ہر شخص کو اس کی ماں کے نام سے پکارا جائے گا اہل زبان اس تاویل کو لغۃ کمزور خیال کرتے ہیں ۔ ٥۔ ملک راسخہ جس سے تمام عادات منشعب ہوں یعنی ہر شخص میں کچھ عادات اس نوع کی ہوتی ہیں ، جنہیں مرکزی اور اساسی عادات کہا جا سکتا ہے اصل میں یہی عادات مواخذہ کے قابل ہوتی ہیں ۔ الإسراء
71 الإسراء
72 الإسراء
73 الإسراء
74 پیغمبرانہ ذمہ داریاں : (ف ١) آیت کے شان نزول میں اختلاف ہے ، بعض کے نزدیک یہ آیت مدنی ہے ، اور بعض کے مکی اس اختلاف کی بنا پر واقعات بھی مختلف ہیں ، یہاں ثقیف والوں کا قصہ بیان کیا جاتا ہے ، کہ وہ چند رعایتوں اور خصوصیتوں کے طالب تھے ، جو اسلامی مساوات کے منافی تھیں ، اور مکہ میں حجر اسود کو قصہ یعنی مکے والے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجبور کرتے تھے کہ جس طرح آپ اس پتھر کو بوسہ دیتے ہیں ، اسی طرح آپ ہمارے بتوں کا بھی احترام کریں ، تو کیا مضائقہ ہے ؟ اس آیت کا مفہوم بہرحال واضح ہے ، مخالفین چاہتے تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو میٹھی میٹھی باتیں کر کے بہکا دیا جائے اور اسلام کی راہ اعتدال سے منحرف کردیا جائے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم اس باب میں کامیاب نہیں ہو سکتے ، نبی اگر صرف انسانی ہو تو تمہارے حربے شاید کارگر ہو سکیں ، مگر وہ پیغمبر بھی ہوتا ہے یعنی نفس بشری کے ساتھ وہ نفس نبوی بھی رکھتا ہے اس لئے اس کو ورغلانا سخت دشوار ہے ، انبیاء کو خاص نوع کا ثبت واستقلال دیا جاتا ہے ، ان کا قلب جبرائیل کا مہبط ہوتا ہے ۔ ان کا دماغ مطلع انوار ہوتا ہے ۔ آیت کا یہ مقصد ہرگز نہیں ، کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واقعی شرک کی جانب مائل ہوگئے تھے یا کفار کی حامی بھری تھی ، اور اللہ نے انہیں ان کے چنگل سے نکالا ، کیونکہ یہ معنی منصب نبوت کے منافی ہیں بلکہ غرض یہ ہے کہ مخالفین اسلام کی کوششیں یہی رہتی تھیں کہ وہ اپنے مقاصد مشومہ کی تکمیل کریں ، اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادہ مستقیم سے منحرف کردیں ، اور بات یہ ہے کہ وہ ضروری کامیاب بھی ہوجاتے جس حد تک ان کی مساعی کا تعلق ہے ، اگر آپ پیغمبر نہ ہوتے اور آپ کو اللہ کی جانب سے تثبت الہی کی نعمت نہ دی جاتی ۔ (آیت) ” ضعف الحیوۃ وضعف الممات سے غرض یہ بتانا ہے کہ نبی کی پیغمبرانہ ذمہ دادی کس حد تک اہم ہوتی ہے ، اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ عام اختلافی سطح سے بہرحال مند ہو ۔ حل لغات : کادوا : کاد ، قرب واقع کے لئے سے وقوع ضروری نہیں ۔ الإسراء
75 الإسراء
76 الإسراء
77 (ف ١) مشرکین کی دسیسہ کاریوں اور ریشہ دوانیوں کا ذکر ہے کہ یہ لوگ آپ کے وطن سے خارج کرنے کے لئے کس قدر کوشاں ہیں اور کس کس طریق سے یہ آپ کو مجبور کررہے ہیں ، کہ آپ اپنا وطن مالوف ترک کردیں ، مگر ان کو یہ معلوم نہیں کہ انبیاء کی ایذا دہی کے بعد اللہ کا عذاب آتا ہے ، اور مخالفین کی قوتون کو نابود کردیا جاتا ہے ، یہ سنت الہی ہے جس میں خلاف نہیں ہوتا ، چنانچہ ہجرت کے دوسرے سال بدر میں ان مکہ کے اکابر سے قدرت نے پوری طرح انتقام لے لیا ، جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکے سے نکال دینے کا موجب بنے تھے ۔ الإسراء
78 (ف ٢) مجوسی سورج کی عبادت کرتے اور عموما اس وقت کرتے جس وقت سورج کامل عروج پر ہو ، قرآن نے نماز کے اوقات ایسے بتانے ہیں جب کہ سورج زوال پذیر ہوجائے ، دلوک : وہ وقت ہے جب سورج افق نور سے ڈھل جائے اور یہ تین دفعہ ہوتا ہے ظہر کے وقت جب سورج پہلی دفعہ زوال پذیر ہوتا ہے عصر کے وقت جب دوسری دفعہ دوسرے مرتبہ میں افق نور سے سورج ڈھلتا ہے ۔ اور تیسری دفعہ جب افق مغرب میں غروب ہوجاتا ہے ۔ لدلوک الشمس : سے غرض یہ ہوگی کہ کلما دلکت الشمس ، غسق اللیل رات کی نماز ہے یعنی عشاء اور قران الفجر ، صبح کی اس طرح پانچوں نمازوں کا ذکر قرآن کی ایک آیت سے ثابت ہوتا ہے ۔ حل لغات : نافلۃ لک : یعنی زیارت وبرکت : الإسراء
79 الإسراء
80 الإسراء
81 الإسراء
82 حق آگیا : (ف ١) قرآن مجید حق وصداقت ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ باطل اس کے مقابلہ میں نہ ٹھہر سکے ، تمام دنیائے کفر کو پکار کر کہہ دیا گیا ، کہ اب تمہاری عمر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے حق ظہور پذیر ہوچکا ہے ، آفتاب نکل آیا ہے ، اب کفر کی تاریکیوں کے لئے گنجائش نہیں ، دنیا میں اب صرف صداقت اور سچائی کی حکومت ہوگی ، اور اسلام کا آفتاب جلوہ افگن ہوگا یہ کیوں ؟ اس لئے قرآن ہی وہ کتاب ہے جو فطرت کے اسرار روموز کے چہرہ پر غور سے نقاب اٹھاتی ہے ، جو حق کی ترجمان ہے جس سے دل کی تمام بیماریاں دور ہوتی ہیں ، اور نعمت مجسم اور شفاء کامل ہے ۔ ہمارے اعتراضات اور شکوک جو دلوں میں پیدا ہوتے ہیں ، اور الحاد وکفر کا موجب بنتے ہیں ، قرآن حکیم میں ان کا بہترین حل موجود ہے کیونکہ یہ خدا کی کتاب ہے اور سینوں کے اسرار سے آگاہ ہے ، دماغ کے خطرات سے واقف ہے اور جس کے سامنے نفس کی مستور خواہشیں بھی واشگاف ہیں مگر ظالم اور حق ناشناس طبیعتیں اس کی برکات سے محروم رہتی ہیں ، اور سوائے خسارہ اور گھاٹے کے ان کے حصہ میں اور کچھ نہیں آتا ۔ الإسراء
83 الإسراء
84 (ف ٢) فطرت انسانی کی کمزوریوں کی طرف اشارہ ہے کہ ناز ونعمت کے وقت محسن کو بھول جاتا ہے اور تکلیف کے وقت مایوس ہوجاتا ہے ، حالانکہ مسرتوں اور خوشیوں میں اللہ کو یاد رکھنا چاہئے تھا ، اور مصیبت میں تو خشوع کے ساتھ اس کے سامنے زیادہ جھکنا چاہئے تھا ، یہ اکثریت کا مرقع ہے اللہ کے ایسے بندے بھی ہیں جو دونوں حالتوں میں شاکر رہتے ہیں نہ دنیا کی آسائشیں اس کے لئے وجہ ابتلاء ہوتی ہیں ، اور نہ مصیبتیں باعث لغزش : حل لغات : زھق : زھوقا کے معنی نابود اور ہلاک ہونے کے ہیں یعنی نیست اور ضائع ہوگیا ، شاکلتہ : صورت ، نہج اور طریق ، امر : بات حکم ارادہ ، منشاء وغیرہ ۔ الإسراء
85 (ف ١) یہاں کس روح کے متعلق پوچھا جا رہا ہے اس میں مفسرین کا اختلاف ہے قرآن نے روح کو متعدد معانی میں استعمال کیا ہے ، روح جبرائیل (علیہ السلام) کو بھی کہتے ہیں اور قرآن کو بھی اس طرح روح مراد روح حیوانی بھی ہے جس پر زندگی کا دارومدار ہے ، مفسرین کی اکثریت کی رائے یہ ہے یہ یہاں روح سے متعارف روح مراد ہے ۔ قرآن حکیم کہتا ہے ، اس قسم کے سوالات کا تعلق مذہب سے نہیں ہے ، پیغمبر کے فرائض میں یہ چیز داخل نہیں ہے کہ وہ تمہیں روح کی حقیقت سمجھائے وہ اس لئے آیا ہے ، تاکہ روح کو جو کچھ بھی وہ ہے تازگی اور نمود بخشے ، اسے تزکیہ وتطہیر سے اس قابل بنائے کہ وہ فضائے قدس میں پرواز کرسکے تمہارا علم محدود ہے ، تم اس کی گہرائیوں کو نہیں پا سکتے تمہارے لئے یہ ناممکن ہے کہ اس کی حقیقت کو سمجھ سکو ، آج بھی جبکہ ہمارا علم ترقی کرچکا ہے ہم روح کے متعلق بہت کم جانتے ہیں اور آئندہ بھی ہم بہت زیادہ نہیں جان سکیں گے ، کیونکہ ہمارا علم صرف محسوسات تک محدود ہے ، اور وہ بھی ناقص طریق پر ، ہمارے لئے کسی چیز کی پوری حقیقت سے آگاہ ہونا ناممکن ہے ۔ حل لغات : ظھیرا : پشت پناہ : الإسراء
86 الإسراء
87 الإسراء
88 الإسراء
89 الإسراء
90 الإسراء
91 الإسراء
92 پیغمبروں کا دائرہ اختیار : (ف ١) قرآن بےمثل اور بےنظیر صحیفہ آسمانی ہے ، انسانی ذہینت اور طاقت میں اس کا جواب ممکن نہیں ، اس میں ہر نوع کے لوگوں کے خیالات ملحوظ رکھے ہیں ، ایک عامی انسان سے لے کر فیلسوف ودانا تک کے لئے اس میں ہدایت ہے ، ہر دل ودماغ کے لوگ اس کی نعمتوں سے استفادہ کرسکتے ہیں ، اور ہر قسم کی ترقی حاصل کرسکتے ہیں مگر یہ بدبخت مکے والے ، جن کی ذہینت مسخ ہوچکی ہے کم بختیوں میں مبتلا ہیں ، بجائے اس کے کہ اس نسخہ کیمیا سے فائدہ حاصل کریں ، بلاضرورت معجزات طلب کرتے ہیں ، اور کہتے ہیں جناب ہم تو جب مانیں گے جب یہاں مکے کی سنگلاخ زمین میں پانی کے چشمے پھوٹ نکلیں یا یہاں انگور اور کھجوروں کے باغات ہوں ، یا آپ اتنے امیر اور متمول ہوں ، کہ آپ کا مکان سونے کا ہو ، یا آسمان پر آپ ہماری آنکھوں کے سامنے چڑھیں ، اور کتاب لے آئیں ، اور یا پھر عذاب ہی آجائے اور آسمان ہم پر ٹوٹ پڑے ، جیسا کہ اکثر آپ کہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، ان سے کہہ دیجئے تم لوگ منصب نبوت کو نہیں سمجھے ، بھلا ان خوارق کا آپ سے کیا تعلق ؟ آپ تو رسول ہیں اور انسان ہیں ، اور پابند ہیں ، کہ احکام الہی کی پیروی کریں ، اس لئے تمہاری خواہشات کی تکمیل بلا ارادہ الہی از خود نہیں کرسکتے ، اگر تمہاری آنکھیں بینا ہوں ، تو نفس نبوت اور روح پیغام کو دیکھو ، تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ صفحات قرآن میں کس قدر معانی کے دریا بہہ رہے ہیں ، انگور اور کھجور تو کیا چیزیں ہیں ، حکمت ودانائی کے کتنے بار آور شجر اس میں موجود ہیں جن کے پھل سے دنیا ہمیشہ شیربن کام رہے گی ، تم قرآن کے احکام پر عمل پیرا رہ کر دیکھو ، تو تمہیں چاندی سونے کے محلات بھی یہی مل جائیں ، اور قیصر وکسری کے سربفلک قصور کو فتح کر لوگے اور تمہاری فتوحات اور کامرانی کا غلغلہ بلند ہوگا ، اور تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ اسلام واقعی اللہ کا مذہب ہے ، جو ہر طرح ارفع واعلی ہے ۔ حل لغات : ینبوعا : وہ چشمہ جو ابل رہا ہو ، بڑا چشمہ ۔ فتیلا : صف بصف مقابل ، زخرف : اصل معنی زینت اور آرائش کے ہیں سونے پر بھی اس کا طلاق ہوتا ہے ۔ الإسراء
93 الإسراء
94 الإسراء
95 (ف ١) دراصل وجہ اعتراض یہ تھی کہ ان کے خیال میں انبیاء علیہم السلام بشر نہیں ہونا چاہئیں وہ یہ سمجھتے تھے کہ نبوت فوق البشر لوگوں کا حصہ ہے ان کی نخوت وغرور کو گوارا نہیں تھا ، کہ ان کا ہم جنس انسان نبوت کے خلعت سے نوازا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے نہایت معقول جواب دیا ہے ، کہ کم بختو ! زمین پر جب تم جیسے انسان رہتے ہیں تو انبیاء بھی انسانوں میں سے ہونا چاہئیں ، تاکہ تم صحیح معنوں میں ان کی اطاعت کرسکو ، اور یہ نہ کہہ سکو ، کہ صاحب ہم فرشتوں کی پاکبازی کو کب پہنچ سکتے ہیں عجیب بات ہے جو بات تمہارے بھلے کی ہے اسی سے تمہیں چڑ ہے ، اور اس بات کے تم مخالف ہو ۔ الإسراء
96 الإسراء
97 کافر منہ کے بل چلیں گے : (ف ٢) اللہ کی ہدایت تو عام ہے ، سب لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں مگر کچھ لوگ جان بوجھ کر گمراہی مول لیتے ہیں اور حقائق کی جانب سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں واقعات کو دیکھتے ہیں مگر عبرت حاصل نہیں کرتے ، یہ ایسے لوگ ہیں ، جن سے ہدایت کی قابلیت چھن جاتی ہے ۔ اور محرومی وبدبختی کی زندگی بسر کرتے ہیں ان لوگوں کے متعلق ارشاد ہے کہ جب اللہ نے انہیں ہدایت نہیں دی ، اور یہ تعصب وجہالت کی وجہ سے اسلام کی روشنی سے فیضیاب نہیں ہوئے ، تو اب کون انہیں سمجھا سکے گا ؟ کون ان کا مددگار اور چارہ ساز ہو سکے گا ؟ ان لوگوں کو جہنم میں منہ کے بل چلایا جائے گا ، یہ ایک نوع کی سزا ہے ، جس طرح دنیا میں انہوں نے ہمیشہ سیدھی راہ کی مخالفت کی ، اور ہمیشہ راہ صواب سے ہٹ کر چلے ، اسی طرح آخرت میں انہیں سلامت دومی نصیب نہ ہوگی اور کہا جائے گا کہ دنیا میں تم نے اپنے لئے کج روی پسند کی تو آج یہاں تمہاری سزا یہی ہے کہ منہ کے بل چلو ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا ، کہ یہ لوگ منہ کے بل کس طرح چل سکیں گے آپ نے فرمایا ، جس طرح اب پاؤں کے بل چلتے ہیں یعنی جو خدا انہیں پاؤں کے بل دنیا میں چلا رہا ہے ، وہ عقبی میں منہ کے بل چلانے پر قادر ہے اس بات میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ الإسراء
98 (ف ١) آخرت کے متعلق ایک گروہ کو ہمیشہ شک رہا ہے اور آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں ، جنہیں عاقبت کا یقین نہیں اسی لئے قرآن حکیم نے اس شبہ کو کوئی صورتوں میں ذکر فرمایا ہے ، اور جواب دیا ہے تاکہ ہر زمانہ کے متشکک لوگ تسلی واطمینان حاصل کریں ، اللہ فرماتے ہیں کہ زمین وآسمان کو پہلی دفعہ پیدا کرنے میں ہمیں کوئی تکلف نہیں ہوا ، تو اب فنا کے بعد بھی انہیں دوبارہ منقہ شہود پر لایا جاسکتا ہے ، جو چیز ایک مرتبہ بغیر کسی وسیلہ مادی کے پیدا ہو سکتی ہے اس کا ہزار مرتبہ یونہی پیدا ہونا بھی ممکن ہے ، البتہ اگر تمہیں اللہ پر یقین نہیں اور تم اللہ کو نہیں مانتے ، تو پھر حشر ونشر کے کوائف پر معترض ہونا یقینا غلط ہے ، ہونا یہ چاہئے کہ نفس خدا کے مسئلہ کا پہلے بحث کرلی جائے ۔ الإسراء
99 الإسراء
100 (ف ٢) اس آیت میں اس حقیقت کو واضح فرمایا ہے کہ دراصل اس قسم کے شبہات تمہارے دل میں اس لئے پیدا ہوتے ہیں کہ تمہیں ان مسائل کے سمجھنے میں الجھن ہوتی ہے یا یہ مسائل ناقابل فہم ہیں ، بلکہ یہ انکار وتمرد محض اس لئے ہے کہ تم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو فراخدلی کے ساتھ برداشت نہیں کرسکے ، تمہارے دلوں میں بخل ہے اور تم نہیں چاہتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یوں ان معارف کو ہرکس و ناکس کے سامنے پیش کریں اس میں تم اپنی توہین سمجھتے ہو نبوت کے خزانے اگر تمہیں ہلتے تو تم اس دریا دلی سے ہرگز خرچ کرتے تمہیں رنج ہے ، تو یہ ہے کہ ہدایت عام ہوئی جاتی ہے ، اور تم بڑے بڑے لوگوں کے لئے کوئی وجہ تخصیص نہی رہی ۔ بات یہ ہے کہ انسان فطرتا بخل پسند ہے ، کشادہ دلی کے ساتھ دوسروں کی خوبیاں تسلیم نہیں کرتا ، اور ایک شخص کے فضائل ومحاسن کا محض اس لئے انکار کردیتا ہے ، کہ وہ خود کیوں ان سے متصف نہیں ۔ حل لغات : قتورا : بخیل ، تنگ دل ، قتر سے بنا ہے جس کے معنی تنگی اور ضیق کے ہیں ۔ تسع ایت : تو معجزے جو فرعون کو دکھائے گے تھے ، الإسراء
101 الإسراء
102 الإسراء
103 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کامیابی : (ف ١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بن اسرائیل کی آزادی کے لئے تشریف لا کے اور فرعون کو بہت سی نشانیاں دکھائیں اور کہا کہ میں خدا کی طرف سے حریت وآزادی کا پرچم لہرانے آیا ہوں ، میں اس لئے مبعوث ہوا ہوں کہ بنی اسرائیل کی غلامی کو دور کروں ، اور تجھے کیفر کردار تک پہنچاؤں تو فرعون نے از راہ کبر کہا میری رائے میں تمہارا دماغ صحیح نہیں ہے ، میری حکومت کو کون الٹ سکتا ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ، مجھے اپنی حقانیت پریقین ہے اور دل میں تو بھی جانتا ہے کہ مجھے میرے رب نے بھیجا ہے ، اور بصائر و دلائل سے نوازا ہے تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تمہارے لئے ہلاکت مقرر ہوچکی ہے ، اور تم عذاب الہی سے بچ نہیں سکتے ہو نتیجہ یہی ہوا کہ موسیٰ کی پیشگوئی پوری ہوئی ، اور فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت غرق ہوا ۔ غرض یہ ہے جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں فرعون کامیاب نہیں ہوا ، اسی طرح آپ کے مقابلہ میں یہ لوگ بھی کامیاب نہیں ہو سکیں گے ، اللہ تعالیٰ کا ہمہ گیر قانون یہ ہے ، کہ صداقت کے علم کو بلند کیا جائے ، اور جھوٹ کر سرنگوں کیا جائے ، یہ ناممکن ہے کہ حق پرستوں کی جماعت رسوا اور ذلیل ہو ، اللہ اپنے بندوں کی بہرحال حمایت کرتا ہے اور انہیں ہر قسم کے ابتلاء میں کامیاب فرماتا ہے ۔ حل لغات : انی لا ظنک یفرعون : ظن کے معنی یہاں یقین کے ہیں قرآن نے کثرت سے ظن کو یقین کے معنوں میں استعمال فرمایا ہے ، مثبورا : ملعون ، تباہ حال ، خائب وخاسر ، ہلاک وغیرہ ۔ لفیفا : اکٹھے ، یہ اسم جمع ہے اسمعی کی رائے میں جمع ہے جس کا واحد موجود نہیں ۔ الإسراء
104 الإسراء
105 الإسراء
106 (ف ١) قرآن حکیم بتدریج نازل ہوا ہے ، واقعات کے مطابق اترا ہے تاکہ سینوں میں محفوظ رہے ، اور لوگ اپنی ضروریات کا حل اس میں دیکھ کر اس کی صداقت کے قائل ہوں ، کیونکہ کلام جو باموقع اور برمحل ہو زیادہ موثر اور زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے ۔ الإسراء
107 الإسراء
108 الإسراء
109 (ف ٢) یعنی قرآن حکیم کی خوبیاں مسلم ہیں ، وہ لوگ جو صاحب علم ہیں ، جنہیں اللہ کے کلام سے ذوق ہے ، وہ جب اس کو سنتے ہیں ، تو سر دھنتے ہیں ، اور اظہار تشکر کے لئے بارگاہ الہی میں سربسجود ہوجاتے ہیں ، انہیں خوب معلوم ہے کہ یہ کلام انسانی دماغ کا اختراع نہیں ، تم اگر اس نعمت سے محروم ہو ، اور اس کو نہیں مانتے ، تو اس کی وجہ سے قرآن کے فضائل میں کمی نہیں ہوتی ، کیونکہ ذوق سلیم رکھنے والے لوگوں میں اس کو مقبولیت تامہ حاصل ہے ۔ الإسراء
110 ہرزبان میں خدا کا نام لو ! (ف ٣) قرآن حکیم تمام بنی آدم کی مشترکہ کتاب ہے ، اس لئے اس میں یہ التزام ہے کہ تمام اختلاف افگن چیزوں کی مخالفت کرے ، اور روح مذہب کے مرکز پر سب کو جمع کر دے ، اور ان تمام تفریقات کو مٹا دے ، جن کی وجہ سے ردائے انسانیت تار تار ہوجاتا ہے ، ارشاد ہوتا ہے ، کہ اللہ کو پکارو ، یا رحمن کو یاد کرو ، سب جائز ہے ، بشرطیکہ خدا کے جمال وجلال کو ملحوظ رکھا جائے یعنی یہ لفظی اختلاف کہ ” اللہ “ تو ہمارا خدا ہے اور رحمن مسلمانوں کا خدا ہے ، ناقابل التفات ہے ، سارے اچھے نام اور تمام اچھی صفتیں اللہ کے ساتھ متصف ہو سکتی ہیں ، تم خدا کو جس نام کے ساتھ چاہو ، یاد کرو ، یہ لفظی اختلافات ہیں ، خدا بہرحال ایک ہے اور وہی سب کا مالک وخالق ہے ، اور سب کے لئے یکسان لائق احترام وعبادت ہے ، ان اختلافات اسمی سے اس کی ذات میں کوئی تغیر پیدا نہیں ہوتا ، کیا پانی کو ، آب ’ ماء ، اور واٹر کہہ دینے سے اس کی حقیقت بدل جاتی ہے ۔ جب نہیں بدل جاتی ، تو اللہ کو مختلف زبانوں میں تعبیر کرنے سے کیوں کفر لازم آئے ؟ بات یہ ہے کہ اسلام نے اللہ تعالیٰ کا ایک نہایت محترم اور لائق فہم تخیل پیش کیا ہے ، جس میں تجسم وحلول کا شائبہ تک نہیں ، اس لئے اگر اس تخیل کو پیش نظر رکھا جائے ، تو پھر مختلف زبانوں میں اس کا نام لینا قابل اعتراض نہیں رہتا ۔ آداب دعاء میں یہ ہدایت فرمائی کہ نہ تو بلند آواز میں ہو ، کہ خشوع وخضوع پیدا نہ ہو سکے ، اور نہ اس قدر آہستہ ہو ، کہ کان بھی نہ سنیں ، بلکہ درمیان راہ اختیار کی جائے ، کیونکہ اسلام تو کہتے ہی اس طریق کو ہیں جو وسط اور درمیانی ہو ۔ الإسراء
111 الإسراء
0 (ف ١) مکی سورۃ ہے ، اس کے فضائل میں سے ہے کہ جو شخص اس کی دس اول آیتیں پڑھ لے گا ، دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا ، کیونکہ ان دس آیتوں میں وہ حقائق ومعارف ہیں کہ ان کے جان لینے کے بعد مرد مومن اجل وفریب کی راہوں سے آگاہ ہوجاتا ہے ، اور ایمان کی اس بلندجگہ پر متمکن ہوجاتا ہے ، جہاں سے اس کو نیچے اتارنا ناممکن ہے تفصیل آیندہ صفحے پر دیکھئے ۔ حل لغات : عوجا : کجی ، ٹیڑھا پن ، پیچیدگی ، قیما : برقرار رکھنے والی ، قائم رکھنے والی ، باسا : عذاب ، شدت ، سختی ۔ الكهف
1 الكهف
2 الكهف
3 الكهف
4 الكهف
5 الكهف
6 الكهف
7 الكهف
8 سورہ کہف کی دس آیتیں : (ف ١) ابتدا کی ان دس آیتوں میں جو معارف بیان فرمائے ہیں ان کو سمجھ لینے کے بعد گمراہی کا کوئی احتمال نہیں رہتا ، اور قلب ودماغ انواروصداقت سے مستنیر ہوجاتے ہیں ذلیل میں یہ معارف درج ہیں ۔ ١۔ قرآن حکیم اللہ کی کتاب ہے ، اس میں کسی قسم کا الجھاؤ نہیں مطالب واضح اور صاف ہیں ۔ ٢۔ یہ ہماری تمام ضروریات دینی کی کفیل ہے ، اس صحیفہ قیم کے بعد مزید تجدید وبعثت کی ضرورت نہیں ۔ ٣۔ توحید کی راہ استقامت اور سلامت روی کی راہ ہے ، مسلمان کا نصب العین ہمیشہ یہی رہے گا کہ ایک خدا کے سامنے جھکے ، ٤۔ عقیدہ شرک کی تمام صورتیں اور شکلیں غیر علمی اور غیر یقینی ہیں اور اللہ کی تقدیس پر اتہام وافترا ہے ۔ ٥۔ جناب رسالت پناہ امت کے سب سے بڑے خیر خواہ ہیں ، ہمارے لئے ان کے دل میں بےحد کرب وبے چینی تھی ، (آیت) ” فلعلک باخع نفسک “۔ میں اسی جانب اشارہ ہے اس لئے آپ کا اسوہ حسنہ ہمارے لئے مکمل اور تشفی بخش ہے ۔ ٦۔ دنیا کی آرائش وزینت ناپائدار اور فانی ہے مقصود یہ ہے کہ ہم دنیا میں رہ کر آیندہ زندگی کے لئے تیاری کریں ۔ ٧۔ اللہ کے نیک بندے ابتلاء کے وقت مایوس نہیں ہوتے ، اور اللہ سے ہدایت وراہنمائی کی توفیق چاہتے ہیں ، کیا یہ حقائق ایسے نہیں کہ انسانیت کو فروغ دیں ، اور مومن کو ہر نوع کی گمراہیوں سے بچا لیں ؟ حل لغات : باخع : جان کھونے والا ۔ جرزا : زمین بےگیاہ ، بنجر ، غیر آباد ، ناقابل زراعت ۔ الرقیم : وہ جگہ ہے ، جسے بائبل میں ’ راقیم ‘ کہا گیا ہے ، وہ تختی جس پر اصحاب کہف کا قصہ اور ان کے نام لکھے ہوئے تھے ۔ الكهف
9 الكهف
10 الكهف
11 الكهف
12 الكهف
13 (ف ١) اصحاب کہف ورقیم چند موحد شخص تھے ، جو بت پرست حکومت کے مظالم سے تنگ آکر گوشہ نشین ہوگئے ، اور آبادیوں سے دور اپنے لئے ایک غار کو پسند کرلیا ، مدت تک دنیا ومافیہا کو فراموش کئے ہوئے اس میں پڑے رہے ، اور یاد الہی میں مشغول رہے ، اور یاد الہی میں مشغول رہے ، اور جب باہر نکلے تو معلوم ہوا کہ ظالم حکومت کا دور ختم ہوچکا ہے ، اور ساری دنیا عیسائیت کے پرچم تلے جمع ہے ۔ یہ ہجرت کی قدیم ترین صورت ہے اسلام یہ نہیں چاہتا ، کہ مسلمان ذہنی وقلبی غلامی کو گوارا کریں ، وہ مسلمان کو ہر وقت اللہ کی محبت میں سرشار دیکھنا چاہتا ہے ۔ حل لغات : فضربنا علی اذانھم : یعنی دنیا کی جانب سے انہیں بالکل بےخبر کردیا ، جمہور مفسرین نے نیند اور سکر طویل کے معنے لئے ہیں ۔ الكهف
14 الكهف
15 الكهف
16 اللہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے : (ف ١) جب کوئی قوم اللہ کے لئے اپنی آسائیشوں کو ترک کردے اور توحید کے لئے تکلفات کو چھوڑ دے ، عقیدے کی حفاظت وصیانت کے لئے دکھ اور مصائب برداشت کرلے ، تو اللہ کی رحمتیں اسے گھیر لیتی ہیں ، اصحاب کہف ، یہ چند نفوس قدسیہ تھے ، مظالم واستبداء سے گھبرا کر اللہ کی پناہ میں آگئے ، اور دین حق کے تحفظ کے لئے فار اور کھوہ کی زندگی پر قناعت کرلی ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، کہ جب تم نے بت پرستوں سے قطع تعلق کرلیا ہے ، اور یہاں آگئے ہو تو خوف وہراس کی ضرورت نہیں ، ہم تمہاری مدد کریں گئے ، اور یہاں وہ لطف تمہیں میسر ہوگا ، جو بڑے بڑے ایوانوں میں تمہیں میسر نہ ہوتا ۔ الكهف
17 (ف ٢) یعنی ان لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو جگہ پسند فرمائی ہے ، وہ دھوپ سے محفوظ ہے ، سورج طلوع وغروب کے وقت کترا کر نکل جاتا ہے ، اور یہ لوگ آفتاب کی تمازت سے محفوظ رہتے ہیں ، البتہ ہوا پہنچتی رہتی ہے ، کیونکہ ہوا کے لئے غار کا دہانہ موجود ہے ، خدا کی جانب سے یہ حسن انتظام خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ۔ حل لغات : شططا : غلو ، مبالغہ ، اندازہ سے گزرنا ، حد سے زیادہ ، بعید از عقل ۔ مرفقا : وسیلہ ، راحت ، آسائش ۔ فجوۃ : کشادہ جگہ ، فراخ مقام : الكهف
18 (ف ١) یہاں ایک عرصہ تک یہ لوگ رہے ، اور زہد و راضت کی زندگی بسر کی ، آخر ان کا انتقال ہوگیا ، اور ایسی حالتوں میں موت آئی ، کہ یہ لوگ کسی نہ کسی کیفیت عبادت میں مشغول تھے ، کوئی سجدے میں تھا ، کوئی رکوع میں ، کوئی کھڑا تھا ، اور کوئی جھکا ہوا ، اس لئے باہر سے دیکھنے والے کو یہی معلوم ہوتا تھا ، کہ یہ لوگ زندہ ہیں ، اور عبادت میں مشغول ہیں ، حالانکہ حقیقت میں وہ موت کی نیند سو رہے تھے ۔ کتا بھی غار کی دہلیز پر پاؤں پھیلائے بیٹھا تھا ، اور وہ بھی اسی کیفیت میں طعمہ اجل ہوچکا تھا اس سارے منظر کو اس وقت بھی اچھی طرح دیکھا جا سکتا ، جبکہ غور کیا جاتا ، کیونکہ یہ لوگ جس غار میں پناہ گزین تھے ، وہ قدرے تاریک تھا ، اور اول نظر میں تو یقینا دل دہل جاتا ہوگا اللہ تعالیٰ نے اس جگہ کو دہشتناک بنا دیا ہے قرآن حکیم نے اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے ۔ (آیت) ” وتحسبہم ایقاضا “۔ اور لواطلعت : میں اس وقت کی حالت بیان فرمائی ہے ، یعنی اگر تم اس وقت موجود ہوتے ، تو تم بھی پہلی نظر میں انہیں زندہ خیال کرتے ، اور جب تمہیں معلوم ہوجاتا ، کہ یہ زندہ نہیں مردہ ہیں تو مارے خوف کے بھاگ جاتے ۔ حل لغات : ایقاضا : جیتے جاگتے ، جمع یقظ بمعنے بیدار رقود : موت کی نیند سوئے ہوئے ، جمع راقد بمعنی سونے والا خواب کنندہ ۔ بورقکم : سکہ ، روپیہ ۔ الكهف
19 (ف ١) طویل مدت کے بعد اللہ نے ان کو زندہ کیا ، یہ اٹھے اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ ہم کتنی مدت یہاں رہے اور یہ خیال کرکے کہ شاید ایک آدھ دن اس عالم شکر وبیہوشی میں گزرا ہے ، اپنے آدمی کو شہر میں بھیجا کہ وہ نفیس کھانا خرید لائے ، اسے تاکید کی ، کہ خفیہ خفیہ جائے اور ہشیار رہے ، ایسا نہ ہو ، مخالفین پکڑ لیں ، اور پھر غلط عقائد کے ماننے پر مجبور کردیں ، یہ تمام عرصہ انہیں بہت تھوڑا معلوم ہوا ، اس لئے کہ وہ جس حالت میں تھے ، اسی میں زندہ ہوگئے ، انہوں نے یہ خیال کیا ہوگا کہ زہد وعبادت کی کثرت سے شاید قدرے بےہوشی طاری ہوگی ہو ۔ الكهف
20 الكهف
21 اصحاب کہف کی دوبارہ عزت افزائی : (ف ٢) اللہ کی کرشمہ سازیاں ملاحظہ ہوں ، اصحاب کہف کا یہ آدمی جب شہر میں پہنچا ، تو اس کے پاس پرانا سکہ تھا ، لیکن پرانی حکومت کا نظام الٹ چکا تھا ، لوگ حیران ہوئے کہ یہ لوگ کیونکر یہاں موجود ہیں ؟ کیفیت دریافت کرنے پر معلوم ہوا ، کہ یہ لوگ اس زمانہ کی حکومت کے مظالم سے تنگ آکر پہاڑ کے کسی غار میں پناہ گزین ہوگئے تھے چنانچہ یہ لوگ پکڑ لئے گئے ، مگر اس وقت ان کے ہم عقیدہ لوگ ہی برسر اقتدار تھے ، اس لئے ان لوگوں کی بہت عزت کی گئی اب یہ بحث تھی کہ ان کی جگہ غار پر عمارت بنائی جائے ، جو بطور یادگار کے رہے ، غور فرمائیے ، یا تو وہ زمانہ تھا کہ یہ لوگ ابنائے قوم سے بیزار ہو کر بھاگے تھے اور پایہ کیفیت ہے ، کہ لوگ انہیں ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں ۔ اور اس واقعہ سے جہاں یہ مقصود تھا کہ ان لوگوں کو جو خدا کی پناہ میں آگئے ہیں ، عزت بخشی جائے اور انہیں بتایا جائے ، کہ اللہ اپنے بندوں کی ہمیشہ دستگیری کرتا ہے ، وہاں یہ بھی مدعا تھا ، کہ منکرین قیامت کو قیامت صغری کا ایک منظر دکھا دیا جائے اور انہیں معلوم ہوجائے کہ قیامت کے بعد مردوں کو زندہ کردینا اسی طرح ممکن ہے جس طرح ان اصحاب کہف کا موت کے زندہ ہوجانا ، اصحاب کہف کی صحیح تعداد معلوم نہیں ، یہ لوگوں کی مختلف قیاس آرائیاں ہیں ، جو اس آیت میں مذکور ہیں ۔ قرآن حکیم نے غیر ضروری جزئیات کو اس لئے بیان نہیں کیا کہ قرآن کا مدعا کوئی پرانا قصہ دہرا دینا نہیں ، بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کے چند بندوں نے جب متاع ایمان کی حفاظت کے لئے ہم پر بھروسہ کیا تو ہم نے ہر طرح ان کی اعانت کی اور ظالم حکومت کو ان کے سامنے بیخ وبن سے اکھاڑ ڈالا ، اور یہ مقصد اس حد تک بالکل واضح ہے ۔ الكهف
22 (ف ١) قرآن حکیم میں اور بائبل میں بہت بڑا مابہ الامتیاز ہے کہ بائبل میں غیر ضروری جزئیات وتفصیلات مذکور ہوتی ہیں اور قرآن صرف مغز واصل پر اکتفا کرتا ہے ، قرآن کا مقصد یہ ہے کہ ایام اللہ یا واقعات کو عبرت آموز طریق سے بیان کیا جائے اس لئے وہ تفصیلات کو نظر انداز کرتا ہے ۔ اصحاب کہف کی زندگی کا وہ پہلو جو ہمارے لئے سبق آموز ہو سکتا تھا ، بیان فرما دیا ، اب اس بات کی بحث کہ اصحاب کہف کون کون شخص تھے ، تعداد کیا تھی ، بالکل غیر ضروری ہے ، اس نوع کی تفصیلات بسا اوقات اس روح ومقصد سے دور کردیتی ہے ، جس کی وجہ سے قصہ بیان کیا گیا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کی تعداد بہت کم لوگ جانتے ہیں آپ بھی اس میں زیادہ جستجو نہ کریں ، کیونکہ جہاں تک غرض اور نصب العین کا تعلق تھا ، واضح کردیا گیا ، آپ اسی قد معلومات پر اکتفا کریں ، جو وحی کے ذریعہ بتادی گئی ہیں ۔ الكهف
23 مستقبل کے متعلق ادعا نہ کرو : (ف ٢) ہر کام کے لئے اللہ کی طرف سے ایک وقت مقرر ہوتا ہے اور ہر بات میں مصلحتیں ہوتی ہیں جنہیں کوتاہ نظر انسان نہیں دیکھ سکتا اس لئے اسے چاہئے کہ اپنی ہر بات میں اس عارفانہ نظریہ کو ملحوظ رکھے یعنی کبھی ادعا کے ساتھ مستقبل کے متعلق کچھ نہ کہے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ پردہ غیب سے کیا ظہور پذیر ہونے والا ہے ، اسے نہیں معلوم کل جو آفتاب طلوع ہوگا ، وہ میری تائید میں طلوع ہوگا یا مخالفت میں اصحاب کہف پر ظلم توڑنے والے لوگوں کو دیکھئے ، حکومت وقت کے وعادی کیا تھے یہی ناکہ ہم خدا پرستوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے ، اور ان کا نشان تک باقی نہیں رہنے دیں گے ، اور اس ادعا کا کیا حشر ہوا ؟ تین صدیوں میں حکومت کا تختہ الٹ گیا متکبر غارت ہوگئے ، اور غار میں پناہ لینے والے معزز وممتاز ہوئے اور خدا پرستوں کا اقتدار قائم ہوگیا ۔ اس قصے میں ایک تعلیم یہ بھی تھی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے اس قسم کا ادعا کرنے والوں کو متنبہ کیا گیا ، کہ خبردار آئندہ کے متعلق پیشگوئی کرنے کا تمہیں کوئی استحقاق نہیں کائنات میں اللہ کی بادشاہت ہے ، اس لئے وہی کچھ ہوگا ، جو خدا کو منظور ہے ۔ حل لغات : رجما بالغیب : تخمین و اندازہ ، اٹکل پچو ۔ تمار براء : سے ہے جس کے معنی بحث کرنا ہے ، مقصد یہ ہے کہ آپ اس میں بحث ومباحثہ نہ کریں اصل مدع کے سمجھنے کی کوشش کریں ، رشدا : بھلائی کی بات طریق ہدایت ۔ ملتحدا : جائے پناہ ، لحد سے بنا ہے جس کے معنی آغوش قبر کے ہیں ۔ بالغدوۃ والعشی : صبح وشام یعنی ہر وقت : الكهف
24 الكهف
25 الكهف
26 الكهف
27 الكهف
28 پیغمبر مساکین : (ف ١) قرآن حکیم میں بعض باتیں بصیغہ امر ادا کی گئی ہیں ، مگر اس سے مراد خبر ہے ، اور ایک واقعہ کا اظہار ہے ، اور اس کی بہت سی مثالیں ہیں یہاں بھی بالکل یہی انداز بیان ہے ، بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاید ان عام لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا پسند نہ فرماتے تھے جو غریب اور مفلس تھے ، اور قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آپ ان لوگوں کے ساتھ رہنے میں کوئی عار محسوس نہ کریں ، حالانکہ واقعہ بالکل اس کے خلاف ہے ، بات یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ ابو ذر (رض) ، سلمان فارسی (رض) ، اور اس قسم کے غریب اور مخلص عقیدتمندوں میں بےتکلفی سے بیٹھتے ، اور انہیں صبح وشام وقت گزارتے ، امراء کو یہ ناگوار تھا ، کہ وہ اس حالت میں آپ سے ملیں ، چنانچہ وہ کہتے کہ جناب ہم اس حلقے میں بیٹھ کر آپ سے گفتگو نہیں کرسکتے ، ان کے کپڑوں سے بو آرہی ہے ، اور ہماری طبیعت میں تکدر پیدا ہوتا ہے ، آپ بھی ان سے الگ ہوجائیے ، مگر وہ پیغمبر جو افلاس وفقر کو اعزاز بخشنے کے لئے آیا تھا ، کیونکر ان کی باتوں کو مان لیتا ، قرآن کی زبان میں ان کو بتایا گیا ، کہ گو یہ مفلس ہیں ، مگر دولت ایمان سے ان کے دل مالا مال رہیں ، ان کے کپڑوں سے گو تمہیں بو آتی ہے ، مگر دل ذکر خدا سے مہک رہے ہیں ، یہ مخلص ہیں ، خدا پرست ہیں ، تم انہیں حقیر سمجھو ، تمہیں اختیار ہے ، مگر قدرت کی جانب سے یہ ملے شدہ امر ہے ، کہ یہی لوگ دنیا میں انقلاب پیدا کریں گے ، تم حرص وہوا کے بندے ہو ، تمہارے دلوں پر غفلت کے حجاب پڑے ہوئے ہیں ، تم اسلام کی برکات سے استفادہ نہیں کرسکتے ، تم جب تک دنیا کی ان کثافتوں میں پڑے ہوئے ہو ، صحبت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فیضاب نہیں ہو سکتے ، اور تم ہرگز اس قابل نہیں ہو کہ پیغمبر مخلص مساکین کو چھوڑ کو تم مغرور اور متکبر انسانوں کے ساتھ بیٹھے اٹھے ۔ الكهف
29 (ف ٢) اس آیت میں واضح طور پربتا دیا گیا ہے کہ ایمان ایک دولت ہے ایک حقیقت ہے ، چاہو تو اس سے اپنی جھولیاں بھو لو ، اور چاہو تو محروم رہو ، رسول تمہاری وجہ سے غربا اور مساکین سے قطع تعلق نہیں کرسکتا ۔ حل لغات : فرطا : حد سے تجاوز کرنے والی بات ۔ سرادق : پردے قناتیں ، شامیانے سرا پردہ ، اساور : اسوار کی جمع ہے کلائی میں پہننے کی زنجیر یا کنگن ، ملوک عجم عموما زیور پہنتے تھے اور بالخصوص ہاتھوں میں طلائی کنگن شاہان فارس کا طرہ امتیاز تھا ان کے تتبع میں امراء عرب بھی اس کو نشان افتخار سمجھنے لگے تھے ۔ الكهف
30 الكهف
31 (ف ١) جو لوگ دنیا میں اسلام کی وجہ سے فاخرانہ زندگی کو ترک کردیتے ہیں اور اسلام کے اصول کو بلند کرتے رہتے ہیں ، اخروی زندگی میں انہیں تمام ان چیزوں سے بہرہ ور کیا جائے گا ، جن کا تعلق انتہائی اعزاز وفخر سے ہے ۔ جن کے لبادے یہاں بوسیدہ ، اور دریدہ ہیں ، انہیں ابریشم وقاتم دیا جائے گا پہننے کے لئے زیور ہوں گے اور ٹھاٹ کی زندگی ہوگی ، تاکہ انکو معلوم ہو کہ اللہ نے تحفہ اعمال کو قبول فرما لیا ہے ۔ حل لغات : حففنہما : ان کے گردا گرد حف سے ہے ، جن کے معنی گھیرنے اور کسی شئے کے احاطہ کرلینے کے ہیں ۔ یحاورہ : محاورہ کے معنے باہم گفتگو کرنا ہے ۔ الكهف
32 الكهف
33 الكهف
34 الكهف
35 الكهف
36 سرمایہ داری کا غرور : (ف ١) مکے والے مال ودولت کے نشہ میں سرشار تھے ، تمول کا خمار آنکھوں میں تھا اور امارت کا سودا دماغ میں سجا رہا تھا ، مسلمان ابتداء غریب تھے ، اس لئے وہ از راہ کبر مسلمانوں سے نفرت کرتے ، ان کے مذہب کو غربت ومسکنت کا مذہب سمجھتے اور کہتے کہ ہم ایسے دین کو قبول نہیں کرسکتے ، جس کے ماننے والے دنیوی حیثیت سے ہم سے بلند اور اعلی نہ ہوں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہاری مثال ان دو آدمیوں کی سی ہے جن میں سے ایک کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہر نعمت سے بہرہ ور کیا ہے ، اس کے پاس شاداب باغ اور کھیت ہیں ، بکثرت دوست ومددگار ہیں ، مگر مغرور ومتکبر ہے ، اپنے جاہ وحشم کو دیکھتا ہے ، اور پھولا نہیں سماتا ، اس کے خیال میں یہ عیش وکامرانی دائمی ہے ، اور آخرت میں بھی بزعم خود عزت وافتخار کا تنہا سزاوار ہے ، وہ اپنے دوسرے خدا پرست ساتھی سے کہتا ہے ، میرے پاس شاداب باغات ہیں ، دولت تم سے زیادہ ہے ، یہ سب باتیں اس انداز سے کہتا ہے کہ گویا ان تمام نعمتوں کو اس لئے اپنی محنت سے حاصل کیا ہے ، اور اللہ کے فضل وکرم کو اس میں کوئی دخل نہیں ، مومن اور خدا پرست اس کی تمام شیخی کی باتوں کو سنتا ہے ، اور کہتا ہے کہ یہ کفر ہے ، اللہ کے ساتھ اپنے نفس کو شریک ٹھہراتا ہے تمہیں اپنی قوت پر نہیں ، بلکہ اللہ کی توفیق پر خوش ہونا چاہئے تھا ، اور یہ کہنا چاہئے تاھ کہ یہ سب کچھ اللہ کی ضمانت سے مجھے ملا ہے ، اور جب تک اللہ چاہے گا ، اس کا فضل وکرم میرے شامل حال رہے گا تم مجھے حقارت کی نگاہ سے سے دیکھتے ہو ، اور تمہیں نہیں معلوم کہ اللہ مجھے تم سے کہیں زیادہ دولت دے سکتا ہے ، اس کے خزانے سدا معمور رہتے ہیں ، اور ہو سکتا ہے کہ تمہاری دولت لٹ جائے ، اللہ کا عذاب آجائے اور تمہارے باغات غارت ہوجائیں ، چنانچہ یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو چشم عتاب سے دیکھتے ہیں ، اور آن کی آن میں اس کا تمول خاک میں ملا دیتے ہیں باغ اجڑ جاتا ہے کلیاں گرتی ہیں ، سارا خرمن جل جاتا ہے ، اب وہ کف افسوس ملتا ہے اور کہتا ہے اے کاش ! میں اپنے رب کی عنایتوں کا معترف ہوتا ، اور اس دولت وتمول کو دائمی نہ سمجھتا ۔ اس مثال میں وہ شخص جو کبر وغرور کا مجسمہ ہے ، کفار مکہ سے ملتا جلتا ہے ، اور خدا پرست انسان مسلمان ہے جو اسلام کا نمائندہ ہے ، وہ کہتا ہے ، مکے والو ! تمہیں مسکینوں کو بنگاہ حقارت نہ دیکھنا چاہئے ہو سکتا ہے ، ہم کو اللہ تعالیٰ بلندی پر پہنچا دے اور تم تمام آسائشوں سے محروم ہوجاؤ ، یہ مال ودولت تو آزمائش کے لئے تمہیں دیا گیا ہے ، کہ تم کہاں تک اس کے امین ثابت ہوتے ہو ، جب تم غرور کا اظہار کرو گے ، اور اللہ کی نعمتوں کا شکریہ ادا نہیں کرو گے ، تو اللہ تم سے یہ نعمتیں چھین لے گا ، اور ان لوگوں کو دے دیگا جو اس کے فرمانبردار بندے ہوں گے ، سو بالکل اسی طرح وقوع پذیر ہوا ، اللہ نے مکہ والوں سے اقتدار چھین لیا ، اور مسلمانوں کو دے دیا جو مسکین مگر خدا کے شکر گزار اور دوست تھے ، قیصر وکسری کی حکومتوں کے وارث ٹھہرے اور جو تھوڑی سی دولت پر اس درجہ مغرور تھے ، ذلیل ورسوا ہوئے ۔ یہ اللہ کا قانون ہے کہ وہ حق شناس قوموں کو آگے بڑھاتا ہے اور ان قوموں کو جن کا سرمایہ عمل محض تعلی اور ہنر ہو گرا دیتا ہے ، اور فنا کے گھاٹ اتار دیتا ہے ۔ حل لغات : ابدا : بطور مجاز کے ہے یعنی جب تک میں زندہ ہوں ۔ غورا : عمق ۔ گہرائی ، نیچے اتر جانا ۔ عروشھا : جمع عرش ، بمعنے ٹٹی ۔ الكهف
37 الكهف
38 الكهف
39 الكهف
40 الكهف
41 الكهف
42 الكهف
43 الكهف
44 الكهف
45 باقیات الصالحات : (ف ١) یہ آیت سابقہ تمثیل کا تتمہ ہے ، غرض یہ ہے کہ ان لوگوں کو جو دنیا کی آب وتاب سے مرعوب ہیں اور آخرت سے غافل ان کو بتایا جائے ، کہ بہ عروس حشمت ودولت چند ہی دنوں میں اپنا سہاگ کھو بیٹھے گی ، دنیا کی مثال کس قدر عمدہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے ، کہ جیسے برسات میں ہری ہری گھاس بھلی معلوم ہوتی ہے ، اور اس کی تازگی وشادابی آنکھوں میں ایک سرور پیدا کردیتی ہے ، اسی طرح دنیا بظاہر بہت خوبصورت معلوم ہوتی ہے ، اور تمہارے لئے سرمایہ نشاط بہم پہنچاتی ہے ، مگر خزاں میں جس طرح گھاس سوکھ جاتی ہے ، پاؤں تلے دوری جاتی ہے ، اسی طرح دنیا پر دور خزاں آتا ہے اور اس وقت اس کی خوبصورتی اس سے چھن جاتی ہے ۔ آج جو شخص مالدار ہے سرمایہ اور دولت میں کھیل رہا ہے کل مفلس اور قلاش نظر آتا ہے ، اور ایک حبہ اس کے پاس نہیں رہتا ۔ بچے ، اور جوان جو ماں باپ کی آنکھوں کا نور ہیں ، اچانک موت کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں ، اور ان کے چراغ سکون وعیش کو گل کر جاتے ہیں ، یہ ہے دنیا کی مسرتوں کا انجام ۔ اس لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر محبت کس چیز سے کی جائے اور کن چیزوں کو دیرپا اور نتیجہ خیز سمجھا جائے ۔ قرآن حکیم فرماتا ہے باقیات الصالحات زیادہ بہتر ہیں ، زیادہ نیک انجام ہیں اور زیادہ موزون ۔ یعنی ایسے بلند کام کرو ، جو باقی رہنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ، دنیا مٹ جائے ، مگر تمہارے اعمال کے نقوش اس کی موج سے نہ ہٹ سکیں ، ایسے کام کرو ، جو ملت کو زندہ کردیں ، قوم کو آگے بڑھائیں ، اور خود تمہاری بات وسعادت کا باعث نہیں کیونکہ دنیا میں صرف اعمال ہی باقی رہنے والی چیز ہے ، جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس صحیح معنوں میں سرمایہ بہجت و سرور وہ اعمال صالحہ کو اپنا نصب العین بنائے ۔ مال ودولت اور عزت وجاہ عارضی چیزیں ہیں تم جانتے ہو لاکھوں کرڑوں بےشمار مالدار زمین کے نیچے مدفون پڑے ہیں آج انہیں کون جانتا ہے ۔ مگر کچھ لوگ ایسے ہیں ، جنہیں عزت واحترام سے یاد کیا جاتا ہے ان کے نام اور حالات زندہ ہیں ، باوجود زمانہ کے لوگوں کے دلوں میں برابر جاگزیں ہیں ، یہ وہ حضرات ہیں جنہوں نے دنیا میں رہ کر اس کی ادنی مسرتوں سے کنارہ کشی کی ہے اور انکو اپنا نصب العین قرار دیا ہے ۔ حل لغات : عقبا : انجام ، عاقبت ، ھشیما : تنکا تنکا ۔ ھشم کے اصلی معنے توڑنے کے ہیں ۔ الكهف
46 الكهف
47 الكهف
48 (ف ١) قرآن حکیم کا یہ مخصوص طرز بیان ہے کہ واقعہ کی تصویر کھینچ دیتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہم واقعہ کی تمام جزئیات کو اپنی آنکھوں دیکھ رہے ہیں قیامت اور حشر ونشر کے متعلق جتنی باتیں ذکر فرمائی ہیں ، وہ سب اس اسلوب بیان کی آئینہ دار ہیں ۔ اور یہ طرز بیان اس درجہ موثر کہ قیامت کے احوال کو پڑھ کر دل کانپ جاتا ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے جیسے آپ پر واقعی قیامت گزری ہے اور اللہ کے سامنے کھڑے ہیں اور ان تمام کیفیات کو دیکھ رہے ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ تم ہمارے پاس پہلی حالت میں لائے جاؤ گے ، بالکل فطرت میں تمام تکلفات دنیا میں دھرے رہ جائیں گے ، تمہارا خیال یہ تھا کہ ہم کبھی تم کو اپنے ہاں نہ بلائیں گے ، اور تمہارے لئے محاسبہ اعمال کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں ، مگر آج تمہارا یہ زعم غلط ثابت ہو رہا ہے ، آج تم ہمارے حضور میں کھڑے ہو اپنے جرائم کی فہرست تمہارے ہاتھ میں ہے ، اور دیکھ رہے ہو کہ لغزش خیال سے لے کر بڑے بڑے گناہوں تک سب باتیں اس میں مندرج ہیں ، کہو اب کیا جواب ہے خوب سوچ لو ، یہ وقت آنے والا ہے اور وہ اتنا سخت وقت ہوگا اور کوئی شخص تمہیں ان مشکلات سے مخلصی نہیں دلا سکے گا ، اس سے قبل کہ موت کے فرشتے آئیں تمہارا فرض ہے کہ اپنی آئندہ زندگی پر غور کرو اور زاد آخرت مہیا کرو ۔ حل لغات : موعدا : میقات ، اسم ظرف ہے ۔ وعد : سے بمعنی وعدہ گاہ ، و زمان وعدہ الكهف
49 الكهف
50 الكهف
51 انسانی فطرت کی بلندیاں : (ف ١) مشرکین کو بتایا ہے کہ کم بختو ، اپنی فطرت کی بلندیوں کو محسوس کرو ، تمہیں اللہ تعالیٰ نے مسجود ملائک بنایا تھا تمہیں اس منصب پر فائز کیا تھا ، کہ دنیا کی اعلی ترین مخلوق تمہارے سامنے جھکے ، تمام کائنات پر تم حکومت کو ، ذرے سے آفتاب تک سب چیزیں تمہاری مسخر کردیں ، تاکہ تم اللہ کی نیابت کے فرائض ادا کرو ، اور اس کی عظمت کی گواہی دو ، مگر تم ہو کہ نفس کی پوجا میں مبتلا ہو ، شیطان کے نقش قدم پر چل رہے ہو غیر اللہ کی پرستش کو عبادت سمجھتے ہو کیا یہ لوگ جن کو تم عرش الوہیت پر بٹھا رہے ہو ، اللہ کے ساجھی ہیں ، انہوں نے آسمان کا کوئی حصہ بنایا ہے یا زمین کی پیدائش میں ان کا کوئی بہرہ ہے ؟ اور جب یہ عام مخلوقات کی طرح محتاج اور مجبور ہیں ، تو تم کیوں کی ان کی عبادت کرتے ہو ؟ آہ انسان کس قدر جاہل اور ظالم ہے ، اتنا بلند مرتبہ ہو کر دوسروں کے آگے جھکنا فرض سمجھتا ہے اور اپنی فطرت سے نا آشنا ہے ۔ حل لغات : ما اشھدتم : مقصد یہ ہے کہ وہ کائنات کی تخلیق کے وقت شاہا ومعاون نہیں تھے ، جو آج خدائی اور ساجھے کے مستحق ہوں ۔ عضدا : بازو یا معاون ۔ موبقا : ہلاکت کی جگہ ، بعض کے نزدیک یہ جہنم کی ایک وادی ہے یا حصہ ہے جسے جہنم کے مختلف طبقات کے لئے برزخ کہنا چاہئے ۔ الكهف
52 الكهف
53 الكهف
54 قرآن نسل انسانی کی مشترکہ میراث ہے : (ف ١) قرآن حکیم تمام نسل انسانی کی مشترکہ میراث ہے اس لئے اس میں ہر طبقہ اور ہر نوع کے انسانوں کے لئے رشد وہدایت کا سامان موجود ہے ، اس میں ان لوگوں کے لئے بھی تسکین ہے جو حکمت وفلسفہ کے دلدادہ اور جویاں ہیں ، اور ان لوگوں کے لئے بھی جو فلسفہ وحکمت سے زیادہ ، روحانیت سے شغف رکھتے ہیں ، طرز بیان میں تخیلات بھی ہیں ، خطاب بھی ہے منطق بھی ہے اور شبیہات اور استعارے بھی ، ترغیب اور ترہیب بھی ، غرضیکہ فلسفہ قیادت کا کوئی پہلو ایسا نہیں جو اس میں تفصیل کے ساتھ موجود نہ ہو مگر انسان بالطبع جھگڑالو ہے ، اس لئے اس چشمہ ہدایت وعرفان سے مکمل استفادہ نہیں کرتا ، اور اللہ کی رحمت وفیضان سے محروم رہتا ہے ۔ الكهف
55 (ف ٢) یعنی قرآن کی تعلیمات صداقت اور سچائی پر مبنی ہیں اور یہ منکرین محض تعصب کی وجہ سے ان کو قبول نہیں کرتے ہیں ، ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر ان کی گمراہی بڑھتی گئی ، اور عناد ودشمنی نے غیرت حق کو برانگیختہ کردیا ، تو اللہ کا قانون مکافات حرکت میں آجائے گا ، اور یہ عذاب الہی سے اپنے آپ کو بچا نہیں سکیں گے ۔ حل لغات : مثل : صفت ، حال ، داستان ، قصہ ، سنۃ الاولین : پہلوں کا سا معاملہ یعنی قانون مکافات ۔ قبلا : سامنے متقابل : الكهف
56 الكهف
57 (ف ١) یہ ان کی قساوت قلبی اور بدبختی کی انتہائی صورت ہے کہ دل مسخ ہوگئے ہیں ، اور کانوں میں حق کے لئے قوت سماعت نہیں رہی ۔ یہ یاد رہے کہ یہ محض ایک انداز بیان ہے ورنہ اعراض وغفلت کی کوتاہیاں ہمیشہ ان سے سرزد ہوئیں ، انہوں نے خود دلوں کو تعصب وعناد کی تاریکیوں سے آلودہ رکھا اور کانوں کو حق کی آواز سے نا آشنا اللہ اس کیفیت تغافل وانکار کو دلوں پر پردہ ڈال دینے سے تعبیر کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے ، ان لوگوں نے بھی اس بات پر اعتراض نہیں کیا ، کہ قرآن ہمیں ناقابل اصلاح ٹھہراتا ہے ، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ بالکل ہمارے ارادوں کی ترجمانی ہے ۔ حل لغات : موئلا : مرجع وماوی : الكهف
58 الكهف
59 الكهف
60 موسی (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) ! (ف ١) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قبل یہودیوں اور عیسائیوں میں جن مباحث اور قصص کا چرچا تھا ، ان میں ایک بحث یہ بھی تھی ، کہ اصحاب کہف کون تھے ، موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) کا قصہ کیونکر ہے ، اور ذوالقرنین کے حالات کیا ہیں ؟ اس لئے ان کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ان مسائل کے متفق پوچھنا ضروری ہے تھا اللہ تعالیٰ نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کے لئے ان قصوں کی حقیقت بیان فرمائی ، اور نکات ومعارف کی جانب اشارہ فرمایا جو ان قصے کے ضمن میں پنہاں ہیں اصحاب کہف کے قصہ میں یہ بتلایا کہ خدا پرستوں کو خدا کیونکر کامیاب وکامران فرماتا ہے ، اور کیونکر باطل پرستوں کو تباہ وبرباد کردیتا ہے اس قصہ میں علم کی وسعتوں کی جانب ہماری توجہ کو مبذول کیا ہے ، اور بتایا ہے کہ ایک نبی اور پیغمبر بھی باوجود حصول کمالات کے علم کی پہنائیوں سے پوری طرح بہرہ ور نہیں ۔ ہو سکتا ہے یہ واقعہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ابتدائی عہد نبوت کا ہو ، یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جب توراۃ مل چکی اور احکام وفرامین عطا ہوچکے ، تو ضرورت تھی کہ ان احکام کا طریق استعمال انکو بتایا جائے ، حضرت خضر (علیہ السلام) کے ذریعہ اس ترتیب کا انتظام ہوگیا انہوں نے واقعات کو اس رنگ میں پیش کیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قضاء فیصلہ کے اسرار ورموز سے آگاہ ہوگئے ان کو معلوم ہوگیا کہ فیصلہ وقضا کے وقت صرف ظاہری صورت حالات پر بھروسہ کرنا ، بعض اوقات غلط ہوتا ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ فیصلہ سے قبل مقدمہ کی ظاہری وباطنی سطح کا اچھی طرح سے جائزہ لے لیا جائے ۔ حضرت خضر (علیہ السلام) کے متعلق زیادہ تفصیلات قرآن و حدیث میں مذکور نہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں ، جو فرعون کے معاصر ومقابل ہیں ، اور بنی اسرائیل کی نجات کے داعی ہیں ، بعض لوگوں نے سمجھا ہے کہ موسیٰ بن میتا بن یوسف ہیں ، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس (رض) کی روایت سے اس کی تغلیط فرمائی ہے ۔ بہرحال قصہ کا آغاز یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) طلب علم کے لئے سفر کرتے ہیں ، ساتھ ساتھ ایک ملازم ہے ، اس کے پاس زادراہ ہے ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی منزل دور ہے ، وہ وہاں پہنچنا چاہتے ہیں ، جہاں دو دریاؤں کا سنگم ہے ملازم سے اثنائے سفر جبکہ تھک جاتے ہیں ، کہتے ہیں کہ کھانا لاؤ ، وہ کہتا ہے کہ حضرت کھانا غائب ہے ، جب آپ سستانے کے لئے پتھر پر بیٹھے تھے اس وقت مچھلی جھولے میں سے نکل کر پانی میں جا گری اور بھاگ گئی ، اب کیا پکائیں اور کیا کھائیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم تھا کہ یہی وہ مقام ہے جس کی ہمیں تلاش ہے ان کو حق تعالیٰ کی طرف سے بتادیا گیا ہوگا کہ جہاں تمہاری مچھلی خود بخود پانی میں جا گرے گی وہی خضر (علیہ السلام) کا مقام ہے چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خوشی سے اچھل پڑے آپ نے فرمایا یہی تو وہ جگہ ہے جہاں ہم پہنچنا چاہتے ہیں ۔ حل لغات : حقبا : حقب کی جمع ہے ، طویل مدت کو کہتے ہیں یہ لفظ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طلب صادق کو ظاہر کرتا ہے کہ کیونکر وہ حصول علم کے لئے ساری عمر صرف کردینے کے لئے تیار ہیں ۔ غدآء نا : ناشتہ کھانا ، نصبا : تھکن ، سفر کی کوفت تھکان ، رشدا : ہر خیر کی بات : الكهف
61 الكهف
62 الكهف
63 الكهف
64 الكهف
65 الكهف
66 الكهف
67 الكهف
68 الكهف
69 الكهف
70 الكهف
71 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تقاضائے اصلاح اور خضر (علیہ السلام) کی عاقبت اندیشی : (ف ١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب خضر (علیہ السلام) سے ملتے ہیں تو طلب علم کی خواہش ظاہر کرتے ہیں اور اجازت چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ رہیں ، اور ان کی صحبت سے استفادہ کریں ، اس واقعہ سے یہ معلوم ہوا کہ تعلیم صرف کتابیں پڑھا دینا نہیں ، بلکہ استاد شاگرد کو ہر لمحہ اپنے ساتھ رکھے ، اور اس کی دماغی تربیت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دے ، حضرت خضر (علیہ السلام) کہتے ہیں صبر وبرداشت شرط ہے ، اگر میرے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو جو کچھ بھی دیکھو ، اس پر خاموشی سے غور کرنا ہوگا اور جب تک میں تمہیں خود نہ بتاؤں تم مجھ سے سوالات نہ کرنا ، مقصد یہ تھا کہ شاگرد پہلے سے عجیب وغریب حالات کے مشاہدہ کے لئے مستعد ہوجائے ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ شرط منظور کرلی ، اب استاد اور شاگرد دونوں نے سفر اختیار کیا ، کشتی پر بیٹھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ جس کشتی پر وہ سفر کر رہے ہیں ، استاد نے اسی کے ایک تختہ کو توڑ دیا ہے ، یہ دیکھ کر ان سے نہ رہا گیا ، اور جذبہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر موجزن ہوگیا اور باوجود شرط کے پوچھ ہی تو لیا ، کہ حضرت آپ نے یہ کیا ستم ڈھایا ، بلاوجہ کشتی کو توڑ دیا ، حضرت خضر (علیہ السلام) مسکرائے اور کہا کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ تم خاموشی سے واقعات کا مطالعہ نہ کرسکو گے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو فورا احساس ندامت ہوا سمجھ گئے کہ آپ صاحب فراست ہیں ۔ بلاوجہ حرکت نہ کی ہوگی ، پھر آگے بڑھے ، کشتی سے اترے ، دیکھا کہ ایک لڑکا کھیل رہا ہے ، حضرت خضر (علیہ السلام) نے اسے پکڑا اور قتل کردیا ، اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے صبر نہ ہوسکا ، بےقرار ہو کر پوچھا کہ کیوں صاحب بلاتصور ایک جان عزیز کو ضائع کردینا کہاں کی بھلائی ہے ، آپ نے یہ بہت برا کام کیا ہے ؟ اس قصہ میں دو باتیں بتانا مقصود ہیں ، ایک تو یہ کہ پیغمبر جذبہ اصلاح کس قدر جوش کیس اتھ موجود ہوتا ہے ، وہ نہیں برداشت کرسکتا ، کہ بظاہر کسی برائی کا اس کے سامنے ارتکاب کیا جائے ، اور وہ اسے نہ روکنے کی کوشش کرے ، وہ گناہوں کو دیکھ کر بےچین ہوجاتا ہے ، دوسری بات وہی ترتیب ہے کہ ہر واقعہ کے دو پہلو ہوتے ہیں ، ایک ظاہری اور دوسرا باطنی ، سمجھدار اور دانا حضرات کا فرض ہے کہ وہ تمام واقعات ژوف نگاہی سے دیکھیں اور ظاہری صورت حال سے دھوکا نہ کھائیں ۔ تفصیل آیندہ صفحہ میں دیکھئے ۔ حل لغات : امرا : خطرناک اور بہت اہم چیز ، چنانچہ جب کوئی واقعہ خطرناک صورت ، اختیار کرے تو کہتے ہیں ، امرالامر : نکرا : غیر مشروع ، ناشناسائی ، وناسپاسی وناخوشی ، وتعجب : الكهف
72 الكهف
73 الكهف
74 الكهف
75 الكهف
76 الكهف
77 حضرت خضر (علیہ السلام) کا حسن سلوک اور گاؤں والوں کی بدبختی : (ف ١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) طویل مسافت طے کرنے کے بعد ایک گاؤں میں پہنچے بھوک سے بےقرار ہو رہے تھے ، گاؤں والوں سے کہا کہ ہم مسافر ہیں ، ہمیں اپنا مہمان بناؤ ، انہوں نے ازراہ شقاوت انکار کردیا اور شرف مہمان نوازی سے محروم رہے ، حضرت خضر (علیہ السلام) ان کی اس حرکت سے قطعا ملول نہ ہوئے ، اتفاق سے ایک دیوار پر نظر پڑی ، تو دیکھا کہ کہنگی اور بوسیدگی کے باعث گر رہی ہے آپ اٹھے اور اس کی تعمیر میں مصروف ہوگئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے روکا اور کہا جو گاؤں اخلاق کی مبادیات سے بھی ناواقف ہے اور اس درجہ بداخلاق ہے کہ مسافر کو ایک وقت کا کھانا بھی نہیں کھلا سکتا وہ ہرگز اس ہمدردی اور حسن سلوک کا مستحق نہیں ، آپ کو اگر یہ کام کرنا ہی ہے تو کم از کم اپنی محنت کا معاوضہ تو مانگ لیجئے ، کیونکہ مزدوری مقرر کرلینے میں شفا کو کوئی حرج نہیں ، حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا ، بس اب نصیحت رہنے دیجئے ، آپ کے ساتھ میری نہیں نبھ سکتی ، لہذا رفاقت ہوچکی ، اب میں یہ بتائے دیتا ہوں کہ میں نے افعال کیوں کئے اس کے بعد مجھ میں اور آپ میں جدائی ہے ، اس زمانے میں نہ ہوٹل تھے ، نہ آمد ورفت میں آسانیاں تھیں ، کہ سفر کرنے والے کثرت سے ہوں ، اور شہروں میں مسافروں کا ہجوم رہے ، فائدہ یہ تھا کہ شدید حادثات کے سخت اگر کوئی شخص سفر اختیار کرتا تو راستے میں جو گاؤں پڑے ، وہاں کے لوگ رہنما اس کی مہمان نوازی کے لئے تیار رہتے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت خضر (علیہ السلام) نے انہیں حالات کے ماتحت اور اسی حق کی بنا پر ضیافت کا مطالبہ کیا ، ورنہ اس قسم کی استدعاء انبیاء کی بلندی کے یکسر منافی ہے ؟ اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاء بھی از دیار علم کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور علم کے لئے کوئی آخری حد مقرر نہیں کی جا سکتی ، علم ایک سمندر ہے ناپیدا کنار ، بجز اللہ تعالیٰ کے ہر شخص ہر حالت میں محدود علم کا مالک ہے ، اور اسے ضرورت ہے کہ اپنے علم میں اضافہ کرتا رہے ۔ الكهف
78 حضر (علیہ السلام) کے جوابات : (ف ٢) ان آیات میں حضرت خضر (علیہ السلام) نے جناب موسیٰ (علیہ السلام) کی حیرانیوں کو دور کیا ہے ، اور واقعات کے باطن کی طرف اشارہ کیا ہے ، یعنی اس حقیقت سے آگاہ فرمایا ہیں کہ منصب نبوت اور قضاء وفیصلہ کے لئے کس قدر دوربینی وژرف نگاہی کی ضرورت ہے ، بسا اوقات واقعات کا ظاہر غلط طریق کار کی جانب راہنمائی کرتا ہے ، اور اس سے غلط نتائج مرتب ہوتے ہیں یہ حضرت موسیٰ پر چونکہ امت کی ذمہ داریاں عائد ہونے والی تھیں ، اس لئے ان کے لئے اس نوع کی علمی تربیت ضروری تھی تاکہ اس منصب کی اہمیت میں سے کما حقہ آگاہ ہوسکیں ۔ حل لغات : یرید : دیوار کیلئے بطور مجازا محاورہ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ الكهف
79 (ف ١) حضرت خضر (علیہ السلام) نے بتایا کہ کشتی کو عیب دار کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان غریب ملاحوں کے لئے ہر حال وسیلہ روز گار بنی رہے ، ایسا نہ ہو کہ اسے کار آمد سمجھ کرلو گرشاہی اپنے لئے مخصوص کرلے ، ان مسکینوں کی گذر محض کشتی پر تھی اس وقت کا بادشاہ ظالم اور غاصب تھا ، رعایا کی ہر اچھی چیز چھنوا لیتا ، اور اپنے لئے مخصوص کرلیتا ۔ الكهف
80 (ف ٢) لڑکے کو اس لئے مارو ، کہ اس کے والدین نیک اور صالح تھے اس کے چال چلن اور قرائن سے معلوم ہوتا تھا ، کہ بڑا ہو کر یہ کفر وسرکشی کا پیکر ہوگا والدین کو سخت مصیبت میں ڈال دیگا ، اس لئے اس کا زندگی سے محروم ہوجانا والدین کے لئے خیرو برکت کا موجب تھا ، یہاں یہ ملحوظ رہے کہ کسی شخص کے متعلق اس نوع کا حتمی فیصلہ عام انسان نہیں کرسکتے ، حتی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی مظاہر اس واقعہ کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکے ، اس کے لئے خضر (علیہ السلام) کی دور رس نگاہیں چاہئیں ، جو مستقبل کی تاریکیوں کو خیال کی روشنی میں دیکھ سکیں ، الكهف
81 الكهف
82 (ف ٣) دیوار کے متعلق بتایا کہ اس کے خیمے یتیموں کا ایک خزانہ مخفی تھا ، اگر اس کو گرنے سے نہ بچا لیا جاتا ، تو لوگ یتیموں کے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی لوٹ لیتے اور اس طرح وہ ایک بہت ضروری اعانت سے محروم رہتے ، بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ جس طرح حضرت خضر کا الہام موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت کے بظاہر مخالف تھا ، اسی طرح ہو سکتا ہے کہ اولیاء اللہ کا امام طریقت ظاہری شرع کے مخالف ہو ، اور حقیقت میں دوست ہو ۔ یہ استدلال غلط ہے ، حضرت خضر (علیہ السلام) کے الہامات بالکل موسوی شریعت کے مطابق تھے ، بات صرف یہ تھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دقت نظر سے کام نہیں لیا ، اور قانون کا مقصد محض یہ سمجھا کہ اس کا تعلق ظواہر امور سے ہے ، خضر نے انہیں بتایا کہ یہ درست نہیں ، شریعت ظاہر وباطن پر محتوی ہوتی ہے ، پیغمبر وہ ہے جس کی نگاہ واقعات اور حقائق کی گہرائیوں تک پہنچے ۔ حل لغات : یرھقہما : ادھاق سے ہے جس کے معنی بلوغ کی حد تک پہنچنے اور دشوار کرنے کے ہیں ۔ زکوۃ : اخلاق کی پاکیزگی ، پاک طینتی ۔ رحما : ہمدردی ۔ الكهف
83 الكهف
84 (ف ١) قرآن حکیم نے بتایا ہے کہ یہودیون کے تعلقات مشرکین مکہ سے بہت زیادہ تھے ، بنا برین مشرکین مکہ ان سے اسلام کے متعلق اعتراضات پوچھتے رہتے ، انہوں نے کہا ہوگا پیغمبر اسلام سے ذوالقرنین کے متعلق دریافت کرو ، تاکہ معلوم ہو کہ اس کا مبلغ علم کیا ہے ۔ چنانچہ انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا ، یہ آیات جواب میں نازل ہوئیں ۔ قرآن حکیم کا مخصوص طرز بیان ہے ، کہ وہ غیر ضروری تفصیلات کو چھوڑ دیتا ہے اور قصے کے صرف اس حصہ کو بیان کرتا ہے جس کا تعلق انسانی رشد وہدایت سے ہے ، چنانچہ قرآن حکیم نے بتایا ، کہ خدائے تعالیٰ نے اسے وسیع اقتدار دے رکھا تھا ، وہ بہت بڑا فاتح تھا ، اس کا شوق فتحیابی اسے سمندر کے کنارے تک لے گیا ، جہاں اس نے سورج کو دیکھا ، کہ گولے پانی میں ڈوب رہا ہے یعنی وہ خشکی سے بہت دور ہے ، وہاں ایک قوم آباد تھی ، اس نے درخواست کی کہ ہم سے ظالمانہ سلوک نہ کیا جائے ہم مروت واحسان کے خواہشمند ہیں ، ذوالقرنین نے انہیں تسلی دی اور کہا تم غم نہ کھاؤ میں نیکوکاروں سے نیک سلوک کروں گا ۔ حل لغات : ذوالقرنین : قون وسعت یا حصہ اقتدار سے تعبیر ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سے کہا تھا ” ان لک بیتا فی الجنۃ وانت ذوقرینھا “۔ مکنا : مکنت سے ہے جس کے معنی قدرت اور توانگری کے ہیں ۔ تعرب : مراد یہ ہے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا ، اسی لئے وجدھا کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ الكهف
85 الكهف
86 الكهف
87 الكهف
88 الكهف
89 الكهف
90 الكهف
91 الكهف
92 معیار حکمرانی : (ف ١) مغرب میں فتوحات کے بعد جب ذوالقرنین نے مشرق کا رخ کیا تو وہاں ایک خانہ بدوش قوم پائی یہ اقصائے مشرق کے رہنے والے تھے ، اس کے بعد وہ دوسری جانب بڑھا یہاں دونوں طرف پہاڑ تھے اور درمیان میں ایک درہ تھا ، یہاں کچھ لوگ آباد تھے ، انہوں نے اپنی زبان میں کہا ، جسے ذوالقرنین نہیں سمجھتے تھے ، کہ یا جوج وماجوج کی قومیں ہماری ہاں آکر لوٹ مار کرتی ہیں ، کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیاں ایک دیوار کھینچ دیں ؟ تاکہ ہم ان کے حملوں سے محفوظ ہوجائیں ، ہم اس کام کے مصارف بھی آپ کو ادا کرنے لئے تیار ہیں ، ذوالقرنین نے کہا مجھے اللہ نے بہت کچھ دے رکھا ہے ، تمہارے روپے پیسے کی ضرورت نہیں ، البتہ اگر تم میرا ساتھ دو تو میں ایک مضبوط دیوار تعمیر کرسکتا ہوں جس پر یاجوج وماجوج کی قومیں غالب نہ آسکیں گی ، چنانچہ ذوالقرنین نے ان کی اعانت سے ایک دیوار تعمیر کرا دی ، اور ان کو ہمیشہ کے لئے بیرونی حملہ سے محفوظ کردیا ۔ ذوالقرنین کون تھا ؟ اس کی تعمیر کردہ دیوار کہاں ہے ؟ یاجوج وماجوج کن قوموں کانام ہے ؟ اس قسم کے سوالات ہیں ، جن کا جواب تفسیر سے متعلق نہیں ، تاریخ سے متعلق ہے ۔ قرآن کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ذوالقرنین نہایت نیک اور صالح بادشاہ تھا ، وہ صرف فاتح نہ تھا ، بلکہ نوع انسانی کا سچا ہمدرد بھی تھا ، وہ فتوحات کی وسعت کے ساتھ ایمان دار اور مخلوق کے دلوں کی تسخیر کرنے والا بھی تھا وہ صرف بادشاہ نہ تھا بلکہ نیک خصال اور مصلح انسان تھا ۔ اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے ، کہ بادشاہ کے فرائض کیا ہیں ، بادشاہ وہ نہیں ، جو رعیت کے مال ودولت پر غاصبانہ قبضہ جمالے اور عیش کرے ۔ بادشاہ وہ ہے جو رعایا کا خادم ہو ، اور بلا عوض محض فرضی منصبی سے متاثر ہو کر محکوموں کی فلاح وبہبود کے متعلق سوچے ، یہ وہ معیار حکمرانی ہے جس کو بادشاہوں کے سامنے قرآن پیش کرتا ہے ، اور مطالبہ کرتا ہے ، کہ خدمت اور اصلاح کو دستور العمل بناؤ اور بنی نوع انسان کی ہمدردی دلوں میں پیدا کرو تاکہ تمہاری حکومت لوگوں کے لئے خیروبرکت کا موجب ہو ، ورنہ حکمرانی اور سفاکی باہم مترادف حقیقتیں ہوں گی جو ہرگز قابل تعریف نہیں ہو سکتیں ۔ حل لغات : خرجا : خرچ ضددخل ۔ ردما : مضبوط دیوار ۔ قطرا : پگھلا ہوا تانبہ ۔ نقبا : سوراخ ، نقب اسی سے ہے ۔ الكهف
93 الكهف
94 الكهف
95 الكهف
96 الكهف
97 الكهف
98 الكهف
99 الكهف
100 (ف ١) ذوالقرنین اور یاجوج ماجوج کی تفصیلات کے بعد عرصہ حشر کی جانب توجہ مبذول فرمائی ہے ، اور بنایا ہے کہ اصل حکمرانی اللہ کے لئے مختص ہے ، قیامت کا وعدہ سچا ہے ، ایک دن ایسا آئے گا ، جب سب لوگ خدا کے حضور میں جمع ہوں گے ، اور مکافات عمل کی بنا پر ہر شخص اپنے افعال کا جواب وہ ہوگا ، اس وقت منکرین حق جن کی آنکھیں حقائق سے بےنور ہیں جہنم میں پھینکنے جائیں گے ، آج جو اللہ کی یاد سے غافل ہیں ، اس کا ہم سننا جن کو بار گوش معلوم ہوتا ہے ، اور وہ بصیرت سے محروم ہیں ، اس دن پچھتائیں گے ، (آیت) ” ولات حین مناص “۔ الكهف
101 الكهف
102 (ف ٢) یعنی تعجب کی بات یہ ہے کہ مشرک ان لوگوں کی پوجا کرتے ہیں جو میرے بندے ہیں ، اور جنہیں اپنی بندگی پر ناز ہے ، کیا ان سے یہ لوگ ان کی خاطر طوق عبودیت اتار پھینکیں گے ، اور مسند الوہیت پر بیٹھ جائیں گے فرمایا ان کا یہ خیال محض وہم ہے ، مخلص بندے ان کی مشرکانہ حرکات سے یکسر ہزار ہیں ۔ حل لغات : نزلا : ضیافت ، مہمانی ، بطور طنز وتحکم کے ہے ۔ الكهف
103 الكهف
104 اعمال کے متعلق اسلام کا فلسفہ !: (ف ١) خود فریبی کی انتہا ہے کہ انسان برائی کا ارتکاب کرے ، اور پھر یہ یقین رکھے کہ اس کا دامن عصمت قطعا گناہ سے آلودہ نہیں ہوا ، اور اپنے افعال میں حق بجانب ہے ، اس قسم کے لوگ غایت درجہ کے بدبخت اور شقی ہیں ، ان سے توبہ وانابت کی امید نہیں رکھی جا سکتی یہ مصیبت کو ثواب اور شر کو خیر سمجھتے ہیں ، ان کا زاویہ نگاہ بدل چکا ہے ، اور یہ صلاحیت کی استعداد کھو چکے ہیں ، اس لئے ان کے لئے اعمال اکارت جائیں گے ، اسلام کافلسفہ یہ ہے کہ وہ اعمال کے مقدار اور افعال کے حجم کو نہیں دیکھتا ، بلکہ اس کی نظر نصب العین پر پڑتی ہے جو شخص بلند نصب العین کو اپنے اعمال وافعال کا محور قرار دیتا ہے ، وہ اسلام کی اصطلاح میں نیک ہے اور جو کوئی نصب العین نہیں رکھتا ، یا خسیس وذلیل مطمح نظر کا مالک ہے ، اس کا ہر فعل ضائع ہوجاتا ہے ۔ الكهف
105 الكهف
106 الكهف
107 (ف ٢) منکرین کا انجام واضح کرنے کے بعد اب مومنین کا مال بتایا ہے کہ ان کا مقام فردوس ہے جس میں یہ لوگ ابدی زندگی بسر کریں گے ۔ کفار کے لئے ” نزل “ کے لفظ کو بطور طنز کے استعمال فرمایا تھا ، یہاں مومنوں کے لئے بھی ضیافت ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ باوجود ابدی زندگی کے خاطر مدارات میں ہر لمحہ تنوع ہوگا ، اور یہ لوگ جنت میں اس طرح آرام وآسائش سے رہیں گے جس طرح کوئی عزیز مہمان رہتا ہے اس وضاحت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام میں مہمان کا درجہ کتنا بلند ہوگا ۔ الكهف
108 الكهف
109 خدا کا علم : (ف ٣) اس سورۃ میں اصحاب کہف ، موسیٰ (علیہ السلام) و خضر (علیہ السلام) ، اور ذوالقرنین کے قصوں کے اندر اللہ تعالیٰ نے حکم ومعارف کے دریا بہائے ہیں بتایا گیا ہے کہ کیونکر حق وصداقت کے لئے ثبات ، دوام مقدرات میں سے ہے اور اللہ کا علم کس قدر وسیع ومتنوع ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) وخضر (علیہ السلام) دونوں اس بحر بیکراں سے استفادہ کرتے ہیں ، فرمایا ہے کہ حکمرانی اور طاقت بخشی صرف میرے اختیار میں ہے ، میں جسے چاہوں سرفراز کروں اور جسے چاہوں چشم زدن میں فنا وذلت کے گھاٹ اتار دوں ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اسی وسعت علم اور عظمت شان کا ذکر فرمایا ہے ، یہ بتایا ہے کہ تم یہ نہ سمجھو کہ میرا علم انبیاء اور ان ہی کتابوں تک محدود ہے تم میرے علم کی وسعتوں کو نہیں پا سکتے یہ قصے رشد وہدایت کے طریقے اور دوزخ اور جنت کی تفصیلات تو بقدر ضرورت تم کو بتا دی گئی ہیں ، ورنہ میری بےشمار عجائبات قدرت ہیں ، اور بےانتہاء اعطاف وکرم اور جودوعطا جن کی تعبیر کے لئے تمہارے پاس الفاظ تک نہیں ، میری صفات بےحد کے سامنے سمندر ایک قطرہ کے برابر بھی وقعت نہیں رکھتا ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے ، کہ مذہب نے اب تک جو کچھ اللہ تعالیٰ کے متعلق بتایا ہے اور ہمارے علوم نے جس حد تک ترقی کی ہے ، اور فطرت کے چہرے سے نقاب اٹھائے ہیں اور ذات حق کے بارہ میں انسان جو کچھ سمجھا ہے ، محض بقدر ظرف واستعداد کے ہے ورنہ ذات باری اور اس کے لامحدود قوانین کے متعلق جو ہم نہیں جانتے ہیں ، وہ بمنزلہ صفر کے ہے ہمارا علم محدود ہے اور وہ ذات اقدس لا محدود اسی لئے فرمایا ہے فخر دو عالم خیر البشر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ” لا احصی ثناء علیک انت کما اثنیت علی نفسک “۔ حل لغات : وزنا : وہ ” قدر “ جو اعمال کی قیمت ہے ، فردوس : جنت کا ایک نام ہے ۔ الكهف
110 الكهف
0 مريم
1 مريم
2 اللہ کے اندازہ ہائے بخشش : (ف ١) سورۃ مریم کا آغاز جس واقعہ سے کیا ہے ، حقیقت میں یہ سابقہ آیت کی تفسیر ہے ، جس میں بتایا گیا تھا ، کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا کوئی مقرر ومتعین اندازہ نہیں ، ہم اس کی وسعتوں کا صحیح صحیح جائزہ نہیں لے سکتے ، ہم نہیں جانتے کہ اس کی بخششیں کن طریقوں اور واسطوں سے ہوتی ہیں ، ہمارا علم محدود ہے اور اس کے دینے اور بخشنے کے انداز لا محدود ہیں ۔ حل لغات : وھن العظم : ضعف وناتوانی سے تعبیر ہے کیونکہ بڑھاپے میں ہڈیوں میں قوت حیات کم ہوجاتی ہے ۔ واشتعل الراس : بالوں کی سفیدی کو شعلہ زنی سے تشبیہ دینا کمال بلاغت ہے ، اور حقیقت یہ ہے کہ بالکل اچھوتی تشبیہ ہے ۔ مريم
3 مريم
4 مريم
5 (ف ١) واقعہ یہ ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) جب بوڑھے ہوگئے ، اور دیکھا کہ قوم ہنوز اصلاح وہدایت کی محتاج ہے اور یہ بھی دیکھا کہ ان کے بعد ان کا کوئی صالح جانشین نہیں ، جو ان کے کام کو سنبھال سکے ، تو بیٹے کی خواہش دل میں پیدا ہوئی ، اللہ سے دعا مانگی اور کہا ، خدایا میں کمزور اور بہت بوڑھا ہوگیا ہوں ، پیری نے حوصلے پست اور ولولوں کو افسردہ کردیا ہے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی مخالفت سے ڈرتا ہوں ، کہ کہیں عمر بھر کی سعی تبلیغ رائیگاں نہ ہوجائے ، اس لئے چاہتا ہوں کہ میرے بعد نیک اور مستعد اولاد ہو ، جو اس بار عظیم کو اپنے کندھوں پر اٹھالے ، اور میں دین کی جانب سے بالکل مطمئن ہو کر دنیا سے رخصت ہوں ، ساتھ ہی مشکل بھی ہے کہ بیوی بانجھ ہے اور خود بوڑھے ہیں ؟ مريم
6 مريم
7 (ف ٢) اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ، دعا قبول ہے ، تیرے لڑکا ہوگا اس کا نام یحیٰ رکھنا ، بڑا سعادت مند اور نام اور بچہ ہوگا ، زکریا ان کو حیران ہوجاتے ہیں ، فرط حیرت سے پوچھتے ہیں ، کیا ان قدرتی موانع کے باوجود بھی مجھے اولاد عطا کی جائے گی ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، ہاں میرے لئے یہ کوئی مشکل بات نہیں ، ایسا ہی ہوگا ، ۔ غور فرمائیے کیا واقعی اس کی صفات لا محدود نہیں ، اب تک یہ سمجھا جاتا تھا ، کہ اولاد کے لئے ایک وقت مقرر ہے ، جب انسان اس وقت معین سے تجاوز کر جائے ، تو اولاد سے مایوس ہوجاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی گوناگون حکمتوں نے ثابت کردیا ، کہ اس کے اندازہ ہائے بخشش تمہارے احاطہ علم میں نہیں آسکتے ۔ اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا ، کہ انسان کو کسی حالت میں مایوس نہیں ہونا چاہئے ، اور ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کی بخششوں کا امیدوار رہنا چاہئے ۔ حل لغات : عاقرا : عقر کے معنے چلنے سے باز رکھنے اور مجروح کرنے اور بلند یا ویران عمارت کے ہیں ، یہاں مراد ہے کہ بیوی ناقابل اولاد ہے ، رضیا : خوش آواز اور پسندیدہ خو ۔ مريم
8 مريم
9 مريم
10 مريم
11 انسانی تقاضے : (ف ١) اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کی سن لی ، اور ان کو بشارت دی اور فرمایا ہاں ضرور ایک سعادت مند لڑکا ہوگا ، حضرت زکریا (علیہ السلام) نے فرمایا کیا بڑھاپے میں بھی ایسا ہو سکتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے جوابا ارشاد فرمایا (آیت) ” ھو علی ھین “۔ کہ اس قسم کے خرق عادات ہمارے لئے کچھ بھی دشوار نہیں ، حضرت زکریا (علیہ السلام) اس جواب سے گو مطمئن ہوگئے مگر تقاضائے بشریت سے مزید تسلی کے لئے پوچھا کہ اس وقت سعادت کی علامتیں کیا ہوں گی ؟ کیونکر انبیاء علیہم السلام جہاں نبوت سے سرفراز ہوتے ہیں اور تائید الہی سے نوازے جاتے ہیں ، وہاں بشری تقاضے بھی ان میں موجود رہتے ہیں ، اور قدرتا ان کے دل میں بھی وہی سوالات پیدا ہوتے ہیں جو ایک انسان کے دل میں پیدا ہو سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : عدم تکلم “ علامت ہے ، عدم تکلم کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) سے ان دونوں گفتگو کی قوت سلب کرلی جائے اور وہ لوگوں سے مخاطب نہ ہو سکیں اور دوسری یہ کہ عمدا گفتگو سے پرہیز کریں اور ایک قسم کا روزہ رکھیں ، بہرحال مقصد یہ ہے کہ ان اوقات میں حضرت زکریا (علیہ السلام) اللہ کی حمد وثنا میں مصروف رہیں ۔ مريم
12 مريم
13 نیک اولاد : (ف ٢) حضرت یحیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے بوڑھے باپ کی آغوش روحانیت میں تربیت پائی سن رشد کو پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اب کتاب ورسالت کو قوت کے ساتھ تھام اور صبر واستقلال کے ساتھ تبلیغ میں مصروف ہوجاؤ اس کے بعد ان کے اوصاف بیان کئے ہیں کہ وہ لڑکپن ہی سے سمجھدار تھے ، نرم دل اور پاکیزہ اعمال تھے پرہیزگار تھے والدین کے اطاعت گزار تھے ، اور طبیعت میں سرکشی وبغاوت کا عنصر قطعا موجود نہ تھا ۔ درحقیقت ان اوصاف کا پیغمبر کی ذات میں نبوت سے قبل جمع ہونا ضروری ہے تاکہ آگے چل کر وہ دنیا کے لئے خیروبرکت کا باعث ہو سکے ۔ حل لغات : العراب : زاویہ عبادت یاحجرہ ۔ الحکم : سمجھ ، سلیقہ ، دانائی ، ۔ عصیا : نافرمان عصیان سے ہے ۔ مريم
14 مريم
15 مريم
16 مريم
17 مريم
18 مسیح (علیہ السلام) کا تولد : (ف ١) ان آیات میں حسب ذیل نکات کا ذکر ہے ۔ ١۔ حضرت مریم (علیہ السلام) کا کسی جنسی یا غیر جنسی ضرورت کے لئے خلوت اختیار کرنا ، ٢۔ جبرئل (علیہ السلام) کا انسانی شکل میں نمودار ہونا ، اور حضرت مریم (علیہ السلام) کا از راہ پاکبازی ان سے اپنے خوف کا اظہار کرنا ۔ ٣۔ جبرئیل (علیہ السلام) کا فرمانا کہ میں ایک خاص ضرورت سے آیا ہوں یعنی تم کو ایک پاکباز لڑکے کی خوشخبری سناؤں ۔ ٤۔ حضرت مریم (علیہ السلام) کا اظہار تعجب کہ یہ کیونکر ہوسکتا ہے جبکہ میں شادی شدہ نہیں ہوں اور نہ کسی مرد سے میرا کبھی تعلق ہوا ۔ ٥۔ جبرائیل (علیہ السلام) کا فرمانا کہ یہ بات تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بالکل سہل ہے وہ باوجود ان موانع کے اولاد پیدا کرسکتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ انداز بیان غیر معمولی واقعہ پر دلالت کرتا ہے شادی کا پیغام نہیں جیسا کہ بعض کوتاہ فہم لوگوں نے سمجھا ہے ، فرشتے کا خلوت میں ملنا اور جنسی خواہشات کے وقت اس کے معنے یہ ہیں کہ اس وقت متخیلہ پر خوشخبری زیادہ اثر انداز ہو سکتی ہے ، حضرت مریم (علیہ السلام) کا انکار وتعجب اس لئے ہے کہ وہ نہ شادی شدہ ہے اور نہ کلیسا کے شروط کے مطابق شادی شدہ ہوسکتی ہے ، اللہ تعالیٰ کا (آیت) ” کذلک “ فرمانا اس کے معنی یہ ہیں کہ باوجود شادی شدہ نہ ہونے کے ایسا ہوگا تاکہ مادیت پرست یہودی ابتدا ہی سے مسیح (علیہ السلام) سے متعارف ہوجائیں ۔ واقعات کا یہ رنگ بتارہا ہے کہ یہ چیزیں بالکل بطور خرق عادت کے ہیں ، عام واقعات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قادر مطلق جان لینے کے بعد قدرت کی وسعتوں کو خاص صورتوں اور شکلوں میں محدود سمجھ لینا نادانی ہے ، اللہ چاہے تو آسمان سے انسان برسا سکتا ہے ، زمین سے پیدا کرسکتا ہے وہ پہاڑوں کی صلابت کو روئی کی سی نرمی سے تبدیل کر دے تو کون مانع ہو سکتا ہے ، پھر ایک عورت کے پیٹ سے بچے کا تولد کیوں حیرت انگیز ہو ۔ خدا کے کام کچھ آلات پر نہیں موقوف ابو البشر ہوئے بےمادر وپدر پیدا ۔ حل لغات : انتبذت : علیحدگی اختیار کرنا ، الگ ہوکر ۔ نبذ سے مشتق ہے ، بغیا : بدکار ۔ مريم
19 مريم
20 مريم
21 مريم
22 مريم
23 بغیر باپ تولید کے امکانات : (ف ١) اللہ تعالیٰ کو جب یہ منظور ہوا کہ مسیح (علیہ السلام) کو بطور خرق عادت کے پیدا کرے تو پہلے حضرت مریم (علیہ السلام) کو اس کی اطلاع دی اس کو یقین دلایا ، کہ تو لوگوں کے اعتراضات کا ہدف بنے گی ، اور پھر قدرت کا اظہار فرمایا ، فحملتہ : سے مراد طبعی مدت حمل سے جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ہے ، یہ ہو سکتا ہے کہ حضرت مریم (علیہ السلام) میں بیک وقت اللہ تعالیٰ نے افعل وانفعال کی قوتیں پہناں رکھی ہوں ، اس قسم کی مثالیں آج کل تو بکثرت مل رہی ہیں کہ بہت سے نوجوان مرد عورت بن گئے اور بتہ ہی شادی شدہ عورتیں مردوں کی صورت میں تبدیل ہوگئیں ، یہ نظریہ استحالہ شخصیت اس بات کا ثبوت ہے کہ بعض عورتوں میں قدرت کی جانب سے تذکیر کا مادہ موجود ہوتا ہے ۔ بعض اوقات جب عورت حد سے زیادہ ذہین ہو ، اور اس کی قوت کو بدرجہ غایت نازل ہو ، تو اس وقت بھی محض یقین اور خیالی قوت سے حمل ٹھہر سکتا ہے طبیعت خود بخود اس نوع کے عناصر پیدا کرلیتی ہے جو اس تبدیلی کے لئے ضروری ہیں ۔ قوت خیال کا اثر بہت گہرا ہوتا ہے ، اور جب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک حساس عورت کو یقین ہوجائے اور نفخہ روح کا عمل بھی بروئے کار آجائے تو پھر بغیر مرد کے حمل ٹھہر جانا مشکل نہیں ، بہرحال اس باب میں اصلی چیز قرآن کی تصریحات ہیں جب قرآن نے اس تبدیلی کا ذکر تفصیل ووضاحت سے فرمایا ہے تو پھر اب مسلمان کے لئے شک اور تاویل کی گنجائش نہیں ہے ۔ حل لغات : قصیا : دور کی جگہ اقصے ال مدینہ ۔ نسیا : بھول جانے کے لائق جو چیز ہو ۔ سریا : چشمہ یا نہر ، بعض سلف سے سریا کے معنی شریف اور کریم النفس شخص کے بھی آئے ہیں مگر یہ کچھ صحیح نہیں معلوم ہوتے کیونکہ تحتک کا لفظ بچے کے لئے کوئی عمدہ تعبیر نہیں ہوسکتی ، نیز اس کے بعد بطور لف و نشر مرتب کے کلی واشربی کا لفظ آیا ہے جو اس بات پر دال ہے کہ سریا کے معنی چشمہ یا نہر کے ہوں ۔ مريم
24 مريم
25 مريم
26 (ف ١) حضرت مریم (علیہ السلام) درد زہ کی وجہ سے بےقرار ہوگئیں ، اور جنگل کی طرف نکل کھڑی ہوئیں ، وہیں حضرت مسیح (علیہ السلام) تولد ہوئے ، اس طرح سے بچہ کی پیدائش بجائے خود حضرت مریم (علیہ السلام) کے لئے خوش آیندہ نہ تھی ، اس پر مزید یہ کھٹکا کہ لوگ کیا کہیں گے ، اور پھر بےسروسامانی کا یہ عالم کہ اپنے پاس کوئی موجود نہیں جو دلداری کرسکے ، اس لئے انسانی فطرت کی کمزوری سے انہوں نے اضطرار یہ کہا کہ (آیت) ” یلیتنی مت قبل ھذا وکنت نسیا منسیا “۔ تو بالکل بجا فرمایا حالات کا تقاضا یہی تھا کہ ان کے منہ سے اس قسم کے کلمات نکلیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تسلی دی ، حضرت مریم (علیہ السلام) کو فرشتہ نے پکار کر کہا کہ غم نہ کرو ، اس بےسروسامانی میں بھی دو چیزیں موجود ہیں تروتازہ کھجوریں اور چشمہ کا صاف اور شریں پانی ، اور سب سے زیادہ غلط کرنے والا اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والا لخت جگر ، ۔ حضرت مریم (علیہ السلام) کا چپ رہنا اور اس کو ” صوم “ کے لفظ سے تعبیر کرنا ، اس کے معنے یہ ہیں کہ اس زمانے میں روزہ کی یہ شکل بھی موجود تھی غالبا حضرت زکریا (علیہ السلام) کو بھی اسی روزہ کی تلقین کی کی گئی تھی ۔ حل لغات : امراسوہ : بڑا آدمی ، سوء کا لفظ گوعام برائی کے لئے موضوع ہے ، مگر اس کا انتساب جب انسان کی طرف ہو ، تو اس سے مراد اخلاق کی برائی ہوتی ہے ۔ بغیا : بدکار ۔ برا : نیک صالح ، حقوق آشنا ۔ مريم
27 مريم
28 مريم
29 مريم
30 مريم
31 مريم
32 مريم
33 حضرت کا مسیح (علیہ السلام) کا بولنا : (ف ١) بدبخت اور بدشعار یہودیوں نے جب پاکباز مریم پر اعتراض کیا کہ یہ کیا قصہ ہے ؟ تمہاری گود میں یہ کیسا بچہ ہے ؟ تمہارا باپ تو ایسا نہ تھا اور تمہاری ماں بھی یقینا نیک اور صالح تھی ، پھر یہ بچہ کہاں سے آگیا ؟ حضرت مریم (علیہ السلام) چپ ہوگئیں ، اور بچہ کی جانب اشارہ کیا کہ اس سے پوچھو ، غالبا یہ بالکل وجدانی حرکت تھی ، حضرت مریم (علیہ السلام) نے یہ سوچا ہوگا کہ جب خرق عادت کے طور پر بچہ پیدا ہوسکتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے اس بچہ کو خاص طور پر پیدا فرمایا ہے تو پھر کیا اس صورت حالات میں اللہ میری برات نہ فرمائے گا ، اور ایسا نہ ہو سکے گا کہ بچہ خود بول کر حقیقت حال واضح کر دے ، یہودی اس جواب پر ہنسے انہوں نے کہا بھلا ہم بچے کو کسی طرح پوچھیں ، یہ اس صغر سنی میں ہمارے شبہات کا جواب کیسے دے سکتا ہے ، حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ہونٹ ہلے اور آپ نے پکار کر کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں ، اس نے مجھے نبوت کے منصب پر فائز کیا ہے اور کتاب عنایت فرمائی ہے ، میرا وجود قوم کے لئے ہر حالت میں باعث برکت وسعادت ہے میں نماز اور زکوۃ کے تفام پر عمل پیرا رہوں گا ، اور اس کو دنیا میں پھیلاؤں گا والدہ کے حق میں بہتر سلوک کروں گا ، اور میری ولادت اور موت اور اس کے بعد بعثت یہ سب چیزیں میرے لئے اللہ کی جانب سے سل امتی کی باعث ہیں ۔ ظاہر ہے یہ جواب یہودیوں کے لئے حیران کن اور مسکت ہوگا ۔ مسیح (علیہ السلام) کا اس وقت بولنا اس بات کا ثبوت ہے کہ انبیاء علیہم السلام میں ابتداء ہی سے استعداد موجود ہوتی ہے اور ان کے نہاں خانہ دماغ میں پیغمبری کا چراغ ہمیشہ روشن رہتا ہے ، وہ بچپن میں بھی نبوت کی جانب رجحانات رکھتے ہیں اگرچہ وہ اس عہدہ جلیلہ پر فائز نہیں ہوتے ، مگر غیر مرئی طور پر ان میں تمام کمالات نبوت موجود ہوتے ہیں جن کی ایک پیغمبر کو ضرورت ہوتی ہے ، مريم
34 (ف ٢) حضرت مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش ایک طرف یہودیوں کے لئے ٹھوکر کا باعث ہوئی اور دوسری جانب مسیحی حضرات اس کی وجہ سے گمراہی کے عمیق غار میں جا گرے ۔ عیسائی مذہب کے مبلغین نے یہ سمجھا کہ مسیح (علیہ السلام) کی یہ حیرت انگیز ولادت کی خدائی پر دال ہے ، ورنہ ایک انسان کیونکر قوانین قدرت کو توڑ سکتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے بتایا ، یہ بات غلط ہے مسیح (علیہ السلام) کا تولد ہونا اس کی الوہیت پر دلالت نہیں کرتا ، بلکہ میری جلالت قدرت کا ایک ثبوت ہے میں جب چاہتا ہوں محض ارادہ سے بڑی سے بڑی کائنات کو پیدا کرلیتا ہوں میرے لئے کسی سہارے اور شریک کی مطلقا ضرورت نہیں ، قول الحق سے غرض یہ ہے کہ قرآن نے مسیح (علیہ السلام) کے متعلق جو کچھ بتایا ہے وہی صحیح ہے ۔ ان آیات میں اصل تعلیم کو واضح کیا اور بتایا کہ حقیقی مقصد اللہ کی توحید ہے ، اور وہ لوگ جو اس صراط مستقیم سے گریزاں ہیں ان کیلئے بڑی حسرت کا سامان ہے وہ اللہ کے حضور میں سرخرو اور بازیاب نہیں ہو سکیں گے ۔ حل لغات : الاحزاب : مختلف گروہ ، حزب کی جمع ہے ۔ اسمع و ابصر : تعجب کے لیے ہے یعنی اس وقت تو یہ لوگ حق کی سماعت سے محروم ہیں ۔ مگر اس وقت ان کی سماعت بینائی میں اضافہ ہوجائے گا ۔ مريم
35 مريم
36 مريم
37 مريم
38 مريم
39 مريم
40 مريم
41 (ف ١) یہ تیسرا قصہ ہے ، مکے کے منکرین حق بظاہر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عقیدتمندی کا دم بھرتے اور احترام کرتے تھے ، اللہ نے فرمایا کہ کمبختو ! اگر تم واقعی طور پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ارادت رکھتے ہو تو پھر یہ بت پرستی کیسی ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے دوستی ، محبت کا دعوئے اور یہ شرک کا ارتکاب ، یہ دو چیزیں کیونکر جمع ہو سکتی ہیں ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تو صدیق تھے یعنی توحید اسلامی کے برجوش علمبردار ، انہوں نے توحید کے پھیلانے میں کبھی تعلق کا پاس نہیں کیا انہوں نے اپنے باپ کو جب دیکھا کہ بت پرستی کے مرض میں مبتلا ہے تو برملا کہہ دیا ، ابا ! ان بتوں کی پرستش کیوں کرتے ہو جن میں قوت سنوائی نہیں دیکھ بھی نہیں سکتے ، اور قطعا ناکارہ ہیں ، کیا تم لوگوں میں یہ جرات ہے کہ اپنے عزیزوں کی مخالفت کرسکو ، اپنے ہم قوم اور ہم قبیلہ لوگوں کو شرک کی برائیوں سے باز رکھ سکو ، کیا تم میں ہمت ہے کہ جرات کے ساتھ عقیدہ توحید کو قبول کرلو ، اور کھلے بندوں بتوں کی بیچارگی کا اعلان کر دو ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس وقت پیدا ہوئے جب بابل اور قرب وجوار میں ستارہ پرستی ، اور بت پرستی کا رواج عام تھا ، جب ہر جگہ بت پرستی کے بڑے بڑے ہیکل موجود تھے ، اور حکومت وقت ان کی موید تھی ، وہ جب جوان ہوئے اس صورت حالات کو گوارا نہ کرسکے ، اس لئے بتوں کے خلاف جہاد شروع کردیا ، اور نمرود تک جا متصادم ہوئے ، انہوں نے بتایا کہ یہ آسمان پر چمکنے والے تمام چھوٹے بڑے ستارے آفل (ناپید ہونے والے ) ہیں سب غروب اور زوال وفنا کی منزلوں سے گزرتے ہیں ، اس لئے یہ خدا نہیں ہو سکتے ، خدا وہ ہے جس نے ان سب کو تابانی بخشی ہے ، اور جو ان سب کا پیدا کرنے والا ہے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت اسلامی میں خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا ہے اور سب سے پہلے اپنے باپ کی اصلاح کے لئے کوشش کی تاکہ مصلحین کو معلوم ہو کہ تبلیغ ودعوت کا صحیح اور مؤثر طریق کیا ہے ؟ صحیح معنوں میں تبلیغ یہ ہے کہ پہلے قرب کے ماحول کی درستی کی جائے جب وہ سنور جائے تو پھر آہستہ آہستہ قدم باہر نکالے جائیں ۔ حل لغات : صدیق : انتہا درجہ کا صداقت شعار وہ شخص جس کا دل اور زبان یکساں حق پذیر ہوں ، العلم : یعنی وحی ۔ عصیا : نافرمان عصیان سے ہے ۔ مريم
42 مريم
43 مريم
44 مريم
45 مريم
46 مريم
47 (ف ١) باپ نے بتوں کی محبت میں پدری رعب وداب سے کام لیا اور ڈانٹ سے کہا کیا میں اپنے خداؤں کو چھوڑ دوں ؟ میں ہرگز اپنے عقائد سے بیقرار ہونے کے لئے تیار نہیں ، اور نہ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم ان خیالات میں الجھے رہو ، فورا توحید کے عقیدے سے باز آجاؤ ، ورنہ میں تجھے سنگسار کر دوں گا ، اور تو دور ہوجا ، اب میرے اور تیرے درمیان اختلاف کی ناقابل عبور خلیج حائل ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) صدیق تھے ، حق گوئی اور بیباکی ان کا خاص وصف تھا انہوں نے یہ سب کچھ سنا ، اور نہایت استقلال اور عزیمت سے جواب دیا ، کہ جناب خدا کی راہ میں گھر کی آسائیشون کی قطعا پروا نہیں کرتا ، میں بتوں کے ساتھ ساتھ تم کو بھی چھوڑ دوں گا ، اور مجھے یقین ہے کہ میرا خدا میری دستگیری فرمائے گا ، اور ہرگز مجھے تنہا نہیں چھوڑے گا ، مريم
48 مريم
49 ہجرت الی اللہ کے ثمرات : (ف ٢) جب کوئی شخص اللہ کے لئے تمام لذات کو چھوڑ دے ، مال ودولت اور اعزہ اور اقرباء کی ہمدردیوں سے جدا ہوجائے ، اور وطن کی آسائیشوں اور اس کے تکلفات سے یک قلم محروم قرار پائے ، تو اس وقت اس کی تسکین قلب کے لئے اللہ کی مدد کا ہاتھ پڑھتا ہے ، اور دل ودماغ کو مسرتوں سے معمور کردیتا ہے ، غور فرمائیے دنیا کو چھوڑ دینا آسان ہے مگر خالق کائنات کو کیونکر چھوڑا جا سکتا ہے ، اس کارساز کے ساتھ اگر اچھے تعلقات قائم ہیں تو پھر ساری مخلوق تابع اور فرمانبردار ہے ، اگر وہی روٹھ گیا ، تو پھر یہاں کی مسرتوں میں کیا لطف ہے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس اہم نکتہ سے خوب واقف تھے ، جب انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ دعوت حق کو قبول کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور مجھے ہجرت پر مجبور کر رہے ہیں تو فورا ہجرت الی اللہ پر مستعد ہوگئے اور اللہ کے لئے اللہ کی مخلوق کو چھوڑ دیا ۔ اب اللہ کی مہربانیاں ملاحظہ ہوں کہ وطن سے بےیارو مددگار گئے اللہ نے اسحاق جیسا بیٹا ، اور یعقوب (علیہ السلام) جیسا پوتا بخشا اور دونوں نبوت کے اعلی ترین عہدوں پر فائز تھے اور اس کے علاوہ مال ودولت دیا ، عزت وجاہ سے نوازا قبولیت بخشی ، اور جد عرب کے معزز لقب سے مشرف ہوئے ۔ حل لغات : اراغب : رغب کا صلہ جب عن ہو تو اس کے معنی نفرت کے ہوتے ہیں ۔ ملیا : ملادۃ ، من الدھر ۔ بہت زیادہ عرصہ ۔ حفیا : نہایت مہربان زیادہ لطف وکرم کا اظہار کرنے والا ، ۔ لسان صدق : یعنی مدح وثناء ذکر جمیل ۔ مريم
50 مريم
51 مريم
52 مريم
53 (ف ١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی ان پیغمبروں میں ہیں جنہیں عرب جانتے تھے ، فرمایا وہ ہمارے خاص مقر میں میں سے تھے ہم نے انہیں نبوت ورسالت کا خلعت بخشا ، اور طور پر شرف مکالمہ عطا ہوا ، اور ہارون (علیہ السلام) کو نبی بنایا ، تاکہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کے شریک حال رہیں ، اور مل کر دعوت وتبلیغ میں سرگرمی دکھائیں ۔ مريم
54 مريم
55 (ف ٢) یہودی اور عیسائی حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کی بزرگی کے قائل نہ تھے اس لئے قرآن حکیم نے خصوصیت سے انکا ذکر فرمایا اور بتایا کہ وہ کردار میں ایک اعلی پایہ کے بزرگ تھے ، مذہبی اور دینی جوش کا یہ عالم تھا کہ گھر کے تمام لوگوں کو نماز اور زکوۃ کی تلقین کرتے ، اس لئے ان اوصاف حسنہ کی وجہ سے وہ اللہ کے محبوب پیغمبر تھے ۔ مريم
56 (ف ٣) حضرت ادریس (علیہ السلام) کے نام سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں درس وتعلیم سے بہت زیادہ شغف تھا ، چنانچہ بعض روایات میں آتا ہے کہ انہوں نے ضروریات ادلیہ میں بہت سی چیزیں ایجاد کیں ، ان کا زمانہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے پہلا ہے رفعت مکانی سے مراد درجات میں برتری ہے ۔ حل لغات : مخلصا : خالص کرلیا گیا ، خالص کیا ہوا ، برگزیدہ ، اھلہ : ہو سکتا ہے اس کے معنی علاوہ اپنے گھروں کے جاننے والوں اور معتقد بن گئے ہوں ۔ مريم
57 مريم
58 پاکباز اسلاف : (ف ١) یہ سب وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان کے دریا موجزن تھے ، جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی توفیق مرحمت فرمائی تھی ، اور جو سب مقبول بندے تھے ، ان لوگوں کی کیفیت یہ تھی کہ جب ان کے سامنے ان کے مہربان خدا کا کلام پڑھا جاتا ، تو یہ فرط عقیدت سے اس کے سامنے جھک جاتے ، اور رقت وانفعال کے جذبات ان پر طاری ہوجاتے ، اللہ کے حضور میں سجدہ کناں روت ، اور کمال عجز ومحبت کا اظہار کرتے ۔ غرض یہ ہے کہ وہ لوگ جو ان حضرات سے تعلق وارادت رکھتے ہیں ان کو چاہئے کہ ان کے دلوں میں بھی اسی طرح اللہ تعالیٰ کی محبت کا جوش ہو اور وہ بھی انہیں پاکیزہ جذبات کے حامل ہوں ، وہ بھی خدا کے احکام کو نیاز مندانہ سنیں ، اور نماز وعبادت میں خلوص کے ساتھ مشغول ہوں ، بات یہ تھی کہ عرب باوجود مشرکانہ رسوم کے ان انبیاء کے ناموں سے آگاہ تھے ، اور مسلمانوں کے سامنے ان سے ایک گونہ تعلق کا اظہار کرتے تھے اور گاہ گاہ کہتے تھے کہ ہم ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں ، ان کے خیال میں مسلمان جن تعلیم کو مانتے تھے ، وہ ان انبیاء کی تعلیم سے بالکل مختلف تھی چنانچہ وہ مسلمانوں کے خیالات کو بدعت سے تعبیر کرتے اور علی الاعلان کہتے کہ ہمارے علماء اور آباء واجداد ہرگز ان خیالات کے حامی نہ تھے ، اس لئے قرآن حکیم کو ضرورت محسوس ہوئی ، کہ وہ انبیاء کے حالات بیان کرے ، اور ان کی تعلیمات واضح طور پر پیش کرے اور بتائے کہ تم راہ راست پر گامزن نہیں ہوتے کہ ان کو اپنے غلط مسلک پر تنبیہ ہو ، اور کج روی سے باز آئیں ۔ مريم
59 نااہل جانشین !: (ف ٢) خلف : سے مراد برے جانشین ہیں جو سلف کی روایات کے حامل نہ ہوں لبید کہتا ہے ۔ ذھب الذین یعاش فی اکنافہم وبقیت فی خلف کجلد الاجوب : یعنی ان پاکباز لوگوں کے کچھ ایسے نااہل پیدا ہوئے جو ہوائے نفس کی پیروی اور خواہشات کی تکمیل میں دینی ومذہبی فرائض کو بھول گئے اور تم کو یا انہیں لوگوں کے نقش قدم پر ہو ۔ (آیت) ” اضاعوا الصلوۃ “۔ کے بعد ” واتبعوا الشھوت “۔ کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو قوم اپنے مذہبی فرائض سے غفلت پر تتی ہے ، اور جس کے دل سے عبادت ونیاز مندی کے جذبات خارج ہوجاتے ہیں ، وہ شہوات کی جانب جھک پڑتی ہے ، اور اس کے دل ودماغ پر مادی وجنسی خیالات مسؤل ہوجاتے ہیں ۔ بہرحال اس نوع کے لوگ یقینا اپنے اعمال کا خمیازہ بھگتیں گے اور حرص وآز کی زندگی انہیں تباہ کر دے گی ۔ مريم
60 مريم
61 (ف ١) ان آیات میں ان لوگوں کا ذکر ہے ، جو گناہوں سے توبہ کرلیتے ہیں ، اور ایمان وعمل کی نعمت سے بہرہ ور ہوتے ہیں جو خواہشات وشہوات کی پیروی نہیں کرتے ، اور اپنے دلوں میں تقوی وپرہیز گاری کے جذبات پیدا کرلیتے ہیں ، ان لوگوں کے لئے جنت کے دروازے وا ہیں یہ لوگ اطمینان وسل امتی کے ساتھ ابدی زندگی بسر کریں گے ۔ حل لغات : اسرآئیل : حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا دوسرا نام ہے ، عربی زبان میں اسرائیل کے معنے برگزیدہ خدا یا بندہ خدا کے ہیں ۔ غیا : گمراہی کی سزا ، گمراہی ، ہر بری بات ۔ مريم
62 مريم
63 مريم
64 مريم
65 مريم
66 مريم
67 مريم
68 مريم
69 حشر کا ثبوت اور لفظ درود کی تشریح : (ف ١) اس سے قبل کی آیت میں عبادت واستقلال کی تلقین کی گئی تھی اس میں اس شبہ کا ذکر ہے جو منکرین کے دل میں پیدا ہوتا ہے ، اور جس کی وجہ سے وہ اللہ کی عبادت سے روگردان رہتے ہیں ، وہ شبہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد کیونکر ہم دوبارہ جی اٹھیں گے ، اور یہ کسی طرح ممکن ہے ، کہ بوسیدہ ہڈیاں پھر سے لحم وشحم کی حامل ہوجائیں ، اور رگوں میں زندگی کا خون ڈوڑنے لگے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تم اپنی پیدائش پر غور کرو کیا اس سے پہلے تمہارا کہیں وجود تھا آج تم کبر وغرور کی وجہ سے اللہ کے سامنے سر نیاز نہیں جھکاتے ہو مگر کیا اسی خدا نے تمہیں خلعت وجود نہیں بخشا ؟ سمجھو اور یقین کرو ، کہ جس نے تمہیں پہلی دفعہ پیدا کیا ہے ، وہ وہ اور زندہ کرسکے گا ، (آیت) ” قل یحییھا الذی انشاھا اول مرۃ “۔ کیونکہ جو کتم عدم سے انسان کو منصہ شہود پر جلوہ افگن کرسکتا ہے وہ فنا کے بعد بھی مکرر بقا کی نعمتوں سے بہرہ ور کرسکتا ہے ، (آیت) ” وھو الذی یبرؤ الخلق ثم یعیدہ وھو اھون علیہ “۔ (آیت) ” فوربک “۔ سے مراد اللہ کی ربوبیت کو حشر کے لئے بطور ثبوت وبرہان کے پیش کرنا ہے یعنی اگر اس دنیا کا نظام کسی ربوبیت وقلم کا مرہون منت ہے ، تو پھر اس کا کھلا تقاضا یہ ہے ، کہ مکافات عمل کے لئے ایک الگ عالم کا وجود تسلیم کیا جائے جہاں کا قانون سب کے لئے قابل عمل ہو ، جہاں مظلوم کی فریاد سنی جائے ، اور ظالم کو سزا دی جائے ، جہاں سفارش اور سرمایہ داری کے تمام امتیازات اٹھ جائیں ، جہاں کمزور اور پاکباز انسانوں کو اللہ کے خلاف عدم مساوات کا گلہ نہ رہے ، اور جو ایسا مقام ہو کہ اس میں صرف اپنے اعمال زندگی ومسرت کا باعث ہو سکیں ، چنانچہ ارشاد ہے کہ ہم تمام منکرین اور مشرکین کو مع ان کے معبودان باطل کے جہنم کے گردا گرد جمع کریں گے پھر ان میں زیادہ سخت مجرمین کو چھانٹ لیں گے ، اور دیکھیں گے کہ ان میں سے کون کون لوگ نار جحیم کے مستحق ہیں ، یعنی یہ سب باتیں قاعدہ اور تقسیم کے ماتحت ہوں گی ، ثم کا لفظ یہاں تراخی بیان کے لئے ہے ، مريم
70 مريم
71 (ف ٢) اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے تاویل کے تین پہلو اختیار کئے ہیں ۔ ١۔ اس سے مراد کفار ہیں ، جیسا کہ سیاق وسباق کا تقاضا ہے یعنی وہ لوگ جن کا ذکر اوپر کی آیتوں میں چلا آ رہا ہے کہ انہیں موت کے بعد اٹھایا جائے گا ، اور مکافات عمل کے اصول کے مطابق مناسب وموزوں سزا دی جائے گی ، سابقہ آیات اور اس میں صرف انداز بیان کا فرق ہے اس آیتوں میں تمام صیغے غائب کے ہیں ، اور اس آیت میں صیغہ خطاب کا ہے ، اور محض یہ تفاوت اس آیت کو دوسری آیتوں سے علیحدہ نہیں کرسکتا کیونکہ اس نوع کا اختلاف قرآن کی بیشمار آیتوں میں موجود ہے ، بلکہ بلاغت پر مبنی ہے ، ان کا تعلق ماسبق کی آیتوں سے منقطع نہیں ہوتا ، بات صرف یہ ہے کہ وہ لوگ چونکہ حشر کے معاملہ میں شبہات وشکوک کا اظہار کرتے تھے ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ تمہیں دوبارہ جی اٹھنے پر تعجب ہے اور ہم یقینا تم سب کو جہنم میں پھینکیں گے ۔ اس صورت میں ” ثم ننجی “ ۔ میں ثم تراخی بیان کے لئے ہوگا ، یعنی یہ معنے ہوں گے کہ تم لوگ تو سب جہنم میں جاؤ گے ، البتہ جو مومن اور متقی ہیں ، ان کے لئے ہمارا انتظام یہ ہے ، کہ ان کو نجات کا پروانہ دیا جائے اور عذاب جہنم سے قطعا بچا لیا جائے ، تائید میں یہ آیتیں پیش کی جاسکتی ہیں ، جو اپنے مفہوم میں بالکل واضح اور بین ہیں ۔ (آیت) ” ان الذین سبقت فہی منا الحسنے اولئک عنھا مبعدون “۔ یعنی نیک کردار لوگ جہنم سے کہیں دور رہیں گے ، دوسری جگہ تصریح ہے کہ نیک اور پاکباز لوگ تو جہنم کی آواز تک سننے نہ پائیں گے ، (آیت) ” لا یسمعون حسیسھا “۔ کیونکہ ہر تکدر کی بات سے محفوظ رکھا جائے گا ، (آیت) ” وھم من فزع یومئذ امنون “۔ گویا اس صورت میں تاویل آیات کے مطابق سیاق وسباق کے قرین اور مومن کی شایان شان ہے ۔ ٢۔ آیت عام ہے مومن و کافر دونوں کو شامل ہے البتہ لفظ درود کے معنے دخول کے نہیں ، بلکہ حضور وقرب کے ہیں مقصد یہ ہے کہ سب لوگ ایک مرتبہ جہنم کے قریب جائیں گے اور اس کو دیکھیں گے تاکہ اللہ کے مقام غضب سے آگاہ ہوں ۔ قرآن میں اور عربی لغت میں درود ان معنوں میں استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے کہ وردت القافلۃ البلدۃ “۔ یعنی قافلہ شہر کے قریب آپہنچا ، قرآن میں ہے (آیت) ” ولما ورد ماء مدین “۔ ظاہر ہے اس سے مراد محض قریب ہونا ہے ۔ ٣۔ آیت عام ہے لفظ درود سے مراد دخول ہے مگر مسلمانوں کو جہنم میں داخل ہونے سے کوئی گزند نہیں پہنچے گا ، بلکہ ان کے لئے جہنم کی آگ نار ابراہیم (علیہ السلام) ثابت ہوگی ، چنانچہ حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ جہنم میں نیک وبد سب جائیں گے مگر نیکو کاروں کے لئے ور برددسل امتی میں تبدیل ہوجائے گی ، غرض یہ ہے کہ مسلمان بہرحال جہنم کے عذاب سے محفوظ رہیں گے تاویل کا کوئی پہلو تسلیم کرلیجئے ، غرض ایک ہے اور مسلمان کی نجات کی خوشخبری ہے ، حل لغات : شیئا : یعنی تقابل نہ کرو ، والشیطین : برے لوگ ، معبودان باطل مريم
72 مريم
73 مريم
74 مريم
75 (ف ١) کفار مکہ کے سامنے جب اللہ کی واضح تین آیتیں پڑھی ہوئیں اور ان کو اسلام کی طرف رعیت دی جاتی تو وہ کہتے کہ ہمارے لئے اسلام کیونکر خیروبرکت کا سبب ہو سکتا ہے ، جب کہ تم خود اچھی حالت میں نہیں ہو ، تم مفلس ہو ، کمزور وناتوان ہو ، اور ہمیں اللہ نے سب کچھ دے رکھا ہے ، ہماری حیثیت تم سے کہیں بلند ہے ہم شان وشوکت اور نام ونمود کے لحاظ سے تم سے بہت بڑھ کر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم کوتاہ نظر ہو ، تمہاری نگائیں ہمیشہ واقعات کی سطح پر رہتی ہیں ، تم نے کبھی اقوام کی تاریخ اٹھا کر دیکھی ہے ؟ تم نے کبھی قوموں کے عروج وزوال کی داستان سنی ہے اور تم نے کبھی کوشش کی ہے ، کہ ان تباہیوں اور ہلاکتوں کے اسباب تک پہنچو جن وجہ سے بڑے بڑے جابر وقت کی نیند سو گئے ، تو اپنی ظاہر حالت پر مغرور ہو ، تھوڑی سی پونجی اور دولت پر تماہرے گھمنڈ کا یہ عالم ہے کہ حق کی آواز کو ٹھکرا رہے ہو ، تم نہیں جانتے ہو کہ بہت سی قومیں اس دنیا میں شان وحشمت کے ساتھ نمودار ہوئیں اور بالآخر رسوائی کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے صفحہ دہر سے مٹ گئیں ، آج ان کا نشان تک نہیں ملتا ، کیوں ؟ اس لئے کہ انہوں نے ظاہری ٹھاٹ پر اتنا بھروسہ کیا ، کہ اللہ کے فرامین کو بھول گئے ، اور اللہ کے بندوں کو محض اس لئے حقیر وذلیل سمجھا کہ ان کے پاس دولت ایمان کے ساتھ سیم وزر کے انبار کیوں موجود نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم جلد باز اور مستعجل نہیں ، گنہگار کو سنبھلنے ، اور اصلاح اعمال کا پورا پورا موقع عنایت فرماتے ہیں ، اس کے آرام وآسائش میں یکایک مداخلت نہیں کرتے ، اور نہیں چاہئے کہ بغیر انتباہ اس کو تباہ کردیں مگر انسان کہ از راہ کج فہمی اس ڈھیل کو جو ہماری رحیمیت پر مبنی ہے اپنی لئے گناہی اور صداقت شعاری پر محمول کرتا ہے ، اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر اس کی سرکشیاں اسی طرح باقی رہیں ، اور اصلاح کے مواقع سے اس نے استفادہ نہ کیا تو اللہ کا عذاب اس کو آگھیرے گا ، یا قیامت میں جب اس کو عمدہ ٹھکانا نہ ملے گا ، اور کوئی یار ومددگار یاوری نہ کرسکے گا تب اس کو محسوس ہوگا کہ پاکباز اور مسکین مسلمان آج مجھ سے کہیں زیادہ حیثیت میں ہے ۔ مريم
76 (ف ١) اللہ تعالیٰ کا جس طرح یہ قانون ہے کہ مجرموں کو اس وقت تک نہیں پکڑتا ، جب تک وہ گمراہی وہلاکت کی آخری منزلوں میں نہیں پہنچ جاتے اسی طرح اس کا یہ بھی قانون ہے کہ پاکباز لوگ جب اس کی ہدایت قبول کرلیتے ہیں تو وہ مزید توفیق واستعداء کے دروازے کھول دیتا ہے اور ان کے دلوں کو معارف وحکم سے معمور کردیتا ہے ، وہ نیکی اور تقوی کی صحیح قدروقیمت سے آگاہ ہوجاتے ہیں ، ان کی زندگی کا نصب العین یہی قرار پاتا ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کی فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو کر رہیں انہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کو دنیائے فانی میں باقی اور ہمیشہ رہنے والی چیز مال ودولت نہیں سیم وزر ۔ تمہیں اولاد کی فراوانی نہیں ، بلکہ اعمال صالحہ اور نیکیاں ہیں جو مال اور نتیجہ کے لحاظ سے دنیا کی تمام نعمتوں سے بہتر ہیں ۔ العاص بن وائل سے حضرت خباب بن الارت (رض) نے مزدوری طلب کی تو اس بدبخت نے کہا کہ میں تو اس وقت تک تمہیں تمہارا حق نہیں دوں گا ، جب تک کہ تم محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کی رسالت کا انکار نہ کر دو ، خباب نے عشق محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) میں سرشار ہو کر کہا ، کہ یہ تو کبھی ممکن نہیں ، نہ زندگی میں نہ موت کے وقت نہ اس وقت جب کہ تم خدا کے ہاں پیش کئے جاؤ گے اس کمینے نے اس جذبہ کی ہنسی آڑائی اور کہا کہ بعثت کا عقیدہ اگر بقول تمہارے صحیح ہے ، تو میں وہاں بھی آخر اسی حیثیت سے جاؤں گا ، وہاں معاملہ چکا دوں گا مطمئن رہو ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، یہ اسے کیونکر معلوم ہوگیا ، کہ عقبے میں بھی اس کی یہ مالداری کی حیثیت قائم رہے گی ، کیا امور غیب وہ جانتا ہے ، یا اللہ سے اس نے اس بات کا عہد لیا ہے ۔ ارشاد ہے ، ایسا ہرگز نہ ہوگا ، وہ عذاب کیا جائے گا ، اور ہمارے روبرو نہایت بےبسی اور بیچارگی کے ساتھ پیش کیا جائے گا ۔ مريم
77 مريم
78 مريم
79 مريم
80 مريم
81 مريم
82 مريم
83 مريم
84 مريم
85 مريم
86 مريم
87 (ف ١) مشرکین کا ذکر ہے کہ ان لوگوں نے اس امید پر کہ ان کے معبودان باطل قیامت کے دن ان کی سفارش کریں گے اور جہنم کی آگ سے بچائیں گے ان کی پرستش شروع کردی ، حالانکہ یہی لوگ قیامت کے ہول سے ان معبودوں کو بھول جائیں گے اور ان کی عبادت سے یکسر انکار کردیں گے ۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ شرک وکفر کی گمراہیاں انکی طبیعت وذوق کے موافق ہیں جہاں شیاطین کی جانب سے تحریک ہوئی ، یہ متاثر ہوگئے ، ارشاد ہے کہ اللہ کے پاکباز بندوں کے لئے تو وہاں عزت واحترام کا سامان موجود ہے ، انہیں بارگاہ رحمت میں فرشتے تعظیم وتوقیر سے پہنچا دیں گے ، اگر یہ لوگ جو بت پرستی کے مجرم ہیں ، جنہوں نے دنیا میں نفس کی پوجا کی ہے جنہوں نے شخصیتوں اور قوتوں کے سامنے سروں کو جھکایا ہے بحیثیت مجرم اور گنہ گار کے پیش کئے جائیں گے ، ان کی تمام توقعات غلط ثابت ہوں گی کوئی شخص ان کی سفارش نہ کرسکے گا ۔ مريم
88 مريم
89 مريم
90 مريم
91 ہولناک عقیدہ : (ف ٢) بت پرستی اور شرک اللہ تعالیٰ کو نہایت ناپسند ہے ، اس لئے اس سے نفس انسانی میں ذلت اعتقاء کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں ، اور انسان اس فطری شرافت سے محروم ہوجاتا ہے ، جو اس کا مخصوص حصہ ہے ، اور جن کی وجہ سے وہ تمام کائنات سے اعلی اور برتر ہے نیز مشرکانہ ذہنیت سے اللہ تعالیٰ کے تخیل کو سخت صدمہ پہنچتا ہے ، اور کوئی شخص معرفت وسلوک کی راہوں کو شرک کے طریقوں سے نہیں کرسکتا ، کیونکہ اس کا آئینہ قلب شرک کی ظلمتوں سے اندھا ہوجاتا ہے ، اور معرفت کی شعاعیں اس میں نفوذ نہیں کرسکتیں ۔ اس لئے قرآن ہر نوع کے مشرکانہ تخیل سے بیزاری کا اعلان کرتا ہے اور بنی نوع انسانی کیلئے اسے کھلی گمراہی قرار دیتا ہے ، اور ابن اللہ کا عقیدہ تو قرآن کے نزدیک بدترین قسم کا شرک ہے ، جو قطعا ناقابل فہم اور مضحکہ خیز ہے ، کیونکر اس میں شرک کی وہ شکل وصورت پنہاں ہے ، جو عقیدہ توحید کے بالکل منافی ہے ، ابن اللہ کے عقیدہ کو مان کر اللہ کے لئے ذہن وقلب کے کسی گوشے میں عقیدت باقی نہیں رہتی ، اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، یہ عقیدہ اتنا انوکھا ، اتنا ہولناک اور مہیب ہے کہ آسمان میں بھی اس کے لئے قوت برداشت موجود نہیں ، اور زمین اور پہاڑ بھی اس افتراء کو سوا میں تو مارے خوف کے دہل جائیں ، اور ٹکڑے تکڑے ہوجائیں ، گویا اس عقیدے کی شناخت اور پرائی بدرجہاتم واضح ہے مگر انسان اسے قبول کرلے تو کرلے ، کلمات کی ہر چیز اس کی مخالف ہے ، اور عملا توحید کی نغمہ گو ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب آسمان کی بلندیاں اور زمین کی وسعتیں اور وہ سب لوگ جو ان کے درمیان ہیں ہمارے مطیع ومنقاد ہیں ، تو پھر ہمیں بیٹے اور سہارے کی کیا ضرورت ہے ؟ یاد کھو ، یہ سب لوگ جنہیں تم خدا کا بیٹا اور اس کا شریک اور سہیم ٹھہراتے ہو ، اس کے سامنے عاجز اور محتاج ہیں ، قیامت کے دن جب یہ خدا کے حضور میں آئیں گے ، تو بالکل تنہا بغیر یارومددگار ! عقیدتمندوں کا گروہ ان کے ساتھ نہ ہوگا ۔ حل لغات : ازا : آمادہ کرنا ، برانگیختہ کرنا ، ابھارنا ۔ وقدا : یا کراہت یا عزت ۔ ادا : عجیب بہت بڑی ، ہولناک بری بات ۔ مريم
92 مريم
93 مريم
94 مريم
95 مريم
96 (ف ١) یعنی اللہ کے پاکباز بندے محبوبیت اور مودت کا عالی مقام حاصل کرلیتے ہیں اور خدا ان لوگوں کے دلوں میں جذبات عقیدت ومحبت پیدا کردیتا ہے ۔ مريم
97 (ف ٢) اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان حقائق کو عربی میں کیوں جان کیا گیا ہے ؟ اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان باتوں کو خوش اسلوبی سے دوسروں تک پہنچا سکیں ؟ حل لغات : ودا : محبوبیت : ، محبت ، لدا : جمع الد ، جھگڑالو ، ضدی جدل کرنے والے ، رکزا : گن سن آواز ۔ مريم
98 مريم
0 طه
1 طه
2 طه
3 (ف ١) سورۃ طہ مکی ہے اور عام مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی نبوت قصص اور توحید وحشر کا بیان ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب یہ خیال فرماتے کہ لوگ دعوت وارشاد کی مساعی کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں ، تو آپ کو قدرتا تکلیف محسوس ہوتی ، کیونکہ لوگوں کی گمراہی وضلالت سے آپ کو روحانی کوفت محسوس ہوتی ، آپ یہ چاہتے تھے کہ یہ سب لوگ اللہ تعالیٰ کی آغوش رحمت میں آجائیں ، اور جہنم کے عذاب سے بچ جائیں ، اس پر قرآن حکیم کی یہ آیتیں نازل ہوئیں کہ قرآن کی آواز پر وہی لوگ لبیک کہیں گے جن کے دلوں میں خشیت الہی کا جذبہ موجزن ہے ، جو خدا سے ڈرتے ہیں اور جن میں قبول حق کی استعداد موجود ہے ، اس لئے آپ ان لوگوں کی محرومی اور بدبختی پر افسوس اور دکھ کا اظہار نہ کریں ، یہ ازلی محروم اور بدنصیب ہیں ۔ طه
4 طه
5 صفات ، حالات وشیؤن اور تائیدات : (ف ٢) قرآن حکیم میں جو الفاظ اللہ تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوئے ہیں ، ان کی تین قسمیں ہیں ، ایک وہ ہیں جو بطور صفات کے استعمال ہوتے ہیں جیسے علیم ، حکیم ، رب اور غفور ورحیم ، وغیرہا ، ایک وہ ہیں جو شؤن وحالات کی تشریح کے لئے آتے ہیں بطور صفت کے ان کا استعمال نہیں ہوتا ، جیسے لفظ استواء کہ یہ ایک خاص حالت اور شان پر دلالت کرتا ہے اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کو بیان کرنا نہیں ، یہی وجہ ہے کہ قرآن میں کہیں بھی بطور مستوی کے یہ لفظ نہیں آیا ہے ، اور احادیث میں بھی اللہ تعالیٰ کی صفات میں کہیں مستوی علی العرش کا لفظ موجود نہیں کریگا ایک حقیقت شرعی ہے اور اس پر ایمان لانا ضروری ہے ، مگر اس میں ایک حالت ہے جمال سرمدی کی اور ایک کیفیت سے توجہات ربوبیت کی ۔ تیسری قسم یہ ہوتی ہے کہ الفاظ متعمات کے طور پر استعمال ہوں اور بجائے خود ظاہری معنوں میں مقصود نہ ہوں ، جیسے ید ، وجہ ، یا عین کا لفظ کہ جب ان کا استعمال ہوتا ہے ، غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ معنے جو بیان کئے گئے ہیں ، یہ الفاظ ان میں تائید اور تتمیمہ پیدا کردیں ، مثلا ” بیدہ الملک “ اس سے غرض اس مفہوم کی تائید ہے کہ سب قسم کی بادشاہتیں ، اللہ کے قبضہ و قدرت میں ہیں ، یہ نہیں کہ اللہ کے لئے لفظ ید ثابت ہے ، اسی طرح وجہ کا لفظ اینما تولوا فثم وجہ اللہ میں بجائے خود مقصود نیں ، غرض اللہ کی وسعت علمی کو بیان کرنا ہے ، لفظ عین سے نگرانی و حفاظت کا مفہوم ظاہر کرنا مقصود ہے جیسے ارشاد ہے واصنع الفلک باعیننا ۔ طه
6 طه
7 طه
8 طه
9 (ف ٣) رات کی تاریکی اور سردی میں آگ کی ضرورت محسوس ہوئی ، مگر جنگل اور سنسان زمین میں آگ کہاں ؟ بےچین تھے کہ دور سے شعلے اٹھتے معلوم ہوئے اہل وعیال سے کہا تم یہیں ٹھہرو ، میں جاتا ہوں ممکن ہے آگ کے چند انگارے لے آؤں اور ان سے تم بدن گرم کرسکو ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی آگ کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ، قرآن حکیم نے اس کی تفصیل نہیں بتائی ہے مفسرین کہتے ہیں ، اس وقت موسیٰ (علیہ السلام) کی بیوی دردزہ سے جانکاہ حالت میں تھی ، غور فرمائیے جنگل میں جہاں ہمدردی اور اعانت کے لئے کوئی شخص موجود نہ ہو ، جہاں آگ تک میسر نہ ہو ، یہ وقت کس قدر نازل ہوجاتا ہے ، یہ وقت بہت گھبراہٹ اور اضطراب کا ہے مگر آپ بعد کی آیتوں میں دیکھئے گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) سب کچھ بھول جاتے ہیں اور جلوہ ہائے لاہوت کی کرشمہ سازیوں میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔ طه
10 طه
11 طه
12 وادی طوی میں تجلیات : (ف ١) موسیٰ (علیہ السلام) آگ لینے کے لئے آگے بڑھے ، اور ایک وادی میں پہنچ گئے ، جو تجلیات سے معمور تھی ، مخاطب کیا گیا ، کہ میں تمہارا رب ہوں ، جس نے تمہیں بلایا ہے قریب آؤ اور جوتا اتار دو ، یہ مقام پاک اور متبرک ہے ۔ موسی (علیہ السلام) جس چیز کو آگ سمجھے ، وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی تجلی تھی یعنی ایک صورت اظہار اور ایک عنوان شہود تصوف کی اصطلاح میں تجلی ایک جنگ ہے جس کے ماتحت اظہار وشہود کی مختلف نوعیں آجاتی ہیں ۔ تجلیات کی بڑی بڑی قسمیں یہ ہیں ۔ ١۔ عام کائنات میں حسن وجمال ، نظم وفسق افادہ اور شعور ۔ ٢۔ مخصوص مقامات ارضی ومسماوی ہیں بین اور واضح ظہور ، ٣۔ قلب مومن میں القاء ۔ ٤۔ کلام وحی اور الہام ۔ ٥۔ معجزات اور خوارق : یعنی اللہ تعالیٰ انسانی توجہات کو اپنی ذات پاک کی جانب متوجہ کرنے کیلئے جو بھی صورت اظہار اختیار کرے ، وہ تجلی ہے ۔ طه
13 (ف ٢) یہاں سے تجلی بصورت الہام کا آغاز ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) میں نے تمہیں منتخب کرلیا ہے آئندہ سے تیرا دل میرے کلام کا مہبط ہے ، سنو ، اور توجہ سے سنو ۔ حل لغات : طوی : ملک شام میں ایک وادی کا نام ہے ، اسی کو وادی امین کہتے ہیں ۔ ” احترتک “۔ سے ظاہر ہے ، نبوت کا خلعت یونہی نہیں مرحمت فرمایا جاتا ، بلکہ اس کے لئے انتخاب اور اصطفا کی ضرورت ہے ، ابتدا ہی سے انبیاء علیہم السلام میں ایک قسم کا جو ہر قابلیت ہوتا ہے ، جو وقت مقررہ کے آجانے پر اظہار پذیر ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس وقت جب کہ ذہن وفکر کی ضروریات پختہ ہوجاتی ہیں ، مقام نبوت پر انبیاء کو فائز کرتے ہیں ، اور رشد وہدایت کے لئے دنیا میں بھیج دیتے ہیں ۔ موسی (علیہ السلام) عمر کی اس منزل میں پہنچ گئے ہیں ، جہاں نبوت کا بارگراں اٹھا لینا ضروری ہوتا ہے ، اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں آؤ اور سنو ، تمہیں نبوت دی گئی ، پیغام یہ ہے کہ صرف میری عبادت کرو ، میری یاد میں نماز پڑھو ، قیامت کو مت بھولو ، مکافات عمل کا اصول پیش نظر رکھو ، ہر شخص کو اس کے اعمال کا برابر بدلہ ملے گا ، اور خواہشات نفس کی پیروی سے احتراز کرو ، طه
14 طه
15 طه
16 طه
17 طه
18 طه
19 طه
20 طه
21 (ف ١) اللہ تعالیٰ نے پوچھا ، موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے ہاتھ میں کیا ہے ؟ مقصد یہ تھا کہ ان کو معجزات وخوارق سے آشنا کیا جائے ، اور ان کو بتایا جائے ، کہ تیرے عصا میں باطل کو نگل جانے کی پوری قوت موجود ہے ، موسیٰ (علیہ السلام) نے جو اس تخاطب وعنایت الہیہ سے لطف اندوز ہوچکے تھے سلسلہ کلام آگے بڑھانا چاہا ، عصا کے فوائد بیان کئے اور کہا اس میں کچھ اور بھی مصلحتیں ہیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) ۔ لٹھ کو ذرا زمین پر پھینک تو دو ۔ موسی (علیہ السلام) نے دیکھا کہ وہ خشک لکڑی کا لٹھ زندہ اور خوفناک سانپ کی شکل میں میں تبدیل ہوچکا ہے ، اس پر موسیٰ (علیہ السلام) ڈرے ارشاد ہوا گھبراؤ نہیں ، یہ پھر لٹھ ہوا جاتا ہے ۔ ایک اور معجزہ عنایت ہوا ، ہاتھ جو بغل میں دابا ، اور پھر نکالا ، تو بالکل براق اور چمکتا ہوا ۔ فرمایا ، جاؤ نبوت کی قوتوں سے مسلح ہو کر فرعون کا مقابلہ کرو جس نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے ، اور ان سے محبت ذلیل کام لیتا ہے ، لٹھ کا سانپ بن جانا ، اس حقیقت کی جانب اشارہ ہے کہ جس طرح بےجان اور بےروح لکڑی ہماری قدرتوں سے سانپ بن سکتی ہے اسی طرح بنی اسرائیل جو شاخ کہن کی طرح اب بالکل مردہ اور بےکار ہوچکے ہیں ہماری توجہات کی برکت سے دشمن کے مقابلہ میں افعی ثابت ہوں گے ، ہاتھ کا براق اور نورانی ہوجاتا کامیابی وکامرانی کا مژدہ ہے ۔ حل لغات : مارب : جمع ماربہ بمعنی حاجات ، ماخوذ ازادب بمعنی حاجت ، من غیر سوٓئ: یعنی ہاتھ کی سفیدی نور کی وجہ سے تھی برص کی وجہ سے نہیں ۔ جیسا کہ یہودی سمجھتے تھے ۔ طه
22 طه
23 طه
24 طه
25 طه
26 طه
27 طه
28 طه
29 طه
30 طه
31 طه
32 طه
33 طه
34 طه
35 موسی (علیہ السلام) کی دعا : (ف ١) جب نبوت مل چکی ، اور کام کی نوعیت بھی بتا دی گئی ، کہ فرعون سے مقابلہ ہے اس کی سرکشی اور طغیان کے خلاف جہاد ہے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے اس خاص باب میں توفیق اعانت چاہی فرمایا ، میرے سینہ کو انشراح وضاحت کے انوار سے بہرہ ورکر ، میرے کام میں آسانیاں بہم پہنچا ، زبان میں حلاوت وبلاغت پیدا کر ، کہ وہ بےحس دلوں کی گہرائیوں تک پہنچ سکے ، اور میرے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو بھی میرا شریک کار بنا دے ، تاکہ ہم دونوں مل کر تیری تسبیح خوانی کریں ، تیرا پیغام بنی اسرائیل کے ہر فرد تک پہنچا دیں ، اے اللہ تو ہمارے حالات سے آگاہ ہے ، ہماری ضروریات کو جانتا ہے ، اس لئے اس خدمت جلیلہ کے لئے یہ میری استدعا ہے ، اللہ نے فرمایا یہ منظور ہے ، موسیٰ (علیہ السلام) تیری سب باتیں سن لی گئیں ، تمہیں یہ سب نعمتیں دیدی گئیں ، تم جاؤ ، اور بےباکانہ فرعون کے مظالم کا مقابلہ کرو ، موسی (علیہ السلام) کی اس دعا کے معنی یہ ہیں کہ ہر کام کے لئے اللہ کی توفیق اور اس کی اعانت ضروری ہے ، انبیاء علیہم السلام اور اللہ کے پاکباز بندے کبھی اس کی کرم فرمانیوں سے بےنیاز نہیں ہوسکتے ۔ اس دعا سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دعا میں اگر خلوص ہو ، دعا مانگنے والا اگر نیک کام کے لئے پوری توجہ کے ساتھ دعا مانگے ، اور صرف اللہ کو اپنا کارساز سمجھے ، تو وہ اس دعا کو ضرور قبول فرما لیتا ہے اور اطمینان کے لئے دن میں ڈال دیتا ہے کہ دعا قبول ہوگی ۔ دعا بجائے خود ایک عبادت ہے ، ایک لذت ہے ، محبوب سے کچھ مانگنا ہے ، اور کامیابی وکامرانی کا یقین ہے ، اور وہ لوگ جو اس لذت سے شاد کام ہیں ، وہ قبول اور عدم قبول سے بھی بےپروا ہوجاتے ہیں ، ان کا مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ اپنے نیاز مندانہ تعلقات قائم رکھیں ، اور بہرحال اپنی احتیاج اور اس کے غناء کو محسوس کرتے ہیں ، بھیک ملے یا نہ ملے ، انکا نصب العین مانگنا ہے اور اس کیف سے سرور حاصل کرنا ہے کہ اس محبوب حقیقی سے ایک نسبت خاص قائم ہے ادریس ۔ حل لغات : وزیرا : مضبوط معاون ، زور دار شریک کار ۔ سؤل : سوال ، مطالبہ ۔ ان اقذفیہ : قذف سے ہے ، بمعنی ڈال دیتا ، پھینک دینا ۔ طه
36 طه
37 طه
38 طه
39 (ف ١) ام موسیٰ کی جانب وحی کے معنی یہ ہیں کہ بذریعہ الہام ان کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا میں صندوق میں رکھ کر بہا دو ، وہ امن وسل امتی کے ساتھ حاصل تک پہنچ جائے گا ، اور دشمنوں کے ہاں تربیت حاصل تک پہنچ جائے گا ، اور دشمنوں کے ہاں تربیت حاصل کرے گا ، ام موسیٰ کا ایمان ملاحظہ ہو کہ لخت جگر کو اپنے ہاتھ سے دریا میں پھینک رہی ہیں کتنا زبردست عقیدہ ہے کس قدر محکم یقین ہے کہ نتائج سے بےپروا ہو کر اپنے بیٹے کو دریا کی موجوں کے سپرد کر رہی ہیں ۔ اب اللہ تعالیٰ کی عنایت دیکھئے کہ اس نے ام موسیٰ (علیہ السلام) کے تقویت ایمان کے ثمرہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو شاہی محلات میں پہنچا دیا ، اور تربیت کے لئے یہ سامان کیا ، کہ ماں ہی کو دودھ پلانے کی خدمت سونپی گئی ، جو لوگ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہیں وہ ہی طرح حیرت انگیز طور پر ان کی مد فرماتا ہے ، (آیت) ” ثم جئت علی قدر یموسی “۔ سے غرض یہ ہے ، کہ ابتدائی تمام منزلیں طے کر چکنے کے بعد اب تم اس انداز خاص تک پہنچ گئے ہو ، جہاں ضرور ہے کہ تمہیں اپنی خدمات کے لئے مختص کرلیا جائے ۔ طه
40 طه
41 طه
42 طه
43 طه
44 شیریں گفتار ہونا مبلغ کیلئے ضروری ہے : (ف ١) فرعون کے پاس بھیجتے وقت اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جو نصیحتیں ارشاد فرمائی ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ وہ آج کل کے علماء کو آب زر سے لکھ لینا چاہئے ارشاد ہوتا ہے ، کہ دیکھنا میری یاد سے غافل نہ ہوجانا ، اور ہر وقت عبودیت اور نیاز مندی کے تعلقات کو قائم رکھنا کیونکہ یہی چیز ہے جس سے دلوں میں پاکیزگی موجود رہتی ہے اور انسان دنیا کی تمام لذتوں کو آخرت کے مقابلہ میں حقیر سمجھتا ہے ، ذکر وشغل کی برکات سے روح میں نزہت وتواناہی پیدا ہوتی ہے اور دل ودماغ مجلے اور روشن ہوجاتے ہیں یہی وہ اکسیر ہے جس کے باعث چہروں پر نور اور قلب میں سرور موجزن ہوتا ہے ، اور یہی وہ کبریت احمر ہے جس سے بہرہ ور ہونے والا انسان حقیقتا نہایت خوش قسمت انسان ہے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون چونکہ ایک بہت بڑی مادی قوت سے نبرد آزما ہونے کے لئے جا رہے ہیں ، اس لئے ضروری ہے کہ ان میں اسی تناسب سے روحانیت ہو ، اور فرعون کے عساکر کے مقابلہ میں ان کے پاس بھی اللہ کی زبر دست اعانت موجود ہو ، علماء اور راہنمایان دین کے لئے سب سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ وہ بھی اللہ کے اس ارشاد کو نہ بھولیں ، اور مقام اصلاح پر جلوہ فرما ہونے سے پہلے صالح ، نیک اور خدا پرست انسان بننے کی کوشش کریں ، اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ جب کبر وغرور کے اس مجسمہ کے پاس جاؤ جس کا نام فرعون ہے ، تو نہایت دفق وملاطفت سے پیش آنا ، حلاوت اور شیرینی سے باتیں کرتا ، تاکہ اس کے دل میں اثر پیدا ہو سکے اور اس کی قساوت قلبی پر خشیت الہی غالب ہوجائے ، یہاں ذرا ملاحظہ کیجئے ، فرعون کے مقابلہ میں جو جابر ہے ، ظالم ہے ، اور بدرجہ اتم سرکش ہے ، اپنے پیغمبر کو اخوت اور ملاطفت کی تلقین کی جارہی ہے ، سوچئے اور بتائیے ہمارے علماء اور قدسیان طریقت کا رویہ عام مسلمانوں کے مقابلہ میں کیا ایسا ہی ہے ؟ وہ مسلمان جو کلمہ گو ہیں ، خدا کو ایک مانتے ہیں ، اور فروتنی وانکسار سے رہنا اپنے لئے فخر جانتے ہیں ، ان کی ادنی کوتاہیوں اور لغزشوں پر ہمارے علماء اور مرشدین کس خشونت اور درشتی سے پیش آتے ہیں ؟ طه
45 طه
46 طه
47 (ف ٢) فرمایا فرعون سے جا کر بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کرو ، اس سے کہو ، ہم اللہ کے رسول ہیں ، اور اس بات پر مامور ہیں کہ بنی اسرائیل کی غلامی اور رقیت کو آزادی اور حریت سے بدل دیں اب تمہیں زیبا نہیں ، کہ مزید تکلیفات اور عذاب میں ہماری قوم کو مبتلا رکھو ہم تمہارے پاس معجزات اور خوارق لے کر آئے ہیں ، سل امتی اور بہبودی اسی میں ہے کہ ہدایت ورشد کو قبول کرلو ، اور ان مظالم سے باز آجاؤ ۔ حل لغات : طغی : سرکش ہوگیا حدود فطرت سے آگے بڑھ گیا ۔ طه
48 طه
49 طه
50 (ف ١) حکومتوں کی ہمیشہ یہ ذہنیت رہی ہے کہ محکوموں کو غیر متعلق مسائل میں الجھا دیا جائے ، اور اصل مطالبہ سے ان کی نگائیں پھیر دی جائیں ، چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) نے جب فرعون سے کہا ، کہ ہم تمہارے پروردگار کی جانب سے رسول مقرر ہو کر آئے ہیں ، اور ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ کر دو ، تو اس نے بجائے اس کے کہ اصل مطالبہ کے متعلق کچھ جواب دے یہ کہا کہ تمہارا پروردگار کون ہے ؟ میں تو ابھی تک یہی نہیں جان سکا ، موسیٰ (علیہ السلام) نے نہایت حکیمانہ جواب دیا کہ رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا ، اور پھر ہر چیز کے فرائض علم وانصاف سے مرتب کئے ، اور تم ہو کر باوجود فرعونی الوہیت کے بنی اسرائیل پر مظالم ڈھا رہے ہو ، اس کے بعد اس نے سوالات کا رخ دوسری طرف پھیر دیا ، کہنے لگا ، تو تمہارے خیال میں پہلے سب لوگ گمراہ تھے ؟ آخر جب تم نہیں آئے تھے ، اس وقت لوگوں کے پاس اللہ کا کونسا پیغام تھا ؟ موسیٰ (علیہ السلام) کا جواب دیکھئے کتنا جچا تلا ہے ، کہ اس کے بعد کچھ کہنے سننے کی گنجائش نہیں رہی فرمایا گذشتہ قوموں کے حالات اللہ کو معلوم ہیں ، اور کوئی چیز اس سے پوشیدہ ومستتر نہیں ، غرض یہ تھی کہ فرعون غیر متعلق ، بحثوں میں الجھا نہ سکے ایسے جامع اور معقول جواب دئیے کہ اس کو اصل مسئلہ کی طرف متوجہ ہونا پڑا ۔ حل لغات : القرون الاولے : پہلی قومیں ، گذشتہ زمانے کے لوگ ۔ لا یضل ربی ولا ینسے : میرا پروردگار نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ۔ لا ولی النھی : نھیۃ کی جمع معنے عقل والوں کے لئے ۔ طه
51 طه
52 طه
53 طه
54 طه
55 طه
56 طه
57 طه
58 طه
59 جادوگروں سے مقابلہ : (ف ١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی معقول اور مسکت بحث سے مجبور ہو آخر فرعون نے اصل سوال کی جانب توجہ منعطف کی ، مگر عجیب تلبیس اور چالاکی سے کہنے لگا اچھا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے جادو کے زور سے ہمیں ہمارے شہروں سے نکال باہر کرو ، ہم اس مقابلہ کے لئے تیار ہیں ، ایک دن مقرر کر دو ، ہم بھی اپنے جادوگر بلاتے ہیں ، اس دن مقابلہ ہوجائے گا ، اور معلوم ہوگا ، کہ کون زیادہ کامیاب اور فتحیاب ہے ۔ موسی (علیہ السلام) نے اس خیال سے کہ اسے معلوم تو ہو کہ جادو کی حقیقت کیا ہے ، اور معجزہ وسحر میں کیا فرق ہے ، اس اعلان مبازرت کو قبول فرما لیا اور کہا یوم الزینہ کو تم آجانا میلہ کی وجہ سے لوگوں کا ہجوم بھی ہوگا اور بھرے مجمع میں اس حقیقت کے اظہار کا موقع ملے گا کہ تائیدات غیبی کس کے ساتھ ہیں یوم الزینہ سے مراد وہ دن ہے جس روز قبطی اور اسرائیلی ، یا صرف قبطی سج دھج کر جشن مناتے تھے قرآن میں اس دن کی تعین موجود نہیں ، حضرت ابن عباس (رض) کا خیال ہے کہ عاشوراء کا دن تھا ، فرعون کی ستم ظریفی دیکھئے کہ آزادی واستقلال کے مطالبہ کو کس غلط رنگ میں دیکھتا ہے ، بات صرف اتنی ہے کہ بنی اسرائیل غلام ہیں ، مظلوم ہیں چار سو سال سے نہایت ذلیل زندگی بسر کر رہے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا ، کہ وہ ان کی غلامی کی زنجیریں کاٹ دیں ، فرعون یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب کوششیں ہمیں ہمارے املاک سے محروم کرنے کے لئے ہیں ، اور آزادی واستقلال بجائے خود کوئی چیز نہیں ۔ حل لغات : موعدا : ظرف زمان ومکان دونوں کے لئے آتا ہے ، کیدہ تدبیر ، مکر ۔ طه
60 طه
61 طه
62 (ف ١) جب فرعون اپنے جادوگروں اور لشکر کے ساتھ موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں آگیا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے واعظانہ طور پر فرمایا کم بختو ، حقیقت وصداقت کے پیغام کو سحر وجادو سے تعبیر کر کے کیوں اللہ پر بہتان باندھتے ہو ، کیا تمہارے دلوں میں خوف موجود نہیں ، کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے ؟ یاد رکھو اگر تمہارے تمرد کا یہی عالم رہا ، تو نیست ونابود کردیئے جاؤ گے ، ان لوگوں نے یہ باتیں سنیں ، اور آپس میں اختلاف رائے کا اظہار کرنے لگے ، اور بالآخر اسی بات پر جمع ہوگئے جس کو فرعون نے ان میں پھیلایا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) وہارون (علیہ السلام) دو جادوگر ہیں ، جو چاہتے ہیں کہ قبطیوں کو ان کے گھروں سے نکال دیں ، اور ان کی روایات سے ان کو پلٹ دیں ، آخر اس بات پر اتفاق ہوا ، کہ سب لوگ پوری تیاری کرکے صف آراء ہوں تمام تدبیریں حق کو سرنگوں کرنے کے لئے صرف کردیں ، اور پوری قوت کے ساتھ باطل کا مظاہرہ کیا جائے ، معلوم ہوتا ہے ، فرعون کے زمانہ میں سحر وجادو کا بہت زور تھا اور مذہبی راہ نما عموما شعبدہ باز اور کرشمہ ساز ہوتے تھے جو سادہ لوح قبطیوں اور اسرائیلیوں کو گمراہ کرتے ، ابتداء جب انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو بھی مسند رشد و ہدایت پر فائز دیکھا ، تو انہوں نے یہی سمجھا کہ یہ بھی کاہن یا جادوگر ہیں ، کیونکہ ان کے زمانے میں اس قماش کے لوگ ہادی اور مذہبی قائد خیال کئے جاتے تھے ۔ حل لغات : ان ھذن : میں اصحاب نحو وادب نے بیسیوں صورتیں پیش کی ہیں ، مگر سب نوع کے حجابات میں الجھن کو دور نہیں کرتے ، کہ آخر قرآن میں اس غیر مانوس انداز کو کیوں اختیار کیا گیا ، تفصیلات کا یہ مقام نہیں یوں سمجھ لیجئے ، کہ ہر آیت میں کی ایک موسیقی ہوتی ہے ، اور اس آیت کی صوتی مناسبت کا تقاضا یہ تھا کہ ھذن پر ان اثر انداز نہ ہو تاکہ آیت کی موسیقی قائم رہے اور یہ کمال بلاغت ہے ۔ حبالھم : رسے ، حبل کی جمع ، عستہم ، عصاء کی جمع ہے ۔ طه
63 طه
64 طه
65 طه
66 طه
67 طه
68 معجزہ اور جادو کا مقابلہ : (ف ١) میدان مقابلہ میں دونوں قومیں جمع ہوگئیں ، اور انتظار کیا جانے لگا کہ دیکھیں کون غالب رہتا ہے ، جادوگروں نے ابتداء کی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا ، یا تو آپ کچھ ڈالئے ، یا ہماری کرشمہ سازیاں دیکھئے موسیٰ (علیہ السلام) نے جوابا کہا ، پہلے جو کچھ تمہارے پاس ہے ، اس کا اظہار ہوجائے ، اس کے بعد میں بھی اپنی طرف سے کچھ پیش کروں گا دونوں حریف اپنی اپنی جگہ پر مطمئن تھے ، اس لئے اس تقدم وتاخر کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی ، اور مقابلہ کا آغاز ہوگیا ، جادوگروں نے اپنی لاٹھیاں اور رسے پھینکے ، تو وہ ایسے دکھائی دینے لگے کہ سانپ لہرا رہے ہیں ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) یہ افسون گری دیکھ کر سہمے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا گھبراؤ نہیں تم غالب رہو گے ، اپنی عصاء جو تم نے داہنے ہاتھ میں لے کہ اپنے زمین پر پھینک دو ، تمہارا یہ عصاء اتنا بڑا اژدھا بن جائے گا اور سب سانپوں کو جو جادو کی وجہ سے ظہور میں آئے ہیں کھا جائے گا کیونکہ حق کے مقابلہ میں باطل کامیاب نہیں ہو سکتا ، سحر اصل میں دھوکا وفریب اور نفسیاتی غلبہ کانام ہے ، جادوگر کچھ تو خواص اشیاء کو جانتے تھے ، جس سے عام لوگ آگاہ نہیں ہوتے اور کچھ نفسیاتی قوت کو بعض ریاضتوں سے بڑھالیتے ، جس کے باعث وہ جو کچھ چاہتے ، عوام کی نظروں میں کر دکھاتے ، یہ بھی ہوتا تھا کہ محض چالاکی اور فن فریب سے وہ جہلاء کو اپنی بزرگی اور عظمت کا یقین دلاتے ۔ موسی (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ بظاہر رستے سانپ کی شکل میں دوڑ رہے ہیں تو بشریت کی وجہ سے قدرے گھبرائے مگر اللہ تعالیٰ نے فورا اس غلط فہمی کو دور کردیا ، ارشاد ہوا ، کہ اس میں حقیقت موجود نہیں ، یہ محض نظر فریبی ہے ، جادو اور دھوکا ہے ، انشاء اللہ تم غالب رہو گے ، اور اس کے بعد بطور اصول کے واضح کردیا ، کہ اس نوع کے شعبدہ باز حق کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتے ، حق کے لئے کامیابی مقدرات میں سے ہے ، اس قصے سے بطور استدلال کے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ وہ شخص جو عالم دین ہے اور رشدو ہدایت کو لوگوں میں پھیلانا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ ان تمام علوم میں ماہر ہو جو اس کے مخالف معاصرین میں پائے جاتے ہیں اور کسی علمی بات میں ان لوگوں سے کم نہ ہو ، آج نوجوانوں میں الحاد پھیل رہا ہے ، اس کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے علماء میں جمود اور تعطل پیدا ہوگیا ہے ، وہ ساحرہ فرنگ طلسمات سے آگاہ نہیں اور نہیں جاننا چاہتے کہ دشمن کن طریقوں سے دین کی چھاؤنیوں پر حملہ آور ہوتا ہے ، غور فرمائیے ، موسیٰ (علیہ السلام) کو کیوں اسی قسم کے اعلی ترین معجزات دیئے گئے ، جس قسم کے شعبدات ان میں رائج تھے ، اسی لئے ان لوگوں کو معلوم ہوا ، کہ جو شخص ہمیں ایمان واسلام کی دعوت دیتا ہے وہ معارف ومعلومات میں ہم سے کہیں آگے ہے ۔ حل لغات : فاوجس : وجس کے معین میں ہیں ، کچھ کہنے کے ہیں، یہاں مقصود دل میں ہے ۔ طه
69 طه
70 (ف ٢) جادوگروں نے اپنی فریب کاریوں کے مقابلہ میں جب حقیقت کی جلوہ گری دیکھی ، تو چونکہ صاحب بصیرت تھے ، فورا اللہ کے سامنے جھک گئے اور بےاختیار پکار اٹھے ، کہ ہم رب موسیٰ (علیہ السلام) وہارون (علیہ السلام) کو جانتے ہیں ، اس کی قدرتیں بےپناہ اور عظیم ہیں ، فرعون نے جب یہ منظر آنکھوں سے دیکھا تو بےتاب ہوگیا ، اور حاکمانہ انداز میں دھمکیاں دینے لگا جادوگروں کے دل میں چونکہ ایمان کی قوت راسخ ہوچکی تھی اس لئے وہ بےخوف ہوگئے ، اور جرات کے ساتھ فرعون سے کہہ دیا کہ جو کچھ کرنا چاہتے ہو کر گزرو ، ہم ان دھمکیوں سے خائف نہیں جن کا تعلق محض اس دنیا سے ، ہمارے دل حق کی روشنی سے منور ہوچکے ہیں اور ان میں غیر اللہ کے خوف وہراس کے لئے کوئی جگہ نہیں ۔ طه
71 طه
72 طه
73 طه
74 (ف ١) (آیت) ” لا یموت فیھا ولا یحی “۔ (جس میں نہ مرے گا نہ جئے گا) سے غرض یہ ہے کہ جہنم کی زندگی نہایت تلخ اور ناگوار ہوگی تو یہ ممکن ہوگا کہ موت کی وجہ سے خلاصی ہوسکے اور نہ یا اختیار میں ہوگا کہ زندگی کے لوازم سے استفادہ کیا جائے ۔ طه
75 (ف ٢) حصول جنت کے لئے جن طرح ایمان شرط ہے اسی طرح کل صالح ضروری ہے محض اعتقاد جو عمل کے لئے محرب نہ ہو مفید نہیں کیونکہ اسلام تو ایمان وعمل دونوں کا نام ہے ۔ طه
76 طه
77 تائید غیبی کے سامان : (ف ١) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے ہر چندیہ کہا کہ بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دو مگر اس نے نہ مانا ، اور چونکہ مقابلہ کی قوت نہ گھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے غیب سے تائید کا سامان پیدا کردیا ، فرمایا تم بنی اسرائیل کو رات کی تاریکی میں ارض مصر سے نکال لئے جاؤ اور پھر دریا میں عصا مارو اور خشک ہوجائے گا اور تمہارے اور تمہاری قوم کے لئے اس میں راستہ بن جائے گا جس کی وجہ سے بغیر پل کے عبو کرسکو گے ۔ فرعون کو جب معلوم ہو اکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ساتھ لے کر ارض مصر سے نکل بھاگنے کی کوشش میں ہیں ، تو اس نے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ تعاقب کیا ، اور دریا میں گھوڑا ڈال دیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ نہنگ امواج دریا نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کا طعم بنایا ، اور موت کے گھاٹ اتار دیا ، بات یہ ہے کہ جب کوئی قوم اللہ پر توکل کرکے کمر ہمت باندھ لیتی ہے تو باوجود بےسروسامانی کے اللہ اس کی اعانت فرماتا ہے اور غیب سے اس کے لئے غلبہ واقتدار کے سامان پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں ۔ دیکھ لیجئے وہ دریا جس نے موسیٰ (علیہ السلام) اور اس کی قوم کو راستہ دیدیا وہ فرعون کے لئے مرگ وہلاکت کا سامان بن گیا ، اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ خدائی مدد موسیٰ (علیہ السلام) کے شامل حال تھی ، دریا کا پانی رک جانا اور اس میں راستہ بن جانا ، یہ بہ صورت معجزہ ہے ، عام حالات میں ایسا نہیں ہوتا ، مگر اللہ تعالیٰ جس نے دریا اور سمندر پیدا کئے ہیں اگر چاہے تو چشم زدن میں تمام سمندروں کو خشکی سے بدل دے اور لوہے کو پانی کر دے ، اس کی قدرت واستطاعت کے سامنے ہر چیز ممکن اور مطیع ہے ۔ ان آیات میں بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ دیکھو میں نے کس طرح تمہارے دشمن سے نجات دلائی اور کیونکر تمہاری تربیت کے لئے موسیٰ (علیہ السلام) کو طور پر آنے کی دعوت کی پھر کن کن عنایات کے ماتحت تمہیں معیشت کے دھندوں سے آزاد رکھا ، تم پر من وسلوی نازل کیا ، تاکہ آزادی سے تم دین سیکھ سکو ، اور اللہ تعالیٰ کی ایک شاندار قوم بن سکو ، یہ عجیب بات ہے کہ بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے جس قدر عنایات کی بارش کی یہ لوگ اتنے ہی غافل رہے اور برابر سرکشی بڑھتی گئی ، ان نعمتوں کے اظہار کی ضرورت اس لئے پیش آئی ، تاکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت کے یہودی اور عیسائی ان باتوں کو سمجھیں ، اور ان کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو بھیجا ہے تو ان کی رشدوہدایت کے لئے بھیجا ہے اور یہ بھی ان پر اللہ کا ایک مزید انعام ہے ۔ حل لغات : اسر : امر ہے اسرا کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں یعنی راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ طه
78 طه
79 طه
80 طه
81 طه
82 طه
83 طه
84 طه
85 سامری کا بچھڑا : (ف ١) موسیٰ (علیہ السلام) جب طور پر پہنچے تو ان کے پیچھے بدبخت لوگوں کو موقع ملا کہ قوم میں گمراہی کے جراثیم پھیلائیں ، چنانچہ سامری نامی ایک شخص نے ان کو مشورہ دیا کہ جو زیورات اور چاندی سونے کے ظروف تمہارے پاس ہیں ، وہ آگ میں ڈال دو ، انہوں نے اس کی بات مان لی ، اس نے کچھ اس طرح چاندی اور سونے کو پگھلا کر ایک قابل تیار کیا جو بچھڑے کی شکل کا تھا ، اور اس میں ہوا کے آنے جانے کی وجہ سے ایک قسم کی آواز پیدا ہوتی تھی بنی اسرائیل جو دماغی لحاظ سے بہت پست اور درماندہ تھے اور غالبا مصر میں گائے کی پرستش کے عادی بھی تھے سامری کے بھرے میں آگئے ، سامری نے کہا ، یہ تمہارا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا رب ہے ، تمہیں اس کی پرستش کرنا چاہئے وہ پرانے جذبہ گاؤ پرستی اور اس کرشمہ کی وجہ سے کہ سونے چاندی کا مرکب بول رہا ہے گمراہ ہوگئے ، اور گائے کے بچھڑے کو حقیقی خدا سمجھنے لگے ، موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی تو وہ غضب وغصہ سے بھرے ہوئے واپس لوٹے ، اور قوم سے سختی کے ساتھ احتساب کیا کہ تم نے یہ کیا حرکت کی کہ بےجان قالب کی پوجا شروع کردی ، کیا اللہ کے وعدے کے ایفاء میں کچھ دیر ہوگئی تھی ، یا تمہیں عذاب الہی کی خواہش ہے انہوں نے ، اس فعل کی ساری ذمہ داری سامری پر عائد ہوتی ہے ، ہم نے اس کے کہنے کے موافق کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ان احمقوں کو یہ بھی نہیں سوجھتا کہ خدا ہونے کے لئے صرف عجیب ونادر ہونا کافی نہیں ، بلکہ یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کی ضروریات کو جانے ان کی پکار سنے اور قبول فرمائے انکو منافع وبرکات سے بہرہ مند کرے ، اور ان کے دشمنوں کو مغلوب رکھے ، یہ بچھڑا نہ انکی باتوں کو جواب دیتا ہے اور نہ کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے ، پھر کیونکر اس کو خدائی مسند پر فائز قرار دیا جائے ۔ بات یہ ہے کہ خدا وہ ہے جو ہماری تمام ضروریات سے آگاہ ہے ، جو دل کے بھیدوں کو جانتا ہے ، اور ہر آن ہمارا خیال رکھتا ہے ، وہ ایسی ذات بابرکت ہے جس کے نام سے دلوں میں سرور پیدا ہوتا ہے ، اور جو ہماری لئے ہر طرح موجب اطمینان اور راحت وسکون قلب ہے ، مگر مشرک ہیں ، کہ ان کی نظر ان معمولی حقائق تک بھی نہیں پہنچتی ، وہ ہر عجیب ونادر چیز کے سامنے جھک جاتے ہیں ، اور یہ نہیں سمجھتے کہ خدائی کا تخیل کس درجہ بلند وارفع ہے ۔ حل لغات : فتنا : آزمائش میں ڈال دیا ، یعنی آزمائش کا ایک موقع پیدا کردیا ، اسی لئے گمراہی کا انتساب سامری کی جانب کیا ہے ۔ واضلھم السامری : یعنی سامری نے ان کو بہکا دیا ہے ۔ اوزارا : جمع وزر ، بمعنی بوجھ ۔ بنی اسرائیل چاندی سونے کے زیورات بجائے خود اپنے ساتھ لے آئے تھے اب چونکہ وہ ان تمام باتوں کو چھوڑ چکے تھے اور جنگل میں آباد تھے اس لئے ان زیورات کو غیر ضروری بوجھ قرار دیا ، اور آسانی سے اضاعت پر راضی ہوگئے ۔ طه
86 طه
87 طه
88 طه
89 طه
90 طه
91 طه
92 طه
93 طه
94 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی غیرت دینی : (ف ١) موسیٰ (علیہ السلام) قوم کی اس بت پرستی کی حرکت سے سخت طیش میں تھے ، فرط غضب میں انہوں نے حضرت ہارون (علیہ السلام) سے بھی سختی کے ساتھ باز پرس کی اور کہا کہ تم نے یہ سب کچھ کیوں اپنے سامنے ہونے دیا یہاں چند باتیں قابل غور ہیں ۔ ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طبیعت میں فطرتا سختی تھی ، اور ایسا ہونا ضروری بھی تھا کیونکہ مقابلہ فرعون سے تھا ، اور اس کی قوم کے جبارہ سے ۔ ٢۔ یہ غضب ذاتی طور پر نہ تھا ، بلکہ دین کے مقابلے میں محض اللہ کی محبت کے جوش سے تھا ، ٣۔ واقعات اسی نوع کے تھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جیسے پیغمبر کا غصہ سے بےتاب ہوجانا بالکل اضطراری تھا ، کیونکہ انہوں نے بڑی مشکلوں سے بنی اسرائیل کو فرعون کے چنگل سے نکال کر یہاں رکھا تھا تاکہ یہ گمراہی کے اثرات سے محفوظ رہیں ، مگر جب انہوں نے دیکھا کہ یہاں بھی یہ لوگ محفوظ نہیں رہے ، اور ساری محنت اکارت گئی تو غصہ سے بھڑ اٹھے ۔ ٤۔ موسیٰ (علیہ السلام) جہاں پیغمبر تھے ، وہاں انسان بھی تھے ، اور بشری تقاضے اور داعی ان میں موجود تھے ۔ ان حقائق وحالات میں اگر انہوں نے ہارون (علیہ السلام) کی ڈاڑھی پکڑ لی اور بظاہر اولی اانداز میں تخاطب فرمایا تو بالکل طبعی اور قدرتی امر تھا ۔ اس جواب طلبی میں ہارون (علیہ السلام) نے جو ارشاد فرمایا ، وہ سننے کے قابل ہے ، کہتے ہیں میں نے زیادہ زور کے ساتھ اس لئے ان لوگوں کو گوسالہ پرستی سے نہیں روکا ، کہ ان میں تفریق نہ پیدا ہوجائے گویا ہارون (علیہ السلام) کی نظر میں اختلاف وتشتت کا مرض شرک کے مرض سے بھی زیادہ خطرناک اور ہولناک ہے ، انہوں نے یہ تو گوارا کرلیا ، کہ ایک جماعت کی جماعت گمراہی کے عقیدے پر جمی رہے ، مگر یہ گوارا نہیں کیا کہ قوم میں اختلاف پیدا ہو اور قوم دو گروہوں میں تقسیم ہوجائے ، کیونکہ ان کو یقین تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے آجانے کے بعد شرک توحید سے بدل سکتا ہے ، اور قوم پھر ایک خدا کی پرستار بن سکتی ہے مگر شاید یہ مشکل ہو کہ دو گروہوں میں بٹی ہوئی جماعت پھر سلک وحدت میں منسلک ہو سکے ، کیا ہمارے افتراق انگیز علماء اس حقیقت پر غور فرمائیں گے : حل لغات : لن نبرح : مابرح اور ماذال ایک ہی قبیل سے ہیں ۔ فما خطبک : خطب بمعنی حالت یہاں مقصود یہ ہے کہ تمہارا عذر کیا ہے ۔ طه
95 طه
96 (ف ١) سامری نے جو یہ قصہ سنایا ہے کہ میں نے جبریل (علیہ السلام) کے نقش قدم کو دیکھ لیا تھا ، اور ایک مٹھی مٹی وہاں سے اٹھالی تھی اور اس قالب میں ڈال دی تھی ، تاکہ اس میں آواز پیدا ہوجائے ، یا تقدیس آجائے ، یہ محض اس کا اپنا وہم تھا ، جیسا کہ اس نے خود تصریح کردی ہے کہ میرے نفس نے مجھے یونہی سمجھا دیا تھا ، ورنہ قرآن حکیم نے اس بات کی صراحت نہیں فرمائی کہ اس مٹی کی وجہ سے اس میں آواز پیدا ہوگئی تھی ، نہ قرآن میں یہ مذکور ہے کہ جبرئیل کے نقش پا میں یہ تاثیر ہے ۔ ابو مسلم اصفہانی نے ” بصرت “ کے معنی علم کے لئے ہیں ، اور فقبضت قبضۃ من اثر ال رسول “۔ کے معنے سنت موسیٰ کی پیروی کے قرار دیئے ہیں ، ترجمہ یہ ہوگا کہ سامری نے کہا کہ میں نے معلوم کیا کہ یہ لوگ راہ راست پر نہیں ہیں ۔ اس لئے میں نے آپ کی اطاعت کی اور آپ کی پیروی اختیار کی پھر چھوڑ دی اور گؤسالہ پرستی کی طرح ڈالی ۔ حل لغات : ان تقول لا مساس : یعنی تمہاری حالت ایسی ہوجائے گی ، کہ لوگ تم سے نفرت کریں گے ، اور قریب نہیں بھٹکنے دیں گے ، بنی اسرائیل کو گمراہ کرنے کی سزا اس کو اللہ تعالیٰ نے یہ دی کہ باقی عمر لوگوں سے جدا رہا ، کیونکہ قدرت نے اس کے بدن میں ایسا مادہ پیدا کردیا ، کہ وہ جس کو ہاتھ لگاتا یا کوئی اس کو چھوٹا ، تو جس کو ہاتھ لگایا جاتا ، اور چھونے والا دونوں بخار میں مبتلا ہوجاتے ، یہ تو صرف دنیا کے عذاب کی کیفیت تھی ، عقبے کا عذاب اس کے سوا رہا ۔ طه
97 طه
98 طه
99 دنیا کی جامع ترین کتاب : (ف ١) قرآن حکیم میں کمال یہ ہے کہ اس میں رشد واصلاح کا کوئی پہلو نہیں چھوڑا گیا ، ہر نوع اور ہر قسم کے دلائل بیان کئے گئے ہیں آپ دیکھیں گے کہ کہیں فلسفیانہ براہین کا انبار ہے ، کہیں فطرت کے عجائبات سے استشہاد ہے ، کہیں یہ کہا گیا ہے کہ خود اپنے نفسیات کا مطالعہ کرو ، اور دل کی گہرائیوں کو دیکھو اور کہیں دنیا کے اہم اور مفید البیان واقعات گنائے ہیں ، اخلاق ومعاشرت کی تفصیلات جدا ہیں اور حکم ونصائح کا ذکر ، علیحدہ عقائد کے مسائل بھی ہیں ، اور اقوام وامم کے حالات بھی یہی وجہ ہے کہ جامعیت کے اعتبار سے قرآن کا پایہ کائنات کے تمام صحیفوں سے کہیں بلند ہے ۔ طه
100 طه
101 طه
102 طه
103 طه
104 (ف ٢) جو لوگ یہاں تن آسانیوں میں الجھل کر رہ جاتے ہیں اور مادیت میں اس درجہ پھنس جاتے ہیں ، کہ قرآن کی آواز پر کان نہیں دھرتے ایک وقت آئے گا ، جب وہ پچھتائیں گے ، ان کی پشت عذاب کے بوجھ سے جھک جائے گی اور یہاں کے تمام تکلفات کی اس وقت حقیقت کھلے گی ، (آیت) ” یوم ینفخ “۔ سے مراد یہاں دوسری دفعہ صور پھونکنا ہے ، اس وقت تمام لوگ اللہ کی حکمت وقدرت سے جی اٹھیں گے ، قرآن وحدیث کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ دو دفعہ یہ صور پھونکا جائے گا ، ایک اس وقت جب اللہ کو یہ منظور ہوگا ، کہ دنیا کا خاتمہ کر دیاجائے اور ایک اس وقت جب دوبارہ دنیا والے زندہ کئے جائیں گے ، ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نفخ صور میں یہ تاثیر رکھی ہو ، کہ وہ ایک وقت تو کائنات کی موت اور دوسرے وقت مخلوق کی زندگی کا موجب ہو سکتے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ محض ایک اعلان اور تنبیہ ہو اور براہ راست زندگی اور موت میں اثر انداز نہ ہو ، بہرحال یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کوئی چیز محال نہیں ، یہ تخلیق وامانت کے مختلف طریقے اللہ کے شؤن مختلفہ میں سے محدود لے چند ہیں ، ورنہ اصل بات یہ ہے کہ وہاں مطلقا ارادہ کی ضرورت ہے ، وسائل وذرائع بالکل ثانوی حیثیت رکھتے ہیں جب وہ کسی چیز کو پیدا یا ناپید کرنا چاہتا ہے تو اس کے ارادہ میں جنبش ہوتی ہے اور وہ چیز موجود ہوجاتی ہے ، یا یک قلم ہوجاتی ہے ۔ اس کے بعد احوال قیامت کا بیان ہے اور یہ بتایا ہے کہ انسانی علم کس درجہ ناقص ہے جب سب لوگ دوبارہ زندہ ہوں گے تو یہ لوگ مختلف قیاس آرائیاں کریں گے ، کوئی کہے گا ہم دس روز تک عالم برزخ میں رہے ، اور کوئی کہے گا کہ صرف ایک دن رہے ہیں ۔ اور یہ کہنے والا اپنے زعم میں سب سے زیادہ صائب الرائے اور عقلمند ہوگا ۔ حل لغات : حملا : بوجھ یا بار ۔ زرقا : زرق کی جمع ہے (نیلی آنکھوں والے) عربوں میں نیلی آنکھوں والا منحوس شمار ہوتا تھا ، اور اس کے معنے اندھے کے بھی ہیں ۔ امثلھم : ان میں سے بہترین آدمی (عاقل وہوشمند) ۔ طه
105 طه
106 طه
107 طه
108 طه
109 (ف ١) ان آیات میں مسئلہ شفاعت ذکر کرکے اللہ کی وسعت علمی اور قدر مطلق کا اظہار فرمایا ہے ، ارشاد ہے کہ اس کی ذات ہمہ دان ہے ، کوئی چیز اور کوئی جگہ اس کی نظروں سے اوجھل نہیں ، بااقتدار ہے ایک وقت آئے گا ، جب کہ تمام جبینیں اس کے سامنے جھکی ہونگی ، کسی شخص کو لب کشائی کی جرات نہ ہوگی ، وہ جو چاہے گا ، ضرور ہوگا جو کرے گا عین معدات وانصاف قرار پائے گا اس لئے وہ لوگ جو اس کے احاطہ علمی کی وسعتوں سے آگاہ نہیں ہیں ، اور اس کے سامنے جرائم ومظالم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ وہ اس دن نامرادی اور ناکامی سے دوچار ہوں گے ۔ حل لغات : قاعا صفصفا : صاف اور ہموار میدان : امتا : بلندی ۔ الحی القیوم : زندگی اور حیات کا منبع اصلی اور تمام کائنات کے قائم اور باقی رکھنے والی ذات : علماء طبعیات حیران وسرگردان ہیں کی مادہ میں زندگی کہاں سے آگئی کیونکہ اس میں تو سوائے اشکال وصنور کی قبولیت کے اور کسی قسم کی استعداد موجود نہیں ، یہ خیال کہ زندگی جسم کی موزون ترکیب کا نام ہے ، اب غلط ثابت ہوچکا ہے ، علم الحیوانات کے ماہرین نے ایسے حشرات دریافت کئے ہیں جن کی ترکیب بالکل سادہ اور بسیط ہے مگر حیات اور زندگی ان میں موجود ہے ، قرآن حکیم یہ کہہ کر علماء طبیعات کی حیرانی دور کردیتا ہے ، کہ یہ تمام زندگی ’ حی “ یعنی خدائے زندہ کی طرف سے ہے اسی نے حیات کو پیدا کیا ہے اور وہی جب تک چاہتا ہے اسے باقی رکھتا ہے ۔ طه
110 طه
111 طه
112 طه
113 (ف ١) یعنی قرآن حکیم میں وعید اور عذاب کی تفصیلات اس لئے بیان کی گئی ہیں تاکہ وہ لوگ جن کے دلوں میں ذرہ بھر بھی اثر پذیری کی استعداد موجود ہے وہ خشیت الہی سے قلب کو معمور کرلیں ، اور اس دنیا میں اللہ کی رضاء کو حاصل کریں ۔ طه
114 تفہیمات قرآن بھی منزل من اللہ ہیں !: (ف ٢) جس طرح قرآن منزل من اللہ ہے اور منشاء الہی کا ترجمان ہے اسی طرح اس کی تفصیلات جو قلب پیغمبر اور افق نبوت سے جلوہ گر ہوتی ہیں ، منزل من اللہ ہیں ، اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کو تمام ضروری تفصیلات ووضاحت کے ساتھ نازل فرمایا ہے ، چنانچہ اس آیت میں اسی حقیقت باہرہ کی طرف اشارہ ہے کہ جب قرآن نازل ہو تو اس کے جاننے میں جلدی نہ کیجئے جب تک کہ تفصیلات کا انکشاف نہ ہوجائے ، اور وحی کے مقاصد تمام نہ ہوجائیں ، اور ہمیشہ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ فہم قرآن میں زیادہ سے زیادہ برکت عنائیت فرمائے پیغمبر جو عصر نبوت میں تمام لوگوں سے زیادہ عالم ہوتا ہے جس کی معلومات براہ راست مشکوۃ قدس سے مستنیر ہوتی ہیں ، ان پر اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے ، کہ وسعت علمی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہو ، اور کسی منزل پر بھی قناعت اختیار نہ کرو ، جس کے صاف صاف معنے یہ ہیں کہ نفس علم کی پہنائیاں بےحد وسیع ہیں ، اور کسی شخص کے اختیار میں نہیں کہ وہ پورے علم کا احاطہ کرسکے ، ہاں یہ ضروری ہے کہ شوق تحصیل بڑھتا رہے ، اور کاروان طلب راستے میں کہیں قیام نہ کرے ۔ طه
115 (ف ٣) یہاں آدم (علیہ السلام) کی طرف معذرت بیان فرمائی ہے کہ ان سے اجتہادی لغزش کا صدور ہوگیا ، ورنہ قصدا نافرمانی کی جرات انبیاء میں نہیں ہوتی ، کیونکہ منصب نبوت کے معنے ہی یہ ہیں ، کہ اللہ کی فرمانبرداری کے جذبات کو عام کیا جائے ، اور بڑے بڑے سرکشوں کو رب العالمین کے سامنے جھکا دیا جائے ، پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ جو اطاعت شعاری کی تلقین کے لئے آیا ہے وہ خود نافرمانی وعصیاں کا ارتکاب کرے ؟ حل لغات : لا تظمؤا : ظما ، پیاس کو کہتے ہیں یہاں مراد پیاس کی تلخی اور ناگواری ہے مطلقا اشتہا مقصود نہیں ۔ شجرۃ الخلد : خلد کا درخت ، جس کا پھل کھا کر دوامی نعمت حاصل ہوجائے ۔ یخصفن : خصیف کے معنی اصل میں جوتا گانٹھنے کے ہیں ، یہاں مراد یہ ہے کہ وہ بدن پر پتے چپکاتے تھے ، عصے : اور عوے ، عصیاں اور غوانیہ کا لفظ ہے چھوٹی بڑی سب لغزشوں پر بولا جاتا ہے ۔ طه
116 طه
117 طه
118 طه
119 طه
120 طه
121 طه
122 ہمارا اصلی مقام جنت ہے : (ف ١) اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا ، اور تمام فرشتوں کو اس کے سامنے جھکایا ، تاکہ اس میں عزت نفس کے جذبات بیدار ہوں ، اور وہ صحیح معنوں میں اللہ کا نائب کہلا سکے ، پھر جنت میں جگہ دی تاکہ اس کو معلوم ہو کہ اس کا اصلی مقام جنت ہے اور اس کی فطرت میں نیکی اور خدا کا قرب لکھا ہے ، مگر آدم شیطان کی ملبسانہ باتوں میں آگیا ، اور اس سے وہ لغزش ظہور میں آئی جو انجام کار جنت سے اخراج پر منتج ہوئی ، شیطان نے کہا (آدم (علیہ السلام) کی بشری نفسیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے) کہ جانتے ہو تمہیں شجر مخصوص سے کیوں روکا گیا ہے ؟ اس لئے کہ کہیں تم اس درخت کے پھل کو کھا کر خلود ودوام کی نعمتیں نہ حاصل کرلو ، اور تمہیں ہمیشہ کی بادشاہت نہ مل جائے آدم (علیہ السلام) کے دل میں ایک آرزو پیدا ہوئی ، اور تجسس اور معلومات کی غرض سے کہ دیکھیں اس کے بعد کیا ہوتا ہے ، شجر ممنوعہ کے قریب گیا اور پھل توڑ کر کھالیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ مادی اور فانی احساسات بیدار ہوگئے ان کو معلوم ہوا کہ ان کے بدن پر لباس نہیں ہے اور انہیں لباس کی ضرورت ہے چنانچہ جنت کے پتوں سے تن ڈھانکنے لگے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، یہ آدم (علیہ السلام) کی لغزش اور عصیان کا نتیجہ تھا ، مگر جب ان کو اپنی لغزش کا احساس ہوا ، اور انہوں نے معافی مانگ لی ، تو اللہ تعالیٰ نے ان کو پھر برگزیدہ کردیا ، مگر جنت سے ایک خاص وقت تک محروم رکھا ، فرمایا اب تمہاری یہاں گزر نہیں ہو سکتی ، کیونکہ تم میں اختلافات پیدا ہوگئے ہیں ، شیطان اور اس کی ذریت ہر وقت تمہاری تاک میں ہے ، تم دنیا میں جاؤ ، اور شیطان کا وہاں جا کر مقابلہ کرو ، میری ہدایات وقتا فوقتا نازل ہوتی رہیں گی ، تمہاری اولاد نے اگر اس سے تمسک کیا تو وہ پھر اس مقام کو حاصل کرلے گی ، اور اگر انہوں نے نافرمانی کا ارتکاب کیا تو پھر قیامت میں خیر نہیں ، بہت بری زندگی بسر کریں گے ، وہاں مکافات عمل کے ماتحت جو سزائیں ملیں گی ، وہ بالکل ہمارے اعمال کے موافق ہوں گی ، حتے کہ وہ لوگ جو یہاں عمدا آنکھیں بند کرلیتے ہیں اور حقائق کو نہیں دیکھتے ، وہ جب اٹھیں گے تو ان سے دیکھنے کی استعداد چھین لی جائے گی ، وہ کہیں گے ، پروردگار دنیا میں تو ہماری آنکھیں تھیں ، یہاں کیوں ہم اندھے ہیں ، اور نظر وبصر سے محروم ہیں ، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ، اس لئے کہ جب میری آیتیں اور نشانیاں تمہارے سامنے آئیں ، تو تم نے آنکھیں بند کرلیں ، اور کبر وغرور سے میرے پیغام کو ٹھکرایا ، نتیجہ یہ ہوا کہ آج جنت کی نعمتوں نے تم سے منہ پھیر لیا ہے ، اور تم اندھے ہوگئے ہو ، کہ اب خدائے رحیم کی نعمتوں کو نہ دیکھ سکو ، ارشاد ہوتا ہے کہ تم دنیا کی مصیبتوں سے ، ڈر کر سچائی کو نہیں مانتے اور نہیں جانتے کہ آخرت کا عذاب بہت زیادہ سخت اور ناقابل برداشت ہے ، اور پھر اس کی تلخیاں ایسی نہیں کہ ختم ہوجائیں ، وہ باقی رہنے والی ہیں ۔ حل لغات : معیشۃ ضنکا : مکدر زندگی ، تنگ زندگی ۔ طه
123 طه
124 طه
125 طه
126 طه
127 طه
128 طه
129 (ف ١) قریش مکہ کی سرکشیاں جب حد سے بڑھ گئیں اور وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ناقابل برداشت ایذائیں پہنچانے لگے ، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہیں اپنی عزت وجاہ پر مغرور نہ ہونا چاہئے ، اور محض اس لئے نازاں نہ ہونا چاہئے ، کہ تمہارے پاس قوت ودولت کے فراواں خزانے ہیں ، تم سے پہلے گذشتہ قوموں نے بھی اللہ کی نافرمانی کی اور کبر وغرور سے اس کے پیغام کو ٹھکرا دیا ، اور اپنی مادی قوتوں پر بھروسہ کیا ، مگر جب اللہ تعالیٰ کے عذاب سے دوچار ہوئے تو بالکل فنا کردیئے گئے اور ان کا نشان تک باقی نہ رہا ۔ ارشاد ہوتا ہے ، کہ اللہ کی ڈھیل سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ ، اس نے اگر تم کو بعض مصالح کی بنا پر ہلاک نہیں کیا تو یہ نہ سمجھو ، کہ وہ تم سے خوش ہے ، اس کے عذاب کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے جب کسی قوم کے گناہوں کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے تو اس وقت خدائے تعالیٰ عذاب بھیجتا ہے ، بہرحال عذاب سے قبل اصلاح وتوبہ کی پوری مہلت دیتا ہے ۔ حل لغات : تنسی : یعنی تجھ سے بالکل بےاعتنائی کا معاملہ کیا جائے گا ، یہ بطور تشبیہ کے ہے یعنی جس طرح کوئی بھول جاتا ہے اسی طرح تم کو فراموش کردیا جائے گا ، لزاما : لزوم سے ہے یعنی حتمی اور یقینی عذاب ۔ طه
130 (ف ١) ان آیات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر وبرداشت کی تلقین فرمائی ہے کہ اگر یہ بدبخت بدزبانی اور دشنام طرازی سے باز نہیں آتے ، تو آپ ان سے اتنے بلند ہوجائیے کہ ان کو خود اپنے بداعمال پر ندامت محسوس ہونے لگے اللہ کی عبادت کیجئے ، اس کی حمد وستائش کا اظہار کیجئے اور ان کے تکلفات کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھئے کہ یہ سب سامان عیش وطرب ان کے لئے وجہ آزمائش ہیں ، سچا دوست اور باقی رہنے والا سرمایہ وہ ہے جس کا تعلق آخرت سے ہے خود قیام صلوۃ پر عمل کیجئے ، اور اپنے قریب کے لوگوں کو اس پر آمادہ کیجئے اور رزق کی جانب سے بےنیاز ہوجائیے ہم آپ کو دنیا کے افکار سے مستغنی کردیں گے ، تاکہ آپ فراغ قلبی کے ساتھ اسلام کو دنیا کے کناروں تک پہنچا سکیں ، ان سب احکام کا مقصد یہ نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں صبر و برداشت کا مادہ نہیں تھا ، یا تسبیح وستائش کا جذبہ نہیں تھا یا ان کی نظر دنیا کے تکلفات پر تھی یا یہ کہ آپ دولت حاصل کرنے کی فکر میں تھے ، بلکہ بات یہ ہے کہ قرآن حکیم کا یہ مخصوص انداز بیان ہے ، کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کو احکام کی شکل میں پیش کرتا ہے اس لئے دراصل ان آیات کا مطلب یہ ہے کہ گو کفار مکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بےحد ایذائیں پہنچاتے ہیں مگر آپ ان کے مقابلہ میں ہمہ تن صبر وبرداشت ہیں ، تسبیح وستائش رب العزت سے کام ہے ، اور گو کفار کی نظریں محض دولت وآسائش پر ہیں ، مگر آپ قطعا ان تکلفات سے بالا ہیں ۔ حل لغات : ازواجا : انواع واقسام کے لوگ : زھرۃ الحیوۃ : زندگی کا حسن وجمال : طه
131 طه
132 طه
133 طه
134 (ف ١) مکہ والوں کی عبادت یہ تھی کہ جب انہیں اصلاح وتہذیب کے سچے اور کامل پروگرام کی طرف بلایا جاتا ، تو وہ کہتے پہلے ہمیں ہماری مرضی کے مطابق نشانیاں دکھائیے پھر اس کے بعد ہم تمہاری دعوت پر غور کریں گے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، کیا انہوں نے پہلے صحیفوں کو پڑھ لیا ہے اور انبیاء سابقین کے پیغامات پر غور کرلیا ہے ؟ وہ اگر عبرت وفکر سے ان گزشتہ آسمانی کتب کا مطالعہ کریں تو انہیں قرآن کی صداقت فورا معلوم ہوجائے گی ، حل لغات : متربص : منتظر ۔ طه
135 طه
0 الأنبياء
1 الأنبياء
2 الأنبياء
3 وقت حساب قریب ہے ! : (ف ١) قرآن حکیم کا موضوع دل کی دنیا میں انقلاب پیدا کرنا ہے اور دلوں کی سختیوں اور صلابتوں کو ایمان کی لذت اور آسانیوں سے بدلنا ہے اس لئے اس کے نزدیک اصل چیز ذمہ داری کا احساس ہے خشیت وخوف کا جذبہ ، ہے ، تقوی وپرہیزگاری ہے ، ہوشیاری دانائی ہے جو لوگ قرآن کی بیدار کن آیات سنتے تو ہیں ، لیکن بےپروائی سے عمل نہیں کرتے ، قرآن ان کو غافل قرار دیتا ہے ، اور ان کے حق میں تاسف کا اظہار کرتا ہے فرماتا ہے لوگوں کے محاسبہ کا وقت قریب آگیا ہے ، اور ہر لمحہ یہ لوگ فنا کی منزل کے قریب پہنچ رہے ہیں مگر انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں ہوتا اور جب قرآن حکیم کی آیتیں نازل ہوتی ہیں ، تو ان کی قساوت قلبی اور بڑھ جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگتے ہیں ، کہ یہ تو ہماری طرح ایک انسان ہے گویا بشریت اور انسانیت اتنا بڑا جرم ہے کہ وہ معاف نہیں کیا جا سکتا ، پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ خیالات پریشان ہیں بلکہ افترا ہے اور محض ایک شاعری ہے ، غور فرمائیے ان اعتراضات میں سے کوئی بات بھی معقول ہے ؟ کیا بشر ہونا نبوت کے منافی ہے ؟ کیا انسان کو عہدہ نبوت پر فائز نہیں ہونا چاہئے ، ؟ کیا سحر وافترادنیا میں اتنا بڑا انقلاب پیدا کرسکتے ہیں ؟ کیا خیالات پریشان زندگی کا دستور العمل بن سکتے ہیں ، اور کیا شاعری میں یہ قوت ہے کہ ٹھوس اور جچے تکے خیالات زندگی کے متعلق پیش کرسکے ۔ بات یہ ہے کہ ان کے دلوں میں چونکہ مذہب کی تڑپ نہیں تھی اور غفلت وجمود کے حجابات سے دل بےنور تھا ، اس لئے قرآن کی روشنی انہیں محسوس نہ ہوئی وہ آیات کو سنتے قیامت کے ہولناک احوال سے گوش آشنا ہوتے ، مگر طبیعت میں قطعا اثر وگداز پیدا نہ ہوتا اور تکذیب کے لئے مختلف بہانے بنا لیتے کبھی کہتے کہ یہ انسانی کلام ہے کبھی کہتے جادو ہے ، اور کبھی اسے افتراء قرار دیتے ، اور شاعری سے زیادہ وقت نہ دیتے فی الحقیقت اس نوع کے اعتراض خود ان کی پراگندگی خیالات کے آئینہ دار ہیں ، اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ قرآن کو سمجھنے سے سراسر قاصر رہے ، کیونکہ جس قسم کے اعتراضات پیش کئے گئے ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ قرب قیامت کے معنی یہ ہیں کہ موت ہر آنا یقینی ہے اور موت کے بعد اعمال کے نیک اور بد ہونے کا عالم قبر میں احساس ہوجاتا ہے اس لئے جو چیز قطعی اور ضمنی ہے اور جس کا آغاز موت کے بعد فورا ہوجاتا ہے اس کو ابھی سے محسوس کرنا چاہئے ۔ بل : کا لفظ عربی میں اضراب کے لئے استعمال ہوتا ہے یعنی پہلے جو مفہوم ذکر کیا گیا ہے ، یا سمجھ میں آتا ہے صحیح نہیں ، صحیح وہ ہے جو اس کے بعد مذکور ہے اس آیت میں لفظ بل اضراب کے لئے نہیں بلکہ استدراک کے لئے ہے یعنی جہاں وہ قرآن حکیم کو خیالات پریشان کہتے ہیں وہاں اسے افتراء سے بھی تعبیر کرتے ہیں ، اور اسے شاعری بھی قرار دیتے ہیں ۔ حل لغات : یلعبون : یعنی بےاعتنائی اور بےتوجہی برتتے ہیں ۔ الأنبياء
4 الأنبياء
5 الأنبياء
6 الأنبياء
7 انبیاء علیہم السلام بشر ہوتے ہیں : (ف ١) اس آیت میں مکے والوں کے اس شبہ کا جواب ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ عام انسانوں کی طرح ہیں ، اس لئے لائق اعتناء نہیں قرآن حکیم فرماتا ہے جہاں تک انبیاء کی جماعت کا تعلق ہے سب کے سب انسان تھے کیونکہ وہ انسانوں کے لئے راہ نما ہوکر آئے تھے ، اس لئے ضروری تھا کہ وہ حمیم وجدان کے لحاظ سے ذوق وخواہشات کے لحاظ سے بالکل انسان ہوں تاکہ دوسرے انسانوں کے لئے ان کی زندگی اسوہ اور نمونہ قرار پائے ۔ ورنہ (فوق البشر) ہونے کی صورت میں وہ انسانوں کے لئے کامل راہ نما نہ ہو سکتے ، کیونکہ تبع اور پیروی کے لئے ضروریات اور حالات کا مشترک ہونا لازم ہے ، جب تک ہمیں یہ نہ معلوم ہو کہ ہمارے راہ نما کے آگے بھی وہی زندگی کی مشکلات ہیں ، جو ہمیں پیش آتی ہیں ، اور وہ باوجود ان مشکلات کے کامیاب زندگی بسر کرتے ہیں اس وقت تک اس سے تحصیل اخلاق کی خواہش پیدا نہیں ہوتی ۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ کائنات میں جس قدر اانبیاء علیہم السلام آئے ہیں وہ گو اخلاق اور روحانیت کے اعتبار سے کہیں بلند وارفع تھے مگر سب کے سب انسان تھے بشری ضروریات سے مستغنی نہ تھے ، بھوک کی خواہش انہیں بھی بےقرار کردیتی تھی ، اور پیاس کی شدت کا بھی احساس ہوتا تھا ، بیماریاں بھی آتی تھیں ، اور موت بھی ، مگر باوجود ان عوارض بشری کے وہ پیغمبر تھے ، اللہ کے پیارے اور محبوب تھے یقین واطمینان کے لئے علماء سے پوچھو ، جو آسمانی کتابوں اور صحیفوں کو سمجھتے ہیں ۔ وہ تمہیں بتائیں گے کہ نبوت کے کیا معنی ہیں ، بات اصل میں یہ تھی کہ مکے والے یہ نہیں برداشت کرسکتے تھے کہ بنی ہاشم کا ایک بےنواد بیکس انسان اس عہدہ جلیلہ پر فائز ہو ، اور محامد وفضائل میں ان سے بڑھ جائے ، ان کو حسد تھا کہ ہم قوم میں سردار اور مالدار ہیں ، ہمارے بہت سے اعوان وانصار ہیں ، اور ہم دولت وحشمت کے مالک ہیں ، ہم تو باوجود ان خوبیوں کے اللہ کی نظروں میں جچے نہیں اور یہ ایک یتیم بےنوا اتنے بلند منصب کو پائے ، اور لوگ ہمیں چھوڑ کر اس کی عزت وتکریم کریں ، کیا دولت وعزت ہم سے منہ پھیر لے گی ؟ اور اس کے قدم چومے گی ، کیا بنی ہاشم کا اقتدار اس کی وجہ سے پھر مکہ کے تمام قبائل سے بڑھ جائے گا ، یہ خیالات تھے جو قبول حق کے لئے مانع تھے ، اس لئے انہوں نے بغیر کسی معقول وجہ کے کہ کہنا شروع کردیا ، کہ انبیاء علیہم السلام کو انسانی ضروریات کے سامنے نہیں جھکنا چاہئے ، ان کو بشری شکل وصورت میں نہ ہونا چاہئے ، غرض یہ تھی کہ اس طریق سے ہم بآسانی اسلام کے مشن کو ناکام بنا سکیں گے مگر اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ ایک انسان کے سر پر یہ تاج فضیلت رکھا جائے ، اور اس کو ان کے سامنے کامیاب بنایا جائے ، چنانچہ اسی بشر نے وہ کارہائے نمایاں سر انجام دئیے ، کہ ان جیسا ایک بھی کسی دیوتا سے نہ ہوسکا ، جن کو دنیا خدا کے سوا پوجتی ہے ۔ حل لغات : رجالا : رجال جمع رجل ، بمعنی مردان ۔ اھل الذکر ، : علماء توریت ومصحف انبیاء ۔ کو جاننے والے ، الأنبياء
8 الأنبياء
9 الأنبياء
10 الأنبياء
11 (ف ١) ان آیات میں اللہ نے اپنی سنت جاریہ کا ذکر فرمایا ہے کہ جب قومیں گناہ ونافرمانی کے عمیق غاروں میں گر جاتی ہیں ہم انہیں مہلت نہیں دیتے اور فورا ہٹا دیتے ہیں ، پھر اس کے بعد وہ لوگ جو صالح ہوتے ہیں اور جن میں باقی رہنے کی صلاحیت ہوتی ہے انہیں ان کی قائم مقامی عطا کردیتے ہیں ، اور جب ہمارا عذاب آجائے اس وقت مجرمین کا بچنا محال ہوجاتا ہے ، ان کی تمام کوششیں رائیگاں ہوجاتی ہیں ، چنانچہ ارشاد ہے کہ ہم نے اپنی سنت کے مطابق اپنے وعدہ کا ایفاء کیا ، صداقت شعار لوگوں کو نجات دی ، اور مسترفین کو عذاب میں مبتلا کردیا ، یہ کتاب تمہاری طرف بھیجی ہے ، اس میں عذاب کی تفصیلات اور نصیحت وعبرت کا کافی سامان موجود ہے ۔ کئی بستیوں کو ہم نے ہلاکت کے گھاٹ اتار دیا ، اور ان کے بعد ان کی جگہ دوسروں کو لابسایا ، جب ان پر عذاب آیا تو اس وقت انہوں نے بھاگنے اور رہائی پانے کی کوشش کی مگر ہم نے کہا یہ نہیں ہو سکتا کہ نازونعمت سے پھر ہمکنار ہو ، اور گھروں کو لوٹو ، حل لغات : یرکضون : رکض سے ہے دوڑنا جلدی جلدی چلنا ۔ الأنبياء
12 الأنبياء
13 الأنبياء
14 الأنبياء
15 الأنبياء
16 الأنبياء
17 الأنبياء
18 کائنات کا ایک مقصد ہے : (ف ١) اسلام نکتہ نگاہ سے یہ دنیا اور اس کی تمام آرائشیں بغیر کسی مقصد کے نہیں ہیں ، یہ آفتاب کا طلوع وغروب ، ستاروں کا چمکنا اور جھلملانا یہ آسمان کا سقف زرنگار ، اور یہ اتنی بڑی زمین کا پھیلاؤ پہاڑ ، درخت ندی ، نالے ، اور طیور وبہائم ، ان سب چیزوں کو آخر خدا نے کیوں پیدا کیا ہے ، کیا یہ محض دلچسپی کے لئے ہے اور اتنے بڑے نظام سے کوئی فائدہ مقصود نہیں ، ؟ قرآن حکیم اس کا یہ جواب دیتا ہے ، کہ اس کائنات کا ایک مقصد ہے یہ محض اتفاقیہ امور نہیں بلکہ قدرت کاملہ اور شعور بالغہ ہے ۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ کائنات میں تمہیں ایک نظام وترتیب نظر آتی ہے ، زینت وآرائش معلوم ہوتی ہے جو اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ یہ کباڑی کی دکان نہیں ، بلکہ علیم وحکیم خدا کی صنعت کا شاہکار ہے ، مقصد یہ ہے کہ انسان اللہ کی نیابت کا حامل ہو اور خدا دا وعلوم ومعارف سے دنیا کو جنت بنا دے اور ان تمام خرافات اور ادہام کو مٹا دے جن کا تعلق باطل سے ہے ، کیونکہ اصول ہے کہ حق اور باطل میں تصادم ناگزیر ہے ، اور بالآخر حق کو کامیابی اور نصرت حاصل ہوتی ہے اور باطل نیست ونابود ہوجاتا ہے ۔ الأنبياء
19 الأنبياء
20 (ف ٢) ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور قدرت کو بیان فرمایا ہے کہ کائنات کی ہر چیز اس کے قبضہ میں ہے اور وہ ساری دنی اور مافیہا کا مالک ہے اور فرشتے اس کا حکم بجا لاتے ہیں ، اور اپنے فرائض منصبی کو بڑی تندہی سے ادا کرتے ہیں ، شب وروز اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ، اور کبھی ملال ومکدر کا اظہار نہیں کرتے ، مگر ان مشرکوں کو دیکھئے کہ بتوں کی پرستش میں لگے ہوئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ بت ان کو قیامت کے بعد جلا دیں گے ، افسوس یہ کہ یہ لوگ اپنے فرائض بشری کو محسوس نہیں کرتے ، ورنہ فرشتوں کی طرح کسی وقت بھی اس کی اطاعت سے بےنیاز نہ ہو سکتے ۔ الأنبياء
21 الأنبياء
22 توحید پر ایک فلسفیانہ دلیل : (ف ٣) متعدد خداؤں کا وجود عقل ووجدان اور ذوق سلیم کے قطعا منافی ہے قرآن حکیم نے اس عقیدے کی بار بار تردید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ بالکل غیر عقلی عقیدہ ہے ، یہاں ایک نہایت باریک دلیل بیان فرمائی ہے جو توحید کے مسئلہ کو پوری طرح واضح کردیتی ہے ارشاد ہے کہ اگر کائنات میں متعدد ارادے اور مختلف شعور کار فرما ہوتے تو کیا زمین وآسمان اسی طرح قائم رہتے ؟ ناممکن ہے کہ متعدد خداؤں کو مان کر عقل کی تسکین ہو سکے ، اگر خدا دو ہوں بغرض محال تو اوس کے کھلے ہوئے معنے یہ ہوں گے کہ دونوں قادر مطلق ہوں گے ، دونوں ارادے کے لحاظ سے آزاد ہوں گے ، اور دونوں جو چاہیں گے ، کرسکیں گے اور قطعا ناممکن ہوگا کہ ان میں اشتراک ووحدت ہو کیونکر یہ اختلاف ارادہ ہی تو ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے انکو دو فرض کیا ہے ورنہ دو چیز کو جو ہر جہت سے ایک ہوں ، وہ کہنا منطقی غلطی ہے ، دونوں میں مابہ الامتیاز اگر کوئی چیز ہے تو وہ یہی ارادہ کا اختلاف ہے اور اگر یہ درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک ہی چیز پر دونوں متضاد اثرات ڈالیں گے ، نتیجہ معلوم کہ وہ مؤثر باقی نہ رہ سکے گا ، یہ کس قدر واضح دلیل ہے توحید کی ، مگر سمجھے کون ، ان لوگوں میں تو بصیرت ہی موجود نہیں ۔ حل لغات : فقذف : قذف سے ہے معنی پھینکنا ڈالنا ، ۔ فیدمغہ : دمع توڑ ڈالنا ۔ الویل : ذلت خرابی شور وفغان ۔ الأنبياء
23 الأنبياء
24 الأنبياء
25 (ف ١) اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ فطرت کی آواز کیا ہے ؟ وہ کون سا پیغام ہے جس کوتمام انبیاء نے مشترکہ طور پر پیش کیا ، وہ کون سی دعوت ہے جس کو سب پیغمبروں نے متحدہ شکل میں ظاہر کیا ، وہ ایک خدا کی پرستش اور عبادت ہے ، آدم (علیہ السلام) سے جناب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک سب لوگوں نے اس روشن حقیقت کو نمایاں کیا ، کہ خدا ایک ہے مالک وآقا ایک ہے محبوب ودوست ایک ہے اور وہ ذات ذی الجلال ایک ہے ، جس کے سامنے جھکنا چاہئے ۔ غور فرمائیے کس قدر صحیح ، روشن اور عملی تعلیم ہے ، ایک خدا کی پرستش کے معنی یہ ہیں ، کہ تمام کائنات کو اپنے قدموں پر جھکا لیا جائے ، اور بجز خدا کی کبریائی اور جلال کے اور کسی کی عظمت کا اعتراف نہ کیا جائے خدا کو ایک ماننے کے یہ معنے ہیں کہ ایک خدا کو تو حاکم مطلق جانو ، اور باقی دنیا کی ہر چیز اور ہر قوت کو محکوم سمجھو ، خدا کو تو حاکم مطلق جانو ، اور باقی دنیا کی ہر چیز اور ہر قوت کو محکوم سمجھو ، خدا کو ایک ماننے کے عقیدہ میں انسانی شرف ومجد کا راز پہناں ہے ، یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم اس عقیدہ کو بار بار مختلف پہلوؤں سے ذکر فرماتا ہے ، اور کہتا ہے کہ لوگو ! شرک کی ظلمتوں اور تاریکیوں سے نکلو ، اور توحید کی وادیوں میں قدم زن ہوجاؤ ، یہاں نور برکت اور عزت شرف کے چشمے بہتے ہیں ، مگر مشرکین ہیں کہ ان کے دلوں کی تاریکی انہیں اس روشن حقیقت کو دیکھنے نہیں دیتی ، وہ زندہ اور حی وقیوم خدا کو چھوڑ کر پتھروں کے سامنے جھکتے ہیں ، وہ انسان اور افضل اپنی بزرگی وعظمت کی توہین کرتے ہیں ۔ الأنبياء
26 الأنبياء
27 الأنبياء
28 (ف ١) جس طرح عیسائی حضرت مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا سمجھتے تھے ، اسی طرح مکے والے فرشتوں کو خدا کی اولاد قرار دیتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ الزام غلط ہے ، وہ اس نوع کی نسبتوں سے پاک ہے ، اس کا تخیل ہی شرک کے منافی ہے ، فرمایا بدبختو ! تم جن فرشتوں کو خدا کی اولاد سمجھتے ہو ، وہ تو اس کی فرمانبردار اور اطاعت شعار مخلوق ہیں ، ان کی مجال نہیں کہ اس کے احکام کی مخالفت کرسکیں ، ان کا کام تو محض یہ ہے کہ وہ ہر وقت اس کے احکام کی تعمیل میں مصروف رہیں ۔ اور ایک لمحہ غفلت میں نہ گزاریں ۔ مکے والوں کا دوسرا عقیدہ یہ تھا کہ یہ فرشتے جن کی وہ پرستش کرتے تھے ان کی سفارش کریں گے ، فرمایا یہ بھی غلط ہے اللہ تعالیٰ کے جلال وجبروت کے سامنے ان کی اپنی کیفیت یہ ہے کہ ہر وقت خائف رہتے ہیں ، وہ اگر سفارش بھی کریں گے ، تو اللہ تعالیٰ کی مرضی اور اذن کے ماتحت ہوگی بطور خود انہیں سفارش کے اختیارات حاصل نہیں ۔ جس طرح شرک جرم ہے ، اسی طرح لوگوں کو اپنی پوجا اور پرستش پر آمادہ کرنا بھی جرم ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، وہ لوگ جو یہ کہیں ، کہ ہم خدا ہیں ، ہمارے سامنے جھکو ، اور ہماری پرستش کرو ، ہم انکو عبرت ناک سزا دیں گے ، کیونکہ یہ ظالم ہیں ، اور دنیا میں گمراہی پھیلانے کے موجب ہیں ۔ الأنبياء
29 الأنبياء
30 (ف ٢) طبعیات اور علم الحیات کے ماہرین کی تازہ ترین تحقیقات یہ ہے کہ آسمان اور زمین درحقیقت ایک ہی کرہ تھے ، بعد میں نامعلوم وجوہ کی بنا پر انفصال ہوا ، اور یہ دونوں الگ الگ ہوگئے نیز یہ کہ ابتدا میں بحری جانور پیدا ہوئے ، بعد میں دوسری زندہ چیزیں ظہور پذیر ہوئیں ، گویا پانی ہی زندگی کا باعث بنا ہے اور یہیں سے حیات کا آغاز ہوا ۔ غور فرمائیے ، قرآن حکیم بھی اس آیت میں اسی حقیقت کا اظہار کرتا ہے ، مگر کب سے ، آج سے چودہ سوسال قبل سے جب کہ موجودہ علوم وفنون کا وجود تک نہ تھا ۔ حل لغات : مشفقون : اشفاق سے ہے ، ڈر اور خوف ۔ رتقا : انضمام ، باہم ملنا ، مفعول کے معنوں میں ہے ۔ الأنبياء
31 الأنبياء
32 الأنبياء
33 جمال قدرت کا مشاہدہ کرو : (ف ١) تذکیر بآلاء اللہ بھی قرآن حکیم کا ایک خاص طرز بیان ہے کیونکہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں ، جنہیں خشک دلائل سے زیادہ کائنات کا جمال اپنی طرف کھینچتا ہے ، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو دعوت نظر دیتے ہیں ، اور فرماتے ہیں کہ تم اگر واقعی قدرت کے جمال وکمال کو دیکھنا چاہتے ہو تو صرف مادیت کی تسکین کے لئے نہ دیکھو ، بلکہ دیدئہ عبرت سے ملاحظہ کرو ، تمہیں معلوم ہوگا کہ کس صنعت وحکمت سے اللہ تعالیٰ نے اس نظام کو پیدا کیا ہے زمین وآسمان کی تخلیق پر غور کرو ، پانی کے حیات بخش اثرات دیکھو ، پہاڑوں کے فوائد سمجھو ، آسمان ، دن ، رات اور چاند سورج کو دیکھو کہ کیونکر ہر چیز اللہ کی وسعت عملی کا پتہ دے رہی ہے ۔ (آیت) ” کل فی فلک یسبحون “۔ سے مراد محض یہ ہے کہ آفتاب وقمر بھی اپنے فرائض تکوین کو ادا کر رہے ہیں ، یہ مراد نہیں کہ وہ آسمان میں محض گھوم ہی رہے ہیں ، اور مچھلیوں کی طرح تیر رہے ہیں یہ محض ایک لسانی عرف ہے ، جس کو قرآن حکیم نے ادا کیا ہے جس طرح ہم یہ کہتے ہیں کہ سورج غروب ہوگیا ، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ سورج کبھی غروب نہیں ہوتا ، مقصود یہ ہوتا ہے کہ دن کی روشنی ختم ہوچکی ، اور رات کی تاریکی شروع ہونے والی ہے قرآن حکیم چونکہ خالص عربی زبان میں نازل ہوا ہے ، اور وہ بےنظیر ادبی کمالات کا حامل ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ عربی محاورات کو ملحوظ رکھے ، بلکہ عربیت کا بہترین نمونہ ہو ، اور معانی ومفاہیم کے لئے عربی انداز بیان ہی اختیار کرے ، تاکہ لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ قرآن میں عجمی پیرایہ اختیار کیا گیا ہے ۔ الأنبياء
34 (ف ٢) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اسلام کو پھیلانا شروع کیا ، اور مشرکین نے دیکھا کہ آپ کو خاص کامیابی ہو رہی ہے ، تو وہ یہ کہہ کر دل کو تسلی دے لیتے کہ یہ کامیابی صرف انکی زندگی تک محدود ہے جب یہ انتقال کر جائیں گے تو پھر اسلام کی اشاعت رک جائے گی ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر آپ کے لئے وصال ضروری ہے تو کیا یہ لوگ مخالفت وعناد کے لئے زندہ رہیں گے ؟ ایسا نہیں ہو سکے گا ، ہمارا اٹل اور محکم قانون یہ ہے کہ ہر نفس کے لئے موت مقدر ہے ۔ فقل المشامتین بنا افیقوا سیلقی الشامتون کما لقینا : دنیا کی ہر بات کو اشتباہ اور شک کی نظروں سے دیکھا جاسکتا ہے مگر موت ایسی قطعی ہے کہ اس میں کسی کو ذرہ بھر بھی شبہ نہیں ہوسکتا ، چھوٹے سے لے کر بڑے تک اور ادنے سے اعلی تک سب کے لئے ضروری ہے کہ موت کے سامنے زندگی کا نذرانہ پیش کر دے ، اس لئے ان بےوقوفوں کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متوقع انتقال پر خوش ہونا بیکار اور چھچھورا پن ہے ۔ حل لغات : فیسبحون : تیرتے پھرتے ہیں یعنی کشتی کی طرح سواری متوازی چلتے ہیں ۔ الأنبياء
35 الأنبياء
36 (ف ١) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ ابتداء میں کس حقارت سے اسلام کو اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھتے تھے اور کس بےخوفی سے آوازے کستے تھے ، کہتے تھے کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) ہے جو تمہارے بتوں کی مذمت کرتا ہے ، مگر ایک وقت آ پہنچا جب کہ ان کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت کا سچا احساس ہوا ، اور انہیں معلوم ہوگیا کہ جس کو ہم حقارت سے دیکھتے تھے ، وہ کائنات میں سب سے بڑا انسان ہے ۔ الأنبياء
37 الأنبياء
38 (ف ٢) مکہ والے جب یہ دیکھتے کہ انکار اسلام کے باوجود ان پر اللہ کا عذاب نہیں آتا ، تو وہ یہ سمجھتے شاید یہ ان کی نیک سختی کی وجہ سے ہے ، اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ کرتے ، کہ کیوں عذاب نہیں آجاتا ، اور ہمیں کیوں نہیں مٹا دیتا ، قرآن حکیم کہتا ہے یہ عذاب طلبی تمہاری فطری عجلت پسندی کا نتیجہ ہے ، اور صاف وصریح بےعقلی کی بات ہے ، عنقریب تم لوگ اپنی آنکھوں سے اللہ کے غضب وغصہ کو دیکھ لو گے ۔ حل لغات : عجل : جلدی یا عجلت ، اور اس کے معنے مٹی کے بھی ہیں ۔ بغتۃ : اچانک ، ناگاہ ۔ فتبھتھم : ان کے حواس باختہ کر دے گی ۔ الأنبياء
39 الأنبياء
40 (ف ١) عذاب کے باب میں اللہ کا قانون یہ ہے کہ مجرموں کو ابتدا میں ڈھیل دی جاتی ہے مگر جب وہ حد مقرر سے آگے بڑھ جاتے ہیں ، اس وقت اللہ کا عذاب اچانک آجاتا ہے اور پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کو اس عذاب سے بچا نہیں سکتی ، مگر بےوقوف لوگ اس ڈھیل کا مطلب سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اعمال حسنہ کا نتیجہ ہے جو دنیا میں نازونعمت کے سارے سامان ہمیں میسر ہیں ، ورنہ ایک لمحہ بھی ہم دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتے تھے ، یہی وجہ ہے کہ مکے والے بار بار حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عذاب کا مطالبہ کرتے ، وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات نہایت حکمت اور قدرت والی ہے ، جسے جب چاہے ، اپنے مصالح کے ماتحت گرفتار کرلے پھر کون ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ سکے ۔ الأنبياء
41 الأنبياء
42 صرف خدا محافظ ہے : (ف ٢) حقیقت یہ ہے کہ یہ محض اللہ کی مہربانی ہے ، کہ انسان باوجود اس درجہ نافرمانیوں کے سطح زمین پر دنداناتاپھرتا ہے ورنہ کائنات کا ذرہ ذرہ ہمارے لئے مصائب وحوادث کا عظیم الشان پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے ، یہی پانی جو اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ، اگر سیلاب کی شکل اختیار کرلے تو ہمارے لئے کتنا عذاب دہ ہوجاتا ہے ، ہوا کے ٹھنڈے ٹھنڈے فرحت افزا جھونکے اگر بادتند میں تبدیل ہوجائیں ، تو کس درجہ تباہی پھیل جاتی ہے ، اور آگ جس سے روزانہ ہم طرح طرح کے کھانے پکا کر نوش جان کرتے ہیں ، اگر پھیل جائے تو آن کی آن میں کئی گھر پھونک کے راکھ بنادیتی ہے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ مشرکین سے پوچھتے ہیں کہ بتاؤ رات سوائے ہمارے تمہاری کون خبرداری کرتا ہے جو تمہیں آفات ارضی وسماوی سے بچاتا ہے ، تمہارے معبود ، دیوتا تو اپنی حفاظت ، نصرت پر بھی قادر نہیں پھر یہ تمہاری ضروریات پوری کرسکیں گے ؟ حل لغات : یکلؤکم : کلاء سے ہے بمعنی حفاظت : الأنبياء
43 الأنبياء
44 (ف ١) مخالفین اسلام کو اپنی معاندانہ کوششوں پر بڑا ناز تھا ، ان کا خیال تھا کہ ان کی ناپاک مساعی سے اسلام کی بڑھتی ہوئی برکات رک جائیں گی ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، یہ محض وہم باطل ہے انہیں دیکھنا چاہئے ، کہ فتوحات اسلامی کی وسعتیں کہاں تک پھیلتی چلی جا رہی ہیں ، کیا اسی مغلوبیت کا نام قبضہ وغلبہ ہے ؟ یہ تاریخ کا چمکتا ہوا واقع ہے ، کہ اسلام جس ہمہ گیری اور غیر محدود طور پر پھیلا دنیا کا کوئی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا ، تاریخ عاجز ہے کہ مسلمان مجاہدین کی مثال پیش کرسکے ۔ پھر کیا باطل اس طرح کامیاب ہو سکتا ہے ؟ کیا جھوٹ کو اتنا فروغ حاصل ہوتا ہے کہ لوگ جوق در جوق اس کو قبول کریں ، اور خاص وعام طبائع اس قدر متاثر ہوں ؟ یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہرچند ان لوگوں کو حقیقت کی طرف بلایا ۔ مگر یہ قوت سماعت سے محروم ہوچکے ہیں ، اس لئے مطلقا کان نہیں دھرتے ، اور نہیں سنتے کہ سب کچھ ان کے بھلے کے لئے کہا جارہا ہے ۔ الأنبياء
45 الأنبياء
46 الأنبياء
47 وزن اعمال : (ف ٢) وزن اعمال کی تفصیلی کیفیت کو معلوم کرنا انسانی استعداد سے دور ہے کیونکہ اس کا تعلق ایک ایسے عالم سے ہے جو اس وقت تک نادیدہ ہے ، البتہ یہ درست ہے کہ اعمال کے حسن وقبح کو جانچنے کے لئے ، اور ان میں مدارج قائم رکھنے کے لئے ایک معیار کی ضرورت ہے بس یہی معیار ترازوئے عدل ہے ، مقصد بہرحال یہ ہے کہ جہاں تک اعمال کا تعلق ہے ، اللہ کی عدالت میں کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا ، اور ہر شخص کو وہی ثمرہ یا بدلہ ملے گا جس کا وہ ٹھیک طور پر حقدار ہے ۔ حل لغات : نفحۃ : تھوڑا سا حصہ ۔ مثقال : نام وزن ، مقدار ۔ الأنبياء
48 الأنبياء
49 قرآن میں تنوع ہے ! : (ف ١) قرآن حکیم چونکہ کتاب فطرت ہے ، اس لئے اس میں مصنوعی ترتیب مضامین نہیں ، بلکہ تنوع ہے اور تنوع کے ساتھ ایک باریک ربط ہے جس کا سمجھنا صرف اہل بصیرت کے لئے ممکن ہے ، اس تنوع بیان کا بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ پڑھنے والے کے دل میں شوق جستجو بڑھتا جاتا ہے ، اور طبیعت میں ملال پیدا نہیں ہوتا ، ان آیات سے قبل توحید کا ذکر تھا ، رسالت ونبوت کا بیان تھا ، اور حشر ونشر کی کیفیات کی توضیح تھی اب انبیاء علیہم السلام کے حالات بیان فرمائے ہیں ۔ ارشاد ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کو جو کتاب عنایت فرمائی ، وہ بالکل فیصلہ کن تھی ادہام وخرافات کی تاریکیوں کو دور کرنے والی روشنی تھی ، اور کامل نصیحت تھی ، اللہ کے وہ پاکباز بندے اس سے استفادہ کرسکتے ہیں ۔ جو بن دیکھے اس پر ایمان رکھتے ، اور اس سے ڈرتے ہیں ، اور قیامت کے خیال سے لرزاں وترساں رہتے ہیں ، غرض یہ ہے کہ یہودی باوجود تورات کے موجود ہونے کے اس لئے بدبخت اور محروم رہے کہ ان میں خشیت الہی کا جذبہ مفقود ہوچکا تھا ، اور اللہ پر سے اعتقاد اٹھ گیا تھا ، الأنبياء
50 (ف ٢) اہل کتاب سے خطاب ہے ، کہ جب قرآن بھی صحف سابقہ کی طرح اللہ کی کتاب ہے اور اس میں نصیحت وبرکت کا سامان وافر موجود ہے ، تو پھر یہ محرومی کیوں ہے کہ تم اس کو نہیں مانتے کیا اسی وجہ سے کہ دلوں میں ایمان کی روشنی باقی نہیں رہی ، اور خوف خدا کا خیال اٹھ گیا ہے ۔ حل لغات : رشدہ : پیغمبرانہ فراست ۔ التماثیل : جمع تمثال ، مورتیاں ۔ الأنبياء
51 الأنبياء
52 پیغمبرانہ استعداد : (ف ٣) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دل میں مشرکانہ خیالات کے خلاف جو جذبہ تنفر موجود تھا اور جس سے بےقرار ہو کر انہوں نے اپنی قوم سے سختی کے ساتھ احتساب کیا تھا ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ پہلے سے موجود تھا اور عہدہ نبوت سے سرفراز ہونے سے قبل بھی ان میں یہ پیغمبرانہ سوجھ بوجھ پائی جاتی تھی ، بات یہ ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام میں عہد نبوت سے قبل ایک استعداد خاص موجود ہوتی ہے اور ان کا دماغ پہلے انوار الہیہ کا مہبط ہوتا ہے ان کے کردار گفتار سے ایک شان امتیاز چمکتی ہے ۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ معمولی ہیں ، اور عام انسانوں سے یقینا ممتاز اور بلند انسان ہیں ۔ حل لغات : لاکیدن : کید کے معنے تدبیر ۔ سوء تدبیر ، اور مخالفانہ جدوجہد کے ہیں ۔ الأنبياء
53 الأنبياء
54 الأنبياء
55 الأنبياء
56 الأنبياء
57 الأنبياء
58 الأنبياء
59 الأنبياء
60 الأنبياء
61 الأنبياء
62 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تدبیر اصلاح ! : (ف ١) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس قصہ کو اگر اس حدیث کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے اور اس کے عام مفہوم کو مد نظر رکھا جائے ، جو لوگوں میں مشہور ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس مقام پر جھوٹ بولا تو طبیعت میں سخت خلجان پیدا ہوتا ہے ۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ صحیح حدیث بھی قرآن کے مخالف مفہوم کو بیان کرسکتی ہے اور یا پھر انبیاء سے کذب کا صدور ممکن ہے ، اور یہ دونوں باتیں غلط ہیں ، نہ حدیث قرآن کے مخالف ہے ، اور نہ قرآن میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تکذیب کا کہیں ذکر ہے ، اس سلسلہ میں ذیل کی باتیں پیش نظر رہنا چاہئیں ۔ ١۔ قرآن میں ابراہیم (علیہ السلام) کو صدیق کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے ، ٢۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے بت پرستوں سے کہدیا تھا ، کہ میں تمہارے ہوس کو توڑ پھوڑ ڈالوں گا ۔ ٣۔ بت پرستوں کو معلوم تھا کہ یہ سب ابراہیم (علیہ السلام) کی کاروائی ہے ، اس لئے صاف ظاہر ہے کہ (آیت) ” بل فعلہ کبیرھم ھذا “۔ کہنے سے مقصد واقعہ کا اخفاء نہیں ، بلکہ ایک لطیف پیرائے میں کفار کو متنبہ کرنا ہے کہ بےوقوفو ! جو بت کہ قوت گویائی اور نطق سے محروم ہیں ، اور اپنی حالت زار بھی بیان نہیں کرسکتے ، وہ تمہارے خدا کیونکر ہو سکتے ہیں ؟ چنانچہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا ، کہ اس بڑے بت نے یہ کہا (ہوگا) اس سے پوچھ لو تو ان کی آنکھیں کھل گئیں ، اور ان کو غور کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ بت واقعی بیکار ہیں ، اور ان کی پرستش کھلی گمراہی اور ظلم ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بعض دفعہ معمولی بات بھی انسان محسوس نہیں کرتا ، مگر جب اس کو ذرا چونکا دیا جاتا ہے ، تو وہ غور سے اصل حالات کا مطالعہ کرتا ہے ، اور اپنی غلطی پر متنبہ ہوجاتا ہے ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چونکہ اس حکیمانہ اصول نفسی سے واقف تھے ، اس لئے انہوں نے بہ طریق اصلاح اختیار کیا ، اور اس میں ان کو کامیابی ہوئی ، کون کہہ سکتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے یہ تو نہایت عقلمندی اور دانائی ہے یعنی تدبر وتدبیر ہے ۔ اب رہا یہ معاملہ کہ حدیث میں اس کو کذبات میں شمار کیا گیا ہے تو اس کے متعلق ذیل کے نکات غور طلب ہیں ۔ (١) ۔ کذب عربی میں جھوٹ کا بالکل مترادف لفظ نہیں ہے ، بلکہ ہر بات جو بظاہر خلاف واقعہ ہو ، مگر اس سے مقصود کوئی بلند چیز ہو اس پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ (٢) ۔ حدیث میں کذبات کا ذکر باب معاریض میں ہے یعنی غرض مخالف کی سادگی سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ (٣) ۔ حدیث میں ابراہیم (علیہ السلام) کے کذبات ‘ کا بیان اس طرح ہے کہ میدان حشر میں ان کو سفارش کرنے میں بدیں وجہ قاتل ہوگا ، کہ ان سے نیک نیتی کے ساتھ سے ان لغزشوں کا صدور ہوتا ہے گویہ واقعہ اور دوسرے دو واقعے جھوٹ نہیں ہیں ۔ مگر انبیاء کا مقام چونکہ خشیت وخوف اور پاکبازی کے لحاظ سے بہت بلند ہے ، اس لئے وہ ان واقعات کو بھی جھوٹ کے ساتھ ادنی مماثلت ہونے کے باعث اپنے لئے معیوب سمجھیں گے ، اور سفارش کی جرات نہ فرمائیں گے ، (٤) ۔ حدیث بالکل صحیح ہے ، اس کا مقصد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کاذب ثابت کرنا نہیں ، بلکہ ان کے مرتبہ اتقاء کو ظاہر کرنا ہے ، اس لئے اس میں اور قرآن کی ان آیات میں قطعا تحالف نہیں ۔ حل لغات : فتی : نوجوان ، جوانمرد وصاحب کرم ۔ الأنبياء
63 الأنبياء
64 الأنبياء
65 الأنبياء
66 الأنبياء
67 الأنبياء
68 الأنبياء
69 ابراہیم (علیہ السلام) کا کامل ایمان : (ف ١) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب بتوں کی تذلیل وتوہین میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا ، توبت پرستوں کے حلقہ میں کھلبلی مچ گئی ، انہوں نے بالاتفاق کہا ، بتوں اور دیوتاؤں کے خلاف اس قسم کا جہاد ناقابل برداشت ہے یہ بہت بڑا گناہ ہے ، اس کی سزا سوائے اس کے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو زندہ آگ میں جھونک دیا جائے ، اور کچھ نہیں ، چاروں طرف سے آوازیں آنے لگیں ، اس کو آگ میں ڈال دو ، الاؤ میں جھونک دو ، اور پھونک دو اگر اللہ کی مشیت کچھ اور تھی ادھر یہ انتظام ہو رہے تھے ، کہ توحید کی حمایت کی پاداش میں اللہ کے ایک بندے کو زندگی سے محروم کردیا جائے دوسری جانب رحمت ایزدی ان کی حماقت پر ہنس رہی تھی ، عین اس وقت جب معاندین کی تدبیریں بظاہر کامیاب ہوچکی تھیں ، اللہ کا فضل روئے کار آیا ، اور وہ الاؤ جو جہنم کی طرح منہ کھولے اس حامی حق کا منتظر تھا ، بردوسل امتی سے تبدیل ہوگیا ، اللہ کی رحمت کے چھینٹے اس طرح پڑے ، تمام آگ بجھ کر سرد ہوگئی ، دیکھنے اور غور کرنے کی یہ بات نہیں کہ اس تبدیلی وتحول کے اسباب پر بحث کی جائے ، بلکہ اہل دل کے لئے غور وتفحص کی بات یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے دل میں کس درجہ محکم اور مضبوط ایمان تھا ، اور انہیں کتنا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ تھا ، آگ میں کود پڑنا اہل معرفت کے لئے اس تلاش اور کرید سے کہیں اہم ہے ، کہ اس طبعی انقلاب کے اسباب وعلل دریافت کئے جائیں ، پھر یہ بھی بصیرت افروز شے ہے کہ اللہ تعالیٰ گو اپنے بندوں کو کڑی آزمائشوں میں ڈالتا ہے ، مگر رسوا نہیں کرتا ، مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایمان کا امتحان لیا جائے ، اور یہ معلوم کیا جائے ، کہ بندے کے دل میں مولا کے متعلق کس درجہ اعتماد ہے ۔ الأنبياء
70 الأنبياء
71 الأنبياء
72 الأنبياء
73 (ف ١) اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ جو لوگ اس سے محبت رکھتے ہیں اور اس کے لئے دنیا کی تمام لذتوں اور رشتوں کو قربان کردیتے ہیں ، وہ ان کو دنیا میں خیروبرکت کا بڑا حصہ دار بنا دیتا ہے ، اور ان کو عام دنیا داروں سے کسی طرح کم حیثیت میں نہیں رہنے دیتا ، چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ تیاگ دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو مال ودولت سے نوازا اور اولاد صالح عطا کی ، جو سب کے سب منصب قیادت وامامت پر فائز ہوئے اور اس سے بڑھ کر اور کیا مسرت ہوسکتی ہے ، کہ ایک شخص اپنی اولاد کو اپنے سامنے کامیاب وکامران دیکھے اسی طرح ارشاد فرمایا کہ ہم نے لوط کو جو ابراہیم (علیہ السلام) کے رشتہ دار تھے ، نجات دی ، اور ایک نہایت بدبخت اور رسوا قوم سے مخلصی عنایت کی ، پھر نوح (علیہ السلام) نے جب پکارا اور قوم کی بدکرداری کے خلاف احتجاج کیا ، تو ہم نے اس کی بھی سنی ، اور تمام قوم کو جو نافرمان اور سرکش تھی فنا کے گھاٹ اتار دیا ، غرض یہ ہے کہ ہم اپنے بندوں کی دعاؤں کو ہر وقت سنتے ہیں اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں ۔ حل لغات : نافلۃ : عطیہ خاصہ ۔ وہ شخص جو بہت زیادہ سخی ہو ، اسے نوفل کہتے ہیں ۔ ائمۃ : امام کے جمع ہے ، بمعنے پیشوا ۔ حکما : پیغمبرانہ فہم و ادراک ۔ الأنبياء
74 الأنبياء
75 الأنبياء
76 الأنبياء
77 الأنبياء
78 اللہ کی اپنے بندوں پر بو قلمون رحمتیں : (ف ١) ان سب آیات میں اللہ تعالیٰ کی بوقلمون نعمتوں کا ذکر ہے کہ کس طرح کسی کسی بندے کو نوازا گیا ، داؤد وسلیمان (علیہ السلام) کے متعلق ارشاد ہے ، کہ دونوں کو ہم نے پیغمبرانہ فراست عطا کر رکھی تھی ، مگر وقت نظر میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اجتہاد بڑھ گیا ، قصہ یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس دو فریق آئے ایک کا باغ تھا ، اور دوسرے کی بکریاں باغ والے نے کہا ، رات کو اس کی بکریوں نے میرے باغ کا ستیاناس کردیا ہے ، اس سے ہر جانہ دلوائیے ، حضرت داؤد (علیہ السلام) نے فرمایا ، تم اس کی بکریاں چھین لو ، یہ اس غفلت وبے پرواہی کی سزا ہے جس کی وجہ سے تمہارا باغ غارت ہوگیا ، حضرت سلیمان (علیہ السلام) تک یہ معاملہ پہنچا تو انہوں نے فرمایا میرا فیصلہ اس سے مختلف ہے ، حضرت داؤد (علیہ السلام) سے پوچھا ، وہ کیا ہے آپ نے فرمایا کہ بکریوں سے اس وقت تک استفادہ کیا جائے جب تک کہ نقصان کی تلافی نہ ہو ، اور اس کے بعد بکریاں واپس کردی جائیں ، کیونکہ بکریوں کا بطور تملیک مدعی کے سپرد کردینا ، قرین عدل نہیں ، حضرت داؤد (علیہ السلام) بیٹے کی فراست پر خوش ہوئے اور اس تجویز سے اتفاق کیا ؟ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امر مجتہد فیہ میں اختلاف جائز ہے بلکہ بعض حالات میں ضروی ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی دانشمندی اور دور فہمی کے بیشمار قصے کتابوں میں مذکور ہیں اور انکی حکیمانہ امثال تو مشہور ہیں ، یہ اللہ تعالیٰ کا خاص انعام تھا جس سے وہ ممتاز ومفتخر تھے ، حضرت داؤد (علیہ السلام) بھی اللہ کے بےشمار انعامات سے سرفراز تھے ، ان کہ سامان حرب کی تیاری میں کمال حاصل تھا ، زرہیں ، یعنی آہنی قمیص سب سے پہلے انہوں نے ایجاد کیں ، پہاڑوں میں راستے انہوں نے بنائے اور پرندوں کو جنگی خدمات کے لئے استعمال کیا ، حل لغات : الکرب : بےچینی ۔ الحرث : کھیت اور باغ دونوں کے لئے اس کا استعمال قرآن میں ہوا ہے ۔ نفشت : نفش سے ہے ، رات کے وقت مال ڈھور کا کھیت میں جا پڑنا ۔ الأنبياء
79 الأنبياء
80 الأنبياء
81 (ف ١) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ہوا مستخر کی ، اس کے معنی یہ ہیں کہ سلیمان (علیہ السلام) فضا اور جو سے (محدود مقام تک) حسب منشاء استفادہ کرلیتے تھے ، اور ان کو اس پر ضبط اور کنٹرول حاصل تھا ، بعض روایات میں آتا ہے کہ ان کے پاس ایک تخت تھا ، جو ہوا میں اڑتا تھا ، اور شام سے یمن اور یمن سے شام تک اس کی پرواز ہوتی تھی ، تو کیا یہ تسخیر طیاروں کی صورت میں تھی ؟ واضح طور پر اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا ، مگر متبادر معنے جو سمجھ میں آتے ہیں ، وہ یہی ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس طیارہ کی قسم کی کوئی چیز تھی ، اور وہ ان کی اپنی ایجاد تھی جس کی وجہ سے وہ ہواؤں میں اڑتے پھرتے تھے ۔ بات یہ ہے کہ گو آج کل کا زمانہ ایجادات واختراعات کے باب میں بہت آگے نکل گیا ہے ، مگر یہ ضروری نہیں کہ حضرت انسان سے پہلی دفعہ اس حد تک ترقی کی ہو ، چنانچہ اثری تحقیقات سے تو معلوم ہوتا ہے کہ بارہا اس محفل دنیا کو آراستہ کیا گیا ہے ، اور عقل وحکمت کی کارفرمائیوں سے حیرت زا اور عجیب تر بنایا گیا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ درمیان میں حوادث ارضی وسماوی نے ان ترقی کے نشانوں کو مٹا دیا ہو ۔ اس لئے اگر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے عہد میں طیاروں کی قسم کوئی چیز پائی جائے تو اس میں کوئی تاریخی استحالہ لازم نہیں آتا ۔ الأنبياء
82 الأنبياء
83 صبرایوبی : (ف ٢) صبر ایوب مشہور ہے ، بات یہ ہے کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) صبر وعبادت کا پیکر تھے اور ان کی نبوت کا موضوع یہ تھا کہ لوگوں کے دلوں میں اللہ کے متعلق عقیدت ونیاز مندی کے جذبات پیدا کریں ، اور انتہائی مصائب میں بھی ان کو اللہ کی چوکھٹ پرجھکانے کی کوشش کریں ، اور انہیں بتائیں کہ ہر حالت میں صرف اللہ کو اپنا کارساز اور چارہ گر سمجھنا چاہئے اس پیغام صبر وتوکل کے لئے ضرورت تھی کہ وہ خود عملی طور پر لوگوں کے لئے نمونہ اور اسوہ ثابت ہوں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سخت آزمائشوں میں ڈالا یہاں تک کہ اپنے عزیز اقربا بھی ان کا ان حالات میں ساتھ نہ دے سکے مگر باوجود اس ابتلاء عظیم کے صبر وتوکل کا دامن ان کے ہاتھ سے نہ چھوٹا ، اور وہ برابر اللہ کی عبادت میں مصروف رہے بلکہ ہر مصیبت اور ہر دکھ کے وقت ان کے جذبہ نیاز مندی میں اضافہ ہوتا رہا ، اور انہوں نے بہر حال اپنے کو اللہ کا شکر گزار اور نیاز مند بندہ ثابت کیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انکی سن لی اور تمام تکلیفوں کو راحت ومسرت سے بدل دیا اقربا اور عزیز جو مصیبت کے وقت الگ ہوگئے تھے پھر واپس آگئے ، اور کڑی آزامائش کا سلسلہ ختم کردیا گیا گویا حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ عبادت کا اعلی ترین مقام عبادت وشکر اور صبر وتوکل ہے ۔ حل لغات : یغوصون : غوص سے ہے بمعنی غوطہ زنی ۔ الأنبياء
84 الأنبياء
85 (ف ١) ذوالکفل کے متعلق اختلاف ہے کہ ہو زمرہ انبیاء میں سے تھے یا صلحاء امت میں ، قرآن نے انہیں انبیاء علیہم السلام کی صف میں کھڑا کیا ہے جمہور علماء کا مذہب بھی یہی ہے کہ یہ پیغمبر تھے مگر یہ تحقیق نہیں کہ یہ کس عصر کے پیغمبر تھے ۔ ذوالنون حضرت یونس (علیہ السلام) کا لقب ہے ۔ غرض یہ ہے کہ یہ تمام انبیاء صابر تھے ، صالح تھے اللہ پر بھروسہ اور توکل رکھنے والے تھے ، اور ان کے دلوں میں اللہ کی خشیت اور اس کا خوف تھا ۔ ان سب کی خصوصیت جو قرآن حکیم نے بتائی ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگ ہر ابتلاء کے وقت بےچین ہو کر صرف اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے ، صرف اسی کا نام تھا جو ان کے لئے وجہ طمانیت ہوسکتا تھا ، اور صرف اس کی ذات تھی جس پر ان کو ناز اور بھروسا تھا ، اس لئے اللہ بھی ہر مشکل اور مصیبت میں ان کا خیال رکھتا تھا ، اور ان کی دعاؤں کو قبول کرتا تھا ، کیونکہ قاعدہ یہی ہے کہ جو شخص صرف رضاء الہی کے لئے ساری دنیا سے الگ ہوجائے ، اور جس کے تمام تعلقات منقطع ہوجائیں محض اس بنا پر کہ مادیت پرست مخلوق اس کی خدا پرستی سے بیزار اور متنفر ہے ، تو اس وقت خدا کی ذات آپ اس کی ہر طرح پر کفیل ہوجاتی ہیں ۔ حضرت یونس (علیہ السلام) اپنی قوم کے اعمال بد سے سخت نالاں تھے اور چاہتے تھے کہ وہ ان کی اصلاح کریں ، مگر جب ان کی نافرمانیاں حد سے گزر گئیں ، تو وہ اس وقت ناراض اور مایوس ہو کر ان سے جدا ہوگئے تاکہ ان کے شر شے محفوظ رہ سکیں ، لیکن اللہ تعالیٰ کو منظور یہ تھا کہ وہ چندے ان میں قیام کریں ، اور ان کو پاکبازی اور توحید کی تلقین کریں ۔ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتے تھے کہ یونس (علیہ السلام) اس درجہ جلد ہجرت پرآمادہ ہوجائیں ، اور قوم کو بدستور گمراہی اور ضلالت میں چھوڑ جائیں ، اس لئے عین اس وقت جب کہ وہ کشتی میں سوار ہو کر ان لوگوں سے دور نکل جانا چاہتے تھے ، اللہ نے انہیں بڑی آزمائش میں ڈال دیا ، اور اس وقت آزاد کیا ، جب انہوں نے اپنی لغزش کو محسوس کیا اور خلوص قلب سے دعاء مانگی ۔ حل لغات : مغاضبا : ناراض ، ناخوش ، اور بیزار ۔ الأنبياء
86 الأنبياء
87 الأنبياء
88 الأنبياء
89 الأنبياء
90 الأنبياء
91 مسیح (علیہ السلام) اللہ کی نشانی ہیں : (ف ١) حضرت مسیح (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنی روح کی نفخ سے تعبیر کیا ہے ، کیونکہ ان کو خرق عادات کے طور پر پیدا کیا گیا ، اور اس لئے بھی کہ ان کا درجہ ومقام بہت بلند تھا ، یہودیوں کو یہ بتلانا مقصود ہے ، کہ تمہارے ظنون فاسدہ بےدینی اور الحاد پرمبنی ہیں ، ورنہ مریم عفیفہ اور مسیح ناصری اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک نشانی ہیں ۔ الأنبياء
92 (ف ٢) اللہ کا سچا اور اصلی دین اسلام ہے ، جس میں اس کی توحید وتفرید کا اعلان ہے جس میں اس ذات پاک کی ربوبیت کی تلقین ہے ، جو تمام انسانوں کو ایک وحدت میں منسلک کرنا چاہتا ہے ، اور جس کی غرض وغایت یہ ہے کہ نوع انسانی کے دماغی افق کو بلند اور تابناک بنا دیا جائے ، اس کے بعد جتنے فرقے اور گروہ ہیں ، اور جس قدر مذہبی ودینی جماعتیں ہیں سب گمراہی اور ضلالت میں ہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ تمہاری قوم ہی ایک سچی اور اطاعت شعار قوم ہے ، اور یہ لوگ جنہوں نے اپنے وجود کو مختلف گروہوں اور جماعتوں میں بانٹ لیا ہے مجرم ہیں ، یہ سب کے سب ہمارے پاس آئیں گے ، اس وقت ہم انہیں بتائیں گے کہ کون راہ راست پر گامزن تھا ، اور کون گمراہ ۔ الأنبياء
93 الأنبياء
94 (ف ١) مقصود یہ ہے کہ کوئی شخص کسی فرقے اور کسی عقیدے کے ساتھ تعلق رکھے ، اگر وہ اسلام کے حقائق تسلیم کرلے اور اپنی زندگی کو سنوار لے ، تو وہ نجات کا مستحق ہے ، اور اس کی مساعی عنداللہ مشکور ہیں ۔ الأنبياء
95 (ف ٢) یعنی جن لوگوں کا فسق وفجور انتہا تک پہنچ جاتا ہے ، عذاب الہی کے مستحق ہوتے ہیں ، وہ عذاب میں مبتلا ہونے کے بعد رجوع کی صلاحیت نہیں رکھتے ، ان میں پھر دنیا میں لوٹ جانے کی قوت نہیں رہتی ، گو وہ یہ چاہتے ہیں کہ انہیں ایک موقعہ اور دیا جائے ، مگر اللہ کا ہی فیصلہ ہے کہ عذاب کے بعد ان کے حق میں کوئی رعایت ملحوظ نہ رکھی جائے کیونکہ عذاب آنا ہی اس وقت ہے جبکہ انسانی گناہ حدود اصلاح ورجوع سے تجاوز کر جائیں ۔ الأنبياء
96 یاجوج وماجوج : (ف ٣) یاجوج وماجوج کی تفصیلات گذشتہ صفحات میں گزر چکی ہیں ، مختصر یوں سمجھ لیجئے کہ قوموں کی بدعقیدگی اور مظالم کا ایک طوفان اٹھے گا ، جو نظام عالم کو تہ وبالا کر دے گا اور یہ اس وقت ہوگا جب کہ مذہب کی وقت دلوں سے اٹھ جائے گی ، دینداری کے خلاف جنگ کی جائے ، اور نظام کائنات کی بنیادیں محض ہوس وجوع پر رکھی جائیں گی ، جب انسانوں میں شریر اور بدباطن لوگ رہ جائیں گے ، اور صرف مادیت کی حکومت ہوگی ۔ ان حالات میں بطور انتقام اللہ تعالیٰ ایک قوم کو تباہی وغارت گری کے لئے انسانوں پر مسلط کردیں گے ، تاکہ یہ بات ثابت ہو کہ انتہا مادیت کے معنے آخری تباہی کے ہیں ۔ حل لغات : کفران : ضیاع ، فقدان ، اور انکار ۔ حرام : ممنوع ، ناشائستہ وناروا ۔ ینسلون : جدا ہونا ، نکل جانا ۔ الأنبياء
97 الأنبياء
98 الأنبياء
99 الأنبياء
100 الأنبياء
101 اہل جنت کو دوزخ کو اذیتوں کا کھٹکا نہیں : (ف ١) جنت اور دوزخ اللہ تعالیٰ کی رضا اور ناراضگی کے دو مقام ہیں ، جو لوگ مشرک ہیں ، جنہوں نے حق پرستی کے قعر کو چھوڑ کر شرک پرستی کو نشیمن بنایا ہے ، وہ اللہ کی ناراضگی اور ناخوشی کے مہبط ہیں ، اس لئے ان کا مقام بھی وہ ہے جہاں سے غیض وغضب کے شعلے بھڑکتے ہیں ، اور جن کے مقدر میں نیکی ہے ، اور نصیب میں اللہ کی توحید ، وہ رضا الہی کا موجب ہیں ، اور ان کا مقام بھی وہ سرور آفرین ہے کہ وہاں جہنم کے ہولناک شعلوں کی آواز تک نہیں پہنچے گی ، اور چونکہ دنیا میں انہوں نے ایثار وقربانی سے کام لیا تھا ، اور محض اللہ کی رضا جوئی کے لئے ان تمام لذتوں اور آسائشوں کو خیر باد کہا تھا ، اس لئے یہاں ان کو ہر قسم کی لذتیں عطا کی جائیں گی ، اور روح وجسم کی تمام مسرتیں ان کے حصہ میں آئیں گی اور وہ دائمی وابدی ہو نگی ، کوئی خوف وگھبراہٹ ان کے نزدیک نہیں آئے گا ، حتی کہ نفخہ ثانیہ کے بعد حساب ومحاسبہ کے ڈر سے بھی وہ بالکل بےخطر ہوں گے ، فرشتے خوشخبریوں کے تحائف لے کر ان کا استقبال کریں گے ، اور ان کو بتائیں گے کہ اللہ کے نزدیک ان کا مقام کس درجہ بلند ہے ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان نجات کے صحیح معنوں میں مستحق ہیں ، اور یہ غلط ہے کہ ہر مسلمان خواہی نہ خواہی جہنم کی اذیتوں کو محسوس کرے گا ، یہاں واضح طور پر بتلا دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے لئے کام نجات مقدرات میں سے ہے اور وہ جہنم کی خوفناک اذیتوں سے قطعی محفوظ رہیں گے ۔ الأنبياء
102 الأنبياء
103 الأنبياء
104 (ف ٢) یعنی یہ تمام واقعات قیامت آنے کے بعد رونما ہوں گے ، اس وقت آسمان کی وسعتوں کو یوں سمیٹ لیا جائے گا ، جس طرح کاغذوں کے طو مار کو لپیٹ لیا جاتا ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے اتنے بڑے آسمان کو چشم زدن میں سمیٹ لینا اتنا ہی سہل ہے ، جتنا کہ خطوط کے کاغذات کو لپیٹ لینا لکھنے والے کے لئے سہل ہوتا ہے یعنی اللہ کے لئے یہ چیز جسے تم مشکل اور محال قرار دے رہے ہو بالکل آسان ہے ۔ حل لغات : زفیر : سانس کو پہلے الٹا کھینچ کر پھر بلند کرنا ، اسی لئے گدھے کی پہلی آواز کو زفیر اور دوسری کو شہیق کہتے ہیں اور سختی ومصبیت کو بھی زفر کہتے ہیں ، حسیسھا : نرم آواز ۔ السجل : ایک فرشتے کا نام ہے یا کاغذ کا طومار ، یا قبالہ ، یا چک یا مہر ۔ الأنبياء
105 زمین کے وارث کون ہیں ؟ : (ف ١) غرض یہ ہے کہ صالحین کے لئے کامیابی و کامرانی قطعی ویقینی ہے پہلی آسمانی کتابوں اور صحیفوں میں مذکور ہے کہ صلحاء زمین کے وارث ہوں گے ، اور تمام مادی وروحانی سربلندیاں ان کو عطا کی جائیں گی ، مگر صلحاء سے کون لوگ مراد ہیں ؟ کیا وہ لوگ جو امور حکمرانی سے محض ناواقف ہیں ، اور صرف سجادوتسبیح کو ، ” صلاح وتقوی “ کا معیار گردانتے ہیں ، یا وہ لوگ جو ان شروط دین کے ساتھ اس کردار کے بھی حامل ہیں ، جو زندہ قوموں کا کردار ہے اور ان تمام اوصاف سے متصف ہیں جن کا ہونا حکمران قوم کے لئے ضروری ہے قرآن کہتا ہے کہ اسلام نے زندگی کے تمام شعبوں کے لئے الگ الگ قواعد بتا دیئے ہیں ، چنانچہ اخلاق کے لئے جدا ضابطے ہیں ، اور معاشرت کے لئے علیحدہ دستور ہیں ، جن پر گل پیرا ہو کر انسان اخلاق ومعاشرت کی تمام برکتوں کو حاصل کرسکتا ہے ، اسی طرح سیاسی زندگی اور سیاسی برتری کے لئے بھی تفصیلات بیان کی ہیں اب جو قوت بھی ان تفصیلات کو عملا تسلیم کرتی ہے وہ اسی حد تک ان برکات سے ضرور استفادہ کرے گی ، اور دنیا میں سربلند ہو کر رہے گی ، کیونکہ یہ علو و برتری اسلامی پروگرام پر فی الجملہ عمل کا نتیجہ ہے ۔ الأنبياء
106 الأنبياء
107 (ف ٢) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فیض عام ہے ، آپ کسی خاص قوم اور خاص زمانہ کے لئے نہیں ہیں بلکہ آپ کی نبوت تمام کائنات انسان کیلئے ہے ، آپ کی رحمتیں وسیع ، اور آپ کا پروگرام ہمہ گیر ہے ، اور آپ کی تعلیم یہ ہے کہ دنیا کے ہر گوشت میں ، ہر وقت اور ہر حالت میں صرف اللہ کے تعلقات عبودیت کو استوار کیا جائے ۔ الأنبياء
108 الأنبياء
109 (ف ٣) ان آیات پر سورۃ انبیاء کا اختتام ہے ، اور ان میں صاف طور پر کہہ دیا گیا ہے ، کہ اسلام کی تعلیم بالضرور توحید ہے یعنی باطل اور جھوٹ کے خلاف کھلی جنگ ، حق اور سرکشی کے درمیان ابدی منافرت اور ظلم واستبداد کے مقابلہ میں قوت وغلبہ کا دائمی مطالبہ فرماتے ہیں تم توحید کے مسلک کو قبول کرلو یا انکار کر دو ، ہم بہرحال ایک خدا کی پرستش کریں گے ، اور اسی خدا کی قوتوں سے ڈریں گے ، تمہاری مخالفت اور تمہارے عناد کی قطعا کچھ پروا نہیں کریں گے ۔ ہمارے دلوں میں صرف ایک ذات کی محبت ہے اور صرف اسی ذات کا ڈر ہے ، جو رب السموت والارض ہے ۔ یہ آیات اپنے مفہوم میں مکے والوں کے لئے کھلے اعلان جنگ کی حیثیت رکھتی ہیں ، اس لئے وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں مکہ میں اسلام کی حکمت عملی خوف وہراس کی حکمت عملی تھی ، انہیں ان آیات پر غور کرنا چاہئے کہ کس جرات وجسارت کے ساتھ ان لوگوں کو تباہ کردیا گیا ہے ، اور واضح کردیا گیا ہے کہ تم گو انکار کرو مگر حقیقت وہی ہے جس کا ہم اعتراف کرلیتے ہیں ، اور جسے پھیلانا ہم دین کی خدمت سمجھتے ہیں ۔ حل لغات : المستعان : وہ ذات جس سے استعانت اور مدد چاہیں ۔ زلزلۃ الساعۃ : قیامت کا زلزلہ ۔ تذھل : ذھول سے ہے یعنی بھول جانا ، مقصد یہ ہے کہ مصیبت اور خوف کی زیادتی سے تمام دودھ پلانے والی عورتیں اپنے بچوں کو بھول جائیں گی وہ اپنے سامنے اپنے بچوں کو تڑپتے ہوئے دیکھیں گی ، مگر خوف وہراس کے غلبہ کی وجہ سے ان کی جانب متوجہ نہ ہو سکیں گی ، الأنبياء
110 الأنبياء
111 الأنبياء
112 الأنبياء
0 الحج
1 الحج
2 قرآن کی حیرت انگیز بلاغت : (ف ١) قرآن حکیم میں یہ عجیب بلاغت ہے کہ وہ جس مضمون کو بیان کرتا ہے الفاظ میں اس کی تصویر کھینچ دیتا ہے ، یا یوں سمجھ لیجئے کہ الفاظ ایسے موزون اور مناسب استعمال کرتا ہے کہ الفاظ کی صورت ہیئت بڑھ بڑھ کر مضمون کی غمازی کرنے لگتی ہے ، اور بسا اوقات وہ لوگ بھی جو عربی نہیں جانتے ، الفاظ کی ترکیب وساخت سے مضمون کی نوعیت سمجھ جاتے ہیں ۔ غور فرمائیے ان آیات میں قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر ہے ، اور پیرائیہ بیان ایسا ہے یا الفاظ اس نوع کے ہیں کہ ان کو پڑھتے وقت خواہ مخواہ دل مارے خوف کے بےچین ہوجاتا ہے ، اور طبیعت میں بےکلی سی محسوس ہونے لگتی ہے گویا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ واقعی قیامت آپہنچی ، یا چند لمحوں میں آیا چاہتی ہے ، حدیث میں آیا ہے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ آیتیں صحابہ کو سنائیں تو وہ اس درجہ متاثر ہوئے کہ رات بھر روتے رہے ، اور دوسرے دن تک کچھ نہ کھایا نہ پیا اسی طرح دن بھر قیامت کے خوف سے لرزاں رہے ۔ الحج
3 (ف ٢) یعنی بعض لوگ ایسے بدبخت اور محروم سعادت ہیں ، کہ وہ خدا کی وسعتوں اور قدرتوں سے پوری طرح آگاہ نہ ہونے کے باوجود انکار کرتے ہیں ، اور یہ تسلیم نہیں کرتے کہ قیامت آئے گی ، اور دنیا کو فنا کرکے دوبارہ زندہ کیا جائے گا ۔ حل لغات : علقۃ : عام لوگوں نے اس کا ترجمہ پارہ خون بستہ یعنی جمے ہوئے خون کا ٹکڑا کیا ہے ، مگر حقیقتا اس سے مراد جرثومہ حیات ہے ۔ الحج
4 الحج
5 الحج
6 حشرونشر ایک طبعی حقیقت ہے : (ف ١) قرآن حکیم نے حشر ونشر کے عقیدے کو بڑے زور سے بیان کیا ہے کیونکہ یہی ایک عقیدہ ایسا ہے جو دلوں میں ذمہ داری کے احساسات کو بیدار کرسکتا ہے ، اور ہر شخص میں روح عمل پھونک سکتا ہے کیونکہ اس عقیدہ کے معنے یہ ہیں کہ ہر شخص مکافات عمل کے اصول کو تسلیم کرے ، اور مانے کہ اعمال ضائع نہیں ہوتے ، اور حق وباطل کے ثمرات اور نتائج میں واضح اور بین فرق ہے ۔ جو شخص آخرت پر ایمان نہیں رکھتا ، اور حشر ونشر کے کوائف کو نہیں مانتا ، وہ ذمہ داری کے قبول کرنے سے انکار کرتا ہے ، اس کے نزدیک نیکی اور بھلائی دو مہمل لفظ ہیں ، جو بالکل شرمندہ معنی نہیں ، وہ ہر عمل کی بنیاد اپنی خواہشات پر رکھتا ہے ، اور سمجھتا ہے کہ مجھے دنیا والوں سے اور ان کی بھلائی برائی سے کوئی تعلق نہیں ، یہ انکار کا عقیدہ حرص وآز کی آگ کو ہوا دیتا ہے اور انتہا درجہ کی خود غرضی پیدا کردیتا ہے ، آخرت کے انکار کے بعد دنیا میں کسی اعلی تمدن کی امید نہیں کی جا سکتی کیونکہ قدرتا یہ انکار انفرادیت کا حامی اور شخصی اور ذاتی اغراض کا پیدا کرنے والا ہے ۔ مکے والے مجوسیوں کے زیر اثر حشر ونشر پر ایمان نہیں رکھتے تھے انہیں اس عقیدے کی افادیت کا قطعا علم نہ تھا ، اور نہ انہیں یہ معلوم تھا کہ یہ ایک طبعی حقیقت ہے اصول ارتقاء اور خود زندگی کا مفہوم اس بات کا مقتضی ہے ، کہ یہ زندگی صرف موت تک محدود نہ ہو بلکہ آگے بڑھے ، اور کمال تک پہنچے ، ان کو اس میں بڑا تعجب معلوم ہوتا تھا کہ موت کے بعد جب روح کا تعلق بدن سے منقطع ہوجاتا ہے تو یہ کیونکر ممکن ہے ، کہ پھر یہ تعلق قائم ہوجائے ، اور دوبارہ انسان زندگی کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوجائے ، ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حکیمانہ اصول کی جانب ان کی توجہ کو مبذول فرمایا ہے ، ارشاد ہے کہ تمہیں قیامت اور حشر ونشر کے متعلق تو شبہ ہے مگر یہ نہیں جانتے کہ تمہاری زندگی بجائے خود اس سے زیادہ حیرت انگیز انقلاب کی حامل ہے تم روزانہ اس تبدیل کو دیکھتے اور اس انقلاب کو محسوس کرتے ہو ، مگر تمہیں کبھی یہ شبہ نہیں ہوتا کہ یہ کیونکر ممکن ہے ۔ تم دیکھتے ہو ، تمہاری زندگی کا دارو مدار مٹی اور پانی پر ہے ۔ سبزیاں اور پھل کھاتے ہو ، مگر تم نے کبھی غور کیا ہے ، یہ سبزیاں اور پھل کیا ہیں ؟ صرف مٹی ، پھر یہ غذا ایک قطرہ آپ کی شکل میں تبدیل ہوجاتی ہے کیا یہ تمہاری عقل میں ممکن ہے ؟ پھر یہی قطرہ آب جرثومہ حیات کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ چند منزلوں سے گزرنے کے بعد چیختا چلاتا بچہ پیدا ہوجاتا ہے ، کیا یہ سب باتیں آپ کی سمجھ میں آتی ہیں ؟ پھر یہ دو بالشت کا بچہ کڑیل جوان ہوجاتا ہے ، اور جوانی کے نشہ خدا کا بھی انکار کرنے لگتا ہے ، پھر جوانی کی کڑی کمان جھک جاتی ہے اور بڑھاپا پھٹ پڑتا ہے ، بتائیے کیا یہ انقلابات ایسے ہیں کہ ان کو کما حقہ سمجھ سکیں ؟ یاد رکھو ، حشر ونشر بھی اسی طرح کا ایک طبعی انقلاب ہے جو اسی طرح ممکن ہے جس طرح یہ روز مرہ کے واقعات پھر تم یہ بھی دیکھتے ہو کہ ایک وقت زمین خشک ہوتی ہے ، اور روئیدگی اور سبزے سے قطعی محروم مگر بارش کے چند قطرات گرتے ہیں اور یہ مردہ زمین سرسبز وشاداب ہوجاتی ہے ، کیا وہ خدا جو مردہ زمین کو زندگی بخش سکتا ہے وہ تمہاری موت کو زندگی سے نہیں بدل سکتا ؟ حل لغات : اشد کم : پوری جوانی ۔ الحج
7 الحج
8 معرفت کے تین درجے : (ف ١) معرفت کے تین درجے ہیں ، استقلال ، وجدان اور آسمانی کتاب ، یعنی یا تو انسان قوت غور وفکر سے حقائق تک پہنچ سکتا ہے ، یا پھر وجدان صحیح راہ نمائی کرتا ہے ، اور یا الہامی کتاب سے حقیقت کا پتہ چلتا ہے ، پہلا درجہ یقینی اور قطعی نہیں ۔ مگر اکثر حالات میں قابل اعتماد ہوتا ہے ، دوسرا درجہ اکثر غلط ہوتا ہے اور کم تر صحیح ، مگر جہاں صحیح ہوتا ہے وہاں یقین کا پہلو غالب ہوتا ہے ، بہت کم لوگ ہیں ، جنہیں فطرت سے وجدان صحیح سے حصہ ملا ہو ، تیسرا درجہ بالکل قطعی اور حتمی ہے ۔ قرآن حکیم کہتا ہے جو لوگ اللہ کی صفات وقدرت کے متعلق شکوک وشبہات کا ذکر کرتے ہیں ان تینوں درجوں سے محروم ہیں ، نہ تو یہ عقل واستدلال کی راہ نمائی قبول کرتے ہیں اور اور وجدان صحیح سے بہرہ ور ہیں پھر بےدینی اور الحاد کا یہ عالم ہے کہ کوئی صحیفہ آسمانی ان کی نگاہوں میں جچتا نہیں ، اب اگر حق کی پہچان ہو تو کیونکر ہو ، اور معرفت کس طرح حاصل ہو ، یہ واضح رہے کہ اسلام غور وفکر کا مخالف نہیں ، بلکہ نہایت موافق اور زبردست حامی ہے ، یقینا وہ چاہتا ہے کہ غور و فکر کی راہیں ایسی محفوظ اور درست ہوں کہ منزل مقصود تک پہنچنے میں آسانی ہو ، کیونکہ بلا تدبر وغور اگر اسی کا احتمال اور ضلالت کا خطرہ ہے ۔ حل لغات : ثانی : موڑنے والا ، پھیرنے والا ، عطفہ : جانب ۔ حرف : کنارہ ۔ الحج
9 الحج
10 الحج
11 الحج
12 (ف ١) مشرکین کا ایک طبقہ وہ ہوتا ہے جنہیں کچھ تو اللہ سے تعلق ہوتا ہے اور کچھ اپنے بتوں اور دیوتاؤں سے ، کبھی وہ خانقاہ ہیں سر بسجود نظر آتے ہیں ، اور کبھی صحن مسجد میں کبھی خدا کے سامنے جھکتے ہیں ، کبھی اپنے دیوتاؤں کی شرن میں ، انہیں اگر خدا کی عبادت پر آمادہ بھی کیا جائے ، تو وہ صرف آزمائش وامتحان کی حد تک قائم رہتے ہیں ، یعنی جب تک ان کی سنی گئی اور کام ہوتے رہے ، خدا کو مانتے رہے اور اس کا شکریہ ادا کرتے رہے ، اور جہاں اللہ تعالیٰ نے ذرا امتحان میں ڈال دیا ، جھٹ سے الگ ہوگئے کہ خدا ہماری نہیں سنتا یہ بدبخت نہیں جانتے کہ خدا آزمائشوں اور تجربوں سے بالا ہے ، وہ اگر ہماری آرزوؤں کو سن لیتا ہے اور قبول کرلیتا ہے تو اس کی مہربانی اور نوازش ہے ، اور اگر نہیں قبول کرتا ، تو یہ بےنیازی وسروری ہے شکایت اور گلہ کا کیا موقع ہے ۔ بھلا غور تو فرمائیے کہ جب تک ہم اس پر کامل یقین اور کامل بھروسہ نہیں رکھتے ، کیونکر اس کے یہاں معتمد اور قابل لحاظ قرار پا سکتے ہیں ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی ذہنی پستی کا یہ عالم ہے کہ پکارتے بھی ہیں تو ان چیزوں کو جن کو معبودیت کا درجہ کسی طرح حاصل نہیں اور ان کے نفع ونقصان میں ہرگز کچھ اثر ودخل نہیں رکھتیں ، بلکہ ان کی عبادت کا جو اثر بالواسطہ ہوتا ہے ، وہ سخت مضر ہوتا ہے ، طبیعت مسخ ہوجاتی ہے ، اور دلوں میں توحید کی روشنی پیدا نہیں ہوتی ، خود داری اور خود شناسی کے جوہر مٹ جاتے ہیں ، اور انسان قلب ودماغ کے لحاظ سے بہت حقیر اور ذلیل ہوجاتا ہے ۔ الحج
13 الحج
14 کون خدا تمہیں پسند ہے ؟ (ف ٢) اس سے پہلے مشرکین اور ان کے معبؤدوں کا ذکر تھا ، کہ ان کے معبودان باطل مشکلات اور مصائب میں ان کے کام نہیں آسکتے ، اور انکی کوئی مدد نہیں کرسکتے ، اور نہ اس قابل ہیں ، کہ براہ راست انکو کوئی نقصان پہنچا سکیں ، مگر مومنین کا یہ عالم ہے کہ ان کا معبود برحق دنیا میں ان کی راہ نمائی کرتا ہے ، اور مشکلات ومصائب میں ان کی اعانت کرتا ہے ، پھر جب وہ اس زندگی میں کامیاب وکامران رہ کر دوسری دنیا میں پہنچتے ہیں تو ان کے نیک اعمال اور سچے ارمان کے معارضہ میں جنت میں داخل کرتا ہے اور اپنی نوازش پائے اور اسے مفتخر کرتا ہے ۔ اب کہیے کون تمہیں پسند ہے ؟ زندہ اور قدیر خدا جو صحیح معنوں میں تمہارا ہمدر ہے ۔ حل لغات : عشیر : ساتھی ، ہم صحبت ، دوست ۔ الحج
15 (ف ١) یہ آیت اسی قبیل سے ہے ، جس طرح کہ (آیت) ” فان استطعت ان تبتغی نفقا فی الاوجس او سلما فی السمآء “۔ کی آیت ہے یعنی مقصد یہ ہے کہ جو شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کرتا ہے اور یہ سمجھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یکہ وتنہا چھوڑ دے گا ، اور ان کی بالکل اعانت نہیں کرے گا ، اس کو چاہئے کہ اپنی ہی کر دیکھے ، اللہ کو بہرحال یہی منظور ہے ، کہ وہ حق کو دنیا کے گوشے گوشے تک پھیلا دئے چاہئے مخالفین اور معاندین اس کو برداشت نہ کریں ۔ الحج
16 (ف ٢) قرآن حکیم کی آیات کو اللہ تعالیٰ نے اکثر بینات کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ ان جن تعلیمات کا ذکر ہے ، وہ صحت وثبوت کے لحاظ سے بالکل واضح اور نمایاں ہیں ، اور بالکل حقیقت اور فطرت کے قریب ہیں ، جن میں قطعا الجھاؤ نہیں ، اور باوجود منطقی دلائل کے موافق ہوئے کے اس درجہ آسان ہیں کہ ہر شخص اقتدار استعداد استفادہ کرسکتا ہے ۔ الحج
17 (ف ٣) تمام دینی اختلافات نبھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کو نازل فرمایا ہے ، یہ تمام کتابوں اور تمام قسم کی تعلیمات کے لئے ملک اور معیار ہے ، اس وقت تک جس قدر سچائی اور صداقت صحیفوں اور کتابوں کی شکل میں نازل ہوئی ، وہ سب کی سب اس میں موجود ہے ، اس میں اللہ تعالیٰ نے ہر حقیقت مذہبی کا ذکر فرمایا ہے ، اس لئے جہاں تک اعتقاد وعمل کے اختلافات ہیں ، ان میں بس یہی اللہ کی آخری کتاب حکم فطرت کا صحیفہ ہے ، مگر ان لوگوں کی کج فہمی اور محرومی سے اگر یہ معیار بھی بجائے خود مابہ النزاع کتاب کی شکل اختیار کرلے تو اللہ تعالیٰ نے اس جھگڑے کو چکانے کے لئے قیامت کا دن مقرر فرما دیا ہے ، تاکہ وہاں سب لوگ اپنی گمراہی اور کج فہمی کو محسوس کرسکیں ، آیت کا مقصد یہ بھی ہے کہ حق اور سچائی ایک دائرے میں محدود ہے اور وہ ایک ایسی راہ ہے ، جو ہم کو منزل مقصود تک پہنچا سکتی ہے باقی تمام پگڈنڈیاں غلط اور ٹیڑھی ہیں ۔ حل لغات : السمآء بعض صحابہ اور مفسرین لئے اس کے معنے گھر کی چھت کے کئے ہیں ، الصائبین : صابی کی جمع ہے یہ ایک ستارہ پرست جماعت اسلام سے قبل تھی اور رسم ورواج کے لحاظ سے مجوسیت سے ۔ زیادہ ملتے جلتے تھے ۔ الحج
18 آقا کے ناشکر گزار بندے : (ف ١) یعنی کائنات کی ہر چیز اللہ کے قانون اطاعت کی فرمانبرداری کرتی ہے ، اور کوئی چیز اس کے اقتدار وعلم سے باہر نہیں ، آسمان کی بلندیاں ، اور زمین کی پستیاں سب اس کی سامنے جھکتی ہیں آفتاب اور چاند ، نجوم اور ستارے ، درخت اور بےسمجھ حیوانات تمام کے تمام اس کے حضور میں سربسجود ہیں ، بہت سے سعادتمند انسان بھی ہیں ، جن کو توفیق اطاعت وفرمانبرداری ابتدائی ہوئی ہے ، مگر کثیر تعداد ان لوگوں کی ہے جن کی گردنیں تکبر سے نہیں جھکتیں ارشاد ہے کہ یہ لوگ دراصل ذلیل ہیں ، اپنے آقا کے ناشکر گزار بندے ہیں ، نہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اصل عزت یہ ہے کہ آقا انہیں پسند کرے اور محبوب رکھے ، اور اگر تمرد و بغاوت کی وجہ سے آقا کی نظروں سے گر گئے تو اور کون ہے جو عزت وافتخار کا خلعت بخشے گا ، جو رب العزت کے ہاں حقیر اور قابل نفرت ہے ، اس کی کوئی عزت نہیں ، اور وہ بالکل احترام کا مستحق نہیں ۔ الحج
19 دو مخالف گروہ : (ف ٢) ” ھذن خصمن “۔ سے مراد دو گروہ ہیں ، ایک اہل معصیت دوسرا اہل خیر ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، نتیجے اور ثمرے کے لحاظ سے یہ دونوں گروہ برابر نہیں ، پہلا گروہ اپنے اعمال بد کی وجہ سے جہنم میں جائے گا ، اور سخت ترین اذیتیں اٹھائے گا ، دوسرا گروہ جنت کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوگا ، اور اللہ کا شکر گزار ہوگا ۔ (آیت) ” قطعت لہم ثیاب من نار “۔ سے مراد یہ ہے کہ جہنم کی آگ ان کے چاروں طرف احاطہ کرئے گی ، گویا انہیں آگ کے پیراہن پہنائے گی ، یہ ایک تشبیہ ہے ، جس طرح دوسری جگہ فرمایا ہے ۔ (آیت) ” لھم من جھنم مھاد ومن فوقہم غواش “۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ اگر اس آگ کی ایک چنگاری بھی دنیا کے پہاڑوں پر گرے تو ان کو جلا ڈالے ۔ غرض یہ ہے کہ عذاب شدید مکمل طور پر ہوگا ۔ مجرمین کی کڑی نگرانی کی جائے گی ، فرشتے لوہے کے ہتھوڑوں سے ان کی خبر لیں گے ، اور جب یہ مجرمین اس آتشکدہ غم وحسرت سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو پھر ناکامی ونامرادی کے ساتھ لوٹا دیئے جائیں گے ، جہنم کی یہ کیفیات دل میں سخت خوف اور ہول پیدا کردیتی ہیں ، اور یہ اسی لئے بیان کی گئی ہیں ، کہ منکرین کی قساوت قلبی دور ہو اور وہ عذاب آلہی کے نام سے کانپ اٹھیں ، اس دنیا میں یہ معلوم کرنا ، کہ ان کیفیات کی تفصیل کیا ہے ، ناممکن ہے ، قرآن حکیم نے تو سزا کا صرف وہ پہلو ذکر کیا ہے ، جو مجرموں اور گناہ گاروں کے لئے عبرت اور موعظت کا باعث ہو سکے اور بس اس کے بعد اہل جنت کا ذکر ہے ، کہ یہ لوگ عزت وآرام سے رہیں گے اور تمام لذائذ ، اور ان تکلفات سے دو چار ہوں گے ، جنہیں یہ دین کے لئے دنیا میں چھوڑ چکے تھے ۔ فرمایا ، ان لوگوں نے چونکہ دنیا کی زندگی میں قول طیب کو مان لیا تھا ، اور صراط حمید کی پیروی اختیار کی تھی ، اسی لئے آج نعمتوں اور لذتوں سے نوازے جارہے ہیں ۔ حل لغات : الدوآب : دابۃ کی جمع ہے ، بمعنی حیوان ، چوپایہ ، زمین پر چلنے والا ہر جانور ، خصمن : دو مخالف ، الحمیم : کھولتا ہوا پانی ، یصھر : سہر سے ہے ، جس کے معنے لگنے کے ہیں ۔ اساور : اسوار کی جمع ہے ، بمعنے کلائی میں پہننے کا زیور ، کنگن ۔ الحج
20 الحج
21 الحج
22 الحج
23 الحج
24 الحج
25 بیت اللہ کی حرمت : (ف ١) کفار اور مسلمانوں کے درمیان فیصلہ صادر فرمانے کے بعد اب بیت اللہ کی عزت وحرمت کا بیان ہے ، بتایا ہے کہ یہ لوگ کس درجہ محروم اور قسی القارب ہیں ، کہ مسلمانوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں ، اور بیت اللہ تک جانے نہیں دیتے ، تاکہ مسلمان آزادانہ اپنے مناسک ادا کرسکیں ، بات یہ تھی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سال حدیبیہ میں مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ بیت اللہ کی طرف روانہ ہوئے ، تاکہ وہاں پہنچ کر کھلے بندوں اپنی عقیدت ونیاز مندی کا اظہار کریں ، مگر مکے والوں نے حدیبیہ کے مقام میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روک لیا ، اور آگے نہ بڑھنے دیا ۔ قرآن حکیم نے ان کے اس فعل کی مذمت فرمائی ہے اور کہا ہے کہ بیت اللہ میں سب کے حقوق برابر ہیں ، اس میں یہاں رہنے والوں کی کوئی تخصیص نہیں ۔ الحج
26 الحج
27 حج کا فلسفہ : (ف ٢) بیت اللہ جو آج تمام مسلمانوں کا روحانی مرکز ہے ، اس کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کی ہدایات کے ماتحت تعمیر کیا ، اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا ، کہ اس مقام کو تمام اسلامی دنیا کے لئے روحانی اعتبار سے ملجاوماوی بنا دیا جائے ، چنانچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی کوششیں منظور ہوئیں ، اور وہ آواز جو جنگل میں ابراہیم (علیہ السلام) کے منہ سے نکلی تھی ، ہر خدا پرست کے کانوں تک پہنچی ، اور آج تک اس کا یہ اثر ہے ، کہ دنیا کے اکناف واطراف سے لوگ کھنچے ہوئے اس مرکز رشد وہدایت کی طرف چلے آرہے ہیں ، دیکھئے کتنا خلوص اور کس درجہ روحانیت اور مقبولیت ہے کہ وہ گھر جو صنعت وحرفت کے اعتبار سے بالکل سادہ ہے جو وادی غیر ذی زرع میں بنایا گیا ہے ، آج تمام ملت ابراہیم (علیہ السلام) کی عقیدت وجاذبیت کا مقام ہے ، بات یہ ہے کہ کوئی شخص کہیں ہو ، اگر محبت وعشق کے ساتھ کوئی کام کرے تو اس کا قبول ہونا قطعی اور یقینی ہے ، کیونکہ شہرت اور قبولیت کے لئے صرف اخلاص ہی ایک ضروری چیز ہے ، جس کو شرط واساس قرار دیا جا سکتا ہے ۔ باقی اسباب وذرائع خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں ، (آیت) ” لیشھدوا منافع “۔ کہہ کر یہ اشارہ کیا ہے ، کہ حج صرف عبادت ہی نہیں ، بلکہ بہت سے ملی وانفرادی فوائد اس سے وابستہ ہیں ، اگر مسلمان حج کے فوائد سے کما حقہ استفادہ کریں تو حقیقت یہ ہے کہ کبھی پست اور ذلیل نہ ہوں کیونکہ تجارتی اور اقتصادی لحاظ سے حج میں بےشمار منافع ہیں ۔ پھر یہ دیکھئے کہ حج کے لئے سب طرف کے لوگ آتے ہیں ، اور اس طرح موقعہ ملتا ہے ، کہ تمام ملکوں اور قوموں میں ایک ثقافتی اتحاد وتعاون پیدا ہو ، اور سیاسی طور پر ایک دوسرے کی مشکلات پر غور کریں ، اتنے بڑے موقع سے فائدہ نہ اٹھانا بہت بڑی محرومی ہے ۔ حل لغات : العاکف : مقیم ۔ الباد : مسافر ، باہر سے آنے والا ، بوانا : جگہ دی ، جگہ بتلا دی ، یہاں جگہ مقرر کرنے سے ہے ، ضامر : دبلی پتلی اونٹنی جو بہت تیز رفتار ہوتی ہے ۔ ، ایام معلومت : ایام قربانی ۔ حرمت : قابل عزت اور ادب کی چیزیں شعائر واحکام : الحج
28 الحج
29 الحج
30 الحج
31 توحید سربلندی ہے ! : (ف ١) ان آیات میں پہلے تو بیان فرمایا ہے کہ قابل احترام احکام کو عزت تسلیم کی قطروں سے دیکھنا اللہ کے نزدیک بہتر ہے اور اس کے بعد مسائل حج کی طرف رجوع فرمایا ہے ۔ شبہ یہ پیدا ہوتا تھا ، کہ جب احرام کی حالت میں شکار کھیلنا درست نہیں ، تو شاید عام چارپائے بھی حرام ہوں ، اس شبہ کی جواب میں فرمایا کہ چارپائے تمہارے لئے حلال ہیں اور احرام ان کی حلت میں خلل انداز نہیں ہوتا ۔ اس کے بعد ارشاد ہے کہ جب تم اللہ کے احکام کو عزت واحترام کی نگاہوں سے دیکھتے ہو ، تو پھر تمہارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ بت پرستی کی نجات سے بچو ، اور جھوٹ سے پرہیز کرو ، اور خدا کی توحید کی سلسلہ میں عزیمت واستقلال کے ساتھ ثابت قدم رہو ۔ کیونکہ توحید فطرت ہے ، توحید سربلندی واعزاز ہے ، اور توحید رفعت وعلو ہے ، وہ لوگ جو توحید کو چھوڑ کر شرک اختیار کرلیتے ہیں ، عقل اور عمل کے لحاظ سے گویا آسمان رفعت سے قعر مذلت کی طرف نزول کرتے ہیں ، جس طرح بلندی سے گر کر انسان محفوظ نہیں رہتا ہے ، اسی طرح مشرک بھی قوت وحیات کی تمام استعدادوں کو کھو دیتا ہے ، غور فرمائیے کہ یہ کس قدر صحیح حقیقت ہے کیونکہ شرک اور بت پرستی کے معنے یہ ہیں ، کہ مشرک اور بت پرست زیور انسانیت سے عاری ہیں ، انہوں نے عزت وخود داری کے تمام پاکیزہ جذبات کو اصنام کے بھینٹ چڑھا دیا ہے ، اس کے بعد شعائر اللہ کی تعظیم کا ذکر ہے ، فرمایا ہے کہ اس سے دلوں میں تقوی اور پرہیزگاری کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا اظہار کئی صورتوں میں ہوتا ہے ، اور ان میں ایک صورت شعائر کی بھی ہے ، شعائر الہیہ کی تعظیم سے دلوں میں ایک خاص قسم کی فرحت اور روحانی لذت محسوس ہوتی ہے ۔ (آیت) ” لکم فیھا منافع “۔ میں فیھا کی ضمیر ھدی یا قربانی کی طرف راجع ہے ، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آیت ماسبق میں شعائر سے مراد قربانی ہی ہے ۔ اس کے بعد اس حقیقت کا اظہار فرمایا ہے کہ وقتا فوقتا ہم نے ہر قوم کے لئے ایک طریق عبادت وقربانی مقرر کیا ہے ، جس کی پروی ان کے لئے ضروری تھی اور سب کا مقصد یہ ہے کہ لوگ خدا پرستی کے جذبات دل میں پیدا کریں ، اور صرف ایک معبود حقیقی کے آگے جھکیں ۔ خدا پرستی اور خدا دوستی کے مختلف طریقے ہیں ، محض اس لئے مخالفین اسلام کو اسلام سے برگشتہ نہ ہوجانا چاہئے کہ ان کا طریق نیاز مندی دوسروں سے مختلف ہے ، بلکہ یہ غور کرنا چاہئے کہ جو کچھ پیش کیا جارہا ہے ، وہ کہاں تک قابل عمل ہے اور کہاں تک نتیجہ خیز ۔ حل لغات : الرجس : نجاست ، پلیدی ، حنفائ: حنیف کی جمع ہے بمعنی موحد ۔ الحج
32 الحج
33 الحج
34 الحج
35 الحج
36 (ف ١) شعائر شعیرہ کی جمع ہے ، جس کے معنی ان چیزوں کے ہیں جہیز نشان ہو ، عبادت اور قربانی بمعنی چونکہ خدا پرستی اور خدا دوستی کی نشانیاں ہیں ، اس لئے شعائر سے تعبیر کیا ہے ۔ بعض کوتاہ فہم لوگوں نے قربانی کو عہد وحشت وجاہلیت کی یادگار قرار دیا ہے ، اور کہا ہے کہ اس کی بنیادیں دیوتاؤں سے خوف دہر اس کے تخیل پر قائم ہیں ، یہ محض غلط ہے ۔ اصل میں مذہب ان رسوم کو باقی رکھنے کے حق میں ہوتا ہے جس سے روحانی اور ملی فوائد حاصل ہو سکتے ہوں ، قربانی قدیم قوموں میں بھی رائج تھی ، اور اس کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جائے اور غرباء ومساکین کو پیٹ پھر کر کھلایا جائے اب اگر اس قربانی کو مشرکانہ چڑھاوؤں میں تبدیل کردیا گیا تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قربانی کا قدیم اور صحیح تخیل یہی مشرکانہ ہے ، اسلام نے جب دیکھا کہ اہل کتاب میں اور مشرکین میں قربانی کا عملی تخیل موجود ہے اور اس سے بہت زیادہ فوائد حاصل ہوتے ہیں ، تو اس نے اس کو باقی رکھا ، اور ان عناصر کو اس میں سے خارج کردیا ، جو مشرکانہ تھے ۔ حل لغات : منسکا : طریق عبادت وقربانی ، المخبتین : عاجزی کے ساتھ خدا کے سامنے جھک جانے والے لوگ ۔ البدن : لدنۃ کی جمع ہے بمعنی قربانی کے اونٹ اور گائے ، اصل میں بدنہ کے معنے موٹے تازے جانور کے ہیں ، اور قربانی کے اونٹ چونکہ نسبتا دوسرے اونٹوں سے زیادہ بہتر ہوتے تھے ، اس لئے انہیں اس کے البدنۃ عن مبعۃ والبقرۃ عن سعۃ ۔ الحج
37 فلسفہ قربانی : (ف ١) اس آیت میں قربانی کا فلسفہ بیان کیا ہے کہ دلوں میں اللہ کی راہ میں کٹ مرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ قانون قدرت ہے کہ ہر ادنی چیز اعلی کے لئے اپنی انفرادیت کو قربان کردیتی ہے ، نباتات کے لئے ضروری ہے کہ وہ حیوانات کا لقمہ بنے ، اور حیوانات انسان کے کام ودہن کی تواضع کریں ، اسی طرح انسان جب حیوانات کو اللہ کے جلال وعظمت کے بھینٹ چڑھاتا ہے ، تو وہ اصول کو اپنے سامنے رکھتا ہے کہ اللہ کے لئے ہمیں بھی اپنی جان ، مال اور آسائشوں کی قربانی دینا چاہئے ، یہی جذبہ ذر دیت وایثار تقوی اور پرہیز گاری ہے ، ورنہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو گوشت اور لہو کی کیا ضرورت ہے ۔ حل لغات : صواف : صف باندھے ہوئے ایک قرات میں صوافی بھی آیا ہے یعنی خالصۃ اللہ کے لئے ۔ القانع : عفیف مائل ، قناعت سے بیٹھ رہنے والا ۔ المعتر : بھیک مانگنے والا ، محتاج ، سوال کرنے والا ۔ الحج
38 الحج
39 قربانی اور جہاد : (ف ١) یعنی قربانی کے عملی معنے یہ ہیں کہ دلوں میں جذبہ جہاد موجزن ہو ، اگر ہم ہر سال لاکھوں اور کروڑوں حیوانات کا خون بہائیں اور قلوب میں کوئی حرارت اور کوئی جذبہ جہاد پیدا نہ ہو تو پھر یہ عبادت سراسر بےروح اور بےکیف ہوگی ، آیت میں اذن جہاد ہے ، کیونکہ مسلمانوں کی مظلومیت حد سے بڑھ گئی ، اب یہ ناممکن ہے کہ ان مظالم کو زیادہ دیر تک برداشت کیا جائے ۔ ارشاد ہے کہ اللہ نے طے کرلیا ہے کہ مسلمانوں کی اعانت کی جائے اور مشرکین کے غلبہ واستیلا کو دور کیا جائے ، کیونکہ مسلمان مظلوم ہیں اور اسلام کو مظلومیت پسند نہیں ، جس طرح ظلم بڑی چیز ہے اور اسلام اس کو جائز قرار نہیں دیتا ہے اسی طرح مظلومیت بھی ناقابل برداشت ہے ، اور جرم ہے ۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی جہاد کی نوعیت کیا تھی ، وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے ، ان کو ان آیات پر غور کرنا چاہئے ، کہ اللہ تعالیٰ نے کب اور کس وقت مسلمانوں کو جہاد کا اذن عام دیا ، بےشک اس وقت اجازت دی جب مظالم حد سے بڑھ گئے ، اور مکہ کی سرزمین ان کے لئے تنگ ہوگئی ۔ الحج
40 اسلامی جہاد کی غرض قیام عبادت ہے : (ف ٢) اس آیت میں بڑے واضح الفاظ میں قرآن حکیم نے بتا دیا ہے کہ اسلامی جہاد سے غرض معاہد الہیہ کی حفاظت ہے مسلمان بس لئے میدان جہاد میں قوت آزما ہوتا ہے کہ خدا پرستی کے تمام مرکزوں کو مشرکین کے قبضہ واستیلاء سے پاک کر دے ، وہ جہاد وقتال سے مادی نفع کا طالب نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے سامنے اعلاء کلمۃ اللہ کا بلند مقصد ہوتا ہے ، وہ اللہ کے لئے لڑتا ہے اور اللہ کے لئے صلح کرتا ہے اگر مسلمان حق وصداقت کی تائید میں تلوار نہ اٹھائے تو پھر ساری دنیا میں باطل کی حکومت ہوجائے ۔ اور تمام مرکزوں میں جہاں اللہ کا نام لیا جاتا ہے ، دیوتاؤں اور معبودان باطل کی عبادت ہونے لگے ، مسلمان امن عالم کا کفیل ہے ، اس کا جہاد دوسرے مذاہب کی آزادی کے لئے بھی ہے ، وہ چاہتا ہے کہ سب عبادت گاہوں کی حفاظت ہو ، اور سب لوگوں کو آزادی حاصل ہو کہ وہ آزادانہ طور پر اللہ تعالیٰ کو یاد کرسکیں ، اور اس کے نام کو بلند کرسکیں ، البتہ اسے یہ ناپسند ہے کہ لوگ غیر اللہ کی پرستش کریں ، اور بتوں اور دیوتاؤں کے نام پر معابد تعمیر کریں ، کیونکہ ایسے مرکز عبادت درحقیقت جہالت وتاریک خیالی کے مدرسے ہوتے ہیں ، یہاں انسانوں کو ذلت و نکبت کا درس دیا جاتا ہے ، اور یہ بتایا جاتا ہے کہ خدا کے سوا اور ہستیاں بھی احترام وعبادت کے لائق ہیں ، حالانکہ یہ بہت بڑی گمراہی اور بہت بڑا جرم ہے ، اس سے نفس انسانیت تباہ اور برباد ہوجاتی ہے اور پھر کبھی ابھرنے کی امید نہیں کی جا سکتی ۔ حل لغات : صوامع : صومعہ کی جمع ہے ، نصارے اور آتش پرستوں کے عبادت خانے ۔ الحج
41 (ف ١) جو لوگ اسلامی حکومت کے تخیل سے خائف ہیں ان کو اس آیت پر غور کرنا چاہئے ، ارشاد ہے ، کہ ہم مسلمانوں کو جب تمکن نے الارض کی نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ دنیا میں عیاشیاں نہیں پھیلاتے ، اور حرص وآز میں گرفتار ہو کر لوگوں کے مال ودولت پر ڈاکہ نہیں ڈالتے ، وہ نہایت پاکباز اور خدا پرست ثابت ہوتے ہیں ، ان کی زندگی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ عبادت الہی کے جذبہ کو عام کریں ، اللہ کے سامنے جھکیں ، نماز پڑھیں ، اور زکوۃ دین تاکہ تمام غرباء اور مساکین کی ضرورتوں کو پورا کیا جا سکے ، وہ ہر نیکی کو پھیلاتے ہیں ، اور ہر برائی کے خلاف جہاد کرتے ہیں ان کا طرز حکومت نہایت عادلانہ اور دیندارانہ ہوتا ہے ۔ الحج
42 الحج
43 الحج
44 الحج
45 (ف ١) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس قانون کی وضاحت فرمائی ہے کہ باطل کو زیادہ دیر تک قیام نہیں ہوتا ، ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑ کے اور معاندین کو باوجود ان کی قوت وشوکت کے صفحہ ہستی سے ہٹا دیا جائے ۔ ارشاد ہے کہ مکذبین اور حق کو جھٹلانے والے تاریخ کے صفحات کو الٹ کر دیکھیں ، ٹوٹے ہوئے مقامات ملاحظہ کریں تو ان کو معلوم ہوگا کہ تکذیب رسل کا انجام کتنا ہولناک ہوتا ہے ۔ الحج
46 (ف ٢) یعنی وسوسہ کا تعلق جب دل میں رشد وہدایت کی صلاحیت نہ ہو تو پھر مشاہدات کا انکار بھی ممکن ہے اور اگر یہ مضغہ گوشت ہو تو پھر ادنی اشارات بھی ہدایت کی جانب راہ نمائی کرسکتے ہیں ، بات یہ تھی کہ منکرین حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شب وروز دیکھتے تھے ، اور ان کے احوال وعادات سے واقف تھے ، ان کو معلوم تھا کہ ہر وقت اللہ کی تائید آپکے شامل حال ہے اور آپ خدا کے سچے پیغمبر ہیں ۔ وہ ہر آن ملاحظہ کرتے تھے کہ آپ انوار وتجلیات کے حامل ہیں ، اور کائنات کا ذرہ ذرہ آپ کی تائید میں ہے ، مگر پھر بھی انکار کرتے گویا آفتاب کو دیکھتے اور آنکھیں بند کرلیتے ، اس کی تمازت کو محسوس کرتے ، اور منہ لپیٹے ہوئے غفلت وانکار کے لحاف میں پڑے رہتے ، کیونکہ دلوں سے حق وصداقت کو قبول کرنے کی استعداد چھن چکی تھی دل تاریک ہوچکے تھے اور بصیرت گم ہوگئی تھی ۔ الحج
47 عذاب کا ایک دن ہزار سال کے برابر ہے : (ف ٣) مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ عذاب طلب کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ کا غضب جلد بھڑکے ، تاکہ زندگی کی مسرتوں سے یک قلم محروم ہوجائیں ، مگر یہ نہیں جانتے کہ اس کی گرفت کس قدر جان گسل ہوگی اور وہ عذاب اپنی ہولناک کیفیت کے ساتھ کس درجہ دراز ہوگا ۔ اللہ کا عذاب جس کے یہ لوگ طالب ہیں ، اتنا سخت اتنا خوفناک اور اس قدر شدید ہے کہ اس کا ایک ایک دن ہزار سال کی کلفتوں اور اذیتوں کے برابر ہے ۔ اس آیت میں تصریح فرما دی ہے کہ اللہ کا وعدہ عذاب اٹل ہوتا ہے اس میں قطعا تخلف نہیں ہو سکتا کیونکہ تخلف ہونے کے معنی یہ ہیں کہ معاذ اللہ وعید کی پیشگوئی کرنے والا نبی لوگوں کی نظروں میں ذلیل اور رسوا ہو ۔ وعدہ عذاب کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اب قوم میں پنپنے اور اصلاح پذیر ہونے کی صلاحیت نہیں رہی اور گناہوں کا پیمانہ لبریز ہوگیا ، اس لئے اس وقت قوم کا مٹ جانا اور تباہ ہوجانا ہی منشاء قدرت ہوتا ہے ، اور اس وقت جب عذاب کا وقت مقرر ہوجائے تو توبہ وانابت کا کوئی موقعہ نہیں رہتا ، کیونکہ تعین وقت کا اعلان دراصل اس بات کا اعلان ہوتا ہے ، کہ اب قوم کو یقینا اور ضرور عذاب دیا جائے گا اور کوئی طاقت اس کو عذاب الہی سے نہیں بچا سکے گی ، حل لغات : املیت : ڈھیل دی ، املا کے معنی مہلت کے ہوتے ہیں ۔ الحج
48 الحج
49 الحج
50 الحج
51 (ف ١) ان آیتوں میں بتایا ہے کہ جن لوگوں نے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز کو سن لیا ، اور اس کے بتائے ہوئے پروگرام پر عمل کیا ، ان کے لئے سراسر مغفرت ، اور عنایت ہے ، اور نہایت پاکیزہ روزی ہے وہ عزت وافتخار سے دنیا میں رہیں گے ، اور آخرت میں جنت کے وارث ہوں گے ، اور جن لوگوں نے معاندانہ کوششیں جاری رکھی ہیں اور پیغام کو نہیں مانا ، وہ خائب وخاسر رہیں گے اور جہنم کے سزاوار ۔ حل لغات : تمنی : آرزو کی ، پڑھایا ۔ الحج
52 غرانیق کا قصہ جعلی ہے !: (ف ١) ان آیات کے شان نزول میں مفسرین نے یہ قصہ ذکر کیا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب دیکھا کہ قوم کی سرکشی اور عناد روز بروز بڑھتا جاتا ہے اور کسی طرح ان کے جوش تمرد میں کمی واقع نہیں ہوئی تو ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کسی طرح ان کی تالیف قلوب کیجائے ، چنانچہ ایک دن آپ قریش کے مجمع میں پہنچے ، تاکہ انکے خیالات کو اسلام کی جانب پھیر سکیں اسی اثنا میں آپ پر سورۃ النجم کی آیات نازل ہوئیں ۔ آپ نے ان کو مجمع میں پڑھ کر سنایا ، اور جب اس آیت پر پہنچے ۔ (آیت) ” افرایتم اللات والعزی ومناۃ الثالثۃ الاخری “۔ تو شیطان کی تحریک سے آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوگئے ، ” تلک الغرانیق العلی منھا الشفاعۃ ترنجی “۔ یعنی یہ بت واقعی بڑے عظمت والے ہیں ، اور ان کی شفاعت منظور کی جائے گی ، اس لئے ان پر بھروسہ کرنا چاہئے ، ان الفاظ سے تمام مشرکین خوش ہوگئے ، کہ آج محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے ہمارے بتوں کی تعریف کی ہے ، چنانچہ مسلمانوں کے ساتھ وہ بھی سجدے میں گر گئے ، جب اس قصہ کا چرچا ہوا ، تو جبرئیل (علیہ السلام) آئے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا غضب ڈھایا مشرکوں کی ہمنوائی آپ کو زیبا نہ تھی ، اس پر آپ مغموم ہوئے اور آپ کی تسلی کیلئے یہ آیتیں نازل ہوئیں ، مگر یہ قصہ بالکل غلط اور بیہودہ ہے ۔ ذیل کے نکات پر غور کیجئے : ١۔ سورۃ النجم کا سیاق اس غلط فہمی کے لئے کوئی گنجائش نہیں رہنے دیتا کیونکہ اس کے بعد ہی ان کے بتوں کی زبردست مذمت مذکور ہے اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک بےجوڑ جملہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر جاری ہوجائے جو ان آیات کے مخالف ہو ، اس بات کو نہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے محسوس کیا اور نہ مسلمانوں ہی کو توجہ ہوئی ۔ ٢۔ جب تمام مکی سورتوں میں توحید کو واضح کرکے بیان کردیا گیا تھا ، تو پھر اب یہ کیونکر قابل تسلیم ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا مسلک بدل دیا اور آپ کو محسوس نہ ہوا ۔ ٣۔ تبدیلی مسلک اور غلط باتوں کے پیش کرنے پر قرآن میں سخت وعید آئی ہے ۔ (آیت) ” ولو تقول علینا بعض الاقاویل “۔ الخ ۔ ٤۔ یہ نص موجود ہے کہ آپ محض وحی کے تابع تھے اور اپنی طرف سے کچھ کہہ دینے کے مجاز نہ تھے (آیت) ”۔ وما ینطق عن الھوی “۔ ٥۔ آپ کا دل ودماغ اور زبان سب چیزیں اسی طرح حفاظت الہیہ میں تھیں کہ شیطان کی دخل اندازی ناممکن التصور ہے ۔ (آیت) ” ولو لا ان ثبتناک “۔ الخ ، ” سنقرنک فلا تنسے “۔ ٦۔ ابن خزعہ نے کہا ہے کہ یہ قصہ زنادقہ کا وضع کردہ ہے چنانچہ انہوں نے اس پر ایک مستقل رسالہ بھی لکھا ہے ، امام ابوبکر احمد بن الحسین البیہقی فرماتے ہیں کہ یہ قصہ بالکل ثابت نہیں ۔ ٧۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سورۃ النجم کی تلاوت اور مشرکین کے سجدہ کو ذکر کیا ہے لیکن اس قصہ کو کہیں ذکر نہیں فرمایا ۔ ٨۔ اگر یہ قصہ تسلیم کر لیاجائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ رسول کا ہر پیغام اصلی حالت میں لوگوں تک پہنچنا یقینی نہیں ہے ۔ ظاہر ہے ، کہ یہ بہت بڑا الحاد اور اتہام ہے ۔ بات یہ ہے کہ یہ ساری غلط فہمی لفظی تمنی کے مفہوم نہ سمجھنے سے پیدا ہوئی ۔ تمنی کے معنی خواہش اور آرزو کے ہیں ، اور پڑھنے اور تلاوت کرنے کے بھی ہیں چنانچہ حضرت حسان (رض) کا ایک شعر حضرت عثمان (رض) کے متعلق ہے ۔ تمنی کتاب اللہ اول لیلۃ واخرھا لاتی حمام المقادر : یعنی عثمان (رض) رات کے پہلے حصے میں قرآن کی تلاوت کرتے رہے اور آخری حصے میں شہید ہوگئے ۔ اس آیت میں تمنی کے معنی پڑھنے اور تلاوت کرنے کے ہیں جن لوگوں نے اس کے معنے آرزو اور خواہش کے لئے ہیں ، ان کیلئے اس مصنوعی قصہ کے تسلیم کرلینے میں آسانیاں پیدا ہوگئیں ، اور میرا تو خیال ہے کہ یہ قصہ ہی لفظ تمنی پڑھ کر وضع کیا گیا ہے ، اور واضع کا ذہن اسی لفظ سے اس قصہ کی جانب منتقل ہوا ہے ۔ آیت کا مقصد واضح ہے کہ انبیاء جب لوگوں کے سامنے احکام پیش کرتے ہیں تو شریر لوگ اپنی طرف سے بہت کچھ بڑھا چڑھا کر اسے پھیلاتے ہیں ، اور لوگوں کے دلوں میں قسم قسم کے شبہات پیدا کردیتے ہیں ، پھر اللہ تعالیٰ جوابات قاطعہ اور براہین سامعہ سے ان شبہات کو دور کردیتا ہے پھر غلط فہمی کیلئے کوئی احتمال باقی نہیں رہتا ، البتہ ان کے دلوں کی آزمائش ہوجاتی ہے ۔ حل لغات : مرض : کھوٹ ، فتخبت ۔ احبات کے معنے عاجزی سے جھکنے کے ہیں ۔ الحج
53 الحج
54 الحج
55 الحج
56 الحج
57 الحج
58 مسلمان کیوں ہجرت کرتا ہے : (ف ١) اسلامی نقطہ نگاہ سے دین کی حفاظت ہر چیز پر مقدم ہے اور مسلمان مجبور ہے کہ وہ ہر حالت میں اپنے کلچر اپنی تہذیب اور اپنی روایات کو برقرار رکھے ، اس کے نزدیک ملک قوم اور وطنی کشش وجاذبیت کا مفہوم کچھ حیثیت نہیں رکھتا مسلمان کی جان اس کا مال اور اس کا سب کچھ مذہب ہے ، وہ افلاس کو برداشت کرسکتا ہے وہ بھوکا رہ سکتا ہے اور دنیا کی ہر مصیبت کیلئے تیار وآمادہ ہو سکتا ہے مگر دین اور روح کے ادنی وداعی سے ایک لمحہ کے لئے بھی وہ جدا نہیں ہو سکتا ، جو لوگ مسلمان کی نفسیات دینی سے واقف نہیں ، وہ ان کے جذبات وحسیات کو نہیں سمجھ سکتے ان کے نزدیک مذہب کیلئے وطن چھوڑ دینا ، مال ودولت سے الگ ہوجانا ناقابل فہم ہے ، اگر مسلمان کے لینے یہ بالکل آسان ہے وہ یہ سمجھتا ہے کہ اصل دنیا خیالات وافکار کی صحت وعمدگی ہے ، اور یہ ہر وقت اس کی جان کے ساتھ ہے وہ مگر ایمان کی نعمتوں سے بہرہ ور ہے اور اس کا دل ودماغ مطمئن اور قانع ہے تو پھر ملک اور وطن کی دل بستگیاں اسے ہجرت سے نہیں روک سکتیں ۔ اس آیت میں مہاجرین کے فضائل بیان فرمائے ہیں کہ اگر انہوں نے میری اہ میں اپنا وطن اور کاروبار چھوڑ دیا اور دشمنوں سے جہاد کیا بایوں طبعی موت مر گئے تو میں انہیں بہترین نعمتوں سے نوازوں گا ، مجھ سے بڑھ کر اور کون دینے والا اور بخشنے والا ہو سکتا ہے ۔ آیت سے مفہوم ہوتا ہے کہ مجاہد کی موت پر ہر آئنہ شہادت ہے وہ چونکہ اپنی ذات کو اللہ کی محبت میں اللہ کے سپرد کردیتا ہے اس لئے خواہ میدان جہاد میں لڑتا ہوا مرے خواہ جہاد کی آرزو میں اپنی موت مر جائے ، اس کا اجر متعین ہے ، اور وہ ہر صورت میں شہید کے برابر ہے حدیث میں آیا ہے المقتول فی سبیل اللہ والمتوفی فی سبیل اللہ بغیر قتل ھما فی الخیر والاجر شریکان “۔ یعنی اللہ کی راہ میں مرنے والا اور لڑ کر شہید ہونے والا دونوں خیر وبرکت میں برابر کے شریک ہیں ۔ حل لغات : عاقب : معاقبہ ۔ انتقام لینا ، یولج : داخل کرتا ہے ، الباطل : غلط ، ناجائز ناچیز ۔ الحج
59 الحج
60 (ف ١) اس آیت میں ایک تو اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ مظلوم کی حمایت فرماتے ہیں اور اس کو توفیق دیتے ہیں ، کہ وہ ظلم وجور کے خلاف احتجاج کرسکے ، دوسری بات یہ بیان فرمائی ہے کہ اللہ کی ذات سراسر عفو وکرم سے کام لینی ہے ، وہ غفور اور رحیم ہے ، یعنی اپنوں اور بیگانوں کی لغزشوں اور کوتاہیوں کو بخشنے والا اور رحم کر نیوالا ہے ، مقصد یہ ہے کہ تم بھی فورا احتجاج اور جہاد کے لئے آمادہ نہ ہوجاؤ بلکہ اولے اور بہتر یہ ہے کہ ابتداء وسعت حوصلہ سے کام لو ، اور جب دیکھو کہ معاملہ حد سے بڑھ گیا ہے اور سوائے اس کے اب کوئی طریق نہیں ہے کہ ان لوگوں سے جہاد کیا جائے تو پھر جہاد اولی اور ضروری ہے ۔ الحج
61 (ف ٢) اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کو بیان فرمایا ہے کہ کیونکر وہ رات کے بعض اجزا کو دن میں شامل کردیتا ہے ، اور دن کے اجزا کو رات میں یعنی تاریکی آہستہ آہستہ روشنی میں تبدیل ہوجاتی ہے ، اور روشنی تاریکی کی شکل اختیار کرلیتی ہے ، اسی طرح اللہ کی لئے یہ بھی آسان ہے کہ وہ کفر وشرک کی ظلمتوں کو اسلام و ایمان کی روشنی میں بدل دے اور کفار ومنکرین کفر وطغیان کے اندھیرے سے نکل کر توحید وطمانیت کے اجالے میں آجائیں ۔ الحج
62 الحج
63 مستور معانی کی جھلک : (ف ١) قرآن حکیم میں یہ خوبی ہے کہ وہ مشاہدات قدرت سے عجیب عجیب استدلال کرتا ہے اور وجہ استدلال کو بعض دفعہ بیان نہیں کرتا ، تاکہ ذہن پر زیادہ زور پڑے ، اور پوشیدہ معارف کو حاصل کرکے وہ ایک نوع کی روحانی مسرت محسوس کرے ۔ اس آیت میں کہنے کو تو ایک صریح حقیقت بیان کی ہے کہ دیکھو بارش کے بعد خشک زمین کیسی سرسبز ہوجاتی ہے ، مگر آخری الفاظ (آیت) ” ان اللہ لطیف خبیر “۔ پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ پس پردہ معافی اور معارف کا قصر بلند موجود ہے ، یعنی کفار کی توجہ کو اللہ کے لطف عمیم کی جانب مبذول کیا ہے تاکہ وہ اسلام کی ضرورت واہمیت کو سمجھ سکیں ۔ جب اللہ تعالیٰ کے لطف وکرم اور علم وحکمت کا تقاضا یہ ہے کہ مینہ برسا کر خشک اور بےرونق زمین بھی سرسبز وشاداب کردی جاتی ہے ، تو کیا تمہارے دلوں کی شادبی کے لئے اس نے ابر رحمت کے برسانے میں بخل سے کام لیا ہے ، یا وہ تمہاری روحانی تشنیگوں سے بےخبر ہے ، جب تم تسلیم کرتے ہو تو وہ لطیف ہے یعنی نہایت نیکو کار اور مددگار ہے اور خیبر یعنی آگاہ ہے تو پھر ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ تمہیں سچے مذہب سے آشنا کرے اور تمہاری دلوں کی دنیا کو تسکین طمانیت کا سامان بہم پہنچائے ، یہ آیت بھی اسی قبیل سے ہے یعنی مقصود کرشمہ کر رکھا ہے مگر ربط اور سیاق سے مطلب بالکل واضح ہے یعنی دلوں کی دنیا کو دل دینا ہماری طاقت وقوت سے باہر نہیں ہم تمہاری عناد کو محبت کے ساتھ اور تمہارے کفر کو ایمان کے ساتھ بدل سکتی ، میں کیونکر یہاں آسمان وزمین میں جو کچھ ہے وہ ہمارے ہیں ۔ الحج
64 الحج
65 الحج
66 (ف ١) ان آیات میں اللہ نے اپنی مزید عنائیت کا ذکر فرمایا ہے ارشاد ہے کہ جو کچھ دنیا میں موجود ہے ہم نے تمہیں اس کا حاکم بنایا ہے اور ہر چیز پر تمہیں اختیار دیا ہے ، گویا کائنات میں تمہارا درجہ ہر شے سے بڑا ہے ، تم اس لئے پیدا کئے گئے ہو کہ یہاں حاکمانہ رہو ، اور خدا کی مہربانیوں کا شکر ادا کرتے رہو فرمایا دیکھو کشتیاں اور پہاڑوں کے لئے بھی ہم نے ایسے مفید قانون بہا دیئے ہیں کہ تم ان کے ذریعے سے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہو ، پھر یہ بھی ہماری نوازش ہے کہ تمہیں آسمان اور آسمانی حوادث سے محفوظ رکھا ہے ، اور سب سے بڑی مہربانی یہ ہے کہ تمہیں زندگی کا خلعت بخشا ہے ، یاد رکھو تم موت سے محفوظ نہیں رہ سکتے ، جس نے تمہیں زندگی عنایت کی ہے وہ تم پر موت کی سختیاں میں وارد کرے گا ، اور پھر حساب ومکافات کے لئے دوبارہ زندگی بھی عنایت فرمائے گا جس کے بعد موت نہیں آئے گی ، ان نعمتوں پر غور کرو ، اور دیکھو کہ انسان کس درجہ ناشکر گزار ہے چاہئے تو یہ تھا ، کہ اس کی گردن ان احسانات گرانبار سے جھکی رہتی ، مگر حالت یہ ہے کہ مغرور اور متکبر انسان یہ سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے ، مگر غور اور پروا نہیں کرتا ۔ الحج
67 الحج
68 (ف ٢) پھر اصل موضوع کی جانب توجہ فرمائی ہے یعنی سورۃ الحج کا مقصد عبادات اور مناسک کی تشریح کرنا ہے اور اس ضمن میں جس قدر شبہات پیدا ہو سکتے ہیں ان کو دور کرنا ہے ، ارشاد ہے کہ تم اسلامی طریق عبادت اور قربانی پر کیوں معترض ہو ، ہر قوم اور گروہ میں کسی نہ کسی طریق سے ان مذہبی رسوم کو ادا کیا جاتا رہا ہے ، طریقہ کے مختلف ہونے سے اصل غرض مفقود نہیں ہو سکتی ۔ ، بہرحال مختلف شرائع کے طریقے بمقتضاء وقت ہم نے ہی مقرر کئے ہیں اس لئے مسلمانوں سے دوسرے لوگوں کو جھگڑنا نہ چاہئے ۔ حل لغات : کفور : ناشکر گزار اس کی نعمتوں سے فائدہ نہ اٹھانے والا ۔ منسکا : فسک سے ہے جس کے معنے قربانی اور عبادت دونوں کے ہیں ۔ الامر : یعنی شریعت اسلامی ۔ الحج
69 الحج
70 الحج
71 شرک ناقابل فہم ہے !: (ف ١) (آیت) ” مالم ینزل بہ سلطنا “۔ سے مقصود یہ ہے کہ شرک کے لئے کوئی عقل وجہ جواز موجود نہیں ، اور یہ کیونکر ممکن ہے ؟ کہ ایک مٹھی یا پتھر کے بت کو خدا قرار دے لیا جائے ، یا ایک شخص کو جس کی زندگی اور زندگی کی بےچارگیاں ہمارے سامنے ہیں ہم اس کو خدائی مسند پر بٹھا دیں ، اللہ تعالیٰ نے بار بار شرک کی مذمت فرمائی ہے ، اور اس کو ایک غیر عقلی اور غیر مدلل عقیدہ قرار دیا ہے ، مگر یہ عجیب بات ہے کہ اکثر لوگ اسی شرک کے مرض میں مبتلا ہیں ، اور نہیں محسوس کرتے کہ یہ کھلی گمراہی ہے ، بھلا جو شخص بھوک کی شدت سے بےتاب ہوجاتا ہے ، جسے پیاس بےقرار کردیتی ہے ، بیمار ہوتا ہے تو طبیب کا سہارا ڈھونڈتا ہے ، بتایئے ، وہ مرجانے کے بعد بھلا کیونکر خدا بن سکتا ہے ؟ پتھر کا وہ حقیر اور ذلیل ٹکڑا جس کو تم اپنی خداداد قابلیت سے ایک حسین وجمیل صورت میں بدل دیتے ہو ، وہ الوہیت کا حامل کس طرح ہوسکتا ہے وہ قبر اور مزار جس کو تم اپنے ہاتھوں سے بناتے ہو اس میں خدائی کہاں سے آجاتی ہے ۔ ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ تم ان مٹی کے ڈھیروں کے سامنے جھک جاتے ہو ، اور پتھروں کو اپنا معبود سمجھنے لگتے ہو ، کیا یہ محض جہالت نہیں ، اور بےسود فعل ؟ الحج
72 (ف ٢) ارشاد ہے کہ گو قرآن ہمہ خیر وبرکت ہے اور اس کے دلائل واضح اور روشن ہیں مگر منکرین کے دلوں میں اس کے خلاف بغض وعناد ہے کہ وہ شائستگی کے ساتھ اس کو سن بھی نہیں سکتے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب ان تمام بدبختوں کو قرآن سناتے اور چاہتے کہ ان کو محرومی اور بدنصیبی کی دنیا سے نکال کر سعادت وفلاح کی دنیا میں پہنچا دیا جائے ، تویہ شقیان ازلی نہایت تنفص اور تنفر کا اظہار کرتے ہیں گویا قرآن بہت تلخ جرعون کا نام ہے جو ان کے حلق میں نہیں اڑتے ۔ فرمایا تم قرآن حکیم کی آیتوں کو ناگوار سمجھ کر نہیں ، سنتے ہو مگر میں تمہیں بتاؤں ایک اس سے بھی کہیں ناگوار چیز تمہیں برداشت کرنا پڑے گی اور وہ آگ ہے ، جہنم کی آگ ، کیا اس آگ کو برداشت کرلو گے ؟ اے کاش سمجھو اور غور کرو ۔ حل لغات : سلطانا : فیصلہ کرنے اور چھا جانے والی دلیل ۔ المنکر : ناپسندیدگی ۔ الحج
73 (ف ١) اس سے قبل کی آیت میں شرک کی مذمت فرمائی تھی اور یہ بتایا تھا کہ ان مشرکوں کے پاس اس کی تائید کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ، اب اس عقیدے کی بےمائگی کا اظہار فرمایا ہے ، ارشاد ہے کہ انکے تمام معبود جمع ہوجائیں ، اور اپنی پوری قوت صرف کردیں ، جب بھی ایک مکھی تک پیدا کرنے میں قاصر رہیں گے ، حالانکہ مکھی ایک نہایت ہی ادنی درجہ کی مخلوق ہے ، اور مکھی کا پیدا کرنا تو بڑی بات ہے اگر وہ انکے کھانے میں سے کچھ چھین لے جائے تو یہ اس کو چھڑا بھی نہیں سکتے ۔ جب مطلوب و معبود کی یہ کیفیت ہے کہ ادنی درجے کی مخلوق کے پیدا کرنے پر بھی وہ قادر نہیں ، اور ماننے والوں کی یہ حالت ہے کہ مکھی پر بھی اختیار نہیں ، تو پھر بت پرستی کیسی ؟ کیا اس بےچارگی اور عجز کے بعد بھی کسی شئے کو خدا مان لینا جائز اور درست ہو سکتا ہے ۔ ؟ حقیقت یہ ہے کہ شرک وبت پرستی میں کوئی معقولیت نہیں صرف وہ لوگ اس معصیت کے مرتکب ہوتے ہیں ، جو ذہنا نہایت پست اور ذلیل ہیں ، اور جنہیں مبدا فیاض سے عقل قطعا ارزانی نہیں ہوئی ۔ الحج
74 (ف ٢) وہ خدا جو ادراک وفہم کی حدود سے بالا ہے جسے نظر نہیں پاسکتی ، اور جو زمان ومکان سے منزہ وپاک ہے جو سب کا خالق اور پیدا کرنے والا ہے ، جس نے اعلی وادنی اور دوست ودشمن سب پر عنایات کی بارش فرمائی ہے ، اس کا کیونکر شریک اور ساجھی ہو سکتا ہے ، جو سب پر غالب ہے ، جس کی حکومت کے دائرے سے کوئی چیز خارج نہیں ، جو قاہر ، مختار ہے اور قوی وعزیز ہے ، اس کے متعلق خیال بھی نہیں کیا جا سکتا ، کہ خود اسی کی ادنی مخلوق اس کی ہمسر ہو سکے ۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں نے اللہ کی عظمت وجلال کا صحیح صحیح اندازہ ہی نہیں کیا ، اور کما حقہ اس کو نہیں پہچانا ۔ حل لغات : مثل : ہر وہ بات جس میں کوئی باریک نکتہ پہناں ہو ۔ الطالب : یعنی عقیدت مند ۔ المطلوب وہ جس سے عقیدت ہو ۔ الحج
75 زور لفظ اللہ پر ہے : (ف ١) ولید بن مغیرہ اور اس قماش کے دوسرے لوگ کہتے تھے کہ نبوت کا منصب محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو کیوں مل گیا ، جب کہ دنیوی اعتبار سے ہم لوگ اس کے زیادہ مستحق تھے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نبوت کے لئے خاص استعداد ذہنی وفکری کی ضرورت ہے جس کو میرے سوا کوئی نہیں جانتا ، میں فرشتوں اور انسانوں میں سے جسے مناسب سمجھتا ہوں ، پیغام پہنچانے کے لئے منتخب کرلیتا ہوں ، یہ انتخاب محض میری ذات پر موقوف ہے تم لوگ اور تمہارے ہم مسلک دوسرے لوگ نبوت کے منصب کو نہیں حاصل کرسکتے ، یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ زور لفظ اللہ پر ہے ” یصطفے “ پر نہیں چنانچہ محض اس نکتہ کے نہ سمجھنے سے بعض کوتاہ فہم لوگوں کو لغزش ہوئی اور انہوں نے سمجھا کہ نبوت اب بھی جاری ہے کیونکہ لفظ ” یصطفی “ استمرار کو چاہتا ہے حالانکہ یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ یہ اصطفاء اور برگزیدگی صرف اللہ کے اختیار میں ہے ۔ فافہم ۔ الحج
76 الحج
77 الحج
78 (ف ١) ان آیات میں کئی چیزیں بیان کی ہیں ، پہلے تو یہ تاکید فرمائی کہ رکوع اور سجود سے اللہ کی عبادت کرو اور اس قسم کے نیک افعال جاری رکھو ، کہ نجات اور روحانی کامیابی کے لئے یہ ضروری ہیں پھر جہاد کی تلقین کرکے یہ نکتہ سمجھایا کہ عبادت سے غرض تحفظ دین کا جذبہ پیدا کرنا ہے یعنی نیاز مندی اور عقیدت کے معنے یہ ہیں کہ جب دشمنان دین تمہاری نمازوں سے تمہیں روکیں ، اور تمہارے دین کو مٹانا چاہیں اور ان تعلقات کا امتحان لینا چاہیں تو تم نے اپنے مولا سے استوار کر رکھے ہیں تو پھر میدان جہاد میں کود پڑو ۔ اس کے بعد اسلام کی خوبی اور فضیلت بیان کی کہ اس میں کہیں دشواری تنگی موجود نہیں ، نہایت سہل اور آسمان مذہب ہے پھر اس حقیقت کو بیان فرمایا کہ تمہارے لئے تمہارے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا دین پسند کیا گیا ہے پہلے یعنی پچھلی کتابوں میں تمہارا نام مسلمان رکھا تھا ، اور اس کتاب میں بھی وہی نام رکھا ہے ۔ پھر یہ ارشاد فرمایا کہ رسول تمہارے لئے اسوہ اور نمونہ ہے اور تم لوگوں کے لئے اسوہ اور نمونہ ہو ، اور آخر میں اعتصام باللہ کی تلقین کی ، فرمایا کہ مسلمانوں کا دوست اور مددگار صرف خدا ہے گویا ان آیات میں مسلمانوں کو وہ سب کچھ اختصار کے ساتھ بتا دیا ہے جس کا بتلا دینا ان کی تربیت روحانی اور مادی کے لئے ضروری ہے ۔ حل لغات : حرج تنگی ، ضیق ، ایسی بات جو تنفص وتنفر کا باعث ہو ، شھیدا : گواہ اور مبلغ جو اپنے طرز عمل سے دوسروں تک اسلام کو پہنچائے یعنی اسوہ اور نمونہ ۔ الحج
0 المؤمنون
1 المؤمنون
2 المؤمنون
3 المؤمنون
4 المؤمنون
5 المؤمنون
6 المؤمنون
7 المؤمنون
8 المؤمنون
9 نجات اور کامرانی کی سات شرطیں !: (ف ١) ان آیات میں قرآن حکیم نے فلاح وبہبود کی راہوں کی تفصیل بتائی ہے ارشاد ہوتا ہے کہ نجات اور کامیابی کیلئے صرف عقیدہ کافی نہیں اور نہ صرف احسان وانی ، بلکہ ان اصلاحی واخلاقی امور کی تکمیل لازمی اور ضروری ہے جن کا ذکر ان آیات میں ہے ۔ یعنی نماز میں خشوع وخضوع ، لغویات سے احتراز زکوۃ کی ادائیگی پرہیز گاری اور امانت اور پاس عہد ، نماز کے تیں درجے ہیں ، ایک یہ کہ دائما اور عادتا ان وضائف واعمال کا اعادہ کرتا جو نماز کے ارکان ضروریہ ہیں ، ایک یہ کہ سوچ سمجھ کر پڑھنا اور معانی ومطالب تک رسائی حاصل کرنا ، تیسرا درجہ یہ ہے کہ الفاظ کی روح تک پہنچ جانا اور پیکر نیاز مندی وعقیدت ہوجانا ۔ جسے حدیث میں درجہ احسان سے تعبیر کیا گیا ہے ” کانک تراہ “۔ پہلا درجہ نماز کے حقیقی مقاصد کا حاصل نہیں ، اللہ تعالیٰ قبول فرما لے تو اور بات ہے ورنہ اس کی افادی حیثیت محض یہ ہے کہ عادت کا اعادہ اور تکرار ہے جس میں کوئی زندگی اور روح نہیں ۔ دوسرا درجہ تیسرے درجہ کا زینہ ہے کیونکہ اگر الفاظ کے معانی تک رسائی نہ ہو ، تو پھر اس کی روحانیت کو پانا دشوار ہے ۔ قرآن حکیم کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان نماز کی سچی روح سے آشناہوں اور واقعی ان اوصاف سے متصف ہوں جن کو لازما نماز پیدا کردیتی ہے ۔ لغو سے مراد بعض کے نزدیک وہ باتیں ہیں جن کا ارتکاب شرعا حرام ہے بعض کے نزدیک لغویات ان امور کو کہتے ہیں جو مباح تو ہیں مگر ان سے کوئی فائدہ مرتب نہیں ۔ لغۃ : لغو کے معنی بیہودہ کلام کے ہیں ابوعبیدہ کہتے ہیں اللغا ورفث التکلم ۔ اور اخلاق کے عرف میں ہر وہ بات جو مفید نہ ہو اور بےمعنی ہو بہرحال مقصد یہ ہے کہ جو لوگ سچے مومن ہیں ، وہ زندگی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اس لئے غیر ضروری اور غیر نافع باتوں میں نہیں الجھتے ، اور اپنا پورا وقت کامیابی وکامرانی کیلئے صرف کرتے ہیں ، گویا وہ ہمہ سعی اور ہمہ عمل ہوتے ہیں ۔ نجات وفلاح کیلئے عفاف وعصمت کی بھی ضرورت ہے یعنی مسلمان کردار وعمل کے لحاظ سے بہت مضبوط ہوتا ہے اور اپنی قوتوں کو ضائع نہیں کرتا ۔ (آیت) ” اوماملکت ایمانہم “۔ سے مراد لونڈیاں ہیں ، یہاں یہ بات ملحوظ رکھنا چاہئے کہ عسکری ضروریات کے ماتحت لونڈیوں سے تمتع شرعا درست ہے اور اس میں بہت سے فائدے مضمر ہیں ، دشمن ذلیل ورسوا ہوجاتا ہے ، مسلمانوں کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں لونڈیوں کی تربیت کا بہتر اور موزوں انتظام ہوجاتا ہے ، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ غیور وباحمیت دلوں میں جنگ کے خلاف جذبات نفرت وحقارت پیدا ہوجاتے ہیں ، مگر ہماری غلام قوم چونکہ مدت سے اس مجاہدانہ فضا سے دور ہوچکی ہے اس لئے اس تمتع کو اخلاقی لحاظ سے شک وشبہ کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ اسلام سے قطع نظر عسکری دواعی کے ماتحت یہ رسم ہر غریب اور ہر قوم میں عملا موجود اور ناگزیر ہے ، اسلام نے صرف اتنا کیا ہے کہ لونڈیوں کے لئے ایک تفصیلی فقہ کو پیش کردیا ہے جس میں ان کے حقوق وفرائض کو باقاعدہ واضح کیا گیا ہے ۔ کہ ہم عسکری ضروریات وداعیات اور عسکری حالات کو نہیں پہنچانتے اس لئے مجبور ہیں کہ اس قسم کے احکام اور اس قسم کی رخصتوں کو نہ سمجھیں اور غلامانہ اطوار وعادات کو اس اخلاق کے لئے معیار قرار دیں ۔ سب سے آخر معاملات کے باب میں امانت اور پاس عہد کو ضروری قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ مسلمان کو خائن اور دھوکہ باز نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ وہ وصف ہے جس کی وجہ سے قومیں ترقی کے فراز اعلی تک پہنچتی ہیں ، اور یہی وہ نعمت ہے جس کے معدوم ہونے سے قومیں باہمی امدادوتعاون کے جذبات کھو دیتی ہیں ۔ حل لغات : معرضون : اجتناب کرنے والے اور منہ پھیرنے والے ۔ زکوۃ : اقتصادی تنظیم کے لیے سے مشابہ ہے ۔ العدون : عدوان سے ہے بمعنی حد سے تجاوز کرنا ، ظلم کرنا ۔ المؤمنون
10 المؤمنون
11 المؤمنون
12 ایک تشریحی نکتہ : (ف ١) ان آیات میں قرآن حکیم نے انسانی پیدائش اور اس کے مختلف مراحل کا ذکر فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ کس حکمت ودانائی سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو خلعت وجود عطا فرما کر اس دنیائے عجائب میں بھیجا ہے اس روح وعقل کے مجرمجسمہ کا اٹھان اور درمیان کی حیرت نہ زار منزلیں کیا یہ سب کی سب چیزیں اللہ کی اعلی ترین قوت تخلیق پر دال نہیں ؟ یہاں لفظ علقہ : مگر قرآن حکیم نے جدید ترین جنسیاتی تشریح فرمائی ہے موجودہ حکماء کی رائے ہے کہ نطفہ میں زندگی کے جراثیم ہوتے ہیں اور وہ جراثیم رحم میں پہنچ کر بڑھنا شروع کردیتے ہیں اور آہستہ آہستہ جنس کی شکل اختیار کرلیتے ہیں ۔ قرآن بھی کہتا ہے کہ ہم اس قطرہ آب کو جراثیم میں تبدیل کردیتے ہیں ، یہ واضح رہے علقۃ کے معنے خون بستہ کے نہیں ، بلکہ جرثومہ حیات کے ہیں ، جو رحم کے ساتھ چپک جاتا ہے اور جنین کا باعث ہوتا ہے ۔ غور فرمائیے کیا آج سے چودہ سوسال قبل علم التشریحکی یہ تفصیلات بغیر امداد الہام ووحی کے ممکن نہیں ؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ایک انسان حقائق کے چہرے سے اس طرح پردہ کشائی کرے ، حالانکہ اس وقت ابتدائی علوم کا بھی وجود نہ تھا ، اور قوم محض خرافات وادہام میں مبتلا تھی ، ان آیات میں قرآن نے کچھ ایسی ترتیب اور حسن بیانی سے کام لیا ہے کہ بےاختیار منہ سے (آیت) ” فتبارک اللہ احسن الخالقین “۔ نکل جاتا ہے ۔ چنانچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کاتب وحی عبداللہ یہ سن چکا ، تو بول اٹھا (آیت) ” فتبارک اللہ احسن الخالقین “۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لکھ لو یہی الہام ہوا ہے اس کی بدبختی اور محرومی دیکھئے کہ یہ : اس کیلئے ٹھوکر اور گمراہی کا باعث ہوگیا ۔ اس نے سمجھا کہ شاید حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی طرح صلاح ومشورہ سے قرآن کو ترتیب دیتے ہیں حالانکہ یہ کمال بلاغت ہے کہ معافی اور ترتیب آسودہ آنے والے الفاظ کا پتہ دے دیں ، غالب کہتا ہے ۔ دیکھنا تقریر کی لذت کو اس نے یہ کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے : چنانچہ حضرت فاروق (رض) حواس بلاغت کو سمجھتے تھے ، انہوں نے جب یہ آیات سنیں ، تو وہ بھی فتبارک اللہ “ بول اٹھے ، اور جب ان کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بتایا کہ قرآن کی آیت میں بھی اسی طرح ہے تو خوش ہوئے کہ میرے ذوق نے اللہ نے آیت کے ساتھ توافق کیا ہے ۔ المؤمنون
13 المؤمنون
14 المؤمنون
15 المؤمنون
16 المؤمنون
17 المؤمنون
18 المؤمنون
19 المؤمنون
20 (ف ١) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی مختلف نعمتوں کا ذکر سے مقصد ہے کہ جس طرح تمہاری مادی ضروریات کیلئے اس کائنات میں وافر پیدا کیا ہے اسی طرح تمہاری روحانی ضروریات سے بھی وہ آگاہ رہے ، ان آیات میں انعام اور وحی کو بارش کے ساتھ تشبیہ دی ہے گویا جس طرح بارش کے بعد کھیت لہلہا اٹھتے ہیں اور اس کا پانی ضرورت کا سبب بن جاتا ہے ، اسی طرح جب دل کی زمین خشک ہوجاتی ہے تو سیرابی کے لئے ترستی ہے ۔ حل لغات : طرائق : جار کہنہ ، واشراف قوم وگرو ، مراد آسمان راہیں مختلف آسمان ہے ۔ المؤمنون
21 حیوانات سے عبرت پذیری ! (ف ١) قرآن حکیم کا یہ خاصہ ہے کہ وہ ہر نوع کے حالات وکیفیات بیان کرتا ہے اور معمولی باتوں سے حقائق وعبر کے موتی نکال لاتا ہے ، وہ کہتا ہے تمہاری نظریں عمیق اور گہری ہونی چاہئیں تم ہر واقعہ اور ہر چیز پر مبصرانہ غور کرو ، تم کو معلوم ہوجائے گا کہ قدرت کا نظام کس قدر حکیمانہ اور جامع ہے ارشاد ہوتا ہے کہ حیوانات اور جانوروں کو دیکھو ، تم روزانہ دودھ پیتے ہو ، مگر کبھی اس بات پر بھی غور کرنے کی توفیق ہوئی ہے کہ دودھ کس طرح پیدا ہوتا ہے ، وہ چارہ جو گائے اور بھینس کھاتی ہے ایک کیمیاوی عمل میں پہنچتا ہے اور وہاں کئی تبدیلیوں کے بعد دودھ کی شکل میں تھنوں میں آجاتا ہے ، پھر اسی چارہ کا خون بھی بنتا ہے اور جانور کے سارے جسم میں بھی ڈور جاتا ہے اور جو فضلہ رہ جاتا ہے وہ ایک مقرر راستہ سے خارج ہوجاتا ہے ۔ غور فرمائیے ، ایک ہی چیز دودھ بھی ہے اور خون صالح بھی ، طاقت وقوت کا باعث بھی ہے اور فضلہ بھی ، پھر ہم جانوروں کو کئی طرح سے استعمال میں لاتے ہیں ان کا دودھ پیتے ہیں ، گوشت کھاتے ہیں ، سواری کا کام لیتے ہیں اور بہت سے منافع حاصل کرتے ہیں ۔ کشتی پر تم اکثر سوار ہوئے ہو گے لیکن کبھی غور کیا ہے کہ کس قدر قاعدے اور طبعی ضابطے حرکت میں آتے ہیں تب جا کر کہیں پانی کے سینہ پر کشتی قدم رکھتی ہے غرض یہ ہے کہ تم ان مہربانیوں اور عنایتوں پر غور کرو اور سوچو کہ کیا یہ عنایات بےمعنی ہیں ، اور کوئی مقصد ان کے پس پردہ کار فرما نہیں ؟ کیا کائنات کا سارا نظام بلاوجہ حرکت میں ہے یا اس کار گاہ تگ ودو میں کوئی منزل بھی ہے ، اور اس کا کوئی مقصد بھی ہے ، جس کا حاصل کرنا انسانی زندگی کے لئے ضروری ہے ۔ المؤمنون
22 المؤمنون
23 المؤمنون
24 المؤمنون
25 (ف ١) ان آیات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرمایا ہے کہ انہوں نے قوم کو کیا پیغام دیا ، اور ان کے مخالفین نے کس طرح کے بیہودہ اعتراضات سے ان کا غیر مقدم کیا ، ارشاد ہے کہ نوح (علیہ السلام) نے محض توحید کی تلقین کی اور قوم سے کہا کہ صرف ایک خدا کی پرستش کرو ، اس کے سوا تمہارا کوئی چارہ ساز نہیں ہے ، پرہیزگاری اور تقوی کا تقاضا بھی ہے ، کہ تمہارے دلوں میں توحید کی روشنی ہو اور تم بجز اس کی ذات بےآتا کہے اور کسی کے آگے نہ جھکو ۔ قوم کے سرداروں اور بڑوں کو یہ تعلیم پسند نہ آئی کیونکہ وہ بجائے خود اپنی قوم کے معبود بنے ہوئے تھے انہوں نے کہا ہم نوح (علیہ السلام) کی نبوت کو تسلیم نہیں کرتے ، یہ تو معمولی انسان ہے اور اس میں وہ تمام باتیں پائی جاتی ہیں ، جو عام انسانوں میں موجود ہیں اس کی نبوت کا مقصد محض اظہار برتری اور علو ہے ، یہ چاہتا ہے کہ تم پر رعب گانٹھے اور حکومت کرے اگر اللہ کو یہ منظور ہوتا کہ تمہاری طرف راہنما بھیجے تو وہ فرشتوں کو حکم دیتا کہ وہ خدا کے احکام تم تک پہنچائیں اس نوع کی باتیں کہ ایک معمولی انسان اللہ کی طرف دعوت دے پاکبازی کی طرف بلائے اور بتوں کی مذمت کرے ہم نے تو کبھی اپنے باپ دادا سے سنی نہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دماغ میں خلل ہے اس لئے اس کے بارہ میں کچھ دنوں انتظار کرنا چاہئے ۔ حل لغات : التنور : زمین ، وادی ، وہ جگہ جہاں سے پانی برآمد ہو ۔ کل : یعنی ہر ضرورت کی چیز ، قرآن میں لفظ کل کا استعمال استغراق منطقی کے لئے نہیں ہوتا ، بلکہ عام ضروری اشیاء کے لئے ہوتا ہے ۔ المؤمنون
26 المؤمنون
27 المؤمنون
28 اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا سن لی : (ف ١) حضرت نوح (علیہ السلام) کے مخاطبین نے جب اس قسم کے اعتراضات کئے کہ آپ بشر ہیں بعد ایسی عجیب باتیں کہتے ہیں جو ہم نے اپنے بڑوں سے نہیں سنیں اور گناہوں کے ارتکاب میں بیباک ہوگئے ، حضرت نوح (علیہ السلام) کو جھٹلانے لگے ، تو آپ نے نصرت الہی کی دعا مانگی ، فرمایا کہ اللہ میں نے ان تک تیرے پیغام کو پورے خلوص اور شوق سے پہنچا دیا ، اور تقریبا ایک ہزار سال تک ان کو دعوت حق دی ، مگر انہوں نے ہمیشہ تکذیب کی ہمیشہ ستایا ، اور دکھ دیا ، اب ان کے گناہوں کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور ادھر بھی مزید صبر اور برداشت کی گنجائش نہیں ، اس لئے انکو عذاب سے دو چار کر ۔ اللہ نے یہ دعا سن لی اور حکم دیا کہ اس قوم کو پانی میں اس طرح غرق کر دو کہ پھر کبھی نہ ابھر سکیں ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے فرمایا کہ ایک کشتی بناؤ اور جس وقت ہمارے حکم سے تنور (پانی سے بھر کر) جوش مارنے لگے تو تم سب قسم کے حیوانات میں جوڑا جوڑا (یعنی نرومادہ) کشتی میں بٹھا لو ، تاکہ ان کی نسل باقی رہے اور تم ان سے استفادہ کرسکو ، اور اپنے گھر والوں کو بھی کشتی میں بٹھا لو لیکن ظالموں کے حق میں سفارش نہ کرنا وہ ضرور ڈبودیئے جائیں گے ۔ یعنی اللہ کے غصے اور غضب کا تعلق محض گناہوں سے ہے اشخاص مدنظر نہیں ، جو نافرمان اور متمرد ہے اس کے لئے عذاب میں مبتلا ہونا ضروری ہے ، اس بات میں کسی نوع کی تخصیص نہیں ہوگی ارشادہ ہے کہ جب تم اور تمہارے ساتھی کشتی میں بیٹھ جائیں تو خدا کا شکریہ ادا کریں ، کہ اس نے تمہاری مخلصی کا سامان بہم پہنچا دیا ، اور تمہیں ظالموں سے نجات بخشی ۔ عذاب کے متعلق یہ حقیقت سمجھ لینا چاہئے کہ یہ محض غضب وغصہ کی بنا پر نہیں آیا کرتا ، بلکہ اس کا آنا دیگر اسباب ووجوہ پر موقوف ہے ، اور انسانیت کیلئے خیروبرکت کا موجب ہے جب قومیں مفاسد میں مبتلا ہوجاتی ہیں ، اور قالب انسانی اس حد تک بگڑ جاتا ہے کہ بغیر عمل جراحت اصلاح ممکن نہ ہو تو اس وقت عذاب آتا ہے تاکہ انسانیت کا آپریشن ہوجائے اور جسم مفاسد سے سراپا پاک ، یہ عذاب اور طوفان اس محدود رقبے میں آیا تھا جہاں نوح (علیہ السلام) کی قوم آبا دتھی بقیہ دنیا محفوظ رہی ۔ حل لغات : رسولا : بعض روات کے نزدیک اس سے مراد حضرت ہود (علیہ السلام) ہیں ۔ المؤمنون
29 المؤمنون
30 المؤمنون
31 المؤمنون
32 (ف ٢) اس ہلاکت کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد کو خیر وبرکت سے نوازا اور وہ ساری دنیا میں پھیل گئے پھر ان ہی میں سے ایک ان میں رسول بھیجا جس نے اسی پیغام کو دہرایا اور وہی نغمہ توحید سنایا ، جس کو اس سے قبل حضرت نوح (علیہ السلام) بارہا سنا چکے تھے ، اور عجیب بات ہے کہ ان کو اسی قسم کے سرداروں سے وہی جواب سننا پڑا ، جو نوح (علیہ السلام) کو دیا گیا تھا ، کہ تم آخر ہماری ہی طرح کے ایک انسان ہو ، تم میں ایسی کون سی خصوصیات ہیں ؟ کہ تمہیں رسول اور پیغمبر جانیں ۔ یہ واقعات اس لئے بیان فرمائے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوجائے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا پیغام ایک ہے اس کی دعوت ایک ہے اور پروگرام ایک اسی طرح انکار کرنے والے بھی نوح (علیہ السلام) کے زمانے سے لیکر اب تک ایک ہی قسم کے ہیں ، ان کے اعتراضات میں کوئی تحقیق کوئی جدت ، کوئی ندرت نہیں ، ان سب لوگوں کی ذہینت یکساں ہی ہے ۔ المؤمنون
33 المؤمنون
34 المؤمنون
35 المؤمنون
36 المؤمنون
37 المؤمنون
38 قوم ہود (علیہ السلام) کا آخرت سے انکار : (ف ١) دنیا میں ہر وقت ایسے مادہ پرست لوگ موجود رہے ہیں جن کا ایمان آخرت پر نہیں ہوتا ، اور جو چاہتے ہیں کہ انہیں افکار واعمال میں پوری آزادی دے دی جائے ، وہ جو چاہیں کریں ، اور جو چاہیں کہیں ، ان کی روک ٹوک کرنے والا نہ ہو ، وہ محض نفس کے بندے ہوئے ہیں ان کے سامنے صرف یہ نصب العین ہوتا ہے کہ جس طرح ہو ، دنیاوی زندگی عیش سے گزر جائے نہ انہیں اللہ کا ڈر ہوتا ہے ، اور نہ اعمال کی باز پرس کا خیال ، انکی رائے میں انسان کو آزاد پیدا کیا گیا ہے اور اس کی زندگی کا کوئی اخلاقی مقصد نہیں ، وہ ایک حیوان ہے جو کھاتا پیتا اور مرجاتا ہے بخلاف اس کے مذہب نے ہمیشہ ایمان بالآخرۃ کے عقیدے پر زور دیا ہے ، اور اس کی اہمیت کو واضح طور پر بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ اس عقیدے کی بدولت شخصی ذمہ داری کا خیال پیدا ہوتا ہے اس کا ماننا اخلاق اور روحانیت کے قیام کیلئے از بس ضروری ہے کیونکہ مذہبی عقائد سے جو شخص عاری ہے جو خدا سے نہیں ڈرتا اور اس کو نہیں جانتا ، آخرت کو ایک نوع کا واہمہ قرار دیتا ہے ۔ وہ ہرگز نیکی کی جانب راغب نہیں ہو سکتا ۔ غور فرمائیے ، کیا نیکی کے لئے اس شخص کے دل میں کوئی تحریص پیدا ہو سکتی ہے جو موت کے بعد زندگی کا قائل نہیں ؟ وہ نیکی اور بدی کے ثمرات کا فرق سمجھنے سے یکسر قاصر رہے گا ۔ بات یہ ہے کہ ایمان بالاخرۃ کا عقیدہ ایک اساسی اور بنیادی عقیدہ ہے اس سے دلوں میں خشیت الہی پیدا ہوتی ہے ، نیز دیانتداری اور فرائض کا احساس بڑھتا ہے کیونکہ اس عقیدہ کو ماننے والا احتساب اور مکافات پر پورا پورا یقین رکھتا ہے ، سرکشی اور معصیت کے لئے اس وقت دل میں تحریک ہوتی ہے جب مکافات اور سزا کا خیال دماغ سے بالکل نکل جائے ، اس وقت انسان پر ہوائے نفس کا پورا تسلط ہوتا ہے ، ان وجوہ کی بنا پر ہر نبی نے اپنی قوم کو ایمان بالاخرۃ کی تلقین کی ، اور کہا کہ دیکھو تمہاری یہ زندگی عارضی ہے اور تمہیں آگے بڑھنا ہے اور ایک دائمی وابدی زندگی بسر کرنا ہے اس دائمی وابدی زندگی کی تیاری کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس زندگی کو تسلیم کرو ، اور اس کے بعد اس میں کامیاب وکامران رہنے کے لئے جدوجہد کرو ، حضرت ہود (علیہ السلام) نے جب یہ عقیدہ اپنی قوم کے سامنے پیش کیا تو حسب معمول ان مادہ پرست لوگوں نے وہی پرانے اعتراضات شروع کردیئے کہنے لگے کی موت کے بعد بھی زندگی ہے کیا جب ہم مٹی ہوجائیں گے ، اور ہمارا قالب ہڈیوں کی صورت میں باقی رہ جائے گا اس وقت بھی ہمیں اٹھایا اور چلایا جائے گا ، یہ بات تو باکل عقل وفہم سے عبید ہے یہ تو ہم کبھی تسلیم نہیں کرسکتے ، ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ بس یہی زندگی ہے اس کے بعد نہ جینا ہے اور نہ مرنا ، ہم میں سے کوئی شخص نہیں اٹھایا جائے گا ، یہ شخص تو سراسر مفتری اور کاذب ہے اور باز پرس کے خیال سے جذبہ احتیاط اور ولولہ بیداری قلوب میں موجزن ہوتا ہے ، اور ہم اس کی بات ماننے کیلئے ہرگز تیار نہیں ، حضرت ہود (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی کہ مولا یہ میرے پیغام کو نہیں مانتے ، اور مجھے جھٹلاتے ہیں ، تو ان سب سے نبٹ لے اور میری مدد کر ۔ نتیجہ یہ ہوا ، کہ دستور الہی کے موافق عذاب الہی آیا ، اور ان تمام مادہ پرست منکرین کو خس وخاشاک کی طرح بہا کرلے گیا ، اس وقت انکی کوئی منطق کام نہ آسکی اور نہ ان کے اعوان وانصار انہیں بچا سکے ، ارشاد ہے کہ یہ قانون ہلاکت ناگزیر اور ضروری ہے ، جب وقوع پذیر ہوتا ہے تو پھر اس میں تقدم وتاخر نہیں ہوسکتا ۔ حل لغات : اترفنھم : التراف سے ہے جس کے معنے بہت نعمت دنیا مراد آسودہ حالی سے ہے ، ھیہات ھیہات : بور وتعذر کو ظاہر کرنے کیلئے ہے ۔ فبعدا : لعنت اللہ کی رحمت سے دوری ، تترا : مسلسل پیہم پے درپے ، ۔ احادیث : حدیث کی جمع ہے بمعنی بات ، حکایت اور قصہ ۔ المؤمنون
39 المؤمنون
40 المؤمنون
41 المؤمنون
42 المؤمنون
43 المؤمنون
44 المؤمنون
45 المؤمنون
46 آزادی ہر شخص کا انسان حق ہے : (ف ١) جن لوگوں پر اللہ کا عذاب آیا ، ان میں فرعون اور اس کی قوم بھی تھی یہ نہیں تحقیق ہوسکا کہ یہ کون فرعون تھا ، البتہ یہ حقیقت ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) سے تقریبا چار سو سال بعد مصر میں بنی اسرائیل کی حالت بہت خراب تھی وہ ہر طرح غلامی کی لعنتوں میں گرفتار ہوگئے فرعون نے ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے اور ان کو ہر نوع کی خوبیوں سے محروم رکھا ، ان کے جذبات غیر وحمیت کو کچل دیا اور مفلس اور نادار بنادیا تاکہ وہ ہمیشہ فرعون اور اس کی قوم کے محتاج رہیں ۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے ان کی اصلاح کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وہارون (علیہ السلام) کو آیات ومعجزات دیکر بھیجا ، تاکہ وہ بنی اسرائیل میں روح بیداری پھونکیں ، اور ان کو فرعون کے چنگل سے چھڑائیں ۔ چنانچہ انہوں نے فرعون سے کھلے بندوں مطالبہ کیا ، کہ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دو ، ہم بنی اسرائیل کی آزادی وحریت کے کفیل ہیں ہم خدا کا پیغام لے کر آئے ہیں ، اور ایک لمحہ کیلئے بھی تیری خدائی کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ فرعون اور اس کی قوم نے یہ مطالبہ سنا تو از راہ تکبر کہنے لگے کیا ہم اپنے جیسے ان دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں ، اور ان کی قوم کے لوگ ہمارے خدمت گار ہیں یہ کس طرح ممکن ہے ، علو وبرتری کے تحیل نے فرعون اور اس کے حاشیہ برداروں کو اندھا کردیا ، اور وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ آزادانہ زندگی بسر کرنا قوم کا انسانی حق ہے ، جس کا چھین لینا سراسر ظلم تعدی ہے ، بالآخر اس ظلم اور تکذیب کا نتیجہ یہ ہوا ، کہ ان لوگوں کو فنا کے گھاٹ اتار دیا گیا ، عین اس وقت جب یہ لوگ بنی اسرائیل کا تعاقب کر رہے تھے دریا کی موجوں نے آلیا ، اور یہ اپنے سازو سامان اور عزت وغرور کے ساتھ غرق ہوگئے ۔ المؤمنون
47 المؤمنون
48 المؤمنون
49 (ف ٢) یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کا مقصد صرف قوم کی آزادی تھا بلکہ یہ بھی تھا کہ بنی اسرائیل کی روحانی تربیت کی جائے تاکہ وہ دوسری قوموں کے لئے اسوہ ونمونہ بنیں ، اسی نے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک روشن کتاب عنایت فرمائی تاکہ وہ گمراہی کی ظلمتوں سے نکل کر ہدایت کی روشنی میں آجائیں ۔ المؤمنون
50 المؤمنون
51 (ف ٣) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کی ماں کو اس آیت میں ایک نشانی قرار دیا گیا ہے بہت سی نشانیوں سے تعبیر نہیں کیا گیا جس کے معنی یہ ہیں کہ ایک خرق عادت میں دونوں برابر کے شریک ہیں ، اور وہ خرق عادت ولادت بلا زوج ہے یعنی مریم (علیہ السلام) نے بغیر خاوند کے بچہ جنا اور مسیح (علیہ السلام) بغیر باپ کے پیدا ہوئے لہذا یہ نشانی ہے ان مادہ پرستوں کے لئے جو اسباب و علل کی بحث میں الجھے ہوئے ہیں اور اس خالق العلل کی قدرتوں اور حکمتوں سے آگاہ نہیں ، اور اس میں دونوں برابر کے شریک ہیں ۔ مقصد یہ ہے جس قدر پیغمبروں کا ذکر گزر چکا ہے ، سب کو یہ تعلیم دی گئی تھی کہ وہ قوم میں اکل حلال کا جذبہ پیدا کریں اور انہیں نیکی وصلاح کی طرف بلائیں ، اور یہ یقین دلوں میں پیدا کریں ، کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہر حل کو دیکھ رہا ہے ۔ حل لغات : ربوۃ : اونچی جگہ ، غالبا یہ مسیح کے بچپن کا واقعہ ہے ، حضرت مریم نے جب دیکھا کہ قوم کی مخالفت بڑھ رہی ہے تو وہ ان کو لیکر دمشق کی زمین میں چلی گئیں ۔ المؤمنون
52 المؤمنون
53 المؤمنون
54 المؤمنون
55 مال ودولت آزمایش ہے ! (ف ١) مخالفین اور معاندین جب یہ دیکھتے ، کہ اللہ تعالیٰ نے باوجود اسلام کی مخالفت اور عداوت کے ان کو مال اولاد سے بہرہ ور کر رکھا ہے ، تو وہ یہ سمجھئے کہ یہ اللہ کا فضل ہے اور اس کی نوازش ہے وہ ہم سے خوش ہے جبھی تو ہمیں سب کچھ دے رہا ہے قرآن حکیم کہتا ہے یہ ان کی سادہ لوحی اور نافہمی ہے ، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے قانون مکافات سے آگاہ نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی عادت ہے کہ وہ منکرین کی مادی مسرتوں میں مخل نہیں ہوتا ، اور ان کے مال ودولت میں خلل انداز نہیں ہوتا تاآنکہ ان کا غرور اور گناہ اصلاح وہدایت کی تمام قوتیں چھن جاتی ہیں ، اور وہ فنا کے قریب ہوجاتے ہیں ۔ جو لوگ نیک اور پاکباز ہیں کبھی مال ودولت پر مغرور نہیں ہوتے اور کبھی مادی آسائشوں کو تقوی وصلاح کا معیار قرار نہیں دیتے بلکہ جس وقت ان کے ہاتھ میں دولت آجاتی ہے تو وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ خدا کی طرف سے آزمائش نہ ہو ۔ حضرت فاروق (رض) کے متعلق مشہور ہے کہ جب فتوحات معرکے سلسلہ میں کسری کے کنگن ان کو ہے تو انہوں نے سراقہ کو دے دینے اور کہا ، یا اللہ میں نہیں چاہتا کہ یہ بیش قیمت زیور میرے لئے وجہ ابتلا ہوجائے میں اسے ایک مسلمان کو دیئے دیتا ہوں ۔ المؤمنون
56 المؤمنون
57 المؤمنون
58 المؤمنون
59 المؤمنون
60 المؤمنون
61 (ف ١) ان آیات میں ان لوگوں کا ذکر فرمایا ہے ، جو نیکیوں کے حصول میں سبقت کرتے ہیں ، اور چاہتے ہیں کہ جلدی جلدی دامن مراد کو نیکیوں اور فضیلتوں سے بھر لیں ، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ کی محبت ہے اور وہ ہر وقت اس کی نافرمانی سے ڈرتے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ ان کا محبوب خدا انکی کسی حرکت سے ناراض ہوجائے ، وہ اللہ کی آیتوں پر مضبوط ایمان رکھتے ہیں ، اور اس کے حکموں کو مانتے ہیں ، وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے وہ جانتے ہیں کہ اللہ کی ذات بےمثل اور بےہمتا ہے اور اس قابل ہے کہ پوری توجہ کے ساتھ اس کی عبادت کی جائے ، وہ اللہ کی راہ میں اپنے مال ودولت کو خرچ کرتے ہیں اور دل میں ڈرتے بھی ہیں ، کہ اس میں ریا اور نمود کا شائبہ نہ ہونے پائے ۔ المؤمنون
62 (ف ٢) اس آیت میں اسلامی اصول فقہ وتشریح کی فضیلت بیان فرمائی ہے کہ یہ بہت آسان اور سہل ہے ، اور اس میں کوئی بات ایسی نہیں جو انسانی طاقت اور وسعت سے باہر ہو ، بات یہ ہے کہ اسلام سے قبل جس قدر مذاہب موجود تھے سب ہیں ریاضات شاقہ کو عبادت قرار دیا گیا تھا ، اور یہ بتایا دیا تھا کہ تم جس قدر تکلیف اٹھاؤ گے اسی قدر اللہ تعالیٰ کو اپنے قریب پاؤ گے اسلام کہتا ہے یہ اصول غلط ہے ، عبادات اور اس کے قدر ہلکا پھلکا اور آسان ہونا چاہئے ، کہ ہر شخص برداشت کرینگے ، چنانچہ اسلام ایسا ہی آسان مذہب ہے جو رہبانیت اور شکر پسندی کو ناجائز قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو خوش اور مسرت کی عبادت زیادہ پسند ہے ایسی عبادت جو طبیعت پر بار اور بوجھ ہو بہتر نہیں ۔ حل لغات : وجلۃ : خوفزدہ : غمرۃ : بمعنے سختی ، مراد غفلت اور جہالت سے ہے ۔ مترفیہم : سرمایہ دار ، اور خوش حال لوگ ترف سے ہے ، جس کے معنے نمارہ اور ستر زندگی بسر کرنے کے ہیں ۔ یجئرون : جوار سے ہے آزاد بلند کرنا ، چلانا ۔ المؤمنون
63 المؤمنون
64 المؤمنون
65 آج نہ چلاؤ: (ف ١) ارشاد ہے کہ سرمایہ دار اور خوشحال لوگ جو ازراہ غرور وکبر اسلام کی صداقتوں اور سچائیوں کو ٹھکرا رہے ہیں ، ایک وقت آئے گا جب نہایت بیچارگی کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کئے جائیں گے ، اور ان کے عذاب کا فیصلہ ہوگا ، اس وقت یہ چیخیں گے اور چلائیں گے ، اور فریاد کریں گے ، تب ہم کہیں گے آج چیخنا اور چلانا بالکل بےسود ہے ، تمہیں ہم سے کوئی مدد نہیں ملے گی ، جانتے ہو ، دنیا میں تمہارا وتیرہ کیا تھا تمہارے پاس میرے احکام آنے اور تم نے انکار کردیا ، میری آیتیں پڑھی گئیں ، اور تم انہیں سن کر بھاگ کھڑے ہوئے تم نے تکبر اور غرور کا اظہار کیا ، تم نے راتوں کو قرآن کو ہجو ومذمت کے افسانوں میں گزار دیا اور پوری کوشش کی کہ لوگ تعلیمات حقہ سے بیزار ہوجائیں ، بات یہ تھی کہ قریش مکہ جب رات کو اپنی محفلیں آراستہ کرتے ، اور باتیں چھڑتیں تو قرآن مہم کی ہجو ومذمت کیلئے فسانے تراشے جاتے ، اور قرآن کی توہین کو موضوع حسن قرار دیا جاتا ، ہر شخص مزے لے لے کر قرآن پر حملے کرتا ، اور پھر سامعین سے داد طلب کرتا ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کیا ایسے جرم کے ارتکاب کے بعد بھی تم فریاد و زاری کرکے توقع رکھتے ہو کہ ہم تمہیں عذاب سے بچائیں گے یہ امید غلط ہے ، اور یہ توقع بالکل فضول ہے ۔ المؤمنون
66 المؤمنون
67 المؤمنون
68 المؤمنون
69 (ف ٢) فرماتے ہیں کیا انہوں نے اس کلام میں غور وفکر نہیں کیا اور کیا انہوں نے نہیں سوچا ، کہ قرآن کا انداز بیان ہی بتا رہا ہے کہ یہ کلام کسی انسانی دماغ کی اختراع نہیں ، قرآن کی بلاغت ووضاحت قرآن کا پیغام اور جامعیت قرآنی تعلیمات کا تجربہ یہ سب باتیں اس بات کی کھلی دلیل ہیں کہ یہ کلام بلاشبہ اللہ کا کلام ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ آخر ان لوگوں کو قرآن پر تنقید کرنے کی کیوں جرات ہوئی انہوں نے بےسوچے سمجھے کیوں اسے ہدف استہزاء بنایا ، جب کہ اس کا انداز بیان صاف طور پر بتلا رہا ہے ، کہ انسانی علم اس کی مثل پیدا کرنے سے یک قلم قاصر اور عاجز ہے ۔ اللہ تعالیٰ دریافت فرماتے ہیں ، کیا اس میں کوئی انوکھا پیغام ہے جو تم نے نہیں سنا ، اور محض عجیب اور نادر ہونے کی وجہ سے اس کے منکر ہو ، یا کچھ اور معاملہ ہے ؟ المؤمنون
70 ہم نے رسول کا انکار کیا تھا ، کیا باوجود دلائل و براہیم کے تم نے اسے نہیں پہچانا ، یا تمہاری نظروں میں اسے خلل دماغ کا عارضہ تھا ؟ اس کے بعد خود جوابا ارشاد فرمایا ، کہ ان باتوں میں کوئی بات بھی صحیح نہیں ، اصل واقعہ یہ ہے کہ قرآن سراسر حق وصداقت ہے ، اور پیغمبر سچا ہے ، یہ ان لوگوں کی محرومی اور شقاوت ہے ، کہ انہوں نے قرآن کو تسلیم نہیں کیا اور خواہشات نفس کی پیروی کی ۔ المؤمنون
71 (ف ١) یعنی پیغمبر لوگوں کی راہ نمائی پر مامور ہوتا ہے ، اس سے یہ امید نہیں رکھنا چاہئے ، کہ وہ ضرور عوام کی خواہشات کی موافقت کرے گا اور عوام کے جذبات کی رعایت کرکے حق کو چھپائے گا ۔ المؤمنون
72 المؤمنون
73 (ف ٢) اس آیت میں اس حقیقت کا اظہار فرمایا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں سے روپیہ بٹورنے کی خواہش نہیں رکھتے تھے بلکہ سراسر بےنیاز تھے اور مخلصانہ طور پر لوگوں کو صراط مستقیم کی جانب دعوت دیتے تھے مگر یہ لوگ بےدین اور ملحد ہونے کی وجہ سے صراط مستقیم پر گامزن نہ ہو سکے اور گمراہ رہے ۔ المؤمنون
74 المؤمنون
75 (ف ٣) کفار کی نفسیات کفر کی تشریح فرمائی ہے ، کہ یہ لوگ لا بد تمرد ، وسرکشی میں سرگردان رہیں گے ، ہم اگر ان کو اپنی آغوش رحمت میں بھی لے لیں ، ان کے جرائم سے درگزر کریں ، اور عذاب کو ٹال دیں ، جب بھی ان کی کیفیت یہی رہے گی ، کہ ادھر عذاب دور ہوا ، ادھر یہ اسی کفر والحاد میں پھر مبتلا ہوگئے ۔ المؤمنون
76 (ف ٤) اس عذاب کے تین میں مفسرین کا اختلاف ہے اور مندرجہ ذیل واقعات اس سلسلے میں بیان کئے جاتے ہیں ۔ ، ١۔ ثمامہ بن اثال نے جب اسلام قبول کیا ، تو اس نے یمامہ جا کر مکہ والوں کا غلہ روک لیا ، نتیجہ یہ ہوا ، کہ سخت قحط پڑا ، اور بڑے بڑے صنادید قریش بھی مارے جھوک کے بلبلا اٹھے ، ابو سفیان نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا ، کیا آپ رحمۃ اللعالمین نہیں ہیں ؟ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیوں نہیں اس نے کہا تو اللہ سے دعا کیجئے ، قحط دور ہو ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دریائے رحمت جوش میں آگیا آپ نے دعا کی اور قحط دفع ہوگیا ، اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں ۔ ٢۔ بدر کے دن جو ذلت ورسوائی قریش کے حصہ میں آئی تھی اس کی طرف اشارہ ہے کہ باوجود شکست فاش دینے اور اسلام کی فتح وکامیابی کے ان کے دلوں میں کوئی تاثر پیدا انہیں ہوا ، اور یہ قطعا نہیں پسیجے ۔ ٣۔ عام دنیوی مشکلات مراد ہیں کہ یہ لوگ روزانہ مصائب وحوادث سے دوچار ہوتے ہیں ، مگر رجوع لائے اللہ کا جذبہ انکے دلوں میں پیدا نہیں ہونا ۔ حل لغات : خرجا : مال ودولت ۔ لناکبون : ناکب کی جمع ہے ، نکب عن الطرق کے معنے ہوتے ہیں ، راستے سے ہٹ گیا ۔ المؤمنون
77 المؤمنون
78 دیدہ عبرت سے دیکھو : ! (ف ١) یعنی اللہ تعالیٰ نبے جو تمہیں اعضاوجوارح عنایت فرمائے ہیں تو اس لئے کہ دنیا کو عبرت کی نگاہ سے دیکھو اور یہاں کی ہر چیز پر مبصرانہ غور کرو ، کان دیئے ہیں ، تاکہ اچھی باتوں کو سنو ، آیات وحکم کو گوش گزار کرو ، اور ان چیزوں کی سماعت کرو جو تمہاری اخروی زندگی کے لئے ضروری ہیں ، تمہیں آنکھیں دی ہیں ، تاکہ اللہ کی نشانیوں کو دیکھو ، اور حقائق کا ملاحظہ کرو ، اور دل دیا ہے تاکہ سوچو ، اور غور وفکر کرو ، پھر اگر تم لوگ اللہ کی ان نعمتوں سے استفادہ نہیں کرتے ، تو یہ کھلی ناشکری ہے ۔ واضح رہے کہ افئدۃ ‘ کا لفظ بطور عرف لسانی استعمال ہوا ہے ، مقصد یہ ہے کہ تمہیں شعور واحساس کی قوتیں عطا کی ہیں اور سمجھ بوجھ بخشی ہے ۔ المؤمنون
79 المؤمنون
80 (ف ٢) خدا کی ذات اس درجہ ظاہر وباہر ہے کہ اس کا انکار عقلا محال ہے چنانچہ ارشاد ہے کہ اس نے تمہیں زمین میں خلعت وجود دے کر بھیجا ، تمہیں کتم عدم سے نکالا ، اور منصہ شہود پرجلوہ گر کیا ، تم خارج میں کوئی حیثیت نہ رکھتے تھے ، اس نے اپنی نیابت کا پیراہن تمہیں بخشا ، کیا اس کے بعد بھی انکار والحاد کے لئے کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے ؟ اس کے بعد تمہیں اس کے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیش ہونا ہے ، تاکہ وہ دریافت کرے ، کہ تم نے کیونکر اپنے فرائض منصبی کو ادا کیا حیات اور موت بھی اس کے اختیار میں ہے وہ جسے چاہے زندہ رکھے ، اور جس کو چاہے چشم زدن میں موت کے گھاٹ اتار دے ، اسی طرح کائنات میں جس قدر تبدیلیاں اور انقلابات ہوتے ہیں ، وہ سب اس کے ارادہ وحکم کے ماتحت ہوتے ہیں ، وہ چاہے تو ظلمتوں کو روشنی سے بدل دے اور روشنی کو تاریکیوں میں چھپا دے ، دن کے بطن سے رات کی سیاہی کو پیدا کرے ، اور شب یلدا کے پیٹ سے روز روشن کو ، وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ حل لغات : مبلسون : مایوس ، ابلیس اسی سے ہے یعنی اللہ کی رحمتوں سے نا امید ۔ المؤمنون
81 المؤمنون
82 المؤمنون
83 المؤمنون
84 المؤمنون
85 المؤمنون
86 المؤمنون
87 المؤمنون
88 (ف ١) غرض یہ ہے کہ گو دل ودماغ شرک اور بت پرستی کے غبار سے اٹ جائے مگر توحید کے نقوش ان میں ضرور موجود رہتے ہیں ، کیونکہ توحید فطرت ہے توحید دل کی آواز ہے ، اور توحید انسانیت ہے چنانچہ ارشاد ہے کہ اگر ان بت پرستوں سے آپ پوچھیں گے کہ اس زمین اور اس پر بسنے والے لوگوں کا مالک کون ہے ؟ سات آسمانوں اور عرش عظیم کا پروردگار کون ہے ؟ ہر چیز پر کس کی حکمرانی ہے ؟ اور کس کے ہاتھ میں ہر وقت تمام اختیارات ہیں کہ وہ جس کو چاہے پناہ دے اور جس کو چاہے محروم رکھے ، تو وہ بےاختیار پکار اٹھیں گے کہ اللہ ہی ان صفات سے متصف ہے ، قرآن پوچھتا ہے کہ اگر یہ جواب تمہاری نظروں میں صحیح ہے ، تو پھر تم کیوں غور وفکر سے کام نہیں لیتے ؟ تمہارے دلوں میں کیوں پرہیزگاری اور تقوی کے جذبات پیدا نہیں ہوتے ؟ کہا عقل سلیم کو کھو بیٹھے ہو ، کہ بےوقوفوں کی طرح کائنات کے ذرہ ذرہ کے سامنے سجدہ کناں ہو ، تمہیں چاہئے کہ دل کے چشموں سے استفادہ کرو ، اور توحید کے سوتوں سے سیرابی حاصل کرو ، دل اور فطرت کی آواز کو سنو ، اور اس سچی اور حقیقی پکار پر کان دھرو ، تمہیں باہر دیکھنے کی ضرورت نہیں ، خود اپنے اندر اپنی ہستی پر غور کرو ، تمہیں معلوم ہوگا ، کہ توحید پوری روشنی کے ساتھ جلوہ آراء ہے ۔ حل لغات : اساطیر : اسطورہ کی جمع ہے کہانی ، افسانہ ، خود ساختہ بات ، سخنے باطل ۔ ملکوت : اختیار ، بادشاہت ۔ یجار : پناہ عنایت کرتا ہے ۔ المؤمنون
89 المؤمنون
90 المؤمنون
91 خدا کے بیٹا نہیں : (ف ١) عیسائیوں کا یہ عقیدہ کہ خدا کی اولاد ہے اور معاذ اللہ ابن مریم (علیہ السلام) خدا کا بیٹا ہے ، بالکل غیر عقلی عقیدہ ہے ، کیونکہ چند خدا ہونے کی صورت میں سخت اختلاف وتشتت کائنات میں رونما ہوجائے ، باپ کچھ چاہے ، اور بیٹا کچھ ارادہ کرے ، اسی طرح ہو سکتا ہے کہ روح القدس ان دونوں کی مخالفت میں قوت آرائی کی ٹھان لے ، اور اس طرح دنیا مسابقت اور مقابلہ کا میدان بن جائے آپ نے ہندو میتھالوجی ، (علم الاصنام) میں دیکھا ہوگا ، کہ دیوتا ایک دوسرے سے دست وگربیان ہیں ، ہر ایک اپنے مقابل سے قوت وطاقت میں بڑھ جانا چاہتے ہیں ، یہ کیوں ؟ اس لئے کہ اگر سب خدا ہیں ، اور سب کے اختیارات کامل ہیں ، تو پھر ارادہ کی یک جہتی منطقی لحاظ سے قطعا غلط ہے ، ورنہ تعدد کا مفہوم بالکل باطل ہوجائے گا آپ غور فرمائیے کیا ایسی دو چیزیں فرض کی جا سکتی ہیں ، جو ماہیت ، کیفیت ، خصائص ، اور جہت کے اعتبار سے بالکل یکسان ہوں ؟ یقینا ذہن انسانی اس نوع کے تصورات سے حتما عاجز ہے کیونکہ جب آپ ان چیزوں کو دو فرض کر رہے ہیں تو اس کا پہلا مفہوم یہ ہے کہ ان میں بعض خصوصیات ایسی ہیں جن کی وجہ سے یہ ایک دوسرے سے ممتاز اور جدا ہیں اور دو ہیں اور بعض ایسی ہیں جن کی وجہ سے ان میں بعضے دو مشترک چیزوں میں ایک مابہ الامتیاز کی ضرورت ہے جو ان میں حد فاصل کا کام دے ، اب آپ سوچئے کہ متعدد الہیہ میں وجہ تعدد یا ماہب الامتیاز کیا ہو سکتا ہے ؟ کیا صفات علم وحکمت یا خصوصیات حسن وجمال ؟ ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی چیز نہیں ہو سکتی ، کیونکہ خدا کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ کاملا حسن وجمال اور علم وحکمت کی صفات عالیہ سے متصف ہو ، پھر صرف ایک وصف باقی رہ جاتا ہے اور وہ ارادہ ہے ، اور جب ارادہ کے لحاظ سے آپ نے سب کو مختار مان لیا ، تو اختلاف ناگزیر ہے ، ورنہ تعدد باطل ٹھہرتا ہے ، حالانکہ یہ خلاف مقراض ہے ہے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اس کی ذات کا تصور اور تخیل ہی اتنا بلند اور پاکیزہ ہے ، کہ مشرکانہ خیالات کے لئے اس میں زرہ برابر گنجائش نہیں رہتی ۔ المؤمنون
92 (ف ٢) اس میں اس حقیقت کا بیان ہے کہ پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا صرف کر وہی ہے ، غیب سے مراد ایسا علم ہے جو بغیر کسی ذرائع طبعی ومنطق کے معلوم ہوجائے کیونکہ دو حالتیں جن کے معلوم کرنے کے لئے قدرت نے اسباب وذرائع پیدا کردیئے ہیں ان کا جان نہیں کوئی بہت بڑا کمال نہیں ۔ المؤمنون
93 المؤمنون
94 المؤمنون
95 المؤمنون
96 المؤمنون
97 ہمزاد شیاطین : (ف ١) قرآن حکیم کا یہ انداز بیان ہے کہ وہ بعض اوقات کچھ احکام واوامر بیان کرتا ہے اور مقصود ان سے یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان احکام واوامر پر عمل پیرا ہیں ، اس لئے ان کے ماننے والے بھی ان کی پیروی کریں اور جو لوگ کہ اس اسلوب خاص سے آگاہ نہیں ہوتے ، وہ سمجھتے ہیں کہ شاید حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان باتوں سے مطلع اور متصف نہیں ، اس لئے حکم دیا جا رہا ہے ، کہ ان سے انصاف پیدا کیجئے ، بہ غلط اور محض غلط ہے اور سراسر قرآن نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے ، چنانچہ کوتاہ عقل مشتنریوں اور نافہم آریہ سماجی مبلغوں نے اس نوع کی آیات سے ناجائز استثناء کیا ہے اور کہا ہے ، معاذ اللہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دل ودماغ وساس سے پاک نہ تھا ، اصل میں اس قسم کا طرز تخاطب اس لئے اختیار کیا گیا کہ یہ ستایا جائے کہ خدا سے براہ راست تعلقات رشد وہدایت استوار نہیں ہو سکتے ، جب تک کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وسیط (میڈیم) یعنی میانہ وبرگزیدہ فرار دیا جائے ، اور آپ کی باتوں پر اعتماد نہ کیا جائے ، ظاہر ہے کہ آپ کی ساری زندگی پاکبازی اور عفاف وعصمت کے روشن نمونوں سے معمور ہے ، ان بدباطن لوگوں کو چاہئے ، کہ ان آیات کے ساتھ اس آیت کبری کی سیرت کو بھی اپنے سامنے رکھیں اور پھر فرمان سمجھنے کی کوشش کریں ۔ آج سے چند سال قبل تو جنات اور ان کے اختیارات امتیازی کا انکار لکھا جاتا تھا ، مگر جدید تحقیق سے ثابت ہوگیا کہ بعض خبیث روحیں یا شیاطین ایسے ہوتے ہیں جو دل ودماغ کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، یوں سمجھ لیجئے ، جس طرح جراثیم بدن میں بیماری اور مرض پیدا کرنے کا باعث ہوتے ہیں ، اسی طرح یہ روحی جراثیم ، روحانی امراض پیدا کرنے کا موجب ہوتے ہیں ۔ المؤمنون
98 المؤمنون
99 (ف ٢) یعنی یہ لوگ اس وقت تک اللہ اور اس کے دین سے متعلق غلط فہمی میں رہیں گے جب تک کہ موت ان کی آنکھیں کھول نہ دے ، جب دنیوی زندگی ختم ہوجائے گی اور ساری قوتیں جواب دیدیں گی اور عذاب کی گھڑی سامنے ہوگی ، اس وقت یہ کہیں گے ، سواب کی آور موقع دو ، اور ہمیں دنیا میں بھیج کر دیکھو کہ کیونکر صالح اور نیک بندے ثابت ہوتے ہیں ، ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اب اس قسم کے مطالبات بیکار ہیں یہ عالم قبر ہے ، اس کے بعد عالم حشر ونشر ہے اور سب لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس عالم میں اپنے اعمال نیک وبد کو پیش ہوتا دیکھیں ، اور نتائم کا انتظار کریں ۔ المؤمنون
100 المؤمنون
101 (ف ٣) یعنی جس قدر یہ امتیازات ہیں سب دنیا تک کے لئے ہیں ، آخرت میں یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تمہارا تعلق کس خاندان سے ہے اور کن لوگوں سے انتساب رکھتے ہو وہاں تو اعمال تلیں گے اور افعال جانچے جائیں گے وہ لوگ کامیاب وکامران رہیں گے جن کے کردار وزنی ہوں گے جنہوں نے دنیا میں کارہائے مستحسن سرانجام دیں گے اور جن کے پاس زاد عقبے کا وافر ذخیرہ ہوگا ، اور جن کا دامن تہی ہوگا دنیا میں غفلت اور گمراہی میں زندگی بسر کی ہوگی اس دن پچھتائیں گے اور جہنم کے عذاب سے دوچار ہوں گے ۔ حل لغات : ہمزات : ہمزہ کی جمع ہے معنی وسوسہ انداز اور دل میں بڑائی کے لئے تحریک پیدا کرنا ، وساوس شیطانی ، برزخ : حائل ہونے والی چیز حجاب درماینا ، عالم قبر مرنے سے قیامت تک کا زمانہ ۔ المؤمنون
102 المؤمنون
103 المؤمنون
104 المؤمنون
105 المؤمنون
106 منکرین کی محرومی وبدبختی : حشمت و جاہ کے عارضی اور فانی ہونے پر خود دنیا میں اس قدر دلائل و براہین موجود ہیں کہ علقمند انسان کے لئے مقام انکار نہیں ، ہو سکتا ہے کہ محض استدلال کی قوت سے صاحب بصیرت ایمان بالآخرۃ کی دولت گرانمایہ سے بہرہ ور ہوجائیں ، مگر یہ اللہ تعالیٰ کی نوازش ہے کہ وہ پیغمبر بھیجتا ہے ، کتابیں نازل کرتا ہے اور معجزات وخوارق کے مطالعہ کا موقع دیتا ہے ۔ تاکہ ظلوم وجہول انسان اپنی زندگی کے مقصد اعلی کا سمجھے ۔ اور یہ جاننے کی کوشش کرے کہ یہ سارے مادی سازو سامان محض فانی ہیں ، مگر منکرین کی غفلت اور محرومی کا یہ عالم ہے کہ کہ باوجود اس اہتمام رشد وہدایت کے دنیا کے فنا ہونے کا انہیں یقین نہیں آتا ، وہ حیوۃ دنیا دائمی سمجھے ہوئے کفر ومعصیت کا ارتکاب کرتے چلے جاتے ہیں ، اور بزعم خود یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمیشہ ایسی حالت سرور میں رہیں گے اور کوئی ان سے ان کے اعمال کے متعلق باز پرس نہیں کرے گا ۔ ان کے پاس اللہ کے رسول آتے ہیں تاکہ انہیں خواب غفلت سے بیدار کریں مگر یہ الٹی ان کی ہنسی اڑاتے ہیں ، آیتیں پڑھ کر سنائی جاتیں رہیں مگر یہ جھٹلاتے تھے معجزات وآیات کا ظہور ہوتا ہے مگر یہ روایتی غرور و نخوت میں مخمور رہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جب یہ لوگ جہنم میں پھینکے جائیں گے ، تو اس وقت اعتراف معاصی وبدبختی کرتے ہوئے گناہوں سے تنفر اور بیزار کا اظہار کریں گے اور کامل الحاح وتضرع سے کہیں گے کہ پروردگار ہمیں جہنم سے مخلصی عنایت کر اور دنیا میں دوبارہ بھیج دے اگر پھر ہم ایسے کام کریں ، تو یقینا ظالم ٹھہریں گے ، اللہ تعالیٰ جواب دیں گے ، اس وقت تو تمہارے لئے ذلت ورسوائی مقدر ہوچکی ہے ، اس لئے اس باب میں مزید کہنے سننے کی گنجائش نہیں ۔ تمہیں معلوم ہے تمہارے سامنے ایک گروہ نے ایمان کی دعوت کو قبول کیا تھا ، اور مجھ سے رحمت ومغفرت کو طلب کیا تھا مگر تم نے ان کا مضحکہ اڑایا ، اور ان کے اس پاک جذبہ کی تحقیر کی تم میری عظمت وجلال کو بھول گئے اور میرے پیغام کو پس پشت ڈال دیا ، اس لئے تمہاری سزا تو بہر آئینہ جہنم ہے ، مگر یہ لوگ جنہوں نے صبر واستقامت سے کام لیا فوز وفلاح کے مستحق ہیں ۔ جہنم میں جو سزا ملے گی وہ بالکل ان کے اعمال ومزعومات باطلہ کے مطابق ہوگی ، چنانچہ دنیا میں یہ لوگ جس طرح دنیا کو دائمی سمجھتے تھے آخرت میں بھی عذاب کے غیر مختتم کلفتوں کے لحاظ سے اسی طرح اس کو حقیر قرار دیں گے ، ارشاد ہوتا ہے کیا تم سمجھ رہے ہو ، کہ ہم نے یونہی بالا کسی غرض وغایت اور وجہ وجیہہ کے اس کائنات کو پیدا کیا ہے ؟ یہ محض کھیل اور تماشہ ہے ؟ نہیں ایسا نہیں ہے مالک عرش عظیم خدائے برتر کی شان اس نوع کے افعال سے بالا اور پاک ہے ۔ حل لغات : سخریا : تمسخر ۔ عبثا : بےکار ، بےفائدہ ۔ المؤمنون
107 المؤمنون
108 المؤمنون
109 المؤمنون
110 المؤمنون
111 المؤمنون
112 المؤمنون
113 المؤمنون
114 المؤمنون
115 المؤمنون
116 المؤمنون
117 (ف ١) لا برھان لہ : سے مراد یہ ہے کہ شرک ایک ایسا مذموم اور خلاف عقل فعل ہے جس کے جواز میں کوئی دلیل نہیں پیش کی جا سکتی ۔ المؤمنون
118 المؤمنون
0 النور
1 رجم کی سزا : (ف ٢) قرآن حکیم کی یہ پہلی صورت ہے ، جسے اس اہمیت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے گو پورا قرآن اللہ کی جانب سے رہے ، اور مسلمانوں کے لئے اس کا ماننا اور تسلیم کرنا لازم اور ضروری ہے نیز قرآن کی ہر سورت میں آیات بینات کا ذخیرہ ہے مگر اس سورت کو ان خصوصیات کے ساتھ مختص کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمدن اور کلچر کے مسائل مہہ کو بیان کیا گیا ہے ، اور ان معاشرتی گھتیوں کو سلجھایا گیا ہے جن کی وجہ سے قومیں ترقی اور برتری کی منزلیں طے کرتی ہیں ، اور انہیں فراموش کردینے کا نتیجہ لازما ذلت اور ہلاکت ہوتا ہے ۔ حل لغات : فرضنھا : لازم ٹھہرایا ہے متعین کیا ہے ۔ النور
2 (ف ١) تمام مذاہب نے زنا کو انسانیت کیلئے بہت بڑی لعنت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کو وجود قوموں کیلئے اخلاقی تباہی کے مترادف ہے قرآن حکیم نے خصوصیت کیساتھ اس مسئلے کی متعلقہ تفصیلات بیان کی ہیں اور اس کے ذرائع و وسائل تک کا استقصاد و احوا کیا ہے قرآن کی نگاہیں دوسری مذہبی کتابوں سے کہیں دیادہ عمیق ہیں اس نے تمام انسانی کمزوریوں کو سامنے رکھ کر ایسے قوانین اور ضابطے مقرر فرمائے ہیں کہ ان کو ملحوظ رکھنے کے بعد زنا کا احتمال قطعا پسند نہیں ہوتا ۔ اس آیت میں زنا کی حد شرعی سے بحث فرمائی ہے ارشاد ہے کہ زانی کے سودرے لگائے جائیں اور اس معاملہ میں سوسائٹی جذبات رحم ورافت سے بالکل متاثر نہ ہو ، یہ سو درے جمع عام میں لگائے جائیں تاکہ دیکھنے والوں کو عبرت وتذکیر حاصل ہو ۔ زانی سے مراد یہاں وہ شخص ہے جو کنوارا زانی ہو ، بیا ہے ہوئے کیلئے اسلامی سزا رجم ہے ۔ خوارج نے رجم کا انکار کیا ہے اور یہ سمجھا ہے کہ یہ سزا ہر دو قسم کے زانیوں کے لئے ہے ان کے دلائل یہ ہیں ۔ (١) الزانیۃ والزانی “۔ میں کوئی تخصیص نہیں ، بلکہ عموم واستغراق مراد ہے ۔ (٢) اگر رجم کی سزا مقرر ومتعین ہوتی تو اس کو قرآن حکیم میں موجود ہونا چاہئے تھا ۔ (٣) رجم کو ماننے کی شکل میں یہ لازم آئے گا کہ نص میں خبر واحد کی تخصیص کی جائے جو درست نہیں ۔ بعض موجودہ زمانے کے روشن خیالی مفسرین کے دلائل بھی تقریبا یہی ہیں جوابات یہ ہیں ۔ ١۔ قرآن حکیم نے یہاں بیشک صرف ” الزانیۃ اور الزانی “ کا ذکر فرمایا ہے ، مگر سنت ، تواتر اور اسلامی فیصلوں سے جو کتب فقہ اور تاریخ میں مذکور ہیں ، یہ ثابت ہے کہ رجم اسلامی سزا ہے کیا یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ محض اس بنا پر کہ قرآن میں واضح الفاظ میں رجم کا ذکر نہیں ، ہم پوری اسلامی تاریخ کو جھٹلا دیں ، صحابہ کے فیصلوں کو غلط قرار دیاں رسول کے احکام کو ٹھکرائیں اور علمی وعملی تواتر کا انکار کردیں ۔ ٢۔ رجم کی سزا یقینا قرآن میں موجود ہے مگر اس نہج پر نہیں جس طرح خوارج یا اس زمانے کے متنورین دیکھنا چاہتے ہیں ، بلکہ اشارہ اور برسبیل استطراد قرآن میں رجم کی سزا موجود ہے کیا انکو معلوم ہے کہ عہد رسالت میں اہل کتاب سے اس معاملہ میں بحث ہوئی تھی اور ان سے کہا گیا تھا کہ توراۃ لاؤ اور پڑھو ، اگر تم میں صداقت ہے تو تسلیم کرلو گے کہ اس میں رجم کی سزا کا حکم موجود ہے مگر انہوں نے آیات باب رجم کو چھپایا اور جب حضرت عبداللہ بن سلام نے بڑھ کر انکی چالاکی کا بھانڈا پھوڑ دیا تو وہ نادم ہوگئے اس پر ان کے جذبہ کتمان حق کے متعلق آیات کا نزول ہوا کیا یہ آیتیں رجم کی تائید میں نہیں ؟ اگر سوال اپنی جگہ پر ہنوز باقی ہے کہ اس قدر ضروری حکم کو قرآن نے بالتصریح کیوں ذکر نہیں کرا اور سزا کنواروں کے متعلق حد شرعی کے اعلان کرنے میں کیا مصلحت ہے ؟ بات یہ ہے کہ قرآن حکیم کا انداز بیان کچھ دوسروی کتابوں سے مختلف ہے ، اور وہ لوگ جو اس کی خصوصیات سے آگاہ نہیں ہوتے اس قبیل کی غلطیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ قرآن میں اکثر ان باتوں کا ذکر ہے جو گو اپنی جگہ پر اہم نہ ہوں مگر اس لحاظ سے اہمیت رکھتی ہیں کہ وہ نئی اور جدید ہیں ۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ نماز بہت اہم مسئلہ ہے ، اور اس کے قیام پر قرآن نے بہت زور دیا ہے مگر سارے قرآن میں اس کی ترتیب اور تفصیل بیان کردی ہے کیونکہ نماز کے متعلق اسلام نے بہت زیاہ جدتوں سے کام نہیں لیا ، اس کا تخیل اسلام سے قبل صابیوں میں اور خدا پرستوں میں موجود تھا ، مجوسی بھی تقریبا اسی قسم کی نماز کے قائل تھے ، اس لئے اللہ نے اس کی تفصیلات بیان فرما دیں ، اسی طرح رجم کی سزا میں پند شرائع کا قریبا اتفاق تھا اس لئے قرآن نے بالتخصیص اس کا ذکر نہیں فرمایا ، البتہ کنوارے کی سزا کی تخصیص چونکہ قرآن کو مقصود تھی ، اس لئے اس کا اظہار کردیا ۔ ٣۔ جواب کی اس نوعیت کے بعد تیسرا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔ النور
3 النور
4 النور
5 عفیفہ عورت کو متہم کرنے کی سزا : (ف ١) ایک طرف قرآن نے زانی کی سزا اس قدر کڑی رکھی ہے کہ موجودہ مذاق کے لوگ اس کو تکلیف مالایطاق قرار دیتے ہیں ، اور دوسری طرف چار گواہوں کی شہادت ضروری بتائی ہے جن کا مہیا ہونا شاذو نادر ہی ہوسکتا ہے ، اس میں کیا حکمت ہے ؟ یہ ایک سوال ہے جو طبعا پیدا ہوتا ہے ۔ جواب یہ ہے کہ سزا اس لئے کڑی رکھی ہے ، تاکہ اس خبیث مرض کا کلیۃ انسداد ہوجائے ، چنانچہ آپ عہد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں دیکھئے گا کہ زنا کے واقعات دو تین سے زیادہ نہیں ملیں گے اور اس دور تہذیب جدید میں شاہد ہی چند آدمی ایسے مل سکیں ، جنہیں صحیح معنوں میں عفیف کہا جا سکتا ہے ۔ یہ ہیں تفاوت راہ از کجاست تابکجا ۔ چار شاہدوں کا ہونا اثبات واقعہ کے لئے اس لئے لازم ہے کہ معاملہ ایک جان کا ہے ، ایک کی زندگی ختم ہونے کا ہے چنانچہ اس اہم واقعہ کے لئے معمولی شہادت ناکافی اور نامنصفانہ ہے ۔ اس آیت میں معامہ کی اہمیت کے پیش نظر گواہوں کو تنبیہ کردی ہے کہ اگر تم نے عفیف اور پاکباز عورتوں کو یونہی ختم کیا ، اور ثبوت میں عینی گواہ پیش نہ کرسکے ، تو حد قذف کیلئے تیار رہو ، تمہاری گواہی پر اسی درے مارے جائیں گے ، اس حد شرعی کے تعدر سے معلوم ہوا کہ اسلام کے نزدیک عورت کی عزت اور اس کا وقار کس درجہ قیمتی ہے ارشاد ہے کہ پرہیزگار عورتوں کو متہم کرنے والے لوگ فاسق مردود ہیں ، انہیں سزاد دو اور آئندہ کے لئے ان کی شہادت بھی قبول نہ کرو ۔ النور
6 النور
7 النور
8 النور
9 النور
10 مسئلہ لعان : (ف ١) اس آیات میں مسئلہ لعان کی تفصیل بیان کی ہے اس کی صورت یہ ہے کہ مرد عورت کے کردار کے متعلق شبہات وشکوک کا اظہار کرے اور عورت برات کرے ، مرد یہ کہے کہ یہ فاحشہ اور زانیہ ہے اور عورت کہے کہ میں اس الزام سے پاک ہوں (تو صورت فیصلہ کیا ہو ؟ ) قرآن کہتا ہے کہ دونوں حاکم وقت یا اسلامی ہئیت حاکم کے سامنے چار دفعہ خدا کی قسم کھا کر یہ کہیں کہ وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں ، اور پانچویں دفعہ اپنے اوپر لعنت بھیجیں ، اگر واقعات کی رو سے جھوٹے ہوں ، تو پہلے مرد کھڑا ہو اور وہ الزام کو بیان کرے ، اور چار دفعہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ سچا ہے ، اور پانچویں دفعہ یہ کہے کہ اگر میں جھوٹ کہتا ہوں تو مجھ پر خدا کی لعنت ہو ، اسی طرح عورت کھڑی ہو اور وہ بھی اسی طرح چار دفعہ خدا کی قسم کھا کر الزام کو رد کرے اور پانچویں دفعہ یہ کہے کہ اگر یہ سچا ہوا تو مجھ پر خدا غضب نازل ہو ۔ لعان کے بعد فریق کے سلسلہ میں فقہاء مجتہدین کے مختلف اقوال ہیں عثمان الغنی کی رائے ہے کہ نفس لعان سے تفریق وغیرہ واقع نہیں ہوتی ، امام مالک ، لیث اور زفر کا خیال ہے تفریق واقع ہوجاتی ہے ، ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی رائے ہے کہ تفریق اس وقت تک واقع نہیں ہوتی جب تک کہ حاکم یا ہئیت حاکمہ ان میں تفریق کا اعلان نہ کر دے ، ان سب کے پاس دلائل ہیں ، اور یہ موضوع محل بحث ونظر ہے صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ تفریق واقع ہوجاتی ہے ، کیونکہ قطع نظر فقہی دلائل کے صورت مسئلہ یہ ہے کہ کشیدگی اپنی آخری حد تک پہنچ چکی ہے اس لئے یہ رشتہ عملا گویا منقطع ہی سمجھنا چاہئے ۔ حل لغات : الافک : جھوٹ ، بہتان ۔ عصبۃ : جماعت یا گروہ ۔ النور
11 النور
12 النور
13 النور
14 عائشہ عفیفہ (رض) عنہا کا المناک واقعہ ! (ف ١) ام المومنین حضرت عائشہ عفیفہ (رض) عنہا کی زبان سے واقعہ افک کی تفصیل سنئیے ۔ ارشاد فرماتی ہیں کہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت میں ایک عزوہ میں شریک ہوئی ، یہ عزوہ بنی المصطلق سے قبل کا واقعہ ہے پھر ہم واپس آئے ، مدینہ سے کچھ ادھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک منزل پر قیام کیا ، میں بھی محمل سے نیچے اتری اور قضائے حاجت کے لئے جیش نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کچھ آگے نکل گئی جب لوٹ کر محمل تک پہنچی تو مجھے معلوم ہوا کہ میرا ہار کہیں گر گیا ، تلاش کی غرض سے پھر وہاں تک گئی اور ہار ڈھونڈتی رہی محمل والوں نے یہ سمجھا کہ میں محمل میں موجود ہوں اس لئے کہ میرا بوجھ کچھ زیادہ نہ تھا میں ان دونوں بالکل نوعمر اور ہلکے جسم کی تھی محمل والوں نے محمل ناقہ پر رکھا ، اور چلتے بنے میں جس وقت منزل پر پہنچی تو قافلہ روانہ ہوچکا تھا ، اب میں نے سوچا اور خیال کیا کہ مدینہ پہنچ کر جب وہ معلوم کریں گے کہ محمل میں موجود نہیں ہوں تو قافلہ والوں میں سے کوئی ضرور مجھے تلاش کرنے آئے گا ، اس لئے وہیں پڑ کر سو گئی ، صفوان بن معطل نامی ایک شخص اس خدمت پر مامور تھا کہ قافلہ کے پیچھے پچھے آئے اور گری پڑی چیز کا خیال رکھے ، اس نے مجھے دیکھا کہ قافلہ سے بچھڑ گئی ہوں ، اس نے بچھڑنے کا سبب پوچھا میں نے بتا دیا اس نے کہا کہ آپ اونٹ پر سوار ہوجائیے ، یہ کہہ کر وہ خود پیچھے ہٹ گیا ، اور میں اونٹ پر سوار ہوگئی ، اس حالت میں ہم مدینہ پہنچے لیکن یہاں جھوٹ اور بہتان کا ایک طوفان بپا تھا ، منافقین میرے اور صفوان کے متعلق عجیب عجیب ناپاک الزام پھیل ارہے تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وجہ سے بہت زیادہ مغموم تھے میں ان حالات سے ناواقف تھی ، رات کے وقت ام مسطح کے ساتھ باہر قضاء حاجت کیلئے نکلی ، اور جب واپس آنے لگیں تو ام مسطح کا پاؤں اس کی چادر میں الجھ گیا ، اس نے کہا قعس مسطح یعنی مسطح ہلاک ہو ، میں نے کہا مسطح بدری صحابی ہے ، کیا اس کو گالیاں دیتی ہے ، اس نے تعجب سے کہا تمہیں نہیں معلوم مسطح تمہارے متعلق کیا کیا باتیں لوگوں میں پھیلا رہا ہے میں نے کہا نہیں ، تو اس نے مجھے حقیت حال سے آگاہ کیا اب مجھے بھی روحانی تکلیف محسوس ہوئی میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت لے کر اپنے والدین کے گھر آگئی ، یہاں یہ عالم تھا کہ والد بھی میری وجہ سے بےچین تھے ، والدہ بھی مضطرب تھیں اس لئے ہم تینوں ملکر خوب روئے ، ایک دن حضور تشریف لائے اور نہایت اندومگین لہجہ میں فرمایا : عائشہ ! میں تیرے متعلق اس قسم کی باتیں سنی ہیں ، اگر تو صداقت شعار ہے تو اللہ ضرور تیری برات کرے گا ، اور اگر خدانخواستہ تجھ سے غلطی ہوگئی تو توبہ کرو ، اللہ تعالیٰ توبہ کے بعد گناہوں کو معاف کردیتے ہیں ، میں نے جب یہ آخری کلمات سنے تو بےاختیار آنکھوں سے آنسو گرنے لگے ، والد سے کہا ، آپ میری طرف سے جواب دیجیے وہ کہنے لگے میں کیا جواب دوں ، والدہ سے کہا آپ میری ترجمانی کیجئے وہ بھی اول تو خاموش رہیں پھر کہنے لگیں کہ آخر کیا کہا جائے میں نے ذرا جرات کی اور کہا کہ جو باتیں آپ نے سنی ہیں وہ غالبا آپ کے دل میں مرتسم ہوچکی ہیں ، اور آپ شاید مان چکے ہیں اب اگر میں تردید بھی کروں تو آپ کب مانیں گے میری حالت تو اس وقت ابو یوسف یعنی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی طرح ہے اس لئے میں اس کے الفاظ میں کہتی ہوں (آیت) ” فصبر جمیل واللہ المستعان علی ما تصفون “۔ اللہ کی عنایت ونوازش دیکھئے کہ اسی مجلس اور اسی نشست میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اٹھارہ آیتیں نازل ہوئیں جن میں میری برات کی گئی منافقین کو ڈانٹا گیا ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ، عائشہ ! خوش ہوجاؤ اللہ تعالیٰ نے تمہاری برات کی آیتیں نازل فرمائی ہیں ، میں نے کہا اللہ کی حمد وستائش اور اس کا ہزار ہزار شکر ہے ، آپ اور آپ کے صحابہ تو مجھے مجرم سمجھ ہی چکے تھے والدہ نے کہا بیٹی اٹھو اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شکریہ ادا کرو ، میں نے کہا میں تو ہرگز نہیں اٹھوں گی میں تو اپنے مولا کا شکریہ ادا کروں گی جس نے میری برات فرمائی ہے اور ان تمام الزامات سے پاک اور بری کیا ہے ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ واقعہ افک کو شہرت دینے والے منافقین ہیں ، مگر ان کی اغراض کی اس سے تکمیل نہیں ہوئی ، بلکہ انجام کے لحاظ سے یہ بہتر ہوا ، کیونکہ اس کی وجہ سے عورتوں کے حقوق اور ان کی عزت ووقعت سے متعلقہ مسائل کی توضیح ہوگئی ، فرمایا ، یہ قطعا جھوٹ تھا ، اور مسلمانوں کو چاہئے تھا ، کہ اول مرحلہ میں اس کا انکار کردیتے ، کیونکہ پیغمبر کی حرم محترم عفاف وعصمت کا سراپا مجسمہ ہوتی ہے ۔ ارشاد ہے کہ اس واقعہ کی صداقت کیلئے انہیں چار شاہد پیش کرنا چاہئے تھے اور اس کو پایہ ثبوت تک پہنچانا ضروری تھا ، مگر وہ تو بالکل جھوٹے تھے ، یہ اللہ کا بہت بڑا فضل ہے ، کہ اس نے تمہیں عذاب عظیمہ سے بچا لیا ورنہ پیغمبر کے حرم پاک کے متعلق الزامات سراسر ناقابل برداشت جرم ہے تم نے اس معاملہ کو بہت آسان سمجھا اور اس میں دلچسپی لی ، مگر اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی معصیت ہے ، تمہیں لازم تھا کہ ہرگز اس واقعہ کو تسلیم نہ کرتے اور جب سنا تھا اسی وقت تردید کردیتے ، یاد رکھو آئندہ کبھی ایسے جرم کا ارتکاب نہ کرنا ۔ النور
15 النور
16 النور
17 النور
18 النور
19 واقعہ افک منافقین کی انتہائی خباثت باطنی اور شقاوت قلبی کا مظاہرہ تھا ، اور اس میں بعض صحابہ بھی سادگی سے شریک ہوگئے تھے ۔ اور کئی صحابہ بشری لغزش سے عائشہ عفیفہ (رض) عنہا کے متعلق جھوٹے افسانوں سے دلچسپی لینے لگے ہر محفل اور ہر مجلس میں یہی چرچا اور یہی باتیں ہونے لگیں جس کی وجہ سے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سخت اذیت اور قلبی کوفت محسوس کی اور بالآخر برات کے لئے یہ آیات نازل ہوئیں ، اور بہتان لگانے والوں کی پشت پر اسی اسی درے لگائے گئے اس سے صحابہ کی جماعت میں جو غلط فہمیاں پھیل رہی تھیں وہ تو رک گئیں مگر منافقین اس کے بعد بھی مزے لے لے کر اس قصہ کو بیان کرتے رہے ۔ قرآن کی اس آیت میں ان لوگوں کو متنبہ کیا ہے کہ خبردار جو تم نے اس جرم کا ارتکاب کیا ، یاد رکھو مسلمانوں میں بےحیائی کی باتوں کو پھیلانا بہت بڑی معصیت ہے ، اگر تم باز نہ آئے تو دنیا وعقبی میں تمہارے لئے المناک عذاب مقرر ہے ۔ النور
20 النور
21 (ف ١) اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ مسلمان مرد یا مسلمان عورت کو متہم کرنا شیطان کی پیروی کے مترادف ہے ، اس لئے اس گناہ عظیم سے قطعی احتراز کرو ، اور یاد رکھو کہ یہ اللہ کا خاص فضل ہے کہ اس نے تمہارے اس بہت بڑی معصیت کے کام کو توبہ کے بعد بخش دیا ہے ورنہ یہ گناہ ایسا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص بھی اس سے توبہ کرکے عنداللہ تطہیر حاصل نہ کرسکتا ۔ النور
22 بلند اخلاقی کا حیرت انگیز نمونہ : (ف ٢) یہ شخص مسطح جس نے اس شرارت میں زیادہ سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا تھا حضرت ابوبکر (رض) پروردہ تھا ، حضرت ابوبکر (رض) نے اس کو اس کو اور اس کے متعلقین کو اپنے پاس رکھا ، اور عرصہ تک ان کی ہر طرح اعانت کی مگر اس نے اس طرح حق نمک ادا کیا تو صدیق (رض) قدرتا غصے سے بیتاب ہوگئے ، آپ نے کہا میرے ہاں سے تم لوگ نکل جاؤ اب مجھ میں اور تم میں کوئی رشتہ ناطہ نہیں ، یہ لوگ کئی دن تک پریشان رہے اور آخر قرآن حکیم کی یہ آیتیں نازل ہوئیں ، غور فرمائیے ایک اپنا نام لیوا اور اپنے لخت جگر کے متعلق اس نوع کا نازیبا سلوک روا رکھتا ہے اور حرم رسول اور بنت صدیق (رض) عنہا کی عصمت عفاف پر ناپاک حملے کرتا ہے ، مگر اس رسول کا خدا اور صدیق کا آقا یہ کہتا ہے کہ اس شخص کو معاف کر دو ، اور آئندہ اپنی اور عطاؤں اور بخششوں سے اس کو اور اس کے متعلقین کو محروم نہ رکھو ، کتنا بڑا اخلاق اور کتنی بڑی روحانی تعلیم ہے ، قاعدہ ہے کہ انسان اپنے دشمن کو تو معاف کرسکتا مگر ناممکن ہے کہ ناموس کے دشمن اور عزت کے دشمن سے تعاون کیا جائے ، مگر قرآں کی یہ آیت جب نازل ہوئی تو ایک طرف رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسطح کو معاف کردیا ، اور دوسری جانب ابوبکر (رض) نے کہا ، میں اس کی اعانت نہ کرکے خدا کی مغفرت سے محروم نہیں رہنا چاہتا کیا اتنی بلند تعلیم اور اتنا زبردست عمل آپ کو اسلام اور مسلمانوں کے سوا کہیں اور مل سکتا ہے ۔ النور
23 (ف ٣) اس آیت میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے کہ پرہیزگاروں اور پاکباز عورتوں کو متہم کرنااتنا بڑا جرم ہے کہ یہ دین اور دنیا میں لعنت اور سخت عذاب کا موجب ہوگا ، اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک پرہیزگار اور ایماندار مردوں اور عورتوں کا درجہ اس قدر بلند ہے کہ ان کی تذلیل ملعونیت ہے اور عذاب عظیم کا باعث ۔ النور
24 النور
25 النور
26 ازدواجی تعلقات کیلئے فریقین کو دیندار ہونا لازم ہے : (ف ١) قرآن حکیم کے نزدیک ازدواجی زندگی کیلئے سب سے زیادہ ضروری چیز جذبہ دینداری اور اخلاق کی پاکیزگی ہے حسن وجمال اور دوسری خصوصیات محض ثانوی حیثیت رکھتی ہیں ، کیونکہ جو تعلقات محض حسن وجمال یا مال ودولت کیوجہ سے قائم ہوں ، دیرپا اور مضبوط نہیں ہوتے ، ان کا تعلق عارضی ہوتا ہے جہاں امیری یا بےنیازی ہوئی فریقین ایک دوسرے سے الگ ہوگئے مگر جو تعلقات کہ اخلاق کی بلندی اور کیرکٹر کی اعلی بنیاد پر قائم ہوں اور روز بروز اور مستحکم ہوتے ہیں ، قرآن حکیم کہتا ہے جو لوگ صالح اور پاکباز ہیں وہ ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ انکی رفیقہ حیات بھی صالح ہو ، اور جو ناپاک اور گندے خیالات کا انسان ہوتا ہے وہ اپنے لئے اس عورت کو پسند کرتا ہے جو اس کے قماش اور مذاق کے عین مطابق ہوتی ہے ۔ الخبیثت اور الطیبت : کا مفہوم اس بات پر دال ہے کہ ازواج مطہرات ہبہمہ وجوہ الزامات سے پاک ہیں کیونکہ بدچلن عورتیں پاکباز مردوں کے پاس نہیں رہ سکتیں ، اسی طرح بااخلاق اور عفیف مرد فاحشہ عورتوں سے تعلق ازدواجی قائم نہیں کرسکتا ، قرآن نے اس آیت میں دراصل منافقین کو کوتاہی نظر اور بداخلاقی کی مذمت کی ہے ، کیونکہ منافقین کو چاہئے تھا کہ یہ تو دیکھتے کہ وہ کس ذات عصمت آب کے متعلق بیہودہ گوئی کا ارتکاب کر رہے ہیں ، واقعہ کے امکانات سے بحث کرتے اور سوچتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیونکر یہ گوارر کرسکتے تھے ، کہ اپنے حرم میں ایسی عورتوں کو جگہ دیں ، جو اخلاق کے لحاظ سے بلند نہ ہوں ۔ النور
27 پہلے اجازت طلب کرو : (ف ١) اسلام کی نگاہیں انسانی عادات وخصائل اور انسانی نفسیات وحالات سے متعلق بہت عمیق ہیں ، وہ یہ جانتا ہے کہ گناہ کا منبع کہاں ہے اور کن باتوں سے گناہ کی ترغیب ہوتی ہے ، اس لئے وہ سب سے پہلے اس گناہ کے سوتے کو بند کرتا ہے جہاں سے وہ پھوٹتا ہے ، اور اس کے بعد حفاظتی تدابیر کی تلقین کرتا ہے ۔ چنانچہ غور کرنے پر معلوم ہوگا ، کہ سب سے بڑی تحریک خلوت اور آزادی سے مرد اور عورت کا ملنا ہے اس لئے اسلام نے خلوت پر پابندیاں عائد کیں ، اور فرمایا دیکھو جب کسی عزیز یا دوست کے ہاں جاؤ ، جہاں کی عورتیں تم سے پردہ کرتی ہیں ، تو دھم سے ان کے ہاں نہ پہنچ جاؤ بلکہ پہلے اجازت طلب کرو تب اندر جاؤ تاکہ برائی کا کوئی احتمال پیدا نہ ہو سکے ۔ اذن کی تشریح آپ کو اس حدیث سے معلوم ہوگی ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور دروازے کے پاس آکر کہا میں اندر آسکتا ہوں آپ نے روضہ نامی ایک عورت سے کہا کہ تم جاؤ اور اس کو اسلامی آداب سے آگاہ کرو ، اور کہو کہ السلام علیکم کہے چنانچہ اس نے استیذان السلام علیکم کہا ، اور آپ نے اندر آنے کی اجازت دی ۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ استیذان کا طریق السلام علیکم ہے یہ نہیں کہ کہا جائے جناب میں اندر آسکتا ہوں مجھے اجازت ہے ؟ (آیت) ” حتی تستانسوا وتسلموا “۔ میں واو عطف علی المترادف کیلئے ہے یعنی مقصد یہ ہے کہ بلا استیذان یعنی السلام علیکم کہنے کے بغیر اندر نہ جاؤ ارشاد ہے کہ اگر کوئی صاحب ملنے کی اجازت نہ دیں تو بغیر کسی ناراضگی کے واپس ہوجاؤ اللہ اللہ کی آداب اور عمدہ عوائد رسمیہ ہیں جن کو زندہ قومیں اپنا دستور العمل بناچکی ہیں اور ہم ان سے نا آشنا سے محض ہیں ۔ حل لغات : تستانسوا : معلوم کرو ، اذن طلب کرو ، واقفیت بڑھا لو ، تینوں معنوں میں مستعمل ہوتا ہے ، مگر یہاں استیذان کے مترادف ہے ۔ ازکی لکم : یعنی ان آداب وعوائد کی پیروی تمہاری مجلسی اصلاح کے لئے از حد ضروری اور بہتر ہے ۔ یضغوا : غض سے ہے ، نگاہ جھکا لینا ، اصل میں اس کے معنی تحمل اور نقصان کرنے کے ہیں ۔ النور
28 النور
29 النور
30 النور
31 آنکھوں کا زنا : (ف ١) گناہ کے اصل منبع اور حقیقی محرک سے روک دینے کے بعد ان آیات میں یہ بتایا ہے کہ اس کا وسیلہ اور ذریعہ آنکھیں ہیں ، چنانچہ تورات میں لکھا ہے کہ النظر تزرع فی القلب الشھوۃ ۔ یعنی دل میں برائی کے بیج نظریں بوتی ہیں ، اور پھر یہی بیج بڑھ کربدی کا تناور درخت ہوجاتا ہے سردار دوجہاں کا ارشاد ہے ” العیضان تزنیان “۔ کہ آنکھیں بھی ایک قسم کے زنا کا ارتکاب کرتی ہیں ۔ فرماتے ہیں مرمن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کو قصد اور عمدا نہ دیکھیں بلکہ اس درجہ نگاہوں پر ضبط واختیار رکھیں ، کہ جہاں آنکھیں ایک دوسرے سے دو چار ہوں فورا خود بخود جھک جائیں ، کیونکہ مسلمان بجائے خود پاکبازی اور عفاف کا پیکر ہے اور لوگوں کے لئے اسوہ ونمونہ ہے اس کو انتہا درجہ کا شریف اور باحیا ہونا چاہئے ۔ (آیت) ” ان اللہ خبیر بما یصنعون “ َ سے فرض یہ ہے کہ گو لوگ یہ کہیں کہ صرف ایک نظر دیکھ لینے میں کیا مضائقہ ہے یا یہ کہ ان اللہ عند الحیان وجوھہم مگر خدا ہماری نفسیات کی گہرائیوں سے آگاہ ہے وہ جانتا ہے کہ یہ چھوٹی سی چنگاری زندگی کے بن کو جلا دے گی اس لئے خیر اسی میں ہے کہ آنکھوں کے چور دروازوں کو بند رکھیں ۔ زینت کا صحیح مفہوم : (ف ٢) زینت کا لفظ عام ہے اس میں محاسن فطری بھی داخل ہیں اور محاسن اختیاری بھی حتی کہ معانی اور معقولات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے اس لئے اس میں بدن کے وہ حصے جو جنسی جذبات کو ابھاریں اور زینت وآرائش ظاہری کا سامان سب چیزیں داخل ہیں یعنی ہر چیز اور بدن کا ہر حصہ جو عموما ابتلا وفتنہ کا سبب بن سکتا ہے اس کو غیروں کی نظروں سے مستور رکھنا لازم ہے ۔ (آیت) ” الا ما ظھر منھا “۔ کی تفصیلات میں بحث ہے بعض لوگ چہرہ اور ہاتھوں کو تمدنی ضروریات وداعیات کے ماتحت مستثنی سمجھتے ہیں اور بعض کی رائے میں یہ استثناء چہرہ پر حاوی نہیں ہے ۔ بات اصل میں یہ ہے کہ یہاں دو اصولی مسئلوں کو سمجھ لینا چاہئے ایک تو یہ ہے کہ اسلام کو اخلاق کا استحکام اور کیرکٹر کی بلندی بہت زیادہ منظور ہے اور وہ کسی حالت میں بھی مسلمان سے بدکرداری کی توقع نہیں کرسکتا وہ چاہتا ہے مسلمان کے دل میں ایسا انقلاب پیدا ہوجائے ، تو اسے تمام اس نوع کے عیوب اور اس قبیل کے برائیوں سے روک دے اور یہ پردہ وحجاب اس انقلاب کے پیدا کرنے میں بڑی حد تک ممدومعاون ہوتا ہے ، اور بجائے خود مقصود بالذات چیز نہیں ایک ذریعہ ووسیلہ ہے جس سے ناپاک گناہوں کو روکنا مطلوب ہے ۔ دوسرا اسلامی مدنیت میں عورت کے درجہ ومقام کا مسئلہ ہے اسلام نے عورت کو اجازت دیدی ہے ، کہ وہ کاروبار کرسکے مصالح اور مرافق میں مرد کا ہاتھ بٹا سکے ، اور زندگی کی تگ ودو میں موزوں اور مناسب طریق سے حصہ لے سکے ۔ اس لئے مطلقا چہرے کا مستور رکھنا یا کھلا رکھنا خارج از بحث ہے ان دونوں اصولوں کو بیک وقت سامنے رکھنا چاہئے عام حالات میں چہرہ بہت بڑی جاذب اور کشش کا باعث ہوتا ہے اور آنکھیں معصیت کی طرف دعوت دیتی ہیں ، اس لئے اس کا حجاب میں رہنا زیادہ قریب مصلحت ہے اور جب حالات اور مرافق کا تقاضا یہ ہو کہ منہ کھلا رکھا جائے تو پھر مدنی سہولتوں کے لئے منہ کا کھلا رکھنا جائز ہے یعنی (آیت) ” الا ما ظہر منھا “۔ کا ما استثناء حالات ومصالح پر مشتمل ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ الا وہ صورتیں جب کہ بند کے کسی حصہ کا ظاہر کرنا مصالح کے ماتحت ہو ۔ حل لغات : خمرھن : خمار کی جمع ہے دوپٹہ ، باریک چادر ، غیر اولی الاربۃ : ان لوگوں کے سوا ایسی جن میں جنسی راہ ہدایت نہ ہوں ۔ النور
32 نکاح ایک مدنی ضرورت ہے : (ف ١) الا یای کا لفظ عام ہے ہر اس مرد کو کہتے ہیں جس کی بیوی نہ ہو ، اس طرح ہر اس عورت کو کہتے جس کے خاوند نہ ہو ، یہ ایم کی جمع ہے حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے زوجوا ایامکم “۔ ایک شاعر کہتا ہے ۔ فان تنکحوا الکم وان تتایمی وان کنت امتی منکم اتائم : یعنی اگر تم شادی میرے ساتھ منظور کرلو گی تو میں بھی منظور کرلوں گا ورنہ باوجود تم سب سے زیادہ طاقتور ہونے کے میں کنوار رہوں گا ، آیت کا مقصد ہے کہ نکاح چونکہ شرعی واخلاقی لحاظ سے سوسائٹی کی بہت بڑی خدمت ہے اس لئے ہر مسلمان اور ہر عورت کو شادی شدہ ہونا چاہئے خطاب اولیاء سے ہے ، ان یکونوا فقرآئ“۔ سے غرض یہ نہیں کہ نکاح یہ شادی کے بعد اللہ تعالیٰ ضرور افلاس کو دور کردیں گے ، بلکہ مقصود یہ ہے کہ اس میں مال و دولت کو بہت زیادہ اہمیت نہ دو ۔ اور اللہ سے توقع رکھو کہ وہ تمہارے حالات کو بدل دے گا ۔ اور تمہارا افلاس دور ہوجائے گا ۔ النور
33 غیر شادی شدہ لوگوں کے لیے ایک نسخہ : (ف ٢) یعنی جو لوگ شادی شدہ کا مقدور نہ رکھتے ہوں وہ جذبات پر قابو رکھیں حضور نے فرمایا یا معشر الشباب من استطاء منکم الباءۃ فلیتزوج فانہ اغض البصر واحصن للفرج ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فان الصوم لہ وجاء ۔ (ترجمہ : نوجوانو ! تم میں جو لوگ شادی کا مقدور نہ رکھتے ہوں وہ ضرور شادی کریں کیونکہ اس طرح انسان کا کرکٹر محفوظ ہوجاتا ہے ۔ اور جو شادی کا مقدور نہ رکھتے ہوں وہ روزے رکھیں ، کیونکہ اس طریق سے ضبط نفس کا سامان پیدا ہوجاتا ہے ۔ غلامی اور مکاتبت : (ف ١) اسلام غلامی کو طبعا ناپسند کرتا ہے اس لیے اس نے غلامی کے متعلق ایسی شروط و قیود کا اضافہ کردیا ہے کہ اس سے عملا یہ مفقود ہوجائے ۔ مکاتبت کے معنی ہوتے ہیں کہ غلام سے کہہ دیا جائے کہ تو اگر اتنی رقم مجھ کو ادا کردے تو آزاد ہے ۔ قرآن حکیم کہتا ہے کہ باحیثیت مسلمان جس کے ہاں غلام ہیں ان سے اگر وہ مکاتبت کی درخواست کریں تو ان کو چاہیے کہ وہ قبول کرلیں جبکہ یہ بھی چاہیے کہ اس سلسلہ میں ان کی مدد کریں اور اپنی طرف سے بھی دیں ۔ ان اردن میں تحصنا کی قید واقعی ہے ، احترازی نہیں ، یعنی بعض لونڈیاں چاہتی تھیں کہ عفت و عصمت کی زندگی بسر کریں مگر ان کے مالک انہیں بدکاری پر مجبور کرتے تھے ، قرآن کہتا ہے کہ اگر ان کے دل میں بدکاری کے خلاف نفرت کا جذبہ موجود ہے تو تم کیوں ان کو اس ذلیل کام پر مجبور کرتے ہو ، کیا تم دنیوی مال و دولت کے لیے ایک عفیف لونڈی کو زنا پر ابھارتے ہو ، کہ وہ اس طرح تمہیں کما کر کھلائے ۔ غفور رحیم کا تعلق لونڈیوں سے ہے یعنی ان کے مالک اگر ان کو مجبور کریں اور وہ دل میں اس کو ناپسند کرتی ہوں اور نفرت و بیزاری کا اظہار کرتی ہوں تو پھر اللہ ان کی معذوریوں سے آگاہ ہے ۔ حل لغات : تحصنا : پاکبازی ۔ مشکوۃ : روشنی کا طاق ، چراغ اور قندیل رکھنے کا فراخ طاق ۔ مصباح : دیا ، چراغ ۔ النور
34 النور
35 اللہ نور ہے : (ف ١) ان آیات میں اللہ تعالیٰ کو آسمانوں اور زمینوں کے نور کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس کے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہے اور چراغ ایک قندیل میں ہے ، اور قندیل ایسی صاف اور چمکدار ہے گویاموتی کا سا چمکتا ہوا تارا ہے ، اس میں برابر یکسان روشنی ہے نہ شرقی ہے اور نہ غربی تیل اس طرح کا مصفا کہ بغیر آگ جلنے کے تیار ہے ظاہر ہے کہ ایسی روشنی تیز ہوگی ، واضح ہوگی دور تک پہنچنے والی اور پاکیزہ ہوگی پس اپنے نور سے جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھلاتا ہے ، کیونکہ اللہ کی ذات ہر قسم کی تشبیہ سے پاک ہے ۔ (آیت) ” لیس کمثلہ شیئ“۔ چنانچہ آیت کے اختتام پر ارشاد ہے ۔ (آیت) ” یھدی اللہ لنورہ من یشآئ“۔ یعنی اس کا پیغام بہت روشن ہے منور ہے ، تابناک ہے ، اور گمراہیوں اور ظلمتوں کی تاریکیوں کو دور کرنے والا ہے جس کو چاہتا ہے اس نور سے کسب ضوء کا موقع دیتا ہے ۔ (آیت) ” ویضرب اللہ الامثال للناس “۔ اور اللہ ان تشبیہات کو مثالوں کے طور پر بیان کرتا ہے تاکہ اہل علم اکتساب معرفت کرسکیں ، اور وہ ہر چیز سے آگاہ ہے ۔ ہو سکتا ہے نور سے مراد یہ ہو کہ اللہ اپنی کائنات کیلئے مدبر ہے باعث رونق ہے ، روشنی ہے ۔ جررکہتا ہے ۔ ” وانت لھا نور وغیث وعصمۃ “۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ جس طرح نور اور روشنی سے تمام اشیاء متجلی ہوجاتی ہیں ، اور سب کچھ نظر آنے لگتا ہے ، اسی طرح اللہ زمین آسمان کیلئے بمنرلہ نور کے ہے یعنی اگر اللہ تعالیٰ کو نہ تسلیم کیا جائے تو پھر کائنات کا نظام درہم وبرہم ہوجاتا ہے ، اور ہر طرف تاریکی ہی تاریکی دکھائی دیتی ہے ، اور انسان علل ومعلولات کے غیر متناہی سلسلہ میں پھنس کر رہ جاتا ہے ۔ بحث میں علت تاجلول کی ہر عقل علیل : اور اگر اس پر ایمان رکھا جائے اور اس کی ذات کو خالق اور رب مان لیا جائے تو کائنات کی تمام گتھیاں سلجھ جاتی ہیں ، اور کسی گوشہ میں تاریکی نہیں رہتی ۔ (آیت) ” ولولم تمسسہ نار “۔ میں قرآن حکیم نے ایک ایسی حقیقت کو بیان کیا ہے جس کا اظہار آج چودہ سوسال بعد ہوا ہے ۔ غور فرمائیے ، عربی لٹریچر میں چراغ کے لئے کوئی لفظ موجود نہیں چنانچہ مصباح خاص خوبی اشتقاق کی رو سے صحیح نہیں ، یہ حبشی زبان کا لفظ ہے سراج فارسی سے معوب کیا گیا ہے یہ اس لئے کہ عربوں کا تمدن بہت سادہ تھا اور وہ کھلے میدانوں اور خیموں میں رہتے تھے اور روشنی کیلئے وہ آگ کو کافی سمجھتے تھے مگر قرآن ایک ایسا تخیل پیش کررہا ہے جو شیشے میں ہے اور سب طرف برابر نور پھینک رہی ہے ، نہ شرقی ہے نہ غربی جس میں ایسا تیل ہے جو بغیر آگ دکھانے کے جلتا ہے غور کیجئے کیا یہ بجلی اور قمقمہ کا اولین تصور نہیں ، اور اگر یہ صحیح ہے تو پھر یہ علم اور بالغ نظری کیا کسی انسانی کلام میں ہو سکتی ہے ۔ النور
36 النور
37 النور
38 النور
39 کفر کی تاریکیاں اور اس کی مثال : (ف ١) اس سے قبل کی تفصیل تھی یہ بتایا تھا کہ ان گھروں میں اللہ کے نور کا اجالا ہوتا ہے جن کا ادب اور احترام اللہ نے ضروری قرار دیا ہے اور جہاں اس کا نام لیا جاتا ہے اور صبح وشام تسبیح وتقدیس کے ترانے گائے جاتے ہیں ، اور وہ لوگ اس نور سے اپنے سینوں کو بھر لیتے ہیں وہ ذکر ہیں ، نماز پڑھتے ہیں ، زکوۃ دیتے ہیں ، مگر اپنی عبادت پر مغرور ونازاں نہیں ہوتے بلکہ محاسبہ کے خوف سے لرزاں وترساں رہتے ہیں ، اس کے بعد یہ بتایا تھا کہ اس نور کے منکرین محض غلط توقعات اور موہوم امیدوں میں الجھے ہوتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ باوجود کفر وانکار کے ہمارے اعمال اس قابل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ضرور بخش دیگا اور زیادہ باز پرس نہیں کرے گا ، فرمایا ان لوگوں کی مثال اس پیاسے کی طرح ہے جو دور سے ریت کو چمکتے ہوئے دیکھے اور پانی سمجھ کر اس کی طرف دوڑے اور جب اس کے پاس پہنچے تو وہاں جز سراب کے اور کچھ نہ پائے ، یہ لوگ بھی آخرت میں اسی طرح مایوس ہوں گے ، دنیا میں ان کو اپنے اعمال بہت زیادہ وقیع اور قابل لحاظ نظر آتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے حضور میں جا کر انہیں معلوم ہوگا ، کہ یہ محض فریب نگاہ اور نفس کا دھوکا تھا ، اس آیت میں ایک اور تشبیہہ کے ذریعے ان کے اعمال کی بےوقری بیان فرمائی ہے ، ارشاد ہے کہ ان کے اعمال اور اعتقادات کی مثال تاریکی وظلمت میں ایسی ہے جیسے سمندر ہو ، اور اس میں تموج وتلاطم ہو ، اور اوپر سے گھنے بادل چھائے ہوں جس طرح اوپر تلے کی اندھیروں میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا اسی طرح یہ لوگ اعتقاد وعمل اور کردار وگفتار کی تاریکیوں میں مبتلا ہیں ، کہ قریب ترین ہدایت اور قریب ترین روشنی بھی ان کو محسوس نہیں ہوتی ۔ جو لوگ ذوق ادب رکھتے ہیں وہ محسوس کریں گے کہ اس آیت میں تشبیہات کا وہ نادر مجموعہ ہے کہ عقل انسانی محو حیرت ہے اور سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ الفاظ اس نوع کے استعمال فرمائے ہیں جن سے سمندر کی تاریکیوں کا ہولناک نقشہ کھنچ جاتا ہے ، تشبیہات کی اس سے بہتر مثال کسی ادب میں ملنا ممکن نہیں ۔ الفاظ کے چڑہاؤ اتار سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم سمندر کے بالکل سامنے ہیں ، اور اس کیفیت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ۔ حل لغات : قیعۃ : میدان ، جمع قیعان ۔ النور
40 النور
41 (ف ١) (آیت) ” کل قد علم صلاتہ “۔ یعنی کائنات کا ہر ذرہ خدا کی تسبیح وستائش میں مصروف ہے اور کوئی چیز نہیں جو اس کے ماتحت اور مسخر نہ ہو ، آسمان وزمین کے تمام حقائق اس کے عتبہ جلال کے سامنے جھکتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں ، مگر سجدہ اور نیاز مندی کے طریقے مختلف ہیں ، ہر شے اپنی فطرت اور ساخت کے مطابق اپنے فرائض کو ادا کر رہی ہے ، اور نہایت استقلال سے نیاز مندی ہے اور بندگی کا ثبوت دے رہی ہے ۔ حل لغات : یزجی : جلاتا ہے ہنکاتا ہے ۔ اصل میں ازجا کے معنے سہولت وآسانی سے چلانے کے ہیں ۔ الودق : ہلکی ہلکی بارش ۔ النور
42 النور
43 (ف ١) ان سب آیات میں اللہ کے انواع قدرت کا بیان ہے ، ارشاد ہے کہ اگر تم اس کارگاہ حیات کی حیرت انگیزیوں پر غور کرو گے اور سوچو گے ، تو تمہیں اس کی حکمتوں اور قدرتوں کا وسیع علم حاصل ہوجائے گا تمہیں معلوم ہوگا ، کہ وہ کیونکر بادلوں کو حرکت دیتا ہے اور پھر کیونکر ان کو آپس میں ملا دیتا ہے تمہیں معلوم ہوگا کہ بارش کے قوانین کیا ہیں ؟ بارش میں اور اولوں میں کیا فرق ہے ؟ تم بجلی کو کوندتے ہوئے دیکھو گے ۔ اور اس طرح لیل ونہار کے اختلافات کو ملاحظہ کرو گے ، اور اس طریق غور وفکر سے تمہیں معارف وحکم کا بہرہ وافر حاصل ہوجائے گا بشرطیکہ تم میں سوجھ بوجھ کی صلاحیت ہو ۔ حل لغات : سنابرقہ : بجلی کی روشنی برق روشن ۔ النور
44 النور
45 النور
46 (ف ١) مقصد یہ ہے کہ قرآن میں رشد وہدایت کی واضح اور نمایاں نشانیاں موجود ہیں ، اس میں تمام انواع وقدرت وحکمت کی تشریح ہے اور اخلاق ومعاشرت کی توضیح ، اس میں فطرت کی باریکیوں سے عقائد کی مشکلات تک سب کو واضح کیا ہے ، غرض بحیثیت مجموعی یہ ایک ایسی کتاب ہے جس سے ہر قسم کے ذہن کا انسان ہر طرح کا استفادہ کرسکتا ہے مگر استفادہ کی توفیق اللہ کے ہاتھ میں ہے جو لوگ دلوں میں بعض وعناد کے بیج بوتے ہیں ، اس کی برکات سے تمتع نہیں ہوسکتے کیونکہ ان لوگوں سے توفیق اور استعداد چھن جاتی ہے ۔ النور
47 منافقین کے جذبہ اطاعت کی حقیقت : (ف ٢) ان آیات میں منافقین کی ذہنیت کا آشکارا کیا ہے ارشاد ہے کہ ظاہر میں تو یہ لوگ اسلام کے فضائل ومحاسن کا اقرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم مومن ہیں ، اور اللہ و رسول کے مطیع ومنقاد ہیں ، مگر حقیقت میں یہ مومن نہیں ، ان میں سرکشی اور تمرد کا مادہ ہنوز موجود ہے ، چنانچہ جب ان سے کسی معاملہ میں کہا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مان لو اور اس کے فیصلوں کے سامنے جھک جاؤ ان میں سے بعض لوگ روگردانی کرتے ہیں ، اور آپ کو اپنے معاملہ میں حکم ماننے کے لئے تیار نہ ہوں گے ، ہاں اگر انہیں یہ یقین ہوجائے ، کہ فیصلہ ہمارے حق میں ہوگا ، اور ہمیں کچھ دلایا جائے گا ، تو پھر ان کی سرکشی اور انکار انقیاد واطاعت میں بدل جاتا ہے ، اور مخلصانہ طور پر اس وقت اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں آپ کو حکم قرار نہ دینے کی وجہ یہ ہے قرآن حکیم فرماتا ہے ، ان کے دل میں نفاق کا مرض ہے ، اور اسلام کے متعلق شکوک وشبہات ہیں ، اور انہیں ڈر ہے کہ کہیں آپ انکے مخالف فیصلہ صادر نہ فرما دیں ۔ بات یہ تھی کہ ایک منافق اور یہودی کے درمیان زمین کی بابت کچھ جھگڑا تھا یہودی کہتا تھا ، آؤ محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو منصف مان لیں ، وہ جو فیصلہ صادر فرمائیں گے ، ہمیں منظور ہوگا ، اور منافق کہتا تھا نہیں میں کعب بن اشرف کو حاکم مانتا ہوں ، (کیونکہ اسے معلوم تھا) کہ میں باطل پر ہوں ۔ اس لئے حضور میری رعایت نہیں کریں گے مگر بوجہ نفاق ودشمنی اس انصاف کو وہ یہودی کے سامنے ” حیف “ یعنی ظلم سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا کہ مجھے محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے ڈر ہے کہ وہ ناانصافی نہ کریں ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، بلکہ یہ لوگ خود ظالم اور جھوٹے ہیں ، اور دل میں خبث اور کھوٹ ہے ، اس لئے اسلام پر اطمینان نہیں ، اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بدگمان ہیں ، ورنہ کون ہے جو آپ کی صفت شعار اور عدل گستری کا انکار کرسکے ۔ (آیت) ” انی قلوبھم “۔ میں ہمزہ استفہام دراصل خیریت کے لئے ہے جس طرح جریر کہتا ہے ۔ السم خیر من رکب المطایا ۔ افشاء کے لئے نہیں ۔ کسی شخص کو قوت ایمان کا حال اس وقت معلوم ہوتا ہے ، جب کہ وہ ہر حالت اور ہر کیفیت میں اپنے کو اللہ اور اس کے رسول کے سپرد کردے ، اور کسی نفع اور نقصان کا خیال نہ کرے بلکہ یہ سمجھے کہ نفع کے معنی اللہ اطاعت اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کے ہیں ، اس لئے اگر اس محبت اور عقیدت میں جان بھی کھونا پڑے ، تو وہ یہی یقین رکھے کہ میں گھاٹے میں نہیں رہا ، ارشاد ہے کہ اس نوع کی اطاعت شعاری مومنین کا خاصہ ہے ، یہ بات منافقین میں نہیں پائی جا سکتی ، بلکہ یہی مقام امتیاز ہے اسی سے معلوم ہوتا ہے دولت ایمان کس کے پاس ہے ، اور کون محروم مومن کو جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ سمعنا واطعنا کہتا ہوا لپکتا ہے اور فوز وفلاح کو حاصل کرلیتا ہے ۔ حل لغات : مرض ، بیماری (یعنی نفاق) کہوہ بھی روح کے لئے بمنزلہ بیماری کے ہے ۔ جھد ایمانھم : محاورہ ہے جس کے معنی مضبوط اور مستحکم قسم کھانے کے ہیں ۔ النور
48 النور
49 النور
50 النور
51 النور
52 النور
53 النور
54 (ف ١) قرآن حکیم نے بار بار اطاعت رسول کو بیان فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ اس اسوہ کامل کی تقلید کرے اور اپنی زندگی کے لئے مشکوۃ نبوت سے کسب انوار کرے ، کیونکہ پیغمبر ہی دنیا میں محاسن اور کمالات کا پیکر ہوتا ہے ، اور اس سے بےنیازی اللہ کے دین سے کفر کی مترادف ہے ، چنانچہ (آیت) ” ان تطیعوہ تھتدوا “۔ کہہ کر اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ دنیا میں اللہ کی فرمانبرداری اور اس کی اطاعت شعاری کے معنے بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ عظمت رسول کو سمجھو ، اور اس کے مقام رفیع سے واقف ہو ، تاکہ تم ہدایت حاصل کرسکو ۔ النور
55 استخلاف فی الارض کا وعدہ : (ف ٢) دین کے معنے اسلامی نقطہ نگاہ سے کامیابی کے کامل پروگرام کے ہیں ، اس لئے جو لوگ صحیح معنوں میں مومن ہوں گے اور ان کے اعمال اللہ کے تجویز کردہ پروگرام کے ماتحت ہوں گے ، ان کا دنیا آخرت میں کامیاب ہوتا یقینی اور حتمی ہے ، اس آیت میں قرآن نے اسی اصول کی جانب رہنمائی فرمائی ہے ارشاد ہے کہ مومنین سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں خلیفہ فی الارض یعنی ملک کا حاکم بنایا جائے گا انہیں دنیا کی تمام نعمتوں سے نوازا جائیگا ، اور ان کے سر پر تاج خسروی رکھا جائے گا ، اور ان کیلئے یہ مقدمات میں سے ہیں کہ جب تک اسلام کی پوری پابندی کرتے رہیں ، اس وقت تک دنیا کی قیادت کریں سب سے بلند رہیں ، اور اللہ کے فضل سے ساری کائنات پر حکومت کریں ، کیونکہ اسلام کے لائحہ عمل میں ایسے رفعت آگین اور تفوق آفرین اصول داخل ہیں ، کہ ان عمل پیرا ہونے کا یہی قطعی اور منطقی نتیجہ ہے جو مذکور ہوا اور یہ صرف نظریہ ہی نہیں ، بلکہ اسلام کی ساری تاریخ اس پر شاہد عدل ہے دیکھ لیجئے جب تک مسلمان صحیح معنوں میں مسلمان رہے ان کے دلوں میں احساس عزت کا جذبہ موجزن رہا ، اسلام کے حاکمانہ اصول ان کی زندگی میں کار فرما رہے ، اور جب تک انہوں نے قیادت ورہنمائی کے منصب جلیل پر اپنے کو فائز رہنے کا حق دار سمجھا ، تب تک حاکم رہے ، عزت واقتدار کے مالک رہے ، اور رونق ورنگ وتاج رہے اور جب تک مذہبی کے معنی ان کے ہاں خشک وقیود اور بےروح رسموں کے قرار پائے ۔ اور محض انتساب کو باعث فخر و مباہات سمجھا گیا ۔ تو اس وقت سے ذلت و ادبار کا دور مشؤم شروع ہوا ۔ جس نے زیر دستوں کو زبردست بنا دیا جس کی وجہ سے جہالت تعلیم سے بدل گئی ، اور بد اخلاق قوم سرخیل روحانیات ٹھہری یہی تو وہ اسلام ہے جس کی وجہ سے مٹھی بھر مسلمان کائنات پر چھا گئے اور لوگوں کی راہ نمائی کرنے لگے پھر آج اگر ہم میں ذہنی افلاس اور تسطل موجود ہے ، تو اسلام اور قرآن اس کا ذمہ دار نہیں بلکہ اس کی ساری ذمہ داری ہمارے اپنے اعمال اور کردار پر عائد ہوتی ہے ۔ النور
56 (ف ٣) وعدہ استخلاف کے بعد اس آیت میں نہایت جامعیت کے ساتھ وہ پروگرام بتلایا ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے خلافت ونیابت الہیہ کا منصب حاصل ہو سکتا ہے ، اور وہ پروگرام نماز اور زکوۃ کی تنظیم ہے ، رسول کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے ، مسلمان اگر نماز کی روحانی واجتماعی برکات سے آگاہ ہوجائیں ، اور زکوۃ کی تنظیم کرلیں ، اور یہ طے کرلیں ، کہ ان کی زندگی اسوہ رسول کے کے مطابق ہوگی ، تو یقین جانئے ، آج ہی ان کی ہر قسم کی ذلتیں اور نحوستیں عزتوں اور سعادتوں سے بدل سکتی ہیں ۔ النور
57 النور
58 غلاموں اور نوکروں کیلئے قواعد : (ف ١) ان میں پھر سورۃ نور کے اصل موضوع کی طرف رجوع فرمایا ہے سورۃ کا اصل موضوع تمدن انسانی کے مسائل مہمتہ کو بیان کرنا ہے ، اور یہ بتانا ہے کہ اخلاق حسنہ اور عوائد رسمیہ میں کون کون سی باتیں داخل ہیں ، قرآن حکیم کا یہ مخصوص انداز بیان ہے کہ وہ موضوع کی تفصیلات میں بھی تنوع کو باقی رکھتا ہے ، اور صرف مسئلہ کے مالہ وما علیہ پر عموما بحث نہیں کرتا ، کیونکہ اس طریق سے قرآن سے میں جو ایک جاذبیت اور وسعت معانی ہے ، وہ جاتی رہتی ہے تنوع کابہت بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ پڑھنے والا بےتکان پڑھتا چلا جاتا ہے ، اور طبیعت میں کسی نوع کا تکدر پیدا نہیں ہوتا اور اس کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہوتی ہے ، جو ایک سرسبزوشاداب مقام سے گزر رہا ہو ، کہیں سبزہ ہے تو ، کہیں پھول ، کہیں اونچے اونچے درخت اور دریا ہیں ، تو کہیں پہاڑ اور چشمے نظر آتے ہیں جس طرح یہ شخص ان بوقلمون اور گوناگون نظاروں سے لطف اندوز ہوتا ہے اسی طرح قرآن پڑھنے والا دیکھتا ہے کہ کہاں مضامین ومعانی کا گلزار کھلا ہوا ہے ، کہیں توحید کے دریا بہہ رہے ہیں کہیں حشر ونشر کے مذکور اور کہیں اخلاق کا ذکر ہے تو کہیں معاشرت انسانی کی مشکلات کا اسی طرح سارے قرآن میں یہ دلچسپیاں قائم رہتی ہیں ، سورۃ نور کی ابتداء تعارف سے ہوتی ہے پھر حدود زنا کی تفصیل ہے پھر مسئلہ لعان ہے اس کے بعد حدیث افک ، پھر پردہ کے مسائل ہیں ، اور نکاح کا فلسفہ اور حکمتیں ، اس کے بعد مکاتیب کا ذکر ہے اور درمیان میں اللہ کے اقرارآگئے ہیں ، اسی طرح برابر تنوع چلا رہا ہے ۔ اس آیت میں پردہ سے متعلقہ دوسرے مسائل کی تشریح فرمائی ہے ۔ عام طور پر گھروں میں بچے اور عورتیں کام کاج کرتی ہیں ، اور بےتکلف ان کا گھروں میں آنا جانا رہتا ہے ، بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ ایک ملازم اچانک اندر آ جاتا ہے ، جب کہ آپ اس کا سامنا نہیں چاہتے ، تو اس حالت میں ایک دوسرے کو دیکھتے ہی دونوں شرمندہ ہوجاتے ہیں ، ۔ قرآن حکیم نے اس سلسلے میں یہ ہدایت فرمائی ہے کہ نماز صبح سے پہلے ، دوپہر قیلولہ کے وقت اور عشاء کے بعد اگر ان لوگوں کو اندر آنا ہو ، تو باقاعدہ اجازت لے کر آئیں ، کیونکہ یہ اوقات سونے اور آرام کرنے کے ہیں ، اور ان اوقات میں آدمی سارے کپڑے عموما نہیں پہنتا ہے ، یا کپڑے اور پردہ کی جانب سے غافل ہوتا ہے اس لئے خطرہ ہے کہ بےپردگی نہ ہوجائے ۔ حل لغات : القواعد : بڑی بوڑھی عورتیں ، جو بےچاری زیادہ ہل جل نہ سکیں ۔ غیر متبرجت بزینۃ : یعنی اس نوع کی عورتوں کو عموما زیادہ سخت پردے کی ضرورت نہیں ہوتی ، تاہم ان کو بھی محتاط رہنا چاہئے ۔ النور
59 النور
60 النور
61 آداب طعام : (ف ١) بات یہ تھی کہ بعض لوگ دوسرے کے ہاں کھانا کھانے سے بربنائے خودداری پرہیز کرتے تھے ، یا ان کا یہ خیال تھا کہ شاید اس طرح بےتکلفی سے دوسرے کے ہاں کھانے سے تقوی ودیانت کی خلاف ورزی ہوگی ان آیات میں یہ بتایا ہے کہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے ہاں کھانے پینے میں کوئی ہرج نہیں ، (آیت) ” لیس علی الاعمی حرج “۔ الخ مقصود یہ ہے کہ یہ لوگ چونکہ اس قابل نہیں ہوتے کہ آزادی کے ساتھ کسی کے ساتھ شریک طعام ہو سکیں ، اس لئے ان کو کسی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے میں تکلف ہونا تھا ، قرآن حکیم کہتا ہے ، ان لوگوں کے ساتھ کھانا جو اپنے اور قریبی ہیں ، برا نہیں ، اور شرعا اس میں کوئی حرج نہیں ، یا ہوسکتا ہے کہ دوسروں کو ان کے ساتھ شریک طعام ہونے میں اعتراض ہو اور اس اعتراض کو اس آیت میں دور کیا گیا ہو ، اس صورت میں علی بمعنی فی ہوگا (آیت) ” ان تاکلوا جمیعا او اشتاتا “۔ عربوں میں رواج تھا کہ وہ تنہا خوری کو معیوب سمجھتے تھے ، چنانچہ بنی لیث بن عمرو کے متعلق مشہور ہے کہ وہ لوگ اس وقت تک بھوکے رہتے جب تک کہ کوئی مہمان ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہ کھاتا ۔ انصار کا بھی یہی طریقہ تھا ، وہ بھی انتہا درجے کے مہمان نواز تھے قرآن حکیم نے اس آیت میں ان لوگوں کو اجازت دی کہ وہ جس طرح چاہیں ، کھا سکتے ہیں ، چاہے اکٹھا مہمانوں کے ساتھ کھائیں ، اور چاہے الگ کھائیں ، اور مہمان کو الگ بھیج دیں ، دونوں صورتیں جائز ہیں ۔ حل لغات : بیوت : جمع بیت ، بمعنے گھر ، عمتکم ، عمہ کی جمع ہے بمعنے پھوپھی ، اخوالکم : جمع خال ، ماموں ، خلتکم : واحد خالۃ ، معنے مشہور ہیں ، ماں کی سگی بہن ، اشتاتا : شت ۔ اشتات کی جمع ہے ، متفرق الگ الگ ۔ النور
62 آداب مجلس : (ف ١) یہ آداب مجلس میں ہے کہ بغیر اجازت ہر مجلس یا شرکاء مجلس کے وہاں سے کوئی شخص نہ اٹھے ، منافقین کی عادت تھی کہ جب چاہا وعظ یا خطبے میں بیٹھ گئے ، اور جب چاہا ، اٹھ کھڑے ہوئے ، اللہ تعالیٰ کو یہ ادا ناپسند تھی ، اس لئے اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ آداب مجلس کو ملحوظ رکھنا جزو ایمان ہے ، اور وہ لوگ جو ان آداب کو ملحوظ نہیں رکھتے ۔ وہ صحیح معنوں میں مسلمان نہیں ۔ غور فرمائیے ، قرآن میں آداب وعوائد رسمیہ کی کس قدر اہمیت ہے ، اور اس وقت کا مسلمان ان آداب سے کس قدر عاری ہے ، آج یورپ والے ان اخلاق وعادات کو اس طرح اپنا کرچکے ہیں کہ گویا یہ ان کا خاصہ معلوم ہوتا ہے حالانکہ سب چیزیں اسلام سے لی گئی ہیں ۔ النور
63 (ف ١) حرمت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارہ میں صاف طور پر فرمایا کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکموں کو ایسا نہ سمجھنا جس طرح تم ایک دوسرے کو مخاطب کرکے حکم دیتے ہو یعنی خواہ ان پر عمل کرو یا نہ کرو ، رسول کی ہر بات واجب تعمیل ہے ، اور جو لوگ اس کے ارشادات کو نہیں مانتے ، اور اپنے لئے ان ارشادات کو صحیح اور سند نہیں سمجھتے ان کو ڈرنا چاہئے ، کہ اس انکار کی بنا پر کسی آفت یا اللہ کے عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں ، بعض کی رائے میں آیت کا مقصد یہ ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عام تخاطب کے انداز میں مخاطب نہ کیا جائے بلکہ حرمت وحترام کو مدنظر رکھ کر یا رسول اللہ یا نبی اللہ وغیرہ الفاظ سے پکارا جائے ، بعض اکابر کی رائے میں اس سے مراد ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرنے میں آواز کا لہجہ عامیانہ یا ملائم نہ ہو ، بعض کہتے ہیں کہ یہاں دعا سے مراد بددعا ہے یعنی یہ نہ سمجھو کہ رسول کی بددعا عام لوگوں کی طرح بےاثر ہے ، اس صورت میں بینکم ، علیکم کے مترادف ہوگا ۔ مگر پہلے معنی زیادہ درست اور سباق کے مطابق ہیں ۔ حل لغات : یتسئلون : کھسک جاتے ہیں ، آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ فتنۃ : آزمائش عذاب ، دیوانگی ۔ النور
64 النور
0 الفرقان
1 مسلمان قرآن کے بعد کسی دوسرے صیحفہ کا متنظر نہیں : (ف ١) اللہ کی ذات بھرخیر اور ہمہ برکت ہے ، اور یہ اس کے فیوض عالیہ میں سے ہے کہ اس نے گمراہ انسانوں کیلئے ایک راہنما بھیجا اور ایک نہایت ہی شاندار کتاب عنایت فرمائی ، جو حق وباطل کے درمیان فارق ہے اور وہ راہنما ایسا ہے کہ اس کی نبوت تمام کائنات انسانی کے لئے ہے ، اس کا پیغام زمان ومکان کی قیود سے بالا ہے ، وہ ہر قوم اور جو قرن کے لئے پیغمبر ہے اس کی تعلیمات کا فیض عام ہے ، وہ ایک ایسا آفتاب رشد وہدایت ہے جو کسی غروب نہیں ہوتا ، یعنی قیامت تک مسلمان کو کسی نبوت اور کسی رسالت کی ضرورت نہیں کسی کتاب اور کسی صحیفے کی حاجت نہیں جہاں تک رشد وہدایت کے پروگرام کا تعلق ہے مسلمان قرآن کے بعد ہر چیز سے بےنیاز ہے ، (آیت) ” علی عبدہ “۔ سے مراد ہے کہ بڑے سے بڑا رتبہ اور مقام عبودیت ہے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجود ان مراتب اور درجات کے باوجود نہیں قرب واختصاص کے کہ دنیا کا کوئی شخص فضائل میں ان کا ہم نہیں ہے ۔ اور وہ اقلیم مکارم کے تنہا جاجدار ہیں ، اللہ کے بندے ہیں اور ان کے تعلقات اپنے خالق سے نیاز مندانہ ہیں ۔ نذیرا : سے مراد آگاہ کرنے والا ہے ڈرانے والا نہیں ۔ الفرقان
2 اشتراکیت اور اسلامی تخیل ملک : (ف ٢) شرک اور بت پرستی کی تردید ہے ، ارشاد ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کی بادشاہت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے پھر اس کو بیٹوں کی کیا ضرورت ہے ؟ اور کون ہے جو اس کے اختیارات میں دخل اندازی کرسکے ، اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے ، اور ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کردیا ہے ۔ اشتراکیت کا موجودہ تخیل اگر غور کیا جائے تو اس آیت کی رو سے درست نہیں ، کیونکہ اشتراکیت کے معنے یہ ہیں ، کہ تمام املاک کو حکومت کا ملک قرار دیا جائے ، حالانکہ ہر چیز کا مالک خدا ہے اسی نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور اسی کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ان کو مناسب اور موزوں طریقوں سے اپنے بندوں میں تقسیم کردے ۔ یہ خدا کی ملک اور اس کے قبضہ و اختیار میں ہے ۔ مداخلت کرنے والے کون ہیں ؟ اصل میں یہی وہ مقام ہے جہاں سے اشتراکیت اور اسلام دو جدا جدا راہیں پیدا ہوتی ہیں ۔ اس باب میں دونوں متفق ہیں کہ کوئی شخص تنہا کسی چیز کا مالک نہیں ۔ اس لیے جمہوریت یا حکومت اس کی مالک ہے اور اسلام کہتا ہے کہ صرف اللہ مالک ہے ۔ لہ ملک السموات والارض اور ہماری حیثیت محض امین کی ہے براہ راست مجاز نہیں کہ اپنے اختیارات کو بروئے کار سکیں ہم اللہ کی ہدایات کے منتظر ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے ، اپنی دولت کو تقسیم کرتا ہے ۔ چنانچہ قرآن حکیم نے دولت اور املاک کی اتنی بہتر تقسیم فرمائی ہے کہ اس کے بعد اشتراکیت کے لئے مسلمان کے قلب میں کوئی جگہ نہیں رہتی ۔ الفرقان
3 الفرقان
4 الفرقان
5 الفرقان
6 قرآن خدا کا کلام ہے : (ف ١) نصر بن حرث اور اس قماش کے دوسرے لوگ جب یہ دیکھتے کہ قرآن کی فصاحت وبلاغت کا جواب بن نہیں آتا تو وہ کہتے کہ یہ خدا کا کلام تھوڑا ہی ہے ، یہ تو افتراء ہے وہ لوگ جو اہل کتاب تھے اور اب مسلمان ہوگئے ہیں ، اس کی ترتیب وتدوین میں محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کا ہاتھ بٹاتے ہیں نیز کہتے کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں اور قصے ہیں ، جس کو اس نے لکھوا لیا ہے اور اب قرآن کے نام سے ہمارے سامنے پیش کر رہا ہے ۔ قرآن کہتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ، اور خدا کی جانب سے فرستادہ ہیں ، ان کا پیش کردہ کلام خدا کا کلام ہے دلیل یہ ہے کہ اس میں ایسا علم اور ایسا علم اور ایسی وسعت معارف ہے جو اللہ کے ساتھ مختص ہے ۔ جس طرح آسمانوں اور زمین کے بھیدوں اور اسرار کائنات کو بجز خالق کون ومکان کوئی نہیں جانتا ، اسی طرح ان علوم ومعارف سے کوئی شخص آگاہ نہیں جو قرآن میں مذکور ہیں ۔ غرض یہ ہے کہ قرآن کے کلام اللہ ہونے پر سب سے بڑی دلیل اس کی وسعت معانی اور ذخارت معلومات ہے ۔ کیا کوئی انسان اتنا بلیغ ، اتنا جامع اور جملہ ضروریات انسانی کو پورا کرنے والا کلام پیش کرسکتا ہے ایک ایسا کلام جس میں عقائد بھی ہوں ، اخلاق کی تفصیل بھی اور معاشرت کی گتھیاں بھی سلجھائی گئی ہوں جس میں اقوام وملل کے حالات ہوں اور نفسیات عروج وزوال کی داستان بھی وہ ، جس میں ہجرت انگیز پیشگوئیاں ہوں اور غیب کا ایک بہت بڑا مجموعہ ہو ، جس کا انداز بیان بالکل فطری جازب اور حیران کن طور پر معجزانہ ہو جس کے متعلق ساری دنیا کو مقابلہ کی دعوت دی جائے جس کا کو سن کر بڑے بڑے فصحاء لکھنا چھوڑ دیں ، قوم میں ایک انقلاب عظیم پیدا کر دکے جو مردوں میں جان ڈال دے زندوں کو عروج ارتقاء کے پایہ بلند تک پہنچا دے جیسا عظیم الرحمت کلام یقینا انسان کی وسعت سے باہر ہے ۔ الفرقان
7 الفرقان
8 الفرقان
9 (ف ١) مشرکین مکہ اپنی روایتی نخوت کی وجہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیغمبر تسلیم نہ کرتے اور کہتے کہ پیغمبر کو فوق الفطرت ہونا چاہئے ، وہ شخص جو کھاتا پیتا ہو ، اور ضروریات کیلئے بازاروں میں گھومتا پھرتا ہو ، وہ اللہ کا رسول نہیں ہوسکتا وہ یہ بھی کہتے کہ اگر یہ پیغمبر ہوتا ، تو اس کے ساتھ ایک فرشتہ ہونا چاہئے تھا ، اللہ کی طرف سے اس کے پاس خزائن کا نزول ہونا چاہئے تھا ، اور باغات ہونے چاہئیں تھے کہ جن میں سے پھل توڑ توڑ کو کھاتا ، ارشاد فرمایا ، کہ یہ نبوت کا خود ساختہ معیار غلط ہے اور سراسر گمراہی کا باعث نبی ہمیشہ ایک انسان ہوتا ہے اور اس کے ساتھ بشری ضروریات وحاجات لگی رہتی ہیں ، اس کا فوق الفطرت ہونا ضروری نہیں ، وہ اخلاق اور روحانیت کے اعتبار سے البتہ سب لوگوں سے بلند ہوتا ہے مگر جسم کی ساخت کے اعتبار سے عام انسان سے جدا نہیں ہوتا ۔ الفرقان
10 (ف ٢) یعنی یہ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ تمہارے پاس ایک باغ ہونا چاہئے ہم کہتے ہیں کہ ہم جب چاہیں گے جنت ونسیم کا وارث بنا دیں گے ، حدیث میں آیا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جبریل (علیہ السلام) امین آئے ، اور انہوں نے پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں ، کیا دنیا کے تمام لذائذ یا آخرت کی نعمتیں ، اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ دنیا کے تمام حظوظ سے آپ کا دامن بھر دیا جائے ، تو ایسا ہو سکتا ہے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں میں آخرت کی نعمتوں کو ترجیح دیتا ہوں ۔ حل لغات : قصورا : جمع قصر محلات ۔ زفیرا : گدھے کی آواز ، یہاں مراد جہنم کی آواز ہے ۔ الفرقان
11 الفرقان
12 الفرقان
13 الفرقان
14 الفرقان
15 دوزخ بہتر ہے یا جنت والخلد ! (ف ١) یعنی دنیا میں تو یہ لوگ قیامت کو جھٹلاتے رہے پیغمبر کی تکذیب کرتے رہے اور کلام الہی کو افتراء اور جھوٹ کہتے رہے ، مگر جب انہیں ان کے انکار وتمرد کی پاداش میں جہنم کی سزا ہوگی اس وقت یہ جہنمی چاہیں گے کہ موت آکر عذاب کی شدتوں اور تلخیوں کو ختم کر دے ، اس وقت زندگی سے سخت بیزار ہو کر اپنے لئے موت کی خواہش کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، کم بختوا سوچو ، کہ کیا یہ دوزخ کی زندگی عذاب ، اور یہ تکلفیں بہتر ہیں ، یا جنت الخلد ، (بہشت جادوانی) بہتر ہے کیا تم تمرد و سرکشی کو پسند کرتے ہو ، جس کی سزا جہنم اور اس کی شدتیں ہیں ، یا جنت پسند کرتے ہو ، جہاں کہ روح وجسم کی ہوگی اور فرحت کا سامان ہے ، اگر جنت پسند ہے تو اس کے لئے انقاء شرط ہے ، اتقاء کے معنے قرآنی اصطلاح میں ہیں کہ قلب ودماغ کو گناہوں اور مصیتوں سے پاک کر دیاجائے ، اور اس میں یہ استعداد پیدا کردی جائے کہ وہ خود بخود گناہوں کو نفرت وحقارت سے دیکھنے لگے ۔ جنت چونکہ مقام رضا ہے ، اس لئے وہاں ہر خواہش کی تکمیل ہوگی یعنی مسلمان دنیا میں مشتبہات کے ارتکاب سے بچتا ہے ، خواہشات وجذبات کو ضبط واعتدال کی حدود میں رکھتا ہے ، اور اللہ کے لئے ہر نوع کے ایثار اور ہر طرح کی قربانی کو عمل میں لاتا ہے ، اس لئے اس مقام جزا میں اس کو پوری آزادی دے دی جائے گی ، اور اس کی ہر خواہش کو پورا کیا جائے گا ، خود فطرت انسانی کا یہ مطالبہ ہے کہ اس حدود وقیود کی دنیا کے بعد ایک جیسی دنیا ہونی چاہئے ، جو حدود ناآشنا ہو ، جہاں کوئی قید اور پابندی نہ ہو ، جہاں کامل سکون اور کامل اختیارات ہوں ، یہ واضح رہے کہ جنت ایک ارتقائی مقام ہے اور انسان وہاں تک اس وقت پہنچے گا ، جبکہ اس کی خیالات اس کے رحجانات ، جذبات اور خواہشات نہایت لطیف ہوجائیں گے ، اس کے روح جسم میں بہت برا انقلاب پیدا ہوجائے گا ، اس لئے وہاں اس کی خواہشیں اور مطالبے بھی نہایت لطیف اور پاکیزہ فہیم کے ہوں گے ہو سکتا ہے کہ جن چیزوں کو ہم اس دنیا میں پسند کرتے ہیں وہاں ان سے نفرت کریں اور ان کی مطلقا کوئی خواہش نہ ہو ، اس لئے ” لھم فیھا ما یشآء ون “۔ یعنی وہاں جو چاہیں گے ان کے لئے میسر ہوگا ، یہ نہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہاں یہاں کی ہر چیز میسر ہوگی ، کیونکہ ہم خود یہ نہیں جانتے کہ وہاں کیا چاہیں گے ، اور کن چیزوں سے نفرت کریں گے ۔ الفرقان
16 الفرقان
17 الفرقان
18 الفرقان
19 (ف ١) میدان حشر میں یہ ایک عجیب کیفیت ہوگی ، کہ مشرکت جن کی یہاں عبادت کرتے ہیں ، اور اپنا معبود وقرار دیتے ہیں ، وہ معبود ان سے کامل بیزاری کا اعلان کریں گے اور کہیں گے ، کہ ان کی گمراہی اور ضلالت کا ہم موجب نہیں ، بلکہ یہ آسودگی اور فارغ البالی کی وجہ سے خدا کو بھول گئے تھے اور گمراہ ہوگئے تھے ۔ الفرقان
20 (ف ٢) اس آیت میں منصب نبوت کی تشریح ہے بتایا ہے کہ بشریت رسالت کے منافی نہیں اور اس وقت تک جتنے پیغمبر آئے ہیں ، سب انسان لوازم واوصاف سے متصف تھے ، اور سب بشری تقاضوں سے مجبور تھے ۔ حل لغات : بورا : ہلاک ہونے والا ، واحد اور جمع مذکر اور مؤنث سب کے لئے استعمال ہوتا ہے بوار سے ہے جس کے معنے تباہی کے ہیں ۔ الفرقان
21 مکے والوں کے عجیب عجیب اعتراضات ف 1: مشرکین مکہ کا نبوت وبعثت کے متعلق اعتراضات کرنا مشہور ہے اور اصل وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فضیلت اور بزرگی کو تسلیم کریں ۔ یہ بات ان کے لئے گراں تھی ۔ کہ وہ اپنی نحوت اور غرور طبعی کو بالائے طاق رکھ کر یہ تسلیم کریں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سب سے زیادہ بہتر اور اعلیٰ انسان ہیں اس لئے طرح طرح کے اعتراضات تراشتے رہتے تھے ۔ کبھی کہتے آپ چونکہ انسان ہیں اس لئے عہدہ نبوت اور رسالت کے لائی نہیں کبھی کہتے کہ آپ کے پاس آسمان سے خزائن نازل نہیں ہوتے اس لئے آپ عنداللہ معزز ومفتخر نہیں اور کبھی کہتے کہ ہم فرشتوں کو دیکھنا چاہتے ہیں پھر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہتے کہ ہم کو خدا برملا دکھائیے ۔ اس آخری بات کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ بزعم خود اپنے کو برتر اور اعلیٰ سمجھتے ہیں ۔ اور اسی لئے نہایت سرکش ہورہے ہیں *۔ بھلا ان کو فرشتہ دیکھنے کا کیا استحقاق ہے ؟ اور کیا فرشتے دیکھنے کے بعد اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ؟ کیا پھر بھی یہ لوگ نہیں کہہ سکتے کہ یہ محض جادو اور ساحری ہے اور اللہ تعالیٰ کو ان آنکھوں سے دیکھنے کا مطالبہ تو بہت بڑا تکبر اور سخت غرور کی بات ہے ۔ کیا انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ خدا بھی کوئی ان کا بےتکلف دوست ہے اور جب یہ چاہیں گے وہ آموجود ہوگا ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ یقینا فرشتوں کو دیکھیں گے اور ان کے اس مطالبہ کی تکمیل ضرور ہوگی ۔ مگر اس وقت ان کا فرشتوں کو دیکھنا ان کے لئے خوش آئند نہ ہوگا ۔ فرشتے اس وقت آئیں گے جبکہ ان کو عالم قبر سے بیدار کیا جائے گا اور اللہ کے حضور میں پیش کیا جائیگا اس وقت یہ لوگ کہیں گے کہ اے کاش یہ فرشتے روک لئے ہو بند کردیئے جاتے اور ان آنکھوں سے ہم انہیں نہ دیکھتے اس وقت ان کے اعمال اللہ کے سامنے پیش ہونگے اور یہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ وہ بالکل ادنیٰ ترین اور ناچیز ہیں اور پراگندہ بالوں کی طرح فضا میں منشتر ہیں *۔ البتہ پاکباز اور نیک انسان جو اللہ سے ڈرتے ہیں ۔ اور جن کے دلوں میں تقویٰ اور پرہیزگاری کے جذبات موجزن ہیں اور وہ اہل جنت ہیں ان کے لئے عقبیٰ کی نعمتیں مقدر ہیں وہ اس دن نہایت آرام وآسائش میں ہونگے ۔ ان کے لئے بہترین ٹھکانہ ہوگا ۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی بوقلموں عنایتوں اور گوناگوں رحمتوں سے بہرہ اندوز ہوں گے *۔ حل لغات :۔ لا یرجون ۔ امید نہیں رکھتے ۔ لغت “ اضداد ” سے ہے اس کے معنی خوف کے بھی ہیں جس کے ساتھ انکار لگا ہو چنانچہ قرآن نے اس کو ان معنوں میں استعمال کیا ہے ۔ مالکم ترجون للہ وقارا سرکشی ۔ حدود اعتدال سے تجاوز * جھلا محجورا ۔ کے نزدیک جھوڑا ان مصادر میں سے جس کا فعل مذکور نہیں ہوتا اور جو منصواب ہوتے ہیں ۔ جیسے معاذ اللہ اور مجھورا تاکید کے لئے ہے *۔ الفرقان
22 الفرقان
23 الفرقان
24 الفرقان
25 ف 2: یوم تشقق السماء باالغمام سے یہ مراد ہے کہ جس دن قیامت آجائیگی آسمان پھٹ جائے گا اور صرف برحق اکبر معلوم ہوگا اور فرشتے کثرت کے ساتھزمین پر نازل ہوں گے ۔ تاکہ اپنے فرائض سرانجام دیں ۔ اس دن بادشاہت اور اختیارات صرف اللہ کے ہاتھ میں ہوں گے ۔ اور دنیا کی کوئی قوت زمین وآسمان کو تباہی سے نہ بچا سکے گی ۔ یہ دن ان لوگوں کے لئے سخت ہوشربا ہوگا جو کہ اس دن پر یقین نہیں رکھتے تھے اور قیامت کا نام لے کر مضحکہ اڑاتے تھے *۔ الفرقان
26 ف 3: اس آیت سے مقصود وہ اس کیفیت کو ظاہر کرتا ہے جب حشر میں کفار کو معلوم ہوگا کہ ہمارے اعمال کا انجام کیا ہونے والا ہے (اس وقت یہ لوگ اپنے دانتوں سے اپنے ہاتھ کاٹیں گے اور نہایت ہی حسرت ناک انداز میں کہیں گے ۔ اے کاش ہم نے رسول کی پیروی کی ہوتی ۔ اور ہم فلاں فلاں گمراہ اور بدکردار لوگوں کو دوستی کے لئے منتخب نہ کرتے *۔ حل لغات :۔ عسیرا مشکل دشوار گزار * فلانا ۔ غیر متعین شخص * خدولا ۔ خدول سے ہے معنی مدد دینا ۔ خوار کرنا * مھجورا ۔ متروک ۔ چھوڑا ہوا *۔ الفرقان
27 الفرقان
28 الفرقان
29 الفرقان
30 قرآنی تعلیمات کو پس پشت ف 1: یعنی ایک طرف تو مشرکین ومنکرین افسوس کا اظہار کریں گے دوسری جانب اللہ کا رسول کھڑا ہوگا اور کہ گا اے اللہ میں نے ہرچند ان لوگوں کو قرآن کی جانب بلایا اور صراط مستقیم کی دعوت دی ۔ مگر ان لوگوں نے ہمیشہ روگردانی کی اور قرآنی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ۔ اس لئے آج ان سے بھی ایسا ہی سلوک ہو کہ یہ تیری عنایتوں اور مہربانیوں کے امیدوار نہیں اور تیری طرف سے بالکل بےالتفاتی کا اظہار ہو ۔ جس طرح انہوں نے تیری کتاب کو پس پشت ڈال دیا تھا ۔ اسی طرح اب ان کی معروضات ناقابل اعتناء سمجھی جائیں *۔ آیت کا مفہوم کے اعتبار سے عام ہے اس میں وہ مسلمان بھی داخل ہیں جنہوں نے عملاً قرآن کو ترک کر کھا ہے اور ان کی زندگی یکسر غیر قرآنی زندگی ہے ۔ حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص قرآن کو پڑھ کر فراموش کردے گا اور پھر اس کو کبھی نہ دیکھے گا ۔ قرآن قیامت کے روز اللہ سے کہے گا اے اللہ تیرے اس بندے نے مجھے بالکل چھوڑ رکھا تھا ۔ اس لئے میرے اور اس کے درمیان فیصلہ فرمائیے یعنی ہر مسلمان سے پوچھا جائے گا کہ اس نے قرآن پڑھا اور پڑھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کی یا دنیا کی الجھنوں میں پھنسا رہا اور سب کچھ بھلا بیٹھا ۔ الفرقان
31 الفرقان
32 قرآن آہستہ آہستہ کیوں نازل ہوا ف 1 مخالفین کا ایک اعتراض یہ تھا ۔ کہ قرآن وقفہ وقفہ کرکے کیوں نازل ہولا ہے ایک دم اکٹھا کیوں نہیں اتارا گیا ، اللہ نے اس کا جواب دیا ہے کہ اس سے مقصود یہ تھا کہ آپ کے قلب کو ڈھارس رہے اور تھوڑا تھوڑا نازل ہونے سے وہ جمعیت خاطر کے ساتھ اس کو محفوظ رکھ سکیں ۔ نیز بدقعات نازل کرنے کے یہ اور اللہ بھی ہیں :۔ اب اس لئے کہ مقامبلہ کرنے والوں کو آسانی رہے اور وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم اتنی بڑی ضخیم کتاب کا جواب کیونکر لکھ سکتے ہیں ۔ یہ بھی فائدہ ہے کہ آہستہ آہستہ نازل ہونے سے مسلمانوں کے دل میں شوق واضطراب کے جذبات پیدا ہوں ۔ اور وہ جاننے کے لئے بےتاب منتشر رہیں ۔ کہ ہمارے طرز عمل کو اللہ تعالیٰ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ اس طرح قوت عمل میں اضافہ ہوتا ہے ۔ نشرو اشاعت میں بھی آسانی تھی ۔ کہ جتنا جتنا قرآن نازل ہوتا گیا دوسروں تک سراعت کے ساتھ پہنچ گیا ۔ اور محفوظ ہوگیا ۔ حل لغات ترتیلا ۔ رتل الکلام کے معنے ہوتے ہیں ۔ کہ کلام کو صحیح صحیح اور حسن ترکیب کے ساتھ پیش کیا ۔ ترتیل کہتے ہیں قرآن مجید کے آہستہ آہستہ مخارج حروف پڑھنے کو تدمیرا ۔ دماء سے ہے ۔ جس کے معنے ہلاک کے ہیں ۔ الفرقان
33 الفرقان
34 ف 2۔ یعنی بطور سزا کے انہیں منہ کے بل دوزخ کی طرف لیجایا جائے گا ۔ حدیث میں ہے ۔ ان الذی امشاھم علی ارجلھم قادر علی ان یمشیھم علی وجوھھم کہ جس خدا نے دنیا میں ان لوگوں کے پاؤں کے بل چلنے کی استعداد عطا کی ہے ۔ وہ قیامت کے دن ان کو منہ کے بل چلنے کی قوت بخش سکتا ہے ۔ بعض صوفیا نے کہا ہے کہ منہ کے بل چلتا اس کیفیت سے تعبیر ہے ، کہ ان لوگوں کے دل اس عالم حشر میں بھی دنیا کے مرغوبات سے متعلق رہیں گے ۔ اور ماسواء اللہ خواہشات ہنوز باقی رہیں گی ۔ الفرقان
35 الفرقان
36 الفرقان
37 الفرقان
38 حل لغات :۔ اصحاب الرس ۔ رس اس کنوئیں کا نام ہے جہاں قبیلہ ثمود نے ازراہ سرکشی اور عداوت اپنے پیغمبر کو چھپا دیا تھا اس لئے اصحاب الرس سے ہیں ۔ الفرقان
39 سنت اللہ ف 1: ان آیات میں اللہ کے اس قانون جاریہ کی تشریح ہے کہ جب کہ قوموں کے پاس اللہ کے رسول آئیں اور وہ ان کو صراط مستقیم کی طرف دعوت دیں ۔ تو وہ ان کو تسلیم نہ کریں اور کج روی کو ترجیح دیں وہ پاکبازی کی جانب بلائیں ۔ اور ان کو فسق وفجور پسند ہو ۔ اگر اس وقت عذاب الٰہی آتا اور ان کا نام صفحہ ہستی سے مٹا دیتا ہے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرعون کو دعوت دی کہ وہ بنی اسرائیل پر مظالم ڈھانا چھوڑ دے ! اور ہرچند معجزات وخوارق سے اس کے حجاب کبرہ غرور کو اس کی آنکھوں سے دور کرنے کی کوشش کی ۔ مگر ناکامی ہوئی ۔ اس کو اپنی طاقت مادی پر بڑا ناز تھا ۔ اس لئے حقائق کو بصیرت کی آنکھ سے نہ دیکھ سکا ۔ اور غرق ہوگیا نوح کی قوم تقریباً ہزار سالہ تبلیغ واشاعت کے باوجود نہ سنبھلی اور طوفان میں غارت ہوگئی ۔ عاد اور ثمود کی بستیاں اس کے انکار اور سرکشی کی وجہ سے الٹ گئیں اور سیلاب میں تباہ ہوگئے اور مٹ گئے ۔ یہ کیوں ! اس لئے کہ ان لوگوں نے اللہ کے پیغام کو ٹھکرا دیا : اس کے رسول اور فرستادے کو اذیتیں پہنچائیں ۔ اور اللہ اس کے دین کی مخالفت کی ۔ الفرقان
40 الفرقان
41 ف 2 گذشتہ اقوام وملل کی تباہی اور بربادی کا ذکر کرتے ہے اور اب یہ بتایا ہے کہ مشرکین کہ بھی انہیں منکرین کے نقش قدم پر جارہے ہیں یہ بھی اس اس پر رشدوہدایت اور ذات والا صفات پر طعنہ زن ہوتے ہیں اور نہایت تحقیر کے لہجے میں کہتے ہیں ۔ کیا اس شخص کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے ، گویا رسول کے ضروری ہے کہ وہ مالدار بھی ہو اور ان لوگوں کی طرح جھوٹی عزت اور جھوٹے وقار کا بھی مالک ہو ۔ ان کے خیال میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے لازم تھا کہ وہ ان کے منتخب اکار میں سے ہوتے ، تحقیر واستہزاکی کوئی وجہ نہیں ۔ بلکہ حضور کمالات روحانی اور وجاہت وحسن جسمانی کے لحاظ سے ان تمام لوگوں سے بہتر تھے یا یوں کہیے کہ آپ تمام کمالات کے حامل تھے ۔ اور انسانیت کا صحیح نمونہ تھے گو ابتداً دولت نہ تھی مگر دولت غنا کے تو شہنشاہ تھے ۔ اور ایک وقت آیا کہ آپ کے قدموں میں سیم وزر کے انبار لگ گئے ۔ الفرقان
42 ف 3: یہ لوگ باوجود بت پرستی کے اپنے کو راہ راست پر سمجھتے اور کہتے کہ معاذ اللہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تو ہمیں گمراہ کر ڈالا ہوتا ۔ یہ ہمارا استقلال اور عزائیت ہے کہ اپنے معتقدات سے نہیں پھرے ، ارشاد ہے کہ عنقریب جب اللہ کا عذاب و امتحان اور رسوائیوں کے ساتھ آموجود ہوگا ۔ اس وقت ان کو معلوم ہوگا کہ راہ راست پر کون ہے اور کون گمراہ ؟ الفرقان
43 الفرقان
44 ف 1: مقصود یہ ہے ۔ کہ یہ لوگ دلائل و ہوا مین کی وجہ سے اسلام کی صداقتوں کا انکار کرتے ۔ بلکہ محض ہوائے نفس کی پیروی میں ایسا کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کا خدا تو ان کی اپنی خواہشات ہیں ۔ الفرقان
45 ف 2: یعنی جس طرح چوپاثوں میں عقل وشعور کی استعداد نہیں ہوتی ۔ اسی طرح یہ لوگ بھی سمجھ بوجھ سے محروم ہیں ۔ بلکہ انہیں لحاظ سے تو ان سے بھی بدتر ہیں کہ وہ کم از کم ان فرائض کو ادا کرتے ہیں ۔ جو فطرت نے ان پر عائد کی ہیں مگر یہ ہیں کہ انسان فرائض کو بھی بھول چکے ہیں اور انسانی شرافت اور بزرگی کو یکسر کھوچکے ہیں ۔ الفرقان
46 الفرقان
47 حل لغات سباتا ۔ منقطع کردینے والی چیز ۔ رات چونکہ ان کے تعلقات کدوکاوش سے انسان کو جدا کردیتی ہے ۔ اس لئے اسے سبات سے تعبیر کیا ہے ۔ سبات کے معنے خواب وراحت وآسائش کے بھی ہیں ۔ فرج ۔ بلائے ۔ فرات کے معنے عمدہ اور شریں پانی کے ہیں ۔ اجاج ۔ پانی ۔ تلخ ۔ الفرقان
48 تذکیربآلا اللہ ف 3: قرآن حکیم دلائل وبراہین کا بےنظیر مجموعہ ہے ۔ اس میں ہر نوع اور ہر طبقے کے لوگوں کے لئے تسکین کا بہتر اور وافر سامان موجود ہے ۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں دعوت واشاعت کے کسی طریق کو اٹھا نہیں رکھا گیا ۔ اس میں حکمت وفلسفہ بھی ہے ۔ اور نفسیات انسانی کی عکاسی بھی ۔ معقول اور ٹھوس دلائل بھی ہیں ۔ اور اقوام و ملل کے حالات بھی ممکن طریقے تصور میں آسکتے ہیں ۔ وہ سب اس میں موجود ہیں ۔ ان آیات میں مشاہدات فطرت کا بیان ہے ۔ اور تذکیر بآلاء اللہ کے اصول پر ان لوگوں کو دعوت ایمان ہے ۔ جو غرو وفکر کے عادی ہیں ۔ ارشاد ہے کہ دیکھو ہم نے انسانوں کے سکھ اور آرام کے لئے آفات پیدا کیا ۔ اس کی وجہ سے ساری کائنات میں روشنی پھیل جاتی ہے ۔ اور ایک عجیب خوشگوار فضا پیدا ہوجاتی ہے ۔ اگر وہ نہ ہو تودنیا میں تاریکی وظلمت چھا جائے ۔ کیا وہ اسی طرح کفر کی ظلمتوں اور تاریکیوں کو دور کرنے کے لئے کسی نے آفتاب ہدایت کی ضرورت نہیں ! ہم نے رات پیدا کی ہے کہ وہ تمام عیوب لوالتیاس کی طرح ڈھانک لیتی ہے ۔ اور نیند کو آرام کرنے کے لئے بنایا ، نیز دن کو پیدا کیا ۔ جس میں تم اٹھ کھڑے ہوتے ہو ؟ تو کیا موت کی نیند سے بیداری اور العثثت ممکن نہیں ؟ اور ہم خوشخبری دینے والی ہوائیوں کو بھیجتے ہیں ۔ جو باران رحمت کی خبردیتی ہیں اور آسمان سے پاک وصاف پانی برساتے ہیں ۔ کہ خشک اور مردہ زمینیں اس کی وجہ سے زندہ ہوجاتیں ہیں ۔ اور حیوانات اور انسان اس پانی سے استفادہ کریں ۔ تو کیا دل کی خشک اور مردہ زمینیں الہام و وحی کی بارش کے پانی سے تر وتازہ نہ ہوگی ؟ یعنی تم ان تمام معجزاہ توین پر غور کرو ۔ تو تمہیں معلوم ہوگا کہ حکیم وعلیم اللہ اپنے بندوں پر کس درجہ مہربان ہے ۔ ارشاد ہے کہ ہم چاہتے تو ہر بستی میں پیغمبر بھیجتے ۔ اور آپ کی سہولت و آسانی ہر آئنہ مدنظر رکھتے ۔ مگر طے یہ تھا ۔ کہ ان تمام رسالت کی ذمہ داریاں کو آپ تنہا نہ اٹھائیں ۔ اس لئے اپنے اس منصب جلیل کو دیکھتے ہوئے منکرین کی خواہشات کا احترام نہ کیجئے ۔ اور انکی جہالت اور سرکشی کے خلاف زبردست جہاد کیجئے ۔ اس کے بعد پھر مختلف نعمتوں کا ذکر ہے ارشاد ہوتا ہے ۔ کہ دیکھو بعض دفعہ ایک دریا ہوتا ہے اور اس میں دو قسم کے دھارے الگ الگ اور ممتاز طریق پر بہتے ہیں ۔ ایک دھارا میٹھا اور شیریں ہوتا ہے ۔ اور دوسرا کڑوا اور کھاری اور دونوں کے درمیان ایک آڑ اور مضبوط اوٹ ہوتی ہے ۔ جو ان کو آپس میں ملنے نہیں دیتی ۔ کیا یہ اللہ تعالیٰ کے وجود اور زبردست قدرت پر حیرت انگیز دلیل نہیں ۔ آخر ان دونوں دھاروں کو آپس میں ملنے سے کس نے روک رکھا ہے ۔ اور کس نے ان دونوں میں الگ الگ خواص اور رنگ پیدا کئے ہیں ؟ یہ بھی اس کی قدرت باہرہ ہے کہ ایک قطرہ آب سے آدمی پیدا کرکے اسے کنبوں اور قبیلوں والا بنادیتا ہے ۔ الفرقان
49 الفرقان
50 الفرقان
51 الفرقان
52 الفرقان
53 الفرقان
54 حل لغات :۔ صھرا ۔ خسر ، داماد ، بہنوئی ، سسرال یا وہ مادی قرابت والا * ظھیرا ۔ اصل معنے مددگار اور معاون کے ہیں ۔ مگر جب صلہ علی ہو تو اس کے معنے مخالف اور دشمن کے ہوجاتے ہیں *۔ الفرقان
55 شرک اللہ کا کھلا انکار ہے ! ف 1: اللہ کے مختلف انعامات آپ دیکھ چکے اور آپ کو معلوم ہوگیا ۔ کہ ہر قسم اور ہر نوع کی قدرتیں اس کے ساتھ مختص ہیں وہی کائنات کا مالک ہے اور اسی کی ذات بابرکات کو ہر طرح کے اختیارات حاصل ہیں ۔ اگر مشرکوں کی بےوقوفی اور کم عقلی ملاحظہ ہو ۔ کہ باوجود ایک قادر و عظیم خدا کے یہ ایسی چیزیں کی پوجا اور عبادت میں مصروف ہیں ۔ جو ان کو نہ تو کئی نفع پہنچا سکتی ہیں ۔ اور نہ نقصان ۔ ارشاد ہے ۔ کہ یہ شرک اللہ تعالیٰ کا کھلا انکار ہے اور کھلی بغاوت ہے *۔ الفرقان
56 بشیر اور نذیر ف 2: حضور سے قبل جس قدر انبیاء تشریف لائے ۔ وہ یا تو بشیر تھے ۔ یا نذیر ۔ یعنی ان کے پیغام میں یا تو انداز کا عنصر قوی تھا ۔ یا بشارت کا ۔ مگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جامعیت عقلا کی گئی ۔ آپ بیک وقت بشیر بھی تھے اور نذیر بھی *۔ آپ نے اپنے ماننے والوں اور عقیدتمندوں کو جنت اور فلاح کی ۔ اور کینوز واملاک کی خوشخبریاں سنائیں ۔ اور منکروں کو جہنم اور ناکامی کی خبردی *۔ الفرقان
57 الفرقان
58 الفرقان
59 پیغمبربلا معاوضہ تبلیغ کرتے ہیں ف 3: یہ اصل میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کی ترجمانی ہے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تیئس سال تک برابر قوم کو دعوت رشد ہدایت دی اور پیہم اور مسلسل انسانیت کے ارتقا کے لئے جدوجہد فرمائی ۔ گمراہ اور پست خیال انسانوں کو قصر ذات سے اٹھا کر ہدایت اور عروج کے آسمان تک پہنچا دیا ۔ اور ان سے بےمثل خدمت کا بھی کوئی معاوضہ طلب نہ کیا ۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھا ۔ اور دنیا والوں سے بےنیاز رہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ معاوضہ اور اجر سے مستغنی ہوکر اسلام کی خدمت کرتے ہیں ۔ اللہ ان لوگوں کو بذات خود دست گیری کرتا ہے اور دنیا والوں کو ان کی اعانت پر آمادہ کردیتا ہے آج اگر ہمارے علماء وقائدین کی باتوں میں اثر نہیں ہے باوجود شیوا بیان اور جادہ مقال ہونے کے قوم میں کوئی انقلاب اور تبدیلی نہیں پیدا کرسکتے ۔ تو اس کیوجہ یہی ہے کہ وہ قوم کے محتاج ہیں او قوم کو انگی چنداں ضرورت نہیں ۔ وہ پیشہ ور ہیں اور مجلب منقعت کے لئے دعوت وتبلیغ کے فرائض انجام دیتے ہیں *۔ ضرورت ہے کہ ہمارے مصلحین اور قائدین حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسوہ سے کسب انوار کریں ۔ اور اللہ کے دین کی بےمزہ خدمت کریں ۔ آگے اللہ کا کام ہے کہ وہ اپنے ان بندوں کی ضروریات کو پورا کردے *۔ ف 1: یوم کے معنے عربی میں مدت طویل کے ہیں ۔ بارہ گھنٹے کا دن اس سے مراد نہیں ہے ۔ اس لئے آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے آسمان اور زمین کو چھ طویل قرنوں میں پیدا کیا ۔ عرش حکومت واقتصاد پر خیال اگر ہوتا ۔ اللہ کے شیؤان جمال میں ایک شان ہے ۔ صفت نہیں * الفرقان
60 الفرقان
61 حل لغات : بروجا ۔ منازل ۔ برج کی جمع ہے ۔ یعنی ستاروں کے لئے مفلوہ لائن سراہیں ۔ الفرقان
62 الفرقان
63 ف 2: یعنی مکہ والوں کے دل میں اس دجہ بتوں کی محبت ہے کہ وہ غلو میں معبود حقیقی کو بھی بھول گئے ہیں ۔ اور جب انہیں دعوت دی جاتی ہے ۔ کہ خدائے رحمن کے سامنے جھکو ۔ اور کسی چیز کی عبادت نہ کرو ۔ تو وہ ازراہ سرکشی کہتے ہیں ۔ یہ خدائے رحمن کون ہے ؟ کیا تمہارے کہنے پر ہم اللہ کی عبادت کرنے لگیں ۔ اور اپنے دیوتاؤں کو چھوڑ دیں *۔ یہ ملحوظ رہے کہ قالوا وما الرحمن سے اسم کا انکار مقصود نہیں ۔ مسمیٰ کا انکار مطلوب ہے اور یہ اس قلیل سے ہے جیسا کہ فرعون نے موسیٰ سے کہا ۔ وما رب العلمین ! حل لغات :۔ ھونا ۔ سہج سے ۔ ہولے ہولے ، بمعنے آرام وآہستگی ووقار ونرمی اور سیکی * غراما ۔ عذاب ۔ ہلاک ۔ ہمیشہ اور پیوستہ بدی ۔ شنیفتگی ۔ حرص * الفرقان
64 الفرقان
65 الفرقان
66 الفرقان
67 الفرقان
68 عبادالرحمن ف 1: ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے عبادالرحمن کی صفات بتائی ہیں ۔ یعنی وہ کون لوگ ہیں جو اللہ کے صحیح معنوں میں بندے ہیں ۔ اور ان کو رحمن کی غلامی اور نیاز مندی کا فخر حاصل ہے ۔ ارشاد ہے کہ وہ دنیا میں ظلم ومعصیت سے علو وبرتری نہیں چاہتے ۔ نہایت نرم اور مریخاں مریخ ہوتے ہیں ۔ عجزوانکساری کا یہ عالم ہے کہ چلتے ہیں تو ہولے ہولے ، وقار اور حشمت کے باوجود ان میں شیخی اور گھمنڈ نہیں ہوتا ۔ متانت اور سنجیدگی کو مدنظر رکھتے ہیں او اپنے وقت کی قیمت کو پہنچانتے ہیں ۔ وہ ان لوگوں سے خوب آگاہ ہوتے ہیں ۔ جن میں جہالت ہوتی ہے ۔ اس لئے جہاں ایسے لوگوں سابقہ پڑتا ہے تو سلام کہہ کر گزرجاتے ہیں ۔ ان لوگوں کے دلوں میں تقویٰ اور پرہیزگاری کے جذبات موجزن ہوتے ہیں ۔ اور ان کا شعار ہوتا ہے کہ رات کی تاریکیوں میں اللہ کے ذکر سے کسب انوار کرتے ہیں اور رات کا اکثر حصہ سجود وقیام میں گزار دیتے ہیں ۔ مگر اپنی عبادت پر انہیں ناز نہیں ہوتا ۔ ہر وقت خرماں اور ترساں رہتے ہیں ۔ اور عذاب خدا سے پناہ رہتے ہیں *۔ ان کے مزاج میں توازن واعتدال کا مادہ ہوتا ہے ۔ یہ لوگ جب اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ۔ تو بےدریغ ہوتے ہیں ۔ ہاں معصیت کے کام میں ایک حبہ بھی خرچ نہیں کرتے ۔ اور نہ یہ حقوق اللہ میں خرچ کرنے سے کوتاہی کرتے یا دل میں کوئی تنگی یا عنیق محسوس کرتے ہوں ۔ توحید کے قائل اور یہ واضح رہے کہ اللہ کی راہ میں سب کچھ لٹا دینا بھی اسراف نہیں مگر معصیت اور گناہ کی راہ میں ایک پائی بھی اٹھا دینا اسراف ہے ۔ اس لئے لم یسرفوا ولم یقتروا کے معنے یہی ہوں گے ۔ جو ہم نے بیان کئے ہیں ۔ عباد الرحمن میں ایک وصف یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ توحید کے قاتل اور حقوق العباد میں بہت زیادہ محتاط ہوتے ہیں ۔ ان سے قتل وغارنگری کے واقعات ظہور پذیر نہیں ہوتے ۔ اور نہ یہ کہ وہ دولت عقاف وعصمت سے محروم ہیں ۔ وہ انتہا درجے کے پاکباز ہوتے ہیں * غور فرمائیے کہ اللہ کے بندوں میں کیا کیا خوبیاں ہوتی ہیں ۔ اور اللہ کا بندہ ہونا کن صفات پر موقوف ہے * کیا وہ پیشہ ور لوگ جو انتہا درجے کے مغرور اور ضدی ہوتے ہیں ۔ جن کی راتیں مے نوشی اور بدمستیوں میں گزرتی ہیں ۔ جو عذاب الٰہی سے قطعاً بےخوف ہوتے ہیں ۔ اور جلب منفعت جن کا مقصد ہوتا ہے ۔ جو خدا کے سوا قبروں اور مزاروں کو معبودجانتے ہیں ۔ اور ادنی فرد علی اختلاف پر قتل وغارت گری پرآمادہ ہوجاتے ہیں ۔ زنا اور بدمعاشیوں سے جن کو عار نہیں ۔ کیا اللہ کے نیک بندے اس کے محبوب ہوسکتے ہیں ؟ کیا اس قماش کے لوگ ولایت اور عبودیت کے مقام بلند پر فائز ہوسکتے ہیں ؟ اور کیا ان لوگوں کے ہاتھ میں قوم کی باگ ڈور دینا سود مند ہوسکتا ہے ؟ الفرقان
69 الفرقان
70 الفرقان
71 الفرقان
72 الفرقان
73 الفرقان
74 بالا خانوں کے مکین ف 1: عبادالرحمن کی تفصیل کے بعد ان آیات میں یہ بتایا ہے کہ وہ لوگ کون ہیں ۔ جو بہشت میں بالاخانوں پر رہیں گے ۔ جن کے مرتبے بلندہوں گے اور فرشتوں کی جانب سے جن کا دعا اسلام کے ساتھ خیر مقدم ہوگا ۔ ارشاد ہے کہ یہ لوگ ہیں ۔ جو مجالس فسق وفجور میں شریک نہیں ہوتے اور عفیف اور پاکباز رہتے ہیں ۔ جو نہایت باوقار اور متین ہوتے ہیں ۔ بےہودہ محفلوں سے باعزت وکرامت گزر جاتے ہیں ۔ اور آنکھ اٹھا کر بھی اس کی جانب نہیں دیکھتے ۔ پھر ان میں یہ بھی خوبی ہوتی ہے ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ کی باتیں ان کو سمجھائی جاتی ہیں ۔ تو وہ فکر اور غور سے سنتے ہیں ۔ اندھا دھند ان پر ٹوٹ نہیں پڑتے *۔ اپنی بیوی بچوں کے لئے اللہ سے دعا کرتے ہیں ۔ کہ وہ نیک اور سعادت مندہوں ۔ اور ان کی راحت وآسائش کا سبب بنیں ۔ ان کی خواہش ہوتی ہے ۔ کہ پرہیز گاروں کی امامت ملے اور انتہا درجے کے پارسا ہوں *۔ اس کے بعداللہ تعالیٰ کے استغناء اور اس کی بےنیازی کا اعلان فرمایا ہے ، ارشاد ہے کہ اگر تم اللہ کو نہیں پکارتے تو اللہ بھی تمہاری کوئی پرواہ نہیں کرتا * چاہے تو چشم زون میں تم سب کو فنا کے گھاٹ اتاردے ۔ اس نے جو تم کو باقی رکھا ہے ۔ تو اس لئے کہ اس کی عبادت کرتے ہو ۔ اور اپنی ضروریات کے لئے اس کو پکارتے ہو *۔ حل لغات :۔ قرۃ اعین ۔ آنکھوں کی ٹھنڈک الفرقان
75 الفرقان
76 الفرقان
77 ف 1: فقد کذبتم سے مراد منکرین ہیں ۔ جو اللہ کے عذاب سے نہیں ڈرتے ۔ اور اس کی بےنیازی اور غناء کی تکذیب کرتے ہیں ۔ فرمایا عنقریب تمہیں اس کی سزا ضرور ملے گی *۔ * لزاما ۔ چپک جانے والا عذاب ۔ لازم ہونا *۔ الفرقان
0 الشعراء
1 ف 2: طسم حروف مقطعات ہیں ۔ تفصیل الم کی بحث میں دیکھئے ۔ امام رازی کہتے ہیں ۔ طا سے مراد قلوب عارفین کی طرف و نشاط ہے ۔ اور اس سے مقصود عشاق کا سردرد بہیت ہے ۔ اور م مریدین سے مناجات پر دال ہے *۔ کتاب مبین کے تعارف کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس محبت وعشق کا ذکر ہے ۔ جو آپ کو عام انسانوں سے تھی ۔ آپ یہ نہیں چاہتے تھے کہ ایک نفس انسانی بھی نجات سے محروم رہے ۔ اور اللہ کا عذاب کا شکار ہوجائے ۔ آپ نے نہایت جانسوزی سے قوم کو نجات وفلاح کی دعوت دی ، اور صراط مستقیم پر گامزن ہونے کی تلقین فرمائی * ارشاد ہے کہ آپ ان لوگوں کی محبت میں اپنی جان کیوں کھوتے ہیں ۔ اگر یہ لوگ اس وضاحت اور دلائل کی کثرت کے باوجود بھی اسلام قبول نہیں کرتے تو ان کو جانے دیجئے ۔ اور ان کی چنداں پرواہ نہ کیجئے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ حق کی پہچان کے لئے باطل کا وجود قائم رہے اور نہ اس کی استطاعت اور قدرت میں ہے ۔ کہ وہ ایسا زبردست نشان ظاہر کردے ۔ جس کے سامنے ان لوگوں کی گردنیں جھک جائیں اور یہ اسلام کی صداقت قبول کرلیں *۔ حل لغات :۔ باخع : ہلاک کرنے والا ۔ غم کی وجہ سے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والا ۔ ع ایھا الباخع الوحد نفسہ محدث ۔ یعنی نوپیدا ۔ یعنی ہر آیت جو نازل ہوئی وہ لوگوں کی معلومات کے اعتبار سے نئی اور جدید ہوگی ۔ ورنہ اللہ کا علم تو ازلی ہے اس کے لئے کوئی بات بھی نئی اور پرانی نہیں الشعراء
2 الشعراء
3 الشعراء
4 الشعراء
5 الشعراء
6 ف 1: مقصد یہ ہے ۔ کہ مکے والوں کی گھٹی میں انکار واتحاد کے جراثیم ہیں ۔ ان کے لئے قرآن حکیم کی کوئی آیت بھی موجب ہدایت وبرکت نہیں ۔ جب قرآن نازل ہوتا ہے ۔ ان کا اغراض اور پہلو تہی بڑھتی جاتی ہے ۔ اور یہ مضحکہ اڑاتے ہیں ۔ اور ہنسی دل لگی میں حقائق کو ٹال دیتے ہیں *۔ ارشاد ہے کہ عنقریب ان کو معلوم ہوجائے گا ۔ کہ اللہ کے کلام سے استہزاء کرنے کی سزا کس درجہ کڑی اور سخت ہے ۔ اولم یروا الی الارض ۔ سے مقصود یہ ہے کہ یہ لوگ بہت کوتاہ نظر ہیں ۔ اگر یہ زمین کی گونا گوں انگڑرایوں پر غور کرتے اور نباتات کے انواع واقسام اور نفاست کو دیکھتے ۔ تو انہیں معلوم ہوجاتا ۔ کہ فطرت ہمہ افادہ ہے ۔ اور اس کی پیدا کردہ کوئی چیز بھی ثمرے سے خالی نہیں ۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ قرآن میں ان کے لئے کوئی بات بھی قابل قبول نہ ہو اور قرآن کی ہر آیت کو مذاق بنالیں اور تکذیب کریں *۔ * انبوت نباۃ کی جمع ہے بمعنے خیر * زوج کریم ۔ صفیہ اصنف *۔ الشعراء
7 الشعراء
8 الشعراء
9 الشعراء
10 حضرت موسیٰ کا مطالبہ آزادی ف 2: حضرت یوسف سے تقریباً چار سو سال بعد بنی اسرائیل کی حالت مصر میں بہت خراب ہوگئی ۔ اور ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جانے لگے ۔ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا ۔ کہ ان کی بہتری اور بہبودی کے لئے ایک پیغمبر کو بھیجا جائے ۔ جو ان کی غلامی اور بندگی کی زنجیروں کو توڑا دے ۔ اور جو اپنے الفا میں قدسیہ سے ان لوگوں کے دل میں ایمان کی شمع کو روشن کردے ۔ چنانچہ اس خدمت کے لئے حضرت موسیٰ منتخب کیا گیا ۔ اور آپ سے کہا گیا ۔ کہ فرعون کی قوم بہت ظالم ہوچکی ہے ۔ اور اس کی سرکشیاں حد سے زیادہ بڑھ گئی ہیں ۔ تم جاؤ۔ اور اس کی رشدوہدایت کی طرف دعوت دو ۔ آخر کیوں ان لوگوں کے دلوں میں نعشیت وتقوی کے جذبات پیدا نہیں ہوتے ؟ حضرت موسیٰ نے کہا ۔ کہ میں ڈرتا ہوں کہ وہ مطالبے کو ٹھکرا نہ دیں ۔ اور میرے پیغام کی تکذیب نہ کردیں ۔ یہ بھی خیال ہے کہ ان کا سامنا کرنے سے میرے دل میں ایک قسم کی تنگی پیدا ہوتی ہے ۔ اور زبان بھی جو ہر بلاغت ، فضاحت سے محروم ہے ۔ اور ایک یہ بات بھی ہے ۔ کہ قبطی کو مارڈالنے کا جرم بھی مجھ پر ہے ۔ اس لئے مجھے مارے ڈالے جانے کا بھی خوف ہے ۔ غرضیکہ میری انتہا درجہ کی مخالفت ہوگی * اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ جاؤ ان میں سے کوئی خوف بھی تمہارے دل میں نہیں رہے گا ۔ تمہارے سینے کی تنگی اور حصیق کو انشراح سے بدلے دیتے ہیں ۔ زبان فصیح وبلیغ ہوجائے گی ۔ اور ہاتھ بٹانے کے لئے ہارون کو ساتھ کئے دیتے ہیں ۔ ہماری نشانیاں لے کر فرعون کے پاس جاؤ۔ ہم تمہاری دعاؤں کو سننے والے ہیں ۔ فرعون سے جاکر صاف صاف طور پر کہہ دو ۔ ہم رب العالمین کی طرف سے رسول ہوکر آئے ہیں ۔ اس لئے اب بنی اسرائیل کی غلام کا دور ختم ہوچکا ہے ۔ اب وقت آگیا ہے ۔ کہ تو ان کو آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہونے کا موقع دے ۔ اب یہ عبودیت اور ذلت کی زندگی بسر نہیں کرسکتے ۔ الشعراء
11 الشعراء
12 الشعراء
13 حل لغال :۔ لا ینطق یسانی ۔ میری زبان رواں نہیں الشعراء
14 * ذنب ۔ الزام ۔ گناہ * الشعراء
15 الشعراء
16 الشعراء
17 الشعراء
18 نریک ۔ تربیت سے ہے ۔ معنی پالنا ۔ پوسنا ۔ پرورش کرنا * الشعراء
19 الشعراء
20 حل لغات :۔ من الضالین ۔ ضال کی جمع ہے ۔ ضلالت کا لفظ لغزش اور غلطی پر بولا جاتا ہے ۔ اور گمراہی پر بھی یہاں مقصود الغزش ہے ۔ کیونکہ حضرت موسیٰ نے قبطی کو عمدا قتل کیا تھا ۔ بلکہ پیٹا تھا ۔ وہ کمزور ہونے کی وجہ سے جانبرنہ ہوسکا *۔ الشعراء
21 الشعراء
22 موسیٰ اور فرعون کی بحث ف 1: حضرت موسیٰ نے جب بنی اسرائیل کی بندگی اور غلامی کے خلاف احتجاج کیا ۔ اور فرعون سے کہا ۔ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اور بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کرتا ہوں ۔ تو فرعون نے کہا ۔ یکایک تجھے نبوت کیونکر مل گئی ؟ کیا ہم نے تیری تربیت نہیں کی ۔ اور تمہیں پال پوس کر بڑا نہیں کیا ۔ اور کیا تو ایک مدت تک ہمارے پاس نہیں رہا ۔ اور کیا تونے اس قبطی کو بلاوجہ نہیں مار ڈالا تھا ؟ حضرت موسیٰ نے جواباً کہا ۔ کہ قبطی کے معاملہ میں مجھ سے واقعی لغزش ہوگئی تھی ۔ اور ڈر کر میں بھاگ گیا تھا ۔ اب اللہ نے مجھے سمجھ بوجھ عنایت فرمائی ہے ۔ اور مجھے نبوت کا عہدہ عطا کیا ہے ۔ اس لئے تیری راہنمائی کے لئے آیا ہوں ۔ باقی تربیت وغیرہ کا احسان ، تو کیا پوری قوم کو غلام بناکر ایک فرد کی تربیت کرنا کوئی بہت بڑا احسان ہے ۔ جو تو جتلارہا ہے ۔ اور پھر یہ بھی تو اس وجہ سے ہوا ۔ کہ تونے بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کرڈالنے کا حکم دے رکھا تھا ۔ یہ تیرے استبداد اور ظلم کا نتیجہ ہے ۔ کہ میں تیرے ہاتھ لگا اور تیرے محل میں میری تربیت ہوئی *۔ اب فرعون نے جب دیکھا ۔ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے نہایت معقول جواب دیئے ہیں ۔ اور اس کے بعد ان سوالات پر مزید گفتگو کی گنجائش نہیں ۔ تو اس نے پہلو بدلا ۔ اور کہا ۔ کہ یہ رب العالمین کون ہے ؟ جس کی طرف سے تو رسول ہوکر ایا ہے ۔ اور جس کی جانب تو ہمیں دعوت دیتا ہے ۔ اور جس کانام بار بار تیری زبان پر آتا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے جواباً کہا ۔ رب العالمین وہ ہے جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا ۔ اس پر وہ اپنے حواریوں سے مخاطب ہوکر کہنے لگا ۔ سنتے ہو ۔ موسیٰ کیا کہہ رہے ہیں ؟ گویا وہ چاہتا تھا کہ اپنے اہالی موالیوں کو مشتعل کیا جائے ۔ اور ان کو بتایا جائے ۔ کہ موسیٰ تمہارے معتقدات کے خلاف عقیدہ رکھتا ہے ۔ موسیٰ نے بات کا رخ بدل کر کہا ۔ کہ رب وہ ہے جس نے تم کو پیدا کیا ہے ۔ اور تمہارے آباؤ اجداد کو بھی ۔ فرعون اس مزید تشریح سے گھبرا گیا ۔ اور جو اب بن نہ آیا ۔ تو کہنے لگا ۔ کہ یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ۔ قطعی دیوانہ ہے ۔ موسیٰ نے اس کے جواب کو قابل جواب نہ سمجھتے ہوئے کہا ۔ کہ وہ خدا مشرق ومغرب اور جو کچھ ان دونوں میں ہے ۔ سب کا مالک ہے ۔ مگر تم نافہمی کی وجہ سے محسوس نہیں کرتے ۔ فرعون اس جواب سے بالکل بوکھلا گیا ۔ اسے پہلی دفعہ معلوم ہوا ۔ کہ کوئی ذات ایسی ہے ۔ جو اس سے بہت اعلیٰ وارفع ہے ۔ اور اس کی حدود وسلطنت مشرق سے مغرف تک وسیع ہیں ۔ اس نے غصہ سے بےتاب ہوکر کہا ۔ خبردار ! جو میرے سوا کسی دوسرے کو خدا مانا ۔ ورنہ یاد رکھو ۔ کہ میں تمہیں قید کردوں گا *۔ حضرت موسیٰ نے بالکل بےخوف ہوکر کہا ۔ کیا دلیل ومعجزہ کے بعد بھی تم سختی کروگے ۔ اس نے کہا ۔ اگر تم میں صداقت ہے ۔ تو دلائل پیش کرو ۔ موسیٰ نے اپنی لاٹھی کو ڈالا ۔ تو وہ اژدھا بن گئی ۔ اور بغل میں سے ہاتھ دبا کر نکالا ۔ تو سفید چمکتا ہوا نظر آنے لگا ۔ یہ معجزے دراصل فرعون کے لئے بمنزلہ ، تشبیہ کے تھے ۔ اس کو ان معجزات سے یہ بتانا مقصود تھا ۔ کہ اللہ کی قدرت سے بےجان خشک لکڑی بھی اژدہا بن سکتی ہے ۔ اس لئے تم بنی اسرائیل کو اپنے لئے بےضرر نہ سمجھو ۔ اور ہاتھ کا براق ہونا کامیابی وکامرانی کی طرف اشارہ ہے *۔ الشعراء
23 مارب العلمین ۔ ما یہاں منطقی تعریف کے لئے نہیں بلکہ اس کا مقصود یہ تھا کہ موسیٰ خدا کا صحیح صحیح تخیل پیش کریں *۔ الشعراء
24 الشعراء
25 الشعراء
26 الشعراء
27 الشعراء
28 الشعراء
29 المسجونین ۔ سجن سے ہے ۔ جس کے معنے قید خانہ کے ہیں *۔ الشعراء
30 الشعراء
31 الشعراء
32 الشعراء
33 الشعراء
34 جادوگروں سے مقابلہ ف 1: فرعون نے جب موسیٰ کے معجزات کو دیکھا ۔ تو اپنے ہالی موالی سے کہنے لگا ۔ یہ تو بہت سمجھ دار جادوگر ہے ۔ اور چاہتا ہے کہ تم کو بسحر وجادو کے زور سے تمہارے ملک سے نکال دے ۔ اور بنی اسرائیل کو مصر کی حکومت سونپ دے ۔ یہ انقلاب پسند اور باغی ہے ۔ کہو تمہاری کیا رائے ہے ؟ انہوں نے کہا ۔ حضور ان دونوں کو چند مہلت دیجئے اور اس اثنا میں شہروں سے اور دیہات میں کارندے دوڑا دیجئے ۔ تاکہ وہ تمام بڑے بڑے جادوگروں کو لے آئیں ۔ فرعون کو یہ تجویز پسند آئی ۔ اس کے ملک کے ہر گوشہ سے جادو گر بلائے ۔ اور ایک دن مقابلے کے لئے مقرر کیا ۔ تمام لوگوں میں اعلان کے ذریعے مشتہر کردیا گیا ۔ کہ سب اکٹھے ہوں ۔ اور مقابلہ دیکھیں ۔ تاکہ اگر جادوگر غالب آجائیں ۔ تو ہم سب ان کی پیروی کرنے پر مجبور ہوں *۔ چنانچہ جب فرعون کے پاس جادوگر آگئے ۔ تو کہنے لگے ۔ حضور اگر ہم غالب آگئے ۔ اور موسیٰ وہارون کو شکست دے دی ۔ تو کیا ہم کو انعام بھی ملے گا ؟ فرعون نے کہا ۔ ہاں تمہیں انعام بھی دیا جائے گا ۔ اور مقربین میں بھی شمار ہوگا * حضرت موسیٰ نے جادوگروں سے مخاطب ہوکر کہا ۔ کہ تم جس کرشمہ سازی کا اظہار کرنا چاہتے ہو کرو ۔ تمہیں میری طرف سے اختیار ہے ۔ انہوں نے لاٹھیاں اور رسیاں میدان میں ڈال دیں ۔ اور وہ دیکھنے والوں کو سانپ کی شکل میں نظر آنے لگیں ۔ کہنے لگے ۔ کہ ہم فرعون کے اقبال اور قوت کی برکت سے یقینا غالب رہیں گے ۔ اس پر حضرت موسیٰ جوش میں آگئے ۔ اور آپ نے اپنی لاٹھی جو زمین پر ڈالی ۔ تو وہ اژدھا بن گئی ۔ اور ان تمام چھوٹے چھوٹے سانپوں کو نگل گئی ۔ جادوگر جو سمجھ دار تھے ۔ اور اپنی فنی قوتوں سے آگاہ تھے ۔ فوراً پہچان گئے ۔ کہ یہ جادو یا کرشمہ سازی نہیں ۔ یہ اللہ کی حکمت ہے ۔ اور اس کی قدرت ہے ۔ چنانچہ انہوں نے اس معجزہ کو دیکھ کر فوراً کہہ دیا ۔ کہ ہم نے ہتھیار ڈال دئیے ۔ ہم رب العالممین کو تسلیم کرتے ہیں ۔ اور موسیٰ وہارون کے خدا کو مانتے ہیں *۔ معلوم ہوتا ہے ۔ حضرت موسیٰ کے زمانے میں جادو اور سحر کا بہت زیادہ رواج تھا ۔ اس لئے آپ کے مچجزات کو بھی جادو سمجھے ۔ اور اسی لئے حضرت موسیٰ کو اس نوع کے دلائل سے نوازا گیا ۔ تاکہ وہ قوم کو یقین دلاسکیں ۔ کہ وہ اللہ کی جانب سے ہیں *۔ معجزہ اور سحر میں باریک اور دقیق فرق یہ ہے کہ سحر وہ علم ہے جس کو ہر شخص سیکھ سکتا ہے ۔ اور جس کے اثر سے جو تحول وانقلاب پیدا ہوتا ہے ۔ اس کے اسباب وذرائع معلوم ہوسکتے ہیں ۔ مگر معجزہ اللہ کے تقرب خاص کی نشانی ہے ۔ اور ہر شخص کے بس کا نہیں ۔ اکتساب سے حاصل نہیں ہوسکتا ۔ اور اس کے ذریعے سے جو انقلاب یا تبدیلی واقع ہوتی ہے ۔ اس کے اسباب وذرائع کو معلوم کرلینا انسانی وسعت وطاقت سے باہر ہے ۔ معجزاب کو وہ لوگ خوب جان سکتے ہیں جو خود جادوگرہوں ۔ اور فن تحویل وتصرف سے آگاہ ہوں * الشعراء
35 الشعراء
36 حل لغات :۔ ارجہ ۔ ڈھیل دیجئے ۔ یا توقف کیجئے *۔ ارجہ سے امر ہے جسے معنے تاخیرہ تعویق میں ڈالنے کے ہیں الشعراء
37 الشعراء
38 الشعراء
39 الشعراء
40 الشعراء
41 الشعراء
42 الشعراء
43 الشعراء
44 حبالھم ۔ حبل کی جمع ہے یعنی دستی *۔ الشعراء
45 الشعراء
46 الشعراء
47 الشعراء
48 الشعراء
49 نشہ ایمان اور حلاوت اسلامی ف 1: فرعون نے جب دیکھا ۔ کہ جادوگر موسیٰ کے معجزات وکمالات کے قائل ہوگئے ہیں ۔ اور غیر متوقع طور پر انہوں نے اسلام قبول کرلیا ہے ۔ تو سخت گھبرایا ۔ اور غصے سے بےتاب ہوگیا ۔ کہنے لگا ۔ کہ تم نے بغیر میری اجازت کے موسیٰ و ہارون کے مسلک کو قبول کرلیا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے ۔ یہ بڑاجادوگر ہے اور تمہارا استاد ہے ۔ تم نے پہلے سے آپس میں سمجھوتہ کر رکھا ہی وجہ ہے کہ موسیٰ کے غالب آتے ہی تم تبدیلی مذہب کا اعلان کردیا ۔ بہ بہت بھاری جرم ہے ۔ میں تمہیں سخت عبرتناک سزا دوں گا ۔ تمہارے ہاتھ پاؤں آرا سے ترچھے کٹوادوں گا ۔ اور تم سب کو بالآخر سولی پر چڑھوا دوں گا ۔ انہوں نے اس دھمکی کو سنا ۔ اور کامل بےخوفی سے پکار کر کہا ۔ اس میں کچھ مضائقہ نہیں ۔ ہم اگر سولی پر مریں گے ۔ تو اپنے رب ہی کے پاس جائیں گے ۔ اور ہم دل سے چاہتے ہیں ۔ کہ اس طرح کی موت ہمارے سابقہ گناہوں کا کفارہ ہوجائے ۔ ہم اللہ تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ ایمان میں پیش قدمی کی وجہ سے ہماری لغزشوں اور ہمارے گناہوں عفو وکرم کی نظر سے دیکھے گا ۔ اور ہمیں بخش دے گا *۔ غور فرمائیے کہ ایمان کی حلاوت کس درجہ زبردست ہوتی ہے اور اس کے مقابلہ میں زندگی کی شیرینی بھی کڑوی معلوم ہوتی ہے ۔ کتنا بڑا انقلاب ہے جو ان لوگوں میں پیدا ہوگیا ۔ یا تو یہ مقابلہ کے لئے آئے تھے ۔ دلوں میں بغض وعناد تھا ۔ دشمنی اور عداوت تھی اور یا اب یہ فدائیت اور جانبازی ہے کہ فرعون آنکھیں دکھاتا ہے ۔ اور ان کے دلوں میں قطعاً خوف پیدا نہیں ہوتا *۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کا وہ مرتبہ اور مقام ہے جو تبدیلی و تمول کا باعث ہوتا ہے ۔ اور جو مسلمان دل ودماغ کے لحاظ سے بالکل بدل دیتا ہے ۔ بلکہ یوں سمجھ لیجئے ۔ کہ ایمان مسلمان کو دوسرا دل اور علیحدہ دماغ عنایت کرتا ہے ۔ جس میں بجز اللہ کی محبت اور شیفتگی کے اور کچھ نہیں ہوتا *۔ حل لغات :۔ اذن لکم ۔ ایذان سے ہے ۔ بمعنی اجازت دینا *۔ حل لغات :۔ من خلاف ۔ یعنی آؤ لے ترجھے *۔ الشعراء
50 الشعراء
51 الشعراء
52 ف 1: اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا ۔ کہ اگر بنی اسرائیل کی نجات چاہتے ہو ۔ تو ان کو مصر سے لے کر نکل جاؤ۔ یقینا تمہارا تعاقب ہوگا ۔ اور پیچھا کیا جائے گا مگر گھبراو نہیں *۔ چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر نکل کھڑے ہوئے ۔ فرعون کو پتہ چلا ۔ تو اس نے فوراً اپنے آدمی دوڑا دیئے اور کہنے گا ۔ کہ یہ چھوٹی سی جماعت ہے ۔ مگر اس نے ہمیں بہت پریشان کررکھا ہے ۔ ہم ان کی حرکت سے بہت نالاں ہیں ۔ ہم سب کے سب مسلح ہیں ۔ مگر پھر بھی نہ جانے کیا بات ہے ۔ کہ یہ لوگ بالکل ہم سے نہیں ڈرتے *۔ یہ پوری جماعت کی جماعت مصر سے تعاقب کے لئے نکل کھڑی ہوئی ۔ اور اس ترکیب سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے باغوں اور چشموں سے ان کے مال ودولت اور عمدہ عمدہ مکانوں سے ہمیشہ کے لئے محروم کردیا ۔ اور ان کے ہلاک ہوجانے کے بعد بنی اسرائیل کو ان کا مالک بنادیا *۔ الشعراء
53 المدائن ۔ مدینہ کی جمع ۔ بمعنی شہر *۔ الشعراء
54 الشعراء
55 لغائظون ۔ غیظ وغضب *۔ الشعراء
56 الشعراء
57 الشعراء
58 الشعراء
59 الشعراء
60 ف 1: جب یہ لوگ تعاقب کے لئے نکلے تو سورج نکلتے وقت یعنی صبح کو انہوں نے بنی اسرائیل کو آلیا ۔ اور ان کے بالکل قریب پہنچ گئے *۔ جب دونوں گروہ ایک دوسرے کے رو برو ہوئے اور دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا ۔ تو اسرائیلی مارے خوف کے چلا اٹھے ۔ کہ موسیٰ ہم تو پکڑلئے گئے ۔ ہرگز نہیں ڈرو مت ، خدا میرے ساتھ ہے ۔ وہ ضرور کوئی راہ مخلصی کی نکال دے گا ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے کہا ۔ کہ دریا میں عصا مارو ۔ چنانچہ انہوں نے عصا مارا اور دریا پھٹ گیا ۔ اور اس میں راستہ بن گیا ۔ دونوں طرف پانی کی اونچی اونچی دیواریں پہاڑ کی طرح کھڑے ہوگئیں ۔ دریا میں راستہ دیکھ کر فرعون کالاؤ لشکر بھی آگے بڑھا ۔ مگر ہم نے موسیٰ کے ساتھیوں کو تو عبور ہونے کی توفیق عنایت فرمائی ۔ اور فرعونیوں کو دریا میں غرق کردیا ۔ ارشاد ہے کہ اس سارے قصہ میں عبرت وابصائر کی زبردست نشانی ہے مگر باوجود اس کے بہت سے لوگ موسیٰ پر ایمان نہ لائے ۔ اور دولت ایمان سے محروم رہے *۔ غرض یہ ہے کہ حضور کو تسلی دی جائے ۔ ابتدائے سورۃ میں کہا گیا تھا ۔ کہ آپ مخالفین کے غم میں جی ہلکان نہ کیجئے ۔ اس کے بعد موسیٰ کو معجزات بیان کئے ۔ او یہ بتایا کہ کس طرح فرعون اور اس کی قوم نے ہر مرحلہ پر شکست کا اعتراف کیا ۔ مگر پھر بھی یہ کیفیت ہے کہ سوائے چند سعیدوروحوں کے اکثر اس سعادت سے بہرہ ور نہیں ہوسکے ۔ پھر اگر یہ مشرکین آپ کے دلائل نبوت کو دیکھ کر نہیں پہچانتے ہیں ۔ تو آپ پر راہ نہ کیجئے *۔ الشعراء
61 الشعراء
62 الشعراء
63 حل لغات :۔ فرق ۔ حصہ ۔ پارہ چیر ۔ شگاف ، گلہ گو سپند وآہو وغیرہ *۔ الشعراء
64 اذلفنا ۔ قریب کرنا *۔ الشعراء
65 الشعراء
66 الشعراء
67 الشعراء
68 الشعراء
69 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قوم سے تخاطب حاشیہ صفحہ ھذا ف 1: ان آیات میں یہ بتایا ہے ۔ کہ کس طریق سے حضرت ابراہیم نے توحید کی آواز کو بت پرستوں کے کانوں تک پہنچایا ۔ اور اس راہ میں کن مشکلات اور دشواریوں کو برداشت کیا ۔ اور یہ کہ حضرت ابراہیم کے دماغ میں توحید کا کس درجہ روشن اور صحیح تخیل موجود تھا *۔ بات یہ تھی ۔ کہ جس عہد میں حضرت ابراہیم مبعوث ہوئے ۔ اور اس عہد میں بابل میں سخت ترین جہالت رائج تھی ۔ لوگ بتوں کو بوجتے تھے ۔ ستاروں کے نام پر اپنے معاہد تعمیر کرتے تھے ۔ اور اللہ کو قطعاً فراموش کرچکے تھے ۔ اور بڑی مصیبت کی بات یہ تھی ۔ کہ حضرت ابراہیم کی قوم ۔ اور خود ان کا باپ شرک کی لعنتوں میں گرفتار تھے *۔ حضرت ابراہیم نے جرات سے کا م لے کر توحید کو پھیلانا شروع کردیا ۔ اور سب سے پہلے اپنی قوم اور اپنے باپ سے پوچھا ۔ کہ تم لوگ کس چیزیوں کی عبادت کرتے ہو ۔ انہوں نے کہا ۔ مورتیوں کو پوجتے ہیں ۔ اور اس عقیدے سے ہٹنے کے نہیں ۔ بس یوں سمجھ لو کہ اپنے معتقدات پر سختی سے قائم ہیں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا ۔ یہ تمہاری پکار کو سنتے ہیں ۔ اور تمہیں نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا ۔ یہ بات تو نہیں مگر باپ دادا کا یہی مذہب ہے ۔ اس لئے چھوڑنا نہیں چاہتے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم نے اور تمہارے باپ دادا نے ان معبودوں کے معتلق غور کیا ہے *۔ الشعراء
70 الشعراء
71 حل لغات :۔ اصناما ۔ صنم کی جمع ہے بمعنی بت عکفین ۔ غکیف سے ہے بعض کسی بات پر جم جانا ۔ الشعراء
72 الشعراء
73 الشعراء
74 الشعراء
75 الشعراء
76 الشعراء
77 ف 1:۔ یہ تو میرے اور تمہارے کھلے دشمن ہیں ۔ ان کی عبادت اور پرستش کرنا خود اپنی ذات سے عداوت کرنا ہے ۔ ہاں اللہ اپنے ماننے والوں کا دوست ہے ۔ جس نے ساری کائنات کو پیدا کیا ہے ۔ مجھے اسی نے خلعت وجود بخشا ۔ اور وہی دین ودنیا کی مشکلات میں میری راہ نمائی کرتا ہے ۔ وہی مجھ کو کھلاتا پلاتا ہے ۔ اور جب میں بیمار پڑتا ہوں ۔ تو وہی مجھے شفا بخشتا ہے ۔ وہی مجھے مارے گا ۔ اور قیامت کے دن پھر مجھے زندہ کرلے گا ۔ اسی میں یہ متوقع ہوں ۔ کہ قیامت کے دن میری لغزشوں پر خط عفو کھینچ دے گا ۔ اور مجھے اپنی آغوش رحمت میں لے لیگا *۔ یعنی حضرت ابراہیم نے ان لوگوں کو بتایا ۔ کہ خدا وہ ہے جو روز مرہ کی ضروریات کو پورا کرتا ہے ۔ اور سچے معملوں میں ہمارا اور تمہارا معاون اور مددگار ہے ۔ یہ مٹی اور ریت کے بت تونہ اپنی مدد آپ کرسکتے ہیں ۔ اور نہ دوسروں کی *۔ الشعراء
78 الشعراء
79 الشعراء
80 الشعراء
81 الشعراء
82 الشعراء
83 حکما سمجھ بوجھ ۔ پیغمبرانہ سلسلہ ۔ الشعراء
84 الشعراء
85 الشعراء
86 الشعراء
87 حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاء ف 1: حضرت ابراہیم جب اللہ تعالیٰ کا صحیح تخلیل پیش کرچکے ۔ اور حمدوثنا کے فرائض ادا کرچکے ۔ تو اپنے باپ کے لئے دعا کی ۔ فرمایا : اے مولا ! میرا باپ راہ راست پر گامزن نہیں ہے اس کی لغزشوں سے درگزر فرمائیے ۔ اور اس دن کی رسوائی وذلت سے بچائیے ۔ جس دن نہ مال ودولت کے انبار کام آسکیں گے ۔ اور نہ بیٹے ہی سود مند ثابت ہوں گے *۔ الا من اتی اللہ بقلب سلیم سے مقصود یہ ہے کہ وہاں عالم حشر میں بجز سلامی قلب کے اور کوئی چیز مخلصی اور نجات کا باعث ہیں ہوسکتی ۔ اور سل امتی قلب تعبیر ہے ۔ تذکیر باطن سے اخلاق کی بلندی اور رفعت سے عقائد کی صحت اور پاکیزگی سے *۔ الشعراء
88 الشعراء
89 حل لغات : بقلب سلیم : اس کے معنی ڈسنے کے بھی ہیں ۔ یعنی وہ دل جس کو عشق الٰہی کے سانپوں نے ڈسا ہو ۔ قتیل محبت *۔ الشعراء
90 الشعراء
91 ف 2: یعنی اللہ کے نیک بندے اس کے مقام فضا کے بالکل قریب ہوں گے ۔ وہ دیکھیں گے ۔ کہ جنت کی تمام نعمتیں ان کے سامنے ہیں ۔ اور وہ لوگ جو گمراہ ہیں ۔ جنہوں کے دنیا میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے دین کی نہ الفت کی ۔ اور شرک کی لعنتوں میں گرفتار رہے ۔ اپنے کو جہنم کے نزدیک تر پائیں گے ۔ اور محسوس کریں گے ۔ کہ جہنم ان کے روبرو منہ کھولے کھڑا ہے *۔ الشعراء
92 الشعراء
93 الشعراء
94 فکبکبو : کے معنے برتن کو اوندھا کردینے کے ہیں ۔ اور کبکب اسی کی تضعیف ہے *۔ الشعراء
95 ف 3: گمراہوں اور مشرکوں سے کہا جائے گا ۔ کہ وہ تمہارے معبودوں میں باطل کہاں ہیں ۔ کیا آج وہ اس بےچارگی اور بےکسی میں تمہاری مدد کرسکتے ہیں ۔ اور تم کو جہنم کے عذاب سے بچا سکتے ہیں اور یا وہ خود کو اللہ کے غقضب سے اور غصہ سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ؟ لاکلام آج کسی شخص میں جرات نہیں ۔ کہ اس کے غیظ وغضب کا سامنا کرسکے ۔ آج تمام معبود ان باطل کو ان کے عقیدتمندوں کے ساتھ جہنم میں اوندھے منہ گرادیا جائے گا ۔ اور تمام ابلیسی لشکر آگ میں جھونک دیا جائے ۔ آج وہ لوگ معلوم کریں گے کہ یہ بت پرستی محض فریب نفس کی ترنگیاں تھیں ۔ ورنہ حاکم وقار اور مختار وقادر ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے ۔ یہ لوگ اس وقت اپنے مقتداؤں اور گمراہ معبودوں سے کہیں گے کہ واللہ ہم نے تم کو خدا کا شریک قرار دے کر سخت غلطی کا ارتکاب کیا ۔ یقینا ہم گمراہ ہوگئے ۔ اور ہماری گمراہی کا موجب یہ ہمارے پر معاصی پیشوا ہی ہیں ۔ یعنی وہ بڑے بڑے مذہبی جرائم پیشہ لوگ ۔ جنہوں کے توحید کی روشنی سے ہمیں ہمیشہ بیگانہ رکھا ۔ اور یہ حالت ہے ۔ کہ ان مدعیان طریقت میں سے کوئی شخص جرات سفارش نہیں کرتا ۔ وہ لوگ جو دنیا میں ہم کو تسلیاں دیتے تھے ۔ اور اپنے کو نجات ومخلصی کا اجار دار سمجھتے تھے ۔ اور وہ جو اپنے اور اپنے مریدوں کے سوا سب کو جہنمی قرار دیتے تھے ۔ آج خود عذاب الٰہی کا شکار ہیں ۔ اور ان کی زبانیں گنگ ہیں ۔ ان سے اتنا بھی تو نہیں ہوسکتا ۔ کہ اپنے عقیدت مندوں اور نیاز مندوں کی طرف سے کچھ کہہ سن لیں ۔ دوستی اور آشنائی کے تمام تعلقات منقطع ہیں ۔ یہ لوگ اس وقت اس خواہش کا اظہار کریں لے ۔ اگر اب ہمیں دنیا میں جانے کا موقع دیا جائے ۔ تو ہم پکے مومن ثابت ہوں گے ۔ ارشاد ہے ۔ کہ اب اس سے مانگی اعمال کی صورت میں ان کو حقیقت حال کا احساس ہونا محض بےکار ہے ۔ اور اس پورے قصہ میں عبرت وتذکیر کی ایک بہت بڑی نشانی ہے ۔ مگر ان لوگوں کے لئے جو دولت ایمان سے بہرہ ور ہیں ۔ یہ مشرکین مکہ ان کوائف کو سن کر بھی اسلام کی سچائیوں کا اعتراف نہیں کرتے ۔ اور ان کے دلوں سے تبدیلی اور اصلاح کی استعداد یکسر مفقود ہوچکی ہے *۔ جنود ۔ جند کی جمع ہے ۔ معنے لشکروگروہ ومددگار *۔ الشعراء
96 الشعراء
97 الشعراء
98 الشعراء
99 الشعراء
100 الشعراء
101 حل لغات :۔ حمیم ۔ مخلص ۔ خویش *۔ الشعراء
102 الشعراء
103 الشعراء
104 الشعراء
105 الشعراء
106 اخوھم ۔ یعنی اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتے ہیں ۔ کہ انبیاء شفقت اور محبت کے اعتبار سے کس درجہ قریب ہوتے ہیں *۔ الشعراء
107 الشعراء
108 حضرت نوح ف 1: ان آیات میں حضرت نوح کا ذکر ہے ۔ جنہوں نے حیرت انگیز استقلال کے ساتھ قوم کے کفر اور ان کی سرکشی کا مقابلہ کیا ۔ اور تقریباً ایک ہزار سال تک مسلسل رشدوہدایت کی دعوت دی اور اپنے خلوص اور محبت سے مجبور ہوکر باکمال دلسوزی منکرین حق کو سچائی کی طرف بلایا ۔ ان کا زمانہ ٹھیک طور پر تو معلوم نہیں تاریخ کی اصطلاح میں یہ آدم ثانی ہیں ۔ البتہ بائیبل اور قرآن سے ان کے تبلیغی کارناموں پرروشنی پڑتی ہے ۔ اور معلوم ہوتا ہے یہ اس دور کے داعی ہیں ۔ جب کہ انسانوں کی عمریں طبعاًبہت زیادہ طویل ہوتی تھیں *۔ ارشاد ہے ۔ کہ حضرت نوح نے قوم سے مخاطب ہوکر کہا ۔ کہ تم کیوں پاکبازی کی زندگی بسر نہیں کرتے ۔ کیا تمہارے دلوں میں اللہ کا ڈر نہیں ہے ۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے ۔ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اور تمہارے لئے زبردست امانت دار اور معتم ہوں ۔ میں تم کو اللہ سے اتقاوحیشثت کی دعوت دیتا ہوں ۔ اور چاہتا ہوں ۔ کہ میری اطاعت شعاری میں سعادت دنیوی اخروی حاصل کرو ۔ اور اس پر میں پیشہ ور قائدین کی طرح کسی سے کوئی اجرت نہیں مانگتا ۔ کیونکہ میرا یقین ہے کہ اللہ جو تمام کائنات کا مالک اور پروردگار ہے ۔ مجھے فراموش نہیں کرے گا ۔ میں اپنی کسی حاجت کے لئے تمہارے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا ۔ بلکہ مخلصانہ دلسوزی اور محبت سے کہتا ہوں کہ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت قبول کرو *۔ نوح کے مخاطبین نے مجھے یہ وعظ سنا ۔ تو کہنے لگے ۔ کہ ہم تمہارے دین کو قبول کرکے ذلیل اور کمینے نہیں بننا چاہتے ۔ کیونکہ جس قدر لوگ اللہ پر ایمان لائے ہیں وہ سب کے سب ارزل پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں *۔ حضرت نوح نے فرمایا : کہ تکبر وغرور کے نشہ میں چور سرمایہ دارو ۔ ایک داعی حق وصداقت کو لوگوں کے پیشوں سے کیا بحث ؟ کیا عزت و وجاہت کا تعلق صرف دولتمندی اور حرام خوری سے ہے ۔ کیا وقار وحشمت ، فسق وفجور کا نام ہے اور کیا تم محض اس لئے رذیل نہیں ہو ۔ کہ تمہارے پاس باوجود تمام جرائی اور گناہوں کے دولت ہے ! ارشاد ہے : کہ ان لوگوں کا معاملہ اللہ سے ہے ۔ میں کوئی حق نہیں رکھتا کہ ان کو اپنے پاس سے بھگادوں ! اور کہہ دوں کہ چونکہ تم بڑے بڑے منصوبوں اور عہدوں پر فائز نہیں ہو ۔ اس لئے اللہ کے نزدیک بھی تمہارا کوئی مرتب نہیں ۔ میں تو اللہ کا پیغمبر ہوں ۔ اور مجبور ہوں ۔ کہ یکساں طور پر اللہ کا پیغام پہنچادوں *۔ دنیا کے ان حریص بندوں نے جب مساوات کا وعظ سنا ۔ تو بےتاب ہوگئے ۔ کہنے لگے ۔ کہ ہم ایسی تبلیغ واشاعت کو نہیں چلنے دیں گے ۔ اگر آپ نے چندے اور ان مشاغل کو جاری رکھا ۔ تو سنگسار کردیئے جاؤ گے *۔ الشعراء
109 الشعراء
110 الشعراء
111 الشعراء
112 الشعراء
113 الشعراء
114 حل لغات :۔ بطارد ۔ طہود سے ہے ۔ معنے ہتا دینا ۔ دور کردینا *۔ الشعراء
115 الشعراء
116 الشعراء
117 الشعراء
118 الشعراء
119 حل لغات :۔ الفلک المشحون ۔ بھری ہوئی کشتی *۔ الشعراء
120 (ف 1) بھلا وہ لوگ جن کی عمر کا حاصل بھی تقوی واعظ کا جذبہ ہے کیونکر اس قسم کی تعلیم کو قبول کرسکتے تھے *۔ حضرت نوح نے ان کے اس بغض و عناد کو دیکھ کر اللہ سے دعا کی ۔ کہ مولا یہ لوگ تکذیب کی آخری حد کو پہنچ چکے ہیں ۔ اور اب اصلاح کی کوئی صورت باقی نہیں رہی ۔ اس لئے ہمارے اور ان کے درمیان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فیصلہ کرلیجئے *۔ چنانچہ حضرت نوح کی پکار سنی گئی ۔ اور یہ منکرین باحسرت و یاس طوفان میں نیست ونابود ہوگئے *۔ ارشاد ہے کہ اس قصہ میں بھی مشرکین مکہ کے لئے نصیحت وتذکیر کی نشانی ہے ۔ مگر ان میں اکثر لوگ اثر پذیری کی دولت سے محروم ہیں *۔ الشعراء
121 الشعراء
122 الشعراء
123 الشعراء
124 الشعراء
125 الشعراء
126 قوم عاد کی تباہی ف 1: انسانی فطرت کا عام قانون ہے ۔ کہ جب انسان کو مال ودولت سے بہرہ وافر قرار دیا جائے ۔ اور اس کی اہلیت سے زیادہ اس کو نوازا جائے ۔ تو پھر یہ آپے سے باہر ہوجاتا ہے ۔ اور اس میں تفافر وتکبر کے جذبے ۔ دنیا کو دائمی اور ابدی سمجھنے کا تخیل اور تفردو اختصاص کے ولولے پیدا ہوجاتے ہیں *۔ چنانچہ حضرت ہود مبعوث ہوئے ۔ تو قوم عاد کی بالکل یہی کیفیت تھی ۔ مال ودولت کی فراوانی کی وجہ سے ان کے حوصلے بڑھ گئے تھے ۔ یہ ہر بلندی پر عیش وعشرت کے قصر تعمیر کرتے ۔ تاکہ یہ ان کی عزت اور وقعت کے نشان قرار پائیں ۔ اور وہ بڑے بڑے قلعے بناتے ۔ تاکہ نفس کو یہ فریب دے سکیں ۔ کہ یہ مقام عارضی و فانی نہیں ۔ بلکہ آفات وبلیات سے ہمیشہ ہمیشہ محفوظ رہنے والا ہے ۔ اور اختصاص انقرہ کے لئے عام لوگوں پر سختی کرتے اور یہ چاہتے کہ تمام راحتیں اور امام ان کی قوم سے مختص ہوجائیں *۔ حضرت ہود نے ان کی اس مادیت پرستی کو دور کرنے کے لئے تقویٰ کا نسخہ تجویز فرمایا ۔ اور ان کو یقین دلانے کی کوشش کی ۔ کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ اور تم سے کسی معاوضے کا طالب نہیں ! کیونکہ معاوضہ طلب کرنے کی صورت میں تبلیغ بالکل بےاثر ہوجاتی ہے *۔ یہ واضح رہے ۔ کہ پیغمبر دنیا والوں سے کوئی معاوضہ نہیں چاہتا ۔ اور نبوت کو جلب متخت کا ذریعہ نہیں بناتا ۔ وہ خالصتہً اللہ کے لئے اپنی زندگی کو وقف کردیتا ہے ۔ اور اپنی خدمات اس کے حضور میں پیش کردیتا ہے ۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ لوگ دنیا طلب میں اس کو بھی عام انسانوں کی طرح دوڑتا ہوا دیکھیں ۔ وہ دولت کو تقسیم کرنے کے لئے آتا ہے ۔ دولت کو سمیٹنے کے لئے نہیں آتا ۔ اس کا نصب العین یہ ہوتا ہے کہ ماننے والوں میں تقویٰ اور پرہیزگاری کے جذبات پیدا کئے جائیں اور ان کے دلوں میں مادیت کے خلاف نفرت وحقابرت کا جوش پیدا کیا جائے *۔ الشعراء
127 الشعراء
128 حل لغات :۔ ریع ۔ ٹیلہ ۔ بلندی * آیہ ۔ نشان ۔ یعنی اونچی اونچی عمارتیں ۔ جو ان کی فارغ البالی کی علامت ہوں * الشعراء
129 مصانع ۔ جمع مصنع ۔ قلعے ۔ محلات ۔ حوض ، اور کنوئیں *۔ الشعراء
130 الشعراء
131 الشعراء
132 الشعراء
133 الشعراء
134 الشعراء
135 الشعراء
136 الشعراء
137 حل لغات :۔ خلق الاولین ۔ پہلوں کی عادت ۔ گزشتہ لوگوں کا وتیرہ *۔ الشعراء
138 الشعراء
139 ف 1: حضرت ہود (علیہ السلام) نے جب قوم سے کہا ۔ کہ مادیت پرستی میں اس قدر غلو کرنا تمہاری ہلاکت کا باعث ہوگا ۔ تو وہ ہنسے ۔ اور کہا ۔ کہ جناب آپ کے وعظ کا ہمارے دلوں پر قطعاً کوئی اثر نہیں ۔ ہم تو عیش وعشرت کی زندگی کو ایک معمولی اور ناگریز بات جانتے ہیں ۔ ہمارے خیال میں یہ بہت بڑا جرم نہیں ۔ پہلی قوموں میں اس نوع کے جذبات موجود تھے ۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں ۔ کہ ہم عذاب الٰہی سے ڈریں ۔ اور خائف ہوں *۔ قوم کے ان متبکرانہ جواب پر حضرت ہود بالکل مایوس ہوگئے ۔ تب اللہ کی غیرت جوش میں آئی ۔ اور ان کی الٹ دی گئیں اور تفاخر وتکبر کے علم سرنگوں کردیئے گئے *۔ نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ عاد کی تمام شان وشوکت خاک میں مل گئی ۔ اور نشہ دولت و قوت کے سرشار فنا کی آغوش جاسوئے *۔ الشعراء
140 الشعراء
141 الشعراء
142 الشعراء
143 الشعراء
144 قوم ہود (علیہ السلام) کی سرکشی اور ہلاکت ف 1: جس طرح کفر و انکار کی ماہیت یکساں ہے ۔ اسی طرح ایمان ویقین کی حقیقت ایک ہے ۔ جس طرح آدم (علیہ السلام) نے توحید کی اولین شمع روشن کی ۔ اسی طرحانبیا ما بعد نے تفرید کا اجالا پیش کیا *۔ چنانچہ آپ انبیا کی تعلیم میں ایک نوح کی وحدت دیکھیں گے ۔ اور محسوس کریں گے ۔ کہ ان لوگوں کا منبع ایک ہے ۔ ماخذ ایک ہے ، تعلیم ایک ہے ، اور پیغام ایک ہے اور یہ واقعہ ہے کہ صداقت ہمیشہ حقیقت ہوتی ہے *۔ حضرت ہود نے قوم کو تقویٰ اور پرہیزگاری کی دعوت دی تھی ۔ اسی طرح حضرت صالح نے فرمایا : کہ دل میں تبدیلی پیدا کرو ۔ قلب سے دنیا کی محبت نکال دو ۔ اور اس کو معارف ایمان سے معمور کردو ۔ اور اتنا پاکیزہ بناؤ کہ گناہ اس میں اپنا نشیمن نہ سناسکے ۔ میں تو معاوضہ نہیں چاہتا ۔ کیا تم سمجھتے ہو ۔ کہ تمہیں دنیا کے عیش وعشرت کے سامان سے ہمیشہ یونہی بہرہ ور ہونے کا موقع دیا جائے گا ۔ اور تم کو چشموں اور باغوں اور کھیتوں اور درختوں میں بلا کسی باز پرس کے جو نشاط رکھا جائے گا ۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکے گا *۔ مقصود یہ ہے کہ اللہ کے قانون مکافات کی تشریح اور از مکاذات عمل غافل مشو کی تلقین کی جائیے *۔ وتنحتون من الجبال بیوتا فرھین سے غرض یہ ہے کہ تم نے نشاط و بہیت اور تفریح ونزہیت کے پہاڑوں میں اپنے مکانات بنائے ہیں ۔ مگر روح کی نشاط کے لئے بھی تم نے کچھ شوچاہے ۔ ارشاد ہے کہ اللہ کی ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرو ۔ اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت اختیار کرو *۔ ولا تطیعوا امر المسرفین ۔ سے مراد یہ ہے کہ نافرمانوں کا کہا نہ مانو ۔ اسراف قرآن کی اصطلاح میں حدود اعتدال سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں ۔ اور مسرف وہ لوگ ہیں جو حدود شریعت کو ملحوظ نہیں رکھتے ۔ اور خواہشات نفس کے پیرو ہیں *۔ الشعراء
145 الشعراء
146 الشعراء
147 الشعراء
148 حل لغات :۔ طلعھا عظیم ۔ یعنی پھل کے بوجھ کی وجہ سے خوشے ٹوٹنے کو ہیں ۔ یا جن کے خوشے لطیف وتازک ہوتے ہیں *۔ الشعراء
149 فارھین ۔ فریہ کی جمع ہے ۔ جس کے معنے نہایت شاد ذہنی مرد کے ہیں ۔ وبمعنے صداقت اور جمال *۔ الفارحۃ ۔ خوبصورت اور جوان لونڈی کو کہتے ہیں * الشعراء
150 الشعراء
151 الشعراء
152 الشعراء
153 ف 1: حضرت صالح کو قوم نے جواب دیا ۔ وہ یہ تھا کہ ہم سمجھتے ہیں ۔ تمہارا دماغ درست نہیں ۔ تم آسیب زدہ ہو ۔ نیز بشری ضرورت اور خواہشات سے متصف ہو ۔ گویا ان کے نزدیک پیغمبر کا انسان ہونا ۔ نبوت کے منافی تھا آخر میں انہوں نے معجزہ طلب کیا ۔ اور کہا اگر تم واقعی راست باز ہو تو ہم کو تریق عادت کے طور پر کوئی نشانی دکھاؤ*۔ حضرت صالح نے فرمایا ۔ یہ اونٹنی نشانی ہے ۔ اس کو آزادی سے وقت مقررہ پر پانی پینے دو ۔ اور اس کو کوئی تکلیف نہ دینا ۔ ورنہ مطلوبہ معجزہ کا ظہور نہ ہوگا ۔ اور تم عذاب عظیم میں مبتلا ہوجاؤ گے *۔ ان لوگوں کو چونکہ حضرت صالح سے کوئی عقیدت نہ تھی ۔ اس لئے انہوں نے ازماہ شرارت اس اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور اونٹنی کو نشان مقررہ کرنے کے معنے بھی یہ تھے ۔ کہ دیکھیں ان میں رواداری کا جذبہ موجود ہے یا نہیں ۔ اس لئے جب اونٹنی کے مارے جانے سے یہ ثابت ہوگیا ۔ کہ یہ لوگ حضرت صالح سے کسی نوع کا تعلق رکھنا گوارا نہیں کرتے ۔ اور ان میں اتنی انسانیت بھی نہیں کہ ان کی اونٹنی کو گھاٹ سے پانی پینے دیں ۔ تو اللہ کا عذاب آیا اور یہ لوگ مٹادیئے گئے * ارشاد ہے کہ اس آیت سے مکہ والوں کو عبرت اور بصیرت ہونی چاہئے تھی مگر ان کی محرومی کا یہ عالم ہے کہ اکثر ایمان کی دولت سے بہرہ ور نہیں ہوئے *۔ حل لغات : مسحرین : سحر سے ہے ۔ جادو زدہ ۔ اور آسیب زدہ *۔ الشعراء
154 الشعراء
155 الشعراء
156 الشعراء
157 الشعراء
158 الشعراء
159 الشعراء
160 الشعراء
161 حضرت لوط (علیہ السلام) کا اخلاقی مشن ف 1: حضرت لوط (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر تھے اور ایک خاص اخلاقی مشن کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوئے تھے ۔ ان کا اخلاقی نصب العین یہ تھا ۔ کہ سدوسیوں کے جذبہ ناپاک کی اصلاح کی جائے ۔ اور ان کے غیر فطری رجحانات کو فطرت کے صحیح اور پاکیزہ راسلے کی جانب منتقل کردیا جائے ۔ بات یہ تھی کہ سدومی ہوس اور شہوت کے مجسم پیکر تھے ان کے دلوں سے مذہب کا احترام اٹھ چکا تھا ۔ روحانیت بالکل مفقود تھی ۔ اور گو وہ بظاہر انسان تھے ۔ مگر جذتاب وخیالات کے اعتبار سے بالکل حیوان تھے ۔ وہ زندگی کو محض وسیلہ عیش وعشرت سمجھتے ۔ اور ہر وقت معصیت میں مبتلا رہتے ۔ حضرت لوط نے اس صورت حالات کو دیکھا ۔ اور ان کو اس فعل شنیع سے روکا ۔ فرمایا کم بختو ! اللہ نے تمہاری جنس ضروریات کی تکمیل کے لئے عورتوں کو پیدا کیا ہے ۔ یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم ان کو چھوڑ کر لونڈوں کے پیچھے بھاگے پھرتے ہو ۔ آخر اس تجاوز اور غیر طبعی مشاغل سے تمہارا مقصد کیا ہے ۔ میں تمہاری ان حرکات کو قابل نفرت سمجھتا ہوں ۔ اور تمہارے اعمال کاسخت مخالف ہوں ۔ ان بدبختوں نے بجائے اس کے کہ اس گناہ سے باز آتے ، اور توبہ کرتے ، حضرت لوط کی نصیحتوں کو ماننے سے انکار کردیا ۔ اور کہا : کہ اگر آپ نے وعظ ونصیحت کے اس سلسلہ کو بند نہ کیا ۔ تو ہم آپ کو اس بستی سے نکال باہر کریں گے ۔ الشعراء
162 الشعراء
163 الشعراء
164 الشعراء
165 الشعراء
166 حل لغات :۔ عدون ۔ تجاوز کرنے والے ۔ حداعتدال سے بڑھنے والے *۔ الشعراء
167 الشعراء
168 الشعراء
169 ف 1: حضرت لوط (علیہ السلام) نے اللہ سے پناہ مانگی ۔ اور دعا کی کہ اللہ مجھے اور میرے گھر والوں کو ان ظالموں سے مخلصی عطا فرما ۔ اور ان کی بداعمالیوں کے وبال سے نجات دے ۔ نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ ان لوگوں پر پتھروں کی سخت بارش ہوئی ۔ اور یہ ہمیشہ کے حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے *۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ بداخلاقی بھی قوم کی تباہی اور ہلاکت کا باعث ہوسکتی ہے ۔ بلکہ اخلاق دشمنی کی اصلاح اللہ تعالیٰ کے نزدیک ۔ اس وجہ اہم ہے کہ اس کے لئے ایک خاص پیغمبر مبعوث اور مامور کیا گیا *۔ کیا مسلمانوں نے کبھی غور کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان واقعات کو کیوں بیان فرماتے ہیں ؟ آخر لوط (علیہ السلام) کی قوم کے غیر فطری رجحانات ہمارے لئے کیوں قابل تشریح ہیں ؟ کیوں ان کے اس گندے مذاق کی تشہیر ضروری سمجھی گئی ۔ بلکہ کئی دفعہ انسان کو بیان فرمایا ! اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا ۔ کہ ایک وقت آئے گا ۔ جب کہ مسلمانوں میں بھی یہ مرض پھیلے گا ۔ اور وہ کذبات وخیالات کے لحاظ سے بالکل سدومیوں کے ہم مرتبہ ہوں گے ۔ اور ان کی طرح پاکبازی کو نفرت کے قابل سمجھیں گے * موجودہ تہذیب اور کلچر کی وجہ سے قوم کے بےشمار بچے اس ابتلائے عظیم میں مبتلا ہیں ۔ نسلیں کمزور ہورہی ہیں ۔ حوصلہ اور جسارت کے دعوے تقریباً ختم ہیں ۔ کیا علمائے قائدین اس مرض کے کے ازالہ کے لئے حضرت لوط (علیہ السلام) سے سبق لیں گے اور آئندہ نسلوں کو ہلاکت وتباہی کے عذال سے نجات دلائینگے *۔ الشعراء
170 الشعراء
171 الشعراء
172 الشعراء
173 الشعراء
174 الشعراء
175 الشعراء
176 الشعراء
177 الشعراء
178 الشعراء
179 ف 1: معلوم ہوتا ہے کہ اصحاب ایکہ بادیہ پیما لوگ تھے اور ان کا کوئی مستقل مسکن نہ تھا یہی وجہ ہے کہ ان کو اصحاب ایکہ سے موسوم کیا گیا ۔ ایکہ کے معنے درختوں کے اجتماع اور جھنڈ کے ہوتے ہیں *۔ دوسرے قصوں اور اس میں ایک بات امتیاز کی ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ ان سب قصوں میں پیغمبروں کو ان کی قوم کا بھائی قرار دیا گیا ہے ۔ جیسے اخوھم نوح اخوھم ھوداخوھم صالح ۔ اخوھم لوط ۔ مگر اس قصے میں کہا گیا ہے ۔ اذ قال لھم شعیب ۔ جس کی وجہ مفسرین نے یہ بیان کی ہے ۔ کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) قومیت کے اعتبار سے ان لوگوں میں سے نہیں تھے ۔ مگر اس سے زیادہ موزوں اور دقیق وجہ یہ ہے کہ اصل میں انبیاء کو اخوان قوم باعتبار قومیت کے نہیں کہا گیا ۔ بلکہ بااعتبار اس شفقت اور محبت کے کہا گیا ہے ۔ جو انبیاء کو اپنی امت کے ساتھ ہوتی ہے ۔ اور اس میں یہ حکمت بھی پنہاں ہے ۔ کہ لوگ باوجود انتہائی عقیدت اور منزلت کے ان کو دائرہ بشریت کے اندر سمجھیں ۔ اور ان کے مرتبے کو حد سے زیادہ بڑھائیں *۔ حضرت شعیب کے لئے اخ کا لفظ غالباً اس لئے استعمال نہیں فرمایا ۔ تاکہ شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے متعلق معلوم ہو کہ ان کی بدمعانگی کی وجہ سے ان کے ہی کا رستہ اخوت ان سے منقطع ہے ۔ اور جب تک یہ لوگ معاملات میں دیانت دار نہ ہوں گے اخوت ان میں قائم نہ ہوسکے گی ۔ اور یہ برابر منتشر اور متفرق افراد کی صورت میں رہیں گے *۔ اس لفظ کے یہاں ترک کردینے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے ۔ کہ ہر جرم بدمعالگی کے جرم سے نسبتاً ہلکا ہے ۔ پیغمبر کا رشتہ اخوت سے منقطع نہیں ہوا کرتا ۔ مگر یرمعالنگی کی صورت میں پیغمبر کسی قوم سے کسی قسم کا ناطہ نہیں رکھتے *۔ بات یہ تھی کہ اصحاب الایکہ تجارت پیشہ لوگ تھے ۔ جنگلوں میں پھر کر تجارت کرتے اور اپنا وقت گزارتے ۔ مگر ان میں یہ برائی پیدا ہوگئی کہ ماپ تول میں بددیانتی کرنے لگے ۔ اور اس طرح نظام تمدن سے دشمنی کرنے لگے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب کو ان کی اصلاح کے لئے مبعوث فرمایا ۔ تاکہ ان کو اس حقیقت کی جانب توجہ دلائی جائے ۔ کہ رشتہ انسانیت کو استوار کرنے کے لئے دیانتداری شرط اول ہے اور یہ ہرگز ضروری نہیں کہ تجارت کے لئے خواہ مخواہ بےایمانی کی جائے ۔ تفسیر متدین اشخاص نے یہ بات غلط طور پر مشور کردی ہے ۔ کہ تجارت اور دیانت دو مختلف چیزیں ہیں ۔ حالانکہ حقیقت میں دیانت وامانت دونوں چیزیں تجارت کو فروغ دینے کے لئے البنزلہ راس المال کے ہیں *۔ اس لئے جو قوم معاملات اور لین دین میں حدوہ حدود اخلاق کو ملحوظ نہیں رکھتی کبھی سچی اور حقیقی کامیابی حاصل نہیں کرسکتی ۔ جھوٹ سے تجارت کو حقیقی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ۔ یہ الگ بات ہے کہ عارضی طور پر کوئی شخص بھی کسی کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوجائے مگر ہمیشہ لوگوں کو دھوکے میں رکھنا نا ممکن ہے ۔ حضرت شعیب نے جب ان سے کہا کہ ماپ تول میں دیانتداری سے کام لو ۔ کیونکہ صحیح تمدن کا یہی تقاضا ہے تو انہوں نے اس صاف گوئی کو ناگواری کے ساتھ سنا اور انکار کردیا ۔ نتیجہ وہی ہوا جو سنت اللہ کے مطابق عذاب میں مبتلا ہوگئے ۔ اور مٹ گئے *۔ الشعراء
180 الشعراء
181 الشعراء
182 حل لغات :۔ القسطاس ۔ ترازو ۔ آلہ وزن *۔ الشعراء
183 ولا تبخسوا ۔ تجس سے ہے جس کے معنے نقصان پہنچانے کے ہیں * الشعراء
184 الجبلۃ ۔ مخلوق ، خلقت *۔ الشعراء
185 الشعراء
186 الشعراء
187 الشعراء
188 الشعراء
189 حل لغات :۔ یوم الظلۃ ۔ ان پر بادل سائبان کی طرح چھا گیا ۔ اور وہی بات ان کے لئے عذاب کا باعث ہوا ۔ اس لئے عذاب کے ان کو سائبان کا دن کہا جاتا ہے *۔ الشعراء
190 الشعراء
191 الشعراء
192 الشعراء
193 ف 1: قصص واخبار کا ذکر کرکے یہ بتایا کہ یہ وہ کتاب ہے ۔ جو اقوام و ملل کے حالات پر مشتمل ہے ۔ اور اس میں زندگی کے ہر شعبہ پر کماحقہ بحث ہے ۔ جو انتہا درجے کی فصاحت وبلاغت سے متصف ہے اور جو تعلیمات اور پیغام کے لحاظ سے کائنات کی جامع ترین کتاب ہے ۔ اللہ کا پیغام ہے جو عوام مادی وروحانی سب کا یکساں رب ہے ۔ اس کو روح الامین یعنی جبرائیل لائے ہیں ۔ جبرائیل الامین اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے ہیں ۔ اور تبلیغ احکام پر نظر رہیں آپ کے قلب پر اللہ کی جانب سے تعلیم کا نزول ہوتا ہے ۔ وہ اللہ سے آیات سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل تک پہنچادیتے ہیں ۔ یہ کتاب عربی زبان میں نازل کی گئی یعنی ایک ایسی زبان میں جو روحانی مطالب کودا کرنے کے لئے بہت زیادہ موزون ہے ۔ اور اس کا ذکر پہلی کتابوں میں بھی موجود ہے ۔ اسی کو آتشین شریعت کہا گیا ہے ۔ اس کی آمد آمد کے ترانے گائے گئے ہیں ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے ۔ اور ایک سردار آنے والا ہے ۔ ایک سرخ وسپید انسان کے آنے کی پیشگوئی ہے ۔ اور یہ وضاحت مذکور ہے ۔ کہ دنیا میں ایک نیا یروشلم آباد ہونے والا ہے ۔ اس بات کا بھی ذکر ہے کہ نئے نئے ممالک اس صاحب شریعت کی راہ تکیں گے ۔ اور ساری دنیا اس کے نغموں سے گونج اٹھے گی *۔ ارشاد ہے کہ ان حقائق سے بنی اسرائیل کے علماء آگاہ ہے اور وہ جانتے ہیں ۔ کہ یہ سب باتیں صحیح اور درست ہیں *۔ فرمایا ہے کہ گو عربی میں قرآن کو نازل کرنے کی یہ مصلحت تھی کہ مطالب کو زیادہ وضاحت کے ساتھ اس میں پیش کیا جاسکتا ہے ۔ دوسری زبانیں ادائے مطالب کیے حق میں اس کی ہمسری نہیں کرسکتیں ۔ تاہم اگر اس کو کسی دوسری زبان میں ہم نازل کرتے ۔ تو یہ لوگ بہرآئنہ منکر رہتے ۔ کیونکہ ان کے سب ودماغ کی حالت کچھ اس نوع کی ہے ۔ کہ پذیرائی حق کے لئے کوئی گنجاس نہیں رکھتے ۔ ان کی طبیعتیں مسخ ہوچکی ہیں اور رسدوہدایت کی استعداد چھن چکی ہے *۔ اس کے بعد یہ بتایا ہے ۔ کہ یہ لوگ عذاب الیم کے منتظر ہیں ۔ اور جب تک یہ عذاب نہ آئے گا ۔ یہ لوگ سچائی اور حق کا اعتراف نہ کریں *۔ قرآن حکیم کے متعلق یہ کہنا کہ انسانی کام سے بھراپا نا واقفیت اور جہالت پر دال ہے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک انسان جو زیادہ تعلیم یافتہ ماحول میں پیدا نہیں ہوتا جو کسی کے سامنے زانوئے تہہ نہیں کرتا ۔ جس کے حالات عادی اور معمولی نہیں ۔ وہ یکایک حکمت وفلسفہ اگلنے لگے اور اقوام وعلی کے فلسفہ موت وحیات پر متبصرانہ فیصل فرمانے لگے *۔ کیا یہ ہوسکتا ہے ۔ کہ ایک ایسی کتاب انسانی دماغ کا نتیجہ ہو ۔ جو فصیح وبلیغ بھی ہے ۔ آسان بھی ہے اور تمام انسانی ضروریات وداعیات کو پورا کرنے والی بھی ہے *۔ الشعراء
194 الشعراء
195 الشعراء
196 حل لغات :۔ زبو ۔ زبور کی جمع ہے بمعنے کتاب یا نوشت ۔ الشعراء
197 الشعراء
198 الا عجمین ۔ مفرداعجم یعنی عرب لوگ ۔ اعجم اس شخص کو کہتے ہیں جو فصاحت کے ساتھ بات نہ کرسکے ۔ اور پورے طور پر بات کرنے پر قادر نہ ہو ۔ خواہ اہل عرب ہو *۔ الشعراء
199 الشعراء
200 سلکنہ مستعدی بیک مفعول بھی ہے ۔ اور بدومفعول بھی یعنی سلکہ کے معنی یہ بھی ہیں ۔ کہ وہ داخل ہوا ۔ اور یہ بھی کہ اس نے اس کو داخل کیا *۔ الشعراء
201 الشعراء
202 الشعراء
203 الشعراء
204 الشعراء
205 الشعراء
206 الشعراء
207 الشعراء
208 الشعراء
209 الشعراء
210 الشعراء
211 الشعراء
212 الشعراء
213 الشعراء
214 حل لغات :۔ عشیرتک ۔ عشیرۃ کے معنی کنبے اور قبیلے کے ہیں *۔ الشعراء
215 الشعراء
216 الشعراء
217 الشعراء
218 الشعراء
219 حل لغات :۔ وتقلبک ۔ گھومنا ۔ پھرنا * الشعراء
220 الشعراء
221 ف 1: عام عربوں کا یہ عقیدہ تھا ۔ کہ خیالات وافکار کا بھی ایک شیطان ہوتا ہے ۔ جو معلم اور شاعر کو عجیب باتیں بتلادیتا ہے ۔ اس لئے ممکن ہے حضور کا یہ الہام بھی معاذ اللہ شیطان کے الفاظ کا نتیجہ ہو *۔ ارشاد فرمایا کہ یہ محض وہم باطل ہے ۔ شیاطین او جنات میں سہ استعداد اور طاقت ہی نہیں اور نہ وہ اس قدر اہم کام کے سزور ہوسکتے ہیں ۔ قلب جبریل سے اس کو چرا لینے کا بارا نہیں ۔ اور نہلوح محفوظ سے اس راز کو معلوم کرلینے پر قادر ۔ کیونکہ اب ان کو سماعت اسرار سے روک دیا گیا *۔ حضور شاعر نہ تھے اس آیات میں دراصل حضور کی سیرت طیبہ بیان فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ آپ کن اخلاق وعادت کے حامل ہیں ۔ ارشاد ہے کہ آپ موحد ہیں اور ایک خدا کو پوجتے ہیں ۔ کیونکہ شرک دونوں جہاں میں بدترین لعنت اور موجب ہلاکت ہے ۔ آپ تبلیغ وراہنمائی کے اصولوں سے آگاہ ہیں ۔ آپ نے پہلے اپنے قریبی متعلقین کو اصلاح کی طرف بلایا ۔ اور پھر دوسرے لوگوں کو مخاطب کیا ۔ مومنین کے حق میں آپ انتہا درجے کے شفیق ہیں ۔ اور مجرموں سے سراسر بیزار ۔ اللہ کے سامنے شب وروز جھکتے ہیں اور راتوں کو قیام فرماتے ہیں ۔ اور نمازیوں اور پاکبازوں سے محبت سے پیش آتے ہیں ۔ اس میں بکمال الفت ومحبت انشست وبرخاست رکھتے ہیں *۔ ارشاد ہے کہ کیا ایسے پیغمبر کو تم ان لوگوں جیسا سمجھتے ہوجو دریغ گو اور جھوٹے ہیں ۔ جن کا کوئی کیریکٹر نہیں ۔ ہم تم کو بتلاتے ہیں کہ شیطان کن لوگوں پر نازل ہوتا ہے ۔ اس نوع کے جھوٹے گنہگاروں پر جو ہمیشہ غیوب اور شیطنت کی باتوں پر کان لگائے رہتے ہیں اور دنیا میں محض جھوٹ کی اشاعت کرتے ہیں ۔ (باقی صفحہ ۔ پر) الشعراء
222 آفاک افک سے ہے ۔ مبالغہ سے جھوٹ بولنے والا *۔ الشعراء
223 الشعراء
224 ف 2: حضور کے متعلق ایک شبہ یہ بھی تھا کہ آپ شاعری میں اور محض دقیق قسم کی باتوں سے لوگوں کے دلوں کو موہ لیتے ہیں ۔ ورنہ دراصل ان میں کوئی صداقت نہیں * ارشاد فرمایا ۔ کہ تم لوگ منصب الموت سے آگاہ نہیں ۔ تم جانتے کہ کہ نبوت کس قدر اعلیٰ درجے کی چیز ہے ۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ شعراء کس قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ اور ان کا اتباع یس قماش کے لوگ کرتے ہیں ! نبوت اور شعاری میں کیا نسبت ۔ نبوت تو سراسر عمل کا نام ہے ۔ اور شاعری ہمہ گمراہی وبے عملی ۔ الشعراء کا کوئی خاص نصب العین نہیں ہوتا ۔ وہ محض بیکار اور بےعمل لوگ ہوتے ہیں ۔ اور ہر رو میں بہ جاتے ہیں ۔ بخلاف اس کے انبیاء سراپا فکر کا مجسمہ اور نہایت سلیم الطبع ہوتے ہیں ۔ اور ان کے سامنے ایک نصب العین بھی ہوتا ہے جس کو وہ پیش کرتے ہیں *۔ اس آیت سے نفیس شاعری کی مذمت مقصود نہیں ۔ بلا شعراہ کی نفسیاتی حالت کا تجزیہ کرنا منظور ہے تاکہ معلوم ہوجائے ۔ کہ نبوت اور شاعری میں مابہ الامتیاز کیا ہے ! الغاون غاو کی جمع ہے ۔ کمینے گمراہ *۔ الشعراء
225 الشعراء
226 الشعراء
227 الشعراء
0 النمل
1 ف 1: ان آیات سے سورۃ نمل کا آغاز ہوتا ہے ۔ طٰسۤ حروف مقطعات میں سے ہے تفصیل آلمۤ کی بحث میں گزرچکی *۔ سورۃ کا آغاز قرآن کے تعارف سے ہوتا ہے ۔ ارشاد ہے کہ یہ قرآن اور کتاب مبین کی آئتیں ہیں * قرآن کے معنے اس کتاب کے ہیں جس کی کثرت سے قرات اور تلاوت ہو ۔ یہ مصدر بمعنی مفعول ہے *۔ غور فرمائیے ۔ انجیل کی اشاعت آج دنیا میں سب کتابوں سے زیادہ ہے ۔ دنیا کے ہر گوشے میں مشینری موجود ہیں اور ہر وہ زبان اور ہر قوم میں اس کو سرعت سے پھیلا رہے ہیں ۔ مگر وہ کتاب جس کی دن رات تلاوت ہوتی ہے ۔ صرف قرآن ہے * کتاب مبین سے غرض یہ ہے کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے ۔ جس میں تمام ضروریات انسانی کو کھول کھول کر بیان کیا گیا ہے اس میں کہیں بھی ابہام یا ایمال نہیں ہے ۔ ہر قسم کی فروگذشت اور اغلاط سے پاک ہے ۔ ہر شخص کے لئے موقع ہے ۔ کہ وہ اس کے انوار سے کسب ضو ہوسکے * ارشاد ہے کہ قرآن اور کتاب مبین ان لوگوں کی راہنمائی کے لئے ہے جو ایمان کی دولت سے بہرہ مند ہیں ۔ اور نماز وزکوٰۃ کے پابند ہیں ! اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں * ایمان بالآخرت کے متعلق فرمایا ، کہ اس کے بغیر دلوں میں خلوص اور نیکی کا جذبہ پیدا نہیں ہوسکتا ۔ یہی عقیدہ ہے جو اعمال کو درست کردیا ہے اور ذمہ داری کا احساس پیدا کردیتا ہے ۔ اسی عقیدہ کی وجہ سے نیکی کی تحریک پیدا ہوتی ہے ۔ اور اسی کے طفیل انسان تمام برائیوں سے حقیقی طور پر نفرت کرنے لگتا ہے ۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ہر عمل کی ذمہ داری سے ! اور محاسبہ طلب ہے ۔ وہ تسلیم کرتا ہے کہ ایک وقت آئے گا جبکہ سب لوگوں کو خدا کے حضور میں اکٹھا ہونا پڑیگا ۔ اور وہاں یقینا اعمال کی سخت باز پرس ہوگی * قرآن حکیم کہتا ہے جو لوگ آخرت ایمان نہیں رکھتے وہ نتائج کے لحاظ سے سخت گھٹے میں رہیں گے ان کے لئے یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ دنیا میں خیروبرکت کا وافر ذخیرہ جمع کرسکیں اور اپنے لئے زاہ راہ کا سامان کرسکیں * یعنی قرآن حکیم کو جو آپ حاصل کرتے ہیں تو اللہ کے حضور سے قریب ترین موقع ومقام سے ۔ اس طرح کہ قلب سے تمام حجابات باطلہ اٹھ جائیں ۔ اور انوار لاہوت اس کو براہ راست مستیز بنادیں ۔ غرض یہ ہے کہ قرآن کا کلام الٰہی ہونا بالکل قطعی اور یقینی ہے ۔ اس میں کسی طرح بھی فریب نفس یا غلط فہمی کا دخل نہیں * النمل
2 النمل
3 النمل
4 النمل
5 النمل
6 النمل
7 حل لغات :۔ ھدی ۔ سے غرض ہدایت ۔ درجات و مراتب سے اٰنست میں نے دیکھی ، محسوس کی * تصطلون ۔ اصطیلا سے ہے ۔ آگ تاپنا * النمل
8 حل لغات :۔ من فی النار سے مفسرین نے مختلف معانی مراد لئے ہیں ۔ یہ حضرت ابن عباس کی رائے ہے اللہ کا نور ہے ۔ یہ قتادہ کا مذہب سے ۔ حضرات موسیٰ ہیں اور یہ زیادہ صحیح ہے ۔ لان القریب من الشی قد یقال انہ (راذی) یعنی جو چیز قریب ہو اس کے لئے کہا جاسکتا ہے کہ انہ فیہ ۔ تھتز : استہزا سے بمعنی بات کرنا ۔ جان : سانپ ۔ * میں غیر سوء : یعنی بلا تکلیف کے ، سوء کی قید احترازی ہے اس میں اس واقعہ کی تواسط کی ہے ۔ جو بائبل مذکور ہے ۔ یعنی موسیٰ کا ہاتھ اس کی وجہ سے سفید ہوگیا *۔ النمل
9 ف 1: یہ اس وقت کا ذکر ہے جبکہ حضرت موسیٰ سے جدا ہوکر چلے ہیں ان کے ساتھ اس وقت ان کی بیوی تھیں جنگل میں آگ کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ وہ آگے بڑھے تو دیکھا کہ جس کو وہ آگ سمجھ رہے تھے وہ اللہ کی ایک تجلی تھی ۔ فرمایا کہ موسیٰ بابرکت ہے اور اللہ جو عالم پروردگار ہے تجسم وتحیز سے پاک ہے ! اے موسیٰ میں اپنی عزیز حکیم یعنی غالب برتر اور حمیع علوم حکمت کا مالک خدا ہوں ! اور میں نے تمہیں مخاطب کیا ہے ۔ النمل
10 حضرت موسیٰ اور فرعون ف 2: حضرت موسیٰ جب حضرت شعیب سے جدا ہوئے تو انہوں نے جنگل میں اللہ تعالیٰ کی تجلی دیکھی تجلی کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے ۔ مختصراً یوں سمجھ لیجئے کہ تجلی کے معنی ایک نوع کے اظہار کے ہیں شئے تجلی وہ ہوتی ہے جس کو وہ نوربحث اپنے اظہار کا ایک عنوان ٹھہرادے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو مخاطب کیا اور فرمایا ۔ دیکھو میں تمہارا خدا ہوں اور اس کے بعد ان کو یہ بتایا کہ تمہارے عصا ہولناک سانپ بن سکتا ہے اور تمہارا ہاتھ سفید وبراق ہوجائے گا ۔ غرضیکہ اسی طرح کے نو خوارق ان کو دیئے گئے اور کہا گیا کہ اب فرعون اور اس کی قوم کے پاس جاؤ۔ وہ بہت ظالم ہوگیا ہے اور اس کی سرکشیاں حد سے بڑھ چکی ہیں ۔ وہ فاسق ہے اور چاہتا ہے کہ بنی اسرائیل میں بھی عقیدہ عمل کی تمام برائیاں پھیل جائیں ۔ عصا کا سانپ بن جانا اور ہاتھ کا سفید براق ہوجانا ۔ غالباً اس سے مقصود یہ تھا کہ حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کو تسلی ہو اور فرعون کو معلوم ہوجائے کہ بنی اسرائیل جیسی بےضرر قوم میں بھی زندگی پیدا ہوسکتی ہے ۔ اور میرے لئے اور میری قوم کے لئے اژدھا بن سکتی ہے ۔ اگر اللہ کو ان کی زندگی منظور ہے اور خدا یہ چاہے کہ ان کو غلامی کے خلاف آمادہ کیا جائے انہیں مظلومیت کا احساس پیدا ہوجائے اور ان کو بتلایا جائے کہ تم میں ظلم کے مقابلہ کی پوری قوت موجود ہے اور تم دشمن کے لئے بہت زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں * ارشاد ہے کہ حضرت موسیٰ فرعون کے پاس تربیت وآزادی کا مطالبہ لے کر آئے ! اور خوارق ومعجزات سے اس کو یقین دلایا کہ میں اللہ کی جانب سے آیا ہوں ۔ اور بنی اسرائیل کی رہائی سب مقدرات میں سے ہے اب یہ ناممکن ہے کہ تم زیادہ عرصہ اپنے مظالم کو جاری رکھ سکو ۔ یہ سن کر فرعون اور اس کی قوم نے موسیٰ کے مطالبات ماننے سے قطعی انکار کردیا اور صاف کہہ دیا کہ دراصل آپ ہم لوگوں پر جادو کرکے ہماری حکومت چھیننا چاہتے ہیں * ارشاد ہے کہ یہ لوگ دل میں حضرت موسیٰ کی صداقت کے قائل ہوچکے تھے اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ آفتاب نبوت چمکے اور لوگ اس کی تمازت کو محسوس نہ کریں اور عمداً انکار ۔ اور مراد سرکشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ متعدد لوگ دریا میں غرق کردیئے گئے اور بنی اسرائیل ان کی املاک کے وارث قرار پائے ۔ النمل
11 النمل
12 النمل
13 النمل
14 النمل
15 النمل
16 پرندوں کی بولیاں ف 1: فرعون اور حضرت موسیٰ کے قصہ کے بعد داؤد سلیمان (علیہ السلام) کے حالات بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ فرعون کی تنگ طرفی کو ظاہر کیا جائے اور بتایا جائے کہ اللہ کے نیک بندے باوجود تاج اور رنگ کے مالک ہونے کے اللہ کے شاگرد رہتے ہیں اور ازراہ کبروغرور گمراہ نہیں ہوجاتے ، دیکھئے داؤد اور سلمان (علیہ السلام) کی ان کو سیاسی فہم وفراست کا بہرہ وافر دیا گیا ۔ ان کو بتایا گیا کہ کس طرح سلطنت کی حدود کو وسیع کیا جاسکتا ہے اور کس طرح اختیارات کو انسانوں ، جنوں اور پرندوں پر استعمال کیا جاسکتا ہے مگر ان کی سل امتی عقل ملاحظہ ہو کہ وہ دائرہ عبودیت سے باہر نہیں نکلے اور ہمیشہ اس فضیلت وبرتری کو اللہ کی نوازش سمجھتے رہے * علمنا منطق الطیر سے غرض یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں یہ ملک عطا فرمایا ہے ۔ کہ ہم پرندوں کی بولیاں سمجھ لیتے ہیں ۔ چنانچہ ماہرین حیوانات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ حیوانات بھی بولتے ہیں اور اپنے مافی الضمیر کو ادا کرتے ہیں اور بعض لوگوں نے تو بعض پرندوں کی آوازوں سے ان کے حروف تک مرتب کئے ہیں اور ان کو سمجھنے کی ابتدائی کوشش بھی کی ہے * النمل
17 النمل
18 چیونٹی اور سلیمان ف 2: حضرت سلیمان کے متعلق بائبل میں بھی مذکور ہے کہ بہت شان وشوکت کے نبی تھے اس آیت میں ان کی حشمت وجلال اور تسخیر کا ذکر ہے ۔ فرمایا :۔ اس کے عساکر میں جن وانس کے علاوہ طیور بھی تھے جن سے جنگی خدمات لی جاتی تھیں ایک واقعہ بیان کیا ہے ۔ جس سے ان کی عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ حضرت سلیمان اپنے عساکر کے ساتھ گرد اڑاتے ہوئے ایک میدان سے گزرے یہ میدان چیونٹیوں کا مسکن تھا انہوں نے جب دیکھا کہ حضرت سلیمان کا لشکر نہایت حشمت وصوالت کے ساتھ ہماری طرف بڑھتا چلا آرہا ہے تو ایک چیونٹی کے اطلاع دینے پر سب کی سب اپنے اپنے سوراخوں میں گھس گئیں ان کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ لشکر ہمیں اپنے پاؤں تلے نہ روند ڈالے * حضرت سلیمان چیونٹی کی اس بات پر مسکرا کر ہنس پڑے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی اس نعمت پر شکریہ ادا کیا اور وسعت سلطنت او فوج کی کثرت سے خوش ہوئے * دیکھئے ایک فرعون ہے کہ بنی اسرائیل کو غلام رکہنے پر نازاں اور مغرور ہے اور اپنے کو خدا سمجھتا ہے اور ایک سلیمان ہیں کہ ان وسیع اختیارات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کررہے ہیں * چیونٹی کے متعلق جدید ترین تحقیقات یہ ہے کہ یہ خطرات کو بہت دور سے محسوس کرلیتی ہے چنانچہآپ نے دیکھا ہوگا کہ جب بارش ہوتی ہے تو یہ پانی پڑنے سے پہلے اپنے آپ کو محفوظ کرلیتی ہے اس واقعہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے جب عساکر دور سے دیکھا اور گردوغبار سے مطلع کو اٹا ہوا پایا تو سمجھ گئی کہ خطرہ قریب ہے اس لئے سبھوں کو خبردار کرکے جلدی جلدی بلوں میں گھسنے لگیں * ایک وادی سے فوج کا اس طرح گزرجانا آسان ہے کہ چند چیونٹیوں کو بچایا جاسکے مگر معلوم ہوتا ہے کہ سلیمان کا لشکر تمام جنگ میں چھایا ہوا تھا اس لئے صورت حال یہ تھی کہ چیونٹیوں کا پاؤ تلے روندا جانا ضروری تھا ، قالب تعلۃ کے معنی یہ نہیں کہ اس نے انسان کی زبان میں سلیمان اور اس کے لشکر کا نام لیا اور کہا کہ ادخلو امساکنکمیہ کہ اپنی زبان میں طبعی اشارات وحرکات سے دوسری چیونٹیوں کو خطرات سے آگاہ کردیا ۔ اور سلیمان اور اس کے لشکر کا نام قرآن نے بطور حکایت وواقعہ کے ذکر کیا * النمل
19 ف 2: حضرت سلیمان کی تسخیر اور وسعت کے متعلق یہ دوسرا قصہ ہے ۔ بیان کیا جاچکا ہے کہ حضرت سلیمان کے لشکر میں جن وانس کے علاوہ طیور بھی تھے اور انہیں ہدہد کے متعلق یہ خدمات تھیں کہ وہ اثنا جنگ میں پانی تلاش کرے اور لشکر کو پانی کا پتہ دے ۔ چنانچہ ہدہد کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ زمین کے نیچے سوتوں کو معلوم کرلیتا ہے ۔ اور عربی میں ضرب المثل ہے کہ ھوابصر من ہد ہد کہ وہ ہد ہدسے بھی زیادہ تیز نگاہیں رکھتا ہے * ایک دن ہدہد لشکر میں نظر نہ آیا ۔ اور گم ہوگیا ۔ اس پر حضرت سلیمان ناراض ہوئے اور یاوسپراوہر سے دریافت کیا ۔ اور غصے سے کہا کہا گر وہ معقول عذر پیش نہ کریگا تو میں اس کو ذبح کرڈالوں گا ۔ اسی اثناا میں میں وہ آگیا ۔ اور اس نے ایک نئے ملک اور نئی حکومت کی خبر دی *۔ اس قصہ میں ہدہد کا بولنا اور ایک نئی سلطنت کو ڈھونڈھ نکالنا اور پھر ان کے مذہب تک کا پتہ دینا یہ سب باتیں کچھ اس ڈہب کی ہیں کہ عام لوگ اس کو سن کر کھٹکتے ہیں ۔ اس لئے اہل تفسیر اس کے بارہ میں حسب ذیل فرماتے ہیں :۔ (1) یہ ایک خاص ہدہد تھا ۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح کی سمجھ بوجھ دے رکھی تھی ۔ (2) طیور بھی ان معاملات کو سمجھتے ہیں اور ان کے متعلق یہ غلط مشہور ہے کہ وہ عقل نہیں رکھتے چنانچہ ایک ماہر علم الحیوانات ان کی زبان کے چند اصول دریافت کئے ہیں *۔ (3) ہدہد ایک آدمی کا نام ہے ۔ جیسے اسد ، ذئب ، ابو عامر وغیرہ انسانوں کے نام ہوسکتے ہیں مگر یہ تاویل درست وزن دار نہیں تفقد الطیر من الطیر کی تصریح میں موجود ہے اور اس کے بعد لاعذبنہ کہ کر گویا توضیح کردی ہے ۔ (4) الھد ھد میں مضاف محذوف ہے اور اس سے صاحب ہد ہد مراد ہے جو طیور کی دیکھ بھال پر مقرر تھا اور مجھے یہ توضیح پسند ہے ۔ النمل
20 النمل
21 النمل
22 حل لغات :۔ سبا ۔ نام شہر بلقیس ۔ حرم حضرت سلیمان (علیہ السلام) شہر مذکور ملک یمن میں واقع ہے النمل
23 النمل
24 النمل
25 الخب : پوشیدہ اور مستتر چیز ، النمل
26 النمل
27 النمل
28 النمل
29 ملکہ سبا کی طرف حضرت سلیمان کا مکتوب ف 1: ہدہد نے یا صاحب ہد ہد نے جب یہ عذر پیش کیا ۔ کہ میں نے ایک جدید سلطنت دریافت کی ہے جہاں کے رہنے والے آفات کی پوجا کرتے ہیں ۔ اور راہ راست سے کھسکے ہوئے ہیں ۔ توحضرت سلیمان نے اس کو ایک رقعہ دیا ۔ اور کہا کہ اس کو لے کر وہاں جاؤ۔ اور معلوم کرو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ۔ تاکہ تمہارا جھوٹ اور سچ عیاں ہوجائے ۔ ارشاد ہے کہ وہ آفات کو تو پوجتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ اس کو مشرق کے مستور افق سے جلوہ گر کرنے والا کون ہے ۔ اور وہ کون ہے جو سینے کے اندر تک سے واقف ہے معلوم ہوتا ہے کہ آفتا پرستی کی ابتداء اس خیال سے ہوتی ہے کہ آفات روشنی اور نور کا مرکز ہے ۔ اور خدا کا بھی نور ہے ۔ اس لئے ممکن ہے کہ سورج اس کے حسن وجمال اور تجلیات کا بہت بڑا آئینہ دار ہو *۔ قرآن حکیم نے بتایا ہے ۔ کہ یہ عقیدہ اور خیال غلط ہے اس کے نور اور اس کی قدرتوں میں دنیا کی کوئی چیز شریک یا سہیم نہیں ۔ وہ تو نور ہے اور یکسر نور ہے ۔ مگر اس کے نور ہونے کے معنے یہ نہیں کہ وہ کوئی جرم منور ہے یا کوئی مادی روشنی اور اجالا ہے بلکہ یہ معنی ہیں کہ کائنات کا وجود اس کی وجہ سے قائم ہے اور اگر وہ نہ ہو تو پھر تمام دنیا عدم کے اندھیروں میں گم ہو اور کسی چیز کا بھی وجود دکھائی نہ دے وہ واحد معبود ہے اور کوئی شخصیت بجز اس کے اس قابل نہیں کہ انسان جیسی پر عظمت ہستی اس کے سامنے جھکے * غرض یہ ہے کہ ملکہ سبا کی قوم آفتا کی پرستش کرتی تھی حضرت سلیمان نے تحقیق احوال کے لئے ہدہد کو بھیجا تاکہ وہ اس قوم کے پاس جائے اور اصل معاملہ دریافت کرے *۔ الملؤا : سرداران قوم ، معززین حضرات ، النمل
30 ف 2: ملکہ سبا کی زبان سے رقعہ کا مضمون ملاحظہ ہو کس قدر مختصر اور کس قدر جامع ہے ۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر گویا اس کو یقین دلایا ہے کہ ہم ظالم نہیں ۔ ہم اس خدا کو مانتے ہیں جو رحمن اور رحیم ہے اور جس کے فیوض رحمت آفتاب سے کہیں زیادہ ہیں اس کے بعد اس سے مطالبہ کیا کہ مطیع ہوکر میرے پاس چلے آؤ۔ اور کسی قسم کی سرکشی کا اظہار نہ کرو *۔ النمل
31 النمل
32 افتونی : مجھے رائے دو النمل
33 والامر الیک ۔ یعنی آخری فیصلہ آپکے اختیار ہے ۔ الملوک ۔ ملک کی جمع ہے ، یعنی بادشاہ ، حل لغات : اولوباس : ارباب حرب ، النمل
34 اعزۃ ۔ جمع عزیز ۔ غالب شریف ، ذلیل ۔ النمل
35 ف 1: ملکہ سبا نے حضرت سلیمان کا خط سنا کر اس معاملہ میں اہل دربار سے مشورہ طلب کیا ماکنت قاطعہ امرا حتی تشھدون سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قدیم زمانے میں بھی طرز حکومت یہ تھی کہ وہ اہل دربار سے مشورہ لیا جائے ۔ اور بادشاہ کے اختیارات محدود ہوں ۔ اس آیت سے اس عہد کی جمہوری حکومت کا پتہ چلتا ہے *۔ ھدیۃ ۔ تحفہ ۔ النمل
36 حضرت سلیمان نے تحائف واپس کردیئے ! ف 2: اس آیت میں بلقیس نے عام بادشاہوں کی اور ملوک کی ذہنیت بیان کی ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ حدود مملکت کو وسیع کرنے میں کوشاں رہتے ہیں ۔ اور جب کسی ملک کو فتح کرلیتے ہیں تو پھر بڑی ابتری مچاتے ہیں ۔ وہاں کا نظام ایک قسم بدل دیتے ہیں اور روہاں کے معززین اور اکابرین ان انقلابات میں بس جاتے ہیں ۔ اس لئے یہ رائے تو درست نہیں کہ سلیمان کو یہاں آنے پر حملہ کرنے کا موقع دیا جائے ۔ البتہ کوئی تدبیر کرنی چاہیے ۔ چنانچہ اس نے وزراء سے کہا ۔ کہ بہتر ہوگا کہ اس کو یہاں کے تحفے تحائف بھیجے جائیں اگر اس نے ان کو قبول کرلیا ۔ تو معلوم ہوگا کہ وہ بہت زیادہ حریص نہیں ہے ! اور ایک فائدہ یہ ہوگا کہ وہ اتنا پرجوش ہوجائے گا اور اگر اس نے انکار کردیا تو معلوم ہوگا کہ وہ جنگ پر آمادہ ہے * اس تجویز سے معلوم ہوتا ہے کہ ملکہ سبا بہت عقل مند اور سمجھدار خاتون تھی حالانکہ وزراء نے کہا تھا کہ ہم بہت بہادر ہیں اور ہر طرح مرنے مارنے پر تیار ہیں مگر اس نے یہ مناسب نہ کیا *۔ ف 3: غرضیکہ تحفے تحائف بھیجے گئے ۔ لیکن حضرت سلیمان نے ان کو قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ بلقیس کا خیال تھا کہ سلیمان بھی دنیا کے عام بادشاہوں کی طرح ہوگا اور وہ ان تحائف کو دیکھ کر خوش ہوجائے گا ۔ اس طرح دوسلطنتوں میں سیاسی تعلقات سے زیادہ استوار ہوجائیں گے ۔ چونکہ حضرت سلیمان بادشاہ کے ساتھ پیغمبر بھی تھے اس لئے طبعاً دنیا اور دنیا کے املاک سے بےنیاز تھے انہوں نے جب دیکھا کہ ملکہ سبا نے اس کے پیغام کو نہیں سمجھا اور ان کو معمولی حریص اور دنیا دار بادشاہ خیال کیا ۔ تو غضب میں آگئے ۔ اور کہنے لگے ۔ تحائف واپس بھیج دو ہم ان پر حملہ کرینگے ۔ اور ہماری فوجیں ان کو وہاں سے نکال باہر کریں گی ۔ اور ان کو معلوم ہوجائے گا کہ ہمارے پاس دنیوی قوت بھی ان سے کہیں زیادہ ہے *۔ النمل
37 قبل لھم ۔ سامنا نہ ہوسکے گا ۔ ساغر کی جمع بمعنی ذلیل و رسوا ماتحت ۔ النمل
38 ف 4: بات یہ تھی کہ حضرت سلیمان کے مدنظر تبلیغ الاسلام میں انہوں نے اسی لئے دعوتی خط بھیجا تھا آپ چاہتے تھے کہ اس ملک کے لوگ اسلام کی دعوت کو قبول کرلیں ۔ اور بت پرستی چھوڑ دیں ۔ آپ کی خواہش تھی کہ یہ لوگ آفات کو خدا نہ سمجھیں بلکہ اس خدا کے سامنے جھکیں جس نے آفتاب کو پیدا کیا ہے ۔ مگر ملکہ نے اس دعوت پر قطعاً غور نہ کیا اور جس عنوان سے جواب دیا وہ توہین کے مزادلہ تھا ۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ سلیمان کا مقصد جہاد سے محض حدود سلطنت کو وسیع کرنا ہے اور مال ودولت کو حاصل کرنا ہے اسلام کی اشاعت اور حق مد نظر نہیں ۔ حالانکہ واقعہ اس کے برعکس تھا *۔ النمل
39 حل لغات :۔ عفریت ۔ دیو خبیث ۔ لڑاکو ۔ چالاک ۔ توانا جن وانسان دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ النمل
40 بلقیس کا تخت اور علم الحرکت ف 1 حضرت سلیمان کو ابتدا میں تو غصہ آیا ۔ کہ آخر کیوں بلقیس نے مجھ کو ایک معمولی قسم کا بادشاہ سمجھا مگر ایک تدبیر ذہن میں آئی ۔ کہ لاؤ یہ دیکھیں کہ وہ کہاں تک معاملہ فہم ہے اس کا بہترین طریق یہ سمجھا گیا ۔ کہ بلقیس کو اپنے پاس بلائیں ۔ چنانچہ پہلے تو انہوں نے اس کا تخت حکومت مٹانے کی ٹھانی اور وہ بھی اس طرح کہ معمولی عقل کا آدمی بھی یہ اعجاز دیکھ کر اللہ کی قدرتوں سے آگاہ ہوجائے اور اسلام قبول کرلے ۔ پھر آپ نے درباریوں سے کہا مخاطب ہوکر پوچھا کون شخص ہے جو بہت جلد ملکہ سبا کے تخت کو مجھ تک پہنچا سکتا ہے ۔ بہت بڑے پُرفن چلاک اور قوی جن نے کہا کہ حضور میں پہنچا سکتا ہوں جب آپ اس مجلس سے اٹھیں گے بھی نہیں اور تخت موجود پائیں گے مگر ایک شخص جو اس سے بھی زیادہ ماہر تھا اور جس کو کتاب (الٰہی) کا علم تھا کہا کہ میں آنکھ جھپکنے سے پیشتر تخت کو آپ کی خدمت میں حاضر کرسکتا ہوں ۔ چنانچہ وہ گیا اور تخت لے کر آگیا ۔ حضرت سلیمان نے کہا کہ اس تخت کی ہیئت کو بدل دو ۔ تاکہ یہ معلوم ہو کہ ملکہ کس قدر عقلمند ہے چنانچہ تخت کی شکل بالکل تبدیل کردی گئی اور ادھر اس اثنا میں ملکہ پہنچ چکی تھی ۔ وہ ان معجزات کو دیکھ کر ششدرہ رہ گئی ۔ جب حضرت سلیمان نے کہا یہ تخت آپ کے تخت سے ملتا جلتا ہے تو اس نے کہا ہاں کچھ اسی قسم کا ہے اور اس کے ساتھ ہی اسلام کا اعتراف کرلیا ۔ اور بول اٹھی کہ میں اس واقع سے پہلے ہی نبوت کو تسلیم کرچکی تھی اور مان چکی تھی کہ آپ اللہ کے پیغمبر ہیں *۔ طرفان طرف بمعنی آنکھ مفرد اور جمع دونوں معنوں میں آتا ہے اور دیکھنے اور پلک مارنے کے معنی میں ہوتے ہیں النمل
41 * نکروا حلیہ بگاڑ دو ۔ صورت تبدیل کردو النمل
42 ف 2: اس واقعہ سے بعض کو حیرت ہوتی ہے کہ اتنی دور سے اس قدر تخت کے آجانے میں کیونکر عقلی امکانات ہیں ! وہ اس قصے کو حقیقت پر مبنی نہیں سمجھتے اور افسانہ قرار دیتے ہیں ۔ حالانکہ یہ بالکل ناممکن ہے اس سلسلے میں دوباتوں کا سمجھ لینا ضروری ہے ۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت بہت زیادہ وسیع ہے ۔ جب آفتاب ایسے بڑے کرے کو چند گھنٹوں میں اربوں میل گھمادیتا ہے تو اس کے لئے یہ کچھ مشکل نہیں کہ وہ سلیمان کے خدام کو میں سے کسی شخص کو اتنی طاقت دے کہ بہت جلد تخت کو لا حاضر کرے ۔ دوسری بات حرکت کی تجدید کا مسئلہ ہے اور تخت علم الحرکت کے ماہرین کا خیال ہے کہ کہ اس کو جھوٹ نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ چنانچہ اس نقطہ نگاہ کی وجہ سے آیئے دیکھیں کہ کس قدر وسیع السیر سواریاں ایجاد کی گئیں اور اگر تسلیم کرلیا جائے کہ حرکت ایک خاص ہدایت کا کام کرتی ہے اور اس سے آگے اس کو نہیں بڑھایا جاسکتا ۔ تو پھر یہ تمام اختراعات ختم ہوجائیں * روشنی آواز اور نظر چند لمحات میں کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے ۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ وہ شخص سرعت حرکت کے قانون سے آگاہ ہو جیسا کہ کہا گیا ہے کہ اس کے پاس کتاب کا علم تھا تو اس صورت میں یہ معجزہ نہیں رہے گا بلکہ حیرت انگیز واقعہ ہوگا جس کا تعلق اس وقت کی سائنس اور حکمت سے ہے ۔ النمل
43 النمل
44 حل لغات : ۔ لجۃ ۔ میلان دریا میں عمیق ترین جگہ ، قواریر قارورۃ کی جمع بمعنی شیشہ * * الصرح ۔ محل *۔ النمل
45 حضرت سلیمان کا شیش محل ! ف 1: یہ دوسرا واقعہ ہے جس سے بلقیس کو حضرت سلیمان کی عظمت اور دانائی کا حال معلوم ہوا ۔ اور جس کی وجہ سے وہ اس درجہ متاثر ہوئی کہ فوراً اسلام کا اعلان کردیا * واقعہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان نے ایک عالیشان شیش محل تعمیر کرایا تھا ۔ اور اس کا صحن خصوصیت سے بلور کا بنوایا جس کے نیچے پانی رواں تھا اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ سارے صحن میں پانی بہہ رہا ہے * بلقیس جب محل میں داخل ہونے لگی تو اس نے اپنے پائنچے اٹھائے جب یہ معلوم ہوا کہ پانی نہیں بلور ہے ۔ اور اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا * بات یہ تھی کہ حضرت سلیمان اصل میں یہ بتانا چاہتے تھے ۔ کہ آفتاب پرستی محض عقیدہ کا دھوکا اور فریب ہے اور اس کو انہوں نے اس طرح ثابت کیا ۔ کہ بلور کے نیچے پانی رواں کردیا تاکہ بلقیس کے ذہن فوراً اس حقیقت کی جانب منتقل ہو کہ جس طرح یہ بلور پانی نہیں ہے ۔ بالکل اس میں سے پانی نظر آتا ہے ۔ اسی طرح آفتاب بھی تجلیات الٰہی کا مظہر ہے ۔ بجائے خود خدا یا معبود نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جس وقت اپنی غلطی کا احساس کرتی ہے ۔ تو فوراً اسلام قبول کرلیتی ہے اور اس کو معلوم ہوجاتا ہے کہ میرا سابق عقیدہ غلط تھا ۔ آفتاب پرستش کے لائق نہیں ہے ، بلکہ پرستش کے لائق وہ ہے جس کی روشنی کا یہ آئینہ دار ہے *۔ ممکن ہے تنکیر عرش سے بھی کوئی اس قسم کا اشارہ مقصود ہو ۔ یعنی علاوہ عظمت واختیارات کے اظہار کے اس رمز کی جانب توجہ کو مبذول کرنا مطلوب ہو ۔ کہ جس طرح تم نے اپنے تبدیل شدہ تخت کو پہچان لیا ہے اسی طرح دین فطرت کی طرف رجوع کرو ۔ اور اس کی حقیقت کو پہچانو ۔ یہی وہ دین ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے انسان کو ہدایت کے لئے نازل فرمایا ہے ۔ ہاں اس کی موجودہ شکل یقینا تمہارے تخت کی طرح بگڑ چکی ہے اور اب تمہارا اور تم جیسے عقلمند لوگوں کایہ فرض ہے کہ وہ اصل حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کریں معلوم ہوتا ہے یہ انداز بیان تبلیغ کے لئے اس لئے اختیار فرمایا کہ اس زمانے کے لوگ حکمت اور دانائی اور رمز واشارات کی باتوں کو زیادہ اچھے کرتے تھے * النمل
46 حل لغات :۔ باالسئیہ عذاب ۔ تکلیف اور برائی النمل
47 حل لغات :۔ * طیرنا بک الطیر کے معنی تشاؤم اور بدفالی کے ہیں ۔ النمل
48 حل لغات :۔ رھط ۔ لوگ ، شخص ۔ جمع اور واحد دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ النمل
49 ف 1: ان آیات میں حضرت صالح اور قبیلہ ثمود کے حالات بیان فرمائے ہیں ۔ ارشاد ہے کہ ہم نے صالح کو ان لوگوں میں پیغمبر بنا کر بھیجا ۔ اور انہوں نے ان کو اللہ کی عبادت کی دعوت دی اور حق کی جانب بلایا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں دو فریق پیدا ہوگئے ۔ ایک ماننے والوں کا اور دوسرا نہ ماننے والوں کا ۔ ماننے والے کم تھے اور منکرین زیادہ منکرین نے حضرت صالح ، اور مومنین کی سخت مخالفت کی اور یہاں تک بدبختی کا اظہار کیا ۔ کہ عذاب کا مطالبہ کرنے لگے اور ہم تم کو اور تمہاری جماعت کو اپنے لئے منحوس خیال کرتے ہیں پھر ان میں سے نو آدمی اس پر آمادہ ہوئے ۔ حضرت صالح کو معران کی جماعت کے شہید کردیا جائے ۔ اور دریافت کرنے پر انکار کردیا جائے تاکہ کسی شخص پرذمہ داری عائد نہ ہو ۔ فرمایا ایک طرف تو یہ لوگ یہ تدبیریں کررہے تھے ۔ تو دوسری جانب ہم نے ان کو مٹا دینے کی تدبیر کی اور آخر وہ حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹادیئے گئے * النمل
50 النمل
51 النمل
52 سدومیت کے خلاف جہاد کی ضرورت ف 1: اللہ تعالیٰ کا قانون مکافات یا قانون عذاب انہی لوگوں پر ہی ہوتا ہے جو اس پیغام سے روگردان ہیں ۔ اور اپنے گناہوں پر اصرار کرتے ہیں *۔ حل لغات :۔ خاویۃ ۔ خوی البیت سے ہے ۔ معنے مکان کے گر جانے کے ہیں *۔ النمل
53 النمل
54 النمل
55 الرجال ۔ جمع رجل بمعنے مرد ۔ تنفر پیدا کرنے کے لئے کہا ہے مقصود اس سے لونڈے ہیں *۔ النمل
56 النمل
57 النمل
58 ف 1: حضرت لوط قوم سدوم کی طرف آئے اور دنیا کی بدترین قوم تھی ۔ سب سے پہلے انہیں لوگوں کے خلاف وضع فطری فعل ایجاد کیا ۔ اس میں اس درجہ فلواختیار کیا ۔ کیہ بدعملی ان میں عام ہوگئی ۔ حضرت لوط نے کہا ۔ کہ یہ بہت بےحیائی کا کام ہے تمہیں اپنی حرکات پر شرمانا چاہیے ۔ اور اپنی اس جہالت کا احساس ہونا چاہئے ۔ کہ مردوں سے جنسی تعلقات قائم کرتے ہو تو انہوں نے بہت ناگواری کے ساتھ ان نصیحتوں کو سنا ۔ اور کہا ۔ کہ لوط اور اس کے ماننے والوں کو بستی سے نکال دو ۔ یہ لوگ بڑی پاکبازی کا اظہار کرتے ہیں ۔ اور اس لائق نہیں ہیں کہ ہمارے ساتھ رہیں *۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اصرار گناہ اور انتہائی بداخلاقی کے باعث اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑکا ۔ اور یہ لوگ شدید عذاب میں مبتلا ہوگئے * النمل
59 ف 1: افسوس ہے ۔ کہ آج کل بھی تقریباً یہی حالت رونما ہیں ۔ لوگوں میں یہ مرض سرعت کے ساتھ پھیل رہا ہے ۔ اور نوجوان اس شنیع افعال سے قطعاً شرم اور ندامت محسوس نہیں کرتے ۔ اور اب ان کے روز مرہ میں یہ چیز داخل ہوگئی ہے ۔ کہ وہ پاکباز نوجوانوں پر آوازے کستے ہیں ۔ اور مختلف مذاق کو روشن خیال سمجھتے ہیں ۔ یہ کس قدر شرم کا مقام ہے ۔ کہ جو بیماری قوموں کی ہلاکت وتباہی کا باعث ہے ۔ آج ہم اس بیماری پر فخر کر رہے ہیں ۔ ہماری مجلسوں میں ، کالجوں اور مدرسوں میں ۔ تربیت گاہوں اور مذہبی اداروں میں ہر وقت اس مدح کے چرچے رہتے ہیں ۔ گویا فضا بالکل شہوانی ہوچکی ہے ۔ اور وقت آگیا ہے ۔ کہ بدکاروں کی نسل دنیا سے مٹ جائے اور اس کی جگہ کوئی صالح اور نیک نسل لے ۔ کیونکہ اس مرض سے ہمیشہ تباہی پھیلتی ہے او گو آسمان سے پتھر کی بارش نہ ہو ۔ مگر نسلیں ضرور بیکار کم حوصلہ اور بزدل ہوجاتی ہیں ۔ اور یہ عذاب پتھراؤ سے زیادہ شدید اور ہولناک ہے ۔ کیونکہ اس میں تویہ ہونا ہے کہ قوم بالکل مٹ جاتی ہے ۔ اور اس کا وجوہ دوسری کے لئے باعث ہدایت نہیں ہوتا ۔ اور اس میں یہ ہوتا ہے ۔ کہ بظاہر زندہ رہتی ہے مگر روح اور عمل کے لحاظ سے بالکل مردہ اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے مجسم عذاب اور مجسم ہر آس و ناامیدی اس لئے ضرورت ہے کہ علما اور اکابر ملت حضرت لوط کی طرح میدان میں آئیں اور قوم میں اخلاق کی اصلاح کے لئے ٹھوس کام کریں ۔ اور اس سے ہرگز نہ شرمائیں کہ یہ کس نوع کا کام ہوگا ۔ جب ایک پیغمبر خاص اس مشن کی تکمیل کے لئے آسکتا ہے ۔ تو پھر اس سنت پر عمل کرنے سے علماء اور اکابر کیوں شرمائیں *۔ النمل
60 معبود حقیقی کون ہے ؟ ف 1: یہاں سے بیسواں پارہ شروع ہوتا ہے مگر یہ ضروری نہیں ۔ کہ یہاں سے کسی نئے مضمون کا آغاز ہو ۔ کیونکہ پاروں کی تقسیم مضامین کے اعتبار سے نہیں ہے *۔ اس سے قبل کی آیت میں سوال کیا گیا تھا ۔ ءاللہ خیر امایشرکون ۔ یعنی ان گذشتہ واقعات کو دیکھو اقوام وباطل کی تاریخ کو پڑھو اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرو ۔ کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو عذاب سے بچایا ۔ اور کیونکر مخالفین کو عبرتناک سزائیں دیں ۔ اس کے بعد یہ فیصلہ کرو کہ عزیز وغالب خدا بہتر ہے یا وہ جو تمہارے لئے بےجان بت ہیں ۔ اور جن میں نفع وضرر کی کوئی استعداد موجود نہیں *۔ ان آیات میں قرآن نے نہایت بلیغ اور دلنشین انداز میں مناظر قدرت کی جانب انسان کی توجہ کو مبذول کیا ہے ۔ اور دریافت کیا ہے ۔ کہ جمال وکمال کے ان مشاہدات کے بعد تمہاری رائے کیا ہے ! کیا تم اس خدا کو ماننے کے لئے آمادہ ہو جس کی حکمت سے کائنات زندہ اور قائم ہے ۔ یا ان کو جن کا دنیا میں کوئی حصہ نہیں اور وہ محض بیکار اور مہمل ہیں *۔ قرآن حکیم کا یہ مخصوص انداز بیان ہے ۔ کہ وہ انسان کے دل میں مواہب ۔ وجدان کو بیدار کردیتا ہے ۔ اور اس کے دل ودماغ پر قطعی دلائل وبراہین کا بوجھ نہیں ڈالتا ۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ انسان ذاتی مطالعہ سے ان نتائج تک پہنچے جن کو وہ پیش کرتا ہے اور براہ راست ان معارف اور معلومات سے جو فطرت کے حسن وجمال سے حاصل ہوں توحید تجرید تک رسائی حاصل کرلے ۔ جن کو بار بار بیان کیا جاتا ہے ۔ قرآن کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ لوگ خود بخود سوچ سمجھ کر اس کے ہمنوا ہوں *۔ حل لغات :۔ حدائق ۔ حدیقہ کی جمع ہے بمعنی محفوظ باغ یعنی جس باغ کے اردگرد دیوار ہو یا چاروں طرف لکڑی وغیرہ کوئی چیز لگائی گئی ہو * یعدلون عدول سے ہے یعنی کجروی یا راہ راست سے ہٹ جانا * حاجزا ۔ پردہ ۔ آڑ * السوء ۔ تکلیف ۔ دیکھ ۔ برائی *۔ النمل
61 النمل
62 النمل
63 ف 1: چنانچہ ارشاد ہے ۔ بتاؤ کہ الوہیت اور خدائی کے لئے وہ ذات زیادہ موزوں ہے ۔ جس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا جس نے آسمان کی بلندیوں سے تمہارے لئے پانی نازل کیا ۔ اور نہایت عمدہ عمدہ باغ پیدا کئے ۔ جن کو تم سر سبز وشاداب نہیں کرسکتے تھے ۔ یا وہ خود اصنام خیالی جو تم نے بنا رکھے ہیں کہو وہ عقیدت اور نیازمندی کے لئے سزاوار ولائق ہے ۔ جس نے زمین کو جائے قرار بنایا ۔ اس میں نہریں رواں کیں اور اس کے استقرار کے لئے پہاڑ پیدا کئے ! اور دو دریاؤں میں بکمال حقیقت ایک قسم کی آڑ بنادی تاکہ آپس میں مختلط نہ ہونے پائیں ۔ ان میں ایک میٹھا ہے اور دوسرا کھاری یا تمہارے معبودان باطل ۔ قرآن پوچھتا ہے کہ آیا وہ ذات رحمت آیات عبادت اور بندگی کے لئے بہتر ہے جو بےقرار اور بےچین انسان کی دعاؤں کو سنتا ہے اور جس نے تمہیں اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے یا وہ ذات جس کو تم اپنے زعم میں خدا سمجھتے ہو ۔ فرماتے ہیں کہ سمندر اور جنگل کی تاریکیوں میں تمہاری کون راہ نمائی کرتا ہے ۔ اور ٹھنڈی ٹھنڈی فرحت ناک ہواؤں کو باران رحمت سے پہلے کون بھیجتا ہے *۔ مقصد یہ ہے کہ ان واقعات پر مبصرانہ نظر دوڑاؤ اور پھر دل کی گہرائیوں میں جھانک کر دیکھو کہ ان میں توحید کے چشمے بہتے ہیں ۔ یا شرک سایہ افگن ہے *۔ مشرکین مکہ سے قرآن حکیم کو یہ شکایت ہے ۔ بل ھم قوم یعدلون بل اکثرھم لایعلمون قلیلا ما تذکرون ۔ یہ لوگ ان تفصیلات کے باوجود عذاب اور کجروی کو پسند کرتے ہیں ان میں اکثر بےعلم اور جاہل ہیں اور بہت کم ہیں نصیحت پذیری کی استعداد ہے ۔ توحید کے بام ہند فراز اعلیٰ تک پہنچے کے لئے کوئی دقت نہیں صرف معدلت شعاری علم اور اثر پذیر دل کی ضرورت ہے النمل
64 توحید یا دہریت ف 2: یہ آیات توحید کا بقیہ حصہ ہیں اس میں وہی سوال چلا آرہا ہے کہ بتاؤ۔ خالق اور رازق خدا عبادت اور بندگی کا مستحق ہے یا تمہارے مقرر کردہ معبود * قل ھاتو برھانکم سے مراد ہے کہ شرک کے جواز کے لئے کوئی عقلی دلیل پیش نہیں کی جاسکتی ۔ اور کسی دلیل سے یہ نہیں ثابت کیا جاسکتا ۔ کہ رب الا کو ان کا کوئی شریک بھی ہے ۔ کیونکہ عقل وبصیرت کے لئے صرف دو راہیں ہیں ۔ جن کو اختیار کیا جاسکتا ہے ۔ ایک توحید کی راہ ۔ یعنی خدا ایک ہے وہ بےمثل ہے اور بےنظیر ذات ہے ۔ اور اس کے تخیل میں کثرت اور تعدد کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اس کا نفس تصور ہی شرکت اور کثرت کو مانع ہے ۔ دوسری راہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس ذات بےہمتا کو مانا جائے اور دنیا کو محض مادہ کے مختلف مظاہر سے تعبیر کیا جائے *۔ چونکہ موخرالذکر سوال مشاہدہ کے سراسر خلاف ہے ۔ دنیا کا سارا نظم و نسق اور اس کا حسن وجمال ایک شاہد حسین کا پتہ دے رہا ہے ۔ اور بتارہا ہے کہ کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں *۔ اس لئے غور وفکر کے لئے صرف یہ گنجائش رہ جاتی ہے کہ وہ توحید کے عقیدے ہی کو قرین عقل ودانش قرار دے ۔ اور شرک کو یکسر غیر عقلی اور غلط سمجھے *۔ حل لغات :۔ برھانکم ۔ برہان کے معنی دلیل قاطع اور روشن حجت ہیں جو مقصود اور دعویٰ کو بالکل واضح کردے *۔ النمل
65 النمل
66 علم غیب کی تعریف ف 1: قرآن حکیم نے بار بار اس حقیقت کی صراحت فرمائی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی علوم غیب سے آگاہ نہیں اسی نے کائنات کو پیدا کیا اور وہی کائنات کے اسرار سے آشنا ہے ۔ بہت کم لوگ غیب اصلیت سے واقف ہیں *۔ اکثر غیب کے معنے یہ سمجھتے ہیں کہ ان چیزوں کے جاننے کو غیب کہتے ہیں ، جس کا پیشتر سے علم نہ ہو ۔ ظاہر ہے کہ ان معنوں کے ااعتبار سے ہر شخص عالم الغیب ہے ۔ کیونکہ ہر شخص کچھ نہ کچھ ایسی باتیں معلوم کرلیتا ہے ۔ جس کا پیشتر سے اس کو علم نہیں ہوتا ۔ اور اس طرح اس کی معلومات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ یہ ایجادات واعتراضات کیا ہیں ۔ کیا یہ پیشتر سے انسانوں کو معلوم تھیں ؟ اور اگر معلوم نہیں تھیں تو کیا ان سے آگاہی علم غیب ہے ! اور اگر نوع کی معلومات علم غیب کی تعریف میں آسکتی ہیں تو پھر صرف خدا کے عالم الغیب ہونے کے کیا معنی ہیں ! یہ سوالات ہیں جو قدرتاً غیب کی صحیح تعریف نہ جاننے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں *۔ بات اصل میں یہ ہے کہ : کہ غیب کے معنی مطلقاً کسی چیز کو اس طرح جاننے کے ہیں ۔ کہ استدلال اور استنباط کی درمیانی کڑیاں مفقود ہوں ۔ یعنی اس چیز کو معلوم کرنے کا کوئی منطقی اور طبعی ذریعہ نہ ہو اور باوجود اس کے تعین ویقین کے ساتھ اس کا پتہ دیا جائے ۔ اس قسم کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہے ۔ کیونکہ وہ ہر چیز کو بلا کسی توسط کے بطور خود جانتا ہے اور اس کو کسی استدلال اور استنباط کی ضرورت نہیں ۔ اور چونکہ انسان کا علم اکتسابی ہے اس لئے وہ علوم غیب پر مطلع نہیں ہوسکتا *۔ حل لغات : بل ادارک ۔ اصل میں تبارک تھا ۔ یعنی آخرت کی بابت ان کا علم ختم ہوچکا ہے *۔ النمل
67 النمل
68 النمل
69 النمل
70 النمل
71 النمل
72 حل لغات :۔ عسیٰ ۔ یعنی یقینا قرآن میں حرف مقاربتہ کا استعمال ہمیشہ قطعیت کے معنوں میں ہوتا ہے * النمل
73 منکرین کے لئے وعدہ عذاب کی تکمیل ف 1: منکرین نے جب یہ سنا کہ مرنے کے بعد بھی زندگی ہے اور سب لوگوں کو عالم موت سے نکال کر عالم حشر میں اٹھا کر کھڑا کیا جائیگا ۔ تو وہ ہنسے اور کہنے لگے ۔ یہ کیونکر ممکن ہے : کیا ہم اور ہمارے باپ دادا دوبارہ زندگی کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوں گے ! یہ تو محض افسانہ معلوم ہوتا ہے اور اس قسم کے افسانے ہم پہلے بھی سن چکے ہیں ۔ اور اس کے بعد کمال شوخ چشمی سے کہنے لگے کہ وہ وعدہ عذاب کب آئے گا ! جس کے متعلق تم کہتے ہو کہ مکذبین کے لئے مقدر ہے اور جس کے لئے اقوام وباطل کی تاریخ ہم سے بیان کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے ۔ فانظروا کیف کان عاقبۃ المجرمین ارشاد ہوتا ہے ۔ کہ وہ وعدہ عذاب بہت قریب ہے تم عجلت نہ کرو ۔ اور اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتے کہ حتی الامکان اس کے بندے اس کے غضب وغصہ کا باعث ہوں ۔ وہ ہمیشہ عفو وکرم سے کام لیتا ہے ۔ ہاں اگر بندوں کو اسی بات پر اصرار ہو کہ عذاب آئے ۔ اور ضرور آئے ۔ تو پھر اللہ تعالیٰ ان کی تازیب واصلاح کے لئے ضرور عذاب بھیج دیتے ہیں ۔ چنانچہ جب مکہ والوں کی سرکشیاں حد سے بڑھ گئیں ۔ اور انہوں نے طے کرلیا ۔ کہ ہجرت کے بعد بھی مسلمانوں کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا جائے گا ۔ تو معرکہ بدر کے سامان پیدا ہوگئے ۔ اور مشرکین نے اس معرکہ میں سخت شکست کے سامان پیدا ہوگئے ۔ اور بصد حسرت ویاس باقی ماندہ واپس لوٹے *۔ حل لغات : ماتکن ۔ کنان سے ہے ۔ معنی چھپاتا ۔ مستور رکھنا *۔ النمل
74 ف 2: اس آیت میں کفار کے مخفی ارادے سے اور بھید جو تھے ان کے متعلق ارشاد ہے کہ وہ ہم سب کو معلوم ہیں ۔ تم یہ نہ سمجھو ۔ کہ اللہ اور اس کا رسول تمہارے مکار سے آگاہ نہیں * النمل
75 ف 3: کتاب مبین لوح محفوظ ہے اور لوح محفوظ باری تعالیٰ کے علم سے تعبیر ہے *۔ النمل
76 النمل
77 ف 4: یعنی قرآن حکیم کا نزول اس لئے ہوا ہے ۔ کہ اہل کتاب نے جو اختلافات پیدا کررکھے ہیں ۔ ان کو دور کرے ۔ اور ان میں حقیقی اور سچا فیصلہ صادر فرمائے ۔ اور ان لوگوں کے جو مومن ہیں ۔ ان کا وجود باعث ہدایت ورحمت ہے *۔ النمل
78 النمل
79 ف 1: غرض یہ ہے کہ اگر یہ لوگ دنیا میں اختلافات کو دور نہ کریں اور اسلامی کی نعمتوں سے محروم رہیں ۔ تو آپ چنداں پرواہ نہ کیجئے ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان میں عملی طور پر فیصلہ کردیگا ۔ اور اس وقت ان کو معلوم ہوگا ۔ کہ دنیا میں یہ راہ راست پر نہ تھے *۔ النمل
80 حل لغات :۔ الموتی ۔ باعتبار اوصاف کے مردہ * الصم ۔ صم کی جمع ہے ۔ بمعنی بہرہ النمل
81 ف 2: قرآن حکیم کے خیر و برکت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔ اور یہ حقیقت بھی غیر مشکوک اور قطعی ہے کہ حضور کا وجود کائنات کے لئے ہمہ تن رحمت وہدایت ہے ۔ مگر باوجود اسکے یہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ ان فیوض سے استفادہ نہ کریں ۔ کیونکہ وہ مردہ قلب ہیں زندگی کی اصلی استعداد ان سے چھن چکی ہے اور قوت سماعت سے محروم ہوچکے ہیں ۔ اس لئے بہرے ہیں *۔ النمل
82 دابتہ الارض ف 3 جو لوگ قیامت پر یقین رکھتے ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ ایک وقت ایسا آئے گا ۔ کہ یہ عالم کون عالم فساد سے بدل جائے گا ۔ چاند اور ستارے بےنواز ہوجائے گے ۔ آفتاب اپنی حرارت کھودے گا اور یہ بزم آراستہ منتشر ہوجائے گی * جو لوگ اتنی بڑی خوق پر ایمان رکھتے ہیں کہ آسمان کی بلندیاں اور زمین کی وسعت یہ سب چیزیں فنا ہوجائیں گی ۔ اور صرف ایک خدا کی ذات باقی رہ جائے گی *۔ جن لوگوں کو اس بات کے مان لینے میں کوئی تامل نہیں ۔ کہ یہاں کا ذرہ ذرہ خوارق وعجائب کا مجموعہ ہے ۔ ان کے لئے وابتہ الارض کا وجود قطعاً حیرت واستعجاب کا موجب نہیں ہوسکتا ۔ اور وہ بالکل اس خوش العقل چیز کا انکار نہیں کرسکتے *۔ جب ایک قطرہ آب سے ایک پر ورش انسان پیدا کیا جاسکتا ہے ۔ تو زمین سے ایک جانور پیدا کرنے میں کیا اشکال ہے ۔ اس کا گفتگو کرنا بھی کچھ حیرت انگیز بات نہیں *۔ ارشاد ہے کہ ایک بڑا خرق عادت ونوع پذیر ہوگا ۔ یعنی جس وقت منکرین کے بارہ میں (عذاب) کا وعدہ پورا ہوگا ۔ تو اس سے پہلے (داستبہ الارض) زمین سے ایک جانور نکلے گا ۔ اور زبان سے یا حالت وکیفیت سے بتائے گا ۔ کہ اللہ کی نشانیاں برحق ہیں اور اس کے وجود وتحقیق میں کوئی شبہ نہیں وہ بجائے خود اللہ کی ہستی اور قیامت کی حقانیت پر بہت بڑی دلیل ہوگا ۔ ظاہر ہے کہ یہ علامات قیامت میں سے ہے ۔ اس لئے زیادہ تفصیلات کی ضرورت نہیں بس اس قدر جان لینا کافی ہے ۔ کہ قیامت سے پہلے اس عجیب نشانی کا ظہور ہوگا *۔ حل لغات * دابہ ۔ ہر وہ جانور جو زمین پر چلے *۔ النمل
83 ف 1: یعنی قیامت میں ہر جماعت میں سے منکرین کے گروہ کو جمع کیا جائے گا ۔ کہ تم لوگ دنیا میں ان حقائق کا انکار کرتے تھے ۔ اور میری نشانیوں کی تکذیب کرتے تھے ۔ حالانکہ انہیں اتنا پورا پورا علم نہ تھا ۔ آج بتاؤوہ تمہاری تکذیب کیا ہوئی ۔ اور تمہاری شوخیاں کہاں گئیں *۔ ارشاد ہے ۔ کہ اس وقت یہ لوگ خاموش ہوجائیں گے ۔ ان کی زبانیں گنگ ہوجائیں گی ۔ اور یہ کوئی جواب نہ دے سکیں گے *۔ حل لغات :۔ فوجا ۔ ایک جماعت * النمل
84 النمل
85 النمل
86 ف 2: اس آیت میں تذکیر بالآء اللہ کے اصول پر انسانی توجہات کو عجائبات دنیا کی طرف مبذول فرمایا ہے ؟ ارشاد ہے کہ یہ رات اور دن کے نظام افادیت پر غور کریں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رات کو سکون اور آرام کے لئے بنایا ہے ۔ اور کیونکر دن کو روشن بنایا ہے ۔ تاکہ تم اس میں کام کرو ۔ اور اپنے فرائض منصبی کو انجام دے سکو *۔ النمل
87 ف 1: یہ نفحہ ثانیہ کا نقشہ ہے کہ جب صور پھونکا جائے گا تو اس وقت آسمانوں اور زمین کی تمام کائنات گھبرا اٹھے گی ۔ بجز ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ اس فزع محفوظ رکھے ۔ اور سب کے سب اس کے حضور میں بندھے چلے آئیں گے * حل لغات : داخرین ۔ تدلل وانعقاد کے ساتھ * النمل
88 النمل
89 ف 2: اس سے قبل کی آیتوں میں بتایا تھا ۔ کہ نغحہثانیہ کے وقت لوگ گھبرا اٹھیں گے ! اور اس ہولناک منظر کی تاب نہیں لاسکیں گے اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ جو لوگ نیک اور صالح ہیں ۔ جن کے نامہ اعمال میں حسنات کا بہرہ وافر ہے ۔ وہ اس دن کے خوف وہراس سے محفوظ رہیں گے ! اور جو لوگ اڑے ہیں اور جن کی زندگی کا مشن فواحش کا ارتکاب اور برائیوں کو پھیلانا ہے ۔ وہ جہنم میں اوندھے منہ گرینگے ۔ اور ان سے کہا جائے گا ۔ کہ یہ تمہارے اعمال کی صحیح جزا ہے *۔ حل لغات : الحسنۃ ۔ نیکی ، بھلائی * النمل
90 النمل
91 حل لغات :۔ حرمھا ۔ تحریم سے ہے بمعنی حرمت وعزت بخشنا ۔ النمل
92 اسلام دین صداقت ہے ف 1: سورۃ نمل میں مکہ والوں کے تمام اعتراضات اور شکوک کو دور کیا گیا ہے ! اور ان تمام چیزوں کی تفصیل بیان کردی ہے ۔ جن کی ان کو رشدوہدایت کے سلسلہ میں ضرورت تھی ! اب ان آیات میں یہ بتلایا ہے کہ ان حقائق کو وضاحت کے بعد بھی اگر تم لوگوں کو توفیق سعادت نصیب نہ ہو ۔ تو میں اس بات کا ذمہ دار نہیں ۔ میں تمہارے اعتقادات اور خواہشات کی پیروی نہیں کرسکتا میں تو مجبور ہوں ۔ کہ رب کعبہ کی پرستش کروں ۔ جس نے کعبہ کو حرمت بخشی اور اس کو ساری کائنات کیلئے مرکزبنایا میں مجبور ہوں ۔ کہ صرف اسلام کو حق وصداقت سے تعبیر کروں ۔ کیونکہ یہی ایک مسلک ہے جو انسانیت کے لئے مفید ہے ۔ جو دل کی تاریکیوں کو دور کرسکتا ہے ۔ اور جس کی وجہ سے انسانی روح کو سکون اور اطمینان کی نعمتیں میسر آسکتی ہیں * میں ضرور تمہیں قرآن پڑھ کر سناؤنگا ۔ اور اسی کی روشنی میں ظلمتوں کو نور سے تبدیل کردونگا ۔ مجھ سے تم یہ توقع نہ رکھو کہ میں تمہیں محض انسانوں اور کہانیوں سے خوش کرنے کی کوشش کروں گا ۔ بالا دائل اور بےمعنی باتیں تمہارے گوش گزار کرونگا ۔ میرے پاس تو دلچسپی اور روحانی امراض کے لئے استعمال کروں گا ۔ اور انشاء اللہ ہر مرتبہ کامیاب ہونگا * اس کے بعد ارشاد ہے ۔ کہ گو آج تم اسلام کی صداقتوں کے قائل نہیں ہو ۔ اور حقائق کا انکار کرتے ہو ۔ مگر ایک وقت آئے گا جبکہ اسلام کی صداقت پر زمین اور آسمان بھی گواہ ہونگے ۔ تمہارا تجربہ اور تمہارا ارتقاء خود تم کو ان حقائق تک پہنچادیگا ایک وقت آئے گا جبکہ الحاد وکفر کو بددینی اور غیر معقولیت کے نام سے یاد کیا جائے گا ! اور آفاق میں اسلام کی سچائی کے لئے اور درجہ شہادتوں اور گواہیوں کا انتظام ہوگا کہ کسی طرح انکار نہ بن پڑے گا * چنانچہ موجودہ علوم اور موجودہ ثقافتی تجربوں نے اسلام کے بہت سے حقائق کو وہ شگاف کردیا ہے اور آہستہ آہستہ دنیا بڑی حد تک اسلام کے قریب آچکی ہے *۔ حل لغات : اتلو ۔ قرآن کی اصطلاح میں تلاوت کے معنیٰ مطلقا پڑھنے کے نہیں بلکہ اس کو شرح وبسط کے ساتھ دوسروں تک پہنچانے کے ہیں ۔ النمل
93 النمل
0 القصص
1 القصص
2 القصص
3 القصص
4 قصہ غلامی وآزادی ف 1: سورۃ قصص کی ابتدا موسیٰ اور فرعون کے قصے سے ہوتی ہے کیونکہ یہ قصہ اپنے اندر مظلوموں اور بیکسوں کے لئے ایک عجیب کشش رکھتا ہے ۔ اس کے بیان کرنے سے مقصد یہ ہے ۔ کہ مکے کے زبردست انسانوں کے دل میں ابھار اور بلندی کی خواہشات پیدا کی جائیں ۔ اور انہیں بتایا جائے ۔ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی کیونکر مدد کرتا ہے ۔ اور کس طرح حضیض غلامی سے اٹھا کر حکومت و وراثت کے بام بلند تک پہنچا دیتا ہے * یہ قصہ حقیقت میں فرعون اور موسیٰ کا قصہ ہی نہیں ۔ بلکہ حق وباطل کی معرکہ آرائی کا مکمل نقشہ ہے ۔ فرعون اور فرعون جیسے ظالموں کی داستان عبرت ہے ۔ بلکہ یوں کہیے کہ آزادی اور غلامی کا کامل فوٹو ہے * اس میں وہ تمام داؤ پیچ بیان کئے گئے ہیں ۔ جو ظالم اور برسراقتدار قومیں ۔ غلامی کی زنجیروں کو مستحکم کرنے کے لئے اختیار کرتی ہیں ۔ چنانچہ ارشاد ہے ۔ کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو ہمیشہ کے لئے ذلیل اور غلام رکھنے کے لئے دو تجویزوں کو پسند کیا ۔ ایک یہ کہ ان میں افتراق وتشقت کے جذبات پیدا کردیئے ۔ اور نہ حدت ویکسانی کی مخالفت کی جائے ۔ دوسرے یہ کہ لڑکوں کو ذبح کرڈالا جائے ۔ اور لڑکیوں کو چھوڑ دیا جائے کہ وہ اس غلامانہ زندگی پر قانع رہیں * بتائیے ۔ کہ کیا آج کا فرعون اس فرعون سے زیادہ دانائی سے انہیں دو طریقوں کو استعمال نہیں کررہا ؟ یہ لڑائی اور ہنگامے یہ اختلافات کے طوفان اور جھکڑیہ جماتع بندیاں اور گروہ سازیاں ۔ کیا محض اس لئے نہیں پیدا کی جارہی ہیں ۔ کہ اس طریق سے آزادی اور حریت کے جذبات کو سخت نقصان پہنچتا ہے ۔ اور قوم اپنے اختلافات کو سخت نقصان پہنچتا ہے ۔ اور قوم اپنے اختلافات میں الجھ کر اپنے غالب دشمن سے غافل ہوجاتی ہے * یہ کالج اور یونیورسٹیاں ، یہ ھارس اور تعلیم گاہیں ۔ کیا مسلخ اور مذہبوں سے کم ہیں ۔ جہاں لاکھوں نوجوانوں کے ذبح کیا جاتا ہے ۔ عورتوں میں آوارگی اور فیشن کی ترویج کیا موجودہ تعلیمات کا نتیجہ نہیں ہے ؟ بہرحال فرعون ہمیشہ ایک رہتا ہے ۔ صرف ظلم وستم کا انداز ذرا بدل جاتا ہے *۔ حل لغات :۔ شیعاً ۔ گروہ گروہ ۔ شیعۃ کی جمع ہے * القصص
5 ف 1: ارشاد ہے کہ ایک طرف تو فرعون نے لوگوں کو ذلیل ٹھہرانے کی ٹھانی ، اور دوسری طرف ہم نے ارادہ کرلیا ۔ کہ غریبوں اور کمزوروں کی مدد کریں گے ۔ ان کو شرف وعزت کی نعمتوں سے نوازیں گے ۔ انہیں لوگوں کے لئے نمونہ بنائیں گے ۔ اور ارض مصر کی وراثت بخشیں گے ! اور فرعون وہامان کو بتائیں گے ۔ کہ تمہاری کوششیں بارآور نہیں ہوسکتیں اور اب تم بنی اسرائیل کو زیادہ دیر غلام نہیں رکھ سکتے * حل لغات :۔ آئمۃ ۔ قائدین ۔ امام کی جمع ہے القصص
6 القصص
7 ف 2: اس کے بعد قصہ کی تفصیلات بیان فرمائی ہیں کہ کیونکر ہم نے موسیٰ کو ان کی ماں کی گود سے اٹھا کر فرعون کی آغوش میں پہنچا دیا ۔ اور پھر کیونکر ام موسیٰ کو موقع دیا ۔ کہ وہ مادرانہ جذبات محبت وشفقت کی تکمیل کرے ۔ القصص
8 حل لغات : فالتقط ۔ اٹھا لیا ۔ التقاط سے ہے ۔ گری بڑی چیز کو لقیط کہتے ہیں *۔ القصص
9 ف 1: حضرت موسیٰ کی ماں جب فرعون کے ڈر سے اپنے بچہ کو دریا میں ڈال دیا ۔ تو وہ کسی طریق سے قصر شاہی میں پہنچ گیا ۔ فرعون چاہتا تھا کہ اس بچہ کو بھی فنا کے گھاٹ اتار دیا جائے ۔ مگر بوی نے روکا اور کہا ۔ اس کو اپنا متبنی بنائیں گے ۔ بڑا پیارا بچہ ہے ۔ ممکن ہے یہ ہمارے لئے نفع وخیرکا باعث ہوں اس لئے اس کو نہ مارو *۔ خدا کی تدبیر دیکھئے ۔ کہ کیونکر فرعون کو لاولاد رکھا ۔ پھر کس طریق سے اس کی بیوی کے دل میں شفقت ومحبت کے جذبات پیدا کردیئے ۔ اور کس حکمت سے موسیٰ کو شاہانہ ٹھاٹھہ دیکھنے کے مواقع بہم پہنچائے * غرض یہ تھی کہ جو شخص فرعون جیسے شاندار بادشاہ کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے ۔ اس کی حربیت اسی کے محل اور اسی کی شاندار قصر میں ہو ۔ تاکہ ابتدا ہی سے اس کے حوصلے بلند ہوں ۔ اور خیالات شاہانہ ہوں ۔ وہ اس کے سازو سامان کو دیکھ کر مرعوب نہ ہوجائے ۔ اور پوری خودداری ۔ بےخوفی اور شان استغنا کے ساتھ بنی اسرائیل کی رانمائی کرسکے *۔ ارشاد ہے کہ یہ سب کچھ فرعون کی تباہی کے لئے ہورہا تھا ۔ وہ اتنا سمجھدار تھا ۔ مگر ہماری تدبیر کی باریکیوں کو نہ سمجھ سکا ۔ اس کے گھر میں اس کا دشمن جوان ہورہا تھا ۔ اور وہ اس سے بالکل بےخبر تھا ۔ وھم لایشعرون * حل لغات :۔ قرۃ عین ۔ آنکھوں کی ٹھنڈک ۔ یعنی باعث سرور القصص
10 ف 2: حضرت موسیٰ کی والدہ آخر عورت ہی تو تھیں ۔ بچے کو ہاتھ سے جاتا دیکھ کر گھبراگئیں *۔ ارشاد ہے کہ اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کردیتے ۔ اور اس کو تسلی نہ دیتے ۔ تو قریب تھا کہ راز افشا کردیتیں * ف 3: جب موسیٰ فرعون کے محل میں جارہے تھے ۔ تو اس کی ماں نے ان کی بہن کو پیچھے لگا دیا ۔ کہ وہ دور سے حالات کا مطالعہ کرتی رہے اور دیکھتی رہے کہ کیا ہوتا ہے * حل لغات : فارغا ۔ یعنی صبر قرار سے خالی ہوگیا * القصص
11 حل لغات :۔ عن جنب ۔ بُعد اور دوری سے * القصص
12 حل لغات : حرمنا ۔ اس سے مقصود تحریم طبعی ہے یعنی موسیٰ طبعا دودھ پینے سے مستنفر ہوگئے القصص
13 ف 1: ان آیات میں اس بات کا ذکر ہے ۔ کہ جب فرعون کی بیوی نے دیکھا ۔ کہ بچہ مطلقاً دودھ نہیں پیتا ہے تو اس کو تشویش ہوئی ۔ اور اس سوچ میں بھی کہ کیا کیا جائے ۔ بچہ دودھ نہیں پیتا ہے ۔ کہ اتنے میں اس کی بہن کو جو کسی طریق سے محل میں پہنچ گئی ۔ کچھ کہنے کا موقع ملا اس نے کہا کہ میں تم کو ایسے گھر والے بتائے دیتی ہوں ۔ جو اس بچہ کی عمدگی کے ساتھ پرورش کریں گے ۔ اور بچہ ان کے ساتھ زیادہ خوش وخرم رہے گا ۔ ارشاد ہے ۔ اس طریق سے ہم نے ام موسیٰ کی آنکھوں کی ٹھنڈا کیا ۔ اور تسلی دی ۔ تاکہ اس کو معلوم ہو ۔ کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ۔ فرمایا ۔ مگر افسوس ہے ۔ کہ اکثر لوگ اللہ پر بھروسہ نہیں رکھتے ۔ اور یہ نہیں جانتے کہ اللہ اپنے بندوں کی بہرحال اعانت کرتا ہے * القصص
14 ف 2: یعنی موسیٰ (علیہ السلام) جب جوان ہوئے تو ہم نے انہیں علم بخشا ۔ اور پیغمبرانہ سوجھ بوجھ عنایت فرمائی * وکذالک نجزی المحسنین سے غرض یہ ہے کہ جو لوگ نیک اور صالح ہوں ۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح ان کے علم اور حکمت میں اضافہ کرتا رہتا ہے *۔ حل لغات * اشدہ ۔ قوت ۔ توانائی ۔ جوانی *۔ القصص
15 حضرت موسیٰ کی جوانی کا ایک واقعہ ف 1: موسیٰ (علیہ السلام) کی تربیت جس ماحول میں ہوئی تھی ۔ اس کا تقاضا یہ تھا ۔ کہ وہ بالکل بےخوف اور نڈر ہوئے ہوتے ۔ اور ان میں زبردست جرات اور جسارت ہوتی ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا مقصد بھی یہی تھا ۔ کہ موسیٰ فرعون کے گھر میں رہ کر اتنے جسور ہوجائیں ۔ کہ آئندہ چل کر بنی اسرائیل کے صحیح معنوں میں راہنما ثابت ہوں * ان آیات میں موسیٰ کے عتفوان شباب کا ایک واقعہ ہے ۔ کہ انہوں نے ایک دن ایک قبطی اور اسرائیلی کو آپس میں لڑتے ہوئے پایا ۔ معلوم ہوتا ہے ۔ اس زمانے میں حضرت موسیٰ فرعون کی تربیت سے آزاد ہوچکے تھے ۔ اسی لئے مصر میں وہ رات کے وقت آئے جب کہ سب لوگ سو رہے تھے ۔ اس اسرائیلی نے جب یہ دیکھا کہ موسیٰ آرہے ہیں تو مدد کے لئے بلایا ۔ حضرت موسیٰ نے عصبیت قومی کے جوش میں آکر قبطی کے ایک گھونسہ رسید کیا ۔ جس سے وہ جانبر نہ ہوسکا * اب موسیٰ کو احساس ہوا ۔ کہ انہوں نے غلطی کی ۔ فوراً جناب باری میں جھک گئے اور اپنے گناہ کی معافی چاہی اور کہا ۔ پروردگار بےشک مجھ سے قصور ہوا ۔ میں ہرگز نہیں چاہتا ۔ کہ مجرم کی مدد کروں ۔ اس لئے میری لغزش کو معاف کردیجئے ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے معاف کردیا ۔ کیونکہ ہم غفور اور رحیم ہیں * یادرہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ ارادہ نہیں کیا تھا ۔ کہ قبطی کو جان سے مار ڈالا جائے ۔ یہ تو اس کی قسمت میں منظور تھا کہ وہ اس ضرب کو برداشت نہ کرسکے ۔ اور مرجائے ۔ ورنہ عموماً ایک گھونسے کی معمولی چوٹ ہوتی ہے * اس واقعہ سے یہ بتایا ہے ۔ کہ مقام نبوت کس درجہ بلند ہوتا ہے ۔ اور خدا کے نیک بندے کس جرات اور صفائی سے اپنی لغزشوں کا اعتراف کرلیتے ہیں * ازبسکہ وہ قبطی دشمن کا ایک فرد تھا ۔ اور اس دشمن قوم کا جس نے کہ بنی اسرائیل کو غلام بنارکھا تھا ۔ جو سینکڑوں اسرائیلی بچوں کو زندگی سے محروم کرچکی تھی ۔ اور جس کے نزدیک خون اسرائیلی کی قوئی قیمت نہ تھی مگر باوجود اس کے حضرت موسیٰ نے اپنے فعل کو غلطی سے تعبیر کیا ۔ اور اللہ سے عفو ورحم کے طالب ہوئے * موسیٰ (علیہ السلام) چونکہ بشر تھے ۔ جوان تھے مقابل میں مخالف گروہ کا ایک فرد قبطی تھا ۔ اسرائیلی مدد کا طالب تھا ۔ اس لئے یقینا اس وقت کے حالات کا تقاضا ہی تھا کہ حضرت موسیٰ مدد کے لئے آگے بڑھتے مگر وہ اس ناخوشگوار حادثہ کے متوقع نہ تھے ۔ اس لئے جب انہوں نے دیکھا ۔ کہ قبطی مرگیا ۔ تو ان کو قدرتاً ندامت محسوس ہوئی ۔ یہ کوئی ایسی گناہ کی بات نہ تھی صرف حالات کا تقاضا تھا ۔ مگر شان نبوت کا اقتضاد تھا کہ ترک اولیٰ کو بھی گناہ سمجھا جائے ۔ اور اللہ سے غیر مشروط طور پر معافی مانگی جائے ۔ حل لغات :۔ فاستغاثہ ۔ مدد طلب کی * فوکزہ ۔ ٹھوکا ۔ مکا مارا * القصص
16 القصص
17 حل لغات :۔ ظھیرا ۔ مددگار * القصص
18 حل لغات : استنصرہ ۔ مدد کے لئے چیخنا * القصص
19 حل لغات جبارا ۔ ظالم اس لفظ کا انتساب جب اللہ کی طرف ہو ۔ تو اس کے معنے ضروریات کو پورا کرنے والے کے ہوتے ہیں * القصص
20 موسیٰ مدین کے کنویں پر ف 1: موسیٰ (علیہ السلام) کے قبطی کو مارنے کے واقعہ سے مصر میں سنسنی پھیل گئی ۔ اور طبقہ امرا میں ہل چل مچ گئی ۔ ان کو تشویش لاحق ہوئی ۔ کہ کہیں یہی نوجوان بنی اسرائیل کی نجات کا باعث نہ ہو ۔ اس لئے سب نے مل کر مشورہ کیا ۔ کہ اس کو پکڑ کر مار ڈالو ۔ حضرت موسیٰ کے مخلصین میں سے ایک آدمی تھا ۔ وہ دوڑتا ہوا آیا ۔ اور اس نے حقیقت حال سے موسیٰ کو آگاہ کردیا ۔ اس نے کہا ۔ کہ کہیں بھاگ جائیں ۔ آپ کے قتل کے مشورہے ہورہے ہیں ۔ اب حضرت موسیٰ پریشان ہوئے ۔ اور مدین کی طرف چل کھڑے ہوئے ان کو معلوم تھا کہ وہاں ان کے عزیز واقارب رہتے ہیں لیکن راستہ معلوم نہیں تھا ۔ ڈرتے ڈرتے مصر سے نکلے ۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی ۔ کہ مولا اس ظالم قوم سے مخلصی عطا فرمائیے * اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ مصر سے نکلے ہیں ۔ اس وقت نبوت سے باقاعدہ نہیں نوازے گئے تھے مگر وجدانی طور پر بنیاسرائیل کی محبت ان کے دل میں ضرور جاگزین تھی ۔ اور وہ قطعاً فرعون اور اس کی قوم کو ظالم خیال کرتے تھے *۔ دوسری بات جو اس ہجرت سے مستطاد ہوتی ہے ۔ یہ ہے کہ مصائب ومشکلات کے وقت صرف اللہ سے طلب اعانت کرنا چاہئے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب ہجرت فرمائی ۔ تو آپ نے بھی کہا ۔ انی ذاھب الی ربی سیھدین ۔ کہ میں اپنے رب کے لئے ہجرت کر رہا ہوں ۔ میری وہی راہ نمائی کرے گا ۔ اور حضرت موسیٰ اب جانے لگے ہیں تو بھی یہی فرماتے ہیں عسی ربی اللہ یھدینی سواء السبیل جس کے صاف معنے یہ ہیں ۔ کہ ہر واقعہ میں جب انسان اپنے کو کسی الجھن میں دیکھے ۔ تو اللہ سے استعانت چاہے ۔ اور فی الحقیقت جو لوگ اللہ کے سامنے جھکتے ہیں اور اس پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔ اور اسے اپناکار ساز اور وکیل سمجھتے ہیں ۔ اللہ ان کو کبھی ذلیل اور رسوا نہیں کرتا ۔ وہ ضرور ان کی آرزوؤں کو سنتا اور خواہشوں کو پورا کرتا ہے ۔ اس کی نسبت یہی ہے کہ اس کو پکارو ۔ وہ سنے گا ۔ اس سے مانگو ۔ تو وہ ضرور دے گا ۔ اور اگر اس پر مستحکم ایمان نہ ہو ۔ اس پرپورا بھروسہ اور توکل نہ ہو ۔ تو پھر وہ بھی پرواہ نہیں کرتا ۔ اور اس حالت میں اس پر کوئی الزام بھی عائد نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ خدا کو آزمانے کی ضرورت نہیں ۔ وہ آزمائشوں سے قطعاً مبرا ہے * حل لغات :۔ یأتمرون ۔ ائتمار سے ہے ۔ باہم کسی بات کے متعلق سوچنا ۔ مشورہ کرنا * القصص
21 القصص
22 القصص
23 ف 1 : جب حضرت موسیٰ ڈھونڈتے اور تلاش کرتے ہوئے مدین پہنچ گئے ۔ تو وہاں ایک پانی کے مقام پر لوگوں کا مجمع دیکھا کہ اپنے جانوروں کو پانی پلارہے ہیں ۔ اور ان سے الگ دو عورتیں چپ چاپ کھڑی ہیں ۔ اور دیکھ رہی ہیں ۔ موسیٰ اپنی مصیبت کو بھول گئے ۔ اور انسانی ہمدردی سے مجبور ہوکرپوچھا ۔ خاتون محترم ! یہاں کیوں کھڑی ہو ؟ انہوں نے کہا ۔ ہم جانوروں کو اس وقت تک کیسے پانی پلاسکتی ہیں ۔ جب تک کہ یہ بھیڑ نہ چھٹ جائے ۔ اور پھر یہ خیال کرکے کہ کہیں یہ اجنبی دل میں ہمارے متعلق کوئی بری رائے قائم نہ کرلے ۔ اور یہ نہ کہے کہ یہ پانی پلانے کے لئے یہاں کیوں آئی ہیں ؟ انہوں نے دفع دخل مقدر کے طور پر کہہ دیا ۔ کہ ہمارے آبا بوڑھے ہیں ۔ وہ یہاں تک نہیں آسکتے ۔ یہ بات سن کر آپ آگے بڑھے ۔ اور ان کے جانوروں کو پانی پلادیا ۔ پھر اللہ تعالیٰ سے ایک طرف درخت کے سایہ میں کھڑے ہوکر کہا ۔ کہ میں تیری رحمت اور نعمت کا محتاج ہوں *۔ حل لغات :۔ ماخطیکھا ۔ معقول کے معنوں میں سے ہے یعنی تمہاری خواہش کیا ہے القصص
24 القصص
25 آجر ۔ مزدوری ہوسکتا ہے بنت شعیب نے انہیں غریب اور مزدور سمجھ کر باپ سے سفارش کی ہو ۔ کہ انہیں کچھ دیدیا جائے ۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) جو ان کے ساتھ چلے گئے تو اس لئے کہ شائد اس کے ساتھ جانے میں موافق اور مساعد حالات پیدا ہوجائیں * القصص
26 حل لغات :۔ استاجرہ ۔ یعنی انہیں اچیر بنا کر رکھ لیجئے القصص
27 شادی کے سامان ف 1: حضرت موسیٰ کی دعا قبول ہوگئی ۔ اور اللہ تعالیٰ نے رحمت کا سامان مہیا کردیا ۔ ایک لڑکی شرماتی اور لجاتی ہوئی ان کے پاس آئی اور کہنے لگی میرے ابا آپ کو بلاتے ہیں ۔ تاکہ آپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلا کر جو احسان کیا ہے ۔ اس کا معاوضہ آپ کو دیں ۔ معلوم ہوتا ہے ۔ کہ جب یہ بہنیں اپنے جانوروں کو پانی پلا کر پہنچی ہیں ۔ تو انہوں نے حضرت موسیٰ کی ہمدردی کا تذکرہ اپنے والد حضرت شعیب سے کیا ہوگا ۔ اور حضرت شعیب نے اس سنا پر انہیں بلالیا ہوگا *۔ اس واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے ۔ کہ عورتیں اگر حالات وقضا سے مجبور ہوکر کام کاج کریں ۔ تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ اور یہ بھی معلوم ہوا ۔ کہ اجنبی عورت سے ہمدردانہ گفتگومیں کوئی گناہ نہیں ۔ بلکہ بعض حالات میں ضروری ہوجاتا ہے کہ کمزور طبقہ کی مدد کی جائے * غرض کہ حضرت موسیٰ۔ حضرت شعیب کے ہاں پہنچے تو انہوں نے سارا قصہ سنایا ۔ کہ میں فلاح ہوں ۔ اور اس طرح مصر سے بھاگا ہوں ۔ انہوں نے واقعہ سن کر کہا ۔ کہ تم خوف نہ کھاؤ ۔ خاطر جمع رکھو ۔ اب ظالم فراعنہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے * ف 2: جب ابتعائی رسمی گفتگو ختم ہوگئی ۔ تو اللہ نے انتظام فرمادیا ۔ کہ مہاجر موسیٰ قصر فرعون سے آزاد ہوکر حضرت شعیب کی صحبت سے استفادہ کرے ۔ چنانچہ حضرت شعیب کی لڑکی کی سفارش پر کہ آبا انہیں اپنے ہاں ملازم رکھ لیجئے ۔ آدمی مضبوط اور دیانت دار ہیں ۔ حضرت موسیٰ وہاں روپڑے ۔ اور مزید کرم اللہ کے یہ کیا کہ ان کی خانہ آبادی کی طرح ڈال دی حضرت شعیب نے کہا تم یہاں رہو سہو یہ تمہارا گھر ہے ۔ میں چاہتا ہوں ۔ کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک بیٹی تمہارے نکاح میں دے دوں ۔ مگر شرط یہ ہے ۔ کہ پورے آٹھ سال تک میری خدمت میں رہو ۔ اور اگر دس سال رہ جاؤ ۔ تو یہ تمہاری مرضی ہوگی ۔ میری طرف سے جبر نہ ہوگا ۔ تم انشاء اللہ یہاں رہ کر محسوس کروگے ۔ کہ میں خوش معاملہ آدمی ہوں ۔ حضرت موسیٰ نے بخوشی یہ شرط مان لی ۔ اور کہا ۔ کہ ان دونوں مدتوں میں سے جو چاہوں پوری کردوں ۔ آپ کو کوئی اعتراض نہ ہوگا ۔ پس یہ طے ہے ۔ میرے اور آپ کے درمیان اللہ گواہ ہے * ف : یہ آٹھ سال کی خدمت اصل میں نکاح کے لئے شرط نہ تھی ۔ بلکہ بات یہ تھی ۔ کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) بذریعہ الہام جانتے تھے کہ موسیٰ آئندہ چل کر بڑے جلیل القدر پیغمبر ہونے والے ہیں ۔ اور اب نوجوان ہیں ۔ ان کو ثقہ اور معین ہونے کے لئے کڑی ٹریننگ کی ضرورت ہے ۔ اس لئے انہوں نے اس حیلے سے ان کو اپنے ہاں رہنے پر مجبور کردیا ۔ کہ وہ ان کی صحبت اور فیوض سے اس قابل ہوجائیں ۔ کہ فرعون کا مقابلہ کرسکیں *۔ حل لغات :* حجج : حجۃ کی جمع ہے ۔ یعنی سال * القصص
28 القصص
29 القصص
30 حل لغات :۔ شاطی الوادالایمن ۔ یعنی مبارک میدان کے کنارے سے یا میدان کے داہنی جانب سے اس کا مطلب دونوں معنوں میں مشترک ہے یَمن سے بھی اس کا اشتقاق ہوسکتا ہے اور یُمن سے بھی ۔ القصص
31 تھتز ۔ اہتزاز سے بمعنی جنبش کرنا * القصص
32 تجلیات ف 1: حضرت شعیب کے گھر سے موسیٰ (علیہ السلام) جس وقت رخصت ہوتے ہیں ۔ اس وقت ان کی بیوی ان کے ساتھ تھیں ۔ جنگل میں جارہے تھے ۔ تاریکی اور سردی تھی ۔ آگ کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ موسیٰ نے دور سے دیکھا ۔ کہ آگ کا شعلہ نظر آرہا ہے ۔ بیوی نے کہا ۔ میں نے آگ دیکھی ہے ۔ ذرا دور ہے ۔ میں جاتا ہوں ۔ شاید آگ مل جائے اور کچھ پتہ لگے تم یہیں ٹھہرو ۔ یہ کہہ کر موسیٰ آگے بڑھے دیکھا تو وہاں آگ نہ تھی ۔ تجلیات الٰہیہ کا ظہور تھا * ارشاد ہوا ۔ کہ موسیٰ میں تمہارا خدا ہوں ۔ ساری کائنات کارب ہوں ۔ غرض یہ تھی ۔ کہ موسیٰ کو عہدہ نبوت پر سرفراز کیا جائے ۔ ان کو معجزات عطا کئے جائیں ۔ اور بتایا جائے کہ اب تمہاری زندگی کا اصل دور شروع ہوتا ہے ۔ یہ تجلی تو محض مخاطب کرنے کا ایک ذریعہ تھی * تجلیات کی حقیقت تفصیل کے ساتھ گزر چکی ہے ۔ مختصرا یوں سمجھ لیجئے ۔ کہ جس طرح الفاظ معنی کے اظہار کا ایک ذریعہ ہوتے ہیں ۔ اسی طرح تجلیات اللہ کے منشا کے اظہار کی تعبیرات ہیں ۔ اور بس * ارشاد ہوا کہ یہ عصا جو تمہارے ہاتھ میں ہے ۔ زمین پر ڈال دو ۔ اور جب موسیٰ نے اس حکم کی تعمیل کی ۔ تو دیکھا کہ لٹھ اژدہا بن گیا ہے ۔ اس پر وہ ڈرے اور ڈر کر بھاگے ۔ حکم ہوا ۔ کہ ڈرتے کیوں ہو ۔ واپس آجاؤ۔ تم بالکل محفوظ اور مامون ہو ۔ دوسرا حکم ہوا ۔ کہ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالو ۔ اور پھر نکالو ۔ اور دیکھو کہ کس قدر سفید براق ہوگیا ہے * یہ دو معجزے ہیں جو تمہیں دیئے گئے ہیں ۔ یا یوں سمجھ لو ۔ کہ فرعون کے طلسم کبرہ غرور کو توڑنے کے لئے دو بڑی بڑی دلیلیں ہیں ۔ ان کو لے کر اس کے اور اس کی قوم کے پاس جاؤ۔ کہ وہ فسق وفجور کو اپنا وطیرہ و خصلت بنا چکے ہیں ۔ تم ان کی اصلاح کرو * ان دو معجزوں سے ایک تو یہ مقصود تھا کہ بےسروسامان موسیٰ کا دل مضبوط ہوجائے اور وہ معلوم کرلے ۔ کہ اللہ کی مدد میرے شامل حال ہے ۔ اور دوسری جانب فرعون اور اس کی قوم کو یہ محسوس ہو کہ جس طرح یہ خشک لکڑی اژدہا بن سکتی ہے ۔ اور گوشت پوست کا ہاتھ براق اور چمکیلا ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح بنی اسرائیل جیسی بےضرر قوم ہمارے لئے خطرہ اور خوف ثابت ہوسکتی ہے ۔ اور اس کا نصیبہ چمک سکتا ہے ۔ اور وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکتی ہے * حل لغات :۔ من غیر سوء ۔ یعنی مبروص نہ ہونا ، جیسا کہ بائبل میں لکھا ہے *۔ القصص
33 القصص
34 ف 1: حضرت موسیٰ نے فرمایا ۔ میں اس خدمت پر خوش ہوں ۔ اور میں بنی اسرائیل کی آزادی کے لئے ضرور کوشش کروں گا ۔ مگر وقت یہ ہے کہ تنہا اس ذمہ داری کو اپنے لئے گراں سمجھتا ہوں ۔ ہارون کو میرے ساتھ کردیجئے ۔ کیونکہ اس کی زبان مجھ سے زیادہ رواں ہے ۔ اور یہ بھی لازم ہے کہ شاید مجھے وہ قتل والے معاملہ میں مار نہ ڈالیں * حل لغات : حل لغات :۔ رداً ۔ مددگار اور معاون * القصص
35 ف 2: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ تمہاری درخواست قبول ہے ہم تمہارے بھائی کو تمہارا قوت بازو بنائیں گے ۔ اور تم دونوں کو غلبہ دینگے ۔ مخالفین عداوت کا ہاتھ تمہاری طرف نہیں بڑھا سکیں گے ۔ اور تم مع اپنے ماننے والوں کے غالب ومقصود رہو گے *۔ حل لغات : سلطانا ۔ غلبہ ۔ قوت اور دلیل * القصص
36 القصص
37 حل لغات :۔ عاقبۃ الدار ۔ حسن انجام سے تعبیر ہے ۔ مراد بہشت سے ہے * صرحا ۔ محل * القصص
38 حق وصداقت کا ایک انوکھا معیار ف 1: ان آیات میں اس بات کا ذکر ہے ۔ کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب خوشخبریوں اور معجزوں سے مسلح ہوکر فرعون کے پاس پہنچے ۔ تو انہوں نے کہا ۔ کہ یہ سب جادو اور کرشمہ سازی ہے ۔ اور یہ تمہارا پیغام توحید وتجرید تو ہماری سمجھ میں آتا نہیں ۔ ہم نے کبھی اپنے باپ دادا سے اس قسم کی باتیں نہیں سنیں ۔ گویا حق وصداقت کا یہ بھی ایک معیار ہے ۔ کہ فرعون کے باپ دادا یا اس کے اکابر اس سے آشنا ہوں حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ قدیم اعتراض ہے ۔ جو اہل نصروعصیان کی جانب سے ہمیشہ پیش کیا جاتا رہا ہے چنانچہ جب بھی اللہ کے پیغمبروں اور رسول آئے ۔ اور انہوں نے لوگوں کو راہ راست کی جانب بلایا تو انہوں نے بھی اعتراض پیش کردیا کہ جناب ہمارے آباؤ اجداد تو اس طرح کی باتوں سے آگاہ نہ تھے ۔ حضرت موسیٰ نے فرمایا ۔ تم ہم کو جھوٹا سمجھتے ہو ۔ مگر اللہ ہماری صداقت پر گواہ ہے ۔ وہ خوب جانتا ہے کہ کون حق اور ہدایت کی طرف بلاتا ہے ۔ اور کون عاقبت کے لحاظ سے کامیاب ہے ۔ پھر انہ لا یفلح الظالمون کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ کہ اگر ہم جادو کر ہیں اور جھوٹے ہیں ۔ تو ہم کو کامیابی میسر نہیں ہوگی ۔ اور ہمیشہ اپنے مشن میں ناکام اور غائب وخاشر رہیں گے *۔ القصص
39 القصص
40 ف 1: فرعون دراصل بڑا مکار اور گھاگ تھا ۔ اس نے جب دیکھا کہ موسیٰ کی تعلیم لوگوں میں اثر کررہی تو اس نے اراہ طنز عقیدہ توحید کا مضحکہ اڑایا ۔ اور کہنے لگا کہ اے معزین و شرفاء میں تو یہ جانتا ہوں کہ میں تمہارا خدا ہوں ۔ اور موسیٰ کے کلام سے جو یہ مستفاد ہوتا ہے ۔ کہ اللہ آسمان پر ہے ۔ تو یہ کیونکر ممکن ہے ! پھر ہامان سے مخاطب ہوکر کہا ۔ کہ ہامان ایک اونچا سا محل تو تعمیر کردو ۔ میں دیکھوں تو سہی کہ موسیٰ کا خدا کہاں ہے ؟ ظاہر ہے یہ جملہ محض موسیٰ کے عقیدہ کے استخفاف کے لئے کہا گیا ۔ ورنہ انہوں نے کبھی اس سے یا اس کی قوم سے یہ نہیں کہا ۔ کہ خدا آسمان پر بیٹھا ہوا نظر آتا ہے ۔ اور نہ حقیقتاً فرعون یہ سمجھتا تھا ۔ کہ موسیٰ کا یہ مذہب ہے ۔ یہ تو محض اپنے حاشیہ برداروں کو مطمن کرنے کا ایک حیلہ تھا * ارشاد ہے کہ فرعون کی قوم نے اس پیغام کو ٹھکرا دیا ۔ اور سخت کبروغرور کا اظہار کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ اللہ کا قانون ہلاکت حرکت میں آیا ۔ اور یہ لوگ دریا میں غرق کردیئے گئے * القصص
41 حل لغات :۔ ائمۃ ۔ امام کی جمع ہے یعنی گناہوں میں پیش پیش * القصص
42 عذاب الٰہی کب آتا ہے ف 2: مقصد یہ ہے کہ فرعونیوں پر اس وقت تک عذاب نہیں آیا ۔ جب تک کہ انہونے کفر وعصیان میں فلوکا درجہ حاصل نہیں کرلیا ۔ کیونکہ خدا کا قانون ہے کہ مقدمین کو مہلت دی جائے ۔ ان کے اعمال سے تعرض نہ کیا جائے ۔ اور کردار رہ عمل کے لئے پوری آزادی دی جائے حتیٰ کہ دل سیاہ ہوجائے ۔ طبیعت میں تاثیر وانفعال کی تمام قوتیں مفقود ہوجائیں ۔ اور گناہوں کا پیمانہ چھلک جائے * قرآن کی اصطلاح میں لعنت سے مراد اللہ کے فیوض وبرکات سے محرومی ہے : اور اس کی رحمت سے دوری سب وشتم کے قسم کی کوئی چیز مراد نہیں * القصص
43 اتمام محبت ف 1: ارشاد ہے کہ ہم نے موسیٰ کو تورات اس وقت دی ۔ جبکہ عاد اور ثمودکی بربادیوں کے واقعات رونما ہوچکے تھے ۔ جب کہ عمالقہ جیسی شاندار قوم باوجود سازو سامان کی کثرت اور فراوانی کے فنا کے گھاٹ اتر چکی تھی ۔ اور جب کہ کئی قومیں اللہ کے فیض وغضب کا شکار ہوچکی تھیں ۔ مقصد یہ تھا ۔ کہ نافرمان لوگ ان واقعات سے عبرت پکڑیں ۔ اور نصیحت حاصل کریں اور تورات کو اپنے لئے رحمت وہدایت کا سبب قرار دیں ۔ مگر ہوا یہ کہ باوجود واقعات کی تفصیل اور وضاحت کے یہ لوگ آخر وقت تک گمراہی پر مصر رہے ۔ تاآنکہ اللہ کے عذاب نے انہیں آپکڑا ۔ اور یہ بےبس ہوکر رہ گئے *۔ حل لغات : بصائر ۔ جمع بصیرت بمعنی دلیل ۔ یقین ۔ عبرت ۔ زیرکی بینائی * القصص
44 القصص
45 حل لغات :۔ قرونا ۔ زمانے کی جمع ہے ۔ مراد اہل زمانہ سے ہے ۔ قومیں ۔ امتیں * القصص
46 آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایک دلیل ف 2: ان آیات میں واقعات اور قصص کی اس تفصیل کو اللہ تعالیٰ نے بطور اعجاز کے پیش کیا ہے ۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر دلیل ٹھہرایا ہے ۔ ارشاد ہے کہ جب موسیٰ کو جبل طور کے غربی جانب مخاطب کیا گیا ۔ اور اس کو تورات دی گئی تو آپ اس وقت موجود نہ تھے ۔ اور نہ آپ مدین میں مقیم تھے ۔ جب حضرت موسیٰ اور حضرت شعیب میں ملاقات اور گفتگو ہوئی ۔ تو آپ اس وقت بھی حاضر نہ تھے ۔ اور نہ اس وقت موجود تھے ۔ جب کہ ہم نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور خلعت نبوت سے نوازا ۔ پھر جو آپ یہ واقعات مبصرانہ تفصیل کے ساتھ ذکر کررہے ہیں ۔ تو کیونکر ؟ ارشاد ہے کہ یہ محض ہمارے فضل ورحمت سے تمہیں یہ علم اور معارف عطا کئے گئے ہیں ۔ تاکہ لوگوں کو راہ راست پر گامزن کرو ۔ اور گناہ کے نتائج و عواقب سے آگاہ کرو ۔ کہ اس سے قبل ان کے پاس کوئی نذیر نہیں آیا یعنی قرآن حکیم میں اقوام دائم کے حالات کو عصمت اور تفصیل کے ساتھ ذکر کرنا ۔ اور مشکل واقعات کی گتھیوں کو سلجھانا ۔ حالانکہ ایام وقرون نے صدہا پردے درمیان میں حائل کررکھے ہیں ۔ یقینا اعجاز ہے ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر زبردست دل ہے ۔ پھر اس چیز پر بھی غور کیجئے ۔ کہ آپ امی اور ان پڑھ ہیں ۔ اور خود تورات میں بھی واقعات کو اس رنگ میں ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔ ان حالات میں اگر ایک شخص قوموں کے عروج وزوال پر بحث کرتا ہے اور ان کے اسباب وعمل بیان کرتا ہے ۔ اور ان کی تہذیب وتمدن کے خط وخال دکھاتا ہے ۔ تو پھر اس میں کیا شبہ رہ جاتا ہے کہ تائید غیبی یقینا اس کے ساتھ ہے ۔ ورنہ انسانی طاقت و وسعت میں تو یہ امکان نہیں ۔ القصص
47 منکرین قرآن کی بہانہ جوئی ف 1: لو لا ان تصیبھم میں لولا امتناعیہ ہے اور اس کی خبرمحذوف ہے اور دوسرا لولا تخفیفہ ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ ہم نے جو آپ کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے ۔ تو محض اتمام حجت کے لئے کیونکہ یہ لوگ اس قسم کے ہیں ۔ کہ جب ان کو مصیبت پیش آئی ہے ۔ اور عذاب الٰہی کو دیکھتے ہیں ۔ تو اس وقت محشر سے کہتے ہیں کہ لو لا ارسلت الینا رسولا ۔ یعنی مولا آپ نے ہم میں رسول کیوں مبعوث نہیں فرمایا کہ ہم اس کی پیروی کرتے ۔ اور گناہ ومعصیت کے کاموں کو چھوڑ دیتے ۔ پھر جب وہ وقت آگیا کہ اللہ نے آپ کو حق وصداقت دے کر ۔ تو اب اگر نادانی یہ کہتے ہیں کہ ہم کو بھی تورات کی طرح کی کتاب ملنا چاہیے تھی ۔ قرآن تو ہم نہیں مانتے ۔ کیونکہ یہ کسی قدر مختلف ہے ۔ کیا ان کو یہ معلوم نہیں ۔ کہ انہیں کے خواجہ تاشوں نے تو رات کا بھی انکار کیا تھا ۔ اور موسیٰ وہارون کے متعلق صاف کہہ دیا تھا ۔ کہ کہ یہ دو جادو گر ہیں ۔ ہم ان کو نہیں تسلیم کرتے * ارشاد ہے ۔ ان سے کہو ۔ کہ اگر تمہارے پاس تورات و قرآن سے کوئی بہتر کتاب موجود ہے تو اس کو پیش کرو میں اس کی پیروی کرنے کے لئے تیار ہوں * غرض یہ ہے کہ ان لوگوں کی بہانہ جوئی اور عذر ومعذرت کو دور کرنے کے لئے ہم نے رسول بھیجا ۔ کہ یہ نہ کہیں ۔ اللہ نے ہمارے مطالبہ کو پورا نہیں کیا ۔ ورنہ حق واضح تھا ۔ اور بعثت رسول کی چنداں ضرورت نہ تھی * فرمایا ۔ کہ اگر یہ لوگ تمہارے اس سوال کا جواب نہ دیں اور ان دونوں جلیل القدر کتابوں سے بہتر کوئی کتاب نہ لاسکیں ۔ تو پھر آپ سمجھ لیجئے ۔ کہ یہ لوگ نیک نیت نہیں ہیں محض ہواؤہوس کے بندے ہیں ۔ اور انکار کے لئے بطور بہانہ وضد کے اس طرح کی باتیں کہتے ہیں * اس کے بعد اس حقیقت کو بیان کیا کہ اصل گمراہی کیا ہے یا اور کون شخص راہ راست بےبھٹکا ہوا ہے ۔ اور کون ظالم ہے !* القصص
48 حل لغات :۔ الحق ۔ پیام صدق ، وصداقت * تطاھرا ۔ ایک دوسرے کے ہم نوا ہیں * القصص
49 القصص
50 القصص
51 حل لغات :۔ وصلنا لھم القول : قرآن کو ہم نے مسلسل ترتیب کے ساتھ نازل کیا ۔ یعنی ہم ان لوگوں کے پاس پیہم (ہدایت) کی باتیں بھیجتے رہے القصص
52 ف 1: فرمایا ضلالت اور بےراہ روی کی جڑ ہوائے نفس کا اقتدار ہے ۔ اور گمراہ وہ شخص ہے جس کے سامنے کوئی اصول نہیں ۔ جس کی زندگی کا کوئی نصب العین نہیں ۔ جو کسی دستور العمل کو نہیں مانتا ۔ اور پھر خواہشات نفس کے اور کسی چیز کا احترام نہیں کرتا ۔ اور ظالم کی زندگی بالکل حیوانات کی زندگی ہے ۔ کہ کھایا پیا بچے جنے اور مرگئے ۔ ظالم اپنی رائے کو صائب اور صرف اپنے ارادوں کو درست خیال کرتا ہے ۔ اور اللہ کے احکام سے روگردانی کرتا ہے ۔ اور اپنی ہی بات کو بہرطور معقول اور قرین دانش سمجھتا ہے ۔ وہ مغرور ہے ۔ ہوائے نفس کا پیرو ہے ۔ اور ذلیل ہے ۔ جس کی اللہ کے ہاں کوئی قدرو قیمت نہیں اور نہ جس کو کبھی توفیق ہدایت ملی * القصص
53 القصص
54 اہل کتاب میں سے سعادت مند گروہ ف 1: ان آیات میں اہل کتاب میں سے اس طبقہ کی تعریف کی ہے ۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے توفیق ہدایت سے بہرہ ور کیا ہے * ارشاد ہے ۔ کہ ان لوگوں کے قرآن کو تسلیم کیا ۔ اور کہا ۔ کہ ہم اس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ یقینا یہ پیغام رشدوہدایت ہے ۔ حق اور سچائی ہے ۔ اور ہم تو اس کو تورات کی روشنی میں پہلے سے تسلیم کرتے تھے * فرمایا ۔ ان لوگوں کو قیامت کے دن دوہرا اجر دیا جائے گا ۔ کہ انہوں نے تورات کو بھی حرز جان بنایا ۔ اور اب قرآن کو بھی مانتے ہیں ۔ ان لوگوں نے ایمان کے سلسلہ میں انتہائی صبر اور بھلائی سے کام لیا ہے * ان کی عادت ہے کہ اسلام کرنے کے بعد مخالفین کی تکلیف وہی اور ایذار سانی کا جواب حسن سلوک سے دیتے ہیں ۔ اور اللہ کی راہ میں بےدریغ خرچ کرتے ہیں ۔ وہ اس درجہ متعین اور سنجیدہ ہیں ۔ کہ لغوبات سے تعرض کرتے ہیں جب کبھی معاملہ پارٹی کے لوگ ان کو ہدف ملامت واستہزاء بنانا چاہتے ہیں یہ سلام کرکے رخصت ہوجاتے ہیں ۔ اور عزت وکرامت سے آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ اور کہہ دیتے ہیں ۔ کہ ہم اپنے اعمال کے پوری طرح ذمہ دار ہیں ۔ تم اپنے اعمال کے ذمہ دار ہو ۔ پھر شرارت سے کیا فائدہ ۔ جاؤ ہم تم سے جاہلوں اور حقیقت ناآشناؤں سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے * حل لغات :۔ یدرون ۔ در سے ہے ۔ یعنی دور کرنا القصص
55 حل لغات : اللغو ۔ مخالف عقیدہ کوئی بات ۔ بیہودہ اور باطل بات القصص
56 ف 2: اہل کتاب کے اس صفت شعار گروہ کے ساتھ ایک ایسی جماعت بھی تھی ۔ جو قرآن کی روشنی سے دلوں کی ظلمتوں کو دور کرنا چاہتی تھی ۔ اور حضور کی یہ انتہائی خواہش تھی کہ لوگ بھی اسلام کی ضیاباریوں سے دماغوں کو منور کرلیں قرآن نے کہا ۔ اور آپ ہدایت کی جانب دعوت دے سکتے ہیں اور یہ کرسکتے ہیں ۔ کہ صبح وشام انہیں ان کے اعمال بد کے نتائج سے آگاہ کرتے رہیں ۔ مگر توفیق ہدایت آپ کے بس کی بات نہیں ۔ یہ آپ کے اختیار سے باہر ہے ۔ کہ جس کو چاہیں دائرہ فلاں و فوز میں شامل کرلیں ۔ اور اس کے سینے کو حق وصداقت کے لئے کھول دیں ۔ مفسرین کی رائے ہے ۔ کہ یہ آیت عام نہیں ہے ۔ بلکہ ابوطالب سے متعلق ہے ۔ کہ ہرچند حضور نے ان سے کہا ۔ چچا ایک دفعہ تو میرے سامنے توحید ورسالت کی گواہی دے دیجئے مگر انہوں نے جانتے بوجھتے یہی کہا ۔ کہ بھتیجے یہ نہیں ہوسکتا ۔ کہ میں اعیان قریش کی مخالفت کروں ۔ اور اسلام قبول کرلوں گویا باوجہ اعتراف علم اور حضور کی خواہش کے ابوطالب رشدو ہدایت کی برکتوں سے محروم رہ گئے ۔ کیونکہ اللہ کی طرف سے توفیق واستعداد ذاتی نہیں ہوئی تھی ۔ اور خدا کو منظور نہیں تھا ۔ کہ ابو طالب دنیا سے ایمان وایقان کی دولت لے کر جاتے * القصص
57 حل لغات * نتخطف ۔ اچک لئے جائیں گے ۔ یعنی ہم کو ہمارے گھروں سے نکال باہر کیا جائے گا * القصص
58 حل لغات :۔ بطرت ۔ تکبر اختیار کریں ۔ بطر سے ہے یعنی کبر و غرور * القصص
59 ابتلا اور عذاب میں منطقی فرق ف 1: آیت کا مطلب بالکل واضح ہے ۔ کہ عذاب الٰہی سے پیشتر تمام حجت کے طور پر انبیاء کا آنا ضروری ہے ۔ مگر بعض اہل زیغ نے اس کے معنے یہ سمجھے ہیں ۔ کہ ہر مصیبت اور ہر بتلاء سے قبل لازمی ہے کہ ایک پیغمبر فرض کرلیاجائے ۔ اور اس مصیبت یا ابتلاء کو اس کے انکار کا نتیجہ ٹھہرایا جائے ۔ اس مفہوم کے پیش کردنے میں ایک دھوکہ یہ بھی ہے ۔ کہ ہر مصیبت کو عذاب کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے حالانکہ ان دونوں میں منطقی لحاظ سے عموم وخصوص مطلق ہے یعنی ہر عذاب تو یقینا مصیبت ہے مگر ہر مصیبت عذاب نہیں ۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ نیک بندوں کے لئے بمنزلہ آزمائش کے ہو ۔ اور بس * فی امھا رسولا سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء ہمیشہ مرکزی شہروں میں آتے ہیں دیہات میں نہیں * الا واھلھا ظالمون سے مراد یہ ہے کہ عذاب اس وقت تک نہیں آتا جب تک کہ ظلم اور عصیاں کثرت سے نہ پھیل جائے * حل لغات : القریٰ۔ قریب کی جمع ہے شہر گاؤں پستی * القصص
60 القصص
61 دیندار اور مادہ پرستی ف 1: اس آیت میں منکرین کے شبہ کا جواب ہے کہ اگر ہم اسلام قبول کریں گے تو نتخطف من او حتتا یعنی ہمیں ہماری سرزمین سے نکال باہر کیا جائے گا ۔ اور املاک ودولت سب کچھ چھین لیا جائے گا ۔ ارشاد ہے کہ کیا تم دولت عقبی کے مقابلہ دنیائے ونی کے سامان عیش وعشرت سے کرتے ہو ۔ کیا تمہیں معلوم نہیں ۔ کہ یہ سب کچھ عارضی وفانی ہے ۔ اور آخرت کی نعمتیں باقی رہنے والی اور دائمی ہیں ۔ اور منافع کے لحاظ سے کہیں بہتر اور موزوں ہیں * فرمایا پھر اس بات پر بھی غور کرو کہ دیندار اور دنیا دار کیا اگر اور درجہ میں برابر ہیں ؟ دیندار اور متقی کے لئے جنت کے پر بہار دروازے کھلے ہوں گے ۔ اور دنیا کے طالب کو چند روزہ عیش کے بعد خدا کے حضور میں پکڑ کرلا کھڑا کیا جائے گا * بات اصل یہ ہے کہ لوگوں کو عقبیٰ اور دینداری پر کامل یقین نہیں ہے ۔ ورنہ حقیقت میں سچا دیندار انسان ہرگز دنیا میں ایک مادہ پرست سے کم خوش حال نہیں رہتا ۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ مادہ پرستی میں قناعت نہیں ہے اور مسرت مفقود ہے اور دینداری میں طمانیت ہے تسکین ہے اور مسرت وقناعت ہے * ملوہ پرستی حرص وآز کے جذبات کو بڑھا دیتی ہے ۔ انفرادی خود غرضی پیدا کردیتی ہے ۔ اور انسان کو جرائم کے قریب تر کردیتی ہے ۔ کہ وہ انہیں کی طرح بلندقسم کے مطمح نظر سے محروم ہوتا ہے' بخلاف اس کے دینداری ہمہ قناعت ہے ۔ افراد کے لئے ایثار ومحبت ہے ۔ اور انسانیت کا بلند ترین نصب العین ہے ۔ اس کی وجہ سے فرشتوں کا قرب اور عالم لاہوت سے وابستگی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور انسان یہ سمجھتا ہے ۔ کہ وہ فراز عرش سے متصل ہے اور عالم اجساد سے اس کا کوئی تعلق نہیں حل لغات :۔ المحضرین محضر کی جمع بمعنے مجرم ۔ جس کو پکڑ کر کسی عدالت کے سامنے حاضر کیا جائے * القصص
62 القصص
63 ف 2 یعنی آج تو مریدان باعقیدت اپنے مرشدوں پر بےحد بھروسہ رکھتے ہیں اور انہیں خدا کا ہم مرتبہ سمجھتے ہیں مگر قیامت کے دن معاملہ بالکل برعکس ہوگا ۔ یہ عقیدت کیشان ازلی تو رہبر اکامل کے پیچھے دوڑیں گے ! اور پیران طریقت آگے آگے ان سے بیزاری کا اظہار کرینگے مرید یہ کہیں گے کہ ان لوگوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا ۔ اور وہ جواب دینگے غلط ہے جس طرح ہم گمراہ ہوئے ۔ اسی طرح یہ لوگ بھی بہک گئے اور حقیقت میں یہ محض ہوائے نفس کے تابع تھے ۔ انہوں نے ہماری بالکل عبادت نہیں کی * القصص
64 القصص
65 القصص
66 ف 1 : اس سے قبل کی آیتوں میں تو مشرکین سے توحید کے متعلق پوچھا گیا تھا اس آیت میں بتایا گیا ۔ کہ نبوت کے سلسلہ میں بھی سوال کیا جائے گا ۔ کہ تمہارے پاس ہمارے پیغمبر آئے ۔ انہوں نے تم تک ہمارا پیغام پہنچایا اور تمہاری راہنمائی کی ۔ بتاؤ تم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا اس سے ان کی کیفیت یہ ہوگی کہ مارے خوف اور ندامت کے ان سے کوئی جواب نہ پڑیگا ۔ خاموش رہیں گے اور اتنا بھی نہ ہوسکے گا ۔ کہ کسی ساتھی سے پوچھ لیں اور بتادیں * ارشاد ہے کہ یہ احتساب کی گھڑیاں بہت شدید اور سخت ہونگی ۔ وہی لوگ ان سے عہدہ برآء ہوسکیں گے اور فوزوتطح سے اپنا دامن بھر سکیں گے ۔ جو گناہوں سے اس دنیاہی میں دست بردار ہوگئے ۔ اور جنہوں نے دولت ایمان سے بہرہ وافر حاصل کرلیا * حل لغات : حل لغات :۔ فعمیت علیھم الانباء ۔ محاورہ ہے مقصد یہ ہے کہ کوئی خبر ان کو نہیں سوجھے گی القصص
67 القصص
68 اللہ جس کو چاہے اپنی خدمات کے لئے مختص کرلے ف 2: یخلق مایشاء ومختار سے مقصود اصل میں ایک شبہ کارندہ ہے ۔ مکہ والوں کو ہمیشہ یہ بات کھٹکتی تھی کے خدا نے قریش کے بڑے بڑے لوگوں کو چھوڑ کر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسے بےیارو مددگا شخص کو نبوت اور رسالت کے لئے کیوں منتخب کیا ۔ وہ کہتے تھے کہ ہم روساء ہیں ۔ معززین ہیں ۔ پڑھے لکھے لوگ ہیں اور دنیا کے لحاظ سے وجیہہ ہیں عظیم الشان ہیں ۔ ان سب باتوں سے قطع نظر کرکے آخر اللہ نے یہ کیا سوچاکہ ایک یتیم بنیوا کو سرداری بخش دی ! کیا ہم میں کوئی اس قابل نہ تھا ۔ کہ اس کے سر پر نبوت کا تاج رکھا جاتا ! کیا ہم سب نالائق تھے ! ان کی رائے میں یہ سخت تکلیف دہ اور ناقابل برداشت فروگذاشت تھی ! عیسائی اور یہودی بھی تقریباً اس نوع کے اعتراضات کرتے ۔ وہ بھی یہ کہتے کہ نبوت کے اعزاز کے لئے اب تک بنی اسرائیل کو اہل سمجھا گیا ہے اور نبی اسمعیل کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ۔ اس لئے ضروری تھا کہ اگر عرب میں کسی پیغمبر کو بھیجنا منظور تھا تو وہ بنی اسرائیل میں سے ہوتا ۔ بنی اسمعیل میں سے نہ ہوتا * اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ تم لوگ ہماری مصلحتوں سے آگاہ نہیں ہو ۔ تمہاری نظریں بالکل سطحی ہیں ۔ تم یہ انہیں جان سکتے ۔ کہ کون شخص نبوت کے عہدہ جلیلہ کے لئے مناسب اور موزوں ہے ۔ تم صرف یہ دیکھتے ہو کہ تم میں کون زیادہ سرمایہ دار اور زیادہ اعمان وانصار رکھنے والا ہے ۔ اور ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کون قلب ودماغ کے لحاظ سے ان سب سے بلند ہے اور کون بےیارومددگار ہے ۔ کہ ہم اس کو منتخب کریں اور لاکھوں پر بھاری بنادیں * غرض یہ ہے کہ تم کو اللہ کے معاملات میں دخل اندازی کا استحقاق نہیں ہے ۔ وہ جو چاہے کرے ۔ اور جس شخص کو چاہے برگزیدہ کرے * حل لغات : ویختار ۔ اس کے بعد من یشاء محذوف ہے بمعنی جس کو چاہتا ہے دیا کی خدمت القصص
69 القصص
70 القصص
71 حل لغات :۔ سرمدا ۔ دائمی ۔ ہمیشہ * القصص
72 القصص
73 ایک واضح حقیقت ف 1: یہ بالکل سادہ اور واضح حقیقت ہے ۔ کہ تمام اختیارات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ۔ مگر اتنی سی بات بھی مشرکوں کے دماغ میں نہیں آتی ۔ اور وہ اس کے سوا دوسروں کو اپنا معبود بنالیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کائنأت کانظم ونسق ان کے ہاتھ میں ہے * ارشاد ہے کہ کیا تم نے کبھی اپنے معبودوں کی قوتوں کا جائزہ بھی لینے کی کوشش کی ! کیا کبھی تم نے سوچا ہے کہ وہ کن اختیارات کے مالک ہیں ؟ اور کیا ان کی بےچارگی اور عجز پر بھی تم نے نظر کی ، بتاؤ کہ اگر آفتاب اور ماہتاب کا پیدا کرنے والا خدا ان کو روک لے اور آفات کو غروب نہ ہونے دے ۔ تو پھر یہ تمہارے خدا اور تمہارے مزعومہ معبود کیا تمہارے لئے پر سکون رات کا بندوبست کرسکتے ہیں ؟ یہ تو اس کی رحمت ونوازش ہے کہ اس نے لیل ونہار کے ادوار کو باقی رکھا ۔ تاکہ رات کو تم آرام کرو اور دن بھر کی تکان دور کرو ۔ اور دن میں معاش ڈھونڈو مگر تم ہو کہ ان حقائق پر غور نہیں کرتے ۔ اور نہ اللہ کی نعمتوں کا شکرادا کرتے ہو ۔ ولتبتغوا من فضلہ ۔ کہہ کر اس حقیقت کے چہرہ سے پردہ اٹھا دیا ہے کہ مال ودولت کا حصول تقویٰ اور پرہیز گاری کے منافی نہیں ۔ بلکہ اللہ کے فضل کا اکتساب ہے ۔ افلاس فی نفسہ اسلامی نقطہ نگاہ سے کوئی بہتر چیز نہیں ہے ۔ بلکہ بعض حالات میں نہایت مذموم ہے ۔ ہاں طبیعت کی مسکنت اللہ کو پسند ہے ۔ اور کبروغرور ناپسند ممکن ہے کہ ایک دولت مند آدمی طبیعت کا نہایت غریب ہو اور ایک مفلس ونادار بہت متکبر اور مغرور ہو ۔ اس لئے اصل چیز اخلاق کے باب میں توانگری اور افلاس نہیں ۔ بلکہ دل کا غنا اور دل کی مسکنت ہے * القصص
74 القصص
75 ف 1: یعنی اس وقت جو لوگ اپنے مقتداؤں کو عرش بریں پر متمکن سمجھتے ہیں ۔ قیامت کے دن جب ان سے مطالبہ کیا جائے گا ۔ کہ اپنے عقیدہ وشرک پردلیل لاؤ۔ اور ہو اسباب داخل بیان کرو جس کی وجہ سے تم نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی پرستش کی ۔ تو وہ بالکل خاموش اور ساکت ہوجائیں گے ۔ اور کوئی معقول وجہ پیش نہ کرسکیں گے ۔ بلکہ اس وقت انہیں محسوس ہوگا کہ سچی اور درست بات اللہ ہی کی تھی ۔ اور ہم نے اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرا کر سخت گناہ کا ارتکاب کیا ہے *۔ حل لغات :۔ ونزعنا ۔ یعنی ہر امت کی صفوں میں سے ایک گواہ کھینچ لائینگے * القصص
76 قارون ف 2: یہ آیات قارون کے متعلق ہیں ۔ اس میں یہ بتایا ہے کہ انسان بعض دفعہ مال ودولت کے نشہ میں کسی درجہ سرشار ہوجاتا ہے اور تمام انسانی حقوق کو بھول جاتا ہے اور یہ سمجھنے لگتا ہے کہ عیش وعشرت کی یہ فراوانی اللہ کے فضل اور بخشش کا نتیجہ نہیں ہے ۔ بلکہ میری اپنی قوت بازو کا ثمرہ ہے ۔ اور میری عقل وفراست کا پھل ہے ۔ اس لئے میرے مال ودولت میں خدا کا کوئی حصہ نہیں * اس قسم کے لوگ عموماً کم ظرف ہوتے ہیں بالی حوصلہ اور بلند ومقام لوگ باوجود تمول کے منکسر ہوتے ہیں اور بڑی فراخدلی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں قارون کی شخصیت کے متعلق مفصل معلوم نہیں ۔ کہ کون تھا ۔ مفسرین نے مختلق یاس آرائیاں کی ہیں ۔ بعض کے نزدیک موسیٰ کے چچا زاد بھائیوں میں سے تھا ۔ اور بعض کے نزدیک چچا تھا ۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ موسیٰ کا خالہ زاد بھائی تھا ۔ بہرحال قرآن کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ اسرائیلی تھا ۔ اور موسیٰ کی قوم میں سے تھا * اللہ نے اس کو خوش حالی بخشی ۔ مال ودولت سے نوازا ۔ اور بےانتہاخزائن ووفائن کا مالک بنایا ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ یہ اللہ کی ان بخششوں کا شکر ادا کرتا ۔ اور مخلوق خدا سے نایت انکسار ہکجز سے پیش آتا ۔ مگر یہ لگا اکڑنے اور اترانے ۔ قوم نے کہا ۔ دیکھو بہت زیادہ غرور اور تمکنت اچھی نہیں ۔ اپنے جامے میں رہو کیونکہ اللہ کو ایسی حرکتیں پسند نہیں ہیں ۔ مال ودولت میں سے کچھ آخرت لئے بھی خرچ کرو ۔ اور دنیا میں خدا کو نہ بھولو ۔ کہ آخرت میں خسارہ اٹھاؤ۔ لوگوں سے بھلائی کے ساتھ پیش آؤ۔ جس طرح کہ اللہ نے تمہارے ساتھ بھلائی کی ہے ۔ اور غرور کبر سے ملک میں فساد نہ مچاتے پھرو * قارون نے جب یہ نصیحتیں سنیں ۔ تو عذرا ! چھیب وتکبر کہنے لگا ۔ اپنے وعظ کو رہنے دو ۔ میرے مال میں اللہ کی بخششوں کو کوئی دخل نہیں ۔ میں نے جو کچھ حاصل کیا ہے ۔ اپنی قابلیت سے حاصل کیا ہے * فرمایا ۔ اس کمبخت کو معلوم نہیں ۔ کہ اس سے قبل کئی قوموں کو اللہ تعالیٰ ان کے غرور اور دلیاپرستی کی وجہ سے ہلاک کرچکا ہے ۔ اور وہ قومیں دولت وقوت میں اعوان وانصار میں اس سے کہیں بڑھی ہوئی تھیں ۔ یہ انے تھوڑے سے مال پر اترارہا ہے اور یہاں چشم زون میں زندگی کی تمام لذتیں چھین لی جاتی ہیں اور پوچھا تک نہیں جاتا یہ گو ایک مخصوص واقعہ ہے ۔ مگر مقصد یہ ہے کہ دولت مندوں کو عیش وعشرت میں مصروف دیکھ کر عموماً کمزور طبیعت کے دنیا دار بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور کہتے ہیں ۔ کہ دیکھئے تو یہ لوگ کس درجہ خوش قسمت ہیں ۔ مگ راہل علم وعقل محض جاہ وثروت کے نظاروں سے فریب میں نہیں آتے ان کی نگاہیں عاقبت پر لگی ہوتی ہیں ۔ وہ ان ضعیف ال ایمان لوگوں سے کہتے ہیں ۔ کہ تم دنیا کو کیوں للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہو ۔ آخرت کی طرف دھیان رکھو ۔ کہ وہ ایمان داروں کے لئے کہیں بہتر ہے ۔ اور یاد رکھو عقبلی کا اجر صرف صبر کرنے والوں ہی کو ملے گا ۔ افلاس وغربت سے گھبراجانے والوں کو نہیں * حل لغات : الکنوز ۔ کنز کی جمع ہے ۔ یعنی خزانہ * مفاتحہ ۔ مفاتح جمع ہے مِفتح اور مَفتح کی ۔ مفتح بالکسر کے معنے کنجی کے ہیں ۔ اور مفتح با فتح کے معنی خزانہ ، لا تفرح : یعنی جامے سے باہر نہ ہو ، اترا نہیں ۔ القصص
77 حل لغات :۔ ولاتنس ۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جہاں عقبے کے لئے تم سے کہا جاتا ہے کہ اس کے لئے زاد مہیا کرو ۔ وہاں یہ نہیں کہا جاتا ۔ کہ دنیا بالکل فراموش کردو ۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ دولت بھی جمع کرو اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ بھی کرو القصص
78 القصص
79 نفسیات انسانی کا ادق تجزیہ ف 1: اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں نفسیات انسانی کا نہایت عمدہ تجزیہ کرکے دکھایا ہے ۔ کہ کس طرح اس کو کسی پہلو قرار نہیں ۔ یہ تو یہ کیفیت تھی ۔ کہ جب قارون کو سج دھج میں محل سرائے سے نکلتے دیکھتے تو ان کے دلوں میں یہ خواہش پیدا ہوتی ۔ کہ کاش کہ ہم بھی اسی طرح مال ودولت سے بہرہ ور ہوتے اور یا اب یہ حالت ہے ۔ کہ قارون جب اپنے غرور کی وجہ سے زمین میں دھنس گیا ۔ تو یہ لوگ اللہ کا شکر ادا کررہے ہیں کہ اس نے ان کو اس عذاب سے محفوظ رکھا ۔ اور گویا اب ان کو احساس ہوا ۔ کہ منکرین کے لئے فوز و فلاح نہیں *۔ حل لغات : فی زینتیہ ۔ اپنی سج دھن میں * حظ ۔ حصہ نصیب اور قسمہ * القصص
80 القصص
81 حل لغات : خسفنا ۔ دھنسا دیا * بالامس ۔ گزشتہ کل * ویکانّ اللہ ۔ وے ۔ کانّ سے بالکل الگ ایک کلمہ ہے اس کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب کوئی اپنی غلطی پر متنبہ ہو ۔ اور ندامت کا اظہار کرے * القصص
82 القصص
83 ف 1: ارشاد ہے ۔ کہ آخرت کی مسرتیں اور آسائشیں ان لوگوں کے لئے مقدر ہیں ۔ جن کو اللہ تعالیٰ دنیا میں مال ودولت اور اختیار وقوت دیتا ہے ۔ اور وہ اس غلط استعمال نہیں کرتے ۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ خواہ مخواہ دوسرے لوگوں سے اونچا رہنے کی کوشش کی جائے ۔ اور نہ وہ یہ چاہتے ہیں ۔ کہ دنیا میں ظلم وستم سے فساد برپا کریں ۔ اور وہ تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کرتے ہیں ۔ اور جانتے ہیں ۔ کہ انجام انہیں لوگوں کا بہتر ہے ۔ جو پاک باز اور متقی ہیں * القصص
84 ف 2: اللہ کے قانون مکافات کی تشریح ہے ۔ کہ وہ کسی شخص پر ظلم نہیں کرے گا ۔ وہ لوگ جو نیک ہیں ۔ ان کا جو اپنے پاس سے بڑھا دے گا ۔ اور برے لوگوں کو بس اسی تناسب سے سزا دیگا جس تناسب سے کہ انہوں نے گناہوں کا ارتکاب کیا ہے یعنی وہ اجر ثواب میں تو اپنے فضل وکرم کا مظاہرہ کریگا مگر سزا اور عذاب میں سخط وغضبت نہیں کھائے گا *۔ القصص
85 مراجعت وطن کی پیشیگوئی ف 3: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب مکہ والوں کو رشدوہدایت کا پیغام پہنچایا ۔ تو ان لوگوں کو سخت ناگوار گزرا ۔ اور انہوں نے انتہائی درجہ کی مخالفت کی ۔ اور اس حد تک عناد اور دشمنی کا مظاہرہ کیا ۔ کہ حضور ہجرت پر مجبور ہوگئے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ کہ آپ فکر نہ کریں ۔ آپ کو پھر مکہ میں لوٹا دیا جائے گا ۔ اور موقع دیا جائے گا ۔ کہ آپ اپنے وطن مالوف میں رہیں اور خیر وبرکت کا سیغام ان کے کانوں تک پہنچائیں *۔ غور فرمائیے ۔ ایک شخص بےکسی اور بےچارگی کے عالم میں ہجرت کرتا ہے ۔ وطن سے تین سو کوس دور جارہتا ہے ۔ مگر اس کو یہ مژدہ سنایا جارہا ہے ۔ کہ تم ضرور وطن پہنچو گے * چنانچہ قرآن کی یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ فاتحانہ داخل ہوئے اور یہی مکہ والے جنہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہجرت پر مجبور کردیا تھا ۔ بالآخر اللہ کے سامنے جھکے اور ان میں سے اکثر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا * حل لغات ، ۔ معاد ۔ اصلی مقام ۔ وطن ۔ جہاں آدمی گھوم گھام کر پہنچ جائے ۔ عالم آخرت * القصص
86 حل لغات :۔ ظھیرا ۔ پشت پناہ ۔ موید القصص
87 القصص
88 حل لغات :۔ ھالک : فانی یا بےسود ۔ دونوں معنوں میں اس کا استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ھلک الثوب یا حللک الناع * القصص
0 العنكبوت
1 انبیاء منصب نبوت کے امیدوار نہیں ہوتے ف 1: انبیاء علیہم السلام کو جو منصب نبوت سے نوازا جاتا ہے ۔ تو اس طرح نہیں ۔ کہ وہ نبوت ورسالت کے امیدوار ہوتے ہیں اور بتدریج نبوت کے درجہ علیا تک ترقی کرلیتے ہیں ۔ بلکہ اس طریق سے نبوت عطا کی جاتی ہے کہ ان کو پہلے سے مطلقاً معلوم نہیں ہوتا ۔ اور یکایک قدرت حق ان کو منتخب کرلیتی ہے ۔ اور وہ معارف ونکات کا دریا بہانے لگتے ہیں ۔ ہاں یہ درست ہے ۔ کہ نبوت کی استعداد کا ہونا انبیاء میں ضروری ہے ۔ تاکہ ان میں اور دوسرے لوگوں میں ایک قسم کا امتیاز ہو ۔ ارشاد ہے کہ آپ کو پہلے سے توقع نہیں تھی ۔ کہ نبوت کی گرانبار ذمہ داریاں آپ کے کندھوں پر ڈال دی جائیں گی ۔ یہ تو آپ کے رب کا فضل اور اس کی مہربانی ہے ۔ کہ اس نے آپ کو ان خدمات پر مامور فرمایا ہے * یہ واضح رہے کہ قرآن میں بعض دفعہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کو بعینہ امر بیان کیا جاتا ہے ۔ جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمان آپ کے اسوہ کی پیروی کریں ۔ اور اپنے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کو مشعل راہ بنائیں ۔ مگر جو لوگ قرآن کے اسلوب بیان سے آگاہ نہیں ۔ غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ اور سمجھتے ہیں ۔ کہ شاید یہ باتیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں موجود نہیں ہیں ۔ یا خطرہ تھا کہ ان باتوں کی آپ مخالفت کریں گے ! اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو بصورت اوامروا احکام پیش کیا ہے * مثال کے طور پر ان آیات پر غور کیجئے ۔ ان میں چار باتیں بیان کی گئی ہیں * (1) آپ کافروں اور مجرموں کی تائید نہ فرمائیے *(2) اللہ کے احکام کی پیروی سے یہ لوگ آپ کو روک نہ دیں *(3) ایک اللہ کی دعوت دیتے رہیے ! اور شرک نہ کیجئے *(4) اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو سا بھی سمجھ کر نہ پکارا کیجئے ظاہر ہے کہ یہ اسوہ ہے احکام نہیں ہیں آپ نے ساری زندگی میں کبھی جرم اور گناہ کی تائید نہیں فرمائی ۔ کبھی احکام کی پیروی میں تغافل نہیں فرمایا ۔ ہمیشہ ایک اللہ کی دعوت دیتے رہے ۔ اور کبھی ایسا نہیں ہوا ۔ کہ آپ نے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرایا ہو * ان حالات میں بعض بدباطن مشنریوں کا ان آیات سے غلط استفادہ کرنا ۔ اور کہنا ۔ کہ معاذ اللہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان گناہوں کے صدور کا احتمال تھا ۔ اس لئے ان سے روکا گیا ہے ۔ محض نادانی اور علوم قرآن سے ناواقفیت ہے * العنكبوت
2 العنكبوت
3 ف 1: مکے کی زندگی میں مسلمانوں کو جب تکلیفیں پہنچتیں ۔ تو بعض ضعیف ال ایمان مسلمان گھبرا اٹھتے ۔ اس پر ان آیات کا نزول ہوا ۔ کہ صرف امنا کہہ دینا کافی نہیں بلکہ آزمائش شرط ہے ۔ اللہ تعالیٰ واقعات کے رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ کہ ان لوگ قول وعمل کے لحاظ سے صادق ہیں اور کون لوگ قول وعمل کے لحاظ سے کاذب ہیں ۔ کن لوگوں کے دلوں میں ایمان مضبوط ہوچکا ہے ۔ اور کون لوگ ہنوز ضعیف ال ایمان ہیں *۔ حل لغات :۔ لیعلمن ۔ اللہ کا علم ازلی ہے ۔ اس میں واقعات وحوادث سے کوئی تغیر پیدا نہیں ہوتا ۔ اس لئے اس سے مراد علم مستانف نہیں ہے ۔ بلکہ وہ علم ہے جو حالات کے بروئے کار آنے سے ہوتا ہے *۔ العنكبوت
4 العنكبوت
5 العنكبوت
6 العنكبوت
7 نجات کا سچا اور سادہ نظریہ ف 1: اگر انسان یہ چاہے کہ گناہوں اور لغزشوں سے وہ بالکل پاک رہے اور قطعاً اس سے کسی نوع کی غلطی کا صدور نہ ہو ۔ تو یہ ایک ایسی آرزو ہے جو کبھی پوری نہیں ہوسکتی ۔ انسان فطرت اور ساخت کے لحاظ سے مجبور ہے ۔ کہ کبھی کبھی خواہشات سے نفس کی رو میں بہہ جائے ۔ اس لئے وہ مذہب جو انسان سے سو فی صدی نیک رہنے کا مطالبہ کرتا ہے ۔ غلط ہے اور اسکا پیش کرنے والا انسان نفسیات سے محض آشنا اور ناواقف ہے * دیکھئے اللہ تعالیٰ نے جب آدم کو پیدا کرنا چاہا ۔ تو فرشتوں نے کہا ۔ کیا آپ ایسے شخص کو نیابت سے سرفراز کرنا چاہتے ہیں جو سنگین گناہوں کا ارتکاب کریگا ۔ لیعذاک الدعائ۔ تو اللہ نے کہا کے جواب میں یہ نہیں فرمایا ۔ کہ نہیں بنی آدم بڑے پاک اور پارسا ہونگے اور تزہد وتورع میں وہ تم سے بھی آگے ہوں گے ۔ بلکہ اللہ نے فرمایا کہ انی اعلم ما لا تعلمون ۔ یعنی میں تمہاری پاک بازی کو دیکھ چکا ۔ اب بنی آدم کے گناہ اور لغزشیں دیکھنا چاہتا ہوں ۔ تم میرے اسرار ومصالح سے آگاہ نہیں ۔ اس لئے خاموش رہو * معلوم ہوا کہ لغزشیں کرتا ہیں ۔ اور بعض حالات میں گناہوں کا صدور انسان سے ممکن ہے سوال پیدا ہوتا ہے ۔ پھر نجات کے کیا معنی یا اور گناہوں سے مخلصی کسے کہتے ہیں * جواب یہ ہے کہ قرآن کہتا ہے ۔ تم اللہ پر ایمان رکھواس کے پروگرام کو حتے الامکان پورا کرنے کی کوشش کرو ۔ اس کے بعد جو غلطیاں بتقاضائے بشریت تم سے سرزد ہوجائیں گی ۔ ان کو اللہ تعالیٰ بخش دینگے اور پھر تمہارے اعمال حسنہ کا ثواب کئی گنا کرکے اپنی طرف بڑھادینگے ! اور تم کو جنت ونعیم کے انداز سے بہرہ ادوز ہونے کے لئے آزاد چھوڑ دینگے ۔ یہی اسلامی نجات اور طریق مخلصی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے ۔ اس میں کس درجہ فطرت کے ساتھ توافق ہے اور نجات کا کس قدر صحیح اور سچانظریہ ہے جس میں نہ تناسخ کا چکر ہے نہ صلیب کی الجھن ہے سیدھی سادی بات ہے کہ بالعموم خدا کی فرمانبرداری کرو اور آقا کے احکام بجا لاؤ۔ وہ تمہیں اجر دیگا انعام دے گا ! اور تمہاری لغزشوں اور کوتاہیوں کو صاف بھی کردے گا *۔ العنكبوت
8 ف 2: یعنی والدین کی اطاعت مذہب اور دین کا اہم جزو ہے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے اور ہر حالت میں انکا احترام کرے بجز اس صورت کے کہ وہ شرک ، بدعت کی باتوں پر آمادہ کریں *۔ حل لغات : وصینا ۔ توصیہ کے معنی تاکید کے ساتھ کسی بات کو کہنا ہے *۔ العنكبوت
9 العنكبوت
10 ف 1: اس آیت میں منافقین کا ذکر ہے ۔ کہ زبان سے تو ایمان کا دعویٰ ہے ۔ مگر جب مصائب وتکالیف کا سامنا ہوتا تو گھبراٹھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں ۔ کہ یہ بھی اللہ کا عذاب ہے ۔ اور جب یسر اور آسانی کے لمحات میسر ہوتے ہیں ۔ اس وقت پھر جذبہ ایمان ان میں عود کر آتا ہے *۔ حل لغات :۔ فتنۃ الناس ۔ لوگوں کی ایذا دہی کو * صدور ۔ صدر کی جمع ہے بمعنی سینہ * العنكبوت
11 العنكبوت
12 لا تزروازرۃ وزرا اخریٰ ف 2: بات یہ ہے کہ جب منکرین اسلام مسلمانوں کو کہتے ۔ کہ تم باجود افلاس وغربت اور تکالیف ومصائب کے اسلام کی امانت عزیز کو کیوں سینوں سے چمٹائے ہوئے ہو ۔ اور کیا وجہ ہے ۔ کہ تم ہمارے ساتھ نہ مل کر مادی لذائذ سے محروم رہو : تو مسلمان کہتے کہ یہ تمہارا کہنا درست ہے ۔ کہ اسلام کو ترک کرکے ایک گونہ دنیا کی مسرتیں حاصل ہوجاتی ہیں ۔ مگر آخرت اور عقلی میں کیا ہوگا ۔ وہاں کون شخص اللہ کے عذاب سے چھڑائیگا ۔ اور کون ہے جو وہاں کی کفالت لیتا ہے اور عذاب سے رہائی کا ٹھیکہ دار بنتا ہے ۔ تو اس پروہ نہایت دیدہ دلیری مگر بیوقوفی سے کہتے کچھ بڑا * نہیں ۔ تم ہمارے مسلک کفر وگمراہی کو قبول کرلو ۔ ہم تمہارے گناہوں کا ذمہ لیتے ہیں ۔ ارشاد ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے یہ لوگ ان مسلمانوں کو گناہوں کے بارے تو کیا مخلصی عطا کریں گے البتہ خود اپنی پیٹھ پر اپنے گناہوں کے علاوہ ان کے گناہ بھی لاد دینگے اور دگنے عذاب کے مستحق ہوں گے *۔ معلوم ہوا کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے گناہوں کی ذمہ داری کوئی شخص نہیں اٹھاسکتا ! اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں اپنے عقیدت مندوں اور مریدوں کے گناہوں کو بخشوا دونگا ۔ کیونکہ گناہ کا تعلق براہ راست ہر فرد سے ہے ۔ اور ہر فرد اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے اعمال کا جوابدہ ہے * حل لغات :۔ وما ھم بحاملین سے مراد یہ ہے کہ وہ گناہگاروں کے بوجھ کو ہلکا نہیں کرسکیں گے * العنكبوت
13 حل لغات : و لیحملن اثقالھم سے مقصود یہ ہے کہ وہ اپنے گناہ اور ان لوگوں کے گناہوں کی سزا بھگتیں گے جن کو انہوں نے گمراہ کیا ۔ اس لئے دونوں میں معنا کوئی تضاد نہیں * العنكبوت
14 حل لغات : الا خمسین عاما ۔ ہزار سال کہہ کر پچاس کم کرنے کے طریق کے بیان اور طرز استثناء کے اختیار کرنے میں تین فائدے مدنظر ہیں ۔ (1) اس سے تقریب وتخمین کی نفی ہوتی ہے (2) عدداکبر اس بات پر دال ہے کہ حضرت نوح نے بہت زیادہ صبر اور استقلال کا اظہار کیا ۔ اور چونکہ اسی مقام میں حضور کو کفار کی ایذا دہی پر تسلی دینا مقصود ہے ۔ اس لئے یہی انداز بیان مناسب اور زیادہ مفید تھا ۔ کہ پہلے مدداکبر ہو اور اس کے بعد استثناء (3) یہ نہایت موثر اور دلکش و ادبی طرز بیان ہے ۔ تسعمائۃ وخمسین سنۃ میں وہ موسیقی موجود نہیں جو الف سنۃ الا حسین میں ہے *۔ العنكبوت
15 ف 1: اخیار امم سے اس سات پر استشہاد ہے کہ نہ ماننے والے کیونکر تباہ ہوتے ہیں ۔ اور آخر کار حق کس طرح کامیاب وکامران رہتا ہے *۔ ارشاد ہے کہ حضرت نوح نے پچاس کم ہزار برس تک تبلیغ کی اور قوم کو گمراہی کی ظلمتوں سے نکالنے اور ہدایت کی روشنی میں لانے کی انتہائی جدوجہد فرمائی ۔ مگر انہوں نے بہرحال انکار کیا ۔ اور ان کے پیغام سے روگردانی کی ۔ نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ بادوباران کے طوفان نے ان کو آلیا ۔ اور بجز حضرت نوح اور اہل سفینہ کے سب لوگ ڈوب گئے *۔ العنكبوت
16 ف 2: حضرت نوح کے بعد جب ارض بابل میں شرک پھیل گیا ۔ اور ساری قوم خدا کی نافرمان ہوگئی تو حضرت ابراہیم مبعوث ہوئے ۔ انہوں نے بڑی حکمت وہ دانائی اور جرات وجسارت سے لوگوں کو ایک اللہ کی چوکھٹ پر جھکنے کی دعوت دی ۔ اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا *۔ العنكبوت
17 ابراہیم کے مواعظ توحید ف 1: ان آیتوں میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا وعظ مذکور ہے ۔ کہ کیونکر انہوں نے قوم کے بت پر ستانہ خیالات کی تردید فرمائی * ارشاد ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو پوج رہے ہو ۔ جن میں کوئی حقیقت نہیں ۔ اور جن کی تم پرستش کرتے ہو ۔ یقینا وہ رزق کے مالک نہیں ۔ اگر رزق حاصل کرنا ہے ۔ تو اللہ کے پاس آؤ۔ اور اس کا شکر ادا کرو ۔ یعنی کشائش رزق کی تمام راہیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ اور اسی کے قبضہ اختیار میں ہے ۔ کہ جس کو چاہے فراوانی کے ساتھ دے اور جس کو چاہے تان شبیہ تک محتاج کردے ۔ اس کے بعد فرمایا ۔ اگر تم اس پیغام کونہ مانو ۔ تو میں تم کو مجبور نہیں کرتا ۔ تم سے پہلے بھی قوموں نے اپنے پیغمبروں کی تکذیب کی ۔ اور تکذیب کی سزا پائی ۔ میرا فرض تو صرف یہ ہے ۔ کہ اللہ کے احکام بلا کم وکاست تم تک پہنچادوں * لایسلکون لکم رزقا میں لفظ رزق کو تنکیر کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ اور جب اس رزق کو اللہ کی طرف منسوب کیا ہے تو الرزق کہا ہے ۔ یعنی بصورت معرفہ ۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ نکرہ جب معرض نفی میں ہو ۔ تو عموماً نفی کا فائدہ دیتا ہے معنے یہ ہوں گے ۔ کہ تمہارے معبودوں کے پاس تو کسی نفع کا رزق موجود نہیں ۔ اور معرفہ ہونے کی شکل میں استغراق مدنظر ہے ۔ یعنی ہر قسم کا رزق اللہ کے اختیار میں ہے *۔ العنكبوت
18 حل لغات :۔ امم ۔ امۃ کی جمع ہے ۔ بمعنے قومیں *۔ العنكبوت
19 امکان حشر پر ایک منطقی دلیل ف 2: توحید اور نبوت کی تشریح کے بعد اب تیسرے اصل کے اثبات میں دلائل پیش فرمائے ہیں ۔ اور یہ تیسرا اصل نشاۃ اخری یعنی عالم حشر ہے ارشاد ہے ۔ کہ یہ لوگ اس حقیقت پر غور کریں ۔ کہ سب سے پہلی مخلوق کو کس نے وجود بخشا ۔ اس کے دو ہی جواب ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ مخلوق کسی دوسری علت مخلوقہ کا نتیجہ ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس کو منصہ شہود پر لانے والی ذات اللہ کی ذات ہے ۔ پہلا جواب خلاف مقروض ہے ۔ اور تسلسل کا متقاضی ہے ۔ جو عقلاً نا تسلی بخش ، اور ناممکن ہے ۔ اس لئے منطقی طور پر دوسرا جواب درست ہوگا ۔ اس صورت اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب پہلی دفعہ میں نے کائنات کو پیدا کیا ہے تو پھر اس کے دوبارہ پیدا کرنے میں کون چیز مانع ہوسکتی ہے * العنكبوت
20 ف 1: غرض یہ ہے کہ غور وفکر بھی عالم حشر کے امکانات پر روشنی ڈالتا ہے ۔ اور تجربہ وآزمائش بھی ۔ ارشاد ہے کہ تم زمین میں چل کر دنیا پر نظر دوڑاؤ۔ اور دیکھو ۔ کہ کیا کائنات کی ہر چیز یہ نہیں بتارہی ہے کہ اس کو پیدا کرنے والا اللہ ہے ۔ اور نشاۃ آخری کے تسلیم کرلینے میں کیا تاتل ہوسکتا ہے * بات یہ ہے کہ اس قسم کے اعتراضات اور شکوک اس وقت پیدا ہوتے ہیں ۔ جب اللہ کی قدرتوں پر ایمان نہ ہو ۔ اور جب اس کو تسلیم کرلیا جائے ۔ تو پھر تمام اعتراضات اٹھ جاتے ہیں *۔ حل لغات :۔ ینشئی ۔ انشاء سے ہے ، پیدا کرنا * یعذب من یشائ۔ جس کو چاہے گا عذاب میں مبتلا کریگا ۔ یعنی اس کے اختیارات میں دنیا کی کوئی قوت حائل نہیں ۔ ورنہ درحقیقت اس کی مشیت عذاب میں وہ لوگ داخل ہیں جو اس کا اپنے کو مستحق قرار دیں گے * العنكبوت
21 العنكبوت
22 العنكبوت
23 العنكبوت
24 نار نمرود میں تحویل و تبدیل ف 1: یہاں سے پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصہ کا بیان فرمایا ہے کہ جب انہوں نے اللہ کے پیغام کو بابل کے کونے کونے میں پہنچادیا ۔ اور بتوں کی بےچارگی اور عجز کو سختی کے ساتھ بیان کیا ۔ اور توجہ کی تائید میں ایسے دلائل قاہرہ ارشاد فرمائے * کہ منکرین سے کوئی جواب نہ بن پڑا ۔ تو انہوں نے کہا ۔ کہ اس کو زندگی سے محروم کردو ۔ مارڈالو ۔ اور آگ میں جھونک دو ۔ یہ ہمارے مذہب اور دین کے لئے زبردست خطرہ ہے ۔ چنانچہ آگ کا ایک بڑا الاؤ تیار کیا گیا ۔ اور ابراہیم (علیہ السلام) کے ایمان کا امتحان ہونے لگا ۔ منکرین اور کفار کی جماعت خوش تھی ۔ کہ ہمارے بتوں کی توہین کرنے والا چشم زون میں آگ میں چل کر بھسم ہوجائیگا ۔ اور ہم اپنے دشمن کو اپنے سامنے فنا ہوتا اور مٹتا دیکھیں گے ۔ ان کا خیال تھا ۔ کہ اس قربانی سے ان کے دیوتا بھی مسرور ہوں گے ۔ کہ ہمارے عقیدت مندوں نے ہمارے ایک نہ ماننے والے سے خوب انتقام لیا ۔ مگر اللہ کی تدبیر ان کی اس قساوت قلبی اور محرومی پرستش رہی تھی ہوا یہ کہ وہ آگ کا الاؤ جو کہ انہوں نے بڑی محنت سے تیار کیا تھا ۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے اس میں کود پڑنے سے بالکل سرد ہوگیا ۔ اور سل امتی سے تبدیل ہوگیا ۔ کیونکہ یہ اللہ کا فیصلہ ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ذلیل اور رسوا نہیں کرتا * اب یہ سوال کہ ایسا کیونکر ہوگیا ۔ کیا آگ اپنی فطرت کو بھول گئی ۔ یا ابراہیم (علیہ السلام) کی سوزش پنہانی نے اس کو مغلوب کرلیا فی الحقیقت یہ سوال ہی مہمل ہے کیونکہ کسی کی عقل تسلیم کرے یا نہ کرے ۔ واقعہ یہی ہے کہ آگ بجھ گئی اور ابراہیم ان کے مکر او سوء تدبیر سے بچ گئے * ہم جب خدا کو اس کی قدرت واعظمت کے ساتھ مانتے ہیں تو اس کے بعد اس نوع کے اعتراضات اور شکوک کی گنجائش نہیں رہتی ۔ وہ چاہے تو جہنم کی آگ کو جنت کی نہروں میں تبدیل کردے ۔ اور کرہ آفتاب سے حرارت چھین کر اس کی بجائے برف کی سی برددت رکھ دے ۔ یہ سب چیزیں ممکن ہیں ۔ اور اس سے بھی زیادہ محالات عقلی ہیں جو اس کے سامنے صف بستہ کھڑے حکم کے منتظر ہیں *۔ ہاں اپنی تسلی کے لئے اتنا سمجھ لیجئے کہ جل جاتا یا سوزش کا احساس اصل میں آگ سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اپنے احساس یقینی سے متعلق ہے آگ چونکہ اس قسم کے احساس کر پیدا کرنے کا موجب ہے ۔ اس لئے سمجھا جاتا ہے کہ آگ جلاتی ہے اور سوزش پیدا کرتی ہے ۔ لہٰذا وہ شخص جو یہ یقین رکھے کہ آگ مجھ کو جلائے گی ۔ وہ آگ میں نہیں جلے گا ۔ بشرطیکہ یہ یقین بدرجہ حق الیقین ہو ۔ چنانچہ اب ایسے لوگ نظر آرہے ہیں ۔ کہ وہ دھکتے ہوئے انگاروں پر سے با اطمینان گزر جاتے ہیں ۔ اور دیکھنے والوں کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں ۔ جب ان سے پوچھا گیا ۔ کہ آپ کیونکر آگ کی بھری کھائی پر سے گزر گئے ۔ تو انہوں نے یہی جواب دیا ۔ کہ قوت ارادی کی مضبوطی سے *۔ حل لغات :۔ اوحرقوہ ۔ او یہاں بل کے معنوں میں ہے ۔ یا استدراک کے لئے ہے ۔ جیسے ارشاد ہے ۔ فم اللیل الا قلیلا نصفہ اوالنقص منہ قلیلا اوزدعلیہ العنكبوت
25 ف 2 یعنی پیر اور مرید کے مشرکانہ تعلقات بس یہیں تک ہیں ۔ قیامت کے دن یہ لوگ ایک دوسرے سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کریں گے ۔ حل لغات : اوثانا ۔ وثن کی جمع ہے ۔ یعنی بت *۔ العنكبوت
26 ف 3: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کو حضرت لوط نے قبول کیا ۔ اور ارض بابل سے ہجرت کرکے سدوم میں پہنچ گئے ۔ تاکہ وہاں کے لوگوں تک خدا کا پیغام پہنچائیں *۔ العنكبوت
27 ف 1: مقصد یہ ہے کہ جو شخص اللہ کے دین کی خدمت کرتا ہے ۔ اللہ اس کو ضرور برکات دین ودنیا سے بہرہ ور کرتا ہے *۔ العنكبوت
28 العنكبوت
29 حل لغات :۔ نادیکم ۔ مجلس نادی کے معنے اصل میں اس بزم کے ہیں ۔ جو رات کو منعقد کی جائے *۔ العنكبوت
30 العنكبوت
31 لواطت کے نقصانات ف 1: حضرت لوط کا پیغام خصوصی یہی تھا ۔ کہ وہ سدومیوں کو اس لعنت سے بچائیں ۔ اور ان کو بتائیں کہ تمہاری یہ حرکات نوع انسانی کے لئے نہایت شرمناک اور مضر ہیں ۔ چنانچہ ارشاد ہے کہ تم عورتوں کو چھوڑ کر لونڈوں سے جذبات شہوت کی تسکین کا سامان بہم پہنچاتے ہو ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نسل انسانی منقطع ہوجائے گی ۔ وتقطعون السبیل سے یہی مقصود ہے ۔ کہ تمہارے ان افعال سے افزائش نسل کی راہیں مسدور ہوجائیں گی * سوال یہ ہے کہ یہ فعل عنداللہ اس درجہ مبغوض کیوں ہے ۔ کہ اللہ نے اس کے انسداد کے لئے حضرت لوط کو رسول بنا کربھیجا ۔ اور آخر میں انکار کی وجہ سے ان کو ہلاک کردیا گیا ۔ بعض یونانی اخلاقیئن نے اس کو بےضرر کلچر کے نام سے موسوم کیا ہے لیکن انہوں نے اس کی بہت سی خرابوں پر گہری نظر نہیں ڈالی ۔ جن میں سے کچھ ذیل میں درج کی جاتی ہیں * (1) طبی اور عضویاتی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے ۔ تو اس مرض کے لوگ جنسی اعتبار سے بالکل بےکار اور عنین ہوجاتے ہیں *(2) اخلاقی لحاظ سے قوم میں بزدلی ۔ بددلی ۔ یاس اور قنوط کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں *(3) اجتماعی نقصانات یہ ہیں کہ سماج میں فواحش کا رواج اور غلبہ ہوجاتا ہے *(4) دماغی پستی اس کا لازمی اور فوری نتیجہ ہے *(5) جو نسل پیدا ہوتی ہے ۔ وہ کمزور ۔ بیمار ۔ اور موت کا جلد لقمہ ہوتی ہے *(6) عورتیں مردوں کی فطری رفاقت سے عموماً محروم ہوجاتی ہیں *۔ سب سے بڑا جامع نقصان وہی ہے ۔ جو قرآن نے بیان کیا ہے ۔ کہ باہمت ۔ شاندار اور مضبوط نسل کا انقطاع ہوجاتا ہے بقیہ حاشیہ الغرض حضرت لوط نے جب ان لوگوں کو پاکبازی کی تلقین کی ۔ اور بتایا ۔ کہ تمہارے یہ افعال نہایت برے ہیں اور اس لائق ہیں کہ اللہ کا عذاب تم پر آئے ۔ اور تم کو ہلاک کردے ۔ تو انہوں نے ازراہ بدبختی اور محرومی بجائے توبہ و استغفار کے عذاب طلب کیا چنانچہ اللہ کے فرشتے پہلے حضرت ابراہیم کے پاس آئے ۔ ان کو بیٹے کی خوشخبری دی ۔ اور پھر کہا ۔ کہ ہم آگے بڑھ رہے ہیں ۔ اور سدومیوں کو ہلاک کردینے کا قصد ہے * ابراہیم نے کہا ۔ اس بستی میں تو لوط بھی رہتے ہیں ۔ فرشتوں نے کہا ۔ ہم جانتے ہیں ۔ اس کو اور اس کے ماننے والوں کو بجاس کی منکر بیوی کے ہم نجات دیں گے ۔ اور عذاب سے بچالیں گے اور باقی بدکرداروں کے لئے ہلاکت مقدر ہے ۔ اس کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس آئے ۔ وہ ان کو دیکھ کر خوف زدہ اور رنجیدہ ہوئے کہ تباہی کا وقت آگیا فرشتوں نے تسلی دی اور کہا ۔ کہ آپ کو اور آپ کے عقیدتمندوں کو بچا لیا جائے گا ۔ البتہ آپ کی بیوی معذبین میں سے ہے کیونکہ اس نے پرانی بد رسموں کا ساتھ دیا ۔ اور توحید وپاکیزگی کے پروگرام پر کان نہ دھرا *۔ العنكبوت
32 حل لغات :۔ الغابرین ۔ پیچھے رہنے والوں میں * ضاق بھم زرعا ۔ العنكبوت
33 حل لغات :۔ (رنجیدہ اور تنگ دل ہوئے) محاورہ ہے ۔ یعنی لوط (علیہ السلام) نے فرشتوں کے آنے سے ایک قسم کی تکلیف اور الجھن محسوس کی ۔ العنكبوت
34 حل لغات :۔ رجز ۔ عذاب سختی ۔ تکلیف * وارجوالیوم الاخر رجا کے معنے خوف اور امید دونوں کے ہیں العنكبوت
35 العنكبوت
36 ایام اللہ ف 1: ان آیات میں تذکیر ایام اللہ کے تحت ہلاک شدہ قوموں کا ذکر ہے ۔ کہ کیونکر انہوں نے حق وصداقت کو ٹھکرایا ۔ اور کیونکر عذاب کے مستحق ٹھہرے ۔ ارشاد ہے کہ مدین والوں کے پاس ہم نے حضرت شعیب کو بھیجا ۔ انہوں نے کہا ۔ اے قوم ! ایک اللہ کی عبادت کرو ۔ توحید اصل دین ہے ۔ فطرت کا تقاضا ہے ۔ دل کی آواز ہے معقول اور صحیح حقیقت ہے ۔ اور یوم آخرت کے محاسبہ سے ڈرو ۔ کہ ایمان بالآخرت سے دلوں میں نیکی کی تحریص پیدا ہوتی ہے اور کفر اختیار کرکے زمین میں فساد نہ مچاؤ* اس سے معلوم ہوتا ہے ۔ کفر بجائے خود تخریب ہے ۔ تباہی ہے اور ہلاکت ہے ۔ اور جو لوگ انبیاء کے پیش کردہ نظام کو نہیں مانتے وہ عالم کون ومکان کو غارت کردیئے میں براہ راست ممدومعان ہوتے ہیں * ان لوگوں نے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی آواز پر کان نہ دھرا ۔ اور روائتی بدبختی سے کام لیتے ہوئے ان کی تکذیب کی ۔ اور کفروشرک پر مصررہے ۔ نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ قیامت آخرین زلزلہ آیا اور عبرت بنا گیا ۔ پھر دیکھو ۔ کہ عاد اور ثمود کی بستیاں کس طرح الٹ گئیں * شیطان نے ان کے اعمال کو سنوار کر پیش کیا ۔ اور راہ ہدایت سے روکا ۔ اور باوجود ہوشیار اور سمجھ دار ہونے کے اس کے اداؤں میں آگئے * قارون کے حالات سنو ۔ کہ سرمایہ داری نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ۔ وہ دولت کے نشہ میں اس درجہ سرشعار ہوا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو بالکل بھول گیا * اور کہنے لگا کہ میرے مال میں ان کا کوئی حصہ نہیں ۔ میں نے اپنے خزائن دولت کو اپنی عقل وفراست سے پیدا کیا ہے ۔ اس میں اللہ کے فضل اور اس کی بخشش کو کوئی دخل نہیں ۔ اس لئے میں نہ تو اس کی راہ میں کچھ دینے کو تیار ہوں ۔ اور نہ اس کے دین کو مانتا ہو * اسی طرح فرعون اور ہامان علوہ اقتدار کی خواہش میں اندھے ہوگئے اور ہرچند حضرت موسیٰ نے ان کے سامنے دلائل رکھے ان کو حق اور سچائی کی دعوت دی ۔ مگر انہوں نے تکبر وغرور کو نہ چھوڑا اور کسی طرح بھی بنی اسرائیل کو آزادی نہ دی * العنكبوت
37 حل لغات * الرجفتہ زلزلہ ۔ کپکپی * العنكبوت
38 العنكبوت
39 العنكبوت
40 ف 1: اس لئے ان حالات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا انتقام بھڑکا ۔ اور ان سب کو فنا کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ بعض پر پتھر برسے اور بعض کو چیخ اور شدید آواز نے موت کی نیند سلادیا ۔ بعض زمین میں دھنس گئے ۔ اور بعض پانی میں ڈوب گئے *۔ اللہ عذاب کو پسند نہیں کرتا ف 1: وماکان اللہ یطبھم سے مقصود یہ ہے کہ اللہ کا عذاب اس طرح نہیں آتا ۔ کہ وہ یونہی بلا کسی عذر اور وجہ کے غیض وغضب سے بےتاب ہوجائے ۔ اور اپنے بندوں کو ہلاک کردے ۔ بلکہ ہوتا یہ ہے ۔ کہ جب بندے اس کی مہربانیوں کو ٹھکرادیتے ہیں ۔ اس کے پیغام محبت وشفقت کو نہیں مانتے ۔ جب وہ بلاتا ہے ۔ اور یہ اکڑتے ہیں ۔ جب وہ فضل وکرم سے نوازنا چاہتا ہے ۔ تو یہ اپنے لئے غضب اور ناراضگی کو پسند کرتے ہیں جب وہ جنت کے دروازوں کو دا کرتا ہے ۔ اور یہ جہنم کی طرف دوڑتے ہیں ۔ وہ انہیں باقی رکھنا چاہتا ہے ۔ اور یہ فنا کی طرف لپکتے ہیں ۔ اور جب وہ انہیں دنیا کی سرداری بخشنا چاہتا ہے ۔ تو یہ ذلت ورسوائی اختیار کرتے ہیں ۔ تو اس وقت اس کا قاعدہ ہے ۔ کہ ایسے ناشکروں اور نااہلوں سے زمین کو پاک کردیا جائے ۔ ورنہ اس سے زیادہ رحیم اور کون ہوسکتا ہے ؟ جس نے کہ ان کو پیدا کیا خلعت وجود بخشا ۔ زندگی عنایت کی ۔ اور کائنات کو ان کی خدمت پر مامور کردیا ۔ کیا یہ سارے انتظامات اس نے محض اس لئے کئے ہیں کہ اپنے بندوں کو یونہی غصہ میں آکر ہلاک کردیے ۔ نہیں وہ قطعاً نہیں چاہتا ۔ کہ اس کے بندے فنا اور عذاب کی آغوش میں جائیں ۔ اسی لئے وہ پیغمبر بھیجتا ہے ۔ کتابیں نازل کرتا ہے ۔ معجزات اور خوارق سے ان کو ہوش میں لانے کی کوشش کرتا ہے ۔ تاکہ وہ سمجھیں ۔ اور اللہ کے پیغام کو عقیدت سے سنیں ۔ اور دنیا وعقبے کی نعمتوں سے بہرہ وار ہوں ۔ مگر جب یہ لوگ باوجود ان خواز اشہائے بےحد کی گمراہی پر قائم ہوں ۔ تو پھر سوائے ہلاکت کے اور کیا طرز عمل موزوں ہوسکتا ہے *۔ حل لغات :۔ حاصباً ۔ حصباء سے ہے یعنی پتھروں کی بارش *۔ العنكبوت
41 ایک بےمثل تشبیہہ ف 1: حقیقت یہ ہے کہ مشرکین کے عقیدہ کی کمزوری اور ان کی بےچارگی کی اس سے بہتر مثال نہیں بیان کی جاسکتی * غور فرمائیے کہ گھر کی غرض کیا ہوسکتی ہے ۔ یہی کہ وہاں آرام اور آسودگی ہو ۔ گرمی اور سردی سے پناہ ملے ۔ اور بادوباران کے وقت آرام میسر ہو ۔ مگر مکڑی کے گھر میں یہ چیزیں کہاں حاصل ہوسکتی ہیں ۔ ہوا کا ایک جھونکا اس کو برباد کرسکتا ہے ۔ اور آگ کا ایک شرارہ اس کے سارے تانے بانے کو فنا کرسکتا ہے *۔ حل لغات :۔ العنکبوت ۔ مکڑی * اوھن ۔ بہت زیادہ بودا العنكبوت
42 العنكبوت
43 ف 2: جس طرح اس عنکبوت کے کمزور اور ناچیز گھر میں پناہ نہیں مل سکتی ۔ اور یہ گھر آرام و آسودگی باعت نہیں ہوسکتا ۔ اسی طرح مشرک جو اوہام و خرافات اور مشرکانہ خیالات کا ایک مکان تعمیر کرنا چاہتا ہے ۔ سو اس کو معلوم ہونا چاہیے ۔ کہ یہ مکڑی کے گھر کی طرح دنیا بھر کے گھروں سے بودا اور نکما ہوتا ہے ۔ ذرا سی معقولیت اور ادنی سی بصیرت بھی اس کو ڈھادینے کے کافی ہے * یعنی شرک کا گھر جو آدمی اپنے دماغ وقلب میں خیالات کے آرام اور آسودگی کے لئے بناتا ہے اس سے ہرگز یہ ضرورت پوری نہیں ہوتی * ارشاد ہے ۔ کہ یہ امثال ان لوگوں کے لئے وجہ ہدایت ہوسکتی ہیں ۔ جو عالم اور سمجھدار ہیں ۔ اور واقعہ یہ ہے کہ یہ نہایت عمدہ تشبیہہ ہے اور اس کو سمجھنے کے لئے صحیح سلیقہ کی ضرورت ہے *۔ حل لغات : بالحق ۔ یعنی غرض ومقصد کے موافق درست و راست *۔ العنكبوت
44 العنكبوت
45 نماز برائیوں سے روکتی ہے ف 1: مقصد یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جائے ۔ اور بتایاجائے ۔ کہ آپ کا کام اللہ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانا ہے ۔ چاہے وہ قبول کریں یا رد کریں ۔ یہ آپ کے فرائض میں داخل نہیں ۔ کہ لاہد آپ ان کے دلوں تک رسائی حاصل کریں ۔ اور زبردستی ایمان کی دولت ان کے سپرد کردیں ۔ اس سلسلہ میں یہ ضروری تھا ۔ کہ گذشتہ اقوام وملل کے حالات بتلائے جائیں ۔ اس لئے ارشاد فرمایا ۔ کہ آپ قرآن پڑھیں ۔ اور دیکھیں ۔ کہ باوجود انبیاء کی سعی کی بلیغ کے انسانوں کا کثیر طبقہ رشدوہدایت سے محروم رہا ۔ اس لئے اگر یہ لوگ بھی ان بدبختان ازلی میں داخل ہوں ۔ اور قرآن کی برکات سعادت حاصل نہ کریں تو آپ قطعاً تکلیف اور کوفت محسوس نہ کریں *۔ نماز کے متعلق یہ تصریح ہے ۔ کہ اس کے قیام سے مسلمان میں ترک فواحش کی زبرست استعداد پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور نمازی کے لئے ناممکن ہوجاتا ہے ۔ کہ وہ اللہ کی نافرمانی کی جرات کرسکے ۔ اس کے دل میں تقویٰ اور پرہیزگاری کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں ۔ جو اسے ہر برائی کے ارتکاب سے روکتے ہیں ۔ نماز کے معنے یہ ہیں کہ ایک گنہگار انسان اللہ سے پاک بازی کا عہد کرتا ہے ۔ اور دن رات میں پانچ وقت برابر اللہ کے حضور پیش ہوتا ہے ۔ یہ ایسا تعلق اور ایسی وابستگی ہے ۔ کہ جس کے ساتھ گناہوں کا اجتماع محال ہے ۔ نمازی نفس کی تمام خواہشات کے ساتھ جنگ کرتا ہے ۔ اور اپنے کو کامل طور پر اللہ کے سامنے جھکا دیتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ایسے مظاہر عبودیت کی تکرار انسان کو مکمل مطیع ومنقاد بنادیتی ہے ۔ اور اس طرح کی مستحق نیازمندی سے انسان لامحالہ زہدوروع کی انتہائی بلندیوں پر متمکن ہوجاتا ہے ۔ مگر یہ کیفیت اس وقت حاصل ہوتی ہے ۔ جبکہ نماز کو اس کی روح اور معنویت کے ساتھ ادا کیا جائے ۔ جب اس کو سچے معنوں میں عبادت قرار دیا جائے ! اور اس کی تمام شروط لازمہ کا خیال رکھا جائے ۔ خضوع وخشوع کا دلوں پر غلبہ ہو ۔ اور مقام احسان نگاہوں سے اوجھل نہ ہو *۔ حل لغات :۔ الفحشاء ۔ وہ برائی جس کا تعلق افراد سے ہو اور بالطبع ظاہر ونمایاں ہو ۔ وہ برائی جو حد سے گزر جائے * المنکر ۔ وہ برائی جسے سوسائٹی برا سمجھے ۔ وہ برا کام جس کو ہر دیکھنے والا ناپسند کرے * العنكبوت
46 العنكبوت
47 ف 1: اہل کتاب اور مسلمان میں مذہب کے باب میں بہت سی باتیں مشترک ہیں ۔ وہ بھی خدا کے قائل ہیں ۔ ملائکہ کو مانتے ہیں ۔ حشر ونشر کو تسلیم کرتے ہیں ۔ اور جنت ودوزخ کے معتقد ہیں ۔ اس لئے ارشاد ہے کہ جب ان لوگوں سے بحث کرو ۔ تو عمدہ اور احسن طریق سے ۔ جاذب اور موثر انداز سے ۔ ایسا نہ ہو ۔ کہ وہ تمہاری سختی اور خشونت سے اپنے مسلمات کا بھی انکا رکردیں * الا الذین ظلموا سے مراد وہ لوگ ہیں جو مشرک ہیں اور خدا کے ساتھ دوسروں کو ساجھی قرار دیتے ہیں ۔ قرآن کی رو سے یہ لوگ کسی اخلاقی رعایت کے مستحق نہیں * العنكبوت
48 امی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ف 2: اس آیت میں قرآن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان امت کو پیش کرتا ہے ۔ کہ وہ شخص جس نے توحید کے اسرار ورموز کو وہ شگاف طور پر بیان کیا جس نے انسانوں کی صحیح رانمائی کی ۔ جس نے مذہب کی مشکل لتھیوں آن کی آن میں نہایت آسانی سے سلجھادیا ۔ جس نے نفس عقل کو حیران وششدر کردیا ۔ جس کی حکمت حکمت بانعہ جس نافرمان فرمان فطرت ۔ جو دنیا جہان کا محبوب ہے ۔ جس کے ادنی خادموں کی غلامی فلسفہ نے صدیوں تک کی ۔ جس نے قرآن ایسی عظیم الشان کتاب پیش کی جس نے قیامت تک کے لئے دماغوں کو مخاطب کرکے کہا ۔ کہ اگر تمہیں اس کی عظمت میں کلام ہے ۔ تو آؤ اس کا مقابلہ کرکے دیکھ لو ۔ وہ امی تھا ۔ اس نے کسی شخص کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہیں کیا ۔ وہ ذہن وقلب کے لحاظ سے کسی انسان کا ممنون احسان نہیں ۔ ورنہ کہنے والوں کو موقع ملتا ۔ کہ یہ کلام سن کر اپنا کلام ہے ۔ جو اللہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے *۔ العنكبوت
49 قرآن محفوظ ہے ف 3: اس آیت میں قرآن کی اس فضیلت کا اظہارہے ۔ کہ یہ کتاب گذشتہ کتابوں کی طرح ضائع نہ ہوگی ۔ اور کسی طرح کی تحریف اور تبدیلی اس میں نہیں ہوسکے گی ۔ کیونکہ اس کی حفاظت صرف کاغذ اور روشنائی قلم پر موقوف نہیں ۔ بلکہ یہ سفینوں کے ساتھ بےانتہا انسانوں کے سینوں میں موجود رہینگی ۔ چنانچہ آج تمام دنیا کی مذہبی کتابوں میں یہ درجہ صرف قرآن مجید کو حاصل ہے کہ اس کا لفظ لفظ اہل علم کے حافظے میں مرتسم ہے * یہ ہوسکتا ہے کہ مذاہب پر ایسی آفت آئے ۔ کہ اس کا سارا ذخیرہ دینی تلف ہوجائے ۔ مگر یہ ناممکن ہے کہ قیامت تک قرآن کو کسی نوع کا صدمہ پہنچ سکے ۔ جب تک ایک حافظ قرآن بھی زندہ ہے ۔ اس وقت تک اسلام کی تعلیمات زندہ ہیں غور فرمائیے ۔ آج ویدوں کے محققین بر ملا کہہ رہے ہیں کہ ان کے مشن میں مخالفین نے یہ بہت کچھ گھٹا بڑھا دیا ہے ۔ تورات مدت ہوتی کہ یہودیوں کی چیرودستیوں کی وجہ سے ناپید ہے اور انجیل کا تو دوسری صدی عیسوی تک تو اور روزگار میں شمار ہوچکا تھا ۔ اور اہل نسخہ مفقود تھا ۔ تیسری صدی میں تو جعلی انجیلوں کی یہ کثرت تھی کہ جامعین کے نسخوں کے مقابلہ کرنے میں سخت مشکلات پیش آئیں ۔ اور ان کو اعتراف کرنا پڑا ۔ کہ کوئی نستخہ قابل اعتماد نہیں * مگر قرآن کو دیکھئے کہ لیل ونہار کی ہزاروں گردشوں کے بعد بھی اسی شکل میں اس کو حضور ؐنے پیش کیا تھا ۔ اس وقت تک ایک حرف بلکہ ایک زیر یا زبر کا بھی فرق نہیں ہوا ۔ اسی وجہ سے آج بھی مخالفین یہ کہنے پر مجبور ہیں ۔ کہ قرآن یقینا ہر قسم کی تخریفات سے پاک ہے *۔ حل لغات :۔ یجھد جحد سے ہے بمعنے انکار * العنكبوت
50 ف 1: نزول قران سے پیشتر لوگوں میں معجزہ طلبی کا مرض پھیل چکا تھا اور انسان دماغ اس حت تک نسبت ہوچکا تھا ۔ کہ جب تک کرشمہ وعجائب سے ان کی آنکھوں میں چکا چوند نہ پیدا کی جاتی کسی حقیقت کہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے تھے ۔ گویا ان کے نزدیک صدق وراستی کا معیار تجربہ وعمل نہ تھا ۔ بلکہ یہ بات تھی کہ اس پیش کرنے والا کس درجہ غرائب ونوا اور پر قادر ہے ۔ چنانچہ حضور (علیہ السلام) نے اسلام کی ٹھوس اور سچی تعلیمات کو پیش کیا ۔ تو ان لوگوں نے اسی ذہنیت کے ماتحت کہا ۔ کہ ہم ان باتوں کو اس وقت تک ماننے کے لئے آمادہ نہیں ۔ جب تک کہ آپ معجزات نہ دکھائیں ۔ اور حیرت زانشانیوں کو پیش نہ کریں ۔ ان آیات میں ان کی ذہنیت کا جواب دیا ہے ۔ ارشاد ہے کہ ظالموں یہ چیز پیغمبر کے فرائض میں داخل نہیں ہے کہ وہ تعلیم کے ساتھ خوارق کو بھی پیش کرے اور نہ یہ صداقت کا معیار ہے کہ اس کو پیش کرنے والا قدرت اور فطرت کے امور میں تصرف کا دعویدار بھی ہو ۔ پیغمبر تو صرف اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ کچھ پیش کرے وہ حق ہو ۔ درست ہو ۔ اور بنی نوح انسان کے لئے ارتقاع عروج کا باعث ہو ۔ فرمایا نشانیاں اللہ کے قبضہ اختیار میں ہیں ۔ میں تو اس کی طرف سے محض اس لئے مامور ہوں ۔ کہ تمہاری اصلاح کروں اور تم کو گناہ ومعصیت کے انجام بد سے آگاہ کروں * اور اگر تم معجزہ ہی دیکھنا چاہتے ہو تو قرآن کو دیکھو یہ سب سے بڑا معجزہ ہے ۔ اس میں رحمت وتذکار کا وافر سامان موجود ہے ۔ شرط یہ ہے کہ تمہارے دلوں میں ایمان کی روشنی ہو ۔ اور تمہارے دماغوں میں مان لینے اور تسلیم کرلینے کی صلاحیت ہو * العنكبوت
51 حل لغات :۔ ذکری ۔ نصیحت العنكبوت
52 حل لغات : الخسرون ۔ یعنی درحقیقت خسران میں رہنے والے لوگ العنكبوت
53 حل لغات : بغتۃ ۔ خلاف توقع ۔ ناگہاں * العنكبوت
54 العنكبوت
55 العنكبوت
56 ہجرت ف 1: اسلام چونکہ تہذیت وتمدن اور عقائد وعبادات کے لحاظ سے ایسا مذہب نہیں ہے جس میں کسی خاص ماحول یا فضا کے ساتھ دینی اختصاص ہو ۔ اس لئے وہ بالطیع قیود ووطن سے آزاد ہے ۔ اس کے نزدیک ہر وہ خطہ ارض وطن ہے ۔ جہاں مسلمان مومنین اسلامی زندگی بسر کرسکے ۔ اور ہو وہ جگہ چھوڑ دینے کے لائق ہے جہاں دین کی آزادی میسر نہیں ۔ اگرچہ وہ مکہ جیسی متبرک جگہ ہی کیوں نہ ہو اسلام ایسا مکمل حدود تا آشیانہ اور ہمہ صداقت مذہب ہے کہ لاہ مکان ونسان کی حدود سے بےنیاز ہے ۔ ساری دنیا کیوسعتیں اس کا صحن مکانی ہیں ۔ چنانچہ ارشاد ہے ارغی واسعۃ یعنی میری زمین میرے مومن بندوں پرکشادہ ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ ملکی رسم ورواج یا ملک کا مستبعدانہ قانون مسلمان کی روح آزادی کو نہ کچل دے ۔ مسلمان کوہر آن لازم ہے ۔ کہ اسکے دل اور جسم پر بجز رب کعبہ کے کسی کی حکومت نہ وہ جب جھکے ! اس کے سامنے جھکے اور جب محبت کا اظہار کرے تو اسی سے کرے العنكبوت
57 ف 2: ان آیات میں اس حقیقت کا اظہار فرمایا ہے کہ ہر نفس کے لئے موت مقدر ہے ۔ ہر شخص کو مرنا ہے ۔ یہ چاہے وہ جلالت قدر اور عظمت میں ساری دنیا سے بڑھا ہوا ہو ۔ اس لئے اسے دنیا کی زندگی میں سمجھ لینا چاہیے ۔ کہ کہیں ہجرت وجہاد سے تحلف اس بنا پر نہیں کہ موت سے خائف ہے اور ہجرت وجہاد کو ہلاکت کا سبب سمجھتا ہے ۔ اگر حین بزدلی کا یہ بندیہ دل میں ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ موت کے لئے کوئی جگہ یا وقت اور کیفیت کا سوال نہیں ۔ وہ ہر وقت اور جگہ آسکتی ہے ۔ اس کے حملوں سے کوئی شخص نہ کبھی بچا ہے اور نہ بچ سکتا ہے ۔ پھر کیا صورت بہتر نہیں کہ اللہ کی راہ میں اس کے دین کے اعلاء میں اور اس کی آزادانہ تبلیغ واشاعت میں ہم موت سے ہم کنار ہوں !* ارشاد ہے کہ وہ لوگ جو ایمان کی نعمت سے کماحقہ بہرہ ور ہیں ۔ جنہیں دولت ایمان فی الحقیقت عزیز ہے اور جو عمل وسعی کا پیکر ہیں اللہ اگر دنیا میں ہمارے لئے اپنی محبوب ترین آسائشوں کو چھوڑدیتے ہیں تو ہم بھی ان کے لئے کچھ کم مہربانیوں اور شفقتوں کا اظہار نہیں کرتے ۔ ہم اخروی زندگی میں ان مکانوں سے کہیں بہتر مکان ان کو رہنے کے لئے دینگے ۔ جن کو وہ ہماری خاطر چھوڑ رہے ہیں ۔ ہمارے ہاں سعی وعمل کا نہایت عمدہ صلہ ہے ۔ ہاں اس تصور اجر کو تسلیم کرنے کے لئے اور ہجرت پر آمادہ ہونے کے لئے زبردست صبر وتوکل کی ضرورت ہے پھر شخص کے یہ بس کی بات نہیں کہ وہ خدا کے لئے اپنا تمام متاع لٹا دے اور ہجرت کی صعوبتوں اور مشقتوں کو برداشت کرے *۔ حل لغات :۔ ذائقۃ الموت ۔ ذوق سے ہے ۔ جس کے معنے چکھنے کے ہیں مقصد یہ ہے کہ تم تو موت کی تلخیوں سے بچنا چاہتے ہو ۔ مگر شربت فنا کے گھونٹ تمہارے حلق میں اتر کر رہیں گے ۔ اور تم کسی طرح بھی اس کے جرعات سے کام ودہن کو محفوظ نہیں رکھ سکتے العنكبوت
58 حل لغات * غرفا ۔ بالا خانے ۔ غرفۃ کی جمع ہے *۔ العنكبوت
59 العنكبوت
60 العنكبوت
61 العنكبوت
62 ف 1: دنیا میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کی ساری کوششیں فکرمعاش پر مرکوز ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے بڑی ذمہ داری قدرت کی جانب سے ان پر عائد نہیں ہوتی ہے ۔ دن رات اس غم میں گھلے جارہے ہیں ۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے لوگوں کے لئے ہجرت کا مسئلہ بہ نسبت دوسرے لوگوں کے زیادہ ٹیڑھا ہے ۔ وہ سب سے پہلے یہ سوچتے ہیں ۔ کہ اس وقت تو بمشکل تگ ودو کرکے برسوں کی محنت ورسوخ سے روزی مل رہی ہے ۔ جب اپنا ملک چھوڑ دیں گے اور بالکل غیروں کے ہاں جا کربسیں گے ۔ تو پھر کھائیں گے کہاں سے ؟ ان پیٹ کے بندوں سے اس آیت میں مخاطب سے ، کہ کم بختو ، تم کس قدر کونا ہمت ہو اللہ پر تمہارا بھروسہ کس درجہ کم ہے ۔ تم حیوانات سے بھی گزر گئے ہو ۔ دیکھو ۔ وہ باوجود عقل وخرد کی کوتاہی کے فکر معاش سے کتنے بےپرواہ ہیں ۔ وہ دن کا کھانا کھا کر کبھی رات کے کھانے کی فکر میں غلطاں وپیماں نہیں رہتے ! اور رات کو دن کی فکر میں نہ گھلتے اللہ برابر ان کو کھانا دیتا ہے تمہیں رزق کی تقسیم پر مقرر نہیں کیا گیا ہے تم خود آپ اپنے رازق نہیں ہو ۔ تمام کائنات کو وہی دیتا ہے تم کو بھی وہی دیگا ۔ توکل اور بھرورسہ شرط ہے * العنكبوت
63 العنكبوت
64 حل لغات :۔ لھو ۔ کے معنی اصل میں برگشتہ کرنے کے ہیں یعنی دنیا ایسا مقام ہے جس کے مشاغل عقبی کی فکر سے انسان کو برگشتہ کردیتے ہیں اور ان عارضی دلچسپیوں میں پڑ کر انسان کچھ اس قدر کھو جاتا ہے کہ دنیا کا جاودانی پہلو اس کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے لعبا ۔ سے مراد یہ ہے کہ یہ دنیا ایسی چیز نہیں جسے آپ غیر ضروری وقعت دیں اور اسے بہت اہم سمجھیں اصل زندگی کے مقابلے میں اور زندگی کی حقیقی تگ و دو کے مقابلہ میں اس کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے کھیل کود کی یعنی دنیا کی دلچسپیاں محض اس لئے ہیں کہ ان کی روحانی زندگی کی جانغسل مساعی کو جاری رکھنے کے لئے مدد مل سکے ! اور نفس کو تھوڑی سی آسودگی حاصل ہوجائے اور بس العنكبوت
65 العنكبوت
66 توحید کا اقرار ف 1: توحید کے متعلق اسلامی نظریہ یہ ہے ۔ کہ فطرت کا عقیدہ سے دل کی آواز ہے ! اور ایسی صداقت ہے جس کا انکار ہوش وحواس کی سل امتی میں قطعاً ممکن نہیں ۔ اس لئے قرآن حکیم فرمتا ہے ۔ کہ جب ان مکہ کے مشرکوں سے پوچھا جاتا ہے ۔ کہ بتاؤ آسمانوں اور زمین کو کس نے بنایا ہے اور سورج اور چاند کو کس نے تمہارے لئے مسخر کردیا ہے ؟ تو یہ لوگ بےاختیار چلا اٹھتے ہیں کہ خدا نے وہی رزق کو بانٹتا ہے ۔ اور کشائش وتنگی اسی کے دست قدرت میں ہے ۔ اسی طرح جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ جس وقت زمین اپنی تروتازگی کھو بیٹھتی ہے ۔ باغ وراغ پانی کے ایک ایک قطرے کو ترستے ہیں ۔ جب کھیتیاں ختک ہوجاتی ہیں ۔ تو اس وقت کون پانی برساتا ہے ۔ کس کی رحمت جوش میں آتی ہے ۔ اور کون چند لمحوں میں جل تھل کردیتا ہے ۔ ان سب باتوں کا جواب یہی ہے کہ خدا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حقیقت جو ان کے لبوں تک آتی ہے ۔ دراصل فطرت کی آواز ہے ۔ دل کی گہرائیوں کی صدا ہے ۔ مگر یہ لوگ دنیا کی عشرتوں میں پڑ کر اس درجہ غافل ہوجاتے ہیں ۔ کہ دل کی باتیں سننے کے لئے ان کے پاس فرصت ہی نہیں رہتی ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ روشنی ماند پڑجاتی ہے ۔ یہ آواز ہزاروں خواہشوں تلے دب جاتی ہے اور اس وقت ظاہر ہوتی ہے ۔ جب یکایک کوئی مصیبت ان کو گھیر لیتی ہے ۔ اور یہ مخلصی کی کوئی راہ نہیں پاتے ۔ جب کشی میں سوار ہوتے ہیں ۔ اور موجیں چاروں طرف سے موت کا پیغام لے کر آتی ہیں ۔ اور بڑھ بھ کر ان کو سناتی ہیں ۔ اور اس شوروغل میں یہ حواس کھو بیٹھتے ہیں ۔ تو ٹھیک اس وقت فطرت خوابیدہ بیدار ہوتی ہے ۔ اور دل کی روشنی برروئے کار آتی ہے اور خواہشات سے دبی ہوئی آواز لب تک آنے کی جرات کرتی ہے ۔ اس وقت یہ لوگ بڑے خلوص اور بڑی صداقت سے اللہ کو یاد کرتے اور جب یہ مصیبت دور ہوجاتی ہے ۔ زندگی کے جذبات پھر ان کو اپنی جانب متوجہ کرلیتے ہیں ۔ اور یہ پھر خدا کو بھول جاتے ہیں اور پھر دیوی دیوتاؤں کو پوجنا شروع کردیتے ہیں ۔ انسان کی نفسیات کی اور عبرت کی کتنی سچی تصویر اللہ نے کھینچی ہے ؟ کہ یہ مصیبت کے وقت تو اللہ کی طرف دوڑتا اور لپکتا ہے ۔ مگر مسرت میں اس کو بھول جاتا ہے * ان آیات کے ضمن میں بتایا ہے کہ وہ دنیا جو اس کے لئے گمراہی کا باعث ہوتی ہے ۔ اپنے رتبے اور مقام کے لحاظ سے کس درجہ حقیر اور ذلیل ہے ۔ اس کی بےثباتی اور فنا پذیری کو دیکھئے ، تو معلوم ہوتا ہے ۔ محض گھروندا ہے ۔ ایک کھیل ہے ۔ تماشا ہے ۔ مگر لوگ بےسمجھ ہیں ۔ کہ اس پر جان تک فدا کررہے ہیں ۔ کیا دانائی اور عقلمندی کا یہ تقاضا نہیں ۔ کہ دائمی اور ابدی زندگی کے لئے کوشش کی جائے ۔ اور آخرت کے لئے زاد سفر مہیا کیا جائے * دارآخرت کو لھی الحیون کے لفظ سے تعبیر کرکے قرآن کے اس نظریہ کی تائید فرمائی ہے ۔ کہ زندگی غیر متقطع اور مسلسل ہے اور موت کے معنے محض یہ ہیں ۔ کہ انسان ایک عارضی لباس کو کھینچی کی طرح اتار پھینکتا ہے ۔ اور ایک دوسرا جادوانی لباس پہن لیتا ہے *۔ العنكبوت
67 حل لغات : ویتخطف الناس من حولھم یعنی یہ لوگ محض بیت اللہ کی وجہ سے امن وضمانیت کی زندگی بسر کررہے ہیں اور سارے ملک میں فساد کی آگ مشتعل ہے ۔ حقیقت * تلیین کے لغوی معنے اچک لیجانے اور اٹھا لیجانے کے ہیں * العنكبوت
68 العنكبوت
69 فیوض رحمت کی بارش ف 1: عرفان اور سلوک کی وسعتیں بےانتہا ہیں ۔ اور مجاہدین ذات وتفرید کے لئے داد بہائے ایمن بوقلمون کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا ۔ کہ اس نے تجلیات وانوار کا پور پورا احاطہ کرلیا ہے ۔ جس قدر اس خطیرہ قدس کا قرب حاصل ہوگا ۔ اسی تناسب سے نظروں میں وسعت پیدا ہوگی ۔ اور معلوم ہوگا کہ ہزار وہزار پردے درمیان میں حائل ہیں ۔ اور مقامات واحوال کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ ان سب پر کسی شخص کا احاطہ ناممکن ہے ۔ ہاں یہ ضرورہے کہ جدوجہد کرنے والوں کے لئے اللہ کی طرف سے توفیق وتیسیرارزاقی ہے ۔ اور سالک ایک قسم کی اعانت اور شفقت محسوس کرتا ہے ۔ یعنی ہمت اور خلوص شرط ہے ۔ پروردگار عالم کے فیوض رحمت کی بارش کمزور اور ناتوان انسان پر ہمیشہ ہوتی ہے العنكبوت
0 الروم
1 الروم
2 ف 2: بات یہ تھی کہ مشرکین مکہ کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سخت عناد تھا ۔ اس لئے وہ نہیں چاہتے تھے ۔ کہ آپ کو اور آپ کی جماعت کو کسی طرح کی کامیابی حاصل ہو ۔ بلکہ وہ اس درجہ متعصف تھے کہ صریحات پرستی اور حمیمیت کی تائید کرتے کیونکہ یہ چیزیں اسلام کی روح کے بالکل متضاد واقع ہوئی ہیں اور ہر اس واقعہ سے خوش ہوئے ۔ جس کا تعلق مسلمانوں کی دل گرفتگی اور آزردگی سے ہوتا ہے ۔ چنانچہ جب ابرائیوں اور رومیوں میں جنگ چھڑی اور محبوسیت کو عیسائیت پر فتح ہوئی ۔ تو ان لوگوں نے مسرت واجتہاج کے شادیانے بجائے ۔ اس لئے نہیں ۔ کہ ایرانیوں سے فی القواعہ انہیں کوئی وابستگی تھی ۔ بلکہ محض اس لئے کہ اسلام سے دشمنی تھی ۔ اور ایرانی بالطیع مسلمانوں سے بہ نسبت اہل کتاب کے زیادہ دور تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ جس طرح یہ لوگ اہل کتاب پر غالب آگئے ہیں اسی طرح ہم بھی مسلمانوں پر تسلط جمالیں گے * سورہ روم کی ان آیات میں مشرکین کو متنبہ کیا ہے کہ تمہیں اس عارضی فتح پر مغرور نہیں ہونا چاہیے ۔ عنقریب یہ فتح وکامرانی شکست اور ناکامی میں تبدیل ہونے والی ہے ۔ پھر تمہاری پوزیشن کیا ہوگی ۔ اللہ کے ہاں یہ بات مددات میں سے ہے ۔ کہ ایرانیوں کا جاہ وحشم ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گا محض تمہاری ہمدردیاں ان کو عذاب الٰہی سے نہیں بچا سکتیں ۔ اگر تم اس واقعہ پر ضرور خوش ہونا چاہیے ہیں کہ وہ وقت دور نہیں جب مسلمان خوش ہونگے اور ایوان عجم پر رومی پرچم لہرارہا ہوگا ۔ چانچہ نو برس بعد ایک طرف تو مسلمانوں نے مقام جد پر چھٹاوید قریش کی جڑ کاٹ دی اور دوسری طرف روسیوں کو ایرانی شان وشکہ پر نمایاں غلبہ حاصل ہوا ۔ اور مکے والوں کے گھر صف ماتم بچھ گئی * غور طلب بات یہ ہے کہ کہ کیا اس طرح کی پیش گوئی بغیر تائید الٰہی کے ممکن ہے * حالات یہ ہیں کہ مسلمان ایرانی اور رومی طاقت اور قوت سے تو واسطہ ہی نہیں رکھتے ۔ ملک میں اخارات نہیں ہیں ۔ کوئی ذریعہ نشرواشاعت کا ایسا نہیں ہے جس سے اندازہ ہوسکے کہ آئندہ کیا ارادے ہیں ۔ مکہ کی طرف واقعہ ہے اور ایران وروم کے مرکزوں سے بہت دور ہے ایسی صورت میں ایک صحیح پیشگوئی کرنا بجز الہام اور تائید خداوندی کے بالکل محال ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ الہامی کتاب خدا کا کلام ہے * اس پیشگوئی سے یہ بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ نفیس پیشگوئی کے لئے یہ ضروری ہے ۔ کہ بالکل مخالف یا نامعلوم حالات میں کی جائے ۔ ورنہ ہر مستند شخص کے اختیار میں ہے ۔ کہ وہ واقعات کی روشنی میں آئندہ کے لئے کچھ کہہ سکے *۔ الروم
3 الروم
4 حل لغات :۔ بضع ۔ تین سے نو تک ہر عدد کو بضع کہتے ہیں ، الروم
5 الروم
6 الروم
7 ظاھرا ۔ اس جگہ لفظ ظاہر کو آخرت کے مقابلہ میں رکھا ہے ۔ جس کے معنے یہ ہیں ۔ کہ زندگی اصل میں نا مختتم اور مسلسل ہے ۔ مگر کوتاہ بینوں کو اس کا صرف وہ حصہ نظر آتا ہے جس کا تعلق دنیا سے ہے ۔ اور جو ظاہر ہے موت کے بعد کے واقعات جن کا مستقبل سے تعلق ہے ۔ ان تک ان کی رسائی نہیں ہے الروم
8 * بالحق ۔ حق کا لفظ قرآن حکیم میں کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ کائنات کو یونہی بلا فائدہ نہیں پیدا کیا گیا اس کے پیدا کرنے میں ایک غرض پنہاں ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان رب العزت کے حضور پیش ہونے کے لئے دنیوی نعمتوں سے استفادہ کرے *۔ الروم
9 تعلیمات اسلامی عقل پر مبنی ہیں ف 1: قرآن حکیم میں یہ خوبی ہے ۔ کہ وہ اپنی تعلیمات کی بنیاد فکروغور پر رکھتا ہے ۔ اور ہر شخص سے مطالبہ کرتا ہے ۔ کہ وہ سوچے سمجھے اور حقیقت کو خوب اچھی طرح پرکھے ۔ وہ نہیں چاہتا کہ لوگ محض مرعوب ہوکر اس کو تسلیم کرلیں ۔ اور ان کے دل مطمئن نہ ہوں ۔ بلکہ وہ چاہتا ہے کہ طالق حق ہر طرح کے شکوک سے دماغ کو پاک کرلے اور پوری طرح حلاوت ایمان سے بہرہ ور ہو ۔ قرآن حکیم کو اپنے عقائد پر اس درجہ یقین ہے ۔ کہ وہ عقل وخرد کی جانچ کے سوال کو خود پیدا کرتا ہے اور نبرو آزمائی کی دعوت دیتا ہے اس کی رائے میں جہاں تک سچائی اور صداقت کا تعلق ہے ۔ اسکو فطرت اور عقل سے کوئی خطرہ نہیں ہے ! ورنہ صرف خطرہ ، بلکہ عقل وفکر کا ارتقاء اس کے حقائق کو اور زیادہ روشنی میں لے آتا ہے ۔ کیونکہ اسلام بجاء خود نام ہے ۔ صداقت کا ۔ سچائی کا ۔ فطرت کا ۔ اور تجربات عقل وفکر کے پیش رس نتائج کا * اس آیت میں یہی کہا گیا ہے کہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے اور اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے ۔ کہ ایک دن اللہ کے حضور میں پیش ہونا ہے اور اپنے اعمال کے متعلق آخری فیصلہ سننا ہے ان کو چاہیے کہ عقل وہوش سے کام لیں اور سوچیں کہ اگر مکافات عمل کا اصول غلط اور بےمعنی ہے ۔ تو پھر اس نظام کائنات کو پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ اگر انسان اپنے اعمال میں بالکل آرا ہے اور مرنے کے بعد زندگی ختم ہوجاتی ہے اور اس کے بعد کوئی پرسش نہیں ہونے والی ہے ۔ تو پھر زندگی کے اس بکھیڑے سے کیا مطلب ہے ۔ یہ زمین و آسمان کی وسعتیں اور بلندیاں کیوں ہیں ۔ اور ایسا کیوں ہے کہ روزانہ آفات ہماری خدمت کے لئے چمکتا ہے اور چاند متحرک ہے اور ستارے مصروف گردش ہیں ۔ آخر حقیر انسان کی یہ خاطر داریاں کیا محض بےمقصد ہیں ؟ یا یہ درست ہے کہ ان ساری نعمتوں کے مقابلہ میں انسان سے پوچھا جائے گا ۔ کہ اس نے آخرت کے لئے کیا زاد مہیا کیا ہے ۔ اور کیسا توشہ جمع کیا ہے ؟ حل لغات :۔ اثاروا ۔ اثارۃ سے ہے ۔ یعنی کاشتکاری کے لئے زمین کو الٹ پلٹ کرنا ۔ جوتنا * ف 1: ان دو آیتوں میں بتایا ہے کہ دنیا ہی میں دیکھ لیجئے ۔ برے اعمال کا انجام کتنا عبرت ناک ہوتا ہے ۔ اس سطح معمورہ پر کئی قومیں آئیں ۔ رہیں سہیں ۔ اور مٹ گئیں ۔ کیونکہ انہوں نے خدا کے قوانین سے روگردانی اختیار کی * مکہ والوں سے تخاطب ہے ۔ کہ انہیں دولت وقوت پر گھمنڈ کیوں ہے ؟ ان سے پہلے کی قومیں ان سے کہیں طاقت ور اور مضبوط تھیں تمدن وتہذیب کے لحاظ سے بھی کہیں بڑھ چڑھ کر تھیں ۔ مگر تکذیب کی وجہ سے جب اللہ کا عذاب آگیا تو کیا ان کی قوت اور مادی ترقی ان کو بچا سکی ۔ بتلاؤ۔ کہ آج وہ قومیں کہا ہیں ؟ الروم
10 الروم
11 الروم
12 حل لغات : یبلس ۔ ابلاس سے ہے ۔ بمعنی مایوسی ۔ ابلیس کے معنے میں ۔ اللہ کی رحمتوں سے قطعی مایوس ہوجانے والا *۔ الروم
13 الروم
14 الروم
15 الروم
16 بہترین زاویہ نگاہ ف 1: قیامت کے دن تمام لوگوں میں ایک قسم کا امتیاز پیدا کردیا جائے گا ۔ وہ لوگ جنہوں نے ایمان کی نعمت کو قبول کیا تھا ۔ اور ہمیشہ اعمال صالحہ کے لئے کوشاں رہے تھے جنات نعم میں شالواں فرحاں پھرینگے اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ۔ اور خدا کی نشانیوں کو جھٹلایا ۔ آخرت کا خوف دل سے نکال دیا ۔ اور بالکل سرکش ہوگئے ۔ یہ جہنم کے عذاب میں پڑے دکھ اٹھائیں گے *۔ بات یہ ہے کہ اس دنیا میں تو ممکن ہے ۔ کہ جرائم پیشہ لوگ قانون اور عدالت کی نگاہوں سے پوشیدہ رہیں ۔ بلکہ یہ بھی ممکن ہے ۔ کہ عوام کی نگاہوں میں نیک اور پارسا ہوں ۔ مگر یہ ناممکن ہے کہ وہ اللہ کو دھوکہ دے سکیں اور مکافات عمل کے ہمہ گیر قانون سے بچ جائیں ۔ وہاں تو یہ عالم ہوگا ۔ کہ جن لوگوں کو آپ یہاں بڑے احترام واعزاز کا مالک سمجھتے ہیں ۔ اکثر وہاں ذلیل اور رسوا ہونگے ۔ اور جو لوگ بظاہر حقیر اور ناکارہ معلوم ہوتے ہیں ۔ وہ دولت ایمان کی وجہ سے اپنی خوش قسمتی اور خوش بختی پر نازاں ومفتخر ہوں گے * قرآن حکیم نے جہاں ایمان کا ذکر فرمایا ہے ، وہاں عموماً اعمال صالحہ کا بھی تذکر کیا ہے ۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ صرف اقرار بالسان کبات وسعادت کو پانے کے لئے کافی نہیں ۔ بلکہ عمل اور جدوجہد کی بھی ضرورت ہے ۔ وہ ایمان جو عزم صالح اور مضبوط متقین کے مقرون نہ ہو ۔ بیکار ہے ۔ خدا مضبوط ایمان چاہتا ہے جو عمل کی سرحد سے بالکل ملا ہوا ہو ۔ جو یکدم تمام اعضاوجوارح کو حرکت میں لاسکے جو بےچین اور تڑپ کا سبب ہوں ۔ جو بجلی کی طرح ہم میں اثر کی جائے اور دل و دماغ میں آگ سی لگادے ۔ اس طرح ایمان وعمل کو باہم ذکر کرنے سے ۔ یہ بھی مقصود ہے ۔ کہ اعمال صالحہ کے لئے ایمان الصحیح کی ازیس ضرورت ہے ۔ بجز صورت فکر کے عمل اور جدوجہد کی صحت کا یقین کرلینا غلط ہے ۔ ایمان کی حدود سے باہر نیکی اور صلاعیت کا قطعاً پتہ نہیں مل سکتا ۔ یعنی جہاں تک زاویہ نگاہ کا تعلق ہے ۔ اسلام انسانیت کا آخری اور بہترین زاویہ نگاہ ہے ۔ اور جو اس سے محروم ہے گمراہ ہے ۔ اور غلط کار ہے *۔ حل لغات :۔ یحبرون حیر ۔ کے معنے اصل میں حسن وجمال کے نشان کے ہیں ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے ۔ یخرجو من النار رجل قد ذھب حیرہ وسیرہ ۔ یعنی آدمی جب جہنم میں سے نکلے گا تو اس کا سارا اجمال اور خوب صورتی ضائع ہوچکی ہوگی اور رعنائی وزیبائی کے نشانات مٹ چکے ہونگے * یہاں یہ مقصد ہے کہ یہ پاکباز لوگ اس درجہ مسرت میں ہونگے کہ ان کے چہروں سے عیاں ہوگا * الروم
17 ف 2: یہ آیات مطلقاً اس بات پر دال نہیں ۔ کہ لیل ونہار کے ان مختلف اوقات میں تم لوگ اس کے مظاہر جلال وقدرت کو ملاحظہ کرو ۔ اور پھر اس کی تسبیح بیان کرو ۔ کہ اللہ تعالیٰ کس طرح رات کی تاریکی کو صبح کی روشنی میں بدل دیتا ہے ۔ اور کیونکر عشا اور ظہر میں حرارت اور روشنی کا تغاوت پیدا کردیتا ہے ۔ نمازوں کی تعین ان آیتوں میں نہیں ہے *۔ الروم
18 الروم
19 ف 1: خدا کی صفت یہ ہے کہ وہ جن چیزوں کو ہم انسداد کہتے ہیں ۔ ان کو اس طرح ترکیب دیتا ہے ۔ کہ ان میں تضاد بالکل دور ہوجاتا ہے ۔ اور بظاہر ناممکن چیزیں اس کی قدرت کاملہ سے واقعات کی صورت اختیار کرلیتی ہیں * موت اور زندگی باہم بالضد ہیں ۔ مگر وہ مردوں کو جلاتا اور زندوں کو موت کی آغوش میں دے دیتا ہے ۔ اسی طرح مٹی ایک بےجان چیز ہے ، مگر وہ اسی بےجان شئے سے انگوریاں پیدا کرتا ہے ۔ جو انسانی زندگی کا ایک عنصر ثابت ہوتی ہے *۔ حل لغات :۔ یحی الاراض ۔ فجا ہے عرض یہ ہے کہ زمین جب خشک ہوجاتی ہے تو اللہ باران رحمت سے اس کو تازہ بنا دیتا ہے * السنتکم بصنہ ۔ تبع السباق کسی زبان ۔ الولیقکف ۔ ملوعان لین کی جمع ہے بمعنی رنگ * الروم
20 الروم
21 فلسفہ ازدواج ف 2: قرآن حکیم میں یہ عجیب خصوصیت ہے ۔ کہ وہ نہایت اختصار کے ساتھ بعض دفعہ اشاروں اشاروں میں وہ وہ نکات سمجھا دیتا ہے ۔ کہعقل وفراست کے کئی دفتر بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ غور فرمائیے ۔ معاشرتی صورت حال میں یہ کتنا اہم مسئلہ ہے ۔ کہ عورت کا درجہ ازدواجی نقطہ نگاہ سے کیا ہے ؟ اور کیونکر زندگی کو خوشگوار بنایا جاسکتا ہے ؟ قرآن کہتا ہے ۔ کہ ان تعلقات سے مقصود جنسی اور معاشرتی تسکین ہے ۔ قلب وروح کی ضمانیت ہے ۔ لتسکنوا الیھا اور اس کو صحیح معنوں میں خوشگوار بنانے کا طریق یہ ہے کہ دونوں فریقین برابر کی ذمہ داری کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوں ۔ مرد اپنی قوت وتوانائی سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں ۔ او عورت کے حق میں ہمیشہ رحمت وشفقت سے کام لیں ۔ اور عورت اپنے حسن وجمال پر مغرور نہ ہو ۔ بلکہ خاوند کے لئے اپنے دل میں محبت و مودت کے جذبات کی تربیت کرے ۔ وجعل بینکم موزۃ ورحمۃ *۔ اس ایک آیت میں قرآن نے معجزانہ طریق سے فلسفہ معاشرت کا ایک سمندر بند کردیا ہے ۔ مقام اور منصب کا تعین فرمایا ہے ۔ کہ عورت سکون وطمانیت آفریت شخصیت ہے اور یہ بھی بتایا ہے ۔ کہ اس سکون کو کیونکر عمل زندگی میں پیدا کیا جاتا ہے ۔ اسی لئے ارشاد ہے کہ ان باتوں میں سوچنے اور غور کرنے والوں کے لئے کئی نشانیاں ہیں ۔ لا یت لقوم تنظرون * الروم
22 الروم
23 الروم
24 ف 1: ان تمام آیات میں فکروعلم کی دعوت ہے ۔ وجہ کہا گیا ہے ۔ کہ کائنات کے رموز واسرار پر غور کرو ۔ اور یہ دیکھو ۔ کہ یہ کارگریاں کس درجہ کامل وجامع قوانین پر قائم ہے ۔ آسمانوں اور زمین کی پیدائش پر غور کرو ۔ زبانوں ، اور رنگتوں کے امتیازفات کو گہری نظر سے دیکھو ۔ فطرت کا ہر مظہر تمہارے آرام اور تمہاری آسائش وآسودگی کے لئے ہے ۔ رات کو دن کے تھکے ہارے سو جاتے ہیں ۔ دن کی روشنی میں اپنا کام کاج کرلیتے ہوں ۔ یہ تقسیم کتنی ضروری ہے ؟ آسمان پر بادل گھرکر آتے ہیں بجلی کوندتی ہے ۔ تم ڈرتے بھی ہو اور امید بھی رکھتے ہو ۔ کہ اگر بارش ہوجائے تو مردہ اور خشک زمین زندہ ہوجائے گی ۔ کھیت لہلہا اٹھیں گے ۔ اسی طرح ہواؤں اور بادلوں کا علم تمہاری زراعت کے لئے ازبس ضروری ہے ۔ ان فی ذالک لایت تقوم یعقلون پھر یہ دیکھو کہ ستارے کیونکر اپنے مدار اور محور پر قائم ہیں ۔ اور زمین کس طرح اس کے حکم سے اپنی جگہ پر استوار ہے ۔ ایسا نہیں ہوسکتا ۔ کہ آفتاب اپنی طرف کھینچ لے جائے ۔ اور ساری کائنات وقت مقررہ سے پہلے درہم وبرہم ہوجائے ۔ جب وہ متعین وقت آجائے گا ۔ اس وقت یہ تمام قانون معطل ہوجائیں گے ۔ اور ان کی جگہ دوسرے قوانین لے لیں گے ۔ پھر ایک دفعہ تم سب زمین میں سے نکلو گے اور اس حضور میں پیش کئے جاؤ گے ۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اس کے تابع ہے اور کسی شئے میں انکار وکشی کی تاب تواں نہیں *۔ غرض یہ ہے ۔ کہ مردمسلم کی نگاہیں آفاق گیر ہونی چاہئیں ۔ اس کو کائنات کی ہر چیز پر غور کرنا چاہئے ۔ اس کے لئے طبیعات کا دفتر بےپایاں پڑھناوہ کائنات کے اسرار رموز پر فلسفیانہ غور کی بھی اتنا ہی ضروری ہے ۔ جتنا کہ فقہ ومسائل کا جاننا ۔ احکام وشریعت سے آگاہی حاصل کرنا * حل لغات :۔ فضلیہ ۔ عنایت ووبخشیش دولت سے تعبیر ہے معلوم ہوا حلال ذرائع سے حاصل شدہ دولت اللہ کا فضل ہے جس سے محرومی پر کہ قسمت لاشرح تابع اور اطاعت شعار ۔ قنوت سے مراد ہے کہ ہر چیز طبعی طور پر اللہ کے ہمہ گیر قوانین کی تابع ہے ۔ اور انحراف کی طاقت نہیں رکھتی * الروم
25 الروم
26 الروم
27 المثل الا علےٰ ف 1: اس آیت میں دراصل مشرکین مکہ کو مخاطب کیا گیا ہے ۔ جو حشر ونشر کے منکر تھے اور یہ نہیں مانتے تھے کہ مرنے کے بعد پھر دوبارہ زندگی حاصل کرینگے ارشاد ہے کہ یہ بتاؤ جب تم اس حد تک تسلیم کرتے ہو کہ ابتداً تمام کائنات کو اللہ نے پیدا کیا ہے ۔ اور یہ بھی مانتے ہو کہ جب یہ چیزیں پیدا کی گئی ہیں ۔ اس وقت کوئی دوسری ذات اس کے شریک وسہیم میں نہ تھی تو پھر ان لینے میں کوئی تامل ہے ۔ کہ وہ دوبارہ بھی ایسا کرسکتا ہے ۔ کیا ایک ہی چیز کو دوبارہ پیدا کرنا نسبتاً زیادہ آسان نہیں ہے * ولہ المثل الاعلےٰ کہنے سے غرض یہ ہے کہ یہ تمہیں سمجھانے کے لئے ہم کہتے ہیں ۔ کہ کائنات انسانی کو دوبارہ پیدا کرنا ہمارے لئے نسبتاً زیادہ سہل ہے ۔ ورنہ یہاں بات ہی نہیں ۔ صرف ارادہ کی ضرورت ہے ۔ جب جس چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ ہوا ۔ وہ فی الفور عدم سے وجود میں آئی ۔ مقصد یہ ہے ۔ کہ کسی چیز کو منصہ شہود پر لانے کے لئے منطقی طور پر جن وسائل اور ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے خدا ان کا محتاج نہیں ہے وہ براہ راست ہر چیز کو بمجزہ ارادہ کے پیدا کرسکتا ہے ۔ اور یہ ارادہ بھی کوئی جدید اور الگ چیز نہیں ۔ اس کے علم کا ایک عملی پہلو ہے *۔ الروم
28 انتہائی ذلت ف 2: کس قدر تکلیف دہ تخیل ہے کہ انسان انسان کے سامنے جھکے اور اس درجہ اس کو عزت وتکریم کا مستحق سمجھے کہ اس کی پوجا کرے اور اس سے ڈرے اور دل میں اس کا خوف رکھے ۔ اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں کہ کیا مالک اور مملوک کا درجہ برابر ہے ۔ کیا غلام آقا کی برابری کرسکتا ہے ۔ پھر تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ خدا کے بندوں کو اس مالک الملک اور آقا کے مقابلہ میں لاکھڑا کرتے ہو ۔ کیا یہ بےعلمی اور جہالت کی بات نہیں ۔ کیا یہ سراسر انسانیت کے درجہ سے گری ہوئی بات نہیں ؟ کتنا بڑا ظلم ہے کہ حقیر اور ذلیل انسان کو الوہیت کی مسند پر بٹھا دیا جائے ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ یہ گمراہی اور ضلالت کا وہ مقام ہے جہاں رشدوہدایت کی توفیق چھن جاتی ہے اور انسان شرک بت پرستی کی بھول بھلیوں میں پھنس کر رہ جاتا ہے *۔ حل لغات :۔ اضل اللہ ۔ یہ انداز بیان ہے قرآن حکیم کا ۔ اس کے معنے یہ نہیں ہیں کہ خدا نے براہ راست ان لوگوں کو گمراہ کیا ہے یا وہ گمراہ کرنا چاہتا ہے یا اس کو انکا گمراہ رہنا گوارا ہے بلکہ اصل میں یہ اختصار ہے مقصد یہ ہے کہ اس قسم کے لوگ زندگی کی ایسی منزل تک پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کے لئے اللہ نے گمراہی لازم قرار دی ہے ، اس اتنے بڑے مفوم کو اضل اللہ کے مختصر الفاظ میں عموماً بیان کردیا جاتا ہے تاکہ مسلمان کسی وقت بھی اللہ کے تخیل سے ڈرے اور ہر حالت میں بلاواسطہ اس کے جمال قدرت اور جلال فطرت کا مشاہدہ کرتا رہے *۔ الروم
29 الروم
30 مذہب کا جدید ترین معیار ف 3: آج مذہب کے لئے جدید ترین معیار صداقت یہ ہے کہ وہ فطرت کے آئین کے مطابق ہو ۔ آج یہ سمجھا جاتا ہے ۔ کہ ان قوانین میں جو مہروماہ میں اور جبل وکاہ میں کافر ما ہیں ۔ اور ان اخلاقی قوانین کے متبع وسرچشمہ میں کوئی فرق نہیں ۔ جن کو ہم شریعت یا مذہب کہتے ہیں ۔ وہ قلیم مادیت کے ضابطے ہیں ۔ اور یہ دنیائے روحانیت کے قواین ۔ دونوں کا سرچشمہ فطرت اور اس کا غیر مبدل حسن ہے ۔ قرآن حکیم نے آج سے چودہ سو سال قبل اس حقیقت کو اتنا جامع اور واضح الفاظ میں بیان کیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے ۔ مذہب کا اتنا تخیل اور اتنا واضح انداز بیان ! یہ اس بات کی دلیل ہے ۔ کہ قرآن اس ذات کا کلام ہے جس کی نظر زمان ومکان کی بعید ترین ومعقول سے بھی کہیں آگے ہے ۔ ارشاد ہے ۔ کہ اطاعت وفرمانبرداری کا جذبہ فطری ہے ۔ اور غیر مبدل اور یہی این قلیم ہے مگر اکثر لوگ اس حقیقت سے آگاہ نہیں ۔ اور وہ مذہب کو اس نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھتے *۔ الروم
31 نماز نہ پڑھنا شرک ہے ف 1: ان آیتوں میں تین چیزوں پر روشنی ڈالی ہے ۔ ایک تو یہ بتایا ہے کہ نماز نہ پڑھنااعلانیہ شرک کا ارتکاب کرنا ہے ۔ دوسرے یہ فرمایا ہے کہ تفرق وتشت پیدا کرنا مشرکین کی صفت ہے ! اور تیسرے یہ ارشاد ہے کہ اختلاف اور گروہ بندی کے لئے کوئی وجہ جواز نہیں ۔ یوں تو ہر گروہ اپنے پاس کچھ ایسے دلائل رکھتا ہے جس کی وجہ سے وہ شاداں وفرماں ہے ۔ مگر اللہ تعالیٰ کو کسی عنوان گروہ بندی اور فرقہ سازی پسند نہیں * غور فرمائیے ۔ نماز مسلمانوں کے لئے کتنی ضروری ہے اس کے بغیر یہ سمجھنا کہ ہم مسلمان ہیں ۔ کیا محض حسن ظن نہیں ہے ! قرآن تو کہتا ہے کہ نماز نہیں پڑھتا ۔ وہ مشرکین کی سی عادات کا حامل ہوجاتا ہے ۔ اور آپ نمازیں نہ پڑھ کر بھی پکے مسلمان ہیں ! یہ کیسا اسلام ہے ؟ نماز نہ پڑھنا شرک اس لئے ہے کہ یہ اللہ کے سب احکام سے زیادہ موکدہ حکم ہے ۔ پھر اگر ایک شخص اس مان کر بھی عملاً منکر ہے ۔ تو ظاہر ہے کہ کوئی چیز اس سے بھی زیادہ اس کے نزدیک اہم ہوگی ۔ جس کو وہ نہیں چھوڑ سکتا ۔ اور جس کے لئے نماز کو چھوڑ دیتا ہے ۔ یاد رہے کہ یہی شرک ہے کہ خدا کے احکام کے برابر کسی دوسری چیز کو اہمیت دی جائے ۔ اور یہ سمجھا جائے ۔ کہ یہ چیزیں اتنی ہی ضروری ہیں جتنی کہ خدا کی باتیں ضروری ہیں ۔ اور لائق اعتناء ہیں *۔ اسلام دین اخوت ہے ۔ دین وحدت ہے ۔ اس کا منشا ہے کہ تمام انسانوں کو مضبوط لڑی میں منسلک کردے ۔ پھر ان کا اگر آپس میں اختلاف ہو ۔ تو اس کے معنے یہ ہیں کہ یہ اسلام نظامعمل کی برکات سے حقیقتاً محروم ہیں ۔ قرآن حکیم کے نزدیک اس سے بڑا گناہ اور کوئی نہیں ہوسکتا ہے ۔ کہ مسلمان یہودیوں اور عیسائیوں کی رطح مختلف جماعتوں اور عصبیتوں میں بٹ جائیں ۔ اور اسلامی روح سے بےبہرہ ہوجائیں ۔ اسی لئے طبعاً وہ ہر اس دلیل کو پسند نہیں کرتا ۔ جس کو اختلاف کے جواز کے سلسلے میں پیش کیا جائے ۔ وہ تمام دنیائے اسلام کو ایک نوع اور ایک جنس قرار دیتا ہے ۔ وہ ایک تہذیب اور کلچر دیکھنا چاہتا ہے اس کی خواہش ہے کہ صرف اسلامی عصبیت اور اسلامی نظریات ہی مقبول ہو ! اور انسانوں میں بلحاظ عقائد کے صرف مسلم اور غیر مسلم تقسیم ہو ۔ کوئی تیسرا گروہ نہ ہو ۔ جو اسلامی عصبیت کو دوسرے درجہ پر سمجھے ماورا اپنے فرقہ کو نفس اسلام سے زیادہ اہم قرار دے *۔ حل لغات :۔ ضر ۔ تکلیف ۔ دکھ ۔ مصیبت * فضتعوا ۔ فتح سے ہے یعنی بہرہ مند نہ ہونا * سلطانا ۔ دلیل قاہر ۔ مسکت استدلال * یتکلم ۔ یعنی کیا وہ منطقی طور پر اثبات دعویٰ کے لئے کفایت کرتی ہے اور تم کو مجبور کررہی ہے ۔ کہ شرک کا ارتکاب کرو *۔ الروم
32 الروم
33 الروم
34 الروم
35 الروم
36 ف 1: ان آیات میں انسانی نفسیات بیان فرمائی ہیں ۔ کہ کیونکر وہ حالات کے عدم توازن سے اپنے دماغی توازن کو کھوبیٹھتا ہے اور یہ نہیں سمجھتا کہ یہ سب انقلابات اللہ کی طرف سے ہیں ۔ اور ناگریز ہیں جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے ۔ تو پھر خلوص قلب کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکتا ہے ! اور رو رو کر دعائیں مانگتا ہے اور اللہ کی رحمت وشفقت سے دوچار ہوتا ہے ۔ تو پھر اللہ کے ساتھ اپنی کوششوں اور نتائج کو شریک و سہیم ٹھہرا لیتا ہے ۔ حالانکہ یہ کفر ہے ۔ اور اس کے لئے کوئی دلیل نہیں ۔ پھر زندگی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسرت میں یہ انسان بہت خوش ہوتا ہے ۔ اور تکلیف میں جو سراسر ان کے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ مایوس ہوجاتا ہے ۔ حالانکہ نہ مسرت میں آپے سے باہر ہونے کی ضرورت ہے اور نہ تکلیف میں مایوس ہونے کی حاجت ، رزق کی کشائش اور آسودگی یکسر اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ وہ جس شخص کو جب چاہتا ہے ۔ دولت سے نواز دیتا ہے ۔ اور جب چاہتا ہے ۔ بڑوں بڑوں کو افلاس اور حسرت کی زندگی پر مجبور کردیتا ہے ۔ اس لئے مرد مومن کا فرض یہ ہے کہ وہ حالات کی مساعدت اور نامور فقت سے بالکل بےنیاز ہوجائے اور ہر حالت میں اللہ کا شاکررہے ۔ ع ۔ (پورے ہیں وہی مروجوہرحال میں خوش ہیں) حل لغات :۔ یقنطون ۔ قنوط سے ہے ۔ مایوسی ، بددل 'زکوٰۃ یہاں عام صدقات کے معنوں میں ہے *۔ الروم
37 الروم
38 الروم
39 سود خواروں کی دولت ف 2: سود خوار لوگ قوم کے لئے اس لئے باعث لعنت ہوتے ہیں ۔ کہ ان کی دولت اور ثروت ملی ضروریات میں صرف نہیں ہوتی ، وہ دن رات مال جمع کرنے کی فکر میں غلطان وییچان رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ رقم جو ہم خیرات اور صدقات کے نام سے دینگے بالکل ضائع جائیگی ۔ کیوں نہ یہ رقم سود میں لگادی جائے تاکہ مزید نفع ہو ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ بدبختو ! تم اس حقیقت کو سمجھتے ۔ کہ چاندی اور سونے کے ان ڈھیروں سے کیا فائدہ ، جو سفر آخرت میں تمہارے کام نہ آسکیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمہاری دولت جس طرح دنیا کے کاموں کو سنوارتی ہے اسی طرح عقبے کے کام بھی سنوارے ۔ اور تمہارے لئے مرجب خیروبرکت ہو ۔ اور وہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ تم اپنے مال ودولت کے ذخیروں سے قوم کے غریبوں اور مسکینوں کو فائدہ پہنچاؤ۔ درحقیقت دولت کا یہی حصہ جو تم خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہو محفوظ رہتا ہے اور بڑھتا ہے ۔ یہی تمہارے لئے ثواب واجر کا باعث ہے ۔ اور وہ جو بنکوں میں جمع ہے ۔ اور جس سے تمہیں بہت آمدنی ہوتی ہے محض ضائع جاتا ہے ۔ تمہارے مرجانے کے بعد تمہیں اس سارے ذخیرہ سیم وزر میں سے ذرہ برابر نفع نہیں پہنچے گا ۔ بلکہ اور موجب عذاب ہوگا *۔ حل لغات :۔ وجہ اللہ ۔ اللہ کی رضا *۔ الروم
40 ف 2: شرک کی تردید فرمائی ہے ۔ اور مشرکین سے پوچھا ہے کہ بتاؤ تمہاری اس ساری زندگی میں تمہارے معبودوں کو کس درجہ دخل حاصل ہے ۔ کیا اللہ ہی نے تمہیں پیدا نہیں کیا ؟ پھر کیا عمر بھر وہی تمہاری ضروریات کا کفیل نہیں رہا ؟ موت کس کے قبضہ میں ہے اور وہ کون ہے جو پھر تمہیں زندہ کرے گا اگر ان سب باتوں کا جواب یہ ہے کہ یہ سب باتیں اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں ۔ تو پھر تمہارے معبودوں کے اختیارات کیا رہے ؟ ارشاد ہے ۔ کہ وہ تمہارے ان مشر کا نہ خیالات سے پاک اور اعلیٰ ہے اور وہ شرک کی بات کو کسی طرح پسند نہیں کرتا *۔ الروم
41 الروم
42 ف 2: اس وقت کا نقشہ ہے جب قرآن دنیا میں نازل ہورہا تھا ۔ بتایا ہے کہ کائنات میں اعتقاد اور عمل کا فساد اور طوفان رونما ہے ۔ شرک اور بت پرستی کی تاریکیوں سے افق حیات تیرہ وتاریک ہے انسانیت کے قول اعتدال میں فتورا کیا ہے ۔ اخلاق ذلیل ترین صورت اختیار کرچکے ہیں ۔ اور اب اگر اسلام کی روشنی اور اس کی برکات سے انسان نے استفادہ نہ کیا ۔ تو ہلاکت لازم درلابد ہے ۔ چنانچہ تاریخ کے ورق الٹ کر دیکھئے ۔ معذب قوموں کے حالات کا معائنہ کیجئے کیونکر اللہ تعالیٰ نے ان کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا محض اس پاداش میں کہ انہوں نے خدا کے حکموں کو نہ مانا ۔ اور فطرت کے پیغام سے روگردانی کی ۔ پھر اگر یہ مکے والے قرآن نہ مانیں گے ۔ تو اللہ کی زبردست پکڑ اور گرفت سے کس طرح بچ سکیں گے *۔ کان اکثرھم مشرکین سے غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرک سب سے بڑا گناہ ہے اور قوموں کی ہلاکت اور موت میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے ۔ جب یہ مرض پیدا ہوتا ہے تو قوم میں ذلت اور ادبار اور جہالت و توہم کی تمام بیماریاں پھیل جاتی ہیں ۔ اور اس طرح سارا جسم انسانی مفلوج ہوجاتا ہے اور ان خصائل سے محروم ہوجاتا ہے ۔ جو کسی قوم کے لئے حیات وزندگی کا باعث ہوتی ہیں *۔ الروم
43 الروم
44 الروم
45 خدا انسان کا حریف نہیں ہے ف 1: ان آیتوں میں بتایا ہے ۔ کہ جہاں تک کفر وانکار کا تعلق ہے اس سے ذات صویت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ۔ اسی طرح ایمان واعمال صالح سے اس کی جلالت قدر میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا * اگر ساری دنیا کفر وطغیان کو اپنا شیوہ بنا لے ۔ اور برملا خدا کا انکار کردے ۔ تو اس کے وجود باجود میں اور اس کے تحفق * قومیت میں ذرہ برابر فرق نہیں ہوتا ۔ اسی طرح اگر دنیا میں کوئی منکر نہ رہے تمام ملحد اپنے غلط عقائد سے توبہ کرلیں ۔ اور مومن صادق بن جائیں ۔ اور زہد وورع کا لباس زیت تن کرلیں ۔ تو اس کی عظمت اور رفعت میں کچھ بھی ترقی نہیں ہوتی ۔ یہ کفروعصیاں تو محض اس لئے مذموم ہے ۔ کہ اس سے خود انسان کو دیکھ پہنچتا ہے ۔ یہ تمدن صالحہ کے لئے سخت مضر ہے ۔ اور اس کی وجہ سے نوع انسانی اپنے مقام روحانی سے گر کر حیوانیت کے اسفل گڑھوں میں جاپڑنی ہے کفر چونکہ سراسر فسادواختلال ہے ۔ کون ومکان کے لئے اس کا وجود باعت لعنت ہے ۔ اس لئے اس سے پرہیز لازم ہے ۔ ورنہ منکر اور خدائے برتر وغالب کے لئے کسی طرح حریف بن سکتے ہیں اسی طمع نیکی اور تقویٰ اور اس کے لائق ملتناء ہیں ۔ کہ ان سے روح انسان میں جلا پیدا ہوتی ہے ۔ ان سے اخلاق سنورتے ہیں اور خود انسانیت بلند ترین روحانی مقامات پر ممکن ہوتی ہے ۔ ورنہ اس ذات بےنیاز کو ہمارے تقوے اور پرہیزگاری کی کیا ضرورت ہے ! انہ لا یحب الکفرین سے غرض یہ ہے کہ گو وہ باعتبار تکوین کے کافروں اور منکروں سے تعرض نہیں کرتا ۔ اور ان کے افعال واعمال میں مزاحم نہیں ہوتا مگر اس کے یہ معنے نہیں ہیں ۔ کہ وہ ان کے اعمال کو پسند بھی کرتا ہے اور وہ ان کو باوجود سرکشیوں کے محبوب بھی رکھتا ہے ۔ کائنات کی مصالح کا تقاضا ہے کہ منکر کو انکار میں اور مومن کو ایمان میں پوری پوری آزادی بخشی جائے اس لئے وہ برائی کی طرف بڑھنے والوں کو روک تو نہیں دیتا ہے مگر اس کی خواہش یہی ہے کہ اس کے بنا سے کفر سے بچیں اور ایمان وتقویٰ کی دعوت کو قبول کریں *۔ الروم
46 ف 2: درمیان میں مظاہر قدرت کے جمال کی طرف نظروں کو متوجہ کیا ہے ۔ تاکہ قرآن کا انداز تنوع قائم رہے ۔ اور مسلمان احکام وشریعت کے ساتھ تکوینی اسرارروموز پر بھی غور کریں ۔ اور یہ یقین رکھیں ۔ کہ دونوں کا سرچشمہ ایک ہے ۔ دونوں ایک ہی ذات کے پر توہیں ۔ ایک ہی جمال کے دو پہلو ہیں اور ایک ہی حسین کی دوا دائیں ہیں * فرمایا ہے کہ اس کی نشانیوں میں ہواؤں کو بڑی اہمیت حاصل ہے ان کی افادیت پر غور کرو ۔ کیونکہ وہ آنے والی بارش کا پتہ دیتی ہیں ۔ پھر کس طرح ان کی وساطت سے کشتیاں چلتی ہیں ۔ اور جہاز سطح سمندر پر رواں دواں نظر آتے ہیں یہ سب نعمتیں اس لئے ہیں تاکہ تم قدرت کے ان فیوض کو دیکھو *۔ اور اپنا ذہن شکروامتنان کے جذبات سے بھرپور ان سے استفادہ کرو بلکہ ان پر حکومت کرو ۔ اور ثابت کرو کہ زمین میں تم اللہ کے نائب ہو *۔ حل لغات :۔ یصدعون ۔ اصل میں یتصدعون ہے قریب المخرج ہونے کی وجہ سے ت ۔ ص کے ساتھ بدل کر مدغم ہوگئی ہے ۔ معنے جدا جدا ہوجائیں گے ۔ صدع سے مشتق ہے ۔ یمھدون ۔ مھد سے مشتق ہے یعنی استعادے کے قابل بنانا ۔ فانتقمنا نقمۃ سے مشفق ہے معنی سزا دینا اور وہیں لفظ مقام میں مفہوم میں استعمال ہوتا ہے ۔ عربی میں اس مفہوم میں استعمال نہیں ہوتا * حل لغات :۔ الودق ۔ اصل میں کہر کو کہتے ہیں ۔ بانی کو عام طور پر اس کو اطلاق بارش پر ہوتا ہے * ملبلسین ، ابلاس سے مشتق بھی ناامید ہونا *۔ الروم
47 ف 3: مقصد یہ ہے کہ آپ سے پہلے بھی انبیاء آئے ہیں اور لوگوں نے ان کی حسب عادت مخالفت کی ہے ۔ پھر جب ان کی سرکشی حد سے بڑھ گئی ۔ تو اللہ تعالیٰ کا قانون مکافات حرکت میں آیا اور ان لوگوں کو سخت ترین سزائیں دی گئیں *۔ حقا علینا نصراللومنین سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی زمانے میں بھی اپنے بندوں کو ذلیل اور رسوا نہیں کرتے ۔ ہر دن اور ہر وقت وہ ان کے لئے اعانت کا ہاتھ بڑھاتے ہیں کیونکہ ازراہ نوازش وکرم اس چیز کو اللہ نے پانے اوپر لازم قرار دیا ہے *۔ الروم
48 الروم
49 الروم
50 الروم
51 حشرونشر ف 1: قرآن کا طرز استدلال اتباسا اور اتنا موثر ہے کہ اس میں زیادہ غوروفکر کی ضرورت ہی نہیں ۔ جہاں آپ نے سنا دل میں اتر گیا مظاہر قدرت کو قرآن پیش کرتا ہے ۔ جن کو ہم روزانہ دیکھتے ہیں ۔ اور کوئی حرف مدار کا پہلو ہمارے ذہن میں پیدا نہیں ہوتا ۔ پھر ان سے اتنے چھوٹے انداز میں بڑے بڑے فلسفیانہ مسائل کا استباط کرتا ہے کہ وہی معمولی واقعات منطق کی شہادتیں معلوم دیتی ہیں *۔ مکہ والوں میں ایک گروہ احیاء موتیٰ کا منکر تھا ۔ یعنی اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کہ کیونکر فنائے عام کے بعد پھر انسانوں کے عساکر اٹھ کھڑے ہونگے ۔ وہ حشرونشر کے واقعات کو محض افسانہ سمجھتے تھے ۔ اور ان کی رائے میں یہ حقیقت قرآن عقل نہیں تھی ۔ کہ موت کو پھر زندگی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ! اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ان کے اس عقلی استبعاد کو دور کرنے کے لئے کئی دلائل بیان فرمائے ہیں اور بتایا ہے کہ جس چیز کو تم محال سمجھتے ہو اس کے مثل تم زندگی میں بار بار دیکھتے ہو مگر سرسری نظروں سے غوروفکر سے کام نہیں لیتے ! آؤ ہم تمہیں دکھائیں ۔ کہ روز مرہ کے حقائق ہمارے اس دعوے کے لئے بطور رہ دلیل کے کام آسکتے ہیں ۔ ہواؤں کو چلتے ہوئے تم نے دیکھا ہوگا یہی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں اسنے دوش پر ابروسیماب کی روئیں اوڑھے کس طرح فضا میں چلتی پھرتی رہتی ہیں ۔ اور پھر کس طرح ساری فضا میں پھیل جاتی ہیں ۔ پھر کہ ہائے ابر کی صورت میں منقسم ہوجاتی ہیں ۔ پھر پرستی ہیں ۔ اس نظام وعمل کو دیکھ کر خدا کے بندے خوش ہوتے ہیں ۔ ان کی مایوسیاں امیدوں سے بدل جاتی ہیں ان آثار رحمت پرغور کرو ۔ کیا اس طرح مردہ اور خشک کھیتوں میں زندگی کی روح نہیں پیدا ہوجاتی *۔ پھر اگر یہ ممکن ہے بلکہ مشاہدہ ہے تو کیا وہ اپنی قدرت اور رحمت کے چھینٹوں سے دوبارہ انسانی پودوں کو پیدا نہیں کرسکتا ! کیا وہ ہر چیز پر قادر نہیں ہے ، دیکھو کتنے عظیم الشان واقعات ہیں اور اس استدلال نے ان کو کس درجہ اہمیت دے دی ہے ۔ کیا اب بھی حشرونشر کے حالات کا انکار کروگے *۔ الروم
52 الروم
53 ف 2: مشرکین کہ ان دلائل کو سنتے ۔ مگر بیکار ان پر ذرہ برابر اثر نہ ہوتا ۔ قرآن کہتا ہے کہ یہ مردہ ہیں ان کے دلوں میں زندگی کی قوتیں ختم ہوچکی ہیں ۔ یہ دل کے کانوں کے لحاظ سے بہرے ہیں ۔ ان میں حق وصداقت کو سننے کی مطلقات اہلیت نہیں ۔ اس لئے اگر آپ کے پیغام حق سے یہ متمتع نہ ہوں ۔ تو آپ متفکر نہ ہوں ۔ ملال نہ کریں ۔ وہ محردمان فضل وکرم ہیں جن سے زندگی کی تمام استعدادیں چھن چکی ہیں ۔ یہ دل کے اندھے ہیں ۔ ان میں قوت بصیرت باقی نہیں رہی ۔ یہ آپ کے اختیار میں نہیں ۔ کہ آپ کی باتیں سنیں اور متاثر ہوں ۔ قبولیت کے لئے قلب دماغ کی صحت بہت ضروری ہے *۔ حل لغات :۔ الصم ۔ اصم کی جمع ہے ۔ یعنی بہرہ * شیبد ۔ بڑھاپا *۔ الروم
54 حشر کے متعلق یہ دوسرے انداز کا استدلال ہے ارشاد ہے کہ تم خود اپنی حالت پر غور کرو ۔ اس میں کتنی تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں ۔ جب تمہیں پیدا کیا گیا تھا اس وقت تم سخت ناتواں تھے ۔ پھر تمہیں رفتہ رفتہ توانائی بخشی ۔ جہاں ہوئے اور پھر اصولوں وضعف کی طرف لوٹادیئے گئے ۔ اس طرح کیا موت کے بعد پھر کسی دوسری تبدیلی کا مکان نہیں ہے *۔ الروم
55 الروم
56 الروم
57 اعتراف حقیقت ف 1: گذشتہ آیتوں میں یہ بقایا تھا کہ گواس وقت یہ اس وقت یہ لوگ قیامت کے منکر ہیں ۔ مگر ایک وقت آئے گا ۔ جبکہ یہ سب اس کی حقانیت کا اعتراف کریں گے ۔ اور محسوس کرینگے کہ وہ خدا کے سامنے ہیں ۔ اس وقت ان کے عوام تو جس طرح دنیا میں ہمیشہ الٹی باتیں کہتے تھے ۔ اور ان کو واقعات کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا تھا ۔ یہ کہیں گے کہ ہم عالم برزخ بس ایک ساعت ہی رہے ۔ مگر ان میں کے اہل علم و ایمان یہ ہی ان کی غلط فہمی یہ کہہ کر دور کردینگے کہ یہ میدان حشر ہے ۔ تم کتاب اللہ کے موافق یوم المعیت تک اس عالم میں رہے ہو اب تیار ہوجاؤ کہ احتساب کا وقت آگیا قیل وقال اور بحث ومباحثہ کا وقت نہیں ہے ! اس وقت ان کی آنکھیں کھلیں گی مگر بےفائدہ ! اس وقت کی بیداری سود مند نہ ہوگی ۔ ان کی کوئی معذرت قبول نہیں کی جائے گی ۔ اور کسی رطح بھی یہ اللہ کی ناراضی کو دور نہیں کرسکے گے ۔ اس لئے ضرورت سے کہ ابھی سے اس ہولناک منظر کو سامنے رکھا جائے ! اور اس سے قبل کہ عرصہ محشو میں کشاں کشاں پہنچیں اپنے دامن عمل کو ایمان ویقین کی نعمتوں سے بھرلیں ۔ اور اتنے بڑے سفر کے لئے کچھ زاد راہ اپنے ساتھ لے لیں ۔ تاکہ اس قابل ہوجائیں کہ وقت پر ندامت نہ ہو *۔ حل لغات :۔ ولاحم یستعتبون ۔ اور نہ ان کی توبہ قبول کی جائے گی *۔ الروم
58 الروم
59 غرض یہ ہے ۔ جہاں تک سمجھانے اور حقائق کو دل تک اتارنے کا تعلق ہے ۔ قرآن حکیم کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا ۔ ہر نوع کے استدلال اور ہر قسم کے استنباط سے م لیا ہے ایک جاہل سے لے کر فاضل فلسفی تک کے لئے ذہنیتوں کا خیال ما ہے ۔ سادی باتیں بتائی ہیں ۔ اور حکیمانہ انداز میں اختیار کیا ہے ۔ حق تو یہ ہے کہ عبرت پذیری کے لئے جرتد ذریعے افہام وتفہیم کے ہوسکتے ہیں وہ سب قرآن میں موجود ہیں مگر منکرین کو کیا کیا جائے ۔ کہ ان کو اس میں کوئی خوبی نظر نہیں آتی ۔ وہ دلائل اور مشاہدات دیکھتے ہوئے بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ اور فریب ہے واقعات کے خلاف ہے ۔ اس لئے کہ ان کے دلوں میں ہدایت کو قبول کرنے کی استعداد ہی باقی نہیں رہے ؎ گرنہ بیند ہو ذرسپرہ چشم چشمہ آفتاب راچہ گناہ الروم
60 حق کی نصرت مقدرات میں سے ہے اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جارہی ہے کہ آپ فکر مند اور طول نہ ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے یقینا آپ کامیاب اور فائز المرام ہونگے ۔ اور آپ کے یہ دشمن ناکام اور رسوا ۔ آپ گھبرائیے نہیں اور ایسا نہ ہو کہ یہ بےیقین لوگ اپنی حرکات سے آپ کے پیمانہ صبر کو چھلکادیں *۔ الروم
0 لقمان
1 لقمان
2 سورہ لقمان اس سورۃ کو قرآن کے تعارف سے شروع کیا ہے کہ یہ آیتیں کتاب حکیم سے تعلق رکھتی ہیں ان میں دانائی اور رشدوہدایت ہے ۔ ان میں دلائل کا استحکام ہے ان میں اللہ کے اوامر ہیں ۔ اور یہ ان لوگوں کو ہدایت کے اعلیٰ ترین مراتب تک پہنچاتی ہے جو مقام احسان پر فائز ہیں ۔ جو نماز کو پوری شرائط اور مضولیت کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں ۔ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ! اور دنیائے داروی کی دلچسپیوں پر نہ رکھتے ہیں *۔ لقمان
3 لقمان
4 لقمان
5 لقمان
6 لھوالحدیث قرآن حکیم وہ کتاب ہے جس پر انسانیت کی فلاح وبہبود موقوف ہے جو رشدوہدایت ہے جو اللہ کی رحمتوں کی کفیل ہے ۔ تمام مشکلات میں تنہاراہنما ہے ۔ سراپا خیر وبرکت ہے ۔ لوگوں کے لئے قیامت تک آخری دستورالعمل ہے *۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اس مجموعہ پاک کو سناتے اور چاہتے کہ مکہ کے مشرک اس کی روشنی سے اپنے تاریک سینوں کو منور کریں ۔ اور اپنے اعمال کو سنواریں ۔ تو کچھ بدبخت لوگ ایسی گمراہ کن باتوں میں عوام الناس کو الجھا دیتے کہ وہ ان لغویات کو سن کر قرآن کو نہ سنتے ۔ چنانچہ نصرین حارث ان کو عجم کو جھوٹے اور غلط افسانے سناتا ۔ رستم واسفند یار کے قصے تو ان مسیع لگا کر بیان کرتا اور وہ مزے سے ان خرافات کو سنتے ۔ حالانکہ ان میں کوئی بات بھی ان کے لئے رز دیا ۔ علم وحکمت کا باعث نہ ہوتی ۔ ارشاد ہے کہ ایسے لوگوں کو عذاب الیم کی خوشخبری سنا دیجئے ۔ جو قرآن حکیم کی آیات کو نہیں سنتے اور غرور نخوت سے گردن پھیر کر چل دیتے *۔ حل لغات :۔ ھدی ۔ یعنی مراتب علیا تک راہ نمائی ۔ مطلقاً راہ نمائی مقصود نہیں ۔ لھوالحدیث ۔ افسانے ۔ حکائیتیں ۔ نغمہ راگ ۔ اور اسی نوع کی چیزیں ۔ وہ باتیں جو انسان کو حق وصداقت سے بازرکھیں *۔ ف 1: مقصد یہ ہے کہ یہ مکے والے مسلمانوں کو حقیر نہ جانیں ۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے ۔ کہ آخرت کی سعادتیں انہیں کے مقدر میں آئینگے ۔ کیونکہ انہوں نے ایمان اور تقویٰ کی آواز کو سنا اور اس لئے کہ اللہ کا سچا وعدہ ہے *۔ لقمان
7 لقمان
8 لقمان
9 لقمان
10 ف 2: ان تمیدبکم سے ایک ایسے نظریہ کی طرف اشارہ ہے جس آج ہم نے معلوم کرلیا ہے اور وہ یہ ہے کہ زمین جو برابر آفات کے گرد گھوم رہی ہے ! اور کسی وقت بھی اپنے خطوط ادوار سے نہیں ہٹتی تو اس کی وجہ کیا ہے ۔ کیوں آفتاب کی کشش اس کو اپنی طرف نہیں کھینچ لیتی ؟ اور کیوں یہ کرہ ارض ایک متناسب فاصلہ پر سورج کے گرد چکر لگا رہا ہے ۔ قرآن کہتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ ہم نے اس میں پہاڑوں کی وج سے ایسا ثقل پیدا کردیا ہے ۔ کہ اب اس میں غیر طبعی حرکت نہیں پیدا ہوسکتی ۔ پہاڑ کشش اور جذب میں توازن برقرار رکھتے ہیں ۔ اور اس طرح یہ کرہ ارض گھومتا ہے ۔ اور ہمارے لئے دن رات اور موسموں کے اختلاف کا باعث ہوتا ہے *۔ حل لغات :۔ وقرا ۔ بوجھ ۔ ثقل * کریم ۔ عمدہ ۔ نفیس ۔ مفید * غنی ۔ بےنیاز ۔ یعنی جمال وکمال کا وہ نقطہ ارتقاء جو ہر ستائش سے بالا اور بےپروا ہو *۔ لقمان
11 ف 1: مکے کے مشرکوں اور بت پرستوں سے قرآن پوچھتا ہے کہ اے بتوں اور شخصیتوں کے پوجنے والو ۔ یہ آسمان تو ہم نے پیدا کئے اور پہاڑوں کو بھی ہم نے زمین پر رکھا ۔ تاکہ توازن درست رہے ۔ بارش بھی ہم بھیجتے ہیں بتاؤ اس کائنات میں تمہارے معبودوں نے کیا کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں ۔ انہوں نے کون سی دنیا بسائی ہے ۔ کس عالم کو ایجاد کیا ہے وہ کس آسمان وزمین کے مالک ہیں ۔ قرآن کا مطالبہ ہے ۔ کہ ان کی مصنوعات کو ہمارے سامنے پیش کرو ۔ ورنہ اس صریح ظلم سے توبہ کرو ۔ اور اس کھلی گمراہی کو چھوڑ دو ۔ اور کہہ دو کہ اللہ کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں ۔ وہ تنہا ساری کائنات کا مالک اور پروردگار ہے *۔ لقمان
12 حضرت لقمان ف 2: معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لقمان پیغمبر نہیں تھے مگر ایک ضاع اور دانشمند آدمی تھے ۔ اور جہاں تک اس وقت کے عربوں کا تعلق ہے ۔ ان میں ان کے حکیمانہ اقوال کا کافی چرچا تھا ۔ یہی وجہ ہے ۔ قرآن حکیم نے ان کا تذکرہ اس طرح کیا ہے ۔ کہ گویا پہلے سے مخاطبین انہیں جانتے ہیں *۔ حکمت کے معنے لغت میں کسی چیز کی حقیقت پہچاننے کے ہیں اور اصلاح میں دانائی اور درست کرداری سے تعبیر ہے ۔ اور اس کی اعلیٰ ترین قسم وہ ہے جس میں دنیا کے کے معاشری عقدوں سے بحث کی جائے ۔ اور یہ بتایا جائے ۔ کہ کن اصولوں کے ماتحت ایک انسان انسانی ہیئت اجتماعیہ کا بہترین رکن بن سکتا ہے ! اور کس طرح اس کا وجوہ اپنے ابنائے جنس کے لئے باعث رحمت وبرکت ہوسکتا ہے *۔ قرآن حکیم فرماتا ہے ۔ کہ لقمان کو سب سے بڑی حکیمانہ باتیں عطا کی گئی تھیں ۔ وہ یہی تھیں ۔ کہ وہ شاکر تھے ۔ یعنی وہ یہ جانتے تھے کہ اللہ کے انعامات مادی وروحانی کو استعمال کفر اور ان کو ظاہر کرنا ، یہ سب سے بڑی فضیلت ہے ان کو یہ معلوم تھا کہ کون حق احاطہ شکر میں داخل ہیں ۔ اور جن کو مان کر انسان بہترین معاشری فضائل کو حاصل کرسکتا ہے ۔ اور یہ بھی جانتے تھے کہ یہ سب قول ، عمل ، عقیدہ اور اللہ نعمتوں کا اقرار ، انسان کے اپنے فائدے کے لئے ہے ۔ اللہ مطلقاً حمد کو ستائش سے بےنیاز ہے وہ فی نفیسہٖ لائق حمد اور قابل تعریف ہے ۔ چنانچہ ان کی بات سے یہ سب چیزیں واضح ہیں *۔ لقمان
13 سب سے پہلے جس چیز کو حضرت لقمان نے قابل اعتناء سمجھا ہے ۔ وہ مسئلہ توحید ہے ۔ اس لئے اپنے بیٹے سے یہی کہتے ہیں ۔ کہ دیکھو اس سے بڑھ کر انسانیت کی اور حق تلفی نہیں ہوسکتی کہ انسان اپنی فطری عظمت کھوبیٹھے ۔ اور اپنے ابنائے جنس کے سامنے جھکے ۔ یاس مخلوق کے سامنے سربسجود ہو ۔ جو مرتبہ کے لحاظ سے اس سے کہیں فروتر ہے ۔ یہ شرک ہے ۔ ظلم عظیم ہے ۔ اور بہت بڑا گناہ اس کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین فرمائی ہے ۔ کیونکہ کنبے بھر میں یہ رشتہ سب سے زیادہ محترم ہے ۔ اور سب سے زیادہ جاذب توجہ ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ ان بزرگ ترین افراد کی عزت وحرمت اس لئے ضروری ہے ۔ تاکہ جذبہ ربوبیت کو ہم چھوٹے پیمانے پر والدین کی شفقتوں میں دیکھ سکیں اور اس سے اندازہ کرسکیں ۔ کہ وہ ربوبیت کبریٰ کس درجہ ہم پر مہربان ہوگی ۔ جس کا یہ ادنیٰ کرشمہ ہے ۔ والدین کے احترام کے ساتھ اس چیز کی تصریح فرمادی ہے ۔ کہ یہ احترام اسی حدتک واجب ہے ۔ جس حد تک اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں ہوتی لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق ۔ اور جہاں یہ والدین اپنی بزرگی کا ناجائز استعمال کرنا چاہیں اور اپنے بچوں کو شرک وبدعات پر مجبور کریں ۔ اس وقت سعادت مندی یہ ہے کہ وہ بچے صاف طور پر انکار کردیں ۔ کیونکہ حق اور صداقت تمام تعلقات سے زیادہ واجب الاحترام ہے *۔ تیسری بات حضرت لقمان نے جو اپنے بیٹے کو بتائی ۔ وہ یہ ہے کہ عمل کبھی ضائع نہیں ہوتا ۔ حقیر سے حقیر اقدام ۔ اور ادنیٰ سے ادنیٰ حرکت بھی نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہے اور اللہ کا علم کامل ہے ۔ کوئی شخص اسے دھوکہ نہیں دے سکتا *۔ عزیمت واستقامت لقمان
14 لقمان
15 لقمان
16 حل لغات : خردل ۔ رائی * فتکن ۔ ف یہاں اجتماع کے لئے ہے ۔ یعنی گو وہ صغیر وحقیر عمل ہوا اور انتہائی خطا میں بھی ہو *۔ لقمان
17 ف 2: حضرت لقمان کی چوتھی نصیحت یہ ہے کہ بیٹا دل کو ذکر اور صلوٰۃ کی برکات سے معمور رکھو ۔ اور دنیا میں برائیوں کے خلاف جہاد کرو ۔ اور خود تقویٰ وصلاح کا نمونہ بنو ۔ اور اس سلسلہ تبلیغ واشاعت میں جس قدر بھی مصیبتیں پیش آئیں ، برداشت کرو ۔ کیونکہ یہ عزیمت واستقامت کی باتیں ہیں ۔ غرض یہ ہے کہ ساری کائنات انسانی کو اللہ کی چوکھٹ پر جھکا دے ۔ سب کے دلوں میں اللہ کی محبت پیدا کردے ۔ اور سب کو نماز کا پابند بنادے مسلمان کی زندگی کا نصب العین یہ ہے ۔ کہ وہ ہر نیکی اور تقویٰ کی بات کو پھیلائے ۔ اور ہر برائی کو روکے ۔ وہ دنیا میں خدا کی حقانیت کا سب سے بڑا داعی اور رساعی ہے اس کے ایمان کا تقاضا یہ ہے ۔ کہ وہ ہر مصیبت کو جو اللہ کی راہ میں آئے بختدہ پیشانی برداشت کرے *۔ لقمان
18 ف 1: چونکہ حضرت لقمان کی خواہش یہ ہے کہ ان کا بیٹا ہر طو پر زیور اخلاق سے آراستہ ہو ۔ اور صحیح معنوں میں وہ لوگوں میں صداقت کو پھیلا سکے ۔ اس لئے آخری میں اس کو یہ بھی بتایا ہے ۔ کہ عام بول چال میں ایسا نہ ہو ۔ کہ لوگ تم میں کبرونخوت کے خیالات کو محسوس کریں چال ڈھال میں میانہ روی اختیار کرنا ۔ نہ تو اتنا آہستہ آہستہ اور اکڑ کر چلنا ۔ کہ غرور ٹپکے ۔ اور نہ اتنا جلدی جلدی کر متالت و وقار کے منافی ہو ۔ آواز کو بھی پست رکھنا لازم ہے ۔ گدھے کی طرح اونچی آواز برترین آواز اور سراسر انسانی علم وقار کے خلاف بلکہ انسانیت کے منافی ہے *۔ ف 2: مکے والے بہت زیادہ جاہل اور کج بحث تھے ۔ چنانچہ ان آیتوں میں یہی بتایا ہے کہ اگر تم کائنات پر بنظر تعمق غور کرو ۔ اور سوچو تو تمہیں معلوم ہوگا ۔ کہ آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں کو اللہ نے تمہارے لئے مسخر کردیا ہے ۔ اور تمہیں ہر نوع کی نعمتوں سے نوازا ہے جو ظاہر بھی ہیں ۔ اور باطن بھی مگر تم ہو کہ ابھی تک اللہ کی نعمتوں کو نہیں مانتے ۔ اور بتوں کے سامنے جھکتے ہو ۔ خدا نے توہ ساری کائنات کو تمہارے قبضہ واختیار میں دے دیا ہے ۔ کہ اس سے استفادہ کرو ۔ لیکن تم نے ان میں سے بعض کی پرستش شروع کردی ۔ نوٹ : اس سے آگے صفحہ پر (ف 1) ملاحظہ فرماویں * حل لغات :۔ تصعو ۔ تصعیر سے مشتق ہے ۔ غرور سے منہ پھیر لینا ۔ یعنی بےتوجہی یا تنکیر سے پیش آنا * حا ۔ غیر موزوں نشاط ۔ حد سے زیادہ خوش ہونا * مختال ۔ مغرور ۔ متکبر * مخور ۔ نہایت ناز کرنا ، اترانا * واقصد ۔ قصد سے مشتق ہے ۔ میانہ روی ۔ اعتدال *۔ لقمان
19 لقمان
20 لقمان
21 پھر جب تمہیں نیکی اور وحدانیت کی طرف دعوت دی جاتی ہے ۔ تو تم نہایت ہی نکمے پن سے بحث کرنے لگتے ہو جس میں نہ علم کی کوئی بات ہوتی ہے نہ عقل کی ۔ اور نہ تائید میں تم کسی الہام کو پیش کرسکتے ہو ۔ نہ روشن کتاب کو ۔ اور اس پر بھی تمہیں خیال ہے کہ تم صداقت پر ہو تم سے کہا جاتا ہے کہ دیکھو صرف اللہ کے حکموں کو مانو ۔ اور سواما انزل اللہ کے اور کسی بات پر کان نہ دھرو ۔ مگر تم بدستور تقلید وجہالت کی الجھنوں میں پھنسے رہو اور یہی کہتے چلے جاتے ہو ۔ کہ ہم تو اپنے باپ دادا کے مسلک کہ نہ چھوڑیں گے ۔ تو کیا تم نے طے کرلیا ہے کہ ہم بہرحال آباؤ اجداد کے مذہب ہی کی پیروی کریں گے ۔ چاہے وہ گمراہ ہوں اور ہم کو جہنم ہی میں کیوں نہ پھینک دیں * غرض یہ ہے کہ مشرکین مکہ محض قدامت پرست ہیں ۔ ان میں یہ استعداد نہیں ہے ۔ کہ حقائق پر غور کرسکیں ۔ اور غلط وصحیح بات میں امتیاز کرسکیں ۔ ان کے نزدیک حق وصداقت کا معیار صرف یہ ہے ۔ کہ ان کے باپ داد اس پر عمل پیرا تھے اور بس *۔ لقمان
22 لقمان
23 عروۃ الوثقیٰ ف 2: اس سے قبل کی آیات میں فرمایا تھا ۔ کہ جو شخص فکر خیال سے لے کر حرکت وعمل تک سب چیزوں کو بر بنائے اخلاص وعقیدت اللہ کے تابع کردیتا ہے ۔ وہ عقائد کے مضبوط ترین حلقے کو تھام لیتا ہے ۔ اس مقام بلند پر فائز ہونے کے بعد اس کے لئے رسوائی اور ضلالت کا کوئی اندیشہ باقی نہیں رہتا ۔ جو شخص یہ سمجھ لے کہ میری سمجھ بوجھ میرے جذبات اور میری خواہشات نفس سب کی سب اللہ کے ارادہ اور اس کی منشاء کے ماتحت ہیں ۔ اس کی رضا میں میری نجات ہے اس کی خوشی میری زندگی کا نصب العین ہے ۔ اور اس کی مرضی پر میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوں ۔ ایسا شخص فکروعقیدہ کی ایسی مضبوط چٹان پر کھڑا ہے کہ تزلزل کا کوئی مکان ہی باقی نہیں رہتا ۔ اور اس کے برخلاف جس کو اپنی عقل پر ناز ہے جس کی خواہشات نفس اس پر مسلط ہیں ۔ جو اللہ کے حکموں کی پرواہ نہیں کرتا ! اور حقائق کا منکر ہے ۔ وہ گمراہ ہے ۔ ان آیتوں میں فرمایا ہے ۔ کہ ایسے آدمی کے لئے آپ کیوں دکھ برداشت کریں ۔ وہ شخص جو عمداً ہدایت بےاعراض کرتا ہے قطعاً آپ کی شفقتوں کا مستحق نہیں ہے ان کے لئے ذرہ برابر فکر مند نہ ہوں ۔ فلا یحن نک کفرۃ سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بالطیع کفر سے منتفر تھے اور آپ کو بڑی کوفت معلوم ہوتی تھی ۔ جب کوئی شخص اپنے لئے گمراہی کو پسند کرلیتا تھا ۔ آپ کے دل میں اس درجہ انسانیت سے ہمدردی تھی کہ آپ مخالفین کو بھی غلط راستے پر دیکھ کر بےقرار ہوجاتے تھے ۔ دل سے چاہتے تھے ۔ کہ وہ کفر کو چھوڑ رشدوہدایت کی برکتوں کامل ہوجائے ۔ فرمایا ہے کہ ان سب لوگوں کو ہمارے پاس آنا ہے ۔ انہیں بتائیں گے کہ انہوں نے کیا کیا کارہائے نمایاں دنیا میں کئے ہیں ۔ ہم ان کے تمام اسرار سے آگاہ ہیں ۔ ان کو دنیا میں تو موقع دینگے وہاں کی نعمتوں سے بہرہ مند ہولیں ۔ مگر بالآخر ان کے لئے عذاب مقدر ہے *۔ حل لغات :۔ بالعروہ ۔ ہر چیزکا کنارہ اور راستہ *۔ لقمان
24 لقمان
25 ف 1: اس حقیقت کی طرف اسارہ ہے کہ توحید فطرت انسانی کے عین مطابق ہے اور ہر شخص جس کو عقیل سلیم سے بہرہ وافر ملا ہے ۔ مجبور ہے اس سوال کا یہی جواب دے ۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ اکثریت ایسے کی ہے جو دل کی اس سچی آواز کو نہیں سنتے ! اور جن کو فطرت کے قانون سے آگاہی نہیں ہے *۔ لقمان
26 ف 2: یعنی تمام کائنات کا وہ تنہا مالک ہے کوئی ذات اس کے کاموں میں اس کی شریک نہیں ہے ۔ وہ اس لئے تمام انسانوں کو پرستش اور عقائد کا مرکز ہے ۔ کہ وہ مالک اور آقا ہے بلود کی بجائے خود اسے کسی چیز کی احتیاج نہیں ۔ وہ بےنیاز ہے اور بذاتہ لائق صدگاہے *۔ لقمان
27 عجائب فطرت ف 3: خدا کے عجائب قدرت اور غرائب وفطرت کی بوقلمونی اور کثرت کا تذکرہ ہے کہ وہ غیر محدود اور لا متناہی ہیں ۔ انسانی عقل ان تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی ۔ اگر دنیا کے تمام درخت قلم کی صورت اختیار کرلیں ۔ اور تمام سمندرروشنائی بن جائیں اور پھر آدم سے لے کر آخری انسان تک نہیں بلکہ ہر ذی روح تک کو حکم دیا جائے ۔ کہ اللہ کی صفات اور شیؤن کو لکھتے چلے جاؤ۔ تو کئی زمانے ختم ہوجائیں گے ۔ کئی نسلیں تمام ہوجائیں گی ۔ سمندر خشک ہوجائیں گے ۔ اور درخت بہت گھس گھسا کر برابر ہوجائینگے اور ہنوز حسن ازل کے بےشمار پہلو ایسے رہ جائینگے جو ضبط تحریر میں نہیں آئے اور جو کچھ لکھا جائیگا اس کی حیثیت محض یہ ہوگی جیسے کوئی بچہ سمندر کے کنارے بالو کو اپنی دلچسپیوں کی تمام دنیا فرض کرکے کھیلنے لگتا ہے اور سمندر اپنی وسعتوں کے ساتھ اس کے سامنے متلاطم ہے ؎ دفتر تمام گشت بیاباں رسید عمر اسچنان در اول وصف تو ماندہ ایم انسانی علم کی بےمانگی ۔ اللہ کے مقبالہ میں کسی درجہ واضح ہے غور فرمائیے ۔ اللہ تعالیٰ نے کتنے خوبصورت انداز میں اپنی لاتعداد قدرتوں کا اظہار فرمایا ہے ۔ ہمارے صدیوں کے تجربے ہماری عقلی کاوشیں ۔ کیا ہم کو حقیقت کے کچھ بھی قریب کرچکی ہیں ؟ کیا اس وقت بھی ہم جہالت کے اسی نقطے پر نہیں ہیں ؟ جہاں آج سے کئی ہزار برس پہلے تھے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب یہ جہالت پہلے سے زیادہ وسیع اور پہلے سے زیادہ تحیرزا ہوگئی ہے *۔ حل لغات :۔ تضطرھم ۔ کشاں کشاں لاتے ہیں کہ یہ اقتصار ہے کہ جس طرح یہ لوگ جہنم کی طرف لپک لپک کر جارہے ہیں ۔ اللہ کو سب کچھ معلوم ہے ۔ اور وہ خوب جانتا ہے کہ یہ کیونکر عذاب شدید کو اپنے لئے پسند کرلیں گے * سبعۃ ایحم ۔ کئی سمندر ، سبع کا عدہ تکمیل کے لئے ہوتا ہے *۔ لقمان
28 لقمان
29 لقمان
30 لقمان
31 لقمان
32 سمندر بہت بڑی نعمت ہے ف 1: سمندر پہلے صرف پانی کا ایک اٹھاہ ذخیرہ تھا اس کے بعد اس میں کشتیاں چلنے لگیں اور تجارت کے غیر معلوم دروازے کھلے اور پھر اس کو اقتصادی دنیا میں بہت بڑی اہمیت حاصل ہوگئی ۔ چنانچہ آج جس کے پاس بحری قوت زیادہ ہے ۔ وہ سب سے زیادہ خوشحال ہے اور سب سے زیادہ مضبوط ہے قرآن حکیم نے آج سے چودہ سو سال پیشتر سمندر کی سیاسی اور اقتصادی اہمیت کا ان الفاظ میں ذکر کیا ہے کہ ان فی ذالک لایات لکل صبار شکور کو سمندر کے فوائد ان لوگوں پر ظاہر ہوں گے جو مصائب کو برداشت کرینگے اس کی مواج اور متلاطم لہروں سے متصادم ہوجانے کی سکت رکھتے ہوں ۔ اس کی گہرائیوں اور وسعتوں سے ڈر نہ جائیں جو اس کے سینے پر کشتیاں کھیلنا اور جہاز چلانا جانتے ہوں یعنی جنہیں معلوم ہو ۔ کہ سمندر کن بےشمار فوائد کا حاصل ہے ۔ اور جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے استفادہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ مسلمان جب زندہ تھے ۔ اس وقت ان کے بحری بیڑے دور ودرازسمندروں میں رواں دواں رہتے ۔ اور وہ قرآن کی اس آیت کو خوب سمجھتے تھے ۔ آج وہ غلام ہیں ۔ اس لئے سمندر کی تمام برکات سے محروم ہیں ۔ اب مسلمان صرف حقیر قسم کا ملاح ہے ۔ مچھیرا ہے ۔ ! اور جال بنتا ہے تاکہ جب مسلمان قرآن کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ غلامی کے ذلیل لوگ عذاب میں گرفتار ہے *۔ حل لغات :۔ سخر الشمس ۔ شان کے علوئے مرتبت کی طرف اشارہ ہے کہ سورج ایسی چیز بھی انسانی مفاد کے لئے ہے * الظلال ۔ ظللۃ کی جمع ہے ۔ بمعنی شائبان *۔ ف 1: قرآن حکیم میں یہ خوبی ہے کہ وہ نہایت خوش اسلوبی سے ایک مضمون سے دوسرے مضمون کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اس آیت میں سمندر کی کیفیت کی طرف اشارہ ہے کہ جب توحید کے یہ منکرین سمندر کا سفر کرتے ہیں ۔ اور جب طوفان ان کو گھیر لیتا ہے ۔ اور موجیں سائبانوں کی طرح ان پر چھا جاتی ہیں ۔ تو یہ مارے ڈرکے صرف ایک خدا کو جاننے لگتے ہیں ۔ اور اس وقت اپنے تمام معبودان باطل کو بھی بھول جاتے ہیں پھر جب ان کو نجات دے کر خشکی پر پہنچا دیا جاتا ہے ۔ تو کچھ لوگوں کے سوا اکثر بھر شرک وانکار کی لعنتوں میں گرفتار ہوجاتے ہیں ۔ یعنی صرف مصیبت کے وقت یہ لوگ فطرت کی آواز کو سننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جہاں آسودگی اور تنعم کا دور شروع ہوا ۔ اور یہ پھر بھولے *۔ لقمان
33 ف 2: یعنی ہر شخص کو چاہیے ۔ کہ وہ اپنی ذاتی ذمہ داری کو محسوس کرے ۔ کیونکہ مکافات عمل کے دن کوئی شخص کسی کی مصیبتوں کو برداشت نہیں کریں گا ۔ نہ کوئی باپ اپنی اولاد کو گرفت سے بچا سکے گا اور نہ اولاد اپنے باپ کے کام آسکیں گی ۔ ہر شخص براہ راست خود اپنے اعمال کے لئے خدا کے سامنے جوابدہ ہوگا ۔ لقمان
34 ف 3: اسلام کہانت اور عیب گوئی ختم کرنے کے لئے آیا ہے اس لئے اس کا دعویٰ ہے کہ کوئی شخص اٹکل سے غیب کی باتوں کو نہیں بناسکتا ۔ کسی شخص میں یہ قوت نہیں ہے کہ وہ اپنے اختیار سے جب چاہے سب کچھ معلوم کرلے ۔ چنانچہ ارشاد ہے کہ قیامت کا صحیح علم صرف خدا تعالیٰ کو ہوے وہی جانتا ہے کہ کب بارش ہوگی اسی کو علم ہے کہ رحم مادر میں کیا مستشر ہے وہی بتا سکتا وے کہ کل کیا ہونے والا ہے اور کون شخص کہا مرے گا ! خصوصیت کے ساتھ ان چیزوں کو اس لئے بیان فرمایا ہے کہ عرب کے کاہن عموماً انہی چیزوں کے متعلق پیشگوئیاں کرتے تھے اور اس طرح قوم میں اپنی روحانیت کی ڈھاک بٹھاتے تھے *۔ حل لغات :۔ مقتصد ۔ معتدل ۔ ختار ۔ غدار ، بدعہد * الغرور ۔ فریٹ لینے والا ۔ فعول کے وزن پر ہے ۔ غلا شیطان *۔ لقمان
0 السجدة
1 السجدة
2 السجدة
3 ف 1: سورۃ لقمان میں زیادہ تر توحید کے مسائل کو بیان فرمایا تھا ۔ سورۃ سجدہ کا آغاز رسالت سے کیا ہے ۔ ارشاد ہے کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہے ۔ غیر مشکوک ہے ۔ اس میں وہ تخیل ہے ۔ جو بتلانا ہے ۔ کہ اس کو بھیجنے والا تمام کائنات انسانی کا رب ہے ۔ اس میں ہر ذوق اور ہر قابلیت کے انسان کو مخاطب کیا گیا ہے ۔ اس میں ہر ملک اور ہر قوم کے لئے برابر برکات اور سعادتیں ہیں ۔ یہ ہر زمانے میں لوگوں کی راہ نمائی کرتی ہے ۔ اس لئے اس کے متعلق یہ ظن کہ شاید یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا افتراء ہو ۔ محض سوء ظن ہے ۔ یہ حق وصداقت ہے ۔ واقعات اور فطرت کے مطابق ہے ۔ اور عقل ودانش کے قرین ہے *۔ ما اتھم من نذیر سے مراد یہ نہیں ہے کہ قریش مکہ پہلے کسی پیغام سے آشنا نہیں تھے ۔ اور پہلی دفعہ انہوں نے سچائی کی آواز کو سنا ۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان کی گمراہی کے بعد یہ موقع ہے ۔ کہ انہیں رشدوہدایت سے نوازا گیا ہے ۔ اور ان میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تبلیغ واشاعت کے لئے بھیجا ہے *۔ السجدة
4 مسئلہ استواء ف 2: ایام سے مراد بارہ گھنٹے کے دن نہیں ہیں ۔ بلکہ لغۃ طویل مدتیں اور فرصتیں مقصود ہیں ۔ جن میں کئی قرنوں اور صدیوں کی سمائی ہوسکتی ہے ۔ غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو ایک دم پیدا نہیں کیا ۔ بلکہ بتدریج پیدا کیا ہے ۔ جس میں کئی قرن صرف ہوئے ہیں ۔ اور اس ساری مدت کو چھ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے *۔ استوا علی العرش کے مسئلہ کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے ۔ کہ پہلے اس حقیقت کو ذہن نشین کرلیا جائے ۔ کہ خدا کی تنزیہ ہر لحاظ سے مقدم ہے ۔ اور اصل عقیدہ ہے سلف سے لے کر خلف تک سب کا ایمان ہے ۔ کہ ہمارا خدا زمان ومکان کی قیود سے بےنیاز ہے ۔ اس کا تعلق کائنات سے قومیت کا ہے ۔ احتیاج کا نہیں ہے ۔ اس کے بعد اب ظاہر ہے ۔ کہ استواء کے دو معنے ہونگے ۔ جو کسی طرح بھی اس کی شان حمدیت اور ذات احدیت پر اثرانداز نہ ہوں اور وہ یہ ہیں ۔ کہ عرش حکومت پر استواء سے مراد تدبیرات کو فی کو اپنے احاطہ اختیار میں لینا ہے ۔ اور آسمان سے ان امور کو ساری دنیا میں بلکہ تمام عوالم میں نافذ کرتا ہے *۔ اللہ تعالیٰ بطور تفسیر کے فرماتا ہے یدبر الافرمن السماء انی الارض ۔ یعنی وہی آسمان بلند سے زمین تک اپنے اوامر کو بھیجتا ہے ۔ جس طرح کہ انسان کا دل یا دماغ یا جس شاعرہ ان کے ارادہ وامر کا مرکز یا بڑا دفتر ہے ۔ کہ یہیں سے تمام اعضاء وجوارح کو احساس ہوجاتا ہے ۔ حالانکہ خوداس کا تعلق اس مرکز سے صرف اتنا ہے کہ وہ اس کا ایک حصہ ہے ۔ اسی طرح کائنات میں عرش کو مثل دل کے مقام حاصل ہے ۔ کہ تمام تدبیریں اسی بڑے دفتر سے نافذ ہوتی ہیں ۔ فرق یہ ہے کہ یہ دل کائنات کا حصہ ہے ۔ خدا کا حصہ نہیں ہے ۔ خدا تو اس سارے نظام کو پیدا کرنے والا ہے ۔ یہ مثال ناقص ہے ! اور مسئلہ استواء کو سمجھانے کے لئے کوئی مثال بھی ایسی نہیں ملتی جو ناقص نہ ہو ، مگر اس مسئلہ پر اس مثال سے ایک گونہ ضرور روشنی پڑتی ہے * حل لغات :۔ مقدارہ انف سنۃ ۔ مقصد یہ ہے کہ اعمال واوامر کو وہ بقضائے حکمت ایک دن میں اپنے حضور تک پہنچادیتا ہے حالانکہ تمہارے اندازے کے مطابق ان کو ایک ہزار سال میں کہیں پہنچنا چاہیے * علم الغیب ۔ یعنی جو باتیں تم سے اوجھل ہیں وہ ان کو بھی جانتا ہے * دوحہ ۔ اضافت محض تشریف وتفضل کے لئے ہے * السجدة
5 ملک الموت ف 1: مکہ والوں کو دو عقیدوں سے بہت زیادہ اختلاف تھا ۔ ایک تو یہ کہ خدا ایک ہے اور سب انسانوں کو اس ایک خدا کے سامنے جھکنا چاہیے ، دوسرا یہ کہ مرنے کے بعد ہر شخص پھر زندہ ہوگا ۔ اور اللہ کے حضور میں پیش کیا جائے گا ۔ چنانچہ قرآن حکیم کہتا ہے ۔ بل ھم یھا ی ربھم کفرون ۔ کہ یہ لوگ پروردگار کے سامنے جانے سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں ۔ کہ یہ ناممکن ہے ۔ اس آیت میں ان کی اس غلط فہمی کو دور فرمایا ہے ۔ اور کہا ہے ۔ فرشتہ موت وقت مقررہ پر ضرور تمہاری روحوں کو قبض کریگا ۔ مگر پھر تم رب ذوالجلال کی طرف ضرور لوٹوگے ۔ اور اپنے اعمال کے متعلق جواب دوگے ۔ یہ یاد رہے کہ موت کے ظاہری اسباب وطبعی وجہ ہیں ۔ وہاں فوق الادراک اسباب بھی ہیں ، جن کو ہم محسوس نہیں کرتے اور باطنی اسباب یا عقل وشعور سے بالاسباب خدا کا ارادہ اور ملائکہ موت کا تصرف ہے ۔ یہی وجہ ہے بعض دفعہ وہ مریض جو مہلک ترین مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس کے جان بر ہونے کی بظاہر کوئی توقع نہیں ہوتی ۔ وہ یکایک صحت یاب اور تندرست ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ خدا کا ارادہ یہ نہ تھا کہ وہ مرے اور بعض دفعہ وہ شخص جس کی رگوں میں شباب وصحت کا خون دوڑرہا ہوتا ہے ۔ جو تنومند ہوتا ہے اور ڈاکٹر جس کی صحت کی کامل تصدیق کرتا ہے ۔ وہ فوراً حرکت قلب بند ہوجانے سے مرجاتا ہے کیوں ؟ اس لئے کہ گو صحت وتوانائی کے سباب موجود ہیں مگر اللہ کا ارادہ ان اسباب کا ساتھ نہیں دیتا ہے ۔ لہٰذا وہ مرجاتا ہے *۔ اس وقت یورپ کے مادیسین حکماء اس کوشش میں ہیں کہ جس ترح بادوبرق کو انہوں نے مسخر کرلیا ہے ۔ اسی طرح نفس موت وحیات پر بھی اقتدار حاصل کرلیں ۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ ابھی تک وہ یہ بھی نہیں جان پائے کہ زندگی بذات خود چیز کیا ہے ؟ اور شاید یہ کبھی بھی معلوم نہ کرسکیں گے ۔ اس لئے ان کی کوششوں کا بارآور ہونا قطعی محال ہے ! اور اب تو مادیت کا طلسم ٹوٹ رہا ہے اور علم الحیات کے ماہرین اس طرف ڈبلک رہے ہیں کہ زندگی کوئی بسیط جوہر ہے جسم کی ساخت یا اسباب طبعی کے ساتھ اس کا بہت زیادہ تعلق نہیں ہے ۔ اس لحاظ سے وہ قرآن کے پیش کردہ نقطہ نگاہ کے قریب آرہے ہیں *۔ حل لغات :۔ یتوفکم ۔ قبض روح *۔ السجدة
6 السجدة
7 السجدة
8 السجدة
9 السجدة
10 ف 1: جب یہ مجرم سرجھکائے ہوئے اللہ کے حضور میں پیش ہونگے اس وقت انہیں احساس ہوگا ۔ کہ ہم نے خدا کی نافرمانی کرکے بہت بڑے ظلم کا ارتکاب کیا ۔ اس لئے وہ خواہش کریں گے کہ خدایا ہمیں ایک بار اور دنیا میں جانے کا موقع دیا جائے ۔ پھر دیکھئے کہ کس طرح ہم تیرے نیک اور پاک باز بندے بن جاتے ہیں ۔ جواب ملے گا کہ کائنات کا نظام پہلے سے مقدر اور متعین ہے ۔ اس میں کوئی ترمیم اور تنسیخ نہیں ہوسکتی اگر منظور ہوتا کہ کوئی شخص گمراہ نہ ہو ۔ تو ہم سب کو دنیا ہی میں ہدایت سے بہرور کردیتے ۔ مگر ایسا نہیں ہے ۔ اس دنیا کی زینت کا اختلاف اور بوقلمونی سے ہے جب میں نے کہہ دیا تھا ۔ کہ جو شخص شیطان کی پیروی کرے گا ۔ وہ ضرور جہنم میں جائے گا ۔ لاملئن جھنم منک و ممن تبعک تو اس قول کو پورا ہونا چاہیے ۔ اور بقضائے انصاف تم لوگوں کو جہنم میں جانا چاہیے ۔ جاؤ۔ اور جہنم کا عذاب چکھو ۔ تم نے دنیا میں ہمیں بھلا رکھا تھا ۔ آج ہم تم سے اس طرح کا معاملہ کریں گے ۔ کہ گویا ہم تم کو بھول گئے ہیں *۔ ف 2: ان آیتوں میں صحابہ کرام کے مرتبہ ایمان کا ذکر ہے ۔ کہ کیونکر وہ خدا کے احکام سن کر کس طرح ان پر رقت طاری ہوجاتی ہے ۔ یہ کہ اس محبت کا تذکرہ ہے ۔ جو ان کو خدا کے ساتھ ہے ۔ کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر مولا کی یاد میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ ان کے پہلو خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں ۔ خدا سے ڈرتے ہیں ۔ اور اس کی رحمتوں کے امیدوار رہتے ہیں ۔ اور جو کچھ خدا نے انہیں دے رکھا ہے ۔ اس کو اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں *۔ السجدة
11 السجدة
12 السجدة
13 السجدة
14 السجدة
15 السجدة
16 السجدة
17 ف 3: یعنی جنت کی جن مسرتوں کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے ۔ وہ ان نامعلوم راحتوں اور روحانی آسائشوں کے مقابلہ میں کوئی حقیت ہی نہیں رکھتیں ۔ جن کا ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔ اور جس کا اس دنیا میں سمجھنا ممکن ہی نہیں ۔ مختصراً یوں سمجھ لیجئے کہ وہاں روح کی بالیدگی کا پورا پوراسامان ہوگا ۔ جس کو پاکر دل اور آنکھیں اطمینان اور تسکین محسوس کریں گی *۔ حل لغات :۔ تتجافی ۔ جدا رہتے ہیں * جنوبھم ۔ جنب کی جمع ہے ۔ پہلو *۔ السجدة
18 السجدة
19 السجدة
20 السجدة
21 ایمان کی مخالفت فسق وفجور ہے ف 1: مومن کے مقابلہ میں فاسق کو رکھا ہے ۔ اور فرمایا ہے کہ مومن اور فاسق درجہ میں برابر نہیں ہیں ۔ اس لئے کہ قرآن اس حقیقت کو پیش کرنا چاہتا ہے ۔ کہ دنیا میں اگر نیکی اور تقویٰ کی روح پھیل سکتی ہے تو صرف ایمان سے یہ تسلیم کرلینے سے کہ اس کائنات کو پیدا کرنے والا ایک احکم الحاکمین خدا ہے ۔ اور موت کے بعد محاسبہ قطعی ہوگا ۔ اور ظالم سے ظالموں کی نسبت باز پرس کی جائے گی ۔ اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے آخری رسول ہیں ۔ اور ان کا پیغام آخری پیغام ہے اگر ان حقائق کو تسلیم نہ کیا جائے ۔ تو انسان میں کبھی سچی ذمہ داری کا احساس پیدا نہیں ہوسکتا اور کبھی وہ صحیح معنوں میں اپنے دل میں تقوی اور پاکبازی کے جذبات بلند کو نہیں پاسکتا ممکن ہے دہریت سائنس کو ارتفاء بخشے ۔ مادیت کو فروغ دے ۔ مگر یہ ناممکن ہے کہ اس انکار سے اخلاق حسنہ کی تعمیر ہوسکے ۔ روح ترقی کے منازل طے کرسکے ۔ باطن صاف ستھرا اور پاکیزہ ہوسکے ۔ کیونکہ اخلاق کے ارتقاء اور روحانیت کی بلندی کے لئے جن عناصر کی ضرورت ہے ۔ وہ دہریت میں قطعی مفقود ہیں ۔ آج یورپ میں کیا کچھ نہیں ہے ۔ قوت ہے ۔ علم وحکمت ہے ۔ دولت ہے ۔ اور ہر قسم کی آسودگی مہیا ہے جو مادی دنیا میں متصور ہوسکتی ہے ۔ مگر اس سارے شور ترقی اور غوفائے ارتقاء میں کہیں ذرہ بھر اخلاق کا پتہ نہیں ملتا ؟ وہ اخلاق نہیں جسے ایٹی کیٹ (فوائد رسمیہ) سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ ظاہری نشست وبرخاست کے قاعدے اور قوانین نہیں ۔ بلکہ وہ پاکیزگی ۔ تقوی ۔ اللہ کا ڈر ۔ عفاف صداقت شعاری اور ایسی چیزیں جن کی طرف ایمان بالخصوص دعوت دیتا ہے ۔ آپ دیکھیں گے کہ اس برق وہوا کی دنیا میں ان چیزوں کا کہیں شائبہ تک نہیں ۔ کیونکہ یہ لوگ ایمان کو چھوڑ چکے ہیں ۔ اندریں حالات فسق وفجور کا ارتکاب لازم ہے ۔ ایمان سے دوری اور بعد کا منطقی نتیجہ خصفاں وبدکرداری ہے *۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس طرح یہ لوگ اعمال کے لحاظ سے برابر نہیں ہوسکتے ۔ جو لوگ ایمان کی نعمت سے بہرہ ور ہیں ۔ جن کے دل روشن ہیں ۔ اور خدا کی نظر میں نیک اور پارسا ہیں ۔ وہ جنت میں مہمانی کے لطف اٹھائیں گے ۔ اور حسین اعمال کی حسین ترین جزاکو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے ۔ اور جو فاسق ہیں ۔ جن کے دل کفر کی وجہ سے تاریک ہیں جو صداقت سے محروم ہیں ۔ ان کا ٹھکانا آگ ہے ۔ وہ گھرا کر اس سے نکلنے کی کوشش کریں گے ۔ مگر کامیاب نہ ہوں گے ۔ ان سے کہا جائے گا ۔ کہ جس دوزخ کے عذاب کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ اس کے مزے چکھو ۔ اور مزید براں تمہیں دنیا میں بھی فسق وفجور کی سزا مل کرر ہے گی ۔ اور اس بڑے عذاب سے پہلے پہلے تم اس قریب کے عذاب کو بھی دیکھ لو گے ۔ فطرت کی گرفت سے بچنا محال ہے ۔ اس دنیا میں خوب سمجھ سوچ لو اور عارضی لذات کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے عذاب کو اختیار نہ کرو *۔ حل لغات :۔ نزلا ۔ مہمانی ۔ جنت کی نعمتوں کو ضیافت کے ساتھ اس لئے تعبیر کیا ہے کہ مہمان کی خاطر داری زیادہ کی جاتی ہے ۔ گویا اہل جنت تکلفات اور آسودگی کے لحاظ سے یوں رہیں گے جس طرح مہمان * دون ال عذاب الاکبر ۔ دون کے معنے سیوا کے بھی ہوتے اور درے اور پہلے کے بھی ۔ یہاں دوسرے معنے مراد ہیں یعنی عذاب اکبر سے قبل *۔ حل لغات : منتقمون ۔ انتقام کے معنے عربی میں سزا دینے کے ہیں ۔ انتقام کے لئے نہیں ۔ کیونکہ اللہ کی ذات کو گناہوں سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا کہ وہ اس نقصان اور خسارے کا بدلہ لے ۔ البتہ یہ گناہ خود انسانوں کو ضرور نقصان پہنچاتے ہیں اور ان کو ان کی پاداش میں وہ سزا دیتا ہے *۔ السجدة
22 السجدة
23 السجدة
24 السجدة
25 السجدة
26 السجدة
27 ف 1: قرآن حکیم بار بار لوگوں کو اس جانب متوجہ کرتا ہے ۔ کہ وہ مظاہرین فطرت کو بوقت نظر دیکھیں اور غور کریں کہ ان میں کتنی حکمتیں پوشیدہ اور ممعتتر ہیں ۔ یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں ۔ کہ آخر اس کارگاہ حیات کو پیدا کرنے کا مقصد کیا ہے ؟ فطرت کی کتاب بہت وسیع اور ضحیم ہے ۔ اس کا ایک صفحہ صداقت اور حکمت کے صدہادفر اتنے اندر پنہاں رکھتا ہے ۔ اور قرآن اس لئے اس کے مطالعے کو اہمیت دیتا ہے کہ ہر شخص آزادی کے ساتھ فیصلہ کرسکے ۔ کہ ان دونوں صحیفوں میں کس درجہ تطابق ہے ۔ کتاب فطرت ، اور الہام خاطر میں یعنی اس کتاب میں جو کائنات کے ذرہ ذرہ پر لکھی ہوتی ہے ۔ اور اس کتاب میں جو لاکھوں سینوں میں محفوظ ہے ، کیا فرق ہے *۔ فرماتا ہے کہ دیکھو ہم کیونکر خشک اور بےآب وگیاہ زمین کو پانی کی برکات سے سر سبز او شاداب کردیتے ہیں ۔ اور سا طرح حیوانوں اور انسانوں کے لئے چارہ اور غذا کا سامان مہیا کرتے ہیں ؟ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا ۔ کہ دلوں کی دنیا جب خشک ہوجائے ۔ اس میں ایمان ویقین کے پھول نہ کھلیں ۔ تو اس وقت آب رحمت کی ضرورت ہوتی ہے کیا اب بھی تمہیں حضور کی نبوت سے انکار ہے : کیا تمہاری یہ رائے ہے ۔ کہ ایسی تعلیمات کی تم کو ضرورت نہیں ہے ۔ جو تمہارے دلوں کو شگفتہ وشادات بنادے ۔ پھر اسی مظہر فطرت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے ۔ کہ حشراجساد کا عقیدہ عقلاً محال ہیں ہے ۔ جب مردہ اور خشک زمین لہلہلا اٹھتی ہے ۔ اور پانی اس میں زندگی پیدا کرسکتا ہے ۔ تو پھرتم لوگ مرنے کے بعد کیوں زندہ نہیں ہوسکو گے ؟ اس میں کیا اسعباد ہے ؟ پھر اسی مثال سے یہ بھی واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے ۔ اور ہر وقت وہ ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے وہ ان کے کھیتوں اور باغوں کے لئے زندگی کا سامان مہیا کرتا ہے ۔ ان کے چوپایوں کے لئے چارہ پیدا کرتا ہے اور ان کی توقعات کے خلاف غیر آباد قطعات اراضی کو شاداب ترین زمین بنا دیتا ہے ۔ تو اس کی مہربانی اور فضل وعنایت کا کوئی مقصد نہیں ، کیا یونہی بلا کسی غرض وغایت کے انسان کے لئے اتنی نعمتیں پیدا کی گئی ہیں ؟ یہ سب باتیں سوچنے اور سمجھنے کی ہیں ۔ افلایبصرون ؟ حل لغات :۔ الجرز ۔ بےآب وگیاہ زمین * انفتر ۔ فیصلہ * السجدة
28 السجدة
29 ف 1: مکے والے چونکہ قیامت کے منکر تھے ۔ اس لئے وہ ازراہ طنز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھتے تھے ۔ کہ قیامت کب آئیگی فیصہ کا دن کس وقت آئے گا ؟ قرآن کہتا ہے کہ وہ جب بھی آئے گا ۔ آئے گا ۔ مگر تم یاد رکھو کہ اس وقت کا ایمان سود مندنہ ہوگا ۔ اور نہ اس وقت تمہیں پھر دوبارہ مہلت دی جائینگی کہ دنیا میں جاؤ۔ اور اپنے اعمال سنوار لو ۔ وہ مکافات کا دن ہے ۔ اس وقت اعمال منقطع ہوجائیں گے *۔ السجدة
30 السجدة
0 سورہ احزاب اس سورۃ میں معاشرت انسانی کے مہمات مسائل سے محبت ہے ۔ اور منافقین کی دون ہمتی ۔ اور بزدلی کو واضح کیا گیا ہے ۔ کہ کیونکر یہ لوگ جہاں سے جان چراتے تھے ۔ اور یہ بتایا گیا ہے ۔ کہ امہات المومنین کا دوسری عورتوں میں کیا درجہ ہے ۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ازدواجی حقوق کیا ہیں ؟ فرمایا ہے کہ صرف اللہ کی خشیت دلوں میں ہونی چاہیے ۔ آپ کسی معاملہ میں یہ نہ دیکھیں کہ کفار اور منافقین کے جذبات کیا ہیں ؟ آپ صرف یہ دیکھئے کہ اللہ کے ارشادات آپ کو کس طرف لے جاتے ہیں ۔ اور اسی پر بھروسہ رکھیئے ۔ اور اپنے تمام کاموں میں اسی کو کار ساز اور چارہ ساز سمجھئے *۔ حل لغات :۔ اتق اللہ ۔ تقویٰ سے ہے غرض یہ ہے کہ زید کے معاملہ میں آپ عام لوگوں کے رسم ورواج کو نہ دیکھیں ۔ اور نہ اس پر غور کریں ۔ کہ لوگ کیا کہیں گے ۔ کیونکہ آپ کا منصب رشدوہدایت اور قبلہ وراہنمائی کا منصب سے آپ اس لئے مبعوث نہیں ہوئے ۔ کہ لوگوں کے پیچھے پیچھے چلیں اور لوگوں کے خیالات کی پیروی کریں *۔ تایھرون ۔ اظہار سے متعلق ہے ۔ یہ ایک رسم ہے ۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ کوئی اپنی بیوی سے یہ کہہ دے کہ انب علی تطھرانی ادعیاء کم ۔ داعی کی جمع ہے ۔ منہ بولا بیٹا *۔ الأحزاب
1 الأحزاب
2 الأحزاب
3 الأحزاب
4 الأحزاب
5 ف 1: ان آیات میں دراصل ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔ اور ان غلط فہمیوں کو دور کیا گیا ہے ۔ جو اس واقعہ سے وابستہ تھیں ۔ واقعہ یہ تھا کے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبوت کے پہلے ازراہ شیفقت زید بن حارث کو جو کہ غلام تھے ۔ اپنا متبنیٰ قرار دیا تھا ۔ اور اس نسبت نے یہاں تک شہرت حاصل کی ۔ کہ ان کو عام طور پر زید بن محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام سے یاد کیا جانے لگا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ بہت عزیز تھے ۔ اور آپ چاہتے تھے کہ ان کے رتبہ کو سوسائٹی میں بلند کردیا جائے ۔ اور لوگوں کو بتایا جائے کہ غلام بھی جب اسلام کی آغوش میں آجاتے ہیں ۔ تو کس درجہ رفیع مرتبت ہوجاتے ہیں ۔ چنانچہ آپ نے حضرت زینب کو زید کے نکاح میں دے دیا ۔ پھر اتفاق یہ ہے کہ دونوں کی آپس میں نہ نبھ سکی ۔ زید ان سے حقوق زوجیت کی بنا پر بہت زیادہ خدمت کے متوقع تھے ۔ اور زینب بالطبع یہ چاہتی تھیں کہ مرتبہ ومقام کے لحاظ سے زید ان کو عزت واحترام کی نگاہوں سے دیکھیں ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں میں جدائی ہوگئی ۔ اب حضرت زینب ملول تھیں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی دلجوئی کے لئے اور نیز اس لئے کہ متبنی کی رسم کو توڑا جائے ۔ ان کو اپنے حرم میں داخل کرلیا ۔ اور اس طرح انہیں مہمات المومنین کی مقتدر جماعت میں شمول کا موقع مل گیا ۔ ادھر مخالفین نے یہ کہنا شروع کردیا ۔ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی بہو سے شادی کرلی ہے ۔ جو ان کے یہاں مذموم رسم تھی ۔ قرآن کی ان آیات میں ان کے خیال کو غلط بتلایا ہے ایک طرف تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب ہے ۔ کہ آپ ان لوگوں کے خیالات اور جذبات کے تابع نہیں ہیں ۔ اور آپ کے پہلو میں جو دل ہے اس میں صرف اللہ کی خشیت کا جلوہ ہے ۔ اس لئے آپ ان لوگوں کے طعن وتشنیع سے ذرہ برابر دل برداشتہ نہ ہوں ۔ دوسری طرف ان مخالفین سے کہا ۔ کہ کم بختو ! کیا تم اتنی سی بات کو نہی سمجھتے کہ عرف اور حقیقت میں ایک نمایاں فرق ہوتا ہے ! وہ شخص جس کو آپ اپنے عرف میں بیٹا کہتے ہیں ۔ کیا وہ اپنی فطرت کے اعتبار سے وہی بیٹا ہوسکتا ہے ۔ جو حقیقی بیٹا ہوتا ہے ۔ جس طرح اظہارگی صورت میں تم اپنی بیویوں کو اپنی مائیں بہنیں قرار دے لیتے ہو اور وہ فی الواقع تمہاری مائیں نہیں ہوجاتی ہیں ۔ اسی طرح سے پالک بیٹے بھی معاشرت انسانی میں وہ درجہ حاصل نہیں کرسکتے اور ان کے ساتھ وہ حقوق وابستہ نہیں ہوتے ۔ جو بیٹوں کے متعلق ہوتے ہیں ۔ اس لئے تمہیں چاہیے ۔ کہ تم اپنے اعتراضات کو واپس لے لو ۔ اور آئندہ کسی شخص کو اس کے مفروضہ بات کی طرف منسوب نہ کرو ۔ کیونکہ یہ عرف پھر آئندہ چل کر بہت سی غلط فہمیوں کا موجب بن جاتا ہے ۔ اگر تمہیں معلوم نہ ہو ۔ کہ ان کا باپ کون ہے ۔ تو اخوت دینی کا رشتہ کافی ہے ۔ انہیں اپنا بھائی کہو *۔ حل لغات : اولوالارحام ۔ رشتہ دار * غلیظا ۔ گاڑھا ۔ پکا * الأحزاب
6 ف 2: زینب کے نکاح کے سلسلہ میں ایک لطیف جواب یہ دیا ہے کہ تم لوگوں کو چونکہ منصب نبوت کی پہچان نہیں ہے ۔ اس لئے تمہارے دلوں میں اس قسم کے شبہات پیدا ہورہے ہیں ۔ ورنہ پیغمبر سے زیادہ اور کون مسلمانوں کے نزدیک تر ہوسکتا ہے ؟ پیغمبر خوب جانتا ہے ۔ کہ شفقت اور مہربانی کا تقاضا کیا ہے ؟ اس لئے اگر انہوں نے زینب سے نکاح کرلیا ہے ۔ اور ان کو اس منصب جلیلہ سے مفتخر فرمایا ہے کہ وہ سارے مسلمانوں کی ماں ہیں ۔ تو پھر اس میں برائی کی کیا بات ہے ؟ وارواجہ مھاتھم میں ختم نبوت کی طرف بھی ایک دقیق اشارہ ہے ۔ یعنی جب پیغمبر کی بیویاں امت کی مائیں قرار پائیں تو پیغمبر بمنزلہ باپ کے ہوئے بلکہ شفقت اور احسانات میں باپ سے کہیں بڑھ کر اولی بالمومنین پھر جب تک یہ ابوت موجود ہے ۔ دوسرے مدعی نبوت کی کیا ضرورت ہے *۔ حل لغات :۔ جدموا ۔ عساکر ۔ یعنی فرشتے *۔ الأحزاب
7 الأحزاب
8 الأحزاب
9 الأحزاب
10 الأحزاب
11 غزوہ احزاب ف 1: مسلمانوں نے جب مکہ چھوڑا اور مدینہ کو اپنی تگ ودو کا مرکز بنایا ۔ تو مکے والوں کو یہ بہت ناگوار ہوا ۔ وہ تو یہ سمجھتے تھے ۔ کہ ہم نے ان کو گھروں سے نکال دیا ہے ۔ اور اب یہ مسافرت میں عسرت اور بےچینی سے زندگی بسر کرینگے ۔ مگر ہوا یہ کہ مسلمانوں کو آرام اور دلجمعی کے ساتھ اپنی قوتوں کو مستحکم کرنے کا موقع مل گیا ۔ بدر کی جنگ میں پہلی دفعہ قریش کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔ کہ ہم نے مسلمانوں کو ہجرت پر آمادہ کرکے کوئی اچھا کام نہیں کیا ۔ مسلمان اس طرح اور زیادہ مضبوط ہوگئے ۔ چنانچہ بدر کے بعد وہ متواتر اس کوشش میں رہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں ایک متحدہ محاذ قائم کریں ۔ اور ساری قوم کی کچھ اس طرح تنظیم کی جائے ۔ کہ مسلمان مقابلہ نہ کرسکیں ۔ ہجرت سے چار سال بعد ان کو یہ موقع مل گیا ۔ کہ یہودیوں کے مختلف قبائل ان کے ساتھ تھے ۔ بارہ ہزار کی تعداد میں یہ جمع ہوکر آئے ۔ اور مدینہ کے باہر خیمہ زن ہوگئے ۔ تقریباً ایک مہینہ تک ان کا محاصرہ قائم رہا ۔ اس عرصہ میں مسلمانوں کی کیفیت یہ تھی کہ مصیبت کے اس غیر متوقع اندازے سے بےقرار تھے ۔ شدت تھی ۔ کھانے کو کچھ نہ تھا ۔ خندق کھودتے وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیٹ پر پتھر بندھے تھے ۔ نتیجہ یہ تھا کہ کلیجہ منہ کو آنے لگا ۔ خوف وہراس اور قنوط ومایوسی چھارہی تھی سخت آزمائش اور ابتلا کا وقت تھا ۔ ادھر منافقین مسلمانوں کو یہ کہہ کر اور گھبرا رہے تھے ۔ کہ دیکھو فتح ونصرت کے تمام وعدے غلط ثابت ہوئے ہیں ۔ ہماری طاقت زیادہ ہے ۔ اس لئے تمہارے لئے کامیابی کی تمام راہیں مسدود ہیں منافقین کو محاصرین اکسارہے تھے ۔ کہ مسلمانوں کو دون ہمتی اور بزدلی پر آمادہ کردیں ۔ کہ تاب مقار مت نہ لاسکیں ۔ اور آسانی سے مدینہ فتح ہوجائے ۔ تاکہ مسلمانوں سے بدر کا انتظام لیا جاسکے ۔ چنانچہ کمزور اور پست ہمت لوگ آء آء کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہتے کہ جناب ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں ہم کو شرکت جہاد سے محفوظ رکھیئے * نعمت اور مہربانی کو بھول گئے ہو ۔ کہ نہایت مشکل کے وقت میں تمہاری کس طرح مدد کی تھی ۔ اور تمہیں متحدہ کفر کی زد سے بچا لیا * ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی نصرت اور تائید کے قوانین کیا ہیں ؟ کیا وہ بغیر مصیبت برداشت کرنے کے اپنی اعانت سے اپنے بندوں کو نوازتا ہے یا اس وقت جب سخت آزمائش میں ڈال کر آزمالے ۔ اور مصائب کی بھٹی میں ڈال کر پڑکھ لے *۔ حل لغات :۔ اذزاغت الابصا ۔ یعنی جب مارے خوف وشدت کے آنکھیں پھر گئیں * احناجر ۔ جمع خنجر ۔ گلے * انظنونا ۔ ظنون ۔ جمع ظن ۔ معنے گمان *۔ حل لغات :۔ یثرب ۔ نام مدینہ منورہ * مقام ۔ مقاومت کا موقع * عورۃ ۔ خالی * الأحزاب
12 الأحزاب
13 منافقین کا شرو فساد سے شغف ف 1: غرض یہ ہے ۔ کہ منافقین جو جہاد سے جی چراتے ہیں ۔ اور یہ کہہ کر پیچھا چھڑاتے ہیں ۔ کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں ۔ تو یہ عذرات نیک نیتی پر مبنی نہیں ۔ بلکہ وہ محض بھاگنا چاہتے تھے ۔ یہ بات نہیں ۔ کہ ان میں لڑنے کی قوت نہیں ۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام کے ساتھ نہیں دنیا چاہتے ۔ ورنہ یہی لوگ جواب معذرت کررہے ہیں ۔ اور جہاد میں شریک نہیں ہونا چاہتے اگر یہ دیکھیں کہ ہمارے مسلک کے لوگ مدینہ میں آگھسے ہیں اور ہماری اعانت کے طالب ہیں ۔ تو بڑی گرم جوشی کے ساتھ ان کے ساتھ آمادہ ہونے کا خیال ہو ۔ اور نہ پست ہمتی کا فرمایا کہ اس سے قبل تم عہد کرچکے ہو ۔ کہ اب آئندہ کبھی پیٹھ نہیں دکھائیں گے ۔ اور مسلمانوں کے ساتھ ہوکر اعدار دین کا مقابلہ کریں گے پھر آج تمہیں کیا ہوگیا ۔ کہ اس نوع کے بہانے پیش کرکے وعدہ خلافی پر آمادہ ہو *۔ الأحزاب
14 دنیوی زندگی عارضی ہے ف 2: فرمایا ہے کہ اگر تم ازراہ بزل بھاگ جاؤ گے ۔ تو پھر کیا ہوگا کیا ہمیشہ ہمیشہ تم زندہ رہو گے ۔ کیا پھر کبھی نہیں مرو گے ۔ کیا تم یہ سوچتے ۔ کہ یہ زندگی بظاہر طویل نظر آنے کے بہت کوتاہ اور قصیر ہے ۔ موت کا ایک دن مقدر اور معین ہے پھر جب ہر صورت میں مرنا ہے تو ان چند دنوں کی عارضی زندگی کو کیوں ٹھکراتے ہو ۔ عاجل کا نفع تمہارے سامنے ہے ۔ اور آجل کی بہرہ اندوزی سے محروم ہو ۔ یہ کہاں کی عقل مندی اور دانائی ہے کہ حیات چند روزہ کے عرض ابدی زندگی کو بیج ڈالا جائے ۔ الأحزاب
15 الأحزاب
16 الأحزاب
17 ف 1: بتاؤ تمہارے پاس اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہیں کوئی تکلیف پہنچانا چاہے تو تم یا تمہارا کوئی ساتھی اس کو روک سکے گا ۔ یا اگر وہ تم پر فضل کرنا چاہے تو کوئی اس سے ان کو باز رکھ سکے گا ۔ پھر جب ایسا کوئی شخص نہیں ہے تو کیوں آئی آیت میں اور اس کے دین کی حمایت میں صف آرا نہیں ہوجاتے ۔ کیوں بزدلی اور جین کو پسند کرتے ہو *۔ ان آیات میں یہ بتایا ہے ۔ کہ جنگ اور جہاد سے باز رکھنے والے یہ نہ سمجھیں ۔ کہ وہ خدا کو دھوکہ دے رہیں ہیں اور خدا ان کے ارادوں سے آگاہ نہیں ۔ وہ خوب جانتا ہے ۔ کون لوگ مسلمانوں میں تعویق پیداکررہے ہیں ۔ اور مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں ۔ کہ دیکھو ہمارے ساتھ مل جاؤ تم سے مقابلہ نہیں ہوسکے گا *۔ ان آیات میں منافقین کے خوف وہراس کی تصویر کھینچ دی ہے ۔ کہ یہ لوگ کس درجہ بزدل ہیں اور کس درجہ مرعوب اور متاثر ہیں *۔ فرمایا جب خوف وہراس کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے ۔ آپ دیکھتے ہیں ۔ کہ ان کی آنکھیں اس طرح پھر رہی ہیں ۔ جس طرح موت کی غشی ان پر طاری ہے جب وہ خوف وہراس دور ہوجاتا ہے ۔ تو زبانوں پر طعن وتشنیع کے کلمات جاری ہوجاتے ہیں ۔ اور بڑی دیدہ دلیری سے مال غنیمت میں اپنے حصے لگاتے ہیں ۔ گویا ان کو نفاق وطمع کی اس وقت سوجھتی ہے ۔ جب بلا ٹل جاتی ہے ۔ اور مصیبت کے وقت یہ بالکل حواس باختہ ہوجاتے ہیں *۔ حل لغات :۔ الاحزب ۔ گروہ ۔ حزت کی جمع ہے *۔ حل لغات :۔ سوء ۔ تکلیف ۔ دکھ * المعوقین ۔ روکنے والے ۔ تعویق سے ہے * اشحرہ ۔ لیجح کی جمع ہے ۔ معنے حریص ۔ بخیل *۔ الأحزاب
18 الأحزاب
19 بزدلی کی انتہا ف 1: یہ منافقین کی انتہائی بزدل اور جبن تھا ۔ کہ مخالفین کے عساکر تو آندھی کے طوفات کی تاب نہ لاکر بھاگ چکے تھے مگر یہ اس وہم میں تھے کہ وہ ابھی تک محاصرہ کئے ہوئے ہیں اور اگر یہ عساکر خدانخواستہ پھر پلٹ کر آجائیں ۔ تو ان لوگوں کی طبعاً یہ خواہش ہوگی کہ کہیں جنگل میں جاکر رہیں اور آئے دن جو جنگ وجدال ہوتا رہتا ہے ۔ اس سے محفوظ رہیں ۔ یہ لوگ سخت بزدل ہیں ۔ اور اگرچہ رونا چارا نہیں لڑنا ہی پڑے ۔ تو جی داری سے نہیں لڑتے ۔ بلکہ ان کی کوشش یہی ہوتی ہے ۔ کہ کسی طح یہ مصیبت ٹل جائے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل قوت جو سپاہی کو میدان جنگ میں شجاعانہ اقدام پر مجبور کرتی ہے ۔ وہ اس کا عقیدہ ہوتا ہے عقیدہ کی قوت سے وہ لڑتا ہے ۔ اور ان کی کیفیت یہ ہے کہ سرے سے کوئی عقیدہ ہی نہیں رکھتے ۔ نہ کفر کے لئے دلوں میں عصبیت ہے اور نہ ایمان کے لئے محبت ۔ اب لڑیں تو کیسے ۔ جہاد کریں تو کیونکر *۔ الأحزاب
20 الأحزاب
21 اسوہ حسنہ ف 2: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس طرح اللہ کے پیغام کو وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے ۔ اسی طرح ان میں یہ بھی اہلیت تھی ۔ کہ شمشیر وسنان سے اس کی حمایت بھی کریں ۔ چنانچہ اکثر غزاوات میں آپ نے داد شجاعت دی ۔ اور نازک سے نازک اوقات میں بھی پہاڑ کی طرح میدان جنگ میں قائم رہے ۔ جب کہ بڑوں بڑوں کا زہرہ آب ہوتا تھا ۔ ارشاد ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انسانیت کے لئے بہترین اسوہ ہے ۔ اس کی پیروی کرو اور اس کو دیکھ کر اپنے مصائب کو معلوم کرو ۔ اور جبن وبزدلی کی عادات کو ترک کرو ۔ تاکہ تم سعادت اخروی حاصل کرسکو *۔ یہاں اسوہ حسنہ کا لفظ اگرچہ سیاق جنگ میں آیا ہے ۔ مگر معنی اس میں عموم ہے ۔ ہر شخص جو اللہ سے اور روز آخرت کے خوف سے ڈرتا ہو ۔ اور اس کے دل میں ذکروشغل کی محبت ہو ۔ ضروری ہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسالت پناہ کی زندگی کو اپنے سامنے رکھے کیونکہ آپ ہر لحاظ سے حسن وجمال کا پیکر ہیں ۔ تقویٰ وپاکیزگی کا مظہر ہیں ۔ وہ تمام پیغمبرانہ اوصاف جو چہرہ نبوت کا غازہ ہیں ۔ آپ کی ذات میں موجود ہیں آپ کے رخ زیبا میں ہر نوع کے عشاق کے لئے تسکین نظر کا وافر سامان مہیا ہے ۔ آپ خلاصہ انسانیت ہیں ۔ آپ کی کوی حرکت غیر جمیل نہیں ۔ آپ سیرت وعمل کا بہترین نمونہ ہیں ۔ اور جسم وقالب سے لے کر روح کی گہرائیوں تک آپ میں حسن ہی حسن ہے ۔ آپ قوموں اور بلتوں کے حالات پڑھیں ۔ اور ان میں قائدین اور حکماء وانبیاء کو دیکھیں ۔ اور ان میں حسن جس مقدار میں جہاں جہاں موجود ہے ۔ اس کو نگاہ میں رکھیں ۔ اور پھر اس کا مقابلہ کریں جمال حبیب سے ۔ آفتاب نبوت سے ۔ آپ یقینا یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہونگے کہ ع آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری حل لغات : ۔ بادون ۔ بادیہ سے ہے یعنی جنگ میں باہر جا رہنے والے * اسوۃ ۔ لائق تقلید کو نہ ۔ پیشوا اور مہمات ۔ پیشوا ومقتدر *۔ الأحزاب
22 الأحزاب
23 ف 1: ان آیتوں میں پھر نفس مضمون کی طرف براہ راست توجہ مبذول فرمائی ہے ۔ ارشاد ہے کہ یا تو منافقین کی حالت آپ نے دیکھی ۔ کہ اپنے عہد کو بھی بھلا بیٹھے ۔ اور بدرجہ غایت بزدلی کا اظہار کیا ۔ اور یا یہ مومنین ہیں ۔ کہ عساکر کو دیکھ کر جوش ایمانی سے معمور ہوگئے ۔ اور کہنے لگے ۔ کہ اللہ کی نصرت اور فتح کا وعدہ آن پہنچا ہے ۔ اور اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ فرمایا تھا ۔ وہ بالکل سچ اور درست ہے ۔ اس میں سرموشک او شبہ کی گنجائش نہیں ۔ ع بہ بین تفاوت راہ کجا است تابہ کجا پھر ان میں ایسے بھی تھے ۔ جنہوں نے انس بن نضر کی طرح اپنے عہد کو پورا کیا ۔ اور بڑھ کر جام شہادت نوش فرمایا اور ایسے بھی تھے ۔ جو خلوص وبے تابی سے اس ساعت سعید کے منتظر رہے * حل لغات :۔ قضی نحبہ ۔ موت سے کنایہ ہے ۔ وہ عادت اور خصلت جس سے اقتداء کی جائے *۔ خدا کمزوروں کی دستگیری کرتا ہے الأحزاب
24 الأحزاب
25 الأحزاب
26 ف 1: جنگ احزاب میں جو مخالفین کو شکست ہوئی ۔ وہ محض اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ کمزوروں کی دستگیری فرماتے ہیں ۔ اور مایوسوں کی مایوسی کو امیدوکامیابی میں بدل دیتے ہیں ۔ اللہ کا قانون اور مخلصی کی کوئی راہ باقی نہ رہے ۔ اور بظاہریاس کے بادل دلوں پر چھا جائیں ۔ عین اس وقت وہ بڑھے ۔ اور فرشتوں کے لاؤ لشکر کے ساتھ حملہ آور ہو ۔ اور مخالفین کی صفوں میں ہلچل مچا دے ۔ وہ ہمیشہ سے اپنے قوی و عزیز ہونے کا ثبوت دیتا آیا ہے ۔ اس نے اپنی غیر متوقع اعانتوں سے دائماً اپنے بندوں کو یقین دلایا ہے ۔ کہ مادی قوتیں اس کے مقابلہ میں پرکاہ کے برابر وقعت نہیں رکھتیں ۔ وہ جب چاہے اور جن وسائل سے چاہے ۔ دشمنوں کو ہلاک کردے ۔ وہ ہمیشہ قوت کے مقابلہ میں عاجزی اور مسکت کی مدد فرماتا ہے ۔ وہ موسیٰ کو فرعون کی سر کوئی کے لئے بھیجتا ہے ۔ ابراہیم کو نمرود جیسے جبار کے واسطے مسیح کو یہود حکومت کے لئے مبعوث فرماتا ہے ۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قیصروکسریٰ کی منظم حکومتوں کو درہم برہم کرنے کے لئے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمیشہ یہ پاکباز اور بےسروسامان بزرگ کامیاب رہے اور کفر باوجود اپنی شان وشوکت کے مغلوب رہا غرض یہ ہے ۔ کہ کمزور ایمان کے مسلمان اور منافقین ان واقعات پر غور کریں ۔ اور سوچیں ۔ کہ کیونکر اللہ تعالیٰ اپنے دین کو سربلند کرتا ہے ۔ اور کس طرح کفرذلیل ہوتا ہے * وہ یہودی جو مزے کی زندگی بسر کررہے تھے ۔ اپنی اس شرارت کی وجہ سے کہ انہوں نے معاہدہ شکنی کرکے مشرکین مکہ کا ساتھ دیا ۔ اپنی املاک کو کھو بیٹھے ۔ اور مضبوط قلعوں سے نکل جانے پر مجبور ہوئے *۔ حل لغات :۔ ظاھروھم ۔ ان کی مدد کی تھی * قذف ۔ پھینکا ۔ ڈالا *۔ الأحزاب
27 الأحزاب
28 الأحزاب
29 کاشانہ نبوت ف 1: بات یہ تھی کہ کاشانہ نبوت میں عجمی بادشاہوں کی طرح دولت کی نمود نہیں تھی ۔ امراء اور مالداروں کی سی حالت نہیں تھی ۔ بلکہ بعض اوقات تو وہاں ضروریات زندگی کا بھی فقدان تھا ۔ اس لئے بالصبع پردہ نقسیان کرم نبوت کو بتقاضائے بشریت بعض دفعہ اس کا احساس ہوتا اور وہ طول خاطر ہوجائیں * ایک دفعہ تو وہ اس دکھ کے اظہار پر مجبور ہوگئیں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ سنا ۔ تو آپ کو بدرجہ غایت رنج ہوا ۔ آپ نے عہد کرلیا ۔ کہ ایک مہینہ تک ان خواتیں کے پاس نہ جائیں گے ۔ اس کے بعد تسکین خاطر کے لئے یہ آیات نازل ہوئیں ۔ کہ اے پیغمبر اپنی محترم مخدرات سے کہہ دیجئے ۔ کہ میرے ہاں روح وقلب کی زینت وآرائش کا سامان تو موجود ہے ۔ مگر جس کی آسائشیوں کے لئے جگہ نہیں ۔ اگر تمہارا مقصد صرف دنیا کے منافع سے استفادہ ہے ۔ اور شرف صحبت نبوت کو تم کافی نہیں سمجھتیں ۔ تو آؤ میں تم کو سب حمائیت مال ومتاع دے کر رخصت کردوں ۔ یہاں کوئی جبر اور زبردستی نہیں ہے ۔ پیغمبر کا کاشانہ ہے ۔ بادشاہو کا حرم نہیں ۔ اور اگر تمہاری زندگی کا مقصد اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عقبیٰ وآخرت ہے ۔ تو پھر میں تم کو خوشخبری سناتا ہوں ۔ کہ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے اجر عظیم تیار کررکھا ہے *۔ ازواج مطہرات نے جب یہ آیتیں سنیں تو حقیقت وعرفان کا نور سامنے چمکتا ہوا نظر آیا حرم نبوت کی صحیح قدروقیمت معلوم ہوئی ۔ بول اٹھیں ۔ کہ ہمیں تو اللہ اور اس کا رسول پسند ہے ہم دنیا کو اس کے مقابلہ میں کوئی وقعت نہیں دیتیں *۔ وہ لوگ جو تعدد ازدواج کی وجہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر معترض ہیں ۔ وہ تصویر کے اس رخ کو دیکھیں ۔ کیا زندگی کا اس سے پاکیزہ نمونہ انہوں نے کہیں دیکھا ہے ۔ کیا اس کے بعد بھی وہ کہیں گے ۔ کہ آپ نے معاذ اللہ شادیاں حظوظ دنیوی کے لئے کیں ؟ حل لغات :۔ سراحا جمیلا ۔ سرح کے معنے چھوڑ دینا اور رخصت کرنا * یسیرا ۔ آسان ۔ سہل * الأحزاب
30 الأحزاب
31 الأحزاب
32 امہات المومنین ف 1: پردہ نشینان حرم نبوت کی ذمہ داریاں عام عورتوں سے کہیں زیادہ ہیں ۔ اس لئے جہاں ان کے لئے برائی کے ارتکاب پر دوگنی سزا تجویز فرمائی ہے ۔ وہاں ان کے لئے اجروثواب میں دوچند رکھا ہے ۔ کیونکہ وہ ساری امت کی عورتوں کے لئے پاکبازی اور عفاف میں نمونہ ہیں ۔ ان کے لئے ہر بات میں تقویٰ ووقار کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ ان کے ہر فعل میں یہ ضروری ہے ۔ کہ پیغمبرانہ تربیت کا حسن نمایاں ہو ۔ اس لئے ان کو بالطبع اس درجہ آزادی اور سہولت میسر نہیں ہوتی ۔ جس درجہ کہ عام دوسری مومنات کو حاصل ہے ۔ بلکہ ان کی زندگی کا شانہ نبوی کی روایات تقدیس و وقار کے مطابق ہوتی ہے ۔ اور پھر ساتھ ساتھ یہ بھی لازم ہے کہ یہ مخدرات اس پاکیزہ زندگی کے لئے رضاکارانہ طور پر بھی تیار ہوں ۔ ان پر کوئی جبر نہیں ہوتا ۔ یہ خود اس معیار کو نبھانے کے لئے کوشاں رہتی ہیں ۔ جو ان کے لئے موزوں ہوتا ہے ۔ لہٰذا یہ قدرتاً دوسری عورتوں سے زیادہ ثواب اور اجر کی مستحق ہیں *۔ ف 2: اس آیت میں واضح طور پر بتادیا گیا ہے ۔ کہ امہات المومنین کا درجہ امت کی تمام عورتوں سے زیادہ ہے ۔ اس لئے انہیں مشکوٰۃ نبوت سے کسب انوار کا سب سے زیادہ موقع ملتا ہے ۔ یہ شمع رسالت پر ہر وقت پروانہ وار نثار ہونے کو تیاررہتی ہیں ۔ اور قرب حضوری کا جو درجہ ان کو حاصل ہے ۔ وہ دوسری عورتوں کو حاصل نہیں ہوسکتا *۔ اسی آیت میں عقاف کے تحفظ اور ناموس کی بقاء کا ایک نہایت باریک ممکنہ ارشا فرمایا ہے ۔ جو تمام مخدرات کے لئے یکساں ضروری اور اہم ہے ۔ حقیقت یہ ہے ۔ کہ اس طرح کی حکیمانہ باتوں کو اگر عمل کا جامہ پہنا دیا جائے ۔ تو پھر بدی کا احتمال ہمیشہ کے لئے اٹھ جائے فرمایا : دیکھو جب تم دوسروں سے مسائل کے متعلق گفتگو کرو ۔ تو انداز بیان پر حشمت اور باوقار ہونا چاہئے ۔ اس طرح نہ گفتگو کرو کہ اس میں تمام نسائی لطافتیں جمع ہوجائیں ۔ اور سننے والے کے دل میں کسی نوع کی جنسی تحریک پیدا ہوسکے *۔ آنکھوں کے بعد زبان سب سے زیادہ بدی کی محرک ہے ۔ یہ وہ کامل التاثیر زہر ہے ۔ جس کا تریاق نہیں ۔ اس لئے رب العزت نے عورتوں کو غیر محرموں کے سامنے اس طرح استعمال سے روکا ہے جس میں طنیح ودخال مترشح ہو اور جو معصیت اور گناہ کے لئے بمنزلہ دعوت کے ہو *۔ حل لغات :۔ یقنت ۔ قنوت سے ہے بمعنی فرمانبرداری اور پوری پوری اطاعت * وقرن ۔ گھروں میں ٹکی رہو ۔ باوقار کے ساتھ رہو *۔ الأحزاب
33 ف 1: اسلامی نقطہ نگاہ سے عورتوں اور مردوں کی تگ ودو کے لئے دو الگ الگ دائرے ہیں ۔ مردوں کے لئے گھر سے باہر کی دنیا میں دلچسپی ہے ۔ اور عورتوں کے لئے انتظام خانہ داری کے مسائل ہیں ۔ مرد اس لئے پیدا کیا گیا ہے ۔ کہ وہ دنیت صالحہ کے لئے بہترین ثقافت کی تعمیر کرے ۔ اور عورت اس لئے پیدا کی گئی ہے ۔ کہ وہ اپنی آغوت میں ایسے بچوں کی تربیت کرے جو آئندہ نسل کے لئے فخر ومباہات کا باعث ہوسکیں ۔ دونوں کے لئے بالکل جدا جدا میدان عمل موجود ہیں اور یہ وہ نظریہ ہے جس کو یورت نے بالآخر ہر ار خرابی کے بعد تسلیم کرلیا ہے ۔ اور جس پر تمام نوع انسانی کی سعادتوں کا مدار ہے *۔ قرآن حکیم فرماتا ہے ۔ اے عورتو ! تم اپنے گھروں میں وقار وحشمت کے ساتھ جمی بیٹھی رہو ۔ اور اپنی دوڑ ودھوپ کو صرف تدبیر منزل کے مسائل کو سلجھانے کے لئے وقف کردو ۔ تمہاری جگہ دفتروں اور ایوانوں میں نہیں ہے ۔ تم اپنے گھروں کی رونق اور روشنی ہو آرائش محفل غیر ہونے سے تم سعادت انسانی کو ختم کردوگی اور خود اپنی نسائی خصوصیات کھودوگی ۔ ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولی سے مراد یہ ہے کہ ضروریات مدنیہ کے لئے حرکت کرنا ممنوع نہیں ہے ۔ تم گھروں میں محصور نہیں ہو ۔ کہ ابداً ابداً گھروں سے قدم باہر نہ رکھ سکو ۔ بلکہ تمہاری توجہات کا نصب العین گھر کی زینت وآرائش ہونا چاہیے ۔ اور جب گھروں سے باہر نکلو ۔ تو حسن وجمال کے تیروکمان سے مسلح ہوکر نہ نکلو ۔ اور جاہیت اولیٰ کی طرح عریانی کا مظاہرہ نہ کرو ۔ بلکہ اسلامی آداب کو ہمیشہ ملحوظ رکھو * آیت تطہیر میں یہ بات محلوظ رہے کہ اولاً اور اصالتاً صرف ازواج مطہرات مراد ہیں ۔ اور دوسرے لوگ اس میں محض ثانوی طور پر ہیں کیونکہ سیاق کا یہی تقاضہ ہے ۔ کہ خود لفظ اہل بیت کا پہلا استعمال ہمیشہ بیوی کے لئے ہوتا ہے اور دوسروں کو باقیع اس میں شامل کرلیا جاتا ہے ۔ حل لغات :۔ الرجس ۔ اخلاقی معائب * والجمھۃ ۔ سنت *۔ الأحزاب
34 الأحزاب
35 مرد اور عورت دونوں برابر کے مکلف ہیں ! ف 1: مقصد یہ ہے کہ مرد اور عورت کی زندگی کے دائرے الگ الگ ہیں ۔ مگر جہاں تک اخلاق وروحانیت کا تعلق ہے ۔ دونوں کے لئے مراتب میں بڑھنے کے لئے شریعت کے دورازے کھلے ہیں ۔ دونوں اسلام وایقان کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوسکتے ہیں ۔ دونوں شیوہ اطاعتکو وہ تیار کرسکتے ہیں ۔ دونوں کے لئے صدق وصفاضروری ہے ۔ دونوں صبر اور شکر کے زیور سے آراستہ ہوسکتے ہیں ۔ دونوں کے لئے صدقات ، صوم وصلوٰت کے باب واہیں ۔ دونوں برابر کے مکلف ہیں ۔ کہ اپنی خواہشات نفس کو قابو میں رکھی ۔ دونوں ذکروفکر کی پاک وادیوں میں گامزن ہوسکتے ہیں ۔ یعنی تمام فیوض وبرکات سے بہرہ مندی کا استحقاق دونوں کو بلا لحاظ جنس پورا پورا ہے *۔ ف 2: اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ کہ مسلمان کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ یہ عقیدت ہونی چاہیے ۔ ارشاد ہے کہ جب خدا اور اس کا پیغمبر کسی مصلحت پر متفق ہوجائیں ۔ تو پھر کسی مومن اور مومنہ کو یہ اختیار باقی نہیں رہتا ۔ کہوہ اس سے اختلاف کرے ۔ اور اپنی رائے کو ان کے مقابلہ میں قبح سمجھتے کیونکہ ایمان نام ہے عقل وہوش کی ساری ذمہ داریوں کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد کردینے کا اور خود اس باب میں سبکدوش ہوجانے کا ۔ پھر اگر کتاب وسنت کا کوئی حکم کسی شخص کے دل میں کھٹکتا ہے ۔ تو اسے اپنے ایمان کا جائزہ لینا چاہیے ۔ اور دیکھنا چاہیے ۔ کہ نفاق نے کیونکر اس کے پاک دل پر تسلط جمالیا ہے ! حل لغات :۔ فروجھم ۔ فرح کی جمع ہے ۔ شرمگاہ * الخیرۃ ۔ استرواہ کا اختیار *۔ الأحزاب
36 الأحزاب
37 حضرت زینب کا قصہ ف 1: حضرت زید غلام تھے ۔ حضور نے انہیں آزادی کی نعمت بخشی ۔ اور پھر اپنی آغوش تربیت میں لے لیا ۔ یہ بڑھے اور پروان چڑھے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پھوپھی زاد بہن ان کے نکاح میں دیدی ۔ تاکہ غلام کے رتبہ کو وشیا میں بلند کیا جائے ۔ اور یہ بتایا جائے کہ اسلام میں آقا وغلام کی کوئی تمیز نہیں ۔ جب کوئی شخص مسلمان ہوجاتا ہے اور آزادی کی نعمت کو بھی پالیتا ہے تو سابقہ غلامی کا داغ اس کے دامن پر نہیں رہتا ۔ بلکہ وہ اسلام کی روشنی سے چمک اٹھتا ہے ۔ پھر ایسا اتفاق ہوا ۔ کہ حضرت زید کی وجہ سے سماج کی ایک اور رسم کو توڑنا اللہ کو منظور ہوا ۔ اس لئے میاں بیوی میں نبھاؤ نہ ہوسکا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش تو یہی تھ ۔ کہ ان دونوں میں بنی رہے ۔ اور حتی الامکان تعلقات قائم رہیں ۔ مگر اللہ کو یہ منظور تھا کہ ان دونوں میں جب جدائی واقع ہوجائے ۔ تو آپ اس رسم کو توریں ۔ کہ متبنیٰ کو وہی حیثیت حاصل ہے ۔ جو بیٹے کو حاصل ہے ۔ اور حضرت زنیب سے نکاح کرلیں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وجہ سے کہ لوگ خواہ مخواہ اس پر معترض ہونگے ۔ چاہتے تھے کہ زید کے تعلقات نہ بگڑیں ۔ اور وہ آخر تک اس رشتہ کو نبھائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ خلوص کے ساتھ زید کو تقویٰ کی تلقین کرتے اور کہتے کہ اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک روا رکھو اور اسے نہ چھوڑو ۔ مگر فیصلہ خداوندی ہوچکا تھا ۔ کہ حضر زنیب کو ام المومنین کے شرف سے نواز جائے ۔ اور ان کی دلجوئی کی جائے اس لئے باوجود نہ جاہنے کے اور اس اشارہ خداوندی کو دل میں پنہاں رکھنے کے آپ بالآخر مجبور ہوگئے ۔ کہ حضرت زنیب سے نکاح کرلیں ۔ اتنی سب بات تھی جسے دشمنوں نے افسانہ کردیا ۔ اور یہ کہنا شروع کردیا ۔ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہو سے شادی کرلی ہے ۔ بڑا شور اور غوغا ہوا ۔ اللہ تعالیٰ یہ جانتے تھے ۔ کہ یہ سب کچھ ہوگا ۔ مگر چونکہ مقصدیہ تھا کہ ہمیشہ ہمیشہ مسلمانوں کو یہ دقت پیش نہ آئے ۔ کہ وہ اپنے منہ بولے بیٹوں کے ساتھ کس نوع کے تعلقات رکھیں ۔ اس لئے ضروری تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بڑھ کر ایک دلیرانہ اسوہ قائم کریں ۔ اور مسلمانوں کے لئے صحیح راہ ہدایت متعین کردیں ۔ یہ بات عزیمیت کی تھی ۔ اور پیغمبرانہ جرات وجسارت کی تھی ۔ کہ کیونکر آپ نے سماج کے ایسے قانون کو اپنے عمل سے توڑا جس سے آپ پر اعتراضات کی بوچھاڑ ہونے لگی ۔ دشمنوں کے لئے تو یہ بات قابل گرفت تھی ہی کہ بعض سادہ دل مفسرین نے بھی اس کو نہایت ذلیل انداز میں بیان کیا ہے ۔ اور تسلیم کرلیا ہے ۔ کہ معاذ اللہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت زنیب کو اچانک دیکھ کر عاشق ہوگئے تھے اس لئے دل میں اس خواہش کو چھپائے تھے ۔ اور لوگوں پر ظاہر نہ ہونے دیتے تھے ۔ اور چاہتے تھے ۔ کہ کسی طرح زنیب کو اپنے لئے حاصل کرلیں ۔ قطع نظر اس کے یہ افسانہ کسی درجہ منصب نبوت کی توہین کا باعث ہے ۔ آپ یہ غور فرمائیے کہ عقلاً یہ کیونکر درست ہوسکتا ہے ۔ جبکہ حضرت زنیب آپ کی پھوپھی زاد بہن تھیں ۔ آپ نے بار بار ان کو دیکھا تھا ۔ عمداً ان کی خواہش کے خلاف ان کو زید کے حوالے کیا تھا اور جب آپ نے سنا ۔ کہ ان میں باہم ناچاقی ہے ۔ تو دلسوزی سے ان کو ایسے اقدامات سے روکا تھا جو طلاق پر منتج ہوں ۔ اگر آپ چاہتے تو ابتداء ہی میں حضرت زینب کے لئے رشتہ فخر ومباہات کا باعث ہوتا امدوہ اس کو ضرور منظور کرلیتیں ۔ اصل بات یہ ہے ۔ کہ یہ قصہ محض لغو ہے ۔ ہمارے بعض مفسرین نے سادگی سے ایسی روایات کو جمع کردیا ہے ۔ جو دراصل مخالفین نے آپ کو بدنام کرنے کی خاطر جمع کی تھیں *۔ حل لغات :۔ وطراً ۔ حاجت ۔ ضرورت * قدرا مقدورا ۔ طے شدہ بات *۔ الأحزاب
38 ف 2: حضرت زنیب کے نکاح کرکے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک پرانی رسم کو توڑدیا ۔ مگر دل منقیض تھا ۔ اس لئے آپ نہیں چاہتے تھے ۔ کہ اس طریق سے لوگوں کو نفس اسلام کے متعلق کچھ کہنے اور سننے کا موقع نہ ملے ۔ اس آیت میں آپ کی مزید طمانیت قلب کے لئے فرمایا کہ اس قسم کے معاملات میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ یہ اللہ کی سنت ہے ۔ کہ پیغمبر ہمیشہ عوام الناس کی خواہشات کے خلاف اقدام کرکے خود ملامتوں اور طعنوں کا نشانہ بن جایا کرتا ہے ۔ وہ تو مبعوث ہی اس لئے ہوتے ہیں ۔ کہ سوسائٹی اور سماج کے غلط مقام کو درہم برہم کردیں ۔ ان کے آنے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے ۔ کہ اپنے عمل سے اپنے لئے ایک بالکل اچھوتے اور جداگانہ طریق زندگی کی طرح ڈالیں اس لئے وہ بالطبع صرف خدا سے ڈرتے ہیں اور لوگوں کے خیالات اور جذبات سے بالکل بےنیاز ہوجاتے ہیں ۔ وہ صرف خدا سے مدد چاہتے ہیں ۔ اس لئے آپ منقبض نہ ہوں اور یقین رکھیں ۔ کہ ایک طے شدہ حکمت کے ماتحت کیا گیا ہے جس کی مصلحتیں آئندہ نسلوں کو محسوس ہوں گی *۔ الأحزاب
39 الأحزاب
40 عقیدہ ختم نبوت ایجابی حقیقت ہے ف 1: اس آیت میں تین باتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ آئندہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابوزید نہ کہو ، وہ تم سے کسی صلبی فرزند کے باپ نہیں ہیں ۔ دوسرے یہ کہ وہ روحانی ابوت کے مشرف سے ضرور بہرہ ور ہیں ۔ اور تم میں ہر مومن ان کا بیٹا ہے ۔ اور تیسرے یہ کہ ابوت صرف تم تک نہیں ہے ۔ بلکہ تاقیام قیامت جاری رہے گی ۔ اور تمام فرزندان توحید کو شامل ہوگی ۔ کیونکہ آپ اللہ کے آخری پیغمبر ہیں ۔ جن کے بعد کوئی دوسری رسالت یا ابوت نہیں ۔ جس کی جانب مسلمان اپنے کو منسوب کرسکیں ۔ آپ نبوت کا وہ آخری اور انتہائی کمال ہیں ۔ جس کے بعد یہ تخیل تکمیل پذیر ہوجاتا ہے ۔ اور مزید رشدوہدایات کے پروگرام کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ حل لغات :۔ خاتم شھین ۔ الحکم الابن سید میں ہے ۔ خاتم کل شیء وخابقتہ اور خاتم ، تماتہ ہر شئے کے انجام اور آخر کو کہا جاتا ہے نسان العرب میں اسے خانتھما طرھم خاتم کے معنی ہیں آخر حجاج کہتا ہے ع متبارک الاغیاء خاتم ۔ وہ مبارک ہے انبیاء کو ختم کرنے والا ہے *۔ یہ آیت اسلامی عقائد میں خاص اہمیت رکھتی ہے ۔ اس کے معنے یہ ہیں ۔ کہ مسلمان کے حضور کی تعلیمات کی موجودگی میں اب کسی حالت منتظرہ کا متمنی نہیں ہے اس کو قیامت تک بالکل دل جمعی اور اطمینان حاصل ہے ۔ کہ میں صراط مستقیم پر گامزن ہوں اور کسی وقت بھی مجھے تجدیددین کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا * یہ عقیدہ ایک ایجابی حقیقت کا آئینہ دار ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ اسلام مکمل ہے ۔ اور خدائی بادشاہت کا نظریہ تکمیل واتمام کی تمام منزلیں طے کرچکا ہے اس کے سمجھنے کے لئے اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لئے کسی نبوت جدیدہ اور رسالت مستحذلہ کی ضرورت نہیں ۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مسلمان کے پاس کتاب وسنت کی مشعل نور رہے گی ۔ اور وہ اس سے براہ راست استفادہ کرتا رہیگا ۔ اسلام کے آفتاب صداقت کے طوع ہوجانے کے بعد صبح تک اور کسی چراغ راہ کی ضرورت نہیں ۔ کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا فیضان باقی اور دائمی ہے آپ کی ابوت ہمیشہ آپ کے روحانی بٹیوں کے لئے وجہ تسکین رہے گی ۔ اور آپ بحیثیت ایک تصویر اور سیرت کے کبھی اپنے عقیدت کیشوں سے اوجھل نہیں ہوسکیں گے *۔ الأحزاب
41 الأحزاب
42 الأحزاب
43 الأحزاب
44 الأحزاب
45 الأحزاب
46 حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چار منصب ف 1: اس آیت میں جناب رسالت مآب کے چار منصب بیان کئے گئے ہیں :۔ (1) آپ شاہد ہیں یعنی جو کچھ کہتے ہیں اور جس چیز کو پیش کرتے ہیں ۔ وہ آپ کا وجدانی تجزیہ ہے کیونکہ آپ حق وصداقت کی منزل تک عقل واستدلال کی راہوں سے نہیں پہنچتے ہیں ۔ بلکہ مشاہدہ واحساس کے ذریعے آپ نے رسائی حاصل کی ہے ۔ (2) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جس قدر انبیاء مبعوث ہوئے ان کے سلوب بیان پر یا تو بشارت کا رنگ غالب تھا یا انداز کا ۔ یا تو ان کے پیغام کا غالب حظہ یہ ہو تاکہ وہ لوگوں کو خدا کی بادشاہت کی خوشخبری سنائیں اور یا گناہ کے عواقب سے آگاہ کریں مگر حضور بیک وقت بشیر اور نذیر تھے ۔ آپ نے ایک ہی وقت میں تناسب کے ساتھ فتح وکامرانی کا مژدہ بھی سنایا ہے ۔ اور خدا کے عذاب کی دھمکی بھی دی ہے آپ نے ایک ساتھ مومنین کو رضت وار تقاء کی منزلوں پر گامزن بھی فرمایا ہے ۔ اور مخالفوں کو موت کے گھاٹ بھی اتارا ہے ۔ یعنی آپ میں جمالی اور جلال کا بہترین توازن تھا ۔ (3) آپ کی مرکزی تعلیم یہ تھی کہ مخلوق کو خالق کی چوکھٹ پر جھکا دیا جائے ۔ اور عملاً دنیا کو شرک کی آرائیشوں سے پاک کردیا جائے ۔ اس لئے آپ داعی الی اللہ تھے (4) سراج منیر ہونے کے معنے یہ ہیں ۔ کہ آپ کا سلسلہ فیض تمام انبیا سے زیادہ وسیع ہے ۔ اور آپ اس قابل ہیں کہ دل کی قندیلوں کو روشن کرنے کے لئے آپ سے کسب ضو کیا جائے *۔ ف 2: غرض یہ ہے کہ مسلمان خوش وخرم رہیں ۔ اطمینان رکھیں ۔ کہ عنقریب اللہ کی طرف سے ان پر فضل وکرم کی بارش ہونے والی ہے اور ان کی مایوسیاں امیدوں سے بدلنے کو ہیں ۔ فلا تطع الکفرین سے مقصود انشاء نہیں ہے ۔ بلکہ خبر ہے یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ان منکران حق اور منافقین کی خواہشات کفروانکار احترام کریں گے ۔ غلط ہے *۔ حل لغات :۔ شاھدا ۔ گواہ * الأحزاب
47 الأحزاب
48 الأحزاب
49 ف 1: اس آیت کی قبل کی آیات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بتالای گیا تھا ۔ کہ آپ کے تعلقات آپ کے حرم کے ساتھ کس طرح کے ہونے چاہئیں ۔ اور اس میں یہ بتایا کہ خود مومنین اپنے سامنے کیا لائحہ عمل رکھیں * ارشادہ ہے ۔ کہ اگر تم عورت کو حساس سے قبل طلادے دو ۔ تو ان پر عدت واجب نہیں ۔ اور تمہارے لئے یہ موزوں ہے کہ ان کو جب رخصت کرو تو کچھ مال ومتاع دے کر اور اس طرح کہ اس کو جمیل کہا جاسکے *۔ یعنی جب یہ عورت جس کے ساتھ تمہارے تعلقات زیادہ گہرے نہیں ہیں ۔ تمہارے اعتقات کی اس درجہ مستحق ہے ۔ کہ اس کو عزت واحترام کے ساتھ چھوڑنا لازم ہے ۔ تو پھر ان عورتوں کے ساتھ تمہارا حسن سلوک کس درجہ کا ہونا چاہئے ۔ جو تم سے وابستہ ہیں ۔ اور تمہاری محبت میں سرشار ہیں ۔ اسلام اصل میں یہ چاہتا ہے ۔ کہ مسلمان کے تعلقات جس طرح اس کے خدا کے ساتھ اچھے ہوں ۔ اسی طرح مخلوق کے ساتھ بھی وہ عمدگی کا برتاؤ کرے اور بالخصوص اس جنس لطیف کے ساتھ تو بدرجہ غایت مروت واحسان کی ضرورت ہے ، حتیٰ کہ اگر اس کو ھوڑ دینے پر بھی بحالت مجبوری ہوجائے ۔ تب بھی اس بدنام اور ذلیل نہ کرے بلکہ عزت واحترام کے ساتھ پیش آئے ۔ اور یہ بتادے کہ میں نے جو جدالی اور علیحدگی اختیار کی ہے ۔ وہ محض اس بناء پر کہ ہماری آپس میں نہیں نبھ سکی ۔ ورنہ میں تمہارے ساتھ کسی بدسلوکی کو روا نہیں رکھتا ۔ اور تمہیں بہرحال لائق عزت سمجھتا ہوں ۔ حل لغات :۔ فمععواھن ۔ متاح سے ہے اجورھن ۔ اجر کی جمع ہے بمعنی مہرہ خالصۃ لک ۔ آپ مخصوص ہے * فوضنا ۔ مقرر کئے ہیں *۔ الأحزاب
50 حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تعددازدواج کا فلسفہ ف 2: مخالفین نے تعدد ازدواج پر بہت سے اعتراض کئے ہیں اور کہا ہے کہ جس شخص کے حرم میں بیک وقت نو بیویاں ہوں ۔ وہ کیونکر روحانیت کا پیکر ہوسکتا ہے ۔ گویا ان کے نزدیک روحانیت کے معنے مجرد اور ہبانیت کے ہیں ۔ اور خدارسیدہ شخص ان کے نظریہ کے مطابق وہ ہے جو دنیوی برکات سے یک قلم محروم ہو ۔ قطع نظر اس اصول کے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شادی کے محرکات میں جنس جذبات نہ تھے ۔ بلکہ تبلیغی حاجات کا تقاضا یہ تھا ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبائل عرب میں اشاعت دین کی خاطر یہ رستہ استوار کریں ۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل حقائق پر غور فرمائیے :۔ (1) پچیس سال کی عمر تک آپ نے کامل تجرد کی زندگی بسر کی ہے *(2) گرم ممالک میں اس سے بہت عرصہ پہلے آدمی شادی کے قابل ہوجاتا ہے *(3) پہلی شادی ایک رانڈ عورت سے کی ہے ۔ جو آپ سے پندرہ برس عمر میں بڑھی تھیں ۔ یعنی حضرت خدیجہ (رض) سے *(4) 50 برس کی عمر تک آپ نے تنہا حضرت خدیجہ (رض) کے ساتھ بسر کی *(5) مدینہ میں جا کر کہیں 53 برس کے بعد مختلف قبائل میں شادی کی طرح ڈالی ہے * کیا ان واقعات کے بعد بھی کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تسکین جنسی کے لئے اس قدر متعدد بیویاں اپنے حرم میں ڈال رکھی تھیں ۔ بات یہ تھی کہ اس طرح متعدد شادیوں سے آپ مختلف قبائل کے داماد ہوگئے تھے ۔ اور وہ ان تعلقات مصابرت کی بنا پر مجبور تھے ۔ کہ آپ کی عزت کریں اور ٹھنڈے دل سے اسلام کے متعلق غور کریں *۔ ان آیات میں یہ بتایا ہے ۔ کہ کون کون رشتے اس قابل ہیں ۔ کہ ان سے ازدواجی تعلقات کو قائم کیا جائے ۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لئے اس نے ان رشتوں کو زنا شوئی کے لئے جائز رکھا ہے ۔ جن سے فطرتاً انسان معاشقہ کرسکتا ہے ۔ جیسے چچا کی بیٹی ۔ خالہ کی بیٹی ، ماموں کی بیٹی وغیرہا ۔ جو لوگ ان رستوں کو ازدواج کے لئے ناجائز قرار دیتے ہیں ۔ انہوں نے انسانی فطرت کا اور انسانی تاریخ کا مطالعہ گہرائی سے نہیں کیا ہے وہ نہیں جانتے کہ انسان بالطیع سب سے پہلے انہیں رشتوں کی طرف مائل ہوتا ہے اور جھکتا ہے ۔ اور تو وہ رسم ورواج کی پابندی کی وجہ سے شادی نہ کرسکے ۔ مگر اپنے دل میں ان کے متعلق جذبات محبت ضرور پاتا ہے *۔ ملک یمین بھی ایک نوع کا عقد ہوتا ہے ۔ اس لئے مملوکہ عورتوں سے بھی وہ تعلقات ہوسکتے ہیں ۔ جو شادی شدہ عورتوں سے ہوتے ہیں ۔ چونکہ آج ہم غلام ہیں اور برسوں سے عسکری ضرورتوں اور مجبوریوں سے ناآشنا ہیں ۔ اس لئے یہ بات کچھ قابل اعتراض معلوم ہوتی ہے حالانکہ اس میں بہت سی مصلحتیں ہیں ۔ جن کے اظہار کا یہ موقع نہیں *۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے یہ مخصوص رخصت سے کہ اگر کوئی عورت آپ اپنے کو خدمات ازدواج کے لئے پیش کریے ۔ تو بلامعاوضہ یعنی بغیر مہر اس کو قبول فرمالیں ۔ اور یہ کہ جس عورت کو جب تک چاہیں اپنے پاس رکھیں اور جس کو جس وقت تک چاہیں شرف صحبت سے دور رکھیں ۔ گو کہ آپ نے اس رخصت سے عملاً کبھی استفادہ نہیں کیا ۔ آپ نے اپنے اوقات کو تقسیم کررکھا تھا ۔ اور تمام ازدواج مطہرات برابر آپ سے استفادہ کرتی تھیں ۔ جہاں آپ کے لئے پابندی بھی تھی ۔ اور وہ یہ تھی کہ آپ اب ان موجودہ بیویوں کو چھوڑ کر ان کی جگہ دوسری بیبیوں کو اپنے گھر میں نہیں لاسکتے ۔ کیونکہ وہ بہرحال آپ سے خوش ہیں ۔ اور اسلام کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہیں *۔ الأحزاب
51 الأحزاب
52 الأحزاب
53 آداب دعوت قرآن ایک مکمل دستور العمل ہے ۔ اس میں تمام ضروری مسائل سے تمسک کیا گیا ہے ۔ اور کسی بحث کو تشنہ نہیں چھوڑا گیا ۔ جہاں عقائد کی تفصیل بتائی ہے ۔ وہاں عبادات کا بھی ذکر ہے ۔ معاشرت انسانی کی گتھیوں کو بھی سلجھایا گیا ہے ۔ اور اخلاق وسیرت کے متعلقہ لوازم کی بھی تشریح کی گئی ہے ۔ اور یہ بھی بتایا ہے کہ عام آداب یا عوایدر سمیہ کیا ہونے چاہئیں ۔ تاکہ مسلمان اپنی تہذیب میں دوسروں کے محتاج نہ ہوں ۔ اور ساری کائنات کے لئے ان کا وجود اسوہ اور نمونہ ہو ۔ حضرت زنیب کے ولیمہ کے موقع پر ایسا ہوا ۔ کہ بعض صحابہ دیر تک کھانے سے فراغت کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں بیٹھے رہے ۔ اور باتوں میں مشغول رہے جس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں تکدر پیدا ہوا ۔ مگر شرم کی وجہ سے کچھ کہہ نہ سکے ۔ اس پر ان آیات کا نزول ہوا ۔ جس میں دعوت کے آداب بتائے گئے ہیں * فرمایا : جب تک تمہیں کھانے کی دعوت نہ دی جائے اس وقت تک آنے کی زحمت نہ اٹھاؤ اور جب کہا جائے آؤ کھانا حاضر ہے ۔ یہ آپ کو شراکت طاعام کی دعوت دی جاتی ہے ۔ تو اس وقت تمہیں جانا چاہیے ۔ بغیر اجازت اور اذن کے گھروں میں گھس جانا غیر موزوں بات ہے ۔ یہ بھی موزوں نہیں کہ دعوت سے کئی گھنٹے پہلے ہی جادھمکے ۔ اور لگے انتظار کرنے کہ کب پکتا ہے اور کب سامنے آتا ہے پھر جب کھاپی چکو ۔ تو فوراً اٹھ کھڑے ہو ۔ اور چل دو غیر ضروری باتیں نہ شروع کرو کیونکہ ایسی حالت میں صاحب خانہ کو تکلیف ہوتی ہے اس کے بعد یہ فرمایا : کہ اس پابندی کے معنی یہ نہیں کہ تم ادنیٰ ضرورتوں کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں نہیں آسکتے ہو ۔ اور کچھ طلب نہیں کرسکتے ہو ۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ ذرا احتیاط رہے جس چیز کی ضرورت وہ پردے کی اوٹ سے منگالو ۔ تاکہ دلوں میں پاکیزگی باقی رہے ۔ اور بتقاضائے بشریت خیالات میں برائی کی تحریک نہ ہوں ۔ حل لغات :۔ انہ ۔ اس کے پکنے کا ۔ انی یانی سے ہے * مشتاتسین ۔ مانوس ہونے والے *۔ الأحزاب
54 الأحزاب
55 کچھ ایسے لوگ بھی تھے ۔ جو ازواج مطہرات کے متعلق یہ خواہش رکھتے تھے ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ان سے شادی کرلیں گے ۔ چنانچہ طلحہ بن عبیداللہ صاف طور پر کہتا تھا کہ اگر میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد زندہ رہا ۔ تو عائشہ (رض) سے ضرور شادی کروں گا ۔ فرمایا ۔ اس نوع کے ناپاک جذبات کو دل سے نکال دو ۔ پیغمبر کی عزت وحرمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی بیویاں ساری امت کی مائیں قرار پائیں ۔ ان کے متعلق اس قسم کے خیالات رکھنا خبث باطنی اور گناہ ہے *۔ یہ حکم نہ بھی ہوتا اور یہ آیتیں نازل نہ ہوتیں جب بھی ازواج مطہرات کے سامنے کردار وسیرت کا اتنا بہترین ذخیرہ تھا ۔ کہ وہ عمر بھر بھی کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتیں ۔ بھلا جن لوگوں نے صحیت نبوی سے استفادہ کیا ہو ۔ کیا وہ دوسرے لوگوں کی صحبت میں ان انوار وتجلیات کو پاسکتے ہیں ؟ جن آنکھوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رخ زیبا کو دیکھا ہو ۔ ان کے سامنے دوسروں کا کیا منہ ہے کہ آسکیں *۔ الأحزاب
56 پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر دود بھیجو ف 1: اس سے قبل کی آیتوں میں یہ بتایا تھا ۔ کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رتبہ اور مقام کس درجہ رفیع ہے ۔ اور کیونکر وہ اور اس کی ازواج مطہرات بدرجہ غایت احترام کی مستحق ہیں ۔ اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔ کہ پیغمبر کا احترام صرف عالم ادنیٰ یا عالم تاسوت تک محدود نہیں ہے ۔ بلکہ ملاء اعلیٰ تک حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ وبرکات کا تحفہ بھیجتے ہیں ۔ اس لئے تم پر بھی واجب ہے کہ اس کا احترام کرو ۔ اور اس پر رحمت اور سلام بھیجو *۔ اس آیت میں لفظ صلوٰۃ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ۔ صلوٰۃ کے معنے برکت کے ہیں یعنی خدا اپنی برکات رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھیجتا ہے اور فرشتوں کے درود کے معنے یہ ہیں ۔ کہ وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے رحمت اسلامی کی دعا کرتے ہیں ۔ اور مسلمانوں سے مطالبہ ہے ۔ کہ وہ بھی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجیں ۔ نیز لفظ صلوٰۃ کے معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تائید میں کوشاں ہے ۔ فرشتے بھی یہی چاہتے ہیں ۔ اور تمہارا فرض بھی یہی ہے کہ قول وعمل سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤ۔ بہترین اور زیادہ اجروثواب کا حامل وہ درود ہے ۔ جو ہم نمازوں میں پڑھتے ہیں *۔ الأحزاب
57 الأحزاب
58 ف 2: اللہ تعالیٰ تو مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کی عزت اور حرمت نہایت عزیز ہے ۔ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی شخص کسی مرد مسلمان کو ذلیل کرے ۔ کیونکہ مسلمان کی عزت اور حرمت سے کائنات کا نظام حیات قائم ہے ۔ مسلمان کی ذات کے معنے حق وصداقت کی تذلیل ہے ۔ اور خدا پرستوں کی ایسی جماعت کی تحفیر ہے ۔ جو کائنات میں امام ہیں اور ساری دنیا کی راہ نمائی جن کا دینی فرض ہے * حل لغات :۔ لعنھم ۔ یعنی خدا ان لوگوں کو اپنی رحمت سے دور رکھتا ہے *۔ الأحزاب
59 ف 1: بات یہ تھی کہ اول اول چونکہ پردہ کارواج نہ تھا ۔ اس لئے مسلمان عورتیں ضروریات کی وجہ سے گھروں سے نکلتیں تو بدکار اور آوارہ لوگ ان کو چھیتے اور جب ان سے پوچھا جاتا کہ تم ایسی حرکات کا کیوں ارتکاب کرتے ہو ۔ تو کہتے ہمیں غلط فہمی ہوئی ہم یہ سمجھے تھے کہ شائد غلام عورتیں ہیں ۔ لونڈیوں سے چھیڑ چھاڑ اس وقت اس قبیل کے لوگوں میں معیوب نہیں تھی ۔ اس پردہ کا یہ حکم نازل ہوا کہ امہات المومنین اور عام مسلمان عورتوں کو چاہیے کہ کھلے منہ باندیوں کی طرح گھروں سے باہر نہ نکلا کریں ۔ بلکہ نکلیں تو گھونگھٹ نکال کر تاکہ معلوم ہوجائے ۔ کہ یہ شریف پردہ دار خاتونیں ہیں ۔ لونڈیاں نہیں ہیں ۔ اور اس طرح ان بدقماش لوگوں کو شرارت کا موقع نہ ملے * یہ پردہ کی وہ سادی اور نہایت حیا پرور صورت ہے جو معقول بھی ہے اور حفظ کے لئے ضروری تھی *۔ برقع موجودہ حالات میں شرعی پردہ نہیں ہے ۔ بلکہ پردہ کی ایک ارتقائی شکل ہے ۔ اور تمدن کے ارتقاء کے ساتھ اس نوع کا ارتقاء بھی ضروری تھا ۔ گو یہ بڑی حد تک مفید ہے ۔ مگر چونکہ تمدن کی ارتقائی بدعت ہے ۔ اور اسلامی سادگی سے ذرہ مختلف ہے ۔ اس لئے طبعاً اس میں چند نقائص ہیں جن کا ذمہ دار اسلام یا قرآن نہیں ہے چونکہ نکتہ چین حضرات پردہ اور برقع میں بعض اوقات امتیاز روا نہیں رکھتے ۔ اس لئے ان سے اس باپ میں لغزش ہوجاتی ہے ۔ اور وہ ان عیوب کو جو برقع کا لازمی نتیجہ ہیں نفس پردہ کی جانب منسوب کرتے ہیں ۔ حالانکہ یہ دونوں بالکل جدا جدا چیزیں ہیں ۔ پردہ ایک تمدنی نصب العین ہے جس کا مقصد ہے حفظ ناموس اور برقع محض ایک ذریعہ ہے ۔ جو عموماً مفید ہے ۔ اور بعض مضرتیں بھی اس میں ہیں اس لئے اس ذریعہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے ذریعہ کو اختیار کیا جاسکتا ہے ۔ جس سے منہ ڈھکا رہے ۔ زینت کے مقامات بھی ظاہر نہ ہوں ۔ اور وہ سادگی میں بےضرر بھی ہو ۔ بشرطیکہ کوئی دوسرا ذریعہ اس کی جگہ لے سکے *۔ کہ قانون قدرت بجائے خود منشاء الٰہی کا دوسرا نام ہے کسی چیز کے ظہور اور باقی رہنے کے لئے اصل چیز وہ قانون نہیں جو اس میں کارفرما ہے ۔ بلکہ اللہ کا ارادہ اور اس کی قومیت ہے *۔ حل لغات :۔ جلا بیھن ۔ جلباب کی جمع ہے ۔ بمعنی چادر * ان یعرمن ۔ یعنی پردہ کی وجہ سے یہ معلوم ہوجائے کہ شریف زادیاں ہیں * المرجفون ۔ پروپیگنڈا کرنے والے الأحزاب
60 الأحزاب
61 الأحزاب
62 الأحزاب
63 ف 2: یعنی بعض چیزیں ایسی ہیں جن کا علمصرف جناب باری کو وہے کسی انسان کو ان سے بہرہ ور نہیں کیا گیا ۔ اس لئے اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کے متعلق نہیں جانتے کہ اس کا ظہور کب ہوگا ۔ تو یہ ان کے منصب نبوت کے منافی نہیں ۔ کیونکہ اس کا علم اللہ تعالیٰ سے مختص ہے اور خود انسانی مصالح کا تقاضا ہے ۔ کہ اس کو فطرت کے بعض اسراء سے ناآشنا کیا جائے ۔ ورنہ ہمہ دانی کا نتیجہ یہ ہوگا ۔ کہ زندگی گزارنا دشوار ہوجائے اور دنیا الم وافسوس کا جہنم زاد بن جائے *۔ یہ ان لوگوں کا انجام ہے جو دنیا میں اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے محروم تھے اور مشائخ و کبار کی اندھی عقیدت میں مبتلا تھے ۔ یہ اس وقت محسوس کرینگے کہ ان لوگوں نے ان کو دنیا میں گمراہ کررکھا ہے ۔ اس لئے ان عی عقیدت اس وقت ملقویت ومقام سے بدل جائے گی ۔ اور یہ خواہش کرینگے کہ اے کاش ان لوگوں کو عذاب ہو ۔ اور یہ غلط قیادت کے مزے کو چکھیں *۔ الأحزاب
64 الأحزاب
65 الأحزاب
66 الأحزاب
67 الأحزاب
68 الأحزاب
69 ف 1: اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ تم نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت پہنچائی ہے مگر اللہ کا قانون ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے پیغمبروں کو الزامات سے بری کرتا ہے اور الزام تراشنے والے اور دکھ پہنچانے والے لوگوں کو ذلیل ورسوا کرتا ہے دیکھو موسیٰ جیسے جلیل القدر پیغمبر کے متعلق بھی اس کی قوم نے کتنا اذیت دہ رویہ اختیار کیا ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو عزت بخشی ۔ اور ان کو قوم کی نظروں میں مفتحر ثابت کیا *۔ الأحزاب
70 الأحزاب
71 مسلمان کے معنی یہ ہیں کہ وہ اس دنیا میں ایک مشن کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے ۔ اس لئے طبعاً اس پر بعض ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جو دوسروں پر عائد نہیں ہوتیں ۔ اس لئے ضروری ہے کہ عقائد وافکار سے لے کر اعمال تک تقویٰ اور پاکیزگی قلب کا حامل ہو اور جو بات کہے اس میں محولادی استحکام ہو ۔ ہر آن اور ہر منزل میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کو ہاتھ سے نہ جانے دے یہی نہیں بلکہ ہر نفس اس کا نشہ اطاعت میں ڈوبا ہوا ہونا چاہیے ۔ تاکہ معلوم ہو کہ مسلمان کائنات میں منصب امامت کا تنہا حقدار ہے اور سیرت و سجایا کے اعتبار سے کوئی قوم اس کی ہمسائیگی کا دعویٰ نہیں کرسکتی ۔ یہ فوز وفلاح کا کفیل ہے اور خدا کی مخلوق میں سب سے زیادہ کامیاب ہے ۔ عقبے وآخرت کی تمام مسرتیں اس کے حصہ میں آئی ہیں ۔ اور یہ کسی بات میں دنیا والوں سے پیچھے نہیں *۔ حل لغات :۔ سادتنا ۔ جن کو دین کے لحاظ سے عظمت رفعت حاصل ہو * کبرانا ۔ جمع کبیر یعنی بزرگان دنیوی نقطہ نگاہ سے صاحب اقتدار لوگ ۔ سدیدا ۔ پکی بات *۔ الأحزاب
72 عرضِ امانت ف 1: اماتت سے مراد عقل وشریعت کی ذمہ داری ہے اور فرضنا سے مراد یہ ہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے جب کائنات کو پیدا کیا ۔ تو دیکھا کہ کیا آسمانوں کی بلندیاں ، اور زمین کی وسعتیں اور پہاڑوں کا استحکام اس قابل ہے کہ ان چیزوں پر عقل وشریعت کی ذمہ داریاں ڈال دی جائیں ۔ اور ان کو اپنے صفات حسنہ کا مظہر بنایا جائے ان کی فطرت کو ٹٹولا گیا ۔ تو معلوم ہوا ۔ کہ ان سب میں یہ اہلیت نہیں ہے ۔ پھر انسانی مشت خاک پر نظر پڑی ۔ تو معلوم ہوا کہ یہ باوجود کائنات میں بہت زیادہ کمزور اور تحیف ہونے کے اپنی فطرت واطوار کے لحاظ سے اس قابل ضرور ہے ۔ کہ تکلیفات شرعیہ کو اٹھا کے اور دنیا میں خلافت الٰہیہ کا علم بردار ہو ۔ چنانچہ یہ امانت کا بار گراں اس کے کندھوں پر ڈال دیا گیا ۔ اور اس نے اس کو اٹھا لیا ؎ آسماں بار امانت نتوانست کشید قرعہ فال بنام من دیواد تودمہ غرض یہ ہے کہ حضرت انسان کو فطرت نے ازل سے اس خدمت کے لئے منتخب کررکھا تھا ۔ اس لئے ضروری ہے کہ کہ یہ اس منصب جلیل کا اہل ثات ہو اور اپنے فکروعمل سے آسمانوں اور زمین پر بستیوں اور بلندیوں پر اپنا تفوق ثابت کردے *۔ یہ ایک پیرایہ بیان ہے ۔ انسانی فضیت کے اظہار کا اور حقیقت یہ ہے ۔ کہ اس سے زیادہ بلیغ اسلوب اختیار کرنا انسانی وسعت کے باہر ہے ورنہ معاذ اللہ یہ مقصد نہیں ہے کہ خدائے تعالیٰ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ دنیا میں کون شریعت کے اس بار کو اٹھا کستا ہے ۔ اور کون نہیں اٹھا سکتا *۔ اس سورت میں ظلوا اور ھہولا کا لفظ بطور طنز کے نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ انسانی فطرت کا عین تقاضا تھا ۔ کہ وہ رشدوہدایت کا محتاج ہو ۔ اور فکر و شریعت کی راہ نمائی کو قبول کرلے ۔ اس کے لئے اور کوئی چارہ ہی نہیں ۔ بجز اس کے کہ اس امانت عزیز کا بشرشمتحمل ہوجائے اور اس پر اپنی برتری کو محسوس کرے ۔ جو اس کائنات کی تمام چیزوں پر حاصل ہے ۔ یہاں انسانی شرف ومجد کا ذکر ہے ۔ لہٰذا اس کے معنی یہاں ترجم اور تلطف کے ہونگے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ کہ دیکھو یہ ظالم اور ناعاقبت اندیش انسان کس درجہ رحم کے قابل ہے کہ اس گراں بہا ذمہ داری کو تنہا اٹھا لینے کا مدعی ہے *۔ حل لغات :۔ یعملھا ۔ حمل کے معنے یہ بھی ہوتے ہیں ۔ کہ وہ بوجھ اور ثقل سے عہد برآہ نہ ہوسکا ۔ اس صورت میں آیت کا مطلب بالکل بدل جائے گا ۔ اور یوں ہوگا ۔ کہ ہم نے آسمان زمین اور پہاڑوں کے فطری ثقل یا فرائض کو ان پر پیش کیا انہوں نے عہد براء ہونے سے انکار کردیا ۔ بمعنی اپنے ان فرائض کو قبول کرلیا ۔ جو اللہ نے ان پر عائد کئے تھے اور وہ اللہ کے خوف سے معمور ہوگئے مگر انسان نے عہدہ برآہ ہونے کے لیے یعنی اپنے مفوضہ فرائض کو ادا نہ کیا ۔ اس لئے یہ ظالم ہے اور جاہل ہے *۔ الأحزاب
73 الأحزاب
0 سبأ
1 سبأ
2 سورہ سبا ف 1: قرآن حکیم کا اصلی موضوع بیان یہ ہے کہ ذات باری کے متعلق جو شکوک وشبہات لوگوں کے دلوں میں جہالت کی وجہ سے پیدا ہوگئے ہیں ۔ ان کو دور کرے ۔ اور اس کے تصور کو اس طرح ایمان آفرین شکل میں پیش کرے کہ وہ نفیس انسانیت کے لئے بلندی اور رفعت کا سبب بن سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے صفات وشیون کو جس وضاحت کے ساتھ قرآن حکیم نے بیان فرمایا ہے اس کی مثال کسی مذہبی کتاب میں ملنا مشکل ہے ۔ بلکہ حق تو یہ ہے ۔ کہ فکر انسانی اس سے زیادہ اونچا نہیں اڑ سکتا ۔ اور خدا کے متعلق جس قدر قرآن نے بیان کیا ہے ۔ اس پر سرموا اضافہ ممکن نہیں *۔ فرمایا ستائش اور تعریفیں اس خدائے برتر کو سزاوار ہیں ۔ جو تمام بلندیوں کا مالک ہے ۔ اور زمین کی تمام گہرائیاں جس کے قبضہ قدرت میں ہیں دنیا بھی اسی کی ہے ۔ اور آخرت میں بھی اس کی تعریف ہے حکمت والا اور ہر بات سے آگاہ ہے ۔ اور ان چیزوں کو بھی جانتا ہے جو زمین سے نکلتی ہیں اس کا علم ہر چیز (جمادی ہے) ان اشیاء کو بھی جو اسی کی طرف صعود کرتی ہیں وہ بدرجہ غائت رحم کرنے والا ہے اور نہایت بخشنے والا ہے *۔ اللہ کا یہ تخیل کتنا بلند اور واضح ہے ۔ کس درجہ قابل تاسی اور لائق اقتدار ہے ۔ یہ واقع ہے ۔ کہ قرآن حکیم جب اللہ تعالیٰ کے متعلق صفات کا تذکرہ کرتا ہے ۔ تو قلب عقیدت ومعرفت کے جذبات سے لبریز ہوجاتا ہے ۔ اور وجداتی طور پر محسوس کرتا ہے ۔ کہ وہ اس کی حضوری اور قرب میں ہے *۔ سبأ
3 ف 2: حشیراجساد کا مسئلہ مکے والوں کے لئے ہمیشہ ابتلاد کا باعث رہا ہے ۔ ان کی سمجھ میں یہ حقیقت کبھی نہیں آئی ۔ کہ جس خدا نے کتم عدم سے دنیا کو نکالا ہے ۔ اور خلعت وجود بخشا ۔ وہ جب چاہے گا پھر اپنے بندوں کو قبروں سے اٹھا کر کھڑا کردیں گا ۔ انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ جب خدا کو تسلیم کرلیا ۔ اس کی قدرتوں اور وسعتوں پر ایمان لے آئے ۔ تو پھر استحالہ اور اشکال کے لئے کون گنجائش باقی رہ جاتی ہے ؟ وہ قادر مطلق بمجرد اپنے ارادہ کے ہزاروں عالم بیک وقت پیدا کرسکتا ہے ۔ اور فنا کرسکتا ہے ۔ اس کی ایک نگاہ غضب تمہاری کائناتکو چشم زون میں تباہی کے گھاٹ اتار سکتی ہے ۔ اور اس التفات کی نظر سے دیکھ لینا زندگی اور حیات کو بیدار کردیتا ہے ۔ قرآن حکیم نے مکے والوں کے شبہات کو دور کرنے کے لئے مختلف طریقوں اور مختلف دلائل سے کام لیا ہے ۔ یہاں دو باتوں کو بطور استدلال کے پیش فرمایا ہے ۔ یا یوں سمجھ لیجئے کہ دو طریقوں سے ان کی توجہ کو اس مسئلہ کی حقیقت کی طرف مبذول فرمایا ہے *۔ ارشاد ہے ۔ کہ جب ہر چیز اس کے علم میں ہے ۔ اور چھوٹی بڑی ہر شئے ان کے سامنے عیاں ہے چاہے وہ آسمان کی بلندیوں میں موجود ہو ۔ اور چاہے وہ زمین کی گہرائیوں میں ہو ۔ تو پھر عناصر حیات کو جمع کرلینا کیا مشکل ہے ؟ دوسری دلیل یہ ہے ۔ کہ انسان کے نفس اعمال ایک مکافات کی دنیا کے متقاضی ہیں ۔ اگر یہ درست ہے تو ہبت سے فاسق وفاجر انسان تعزیر وعقوبت سے بچ جاتے ہیں ۔ اور بہت سے نیک اور صالح حضرات اس دنیائے دوں میں تکلیف وحسرت کے ساتھ بسر کرتے ہیں تو پھر یہ بھی درست ہے ۔ کہ انصاف وعدل کے لئے ایک دن مقرر ہونا چاہیے *۔ حل لغات :۔ یعزب ۔ افعاذب ۔ اس شخص کو کہتے ہیں جو چارہ کی تلاش میں اپنے لوگوں سے بہت دور نکل جائے ۔ اور نظروں سے اوجھل ہوجائے ۔ غرض یہ ہے ۔ کہ خدا سے کوئی چیز مستتر نہیں ہے * رزقی کریم ۔ مفید روزی ۔ لفظ کریم کا تعلق جب اشیاء سے ہو تو اس سے آخادۃ مراد بنتا ہے *۔ سبأ
4 سبأ
5 سبأ
6 سبأ
7 سبأ
8 تابشِ نظر ف 1: پیغمبر کی نظروں میں اہام اور وحی کی وجہ سے اس درجہ تابش آجاتی ہے ۔ کہ وہ ان واقعات وحقائق کو اس طرح محسوس کرتے ہیں جو آئندہ کئی صدیوں کے بعد آنے والے ہیں جس طرح ہم موجودہ مناظر کو دیکھتے ہیں ۔ وہ ان کے متعلق محکم یقین رکھتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے جانے کا ذریعہ کمزور استدلال نہیں ہوتا ۔ جس میں شک وشبہ کو اصلاً دخل نہیں ۔ وہ پیغمبر از بصیرت سے دیکھتے ہیں اور القاء وکشف سے حقائق وواقعات کو جانتے ہیں ان کے زمانے کے لوگ صرف الہام کی عظمت سے آگاہ نہیں ہوتے ۔ بلکہ پرلے درجے کے توگ ماہ نظر بھی ہوتے ہیں ۔ وہ ان کی باتوں کو محض جنون اور کذب سمجھتے ہیں ۔ ان کی نظریں سلیحی ہوتی ہیں ۔ اس لئے وہ اس طرح کی باتوں کو سنتے ہیں ۔ تو ہنسی میں اڑا دیتے ہیں ۔ اور بالکل باور نہیں کرتے کہ یہ اپنے وعملاں میں سچے ہیں ۔ چنانچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب خدا سے اطلاع پاکر قیامت کی خبردی ۔ اور یہ بتایا کہ جس دنیا کو تم دائمی سمجھتے ہو ۔ اس کا طلسم ایک دن ٹوٹنے والا ہے ۔ اور اس کے بعد پھر دوبارہ یہ عالم انسانی ظہور پذیر ہوگا ۔ اور ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق سزا اور جزا ملے گی ۔ تو انہوں نے اس عقیدے کو بڑی حیرت کے ساتھ سنا ۔ کبھی تو اس میں شکوک وشبہات کا اظہار کیا کبھی انکار کیا ۔ اور کبھی یہ کہا کہ یہ باتیں تو محض جنون کی باتیں ہیں ۔ بھلا یہ کیونکر ممکن ہے ۔ کہ موت کے بعد ہم زندہ ہوجائیں *۔ فرمایا اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ جو آخرت کو نہیں مانتے ہیں ۔ اور عقبیٰ کے حقائق کا انکار کرتے ہیں ذہنی اور فکری عذاب میں مبتلا ہیں ۔ ان سے بصیرت چھن چکی ہے ۔ یہ غور تلخص کی تمام استعدادوں سے محروم ہوچکے ہیں ۔ اور گمراہی کی اس منزل میں ہیں ۔ جہاں پہنچ کر انسان ہدایت سے بہت دور ہوجاتا ہے *۔ حل لغات :۔ آوبی ۔ اوب سے ہے جس کے معنے رجوع کے ہیں ۔ حضرت داؤد اور سلیمان کے متعلق ان آیتوں میں جن واقعات کا تذکرہ ہوا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ ان سے مراد حکمت وفطرت کے اسرار سے آگاہی ہو اور بتانا یہ مقصود ہے کہ یہ لوگ رب فاطر سے گہری گہری وابستگی کی وجہ سے فطرت کے امور سے پوری طرح آشنا ہوں ۔ پہاڑوں سے کام لیتے ہوں ۔ پرندوں کو حربی ضروریات کے لئے استعمال کرتے ہوں ۔ اور آہن وفولاد سے متعلقہ فن کو جانتے ہوں * ہوسکتا ہے اس وقت حضرت سلیمان نے ایسا مرکب ہوائی ایجاد کرلیا ہو جو فضا میں پرواز کرسکے ، اور ترقی کے فراز اعلیٰ تک رسائی حاصل کرلی ہو ۔ یہ سب چیزیں ممکن ہیں *۔ سبأ
9 ف 2: یہ تہدیدی دلیل ہے ۔ غرض یہ ہے کہ یہ دنیائے فانی کو دائمی نہ سمجھیں ۔ اگر ہم چاہیں ۔ تو چشم زون میں اس کو تباہ کردیں ۔ اور پھر یہ دیکھیں کہ اس عالم کے متلق ان کے مرفوعات کس درجہ لغو اور غلط ہیں *۔ سبأ
10 سبأ
11 سبأ
12 حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) ف 1: اس سے قبل کی آیات میں بتایا تھا ۔ کہ انسان میں جب اتابت الی اللہ کا جوہر پیدا ہوجائے تو وہ آیات فطرت کو خوب سمجھنے لگتا ہے ۔ اب اس آیت میں اپنے دو بندوں کا ذکر فرمایا ہے ۔ جو منیب تھے اور بہت زیادہ فضل وبرکات کے حامل تھے ۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) بابل میں ان کی بادشاہت اور شان وعظمت کا تفصیل کے ساتھ تذکرہ ہے ۔ قرآن حکیم نے نہایت مختصر انداز میں چندواقعات کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ اس لئے کہ عرب تفصیل کے ساتھ ان چیزوں سے آگاہ تھے بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ اجابت الی اللہ کا صحیح مفہوم کیا ہے ؟ فرمایا : حضرت داؤد کو دیکھو کہ پہاڑ بھی ان کے مسخر ہیں اور باوجود اس صلابت کے جو انکا فطری خاصہ ہے ۔ داؤد کے روحانی نغموں پر جھومتے ہیں اور اس کے ساتھ تسبیح بیان کرتے ہیں ۔ پرندوں کی دیکھو وہ بہت کم مانوس ہوتے ہیں مگر داؤد کی تسبیح سے انے ننھے اور آزاد دلوں میں بھی گداز پیدا ہوجاتا ہے ۔ لوہے کے جگر میں بھی رقت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ اللہ کی خشیت سے ان کے مبارک ہاتھوں میں نرم ہوجاتے ہے جس سے وہ زرہیں اور دیگر اسلحہ کی چیزیں بناتے ہیں *۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ہوا مسخر ہے ۔ انکا تخت ہوائی اس قدر تیز رفتار ہے کہ ایک مہینے کی منزل شام کو طے کرلیتا ہے ۔ نیز تانبے سے متعلقہ معلومات کو وہ پوری طرح جانتے ہیں *۔ سبأ
13 حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی شان وشوکت ف 2: حضرت داؤدکی ساری عمر مخالفین سے جہاد کرتے گزری ۔ انہوں نے اپنے وقت کے بڑے بڑے جیابرہ کو شکست دی ہے ۔ اور آئندہ شروفساد کو بالکل ختم کردینے کے لئے پوری حربی قوت کا استعمال فرمایا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ذکر میں اسلحہ سازی کی خصوصیت کے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔ اور اس کو واعملو صالحا سے تعبیر کیا ہے ۔ تاکہ معلوم ہوجائے ۔ کہ دشمنوں کو کچلنے کے لئے اسلحہ بنانا عمل خیر ہے اور مدنیت صحیحہ کی بہترین خدمت ہے *۔ حضرت سلیمان کا زمانہ امن کا زمانہ تھا ۔ اس لئے ان کے ذکر میں سامان شان وشوکت کی تفصیلات ہیں ۔ ارشاد ہے ۔ کہ جن ان کے مسخر تھے ۔ اور قصر شاہی اور معاہد کی تعمیر میں لگے ہوئے تھے ۔ محل کی زینت وآرائش کے لئے نقشے بھی وہ بناتے تھے ۔ اور بڑے بڑے کھانے پینے کے ظروف بھی ۔ تاکہ حضرت سلیمان کے شاہی دسترخان پر جتنے لوگ بھی آسکیں اتنی سمائی ہوجائے فرمایا : آل ونوہ سوچو ۔ تو اتابت الی اللہ کی وجہ سے تم کتنے بڑے بڑے رتبے دیئے گئے ہیں ۔ اور دنیا کی کتنی عظیم نعمتوں سے تم بہرہ ور ہو ۔ اور اس کے بعد اس حقیقت کا اظہار فرمایا ہے ۔ کہ منظم اور شاہانہ ٹھاٹ میں خدا پرستی کے جذبات تم جیسے لوگوں کے ساتھ ہی مخصوص ہیں ۔ ورنہ اکثریت کی حالت تو یہ ہے کہ جہاں ذرا آسودگی ہوئی ۔ غفلت کے کثیف حجابات دیدو لال پر چھاگئے ۔ ہوسکتا ہے اعملوا ال داؤد شکرا سے مراد یہ واقعہ ہو کہ حضرت سلیمان باوجود شاہانہ شان وشوکت کے کسی وقت بھی اللہ کو نہیں بھولے ۔ اور آسودگی اور فارغ البالی کی کسی منزل میں بھی انہوں نے اس کو فراموش نہیں کیا ۔ اور غرض یہ ہو کہ بائبل کی تردید کی جائے ۔ جہاں یہ لکھا ہے کہ سلیمان آخر وقت میں شرک میں مبتلا ہوگئے تھے ۔ معاذ اللہ *۔ سبأ
14 حضرت سلیمان کو تعمیر کے ساتھ خاص شغف تھا ۔ انہوں نے اپنے زمانے میں کئی محلات اور شاندار معاہد بنوائے ۔ اور عمر کے آخری حصے میں ارادہ تھا کہ اللہ کے لئے بہت بڑا ہیکل تعمیر کیا جائے ۔ جیسا کہ بائبل میں مذکور ہے اس کا آغاز ہوگیا تھا اور مدد لگ رہی تھی کہ آپ کا انتقال ہوگیا ۔ اور وہ ہیکل اختتام تک نہ پہنچ سکا ۔ اس وقت کی سیاسی حالت یہ تھی ۔ کہ تمام فلسفی حضرت سلیمان کے مخالف تھے ۔ اور مسلم جنات بھی جو مزدوروں اور صناعوں کی حیثیت سے کام کررہے تھے محض ان کی روحانی قوتوں کی وجہ سے مجبور تھے ۔ وہ دل سے ان کے ساتھ نہیں تھے آپ کی وفات کے بعدوزراء نے یہ مناسب سمجھا کہ آپ کی لاش کشیش محل میں اس طرح ارستاہ کیا جائے کہ ان پر موت کا شبہ نہ ہو *۔ اور اس طرح اس کی موت کی خبر سیاسی مصالح کی بنا پر پوشیدہ رکھا جائے ۔ چنانچہ اس تدبیر پر عمل کیا گیا اور مدت تک مخالفین اور جنات یہ نہیں جان پائے تھے کہ حضرت سلیمان کا انتقال ہوچکا ہے ۔ کیونکہ رہ روز شیش محل میں وقت مقررہ پر ان کو عصا کے سہارے ٹیک لگائے کھڑا دیکھتے تھے ۔ پھر جب اتفاق سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد دیمک نے عصا کو کھوکھلا کردیا ۔ تو حضرت سلیمان کی لاش زمین پر آرہی ۔ تب راز فاش ہوگیا ۔ مگر اس وقت ہیکل کی تعمیر ہوچکی تھی ۔ اور سیاسی ریشہ دوانیوں پر قابو حاصل کرلیا گیا تھا ۔ بائبل میں لکھا ہے کہ یہ عمارت تیرہ سال تک زیر تعمیر رہی *۔ حل لغات :۔ بسبا ۔ ایک قوم کا نام ہے جو نہایت سرسبز اور شاداب زمین پر بسی ہوئی تھی جن کے شہر کے دائیں اور بائیں عمدہ عمدہ باغات تھے ۔ ان سے ان سے کہا گیا تھا کہ اگر اللہ کی ان نعمتوں سے ہمیشہ ہمیشہ بہرہ ور رہنا چاہتے ہو تو شکر گزاررہو ۔ انہوں نے غفلت اعراض کو شیوہ بنا لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک سیلاب آیا اور سب کچھ بہالے گیا اور اس کے بعد بدمزہ جھاڑیاں اور درخت وہاں پیدا ہوگئے جن کی وجہ سے وہ عذاب الٰہی میں گرفتار ہوگئے *۔ سیل العرم ۔ پرزور سیلاب اس قدر تیز رواں پانی جو مینڈتوڑ دے * خط ۔ ہر چیز ترش اور تلخ * ائل ۔ جھاؤ * سدر ۔ بیڑی *۔ سبأ
15 سبا والوں کی سرکشی ف 1: قوم سبا کی گردوپیش کی بستیاں بالکل قریب قریب واقع تھیں راستے متعین اور پرامن تھے ۔ جب چاہتے ایک گاوں سے دوسرے گاؤں کی جانب آسانی سے منتقل ہوجاتے ۔ پھر جب انہوں نے سنا کہ دوسرے لوگوں کے ہاں شہر بہت زیادہ فاصلہ پر ہوتے ہیں ۔ اور وہ بہت بڑی مسافت طے کرکے ایک دوسرے کے پاس پہنچے ہیں ۔ تو وہ بھی اس بات پر الجھ گئے اور اللہ سے دعا کی ۔ کہ ہماری آبادیاں بھی دور دور واقع ہوں ۔ اور ہم بھی جدا جدا رہیں ۔ اور باقاعدہ سفر کرے ایک دوسرے کے پاس پہنچیں * ہوسکتا ہے یہ مطالبہ اسی قسم کا ہو جو بنی اسرائیل کا تھا یعنی وہ جب ایک طرح کی زنگدی سے اکتا گئے تو ترکاریوں کو من وسلویٰ پر ترجیح دینے لگے اور کہنے لگے کہ ہم توہی محت ومشقت کی زندگی کو پسند کرتے ہیں اسی طرح ان سباوالوں نے محض تفرع کی خاطر اس خواہش کا اظہار کیا ۔ اور چاہا ۔ کہ ان کی آبادیاں دور دور کے قطعات میں منقسم ہوجائیں ۔ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا ۔ کیونکہ اس طرح ان کے وحدت قومی میں انتشار پیدا ہوجاتا ہے ۔ اور یہ ایک مسلک کے لوگ دور دور رہنے کی وجہ سے ایک دوسرے کی ہمدردی سے بالکل محروم ہوجائے بلکہ یہ بھی ممکن تھا کہ ان میں باہمی عداوت اور رقابت کے جذبات پیدا ہوجاتے *۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس خواہش کو پورا کردیا ۔ یہ مختلف گروہوں اور ٹکڑیوں میں بٹ گئے ۔ اور بالآخر اس تشتت اور افتراق کی بدولت مٹ گئے اور صرف ان کے افسانے باقی رہ گئے *۔ یعدبین اسفارنا کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ ان لوگوں نے ازراہ سرکشی عذاب کا مطالبہ کیا ہو ۔ اور یہ کہا ہوں کہ ہم صداقت اور سچائی کو قبول نہیں کرسکتے اگر وافعی اس کفر کا نتیجہ ہلاکت سے تو آجائے اور ہماری بستیوں کو یوران کردے ۔ ہم اس ویرانی اور ہلاکت کا انتظار اور عذاب کا خیر مقدم کرتے ہیں *۔ حل لغات :۔ قری شاھرۃ یعنی قریب قریب اس طرح کہ ایک گاؤں سے دوسرا گاؤں دکھائی دے * احادیث ۔ خبری اور افسانے بمعنی اول جمع حدیث وبمعنی ثانی جمع احمد ولہ * مزقلھم کئی ٹکڑیوں میں تقسیم کردیا یا تباہ کردیا * من سلطان غلبہ یعنی شیطان براہ راست انسان پر غالب نہیں ہے یا کہ محض وسوسہ اندازی قلب ودماغ میں گمراہ کن خیالات بھردیتا ہے *۔ سبأ
16 سبأ
17 سبأ
18 سبأ
19 سبأ
20 ف 2: فرمایا ۔ ان میں سے چند مومنوں کے سوا سب لوگوں نے شیطان کی پیروی کی اور اس کے مزعوبات کو سچا ثابت کرکے دکھایا یعنی یہ بات جو اس نے کہی تھی ۔ کہ میں نجدان لوگوں کو گمراہ کرکے رہونگا ۔ فبعزتک لاغریتھم وہ پوری ہوئی ۔ اور یہ لوگ اس کے چنگل میں گرفتار ہوگئے *۔ یعنی ان لوگوں کی مگر اہ یمحض اس قانون ازلی کے مطابق ہے کہ دنیا میں ہمیشہ دو گروہ موجود رہیں گے ایک وہ جو عقبیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے ۔ اور دوسرا وہ جو مادیت پرست ہے ان دو قسم کے خیالات کا بقاء دنیا کے تکوینی مقاصد کے لئے ضروری ہے *۔ سبأ
21 سبأ
22 ف 1: مشرکین سے خطاب ہے کہ تم جن لوگوں کو خدا سمجھتے ہو وہ کائنات میں ایک ذرہ پر بھی اقتدار نہیں رکھتے ۔ اور نہ زمین اور آسمان کی تخلیق میں ان کا کچھ حصہ ہے اور نہ یہ درست ہے ۔ کہ کسی کام میں اللہ کے شریک وسہیم ہیں ۔ پھر تمہاری عقلوں کو کیا ہوگیا ہے ۔ کہ تم ان لوگوں کو اپنا معبود سمجھتے ہو * سبأ
23 سبأ
24 سبأ
25 سبأ
26 سبأ
27 حقیقت ثانیہ حضور کو مخاطب فرمایا ہے اور کہا ہے ۔ کہ ان لوگوں سے پوچھئے جو ماسوا میں الجھے ہوئے ہیں ۔ اور شرافت انسانی سے قطع نظر کرکے کائنات کے حقیر مظاہر کے سامنے جھکتے ہیں ۔ کہ تمہیں آسمانوں اور زمین سے کوئی روزی عطا کرتا ہے ؟ یعنی یہ ابروباد کا انتظام کس کے ہاتھ میں ہے ۔ کون پانی سے لدی ہوئی ہوائیں بھیجتا ہے اور کون مردہ کھیتوں کو ہرا بھرا اور شاداب بنادیتا ہے ؟ کون انگوریاں ۔ غلہ اور چارہ پیدا کرتا ہے ؟ فرمایا : کہ اس سوال کا جواب سوائے اسکے کیا ہوسکتا ہے کہ یہ اللہ کا اختیار میں ہے ۔ گیا یہ جواب اتنا سچا اور وقیت پر مبنی ہے ۔ کہ کوئی شخص اس سے اختلاف نہیں کرے گا * اس کے بعد فرمایا : کہ اس حقیقت ثانیہ کے بعد اب تمہیں غور کرنا چاہیے ۔ کہ ہم دونوں میں سے کون راہ راست پر گامزن ہے اور کون گمراہ ہے کون صداقت شعار ہے اور کون اصنام پرستی میں مبتلا ۔ کون اس خدا کو مانتا ہے جو حقیقی اور سچا رازق ہے اور کون ان بتوں کی پرستش کرتا ہے ۔ جن کا رزق کی کشائش اور تنگی میں کوئی دخل نہیں * آیت کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں چند لفظی اور معنوی صنائع ہیں ۔ جن کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور وہ یہ ہیں :۔ (1) انداز بیان ایسا اختیار کیا گیا ہے جو مشرکین کو بھڑکانہ دے اور غور تامل پر مجبور کردے ۔ یعنی یہ نہیں فرمایا کہ ہم دونوں میں سے ایک ضرور راہ صادق وصاف پر گامزن ہے اور دوسرا گمراہ ہے *۔ (2) تعلے ھدی کہہ کر گویا یہ بتادیا ہے ۔ کہ ہمارا راہ راست پر ہونا زیادہ قرین عقل ہے *۔ (3) ہدایت کے لئے علیٰ کا لفظ اور ضلال کے لئے فی استعمال کرنا یہ بھی ہی مصلحت سے ہے ۔ کہ توحید کی راہ طلوع و رفعت کی راہ ہے اور شرکت کی راہ گمراہی اور پستی کی *۔ (4) آؤ حرف تردید ہے ۔ جس کے معنے ہیں کہ حق وصداقت اور گمراہی میں کوئی تیسری راہ نہیں ہے ۔ ہر شخص کے متعلق بس دو ہی نقطہ نگاہ ہوسکتے ہیں ۔ یا تو وہ صحیح مسلک پر قائم رہے یا گمراہ * سبأ
28 فیضانِ عام ف 1: یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت تمام کائنات کے لئے ہے ۔ کسی خاص عصر کے لوگوں کے ساتھ مختص نہیں ۔ کسی خاص حالات اور مقامات کے تابع نہیں ۔ ہر وقت اور ہر آن آپ کی تعلیمات لائق قبول اور قابل اتباع ہیں ۔ آپ ہر زمانے میں اپنے پیغام کے لحاظ سے زندہ ہیں ۔ اور یہ زندگی تا قیامت جاری رہے گی ۔ کافۃ للناس سے مقصود یہ ہے کہ کسی زمانہ اور کسی قرن میں بھی کسی رائے نبوت کے تلے پناہ گزین ہونے کی ضرورت نہیں ہے آپ کی نبوت کا پھر یرا ہر وقت لہراتا رہے گا ۔ اور لوگوں کوا من وسعادت کا پیغام پہنچاتا رہے گا *۔ حل لغات :۔ انفتاح ۔ ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرنے والا * کافۃ ۔ بمعنے ہمہ وتمام ۔ عموم واستغراق کے لئے ہے *۔ سبأ
29 سبأ
30 سبأ
31 سبأ
32 سبأ
33 زیر دتسوں کی گفتگو زبردستوں سے آفتاب جب چمکتا ہے تو یہ ناممکن ہے کہ لوگ اس کی روشنی کو محسوس نہ کریں ۔ رات کی تاریکی جب دور ہوتی ہے ۔ اور پوٹھپتی ہے تو ہر شخص ایک روحانی کیف کو محسوس کرتا ہے ۔ موسم بہار میں بوقلمون پھولوں کی بہار سے کون محفوظ نہیں ہوتا ؟ بالکل اس طرح دنیا میں طویل تاریکی اور ظلمت کے بعد مہر صداقت جب طلوع ہوتا ہے تو ساری دنیاکو منور کردیتا ہے ۔ جب فلاح وسعادت کی صبح رونما ہوتی ہے ۔ تو ہر سلیم الفطرت انسان اس کی کیفیتوں سے زندگی حاصل کرتا ہے اور جب کشت زار قلوب کی بہار کا موسم آتا ہے ۔ تو فیضان الٰہی کی تراوش ہوتی ہے ان کیفیات سے انکار کرنا جہود اور مجادلہ ہے ۔ اور چند حقیر دنیوی مصالح کا تقاضا ہے ورنہ کون ہے جو ان چیزوں کو دیکھے ۔ محسوس کرے ۔ اور بھلادے ۔ ان آیات میں قرآن حکیم اسی صداقت کا اظہار کرنا چاہتا ہے ۔ کہ ان لوگوں نے جو دنیا میں تکذیب اور سرکشی کو روا رکھا ۔ تو محض اس لئے کہ ان میں سے امراء کبراء عمائد اور بڑے بڑے مشائخ اپنے نشہ کبر میں سرشار تھے ۔ اور ان کی مصلحتوں کا تقاضا یہ تھا ۔ کہ اسلام کو ٹھکرایا جائے کیونکہ اسلام کے پھیل جانے سے ان کی عزت دینی اور وجاہت دنیوی خطرہ میں تھی ۔ ورنہ کوئی معقول عذر ان پیشوایان دین کے پاس تھا ۔ اور نہ ان کے عقیدت مندوں کے پاس ۔ نہ سرمایہ داروں کے پاس اور نہ تہہ دست محتاجوں کے پاس ۔ بات صرف یہ تھی کہ یہ لوگ خود تو بتقاضائے مصلحت عمداً اسلام کو قبول نہیں کرتے تھے ۔ مگر ساتھ ساتھ یہ کوشش بھی کرتے تھے کہ عوام بھی اس نعمت سے محروم رہیں ۔ میدان حشر میں یہ لوگ اللہ کے دربار میں پیش ہوں گے ۔ اور اس کی حضوری میں اپنے جرائم پر نظر کریں گے ۔ تو ان کو سخت مدامت ہوگی ۔ اور اس وقت یہ کہیں گے ۔ کہ ہم سب کیوں اللہ کے اس فضل سے محروم رہے ! کمزو عقیدت مند گنہگار اپنے اکابر اور مرشدین سے کہیں گے ۔ کہ تم لوگوں نے اپنے مطلب اور خود غرضی کے لئے ہم کو اسلام کی برکات سے محروم رکھا ۔ اگر ہم اس معاملہ میں خالی الذمین ہوتے ، تو ضرور اسلام قبول کرلیتے ۔ تو اس وقت وہ بڑے بڑے لوگ کامل بےزاری کا اظہار کریں گے اور کہیں گے کہ ہم نے تمہیں کبھی ہدایت کی باتوں کو قبول کرلینے سے نہیں روکا ۔ تم اپنے اعمال کے آپ ذمہ دار ہو ۔ اس کا وہ یہ جواب دیں گے ۔ کہ پھر صبح وسا تمہاری سازشوں اور تدبیروں کا کیا مقصد تھا ۔ جو حق کے مقابلہ میں اختیار کی جاتی تھیں ۔ جب کہ تم ہم لوگوں کو کفر پر مجبور کرتے تھے ۔ اور شرک کے لئے آمادہ کرتے تھے ۔ فرمایا اس بحث اور الزام دہی سے اب کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ جہاں تک جرائم کا تعلق ہے تم دونوں برابر کے مجرم اور ذمہ دار ہو ۔ اس لئے اب ان مغرور گردنوں میں ذلت وحقارت کے طوق پہننے کے لئے تیار رہو ؟ حل لغات :۔ صددناکم ۔ صدد سے ہے ۔ بمعنی روکنا ۔ منع کرنا *۔ حل لغات :۔ ذمکرالیل ۔ یعنی منرکم اسرالندامۃ ۔ دوات الاضعاد سے ہے ۔ اس کے معنے چھپانیئے بھی ہیں ۔ اور ظاہر کرنے کے بھی * الاغلال ۔ غل کی جمع ہے طوق رنجیر لوے کا حلقہ * اعتاف ۔ جمع عق بمعنی گردنیں *۔ سبأ
34 سبأ
35 سبأ
36 سبأ
37 روحانی تقاضے ف 1: مکے والوں کو مال ودولت اور اپنی اولاد پر بڑا غرور تھا وہ سمجھتے تھے کہ اس سے زیادہ سعادت اور خوش بختی اور کیا ہوسکتی ہے ۔ کہ ایک شخص دولت سے بہرہ ور ہو ۔ اور اس کے اولاد بھی ہو ۔ ان دوچیزوں کی موجودگی میں روحانیت بےمعنی شے ہے ۔ اور مذہب کی ضرورت نہیں ۔ آج بھی مادہ پرست دنیا یہی سمجھتی ہے ۔ کہ جہاں تک حظوظ دنیا کا تعلق ہے اس سے استفادہ کرنا تو ضروری ہے ۔ اور ان کو پاکر پھر ما بعد الطبعی مسرتوں کے پیچھے دوڑنا حماقت ہے چودہ سو سال کی مادیت میں کوئی فرق نیں ۔ آج بھی وہی خیالات ہیں جو آج سے پہلے مکے کے جاہلوں میں رائج تھے ۔ اضافہ صرف یہ ہوا ہے ۔ کہ ان لوگوں کی خواہشات محدود تھیں ۔ آج ان خواہشات میں تو سیع او تنوع پیدا ہوگیا ہے ۔ اور بس ۔ قرآن حکیم کہتا ہے ۔ یہ بات جب درست ہوتی جب تم صرف جسم ہوتے اور تم میں روح نہ ہوتی ۔ اور روحانی تقاضے نہ ہتے جب تمہارے جس کے ساتھ تمہاری روح بھی ہے اور وہ روح اس روح اکبر سے جماملنا چاہتی ہے ۔ اس کے تقرب کے لئے بےقرار ہے ۔ اور اس کے کچھ تقاضے بھی ہیں ۔ تو پھر بتاؤ کہ تم مال ودولت کے انباروں کے ساتھ کیونکر ان لطیف تقاضوں کو پورا کرسکتے ہو ۔ اور کیونکر اللہ تک رسائی حاصل کرسکتے ہو ۔ یاد رکھو وہاں تک پہنچنے کے لئے جن کیفیات کی ضرورت ہے ۔ وہ سیم وزر سے دل میں پیدا نہیں ہوتیں ۔ اور نہ اولاد واعوان سے ان کے حصول میں کچھ مدد مل سکتی ہے ۔ وہ کیفیتیں تو ایمان سے پیدا ہوتی ہیں ۔ اور اعمال صالحہ کی آبیاری سے بڑھتی اور تازگی حاصل کرتی ہیں *۔ حل لغات :۔ زلفی ۔ تقرب ۔ حضور * الغرفات ۔ غرفہ کی جمع ہے ۔ بمعنی بالا خانے * ویقدر ۔ تنگی سے دیتا ہے *۔ سبأ
38 سبأ
39 ف 1: یعنی مال ودولت کی کشائش اور تنگی تو قطعاً اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ وہ چاہے تو ایک بندہ مفلس کو تاج وتخت کا مالک کردے ۔ اور چاہے تو پل بھر میں تخت نشین کو خاک نشین کردے ؎ عجب نادان ہیں جن کو ہے عجب تاج سلطانی فلک بال وہما کو پل میں سونپے ہے مگس رانی ہاں دولت وہ ہے ۔ جس کو تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو ۔ جو جیبوں اور بنکوں سے نکل کر قومی ضروریات پر صرف ہو ۔ وہ دولت نہیں ۔ جو قومی نحوست ہو ۔ لعنت ہو ۔ عیاشی اور بدمعاشی ہو ۔ کبروغرور ہو ۔ اور لوہے کے صندقوں میں بند تہ خانوں میں پنہاں اور زمین میں دفن ہو *۔ حاشیہ صفحہ ھذا ف 1: مشرکین مکہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے اور ان کی پرستش کرتے تھے میدان قیامت میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے عقیدہ کی تغلیظ اور توہین کے لئے فرشتوں سے ان کے روبرو پوچھے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری پوجا کرتے تھے ۔ فرشتے جواب دینگے ۔ کہ اے اللہ تیری ذات پاک ہے صرف توہی عبادت کے لائق ہے ہم تیری عبودیت اور بندگی پر مفتخر ہیں ہمیں جعو تعلق تیری ذات سے ہے وہ کسی سے نہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ انہیں شیطان بہکاتے تھے ۔ اور یہ شیطانوں کی پیروی کرتے تھے *۔ سبأ
40 سبأ
41 سبأ
42 سبأ
43 تقلید آباء قرآن حکیم اپنے مطالب کی وضاحت میں اور دلائل کے استحکام میں بےنظیر کتاب ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اس درجہ تابان اور روشن ہے کہ اس میں شک وشبہ قطعاً راہ نہیں پاسکتا ۔ بالخصوص ان لوگوں کے لئے جنہوں نے یہ معجزہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو کہ کیونکر ایک شخص چالیس سال کی عمر کے بعد الہام کا دعویٰ کرتا ہے اور یکایک فلسفہ وحکمت کے دریا بہانے لگتا ہے ۔ وہ جو کتاب پیش کرتا ہے شیریں ہے ۔ اس کی تعلیم دل میں اترجانے والی ہے ۔ اور خواب عفلت سے چونکا دینے والی ہے ۔ اس کا انداز بیان بالکل نرالا اور اچھوتا ہے اس کو پیش کرنے والا صادق القول اور صحیح العقل ہے اس کا چہرہ سچائی کے نور سے چراغ کی طرح روشن ہے ۔ ان لوگوں کے لئے جنہوں نے یہ ساری کیفیتیں بچشم خود دیکھی ہوں ۔ بالکل مجال انکار نہیں ۔ کیا بات تھی کیوں ان لوگوں نے اس پیغام کو نہ مانا ۔ اور حق وصداقت کو ٹھکرادیا ۔ کیوں ان لوگوں نے کھلی گمراہی کو ترجیح دی ۔ اور اس روشنی کی طرف سے آنکھیں موند لیں ۔ کیا اس لئے کہ ان کے دلوں میں کچھ معقول شکوک تھے اور ان کے ازالہ کی کوشش نہیں کی گئی ؟ یا اس لئے کہ اسلامی تعلیمات کی عظمت نے انہیں مرعوب نہیں کیا ؟ قصہ صرف اتنا ہے کہ تقلید آباد کا پرانا جذبہ دلوں میں کافرما تھا ۔ دل نہیں چاہتا تھا ۔ کہ صدیوں کے تعلقات عقیدت کو اسلام کی وجہ سے خیرباد کہہ دیں ۔ او یہ تسلیم کرلیں ۔ کہ ان کے اباؤ اجداد بالکل جاہل تھے ۔ اور حق کی روشنی سے محروم ۔ پرانے عقیدے اور پرانی رسمیں چھوڑ دینا ان کے لئے ناممکن تھیں ۔ یہ لمبے جان تنوں کی پوجا ری تھے ۔ بوسیدہ اور کھوکھلی ہڈیاں پر عظمت تھیں قبروں کی طرف ان کی نگاہیں تھیں ۔ کہ ہمارے باپ دادا اور قدیم علماء ان سے باہر آکر ہم کو دین محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبول کرلینے کی اجازت دیں ۔ اس لئے بالطبع ان حالات میں اسلامی تعلیم ان کے لئے قابل نہیں تھی ۔ حل لغات :۔ اذک ۔ جھوٹ ۔ سخر یعنی باعتبہ دائر کے جارہ ہے ۔ مغثار دسواں حصہ ۔ وما یبدی الباحل وما یعید باطل (معبود) نہ تو پہلی بار پیدا کرسکتا ہے اور نہ دوبارہ پیدا کرے گا * محاورہ ہے یعنی باطل واب مفید ہے اور آئندہ *۔ سبأ
44 سبأ
45 سبأ
46 سبأ
47 سبأ
48 سبأ
49 حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صداقت پر سب سے بڑی دلیل ف 1: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صادقت پر سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ آپ محض حسیتہ اللہ لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دیتے تھے ۔ اس میں آپ کی کوئی ذاتی منفعت ہرگز پہناں نہ تھی ۔ بلکہ جب آپ سے کہا گیا ۔ کہ اگر آپ نبوت کے ڈھونگ سے (معاذ اللہ) باز آجائیں ۔ تو ہم بہترین معاوضہ دینے کے لئے تیار ہیں ۔ ہم آپ کے قدموں میں سونے اور چاندی کے ڈھیر لگا سکتے ہیں ۔ ہم عرت کی جمیل ترین اور شریف ترین خاتوں کو آپ کے قصد میں دے سکتے ہیں ۔ اور ہم یہ بھی کرسکتے ہیں کہ آپ کو قیادت مطلقہ کے منصب پر سرفراز کردیں ۔ تو آپ نے پورے جوش کے ساتھ فرمایا ۔ کہ تم لوگوں نے مجھے بالکل سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ اگر تم میرے ایک ہاتھ پر آفتاب رکھ دو ۔ اور دوسرے ہاتھ پر چاند ۔ تو بھی میں یہی کہوں گا ۔ جواب تک کہتا آیا ہوں ۔ میرے خیالات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا ہوسکتی ۔ ایسا آپ نے کیوں فرمایا اس لئے کہ آپ صداقت کو محض صداقت کے لئے پھیلانا چاہتے تھے ۔ اور یہ نہیں چاہتے تھے کہ اس پر کوئی قیمت وصول کی جائے ۔ سبأ
50 سبأ
51 سبأ
52 سبأ
53 ف 1: یقذف بالحق سے مراد یا تو یہ ہے کہ باوجود تمہاری مساعی کے میرا رب ضرور اس کے لئے لوگوں کے دلوں میں پذیرائی کی صلاحیت پیدا کرے گا ۔ اور ضرور اسلام کی سچائی اور صداقت کو ان کے قلوب میں ڈال دے گا ۔ کیونکہ صداقت بجائے خود اپنے اندر جاذبیت رکھتی ہے ۔ اور اس لائق ہوتی ہے ۔ کہ لوگ اس کو ترجیح دیں ۔ یایہ مراد ہے کہ بل نقذف بالحق علے الباطل یعنی حق باطل سے متصادم ہوتا ہے ۔ اور باطل دب جاتا ہے ۔ اور حق کو غلبہ وقوت عطا ہوتی ہے ۔ تم بھی یہ دیکھتے رہو ۔ کہ اسلام کے عقائد کیونکر تمہارے مزعومات باطلہ سے ٹکرا کر انہیں کس طرح پاس پاس کردیتے ہیں ۔ حق وصداقت کی پرکھ یہ بھی ہے ۔ کہ بالآخر حق وبقاو دوام کی نعمت سے نوازا جاتا ہے ۔ اور باطل فنا کی گہرائیوں میں گم ہوجاتا ہے ۔ کیونکہ جس طرح کائنات کی مادی چیزوں میں بقاء الاصلح کا قانون جاری ہے ۔ اسی طرح حقائق دینی ونظریات میں بھی یہی قانون کارفرما ہے غلط اور مضر عقیدے زیادہ مدت تک قائم نہیں رہ کستے ۔ اور ان کو فروغ حاصل نہیں ہوسکتا ۔ ان میں منطقی طور پر وہ زندگی نہیں ہوتی جو ہمیشہ باقی رہ سکے ۔ سبأ
54 ف 2: یعنی حق وصداقت کا آفتاب اپنی پوری تابانی کیس اتھ جلوہ گر ہوچکا ہے ۔ اس لئے اب باطل اس کے مقابلہ میں نہیں پنپ سکتا ۔ بلکہ یوں سمجھ لیجئے ۔ کہ باطل کا اصلاً وجود ہی نہیں ۔ اور اب وقت آگیا ہے کہ اس کی صحیح صحیح حیثیت متعین کردی جائے ۔ اور بتا دیا جائے ۔ کہ دنیا کا سچا مذہب صرف اسلام ہے ۔ اور اس کے سوا جو کچھ ہے ۔ فریب نظر ہے ! اور نفس کا دھوکہ ہے *۔ حل لغات :۔ القناوش ۔ نوش سے ہے ۔ جس کے معنے کسی چیز کو ہاتھ پکڑنے اور کسی کو بھلائی پہنچانے کے ہیں * یاشیاعھم ۔ شیعۃ کی جمع ہے ۔ بمعنے ہم مشرب ۔ ہم خیال گروہ بھیجنا ، اتباع وانصار *۔ سبأ
0 فاطر
1 ف 1: یہ سورت مکی ہے ۔ اور اس میں دوسری مکی سورتوں کی طرح عام طور پر توحید ورسالت کے معارف سے بحث کی گئی ہے ۔ اور حشر ونشر پر دلائل قائم کئے گئے ہیں ۔ اور ان تمام شکوک وشبہات کو دور کیا گیا ہے جو اس وقت کے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوئے تھے ۔ اور بتایا گیا ہے کہ یہ اللہ کا سچا اور آخری پیغام ہے *۔ اللہ کی حمدوستائیش سے اس کا آغاز فرمایا ہے ۔ تاکہ معلوم ہو کہ روحانیت کی پہلی منزل نفیس انسانی کا تذلل اور اللہ کی جلالت قدر کا اعتراف اور یقین ہے ۔ جب تک یہ مقام عبودیت طے نہ ہو ۔ اس وقت تک عارف وسالک دوسری منزلوں تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا ۔ فاطر کے معنے جیسا کہ حضرت ابن عباس کی تصریح ہے ۔ مبداء اور آمیندہ کے ہیں ۔ یعنی وہ خدا جس نے کائنات کو اولا کتم عدم سے پیدا کیا ہے ۔ اور جو پیدا کرنے کے لئے ذریعوں اور وسیلوں کا محتاج نہیں ہے ۔ اس کی قدرت کاملہ بجائے خود یہ صلاحیت رکھتی ہے ۔ کہ ہر چیز کو ہر وقت بغیر کسی تیاری کے پیدا کردے ۔ اس کے متعلق یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ کہ وہ کیونکر کائنات کو پیدا کرتا ہے ۔ کیونکہ وہ بہر نہج کامل ہے ۔ اور تمام شروط لازمہ اس کے اشارہ پرموقوف ہیں ۔ اس نے آسمانوں اور زمین کو اس حالت میں پیدا کیا جب کہ ان کا وجود خارج میں متحقق نہیں تھا ۔ فرشتوں کے متعلق اتنی تفصیل بتائی ہے ۔ کہ ان کے دو دو ، تین تین ، چار چا پَر ہوتے ہیں ۔ جن کے ذریعے وہ پرواز کرتے ہیں * مگر یہ ضروری نہیں ہے ۔ کہ یہ پَر پرندوں کے پروں کے مانند ہوں ۔ بلکہ یہ ان سیاروں سے تعبیر ہے ۔ جن کی وجہ سے وہ فضائے قدس میں اڑتے پھرتے ہیں ۔ غرض یہ ہے کہ یہ فرشتے اگر آسمان سے اللہ کا پیغام لے کر بسرعت تمام زمین تک پہنچ جاتے ہی ۔ تو اس میں عقلاً کوئی استحالہ نہیں ۔ اللہ نے ان کو ایسے لطیف اور نورانی ذرائع پرواز دے رکھے ہیں ۔ کہ انہیں ہزارروں میل کی مسافت ایک لمحہ میں طے کرلینے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی ۔ حل لغات :۔ اجنحۃ ۔ جناح کی جمع ہے ۔ بمعنی بازو پر *۔ فاطر
2 ف 2: ان دو آیتوں میں توحید کی حقیقت بیان فرمائی ہے ۔ کہ تمام اختیارات اور قدرتیں صرف اس اللہ سے مختص ہیں ۔ کوئی شخص اس کے ارادوں میں مزاحمت نہیں کرسکتا ۔ وہ اگر کسی شخص کے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے تو پھر کوئی خشص ان دروازوں کو مسدود نہیں کرسکتا ۔ اگر کسی شخص پر اس کے فضل وکرم کے ابواب بند ہوجائیں ۔ تو پھر کوئی بڑی سے بڑی شخصیت بھی ان کو کھول دینے پر قادر نہیں وہ تنہا اس کائنات کا حاکم ہے تم صرف اسی کے ممنون احسان بنو ۔ اور کسی ماسوا سے سے رزق کی توقع نہ رکھو *۔ حل لغات :۔ الغرور ۔ دھوکہ دینے والا شیطان * الشعیر ۔ آگ *۔ فاطر
3 فاطر
4 فاطر
5 فاطر
6 فاطر
7 فاطر
8 شیطان کی حسین کمندیں ف 1: جس طرح دنیا کی سعادت کے لئے یہ ضروری ہے ۔ کہ دوستوں اور دشمنوں میں امتیاز کیا جائے ۔ اسی طرح فلاح اخروی کے لئے ناگزیر ہے ۔ کہ شیطان کو اپنا دشمن سمجھاجائے ۔ اور اس کے متعلق محکم یقین ہو ۔ کہ وہ دوستی اور خیر خواہی کا کبھی ارادہ نہیں کرے گا ۔ اس کی تمام چالیں محض اس لئے ہونگی ۔ کہ کسی طرح اس کا گروہ الگ پیدا ہوجائے ۔ اور ان سب کو وہ جہنم کا کندا بنا دے ۔ اور اسی رطح وہ مخلوق خدا سے انتقام لے کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرے ۔ یہ یاد رہے کہ شیطان کبھی براہ راست حملہ نہیں کرتا ۔ کبھی جرات کے ساتھ گمراہی کی جانب دعوت نہیں دیتا ۔ اور کبھی کھلم کھلا مقابلے میں نہیں آتا ۔ بلکہ وہ نہایت حسین حسین کمندیں لے کر بڑھتا ہے ۔ چاندی اور سونے کی زنجریں پہناتا ہے ۔ اور خفیہ خفیہ دل کی چھاؤنی پر چھا جاتا ہے ۔ اس کے پاس انسان کو پھانسنے کے لئے ۔ بےشمار خوبصورت ذریعے ہیں ۔ وہ مال ودولت کی شکل میں نمودار ہوتا ہے ۔ وہ عزت وجاہ کا تاج لے کر آتا ہے ۔ وہ بیوی بچوں کی محبت بن کر پاؤں پکڑ لیتا ہے ۔ اور اس طرح نامحسوس طریق سے حق کی منزل سے دور پھینک دیتا ہے ۔ اس لئے سالک راہ محبت کے لئے ضروری ہے ۔ کہ وہ وقت نظرکا مالک ہو ۔ اور جانتا ہو کہ کن کن راہوں سے مخالف حملہ آور ہوگا ۔ اس کو خواہشات پر سخت نگرانی کرنا ہوگی ۔ اور دل کے خیالات پر پہرہ بٹھانا ہوگا *۔ ف 2: فرمایا کہ مرد مومن جو ایمان کی بہرہ مندی کے ساتھ دولت اعمال سے بھی مالا مال ہے ۔ اور وہ جو برائی کی ظاہری سج دھج کے متاثر ہوکر گناہوں میں گرفتار ہوگیا ۔ برابر نہیں ہیں ۔ یہ اللہ کا دین ہے جس کو چاہے ہدایت کی توفیق دے اور جس کو چاہے اس نعمت سے محروم رکھے ۔ اے پیغمبر ! آپ مخموم نہ ہوں ۔ اور ان کے گناہوں پر تکلف والم کو محسوس نہ کریں ۔ کیونکہ انہوں نے خود کوتاہی نظر کے باعث اس گمراہی کو پسند کیا ہے ۔ اور یہ چاہتے ہیں کہ کفر ہی کی حالت میں ہمیشہ رہیں ۔ معلوم ہوا ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان لوگوں کی گمراہی سے روحانی اذیت محسوس ہوتی تھی اور آپ یہ نہیں چاہتے تھے ، کہ ایک نفس بھی اللہ کی رحمت سے محروم رہے ۔ اور جہنم میں جائے ۔ آپ کی بعثت کا مقصد ہی یہ تھا کہ بنی نوع انسان کو گناہوں کی تاریکی سے نکال کر صداقت کی روشنی میں لے آئیں ۔ حل لغات :۔ حسرات ۔ حسرۃ کی جمع ہے ۔ بمعنے افسوس ۔ پشیمانی *۔ فاطر
9 فاطر
10 ف 1: حشر ونشر پر استدلال ہے ۔ کہ جس طرح مردہ زمین بارش کی وجہ سے زندگی کا لباس زیب تن کرلیتی ہے ۔ اسی طرح اللہ کی نگاہ کرم سے لوگ جی اٹھیں گے ۔ اس میں کون بات عقل سے بعید ہے *۔ ف 2: مکہ والے اپنے مال ودولت کی وجہ سے مغرور تھے ۔ اور مسلمانوں کو ان کے افلاس کی وجہ سے حقیر سمجھتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ کہ کم بختو ! ذلت وعزت کا تعلق سرمایہ اور دنیوی متاع سے نہیں فاطر
11 کتاب فطرت ف 3: قرآن حکیم کو تمام مذہبی کتابوں پر فضیلت حاصل ہے ۔ کہ اس میں مظاہر قدرت کا کثرت سے بیان ہے ۔ اس میں انسانی توجہ کو براہ راست فطرت کے عجائبات کی طرف مبذول کیا گیا ہے اور فکروکاوش پر زور دیا گیا ہے ۔ یہ کتاب انسان کو اس کی کوتاہی نظر پر متنبہ کرتی ہے ۔ اور بتلاتی ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ علوم وغر ائب کا حامل ہے ۔ اور اس لائق ہے ۔ کہ گہری نظر سے اسے دیکھا جائے ۔ قرآن جس مذہب کو پیش کرتا ہے ۔ وہ بالکل سادہ اور فرط کے اصولوں کے قطعاً مطابق ہے ۔ اس میں منطقی اشکال وصورت سے بحث نہیں کی گئی ۔ بلکہ نیچرکے سادہ سہل اور جمیل اصول بیان کئے گئے ہیں اس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے ۔ کہ اللہ کا علم کس درجہ وسیع ہے اور کس درجہ متنوع ۔ فرمایا پہلے خود اپنی ذات اور ساخت پر غور کرو ۔ اب تم عقل وحکمت کا مجموعہ ہو اور دانش وبنیش کا پیکر ہو ، آسمان میں پرواز کرتے ہو اور عقاب وشاہین کا مقابلہ کرتے ہو ۔ مگر تم ایک قطرہ آب سے ترقی کرکے اس منزل تک پہنچتے ہو تممٹی سے بنائے گئے ہو ۔ اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت پر غور کرو ۔ اور کس طرح جنسی حالات اور مخلوق کی تمام ادوار حیات سے واقف ہے ۔ وہ کس طرح پر ماں کے پیٹ میں بچے کی تربیت کرتا ہے ۔ اور اس کی نشونما دیتا ہے پھر عام وجود میں یہ بچہ آتا ہے ۔ تو اس کی عمر عطا کرتا ہے ۔ کسی کی زیادہ کسی کی کم ۔ یہ سب باتیں لوح محفوظ میں درج ہیں ۔ اور اللہ کے علم میں متحقق ۔ حل لغات :۔ یبور ۔ ہلاک ہوگا ۔ نطفۃ ۔ قطرہ آب * عذب ۔ میٹھا پانی ، خوشگوار خوش مزہ * رفات ۔ آب شیریں ۔ عمدہ پانی * سانع ۔ خوش گوار * ملح ۔ نمکین * اجاج ۔ کڑوا * فاطر
12 ف 1: پھر تم ان دونوں میں سے اپنے لئے تازہ گوشت مہیا کرتے ہو ۔ اور ان کی گہرائیوں میں سے قیمتی موتی نکالتے ہو ۔ اور اس کا بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ تم دریا میں کشتیاں چلاتے ہو ۔ جس کی وجہ سے تم دور دور تک تجارت کا مال لے جاتے ہو ۔ اور کسب معاش کرتے ہو ۔ یہ نعمتیں اللہ نے اس لئے پیدا کی ہیں ۔ تاکہ تم اس کی شکر گزاری کرو ۔ مفسرین کی رائے ہے ۔ کہ ان دو دریاؤں سے مراد مومن اور کافر ہے ۔ مومن تہہ فائدہ ہوتا ہے ۔ شیریں ہوتا ہے ۔ پیاس بجھاتا ہے ۔ اور دوسرے مسلمان کے لئے وجہ تسکین ہوتا ہے ۔ اور کافر سراپا مضرت ، کڑوا اور کھاری *۔ حل لغات :۔ حلیۃ ۔ یعنی وہ موتی جن کو بطور زیور کے استعمال کیا جاتا ہے * فضلہ ۔ یعنی دولت * کل یجری ۔ یہ عرف لسانی ہے اس کو حقیقت واقعی سے کوئی بحث نہیں ۔ خواہ آفتاب گھومتا ہے ۔ خواہ ماہتاب ہو اور زمین گھومتے ہیں ۔ دونوں صورتوں میں اس کا اطلاق ہوسکتا ہے * قطمیر ۔ کھجور کی گٹھلی میں جو شگاف کے درمیان ایک تاگا سا ہوتا ہے یعنی نہایت حقیر چیز *۔ فاطر
13 ف 2: یہ فطرت کا تیسرا مظہر ہے ۔ کہ وہ کیونکر رات کا کچھ حصہ گھٹا کر دن میں داخل کردیتا ہے ۔ اور آفات وماہتاب کو کس طرح تمہاری خدمت میں لگا دیتا ہے ان مظاہر کو بیان کرکے فرمایا ۔ کہ خدا وہ ہے جو تمہارا مددگار ہے اور ساری کائنات کا مختار کل ہے ۔ تم جن لوگوں کو پکارتے ہو ۔ اور ان کی پرستش کرتے ہو ۔ وہ دنیا میں ذرہ برابر اختیارات نہیں رکھتے ۔ فاطر
14 فاطر
15 تم سب محتاج ہو ف 1: اس ایک آیت میں مسئلہ شرک کا سارا زور توڑ دیا ہے ۔ فرمایا ہے کہ تم دیکھو ۔ کہ باوجود اس کے کہ تم بڑے بڑے جلیل القدر لوگ موجود ہیں اور مادنی اور روحانی اعتبار سے اعلیٰ ترین مراتب پر فائز ہیں ۔ مگر کیا ایک شخص بھی ایسا ہے ۔ جو اللہ سے لے نیازی کا دعویٰ کرسکے ۔ جو اس کے بنائے ہوئے قوانین کے سامنے اپنے آپ کو بےبس نہ پاتا ہو ۔ کیا کوئی ایسا ہے ۔ جو موت کے آہنی چنگل سے بچ جائے ۔ جو بیماری کو تکلیف کو محسوس نہ کرے ۔ جو بھوک سے بےقرار نہ ہوجائے ۔ جیسے پیاس بےچین نہ کردے ۔ پھر ان حالات میں جبکہ تم ہمہ احتیاج ہو ۔ ہر حالت میں ایک ایک دم اور قدم میں اس کے مقرر کردہ نظام کے تابع ہو ۔ تمہارا یہ دعویٰ کیونکر برحق قرار دیا جاسکتا ہے ۔ کہ تم میں سے کوئی الوہیت کا مستحق ہے ۔ یہ تو شاید جب ہوسکتا ہے ۔ کہ وہ خدا کی زمین کو چھوڑ دے اس کے آسمان کے سایہ کو استعمال نہ کرے ۔ اس کے سورج اور چاند سے استفادہ نہ کرے ایک الگ دنیا بنائے اور ایک الگ عالم بسائے اور جب وہ اللہ کی زمین پر رہتا ہے ۔ اور آسمان تلے زندگی کیدن گزارتا تو پھر وہ خدا کس طرح ہوسکتا ہے *۔ فاطر
16 فاطر
17 ف 2: فرمایا ۔ کہ اللہ کو تمہاری احتیاج نہیں ہے ۔ بلکہ تم اس کے محتاج ہو جب تک اس کے احکام پر چلو گے ۔ باقی اور زندہ رہو گے اور جہاں تم نے سرکشی اور اس کی نافرمانی کی ۔ وہ تم کو صفحہ ہستی سے مٹا دے گا ۔ اور ایک دوسری قوم پیدا کردے گا ۔ جو اس کی اطاعت شعاری کا دم بھرے گی ۔ اور زمین میں اس کے مشن کی تکمیل میں مصروف جدوجہد رہے گا *۔ فاطر
18 ف 3: یعنی ہر شخص اپے اعمال کا ذمہ دار ہے ۔ یہ نہیں ہوسکے گا کہ گناہ تو ہم کریں ۔ اور سزا میں کسی دوسرے شخص کو گرفتار کیا جائے *۔ اسی طرح یہ بھی درست نہیں ہے ۔ کہ زید گناہ کرے اور دوسرے قالب میں بکر پکڑا جائے ۔ سزا اور اجر کا وہ ” انا “ مستحق ہے ۔ جس کا براہ راست اعمال سے تعلق ہے ۔ اس ” انا “ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔ کفارہ اور تناسخ عقیدہ اس لئے غلط ہے ۔ کہ ان دونوں صورتوں میں سزا اور جزاکا تعلق اس ” انا “ سے باقی نہیں رہتا ۔ اور مکافات عمل کے اصول پر منطقی طور پر اعتراضات وارد ہوتے ہیں ۔ جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔ حل لغات :۔ انفظرائ۔ فقیر کی جمع ہے ۔ بمعنی محتاج * وزر ۔ بوجھ *۔ فاطر
19 فاطر
20 فاطر
21 فاطر
22 ف 1: غرض یہ ہے کہ اسلام ہے بصارت کا ۔ نور کا ۔ اور سراسر زندگی کا ۔ عظمت وتاریکی ہے ۔ اور موت کے مترادف ہے ۔ اور ان دونوں میں بہت بڑا فرق ہے ۔ یہ ناممکن ہے ۔ درجہ میں دونوں برابری حاصل کرسکیں *۔ فرمایا کہ یہ مکے والے چونکہ جہل وتعصب کی تاریک قبروں میں مدفون ہیں ۔ اس لئے آپ کی جانوں کو نہیں سمجھ سکتے ۔ اور باوجود اس کے کہ اسلام اور کفر میں ایک بین فرق ہے ۔ یہ نہیں محسوس کرسکتے *۔ فاطر
23 فاطر
24 ف 2: اس آیت میں وحدت تعلیم کے نظریہ کو پیش کیا گیا ہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے اور ہر قریہ میں اپنے پیغمبروں کو معبوث فرمایا ہے ۔ اور اپنے پیغام کو ان تک پہنچایا ہے *۔ حل لغات :۔ الحرور ۔ تمازت ۔ دھوپ *۔ فاطر
25 فاطر
26 سرکشی کا نتیجہ ف 1: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مخاطب ہے ۔ کہ آپ اول رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں ہیں ۔ اگر یہ لوگ پیغام الٰہی کے پہلے مخاطب نہیں ہیں ۔ آپ سے پہلے بھی کئی ہزار انبیاء معبوث ہوئے ہیں ۔ اور انہوں نے پوری وضاحت وتفصیل کے ساتھ اللہ کے پیغام کو لوگوں تک پہنچایا ہے ۔ پھر ان پاکبازوں کی آواز کو بھی بدبختان ازلی نے ٹھکرایا ۔ اور اللہ کے حکموں کو ماننے سے انکار کردیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کی غیرت جوش میں آئی ۔ اور اس کا قانون مکافات برروئے کار آیا ۔ چنانچہ قومیں باجود ظاہری شان وشوکت کے صفحہ ہستی سے مٹ گئیں ۔ کہ کوئی ان کو جانتا تک نہیں ہے ۔ اسی طرح مکے کے سرکشوں کا حشر ہونے والا ہے ۔ ان کے آئمہ کفر کو معلوم ہو ۔ کہ تم پیغمبر کی مخالفت کرکی اور عناد ودشمنی کا مظاہرہ کرکے اس کے مقابلہ میں فتح وکامیابی کو حاصل نہیں کرسکتے ۔ یہ مقدرات میں سے ہے ۔ کہ حق وصداقت کی فتح ہو اور باطل ہمیشہ کے لئے دب جائے ۔ پس تم کو متنبہہ کیا جاتا ہے ۔ کہ تاریخ اقوام وطل کی روشنی میں اپنے انکارہ تمردکو دیکھو ۔ اور عبرت وتذکیر حاصل کرو *۔ فاطر
27 ف 2: آپ کی تسکین خاطر کے لئے ارشاد فرمایا ۔ کہ اختلاف اور تنوع کا ہونا فطرت وتکوین کا مقصد ہے ۔ اس لئے آپ ان لوگوں کی گمراہی اور ضلالت پر دکھ محسوس نہ کریں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ چاہتے تو سب کو ہدایت کے ایک مسلک پر گامزن کردیتے ۔ مگر اللہ کی مشیت یہی ہے ۔ کہ کفر و ایمان کا امتیاز باقی رہے ۔ جھوٹ اور سچائی میں فرق قائم رہے ۔ دیکھئے آسمان سے ایک نوع کا پانی برستا ہے ۔ مگر بوقلمون میوے اور پھل پیدا ہوتے ہیں ۔ زمین ایک ہے مگر پہاڑوں کے رنگ مختلف ہیں ۔ اسی طرح انسانوں ، حیوانوں اور دوسرے جانداروں میں ایک کا رنگ دوسرے سے نہیں ملتا ۔ ٹھیک اسی طرح طبائع انسانی میں اختلاف ہے ۔ دلوں اور دماغوں میں اختلاف ہے ۔ ایک دوسرے کی صلاحیتوں اور استعدادوں میں اختلاف ہے ۔ اگر یہ لوگ اس چشمہ ہدایت سے سیرابی حاصل نہیں کرتے ۔ تو کیا ہوا ۔ وہ جاننے والے ہیں ۔ جن کی نظر سابقہ کتب اور صحائف پر ہے ۔ وہ تو حقیقت کو پہچانتے ہیں ۔ ان کے دلوں میں تو خوف خدا کی جھلک ہے ۔ وہ تو آپ کی عظمت ورفعت کا اعتراف کرتے ہیں ۔ حل لغات :۔ الزبر ۔ زبور کی جمع ہے ۔ بمعنی کتابیں ، صحیفے * جدد ۔ جدۃ کی جمع بمعنی راستے * غرابیب ۔ غربیب اس کا واحد ہے ۔ بہت زیادہ سیاہ *۔ فاطر
28 ف 3: علماء کی فضیلت بیان کرنے کے بعد اب یہ بتایا ہے ۔ کہ یہ لوگ واقعی عزت واحترام کے مستحق ہیں ۔ یہ اللہ کی کتاب غوروفکر سے پڑھتے ہیں اور اپنی عبودیت اور اس کی الوہیت کا اقرار کرتے ہیں ۔ اس کے سامنے جھکتے ہیں ۔ اس کی عبادت کرتے اور اپنے مال ودولت میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ۔ فرمایا ۔ کہ ان کی یہ تجارت ایسی ہے جس میں خسارہ کا کوئی اندیشہ نہیں ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی میں برکت پیدا کردیتا ہے ۔ اور اپنے فضل اور قدر دانی سے ان کے اجر میں اضافہ کردیتا ہے *۔ فاطر
29 فاطر
30 فاطر
31 قرآن کا احسان کتب مقدسہ پر ف 1: قرآن حکیم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ مصدق ہے یعنی پہلی تمام کتابوں کو صداقتیں ہیں ۔ ان کی یہ تصدیق کرتا ہے ۔ قرآن کا نزول سے کتب قدیمہ کی یہ حیثیت تھی ۔ کہ ان میں کافی تحریف ہوچکی تھی ۔ اور یہ اتنی بدل چکی تھیں ۔ کہ پابہ اعتبار سے ساتھ ہوگئی تھیں ۔ یہ قرآن کا ان کتابوں پر بہت بڑا احسان ہے ۔ کہ اس نے دوبارہ ان کی تصدیق کی ۔ اور اس روح ومصنویت کی تائید فرمائی ۔ جو باوجود ترمیم واصلاح کے اب تک ان کتابوں میں موجود تھی ۔ اس میں شک نہیں ۔ کہ اگر قرآن مجید نازل نہ ہوتا ۔ تو ابراہیم موسیٰ اور مسیح علیہم السلام کو اور ان کی تعلیمات کو کوئی شخص یقین کے ساتھ نہ جان سکتا ۔ قرآن نے ان کو زندگی بخشی ۔ اور پھر سے ان کتابوں کو یہ مرتبہ ومقام بخشا ہے ۔ کہ لوگ ان میں حق وصداقت کو تلاش کریں *۔ تصدیق کے معنے عربی میں یہ بھی ہوتے ہیں ۔ کہ کتب قدیمہ میں جو پیشگوئیاں تھیں ۔ ان کو قرآن سچا کرکے دکھاتا ہے ۔ یعنی اس کے وجود میں اس کی تعلیمات میں اور اس کے پیغام میں تمام پہلی توقعات پوری ہوجاتی ہیں ۔ تصدیق کے ان معنوں کی تصدیق عربی نعت ومحاورات سے بھی ہوتی ہے جیسے ۔ ع فواریں صدقت فیھم ظنونی یعنی یہ وہ شہسوار ہیں جن میں میری تمام امیدیں برآتی ہیں *۔ فاطر
32 ف 2: بااعتبار اعمال کے مسلمانوں کی تقسیم فرمائی ہے ۔ کہ کچھ لوگ تو وہ ہیں ۔ جو گنہگار اور ظالم ہیں یعنی گو قرآن کو اللہ کی کتاب تسلیم کرتے ۔ مگر عمل میں بتقاضائے بشری سست ہیں ۔ کچھ وہ ہیں جو متوسط درجے کے ہیں ۔ زاہد وتقویٰ کے بلند ترین مراتب پر فائز ہیں ۔ اور نہ فسق وفجور کے عادی ہیں ۔ اور کچھ وہ ہیں جن کی رگ رگ میں اسلام رچا ہوا ہے ۔ جن میں ہر وقت پیش قدمی اور سبقت کا جذبہ متحرک رہتا ہے ۔ جو ہر کار خیر میں بڑھ بڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ فرمایا یہی لوگ اور حقیقت اللہ کے بہت بےفضل کے حامل ہیں *۔ حل لغات :۔ سرا ۔ پوشیدہ طور پر ۔ ریاکاری سے بچنے کے لئے * علانیہ ۔ ظاہر طور پر دوسروں کو نیکی پر آمادہ کرنے کے لئے * تبور ۔ بور سے ہے بمعنی ہلاکت * مقتصد ۔ اقتصاد سے ہے ۔ درمیا کی راہ ، میانہ رو *۔ فاطر
33 فاطر
34 ف 1: جنت اللہ کے فضل و بخشش کا مقام ہے اس لئے اس میں ہر وہ آسودگی اور تنظم وتکلف موجود ہوگا ۔ کہ جس سے اللہ کے نیک بندے دنیا میں محروم رہے تھے بلکہ یہاں ان کو وہ کچھ ملے گا جو اس کے تصور میں بھی نہیں آسکتا ۔ اساورمن ذھب سے مراد ہے ۔ پر عظمت زندگی ۔ جس طرح مشرق میں بادشاہ سونے کے کنگن پہنتے ہیں ۔ اسی طرح یہاں مفلس ونادار مسلمان شان وشکوہ سے مسلح ہوں گے ۔ نہایت عدم النظیر موتی ان کی عبادتوں پر ٹکے ہونگے ۔ اور وہ ریشمی لباس پہنے جنت کی دوشوں پر اٹھلاتے پھریں گے اس وقت شکر کے کلمات ان کی زبان پر ہوں گے ۔ یہ اللہ کی حمد و ستائیس کریں گے ۔ کہ اس نے انہیں ان نعمتوں سے نوازا ہے ۔ غم اور فکر کو دور کیا ہے ۔ اور دائمی ایسے مقام میں جگہ دی ہے جہاں نہ تکان ہے ۔ اور نہ خستگی *۔ حل لغات :۔ اساود ۔ بمعنی کنگن ، جمع اسو وواسوار جمع سوار یعنی اساور جمع الجمع ہے * نصب ۔ تھکن *۔ لغوب ۔ خستگی * فاطر
35 فاطر
36 فاطر
37 آج مکافات کا دن ہے ف 1: وہ لوگ جنہوں نے دنیا میں پانی عمر عزیز کے ہر لمحہ کو سرکشی اور تقرب میں گزارا ہے جس دوزخ میں گریں گے ۔ تو اس وقت چیخ چیخ کر کہیں گے ۔ کہ موالا ایک دفعہ اور ہم کو دستگاری عطا فرما ۔ یقینا اس کے بعد ہمارے اعمال ایسے نہیں ہونگے ۔ جیسے اب ہیں ۔ ہم کوشش کریں گے کہ تیری رضا کو حاصل کیا جائے ۔ جواب ملے گا ۔ کیا تم کو غوروفکر کے لئے اور تذکیروعبرت پذیری کے لئے کافی مہلت نہیں دی گئی ؟ اور تمہارے پاس اللہ کا نذیر بھی تو پہنچا تھا ۔ جس نے تفصیل کے ساتھ عقبے کی اہمیت کو بیان کیا تھا ۔ اور دنیائے دوں کے ان کی طرف اشارہ کیا تھا ۔ آج تو مکافات کا دن ہے ۔ ایسے لوگ جنہوں نے دنیا میں کبھی آخرت کے متعلق غور نہیں کیا ۔ اور ہمیشہ ذہنی وفکری لحاظ سے اپنی عقل وتبینش پر ظلم کیا ہے ۔ آج سزا کے مستحق ہیں ۔ ان کے لئے کوئی مدد اور نصرت نہیں ہے * فاطر
38 علم غیب ف 2: یعنی خدا غیب کی باتوں کو جانتا ہے ۔ وہ آسمانوں اور زمین کی وستعوں میں جو کچھ مستور ہے ۔ سب سے آگاہ ہے ۔ اس کو سینے کے بھید تک معلوم ہیں ۔ اس لئے طبعات وہ ان تمام سازشوں اور حیلو کاریوں سے واقف ہے ۔ جو اسلام اور صاحب اسلام کی مخالفت میں اختیار کی جاتی ہیں ۔ مکے والوں کو بتایا ہے ۔ کہ تم یہ نہ سمجھو ۔ کہ تمہاری فریب کارانہ چالیں پردہ خطا میں میں رہیں گی بلکہ علام الغیوب خدا ایک ایک بھید کو آشکارا کریگا ۔ اور تمہیں ذلیل کردیگا *۔ یہ ملحوظ رہے کہ علم غیب کا انتساب جب اللہ کی طرف ہے ۔ تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ تمام باتیں جو انسانی عقل وشعور سے اوجھل ہیں ۔ وہ ان کو بغیر کسی وسیلہ یا ذریعہ کے جانتا ہے ۔ واضح تر الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے ۔ کہ کائنات کے تمام اسرار ورموز اس کے آئنہ علم میں مرقسم ہیں ۔ اور وہ بغیر کسی جدوجہد کے تمام حقائق وفطرت سے براہ راست واقفیت رکھتا ہے ۔ اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ تنہا وہی عالم الغیب ہے ۔ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص اس قابل نہیں ہے کہ براہ راست بغیر کسی منطقی وسیلے کے کسی ایک چیز کے متعلق بھی معلومات رکھ سکے ۔ یہ بات خدائے قیوم سے مختص ہے ۔ انسان کا علم محدود ہے ۔ وسائل وذرائع کی احتیاج سے ہے ۔ اور موجیت ہے ۔ حل لغات :۔ خلئف ۔ خلیفہ کی جمع ہے ۔ نائب اور جانشین * فاطر
39 خلافت کا اعزاز ف 1: اللہ تعالیٰ نے انسان کو خلافت کے اعزاز سے نوازنا ہے ۔ اور کائنات میں اس کے رتبہ کو سب سے بلند رکھا ہے ۔ اس لئے اس سے توقع ہے کہ یہ اقوام صالحہ کا صحیح معنوں میں جانشین ہوگا ۔ یا صفات الٰہیہ کا پورے طور پر مظہر ہوگا ۔ زمین کی قیادت اس کے سپرد ہے ۔ اور ساری کائنات اس کے مسختر ہے ۔ مگر یہ ہے کہ شرک وکفر کی پستیوں اور ذلتوں میں گرفتار ہے ۔ فرمایا ۔ تم یہ سمجھ لو کہ تمہاری گمراہی سے صرف تمہیں نقصان پہنچے گا ۔ اور صرف تم اللہ کی ناراضی اور غضب خریدوگے ۔ کیونکہ کفر کی فطرت ہی میں گھاٹا اور خسارہ ہے ۔ اس لئے ناممکن ہے ۔ کہ تم اس کو اختیار کرے دین اور دنیا کی بہتری حاصل کرسکو * حل لغات :۔ مقتا ۔ ناراضی *۔ فاطر
40 فاطر
41 اللہ حلیم اور غفور ہے ف 1: اس حقیقت طبیعہ کے اظہار کے بعد کہ محض اللہ کے دست قدرت نے اجرام علوی وسفلی کو تھام رکھا ہے ۔ اور ان کو قائم کررکھا ہے ۔ یہ کہنا کہ وہ حلیم اور غفور ہے ۔ اس انتباہ کی طرف تلمیح ہے کہ جہاں تک تمہارے گناہوں کا تعلق ہے ۔ تمہاری سرکشی اور تمرہ کا تقاضا ہے ۔ ان اجرام کو باہم متصادم ہوکر تم پر گرجانا چاہئے تھا ۔ اور تمہاری اس پر از معصیت زندگی کو ختم کردینا چاہیے تھا ۔ یہ تو محض اللہ کا علم اللہ سے آرہا ہے ۔ اور اس کا فضل روک رہا ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ خدائے برتر بدرجہ غایت بردباراہ ۔ متحمل مزاج ہے ۔ اور اپے بندوں سے محبت رکھنا ہے ۔ ورنہ تمہارے اعمال بد کا نتیجہ یہی ہونا چاہئے ۔ کہ تمہارے ناپاک وجود سے اللہ کی زمین یک ظلم پاک ہوجائے *۔ فاطر
42 فاطر
43 ف 2: وہ سب سے بڑا گناہ جس کی وجہ سے ان پر آسمان کو گرپڑنا چاہیے ۔ اور زمین کو پھٹ جانا چاہیے ۔ یہ ہے کہ انہوں نے باوجود عہد ومواثیق کیا للہ کے پیغام کو ٹھکرایا ۔ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تذلیل کی ۔ اور اپنے طرز عمل سے سخت نفرت اور بیزاری کا اظہار کیا ۔ حالانکہ کہتے یہ تھے ۔ کہ اگر ہمارے پاس کوئی نذیر آیا ۔ تو اس کا بڑھ کر خیرمقدم کریں گے ۔ اور تمام لوگوں سے زیادہ ہدایت حاصل کرینگے پھر صرف محرومی اور انکار پر بس نہیں کی ۔ کہ یہ ان کی شقاوت کے لئے کافی تھا ۔ بلکہ ازراہ کبر وغرور اس نوع کی مساعی بھی اختیار کیں جن سے حضور کو نقصان پہنچے ۔ اور اسلام کا علم سرنگوں ہوجائے ۔ فرمایا یہ لوگ اپنے ارادوں میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ بری تدبیریں اور فریب کاریاں بالآخر انہی لوگوں کو گھیر لیں گی ۔ اور ان کی زندگی کو اجیرن کردیں گی ۔ ان لوگوں کو سنت اللہ کا انتظار ہے ۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے ۔ کہ اللہ کے قانون کے نفاذ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی *۔ یہ یاد رہے کہ سنت اللہ کا اطلاق قرآن میں صرف قانون تعذیب پر ہوتا ہے ۔ اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ مکافات احتمال کے ضابطے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ ہر قوم اور ہرگز وہ جب اللہ کے احکام کو ٹھکرا دے اور ان کی تذلیل کرے ۔ تو فطرت کی طرف لازم ہوجاتا ہے ۔ کہ ان کو وان کے اس طرز عمل کی سزا دے اور دوسروں کے لئے عبرت وموعظت کا سامان پیدا کرے *۔ حل لغات :۔ جھد ایمانھم ۔ پکی قسمیں * مکروالسئی ۔ بری تدبیر ۔ فریب کاری * لسنت اللہ ۔ سنت اللہ کے منے راہ ورش اور عادت کے ہیں ۔ سنت اللہ سے مراد ہے اللہ کا قانون مکافات اس لفظ میں یہاں استعمال کے لحاظ سے وہ عموم نہیں ہے ۔ جو بعض لوگوں نے سمجھ رکھا ہے *۔ فاطر
44 ف 1: یعنی ان لوگوں کو جو نشہ قوت میں مست ہیں یہ نہ سمجھ لینا چاہیے ۔ کہ اللہ کا عذاب ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے گا ۔ کیونکہ اس دنیا میں ان سے کہیں زیادہ طاقت ور قومیں آباد ہوئی ہیں ۔ مگر جب انہوں نے اللہ کے قانون حیات کی مخالفت کی ہے ۔ حرف غلط کی طرح مٹ گئی ہیں ۔ اور ان کے ابوانوں اور محلات میں سے صرف کھنڈرات کی صورت میں باقی ہیں ۔ جو ان کی بیچارگی پر ماتک کناں ہیں ان فریب خوردگان شراب مستی کو چاہیے کہ ان اقوام ولیل کی تاریخ کو ان کے آثار باقیہ میں تلاش کریں اور معلوم کریں ۔ کہ کیا کوئی قوم اپنی مادی شان وشوکت کی وجہ سے عذاب الٰہی سے بچ سکی ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سزا کے لئے ایک دن مقرر کررکھا ہے ۔ اس لئے درمیان کے اس عرصہ میں وہ لوگوں سے کوئی تعرض نہیں کرتا ۔ ورنہ اگر وہ فوری مواخذہ شروع کردے ۔ تو کوئی نفس اس کی گرفت سے نہ بچ سکے ۔ فاطر
45 فاطر
0 يس
1 ف 1: یہ سورۃ مکی ہے ۔ اس میں وہی مضامین ہیں جو تمام مکی سورتوں میں پائے جاتے ہیں ۔ یعنی قرآن کے فضائل اور محسامد رسالت کا ذکر اور توحید کا تذکرہ یا حسر ونشر کے متعلق شکوک وشبہات کا بیان اور ان کا ازالہ *۔ قرآن میں جہاں جہاں قسمیں آئی ہیں ۔ وہاں ان سے مراد ایک قسم کا استشہاد اور استدلال ہوتا ہے ۔ مثلاً یہاں قرآن حکیم کو بطور مقسم بہ کے ذکر کیا ہے ۔ اور اس کے بعد فرمایا ہے کہ آپ بلاشبہ اللہ کے رسول ہیں ۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کی نبوت اور رسالت پر بہترین دلیل خودیہ صحیفہ حکمت ہے ۔ اس میں جنتا غور کیجئے گا ۔ آپ کو معلوم ہوگا ۔ کہ یہ حیرت انگیز کتاب ہے ۔ اس کی بلاغت اس کا معارف سے معمور ہونا ۔ اس کا ایک خاص پیغام کا حامل ہونا ور مدلل ومبرمین ہونا ۔ یہ سب باتیں اس حقیقت پر شاہد عدل ہیں ۔ کہ یہ کتاب کسی انسان کے دماغ کا نتیجہ نہیں ہے ۔ پھر اس میں ایسے علمی خوارق ہیں ۔ جن پر کوئی بشر پہلے سے آگاہ نہیں ہوسکتا ۔ یہ واقعہ ہے ۔ کہ انسانوں کے لئے اس سے بڑا معجزہ اور کوئی نہیں ہوسکتا ۔ کہ ایک امی آج سے چودہ سو سال قبل ایک ایسی کتاب پیش کرے ۔ جو آج بھی نہ صرف لائق عمل ہو بلکہ واجب العمل ہو ۔ اور آج بھی جو مذہب کا تخیل پیش کرے ۔ وہ انسانی عقول نے صدیوں کے علم کے بعد حاصل کیا ہے ۔ اسی لئے ارشاد فرمایا ہے ۔ کہ اس قرآن حکیم کو دیکھو ۔ اس کی خوبیوں کی تخیل کرو ۔ اس کے فضائل کو ٹٹولو ۔ اور اس کے پیغام کو بنگاہ وقت وعبرت دیکھو ۔ تم بول اٹھو گے ۔ کہ اس کو پیش کرنے والا اللہ کا رسول ہے ۔ اور یہ ایسی کتاب ہے جو صراط مستقیم کی جانب دعوت دیتی ہے ۔ اور عزت ورحمت کا سزا وار بنادیتی ہے ۔ یہ اتمام حجت ہے ۔ ان لوگوں پر جو اس سے پیشتر فیوض نبوت سے محروم رہے ہیں ۔ اور جن کی یہ خواہش رہی ہے ۔ کہ ہم میں بھی کوئی پیغمبر مبعوث ہو ۔ جو ہمارے لئے شرف ومجد کا موجب ہو ۔ مگر اب جب ان کی آرزو پوری ہوچکی ہے ۔ اور اللہ کے فضل سے ایک داعی نے انہیں بیدار کرنا شروع کردیا ہے ۔ تو یہ اور زیادہ الجھ رہے ہیں ۔ اور عمداً صداقت کا انکار کررہے ہیں ۔ ان کے لئے فطرت کا فیصلہ یہی ہے ۔ کہ یہ ایمان کی دولت سے قطعی محروم رہیں ۔ ان کی گردنوں میں رسم ورواج کے گرانبار طوق پڑے ہیں ۔ اور ان کے آگے اور پیچھے تعصب وخود پسندی کی دیواریں کھڑی ہیں ۔ اس لئے ان میں یہ استعداد ہی نہیں رہی ۔ کہ ہدایت کو قبول کرسکیں اور حقائق کر دیکھ سکیں ۔ فرمایا کہ آپ چاہے ان کو کتنا ہی خشیت اور خوف الٰہی سے متائر کریں ۔ ان پر مطلق اثر نہیں ہوگا ۔ ان کے دلوں میں وہ شئے لطیف ہی نہیں ہے اور وہ جس ہی موجود نہیں ۔ جو ایمان کا ذریعہ بن سکے ۔ کیونکہ متاثر تو وہ ہوتا ہے ۔ اور قلب تو اس شخص کا انوار قرآنی سے روشن ہوتا ہے ۔ جو قرآن کی پیروی کرے اور اس کی یہ خواہش ہو کہ قرآن کی برکتوں اور سعادتوں سے اپنا دامن بھرلے ۔ وہ رحمن سے ڈرتا ہے ۔ حالانکہ اس نے اس کو دیکھا تک نہیں ہے ۔ یہی لوگ درحقیقت بخشش اور اجر کے مستحق ہیں ۔ اور اس لائق ہیں ۔ کہ آپ ان کو باقاعدہ ان کی کامیابی پر خوشخبری سنائیں *۔ حل لغات :۔ اغلالا ۔ غل کی جمع ہے ۔ بمعنی طوق آہنی ، عدم ابتداء سے کنایہ ہے * الاذقان ۔ ذقن کی جمع ہے ۔ بمعنے ٹھوڑی * سدا ۔ دیوار *۔ يس
2 يس
3 يس
4 يس
5 يس
6 يس
7 يس
8 يس
9 يس
10 يس
11 يس
12 ضبط اعمال کا نظریہ ف 1: ضبط اعمال کانظریہ قرآن حکیم نے پیش فرمایا ہے ۔ اور یہ نظریہ ان محترعات علمی سے ہے جن کو آج پیش کیا جارہا ہے ۔ جہاں تک گفتگو کا تعلق تھا ۔ اب یہ مشاہدہ ہے ۔ کہ ہر لفظ جو زبان سے نکلتا ہے ۔ پتھر کے تموجات اس کو فضا میں پھیلا دیتے ہیں ۔ اور وہ گم نہیں ہوتا ۔ اور اگر کہیں ایسے آلات نصب ہوں ۔ جو ان تموجات کو اپنی گرفت میں لے سکیں ۔ تو فضا میں منتشر اقوال صاف سنائی دینے لگتے ہیں ۔ چاہے متکلم اور سامع میں ہزاروں کوس کا فاصلہ ہوا ۔ اس طرح یہ بھی صحیح ہے ۔ کہ نفس اعمال کے الزات بھی ضائع نہیں جاتے ۔ فضا میں ایسے برقی ذرات ہیں (الیکڑان) جو ان کو زندہ جاوید بنا دیتے ہیں ۔ مگر ابھی تک یہ نہیں معلوم ہوسکا ۔ کہ ان اعمال کے ضبط کی کیا ضرورت ہے ۔ بہرحال یہ مسئلہ کہ فرشتے اعمال کو لکھ لیتے ہیں ۔ صرف مذہبی افسانہ نہیں رہا ہے ۔ بلکہ یہ ایک طبعی حقیقت بن گیا ہے ۔ اور انسانی علم جس قدر آگے بڑھے گا ۔ وہ یہ دیکھے گا ۔ کہ مذہب اور سائنس کی حدود آپس میں مل رہی ہیں ۔ اور ان میں کوئی اختلاف نہیں ۔ يس
13 يس
14 يس
15 ف 2: قرآن حکیم نے جن واقعات کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور کتب احادیث میں بھی انکا کوئی مذکور نہیں ہے ۔ ان کو اسی رنگ میں سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے ۔ جس رنگ میں کہ قرآن نے بیان کیا ہے ۔ کیونکہ اگر تفصیلات کا ذکر کرنانفس ابتداء کے لئے ضروری ہوتا ۔ تو وہ ضرور ظاہر کردی جاتیں ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے ایک قوم کا ذکر کیا ہے ؟ وہ کون لوگ تھے ؟ کس زمانے میں ہوئے یہ جاننا ضروری نہیں ہے ۔ بس یہ جان لیجئے ۔ کہ ایک قوم تھی ۔ ان کے پاس اللہ کے دو رسول آئے ۔ مگر انہوں نے ان کے پیغام کو ٹھکرا دیا ۔ پھر اللہ نے تیسرے رسول کو بھیجا ۔ اور ان تینوں نے مل کر کام کیا اور کہا ۔ کہ ہم کی طرف سے تمہارے پاس مبعوث ہوکر آئے ہیں ۔ انہوں نے جواب دیا ۔ کہ تم کیونکر رسول ہوسکتے ہو ۔ جب کہ تمہاری حالت ہم سے مختلف نہیں ہے ۔ تم بھی انسان ہو ۔ اور ہم بھی انسان ہیں ۔ تم محض جھوٹ بولتے ہو ان کے نقطہ نگاہ میں نبوت کے لئے ضروری تھا ۔ کہ وہ بشر نہ ہوں ۔ انبیاء نے جواب دیا ۔ کہ ہمارا خدا جانتا ہے ہم جھوٹ نہیں بولتے ۔ ہم اسی کی طرف سے مامور ہوکر آئے ہیں ۔ ہمارا کام محض یہ تھا ۔ کہ اتمام حجت کے طور پر اس کا پیغام تم تک پہنچادیں ۔ اب اگر تم نہیں مانتے ہو ۔ تو اس کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی ۔ ان بدبختوں نے کہا کہ تمہارے پیغام میں ہمارے لئے کوئی سعادت موجود نہیں ۔ بلکہ ہم تمہیں منحوس خیال کرتے ہیں ۔ اور اگر تم اس طرح وعظ ونصیحت سے باز نہ آئے ۔ تو پھر ہم تم کو ہلاک کرڈالیں گے ۔ اور سخت تکلیف پہنچائیں ۔ حل لغات :۔ اثارھم ۔ اعمال * فعززنا ۔ عزت سے ہے یعنی تیسرے کے ساتھ قوت و استحکام بخشا ۔ يس
16 يس
17 يس
18 يس
19 يس
20 ف 2: اللہ کے ان رسولوں نے جب یہ سنا تو فرمایا نحوست ومحرومی تو تمہارے حصہ میں آئی ہے ۔ خدا سے نہیں ڈرتے ہو ۔ کیا وعظ ونصیحت کے معنے نحوست کی طرف دعوت دیتا ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ تمہارے نفس توازن کھوچکے ہیں ۔ اور تم مسرف لوگوں میں سے ہو ۔ اتنے میں ان لوگوں میں سے ایک آدمی کو اللہ نے توفیق ہدایت دی ۔ اور وہ بھاگا ہوا آیا اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہنے لگا کہ یہ خدا کا پیغمبر ہیں ۔ ان کا تتبع کرو ۔ دیکھو وہ تم سے اجر اور صلہ نہیں مانگتے ۔ خودراہ راست پر گامزن ہیں اور تم کو بھی صراط مستقیم پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں ۔ سارے قصہ سے مقصود یہ ہے کہ حضور کو تسلی دی جائے اور بتایا جائے ۔ کہ آپ سے پہلے بھی انبیاء آئے ہیں ۔ اور لوگوں نے سختی سے ان کی تکذیب کی ہے ۔ پھر ان میں سے بعض لوگوں کو اللہ نے ہدایت کے لئے چن بھی لیا ہے ۔ جنہوں نے اپنی گمراہ قوم کی مخالفت کرکے دین قویم کو تھام لیا ہے ۔ اس لئے مایوس نہ ہوں ۔ انہیں مکے والوں میں اللہ تعالیٰ ایسے تفوس قد سیہ پیدا کردے گا جو آپ پر ایمان لائیں گے ۔ اور آپ کے دست حق پرست پر بعیت کریں گے ۔ حل لغات :۔ تطیرنا ۔ طائر سے ہے ۔ عرب پرندوں سے بدحالی لیتے ہیں ۔ اس لئے تطیر کے معنے منحوس سمجھنے کے ہیں *۔ يس
21 يس
22 يس
23 میں کیوں خدا کی عبادت نہ کروں ؟ ف 1: جب کسی قوم نے اللہ کے رسولوں کی مخالفت کی اور اس کے پیغام کو ٹھکرایا ۔ تو انہیں میں ایک مرد مومن اٹھا اور جس نے ان کی ہمنوائی کی ۔ اس نے کہا کہ اے قوم تم مجھے توحید پر ملامت کرتے ہو اور کہتے ہو کہ میں ایک خدا کی پرستش کیوں کرتا ہوں ۔ مجھے تو اس بات میں کوئی وجہ معقول نظر نہیں آتی ۔ کہ رب فاطر کو چھوڑ کر دوسروں کے سامنے جھکوں ۔ آخر کیوں نہ میں اس کی عبادت کروں ۔ جس نے مجھے وجوہ کی نعمت سے نواز ہے ۔ اور پھر بالآخر اسی کی جانب لوٹ جانا ہے ۔ کیا تمہاری رائے ہے ۔ کہ میں خدا کو چھوڑ دوں اور ایسے معبودان باطل کو اپنا خدا سمجھ لوں ۔ جن کا کائنات میں کوئی حصہ نہیں ۔ جو اختیارات سے محروم ہیں ۔ اور اگر مجھے کوئی تکلیف پہنچے تو اس کو دور نہ کرسکیں ۔ اور نہ دور کرنے کی سفارش کرسکیں ۔ اگر میں ایسی بےاختیار شخصیتوں کے سامنے سر نہ جھکاؤں تو کیا یہ کھلی گھراہی نہ ہوگی *۔ اس مرد مومن کے طرز استدلال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عقیدہ توحید کو اپنے ذاتی وجدان کے معیار پر رکھ رہا ہے ۔ اور وہ اپنے قلب کی آواز کو بیان کررہا ہے ۔ وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ میرا دل تو اس رب کے احسانات سے معمور ہے ۔ جو میرا مالک اور آقا ہے ۔ اب میں اس خدا کو جو میری ساری کائنات پر چھارہا ہے کیسے چھوڑ دوں ؟ کیا مٹی کے بیجان بتوں کے لئے ؟ پتھر کے بےحس مجسموں کے لئے ؟ مورتیوں کے لئے ۔ مجھے تو ان میں کوئی زندگی نظر نہیں آتی ۔ یہ کیونکر میری تکلیفوں کو دور کرسکیں گے ؟ ان اصنام میں یہ قدرت کہاں ہے کہ مصیبت زدہ انسان کی دستگیری کرسکیں ؟ پھر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ مرنے کے بعد اسی خدا کے حضور میں پیش ہونا ہے ۔ اگر اس نے پوچھا تو جواب کیا ہوگا ؟ جبکہ بت پرستی پر اپنا ہی دل مطمئن نہیں ۔ تو ہم کس طرح اللہ تعالیٰ کو اس کے متعلق مطمئن کرسکیں گے ۔ حقیقت تو یہ ہے ۔ کہ اگر انسان بالکل خالی الذہن ہوکر اس مسئلہ پر غور کرے اور خود اپنی فطرت کو راہنما ٹھہرائے تو ناممکن ہے کہ بجز توحید کے وہ کسی دوسرے مخالف نظرئیے کو تسلیم کرسکے * يس
24 يس
25 يس
26 يس
27 ف 2: اس مرد مومن نے قوم کی مخالفت کی اور سختی کے ساتھ ان مقصدات پر تنقید کی ۔ نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ قوم میں عداوت کے جذبات بھڑک اٹھے اور وہ اس کی جان کے لاگو ہوگئے اور اس کو شہید کرکے انپے زعم میں انہوں نے اس کو حیات عارضی کی نعمتوں سے محروم کردیا ۔ مگر وہاں فرشتوں نے اس کا خیر مقدم کیا ۔ اور کہا ۔ کہ آؤ جنت میں تمہارا مقام ہے ۔ اور ایمان کی یہ گراں قیمت ادا کرنے پر تمہارے لئے یہ دائمی ، مقامات ہیں ۔ اس وقت اس کے دل میں اپنی بدبخت قوم کی شقاوت کے متعلق خیال آیا ۔ اس نے کہا اے کاش ان لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے کن مکرمات کا انتظام کررکھا ہے ۔ حل لغات : ینقدؤن ۔ انقاذ سے ہے جس کے معنے چھڑانے کے ہیں ۔ جند ۔ لشکر ۔ صحیحہۃ سخت آواز * يس
28 يس
29 ف 3: اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمان قدروقیمت کے لحاظ سے ساری کائنات پر خالق ہے ۔ اس لئے اس کو تکلیف دینا گویا اللہ کی غیرت کو چیلنج دیتا ہے ۔ چنانچہ جب ان محرومان ازل نے اس مرد جانباز کو شہید کردیا ۔ تو اللہ کا غضب بھڑکا اور ایک سخت تنیز آواز نے ان کی شمع حیات کوفی الفور بجھا کر رکھ دیا اور خرمن زندگی کو یکسر خاکستر کردیا ۔ يس
30 ف 1: غرض یہ ہے جب انکار وسرکشی کی سزا ہلاکت ہے اور اقوام وعلل کی تاریخ بتارہی ہے ۔ کہ جب بھی اللہ کے پیغام کو ٹھکرایا گیا ہے موت اور تباہی نے آگھیرا ہے ۔ اور ناممکن ہے کہ کوئی گروہ اللہ کے اس قانون مکافات سے بچ سکے اور جب یہ بھی صحیح ہے کہ سب لوگوں کو خدا کے حضور میں پیش ہونا ضرور ہے اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے ۔ تو پھر اس کفر کا فائدہ کیوں نہ سب لوگ اس کی چوکھٹ پر جھکیں ۔ اور اس کی عظمت کا اقرار کریں ؟ کیوں نہ اس کے رسول کو عزت واحترام کی نگاہوں سے دیکھیں ۔ اور اپنی زندگی سنوار لیں ۔ کیوں نہ ایسا ہو کہ سب لوگ ایک رنگ میں نظر آئیں ۔ سب خدا کے پرستار نہیں ۔ سب کے دلوں میں خدا محبت ہو ۔ سب اسی سے ڈریں ۔ اور اسی سے ہر طرح بھلائی کی امید رکھیں *۔ يس
31 يس
32 يس
33 فطرت کے انعامات ف 2: ان آیات میں مظاہر فطرات کی جانب متوجہ کیا ہے ۔ فرمایا ہے کہ تم دیکھوں عنایات الٰہیہ نے تمہیں کس درجہ مسنون کر رکھا ہے ۔ تمہارے کھیت جب سوکھ جاتے ہیں اور تمہارے باغات جب خشک اور خزاں پذیر ہوجاتے ہیں ۔ اس وقت اللہ اپنی قدرت کاملہ سے ان میں زندگی کی روح پھونک دیتا ہے ۔ اور وہ مردہ زمین زندہ ہوجاتی ہے ۔ پھر اس میں غلہ پیدا ہوتا ہے ۔ اور تم اس کو کھاتے ہو ۔ پھر یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ اس نے تمہارے لئے زمین میں عمدہ عمدہ باغات پیدا کر رکھے ہیں جن میں کھجوریں اور انگور ہوتے ہیں ۔ اور ان باغات میں چشمے جاری ہیں ۔ تم ان پھلوں کو کھاتے ہو ۔ حالانکہ اس میں تمہاری صنعت کاری کو کوئی دخل نہیں ۔ تو کیا وہ خدا اس لائق نہیں ۔ کہ تم اس کا شکر ادا کرو *۔ حل لغات :۔ لما ۔ اس جگہ حرف استشا کے معنوں میں ہے * اعناب ۔ عنب کی جمع ہے ۔ بمعنی انگور * العیون ۔ جمع ہے عین کی ۔ بمعنے چشمے *۔ يس
34 يس
35 يس
36 ف 1: وہ کس قدر پاک اور بلند ذات ہے جس نے بوقلموں نباتات کو پدیا کیا ۔ اور گوناگوں انسانوں کو بنایا ہے ۔ اور ایسی چیزیں بھی پیدا کی ہیں ۔ جن کو عام لوگ نہیں جانتے ۔ سوچنے والوں کے لئے اس بات میں بھی بڑی نشانی ہے کہ وہ کیونکر رات کی تاریک فضا سے دن کو اجالا نمودار کرتا ہے اور دن پر سے جب اس کے سفید لبادے کو اتارر دیتا ہے ۔ تو کس طرح سے لوگ اندھیرے میں پڑے رہ جاتے ہیں ۔ آفتا کے لئے حرکت کا ایک اندازہ مقرر ہے ۔ اسی طرح چاند کی بھی منزلیں ہیں ۔ جن میں سے وہ گزرتا ہے کبھی ہلال ہوتا ہے کبھی بدر منیر ہوکر چمکتا ہے اور کبھی کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح باریک ہوجاتا ہے پھر اپنی اصلی حالت پر آجاتا ہے ۔ کیا یہ سب حقائق اس قابل نہیں ہیں کہ تمہاری فطرت کا ابھار سکیں ۔ اور تمہیں توحید کے جلوں سے آگاہ کرسکیں ؟ تم اگر کائنات میں حلیمانہ انداز سے سوچو گے ۔ اور ان نعمتوں پر غور کرو گے ، تو تمہاری نظریں ضرور بلند ہوجائیں گی ۔ اور تم ضرور سچے خدا کے پرستار بن جاؤ گے ۔ اس مشاہد سے تمہارے دلوں میں فطرت کی سادگی اور صداقت کا یقین پیدا ہوجائیگا ۔ اور تم شکوک کی بھول بھلیوں سے نکل کر توحید کے کھلے اور کشادہ صحن میں آجاؤ گے *۔ يس
37 يس
38 يس
39 يس
40 قرآن اور نظریات جدیدہ ف 2: یہ مسئلہ کہ آفتاب گھومتا ہے یا زمین اور چاند کی گردش کس نوع کی ہے ؟ اس کا تعلق مذہب کے ساتھ بالکل نہیں ہے ۔ یہ فلکیات کی بحث میں ہے اور مذہب کا موضوع بحث یہ ہے ۔ کہ کس طرح دلوں کو شرک کی آلودگیوں سے پاک کیا جاسکتا ہے ؟ اور کیونکر انسانوں کو فلاح وبہبود کا درس دیاجاسکتا ہے ۔ مذہب ان مسائل سے تعرض کرتا ہے ۔ کہ وہ کون تعلیمات ہیں ۔ جو لحمہ انسانی کے لئے باعث برکت وسعادت قرار پاسکتی ہیں ۔ اور وہ کون پیغام ہے جس کو اللہ کا پیغام کہا جاسکتا ہے ۔ یہ سائل کہ زمین پپٹی ہے گول ۔ ستاروں کی حرکت مداری ہے یا محوری آفتاب کی روشنی کس نوع کی ہے ۔ کسوف وخسوف کے واقعات کیوں ظہور پذیر ہوتے ہیں ۔ یہ سب مذہب کی حدود سے باہر ہیں ۔ اس لئے بالطیع ان مسائل کو قرآن ، بائبل ، اور دیگر مذہبی کتابوں میں تلاش کرنا چاہیے ۔ ان مذہبی کتابوں میں اگر اس نوع کے اشارات آتے ہیں ۔ تو وہ اس نہج سے نہیں ۔ کہ یہ مذہبی کتابیں کسی خالص زاویہ نگاہ کی موید ہوتی ہیں ۔ بلکہ محض برسبیل استطراء ان سے مقصود کسی دوسری حقیقت کو بیان کرنا ہوتا ہے ۔ جو اپنی جگہ پر بالکل صحیح اور اٹل ہوتی ہے ۔ مثلا جب یہ فرمایا ہے کہ آفتاب اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہنا ہے ۔ تو اس سے یہ غرض نہیں ہے کہ آفتاب حرکت کرتا رہتا ہے ۔ بلکہ یہ مراد ہے ۔ کہ آفتاب کا طلوع و غروب ایک مقرر انداز کے مطابق ہے ۔ جس کی تفسیر عاانک تقدیر العزیز العلیم کہہ کر خود فرمادی جس کے خلاف نہیں ہوتا ۔ اسی طرح چاند کی منازل بیان کرنے میں اس کی مختلف حالتوں کی طرف اشارہ مقصود ہے اور یہ بتایا ہے کہ اللہ کا نظام کس درجہ حیرت اور عبرت پیدا کرنیوالا ہے ۔ اور کل فی خطک یسبحون بھی ہی قبیل سے ہے ۔ یعنی ایک اس حقیقت کو بیان کیا ہے جس کو ہم مشاہدہ کرتے ہیں ۔ اس کی تحقیق سے بحث نہیں بہر آئینہ قرآن میں جہاں اس نوع کے وواقعات آئے ہیں ۔ ان سے مراد اللہ کی قدرتوں پر استیہاء ہوتا ہے کسی طبعی حقیقت کا اظہار نہیں ۔ اس ضمن میں یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے ۔ کہ طبعیات اور فلکیات کے نظرئیے ہمیشہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور یہ ضروری نہیں ۔ کہ ہم ان کی قسمت کے متعلق یقین رکھیں ۔ اور جب یہ دیکھیں کہ قرآن کے پیش کردہ نظریہ میں اور اس میں تصادم ہے تو قرآن میں تاویل کرنے لگیں ۔ کیونکہ قرآن میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے وہ قطعی دھیمی ہے گو اس کی حقیقت ہمیں نہ معلوم ہو ۔ اور نظریات ہر آن معرض بحث میں ہیں ۔ آج کچھ میں اور کل کچھ چنانچہ زمین کی گردش ہی کے متعلق دیکھ لیجئے ! اب پھر ایک گروہ پیدا ہوگیا ہے ۔ جو اس کا انکار کررہا ہے ۔ اور ہی پرانا نظریہ ان کے نزدیک صحیح ہے ان حالات میں قرآن کو نظریات کا موافق بنانے کی کوشش کرنا محض بےشود ہے ۔ حل لغات :۔ لمستقر ۔ ٹھکانا * یسجون ۔ پتے ہیں ۔ تیررہے ہیں ۔ یہ عرف معنوی ہے اظہار حقیقت نہیں ۔ ائمشحون ۔ مملو * صریخ ۔ فریاد رس ۔ صراح سے ہے ۔ جس کے معنے مدد کے لئے چیخ وپکار کرنا ہے ۔ يس
41 يس
42 يس
43 يس
44 يس
45 يس
46 يس
47 يس
48 يس
49 يس
50 يس
51 نرسنگا پھونکا جائے گا ف 1: نفحہ ثانثہ مردہ قالبوں میں زندگی پیدا کردے گا ۔ اور قرنوں سے تیل نکل کر خدا کے حضور میں پہنچنے لگیں گے ۔ اور قبروں سے تیل نکل کر خدا کے حضور میں پہنچنے لگیں گے ۔ اس وقت یہ لوگ حیرت وتعجب سے کہیں گے ، کہ ہم کو ان خواب گاہوں سے کس نے اٹھا دیا ۔ ارشاد ہوگا ۔ کہ یہ وہی قیامت ہے ۔ جس کا ہم سب سے رحمن نے وعدہ کیا تھا ۔ اور پیغمبر سچ کہتے تھے ۔ ہوسکتا ہے کہ صور کی آواز بذاتہ موت اور زندگی پیدا کرنے میں موثر ہو ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہیہ آواز محض ایک نوع کا اعلان ہو ۔ اور موخر دوسرے اسباب ہوں ۔ بہرحال جہاں تک قرآن حکیم کا تعلق ہے ۔ اس میں اس حقیقت شرعیہ کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ کہ وہ دفعہ نرسنگا پھونکا جائے گا ۔ ایک دفعہ تو اس کا اثر یہ ہوگا کہ ساری کائنات موت کی نیند سوجائے گی اور دوسری دفعہ یہ اثر ہوگا کہ پھر اس نیند سے بیدار ہوجائے گی ۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ اس کا انکار کیا جائے ۔ جب کہ آواز کی تاثیر کو انسانی جذبات محبت و غضب میں بہت بڑا دخل ہے ۔ بلکہ بعض اوقات تو یہ اثر حیوانات اور جمادات تک ممتد ہوجاتا ہے ۔ ان حالات میں آواز کی ایک ایسی مہیب صورت سمجھ میں آسکتی ہے ۔ جو فناء عالم پر منتج ہو ۔ اور اسی طرح یہ بھی قابل فہم حقیقت ہے کہ آواز ایسی حیات بخش اور زندگی آفرین ہو ۔ کہ صدیوں کے مرے ہوئے لوگوں میں حرارت زیسیت پیدا ہوجائے ۔ اور یہ امکانات اس وقت اور زیادہ قوی ہوجاتے ہیں ۔ جب کہ علیم وسکیم خدا اس کی زندگی اور موت کا وسیلہ قراردے ۔ موت کے بعد گو سزا وجزا کا قانون باقاعدہ نافذ نہیں ہوتا ہے ۔ مگر ہر شخص اپنے سابقہ اعمال اور سابقہ تجربات کی روشنی میں راحت ورنج ضرور محسوس کرتا ہے ۔ اور وہ اپنا مقام قطعاً دیکھ لیتا ہے ۔ کہ کہاں واقع ہے اس لئے اگر نیک اور صالح ہو ۔ تو مسرت واجتہاج کے جذبات سے معمور ہوجاتا ہے ۔ اور بڑا اور فاسق وفاجر ہو ۔ تو غم واندوہ کے احساسات متالم ہوتا ہے ۔ یہ عذاب باثواب قبر ہے ۔ اس سے اظہار افسوس اور تعجب سے کہ من بعثنا من مرتد نابظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاید موت کے بعد پوری آسودگی حاصل ہوتی ہے ۔ اور عذاب قبر کا نظریہ درست نہیں حالانکہ یہ غلط ہے ۔ بات یہ ہے کہ یہ عالم برزخ کی زندگی ہے ۔ جو بہ نسبت عالم حشر کے ایک نوع کی تنویم ہے ۔ پھر جس طرح کہ سویا ہوا آدمی بیدار ہونے پر عالم خواب کے تاثرات کو بھول جاتا ہے ۔ اسی طرح یہ لوگ جب بیدار ہوں گے ۔ تو اس وقت حقیقت ان کے سامنے پورے معنوں میں مثل اور متشکل ہوگی ۔ اس وقت یہ اس عالم خواب کی زندگی کو بہرآئینہ نیند کی زندگی قرار دیں گے ۔ اور اس کو آسودگی سے تعبیر کریں گے *۔ حل لغات :۔ توھیۃ ۔ وصیت * الصور ۔ نرسنگا * الاجداث ۔ جمع جدث ۔ بمعنی قبریں * مرقدنا ۔ خواب گاہ ۔ رقود سے ہے جس کے معنے سونے کے ہیں *۔ يس
52 يس
53 يس
54 يس
55 يس
56 يس
57 يس
58 يس
59 ف 1: جنت والوں کی زندگی کا جو نقشہ کھینچا اس کا مطلب محض یہ ہے کہ وہ ہر طرح بہترین حالت میں ہوں گے ۔ اور کلفتوں اور مصیبتوں سے آزاد ہوں گے ۔ اس دن ان میں اور مجرموں میں ایک قسم کا امتیاز ہوگا ۔ کہا جائے گا ۔ چونکہ تم لوگوں نے خدا کی پرستش نہیں کی ہے ۔ اور دنیا میں شیطان کی پیروی کو اپنا شعار بنایا ہے ۔ اس لئے آج تمہاری یہ سزا ہے ۔ کہ جہنم میں اپنا مسکن بناؤ * حل لغات :۔ فاذاھم ۔ مفاجاۃ کے لئے ۔ یعنی غیر متوقع ۔ یکایک * الارائک ۔ الغیکہ کی جمع ہے ۔ بمعنی تخت ہائے آراستہ *۔ يس
60 يس
61 يس
62 يس
63 يس
64 يس
65 اعضاء بھی بولیں گے ف 1: تم حجت کی بنا پر خدا کے سامنے ہمارا منہ بند ہوجائے گا ۔ جو کہ اس دنیا میں ہر گناہ کی وکالت کرتا ہے ۔ زبانیں گونگ ہوجائیں گی ۔ جو کہ طاقت اور تیزی سے معصیت کی اس طرح تابید کرتی ہے ۔ کہ اس پر صواب کا شبہ ہونے لگتا ہے ۔ ہاتھ پاؤں اور دیگر جوائع جو چھپ چاپ ہماری خواہشات نفس کی تکمیل میں معروف ہوجاتے ہیں ۔ وہاں فرمانبرداری نہیں کریں گے ۔ اور ہماری مخالفت میں گواہی دیں گے ۔ اور کوئی بات رب العزت سے پوشیدہ اور مستتر نہیں رہے گی *۔ یہ گواہی اور شہادت کس نوح کی ہوگی ہاتھ ، پاؤں اور جوارح کہیں نفرح بولیں گے ۔ یہ ایسی باتیں ہیں جن کو اس دنیا میں پوری طرح سمجھنا فہم انسانی کی وسعت سے باہر ہے ۔ ہاں یہ چیزیں ناممکن نہیں ہیں ۔ آج اگر گراموفون کے ریکارڈ متکلم اور گویائی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں ۔ تو کل گوشت پوست کے یہ اعضاء بھی گفتگو کرسکیں گے ۔ اور زبان آخرسوائے گوشت کے اور کیا چیز ہے ؟ جب یہ وہ انگل کی چیز بڑھ بڑھ کر باتیں بناسکتی ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ اعضاء وجمارح میں بھی یہ استعداد پیدا کرسکتے ہیں ۔ کہ وہ بول سکیں ۔ اور جہاں تک اس کی قدرت کا تعلق ہے ۔ وہ اتنی وسیع ہے ۔ کہ اس قسم کے سوالات پیدا ہی نہیں ہوتے ۔ وہ چاہے تو لوہے میں نغمے پیدا کردے ۔ اور پہاڑوں میں حساس دل رکھ دے *۔ حل لغات :۔ فطمسنا ۔ طمس سے مشتق سے ۔ جس کے معنے کسی چیز کے نقش اور اثر کو مٹا دینا ہے ۔ جیسے واذا النجوم طمست ۔ یعنی جب ستاروں کی روشنی ان سے چھین لی جائے گی * تختم ۔ مہرکردیں گے *۔ يس
66 يس
67 يس
68 ف 1: کفار کا ایک عذر یہ ہوسکتا ہے ۔ کہ ہمیں دنیا میں غوروفکر کی کافی مہلت نہیں دی گئی ۔ ورنہ ہم ضرور ہدایت ورشد کو پالیتے اور دین حقہ کی سعادت سے بہرہ مند ہوتے ۔ تو اس کا جواب اس آیت میں دیا ہے ۔ کہ جہاں تک اس عمر طبعی کا ذکر ہے ۔ جو عبرت پذیری کے لئے موزوں ہوتی ہے ۔ وہ تمہیں بغیر تمہارے مطالبہ کے عطا کی گئی ۔ اور جب تم نے اس طویل عرصے میں حق کو قبول نہیں کیا ۔ تو کیا ایسے وقت تم اس کو قبول کرتے ۔ جب زیادتی عمر کے باعث تمہارے توانے ذہنی وفکری مضمحل ہوجاتے ۔ اور تم میں قبولیت کی کوئی استعداد ہی باقی نہ رہتی *۔ یہ یاد رہے کہ یہ قانون کوئی کلیہ نہیں ہے ۔ انبیاء اس سے مستثنیٰ ہیں ۔ وہ جس قدر عمر میں بڑھتے ہیں ۔ ان کی روحانیت اور فیوض میں اضافہ ہوتا رہتا ہے *۔ يس
69 يس
70 يس
71 يس
72 يس
73 پیغمبر شاعر نہیں ہوتا ف 2: چونکہ فطرت کے ترجمان تھے ۔ اس لئے آپ کو پیغام دیا گیا وہ باوجود بلاغت وفصاحت کے اعلیٰ ترین درجہ میں ہونے کے نثر میں نظم وشعر میں نہیں تھا ۔ کیونکہ نثر اظہار مدعا کا فطری طریقہ ہے جس میں قافیہ اور ردیف کا تکلف نہیں ہوتا ۔ صرف مقصود بالذات معانی اور مطالب ہوتے ہیں ۔ الفاظ نہیں ہوتے اور شعر پیر آئینہ ایک قسم کا تصنع ہے ۔ جو باوجود اپنے تاثر اور موسیقی کے نثر کا اس اعتبار سے ہم رتبہ نہیں ہے کہ اس کا حسن وجمال وزن اور قافیہ کار میں منت ہے اور نثر کا حسن اپنا ذاتی حسن ہے ؎ تکلف سے بری ہے حسن ذاتی نبائے گل میں گل بوٹا کہاں ہے شعر اور نغمہ سے اس لئے بھی انبیاء کو مناسبت نہیں ہوت ۔ کہ ان کا پیغام صرف قلب اور دل میں ایک کیف پیدا کرنے کے لئے نہیں ہوتا ۔ بلکہ اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ عمل کی تمام قوتوں کو بیدار کیا جائے ۔ شعر سن کر تاثر تو طاری ہوتا مگر عمل کے لیے تحریک نہیں ہوتی ۔ بےاختیار دل یہ تو چاہتا ہے کہ اس کے حسن کی داد دی جائے ۔ مگر یہ اکثرہوتا ہے ۔ کہ وہ جہاد اور سخت کوشش پر آمادہ کرے *۔ اس آیت میں جو نفی ہے ۔ وہ تصنع اور اختلاف کی نفی ہی حکمت وبلاغت کی نفی نہیں ہے یعنی یہ صحیح نہیں ہے کہ پیغمبر شاعر نہیں ہوتا ۔ مگر اس معنے یہ نہیں ہیں کہ اس کے کلام میں شاعرانہ فضیلتیں نہیں ہوتیں ۔ قرآن حکیم کو ہی دیکھئے کہ گو نثر میں اسے مگر فصاحت وبلاغت میں دنیا کے سارے ذخیرہ شعر پر بھاری ہے ۔ کون ہے جو اس کو سنے اور متاثر نہ ہو *۔ حل لغات :۔ فیھا منافع یعنی حیوانات میں ان عام فوائد کے علاوہ اور بھی بہت سے فوائد ہیں ۔ آج اس لفظ کی تشریح ہمارے ساتھ ہے ۔ کہ دنیا میں کتنی کارآمد اور قیمتی چیز ہے ۔ اور تمدن انسانی میں اس کا کیا درجہ ہے ؟ رمیم ۔ بوسیدہ ۔ کہنہ *۔ يس
74 يس
75 يس
76 يس
77 انعامات الٰہی کا تقاضا ف 1: اللہ کے انعامات کا ذکر ہے ۔ کہ کیونکر انسان کو اس نے تسخیر کی قوتیں عطا کی ہیں ۔ وہ تمام حیوانات کو اپنے تابع کرلیتا ہے ۔ پھر کسی سے سواری کا کام لیتا ہے اور کسی کو کھاتا ہے ۔ اور اس سے غذا کا کام لینا ہے ۔ پھر ایسے جانور بھی ہیں ، جو دودھ ایسی سے نعمتوں سے اس کا پیٹ بھرتے ہیں کیا وہ اس کرم اور نوازش پر بھی رب العالمین کا شکریہ ادا نہیں کرتا کہ ساری کائنات سے متمنع ہونے کے اختیارات اس نے انسان کو دے رکھے ہیں ۔ اور بڑے بڑے سرکش اور قوی جانوروں کو اس طرح اس کا غلام بنا دیا ہے کہ وہ جو چاہتا ہے ان سے کام لیتا ہے اس سے یہ معلوم ہوا کہ انسان کا درجہ کائنات کی ہر چیز سے بڑا ہے ۔ اور ساری دنیا اور اصل اسی کے استعمال اور فائدے کے لئے بنائی گئی ہے ؟ اور اسی لئے گوشت خوری سے یہ لازم نہیں آتا کہ مسلمان بےرحمی کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ جب انسان کا مرتبہ تمام حیوانات سے افضل ہے ، اور حیوانات کی زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ حیات کبری کی ہر آئینہ مدد کریں ۔ تو انکا کھانا ادنیٰ ترین زندگی میں بدلتا ہے ۔ اور فطرت کے قانون بقاء الاصلح کی تائید کرتا ہے اور ایسی روح کی ترقی اور پابندی کا انتظام کرتا ہے ۔ جو ان کی روح سے کہیں زیادہ قیمتی ہے جس کا باقی رہنا بقائے عالم کے لئے ضروری ہے ۔ چنانچہ آج انسان صفحہ دنیا سے مٹ جائے تو پھر حیوانات کی تو کیا ہستی ہے ۔ زندگی کے بڑے بڑے مظاہر ختم ہوجائیں نہ آفتاب کی حاجت باقی رہے اور نہ ستاروں کی ۔ زمین گھوے اور نہ آسمان قبائے نیلگوں پہنے ہوئے دکھائی دے ۔ فطرت کا مطالبہ یہ ہے کہ تم ہر چیز کو اپنے حسب منشا استعمال کرو ۔ ہوا میں اڑو ۔ پہاڑوں کو کھودو ۔ اسرار ورموز طبیعت پر قابو حاصل کرو ۔ اور زندگی کے بلند ترین نقطہ تک پرواز کرو ۔ مگر ایک چیز کہ نہ بھولو ۔ اور وہ یہ ہے کہ یہ سارے احسانات اس لئے ہیں ۔ کہ تم خدا کا شکرادا کرو اس کی ممنونیت میں اس کے احکام کی اطاعت کرو ۔ لہٰذا جہاں تم کو یہ آسانیاں حاصل ہیں ۔ کہ جو چاہو کرو ۔ وہاں یہ پابندی بھی بھی تمہارے لئے ضروری ہے ۔ کہ فطرت کے تقاضوں کو پورا کرو ۔ اور منشاء الٰہی کو سمجھو ۔ حل لغات : رمیم ۔ بوسید ۔ کہنہ *۔ يس
78 يس
79 ف 2: ان آیات میں اظہار افسوس کیا ہے ۔ کہ انسان اپنے محسن حقیقی کو نہیں پہچانتا اور شرک جیسے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے ۔ وہ خدا جس نے اس کے لئے ساری کائنات کو پیدا کیا ہے ۔ یہ اس کو چھوڑ کر دوسروں کے آستانوں پر جھکتا ہے ۔ حالانکہ وہ مشکلات اور مصیبتوں میں ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے ۔ اور آخرت میں ان کے فریق مخالف کی حیثیت سے پیش ہونگے ۔ اس کے بعد حضور کی تسکین کے لئے رمایا ۔ کہ آپ ان کے ملحدانہ اقوال سے ازرہ خاطر نہ ہوں ۔ ہم ان کے اعمال کی پوری پوری نگرانی کررہے ہیں *۔ اس کے بعد کی آیات میں ان کی توجہ کو نفس انسان کی پیدائش کی طرب مبذول کرکے ۔ غور وفکر پر آمادہ کیا ہے ۔ کہ اگر یہ لوگ جو قیامت کے منکر ہیں ۔ اور اس کا مذاق اڑھتے ہیں ۔ اپنی پیدائش کی منزلوں پر خیال کریں تو انہیں اس باب میں کوئی شک وشبہ نہ رہے ۔ اور یہ معلوم کرلیں کہ جس خدا نے ایک قطرہ آب سے اس انسان کو پیدا کیا ہے ۔ وہ لامحالہ بوسیدہ ہڈیوں سے بھی اس کو دوبارہ زندہ کرسکتا ہے *۔ فرمایا : وہ آن واحد میں موت کو زندگی سے تبدیل کرسکتا ہے اور اس میں یہ قدرت ہے ۔ کہ اضداد کے بطن سے اضداد نو کو پیدا کردے ۔ يس
80 ف 1: وہ ہرے بھرے درختوں سے آگ کی چنگاریاں نکال سکتا ہے ۔ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ۔ تو کیا اس کے لئے یہ مشکل و دشوار ہے ۔ کہ پھر سے انسانوں کو پیدا کردے ۔ بلی وحو الرحاقی العلیم ۔ ضرور وہ قادر ہے ۔ اور بڑا پیدا کرنے والا اور دانا ہے *۔ يس
81 ف 2: یعنی جہاں تک اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور وسعتوں کا تعلق ہے ۔ ہم کہہ سکتے ہیں ۔ کہ وہاں عدم امکان یا استحاز کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ وہ کسی چیز کا منصہ شہود پر لانے کے لئے ذرائع اور وسائل کا محتاج نہیں ۔ وہ جب چاہے بیک جنبش اعادہ ہزاروں عوالم امکان پیدا کردے ۔ کیونکہ وہ قادر مطلق ہے ۔ اور ہر چیز پر اس کو پورا اختیار اور قابو حاصل ہے *۔ حال لغات :۔ ملکوت ۔ پوری پوری بادشاہت *۔ يس
82 يس
83 يس
0 الصافات
1 الصافات
2 الصافات
3 الصافات
4 الصافات
5 الصافات
6 الصافات
7 الصافات
8 الصافات
9 سورہ صفات ف 1: اس سے قبل بنایا جاچکا ہے ۔ کہ قرآن میں قسم سے غرض استشہاد ہے ۔ منقسم بہ کی جلالت قدر یا عظمت کا اظہار نہیں ہے ۔ چنانچہ سورۃ صافات کی تشریح اس نظریہ کے مطابق یوں ہوگی ۔ کہ اصل دعویٰ جو قابل اثبات ہے ۔ وہ توحید ہے ۔ جیسے کہ ارشاد ہے ان الھکم واحد اور دلیل میں ان حقائق کو پیش فرمایا ہے ۔ کہ اس تعلیم کو لانے والے اطاعت شعار فرشتے ہیں ۔ جو عتبہ جلال خداوندی کے سامنے حکم کے منتظر صف باندھے کھڑے رہتے ہیں ۔ وہ اپنے مواعظ وانوار سے نفوس قدسیہ کو مجل کرتے رہتے ہیں ۔ اور ان کو معاصی سے روکتے ہیں جو ذکرو فکر کے صحائف کو پڑھتے ہیں ۔ اور اقاء والہام کی خدمات سرانجام دیتے ہیں ۔ یعنی جہاں تک اس تعلیم کا تعلق ہے ۔ جو الہامی ہے ۔ جس کو لانے والے فرشتے ہیں جو دماغوں کی کاوش فکر کے مرہون منت نہیں بلکہ نتیجہ ہے رب السموت کی بخششوں کا اس میں یکسر توجیہا اور تجرید کا ذکر ہے ، تمام صحف انبیاء میں یہی مسلک پیش کیا گیا ہے ۔ اور یہی وہ سردی اور ازل حسیت ہے ۔ جس کے اظہار کے لئے جناب باری نے بعثت اور رسالت کے شر سے انسان کو نوازا ۔ خدا ایک ہے جو بلندیوں اور پستیوں کا رب ہے ۔ اور آفتاب کے طلوع اور غروب کے مختلف مقامات کی پوری نگرانی کرنے والا ہے *۔ حل لغات :۔ رب المشارق ۔ یعنی موسم کے اعتبار سے طلوع آفتاب کے مختلف مقامات ہیں * مارد ۔ وہ جو محاسن سے محروم ہو ۔ اور شرارت اس کی فطرت میں ہو ۔ اصلی معنے محرومی کے ہیں ۔ جیسے شجر امرد ۔ یعنی ایسا درخت جس کے پتے نہ ہوں * دحورا ۔ ہانکنا ۔ چلانا ۔ باز رکھنا * واصب ۔ ہمیشہ ودائم و شدید ۔ شھاب ۔ فیصلہ آسش *۔ الصافات
10 الصافات
11 الصافات
12 الصافات
13 ختم نبوت پر ایک دلیل ف 1: اصل میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے معنے یہ ہیں کہ وہ انسانوں کے لئے آخری پیغام ہدایت ہے اور آپ کے سوا جس قدر امکانات وحی اور انکشاف کے ہوسکتے تھے ۔ اللہ نے ان کے تمام دروازوں کو مسدود کردیا ہے ۔ اب کسی شخص کہ یہ قوت نہیں ۔ کہ وہ ملا (اعلیٰ سے) احکام وتعلیمات حاصل کرسکے ۔ اور ان سے فیوض و انوار کو چھین سکے ۔ اسلام سے قبل یہ ہوتا تھا کہ انبیاء کے علاوہ جو کاہنوں کے گروہ تھے ۔ وہ واقعات کے متعلق پیش گوئیاں کرتے تھے ۔ اور ان کا ذریعہ معلومات یہ تھا کہ جنات فرشتوں کی سرگوشیاں سن لیتے تھے ۔ اور اس میں کچھ اپنی طرف سے بڑھا کر ان کو بتا دیتے تھے ۔ جب حضور تشریف لائے تو اس وقت بھی کاہنوں کی ایک بڑی جماعت عرب میں موجود تھی ۔ جو پیشگوئیاں کرتے تھے ۔ ان کی معلومات کا ذریعہ یہی تھا کہ آسمانوں کی طرف جنات پرداز کرتے اور خطرۃ القدس کے اسرار میں سے کچھ حاصل کرلیتے ۔ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اس علم وحکمت کے بعد کہانت کی تمام راہوں کو بند کردیا جائے ۔ اس لئے جب وہ ان باتوں کے سننے کے لئے آگے بڑھتے تو سخت مزاحمت اور ذلت محسوس کرتے ۔ اور شہاب ثاقب گرکر ان کی تمام باتوں پر پانی پھیر دیتا ۔ حل لغات :۔ سحر ۔ جادو ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موثرات کی طرف اشارہ ہے * زجرۃ ۔ للکار ۔ اصل میں زجر کے معنے باز رکھنے ۔ منع کرنے اور ہانکنے ، چھونے کے ہیں ۔ چونکہ قیامت کے دن مخلوق اپنے اپنے کاروبار سے دی جائے گی ۔ اور سب کو پیدا کر کے ایک جگہ جمع کردیا جائے گا ۔ اس لئے اس کو زجر سے تعبیر کیا ہے *۔ الصافات
14 الصافات
15 الصافات
16 الصافات
17 الصافات
18 الصافات
19 الصافات
20 الصافات
21 الصافات
22 الصافات
23 الصافات
24 الصافات
25 الصافات
26 الصافات
27 انسان کی پیدائش مٹی سے ہے ف 1: یہ بات کئی اعتبار سے درست ہے کہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے ۔ اس لحاظ سے بھی آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو طین لاذب سے پیدا کیا گیا ۔ علم الحیات کے ماہرین کے نزدیک بھی زندگی کی ابتداء پانی سے ہوئی ۔ اور ابتدائی جانور سمندر کی اس مٹی سے پیدا ہوئے ۔ جو چپکتی ہوئی تھی ۔ اور اس نکتہ نگاہ سے بھی یہ ایک حقیقت ہے ۔ کہ انسانی غذا جو اصل میں زندگی کو برقرار رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے مٹی سے حاصل ہوتی ہے ۔ اور انسانی گوشت اور خون چونکہ اسی غذاب سے بنتا ہے ۔ اس لئے اصولاً یہ کہنا درست ہے ۔ کہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے ۔ اس زاویہ نظر سے بھی یہ صحیح ہے ۔ کہ انسان میں چونہ کے اجزا زیادہ ہیں اور وہ انسانی زندگ کا بہت بڑا سبب ہیں ۔ قرآن حکیم دراصل ایسی کتاب ہے جس میں بےشمار اس نوع کے علمی معجزے ہیں ۔ جو آج انسان نے اپنے تجربہ اور ارتقاء سے معلوم کئے ہیں ۔ یہ واقعہ ہے کہ جہاں تک قرآن حکیم کے موضوع بیان کا تعلق ہے ۔ وہ ایک ایسا صحیفہ ہے جو صرف رشدوہدایت کے لئے نازل ہوا ہے ۔ اور اس کا دائرہ بحث ان مسائل تک محدود ہے ۔ جو کسی نہ کسی طرح اخلاق ومعاشرت کی تعریف میں آتے ہیں ۔ طبعی خوارق کو بیان کرنا ۔ یا قانون قدرت سے تعریف کرنا ۔ اس کے حقیقی نصب العین میں داخل نہیں ہے ۔ مگر چونکہ یہ لحزام الغیوب خدا کی کتاب ہے ۔ اس لئے بعض کلمات استطرد ایسے آگئے ہیں ۔ جن سے عجیب عجیب انکشافات ہوتے ہیں ۔ اور جو اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں ۔ کہ یہ کتاب یقینا انسانی دماغ کی کدوکاوش کا نتیجہ نہیں ہوسکتی ۔ کیونکہ اس میں علوم کا ایک سوراخ کبر بےکراں ہے ۔ اور انسان کی معلومات محدود ہوتی ہیں ۔ وہ یہ نہیں کرسکتا ۔ کہ اپنے کلام میں کئی سو سال کے بعد پیش آنے والے حقائق کے متعلق واضح طور پر اشارات کرے *۔ حل لغات :۔ ازواجھم ۔ ساتھی ۔ ہم مسلک ۔ ہم مشرب *۔ الصافات
28 الصافات
29 الصافات
30 الصافات
31 الصافات
32 الصافات
33 ف 1: مکے والوں میں یہ مسئلہ ہمیشہ حیرت واستعجاب کا موجب رہا ۔ کہ انسان مرنے کے بعد پھر زندہ ہوجائیں گے وہ بار بار یہ کہتے تھے ۔ کہ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی ۔ کہ کیونکر بوسیدہ ہڈیوں میں جان ڈال دی جائے گی ۔ قرآن نے اس حقیقت نفس الامرکو ایمان کا ایک جزو قرار دیا ۔ اور کہا کہ اس میں کوئی استحالہ نہیں ہے ۔ اللہ جب چاہے گا ۔ ایک ادنیٰ اشارے میں ساری کائنات کا اٹھا کھڑا کرے گا ۔ جب یہ لوگ اپنے کو اللہ کے سامنے موجود پائیں گے ۔ عجیب حالت میں ہوں گے ۔ تب ان کی آنکھیں کھلیں گی ۔ اور دیکھیں گے کہ آہ یہ تو وہی دن ہے جس کا ہم انکار کرتے تھے ۔ ارشاد ہوگا ۔ کہ ہاں یہ وہی روز مکافات ہے ۔ جس کی تکذیب تمہارا شیوہ تھا ۔ آج حکم یہ ہے ۔ کہ اس نوع کے تمام منکرین کو معہان کے ہم مشربوں اور معبودان باطل کے ہمارے سامنے پیش کرو ۔ اور جہنم کی جانب ان کو لے جاؤ۔ اور ان کو ٹھہراؤ ۔ ان سے پوچھا جائے گا ۔ کیوں یہ لوگ آپس میں ای ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے ۔ فرمایا ۔ اب تو یہ نادم اور سرافگندہ ہوں گے ۔ اب ان میں انکار کی جرات نہیں ہوگی ۔ اور جن کی یہ اطاعت کرکے گمراہ ہوئے تھے ۔ وہ ان سے بیزاری کا اظہار کریں گے *۔ حل لغات :۔ سلطان ۔ قدرت اور حجت *۔ الصافات
34 الصافات
35 الصافات
36 الصافات
37 الصافات
38 الصافات
39 عقیدت مندی کے تعلقات منقطع ہوجائیں گے ف 1: قیامت میں یہ عجیب لطف کی بات ہوگی ۔ کہ معتقدین اپنے مقتداوں کو ڈھونڈنے جائیں گے اور ان سے کہیں گے کہ دنیا میں تم لوگ ہماری نجات کی ذمہ داری لیتے تھے ۔ اور کھلے بندوں کہتے تھے ۔ کہ ہماری عقیدت مندی تمہارے لئے بمعنی میں مفید ثابت ہوگی ۔ اور بجز ہماری اطاعت کے نجات اور سعادت کی سب راہیں مسدود ہیں ۔ آج ہم تکلیف میں ہیں ۔ عذاب الٰہی کو اپنے روبرو دیکھ رہے ہیں ۔ تمہماری مدد کرو ۔ اور عذاب سے چھڑاؤ۔ کہ کہیں گے غلط ہے ۔ ہم تمہاری بدبختی اور محرومی کے ہرگز ذمہ دار نہیں ہیں ۔ ہمارے پاس کوئی قرت نہیں تھی ۔ کہ ہم مجبور کرکے تم کو اپنے حلقہ اراوت میں داخل کرتے ۔ تم خود گمراہ تھے ۔ اس لئے ہماری باتوں میں آگئے ۔ آج تو ہمارے رب کی بات پوری ہوتی نظر آتی ہے آج تو یہ ہوگا کہ پیر اور مرید دونوں جہنم کا مزہ چکھیں گے آج وقت کتنا تکلیف دہ ہوگا ۔ کو وہ لوگ جو دنیوی پیشوا لوگوں کی عقیدت مندی اور اراوت کا مرکز تھے اور جن کے لئے دنیا ہر شحص سے دست وگریباں ہوتے تھے ۔ آج وہ یوں آنکھیں پھیر لیں گے اور کامل بیزاری کا مظاہر کریں گے ۔ اور لطف یہ ہے کہ وہ خود بھی خدا کے عذاب سے بچ نہیں سکیں گے ۔ فرمایا : آفتاب نبوت کی حقانیت میں کون شبہ کرسکتا ہے ۔ بات صرف یہ تھی کہ ان کی آنکھوں پر کبرونخوت کا پردہ پڑگیا تھا ۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کو توحید کی طرف بلاتے اور کہتے کہ بجز خدائے واحد کے اور کوئی شخصیت اس لائق نہیں کہ ۔ کہ اس کی چوکھٹ پر اپنی جبیں نیاز جھکائی جائے تو یہ کہتے کیا ہم اپنے خداؤں سے منہ موڑ لیں ۔ کیا بتوں کو چھوڑ دیں ۔ اور محض اس بناء پر اپنے معبودوں سے بیزاری کا اعلان کردیں کہ ایک شاعر اور مجنون ہمیں اس چیز کے لئے مجبور کررہا ہے ۔ گویا کمک بختوں کے نزدیک حضور شاعر تھے اور جو کچھ کہتے تھے اس میں کوئی صداقت نہ تھی اور مختل دماغ کے عارضے میں مبتلا تھے ۔ فرمایا یہ بات نہیں آج ان لوگوں کو معلوم ہوگا ۔ کہ ان کا عقیدہ آپ کے متعلق کس درجہ غلط تھا ۔ آپ حق وصداقت کا پیغام لے کر آئے ہیں اور تمام رسولوں کی تصدیق کرتے ہیں ۔ انہیں اس انکار وتمردی پادش میں عذاب الیم کا مزہ چکھنا پڑیگا ۔ اور کہا جائے گا کہ بتاؤ کون عقل سلیم سے خارج ہے ؟ کس کا دماغ مختل ہے ؟ اور کون ہے جس کو تم شعر اور دروغ بانی کے ساتھ مہتم کرتے ہو جو سزائیں تم کو دی جائیں گی ۔ وہ تمہاری کرتوت کی بنا پر ہونگی ۔ ورنہ اللہ کی رحمتیں یہی چاہتی ہیں ۔ کہ تم ایمان و عمل صالح کی دعوت کو قبو کرلو اور اس عذاب سے مخلصی حاصل کرلو *۔ الصافات
40 الصافات
41 الصافات
42 الصافات
43 الصافات
44 الصافات
45 الصافات
46 الصافات
47 الصافات
48 الصافات
49 ف 2: ان آیات میں اللہ کے ان مخلص بندوں کا ذکر ہے ۔ جنہوں نے وقت اور اخلاص کے ساتھ اسلام کو قبول کیا ۔ اور اس کے پھیلانے میں ہر نوع کی مصیبتوں کو نجندہ پیشانی برداشت کیا ۔ ان کے لئے اللہ کے ہاں ہر قسم کی آسودگی اور تنعم کا سامان ہوگا ان کو ایسی غذائیں ملیں گی ۔ جن کے متعلق اس سے پہلے آیات میں شاید جاچکا ہے ۔ یعنی میو وں سے ان کے کام وذہن کی تواضع کی جائے گیا ۔ اور عزت و تکریم کے ساتھ آرام کے باغوں میں رہیں گے ۔ اور آراستہ تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے اللہ کی نعمتوں کا نظارہ کرینگے ۔ لطیف اور عمدہ جام ہائے شراب کی گردش ہوگی جو دودھ کی طرح سفید ہوگی ۔ اور نہایت لذیذ درد سر اور تکلیف دہ خمار سے بالکل پاک ہوگی جس میں کیف ہوگا ۔ مگر عقل میں فتور نہیں پیدا ہوگا عورتیں ایسی عفیف کو سوائے خاوند کے دوسروں پر للچائی ہوئی نظریں نہ ڈالیں گی ۔ بڑی بڑی آنکھیں ۔ رنگ محفوظ انڈوں کی طرح سفید ۔ گویا تمام زندگی کیف وسرور کی زندگی ہوگی *۔ حل لغات :۔ عول ۔ شراب پینے کے بعد جو سربھاری ہوجاتا ہے اس کو کہتے ہیں ۔ قصرات یطرف ۔ دونوں معنے ہیں نیچی نگاہیں رکھنے والی عورتیں اور وہ عورتیں جو اپنے شوہر کے سوائے دوسرے مرد پر نظر ڈالیں *۔ الصافات
50 الصافات
51 الصافات
52 الصافات
53 الصافات
54 الصافات
55 الصافات
56 الصافات
57 الصافات
58 الصافات
59 الصافات
60 الصافات
61 الصافات
62 جنت کی زندگی ف 1: جنت کی جن نعمتوں کا تذکرہ گذشتہ آیتوں میں ہوا ہے ۔ یہ ان انعامات کے مقابلہ میں جو ہونے والے ہیں وہ تو ایسی پاکیزہ کامل اور پر سعادت زندگی ہے کہ اس کی صحیح صحیح کیفیت سے اس دنیا میں واقف ہونا ناممکن ہے ۔ محلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قوۃ اعین ۔ یہ محض سمجھانے کے لئے لفائذ کے بعض پہلو ایسے بیان فرمادیئے ہیں جن سے ہم اصل حقیقت کا کچھ کچھ اندازہ کرسکتے ہیں ۔ اور سمجھ سکتے ہیں ۔ کہ جب ادنیٰ ضروریات حیات کو اللہ تعالیٰ نے اس حسن وخوب کے ساتھ پورا کیا ہے تو وہ روحانی حاجات زندگی جو کہیں بیش قیمت ہیں ۔ باحسن وجوہ پوری کی جائیں گی ۔ جب کھانے پہننے اور اٹھنے بیٹھنے کا یہ اہتمام ہے تو پھر وہ سعادتیں جن کا تعلق روح کی آسودگی اور بالیدگی کے ساتھ ہے کس درجہ توجہ کی محتاج ہیں ۔ ان نعمتوں کی تفصیل سے غرض یہ نہیں ہے کہ بس یہی جنت ہے بلکہ وہاں بےشمار احوال مسرت واجتہاج ہیں کہ جن کا اس وقت پورا اندازہ ہونا ناممکن ہے ان کے تذکرہ سے مقصد صرف یہ ہے کہ آپ جنت کے ذرا قریب ہوسکیں اور وہاں کی عظیم القدر زندگی کی ایک جھلک دیکھ پائیں ۔ جو لوگ ان نعمت ہائے گوناگوں کو سن کر اور ان انعامات بوقلمون کو پڑھ کر محض اس بنا پر جنت کا انکار کردیتے ہیں ۔ کہ صاحب یہ تو محض مادی خواہشات کی تکمیل کا سامان ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ضمیر کو دھوکہ دیتے ہیں اور بہت فریب نفس میں مبتلا ہیں ! اگر یہ لوگ دل کی گہرائیوں کو ٹٹولیں یہ تو ان کو معلوم ہو کہ ہمیں سوائے ان خواہشات کی تکمیل کے شوق کے اور کچھ موجود ہی نہیں ہے ۔ صراتاً انسان یہی کچھ چاہتا ہے ۔ اور ساری عمر اپنی چیزوں کے لئے کوشاں رہتا ہے پھر جب اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ کہ دیکھو اگر تم دنیا میں نیک رہے اور ہمارے قانون کو تم نے اپنا نصب العین بنایا ۔ تو ہم تم کو وہ سب کچھ دینگے جن کے لئے تم حیات چند روزہ میں مصروف جدوجہد رہتے ہو ۔ تو اس میں انکار کی کون وجہ ہے جب یہی چیزیں دنیا میں تمہاری ساری تگ ودو کا دارومدار اور محور رہیں ۔ تو اب تمہیں خوش ہونا چاہیے ۔ کہ اللہ نے تمہاری ان خواہشات کو بعینہ پورا کردیا ہے ۔ یہ کہ ان کو سن کر تمہارا توازن فہم اپنے مرکز سے ہٹ جائے ۔ اور تم اس پر اعتراض کرنے لگو ان آیات میں اہل جنت کے مطالبات اور ان کی مسرتوں کا ذکر ہے ۔ کہ کیونکر یہ لوگ اپنے کو جنت میں پاکر شکر و اطمینان کا اظہار کرینگے ۔ حل لغات : الدینون ۔ ہم مفعول ہے دین سے متعلق ہے جس کے معنے جزا کے ہوتے ہیں * سواء الجحم ۔ جہنم کا وسو * لیردین ۔ ارادہ سے ہے بمعنی ہلاک کرنا ۔ الصافات
63 الصافات
64 ف 1: شجرۃ تخرج فی اصل الجحیم ۔ اس پر بعض لوگوں کو اعتراض ہے کہ جہنم میں یہ درخت کیونکر پیدا ہوسکتے ہیں ۔ مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے ۔ کہ اول تو جہنم کے متعلق یہ ٹھیک ٹھیک ہے نہیں ۔ کہ وہ کیا چیز ہوگی ۔ یہ درست ہے ۔ وہاں آگ ہوگی مگر بعض ایسے گرم کرے ہیں ۔ جن میں آگ برستی ہے ۔ اور وہ حدرجہ گرم ہیں ۔ اور ان میں نباتات کا وجود ممکن ہے ۔ ہوسکتا ہے یہ کرہ ہائے جار جہنم کا حصہ ہوں ۔ دوسرے آگ میں آتشین صفت نباتات کا ہونا ممکن ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ جہنم کا زقوم دنیا کے زقوم سے بالکل مختلف ہوگا *۔ فاندفع ماقیل اہل جہنم کے حالات بیان کرنے کے بعد یہ فرمایا ۔ کہ اس عذاب الیم کا سبب یہ ہے کہ دنیا میں انہوں نے حق وناحق کی تمیز روا نہیں رکھی اور صداقت وواقعیت کو سمجھنے کی مطلقاً کوشش نہیں کی ۔ یہ اندھا دھند اپنے پیشواؤں دین اور قائدین دنیا کی تقلید کرتے رہے اور چونکہ وہ خود گمراہ تھے اس لئے بالطبع یہ بھی گمراہی سے نہ بچ سکے جبکہ انہوں نے ان کے نقش قدم پر چلنے میں بڑی سرگرمی اور سخت تگ ودو کا اظہار کیا ۔ الصافات
65 الصافات
66 الصافات
67 الصافات
68 الصافات
69 الصافات
70 الصافات
71 الصافات
72 ف 2: ان آیتوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسکین خاطر کے لئے اس حقیقت کا اظہار فرمایا ہے کہ آپ سے پہلے بھی اللہ کے رسول (علیہ السلام) آئے ہیں اور انہوں نے لوگوں کو معصیت سے روکا ہے اور لوگوں نے ان کی شدید مخالفت کی ہے ۔ پھر اللہ کا قانون غضب حرکت میں آیا اور ان تمام سرکشوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا گیا آپ ان لوگوں کی مخالفت سے گھبرائیے نہیں منکرین کا انجام آپ کے سامنے ہے اگر ان لوگوں نے استہزا اور استخفاف کو اسی طرح جاری رکھا ۔ تو پھر اللہ تعالیٰ کا غصہ بھڑکے گا اور یہ اس کے عذاب سے ہرگز نہ بچ سکیں گے * الصافات
73 الصافات
74 الصافات
75 حضرت نوح (علیہ السلام) ف 3: یعنی وہ لوگ جن میں اخلاص ہوتا ہے جو خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے ہیں ۔ وہ عذاب میں گرفتار نہیں ہوتے وہ اللہ کے غضب اور غصہ کا مورد نہیں بنتے اور اگلا انجام دنیا وعقبیٰ کے لحاظ سے دوسروں سے کہیں بہتر اور برتر ہوتا ہے * اس کے بعد تذکیر یا نام اللہ کے اصول کے مطابق یہ فرمایا کہ جب حضرت نوح (علیہ السلام) (آدم ثانی) نے قوم کی مخالفت عنایت تنگ آکر آخر دعا مانگی تو ہم نے قبول کرلی *۔ الصافات
76 الصافات
77 الصافات
78 الصافات
79 الصافات
80 الصافات
81 الصافات
82 ف 1: کس طرح ہم نے اس (نوح) کو جو اس کے وابستگان کو نجات دی اور انکی اولاد کو باقی رکھا اور کیونکر آنے والی نسلوں میں نوح (علیہ السلام) کے لئے تعریف اور ستائش کا تذکرہ چھوڑا ۔ حقیقت یہ ہے کہ نوح پر سل امتی ہے اور وہ فلاح ومحوذ سے بہرہ ور ہے ہم اسی طرح پاکبازوں سے حسن سلوک روا رکھتے ہیں ہماری یہ سنت ہے کہ اپنے مومن بندوں کو شرف التفات سے محروم نہیں رکھتے ۔ نوح (علیہ السلام) کے مخالفین چونکہ عناد ودشمنی میں حد سے تجاوز کرچکے تھے اس لئے ہم نے ان کو غرق کردیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کانام ونشان مٹا دیا *۔ میں بیزار ہوں حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد سب سے زیادہ جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں انہوں نے بابل اور نشوا کے بت پرستوں کا بڑی دلیری اور جرات سے مقابلہ کیا ۔ اور کس طرح نوع کے مصائب کو برداشت کیا اللہ نے انہیں بصیرت نامہ عطا کی تھی ۔ اور قلب سلیمہ کی نعمت سے مشرف کیا تھا ۔ انہوں نے جب دیکھا کہ باپ اور قوم شرک کی گمراہی میں مبتلا ہیں تو پوری قوت کے ساتھ ان کو سمجھایا اور پوچھا کہ آخر تم لوگ یہ ان چیزوں کو پوجا کرتے ہو کیا محض جھوٹ موت کے دیوتاؤں سے نہیں عقیدت وامارت سے تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ رب العلمین کے متعلق تمہارے خیالات صحیح نہیں ہیں ؟ الصافات
83 الصافات
84 الصافات
85 الصافات
86 الصافات
87 الصافات
88 ف 2: فنظر نظر ذفی النجوم سے مراد ایک مستقل واقعہ کی طرف اشارہ ہے یعنی ایلدن بہ مشرکان بابل اپنے لسی مذہبی میلے میں شریک ہونے کے لئے جارہے تھے ۔ انہوں نے کہا ابراہیم کو بھی دعوت دی جائے ۔ شاید یہ وہاں کا ٹھاٹھ دیکھ کر اپنے خیالات سے باز آجائے انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے چلنے کو کہا آپ نے غور وفکر کے بعد فرمایا میں تمہارے ان شاغوں سے قطعی بیزار ہوں اور مجھے تمہاری دینی ومذہبی تقریبات سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ یہ واضح رہے کہ فنظر نظرۃ فی النجوم محاورہ ہے جس کے معنے سوچنے اور غور وفکر کرنے کے ہیں ۔ کیونکہ عام طور پر آدمی سوچتے وقت آسمان کی طرف نظریں اٹھاتا ہے اور انی سقیم کے معنے یہ ہیں کہ میں بیزار ہوں ۔ جیسا کہ صاحب لسان نے تصریح کی ہے تفصیل کا یہ مقام نہیں ۔ بہرحال جب ان لوگوں کو مایوسی ہوئی ۔ تو حضرت ابراہیم اپنے منصوبے کی تکمیل میں مصروف ہوگئے جو انہوں نے پہلے سے سوچ رکھا تھا *۔ حل لغات :۔ الکرب ۔ غم ۔ بےچینی اور اضطراب * شھعیتہ ۔ ہم مشرب *۔ الصافات
89 الصافات
90 الصافات
91 الصافات
92 الصافات
93 الصافات
94 الصافات
95 الصافات
96 الصافات
97 الصافات
98 ف 1: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا منصوبہ یہ تھا ۔ کہ کس طریق سے ان لوگوں پر بتوں کی عاجزی اور بےبسی ثابت ہوجائے ۔ اور یہ دیکھ لیں کہ ان کے بت خود اپنی حفاظت پر قادر نہیں ہیں ۔ جہ جائیکہ کائنات کا انتظام وانصرام ان کے ہاتھ میں ہو ۔ جب یہ لوگ اپنی مذہبی تقریب میں چلے گئے ۔ تو ان کو یہ سوجھی کہ ان کے پاس کچھ کھانا لے کر گئے ۔ اور ان سے کھانے کی درخواست کی ۔ اور جب دیکھا کہ یہ کھانے کے لئے ہاتھ نہیں بڑھاتے ہیں ۔ تو کہا تم کیوں کھاتے نہیں ہو ۔ اور اگر بھوک نہیں ہے ۔ تو بولتے کیوں نہیں ۔ غرض یہ تھی کہ ان لوگوں کے اس عقیدہ کی تذلیل کی جائے ۔ اور بتایا جائے کہ جو بت نہ نذرانوں کو قبول کرتے ہیں ۔ نہ بولتے ہیں ۔ وہ کیونکر خدا ہوسکتے ہیں ۔ جب آپ نے دیکھا ۔ کہ یہ اصنام نہ تو بولتے ہیں ۔ اور نہ کچھ کرسکتے ہیں ۔ تو ایک بھرپور وار کے ساتھ ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے ۔ اور اس سارے طلسم الوہیت کو ایک لمحہ میں باطل کردیا ۔ یہ خبر سارے بت پرستوں میں پھیل گئی ۔ اور وہ لپکے ہوئے آئے اور دیکھا کہ ان کے معبود ابراہیم (علیہ السلام) کے قدموں میں پڑے ہیں ۔ فوراً بول اٹھے ۔ کہ تمبھی کتنے بےخوف ہو ۔ خود تراشیدہ بتوں کی عبادت کرتے ہو ۔ جن کا حشر تمہارے سامنے ہے ۔ یاد رکھو ۔ تم کو اور تمہارے خداؤں کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے ۔ ضد کو چھوڑو اور اس کے عقبہ جلال کے سامنے جھک جاؤ* اس گستاخی کی پاداش میں جس کا ظہور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ہوا ۔ بت پرستوں نے یہ سزا تجویز کی ۔ کہ ان کو ایک بہت بڑے آتش خانہ میں زندہ جھونک دیا جائے ۔ اور اس طرح ان سے اور ان کے پیغام توحید سے مخلصی حاصل کرلی جائے ۔ مگر اللہ کو یہ منظور نہ تھا وہاں یہ طے ہورہا تھا ۔ کہ ابراہیم اور اس کی نسل کو دنیا میں بڑھایا جائے ۔ اور خیروبرکت کی تمام نعمتوں سے بہرہ مند کیا جائے ۔ چنانچہ ان دشمنان دین کی تمام تدبیریں ناکام رہیں ۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) صاف بچ گئے *۔ حل لغات :۔ فراغ ۔ روخان سے مشقق ہے ۔ جس کے معنے تدبیر واحتیاط کے ساتھ کسی چیز کا قصد کرنا ہے ۔ رغن ۔ کسی بات کے قبول کرنے اور اس پر توجہ دینے کو کہتے ہیں ۔ اور کسی چیز کی طرف خواہش اور میل کرنا بھی روغن ہے * یزفون ۔ الزف سے مشقق ہے ۔ بمعنی دوڑئے ہوئے پہنچنا *۔ الصافات
99 الصافات
100 الصافات
101 الصافات
102 ذبیح کون تھا ؟ ف 1: ان آیات میں دین کے لئے اور خدا کی اطاعت کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عدیم النظیر قربانی کا ذکر ہے ۔ کہ کیوں کر انہوں نے باوجود باپ ہونے کے اپنے بیٹے کی گردن پر اپنے ہاتھ سے چھری رکھ دی ۔ اور کس سعادت مندی سے ان کے بیٹے نے اپنے کو اس ایثار عظیم کے لئے پیش کیا ۔ یہ حقیقت ہے کہ مذہب کی تاریخ میں اس واقعہ کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے ۔ کہ اللہ کے ایک اشارہ پراپنے لخت جگر کو ذبح کردینے کا باپ تیہہ کرلے ۔ اور باپ کی فرمانبرداری میں بیٹا جانِ عزیز تک کی پرواہ نہ کرے *۔ حل لغات :۔ وتلہ ۔ التل کے اصل معنے اونچی جگہ کے ہیں ۔ اور فعل صورت میں یہ مقصد ہوگا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کو اونچی اور مرتفع زمین پر لٹا دیا * بذبح عظیم ۔ ذبح عظیم میں اس اعتبار سے کہ ابراہیم کی یہ قربانی آئندہ نسلوں کے لئے نمونہ اور اسوہ قرار پائی *۔ الصافات
103 الصافات
104 الصافات
105 الصافات
106 الصافات
107 الصافات
108 الصافات
109 الصافات
110 الصافات
111 الصافات
112 الصافات
113 ف 1: یہ ایک پرانا اختلاف ہے ۔ کہ ذبیچ کون ہے ۔ حضرت اسماعیل یا حضرت اسحاق ؟ صحیح اور محققانہ رائے یہ ہے کہ اس سعادت کا فخر حضرت اسمٰعیل کو حاصل ہوا ۔ دلائل یہ ہیں :۔ (1) قرآن کا انداز بیان اس پر شاہد ہے ۔ کیونکہ اس سارے واقعہ کو بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے ۔ وبشرناہ باسحاق یتبا من الصالحین ۔ کہ ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق کی نبوت اور سعادت کی خوشخبری سنائی ۔ دوسری جگہ فرمایا ہے ۔ کہ ہم نے اس بات کی بھی بشارت دی تھی ۔ کہ حضرت اسحاق کی نسل بڑھے گی ۔ اور ان کے ہاں یعقوب پیدا ہوں گے ۔ ومن وراء اسحاق یعقوب پھر یہ کیونکر ممکن ہے ۔ کہ جس بیٹے کو آئندہ چل کر نبوت کا اعزاز حاصل کرنا ہے ۔ اور جس کا ایک نسل کا باپ ہونا پہلے سے مقدور ومعلوم ہے ۔ اس کو ابراہیم ذبح کرنے کے لئے تیار ہوجائیں *۔ (2) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے متعلق ارشاد فرمایا ہے انا امن الذبحین ۔ یہاں غلام حلیم کا تذکرہ ہے اور دوسری جگہ تصریح فرما دی ہے کہ اس حلم وصبر کے مستحق حضرت اسماعیل (علیہ السلام) تھے ۔ واسمعیل والیسع وذوا الکفل کل من الصابرین *۔ (3) اسلوب بیان سے ظاہر ہے ۔ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پہلے اولاد نہیں ہے ۔ اور وہ ایک ایسا مسعود مولود چاہتے ہیں ۔ جو ان کے منصب صلاح وتقویٰ ہی آپ کے پہلو ٹھے بیٹے تھے *۔ (4) آج تک نحر اور قربانی کی رسوم کا تعلق ارض بیت اللہ سے ہے ۔ اگر حضرت اسحق مراد ہوتے تو قربانی کا مرکز شام ہوتا * الصافات
114 الصافات
115 الصافات
116 الصافات
117 الصافات
118 الصافات
119 الصافات
120 قرآن کا نظریہ فضیلت ف 1: غرض یہ ہے کہ جب کوئی اللہ کا بندہ مخلوقات کی مخالفت کی پرواہ نہ کرکے حقانیت کو قبول کرلیتا ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے برکات کے دروازے کھول دیتے ہیں ۔ اسے دنیا اور دین کی ہر نعمت سے بہرہ مندی کا موقع دیتے ہیں ۔ دیکھئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب توحید کی آواز کو بلند کیا ۔ تو اس وقت وہ یکہ وتنہا تھے ۔ ساری قوم میں ہمنوانہ تھا ۔ اور ایسا بھی نہ تھا جو سنجیدگی کے ساتھ دعوت ابراہیمی کے متعلق سوچتا اور غوروفکر سے کام لیتا ۔ پھر ایک وقت آیا ۔ کہ اس دعوت کا احیاء ہوا ۔ مکہ کی وادیاں توحید کے زمزموں سے گونج اٹھیں ۔ اور حضرت ابراہیم دیرینہ خواب پورا ہوا ۔ حضرت اسحاق نے اور حضرت اسمعٰیل نے آپ کے منصب امامت کو سنبھالا ۔ اور چارہ انگ تجازوشام میں توحید کے پیغام کو پھیلایا ۔ اس طرح یکہ وتنہا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) امتوں اور گروہوں کے مورث ہوئے ۔ اور ضروری قرار دیا گیا ۔ کہ اسلامی دنیا ان کے لئے رحمتوں اور برکتوں کا اعتراف کرے ۔ اور ان کے مقام عبادت کو اپنے لئے مرکز ٹھہرائے ۔ اور اس آواز کو جو انہوں نے بلند کی تھی ۔ ساری دنیا میں پہنچا دے *۔ پھر جہاں حضرت ابراہیم ان فضائل ومحاسن سے متصف تھے ۔ وہاں یہودی نہایت ظالم ثابت ہوئے ۔ انہوں نے اسرائیلی تعلیمات کو فراموش کردیا ۔ اور دنیاکی حقیر خواہشات کو اپنا نصب العین ٹھہرایا ۔ یہ اس لئے تصریح فرمادی ۔ تاکہ یہودی باوجود اپنی بداعمالیوں کے اس انتساب سے ناجائز استفادہ نہ کریں ۔ اور یہ نہ کہیں کہ ہم چونکہ حضرت اسحاق کی اولاد ہیں ۔ اس لئے بغیر اعمال صالحہ کے فضائل ومحاسن کا استحقاق رکھتے ہیں ۔ قرآن حکیم نے جس نظریہ فضیلت کو پیش کیا ہے ۔ اس میں مورثی فضائل کا کہیں ذکر نہیں ۔ ہر شخص کو اپنے ذاتی مجدد وشرف کا ذمہ اور ٹھہرایا ہے اور کہا ہے ۔ کہ بزرگی وہ ہے ۔ جس کا تعلق براہ راست تمہارے اپنے اعمال سے ہے *۔ الصافات
121 الصافات
122 الصافات
123 ف 2: فرعون مصر کے وقت جب بنی اسرائیل پر تشدد ہونے لگا اوسان کی طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا رکھا گیا ۔ تو اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئی ۔ اور حضرت موسیٰ اور ہارون کو اس ظالم حکومت کی سرکوبی کے لئے بھیجا گیا ۔ کہ فرعون اور اس کی قوم کو توحید اور آزادی کا پیغام سنائیں ۔ اور ان کو بنی اسرائیل کے استخلاص کے لئے آمادہ اور مستعد کریں ۔ چنانچہ ان دونوں بزرگوں نے پوری قوت کے ساتھ فرعون کا مقابلہ کیا ۔ اور بالآخر اپنی قوم کو اس کے چنگل سے چھڑانے میں کامیاب ہوگئے ان آیات میں انہی واقعات کا تذکرہ ہے * واتینھما الکتب سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ ہارون (علیہ السلام) کی نبوت بھی ایک مستقل نبوت تھی ۔ ظنیت وتبعیت کا کوئی تذکرہ نہ تھا ۔ ان کو بھی کتاب دی گئی ۔ اور ان کے قلب پر بھی تورات کے معارف ونکات کا نزول ہوا تھا ۔ حل لغات :۔ المسلمین ۔ واضح یا وضاحت کرنے والی *۔ الصافات
124 الصافات
125 الصافات
126 الصافات
127 الصافات
128 ف 1: حضرت ابن عباس کی رائے میں حضرت الیاس اور حضرت ادریس ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں ۔ مگر جمہور مفسرین کی رائے سے ۔ کہ یہ ایک مستقل پیغمبر تھے ۔ الصافات
129 الصافات
130 حل لغات : خردل ۔ رائی * فتکن ۔ ف یہاں اجتماع کے لئے ہے ۔ یعنی گو وہ صغیر وحقیر عمل ہوا اور انتہائی خطا میں بھی ہو *۔ الصافات
131 الصافات
132 سدومیوں کی بداعمالیاں ف 2: سدومی لوگوں میں خواہشات نفس کی تکمیل کا مادہ حد سے زیادہ بڑھ گیا تھا ۔ یہ دن رات ناپاک خیالات میں مستغرق رہتے اور اللہ کے قانون کو توڑتے ۔ ان کی فطرت مسخ ہوچکی تھی ۔ اس لئے ان میں جذبات جنسی کو پورا کرنے کا اندازہ ایک قلم بیہودہ اور غیر موزوں تھا ۔ حضرت لوط ان میں اس غرض کے لئے تشریف لائے کہ اس مرض مزمن کی اصلاح کریں ۔ اور ان کو بتائیں کہ اس جرم عظیم کے ہولناک نتائج کس صورت میں ظہور پذیر ہوئے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ارتکاب غیر فطری ہے ۔ مضر ہے ۔ اور مہلک ہے ۔ تم اس سے بازآجاؤ۔ ان لوگوں میں قوت ارادی کی کمی تھی ۔ اور خبث عمل کا زہر ان کی رگوں میں پوری طرح سرایت کرچکا تھا ۔ اس لئے حضرت لوط (علیہ السلام) کی تعلیمات اور خصائح کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ اور یہ سودا ان میں بڑھتا گیا ۔ یہاں تک کہ اللہ کا قانون مکافات حرکت میں آیا ۔ اور فیصلہ ہوا کہ اس بدکردار قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے ۔ تاکہ ان کی بداعمالیاں دوسروں تک متجاوزنہ ہوں چنانچہ ان کی بستیاں الٹ دی گئیں ۔ اور پتھروں کی ایسی بارش ہوئی ۔ کہ یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دنیا سے غارت ہوگئے ۔ اس ضمن میں یہ بات لائق غوروفکر ہے ۔ کہ یہ علت اللہ تعالیٰ کے نزدیک کس درجہ قابل اصلاح ہے ۔ کہ اس کے دور کرنے کے لئے ایک پیغمبر بھیجا جاتا ہے ۔ جو قوم کی طرف سے دلخراش طعنے سنتا ہے ۔ اور برابر اپنے اس اخلاقی مشن کی تبلیغ میں مصرروف ہے ۔ یعنی جب قوم میں یہ مرض عام ہوجائے ۔ تو پھر شرم ولحاظ کو بالائے طاق رکھ کر پیغمبرانہ عزنیت کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنا ضروری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ شرمناک پوزیشن یہ نہیں ہے کہ اس مرض کی اصلاح کے لئے درد مندانہ کوشش کی جائے ۔ بلکہ شرمناک یہ بات ہے کہ قوم کے نوجوان اس مہلک بیماری میں مبتلا ہوں ۔ اور اس کے ازالہ کے متعلق کچھ نہ سو چا جائے *۔ اس وقت نگران ناپاک خیال کے لوگوں کو آسمانی عذاب کے ذریعے ہلاک کردیا گیا تھا جو آج بھی یہ مرض قوموں اور نسلوں کو تباہ کررہا ہے ۔ اس سے اچھے باغ تباہ ہوجاتے ہیں کیرکٹر فنا ہوجاتا ہے اور تنومند اور باحوصلہ قوم کی تشکیل نہیں ہوتی ۔ اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ اس نوع کے لوگ بقالالاصلاح کے قانون کے مطابق خود بخود مٹ جاتے ہیں *۔ حل لغات :۔ بعلا ۔ ان ہشام کا ایک بت ہے جو ہونے کا تھا ۔ ہوسکتا ہے اس کے معنے مطلقاً معبود کے ہوں اور مقصد یہ ہو ۔ مگر خلاق اکبر کی طرف تمہارا ذہن اہلسنت نہیں ہوتا ۔ بعل کے اصل معنے صاحب اور مالک کے ہیں شوہر کو غالباً اسی مناسبت سے بعل کہا جاتا ہے *۔ الصافات
133 الصافات
134 الصافات
135 الصافات
136 الصافات
137 الصافات
138 الصافات
139 ف 1: حضرت یونس کا مختصر قصہ یہ ہے کہ یہ ارض نینوی کے نبی تھے انہوں نے قوم کو رشد و ہدایت کی طرف بلایا مگر یہ لوگ سرکشی اور تمرد میں بڑھتے چلے گئے ۔ حتیٰ کہ یہ مایوس ہوکر چل دیئے ۔ اور ہجرت کی نیت سے جب کشتی پر سوار ہوئے ۔ تو وہ دریا میں ڈگمگانے لگی ۔ انہوں نے قرعہ اندازی کرکے یہ معلوم کرنا چاہا ۔ کہ کون شخص اس کشتی میں ایسا ہے جس کی شامت اعمال سے کشتی ڈانواں ڈول ہورہی ہے ۔ تین دفعہ متواتر فرد حضرت یونس (علیہ السلام) کے نام پر پڑا ۔ اس لئے ان کو دریا میں ڈال دیا گیا ۔ اور مچھلی نے انہیں نگل لیا ۔ یہ اصل میں اللہ کی طرف سے تادیب تھی ۔ کہ قوم سے مایوس ہوکر بغیر اذن الٰہی ان کو چھوڑ دینے کی یہ سزا ہے ۔ چنانچہ انہوں نے تسبیح وتقدیس سے توبہ کی ۔ اور اللہ نے ان کو نجات دی ۔ حل لغات :۔ عجوزا ۔ بڑھیا * انحوف ۔ ایک قسم کی مچھلی ہوسکتا ہے کہ اس نوع کی مچھلیاں زمانہ حال کے آدمیوں کو نہ چلی ہوں جن کے گلے میں اتنی وسعت ہو ۔ کہ وہ انسان کو زندہ نگل سکیں ۔ علم الحیوانات کے ماہرین نے صرف ایک بحرروم میں اس ہزار قسم کی مچھلیاں دریافت کی ہیں * یقطئن بیلدار چیز ۔ تاکہ حضرت یونس آفتاب کی تمازت وحدت سے محفوظ رہے ۔ الصافات
140 الصافات
141 الصافات
142 الصافات
143 الصافات
144 الصافات
145 الصافات
146 الصافات
147 الصافات
148 الصافات
149 خدا کے بیٹیاں کیوں ہیں ؟ ف 1: خدا جانے کن وجوہ کی بناء پر مکے والے ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے ۔ اور ان کے مجسموں کی پوجا کرتے تھے ۔ قرآن نے کئی مقامات پر اس عقیدے کو ذکر کیا ہے ۔ اور اس کی وضاحت کے ساتھ تردید فرمائی ۔ ان آیتوں سے مقصود بھی یہی ہے کہ یہ لوگ اپنے عقیدے کی کمزوری ملاحظہ کریں ۔ فرمایا تم یہ تو سوچو ۔ کہ جب تم اپنے لئے لڑکیوں کے انتساب کو پسند کرتے ہو ۔ تو اللہ نے آخر بیٹیوں کو کیوں پسند کیا ۔ اگر اس کے اولاد ہے ۔ تو وہ اولاد ذکور کیوں نہیں ؟ غرض یہ ہے کہ جو چیزیں تمہارے لئے باعث فخر ہیں ۔ ان کو اگر تم اللہ کے لئے بھی باعث اعزاز سمجھتے ہو ۔ تو اس میں کچھ معقولیت ہوسکتی ہے ۔ اور اگر ان چیزوں کو تم اس کی ذات والا کی جانب منسوب کرتے ہو ۔ جو خود تمہارے ہاں لائق فخر نہیں ۔ تو پھر تمہیں اپنے طرز عمل پر غور کرنا چاہیے ۔ آخر یہ حقیقت تو ہدایت عقل سے ثابت ہے ۔ کہ خدا صرف صفات حسن وجمال سے متصف ہے اور کوئی برائی اس کے لئے ثابت نہیں ۔ پھر لڑکیوں کی تحقیر کا خیال یا دل سے نکال ڈالو اور یا اللہ کے لئے ان کو منسوب نہ کرو ۔ یہ عقیدہ کا تضاد تو کسی طرح بھی معقول قرار نہیں دیاجاسکتا ۔ کہ ایک طرف تو تم اللہ کی مخلوق کو نہایت ذلیل سمجھو ۔ اور سوسائٹی میں ان کو حقیر جانو اور دوسری طرف خدا کے لئے اس مخلوق کو منسوب کرو ۔ اور اس کے لئے ان کو وجہ فخر ولائق عزت قراردو *۔ الصافات
150 الصافات
151 الصافات
152 الصافات
153 الصافات
154 الصافات
155 الصافات
156 الصافات
157 الصافات
158 الصافات
159 الصافات
160 الصافات
161 الصافات
162 الصافات
163 خدائے خیر اور خدائے شر ف 1: قرآن حکیم میں تمام عقائد باطلہ کی تردید موجود ہے ۔ جو اس وقت رائج تھے ۔ اور یا ان کے مقبول ہونے کا مستقبل میں کوئی امکان تھا ۔ گو بظاہر صرف اہل کتاب اور مشرکین کو زیادہ تر مخاطب فرمایا ہے لیکن اگر غور وتعمق سے دیکھا جائے ۔ تو اس کتاب معرفت میں تمام مذہبی اور دینی تصورات کی توضیح اور تردید موجود ہے ۔ عربوں میں ایک عقیدہ اس وقت یہ موجود تھا ۔ کہ دنیا کے دو الگ الگ خدا ہیں ۔ ایک خیر کا خدا ہے جس سے سوائے حسن وجمال کے اور بھلائیوں کے اور کسی بات کا صدور نہیں ہوتا ۔ دوسرا شر کا خدا ہے ۔ جس سے مفاسد اور مضرات پیدا ہوتے ہیں ۔ اس طرح وہ یہ سمجھتے تھے ۔ کہ علم کلام کا یہ معرکہ الآراء مسئلہ حل ہوجاتا ہے ۔ کہ جب وہ حسن مطنق ہے ۔ اور جمال خالص ہے ۔ تو پھر دنیا میں دکھ ۔ تکلیف اور برائی کا وجود کیوں ہے ۔ اور کہاں ہے ۔ یہ خیال مجوس عجم نے عربوں میں پھیلایا تھا ۔ اور عربوں میں عقلیت پسند گروہ نے اس عقیدے کو اپنایا تھا ۔ اس بنا پر وہ شیاطین کو بھی قابل احترام سمجھتے تھے ۔ کیونکہ ان کی رائے میں ان کالاہوت کے ساتھ گہرا اور عمیق تعلق تھا ۔ اور دنیا میں جتنی برائیاں ہیں ۔ ان کا منبع ومصدر یہی جنات شر تھے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ کہ ان کا یہ عقیدہ سر اسر غلط ہے ۔ وہ اہر منی قوتیں جن کو یہ خدا سمجھتے ہیں ۔ اللہ کے ماتحت ہیں اور قیامت میں ان کو اس کے حضور میں پیش کیا جائے گا ۔ اس کی ذات ہر عیب اور نقص کی بات سے پاک ہے ۔ یہ نقائص اور مضرات ومفاسد جو ان کو نظر آتے ہیں ۔ ان کو معلوم نہیں ۔ کہ نفس کائنات کے وجود کے لئے ان کا ہونا کتنا ضروری ہے ۔ یہ ان اشیاء کو محدود نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ اگر یہ نظروں میں وسعت پیدا کریں ۔ اور ایک ایسی نظر کائنات کو دیکھیں جو اس کی تمام وسعتوں پر حاوی ہو ۔ تو انہیں معلوم ہو ۔ کہ عالم ہمہ خیر وجمال ہے اور نقص وعیب بینی نظر کی کوتاہیوں میں ہے ۔ عالم کون مکان میں نہیں *۔ حل لغات :۔ سلطن مبین ۔ یعنی کھلی اور واضح دلیل ۔ جو عقل وخرد پر قبضہ جماسکے * نسبا ۔ رشتہ * یہ فرشتوں کا کلام ہے *۔ الصافات
164 الصافات
165 الصافات
166 الصافات
167 الصافات
168 الصافات
169 الصافات
170 الصافات
171 الصافات
172 الصافات
173 الصافات
174 الصافات
175 الصافات
176 الصافات
177 ف 1: یعنی آج یہ لوگ گواز راہ عناد ودشمنی طلب عذاب میں مستعجل ہیں ۔ مگر آپ گھبرائیں نہیں ۔ جب اللہ کا غضب بھڑکے گا ۔ اور عذاب کو یہ لوگ روبرو دیکھیں گے ۔ تو اس و قت ان کے لئے حسرت اور ندامت کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوگا ۔ اس حالت میں ان کو احساس ہوگا ۔ کہ ہم نے اللہ کی غیرت کو آزمانے میں بہت بڑی گستاخی کا ارتکاب کیا ہے ۔ آپ ان سے فی الحال تعرض نہ فرمائیے *۔ حل لغات :۔ سبقت کلمتنا ۔ یعنی یہ مقدارات میں سے ہے ۔ کہ انبیاء کرام اپنے مخالفین پر غالب رہیں * اور ان کو ہر حال میں مظفر ومنصور رکھا جائے * بساحبھم ۔ آنگن ۔ کشادگی *۔ الصافات
178 الصافات
179 الصافات
180 ف 1: اور دیکھتے رہئے ۔ یہ بھی حالات پر نظر رکھیں ۔ رب العزت کی پاکیزگی اور شوائب شرک سے بلندی ثابت ہکر رہے گی ۔ اور اللہ کے رسول پر سل امتی کے انوار برسیں گے ۔ اور فضا مہر وستائش خداوندی کے نغموں سے گونج اٹھے گی *۔ الصافات
181 الصافات
182 الصافات
0 سورہ ص ٓ ف 2: یہ سورۃ مکی ہے ۔ اور اس کا آغاز بھی عام طور پر مکی سورتوں کے انداز کے مطابق قرآن کے تعارف سے ہوا ہے ۔ ص ۔ حروف مقطعات میں سے ہے ۔ جس کی تفصیل سورۃ بقرہ کے ضمن میں بیان کی جاچکی ہے ۔ قسم سے مراد استشہاء ہے ۔ جیسا کہ آپ گزشتہ صفحات میں پڑھ چکے ہیں ۔ یہاں مقصود یہ ہے کہ قرآن کی صداقت پر خود قرآن پیش کیا جائے ۔ اور اس کے اس پہلو کو نمایا کیا جائے ۔ کہ اس میں عالم انسانی کے لئے رشدوہدایت کا وافر سامان موجود ہے ۔ یہ ذکرونصیحت ہے اور برکت وسعادت ہے ۔ یعنی اگر قرآن کی تفصیلات پر اجمالی نظر ڈالی جائے ۔ تو اس کا منجانب اللہ ہونا خود بخود ثابت ہوجائے گا ۔ کہ اس کو پیش کرنے والا اللہ کا سچا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے ۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے ۔ کہ جب اس کی حقانیت اس درجہ ظہر اور واضح ہے ۔ تو پھر شکوک وشبہات کیوں پیدا ہوتے ہیں ۔ اور کیوں یہ مکے والے اس کی صداقتوں سے محروم ہیں ۔ جواب ارشاد فرمایا ۔ کہ اصل میں تعصب وغرور اور مخالفت وعناد کے جذبہ نے انہیں اندھا کر رکھا ہے ۔ ورنہ اس کلام الٰہی میں کفر وانکار کی قطعات گنجائش نہیں جانتے ہیں ۔ کہ ان سے پہلے بہت سی قومیں اسی تعصب اور حق کی دشمنی کی وجہ سے ہلاک ہوچکی ہیں ۔ اس لئے ان کا انجام بھی یہی ہوسکتا ہے ۔ اگر یہ برابر اس حقیقت کبریٰ کی مخالفت پر کمر بستہ رہے *۔ فرمایا ۔ ان کو تعجب میں ڈالنے والی یہ بات ہے کہ آخر اللہ نے اس عہدہ جلیلہ کے لئے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عربی کو کیوں پسند فرمایا ۔ حالانکہ جہاں تک دنیوی وجاہتوں اور انسانی فضائل ومحاسن کا تعلق ہے ۔ یہ لوگ بھی ان چیزوں میں آپ کے برابر کے شریک ہیں ۔ بلکہ بعض باتوں میں تو ان کا دعوی ہے کہ ہم ان سے کہیں بڑھ کر ہیں ۔ پھر دوسری چیزوں کا ان کے لئے حیران کن ہے ۔ وہ تو حید کا عقیدہ ہے *۔ حل لغات :۔ عزۃ ۔ یعنی غلبہ نفس کے مرض میں مبتلا ہیں * مناص ۔ ناص ۔ نیوص سے ہے ۔ بمعنی خلاصی *۔ ص
1 ص
2 ص
3 ص
4 ص
5 ف 1: وہ کہتے ہیں کہ یہ کیونکر ممکن ہے ۔ کہ بہت سے خداؤں کا کام تنہا ایک خدا کرسکے پھر جب انہوں نے یہ دیکھا کہ باوجود عجیب وحیرت کے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ۔ اور ان ہی کو منصب جلیلہ پر فائز کیا گیا ہے ۔ اور توحید کی طرف بلایا جارہا ہے تو ان کے اکابر نے عوام سے کہا ۔ کہ خبردار اس شخص کی باتوں میں نہ آجانا ۔ اور ایسا نہ ہو کہ تم اپنے خداؤں کو چھوڑ دو ۔ دیکھو اپنے بتوں کی عبادت پر قائم رہو ۔ پھر خود آپ ہی کہنے لگے ۔ کہ یہ عقیدہ تو کچھ ایسا ہے ۔ کہ پھیل کر رہے گا ۔ گویا ان کو اپنے عقیدہ کی کمزوری خوب معلوم تھی ۔ اور یہ محسوس کرتے تھے ۔ کہ اس کی خیر نہیں ہے ۔ یہ آج بھی غلط ہے ۔ اور کل بھی غلط ۔ ص
6 ص
7 ص
8 ص
9 نبوت کا استحقاق ف 1: جیسا کہ بتایاجاچکا ہے ۔ مکہ والوں کو سب سے زیادہ غصہ اس بات پر تھا ۔ کہ اگر نبوت ایک انعام ہے تو ہم اس سے کیوں محروم ہیں ؟ کیوں ہماری عزت وجاہت کو نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ کیوں ہمارے شرف ومجد کا خیال نہیں رکھا گیا ۔ اور کیوں ایسا ہوا ہے کہ ہم سے اس آدمی کو سعادت کے لئے چن لیا گیا ہے ۔ جو کسی طرح بھی مال ودولت کے اعتبار سے یا اعوان وانصار کے لحاظ سے ہم سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا ۔ اس استدلال سے ان کی غرض یہ تھی ۔ کہ شروع ہی سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دعویٰ غلط ہے ۔ اگر اس میں کوئی حقیقت ہوتی ۔ تو پھر ہمیں عہدہ نبوت پر فائز ہونا چاہیے تھا ۔ خدا ایسا نا منصف نہیں ہے کہ اکابر اور مشاہیر کو چھوڑ کر ایک گمنام اور یتیم کو جس کے پاس کھانے کو بھی موجود نہیں ۔ نبوت کے لئے منتخب فرمالے ۔ اور ساری کائنات کی سیادت وقیادت اس کے سپرد کردے ۔ ان لوگوں کے نزدیک نبوت کے لئے ضروری تھا ۔ کہ اس کے ساتھ دنیا کے ٹھاٹ بھی ہوں ۔ اور ایسے شخص کو اس منصب جلیل پر فائز ہونا چاہیے تھا ۔ جو حشم وحذم کے لحاظ سے اپنے معاصرین پر فوقیت رکھتا ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے مزعومہ کا جواب دیا ۔ اور فرمایا کہ یہ تو اللہ کی رحمت ہے ۔ اور اس کا دین ہے ۔ وہ خوب جانتا ہے کہ اس کا استحقاق کس شخص کو حاصل ہے ۔ اس کے علم سے ہے ۔ کہ یہ صنادیدو اکابر اس بارگراں کو اٹھا سکیں گے یا مکہ یہ دریتیم ۔ یہ بخشش اور موہبت سے جس کا تعلق روحانی اصلاح سے ہے ۔ اس لئے مال ودولت کی فراوانی اور عزت وجاہ کا تحقق وجہ سفارش نہیں ہوسکتا دیکھنا تو یہ ہے ۔ کہ کس کا دل ودماغ اس قابل ہے ۔ کہ انوار وتجلیات کو برداشت کرسکے ۔ اور اللہ کے پیغام کو دلیرانہ اس کے بندوں تک پہنچا سکے ۔ کون وہ ہے ۔ جو خلق عظیم کی دولت سے مالا مال ہے ۔ اور کسی کی سیرت عظمیٰ لوگوں کے لئے برکت وسعادت کا موجب ہوسکتی ہے ۔ فرمایا ۔ کہ نبوت کا انتخاب یکسر اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ اس کی رحمت کے خزائن تمہارے تسلط میں نہیں ۔ اور نہ آسمانوں اور زمین کی حکومت تمہارے قبضہ میں ہے ۔ اگر نہیں مانتے ہو ۔ تو جو چاہو کرو ۔ اللہ کو یہی منظور ہے ۔ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے رسول ہوں اور اس کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچائیں ۔ حل لغات :۔ عجواب ۔ تعجب * الملا ۔ اکابر * اختلاق ۔ گھڑت ۔ دروغ باقی *۔ ص
10 ص
11 ص
12 ص
13 ص
14 ص
15 ص
16 (ف 1) یعنی یہ لوگ تکذیب رسل میں کوئی قدرت سے کام نہیں لے رہے ، ان سے پہلے بھی قوموں نے اپنے پیغبروں کو جھٹلایا اور اللہ کا غضب اور غصہ حرکت میں آیا ہے ۔ اور ان منکرین کو چشم زون میں صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے ۔ اس لئے اگر یہ بھی اسی انجام کے منتظر ہیں ۔ اور یہی چاہتے ہیں ۔ کہ اللہ کی غیرت کو آزمائیں ۔ تو یہ بھی دیکھ لیں ۔ اس کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔ وہ اب بھی فطرت کے دشمنوں سے پوری طرح انتقام لے گا ۔ اور انہیں بتائے گا ۔ کہ حق وصداقت کا انکار کس درجہ مذموم ہوتا ہے *۔ حل لغات :۔ فلیرتقوا فی الاسباب ۔ غرض یہ ہے کہ اگر آسمان وزمین کی حکومت ان کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ تو پھر یہ کیوں آسمان پر نہیں چڑھ جاتے اور کیوں اپنے حسب منشا کار گاہ حیات کے انتظامات کو تکمیل تک پہنچاتے * ذوالاوتار ۔ ثبات ملک کے کنایہ ہے شعر ؎ ولقد فنوبانعم عیشۃ فی فطل ملک ثابت الاوتاد فواق ۔ مہلت ۔ اصل میں اس وقفہ کو کہتے ہیں جو ایک دفعہ دودھ دھو لینے کے بعد دوسرے وقت تک ممتد ہوتا ہے ۔ ص
17 ص
18 ص
19 ص
20 ص
21 ص
22 حضرت داؤد ف 1: اس مقام پر حضرت داؤد (علیہ السلام) کا ذکر مدح وستائش کے انداز میں ہے ۔ یہ کہا گیا ہے کہ وہ صاحب قوت واقتدار تھے ۔ وہ خدا کے حضور میں خشوع قلب کے ساتھ جھکتے تھے ۔ پہاڑ ان کے مستخر تھے ۔ پرندے ان کے اشارہ وچشم کے منتظر رہتے ۔ ان کی حکومت نہایت مضبوط اور مستحکم تھی ۔ اللہ نے حکمت وتدبیر اور فصاحت وبلاغت کی نعمتوں سے انہیں نوازا تھا ۔ اللہ کے ہاں ان کو قرب حاصل تھا ۔ یہ انجام وعاقبت کے لحاظ سے بہترین انسان تھے ۔ اور زمین میں ان کو اللہ کا نائب بنا کر بھیجا گیا تھا ۔ اور ان کو حکم دیا گیا تھا کہ لوگوں میں حق وانصاف کے ساتھ فیصلے صادر فرمادیں ۔ اور خواہشات نفس کی پیروی نہ کریں ۔ ان فضائل ومجاہد کی روشنی میں آپ اسے ناپاک قصے کی لغویت وغور کیجئے ۔ جو حضرت داؤد (علیہ السلام) کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیا اللہ نے اتنی تعریفیں محض اس لئے بیان فرمائی ہیں کہ ان کو معاذ اللہ ایک دنیوی بادشاہ کی طرح حریص وطامع انسان سمجھ لیا جائے ۔ کیا صاحب قوت واقتدار شخص اتنی اخلاقی بزدلی کا اظہار کرسکتا ہے ۔ کہ ایک عورت کے حصول کے لئے بلاوجہ موجد اس کے خاوند کو خفیہ منصوبوں کے ماتحت مروا ڈالے ۔ کیا وہ شخص جو اداب ہو جس کے نہایت بااقتدار ہو ۔ جو حکمت ودانائی کا مالک ہوں جس فصل خصومات میں اعلیٰ ترین قابلیت وبلاغت حاصل ہو ۔ وہ ایسی ذلیل حرکات کا ارتکاب کرسکتا ہے ۔ کیا اللہ کے نائب سے اس نوع کے کمینہ افعال کی توقع جاسکتی ہے ۔ معلوم نہیں کیونکر یہ بیہودہ افسانہ ہماری تفسیروں کا جزو بن گیا ۔ حالانکہ زمانہ صحابہ میں بھی اس واقعہ کی تردید کی گئی ۔ حضرت علی فرمایا کرتے تھے ۔ کہ جو واعظ اس قصے کو بیان کرے گا ۔ میں اس پر حد قذف جاری کرونگا ۔ اور اس کے درے لگاؤ نگا ۔ یہ گھڑت بائبل میں تو موجود ہے ۔ اور وہاں اس لئے ناقابل اعتراض ہے ۔ کہ اہل کتاب کے نزدیک حضرت داؤد پیغمبر نہیں تھے ۔ صرف ایک بادشاہ تھے ۔ اس لئے اس طرح کے قصوں کا انتساب ان کی طرف ہوسکتا تھا مگر قرآن کے نزدیک وہ پیغمبر ہیں ۔ جو نہ صرف معصول ہوتے ہیں ۔ بلکہ ان کا منصب یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے لئے اخلاق وعادات میں بہترین اسوہ اور نمونہ ہوں ۔ پھر یہ کیونکر جائز ہوسکتا ہے ۔ کہ ان کی طرف ایسے افسانے کا انتساب کیا جائے ۔ اصل قصہ یہ ہے ۔ کہ حضرت داؤد کے پاس بےوقت اور ناجائز طریق سے دو آدمی آئے ۔ ان کو خطرہ محسوس ہوا ۔ کہ شاید یہ دشمنوں کے مقرر کردہ جاسوس ہوں اور میرے قتل کے سلسلے میں آئے ہوں ۔ اس کے بعد انہوں نے وہ قصہ بیان کیا ۔ جس کی تفصیل ان آیات میں مذکور ہے ۔ اور حضرت داؤد (علیہ السلام) سے فیصلہ چاہا *۔ حل لغات :۔ فصل الخطاب اظہار ما فی الضمیر کی اعلیٰ ترین قدرت یعنی جو کلام کو فصیح اور روشن ہو ۔ اور حق وباطل میں حمیز کردے * ولا تشطط ۔ زیادتی نہ کر *۔ ص
23 ص
24 ف 1: حضرت داؤد کے نہایت فصاحت وبلاغت سے اور حسن خطاب کے انداز سے فیصلہ سنایا جس میں معمولی واقعہ کو ایمان وعمل کی دعوت کا زبردست ذریعہ بنالیا ۔ اور بتایا ۔ کہ عام طور پر جو لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے ۔ اور اعمال صالحہ کی قدروقیمت کو صحیح معنوں میں نہیں جانتے ۔ ان سے اس نوع کی زیادتیاں ضرور صادر ہوجاتی ہیں ۔ اس لئے اصل چیز یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ تاکہ ایک دوسرے کے حقوق پہچاننے کا ان کو موقع ملے ۔ اور آئندہ حق وانصاف کو اپنا مذہبی شعار بنائیں ۔ یہ نہیں کہ اس واقعہ کو صرف سطحی نظروں سے دیکھیں اور اس کے حقیقی اسباب پر غور نہ کریں ۔ اس کے بعد حضرت داؤد کو محسوس ہوا ۔ کہ دیواریں پھاند کر محل میں آجانے سے جو سوء ظن ان کے دل میں پیدا ہوا تھا ۔ وہ غلط تھا ۔ اور اس لحاظ سے قابل معافی تھا ۔ کہ ناگردہ گناہ انسان کے متعلق اس طرح کی رائے ۔ اس کو بہت سی مشکلات میں پھنسا دینے کی موجب ہوسکتی تھی ۔ چنانچہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اپنی اس غلط فہمی کی اللہ سے معافی چاہی ۔ اور اللہ نے ان کو معاف کردیا * ع اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کردیا *۔ حل لغات :۔ نعجہ ۔ دنبی ۔ بھیڑ ۔ بکری ۔ گاؤ خر *۔ ص
25 ص
26 ص
27 دنیا کی تخلیق کا ایک مقصد ہے ف 1: قرآن حکیم پہلی کتاب ہے جو دنیا کے لئے غرض اور مقصد کا تعین کرتی ہے اور کہتی ہے کہ عالم کون ومکان یہ تزئین وآرائش ، یہ قبہ نیلگوں ، ستارے ، یہ چان اور آفتاب جہاں تاب یونہی نہیں پیدا کئے گئے ہیں ۔ بلکہ ان کی تخلیق کا ایک متعین مقصد ہے ۔ انسان کو جو اس دنیا میں خلعت وجود دے کر بھیجا گیا ہے ۔ تو صرف اس لئے نہیں کہ وہ چند مادی لذتوں سے بہرہ مند ہوا اور پھر پیمانہ عمر لبریز ہونے پر دنیا چھوڑ دے ۔ بلکہ اس لئے کہ اس کے پیدا کرنے میں ایک حکمت ہے ۔ قرآن کہتا ہے اس بساط حیات کو لعو ولعب کے لئے نہیں بچھایا گیا ہے ۔ اور یہ کائنات محض اتفاق وقت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس کو عظیم وعلیم خدا نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے ۔ اس آیت میں مادیت کے اس نظریہ کی تردید ہے ۔ جو دنیا کو محض مادہ کے غیر شعوری تصرفات کا نتیجہ سمجھتے ہیں ۔ اور جن کی رائے ہے کہ اس کارگاہ حیات کے پس پردہ کوئی شعور وادراک کار فرما نہیں ہے ۔ جو کچھ ہے ۔ وہ صرف مادہ ہے ۔ آگے مادہ ہے ۔ پیچھے مادہ ہے ۔ اور ہر جہار طرف مادہ ہی کو حکومت اور اس کا تسلط ہے ۔ اب یہ عقیدہ تقریباً باطل ہوگیا ہے ۔ اور خود مادئیں اب یہ کہنے لگے ہیں ۔ کہ صرف مادہ اس درجہ اہمیت نہیں رکھتا ۔ کہ اسے طبعی طور پر ہر چیز کا منبع سمجھ لیا جائے ۔ بلکہ مادہ پر قوت حیات حکمران ہے ۔ گو وہ خدا کو ابھی اس شکل میں نہیں مانتے ۔ جس میں کہ مذہب اس کو پیش کرنا چاہتا ہے ۔ مگر اب یہ لوگ قریباً ایک ذی شعور ہستی کو ماننے لگے ہیں ۔ جو حیات اور زندگی کا مخرج ہے *۔ ص
28 ف 2: یعنی جب یہ مسلم ہے ۔ کہ دنیا کی تخلیق کا ایک معین مقصد ہے ۔ تو پھر یہ بھی صحیح ہے کہ جو لوگ اس نصب العین کی تکمیل میں مصروف ہیں ۔ اور اس غرض ومقصد کی مخالفت کرتے ہیں ۔ برابر نہیں ہیں ۔ پہلی قسم کے لوگ مومن اور صالح ہیں ۔ اور دوسری قسم کے لوگ مفسد ظاہر ہے کہ ایمان اور تقویٰ ہیں اور فساد وفجور میں کوئی نسبت ہی نہیں ۔ ایمان سے کائنات کی تعمیر ہے اور کفر سے عالم کون کی تخریف ۔ ص
29 ف 3: جو اس فلسفہ کو پیش کرنے والی کتاب ہے ، وہ نہایت مبارک ہے ۔ اور ہر صاحب عقل انسان اس کا مخاطب ہے اس کی خواہش ہے کہ سب لوگ اس کے حقائق ومعارف پر غور کریں اور سوچیں ۔ پھر اگر یہ مجموعہ تعلیمات واقعی کارآمد ہو اور لوگوں کو برکت وسعادت سے بہرہ مند کرسکے ۔ تو اس کو قبول کرلیں ۔ ورنہ کوئی شخص اس کو تسلیم کرنے کے لئے مجبور نہ ہوگا ۔ ص
30 ص
31 ص
32 ص
33 حضرت سلیمان کے گھوڑے ف 1: حضرت سلیمان کے متعلق اس قصہ میں بھی افسانہ آرائی سے کام لیا گیا ہے ۔ اور ان کے متعلق بھی ان کے باپ کی طرح یہ الزام لگایا گیا ہے ۔ کہ انہوں نے نماز عصر کو قضا کردیا تھا ۔ محض گھوڑوں سے محبت اور فریفتگی کی وجہ سے اور پھر آخر میں جب انہوں نے محسوس کیا ۔ کہ بڑی غفلت ہوئی ۔ تو ان گھوڑوں کو قتل کردیا تھا ۔ تاکہ نہ یہ رہیں اور نہ آئندہ آزمائش وابتلاء کا موقع پیش آئے ۔ یہ قصہ قطع نظر اس کے قرآن کے انداز بیان کے خلاف ہے ۔ اور منصب نبوت کے منافی بجائے خود اس درجہ رکیک ہے ۔ کہ عقل تسلیم نہیں کرتی ۔ کیونکہ حضرت سلیمان خود بادشاہ تھے ۔ بادشاہ کے بیٹے تھے ۔ ہمیشہ جاہ وحشم کو دیکھا تھا ۔ گھوڑوں کی سواری کی تھی ۔ یہ قرین عقل نہیں کہ وہ چند گھوڑوں پر اتنے ریجھ گئے ہوں کہ فرائض منصبی ہی بھول جائیں * غور طلب یہ حقیقت ہے کہ قرآن نے بطور انعام مقام فضیلت میں یہ ذکر کیا ہے کہ ہم نے حضرت داؤد کو سلیمان جیسے مولود مسعود سے نوازا ۔ جو ہمارے بہترین بندے تھے ۔ اور جن میں رجوع الی اللہ کا جذبہ بہت زیادہ تھا ۔ پس ان اوصاف لاحامل کیا نماز جیسا فریضہ بھول سکتا ہے *۔ اصل بات یہ ہے کہ حضرت سلیمان اپنے والد بزرگوار کی طرح دشمنوں میں گھرے ہوئے تھے ۔ اور دین کی اشد محبت اپنے دل میں پنہاں رکھتے تھے ۔ اور چاہتے تھے ۔ کہ دشمن بھی ان کی حقانیت کے قائل ہوجائیں ۔ اس لئے بالطیع جہاد کی ضرورت محسوس کرتے تھے ۔ ان آیات میں ان کے اسی جذبہ جہاد کا ذکر ہے ۔ کہ ایک دن جب ان کے حضور میں عمدہ عمدہ گھوڑے پیش کئے گئے ۔ تو انہوں نے فرمایا ۔ کہ مجھے ان سے بہت محبت ہے ۔ اور یہ محبت اس لئے ہے کہ میرے رب نے جہاد کا اور اس کی تیاریوں کا حکم دے رکھا ہے ۔ اور جہاد کے لئے ان گھوڑوں کی بڑی ضرورت ہے ۔ وہ یہ کہہ رہے تھے ۔ کہ گھوڑے آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ۔ انہوں نے حکم دیا کہ دوبارہ ان کو پیش کرو ۔ اور پھر ازراہ شفقت ومحبت خود ہی گردن اور ان کے پاؤں سہلانے لگے ۔ غرض یہ ہے کہ حضرت سلیمان جہاد کے لئے گھوڑوں کی تربیت میں بنفس نفیس حصہ لیتے تھے *۔ ص
34 ص
35 ص
36 ف 2: ان آیتوں میں حضرت سلیمان کی وسعت سلطنت کا تذکرہ ہے ۔ کہ کیونکر وہ ہواؤں میں اڑتے تھے اور ان کا تخت ہوائی ان کے تابع تھا ۔ جہاں وہ چاہتے تھے جاتے تھے ۔ اور ہر نوع کے کام کرنے والے ان کے مسخر تھے *۔ حل لغات :۔ الصفنات ۔ صافۃ کی جمع ہے ۔ وہ گھوڑے جو تین پاؤں اور چوٹھے سم پر کھڑے ہوتے ہیں ۔ مراداصل اور عمدہ گھوڑوں سے ہے * الجیاد ۔ جواد کی جمع ہے ۔ بمعنی تیز رفتار گھوڑے * فتنا ۔ حضرت سلیمان کے ایک دوسرے واقعہ کا ذکر ہے جب وہ دشمنوں کے حملہ کی خبر سے متاثر ہوکر اپنی کرسی پر سے گر پڑے ، اور ان کو معلوم ہوا کہ حملہ کی خبر غلط ہے تو ہوش میں آئے اور سجدہ شکر ادا کیا *۔ ص
37 ص
38 ص
39 ص
40 ص
41 ف 1: ان تمام قصوں سے مقصد یہ ہے ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسکین خاطر کا سامان مہیا کیا جائے ۔ آپ کو بتایا جائے ۔ کہ نبوت کے لئے فقرواخلاص ضروری نہیں ہے ۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کو دیکھئے ۔ کہ کیونکر اللہ تعالیٰ نے ان کو مال ودولت اور جاہ وحشمت سے نواز رکھا تھا ۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں ۔ کہ انبیاء آسودگی اور تنعم کی زندگی ہی بسر کریں ۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو دیکھئے کہ وہ کس قدر تکلیف میں مبتلا ہوئے ۔ مگر پھر بھی دامن صبروشکر کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا *۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) قصہ یہ تھا کہ حضرت ایوب (علیہ السلام) بیمار ہوگئے ۔ اور بیماری نے یہاں تک طول کھینچا کہ اہل وعیال بھی گھبراگئے ۔ اور بالآخر ان کو چھوڑ کر چل دیئے ۔ اس حالت میں بھی ایوب دعا وشکر اور کار وستائش میں مصروف رہے اللہ تعالیٰ نے اپنے صابر بندے کی دعا کو سن لیا ۔ اور بیماری کو صحت وتوانائی سے بدل دیا ۔ ایک چشمہ بخشا پاؤں کی ٹھوکر سے ابلا ۔ اور حضرت ایوب اس میں نہا کر بالکل تندرست ہوگئے پھر اہل وعیال کے لوگ بھی حسب دستور واپس آگئے ۔ اور حضرت ایوب امن وسعادت کی زندگی بسر کرنے لگے ۔ ایک خلش دل میں باقی تھی اور وہ یہ تھی کہ بیماری کی حالت میں اپنی بیوی کے متعلق قسم کھاچکے تھے کہ اس کو اس کی ناشکری اور خدمت گزاری کی سزا دینگے اور ماریں گے ۔ مگر اب دل نہ چاہتا تھا ۔ کہ قسم کو پورا کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سینکریں کا ایک مٹھا لو اور اس سے مار کر قسم کو پورا کرلو ۔ اس سے تم اپنی قسم کو بھی پورا کرسکوگے ۔ اور تمہاری بیوی کو دکھ بھی نہیں پہنچے گا ۔ چنانچہ حضرت ایوب نے اس تدبیر پر عمل کیا اور سوگند شکنی کے ارتکاب سے بچ گئے ۔ اس واقعہ سے فقہائے متاخرین نے ایسے علامات پیدا کئے ہیں کہ العیاذ باللہ پورا نظام شرعی ہی تباہ ہوجاتا ہے ۔ اور ہر حکم میں اس طرح کی لچک پیدا ہوجاتی ہے ۔ کہ اس کو اپنی خواہشات کے مطابق بنا سکیں ۔ اصل میں اس باب میں ایک اصولی چیز کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ شریعت اسلامی میں سہولت وآسانی مقدر ہے اگر الفاظ میں اس طرح کی گنجائش ہو ۔ کہ کوئی شخص مشکلات سے بچ سکے ۔ تو اسلام اس مدد کرتا ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ شریعت اسلامی کے احکام کو ایک قسم کا بار سمجھ لیا جائے ۔ اور اس سے گردن چھڑانے کے لئے حیلے تراشے جائیں ۔ حضرت ایوب کے قصہ میں کسی حکم شرعی کے ازار کے لئے کوئی تدبیر نہیں سوچی گئی ہے ۔ بلکہ اسی بات پر غور کیا گیا ہے کہ کیونکر حضرت ایوب کے الفاظ کو بہترین اور مفید شکل میں استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ دونوں زاویہ نگاہ کا بہت بڑا فرق ہے *۔ حل لغات : مقربین ۔ بندھے ہوئے * مسنی الشیطن ۔ یعنی میں بیمار ہوگیا ہوں ۔ مگر جب بیماری کو شیطان کی طرف منصوب کرتے ہیں یختل نہانے کی جگہ صغنا ۔ سینکوں کا مٹھا *۔ ص
42 ص
43 ص
44 ص
45 ص
46 ص
47 ص
48 انبیاء سب سے بہتر ہوتے ہیں ف 1: قرآن حکیم نے منصب نبوت کو ان معنوں میں پیش فرمایا ہے ۔ کہ نام ہے فضیلت وخیر کے آخری نقطہ ارتقاء کا پیغمبر وہ ہے جو انسانیت کے لئے پورا پورا نمونہ ہو جو جسم وروح کے لحاظ سے اعلیٰ درجے کا توازن پیش کرنے والا ہو جس میں انسان کو وہ سب کچھ مل جائے جس کا وہ خواستگار ہو جو کردار اور سیرت کے لحاظ سے دوسرے کے لئے لائق اطاعت وتقلید ہو ۔ اور جس کے چہرہ انور میں ہر نوع کی تابانی ہو یعنی کل من الانبیاء کا صاف مفہوم ہے کہ تمام پیغمبر خیر محض ہوتے ہیں ۔ ان میں ان جلو وں کی کثرت وفراوانی ہوتی ہے ۔ جن کا تعلق کمالات انسانی سے ہے ۔ اور یہ اپنے زمانے اور ماحول کی مناسبت سے تمام تاریک دنیا کو پیغام کو رد یتے اور قلوب میں روشنی پیدا کرتے ہیں *۔ ص
49 ص
50 اہل جنت ف 2: ان آیتوں میں پاکبازوں کے لئے حسن مآب کا وعدہ ہے ۔ جنہوں نے دنیا میں خدا کے دین کی اشاعت کے لئے ہر نوع کی لذتوں کو ٹھکرایا ہے اور اپنے کو مصائب ومشکلات کا ہدف بنائے رکھا ہے جنہوں نے نفس کو خواہشات سے روکا ہے ۔ اور جذبات کی کڑی نگرانی کی ہے ۔ جنہوں کے دل کو اس طرح اللہ کے حکموں کے ماتحت کرلیا ہے ۔ کہ وہ بغاوت سرکشی اور آمادہ نہیں ہوتا ۔ جنہوں نے ایمان محکم کی نعمت کو پالیا ہے اور اعمال صالحہ سے بہرہ مندی حاصل کی ہے ۔ ہاں وہ جنہوں نے روح وقلب کی نورانیت کے لئے ان تمام منزلوں سے گزرنا گوارا کرلیا ۔ جو لومتہ الائم کے اذیت وہ کانٹوں سے اٹی پڑی تھیں ۔ ان پاک اور بلند ہمت نفوس کے لئے اللہ کے ہاں نہایت خوشگوار زندگی ہے ۔ وہاں روح وجسم کی تمام آسائشوں کا سامان ہے ۔ وہاں باغات ہیں جو سدا شاداب رہیں گے ۔ جن کے دروازے ان کے لئے کھلے ہونگے ۔ اور یہ بلا روک ٹوک ان میں داخل ہونگے ۔ ان باغہائے نعمت میں یہ لوگ اطمینان ووقار کے ساتھ تکیہ کے سہارے بیٹھے ہونگے ۔ یہ بوقلمون تواکہ سے اپنے کام وذہن کی تواضع کرینگے ۔ پینے کے لئے عمدہ عمدہ چیزیں ہونگی ۔ اور تسکین نفس کے لئے ہم سن اور ہم مذاق خواتین ہونگی ۔ جن کی نگاہیں صرف اپنے چاہنے والوں کے چہروں پر مرکوز ہونگی ۔ گویا وہاں نفس اور قلب کی ہر آسائش اور ہر آسودگی کا خیال رکھا جائیگا ۔ کوئی خلش نہیں ہوگی ۔ اور نہ کوئی غلجان باقی رہیگا ۔ ساری حسرتیں نکلیں گی ۔ اور سب ارمان پورے ہونگے *۔ حل لغات :۔ افواب ۔ فوب کی جمع ہے ۔ ہم سن ۔ ہم عمر ۔ دودستان *۔ ص
51 ص
52 ص
53 ص
54 ص
55 ص
56 ص
57 ص
58 ف 1: ان آیات کے بعد ان لوگوں کا ذکر ہے ۔ جنہوں نے دنیا میں خدا کو نہیں پہچانا ۔ اور سرکشی وبغاوت سے کام لیا ۔ جنہوں نے عقبیٰ پر اس متاع غرور کو ترجیح دی ۔ اور جنہوں نے ہمیشہ اللہ کے دین کو ٹھکرایا ۔ ان لوگوں کے لئے بدترین ٹھکانہ اور بدترین سزائیں ہیں ۔ انہوں نے دنیا میں عاجل کو مقدم جانا ۔ اور آجل سے غفلت اختیار کی ۔ اس لئے انہیں وہاں سب کچھ دیدیا گیا ہے ۔ جس کے یہ طالب تھے ۔ اور آخرت کی نعمتیں ان سے چھین لی گئیں ۔ ص
59 اہل جہنم کی غلط فہمی ف 2: قیامت میں جب یہ لوگ دیکھیں گے ۔ کہ جنہوں نے مسلمانوں کو بےحد تکلیفیں پہنچائی تھیں ۔ ہمارے ساتھ جہنم میں نہیں ہیں ۔ تو ازراہ تعجب وحیرت ایک دوسرے سے دریافت کرینگے کہ وہ لوگ جنہیں ہم دنیا میں مفسد اور شریر کہتے تھے ۔ اور جن سے ہم مذاق کرتے تھے ۔ آج کہاں ہیں *۔ حل لغات :۔ نفاذ ۔ کم ہوجانا ۔ ختم ہوجانا * المھاد ۔ جگہ * حمیم ۔ گرم پانی * غشاق گدلا اور غیر مصفی پانی *۔ ص
60 ص
61 ص
62 ص
63 ف 1: کیا بات ہے ہم ان کو نہیں دیکھتے ہیں یا یہ کہ ہماری نظروں میں کچھ فتور ہے ؟ یعنی دنیا میں تو انہیں اپنے ماں اور ذہنی دولت پرناز تھا ۔ اپنے اعمال اور اپنی سمجھ پر غرہ تھا ۔ ان کو یقین تھا ۔ کہ ہم امن وصلاح کے حامی ہیں ۔ اور یہ مسلمان حقیر اور ذلیل ہیں ۔ مفلس اور غریب ہیں ۔ یہ خواہ مخواہ اسلام کو پھیلا کر گویا فتنوں اور اختلافات کو بڑھاتے ہیں ۔ اس لئے ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا ۔ اور ہم جنت میں جائیں گے ؟ مگر یہاں معاملہ بالکل خلاف ہوگا ۔ یہ لوگ اپنے غرور نفس اور خدع وفریب میں مبتلا اپنے کو جہنم میں پائیں گے ۔ اور یہ دیکھ کر مسلمان یہاں نہیں ہیں ۔ سخت بوکھلائیں گے ۔ اس وقت ان کی آنکھیں کھلیں گی اور ان کو معلوم ہوگا ۔ کہ اللہ کے نزدیک مسلمانوں کی کیا قدروقیمت ہے ۔ اس وقت یہ محسوس کریں گے ۔ کہ یہ محرومی سعادت وفلاح سے محرومی ہے ۔ مگر ” ولات حین مناص “ فرمایا یہ مکالمہ اور تخاصم جو اہل نار کے مابین ہوگا ۔ یہ قطعی اور حتمی ہے ۔ اور اس کو بیان کرتا اس بات کی دلیل ہے ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی والہام یہ سب کچھ بتلایا گیا ہے ۔ ورنہ انسانی علم کی کوتاہی کا تقاضا یہ ہے ۔ کہ وہ ان احوال وکوائف کے متعلق کچھ نہ جان سکے *۔ حل لغات :۔ سخریا ۔ ہدف استہزائ* القھار ۔ غالب ۔ بااقتدار * تخاصم ۔ آپس میں لڑنا جھگڑنا * ص
64 ص
65 ص
66 ص
67 ص
68 ص
69 ص
70 ص
71 ص
72 ص
73 اللہ کے نائب کا عہدہ ف 1: یہ اس وقت کی بات ہے ۔ جب اللہ تعالیٰ انسان کو وجود کی نعمت سے بہرہ ور کرنے کو تھا ۔ جب یہ طے ہورہا تھا ۔ کہ اس ظلوم وجہول کے کندھے پر خلافت عظمی کا بار رکھا جائے ۔ جب ملاء اعلیٰ کے روحانی نعمتوں سے معمور تھا ۔ اور اخلاق اکبر کو یہ منظور تھا ۔ کہ زمین کو بشر کی ہنگامہ آرائیوں کا مرکز بنایا جائے ۔ اس وقت اس میں خودداری وعظمت کا جذبہ بیدار کرنے اور زمین میں بہترین غائب بنانے کے لئے یہ ضروری قرار دیا گیا ۔ کہ طاء اعلیٰ کو اس کے سامنے جھکایا جائے اور اس کی بتلایا جائے ۔ کہ دنیا میں جانے کا مقصد تسخیر کائنات ہے ۔ تم اس لئے خلعت وجود سے نوازے جارہے ہو ۔ تاکہ قدرت کی بلند ترین اور پاکیزہ ترین قوتوں کو اپنے سامنے جھکاؤ۔ اور خود صرف اللہ کے سامنے جھکو *۔ یہ انداز بیان (اسی لئے) اختیار کیا گیا ہے ۔ کہ موجودہ انسان اپنی رفعتوں اور عظمتوں کا صحیح صحیح اندازہ کرسکے ۔ فرمایا کہ جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا ۔ کہ دیکھو میں مٹی سے ایک انسان بنانیوالا ہوں ۔ جب میں اس کو بنالوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں ۔ تو تمہیں یہ زیبا ہے ۔ کہ اس کے احترام میں اس کے روبرو سجدہ میں گرپڑتا ۔ چنانچہ تمام قدسیاں حریم ، عزت وجلال نے آدم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا ۔ اور نہایت عقیدت سے اس کے سامنے جھک گئے ۔ مگر ابلیس نے انکار کیا ۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محرومی وشقاوت کو خرید لیا ۔ اس کے انکار سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ یہ حکم سے پہلے اس قابل ضرور تھا ۔ کہ فرشتوں کے ساتھ اسے بھی سجدہکا مکلف قرار دیاجائے ۔ اس کے بعد محض اپنی سرکشی سے وہ ابلیس بنا ہے ۔ اور کبر و غرور سے تتیطنت کی مسند پر بیٹھا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے نیک ہی پیدا کیا تھا ۔ اور اس کے مناسب بھی یہی تھا ۔ کہ وہ فرشتوں کے ساتھ ساتھ خدا کی اطاعت کا ثبوت دے ۔ مگر اعجاب نفس کے مرض نے اسے ہلاکت کے گڑھے میں پھینک دیا ۔ اور دائما غضب الٰہی کا اسے مورد ٹھہرایا *۔ حل لغات :۔ من روحی ۔ میری روح ۔ نسبت محض تشریف وتفضل کے لئے ہے * بیدی ۔ یعنی قدرت کاملہ سے *۔ ص
74 ص
75 ص
76 ص
77 ص
78 ص
79 ص
80 ص
81 ص
82 ص
83 ص
84 ص
85 شیطان نے کیوں گستاخی کی ف 1: شیطان کے انکار سے طبیعتوں میں یہ شبہ پیدا ہوتا تھا ۔ کہ اس کو اس کے قرب کے باوجود اور یہ جانتے ہوئے ۔ کہ اللہ کے حکموں کی مخالفت کی سزا کتنی سخت ہوسکتی ہے ۔ یہ جرات کیسے ہوئی ۔ کہ صاف صاف بغاوت کا اظہار کرے ۔ اور خدا کے حضور میں برملا کہہ دے ۔ کہ میں آپ کے اس حکم کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں ۔ جہاں تک گناہوں کی نفسیات کا تعلق ہے ۔ ان کی وجہ یہ ہوئی ہے ۔ کہ انسان کو ان کے خوفناک نتائج کا قطعی علم نہیں ہوتا ۔ اور اللہ پر بحکم اور مضبوط ایمان نہیں ہوتا ۔ اور اگر نتائج کے متعلق یقینی علم ہو ۔ تو پھر معصیت پر جسارت کا حوصلہ کم ہوتا ہے ۔ کیا وہ شخص جس کے سامنے سمندر متلاطم ہو ۔ اس میں کود سکتا ہے ۔ جو اپنی آنکھوں کے سامنے آگ کا الاؤ دیکھ رہا ہو ۔ کیا وہ اس میں اپنے کو جھونک سکتا ہے ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص سوراخ میں بچھو یا سانپ اپنی آنکھ سے دیکھے اور بھر اس میں اپنی انگلی ڈال دے اگر یہ ممکن نہیں ہے ۔ تو پھر یہ کیونکر ہوسکتا ہے ۔ کہ شیطان جس کو خدا سے حددرجہ قرب حاصل تھا ۔ خدا کی گفتگو کو سنتا تھا ۔ اور محسوس کرتا تھا ۔ کہ وہ اپنی جلالت قدر اور عظمت میں کتنا بڑا ہے ۔ اور یہ بھی جانتا تھا ۔ کہ اس کی مخالفت کے معنے اس کے غضب واقتدار کو آزمانا ہے ۔ اس کی مخالفت پر آمادہ ہوجائے ۔ اور یک بیک باغی ہوجائے ۔ اور جرات کے ساتھ کہہ دے کہ میں آدم کے سامنے نہیں جھک سکتا ؟*۔ ان آیتوں میں اللہ نے اتنی بڑی گستاخی اور اتنی بڑی جسارت کا سبب بتادیا ہے ۔ بات یہ ہے کہ باوجود قرب اور حضوری کے ہزاروں ایسے حجاب ہیں جو درمیان میں حائل ہیں ۔ یہ درست ہے کہ شیطان ہم سے زیادہ مقام تزلف پر فائز تھا ۔ مگر اسی تناسب کے ساتھ اس میں اور اللہ میں حجابات بھی زیادہ تھے اور وہ جس حجاب کی وجہ سے اس تقرب سے محروم ہوا ۔ وہ حجاب کبروغرور ہے ۔ اس نے اس کے مرتبہ ومقام کو اس کے ذہن سے اوجھل کردیا ۔ اس کی وجہ سے یہ بھول گیا ۔ کہ میں اس وقت کس جناب عالی وقار سے گفتگو کررہا ہوں ۔ اس لئے گستاخی کا مرتکب ہوا ۔ اور مردود قرار پایا ہوسکتا ہے یہ گفتگو ان معنشوں میں نہ ہو ۔ جن میں ہم سمجھتے ہیں ۔ اور صرف یہ بتانا مقصود ہو کہ جہاں تک مقتضائے طبیعت ہے ۔ دنیائے کون میں دو طرح کے عناصر ہیں ۔ ایک وہ ہیں جو انسان کے تابع اور مسخر ہیں ۔ یا اسکا اس کے عزائم خیر میں ساتھ دیتے ہیں اور دوسرے طبعات اس کے مخالف اور سرکش وباغی ہیں ۔ خدا کے نیک بندوں کا فرض یہ ہے کہ وہ نیابت الٰہیہ کے فرض کو خوبی کے ساتھ انجام دیں ۔ اور ہر دو قسم کے عناصر پر قبضہ وقدرت حاصل کرلے ۔ واضح رہے کہ شکایت حال وطبیعت کے لئے بھی قال وقیل کے الفاظ عربی میں مستعمل ہیں ۔ جیسے اذا متلاء الحوض قال قطنی اس لئے یہ توجیہہ بھی لائق اغناء ہے ۔ اس طرح گویا قصہ کی یہ نوعیت ہی بدل جائے گی ۔ اور مدعا یہ قرار پائیگا ۔ کہ رب فاطر انسان کو اس مکالمہ کے ذریعہ اس کی عزت اور اس کے مقام اور مرتبہ سے آگاہ کرنا اور اس میں تفوق وبرتری کے احساسات پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ حل لغات :۔ رجیم ۔ مرود * انظرنی ۔ مجھے مہلت دیجئے * من المتکلفین ۔ یعنی میں جس سیرت کا اظہار کر رہا ہوں ۔ اس میں سراسر حقیقت اور واقیت ہی ہے نمائش اور بناوٹ کو اصلا دخل نہیںَ ص
86 ص
87 ص
88 ص
0 الزمر
1 الزمر
2 الزمر
3 قرآن کا مرکزی پیغام ف 1: حق کے ساتھ کتاب کو نازل فرمانے کا مقصد یہ ہے کہ اس کتاب جلیل میں اور قانون عقل وخرد میں پورا پورا مطابق ہے ۔ اس صحیفہ عظیم میں اور فطرت کے قوانین میں کامل توافق ہے اور اسی طرح اس میں اور اصلاحی وروحانی مصالح میں بھی پوری مناسبت ہے ، یعنی اس کے پیش کردہ تصورات میں کوئی ایسا تصور نہیں جسے آپ فطرت کے منافی کہہ سکیں ، اور اسی طرح اس میں یہ عجیب بات ہے کہ اس کی تعلیمات میں روحی اصلاح کا پور پورا خیال رکھا گیا ہے ۔ تمام مصالح اور مطالع کو سامنے رکھ کر انسان کے لئے ایسا جامع پیغام پیش کیا گیا ہے جو اس کی قدرتی ساخت اور خواہشات کے بالکل مطابق ہے حق کے معنی عربی میں کسی چیز کے موافق اور مطابق ہونے کے ہیں ۔ اس لحاظ سے انزال بالحق سے مرادیہی ہے ۔ کہ وہ تمام چیزیں جن کی کتاب اللہ ہونے کے لئے ضرورت ہے اور جو کتاب اللہ کے مفہوم میں داخل ہیں ۔ یہ کتاب ان کی حال ہے ۔ اس کا مرکزی پیغام یہ ہے ۔ کہ انسان جہاں تک جذبہ اطاعت وفرمانبرداری کا تعلق ہے ۔ اور عبادت ونیاز مندی کا واسطہ ہے ۔ صرف اللہ کے سامنے جھکے اور صرف اسی کے سامنے اپنے ذہنی اور جسمانی لذلل واحتقار کا اظہار کرے ۔ اس کے سوا معبودان باطل کو کوئی اہمیت نہ دے ۔ بلکہ سب کے مقابلہ میں اپنے ذاتی شرف ومجد کا دلیری کے ساتھ اظہار کرے ۔ اسلام انسان میں جذبہ خودداری پیدا کرنا چاہتا ہے کہ وہ پوری دماغی اور بہ فکری آزادی کی فضا میں تربیت پائے اس کے ارادوں میں بجز اللہ کے اور کوئی حائل نہ ہو ۔ وہ خیالات کے لحاظ سے صرف کتاب اللہ کا تابع ہو اس کے اعضاء وجوارح میں بھی یہ صلاحیت پیدا ہوجائے ۔ کہ وہ جھوٹ اور باطل کے مقابلہ میں کامل مخالفت کا اظہار کریں تو ان کا ارشاد ہے ۔ کہ عبادیت خالصہ اور سچی عقیدت مندی صرف اللہ تعالیٰ سے مختص ہے اور جو لوگ اسکو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا معبود بنالیتے ہیں اور ان کے آستانہ پر جھکتے ہیں ۔ اور یہ کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے ۔ بلکہ ان کو اللہ کا ذریعہ تقرب سمجھتے ہیں وہ مکار اور جھوٹے ہیں * حل لغات :۔ بلعلمین ۔ تمام کائنات کے لئے ہر وقت اور ہر قوم کے لئے عالم کا غلط اتنی وسعت رکھتا ہے ۔ کہ زمان ومکان کی تمام چیزیں آجاتی ہیں * الطاین ۔ اعتقاد وعبادت * زلفی قریب * الزمر
4 الزمر
5 ف 1: اللہ تعالیٰ قیامت میں ان لوگوں کو بتائیں گے کہ شرک سے ان میں کس درجہ پستیاں اور ذلتیں آگئی ہیں ۔ اور کس درجہ لوگ اللہ کی رحمتوں سے دور ہوگئے ہیں ۔ اس وقت ان کی آنکھیں کھلیں گی ۔ ان کو محسوس ہوگا کہ جن معبودان باطل کو یہ اللہ کے قرب کا ذریعہ قرار دیتے تھے وہ خود اللہ کے مصوب ہیں اور اس کی نگاہ غضب کا شکارا ۔ اس وقت ان کی آنکھوں سے حجاب دور ہوجائے گا ۔ اور حقیقت کو واضح طور پر اپنے سامنے دیکھیں گے *۔ ف 2: خالق السموت والارض بالحق سے مراد یہ ہے کہ دنیا کو یونہی بلا کسی مقصد متعین کے پیدا نہیں کیا گیا ہے ۔ جیسا کہ ماونین سمجھتے ہیں ۔ بلکہ اس کے پیدا کرنے سے ایک غرض مدنظر ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان زمین میں اللہ کی نیابت کا اظہار کرے ۔ اور اپنے افعال واعمال سے ثابت کردے ۔ کہ وہ رب السموات والارض سے تعلق ارادت رکھتا ہے اور احکم الحاکمین کا بندہ اور غلام ہے *۔ الزمر
6 تمہارا رب کون ہے ؟ ف 3: اگر انسان صرف اس حقیقت پر فکر ونظر کو مرکوز رکھے ۔ کہ اللہ نے تخلیق کے بالکل ابتدائی دور میں جب اپنی ربوبیت سے ہمیں کامل طور پر نوازا ہے ۔ اور اس وقت ہمارا خیال رکھا ہے ۔ جب ہم ماں کے پیٹ میں تھے ۔ یعنی فی ظلمت ثلث کے جب ہم مصداق تھے ۔ ہمیں غذا پہنچائی ہے ۔ ہمیں ضروری روشنی اور پاکیزہ ہوا سے بہرہ مند کیا ہے ۔ تو کیا جب ہم میں توانائی آگئی ہے ۔ اور قدرے کسب حصول پر قادر ہوگئے ہیں ۔ تو وہ ہم کو چھوڑدیگا ؟ جب ان نازک وقتوں میں کسی معبود نے کسی بت اور کسی شیخ اور بزرگ نے ہماری مدد نہیں کی ۔ تو اب ہم جبکہ سمجھ بوجھ کے مالک ہوگئے ہیں ۔ ان کے کس طرح محتاج ہوگئے ہیں ؟ قرآن کہتا ہے کہ یہ بالکل سادہ سی بات ہے ۔ اس کو سمجھنے کی کوشش کرو ۔ جس خدا نے تمہیں خلعت وجود بخشا ہے ۔ جس نے ہمیشہ تمہاری ضروریات کا بلاطلب خیال رکھا ہے ۔ اور جو یکہ وہ تنہا تمہاری ہر طرح تربیت کرتا رہا ہے ۔ وہی حقیقی معبود ہے ۔ وہی تمہارا پروردگار ہے اور اس کے لئے عبادت و نیاز مندی کے جذبات وقف ہیں تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اتنی سی بات بھی نہیں سمجھتے ۔ اور شرک وبت پرستی کے جنگلوں میں ادھر ادھر بھٹک رہے ہو * حل لغات : کل یجری : عرب لسانی ہے ، حقیقت واقعہ کا اظہار ہے ۔ الزمر
7 اللہ کو کفر پسند نہیں ہے ف 1: یعنی اللہ کو تمہاری عبادت کی ضرورت نہیں ہے ۔ تمہارے اظہار عقیدت سے اس کی عظمت ورفعت میں ذرہ برابر اضافہ نہیں ہوتا ۔ وہ بجائے خود اس جلالت قدر کا مالک ہے ۔ جس میں کبھی کمی نہیں ہوتی ۔ تمام دنیا اس کا انکار کردے ۔ اس کی مخالفت کرے ۔ اور اس کو جو چاہے کہے ۔ وہ جب بھی بےشمار حمدوستائش کا اہل ہے ۔ اور بہرحال متعال اور بزرگ ومحترم ہے ۔ اس کی بلندیاں انسانی مدح وتعریف پر مبنی نہیں ہیں ۔ بلکہ وہ تو اس لئے رب عظمت وشان ہے کہ ساری کائنات کو اس نے پیدا کیا ہے ۔ اور تمام صفات حسن وجمال سے وہ ازل سے متصف ہے ہاں اگر تم ایمان کی نعمت کو قبول کروگے اور اس کے سامنے جھکو گے ۔ تو اس میں تمہاری روح کی بالیدگی کا سامان ہے ۔ اس سے خود تم پاکیزگی اور تقویٰ کی متاع گرانما یہ کو حاصل کرلو ۔ وہ گو تمہارے اعمال سے بالکل بےنیاز ہے ۔ تاہم وہ نہیں چاہتا کہ اس کے بندے کفر کا ارتکاب کریں ۔ اور اس طرح اس کی رحمتوں سے دور ہوجائیں ۔ یہی وجہ ہے ۔ کہ وہ پیغمبر بھیجتا ہے ۔ کتابیں ارسال کرتا ہے ۔ اور معجزات وخوارق کے مشاہدہ کا موقع بہم پہنچاتا ہے ۔ تاکہ اتمام حجت ہو ۔ اور کفر کے لئے کوئی عذر ہو تو باقی نہ رہ جائے ۔ ورنہ یہ کافی تھا کہ وہ عقل وخرد کی راہنمائی میں انسان کو آزاد چھوڑدیتا ہے ۔ اور ان پر کوئی پابندی عائد نہ کرتا ۔ اس میں انسانی نفسیات کے اس پہلو کو واضح کیا گیا ہے کہ یہ اس وقت فطرت کی آواز کو سنتا ہے ۔ جب چاروں طرف سے مصیبتیں اس کو گھیر لیتی ہیں ۔ اور یہ اس وقت خدا کے سامنے جھکتا ہے ۔ جب دوسرے معبود ان باطل سے اس کا رشتہ امید کٹ جاتا ہے ۔ پھر جب اللہ اس کی تنگدستی کو ہر نعمت سے بدل دیتا ہے ۔ اور یہ آرام وآسودگی کو حاصل کرلیتا ہے ۔ تو پھر آنکھیں پھیر لیتا ہے ۔ اور اللہ کے سوا دوسروں کو شریک ٹھہرانے لگتا ہے ۔ یہ مسلمان کی تصویر کھینچی ہے ۔ کہ وہ کیونکر رات کو اٹھ اٹھ کر اللہ کی عبادت میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ ہر وقت عقبیٰ اور آخرت کا خوف ان کے دل پر طاری ہوتا ہے ۔ یہ لوگ اللہ کی رحمتوں کے امیدوار ہیں اور صاحب علم ودانش ہیں ۔ کیا یہ لوگ اور وہ جو مادی خواہشات میں منہمک ہیں ۔ اور دن رات لہو ولعب میں مشغول ہیں اجروثواب میں برابر ہیں ۔ حل لغات :۔ ولاتزر ۔ والخ یعنی کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھاتا ۔ یعنی کوئی نفس یہ صلاحیت نہیں رکھتا ۔ کہ دوسرے کے گناہوں کو اپنے ذمہ ڈال لے * خولہ ۔ تخویل سے مشقق ہے ۔ کسی شخص کو ازراہ کرم کچھ عطا کرنا * اناء الیل ۔ اوقات شب *۔ الزمر
8 الزمر
9 الزمر
10 وطن اور مسلمان ف 1: اسلامی نقطہ نگاہ سے ملک اور وطن دراصل کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔ اسلام جس چیز کو زیادہ قابل اعتقاد سمجھتا ہے ۔ وہ عقیدہ ہے اور زندگی کا وہ تصور ہے جو فلاح وسعادت کا ضامن ہے ۔ کیونکہ وطنیت اور قومیت سے جغرافیائی اور نسلی امتیاز وغیرہ پیدا ہوتا ہے اور امن عالم کے لئے اس سے زیادہ کوئی چیز خطرہ کا باعث نہیں ہے ۔ کہ انسانوں کا کوئی گروہ اس غیر حقیقی تغیرات میں الجھ کر عناد وتعصب کا موجب پہنچائے ۔ اسلام چاہتا ہے کہ عقیدے کی حمایت میں ہر مصیبت کو برداشت کیا جائے ۔ حتیٰ کہ وطن کی آسائش اور اسودگیاں بھی اس وقت کے اعلان پر پابندیاں عائد کردی جائیں ۔ قرآن کہتا ہے ۔ کہ ساری دنیا کے باشندے تمہارے بھائی ہیں ۔ اگر وہ تمہارے مذہب میں کوئی مزاحمت نہیں کرتے ۔ تم زمین کے کسی گوشہ میں جاکر آبادہ ہوجاؤ۔ مگر اپنے مذہب اور کلچر کی حفاظت کرو ۔ اور اگر تمہارے ملک میں اور تمہاری اپنی حکومت میں بھی تمہارے عقائد خطرہ میں ہیں ۔ تو پھر یہ حکومت اور یہ زمین یک قلم چھوڑ دینے کے لائق ہے ۔ اس سے یہ مقصود نہیں ہے ۔ کہ مسلمانوں کو اپنے وطن سے محبت نہیں ہوتی یا ان کے نزدیک وطن کی خدمت کرنا گناہ ہے ۔ بلکہ اس کا مقصد یہ ہے ۔ کہ وطن کی خدمت بدرجہ ثانوی ہے ۔ اول درجے میں انسانیت ہے ۔ اور ایک وسیع وحدت ہے جس کا وجود کائنات کے لئے خیروبرکت کا باعث ہے مسلمان جب یہ دیکھے کہ اس کے فرائض وطنی عالمگیر اسلامی وحدت کے منافی نہیں ہیں اور وطن کو اس کی خدمات کی اور قربانیوں کی ضرورت سے تو پھر اس کا فرض ہے ۔ کہ دلیرانہ ان فرائض کو انجام دے ۔ اور اگر وہ یہ دیکھے ۔ کہ خدمت وطن کا جذبہ اس کے حسیات دینی پرچھارہا ہے ۔ تو پھر اس کے لئے یہی راہ ہے ۔ کہ وہ تمام کائنات اسلامی کے بھلے کے لئے محدود وطنی تعصب سے باز آجائے ۔ مگر اس میں بھی مرتبہ ومقام کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔ غلاموں کو یہ زیبا نہیں ہے ۔ کہ وہ بین الاسلامی اخوت کے نام پر آزادی اور حریت کی تحریک سے الگ رہیں ۔ کیونکہ اس صورت میں یہ محض فریب نفس ہوگا اور ایک قسم کا دھوکہ غلام قموں پر سب سے پہلے یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ بندگی اور غلامی کی زنجیروں کو بالکل کاٹ کر پھینک دیں ۔ اور اس کے بعد میں الاسلامی اخوت کی تشکیل اور تعمیر میں ہوں ۔ حل لغات :۔ الدین ۔ عبادت *۔ الزمر
11 الزمر
12 ف 2: اول المسلمین سے غرض یہ ہے کہ میں وہ ہوں جس کے لئے ضروری ہے کہ تمام مسلمانوں کے لئے اسوہ حسنہ قرار پاؤں ۔ میری زندگی تمام کائنات اسلامی کے لئے لائق تقلید اور قابل پیروی ہے ۔ میں اللہ سے ڈرتا ہوں *۔ الزمر
13 الزمر
14 ف 1: میں خالص ایک خدا کی عبادت کرتا ہوں ۔ تم جن لوگوں کی چاہو ۔ عبادت کرو اور جن چیزوں کے سامنے چاہو جھکو ۔ مگر یہ یاد رکھو ۔ کہ یہ عمل گھاٹے اور خسران کا عمل ہے ۔ الزمر
15 ف 2: اس کے بعد یہ بتایا ہے کہ یہ لوگ شدید ترین سزا کے مستحق ہیں ۔ قیامت کے دن ان کی یہ کیفیت ہوگی ۔ کہ چاروں طرف سے آگ کے شعلوں میں گھرے ہوں گے ۔ الزمر
16 الزمر
17 الزمر
18 ف 3: فیتبعون احسنہ سے مقصود یہ نہیں ہے کہ قرآن میں احسن اور غیر احسن کی کوئی تقسیم موجود ہے ۔ بلکہ غرض یہ ہے کہ قرآن کو یہ لوگ کان لگا کر سنتے ہیں ۔ اور چونکہ اس کی تعلیمات سب کی سب برتر اور احسن ہیں ۔ اس لئے مجبور ہیں ۔ کہ ان کی پیروی کریں ۔ حل لغات :۔ ظلل ۔ ظلۃ کی جمع ہے ۔ بمعنی سائبان * الطاغوت ۔ تاضیان سے ہیں بمعنی شیطان اور کاہن سردار گمراہاں اور جو سوائے خدا کے کسی دوسرے کی پرستش کرے ۔ ہر وہ چیز جو شرک وکفر کا باعث ہوسکے *۔ الزمر
19 الزمر
20 پیکر رحمت وشفقت ف 1: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شفقت کی بنا کر جو آپ کے سینہ میں پنہاں تھی ۔ اور اس طواطف رافت ومحبت کی بنا پر جو ان کو بنی نوع انسان سے تھی ۔ ہمیشہ یہ چاہتے تھے ۔ کہ قریش کے ارباب فکر ودانش اسلام کو قبول کرلیں اور اس سعادت سے محروم نہ رہیں اس لئے بالطبع ان کو بڑا دکھ محسوس ہوتا تھا ۔ جب کہ یہ دیکھتے تھے کہ ان لوگوں کی سرکشی اور بغاوت میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے ۔ اور یہ اللہ کی رحمتوں سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تسکین خاطر کے لئے فرمایا : آپ کیوں ملول ہوتے ہیں ۔ جہاں تک وعظ ونصیحت کا تعلق تھا ۔ آپ نہایت عمدہ طریق سے ان لوگوں کو سمجھا چکے ہیں ۔ اب بھی اگر یہ لوگ حقانیت کو قبول نہیں کرتے ۔ تو نہ کریں ۔ آپ جبراً اور قہراً ان کو اللہ کی چوکھٹ کے سامنے نہیں جھکا سکتے ۔ ازل سے اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے ۔ کہ ان لوگوں کو ایمان کی دلوت حاصل نہیں ہوگی ۔ اور یہ باوجوداخلاص اور محبت کے اس نعمت گرانما یہ سے محروم ہی رہیں گے ۔ ف 2: فرمایا ۔ ہاں ان لوگوں میں سے جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں اور جن کے دل خشیت اور خوف سے معمور ہیں ۔ وہ ضرور اسلامی راہ نجات کو اختیار کرلیں گے اور اپنی عاقبت سنوار لیں گے ۔ ان کے لئے جنت میں اونچے اونچے بالاخانے ہونگے ۔ جن میں یہ لوگ آسودگی اور عیش سیر ہیں گے یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اس کے وعدوں میں کبھی تخلف نہیں ہوتا ۔ الزمر
21 دنیائے فنا کی ایک مثال ! ف 3: اس دنیائے دواں اور عالم کی کتنی عبرتناک تصویر ہے کہ جس طرح پانی آسمان سے برستا ہے ۔ اور وہ سوتوں میں داخل ہوجاتا ہے ۔ اور پھر بوقلمون نباتات کو اگاتا اور تازگی اور شادابی بخشتا ہے ۔ پھر یہ سب کچھ سوکھ جاتے ہے ۔ اور خشک ہوکر چورہ چورہ ہوجاتا ہے ، اسی طرح انسان پیدا ہوتا ہے جوان ہوتا ہے اور بڑھاپا اس کو زرد اور ضعیف الاعضاء بنادیتا ہے ۔ اور پھر آخر موت اس کا خاتمہ کردیتی ہے اور مٹی میں ملا دیتی ہے *۔ الزمر
22 مومن کا سینہ ف 4: غرض یہ ہے کہ مسلمان اور منکر میں ایک فرق یہ ہوتا ہے کہ مومن سینہ کا کشادہ اور فراغ ہوتا ہے اور منکر دل تعصب اور جہالت کی وجہ سے سخت اور سیاہ ہوجاتا ہے ۔ اور وہ حق پذیرائی کی قوتوں سے محروم ہوجاتے ہے *۔ الزمر
23 ف 5: یعنی قرآن حکیم بہترین اور موثر کتاب ہے ۔ حل لغات :۔ غوف ۔ غرفۃ کی جمع ہے ۔ بالاخانہ * ینابیع ۔ واحد ینبوع پانی کا بڑا چشمہ * حطاما حطم سے ہے ۔ یعنی توڑڈالا ۔ چورا چورا کردیا * احسن الحدیث ۔ یعنی بہترین کلام ۔ ف 1: کلام پاک کے مضامین ملتے جلتے ہیں ۔ ان کو بار بار دہرایا گیا ہے ۔ وہ لوگ جن کے دل میں تقویٰ اور خشیت الٰہی موجود ہے ۔ اس کو سنتے ہیں ۔ اور اس کے تاثر سے ان کے بدن کانپ اٹھتے ہیں ۔ اور پھر منقاد اور نرم دل ہوکر ہمہ تن اللہ کی یاد میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ یہ سرچشمہ معرفت وہدایت ہے جس شخص سے اللہ توفیق ابتداء چھین لے ظاہر ہے کہ وہ اس کی برکات سے استفادہ نہیں کرسکتا *۔ الزمر
24 الزمر
25 الزمر
26 خدا کا قانون مکافات ف 1: غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جس طرح اس سے پہلے کفر ناگوار تھا اب بھی ناگوار ہے جس طرح پہلی قوموں کو اس پاداش میں کہ انہوں نے حق وصداقت کو ٹھکرایا ۔ اور تکذیب وتردید کو اپنا شعار بنایا ۔ اپنے غضب اور خثم کا مورد قرار دیا تھا ۔ آج بھی ان لوگوں کو جو قرآن کے حقائق کو جھٹلاتے ہیں اور اس کی پیش کردہ تعلیمات کو غلط قرار دیتے ہیں ۔ ذلت اور رسوائی کی سزا سے دو چار کیا جائے گا ۔ کیونکہ جس طرح اللہ کا قانون حفظ اقیام ایک ہے ۔ اسی طرح اس کا قانون مقالات بھی ایک ہے یہ مکے والے اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں ۔ کہ یہ لوگ باوجود سرکشی اور بغاوت کے اللہ کے عذاب سے محفوظ رہیں گے ۔ اور ان کا مال ودولت ان کو اللہ کے عذاب سے بےنیاز کردیگا ۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے ۔ کہ علام الغیوب خدا ان کے تمام اعمال کو دیکھ رہا ہے اور ان کی تمام شرارتیں ، مکاریاں اس کی نگاہوں میں ہیں ۔ یہ اسلام کی تذلیل کے درپے ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی راہ میں مشکلات پیدا کررہے ہیں ۔ مگر ان کو معلوم نہیں کہ خود ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے ۔ ان کے مقدر میں دونوں عالم کی رسوائیاں لکھی ہیں ۔ یہ اس دنیا میں بھی اپنے منصوبوں میں ناکام رہیں گے اور عقبے کی زندگی میں بھی ان کے لئے عذاب اکبر کی اذیتیں ہیں ۔ کاش یہ صورت حالات کو سمجھیں اور عبرت حاصل کریں *۔ حل لغات :۔ ومن یضلل اللہ ۔ یہ انتساب بطور اصل کے ہے ۔ یعنی اسباب ضلالت جو ہیں وہ برنہج اللہ نے پیدا کئے ہیں ۔ اور اللہ ہی ہر چیز کا مالک ہے یہ مقصد نہیں کہ اس کے انسان کی گمراہ ہونے میں کوئی مدد کی ہے یا وہ گمراہی تو اپنے بندوں کے لئے پسند فرماتا ہے ۔ اور یہ اسباب ضلالت بھی ان معنوں میں اسباب ضلالت میں کہ انسان کے لئے یہ ٹھوکر کا باعث ہوسکتے ہیں ۔ قدرت کا منشا اعلی پیدا کرنے سے یہ نہیں ہے کہ لوگ ان کو اختیار کرکے اس کی رحمتوں سے دور ہوں ۔ الخزی : ذلت اور رسوائی ۔ اور عذاب *۔ الزمر
27 قرآن کی بہت بڑی خوبی ف 1: قرآن حکیم کی اس خوبی کا تذکرہ ہے ۔ کہ اس کے مضامین کو ہر انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ اس میں احکام بھی ہیں ۔ قصص بھی ہیں اور واقعات بھی ۔ اس میں باریک اور دقیق نکات بھی ہیں ۔ اور زندگی کی محسوس ضروریات بھی ۔ اس میں منطقی استدلال بھی ہیں اور فطرت کے مشاہدات بھی ۔ ہر ذوق اور ہر فکر کے لوگوں کے لئے اس میں رشدوہدایت کا وافر سامان موجود ہے ۔ ایک عامی اور سطحی عقل والا بھی اس میں تسکین محسوس کرے گا ۔ اور ایک بلند پرواز فلسفی اور حکیم بھی ۔ یہ کتاب دماغ کو بھی متاثر کرتی ہے اور دل کی لطیف کیفیات کو بھی ۔ یہ عربی میں نازل کی گئی ہے ۔ تاکہ تعبیر معانی میں کوئی ابہام اور اجمال باقی نہ رہ جائے ۔ اس میں اس درجہ وضوح اور انشراح ہے کہ شک وشبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی ۔ اس میں استدلال اور استنباط کی کوئی کجی نہیں ۔ یہ صاف اور سیدھے طریق نجات کی جانب راہنمائی کرتی ہے *۔ الزمر
28 الزمر
29 ف 2: اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ نفسیاتی طور پر ایک شخص ایک وقت میں ایک ہی آقا پر قناعت کرسکتا ہے ۔ اور وہ شخص جس کے کئی آقاہوں ۔ ہمیشہ دکھ اور تکلیف محسوس کریگا ۔ اس سے یہ نہیں ہوسکے گا ۔ کہ اپنے طرز عمل سے سب کو خوش رکھے ۔ اسی طرح وہ پاکباز اور پاک نفس انسان جو صرف ایک آستانہ وحدت وجلال کا ہورہتا ہے ۔ روحانی طور پر اس شخص سے کہیں عافیت میں ہے جس کی عقیدت کئی لوگوں میں اور کئی شخصیتوں میں منقسم ہے ۔ الزمر
30 ف 3: یعنی جہاں تک موت کا تعلق ہے ۔ وہ سب کے لئے مقدرات میں سے ہے ۔ آپ بھی باوجود اس جلالت قدر کے اس سے دوچار ہونگے ۔ اور یہ عظمائے قریش بھی ۔ پھر قیامت میں یہ فیصلہ ہوگا ۔ کہ کون حق پر تھا ۔ اور کون باطل پر *۔ حل لغات :۔ مثل ۔ انداز بیان ۔ مراد عمدہ مضامین * عوج ۔ کجی * متشابصون ۔ باہم دست وگریباں * الزمر
31 الزمر
32 سب سے بڑا ظلم ف 1: مشرکین مکہ کے دو جرم تھے ۔ ایک تو یہ کہ وہ اللہ کی جانب ان عقائد کو منسوب کرتے ۔ جن سے ان کی ذات والا صفات انکار کرتی ہے اور دوسرا یہ کہ وہ کتاب صدق وحقانیت کی مخالفت کرے اس لئے وہ صحیح معنوں میں ظالم تھے ۔ اور بےانصاف ۔ کیونکہ اس سے بڑھ کر اور ظلم کیا ہوسکتا ہے ۔ کہ انسان اللہ کی دی ہوئی بصیرت سے کام نہ لے ۔ اور خود اپنی حقیقت سے آگاہ نہ ہو ۔ خدا کے لئے اولاد کو ثابت کرے ۔ اور اس طرح عقل وخرد اور بصیرت ووجدان کی صریحاً مخالفت کرے ۔ پھر یہی نہیں جب اس کو بتلایا جائے کہ تم راہ راست پر گامزن نہیں ہو ۔ تو اس کو جھٹلائے ۔ کیا اس سے زیادہ محرومی اور شقاوت کی کوئی اور صورت ہوسکتی ہے ۔ کہ اپنے محسنوں کی تکذیب کی جائے ۔ اور ان کی ہمدری اور محبت نظر انداز کی جائے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ کہ ان کے ان دوگونہ جرائم کی سزا یہ ہے ۔ کہ یہ جہنم میں رہیں گے ۔ اور اپنے اعمال کی سزا بھگتیں گے ۔ الزمر
33 الزمر
34 ف 2: ان آیتوں میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے ۔ جو صدق وحقانیت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لے کر آتے ہیں ۔ اور پھر کچھ ایسے نفوس ان کو مل جاتے ہیں ۔ جو آگے بڑھ کر تصدیق میں سبقت کرتے ہیں ۔ یہ لوگ تقویٰ کی گراں قدر نعمت سے بہرہ ور ہوتے ہیں ۔ یہ مومنانہ فراست سے بھانپ جاتے ہیں ۔ کہ اللہ کے پیغمبر جو کچھ لاتے ہیں ۔ وہ جھوٹ نہیں ہوسکتا ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے انشراح صدر کے بےشمار موقع پیدا کردیتا ہے ۔ اور انہیں حق کو قبول کرلینے میں کوئی تامل نہیں ہوتا ۔ ارشاد ہے کہ یہ دونوں حاملیں حق وصداقت اور ان کی پیروی کرنے والے اللہ کے نزدیک مقام اتقار پر فائز ہیں ۔ اور منصب احسان سے بہرہ مند ہیں ان کے لئے جنت ونعیم میں عیشیں اور آسودگی کی زندگی ہے جو چاہیں گے وہاں ملے گا ۔ اور ان کی ہر خواہش کی تکمیل ہوگی ۔ الزمر
35 ف 3: تکفیر سئیات سے یا تو یہ مراد ہے کہ عاملہ کفر میں ان سے گناہ سرزد ہوئے تھے ۔ ان کو معاف کردیا جائے گا ۔ اور ان کے مقابلہ میں انہیں بہترین اجر سے نواز جائیگا ۔ اور یا یہ مقصد کہ اگر ایمان کی نعمت حاصل ہے ۔ تو پھر وہ لغزشیں اور کبائر جن کا صدور بتقاضائے بشریت ہوا ہے ۔ بخش دی جائیں گی ۔ اور ان کے نیک کاموں کا نہایت عمدہ اجر ملے گا *۔ حل لغات :۔ مثویٰ۔ ٹھکانہ ۔ جگہ ۔ ثویٰ یثوی سے ہے ۔ الزمر
36 ف 1: حضور کو کفار مکہ دھمکی دیتے تھے ۔ کہ اگر آپ بت پرستی کی مذمت سے باز نہ آئے ۔ تو ہمارے معبود آپ کو سخت ترین نقصان پہنچائیں گے ۔ اس کا جواب دیا ہے ۔ کہ اللہ اپنے اس بندے کی پوری پوری حفاظت کرے گا ۔ اور تم کو اور تمہارے معبودوں کو موقع نہیں دے گا ۔ کہ اسے ذرہ برابر بھی گزند پہنچا سکو ۔ یہ گمراہی کا عقیدہ ہے ۔ اور جس شخص سے اللہ تعالیٰ توفیق ہدایت چھین لے ۔ پھر کوئی اس کو منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتا ۔ اور جس شخص کے سینہ کو وہ کھول دے ۔ اور توفیق قبولیت عطا فرمائے ۔ وہ کبھی گمراہ نہیں ہوسکتا ۔ الزمر
37 ف 2: واضح رہے کہ اس کے معنے سیاق وسباق کے لحاظ سے یہی ہیں ۔ کہ حضور اللہ کی حفاظت اور نگہبانی میں ہیں ۔ اس لئے دشمن اپنے عزائم مشؤمہ میں کامیاب نہیں ہوسکتے ۔ اور حضور کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔ اس سے مراد کفایت دینی نہیں ہے ۔ جیسا کہ بعض ملاحدہ نے سمجھا ہے *۔ الزمر
38 بے اختیار بت ف 3: بت پرستوں اس حقیقت واقعہ سے آگاہ فرمایا ہے ۔ کہ جہاں تک کائنات نظام حیات کا تعلق ہے ۔ یہ تمہارے دیوتا اور معبود محض بےکار ہیں ۔ ان کو اس کارگاہ عمل میں کوئی اختیار حاصل نہیں ۔ اگر میں کسی دکھ اور تکلیف میں مبتلا ہوجاؤں تو کیا وہ اس روگ کو دور کرسکتے ہیں ؟ اور میری مصیبتوں کو مسرتوں اور خوشیوں سے بدل سکتے ہیں ۔ اور اگر اللہ کا مجھ پر فضل ہو ۔ تو کیا اس کو اپنے اختیارات سے روک سکتے ہیں ۔ یہ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے ۔ تو پھر مجھے کیوں اس بودے عقیدے کی طرف بلاتے ہو ۔ کہ میں بےاختیار بتوں کے سامنے جھکوں *۔ حل لغات :۔ بکاف ۔ یعنے صاحب کفایت ۔ کافی * ذی انتقام ۔ سزادینے والا ۔ عربی میں انتقام کے وہ معنے نہیں ہیں ۔ جو اردو میں ہیں ۔ جس میں سزا کے ساتھ بغض اور دل میں جلن کا ہونا بھی ضروری ہے *۔ ف 1: میں تو اللہ پر بھروسہ رکھتا ہوں اور جتنے لوگ توکل کی نعمت سے بہرہ مند ہیں ۔ سب اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں *۔ الزمر
39 الزمر
40 اپنی سی کر دیکھو ف 2: یعنی اے اعداء دین تمہیں اپنی قوت پر ناز ہے ۔ تم اپنی وسلیہ کاریوں کی کامیابی پر اعتماد رکھتے ہو ۔ تمہیں یہ یقین ہے ۔ کہ تم اپنے مکارانہ منصوبوں میں کامرانی حاصل کرلو گے ۔ میں تمہیں بتلائے دیتا ہوں ۔ کہ تم لوگ اپنی سعی کر دیکھو ۔ وہ تمام حیلے اور تدبیریں جو تمہارے امکان میں ہیں ۔ ان کو آزمادیکھو ۔ میں بھی اپنی کامیابی پر متقین ہوں ۔ عنقریب معلوم ہوجائے گا ۔ کہ کون دنیا میں رسوائیوں کے عذاب میں مبتلا ہے ۔ اور آخرت میں دائمی اور ابدی سزا کا مستحق ہوتا ہے ۔ اور کون فوزوفلاح کی سعادت سے ہمکنار *۔ الزمر
41 ف 3: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسکین خاطر کے لئے ارشاد فرمایا ہے ۔ کہ آپ پر جو صحیفہ حق نازل کیا گیا ہے ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر شخص اس کو قبول کرلے ۔ آپ صرف اس حد تک مکلف ہیں ۔ کہ ان تک میرا پیغام پہنچادیں ۔ آئندہ یہ اگر گمراہ ہوں گے تو اپنا ہی بگاڑیں گے ۔ آپ ان کی ہدایت کے لئے اس درجہ بےقرار نہ ہوں *۔ حل لغات :۔ مکانتکم ۔ اپنی جگہ * بوکیل ۔ ذمہ دار ۔ اجارہ دار ۔ مسلط اور داروغہ * یتوفی ۔ سے مراد مطلق روح پر ضبط واختیار حاصل کرنا ہے ۔ اس لئے جس کی دو صورتیں بیان کی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ وہ ضبط اور اختیار اس نوع کا ہو ۔ کہ پھر روح کو جسم سے الگ کرلیا جائے ۔ اور ایک یہ کہ صرف بیداری کو چھین لیا جائے ۔ اور تعلق حیات بدستور باقی رہے ۔ اس چیز کو امساک اور ارسال سے تعبیر کیا ہے *۔ الزمر
42 قیامت پر ایک دلیل ف 1: حشر ونشر پر ایک نہایت عمدہ دلیل پیش فرمائی ہے ۔ کہ دیکھو کہ موت اور نیند میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے ۔ جس خدا کو یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ تمہاری بیداری کو چھین لے اور اس کو خواب بےہوشی کی کیفیات سے بدل دے ۔ اور پھر جب مناسب سمجھے بیدار کردے ۔ وہ خدا اس چیز پر بھی قادر ہے ۔ کہ جب تم موت کی نیند سوجاؤ۔ اس وقت بھی تمہیں پھر جب چاہے اٹھا کھڑا کرے ۔ کیونکہ جس نے بیداری اور نیند کے نظام کو وضع کیا ہے وہی موت اور حیات پر بھی اختیار رکھتا ہے ۔ بتانا یہ مقصود ہے ۔ کہ خود انسانی زندگی معارف سے پر ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صاحب فکر وہوش سوچیں ۔ اور بغیر ادنیٰ تامل کے یہ نہ کہہ دیا کریں ۔ کہ صاحب یوں ہوتا تو ناممکن ہے ۔ جب تک کائنات کی خوب چھان بین نہ کریں *۔ الزمر
43 الزمر
44 الزمر
45 اللہ کے نام سے چِڑ ف 2: اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔ کہ مشرکین کو توحید سے کس درجہ نفرت ہے اور بتوں سے کس حد تک محبت ہے ۔ ان کے سامنے جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ اور وحدیت کے معارف عالیہ سے ان کو بہرہ مند کیا جاتا ہے ۔ اور بتلایا جاتا ہے ۔ کہ اسی کا آستانہ جلال وعظمت اس قابل ہے ۔ کہ انسان اس کے سامنے جھکے ۔ تو ان کے دلوں میں انقباض پیدا ہوجاتا ہے ۔ اور بشرے سے سخت بیزاری ٹپکنے لگتی ہے ۔ تو چاہیے یہ تھا کہ اللہ کا نام ان کے لئے وجہ تسکین ہوتا ۔ جب ان کا نام لیا جاتا ۔ تو ان کے قلوب میں روشنی اور شگفتگی پیدا ہوجاتی ۔ مگر یہاں فطرت مسخ ہوچکی ہے ۔ یہ لوگ اللہ کے نام سے منقبض ہوتے ہیں ۔ اور جب ان کے دیوتاؤں کا تذکرہ ہو ۔ ان کے ارباب کے قصے ہوں ۔ اور یہ بتایاجائے کہ ان کے اصنام کتنے صاحب کرامات وخوارق ہیں ۔ تو پھر دیکھئے ان کے چہروں پر مسرت کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے ۔ آج بھی جو لوگ مشرکانہ عقائد وتوہمات میں گرفتار ہیں مسئلہ توحید میں ان کے لئے کوئی دلچسپی اور جاذبیت نہیں ہے ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس نوع کے مسائل کا اظہار بےکار وبے سود ہے ۔ انہیں اگر شغف ہے تو روایات اور قصص سے اور اولیاء کرام کے افسانہ ہائے عجائب وغرائب سے ۔ چنانچہ جس مجلس میں توحید کا چرچا ہوتا ہے ۔ وہاں آپ دیکھیں گے کہ نہ کوئی رونق ہوتی ہے اور نہ کیفیت اور نہ خشوع وتادب کا نشان ۔ البتہ جہاں مشائخ طریقت کی محفلیں گرم ہوتی ہیں ۔ وہاں عودوعنبر ہے ۔ لوگوں کا ہجوم ہے ۔ وجد وتراقص ہے ۔ دھوم دھامی ہے ۔ لوگ خاص عقیدت سے دو زانو بیٹھے سن رہے ہیں ۔ یہ کس چیز کا مظاہرہ ہے ! ان چیزوں سے کیا ثابت ہوتا ہے ۔ مرد مومن جو بھی اللہ کے نام پر تڑپ جاتا تھا ۔ اور جس کو اس کے ذکر میں حلاوت محسوس ہوتی تھی ۔ جس کا دل اس کے جذبات محبت سے معمور تھا ۔ جو پٹینا تھا آگ میں جھونکا جاتا تھا ۔ دار پر کھینچ دیا جاتا تھا ۔ مگر عشق الٰہی سے دست بردار نہیں ہوتا تھا ۔ آج اس کا پتا نہیں اور اس کی جگہ ایک ایسے شخص نے لے لی ہے ۔ جس کا نام مسلمانوں کا سا ہے ۔ جو کلمہ توحید کا اقرار بھی کرتا ہے مگر دل میں اللہ کے ساتھ کوئی خاص لگاؤ اور نسبت نہیں رکھتا ۔ وہ دن رات مزاروں اور قبروں کا طواف کرتا ہے ۔ خانقاہوں کے گرد گھومتا ہے ۔ اور غیر اللہ کی محبت میں مارا مارا پھرتا ہے ۔ توحید میں اس کے لئے تسکین وطمانیت کا سامان نہیں ۔ وہ بدعات اور مشرکانہ رسوم کا شیدا ہے ۔ اللہ کا نام اس کے لئے بالکل روکھا پھیکا ہے ۔ جب تک کہ اس کے ساتھ چند اور ہستیوں کا ذکر نہ کیا جائے ۔ اور یہ نہ بتایا جائے کہ ان لوگوں کو کس درجہ اختیارات اللہ نے تفویض کررکھے ہیں ۔ وہ خاص توحید کو کھری اور توحید کہتا ہے ۔ صرف ایک اللہ کے نام میں اسے کوئی بلندی اور رفعت نظر نہیں آتی ۔ وہ تو اس بات پر جان دیتا ہے ۔ کہ اس کے مشائخ کن خوارق اور کرامات کے مالک ہیں ۔ آہ ! وہ خدائے عزوجل جس کی محبت اور اطاعت شعاری سے ان بزرگان پاک نفس نے اتنے بلند مراتب حاصل کئے تھے ۔ اور جس کے سامنے جھکنے سے انہیں مقام ولایت حاصل ہوا تھا ۔ آج اس خدا کا درجہ بالکل ثانوی ہے ۔ اور جملہ فضائل وہ ان کی جانب منسوب کردیئے گئے ہیں جو اس سے مختص ہیں ۔ اور جن کے انتساب کی ان بزرگوں نے قطعی اجازت نہیں دی *۔ حل لغات :۔ اشمازت ۔ انتہائی انقباض اور نفرت * الزمر
46 الزمر
47 الزمر
48 الزمر
49 الزمر
50 تکلیف میں خدا یاد آتا ہے ف 1: قاعدہ ہے ۔ کہ بھوک اور افلاس سے دل میقل ہوجاتا ہے اور اس کا رنگ دور ہوجاتا ہے ۔ اور فطرت کے انواداس میں چمکنے لگتے ہیں ۔ جب کوئی شخص تکلیف اور دکھ میں مبتلا ہوتا ہے ۔ تو بےاختیاری جی چاہتا ہے کہ خدا کو یاد کیا جائے ۔ اس وقت دل پرے تمام حجابات اٹھ جاتے ہیں ۔ اور انسان اللہ کے نام کے ساتھ ایک خاص طرح کی تسکین اور طمانیت محسوس کرتا ہے ۔ اور کیفیت یہ ہوتی ہے ۔ کہ اٹھتے بیٹھتے اللہ کا ذکر ہے اس کی حمدوستائش ہے ۔ اور شکر وصبر کا مظاہرہ ہے ۔ اس وقت کی کیفیات خشوع اگر دیر تک لوح قلب پر مرقسم ہیں تو بلاشبہ انسانی دولایت اور قرب کے مراتب عالیہ سے مشرف ہوجائے مگر ہوتا یہ ہے کہ جب یہ مصیبتیں دور ہوگئیں ۔ دل پر پھر کثیر اعجاب کی نقاب پرگئی ۔ اور دل بدستور غفلت وتساہل میں مبتلا ہوگیا ۔ خوشحالی میں یہ سمجھنے لگتا ہے ۔ کہ میری مسرتوں میں اللہ کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ میں نے جو کچھ حاصل کیا ہے ۔ وہ نتیجہ ہے میرے علم کا میری عقلمندی اور تجربہ کا ۔ فرمایا یہ غلط ہے ۔ یہ تو محض آزمائش وابتلاء کے لئے تمہارے حالات میں خوشگوار تبدیلی کی گئی ہے ۔ کہ تمہیں دیکھا جائے ۔ اور یہ معلوم کیا جائے ۔ کہ تمہارے جذبات شکرگزاری کہاں تک صادقانہ ہیں ۔ کیا مسرت اجتہاج کی زندگی میں بھی تمہاری وہی کیفیت ہوتی ہے جو غم اور تکلیف کی زندگی میں اور کیا خوشی میں بھی تم اسی طرح مجھ کو یاد کرتے ہو جس طرح کہ دکھ اور روگ میں ، غربت اور افلاس میں ارشاد ہے کہ اس اعجاب نفس کے مرض میں تم سے پہلے بھی لوگ مبتلا ہوچکے ہیں ۔ انہوں نے بھی انپے مال ودولت پر غرور وکبر کا اظہار کیا ہے ۔ مگر جب اللہ کا عذاب آیا ۔ تو ان کا سرمایہ اور دولت ان کو بچا نہیں سکی ۔ اسی طرح ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی بداعمالیاں بھی حد سے گزر چکی ہیں ۔ یہ بھی مال ودولت کے نشہ میں چور ہیں اور حق وصداقت کے پیغام کو تسلیم نہیں کرتے ۔ یہ بھی عذاب سے دو چار ہونے والے ہیں ۔ ان کو آگاہ رہنا چاہیے ۔ کہ ان کا تمول ان کے قطعاً کام نہیں آسکے گا ۔ اور یہ یقینا گرفتار ابتلا ہوکر رہیں گے *۔ الزمر
51 الزمر
52 ف 2: اس آیت میں بتلایا ہے کہ رزق کی کشائش اور تنگی محض اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ وہ چاہے تو گدائے حقیر کو ایک لمحہ میں خزائن شاہی کا مالک بنادے اور چاہے تو چشم زون میں قارون صفت دولتمندوں کو نان شبینہ تک کا محتاج بنادے ۔ اس لئے یہ دولت اور تمول ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ انسان ان پر فخر کرے ۔ اور اپنے رب کو بھول جائے *۔ حل لغات :۔ خوللہ ۔ تحویل سے ہے بمعنی عطا کرنا ۔ دینا * یبسط ۔ پھیلاتا ہے ۔ زیادہ دیتا ہے *۔ الزمر
53 ف 1: یعنی اے وہ لوگو ! جو گناہوں کی کثرت سے گھبراگئے ہو ۔ آؤ اور اسلام میں داخل ہوجاؤ۔ اور اس کے پیش کردہ مقام عبودیت کو حاصل کرلو ۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہاری تمام لغزشوں اور کوتاہیوں پر خط تنسیخ کھینچ دیا جائے گا ۔ تمہارے پہلے تمام جرائم بخش دیئے جائینگے ۔ اور تمہاری مایوسیوں کو رحمتوں اور بخششوں سے بدل دیا جائے گا *۔ الزمر
54 ف 2: یہ آیت پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ مایوسی گناہ ہے ۔ اور ناامیدی کفر ہے ۔ اللہ کی مغفرت کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔ اور اس کا عفو ہر معصیت پر چھا رہا ہے ۔ وہ تمام لوگ جو گناہوں کے بوجھتلے دبے ہوئے ہیں ازراہ مایوسی کفر کی راہ اختیار نہ کرلیں ۔ خدا کی طرف آئیں ۔ اس سے باتیں کریں ۔ اس کو ان گناہ گاروں سے زیادہ محبت ہے جو شرم وندامت کے احساس کے ساتھ اس کے آستانہ جلال وعظمت پر جھکتے ہیں ۔ اور وہ ان بندوں کو زیادہ پسند کرتا ہے ۔ جو بار بار اپنے نقائص کا اعتراف کرتے ہیں ۔ اور اس کی کبریائی اور رفعت کا اعلان کرتے ہیں * الزمر
55 وہاں مہلت نہیں ملے گی ف 3: غرض یہ ہے ۔ کہ اللہ کے تمام احکام حسن وجمال منطق سے آراستہ ہیں ۔ ان کی اطاعت کی صورت یہ ہے کہ دنیا میں ان کے منشاء کو سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔ ایسا نہ ہو کہ نافرمانی کے بدلے اچانک اور غیر متوقع طور پر اللہ کا عذاب آجائے ۔ اور تم اس کی تلافی نہ کرسکو ۔ جب تم پر اچانک اللہ کا عذاب آجائے ۔ اس وقت تمہیں افسوس ہو ۔ اور تم کہو کہ ہم نے کیوں اللہ کے باب میں کوتاہی سے کام لیا ۔ تمہیں اس وقت یہ خیال نہ آئے ۔ کہ اگر اللہ دنیا میں ہمیں توفیق ہدایت سے بہرہ مند کرتا ۔ تو ہم ضرور پرہیزگاری کی زندگی بسر کرتے ۔ یا تم یوں کہنے لگو ۔ کہ اگر اب کے مہلت ملے ۔ تو قطعاً صالح بننے کی کوشش کریں ۔ یاد رکھو بیداری وہ مفید ہے جو اس دنیا میں ہو ۔ اور ایمان وہ سود مند ہے ۔ جو موت سے پہلے ہو اور دیکھو تمہیں سمجھانے کے لئے ہم نے آیات اور معجزات کو پیش کیا ہے ۔ اور انبیاء اور رسولوں کو بھیجا ہے ۔ مگر یہ تمہاری بدبختی اور محرومی ہے ۔ کہ تم نے تسلیم نہیں کیا ۔ اور کبروغرور کا مظاہرہ کیا ۔ اس لئے اب اس دنیائے مکافات میں کوئی ندامت تمہیں اللہ کی گرفت سے نہیں چھڑا سکے گی *۔ حل لغات :۔ لاتقنطوا ۔ قنوط سے ہے ۔ یعنی مایوس نہ ہوجاؤ* اشرقوا ۔ زیادتی کی ہے ۔ اور بےاعتدالی کا ارتکاب کیا * بقیۃ ۔ اچانک غیر متوقع طور پر *۔ الزمر
56 الزمر
57 الزمر
58 الزمر
59 الزمر
60 افتراء علی اللہ کا انجام ف 1: اللہ کے متعلق جھوٹ بولنے کے معنے یہ ہیں ۔ کہ وہ لوگ جو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ جن سے اس کی ذات عظمت صفات انکار کرتی ہے ۔ وہ گویا غلط باتوں کو غلط عقائد کو اس کی طرف سے پھیلاتے اور مشتہر کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کی کیفیت قیامت کے دن یہ ہوگی ۔ کہ ان کے چہرے بےنور ہونگے ۔ اور کفر وشرک کی ظلمت اور سیاہی نے ان کو بدزیب کررکھا ہوگا ۔ کیونکہ وہ دنیا میں اس نوع کے عقائد کی اس لئے اشاعت کرتے تھے ۔ کہ عوام میں ان کی عزت افزائی ہو ۔ اور موحدین کے مقابلہ میں ان کی زیادہ آؤ بھگت ہو ۔ اب مکافات عمل کے قانون کے ماتحت ان کا یہ اعزاز جس کی خاطر سے یہ لوگ کفر وشرک کی تلقین کرتے تھے ۔ تذلیل و تحقیر سے بدل دیا جائے گا ۔ اور چہرہ کی آب وتاب جاتی رہے گی ۔ ان کا غرور اور تکبر خاک میں مل جائیگا ۔ اور ان کو معلوم ہوجائے گا ۔ کہ دنیا کی وجاہت اور عزت محض بیکار ہے ۔ اس کا اعزاز یہ ہے کہ اللہ کے ہاں سرخروئی ہو ۔ اور وہ ان کے ساتھ عزت واحترام کا سلوک روا رکھے *۔ ف 2: جہاں یہ بتایا ہے کہ یہ منکرین جہنم میں جائیں گے ۔ اور بےآبروئی کی زندگی بسر کریں گے متقین اور پاکبازوں کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ان کو کامیابی کے ساتھ نجات سے نوازا جائے گا ۔ اور ان کی زندگی بالکل عیش اور آسودگی کی زندگی ہوگی ۔ ان کو وہاں کوئی فکر دامن گیر نہ ہوگا ۔ نہایت سکون ووقار کیس اتھ یہ لوگ اللہ کی عنایتوں سے مستفید ہوں گے ۔ اور اپنی خوش بختی پر ناز کریں گے * حل لغات :۔ فرطت ۔ تقصیر وکوتاہی ۔ قفریظ سے ہے * الساخیرین ۔ شخریۃ سے بمعنی استہزا * الزمر
61 الزمر
62 الزمر
63 الزمر
64 میں کیوں بت پرستی کروں ؟ ف 1: جب یہ بات ثابت اور متحقق ہے ۔ کہ آسمانوں اور زمین کے اختیارات محض اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ اور وہی ہماری کائنات کا رب ہے ۔ تو پھر تم کیوں کہتے ہو ۔ کہ میں اس کو چھوڑ کر تمہارے بتوں کی پوجا کروں ۔ کیا یہ جہالت نہیں ؟ اور اس کے مقام عظمت ورفعت سے ناواقفیت کی دلیل نہیں ؟ تم مجھ سے کیوں توقع رکھتے ہو ۔ کہ میں توحید کو چھوڑ کر شرک اور بت پرستی کو قبول کرلوں گا ۔ اور تمہارے بتوں سے اسی طرح جاہلانہ عقیدت رکھوں گا ۔ جس طرح تم رکھتے ہو ۔ بات یہ ہے کہ جس طرح حضور ان لوگوں کو ایک خدا کے سامنے جھکنے کی دعوت دیتے اسی طرح یہ بھی کہتے ۔ کہ باپ دادا کی روایات کو نہ چھوڑ ۔ اور انہیں عقائد پرجمے رہو ۔ اس پر اس نوع کی آیات کا نزول ہوتاکہ میری جانب سے تمہیں قطعی مایوس ہوجانا چاہیے ۔ یہ ناممکن ہے ۔ کہ میں ایک غیر معقول عقیدہ کو قبول کرلوں ۔ اور خدائے واحد کو چھوڑدوں ۔ مجھے تو یہ بتایا گیا ہے ۔ کہ شرک تمام اعمال حسنہ کو ضائع کردیتا ہے ۔ اور اس سے بجز خسارے اور نقصان کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ میں مجبور ہوں ۔ کہ صرف اسی کی عبادت کروں ۔ اور اپنے کو اس کا شکر گزار بندہ ثابت کروں ۔ کیونکہ شرک صرف گناہ اور معصیت ہی نہیں ۔ جناب بادی میں حددرجہ گستاخی کا اظہار کرتا بھی ہے ۔ اور خود ان تمام صلاحیتوں سے محروم ہوتا ہے ۔ جو انسانی مجذو شرافت کا لازمی نتیجہ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی وجہ سے تمام اعمال مسموم اور زہر آلود ہوجاتے ہیں ۔ اور اللہ کے حضور میں ان کی کوئی قیمت باقی نہیں رہتی ۔ حل لغات :۔ مقالید ۔ جمع مقلید ۔ بمعنی کنجیاں اور چابیاں ۔ الزمر
65 الزمر
66 الزمر
67 ف 1: یعنی اللہ تعالیٰ کی جلالت قدر کا تقاضا تو یہ تھا ۔ کہ کسی شخصیت کو کو اس کا شریک و سہیم نہ ٹھہرایا جاتا ۔ اور اس کے عتبہ جمال پر جنبہ سائی کی جاتی ۔ مگر ان ناشنا سان جمال حقیقت نے پتھروں کے حقیر مجسموں کو اپنی عقیدت واردات کا مدار ومحور قرار دے لیا ۔ اور اس طرح اس کی توہین مرتکب ہوئے وہ تنہا تمام کائنات کا رب ہے ۔ قیامت کے دن یہ وسیع وعریض زمین اور بلندوبالا آسمان اس کی مٹھی میں اور اس کے ہاتھ میں ہوں گے ۔ کیا تمہارے بتوں اور خداؤں میں یہ طاقت ہے کہ وہ اس دن اللہ کی گرفت اور پکڑ سے بچ سکیں *۔ الزمر
68 ف 2: اس آیت میں نفخہ اولی اور نفخہ ثانیہ کا ذکر ہے ۔ کہ کیونکر جب پہلی دفعہ نرسنگا پھونکا جائے گا تو یہ سب لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے * الزمر
69 ف 3: یعنی اس وقت جب سب حضرات اللہ کے حضور میں پیش ہوں گے ۔ دنیا اس کے نور سے چمک اٹھے گی ۔ ف 1: قیامت کے دن صحائف اعمال کو پیش کیا جائیگا ۔ اور ایک ایک سے اس کے اعمال کے متعلق پوچھا جائیگا ۔ اور گو ان کے اعمال کے موافق انکو جزا اور سزا دی جائیں گی ۔ اور کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہوگا * یہ آیت جہاں تک سیاق وسباق کا تعلق ہے ۔ یکسر عرصہ محشر کی کیفیت احتساب سے لعلق رکھتی ہے ۔ اس سے نبوت جدیدہ پر استدلال کرنا ۔ قرآن کے بیان سے اعراض کرنا ہے اور معاذ اللہ یہ کہنا ہے کہ قرآن کی دو آیتوں میں بھی باہمی ربط نہیں ہے *۔ حل لغات :۔ قبضتہ اور بیمینہ کے الفاظ محض تمثیل کے لئے ہیں ۔ ورنہ اس کی ذات اعضاوجوارح سے متصف نہیں * فصعق سے مراد موت کی بےہوشی ہے *۔ الزمر
70 الزمر
71 علم الٰہی کی اکملیت ف 2: منکرین حق وصداقت کو گروہ در گروہ جہنم کی طرف کشاں کشاں لیجایا جائے گا ۔ اور جب وہ جہنم کے قریب پہنچ جائیں گے ۔ تو اس کے دروازے ان کے لئے کھل جائیں گے ۔ محافظ پوچھیں گے ۔ کہ کیا تمہارے پاس اللہ کے رسول نہیں آئے تھے ۔ جو تمہیں اللہ کے احکام سناتے اور آج کے دن کی اہمیت سے آگاہ کرتے ۔ وہ کہیں گے کہ ہاں پیغمبر تو تشریف لائے تھے مگر ہم نے محرومی وشقاوت کی وجہ سے ان کو تسلیم نہ کیا ۔ اور کبر و غرور میں مبتلا ہوکر ان کے پیغام کو ٹھکرایا ۔ جہنم کے محافظ فرشتے یہ سارا مکالمہ زجر وتوبیخ کے انداز میں کرینگے ۔ کہ ان لوگوں کو معلوم ہو کہ اللہ کے مرسلوں کی تکذیب کا انجام کتنا خوفناک ہوسکتا ہے ۔ اور ان کو محسوس ہو کہ اللہ کے ہاں ہمارے مال ودولت کی قدروقیمت نہیں ہے وہاں ہمارے جاہ ومنصب کی کوئی رعایت نہیں کی جاتی ۔ بلکہ اس دربار عزت وجلال میں ان لوگوں کی بات سنی جاتی ہے ۔ جن کو ہم دنیا میں ہدف استہزا بناتے تھے ۔ اس حریم قدس وعظمت میں ان کی بازیابی ہے جو دنیا میں ایمان وعمل کے زیور سے آراستہ تھے اور اس ایوان حشمت وشکوہ میں صرف وہ لوگ جگہ پاسکتے ہیں جن کو یہ فخر حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے انبیاء سے اظہار عقیدت کیا ہے اور ان کی پیروی اور اطاعت کو باعث نجات سمجھا ہے *۔ ف 3: حقت کلمۃ ال عذاب سے گمراہ یہ ہے ۔ کہ ان لوگوں کے متعلق ازل فیصلہ یہ تھا کہ یہ لوگ اپنے اختیار سے خواہشات نفس کو ترجیح دیں گے اور عقبیٰ کا خیال نہیں رکھیں گے ۔ یہ گمراہ ہوں گے اور اپنے لئے عذاب کو پسند کریں گے ۔ اس لئے لازمی اور حتمی تھا کہ یہ اپنے اعمال سے اللہ کے اس اٹل علم کی تصدیق کریں ۔ اور واقعہ میں ثابت کردیں ۔ کہ حکمت اڑیسہ میں جو کچھ لکھا جاچکا تھا ۔ وہ حرف بہ حرف صحیح ہے ۔ اس انداز بیان سے غلط فہمی نہ ہو ۔ کہ اللہ کا فیصلہ ہمارے اعمال پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ اور وہ ہمیں مجبور کرتا ہے ۔ کہ ہم عملاً اس کی تصدیق کریں ۔ بلکہ ہوتا یہ ہے کہ جو کچھ ہمیں اپنے اختیارات سے کرنا ہے ۔ بلا کسی قوت آسمانی کے تعرض کے وہ اللہ پہلے سے جانتا ہے اور اس طرح جانتا ہے کہ اس میں تخمین کی غلطی نہیں ہوسکتی ۔ یہ علم بجائے خود ضرور کامل ہوتا ہے مگر یہ ہمیں مجبور نہیں کرتا کہ ہم اس کی تصدیق کے لیے کوشش کریں ۔ بلکہ یہ ایک علم کی اکملیت کا تقاضا ہے ۔ کہ ہم بالکل اسی طرح کی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ جس طرح کہ لوح محفوظ میں ہمارے لئے مقدر ومرتسم ہے ۔ یہ ایک باریک فرق ہے ۔ جس کو نظر انداز کردینے سے اکثر غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور سمجھا جاتا ہے ۔ کہ شاید علم الٰہی ہمارے اعمال کا خودذمہ دار ہے ۔ حالانکہ ایسا نہیں ۔ ہم اپنے اعمال کے خود ذمہ دار ہیں ۔ البتہ علم الٰہی میں ہمارے اعمال کی تمام تفصیلات پہلے سے موجود ہے ۔ الزمر
72 الزمر
73 الزمر
74 ف 1: جہاں منکرین کا استقبال زجروتوبیخ کے الفاظ سے ہوگا ۔ وہاں پاکبازوں کہ عزت واحترام کے ساتھ جنت کے دروازوں تک لایا جائے گا ۔ جب یہ دروازے ان کے خیر مقدم میں کھلیں گے ۔ تو فرشتے مسرت اور خوشی کا اظہار کرینگے ۔ اور کہیں گے کہ اللہ کی تم پر سل امتی ہو ۔ خوشحالی اور فارغ البالی سے جنت میں رہو ۔ ادھر یہ اللہ کی حمد وستائش میں مصروف ہوجائیں گے ۔ اور اس کا شکر ادا کریں گے ۔ کہ اس نے اپنا وعدہ پورا کیا ۔ اور جنت میں ان کے لئے ہر قسم کی آسودگی مہیا کی ۔ انہیں آزادی بخشی ۔ کہ جہاں چاہیں اپنے لئے تمام تجویز کرلیں *۔ حل لغات :۔ زمرا ۔ جمع زمرہ آدمیوں کے متفرق گروہ ۔ گروہ درگروہ * خزنتھا ۔ محافظ * حافین ۔ گھیرا ڈالے ہونگے ۔ حف یحف سے ہے * الزمر
75 الزمر
0 غافر
1 غافر
2 غافر
3 سورہ مومن ف 1: کتاب اللہ کے تعارف سے سورۃ کا آغاز فرمایا ہے ۔ کہ یہ صحیفہ رشدوہدایت اس اللہ کی جانب سے ہے ۔ جو صاحب عزت وعلم ہے ۔ گناہوں پر نگاہ کرم رکھتا ہے ۔ توبہ کو قبول کرلیتا ہے اور سرکشوں کے حق میں سخت سزا دینے والا ہے ۔ اور قدرت واقتدار کا مالک ہے ۔ یعنی اس کتاب میں یہ خوبی ہے ۔ کہ اپنے ماننے والے کو عزت وغلبہ بخشتی ہے ۔ اس میں اللہ کے بےپایاں علم کا مظاہرہ ہے ۔ گناہوں سے تھکے ہارے لوگوں کے لئے اس میں تسکین ہے ۔ وہ آئیں اور اس کی اطاعت کا عہد کریں ۔ تمام گناہ ان کے بخش دیئے جائیں گے ۔ اس میں ان لوگوں کے لئے بھی سامان طمانیت ہے ۔ جو مسلمان ہیں اور بتقاضائے بشریت ان سے معصیت کا صدور ہوجاتا ہے ۔ وہ اگر صدق دل سے توبہ کریں ۔ تو اللہ اس کو قبول فرمالیتا ہے ۔ اس کتاب میں یہ خصوصیت بھی ہے کہ اس کا انکار رب شدید العقاب کا انکار ہے ۔ اور اس کی غیرت کو آزماتا ہے ۔ جس کے متعلق طے ہے کہ وہ اس درجہ صاحب قوت واقتدار ہے ۔ کہ کوئی قوت اس کے فیصلوں کی تکمیل میں حائل نہیں ہوسکتی ۔ اس کے بعد اصل تعلیم کو پیش فرمایا ہے ۔ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اور ساری کائنات انسانی کو بالآخر اسی کے حضور میں پیش ہونا ہے *۔ اس انداز بیان میں کہ خدا غافر الذنب اور قابل القوب ہے ۔ کسی درجہ محبت اور شفقت کا اظہار ہے ۔ اور کس درجہ گناہگاروں کی دل دہی اور خاطر داری ہے ۔ کہ وہ کسی حالت میں بھی مایوس نہ ہوں ۔ وہ چاہے گناہوں سے سر سے پاؤں تک آلودہ ہوں جب بھی خلوص کے ساتھ اللہ کے سامنے آئیں گے ۔ تو اس کو نہایت مہربان اور شفیق پائیں گے ۔ پھر اس کے بعد شدید العقاب کہہ کر یہ کیا ہے ۔ کہ کہیں لوگ اس کی بخشش ہی پر بھروسہ نہ رکھیں ۔ اور یہ نہ سمجھ لیں ۔ کہ وہ تو عفو وحلم کا پیکر ہے ۔ ہمیں معاف ہی کردیگا ۔ بتایا ہے کہ جہاں اس کے عفو وکرم کی امید رکھو ۔ وہاں اس بات سے بھی ڈرو ۔ کہ وہ جب سزا دیتا ہے تو شدید سزا دیتا ہے ۔ ایمان کو گویا اس طرح امید وخوف کے بین بین رکھا ہے ۔ تاکہ اس میں توازن قائم رہے *۔ حل لغات :۔ الطول ۔ قوت اور قدرت *۔ غافر
4 غافر
5 ف 1: فرمایا ۔ کہ ان لوگوں کی تکذیب محض کفر وعناد پر مبنی ہے ۔ اور یہ اگر آسودگی اور آسائش سے شہروں اور ملکوں میں گھومتے پھرتے ہیں ۔ تو آپ یہ نہ سمجھ لیں ۔ کہ یہ لوگ اللہ کی گرفت سے بچ گئے ہیں ۔ ان سے پہلے بھی قوموں نے تکذیب کی ہے ۔ اور اپنے انبیاء کی مخالفت کی ہے ۔ اور ان کے خلاف سازشیں کی ہیں ۔ تاکہ حق کی آواز کو دبا لیں ۔ مگر ہمارے عذاب نے انہیں ہمیشہ اپنے ارادوں میں ناکام رکھا ۔ اسی طرح ان کے لئے بھی مقدر ہے ۔ کہ اللہ کے عذاب کو چکھیں ۔ اور جہنم میں اپنا ٹھکانا بتائیں ۔ عارضی طور پر ہم نے ان کو چلنے پھرنے کی مہلت دے رکھی ہے ۔ اس سے آپ اشتباہ میں نہ پڑیں ۔ آپ یقین رکھیں ۔ کہ ان لوگوں کو اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا ۔ اور اللہ کا دین پھیلے گا *۔ حل لغات :۔ تقلبھم ۔ چلنا پھرنا * وحمت ۔ بری نیت سے کیا * لیدحضوا ۔ دحض سے ہے جس کے معنی باطل کرنے اور ضائع کرنے کے ہیں جحلہ دا حصہ سے مراد وہ دلیل ہے ۔ جو مخالف کے زور استدلال کو توڑ دے *۔ غافر
6 غافر
7 فرشتے مسلمانوں کے لئے بخشش طلب کرتے ہیں ف 1: ایک طرف دنیا کے لئے بصیرت لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کررہے ہے تھے ۔ اور آپ کو اور آپ کی جماعت کو حقارت اور ذلت کی نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔ دوسری طرف اللہ کو یہ منظور تھا ۔ کہ آسمانوں میں اللہ کی بہترین مخلوق حمد وستائش کے ترانوں اور نغموں کے ساتھ مسلمانوں کے لئے بخشش اور مغفرت طلب کریں ۔ چنانچہ ارشاد ہے ۔ کہ وہ ملائکہ جو عرش عظیم کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں ۔ ہر آن تسبیح و تمہید میں مصروف ہیں ۔ وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لئے خلوص قلب کے ساتھ بخشش طلب کرتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز پر شامل ہے ۔ تو ان لوگوں کو جو تائب ہوچکے ہیں اور جنہوں نے تیرے دین کی پیروی اختیار کی ہے بخش دے ۔ اور ان کو دوزخ کے عذاب سے بچادے ۔ اور اسے ہمارے پروردگار ان کو حسب وعدہ جنت میں جگہ دے ۔ اور ان کے ماں باپ اور بیبیوں اور اولاد میں جو لائق ہوں ۔ ان کو بھی ان نعمتوں میں شریک کرلے ۔ تو زبردشت حکمت والا ہے ۔ اور ان کو ہر طرح دیکھ اور تکلیف سے بچا ۔ یقینا تیری رحمت ہوگی اور ان کے لئے بڑی کامیابی *۔ اس ضمن میں دو چیزیں قابل غور ہیں ۔ ایک تو یہ کہ عرش عظیم کو اٹھانے کے معنے کیا ہیں ۔ کیا یہ عرش اللہ کی قرار گاہ نہیں ہے ؟ اور کیا اس کو اٹھانے کے معنے یہ نہیں ہیں ۔ کہ اس دن فرشتے خدا کو اپنے کندھوں پر اٹھالیں گے ؟ ان شکوک کا جواب یہ ہے کہ سب سے پہلے اس چیز پرغور کرنا چاہیے ۔ کہ اللہ کے متعلق قرآن نے کس بخیل کو پیش کیا ہے ؟ اور اس کے بعد یہ چیز سوچنے کی ہے ۔ کہ عرش کے ساتھ اللہ کی وابستگی کس نوع کی ہے ؟ اس کے بعد غالباً اس قسم کے شکوک پیدا نہیں ہوسکتے ہیں ۔ بشرطیکہ وہ تخیل اور وابستگی اسی طرح کی ہو ۔ جس طرح کہ ذہین میں متباور ہوتی ہے اور اگر قرآن صاف صاف کئی بار یہ اعلان کردے کہ خدا ہر چیز کا خالق ہے ۔ لیس کمثلہ شیء کا مصداق ہے ۔ جسمانیات سے معرا اور پاک ہے ۔ مقام اور مکان کا محتاج نہیں اور عرش سے تعلق محض تجلیات کا ہے ۔ کہ وہ اس کو بطور تجلی گاہ کے استعمال کرتا ہے ۔ تو پھر سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہتا ۔ دوسری بات یہ ہے ۔ کہ جب فرشتہ اللہ کی تجلیات کو براہ راست اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہونگے ۔ اور اس کے عرش تجلیات کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہونگے ۔ تو پھروہاں اس چیز کے ذکر کی کیا حاجت تھی ۔ کہ وہ اس پر ایمان رکھیں گے ۔ کیونکہ ایمان کا تحقق تو وہاں ہوتا ہے ۔ جہاں مشاہدہ نہ ہو بلکہ نظر استدلال ہو اور یہاں خدا کی تجلیات کا مشاہدہ ہے جواب یہ ہے کہ اللہ کی عظمت اور جلالت قدر کا تقاضا یہ ہے کہ باوجودانتہائی قرب کے بھی وہاں بےشمار ایسے حجابات نور ہوں ۔ جو اس کی ذات اور تجلیات کے مشاہدہ کرنے والوں کے درمیان حائل ہوں ۔ اور وہاں عین اللہ کی حضوری میں بھی انسان مشاہدہ ذات پر قادر نہ ہوسکے ۔ بلکہ بصیرت ہی راہنمائی کرے ۔ اور ایمان ہی تسکین بخشے ۔ ہاں یہ درست ہے ۔ کہ یہ ایمان قوت واستحکام میں اس ایمان سے بدرجہاں مختلف ہے ۔ جو نظرواستدلال سے پیدا ہوتا ہے *۔ حل لغات : العسیات ۔ یعنی تکلیفات *۔ لمقت اللہ ۔ یعنی اللہ کا غصہ اور ناراضی * اھذا النتین ۔ دوبار مارنے کے یہ معنی ہیں ۔ کہ جب کنتم عدم میں تھے ۔ جب بھی مردہ تھے ۔ پھر جب موت نے زندگی کے شیرازہ کو منتشر کردیا ۔ اس وقت بھی مردہ تھے *۔ غافر
8 غافر
9 غافر
10 غافر
11 غافر
12 غافر
13 غافر
14 دعوت توحید ف 1: قرآن حکیم بطور مدار و مرکز کے جس مسئلہ کا ذکر کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ تمام عالم انسانی احساس مجد کے اس اصول سے براہ راست واقفیت پیدا کرے اور یہ تے کرلے کہ زندگی کی تمام تگ ودو میں اس اصول کو ملحوظ رکھا جائیگا کہ ہم ساری کائنات سے افضل ہیں ۔ اور رب اکوان ہمارا خدا ہے ۔ اسی کی بادشاہت ہے ۔ اور وہی بالا اور برتر ذات ہے ۔ اس عقیدہ یقینا یہ نتیجہ ہوگا ۔ کہ نفس میں وہ تمام خود داری اور رفعت کے جذبات پیدا ہوجائیں گے ۔ جن پر مضبوط اور صالح زندگی کا انحصار ہے ۔ توہمات مٹ جائیں گے اور ہر شخص اپنے میں ایک روحانی قوت اور طاقت محسوس کریگا ۔ ایک نوع کی بالیدگی اور ارتقاء پائیگا ۔ اور پھر ہینت اجتماعیہ کی شکل اس انداز میں ہوگی کہ ہر شخص مساوات اور محبت کے حقوق سے یکساں بہرہ مند ہوگا ۔ جب ہر شخص بطور عقیدہ کے سمجھ لیگا ۔ کہ ہم سب ایک ہی خالق اور آقا کے بندے ہیں ۔ اور وہ آقا بلاتفریق سب کا پروردگار ہے ۔ تو دنیا میں فضیلت جنسی کا امتیاز اٹھ جائیگا ۔ کالے اور گورے میں کوئی فرق نہیں رہیگا ۔ مشرق اور مغرب کے پلے برابر ہوجائیں گے اور اس طرح نوع انسانی بہت بڑی سعادت کو حاصل کرلیگی ۔ قرآن حکیم بار بار ، اس تصور کو پیش فرماتا ہے اور کہتا ہے ذرا غور تو کرو ۔ کیا وہ تمہیں اپنی نشانیاں نہیں دکھاتا ہے ۔ اور کیا اسی کے ہاتھ میں تمہاری ضروریات کی تکمیل نہیں ہے ؟ وہی تمہیں رزق بہم پہنچاتا ہے ۔ اور وہی تمہاری روزی کا سامان مہیا کرتا ہے ۔ مگر اس سادہ حقیقت کو بھی سمجھنے کے لئے جذبہ رجوع الی اللہ کی ضرورت ہے ۔ اگر طبیعت میں صلاحیت ہو انابت ہو ۔ اور حق کی طرف میلان ہو ۔ تو پھر انسان کا لامحالہ اس حقیقت پر ایمان ہوگا ۔ کہ سمجھے گا ۔ کہ خدائے آسمان وزمین ہماری ضروریات کا متکفل ہے ۔ ورنہ ہدایت کا حصول سخت مشکل ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ کہ میری عبادت خلوص اور دیانت سے کرو اور اس استحکام وعزیمت کے ساتھ کہ منکرین کی مخالفت سے تمہارے عقیدوں میں تزلزل پیدا نہ ہوسکے ۔ حل لغات :۔ رفیع الدرجات ۔ کے معنی جہاں خود بلند مرتبت ہونے کے ہیں ۔ وہاں یہ بھی ہوسکتے ہیں ۔ کہ وہ اللہ اپنے بندوں کے درجات روحانی میں اضافہ کرتا رہتا ہے ۔ اور ان کے مرتبوں کو بڑھاتا رہتا ہے *۔ غافر
15 ف 2: یعنی وہ بلند مرتبت ذات جو عرش جلال وجبروت پر قرار پذیر ہے ۔ وہ کائنات کی مصالح کو خوب سمجھتی ہے ۔ اور وہ اس بات میں تمہارے مقاصد کی پرواہ نہیں کرتی ۔ یہ کوئی ضروری نہیں ۔ کہ تمہارے نزدیک جو نبوت کا مستحق ہو ۔ وہ پیغمبر قرار پائے ۔ اور جس کو تم دیکھو ۔ کہ دنیوی اعزاز سے محروم ہے ۔ اللہ بھی اس کو عہدہ رسالت سے سرفراز نہ کرے ۔ وہ اپنے معاملات میں خود مختار ہے ۔ اور اس کے ہاں فضیلت وشرف کا معیار وہ نہیں ہے ۔ جو تمہارے ہاں ہے ۔ وہ جس شخص میں اہلیت دیکھتا ہے ۔ اس کو نوازتا ہے ۔ اور امین بنا کر وحی فرماتا ہے وحی اور شریعت کو رفع سے تعبیر کرنے معنی یہ ہیں کہ جس طرح روح سے انسانی جسم میں تازگی اور نزہت پیدا ہوتی ہے ۔ اور انسانی زندگی کے لئے رفع کی احتیاج ہے ۔ اسی طرح شریعت اور مذہب جسم انسانی کی جان ہے ۔ اور روح حیات ہے * بتوں کو کیوں پوجتے ہو ؟ قرآن حکیم بار بار شرک کی تردید کرتا ہے ۔ اور کہتا ہے کہ تمہارے بتوں کو اور معبودان باطل کو کائنات کے کاروبار میں کوئی دخل نہیں اور یہ مشرکانہ تصورات قیامت کے دن تمہیں اللہ کی گرفت سے نہیں چھڑا سکیں گے *۔ حل لغات :۔ یوم الطلاق ۔ قیامت کے دن جب روحیں ایک جگہ جمع ہوگی ۔ اور باری تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونگی ۔ یوم الازفۃ وہ دن جو اپنی قطعیت کے اعتبار سے بالکل قریب الوقوع ہو * اذ القلوب لدا الحناجر ۔ مجاز ہے مقصد یہ ہے کہ جب لوگ انتہائی اضطراب اور بےچینی کو محسوس کرینگے اور مارے ہول کے ان کے کلیجے منہ کو آنے لگیں گے *۔ غافر
16 غافر
17 غافر
18 غافر
19 غافر
20 غافر
21 ف 1: قابل غور چیز یہ ہے ۔ کہ کیونکر انسان ان پتھروں اور زید و روح کے لاشوں کو خدا سمجھ لیتا ہے ۔ اور کس طرح ان کی عبادت میں اسکو روحانی تسکین حاصل ہوتی ہے ۔ حالانکہ نہ یہ اس کی باتوں کو سن سکیں اور نہ ان کے نعمتہائے عقیدت سے واقفیت حاصل کرسکیں ۔ جو خدا ہماری آواز کو نہیں سنتا ۔ اور ہمارے دلی جذبات کو نہیں جانتا ۔ وہ کیونکر خدا ہوسکتا ہے ؟ ہم تو فطرتاً ایسا خدا چاہتے ہیں ۔ جو غموں اور مصیبتوں میں بغیر نالہ وفریاد اور شیون وبکا کے ہماری دستگیری کرے ۔ اور ہمیں روحانی تسکین عطا کرے ۔ جو براہ راست ہمارے کلیجے کے داغہائے الم کو دیکھتا ہو ۔ اور ہماری پردرد آواز کو سنتا ہو ۔ اور کیوں یہ فرض کرلیتے ہیں ۔ کہ یہ پتھر پسجیں گے اور اپنی غیر معمولی قدرتوں سے ان کی مشکلات کو دور کریں گے ۔ حالانکہ وہ پتھر ہیں ۔ بےجان ہیں اور بےحس ہیں ۔ غافر
22 زمین میں چل پھر کر دیکھو ف 2: خدا کی سنت اقوام وملل کے متعلق یہ رہی ہے ۔ کہ جب ان کے پاس اس کے رسول دلائل وشواہد لے کر آئے ہیں ۔ اور انہوں نے انہیں اسختصار سے ٹھکرادیا ہے ۔ تو اس کی غیرت جوش میں آئی ہے ۔ اور ان کو ہلاک کردیا گیا ہے ۔ اور پھر کسی قسم کی رعایت کو محلوظ نہیں رکھا گیا اس لئے قریش مکہ کو بتلایا ہے ۔ کہ تم قوت اور دولت پر ناز نہ کرو ۔ تم سے پہلے بھی اس معمورہ ارضی پر قومیں آباد ہوچکی ہیں ۔ اور وہ تم سے قوت اور اقتدار میں کہیں زیادہ تھیں ۔ مگر جب انہوں نے نافرمانی کی اور اللہ کے حکموں کو ٹھکرایا ۔ تو پھر ان کو اس طرح فنا کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ کہ آج صرف عبرت وتذکیر کے لئے ۔ چند کھنڈرات باقی ہیں ۔ جو ان کے تکبر وغرور پر نوحہ کناں ہیں ۔ اور ہو شاندار شخصیتیں جن کو شبہ تھا ۔ کہ زمانہ ان کو کبھی فراموش نہیں کریگا ۔ قطعاً موجود نہیں ہیں ۔ اور حرف غلط کی طرح ان کا نام ونشان تک مٹ گیا ہے ۔ کیا اس کے بعد بھی تمہارا گمان ہے ۔ کہ باوجود حق وصداقت کی مخالفت کے تم لوگ باقی رکھے جاؤ گے ۔ اور خدا تمہاری قوت او طاقت سے ڈرجائیگا ۔ اور تم سے بالکل تعرض نہیں کریگا ۔ تم زمین میں چلو پھرو ۔ اور تاریخ اقوام کے ورق الٹ کر دیکھو ۔ اگر وہ اللہ کی گرفت سے بچ سکے ہوں تو تمہارے لئے بھی بچ نکلنے کے امکانات ہیں ۔ ورنہ تم کیونکر بچ سکوگے *۔ حل لغات :۔ اثارا ۔ جمع اثر ۔ یعنی اپنی عظمت ورفعت کے مادی نشانات * واق ۔ بچا سوا * قوی ۔ صاحب قوت واقتدار *۔ غافر
23 غافر
24 غافر
25 غافر
26 غافر
27 غافر
28 فرعون کے استبداد کا جواب ف 1: حضرت یوسف (علیہ السلام) کے عہد بابرکت میں بنی اسرائیل مصر میں آئے ۔ اور پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے ۔ تقریباً چار صدیاں انہوں نے یہاں امن وسکون کے ساتھ گزاریں اس کے بعد جب قبطیوں نے دیکھا ۔ کہ یہ لوگ اپنی ذہنی اور جسمانی لحاظ سے ہم سے کہیں بڑھ کر ہیں ۔ تو ان کو خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں یہ قوت واقتدار کے تمام شعبوں پر نہ چھا جائیں ۔ اور ہمیں جو کہ مصر کے اصل باشندے ہیں ۔ نکال باہر نہ کریں ۔ اس لئے مخالفت اور عناد کے جذبات ان کے سینوں میں پیدا ہوئے ۔ اور آہستہ آہستہ بڑھنے لگے ۔ قراعنہ مصر نے قبیلوں کے ساتھ دیا اور بنی اسرائیل کی تذلیل وتحقیر ٹھان لی ۔ تقریباً نصف صدی کے معانداز طرز عمل نے تمام اختیارات کو قبطیوں کی طرف منتقل کردیا ۔ اور بنی اسرائیل نہایت ہی بری طرح غلامی کی زندگی بسر کرنے لگے اور پھر بھی ان کا جذبہ انتقام فرونہ ہوا ۔ یہ لوگ چاہتے تھے کہ ان سے ہر طرح کا انتقام لیں اور مصر میں اس طرح ان کو بےپست وپا کردیں کہ یہ کبھی بھی ہمارا مقابلہ نہ کریں اور ہمیشہ ہمارے محتاج رہیں اس وقت اللہ تعالیٰ نے فطرت موسیٰ کو بھیجا ۔ تاکہ وہ اس کے ظلم واستبداد کا مقابلہ کریں ۔ اور فرعون اور اس کے اعوان وانصار کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں ۔ فرعون کو جب حضرت موسیٰ کے ان عزائم کا پتہ چلا تو اس کے قتل کے درپے ہوا کہنے لگا کہ مجھے اجازت دو کہ میں اس کو مارڈالوں اور یہ جو ایک خدائے واحد کی طرف بلاتا ہے ۔ میں اس کی قوت بھی آزمادیکھوں مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ تمہارے اندر الحاد نہ پھیلا دے اور تمہارے دین کو بدل نہ ڈالے اور یا ملک میں ابتری اور خرابی نہ پھیلادے ۔ قرآن حکیم نے درمیان کے تمام واقعات کو یہاں احذف کردیا ہے ۔ کہ حضرت موسیٰ فرعون کے ارادوں کے خلاف کس طرح بچ نکلے اور اس کے قصر میں تربیت حاصل کی ۔ اور پھر اس کو تبلیغ کے لئے منتخب کیا ۔ معجزات سکھائے ۔ مقابلہ ہوا اور ان کی فتح ہوئی ۔ یہاں صرف اس قدر بتانا مقصود ہے ۔ کہ ہر سرکشی اور بغاوت کے لئے اللہ کے پاس ایک نوع کی ہدایت اور قوت ہے جس سے وہ کام لیتا ہے ۔ اور معاندین کو یا تو حلقہ بگوش اطاعت بنالیتا ہے یاکچل دیتا ہے ۔ اس لئے مکہ والے اپنے جہل اور تعصب میں اس درجہ مفرور نہ ہوجائیں ۔ کہ خدا کی گرفت سے اپنے کو آزاد سمجھیں ۔ حضرت موسیٰ نے جب فرعون کے اس ارادہ کے متعلق سنا ۔ تو کہنے لگے میں اس پروردگار کی پناہ میں ہوں جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے ۔ اس لئے ہر بےدین کے کبرونخوت سے محفوظ ہوں ایمان میں یہ عجیب قوت ہے کہ یہ خود اروں کو قبول اور پذیرائی کے لئے منتخب کرلیتا ہے اور اس کا انتخاب بھی اس نوع کا ہوتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے یا تو یہ کیفیت ہے کہ فرعون اور اس کی قوم موسیٰ کی دعوت آزادی کی وجہ سے انگاروں پر لوٹ رہے ہیں ۔ یا فتوحات ایمانی کا یہ عالم ہے کہ فرعون ہی کے کنبہ والوں میں سے ایک شخص حضرت موسیٰ کی دعوت کو قبول کرلیتا ہے ۔ اور صاف طور پر اپنی قوم سے کہتا ہے کہ کیا تم ایک شخص کو محض اس لئے جان سے ماررہے ہو ۔ کہ وہ اللہ کی ربوبیت کا قائل ہے ۔ حل لغات :۔ کید ۔ تدبیر * الفساد ۔ تباہی ۔ ضداصلاح ۔ غافر
29 ف 1: حالانکہ وہ بےشمار دلائل بھی اپنی صداقت کے ثبوت میں پیش کرچکا ہے ۔ اس لئے بہتر رائے یہ ہے کہ تم اسے کچھ نہ کہو ۔ اگر یہ جھوٹا ہے تو اپنی سزا خودبھگت لے گا اور اگر صداقت شعار ہے تو پھر وہ عذاب ضرور آئیگا ۔ جس کا وہ تم سے وعدہ کررہا ہے اور یاد رکھو ۔ کہ آج یقینا ارض مصر میں تمہاری بادشاہی ہے ۔ مگر جب اللہ کے غضب اور غصہ میں تحریک ہوئی ۔ تو کون ہماری مدد کریگا * مرد مومن کی وسعت نظری : مرد مومن نے قوم کو ارادہ قتل سے باز رکھنے کی کوشش کی ۔ بہت عقل مند اور صاحب بصیرت آدمی معلوم ہوتا ہے اور ان کی گفتگو سے یہ بھی ٹپکتا ہے ۔ کہ اسے اقوام وملل کی تاریخ پر پورا عبور حاصل تھا ۔ چنانچہ جب فرعون نے اس کے جواب میں کہا ۔ کہ میری تو یہی رائے ہے ۔ جس کو میں بیان کرچکا ہوں ۔ اور میں تمہیں بالکل مصلحت کی باتیں بتاتا ہوں ۔ تو اس نے جواباً اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے کہا ۔ کہ اے قوم تم جو چاہو ۔ اپنے لئے طے کرلو ۔ مجھے تو ڈر ہے کہ تمہارا حشر بھی کہیں وہ نہ ہ ۔ جو پہلی قوموں کا ہوا *۔ حل لغات :۔ فعلیہ کذبۃ ۔ تو اس پر اس کے جھوٹ کا بوجھ ہوگا ۔ یعنی اس کا جھوٹ اسی پر ہوگا * مسرف ۔ حدود انصاف سے آگے نکل جانے والا * باس اللہ ۔ اللہ کا عذاب * الاحزاب ۔ جمع حزب ۔ بمعنی گروہ ۔ یعنی ہلاک شدہ جماعتیں *۔ غافر
30 غافر
31 (ف 1) تم بھی کہیں قوم نوح الور ثمودکی طرح کے عذاب کا شکار نہ بن جاؤ اے قوم مجھے اندیشہ ہے ۔ کہ قیامت کے دن جب تم موقف حساب سے پشت پھیر کر دوزخ کی طرف لوٹو گے ۔ تو تمہیں کوئی قوت نہ بچا سکے گی ۔ اس وقت یہ حکومت واقتدار اور بادشاہت اور اختیارات تمہارے کام نہ آسکیں گے ۔ تم کو معلوم ہے کہ جب حضرت یوسف تم میں پہلے پہل تشریف لائے تھے ۔ اور انہوں نے دلائل وشواہد سے اپنی نبوت کا اعلان کیا تھا ۔ تو تم اس وقت بھی شک وشبہ میں مبتلا رہے ۔ اور پھر جب ان کا انتقال ہوگیا ۔ تو تم نے ازراہ محرومی وبدبختی کہا ۔ کہ اچھا ہوا ۔ اب ان کے بعد تو کوئی شخص نہ آئے گا ۔ اور ہم کو عیس وعشرت کی زندگی سے نہ منع کریں گا اس وقت بھی تم نے خباثت نفس کا ثبوت دیا ۔ اور اسی وقت بھی تم توفیق ہدایت سے محروم ہورہے ہو ۔ یقینا ایسے فساق کو جو طبیعت کے شکی ہوں ۔ کبھی معاوت سے بہرہ مندی حاصل نہیں ہوتی ۔ معلوم ہوتا ہے ۔ یہ مرد مومن قوموں اور ملتوں پر جو عذاب آتا ہے اس کی حکمت کو خوب سمجھتا ہے ۔ ایسی لئے جہاں اپنی قوم کو تباہی اور ہلاکت سے متنبہ کرتا ہے ۔ وہاں کہتا ہے ۔ وما اللہ یرید ظلما للعباد یعنی یہ عذاب جو آتا ہے تو اس لئے نہیں ۔ کہ خدا کا جذبہ انتقام بھڑک اٹھتا ہے اور محض مظاہرہ جلال وجبروت میں اور انسان کے ایک طبقہ کو فنا کے گھاٹ اتاردیتا ہے ۔ بلکہ یہ مصلحت پر مبنی ہوتا ہے ۔ قوموں کو اس وقت ہلاک کیا جاتا ہے ۔ جب ان کے اعمال کی سمیت سارے جسم انسانی میں سرایت کرجائے ۔ اور خطرہ ہو کہ اس کا بقا آئندہ نسلوں کے لئے تباہ کن ہوگا ۔ اس وقت ان کو سزا دی جاتی ہے ۔ اور جسم انسانی سے ان کے تعلق حیات کو منطق کردیا جاتا ہے ۔ تاکہ جسم کا دوسرا حصہ آفت دنیا سے بچ جائے ۔ جس طرح زندگی قائم رکھنے کے لئے انسان کے بعض اعضاء کو کاٹ دیا جاتا ہے ۔ اور یہ عمل اس کے ساتھ مہربانی اور کرم گستری کا سمجھا جاتا ہے ۔ اسی طرح ان قوموں کو تباہ کردینا ۔ جن کے گناہوں سے ساری کائنات انسانی کے لئے خطرہ ہو نفس انسانیت کے ساتھ بہترین سلوک روا رکھنا اور زندگی کو بچا لینا ہے ۔ حل لغات :۔ التناد ۔ پکار ۔ دعوت * ان یبعت اللہ یہ ملحوظ رہے کہ یہ قبطیوں کا عقیدہ نہیں تھا ۔ کیونکہ وہ تو حضرت یوسف کو پیغمبر ہی نہیں مانتے تھے ۔ بلکہ یہ اظہار مسرت کا ایک انداز تھا ۔ غرض یہ تھی کہ اچھا ہوا اس مصیبت سے پیچھا چھوٹا ۔ یعنی یہ ان کی خواہش تھی کہ اب کوئی دوسرا پیغمبر تشریف نہ لائے ۔ اور ہم کو نصیحت نہ فرمائے ۔ پیشگوئی نہ تھی ۔ جیسا کہ علامہ رازی نے تصریح فرمائی ہے ۔ کہ یہ انہوں نے علی سبیل التشھی کہا تھا *۔ غافر
32 غافر
33 غافر
34 غافر
35 غافر
36 غافر
37 میں موسیٰ کے خدا ل کو دیکھنا چاہتا ہوں ف 1: فرعون نے جب دیکھا ۔ کہ موسیٰ کے مشن کو کامیابی ہورہی ہے ۔ اور لوگ خفیہ خفیہ اس کی تعلیمات پر ایمان لارہے ہیں ۔ تو اس کے ازراہ استخفاف ہامان سے کہا کہ یہ موسیٰ کس خدا کی دعوت دیتے ہیں ؟ ذرا ایک بلند معیار وبالا مینار نو تعمیر کرو ۔ میں ابھی تو دیکھوں کہ آسمانوں میں موسیٰ کا خدا کیونکر قرار پذیر ہے ۔ کیا یہ لوگوں کو بتلانا چاہتا تھا ۔ کہ میرے سوا اور کون خدا ہوسکتا ہے ؟ اور اگر کوئی خدا ہے تو وہ آسمانوں میں ہوگا ۔ اور اس کو میری طرح نظر آنا چاہیے ۔ گویا اس بےوقوف نے یہ سمجھا ۔ کہ خدا بھی میری طرح کوئی جسمانی قوت ہے جو مکان وجہت کی محتاج ہے اور جس کو محسوس کیا جاسکتا ہے حالانکہ وہ ذات بےہمت ایسی ذات ہے جس تک ہمارے حواس اور خیال اور قیاس وہ ہم کی رسائی بھی نہیں ہوسکتی ۔ جو عقل وخرد سے بالا اور فہم و فراست سے کہیں برتر ہے ۔ جو گو کہ اعلیٰ درجے کے وصف تحقق سے متصف ہے ۔ مگر اپنے جلال اور جبروت کے سربراہوں میں کچھ اس طرح پنہاں ہیں ۔ کہ آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں ۔ اور پیکر خیال اس تک نہیں پہنچ سکتا ۔ اس کی تجلیات ہر جگہ اور ہر مقام میں موجود ہیں ۔ مگر وہ بذاتہ کسی مکان و زمان سے نسبت احتیاج نہیں رکھتا اس لئے فرعون نے اس کے متعلق اگر یہ سمجھا کہ وہ آسمانوں میں اس نماز میں موجود ہے ۔ کہ میں اس کو دیکھ سکوں گا ۔ یہ تو محض اس کی غلط فہمی تھی ۔ یا وہ عمداً خدا کے وجود کا مضحکہ اڑانا چاہتا تھا ۔ اہل کتاب نے یہاں یہ کہا ہے ۔ کہ جس کا قرآن نے فرعون کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔ بہت بھوکا آدمی ہے اور فرعون کے اور اس کے درمیان صدیوں کا فاصلہ حائل ہے ۔ پھر یہ کیونکر تسلیم کرلیا جائے کہ وہ فرعون کے زمانے میں بطور وزیر کے موجود تھا ۔ اور فرعون نے اس سے کہا کہ وہ مینار تعمیر کرادے ۔ جواب یہ ہے کہ فرعون کا زمانہ ایسا زمانہ ہے جو تاریخی نہیں ہے اور کم از کم تو رات سے جس قدر تاریخ کا تعلق ہے ۔ وہ قطعی غیر مستند ہے ۔ سا لئے اس کی روشنی میں قرآن پر محاکر کرنا محض غلط ہے ۔ قرآن بجائے خود ایک مستند اور آخری تاریخ اقوام ہے ۔ یہ اعتراض اس وقت صحیح ہوسکتا ہے ۔ جبکہ کوئی کتاب ایسی موجود ہو ۔ جو ااسشاد میں وہی درجہ رکھتی ہو ۔ جو قرآن حکیم کا ہے ۔ اور پھر اس میں یہ لکھا ہوتا ۔ کہ فرعون کے زمانہ میں ہامان نامی کوئی شخص نہ تھا ۔ اور جب یہ حیثیت نہیں ہے ۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں ۔ کہ جو کچھ قرآن نے کہا ہے وہی درست ہے ۔ حل لغات :۔ سلطان ۔ دلیل قاہر ۔ محبت ۔ قدرت * متکبر ۔ مغرور * جبار ۔ سرکش ۔ جابر ۔* الاسباب ۔ ذرائع ۔ راستے ہلاکت وتباہی ۔ زیاں کاری *۔ غافر
38 غافر
39 غافر
40 ف 1: اس مرد مومن نے اپنی قوم کو اچھی طرح حضرت موسیٰ کی تعلیمات سے روشناس کیا ۔ اور پوری ماعظانہ قوت سے کام لے کر ان کو سمجھایا کہ کسی طرح وہ رشدوہدایت کی راہ قبول کرلیں ۔ اور فرعون کی غلامی سے آزاد ہوجائیں ۔ کبھی یہ کہا کہ میں تمہیں ٹھیک ٹھیک راستہ پر گامزن کرنا چاہتا ہوں ۔ کبھی دنیائے دوں کے فنا اور عارضی ہونے کی طرف ان کی توجہ کو مبذول کیا ۔ اور کبھی یہ کہا ۔ کہ دیکھو تم پر تمہارے یہاں کے اعمال کی پوری پوری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ اگر برائی کا ارتکاب کروگے ۔ تو سزا ملے گی اور اگر نیک اور صالح ہوگے تو جنت کی نعمتوں سے تمہیں نوازا جائے گا *۔ غافر
41 مرد مومن کی بقیہ تقریر ف 2: اس مرد مومن نے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے کہا ۔ کہ میں تو تمہیں نجات اور مخلصی کی دعوت دیتا ہوں ۔ اور تم مجھے جہنم کی طرف بلاتے ہو ۔ تم یہ چاہتے ہو کہ میں اللہ کا انکار کردوں اور اس کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہراؤ ں ۔ جن کے متعلق میں نہیں جانتا کہ وہ کیونکر خدا ہوسکتی ہیں ۔ میں تمہیں ایسے رب عزت اور خطا بخش خدا کی جانب بلاتا ہوں ۔ جو ساری دنیا کا مالک ہے اور تم جن معبودان باطل کے لئے میری عقیدت مندی کو حاصل کرنا چاہتے ہو ۔ وہ دنیا میں کام آسکتے ہیں ۔ نہ آخرت میں ۔ یاد رکھو ہم سب کو بالآخر اسی خدا کے جانب لوٹ کر جانا ہے ۔ اور وہاں وہ لوگ جو حد عبودیت سے تجاوز کررہے ہیں دوزخ میں جائیں گے ۔ تم لوگوں کو عنقریب معلوم ہوگا کہ میں جو کچھ کہتا ہوں ۔ وہ حق وصداقت ہے ۔ اور میں اپنے معاملہ کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔ کیونکہ میرا ایمان یہ ہے کہ خدا اپنے بندوں کا ہمیشہ خیال رکھتا ہے ۔ اس مخلصانہ وعظ کا اثر الٹا ہوا ۔ قوم مخالفت پر آمادہ ہوگئی ۔ اور یہ سوچنے لگی ۔ کہ کیونکر حضرت موسیٰ کے تبلیغی اثرات لوح قلب سے مٹایا جاسکتا ہے ۔ تشدد کی تیاریاں ہونے لگیں اور سزا کی دھمکیاں دی جانے لگیں ۔ کہ اتنے میں حضرت موسیٰ کو حکم ہوا کہ آپ ارض مصر کو چھوڑ دیں ۔ اور بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے جائیں ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ نے اس پر عمل کیا اور راتوں رات سرزمین مصر کو خالی کردیا ۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے تعاقب کیا اور دریا میں ڈوبا دیئے گئے *۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے اپنے بندوں کی حمایت کی ۔ اور حیرت انگیز طریق سے اتنے بڑے بادشاہ کے چنگل سے ان لوگوں کورہائی بخشی ۔ اور عملاً یہ بتادیا ۔ کہ اللہ کی ضمانتیں بجائے خودایک طاقت اور قوت ہیں اور جس کے ساتھ اللہ کی نصرت اور اعانت ہو ۔ وہ کبھی اپنے مقاصد میں ناکام نہیں رہتا ۔ اور نیز اس چیز کا اظہار فرمایا ہے ۔ کہ غررور مادی کے لئے ہمیشہ شکست اور عزیمت ہے اور یہ مقدرات سے ہے کہ روحانیت کی فتح ہو اور باطل دب جائے *۔ حل لغات :۔ لاجرم ۔ تاکید کے لئے ہے *۔ غافر
42 غافر
43 غافر
44 غافر
45 غافر
46 غافر
47 غافر
48 عذاب قبر کا ثبوت ف 1: اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ موت کے بعد ہر انسان عالم قبر یا عالم برزخ میں رہتا ہے اور یہ حالت ایک نوع کی تنویمی حالت ہوتی ہے ۔ سابقہ اعمال کا اس عالم پر اثر ہوتا ہے ۔ اگر کوئی شخص نیک رہا ہو ۔ تو یہاں اچھے اثرات کو محسوس کرتا ہے اور فرح ومسرت سے دوچار ہوتا ہے ۔ اور اگر اس نے دنیا میں برے اعمال کئے ہیں تو یہاں ان کو تکلیف کو محسوس کریگا ۔ یہ عذاب قبر ہے ۔ اس عقیدے کا ثبوت اس آیت سے ملتا ہے کیونکہ یہ مذکور ہے ۔ کہ فرعون اور آل فرعون کو صبح وشام جہنم کے سامنے پیش کیا جائیگا ۔ اور پھر جب باقاعدہ حساب و کتاب کی منزلیں طے ہوچکیں گی ۔ تو اس وقت ان کے متعلق کہا جائے گا ۔ کہ انہیں شدید ترین عذاب میں ڈال دو ۔ یہاں یعرضون کا لفظ یہ بتارہا ہے ۔ کہ یہ عذاب قبر صرف اسی شکل میں ہوگا ۔ کہ یہ لوگ اپنے عذاب کو دیکھ دیکھ کر چلیں گے ۔ اور روحانی اذیت محسوس کریں گے ۔ گمراہ کن کبراء دین قیامت کایہ پہلو بالکل عجیب ہوگا ۔ کہ وہ لوگ جن کو ضعیف الاعتقاد حضرات بزرگان کرام سمجھتے تھے ۔ اور جن کی وجہ سے انہوں نے حق وصداقت کی آواز کو سنا تھا ۔ وہ بھی وہاں جہنم میں ہونگے ۔ یہ مریدان عقیدت مندان سے کہیں گے کہ دنیا میں تو ہم لوگ تمہارے تابع تھے ۔ ہم نے اپنی عقل وخرد کو تمہارے ہاتھ بیچ رکھا تھا ۔ آج ہمیں اس عذاب سے بچاؤ۔ اور اپنی مشیخیت کا ثبوت دو ۔ وہ کہیں گے آج وہ تمام پروہ ہائے چاک ہوچکے ہیں ۔ اور معلوم ہوچکا ہے ۔ کہ یہاں ہم اور تم دونوں برابر کے مجرم ہیں ۔ دونوں دوزخ میں ہیں ۔ اللہ نے اپنا منصفانہ فیصلہ صادر فرما دیا ہے اب نہ ہم بچ سکتے ہیں اور نہ تم *۔ حل لغات :۔ عدوا وعشیا ۔ بااعتبار کے صبح وشام * الصعفوء آ ۔ جو اپنی رائے نہیں رکھتے ۔ اور دین کے معاملہ می اپنے مشائخ مذہبی کے تابع ہیں *۔ غافر
49 غافر
50 ف 1: غرض یہ ہے کہ وہ مقام ہوگا جہاں ارادت اور عقیدت کے تمام تعلقات منقطع ہوجائیں گے اور ہر شخص اپنی ذاتی ذمہ داری کو محسوس کرے گا ۔ اس وقت معلوم ہوگا ۔ کہ حاملین ملت ومقتدائے دین کس درجہ مکار تھے اور کیونکر کمزور استعداد کے لوگوں کو گمراہ کرتے تھے ۔ پھر جب یہ لوگ دیکھیں گے ۔ کہ یہ کبراء تو کچھ نہیں کرسکتے ۔ تو فرشتوں سے کہیں گے ۔ تم ہی ہمارے لئے تخفیف عذاب کی دعا کرو ۔ وہ کہیں گے اب تو دعا کا کوئی موقع ہی نہیں رہا ۔ کیا تمہارے پاس انبیاء ورسل نہیں آئے تھے اور کیا انہوں نے دلائل وشواہد سے تمہیں نہیں نوازا تھا ۔ تم نے اس وقت کیوں انکار کیا ۔ کیوں حق و صداقت کی تعلیم کو ٹھکرایا ۔ وہ جواباً کہیں گے ۔ یہ تو درست ہے ۔ کہ اللہ کے رسول آئے ۔ اور انہوں نے اپنا پیغام ہم تک پہنچایا ۔ یہ ہماری محرومی تھی کہ ہم ایمان کی دولت سے بہرہ مند نہ ہوسکے ۔ فرشتے کہیں گے کہ پھر تم خود ہی دعا کرو ۔ اور یہ معلوم ہے ۔ کہ کفار ومنکرین کی دعائیں محض بےاثر ہیں *۔ حل لغات :۔ فی ضلل ۔ یعنی معرض اندام میں یہ اس قبیل سے ہے کیدھم فی تضلیل *۔ غافر
51 غافر
52 ف 1: ابتدائے سورت میں یہ بتایا تھا ۔ کہ یہ لوگ جو منکرین ہیں ۔ ان کا شہروں میں گھومنا پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ ڈال دے ۔ ہم ضرور ان سے ان کی سرکشیوں کا انتقام لیں گے ۔ اس کے بعد ان لوگوں کا قصہ تھا ۔ جنہوں نے حق کا مقابلہ کیا ۔ اور ناکام رہے ۔ اور ان کی تمام تدبیریں باطل رہیں ۔ اس آیت میں بتایا ہے ۔ کہ ہمارا قانون ہے ۔ کہ تمام صداقت شعار لوگوں کی حمایت کی جائے ۔ ہم کفر کے مقابلہ میں ایمان کو رسوا نہیں کرتے ۔ انبیاء ورسل کی اور اس کے ماننے والوں کی ہم دنیا میں تائید کرتے ہیں ۔ اور آخرت میں بھی ۔ اور جو لوگ ظالم ہیں ۔ جنہوں نے عقل و خرد سے کام نہیں لیا ۔ وہ یہاں بھی ذلیل ہیں اور عقبیٰ میں بھی ذلیل ہونگے ۔ وہاں ان کا کوئی عذر مسیموع نہ ہوگا *۔ ف 2: یعنی جب یہ طے ہے کہ انبیاء اور صلحائے امت کی اللہ تعالیٰ ہمیشہ تائید فرماتا ہے ۔ اور دنیا میں ان کو ذلیل اور رسوا نہیں ہونے دیتا ۔ تو اب آپ کو حق وصداقت کی راہ میں جو مصیبتیں پیش آئیں ۔ ان کو خندہ پیشانی برداشت فرمائیے ۔ کہ بالآخر فتح آپ ہی کی ہے * اور وہ لوگ جو ازراہ نادانی آپ کے حق میں گستاخی کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ ان کے لئے بحشش طلب کیجئے ۔ اور صبح وشام اللہ کی حمد وتسبیح بیان کرتے رہیے *۔ حل لغات :۔ لدنبک ۔ یعنی وہ گناہ جو تیرے باپ میں سرزد ہوا ۔ من اضافۃ المصدر الی المقعول *۔ غافر
53 غافر
54 غافر
55 غافر
56 غافر
57 خدا حشر اجساد پر قادر ہے ف 1: جو لوگ قیامت کے منکر ہیں اور اس حقیقت کو تسلمی نہیں کرتے کہ موت کے بعداللہ تعالیٰ حشر جساد پر قادر ہے ۔ ان کے لئے قرآن کہتا ہے ۔ کہ تم آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرو ۔ جب یہ طے ہے کہ ان دونوں چیزوں کو اس نے محض اپنی قدرت کاملہ سے پیدا کیا ہے ۔ اور اس میں کسی نوع کی دشواری محسوس نہیں کی ۔ تو پھر اس مشت غبار انسان کو دوبارہ پیدا کرتا کیونکر دشوار ہوگا ۔ جو خدا محض ارادہ کی حرکت سے ہزار جہاں منصہ وجود پر لاسکتا ہے ۔ جس کو وسائل کی ضرورت ہے اور نہ ذرائع کی حاجت ۔ جو زندگی کے عناصر کو پیدا کرنے والا ہے ۔ جس کا علم وسیع ہے ۔ جو یہ جانتا ہے ۔ کہ کہاں کہاں کے آخذ ہیں ۔ اس لئے دوبارہ عالم انسانی کا پیدا کردینا دشوار ہے ؟ دراصل اس قسم کے شبہات اس وقت پیدا ہوتے ہیں ۔ جب اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان نہ ہو ۔ ورنہ جب اس کو تسلیم کرلیا ۔ اس کی قدرتوں کو مان لیا ۔ تو پھر شبہات کے لئے کہاں گنجائش رہ جاتی ہے ۔ قرآن حکیم کہتا ہے کہ خدا کے باب میں اس طرح کے شکوک کا اظہار کرنا محض نادانی اور گستاخی ہے ۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور سب کچھ کرسکتا ہے *۔ غافر
58 ف 2: یعنی جس طرح اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہیں ۔ اس طرح مومن اور منکر برابر نہیں ہیں ۔ مومن بصیرت والا ہوتا ہے ۔ اس کا وجدان زیادہ عجلے اور پاکیزہ ہے ۔ وہ بےپناہ دانش وخرد کا مالک ہے ۔ وہ حقائق کو دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اور اس نوع کے شکوک اس کے دل میں کبھی پیدا نہیں ہوتے ۔ کہ یہ عالم انسانی دوبارہ وجود پذیر ہوسکے گا یا نہیں ۔ منکر اندھا ہوتا ہے ۔ وہ بصیرت سے محروم اور جہل واحمق اس درجہ مبتلا ہوتا ہے ۔ کہ دین کی معمولی اور ادنی باتوں کو بھی نہیں سمجھ پاتا ۔ یہاں منکر کے لئے المسئی کا لفظ استعمال فرمایا ہے ۔ یعنی ایسا آدمی جس کا کفر وانکار دنیا والوں کے لئے ایک بڑائی اور تکلیف ہے یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔ کہ مومن خیروبرکت ہوتا ہے اور کائنات کے لئے اس کا وجود ہر فلاح وفوز ۔ وہ نہ خود گھاٹے میں رہتا ہے اور نہ اس سے دوسروں کو نقصان پہنچتا ہے *۔ غافر
59 ف 3: مکے والوں کو قیامت کا بھی انکار تھا ۔ اس لئے فرمایا کہ وہ تو قطعی ہے ۔ اس کے آنے میں شک وشبہ نہیں ۔ مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ ایمان نہیں رکھتے اور محرومی کی وجہ سے ان حقائق کا انکار کررہے ہیں ۔ غافر
60 غافر
61 ف 1: مشرکین کے لئے قابل غور اور فکریہ بات ہے ۔ کہ آخر کیوں رب العزت کی دہلیز اجابت کو چھوڑ کر وہ دوسروں کے آہستیانوں پر جھکتے ہیں ۔ جب کہ اس نے براہ راست دعا مانگنے کی اجازت دی ہے اور کہا ہے ۔ کہ تم مجھے جس وقت اور جس حالت میں بھی چاہو پکارو ۔ میں تمہاری سنوں گا ۔ ایسے رحیم اور شفیق خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرنا محض ناشکری اور کبر و غرور ہے ۔ جن کی سزا ہمیشہ جہنم میں رہنا ہے ۔ غور تو کرو ۔ وہ خدا جس نے تمہارے لئے رات کو پیدا کیا ۔ کہ تم اس میں آرام اور آسودگی حاصل کرو ۔ جس نے دن کو روشنی بخشی ۔ کہ تم اس میں اپنے کاروبار کو سہولت سے جاری رکھ سکو ۔ ایسے صاحب فضل وکرم مالک کا شکر ادا نہ کرنا اور دوسروں سے عقیدت کا اظہار کرنا کتنی بڑی احسان فراموشی ہے ۔ فرمایا ۔ وہ جو تمہاری دعاؤں کو سنتا ہے اور جس نے ساری کائنات کو تمہارے فائدے کے لئے بنایا ہے ۔ وہی تمہارا معبود حقیقی ہے ۔ اسی کے سامنے جھکو اور ادھر ادھر نہ بھٹکتے پھرو ۔ حل لغات :۔ داخرین ۔ ذلیل ہوکر * لتسکنوا فیہ ۔ تاکہ تم اس میں آرام کرو ۔ یعنی رات کا مقصد یہی ہے ۔ کہ اس میں دن بھر کی کوفت کو دور کیا جائے ۔ اس کے یہ معنے نہیں ہیں ۔ کہ رات کو ضروری کام کرنا بھی ممنوع ہے ۔ بلکہ بتانا یہ مقصود ہے کہ فطرت کی یہ تقسیم اوقات اس لئے ہے کہ انسان اس سے فائدہ اٹھائے *۔ غافر
62 غافر
63 غافر
64 خالق کون ہے ؟ ف 1: قرآن حکیم نے انسانی توجہ کو مبذول کیا ہے ۔ کہ وہ کائنات کی عظمت ورفعت کو دیکھے ۔ اور غور کرے ۔ کہ یہ عریض وبسیط زمین کس نے ہمارے پاؤں تلے بچھا دی ہے ۔ اور کس نے نیلگون آسمان پیدا کیا ہے ۔ اور کون ہے جس نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا کیا ہے ۔ اور کس نے ہماری تمام ضروریات پوری کی ہیں ۔ کیا بتوں نے اور پھتر کی بےجان مورتیوں نے ایسا کیا ہے کیا احبار ورہبان کی یہ صنعت کاری ہے ۔ یا قبروں اور لاشوں کی یہ کار فرمائی ہے ؟ اگر انہیں سے کسی نے بھی یہ نہیں کیا ۔ اور یہ بات کسی کیا ختیار میں نہیں ہے ۔ تو پھر سوائے رب العالمین کے اور کون عبادت اور پرستش کا مستحق ہوسکتا ہے ۔ اور کون ہے جس کا آستانہ جلال وعظمت اس سے زیادہ قابل وقعت ہے ۔ یہ ملحوظ رہے کہ خدا نے انسان کو اس کائنات میں سب سے زیادہ بہتر حالت میں پیدا کیا ہے ۔ تاکہ یہ احساس خودداری سے بہرہ مند ہو ۔ اور اس کو معلوم ہو کہ اپنی فطرت اور شناخت کے اعتبار سے یہ مجبور ہے ۔ کہ کائنات میں کسی کے سامنے نہ جھکے اور اپنے کو تمام مظاہر قدرت سے بالا اور برتر سمجھے مگر یہ عجیب حماقت حضرت انسان کی ہے ۔ کہ یہ اپنی فطرت اور ساخت کی بھی توہین کرتا ہے ۔ اور نہ صر یہ کہ اپنے ابنائے جنس کے آگے اظہار تذلل وعبودیت کرتا ہے ۔ بلکہ ان پتھروں کو بھی خدا سمجھتا ہے جن کو پاؤں تلے روندتا ہے ۔ اور اس مٹی کو بھی مقدس جانتا ہے جس کو پامال کرتا ہے ۔ حالانکہ چاہیے تھا کہ اگر اس کے پاس کوئی پیغام رشدوہدایت نہ ہوتا تب بھی یہ اپنی حالت پر غور کرتا ۔ اپنے خصائل کا احساس رکھتا ۔ اور خودداری سے دنیا میں بسر کرتا *۔ غافر
65 منبع حیات ف 2: حکمائے مادیت کے نزدیک یہ مسئلہ بہت اہم ہے کہ زندگی اور اصلی ماخذ کون ہے ۔ کیونکہ جہاں تک مادہ کی تقلیات وتصرفات کا تعلق ہے ۔ یہ اپنی ہر منزت اور ہر سٹیج پر بےجان ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے ۔ کہ پھر زندگی آتی کہاں سے ہے ؟ قرآن اس کا جواب دیتا ہے ۔ کہ زندگی کا منج وہ خدائے حق ہے ۔ جس کی وجہ سے کارگاہ حیات میں زندگی کے ہیں ۔ ورنہ مادہ ہزار ارتقاء کے بعد بھی یہ صلاحیت نہیں رکھتا ۔ کہ زندگی کی رمق بھی پیدا کرسکے ۔ فرمایا اس خدائے حقیقی کی عبادت کرو ۔ یہی معبود ہے ۔ اور اسی کے لئے تمام نوع کی ستائشیں ہیں ۔ یہ ساری کائنات کا بلا امتیاز پروردگار ہے *۔ حل لغات :۔ یجحدون ۔ یعنی انکار کرنا * بناء ۔ یعنی لبناء (مثل چھت کے)*۔ غافر
66 غافر
67 ف 1: ان آیات میں بتایا ہے ۔ کہ ہم مجبور ہیں ۔ کہ ایک ہی خدا کی پرستش کریں ۔ کیونکہ دلائل وشواہد کا یہی تقاضا ہے ۔ اور اسی چیز کے لئے ہم مامور بھی ہیں ۔ اس کے بعد انسان کی پیدائش کی چند منزلیں گنائی ہیں ۔ کہ دیکھوں کیونکر اس نے تمہیں زندگی کے مختلف دوروں میں اپنی تربیت خاص سے نوازا ہے ۔ اور تمہیں اس قابل کیا ہے ۔ کہ زندگی کے مقصد کو سمجھ سکو *۔ حل لغات :۔ نطفۃ ۔ قطرہ آب صانی * علقہ ۔ ہوسکتا ہے اس کے معنے جرثومہ حیات کے ہوں ۔ جو کہ مم رحم میں جاکر چپک جاتا ہے * اشدکم ۔ یعنی وہ عمر جس میں انسان کی فکری اور جسمانی قوتیں انتہائی ترقی پر ہوں *۔ غافر
68 مادہ کو قدیم ماننے کے نتائج ف 1: کن فیکون کلمہ تکوین ہے ۔ یعنی جس وقت اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ تو صرف یہ کافی ہے ۔ کہ وہ کن فیکون کہہ دے اور اس سے بھی مقصود یہ ہے ۔ کہ وہ جب پیدا کرنے کے درپے ہوتا ہے تو پھر اس میں خلاف نہیں ہوتا ۔ ادھر کہا ۔ اور ادھر وہ چیز کتم عدم سے نکل کر لباس وجود میں آگئی ۔ اسے نہ علت مادی کی ضرورت ہے اور نہ دیگر ذرائع اور وسائل کی ۔ وہ بمجرد اپنے ارادے کے صدہزار عوالم کو ان کو منصہ شہود پر جلوہ گر ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ وہ قادر مطلق ہے ۔ عالم کی پہنائیوں میں پر اس کی حکومت ہے ۔ وہ ہم انسانوں کی طرح محتاج نہیں ہے ۔ نہ اسے درمیان کی منزلوں کو طے کرنا پڑے ۔ درحقیقت یہ اس کی ذات والا صفات کی بہت بڑی توہین ہے ۔ کہ اس کے متعلق یہ خیال کیا جائے کہ وہ بھی صرف موجودات میں تصرف کرسکتا ہے ۔ اور عدم کی ظلمتوں پر اس کی حکومت نہیں ہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ مادہ بھی اپنے تقلبات میں قدیم ہے ۔ اور مخلوق نہیں ہے ! اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ خدا اور مادہ دو مستقل چیزیں موجود ہیں فرق یہ ہے کہ خدا کو کچھ اختیارات ہیں اور مادے کو نہیں ہیں ۔ یہ نظر یہ اتنا ملحدانہ ہے ۔ کہ اس کو مان لینے کے بعد خدا کی عظمت دلوں پر برقرار نہیں رہ سکتی ۔ اور اس کے لازمی نتائج یہ ہوسکتے ہیں کہ :۔ (1) خدا صرف مصور ہے *(2) خدا مادہ کو فنا کردینے پر قادر نہیں ہے *۔ (3) بقاء قدم میں مادہ اور خدا دونوں برابر کی قوتیں ہیں (4) خدا مادہ کی فطرت کو نہیں بدل سکتا *(5) وہ نقائص جو مادہ میں فطرتاً موجود ہیں ان کو دور کردینا خدا کے بس میں نہیں *(6) انسان میں جتنے نقائص ہیں ۔ وہ لابدی اور ناگریز ہیں * ظاہر ہے ۔ کہ ان خیالات کی موجود گی میں پھر مذہب کی اور نفس دین کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے ۔ ان خیالات کے ساتھ اتفاق کے معنی یہ ہیں کہ معاذ اللہ خدا کا درجہ محض برائے نام ہے ۔ حل لغات :۔ الاغلال ۔ غل کی جمع ہے ۔ بمعنی طوق * یستحبون ۔ کشاں کشاں لے جائے جائیں گے * الحمیم ۔ گرم اور کھولتا ہوا پانی *۔ غافر
69 غافر
70 غافر
71 غافر
72 غافر
73 غافر
74 غافر
75 غافر
76 ف 1: ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی حالت پر تبصرہ فرمایا ہے کہ یہ لوگ بغیر علم ودلیل کے اللہ کی آیتوں میں مین میخ نکالتے ہیں ۔ اور بحث ومناظرہ کرتے ہیں ۔ قرآن کو جھٹلاتے ہیں اور ساری کتابوں کی تکذیب کرتے ہیں ۔ انہیں عنقریب معلوم ہوگا ۔ جب کہ ذلت ورسوائی کے گراں بار طوق ان کی گردنوں میں ہوں گے ۔ اور زنجیریں ان کے پیروں میں ۔ جب یہ گھسیٹتے ہوئے گرم پانی کے چشموں کی طرف لے جائیں گے ۔ اور پھر جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے ۔ تب ان سے پوچھا جائیگا ۔ کہ آج تمہارے معبودان باطل کہاں ہیں ۔ آج وہ کیوں تمہاری عقیدت مندی اور نیاز مندی کا صلہ نہیں دیتے ۔ اس وقت ان کو محسوس ہوگا کہ ہم غلطی پر تھے ۔ یہ دیکھیں گے کہ وہ بت اور وہ معبودان باطل بالکل غائب ہیں ۔ تو واقعہ ہی سے اضطراب اور بےچینی میں انکار کردینگے ۔ اور کہہ دینگے کہ ہم تو ان میں کسی کو بھی نہیں پوجتے تھے ۔ ارشاد ہوگا ۔ کہ ساری تکلیفیں اس لئے ہیں ۔ کہ تم نے دنیا میں اپنے لئے باطل اور جھوٹ کو پسند کرلیا تھا ۔ اور سای پر تم کو ناز اور غرور تھا ۔ آج جاؤ جہنم کے دروازے تمہارے لئے کھلے ہیں ۔ وہ تمہارا ٹھکانا ہے ۔ اور وہاں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے ۔ غافر
77 ف 2: غرض یہ ہے کہ آپ مطمئن رہیں آپ کے مخالفین یقینا عذاب میں گرفتار ہونگے ۔ کیونکہ یہ مقدرات میں سے ہے ۔ کہ جو لوگ حق اور فطرت کی مخالفت کریں گے ان سے انتقام لیا جائے گا ۔ اور دنیا میں بھی انہیں معلوم ہوجائے گا کہ صداقت کی مخالفت آسان نہیں ہے ۔ اس کے بہت زیادہ تلخ اور ناقابل برداشت نتائج ہوسکتے ہیں ۔ او نتوفینک سے مراد تشکیک وتردید نہیں ہے ۔ کہ یا تو انہیں دنیا میں عذاب سے دو چار کیا جائے گا اور یا جب یہ لوگ ہمارے پاس لوٹ کر آئیں گے ؟ اس وقت انہیں جہنم میں جھونکا جائیگا ۔ بلکہ وہ حقیقتوں کا جمع کرنا مقصود ہے ۔ یعنی یہ بھی ہوگا کہ یہ لوگ یہاں درد ناک عذاب میں مبتلا ہوں اور یہ بھی ہوگا ۔ کہ وہاں غضب الٰہی کا نظارہ دیکھیں ۔ چنانچہ جہاں تک دنیا میں نزول عذاب کا تعلق تھا وہ پیش آیا ۔ اور بدر کی صورت میں اس نے مکہ والوں کے تمام کبروغرور کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا ۔ حل لغات :۔ ترحون ۔ المرح ۔ الکبر ۔ یعنی اترانا *۔ غافر
78 بعض انبیاء کا ذکر قرآن میں نہیں ہے ف 1: چونکہ قرآن عربوں میں نازل ہوا ۔ اور عربی زبان میں نازل ہوا اس لئے ضروری تھا ۔ کہ اس میں انہیں انبیاء کا تذکرہ ہو جن سے ان کے گوش آشنا ہوں ۔ اور جن کے متعلق انہیں کچھ بےوقوف ہو اس لئے جمیعا قرآن حکیم نے اس التزام کو قائم رکھا ہے ۔ گو کہ اس نے اس نظریہ کو بڑے زور کے ساتھ اشاعت کی ۔ کہ مذہب کس مرزویوم کے ساتھ مختص نہیں اور کائنات میں ہر جگہ اللہ کے پیغمبر آئے ۔ پھر بھی ان سے شامی انبیاء کا زیادہ تر ذکر کیا ہے ۔ کہ یہودی اور عیسائی انہیں پاکبازوں کے حالات سے واقف تھے ۔ اور ان کے لئے انہیں حضرات کا اسوہ پاک قابل تقلید ومتبع قرار دیا جاسکتا تھا *۔ اس آیت میں اس غلط فہمی کو رفع فرمایا ہے ۔ کہ مبادا کوئی شخص اس طرح یہ نہ سمجھ لے کہ جن انبیاء کو قرآن نے بیان ہے بس وہی عہدہ نبوت پر فائز تھے ۔ بلکہ انبیاء کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ ہر قوم میں حالات اور مقامات کے مطابق اللہ نے اپنے رسولوں کو بھیجا ہے ۔ اور انہوں نے ہر زبان میں اللہ کے پیغام کو پہنچایا ہے ۔ ہاں مصالح کے موافق ہم نے بعض کا ذکر کیا ہے اور بعض کو چھوڑ دیا ہے *۔ غافر
79 ف 2: مظاہر فطرت کی ترف توجہ کو مبذول فرمایا ہے ۔ اور بتایا ہے ۔ کہ دیکھو اللہ نے تمہارے لئے کس درجہ آرام اور سہولتیں مہیا فرمادی ہیں ۔ چارپائے اور حیوانات پیدا کئے ہیں جن میں بعض پر تم سواری کرتے ہو ۔ اور بعض کو کھاتے ہو ۔ اس کے علاوہ ان کے چمڑے ۔ ہڈیوں آنتوں اور خون میں بہت سے منافع ہیں ۔ تم ان پر سوار ہوکر کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہو ۔ پھر کشتیاں اور جہاز ہیں کہ سمندر میں ڈال دیتے ہو ۔ اور لدے لدے پھرتے ہو ۔ حل لغات :۔ ومنھا تاکلون ۔ سے غرض منافع کی تقسیم ہے ۔ یعنی حیوانات میں یہ فوائد ہیں ۔ یہ مقصد نہیں ہے ۔ کہ سواری کے تمام جانور غیر کول ہیں *۔ غافر
80 غافر
81 (ف 1) علاوہ اس کے بےشمار اس کی نشانیاں ہیں ۔ جو وہ تم کو صبح وشام دکھاتا رہتا ہے ۔ کیا ان نوایہ مادی کا ، اور ان آیات کا یہ تقاضا نہیں ہے ۔ کہ تم زندگی کے متعلق اور اس کے مقصد کے متعلق کچھ سوچو ۔ اور انکار وسرکشی سے کام لو *۔ گوشت خوری کو بھی اللہ تعالیٰ نے انعامات میں ذکر فرمایا ہے ۔ بتانا یہ مقصود ہے ۔ کہ کائنات میں جو کچھ ہے ۔ وہ اس لئے ہے ۔ کہ حیات کبریٰ یعنی انسانیت کے کام آئے اور انسان دنیا کی ہر چیز سے استفادہ کرے *۔ غافر
82 ف 2: مکے والوں سے کہا ہے ۔ کہ وہ چل پھر کر زمین میں دیکھیں کہ گذشتہ قوموں کا کیا حشر ہوا ۔ جب کہ انہوں نے اللہ کے پیغام کو ٹھکرایا ۔ کیا ان کی قوت اور طاقت اور عظمت کا کوئی لحاظ کیا گیا ۔ اور کیا ان کے دنیوی مشاغل نے ان کو عذاب سے بچا لیا ۔ پھر آج اگر قریش کے اکابر انکار کریں گے ۔ اور کبر و غرور میں مبتلا رہیں گے ۔ تو کون کہہ سکتا ہے کہ ان پر اللہ کا غضب نازل نہ ہوگا ۔ اور یہ اس کے عذاب کا شکار نہ ہونگے *۔ حل لغات :۔ اثارا ۔ ان کی عظمت کے نشانات *۔ غافر
83 غافر
84 غافر
85 علم نبوت کی وسعت ف 1: گمراہ قوموں میں سب سے بڑا غیب یہ ہوتا ہے کہ ان میں خود پسندی آجاتی ہے ۔ اور وہ اپنے مادی علوم پر فخر وغرور کرنے لگتی ہیں اور ان معارف وحکم پر غور وفکر نہیں کرتیں ۔ جن کا براہ راست دل کی پاکیزگی اور لطافت سے تعلق ہوتا ہے ۔ جب انبیاء علیہم السلام تشریف لاتے ہیں ۔ تو ان کو ہدف استہزاء بنالیتی ہیں ۔ اور اپنے مزخرفات واوہام پر لگی رہتی ہیں ۔ اور ان حقیر معلومات کو علوم نبوت سے زیادہ بیش قیمت جانتی ہیں ۔ جو ان کے پاس ہوتی ہیں ۔ حالانکہ پیغمبر اپنے وقت کا بہت بڑا عارف اور بہت بڑا عالم ہوتا ہے ۔ اس کی نظریں بہت وسیع اور بلند ہوتی ہیں ۔ وہ اپنی حلیم بصیرت سے ان حقائق کو دیکھ لیتا ہے ۔ جہاں تک عام نظریں نہیں پہنچ سکتی ہیں ۔ وہ بیک جنبش فکر طارم اعلیٰ تک رسائی حاصل کرلیتا ہے ۔ اس کا روشن دماغ مستقل کی تاریکیوں میں بھی پیش آئندہ حالات کو ٹٹول لیتا ہے ۔ اور وہ الہام و وحی کے طریقوں سے جانتا ہے ۔ کہ وہ انسانیت کے لئے کون طریق رشدوہدایت زیادہ موزوں اور کون اعمال زیادہ مفید ہیں ۔ مگر کوتاہ نظر لوگ اس زمانے کے محدود نگاہیں رکھنے والے بسبب اپنی فطری پستی کے جب اس کی بلندیوں کا صحیح صحیح اندازہ نہیں کرپاتے ۔ تو جہالت و تعصب کی وجہ سے اس کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اور عملاً اپنے کو عذاب الٰہی کا مستحق گردانتے ہیں ۔ اور پھر جب وہ وقت آجاتا ہے کہ ان بدبختوں کا ان سے انتقام لیا جائے ۔ تو ان کی روح بیدار ہوتی ہے ۔ قلب سے حجابات اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ اور پھر علی الاعلان کہنے لگتے ہیں ۔ کہ اب ہم ایک اللہ کو جانتے ہیں ۔ اور ان تمام مشرکانہ عقیدوں سے توبہ کرتے ہیں ۔ جو ہماری تباہی وہلاکت کا باعث ہوتے ہیں ۔ مگر یہ وقت توبہ وانایت کا نہیں ہوتا ۔ بلکہ مکافات عمل کا ہوتا ہے ۔ اللہ کے غضب اور غصہ کو برداشت کرنے اور اعمال بد کے نتائج کو ممثل اور مشہور طریق پر دیکھنے کا ہوتا ہے اس لئے ان سے اس وقت کہہ دیا جاتا ہے ۔ کہ اب تمہاری درخواست نہیں سنی جائے گی ۔ اور یہ سنت اللہ کا تقاضا ہے ۔ کہ خسران اور گھاٹے کو سہو اور اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگتو *۔ غافر
0 فصلت
1 سورہ حم ف 2: اس صورت میں دوسری مکی سورتوں کی طرح اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے ۔ کہ قرآن کی حیثیت شرعی کیا ہے اور مشرکین مکہ کو اس کے ماننے میں کیوں تامل ہے اور حشرونشر پر فطرت کی طرف اسے کیا کیا دلائل پیش کئے جاسکتے ہیں ۔ رسالت کیا ہے اور نبوت سے کہتے ہیں ۔ اور گذشتہ تو میں کیوں ہلاک ہوئیں *۔ فصلت
2 فصلت
3 فصلت
4 فصلت
5 ہمارے دلوں پر دے پڑے ہیں ف 1: مکے والے جب قرآن حکیم کو سنتے تھے ۔ تو صاف طور پر اعلان کرتے تھے ۔ کہ ہمارے دلوں پر حسد اور تعصب کے پردے پڑے ہوئے ہیں جو حق وصداقت کی روشنی کو نہیں پہنچنے دیتے ۔ ہماری سماعت میں ثقل ہے ۔ جس کی وجہ سے ہم معذور ہیں ۔ کہ دلائل آیات کو نہ سنیں ۔ تمہارے اور ہمارے درمیان اختلافات عقائد کا انتا بڑا برزخ حائل ہے ۔ کہ متفق الرائے ہونا عملاً دشوار اور لامحال ہے ۔ اس لئے اب یہی بہتر ہے کہ تم اپنا کام کئے جاؤ۔ اور ہمیں اجازت دو ۔ کہ ہم اپنے مشاغل میں مصروف رہیں ۔ گویا ان کے نزدیک حضور کی کامیابی کے لئے کوئی امکان ہی موجودنہ تھا ۔ اور امکان کا کیونکر خیال ہوسکتا ہے ۔ جب کہ لوگ بات سننے کے لئے بھی تیار نہ ہوں ۔ جب مکان کے روشن دان بند کرلئے جائیں ۔ تو پھر دھوپ کیسے اندر پہنچ سکتی ہے ؟ جب کانوں اور دلوں پر جہالت وحماقت کے پہرے بٹھلا دیئے جائیں ۔ تو اس کے بعد پذیرائی کی توقع واقع مشکل ہے ۔ مگر یہ قرآن کا معجزہ ہے ۔ کہ باوجوداس تعصب وتاریکی انکات وتمرد کے ان کانوں میں داخل ہوا ۔ اور دل تک اتر گیا ۔ انہیں لوگوں نے قرآن کو سنا اور مجبور ہکر سنا ۔ حتیٰ کے یہی لوگ قرآن کے مبلغ بن گئے کیونکہ قرآن نے جو تعلیم پیش کی ۔ وہ حالات کے عین مطابق تھی ۔ وہ وقت کی کی آواز تھی ۔ اور ایک فطری ضرورت کی تکمیل تھی ۔ ان لوگوں کے لئے کوئی چارہ کار ہی نہ تھا ۔ بجز اس کے قرآن کے نوائے رحمت تلے جمع ہوجائیں ۔ اور اس کی صداقتوں پر ایمان لے آئیں *۔ فصلت
6 میں ایک انسان ہوں ف 2: فرمایا جہاں تک میری جسمانی ساخت اور طبیعت کا تعلق ہے محض ایک انسان ہوں ۔ اور کسی بات میں تھی تم سے ممتاز نہیں ۔ میرے بھی دوہاتھ اور دو پاؤں ہیں ۔ دو آنکھیں اور دو ہونٹ ہیں ۔ میں بھی ایک دماغ اور ایک دل رکھتا ہوں اور بھی زندگی کی ضروریات ہوتی ہیں مگر ایک بات میں مختلف ہوں ۔ اور وہ یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے مجھے رسالت کے عہدہ پر سرفراز کیا گیا ہے ۔ اور مجھ کو ایک بہت بڑی ذمہ داری کا حامل بنا کر بھیجا گیا ہے میں پیغمبر ہوں رسول ہوں ۔ اور اللہ کی طرف سے ایک پیغام مسرت لے کرآیا ہوں ۔ اور وہ یہ ہے کہ خدا ایک ہے ۔ معبود ایک ہے ۔ اسی کی طرف اپنی توجہات فکروعقیدت کو پھیر لو ۔ صرف اسے اپنی نیاز مندیوں کے لئے منتخب کرلو ۔ اور اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش طالب کرو ۔ یاد رکھو ۔ وہ مشرکین جو اسلامی نظام عمل نہیں مانتے ہیں ۔ نہ نماز پڑھتے ہیں اور نہ زکوٰۃ دیتے ہیں ۔ اور آخرت پر بھی اعتقاد نہیں رکھتے ان کے لئے جہنم کا عذاب اور بڑی خرابی ہے *۔ حل لغات صفحہ :۔ جاشنا ۔ ہمارا عذاب * فصلت ۔ تفصیل سے ہے جس کے معنے جدا جدا کرکے بیان کرنے کے ہیں ۔ اور شرح وبسط کے ساتھ بیان کرنے کے بھی ہیں او یہ بھی کہ ان آیتوں میں تواصل کی بلیغ اور موسیقی خیز رعایت رکھی گئی ہے ۔ جو صوتی مناسبت کے لئے نہایت ضروری تھے ۔ اور ان تواصل کا یہ فائدہ بھی ہے ۔ کہ گویا پوری آیت کا مضمون ان میں سما جاتا ہے * کنۃ ۔ کن سے ہے ۔ جس کے معنے پوشیدہ اور مستتر شئے کے ہوتے ہیں ۔ جیسے او اکننتم فی انفسکم یہ کنان کی جمع ہے ۔ یعنی پردہ *۔ غیر ممنون ۔ غیر منقطع ، دائمی ، اور ابدی جو موقولہ نہ ہو *۔ فصلت
7 فصلت
8 فصلت
9 فصلت
10 سلسلہ تکوین ف 1: تکوین کائنات کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا ہے ۔ کہ زمین کو دو مدید وقفوں میں پیدا کیا ہے ۔ اور پھر اس میں پہاڑوں کو استوار کیا ہے ۔ اور ضروری برکات پھیلائی ہیں ۔ اور غذاؤں کا سامان مہیا کیا ہے ۔ اور یہ سب کچھ چار وقفوں میں قرار پایا ۔ پھر آسمان کی جانب توجہ مبذول کی ۔ اور ان کو کئی بلندیوں میں تقسیم فرمایا ۔ اور یہ بھی دو قرنوں میں ہوا مگر یہ دو قرن پہلے دو قرنوں میں داخل ہوا ۔ اس کے بعد سطح دنیا کو بوقلمون چراغوں سے آراستہ فرمایا ۔ اور ان میں حفاظت کے لئے پورا پورا انتظام کردیا ۔ کہ شیطانی قوتیں ملا واعلیٰ کے اسرار نہ معلوم کرلیں ۔ فرمایا کہ ساری کائنات میں دیکھو تمہیں معلوم ہوگا ۔ کہ ایک علم ہے ۔ جو اس کے پس پردہ کار فرما ہے ۔ اور زبردست قوت وغلبہ ہے ۔ جس کی حکومت واقتدار ہے پھر ان حالات میں بھی تم اللہ کی طرف رجوع کرنے کے لئے تیار ہو یا نہیں ؟ *۔ یاد رہے ۔ کہ کائنات کیونکر منصہ شہود پر آئی ہے ۔ یہ ایک مختف فیہ مسئلہ ہے ۔ ارباب عقل نے مختلف نظرئیے پیش کئے ہیں ۔ جن میں کوئی قطعی نہیں ۔ کیونکہ اس ضمن میں جتنی بحثیں ہوں گی ۔ وہ محض قیاس پر مبنی ہونگی ۔ اس میں منطق اور تجربہ کو بالکل دخل نہیں ۔ اور کوئی ایسی سعی شہادت موجود نہیں ہے ۔ جس کی بنا پر یقین کے ساتھ کچھ کہا جاسکے ۔ اس لئے اس باب میں کوئی ضرورت نہیں ۔ کہ قرآن اس قسم کی معلومات کا ساتھ دے ۔ البتہ جب یہ معلومات قرآن کے مطابق ہوجائیں گی ۔ اس وقت ہم سمجھیں گے ۔ کہ نظر اور استدلال میں کوئی تقاوت پیدا نہیں ہوا ۔ اور حضرت انسان نے پیدائش اور تخلیق کا صحیح صحیح سرا غ لگالیا *۔ حل لغات :۔ یومین ۔ یہاں مراد بارہ گھنٹے کا دن نہیں ہے ۔ بلکہ دو مدید وقفے ہیں جن میں زمین کو پیدا کیا گیا ۔ جیسا کہ قرآن کے دیگر استعمالات سے پتہ چلتا ہے ۔ اس طرح اربعۃ ایام سے مقصود چار قرن ہیں *۔ لسالعین ۔ مکے والے یہود اور نصاریٰ سے پوچھ کر اس قسم کے سوالات کرتے تھے ۔ تاکہ بجز نبوت کی گہرائی کا اندازہ کریں ۔ اس لئے ان کی تسکین خاطر کے لئے مسئلہ تحقیق پر روشنی ڈالی گئی *۔ استویٰ۔ قرار پذیر ہوا ۔ توجہ فرماہوا ۔ تفصیل کئی مقامات پر گزرچکی ہے ۔ مختصراً یوں سمجھ لیجئے ۔ کہ مراد ایک نوع کی توجہ خاص سے ہے *۔ دخان ۔ یعنی ابتدا میں صرف ایک دھواں سا تھا موجودہ تحقیقات کا نظریہ بھی یہی ہے اور سائنس کی اصطلاع میں اس کیفیت کو نیکوں کے ہیں *۔ فصلت
11 فصلت
12 فصلت
13 فصلت
14 ف 1: ان شواہد ودلائل کے بعد ارشاد فرمایا ۔ کہ ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اگر یہ چاہتے ہیں ۔ کہ دنیا میں عزت وآبرو کے ساتھ زندہ رہیں ۔ تو پھر بجز اس کے اور کوئی چارہ کار ہی نہیں ہوسکتا ۔ کہ اسلام کے لوائے رحمت تلے جمع ہوجائیں ۔ ان کا حشر بھی وہی ہونے والا ہے ۔ جو عاد اور ثمود کی قوموں کا ہوا ۔ قوم عاد کے پاس جب اللہ کے پیغمبر آئے ۔ اور انہوں نے کہا کہ ایک اللہ کے سامنے جھکو اور قلب ودماغ سے لے کر اعضاء جوارح تک سب کو اللہ کی اطاعت میں لگادو ۔ تو انہوں نے ازراہ کبر و غرور انکار کیا ۔ اور کہا ۔ کہ ہم انسان کی فرمانبرداری کے لئے تیار نہیں ہیں اگر اللہ کو منظور ہوتا ۔ کہ وہ ہمیں ہدایت دے ۔ تو پھر وہ فرشتوں کو بھیجتا ۔ یہ پیغمبر جو جسمانی ساخت میں ہم جیسا ہے ۔ اور جس کے پاس کچھ مادی قوت اور اقتدار بھی نہیں ہے ۔ کیونکر نبوت کا مستحق قرار پاسکتا ہے ۔ دراصل یہ لوگ کوتاہ نظر تھے ۔ انہیں یہ معلوم نہیں تھا ۔ کہ ان کو معبوث کرنے والا ان سے زیادہ مصالح کو جانتا ہے ۔ اور اس کو خوب معلوم ہے ۔ کہ کس میں اس منصب جلیل کی اہلیت ہے فرمایا اگر ان کو اپنی طاقت کا گھمنڈ ہے ۔ تو وہ دیکھیں ۔ کہ ان کا خالق ان سے قوت میں بہت زیادہ ہے ۔ وہ ان کی ساری شان وشوکت کو خاک میں ملادیگا ۔ چنانچہ اللہ کا عذاب آیا ۔ اور یہ اپنے غرور وکبر کی وجہ سے تیز وتند ہوا کے طوفان سے ہلاک ہوگئے ۔ حل لغات :۔ بمصابیح ۔ مصباح کی جمع ہے ۔ بمعنے چراغ * صاعقۃ ۔ آفت ۔ بدحواس کردینے والی مصیبت * للمرۃ من الحمق * فصلت
15 فصلت
16 فصلت
17 ف 1: قوم ثمود کے پاس اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لئے پیغمبر بھیجا ۔ مگر انہوں نے گمراہی کو پسند کیا ۔ ان کی راہنمائی کی گئی ۔ مگر انہوں نے جاہل رہنے کو ترجیح دی ۔ ان کو روشنی کی طرف بلایا گیا ۔ مگر انہوں نے اس سے محروم رہنا بہتر سمجھا ۔ اس لئے اللہ کا عذاب آیا ۔ اور وہ مٹا دیئے گئے ۔ بجز ان لوگوں کے جو مومن تھے ۔ اور جنہوں نے ازراہ احتیاط وتقویٰ رسول کی باتوں کو توجہ اور التفات سے سنا ۔ اور عقیدت مندی کے ساتھ قبول کیا ۔ اور یہ اللہ کا قانون ہے ۔ کہ وہ صرف ان قوموں کو نعمت لقا و بخشتا ہے ۔ جو اس کے نواسیس کو مانتی ہیں ۔ اور اس کے حکموں کی پیروی کرتی ہیں ۔ وہ قوم جو سرکشی اختیار کرتی ہے اور اس کے مقررہ معین قوانین کو ماننے سے انکار کردیتی ہے ۔ وہ کبھی نہیں پنپتی ۔ اور ذلت ورسوائی کے ساتھ معدوم ہوجاتی ہے ۔ جس طرح کہ ایک شخص اس وقت تک اپنی صحت وتنومندی کو قائم نہیں رکھ سکتا ۔ جب تک فطرت کے اصول کے مطابق نہ چلے ۔ اور ان قواعد کی پابندی نہ کرے جو اس ضمن میں ضروری ہیں ۔ اس طرح ان قوموں کی بقاء ان کی قوت وتوانائی صرف اسی وقت تک قائم رہتی ہے جب تک کہ وہ شریعت کی پیرو رہتی ہیں اور اطاعت وفرمانبرداری کو اپنا فرض منصبی گردانتی ہیں *۔ حل لغات :۔ صرصرا ۔ وہ ہوا جو تیز اور تندہو ۔ اور پھر شدید طور پر ٹھنڈی بھی ہو * نحسات ۔ منحوس یا سردی کے دن * اخزی ۔ زیادہ رسوا کن * اغداء اللہ ۔ عدد کی جمع ہے *۔ فصلت
18 فصلت
19 فصلت
20 فصلت
21 فصلت
22 اعضاء بولیں گے ف 1: یہ لوگ اس لحاظ سے اللہ کے دشمن ہیں ۔ کہ اس کے پیش کردہ نصب العین سے عداوت رکھتے ہیں ۔ اس لئے نہیں ۔ کہ ان کی دشمنی اس کی جلالت قدر کو کوئی نقصان پہنچا سکتی ہے ۔ یا ان کو اللہ کے مدمقابل ہونے کی حیثیت حاصل ہے ۔ یہ دشمن دین جب کشاں کشاں اس کے حضور میں لائے جائیں گے ۔ تو خلاف توقع ان کے کان ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے خلاف گواہی دیں گی ۔ اور بولیں گی ۔ یہ لوگ حیرت وندامت سے کہیں گے کہ تم میں گویائی کی صلاحیت کیونکر پیدا ہوگئی ؟ یہ جواب میں کہیں گیکہ جس اللہ نے ہر بولنے والی چیز کو نطق کی نعمت سے نوازا ہے ۔ اسی نے ہمیں بھی یہ صلاحیت بخش دی ہے ۔ اسی نے تمہیں پیدا کیا تھا ۔ اور آج اسی کے حضور میں لائے گئے ہو ۔ یہ جواب جو اعضاء وجوارح کی طرف سے دیا گیا ہے ۔ کس درجہ معقول ہے ۔ کتنا درست ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سارے اعتراضات کو ایک جملہ میں رفع کردیا ہے ۔ کیونکہ جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں ۔ کہ منہ میں گوشت کا ایک ٹکڑا بول سکتا ہے ۔ تو پھر کان کیوں گویا نہیں ہوسکتے ۔ اور آنکھیں گفتگو نہیں کرسکتیں ۔ جہاں تک اللہ کی حکمتوں اور قدرتوں کا تعلق ہے ۔ ان کو مان لینے کے بعد اس نوع کے مشکوک کا قطعی ازالہ ہوجاتا ہے ۔ وہ چاہے تو آہن اور فولاد کے جگر میں احساس کی استعداد رکھ دے ۔ پتھروں کو شنوا کردے ۔ اور پہاڑوں کو رواں دواں بنائے وہ سب کچھ کرسکتا ہے ۔ اور ان کی قدرتوں کا دائرہ اتنا وسیع اور لامحدود ہے ۔ کہ ہم اس کے احاطہ سے عاجز ہیں ۔ ہمارا یہ منصب نہیں ۔ کہ ہم کہیں یہ مشکل ہے ۔ اور یہ محال ہے بلکہ ہمارا فرض یہ ہے ۔ کہ اس کے سامنے سر نیاز جھکادیں ۔ اور کہہ دیں کہ اے اللہ تو ان بےشمار چیزوں پرقدرت رکھتا ہے ۔ جن کے متعلق ہمیں کچھ بھی معلوم نہیں *۔ فصلت
23 خدا کا علم وسیع ہے ف 2: منکرین یہ سمجھے ہوئے تھے ۔ کہ ہماری سیاہ کاریوں کا علم خدا کو کس طرح ہوسکے گا ۔ اور یہ کیسے ممکن ہے ۔ کہ وہ ان اعمال کو دیکھ سکے جو ہم چھٹ کر کرتے ہیں ۔ اور جس طرح کی اطلاع چشم فلک کو بھی نہیں ہے ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ کہ ہماری تمام سیسہ کاریوں کو کوئی ذات اپنی قدرت سے معلوم کرلے مگر ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ ہوگی ۔ جب یہ دیکھیں گے کہ اس کی اطلاعات کس درجہ وسیع ہیں ۔ اور وہ خدا نہ صرف یہ کہ ان کی کرتوتوں کو جانتا ہے ۔ بلکہ یہ قدرت بھی رکھتا ہے ۔ کہ ان کے اپنے بدن کے حصے گواہی دینے لگیں ۔ کان ۔ آنکھیں اور کھالیں زبان احتیاج بن جائیں ۔ اور ان کی بدعملیوں کو واشگاف طور پر بیان کردیں ۔ فرمایا ۔ کہ ان کا اللہ کے باب میں یہ سوظن کہ وہ ہمارے اعمال سے آگاہ نہیں ہے ۔ یہی وہ بات تھی جس نے انہیں ہلاکت کے گڑھے میں ڈال دیا ۔ اور جس کی وجہ سے یہ گناہوں کو دلیرانہ مرض عمل میں نہ لاتے تھے ۔ آج ان کا جہنم ٹھکانہ ہے ۔ جسے صبر کے ساتھ برداشت کریں ۔ اور چاہے بےقراری اور بےچینی کا اظہار کریں ۔ نہ شکایت سنی جائے گی اور نہ تکلیف رفع کی جائیگی ۔ فصلت
24 برے دوست ف 1: یہ ایک انداز بیان ہے ان کے لئے برے ہمنشین مقرر کر رکھے تھے ۔ اور نہ مقصد یہ ہے کہ کہ ان کچھ ایسے یاران صحبت تھے ۔ جو اپنی گناہوں میں حوصلہ افزائی کرتے تھے ۔ اور ان کے اعمال بد کو سنوار سنوار کر پیش کرتے تھے ۔ جس سے ان کے دل میں احساس تک نہیں پیدا ہوتا تھا ۔ ورنہ خدا نہیں چاہتا کہ اس کے بندے گمراہ ہوں ۔ وہ ایک قلم رحمت ہے رمودت ہے اور راحت وشفقت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صرف اس بات پر اکتفا نہیں کرتا ۔ کہ انسان کو عقل سے بہرہ مند کردے اور پھر دوسرے ذرائع تربیت سے ہاتھ اٹھائے بلکہ وہ پیغمبر بھیجتا ہے ۔ توفیق ہدایت سے مشرف کرتا ہے ۔ معجزات ودلائل پیش کرتا ہے ۔ تاکہ اس کا بندہ محروم نہ رہ جائے ۔ ایسے شفیق اور رحیم خدا کے متعلق یہ خیال کرنا بھی کس قدر گناہ ہے ۔ کہ وہ بندہ ٹکا جلا نہیں چاہتا ۔ اس نوع کے اسلوب بیان کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ انسان کسی مرحلہ میں بھی خدا کو نہ بھولے اور کسی منزل میں بھی اس کو فراموش نہ کرے ۔ اسی لئے اس طرح کی اشیاء کو بھی جو محض بالواسطہ ای کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں ۔ وہ اپنی جانب منسوب کرلیتا ہے *۔ فصلت
25 فصلت
26 ف 2: یعنی کفار مکہ کی ذہنیت یہ تھی ۔ کہ ان کی صلاح کے لئے قرآن پڑھ کر ان کو سنایا جاتا ۔ اور وہ ازراہ بدبختی اور محرومی نہ صرف اس کی مخالفت کرتے ۔ بلکہ دوسروں کو بھی آمادہ کرتے ۔ کہ شوروشغب ڈال کر مجمعوں کو منتشر کردیں اور ایسی فضا پیدا کردیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات سے کوئی استفادہ نہ کرسکے ۔ مگر ان کی شطنت اور ارادوں کے خلاف قرآن کی تعلیم پھیلتی چلی گئی ۔ اور اس کی فتوحات دن دوگنی رات چوگنی ہوتی ہیں ۔ انہوں نے کلام الٰہی ہرچند سنانا نہ چاہا مگر قرآن نے مجبور کردیا کہ وہ سنیں اور اس کے مبلغ نہیں ۔ حل لغات :۔ من المعتبین ۔ عتاب سے ہے ہمزہ سلب کے لئے ہے * قیضنا ۔ تعینات کیا ۔ فصلت
27 فصلت
28 فصلت
29 ہم کو گمراہ کرنے والے کہا ہیں ف 1: منکرین جب جہنم میں جائیں گے ۔ اس وقت ان کی یہ خواہش ہوگی کہ کسی طرح ہم اس برے ساتھیوں کو اور دوستوں کو دیکھ لیں ۔ جو ہماری گمراہی کا باعث بنے ہیں ۔ تاکہ یہاں ان کو ان کی ہر خود غلط راہنمائی کی سزا دیں ۔ ان کو پاؤں تلے روندیں اور سخت ترین عقوبت میں مبتلا کریں ۔ چنانچہ وہ اللہ تعالیٰ سے درخواست کرینگے کہ پروردگار ایسا تو کردے کہ ان مہربانیوں کو دیکھ لیں اور ان سے پوچھیں ۔ کہ وہ تمہاری فخروغرور کی باتیں کیا ہوئیں ۔ آج یہ کیا ہوا ۔ کہ ہم اور تم دونوں اللہ کے غضب اور غصے کے مورد اور مستحق قرار پارہے ہیں ۔ تمہارا دعویٰ تو یہ تھا کہ تم روحانیت کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہو اور انجات تمہارے اشارہ چشم وابر پر موقوف ہے ۔ جن کو تم چاہو گے جنت میں لے جاؤگے ۔ اور جن کو نہ چاہو گے ۔ وہ محروم رہیں گے مگر آج یہ کیا حالت ہے ۔ کہ تم خود ذلت اور رسوائی سے دوچار ہو ۔ اور جہنم میں پڑے سزا بھگت رہے ہو ۔ فصلت
30 فرشتے اتریں گے ف 2: اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ ایک طرف تو یہ لوگ جہنم میں دکھ اور تکلیف برداشت کررہے ہونگے ۔ جہوں نے دنیا میں اللہ کے پیغام کو ٹھکرایا ۔ دوسری جانب جنہوں نے رب العالمین کے ساتھ تعلقات عبودیت کو استوار کیا اور پھر ان تعلقات کی ذمہ داریوں کو مردانہ وار استقلال اور عزیمت کے ساتھ آخر تک نبھایا ۔ وہ فرشتوں کی زبان سے خوشخبریاں سن رہے ہونگے ۔ کہ اس وقت تم قطعاً غم اور فکر سے بےنیاز ہوجاؤ۔ دلوں کو مسرت سے معمور کرلو ۔ کہ تمہارے لئے جنت کی نعمتیں اور آسودگیوں مقدر ہیں ۔ جن کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا ۔ ہم نے دنیا میں تمہاری اعانت کی ۔ آج آخرت میں بھی تمہارے رفیق اور دوست ہیں ۔ یہاں جنت میں رزق اور قوت کی کمی نہیں ۔ جو چاہوگے ملے گا ۔ اور جس چیز کی خواہش کا اظہار کروگے ۔ وہی دی جائے گی ۔ اور تم یوں رہوں گے جس طرح مہمان عزت واحترام کے ساتھ رہتا ہے یہ واضح رہے کہ تنزل علیھم الملائکۃ سے مقصود یہ ہے ۔ کہ مقام حشر میں جب کہ لوگ گھبرا رہے ہونگے اور ان کو معلوم نہیں ہگا ۔ کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے ۔ تو اس وقت فرشتے تسکین قلوب کے لئے اتریں گے اور ان کو خوشخبری سنائیں گے ۔ جنہوں نے عزیمت واستقامت کو اختیار کیا ہے جیسا کہ سیاق وسباق سے ظاہر ہے اس کا تعلق دنیوی زندگی سے نہیں ہے ۔ اور اگر اس کا تعلق سباق کے واقعات سے نہ ہو ۔ اور اس کے عموم کو بہر آئینہ باقی رکھا جائے ۔ تو پھر فرشتوں کے نزول سے مراد ان مومنوں کے دلوں میں اطمینان پیدا کرتا ہے ۔ یہ مقصد نہیں کہ فرشتے باقاعدہ نزول وحی کی غرض سے آئیں گے ۔ کیونکہ اس قسم کا نزول وحی کی غرض سے آئیں گے کیونکہ اس کا نزول ہمیشہ کے لئے بندہوچکا ہے ۔ جناب رسالت مآب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اب کوئی اس کا استحقاق نہیں رکھتا ۔ کہ ملائکہ پیغام الٰہی لے کر اس کے پاس آئیں ۔ حل لغات :۔ استقاموا ۔ یعنی راہ ہدیات کے سلسلے میں تمام مصیبتوں کو برداشت کیا * تنزل ۔ اترتے ہیں *۔ فصلت
31 فصلت
32 فصلت
33 فصلت
34 فصلت
35 فصلت
36 خلق عظیم اس سے قبل کی آیت میں صبر و برداشت کی تلقین فرمائی تھی اور یہ کہا تھا کہ منکرین کی برائیوں کا جواب حسن سلوک سے دو اپنی روحانیت سے دو ۔ اس میں یہ بتایا ہے ۔ کہ یہ کام آسان نہیں ہے اس کے لئے استقامت اور صبر کی ضرورت ہے وہ لوگ اس خلق عظیم سے بہرہ مند ہوتے ہیں جنہوں نے مواجب ومالک سے حصہ وافر پایا ہو ۔ اس سے معلوم ہوا ۔ کہ جہاں تک سختی اور برائی کے جواب دینے کا تعلق ہے بہترین طریق یہی ہے ۔ کہ طرز عمل بالکل خلاف اختیار کیا جائے ۔ دشمن مشکلات سے پیدا کرے تو اس کے لئے آسانیاں بہم پہنچائی جائیں ۔ دکھ معاند اور تکلیف کا سبب ہو تو اس کے لئے راحت وسکون کی آرزو کی جائے ۔ مخالف مادی آفات نفرت سے مسلح ہو ۔ تو اس کا جواب روح کی تزئین و آرائش سے دیا جائے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حریف اخلاقی عظمت سے متاثر ہوکر اپنے کئے پر پچھتاتا ہے ۔ اور دل کی گہرائیوں سے ندامت کا اظہار کرتا ہے ۔ اس وقت اس کی دشمنی دوستی اور مودت کے جذبات سے بدل جاتی ہے ۔ شیطان کی وسوسہ اندازی ف 1: نزع کے لغوی معنے کسی شئے سے شرارت کی غرض سے تعرض کرنا ہے ۔ جیسے کہ ارشاد فرمایا ۔ من بعد ان نرغ ال شیطان بینی وبین اخوتی اور اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ دل میں وسوسہ اندازی کی تحریک کی جائے ۔ غرض یہ ہے کہ آپ اپنے مخالفین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں ۔ اور ان کی برائیوں کا جواب اپنی روحانی اخلاص سے دیں اور اگر شیطان کی جانب سے آپ کے دل میں تحریک ہوانتقام کی ۔ یا ان پر بھی سختی اور تشدد کرنے کی ۔ تو پھر حتی الامکان اس جذبے کے تاثر سے بچنے کی کوشش فرمائیے اور خدا کی پناہ میں آجائیے اور یہ دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام اس باب میں کیا ہیں ۔ یہ درست ہے کہ اسلام ناگزیر حالات میں تشدد اور سختی کی نہ صرف اجازت ہی دیتا ہے بلکہ اس کو بہتر اور ضروری قرار دیتا ہے ۔ مگر یہ مقصد نہیں ہے درحقیقت مدعا یہ ہے ۔ کہ امن وطمانیت کو برقرار رکھتے ہوئے لوگ اسلام کی برکات سے استفادہ کریں اور معلوم کریں کہ اس مذہب عقل ودانش میں ان کے لئے کہاں تک روحانی تسکین کا سامان موجود ہے یہ آیت کا وہ مفہوم ہے جس کا تعلق سیاق سے ہے اور اگر اس کو سیاق سے منقطع کرلیا جائے ۔ جب بھی ہمارے نزدیک کوئی قابل اعتراض مفہوم پیدا نہیں ہوتا ۔ ہم عصمت انبیاء کے ان معنوں میں قائل نہیں ہیں ۔ کہ انبیاء میں انسانی فطرت نہیں ہوتی ۔ اور وہ بشری تقاضوں سے دو چار نہیں ہوتے ۔ بلکہ ہم یہ سمجھتے ہیں ۔ کہ اس پاک گروہ میں بھی نفس کی خواہشات ہوتی ہیں ۔ جذبات ہوتے ہیں ۔ اور شاید زیادہ شدت کے ساتھ مگر اپنے مضبوط اخلاق اور مستحکم سیرت کی وجہ سے یوں گناہوں کے چنگل سے نکل جاتے ہیں جس طرح تیر کمان سے ؎ ہزار دم سے نکلا ہوں ایک جنبش میں جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے اس لئے اس آیت کا مفہوم واضح ہے کہ بتقاضائے بشری آپ کے دل میں بھی وساوس پیدا ہوتے ہوں گے مگر آپ ذہنی نبوی کے باعث ان پر غالب آجاتے ہیں ۔ اور خدا کی حفاظت کفالت کو حاصل کرلیتے ہیں ۔ یہ یاد رہے کہ یہ انداز بیان گو بطرز انشاء ہے ۔ مگر مراد اس سے خبر ہے ۔ وھوفی القران کثیر حل لخات : یلحدون ۔ الحاد سے ہے ۔ بمعنے کجروی ۔ فصلت
37 فصلت
38 فصلت
39 فصلت
40 فصلت
41 فصلت
42 قرآن عزیز ف 1: مکے والوں کی یہ انتہائی بدبختی اور محرومی تھی ۔ کہ وہ اس قرآن عزیز سے استفادہ نہ کرسکے ۔ ورنہ نفس کتاب کی خوبیاں اور درجہ نمایاں ہیں ۔ کہ ان میں قطعاً شاب وشبہ کی گنجائش نہیں ۔ عربی میں عزیز کے دو معنے ہیں ۔ ایک تو یہ کہ یہ اپنے انداز بیان کے لحاظ سے عدیم النظیر ہے ۔ دنیا کی کوئی کتاب فصاحت اور بلاغت میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ اسے دلائل کا وہ استحکام حاصل ہے جس کی وجہ سے تمام مذہبی اور اپنی صحیفوں پر غالب اور مفتخر ہے ۔ اس میں کوئی بات ایسی نہیں جس کے لئے دلیل نہ ہو ۔ اور عقل ودانش کے قرین نہ ہو ۔ دوسرا وصف یہ ہے کہ اس میں تحریف وتبدیلی کسی عنوان بھی راہ نہیں پاسکتی ۔ اور کسی وقت بھی یہ نہیں ہوسکتا ۔ کہ اس میں باطل کی آمیزش ہوجائے ۔ چنانچہ یہ حیرت انگیز بات ہے ۔ کہ چودہ سو سال ہوگئے ہیں ۔ مسلمانوں پر زوال بھی آیا ۔ فتنوں اور آزمائش کا طوفان بھی امڈا ۔ مجوسیت اور عجمیت نے اسلامی لٹریچر میں بڑی حد تک دخل اندازی بھی کی ۔ مگر قرآن جوں کا توں ہے ۔ اور آج بھی اس درجہ مستنداد معتبر ہے ۔ جس درجہ قرآن اولیٰ میں تھا ۔ یہ ہوسکتا ہے کہ لوگوں کو اس کی تعلیمات میں کلام ہو ۔ اور زندگی کے پیش کردہ مسائل میں اس کے ساتھ اتفاق نہ کرسکیں ۔ مگر بڑے سے بڑا دشمن بھی بشرطیکہ وہ اسلام کے متعلق کچھ بھی معلومات رکھتا ہو ۔ اس اعتراف پر مجبور ہے کہ یہ قرآن آج اسی طرح مسلمانوں میں موجود ہے ۔ جس طرح کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دیا تھا اور اس میں ایک شوشہ اور کسی اعراب کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی ہے ۔ حالانکہ جتنے مذہبی صحیفے اس وقت موجود ہیں ان میں سے کسی کے متعلق فطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہے . بائبل کی تعریف تو تقریباً اہل علم کے حلقوں میں مسلم تھی ۔ اب ویدوں کے جاننے والے اور ریسرچ کرنے والے بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ متعدد مقامات میں بعض ملاحدہ نے ان میں حسب منشاء تبدیلی پیدا کردی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حالات میں اعتماد قطعاً اٹھ جاتا ہے ۔ اور پھر ایسی کوئی کتاب لائق تاسی نہیں رہتی ۔ حل لغات :۔ من بین یدیہ ولا من خلفہ بطور تمثیل کے ہے ۔ یعنی قرآن بمنزلہ ایک ایسے محفوظ اور مستحکم قلعہ ہے جس میں افواج یا فتنہ کے لئے کوئی راستہ ہی موجود نہیں ۔ نہ آگے کی طرف اور نہ پیچھے کی جانب سے * اعجمی ۔ غیر عربی ۔ فصلت
43 فصلت
44 ف 1: اللہ تعالیٰ کی اپنی کوئی خاص زبان نہیں اس نے تمام زبانوں کو پیدا کیا ہے ۔ اس لئے اس کا تعلق ربوبیت ہر زبان میں یکساں ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا تھا ۔ کہ پھر جب کہ اس کا تعلق تمام زبانوں کے ساتھ برابر کا ہے ۔ تو عربی کو کیوں ترجیح دی گئی ۔ اور کیوں قرآن کو جو دنیا کی آخری کتاب ہے ۔ اس زبان میں نازل کیا گیا ؟ ۔ جواب یہ ہے کہ یہی زبان ایسی ہے ۔ جس میں مذہبی اور دینی مطالب کے لئے ایضاح وتفصیل کی قابلیت اور استعداد دوسری زبانوں سے زیادہ ہے ۔ اور اس لئے بھی عربی زبان کا استعمال ناگریز تھا ۔ کہ جن لوگوں کو اولاً رشدوہدایت کے لئے منتخب کرنا ضروری تھا ۔ وہ عرب تھے ۔ قرآن کا عامل اور پیش کرنے والا بھی عربی تھا ۔ لہٰذا یہی انسب تھا کہ باوجود غیر جنبہ واری کے اللہ تعالیٰ قرآن کی عربی کے خوبصورت انداز بیان ہی میں نازل فرماتا *۔ حل لغات :۔ وقو ۔ بوجھ ثقل ، گرانی گرش * بظلام ۔ حق تلفی کرنے والا ۔ ظالم *۔ فصلت
45 فصلت
46 فصلت
47 حل لغات :۔ اکمام ۔ کم کی جمع ہے ۔ پھل کا غلاف ۔ شگوفے * لایسئمم ۔ اکتا نہیں جاتا ہے * لیوس ۔ ناامید * ہراساں ۔ ناامید *۔ پورا پورا علم صرف اللہ کو ہے ف 1: غرض یہ ہے کہ کوئی انسان یہ نہیں جان سکتا ۔ کہ مستقبل میں کیا ظہور پذیر ہونے والا ہے اور فردا کی آغوش میں کون سے حوادث پنہاں ہیں ۔ کوئی یقینی طور پر غیب کے متعلق پیش گوئی نہیں کرسکتا ۔ اور نہیں کہہ سکتا ۔ کہ آئندہ بطن تقدیر سے کیا تولد ہونے والا ہے اس باب خاص میں سب لوگ ناآشنا اور بےبہرہ ہیں ۔ ہاں انبیاء (علیہ السلام) کو بعض حالات سے مطلع کردیا جاتا ہے ۔ کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے ۔ مگر ہر واقعہ اور ہر بات کے متعلق وہ بھی جواب نہیں دے سکتے ۔ قیامت کے وقوع کے متعلق بارہا مکے والوں پوچھا ۔ کہ بتاؤ کب ہے *۔ ایان مرسھا * مگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کی زبان میں یہی جواب دیتے رہے ۔ کہ میں نہیں جانتا یہ باتیں اللہ تعالیٰ سے مختص ہیں ۔ وہی بتاسکتا ہے کہ کب یہ دنیا اپنی زیبائش وآرائش سمیت فنا کے پردوں میں منہ چھپا لے گی نہ صرف یہ بلکہ انسانی علم تو یہ بھی نہیں بتا سکتا ۔ کہ کوئی پھل اپنی خول اور شگوفہ میں سے کب اور کس طرح کا نکلے گا ۔ اور یہ کہ ماں کے پیٹ میں کس نوع کا بچہ ہے ۔ یہ ساری باتیں اللہ کے دائرہ علم سے تعلق رکھتی ہیں ۔ انسان ان کو جاننا بھی چاہے تو نہیں جان سکتا ۔ پھر اگر ان لوگوں کی جہالت کس درجہ افسوسناک ہے ۔ جو ایسے علیم خدا کو چھوڑ کر بتوں کو پوجتے ہیں ۔ جن میں سرے سے علم کی استعداد ہی نہیں ۔ جو اپنی فطرت کے لحاظ سے علم کی صلاحیتوں سے یک قلم محروم ہیں ۔ یہ کیونکر ان کی راہ نمائی کرسکتے ہیں ۔ اور کیونکر اس کی معروضات سن سکتے ہیں ۔ فرمایا ۔ کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کو پکار پکار کر پوچھے گا ۔ کہ بتاؤ تمہارے وہ معبود کہاں ہیں ۔ جن پر تم کو دنیا میں بڑا ناز تھا ۔ اس وقت ان کی آنکھیں کھلیں گی ۔ اور کہیں گے کہ ہم تو ان پراب اعتقاد نہیں رکھتے ۔ اور ادھر یہ معبود ان باطل غائب ہوجائیں گے نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کی مخلصی کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی فصلت
48 فصلت
49 فصلت
50 حل لغات :۔ حریض ۔ چوڑی لمبی پھیلاؤ زیادہ ہو ۔ شقاق ۔ مخالفت اور عناد کرنا ۔ الافاق ۔ افق کی جمع ہے یعنی کنارہ آسمان ۔ اطراف عالم ۔ مراد دنیا *۔ قرآن حکیم میں ایک بڑی خوبی یہ ہے ۔ کہ یہ ان تمام نفسیاتی کمزوریوں سے آگاہ ہے جو انسان میں پائی جاتی ہیں ۔ اور ایک ایک کرکے ان سب چیزوں کو بیان کرتا ہے ۔ تاکہ لغزش کے تمام مواقع اسے معلوم ہیں ۔ اور وہ کسی حالت میں بھی سچی راہنمائی سے محروم نہ رہے ۔ فرمایا : کہ یہ انسان اپنی فلاح وبہبود کے لئے ہمیشہ دست بدعا رہتا ہے ۔ اور ترقی کی خواہس سے اس کا کبھی جی نہیں بھرتا ۔ پھر جب اس کی توقعات کے خلاف ہوتا ہے اور اگر تکلیف کے بعد پھر اللہ آسائش وتنعم کے سامان مہیا کردے ۔ تو کبرونخوت کے مرض میں مبتلا ہوکر کہنے لگتا ہے ۔ کہ یہ مصب متاع راحت میری عقلمندی اور مساعی کا نتیجہ ہے ۔ اور یہ قیامت کا مسئلہ محض ڈھکو سلہ ہے ۔ میں اپنے اعمال کے لئے اللہ کے سامنے جواب دہ نہیں ہوں ۔ اور اگر وہاں جانا پڑا ۔ تو بہرآئنہ وہاں بھی اچھی ہی جگہ مل کر رہے گی ۔ ارشاد فرمایا ۔ کہ یہ وہم باطل ہے وہاں سرمایہ داری کا اختیار نہ ہوگا ۔ وہاں صرف اعمال دیکھے جائیں گے ۔ اور اسے لوگ جو سرمایہ داری کے نشہ میں اللہ کا انکار کردیتے ہیں شدید ترین عذاب کے مستحق ہونگے ۔ اور ان میں سے کوئی رعایتی سلوک نہیں روارکھا جائیگا فصلت
51 فصلت
52 ف 1: منکرین سے کہا ہے ۔ کہ جب بھی قرآن تمہارے سامنے پیش کیا ہے ۔ تم نے انکار کیا اور اس کے پیغام کو ٹھکرایا ۔ کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ اگر یہ کتاب عزیز واقعی اللہ کی طرف سے ہو ۔ اور تم بدستور سرکشی اور تمرد پر قائم رہو ۔ تو پھر تمہاری پوزیشن کیا ہوگی ؟ تم اللہ کو کیا جواب دوگے ؟ یعنی دو ہی باتیں ہیں ۔ یا تو یہ کلام اللہ کا کلام نہیں ہے ۔ اور محض حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا افتراء ہے ۔ اس صورت میں بھی اس کو تسلیم کرلینا اس لحاظ سے مفید ہے کہ اس میں جو تعلیمات ہیں ۔ وہ انسانیت کی فلاح وبہبود کے لئے ہیں ۔ اور یا یہ یقینی اور حتمی طور پر خدا کا کلام ہے ۔ بتاؤ اگر صورت حال یہ ہے ۔ تو پھر تمارے پاس اس محرومی اور بدبختی کا کیا جواب اور کیا عذر ہے فصلت
53 قرآن کی صداقت پرخارجی اور باطنی شواہد ف 2: یہ پیشگوئی ہے ۔ کہ ہم قرآن کی حقانیت کے ثبوت میں پوری کائنات کو حرکت میں لے آئینگے ۔ اور آفاق میں ایسے ایسے دلائل مہیا کرینگے ۔ کہ پھر اہل دانش کے لئے ناممکن ہوجائیگا ۔ نیز ان کی نفسیات میں ایسا عظیم انقلاب پیدا کریں گے ۔ اور ان کو ایسا روحانی ارتقاء بخشیں گے ۔ کہ وہ خود بخود اسلامی نظریات عقائد وعمل کی تصدیق کرنے لگیں گے ۔ ہمارے نزدیک اس کی تین صورتیں ہیں :۔ (1) اسلامی فتوحات کی کثرت ایک بےسروسامان جماعت کا ساری دنیا پرچھاجانا ۔ اور اپنے بےپناہ غلبہ واقتدار سے ثابت کرنا ۔ کہ اللہ کی تائید ان کے شامل حال ہے ۔ اس کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اسلامی عساکر کے دلوں کو مضبوط کرتے ہیں *۔ (2) ان دلائل فطرت کو اسلام کی تصدیق میں پیش کرنا ۔ جو آفاق میں پیداکئے ہوئے ہیں ۔ ان مظاہر وشواہد کو کثرت کے ساتھ بیان کرنا ۔ جن کا تعلق صاحب عالم حیات لیتے ہے *۔ (3) آئندہ زمانے میں ان خوزق علمیہ کا ظہور جو اسلامی فطرت کی تصدق کریں ۔ ہماری رائے یہ ہے کہ تعبیروتفسیر کی یہ صورت زیادہ صحیح ہے ۔ آج کا سائنس اور تجربہ اسلامی نظام حیات کو درست اور فطرت کے قریب سمجھتا ہے ۔ آج سے پہلے کوئی قیامت کا معترف تھا ۔ مگر آج یہ ایک طبعی نظریہ ہے ۔ سائنس دان کہہ رہے ہیں ۔ کہ ہر وقت اس کا امکان ہے ۔ خدا کے متعلق جن خیالات کا اظہار قرآن نے کیا ہے آج لوگ تسلیم کررہے ہیں ۔ کہ ان پر سر مو اضافہ نہیں ہوسکتا اور معاشرتی نظام تو اتنا مکمل ہے ۔ کہ آج یورپ کھچا آرہا ہے ۔ اور تمام اس کو قبول کرتا چلا جاتا ہے اسی طرح نفسیاتی طور پر لوگوں نے باطن میں اتنی ترقی کرلی ہے ۔ کہ عظیم الشان رومی اکتسافات منظر عام پر آرہے ہیں ۔ اور معلوم ہورہا ہے ۔ کہ عالم برزخ کے متعلق قرآن نے جو کچھ پیش کیا تھا ۔ وہی صحیح ہے اور اگر حالات کو دیکھ کر کوئی پیش گوئی کی جاسکتی ہے ۔ یقینا وہ وقت بہت قریب ہے جبکہ ساری دنیا قرآن کے الفاظ میں انہ الحق پکاراٹھے گی *۔ فصلت
54 فصلت
0 الشورى
1 سورۃ الشوریٰ ف 1: یہ سورت مکی ہے ۔ اس میں عقائد اور زندگی کے اہم مسائل بیان فرمائے گئے ہیں اس میں رسالت کا تذکرہ ہے ۔ توحید کی بحث ہے عمل کی ذمہ داریوں کا بیان ہے اور ان تمام شکوک وشبہات کا ازالہ ہے ۔ جو اس وقت کے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوئے تھے یا آج پیدا ہوسکتے ہیں ۔ الشورى
2 الشورى
3 الشورى
4 الشورى
5 خدا کا جلال وجبروت ف 2: آیت کے دو معنے ہی ۔ ایک تو یہ کہ جہاں تک اللہ تعالیٰ کے جلال وجبروت کا تعلق ہے آسمان اس کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے ۔ اگر اس کی زبردست قدرت اس کو نہ مقام رکھے ۔ تو اس ہیبت اور رعت کا تقاضا یہ ہے ۔ کہ یہ سارا نظام علوے زمین پر آرہے ۔ دوسرے یہ کہ مشرکین مکہ مشرک کا ارتکاب کرکے خدا کی جناب میں سخت گستاخی کا اظہار کرتے ہیں ۔ اور یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ قریب ہے کہ اجرام سماوی اس کو برداشت نہ کریں ۔ اور ان پر گرپڑیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور کرم ہے ۔ کہ اس نے ہر شخص کو اس کے اعمال میں آزادی دے رکھے ہے ۔ اور وہ مجبور نہیں کرتا کہ ہر شخص اس کے آستانے جلال وقدس پر ہی جھکے ۔ البتہ فطرت اور عقل کا مطالبہ یہی ہے کہ انسان اپنے ذاتی شرف کو محسوس کرے اور صرف اللہ کے سامنے تذل وعبودیت کا اظہار کرے ۔ اور کائنات میں اپنے آپ کو سب سے افضل واعلیٰ قراردے ارشاد فرمایا کہ انسان اللہ تعالیٰ کو کما حقہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا ۔ حالانکہ اس کو پاکیزہ ترین مخلوق یعنی فرشتے ہر وقت اس کی تسبیح وتقدیش میں مصروف رہتے ہیں ان کی زندگی کا نصب العین ہی یہ ہے کہ وہ ہمارا اطاعت بنے رہیں ۔ اور اسکے حکموں کو قطعاً مخالفت نہ کریں ۔ پھر ان میں یہ خوبی بھی ہے کہ یہ انسان کے لئے بخشش طلب کرتے رہتے ہیں ۔ اور خطیرۃ القدس سے انوار پھیلاتے رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود اپنے بےشمار گناہوں کے عذاب الٰہی سے محفوظ ہے الشورى
6 حضور کو ان مشرکین سے بڑی ہمدردی تھی ۔ آپ دل سے یہ چاہتے تھے کہ یہ لوگ ہدایت سے بہرہ مند ہوجائیں ۔ اور پھر جب آپ دیکھتے ۔ کہ یہ لوگ قرآن کو نہیں مانتے اور توحید کے اسراء کو نہیں سمجھتے ہیں ۔ تو آپ کو روحانی کوفت ہوتی ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ ہدایت کے اجارہ دار نہیں ۔ اگر یہ لوگ نہیں مانتے تو نہ مانیں ۔ آپ کوئی فکر نہ کریں ۔ اور بہرحال اپنے فراض تبلیغ میں مصروف رہیں ۔ الشورى
7 حل لغات :۔ ام القری ۔ مکہ یعنی آس پاس کے دیہات کا مرکز اس طرف کی بستیوں میں سب سے پہلے آیا ہوا ہے ۔ یوم الجمع ۔ قیامت کا دن جبکہ لوگ ان کے حضور جمع ہونگے *۔ یعنی قرآن کتب سابقہ کی طرح صداقت اور حقانیت کا حال ہے ۔ اس کو عربی میں اس لئے نازل کیا گیا ہے ۔ تاکہ مکہ والوں کے لئے اتمام حجت ہوجائے اور وہ یہ عذر نہ کرسکیں ۔ کہ ہم قرآن کو سمجھ نہیں پاتے ۔ اسی طرح ان کے آس پاس کے رہنے والے لوگوں یہ اعتراض نہ کریں ۔ کہ عجمیت ہماری راہ میں حائل ہوئی ۔ اگر ہماری بولی میں قرآن نازل ہوتا تو ہم ضرور تسلیم کرتے اس کے یہ معنی نہیں ہیں ۔ کہ قرآن حکیم کے فیوض صرف اہل عرب کے لئے ہیں بلکہ غرض یہ ہے کہ کم از کم ایک قوم کو اللہ تعالیٰ ہدایت کے لئے بطور قیادت کے لئے منتخب کرلینا چاہتا ہے ۔ جن کی زندگی دوسروں کے لئے اسوہ اور نمونہ ہو اور ظاہر ہے کہ یہ پہلی جماعت تو ایسی ہونی چاہیے ۔ کہ وہ مطالب تسان کو پورے معنوں میں سمجھ سکے ۔ اور ان کے لئے کوئی عذر ممنوع نہ ہو تاکہ ان کی وساطت سے ساری دنیا میں جو اسلام پہنچے وہ یقینی عملی اور قطعی ہو *۔ الشورى
8 الشورى
9 ف 1: غرض یہ ہے کہ کفرو ایمان کی تقسیم بالکل فطری ہے ۔ اور اللہ کی مصالح کے سرافق ہے وہ اگر چاہتا تو ہر نوع کے اختلافات کو اٹھا دیتا ۔ اس کے لئے یہ بہت آسان اور سہل تھا ۔ اور جب کہ اس نے ان اختلافات کو باقی رکھا ہے ۔ تو ان سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ خندہ پیشانی سے کرنا چاہیے ۔ اور کوشش کرنی چاہیے ۔ اس کی خلیج زیادہ وسیع نہ ہونے پائے *۔ الشورى
10 وہ حکم خدا ہے ف 2: جب اس حقیقت کا اظہار فرمایا ہے ۔ کہ اختلاف تھا تو بالکل طبعی اور فطری بات ہے تو سوا ل پیدا ہوتا تھا ۔ کہ کیا پھر فیصلہ کی کوئی صورت نہیں اور کیا حق وباطل میں کوئی امتیاز نہیں معلوم ہوسکتا ۔ اس کا جواب دیا ہے کہ فیصلہ کی صورت یہ ہے ۔ کہ اللہ کے حکم کو مان لیا جائے ۔ اور اپنے ذاتی خیالات اور افکار کو ترجیح نہ دیجائے ۔ کیونکہ سارے جھگڑے اس وقت پیدا ہوتے ہیں ۔ جب ہر شخص اپنی ذاتی رائے پر ناز کرے اور اپنے سے برتر عقل والے کے سامنے سرنیاز نہ جھکائے اور اگر ہر شخص بطور اصول وضوابط اس حقیقت کو اپنے شامنے رکھے کہ ہمیں اپنی عقل ودانش پر اعتماد نہیں ۔ ہم اپنے ااحبارورہبان کی شخصیت کو کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ ہم براہ راست ہر معاملہ میں اللہ کی اطاعت کا تہد کرتے ہیں ۔ اور اس کے علموں کو بلا شرط وقید تسلیم کرتے ہیں ۔ تو پھر اختلافات فورا دور ہوسکتے ہیں اور خیالات میں وحدت پیدا ہوسکتی ہے فرمایا کہ یہ تمہارا جو حکم ہے وہ انسان کی ذہنی وفکری مشکلات میں آخری وجہ استشہاد ہے ۔ یہی میرا پروردگار ہے ۔ میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں ۔ اور اسی کی جانب تمام توجہات کلی سے جھکتا ہوں *۔ الشورى
11 وہ بےنظیر ہے صفات الٰہی کا تذکرہ ہے ۔ کہ وہ خدا جو حکم ہے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا بھی ہے ۔ اس کو وسائل وذرائع کی قطعاً احتیاج نہیں ۔ اس نے بالکل کتم عام سے کائنات کو پیدا کیا ۔ اور وجود سے نوازا ۔ پھر اس نے انسانوں اور حیوانوں کو جوڑا جوڑا پیدا کیا تاکہ اس طرح ان کی نسل میں افزائش ہو ۔ اور وہ بےمثل اور بےنظیر ہے ۔ دنیا کی کوئی چیز بھی ذات میں اور صفات میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ وہ سارے عالم امکان کو پیدا کرنے والا ہے اور ساری کائنات سے جدا ہے ۔ وہ لوگوں کو ستنا ہے اور حالات وکوائف کو جانتا ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اس کے ہاتھ میں ہے ۔ جس کو چاہے زیادہ روزی سے بہرہ مند کرے اور جس کو چاہے کم ۔ وہ ہر مصلحت سے آگاہ ہے ۔ اور ہر بات کو کامل طور پر جانتا ہے *۔ جعل لکم من انفسکم ازوجا سے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔ کہ تم لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ بہت زیادہ حسن سلوک روا رکھو کیونکہ وہ تم میں سے ہیں اور ان کے ساتھ آبرومندانہ تعلقات استوار کرو *۔ لیس کمثلہ شیء میں بظاہر یہ اشکال ہے کہ نفی تو اس بات کی کی گئی ہے کہ اللہ کی مانند کوئی چیز نہیں ہے نہ اس بات کی کہ اللہ کی مثل کا ہونا ہی ناممن ہے ۔ اس لئے یہ بالکل خلاف مدعا ہے جواب یہ ہے کہ عرب جب کہتے تھے کہ مثلی لایفعل کذا کہ میری طرح کا آدمی یوں نہیں کرسکتا اور اس کے معنے ایسے ہوتے تھے کہ میں ایسانہیں کرسکتا ۔ یہ محاورہ ہے ۔ اس طرح اس کے معنے بھی یہی ہونگے کہ اللہ کی ذات کے مانند کوئی چیز نہیں ۔ کیونکہ مثل سے مراد ذات ہے ۔ شئی مماثل نہیں *۔ الشورى
12 الشورى
13 حل لغات :۔ وصی ۔ تاکیدفرمائی ۔ وحدت اویان کی طرف تلمیح ہے ۔ کہ جو کچھ آپ کو دیا گیا ہے ۔ سی صداقت کے اعتبار سے بالکل یہی چیزیں پہلے انبیاء کو وہی گئیں ۔ صبعقت ۔ یعنے پہلے طے ہوچکا *۔ الشورى
14 اہل کتاب کی بددیانتی یعنی اہل کتاب خوب جانتے ہیں ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صدق وحقانیت کا پیغام لے کر آئے ہیں ۔ ان پر تمام حجت ہوچکی ہے ۔ یہ تما صائیم ومعارف نبوت کو دیکھ چکے ہیں ۔ انہیں یقین ہے کہ اس میں کسی طرح کے شک وشبہ کو دخل نہیں ہے ۔ یہ محض ان کی ضد ہے ۔ غرور اور فخر ہے ۔ کہ حق کو اپنی صالح ونبوی کی وجہ سے نظرانداز کررہے ہیں ۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات طے نہ ہوتی ۔ کہ قوموں کو ان کی تکذیب کا بدلہ قیامت میں دیا جائے گا ۔ تو یہ اپنی خیانت اور بددیانتی کی وجہ سے کبھی کے مٹ چکے ہوتے ۔ یہ تو اللہ کا کرم ہے ۔ کہ تما گناہوں کی سزا کو ایک مقرر دن کے اٹھا رکھا ہے ۔ ورنہ یہ ممکن تھا ۔ کہ قانون صدق وصفا یوں انکار کریں ۔ اور فطرت کے انتقام سے بچ جائیں ۔ فرمایا : ان کی اس بددیانتی کی وجہ سے مکہ والے پریشان ہیں ۔ کہ کیا کریں ۔ مانیں یا نہ مانیں ۔ جب یہ لوگ یہ دیکھتے ہیں ۔ کہ اہل کتاب کے علماء جو جانتے بوجھتے ہی وہ اسلام کی صداقتوں کو قبول نہیں کرتے تو پھر لازماً ان کے دلوں میں اس طرز عمل سے شکوک پیدا ہوتے ہیں ۔ اور اس طرح ہدایت سے اور دور ہوجاتے ہیں *۔ الشورى
15 پیغمبر کا استقلال ارشاد ہے کہ ان لوگوں کی محرومی اور مخالفت کی وجہ سے آپ کے پیغمبرانہ عزائم میں کوئی کمزوری نہیں پیدا ہونی چاہیے ۔ آپ بدستور اللہ کی طرف ان کو بلاتے رہیے ۔ ایسا نہ ہو ۔ کہ آپ کے پائے استقلال میں ذرہ بھی لغزش پیدا ہوجائے ۔ آپ ان کے جذبات اور خیالات کی پرکاہ برابر بھی پرواہ نہ کریں ۔ بس یہی کہتے جائیے ۔ کہ میرا ایمان تو اللہ کی کتاب پر ہے ۔ میں اسی کو مانتا ہوں اور مکلف ومامور ہوں ۔ کہ اسی کی روشنی میں تمہارے درمیان عادلانہ طرز عمل اختیار کروں ۔ اللہ یہ ہمارا تمہارا پروردگار ہے ہم اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں اور تم اپنے اعمال کے ۔ اور اصولاً تم میں اہم میں کوئی جھگڑا نہیں ۔ اللہ ایک وقت مقررہ پر ہم سب کو جمع کریگا ۔ اس کے حضور میں سب کو جانا ہے ۔ وہاں جاکر معلوم ہوگا ۔ کہ کون حق وصداقت پر ہے اور کون گمراہ ہے یہ انداز بیان گو انشاء کا ہے مگر مقصود خبر ہے ۔ غرض یہ ہے کہ پیغمبر سے تم غلط نوع کی توقعات نہ رکھو ۔ وہ برابر دعوت الی اللہ میں رہیگا ۔ اور ہمزیمت واستقامت کے ساتھ اللہ کے پیغام کو تم تک پہنچائیگا ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ تمہاری خواہشات نفس کی پیروی کرے *۔ الشورى
16 حل لغات : ۔ داحضہ ۔ باطل * المیزان ۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کو نازل فرمایا ہے اسی طرح اس کی صدقتوں کو تولنے کے لئے معیار مقرر فرمائے ہیں *۔ ف 2: اہل کتاب بھولے بھالے مسلمانوں سے کہتے تھے ۔ کہ کیوں نہ ہم اور تم ان انبیاء پر متفق ہوجائیں ۔ جن پر تمہارا بھی ایمان ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو جو مختلف فیہ ہے ۔ چھوڑ دیں ۔ اس کا جواب دیا ہے کہ جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اور گزشتہ انبیاء میں کوئی فرق نہیں ۔ سب کے پیغام میں یکسانی اور وحدت ہے ۔ اور معجزات وخوارق بھی ان کی تائید میں تم دیکھ چکے ہو ۔ تو پھر کیوں نہ ان کی نبوت کو تسلیم کرلیا جائے *۔ الشورى
17 الشورى
18 الشورى
19 حل لغات :۔ لطیف ۔ باریک بین اور نہایت درجہ شفیق اور مہربان *۔ اللہ نہایت شفیق ہے ف 1: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حق میں بدرجہ غایت مہربان ہے ۔ جس کو چاہتا ہے حسب ضرورت اپنی ربوبیت عامہ سے بہرہ مند کرتا ہے ۔ رزق اور دولت اس کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ چاہے ہوں کے ہاتھ میں کاسہ گدائی دے اور چاہے تو فقیروں کی جھولیاں تمدومال سے بھردے ۔ کوئی شخص اس کے ارادوں میں اس کی مزاحمت نہیں کرسکتا ۔ وہ صاحب قوت واقتدار ہے اور ہر چیز پر اس کی قدرت ہے ۔ اگر تم لوگ چاہتے ہو ۔ اور اس کی مہربانیوں کو حاصل کرلو ۔ اور قوت ومنفعت کی گرونقد رحمت کو پالو ۔ تو اس کی صورت یہی ہے کہ اس رب کریم وقدسیہ کی اطاعت کرو ۔ اس کے حکموں پر چلو ۔ اور اس کے منشاء کو پورا کرو ۔ پھر دیکھو کیونکر تم میں قوت پیدا ہوجاتی ہے ۔ کس طرح تم کائنات پرچھا جاتے ہو ۔ اور باطل پر تم کو اقتدار حاصل ہوتا ہے ؟ کیونکہ اس منبع فیوض وبرکات کے ساتھ ادنیٰ انتساب بھی برتری اور علو حاصل کرنے کے لئے کافی ہے ۔ یہ ناممکن ہے کہ تم اس کے ساتھ عبودیت اور نیاز مندی کا تعلق ہو اور تم دنیا میں مارے مارے پھرو ۔ جب ایک معمولی دوست اپنے دوست کی توہین گوارا نہیں کرتا ۔ تو وہ کیونکر اپنے دوستوں عقیدت مندوں اور اپنے غلاموں کی توہین برداشت کرسکتا ہے ؎ دوستاں راکجاکنی خروم توکہ بادشمناں نظر داری وہ صنف وشفقت کا پیکر ہے اس نے اپنے اوپر عفو وکرم گستری کو لازم قرار دے لیا ہے ۔ وہ ماں باپ سے زیادہ اپنی مخلوق کو چاہتا ہے ۔ وہ یلازستل کے اپنے اوان جلال میں سب کو بلاتا ہے اور دعوت اجایت دیتا ہے اور کہتا ہے تم مجھ سے مانگو میں تمہیں دونگا ۔ تم میرے باب قبولیت کو کھٹکھٹاؤ میں ہمدردانہ تمہارے معروضات کو سنوں گا *۔ الشورى
20 زندگی کی دو راہیں ف 1: کہ دو قسم کی زندگیاں ہیں اب یہ تمہارے انتخاب پر موقوف ہے کہ تم لوگ کس نوع کی زندگی کو اپنے لئے پسند کرتے ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے اختیار وانتخاب میں پوری پوری آزادی دے رکھی ہے ۔ اگر کشت آخرت چاہتے ہو ۔ تو اللہ کی مہربانیاں تمہارے شامل حال ہونگی ۔ اور تم کو ہر نوع کی اعانت سے نوازا جائیگا ۔ اور اگر کشت آخرت کی ضرورت نہیں ہے ۔ دنیا کی خوبصورتی پر پھرگئے ہو اور اسی زندگی کا بھلا چاہتے ہو ۔ تو یہ بھی تم کو مل سکتی ہے ۔ مگر یہ یاد رکھو آخرت کے حصوں میں تم دنیا کی کسی مسرت سے محروم نہیں رہوں گے ۔ وہ اگر تم نے صرف دنیا کو حاصل کیا ۔ تو پھروہاں کچھ نہیں ملے گا ۔ ان دونوں باتوں کو خوب سوچ لو اور اپنے لئے ایک راہ متعین کرلو ۔ دنیا کی راہ تو عقبے کی لذتوں سے یک قلم محروم کردیتی ہے ۔ اور آخرت کی راہ میں کونین کی سعادتیں موجود ہیں ۔ الشورى
21 الشورى
22 الشورى
23 حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقرباء کی محبت ف 1: اہل بیت سے محبت اور عقیدت رکھنا بلاریب جزو ایمان ہے ۔ اور کون بد بخت ہے جو اس سعادت سے محروم رہنا پسند کریگا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقارب سے تعلقات ارادت اس بات کی علامت ہے ۔ کہ دلوں میں تقویٰ اور پاکیزگی موجود ہے ۔ اور حب پیغمبر کا جذبہ موجزن ہے ۔ اور درحقیقت یہ عشق نبوی کا لازمی نتیجہ ہے ۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت ہوگی ۔ تو پھر آپ کے اقرباء سے محبت نہ رکھنا کوئی معنے ہی نہیں رکھتا ۔ یہ ایسا پاک جذبہ ہے کہ امام شافعی (رح) باوجود تستن کے اس بات پر فخر وناز کرتے ہیں ۔ کہ ؎ ان کنان دلان حبا ال محمد فلیشھد اسقلان انی رافضی کہ اگر آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے محبت رکھنا رفض ہے تو کونین اس پر گواہ ہیں ۔ کہ میں راقضی ہوں مگر اس کے معنے یہ نہیں ہیں کہ اس آیت میں اسی محبت کی طرف اشارہ ہو ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ایسا مطالبہ نہیں کرتے ۔ جس کا تعلق اساس دین سے ہو ۔ اقارب کی عزت واحترام تقاضائے ایمان ضرور ہے *۔ باقی صفحہ حل لغات :۔ ردضت ۔ روفعہ کی جمع ہے ۔ بمعنے باغ * جنت ۔ کے معنے مقامات عیش ومسرت ہونگے ۔ حب میں داخل نہیں ہے کیونکہ حضور سے اپنے اقارب کی محبت رکھنا کوئی تبلیغ کا صلہ نہیں ہے ۔ جس کا حضور مطالبہ کرتے ہیں بلکہ ایک امرزائد ہے ۔ استثقاء اس قبیل سے ہے ۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے ۔ ولا عیب فھم یحران میر قھم ۔ مگر نفس دین سے اس کا تعلق نہیں ہے دین نام ہے صرف اللہ کا اطاعت اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی کا ۔ یہ دو آخذ ہیں ۔ اسلام کے سارے نظام حیات کے اور ان کے علاوہ تمام پاک شخصیتیں اپنی جگہ پر قابل کریم ہیں ۔ مگر دین نہیں ہیں ۔ اسلام صرف حقائق کا نام ہے ۔ صداقتوں سے تعبیر ہے ۔ شخصیتوں کو اس میں داخل نہیں ہے ۔ پھر اگر آیت کے یہی معنے ہوں ۔ جو عام طور پر پیش کئے جاتے ہیں ۔ تو اس میں شبہ یہ پیدا ہوتا ہے ۔ کہ معاذ اللہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سارا کھڑاک ہی اس لئے کھڑا کیا تھا ۔ ککہ بعد میں ان کے اقربا اور اعزۃ ان کی فتوحات اداوت سے فائدہ اٹھائیں ۔ حالانکہ واقعہ ایسا نہیں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ سرے انبیاء کی طرح اپنی تبلیغی مساعی پر بغیر اس کے کچھ اجر نہیں چاہتے ۔ کہ لوگ ان کی پاک کوششوں کو بار آور بنائیں ۔ اور اسلام کو قبول کریں ۔ بس الا المود یوفی الغربیٰ کے معنے ہی ہیں کہ میں جو کچھ جانتا ہوں یہ ہے کہ تم لوگ مجھے اپنے عزیز اور قریبی سمجھو اور مجھ سے وہی سلوک روا رکھو جو اقربا سے روا رکھا جاتا ہے ۔ مجھے اپنا دشمن قرار نہ دو ۔ اپنا ہمدرد سمجھو اور میری باتوں پر اعتماد کرو *۔ الشورى
24 ف 2: یختم علی قلبک ۔ دو معنے ہیں ایک تو یہ کہ آپ سورت اللہ پر افتراء کرسکتے ہیں ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ آپ سے بصیرت چھین لے ۔ اور آپ کے قلب پر مہر کردے ۔ یعنی جس طرح ناممکن ہے ۔ اس رطح یہ ناممکن ہے ۔ کہ آپ غلط ملط باتیں اللہ کی طرف منسوب کریں ۔ دوسرے یہ کہ یہ لوگ تو اس رطح کے الزامات سے آپ کو دل برداشتہ کردیتے ہیں ۔ مگر اللہ چاہے گا تو آپ کے دل پر تسکین ۔ طمانیت می اوز ثبت کردیگا ۔ تاکہ ان اس طرز عمل کا اثر آپ تک نہ پہنچے اور آپ استقلال وعزیمت کے ساتھ اللہ کے پیغام کو دوسروں تک پہنچاتے رہیں *۔ الشورى
25 الشورى
26 الشورى
27 آیت 27 تا 36: حل لغات :۔ بقدر ۔ یعنی ایک انداز کے ساتھ اس طرح کہ کائنات کا نظام باقی رہے * اقنطوا ۔ مایوس ہوگئے ۔ قنوط سے ہے ۔ بمعنی مایوسی * بٹ ۔ پھیلایا ۔ منتشر کیا * دابۃ ۔ حیوان زمین پرچلنے والے جانور *۔ حل لغات :۔ کالا علام ۔ پہاڑوں کی طرح * اعلام ۔ جمع علم کی ہے * یوبھن ۔ تباہ کردے *۔ مادیات میں غور وفکر ف 1: قرآن حکیم اس بات پر بڑا زور دیات ہے ۔ کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ان فیوض کو غورو تعمق کی نظر سے دیکھیں جو کارگاہ حیات کو زندگی بخش رہے ہیں ۔ اس کے نزدیک جس طرح یہ ضروری ہے ۔ کہ شریعت اور فقہ کا مطالعہ کیا جائے ۔ معاشری قوانین کی افادیت پر غور کیا جائے ۔ اور سیاست واخلاق کے مسائل کو زیر بحث لایا جائے ۔ اسی طرح یہ ضروری ہے کہ قدرت ، طبیعت اور مادیت کا عمیق مطالعہ کیا جائے ۔ اور کائنات کے اسرار مکنون کو دریافت کیا جائے کیونکہ جس طرح صحیح معاشرتی اور اخلاقی تعلیم سے انسان کو روحانی سعادت حاصل ہوتی ہے اور اس کے مشکل ترین مسائل سلجھ جاتے ہیں اور زندگی نہایت پرسکون اور پر از طمانیت ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح صحیفہ قدرت کی نصوص سے استنباط مسائل ہماری مادی قوتوں میں اضافہ کردیتا ہے ۔ اور تمدن کو زیادہ وسیع ، زیادہ شاندار اور زیادہ بہتر بنادیتا ہے قرآن کا منشا یہ ہے ۔ کہ سابقہ مذاہب نے جو دماغوں میں ایک نوع کا جمود اور تعطل پیداکررکھا ہے ۔ وہ دور ہو اور غور وفکر کے لئے فراغ اور شادات میدان مہیا ہوں ۔ تاکہ انسان تسخیرات اور فتوحات فکری اپنے لئے ایسے اقلیم لامحدود کو پالیں ۔ کہ نگ ووہ کہیں ختم نہ ہو ۔ اسی لئے آپ اس کتاب عزیز میں دیکھیں گے ۔ کہ آسمانوں اور زمین کی وسعتوں پر غور کرنے کے لئے بارہا آمادہ کیا گیا ہے ۔ اور کہا گیا کہ تمام مظاہر قدرت پر فرداً فرداً غور کرو ۔ اور سوچو اور پھر اس نتیجہ پر پہنچو ۔ کہ اللہ تعالیٰ کی قدرتیں کس درجہ وسیع ہیں اور وہ کس درجہ لائق اکرام واحترام ہیں *۔ فرمایا : اللہ کے اجرام سماوی کو پیدا کیا ہے ۔ زمین کو بھی تمہارے پاؤں تلے بچھایا ۔ اور پھر اس میں زندہ کائنات بھی پھیلا رکھی ہے ۔ کیا اب اس بات کا ثبوت نہیں ۔ کہ وہ جب جائے گا انسانوں کو محاسبہ کے لئے جمع کرسکے گا ۔ کہ بتاؤ تم نے دنیا میں رہ کر ہمارے فیوض سے کس حد تک استفادہ کیا *۔ اسی طرح اس کی نشانیوں میں سے بڑی بڑی کشتیاں اور جہاز ہیں ۔ کہ سمندر میں پہاڑوں کی طرح کھڑے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو کھیلنے کے لئے کچھ محالات مقرر کررکھے ہیں ۔ اگر وہ ہواؤں کو روک لے اور ان قانونوں کو حرکت میں نہ لائے تو یہ کشتیاں اور یہ جہاز ایک قدم آگے نہ بڑھ سکیں ۔ وہ لوگ جو صبر کے زیور سے آراستہ ہیں اور جو اللہ کی نعمتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ ان مظاہر قدرت سے استفادہ کرسکتے ہیں ۔ افسوس ہے کہ اور چیزوں کو تو قرآن بیان کرتا ہے ۔ مگر سمندروں پر حکومت دوسری قوموں کی ہے ۔ آج وہ جانتے ہیں ۔ کہ کیونکر بڑے بڑے جہازوں کو سمندر کی سطح پر چلایا جاسکتا ہے اور جن کو ان کی طرف توجہ دلائی تھی ۔ وہ محض ناآشنا ہیں *۔ درمیان میں بعض وہی حقائق کو بھی بیان فرمایا ہے اور بعض غلط فہمیوں کو دور کیا ہے ۔ مثلاً لوگ یہ سمجھتے تھے کہ مصیبتیں آتی ہیں ۔ وہ خدا کی طرف سے آتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا ہے ۔ کہ جہاں تک اجتماعی مصائب کا تعلق ہے ۔ وہ تمہارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہیں ۔ اور تمہارے اکثر جرائم تو ایسے ہیں ۔ کہ اللہ تعالیٰ ان سے یکسر درگزر فرماتے ہیں ۔ اور ان کی سزا نہیں دیتے ۔ ورنہ تمہارے لئے جینا مشکل ہوجائے ۔ اسی طرح ان کی اس غلط فہمی کو دور کیا ہے ۔ کہ تمہاری مخالفانہ کوششوں سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا ہے ۔ فرمایا یقین رکھو ۔ کہ تم اللہ کو عاجز اور مجبور نہیں کرسکتے پھر اسی طرح دنیائے دوں کے متعلق جو ان لوگوں کا خیال تھا ۔ اس کی تردید فرمائی ۔ اور کہا کہ سچی اور حقیقی زندگی عقبیٰ اور آخرت کی زندگی ہے ۔ اور اللہ کے نیک بنے اسی زندگی کے حصول میں کوشاں رہتے ہیں ۔ اور اپنے پروردگار پر پورا پورا بھروسہ رکھتے ہیں *۔ الشورى
28 الشورى
29 الشورى
30 الشورى
31 الشورى
32 الشورى
33 الشورى
34 الشورى
35 الشورى
36 الشورى
37 آیت 37 تا 43: حل لغات :۔ الفواحش ۔ جمع معشہ برائیاں * استجابوا ۔ یعنی انہوں نے اللہ کی رضا کو بہرآئینہ مقدم جانا اور ہر حکم کو رضاکارانہ تسلیم کرلینے کا عہد *۔ حل لغات :۔ انتصر ۔ بدلہ اور انتقام لیا ۔ انتصار سے ہے *۔ اہل عقبے ف 1: ان آیتوں میں ان لوگوں کی صفات کا تذکرہ ہے ۔ جن کیلئے عاقبت کی زندگی ہے ۔ اور جو آخرت میں روحانی سعادتوں سے بہرہ مند ہونگے ۔ فرمایا : کہ یہ وہ لوگ ہیں ۔ جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اور مصائب وشدائد میں اس پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔ اور سراسر پاکباز ہیں ۔ وہ کوشش کرتے ہیں ۔ کہ ان کا دامن کبیرہ گناہوں سے آلودہ نہ ہو ۔ ان میں یہ صلاحیت اور قوت برداشت ہوتی ہے ۔ کہ جب جذبات میں اشتعال پیدا ہو ۔ غصہ اور غضب رونما ہو ۔ تو اس وقت وہ اپنے خطم اور مخالف کو معاف کردیں ۔ جو لوگ اللہ کے حکم کے تابع ہیں ۔ ہر ابتلاء کو جو اس کی طرف سے ہو ۔ خندہ پیشانی زبردشت کریں ۔ اور نماز کو اس کی تمام شروط ظاہری وباطنی کے ساتھ ادا کریں ۔ پابندی وقت کیساتھ پڑھیں ۔ معنے اور مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ اور مقام احسان کو حاصل کریں ۔ جہاں بندہ اپنے مولا کے قرب کو حاصل کرلیتا ہے ۔ اور اس طرح عبادت میں مصروف ہوتا ہے ۔ کہ گویا کہ اپنی بصیرت کی آنکھوں سے اس کو دیکھ رہا ہے ۔ جو زکوٰۃ دیں اور اپنے مال ودولت کو اس کی راہ میں خرچ کریں ۔ اور وہ لوگ جو شریر دشمن کے مقابلہ میں عاجز اور کمزور نہ ہوں ۔ جو بلا دلیلغ ان سے بزور بدلہ لے سکیں ۔ اور ان کو ان کے مفسدانہ طرز عمل سے بار رکھ سکیں ۔ کیونکہ برائی اور شرارت کی جزا بھی اسی قدر ہونی چاہیے ۔ ہاں جو شخص چاہے کہ باوجود قابو پانے کے اور غصہ وغضب کے اپنے مخالف کو معاف کردے ۔ تو یہ بھی ہوسکتا ہے اور یہ بہترین پوزیشن ہے ۔ اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے ۔ اور عزائم امور میں سے ہے ۔ جس کا مرتبہ عام لوگوں سے بلند اور برتر ہے *۔ یہ واضح رہے کہ اسلام نے جو دین فطرت ہے ایک طرف تو علو کی فضیلت کو بیان کیا ہے ۔ اور کہا ہے کہ یہ عادت عزیمت کی عادت ہے ۔ اور دوسری طرف سزا اور بدلہ کی بھی تعریف کی ہے اس کی وجہ ہے ۔ کہ اصل میں نہ عفو بہتر ہے ۔ اور نہ سزا وانتقام دیکھنا یہ ہے ۔ کہ مقام اور حالات کے مطابق ان دونوں حربوں میں سے کون حربہ عمل سے متاثر ہوتا ہے ۔ اور مقصد حاصل ہوجانا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شریر کا غصہ نرمی سے اور بڑھ سکتا ہے ۔ اور وہ اس کو عاجزی اور ضعف پر محمول کرتا ہے ۔ لہٰذا اسلام کہتا ہے کہ تم ان دونوں چیزوں کو اپنے سامنے رکھو اور ہر موزوں کو سمجھوکہ وہ تمہیں کسی ایک چیز کے لئے مجبور نہیں کیا جاتا *۔ الشورى
38 الشورى
39 الشورى
40 الشورى
41 الشورى
42 الشورى
43 الشورى
44 آیت 44۔ 46 حل لغات :۔ ظرف خفی ۔ دزویدہ نگاہ سے ۔ سست نگاہ سے * مقیم ۔ دائمی ۔ اولیاء ۔ ولی کی جمع ہے ۔ بمعنے دوست اور مدد گار ۔ چارہ ساز * مرد ۔ ہٹنا ۔ لوٹنا *۔ یعنی وہ لوگ جن سے بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ توفیق ہدایت چھین لے ۔ وہ چارہ سازی سے محروم رہینگے *۔ گھاٹے میں کون ہے وہ لوگ جنہوں نے دنیا میں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس نہیں کیا ۔ اور کفروشرک اختیار کرکے اپنے قلب ووجدان پر ظلم کیا ہے ۔ ان سے عالم عقبے میں بہت ہی ذلیل کن طرز عمل روارکھا جائیگا ان کی روح افتخار کو کچل ڈالا جائے گا ۔ اور اس تمام غروروکبر کو جس کی وجہ سے یہ قرآن حکیم تسلیم نہ کرسکے پاؤں تلے مسل دیا جائے گا ۔ محسوس کریں گے ۔ کہ ذلت و نکبت نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے ۔ دوزخ روبرو لائے جائیں گے ۔ اور اللہ تعالیٰ سخت غصے اور غضب کا اظہار کریں ۔ اس وقت ان کی نظریں اوپر کو نہ اٹھیں گی ۔ مسلمانوں کو یہ دیکھیں گے مگر وہ زویدہ نگاہوں سے ۔ وہ بھی تاڑ جائیں گے اور ان سے کہیں گے ۔ کہو آج کون خسارے میں ہے ۔ دنیا میں تو تم لوگ کہتے تھے ۔ کہ مذہب کو قبول کرکے اپنی آزادی کو کھودیتا ہے ۔ لذتوں اور مسرتوں سے محروم ہوتا اور گھاٹے کو قبول کرتا ہے ۔ آج بتاؤ کون ہر طرح کی نعمتوں سے بہرہ مند ہے ۔ کون باغوں اور نہروں میں رہتا ہے ۔ کس کے عفیف اور جمیل کاریں تابع ہیں ۔ کون رب رحیم کے الطاف کو ناگون سے مشرف ہے ۔ کس کے لئے جامہائے شراب مہیا ہیں ۔ کس کے لئے روح میں بالیدگی اور ارتقاء ہے ۔ کس کے لئے روحانی تروتازگی اور نزہت ہے ۔ اور کون ہے جو ہر قسم کی مسرتوں سے محروم ہے ۔ دکھ اور تکلیف میں ہے ۔ دوزخ کے عذابوں میں مبتلا ہے ۔ اللہ کی رحمتوں سے دور ہے ۔ یاد رکھو ، ظالم اور برے لوگ اللہ کے مقام رضا کو کبھی حاصل نہیں کرسکتے ۔ اور ان میں یہ اہلیت ہرگز پیدا نہیں ہوسکتی ۔ کہ یہ جنات نعیم کی اسائشوں کو آزما سکیں ۔ اصل اور حقیقی زندگی یہ ہے ۔ کہ اللہ کے ہاں مقبولیت ہو وہ انعامات کے لئے پسند کرلے ۔ اور وہ روضات خلد میں جگہ دے ۔ یہ زندگی نہیں ہے ۔ کہ دنیا میں متاع عارضی کی وجہ سے اتنے سرمست اور مدہوش ہوجاؤ۔ کہ اللہ سے بالکل غافل ہوجاؤ اور اس کے حکموں کو کوئی وقعت نہ دو ۔ سب سے بڑی کوفت ان کے لئے یہ ہوگی ۔ کہ جن لوگوں کو دنیا میں اپنا چارہ ساز سمجھتے تھے جن سے عقیدت تھی ۔ اور جن کو یہ اپنا نجات دہندہ قرار دیتے تھے ۔ یہ ان سے بالکل بیزاری کا اظہار کریں گے ۔ اور قطعاً ان کو سزا اور عذاب سے نہیں بچا سکیں گے *۔ الشورى
45 الشورى
46 الشورى
47 آیت 47۔48 ف 1: اس دن سے پہلے پہلے اللہ کی اطاعت کا عہد کرلو ۔ اور کاملاً اختیار اور فرمانبرداری اختیار کرو ۔ کیونکہ اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے ۔ اور نہ یہ ممکن ہے ۔ کہ کوئی شخص اس دن تمہارے بارے میں اللہ سے جھگڑا کرسکے اور بحث کرسکے *۔ الشورى
48 الشورى
49 آیت 49۔ 50: حل لغات :۔ کفور ۔ نہایت ناشکر گزار * یھب ۔ بخشتا ہے * عنیما ۔ بانجھ * وراءی حجاب ۔ پس پردہ * روحا ۔ یعنی کتاب حیات *۔ اولاد اللہ کی اختیار میں ہے ولی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کاملہ کے معنی یہ ہیں ۔ کہ انسان عملاً تمام اختیارات کو اسی جنب منسوب کرے ۔ اور ہر حالت میں خوش وخرم رہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ لڑکیاں دے ۔ جب بھی اعتراض نہ کرے ۔ اور اگر لڑکے ہی عطا کرے ۔ تو بھی کبروغرور کا اظہار نہ کرے ۔ اگر دونوں قسم کی اولاد یعنی لڑکے اور لڑکیاں ملیں ۔ تو بھی خوش رے ۔ اور اگر اولاد ہی سے محروم رکھا جائے ۔ تب بھی گلہ نہ کرے ۔ اور بہرحال اللہ ہی کی حکمتوں پر بھروسہ رکھے ۔ اور یہ سمجھے ۔ کہ وہ تیرے حالات اور میری ضروریات سے مجھ سے زیادہ آگاہ ہے ۔ اگر وہ مجھے اولاد سے بہرہ مند کرنا چاہے گا ۔ تو میں ضرور صاحب اولاد ہوجاؤں گے ۔ اسکوہر چیز پرقدرت حاصل ہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا ۔ کہ اولاد کا ہونا محض اللہ کا فیضان ہے ۔ اس لئے اس خواہش کا اظہار کرنا ہو تو اسی سے کرنا چاہیے *۔ الشورى
50 الشورى
51 مکالمہ کی تین صورتیں ف 1: بندوں کو اللہ تعالیٰ جب شرف مکالمہ سے نوازتے ہیں ۔ تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ۔ یا تو قلب میں القا ہوگا ۔ اور لوح دل پر منشاء الٰہی مرتسم ہوجائیگا ۔ یا پیغمبر اور الہام کے درمیان کوئی حجاب اور واسطہ ہوگا ۔ مگر وہ پیغام بہر آئینہ پیغمبر تک پہنچ جائے گا ۔ اور یا یہ صورت ہوگی کہ جبرائیل امین بنفس نفیس تشریف لائیں گے ۔ اور بالمشافہ مراد الٰہی سے آگاہ فرمادیں گے * جہاں تک نفس الہام کا تعلق ہے ۔ یہ عقلاً ممکن ہے ۔ کیونکہ اپنے سینے کے خیالات کو دوسرے تک منتقل کردینا بالکل ممکن ہے ۔ مسمریزم میں یہ ہوتا ہے ۔ کہ عامل وسیط (میڈیم) میں اپنے خیالات کو بجنسہ پہنچا دیتا ہے ۔ اور یہ درمیانی آدمی بالکل عامل کے نقطہ نگاہ سے سوچتا اور دیکھتا ہے ۔ بلکہ اس کی تمام حرکات اس کے تابع ہوجاتی ہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ جن بندوں کو نبوت کے لئے چن لیتے ہیں ۔ اور اپنے الہامات ، پیغامات اور تعلیمات کو ان تک پہنچا دیتے ہیں *۔ الشورى
52 آیت 52۔53: کتابِ زندگی ف 2: یعنی آپ کی نبوت میں کوئی ندرت اور انوکھا پن نہیں ۔ بلکہ نہیں ذرائع الہام کو استعمال کیا گیا ہے ۔ اور سابقہ پیغمبروں کی طرح آپ کو بھی یہ شرف حاصل ہوا ہے ۔ کہ اللہ نے آپ سے گفتگو فرمائی ہے ۔ اور اس چیز کو آپ کی طرف نازل فرمایا ہے ۔ جو انسانیت کے لئے بمنزلہ روح کے ہے ۔ جس کی وجہ سے انسانی ہیئت اجتماعیہ میں زندگی اور تازگی ہے ۔ جس کی وجہ سے معاشرت اور تہذیب وتمدن کا بقا ہے ۔ آپ اس سے قبل کتاب وصحیفہ کے نام سے آگاہ نہیں تھے ۔ اور نہ آپ یہ جانتے تھے ۔ کہ ایمان کی حقیقت مفصلہ کیا ہے ؟ ہم نے آپ کو ایک کتاب عنایت کی ہے جو نور اور روشنی ہے ۔ اور اس سے استفادہ وہی لوگ کرسکیں گے ۔ جن کو ہم توفیق دیں گے ۔ آپ لوگوں کو صراط مستقیم کی جانب جو اس اللہ کی مقررکردہ ہے ۔ جس کی ہمارے آسمانوں اور زمین پربادشاہت ہے ۔ اور انجام کار سب امور جس کی جانب لوٹیں گے *۔ الشورى
53 الشورى
0 الزخرف
1 الزخرف
2 حل لغات :۔ ام الکلب ۔ لوح محفوظ * مسرفین ۔ حد سے تجاوز کرجانیوالے *۔ آیت 2۔3 ف 1: کتاب مبین کی قسم کھانا اور اس کے بعد یہ کہنا کہ ہم نے اس قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا ہے ۔ اس کے معنے یہ ہیں ۔ کہ عربی زبان میں وضوح مطلب کی استعداد دنیا کی تمام زبانوں سے زیادہ ہے ۔ یعنی قرآن کو عربی زبان میں خدانے نازل کرکے تمام دنیا پر احسان عظیم فرمایا ہے ۔ اس وقت بھی جتنی زبانیں موجود ہیں ۔ ان میں چند ہی زبانیں ایسی ہیں ۔ جو دینیات کے اظہار کے لئے بوقت کارگر ہوسکتی ہیں ۔ ان میں دو بنیادی نقص ہیں ۔ ایک تو یہ کہ وہ بوجہ قدامت کے زندہ نہیں ہیں ۔ اور ان کے اسالیب بیان کہنہ اور بوسیدہ ہونے کی وجہ سے ناقابل فہم ہوگئے ہیں ۔ وہ سر سے یہ کہ اسلام کو جس واضح اور سادہ انداز بیان کی ضرورت تھی ۔ جو توحید ورسالت ایسے مسائل کو پراثر طریق سے جامعیت کے ساتھ پیش کرسکے ۔ اس کا ان زبانوں میں ملنا محال ہے ۔ عبرانی اور کلدانی زبانیں بہت پرانی ہیں ۔ ان کا ادب غیر مکمل ہے ۔ سنسکرت میں زندگی نہیں ۔ ایک ایک لفظ کے کئی کئی معنے ہیں ۔ اور بالخصوص بیان توحید کے لئے ۔ تو قطعاً غیر کافی ہے ۔ سب سے بڑی دقت تو یہ ہے ۔ کہ اس زبان میں خدا کے متعلق زندہ اور مجرد تمثیل کو پیش کرنا بدرجہ غایت مشکل ہے ۔ حقیقت یہ ہے ۔ کہ عربوں میں اسلامی حقائق کی تخم ریزی کے لئے جس قدر عمدہ زمین مہیا تھی اس کا دوسری جگہ پانا قطعاً ممکن نہیں تھا ۔ اس لئے مصلحت الٰہی کا تقاضا یہی تھا ۔ کہ کلام کے لئے ایک زندہ موثر جامع اور واضح انداز بیان رکھنے والی زبان کو منتخب کیا جائے اور ایک ایسی قوم میں اس کی تبلیغ کیا جائے ۔ جو صحیح معنوں میں اس پیغام کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو ۔ اس لئے ارشاد فرمایا ہے ۔ کہ ہم نے کتاب مبین کو عربی میں اس لئے نازل فرمایا ہے ۔ تاکہ لوگ اس کے پیش کردہ معارف سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرسکو ۔ اور اچھی طرح سمجھ سکو ۔ یہ اللہ کے ہاں نہایت بلند پایہ اور پر از حکمت کتاب ہے *۔ الزخرف
3 الزخرف
4 الزخرف
5 آیت 4۔7: حل لغات :۔ بطشا ۔ سخت گرفت ۔ پکڑ *۔ ف 2: یعنی بعض اس وجہ سے کہ تم لوگ حداعتدال سے آگے بڑھ چکے ہو ہم تم سے تعرض کرنا چھوڑ دیں ۔ عذاب نہ بھیجیں اور تم کو ہلاک نہ کریں یاد رکھو ۔ تم سے پہلے بھی قوموں میں انبیاء آئے ہیں *۔ اور ان کو بھی سمجھنے اور سوچنے کی پوری پوری مہلت دی گئی ہے ۔ پھر جب انہوں نے ان کو استہزا بنایا ۔ تو اللہ کی گرفت نے ان کو آلیا ؟ تم بھی یہی چاہتے ہو ؟ سو سن رکھو ۔ کہ یہ بات بھی دور نہیں ہے *۔ الزخرف
6 الزخرف
7 الزخرف
8 الزخرف
9 آیت 8۔11 یعنی یہ لوگ جہاں تک ان کی فطرت صالحہ کا تعلق ہے خدا کی توحید کے مقر اور معترف ہیں جب ان سے پوچھا جاتا ہے ۔ کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے ۔ تو صاف کہہ دیتے ہیں ۔ کہ خدائے عزیز وعلیم نے جس نے زمین کو فرش کی طرح پاؤں تلے بچھا رکھا ہے اور اس میں مختلف راہیں پیدا کی ہیں ۔ جس نے آسمان سے انداز کے ساتھ پانی اتارا ہے *۔ اور مردہ زمینوں کو اس سے زندگی بخشی ہے ؟ فرمایا ۔ اگر یہ حقیقت درست ہے ۔ تو پھر تمہیں حشر ونشر میں کیا شبہ ہے ؟ کیا وہ اسی طرح تمہیں دوبارہ زندہ کردینے پر قادر نہیں ؟ الزخرف
10 الزخرف
11 الزخرف
12 الزخرف
13 ایک چھوٹا سا مگر عظیم القدر سبق ف 1: اسلام میں ایک خصوصیت یہ ہے کہ اپنے ماننے والوں میں ایسی روح پھونکتا ہے ۔ کہ وہ کسی وقت بھی اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کریں ۔ ہر منزل اور ہر مقام میں اللہ کو یاد کریں ۔ اس کا نام لیں ۔ اور اس کے ذکر سے زبان کو حلاوت بخشیں ۔ چنانچہ فرمایا ۔ کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہو یا گھوڑے پر بیٹھو ۔ تو اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو ۔ اور زبان سے ان کلمات کا اظہار کرو ۔ سبحان الذی سخرلنا ھذا وما کنا لہ مقربین وانا ربنا منقلبون ۔ یعنی وہ خدا شرک کی آلودگی سے پاک ہے ۔ جس نے ان سرکش قوموں کو ہمارے مسخر کردیا ہے ۔ حالانکہ ہم ان کو اپنے قابو میں نہیں کرسکتے تھے ۔ اور بالآخر ہم سب لوگوں کو اس کے حضور میں جانا ہے ۔ یہ چھوٹا ساسبق کتنا عظیم الشان سبق ہے ۔ اس سے ایک طرف تو انسان میں احسان منت پیدا ہوتا ہے ۔ کہ ہمارا خدا ہمارے لئے کس درجہ شفیق ہے ۔ اس نے ہمارے آرام اور ہماری سہولتوں کے لئے طرح طرح کی سواریاں بنائی ہیں ۔ اور دوسری طرف تفاخر وغرور کا جذبہ مٹ جاتا ہے ۔ جب کہ وہ عین مسرت کے وقت یہ کہتا ہے کہ بالآخر ہمیں اس کے پاس جانا ہے اس لئے ضروری ہے ۔ کہ تیاری کریں ۔ اور اپنے میں وہ قابلیت پیدا کریں ۔ جو ہم کو اس کے سامنے پیش ہونے کے لائق بنادے *۔ الزخرف
14 الزخرف
15 الزخرف
16 الزخرف
17 الزخرف
18 اللہ کی بٹیاں نہیں ہیں ف 1: مکے والوں میں کچھ لوگ ایسے تھے ۔ جو حمق وجہالت کی وجہ سے فرشتوں کو کہتے تھے ۔ کہ اللہ کی بیٹیاں ہیں ۔ ان آیات میں اس مسلک کی تردید فرمائی ہے ۔ ارشاد ہے : کہ یہ اللہ کی کس درجہ ناشکر گزاری ہے ۔ اور یہ کس درجہ غلط اتہام ہے ۔ کیا تم لوگ بچیوں کے انتساب سے خوش ہوتے ہو ۔ تمہاری حالت تو یہ ہے ۔ کہ اگر تم یہ سن لو ۔ کہ تمہارے ہاں لڑکی توالد ہوئی ہے تو تمہارا چہرہ مارے غصہ کے سیاہ پڑجاتا ہے اور تم اس وقت اپنے جذبات غیظ وغضب کو چھپا نہیں سکتے ہو ۔ پھر جب تمہارے نزدیک ان کا انتساب عمدہ اور قابل تعریف نہیں ہے ۔ تو پھر میری جانب ان کو منسوب کرنے کے کیا معنی ہیں ؟ کیا میں ان کمزور اور ناتوان عورتوں کو اپنی بیٹیاں بناؤں گا ۔ جو بناؤ سنگار کی خواہش میں پلتی اور جوان ہوتی ہیں ۔ اور جن میں یہ استعداد بھی نہیں ہوتی کہ کھل کر بات چیت بھی کرسکیں ۔ غرض یہ ہے ۔ کہ اگر میرے اولاد ہوتی تو تمہارے معتقدات کے مطابق اولاد ذکور ہونا چاہیے تھی ۔ کیونکہ عورتوں کو تم قدرومنزلت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ہو ۔ ان آیتوں سے غرض یہ نہیں ۔ اور ان کا احتساب باپ کے لئے وجہ رسوائی ہے ۔ بلکہ ان کے طرز عمل کے تضاد کی طرف اشارہ مقصود ہے ۔ اور یہ بتایا ہے کہ یہ کیا تماشا ہے ۔ کہ ایک طرف تو تم ان کو ذلیل سمجھتے ہو ۔ اور دوسری جانب ان کی پوجا کرتے ہو ۔ اور ان کو خدا کی جانب منسوب کرتے ہو ۔ کیا یہ عقیدہ اور عمل کا قضاء تمہارے لئے قابل غور نہیں ہے *۔ اومن تبسوف الحینۃ کہہ کر حقیقت واقعی کے مقصود کا اظہار کیا ہے ۔ کہ عورتوں کو زیورات کابہت زیادہ شوق ہوتا ہے اور بےچاری اظہار جذبات پر قادر نہیں ہوتیں ۔ اس لئے ان کا خدا کی بیٹیاں ہونا ۔ تو اور بھی بعیداز عقل ہے *۔ حل لغات :۔ الخصام ۔ جھگڑا ۔ بحث ومباحثہ *۔ الزخرف
19 قدامت پرستی ف 1: مکہ والوں میں ایک بہت بڑا نقص یہ تھا کہ ان میں جمود تقلید کا مرض عام ہوچکا تھا ۔ اس سے غوروفکر کی تمام صلاحتیں چھن چکی تھیں ۔ ان کے ذہن مفلوج تھے اور ان کے سامنے اسلام کے حقائق لامعہ پیش کئے گئے ۔ تو انہیں محض اس لئے مان لینے میں قائل ہوا کہ ان کے آبائی علم ان کی تائید تمہیں کرتے تھے ۔ کہ ہم تو باپ دادا کے مسلک پر قائم رہینگے ۔ اور قطعاً یہ جرات نہیں کرینگے ۔ کہ ان آگے بڑھنے کی کوشش کرینگے گویا ان کے نزدیک یہ کا برحق وصداقت کا مجموعہ تھے ۔ اور ذہنی وفکری ارتقاء کا ایسا کامل نمونہ تھے کہ ان کی مخالفت عقل وخرد کی مخالفت کرنا تھا ۔ ان کے سامنے ہزار دلائل پیش کئے جاتے ۔ قرآن پڑھ کر سنایا جاتا ۔ معجزات خوارق دکھائے جاتے مگر وہ یہی کہے جاتے ۔ کہ یہ سب کچھ درست ہے کہ ہم کیا کریں ۔ کہ ہمارے اجداد ان باتوں کے قائل نہیں تھے ۔ حالانکہ محض قدامت پرستی کوئی معقول دلیل نہیں ۔ بلکہ اس کے برعکس اس بات کی دلیل ہے ۔ کہ اس کو ٹھکرادیا جائے ۔ اور بہتر قسم کی زندگی اختیار کی جائے ۔ یا بیش قیمت اجزا سے مرکب غذا یقینا پھینک دیا جاتا ہے ۔ جب کپڑا گہنہ اور اور بیگانہ ہوجائے ۔ تو اسے ایسی سیدردی سے اتار کر پھینک دیا جاتا ہے اور قطعاً خیال نہیں کیا جاتا ۔ کہ کتنے دنوں اس لباس نے ہمارا ساتھ دیا ہے ۔ اسی طرح کہنہ اور بوسید خیالات ناکارہ اور متعفن ہوجاتے ہیں ۔ تو چونکہ یہ ذہن کو خوراک اور لباس ہوتے ہیں ۔ اس لئے جس قدر جلدی ہوسکے ان سے علیحدگی اختیار کرلینی چاہیے ۔ اور نئے اور تازہ افکار کو قبول کرلینا چاہیے ۔ ہاں یہ درست ہے کہ صداقت کبھی کہنہ نہیں ہوتی ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صادقت کا ظن کہنہ ہونے پر اور نکھرتا ہے ۔ اس لئے اصل معیار کسی چیز کا پرانا اور نیا ہونا نہیں ہے ۔ بلکہ اس کی مقبولیت پر ہے *۔ الزخرف
20 حل لغات :۔ یخرصون : خوص سے ہے ۔ یعنی اٹکل سے اندازہ کرنا * اثارھم ۔ نقوش قدم * مترفوھا ۔ سرمایہ دار ۔ آسودہ حال لوگ *۔ الزخرف
21 الزخرف
22 الزخرف
23 اس حقیقت کا اظہار فرمایا ہے ۔ کہ ابتداء میں دین کی مخالفت ان لوگوں کی طرف سے ہوتی ہے ۔ جو طبقہ امراء سے تعلق رکھتے ہیں *۔ الزخرف
24 ف 1: یعنی ابتداء سے لوگ اس درجہ قدامت پسند رہے ہیں کہ ہرچند ان کے انبیاء نے انہیں یقین دلایا ۔ کہ ہم جو چیز تمہارے سامنے پیش کررہے ہیں ۔ وہ تمہارے قدماء کے پیش کردہ چیزوں سے بہتر ہے ۔ مگر انہوں نے یہی جواب دیا ۔ کہ ہمیں یہ منظور نہیں *۔ الزخرف
25 ف 2: ان کی اس سرکشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ لوگ صفحہ ہستی سے مٹ گئے ۔ اور قدامت پرستی کے عمیق غاروں میں مدفون ہوگئے *۔ الزخرف
26 الزخرف
27 الزخرف
28 آیت 26 ۔ 28: ف 3: ان آیات میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے مواعظ کا تذکرہ ہے ۔ کہ کیونکر انہوں نے اپنی مشرکانہ امثال وعواطف رکھنے والی قوم کی دلیرانہ مخالفت کی ۔ اور علی االاعلان اللہ کی توحید کو پیش کیا *۔ حل لغات :۔ عقبہ ۔ اولاد *۔ الزخرف
29 الزخرف
30 الزخرف
31 الزخرف
32 نبوت خدا کی دین ہے ف 1: مکے والوں کو اس بات کی بہت جلن تھی ۔ کہ نبوت اور رسالت کے لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیوں منتخب کیا گیا ۔ حالانکہ مال ودولت اور دنیوی وجاہت وعظمت کے لحاظ سے ہم زیادہ استحقاق رکھتے تھے ۔ چاہیے تو یہ تھا ۔ کہ مکے اور طائف میں جو آدمی زیادہ وجیہہ اور زیادہ دنیوی مسرتوں کا حامل نظر آتا ۔ اس کے سر پر تاج نبوت رکھدیا جاتا ۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ۔ کہ ایک یتیم اور بےکس انسان کو اس عہدہ جلیلہ کے لئے کیوں چن لیا گیا ہے ؟ جس کے پاس دولت ہے نہ اعوان وانصار اور نہ وہ بڑے بڑے لوگوں کی صف میں شمار ہونے کے لائق ہے ۔ ارشاد فرمایا ۔ کہ نبوت اللہ کا انعام ہے اور ایک نوع کے بخشش اور دین ہے ۔ تم حسد کیوں کرتے ہو ۔ وہ جس کو چاہے اس منصب پر فائز کردے ۔ اور جس کو چاہے محروم رکھے ۔ یہ تمام اختیارات اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں ۔ جس طرح دنیا کے انعامات میں تفاوت ہے ۔ کوئی اہل ودولت کے انبار اپنے قبضہ میں رکھتا ہے اور کوئی نان شبینہ کا محتاج ہے اسی طرح ان بخششوں میں جس کا تعلق اقلیم روحانیت سے ہے ۔ تغاوت ہے کہ کچھ لوگ تو اس درجہ سعادتمند ہیں کہ ان کو اللہ تعالیٰ سے مکالمہ اور گفتگو کا شرف حاصل ہے ۔ اور کچھ ایسے بدبخت اور محرومان ازلی ہیں کہ ان کے دامن میں سوائے کفر وحسد کے اور کچھ نہیں کائنات کا نظام اسی تنوع اور اختلاف پر قائم ہے ۔ ہاں یہ درست ہے کہ اس انتخاب کے لئے بھی کچھ معیار ہے اور ان معیاروں سے تم آگاہ نہیں ہو ۔ جس شخص کو تم حقیر سمجھتے ہو یہ ضرور نہیں کہ وہ اللہ کی نظروں میں بھی حقیر ہو ۔ بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی مال ودولت پر فخر کررہے ہو ۔ وہ مال اس کے قدم چومے گا ۔ اور وہ اس کو کوئی اہمیت نہیں دے گا ۔ اپنے رفقاء اور دوستوں پر تمہیں ناز ہے ۔ مگر اس کے صحابہ خدائیت اور قربانی میں حیرت انگیز ابواب کا اضافہ کریں گے ۔ اور تاریخ ان کی مانند مخلص احباب پیدا نہیں کرسکے گی ۔ تمہیں اپنے اثرورسوخ پر غرہ ہے مگر جانتے ہو کہ مستقبل قریب میں اس کا قبضہ دلوں پر اور دلوں کی گہرائیوں پر ہوگا ۔ اور کروڑوں نفوس اس کے ساتھ عقیدت رکھنے کو مدار نجات قرار دینگے *۔ حل لغات :۔ سخریا ۔ محکوم *۔ الزخرف
33 ف 1: ارشاد فرمایا : تمہارے نزدیک سونے اور چاندی کی بڑی قدرومنزلت ہے ۔ اور تم ان چیزوں کو معیار عظمت قرار دیتے ہو ۔ مگر ہم اس کو نہایت حقیر جانتے ہیں ۔ اگر یہ خدشہ نہ ہوتا کہ کمزور عقل ودین والے ابتلاء اور آزمائش میں گرفتار ہوجائیں گے ۔ اور اپنے لئے کفر کو اختیار کرلیں گے ۔ تو ہم یہ ساری دولت اپنے دشمنوں کو دے دیتے ۔ ان کے گھرچاندی اور سونے کے ہوتے ۔ گھروں کی چھتیں چاندی اور سونے کی ہوتیں ۔ دروازے اور سیڑھیاں اور استعمال میں آنے کی تمام چیزیں چاندی اور سونے کی ہوتیں ۔ اور بحیثیت مجموعی ان کی زندگی بڑی آرائش اور ٹھاٹ کی ہوتی ۔ ہم اس متاع کو متاع غرور سمجھتے ہیں اور ہمارے پاکباز سندے بھی ان اشیاء کو کوئی وقعت نہیں دیتے ۔ ان کے نزدیک آخرت زیادہ قابل اعتنا اور بیش قیمت ہے *۔ حل لغات :۔ زخرقا ۔ سونا * نقیص ۔ مقرر کردیتے ہیں *۔ الزخرف
34 الزخرف
35 الزخرف
36 الزخرف
37 الزخرف
38 الزخرف
39 الزخرف
40 الزخرف
41 یہ بہرے اور اندھے ہیں ف 1: یعنی ہرچند ان لوگوں کو اسلام کے معارف وحقائق سے آگاہ کیا گیا ہے مگر یہ ہیں کہ ان میں پذیرائی اور قبولیت کی قطعاً استعداد موجود نہیں ہے ۔ یہ کانوں کے بہرے ہیں ۔ کلمہ حق کو سننا ہی نہیں چاہتے ۔ آنکھوں سے اندھے ہیں ۔ مظاہر صدق وصفا اور خوارق ومعجزات کو دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں ۔ اس صورت میں اور گمراہی کی اس منزل میں آپ کا سمجھانا بالکل بےکار اور خبث ہے ۔ جب قومیں اس درجہ پست اور ذلیل ہوجائیں ۔ کہ سچائی کو قبول کرنا ان کے لئے موجب تنگ ہو ۔ تو پھر بہترین سزا قدرت کی طرف سے یہ ہوتی ہے ۔ کہ ان کو مٹا دیا جائے ۔ چنانچہ ان لوگوں کو اللہ کی شدید ترین سزا کے لئے ہر لحظہ تیار رہنا چاہیے ۔ اور جاننا چاہیے ۔ کہ اب وقت آگیا ہے ۔ کہ یہ ذلت ورسوائی سے دو چار ہوں ۔ یہ لوگ اس دنیا میں تمہارے سامنے بھی محسوس کریں گے ۔ کہ ہم سے اللہ تعالیٰ ناراض ہیں ۔ اور آپ کے بعد آخرت میں بھی محسوس کریں گے ۔ کہ ہم عذاب الیم میں گرفتار ہیں ۔ آپ بہرحال نہایت استقلال اور عزمیت کے ساتھ اللہ کے احکام کو پہنچاتے رہیے ۔ اور یہ یقین رکھیئے ۔ کہ اللہ کی جانب سے آپ صراط مستقیم پر گامزن ہیں ۔ ان لوگوں کی قسمت میں اگر یہ نہیں ہے ۔ کہ یہ اس نورہدایت سے اکتساب کریں ۔ تو قوم میں اور بہت سی بعیدوں میں ہیں ۔ جو اس کو تسلیم کرلینے کے لئے بےقرار ہیں *۔ غرض یہ ہے کہ جب آدمی خدائے رحمن سے تعلقات عبودیت کو منقطع کرلیتا ہے ۔ تو پھر خود بخود شیطان کے چنگل میں پھنس جاتا ہے ۔ اور اپنی زندگی کو برباد کرلیتا ہے ۔ اس کے دل پر غفلت اور تساہل کے پڑے پڑجاتے ہیں ۔ اور روحانی احساسات یکقلم مردہ ہوجاتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے ۔ کہ پھر نیکی کی باتوں سے اس کے دل میں نفرت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور برائی مرغوب ہوجاتی ہے * الصم ۔ اسم کی جمع ہے ۔ بمعنے بہرے * عمی اعمی کی جمع ہے ۔ یعنی اندھے *۔ حل لغات :۔ قرین ۔ ساتھی ۔ ہمنشین *۔ الزخرف
42 الزخرف
43 الزخرف
44 الزخرف
45 کیا ایک خدا ساری دنیا کا مالک ہے ف 1: ان لوگوں کے لئے جو تعلیم سب سے زیادہ ناقابل قبول تھی ۔ وہ یہ تھی ۔ کہ ایک خدا کی پرستش کرنا چاہیے ۔ اور صرف اسی کی چوکھٹ پر جھکنا چاہیے ۔ یہ لوگ کہتے تھے ۔ کہ ہم کیونکر اپنے آباء و اجداد کی تقلید چھوڑدیں ۔ اور اپنے معبودان باطل ترک کردیں ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پرانے عقائد سے دست بردار ہوجائیں ۔ اور یکہ وتنہا خدا کو ساری دنیا کا مالک قراردے لیں ۔ فرمایا ۔ یہ توحید کا عقیدہ کوئی نادر اور انوکھا عقیدہ نہیں ہے ۔ بڑا پرانا عقیدہ ہے ۔ تمام انبیاء اسی کی تبلیغ اور اشاعت کے لئے آئے ہیں ۔ سب کی زندگی کا مقصد یہی رہا ہے ۔ کہ مولا سے بھٹکے ہوئے انسانوں کو مولا کے آستانہ جلال پر لاکھڑا کریں ۔ اس لئے اگر تمہیں قدامت ہی سے محبت ہے ۔ جب بھی پرانا عقیدہ یہی توحید ہے ، تمکو بلاتامل اس کو قبول کرلینا چاہیے *۔ الزخرف
46 الزخرف
47 ف 2: ان آیات میں یہ بتایا ہے کہ صرف تم لوگ ہی حق وصداقت کے منکر نہیں ہو ۔ تم سے پہلے لوگوں نے بھی بڑی سرکشی اور تمرد کا اظہار کیا ہے ۔ اور پھر اللہ نے ان کو صفحہ ہستی سے مٹادیا ہے *۔ فرعون کو اور اس کے بڑے بڑے سرداروں کو دیکھو جب حضرت موسیٰ تشریف لائے ۔ اور انہوں نے ان کو اللہ کا پیغام سنایا ۔ تو وہ ازراہ تحقیر ہنسنے لگے ۔ انہوں نے معجزات دکھائے ۔ تو ان کو بھادو اور سحر سے تعبیر کرنے لگے ۔ اس پر اللہ کی غیرت جوش میں آئی اور یہ خدا کے غضب وغصہ کا شکار ہوگئے *۔ حل لغات :۔ یضحکون ۔ خندہ وتحقیر مراد ہے *۔ الزخرف
48 الزخرف
49 الزخرف
50 الزخرف
51 یہ پرانا اعتراض ہے ف 1: مکے والوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ اعتراض کیا تھا ۔ کہ یہ امیر اور بڑا آدمی نہیں ہے ۔ اس لئے ہم ایسے صاحب دولت وثروت لوگ کیونکر اس کی اطاعت کرسکتے ہیں ۔ اس کا جواب دیا ہے ۔ کہ یہ اعتراض انبیاء کے باب میں بہت پرانا ہے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) جب تشریف لائے اور فرعون کو ایمان کی دعوت دی ۔ تو اس نے بھی یہی کہا تھا ۔ کہ میں ارض مصر کا بادشاہ ہوں ۔ جس میں نہریں رواں ہیں ۔ میں اس سے بہتر ہوں ۔ اور یہ میرے مقابلہ میں کہیں کم حیثیت ہے *۔ حل لغات :۔ مھین ۔ ضعیف ۔ ذلیل ۔ کم حیثیت * الزخرف
52 الزخرف
53 ف 1: اس کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن ہیں ۔ اور نہ یہ اتنا روحانیت میں بلندپرداز اور خدا کے ہاں مقبول ہے ۔ کہ اس کے آگے پیچھے فرشتے کھڑے نظر آتے ہوں ۔ قوم نے فرعون کے اس طرز استدلال کی تائید کی ۔ اور موسیٰ کی تعلیمات سے انکار کردیا ۔ نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ باوصف اس نے سروسامانی دنیا کے حضرت موسیٰ کو سارے بنی اسرائیل کا قائد قرار دیا گیا ۔ اور اس کی زندگی کو ان کے لائق متبع اور اطاعت بنایا گیا ۔ اور یہ فرعون اپنی مغرور قوم سمیت دریا میں غرق ہوگیا ۔ آج وہ موسیٰ بنی اسرائیل کی شکل میں اور اپنی تعلیمات کی شکل میں زندہ ہے ۔ جو دنیوی وجاہتوں سے محروم تھا ۔ اور وہ فرعون جس کے سونے کے کنگن تھے ۔ جو شاندار محلوں میں رہتا تھا ۔ مردہ ہے *۔ لایکادیبین سے مراد یا تو یہ ہے ۔ کہ موسیٰ اپنے دعادی کو واضح طور پر بیان نہیں کرتا ۔ اور یہ نہیں بتلاتا ۔ کہ آخر اس کی غرض وغابت کیا ہے ؟ کیا وہ مصر کا بادشاہ بننا چاہتا ہے ؟ قیادت وسیادت کا خواہاں ہے یا مال ودولت کا طالب ہے ؟ اور کیا نبی اسرائیل کا روحانی مقتدا بننا چاہتا ہے ۔ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ فرعون کے سامنے حضرت موسیٰ بچپن کے زمانے میں ہکلاتے تھے ۔ تو اس کو یہ خیال ہوا ۔ کہ شاید اب تک ان میں یہ مرض موجود ہے ۔ حالانکہ انہوں نے اللہ سے دعا مانگی تھی ۔ واحلل عقدۃ من نسانی کہ اے اللہ میری زبان کی گرہ کھول دے اور اللہ نے فرمایا تھا قد اوتیت سولک یا موسیٰ اے موسیٰ تیری دعا قبول ہے ۔ کیونکہ منصب نبوت کے لئے یہ ضروری ہے کہ فصاحت لسانی سے بہرہ وافر حاصل ہو ۔ اور پیغمبر اپنے زمانے کا بہترین خطیب ہو *۔ الزخرف
54 الزخرف
55 الزخرف
56 الزخرف
57 ف 2: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جب قرآن کی آیتوں میں حضرت مسیح کا ذکر کیا ۔ تو مکہ والے یہ سمجھے کہ شاید ان کا مطلب یہ ہے کہ مسیح کی طرح ان کی بھی پوجا ہو ۔ اس خیال سے انہوں نے کہا ۔ کہ ہمارے معبود تو بہرحال محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بہتر ہیں ۔ کیوں نہ ان کی پرستش کی جائے اس کے جواب میں فرمایا تمہیں محض غلط فہمی ہوئی ہے ۔ اور یہ محض دھوکا ہے ۔ ہمارے نزدیک تو مسیح ہمارے بندے تھے ۔ جن کو ہم نے نبوت کے انعام سے نوازا تھا ۔ اور بنی اسرائیل کے لئے مقتدا قرار دیا جاتا تھا ۔ اور اس مقام عبودیت کی تشریح وتوضیح کے لئے انکار مذکور ہوا تھا ۔ یہ مقصد نہ تھا کہ تم خواہ مخواہ اس کو غلط معنے پہنچاؤ*۔ حل لغات :۔ اسورۃ ۔ سونے کے کنگن ۔ یہ امارت وتمول کی نشانی تھی * انتقمنا ۔ ہم نے سزا دی ۔ مقام سے ہے جس کے معنے عربی میں ہیں * یصدون ۔ اظہار مسرت کرنے لگے ۔ چلانے لگے *۔ الزخرف
58 الزخرف
59 الزخرف
60 الزخرف
61 حضرت مسیح کی دوبارہ آمد ف 1: اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔ کہ حضرت مسیح قریب قیامت میں تشریف لائیں گے ۔ اور ان کی یہ تشریف آوری قیامت کی شروط میں سے ہے ۔ اس لئے تم لوگ اس میں مطلقاً شک نہ کرو ۔ یہی صراط مستقیم ہے ۔ اور یاد رکھو ۔ کہ شیطان عقل وخرد تم کو اس عقیدے سے باز رکھنے کی کوشش کریگا اور کہے گا ۔ کہ یہ کیونکر ممکن ہے ۔ کہ حضرت مسیح دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں ۔ اور قیامت کے علائم میں سے ہوں تمہیں یہ سمجھنا چاہیے ۔ کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اور اس کی باتیں محض تمہیں گمراہ کرنے کے لئے ہیں اس لئے ان پر اعتماد نہ کرو *۔ یہ واضح رہے کہ جن لوگوں کی نظریں اس وقت یورپ والوں پر ہیں ۔ اور یہ محسوس کررہے ہیں ۔ کہ اس وقت امین عالم کے لئے انکا وجود زبردشت خطرہ ہے اور یہی لوگ ہیں جو مادیت سے مسلح ہوکر مذہب کے قلعوں پر حملہ آور ہیں ۔ اور آج ان کی وجہ سے روحانیت کے تمام نظرئیے پامال ہورہے ہیں ۔ ان کے نزدیک ضرورت ہے ، حضرت مسیح کی جو دنیا میں آکر اپنی است کے ان لوگوں کو بتلائیں ۔ کہ حرص وآز کی تکمیل اور جسم وقالب کی آرئش وتزئین ہی منتہائے کمال نہیں ۔ وہ آئین اور تمدن کے اس ہلاکت آفرین پہلو کو بکقلم بدل دیں ۔ اور یورپ کو روحانیت سے معمور کردیں ۔ آج یہ سفید فام قومیں گمراہی میں اتنی دور نکل گئی ہیں ۔ کہ ان کو پھر سے واپس لانا عام انسانوں کے بس میں نہیں ہے حالات کا تقاضا اور زمانے کے داعیات یہ ہیں ۔ کہ کوئی زبردست روحانی شخصیت مبعوث ہو اور وہ دنیا میں ایک زبردست انقلاب پیدا کردے ۔ جس کی وجہ سے انسانیت اپنی کھوئی ہوئی سعادتوں کو دوبارہ حاصل کرلے *۔ الزخرف
62 الزخرف
63 ف 2: ان آیات میں حضرت مسیح کی پہلی بعثت کا ذکر ہے ۔ کہ جب یہ تشریف لائے اور انہوں نے کہا ۔ کہ میں آیات وبراہین کے ساتھ آیا ہوں ۔ تاکہ تمہیں زندگی کے حکیمانہ نکات سے آگاہ کروں اور دین ومذہب کے نام سے جو تم نے اختلافات پیدا کررکھے ہیں ان کو مٹادوں ۔ اور تقویٰ واطاعت کے جذبات سے تم میں ترقی کی روح پھونک دوں ۔ دیکھو اللہ ایک ہے ۔ وہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے ۔ اس کی عبادت سے منہ نہ موڑو ۔ اس تک پہنچنے کی سیدھی راہ یہی ہے ۔ کہ توحید کے اسراء سے واقفیت حاصل کرو ۔ اور اپنے سر کو جبرا اس کے آشانہ جلال وقدس کے اور کسی کے سامنے نہ جھکاؤ*۔ ان کی قوم نے یہ باتیں سنیں ۔ اور جب دستور ان کو کوئی اہمیت نہ دی ۔ انکار و تمرد کو شیوہ بنالیا ۔ اور مسیح کی جان کے لاگو بن گئے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ یہ لوگ ظالم ہیں ۔ اور عذاب الیم کے مستحق ہیں ۔ یعنی قیامت میں لوگوں کی یہ حالت ہوگی ۔ کہ ہر نوع کے باہمی تعلقات مودت وعقیدت منقطع ہوجائیں گے ۔ بلکہ یہ ایک دوسری کی مخالفت کرینگے ۔ سوائے مومنین کے ان کے دل جس طرح دنیا میں حسد وبغض کے جذبات سے پاک تھے ۔ یہاں بھی پاک رہیں گے ۔ ان کے لئے جنت میں ہر طرح کی آسودگی مہیا ہوگی ۔ اور ان کو کسی قسم کا خوف اور غم نہ ہوگا *۔ حل لغات :۔ الشیطن ۔ یعنی گمراہ کن شخص *۔ الزخرف
64 الزخرف
65 الزخرف
66 الزخرف
67 الزخرف
68 الزخرف
69 الزخرف
70 جنت اسلامی نقطہ نگاہ سے ف 1: اسلامی نقطہ نگاہ سے جنت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ زندگی کا کامل اور جامع ترین مفہوم رہے ۔ جہاں نفس کی تمام خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے جہاں وہ سب کچھ مہیا ہے ۔ جس کے حصول کے لئے انسان دنیا میں تگ ودو کرتا ہے جہاں غم واندوہ اور احتیاج نہیں ہوتی ہے ۔ جہاں مسرت واجتہاج کے سوتے پھوٹتے ہیں ۔ اور تسکین وثانیت کی نہریں رواں ہیں ۔ جہاں مادہ اپنی پوری زیبائش کے ساتھ موجود ہے ۔ اور روح اپنی ساری آرائش کے ساتھ جلوہ گر ۔ جہاں انسان باہم دشمن نہیں ہوتے ۔ جہاں پورا امن وسکون ہوتا ہے ۔ اور اللہ کا قرب اور اس کی حضوری میسر ہوتی ہے ۔ جہاں فر لمحہ اور ہر آن اس کے جلوہ ہائے گوناگوں نظر اور فکر کو نزہت بخشتے ہیں ۔ اور جہاں انسان کو ظاہر وباطن کے لحاظ سے شادابیاں عطا ہوتی ہیں * حل لغات :۔ الاحزاب ۔ گروہ ۔ حزب کی جمع ہے * باختہ ۔ اچانک ۔ خلاف توقع ۔ ناگاہ * محاف ۔ طبق ۔ بڑا پیالہ ۔ ملحقۃ مفرد ہے * اکواب ۔ آنجورہ ۔ کوب کی جمع ہے * وتلدالاعین ۔ اور آنکھیں مطف اندوز ہونگی *۔ الزخرف
71 الزخرف
72 ف 1: جنت کے معنے اللہ کے مقام رضا کے ہیں ۔ اور جب وہ خوش ہوجائے ۔ جو آسمانوں اور زمینوں کا رب اور مالک ہے ۔ جس کے خزانے بےشمار معمور ہیں جو بمجرد اپنے ارادے کے ہزار در ہزار عوالم پیدا کرسکتا ہے ۔ تو پھر خوشیوں اور مسرتوں کا احاطہ کیونکر کیا جاسکتا ہے ۔ یہ کھانے پینے کی چیزیں محض اس لئے ہیں ۔ کہ وہاں کی زندگی کا کچھ اندازاہ کرسکو ۔ ورنہ یہ ظاہر ہے ۔ کہ وہاں وہ بوقلمون نعمتیں ہیں ۔ کہ جن کو دنیا کی زبانوں میں ادا نہیں کیا جاسکتا ۔ اور وہ مسرتیں ہیں ۔ جن کی تعبیر کے لئے الفاظ میسر نہیں ۔ بس یوں سمجھ لیجئے ۔ اس وقت وہ خوش ہوگا ۔ جو ساری کائنات کا پروردگار ہے الزخرف
73 الزخرف
74 ف 2: یہ جہنم ہے جو اللہ کے مقام غضب وغصہ کا مظہر ہے ۔ یہاں تکلیف ہے ۔ دکھ ہے ، سزا ہے ۔ توہیں ہے ۔ اور زندگی کا وہ مفہوم ہے ۔ جو نہایت اذیت دہ ہوتا ہے ۔ اور یہ نتیجہ ہے ، بدعملی کا ، فسق وفجور کا ، ناشکرگزاری کا اور نافرمانی اور معصیت کا *۔ حل لغات :۔ فاکھۃ ۔ وہ کھانا جو بطور نقل کے کمایا جائے ۔ پھل میوہ وغیرہ * یبلسون ۔ ابلاس سے ہے یعنی مانوس * لملک ۔ فرشتہ جہنم سے مخاطب ہے *۔ الزخرف
75 الزخرف
76 الزخرف
77 الزخرف
78 الزخرف
79 الزخرف
80 الزخرف
81 ف 1: ان لوگوں سے خطاب ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ کی جلالت قدر سے آگاہ نہیں ہیں ۔ اور اس کے لئے اولاد کو ثابت کرتے ہیں ۔ فرمایا : یہ بالکل غلط عقیدہ ہے ۔ آپ ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اگر اللہ کے کوئی بیٹا ہوتا ۔ تو ہمیں انکار کرنے سے کیا ملتا ۔ آپ لوگ دیکھتے ۔ کہ ہم سب سے پہلے اس کی پوجا اور پرستش کرتے ۔ کیونکہ ہمیں جب اس سے محبت ہے ۔ تو ان لوگوں سے بھی قدرتاً محبت ہوتی ۔ اور جو اس کے عزیز اور رشتہ دار ہوتے ۔ مگر واقعہ یہ ہے ۔ کہ اس کی ذات ہر نوع کے شرک سے پاک اور بلند ہے ۔ اس کا کوئی رشتہ دار نہیں ۔ وہ مجرد اور بسیط حقیقت ہے ۔ آسمان کی بلندیوں سے لے کر زمین کی پستیوں تک ہر چیز اس کے تابع اور مسخر ہے ۔ وہ عرش بریں کا مالک ہے ۔ اس کو کسی نوع کی احتیاج اور ضرورت نہیں ۔ یہ لوگ اس قسم کے خیالات کا اظہار کرکے اس کے حضور میں گستاخی کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے ۔ کہ وہ اس سرکشی کی سخت سزا پائیں گے *۔ حل لغات :۔ العبدین ۔ عبادت کرنے والے اور عبد کے معنے انکار کرنے کے بھی ہوتے ہیں ۔ اس صورت میں آیت کا ترجمہ یہ ہوگا ۔ کہ اگر اللہ کے کوئی بیٹا ہوتا ۔ تو ہم ایسے اللہ کا سب سے پہلے انکار کردیتے *۔ الزخرف
82 الزخرف
83 الزخرف
84 الزخرف
85 الزخرف
86 ف 1: یعنی جس خدا کی آسمانوں میں بھی پرستش ہوتی ہو اور زمین میں بھی ۔ جو سینے کے بھیدوں کو جانتا ہو ۔ جس کے ہر چیز تابع اور مسخر ہو ۔ جو کائنات کو تہ وبالا کردینے پر قادر ہو ۔ اور اس کے متعلق کامل معلومات بھی رکھتا ہو ۔ جس کے پاس سب چھوٹوں اور بڑوں کو جانا ہو ۔ اور اپنے اعمال کو محاسبہ کے لئے پیش کرتا ہو ۔ جس کے ہاں کسی کی سفارش نہ چلے ۔ بجز ان لوگوں کے جو اہل حق وصداقت ہی ۔ اور جن کو وہ خود اجازت دے گا ۔ اور جس کی وحدانیت کی گواہی فطرت انسانی دے ۔ اور پکار اٹھے ۔ کہ اس کے سوا اور کوئی کائنات کا خالق نہیں ہے اس کو اولاد کی بھلا کیا ضرورت ہے ؟ اور عزیز داری کی کون حاجت ؟ اس کی ذات کی بلندی اور رفعت کا تقاضا یہ ہے ۔ کہ یہ ہر چیز سے بےنیاز ہو ۔ اور اپنی صفات عالیہ میں کسی دوسری شخصیت کا شریک وسہیم نہ ہو ۔ غور تو فرمائیے جو ساری کائنات کا مالک اور آقا ہو ۔ اس کو بیٹیوں اور بیٹیوں کی کیا حاجت ؟ اس کی ذات خدا جلال کے سامنے سب حقیر اور عاجز ہیں اور اس کی صمدیت کے قائل اور معترف ہیں ۔ تو پھر کون ہے جو اپنے کو اس کا ہم کفو اور ہمسر کہہ سکے *۔ حل لغات :۔ وقل سلام ۔ یعنی ان لوگوں کی بےہودگیوں کے متعلق آپ کوئی اثر نہ لیں ۔ اور قطعاً ان سے بیزاری کا اعلان فرمادیں *۔ الزخرف
87 الزخرف
88 الزخرف
89 الزخرف
0 الدخان
1 الدخان
2 الدخان
3 جس طرح بیت اللہ کو تمام اماکن مقدسہ پر فضیلت حاصل ہے اس کے ساتھ کچھ انوار اور سعادتیں مختص ہیں اور کہیں نہیں پائی جاتیں ۔ پھر جس طرح شخصیتوں کے مراتب میں تفاوت ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہ مقام رفیع حاصل ہے ۔ جو ابد تک کسی انسان کی قسمت میں نہیں ہوسکتا اسی طرح کچھ دن اور کچھ راتیں ایسی ہیں ۔ جو بےحد برکات کی حامل ہیں ۔ ان میں لیلۃ القدر کا رتبہ سب سے زیادہ ہے ۔ یہ وہ مبارک رات ہے جس میں قرآن نازل ہوا ۔ اور انسانوں کو آخری پیغام رشدوہدایت دیا گیا ۔ جس میں انسانی فلاح وبہبود کا پورا انتظام ہے ۔ اور اس کے ارتقاء ارتفاع کے لئے ایک آخری پروگرام تجویز کیا گیا ۔ یہ وہ رات ہے جس میں کائنات کے لئے فرائض کو تفریض کہا جاتا ہے ۔ اور ہر امر مہم کے متعلق فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ اس میں فرشتوں کو بتایا جاتا ہے ۔ کہ ان کو سال بھر کے لئے کیا کیا کرنا ہے ! یہ رات عبادت وزاہد کی رات ہے ۔ اللہ سے کچھ مانگنے اور طلب کرنے کی رات ہے اس کے تعین میں اختلاف ہے جمہور کے نزدیک اس کا تعلق رمضان کے آخری عشرہ سے ہے بہتر تو یہ ہے ۔ کہ طالبان حقیقت لیلۃ القدر سارا عشرہ جاگیں ۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں ۔ تاکہ وہ غیر محسوس طریق سیاس رات کا پھل پائیں ۔ جو اس کے نزدیک اس درجہ اہمیت رکھتی ہے *۔ الدخان
4 الدخان
5 الدخان
6 الدخان
7 الدخان
8 ف 1: قرآن کا استدالال توحید کے متعلق یوں ہے کہ وہ خدا جو احیاواماتت پر قادر ہے ۔ جو زندگی کو موت سے بدل سکتا ہے ، اور موت کو زندگی کا لباس پہنا دیتا ہے ۔ وہی عبادت اور پرستش کے لائق ہے اور اسی کو تمہارے آباء علم پوجتے تھے ۔ آج تم کو جو اس کی ذات کے متعلق شکوک وشبہات ہیں ۔ تو وہ محض جہالت پر مبنی ہیں ۔ ورنہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے (جس کا) انکار ممکن ہی نہیں *۔ مادہ پرستوں کے پاس اس عقدہ کا جواب کوئی نہ تھا ۔ کہ عام میں زندگی کہاں سے آئی کیونکہ فی نفسہٖ اس چیز میں حیات کے کہیں عناصر نہیں ہیں ۔ یہ اپنے ہر مظہر میں اور اپنی ہر شکل میں بےجان ہے ۔ قرآن حکیم کہتا ہے ۔ کہ اگر اس مشکل کو حل کرنا چاہتے ہو ۔ تو اس پر نظریہ کو تسلیم کرلو ۔ کہ اس کارگاہ مادی کے پس پردہ ایک روح جلیل کار فرما ہے ۔ جس کے علم اور حکمت کی وجہ سے یہ نظام برقرار ہے ۔ چنانچہ آج مادئیں نے بالآخر اس نظریہ کو مان لیا ہے ۔ کہ مادہ میں جو شعور وادراک ترتیب اور تعین ہے یہ ایک غبر مفہوم قوت کی طرف سے ہے جو یحی اور یمیت کی مصداق ہے ۔ جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں ۔ مگر یہ نہیں معلوم کہ وہ کیا ہے *۔ حل لغات :۔ یغرق ۔ یعنی یہ طے کیا جاتا ہے ۔ یہ واضح رہے کہ جہاں تک علم ازلی کا تعلق ہے اس میں تو کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوتی ۔ اور وہ تو ہمیشہ سے بالکل یکساں حالت میں ہے البتہ اس کے ماتحت فرشتوں کو بتایا جاتا ہے ۔ کہ یوں انتظام وانصرام ہوگا ۔ تو اس میں ایک نوع کا تقرر وتعین ہوتا ہے ۔ جو ان کی سہولت اور آسانی کے لئے کیا جاتا ہے *۔ الدخان
9 الدخان
10 الدخان
11 دھوئیں کا عذاب ف 1: مکے والوں نے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغام توحید کو ٹھکرایا اور انتہائی تحقیر وتذلیل کے ساتھ آپ کا خیرمقدم کیا ۔ تو اس وقت آپ کی زبان الہام ترجمان سے یہ کلمات بےاختیار نکل گئے ۔ کہ اے اللہ ان لوگوں پر اس قحط کا عذاب نازل کر جو تونے یوسف کے زمانہ میں نازل کیا تھا ۔ بس ان الفاظ کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ سے نکلنا تھا ۔ کہ اجابت نے ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ آسمان نے رحمت کے دراوزوں کو ان پر بند کرلیا ۔ زمین میں خشک ہوگئی ۔ اور قحط وجوع نے قریش کو آزمائش میں ڈال دیا ۔ اس قدر فاقے ہونے لگے ۔ کہ بھوک کے مارے ان لوگوں کی آنکھوں کے سامنے دھواں سا معلوم ہونے لگا ۔ زندگی کے لئے یہ لوگ مجبور ہوگئے ۔ کہ مردار کھائیں ۔ اور کتوں کے گوشت تک کو نہ چھوڑیں ۔ جب صورت حالات یہ ہوگئی ۔ تو اس وقت انہوں نے یہ محسوس کیا ۔ کہ یہ عذاب ہے ۔ اور ہماری بغاوت اور سرکشی کا نتیجہ ہے اس وقت ان کو ندامت ہوئی ۔ اور انہوں نے درخواست کی ۔ کہ ہم پرسے عذاب دور کردیا جائے ۔ ہم حق وصداقت کو تسلیم کرلیں گے ۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایمان لے آئیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ کہ یہ تو ہم کو معلوم ہے ۔ کہ یہ عذاب سے اس وقت ضرور متاثر ہوں گے ۔ مگر پھر سر کشی اور تمردان میں غور کرآئے بہر آئینہ ہماری رحمت کا تقاضا ہے ۔ کہ عذاب ان پر سے دور کردیں گے دیکھیں کہ یہ کہاں تک اپنے عہد کی پاسداری کرتے ہیں *۔ ان آیات میں اسی پیشیگوئی کی طرف اشارہ ہے ۔ اور لطف یہ ہے کہ یہ آیتیں اس وقت نازل ہوئیں ۔ جب کہ یہ لوگ اپنے اولاد اور اپنی دولتمندی پر فخروغرور کا اظہار کررہے تھے ۔ کہ یہ اس طرح بھوک وافلاس سے دو چار ہوں گے *۔ حل لغات :۔ الذکری ۔ نصیحت پذیری * البطشۃ الکبریٰ۔ سخت پکڑ ۔ بہت بڑی گرفت ، یوم حساب سے تعبیر ہے * رھوا ۔ سکون کی حالت میں یعنی اپنی حالت پر * جند ۔ لشکر * عیون ۔ جمع عین ۔ چشمے * الدخان
12 الدخان
13 الدخان
14 الدخان
15 الدخان
16 الدخان
17 الدخان
18 الدخان
19 الدخان
20 الدخان
21 الدخان
22 الدخان
23 الدخان
24 الدخان
25 الدخان
26 الدخان
27 الدخان
28 الدخان
29 الدخان
30 الدخان
31 الدخان
32 الدخان
33 ایمان وکفر کی آویزش ف 1: ان آیات میں حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کا قصہ ہے ۔ کہ کیونکر ان کو فرعون ایسے ظالم ومستبد بادشاہ کے چنگل سے رہائی نصیب ہوئی ۔ اس کو پانی قوت پر ناز تھا ۔ اپنے عساکر اور فوجوں پر غرہ تھا ۔ اپنے قلعوں اور اونچے اونچے مجلوں پر فخر تھا ۔ یہ بات اس کے ذہن سے بہت دور تھی کہ غریب اور مفلس ومظلوم قوم کبھی اتنے عالی قدر بادشاہ کا مقابلہ کر پائے گی ۔ اور اس کی مخلصی کے سامان غیب سے مہیا ہوسکیں گے ۔ مگر اللہ کی طرف سے مقدر ہوچکا تھا ۔ کہ ایمان وکفر کا تصادم ہو ۔ افلاس اور تمول میں ٹھن جائے ۔ موسیٰ اور باجبروت وسطوت شخصیت میں معرکہ آرائی ہو ۔ اور فتح ہو ایمان کی ۔ کامیابی کا تاج رکھا جائے ۔ غریبوں اور مفلسوں کے سر پر اور کامرانی بخشی جائے ضعیف اور ناتوان موسیٰ کو ۔ چنانچہ ایک رات جب فرعون اور اس کے سپاہی آسودگی اور تنعم کی نیند میں سرمست تھے ۔ اللہ کی طرف سے حکم ملا ۔ کہ اب ارضا مصر سے چل نکلو ، تمہارا تعاقب کیا جائیگا ۔ اور بالآخر دشمن تمہارے سامنے دریا میں غرق ہوجائیگا ۔ چنانچہ بنی اسرائیل دریا کے پار ہوگئے ۔ اور دریا نے پایاب ہوکر ان کے لئے راستہ بنادیا *۔ لیکن جب فرعون کے لاؤ لشکر نے اس میں سے گزرنا چاہا ۔ تو دریا جوش میں آکر زوروں سے بہنے لگا ۔ عقل وخرد کے لئے یہ بات اب تک حیران کن ہے ۔ کہ دریا میں اس طرح کا انقلاب ہوگیا ۔ کہ وہ تھم گیا اور اس میں بنی اسرائیل کے استقبال اور خیر مقدم کے لئے جگہ بن گئی ۔ مگر ایمان اس کو یوں حل کرلیتا ہے ۔ کہ وہ خدا جس نے پتھروں میں سے پانی کے چشمے جاری کئے ہیں ۔ جس نے زمین میں سے سوتے پیدا کئے ۔ جس نے پانی کو یہ روانی بخشی ۔ اس میں یہ استطاعت بھی ہے ۔ کہ وہ دریا کو روک دے ۔ پانی کی روانی اس سے چھین لے ۔ اور اپنے بندوں کے لئے پانی میں آنے جانے کے لئے دروازے پیدا کردے ۔ وہ ان چیزوں کو نہایت آسانی کے ساتھ کرسکتا ہے ۔ وہ خود ہمہ قانون اور ضابطہ ہے ۔ وہ چاہے تو لوہے کی نہریں رواں کردے ۔ اور پانی میں پتھر ایسی صلاحیت پیدا کردے ۔ اور چاہے تو آسمان کی بلندیوں کو زمین کی پستیوں سے بدل دے ۔ اور فرش زمین کو عرش تک بلند کردے *۔ فرمایا ۔ یہ فرعون جب غرق ہوا ہے ۔ تو اس وقت نہ تو آسمان نے غم کا اظہار کیا ۔ اور نہ زمین روئی اور نہ ان کو مہلت دی گئی ۔ اس طرح ہم نے ان لوگوں کو کامل آزادی اور استقلال کی نعمت سے بہرہ مند کیا *۔ حال لغات :۔ فکھین ۔ لطف اندواز ہونے والے * الدخان
34 الدخان
35 الدخان
36 الدخان
37 الدخان
38 حل لغات :۔ بلوء ۔ آزمائش ۔ انعام *۔ ہم نے کائنات کو بلا مقصد نہیں پیدا کیا ف 1: مادیت کا نظریہ ہے ۔ کہ یہ کارگاہ حیات کا نتیجہ ہے ۔ محض بخت واخلاق کا اور مجازفۃ وتخمین کا ۔ یہ عالم حیات یونہی بلا کسی غرض اور غایت کے پیدا کردیا گیا ہے یا پیدا ہوگیا ہے ۔ اور اس کی تخلیق میں کسی اخلاقی ۔ نصب العین کو کوئی دخل نہیں ۔ قرآن حکیم اس نظریہ کی مخالفت کرتا ہے اور کہتا ہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو محض فعل عبث کے طور پر نہیں پیدا کیا ہے ۔ کہ اس کا کچھ مقصد بھی نہ ہو ۔ بلکہ ان کے بنانے میں حکمت ضرور ہے ۔ غرض یہ ہے ۔ کہ زندگی کی تکمیل ہو ۔ اور انسان کو مواقع دیئے جائیں ۔ کہ وہ آخرت کے لئے تیاری کرے ۔ اور اپنی روح میں اتنی قوت اور بالیدگی پیدا کرلے ۔ کہ اس کو اللہ کا قرب حاصل ہو ۔ اس ضمن میں یہ واضح رہے ۔ کہ غرض اور مقصد کے دومعنی ہیں ۔ ایک تویہ کہ اللہ کو کائنات کے پیدا کرنے سے اپنی ذات کی تکمیل مدنظر ہے ۔ اور اس نے اس لئے انسان کو منصہ شہود پرجلوہ گر کیا ہے ۔ کہ اس سے اس کا کوئی اپنا مطلب نکلتا ہے ۔ اور ایک یہ کہ جہاں تک اس عالم پر غور کیا جاتا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے ۔ انسان کو جو اتنی نعمتوں سے نوازا گیا ہے ۔ تو آخر فاطرالسموات کی طرف سے کچھ مطالبہ ہونا چاہیے ۔ جن کی تکمیل خود اس کے لئے مفید ہو ۔ ورنہ اتنا بڑا آسمان پیدا کرنا بےکار ہے ۔ یہ عریض اور وسیع زمین جو انسان کے پاؤں تلے بچھادی گئی ہے ۔ بےسود ہوگی ۔ اور یہ نجوم وکواکب جو اس کے لئے سرگرداں ہیں ۔ بےمعنے ہوں گے ۔ ذرا غور سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ غرض اور مقصد کی یہ دوسری تعبیر صحیح ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ مفصل بالاغراض نہیں ہے ۔ ان کو اپنی ذات کی بلندی ورفعت کے لئے اس ساری کائنات میں کسی چیز کی بھی احتیاج نہیں ۔ یہ سب کچھ اگر فنا ہوجائے اور مٹ جائے تو اس کی عظمت اور جلالت قدر میں کوئی کمی پیدا نہیں ہوسکتی ۔ اور وہ اپنی ذات میں بہمہ وجوہ کامل اور لائق ستائش ہے ۔ بہر آینہ ان آیتوں کا مفہوم یہ ہے ۔ کہ انسان دنیا پر اس نقطہ نظر سے غور کرے ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے کیوں اس کو پیدا کی ۔ اور اس کو بنی آدمی سے کیا توقعات ہیں ؟ کیونکر ایک دن مقرر ہے *۔ جب سب لوگ اس کے حضور میں جمع کئے جائیں گے ۔ اور ان سب سے پوچھا جائے گا ۔ کہ انہوں نے نفس حیات کو کس حد تک مفید بنانے کی کوشش کی ہے ۔ ان سے سوال کیا جائے گا ۔ کہ انہوں نے عمر عزیز کے لمحات گرانقدر کن مشاغل میں صرف کئے ہیں ۔ پھر اعمال کے اعتبار سے وہاں دو ہی جگہیں ہیں ۔ دوزخ جہاں بد عمل لوگ جائیں گے ۔ اور جنت جہاں باعمل اور صالح لوگ سکونت رکھیں گے ۔ اب سوچنا یہ ہے ۔ کہ تم اپنے لئے کس مقام کو پسند کرتے ہو ۔ جہنم کو جو مقام غضب وغصہ ہے ۔ جہاں زقوم کھانے کو ملے گا ۔ یا جنت کو جو جوار رحمت اور رافت ہے ۔ جہاں زندگی کے تمام تکلفات مہیا ہوں گے *۔ حل لغات :۔ کالمھل ۔ تیل کی تلچھٹ کی طرح *۔ الدخان
39 الدخان
40 الدخان
41 الدخان
42 الدخان
43 الدخان
44 الدخان
45 الدخان
46 الدخان
47 الدخان
48 الدخان
49 الدخان
50 الدخان
51 الدخان
52 الدخان
53 الدخان
54 الدخان
55 الدخان
56 الدخان
57 الدخان
58 قرآن کیونکر سہل اور آسان ہے ف 1: اس آیت میں ایک نہایت ہی لطیف انداز میں یہ بتایا ہے ۔ کہ قرآن حکیم کو جو ہم نے سہل اور آسان قرار دیا ہے ۔ تو تیری تشریحات کے ساتھ اور تیری بیان کردہ تفصیلات کی وجہ سے ، یعنی اگر درمیان میں تیرا وجود نہ رہے ۔ رموز واسرار کی عقدہ کشائی کے لئے تیری زبان فیض ترجمان نہ موجود ہو ۔ تو پھر محض عربی ادب کے بھروسہ پر اس کو سمجھنا اور اس کے معارف ونکات تک رسائی حاصل کرلینا سخت دشوار ہے ۔ اس کی تعلیمات سے صحیح معنوں میں تذکیر اور عبرت پذیری اسی وقت ممکن ہے ۔ جب مشکوٰۃ نبوت کی روشنی سے دل ودیدہ منور ہوں ۔ اور جب کہ یہ دیکھا جائے ۔ کہ اللہ کے پیغمبر اور کلام الٰہی کے اولین مخاطب نے اس کو کیونکر سمجھا ہے ؟ یہ بات کس درجہ العبیاز عقل اور محال ہے ۔ کہ ایک کتاب کو اس سے ماحول سے قطع نظر کرکے اور اس کو پیش کرنے والی کی تفہیمات سے بےنیاز ہوکر سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔ یہ درست ہے کہ صحیفہ رشدوہدایت بدرجہ غایت سہل اور آسان ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں ہیں ۔ کہ اس کو سمجھنے کے لئے ضروری شروط اور لوازم کی بھی احتیاج نہیں ۔ آسان سے آسان کتاب کو بھی اگر آپ اس کی ضروری شرائط سے الگ کرلیں گے ۔ تو وہ چیستان ہوکر رہ جائے گی ۔ پھر قرآن سے یہ کیوں تم توقع رکھتے ہو ۔ کہ اس کو عصر نبوی کی روایات سے بالکل جدا کرکے محض لغت کی مدد سے آپ سمجھ سکیں گے ۔ جس کو بہت بعد میں مرتب کیا گیا ہے ۔ اسی لئے جن لوگوں نے حدیث کا انکار کیا ہے ۔ اور پیغمبر کو یہ حق نہیں دیا ۔ کہ وہ ہم کو اللہ کا پیغام تفصیل کے ساتھ سنائیں ۔ وہ اختلاف وتشقت کی سخت الجھنوں میں گرفتار ہوگئے ہیں ۔ اور مصروف ومتعین باتوں میں بھی عام مسلمانوں سے اختلاف کرنے لگے ہیں ۔ بلکہ خود آپس میں ان مسائل کا کوئی تصفیہ نہیں کرسکے ۔ جن کا تعلق دین کی اولیات سے ہے * حل لغات :۔ سندس ۔ نازک اور لطیف ریشم * بشتبرف ۔ دبیزریشم * وزوجنھم بحورجات ۔ یعنی بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ان سے نکاح میں دیدی جائیں گی * بلسانک ۔ یعنی تیری زبان کی تشریحات کی مدد سے *۔ الدخان
59 الدخان
0 الجاثية
1 الجاثية
2 ف 1: قرآن کتاب فطرت ہے ۔ اس لئے یہ اپنی تصدیق میں صحیفہ قدرت کو پیش کرتا ہے ۔ اور کہتا ہے ۔ کہ تم سب کائنات کو عمیق نگاہوں سے دیکھو گے ۔ اور آسمانوں اور زمین کے متعلق وقت نظر سے معائنہ کرو گے اور خود اپنی قامت کے متعلق سوچو گے ۔ اور غم الحیوانات کو حاصل کروگے تو تمہیں اس کی صداقت میں بہت دلائل مل جائیں گے ۔ تمہیں یہ زیبا ہے ۔ کہ لیل ونہار کے ردوبدل میں اور ہم الریاح میں خصوصیت کے ساتھ غور وفکر سے کام لو ۔ یہ سب مظاہر قدرت اپنے اندر عقل وایقان کا بہرہ وافر رکھتے ہیں ۔ قرآن کو علوم طبعی کے ارتقاء میں نہ صرف کوئی خطرہ محسوس ہوتا ہے ۔ بلکہ قرآن کی خواہش ہے ۔ کہ لوگ ان علوم میں بیش از بیش ترقی کرینگے ۔ مذہب کے حقائق زیادہ روشنی میں آتے جائیں گے *۔ حل لغات :۔ فارتقلب ۔ پس انتظار کیجئے ۔ ارتقاب سے ہے *۔ الجاثية
3 الجاثية
4 الجاثية
5 الجاثية
6 الجاثية
7 الجاثية
8 الجاثية
9 الجاثية
10 قرآن صحیفہ رشدوہدایت ہے ف 1: نضر بن حارث ایک شخص تھا ۔ جس کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سخت عداوت تھی ۔ یہ عجمی قصے اور افسانے خرید لاتا ۔ اور جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کو قرآن سناتے تو وہ یہ کہانیاں لے بیٹھتا ۔ اور لوگوں سے کہتا ۔ کہ قرآن سے تو یہ یہی باتیں زیادہ دلچسپ ہیں ۔ ان کو سنو ، اور قرآن کی طرف توجہ نہ کرو ۔ اس کا خیال تھا ۔ کہ یہ قرآن کی موثریت کا جواب ہے ۔ ان آیات میں اسی قسم کے لوگوں کا تذکرہ ہے ۔ کہ جو جھوٹے قصے سنتے ہیں ۔ اور لوگوں کو لغو اور جھوٹی کہانیاں سناتے ہیں ۔ قرآن کی آیتوں کو بوجہ کبر وغرور سنی ان سنی کردیتے ہیں ۔ اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ فرمایا ۔ کہ ان لوگوں کے لئے خدا کے ہاں درد ناک عذاب ہے ۔ جو ان کے لئے نہایت درجہ رسوا کن ہے ۔ جو اپنی کیفیات کے لحاظ سے عظیم ہے ۔ پھر لطف یہ ہے کہ جن لوگوں پر آج ان کو اعتماد ہے ۔ کہ وہ وہاں ان کی نجات اور مخلصی کا باعث ہوں گے ۔ وہ وہاں ان سے قطعی بیزاری کا اظہار کرینگے ۔ یا ان کے ساتھ جہنم میں مبتلائے عذاب ہوں گے ۔ یہ قرآن صحیفہ رشدوہدایت ہے ۔ یہ زندگی کا پروگرام ہے ۔ اس میں تمام انسانی مشکلات کو سلجھایا گیا ہے ۔ اور اس قابل ہے ۔ کہ ہر زمانے کے لوگ اس کو اپنا دستورالعمل قرار دیں ۔ اس لئے جو شخص اس کا انکار کرتا ہے ۔ وہ صرف ایک کتاب کا انکار نہیں کرتا ۔ بلکہ ایک نظام حیات کی مخالفت کرتا ہے ۔ جو خیروصالح کا نظام ہے ۔ اور ایک صحیح لائحہ عمل کو ماننے سے انکار کرتا ہے ۔ جس پر سعادت انسانی کا انحصار ہے ۔ اس لئے یہ پوری انسانیت کا دشمن ہے ۔ اور پوری ہیئت اجتماعیہ کا مخالف اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ جرم اس قابل ہے ۔ کہ اس پر شدید ترین سزادی جائے *۔ حل لغات : ۔ بعداللہ ۔ مضاف محذوف ہے ۔ یعنی اللہ کی توضیحات کے بعد * الحاک ۔ جھوٹا ۔ دوزغ گو * یصر ۔ اضرار سے ہے ۔ یعنی جاننے کے باوجود گناہوں پرجما رہتا ۔ اڑا رہنا *۔ الجاثية
11 الجاثية
12 الجاثية
13 قرآن کا عقلمندوں سے خطاب ہے ف 1: قرآن حکیم ایک ایسی کتاب ہے جو اپنے لئے ان لوگوں کو منتخب کرتی ہے ۔ جو صاحب غوروفکر ہیں ۔ وہ ان کو دعوت دیتی ہے ۔ جو مظاہر کائنات پر فکروتدبیر کی نظریں دوڑائیں ۔ اور دیکھیں ۔ کہ کہاں تک اسلامی حقائق فطرت کے مطاق اور موافق ہیں * فرمایا کہ تم جن لوگوں کی پرستش کرتے ہو ۔ وہ قطعاً اس احترام کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ پوجا کے لائق وہ ذات ہے جس نے تم کو تسخیر بحر کے علوم سے بہرہ ور کیا ہے جن کی وجہ سے تم سمندر کے سینہ پر کشتیاں اور جہاز چلاتے ہو ۔ اور اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کی تلاش میں کہاں سے کہاں نکل جاتے ہو ۔ اور وہ ہے جس آسمانوں اور زمین کی تمام مخلوقات کو تمہاری خدمت میں لگا دیا ہے ۔ کیا ان حقائق میں تمہارے لئے فکروتدبیر کا سامان نہیں ؟ ۔ الجاثية
14 الجاثية
15 ف 2: مخالفین میں کچھ ایسے ذلیل لوگ تھے ۔ جن میں یہ جرات تو نہ تھی ۔ کہ اسلام کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روک دیں ۔ مگر محض تسکین نفس کے لئے وہ مسلمانوں کو گالیاں دے کر دل کے پھپھولے پھوڑ لیتے ۔ اس آیت میں مسلمانوں کو ان کے بلند اخلاق کے نام پر کہا ہے ۔ کہ وہ ان حقیر اور مذبوحی حرکات کو بالکل ناقابل اعتناء سمجھیں ۔ اور قطعاً ان سے تعرض نہ کریں *۔ حل لغات :۔ من فضلہ ۔ مال ودولت کو اس سے تعبیر کیا ہے تاکہ مسلمان ازراہ رہبانیت اس کے حصول میں کوتاہی نہ کریں * ایام اللہ ۔ خدا کے وہ دن جن میں وہ مجرموں کو سزا دیتا ہے *۔ الجاثية
16 بنی اسرائیل پر انعامات ف 1: اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ہر طح کی نعمتوں سے مشرف فرمایا تھا ۔ انہیں تورات دی ۔ خاص لقمہ اور فصیل خصومات کی قابلیت بخشی ۔ اور نبوت کے فیض عمومی کو ان میں جمادی رکھا ۔ فراعنہ کے مال ودولت کا ان کو وارث بنایا ۔ اور من وسلویٰ ایسی لطیف چیزیں بلا محنت اور بغیر طلب کے ان کو دیں ۔ اور اس زمانے کے لوگوں پر ان کو فضیلت دی ۔ اور پھر اصل دین اور نفس شریعت سے ان کو آگاہ کیا ۔ ان کو بتایا ۔ کہ جہاں یہ صداقتیں پائی جائیں تم تسلیم کرو ۔ اور بغیر ادنی تامل اور جھجک کے اللہ کے پیغام کے سامنے جھک جاؤ۔ مگر ہوا یہ کو جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تسریف لائے ۔ اور آپ نے شریعت موسیٰ کی تکمیل کی ۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نبوت کے دروازوں کو بند کردیا ۔ اور فرمایا ۔ کہ میں وہی روح لے کر آیا ہوں ۔ جو سابقاً قوموں اور ملتوں کے لئے باعث حیات ثابت ہوئی ۔ میرے پاس وہی قانون اور فقہ ہے ۔ جو صحف انبیاء میں مذکور ہے ۔ مگر آخری تفصیلات کے ساتھ ، تم لوگ اللہ کے انداز بیان سے واقف ہو ۔ اس لئے تمہارا فرض ہے ۔ کہ مجھ پر ملانے میں سبقت کرو ۔ اور اپنی پاک نفسی اور مذہب شناسی کا ثبوت دو ۔ اور اللہ کی نعمتوں کا عملاً شکرادا کرو ۔ تو انہوں نے محض اس جان اور حسد میں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ باتیں کیوں کہی ہیں ۔ انکار کردیا ۔ وہ سمجھتے تھے کہ نبوت محض بنی اسرائیل سے مختص ہے ۔ اور بنی اسمٰعیل کو یہ استحقاق نہیں ہے ۔ کہ وہ اس منصب جلیل کے عامل ہوسکیں ۔ فرمایا ۔ کہ اللہ تعالیٰ ان کو قیامت کے دن بتائیں گے ۔ کہ تمہارے مزعومات غلط تھے ۔ اور اسلام ہی ایک ایسا مذہب تھا ۔ جس کے ماننے والے آج میرے انعامات کے وارث ہیں *۔ حل لغات :۔ الحکم ۔ حکمت ۔ علم ۔ معاملات میں قطع عداوت کا سلیقہ * ابن الامر ۔ یعنی نفیس دین ۔ اور اصل دین * شریعۃ ۔ اسلوب ۔ ہدایت *۔ الجاثية
17 الجاثية
18 الجاثية
19 الجاثية
20 الجاثية
21 پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تابع عوام نہیں ہوتا ! ف 1: حضور کو بتایا ہے ۔ کہ آپ شریعت موسوی کی آخری کڑی ہیں ۔ اور اصل دین اور عین امر کے حامل ہیں ۔ اس لئے یہ جاہل اور حقائق مذہب سے ناآشنا لوگ آپ سے یہ توقع نہ رکھیں ۔ کہ آپ ان کی خواہشات کی پیروی کریں گے ۔ کیونکہ پیغمبر کا یہ منصب نہیں ہوتا کہ وہ لوگوں کے جذبات کو ٹٹولے ۔ اور ان کے خیالات وافکار کی اطاعت کرے ۔ وہ لوگوں کے مزعومات کی قطعاً پرواہ نہیں کرتا ۔ وہ حق وصداقت کی تعلیم دیتا ہے ۔ کامل راہ نما ہوتا ہے ۔ لوگوں کے پیچھے پیچھے نہیں دوڑتا ۔ اور دنیاوالوں سے بالکل بےنیاز ہوتا ہے ۔ اس لئے اس کا پیغام خالصاً اللہ کی طرف سے ہوتا ہے ۔ اور اس میں کسی شخص کو یا کسی شخصی نظریہ کو احترام کی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا ۔ اور نہ یہ کوشش کی جاتی ہے ۔ کہ اس کی تعلیمات عوام کے لئے قابل پذیرائی ہوں *۔ الجاثية
22 ف 2: قرآن کی ایک حیثیت یہ ہے ۔ کہ اس میں غیر مسلموں کے لئے بھی بلالحاظ دین اور بلاتفریق مذہب عقل ودانش کا وافرذخیرہ موجود ہے ۔ اور دوسری حیثیت یہ ہے کہ جو لوگ کا ملا اس کے ساتھ اتفاق رکھتے ہیں ۔ ان کے لئے اس میں زندگی کے تمام شعبوں پر مشتمل ہدایت اور راہنمائی ہے ۔ اور ایسے ذرایع ووسائل کا ذکر ہے ۔ جو منزل مقصود تک پہنچا دیتے ہیں *۔ حل لغات :۔ اجترحوا ۔ اجتراح سے ہے ۔ جس کے معنے اکتساب کے ہیں *۔ الجاثية
23 خطرناک روگ ف 1: روحانی طور پر سب سے بڑا مرض اور سب سے زیادہ خطرناک بیماری احجاب نفس اور غرور ہے ۔ جس کی وجہ سے انسان اللہ کے احکام کو بھی عزت واحترام کی نگاہوں سے نہیں دیکھتا ۔ اور یہ سمجھتا ہے کہ میرا محدود دماغ اس قابل ہے ۔ کہ تمام مصالح وحکم کا بیک وقت احاطہ کرسکے ۔ ازیس کہ مجھ کو کسی دوسرے کی اطاعت کی قطعاً ضرورت نہیں ۔ میں خود دانا اور سمجھ دارہوں ۔ معاملات میں بصیرت نامہ رکھتا ہوں ۔ اور خیر وشر میں جو فرق ہے ۔ اس کو بخوبی محسوس کرتا ہوں ۔ اس لئے مذہب اور دین اگر میرے عدیے کے موافق ہے ۔ تو درست ہے ۔ اور اگر میرے عندیے میں بعد اس میں موافق نہیں ہے ۔ تو پھر وہ درست نہیں ۔ کیونکہ میرے افکار وتصورات میں قطیت وحتمیت کی پوری استعداد موجود ہے ۔ ان میں کسی غلطی کا امکان نہیں ۔ مکے والوں کی بالکل یہی ذہنیت تھی ۔ اور اسی روحانی روگ میں مبتلا تھے ۔ کہ ہمارے مزخرافات دینی سی قرین عقل ودانش ہیں ۔ اپنی خواہشات اور خیالات کو انہوں نے خدا سمجھ رکھا تھا ۔ اور ان کا احترام اسی طرح کرتے تھے ۔ جس طرح خدا کے احکام کا احترام کیا جاتا ہے ۔ اس لئے فرمایا ۔ کہ یہ لوگ باوجود جاننے اور علم رکھنے کے بھی گمراہ ہیں ۔ کیونکہ از راہ کبروغرور یہ حق کی آواز کو سننے کے لئے تیارہی نہیں ۔ اور نہ اسکے لئے آمادہ ہیں ۔ کہ اگر کچھ سن پائیں ۔ تو اس کو دل میں جگہ دیں ۔ یہ عمداً آنکھیں بند کرلیتے ہیں ۔ تاکہ واقعات اور حالات کی زندہ شہادت اور گواہی ان کو ایمان وایقان پر مجبور نہ کردے ۔ اور جب مرض اس منزل پر پہنچ جائے ۔ اور اللہ تعالیٰ توفیق ہدایت چھین لے ۔ تو پھر صحت کا حصول مشکل ہوجاتا ہے *۔ الجاثية
24 ف 2: یہ ان کے ملحدانہ عقائد کی تشریح ہے ۔ کہ ان میں سے بعض لوگ خدا پر ایمان نہیں رکھتے ۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ سوائے مادی تصورات کے اور دنیا میں کسی چیز کا وجود نہیں ۔ یہ زندگی یہیں تک ہے ۔ اس کے بعد محاسبہ ومکافات کا اصول ناقابل فہم ہے ۔ اور ہماری موت وحیات میں صرف زمانہ اثر انداز ہے فرمایا : کہ ان عقائد کے لئے یہ کسی علمی تیقن کو پیش نہیں کرسکتے ۔ ان کے پاس دہریت کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ۔ یہ محض حقائق کے ساتھ ایک نوع کا سوء ظن ہے ۔ اور تخمین وقیاس ہے ۔ جہاں تک دلائل کا تعلق ہے ۔ ایک رب کائنات کو تسلیم کیا جائے ۔ جو اس کارگاہ عظیم کو اپنی حکمتوں اور قدرتوں کی بناء پرچل رہا ہے *۔   حل لغات :۔ اضلہ اللہ ۔ یعنی اس کی بداعمالیوں کی وجہ سے اس سے توفیق ہدایت چھین لیں * ختمہ مہر کردی ۔ یہ تعبیر ہے ۔ سامعہ ومقلب کی اس کیفیت سے جس کے بعد ان میں قبولیت کی استعداد باقی نہیں رہتی * غشوۃ ۔ حجاب کبر وغرور * الدھر ۔ زمانہ *۔ الجاثية
25 ف 3: یعنی جب ان کے سامنے حشرونشر کی کیفیات سے متعلق دلائل پیش کئے جاتے ہیں تو یہ کہتے ہیں ۔ کہ ہم تو جب مانیں گے ۔ جب ہمارے سامنے آباؤاجداد آکر کھڑے ہوجائیں ۔ اور رونما ہوکر اس عقیدے کی صداقت پر گواہی دیں ۔ فرمایا : کیا زندگی اور موت کا ردوبدل تم روزانہ ملاحظہ نہیں کرتے ۔ کیا یہ نہیں دیکھتے ۔ کہ تم میں لاکھوں انسان ہر روز کتم عدم سے عالم وجود میں آتے ہیں ۔ اور لاکھوں زندگی کی دنیا سے موت کی دنیا میں منتقل ہوجاتے ہیں ۔ کیا یہ اس بات کا اہم ترین ثبوت نہیں ۔ کہ سب لوگوں کو اسی طرح ایک وقفہ زندہ ہونا ہے ۔ اور خدا کے حضور میں اپنے عمال کا حساب پیش کرنا ہے ۔ الجاثية
26 الجاثية
27 الجاثية
28 الجاثية
29 کامیابی کا اصلی مفہوم ف 1: قرآن حکیم مکے کے مدہوش لوگوں کو کہتا ہے ۔ کہ یہ ضروری نہیں کہ تمہاری دولت مندی ہمیشہ تمہارا ساتھ دے ۔ اور تم اپنی بداعمالیوں پر دائما فخر کرتے رہو ۔ بلکہ آپ وقت آئے گا ۔ جب تم نہایت تضرع ولحاح کے ساتھ زانو کے بل گر پڑو گے اور اپنے نامہ اعمال کو دیکھو گے ۔ اس وقت تم سے کہا جائے گا ۔ کہ آج مکافات کا دن ہے ۔ آج تم سے تمہاری مدہو ہشوں اور غفلتوں کا انتقام لیا جائے گا ۔ آج تم کو بتایا جائے گا ۔ کہ غرور ونخوت کا انجام کیا ہے ۔ یہ نامہ اعمال اور صحیفہ کردار بولے گا ۔ اور ایک ایک کرکے تمہارے گناہوں کو شمار کرتا جائے گا *۔ حل لغات :۔ جاثیہ ۔ زانو کے بل *۔ الجاثية
30 ف 1: اس وقت اللہ کے وہ بندے جنہوں نے دنیا میں ایمان کی دولت کو پالیا تھا ۔ اور ایقان وتسکین نفس کی نعمتوں سے جھولیوں کو بھر لیا تھا ۔ اپنے کو اللہ کی رحمتوں اور بخششوں کے سایہ تلے تصور کریں گے ۔ اس وقت ان سے کہا جائے گا ۔ کہ غور سے دیکھو ، کھلی اور واضح کامیابی یہ ہے ۔ جو ان سعید روحوں کے حصہ میں آئی ہے ۔ اور محروم لوگوں سے صاف صاف کہہ دیا جائے گا ۔ کہ آج تمہارے لئے کوئی آسودگی نہیں ۔ کیا تمہارے پاس ہمارا پیغام نہیں پہنچا تھا ۔ اور تم نے متکبرانہ اس کو ٹھکرا نہیں دیا تھا ۔ اور جب تم سے کہا گیا تھا ۔ کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ۔ اور ایک دن قیامت آکر رہے گی ۔ تب یہ دنیائے دوں انپی تمام دلچسپیوں سمیت کتم عدم میں جا منہ چھپائے گ ۔ تم نے بڑی بےنیازی کے ساتھ کہا تھا ۔ ہم نہیں جانتے ۔ قیامت کیا بلا ہے ۔ ہمیں اس کے واقع ہونے میں قطعی شبہ ہے آج تمہارے گناہ رونما ہوکر تمہارے سامنے ہیں ۔ اور تمہارے لئے تکلیف واذیت کا سبب بنے ہوئے ہیں ۔ اور تم کو تمہارے مذاق اور تمسخر کی پوری پوری سزا مل رہی ہے *۔ آج جس طرح تم لوگوں نے قیامت کو بھلا رکھا تھا ۔ اور آج کے متقضیات کی پرواہ نہیں کی تھی ۔ تمہیں فراموش کردیا جائے گا ۔ اور قعقا نظر عنایت والتفات سے نہیں دیکھا جائے گا ۔ آج کا دن تمہارے لئے سزا کا دن ہے ۔ تم نے اس دن کا انکار کیا تھا ۔ آج دیکھ لو ۔ کہ یہ ایک حقیقت ہے ۔ آج وہ لوگ کہاں ہیں ! جن کی نصرت اور اعانت پر تمہیں بھروسہ تھا ۔ یہ سزا اس بناء پر ہے ۔ کہ تم نے اللہ کی آیتوں کو استہزاء کے ساتھ سنا ۔ اور اس دنیا کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی ۔ اور مغرور ہوئے *۔ حل لغات :۔ حل لغات :۔ مجرمین ۔ گناہ گار * ما اشاعۃ ۔ قیامت ۔ متعین گھڑی * وحانی ۔ احاطہ کرلے گا ۔ گھیر لے گا *۔ نفسکم ۔ ترک التفات کریں گے * الکبریآء ۔ عظمت ۔ ورفعت ، بڑائی *۔ الجاثية
31 الجاثية
32 الجاثية
33 الجاثية
34 الجاثية
35 الجاثية
36 الجاثية
37 الجاثية
0 الأحقاف
1 الأحقاف
2 الأحقاف
3 عالم بےمقصد نہیں ف 1: قرآن حکیم بار بار اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے ۔ کہ یہ کائنات جو آسمانوں اور زمین کی وسعتوں سے تعبیر ہے ۔ یونہی بلا مقصد اور بغیر غرض کے نہیں پیدا کی گئی ہے ۔ یہ مادہ کے اندھے تصورات کا نتیجہ نہیں ہے ۔ اس کو محض فطرت کے مجازفہ کے نام سے نہیں موسوم کیا جاسکتا ۔ یہ دینی ساخت کے اعتبار سے اس درجہ کامل اور معقول ہے ۔ کہ دیکھنے والا بادنیٰ تامل پکار اٹھتا ہے ۔ کہ یہ کس مستاق اور صاحب حکمت وعظمت کی کارفرمائیاں ہیں ۔ اس تصویر میں ایسی ہنرمندی اور تخیل کا اظہار ہے کہ بجز خلاق اکبر پر ایمان لے آنے کے اور کوئی چارہ کار ہی نہیں ۔ آپ غور فرمائیے ۔ کہ دنیا میں یہ جو حسن وجمال ہے ۔ کہاں سے آیا ہے ۔ کیا یہ مادہ کی اعجازنمائی ہے ؟ اور کیا آپ اس چیز کو عقل تسلیم کرسکتے ہیں ۔ کہ بےشعور مادے میں یہ سلیقہ ہوسکتا ہے ۔ کہ وہ اس دنیائے بسیط کو اس طرح سنواردے ۔ اس عالم رنگ وبو کو دیکھ کر یہ استدلال خود بخود ذہن میں آجاتا ہے ۔ کہ کوئی بڑی حسین ذات ہے ۔ جس نے آفتاب وماہتاب کو پیدا کیا ہے ۔ اور بڑی عقل وحکمت والی ذات ہے جس نے ہر چیز کو ایک خاص استفاءے کسے قالب میں ڈھال رکھا ہے ۔ قرآن کا مطالبہ ہے ۔ کہ تم لوگ اس غرض وغایت کو سمجھنے کی کوشش کرو ۔ جو دنیا کی تعمیر اور تخلیق کا موجب ہے ۔ اور منکرین کی طرح دانستہ اس سے اعراض نہ کرو ۔ کیونکہ یہ زندگی اور زندگی کے تمام مظاہرات ایک وقت مقررہ تک ہیں *۔ حل لغات :۔ بالحق ۔ یعنی غرض ومقصد کے ساتھ * اجل مسمی ۔ معیاد مقرر کے لئے * شرک ۔ ساجھا * اثرۃ ۔ مستول *۔ الأحقاف
4 بت پرستوں سے سوالات ف 1: جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر پتھروں کو خدا سمجھتے ہیں ۔ یا دوسرے معبودان باطل کو اپنا رب قرار دیتے ہیں ۔ اللہ ان سے پوچھتا ہے ۔ کہ تم یہ بتاؤ ان معبودوں کا تخلیق کائنات کتنا حصہ ہے ۔ کیا انہوں نے زمین کے کسی گوشہ کو بنایا ہے ۔ یا آسمانوں کی تکوین میں مدد فرمائی ہے ؟ یا کسی مذہبی صحیفہ میں لکھا ہے ۔ کہ غیر اللہ کی پوجا کرو ۔ یا علمی دلائل کا تقاضا یہ ہے ۔ کہ رب السموات والارض کو چھوڑ دیا جائے ۔ اور حقیر وبے جان چیزوں کو مقدس جان لیا جائے ! یعنی آخر جب تم اتنی کھلی ہوئی حقیقت کی مخالفت کرتے ہو ۔ تو پھر کچھ تو اس کی وجہ ہونی چاہیے ۔ وہ بتان سنگ جن کو تم الفطرت قوتوں کا مالک سمجھتے ہو ۔ کیوں کائنات کی تعمیر یا تخریب میں اپنی استعدادوں اور صلاحیتوں پر صرف نہیں کرتے ۔ کیوں نئی زمین ان کے پاؤں تلے نہیں بچھا دیتے ۔ تاکہ یہ توحید کے احسانات سے سبکدوش ہوسکیں ۔ اور برملا اپنے ان معبودوں پر فخر کرسکیں ۔ یا اگر تقرب الی اللہ کے لئے ان درمیانی وسائل کی ضرورت اور احتیاج سمجھتے ہو ۔ اور تمہارے خیال میں انسان اس وقت تک معرفت کی منزلوں تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا ۔ جب تک کہ اپنے نفس کو ذلیل نہ کرلے ۔ اور ان اھنام بےاختیار کے سامنے نہ جھک جائے ۔ تو پھر الہامی کتابوں میں اس کا ذکر ضرور ہونا چاہیے تھا ۔ یا کوئی علمی دلیل ہی ہوتی ۔ جو اس دعویٰ شرک کی تائید میں پیش کی جاسکتی ، اور جی کیفیت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ۔ تو پھر یہ کتنی بڑی گمراہی ہے ۔ کہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش کی جائے ۔ جو قیامت تک آرزوؤں کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے *۔ حل لغات :۔ تفیضون فیہ ۔ یعنی قرآن کے باب میں جس طرح تم روانی سے باتیں کرتے ہو *۔ الأحقاف
5 الأحقاف
6 الأحقاف
7 الأحقاف
8 میں جھوٹا نہیں ہوں مکے والے آخر تک یہ فیصلہ نہیں کرپاتے ۔ کہ قرآن کو کتب وصحائف میں کسی درجہ پر رکھا جائے کبھی وہ اس کی آیتوں کو سنتے ۔ تو بوجہ اسکی موثریت کے اس کو جادو سے تعبیر کرتے ، کبھی یہ کہتے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دماغی اخترع کا نتیجہ ہے ۔ کبھی یہ کہتے ۔ پہلی کتابوں میں سے قصوں اور کہانیوں کولے کر جمع کردیا گیا ہے ۔ اور کبھی کہتے ۔ کہ دراصل دوسرے شخص کی دماغی کاوشوں کا ثمرہ ہے ۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے سیکھ لیا ہے ۔ اور اپنے ہم سے منسوب کرلیا ہے ۔ غرضیکہ انہوں نے اس بات کا پورا ثبوت دیا ۔ کہ ان میں کتاب اللہ کی اہمیت کو محسوس کرنے کی زرہ برابر بھی صلاحیت نہیں ۔ وہ کتاب جو انسانی عقول سے بالا ہے ۔ جس میں فصاحت وبلاغت کا وہ التزام ہے ۔ جو طاقت بشری سے باہر ہے جس میں زندگی کا وہ قانون مذکور ہے ۔ کس کی نظیر صدیوں سے تجربہ بھی پیش نہیں کرسکتا ۔ اور تمام دینی کتابوں پر جس میں اعلیٰ پایہ کی تنقیدیں ہیں ۔ اس کے متعلق اس نوع کے شبہات کا اظہار محض نادانی اور جہالت ہے ۔ فرمایا ۔ آپ ان سے کہہ دیجئے ۔ کہ مجھ ایسے آدمی کو اللہ افتراء کرنے کی کیونکر جرات ہوسکتی ہے ۔ جب کہ مجھے معلوم ہے ۔ کہ آپ میں سے کوئی بھی اس کی گرفت سے بچا لینے والا نہیں ۔ اور کسی میں یہ قدرت نہیں ۔ کہ اگر وہ مجھے اس جھوٹ کی پاداش میں پکڑلے ۔ تو وہ کہہ سن کر چھڑا سکے ۔ میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی اس بات کا کافی ثبوت ہے ۔ کہ میں اپنے دعویٰ میں جھوٹا نہیں ہوں ۔ کیونکہ اگر میں اس کی جانب سے نہ ہوتا ۔ اور یہ ادعائے نبوت محض افترا ہوتا ۔ تو پھر اللہ کی رحمتیں اور بخششیں جن کو تم بھی محسوس کرتے ہو ۔ میرے شامل حال نہ ہوتیں ۔ اور اس عزیمت واستقلال کے ساتھ میں اس کے پیغام کو تم تک نہ پہنچا سکتا ۔ اور پھر غول در غول لوگ اس دین میں داخل نہ ہوتے ۔ یہ اس کی تائیدیں اس بات کی صریح ثبوت ہیں ۔ کہ وہ میرے ساتھ ہے اور میں اس کے حضور میں جھوٹا نہیں ہوں یہی معنے ہیں وھوالغفورالرحیم کے *۔ حل لغات :۔ بدعا ۔ انوکھا ۔ نادر *۔ الأحقاف
9 الأحقاف
10 پیغمبر بشر ہوتا ہے قرآن میں یہ خوبی ہے ۔ کہ اس نے نبوت کے مفہوم پر کوئی غبار نہیں رہنے دیا ۔ صاف صاف اس حقیقت کا اظہار کردیا ہے ۔ کہ پیغمبر باوجود جلالت قدر کے ایک انسان ہوتا ہے اور اس میں وہی بشری لوازم ہوتے ہیں جن کا ہونا انسان میں ضروری ہے ۔ مکہ والے اس بناء پر کہ پیغمبر فوق البشر ہونا چاہیے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بعض مخصوص معجزات کا مطالبہ کرتے تھے ۔ اور یہ کہتے تھے ۔ کہ آپ ہم کو چند غیب کی باتوں سے اطلاع دیں ۔ اس آیت میں اس چیز کو واضح کیا ہے ۔ کہ حضور کینبوت میں کوئی ندرت اور انوکھا پن نہیں ہے ۔ آپ بھی اس قسم کے پیغمبر ہیں ۔ جس طرح کہ پہلے انبیاء گزر چکے ہیں ۔ جس طرح وہ محض وحی اور الہام کے تابع تھے ۔ اس طرح آپ بھی پابند ہیں ۔ اپنی جانب سے کسی خرق عادت پر قادر نہیں ۔ اور نہ بغیر اللہ کے آگاہ کرنے کے کسی غیب کی بات سے مطلع ہوسکتے ہیں ۔ یہاں تک کہ آپ باوجود قرآن ایسے عظیم الشان غیب کے حالم ہونیکے یہ نہیں جانتے کہ مستقبل میں کیا ظہور پذیر ہونے والا ہے *۔ الأحقاف
11 الأحقاف
12 الأحقاف
13 ربنا اللہ کہنے کے معنی خدا کو پروردگار ان لینے کے بعد بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں ۔ جن کو نبھانا ضروری ہوجاتی ہے ۔ اور جن کے ضمن میں عزیمت واستقامت کی اللہ احتیاج لاحق ہوتی ہے ۔ خدا کو اپنا رب قرار دینے کے معنے یہ ہیں ۔ کہ اس کے سوا ہر آستانہ عظمت کا انکار کردیا جائے ۔ ہر ربوبیت کو ٹھکرادیا جائے ۔ اور ہر خوف وہراس کو دل میں سے دور کردیاجائے اس کے احکام کی تعمیل میں بڑی سے بڑی قوت سے دوچار ہونا پڑے ۔ تو دبلغ نہ ہو ۔ اور بڑی سے بڑی مصیبت کو جھیلنا پڑے تو تامل نہ ہو ۔ اور مرد مومن ہر چیز سے بالا اور مجھے نیاز ہوجائے ۔ اس کا محض نصب العین ہو کہ اپنے اعمال سے اللہ کو خوش کیا جائے اور اس سلسلہ میں اگر ساری دنیا ناراض ہوجائے تو پرواہ نہ کرے ۔ گویا ربنا اللہ کہنے کے معنے کامل بےنیازی اور کامل عزیمت واستقامت کے ہیں ۔ اسی لئے ارشاد فرمایا ۔ کہ جو خدا کی پناہ چارہ سازمان لیتا ہے ۔ اور پھر اس عقیدہ پر عملاً جما رہتا ہے ۔ اس کے لئے آخرت میں قطعاً اعمال کا خوف نہیں اور نہ اس کے لئے کسی نوع کا غم اور حزن مقدر ہے *۔ یہ واضح رہے ۔ کہ اس بےخوفی کا تعلق کے جلال وجبروت سے نہیں ہے بلکہ ان اتمام ونکدرت سے ہے جو آئندہ زندگی میں آسکتے ہیں ۔ کیونکہ مومن جنت میں میں جائینگے بعد بھی ہیبت کبریائی سے مرعوب ہے ۔ اور اس کی شان وعظمت سے متاثر *۔ ووصیینا الانسان سے مراد ہے ۔ کہ مذہب کا دائرہ صرف عبادات متمینہ محدود نہیں ۔ بلکہ اس کی حدود اخلاق وآداب کی جزئیات تک ہیں ۔ جس طرح حقوق اللہ میں نماز کو اہمیت حاصل ہے ۔ اسی طرح بھی ضروری ہے ۔ کہ والدین کی خدمت کی جائے ۔ اور فرائض سے کچھ زیادہ کے ساتھ سولک روارکھا جائے ۔ اور حتی المقدور ان کو خوش کرنے کی جائے ۔ کیونکہ یہ والدین بڑی محنتوں اور مشقتوں کو برداشت کرنے کی اور اس قابل ہوتے ہیں ۔ کہ اپنی اولادکی ضروریات سے بہرہ مند ہوسکیں یا مال کو دیکھئے کیونکر بچاری تیس مہینوں تک برابر حمل اور تربیت مصیبتوں کو سہتی ہے ۔ تب جاکر کہیں بچہ اس لائق ہوتا ہے ۔ کہ دنیا میں زندہ رہنے کے لئے اپنے میں تھوڑی سی استعداد پیدا کرے *۔ حل لغات :۔ اعلما ۔ قائد ۔ راہنما * ووصینا ۔ توصیۃ سے ہے جس کے معنے حکم موفدئے ہیں *۔ الأحقاف
14 الأحقاف
15 ف 1: وحملہ وفضالہ ثلثون شھرا کے معنے یہ ہیں کہ عمل کی اقل مدت چھ مہینے ہیں ۔ اور باقی دو سال دودھ پلانے کے لئے ہیں چنانچہ ایک دفعہ جب حضرت عمر (رض) نے ایک عورت کو رجم کرنے کا حکم دیا ۔ جب کہ اس نے چھ مہینے کے بعدوضع حمل سے فراغت پائی ۔ تو حضرت علی (رض) نے ان کو روک دیا ۔ اور ثبوت میں یہ آیت پیش فرمائی *۔ پوری عمر * وبلغ اربعین سنتہ قال رب اوزعنی (الآیہ) سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے مطابق عمر کا وہ حصہ جس میں انسان صحیح معنوں میں تشکرواستنان کی ذمہ داریوں کو سمجھنے کے قابل ہوتا ہے ۔ چالیس سال کا ہے یہی وجہ ہے ۔ انبیاء بھی اسی عمر میں پہنچ کر عہدہ نبوت پر فائز ہوتے ہیں ۔ اور اصل کام کرنے کا وقت اس منزل سے گزرجانے کے بعد ہوتا ہے ۔ مگر آج کل ہمارے نوجوان تیس سال کی عمر میں خاصے بوڑھے ہوجاتے ہیں ۔ اور ان میں زندگی کا کوئی ولولہ موجود نہیں رہتا ۔ اور چالیس سال کی زندگی میں تو وہ قبر کی آغوش میں جاسوتے ہیں ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون *۔ حل لغات :۔ کرھا ۔ مشقت وکلفت * اشدہ ۔ الأحقاف
16 الأحقاف
17 بد بخت بیٹا ف 1: اس سے قبل کی آیتوں میں ماں باپ کی خدمت کی اہمیت پر زور دیا تھا ۔ اور کہا تھا ۔ کہ ان کے ساتھ بیش از بیش حسن سلوک روا رکھنا چاہیے ۔ کیونکہ یہ اپنے جذبات شفقت وممیت میں ربوبیت کبریٰ کا مظہر ہیں ۔ ان آیتوں میں اس بدبخت اور نالائق لڑکے کا ذکر ہے ۔ جس کے والدین ایمان کی دولت سے بہرہ مندہ ہوں ۔ اور اس کو بھی دعوت دیتے ہوں ۔ کہ وہ بھی اپنے دامن کو اللہ کے ان انعامات سے بھرلے ۔ اور وہ بجائے اس نیک مشورہ کو قبول کرنے کے تمسخر کے ساتھ ان کی اس پاک خواہش کو ٹھکرادے ۔ اور کہہ دے کہ میں تو حشر ونشر کے نظام کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں ۔ میرے نزدیک تو یہ محض افسانہ ہے ۔ جس کو پہلے لوگوں نے وضع کررکھا ہے ۔ فرمایا ایسے ناعاقبت اندیش گھاٹے اور خسارے میں رہیں گے ۔ ان کے باب میں اللہ کا فیصلہ پورا ہوچکا ہے ۔ اور طے شدہ ہے ۔ جس میں کوئی تبدیلی اور ترمیم نہیں ہوسکے گی *۔ یہ واضح رہے ۔ کہ بعض لوگوں نے آیات کو حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر پر محمول کیا ہے ۔ کہ اولاً انہوں نے اسلام کی دعوت کو تسلیم نہیں کیا تھا ۔ اور اسی لئے امیر معاویہ نے جب یزید کو اپنا نائب مقرر کیا ۔ تو عبدالرحمن نے کہا ۔ کہ کیا تم اسلام میں ہر قلیت کی ابتدا کرنا چاہتے ہو ۔ تو اس پر امیر معاویہ نے جواب دیا ۔ کہ تم وہی ہو ۔ جن کے متعلق یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں ۔ سو یہ غلط بات ہے حضرت عائشہ (رض) تک جب یہ واقعہ پہنچا ۔ تو آپ نے اس کی تردید فرمائی اور کہا کہ آل ابی بکر کے متعلق سوائے سورۃ نور کی آیات کے اور کوئی آیت نازل نہیں ہوئی ۔ خود سیاق یہ بتارہا ہے ۔ کہ کسی متعین شخص کا ذکر نہیں ہے ۔ یہ تو ایسا نافرمان اور ناہنجار شخص ہے جس کے حق میں فیصلہ ہوچکا ہے ۔ کہ وہ جہنم میں جائے گا *۔ حل لغات : ۔ اساطیرالاولین ۔ پہلوں کی کہانیاں ۔ اسطورہ کی جمع ہے *۔ الأحقاف
18 الأحقاف
19 الأحقاف
20 ف 1: جہنم والوں سے کہا جائے گا ۔ کہ تم نے دنیا کو دین پر مقدم جانا ۔ اور منافع عاجلہ کو اخروی ثواب واجر پر ترجیح دی ۔ تم دنیا میں تمام مسرتوں سے یاد کام ہوچکے ۔ اس لئے آج تمہارے لئے اور رسوائی کا عذاب ہے ۔ اور یہ اس تکبر کا عوض ہے ۔ جو تم میں رکھا ! اور اس فسق کی پاداش ہے ۔ جس کا تم نے ارتکاب کیا *۔ حضرت ہود ایسی قوم میں تشریف لائے ۔ جو ریگستانوں میں رہتی تھی ۔ اس مناسبت سے ان کی جگہوں کو اخفاف کے نام سے کیا گیا ۔ جس کے معنے ریت کے تو وہ کسے ہوتے ہیں ۔ ان کی بھی انبیاء کی طرح بھی تھی ۔ کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو ۔ اور صرف ایک معبود کو اپنا پروردگار قرار دو *۔ الأحقاف
21 حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم ف 2: تذکیر یا یام اللہ کے اصول کے مطابق گزشتہ قوموں کے حالات بیان فرمائے ہیں ۔ کہ کیونکر نافرمانی اور سرکشی کی وجہ سے ان پر اللہ کا عذاب آیا ۔ حضرت ہود کا ذکر تھا ۔ کہ انہوں نے آکر اپنی قوم کو بتوں کی پرستش سے روکا ۔ اور کہا ۔ کہ اگر تم ایک اللہ کی عبادت نہیں کرو گے ۔ اس خالق ارض وسما کے سامنے نہیں جھکوگے ۔ اور اپنی بندگی اور عبودیت کا ثبوت نہیں دوگے ۔ تو مجھے ڈر ہے کہ اس یوم عظیم میں تمہارے لئے عذاب مقدر نہ ہو ۔ ایسا نہ ہو تم لوگ اپنی گمراہی کی وجہ سے اللہ کے غضب وخشم کو آزماؤ۔ انہوں نے بجائے اس کے کہ اس خیر وبرکت کی تعلیم کو تسلیم کرلیتے ۔ اور عقیدہ توحید کو مان لیتے ۔ صاف انکار کرکے کہہ دیا ۔ کیا آپ ہم سے ہمارے معبودوں چھڑاتے ہیں ۔ اور چاہتے ہیں ۔ کہ ہم ان دیوتاؤں سے بدظن ہوجائیں ۔ جن کو برسوں پوجا ہے ۔ اور عمریں گزری ہیں ۔ کہ انہیں کی عبادت کرتے چلے آئے ہیں *۔ جب سے ہم نے آنکھیں کھولی ہیں ۔ باپ دادا کو انہیں کا حلقہ بگوش پایا ہے ۔ آج آپ کے کہنے پر ان دیرینہ تعلقات ارادت کو کیونکر چھوڑ دیں ۔ اور کیونکر گوارا کرلیں ۔ کہ یہ معبود ہم سے ناراض ہوجائیں ۔ آپ کو اختیار ہے ۔ آپ اپنی سی کر دیکھیں ۔ اور اللہ کو دعوت دیں کہ وہ ہمیں اس گستاخی کی پاداش میں عذاب سے دو چار کرے ۔ اگر واقعی آپ اللہ کی طرف سے آئے ہیں ۔ تو پھر عذاب کو ہم پر ضرور نازل کروائیے ۔ ہم اس کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں ۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے ان کی اس جہالت اور بےوقوفی پر ترس کھا کر کہا ۔ کہ پورا علم تو خدا ہی کو ہے ۔ کہ وہ کب تم پر عذاب بھیجنا چاہتا ہے ۔ میں تو اس کا پیامبر ہوں ۔ اور میرا کام تو صرف یہ ہے ۔ کہ اس پیغام کو تم تک پہنچادوں ۔ جس کو لے کر میں مبعوث ہوا ہوں ۔ اور حتیٰ الامکان کوشش کروں ۔ کہ تم اللہ کی ناراضی سے بچ جاؤ۔ مگر میں دیکھتا ہوں ۔ کہ تم بالکل جاہل ہو ۔ اور خود اپنے نفع ومضرات سے آشنا نہیں ہو ؟ تم ضرور عذاب کو حاصل کرکے رہوگے ۔ چنانچہ ایک دن انہوں نے دیکھا ۔ کہ بادل افق سے اٹھا ۔ اور ان کی وادیوں کے بالکل مقابل آگیا ۔ اس پر یہ خوش ہونے لگے ۔ کہ خوب بارش ہوگی ۔ اور ہمارے کھیت سر سبز وشاداب ہوجائیں گے ۔ حالانکہ وہ عذاب تھا ۔ اور ان کی جلد بازی کا نتیجہ تھا ۔ بادل کے ساتھ تیز اور تند ہوا چلی ۔ اور ان کی آبادیوں چند لمحوں میں ہلاک ہوکر رہ گئیں *۔ حل لغات :۔ عذاب الھون ۔ ذلت ورسوائی کی سزا * تفسقون ۔ فس سے ہے جس کے معنے حدود اخلاق اور شریعت سے تجاوز کرنے کے ہیں *۔ عارض ۔ بادل ۔ ابر * تلھر ۔ ہلاک کردے گا ۔ ان میر سے ہے * مکنھم ۔ سکنت اور قوت عطا کررکھی تھی *۔ فرمایا ۔ ان لوگوں کو ہم نے زمین میں وہ قوت اور ملک میں وہ اختیارات دے رکھے تھے ۔ کہ تم اس سے بہرہ ور نہیں ہو ۔ پھر جب انہوں نے ان اختیارات سے صحیح صحیح کام نہ لیا ۔ اور حق وصداقت کی طرف سے انہوں نے اپنی توجہ کو دوسری طرف پھیر لیا ۔ تو اللہ کی ناراضی شکار ہوگئے ۔ اس طرح تمہارے لئے بھی یہ ممکن ہے ۔ کہ اگر تم توبہ نہ کرو ۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغام کو تسلیم نہ کرو ۔ تو باوجود تمہاری دولت مندی کے تم کو حرف غلط کی طرح مٹادیا جائے *۔ الأحقاف
22 ف 1: قوم ہود (علیہ السلام) کو یہ تاو اپنے معبودوں اور دیوتاؤں پر اتنا ناز تھا کہ ہر آن ان کے تقرب کو حاصل کرنے کے لئے اپنے نفس کو ذلیل کرتے اور ان کے سامنے جھکتے یا ان کی طرف سے ایسی سردمہری کا ظہور ہوا ۔ کہ پوری قوم بٹ گئی ۔ اور انہوں نے دست اعانت دراز نہ کیا *۔ قرآن حکیم پوچھتا ہے ۔ ان مشرکین سے کہ وہ بت جو مشکلات اور مصائب میں تمہارا ساتھ نہیں دیتے ۔ تم کو موت اور عذاب سے بچا نہیں سکتے ۔ وہ خدا کیونکر ہوگئے ۔ اور اس قابل کس طرح بن گئے ۔ کہ ان کی پوجا کی جائے الأحقاف
23 الأحقاف
24 الأحقاف
25 الأحقاف
26 الأحقاف
27 الأحقاف
28 الأحقاف
29 جنات کا وجود ف 2: جنوں کے متعلق آج سے پہلے اہل تاویل کا مسلک یہ تھا ۔ یہ انسانوں کا ایک گروہ ہے جو عام طور پر پہاڑوں اور جنگلوں میں رہتا ہے ۔ انہیں لوگوں نے طائف سے واپسی کے وقت قرآن کو سنا *۔ قوم جن نے تعجب اور حیرت سے اپنی قوم کو قرآن کے سننے کا مژدہ سنایا ۔ ابن کو جن اس مناسبت سے کہا گیا ۔ کہ یہ لوگ عام لوگوں کی نظروں پے پوشیدہ اور مستتر رہتے ہیں ۔ اور شہر والوں سے ان کے تعقات زیادہ نہیں ہوتے ۔ مگر یہ تاویل اب بالکل مہمل ثابت ہوچکی ہے ۔ کیونکہ جو مجبوری اس مسئلہ میں تھی ۔ اب وہ دور ہوگئی ۔ تجربات کی روشنی میں معلوم ہوگیا ہے ۔ کہ جنات ایک مستتر اور نظر نہ آنے والی مخلوق ہے ۔ اب خود یورپ نے جو دانش وعقل کا سب سے زیادہ مدعی ہے ۔ جنات کے وجود کو تسلیم کرلیا ہے ۔ بلکہ ان کے وظائف اور اعمال تک معلوم کرلیا ہے ۔ جدید تحقیقات یہ ہے ۔ کہ جن ایک لطیف ذی روح مخلوق ہے جس کا وزن ہے ۔ سوچنی اور سمجھتی ہے ۔ اور جس کی قوتیں اور حواس انسان سے زیادہتیز اور بڑھ کر ہیں ۔ وہ دیکھی نہیں جاسکتی ۔ البتہ جب وہ عام مادی اشیاء کو اپنے ارادوں کی تکمیل کے لئے استعمال کرتی ہے ۔ تو اس وقت اس کے وجوہ کا پتہ چلتا ہے ۔ یہ تاویل کہ جن انسان ہی کی ایک صنف کا نام ہے ۔ نہ صرف واقعات کے اعتبار سے غلط ہے ۔ بلکہ صفت قرآن اور حدیث کے اعتبار سے بھی غلط ہے اور اصل میں یہ نتیجہ ہے ۔ کہ ایک طرح کی مرعوبیت اور شوق اجتہاد کا *۔ غرض یہ ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغام کو مکے والوں نے تسلیم نہ کیا تو آپ برداشتہ خاطر ہوکر طائف کی طرف چل دیئے ۔ کہ شاید ان لوگوں کو قبول ہدایت کی توفیق حاصل ہو ۔ جب وہاں پہنچے تو ان لوگوں نے اور زیادہ بدبختی (محرومی) اور شقاوت کا ثبوت دیا ۔ وہاں سے بھی مایوسانہ لوٹ کر آرہے تھے ۔ کہ راستہ میں جنوں کے گروہ نے قرآن کی سماعت کی ۔ اور تسلیم کرلیا ۔ کہ یہ اللہ کا پیغام ہے ۔ بلکہ قرآن کے داعی بھی بن گئے ۔ چنانچہ جب یہ قوم کے پاس گئے ۔ تو انہوں نے برملا کہا ۔ کہ ہم نے ایک عجیب صحیفہ رشدوہدایت کو سنا ہے ۔ جو موسیٰ کے بعدنازل ہوا ہے ۔ اور پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور حق وصداقت کی جانب رہنمائی کرتا ہے ۔ صراط مستقیم کی جانب بلاتا ہے ۔ اور اللہ کی سچی آواز ہے اے قوم ضرور اس کو قبول کرلو ۔ خدا تمہارے گناہوں کو اس کے صلہ میں بخش دیگا ۔ اور آخرت کے دردناک عذاب سے بچا رہیگا ۔ یاد رکھو اگر تم نے نہ مانا ۔ تو یہ تمہاری بدقسمتی ہوگی ۔ اللہ کا دین بہر آئینہ پھیلے گا ۔ اور تمہاری پوری قوت بھی اس کو روک دینے پر قادر نہیں ہے *۔ حل لغات :۔ یجحدون ۔ جھود سے ہے ۔ یعنی انکار کرتا *۔ نفرا ۔ ایک جماعت *۔ الأحقاف
30 حل لغات :۔ من بعد موسیٰ۔ موسیٰ کے بعد معلوم ہتا ہے ۔ یہ جنات یہودی تھے ۔ اور حضرت مسیح کے متعلق یاتو کچھ جانتے ہی نہ تھے ۔ یا ان کو تسلیم نہ کرتے تھے *۔ نبوت وعزیمت منصب نبوت کے معنے یہ ہوتے ہیں ۔ جو شخص اس انعام سے سرفراز ہوتا ہے تمام قسم کی مخالفتوں کو خندہ پیشانی برداشت کرتا ہے ۔ وہ ہر نوح کی مشکلات ومضائب پر عبور حاصل کرتا ہے ۔ کیونکہ بانقبیع نبوت نام ہے ۔ باطل کی مخالفت کا ۔ جھوٹ کے ساتھ اظہار دشمنی کا ۔ اور فواحش کے ساتھ جنگ کرنے کا ۔ اس لئے ناممکن ہے کہ پیغمبر قوم کی ہمدردیوں کو آسانی کے ساتھ قبول کرلے ۔ قوم اس کی شدید مخالفت کرتی ہے ۔ اس کے خلاف سارے گروہ انسانی کو مشتعل کردیتی ہے ۔ اور سیسہ کاریوں سے اس کا ناکام رکھنے کی پوری کوشش کرتی ہے ۔ قوم جذبات عداوت رحسد میں اس درجہ ترقی کرجاتی ہے ۔ کہ نبی کو زندگی تک کا اتفاق نہیں بخشتی اور چاہتی ہے ۔ کہ اس کو وہ حقوق زیست بھی حاصل نہ ہوں ۔ جو دوسرے عام انسانوں کو حاصل ہوتے ہیں ۔ اس لئے ارشاد فرمایا کہ اگر یہ مکے والے آپ کو دکھ پہنچاتے ہیں ۔ تو آپ بھی صاحب عزیمت انبیاء کی طرح اس کو برداشت کیجئے ۔ اور عذاب طلب کرتے ہیں عجلت نہ فرمائیے ۔ کیونکہ جب عذاب کا دن آگیا تو پھر باوجود اس کے اب زندگی ناپائدار کو دائمی قرار دیتے ہیں ۔ اور ابدی سمجھنے میں اس وقت یہ سمجھیں گے کہ شاید ایک گھڑی دو گھڑی تک اس عالم میں رہتے ہیں ۔ یہ عذاب پھر کافی ممتد ہوگا اور اس سے بچنے کی کوئی صورت نہ ہوگی ۔ ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے ۔ کہ اللہ رفیق دلخور کو پنپنے نہیں دیتا اور یہ لوگ زیادہ دیر تک اس کی بخششوں اور رحمتوں سے استفادہ نہیں کرسکتے ۔ ان کا عذاب آئے گا ۔ اور ضرور آئے گا *۔ حل لغات :۔ ولم یقی ۔ تھکانہ کوفت محسوس کی * عین الولیل ۔ یہ من تصیفیہ نہیں ہے تنبیہہ ہے کیونکر تمام انبیاء الولوالزم ہوتے ہیں *۔ الأحقاف
31 الأحقاف
32 الأحقاف
33 الأحقاف
34 الأحقاف
35 الأحقاف
0 محمد
1 محمد
2 سورۃ محمد ف 1: اس سورۃ کا آغاز کو سورۃ احقاف کے آخری مضمون کے ساتھ ایک باریک تعلق ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ اختتام سورت کے موقعہ پر فرمایا تھا کہ جو لوگ فسق وفجور کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ اور اللہ کے قوانین رشدوہدیات کو نہیں مانتے ۔ وہ ہلاک ہوں گے ۔ ظاہر ہے کہ اس حقیقت کے اظہار کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا تھا ۔ کہ آخر یہ لوگ کچھ نیک کام بھی تو کرتے ہوں گے ۔ پھر کیونکر قرین عدل وانصاف ہے کہ ان کو ایک دم ہلاکت وموت کے گھاٹ اتار دیا جائے ۔ جواب یہ ہے کہ یہ لوگ بحیثیت نظام کے اسلام کو تسلیم نہیں کرتے اور اس طرح خیروبرکت کی اشاعت میں زبردست رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں ۔ اس لئے ان کے اعمال مقبول نہیں ہیں ۔ کیونکہ اعمال کی قبولیت کے لئے سب سے ذہنیت کا درست ہونا ضروری ہے اور لازم ہے ۔ کہ ان کے تحریکات نیک اور بلند ہوں ۔ چونکہ یہ بات کفر وانکار کی حالت میں ممکن ہی ہیں ۔ اس لئے اعمال کا ضائع ہونا ناگریز اور طبعی ہے *۔ یعنی جہاں حسن عمل کے لئے یہ زیبا ہے ۔ کہ اس لقمن میں تمام غیر اللہ کی شخصیتوں کا انکار کردیا جائے وہاں ایک شخصیت ایسی ہے ۔ جس کا ماننا جس سے محبت رکھنا ، اور جس کی اطاعت کرنا راہ نجات ہے اور وہ شخصیت ہے جناب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) *۔ حل لغات :۔ علی محمد ۔ ہوسکتا ہے اس تصریح سے اس طرف بھی اشارہ ہو ۔ کہ قرآن اس شخص پر اور اس آیت پر نازل ہوا ہے ۔ جو کائنات میں سب سے بہتر اور سب سے اعلی ہے *۔ الرقاب ۔ گردنیں ۔ اتختمو تدر اسحان سے ہے ۔ جس کے معنے خوب خونریزی کے ہیں ۔ منا ۔ احسان کرکے ۔ نداء ۔ زر فدیہ لے کر معاوضہ لے کر *۔ محمد
3 محمد
4 جہاد کی حقیقت ف 1: یہ آیات مقام جہاد میں نازل ہوئی ہیں ۔ ان کو سمجھنے کے لئے پہلے چند باتوں کو ذہن نشین کرلینا چاہیے ۔ اور وہ یہ ہیں کہ :۔ (1) اسلام کی غرض دنیا میں تسکین وطمانیت کی فضا کو پیدا کرنا ہے ۔ اور نوع انسانی کو ایسے تکلفات پر مرکوز کرنا ہے ۔ جہاں رنگ وبو کے تمام اختلاف مٹ جاتے ہیں *۔ (2) ہر عقیدہ خیر کو اور ہر نظام برکات التیام کو پھیلانا ، نہ صرف جائز بلکہ انسانیت کے لئے ضروری ہے *۔ (3) تشدد کی تعریف یہ نہیں ہے کہ زندگی کے عمدہ پروگرام کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے قوت اور طاقت کا استعمال کیا جائے ۔ بلکہ یہ ہے ۔ کہ بری باتوں کو پھیلانے کے لئے حرب اور جنگ کے معرکے قائم کئے جائیں *۔ (4) اسلام اس روش کو پسندیدہ نگاہ سے نہیں دیکھتا ۔ کہ جبراً کسی شخص کو اسلام کے حقائق کی طرف مائل کیا جائے ۔ چنانچہ وہ صاف طور پر کہہ چکا ہے ۔ کہ لا اکراہ فی الدین ۔ کہ مذہب کے باب میں بیڑاکراہ کو دخل نہیں ہے ۔ (5) باوجود اس کے کہ افراد کے معاملہ میں جبروتسخیر کی حکمت عملی جائز نہیں ۔ جب کوئی قوم اسلامی حقائق کو تسلیم نہ کرے ۔ اور اپنی قوت وطاقت سے افراد کے اس حق کو چھین لے ۔ کہ وہ آزادی کے ساتھ کسی مذہب کو قبول کرلیں ۔ تو پھر جہاد ضروری ہوجاتا ہے *۔ (6) جہاد بعض حالات میں دفاعی ہوتا ہے اور بعض حالات میں جارحانہ اور اس کی غرض وغایت بہرحال یہ رہتی ہے ۔ کہ مختلف انسانی جماعتوں اور طبقوں میں امن وسعادت کے توازن کو قائم رکھا جائے *۔ (7) جہاد بہر نوح ایک وسیلہ ہے ، مقصد نہیں ہے ۔ جب لوگوں کی روحانی اور اخلاقی قوتیں اس حد تک ترقی پذیر ہوجائیں ۔ کہ سچائی کو قبول کرنے کے لئے ان پر کسی نوع کی پابندی عائد نہ ہو ۔ تو اس وقت اس کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ ان تصریحات کی روشنی میں آیات جہاد پر غور فرمائیے ۔ قرآ کہتا ہے ۔ اگر دشمنوں کا سامنا ہو ۔ اور جنگ کی آگ مشتعل ہو ۔ تو پھر مسلمان بہادر سپاہی کی طرح لڑے ! اور مغرور اور سرکش گردنوں کو اڑاتا ہوا نکل جائے *۔ اور شدید خونریزی سے بھی درگزر نہ کرے ! اور دشمنوں کو گرفتار کرلے ۔ پھر چاہے تو یونہی ممنون کرکے ان کو چھوڑ دے ۔ اور چاہے تو جذیہ لے ۔ یہ معرکہ کا رزار اس وقت تک گرم رہے ۔ جب تک کہ فضا امن وثانیت کی صورت میں اختیار کرلے ۔ اسی طرح شریر وتیں دب جائینگی ۔ اور مفسد عناصر کا قلع قمع ہوجائے گا ۔ اور پھر امکان نہیں رہے گا کرامن کی فضا میں کفرو معصیت کسی نوع کی ابتری پیدا کرسکے *۔ حل لغات :۔ حتی تطنع الحراب اوزارھا ۔ جب تک کہ لڑنے والے اپنے ہتھیار نہ رکھ دیں ۔ کنیہ ہے امن وسکون سے *۔ محمد
5 محمد
6 محمد
7 ف 2: اللہ کی مدد کرنے کے معنے یہ ہیں ۔ کہ اس کے مشن کی تکمیل کے لئے اپنا لہو تک بہادیا جائے * محمد
8 محمد
9 ف 3: یعنی منکرین کو اس لئے ہلاکت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ کہ ان کو اللہ کی حمایت حاصل نہ تھی ۔ اور مسلمان اس لئے ہمیشہ سر بلند رہے ۔ کہ یہ اللہ کی اعانت ونصرت پر یقین رکھتے تھے *۔ محمد
10 محمد
11 محمد
12 مردِ مومن کے رجحانات ف 1: مومن اور کافر کی توجہالت فکر میں یہ فرق ہے ۔ کہ مومن کے سامنے صرف حقیر اور ناچیز دنیا نہیں ہوتی ۔ اس کی نگاہ بلند ہوتی ہے ۔ جس سے عقبیٰ کی رفعتیں دیکھتا ہے ۔ مگر کافر صرف دنیا تک اپنی تگ دو کو محدود رکھتا ہے ۔ مومن جہاں جسم کی بالیدگی کا خواہاں ہوتا ہے ۔ وہاں سرخ کی تازگی اور بشاشت بھی چاہتا ہے ۔ کافر کی توجہ صرف پیٹ اور اس کے مقتضبات کی طرف لگی رہتی ہے ۔ مومن اس لئے کھاتا پیتا اور مخلوط دنیا سے استفادہ کرتا ہے ۔ کہ آخرت کے لئے اپنے میں وقت ونشاط پاسکے ۔ اور کافروں کے دن دنیا کی نعمتوں سے بہرہ اندوز ہوتا ہے ۔ کہ اپنے جذبات شہوت وحرص کی تسکین کرسکے ۔ زیادہ وافصیح الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے گا ۔ کہ مومن کے سامنے زندگی کا ایک مقصد اور نصب العین ہوتا ہے ۔ اور کفار بالکل حیوانات کی طرح زندگی بسر کرتا ہے ۔ اس کے سامنے کوئی اخلاقی اور روحانی نصب العین نہیں ہوتا ۔ پھر چونکہ دونوں میں غرض ومقصد کا بین تفاوت ہے اس لئے ضروری ہے ۔ کہ مقام ومرتبہ کے لحاظ سے بھی دونوں میں فرق ہو ۔ چنانچہ جس کی خواہشات دنیا میں بالکل ارزاں ترین جذبات کی تکمیل تک محدود ہیں جہنم میں جائے گا اور اس کا مادہ جسم آتش دوزخ کے اندر ہوگا ۔ جس کی پرورش کے لئے اس نے اپنی عمر کا کثیر ترین حصہ ضائع کیا تھا محمد
13 ف 2: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہجرت کی طرف اشارہ ہے ۔ کہ اگر ان لوگوں نے آپ کو اپنے محبوب ترین شہر سے باہر نکال دیا ہے ۔ تو آپ گھبرائیں نہیں پہلی تو میں ان سے زیادہ تنومند اور مضبوط تھیں ۔ مگر ہم نے ان کی نافرمانی کی وجہ سے ان کو ہلاک کردیا ۔ اور کوئی چارہ ساز ان کی حمایت نہیں کرسکا ۔ اسی طرح ممکن ہے ۔ کہ ان لوگوں کے ساتھ بھی اسی نوع کا سلوک روارکھنا پڑے ۔ اور ان کو بتانا ڑے ۔ کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کے گھر سے نکال باہر کرنا اللہ کے نزدیک کوئی معمولی جرم نہیں محمد
14 ف 1: یعنی اہل حق وصداقت ہمیشہ دلائل اور براہین کی روشنی میں اللہ کے دین کی اطاعت کرتے ہیں ۔ یہ ان لوگوں کی طرح نہیں ہوتے ۔ جوب بظاہر برائیوں کی سج دھج سے متاثر ہوجاتے ہیں ۔ اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی میں عقل وخرد سے کام نہیں لیتے *۔ محمد
15 ف 2: یہ ان لوگوں کے درجہ کی تشریح ہے ۔ جن کا مطمح نظر صرف جذبہ حیوانیت کی تسکین وتکمیل نہیں ہوتا ۔ بلکہ وہ روح کی پاکیزگی کے لئے بھی کچھ کرتے ہیں ۔ ان کے لئے جو مقام تجویز کیا گیا ہے ۔ اس میں ہر نعمت وفور کے ساتھ موجود ہے وہاں صاف ، شیریں ، اور ٹھنڈے پانی کی نہریں ۔ خوش ذائقہ دودھ کے دریا ، اور نہایت لذیذ شراب اور رسل مصطفیٰ کی نہریں ہوں گی ۔ اور ہر قسم کے پھل اور میوے اور سب سے بڑی بات یہ کہ مولا کی رضا دل کو میسر ہوگی ۔ واضح رہے ۔ کہ خدا گائے اور بھینس کے تھنوں میں دودھ پیدا کرسکتا ہے ۔ وہ بہشت میں نہروں میں بھی اس کو بہاسکتا ہے ۔ اور جس کی قدرت میں یہ ہے ۔ کہ وہ مکھیوں کو شہد جمع کرنے کی قابلیت عطا کردے ۔ وہ یقینا اس سے زیادہ عمدہ ذرائع بھی اختیار کرسکتا ہے ۔ اس لئے ان چیزوں پر اعتراض کرتا درحقیقت اپنی کوتاہ نظری کا ثبوت دینا ہے *۔ حل لغات : ۔ امین ۔ وہ پانی جس کا مزہ اور تو تبدیل ہوجائے * عسل مصفی ۔ خالص شہد *۔ محمد
16 محمد
17 محمد
18 اللہ کا قانون ف 1: رشدوہدایت اور ضلالت وگمراہی کے متعلق اس کا قانون یہ ہے ۔ کہ وہ کسی شخص کے اعمال میں مداخلت نہیں کرتا ۔ اور کسی شخص کو مجبور نہیں کرتا ۔ کہ وہ اپنے لئے ان دوراہوں میں سے کسی ایک راہ کو ضرور اختیار کرے ۔ اس کا کام صرف یہ ہے ۔ کہ وہ حقیقت حال سے آگاہ کردے ۔ پیغمبروں کے بھیجے ۔ اور کتابوں کو نازل کرے ۔ تاکہ انسان عقل وبصیرت کی روشنی میں اپنا نصیب العین تجویز کرے ۔ اور پھر سمجھ سوچ کر کسی پک ڈنڈی پر ہولے ۔ جب یہ ہوتا ہے کہ کوئش شخص عمداً خواہشات کی پیروی کے جنون میں حق وصداقت کی آواز کو نہ سننا چاہے ۔ اور آفتاب کی طرح روشن حقائق کو ٹھکرا دے ۔ تو پھر وہ اس سے توفیق ہدایت کو چھین لینا ہے ۔ اس کے معنے یہ ہوتے ہیں ۔ کہ وہ بدبختی اور محرومی میں اس منزل تک پہنچ گیا ہے جہاں اب حصول ہدایت کے لئے کوئی موقع باقی نہیں رہا ۔ اور جب کوئی اللہ کا بندہ قبولیت وپذیرائی کے لئے آگے بڑھتا ہے ۔ اور یہ معلوم کرنا چاہتا ہے ۔ کہ حق وباطل میں کون راہ منزل مقصود تک لے جانے والی ہے ۔ تو پھ روہ اس کی اعانت کرتا ہے ۔ اور اس کے لئے ہدایت کی راہوں کو روخن اور واضح کردیتا ہے ۔ جس کی وجہ سے یہ محسوس کرتا ہے کہ میرے ساتھ اللہ کی امداد ہے اور میں اس کی ہمدردیوں سے بدرجہ غایت بہرہ مند ہوں *۔ محمد
19 ف 2: فرمایا ۔ یہ مکے والے کیوں بڑھ کر اور لپک کر رشتہ ہدیات کو نہیں تھام لیتے ؟ آخر رشتہ ہدایت کو تھام لیتے ! آخر یہ کس بات کے منتظر ہیں ۔ جہاں تک دلائل اور شواہد کا تعلق تھا ۔ وہ سب ان کی خدمت میں پیش کردیا گیا ۔ اور ان کو کئی بار بتا دیا گیا ۔ کہ بت پرستی گمراہی اور ذلت اور رسوائی کی راہ ہے اور انسانیت کی توہین اور تذلیل کا راستہ ہے ۔ اب کیا یہ چاہتے ہیں ۔ کہ قیامت اچانک آجائے ۔ اور ان کے اور مسلمانوں کے درمیان آخری فیصلہ صادر فرمادے ۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی رحمتیں تو آچکی ہیں ۔ اور جب وہ آجائیگی تو اس وقت ان کیلئے تذکیر ونصیحت کا کوئی امکان باقی نہیں رہیگا *۔ لفظ استغفار پیغمبر کے حق میں ف 3: لفظ استغفار کئی معانی کا حاصل ہے ۔ جہاں تک اس کا تعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہے ۔ اس کے معنے یہ ہیں ۔ کہ آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ آپ کو گناہوں کے عدم صدور کی توفیق عنایت فرمائے *۔ یقینی آپ کو نور وعرفان بخشے ۔ کہ گناہوں کے پرفریب پہلو آپ کی نظروں سے اوجھل اور ڈھکے رہیں ۔ اور آپ ان سے قطعاً متاثر نہ ہوں ۔ اور جہاں اس کا تعلق عام مومنین اور مومنات سے ہے ۔ اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ان کے لئے مغفرت طلب کریں اور خدا اسے دعامانگیں ۔ کہ ان کی لغزشوں سے درگزر فرمائیے *۔ حل لغات :۔ آنفرانھا ۔ پکی الامتیں ۔ اشراط ۔ جمع ہر شرط کی *۔ محمد
20 ف 1: ان آیات میں یہ بتایا ہے ۔ کہ جو لوگ مخلص مسلمان ہیں ۔ ہمیشہ اللہ کے احکام کے منتظررہتے ہیں ۔ تاکہ بیش از بیش اس کے احکام کی اطاعت کرکے فضیلت کے درجات عالیہ کو حاصل کریں ۔ اگر جو کوئی سورت نازل ہوتی ہے جس میں جہاد وقتال کا حکم ہو ۔ تو ان کی کیفیت مارے خوف کے ہوتی ہے ۔ کہ جیسے غش آگیا ہو ۔ فرمایا ۔ جب بعین بزدل کا یہ عالم ہو کہ جہاد کا نام بدن پر لزہ طاری کردے ۔ تو پھر اس زندگی سے موت زیادہ بہتر اور موزوں ہے *۔ محمد
21 محمد
22 محمد
23 محمد
24 دعوت غوروفکر ف 2: قرآن حکیم دنیا میں وہ پہلی اور آخری کتاب ہے جو اپنے ماننے والوں کو غوروفکر کی دعوت دیتی ہے ۔ اور جس کی تعلیمات خالصاً دانائی اور علوم وفنون کی قطعیت پر مبنی ہیں ۔ یہ کتاب سب لوگوں سے کہتی ہے ۔ کہ تم فطرت کے حقائق کے متعلق سوچو اور غور کرو ۔ پھر یہ دیکھوں کہ ہماری تعلیمات کہاں تک اس کے موافق ہیں اور اگر تمہیں معلوم ہو ۔ کہ اس صحیفہ رشدوہدایت میں جو کچھ لکھا ہے ۔ وہ عین قرین عقل سے ۔ اور تجربہ کے مطابق لو اس کو تسلیم کرو ۔ ورنہ معقول اعتراض پیش کرو ۔ قرآن کا دعویٰ ہے کہ اس کے مخاطب ہی وہ لوگ ہیں ۔ جو بصیرت سے بہرو وافر ررکھتے ہیں ۔ اور جنگی نگاہوں کو ہیں ۔ اس کتاب کو آئندہ علوم کے ارتقاء سے نہ صرف کوئی خطرہ نہیں ۔ بلکہ قوی امید ہے کہ لوگ ان معلومات کی روشنی میں اس کے زیادہ قریب آجائیں گے ۔ اسی لئے ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ کیوں قرآن میں تدبر وفکر اور اندھی تقلید کے قفل لگ رہے ہیں ؟ کہ ان میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی پیدا نہیں ہوتی *۔ حل لغات : ۔ مراص ۔ نفاق ۔ بزدلی اور غبن * والولی لھم ۔ سو ان کے لئے ہلاکت زیادہ موزوں ہے ۔ ان کی کم بختی آنے والی ہے *۔ محمد
25 محمد
26 محمد
27 محمد
28 منافقین کا جہاد سے فرار ف 1: ان آیات میں اس گروہ کا ذکر ہے ۔ جن کو منافقین کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔ یہ لوگ بظاہر مسلمانوں کے ساتھ تھے ۔ مگر بیاظن اہل کفر وشرک کے ساتھ ساز بازرکھتے تھے ۔ اور موقع کی تلاش میں رہتے تھے ۔ کہ جب مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا احتمال وامکان ہو ۔ تو اس وقت اپنی شام قوتوں کو صرف کردیا جائے ۔ اور اپنی دوستی کی وجہ سے دشمنوں کو مدد پہنچائی جائے ۔ فرمایا کہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد بھی جب ان لوگوں نے مسلمانوں سے تعلقات مو وت واخوت منقطع کررکھے ہیں ۔ اور میدان جہاد سے فرار اختیار کیا ہے ۔ تو محض اس لئے کہ یہ شیطان کے چکر میں آگئے ہیں ۔ اور اس نے اللہ کو ڈھیل دے دی ہے تاکہ اپنی تدبیروں میں وہ کامیاب ہوسکے ۔ ان لوگوں اور مفکرین کے درمیان گہرے تعلقات میں اور انہوں نے پوشیدہ پوشیدہ حدود امانت کا عہد کررکھا تھا ۔ مگر اللہ تعالیٰ ان خفیہ کاروائیوں کو جانتے ہیں ۔ اس لئے یہ قطعاً ممکن نہیں ہے کہ اس طرح یہ لوگ مسلمانوں کو نقصان پہنچاسکیں ۔ ارشاد فرمایا ۔ کہ جب فرشتے ان کی جان قبض کرنے کے لئے آئیں گے ۔ اور ان کے منہ اور پشت پر کوڑے برسائیں گے ۔ اس وقت ان کے پاس کیا عذر ہوگا ۔ اور کس طرح یہ لوگ اس تکلیف سے بچ سکیں گے ؟*۔ حل لغات :۔ سولی لھم ۔ تجویز بنائی * فاحبط اعمالھم ۔ یعنی چونکہ دوں میں کفر ونفاق کا مرض موجود تھا ۔ اس لئے اللہ نے ان کے سب اعمال عدم کردیئے *۔ محمد
29 محمد
30 ف 1: کہ یہ منافقین یہ نہ خیال کریں ۔ کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلی جذبات غم وغصہ کو جو مسلمانوں سے متعلق ہیں ۔ کبھی ظاہر نہیں کرے گا ۔ بلکہ ہم جائیں ۔ تو آپ کو ان کے چہروں کو دیکھ کر اور ان کی گفتگو کو سن کر بھانپ جائیں ۔ کہ یہ منافق ہیں *۔ چنانچہ مسد امام ابن جنبل میں ہے ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سب کے نام ہم کو ایک صحبت میں بتا دیئے تھے ۔ اور ہم ان کو خوب پہچانتے تھے *۔ محمد
31 محمد
32 محمد
33 مدینہ کا دارالضرب ف 2: قرآن حکیم نے اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے اصل پیش فرمائے ہیں ۔ اور بار بار یہ تاکید کیا ہے ۔ کہ اگر نجات چاہتے ہو ۔ اور دین ودنیا کی سعادتوں کو حاصل کرنے کے خواہان ہو ۔ تو ان دو عظیم المرتبت شخصیتوں کے ساتھ وفاداری کا عہد کرو ۔ یہ دو شخصیتیں اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور یہی دراصل ہیں ۔ اس آیت میں یہ ارشاد فرمایا ہے ۔ کہ ہر دو اطاعت بیکار اور رائیگان جائیگی ۔ جس کو ادا کرنے میں احکام الٰہی اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خیال نہیں رکھا گیا ۔ اور وہ اعمال باطل میں جو اسوہ رسول کے موافق نہیں ہیں ۔ اور وہ روشنی تاریکی وظلمت کے مترادف ہے ۔ جو مشکوٰۃ نبوت سے مستفاد نہیں ہے ۔ یعنی اعمال وقدروقیمت اسلامی نقطہ سے یہ نہیں ہے ۔ کہ وہ کس درجہ وسیع اور کس حد تک مفید ہیں اور ان کو بروئے کار لانے میں کتنی مصیبتوں اور کلفتوں کو برداشت کیا کیا گیا ہے ۔ بلکہ معایر ان کا پرکھا یہ ہے ۔ کہ ان کے اوپر مدینہ کے دارالضرب کی مہر بھی مکی ہے یا نہیں ۔ جس طرح منبس سکے کی کوئی قیمت نہیں ۔ اسی طرح اسلامی بازار میں بدعات کی کوئی قیمت نہیں ۔ بلکہ ان کا مرتکب اسلامی قانون کے سامنے جواب دہ ہے *۔ حل لغات : اصغانھم جمع حففن بمعنے کینے والی عداوتیں * لحن لقول ۔ انداز گفتگو ۔ طرف کلام * شدتوا ۔ مخالفت کی اور عناد کا مظاہرہ کیا *۔ محمد
34 ف 1: یعنی وہ لوگ جنہوں نے ایمان پر کفر کو ترجیح دی ۔ اور نور کے بدلے ظلمت کو خریدا ۔ اور اسی حالت محرومی وبدبختی میں مرگئے ۔ تو ان کے لئے بخشش کا کوئی موقع نہیں ۔ اور ان کے تمام اعمال چونکہ صحیح نقطہ نگاہ سے صادر نہیں ہوئے ۔ اس لئے مسترد کردیئے جائیں گے اور یہ کسی اجر کے بھی مستحق قرار نہیں دیئے جائیں گے *۔ محمد
35 محمد
36 تم سربلند ہوں ف 2: یعنی جب یہ درست ہے ۔ کہ تم حق وصداقت کی مضبوط چٹان پر کھڑے ہو ۔ اور اللہ کی سچائی کا ساتھ دیتا ہے ۔ تو پھر تم مطلقاً نہ گھبراؤ اور کفر کا سختی کے ساتھ مقابلہ کرو ۔ کیونکہ سربلندی اور تفوق تمہارے لئے متقدارات سے ہے ۔ اور ضروری ہے ۔ کہ تمام دنیا میں جب تک جہاد وقتال کی زندگی بسر کرو ۔ اللہ کی تائیدات تمہارے شامل حال رہیں ۔ اور تمہارا قدم جدھر کو اٹھے کامیابیاں اس کو چومنے کے لئے آگے بڑھیں ۔ یہ زندگی محض ایک تماشا اور کھیل ہے *۔ اس کی مسرتوں کو زیادہ اہمیت نہ دو ۔ اگر تم لوگ مومن رہے ۔ اور اتقاء کے دامن کو تم نے ہاتھ سے نہ دیا تو پھر اجروثواب سے تمہاری جھولیاں بھر دیگا ۔ اور وہ تم سے تمہاری استطاعت سے زیادہ جہاد کے مصارف کے لئے مال طلب نہیں کرتا ۔ کیونکہ وہ جانتا ہے ۔ کہ اگر تم عوام سے زیادہ کا مطالبہ کرے گا ۔ تو تم بخل کا اظہار کرنے لگے گے *۔ حل لغات :۔ الی السلم ۔ صلح کی طرف * ولن یتر ۔ ویتر سے ہے ۔ جس کے معنی نقصان پہنچانے کے ہیں *۔ محمد
37 محمد
38 یادرکھو کہ اللہ تعالیٰ کے نام پرصدقات وخیرات دے کر تم اس کو ممنوں نہیں کرتے ہو ۔ بلکہ اسمیں کچھ تمہارا ہی فائدہ ہے ۔ اور یہ بخل تمہارے حق میں ہی مضرثابت ہوگا ۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے ۔ وہ بالکل بےنیاز ہے ۔ اگر تم اپنے فرائض کو ادا نہیں کرو گے ۔ تو وہ تمہاری دوسرے لوگوں کو لے آئے گا ۔ اور ان سے اپنے دین کی حمایت کا کام لے لے گا ۔ کیونکہ اس کو بہرحال اپنے دین کی بقاء اور تحفظ منظور ہے *۔ محمد
0 الفتح
1 سورۃ الفتح ف 1: یہ سورۃ صلح حدیبیہ کے متعلق نازل ہوئی ہے ۔ اور اس میں فتح مکہ کے کھلے لفظوں میں پیشگوئی کی گئی ہے ۔ اس میں بتلایا گیا ہے کہ آپ لوگ یہ نہ سمجھیں ۔ کہ حدیبیہ کے مقام پر جو معاہدہ کیا گیا ہے ۔ وہ شکست اور ہزیمت پر منتج ہوگا ۔ یہ تمہیں ہے ۔ کامیابی کی اور بیش خیمہ ہے ۔ مظفر اور منصوبہ ہونے کا اس کے بعد غفران ذنب کی بشارت ہے ۔ اور اتمام نعمت کی خوشخبری ہے ۔ اور اس حقیقت کا اظہار ہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سعادت اور برکت کی راہوں پر گامزن ہونے کے برابر توفیق مرحمت فرماتا رہے گا ۔ اور کسی حالت میں بھی نصرت واعانت سے دریغ نہیں کریگا *۔ حل لغات :۔ مصراعزیزا ۔ یعنی ایسی مدد جو عزت اور غلبہ عطا کرنے کا موجب ہو یا وہ نصرت جو ان مواقع پر زور اور خصوصی ہو ، اور جس کی شدید ترین ضرورت ہو *۔ الفتح
2 غفران ذنب کے ضمن میں اہل تفسیر نے حسب تاویلات کا ذکر کیا ہے :۔ (1) ذنبک سے مراد مسلمانوں کے گناہ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ مخاطب اول ہیں ۔ اس لئے ان کی وساطت سے گناہوں کی بخشش عام کا کردہ سنایا ہے *۔ (2) مخاطب تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں مگر ذنب کے معنے ترک اولیٰ کے ہیں ۔ معصیت اور نافرمانی کے نہیں ہیں *۔ (3) اس سے صغائر مراد ہیں ۔ جن کا صدور انبیاء سے ہوسکتا ہے *۔ (4) اس سے مقصود عصمت کا ثبوت ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ گناہوں کو آپ نظروں سے اوجھل کردیں *۔ مگر ان سب تاریکوں میں ایک نقص یہ ہے کہ ان کا تعلق نفس واقعہ سے کچھ بھی نہیں معلوم ہوتا ۔ آیات میں تو فتح مکہ کا مراوہ سنایا جارہا ہے ۔ اور درمیان میں غفران ذنب کا ذکر آگیا ہے ۔ جو بظاہر بالکل غیر متعلق معلوم ہوتا ہے * اصل بات یہ ہے کہ ذنب کے معنی یہاں گناہ معصیت یا ترک اولیٰ کے نہیں ہیں ۔ بلکہ الزام کے ہیں ۔ اور اس کی نظیر خود قرآن میں ملتی ہے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرماتے ہیں ۔ ولھم علی ذنب کہ قبطیوں کا میرے اوپر ایک الزام ہے ۔ تو اس صورت میں ظاہر ہے کہ آیت کے معنے بالکل واضح ہیں ۔ کہ فتح مکہ کے بعد جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان مکے والوں سے نہایت تپاک اور محفوظ سلوک کرنے کے اور ان لوگوں کو زیادہ قریب ہوکر اسلام کا مطالعہ کرنے کا موقع ملیگا ۔ تو پھر وہ الزامات جو انہوں نے آپ کی جانب منسوب کررکھے تھے ۔ یا جن کے انتساب کا مستقبل میں احتمال پیدا ہوسکتا ہے ۔ وہ دور ہوجائیں گے ۔ اور فتح مکہ کی فرض بھی یہ ہے ۔ کہ ان لوگوں کو مشکوٰۃ نبوت کے انوار سے براہ راست استفادہ کی توفیق میسر ہو ۔ اور ان کے دلوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے متعلق جو شکوک وشبہات ہیں ۔ ان کا ازالہ ہوجائے *۔ یہ بات اسلامی مسلمات میں سے ہے ۔ کہ انبیاء علیہم لاسلام نہ صرف معصوم ہوتے ہیں ۔ بلکہ ان کے آنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ معصوم انسانوں کے ایک گروہ کو پیدا کریں ۔ ویزکیھم اس لئے ان کے باب میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ کہ وہ خودبھی معصوم ہوتے ہیں ۔ یا انہیں انکا مقام وعصمت سے زیادہ بلند ہوتا ہے ۔ وہ اس پاکیزگی سے بہرہ مند ہوتے ہیں ۔ جو عام انسانوں کے حصہ میں نہیں آسکتی *۔ الفتح
3 الفتح
4 الفتح
5 الفتح
6 حل لغات :۔ انزل اشکینہ ۔ غلبہ اور تفوق کا یقین اور اللہ کی مطلب مدد کا احساس تحمل پیدا کیا *۔ ف 1: خدا کے ساتھ سوء ظن کے کئی معنے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کی اعانت اور نصرت پر بھروسہ نہ ہو ۔ اس کی باتوں پر اعتماد نہ ہو ۔ اور یہ بھی کہ اس کی ذات کے ساتھ مشرکانہ عقیدوں کو وابستہ قرار دیا جائے ۔ فرمایا ۔ ان لوگوں کو اس گناہ کی پاداش میں یہ سزا دی جائیگی ۔ کہ یہ دنیا میں مصائب اور کلفتوں میں گرفتار ہوں گے ۔ اور آخرت میں ان پر اللہ کا غضب بھڑیکے گا ۔ اس کی رحمت سے یہ دور رہیں گے ۔ اور جہنم ان کا ٹھکانہ ہوگا *۔ الفتح
7 ف 2: دوبارہ اس آیت کو ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ یہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ان کے اعوان وانصار ان کو اللہ کے عذاب سے بچا لیں گے ۔ کیونکہ اللہ کے پاس ایسے عساکر ہیں ۔ جن کا سامنا کرنا انسان کی طاقت اور وسعت سے باہر ہے ۔ پہلی دفعہ اس آیت کو مقام بشارت میں بیان کیا تھا ۔ اور وہاں غرض یہ تھی کہ مسلمانوں کو بتایا جائے کہ ان کے آقا و مولا کے پاس اعانت اور مدد کے بےشمار ذرائع ہیں ۔ اور ان گنت فرشتے ہیں وہ جو چاہے ان سے کام لے ۔ الفتح
8 الفتح
9 حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تین منصب ف 3: شاہد سے مراد یہ ہے ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام حقائق کو تسلیم کرتے ہیں ۔ اور تمام سچائیوں کو بالمو جبہ دیکھ رہے ہیں ۔ آپ کی تعلیمات میں خصوصیت کی بات یہ ہے کہ ان میں محض حق وصداقت پر گواہی اور شہادت ہے ۔ کسی فرقہ یا جماعت کے خیالات کی تائید یا تردید نہیں ۔ یقینی آپ نے پہلی اور آخری دفعہ اس عقیدے کا اعلان فرمایا ہے ۔ کہ اللہ کی رحمتیں عام ہیں ۔ تمام قومیں اس کے فضل وکرم سے بہرہ مند ہوتی ہیں ۔ اور الہام ووحی کے لئے بنی اسرائیل یا دوسری قوموں کی کوئی خصوصیت نہیں ۔ آپ کا مشن یہ ہے کہ کائنات انسانی میں جہاں کہیں بھی اور صداقت ہو ۔ کسی صورت اور کسی پیریہ بیان میں ہو اس کی حقانیت پر شہادت دیں ۔ اور بتلائیں کہ سچائی تمام بات ہے ۔ اس میں جھگڑے اور بحث کرنے کی ضرورت نہیں ۔ غرض یہ ہے کہ آپ ایسے صیحفہ رشدوہدایت کو اپنے ساتھ لاتے ہیں ۔ جس میں شعادت اور کامیابی کی خوشخبری ہے ۔ آپ نے مایوسی اور قنوط سے نکال کر انسان کو اور تیقن کے میدان میں لاکھڑا کردیا ہے * آپ وثوق کے ساتھ فرماتے ہیں ۔ کہ اگر عقبے کی بشارتوں سے روح اور جسم کو خوش کرنا چاہتے ہیں ۔ تو میری طرف آؤ۔ اور فطرت کی جانب پلٹو ۔ نذیر کے معنی یہ ہیں ۔ کہ آپ کا انکار محض ایک نظام انکار کا انکار نہیں ہے ۔ بلکہ اللہ کا انکار ہے ۔ اس کی رحمتوں اور بخششوں کا انکار ہے اور عملاً اس مطالبہ کے مترادف ہے ۔ کہ ہم کو ہمارے گناہوں کی اور ہماری گستاخیوں کو ایسے رسول کو اس لئے بھیجا گیا ہے ۔ تاکہ تم اللہ پر ایمان لاؤ۔ اور اس کے ساتھ عقیدت رکھو ۔ اس کی مدد کرو ۔ اور ان کی توقیر کرو اور اس کے بھیجنے والے کی حمدوتسبیح میں صبح وشام مصروف رہو * حل لغات :۔ جنود ۔ جمع جند ۔ صیحفے عساکر ، جماتیں * میکرۃ ۔ صبح * اسبیلا ۔ شام * یداللہ ۔ مجاز ہے ۔ مراد مابندو اعانت ہے * واضح رہے کہ بیع کے معنے لغت میں بیچنے کے ہیں ۔ اور اسیت کے معنے یک جائیکے ہیں ۔ اور اصطلاح ہیں اس معاہدہ کا نام ہے جس میں مطلقاً اطاعت کا اقرار کیا جائے * الفتح
10 ف 4: اس میں بیعت رضوان کا تذکرہ ہے ۔ جو جہاد کے لئے لی گئی ۔ فرمایا تو لوگ یہ نہ سمجھو ۔ کہ تم نے اپنا ہاتھ عہدہ میثاق کے لئے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں دیا ہے ۔ بلکہ تم رسول کی وساطت سے اللہ کے ساتھ اقرار کررہے ہو ۔ سو اس کا دست اعانت تمہارے لئے بڑھیگا ۔ اور ضرور تمہاری مدد کریگا * الفتح
11 الفتح
12 منافقین کی بزدلی ف 1: یعنی ایک طرف تو مسلمانوں کی جماعت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھی ۔ جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مصیبت میں نکل کھڑی ہوئی تھی ۔ اور ایک منافقین تھے جن کی بزدلی اور بددلی کے جذبات غالب تھے ۔ کہ یہ لوگ مکہ کی طرف بڑھے تو ہیں ۔ اگر قریش کی فوجوں کے ساتھ تصادم ہوگیا ۔ تو پھر واپس نہیں لوٹیں گے گویا ان کے دلوں میں مایوسی تھی ۔ اور اللہ کے متعلق حسن نش موجود نہ تھا تھا ۔ فرمایا ۔ یہ محض تمہارا ظن تھا ۔ جو شیطان نے تیقن کی شکل میں سنوار کر تمہارے سامنے پیش کیا ۔ اور تم نے تسلیم کرلیا حقیقت یہ ہے کہ تم ایسی جماعت ہو ۔ جسے ہلاکت اور بربادی پسند ہے ۔ تم نے اس بات پر غور نہیں کیا ۔ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کیونکر ذلیل ورسوا کرسکتا ہے ؟ یہ کیونکر ممکن ہے ۔ کہ مومن لوگ تو اس کے دین کی حفاظت کے لئے سربکف ہوکر اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں ۔ اور وہ جو ارحم الراحمین ہے ان کے لئے کچھ نہ کرے ۔ وہ تو اپنے ماننے والوں کو اور اپنے وابستگان عقیدت کو عزت واحترام کے مقامات پر فائز کرتا ہے ۔ اور مخالفوں کو دکھادیتا ہے ۔ کہ کیونکر ان کی ساری تدبیریں ناکام رہتی ہیں ۔ اور کس طرح باوجود ظاہری شان وشوکت کے وہ شکست یاب ہوجاتے ہیں *۔ حل لغات :۔ بورا ۔ واد ، ثقلبہ ، اور جمع سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ بمعنی ہلاک ہونے والے * الفتح
13 عارضی مسرتیں ف 2: غرض یہ ہے کہ یہاں کی عارضی مسرتوں میں منہک ہو کر تم آخرت کو بھول گئے ہو ۔ یاد رکھو ۔ کہ وہاں تمہارے سوائے جہنم کی اذیتوں کے اور کچھ نہیں ہوگا ۔ یہ نہیں ہوسکے گا ۔ کہ تمہارا مال اور تمہاری عزت و وجاہت تم کو اس کی گرفت سے چھڑا سکے یا امتیازات یہاں ختم ہوجائیں گے ۔ وہاں جو چیز کام آئیگی ۔ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی غلامی ہے ۔ جس سے تم کو نفرت ہے ۔ اور اس ذات کے ساتھ گہری اور عمیق محبت ہے ۔ جو تم کو گوارا نہیں *۔ الفتح
14 الفتح
15 فتح خبیر کی خوشخبری ف 1: ان آیات میں منافقین کا ذکر ہے ۔ کہ یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تو گئے نہیں ۔ مگر جب آپ حدیبیہ سے لوٹے اور راستے میں یہ سورت نازل ہوئی ۔ اور اس میں ان کو خوب ذلیل کیا گیا ۔ اور آپ نے اپنے ساتھیوں کو فتح خیبر کی خوشخبری سنائی ۔ تو کچھ رسوائی کو مٹانے کی غرض سے اور کچھ مغانم کے حصول کے لئے ان کے دلوں میں شرکت جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ۔ اور انہوں نے چاہا ۔ کہ یہ بھی اس میں آپ کے ساتھ دیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ کہ کیا یہ لوگ کلام الٰہی کو بدلنا چاہتے ہیں ۔ یہ تو پہلے ہی قرار پاچکا ہے ۔ کہ اس جنگ میں صرف وہی لوگ جاسکیں گے ۔ جو حدیبیہ کے سفر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھے ۔ اس لئے ان کے لئے شرکت جہاد کا کوئی موقع ہی نہیں ۔ ہاں اگر ایسا ہی شوق ہے ۔ تو اس وقت تک انتظار کرو ۔ جب تک ایک زبردست قوم کا سامنا ہو ۔ اس وقت اگر تم گرمجوشی کے ساتھ لڑے ۔ اور داد شجاعت دی ۔ تو پھر اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو معاف کردیگا ۔ اور تم کو بہت بڑے اجر سے نوازے گا ۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے ۔ کہ یہ موعودہ جنگ وہ تھی ۔ جو حضرت عمر کے زمانہ میں عجمیوں سے ہوئی *۔ حل لغات :۔ المخلفون ۔ جہاد سے پیچھے رہ جانے والے ۔ مغانم ۔ جمع ختم بمعنی غنیمت مال جو جنگ میں کفار سے حاصل کیا جائے *۔ الفتح
16 الفتح
17 جہاد کب تک جاری رہے گا ؟ ف 1: جہاد اسلامی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ یہ اس وقت تک جاری رہیگا ۔ جس وقت تک کہ دنیا میں کفر موجود ہے ۔ اور کفر کے ساتھ آویزش ہے ۔ جب تک تاریکی اور ظلمت کا دور دورہ ہے ۔ جب تک مظالم کی حکومت ہے ۔ جب تک جبرواستبداد انسانوں میں تحقیر ومنافرت کے جذبات پیدا کرتا ہے ۔ جب تک کہ ہیئت اجتماعیہ کو آزادی اور استقلال کی نعمتیں میسر نہیں ۔ جب تک کہ غلامی اور بندگی موجود ہے ۔ جب تک کہ انسان انسانوں پر ظلم وجور سے حکومت کرتے ہیں ۔ جب تک کہ زمین پر ذرہ بھر بھی ناانصافی موجود ہے ۔ جہاد کے معنے ایسی مساعی کو جاری رکھنے کے ہیں جن کی وجہ سے ظالم کا سر کچلاجائے ۔ سزاعنہ کے کبروغرور کو توڑا جائے ۔ اور جس سے مالکوں وسرمایہ داروں کی چیزہ دستیوں کا سدبات کیا جائے ۔ جہاد اس وقت تک انسان پر فرض ہے جب تک کہ عالم میں سعادت وبرکت کا نزول نہیں ہوتا ۔ جب تک کہ توحید وعدل کی حکومت قائم نہیں ہوتی ۔ اور جب تک کفروشرک کو ذرہ بھر بھی اختیارات حاصل ہیں ۔ جہاد سے غرض یہ ہے کہ اس عالم فسق وفجور میں توازن واعتدال پیدا کیا جائے ۔ اور تمام انسانوں میں اس جذبہ کی تخلیق کی جائے ۔ کہ وہ حق وصداقت کا احترام کرنے لگیں ۔ اور وحدت وتعاون کے مرکز پر مجتمع ہوجائیں ۔ اس آیت میں بتایا ہے ۔ کہ اس عبادت سے سوائے ان لوگوں کے جونی الواقع معذور اور جن کی شرکت سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ۔ اور کوئی مستثنیٰ نہیں ۔ اندھے معذور ہیں ۔ لنگڑے معذور ہیں ۔ اور بیمار معذور ہیں ۔ مگ ران کے لئے بھی ہے ۔ کہ یہ دوسرے امور میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بہر طوراطاعت کریں ۔ اور اپنی جنت کو حاصل کرنے کی کوشش کریں *۔ الفتح
18 الفتح
19 ف 2: ببول کے درخت کے نیچے سرفروشوں کی ایک مخلص جماعت نے حضرت عثمان (رض) کے انتقام لینے کے لئے یعنی ایک مسلمان کی عزت وحرمت پر جان نچھاور کردینے کے لئے ایک عہد کیا تھا ۔ یہ عہد بیعتہ رضوان سے موسوم ہوا ۔ اور اب تک قرآن کے لازوال اوراق میں اس عہد کا تذکرہ ہے ۔ اور ہمیشہ تک ان کی اس وفاداری اور خلوص کا چرچارہے گا *۔ باقی صفحہ یہ پاکبازلوگ وہ تھے ۔ جن پر اللہ نے اپنا فضل وکرم کیا ۔ اور ان کو اپنی رضا کا تمغہ عنایت فرمایا ۔ کیونکہ انہوں نے اس کو خوش کرنے کے لئے اپنی زندگی تک قربان کردینے کا تہیہ کرلیا ۔ فرمایا ۔ اللہ نے ان پر تسکین نازل فرمائی ۔ اور فتح خیبر کی خوش خبری سنائی * حل لغات :۔ حرج ۔ مضائقہ * مافی قلوبھم ۔ محل مدح میں ہے یعنی خلوص ومحبت *۔ الفتح
20 الفتح
21 ف 1: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتوح ومغائم کے حصول کی خوشخبری سنادی ہے ۔ اس لئے مقدرات میں سے ہے کہ یہ کائنات پر چھا جائیں ۔ اور اپنی قوت وسطوت سے ایک عالم پر حکومت کریں ۔ چنانچہ بعد میں آنے والے واقعات نے ثابت کردیا ۔ کہ صحابہ اپنے زمانے کے بہت بڑے فاتح اور شہنشاہ تھے ۔ جہاں گئے ۔ اور جدھر کو عنان توجہ اٹھ گئی بلکوں قوموں نے غلامی پر فخر کیا ۔ اور یہ سب کچھ اس لئے ہوا ۔ کہ ان کے دلوں میں ایمان کی سچی تڑپ تھی ۔ اور جہاد سے محبت تھی ۔ یہ لوگ زندگی کا بہترین معرف یہی قرار رہتے تھے ۔ کہ اس کو اللہ کی راہ میں صرف کردیا جائے ۔ اور ان کا نصب العین یہ تھا ۔ کہ اعلائے کلمتہ الحق ہو *۔ الفتح
22 الفتح
23 اللہ کا فیصلہ ف 2: غرض یہ ہے ۔ کہ مقام حدیبیہ پر جو صلح کا اقرارنامہ مرتب ہوا ۔ اس وقت مکے والوں کا بھی فائدہ تھا ۔ وہ اگر جنگ کے در پے ہوتے اور صلح کے لئے آمادہ نہ ہوتے ۔ تو یہ بات یقینی تھی ۔ کہ وہ بری طرح شکست سے دوچار ہوتے ناممکن تھا کہ وہ بہادران اسلام کا مقابلہ کرسکتے ۔ کیونکہ یہ اللہ کی سنت جارہی سے ۔ کہ پیغمبروں کے ماننے والے ہمیشہ اپنے دشمنوں پر غالب رہتے ہیں ۔ یہ مقدارات میں سے ہے ۔ کہ جب جنگ ہوتا حق اور باطل کے درمیان ہو ۔ جب آویزش ہو ، نورا اور ظلمت میں اور جب تصادم ہوجائے ظالم اور مظلوم کے درمیان تو پھر فتح ونصرت اس طرف ہونی ہے ۔ جس طرف حق ہو ۔ نور ہو اور مظلومیت ہو ۔ اللہ تعالیٰ کے اس مسلک میں بھی تبدیلی نہیں ہوتی اور اس قانون کے نفاذ میں صدیوں اور قرنوں کے گزرنے پر بھی خلاف نہیں ہوتا ۔ یہ اسی طرح درست ہے جس طرح یہ درست ہے ۔ کہ دریا نس وخاشاک کو بہاکر لے جاتا ہے ۔ اور جس طرح یہ صحیح ہے ۔ کہ آگ ہر چیز کو جو اس میں ڈال دی جائے ۔ جلا کر راکھ کا ڈھیر بنادیتی ہے ۔ آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک کئی ہزار انبیاء تشریف لائے ہیں ۔ اور پھر لاکھوں انسانوں نے ان کی مخالفت بھی کی ہے *۔ لیکن آپ نے تاریخ اقوام والم میں اس بات میں نمایاں طور پر دیکھا ہوگا ۔ ککہ جب بھی ان لوگوں نے سرکشی اور تمرد کا اظہار کیا ہے ۔ اللہ کا غضب بھڑکا اور ان ظالموں اور نافرمانوں کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا ۔ اور اس بات کی پرواہ نہیں کی گئی ۔ کہ یہ لوگ قلعوں اور بڑے بڑے محلات کے مال ہیں ۔ ان کے پاس سیم وزر کے انبار ہیں ۔ ان کے پاس رہنے کے لئے عمدہ عمدہ باغات ہیں ۔ اور یہ زندگی کی ہر آسودگی سے بہرہ مند ہیں ۔ بلکہ جب اللہ کا عذاب آیا ہے ۔ تو یہ لوگ زندگی کی ہر آسائیش سے محروم ہوگئے ہیں ۔ اور ان کی بدبختیوں نے ان کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے *۔ حل لغات :۔ ایۃ ۔ نشانی * اطفرکم علیھم ۔ تم کو ان پر قابو دے دیا * الفتح
24 ف 1: یعنی بطن مکہ میں کفار سے حملہ کرنے کی قوتوں کو سلب کرلیا ۔ اور تمہیں بھی روک دیا ۔ تاکہ بیت اللہ کی حرمت برقرار رہے ۔ ہاں کچھ لوگ عکرمہ بن ابی جہل کی قیادت میں مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے نکلے تھے ۔ سو ان کو خالد بن والید نے ان کے گھروں تک پہنچا دیا ۔ اور پھر چھوڑ دیا ۔ حالانکہ اگر وہ چاہتے تو ان کو آسانی کے ساتھ گرفتار کرسکتے تھے *۔ الفتح
25 ف 2: کفار کی اس حرکت کی طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو حدیبیہ کے مقام پر روک لیا ۔ اور مناسک حج کے ادا کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ فرمایا ۔ اگر یہ احتمال نہ ہوتا ۔ کہ مسلمانوں کے حملہ سے بےخبری میں بعض ان مسلمانوں کو نقصان پہنچ جائے گا ۔ جو مکہ میں رہتے ہیں ۔ تو فیصلہ ہوچکا ہوتا اور ان کے اس اقدام کی پوری پوری سزدیجا چکی ہوتی ۔ مگر اللہ کو تو یہ منظور تھا ۔ کہ بغیر اس کے کہ ان مسلمانوں کی ابتلاء اور آزمائش میں ڈالا جائے ۔ مگر فتح ہوجائے ۔ اور اس طرح ان لوگوں کو وہ اپنی آغوش رحمت میں لے لے ۔ ہاں اگر کفار اور مسلمانوں میں کوئی امتیاز پیدا ہوجاتا ۔ تو پھر یقینا جہاد کے ذریعہ ان لوگوں کو سخت ترین سزادی جاتی *۔ حل لغات :۔ الھدی ۔ قربانی کا جانور * محلہ ۔ اس کے موقع میں ۔ اپنے مقام * معرۃ ۔ نقصان ۔ تکلیف * تزیلوا ۔ چھٹ جائے ۔ جدا جدا ہوجائے ۔ ٹل گئے * الحیتہ ۔ ننگ ۔ عار ۔ غیرت *۔ الفتح
26 الفتح
27 حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خواب ف 1: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سفر حدیبیہ سے قبل خواب میں دیکھا تھا ۔ کہ آپ اپنے صحابہ (رض) کے ساتھ مکہ میں داخل ہورہے ہیں ۔ اور پوری طرح مناسک حج ادا کررہے ہیں ۔ چنانچہ کوچ سے پہلے جو خوشخبری آپ نے سب مسلمانوں کو سنادی جس سے ان کے دل مضبوط ہوگئے ۔ اور جذبات مسرت سے معمور ہوگئے ۔ پھر جب حدیبیہ کے مقام پر روک لئے گئے ۔ اور وہاں ایک معاہدہ ملنے پایا ۔ اور واپس ہوئے ۔ تو منافقین نے ازراہ استہزاء کہنا شروع کیا ۔ کہ ہم خواب کے مطابق نہ تو بیت اللہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں ۔ اور نہ ہم نے مناسک کو ادا کیا ہے ۔ اس پر ان آیات کا نزول ہوا ۔ کہ پیغمبر نے جو کچھ عالم رویا میں دیکھا ہے ۔ اس کی حقانیت میں کوئی شبہ نہیں ۔ انشاء اللہ قطعی اور حتمی طور پر تم لوگ مکہ میں داخل ہونگے ۔ اور مناسک کو ادا کروگے تم یہ نہیں جانتے ۔ کہ اس دفعہ رک جانے میں اور بظاہر دب کر مصالحت کرلینے میں کیا کیا مصلحتیں ہیں ۔ چنانچہ قرآن کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی ۔ اور یہی مسلمان جن کو حج کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی ۔ فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔ حالانکہ اس وقت ان حالات میں اتنی پرزور پیش گوئی کرنا دشوار ہی نہیں ۔ بلکہ محال تھا * الفتح
28 غالب تردین ف 2: فرمایا : کہ منافقین کو اس میں شبہ ہے ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ خواب سچا ثابت ہوگا یا نہیں ۔ اور یہاں یہ طے شدہ حقیقت ہے ۔ کہ ان کو ہدایت سے بہرہ ور کرکے بھیجا گیا ہے ۔ اور دین حق سے نوازا گیا ہے لہٰذا ان کو اس حد تک کامیابی ہوگی ۔ کہ ان کا دین تمام ادیان یہ غالب آجائے گا ۔ اور تمام مذاہب ان کے پیش کردہ اصولوں کو اپنے میں جذب کرلیں گے ۔ اور ان کے لئے زندگی کی صرف یہی صورت باقی رہ جائیگی ۔ کہ یا تو اسلام کی صداقتوں کے سامنے سرتسلیم جھکا دیں یا مث جائیں * حل لغات :۔ المسجدالحرام ۔ بیت اللہ * اشداء ۔ جمع شدید ۔ بمعنی سخت ودلیر وشیر ورغلہ *۔ الفتح
29 صحابہ (رض) کی تصویر ف 1: ان آیتوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیدا کردہ جماعت کی تصویر کھینچی ہے ۔ کہ یہ پاک باز نفوس اخلاق کے کن مقامات بلند پر فائز تھے ۔ اور ان میں کیا خصوصیات تھیں ۔ جن کی وجہ سے یہ لوگ ایک صدی میں معمورہ ارض پر چھاگئے ۔ اور سارے عالم کے لئے اسوہ رشدوہدایت قرار پائے ۔ فرمایا ۔ ان لوگوں کے خصائص یہ ہیں ۔ یہ لوگ کفر سے سخت متنفر ہیں ۔ ان کی طبیعتوں میں اس کے متعلق قطعاً کداز اور نرمی نہیں ۔ خدا کے مخالفین کے ساتھ ان کے تعلقات سخت کشیدہ ہیں ۔ اور یہ ان کے لئے برق خاطف اور مرگ مفاجات کی مانند مہلک ہیں ۔ البتہ ایمان سے ان کو محبت ہے ۔ اور مسلمانوں کے بےحد شفیق اور مہربان ہیں ۔ زہد کا یہ عالم ہے ۔ کہ تم ان کو خدا کے سامنے ہمیشہ عبودیت اور تذفل کا اظہار کرتا ہوا پاؤ گے ۔ ان کے چہروں پر سجدہ کے صاف اور نمایاں نشان ہیں ۔ تو راہ اور انجیل میں ان کا یہی حلیہ مذکور ہے ۔ کہ یہ لوگ شاداب اور شگفتہ کھیت کی طرح ہیں ۔ جن کو کسان دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ۔ اور مخالف جلتے ہیں ۔ اور جس جماعت میں اس نوع کی خوبیاں ہیں ۔ اور جو ان مولد کی حامل ہو ۔ اس کی کامیابیوں کے لئے تو ساری زمین کی وسعتیں بھی کم ہیں یہ لوگ کتنے متبرک اور کس قدر قدسی نفوس تھے ۔ کہ پیغمبر کی محبت سے دن رات کسب انوار کرتے تھے ۔ اور اخلاق وروحانیت کی اعلیٰ ترین رتبوں پر متمکن تھے ۔ ان کی وجہ سے دنیا میں اسلام پھیلا ۔ اور ان کی وساطت سے تمام برکات ہم تک پہنچیں ۔ اللھم صلی علیہ محمد وعلی اصحابہ *۔ حل لغات :۔ رحماء ۔ شفیق ۔ مہربان * شطاء ۔ سوئی * بیغیک ۔ غیظ وغضب میں مبتلا کردے * لا تفدموا ۔ آگے نہ بڑھو ۔ تجاوز نہ کرو *۔ الفتح
0 ف 2: اس صورت میں ان آداب اور عواید ونیبہ کا ذکر ہے ۔ جو مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لئے ضروری ہیں ۔ اور جن پر عمل پیرا ہونا گویا دین اور دنیا کی سعادتوں سے بہرہ مندی حاصل کرنا ہے *۔ فرمایا سب سے پہلے تو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عزت اور حرمت دنوں میں موجود ہونی چاہیے ۔ اور وہ اس حد تک ہوکر ان کے ارشادات کو اپنے لئے کافی وشافی قرار دیا جائے ۔ یعنی عقیدہ یہ ہو ۔ کہ جو کچھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ۔ وہی بہتر ہے ۔ اور وہی اجروثواب کا موجب ہے ۔ اور جن چیزوں کو چھوڑ دیا ہے ۔ ان میں قطعاً خیروبرکت نہیں ہے ۔ یعنی یہ کوشش نہ کی جائے ۔ کہ ہم شرع کی باتوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی آگے نکل جائیں ۔ اور اپنے لئے ان اعمال وافعال کو لازمی سمجھ لیں ۔ جن کا سنت میں کوئی ذکر ہی نہیں ۔ کیونکہ جب یہ طے ہے ۔ کہ اللہ کا علم بہرآئینہ کامل ہے ۔ اور تمام مصالح پر اس کی نظر ہے ۔ تو پھر یہ کہنا کہ گو اس بات کا ثبوت حضور سے نہیں ملتا ۔ مگر یہ فعل بجائے خود مستحسن اور موجب ثواب ہے ۔ محض غلط ہے ۔ اگر اس میں خیروسعادت کا کوئی پہلو بھی ہوتا ۔ تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو نظر انداز نہ فرماتے ۔ اور ضرور اس کا ذکر کرتے ۔ آیت کا منشاء یہ ہے ۔ کہ اس نوع کے جدیدافعال کا ارتکاب مذہب کے نام پر اور مذہبی شکل وصورت میں حرمت نبوی کے منافی ہے ۔ اور اس بات کے مترادف ہے کہ آپ پیغمبر کو اپنے لئے کامل اور جامع اسوہ نہیں سمجھتے ۔ آداب دربار نبوت میں سے دوسری چیز یہ ہے ۔ کہ مخاطبین جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شرف تخاطب حاصل کریں ۔ تو آواز میں عاجزی ، محبت اور عقیدت کا اظہار ہونا چاہیے ۔ چیخ چیخ باتیں کرنا ۔ اور بلند آواز سے سامعہ پیغمبر کو اذیت پہنچانا درست نہیں ۔ کیونکہ اس طرح دلوں میں گستاخی کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں ۔ اور قلب سیاہ ہوجاتا ہے ۔ فرمایا ۔ ایسا نہ ہو ۔ کہ تم اپنے اعمال ضائع کرو ۔ اور تمک معلوم بھی نہ ہو ۔ کہ کیوں تم اجروثواب سے محروم قرار دیدیئے گئے ۔ یاد رکھو ادب واحترام ایمان کا جزو ہے اور وہ لوگ جو اس سے محروم ہیں ۔ ایمان کی حلاوت سے محروم ہیں ۔ اب جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تخاطب کے لئے ہم میں موجود نہیں ۔ اس حکم کا منشا یہ ہوگا ۔ کہ ان کی آواز اور ان کا پیغام سنت میں موجود ہے اور وہ شخص سخت ناہنوار اور بےادب سے جو اپنی رائے کو اس آواز سے یعنی صوت رسول سے زیادہ اہم اور لائق احترام سمجھتا ہے ۔ ع بے ادب محروم مانداز فضیل رب مسلمان کا شیوہ یہ ہے کہ جس طرح وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں مکلف تھا ۔ کہ اپنی آواز کو رسول کی آواز کے مقابلہ میں پست رکھے اسی طرح آج بھی آپ کے پیغام کے سامنے اور آپ کی سنت کے سامنے لب کشائی نہ کرے ۔ اور اپنے فہم وادراک سے اس میں دخل نہ دے ۔ بلکہ یہ سمجھے کہ بہرحال میرے لئے ساری کائنات کے لئے آپ ہی کے اسوہ میں برکت وسعادت ہے *۔ حل لغات :۔ مغضون ۔ پست رکھتے ہیں * الحجرات ۔ حجرے * الحجرات
1 الحجرات
2 الحجرات
3 الحجرات
4 الحجرات
5 ف 1: عنیہ بن حصن انفراری اور اقرع بن حابس کوئی ستر آدمیوں کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملنے کے لئے آئے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت حرم میں تشریف فرما تھے یہ لگے زور زور سے آوازیں دینے ، اس پر ان آیات کا نزول ہوا ۔ کہ اس طرح آپ کو مخاطب کرنا بےادبی اور بےعقلی ہے ۔ ان لوگوں کو چاہیے تھا کہ اطلاع کرادیتے اور پھر انتظار کرتے حتیٰ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آتے اور ان کی معروضات کو توجہ سے سن لیتے ۔ یاد رہے کہ یہ حکم اس وقت پیغمبر جلالت قدر کے تحفظ کے لئے ضروری تھا ۔ اور اسلام چونکہ ہرزمانے کے لئے موجب خیروبرکت ہے اس لئے اب اس کے یہ معنے ہونگے ۔ کہ دین میں خواہ مخواہ موشگافیاں کرنا درست نہیں ہیں جب تک کہ سنت خود کسی مسئلہ کی اہمیت کو واضح نہ کردے ۔ ہمیں کوئی استحقاق حاصل نہیں ۔ کہ ہم اس کو مذہب کا جزو بنانے کی کوشش کریں ۔ اور لادلائل تفصیلات سے اسلام کی سادگی اور اختصار کو نقصان پہنچائیں ۔ اس کے بعد ایک اصول ارشاد فرمایا ہے ۔ ہمیں پر کہ تنقید اور چھان بین کی تغریعت مترتب ہوتی ہیں ۔ اور جس سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ مسلمانوں کے لئے حالات سے باخبر رہنا کتنا ضروری ہے ۔ فرمایا کہ دیکھو تمہارے پاس کوئی فاسق اور ناقابل اعتماد آدمی خبر لائے ۔ تو بلا تحقیق اس پر اعتماد نہ کرلو ۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے اندھا دھند اعتماد سے مسلمانوں کو نقصان پہنچ جائے ۔ اور وہ تمہارے سوء ظنکا خمیازہ بھگتیں ۔ واضح ہو کہ آج اس اصول تحقیق وتنقید کے صحیح استعمال نہ کرنے سے مسلمانوں کو کس قدر نقصان پہنچا ہے ۔ اس کا اندازہ کچھ وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کو حالات پر نظر ہے ۔ کہ مخالفین کی پھیلائی ہوئی باتوں کو ہم کس درجہ قرین عدل وانصاف سمجھنے لگے ہیں ۔ اور ان پر یوں یقین کرنے لگے ہیں جس طرح کہ وہ وحی والہام کی باتیں ہیں اور اس طرح خوداپنے بھائیوں سے بدظن ہیں اپنے اکابر سے بپھرے ہوئے ہیں اور اپنے مخلصین سے بیزار ہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ انتشار ہے ۔ تفرقق وتخرب ہے اور پریشانی ہے *۔ مسلمانوں کی وحدت کی مسلک میں پرونے کے لئے اور ایک سطح پر مرکوز کرنے کے لئے یہ ضرری تھا ۔ کہ ان میں ہمیشہ ایک جماعت ایسی موجود ہے ۔ جو اختلافات کا جائزہ لیتی رہے ۔ اور جب مسلمانوں کے دو فریق میں جنگ ہو ۔ تو وہ بیچ میں پڑ کر صلح کرادے ۔ اور جو فریق نہ مانے اس کے خلاف قوت وطاقت کا استعمال کریں ۔ حتیٰ کے وہ فریق اپنی سرکشی سے باز آجائے اور خدا کے حکموں کے سامنے سرتسلیم خم کردے ۔ چنانچہ اس ضمن میں ارشاد فرمایا ۔ کہ اگر مسلمانوں کے دو گروہوں میں اختلاف رائے سے جنگ وجدال کا موقع پیدا ہوجائے ۔ تو تم فوراً صلح کا پرچم لہراتے ہوئے ۔ درمیان میں کود پڑو ۔ اگر وہ تمہاری نہ مانیں ۔ تو ان کو سختی کے ساتھ مجبور کردو ۔ کہ اسلام کی وحدت کے لئے اور اس کے مفاد کے لئے اپنی ذاتی اغراض کو یک قلم ترک کردیں *۔ حل لغات :۔ فاسق ۔ برا آدمی ۔ ناقابل اعتماد * لعلکم ۔ تو تم مشکلات میں گفتار ہوجاؤ۔ عنت سے ہے ۔ جس کے معنے تکلیف کے ہوتے ہیں *۔ الحجرات
6 الحجرات
7 الحجرات
8 الحجرات
9 الحجرات
10 اسلامی اخوت ف 1: اسلام ایک ایسا مستحکم اور مضبوط رشتہ ہے ۔ جو کبھی نہیں ٹوٹتا اور جس پر رنگ وبو کا اختلاف قطعاً اثر انداز نہیں ہوتا ۔ مسلمان نام ہے ۔ ایک ایسی ہیئت اجتماعیہ کا ہوساری کائنات میں موجود ہے ۔ اور جغرافیائی حدود اس میں داخل انداز نہیں ہوتیں ۔ مومن تعبیر ہے ۔ وحدت واخوت سے ۔ یک جہتی اور یکسانی سے اس عمائفہ نیک نہاد کی عادات میں ، تہذیب میں اور خیالات وافکار میں نہایت نمایاں اتحاد ہوتا ہے ۔ یہ لوگ دنیا میں اس لئے آئے ہیں ۔ کہ تمام نوع کی نسلی اور قومی امتیازات مٹادیں ۔ اور تمام تفریقات کو ختم کردیں ۔ جو مصنوعی ہیں ۔ اور اتحاد انسانی کے دشمنوں نے وضع کررکھی ہیں ۔ اور ساری انسانیت کو ایک برادری اور ایک کنبہ بنادیں ۔ اسی لئے ارشاد فرمایا ۔ کہ جو لوگ ایمان کی ہمت سے بہرہ مند ہیں ۔ وہ سب بھائی بھائی ہیں ۔ ان میں اگر بتقارائے بشریت کوئی اختلاف پیدا ہو ۔ تو فوراً مٹادو ۔ اور اللہ سے ڈرو ۔ کیونکہ اس نظم والیتام میں تمہارے لئے رحمت وبخشش ہے *۔ حل لغات :۔ فائفنن ۔ دوگروہ * تفی ۔ نوئے ۔ رجوع کرے ۔ مصدرقء * اتسطوا قسط سے بمعنی انصاف اور عدل * قوم ۔ مردم ۔ مجموعہ رجال *۔ الحجرات
11 الحجرات
12 استبراء تنابزسوء ظن تجسس اور غیبت ف 1: ان آیات میں ان قیمتی اصولوں کا ذکر کیا ہے ۔ جن کی وجہ سے قومی اخلاق کی تعمیر ہوتی ہے ۔ اور قوموں میں باہمی ربط واخوت کا رشتہ استوار رہتا ہے ۔ فرمایا ۔ کہ نہ مسلمان مرد مسلمان مردوں سے استہزاء واستخفاف کا سلوک کریں ۔ اور نہ مسلمان عورتیں مسلمان عورتوں کا مضحکہ اڑائیں ۔ کیونکہ ہوسکتا ہے ۔ کہ جن لوگوں کو تم اپنا ہدف مذاق بناتے ہو ۔ وہ تم سے اخلاق واعادت میں کہیں بہتر ہوں ۔ اور اس طرح تم ان کی غیرت وحمیت کو آزماؤ۔ نہ یہ کرو ۔ کہ ایک دوسرے لئے بڑے بڑے نام تجویز کرو ۔ اور عجیب عجیب القاب وضع کرو ۔ اور نہ آپس میں طعنہ زنی سے کام لو ۔ کیونکہ اس طرح مرد مسلمان کی تذلیل سے خسق وفجور کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔ اور ایمان کے بعد ان معرکات کا ارتکاب پھر جاہلیت کے سے اخلاق پیدا کردیتا ہے ۔ یہ اتنا بڑا گناہ ہے ۔ کہ اگر اس کا مرتکب توبہ نہ کرے ۔ تو اللہ کے نزدیک ظالم ہے ۔ سوء ظن سے بھی پرہیز کرو ۔ کیونکہ اس طرح مولوں میں خواہ مخواہ کنیوں کے اژدھے پلتے ہیں ۔ اور سوسائٹی میں افتراق وتشتت پیدا ہوتا ہے تجسس اور ٹٹول بھی کمینہ حرکات ہیں ۔ تمہیں یہ زیبا نہیں ہے ۔ کہ لوگوں کی عیب جوئی کرو ۔ اور یہ دیکھو کہ فلاں شخص رات کو کہاں جاتا ہے اور دن کہاں بسر کرتا ہے اس کے مشاغل کیا ہیں ۔ اور کہاں سے کھاتا پیتا ہے ۔ تمہیں محتسب بنا کر نہیں بھیجا گیا ۔ تم اپنی صلاح کرو ۔ اور لوگوں کو بری نظر سے نہ دیکھو ۔ غیبت بھی برائی ہے ۔ کسی کی غیر حاضری میں عیوب بیان کرنا ایک تو برا ہے ۔ دوسرے اس کے ساتھ چھپی دشمنی ہے ۔ اور تیسرے اس کی تذلیل ہے ۔ اور گویا اس کو ختم کردیتا ہے ۔ اسی لئے فرمایا کہ کیا تم پسند کرتے ہو کہ مسلمان کو اس کی غیبت کرکے مارڈالو ۔ اور پھر اس کی میت سے فائدہ اٹھاؤ۔ اور اس کا گوشت کھاؤ۔ حالانکہ وہ تمہارا بھائی ہے *۔ حل لغات :۔ ولاتنابروا ۔ بدنام نہ کرو * ولا تجسسوا ۔ ٹٹول میں نہ رہو * ولا یفقب ۔ غیبت سے ہے ۔ جس کے معنے کسی کی غیر حاضری میں توہین وتذلیل کی خاطر لب کشائی کرتا ہے *۔ الحجرات
13 فضیلت کا تعلق روح سے ہے ف 1: اس آیت میں اس حقیقت کبری کا اظہار فرمایا ہے کہ معیار فضیلت جنسیت نہیں ہے ۔ مرد ہوتا نہیں ہے ۔ اور نہ عورت ہونا ۔ نہ کنبہ اور قبیلہ کا اختصاص ہے ۔ اور یہ اس نوع کے سارے اختیارات محض تعارف کے لئے ہیں ۔ معیار فضیلت یہ ہے ۔ کہ تمہارے دلوں میں تقویٰ اور پرہیزگاری کے جذبات موجزن ہوں ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ تمام تقریبات جو انسانوں نے فضیلت اور برتری کے اظہار کے لئے وضع کررکھی ہیں بےمعنی ہیں ۔ وہ دولت کو بزرگی کا معیار قرار نہیں دیتا ۔ بتوں اور رفاہیئت کو وجہ اعزاز نہیں سمجھتا ۔ اس کے نزدیک عبادت اور فخر کے لئے تعلیم یافتہ ہونا ضروری نہیں ہے ۔ بڑی بڑی تعلیمی ڈگریوں کا کالے اور گورے کی تمیز بھی مہمل ہے ۔ اس کے نزدیک وہ معزز اور محترم ہے ۔ جس کا دماغ خشئیت الٰہی کے خیالات سے مزین ہے اور جس کا قلب تقویٰ وصلاح سے معمور ہے ۔ گویا وہ فضیلت اور بزرگی کے لئے جو پیمانہ مقرر کرتا ہے ۔ وہ جسم کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا روح سے وابستہ ہے ۔ قرآن کہتا ہے ۔ تم ظاہری ٹھاٹ اور وجاہت کو نہ دیکھو ۔ چہروں کے رنگ وروغن کو ملاحظہ نہ کرو ! اور کھال کی سفیدی اور برائی سے دھوکہ نہ کھاؤ۔ بلکہ یہ دیکھو ۔ کہ باطن کیسا ہے ان خوبصورت مجسموں میں جو روح موجود ہے ۔ وہ کن مجامد سے مشصف ہے ۔ کھال کی عمدگی پر نہ جاؤ۔ اندر کی طرف جھانک کردیکھو ۔ کہ اس گوری اور چٹی کھال کے اندر مکروہ اور ذہن روح تو نہیں ہے ۔ کیونکہ ہوسکتا ہے ۔ کہ جس کے پاس بےاندازہ ہلاکت ہو ۔ وہ اخلاق کے لحاظ سے بالکل قلاش ہو ۔ اور بظاہر معزز اور اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھنے والا خصائل کے اعتبار سے ذلیل اور کمینہ ہو ۔ اسلام کے نقط نگاہ سے کوئی دنیوی تفریق انسانوں کو عزت اور ذلت کے دوگروہوں میں تقسیم نہیں کرسکتی ۔ اور کوئی مصنوعی امتیاز یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ اس کی وساطت سے انسانیت کو توانا اور ناپاجائے ۔ بجز قلب کی سل امتی اور دماغ کی پاکیزگی کا *۔ حل لغات :۔ شعوبا ۔ جمع شعب ۔ بمعنی خاندان * وقبائل ۔ جمع ۔ قبیلۃ بمعنی قوم *۔ الحجرات
14 الحجرات
15 حقیقی حلاوت ایمانی ف 1: بنواسہ کے چند دیہاتی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ کے پاس آئے ہیں ہم مومن ہیں ۔ اور دیکھئے ہم نے دوسرے قبائل کی طرح آپ کی مخالفت نہیں کی ۔ ہمارے ساتھ ہمارا اہل وعیال بھی ہے ۔ غرض یہ تھی ۔ کہ آپ ہمارے ممنون ہوکر ہماری مدد کریں ۔ اور قحط سالی میں ہماری حوصلہ افزائی فرمائیں ۔ اس پر ان آیات کا نزول ہوا ۔ کہ ایمان کے مقام بلند پر فائز ہونا آسان نہیں ہے ۔ تم یہ کہو ۔ کہ ہم مسلمان ہیں اور سرسری طور پر ہم نے حقائق کو قبول کرلیا ہے ۔ ابھی ایمان کی حلاوت تمہارے دلوں میں پیدا نہیں ہوئی ۔ مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مضبوط عقیدت رکھتے ہیں ۔ اور ان کے دلوں میں کسی طرح کا شک وشبہ پیدا نہیں ہوتا ۔ اور مخلصانہ اس کے دین کی اشاعت کے لئے اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرتے ہیں ۔ تم اسلام کو قبول کرکے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر احسان جتلاتے ہو ۔ حالانکہ تم کو خود اللہ کا ممنون ہوجا چاہیے ۔ کہ اس نے تمہیں ایمان کی توفیق مرحمت فرمائی ۔ اور اسلام کی نعمت سے نوازا *۔ حل لغات :۔ الصادقون ۔ یعنی صداقت شعار * یمنون ۔ احسان جتلاتے ہیں ۔ من سے ہے *۔ الحجرات
16 الحجرات
17 ف 1: نبواسد کے گنواروں کی طرف اشارہ ہے ۔ کہ تم یہ دیکھو ۔ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے مقام ایمانی سے آگاہ نہیں ہیں ۔ اور وہ یہ نہیں جانتے ہیں ۔ کہ تم نے اسلام قبول کرکے کس درجہ احسان کیا ہے ؟ خدا تو وہ ہے جس کے سامنے آسمانوں کے بعید اور زمینوں کے اسرار بھی پوشیدہ اور مستتر نہیں ۔ پھر یہ کیونکر ہوسکتا ہے ۔ کہ وہ تمہارے دل کی گہرائیوں کو نہ جانتا ہو ۔ اور تمہارے مذہبی اور دینی مرتبہ سے آشنا نہ ہو *۔ الحجرات
18 الحجرات
0 ق
1 سورۃ ق فرمایا : کہ قرآن کی لفظی ومعنوی بزرگی اور عظمت خود قرآن پر وال ہے ۔ اور جس شخص نے اس صحیفہ مقدس کا بغور مطالعہ کیا ہے ۔ وہ اس کے محاسن سے متاثر ہو کر مجبور ہوجاتا ہے ۔ کہ اس کی سچائی پر گواہی دے اور یہ کہہ دے ۔ کہ اتنی بڑی کتاب ۔ اتنا مکمل زندگی کا پروگرام ، اور اتنے خوارق علمیہ کا حامل مجموعہ ناممکن ہے ۔ کہ انسانی دماغ کی اختراع وایجاد قرار دیا جاسکے ۔ مگر ان مکے کے ناسمجھ لوگوں کو اس کتاب ہدیٰ کی رفعتوں کا اندازہ نہیں ہوتا ۔ انہیں اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ ان میں کا ایک آدمی کیونکر منصب نبوت پر فائز ہوسکتا ہے ۔ ان کے نزدیک پیغمبر کے لئے ضروری ہے ۔ کہ وہ فوق البشر شخصیت ہو ۔ پھر انہیں تعلیمات کا یہ بڑا حصہ عجیب وغریب معلوم ہوتا ہے ۔ کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے ۔ تو کیونکر اٹھ کر اللہ کے سامنے پیش کئے جائیں گے ۔ یہ لوگ کہتے ہیں ۔ کہ حشر اجساد کا یہ عقیدہ بالکل دوراز قیاس ہے ۔ اور عقل اس کو ہرگز تسلیم نہیں کرتی * اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ اس میں استحالہ اور اشکال کیا ہے ۔ ہم جانتے ہیں ، زندگی کے عناصر کہاں کہاں ہیں ۔ اور کن کن اشکال وصورت میں پنہاں ہیں ۔ ہمارے پاس معلومات کا کامل دفتر موجود ہے ۔ اس لئے ان حالات میں نشاۃ ثانیہ کچھ بھی دشوار نہیں ۔ اصل بات یہ ہے ۔ کہ ان لوگوں کو چونکہ اسلامی تعلیمات پر اعتماد نہیں ہے ۔ اور حق وصداقت کو ٹھکراتے ہیں ۔ اس لئے یہ باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آتیں ۔ ورنہ یہ بالکل سادہ اور قریب فہم مسئلہ ہے ۔ کہ جب اللہ کا علم کامل ہے اور وہ زندگی کا پیدا کرنے والا ہے ۔ اور بغیر ذرائع وسائل کے ہزار ہا عوام کو بیک جنبش امادہ معرض ظہور میں لے آنے والا ہے ۔ اور اس کو معلوم ہے ۔ کہ زندگی کا عطر کس کس پتی اور گل بوٹے سے کھینچتا ہے ۔ تو پھر دوبارہ پیدا کردینے میں کیا دقت ہے ؟ حل لغات :۔ والقرآن المجید ۔ یعنی قرآن کی بزرگی بطور استدلال اور استشہاد کے بیش ہے * رجع بعید ۔ دوبارہ زندہ ہونا بہت ہی بعید ہے *۔ ق
2 ق
3 ق
4 ق
5 ق
6 ق
7 ق
8 ف 1: ان آیات میں انسانی توجہ کو اس طرح مبذول کیا ہے ۔ وہ کائنات کے مضبوط ترین نظام کو دیکھیں ۔ اور بتائیں اتنے بڑے آسمان میں کہیں رخنہ ہے ؟ یہ زمین ان کے پاؤں تلے بچھی ہے ۔ اس پر بڑے بڑے پہاڑ استادہ ہیں ۔ اور ہر طرح کی روئیدگی اور سبزہ موجود ہے ۔ کیا ان میں کوئی نقص ہے ؟*۔ فطرت کے ان مظاہر میں بلاشبہ تذکیر اور عبرت پذیری کا وافر سامان موجود ہے ۔ مگر اس کے لئے ضرورت ہے عبودیت کی اور انابت الی اللہ کے پاکیزہ جذبات کی * باقی صفحہ حل لغات :۔ امرہ ریح ۔ متزلزل حالت میں *۔ بروج ۔ شگاف ۔ رخنہ * بھیج ۔ بارونق ۔ خوش نما ۔ نیکو * بین السماء ۔ سے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس کا تعلق معبودوں یا دیوتاؤں سے نہیں ہے ۔ جیسا کہ عام بت پرست سمجھتے ہیں ۔ بلکہ اس کا تعلق محض اللہ کی قدرت سے ہے *۔ ق
9 ق
10 بارش کی برکتیں ف 1: بارش کی برکات کا تذکرہ کیا ہے ۔ کہ یہ کس قدر خیروبرکت کا موجب ہوتی ہے ۔ اس کی وجہ سے باغات نشونما پاتے ہیں ۔ اناج اگتا ہے ۔ اور لمبی لمبی کھجوریں پیدا ہوتی ہیں ۔ جن کے خوشے خوب گتھے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ سب اس لئے ہے کہ اللہ کے بندے اپنے لئے رزق اور قوت کا سامان مہیا کریں ۔ پھر ایسا بھی ہوتا ہے ۔ کہ دیہات کے دیہات بارش نہ ہونے کی وجہ سے خشک اور بےآب ہوجاتے ہیں ۔ اور جب ابررحمت کے ۔ چند چھینٹے پڑجاتے ہیں ۔ تو ان میں تروتازی عود کر آتی ہے ۔ گویا وہ دوبارہ زندگی حاصل کرلیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ کہ جو لوگ حشیر اجساد کے منکر ہیں ۔ اور جن کی سمجھ میں یہ حقیقت نہیں آتی ۔ کہ کیونکر عالم انسانی موت کے بعد زندگی کی کیفیتوں سے لذت اندوز ہوسکے گا ۔ وہ اس واقعہ پر غور کریں ۔ کہ بارش کے چند قطرے کیونکر زمین کے سینہ سے زندگی کو نکال کر محمل وریحان سے بدل دیتے ہیں ؟ جب یہ ممکن ہے ۔ اور ممکن ہی نہیں ۔ مشاہدہ ہے ۔ کہ روزانہ ہم عدم کو وجود میں تبدیل ہوتے دیکھتے ہیں ۔ تو پھر استحالہ کیسا ؟ اسی طرح اللہ کی قدرت سے قیامت کے دن مردے جی اٹھیں گے ۔ اور اس کے حضور میں پیش ہوں گے *۔ ق
11 تعلیم الٰہی کی غرض ف 2: تعلیمات الٰہیہ کی غرض وغایت یہ ہوتی ہے ۔ کہ مردہ تنوں میں جان ڈالدی جائے ۔ اور جن دلوں میں کفر والحاد کے خیالات کی وجہ سے زنگ پیدا ہوگیا ہے ۔ اس کو روشن اور مجلی بنادیا جائے ۔ روح کا تزکیہ کیا جائے اور اخلاق کو سنوارا جائے ۔ اور انسان کو بحیثیت مجموعی اس قابل بنایا جائے کہ وہ زندگی کی مشکلات میں عبور حاصل کرسکے ۔ اور ساری کائنات کو اپنے لئے مسخر کرلے ۔ اس مقصد کی تکمیل جب نہیں ہوتی اور قومیں اپنے افکار و معصیت سے جب یہ ثابت کردیتی ہیں ۔ کہ ہمیں زندہ رہنے کی قطعاً کوئی خواہش نہیں ہے ہماری صلاحتیں بیکار ہوچکی ہیں ۔ اور روحانی اخلاقی نصب العین کھو چکی ہیں ۔ تو اس وقت اللہ کا عذاب آتا ہے اور قوموں کو فنا کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔ ان آیتوں میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے *۔ حل لغات :۔ حب الحصید ۔ غلہ ۔ اناج * باسقت ۔ بلند اور بارآور * فصید ۔ خوب گھومتا ہوا * ضحاف الرین ۔ اس ایک راوی کا نام ہے ۔ * لایکۃ جھنڈ *۔ ق
12 ق
13 ق
14 خدا رگ جان سے بھی قریب ہے ف 1: رگ جان سے بھی اللہ کے قریب ہونے کے معنی یہ ہیں کہ نفس کی ادنیٰ ترین تحریکات سے بھی وہ آگاہ ہے ۔ اور اس کو خوب معلوم ہے ۔ کہ الحادوزندقہ کے اثراث کس طرح ہوتے ہیں ۔ اور سای طرح بڑھتے ہیں ۔ اس کا علم اتنا وسیع ہے ۔ کہ بعض دفعہ ان خواطر کو خود ہم کو بھی محسوس ہیں ہوتے وہ جانتا ہے اور نہ صرف جانتا ہے بلکہ اس کے فرشتوں کے پاس ان کا کامل مرقع موجود ہے ۔ وہ فرشتے مامور ہیں ۔ کہ کسی بات کو ضائع نہ جانے دیں اور فورات جب کوئی شخص کلمہ خیر یا شر کہے ۔ وہ اس کو محفوظ کرلیں ۔ یہ نظریہ حفظ صورت کا نظریہ ہے سا کے معنے یہ ہیں ۔ کہ کوئی آواز فضا میں ضائع نہیں ہوتی ۔ اسی نظریہ کی تکمیل ریڈیو ہے ۔ اور قرآن نے اس وقت اس چیز کو پیش فرمایا ہے ۔ جبکہ اس کو سمجھنا سخت دشوار تھا ۔ یہ وہ خوارق علمیہ ہیں ۔ جو اس بات کا کافی ثبوت ہیں ۔ کہ یہ کتاب اللہ کی کتاب ہے جس کا علم بدرجہ غائیت وسیع اور اکمل ہے *۔ ق
15 ق
16 اس وقت آنکھیں کھلیں گی ؟ ف 1: دلائل کی قسموں میں سے ایک قسم یہ ہے ۔ کہ مدلول کو اس طرح ممثل اور واضح کرکے پیش کیا جائے ۔ کہ اس کے سب امکانات خود بخود روشن ہوجائیں قرآن حکیم نے اثبات دعویٰ کے لئے اکثر اس نوع کے دلائل سے کام لیا ہے اس کا بہت بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے ۔ کہ سننے والا کم ازکم نفیس واقعہ کی ضروری تفصیلات سے آگاہ ہوجاتا ہے اور اس کو معلوم ہوجاتا ہے ۔ کہ اس کو پیش کرنے والا اس کا کامل مرقع اپنے ذہن میں محفوظ رکھتا ہے ۔ اور وہ ایسی چیز کی طرف دعوت نہیں دے رہا ہے ۔ کہ جس کو وہ خود پوری طرح نہ سمجھتا ہو ۔ پھر بعض طبائع جن میں قبولیت کی صلاحتیں زیادہ ہوتی ہیں *۔ وہ اس عبرت آفرین توضح وتشریح کو سن کر ایمانکے اور قریب ہوجاتی ہیں ۔ اور بسا اوقات یہ نفس تفصیل ان کے لئے ایمان کا موجب ہوجاتی ہے * ان آیات میں ان واقعات کی تصویر کھینچی ہے ۔ جب نرسنگا پھونکا جائے گیا ۔ اور کہا جائے گا ۔ کو وعید وسرزنش کا دن آگیا ہے ۔ جب کیفیت یہ ہوگی ۔ کہ ہر شخص کو کشاں کشاں اللہ کے دربار عدل وانصاف کی جانب لایا جائے گا ۔ ایک فرشتہ تو اس کے ساتھ ہوگا ۔ جو اس کو پیش کریگا ۔ اور ایک گواہ ہوگا *۔ حل لغات : الویدا ۔ رگ جان * تحید ۔ حیاع سے ہے جس کے معنی پہلوتہی کرنے کے ہیں * اوعید ۔ سرزنش * شافق ۔ ہنگامے والا *۔ ق
17 ق
18 ق
19 ق
20 ق
21 ق
22 ف 1: اس وقت غیب سے آواز آئیگی کہ دنیا میں تمہاری آنکھیں بند تھیں ۔ اس پر دولت ، عزت اور جہالت کے حجاب چھارہے تھے ۔ آج وہ نقاب اتاردیا گیا ہے ۔ آج تیری نگاہیں تیزی کے ساتھ حالات کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں ۔ بتاکہ یہی وہ چیزیں نہ تھیں ۔ جن کو تیرے سامنے پیش کیا جاتا تھا ۔ اور نوازراہ کبروغرور ان کا انکارکردیتا تھا ۔ کیا یہی وہ حقائق نہیں ہیں ۔ جن سے تجھے آگاہ کیا جاتا تھا اور تو ان کو بڑی بےپروائی سے ٹھکرادیتا تھا ۔ آج یہ چیزیں تیری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں ؟ کیا آج بھی انکار کی جرات ہے ؟ کیا اس وقت بھی جھٹلاتے ہو ؟ فرشتہ شہادت دیگا ۔ کہ اس کے اعمال میرے روزنامچہ میں ہیں ۔ یہ لکھے ہوئے موجود ہیں ۔ حکم ہوگا ۔ ان منکروں کو بلادریغ جہنم میں پھینک دو ۔ ان لوگوں نے دنیا میں ہر چیز اور ہر سعادت کی مخالفت کی تھی ۔ اللہ کی حدود سے تجاوز کیا تھا ۔ اور حقائق واقعات میں یہ بےشمار شبہے پیدا کرتے تھے ۔ یہ اللہ رب العزت کے ساتھ نہایت ادنیٰ چیزوں کو شرکی ٹھہراتے تھے ۔ ان کو خدا سمجھتے تھے ۔ اور خدا سمجھ کر ان کے سامنے جھکتے تھے ۔ آج یہ اس بات کے مستحق ہیں ۔ کہ ان کو عذاب شدید میں مبتلا کیا جائے ۔ اس وقت یہ بطور معذرت کہیں گے ۔ کہ اصل میں ہم کو شیطان نے بہکایا تھا ۔ ورنہ ہم نہیں چاہتے تھے ۔ کہ اللہ کے حکموں کی مخالفت کریں ۔ تب شیطان بھی ان کی مخالفت میں اٹھ کھڑا ہوگا ۔ اور جواباً یہ کہے گا ۔ کہ مولا میں نے ان کو بالکل گمراہ نہیں کیا ۔ یہ تو خود کھلی گمراہی میں مبتلا تھے ۔ ارشاد ہوگا ۔ میرے ہاں جھگڑو نہیں ۔ میں پہلے سے نیک وبدسمجھا چکا ہوں ۔ آج فیصلوں قطعاً تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے ۔ دوسری طرف دوزخ کی وسعتیں ھل من مزید کا مطالبہ کررہی ہوں گی *۔ حل لغات :۔ حدید ۔ بہت تیز ۔ اس میں اشارہ ہے ۔ اس چیزکی طرف کہ بینائی کی کیفیتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے ! اور نظر وبصر میں کئی قسم کی وسعتوں کو پیدا کیا جاسکتا ہے * اوننیا ۔ تشنیر ہے ۔ مگر مراد اس سے جمع ہے *۔ ق
23 ق
24 ق
25 ق
26 ق
27 ق
28 ق
29 ق
30 عجیب ترین بات ف 1: اس سے قبل کی آیتوں میں جہنم والوں کا مرقع تھا ۔ اب ان آیات میں یہ بیان فرمایا ہے ۔ کہ اللہ کے پاکباز بندے جب اس کے حضور میں جائینگے ۔ تو وہ جنت کو بہت ہی قریب پائینگے ۔ اور دیکھیں گے ۔ کہ بلاکسی دقت اور کوفت کے وہ کس طرح ان نعمتوں سے بہرہ مند رہے ہیں ۔ جن کی نسبت ان سے دنیا میں کہا گیا تھا ۔ اس مقام مسرت وہجت میں وہ لوگ ہوں جو دنیا میں رجوع الی اللہ کے جذبات پاک سے مشرف ہیں ۔ جو ہر لمحہ اور ہر منزل اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے پر تیار ہوتے ہیں اور کوئی عزت ووقار کا سوال ان کو توبہ وانابت سے باز نہیں رکھ سکتا ۔ جو اس کے احکام اور اس کی بیان کردہ حدود کو اپنی نگاہ میں رکھتے ہیں ۔ اور کوشش کرتے ہیں ۔ کہ کبھی سرتابی اور انکار نہ کریں ۔ وہ جو اس کو دیکھتے تو نہیں ۔ مگر یقین اس درجہ ہے کہ بہر آئینہ اس سے لرزاں اور ترساں رہتے ہیں ۔ ہر وقت خشیت اور خوف سے ان کے بدن پر لرزہ سا طاری رہتا ہے ۔ ان کے دل تقویٰ سے معمور ہیں ۔ جو اسے جس کے سامنے جھکنے کے لئے بےتاب رہتے ہیں ۔ ان لوگوں سے کہا جائیگا ۔ یہ تمہارے لئے مختص ہے ۔ اس میں ہر نوع کی سل امتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے افکار کی الجھنوں سے چھوٹ جاؤ*۔ یہ عجیب بات ہے کہ اسلام جس خدا کے تخیل کو پیش کرتا ہے ۔ وہ ایسا ہے جس کو نہ ٹٹول کر معلوم کیا جاسکے نہ آنکھیں اس تک پہنچ سکیں اور نہ فکرودلائل اس کا احاطہ کرسکیں ۔ مگر اس پر مطالبہ یہ ہے کہ نہ صرف ایسی ذات کو تسلیم کرے بلکہ اس کے ساتھ انتہا درجہ کی محبت اور عقیدت بھی رکھو ۔ اس سے ڈرو اور غائبانہ ہر وقت تعلقات کو استوار رکھو ۔ لکین یہ کس قدر تعجب انگیز بات ہے ۔ کہ بت پرستوں اور اصنام پرستوں کے دل میں اتنی محبت موجود نہیں ہے ۔ جن کو وہ روزانہ دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں ۔ جتنی کہ ایک مسلمان کے دل میں اس نادیدہ خدا کی ہے ۔ جو ہمیشہ اپنے جلال وجبروت میں مستور رہتا ہے *۔ حل لغات :۔ اواب ۔ اوب سے ہے ۔ جس کے معنے رجوع کے ہیں * حفیظ ۔ اللہ کے احکام کو نگاہ میں رکھنے والا * فنقبوا ۔ تنقیب سے ہے ۔ جس کے معنے گھومنے پھرنے کے ہیں *۔ ق
31 ق
32 ق
33 ق
34 ق
35 ق
36 ف 1: اس حقیقت کا اظہار فرمایا ہے ۔ کہ مکے والوں سے کہیں زیادہ طاقتور قوموں نے جب ہماری نافرمانی کی تو وہ مٹادیئے گئے ہیں ۔ اور باوجود اس کے کہ وہ قومیں کئی شہروں میں گھومتی پھرتی رہتی تھیں ۔ ان کو کہیں پناہ نہیں ملی ۔ اس لئے داد سے م مکہ کے یہ مغرور بھی سن رکھیں ۔ کہ ہمارا قانون مکافات جب حرکت میں آگیا ۔ تو پھر کوئی چیز اس کے درمیان حائل نہ ہوسکے گی *۔ وہ پیدا کرنے میں ذرائع کا محتاج ہے نہ وسائل کا ۔ وہ حاکم اور قادر ہے ۔ اور بیک جنبش ارادہ ہزار ہا خوالم کو ظہور پذیر کرسکتا ہے ۔ اس لئے اگر یہ لوگ اس طرح کی باتوں کو اس کی ذات والا صفات کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ تو آپ برداشت کیجئے ۔ اور اپنے فرائض عبادت میں مصروف رہیے *۔ ق
37 ق
38 ف 2: وما مسنا من لغوب ہے مراد یہ ہے کہ موسیٰ کی کتاب تکوین میں جو لکھا ہے ۔ کہ ساتویں دن خدا نے آرام کیا ۔ یہ تعریف انسانی ہے ۔ اللہ نے اس دنیائے حقیر کو پیدا کرکے بالکل تکان محسوس نہیں کی ۔ کیونکہ وہاں تھک جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ وہاں تو صرف اعادہ کی ضرورت ہے ۔ اور پھر آپ سے آپ کائنات منصف مشہود پر جلوہ گر ہوجاتی ہے ۔ حل لغات :۔ لغوب ۔ تکان ۔ تھکاوٹ *۔ ق
39 ق
40 ق
41 ق
42 ق
43 ق
44 ق
45 ق
0 الذاريات
1 الذاريات
2 الذاريات
3 الذاريات
4 الذاريات
5 ف 1: قرآن حکیم نے کئی سورتوں کو قسمیہ الفاظ سے شروع کیا ہے ۔ جس کے متعلق عام طور پر یہ وہ خیال ہیں :۔ ایک تو یہ کہ اس وقت کے اس وقت کے مخالفین جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوت استدلال سے متاثر ہوئے تھے ۔ تو کہتے تھے ۔ کہ ہم یہ تو تسلیم کرتے ہیں ۔ کہ آپ نے زور خطابت سے ہم کو قائل کرلیا ہے ۔ مگر ہم یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ کہ آپ کے پاس فی الواقع صداقت بھی موجود ہے ۔ ان کو نسلی اور اطمینان خاطر کے لئے یہ انداز بیان اختیار کیا گیا ہے ۔ کہ جو کچھ کہا گیا ہے ۔ وہ حلفاً حرف بہ حرف درست ہے ۔ اور اس میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ جن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے ۔ وہ منشعت کے اعتبار سے اس قابل ہیں ۔ کہ ان کے متعلق غوروفکر کیا جائے ۔ اور ان سے اللہ تعالیٰ کے احسانات پر استدلال کیا جائے *۔ پہلی توجیہہ بالکل غلط ہے ۔ اس لئے کہ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعلق ہے ۔ اس کو قطعاً اس بات کی ضرورت نہیں ہے ۔ کہ وہ ایسے انداز بیان کو اختیار کرے ۔ جس کو بحالت مجبوری انسان اس وقت اختیار کرتا ہے ۔ جب کوئی اور چارہ کار باقی نہیں رہتا ۔ اللہ تعالیٰ کے پاس سمجھانے کے بےشمار ذرائع اور وسائل موجود ہیں ۔ وہ اس سے کام لے سکتا ہے ۔ نیز اس توجیہہ کے ماننے میں سب سے بڑی دشواری یہحائل ہے کہ جن چیزوں کی قسمیں کھائی گئی ہیں ۔ وہ اپنے اندر کوئی جلالت قدر نہیں رکھتیں ۔ اور بااعتبار مرتبہ کے وہ بہرآئینہ اللہ سے فروتر ہیں ۔ حالانکہ قسم کھانے کے لئے مقسم بہ کا معزز ومحترم ہونا ضروری ہے ۔ دوسری توجیہہ کچھ ایسی غلط نہیں ہے ۔ مگر مشکل یہ ہے کہ کسی چیز کی منفعت کو بیان کرنے کے لئے عرب اس اسلوب بیان کو اختیار نہیں کرتے *۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک نوع کے دلائل ہیں ۔ جن کو دعویٰ کے اثبات اور موثق بنانے کے لئے پیش کیا گیا ہے ۔ مثلاً دعویٰ یہ ہے کہ قیامت بالکل حق اور یقینی ہے ۔ اور قرین عقل ودانش ہے ۔ اس کو یوں ثابت فرمایا ہے *۔ کہ تمہیں اس ضمن میں سب سے بڑی قابل اعتراض چیز یہی نظر آتی ہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ کس طرح عناصر حیات کو جمع کرے گا ۔ جو کائنات میں منتشر ہیں ۔ اس کا جواب یہ ہے ۔ کہ جس طرح مختلف ہواؤں کو اس لائق بنادیتا ہے ۔ کہ وہ قطرات آب کو دوش پر لادے لادے پھریں ۔ اور پھر ان کو بارش کی شکل میں مختلف مقامات پر تقسیم کردیں ۔ جس طرح یہ ممکن ہے ۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے * حل لغات :۔ بجبار ۔ زبردستی کرنے والا * والذاریات ۔ وہ ہوائیں جو بخارات اڑاتی ہیں * فانحملت ۔ وہ حالت جو بخارانہ کو اپنے کندھوں پر اٹھالیں *۔ الذاريات
6 الذاريات
7 الذاريات
8 الذاريات
9 ف 1: منکرین کے تذبذب اور ذہنی انتشار کو واضح فرمایا ہے ۔ کہ جس طرح آسمانوں میں ستاروں کے لئے مختلف گزرگاہیں موجود ہیں ۔ اسی طرح تمہارے ذہن میں مختلف خیالات کے لئے مختلف راستے ہیں ۔ اور کسی بات کو بھی تم تیقن او وثوق کے ساتھ پیش کرتے ہو *۔ قرآن حکیم چونکہ قطعیات کو پیش فرماتا ہے ۔ اس لئے وہ لوگ اس کے نزدیک قابل ملامت ہیں ۔ جو محض اٹکلی اور تخمین کو اپنے معتقات کے لئے بطور اساس کے قرار دیتے ہیں ۔ اور مذہب کے باب میں ایسی باتوں کو مانتے ہیں ۔ جن کی عقل تائید نہیں کرتی *۔ حل لغات :۔ فانجرایت ۔ جب آہستہ آہستہ چلنے لگیں * فاتمقسیمت ۔ جب بارش کو حسب موقع تقسیم کرنے بعض کے نزدیک اس سے مراد فرشتے ہیں * الخراصون ۔ اٹکل سے کام لینے والے ۔ دوزخ کو * غمرۃ ۔ غفلت ۔ جہالت ۔ متمنی *۔ الذاريات
10 الذاريات
11 الذاريات
12 الذاريات
13 الذاريات
14 الذاريات
15 مساوات اور مقام احسان ف 1: جو لوگ بہشتوں اور چشموں کے مستحق ہوں گے ۔ ان میں احسان کی استعداد ہوگی ۔ یعنی جہاں تک مخلوق الٰہی کا تعلق ہے ۔ ان کا رویہ نہایت مشفقانہ ہوگا ۔ بنی نوع انسان کے ساتھ انکو بدرجہ غایت حمیت ہوگی ۔ وہ اپنی زندگی کے اکثر لمحات کو دوسروں کی ہمدری میں صرف کرینگے ۔ اور اللہ کے ساتھ ان کی وابستگی کا یہ عالم ہوگا ۔ کہ بہت کم راتوں کو سوئیں گے ۔ بستر پر بےقرار اور بےچین رہیں گے ۔ اٹھیں گے اور آقا کے دربار میں کھڑے ہوجائیں گے ۔ اور اپنی کوتاہیوں اور لغزشوں کی معانی مانگیں گے ۔ ان کی روح اللہ کی حمدوستائیش میں مصروف ہوگی ۔ اور ان کا جسم خلق اللہ کی فلاح وبہبود کے لئے وقف ہوگا ۔ دولت ومال کو حاصل کریں گے ۔ مگر اس کو صحیح طور پر خرچ کردینے میں ان کو قطعاً تامل نہ ہوگا ۔ وہ یہ سمجھیں گے ۔ کہ اس مال ودولت میں ہر حاجت مند کا حصہ ہے ۔ ہم کو یہ بالکل استحقاق حاصل نہیں ۔ کہ ہم تو اپنے تمول سے آسائش اور آسودگی کی تمام صورتوں کا احاطہ کرلیں ۔ اور ہیئت اجتماعیہ کا بڑا حصہ ادنیٰ حاجات زندگی کا محتاج ہو ۔ غور فرمائیے ۔ اس مقام اتقاء میں اور اس مساوات میں جو سو شلزم پیدا کرتا ہے ۔ کتنا بڑا فرق ہے *۔ آپ جس کو مساوات کہتے ہیں ۔ قرآن اس ہمدردی کے جذبہ کو احسان کے ساتھ تعبیر کرتا ہے ۔ جو معناً مساوات سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ احسان کے معنے یہ ہیں ۔ کہ اپنے ابنائے جنس کے ساتھ واجبات سے کچھ زیادہ سلوک روا رکھا جائے ۔ اور یہ محض پیٹ کے لئے نہ ہو ۔ اور اوزل ترین خواہشات کی بناء پر نہ ہو ۔ بلکہ اس لئے ہو کہ اس آقا سے تعلقات عقیدت وابستہ ہیں ۔ جو ساری کائنات کا یکساں پروردگارہے ۔ اور اس ارادت کا یہ تقاضا ہے ۔ کہ ہر سائل حاجت مند کی اس طرح اعانت کی جائے ۔ گویا وہ پہلے سے ہمارے اموال میں استفادہ کا حق رکھتا ہے ۔ اس نقطہ نظر کی وسعتیں اور پاکیزگی ملاحصہ ہو ۔ اور اس زایوہ نگاہ کی مادیت اور سطحیت دیکھئے ۔ جس کا تعلق محض خواہشات نفس سے ہے *۔ حل لغات :۔ یھجعون ۔ شب بسر کرنا ۔ سونا *۔ حل لغات :۔ بعجل ۔ بچھڑا * معمین ۔ فربہ *۔ الذاريات
16 الذاريات
17 الذاريات
18 الذاريات
19 الذاريات
20 الذاريات
21 الذاريات
22 الذاريات
23 الذاريات
24 الذاريات
25 الذاريات
26 الذاريات
27 الذاريات
28 اپنے اندر جھانک کر دیکھو ف 1: غرض یہ ہے ۔ کہ جن حقائق کو بیان کیا گیا ہے ۔ ان کی واقفیت اور سچائی میں کوئی شبہ نہیں ہے ۔ دلائل اور شواہد کا انبار موجود ہے احتیاج اس نظرکی ہے ۔ جو تغحص اور غور سے کام لے ۔ زمین کو دیکھو ۔ اس کے فوائد ۔ وسعت اور ساخت پر غور کرو ۔ خود اندر جھانکو ۔ اس عالم صغیر میں کیا نہیں ہے ؟ آسمانوں کی طرف نگاہیں اٹھاؤ۔ اور واقعہ یہ ہے کہ اگر صرف آسمان اور زمین میں اللہ کی ربوبیتوں کی ذرا تفصیل کے ساتھ دیکھ جاؤ۔ تو تمہیں ہوجائے کہ جو کچھ کہا گیا ہے ۔ اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسکین خاطر کے لئے قصص انبیاء کا مذکور ہے ۔ تاکہ بتایا جائے ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو ہر طرح کی کامیابی اور کامرانی سے نوازا ۔ اور مخالفین ہمیشہ ان کے مقابلہ میں غائب وخاسر رہے ہیں *۔ فرمایا ۔ کہ حضرت ابراہیم کے پاس اس وقت جب کہ وہ قوم کی طرف سے بہت زیادہ طول اور دل برداشتہ تھے ۔ فرشتے آئے اور انہوں نے آکر حضرت اسحاق کی ولادت کی خوشخبری سنائی *۔ حل لغات :۔ فصلت وجھہا ۔ یعنی فرط حیرت اور حیاء میں انہوں نے عورتوں کی عادت کے موافق اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا اور کہا کہ کیا یہ بھی ممکن ہے * ۔ الذاريات
29 الذاريات
30 الذاريات
31 الذاريات
32 الذاريات
33 الذاريات
34 الذاريات
35 الذاريات
36 سدومیوں کی بداخلاقی ف 1: جب کوئی قوم خواہشات نفس سے مغلوب ہوجائے ۔ لوگوں کو روحانیت مذہبی اور دینی تربیت کیساتھ لگاؤ باقی نہ رہے ۔ زندگی کا مقصد ارزل ترین حیات وجذبات کی تکمیل کا سامان قرار پائے اور روح کی مقتضیات سے یک فلم آنکھیں بند کرلی جائیں ۔ اس وقت دلوں سے پاک بازی اور پرہیزگاری کے خیالات دور ہوجاتے ہیں ۔ اللہ کا ڈر نکل جاتا ہے ۔ اور شیطان غالب ہوجاتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے ۔ کہ حیوانیت چھا جاتی ہے ۔ شہوایت مسلط ہوجاتی ہے اور ایسے ایسے ناپاک اعمال کی جستجو رہتی ہے ۔ جن کے تخیل سے شرافت منہ چھپالے ۔ سدومیوں کی بالکل یہی کیفیت تھی ۔ جب حضرت لوط (علیہ السلام) ان کے پاس تشریف لائے ۔ تو ان لوگوں کی اخلاقی اور ذہنی حالت بالکل پست ہوچکی تھی ۔ دن رات ان کا مشغلہ یہی تھا ۔ کہ غیر فطری طور پر جذبات جنسی کی تسکین کے لئے مارے مارے پھریں ۔ چھوٹ سے لے کر بڑوں تک اور جاہلوں سے پڑھے لکھوں تک سب اسی دھن میں تھے ۔ ہر مجلس اور ہر جگہ انہیں باتوں کا چرچا تھا ۔ انہیں خیالات کی اشاعت تھی اور اس حد تک یہ برائی ان کی رگ رگ میں سرایت کرچکی تھی ۔ کہ جب حضرت لوط (علیہ السلام) نے ان کو ٹوکا اور متنبہ کیا ۔ تو ان کو اس پاکبازی پر تعجب ہوا ۔ اور صاف کہنے لگے کہ تمہیں اس قدر پرہیزگاری کا خایل ہے تو اس ملک کو چھوڑ دو ۔ ہم تو باز نہیں آئیں گے ۔ بدبختی کی انتہا دیکھئے ۔ کہ جب فرشتے ان کے پاس آئے تاکہ ان کی بستیوں کو لٹ دیں ۔ تو انہوں نے ان کو خوبصورت لڑکوں کی شکل میں دیکھ کر اپنی ناپاک خواہشات کی تکمیل کے لئے منتخب کرنا چاہا ۔ یہ فرشتے پہلے حضرت ابراہیم کے پاس آئے تھے ۔ تاکہ ان کو حضرت اسحاق کی ولادت کی خوشخبری سنائیں ۔ چنانچہ جب وہ یہ خوشخبری سنا چکے تو حضرت ابراہیم نے پوچھا ۔ کہاں کے ارادے ہیں ۔ تو انہوں نے بتلایا ۔ کہ سدومیوں کی ناقاک اور مجرم قوم کے ہاں جارہے ہیں ۔ تاکہ ان پر عذاب کے پتھر برسائیں ۔ اور موت کے گھاٹ اتار دیں ۔ کیونکہ انہوں نے زندگی کانہایت ناجائز استعمال کیا ہے ۔ اور خطرہ ہے ۔ کہ ان کی بداعمالی آئندہ نسلوں تک متجاوز نہ ہوجائے *۔ واضح رہے کہ یہ جرم اتنا ذلیل ، اس قدر خطرناک اور برا ہے ۔ کہ اس کے انسداء کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط (علیہ السلام) ایسے پاکباز انسان کو خصوصیت کے ساتھ بھیجا ۔ تاکہ وہ بلا خوف قوم کو ان بدخیالات اور فواحش سے روکیں ۔ کیونکہ اس فعل شنیع سے قومیں صرف بداخلاق ہی نہیں ہوجاتی ہیں ۔ بلکہ ذہنی اور دماغی لحاظ سے پست اور ذلیل بھی ہوجاتی ہیں ۔ ان میں قوت واستعداد باقی نہیں رہتی ۔ کہ وہ دنیا میں تنومند اور ہشاش بشاش انسانوں کی طرح زندہ رہیں ۔ اور تمدن انسانی میں کیف ونشاط کا اضافہ کریں ۔ بلکہ اس زہر سے سارا جسم ماؤف ہوجاتا ہے ۔ دل ودماغ کی صلاحتیں چھن جاتی ہیں ۔ اور جرات وحوصلہ مفقودہوجاتا ہے ۔ بالآخر انجام یہ ہوتا ہے ۔ کہ اس نوع کی قوم حوادث کا مقابلہ نہ کرسکنے کی وجہ سے بالکل مٹ جاتی ہے ۔ یا حیوانات کی طرح زندگی بسر کرتی ہے * اس لئے آج بھی ہمارے علماء اور قائدین کو اس بیماری کے استیعا کے لئے کمر بستہ ہوجانا چاہیے ۔ اور اپنی قوم کے نوجوانوں کو اس نوع کے خیالات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا چاہیے ۔ اور ان کے ذہن نشین کرانا چاہیے ۔ کہ قومیں صرف اپنے اخلاق حمیدہ ہی سے زندہ رہی ہیں * حل لغات :۔ خطبکم ۔ حالت کیفیت ۔ کار ۔ حال *۔ مسومۃ ۔ نشاندار ۔ عینی متعین * برکبہ ۔ اپنے ارکان حکومت کے ساتھ *۔ الذاريات
37 الذاريات
38 الذاريات
39 الذاريات
40 الذاريات
41 الذاريات
42 الذاريات
43 الذاريات
44 مذہب کے معنے ف 1: اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے ۔ کہ جس وقت بھی لوگ امرحق کی مخالفت کریں انبیاء کے پیغام کو ٹھکرائیں ۔ اور فرطت کی آواز کو نہ سنیں ۔ تو اللہ کا غضب بھڑکتا ہے ۔ اور ان لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا ہے ۔ سدومیوں کا ذکر گزر چکا ہے ۔ ان آیتوں میں قوم ثمود اور نوح کے مخالفین کا ذکر ہے ۔ کہ جب ان لوگوں نے بھی نافرمانی کی اور نہایت سرکشی سے اللہ کی باتوں کا انکار کیا ۔ تو ایسا عذاب آیا ۔ کہ یہ اس کی تاب نہ لاسکے ۔ اللہ کا قانون ہے ۔ کہ فسق وفجور کو زیادہ دیر تک برداشت نہ کیا جائے ۔ اور ایسے لوگوں کو جو اس کے قانونوں کو توڑیں ۔ اور اس کی شریعت کی مخالفت کریں ۔ فنا اور موت کے گھاٹ اتاردیاجائے ۔ کیونکہ مذہب بڑا گرم ہوتا ہے زندگی کا ۔ بقاء کا اور دنیا میں ارتقاء وتقدم کا اور انبیاء کی بعثت سے یہ غرض ہوتی ہے ۔ کہ وہ مردود قوموں میں حیات اور بالیدگی کی روح پھونک دیں ۔ پھر بھی اگر کچھ بدبخت لوگ اس زندگی کو موت سمجھیں ۔ اور شہد کو زقوم سمجھ کر منہ نہ لگائیں تو ان کا علاج سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ بےشنیع ان کو زندگی کی نعمتوں سے محروم کردیاجائے ۔ کیونکہ کفران نعمت ناقابل برداشت ہے کہ خدا تو ان کو زندہ رکھنا ، پستیوں سے نکالنا ، ترقی کے بام بلند تک پہنچانا چاہیے یہ متقل کی جانب گریں ۔ اور گمراہی وضلالت کے تاریک گڑھوں کی طرف بڑھیں *۔ حل لغات :۔ اریح العیم ۔ نامسعود ہو ۔ نا مبارک آندھی * لعتوباعتو سے ہے ۔ بمعنے سرکشی * الصعقۃ ۔ عذاب مہلک ۔ مرگ ۔ ابر سے زمین پر گرنے والی بجلی * الذاريات
45 الذاريات
46 الذاريات
47 الذاريات
48 الذاريات
49 الذاريات
50 الذاريات
51 مظاہر قدرت سے استدلال ف 1: فرمایا آسمانوں کی وسعتوں کو دیکھو ۔ نجوم وکواکب کے فوائد اور ان کی مصلحتوں پر غور کرو ۔ پھر یہ دیکھو کہ زمین کو ہم نے کس طرح تمہارے پاؤں تلے بچھا رکھا ہے *۔ اور کیونکر ہر چیز کو دو دو قسم کا بنایا تمہیں معلوم ہوجائیگا ۔ کہ یہ سب چیزیں اس کی توحید اور قدرت کا ملہ پر صریح دال ہیں ۔ اس لئے اگر تمہارا مطالعہ صحیح اور کامل ہے ۔ تو پھر تمہارا فرض یہ ہے کہ خلوص اور عقیدت کے ساتھ خدا کے حضور میں آؤ۔ اور دوڑ کر رشتہ توحید کو تھام لو ۔ کیونکو وہ ذات ہر نوع کے ساجھے سے پاک اور بالا ہے * الذاريات
52 الذاريات
53 الذاريات
54 الذاريات
55 ف 2: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اللہ کا پیغام مکے والوں تک پہنچاتے ، تو یہ لوگ ازراہ کبروغرور کہتے ۔ کہ ہم تمہیں بھی ساحر اور کاہن سمجھتے ہیں ۔ یا ہمارا خیال ہے کہ تمہارے دماغ میں خلل ہے ۔ اس سے زیادہ وقعت ہمارے دل میں تمہاری نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔ کہ آپ ان توہین کے کلمات کو نخندہ پیشانی برداشت کیجئے ۔ کیونکہ ہمیشہ سے جب انبیاء علیہم السلام تشریف لائے ہیں ان کے مخالفین نے ان کو انہیں القائر سے ملقب کیا ہے ۔ یہ بہت پرانا الزام ہے ۔ آپ بہرحال سمجھاتے رہیے ۔ مومنین کی ایک جماعت ، عقیدتمندوں کا ایک جم غفیر یہ خود بتلائے گا ۔ کہ ساحر اور مجنون کون ہے ؟ اور وہ کون ہے جس کے ساتھ بےانتہا نفوس قلبی تعلق رکھتے ہیں *۔ الذاريات
56 تخلیق انسانی کی غرض وغایت ف 3: یہ مسئلہ ابتداء سے بہت اہم رہا ہے ۔ کہ انسانی تخلیق سے مقصود کیا ہے ؟ فاسد سے لے کر مذاہب تک نے اس پر یکساں نبع آزمائی کی ہے ۔ اور بالآخر دونوں نے اعتراف کیا ہے ۔ کہ وہ اس کا کوئی تسلی بخش حل دریافت نہیں کرسکے اور یہ جواب نہیں دے سکے ۔ کہ انسان کے پیدا ہونے کا آخر مقصد کیا ہے ؟ البتہ قرآن حکیم اپنی زبان میں کہتا ہے ۔ کہ میں سوال کا جواب دیتا ہوں ۔ اور وہ یہ ہے ۔ کہ انسان کو خلعت وجود سے اس لئے نوازا گیا ہے تاکہ وہ اللہ کی عبادت کرے ۔ مگر کیا عبادت ایسا مفہوم ہے ۔ جو اپنے اندر اتنی وسعت رکھتا ہو ۔ کہ اسے زندگی کا نصب العین قرار دیا جاسکے ۔ یہ چیز قابل غور ہے *۔ جہاں تک قرآنی محاورات کا تعلق ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن عبادت کے لفظ کو صرف مخصوص اور متعین نوح کی حرکات کے لئے استعمال نہیں کیا ۔ بلکہ عبادت کا لفظ اس کے نزدیک اس سے کہیں زیادہ وسعت رکھتا ہے ۔ چنانچہ جہاں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا اظہار فرمایا ہے کہ ہم اس معاملہ کو زبور میں لکھ لئے ہیں ۔ کہ زمین کی وراثت ہمارے نیک بندوں کے مکلف رہے گی ۔ اللہ نے فرمایا : ان لی ھذا املاثئقوم عبدین ۔ نہ اس اظہار واقعہ میں خدائے پرستاروں کے لئے خوشخبری کا اعلان ہے ۔ جس نے صاف معنی یہ ہیں کہ طہارت کی حلاوت صرف دلوں تک محدود نہیں ہے بلکہ حکمرانی کا بھی ذریعہ ہے ۔ اور اس کے توسل سے زمین کے خزائن اور اقتدار بھی حاصل ہوتے ہیں ۔ کہ خدا کے تمہارے وہ ہی نہیں ہیں ۔ جو صرف دہلیز مسجد سے وابستہ ہوں ۔ بلکہ وہ ہیں جس نے دیرپا تخت سلطنت بھی ہوں ۔ اور جہاں سلطان ان کی پاکبازی سے ڈرے ۔ وہاں طاغوتی قومیں بھی اس کے سامنے دبی جھکی رہیں ۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے عبادت تعبیر زندگانی اور روحانی نشاط سے اخلاق کی تعمیر سے اور ظاہروباطن کی بالیدگی سے کیونکہ اس کے دو پہلو ہیں ایک کا تعلق خالق مطلق سے ہے ۔ اور دوسرے کا مخلوق بدوہ ہے ۔ جو ایک طرف تو اللہ کی مخلوق کے حق میں نہایت شفیق ومہروں اور ہمدرد ہو ۔ اور دوسری طرف اللہ کے مقابلہ میں نہایت عاجز اور منکسر اور پھر کیب انوار میں یہ چیز اس کے پیش نظر ہو ۔ کہ اس کو تخلق غلان اللہ پر عمل پیرا ہونا ہے ۔ اور یہی عبادت کی غرض اور رعایت ہے ۔ اور جب وہ اس پیکر حسن اجمال اور کثرت قدرت وکمال کو انپا مدنظر ٹھہرائے گا ۔ اور کوشش کریگا کہ اپنے میں اس کی نقوبرات اور تجلیات کی بقدرطرف منعکس کرے اور پھر وہ واقعی اس مقصد کو پورا کریگا ۔ جس کی وجہ سے اس کو پیدا کیا گیا *۔ حل لغات :۔ یملوم ۔ لائق ملامت * المنین ۔ جو باعتبار اپنی ذات کے صاحب قوت ہو *۔ الذاريات
57 الذاريات
58 الذاريات
59 الذاريات
60 الذاريات
0 الطور
1 سورۃ الطور ف 1: دعوی یہ ہے کہ اللہ کے عذاب کو کوئی شخصیت ٹال نہیں سکے گی ۔ وہ آئیگا اور ضرور آئیگا ۔ ثبوت یہ ہے کہ طور کودیکھو ، اور حضرت موسیٰ کی تعلیمات کو ملاحظہ کرو ۔ پھر کتاب مسطور پر نظر دوڑاؤ۔ جو کہ کھلے اوراق میں مندرج ہے جس سے غالباً لوح محفوظ مراد ہے باروشن اور واضح صفت ہے کتاب کی ۔ بیت اللہ کی آدمی اور معموری پر نظر وفکر سے کام لو ۔ کہ کیونکر اس نے مخالفتوں کے خلاف اس کو برکت عطا کی ہے ۔ اور آسمان کی طرف نظر کرو ۔ جو چھت کی طرح ہے *۔ اور سمندروں کو بنظر غائر دیکھو ۔ جو پانی کے فراواں ذخائر سے پر ہیں ۔ کیا ان باتوں میں تمہارے لئے عبرت وتذکیر کاسامان نہیں ہے ۔ کیا موسیٰ کی تعلیمات اس عذاب پر گواہ نہیں ۔ کیا قرآن میں اس کی تصریح نہیں ہے کیا ابرہہ کو ہلاک نہیں کیا گیا ۔ جس نے بیت اللہ کے انہدام کا اقدام کیا تھا اور کیا متلاطم سمندر اور فلک ہزار شیوہ قوم نوح کی طرح ہلاکت وفنا کے لئے کافی نہیں ہے ؟ فرمایا جس دن یہ عذاب آئیگا ۔ اس دن آسمان تھرتھرانے لگے گا ۔ اور پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائینگے ۔ اس دن ان لوگوں کے لئے بڑی تکلیف کا سامنا ہوگا جو منکر ہیں *۔ حل لغات :۔ رق ۔ پوست آہو ۔ روشن *۔ منشور ۔ کھلی ہو ۔ وضوع واعلان کی طرف اشارہ ہے *۔ الطور
2 الطور
3 الطور
4 الطور
5 الطور
6 الطور
7 الطور
8 الطور
9 الطور
10 الطور
11 الطور
12 الطور
13 الطور
14 الطور
15 الطور
16 الطور
17 بہشت والے ف 1: ان آیتوں میں پاکبازوں متقیوں کے مقام کی تشریح فرمائی ہے ۔ کہ ان لوگوں نے دنیا میں اپنے مولیٰ کی رضا کے لئے اپنی آسائیشوں اور آسودگیوں کو چھوڑا تھا ۔ یہاں ان کو ان مسرتوں سے تمام وکمال بہرہ مند کیا جائیگا ۔ یہاں یہ اللہ کی رضا کو محسوس کریں گے ۔ اور اس پر خوش ہوں گے ۔ ان سے کہا جائے گا ۔ کہ جس چیز سے چاہو اپنے کام وذہن کی تواضع کرو ۔ اطمینان ووقار کے ساتھ مزین وآراستہ تختوں پر بیٹھو ۔ پھر ایسا ہوگا ۔ کہ تسکین روح کے لئے بڑی بڑی آنکھوں والی گوری چٹی عورتوں کو ان کی رفاقت میں دے دیا جائے گا ۔ پھر ان لوگوں کی اولاد مگر مرتبہ ومقام میں ان سے فروتر ہوگی ۔ تو ان کو خوش کرنے کے لئے اس کو بھی ان کے پاس بھیج دیا جائے گا ۔ اور خودان کے اعمال میں سے کوئی چیز کم نہ ہوگی ۔ ہر شخص اپنے اعمال کی وجہ سے آسائیش یا عذاب حاصل کرے گا ۔ ان پاکباز نقوس کو عمدہ عمدہ میوے کھانے کے لئے ملیں گے ۔ گوشت ان کے سامنے پیش کیا جائے گا *۔ اور شراب کے قدموں پر چھینا جھپٹی کرینگے ۔ مگر بےہودگی کے ساتھ نہیں ۔ نہ گناہوں میں شغف کی وجہ سے بلکہ ظاہر تشکر واشغان کے لئے چھوٹے چھوٹے بچے جو پاکیزگی اور خوبصورتی میں موتیوں کی طرح ہونگے ان کے کام کاج کے لئے مقرر ہونگے ۔ جن کی خدمات سے انکا دل مشرور ہوگا ۔ گویا وہ ہر چیز ان کو مہیا ہوگی ۔ جس کی نفس انسانی آرزو کرسکتا ہے ۔ بلکہ اس سے کہیں زیادہ شرط اطاعت سے اور اللہ کی فرمانبرداری *۔ حل لغات :۔ ھنیا ۔ خوشگواری کے ساتھ * ما القینا عم ۔ کم نہیں کریں گے * الطور
18 الطور
19 الطور
20 الطور
21 الطور
22 الطور
23 اہل دوزخ ف 1: غرض کہ لفظ قرآن حکیم میں عموماً برے معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ اس سے مقصود وکفر والحاد میں شغف اور انہماک ہے ۔ برائی اور معصیت سے لگاؤ ہے ۔ اور فسق وفجور سے محبت ہے ۔ غرض یہ ہے کہ یہ لوگ قیامت کے دن بہت برے عذاب میں گرفتار ہوں گے ۔ دنیا میں تو غفلت کے پردے ان کی آنکھوں پر پڑے تھے ۔ اور یہ لوگ سوچنے اور غور وفکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کرتے تھے اور سوچتے بھی تھے تو یہ کہ کس طرح اس آفتاب نبوت کی روشنی سے لوگوں کو محروم رکھا جاسکتا ہے ۔ مگر اب دونوں آنکھیں کھلیں گی ۔ بصیرت کی بھی اور بصارت کی بھی ۔ یہاں یہ دیکھیں گے کہ فرشتے پکڑ پکڑ کر ان کو دوزخ کی طرف لے جارہے ہیں ۔ اور کہہ رہے ہیں ۔ دیکھ لیجئے یہی وہ دوزخ ہے ۔ جس کی تم تکذیب کرتے تھے ۔ اور جس کے متعلق تمہارا یہ خیال تھا ۔ کہ یہ محض ڈھکو سلا ہے ۔ کہاں کی آگ اور کہاں کا عذاب خوب اچھی طرح دیکھ لو ۔ کہیں جادو کی کرشمہ سازی تو نہیں ۔ کوئی شعبدہ بازی تو انہیں ہے ۔ اگر یہ واقعہ ہے کہ خلاف توقع تمہیں جہنم میں پھینک دیا گیا ہے ۔ تو پھر اب اس کو برداشت کرو ۔ یانہ کرو ۔ چارو لاچار رہنا پڑیگا ۔ کیونکہ تمہارے اعمال اسی جگہ کے مقتضی ہیں ۔ یہ اللہ کا مقام غضب سے یہاں وہ لوگ رہتے ہیں جنہوں نے دنیا میں اس کے احکام سے لاپروائی کی ہے ۔ اور ادنی ترین آسائیشوں کی خاطر ہمیشہ کے عیش اور رحیم وروح کی بالیدگی کو چھوڑ کر ترک کیا ہے ۔ جنہوں نے وہاں کبروغرور کا مظاہر کیا ہے ۔ اور صداقت کو محض اس لئے تسلیم نہیں کیا کہ اس کو پیش کرنے والا ایک انہیں میں کانسان ہے ۔ محض اس لئے ایمان کی دولت سے محروم رہے ۔ کہ اس کو لٹانے والا دنیوی اعزازات کا حامل نہیں ہے اور اللہ کو چھوڑ کر انہوں نے دوسرے آستانوں پر اپنے سر کو جھکایا ہے ۔ خود اپنی توہین کے مرتکب ہوئے اور باری تعالیٰ کی جناب میں بھی گستاخی کا اظہار کیا ہے *۔ حل لغات :۔ یدعون ۔ کشاں کشاں لائے جائیں گے *۔ الطور
24 الطور
25 الطور
26 الطور
27 اعمال کی اصلی حیثیت ف 1: اہل جنت جب اللہ تعالیٰ کی نعمت ہائے گوناگوں کو دیکھیں گے اور محسوس کرینگے کہ یہاں کامل صحت اور مسرت کا سامان موجود ہے ۔ نواز راہ شکر گزاری آپس میں اللہ کے اس احسان عظیم کا تذکرہ کرینگے ۔ کہ دنیا میں ہم عاقبت سے بہت ڈرتے تھے ۔ اور خشیت اور خوف کے جذبات ہم پر طاری رہتے تھے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے ۔ کہ اس نے عذاب نار سے بچا لیا ۔ گویا یہ پاکباز نفوس اس وقت بھی کبروغرور کی آسودگی سے اپنے دامن کو ملوث نہ کرینگے ۔ اس وقت بھی یہی کہیں گے ۔ کہ اس مقام بلند تک رسائی جو ہوئی ہے ۔ تو محض اس کے کرم اور مہربانی کی وجہ سے دورنہ ہمارے اعمال اس لائق کہاں تھے کہ اس درجہ انعام واکرام کے مستحق ہوتے ۔ ہم اللہ کو دنیا میں مخاطب تو کرتے تھے ۔ دعاؤں میں پکارتے بھی ضرور تھے ۔ مگر یہ محض اس کی شفقت اور رحمت ہے ۔ کہ اس نے ہم گنہگاروں کو جنت کی نعمتوں سے نوازا اور ہماری سن لی *۔ اصل بات یہ ہے ۔ کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے اعمال انسان کو اس قابل بنادیتے ہیں ۔ کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی آغوش رحمت میں لے لے اعمال براہ راست نجات کا استحقاق نہیں پیدا کرتے ۔ کیونکہ قدرت کی طرف سے انسان پر احسانات کا بار اتنا بڑا ہے ۔ کہ اگر مہر من موسے وہ حساس وشکر کے دریا بہادے ۔ جب بھی عمدہ برآء نہیں ہوسکتا ۔ چہ جائے کہ اس کے اعمال عنداللہ محصوب ہوں ۔ کیونکہ بڑے سے بڑا عمل بھی اس کے نزدیک حقیر ہے ۔ اور کوئی وقعت نہیں رکھتا *۔ ؎ ازدست وزبانے کو برآئند کز عہدہ شکرش بدرآید حل لغات :۔ لا لغو فیھا ولا تاثیم ۔ غرض یہ ہے کہ اہل بہشت کا مذاق ووجدان اس درجہ وہاں اصلاح پذیر ہوجائے گا ۔ کہ یہ چیزیں قطعاً ان میں نہ ہوں گی الطور
28 الطور
29 الطور
30 الطور
31 الطور
32 الطور
33 الطور
34 ف 1: فرمایا : کہ آپ ان لوگوں کے الزامات کی پرواہ نہ کیجئے ۔ اور برابر ان کو اللہ کا پیغام سناتے رہیے ۔ نہ آپ کاہن ہیں ۔ نہ مجنون ۔ آپ کی دماغی قابلیتوں کا اندازہ یہ لوگ نہیں کرسکتے ۔ نہ یہ کہ آپ شاعر ہیں ۔ اگر یہ لوگ زمانہ کے حوادث کے منتظر ہیں ۔ تو بات درست ہے ۔ ان سے کہیے ۔ کہ میں بھی منتظر ہوں *۔ اور ان سے پوچھئے ۔ کہ یہ متضاد باتیں آپ کی طرف کیوں منسوب کرتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ یہ کہانت جانتا ہے ۔ جس کے لئے ذہانت کی ضرورت ہے ۔ اور کبھی خلل دماغ کا طعنہ دیتے ہیں ۔ اور یہ دونوں باتیں متناقص ہیں ۔ کیا ان کی عقلوں کا یہ فتویٰ ہے ۔ یا محض شرارت ان لوگوں سے کہیئے کہ اگر ان کو قرآن کے کلام الٰہی ہونے میں شبہ ہے ۔ تو ایسا کلام بنا کر پیش کریں ۔ اور عملاً ثابت کریں ۔ کہ انسان ایسے بلند پایہ پیغام کو وضع کرسکتا ہے ۔ مگر یہ تاریخ اسلام کی حیرت انگیز واقعہ ہے ۔ کہ گو قرآن نے بار بار ان کی ادبی غیرت اور حمیت کو ابھارا اور کہا ۔ کہ وہ آئیں اور قرآن کا مقابلہ کریں ۔ لیکن ان کو قطعاً اس کی جرات نہیں ہوسکی ۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں ۔ کہ باوجود فصاحت وبلاغت کے چرچوں کے ان لوگوں نے ایک دفعہ کوئی چیز لکھیں ۔ کیونکہ یہ لوگ جانتے تھے ۔ کہ اس کا انداز بیان بالکل نادر ہے ۔ اور انسان طاقت اور وسعت سے اس کا جواب ناممکن ہے * الطور
35 الطور
36 ف 2: غرض یہ ہے ۔ کہ یہ لوگ اپنے مرتبہ ومقام کو پہچانیں ۔ اور اللہ کے سامنے جھکیں ۔ کیونکہ یہ خودبخود موجود نہیں ہوں گے ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو خلعت وجود بخشا ہے *۔ حل لغات :۔ اخلامھم ۔ حلم کی جمع ہے ۔ بمعنے عقل * تقولد ۔ تقویل کے معنے وضع کرنے کے ہیں * لسم ۔ سیڑھی *۔ الطور
37 الطور
38 الطور
39 کیا خدا کے اولاد ہے ؟ ف 1: مکہ والوں کے اس عقیدہ کی تردید ہے ۔ کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں فرمایا ۔ اس حقیقت پر غور تو کرو ۔ کہ اس کی ذات والا صفحات لوالد وتناسل سے بالکل مبرا ہے ۔ پھر اگر اس کے اولاد فرض بھی کرلی جائے اور اس کفر کو تھوڑی دیر کے لئے مان بھی لیا جائے ۔ تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ تم اپنے لئے تو اولاد ذکورا پسند کرو ۔ اور اللہ کے لئے اولاد اناث ؟ اگر تمہارے لئے یہ بات لائق فخر نہیں ۔ کہ تم بیٹی کے باپ کہلاؤ۔ تو بموجب تمہارے عقیدہ کے اس پروردگار کے لئے کیوں کر باعث عزت اور وقار ہوسکتا ہے ۔ غرض یہ ہے کہ تمہارے اس عقیدہ میں اور دوسرے مزعومات میں صراحتاً تناقص ہے *۔ الطور
40 پیغمبر تنخواہ دار نہیں ہوتا ف 2: جب یہ بدلختان ازل رشدوہدایت کے فیوض سے محروم رہتے ۔ تو حضور کو بتقاضائے شفقت پیغمبرانہ بڑا دکھ ہوتا ۔ اور آپ کے قلب پاک پر یہ انکار وتمرد بہت گراں ہوتا ۔ اس لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ کہ آپ کا کام محض میرے پیغام کو ان تک پہنچا دینا ہے ۔ اگر یہ نہیں تسلیم کرتے تو نہ کریں ۔ آپ ان سے کچھ معاوضہ تو وصول کرتے ہی نہیں ۔ جو ناکامی پر خواہ مخواہ ملال ہو ۔ مان جائیں ۔ تو اس میں ان کا اپنا بھلا ہے نہیں مانتے ہیں تو اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں ۔ آپ بالکل پرواہ نہ کریں ۔ اور شمانیت قلب کے ساتھ اپنے فرائض منصبی کو ادا کرتے رہیں *۔ الطور
41 ف 3: انکار کی ایک وجہ یہ ہوسکتی تھی ۔ کہ علوم نبوت کے علاوہ کچھ ان کے پاس بھی اسرار اور رموز ہوں ۔ اور یہ ان پر قانع ہوں ۔ مگر یہ بات بھی تو نہیں میسر تھی ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نبوت کی نعمت تمام ہوچکی تھی ۔ اور غیوب کی سب راہیں مسدود ۔ یہ ناممکن تھا کہ اس مہیط وحی والہام کے علاوہ کہیں یہ بھی فیوض کا دریا جاری ہو ۔ اور نبوت ورسالت کو چھوڑ کر تذکیر اور عبرت پذیری کے کچھ دوسرے وسائل بھی ہوں ۔ اس لئے بہتر یہی تھا ۔ کہ یہ لوگ اپنے معتقدات وہم وخیال کو چھوڑ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتے اور عقل سے کام لے کر اسلام کی صداقتوں کو مان لیتے *۔ الطور
42 ف 4: فرمایا : یہ لوگ مسلمانوں اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازشیں کررہے ہیں مگر ان کو معلوم نہیں ۔ کہ ان کی تدبیریں ان کے کچھ کام نہ آئیں گی *۔ حل لغات :۔ مغرم ۔ نادان * کشفا ۔ کسی چیز کا ٹکڑا ۔ واحد اور جمع دونوں کے آتا ہے *۔ الطور
43 ف 5: کہ کیا اللہ کے سوا ان کے پاس دوسرا خدا بھی ہے ؟ یعنی کیا یہ محسوس کرتے ہیں ۔ کہ اس کائنات میں کوئی دوسری شخصیت بھی کارفرما ہے ! جس کے ہاتھ میں دنیا کا انتظام وانصرام ہے ۔ اگر نہیں ، تو پھر کو یں اسی کے آستانہ جلال پر نہیں جھکتے *۔ الطور
44 الطور
45 ف 1: یعنی ان لوگوں کی دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے ۔ کہ اگر عذاب الٰہی کو برملا دیکھ لیں ۔ جب بھی نہ مانیں فرمایا : آپ ان لوگوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دیجئے ۔ ایک دن آنے والا ہے ۔ جب ان کے ہوش اڑجائیں گے ۔ اور معلوم ہوجائے گا ۔ کہ اب عذاب آگیا ہے ۔ اور ہماری تمام تدبیریں ناکام ہیں ۔ اور اب یہ بھی ممکن نہیں ۔ کہ کوئی دیوتا ہماری اس آڑے وقت میں مدد کرسکے *۔ الطور
46 ف 2: غزوہ بدر کی طرف اشارہ ہے ۔ کہ اس میں صنادید فریش کو چن چن کر مار ڈالا گیا ۔ اور ان کے سارے نازاور غرور کو خاک میں ملادیا گیا *۔ الطور
47 الطور
48 الطور
49 الطور
0 النجم
1 النجم
2 جبریل کو دیکھا ف 3: یعنی جس طرح ستارے غروب کے وہقت سمت کا صحیح صحیح پتہ دیتے ہیں ۔ اور گم گشتگان راہ ان کو دیکھ کر اپنا راستہ پالیتے ہیں *۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہدایت کے کو کب تابان میں اور جو کچھ کہتے ہیں ۔ اس میں گمراہی اور فکرواستقلال کی لغزش کو قطعاً داخل نہیں ۔ ان کی سب باتیں وحی والہام کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ یہ اپنی طرف سے اپنی خواہش کے مطابق نہیں کہتے ۔ ان کے خیالات اور ان کی خواہشات نفس کے تابع ہیں ۔ منشاء الٰہی کے ان کے معلم جبرائیل ذی قوت ہیں ۔ جن کی التقاء کی استعداد بہت زبردست ہے ۔ آپ نے ان کو اپنی پوری شکل میں دیکھا ہے ۔ جب کہ یہ آسمان کے بلند ترین کنارے پر متمکن تھے ۔ پھر جب قریب ہوئے ۔ کچھ جھکے اور اترے ۔ اور دو کمانوں کے برابر یا کم فاصلہ دونوں میں رہ گیا ۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی وساطت سے اپنے بندے کہ مخاطب کیا ۔ اور رشدوہدایت کے منصب پر فائز کیا ہیں ۔ ضمن میں دل نے جو کچھ دیکھا ۔ اس میں جھوٹ اور قریب نظر نہیں تھا ۔ یہ ایک حقیقت تھی ۔ اور واقعہ تھا ۔ تم کو اگر شبہ ہے ۔ تو ہوا کرے ۔ انہوں نے جبرائیل کو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا ہے ۔ سدرۃ المنتہیٰ کے نزدیک جس کے قریب ہی جنت ہے جب کہ اس پر انوار وتجلیات چھارہی تھیں ۔ اس وقت بھی نگاہوں نے امرواقعہ کا جائزہ لینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ۔ اللہ کی بڑی بڑی نشانیوں کو آپ نے دیکھا ۔ اور اس کی بےانتہا قدرتوں کا اندازہ کیا *۔ صاحبکم کا لفظ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جس پیغمبر نے تمہارے سامنے چلیس برس کی ایک عمر بسر کی ہے ۔ اور کبھی اس کا دامن جھوٹ سے آلودہ نہیں ہوا ۔ کیا تم سمجھ سکتے ہو ۔ کہ ایک دم وہ اس درجہ افتراء پرواز ہوگیا ہے ۔ کہ جھوٹے واقعات کو اللہ کی جانب منسوب کرنے لگے *۔ حل لغات :۔ یغعقون ۔ ان کے ہوش اڑ جائینگے ۔ صعق سے ہے ۔ جس کے معنے بےہوش ہوچکے ہیں *۔ یاغیتنا ۔ یعنی آپ ہماری حفاظت میں ہے *۔ حل لغات :۔ الھویٰ۔ خواہش نفس * شدید الطویٰ۔ نہایت طاقت ور ۔ جبرائیل کا لقب ہے * مرۃ ۔ یعنی فطری طاقت ور ہے * قاب ۔ انداز * غوسین ۔ کمانیں عربوں میں قاعدہ تھا ۔ کہ جب وہ بڑے آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ۔ تو وہ اپنی کمانوں کو ایک دوسرے کی طرف بڑھاتے اور قریب کرتے ۔ تاآنکہ باہوں سے باہیں مل جاتیں ۔ اور وہ اس کو مبایعہ کے لفظ سے تعبیر کرتے ۔ مقصد یہ ہے کہ کچھ جبرائیل عالم بشریت کے قریب ہوئے اور کچھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بشریت ملکولیت کی طرف بڑھے اور ان دونوں میں بس اتنا فاصلہ رہ گیا ۔ جتنا کہ عام طور پر دو گفتگو نے مصالحت کرنے والوں میں رہ جاتا ہے *۔ ماینطق ۔ میں مراد شرعیات ہیں ۔ یعنی جہاں تک لوگوں کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کا تعلق ہے ۔ آپ جو کچھ کہتے ہیں ۔ وہ مستعمار ہوتا ہے ۔ جناب باری سے * سدرۃ المتھی ایک مقام ہے ۔ جہاں ملائکہ جاکر رک جاتا ہے ۔ اور جبرائیل بھی اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ جہاں صرف حیرت ہے ۔ اور عقل وخرد کا تیز رفتار جی زاہ انوار وتجلیات کے وفور سے گھبرا جانا ہے ۔ اور اس درجہ علم وقدرت میں گم ہوکر رہ جاتا ہے یہ وہ مقام ہے جہاں کائنات کی سرحدیں ختم ہوتی ہیں ۔ اور حجب واستزالٰہیہ کا آغاز ہوتا ہے *۔ النجم
3 النجم
4 النجم
5 النجم
6 النجم
7 النجم
8 النجم
9 النجم
10 النجم
11 النجم
12 النجم
13 النجم
14 النجم
15 النجم
16 النجم
17 ف 1: مازاغ البصر و ما طغی سے مقصود یہ ہے کہ پیغمبر (علیہ السلام) کے مشاہدات روحانی ہیں کوئی غلطی نہیں ہوتی ۔ روح اور نفس کا کوئی دھوکہ کار فرمائی نہیں کرتا ۔ بلکہ وہ جو دیکھنے میں سراپا حقیقت اور امر عاقعہ ہی ہوتا ہے *۔ النجم
18 النجم
19 النجم
20 النجم
21 النجم
22 النجم
23 بت پرستی پر کوئی دلیل نہیں ف 2: ان آیتوں میں بت پرستی کی مذمت فرماتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بت جن کو تم نے اللہ کا نام دے رکھا ہے ۔ حقیقتاً ان میں الوہیت کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی ۔ یہ محض پتھر ہیں ۔ بالکل بےجان اور بےبس ان کی پوجا اور پرستش کے لئے کوئی دلیل ہی نہیں ۔ محض بربتائے فن وتمخمین تم لوگ ان سے حسبت رکھتے ہو ۔ اور ان کو خبر وشر کا مالک سمجھتے ورنہ عقل ، دجان کے پاس اس کے جو از کے لئے کوئی برہان نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہوسکے ۔ کہ یہ پتھر باجود اپنی ساخت کے اور باوجود اس ہدایت کے اپنے اندر اتنا قدس رکھتے ہیں ۔ کہ ان کو خدا قرار دیا جائے اللہ کی طرف سے ہدایت آچکی ہے *۔ حل لغات :۔ ضمیرای ۔ قص تقسیم * سلطن ۔ حجت ۔ قدرت *۔ النجم
24 ف 1: یہ واضح طور پر بتایا جاچکا ہے ۔ کو اس کے تخلیل کے لئے کن کن معتقیات کا ہونا ضروری ہے ۔ کیا ان لوگوں کی یہ رائے ہے ۔ کہ یہ جو کچھ چاہیں گے وہی ہوگا ۔ اور دین کو ان کی خواہشات نفس کے تابع کردیا جائے گا ۔ سو ایسا نہیں ہوسکتا ؟ دنیا اور آخرت کے تمام اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ وہ ان کو دنیا میں بھی اس ذلیل عقیدہ پر مواخذہ کریگا ۔ اور عاقبت میں بتائے گا ۔ کہ تم لوگ راہ راست پر گامزن نہیں تھے *۔ النجم
25 النجم
26 فرشتے بھی جرات لب کشائی نہیں رکھتے ف 2: فرمایا : کہ ان لوگوں کو پتھر کے ان اصنام بےمعنے پر اعتماد ہے ۔ اور سمجھتے ہیں ۔ کہان لوگوں کی سفارش کریں گے ۔ حالانکہ وہاں بےنیازی کا یہ عالم ہے کہ فرشتے بھی موجود اتنے تقرب اور پاکیزگی کے اس کے جلال وجبروت کے سامنے لب کشائی کی جرات نہیں رکھتے ۔ ان کو بھی یہ اختیار نہیں ہے ۔ کہ بلا اس کی اجازت کے کسی شخص کے متعلق سفارش کے کلمات کا اظہار کرسکیں ۔ پھر اس صورت حال میں یہ کیونکر ممکن ہے ؟ کہ ان کا یہ اعتماد درست اور صحیح ثابت ہو *۔ النجم
27 فرشتے مذکر ہیں ۔ کہ مونث ف 3: خدا جانے کیا جہالت تھی کہ مکے والے فرشتوں کو مونث سمجھتے تھے ۔ کہتے تھے ۔ کہ یہ خدا کی بیٹیاں ہیں ۔ حالانکہ فرشتے اپنی ذات کے اعتبار سے ایسی بسیط اور نورانی صفات کے مال ہیں ۔ کہ ان کے متعلق تذکیر وتانیث کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ وہ مذکر میں نہ مونث ۔ ان میں سرے سے ہی یہ جنسی جذبات نہیں ہوتے ۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے پیدا کیا ہے ۔ کہ کائنات کے امور انتظامیہ کو باحسن وجوہ تکمیل تک پہنچائیں ۔ اور اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کا بہترین اظہار کریں ۔ ان کے متعلق یہ رائے رکھنا ۔ کہ یہ خدا سے نسبی نسبت رکھتے ہیں ۔ محض ان کی خرافات ہیں ۔ جس میں حقانیت کا کوئی شائبہ نہیں ۔ فرمایا ۔ کہ آپ ان کے ان شرعومات سے اعراض فرمائیں ۔ یہ نتیجہ ہیں ۔ محض دنیا میں انہماک اور جہالت کا ۔ اگر یہ لوگ اللہ سے محبت رکھتے اور عاقبت کے مسئلہ کو اہمیت نہ دیتے ۔ تو پھر ان مشرکانہ خیالات کے عالم نہ ہوتے *۔ حل لغات :۔ ملک ۔ فرشتہ * ھکن ۔ غیر یقینی بات *۔ النجم
28 النجم
29 النجم
30 النجم
31 النجم
32 خدا کا مطالبہ ف 1: اللہ تعالیٰ کایہ کرم ہے ۔ کہ وہ اپنے بندوں سے سو فیصد ہی نیک ہونے کا ماطلبہ نہیں کرتا ۔ اور یہ نہیں چاہتا ۔ کہ ان سے کسی لغزش اور کوتاہی کا صدور نہ ہو ۔ کیونکہ اس نے انسان کی طبیعت کسی قسم کی ہے ۔ وہ صرف یہ توقع رکھتا ہے ۔ کہ جہاں تک متعین گناہوں اور کھلی کھلی برائیوں کا تعلق ہے ۔ انسان ان سے بچنے اور ان سے موافقت نہ کرے ۔ زندگی کا تصور صحیح ہو ۔ دماغ درست ہو اور عقیدہ ایسانہ ہو جو اس کو گمراہ کردے ۔ تو پھر اللہ اتنا واسع المغفرت ہے ۔ کہ چھوٹی چھوٹی لغزشوں پر مواخذہ نہیں کریگا ۔ وہ تو یہ بھی کرسکتا ہے ۔ کہ کبائر سے بھی چشم پوشی کرلے ۔ اور بڑے بڑے گناہوں سے درگزر کردے ۔ مگر ایسا کرنا خوہ انسان کے لئے مضر ہے ۔ اس سے معنے صاف طور پر یہ ہیں ۔ کہ دنیا میں بےخوف وخطر اللہ کے احکام کی مخالفت ہو ۔ اور بلا ادنی تامل کے معاصی کلادتکاب کیا جائے ۔ اس طریق سے انسانی روح کے ناپاک اور تاریک ہوجانے کا اندیشہ تھا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنادیا ۔ کہ یاد رکھو ان لغزشوں کو چھوڑ کر جو بتقاضائے بشریت تم سے صادر ہوتی ہیں ۔ باقی احکام شریعت کی مخالیت میں پوری پوری سزادی جائے گی *۔ اس کے بعد یہ ارشاد فرمایا ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں پیدا کیا ہے ۔ اور وہ ان تمام منزلوں سے آگاہ ہے ۔ جن میں سے گزر کر تم نے یہ شکل وصورت اختیار کی ہے ۔ اس لئے اس کے سامنے مشخیت اور تقدس کا اظہار نہ کرو ۔ اس کی نگاہوں سے متقی اور پرہیز گار اوجھل نہیں ہیں ۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے ۔ کہ تم میں سے کن لوگوں نے روگردانی کی ۔ اور اللہ کے عذاب کے مستحق ہوئے *۔ حل لغات :۔ الا اللھم ۔ صغائر ۔ ہلکے ہلکے گناہ * اجنۃ ۔ جنتین کی جمع ہے *۔ النجم
33 النجم
34 النجم
35 ف 1: الذی لولی سے کوئی خاص شخص مراد نہیں ہے ۔ بلکہ مقصد یہ ہے ۔ کہ ان مکے والوں نے اللہ کے پیغام کو ٹھکرادیا ہے ۔ اور تسلیم ورضا سے روگردانی کی ہے ۔ پہلے جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف نہیں لائے تھے ۔ اس وقت تو رفاہ عام کے کاموں میں میں یہ کچھ حصہ لیتے تھے ۔ اور جو دو سخا سے کام لیتے تھے ۔ مگر اب ضد اور تعصب میں آکر انہوں نے وہ بھی بند کردیا ہے ۔ کب ان لوگوں کے پاس اس طرز عمل کے جواز کے لئے کوئی سند غیب سے نازل ہوئی ہے ۔ یا یہ محض بغض وعناد کا مظاہرہ ہے *۔ النجم
36 النجم
37 النجم
38 النجم
39 النجم
40 ف 2: اسلام پہلا مذہب ہے جس نے اس حقیقت کا اظہار فرمایا ہے ۔ کہ ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دارہے ۔ اور یہ ناممکن ہے ۔ کہ گناہوں کے بوجھ کو کوئی دوسرا اپنی پیٹھ پر لادلے ۔ اور خود تکلیف برداشت کرکے دوسروں کے لئے کفارہ ہوجائے ۔ خدا کے قانون کے سامنے سب یکساں جواب دہ ہیں ۔ وہاں یہ دیکھاجاتا ہے ۔ کہ آپ اپنی طرف سے کیا پونجی لائے ہیں ۔ آپ کے اعمال کیا ہیں ۔ اور آپ نے دین کی راہ میں کس حد تک مصائب کو برداشت کیا ہے ۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے یہ کافی نہیں ہے ۔ کہ مسیح کو صولی پر ٹانگ دیاجائے ۔ اور خود مزے کئے جائیں ۔ بلکہاگر یہ افسانہ سچ ہے ۔ تو پھر خودبھی سولیوں پر چڑھنا ہوگا ۔ اور ارورس وبوسہ دینا ہوگا جب جاکر کہیں نجات کی توقع ہوسکتی ہے *۔ حل لغات :۔ الذی ۔ روک دیا ۔ بند کردیا * افتحک ۔ ہنساتا ہے ۔ یہ معرض مدح میں ہے ۔ جس کے معنے یہ ہیں ۔ کہ ہسننا اللہ کی ایک نعمت ہے *۔ النجم
41 النجم
42 النجم
43 النجم
44 النجم
45 النجم
46 النجم
47 النجم
48 النجم
49 النجم
50 ف 1: اللہ تعالیٰ کا قانون میکافات یہ ہے ۔ کہ وہ پہلے تو اتمام حجت کے لئے انبیاء بھیجتا ہے ۔ خوارق اور معجزات دکھاتا ہے ۔ کتابیں نازل کرتا ہے ۔ اور پھر جب سرکش اور نادان انسان ان سب چیزوں سے آنکھیں بند کرلیتا ہے ۔ اور گمراہی کو ہدایت پر ترجیح دیتا ہے ۔ تو اس کا غصہ بھڑکتا ہے ۔ اور غیرت میں تحریک ہوتی ہے ۔ اس وقت وہ ان لوگوں کو زندگی کے تنمام حقوق سے محروم کردیتا ہے ۔ چنانچہ تعلیم قوم عاد نے جب اللہ کے پیغام کو ٹھکرادیا ۔ تو ہلاکت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ۔ قوم ثمود میں سے کوئی نفس باقی نہ رہا ۔ نوح کی قوم پرچادر آب اڑھا دی گئی ۔ سدومیوں کی بستیاں الٹ دی گئیں ۔ اور اسی طرح بتادیا گیا ۔ کہ اللہ کی گرفت بہت سخت ہے *۔ حل لغات :۔ اطنی ۔ یعنی پونجی باقی رکھتا ہے ۔ سرمایہ برقرار رکھتا ہے * الشعریٰ۔ ایک ستارہ کانام ہے ۔ جس کی پرستش ہوتی تھی * المرتلکہ ۔ وہ بستیاں جو الٹ دی گئیں *۔ النجم
51 النجم
52 النجم
53 النجم
54 النجم
55 النجم
56 النجم
57 ف 1: فرمایا : قیامت بہت قریب ہے ۔ کوئی غیر اللہ قوت اسکو اپنے وقت سے نہیں ہٹاسکتی ۔ تمہیں چاہیے ۔ کہ اس کیلئے تیاری کرو ۔ اور بجائے اظہار تعجب اور مذاق کے اللہ کے سامنے پیش ہونے کی صلاحیت پیدا کرو ۔ دل کے غبار کو آنسوؤں سے دھوڈالو ۔ غفلت وکبر سے باز آؤ۔ اور اس کے آستانہ جلال وعظمت پر جھکو ۔ عبادت کرو ۔ اور مالک کے ساتھ تعلقات نیاز مندی کواستوار کرو *۔ النجم
58 النجم
59 النجم
60 النجم
61 النجم
62 النجم
0 القمر
1 سورۃ القمر اس سورت کا آغازایک عظیم الشان خراق عادت کے طور پر ہوتا ہے ۔ بات یہ تھی ۔ کہ کفار مکہ ایک طرف تو قیامت کے تخیل کا مضحکہ اڑاتے تھے اور دوسری طرف کسی حیران کن معجزہ کے طالب تھے ۔ جو ان کی نظروں میں خیر کی پیدا کردے اور ان کے حواس معطل کرکیرکھ دے ۔ جس کو وہ دیکھیں اور اس کی کوئی عقلی توجیہ پیش نہ کرسکیں ۔ چنانچہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے ۔ کہ ایک بھرے مجمع میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مطالبہ ہوا ۔ کہ یہ چاند جو نظر آرہا ہے ۔ اس کے دو ٹکڑے ہوجائیں ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سنا ۔ انگلی سے اشارہ کیا ۔ تو چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے ۔ لوگوں میں ہل چل مچ گئی ۔ کچھ حیرت تھی کچھ نہ ماننے کی قید اس لئے اس عظیم الشان معجزہ کو دیکھ کر بھی وہ یہی کہہ سکے ۔ کہ یہ جادو ہے ۔ نظر بندی ہے ۔ اور سحر ہے ۔ مقصد یہ تھا کہ ایک طرف تو وہ اس خرتی وحتیام کو دیکھیں اور اپنے مشاہدہ سے سارے فلسفہ یونان کو جھٹلا دیں ۔ اور دوسری طرف قیامت کے امکانات ان پرزیادہ روشن ہوجائیں ۔ انہیں معلوم ہوجائے ۔ کہ جس طرح یہ کرہ نور آن کی آن میں دو ٹکڑوں میں منقسم ہوگیا اور پھر جڑ گیا ۔ اسی طرح قیامت آئے گی اور یہ یوم بفضلہ بچھر جانے کے بعد پھر سدھر جائیگی ۔ یہی وجہ ہے ۔ وانشق القمر سے پہلے اقترب الساعۃ کو بیان فرمایا اور اس معجزہ کو قیامت کی نشانی قرار دیا ہے ۔ مگر بعض لوگوں نے اس باریک نکتہ کونہ سمجھا ۔ اور یہ کہا ۔ کہ قرب قیامت کا ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے ۔ کہ یہ واقعہ قیامت کو ہوگا ۔ اس وقت چاند پھٹے گا اور اور ستارے گرینگے ۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ اس واقعہ کو قرآن نے آیت اور بہت بڑی نشانی قرار دیا ہے ۔ اور وہ لوگ جو اس کو نہیں مانتے ان کے متعلق کہا ہے ۔ کہ یہ لوگ خواہش کی پیروی میں مبتلا ہیں ۔ اگر اس کا تعلق قیامت سے ہوتا ۔ تو پھر نہ اس کو نشانی قرار دینے کی ضرورت تھی نہ سحر اور جادو کہنے کی ۔ اور نہ تکذیب کا کوئی موقع تھا ۔ اور نہ خواہشات کی پیروی کا ۔ کیونکہ جب چاند کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے ۔ اور بساط ہی الٹ دیجائیگی اس وقت لوگوں زندہ رہنے اور غدر ومقدرت کرنے کا وقت ہی کہاں ملے گا * وہ تو ایک گھڑی میں سارا کھیل ہی ختم ہوجائیگا ۔ ان حالات میں آنکھیں کھلیں گی ۔ اور سرکش اور متمروانعان دیکھے گا ۔ کہ جس چیز میں بھی جھٹلاتا تھا وہ میرے سامنے آج موجود ہے ۔ آیات کے انداز بیان سے ہی مفہوم اور ہترشیح ہے ۔ کہ یہ کوئی اہم واقعہ ہے ۔ جو گزر چکا ہے ۔ جو اس قابل تھا کہ یہ لوگ اس سے عبرت حاصل کرتے ۔ مگر انہوں نے اپنی روایتی بدبختی کی وجہ سے نہیں مانا ۔ صحیح اور واضح تر احادیث میں بھی اس کی تفصیلات موجود ہیں ۔ رہے وہ اعتراضات جو عقل وحکمت کے نام سے پیش کئے جاتے ہیں ۔ تو اس کا صرف ایک جملہ میں یہ جواب ہے کہ اگر خدا پر ایمان ہے تو پھر کوئی چیز بھی ناممکن نہیں *۔ القمر
2 القمر
3 القمر
4 القمر
5 القمر
6 القمر
7 القمر
8 ناگوار دعوت ف 1: غرض یہ ہے ۔ کہ ان بدبختان ازلی کے پاس سابقہ اقوام وملل کے حالات بیخ چکے ہیں ۔ اور انہیں معلوم ہے ۔ کہ کیونکر اللہ تعالیٰ کا غصہ بھڑکتا ہے ۔ اور ان کو ایک غیر مانوس اور ناگوار چیز کی طرف پکاریگا ۔ اس وقت آنکھیں کھلیں گی ۔ اور مارے شرم کے جھک جائینگی ۔ اور اوپر کو نہیں اٹھیں گی ۔ اور سارا کبروغرور خاک میں مل جائیگا ۔ وہ قبروں سے مدی دل کی طرح نکلیں گے ۔ اور اس بلانے والے کی جانب دوڑیں گے ۔ اس وقت ان منکرین کو اس دن کی سختی کا احساس ہوگا ۔ اس دن یہ کہیں گے ۔ کہ آج کی کلفتیں اور شدائد ناقابل برداشت ہیں ۔ مگر اس احساس سے کیا فائدہ ؟ جب کہ دنیا میں عمر عزیز کے بہترین لمحات کو انہوں نے نافرمانی اور سرکشی میں صرف کیا ۔ جب کہ روح کی بالیدگی کو انہوں نے اپنے اعمال بد کی وجہ سے سخت نقصان پہنچایا ۔ جبکہ اللہ سے دوری اور بعد کو انہوں نے پسند کیا ۔ محض خواہشات نفس کی پیروی کی ۔ اور عقل ودانش کی باتوں کو ٹھکرایا ۔ ضرورت تو اس بات کی تھی ۔ کہ یہ لوگ اپنے معصوم بچپن کو اللہ کی خدمت میں صرف کرتے ۔ اور جوانی میں ولولوں اور حوصلوں کے ساتھ اس کے دین کی اشاعت پرکمر بستہ ہوجائے ۔ اور پھر بڑھاپے میں اپنے تجربات کی روشنی نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہوتے ۔ مگر انہوں نے بچپن کو کھیل کود میں گنوادیا ۔ جوانی میں ہر نوع کے فسق وفجور کا ارتکاب کیا *۔ اور بڑھاپے میں ان گناہوں کی یاد تازہ کرتے رہے اور زیادہ ہٹ دھرمی کے ساتھ حق وصداقت کی مخالفت کی ۔ ان حالات میں زندگی کی اس منزل میں ان کے لئے تسکین اور تسلی کا کیا سامان مہیا ہوسکتا ہے *۔ حل لغات :۔ سحر شتمر ۔ دائمی جادو ۔ اس کے معنے یہ ہیں ۔ کہ یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے ایک ایک لمحہ کو اپنے لئے حیران کن سمجھتے تھے ۔ * ھوۃ نبو ۔ وائٹ ۔ جر سے مشتق ہے ۔ نکر ۔ ناگواری ۔ اوجری ۔ والطعین ۔ دورتے ہوئے اور لپکتے ہوئے *۔ القمر
9 حضرت نوح کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔ کہ ان کے ساتھ کیا سلوک روارکھا گیا ۔ انہوں نے جب اللہ کے پیغام کو قوم کے سامنے پیش کیا ۔ تو قوم نے کہا ۔ اور اللہ کے اس پاکباز بندے کے متعلق کس نوع کے خیالات کا اظہار کیا *۔ القمر
10 القمر
11 ف 1: اور پھر بالآخر کس طرح اللہ نے آسمان کے دروازوں کو کھول دیا ۔ پانی برسا زمین سے چشمے پھوٹ گئے ۔ اور دیکھتے دیکھتے سطح سمند سے بدل گئی ، نوح ایک مختصر جماعت کے ساتھ کشتی میں سوارہوا ۔ اور قوم چادر آب کا کفن پن کر سوگئی ۔ یہ کتنا بڑا عبرت ناک واقعہ ہے ۔ مگر ظالم انسان نہ سمجھا ۔ اور پھر سرکش ہوگیا *۔ القمر
12 القمر
13 القمر
14 القمر
15 القمر
16 القمر
17 قرآن آسان ہے ف 2: قرآن نے آسان ہونے میں شبہ نہیں ہے ۔ یہ ایک ایسے پیغام عمل کا حامل ہے ۔ جس میں کوئی دشواری اور الجھن نہیں ۔ مگر صلاحیت شرط ہے ۔ یہ زندگی کا ایسا پروگرام ہے ۔ جوب بالکل فطرت انسانی کے موافق ہے ۔ اس لئے قدرتاً مشکل نہیں ۔ اس میں تعذیب نفس کے اصول بیان کئے گئے ۔ بلکہ یہ بتایا گیا ہے ۔ کہ انسانی روح میں کیوں کر بہیحت ومسرت کو پیدا کیا جاسکتا ہے ۔ ہاں یہ ضرور ہے ۔ کہ اس کو سمجھنے کے لئے محنت درکار ہے ۔ پڑھنے لکھنے کی حاجت ہے ۔ اور بغیر عوام اور شروط لازمہ کے ہر شخص کو استحقاق حاصل نہیں ۔ کہ وہ جس طرح چاہے اس کی آیتوں کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال لے ۔ باوجود آسان اور سہل ہونے کے اس کو سمجھنے کے لئے چند فنون سے کافی واقفیت شرط ہے ۔ جو اس ضمن میں ممدومعاون ہوسکے *۔ حل لغات :۔ عیونا ۔ جمع عین ۔ بمعنے چشمے * یا عیننا ۔ یہ انداز تعبیر ہے ۔ مقصد یہ ہے کہ ہماری ہدایات کے مطابق یا ہماری نگرانی میں * نحس ۔ نامبارک ۔ بدبخت *۔ القمر
18 القمر
19 القمر
20 القمر
21 القمر
22 القمر
23 القمر
24 القمر
25 القمر
26 القمر
27 القمر
28 القمر
29 القمر
30 القمر
31 نبوت کا تصور ف 1: حضرت صالح کی قوم ثمود کے واقعات بیان فرمائے ہیں ۔ کہ جب اللہ کے یہ پاکباز بندے ان میں آئے اور انہوں نے اللہ کی توحید کو بیان کیا ۔ اور تزکیہ نفس کے طریقوں سے آگاہ کیا ۔ تو ان لوگوں کی رگ کبروغرور پھڑک اٹھی ۔ انہوں نے کہا کیا ہم اپنوں میں سے ایک آدمی کو پیغمبرمان لیں ۔ اور یہ تسلیم کرلیں ۔ کہ ایک شخص جو بالکل ہماری کھاتا پیتا اور اٹھنا بیٹھنا ہے ۔ وہ نبی ہے ۔ گویا ان کے نزدیک نبوت کا تصور یہ تھا کہ وہ فوق البشر خوصیات اپنے اندر رکھتا ہو ۔ اور جو کچھ ہو ۔ کم از کم انسان نہ ہو ان کو اصل میں دکھ اس بات کا ہوتا تھا ۔ کہ آخر اللہ تعالیٰ کی نگاہ انتخاب حضرت صالح بنی پر کیوں پڑی ۔ جبکہ قوم میں اور بھی معززین موجود تھے ۔ بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے ۔ کہ ان کے نزدیک حضرت صالح سرے سے شرافت وعظمت کے ان معیاروں پر پورے نہیں اترتے تھے ۔ جن کو وہ عزت ووجاہت کے لئے ضروری قرار دیتے تھے ۔ وہ دیکھتے تھے ۔ کہ ہمارے پاس مال ودولت کے خزائن ہیں ۔ اور صالح ان سے محروم ہے ۔ ہم کو زندگی کی تمام آسائشیں حاصل ہویں ۔ اور صالح کو میسر نہیں ۔ ہم اپنی قوم میں رسوم کے پابند ہیں ۔ اور یہ اس کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اس صورت حالات میں یہ بات ان کے لئے ناقابل فہم تھی ۔ کہ ان کو نبوت کے عہدہ جلیلہ کے لئے کیوں منتخب کرلیا گیا ۔ وہ نہیں جانتے تھے ۔ کہ نبوت اللہ کا دین ہے اس کی بخشش وموہیت ہے وہ جس کو چاہے ۔ اس خدمت کے لئے چن لے ۔ اور جس سے خوش ہو ۔ اس کو نوازدے ۔ وہ نبوت کے لئے خدمات اور مال ودولت کی فراوانی کو نہیں دیکھتا ۔ وہ تو یہ دیکھتا ہے ۔ کہ کون زیادہ کامیابی کے ساتھ اس بارگراں کو اپنے کندھوں پر اٹھا سکتا ہے ۔ اور کس کے دماغ میں حق وصداقت کی تابش ہے ۔ اور کون دل اس ولائت عزیز کو حفاظت اور دیانت کے ساتھ سنبھال سکے گا ۔ اس کا معیار یہ نہیں ہے کہ قوم میں کون وجیہہ اور معزز ہے ۔ بلکہ اس کی نظر استعداد اور صلاحیت پر ہوتی ہے ۔ بہرکیف ان لوگوں نے حضرت صالح کی تکذیب کی ۔ کہ معاذ اللہ کہ یہ جھوٹا اور ہرگز نبوت کا استحقاق نہیں رکھتا ۔ فرمایا ۔ یہ لوگ دیکھ لیں گے کون جھوٹ بولتا اور ارتراتا ہے ۔ ہم آزمائش کے لئے ایک اونٹنی صالح کو مرحمت ٹھہراتے ہیں *۔ باقی صفحہ اگر ان لوگوں نے اس کو تکلیف نہ دی ۔ اور پانی سے سیر ہونے دیا ۔ تو بہتر ورنہ ان پر عذاب آئے گا ۔ آپ منتظر رہیں ۔ چنانچہ ان کے ایک رفیق نے ازراہ سرکشی اس کو ذبح کرڈالا ۔ تو عذاب نے ان کو آلیا ۔ اور ان کو ان کے غرور وکبر سمیت نابود کرڈالا *۔ القمر
32 القمر
33 القمر
34 القمر
35 القمر
36 القمر
37 خوبصورت مہمان حضرت لوط نے سدومیوں کو سمجھایا ۔ کہ تمہاری یہ بدفعالیاں تمہارے حق میں اچھی نہیں ۔ یہ بربادی اور تباہی فاہش ہیں ۔ جب تم فطرت کے خلاف جنگ کروگے ۔ تو ابتداً فطرت تمہارے لئے سامان ہلاکت پیدا کردے گی ۔ اور تم سے سخت ترین انتقام لے گی ۔ تم اس فعل شنیع سے باز آجائے ۔ اور پاکبازی کی زندگی بسر کرو ۔ مگر سدومیوں کے دل مسخ ہوچکے تھے ۔ ان پر شیطان پورا قبضہ کرچکا تھا ۔ انہوں نے نہ صرف انکار کردیا ۔ بلکہ خیائت نفس کا بدترین مظاہر کیا *۔ چنانچہ انہوں نے جب سن پایا ۔ کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کے پاس نہایت خوبصورت مہمان آئے ہیں ۔ تو آتے ہی ان کے مکان کا محاصرہ کرلیا ۔ اور مطالبہ کیا کہ ان کو ہمارے سپرد کردیا جائے ۔ حضرت لوط نے بہتیرا سمجھایا کہ کم بختو ۔ یہ میرے مہمان ہیں ۔ ان کی توہین کرکے مجھے رسوا نہ کرو ۔ اللہ کے عذاب سے ڈرو ۔ اور پاکبازی اختیار کرو ۔ لیکن انہوں نے ایک نہ سنی ۔ اور برابر خواہشات بد کا اظہار کرتے رہے *۔ وہ ہجوم کرکے آئے ۔ اور آخر ان خوبصورت مہمانوں نے جو درحقیقت اللہ کے فرشتے تھے ۔ حضرت لوط کو تسلی دی ۔ اور سدومیوں کو بصارت سے محروم کردیا ۔ اور اس کے بعد ان کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔ اس وقت ان سے کہا گیا ۔ کہ یہ میرا عذاب ہے ۔ اس سے تم کو ڈرایا جاتا تھا ۔ اب اس کو چارہ ناچار گوارا کرو *۔ حل لغات :۔ فعقر ۔ کونچے کاٹ ڈالنا * المختظر ۔ حطبرۃ سے ہے ۔ جس کے معنے باڑ کے ہیں ۔ یعنی باڑ لگانے والا * حاصبا ۔ پتھروں کی بارش ۔ وہ سخت ہواخوفناک اور سنگریز سے اڑادے ۔ اور برف اور راہ لے برسانے والے ابر کو بھی خاصیب کہتے ہیں *۔ القمر
38 القمر
39 القمر
40 ف 1: تفسیر قرآن کا مژدہ جو ہر واقعہ کے بعد سنایا جاتا ہے ۔ اس کے معنے یہ ہیں ۔ کہ قرآن یہ بتانا چاہتا ہے ۔ کہ سمجھانے کے لئے ہم انداز بیان میں کس درجہ تنوع ملحوظ رکھتے ہیں ۔ اور کیونکر حقائق کو مختلف اسالیب میں ظاہر کرتے ہیں ۔ یہ اصل میں بطور ٹپ کے بند کے ہے ۔ غرض یہ ہے کہ تلاوت قرآن کے وقت مسلمان اس نکتہ کو سامنے رکھے ۔ کہ یہ کتاب عزیز اپنے انداز فکر وعمل کی کوئی دشواری نہیں رکھتی ۔ اس کو سمجھنا آسان ہے ۔ اور اس پر عمل پیرا ہونا آسان تھا * القمر
41 ف 2: فرعون کی قوت وسطوت سے کون آگاہ نہیں جب اس نے بھی آیات بینات کا انکار کیا ۔ اور اللہ کی تعلیمات سے روگردانی کی ۔ تو اللہ تعالیٰ نے نہایت سختی کے ساتھ اس کو پکڑا ۔ اور لاؤ لشکر سمیت قلزم میں غرق کردیا *۔ القمر
42 القمر
43 ف 3: فرمایا : مکے والو ! کیا تم ان لوگوں سے بہتر ہو ۔ جن کو اللہ کے غضب نے صفحہ ہستی سے مٹا دیا ۔ یا تمہارے لئے کوئی معافی نامہ سابقہ کتب میں موجود ہے ۔ کہ تمہیں بہرآئینہ زندہ اور باقی رکھا جائیگا ۔ تمہاری سرکشی اور بغاوت کا آخر سبب کیا ہے ؟ کیا تم یہ سمجھتے ہو ۔ کہ تمہاری جماعت بہو ٹیج مظفر ومقصوررہے گی ۔ اگر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو ۔ تو سمجھ لو ۔ کہ حکمت اور ہزئمیت تمہارے لئے مقدارات میں سے ہے ۔ عنقریب تم حق وصداقت کے سپاہیوں کے مقابل ہمیں آؤ گے ۔ اور دم دبا کر بھاگو گے ۔ یہ ایک پیشگوئی تھی ۔ اور اس کا اظہار اس وقت کیا گیا ۔ جب کہ مسلمان نہایت کمزور اور بےسروسامنی کے عالم میں تھے ۔ پھر یہ کس قدر عجیب بات ہے ۔ کہ غزوہ بدر میں واقعی یہ لوگ ذلیل ورسوا ہوئے اور اللہ کا بول بالا ہوا *۔ حل لغات :۔ راودوۃ ۔ بہکانا چاہا ۔ یعنی برے ارادہ سے لینا چاہا *۔ القمر
44 القمر
45 القمر
46 القمر
47 القمر
48 القمر
49 القمر
50 القمر
51 القمر
52 القمر
53 قضاوقدر کیا ہے ۔ ! ف 1: صدیوں سے مسئلہ متکلمین کے نزدیک مابہ التراع رہا ہے ۔ کہ تضادوقدر کا مفہوم کیا ہے ۔ کیا اللہ تعالیٰ بندوں کے تمام افعال کو خود پیدا کرتا ہے ۔ یا بندے اپنے اعمال میں آزاد اور خود مختار ہیں ۔ اس باب میں اول شرعی احتساب اور باز پرس کی حدود سمجھ لیجئے ۔ اگر یہ فیصل شدہ ہے ۔ کہ سب کچھ پہلے سے مقدر ہوچکا ہے ۔ اور حرکت اور جنبش فکر پہلے سے متعین اور مقرر ہے ۔ تو پھر گناہ اور معصیت کسے کہتے ہیں ۔ اور اگر ہم بالکل آزاد اور خودمختار ہیں ۔ تو اس قضا وقدرکے مسئلہ کی حیثیت کیا ہے *۔ جواب یہ ہے ۔ کہ قرآن کے نقطہ نگاہ سے انسان کی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کو بوجہ اس کے علیم ہونے کے معلوم ہے ۔ اور مقررومتعین بھی ہے ۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں ہیں ۔ کہ وہ تقرر وتعین جو بمرتبہ علم کے ہے ۔ ہمارے اعمال وافعال پر اثر انداز بھی ہوتا ہے ۔ اس کے معنی تو یہ ہیں ۔ چونکہ وہ خدا ہے ۔ اور اس نے کائنات کو پیدا کیا ہے ۔ اس لئے وہ سا کی نیچر سے پورے طور پر آگاہ ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ انسان اپنی زندگی میں کن اعمال کا ارتکاب کریگا ۔ اور کس طرح کے عقائد رکھے گا ۔ یہ علم اس لئے ہے ۔ کہ وہ خدا ہے ۔ اس لئے نہیں کہ اس کا تعلق ہمارے اعمال وافعال سے ہے ۔ یعنی علم موثر نہیں ۔ جبکہ نتیجہ ہے ۔ اس کی ذات معارف صفات کا *۔ مسئل کا یہ پہلو ایسا ہے ۔ کہ تمام خدا پرست اس کو تسلیم کریں ۔ کیونکہ خدا کے لئے کائنات کے متعلق بالتفصیل معلومات رکھنا ضروری ہے ۔ یہ ایسا مسئلہ ہے ۔ جس کا تعلق براہ راست اس کے تخیل کے ساتھ وابستہ ہے ۔ کوئی شخص جو خدا کو مانتا ہے ۔ اس کا انکار نہیں کرسکتا ۔ ہاں اس آیت میں ایک امر زائد یہ بتایا گیا ہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ معلومات لوح محفوظ میں ثبت فرما رکھی ہیں ۔ تاکہ فرشتے جو کائنات میں نظم ونسق پر مامور ہیں ۔ اس کے مطالعہ سے بہرہ مند ہوں ۔ اور اس میں کوئی عقل استحالہ موجود نہیں ۔ باقی رہی یہ بات کہ انسان مجبور ہے ۔ یا مختار ۔ یہ ایک جدا محبت ہے اس کا تعلق اس مسئلہ کے ساتھ نہیں ہے *۔ حل لغات :۔ ادحی ۔ بہت سخت دھاء سے ہے * یستعبون ۔ کشاں کشاں لے جائے جائینگے * سقر ۔ دوزخ کا نام ہے * کلمح ۔ جیسے آنکھ کا جھپکانا * اشیاء کم ۔ ہم مسلک *۔ القمر
54 القمر
55 القمر
0 الرحمن
1 الرحمن
2 الرحمن
3 الرحمن
4 سورہ الرحمن ف 1: جیسا کہ سورۃ کے نام ظے ظاہر ہے ۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے فیوض رحمت کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔ اور انسانی ذہن وفکر کو متوجہ کیا ہے ۔ کہ اللہ کے بوقلمون انعامات پر نظر رکھے ۔ اور اس کی شان رحمانیت کو سارے عالم میں جلوہ دیکھے ۔ فرمایا : کہ اس فیوض میں سے سب سے بڑا فیض قرآن ہے ۔ جس کی روشنی اور برکات سے کائنات عقل وخرد میں توازن قائم ہے ۔ اس نے جب انسان کو پیدا کیا ۔ اور اس کو قوت گویائی سے بہرہ مند کیا ۔ تو مقصد یہی تھا ۔ کہ یہ اللہ کے پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچائے ۔ اس اعلیٰ فیض سے سارے عالم کو مشرف کرلے ۔ اور بیان اظہار کی قوتوں کو اس کی تفصیلات کی اشاعت کے لئے وقف کردیئے *۔ حل لغات :۔ بحسبان ۔ یعنی سورج اور چان کی حرکت کے انداز مقرر ہیں * یسجدان ۔ سجدہ کے بمعنے نذقل اور اظہار عجز کے ہوتے ہیں ۔ یہاں یہ مقصود ہے کہ بوٹیاں اور بڑے بڑے تناور درخت بھی اللہ کے حکام کے تابع ہیں ۔ جس طرح انسانوں کے لئے ایک شریعت ہے ۔ اسی طرح ان کے لئے بھی ایک قانون طبعی مقدار اور معین ہے جس کی اطاعت ان پر فرض ہے *۔ الرحمن
5 الرحمن
6 الرحمن
7 الرحمن
8 الرحمن
9 الرحمن
10 الرحمن
11 الرحمن
12 الرحمن
13 الرحمن
14 الرحمن
15 الرحمن
16 جنوں کا وجود ف 1: جن ایک الگ مخلوق ہے ۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے آگ سے پیدا کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے ۔ ان میں لطافت زیادہ ہے ۔ آج سے پچاس سال قبل تو لوگ اس مخلوق کا انکار کرتے تھے ۔ مگر اب تجربات نے ثابت کردیا ہے ۔ کہ جنات بھی موجود ہیں ۔ اور وہ لوگ جنہوں نے بڑے شدومد سے کہا تھا ۔ کہ یہ محض وہم ہے ۔ اب وہی کہہ رہے ہیں ۔ کہ یہ ایک حقیقت ہے ۔ ہمارے ہاں بعض ایسے جاہل بھی موجود ہیں ۔ جنہوں نے اس وقت کی آواز کو تو سنا تھا ۔ مگر موجودہ وقت کے خیالات سے آگاہ نہیں ۔ وہ اب تک یہ سمجھے بیٹھے ہیں ۔ کہ علماء مغرب کے معتقلات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔ بلکہ وہ اس قدر روشن خیال ہیں ۔ کہ سارا مغرب بھی ان مسائل کا قائل ہوجائے وہ جب بھی یہی کہے جائیں گے ۔ کہ یہ ندوی خرافات ہیں *۔ تکرار کا مقصد ف 2: اس آیت کو اس سورۃ میں بار بار بیان کیا گیا ہے ۔ تاکہ یہ حقیقت ذہن انسانی مرتسم ہوجائے ۔ کہ دو صدہا فطرت کے مظاہر جن کو ہم دیکھتے ہیں ۔ اور آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ توجہ طلب ہیں ۔ اور اس قابل ہیں ۔ کہ ان پر نگاہ عبرت اور فکر کے ساتھ غور کیا جائے *۔ عربوں کے ہاں قاعدہ ہے ۔ کہ وہ تثنیہ بول کر عام طور پر جمع مراد لیتے ہیں ۔ جیسے قغاسک من ذکوی حبیب ومنزل میں اس لئے تکذبان سے مراد سب لوگ ہیں *۔ الرحمن
17 ف 3: اس تثنیہ سے مراد بھی جمع ہے ۔ یعنی مشارق ومغارب غرض یہ ہے ۔ کہ آفتا کے طلوع اور غروب کے مقامات جو مختلف ہیں ۔ تو اس لئے کہ حرکت میں اختلاف ہے اور وہ یلن مصالح دنیوی کے مطابق ہیں *۔ الرحمن
18 الرحمن
19 ف 4: یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عجائب میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ دودریاؤں کے مقام اتصال پر یعنی جہاں پانی کے دودھارے ملتے ہیں تو درمیان میں ایک برزخ ساحائل رہتا ہے ۔ اور صاف معلوم ہوتا ہے ۔ کہ صورۃ یہ دو الگ الگ پانی میں *۔ حل لغات :۔ الاء ۔ انی ن جمع ہے ۔ بمعنی نعمتیں * ھرج ۔ ملایا ۔ مختلط کیا *۔ الرحمن
20 الرحمن
21 الرحمن
22 الرحمن
23 الرحمن
24 ف 1: کشتیوں اور جہازوں کو سطح سمندر پر رواں کرنا یہ بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ وہی ان پہاڑوں کو پانی کے اس اتھاہ ذخیرہ میں ڈال دیتا ہے ۔ اور وہی ان پہاڑوں کی طرح بلند جہازوں کو سطح آب پر چلنے دیتا ہے *۔ الرحمن
25 الرحمن
26 الرحمن
27 ف 2: اس حقیقت کا بیان ہے ۔ کہ روئے زمین پر جو کچھ ہے ۔ وہ سب مٹنے کو ہے ۔ سب روبزدال ہے ۔ سب فنا کے گھاٹ اترنے والا ہے ۔ سب کی قسمت میں ہلاکت لکھی ہے ۔ سب کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور سب کو اس دارالقرار سے دارالبقاء کی جانب جانا ہے ۔ بجز جلال وتکریم کے مالک کے ۔ کہ وہ باقی ہے ۔ حی وقیوم ہے ۔ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے *۔ الرحمن
28 الرحمن
29 ف 3: کل یوم ھوفی شان سے غرض یہ ہے کہ خدا کائنات کے نظم ونسق ، تخلیق وترتیب احیاء واماتت میں برابر لگارہتا ہے ۔ اور باوجود اس کے جو کچھ ہوتا ہے ۔ وہ مرتبہ علمی میں سب کچھ متعین ہے ۔ پھر بھی جہاں تک فعل کا تعلق ہے ۔ وہ براہ راست ہر چیز پر قادر ہے ۔ اور بقول حکماء کے فارغ نہیں ہے *۔ حل لغات :۔ برزخ ۔ آڑ ۔ پردہ * اللوء لو ۔ موتی * المرجان ۔ مونگا * الجوار ۔ کشتیاں * شان ۔ کیفیت ۔ حال ۔ کام *۔ الرحمن
30 الرحمن
31 ف 1: یعنی اس عالم فنا کے کاروبار ختم ہونے والے ہیں ۔ اور اس کے بعد ہم تمہاری جانب متوجہ ہوں گے اور تم سے پوچھیں گے ۔ کہ تم نے اس زندگی میں کیا کیا ہے ؟ تم باوجود اپنی طاقت وقوت کے ہمارے قبضہ اقتدار میں ہو ۔ اور اگر تم چاہو بھی ۔ کہ آسمانوں اور زمین کی حدود سے باہر نکل جاؤ۔ تو کیا یہ ممکن ہے ؟ پھر کیوں نہیں سوچتے ؟ الرحمن
32 الرحمن
33 الرحمن
34 الرحمن
35 الرحمن
36 الرحمن
37 سرخ تلچھٹ کی طرح ف 1: فرمایا : کہ یہ زرنگار سقف ، ازرق زواہ ایک وقت آئے گا ۔ کہ آگ کے شعلے اس کو زیتون کی سرخ تلچھٹ کی طرح تپادیں گے ۔ یہ دنیا نجوم وکواکب تیرگی فنا میں گم ہوجائے گی ۔ اور یہ سارا عالم رنگ وبو مٹ جائے گا ۔ پھر ایک وقت آئے گا ۔ جب دوبارہ بساط کون بچھادی جائے گی ۔ اور جن وانس کو کشاں کشاں حی وقیوم خدا کے سامنے پیش کیا جائے گا ۔ اور ان سب لوگوں کو سزا دی جائیگی ۔ جو اس کو نہیں مانتے تھے ۔ جو خواہشات نفس کی تکمیل میں سرگرداں رہتے تھے ۔ جن کی زندگی نصب العین محض یہ تھا ۔ کہ دولت اکٹھی کریں ۔ دنیا کی آسائشوں اور آسودگیوں کو سمیٹ لیں ۔ اور ہر نوع کی لذت سے کلام دوہن کی تواضع کریں ۔ جو مادیت میں قرق تھے ۔ اور جنہوں نے بھول کر بھی کبھی اندر کی طرف جھانکا ۔ اور نہیں دیکھا کہ ان کی روتی ضروریات کیا ہیں *۔ حل لغات :۔ شواظ ۔ شعلہ ، آتش *۔ الرحمن
38 الرحمن
39 ف 1: لائیسئل سے مراد یہ ہے ۔ کہ بنظر عفو وکرم ان سے سوال نہیں کیا جائیگا ۔ بلکہ زعبود توبیخ کے انداز میں ڈانٹ ڈپٹ کر پوچھا جائیگا کہ دنیا میں تم نے کیوں ہماری نافرمانی کی ۔ اور کیوں ہماری ناراض کو خریدا ۔ کیا تمہیں ڈر نہیں معلوم ہوتا تھا ۔ اور گناہوں کے ارتکاب کے وقت کانپ نہیں جاتے تھے *۔ الرحمن
40 الرحمن
41 الرحمن
42 الرحمن
43 الرحمن
44 گنہگار پہچانے جائینگے ف 2: غرض یہ ہے ۔ کہ یہ مجرمین کا گروہ اپنی بداعمالیوں میں ممتاز اور منفرد حیثیت رکھے گا ۔ اور اپنی بےنور شکل وصورت اور سیاہ چہروں کی وجہ سے صاف پہچاناجائے گا ۔ ان کو دیکھتے ہی خوف زدہ ہوکر ہر شخص کہہ اٹھیگا ۔ کہ ان لوگوں نے دنیا میں کسب انوار کی سعی نہیں کی ۔ انہوں نے دنیوی عزت ووجاہت کے لئے اللہ کا پیغام ٹھکرایا ہے ۔ اس لئے آج زشت رو ہیں ۔ اور نحوست کا پیکر ہیں ۔ ان کو سر کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا جائیگا ۔ اور پاؤں باندھ لئے جائینگے اور پھر جہنم میں پھینک کر کہا جائیگا ۔ کہ یہ وہ مقام غضب وسخط ہے ۔ جس کا تم انکار کرتے تھے ۔ یہاں ہر نوع کی تکلیف کا سامنا ہے ۔ اور ہر قسم کے دکھ برداشت کرنا ہے ۔ یہاں کھانے کو زقوم ملے گا ۔ اور پینے کو کھولتا ہوا پانی *۔ (معاذ اللہ) حل لغات :۔ الدحان ۔ نرمی ۔ یا سرخ چمڑے کو کہتے ہیں ۔ اور روغن زیتون کی تلچھٹ کو بھی * بالوامنی جمع باتبسہ ۔ یعنی ہوئے ہائے پیشانی * ان ۔ نہایت گرم *۔ الرحمن
45 الرحمن
46 خوف کے معنے ف 1: خوف کے معنے یہ ہوتے ہیں ۔ کہ بندہ اپنے مقام وموقف کو پہچانے ۔ اور اللہ کے جلال وجبروت کیمقابل میں اپنے کو نہایت ذلیل اور حقیر جانے ۔ اور خشیت واتقا کے جذبات سے دل کو معمور کرے ۔ ایسے شخص کے لئے عقبیٰ اور آخرت میں دو نوع کے آرام میسر ہوں گے ۔ روح کا آرام اور جسم کا آرام اور اس تناسب سے اس کو حیاتین بھی دو ہی ملیں گی ۔ ایک میں جسم کی تسکین وطمانیت کا سامان ہوگا ۔ اور دوسری میں روحانیت کی تکمیل کا ۔ اور یا پھر اس کے معنے یہ ہیں ۔ کہ ایک جنت تو اس کو اعمال کے بدلہ میں ملے گی ۔ اور دیگر بطور احسان کے *۔ الرحمن
47 الرحمن
48 الرحمن
49 الرحمن
50 الرحمن
51 الرحمن
52 الرحمن
53 الرحمن
54 دورِ عیش کا آغاز ف 2: جنت نام ہے ۔ پوری آسودگی اور کامل عیش کا ۔ اور ایسی جگہ کا جہاں ہر آن اللہ کے فضل کی بارش ہوتی ہے ۔ اور انسان کو ہر نوع کے انعامات سے نوازا جاتا ہے ۔ یہ مقام ہے ، اللہ کی رحمت اور عفو کا ۔ یہ ٹھکانہ ہے ۔ ایسے لوگوں کا جنہوں نے اللہ کی رضا کے لئے ہر جذبہ کو ٹھکرایا ہے ۔ اور تکلیفوں او صعوبتوں کو برداشت کیا ہے ۔ جنہوں نے مال ودولت کی پرواہ نہیں کی ۔ جنہوں نے مال ودولت کی پرواہ نہیں کی ۔ اور فقر میں استغنا کا ثبوت دیا ہے *۔ جنہوں نے روح کی تسکین کے لئے جسم کی تذلیل کی ہے ۔ اور مظاہرہ عبودیت میں اپنا سب کچھ اس کی راہ میں صرف کیا ہے ۔ ان لوگوں کے لئے اب دور عیش وتقرب ہے ۔ ان لوگوں سے کہا جائے گا ۔ کہ وہ آلام ومصائب کا وقت گزر چکا ہے ۔ اب اللہ کے فضل وکرم کا دور دورہ ہے ۔ آؤ اور اس کی رحمتوں سے فیضیاب ہو *۔ فرمایا : جنت میں جو میوے ہوں گے ۔ وہ جھکے ہوں گے ۔ اور اہل جنت کے قریب تر ہوں گے ۔ اس طرح کہ جہاں انہوں نے کی پھل کے لئے خواہش کی ۔ درخت کی شاخیں پھلوں اور میو وں سے لدی ہوئی اس کی جھولی میں آرہی گی ۔ نہ جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ اور نہ انتظار کی تکلیف ۔ یہ عجیب لطیفہ ہے ۔ کہ جو لوگ دنیا میں بینیاز ہیں ۔ عقبیٰ میں بھی اللہ ان کی شان بےنیازی کو قائم رکھے گا *۔ حل لغات :۔ افداب ۔ فئن کی جمع ہے ۔ یعنی شاخیں * استبرق ۔ موٹا اور دبیر ریشم * یطمھن ۔ طلمت ۔ جماع *۔ الرحمن
55 الرحمن
56 الرحمن
57 الرحمن
58 جنت کی عورتیں ف 1: یعنی وہاں جن عورتوں کی رفاقت نصیب ہوگی ۔ وہ اتنی باحیا اور با عصمت ہوں گی ۔ کہ ان کی نگاہیں صرف اپنے خاوندوں تک محدود رہیں گی ۔ وہ دوسروں کو پیارومحبت کی نظروں سے نہ دیکھیں گے ۔ اور نہ دوسروں کو چاہیں گی ۔ یہ ان حوران جنت کی تعریف بھی ہے ۔ اور نسوانی سیرت کا صحیح معیار بھی یعنی ایک ایک عورت کی سچی تعریف یہ نہیں ہے ۔ کہ اس کا حسن دلفریب ہو *۔ بلکہ اس کی محبت صرف خاوند کے دل تک محدود ہو ۔ اور وہ اپنی اداؤں کے ساتھ صرف اپنے آقا کی نظروں میں محبوب ہو ۔ یاقوت ومرجان کیساتھ تشبیہہ دینے کے معنے یہ ہیں ۔ کہ وہ تندرست اور خوبصورت ہونگی اور سرخ وسفید رنگ والی ہوں گی *۔ حل لغات :۔ مدھاتین ۔ گہرے سبز * زنیا ختن ۔ ابلتے ہوئے *۔ الرحمن
59 الرحمن
60 ف 2: جنت کا نتیجہ ہے ۔ احسان کا ۔ یعنی خلوص کا ، فددیت کا ۔ اور ایثار کا ۔ جب بندے اس کی رضا کے لئے اپنی تمام آسودگیوں کو چھوڑ دیں گے ۔ اور آرام اور راحت کو ترک کردیں گے ۔ تو آقا بھی ان کے لئے ہر نوع کے سامان عیش کو مہیا کریگا ۔ اور ان کو خوش رکھے گا اور بتائے گا ۔ کہ اس پربھروسہ کرنا بالکل جائز اور درست ہے *۔ الرحمن
61 الرحمن
62 الرحمن
63 الرحمن
64 الرحمن
65 الرحمن
66 الرحمن
67 الرحمن
68 الرحمن
69 الرحمن
70 الرحمن
71 الرحمن
72 الرحمن
73 الرحمن
74 الرحمن
75 الرحمن
76 الرحمن
77 الرحمن
78 ف 3: برکت کے معنے عربی میں تین ہیں ۔ دوام وثبوت ، فیوض اور علوم وارتقاع ، اور اللہ کی نسبت جب کہا جائے گا ۔ کہ وہ بابرکت ذات ہے ۔ تو اس کے معنے یہ ہوں گے ۔ کہ وہ خوددائمی ہے ۔ اس کے فیوض رحمانیت دائمی ہیں ۔ اور وہ کائنات سے بامین اور بلند ہے *۔ حل لغات :۔ خیرات ۔ یعنی وہ عورتیں صورت اور سیرت کے لحاظ سے دنیا کی عورتوں سے کہیں بہتر اور اعلیٰ ہونگی ۔ ان کے ہر کام میں حسن نمایاں ہوگا ۔ ہر عادت میں نیکی اور خیر سگالی کا اظہار ہوگا ۔ مقصورات فی الخیام ۔ کے معنے یہ ہیں ۔ کہ وہ نازونعمت کی زندگی بسرکرینگی ۔ اور عزت ووقار کے ساتھ خیموں میں رہیں گی * زفرف ۔ بھیڑ ۔ شجر ۔ جامہائے سبزہ فرش ، خیمہ ۔ بالش * عبقرپ ۔ نادر عجیب الرحمن
0 الواقعة
1 سورہ الواقعۃ قرآن حکیم میں قیامت کے مختلف نام آئے ہیں ۔ کہیں اس کو اقاعۃ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ کہیا القارعۃ کہا گیا ہے ۔ کبھی الحاقۃ سے موسوم ہے ۔ اور کبھی الواقعہ کی صفت سے متصف ۔ کیونکہ اصل غرض یہ ہے کہ اس کے مختلف پہلوؤں کو روشن کیا جائے ۔ اس لحاظ سے کہ اس کے آنے کا ایک وقت مقرر ہے ۔ وہ افسانہ ہے ۔ یعنی متعین گھڑی ۔ اور اس لحاظ سے کہ وہ عالم وجود میں تہلکہ مچانے والی ہے ۔ القارعۃ ہے ۔ اسی نسبت سے کہ اس کا تحقق مقدرات میں سے ہے ۔ الحاقۃ کہا جاتا ہے ۔ الواقعہ کے معنے یہ ہونگے ۔ کہ تحقق خارج میں ضرور واقعہ ہوگا ۔ اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ۔ فرمایا ۔ جب یہ گھڑی آموجود ہوگی ۔ تو اس وقت کئی اکڑی ہوئی گردنیں جھک جائیں گی ۔ اور کئی جھکتے ہارے سر بلند ہوجائیں گے ۔ جو لوگ دنیا کے مال ومتال میں مست تھے ۔ جو آنکھ اٹھا کر بھی حق وصداقت کی طرف نہیں دیکھتے تھے ۔ کبروغرور میں ہر چیز کو بھول چکے تھے ۔ چلتے تھے ۔ تو یوں کہ محشر بپا ہو ۔ اور بیٹھتے تو اس طرح کہ مسند عزت وفخران کے قدم لیتی ۔ وہ آج پستی اور ذلت کی حالت میں سرفگندہ اللہ کے حضور میں کھڑے ہونگے ۔ ان کا سارا غرور اور نازخاک میں مل جائے گا ۔ اور ان کو معلوم ہوجائیگا ۔ کہ اللہ کے ہاں سرفرازی ۔ ان لوگوں کیلئے ہے ۔ جو دل کے عاجز ہیں جن کی طبیعت میں سچائی کی قبولیت کی استعداد ہے ۔ اور جن کو دنیا میں نہایت ذلیل سمجھا جاتا تھا ۔ جن کو ہذف مذاق بنایا جاتا تھا ۔ جن کی مخالفت کی جاتی تھی جن کو زندگی کی تمام آسودگیوں سے محروم سمجھا جاتا تھا ۔ جن کے متعلق رائے تھی ۔ کہ ان میں ارتقاء اور ترقی کی اصلاً کوئی صلاحیت موجود نہیں ۔ اور جن کو جنوں اور خلل دماغ کے عارضے سے متہم کیا جاتا تھا ۔ آج ان کا مقام بلند ہوگا ۔ آج یہ کامیاب ہونگے ۔ اور ان کو خدا کی رضا کا مقام میسر ہوگا قبع یہ ان لوگوں میں سے ہونگے ۔ جن میں تنومند اور پاکیزہ ترین روح ہوتی ہے ۔ آج ان کا شمار ان حضرات میں ہے ۔ جن کی نگاہیں دور رس تھیں ۔ جنہوں نے دنیا میں رہ کر عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق صحیح رائے قائم کی *۔ حل لغات :۔ رجا ۔ تزلزل پیدا کرنا * لھا ۔ ریزہ ریزہ کرنا * ھباء ۔ غبار * الواقعة
2 الواقعة
3 الواقعة
4 الواقعة
5 الواقعة
6 ف 1: فرمایا : اعمال کے لحاظ سے آخرت میں انسانوں کے تین درجے ہونگے ایک تو وہ جو صاحب لین وسعادت ہوں گے ۔ ان کی داہنی طرف رکھا جائے گا ۔ دوسرے وہ جن کے حصہ میں نحوست وبدبختی آئے گی ۔ ان کو بائیں طرف جگہ دی جائے گی ۔ تیسرے گروہ والے سابقین میں سے ہوں گے ۔ یعنی ہر خیر وبرکت کی بات میں آگے ۔ ہر نیکی کی طرف سبقت کرنے والے ۔ اور ہر اصلاح وتقویٰ کے معاملہ میں پیش رو ۔ یہ لوگ اللہ کے مقرب ہوں گے ، ان کے درجے بلند ہونگے *۔ الواقعة
7 الواقعة
8 الواقعة
9 الواقعة
10 الواقعة
11 الواقعة
12 اہل جنت کی زندگی ف 1: دنیا میں جو لوگ اپنی خواہشات نفس پر ضبط واقتدار رکھتے ہیں اور اپنے تمام رجحانات ، العذاہ اللہ کے تابع کردیتے ہیں ۔ ان کے لیے وہاں کامل سامان تعیش فراہم ہوگا ، ان کو یہ بتایا جائیگا کہ اگر دنیا میں تم لوگ ان لذات کو چھوڑ دو ۔ اور صرف ان لذتوں کے درپے رہو ۔ جن کا حصول جسم اور روح کی مسرتوں میں اضافہ کردینے کا باعث ہوتا ہے ۔ تو یہ سب چیزیں تمہیں فراوانی اور کمال کے ساتھ یہاں ملیں گی ۔ چنانہچ یہ دیکھو کہ دنیا میں شراب ممنوع اور حرام ہے ۔ کیونکہ یہاں یہ ناقص ہے ۔ تمہارے دل ودماغ پر قبضہ کرلیتی ہے ۔ نہیں بدحواس بنادیتی ہے ۔ تمہارے جنسی جذبات کو برانگیختہ کرتی ہے ۔ اور معاسی پر آمادہ کرتی ہے ۔ اور مضر بھی ہے ۔ اس کے استعمال سے اعضاء میں ڈھیل اور ضعف پیدا ہوجاتا ہے ۔ دل جگر اور امعاء میں قوت حیات باقی نہیں رہتی ۔ اولاد ضعیف اور نکمی پیدا ہوتی ہے ۔ مگر وہاں جو شراب ملے گی ۔ وہ ان تمام نقوص اور تکدرات سے پاک ہوگی ۔ اس کو تم آبخوروں اور آفتابوں میں پیو گے ۔ قدحوں کے قدحے چڑھاجاؤ گے ۔ مگر ذرا تکلیف محسوس نہ ہوگی ۔ نہ یہ ہوگا ۔ کہ عقل درست نہ رہے ۔ شراب کے ساتھ عمدہ گوشت حسب ذوق ملے گا *۔ حل لغات :۔ ازوجا ۔ اقسام * ثلتۃ ۔ جماعت ۔ گروہ * موضونۃ ۔ بنے ہوئے * باکواب ۔ کو ب کی جمع ہے * انجورہ * اباریق ۔ اس کا واحدابریق آفتاب * کاس ۔ شراب سے معمور قدحہ *۔ الواقعة
13 الواقعة
14 الواقعة
15 الواقعة
16 الواقعة
17 الواقعة
18 الواقعة
19 الواقعة
20 الواقعة
21 الواقعة
22 ف 1: اور گوری چٹی بڑی بڑی آنکھوں والی عورتیں ہوں گی ۔ محفوظ موتیوں کی مانند روشن اور تابیدہ ان کی رفاقت میں تم تسکین وطمانیت کی پوری لذتوں کو محسوس کروگے ۔ وہاں اس فضا ورنگ وبو میں کوئی بےہودہ بات نہیں ہوگی ۔ اور نہ گناہ کا ارتکاب کیا جائے گا ۔ نفوس انسانی اس وجہ ترقی کرجائیں گے اور درجہ مہذب وشائستہ ہوجائیں گے ۔ کہ باوجودان نعمتوں کی فراوانی کے باوجود شراب وکباب اور شغل ناؤنوش کے کوئی ایسی حرکت ان میخواروں سے سرزد نہ ہوگی ۔ جو آداب سے خانہ کے منافی ہو ۔ غرض یہ ہے ۔ کہ انہیں چیزوں کی وجہ سے تم لوگ اللہ کی نافرمانی کرتے ہو ۔ اور انہیں چیزوں کی ہوس تمہیں اس کی خوشنودی سے محروم رکھتی ہے ۔ اگر تم اس کی اطاعت کروگے ۔ اور اس کے حکموں پر چلو گے ۔ تو یہ سب چیزیں وہاں زیادہ مقدار میں زیادہ کیفیات کے ساتھ ملیں گی *۔ حوران جنت کے متعلق فرمایا ۔ کہ ہم نے انہیں خاص پاکبازوں کی تسکین خاطر کے لئے پیدا کیا ہے ۔ یہ معصوم حسن کی مالک ہوں گی ۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ ہم سن اور ہم ذوق ہونگی گویا اس دنیا میں بھی ازراہ کیا زندگی کا معیار یہ ہے ۔ کہ رفیقہ حیات پہلی دفعہ ان لذتوں سے آگاہ ہو ۔ اور سن وسال اور ذوق ودجدان کے لحاظ سے تغاوت نہ ہو * ان آیات کے بعد اہل جہنم کے متعلق ارشاد فرمایا ہے ۔ کہ یہ دنیا میں صرف کام دوہن کی لذتوں میں کھوئے رہے ۔ انہوں نے زندگی کا نصب العین صرف یہ قرار دے گیا ۔ کہ ان عارضی مسرتوں کے دوڑ دھوپ اختیار کی جائے ۔ یہ عاقبت کو بھول گئے ۔ انہوں نے روح کی ضرورتوں کو فراموش کردیا ۔ نتیجہ یہ ہے ۔ کہ آج یہ سخت ترین عذاب میں مبتلا ہیں *۔ حل لغات :۔ سدر ۔ بیری * سدرۃ ۔ وہ درخت جس کیکانٹے چھانٹ دیئے گئے ہوں * طلح ۔ کیلا *۔ الواقعة
23 الواقعة
24 الواقعة
25 الواقعة
26 الواقعة
27 الواقعة
28 الواقعة
29 الواقعة
30 الواقعة
31 الواقعة
32 الواقعة
33 الواقعة
34 الواقعة
35 الواقعة
36 الواقعة
37 الواقعة
38 الواقعة
39 الواقعة
40 الواقعة
41 الواقعة
42 الواقعة
43 الواقعة
44 الواقعة
45 اہل جہنم کے اوصاف ف 1: جہنم والوں کے متعلق فرمایا ہے ۔ کہ ان لوگوں کے مال ودولت کے نشہ میں حق وصداقت کے پیغام کو ٹھکرایا ہے ۔ اور اس بناء پر کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو تکلفات زندگی سے نوازا ہے ۔ یہ سمجھتے ہیں ۔ کہ ان کو جب دیکھتے ہیں ۔ تو ہدیف استہزاء بناتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں ۔ کیا اللہ کو تم ایسے تفلاش ہی فضائل کے لئے منتخب کرتے تھے ۔ کیا تمہارے سوا اس کو اور لوگ نہیں ملتے تھے ۔ جن کو وہ ایمان کی سعادتوں سے بہرہ مند کرتا ۔ ان لوگوں کے نزدیک مالدار ہونے کے بعد یہ بھی ضروری ہے ۔ کہ عقل وروح کی تمام فضیلتیں بھی ان کو حاصل ہوں ۔ حالانکہ اکثر ایسا ہوتا ہے ۔ کہ اس نوح کے آسودہ لوگ یک قلم حق کی پذیرائی سے محروم رہتے ہیں ۔ اور ان میں غوروفکر کی بہت کم صلاحیت باقی رہتی ہے *۔ حل لغات :۔ ابکارا ۔ کنواریاں * عربا ۔ محبوبہ * اتوابا ۔ ہم سن ۔ ہم ذوق * یحموم ۔ سیاہ دھواں * ولاکریم ۔ اور نہ مفید اور نہ فرحت بخش *۔ الواقعة
46 ف 1: جہنمی لوگوں کے متعلق دوسرا الزام یہ ہے کہ یہ توحید کے نور سے معراتھے ۔ ایک خدا کے سامنے نہیں جھکتے تھے ۔ بلکہ اپنے اس مسلک پر مصر تھے ۔ ان کو ہرچند دلائل سے قائل کیا جاتا ۔ کہ شرک وکفر کے لئے کوئی وجہ نواز نہیں ہے ۔ اور منطقی طور پر اس عقیدہ کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے ۔ لیکن یہ برابر اس تاریکی میں بڑھتے چلے جاتے ۔ اور مسلمانوں کو چڑانے کے لئے بتوں کی پوجا کرتے ۔ پھر ان کا یہ عقیدہ بھی تھا ۔ کہ جو کچھ ہے یہی زندگی ہے ۔ مرنے کے بعد حشر ونشر کا عقیدہ دور از عقل ہے ۔ یہ ناممکن ہے ۔ کہ جب ہم مٹی میں مل کر مٹی ہوجائیں ۔ اور صرف بوسیدہ ہڈیاں رہ جائیں تو اس وقت ہم کو اور ہمارے آباؤ اجداد کو قبروں میں سے اٹھا کھڑا کیا جائے ۔ فرمایا : اس میں قطعاً استحالہ کی کوئی بات نہیں ۔ تم سب پہلے اور پچھلے جمع کئے جاؤ گے ۔ اور ایک وقت مقررہ پر خدا کے حضور میں پیش کئے جاؤ گے ۔ سزا کے متعلق تصریح فرمائی ۔ کہ دنیا میں تو کام ودھن کی تواضع کے لئے انہوں نے سچائی کو چھوڑ دیا تھا ۔ اور یہاں ان کو جو کچھ ملے گا ۔ وہ قطعی ان کے ناگوار ہوگا ۔ یہاں یہ نہ قوم کھائیں گے ۔ اور اسی سے پیٹ بھریں گے ۔ پھر پیاسے اونٹوں کی طرح پانی کے ساتھ کھولتا ہوا پانی پئیں گے ۔ اس وقت کہا جائے گا ۔ کہ آج بھی تمہاری مہمانی ہے ۔ کھاؤ اور برداشت کرو *۔ حل لغات :۔ یصرون ۔ اصرار کیا کرتے تھے * الحنت العظیم ۔ بڑا گنا * زقوم ۔ ایک نہایت تلخ درخت کا نام ہے ۔ جس کیہندی میں تھوہڑ کہتے ہیں ۔ دوزخ میں ایک درخت ہے جو دوزخیوں کی خوراک ہوگا * اتھنیم ۔ پیاسے اونٹ * تزلھم ۔ مہمانی ۔ دعوت ۔ بطور طنز اور تحکم ہے *۔ الواقعة
47 الواقعة
48 الواقعة
49 الواقعة
50 الواقعة
51 الواقعة
52 الواقعة
53 الواقعة
54 الواقعة
55 الواقعة
56 الواقعة
57 الواقعة
58 الواقعة
59 الواقعة
60 ف 1: نحن قد رنابینکم الموت سے غرض یہ ہے کہ موت کو بتقاضائے مصلحت وحکمت کے پیدا کیا گیا ہے ۔ یہ صرف عدم استعداد حیات کا نام نہیں ہے ۔ اور یہ محض بحث واتفاق ہے ۔ اور نہ یہ درست ہے ۔ کہ یہ اس کی ربوبیت کا نقص ہے ۔ بلکہ اس کی تخلیق کائنات کے لئے ضروری ہے ۔ اس کو پیدا کرنے سے مقصود یہ ہے ۔ کہ خدا کسی بات سے عاجز نہیں ہے ۔ وہ چاہے تو بڑے بڑے متکبروں کو آن واحد میں موت کی آغوش میں سلادے پھر جس خدانے زندگی کی پرلطف گھڑیوں کو سکرات موت میں تبدیل کردیا ہے ۔ وہ اس موت کو دوبارہ زندگی کے ساتھ بدل سکتا ہے * الواقعة
61 الواقعة
62 الواقعة
63 الواقعة
64 الواقعة
65 الواقعة
66 الواقعة
67 الواقعة
68 الواقعة
69 الواقعة
70 الواقعة
71 الواقعة
72 الواقعة
73 الواقعة
74 الواقعة
75 سطحی واقعات اور پر اثر نتیجہ ف 2: قرآن حکیم میں یہ خوبی ہے ۔ کہ اس میں ہر نوع کے لوگوں کے لئے دلائل ہیں ۔ اور ہر مذاق کے افراد کے لئے سامان تسکین ہے ۔ یہ عقلاء اور دانشوروں کو بھی مخاطب کرتا ہے ۔ اور عوام کو بھی ۔ اس میں عمیق اور لائق فکروغور باتیں بھی ہیں ۔ اور سطحی واقعات سے استدلال بھی ۔ غرض یہ ہے کہ ان کا کوئی طبقہ ہدایت سے محروم نہ رہے ۔ اور یہ کوئی نہ سمجھے ۔ کہ یہ کتاب ہمارے لئے نہیں ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے ضمن میں ان لوگوں کے لئے جو زیادہ دانائی سے بہرہ ور نہیں ہیں ۔ اور جن کی نظر صرف معمولی واقعات و حقائق تک محدود رہتی ہے ۔ چند فطرت کے مظاہر بیان کئے ہیں ۔ جو اس کی مہربانی اور شفقت پر دلالت کناں ہیں ۔ اور جن سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ اس کائنات کے پس پردہ کوئی نہایت رحیم اور شفیق ذات کارفرما ہے ۔ فرمایا : یہ بتلاؤ کہ تم جو زمین میں بوتے ہو ۔ اس کو ہم اگاتے ہیں یا تم اگاتے ہو ۔ ہم اگر پیداوار کو چورا چورا کردیں ۔ تو تم تعجب اور حیرت کا اظہار نہیں کرتے * اور یہ نہیں کہتے ۔ کہ ہم پر تاوان پڑگیا ۔ اور ہم یک قلم محروم رہ گئے ۔ اور یہ پانی جو تم پیتے ہو ۔ اس کو ہم نازل کرتے ہیں ۔ یا تم نازل کرتے ہو ۔ اگر ہم اس کو کھاری یا کڑوا کردیں ۔ تو تم کو کس درجہ تکلیف ہو ۔ تم کیوں خدائے رحمان کا شکر ادا نہیں کرتے ۔ آگ کے فوائد ملاحظہ کرو ۔ تم اس کو سلگاتے ہو ۔ اور بوقلمون کھانے اس سے تیار کرتیہو ۔ کیا اس کے لئے ایندھن کو تم نے پیدا کیا ہے ۔ یا ہم نے ؟ یاد رکھو ہم نے جنگلوں میں اس کے لئے تعرایاں پیدا کی ہیں ۔ تاکہ تم ہماری نعمتوں کے سلسلہ میں شکر گزاری کرو ۔ اور مسافرت کے عالم میں اس سے استفادہ کرو ۔ کیا ان حالات میں یہ زیبا ہے ۔ کہ ایسے خدا کو چھوڑ کر جو تمہاری روز مرہ کی ضروریات کو پورا کرتا ہے ۔ تم ایسے معبودوں کی پرستش کرو ۔ جن کا تمہاری عملی زندگی میں کوئی ساجھا نہیں ۔ یہ کتنے سادہ واقعات ہیں ۔ اور کتنا پر اثر نتیجہ *۔ حل لغات :۔ حظاما ۔ چورہ چورہ *۔ اور کہا ہے ، کہ یہ بہت بڑی گواہی ہے *۔ یعنی تم لوگ اگر اس حقیقت پر غور کرو ۔ کہ کیونکر قرآن نے آہستہ آہستہ دلوں میں اپنی جگہ بنالی ہے ۔ اور کیونکر اس کو قبول عام کی نعمت میسر ہوتی ہے ۔ حالانکہ اس کی شدید مخالفت کی گئی ۔ اور سخت ترین عداوت اور بغض کا اظہار کیا گیا ۔ تو تمہیں معلوم ہوجائے کہ محض اس لئے کہ یہ قرآن وصف کرم سے متصف ہے ۔ بنی نوع انسان کے لئے مفید ہے اور باعث برکت وسعادت ہے *۔ حل لغات :۔ لغرمون ۔ غرما سے ہے ۔ بمعنی تاوان * تورون ۔ اطری سے ہے ۔ جس کے معنے آگ پیدا کرنے کے ہیں *۔ الواقعة
76 الواقعة
77 الواقعة
78 الواقعة
79 لایمسہ الا المظھرون ۔ سے غرض یہ ہے ۔ کہ جس طرح لوح محفوظ میں فرشتے اس کی حفاظت اور نگرانی پر مقرر ہیں ۔ اسی طرح اس دنیا میں اسی جماعت کے سینے اس کے علوم ومعارف کی روشنی سے منور ہوتے ہیں ۔ جو پاکباز ہوتے ہیں ۔ تاریک اور فسق وفجور سے معمور دلوں میں اس کی کرنیں نہیں پہنچتیں * فرمایا : تمہاری یہ کتنی بدبختی اور محرومی ہے ۔ کہ تم اس پاک کلام کو تسلیم کرنے میں تامل کرتے ہو ۔ اور تم نے یہ ٹھان لی ہے ۔ کہ بہر حال اس کی مخالفت کروگے *۔ الواقعة
80 الواقعة
81 الواقعة
82 الواقعة
83 الواقعة
84 الواقعة
85 الواقعة
86 الواقعة
87 جب ظاہر کی آنکھیں بند ہونگی ف 1: یعنی گو یہ اس وقت حقائق کی بلاتکلیف جھٹلادیتے ہیں ۔ اور نہایت ڈھٹائی اور بےشرمی سے واقعات کو ٹھکرادیتے ہیں ۔ مگر جب یہ زندگی کے لمحات ختم ہونے کے ہوتے ہیں ۔ جب روح اس کسوت میں گھبراجاتی ہے ۔ اور تہمیۃ پرواز کرلیتی ہے ۔ جب حیات کی آرزوئیں منقطع ہوتی ہیں ۔ اور جب سکرات موت طاری ہوتا ہے ۔ اس وقت یہ محسوس کرتے ہیں ۔ کہ ہم اللہ کے نزدیک ہیں ۔ اور وہ سب باتیں درست ثابت ہیں ۔ جن کا اظہار غریب کی زبان سے ہوا کرتا تھا ۔ تو اس وقت یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے متعلق ایک مضبوط اور مستحکم عقیدہ رکھیں گے ۔ جس میں شک وشبہ کی گنجائش نہ ہوگی ۔ مگر یہ ایمان جو دیکھ کر اور محسوس کرکے پیدا ہو معتبر نہیں ۔ معتبر وہ ایمان ہے ۔ جو بن دیکھے ہو اور زندگی کے خوشگوار لمحوں میں ہو تاکہ اس کے بعد اعمال صالحہ کی تکمیل کا موقع مل سکے ۔ یہ عجیب بات ہے ۔ کہ جب ظاہر کی آنکھیں بند ہوتی ہیں تو عین اس وقت باطن کی آنکھیں کھل جاتی ہیں ۔ اور وہ حقائق جو زندگی بھر اوجھل رہے تھے ۔ اب ظاہر ہونے لگتے ہیں ۔ فرمایا ۔ کہ اگر تمہارے اعمال کی جانچ نہیں ہوگی ۔ اور حشر ونشر محض ڈھکوسلہ ہے ۔ تو پھر یہ کیوں نہیں ہوتا کہ تم میت کے چٹکل سے بچ جاؤ۔ اور جب روح پرواز کرنے لگے ۔ تو تم اس کو روکو ۔ اگر موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے ۔ تو پھر منطقی طور پر موت ہی کی ضرورت کیا ہے ۔ اور اگر یہ سانحہ تمہارے ارادوں اور حوصلوں کے ماتحت نہیں ہے ۔ اور نہ تمہاری منطق کے موافق ہے ۔ تم چاہو یا نہ چاہو ۔ اس کا نزول بہرآئینہ قطعی اور یقینی ہے ۔ کسی صورت میں بھی اس کے قابو سے مخلصی حاصل نہیں ہوسکتی ۔ تو پھر تمہیں اس تمہید کے بعد کتاب زندگی کے دوسرے اوراق الٹنے کے لئے تیار رہنا چاہیے *۔ حل لغات :۔ غیر مذنبین ۔ غیر محسوب مدبین کی جمع ہے ۔ اصل دین ہے ۔ جس کے معنے حساب اور پاداش دینے کے ہیں * فروح ۔ مسرت ۔ آسائش ۔ تازگی * ریخان ۔ روزی ۔ رزق *۔ الواقعة
88 الواقعة
89 الواقعة
90 الواقعة
91 الواقعة
92 الواقعة
93 الواقعة
94 الواقعة
95 ف 1: ان آیات میں موت کے بعدزندگی کی تشریح فرمائی ہے ۔ کہ اگر مرنے والا اللہ کے مقربین میں سے ہے ۔ تو پھر اس کو بالکل بےخوف وخطر رہنا چاہیے ۔ اس کے لئے وہاں کامل مسرت اور بہترین زندگی ہے ۔ اور جنت ہے ۔ جو بجائے خود ضامن ہے ۔ ہر فلاح وسعادت اور آسودگی ونعمت کی ۔ اور اگر اس سے ذرا کم درجے میں ہے ۔ تو بھی چونکہ فرمانبرداروں اور اطاعت شعاروں میں ہے ۔ اس لئے بھی ہر خوف وہراس سے سل امتی ہے ۔ اور اگر ان لوگوں میں سے ہے ۔ جنہوں نے دنیا میں حق وصداقت کے پیغام کو ٹھکرایا ۔ اور اپنے لئے گمراہی اور ضلالت کی راہوں کو تجویز کیا ہے ۔ تو پھر خبر نہیں ہے ۔ ان لوگوں پر اللہ کا غضب ہوگا ۔ کھولتے ہوئے پانی اور جہنم سے ان کی تواضع کی جائے گی ۔ اس لئے ابھی سے ان واقعات پر کامل یقین ہونا چاہیے ۔ اور اپنے عظیم الشان پروردگار کی تسبیح کرنی چاہیے ۔ ورنہ نتیجہ سامنے ہے *۔ حل لغات :۔ حق الیقین ۔ اعتقاد کا وہ مقام جہاں شکوک نہ پیدا ہوسکیں *۔ الواقعة
96 الواقعة
0 الحديد
1 سورۃ واقعہ کا اختتام اس آیت پر ہوا ہے ۔ کہ پروردگار کی عظمت اور پاکی کا اظہار کرو ۔ اور سورۃ حدید کی ابتداء یہ ہے ۔ کہ کائنات کی ہر چیز عملاً اپنی دائمی اطاعت شعاری سے اس کی حمدوثنا اور تسبیح میں مصروف ہے ۔ اور تمام اشیاء پر حقیقتاً اسی کا قبضہ واقتدار ہے ۔ وہی زندگی بخشتا ہے ۔ اور وہی موت طاری کرتا ہے ۔ اور اس کے احاطہ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ۔ اس لئے اگر تم لوگ زبان سے اس حقیقت کا اظہار نہیں کرتے ۔ تو نہ سہی ۔ واقعہ تو یہی ہے ۔ کہ تم عملاً اس کے بنائے ہوئے قانونوں کے سامنے جھکتے ہو *۔ الحديد
2 الحديد
3 خدا اول کیوں کر ہے ؟ ف 1: خدا کی ایک صفت یہ بھی ہے ۔ کہ وہ اہل ہے ۔ اور اس کو کائنات کی ہر چیز پر تقدم حاصل ہے ۔ مگر قدیم حکماء کے لئے بڑی مشکل کا سامنا تھا ۔ وہ یہ نہیں سمجھتے تھے ۔ کہ اس تقدم کی نوعیت کیا ہے ۔ کیونکر انہوں نے عام طور پر تقدم کی پانچ قسمیں لکھی ہیں :۔ (1) تقدم بالتاثیر ۔ (2) تقدم باالاحتیاج (3) تقدم بالشرف (4) تقدم باالمرتبہ (5) اور تقدم بالریان *۔ اور پانچویں قسم کے تقدم کو تسلیم کرلینے میں انہیں عقلی استخانوں کا ایک انبار نظر آتا تھا ۔ اگر ہم یہ مانتے ہیں ۔ کہ وہ ذات زمانہ ہر شئے سے مقدم ہے ۔ تو خود اس جملے کا مفہوم کیا ہے ۔ کیونکہ اس کو اول کہنا یہ خرازمانے کو مستلزم ہے ۔ اور اس بات کا اقرار کرنا ہے ۔ کہ اس وقت بھی زمانہ کا کوئی حصہ ایسا تھا ۔ جس کو آپ اول فرض کرلیتے ہیں ۔ اور جس کی وجہ سے آپ خدا کو سب سے پہلے قرار دے رہے ہیں ۔ ورنہ اس کا کچھ اور مفہوم ہی نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے سرگردہ واسلام یعنے امام رازی نے بھی یہاں کامل تحیر کا اظہار کیا ہے ۔ اور فرمایا ہے کہ ہم یہ اجمال کی شکل میں تو تسلیم کرتے ہیں ۔ مگر تفصیلات کا سمجھنا ہماری سمجھ سے باہر ہے ۔ خدا بھلا کرے ۔ نظریہ رضاقیت کے مصدق ” آئن سٹائن “ کا کہ اس نے اس الجھن کو دور کیا ۔ اور اس حقیقت کو پالیا ۔ اس نے کہا ۔ کہ زمانہ کوئی ازلی اور ابدی حقیقت نہیں ہے ۔ جیسا کہ تم سمجھتے ہو ۔ بلکہ یہ تو محض ایک اضافی چیز ہے ۔ اگر آج اشیاء موجود نہ رہیں ۔ یا ان میں حرکت مفقود ہوجائے ۔ تو زمانہ کا مفہوم ہی پیدا نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے اس کا ازلاً اور ابداً موجود رہنا نہ صرف غیر ضروری ہے ۔ بلکہ عقلاً باطل ہے ۔ اس حکیم نے زمان ومکان کے تصور کو اس درجہ بدل دیا ہے ۔ کہ اب وہ پرانے اعتراضات قطعاً وارد نہیں ہوتے اب یہ عقیدہ کہ خدا اول ہے ۔ بالکل واضح ہے کہ اس زمانے اور مقام ومکان کو بھی پیدا کیا ہے ۔ کان واحد یان لئی اور وہ تمام مخلوق سے ان معنوں میں پہلے سے ۔ کہ اس کی شان صمدیت کے ساتھ وقت اور مقام کے لئے بھی کوئی جگہ نہ تھی ۔ اور وہ اس وقت تھا ۔ جبکہ خود عدم بھی معدوم تھا ۔ اور مکان بھی مقام للی قرار دیا * آخر کے معنی جیسا کہ حدیث میں آتا ہے ۔ کہ اس کے بعد کوئی چیز تمہیں ظاہر ہے ۔ کہ اس کا ثبوت بالکل بدیہی اور واضح ہے ۔ وجدان وذوق اس کو تسلیم کرتا ہے ۔ اور قطب ودماغ کے تمام گوشوں پر وہ مسلط ہے ۔ اگر انسان چاہے بھی کہ اس کا انکار کردے ۔ جب بھی اس کی وضاحت بھراعتراف کی زنجیریں لاکر پہنادیتی ہے ۔ باطن کہنے سے غرض یہ ہے کہ باوجود اس تیقن اور اس تحقق کے گار منطق اور غوروفکر کی چھائیوں میں اس کو جاننا چاہو ۔ تو ناممکن ہے ۔ اگر صحت اور فلسفہ کی آنکھوں سے دیکھا چاہو تو اس کا وجود سراپردہ خفاء میں ہے ۔ یعنی وہ مستور بھی ہے ۔ اور ظاہر بھی ہے ۔ اور واضح بھی ہے اور مخفی بھی *۔ حل لغات :۔ ثما استوی علی العرش ۔ پھر وہ عرش تذکیر وحکومت پر قرار پذیر ہوا ۔ استویٰ کی تفصیل بحث کئی مقامات پر گزر چکی ہے ۔ مختصر اً یوں سمجھ لیجئے ۔ کہ یہ ایک شان حدیث ہے ۔ صفت بالفت نہیں ہے جس کے معنے یہ ہیں ۔ کہ کائنات کو پیدا کرنے کے بعد پھر اس نے اپنے مرکز تدبیر شعون کی جانب توجہ مبذول فرمائی ۔ اور عرش سے کہ مقام تجلیات تخلیق ہے ۔ اور امر کو نافذ فرمایا *۔ یلج ۔ لوح سے ہے بمعنے داخل ہونا *۔ الحديد
4 الحديد
5 الحديد
6 الحديد
7 الحديد
8 الحديد
9 فیضان نبوت ف 1: یعنی یہ کہ اللہ کی بخشش اور رحمت ہے ۔ کہ اس نے اپنے ایک نہایت ہی محترم بندے پر قرآن کی آیتیں نازل فرمائی ہیں ۔ تاکہ ان کی وساطت سے لوگوں کو اندھیروں اور تاریکیوں میں سے نکال کر روشنی اور نور کی وادیوں میں لابسائے ۔ ان کو اوہام اور خرافات کی ظلمتوں سے روکے ۔ اور حقائق ومعارف کی جانب راہنمائی کرے ۔ یہ اس کا فضل وکرم ہے ۔ کہ اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا ۔ تاکہ بنی نوع انسان کو گمراہیوں میں پڑنے سے باز رکھیں ۔ حالات یہ تھے ۔ کہ ہر نوع کی برائیاں اور جرم ان پر مسلط تھے ۔ چاروں طرف گناہوں کا تعفن تھا ۔ تعلیم الٰہی سے کان ناآشنا تھے ۔ اور طبائع متنفر بت پرستی اور تقلید آباء کا زور تھا ۔ رسوم بدنے ان کی زندگی کو اجیرن کر رکھا تھا ۔ فواحش عام تھے ۔ تقویٰ اور پاکبازی کا نشان تھا ۔ ان حالات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے ۔ اور آپ کے فیض سے تاریکی کے بادل چھٹ گئے ۔ روشنی نظر آئی ۔ عقل وذہن میں تابندگی اور روشنی پیدا ہوگئی ۔ اخلاق مقولہ گئے اور ملاح نے ٹھانی ۔ یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تربیت کا نتیجہ تھا ۔ کہ امن کے ضامن قرار پائے ۔ ظالم اور جفاکار لوگوں نے خدمت وشفقت کا بہترین ثبوت دیا ۔ اور جو اکھڑا اور تند مزاج تھے سلیم اور حلیم بن گئے ۔ یہ ساقی کوثر کی فیاضی ہے ۔ کہ آج دنیا میں روشنی اور محبت موجود ہے ۔ اور مسلمان باوجود جغرافیائی تقسیم کے ایک وحدت دینی سے وابستہ ہیں ۔ اور ایک کنبہ کے فرد جیسے ہیں *۔ دین کا یہ تخیل کہ صداقت سب کی مشترکہ میراث ہے ۔ کس کا تخیل ہے ؟ یہ عقیدہ کہ ہر پیغمبر برابر کی تعظیم کا سزاوار ہے ۔ کس نے پیش کیا ۔ یہ خیال کہ دنیا کے ہر کونے میں انبیاء آتے اور خدا کی زمین کا کوئی گوشہ بررسالت کے فیض بخشیوں سے محروم نہیں رہا ۔ کس کی تعلیمات کا نتیجہ ہے ۔ اور لا تطہیاف بین احد من رسلہ کا ۔ دارآفرین ترانہ کس نے گایا *۔ حل لغات :۔ میراث ۔ قبضہ واقتدار *۔ الحديد
10 ف 1: ان آیات میں انفاق فی سبیل اللہ کے لئے مسلمانوں کو آمادہ کیا ہے ۔ اور کہا ہے کہ جب جہاد کے لئے اور قوم کے اعزاز کے لئے روپے کی ضرورت ہے ۔ تو تمہیں کیا ہوگیا ہے ۔ کہ تم تامل اور سوچ میں ہو ۔ یاد رکھو ۔ یہ ساری دولت اللہ کی دی ہوئی ہے ۔ اور اس کی بخشش ہے ۔ پھر جب وہ تم سے خودتمہارے بھلے کے لئے طلب کررہا ہے ۔ تو تمہیں بےدریغ دے دینا چاہیے ۔ اس کے بعد یہ بتلایا ہے ۔ کہ قتال واتفاق کے بارہ میں موقع کی اہمیت کے لحاظ سے اجر میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے ۔ جن لوگوں نے بےکسی کے عالم میں یعنی فتح مکہ سے اہل اسلام کی مالی اور جانی مدد کی ہے وہ اپنے بعد کے لوگوں سے یقینا زیادہ افضل ہیں ۔ کیونکہ یہ وہ پاک نفوس تھے ۔ جنہوں نے اس وقت اس تجارت میں اپنا سرمایہ لگایا ۔ جبکہ کامیابی کی بہت کم توقع تھی ۔ اور فتح مکہ کے بعد مستقبل بالکل روشن تھا ۔ اور سب کو معلوم تھا ۔ کہ اب اسلام سارے عالم پر ہوجائیگا * الحديد
11 ف 2: اللہ کا قرض دینے کے معنے یہ ہیں ۔ کہ یہ بھی ایک نوع کی تجارت ہے ۔ فرق یہ ہے ۔ اس میں راس المال نقد ہے ۔ اور جو کچھ ملنے والا ہے ۔ وہ سراسر متوقع یعنی موت کے بعد آخرت ہیں ۔ اس سودے میں وہی لوگ شریک ہوتے ہیں ۔ جن میں جرات ایمانی ہے ۔ اور واقعہ یہ ہے کہ اگر سب کچھ دے کر بھی اس کا قرب حاصل ہوجائے ۔ تو یہ تجارت کسی عنوان بری نہیں *۔ حل لغات :۔ تزرھم ۔ روشنی یعنی وہ لوگ جو یہاں معارف ایمانی سے بہرہ ور تھے ۔ وہ اس دنیا میں نور کے سایہ میں پھلیں گے ۔ اور تقدم و حضور کی ہر راہ ان کے لئے روشن ہوگی ۔ وہ عقبیٰ کی تمام مشکلات پر آسانی کے ساتھ قابو حاصل کرلیں گے ۔ اور وہاں کے حقائق ان پر پوری طرح روشن ہونگے ۔ ان کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک خاص نوع کی تابندگی عطا کی جائے گی ۔ جو ان کے جلال کو ظاہر کریگی اور ان کے مرتبہ ومقام کو واضح کریگی *۔ الحديد
12 الحديد
13 سزا کی صحیح ترین شکل منافقین کا گروہ دنیا میں جرات سے ایمانی سے یک قلم محروم رہا ۔ اور ہمیشہ عارضی مسرتوں کو دائمی آسودگیوں پر ترجیح دیتارہا ۔ اور کوشش کرتا رہا ۔ کہ مسلمان کبھی حقیقت حال سے آگاہ نہ ہوں ۔ اظہر کے پردے میں باطن کو پکارتا رہا ۔ اور چند شمع کی باتوں سے اس خبث کو جو اس کی عزیز ترین دولت تھی دل کی گہرائیوں میں پنہاں کئے رہا ۔ اللہ نے دنیا میں ان سے بدکرداری کا یوں انتقام لیا ۔ کہ ان کے تمام اسراء ایک ایک کرکے واشگاف طور پر بیان کردیئے ۔ اور ان کو بتا دیا کہ تمہارا اقدام ہماری نظر میں ہے ۔ اور تم ہزار چالاکی کے باوجود بھی ہمیں دھوکہ نہیں دے سکتے ۔ اور آخرت میں مادیت نفسی کی ایسی صورت پیدا کردی ۔ کہ ان کو اپنے افعال کی برائی صحیح معنوں میں معلوم ہوجائے ۔ ارشاد فرمایا : کہ جب یہ لوگ شاداں وفرحاں جنت کی جانب بڑھ رہے ہونگے ۔ اور اپنے اعمال کے بھرہ سے پر آگ کی طرف جھکے ہوئے جارہے ہونگے اور ان کے دلوں میں منزل تک پہنچ کر بوقلمون نعمتوں سے بہرہ مند ہونے کے جذبات موجزن ہونگے ۔ ان میں اور جنت میں چند قدم کا فاصلہ ہوگا ۔ کہ درمیان میں ایک دیوار کھینچ دی جائے گی ۔ اور ان کا نفاق مجسم ہوکر ان کے اور مسرت ہائے ابدی کے درمیان حائل ہوجائیگا ۔ اس وقت انہیں پہلی آخری دفعہ محسوس ہوگا ۔ کہ نفاق کتنا برا فعل ہے ۔ اور نفاق کی وجہ سے اللہ کے ندوں کو کس درجہ تکلیف پہنچتی ہے *۔ الحديد
14 الحديد
15 الحديد
16 ف 1: ہجرت کے بعد مسلمانوں کو مدینہ میں آرام ملا ۔ تو وہ گرم جوشی عمل کی باقی نہیں رہی ۔ جو مصائب کے وقت تھی ۔ اس لئے اس اصیمیت میں اللہ تعالیٰ نے عاتب نازل فرمایا ۔ کہ یہی وقت تو اظہار تشکر درخشیت وانفعال کا ہے ۔ کیونکہ آسودگی اور تنعم میں خدا کو یاد رکھنا گویا اس کے دین کو دوبارہ زندہ کرنا ہے ۔ تمہیں اہل کتاب کی طرح نہ ہونا چاہیے ۔ کہ جوں جوں زمانہ گزرتا جائے ان میں قسادت پیدا ہوتی چلی جائے ۔ اور گداز جو اصل دین ہے ۔ رخصت ہوجائے ۔ بلکہ ہوگا یہ چاہیے ۔ کہ مرد زمانہ کے ساتھ ۔ تمہارے دلوں میں تائید کا جذبہ اور زیادہ مضبوط ہوتا چلا جائے ۔ اور زمانے کا یہ بعہ تمہارے ذہن کی تازگی میں کوئی تبدیلی نہ پیدا کرسکے *۔ الحديد
17 الحديد
18 الحديد
19 نبوت اور مقام صدیقت وشہادت ف 2: نبوت کے سوا فضیلت اور روحانیت کے جس قدر مراتب ہیں وہ سب سطحی وعمل اور ایمان واخلاص سے حاصل ہوسکتے ہیں ۔ گو اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہیں ہے ۔ کہ تکمیل دین اور اتماہر نعمت کے بعد اب کوئی شخص برارہ راست استفادہ انوار قاہوت کا مدعی ہو ۔ مگر یہ ممکن ہے ۔ کہ ان ہستیوں کے تستبع اور اطاعت سے کہ جن کو فیضان نبوت سے وہ تمام رتبے حاصل ہوجائیں ۔ جو غیر انبیاء کے لئے مقدر ہیں ۔ لہٰذا ارشاد فرمایا ۔ کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پرحکم اور لئے دیا ۔ ایمان رکھتا ہے ۔ اور جس کے قلب میں تمام انبیاء کے لئے عزت واحترام کے جذبات موجزن ہیں ۔ وہ اللہ کے نزدیک صدیق ہے ۔ اس کا رتبہ اور مقام عام مومنین سے بلند ہے ۔ اس طرح ایک مقام انسانی اللہ کا ہے ۔ جس کے معنے یہ ہیں ۔ کہ حقیقتاً اللہ کی راہ میں انسان اپنے کو ذبح کرڈالے ۔ کٹ مرے اور قلب ودماغ کی تمام صلاحیتوں کو اعلاوہ کلمۃ اللہ کے لئے استعمال کرے ۔ یہ شہید ہے *۔ ان کے رہنے کا ٹھکانا ۔ اللہ کے قرب میں ہے ۔ اس کو دنیا میں بھی ایمان وبصیرت کی روشنی عطا کی جاتی ہے اور آخرت میں بھی ۔ یہ بلند مرتبہ بھی ہر اس شخص کو مل سکتا ہے ۔ جہاں اداس نہ ہو ۔ است محمدیہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ شرف حاصل ہے ۔ کہ اس میں کا ہر فرد تقویٰ وورع کے فراز اعلیٰ تک رسائی حاصل کرسکتا ہے *۔ یہ یاد رہے کہ والشھداء یہاں بالکل مفعول اور علیحدہ ہے ۔ اس کا تعلق والذین تقتلوا سے نہیں ہے ۔ کیونکہ شہادت صرف ایمان سے حاصل نہیں ہوتی ۔ بلکہ ایمان کے لئے مرجانے سے حاصل ہوتی ہے *۔ حل لغات :۔ الاسد ۔ مدت غرض یہ ہے ۔ کہ زمانہ جس طرح نوائے جسمانی پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ اسی طرح مذہبی جذبات بھی اس سے متاثور ہوئے بغیر نہیں رہتے ۔ مگر مومن کی شان یہ ہے ۔ کہ وہ پوری طرح اس ضعف واضحلال کا مقابلہ کرے ۔ اور اپنی روح کہ ہر دم تازہ رکھے ۔ افصدیقون ۔ صدئق کی جمع ہے ۔ نہایت راست گو * وہ شخص جس میں حق کو قبول کرنے کی استعداد بدرجہ اتم موجود ہو * کینب ۔ بازی ۔ کھیل * لھو ۔ کھیل ۔ نیک عمل سے باز رکھنے والے چیز *۔ الحديد
20 قرآن حکیم کی ان آیات میں دنیا کی صحیح قدروقیمت واضح کی گئی ہے ۔ اور ان لوگوں کو جو مادیات میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ اور جو زندگی کا نصب العین ہی یہ سمجھتے ہیں ۔ کہ ان عارضی اور فانی مسرتوں کو ابدی اور دائمی حقیقتوں پر ترجیح دی جائے متنبہ کیا ہے ۔ اور فرمایا ہے ۔ تمہار سامنے حیات انسانی کا صرف ایک رخ ہے ۔ تم اس کو محض دل کشی اور بدہدایت کی حیثیت سے دیکھتے ہو ۔ اور وہ پہلو جو اس کے سارے حسن کو ضائع کردیتا ۔ اور جس کے تصور سے پوری زندگی مکدر ہوجاتی ہے ۔ تمہاری آنکھوں سے اوجھل ہے ۔ تم صرف یہ چاہتے ہو ۔ کہ یہاں دلچسپی ہے ۔ دل بہلانے کا وافر سامان ہے ۔ زینت وتفاخر کی کرشمہ سازیاں ہیں ۔ مال واولاد میں افزائش کی خواہش ہے ۔ مگر یہ نہیں جانتے ۔ کہ پردہ موت ان سب مسرتوں اور خوشیوں کو ایک دم ڈھانپ لیتا ہے ۔ اور یہ سب چیزیں اس وقت کھلنے لگتی ہیں ۔ جب خدا کا مہیب فرشتہ سامنے آجاتا ہے ۔ ارشاد فرمایا ۔ ان نادانوں کی مثال ایسے زمیندار کی سی ہے ۔ جو اپنے کھیت کو مینہ برس جانے کی وجہ سے سرسبز وشاداب دیکھتا ہے اور پولا نہیں سماتا ۔ پھر چند دنوں میں وہ کھیت سوکھ جاتا ہے ۔ اور اس کی تازگی زردی اور یژمردگی سے بدل جاتی ہے ۔ اس وقت یہ چورا چورا ہوجاتا ہے ۔ اور پاؤں میں روندا جاتا ہے ۔ گویا یہ سارا حسن جمالی جس کی وجہ سے زمیندار ایلھتا پھرتا تھا ۔ خزاں کے گرم جھونکوں کی تاب نہ لاکر خاک میں جاتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح دنیا کے مشتاق اس کو زینت وآرائش میں قحبہ کی طرح بنا اور سنورا ہوا دیکھتے ہیں ۔ اور اس پر یہ دیکھتے ہیں ۔ اور یہ نہیں جانتے کہ صبح قیامت او حجر فنا کے وقت یہ کس درجہ منحوس اور مکروہ شکل ہوجائیگی حل لغات :۔ کعرض السماء والارض ۔ آسمان وزمین کی وسعت ۔ الحديد
21 استحقاق اور تفضل کی بحث اس حیثیت سے کہ جنت صلہ ہے اعمال صالحہ کا ۔ اور ایمان کامل کا ۔ یہ استحقاق ہے ۔ اور اس جہت سے کہ خود اعمال صالحہ کی توفیق رحمت ہوتی ہے ۔ رب کریم کی جانب سے فضل اور کرم گستری ہے ۔ اور پھر ہمارے ناچیز اعمال کو اس درجہ اہمیت دیتا ۔ جن میں پہلو ریاکاری اور خود غرضی کے پنہاں ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ محض فضل اور نوزش ملتی ہے ۔ ورنہ کون شخص ہے جو دعویٰ کے ساتھ کہہ سکے کہ وہ اللہ کے احکام کی بجاآوری میں مرتبہ احسان پر فائز ہے ۔ اور اس سے نیت وعمل کی کوئی کوتاہی استوار نہیں ہوئی ۔ اور پھر اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے ۔ کہ کسی اللہ کے بندے کو اعمال صالحہ کی پوری توفیق ہوئی ہے ۔ تب بھی یہ سب اعمال اس کی نعمتوں کے مقابلہ میں کیا درجہ رکھتے ہیں ؟ حیات کی نعمت کے مقابلہ میں کوئی نیکی رہی ہے ۔ جس تو بچا سکے ۔ کیا یہ درست نہیں ہے ۔ کہ ایک سانس کے لئے جو انسان کو میسر ہے ۔ کائنات کے ہزاروں قانون حرمت میں آتے ہیں ۔ پھر یہ کیونکر ممکن ہے ۔ کہ حقیر عاجز انسان زندگی کے ان لاوائے شکر اور اظہار سیاسی کے فریضہ سے عہدہ برا رہا ۔ یہ اس کی عنایت ہے کہ وہ اعمال کے ایک اور کہتا ہے ۔ کہ اگر تم اسلام کے اوامروا ہی کو تسلیم کروگے اور شے کی کوشش کروگے ۔ تو وہ تم کو اپنی آغوش رحمت میں لے لے گا *۔ الحديد
22 مسئلہ تقدیر کی بالکل آسان صورت ف 2: ہر وہ شخص جو خدا پر ایمان رکھتا ہے ۔ اور جہ یہ مانتا ہے ۔ کہ اس کو ذرہ وزرہ باتفصیلی علم ہے ۔ وہ لازم طور پر اس بات کا قائل ہے ۔ کہ کوئی چیز بھی اس کی گرفت سے باہر نہیں ۔ وہ چھپی ڈھکی سب اشیاء سے واقف ہے اور ہر بات کو وقوع سے پہلے جانتا ہے ۔ اسلام اس باب میں صرف یہ اضافہ کرتا ہے ۔ کہ یہ علم لوح محفوظ میں منضبط ہے ۔ اور فرشتوں کی سہولت کے لئے ایک کتاب میں لکھا رکھا ہے اور ظاہر ہے ۔ کہ اتنے سے اضافہ سے نفس مسئلہ کے سمجھنے میں کوئی نئی دلنوازی ہونا ضروری ہے ۔ اب قرآن بھی یہ کہتا ہے ۔ کہ علم غیب ضبط تحریر میں بھی آچکا ہے ۔ کے لئے اس میں کیا استحالہ ہے ۔ یہی تدیر ہے ۔ جس میں خواہ مخواہ بھاؤ پیدا کئے جاتے ہیں ۔ اور سمجھا یہ جاتا ہے ۔ کہ یہ مسئلہ نہایت ہی مشکل ہے اور ناقابل فہم حالانکہ یہ بات نہیں ہے ۔ بات صرف اتنی ہے ۔ کہ خدانے اس کائنات کو پیدا کیا ۔ اور وہ اس کی فطرت سے پوری طرح آگاہ ہے ۔ اور بس فرمایا ۔ مسئلہ تقدیر پر ایمان لانے سے یہ فائدہ ہوتا ہے ۔ کہ انسان مصائب ومشکلات میں گھبراتا نہیں ہے اور مسرت کے وقت جھلک نہیں جاتا ۔ وہ دکھ اور تکلیف کا دلیرانہ مقابلہ کرتا ہے ۔ اور سمجھتا ہے کہ اگر یہ چیزیں میری قسمت میں مقدر ہیں تو خوف وہراس کی کوئی وجہ نہیں ۔ الور مسرت وشادمانی میں اللہ کا شکرادا کرتا ہے ۔ اور اس کے حال میں ایمان موجود ہوتا ہے ۔ کہ یہ سب اس کی عنایات کی طفیل ہے ۔ ورنہ میرے اعمال ہرگز اس قابل نہیں ۔ گویا مسئلہ تقدیر ایک نوع کا کیرکٹر پیدا کرتا ہے ۔ اور مرد مسلمان کو بلند نگاہ دیتارہتا ہے ۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اس مسئلہ کو باالحق ضیافت دیکھتے ہیں ۔ اور کے معنے یہ سمجھتے ہیں ۔ کہ گل اور جدوجہد کی سرے سے ضرورت ہی نہیں کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا *۔ حل لغات : فاخور ۔ ہدایت ناز کرنے والا ۔ سرکش * وانزلنا الحدید ۔ نزول حدید ایک حقیت سے جس کا انکشاف اب ہوا ہے ۔ طبقات ارض کے ماہرین کا خیال ہے کہ زمین کے دوران اجتہاد میں لوہے کے ابر اٹھتے تھے اور بخارات کی اشکال میں ترشیح ہوجاتا تھا ۔ اس لئے جہاں یہ صحاب حدید برسا ہے وہاں لوہا موجود ہے اور وہیں لوہے کی کانیں موجود ہیں ۔ کس کے معنے یہ ہیں کہ قرآن حکیم نے ان سے چودہ سو سال قبل اس کا اظہار کیا ہے ۔ جبکہ القرآنی علم بھی بالکل ابتدائی منزل میں تھا *۔ الحديد
23 الحديد
24 الحديد
25 الحديد
26 الحديد
27 یہ انجیلیں اصلی نہیں ہیں یہ واضح رہے کہ مودوہ انجیلیں ستی ، لوقاء مرتس اور یوحنا سب کی سب اصل میں حضرت مسیح کے نامکمل حالات میں جس کے بعد کے لوگوں نے قلمبند کیا ۔ ورنہ وہ انجیل جو حضرت مسیح پر نازل ہوئی ۔ ایک مستقل صحیفہ تھا ۔ جس میں ان کو زندگی کی مشکلات سے مخلصی حاصل کرنے کا طریق بتایا گیا تھا ۔ ان انجیلوں کے لکھنے والے لوگ حضرت مسیح کے حواری نہیں ۔ اور یہ بھی تفصیل کے ساتھ معلوم نہیں ۔ کہ یہ لوگ کون تھے ۔ کس قماش کے تھے ۔ اور اس وقت کی مسیحی دنیا میں ان کا درجہ اور مقام کیا تھا ۔ پھر بڑی مصیبت یہ ہے ۔ کہ صرف انہیں لوگوں نے انجیلیں نہیں لکھی ہیں ۔ بلکہ بیسیوں نے اس پر ہاتھ صاف کیا ہے ۔ جیسا کہ خود ان انجیلوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے ۔ اور تیسری صدی عیسوی تک تو بلا مبالغہ سینکڑوں نسخے موجود تھے ۔ جن کو جعلی قرار دیا گیا اور ان چار انجیلوں کو نسبتاً زیادہ صحیح سمجھا گیا ۔ قرآن حکیم نے جہاں ان کتابوں کی تصدیق فرمائی ہے ۔ اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ اس شکل میں ان کو درست اور صحیح تسلیم کرتا ہے ۔ بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ ان میں جو صداقت باوجود تحریف اور تصرف کے موجود ہے ۔ اس کو تسلیم کرتا ہے ۔ اور یہ عیسائیوں کو توجہ دلاتا ہے ۔ کہ وہ اس کی روح سمجھنے کی کوشش کریں *۔ دین فطرت رہبانیت نہیں ہے اللہ تعالیٰ کا دین جو ان مسیح کے ماننے والوں کو دیا گیا ۔ وہ نہایت آسان اور سہل تھا ۔ اس میں کوئی بات ایسی نہ تھی ۔ جو طبیعت میں پیوست پیدا کردے ۔ بلکہ خواہ مخواہ مشکلات ومصائب ، بدعات وخرافات کو لازم قرار دیدے ۔ کیونکہ خدا اپنے بندوں پر نہایت درجہ مہربان اور کرم فرما ہے ۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ لوگ زیدو ورع کے نام پر نفس کو دکھ اور تکلیف میں مبتلا کرلیں ۔ اسکی ہرگز یہ خواہش نہیں ہے ۔ کہ اس تک پہنچنے والے دشوار گزار پگ ڈنڈیوں کو اختیار کریں ۔ اور دنیا سے منہ موڑ لیں ۔ جذبات کو کچل ڈالیں ۔ اور تمدن اور شائستگی کو رہبانیت کی بھینٹ چڑھادیں ۔ وہ تو یہ چاہتا ہے ۔ کہ لوگ نرومادہ کی تمام مسرتوں سے بہرور ہوں ۔ آسائش اور آرام کو اپنے اوپر لازم قرار نہ دیں ۔ خواہشات کو کستسنین نہ سمجھیں ۔ بلکہ ان سے کام لیں ۔ اور دنیا کو بتادیں ۔ کہ اللہ کے بندے کیونکر ان نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں ۔ اور کیونکر اس کی نیابت کا حق ادا کرتے ہیں ۔ ان لوگوں نے اس نکتہ کو نہ سمجھا ۔ اور تعذیب نفس کو اصل دین میں داخل کردیا ۔ اور پھر لطف یہ ہے کہ ان پابندیوں کو پورا بھی نہ کرسکے ۔ کیونکہ فطرت سے جنگ محال ہے ۔ یہ ناممکن ہے ۔ کوئی قوم اپنی خواہشات کو دبادینے کے بعد خود زندگی کے صحیح مفہوم اور اس کی برکات سے متمتع ہوسکے *۔ عیسائیوں نے مدتوں اور قرنوں تقبل اور رہبانیت کا جھوٹا مظاہر کیا اور بالآخر سب کے سب عاجز ہوگئے ۔ اور اقرار کرنا پڑا ۔ کہ شجرہ کی زندگی علیحدگی اور ترکہ والفات کی زندگی ۔ محض ریاکاری اور بےعمل ہے ۔ جس سے نہ روح کو کوئی فائدہ پہنچا ہے ۔ اور نہ جماعت کو اس لئے اس کے خلاف یورپ نے جہاد کیا اور اس لعنت سے مخلصی حاصل کی ۔ ملاحظہ فرمائیے ۔ کہ جب تک اور زاہدوں کا اقتدار رہا ۔ یورپ بالکل جاہل رہا ۔ البتہ ان کی گرفت سے نکلتے ہی زندہ اور بیدار ہوگیا جس کے واضح اور متعین معنی یہ ہیں ۔ کہ رہبانیت تمدن اور ارتقاء کی دشمن ہے ۔ اور وہی مذہب پنپ سکتا ہے ۔ جو یہ کہہ دے کہ ہم رہبانیت کے اصولوں کو تسلیم نہیں کرتے * لارمقیاآیۃ فی الاخلاف *۔ حل لغات :۔ فوادا ۔ روشنی جاہل برعان کو دی جائے گی *۔ الحديد
28 الحديد
29 الحديد
0 المجادلة
1 عورت کا درجہ قانون میں ف 1: اسلام سے پہلے طلاق کی صورت یہ تھی کہ خاوند بیوی سے کہتا ۔ انت علی تظھرامی ۔ یعنی اب تو میرے لئے میری ماں کی حیثیت میں ہے ۔ اور بربنائے رواج پروہ عورت دامی طور پر مفارقت اختیار کرلیتی ۔ اس کی اصطلاح میں ظہار کہتے تھے * خولہ بنت ثعلیہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس فریاد لے کر آئی کہ الفاظ استعمال کئے ہیں ۔ میرے اولاد بھی ہے ۔ اگر ان الفاظ سے علیحدگی واقع ہوجاتی ہے ۔ تو بڑی مشکل کا سامنا ہے ۔ اولاد کو اگر خاوند کے سپرد کرتی ہوں تو مجھے خطرہ ہے ۔ کہ وہ شفقت سے ان کی تربیت نہیں کریگا ۔ اور اگر اپنے پاس رکھتی ہوں ۔ تو اندیشہ ہے ۔ کہ بھوکوں نہ مرجائیں ۔ میں ان کو کیوں کر پالوں گی ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ۔ کہ وہ جب یہ الفاظ کہہ چکا ہے ۔ تو اب تو اس پرحرام ہوچکی ہے ۔ اور میاں بیوی کے تعلقات منقطع ہوچکے ہیں وہ روئی اور کہتی یا رسول اللہ اس نے طلاق کے الفاظ استعمال نہیں کئے ہیں ۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام مسلک کی بنا پر یہی فرماتے ۔ کہ اب تو کوئی گنجائش نہیں ہے اتنے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی کی کیفیت طاری ہوئی ۔ اور اظہار متعلق یہ آیات نازل ہوئیں ۔ جن میں بیاتا گیا ۔ کہ یہ جاہلیت کا دستور قطعاً غلط ہے ۔ کہ مطلقاً عورت کو ماں کہہ دینے سے وہ ماں بن جائے ۔ ماں تو وہی ہے ۔ جس نے اس کو جنا ہے ۔ اور جو اس کی وجد میں لانے کا باعث ہوئی ۔ یہ قول اور یہ انداز بیان غلط اور جھوٹ ہے *۔ اور اس کا کفارہ یہ ہے ۔ کہ باہمی اختلاط سے پہلے غلام آزاد کیا جائے ۔ یا دو ماہ کے متواتر روزے رکھے جائیں ۔ یا اگر اتنی بھی استطاعت نہ ہو ۔ تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے ۔ یہ اس لئے کہ ہر مسلمان کو معلوم ہو ۔ کہ یہ رشتہ کس درجہ ذمہ دارانہ سلوک کا مستحق ہے ۔ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ جب کسی شخص کی تمام امیدیں دنیا والوں کی طرف سے منقطع ہوجائیں ۔ اور وہ توجہ وتضرع کے ساتھ جناب باری میں اپنی گزارشات کو پیش کو ے ۔ تو وہاں ضرور شتوائی ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بدرجہ غایت مہربان اور شفیق ہیں ۔ وہ ان کی معروضات کو پوری شان کرم کے ساتھ سنتے ہیں ۔ اور لباس قبولیت سے مشرف فرماتے ہیں ۔ دیکھئے یہاں ایک طرف رواج ہے ۔ کہ اس کی پابندیاں دوسری طرف ، بیک ضیعف اور سیکس عورت ہے ۔ جس میں اتنی قوت نہیں ہے کہ رواج کی کڑی انجیروں کو توڑ سکے ۔ مگر جب وہ روتی ہے ۔ اور الحاح وزاری اختیار کرتی ہے ۔ تو دریائے رحمت جوش میں آجاتا ہے ۔ اور محض اس ایک عورت کی وجہ سے ایک بات باقاعدہ قانون میں داخل ہوجاتی ہے *۔ حل لغات : تجادلک ۔ آپ سے جھگڑتی تھی ۔ جدل کا لفظ عربی میں اچھے اور برے دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ یہاں اس کا طلاق اچھے معنوں میں ہے * تحورکما ۔ باہمی گفتگو ۔ سمیع بصیر ۔ یہ اشارہ ہے اس حقیقت کی طرف کہ اسلام کے احکام معلم اور مصالح پر مبنی ہیں * رقبۃ ۔ گردن ۔ بندہ ۔ غلام آزاد کرنے کے پیدا کرتا ہے جس میں تمام آزاد کرنا ضروری ہو *۔ المجادلة
2 المجادلة
3 المجادلة
4 المجادلة
5 قانون الٰہی کا احترام ضروری ہے ف 1: تجادون سے مراد شدید مخالفت اور سخت ترین مظاہرہ عناد اور بغض کا ارتکاب سے مکہ والے قرآن کی تعلیمات کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے منہ سے سنتے اور زاراہ بدبختی ان کی مخالفت کرتے اور ان کو ہدف استہزاء بناتے ۔ اس لئے فرمایا کہ یہ لوگ کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ رہیں ۔ یہ اللہ کا قانون ہے ۔ جس کا احترام بنی نوع انسان کے لئے ضروری ہے ۔ اگر ان لوگوں سے اس تذلیل کی ۔ اور انکار کیا ۔ تو پھر یاد رکھیں ۔ کہ جس طرح گزشتہ قوموں کو ہلاکت کے گھاٹ اتاردیا گیا ہے ۔ اور جس طرح پہلے گروہوں کو ان کے مقاصد میں ناکام اور غائب وخاسر رکھا گیا ہے ۔ اسی طرح ان کو ان کی ناپاک غرضوں میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا ۔ جہاں تک حق وصداقت کا تعلق ہے ۔ وہ پوری آب وتاب سے ان میں موجود ہے ۔ دلائل وبراہین کے اعتبار سے ان پر اتمام حجت ہوچکا ہے ۔ اور وقت آگیا ہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے اور ان کو مایوسی اور بےچارگی کے سمندر میں پھینک دے *۔ فرمایا : آج یہ جتنا چاہیں ۔ خوش ہولیں ۔ اور مسرت کا اظہار کرلیں ۔ کل وہ دن آنے والا ہے ۔ جب ان کو قبروں میں سے نکالا جائیگا ۔ اور محاسبہ کے لئے زندہ کیا جائے گا ۔ سبب ان سے ایک ایک حرکت کے متعلق پوچھا جائیگا ۔ قضا وقدر کے فرشتے ان کے انکار وتمرد کی نسبت ان سے سوال کرینگے ۔ اس وقت وہ سب کچھ بھول بھلا چکے ہوں گے ۔ اس لئے نہ مانیں گے ۔ مگر اللہ تعالیٰ کا ہمہ گیر علم ان سے باز پرس کئے بغیر نہ رہے گا ۔ اس وقت یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے ۔ اور ان کی پوزیشن کیا ہوگی ؟ اس حالت بےچارگی میں جب کہ کوئی کسی کی مدد ہی نہیں کرسکے گا ۔ یہ لوگ بتائیں ۔ کہ انہوں نے اس وقت کے لئے کیا سوچ رکھا ہے *۔ حل لغات :۔ حدوداللہ ۔ جو اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے ۔ کہ یہ قانون ظہار اور اس قبیل کے تمام حکام اللہ کی طرف سے متقین اور مقرر ہوتے ہیں اور اللہ ہی صحیح معنوں میں انسان کے لئے موزوں اور مناسب قانون وضع کرسکتا ہے * تبتوعلھم جل مکبوت کے معنے ذلیل اور رسوا کے ہوتے ہیں *۔ المجادلة
6 المجادلة
7 ف 1: منافقین اور منکرین خفیہ طور پر اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ۔ اور سرگوشیاں کرتے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ کہ آپ کو معلوم ہے ۔ کہ ہم سے کوئی بات پوشیدہ اور مسقتر نہیں ۔ ہم سب کچھ جانتے ہیں ۔ زمین کی وسعتیں اور آسمان کی بلندیاں سب ہمارے سامنے ہیں ۔ جب یہ لوگ تین ہوتے ہیں ۔ تو چوتھا میں ہمارا وجود ہوتا ہے ۔ اور جب یہ پانچ ہوتے ہیں تو چھٹے ہم ہوتے ہیں ۔ یہ ناممکن ہے ۔ کہ کوئی راز کی بات کریں ۔ اور ہم اس کو نہ جانیں ۔ کیونکہ ہمارا علم ہر چیز کو محیط ہے ۔ واضح رہے کہ یہ معیت جس کا ذکر یہاں ہوا ہے محض علم اور شہادت کی زد سے ہے ۔ ورنہ اللہ تو اس چیز ومکان کی احتیاجات سے بےنیاز ہے ۔ وہ اگرچہ مخلوق سے جدا ہے ۔ مگر اس کا علم اس درجہ وسیع ہے ۔ کہ وہ ہر واقعہ کو براہ راست جانتا ہے *۔ حل لغات :۔ نجویٰ۔ اصل میں نجوۃ سے اشتقاق ہے ۔ جس کے بلند اور اونچی زمین کے ہیں ۔ سرگوشی کرنے والے چونکہ اپنے آپ کو ایسی بلند پر سمجھتے ہیں ۔ کہ دوسرے کی وہاں تک رسائی نہیں ہوسکتی ۔ اس لئے اس حرکت کو نجویٰ کے لفظ کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے * معصیت ال رسول ۔ پیغمبر کی نافرمانی *۔ المجادلة
8 ذلیل ترین حرکات ف 1: منافقین نہایت ذلیل قسم کے لوگ تھے ۔ یہ ہمیشہ کوشاں رہتے ۔ کہ مسلمانوں کو تکلیف پہنچائے ۔ اور سنانے کے لئے نئی نئی باتیں اختیار کی جائیں اور زندگی کچھ اس ڈھب کی بنائی جائے ۔ کہ خواہ مخواہ ہر طرز عمل سے اذیت ٹپکے ۔ چنانچہ یہ لوگ مواقع کی تلاش میں رہتے ۔ اور حتی المقدور دلآزاری سے نہ چوکے ۔ مسلمانوں کے ساتھ انہیں کسی مجلس میں بیٹھنے کا اتفاق ہوتا ۔ تو باہم سرگوشیاں کرتے ۔ اور کچھ اس انداز سے کھیس لیں کہ مسلمانوں کو اس بدتمیزی سے دکھ محسوس ہوتا ۔ وہ یہ خیال کرتے کہ ہمارے متعلق کچھ باتیں ہورہی ہیں ۔ اور ہماری مذمت میں لب ہل رہے ہیں ۔ ان کو اس عادت بد سے روکا گیا ۔ مگر یہ رکنے والے کہاں تھے ۔ اس کو تو انہوں نے عمداً اختیار کیا تھا ۔ اور اس کا مقصد ہی یہ تھا ۔ کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے ۔ تو ازراہ غائت السلام علیک کی بجائے السام علیک ہے ، جس کے معنے یہ ہوتے ہیں ۔ کہ خدا کرے تو مرجائے ۔ اور اپنی اس حرکت پر خوش ہوتے اور کہتے ۔ اگر یہ اللہ کا رسول ہوتا ۔ تو اب تک گستاخی کی سزا ہم کو مل چکی ہوتی ۔ اور اب تک عذاب نے ہم کو آگھیرا ہوتا ۔ اور چونکہ ہم اللہ کی گرفت سے آزاد اور محفوظ ہیں ۔ اس لئے ہم حق بجانب ہیں ۔ فرمایا ۔ تم اپنی بیہودگی پر ناز نہ کرو ۔ اللہ تعالیٰ نے تمہاری ان تمام شرارتوں کے لئے سزا کا ایک دن تجویز کررکھا ہے ۔ اور وہ دن تمہارے لئے خوش آئند نہیں ہے ۔ اس دن تمہیں جہنم میں پھینکا جائے گا جو بدترین جگہ ہے ۔ اور بہت برا ٹھکانا ہے ۔ دنیا میں وہ تمہیں ڈھیل اور مہلت دیتا ہے ۔ تاکہ تم اپنے گناہوں کا احتساب کی نظر دوڑاؤ۔ اور پاکبازی کی زندگی بسر کرو ۔ وہ امکانات مہیا کرتا ہے ۔ کہ تمہاری روائتی بدبختی سعادت اور فلاح سے بدل جائے ۔ اور تم اس کے حضور مجرم نہ قرار دیئے جاؤ۔ مگر تم ہو ۔ کہ اسی مہربانی اور کرم کی وجہ سے گستاخی اور معصیت پر دلیر ہوگئے ہو ۔ اور وہ چیز جس کو تمہاری ہدایت کا سبب ہونا چاہیے تھا ۔ تمہاری گمراہی کا باعث بنی ہے ۔ یہ کیوں ؟ اس لئے اور محض اس لئے کہ تمہاری بداخلاقی انتہا تک پہنچ گئی ہے ۔ تم ان ذلیل کاموں پر فخر کرنے لگے ہو ۔ جن سے تم کو شرمانا چاہیے ۔ اور تمہارے نزدیک سب سے بڑی بات یہی ہے ۔ کہ گناہ اور سرکشی کی باتوں کو پھیلاؤ۔ اور پیغمبر کی دشمنی میں دیوانے ہوجاؤ۔ عقل وہوش اور اخلاق ودین کو یک قلم فراموش کرو ۔ تم ہی کہو ۔ کہ جب اخلاقی جس اس درجہ مردہ ہوجائے ۔ اس وقت اصلاح کی کیا امید باقی رکھی جاسکتی ہے *۔ حل لغات :۔ حیولک ۔ تحیۃ سے ہے ۔ بمعنی سلام دعا *۔ المجادلة
9 ف 2: عام مجلس میں دو تین آدمیوں کو کانا پھوسی کے لئے منتخب کرلینا اخلاقی لحاظ سے مذموم اور آداب مجلس کے خلاف ہے ۔ کیونکہ اس فریق سے دوسروں کے دلوں میں بدظنی پیدا ہونے کا احتمال ہوتا ہے ۔ لیکن اگر ضرورت پیش آجائے ۔ تو ارشاد فرمایا ۔ کہ تمہاری باتیں نیکی اور تقویٰ کی باتیں ہونا چاہئیں ۔ کسی شخص کے متعلق اس لئے سرگوشی کرنا ۔ کہ اس کو تکلیف پہنچنے ۔ اسلامی زاویہ نگاہ سے بہت برا ہے ۔ اس لئے قرآن حکیم کا ارشاد ہے ۔ کہ واتقو اللہ یعنی ان باتوں کو حقیر اور معمولی نہ جانو ۔ یہ زہدواتقاء کا صحیح مفہوم ہے ۔ کہ مسلمان زبور اخلاق سے آراستہ ہو ۔ اور یہ جانتا ہو ۔ کہ کون باتیں آداب مجلس کے منافی ہیں ۔ اور کن باتوں سے دوسروں کو دکھ پہنچنے کا احتمال ہے *۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا ۔ کہ سرگوشی کی یہ حرکت تو بلا شبہ مذموم ہے ۔ مگر مسلمانوں کو اتنا نازک احساسات کا نہ ہونا چاہیے ۔ کہ ان معمولی چیزوں سے اس قدر متاثر ہوں ۔ انہیں زیبا ہے ۔ کہ بہرحال اللہ پر توکل رکھیں ، اور یقین جانیں ۔ کہ اس کی نصرتیں ان کے شامل حال رہیں گی *۔ المجادلة
10 المجادلة
11 آدمب مجلس ف 1: صحابہ کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بدرجہ غایت محبت تھی ۔ اس لئے مجالس نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں خوب بھیڑ رہتی ۔ اور ہر شخص یہ کوشش کرتا کہ اس کو زیادہ قریب جگہ ملے ۔ تاکہ جمال نبوت سے وہ دل ودیدہ کی تسکین کا سامان بہم پہنچائے اس میں سبقت ہوتی ۔ اور بڑھ بڑھ کر لوگ آگے پہنچنے کی کوشش کرتے ۔ اور جب آدمی آکر یہ کہتے ۔ کہ بھائی ہمیں بھی جگہ دو ۔ تو انہیں ناگوار ہتا ۔ اور وہیں جمے رہتے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ کہ جب مجالس کا اہتمام کرو ۔ تو نشستیں کشادہ رکھو ۔ تاکہ بعد میں آنے والے لوگ بھی سماعت اور دیدار کی لذتوں سے استفادہ کرسکیں ۔ اور اگر تمہیں یہ کہا جائے ۔ کہ نشست بدل لو ۔ یا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہو ۔ تو تمہیں اس میں تکلف نہ ہونا چاہیے ۔ کیونکہ یہ چیزیں آداب مجلس میں داخل ہیں ۔ اور مہذب قوموں کا فرض ہے ۔ کہ وہ ان چیزوں کا خیال رکھیں ۔ اس حقیقت کے اظہار سے دو باتیں خصوصیت کے ساتھ معلوم ہوئیں ۔ ایک تو یہ کہ صحابہ کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کس درجہ عشق تھا کتنی محبت تھی ۔ اور کس درجہ تعلق خاطر تھا ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جہاں تشریف فرما ہوئے ۔ یہ لوگ پروانہ دار گرتے اور کسب انوار کرتے ۔ دوسرے یہ کہ اسلام کتنا کامل اور صاحب تہذیب مذہب ہے ۔ کہ اس میں صرف عبادات اور معاشرت کی گیسوں کو ہی نہیں سلجھایا گیا ۔ بلکہ روز مرہ کے اخلاق دعوید پر بھی سلیقہ سے روشنی ڈالی گئی ہے *۔ حل لغات :۔ ففشحوا ۔ کھلے کھلے ہوکر چلو *۔ انمشن وا ۔ نشتر کے معنے اٹھ کھڑے ہونے کے ہیں *۔ المجادلة
12 المجادلة
13 پہلے خیرات دو پھر سرگوشی کرو ف 1: باوجود اس کے کہ حضور کائنات میں سب سے بڑے انسان تھے ۔ سادگی رحمت اور عفو کا یہ عالم تھا ۔ کہ آپ تک پہنچنے کے لئے کسی توسل کی حاجت نہ تھی ۔ کوئی صاحب اور دربان نہ تھا ۔ جہاں بیٹھتے ۔ لوگوں کا ایک ہجوم آپ کے ساتھ ہوتا ۔ ہر شخص کو ہر وقت آزادی حاصل تھی ۔ کہ وہ آپ سے مسائل پوچھے ۔ آپ کو مخاطب کرے ۔ آپ کا سارا وقت خلق اللہ کی خدمت کے لئے وقف تھا ۔ اس سے جہاں یہ فائدہ ہوا ۔ کہ فیضان نبوت عام ہوا ۔ اور برکات کا دریا امڈا ۔ تو ہر جگہ سیراب ہوگئی ۔ وہاں اہل غرض اور باب تعلق نے یہ چاہا ۔ کہ آپ کی سادگی سے ناجائز استفادہ کیا جائے ۔ اور آپ کو اس طرح گفتگو میں سرگوشیوں میں اور مشوروں میں مشغول رکھا جائے ۔ کہ آپ غرباء اور مساکین کی طرف توجہ نہ دے سکیں ۔ چنانچہ یہ لوگ آئے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے لئے کچھ اس طرح مخصوص کرلیتے ۔ کہ دوسروں کو موقع ہی نہ ملتا ۔ کہ وہ کچھ پوچھ سکیں ۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں ۔ کہ دیکھو حضور کو مخاطب کرنے سے پہلے عقیدت کے ثبوت میں کچھ نذرانہ پیش کرو ۔ جو فقراء کے لئے بمنزلہ خیرات کے ہو ۔ اور جس سے تمہاری پاکیزگی قلب اور خلوص کا امتحان ہوسکے ۔ اس حکم کا نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ وہ ہجوم چھٹ گیا ۔ جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وقت ضائع کرتا تھا ۔ اور ان کو معلوم ہوگیا ۔ کہ ہماری شرارت کا پتہ چل گیا ہے ۔ لہٰذا یہ حکم بھی موقوف ہوا ۔ فرمایا ۔ اگر مخلصین کے لئے یہ خیرات دینا دشوار ہو ۔ تو وہ نہ دیں ۔ نماز اور زکوٰۃ کے نظام کو برقراررکھیں ۔ اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتے رہیں ۔ بس یہی کافی ہے *۔ حل لغات :۔ صدقۃ ۔ خیرات * ءاسفقتم ۔ کیا تم ڈر گئے *۔ المجادلة
14 المجادلة
15 المجادلة
16 المجادلة
17 المجادلة
18 منافق جھوٹے ہیں ف 1: یہودیوں کو اسلام کے ساتھ قلبی عناد تھا ۔ منافقین ان کے ساتھ ساز بازرکھتے ۔ ان کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ۔ اور اکل وشرب کی محفلوں میں شریک ہوتے ۔ اس ارتباط اور دوستی کا مقصد محض یہ تھا ۔ کہ مسلمانوں کی مذمت کریں ان کے اسراران تک پہنچائیں ۔ اور اس طرح دونوں مل کر دل جلے پھپھولے توڑیں ۔ اور پھر جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ وحی معلوم ہوجاتا ۔ اور آپ ان لوگوں سے باز پرس کرتے ۔ تو وہ صاف انکار کردیتے ۔ اور کہتے ۔ بخدا ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔ ہم ان تک آپ کی باتیں قطعاً نہیں پہنچاتے اور اس طرح وہ یقین دلانے کی کوشش کرتے ۔ کہ ہم آپ کے دشمن اور بدخواہ نہیں ہے ۔ فرمایا آج ان یہودیوں اور منافقین کو اپنے مال پر ناز ہے ۔ اولاد کی کثرت پر غرہ ہے ۔ مگر ان کو معلوم ہونا چاہیے ۔ کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے ۔ کہ مال ودولت کی فراوانی بالکل کام نہیں آسکے گی ۔ اور اموال وانصار کی کثرت عذاب الٰہی سے بےنیاز نہیں کریگی ۔ اس وقت بھی یہ لوگ جھوٹ بولیں گے ۔ کہ دنیا میں ہم نے ان اعمال کا ارتکاب قطعاً نہیں کیا ہے ۔ مگر اس کو کہا جائے ۔ کہ وہاں جھوٹ کو بالکل فروغ نہ ہوگا ۔ فعاجو قلام الغیوب سے بھلا اس کو یہ نکرہ سو کہ اور فریب میں رکھا جاسکتا ہے ۔ اعمال کی فروسامنے ہوگی ۔ اور معلوم ہوگا ۔ کہزندگی کو کن کن مشاغل میں صرف کیا گیا ہے ۔ آج یہ لوگ اس بات پرخوش ہولیں ۔ کہ مسلمان بےسروسامان ہیں اور ان کی دل کھول کر مذمت کرلیں ۔ اس وقت جب یہ دیکھیں گے ۔ کہ انہیں مساکین اور غربا کے سروں پر افتخار اور اعزاز کا تاج رکھا ہے ۔ جن کو یہ بنظر اعتقاد دیکھتے تھے ۔ تو ان کی دل کیفیات کیا ہونگی فرمایا : بات یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام کو جھوٹا خیال نہیں کرنے ۔ خواہشات نفس نے ان پر غلبہ حاصل کرلیا ہے ۔ اور شیطان ان کی رگ وپے میں سرایت کرچکا ہے ۔ یہ دنیا میں اس طرح محو ہیں ۔ کہ اللہ کو بھول گئے ہیں ۔ ان لوگوں نے اس نقد کو اس نسیہ پر ترجیح دے رکھی ہے ان کی مثال ایک ایسے شخص کی سی ہے ۔ جو منزل تک نہ پہنچے ۔ اور درمیان کی دلچسپیوں کو زیادہ اہمیت دے ۔ راستے ہی میں اترپڑے اور بھول جائے ۔ کہ اس کو آگے جانا ہے ۔ فرمایا ۔ یہ لوگ اپنے اعمال اور کرتوت کی وجہ سے شیطان کا گروہ ہیں ۔ اور ان کو حتما اپنے مقاصد میں کامیابی نہیں ہوگی ۔ کیونکہ یہ مقدرات میں سے ہے ۔ کہ جو لوگ حق وصداقت کی مخالفت کریں ۔ فطرت سے لڑیں اور حقائق سے دست وگریباں ہوں ۔ وہ ذلیل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے یہ بات ازل سے طے کررکھی ہے ۔ کہ سچائی کا بول بالا ہو ۔ حق کو غلبہ اور تطرق حاصل ہو ۔ بلندی اور اعقلا ومیسر ہو ۔ اس کے رسول جب آئیں تو کامیاب رہیں غابء میں اور باطل کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالیں ۔ جھوٹ کے لئے قطعی کامیابی نہیں ہے ۔ باطل بالکل چھپ سکتا ۔ کیونکہ روشنی کے مقابلہ میں تاریکی رخصت ہوجاتی ہے ۔ اور جوئے رواں کے سامنے خس وخاشاک کا وجود نہیں رہنے پاتا *۔ ان اللہ قوی عزیز کے معنے یہ ہیں کہ اگر اللہ کے ساتھ تعلقات معبودیت استوار ہوں ۔ اگر اس کے نیاز مند رہیں ۔ اور اس جگہوں کو بلاتامل وتشویش تسلیم کریں ۔ تو پھر وہ قوت وعزت کی توفیق بخش دیتا ہے *۔ المجادلة
19 المجادلة
20 المجادلة
21 المجادلة
22 اصل دین محبت وعشق ہے ف 1: اسلام دنیا میں پہلا اور آخری مذہب ہے ۔ جس نے انسان کو فطرت کو بدل دیا ہے اور نفسیات تک تبدیل کردی ہیں ۔ یہی وہ مذہب ہے جس نے حریت انگیز طور پر محسوسات کی دنیائے سے روح انسانی کو لاہوت کی دنیا سے وابستہ کردی ہے ۔ بلکہ یوں کہیے ۔ کہ بھی وہ قوت ہے جس نے قلوب میں تمام رشتوں کی اہمیت کو اس تعلق کے مقابلہ میں گھٹادیا ہے ۔ جو ایک مرد مسلمان کا اس کے اللہ اور رسول کے ساتھ ہے ۔ چنانچہ اسلام نے بھی محبت اسی شفقت اور اسی تحقیق کو معیاد ایمان قرار دیا ہے ۔ یہ جس سے دل میں اسلامی کی محبت ہے ۔ جو خدا اور اس نے رسول کو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب سمجھتا ہے ۔ چنانچہ منافقین کو مخاطب کرکے فرمایا ۔ کم بختو ! تم نے یہ بھی سوچا ہے کہ ایک دل میں بیک وقت خدا کے دشمنوں اور اس کے دوستوں کی محبت کیسے سماسکتی ہے ۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ تمہارے پہلو پہلو میں اسلام کے لئے درد اور تڑپ بھی ہو ۔ اور تم یہودیوں سے سازبازبھی رکھو ۔ مومن تو وہ ہے ۔ جو صرف اللہ سے محبت رکھتا ہے اور رسول کو اپنا محبوب سمجھتا ہے ۔ پھر اگر اس کے عزیز اور اس کے رشتہ دار بھی اس دولت عشق سے مالامال ہیں ۔ تو وہ ان کا عزیز ہے ۔ اور دوست ہے ۔ اور اگر یہ لوگ معاند ہیں ۔ اور ان کے دل میں بجائے محبت کے گل وریحان کے بغض کا زقوم پنہاں ہے تو وہ ان کا دشمن ہے ۔ یہ ناممکن ہے ۔ کہ وہ خدا کے متعلق کفریہ کلمات سنے اور خاموش رہے ۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے بارے میں ادنی گستاخی کو بھی گوارا کرے ۔ مگر کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کے سوالات قائم رکھتا ہے ۔ تو قطعاً مومن نہیں ہے ۔ اس کو اپنے متعلق فیصلہ کرلینا چاہیے ۔ کہ وہ کافر ہے ۔ اور متاع ایمان سے ایک قلم محروم یہاں ایک باریک بحث پیدا ہوتی ہے ۔ اس کو سمجھ لینا چاہیے ورنہ غلط فہمی کا احتمال ہے ۔ اور وہ یہ ہے ۔ کہ کیا مسلمان کفار کے ساتھ عام معاشرتی اور مدنی تعلقات قائم نہیں رکھ سکتا ۔ اور کیا وہ اتنا تنگ نظر ہے ۔ کہ سوائے مسلمانوں کے اور کسی جماعت کے ساتھ اس کی نہیں نبھ سکتی اس کا جواب یہ ہے کہ ان آیتوں میں ان منکرین کا ذکر ہے ۔ جو معاند ہیں اور سخت بغض اپنے دلوں میں رکھتے ہیں ۔ اور پھر عام مدنی تعلقات سے نہیں روکا گیا ہے ۔ بلکہ تودو اور مخلصانہ ساز باز سے روکا گیا ہے ۔ مسلمان کے لئے یہ ناممکن ہے ۔ کہ وہ اپنے دل میں خدا اور اس کے دشمنوں کی محبت کو بیک وقت جگہ دے سکے ۔ وہ یہ نہیں کرسکتا ۔ کہ خدا کے اقتدار کو بھی تسلیم کرے ۔ اور حقیر کے حقوق کو بھی وہ دنیا میں اس لئے زندہ ہے کہ احیاء دین ہو اور اس لئے مرتا ہے ۔ کہ املاء کلمۃ اللہ ہو *۔ حل لغات :۔ جنۃ ۔ سپر ڈبل ۔ استنثوا ۔ قابو پالیا ۔ تسلط کردیا * حزب الشیطن ۔ شیطان کی جماعت جس کے دل میں برائی کے لئے محبت ہو * یحادون ۔ مخالفت کرتے ہیں ۔ حمید سے ہے یعنی جو مخالفت میں لوہے کی طرح سخت ہو ۔ بروج قیہ ۔ تشریف وتفصیل کے لئے روح قبض کو اپنی جانب منسوب کرتا ہے * بلکہ مسلمان وہ ہے ۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے مسلمان وہ نہیں ہے ۔ جو رسوم مذہبی دینی کو کسی نہ کسی طرح ادا کرلیتا ہے ۔ المجادلة
0 الحشر
1 الحشر
2 سورۃ الحشر ف 1: اس سورت میں اولاً یہ بتایا ہے ۔ کہ بنی نضیر جن کے پاس مضبوط قلعے تھے ۔ اور جو ہر طرح سامان جنگ سے مسلح تھے ۔ جب انہوں نے اسلام کی دشمنی میں ابوسفیان سے معاہدہ کیا ۔ اور پہلے عہد کو توڑا ۔ تو کیونکر اللہ نے ان کو ذلیل کیا ۔ اور کس طرح ان سب کو ذلیل کیا ۔ اور کس طرح ان سب کو جلاوطنی پر مجور کردیا ۔ اس کے بعد دوسرے مباحث کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ غرض یہ ہے کہ مسلمانوں کے لئے غلبہ واقتدار زقیل مقدارات سے * مقام عبرت یہودی مالدار بھی تھے ۔ اور محفوظ قلعوں میں پناہ گزین بھی ۔ مگر جب عساکر اسلامی نے محاصرہ کیا ۔ اور لڑائی کے لئے للکارا ۔ تو ان کی ہمتیں پست ہوگئیں ۔ اللہ تعالیٰ کچھ ایسا رعب ڈالا ۔ کہ تاب مقادست نہ لاسکے ۔ اور قلعہ بندہوکر بیٹھ رہے ۔ اور جب دیکھا ۔ کہ مخلصی ممکن نہیں ، تو اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں سے برباد اور ویران کرنے لگے ۔ کہ مسلمان ان پر قبضہ کرکے ان سے استفادہ نہ کرسکیں ۔ غور فرمائیے ۔ یہ مال ودولت کی فراوانی ان کے کچھ بھی کام نہ آئی ۔ کیا اسی لئے وہ تمام دخیا سے زیادہ حریض تھے ۔ کہ وقت پر ان کے اموال اور خزائن دوسروں کے کام آئیں ۔ کیا مکہ والوں نے ان کی مدد کی جن کے ساتھ انہوں نے سازباز کرکے معاہدہ شکنی کا ارتکاب کیا تھا ۔ یہ کتنی عبرت ناک بات تھی ۔ کہ ایک قوم اپنے گھروں سے نہایت ذلت اور اعتقاد کے ساتھ نکال جارہی تھی ۔ اور اپنے اموال سے محروم کی جارہی تھی ۔ اس پاداش میں ۔ کہ اس نے اپنی ساری عمر دولت کے حصول میں خرچ کی ۔ اور حق کو تسلیم نہ کیا ۔ مذہبی حقائق کو جھٹلایا ۔ اور دنیائے عاجل کو ترجیح دی ۔ یہ قوم جس کو دولت سے محبت تھی ۔ جس کے سامنے کوئی اخلاقی اور روحانی نصب العین نہ تھا ۔ ضروری تھا کہ اس عذاب میں گرفتار ہوتی ۔ یہ عجیب بات ہے کہ اسلام نے ان کو جو ان کے قلعوں سے اور محلات سے نکالا ۔ تو پھر ان کو چین کے ساتھ رہنے کا کہیں موقع نہیں ملا ۔ قرآن نے فرمایا تھا کہ یہ اول حشر ہے ۔ جس کے معنے یہ تھے ۔ کہ اس نوع کے اور اس قبیل کے کئی حشر ان پر ٹوٹنے والے ہیں ۔ چنانچہ یہ پیشگوئی ثابت ہوتی ۔ اور اس قوم مغضوب کو دیتا میں ذلت واحقار کی زندگی بسر کرناپڑی ۔ اور باوجود دولت کی کثرت کے اور سیم وزر کے انباروں کے رہنے کے لئے انہیں کہیں ٹھکانا نہ ملا *۔ فرمایا : کہ اگر اس بدعہدی کی پاداش میں ان کو جلاوطن کیا جاتا ۔ تو ان کی سزا یہ تھی ۔ کہ ان کو مارڈالا جاتا ۔ کیونکہ ان کی فہرست جرائم ہایت سنگین تھی ۔ اور اس بات کی متقاضی تھی ۔ کہ ان سے زندگی کو چھین لیا جائے ۔ اور پھر آخرت میں جو عذاب ان پرنازل ہوتا ۔ وہ اس پر مستزاد ہوتا کیونکہ انہوں نے سخت قسم کے عنا دکا مظاہرہ کیا ۔ اور اللہ اور اس کے رسول سے کھلم کھلا غداری کی ۔ اس لئے اللہ کا غضب بھڑکانا گریز اور ضروری تھا *۔ حل لغات : ۔ سبح ۔ پاکی بیان کرنا ہے ۔ اللہ کے قانون کا تبع ہے ۔ اور اپنی اطاعت کا ہر لمحہ اظہار کرتا رہتا ہے ۔ لاول الحشر ۔ اس طرف اشارہ ہے کہ یہودیوں کو جلاوطنی کا یہ پہلی دفعہ پہنچا ہے ورنہ وہ اس سے قبل عربوں میں بڑے ٹھاٹ اور وقار کے ساتھ رہتے تھے * الرسف وہ طوف ۔ وہ خوف جو پورے طور پر دل میں سما جائے *۔ الحشر
3 الحشر
4 الحشر
5 ف 1: یہودیوں کے پاس بہت سے باغات تھے ۔ جو ان کی دولت اور تمول کا سبب تھے ۔ اس محاصرہ کے دوران میں مسلمانوں نے ان کو غیرت دلانے کے لئے یا اس لئے کہ وہ ان درختوں کو بطور کمین گاہوں کے استعمال نہ کرسکیں ۔ ان کو کاٹ ڈالا ۔ اور پھر دلوں میں یہ خیال پیدا ہوا ۔ کہ کہیں ہم نے معصیت کا ارتکاب تو نہیں کیا ۔ کیونکہ اسلامی قانون جنگ میں صرف محارب تو ان کو ہدف ہلاکت بنایا جاتا ہے ۔ اور بلا ضرورت تخریب اور تباہی ممنوع ہے ۔ اس آیت میں بتایا کہ جنگ کی مصلحت کا تقاضا یہی تھا ۔ کہ تم لوگ درمیان میں ان درختوں کو کاٹ ڈالو ۔ تاکہ میدان صاف ہوجائے ۔ اور دشمن دھوکہ نہ دے سکے ۔ اور چھپ کر حملہ کرسکے ۔ یاقلعوں میں محصور نہ رہے ۔ بلکہ اپنے اموال کی تباہی اور بربادی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر غصہ سے بےتاب ہوجائے ۔ اور میدان جنگ میں نکل آئے ۔ اور تمہیں موقع دے کہ تم اس سے لڑسکو *۔ حل لغات :۔ لینۃ ۔ تنہ ایک نوع کی کھجور ، جو عمدہ قسم کی نہیں ہوتی * اوجفتم ۔ دوڑایا *۔ سنت ذخیرہ خیروبرکت ہے الحشر
6 الحشر
7 ف 1: یہ آیت سیاق وسباق کے لحاظ سے تواموال غنیمت کی تقسیم کے متعلق ہے ۔ اور اس کا مقصد یہ ہے ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس شخص کو جس قدر ازراہ انصاف وعدل دیتے ہیں ۔ اس کو بلا تکلف اور بغیر اعتراض کے قبول کرلینا چاہیے ۔ اور جس کو محروم رکھتے ہیں ۔ اسے اپنی محرومی پر قانع رہنا چاہیے ۔ اور جس کو محروم رکھتے ہیں ۔ اسے اپنی محرومی پر قانع رہنا چاہیے ۔ اور حرف شکایت لبوں تک نہیں لانا چاہیے ۔ کیونکہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عدل وانصاف پر اعتماد نہ کرنا تقویٰ کے منافی ہے ۔ نور ایمان کا فقدان وضیاع ہے ۔ مگر یہ ضروری نہیں ہے ۔ کہ اس خصوصی منی کی وجہ سے آیت میں تقسیم باقی نہ رہے ۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے ۔ کہ آیت میں اصالتہ عموم اسی ہے ۔ اور خصوص ضمنا خود بخود اس میں آجاتا ہے ۔ آیت کے معنے یہ ہیں ۔ کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت تمہیں جو احکام ونواہی سناتی ہے ۔ اس کو قبول کرو ۔ اور اس کے سامنے کسی نوع کے کبرنفس کا اظہار نہ کرو ۔ کہ یہ پاکیزگی قلب کو ضائع کردینے کے مترادف ہے ۔ گویا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس منصب پر ہیں ۔ کہ وہ مطاع ہیں ۔ ان کی اطاعت اللہ نے لازم قراردی ہے ۔ وہ جو کچھ سیرت وکردار کا ذخیر چھوڑ جائیں ۔ مسلمانوں کے لئے ضروری ہے ۔ کہ اسے خیروبرکت سمجھ کر قبول کرلیں ۔ ورنہ شدید ترین عذاب کے لئے تیار رہیں ۔ یہ عجیب بات ہے ۔ کہ جن لوگوں نے سنت کی محبت سے انکار کیا ہے ۔ اور اپنے زعم میں اختلافات سے بچنے کے لئے صرف قرآن سے تشک کیا ہے ۔ اور وہ بھی قرآن کے انہیں حصے جس میں اسی کی کفایت وتفصیل کا ذکر ہے ۔ وہ اطاعت رسول کی محرومی کی وجہ سے اس دنیا میں عظیم ترین اور تدید ترین عذاب میں مبتلا ہوگئے ۔ اور وہ عذاب اختلاف وتفرقہ کا عذاب ہے ۔ ان کا ہر سمجھدار آدمی بجائے خود ایک مذہب کا امام اور مجتہدبن گیا اور چاہنے لگا ۔ کہ لوگ اس کے متنبع ہوجائیں ۔ فرہین المطروقام تحت الیراب ۔ کی کتنی عمدہ مثال ہے ۔ یہ لوگ اتنی واضح اور نمایاں حقیقت کو نہیں سمجھتے ۔ کہ قران کو اس کے اولین حامل کی وساطت کے بغیر سمجھنا اتنا ہی مشکل ہے ۔ جس قدر خدا تک بغیر عقل وفہم کے رسائی حاصل کرنا *۔ الحشر
8 الحشر
9 الحشر
10 ف 1: ان آیات میں ان لوگوں کی تفصیل بیان کی ہے ۔ جو اموال غنیمت کا استحقاق رکھتے ہیں ۔ فرمایا ۔ اس مال میں ان غریب مہاجرین کا حصہ ہے ۔ جو اپنے گھر اور اپنے مال وسامان سے جبرا جدا کردیئے گئے ۔ جو محض اللہ کی رضامندی کے طالب ہیں ۔ اور وقتاً فوقتاً جب ضرورت پڑے میدان جہاد میں بطور سپاہی کے لڑتے ہیں ۔ اور اپنی صداقت ایمانی کا ثبوت دیتے ہیں ۔ پھر وہ انصار بھی اس کا ستحقاق رکھتے ہیں ۔ جو مدینہ میں پہلے سے قیام پذیر ہیں ۔ اور ایمان کو انہوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے ۔ جو مہاجرین کو وقعت کی کی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ ان کی آسودگی سے نہ صرف خوش ہوتے ۔ بلکہ بسا اوقات ان کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ۔ چاہے خود تکلیف ہی میں کیوں نہ مبتلا ہوں ۔ اسی طرح وہ لوگ بھی مستحق ہیں ۔ جو ان کے بعد آئے ۔ اور ان کے لئے ازراہ اخلاص مغفرت کی دعا کرتے ہیں *۔ حل لغات :۔ نبوء الداروال ایمان ۔ جنہوں نے مدینہ کو اور عقیدہ اسلام کو اپنا مسکن قرار دیا ۔ غرض یہ ہے ۔ کہ مسلمان مقامی قید کو کوئی اہمیت نہیں دیتا ۔ اس کے نزدیک اس چیز عقیدہ کی حفاظت وصیالت ہے ۔ اور وہ زمین کے جس گوشے میں میسر ہو ۔ اس کا وطن ہے ۔ خصاصۃ ۔ فاقہ اور عشرت ۔ یعنی مسلمان ہمیشہ ہر حالت اپنے دوسرے بھائی کی ضروریات سے زیادہ لائق توجہ خیال کرتا ہے * غلا ۔ کینہ ۔ حسد *۔ الحشر
11 الحشر
12 یہ بزدل ہیں ف 1: اصل میں بنی نضیر کو منافقین نے بدعہد اور غدر پر اکسایا تھا ۔ انہوں نے ان کو یقین دلایا تھا ۔ کہ ہم ہر طرح آپ کے ساتھ ہیں ۔ آپ کو مسلمانوں کے مقابلہ میں صف آراء ہونے کے لئے کسی طرح کا تامل نہیں کرنا چاہیے ۔ ہم آپ لوگوں کی بہرحال اعانت کرینگے ۔ اگر آپ کو مدینہ سے نکل جانے پر مجبور کیا گیا ۔ تو ہم بھی نکل کھڑے ہونگے ۔ اور اس معاملہ میں ہم کسی کی بات نہیں سنیں گے ۔ اور اگر جنگ ہوجائے ۔ تو پھر ہم کو آپ بزدل نہیں پائیں گے ہم آپ کے ساتھ ہو کر لڑیں گے اور آپ دیکھیں گے ۔ کہ ہم کیونکر آپ کے ساتھ دیتے ہیں ۔ فرمایا یہ ان کی زبانی ہمدردی ہے ۔ اور محض خبث اور شرارت ہے ۔ ورنہ حقیقت یہ ہے ۔ کہ یہ عہد وپیمان کبھی شرمندہ عمل نہیں کرنے کا ۔ ان میں جب اتنی اخلاقی جرات نہیں ہے ۔ کہ کھلم کھلا کفر کا اظہار کریں ۔ تو یہ کیونکر گوارا کرینگے ۔ کہ یہودیوں کی جلاوطنی میں ان کا ساتھ دیں ۔ اور بیٹھے بٹھائے اپنے حال اور اپنی زمینوں سے جداکردیئے جائیں ۔ ان میں ایثار کی بالکل صلاحیت موجود نہیں ہے ۔ یہ بھی ناممکن ہے ۔ کہ جنگ کے وقت یہ لوگ میدان میں مسلح ہوکر آجائیں ۔ اور آمنے سامنے ہوکر لڑیں ۔ جانتے بزدل ہیں ۔ کہ اگر مقابلہ پر آنے کے لئے مجبور بھی ہوجائیں ۔ تو ایک دم دم دبا کر بھاگ کھڑے ہونگے ۔ اور پھر انکے لئے جان بچانا مشکل ہوجائے ۔ اس کے بعد ایک اصول کی بات بتلائی ۔ کہ ان لوگوں کا چونکہ اللہ پر ایمان نہیں ہے ۔ اور یہ عقیدہ کی برکت سے محروم ہیں ۔ اس لئے تمہارا وجود ان کے لئے بہت زیادہ مرغوب کن ہے ۔ یہاں تک کہ جس قدر تم سے خائف ہیں ۔ اللہ ہے بھی اس قدر خائف نہیں ہیں ۔ جب ان منافقوں اور یہودیوں میں وہ اصل چیز بھی موجود نہیں ۔ جس کی بنا پر دلوں میں استحکام اور ایثار کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔ اس نعمت سے ہی یہ لوگ محروم ہیں ۔ جن کی عزت وحرمت کے لئے سپاہی کٹ مرتے ہیں ۔ تو ان سے بہادری اور شہامت کی توقع رکھنا ایسا ہی ہے ۔ جیسے شعلہ افردہ سے تابش اور حرارت کی ۔ فرمایا چونکہ ان میں وہ باتیں نہیں ہیں ۔ جو مصیبت پیدا کرتی ہیں ۔ اور لوگوں کو کسی اخلاقی نقطہ پر مرکوز کردیتی ہیں ۔ اس لئے گو بظاہر یہ متحدہ نظر آتے ہیں ۔ مگر بباطن آپس میں سخت اختلاف اور دشمنی رکھتے ہیں *۔ یہ ناممکن ہے ۔ کہ یہ اپنی مختلف اغراض کے باوجود صرف عداوت حق جو ایک متفقہ جذبہ ہے ۔ اس پر اس طرح مجتن ہوجائیں ۔ جس طرح کہ مسلمان حقائق دینی میں ایک دوسرے سے وابستہ اور متعلق ہیں ۔ مسلمانوں کا اتحاد صرف سطحی جذبہ پر موقوف نہیں ہے ۔ بلکہ ایسی بلند پایہ اخلاقی اور روحانی بنیادوں پر اس کی عمارت اخوت قائم ہے کہ اس میں کبھی تزلزل پیدا نہیں ہوسکتا ۔ مسلمان توحید ، قرآن ، عشق رسول پر متحد ہے ۔ جو مشرق ومغرب میں یکساں اس کے لئے باعث فخر ومباہات ہیں ۔ مگر آہ یہ اسی وقت کی باتیں ہیں ۔ جب مسلمان میں دین کی محبت اور تڑپ تھی ۔ جب مسلمان صحیح معنوں میں احیاء ملت اور اعناء کلمۃ اللہ کی قدروقیمت کو سمجھتا تھا آج ساری قوتیں اسلام اور مسلمانوں کو کچلنے کے درپے ہیں ۔ اور مسلمانوں میں اختلاف آراء کا ایک طوفان بپا ہے ۔ آج یہ بات کو بظاہر وہ متحد ہیں ۔ اور حقیقت میں شدید ترین اختلافات میں مبتلا ہیں ۔ کفر کی علامت نہیں ہے بلکہ اسلام کی علامت ہے ۔ تعجب ہے ۔ کہ وہ قوم جس میں عناصر اتحاد اور تعاون لی اہلیت تمام قوموں سے زیادہ ہو ۔ وہ تو یوں آپس میں لڑیں اور وہ جن کے پاس کوئی ضابطہ نہیں ۔ وہ مرکز پر جمع ہوجائیں ۔ آخر اس کو سوائے شومئے قسمت اور بدبختی کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے ۔ الحشر
13 الحشر
14 الحشر
15 الحشر
16 ف 1: منافقین نے یہودیوں کو بہکا کر ذلیل ورسوا کیا ۔ اور آخر میں جب کہ وہ اپنی بستیاں چھوڑ رہے تھے ۔ اور اپنے مال ومتاع سے جدا کئے جارہے تھے ۔ ان سے کچھ بھی کام نہ آسکے ۔ حالانکہ نصرت واعانت کا پورا پورا معاہدہ تھا ۔ فرمایا ۔ ان لوگوں کی مثال شیطان کی طرح ہے ۔ کہ دنیا میں انسان کو گمراہ کرتا ہے ۔ کفر پر آمادہ کرتا ہے ۔ اور عاقبت کے باب میں طرح طرح کے فریبوں سے کام لیتا ہے ۔ مگر جب وہ مقررہ وقت آپہنچے گا ۔ یہ بالکل الگ جاکھڑا ہوگا ۔ اور کامل بیزاری کا اعلان کرے گا ۔ اس وقت ان فریب خوروگان معصیت کو معلوم ہوگا ۔ کہ ہم دنیا میں محض بیوقوف بنے رہے ۔ اور ہم نے اس زندگی کے متعلق جو کچھ سوچ رکھا تھا ۔ وہ قطعاً غلط ثابت ہورہا ہے *۔ حل لغات :۔ آج کے بعد جو زمانہ آتا ہے ۔ وہ کامل طور پر عذر کے مفہوم میں داخل ہے ۔ موت سے پہلے اور موت کے بعد کا بھی ۔ غرض یہ ہے کہ مسلمان مذہبی نقطہ نگاہ سے مجبور ہے ۔ کو اپنے ہر اس لمحہ کے لئے سوچتا رہے ۔ جو آگے والا ہے ۔ اور یہ غوروفکر صرف افراد تک ہی محدود نہیں ہے ۔ اور نہ اس کا تعلق محض تقویٰ اور پاکیزگی کے قرار دیئے جانے سے ہے ۔ بلکہ اس کی حدود جماعتوں تک وسیع ہے ۔ ہر ارتقاء وتقدم پر غوروفکر حاوی ہے ۔ زندہ قومیں اپنی سیاسیات اور عمرانیات کے متعلق ہر آن سوچتی رہتی ہیں ۔ اس لئے مسلمان کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے اعمال کا جائزہ لیتا رہے اور زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق ایک رائے متعین کرے *۔ اے نافرمان انکار کرلیں *۔ الحشر
17 دنیا کی جمال آرائیاں ف 1: غرض یہ ہے ۔ کہ اصل زندگی دنیائے دوں کی یہ عارضی اور ظاہری زندگی نہیں ہے ۔ بلکہ باوجود اس کی جازبیتوں اور جمال آرائیوں کے یہ تمہید ہے ۔ ایک دوسرے دور حیاتکی ۔ اور یہ مقدمہ ہے ۔ پیش آئند کتاب زندگی کا اس لئے تقویٰ اور دینداری کا تقاضا یہ ہے ۔ کہ سالک اس کو منزل نہ قرار دے لے ۔ اور اس کو اپنا نصب العین نہ قراردے لے ، بلکہ اپنے طرز عمل سے ثابت کرے ۔ کہ یہ کوچ کا مقام ہے ۔ اور جہاں جانا ہے ۔ وہ جگہ آگے ہے ۔ یہاں رہ کو آدمی یہ سوچے ۔ کہ اس مستقبل کے لئے اس عالم دائمی کے لئے ہم نے کیا کیا ہے ۔ کس قدر تیاری اور اہتمام سے کام لیا ہے ۔ مادراہ بھی موجود ہے ۔ یا نہیں ۔ پھر اس محبوب اذلی کے لئے کوئی چیزاز قبیل نذرانہ بھی ساتھ ہے یا نہیں ۔ یہ سب چیزیں ایسی ہیں ۔ جن پر یہاں غور کرنا لازم ہے ۔ جن کے متعلق یہاں سوچنا ضروری ہے ۔ کیونکہ موت کے ہم اس منزل میں قدم رکھتے ہیں ۔ جہاں سے پھر واپسی ناممکن ہوجاتی ہے ۔ اور اس کے بعد صرف وہ اعمال کام آتے ہیں جو ہم نے موت سے پہلے کئے ہوں ۔ اسی لئے قرآن فرماتا ہے ۔ کہ مسلمانو ! اپنے دلوں میں تقوی اور خشیت الٰہی کے جذبات ابھی سے پیدا کرو ۔ اور اس کی صورت یہ ہے ۔ کہ نظر احتساب ہمیشہ آئندہ پر رہے ۔ ہر دم اور ہر نفس یہ سوچتے رہو ۔ کہ کل کے لئے کتنی پونجی ہے ۔ خود فراموشی میں ان لوگوں کی مانند نہ ہوجاؤ۔ جنہوں نے زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کو بھلا دیا ۔ اور اس کی تعلیمات کو کمال غفلت سے پس پشت ڈال دیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے بھی ان پر سے اپنی رحمتوں اور عنایتوں کے دست فیض اثر کو اٹھالیا ۔ یاد رکھو ۔ یہ لوگ فاسق تھے ۔ ان کا تتبع نہ کرنا ۔ اور ان کی اطاعت وفرمانبرداری میں اس درجہ غفلت شعاری اختیار کرنا *۔ الحشر
18 الحشر
19 الحشر
20 الحشر
21 ف 1: پہاڑکی صلابت اور سخی مسلم ہے ۔ مگر قرآن کی اثر اندازی کا یہ عالم ہے ۔ کہ اگر کہیں یہ سن پاتے ۔ تو نالہ وشیون سے کلیجہ پھٹ جائے یہ تو انسانوں کی محرومی ہے ۔ کہ وہ اس عبرت آفرین کلام کو پڑھتے ہیں ۔ مگر بدستور گمراہی میں پھنسے رہتے ہیں ۔ ورنہ اس کے اثرونفوز میں بالکل شبہ نہیں ہے *۔ حل لغات :۔ لو انزلنا ۔ یعنی نزول کے لئے جن شرائط کا ہونا لازم ہے ۔ اگر وہ پہاڑ ایسی سخت اور بےحس چیز کے لئے بھی مہیا کردی جائیں ۔ تو تم دیکھتے کہ وہ قرآن کی ذمہ داری کو کیونکر خشوع اور خضوع کے ساتھ برداشت کرتا ہے *۔ الحشر
22 الحشر
23 الحشر
24 خدا کا اسلامی تصور ف 1: اسلام سے پہلے اللہ کے تخیل کو جسمانیت سے مجرد کرکے سمجھنا انسانی فہم کے لئے قریب قریب ناممکن تھا ۔ اس وقت آپ مسیح میں اس کی ذات کو منجلہ دیکھ سکتے تھے ۔ عزیر میں اس کی جلوہ گری تھی ۔ اصنام میں اس کا پرتو تھا ۔ نجوم وکواکب میں اس کا انعکاس تھا ۔ اشخاص وافراد کے قدس میں وہ ظہور پذیر تھا ۔ اس وقت اس ذات صمدیت کا تصور یہ تھا ۔ کہ اس کا کسی نہ کسی رنگ میں مخلوقات کے ساتھ آلودہ ہونا ضروری ہے ۔ کوئی مذہب ایسا نہ تھا ۔ جس نے تجرید اور توحید کے مسئلہ کو واضح کرکے بیان کیا ہو اور اس حسن مطلق کو تصیدات سے الگ کرکے دکھایا ہو ۔ قرآن حکیم پہلی اور آخری کتاب ہے ۔ جس نے اس گتھی کو سلجھایا ۔ اور بتایا کہ وہ خدا ایسا نہیں ہے ۔ جس کو کائنات میں آپ محدود محصور دیکھ سکیں ۔ وہ ان سب چیزوں سے علیحدہ بائن اور متمائز ہے ۔ قرآن نے باتای ۔ کہ وہ شہنشاہ اقلیم کون ہے ۔ کوئی ذات اس کے اختیارات میں مداخلت نہی کرسکتی ۔ وہ نقص وعیب سے سراسر پاک ہے ۔ باوجود عظمت وجلالت قدر کے وہ ہمہ سل امتی اور امن ہے اس پر ایمان لانے سے دلوں کو تسکین حاصل ہوتی ہے ۔ اور دنیا میں سکون پھیلتا ہے ۔ وہ امن وتماتیت بخشنے والا ہے ۔ سب کی حفاظت کرتا ہے ، سب کی جسمانی اور روحانی ضروریات کو پورا کرنے والا ہے ۔ غالب اور صاحب عزت واقتدار ہے ۔ ارادے کا زبردست ہے ۔ کوئی قوت اس کے فیصلے کو مسترد کردینے پر قادر نہیں ۔ دل اور جسم کے عوارض کو دور کرنے والا عظمت ورفعت کا مالک ہے ۔ شرک کی ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک ہے ۔ مخلوقات کو پردہ عدم سے نکالنے والا ہے ۔ مصور ہے ۔ کی الجملہ حسن وکمال کی کوئی بات ایسی نہیں ۔ جو اس میں نہ پائی جاتی ہو ۔ یوں سمجھ لو کہ تمام اوصاف حسن وجمال اور تمام وہ ارائیں ۔ جو کسی شخصیت کو مسجود بناسکتی ہیں ۔ وہ اس میں موجود ہیں ۔ آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اس کے حکموں کو مانتی ہے ۔ اور اس کی قدرت اور حکمت پر دال ہے ۔ یہ ہے وہ تصور اس خدا کا جس کو مسلمان مانتے ہیں ۔ آپ تمام مذہبی ذخیر کتب پڑھ جائیے ۔ آپ کو اس وضاحت اور یقین کے ساتھ الٰہیات اور صفات کے باب میں کہیں اس نوع کے حقائق نہیں چلیں گے *۔ الحشر
0 الممتحنة
1 سورہ الممتحنہ ف 1: اس سورۃ کی شان نزول یہ ہے ۔ کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ طے کیا ۔ کہ مکہ میں دس ہزار قدسیوں کے ساتھ داخل ہوں ۔ تو حاطب بن ابی بلقعہ جو ایک صحابی تھے انہوں نے ازراہ بشریت ایک مکتوب مکہ والوں کو لکھا ۔ اور مسلمانوں کے عزائم سے ان کو قبل ازوقت آگاہ کردینے کی نیت سے اس کو ایک عورت کے ہاتھ بھجوادیا ان کی غرض محض یہ تھی کہ اس طرح مکے والے میرے ممنون ہوں اور لڑائی کے وقت میرے اہل وعیال سے جو مکہ میں تھے ۔ تعرض نہیں کرینگے ۔ یہ یہ ایک نوع کی کمزوری تھی ۔ حاطب سادگی کی وجہ سے اس کے خطرناک نتائج پر متنبیہ نہیں ہوسکے ۔ ان کا خیال تھا ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں ۔ اس لئے شکست کی تو کوئی وجہ نہیں ۔ البتہ میری اس حرکت سے اتنا ہوگا ۔ کہ میرے بچے محفوظ رہیں گے ۔ اور ان کو کوئی گزند نہیں پہنچے گا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کے ذریعے اس بات کا علم ہوگیا ۔ اور یہ سازش ناکام رہی ۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور بتایا گیا کے منکرین کے ساتھ اس قسم کے دوستانہ تعلقات کس درجہ مضر اور موزوں ہیں *۔ حل لغات :۔ الجبار ۔ یعنی جبر کرنے والا ضرورتوں اور حاجتوں کو پورا کرنے والا ، خرابی کا درست کردینے والا *۔ متبعین ۔ صاحب خلو ورفعت بڑی عظمت والا * اولیاء ۔ جمع ۔ ولی ۔ دوست *۔ دشمنوں سے تعلقات نہ رکھو اس سورت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا ہے ۔ کہ تمہارے دوستانہ تعلقات ایسے لوگوں سے قطعاً استوار نہیں ہوسکتے جو میرے اور تمہارے یکساں دشمن ہیں ۔ جو تمہارے وجود کو اور تمہاری زندگی کو کسی عنوان بھی گوارا نہیں کرتے ۔ یہ محض تمہاری سادگی ہے ۔ کہ تم ان کی طرف محبت کا ہاتھ بڑاتے ہو ۔ اور خلوص اور داد کی دعوت دیتے ہو ۔ ان کی ادا یہ ہے کہ وہ تمہارے مذب کا مضحکہ اڑاتے ہیں اور تمہیں قطعان حق پر نہیں سمجھتے تم نے دیکھ لیا کہ انہوں نے تمہارے پیغمبر کو مکہ سے نکال دیا ۔ محض اس عمل کو پاداش میں کہ تم ان کے بتوں کے سامنے نہیں جھکتے ہو ۔ اور اللہ کو مانتے ہو ۔ جو تمہارا پروردگارہے ۔ یہ کس قدر ناموزوں بات ہے ۔ کہ جن لوگوں کی عداوت اور دشمنی نے تمہیں ہجرت پر مجبور کیا ۔ جن کے خلاف تم جہاد کے لئے تیاری کررہے ہو ۔ انہیں سے ساز باز کیا جائے ۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو ۔ کہ ہم ان معاملات کو نہیں مانتے ۔ اور ہماری آنکھوں سے یہ واقعات چھپے رہیں گے ؟ ۔ واضح رہے کہ یہ محض غلط فہمی ہے ۔ ہم کو تمہاری ایک ایک حرکت معلوم ہے ۔ چاہے وہ پوشیدہ ہو یا علانیہ یہ اتنا بڑا جرم ہے ۔ کہ اس کو کھلم کھلا گمراہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ تم لوگ تو انہیں اپنے اسرار سے مطلع کرتے ہو ۔ محض اس لئے کہ تم کو تقرب حاصل ہو ۔ مگر وہ تمہارے اس درجہ دشمن اور مخالف ہیں ۔ کہ اگر تم ایمان کی نعمت سے یک قلم محروم ہوجاؤ۔ اور پھر کفر کی طرف پلٹ جاؤ۔ اہل وعیال کی محبت میں مکہ والوں کو مدد دینا مسلمانوں کے مفاد کی کس درجہ پامالی ہے ۔ جانتے ہو ۔ قیامت کے دن تمہاری اولاد اور رشتہ دار تمہیں کوئی نفع نہیں پہنچا سکیں گے ۔ اس وقت جس رشتہ کی حاجت ہوگی اور جو محبت کام آئے گی ۔ وہ رشتہ وہ ہوگا ۔ جو مسلمان کا مسلمان کے ساتھ ہے ۔ اور وہ محبت وہ ہوگی ۔ جو مسلمان کی مسلمان کے ساتھ ہے ۔ یہ مادی رشتے اور یہ خون کے لائق ۔ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نہیں بچا سکیں گے *۔ حل لغات :۔ سواء السبیل ۔ راہ راست * ینفقوکم ۔ ثقف سے ہے ۔ بمعنی قابو پانا * یفصل ۔ جدائی ڈال دے گا ۔ فیصلہ کرے گا *۔ الممتحنة
2 الممتحنة
3 الممتحنة
4 ف 1: فرمایا کہ حضرت ابراہیم اور ان کے فرمانبرداروں میں تمہارے لئے لائق اقتدار اسوہ ہے ۔ غور کرو ۔ کہ جب وہ مبعوث ہوئے ہیں ۔ ان کے گرد وپیش کی فضا کیسی تھی ؟ کس درجہ شرک کا دور دورہ تھا ۔ پوری قوم بت پرست تھی اور حکومت ان کی پشت پر ۔ مگر انہوں نے پوری جرات کے ساتھ کہہ دیا کہ میں تمہارے ان عقا ئد سے کاملا بیزار ہوں ۔ اور اعلان توحید کے بعد اب میں تمہارا کھلا دشمن ہوں ۔ مجھ سے کسی رعایت کی توقع نہ رکھنا ۔ چنانچہ حضرت ابراہیم کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے ۔ کہ انہوں نے کبھی باطل کے سامنے اور قوت کے مقابلہ میں اپنا سر نہیں جھکایا ۔ اور کبھی مخالفت اور عناد کی پرواہ نہیں کی * الا قول ابراھیم سے غرض یہ ہے ۔ کہ تم اپنی کمزوری کے لئے اس مغفرت کی سفارش کو اپنے لئے سند نہ قرار دو ۔ کیونکہ یہ محض وعدہ کی تکمیل تھی ۔ اور اس جذبہ کا اظہار تھا ۔ کہ حضرت ابراہیم اپنی طرح اپنے باپ کو بھی مسلمان دیکھنا چاہتے تھے *۔ حل لغات :۔ براء ۔ بےزار * اللہ کی محبت میں غلو ف 1: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے عقیدتمندوں میں جو بات متبع اور اقتدارکے لائق تھی ۔ وہ یہ تھی ۔ کہ یہ لوگ صرف اللہ سے محبت رکھتے تھے ۔ اور اس محبت کے باب میں اتنا غلو تھا ۔ کہ وہ عقل وخرد کے ظاہری اقتفا کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے ۔ جب ضرورت محسوس کرتے تھے ۔ کہ اب محبوب حقیقی کو خوش کرنے کے لئے اپنے لخت جگر کے حلقوم پر چھری پھیر دینا ضروری ہے ۔ تو ان کو قطعاً تامل نہ ہوتا ۔ دل میں جذبات پوری اس درجہ ہیجان میں آئے ۔ کہ عشق الٰہی پر غالب آسکیں ۔ اور نہ ارادہ وعزم میں کوئی تزلزل پیدا ہوتا ۔ ہاتھ بڑھتے اور اپنے بیٹے اور عسائے پیری کے گلے پر خنجر چلا دیتے ۔ یہ وہ جذبہ اطاعت ہے ۔ جو خدا مسلمانوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ کہ جب یہ معلوم ہوجائے ۔ کہ منشائے الٰہی کیا ہے ۔ تو پھر سوچنا گناہ ہے ۔ اس وقت ضروری ہوتا ہے ۔ کہ منشاء کی تکمیل کے سلسلہ میں اگر عزیز ترین تعلقات کو بھی چھوڑنا پڑے ۔ تو چھوڑ دیئے جائیں ۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا ۔ کہ اگر تم میں یہ جذبہ نہیں پیدا ہوتا ہے ۔ تو یاد رکھو ۔ اللہ کو اس بات کی بالکل ضرورت نہیں ۔ وہ بےنیاز ہے ۔ اور لائق صدہزار حمدوستائیش ہے ۔ یہ ایثار وقربانی خود تمہاری تعمیر کے لئے ازبس لازمی ولابدی ہے اگر اس کو اختیار کرتے ہو ۔ تو تمہاری زندگی جاوید سراسر کامیاب ہے ۔ اور اگر نہیں اختیار کرتے ہو ۔ تو پھر اللہ کا تم کچھ نہیں بگاڑ سکتے *۔ الممتحنة
5 الممتحنة
6 الممتحنة
7 ف 2: جب یہ آیتیں نازل ہوئیں ۔ تو مسلمانوں کی گردنیں اطاعت اور فرمانبرداری میں جھک گئیں ۔ اور انہوں نے اللہ کے سوا تمام لائق دنیا کو جو اس کی راہ میں حائل ہوسکتے تھے ۔ چھوڑ دیا ۔ اور اس سختی کے ساتھ اپنے غیر مسلم عزیزوں سے قطع تعلق کیا ۔ کہ اس میں کچھ قساوت کی آمیزش ہوگئی ۔ اور خطرہ پیدا ہوگیا ۔ کہ کہیں یہ نبض وعناد اس عزیزوں کو اسلام سے دور نہ کردے ۔ اس لئے سمجھادیا ۔ کہ قطع تعلق کے یہ معنی نہیں ہیں ۔ کہ تم ان کو ہمیشہ کے لئے کفر کی آغوش میں دے دو ۔ بلکہ تعلقات کی نوعیت سی ہو ۔ کہ وہ تمہارے جذبہ دینی کی تو قدر کریں ۔ مگر اس کے ساتھ وہ تم سے متنفرنہ ہوجائیں ۔ کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں ۔ جو عنقریب اسلام کو قبول کرنے والے ہیں ۔ اور تمارے موجودہ خیالات ان کے متعلق بدلنے والے ہیں ۔ اس لئے کھڑے تنفر میں انتی لچک برقرار رکھو ۔ کہ پھر ان کی گرم جوشی کے ساتھ اپنی برادری میں داخل کرسکو *۔ حل لغات :۔ اسوہ حسنۃ ۔ اچھا اور لائق عملی نمونہ * مودۃ ۔ دوستی *۔ الممتحنة
8 بے ضرر غیر مسلموں سے تعلقات مودت ف 1: اس آیت میں بہت بڑی غلط فہمی کو دور کردیا ہے ۔ جو ان گزشتہ آیات کو سن کر اس شخص کے دل میں پیدا ہوسکتی ہے ۔ جو نظام اسلامی کی باریکیوں کو سمجھنے کی قدرت نہیں رکھتا ۔ وہ یہ کہہ سکتا تھا ۔ کہ اسلام مسلمانوں کو عام معاشری تعلقات تودہ سے روکتا ہے ۔ اور اس انسانی ہمدردی کو جو فطری طور پر انسانوں میں اپنے بنی نوع کے لئے موجود ہے ۔ کچل دینا چاہتا ہے ۔ اور یہ کہ اس مذہب میں دنیا کے مدنی مذہب ہونے کی صلاحیت نہیں ۔ کیونکہ یہ غیر مسلموں سے ہمدردانہ اور آئینی تعلقات کو برقرار رکھنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ فرمایا ۔ یہ غلط ہے ۔ وہ لوگ جو تم سے دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں ۔ جن سے تمہارا عہد ہے ۔ جو نہ تم سے لڑتے ہیں ۔ اور نہ تم کو ان کے ساتھ انصاف اور احسان سے پیش آؤ دوستی ان لوگوں کے ساتھ ممنوع ہے ۔ جوجو دشمن ہیں ۔ اور کسی طرح بھی تمہارا زندہ رہنا انہیں گوارا نہیں *۔ حل لغات :۔ تذرھم ۔ عمدہ سلوک کرو * ظاھروا ۔ مدد کی ۔ اعانت کی *۔ الممتحنة
9 الممتحنة
10 عورتوں کے متعلق چند ضروری احکام ف 1: ایک مغنیہ عورت سارہ کی وجہ سے چوکہ حاطب بن ابی طبقہ والی سازش بروئے کار آئی تھی ۔ اور خطرہ تھا ۔ کہ اسی طرح دوسری عورتیں داد الاسلام میں آکر کہیں جاسوسی کے فرائض انجام نہ دیں ۔ اس لئے یہ آیات نازل ہوئیں ۔ کہ جب بظاہر مومن عورتیں مدینہ ہجرت کرکے آئیں ۔ تو انہیں خوب اچھی طرح جانچ لینا چاہیے ۔ کہ ان کی آمد کا مقصد کیا ہے ۔ کیا وہ اپنے خاوند سے روٹھ کر آئی ہیں یا مدینہ کی زیارت کا شوق انکو کھینچ لایا ہے ۔ یا کوئی اور جذبہ ہے ۔ جن سے ان کو یہاں آنے پر مجبور کردیا گیا ہے ۔ جب تک یہ صاف طور پر حلفیہ نہ کہہ دیں ۔ کہ ہم محض اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں یہاں آئی ہیں ۔ اور ہمارا مقصد ہجرت سے محض دین کی حفاظت وحباتت ہے ۔ اس وقت تک ان کو یہاں قیام کی اجازت نہ دیجائے ۔ فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کی حقیقت سے خوب آگاہ ہے ۔ اس لئے یہ اس کو دھوکہ دینے کی کوشش نہ کریں ۔ اس کے بعد فرمایا ۔ کہ اگر ثابت ہوجائے کہ یہ عورتیں مسلمان ہیں ۔ تو پھر صلح حدیبیہ کے عہد کی وجہ سے ان کو واپس دارلکفر میں بھیج دو ۔ کہ یہ اس معاہدہ سے اصولاً مستثنیٰ ہیں ۔ وہ معاہدہ صرف مردوں کے لئے ہے ۔ جو اپنے عقیدہ کی پوری طرح حفاظت کرسکتے ہیں ۔ اور جن میں مصائب کے وقت ثابت قدم رہنے کی صلاحیت ہے ۔ یہ طبقہ جو زادہ عزم کے لحاظ سے بالکل کمزور ہے ۔ اس قابل نہیں ہے کہ بالکل کفر میں گھر جائے ۔ اور پھر اپنے ایمان کو بچا لیا جائے الا ماشاء اللہ اس لئے قانون یہ ہے ۔ کہ عورتوں کو دارالکفر میں نہ بھیجا جائے اور منکرین کو موقع نہ دیا جائے ۔ کہ وہ ان کو آزمائش میں مبتلا کردیں ۔ یہ عورتیں کافروں کے نکل میں نہیں رہ سکتیں اور نہ کافر اس کے مجاز ہیں ۔ کہ ان سے شادی کریں ۔ کفار سے معاہدہ کی صورت میں وہ عورتیں جو دارالکفر سے ہجرت کرکے دارالاسلام میں آجائیں اور مسلمان مردوں سے نکاح کرنا چاہیں ۔ ضروری ہے کہ ان کے مہر کفار کو ادا کردیئے جائیں ۔ تاکہ قانون عدہ کا احترام باقی رہے ۔ اور یہ بہرحال ضروری ہے ۔ کہ مسلمان مردوں کا مشرک عورتوں کے ساتھ کوئی جنسی رشتہ باقی نہ رہے ۔ کیونکہ نکاح کا تعلق صرف جذبات جنسکے ماتحت نہیں ہے ۔ بلکہ یہ ایک ایسا پاک معاہدہ ہے ۔ کہ ساری زندگی کا اس دارومدار ہے ۔ نکاح کے معنے یہ ہیں ۔ کہ میاں بیوی میں خیال وفکر سے لے کر عمل وجوارح تک پوری ہم آہنگی ہو ۔ اور اس صورت میں جب کہ ان میں ایک مشرک ہو ۔ یہ ہم آہنگی ختم ہوجاتی ہے ۔ اور اس کا اثر نہ صرف ازدواجی زندگی پر پڑتا ہے ۔ بلکہ اولاد جو پیدا ہوتی ہے ۔ ان کا عقیدہ اور ایمان مستحکم نہیں ہوتا ۔ کیونکہ یہ تو ممکن ہے ۔ کہ میاں بیوی اس منافقت کو کسی نہ کسی صورت میں نباہ لے جائیں ۔ مگر ایسے میاں بیوی مضبوط کیرکٹر کی اولاد پیدا نہیں کرسکتے ۔ یہ نہیں ہوسکتا ۔ کہ ان کی آغوش میں ملی ہوئی اولاد ایمان کی نمت سے بہرہ ور ہو ۔ اس لئے یہ رشتہ اسلامی نقطہ نگاہ سے ناجائز ہے ۔ ہاں جب تم ان کو چھوڑنے لگو ۔ تو حسب ومستور منکرین سے جن کے نکاح میں وہ عورتیں جانے لگیں ۔ تم اپنا خرچہ مانگ لو *۔ حل لغات :۔ فامتحینوھن ۔ ان کی جانچ کرلو ۔ تو سم ان کا امتحان کرلیا کرو * اجورھن ۔ مہر * بعصم الکوافر عصمۃ ۔ یعنی عقد عصمت کو برقرار نہ رکھو *۔ الممتحنة
11 ف 1: یہ حکم اس صورت میں ہے جبکہ کسی مسلمان مرد کی بوی مرتد ہوکر دارلکفر میں چی جائے یا فرار ہوجائے ۔ اور تو وہ کافر جو اس کو اپنے عقد میں لے مسلمان کو اس کا خرچہ نہ دے ۔ ایسی حالت میں جو کافر عورت دارالاسلام میں آئیگی ۔ اور مسلمان سے نکاح کرلے گی ۔ اس کا خرچہ اس کافر کو نہیں دیاجائیگا ۔ جو اس کا دارالکفر میں خاوند تھا ۔ بلکہ اس مسلمان کو دیا جائیگا ۔ جو اپنا خرچہ کفار سے نہیں وصول کرسکا *۔ الممتحنة
12 بیعت سے متعلقہ غلط فہمیاں ف 1: بہت کا استقاق بیع سے ہے ۔ جس کے معنے یہ ہیں ۔ کہ مرید شیخ کے ہاتھوں بک جاتا ہے ۔ اور اس کو پھر اختیار حاصل نہیں رہتا ۔ کہ وہ اس کے احکام کو سن کرتال اور جھجھک کا اظہار کرے ۔ اس کا فرض ہے کہ وہ ہمہ اطاعت وانقیادین ہوئے ۔ اور پندولیل وحجت سبل کے لئے ارشاد کے لئے آمادہ ہوجائے ۔ مگر یہاں چند غلط فہمیاں ہیں ۔ جس کا دور ہونا ضروری ہے ۔ یہ خیال کہ شیخ معصوم ہے ۔ اور بقول حافظ کے ع رنگین کن گرت پیر مغاں گوید غیر مشروط اطاعت کا مستحق ہے ۔ حالانکہ اسلامی نگاہ سے ایسی بیعت ناجائز ہے ۔ لاطعۃ المخلوق فی مصحیۃ الحق حدیث ہے ۔ جس کے معنی یہ ہیں ۔ کہ کوئی شخص اس قابل نہیں ہے ۔ کہ اس بلاشرط اطاعت کی جائے پیغمبر کے بعد ہر آدمی باوجود ولایت اور رہد کے ہر آن لغزش وسہو کا شکار ہوسکتا ہے ۔ اس لئے بیعت کے معنی یہ قرار پائے ۔ کہ وہ اطاعت جو شریعت کے مطابق ہو ۔ اور اس صورت میں پھر اس کی مخالفت محض ہوائے نفس کے تقاضے سے درست نہیں ہے ۔ مرید کا فرض ہے ۔ کہ جب اس کو یقین ہوجائے کہ شیخ کا حکم منشاء الٰہی کے عین مطابق ہے ۔ تو پھر اطاعت میں سرگرمی کے ساتھ مصروف ہوجائے ۔ اور اس کے انجام اور وجوہ واسباب پر غور نہ کرے ۔ دوسری غلط فہمی یہ ہے ۔ کہ بیعت کے لئے ایک پیشہ ور گروہ کو متعین کرلیا گیا ہے ۔ اور سمجھ لیا گیا ہے ۔ کہ علم وعمل سے یہ عاری طبقہ محض اس لئے عقیدت ونیاز مندی کا استحقاق رکھتا ہے ۔ کہ آباؤ اجداد سے ان کا پیشہ مرید کرنا ہے ۔ حالانکہ شیخ کے انتخاب کے لئے یہ قطعاً ضروری نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ کوئی پیشہ یا فن نہیں ہے ۔ بلکہ ہر وہ مرد مسلمان جو علم وعمل کے زیور سے آراستہ ہے ۔ اس قابل ہے کہ آپ اس سے محبت رکھیں ۔ اور اس کے سامنے اپنی روحانی کمزوریاں بیان کریں ۔ اور پھر اس سے مداوا چاہیں ۔ تیسرا مغالطہ یہ ہے کہ شیخ کو روحانی خاوند سمجھ لیا جاتا ہے ۔ اور ایک شیخ کا مرید دوسرے صلحاء کے ساتھ اپنے دل میں بغض وعناد رکھتا ہے ۔ اور یہ سمجھتا ہے ۔ کہ اب یہ بیعت کا سلسلہ منقطع نہیں ہوسکتا ۔ اور ایک کے رابطہ عقیدت کو گلے میں ڈال لینے کے معنے یہ ہیں ۔ کہ اب کسی دوسرے کی روحانیت سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا چاہے وہ رتبہ میں اس سے بڑا کیوں نہ ہو *۔ یہ اسلامی بیعت نہیں ہے ۔ اسلامی زاویہ نگاہ سے متعدد وشیوخ سے فیوض عمل کا استفادہ ہوسکتا ہے ۔ اور ایک مرید بیک وقت مختلف صلواء سے عقیدت رکھ سکتا ہے ۔ چوتھا مغالطہ یہ ہے کہ بیعت کی غرض وغایت یہ نہیں سمجھی جاتی ۔ کہ تزکیہ قلب ہو ۔ اور اعمال صالحہ سے محبت اور ذوق پیدا ہو ۔ بلکہ بیعت اس لئے کی باقی ہے ۔ تاکہ شیخ سے کشائش رزق کے کچھ وظیفے معلوم ہوجائیں ۔ یا دست غیب پر اختیار حاصل ہوجائے ۔ اور پاحب ومغض کے تعویذ حاصل کرنے میں سہولت رہے ۔ حالانکہ بیعت کے معنی یہ تھے ۔ کہاں ایک صالح آدمی ایک صالح تر آدمی کے سامنے عہد کرتا ہے ۔ کہ وہ اس کی نیک باتوں کی اقتداء کرے گا ۔ اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے گا ۔ کہ کیونکر زندگی کو خوش گوار اور کامیاب بنایا جاسکتا ہے ۔ آج بیعت کا نام ہے ۔ جہالت کا جمود وتمسفل کا ۔ اندھی تقلید اور اقتداء کا ۔ اور غیر مشروع طریقوں کو رواج دینے کا ۔ دوران حالیکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو بیعت لی تھی ۔ وہ زندگی کی بیعت تھی ۔ جہاد اور ایثار نفس کی بیعت تھی ۔ اسی طرح ان آیتوں میں جس بعیت کا ذکر ہے ۔ وہ قطعاً ایک اخلاقی معاہدہ ہے ۔ مکارم وفضائل کا اکتساب ہے ۔ اور پاکبازی اور پاک خیالی کا اقرار ہے ۔ اس بیعت میں ان باتوں کا کہیں مذکور نہیں ۔ جن کو ہم اپنی جہالت کی وجہ سے لازمہ بیعت سمجھتے ہیں ۔ اور جن کا ترک ہم کو دائرہ اسلام سے خارج کردیتا ہے *۔ حل لغات :۔ فما قبتم ۔ عقبیٰ سے ہے ۔ یعنی انجام کار تم کو بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے *۔ حل لغات :۔ من اصحاب القبور ۔ میں من بیانیہ ہے ۔ جس طرح کفار قبروں میں اپنے اعمال کی وجہ سے آخرت کے ثواب واجر سے مایوس ہیں ۔ اسی طرح یہ لوگ جن پر اللہ کا غضب ہے ۔ آخرت کو تسلیم نہیں کرتے ۔ اور اس کی طرف سے مایوسی کا اظہار کرتے ہیں *۔ لم تغرفون ۔ قول سے یہاں مراد دعا ہے ۔ مطلق تلقین غیر یا وعظ ونصیحت نہیں جیسا کہ عوام سمجھتے ہیں *۔ الممتحنة
13 الممتحنة
0 الصف
1 الصف
2 الصف
3 الصف
4 الصف
5 بنی اسرائیل اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان آیات میں انبیاء کے حالات کو بیان کیا ہے ۔ تاکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہو ۔ کہ امم سابقہ نے کیونکر حق وانصاف کی مخالفت کی ۔ اور کس طرح اپنے انبیاء کو بوقلمون اذیتوں سے شکستہ خاطر کیا ہے ۔ فرمایا ۔ کہ جب حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کے پاس تشریف لائے اور انہوں نے کہا کہ میں اللہ کا پیغمبر ہوں ۔ اور تمہاری اصلاح کے لئے مبعوث ہوا ہوں ۔ تو انہوں نے کیا کہا ؟ کیا فوراً تسلیم کرلیا ؟ نہیں بلکہ مطالبہ کیا ۔ کہ ارنا اللہ جھرۃ پہلے جس خدا کی توحید کی طرف تم ہم کو دعوت دیتے ہو ۔ اس کو کھلم کھلا دکھاؤ۔ جب مانیں گے ۔ پھر گو سالہ کی پرستش شروع کردی ۔ اور خدا کی توحید کا عملاً انکار کیا ۔ جہاد کے لئے حضرت موسیٰ نے ابھارا ۔ تو کہنے لگے ۔ کہ فاء ھب انت وربک کہ آپ اور آپ کا رب اس مہم کو سر کرنے کے لئے جائیں ۔ ہم میں تو سکت نہیں ہے ۔ ہم تو یہیں جمے بیٹھے رہیں گے ۔ اس کے علاوہ اور کئی الزام اور تہمتیں تراشیں جس سے اللہ کے پیغمبر کو پہنچا ۔ اس پر انہوں نے ازراہ تاسف فرمایا ۔ کہ کم بختو ! جانتے بوجھتے ہو ۔ کہ میں خدا کا رسول ہوں ۔ مگر پھر ایذا دہی سے باز نہیں آتے ہو ۔ فرمایا ۔ یہ بدکرداروں کی قوم تھی ۔ اس لئے ان کو اللہ کی طرف سے توفیق ہدایت عطا نہیں ہوئی *۔ حل لغات :۔ مرصوص ۔ سیسہ ، پلائی ہوئی ۔ رصاص سے مشقق ہے ۔ جن کے معنے سیسہ کے ہیں *۔ میرے بعد اللہ کا رسول (علیہ السلام) آئے گا الصف
6 ف 1: حضرت مسیح نے یہودیوں کو ہرچند یقین دلایا ۔ کہ میں تورات کی تصدیق کے لئے آیا ہوں ۔ نئی شریعت کا موجد نہیں ہوں ۔ مگر انہوں نے انکار کیا ۔ اور ہمیشہ یہی کہا ۔ کہ ہم تم کو پیغمبر ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ پھر انہوں نے اس صداقت کبریٰ کا بھی اعلان کیا کہ میرے سعید زمانہ کے بعد تمہارے پاس اللہ کا رسول آئے گا ۔ جس کا نام احمد ہوگا ۔ جو اللہ کی حمد کے ترانے دنیا کے کانوں تک پہنچائے گا ۔ مگر خود اس کے ماننے والوں نے جب کہ وہ احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نامی ذات مبعوث ہوئی ۔ تو باوصف دلائل پیش کئے جانیکے ماننے سے انکار کیا ۔ اور صاف صاف کہہ دیا کہ ہم بنی اسمٰعیل میں اس شرف وبزرگی کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں *۔ یہ واضح رہے کہ تورات وانجیل میں متعدد مقامات پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کی پیشگوئی موجود ہے ۔ یہاں جس خبر کا ذکر ہے ۔ وہ بالفاظ پر بنا ۔ متی کی انجیل میں مذکور ہے ۔ اسمیں صاف لکھا ہے ۔ کہ میرے بعد اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے گا ۔ جن کا نام احمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوگا ۔ موجودہ انجیلوں میں بھی فارتلیط کا لفظ آیا ہے ۔ جس کے معنے تسلی دینے والے کے ہیں ۔ حضرت مسیح نے واضح لفظوں میں فرمایا ہے کہ میں تم میں سے سب باتیں اس وقت نہیں کہہ سکتا کیونکہ تم میں ان کے لئے قوت برداشت نہیں ہے ۔ البتہ میرے بعد ایک شخص آنے والا ہے ۔ جو تم کو وہ اسرار بتائیگا *۔ الصف
7 ف 2: فرمایا ۔ کہ یہ لوگ جو اللہ کی طرف غلط عقائد منسوب کرتے ہیں ۔ ان سے بڑھ کر اور کون ظالم ہوسکتا ہے ۔ یہ اس قابل نہیں ہیں ۔ کہ ہدایت سے بہرہ مند ہوسکیں *۔ الصف
8 ف 3: فرمایا کہ اسلام تو اللہ کی طرف سے نور اور روشنی ہے ۔ جس سے نوع انسانی ہمیشہ کسب ضیا کرتی رہے گی ۔ مگر منکرین یہ چاہتے ہیں ۔ کہ اس چراغ ہدایت اور فانوس صداقت کو پھونکوں سے بجھادیں ۔ اور اپنی حقیر وناپاک مساعی سے اس ارتقاء کو روک دیں *۔ باقی صفحہ حالانکہ مقدرات الٰہیہ سے ہے ۔ کہ اس بلال کو بدر کامل بنایا جائے ۔ اور اس روشنی کو چار ونگ عالم میں پھیلایا جائے ۔ یہ پیغمبر جن کو ہدیات اور دین حق دے کر بھیجا ہے ۔ ان کے لئے یہ ملے ہوچکا ہے ۔ کہ ان کا دین تمام ادیان پر غالب آئے گا ۔ اور ساری کائنات اس کو قبول کریگی ۔ چاہے شرک اس بھون چڑھائیں اور اس حقیقت کو قبول کرنے کے لئے آمادہ نہ ہوں *۔ حل لغات :۔ اسمہ ۔ سے نام بھی مراد ہے اور ہوسکتا ہے اس سے مراد صفت ہو * لیطفعوا ۔ اطفاء سے ہے بمعنی بجھا دینا *۔ الصف
9 الصف
10 بہترین تجارت ف 1: اس آیت میں ایک ایسی تجارت کی جانب رانمائی فرمائی ہے ۔ جس کی وجہ سے انسان عذاب الیم سے بچ جاتا ہے ۔ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ۔ جنات ونعیم کی نعمتیں میسر ہوجاتی ہیں ۔ اور دنیا میں سربلندی ، نصرت فتح اور کامرانی حاصل ہوتی ہے ۔ یعنی دنیا وعقبیٰ کے لحاظ سے اس میں گھاٹے اور خسارے کا احتمال ہی نہیں ۔ دنیا میں اس تجارت کی وجہ سے رفعت وارتقاء اور عزت وغلبہ عنایت ہوتا ہے ۔ اور آخرت میں فوزوفلاح اور رضا وخوشنودی اور پھر اس اعمال اسا نہیں ۔ کہ اپنے پاس سے دینا پڑے بلکہ سرمایہ بھی اس کا ہے ۔ جس سے سودا ہورہا ہے ۔ یہ محض اس کا فضل اور گرم گستری ہے ۔ کہ وہ اس سرمایہ کو قبول فرمالیتا ہے ۔ جو واقعہ میں اسی کا بخشا ہوا ہے ۔ اور پھر اس کے معاوضہ میں بہترین نفع بھی دیتا ہے ۔ سو چو اور غور کرو ۔ اس سے بہتر کیا کاروبار ہوسکتا ہے ۔ کہ جس میں کونین کے فوائد مضمر ہوں اور اپنے پاس سے ایک پھوٹی کوڑی بھی خرچ نہ کرنا پڑے * یہ تجارت نہایت آسان ہے ۔ اس میں شرط یہ ہے کہ اول ایمان واخلاص ہو ۔ اور اس کے بعد جان اور مال کی قربانی اور یہ جان اور مال کس کا ہے ۔ کیا اسی نے تمہیں دولت نہیں بخشی ہے ؟ جو مانگ رہا ہے ۔ اور یہ زندگی اسی کی مہربانی کا نتیجہ نہیں جو طلب کررہا ہے ؎ جان بھی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا قرآن حکیم کا ارشاد ہے ۔ کہ اگر تم اس تجارت کے فوائد کو سمجھ جاؤ۔ تو تمہیں معلوم ہوجائے ۔ کہ یہ تمہارے حق میں کس درجہ بہتر اور مفید ہے ۔ اور اس کی وجہ سے تم کو کتنا روحانی اور مادی فائدہ پہنچتا ہے ۔ قرون اولیٰ میں جب تک مسلمان یہ تجارت کرتے رہے ۔ اور انہوں نے اپنی جان اور مال کو مال نہیں سمجھا ۔ ان کا ہر قدم آگے بڑھتا رہا ۔ اور جان اور مال کی تمام آسائشیں ان کو میسر ہیں ۔ مگر جب یہ لوگ بزدل ہوگئے ۔ جان ان کو بہت زیادہ عزیز اور پیاری معلوم ہونے لگی ۔ مال کو یہ اپنی زندگی کا نصب العین قرار دینے لگے ۔ اور اس کی محبت پرستش کی حد تک پہنچ گئی ۔ اس وقت سے ہر دوقسم کی آسودگیوں کو ان سے چھین لیا گیا ۔ اب کیفیت یہ ہے کہ نہ جان ان کے قبضہ میں ہے اور نہ مال ۔ دونوں پر اغیار کا قبضہ ہے ۔ وہ جب چاہیں ان سے یہ دونوں چیزیں چھین لیں اور یہ احتیاج کرنے پر بھی قادر نہ ہوں *۔ حل لغات :۔ جنت عدن ۔ دائمی ۔ باغ ۔ ہمیشہ رہنے کے باغ * الحواریون ۔ حواری کی ۔ بمعنی مددگار ۔ اور اس کے معنے سفید پوست اور دھوبی کے ہیں *۔ الصف
11 الصف
12 الصف
13 الصف
14 ف 1: اس آیت میں مسلمانوں کو اسلام کی نصرت کے لئے ابھارا اور آمادہ کیا ۔ ارشاد فرمایا ہے ۔ کہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اللہ کے دین کی اشاعت کے لئے اور اس کے اعزاز وتفوق کے لئے کمر بستہ ہوجاؤ۔ اور اسی گرم جوشی اور استقلال کے ساتھ اسلام کی پکار کا استقبال کرو ۔ جس طرح حضرت مسیح کے حواریوں نے کہا تھا کہ نحن انصار اللہ * حالانکہ مخالفین کی تعداد زیادہ تھی ۔ اور ہر طرح طاقتور تھے ۔ مگر تم نے دیکھا کہ یہ مومنوں کا گروہ بالآخر غالب آیا ۔ اور منکرین عیسائی ہوگئے یا مسیحی اقتدار رکے سامنے ان کی گرنیں جھک گئیں *۔ اس تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ اناجیل میں حضرت مسیح کی بےقدری اور تذلیل کا جو افسانہ مذکور ہے ۔ وہ محض جھوٹ ہے ۔ اور بعد میں وضع کیا گیا ہے ۔ تاکہ ان کی مظلومیت کو ظاہر کرکے تبلیغ واشاعت کے لئے دلوں میں ہمدردی کے جذبات پیدا کئے جائیں *۔ حل لغات :۔ ظاھرین ۔ غالب یا بااقتدار *۔ الصف
0 الجمعة
1 الجمعة
2 نبوت کے متعلق چند نکات ف 1: اس آیت میں منصب نبوت کے متعلق چند نہایت ہی بیش قیمت نکات کی توضیح فرمائی ہے ۔ اور بیان کیا ہے ۔ کہ رسالت کے مفہوم اور تخیل کو کون کون چیزیں لازم ہیں * اسلام سے قبل مذاہب میں عام غلطی یہ تھی ۔ کہ وہ نبوت اور رسالت کے صحیح صحیح مفہوم سے آگاہ نہیں تھے ۔ یہودی اور عیسائی تجسم کے قائل تھے ۔ ان کا عقیدہ تھا کہ خدا متجسد ہوکر نزول فرماتا ہے ۔ تاکہ انسان کے لئے رشدوہدایت کا پیکر ہوسکے ۔ اور قریب قریب غیر حالی دنیا بھی الہام وبعثت کے مفہوم سے نآشنا تھی ۔ اور اس کے ہاں بھی حلال اور تجسم ہی ایک ذریعہ تھا ۔ جس کی وساطت سے خدا اپنے بندوں سے ہمکلام ہوسکتا ہے ۔ اسلام نے سب سے پہلے اس تخیل کی تردید فرمائی اور بتایا ۔ کہ نبوت کے معنے الوہیت کے نہیں ہیں ۔ بلکہ نبی نام وے ایک ایسے انسان کا جس کو اللہ تعالیٰ اپنی ہم کلامی سے مشرف فرماتے ہیں ۔ اور انسانوں کی راہنمائی کے لئے منتخب کرکے بھیجتے ہیں ۔ اس مفہوم کو ھوالذی تبت کے الفاظ سے واضح کیا ہے ۔ کہ خدا زمین پر نہیں آیا ہے ۔ بلکہ خدا نے زمین پر ایک نہایت ہی مکرم بندے کو مبعوث فرمایا ہے ۔ بعثت کے لفظ سے ایک اور ہی باریک شبہ کا ازالہ ہوجاتا ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ بعض کے نزدیک یہ وحی والہام کی ضیا کی نفسیات اصلاح کے باہر کہیں آیا نہیں ہے ۔ بلکہ یہی ذہنی کیفیتیں جب کسی شئے پرچھا جاتی ہیں ۔ تو اس کو اپنی نبوت اور رسالت کا یقین ہونے لگتا ہے اور وہ سمجھتا ہے ۔ کہ سچ مچ محمد کو اللہ تعالیٰ نے مصلح اور ہادی بنا کر بھیجا ہے ۔ اس لفظ سے معلوم ہوتا ہے ۔ یہ یہ شبہ اللہ کے علم میں تھا ۔ اس لئے پیغمبر کے لئے بعثت اور ارسال ایسے الفاظ کو عمداً تجویز فرمایا ہے ۔ تاکہ معلوم ہو ۔ کہ یہ اس کی طرف سے مبعوث ہوکر آئے ہیں ۔ اس نے ان کو بھیجا ہے ۔ اور الہام ووحی دماغی کدہ کاوش کا نتیجہ نہیں ہے ۔ بلکہ محض آسمانی فیض اور ملوہیت ہے *۔ منھم کے لفظ سے اس حقیقت کی طرف اشارہ مقصود ہے ۔ کہ پیغمبر جب آتے ہیں ۔ قوم کے رجحانات اور امیال وعواطف کے حامل ہوگئے ہیں ۔ ویزکیھم سے یہ بات ثابت کرنا مطلوب ہے ۔ کہ پیغمبر کا کام محض وعظ اور ارشاد نہیں بحث اور مناظرہ نہیں ۔ کتابیں لکھنا اور مباہلہ کرنا نہیں ہے ۔ بلکہ ان سب چیزوں کے ساتھ تزکیہ کرنا بھی ہے ۔ یعنی دلوں میں پاکیزگی اور تقویٰ کے جذبات پیدا کرنا نبوت کے فرائض میں داخل ہے ۔ اس لفظ سے اس غلط فہمی کا بھی کامل طور پر ازالہ ہوجاتا ہے ۔ کہ آیا اسلامی نقطہ نگاہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معصوم ہیں ۔ یا نہیں ۔ دراصل یہ شبہ عیسائی مشنریوں نے پھیلایا ہے ۔ اس لفظ سے معلوم ہوتا ہے ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے صرف معصوم ہونا تو کوئی خاص بات ہی نہیں ۔ بلکہ آپ کا منصب اس سے کہیں بلند ہے ۔ آپ تو انسانوں کو معصوم بناتے ہیں ۔ اور تزکیہ وتطہیر سے دلوں کی دنیا کو پاک بتاتے ہیں ۔ گویا کہ آپ معصوم گر ہیں ۔ اس لئے آپ کے متعلق ایسا سوال ہی سرے سے مہمل اور بےمعنی ہے ۔ جو شخص اطبائے روحانی کا سب سے بڑا معلم ہو ۔ اس کے متعلق یہ پوچھنا ۔ کہ وہ خودبھی طبیب ہے یا نہیں ۔ نادانی نہیں تو کیا ہے ؟ حل لغات : الملک ۔ شہنشاہ اقلیم وکون * القدوس ۔ نہایت پاک اور مبارک * العزیز ۔ صاحب قوت وغلبہ *۔ حل لغات :۔ الامبین ۔ بےپڑھے لوگ * حملوا ۔ ان پر ذمہ داری نہ ڈالی * اسفاق ۔ سفر کی جمع ہے ۔ بمعنی کتابیں * فطلوا الموت ۔ سو تم موت کی تمنا کرو ۔ یعنی بصورت سلسلہ *۔ الجمعة
3 الجمعة
4 الجمعة
5 الجمعة
6 الجمعة
7 الجمعة
8 الجمعة
9 نماز جمعہ ف 1: اسلام میں اجتماعیت کو ہمیشہ ملحوظ رکھا گیا ہے ۔ اس کی عبادات میں یہ بات خصوصیت کے ساتھ موجود ہے ۔ کہ وہ نوع انسانی کے لئے کیونکر زیادہ سے زیادہ تعاون اور تناصر کے جذبات کو پیدا کیا جاسکتا ہے ۔ نماز ہی کو دیکھئے ۔ کہ علاوہ روحانی فوائد کے اس کا بین فائدہ یہ ہے ۔ کہ مسلمان پانچ وقت باقاعدہ اپنے محلہ کی مسجد میں جمع ہوتے ہیں ۔ ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ اور ایک امام کے پیچھے نماز ادا کرتے ہیں ۔ گویا صرف محلے کے لوگوں کے لئے دن اور رات میں پانچ وقت ضروری ہے ۔ کہ ایک جگہ جمع ہوں ۔ اور اپنی فلاح وبہبود کے متعلق سوچیں ۔ اور غور کریں ۔ جمعہ نماز پنجگانہ کی زیادہ کامل صورت ہے ۔ اس کے معنے یہ ہیں ۔ کہ ہفتہ میں ایک دن چھوٹے چھوٹے اجتماعات ایک بڑے اجتماع کی شکل اختیار کرلیں ۔ اور مسلمان انپا کاروبار ترک کرکے خدا کے حضور میں جمع ہوجائیں ۔ اور دنیا والوں پر ثابت کردیں ۔ کہ مسلمانوں کے دل میں کس درجہ خدا پرستی ہے ۔ اور وہ کس درجہ متحد اور متمدن ہیں *۔ جمعہ کی نماز میں بالخصوص جو روحانیت اور مسرت حاصل ہوتی ہے ۔ اس کو کچھ وہی لوگ محسوس کرتے ہیں ۔ جو اس بابرکت اجتماع میں شریک ہوتے ہیں ۔ اسی لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی اہمیت بہت زور کے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔ حدیث میں آیا ہے ۔ کہ جو شخص تین جمعوں میں عمداً شریک نہیں ہوتا ہے ۔ اس کا دل حلاوت ایمان سے محروم ہوجاتا ہے * فرضیت جمعہ کے سلسلے میں ہمارے ہاں ایک نہایت ہی ناگوار بحث یہ ہے ۔ کہ دیہات میں جمعہ کی نماز ہوسکتی ہے یا نہیں ۔ حالانکہ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے ۔ وہ واضح ہے ۔ وہ اس کو ایک نماز قرار دیتا ہے ۔ اور اس کے لئے اتنا کافی ہے کہ آذان کی ضرورت محسوس ہو ۔ اور خطبہ وذکر کو لوگ سن سکیں ۔ اور کاروبار کو آسانی کے ساتھ چھوڑ سکیں ۔ یعنی اتنا اجتماع کہ اس کے لئے ذکر اور خطبہ کا اہتمام موزوں ہو ۔ اور ان کی اصلاح کے لئے ہفتہ وار اجتماعات مفید ثابت ہوسکیں ۔ محض اس بنا پر کہ وہ دیہات میں ہیں ۔ جمعہ کی برکات سے محروم رہیں ۔ یہ کوئی معقول بات نہیں *۔ الجمعة
10 ف 2: غرض یہ ہے کہ عبادت سے مراد ترک سعی نہیں ہے ۔ بلکہ اس کا مقصد تو یہ ہے کہ وہ اور زیادہ اکتساب فضل ودولت کے لئے تیار وآمادہ کرے ۔ اسی لئے ارشاد فرمایا ۔ کہ جب تم لوگ عبادت سے فارغ ہوجاؤ۔ تو پھر حسب معمول اپنے کاروبار میں مصروف ہوجاؤ۔ اور اپنے کاروبار میں اس عہد کو ملحوظ رکھو جو تم نے نماز میں اپنے اللہ سے کیا ہے *۔ حل لغات :۔ ذکیراللہ ۔ خطبہ کی طرف اشارہ ہے * انقضواکیھا ۔ اس کی طرف لپکتے ہیں *۔ الجمعة
11 ف 1: واقعہ یہ تھا ۔ کہ وحید بن خلیفۃ الکلبی اسلام سے قبل ایک قافلہ کی صورت میں غلہ سے لداپھدا آرہا تھا ۔ مدینہ والوں نے اسکا گرمجوشی سے استقبال کیا ۔ اور یہ بھول گئے ۔ کہ ہم حضور کے سامنے خطبہ کی سماعت کررہے ہیں ۔ یہ اس آیت میں ان کے اس طرز عمل کی مذمت کی گئی ۔ اور کہا گیا ۔ کہ تم لوگوں نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا ۔ کہ اللہ کے پاس اس سے کہیں زیادہ مال ہے ۔ جس قدر کہ وحید کے پاس ہے ۔ پھر کیا اس کا تقاضا یہ نہیں ہے ۔ کہ تم لوگ زیادہ توجہ کے ساتھ اس کے حضور میں بیٹھو ۔ اور اس سے طلب رزق کرو *۔ الجمعة
0 المنافقون
1 منافقین بزدل ہیں ف 2: قرآن حکیم نے منافقین کے اسرار واحوال کئی مقامات پر واشگاف اور پر بیان کئے ہیں ۔ تاکہ ان کو معلوم ہو ۔ کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی واقعہ اور کوئی سازش پوشیدہ نہیں ۔ وہ ہر حرکت کو جانتا ہے ۔ اور ہر شرارت سے آگاہ ہے ۔ اس کو دھوکہ نہیں دیا جاسکتا ۔ اس صورت میں بالخصوص ان کے افعال کی مذمت کی ۔ اور بتایا ۔ کہ ان کو دیکھوں تو بظاہر بھلے چنگے معلوم ہوتے ہیں ۔ شکل وشباہت سے وجہات ٹپکتی ہے ۔ معقول آدمی دکھائی دیتے ہیں *۔ مگر قلب ودماغ کی یہ کیفیت ہے ۔ کہ بالکل بیکار ہیں ۔ جس طرح غیر ضروری لکڑیاں دیوار کے سہارے کھڑی کردی جاتی ہیں ۔ اسی طرح یہ لوگ بالکل مہمل ہیں ۔ ان سے فائدہ کی توقع فضول ہے ۔ یعنی دنیا کے کاروبار میں بلحاظ غیر مفید ہونے کے ان کو لکڑیوں سے تشبیہہ دی ہے ہے باوجود اس ڈیل ڈول اور اور جسامت کے بزدل اس درجہ ہیں کہ ہر آواز کو جو بلندہو ۔ یہ سمجھتے ہیں ۔ کہ ان ہی کی مخالفت میں بلندہوتی ہے ۔ دلوں میں تسکین وطمانیت موجود نہیں ۔ ہر آن سہمے ہوئے رہتے ہیں اور انہیں خطرہ رہتا ہے ۔ کہ کہیں ہماری بدمعاشیوں کی وجہ سے ہم کو گزند نہ پہنچایا جائے ۔ اس آیت میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے ۔ کفر کی ظاہری چمک دمک اور رکھ رکھاؤ سے متاثر نہیں ہونا چاہیے ۔ منکرین کی دولت اور ثروت کو دیکھ کر یہ نہیں سمجھنا چاہیے ۔ کہ اللہ ان سے خوش ہے ۔ اور اللہ کان پر بڑا کرم ہے ۔ کیونکہ جہاں ان کے باطن کا تعلق ہے ۔ اس میں جرات موجود نہیں ہے ۔ پاکیزگی اور تقویٰ کا نام ونشان تک نہیں ۔ اور وہ فضائل جو ایک انسان میں موجود ہونے ضروری ہیں ۔ ان سے یہ لوگ یک قلم محروم ہیں *۔ منافقین کے حق میں طلب بخشش فضول ہے *۔ المنافقون
2 المنافقون
3 المنافقون
4 المنافقون
5 المنافقون
6 ف 1: منافقین کی بدبختی اور شقاوت کی ھدیہ ہے ۔ کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ کم بختو ! حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طبیعت کے بہت نرم ہیں ۔ اور دل سے چاہتے ہیں کہ تم لوگ تائب ہوجاؤ۔ اور زمرۃ منافقین سے نکل آؤ۔ وہ تمہارے لئے بخشش کی دعا کرینگے ۔ تم آؤ اور دربار نبوی سے نجات کا پروانہ حاصل کرلو ۔ مگر یہ لوگ بکمال مروی اور نخوت منہ پھیر کر اغراض کرتے ہیں ۔ فرمایا کہ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ لوگ جب تک منافق رہیں گے ۔ ان کی بخشش نہیں ہوسکتی ۔ آپ کا تجسس کا مانگنا یا نہ مانگنا برابر ہے ۔ کیونکہ ان کے دلوں میں فسق وفجور کی خباثت موجود ہونے کی وجہ سے ان کو علام غیوب خدا نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمتہ للعالمین کو ان کے ایمان لانے سے ناامید کیا ہے *۔ حل لغات :۔ فطبع علی قلوبھم ۔ یعنی ایمان کے بعد کفر امتیاز کرنے پر ان کے دلوں پر مہر کردی گئی ۔ اور اس صلاحیت کو چھین لیا گیا جو وجہ استہزاز ہوتی ہے * اجسامھم ان کے ظاہری جسم ان کے قدواقامت * صیحۃ ۔ چیخ ۔ آواز *۔ المنافقون
7 ف 1: یہ لوگ جب یہ محسوس کرتے ۔ کہ مسلمان ہر صبح کو اپنے اقتدار میں اضافہ کررہے ہیں ۔ اور ہر شام کو ہمارے اقبال کا آفتاب غرورب ہورہا ہے ۔ تو دل میں بہت زیادہ کڑھتے اور بھنا کر کہتے ۔ کہ اصل میں یہ سب ہمارا اپنا کیا دھرا ہے ۔ اگر ہم ان کو جگہ نہ دیتے ۔ اور ان کی مالی امداد نہ کرتے ۔ تو یہ لوگ اس قوت نہ حاصل کرسکتے ۔ اور کہتے کہ دیکھو آئندہ مسلمانوں کی مالی مدد نہ کرو ۔ پھر ایک ایک کرکے یہ لوگ خود بخود اسلام کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوں گے ۔ فرمایا ۔ یہ لوگ جانتے کہ اس قوم کا تعلق اس خدا سے ہے جو آسمانوں اور زمین کے خزائن کا تنہا مالک ہے ۔ وہ تمہاری مدد اور امانت کا پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں دیتا ۔ پھر یہ بھی کہتے کہ اب کے سفر سے ہم لوٹ کر مدینہ پہنچیں گے ۔ تو ہم میں سے باعزت لوگ ان ذلیل مسلمانوں کو نکال کر رہیں گے ۔ یہ گفتگو ایک سفر کی ہے جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مہاجر اور انصاری میں ان کی توقعات کے خلاف صلح کرادی تھی اس کے جواب میں کہا ۔ کہ تمہیں معلوم ہی ہیں ۔ آئندہ عزت کا معیار بدل دیا گیا ہے ۔ اب عزت اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہے ۔ اور ان لوگوں کے لئے ہے جو مومن ہیں ۔ تم باوجود مال ودولت کے ذلیل ورسوا ہوجاؤ گے *۔ حل لغات :۔ ینفصوا ۔ بھاگ کھڑے ہوں گے ۔ منتشر ہوجائیں گے *۔ المنافقون
8 المنافقون
9 المنافقون
10 المنافقون
11 مرد مسلمان کا اللہ سے تعلق ف 1: مرد مسلمان کی وابستگی اللہ تعالیٰ کے ساتھ نوع کی ہے ۔ کہ وہ مذہباً مجبور ہے ۔ کہ کسی وقت بھی اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ ہو ۔ ہر آن اسی کی ذات میں غوروفکر اور اس کے احکام کے ساتھ شغف ضروری بڑے سے بڑا تعلق بھی اس کے لئے اس تعلق وارادت کے مقابلہ میں ہیچ ہے ۔ جو اس کو اس حسن مطلق کے ساتھ ہے ۔ وہ زندگی کے تمام شعبوں میں ہر لحظہ اور ہر آن یہ خیال رکھتا ہے ۔ کہ اس کی حرکات اور اعمال وجوارح تک اللہ کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے ۔ ومن احسن من اللہ یبغۃ اس کو حکم دیا گیا ہے ۔ کہ دیکھو دنیا میں رہو ۔ کہ مال واولاد کیمحبت تم کو الجھا دے ۔ اور تمہارے دامن کو شرک آلود کردے ۔ مال کے اکتساب میں سعی بلیغ ضروری ہے زیادہ سے زیادہ مال ودولت جمع کرو سیم وزر کے ڈھیر اپنے سامنے لگالو ۔ اسی طرح اولاد پیدا کرو ۔ اعوان وانصاف بڑھاؤ۔ مگر یہ چیزیں اللہ کی محبت کے ازدیاوکاباعث ہوں ۔ ترکہ اپنی طرف تم کو مائل کردیں ۔ جب اس کو ضرورت ہو ۔ تو یہ خزانے بےدریغ اس کی راہ میں لٹا دو ۔ اور تمام دولت نچھاور کردو ۔ اور اولاد کی ضرورت ہو ۔ تو اس سے بھی دریغ نہ کرو ۔ اسلامی فوج میں بھیج دو ۔ گریہ کیفیت ولی میں موجود ہو ۔ اور یہ عزائم ہوں ۔ تو پھر غفلت اور تساہل کے پردے اس پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ فرمایا جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دے رکھا ہے ۔ اس کو اللہ کی راہ میں صرف کرو ۔ اس سے قبل کہ موت کے چنگل میں گرفتار ہوجاؤ۔ اور فنا کا فرشتہ آموجود ہو ۔ کیونکہ اس وقت دل میں حسرتیں پیدا ہوں گی ۔ جو پوری نہ ہوسکیں گی ۔ اس وقت یہ خواہش ہوگی ۔ کہ کاش موت کے لمحات میں کچھ تاخیر ہوجاتی ۔ اور چندے خیرات اور صدقات کی مہلت مل جاتی ۔ اور صلاح وتقویٰ کے مواقع میسر آجاتے ۔ مگر یہ ناممکن ہے موت کا وقت مقرر ہے ۔ اس میں ایک ثانیہ اور ایک لمحہ کی تاخیر نہیں ہوتی ۔ بڑے سے بڑا آدمی باوجود اپنی جلالت قدر کے اس کے سامنے اپنے کو جھکادیتا ہے اور یہ تسلیم کرتا ہے ۔ کہ موت کی قوتیں اس کی عقل وبصیرت سے زیادہ زبردست ہیں ۔ پھر جب یہ حقیقت ہے ۔ کہ ہر نفس کو مرنا ہے ۔ اور بھی درست ہے کہ موت ایک لمحہ کے لئے بھی ٹل نہیں سکتی ۔ تو کیا حالات کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ اپنی تمام قوتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ مسلمان میدان جہاد میں آجائیں اور املا کلمۃ اللہ کے لئے مقدور بھر سعی کریں *۔ باقی صفحہ حل لغات : ۔ الخاسرون ۔ خسارہ پانے والے *۔ المنافقون
0 التغابن
1 سورۃ التغابن تسبیح سے اس کا آغاز فرمایا ہے ۔ اور بتایا ہے ۔ کہ دراصل بادشاہی اور اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ انسان تو محض اس کے امین ہیں ۔ پھر ان اختیارات کو اس نے جس طرح استعمال فرمایا ہے ۔ اس کے لئے وہ سزاوار حمدوستائش ہے ۔ کوئی چیز اور کوئی شیء اس کے قبضہ اقتدار سے باہر نہیں * پھر اس کے سعد اس حقیقت کی وضاحت فرمائی ہے کہ سب انسانوں کو اسی نے پیدا کیا ہے ۔ کیا کافر اور کیا مومن اور وہ ان سب کے اعمال سے آگاہ ہے ۔ آسمانوں کو بھی اسی نے بلندی بخشی ہے اور زمین کو بھی اسی کے دست قدرت نے ہمارے پاؤں تلے بچھایا ہے ۔ اور وہ چھپی ڈھکی اور علانیہ بات سے آگاہ ہے *۔ معیار نبوت کی بلندی اور معیار الوہیت کی پستی ! التغابن
2 التغابن
3 التغابن
4 التغابن
5 التغابن
6 یہ عجیب بات ہے ۔ کہ کفار کے نزدیک معیار نبوت تو ہمیشہ ضرورت سے زیادہ بلند رہا ۔ اور معیار الوہیت ہمیشہ پست یعنی انبیاء کا تو انہوں نے اس بناء پر انکار کیا ۔ کہ وہ فوق البشر قوتوں اور استعدادوں کے جھکے نہیں ہیں ۔ وہ کیوں بشری تقاضوں کے سامنے جھکتے ہیں ۔ مگر خدا کے متعلق ان کی عقل نے یہی فیصلہ کیا ہے ۔ کہ وہ کوئی بڑی چیز نہیں ۔ انہوں نے بتوں پر قناعت کرلی ۔ درختوں اور پودوں کو مقدس مان لیا جو دریاؤں اور پہاڑوں کو معبود قرار دے لیا ۔ سانپوں اور اژداھوں کو خدا سمجھا ۔ اور زمین کے ہر بلند اور رفیع حصہ کو خلعت لاہوت سے نوازا ۔ یعنی یہ بات کتنی حیرت انگیز ہے ۔ کہ انسان کو اس عہدہ پر فائز نہیں ہونا چاہیے ۔ بلکہ اس منصف کا استحقاق وہ لوگ رکھتے ہیں ۔ جن میں الوہیت متجسد ہو ۔ تمہیں بھوک محسوس ہوتی ہو ۔ اور نہ پیاس ۔ جو اس عالم کے قوانین فطرت سے کیا قلم آزادہوں ۔ خدائی کے متعلق انکازاوایہ نگاہ یہ ہے ۔ ہر خوفناک چیز اور ہر مرغوب کن شخصیت بلکہ ہر وہ چیز جس میں کچھ عجیب وقدرت ہے ۔ بلاریب خدا ہے ۔ غور فرمائیے ان دونوں باتوں میں کتنا تضاد ہے ۔ بہرحال کہنا یہ ہے ۔ کہ سابقہ کفار نے بھی اللہ کے فرستادوں کا انکار محض اس بنا پر کردیا تھا ۔ کہ وہ بھی الوہیت کا دعویٰ نہیں کرتے تھے ۔ اور کبھی دھوکہ نہیں دیتے تھے ۔ وہ صاف کہتے تھے ہم بشر ہیں ۔ ہم انسان ہیں *۔ ہم میں فضیلت یہ ہے ۔ کہ اللہ نے ہم کو اس خدمت کے لئے منتخب فرمالیا ہے ۔ اور ہم اس کی طرف سے مامور ہیں ۔ کہ تمہاری اصلاح کریں ۔ اور تمہیں منکرات کے ارتکاب سے روک دیں ۔ وہ کہتے ۔ کہ ہم ایک اپنے ایسے انسان کو اپنے سے بہتر نہیں سمجھ سکتے ۔ اور پیغمبر نہیں قرار دے سکتے ۔ نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو ٹھکرانے کی وجہ سے عذاب آیا ۔ اور ان کے کبرونخوت کو ایک دم فنا کرکے رکھ دیا گیا ۔ ان نادانوں نے اتنا نہ سمجھا ۔ کہ وہ شخصیت جو کسوت انسانی میں نہیں ہے ۔ جس کی ضروریات اور تقاضے ہماری فطرت سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے ۔ وہ ہماری راہما کیونکر ہوسکتی ہے ۔ ہمیں تو ایسے قائد کی ضرورت ہے ۔ جو فطرتاً ہماری مشکلات کا سامنا کرے ۔ ان کو محسوس کرے اور پھر اپنے حس عمل سے ہمارے لئے احساسات کا کیا علم ہوسکتا ہے ۔ پھر یہ کس طرح ہماری زمام قیادت اپنے ہاتھوں میں لے سکتے ہیں *۔ حل لغات : ۔ لہ الملک ۔ بادشاہت ۔ اسی کی سلطنت ہے * تعلمون ۔ اعلان سے ہے * وسورکم ۔ اور صورتیں بنائیں * التغابن
7 کفار مکہ کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی تھی ۔ کہ ہم کیونکر مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوسکتے ہیں ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں ۔ کہ یہ محض دھمکی ہے ۔ اور اس میں حقیقت کا کوئی شائبہ نہیں ۔ اس آیت میں اس خیال کی تردید فرمائی ہے ۔ اور یہ بتایا ہے ۔ کہ بعثت کا عقیدہ بالکل درست اور صحیح ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا تقاضا یہ ہے ۔ کہ وہ زندگی کو ختم نہ ہونے دے بلکہ آگے بڑھائے ۔ اور مکافات عمل کا یہ رسول یہ چاہتا ہے ۔ کہ ایک عالم ایسا تسلیم کیا جائے ۔ جہاں ظالم کو سزا ملے اور مظلوم کی دادرسی کی جائے گی *۔ التغابن
8 قرآن حکیم کو نور سے تعبیر کرنے کے معنے یہ ہیں ۔ کہ یہ کتاب اپنے مطالب کی وضاحت میں بمنزلہ روشنی کے ہے ۔ اس میں کوئی الجھن نہیں ۔ اور نہ کسی عقیدہ کو تشتہ دلائل رکھا گیا ہے ۔ اس کی ہر بات بجائے خوذپکی تلی اور مدلل ہے ۔ اس لئے ان تمام لوگوں کو جو ضیاء بصیرت اور یقین حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ دعوت ہے ایمان کی ۔ کہ وہ اس کتاب کو اپنا دستور العمل بنائیں ۔ اور پھر دیکھیں ۔ کہ کیونکر قطب ودماغ کو تسکین حاصل ہوتی ہے *۔ حل لغات :۔ نبوء ۔ خبر * غنی حمید ۔ یعنی اس کی بےنیازی ایسی ہیں جو بےپروائی اور تغافل کے مترادف ہو ۔ بلکہ وہ ان معنوں میں بےنیاز ہے ۔ کہ کائنات میں کسی چیز کی احتیاج نہیں رکھتا ہے ۔ اور یہ بےنیازی قابل ستائیش ہے *۔ التغابن
9 التغابن
10 التغابن
11 مرد مسلمان کا شیوہ ف 1: اسلام دلوں میں اس عقیدہ کی نشو ونما چاہتا ہے ۔ کہ مرد مسلمان مصائب اور مشکلات میں دماغی توازن کو نہ کھو بیٹھے ۔ پوری جمعیت کے ساتھ اپنے نصب العین کی تکمیل میں مصروف رہے ۔ اور یہ سمجھے ۔ کہ جس قدر تکلیفیں پہنچ رہی ہیں ۔ وہ سب اللہ کے فیصلہ اور علم کے مطابق ہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ ان کی وجہ سے عزائم میں استحکام اور ارادوں میں مضبوطی پیدا ہوجائے ۔ نیز طمانیت قلب کا وہ درجہ حاصل ہوجائے ۔ جہاں دلوں میں تزلزل پیدا نہیں ہوتا ۔ یھد قلبہ سے غالبا ۔ یہی مقام تسکین مزہ ہے *۔ مسئلہ تقدیر کا یہ وہ ہمت آفرین پہلوہے ۔ جس کی وجہ سے مسلمان زندگی کی دشوار گزار منزلوں میں بھی مایوس نہیں ہوتا ۔ اور برابر تگ ودو اور سعی میں مصروف رہتا ہے ۔ ایک پہلو وہ ہے ۔ جس کو ہمارے جین اور ہماری بزدلی نے پیدا کیا ہے ۔ اور جو درحقیقت دور تنزل کا طبعی اقتضا ہے ۔ اور وہ یہ کہ جو کچھ ہوتا ہے ۔ وہ خدا کے علم اور فیصلہ کے مطابق ہوتا ہے ۔ اس لئے سرے سے عزم اور محنت کی ضرورت ہی نہیں ۔ یہ فلسفہ تقدیر وہ ہے ۔ جس کو ہماری غلامانہ ذہنیت کے ایجاد کیا ہے ۔ ورنہ یہ کھلی حقیقت ہے ۔ کہ جب زندگی میں مصائب اور مشکلات کا ہونا ناگریز ہے ۔ تو پھر گھبرانے اور مخبوط الحواس ہوجانے کے معنے ۔ اسلام کہتا ہے ۔ تم بہرحال اپنے فرائض ادا کرو ۔ اور اس سے قطعاً سروکار نہ رکھو کہ قوانین فطرت کا کیا تقاضا ہے *۔ ایک وہ شخص جس نے طے کرلیا ہے ۔ کہ وہ بہرنہج اللہ کی فرمانبرداری کرے گا ۔ اور پیغمبر علیہ الصلوٰۃ السلام کو اپنا راہنما قرار دے گا ۔ اور جب جھکے گا ۔ ایک خدا کے سامنے آپ جانتے ہیں ۔ اس اقرار اور اس عقیدے کے ساتھ یہ شخص کفر وانکار کے سمندر میں کتنی طغیانی پیداکردیتا ہے ؟ اور اپنی مخالف قوتوں کو کتنا متحرک بنادیتا ہے ؟ اس کے صاف اور واضح معنے ہی ہیں کہ وہ ساری طاغوتی قوتوں سے لڑنے کے لئے آمادہ ہے ۔ اس صورت حالات سے ظاہر ہے ۔ کہ سوائے توکل اور صبر کے کوئی چیزگزند اور نقصان سے نہیں بچا سکتی ۔ اسی لئے ارشاد فرمایا ۔ وعلی اللہ فلیتوکل المومنون *۔ حل لغات :۔ یوم التغابن ۔ خسارے کا دن بمعنے روز قیامت *۔ التغابن
12 حاشیہ صفحہ ھذا ف 1: اسلام کے نزدیک اصل شئے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت ہے ۔ اور اس کے بعد جتنے رشتے اور حلائق ہیں ۔ ان کی حیثیت محض ثانوی ہے ۔ اس لئے وہ یہ نہیں چاہتا ۔ کہ کنسی جذبات یا پدرانہ تعلق خاطر ۔ خدمت اسلام کے سلسلہ میں حائل ہو ۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے بیوی کے حقوق اور بچوں کے خیالات کی رعایت اسی وقت ضروری ہے ۔ جبکہ ان کے مقصود اعطاء کلمۃ اللہ کا فریضہ ادا کرناہو ۔ اور جب یہ پاؤں کی زنجیریں اور گردن کا طوق بن جائیں ۔ تو اس وقت ان کی حیثیت دشمنوں کی سی ہے ۔ جن سے تمہیں ہوشیار اور محتاط رہنا چاہیے *۔ حل لغات :۔ فلیتوکل ۔ توکل سے ہے ۔ جس کے معنے اللہ کو اپنا وکیل اور چارہ ساز سمجھنے کے ہیں * من الم جکم واولایکم ۔ من یہاں تعیفیہ ہے یعنی خاوند کے لئے اپنی نیک بیوی اور نیک اولاد زیادہ اولعالعزمی اور ثبات قدمی کا باعث ہوتی ہے * فائدۃ ۔ عقاب ۔ دیوانگی ۔ مراد حیا ابتلاء ۔ آزمائش کی چیز * التغابن
13 التغابن
14 حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب مدینہ کا رخ کیا ۔ اور مسلمانوں کو دعوت دی ۔ کہ وہ بھی مکہ کو چھوڑ کر مدینے چلے آئیں ۔ اس وقت بعض دون ہمت لوگوں کے لئے بیوی بچے اور مال ودولت کی محبت قندثابت ہوئی ۔ اور وہ محض ان حلائق کی وجہ سے فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت نہ کرسکے ۔ بار بار قرآن کی آیات میں ان کو متنبہ کیا گیا ۔ کہ اسلام تم سے جس چیز کا مطالبہ کرتا ہے ۔ وہ صرف یہ ہے کہ استمعواؤ واطیحوا وہ یہ نہیں جانتا کہ تمہارے کیا کیا عذر اور بہانے ہیں *۔ التغابن
15 التغابن
16 التغابن
17 التغابن
18 التغابن
0 الطلاق
1 اسلامی نظام ازواج ف 1: اسلام پہلا اور آخری مذہب ہے ۔ جس نے معاشرتی گتھیوں کو بوجہ احسن سلجھایا ہے ۔ اور نظام ازدواجی کو کامل ترین اور معقول ترین صورت میں پیش کیا ہے ۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے نکاح میں ۔ اگر تائید مقصود نہ ہو ۔ اور غرض عارضی لذت اندوزی ہو ۔ تو وہ زنا ہے ۔ اور قانو ناًبالکل جائز نہیں ۔ چنانچہ قرآن حکیم اور شرعیت اسلامیہ کی توقعات کایک شادی شدہ انسان سے یہ ہیں ۔ کہ وہ حتی الامکان اس رشتہ کو آخر تک نبھائے گا ۔ مگر یہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔ کہ ہر شخص ہر حالت میں فطرت کی طرف سے مجبور ہے ۔ کہ کبھی اس میں اور اس کی بیوی میں اختلاف پیدا نہ ہو جو لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔ اور جن کے ممسلک میں طلاق حرام ہے ۔ وہ بھی جہاں تک حالات کا تعلق ہے ۔ جدائی اور علیحدگی کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں ۔ کہ باوجود مال محبت کے بعض وقت دونوں میاں بیوی اخلاقی اور روحانی نقطہ نگاہ سے ضروری سمجھتے ہیں ۔ کہ ان کا ایک دوسرے سے جدا ہونا زیادہ مناسب اور اون ہے ۔ لہٰذا اسلام کے طلاق کی اجازت دے کر انسانیت پر ظلم نہیں کیا ہے ۔ بلکہ انسانی فطرت کی ترجمانی کرکے اس کو بہت سے مظالم سے بچا لیا ہے ۔ بعض دفعہ تحریر طلاق کے لئے ایک جذباتی ولیل پیش کی جاتی ہے ۔ کہ وہ رشتہ جس کو خدانے جوڑا ہے ۔ تمہیں کیا استحقاق ہے کہ اس کو توڑ دو ۔ مگر یہ نہیں سوچا جاتا ۔ کہ اس دلیل میں معقولیت کتنی ہے ۔ اول تو یہ غلط ہے ۔ کہ رشتہ فطری رشتہ ہے ۔ کیونکہ عملاً ہم دیکھتے ہیں ۔ کہ بیوی کے مرجانے کے بعد دوسری شادی کا مرد کو اختیار حاصل ہے ۔ اسی طرح مرد کے انتقال کیب عد عورت دوسرے مرد کو حاصل کرسکتی ہے ۔ حالانکہ فطری رشتہ کا تقاضا یہ ہے ۔ کہ اس کو کوئی بدل قرار نہ دیا جاسکے *۔ جس طرح کہ ماں باپ اور بھائی بہنیں ۔ کہ آپ بڑی کوشش کریں ۔ ماں کی جہ دوسری ماں اور باپ کی جگہ دوسرا باپ نہیں پاسکتے ۔ اسی طرح بھائی اور بہنوں کا کوئی بدل نہیں ہوسکتا ۔ پھر ان رشتوں میں قدرتی طور پر استحکام اتنا ہے ۔ کہ اگر آپ ناراض بھی ہوجائیں ۔ جب بھی ماں کے ماں ہونے سے اور باپ کے باپ ہونے سے انکار نہیں کرسکتے ۔ آپ مجبور ہیں ۔ کہ ہر حالت میں ان رشتوں کو تسلیم کریں ۔ بخلاف میاں بیوی کے تعلق کے ۔ یہ ان معنوں میں فطری رشتہ نہیں ہے ۔ کیونکہ اس رشتہ کا محرک کذبہ جنس وانس ہے ۔ قانون اور فقہ اس کو باقاعدہ شکل دے دیتا ہے ۔ اور پھر جب یہ معلوم ہو کہ اس کذبہ جنس وانس کی تکمیل میں یہ رشتہ حائل ہے ۔ تو قانون وقفہ کو اتنا اختیار ہے ۔ کہ اس کو منقطع کردے ۔ ثانیا اس دلیل میں یہ مغالطہ ہے ۔ کہ جس کو خدانے جوڑا ہے ۔ اسکو گویا ہم توڑ رہے ہیں ۔ حالانکہ خدا کے قانون کے ماتحت اس کا انتظام کیا جاتا ہے ۔ اور اسی کی ہدایت کے مطابق ہیں کو ختم کیا جاتا ہے ۔ بہرحال یہ حقیقت ہے ۔ کہ قرآن حکیم نے فلسفہ ازواج کو جس خوبی کے ساتھ بیان فرمایا ۔ وہ اسی کا حصہ ہے *۔ ان آیات کا اختصار کے ساتھ یہ مطلب ہے ۔ کہ جب طلاق دو ۔ بہتر حالت میں دو ۔ جب کہ ظاہری تنظر کے اسباب موجود نہ ہوں ۔ یعنی طہر اور پاکیزگی کی حالت میں ۔ اور عدت کو باقاعدہ گنتے رہو ۔ یہ بھی ضروری ہے ۔ کہ عورتیں اس اثنا میں اپنے گھروں سے نہ نکل جائیں ۔ کیونکہ ممکن ہے ۔ کہ طلاق کے بعد پھروہ اپنے طرز عمل سے دوبارہ خاوند کو رجوع پر آمادہ کرسکیں ۔ ہاں اگر کھلی بےحیائی کا ارتکاب ہو ۔ تو اس وقت مرد کو عورت کے گھر سے نکال دینے کا حق حاصل ہے ۔ پھر جب طلاق رہتی میں عدت ختم ہونے کو ہو ۔ تو مرد کو یہ اختیار حاصل ہیں ۔ یا تو شرافت اور حسن سلوک کے ساتھ اس کو اپنے نکاح میں رہنے دے ۔ یا قاعدہ کے موافق اس کو جدا کردے ۔ وہ عورتیں جو عمر کی زیادتی سے حیض سے مایوس ہوں اور وہ جو صغر سستی کی وجہ سے ابھی اس قابل نہ ہوں ۔ وہ تین مہینے تک عدت گزاریں ۔ اور اس کے بعددوسرا نکاح کریں *۔ حل لغات :۔ شح ۔ بخیل اور حرص * بعدتھن ۔ بمعنے طہر میں *۔ حل لغات :۔ بفاحشۃ ۔ بےحیائی ۔ مراد زنا * مبغوض ترین جواز طلاق کو اسلام بالکل اضطراری حالات میں جائز تصور فرماتا ہے ۔ اور یہ قطعاً پسند نہیں کرتا ۔ کہ جاہلیت کی طرح ایک آدمی جب چاہے ۔ بلا کسی عذر کے عورت کو چھوڑ دے ۔ یہی وجہ ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے ۔ البغض امباحات عنداللہ الطلاق ۔ کہ اللہ کے نزدیک وہ بات جو جائز تو ہے مگر مبغوض ترین صورت میں وہ طلاق ہے ۔ یعنی اپنی رفیقہ حیات کو اپنے سے جدا کرنا ۔ بعض غیر مسلم یہ سمجھتے ہیں ۔ کہ اسلام میں طلاق پر کوئی پابندی عائد نہیں ۔ یا اسلام نے طلاق کے ایجاد کرنے میں اذلیت اختیار کی ہے ۔ حالانکہ یہ بات نہیں ہے ۔ اسلام نے طلاق پر پابندیاں عائد کی ہیں اور ایسے حالات پیدا کردیئے ہیں ۔ کہ ایک پرہیز گار انسان کے لئے عام حالات میں عورت کو ھوڑ دینا ممکن ہی نہیں ہے ۔ کیونکہ وہ جانتا ہے ۔ کہ یہ صلاح وتقویٰ کے خلاف ہے ۔ اور اس جذبہ کے خلاف ہے جس کو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ گھر اگر حالات اس کو بالکل مجبور ہی کردیں ۔ تو بھی رجوع کے مواقع باقی رکھے ہیں ۔ تاکہ وہ خوب سوچ سمجھ لے ۔ اور اگر چارہ وناچار وہ اس مقام تک پہنچ جائے ۔ جہاں پہنچ کر علیحدگی ضروری ہوجاتی ہے ۔ تو پھر اسلام اس کے اس جائز حق کو پامال نہیں کرتا ۔ بلکہ اس کو اجازت دیدی ہے ۔ کہ بذریعہ طلاق عورت کو چھوڑ دے اور وہ بھی تکلیف سے آزاد ہوجائے ۔ آپ غور فرمائیے ۔ کہ وہ ان حالات میں بھی جبکہ میاں بیوی ایک دوسرے سے الگ ہورہے ہیں تقوی اور نیکی کی تلقین کرتا ہے ۔ اور بتاتا ہے کہ ان تعلقات کو یوں منقطع کرو ۔ جس طرح ایک پاکباز انسان بدرجہ مجبوری منقطع کرتا ہے ۔ خود غرض اور ظالم آدمی کی طرح نہیں ۔ گویا اسلام چاہتا ہے ۔ کہ مسلمان عالم غیض وغضب میں بھی اخلاقی بلندی کو ہاتھ سے نہ ڈالے اور ثابت کردے کہ وہ یہ علیحدگی جو گوارا کررہا ہے ۔ تو بالکل مجبور ہوکر ورنہ وہ جانتا نہیں ہے *۔ حل لغات :۔ اولاف الاخوتی ۔ حاملہ عورتیں *۔ اسلام سے پہلے بھی طلاق کا رواج تھا ۔ اور اس پر کوئی پابندی عائد نہ تھی ۔ ایک مرد جب چاہتا عورت کو طلاق دے دیتا ۔ اور پھر جب چاہتا رجوع کرلیتا ۔ اسلام نے اس صورت حالات کو بالکل ختم کردیا ۔ اور اس کو باقاعدہ نظام کی شکل میں ڈھال دیا *۔ ان آیات میں اجمال کے ساتھ ان مسائل کا ذکر ہے *(1) حاملہ عورت کی عدت تاوضع حمل ہے *(2) مطلقہ عورتوں کو اپنی وسعت کے مطابق مکان دو *(3) ان کو تنگ کرنے کے لئے تکلیف نہ دو *(4) اگر مطلقہ عورت حاملہ ہو ۔ تو اس کے نفقہ کا بھی بندوبست کرو *(5) اگر بچہ ہو تو دودھ کے لئے اس کی ماں کو اجرت دو *۔ اس کے بعد یہ بتایا ہے ۔ کہ جن قوموں نے اپنے رب کی مخالفت کی ہے ۔ وہ دنیا سے مٹ گئی ہیں ۔ اور غالباً اس میں اس طرف لطیف اشارہ ہے ۔ کہ جب قومیں مٹتی ہیں ۔ تو ان کی تباہی کا آغاز اس طرح ہوتا ہے ۔ کہ ان کی خانگی زندگی کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے ۔ اور وہ اپنے گھر کے اندر ہر سعادت اور ہر مسرت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ اور اس کے بعد ان کی یہ محرومی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہوجاتی ہے *۔ واللہ اعلم حل لغات :۔ من وجدکم اپنی وسعت کے موافق *۔ واتمروا بیناکم ۔ تعاون باہمی سے کام لو ۔ باہم مشورہ کرلیا کرو *۔ الطلاق
2 الطلاق
3 الطلاق
4 الطلاق
5 الطلاق
6 الطلاق
7 الطلاق
8 الطلاق
9 الطلاق
10 الطلاق
11 زندہ قرآن ف 1: قرآن حکیم نے متعدد مقامات میں منصب نبوت کی تصریح کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے ۔ کہ پیغمبر کی اجازت عقیدت مندوں کے لئے بہترین اسوہ اور نمونہ ہے ۔ اور ان کی اطاعت اور ان کے ساتھ محبت رکھتے ہیں ۔ مسلمانوں کی نجات ہے ۔ مگر ایک برخود غلط گروہ کا یہ عقیدہ ہے ۔ کہ قرآن کے سوا اور کوئی شخصیت مطاع نہیں ہے ۔ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیثیت محض یہ ہے ۔ کہ وہ پیغام کو ہم تک پہنچا دیتا ہے ۔ اب یہ ہمارا کام ہے ۔ کہ ہم اسکو لغت اور ادب کی روشنی میں سمجھیں ۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا تو کچھ تفصیلات بیان ہی نہیں کرتا ۔ اور یا اس کی بیان کردہ تفصیلات ہمارے لئے مستند نہیں ہیں ۔ اس آیت نے اس مغالطہ کو دور کردیا ہے ۔ اور بالکل واضح کردیا ہے ۔ کہ وہ ذکر جس کی پیروی کی تم کو تلقین کی گئی ہے ۔ اس کو صرف قرآن کے اوراق میں نہ ڈھونڈو ۔ کہ اس طرح تم حق وصداقت کو تلاش کرنے میں قطعاً ناکام رہو گے ۔ اس کو رسول کی زندگی کے صفحات میں ڈھونڈو ۔ کہ وہ اللہ کی طرف سے مامور ہے ۔ کہ آیات بینات کو تفصیل کے ساتھ پڑھ کر سنائے ۔ اور اس طرح انسانیت کو فہم واستدلال کے تاریک جنگلوں سے نکال کر ایمان اور تقویٰ کی روشن وادیوں میں پہنچادے ترکیب نحومی کے لحاظ سے یہاں رسولاً ذکر ان کا بدل ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اطاعت اور وہ اطاعت اور فرمانبرداری جو قرآن میں مذکور ہے ۔ اس کی تکمیل اسوقت تک نہیں ہوسکتی ۔ جب تک اس کو رسالت کی روشنی میں نہ دیکھاجائے ۔ کیونکہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی قرآن کا محطب اول سے ۔ اس کا دل مہیط وحی ہے ۔ اس کے اعمال پر اس کو خدا کی جانب سے تبیہ ہوتا ہے ۔ اس کی شان میں آیا ہے ۔ وماینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی ۔ یعنی وہ جو کچھ نہیں کہتا ۔ اس حالت میں یہ کیونکر ممکن ہے ۔ کہ قرآن کی تفصیلات حجت اور سنددہوں ۔ اور وہ فاسق وفاجر نسان و چند کتابیں پڑھ لیتا ہے ۔ قرآن کا معتبر معارج بن جائے ۔ وہ جس کا استاد جبرائیل ہو ۔ علمہ شدیدالقویٰ۔ وہ جس کا سینہ حقائق کے فہم کے لئے کشادہ اور وسیع ہو الم نشرح لک صدراک وہ تو قرآن کو صحیح نہ سمھے ۔ اور آج کل کے روشنی والے درست اور صحیح سمجھیں ۔ جو نہ دولت علم سے بہرہ مند ہیں ۔ اور نہ صلاح وتقویٰ سے آشنا ۔ ع برین عقل وہمت بباید گریست ۔ سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے ۔ کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سوائے اس قرآن کے جس کو ہم سمجھتے ہیں ۔ اور کوئی بات حجت نہیں ۔ وہ کس درجہ گستاخی کا ثبوت دیتے ہیں ۔ کیا ان کے نزدیک منصب نبوت کے معنے محض یہ ہیں کہ وہ ایک نوع کی سفارت ہے ۔ جس کو سیرت اخلاق اور اعمال کے ساتھ کوئی وابستگی نہیں ۔ کیا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہی حیثیت ہے کہ وہ قرآن کو بلا کم وکاست پہنچا دے ۔ چاہے معاذ اللہ خود نہ سمجھے اس پر عمل نہ کرے ۔ اور دوسروں کو نہ سمجھائے اگر واقعہ اس کے برعکس ہے ۔ تو منکرین سنت بتائیں ۔ کہ رسول کا فہم اس کا عمل اور اس کی سیرت کہاں منضبط ہے ؟ کن کتابوں میں موجود ہے ! آخر قرآن فہمی کی ضرورت تو ان کو ان حاملین قرآن سے کہیں زیادہ ان کو محسوس ہوتی ہوگی ۔ وہ قرآن فہمی ہے کہاں ؟ الطلاق
12 الطلاق
0 التحريم
1 سورہ تحریم کی شان نزول ان آیات میں دو اور مشہور واقعات کی طرف اشارہ ہے ۔ ایک یہ ہے ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عام عالم طور پر ام المومنین حضرت زینب بنت جحش کے ہاں توقف فرماتے ۔ اور شہدکھاتے ۔ یہ بات حصرت عائشہ اور حصرت حفصہ کو سوکن ہونے کی وجہ سے ناگوار محسوس ہوتی ۔ اس لئے طے یہ پایا ۔ کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہدنوش فرماکر تشریف لائیں تو اس وقت ان سے کہا جائے ۔ کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بوآرہی ہے (مغافیر ایک قسم کی بدبو اور گوند ہے) اور چونکہ بو سے آپ کو طبعی نفرت ہے ۔ اس لئے اس تدبیر سے آپ حضرت زینب نے شہد کھانا اور چندے قیام فرمانا چھوڑ دیں گے ۔ چنانچہ باری باری حضرت حفصہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہی کہا ۔ تو آپ نے عہد کرلیا ۔ کہ میں آئندہ شہداستعمال نہیں کروں گا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے متنبہ ہوا ۔ کہ محض امہات المومنین کو خوش کرنے کے لئے آپ کو استحقان نہیں ہے ۔ کہ اللہ کی حلال وطیب نعمتوں کو اپنے اوپر عملاً حرام ٹھہرالیں ۔ اور یہ عہد کرلیں کہ آئندہ ان چیزوں سے استفادہ نہیں کیا جائے گا *۔ دوسرا واقعہ یہ ہے ۔ کہ حضرت حفصہ کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض اسرار کی اطلاع دی ۔ اور کہہ دیا ۔ کہ یہ باتیں ظاہر نہ ہونے پائیں ۔ انہوں نے پر بنائے بےتکلفی ان اسرار کو حضرت عائشہ تک پہنچا دیا ۔ اور یہ مسجھا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ پھر جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معلوم ہوگیا ۔ کہ وہ بات جو میں نے کہی تھی ۔ اور جس کے انفا کی تاکید کی تھی ۔ ظاہر ہوگئی ہے ۔ تو آپ نے حضرت حفصہ کو باتوں باتوں میں جتا دیا ۔ کہ دیکھو ۔ آخر تم راز کو اپنے سینے میں پنہاں نہ رکھ سکیں ۔ انہوں نے پوچھا ۔ آپ سے کس نے کہا ۔ آپ نے فرمایا ۔ اس لئے اس کی بہت اہمیت تھی اور اس قابل تھی کہ اس کو وقت مقررہ سے پہلے افشا نہ کیا جائے ۔ وہ لوگ جن کو مسئلہ خلافت سے دلچسپی ہے ۔ ان کی رائے ہے ۔ کہ یہ راز حضرت ابوبکر اور حضرت کی خلافت سے متعلق تھا * واللہ اعلم ۔ حل لغات :۔ النور ۔ روشن اور وضاحت * حل لغات :۔ عرف بعضہ واعرض عن بعض ۔ یعنی انتہائی عالم غضب میں بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امت کے لئے یہ مبارک اسوہ چھوڑا ہے ۔ کہ جس شخص سے ناراضی ہو ۔ اور یہ جتانا مقصود ہو ۔ کہ ہم ناراض ہیں ۔ اس کے لئے صرف یہ کافی ہے ۔ کہ نفس واقعہ کی طرف اشارہ کردیا جائے ۔ کیونکہ زیادہ تصریح سے بعض دفعہ ملال بڑھتا ہے ۔ اور ندامت کا احساس نہیں ہوتا ۔ غرض یہ ہوتی ہے ۔ کہ سننے والا اپنے کئے پرپشیمان ہو * صغت قلوبکھا ۔ تمہارے دلوں میں کجی پیدا ہوگئی ہے * مولہ ۔ دوست ۔ التحريم
2 التحريم
3 التحريم
4 رفیق اور مدد گار * حضرت حصفہ اور حضرت عائشہ کا یہ طرز عمل چونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تکلیف دہ تھا ۔ اس لئے یہ عتاب نازل ہوا ۔ اور ان کو بنادیا گیا ۔ کہ ہر فعل جس سے پیغمبر آزرہ خاطر ہو ۔ وہ خدا کی نظروں میں بہت بڑا جرم ہے ۔ غرض یہ تھی ۔ کہ آئندہ کے لئے ازواج مطہرات محتاط ہوجائیں ۔ اور ہر وقت آپ کی طبع نازک کا خیال رکھیں * غرض یہ ہے کہ اپنے اہل وعیال کو دین کی اہمیت سے اس درجہ آگاہ رکھنا ضروری ہے کہ جہنم کی آگ سے بچ جائیں ۔ اور اس سلسلہ میں تعلیم وتربیت سے لے کر تادیب وسرزنش تک سب باتیں روا ہیں *۔ حل لغات :۔ سحیت ۔ روز رکھنے والیاں * ثلیت ۔ بیوہ * والحجارۃ ۔ یعنی وہ پتھر جن کو جہلہ پوجتے ہیں * ابکارا ۔ کنواریاں *۔ التحريم
5 التحريم
6 التحريم
7 التحريم
8 ف 1: لا یخزی اللہ ولئن وللذین امنوامعہ سے مقصودیہ ہے ۔ کہ پیغمبر کے دنیا میں فلاح وسعادت کا جو وعدہ اپنے اقلیتوں سے کررکھا تھا ۔ آج یہ دیکھیں گے ۔ کہ ان تکمیل ہورہی ہے ۔ وہی جنت ان کے اعمال کے صلے میں ان کے سامنے موجود ہے ۔ اور وہی نور اور روشنی ہے ۔ کہ دائیں بائیں رواں دواں ہے *۔ التحريم
9 اسلام کی زندگی کفر کی موت ہے ف 2: کفر ایمان کے مابین ایک ازلی آویزش ہے ۔ اور جنگ ہے یہ ناممکن ہے کہ منکرین کے ہاتھ میں قوت واقتدار ہو ۔ اور وہ اسلام کو بخوبی گوارا کرلیں ۔ اور اس چیز کو برداشت کرلیں ۔ کہ اللہ کے بندہ علی الاعلان اس کا نام بلند کرسکیں ۔ اس کے دین کو پھسلایا کریں اور مظالم کے انسداد کے لئے منظم ہوسکیں ۔ کیونکہ اسلام کے بقاء اور کی اشاعت کا بدلہ نتیجہ اوہام اور خرافات کی موت ہے ۔ جہل اور تعصب کی موت ہے ۔ ظلم اور سفا کی کی موت ہے ۔ باطل اور جھوٹ کی موت ہے ۔ پھر اس طرح زندگی اور موت کبھی یکجا نہیں ہوسکتے ۔ تاریکی اور روشنی میں تعاون محال ہے ۔ اسی طرح یہ ناممکن ہے ۔ کہ مسلم اور کافر بشیب خاطر متحد ہوجائیں ۔ تمدنی تعلقات کا ہونا دوسری بات ہے مگر جہاں تک کفرواسلام کی فطرت کا معلق ہے ۔ ان کا اجتماع آگ پانی ۔ اور وخرمن کا اجتماع ہے ۔ اور جب کیفیت یہ ہو ۔ کہ کفر حق وصداقت کی راہ میں کانٹے بچھائے ۔ اور مشکلات پیدا کرے ۔ تو اس وقت فرض ہوجاتا ہے ۔ کہ کفرکی قوت اور شوکت کو ہمیشہ کے لئے کچل دیاجائے ۔ تاکہ دنیا اسلام کی برکات سے بہرہ مندی کے لئے تیار ہوجائے ۔ اس ضمن میں کسی رعایت اور مروت کا خیال نہیں رکھنا چاہیے ۔ اس لئے اس آیت میں فرمایا ہے کہ ان کفار اور منافقین کی شرارتیں حد اعتدال سے تجاوز کرگئی ہیں ۔ اس لئے آپ ان سے جہاد کیجئے ۔ اور ان پر سختی کیجئے ۔ مدعا یہ ہے کہ کفار کو تلوار سے رو کیے ۔ اور منافقین کو دلیلوں اور حدود قائم کرنے سے *۔ حل لغات :۔ نوبۃ نصوحا ۔ خالص سچی توبہ ۔ جس میں ریاکا کوئی شائبہ نہ ہو * اتمم فنانورنا ۔ یعنی اس روشنی کو باقی رکھ * جاھد الکفار والمنفقین ۔ اسمیں فقط جہاد کے دو معنے ہیں ۔ کفار کے مقابلہ میں لا السیف اور منافقین کے مقابلہ میں باللسان * التحريم
10 ف 1: اس آیت میں کفار مکہ کو متنبہ فرمایا ہے ۔ کہ تمہیں یہ نہ سمجھنا چاہیے ۔ کہ چونکہ تمہارا تعلق حضرت ابرہیم سے ہے ۔ اس لئے تم اس تعلق کی بزرگی اور شرافت کی وجہ سے نجات پاجاؤ گے ۔ چاہے حق وصداقت کا کھلے بندوں انکار کرو ۔ کیا تمہارا تعلق حضرت نوح کی بیوی یا حضرت لوط کی بیوی سے بھی زیادہ ہے ۔ جتنا کہ ان کو اپنے خاوندوں سے تھا ۔ لیکن ان دونوں کو ان کے خاوندوں کا جلیل القدر پیغمبر ہونا قطعاً عذاب الٰہی سے نہیں بچا سکا ۔ پھر کیا تم توقع رکھتے ہو ۔ کہ باوجو معصیت اور انکار کے محض قرابت کی وجہ سے اللہ کے ہاں مقبول ہوجاؤ گے ۔ ع ایں خیال است ومحال است وجنوں التحريم
11 ف 2: اس مثال سے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کی اور صلاحیت زہدوتقویٰ جہاں تربیت سے حاصل ہوتے ہیں ۔ وہاں محض اللہ کا دین اور بخشش بھی ہے ۔ فرعون کو دیکھو کتنا چالاک اور منکر تھا ۔ کہ حضرت موسیٰ کی ساری کوششیں اس کی اصلاح کے لئے رائیگان گئیں ۔ مگر اس کے گھر میں اس کی عورت دولت ایمان سے بہرہ ور ہوگئی اسی طرح حضرت مریم جس قوم میں پیدا ہوئیں ۔ وہ قوم بےدین اور بدعمل تھی ۔ مگر ان کو دو مرتبہ ۔ جس پر بڑی بڑی ہستیاں رشک کریں *۔ حل لغات :۔ فجا شھما ۔ سو انہوں نے ان کی نافرمانی کی * احصنت فوجھا ۔ یعنی اپنی ناموس کو محفوظ رکھا تصریح کی ضرورت اس لئیمحسوس ہوئی ۔ کہ مخاطبین حضرت مریم کو مہتمم کرتے تھے * من زوجنا ۔ تفضل وتکرم کے لئے فرمایا ہے ۔ ورنہ ہر روح جو پھونکی جاتی ہے وہ کبھی کی پیدا کردہ روح ہوتی ہے * التحريم
12 التحريم
0 الملك
1 اسلامی سوشلزم ف 1: جہاں تک ذات خد اوندی کا تعلق ہے ۔ وہ تو اضافہ وارتقاء مراتب سے یک قلم منزہ اور پاکی ہے ۔ اس لئے تبارک کییہ معنے تو ہرگز نہیں ہیں ۔ کہ اس کی صفات جلال اور شنون جمال میں کہیں ازدیاء کا امکان ہے ۔ اس کی شان ازل سے ابد تک یکساں ہے ۔ وہ الان کم کان کا مصداق ہے ۔ وہ قدرت وحکمت اور حسن وکمال کا وہ آخری مفہوم ہے ۔ جس تک عقل انسانی پہنچ سکتی ہے ۔ مگر اس کا احاطہ نہیں کرسکتی ۔ البتہ اس کے معنے یہ ہوسکتے ہیں ۔ کہ اس کے فیوض رحمت میں ابداً اور دائماً باعتبار کائنات کے اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ اور اس کی ربوبیت زیادہ اتم کو زیادہ جمیل اور زیادہ مفید شکل میں بدل رہی ہے *۔ بیدہ کالفظ جسمانیت میں لالت نہیں کرتا ۔ بلکہ مفہوم تملیک کو زیادہ مستحکم کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ غرض یہ ہے ۔ کہ کائنات ارضی وسمادی کا حقیقی مالک صرف خدا ہے ۔ اور یہ لوگ جو جبروظلم اور استبداً وغضب کی بناء پر دنیا پرچھارہے ہیں ۔ قطعاً اس بات کا استحقاق نہیں رکھتے کہ دنیا کے تنہا مالک قراردیئے جائیں ۔ اور غربا اور مساکین کو زندگی کے تمام فیوض سے محروم کردیں ۔ مالک خدا ہے ۔ اور یہ لوگ نفس امین ہیں ۔ ان کا کام یہ نہیں ہے ۔ کہ اپنی مرضی سے دنیا کے منافع کو قصرف میں لائیں ۔ بلکہ یہ ہے ۔ کہ خدا کے قوانین کے مطابق دولت وثروت کی تقسیم کریں ۔ اشتراکیت اور اسلام کے تخیل میں یہی بنیادی اختلاف ہے ۔ کہ اول بلند کو تحرکی کے سوید تمام زمین اور آلات نفع کو سٹیٹ کے سپرد کردیتے ہیں ۔ اور توقع رکھتے ہیں ۔ کہ وہ انصاف کے ساتھ ان میں ان چیزوں کو تقسیم کردے گی ۔ اور اسلام انسانوں کی کسی جماعت کو یہ حق نہیں دیتا ۔ کہ عدل وانصاف کو اپنے ہاتھ میں لے ۔ اور لوگوں کی قسمتوں کی مالک بن جائے *۔ وہ صرف خدا پر اعتماد رکھتا ہے اور صرف اس کے منصفانہ فیصلوں کو نبی نوع انسان کے لئے مفید سمجھتا ہے ۔ اس کے نزدیک انسانوں کی کوئی جماعت اس قابل نہیں ہے ۔ کہ بغیر آسمانی ہدایات کے وہ تسلی بخش کلچرل کی تاسیس کرسکے *۔ حل لغات :۔ الملک ۔ ہر نوع کا قبضہ واقتدار * سبع سماوت ۔ کئی اجرام رفیع ۔ باور ہے ۔ سبح کا لفظ جس طرح ایک متقین عد دکے لئے آتا ہے ۔ اسی طرح کثرت کے لئے بھی اس کا استعمال ہوتا ہے * نفوت ۔ چوک ۔ نقص وغیب * حسیر ۔ تھکی ماندی ۔ ورماندہ *۔ الملك
2 الملك
3 الملك
4 ف 2: جس طرح زندگی ایک ایجابی حقیقت کا نام ہے ۔ اسی طرح موت بھی صرف عناصر کا پریشان ہونا نہیں ۔ بلکہ ایک مثبت شئے ہے ۔ جو خدا کے قبضہ قدرت میں ہے ۔ اور ان دونوں حقیقتوں پر عالم کون وفساد کی بنیادیں استوار ہیں ۔ فرمایا ۔ کہ اس مقام حیات وممات کی غرض اور غایت یہ ہے ۔ کہ زندگی کو موت پرغلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔ اور انسان اپنے حسن عمل سے یہ ثابت کردے ۔ کہ یہ اللہ کا نائب ہے ۔ اور شجروحجر کی طرح زندگی پسند نہیں کرتا *۔ اس کے بعد کارگاہ حکمت کی طرف انسانی ذہن کو متصف کیا ہے کہ اس میں تمام قسم کی ضروریات کو مہیا کردیا گیا ہے ۔ خواہ کتنا ہی باریک بین انسان ہوجب اس پر غور کریگا ۔ تو اس میں کوئی نقص نہیں پائے گا ۔ نگاہ تعمتق وفکر تھک جائے گی ۔ اور اس میں عیب نہیں نکال سکے گی *۔ الملك
5 الملك
6 الملك
7 الملك
8 الملك
9 پردہ زنگاری میں ف 1: سابقہ آیات میں یہ بتایا تھا کہ یہ نظام کائنات بہرنوع کامل ہے اس میں کوئی نقص وعیب نہیں ہے ۔ اور اس کو دیکھ کر بادنی تامل ہر شخص کہہ سکتا ہے ۔ کہ اس کو بنانے والا اور کتم عدم سے وجود میں لانے والا کوئی صاحب علم وقدرت خدا ہے ۔ اس پردہ زنگاری کو دیکھ کر شبہ نہیں ۔ بلکہ یقین ہوتا ہے ۔ کہ اس میں کوئی معشوق ضرور پنہاں ہے ۔ اس زندگی وموت کے تسلسل کو مشاہدہ کرنے کے بعد کون ہے ۔ جو تلی اور ممیت ذات کا انکار کرسکے ۔ اور اس سقف زنگار کی آرائش وخوبی کو دیکھ کر کہیں میں جرات ہے ۔ کہ اس نوزانی جہان کو تسلیم نہ کرے ۔ پھر وہ لوگ جو ان سب چیزوں کو صبح ومساء دیکھتے ہیں ۔ اور ذات خداوندی اور ایمان کی نعمت سے بہرہ ور نہیں ہوتے ان کے اے منسوائے جہنم کے اور کہاں ٹھکانا ہوسکتا ہے *۔ یہ لوگ اس وقت تو اس ہولناک منظر کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔ کہ کیونکر اس آگ کی تپش اور حرارت کو برداشت کرسکیں گے ۔ جو مارے غصے کی پیچ وتاب کھاتی اور چیخ رہی ہوگی ۔ مگر جب ایک گروہ کی شغل میں ان کو دوزخ میں جھونکا جائیگا ۔ اور فرشتے ازراہ تحقیر پوچھیں گے ۔ کہ کیا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نذیر نہیں آئے تھے ؟ جو تمہیں برائیوں سے روکتے اور انکار وتمرہ سے منع کرتے ۔ کیا انہوں نے اس مقام کی سختیوں اور تکلیفوں کے متعلق تم سے کچھ نہیں کہا تھا ۔ تو اس وقت یہ لوگ اپنی کوتاہی فکر اور بدعملی کا کھلے لفظوں میں اعتراف کریں گے ۔ اور کہیں گے کہ بلا شبہ اللہ کے پیغمبر ہمارے پاس آئے تھے ۔ مگر ہم نیان کو اس وقت تسلیم نہیں کیا ۔ اور الٹا ان کو مورد الزام ٹھہرایا ۔ اگر اس وقت فہم وبصیرت سے کام لیتے ۔ حق بات کو سنتے اور دل میں اتارلیتے ۔ تو آج یہ روز بدو دیکھنا نصیب نہ ہوتا ۔ مگر آہ کہ یہ اعتراف اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکے گا ۔ اس وقت کا اقرار سوائے اس کے کہ حسرت اور کوفت میں اضافہ کردے ۔ کوئی فائدہ انہیں پہنچائے گا *۔ حل لغات :۔ رجوما لشیطین ۔ اس کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ جب ارواح خبیثہ آسمان کی طرف پرواز کرتی ہیں اور اسرار لاہوت کو معلوم کرنے کی کوششیں کرتی ہیں ۔ تو ان سیاروں میں سے ایک برقی رو نکلتی ہے ۔ جو ذرات فلکی کو آگ لگا دیتی ہے ۔ اور وہ شہاب ثاقب بن کر ان پر گرتے ہیں اور اس سے بہ سلسلہ سماعت ونعمتیں منقطع ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے بروج اور ستاروں کو ہی طرح بنایا ہے کہ کاہن ان کو دیکھ کر کوئی قطعی اور ہمتی پیشگوئی نہیں کرسکتے بلکہ جو کچھ کہتے ہیں ۔ وہ محض الاقبیل رحم یا صفت ہے * شھیق ۔ زورکی آواز * قبضہ ۔ جونس مارضے سے تعبیر ہے *۔ الملك
10 الملك
11 الملك
12 نظر اور استدلال کی فضیلت ف 1: غرض یہ ہے ۔ کہ مغفرت اور بخشش اور اجر کبیر ان لوگوں کا حصہ ہے ۔ جو ان معارف پر غائبانہ ایمان رکھتے ہیں ۔ جو پس پردہ ہیں ۔ جو استدلال ووجدان کی روشنی میں ان حقائق کو تسلیم کرتے ہیں ۔ جو نظروں سے اوجھل ہیں ۔ اور جو اس دنیا میں کوشش کرتے ہیں ۔ کہ سچائی کو پالیں اور صداقت کا برات کے ساتھ اعتراف کریں ۔ اور جو لوگ اس وقت جب دنیا کی آنکھیں بند ہوتی ہیں ۔ عاقبت کی آنکھوں کے ساتھ مشاہدہ وتجربہ کے بعد خدا کو اور جنت ودوزخ کو تسلیم کرینگے ۔ ان کا یہ تسلیم کرنا ان کے لئے یک قلم بےسود ہوگا ۔ کیونکہ ضرورت تو اس بات کی ہے ۔ کہ یہاں اس دنیا میں ان مشکلات ومواقع میں ۔ اور ان حجب استاد کے باوجود اس کو پہچانا جائے ۔ اور اس کے نام کو کفر وانکار کے خلاف پھیلایا جائے ۔ اس وقت تسلیم کیا ۔ تو کیا ۔ جب کہ وہ خود ایمان پر مجبور کردے اور جبکہ اعمال کے لئے کوئی وقت ہی باقی نہ رہے * حل لغات :۔ سعیر ۔ آتش وزاں * شحقا ۔ لعنت ہے ۔ یعنی بعد اور دوری ہے ۔ مرضات الٰہی سے محرومی ہے * ذلولا ۔ مستخر *۔ الملك
13 الملك
14 الملك
15 الملك
16 الملك
17 الملك
18 فریب نفس کی بدترین مثال ف 1: اللہ تعالیٰ کا قانون ہے ۔ کہ وہ مجرموں کو سنبھلنے کی کافی مہلت دیتا ہے تاکہ تمام حجت ہوجائے ۔ اور ان کے پاس کوئی معقول عذر باقی نہ رہے ۔ وہ ڈھیل دیتا ہے ۔ اور درگزرعفوسے کام لیتا ہے ۔ تاکہ یہ اپنے طرز عمل پرغور کرسکیں مگر ان کے مزاج اس قدر بڑا ہوجاتے ہیں ۔ اور وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ کہ خدا ہم سے خوش ہے ۔ اور ہم اس کے عذاب سے ہمیشہ مامون اور محفوظ رہیں گے ۔ اس کا استدلال یہ ہوتا ہے ۔ کہا گر اس کو ہمارے افعال ناگوار ہوتے ۔ اور اس کے نزدیک ہم گنہگار ہوتے ۔ تو کبھی کے مٹ گئے ہوتے ۔ اور اس کے غضب نے ہمارا قصہ تمام کردیا ہوتا ۔ اب جو باوجودانکار اور کفر کے چین سے بسرہو رہی ہے ۔ تو اس کے صاف معنے یہ ہیں ۔ کہ ہمارے عقائد اس کو ناگوار نہیں ۔ اور وہ ہم کو حق بجانب سمجھتا ہے ۔ اس مغالطہ اور فریب نفس کو دور کرنے کے لئے فرمایا ۔ کہ تم لوگ اپنے کو اس درجہ گستاخ نہ بنالو ۔ اور اس درجہ نڈر نہ ہوجاؤ۔ کہ رب السموت کی پکڑ سے تمہارے بدن پر لرزہ طاری نہ ہو ۔ یاد رکھو تم دن اور رات کی ہر ساعت میں اللہ کی گرفت میں ہو ۔ وہ جب چاہے زمین کو اکٹ اے ۔ اور تم کو پیش کر رکھ دے اور جب چاہے آسمان سے پتھروں کا مینہ برسا دے ۔ اور تم کو بیخ ذہن سے اکھاڑدے ۔ پھر اس وقت تمہیں معلوم ہو کہ اس کا تنبیہ کتنا صحیح اور درست ہے تم سے پہلے بھی قوموں نے اللہ کے دین کو جھٹلایا ۔ اور تمہاری طرح خداع نفس میں مبتلا ہوگئے ۔ کہ ہمیں کون پوچھتا ہے ۔ اور کون سزا دیتا ہے ۔ کہ یکایک اللہ کا غضب بھڑکا اور ان کی بستیوں کو فناکے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ اس وقت دنیا کی کوئی قوت ان کو نہ بچا سکی ۔ اور مال ودولت اور اعزاز فخر قطعاً ان کی سفارش نہ کرسکے ۔ ان حالات میں کیا تم یہ سمجھتے ہو ۔ کہ تم اس کے چہتے ہو تمہیں فسق وفجور کے باوجود وہ ضرور باقی رکھے گا ۔ نہیں ہرگز نہیں ۔ اللہ کے نزدیک کوئی قوم چہتی نہیں ۔ وہ سب سے یکساں سلوک روا رکھتا ہے ۔ اور اس کے ہاں صرف ایک ہی قانون ہے ۔ مکافات کا جو سب کے لئے جاری ہے *۔ الملك
19 تمہاری حفاظت کا کون ذمہ دار ہے ف 2: خدا کی قدرت اور حکمت کی طرف اشارہ ہے ۔ کہ وہ کیونکر پرندوں کو پرواز کی طاقت بخشتا ہے ۔ اور کس طرح ان کو توفیق عطا کرتا ہے ۔ کہ وہ زمین کے قانون کشش ثقل کو باطل کردیں ۔ اور فضا میں اڑنے لگیں ۔ اس کے بعد منکرین اور مشرکین سے مخاطب فرمایا کہ جب تم ایسے قادر اور مہربان خدا کو چھوڑ دیتے ہو ۔ اور دوسروں کی پوجا کرنے لگتے ہ ۔ تو بتاؤ ۔ تمہاری حفاظت کا کون ذمہ دار ہے ۔ آج اگر خدا تمہاری روزی بند کردے ۔ اور تمہارے لئے معیشت کے تمام دروازے مسدود ہوجائیں ۔ تو کون ہے ۔ جو ان درازوں کو کھولے ۔ اور تم کو رزق سے بہرہ مند کرے *۔ پھر یہ دریافت ہے ۔ کہ رشدوہدایت کی صراط مستقیم پر گامزن ہونا بہتر اور زیادہ قرین عقل ودانش ہے ۔ یا ان پگڈنڈیوں پر چلنا جو نشیب وفراز کی وجہ سے تمہیں گرادیں ۔ یاد رجھو اسلام ہی عقل واستدلال کی راہ ہے ۔ روشنی اور بھیرے کا راستہ ہے ۔ اور کامیابی اور کامرانی کا ذریعہ ہے ۔ اس کے سوا جتنے راستے ہیں ۔ وہ مخدوش ہیں اور غلط ہیں اور گمراہ ہیں *۔ حل لغات :۔ تمور ۔ تھرتھرانے لگے *۔ نذیر ۔ مبرا ۔ ڈراتا یا مغنیہ کرنا * جند ۔ لشکر غرور ۔ دھوکہ * جوا ۔ کسی چیز میں مضبوطی کے ساتھ الجھ جانا * عتوا ۔ سرکشی *۔ الملك
20 الملك
21 الملك
22 الملك
23 الملك
24 الملك
25 الملك
26 الملك
27 ف 1: قریش مکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہمیشہ ہلاکت کے طالب رہتے ۔ اور دعا کرتے کہ کہیں ان پر ہمارے دیوتاؤں کا غضب بھی نازل ہو ۔ اس کا جواب مرحمت فرمایا ہے ۔ کہ آپ ان سے کہہ دیجئے ۔ کہ میں تو موت سے خائف نہیں ہوں میں اور میری جماعت خندہ پیشانی موت کا خیر مقدم کریگی ۔ ہم کو اللہ پر پورا پورا اعتماد ہے ۔ ہمیں وہ ہلاکت وفناکا ہدف بنائے ۔ خواہ رحمت وکرم سے نوازے اور ایک عرصہ تک مزید زندہ رکھے ۔ تمہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ۔ سوال یہ ہے کہ تم لوگوں کو اس عذاب سے جو مقدمات میں سے ہے ۔ کون بچا سکے گا جب موت تمہارے سامنے آغوش کھولے آکھڑی ہوگی ۔ اور جہنم کے شعلے تمہاری جانب ایک رہے ہوں گے ۔ اس وقت تم کو کون اپنی پناہ میں لے گا ۔ ہمارا ایمان اس خدائے رحمان پر ہے ۔ جس نے اس دنیا میں بھی دستگیری فرمائی ہے اور عاقبت میں بھی وہ اپنے فیوض سے ڈھانپ لیگا ۔ ہمارا اس پر بھروسہ ہے ۔ اور اسی کو اس سلسلہ میں لائق اعتما لکھتے ہیں ۔ مگر عنقریب جب دنیا کروٹ لیگی ۔ تو تمہیں معلوم ہوجائے گا ۔ کہ کون گمراہ ہے ۔ اور کون راہ راست پر ۔ تم اللہ کی بوقلمون نعمتوں سے صبح وشام استفادہ کرتے ہو ۔ وہ اگر تم سے یہ استعداد یہ استفادہ کو چھین لے ۔ تو بتاؤ تم کیا کرو کیا اس زندگی کے لوازم کے لئے تم سراپا اس کے محتاج نہیں ہوا *۔ حل لغات :۔ ذرائکم ۔ پھیلا دیا * رنفۃ ۔ قریب *۔ الملك
28 الملك
29 الملك
30 ف 1: یہ پانی اسکا کتنا بڑا انعام ہے ۔ کہ زندگی کے انعام میں سے اولین اس کا شمار ہے ۔ اگر تم کو نہ ملے ۔ سوتے خشک ہوجائیں کنوئیں اتنے عمیق ہوجائیں ۔ کہ پانی کی بوند بھی حاصل کرنا دشوار ہو ۔ تو بتاؤ۔ پھر کیا تمہارے معبودان باطل تمہاری کوئی مدد کرسکتے ہیں ۔ اگر جواب نفی میں ہے ۔ اور یقینا نفی میں ہے ۔ تو اٹھو اور اظہار تشکر میں اس کے سامنے جھک جاؤ*۔ الملك
0 القلم
1 القلم
2 سورہ القلم اور جنون وخرد ف 2: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق مکہ والوں کی رائے تھی ۔ کہ ان کو خلل دماغ ہے ۔ یورپ کے بعض متعصب مشنریوں نے بھی یہ کہا ہے ۔ کہ نبوت محض مرض ضرع کا دوسرا نام تھا ۔ معاذ اللہ مگر قرآن حکیم فرماتا ہے ۔ کہ قلم اور تحریر کا جتنا اندوختہ اس وقت فطرت نے محفوظ رکھا ہے ۔ اور جس قدر کہ اس میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ اس سارے ذخیرہ ادب وعظمت کو میزان کے چڑے میں رکھو ۔ اور اس کے بعد اس پیغام کو دوسرے پلڑے میں رکھو ۔ جس کو معاذ اللہ اس حکیم امی نے پیش فرمایا ہے ۔ جس کے متعلق موازنہ ، اس کے پیش کردہ پیغام کی برکات سے استفادہ کرتی رہے گی ۔ اور بس سرچشمہ معارف میں مکھی پیدا نہ ہوگی ۔ یہ کتنی بڑی فریب خوردگی ہے ۔ کہ ایک ایسی شخصیت جو انسانوں کی فطرت کو بدل کر رکھ دے ۔ جوایک مضبوط اور قابل قدر معاشرتی نظام پیش کرے ۔ جو ایک مستقل اور پائدار تہذیب کی تاسیس کرے ۔ اور ہزاروں حکماء اور فلسفیوں کو اپنا غلام بنا لے ۔ اس کے متعلق یہ فیصلہ ہو ۔ کہ اس کا دماغ صحیح نہیں ہے ۔ اگر باوجود ان جلائل اعمال اور اس رفعت وعظمت کے ایک شخص کا دماغ صحیح نہیں ہے ۔ تو پھر صحت دماغی کا معیار کیا ہے ۔ اور اگر یہ جنون ہے ۔ تو کیا دنیا بھرکی عقل ودانش کو اس پر قربان نہیں کیا جاسکتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نوع کے افکار کا اظہار انتہائی تعصب اور بےبصیرتی کا نتیجہ ہے ۔ ورنہ جس شخص کو ادنی ترین قوت تمیزی بھی عطا ہوئی ہے ۔ وہ بھی یہی فیصلہ کرنے پر مجبور ہوگا ۔ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دنیائے عقل وخرد کے سب سے بڑے انسان ہیں *۔ حل لغات :۔ یحیر ۔ پناہ دینا * غورا ۔ گہرا ۔ عمیق * غیر معلون ۔ یکسر منقطع ۔ جو ختم ہونے والا نہیں * قعین ۔ آب رواں *۔ القلم
3 القلم
4 القلم
5 القلم
6 القلم
7 القلم
8 القلم
9 القلم
10 القلم
11 القلم
12 القلم
13 زنیم کے معنے ف 1: ان آیات سے غرض یہ ہے ۔ کہ جب یہ واقعہ ہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ذہن اور فکر کے کملات کے ساتھ حسن اخلاق سے بھی بدرجہ اتم نوازا ہے اور باوجود اس کے مکے والے نہیں مانتے ۔ اور ذایل وخبائث سے آلودہ ہیں ۔ آپ ان کے خیالات کا قطعاً احترام نہکریں ۔ اور نہ ان کے جذبات کی ربابیت محلوظ رکھیں ۔ ان کی خواہش ہے ۔ کہ کس طرح آپ کو معاذ اللہ مداہنت پر آمادہ کرلیں ۔ اور اس چیز پر راضی کرلیں ۔ کہ آپ ان کے عقائد وافکار کی مدہیت نہ کریں ۔ اور اس ضمن میں کامل رواداری سے کام لیں ۔ مگر ہمارا فیصلہ ہے ۔ کہ آپ ان کے ایک ایک عیب کو کھلے بندوں بیان کردیں ۔ اور ان کو بتادیں ۔ ان اخلاق کے ساتھ یہ خواہشات حقیقت میں محض فریب خود کی ہے ۔ اس کے بعد ان لوگوں کی اخلاقی برائیاں گنائی ہیں ۔ فرمایا ۔ حق وصداقت کی ان کے نزدیک کوئی قیمت ہی نہیں ۔ نہایت بیباکی سے جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں ۔ اور ذلیل اتنے ہیں ۔ کہ جھوٹ کو اپنے لئے باعث فخر خیال کرتے ہیں ۔ ہر آن ایک دوسرے کی عزت کے دشمن رہتے ہیں ۔ چنبل خور اور غماز ہیں ۔ نیکی اور تقویٰ کی کوئی بات ان کو پسند نہیں ۔ ہر بھلے کام سے روکتے ہیں ۔ سرکش اور علوی مجرم ہیں ۔ نہایت برے اور فسق وفجور میں ممتاز ہیں واضح رہے کہ زنیم کے لغوی معنے اس شخص کے بھی ہیں ۔ جو اپنے کو ایک معزز قوم کی طرف منسوب کرے ۔ حالانکہ وہ اس میں سے نہ ہو ۔ اور یہ بھی ہیں ۔ کہ وہ شر وفساد میں شان امتیاز رکھتا ہو ۔ جیسا کہ شبعی کا قول ہے ۔ ھوالرجل یعرف بالضروالقوم تصاقص ف یوتمتھا ۔ پہلے معنوں کی تائید میں حضرت انسان کے اس شعر کو پیش کیا جاسکتا ہے ؎ وانت زنیم نبط فی الٓ حاشم تماتنبط نداندہ الو اکب الفتح الغیا * بہرحال ان آیات میں کفار مکہ کی سچی اخلاقی تصویر کھینچی ہے ۔ اور فرمایا کہ ان عادات سے متصف لوگ متکبر اور مغرور اور اس درجہ ہیں ۔ کہ جب ہماری آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ۔ تو محض مال ودولت واعوان وانصار کے بھروسہ پر کہہ دیتے ہیں ۔ کہ یہ محض پہلوں کے افسانے اور قصے کہانیاں ہیں ۔ یہ نہیں سمجھتے ۔ کہ ہم ان کے کبروغرور کو خاک میں ملادینگے اور اس اونچی ناک کو جس کی وجہ سے یہ حق کو قبول نہیں کرتے ۔ تحقیر وتذلیل سے آلودہ کردینگے *۔ حاشیہ صفحہ ھذا باغ والوں کی مثال حل لغات :۔ خلق عظیم ۔ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ مزید برآں آپ کی روحانی اور اخلاقی حالت فضائل کے فراز اعلی پر فائز ہے * حماز ۔ طعنہ دینے والا * عتل ۔ سخت آواز ۔ سخت مزاج *۔ القلم
14 القلم
15 القلم
16 القلم
17 ف 1: ان آیات میں اس حقیقت کو واضح فرمایا ہے ۔ کہ جو لوگ اللہ کے مال ودولت کی بنا پر احکام الٰہی کا انکار کردیتے ہیں ۔ اہیں یقین رکھنا چاہیے ۔ کہ یہ فراوانی اور آسودگی ہمیشہ نہیں رہے گی ۔ فرمایا کہ مکے والوں کہ ہم نے عیش وتکلفات سے بہرہ مند کرکے اسی طرح آزمایا ہے ۔ جس طرح کہ بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو ہم نے مال ودولت سے نوازا ۔ ان کو ایک نہایت عمدہ باغ مرحمت فرمایا ۔ مگر انہوں نے ازراہ بخل یہ طے کرلیا ۔ کہ ہم اس کا پھل صرف آپس میں بانٹ لیں گے ۔ اس میں کسی غریب کا حصہ نہیں ہوگا ۔ پھر جو کچھ باغ کی آمدنی سے ملے گا ۔ اس کو صرف اپنی ان آسانی کے لئے استعمال کریں گے ۔ اور مستحقین کو کچھ نہیں دینگے *۔ حل لغات :۔ سنسیمہ علی الخرطوم ۔ یعنی اس کی شہرت کو خراب کردیں گے ۔ اس کی ذلت وتحقیر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تاریخ کے اوراق میں منضبط کردیں گے * جریر کا شعر ہے ؎ نما وضعت علی النظر زوق میسی واعلی البعیث جلہ عت انف الا متظل ولایمسثنون ۔ انشاء اللہ نہ کہنا * طائف ۔ گردش ۔ عذاب * القمرتم ۔ کٹا ہوا کھیت * نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ ایکدن صیح کو جب یہ لوگ امید سے بھر پور باغ میں پہنچے ۔ تو دیکھا کہ بالکل ویران ہے ۔ اس وقت ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔ اور یہ کہنے لگے ۔ کہ اب ہم خدا کی طرف پلٹتے ہیں ۔ انشاء اللہ وہ ہم کو اس سے زیادہ بہتر باغ عنایت فرمائے گا *۔ القلم
18 القلم
19 القلم
20 القلم
21 القلم
22 القلم
23 القلم
24 القلم
25 القلم
26 القلم
27 القلم
28 القلم
29 القلم
30 القلم
31 القلم
32 کیا مسلمان اور جرائم پیشہ لوگ برابر ہیں ف 1: جس طرح حق وباطل میں امیتاز ہے ۔ فسق وفجور تقوی اور پرہیزگاری برابر نہیں ۔ اور جس طرح سرکشی اور تمرد میں بین تفاوت ہے ۔ اسی طرح نتائج اعمال میں درجات کا فرق برحق ہے ۔ کچھ لوگ ایسے ہیں ۔ جو اپنی سیاہ کاریوں کے باعث اللہ کے غضب وسخط کے مستحق ہیں ۔ اور کچھ وہ ہیں ۔ جو صحت البقدہ اور حسن عمل کی بدولت مقام قرب وحضوری پر فائز ہیں ۔ اس کے لئے روح اور جسم کی پوری آسودگی کا انتظام ہے ۔ یہ لوگ جنات نعیم میں کام ورہن کی لذتوں سے بہرہ اندوز ہوں گے ۔ ان کے لئے روح کی بالیدگی کا سامان مہیا ہوگا ۔ ان کے لئے دیدہ ونظر کے لئے رب السموت کی جلوہ فرمائیاں باعث تسکین ہوں گی ۔ اور یہ اس طرح وہاں رہیں گے ۔ جس طرح ایک عزیز اور محترم مہمان رہتا ہے محض اس پاداش میں کہ انہوں نے دنیا میں اپنے سکھ اور آرام کی پرواہ نہ کی ۔ اور دولت حسین پر مقدم نہ سمجھا ۔ اور انہوں نے ہمیشہ زندگی کا نصب العین خدا کی خوشنودی کو قرار دیا ۔ کیا یہ مخلصین اور وہ لوگ جنہوں نے اعلاء کلمتہ اللہ کی راہ میں مشکلات حائل کیں ۔ برابر ہیں ۔ کیا یہ لوگ جنہوں نے اپنی جرائم پیشگی سے مسلمانوں کو مسرغے پہنچائے ۔ جنہوں نے قلب وروح کی بربادیوں کو دعوت دی ۔ جن کی سیاہ کاریوں کی وجہ سے زمین کانپ اٹھی ۔ ان لوگوں کی ہمسری کے دعویدار ہیں ۔ جنہوں نے پاکیزگی اور تقویٰ کو چاردانگ عالم میں پھیلا دیا ۔ فرمایا تمہیں کیا ہوگیا ہے ۔ کہ تم اس نوع کے نامنصفانہ فیصلہ کو مان رہے ہو ۔ کیا کسی الہامی کتاب میں یوں لکھا ہے یا ہم نے قسم کھارکھی ہے ۔ کہ باوجود فش وفجور اور انکار والحاد کے ہوگا وہی ۔ جو یہ چاہیں کے یا ان کے شرکاء نے انہیں یہ پٹی پڑھائی ہے ؟ وہ کہاں ہیں ۔ کیوں میدان میں نکل کر اپنے دعویٰ کو ثابت نہیں کرتے غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مراتب اپنے بندوں کے لئے مخصوص کررکھے ہیں ۔ وہ ان لوگوں کو قطعاً نہیں مل سکتے ۔ جو اس کے نافرمان *۔ القلم
33 القلم
34 القلم
35 القلم
36 القلم
37 القلم
38 القلم
39 القلم
40 القلم
41 القلم
42 ف 1: فرمایا ۔ ان عبادت ناآشنا لوگوں کو جب اس وقت دعوت سجود دی جائے گی ۔ جب کہ قیامت کے اہوال شدتوں پر ہوں گے ۔ تو اس وقت ان کی جبشیں قطعاً نہیں جھک سکیں گی ۔ ان کی نظریں مارے شرم وندامت کے زمین بوس ہوں گی ۔ اور ان پر ذلت ومقارت چھارہی ہوگی ۔ اس وقت ان کو معلوم ہوگا ۔ کہ دنیا میں باوجود تندرستی اور صحت وتوانائی کے ذوق عبادت سے محرومی کتنا بڑا جرم تھا ۔ فرمایا ۔ یہ لوگ آج ان حقائق کو جھٹلاتے ہیں ۔ مگر بتدریج غیر محسوس طریق پر یہ لوگ جہنم کی طرف لپکے ہوئے جارہے ہیں *۔ حل لغات :۔ تدرسون ۔ پڑھتے ہو * زعیم ۔ ذمہ دار ، ضامن * یکشف عن ساق ۔ حضرت ابن عباس سے پوچھا گیا ۔ کہ کشف عن الساق کے کیا معنے ہیں ۔ آپ نے فرمایا ۔ جو بات سمجھ میں نہ آئے ۔ اس کو اشعار عرب کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کیا کرو ۔ کیونکہ وہ عربی کے ذخائر معلومات کا بہت بڑا اور مستنددفتر سے اس کے بعد فرمایا ۔ اس کے معنے کرب اور شدت کے ہیں ۔ اور سند میں یہ شعر پڑھا ؎ ستن استہ قومک ضرب الاخناق وقاھت الحرب بنا علے ساق ان معنوں میں اور بھی اشعار عربی ادب میں آئے ہیں ۔ ابوعبیدہ قیس بن زبیر کو مخاطب کرکے کہتے ہیں ؎ فلن شموت یلقہ عن ساقیا * فذاقھار بیع ولا قساہد * جریر کہتا ہے : الارب سامداعطرف من ال معازن اطاشھر تاقھا الحرب شمرا ابن قبیہ کہتے ہیں ۔ کہ یہ معنے یوں پیدا ہونے کو آدمی عموماً جب کسی مرکے درپے ہوتا ہے ۔ تو فرط اضطراب سے پنڈلیوں پر سے کپڑا اٹھا لیتا ہے ۔ اس لئے مقام شدت وکرب میں اس کا استعمال ہونے لگا ۔ اور لوگ کہنے لگے کہ کشف عن ساتہ *۔ القلم
43 القلم
44 القلم
45 اللہ کی گرفت اور اس کی تدبیر ف 1: غرض یہ ہے کہ اللہ کی گرفت فوراً اور براہ راست نہیں ہوتی ۔ بلکہ یہ ہوتا ہے ۔ کہ وہ ازراہ حلم نافرمانیوں اور سرکشیوں کو برداشت کرتا ہے ۔ اور اصلاح حالات کے لئے پوری مہلت دیتا ہے ۔ پھر جب معاملہ حد ضبط اور علم سے بڑھ جاتا ہے ۔ اور اصلاح کی توقع باقی نہیں رہتی ۔ تو اس کا ہمہ گیر قانون مکافات حرکت میں آتا ہے ۔ اور مجرموں کا سر کچل کر رکھ دیتا ہے *۔ کید کے معنے دراصل سو تدبیر کے نہیں ہیں ۔ بلکہ ایسی بات اور ایسے طریق عمل کے ہیں ۔ جو چکردار اور پرپیچ ہو ۔ اس میں کیا ملبہ ہے کہ خدا جب سزا دیتا ہے ۔ تو ایسے انداز میں کہ ابتداء میں سزا کا احساس ہی نہیں ہوتا ۔ انسان لذت اور خواہشات کے دام میں کچھ اس طرح الجھ جاتا ہے ۔ کہ پھر مخلصی ناممکن ہوجاتی ہے ۔ اور یہی لذت اندوز ہی اس کے لئے بالآخر موجب عذاب ہوجاتی ہے ۔ اس لئے بغیر کسی تاویل کے ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا کی تدبیریں آسانی سے سمجھ میں نہیں آتیں ۔ اور یہی مقصد ہے اس بات کا ۔ کہ ان کیدی * القلم
46 ف 2: امرتسئلھم کا تعلق آیات ماسبق سے ہے ۔ مقصود یہ دریافت کرتا ہے کہ یہ لوگ ایمان کی نعمت سے آخر محروم کیوں ہیں ۔ آخر جب یہ بات طے ہے ۔ کہ اسلام انسانیت کے لئے آخری پیغام ہے ۔ اس میں تمام روحانی اور مادی مشکلات کا حل ہے ۔ اس میں نجات وسعادت ہے ۔ فلاں دارین ہے ۔ بالیدگی اور ارتقاء ہے ۔ اور جب یہ مسلم ہے ۔ کہ اس نے محض اپنی تعلیمات کی صداقت کی وجہ سے اتنی بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔ کہ انسانوں کو پشتی اور فیض سے اٹھایا ہے ۔ اور انتہائی بلندیوں تک اچھال دیا ہے ۔ عربوں کو جو جرائم پیش اقوام میں سے تھے تعلیم روحانیت واخلاق کا ناپیدار بنادیا ہے ۔ اور دیکھتے دیکھتے علم وصنعت کے ایک عالم نو کی بنیاد رکھی ہے ۔ کہ دنیائیکفر کی آنکھیں اس کی روشنی اور چمک سے غیرہورہی ہیں ۔ ان حالات میں سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کیوں اس صداقت کو قبول نہیں کرتے ۔ اور کیوں خداونددوجہان کے سامنے نہیں جھکتے اور ان عظمتوں اور بلندیوں پر فائز نہیں ہوتے *۔ کیا ان سے مذہب کی اشاعت کے نام پر کچھ تاوان وصول کیا جاتا ہے جس کے بوجھ تلے وہ دبے ہوئے ہیں یا یہ بات ہے ۔ کہ ان کو علم غیب سے بہروافر ملا ہے ۔ جو ان کے پاس لکھا رکھا ہے ۔ بہرحال کچھ تو بتانا چاہیے ۔ کہ تامل وانکار کی وجودہ کیا ہیں *۔ حل لغات :۔ مغوم ۔ نادان * متقون ۔ گراں باد * الحوت ۔ مچھلی * مکتوم ۔ غم غصہ میں مبتلا ، غم اور اندوہ سے معمور *۔ القلم
47 القلم
48 ف 2: یعنی ان لوگوں کے انکار وکفر پر آپ غمگین ہوکر حضرت یونس (علیہ السلام) کی طرح دبدعا میں اور ترک شفقت میں جلدی نہ کریں ۔ اور پورے صبروسکون کے ساتھ ان کی ان حرکتوں کو برداشت کریں ۔ اللہ نے چاہا ۔ تو آپ کی آواز صدابحر ثابت نہیں ہوگی ۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا قصہ یہ ہے ۔ کہ آپ کی نافرمانی سے رنجیدہ ہو کر اللہ کے عذاب کے طالب ہوئے اور اصلاح سے مایوس ہوکر قوم کو چھوڑ کر ہجرت پر آمادہ ہوگئے ۔ یہ ادا اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آئی ۔ اور سزا یہ ملی ۔ کہ دب دریا پار کرنے لگے ۔ تو ایک بڑی مچھلی کا لقمہ بن گئے ۔ اور اگر پھر اللہ کی طرف سے توبہ وانابت کی توفیق مرحمت نہ ہوتی ۔ تو مچھلی کے پیٹ سے نہ نکلتے ۔ اور اللہ کا اقدام شامل حال نہ ہوتا ۔ تو میدان میں برے حالوں پڑے رہتے ۔ یہ اللہ کا فضل تھا ۔ کہ اس نے حضرت یونس (علیہ السلام) کو دوبارہ زندگی بخشی ۔ اور اس قابل بنایا ۔ کہ وہ از سر نو تبلیغ ودعوت کے فرائض کو انجام دے سکیں *۔ القلم
49 القلم
50 القلم
51 القلم
52 القلم
0 الحاقة
1 الحاقة
2 سورۃ الحاقۃ ف 1: قیامت کا ایک حاقہ بھی ہے ۔ یعنی دنیا کی ہر حقیقت میں شکر وارتباب کا اظہار کیا جاسکتا ہے ۔ مگر یہ ایک قطعی حقیقت ہے ۔ کہ یہ عالم یقینا فانی ہے ۔ اور ایک دن ضرور آنے والا ہے ۔ جب کہ یہ سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا ۔ ثمود وعاد نے عملاً اسی چیز کی تکذیب کی اور نہایت بےخوفی کے ساتھ اللہ کے حکموں کو ٹھکرادیا ۔ نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ صفحہ دنیا سے حرف غلط کی طرح مٹ گئے *۔ سرچشمہ حیات سے بعد کا نتیجہ الحاقة
3 الحاقة
4 ف 2: ان آیات میں یہ قانون واضح فرمایا ہے ۔ کہ کوئی قوم زندگی کا اس وقت تک استحقاق نہیں رکھتی ۔ جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کی اطاعت نہ کرے ۔ اور اپنی خواہشات کو اس کے ارادہ اور منسا کے تابع نہ کردے ۔ کیونکہ مقدرات میں سے ہے ۔ کہ کوئی نفس اس سرچشمہ حیات وور سے الگ رہ کر اپنی انفرادیت باقی نہیں رکھ سکتا ۔ چنانچہ جب کسی قوم نے اس اصول کو نہیں سمجھا ۔ اور اللہ کے حکموں کی پرواہ نہیں کی ۔ اس کا غصہ بھڑکا ۔ اور اس کو زندگی سے محروم کردیا ۔ ثمود وحاد کی قوم مٹادی گئی *۔ فرعون اور اس کا لاؤ لشکر قلزم میں اپنی عزت وحکمت سمیت ڈبودیا گیا ۔ قوم لوط کی بستیاں الٹ دی گئیں ۔ اور اسی طرح جب بھی کسی قوم نے سرکشی اور تمرد کا اظہار کیا ہے ۔ اللہ اس کے غرور کو خاک میں ملادیا ۔ اس کے بعد ایک دوسرے قانون کا ذکر فرمایا ہے ۔ اور وہ یہ ہے ۔ کہ جہاں فاسقوں اور فاجروں کو اللہ نے سزا دی ہے ۔ وہاں عین حالت عذاب میں پاکبازوں کی حفاظت اور ان کی دستگیری کی ہے ۔ مثال میں حضرت نوح کو دیکھئے کہ اس وقت جب کہ آسمان کے دروازے کھل گئے ۔ اور زمین کے چشمے سمندر اگلنے لگے ۔ اللہ نے ان کو توفیق مرحمت فرمائی ۔ کہ اپنی اور مومنین کی حفاظت کیلئے ایک کشتی بنائیں ۔ اور اس کو بلا خطر اس طوفان میں ڈال دیں ۔ اور یہ اس لئے ہوا تاکہ منکرین یہ محسوس کریں ۔ کہ یہ عذاب محض اتفاق وبخت کا نتیجہ نہیں ۔ بلکہ علیم وحکیم خدا کے فیصلہ کے مطابق نازل ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں نافرمانوں کو غرق کیا گیا ہے ۔ وہاں مومنوں کو بھی بچایا گیا ہے *۔ حل لغات :۔ الطاغیہ ۔ زور دار آواز * صرصرا ۔ تیز وتند ہوا * عاتیۃ ۔ عتو سے ہے ۔ سرکش * حشوھا ۔ مسفسل ۔ تباہ کن *۔ الحاقة
5 الحاقة
6 الحاقة
7 الحاقة
8 الحاقة
9 الحاقة
10 الحاقة
11 الحاقة
12 الحاقة
13 صور پھونکا جائے گا ف 2: نرسنگے میں پھونکنے کے دو معنی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ یہ بطور اعلان وعلام کے ہوگا ۔ جس سے معلوم ہوجائے گا ۔ کہ اب وقت آگیا ہے ۔ کہ اس بساط لہو و لعب کو الٹ دیا جائے ۔ اور یا خود اس آواز میں یہ اثر ہوگا ۔ کہ اس کی وجہ سے عالم کون ومکان درہم برہم ہوجائے گا ۔ اور عقلاً اس میں کوئی استحالہ نہیں ۔ کہ اللہ تعالیٰ آواز میں تاثیر پیدا کردیں ۔ بہرحال یہ ایک واقعہ ہے ۔ کہ جب یہ موجودہ وقت آجائے گا ۔ اس وقت یہ سقف زرنگار پھٹ جائے گا ۔ اور فرشتے اس کے کناروں پر آلگیں گے ۔ اور رب قدوس کی تجلیات عرش جلالت پر ہے تو انگن ہوں گی ۔ جس کو آٹھ فرشتوں نے اٹھا رکھا ہوگا * ایک ایک شخص کو اس کے روبرو پیش کیا جائے گا ۔ اس وقت معلوم ہوگا ۔ کہ کوئی بات بھی اس کی نظروں سے اوجھل نہیں ہے ۔ وہ ہر بات کو اور ہر حرکت کو تمام تفصیلات کے ساتھ جانتا ہے ۔ پھر کچھ لوگ تو ایسے خوش قسمت ہوں گے ۔ کہ نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ۔ یہ اس بات کی علامت ہوگی ۔ کہ یہ اللہ کے نزدیک مکرم اور معزز ہیں ۔ یہ نہایت عمدہ زندگی بسر کریں گے ۔ یعنی بہشت بریں میں ہونگے ۔ جہاں میوے نزدیک اور سہل الحصول ہونگے ۔ ان سے کہا جائے گا ۔ کہ اب یہاں مزے کے ساتھ کھاؤ۔ اور پیو ۔ یہ تمہارے گزشتہ اعمال کا ثمرہ ہے ۔ اور کچھ ایسے بدقسمت ہونگے ۔ جو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے عنداللہ معتوب قرار پائیں گے ۔ اور جسم وروح کی شدید ترین اذیتوں میں مبتلا ہوں گے *۔ حل لغات :۔ باقیۃ ۔ کوئی شخص یا قوم کا بچا کھچا حصہ * اتخذۃ رابیۃ ۔ بہت سخت گرفت * داعیۃ ۔ وحی سے ہے ۔ جس کے معنے یاد رکھنے کے ہیں * فداک ۔ ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے * ارجایھا ۔ کناروں *۔ الحاقة
14 الحاقة
15 الحاقة
16 الحاقة
17 الحاقة
18 الحاقة
19 الحاقة
20 الحاقة
21 الحاقة
22 الحاقة
23 الحاقة
24 الحاقة
25 معتوب گروہ ف 2: یہ معتوب لوگ جن کے بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال ہوگا ۔ اپنی ذلت وتحقیر کا آپ اعلان ہوں گے یہ جب دیکھیں گے ۔ کہ اس دفتر اکمال میں کوئی خوشخبری نہیں ہے ۔ تو ازراہ تحسر کہیں گے ۔ کہ اے کاش ہم کو یہ نہ ملا ہوتا ۔ اور ہم اپنے اعمال سے آگاہ نہ ہوتے ۔ اے کاش موت کے بعد یہ لمحات زندگی نہ عطا کئے جاتے ۔ اور موت ہی ہمارے لئے فیصلہ کن ثابت ہوتی * حل لغات : ھلیا ۔ خوشگواری کے ساتھ ۔ مزے کے ساتھ *۔ الحاقة
26 الحاقة
27 الحاقة
28 ف 1: ہم دنیا میں اپنے مال ودولت پر مفرور تھے ۔ اور سمجھتے تھے ۔ کہ یہ ثروت ۔ یہ کنوز اور خزائن ۔ ہمیں عاقبت میں بھی عزت وافتخار تخشیں گے ۔ اور جس طرح دنیا میں ہم تمول کی وجہ سے ہر نوع کی آسودگی حاصل کرلیتے ہیں ۔ شاید آخرت میں بھی اس کی بدولت جنت اور اس کی آسائشوں کو خریدا جاسکے گا ۔ مگر آہ کہ یہ خیال درست ثابت نہیں ہوا ۔ ان لوگوں کے متعلق یہ فیصلہ ہوگا ۔ کہ ان کو پکڑلو ۔ اور طوق وسلاسل پہنادو ۔ اور پھر ایک طویل زنجیر میں جکڑ کر جہنم میں پھینک دو ۔ کیونکہ ان لوگوں کا اللہ پر ایمان نہ تھا ۔ ان کے دلوں میں بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی نہ تھی ۔ ان کے دل غریبوں کو دیکھ کر پسیجتے نہ تھے ۔ یہ اپنے دسترخوان سے مسکینوں کو کھانا نہیں دیتے تھے ۔ اور ان کو دیکھ کر ان کے لئے جذبات شفقت وہمدردی پیدا نہیں ہوتے تھے ۔ اس لئے آج دن کا یہاں کوئی دوست نہیں ۔ جو ان کو اس ذلت وخواری سے بچا لے ۔ اور کھانا بھی جو ان کو یہاں ملے گا ۔ وہ غسلین کا سخت گنہگار ہی کھاسکتے ہیں *۔ جہنم اصل میں نام ہے ۔ ذلت وتحقیر کا ۔ اور اذیت وتکلیف کا ۔ اور پوری پوری اعمال کے مطابق سزا کا ۔ چونکہ کفار آزاد تھے ۔ اس لئے یہاں طوق وزنجیر سے اس کی تواضح کی گئی ۔ پیٹ اس کے قلب ودماغ پر بھاری تھا اس لئے کھانا وہ تجویز ہوا ۔ جو اس کو بتادے کہ اللہ کے نزدیک صرف کھانا پیان کوئی زندگی کی اہم غرض نہیں ہے ۔ اور جو اپے سامنے زندگی کا نصب العین صرف یہ رکھتا ۔ کہ صبح ومسا پرکتلف اور بوقلمون کھانوں سے اپنے کام وہن کی تسکین کا سامان بہم پہنچائے ۔ وہ یہاں کتنا ذلیل اور حقیر کھانا کھاتا ہے ۔ پھر اس کا معیار دنیاوی یہ تھا ۔ کہ ٹھاٹ کے ساتھ رہے ۔ عالیشان مکان ہو ۔ اور ہر قسم کے سامان آسائش میسر ہوں ۔ یہاں اس کی سزا یہ ہے ۔ کہ جہنم ٹھکانا ہو ۔ آگ اور تپش اس کا اوڑھنا بچھونا ہو ۔ شعلے اور انگارے اس کا استقبال کریں *۔ حل لغات :۔ سلطنیہ ۔ میری دلیل ، میرا رتبہ اور میرا زعم ثروت * سبحعون خطاھا ۔ درازی اور طول کی وسعت کی طرف اشارہ ہے * غسلین ۔ زخم یا اور کسی چیز کا دھوون ۔ بقول مولانا شاہ رفیع اور بریلوی *۔ الحاقة
29 الحاقة
30 الحاقة
31 الحاقة
32 الحاقة
33 الحاقة
34 الحاقة
35 الحاقة
36 الحاقة
37 الحاقة
38 الحاقة
39 الحاقة
40 الحاقة
41 الحاقة
42 ف 1: اسلام سے قبل عربوں میں شاعری اور کہانت کا بڑا زور تھا ۔ اس لئے انہوں نے جب قرآن کو دیکھا ۔ کہ اس میں بھی موسیقی اور اتر ہے ۔ سحیع اور ترنم ہے ۔ تو وہ یہ سمجھے کہ یہ بھی شاید شعر وکہانت کی طرح کوئی چیز ہے ۔ ارشاد فرمایا ۔ کہ یہ غلط ہے ۔ یہ کلام انسانی دماغ کی کدوکاوش کا نتیجہ ہرگز نہیں ہے نہ اس میں کہانت اور شاعری کی آمیزش ہے ۔ یہ اللہ کا کلام ہے ۔ اور جو فرشتے کی رسالت سے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچا ہے ۔ اور یہ اس لئے کہ یہ ہمہ صداقت اور سچائی ہے ۔ حالانکہ شعروکہانت میں چوں الکذب اواھن او کا اصول کافر فرما ہوتا ہے ۔ اور ان کے متعلق یہ احتمال کہی نہیں ۔ کہ یہ اللہ پر تمہاری خواہشات کے مطابق افترا کا ارتکاب کرسکیں گے ۔ کیونکہ اگر یہ ایسا کریں ۔ تو ہم ان کو زندگی کے حق سے ہی محروم کردیں * واضح رہے کہ قطع تین کا اصول بنیاد کے لئے ہے ۔ اور غرض یہ ہے ۔ کہ منکرین ان کی جانب سے بالکل مایوس ہوجائیں ۔ اور دل کے کسی گوشے میں اس خیال کو جگہ نہ دیں ۔ کہ کسی وقت بھی ان کی مرضی کے مطابق دین میں تغیروتبدل پر قادر ہوسکیں گے ۔ ہر مدعی نبوت کے متعلق نہیں ہے *۔ الحاقة
43 الحاقة
44 الحاقة
45 الحاقة
46 الحاقة
47 الحاقة
48 ف 2: ان آیات میں قرآن کی صداقت اور حقانیت کے متعلق فرمایا ہے ۔ کہ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کی تشقی ایمان کا پورا پورا سامان موجود ہے ۔ جو پاکباز ہیں جس کے قلب ودماغ میں تعصی وجہل کی تاریکی نہیں ہے ۔ جو دیانتداری کے ساتھ اس کو سمجھنا چاہتے ہیں ۔ اور خلوص کے ساتھ حق کے خواستگار ہیں *۔ حل لغات :۔ قلیلا ماتومنون ۔ قلیل عربی میں ایسے مواقع پر بالعموم یا قیام کے معنے میں آتا ہے * تقول ۔ افترا اور جھوٹ سیکام لے * الوتین ۔ رگ ال والحق ثین ۔ یعنی قرآن ثبوت اور حقانفت میں اس مقام پرفائز ہے ۔ جہاں اولیٰ ترین شک بھی راہ نہیں پاسکتا *۔ الحاقة
49 الحاقة
50 الحاقة
51 الحاقة
52 الحاقة
0 المعارج
1 المعارج
2 المعارج
3 سورہ المعارج ف 1: سال سائل سے یا تو کوئی ایک شخص مراد ہے ۔ جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے ۔ کہ نضرین حارث نے مطالبہ کیا تھا ۔ کہ وہ عذاب جس کا آپ وعدہ کرتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں ۔ کہ تکذیب کی صورت میں اس کا آنا ناگریز ہے ۔ وہ کیوں نہیں آتا ۔ وہ آئے اور ہم کو فنا کے گھاٹ اتاردے ۔ یا کوئی شخص مراد نہیں ہے ۔ بلکہ پوری قوم مراد ہے ۔ کہ نزول وعید کی پیشگوئی کو سن کر ان کے دلوں میں شکوک پیدا ہوئے ۔ اور انہوں نے ان شکوک کا مذکرہ ایک دوسرے سے کیا ۔ اس پر اس سورت میں سال سائل کے انداز میں جواب مرحمت فرمایا گیا * ب عذاب واقع میں (با) ظن کے معنے میں ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں دوسری جگہ بھی آئا ہے ۔ فاسئل بہ یچلوا حالانکہ غرض یہ کہ فاسئل عنہ خبیرا ۔ ایک شعر ہے ؎ فان تسئلونی با النساء فانطن بصیرا بارعاء النساء طبیب مقصد یہ ہے ۔ چونکہ بتقاضائے کرم وبخشش عذاب کے آنے میں تاخیر ہورہی ہے ۔ اس لئے یہ لوگ شک وارتعاب کا اظہار کررہے ہیں ۔ حالانکہ جس کے نوح میں کوئی استحالہ نہیں ۔ جب وہ آجائے گا ۔ اس کو دنیا کی کوئی قوت ہٹا نہیں سکتی ۔ نادان یہ نہیں سوچتے ۔ کہ جس خدا نے اس بزم رنگین کو سجایا ہے ۔ وہ اس کو برباد کردینے پر کیوں قادر نہیں ۔ اگر وہ چاہے کہ اس ساری کائنات کو بوجہ اس کی نافرمانیوں کے ہلاک کردے ۔ تو کون ہے ۔ جو اسکے اس ارادے میں مزاحم ہوسکے اس کے بعد ارشاد فرمایا ہے ۔ کہ وہ خدا جس کی جانب سے یہ عذاب آنے والا ہے ۔ وہ سراسر عفو وکرم کا مالکہے ۔ اس لئے وہ مہلت دیتا ہے ۔ اور تم ہو کہ اس کی مہربانی سے بالکل ناجائز استفادہ کرتے ہو ۔ حالانکہ اس کا تقاضا یہ ہونا چاہیے ۔ کہ تم لوگ ذیاممنونیت سے اس کے سامنے جھک جاؤ۔ اور اس کی حمدوثنا کے زمزموں سے عالم انسانی کو نج پیدا کردو *۔ باقی صفحہ حل لغات :۔ بدی المعارج ۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں ذی اسف انسل وقسعم ۔ یعنی صاحب بخشش وکرم * بعیدا ۔ عقل وامکان سے دور * حکیم ۔ دوست *۔ المعارج
4 ف 2: ابو مسلم کے نزدیک اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ اس میں دنیا کی عمر کی طرف اشارہ ہے ۔ یعنی فرشتوں کے ابتدائی نزول سے لے کر آخری عروج وصعود تک کا عرصہ پچاس ہزار سال ہے *۔ ف 3: غرض یہ ہے ۔ کہ یہ لوگ اس عذاب کو بعید اور مستفید قرار دیتے ہیں ۔ مگر ہم یہ سمجھتے ہیں ۔ کہ یہ بالکل قریب ہے ۔ وہ دن آنے والا ہے جب یہ آسمان تیل کی تلچھٹ جیسا سرخ ہوجائے گا ۔ پہاڑ باوجود اپنی صلابت کے رنگین اون کی طرح ہوجائیں گے ۔ اس وقت کوئی دوست کسی دوست کے کام نہیں آسکے گا *۔ المعارج
5 المعارج
6 المعارج
7 المعارج
8 المعارج
9 المعارج
10 المعارج
11 ف 1: آج یہ لوگ اس واقعہ کا مضحکہ اڑاتے ہیں ۔ مگر اس وقت یہ چاہیں گے کہ فدیہ میں اپنے بیٹوں کو دے دیں ۔ اور بچ جائیں ۔ اپنی بیوی اور بھائی کو قربان کردیں ۔ اور نجات حاصل کرلیں ۔ اپنے کنبے کو اور ساری دنیا کودے دیں ۔ اور کسی طرح عذاب الٰہی سے چھوٹ جائیں *۔ المعارج
12 المعارج
13 المعارج
14 المعارج
15 المعارج
16 المعارج
17 المعارج
18 المعارج
19 المعارج
20 المعارج
21 المعارج
22 المعارج
23 المعارج
24 المعارج
25 المعارج
26 المعارج
27 المعارج
28 المعارج
29 المعارج
30 المعارج
31 المعارج
32 المعارج
33 المعارج
34 المعارج
35 نمازی کی سیرت ف 2: قرآن حکیم یہ خوبی شان امتیاز رکھتی ہے ۔ کہ اس میں حقائق نفسیات کا بھی مذکر ہے ۔ یعنی اس کتاب علم ومعرفت میں یہ بھی بتایا گیا ہے ۔ کہ انسانی فطرت کیا ہے ؟ فرمایا ۔ اس میں ایک ہم گیر عیب یہ ہے ۔ کہ یہ کم ہمت اور بےصبر ہے ۔ اگر اس کو ذرا تکلیف پہنچتی ہے ۔ تو بلبلا اٹھتا ہے ۔ اور نالہ وشیون سے آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے ۔ اور جہاں بیٹھتا ہے اسی بات کا تذکرہ کرتا ہے ۔ کہ میں بہت مصیبت زدہ ہوں ۔ مجھ کو فلک ستم شیوہ نے بہت دکھ پہنچایا ہے ۔ اور اگر برے دن پھرجائیں اور آسودہ حال ہوجائے ۔ تو پھر انتہا درجے کا بخیل اور ممسک ہوجاتا ہے ۔ پائی پائی کو گنتا ہے ۔ اور پیسے پیسے کا حساب رکھتا ہے *۔ اور اگر کوئی محتاج اور فقیر اس کے دروازے پر دستک دے اور صدقہ اور خیرات کی آرزو رکھے ۔ تو اس کو مایوس کرکے لوٹاتا ہے ۔ اور کہتا ہے ۔ کہ میں نے جو دولت حاصل کی ہے اپنی محنت اور قابلیت سے کی ہے تم کو کیوں دوں ۔ اور تمہارے خدا کا کیا احترام کروں ۔ جاؤ خود کماؤ ۔ اور خود کھاؤ۔ ہاں نمازی اس عیب سے یک قلم بری ہوتے ہیں *۔ خدائے آسمان وزمین کی عبادت کی وجہ سے ان کا ظرف عالی ہوجاتا ہے ۔ ان کا تعلق چونکہ بڑی سرکار سے ہوتا ہے ۔ اس لئے قلب میں وسعت اور حوصلہ مندی نمایاں ہوتی ہے ۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں ۔ جو وقع اس ذوق عبودیت کے جذبہ کو برقرار رکھتے ہیں ۔ ان کے مال ودولت میں مانگتے ہوں اور محتاجوں کا ایک مقرر حصہ ہوتا ہے ۔ یہ بےشک اس متعین مقدار کو اور نہیں کرلیتے ۔ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے ۔ ان کو دروازے سے مایوس ہوکر نہیں لوٹتا ۔ ان کے دل میں خدا کا خوف ہوتا ہے ۔ یہ قیامت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہی ۔ اور کیوں نہ ڈریں ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی وقت بھی انسان آفات سماوی وارضی کی طرف سے محفوظ نہیں ہے ۔ یہ عفیف اور پاکباز ہوتے ہیں ۔ اور جنسیات پر پورا پورا ضبط واختیار رکھتے ہیں ۔ اور بجز اپنی رفیقہ حیات یا مملوکہ کے اور کسی سے صنفی تعلق نہیں رکھتے ۔ یہ اس لئے فرمایا ۔ کہ بالکل قطع تعلق اور جنسیات سے علیحدگی معاف نہیں ہے جبکہ رہبانیت ہے جس کو اسلام ہرگز پسند نہیں کرتا ۔ عقاف کے معنے اسلام میں یہ ہیں کہ بیوی تو موجود ہے ۔ مگر اس کے سوا اور کسی عورت سے جنسی تعلق نہ ہو ۔ ان میں یہ خوبی بھی ہوتی ہے انکو امانت اور عہد کا بہت پاس ہوتا ہے ۔ اور گواہی پر اپنی مضبوطی کے ساتھ قائم رہتے ہیں ۔ اور پھر نمازوں پر کامل توجہ مبذول کرتے ہیں ۔ اور خشیت وخضوع کے ساتھ اس فرض کو ادا کرتے ہیں ۔ یہی لوگ عنداللہ مکرم اور مضتحر ہیں ۔ اور جن کے دائمی رہنے کی جگہ باغات ہیں *۔ واضح رہے کہ قرآن کی ان آیات میں عام انسانوں سے نمازی کو مستثنیٰ قرار دیا ہے ۔ اور فرمایا ہے ۔ کہ اس کی فضیلت ان عام انسانوں سے الگ ہوتی ہیں ۔ اور پھر ان کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ جس سے بادنی تامل معلوم ہوجاتا ہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نمازی کی کتنی عزت وحرمت ہے اور وہ نمازی سے کن عادات واخلاق کا متوقع ہے *۔ نمازی کو یہاں بطور ایک صاحب سیرت انسان کے بیان کیا ہے ۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں ۔ کہ مسلمانوں کے لئے صرف یہ کافی نہیں ہے ۔ کہ قبلہ رو ہوکر مسجد میں اس کے سامنے کھڑے ہوجائیں ۔ اور چند مقررہ حرکات کو معرض عمل میں لے آئیں ۔ بلکہ ضرورت اس بات کی ہے ۔ کہ نماز کی حقیقی اہمیت کو سمجھیں ۔ اور اس کے ظاہر کے ساتھ اس کی معنویت کو بھی اپنے میں پیدا کریں ۔ اس کو پر جائے عادت اختیار نہ جریں ۔ بلکہ اصلاح وترفع کی ایک تحریک سمجھیں نتیجہ یہ ہوگا ۔ کہ مندرجہ بالا تمام خوبیاں خود بخود پیدا ہوجائیں گی *۔ حل لغات :۔ فضیلۃ ۔ کنبہ * ھولعا ۔ کم ظرف ۔ نہایت حریص ۔ بےصبر * جزوعا ۔ گھبرا اٹھنے والا * متوعا بخیل وممسک *۔ حل لغات :۔ مشفقون ۔ ڈرتے ہیں * العدون ۔ حد شرعی سے تجاوز کرنے والا *۔ المعارج
36 المعارج
37 المعارج
38 المعارج
39 المعارج
40 المعارج
41 المعارج
42 مالداروں کی ذہنیت ف 1: کہ ان لوگوں کو اپنے مال اور اپنی دولت پر بڑا ناز ہے ۔ اور ان کی رائے میں چونکہ یہ دنیا کی نعمتوں سے بہرہ ور ہیں ۔ اس لئے ضروری ہے ۔ کہ عالم آخرت میں بھی ان کا تفوق غربا پر قائم رہے ۔ اور وہاں بھی جنت کی تمام مسرتوں سے استفادہ کرنے کا انہیں حق حاصل ہو ۔ حالانہ یہ قطعاً اس پاک جگہ میں جانے کی استعداد نہیں رکھتے ۔ اور مال دولت چاندی سونے کے ذخائر کو یہ لوگ کیوں اتنی اہمیت دیتے ہیں ۔ کہ اس کی وجہ سے اپنے کو افضل سمجھتے ہیں ۔ اور غریب مسلمانوں کو اپنی نظروں میں حقیر جانتے ہیں ۔ کیا ان کو معلوم نہیں کہ ان چیزوں سے کہیں یہ اپنی فطرت کو بدل سکتے ہیں ؟ کیا یہ وہی نہیں ہے ۔ جن کو ایک قطرہ آب سے پیدا کیا گیا ہے ۔ اور جب یہ حقیقت ہے ۔ کہ ان کی دنیا میں آنے کی حیثیت ایسی ہے ۔ کہ اس میں یہ ساری نوع کے ساتھ برابر ہیں ۔ تو پھر فخرہ غرور کیسا ۔ اور سیادت وبرتری کا ادعا کیسا ۔ واقعہ یہ ہے ۔ کہ اگر لوگ اپ پا اقتلوہ حقیقت کو آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیں ۔ کہ بڑے سے بڑا انسان بھی دنیا میں اسی طریق سے آیا ہے ۔ تو یہ غرور اور فخر جس کی وجہ سے نوع انسانی نفوق وامتیازات سی کی لعنت میں گرفتار ہے ۔ یکسر رہا ہوجائے ۔ اور اس ناہمواری کا جو سماج میں رائج ہے ۔ بالکل خاتمہ ہوجائے *۔ حل لغات :۔ مھطعین ۔ لپکتے ہوئے * عزین ۔ عیزہ کی جمع ہے ۔ بمعنی گروہ اور فرقہ یا جماعت * برب المشارق والمغارب ۔ سورج کا مشرق اور مغرب چونکہ موسم کے تغیر کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے ۔ اس لئے اس کو جمع کی صورت میں بیان فرمایا ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے تعدد وشموسہ کی طرف اشارہ ہو ۔ جیسا کہ جدید علم ہیئت کا خال ہے ۔ کہ صرف ایک نظام شمسی نہیں ہے ۔ جبکہ کئی نظام شمسی ہیں *۔ المعارج
43 المعارج
44 ف 1: اس کے بعد ارشاد فرمایا ۔ کہ یہ لوگ ہیں کسی بھول میں مشرق ومغرب کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں اور معلوم کریں کہ ہم نے کیونکر قوموں اور جماعتوں کے ساتھ سلوک روارکھا ہے ۔ ہم نے جب دیکھا ہے ۔ کہ ایک قوم ہمارے ارادہ کے مطابق نہیں ہے ۔ اور قانون فطرت اور عدل کا احترام نہیں کرتی ۔ تو اس کو فوراً فنا کے گھاٹ اتاردیا ہے ۔ اور اس کی جگہ اس سے بہتر لوگ پیدا کئے ہیں ۔ جو ہماری باتوں کا احترام کرتے ہیں ۔ اور زندگی کے اسرار سے محوم ہیں ۔ پھر جب دنیا میں ہمارا طرز عمل یہ ہے ۔ کہ بہتر اور اولیٰ لوگوں کو باقی رہنے کی ذاتی صلاحیت ہوتی ہے تو عقبے اور آخرت میں یہ کیونکر ہوگا ۔ کہ ان کافروں کو محض ان کی دولت وثروت کی وجہ سے جنت میں داخل کرلیاجائے ۔ حالانکہ زندگی اور روحانیت کے اعتبار سے یہ نہایت درجہ پست اور ذلیل ہوں *۔ ارشاد فرمایا ۔ کہ آپ ان لوگوں کو ان فضول باتوں میں خوض وتعمق کرنے دیجئے ۔ اور ان سے تعرض نہ کیجئے ۔ وہ وقت آرہا ہے جب یہ قبروں سے دوڑتے ہوئے اور لپکتے ہوئے اٹھیں گے جس طرح کہ پجاری اپنے بتوں کی طرف بسرعت دوڑتے ہیں ۔ اور کیفیت یہ ہوگی کہ آنکھیں مارے ندامت کے زمین میں گڑی ہوں گی ۔ اور چہروں پر ذلت چھارہی ہوگی ۔ اس وقت ان سے کہا جائیگا ۔ کہ یہی دن مکافات اور جزا اور سزا کا ہے ۔ اسی کے متعلق وعدہ تھا اور اسی سے تمہیں ڈرایا جاتا تھا ۔ آج دیکھ لو ۔ کہ اس میں کوئی جھوٹ نہیں ۔ یہ دن اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ موجود ہے * المعارج
0 نوح
1 سورۃ نوح ف 2: حضرت نوح ایک بڑے جلیل القدر پیغمبر ہیں ۔ اس سورۃ میں ان کی تبلیغ واشاعت کے حالات تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے ہیں ۔ کہ وہ جب تشریف لائے ۔ تو کیونکر انہوں نے حق وصداقت کی تلقین کی ۔ اور کس حد تک مخالفین کی تکلیفوں کو برداشت کیا *۔ حل لغات :۔ اجل مسمی ۔ مقررہ وقت ۔ موت *۔ نوح
2 نوح
3 نوح
4 نوح
5 نوح
6 نوح
7 حضرت نوح کی تبلیغ کا اثر ف 1: حضرت نوح فرماتے ہیں ۔ کہ میں نے ان کو شب وروز حق کی طرف دعوت دی ۔ اور بنایا ۔ مگر تقریباً ایک ہزار سال کی طویل مدت میں اس ساری تبلیغ اشاعت کا اثر یہ ہوا ۔ کہ ان کے دلوں میں اور زیادہ نفرت پیدا ہوگئی ۔ میں نے جب بھی ان سے کہا ۔ کہ حق وصداقت کو مان لو ۔ فلاح دارین پاؤ گے ۔ تو انہوں نے اپنی انگلیاں کانوں میں دے لیں ۔ کپڑے سے منہ ڈھانپ لیا ۔ نافرمانی اور سرکشی پر اصرار کیا ۔ اور ازراہ تکبر ونحوت کا انکار کردیا ۔ میں نے ہر طریق سے سمجھانے کی کوشش کی ۔ کھلے بندوں کہا ۔ علانیہ اور خفیہ ہر طرح پر سمجھایا ۔ مگر سب بےکار ۔ ان کو نہ ماننا تھا ، نہ مانے اور نہ تسلیم کرنا تھا ۔ نہ تسلیم کیا ۔ ان کے دلوں پر تعصب اور جہالت کے تالے پڑے تھے ۔ ان کی بصیرت تقلید وجمود کے ہاتھوں چھن چکی تھی ۔ ان سے غوروفکر کی طاقت سلب ہوچکی تھی ۔ اور بحیثیت مجموعی یہ اپنے اعمال کی وجہ سے قطعاً اس قابل نہیں رہے تھے ۔ کہ کسی نیک بات کو قبول کرسکیں ۔ اور اس پر عمل پیرا ہوسکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے طویل عرصہ تک حضرت نوح (علیہ السلام) کے ان کو رشدوہدایت کی دعوت دی ۔ مگر ان پر کچھ اثر نہ ہوا *۔ نوح
8 نوح
9 نوح
10 دین فطرت برکت اور دولت ہے ف 2: ان آیات میں حضرت نوح (علیہ السلام) نے دین کے متعلق ایک بہت بڑی غلط فہمی کا زالہ فرمایا ہے ۔ عام طور پر دینداری اور مذہب کے معنے یہ ہیں ۔ کہ یہ دنیا میں ترقی اور تقدم کی دشمن ہے ۔ اور اس کی وجہ سے افلاس فخر اور نیکی تقوی اور پاکیزگی قرار پاتی ہے ۔ اس میں حمق ، بےوقوفی معرفت اور دانائی ہے فرمایا ۔ یہ بات قطعاً غلط ہے ۔ اگر تم لوگ اپنے رب سے تعلقات عقیدت وارادت وابستہ کرلو ۔ اور خلوص کے ساتھ اس سے اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں کی تلاف چاہو ، تو وہ ایسا نہیں ہے ۔ کہ معاف نہ کرے ۔ اور تم کو اپنے قرب اور حضوری کا موقع نہ بخشے ۔ تم دیندار ہوجاؤ۔ اور اس کی اطاعت کا ربقہ اپنے گلے میں ڈال لو ۔ پھر دیکھو ۔ کہ کیونکر آنکھوں میں ترر اور قلب میں سرور پیدا ہوتا ہے ۔ * کیونکہ آسمان سے برکات اور انوار کا مسلسل اور مہم نزول ہوتا ہے ۔ اور کس طرح تمہارے مال اور اولاد میں اضافہ ہوتا ہے ۔ تم دیکھو گے ۔ کہ جہاں جنت میں تمہارے لئے باغ ہیں ۔ نہریں ہیں اور نہایت تکلف اور ٹھاٹھہ کی زندگی ہے ۔ یہ محض غلط ہے ۔ کہ خدا کے ساتھ احتساب اور عقیدت کا نتیجہ محض افلاس ہے ۔ کیا یہ فعل بھی قرین دانش ہے ۔ کہ وہ خدا جو خزائن ارض وسماوی کا مالک ہے اس کی دوستی قلاش اور مفلس بنادے *۔ حقیقت یہ ہے ۔ کہ یہ باتیں اس نے مشہور کررکھی ہیں ۔ جو دین کی فطرت سے آگاہ نہیں ہیں ۔ اور جو خوداللہ سے کوئی حسن ظن نہیں رکھتے اور ان لوگوں نے اس نوع کی خرافات کو پھیلایا ہے ۔ جو دین کے نادان دوست ہیں ۔ جو مجوسیت اور رہبانیت کو زہد و تقوے کے نام سے موسوم کرکے مسلمانوں کو اپاہیج اور بیکار بنانا چاہتے ہیں ۔ ورنہ دین فطرت سے ، عقل ودانش ہے ۔ ترقی وترفع ہے ۔ اور عمل وجہد ہے ۔ جس کو اپنا لینے سے ساری دنیا مسخرہوجاتی ہے *۔ نوح
11 نوح
12 نوح
13 نوح
14 نوح
15 ف 1: فرمایا حقیقت یہ ہے ۔ کہ تم جو دین کو نہیں مانتے ہو اور اس طرح کے خیالات کی اشاعت کرتے ہو ۔ تو محض اس لئے کے تمہارے دلوں میں اللہ کے لئے عزت واحترام کا جذبہ نہیں ہے اس کے بعد اس کی قدرتوں اور حکمتوں کو بیان کیا ہے ۔ کہ دیکھو خود تم کو اس نے بنایا ہے ۔ آسمان تو کس طرح اوپر تلے پیدا کیا ہے ۔ اور پھر اس میں جاندار سورج کو کس طرح آویزاں کیا ہے ۔ کہ وہ ضیا بخش عالم ہیں ۔ تم کو زمین کے اجزاء سے پیدا کیا ہے ۔ پھر زمین ہی میں مرنے کے بعد لیجایا جائے گا ۔ اور پھر دوبارہ اس زمین میں سے اٹھائیگا ۔ یہ کتنی عبرت انگیز بات ہے ۔ دیکھو یہ محض اللہ کی ۔ عنایت ہے ۔ کہ اس نے زمین کو اتنی وسعت کے باوجود تمہارے پاؤں تلے بچھادیا ہے ۔ اور تم نے اس میں کشادہ اور وسیع راستے بنارکھے ہیں ۔ اور بلا خوف وخطر اس میں چلتے پھرتے ہو ۔ کیا ایسا اللہ تمہارے لئے کچھ بھی قابل احترام نہیں ؟* نوح
16 نوح
17 نوح
18 نوح
19 نوح
20 نوح
21 نوح
22 نوح
23 نوح
24 نوح
25 نوح
26 نوح
27 بت پرستی کی وجہ ف 1: حضرت نوح نے بطور فریاد فرمایا ہے ۔ کہ اے اللہ ان لوگوں کے میرے اخلاق کی پرواہ نہ کی ۔ اور ان لوگوں کے پیچھے لگے ۔ جو مال ودولت اور دنیوی اعزاز میں مشہور تھے ۔ اور جنہوں نے حق وصداقت کو مٹانے کے لئے بڑی بڑی تدبیریں اختیار کیں ۔ نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ خود ان سرمایہ دار ان عزت وجاہ اور اولاد والوں اور ان کے ورثاء کو نقصان ہی پہنچا ۔ اور یہ لوگ سچائی کے مقابلہ میں صراحتاً گھاٹے میں رہے ۔ ان اکابر نے قوم کو یہ پٹی پڑھائی ۔ کہ دیکھو ۔ کہیں توحید کے اختیار کرکے اپنے مضبوط اور پکے عقیدے سے دست بردار نہ ہوجانا اپنے بتوں کو عزت واحترام سے رکھنا ۔ اور کسی وقت بھی ان سے عقیدت منقطع نہ کرنا اس طرح ان حاملین دولت وثروت سے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا اور بالآخر طوفان بادوباران کے بھینٹ چڑھ گئے ۔ اور جہنم وصل ہوئے * ان آیات میں معلوم ہوتا ہے ۔ کہ حضرت نوح کے زمانے میں بھی بت پرستی موجود تھی ۔ حالانکہ توحید جیسے ظاہر ونمایاں عقیدہ کے ہوتے ہوئے عقلاً اس کا کوئی احتمال نہیں معلوم ہوتا ہے ۔ اور عقل وبصیرت بالکل اس کو باور نہیں کرتی ۔ کہ انسانوں ، بتوں ، پتھروں ، درختوں اور تماثیل وہیاکل کو خدا سمجھ لیا جائے ۔ جب کہ ان سب چیزوں کو انسانی ہاتھوں نے بنایا ہے اور یا ان میں کوئی بات خرق وعجب کی نہیں ہے ۔ آخر وجہ کیا ہے ۔ کہ ابتداء سے اب تک لوگ زیادہ تر مشرک ہیں ۔ حالانکہ شرک کے حق میں کوئی وجہ معقول نہیں ہے ۔ یہ سوال اکثر دلوں میں کھٹکتا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے ۔ کہ اس کی چند وجہ ہیں *۔ (1) ہوسکتا ہے ۔ کہ لوگوں کے دل میں ابتداء یہ خیال ہو ۔ کہ خدا ان کی مادی اشکال وصورت میں متجسد ہوجاتا ہے ۔ اس لئے ان کا احترام ضروری ہے *(2) یہ بھی ممکن ہے ۔ کہ بعض چیزوں کی افادیت کو دیکھ کر ذہن اس شرف منتقل ہوا ہو ۔ کہ اللہ نے ان کے ذمہ کچھ خدمات لگارکھی ہیں *(3) ایک یہ صورت بھی ہے ۔ کہ ابتداء ہر عجیب وغریب مظاہرہ کو فہمی کی وجہ سے الوہیت کی کرشمہ سازی قرار دیا گیا ہو *(4) وسیلہ اور ذریعہ کا خیال بھی اس کا باعث ہوسکتا ہے ۔ (5) یہ بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ صلحاء کیموت ایک نسل نے ان کے مجسموں کو اور ان کی قبروں کو بطور احترام اور یادگار کے باقی رکھا ہو ۔ اور بعد میں آنے والی دوسری رکھا ہو ۔ اور بعد میں آنے والی دوسری نسل نے پرستش شروع کردی ہو ۔ (6) اور ان چیزوں کو بطور کعبہ و قبلہ کے استعمال کیا گیا ہو اور ان کے بعد لوگوں نے اس حکمت کو نہ سمجھا ہو ۔ اور اس کی جسارت شروع کردی ہو *۔ یہ سب تاویلات ہیں ۔ جو شرک کی طرف سے پیش کی جاسکتی ہیں ۔ اسلام نے ان سب کی تردید کی ہے ۔ اور کہا ہے ۔ کہ خدا کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں وہ تجسد دھول کی آلودگی سے پاک ہے ۔ تمام مظاہر کو پیدا کرنے والا ہے ۔ ذرائع اور وسائل کی اس حد تک پہنچنے کے لئے بالکل ضرورت نہیں اپنے اختیارات کو وہ بانٹ نہیں دیتا ۔ وہ تنہا ساری کائنات کا اس سے انبیاء علیہم السلام اپنی امت کے حق میں اتنے شفیق اور رحمدل ہوتے ہیں کہ حتیٰ الامکان کبھی ان کے لئے بددعا اور ہلاکت وفنا کا مطالبہ نہیں کرتے ۔ الا اس حالت میں جبکہ قوم میں نیکی کی صلاحیت بالکل مفقود ہوجائے ۔ اور اس کا زندہ رہنا خود اس کے اور آئندہ نسل کے لئے اخلاقی اور روحانی لحاظ سے مفتر ہو * ایسی حالت میں مناسب اور موزوں یہی ہوتا ہے ۔ کہ یہ قوم اپنے ناپک وجود سے زمین کو پاک کردے ۔ اور دوسری قوموں کو موقع دے ۔ کہ وہ فرمانبرداری اور اطاعت شعاری سے اپنے زندگی کے استحقاق کو ثابت کریں ۔ چنانچہ ٹھیک ایسے ہی حالات میں مایوس ہوکر حضرت نوح نے اللہ سے اس بدنہاد قوم کی ہلاکت کے لئے درخواست کی ۔ جنہوں نے تقریباً ایک ہزار برس تک اللہ کے پیغام کیساتھ استہزاء کیا ۔ اور اس کے حکموں سے سرتابی کی *۔ حل لغات :۔ سراجا ، چراغ ، کبارا ، بہت بڑا ۔ ود ، سواع ، یغوث ، یعوق ، نسر بتوں کے نام ہیں ۔ جن کی سوا لوگ پوجا کرتے ہیں *۔ حل لغات :۔ بنیان ۔ رہنے بسنے والا ، اشارہ ہلاکت *۔ نوح
28 نوح
0 الجن
1 الجن
2 الجن
3 الجن
4 الجن
5 الجن
6 الجن
7 جنات ، تاویل اور شہاب ثاقبہ ف 1: حکمائے یونان کے مقتدین نے جنات کا انکار کیا اور بعد میں یورپ نے * حضرات نے اس ضمن میں اتاویلات کو ضروری سمجھا ۔ حالانکہ قرآن حکیم میں احادث میں مذہبی صحائت میں اور مشرقی لٹریچر میں ان کے متعلق اتنا ذخیرہ ہے ۔ کہ انکار ناممکن ہے ۔ اور اب تو وہ عقلی مشکلات بھی درمیان میں نہیں رہی ہیں ۔ اب تو یورپ والے بھی کہہ رہے ہیں ۔ کہ جنات اور ارواح کا وجود برحق ہے ۔ اب ان کی تصویریں لی جارہی ہیں ۔ ان کا وزن دریافت کرلیا گیا ہے ۔ ان سے باتیں کی جاتی ہیں ۔ اور بغیر کسی قریب انفس اور سہود خطاء کے اب ایسا ایک مستقل سائنس ہے ۔ یعنی روحانیت مگر اس وقت بھی بدقسمتی سے کچھ لوگ ایسے موجود ہیں ۔ اور نادانی کی وجہ سے تاویل پر مجبور ہیں ۔ انہوں نے آج سے پچاس برس پیشتر جو کچھ سنا تھا ۔ اس سے جمے بیٹھے ہیں ۔ حالانکہ دنیائے معلومات میں بڑا انقلاب واقع ہوچکا ہے ۔ کل کے مسلمان آج مسترد اور مزخرفات فرار پارہے ہیں ۔ اور کل کے اوہام آج حقائق آج جنات کا وجود صرف مشرق کا وہم ہیں ہے ۔ بلکہ مادہ پرست یورپ کی ایک حقیقت بن گیا ہے ۔ آج جگہ جگہ سیانس روم کھلے ہیں ۔ جہاں روحانین مشق روحانیت کرتے ہیں اور ان ارواح سے گفتگو کرتے ہیں اور ان اسرار ورموز کو معلوم کرتے ہیں ۔ جو عام انسانوں کی دسترس سے باہر ہیں ۔ ہاں یہ درست ہے ۔ کہ آج بھی ان کی حقیقت دریافت نہ ہوسکی ۔ مگر ان کے وجودکیبارہ میں کچھ شبہ باقی نہیں رہا *۔ قرآنی مسائل کے باب میں ایک اصول یاد رکھنا چاہیے ۔ اور وہ یہ ہے کہ قرآن کو بھیجنے والا وہ خدا ہے ۔ جس نے ساری کائنات کو پیدا کیا ہے *۔ اس لئے وہ جو کچھ کہتا ہے ۔ وہ بلا کم وکاست بالکل درست ہے چاہے ہماری سمجھ میں میں آئے یا نہ آئے ۔ کیونکر یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم ہر بات کی کنبہ اور حقیقت کو پالیں ۔ بلکہ تجربہ تو یہ ہے ۔ کہ ہم اشیاء میں چند خواض وعوابش کے سوا اور کچھ جانتے ہی نہیں ۔ بنا برین کسی وقت بھی تاویل کی احتیاج محسوس نہیں ہوتی ۔ ہمیں چاہیے ۔ کہ جب ہم دیکھیں ۔ کہ کوئی بات قرآن حکیم کی بظاہر مودودہ عقل رجحان کے خلاف ہے سو بجائے قرآن کے حقائق میں تاویل کرنے کے یہ کہہ دیں ۔ کہ اس عقل رائے میں اور حکیمانہ نظریے میں تاویل کی ضرورت سے ہوسکتا ہے ۔ کہ آج کی عقل اور کل کا سائنس اس کی تائید نہ کرے ۔ یہ نظر ہے ہر آن بدلتے رہتے ہیں اور تغیر پذیر ہیں ۔ حالانکہ قرآن حکیم بالکل غیر متغیر اور غبر متبدل صداقت کا نام ہے ۔ اس میں بھی ترمیم اور اصلاح کی احتیاج محسوس نہیں ہوئی *۔ بہرحال عرض یہ ہے ۔ کہ جن اللہ کی ایک مخلوق ہے ۔ جو سمجھ اور شعور رکھتی ہے ۔ واقعہ یوں ہے ۔ کہ اسلام سے پہلے جنات آسمان کی طرف مقصود کرتے تھے ۔ اور کوشش کرتے تھے ۔ کہ عالم بالا کی کچھ خبریں ان کو معلوم ہوجائیں ۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا گیا ۔ تو ایک رات جنات حسب عادات گھات میں بیٹھے منتظر تھے ۔ کہ کچھ معلوم ہو ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ شہاب ثاقب کی بارش ہورہی ہے ۔ اور سلسلہ سماعت بالکل منقطع ہوگیا ہے ۔ یہ چیز ان کے لئے نہایت حیران کن تھی ۔ یہ تجسس اور ٹٹول میں روانہ ہوگئے ۔ اور سوق افکازمین پہنچ گئے وہاں دیکھا کہ پیغبمر اسلام قرآن حکیم کی تلاوش فرمارہے ہیں ۔ انہوں نے اس کو بغور سنا ۔ اور اپنی قوم کو آکر اطلاع دی ۔ اس سورت میں اس سماعت کا تذکرہ ہے *۔ واضح رہے کہ شہاب ثاقت قدیم الایام سے گرتا ہے ۔ اس کو زمانہ بعثت سے صرف اس قدر تعلق ہے ۔ کہ اس زمانہ سے اس کے اثرات میں اس چیز کا اضافہ کردیا گیا کہ وہ ان جنوں کو جو عالم بالا کی ٹٹول میں پرواز کرتے ہیں ۔ روک دے اور سماعت سے محروم کردے ۔ اس لئے کہ مقدرات میں سے ہے ۔ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں اور ان کے بعد قیامت تک اب کوئی آسمانی ذریعہ معلومات انسان کے لئے بجز اس کے باقی نہ رہے کہ وہ ختم المرسلین کے باب نبوت پر دستک دیں ۔ اور جو کچھ پائیں یہاں سے پائیں *۔ حل لغات :۔ جد ۔ شان * صاجیہ ۔ جورو ۔ بیوی * شطقا ۔ حل لغات :۔ رسدا ۔ بھلائی ۔ ہدایت * طرائق ۔ طریق کی جمع ہے * قدوا ۔ مختلف * لجشا ۔ کمی * رھقا ۔ زیادتی * تحرواتحری سے ہے جس کے معنے قصدوارادہ کے ہیں *۔ الجن
8 الجن
9 الجن
10 الجن
11 الجن
12 الجن
13 الجن
14 الجن
15 الجن
16 الجن
17 جنوں کی رپورٹ ف 1: جنات کے وفد کے جو رپورٹ اپنی قوم کے سامنے رکھی ۔ وہ یہ تھی ۔ کہ ہم نے قرآن حکیم کو سنا ہے ۔ وہ ایک عجیب کتاب سے رشدوہدایت کی طرف راہنمائی کرتی ہے ۔ ہم نے اس کو تسلیم کرلیا ہے ۔ اب یہ ناممکن ہے ۔ کہ ہم خدا کے ساتھ کسی دوسری شخصیت کو اس کا شریک اور ساجھی ٹھہرائیں ۔ وہ شرک کی ہر آلودگی سے پاک ہے ۔ نہ اس کی کوئی جورو ہے ۔ نہ اولاد ۔ وہ ان سب چیزوں سے بےنیاز ہے ۔ یہ بالکل احمقانہ عقیدہ ہے ۔ جس کو ہم نے اس کی ذات کی طرف منسوب کررکھا تھا ۔ ہم میں بہت سی غلط باتیں بطور عقیدہ کے موجودتھیں ۔ اور وہ اس بنا پر کہ ہم کو یہ گمان نہ تھا ۔ کہ انس وجن میں سے کسی کو بھی اللہ کی شان میں جھوٹ پیھلانے کی جرات ہوسکے گی ۔ اور اصل میں یہ غلط عقیدے اور اس ملی بھگت کا نتیجہ تھا ۔ کہ اب اللہ تعالیٰ کسی شخص کو مامور بناکر نہیں بھجیں گے ۔ مگر یہ عجیب واقعہ سنو ۔ کہ ہم جب حسب دستور آسمان کی طرف پرواز کرنے لگے تاکہ ملا اعلیٰ کے اسرار کو سن پائیں ۔ تو کیا دیکھتے ہیں ۔ کہ آسمان کی کڑی نگرانی ہورہی ہے ۔ اور شہاب ثاقب اس پر گرتا ہے ۔ جو سماعت کے قصہ سے گھاٹ میں بیٹھتا ہے ۔ اس لئے کہ اب یہ غیر یقینی ذرائع مسدور ہوگئے ہیں اب جو کچھ شریعت واخلاق کے متعلق پوچھتا ہے ۔ اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا جائے ۔ کہ وہی آسمانی اطلاعات کا آخری ذریعہ ہیں ۔ ہم نہیں جانتے آیا ان کی بعثت سے مقصود گمراہوں کو مٹانا ہے با پاکبازوں کو بڑھانا ۔ تم لوگ جانتے ہو کہ ہم میں سے پہلے بھی نیک ہوتے آئے ہیں اور پہلے بھی کئی طرح کے لوگ تھے ۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اب بھی اسلام کو قبول کرلینا چاہیے ۔ اور سابقہ پاکبازوں کی روایت کو زندہ کرنا چاہیے ۔ کیونکہ ہماری قدرت میں نہیں ہے ۔ کہ اللہ کا مقابلہ کرپائیں اور اس کو شکست دیدیں ۔ ہم نے سچی بات سن لی ہے ۔ اس لئے ہم تیار ہیں ۔ کہ اسے تسلیم کریں اور ایمان کی نعمت سے مشرف ہوں یارو یاد رکھو ۔ جو اپنے رب پر ایمان لاتا ہے ۔ وہ نہ کسی سے خائف ہوتا ہے اور نہ زیادتی سے ڈرتا ہے ۔ ہم میں سے بعض لوگوں نے کھلم کھلا رفیقہ اسلامی کو اپنی گردن میں ڈال لیا ہے ۔ بعض ابھی تک بدستور نہ کرئیں ۔ ہمارا یقین ہے ۔ کہ وہی لوگ راہ راست پر گامزن ہیں ۔ اور جو منکر ہیں ۔ جہنم کا ایندھن بنایا *۔ اس کے بعد مکے والوں سے خطاب فرمایا : کہ ایک طرف تو جنان ایمان کی دولت سے مالا مال ہورہے ہیں ۔ اور ایک یہ ہیں کہ محروم ہیں ۔ اگر یہ لوگ استقامت کے ساتھ اور حق وصداقت پر گامزن ہوجائیں ۔ تو ہم ان کو افراط کے ساتھ آب شیریں سے سیراب کریں اور ان کی تسنگی دور کریں ۔ مبونہ اعتراض کرنے والوں کے لئے عذاب شدید تو مقرر ہے *۔ حل لغات :۔ القاسطون ۔ ظالم * غدما ۔ آپ ۔ مکہ میں مدت سے بارش نہیں ہوتی تھی ۔ اس لئے فرمایا کہ گو یہ لوگ اللہ کی جانب اخلاق کے ہاتھ جھک جائیں ۔ تو مکے کی *۔ الجن
18 ف 2: یعنی مسجدیں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے مختص ہیں ۔ ان میں اللہ کے سوا دوسروں کو پکارنا درست نہیں ہے ۔ مسجد کے معنی بعض اہل سنت کے نزدیک جبینا اور پیشانی کے بھی ہیں ۔ اس صورت میں معنے یہ ہونگے ۔ کہ انسان جین کو شرف ومجد کا یہ رتبہ حاصل ہے ۔ کہ وہ سوائے اللہ کے اور کسی کے سامنے نہیں جھک سکتی *۔ الجن
19 ف 3: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عبداللہ کے لفظ سے تعبیر کرنے کے معنے یہ ہیں ۔ کہ اللہ تعالیٰ کو جو ادا سب سے زیادہ پسند ہے ۔ اور یہ کہ پیغمبر باوجود مراتب علیاء کے دائرہ بندگی سے باہر نہیں ہوتا *۔ الجن
20 الجن
21 الجن
22 الجن
23 الجن
24 الجن
25 الجن
26 الجن
27 الجن
28 انبیا کی حدود معرفت ف 1: جہاں تک علی الاطلاق عالم الغیب ہونے کا تعلق ہے ۔ یہ خاصہ ذات خداوندی ہے ۔ اس کے سامنے کوئی بات ڈھکی چھپی یا اوجھل نہیں ہے ۔ وہ ہر چیز اور ہر بات کو اول سے جانتا ہے ۔ اور کوئی شخص اس کے سوا ایسا نہیں ۔ جو ان معنوں میں غیب بانی کا دعویٰ کرسکے ۔ ہاں بعض دفعہ مصالح رشدوہدایت کے ماتحت وہ انبیاء کو بعض غیوب پر مطلع کردیتا ہے ۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں ہیں ۔ کہ وہ ہر آن ہر بات کو اس کی پوری تفصیلات کے ساتھ جانتے ہیں ۔ آدم کو دیکھئے ۔ علم الاسماء کلھا کا تاج فرق مبارک پر رکھا ہے ۔ اور پھر تھنسی آدم کی تصریح موجود ہے ۔ حضرت نوح جلیل القدر پیغمبر ہیں ۔ مگر اللہ کی رضا کے خلاف بیٹے مغفرت کرتے ہیں ابراہیم (علیہ السلام) خلت کی قبائے فخر زینت بحکم ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود شرک بات کے لئے خواہش ہے ۔ کہ خدا ان کو اپنی آغوش رحمت میں لے لیں ۔ حضرت مسیح کلمۃ اللہ ہیں ۔ اور یہ نہیں جانتے کہ انجیر کے درخت میں پھل کب آتا ہے ۔ اور یونس صاحب الحوت غضب وغصہ میں یہ بھول جاتے ہیں ۔ کہ قوم کی نگرانی کتنی ضروری چیز ہے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھئے ۔ عبس ولولی عن جاء کا الاغمی کی فہمائش کوستنے ہیں اور چپ ہورہتے ہیں ۔ کیا یہ وہی انبیاء نہیں ہیں ۔ جن کو اللہ نے رسالت کے لئے چن لیا ہے ۔ اور جس کے متعلق تصریح ہے کہ ان کو غیب سے مشرف کیا جاتا ہے ۔ اور باوجود اس کے یہ حضرات ہیں کہ غیب کی تفصیلات سے آگاہ نہیں ۔ کیوں ؟ اس لئے نہ انسانی فطرت میں یہ نقص ہے کہ یہ اپنی محدودیت کی وجہ سے معارف الٰہیہ کے کسب حصول کی استعداد کاملا اپنے اندر نہیں رکھتی اگر یہ ممکن ہے *۔ کہ حقیر ذرہ آفتاب ہوجائے ۔ اور قطرہ سمندر وسعتیں اپنے اندر چھپالے ۔ تو پھر یہ بھی ممکن ہے ۔ کہ کوتاہ عقل وبصیرت شان خدائے ذوالجلال کے پورے علم کو حاصل کرلے ۔ یہ یاد رہے ۔ کہ اس عقیدہ میں انبیاء کی معاذ اللہ توہین نہیں ہے ۔ بلکہ علم خداوندی کی بےپناہی کا ذکر مقصود ہے ۔ اور یہ بتایا ہے ۔ کہ اسکا علم کتنا وسیع ہے ۔ اور کس درجہ ہے *۔ الجن
0 المزمل
1 سورۃ المزمل ف 1: المزمل کے معنے لفظ اس شخص کے بھی ہیں جو ایک بارعظیم کو اپنے کندوں پر اٹھالے ۔ اور نبوت ورسالت سے زیادہ بڑھ کر اور کون بار عظیم ہوسکتا ہے ۔ اس لئے فرمایا ۔ کہ اے وہ شخص جو نبوت کی گراں بار ذمہ داریوں کا حامل ہے ۔ اٹھ اور رات کو چندے حضور خداوندی میں قیام کر ۔ رات بھر نہیں ۔ کیونکہ تمہیں دن کو بھی دین کی نشرواشاعت کے سلسلہ میں بہت کام کرنا ہے ۔ غور فرمائیے ۔ ایسا شخص جو رات کی تاریکیوں میں جبکہ ساری کائنات سورہی ہے ۔ اپنے قلب کو نور اور روشنی سے بھررہا ہے ۔ اور اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہے ۔ کیا وہ جھوٹا ہوسکتا ہے جس کے ذوق عبودیت کا تقاضا یہ ہے ۔ کہ رات بھر عبادت میں مصروف رہتا ہے ۔ اور شفقت خداوندی اس کو سخت اور شدید ریاضت سے روک دیتی ہے ۔ کیا اس کے متعلق یہ گمان بھی ہوسکتا ہے ۔ کہ یہ خدا کی طرف سے مامور نہیں ہے *۔ حل لغات :۔ توتیلا ۔ قرآن کا باداد مخارج حروف سہج سہج اور صاف صاف پڑھنا ایسا نہ ہو کہ دنیا کی محبت ذوق عبودیت پر غالب آجائے * ناشیۃ الیل ۔ شب بیداری * اشدوظا ۔ خواہشات نفس کے کچلنے میں زیادہ شدید ہے * تبطل یعنی پوری جمعیت خاطر کے ساتھ اللہ کی عبادت میں مصروف ہونا چاہیے *۔ المزمل
2 المزمل
3 المزمل
4 المزمل
5 المزمل
6 المزمل
7 المزمل
8 المزمل
9 المزمل
10 المزمل
11 امراء کیوں مخالفت کرتے ہیں ! ف 1: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اپنی بعثت کا اعلان کیا ۔ تو حسب دستور جن لوگوں نے انکار کیا ۔ وہ مفلس اور قلاش لوگ نہ تھے ۔ بلکہ وہ لوگ تھے ۔ جو صاحب مال ومنال تھے ۔ اور ابتداء سے یہ سنت چلی آرہی ہے ۔ کہ حق وصداقت کی مخالفت میں بھی روسا کا طبقہ پیش پیش رہتا ہے ۔ اور اس کی وجہ غالباً یہ ہے ۔ کہ غرباء کا دین سے کوئی تصادم نہیں ہوتا ۔ ان کی آرزوئیں اور خواہشیں نہایت محدود اور ادنی قسم کی ہوتی ہیں ۔ مگر یہ اکابر سیادت وقیادت کے خلاں اور منصب وجاہ کے متوالے ہوتے ہیں ۔ اور یہ بھی چاہتے ہیں ۔ کہ قانون واخلاق کی کوئی پابندی ان پر عائد نہ ہو ۔ مذہب کی پہلی لڑائی انہیں اغراض کی اصلاح کے لئے ہوتی ہے ۔ ان کی ریاست چھن جاتی ہے ۔ ان کی قیادت باقی نہیں رہتی ۔ دولت وثروت بھی خطرے میں پڑجاتی ہے ۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ مذہب قانون واخلاق کی مساوات کی بناء پر ان خواہشات نفس کی تکمیل نہیں ہونے دیتا ۔ اور مطالبہ کرتا ہے ۔ کہا نسانی خون اور انسانی حرمت واعزاز کے سلسلہ میں بڑے چھوٹے اور امیروغریب کا کوئی امتیازباقی نہ رکھا جائے پھر اس پر اکتفا نہیں کرتا ۔ بلکہ اپنی تربیت کے لئے ان غریبوں کو چن لیتا ہے ۔ جن کو یہ لوگ حقیر وذلیل جانتے ہیں ۔ اور پھر ان کی روحانیتوں کو اتنا مجلی کردیتا ہے ۔ کہ یہ ان لوگوں پر حکومت کرتے ہیں ۔ اس لئے فرمایا ۔ کہ اگر یہ اربات تنعم آپ کے پیغام کو نہیں مانتے ۔ اور آپ کی راہ میں مشکلات کا ایک پہاڑ حائل کرنا چاہتے ہیں ۔ تو قطعاً پرواہ نہ کریں ۔ ان کو پسند ہے مہلت دیں ۔ اس کے بعد ان کو ہمارے پاس پاجولاں ۔ کشاں کشاں آتا ہے ۔ ان کے لئے جہنم ہے ۔ اور ایسا کھانا ہے ۔ جو گلے میں پھنس کررہ جائے ۔ جہاں آگ ہے ۔ تپش ہے ۔ اور عذاب الیم ہے ۔ فرمایا کہ ان لوگوں کو اس دنیائے دوں پر ناز ہے ۔ اور یہ اس زندگی کی بھول میں ہیں ۔ حالانکہ یہ ساری بساط الٹنے کو ہے ۔ یہ زمین اپنی وسعتوں اور شاداہوں کے باوجود اللہ کے بیک ارادہ تحریک متاثر ہوکر کانپے گی ۔ اور یہ پہاڑ اپنی بلندیوں سمیت لرزیں گے ۔ اور یوں ہوجائینگے ۔ جس طرح سبالو کا شیلہ ہوتا ہے *۔ شاہد اسے غرض یہ ہے ۔ کہ قیامت کے دن اللہ کے حضور میں آپ تمہاری تکذیب اور تمہارے ایمان کی گواہی دینگے اور بتائیں گے ۔ کہ کن لوگوں نے دعوت اسلام کو قبول کیا ۔ اور اللہ کی رضا کے جو یا ہوئے ۔ اور کون محروم رہے ۔ اور اس کے سخط وغضب کا ہدف بنے *۔ حل لغات :۔ انکالا ۔ بیڑیاں * خاغصۃ ۔ جو حلق کے نیچے نہ اتر سکے * مھیلا ۔ سر سبز متعلق ازھیل بسنے ضرور بخت بیٹھا ہوا * وسیلا ۔ سخت *۔ المزمل
12 المزمل
13 المزمل
14 المزمل
15 المزمل
16 المزمل
17 المزمل
18 المزمل
19 المزمل
20 دین اسلام میں یسرو آسانی ہے ف 1: یعنی اسلام میں سراسریسرو آسانی ہے ۔ اس میں تعذیب نفس کے اصول کو مدار تقویٰ وزہد قرار نہیں دیا گیا ۔ اس لئے کہ عبادت کے یہ معنی نہیں ہیں ۔ کہ آپ رات بھر قرآن حکیم کی تلاوت کرتے ہیں ۔ بلکہ یہ ہیں ۔ کہ جس قدرآپ کا نفس بشاشت اور ذوق کے ساتھ قرآن پڑھ سکتا ہے پڑھے اور یہاں معلوم ہوا کہ اب ملال اور تھکن کے آثار ہیں چھوڑ دے *۔ اسلامی عبادت کا تخیل ف 2: قرآن حکیم کی تعلیمات چونکہ انسان کے ہر طبقہ کے لئے یکساں قابل عمل ہیں ۔ اس لئے اس میں طاقت ووسست کا اندازہ کرکے عبادت کا معیار ایسا مقرر کیا ہے ۔ جو ساری نوع انسانی کے لئے لائق قبول ہو ۔ اس کے نزدیک عبادت وزہد کے لئے تعذیب نفس کی ضرورت نہیں ۔ اور نہ اس کی ضرورت ہے کہ اس کی وجہ سے لوگوں کو دو طبقوں میں تقسیم کردیا جائے ۔ ایک وہ جو دنیا اور اس کے مشاغل کو ترک کرکے اپنی جان کو ہر نعمت وآسودگی سے محروم کرکے رہبانیت تحمل اختیار کرلے ۔ اور صرف عبادت کا ہورہے ۔ اور پھر اس کے لئے عبادت کا جو کورس مقرر ہو ۔ وہ سخت ہو اور طویل وعریض ہو اور دوسرے جو دنیا کے کاروبار میں مشغول ہو اور دن رات اپنی اور بنی نوع کی خدمت میں مصروف ومنہمک رہے اس کے لئے نصاب جو ہو مختصر اور آسان ہو ۔ بلکہ یہ ریاضت اور زہد کا کورس جس کو اسلام پیش کرتا ہے ۔ ایسا ہے ۔ کہ ہر شخص کے لئے برابر برکت اور سعادت کا موجب ہے ۔ ہمیں نہ دنیا سے محرومی ہے ۔ نہ روح کو ناقابل برداشت تکلیفوں اور مصیبتوں میں مبتلا کرنے کا سوال ۔ یہ انسانوں کو دیندار اور غیر دیندار دو طبقوں میں تقسیم نہیں کرتا ۔ اس کے معیار عبادت میں سب کے لئے کسب زار کا مرقع ہے ۔ چنانچہ فرمایا کہ ہم جانتے ہیں ۔ آپ اور آپ کے پاکباز ساتھی ۔ قیام لیل کے سلسلہ میں دو تہائی رات کے قریب یا کبھی نصف اور یک تہائی رات تک تلاوت وقرآت اور قیام وسجود میں مشغول رہتے ہیں ۔ یہ بہت زیادہ ہے *۔ ہم جانتے ہیں ۔ ان لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہونگے جو مریض ہونگے ۔ اور کچھ ایسے ہونگے ۔ جو تلاش روزگار میں دن بھر مارے مارے پھرتے ہونگے اور کچھ ایسے ہونگے جن کی شجاعانہ خدمات کی میدان جہاد میں ضرورت ہوگی اس لئے آپ لوگوں کو اجازت ہے کہ ماتیسر پر اکتفا کریں ۔ اور صرف اس حد تک پڑھیں کہ طبیعت پر بار نہ ہو ۔ گویا کہ باری تعالیٰ نے بیماروں ، روزگار کے خواستگاروں اور مجاہدین کو موقع دیا ہے ۔ کہ سب حسب توفیق واستطاعت عقیدت ونیاز مندی کا اظہار کرسکیں ۔ اور عبادت کو بہرآئند ناگوار نہ سمجھیں *۔ حل لغات : ۔ کتاب علیکم ۔ تم پر اظہار عنایت کیا ہے ۔ تخفیف فرمائی ہے * مرضی ۔ مریض کی جمع ہے *۔ المزمل
0 المدثر
1 سورۃ المدثر ف 1: آثار نبوت سے متوتر انسان کو تبلیغ واشاعت کے لئے ابھارا ہے ۔ اور کہا ہے ۔ کہ اٹھئے ! اور لوگوں کو آگاہ کیجئے ۔ ربوبیت کے تخیل کی شرک اور بت پرستی سے تذلیل ہورہی ہے ۔ آپ اس کو قول وعمل کے ساتھ بلند کیجئے دل کو پاکیزہ بنائیے ۔ اور فکروخیال کی ہر نجات کو جھٹلا دیجئے ۔ اور ان فرائض کو اس طرح خلوص کے ساتھ ادا کیجئے ۔ کہ ان لوگوں کو ممنون کرکے مال ودولت میں فراوانی کرنا مقصود نہ ہو ۔ بلکہ محض اپنے فرض منصبی سے عہدہ برا ہوتا ہو ۔ گویا مبلغ حق وصداقت کے لئے پانچ چیزوں کا ہونا ضروری ہے ۔ اولاقیام واستعذاف ثانیا اعلاء کلمۃ اللہ کا جذبہ ثالثا قلب کی پاکیزگی اور اربقا برائی کی باتوں سے کاملا احتراز ۔ اور خامسا خلوص *۔ حل لغات :۔ المدثر ۔ کپڑے میں لپٹنے والے ۔ وثار نبوت کا حامل * ولیائک ۔ قلب اور دل سے استعارہ ہے ۔ مراد نفیس کا شعر ہے ؎ وان قد ساؤتک منی خلیقتہ فسلی شہانی عن ثیابک تضلی یعنی اے معشوق اگر تم کو میری کوئی ادا واقعی بری محسوس ہوتی ہے تو میرے دل سے جدا کیوں نہیں کرلیتی ۔ اس طرح خود بخود علیحدگی واقع ہوجائیگی ۔ ایک دوسرا شعر ہے ؎ وشفقت بالروح الاحم ثبایہ ویس الکریم علی القنا ہمسفدم اس میں بھی ثیاب سے مراد دل ہے ایک مصرع ہے ۔ ع مالی باتوبی دراء حیتی اس سے مقصود بھی دل وجان سے فدا ہونا ہے *۔ المدثر
2 المدثر
3 المدثر
4 المدثر
5 المدثر
6 المدثر
7 المدثر
8 المدثر
9 المدثر
10 المدثر
11 المدثر
12 ولید بن مغیرہ ف 1: جمہور مفسرین کے نزدیک ان آیات کا مصداق ولید بن مغیرہ ہے ۔ فرمایا ۔ اس کو ہم نے مال ودولت کی نعمت سے نوازا ۔ مکہ سے طائف تک اس کے قافلے تجارت کے رواں دواں تھے ۔ بیٹے دیئے جو سب زندہ اس کے سامنے موجودتھے ۔ اور اس کے کاروبار میں شریک تھے ۔ عزت وجاہ عطا کی ۔ پھر اس کی حرص وآزکا یہ عالم ہے کہ اس کے باوجودبھی اضافہ کا طالب ہے ۔ مگر آپ ہم کچھ نہیں دیں گے ۔ کیونکہ یہ ہماری آیتوں کا سخت مخالف ہے ۔ عنقریب اس کو شدید ترین عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا ۔ اور اس کو معلوم ہوگا ۔ کہ یہ دولت وثروت ساعوان وانصار اور عزت ومختار ان میں سے کوئی چیز بھی اللہ کے عذاب سے نہیں بچاسکتی ۔ اس کا جرم یہ ہے کہ اس نے جب قرآن حکیم کو سنا ۔ اور یہ جانا کہ اس میں حق وصداقت ہے ۔ اور کہا ۔ کہ اس میں شرینی اور حلاوت ہے ۔ اس میں بلاغت فصاحت کا وافر حصہ ہے ۔ اور یہ ہر طرح غالب رہے گا ۔ مغلوب نہیں ہوسکے گا ۔ تو قوم نے کہا ۔ کہ تیرے منہ سے یہ تعریف قریش کے بہت سے سمجھ دار لوگوں کو صابی بنادے گی ۔ اور گمراہ کردے گی ۔ اس پر اس نے نتائج دعواقب پرنظر ڈالی *۔ لگام کی قدروقیمت کا اندازہ کیا ۔ پھر سوچا ۔ اور بالآخر اظہار تنفر کے انداز میں جس سے دیکھنے والے یہ سمجھیں ۔ کہ اس پر قرآن کا کچھ بھی اثر نہیں ہے ۔ کہنے لگا ۔ کہ میری رائے میں یہ قرآن جادو ہے ۔ جو منقول چلا آتا ہے ۔ اور یہ ضرور انسانی کلام ہے ۔ گویا اس طرح اس رائے کو چھپانا چاہا ۔ جس کا اظہار وہ ازراہ دیانت کرچکا تھا ۔ ماوں کہ فی الحقیقت فردا فردا تمام آئمتہ قریش قرآن عظمت ورفعت کے قابل تھے ۔ اور یقین رکھتے تھے ۔ کہ یہ انسانی کلام نہیں ہے ۔ بات صرف یہ تھی ۔ کہ اس کو کلام الٰہی تسلیم کرلینے سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا تھا ۔ ان کی قیادت چھن جاتی تھی ۔ ان سے اقتدار کو صدمہ پہنچتا تھا ۔ اور ان کا کبروغرور مٹ جانا تھا ۔ اسی لئے وہ یہی موزوں سمجھتے تھے ۔ کہ اس کی مخالفت کی جائے ۔ اور اپنے وقار کو ضائع کیا جائے *۔ حل لغات :۔ النافور ۔ نرسنگا ۔ صور * سارحقہ ۔ عنقریب اس کو چڑہاؤنگا ۔ محودا ۔ بلندی پر ۔ دوزخ میں ایک پہاڑ ہے ۔ غرض یہ ہے کہ عذاب میں مبتلا کروں گا *۔ المدثر
13 المدثر
14 المدثر
15 المدثر
16 المدثر
17 المدثر
18 المدثر
19 المدثر
20 المدثر
21 المدثر
22 المدثر
23 المدثر
24 المدثر
25 ف 1: قرآن حکیم میں بعض مقامات ایسے ہیں ۔ جہاں ہمارے جذبات عقیدت ونیازمندی کا امتحان ہوتا ہے ۔ ان تک عقل وفہم کی رسائی نہیں ہوسکتی البتہ ایمان اور یقین کی روشنی سے ان تک پہنچاجاسکتا ہے ۔ اس لئے ان مقدمات میں بحث اور دلائل شماری محض بےکار ہوتی ہے ۔ بلکہ یہاں ضرورت ہے اس بات کی کہ آنکھیں بند کرکے تسلیم کرلیا جائے اور اگر حقیقت بہت زیادہ بغاوت کرے ۔ تو اس کو یہ کہہ کردبا دیا جائے کہ ہر منزل میں تمہاری راہنمائی قطعاً بےسود ہے ؎ اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے ان مقامات میں جنت اور دوزخ کی تفصیلات ہیں ۔ کہ ان کا اس دنیا میں معلوم ہونا ناممکن ہے ۔ اسی لئے جہنم کے متعلق چندکیفیات لاذکر کرکے فرمایا ۔ کہ یہ محض آزمائش وابتلا ہے ۔ اہل کتاب اور مومنین تو اس کو تسلیم کرلیں گے ۔ مگر جن کے دل میں نفاق کا مرض ہے ۔ اور کفر کا روگ ہے ۔ وہ یہ کہیں گے ۔ کہ خدا کا ان تفصیلات کے ذکر کرنے سے مقصد کیا ہے ؟ اور اس طرح گمراہ ہوجائیں گے * حل لغات :۔ عبس ۔ تیوری چڑھائی * بسر ۔ منہ بنایا * سقر ۔ دوزخ *۔ المدثر
26 المدثر
27 المدثر
28 المدثر
29 المدثر
30 المدثر
31 المدثر
32 المدثر
33 المدثر
34 المدثر
35 المدثر
36 صبح اسلام کا طلوع ف 1: قمر سے مراد نبوت سابقہ کی روشنی ہے ۔ رات سے مقصود کفر کی تاریکی ہے ۔ جو صبح کی آمد آمد میں غائب ہورہی ہے ۔ اور یہ صبح وہ صبح سعادت ہے ۔ کہ جس کے مقابلہ میں ظلمت کا کوئی اثر نہیں اور شام قیامت تک ممتد ہے ۔ فرمایا ۔ کہ تم یقین رکھ کہ دوزخ کا مسئلہ کوئی ڈھکوسلہ نہیں ۔ بلکہ یہ بڑی بھاری چیز ہے ۔ اس کے قیام اور بقا ہے یہ غرض ہے ۔ کہ نادان انسان دنیا میں اس کی ہولناک سزاؤں کا خیال کرکے پاکبازی اور پرہیزگاری کی زندگی بسر کرے *۔ حل لغات :۔ اسفر ۔ روشن ہوجائے * الکبر ۔ کبریٰ کی جمع ہے *۔ المدثر
37 المدثر
38 ف 1: غرض یہ ہے ۔ کہ خدا کسی شخص پر چڑھ کرکے اس کو نیکی اور تقویٰ پر آمادہ نہیں کرتا ۔ اس نے ہر ایک کو اختیار دے رکھا ہے ۔ کہ وہ اپنے لئے جس طرح کی زندگی پسند کرے ۔ چاہے خیروبرکت کی حرف بڑھے اور مراتب میں رفعت وارتقاء حاصل کرے ۔ اور چاہے ہر نیکی سے محروم رہے ۔ اور اپنے لئے خسران اور پستی اختیار کرے *۔ المدثر
39 المدثر
40 المدثر
41 ف 2: یعنی اسلامی نقطہ نگاہ سے ہر شخص اپنے اعمال کی پاداش میں بطلق ہے ۔ اب اگر اعمال نیک اور صالح میں تو بنکاک کی سورت میں روح انسانی جنت کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوگی اور اگر برے اور بد ہیں ۔ تو یہ اعمال اس کو جہنم میں پھینکوا دینگے ۔ مگر اسلام ہر شخص سے براہ راست عمل خیر کا متوقع ہے ۔ اور اس چیز کو ظالمانہ اور نامنصفانہ قرار دیتا ہے ۔ کہ آپ کو دوسروں کے اعمال کے بدلہ میں گرفتار کیا جائے ۔ یا دوسروں کے تقویٰ اور زہد کی وجہ سے آپ کی رہائی ہوجائے ۔ اور آپ کو بخش دیا جائے *۔ المدثر
42 المدثر
43 ف 3: قرآن حکیم نے یہاں مصلی کے لفظ کو مسلمان کو مسلمان کے ہم معنی قرار دیا ہے کیونکہ اسلامی تصور حیات میں یہ ناممکن ہے ۔ کہ کوئی شخص اسلام کا دعویٰ دار ہی ہو ۔ اور بےنیاز بھی ہو ۔ قرآن و حدیث اور صحابہ کی زندگی میں اس قسم کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔ کہ کوئی شخص اسلام کا حلقہ بگوش ہو ۔ اور اس کے متعلق شکایت یہ ہو ۔ کہ وہ نماز نہیں پڑھتا ۔ نمازی ہونا ایک صف لازم ہے ۔ کہ مسلمان کے تخیل سے ان کا جدا کرنا ناممکن ہے ۔ یہ محض غلط فہمی یا اپنے متعلق حسن ظن ہے ۔ کہ ہم ایسے مسلمانوں کو بھی مسلمان سمجھنے پر مجبور ہیں ۔ جو اس اہم فریضہ کو ادا نہیں کرتے ۔ ورنہ دیکھ لیجئے ۔ کہ اہل جہنم سب سے بڑی وجہ اپنے جہنم میں داخل ہونے کی یہی قرار دیتے ہیں ۔ کہ ہم نمازی نہ تھے ۔ یعنی ایسے نظام عمل کو نہ مانتے تھے ۔ جس میں نماز جیسی بابرکت سعادت چیز موجود ہے *۔ المدثر
44 المدثر
45 ف 4: خوض کے معنے عربی میں مطلقاً سوچنے کے ہیں اور غور وفکر کے ہیں ۔ مگر قرآن کی اصطلاع میں اس سے مراد مخلصانہ کدوکاوش کے ہیں *۔ المدثر
46 المدثر
47 المدثر
48 ف 5: اسلام سے قبل نجات کا مفہوم یہ تھا ۔ کہ لوگ ولیوں اور شہیدوں پر بھروسہ کرکے ہر نوع کے فسق وفجور کا ارتکاب کرتے اور یہ سمجھتے ۔ کہ چونکہ ان لوگوں کے ساتھ ہمارے تعلقات امادت وعقیدت وابستہ ہیں ۔ اس لئے عذاب اور سزا سے ہمارا بچ جانا یقینی ہے *۔ کچھ لوگ بتوں اور اپنے خود ساختہ معبودوں کو اس بات کا مجاز قراردیتے کہ وہ اپنے پچاریوں کو یحسوا لیں گے ۔ اس پر اس قبیل کی آیتیں نازل ہوئیں ۔ جن میں شفاعت کی نفی کی گئی ۔ اور بتایا گیا ۔ کہ جب تک ذاتی صلاحیت نہ ہو ۔ کوئی سفارش مفید نہیں ہوسکتی *۔ حل لغات :۔ رھینہ ۔ مصدر سے * الیقین ۔ موت *۔ المدثر
49 المدثر
50 المدثر
51 المدثر
52 المدثر
53 المدثر
54 المدثر
55 المدثر
56 المدثر
0 القيامة
1 سورۃ القیامہ ف 1: لا صرف ترئین واستہلال ہے ۔ قسم سے پہلے بطور افتتاح کے عام طور پر عربی لٹریچر میں آتا ہے ۔ اصرار لقیس کے ایک قصیدہ کا آغاز یوں ہوتا ہے ؎ لاوابیک انتباہ انعامری لایدعی انقوم انی افر یوم قیامت اور نفس محاسبہ میں مناسبت یہ ہے ۔ کہ دراصل برے فعل پر نفس کی ملامت نفسیاتی نقطہ نگاہ سے ہلکی کسی عقوبت اور سزا ہے ۔ اور اس کو اگر پھیلا کر آپ دیکھئے اور ممثل شکل میں ملاحظہ کیجئے گا ۔ تویہی وہ نظام قیامت ہے ۔ جس کو قرآن حکیم پیش فرماتا ہے ۔ اور جو مشرکین مکہ کی سمجھ میں نہیں آتا ۔ قرآن حکیم دراصل انسان کی توجہ کو خود اس کے باطن کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہے ۔ اور یہ کہنا چاہتا ہے ۔ کہ تم لوگ نظام مکافات اور آخرت وبعثت کے تخیل کی مخالفت تو کرتے ہو ۔ مگر یہ نہیں دیکھتے کہ یہی چیز چھوٹے پیمانے پر خود تمہارے اندر موجود ہے ۔ اور ہر آن اور ہر لحقہ ۔ تم اس سے دوچار ہوتے ہو ۔ اور یہ نفس توامہ ہے ۔ فرمایا ۔ کہ یہ لوگ سمجھتے ہیں ۔ کہ ہم ان کی بوسیدہ ہڈیوں کو جمع نہیں کرسکیں گے ۔ اور ان کو دوبارہ زندگی نہیں عنایت کرسکیں گے ۔ حالانکہ ہم کو یہ قدرت حاصل ہے ۔ کہ ہم ان کی انگلیوں کی پوروں تک کو اکھٹا کرکے درست کردیں *۔ حل لغات :۔ تسورۃ ۔ شیر درندہ *۔ القيامة
2 القيامة
3 القيامة
4 القيامة
5 ف 1: یعنی قیامت کا انکار اس وجہ سے نہیں ہے ۔ کہ یہ عقل وفہم کے منافی ہے ۔ اور یہ بدیں وجہ اس نظام کی مخالفت نہیں کرتے ۔ کہ دانش بینش کا یہ تقاضا ہے ۔ بلکہ کفرو انکار کے پس پردہ جو محرک کام کررہا ہے ۔ وہ فسق وفجور کا جذبہ ہے ۔ یہ لوگ چاہتے ہیں ۔ کہ آئندہ زندگی میں بھی بلاتامل گناہوں کا ارتکاب کرتے چلے جائیں ۔ اور کوئی قوت ان کو اس جذبہ معصیت سے نہ روکے *۔ القيامة
6 القيامة
7 القيامة
8 القيامة
9 القيامة
10 ف 2: فرمایا ۔ آج تو یہ لوگ قیامت کے نام سے متنفر ہیں ۔ اور اس کو محض ڈھکوسلا قرار دیتے ہیں ۔ مگر ایک وقت آنے والاہے جب آنکھیں مارے حیرت کے کھلی کھلی رہ جائیں گی ۔ چاند بےنور رہ جائیگا ۔ اور آفتاب بھی اس تاریکی اور بےنوری میں اس کا شریک ہوجائیگا ۔ اس دن یہ لوگ کہیں گے ۔ کہ آج کہاں بھاگ کرجائیں ۔ اس وقت معلوم ہوگا ۔ کہ کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے ۔ سوائے پروردگار عالم کے حضور کے ۔ اس وقت ان کو ان کے کئے دھرے کا پتہ دیا جائیگا ۔ بلکہ یہ خود اس قابل ہونگے ۔ کہ اپنے اعمال کو کو دیکھ سکیں ۔ اور اپنے متعلق فیصلہ کرسکیں ۔ اگرچہ بتقاضائے بشریت یہ عذر اور بہانے پیش کرینگے ۔ مگر یہ واقعہ ہے ۔ کہ دل میں فیصلہ کے منصفانہ ہونے کا ان کو پختہ یقین ہوگا *۔ القيامة
11 القيامة
12 القيامة
13 القيامة
14 ایک لطیف ربط ف 3: بل الانسان علی نفسہ بصیرۃ کہہ دینے سے شبہ پیدا ہوسکتا تھا ۔ کہ جب اس عالم آخرت میں انسان میں ایسی بصیرت پیدا ہوسکتی ہے ۔ کہ اس کے تمام اعمال اس کے قلب میں مرقسم ہوجائیں ۔ اور ان نفوش کو معلوم کرلے ۔ جو ان اعمال کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں ۔ اور حقیقت حال پر مطلع ہوجائے ۔ تو پھر اس دنیا میں یہ کیوں ممکن نہیں ہے ۔ اور کیوں ایسا نہیں ہوسکتا ۔ کہ یہاں کتاب فطرت کے درد سر کو لیں اور اس طرح وحی والہام کی ضرورت واحتیاج باقی نہ رہے ۔ فرمایا ۔ یہ ہمارے ذمہ ہے ۔ یہاں یہ چیز ممکن نہیں ہے کہ تم اپنی دفاعی کاوش اور محنت سے کسی نظام رشدوہدایت کو معلوم کرلو ۔ چنانچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرکے فرمایا کہ جب آپ قرآن کی تلاوت فرمائیں سو سہج سہج سے یہ ہمارا کلام ہے کہ ہم اس کو آپ کے شینہ میں جمع کردیں ۔ اور آپ کو پڑھادیں بس جب ہم پڑھیں (فرشتہ کی وساطت سے) تو آپ بھی ساتھ پڑھتے جائیں اور اس پر یقین رکھیں کہ اس کی توضیح وتشریح بھی ہم کرینگے اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح قرآن بحیثیت مسکن کے مطاع ہے ۔ اسی طرح بحیثیت شرع کے مطاع ہے ۔ بحیثیت اور سندرہے *۔ حل لغات :۔ بنانہ ۔ آنکھوں کی پوریں * دزر ۔ پناہ *۔ القيامة
15 القيامة
16 القيامة
17 القيامة
18 القيامة
19 القيامة
20 القيامة
21 القيامة
22 القيامة
23 القيامة
24 دیدار الٰہی ف 1: جمہور اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے ۔ کہ قیامت کے دن رویت باری تعالیٰ سے مشتاقان جمال ضرور مشرف ہونگے ۔ اور اللہ تعالیٰ ازراہ قرب وخوشنودی ان کو موقع دیں گے ۔ کہ وہ بارگاہ حسن میں عقیدت نیاز مندی کے نذرانے پیش کرسکیں گے ۔ اہل محل واعتزال کا عقیدہ یہ ہے ۔ کہ قرب وحضوری کے مقامات پر فائز ہونا تو ناممکن ہے ۔ اور یہ بھی ممکن ہے ۔ کہ قرب اتنا زیادہ ہو کہ یہ مقربین متعین جناب قدس کے سامنے اپنے کو محسوس کریں ۔ اور وہی یقین کا مرتبہ حاصل کرلیں ۔ جو اس شخص کو حاصل ہوتا ہے ۔ جو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہا ہو ۔ اور اس طرح اس قرب وحضوری پر وہ شادمانی اور مسرت کا اظہار کریں ۔ مگر یہ کیونکر ممکن ہے ۔ کہ وہ حسن مطلق اور جمال جہان سورۃ جس کو موسیٰ عمران کی قوت وتاب برداشت نہیں کرسکی ۔ جس کی ایک تجلی سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا ۔ اس کو ان محدود اور بےقوت آنکھوں سے دیکھاجاسکے ۔ دونوں کے پاس دلائل ہیں ۔ اور دونوں ایک حد تک حق پر ہیں ۔ جہاں تک شوق ومحبت کا تعلق ہے ۔ اور اللہ کے کرم ونوازش کا تعلق ہے ۔ دیدار میں کیا مضائقہ ہے ۔ اور جہاں اس کی جلالت قدر کا سوال سامنے آتا ہے ۔ کچھ ناممکن سا معلوم ہوتا ہے ۔ کہ یہ وبدار شوخ چشمی کی مد میں داخل ہوجاتا ہے ۔ غالباً حق واعتدال کی راہ یہ ہے ۔ کہ نظریں تو اٹھیں گی ۔ مگر روایت کا حصول مشکل ہے ۔ یعنی جلوہ فرمائیوں کے منظر تو آنکھوں کے سامنے ہونگے ۔ مگر احاطہ ادراک اور پوری طرحنظروں کا چاروں طرف سے گھیرلینا ناممکن ہوگا ۔ آیت کا مقصد یہ ہے ۔ کہ کچھ لوگ تو ایسے خوش قسمت ہونگے ۔ کہ اس وقت قرب وحضوری کے اس مرتبہ کو پاکر مسرور ہونگے ۔ اور کچھ ایسے ہوں گے جو بورد دوری کی وجہ سے مایوس ان کے چہروں پروہ آب وتاب نہ ہوگی ۔ جو مومنین کے حصہ میں آئے گی *۔ حل لغات :۔ العاجلۃ ۔ دنیا * ناضرۃ ۔ رونق ۔ شاداب وشگفتہ * باسرۃ ۔ بےآب ۔ بےرونق * فاقوہ ۔ وہ تکلیف جو کمر توڑدے *۔ القيامة
25 القيامة
26 القيامة
27 القيامة
28 القيامة
29 القيامة
30 القيامة
31 القيامة
32 القيامة
33 ف 1: ان آیتوں میں بتایا ہے ۔ کہ جو بات آخرت میں کام آنے والی ہے وہ اعمال صالحہ ہیں ۔ اور وہ جس نے ساری عمر نافرمانی اور معصیت میں بسرکی ۔ جس نے کبھی خدا کی راہ میں کچھ نہیں دیا ۔ جس نے کبھی مسجد تک آنے کی زحمت گوارا نہیں کی ۔ بلکہ ہمیشہ روگردانی اور تکذیب سے کام لیا ۔ اور اکڑتا ہوا ۔ اپنے گھر کو چل دیتا تھا ۔ وہ آج یوم الحساب کے دن کسی رعایت کا مستحق نہیں ۔ اس پر کم بختی آنے والی ہے ۔ اور ضرور کم بختی آنے والی ہے *۔ القيامة
34 القيامة
35 القيامة
36 القيامة
37 القيامة
38 القيامة
39 ف 2: ان آیات میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے ۔ کہ یہ زندگی یوں ہی بلا مقصد کے نہیں ہے ۔ ایسا نہیں ہے ۔ کہ ہر شخص کو بغیر محاسبہ کے چھوڑ دیا جائے ۔ اور اس سے کوئی از پرس نہ ہو ۔ بلکہ یہ زندگی ذمہ داری اور جدوجہد کی زندگی ہے ۔ جس خدا نے ایک قطرہ آب سے مردو عورت کی ایک دنیا بسارکھی ہے ۔ کیا وہ مکافات عمل کے لئے لوگوں کو دوبارہ زندہ نہ کرسکے گا ۔ یہ وہ سوال ہے ۔ جس کو قرآن بطور استدلال کے پیش کرتا ہے ۔ اور مقصد یہ ہے ۔ کہ ایسا ہوسکتا ہے *۔ حل لغات :۔ یتمطی ۔ ناز کرتا ہوا ۔ اور اکڑتا ہوا *۔ القيامة
40 القيامة
0 الإنسان
1 الإنسان
2 اپنی حقیقت کی طرف دیکھو ف 2: انسان جو کبر وغرور کا پیکر بن جاتا ہے ۔ اور یہ سمجھتا ہے ۔ کہ میں اب دنیا میں کسی شخصیت کا محتاج نہیں ہوں ۔ اس کی اصل حقیقت کی جانب متوجہ فرمایا ہے ۔ آج جو یہ بغض وعناد کا مظاہر کرتا ہے ۔ اور حق وصداقت کی آواز کو سن کر اکڑا ہوا گزرجاتا ہے اسے معلوم بھی ہے ۔ کہ اس کی پیدائش میں کن عناصر کو دخل ہے ؟ کیا یہ وہی انسان نہیں ہے جس کو ایک ناپاک قطرہ آب سے پیدا کیا گیا ہے ۔ اور جو اس کا سمجھ بوجھ اور شمع بصر کی قوتیں دے رکھی ہیں تو اس لئے کہ اس کو مکلف بنائیں ۔ مگر یہ ہے ۔ کہ ان کا غلط اور ناجائز استعمال کرتا ہے *۔ الإنسان
3 عموم فیضان ف 2: یعنی جس اللہ کا آفتاب ساری دنیاکور روشن کرتا ہے ۔ جس طرح اس کا ابرسیت وبلند زمین کے ہر حصہ پر برستا ہے ۔ اور جس طرح ہوا ہے پتنے اور نفس نفس کت پہنچتی ہے ۔ اسی طرح جہاں تک نظام رشدوہدایت کا تعلق ہے ۔ وہ سب کے لئے عام ہے ۔ اس میں چھوٹے بڑے اور امیر وغریب کی کوئی تمیز نہیں ۔ ہر طبقے اور ہر نوع کا انسان اس کی برکات سے بہرہ مند ہوسکتا ہے ۔ نبوت آفات سارے افق انسانیت پر چمکتا ہے ۔ اور وحی والہام کی بارش ہر خطہ اراضی پر برابر ہوتی ہے ۔ اور اسی طرح فیوض وانعامات کی ہوائیں ہر شخص کے قلب ودماغ کو تازگی بخشتی ہیں ۔ اب یہ ان لوگوں کا کام ہے ۔ اور ان کا اپنا فرض ہے کہ اس سے استفادہ کریں اور سعادات دارین حاصل کریں ۔ یا گمراہ ہوجائیں اور پستی اور ذلت کو خرید لیں *۔ یعنی دنیا میں تو ان کو ہر طرح کی آزادی میسر تھی ۔ مگر انہوں نے آزادی کو مصیبت کو سے اور جزائم پیشگی کے لئے استعمال کیا ۔ اس لئے آج ان کی آزادی جان چھین جاتی ہے ۔ اور ان کے گناہوں اور ان کی مصیبتوں کو ان کیلئے زنجیروں اور طوقوں کی شل میں تبدیل کردیا جاتا ہے * کاین ۔ پیالہ جو معمور ہو ۔ اور چھلک رہا ہے *۔ جن کے کون مستحق ہیں ؟ کافور کی آمیزش کے معنے یہ ہیں کہ شراب کی ترشی اور سفیدی کافور کی طرح ہوگی ۔ اور یا یہ ایک مخصوص چشمہ کا نام ہے ۔ بہرحال غرض یہ ہے ۔ کہ نیک اور ابرار لوگ جنہوں کے اپنے فرائض کو باحسن وجوہ ادا کیا ہے ۔ جو یوم الحساب کی سختیوں سے خائف رہے ہیں اور جن کے دل میں ہے بنی نوع کے لئے جذبات محبت اور ہمدردی موجزن رہے ہیں ۔ جنہوں نے اخلاص مسکینوں ، یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلایا ہے ۔ آج ان نعمتوں کا استحقاق رکھتے ہیں ۔ ان کے لئے چشمہ کافور کی شراب ہے ۔ جنت اور باغ ہے ۔ زیبا اور قاقم ہے ۔ ریشم اور پورنیان ہے ۔ یہ مسہریوں پر قدام اور وقام کے متمکن ہیں *۔ حل لغات :۔ امشاج وتحلوط ۔ سلسلا ۔ زنجریں کے سلسلہ کی جمع ہے ۔ الحلالا جمع غل بمعنی طوق آہنی ۔ الإنسان
4 الإنسان
5 الإنسان
6 الإنسان
7 الإنسان
8 الإنسان
9 کوائف جنت ف 2: کوائی جنت کے متعلق اصولی یہ سمجھ لینا چاہیے ۔ کہ یہ بقول حضرت ابن عباس کے محض اسماء ہیں جن کی حقیقت سے ہم آگاہ ہیں ۔ فلا تعلم نفس ماعق الھم من فوق اعین دانہ وہاں جو اہتمام ہے ۔ جو حسن ہے جو کمال ہے ۔ اور فیوض ہیں ۔ ان کو نہ زبان علم سے ادا کیا جاسکتا ہے اور نہ بشری طات ہے ۔ کہ ان کے الفاظ کو منتخب کرسکے ۔ مختصر الفاظ میں ساری جنت کا مفہوم یہ ہے ۔ کہ خدا خوش ہے ۔ اور وہ اپنے بندوں کو خوش کرنا چاہتا ہے ۔ اور جب وہ خوش ہو ۔ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ۔ جس نے ستاروں کو اور نجوم وکواکب کو بنایا ہے ۔ جس نے چاند کو روشنی بخشی ہے اور آفات کو ضیاء جس نے پھولوں میں خوشبورکھی ہے ۔ اور ٹہنیوں میں لچک وہ جب خوش ہو ۔ اور اپنی خوشی کا اظہار کرنا چاہے ۔ تو آپ ہی بتائیے کہ وہ اظہار کتنا خوبصورت کس درجہ ماحول اور کس درجہ حیرت انگیز ہوگا ۔ جنت مقام رضا ہے ۔ اس لئے یہاں کی یہ چیزیں نظاط اور مسرت کا ظہور ضروری ہے ۔ بعض لوگوں نے جنت کی ان کوائف کو سن کر اعتراض کیا ہے ۔ یہ کیسی جنت ہے جس میں یہ تمام وہی مزخرفات ہیں جو دنیا میں ہیں ؟ ان کو اولاً یہ معلوم ہونا چاہیے ۔ کہ دنیا کی چیزوں اور انکا مقابلہ ہی کیا ہے ۔ یہ عارضی اور فانی وہ دائمی اور ابدی ، یہ ناقص وہ کامل ان میں تکدرت دینوی کا اندیشہ ان میں بالکل نہیں ۔ ثانیا یہ کیا ضورت ہے ۔ کہ نجات کے لئے ایسی دنیاکا ہونا زیبا ہو ۔ جہاں اس دنیا کی خواہات حد سے دنیا کی ضروریات نہ ہوں ۔ یہ خیال محض رہبانیت پر مبنی ہے ۔ ورنہ جہاں تک انسانی فطرت کا تقاضا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ہر انسان دل کی گہرائیوں کے ساتھ یہ چاہتا ہے ۔ کہ وہ ایک ایسی دنیا میں چلا جائے ۔ جہاں غم نہ ہو ۔ فکرواندیشہ نہ ہو ۔ جہاں اپنے عزیزوں کو کوئی تکلیف نہ ہو ۔ جہاں ہمیشہ جوان رہیں ۔ جہاں تازگی اور مسرت کے پورے لوازم ہر آن موجود رہیں ۔ اور جہاں روح اور جسم کی تمام خوشیاں مہیا ہوں ۔ قرآن کہتا ہے ایسی دنیا موجود ہے ۔ اور اس کے حصول کا طریقہ یہ ہے ۔ کہ اس دنیا میں اپنے ارادوں اور اپنی خواہشات کو اللہ کے تابع کردہ نتیجہ یہ ہوگا ۔ کہ اس دنیائے مسرت واجتہاج کو وہ تمہارے تابع کردیگا ۔ کہیے اس میں کوئی اعتراض کی بات ہے ۔ اصل میں یہ اعتراضات اس لئے نہ قابل التطبات ہیں کہ ان میں انسانی فطرت کی صحیح ترجمانی نہیں کی گئی ۔ یہ اوپر سے دل کی پیداوار ہیں ۔ اور ان کا مقصد یہ ہے ۔ کہ یہ معلوم کرلیا جائے ۔ کہ کیا واقعی اس طرح ہونے والا ہے ؟*۔ حل لغات :۔ بانیۃ ۔ جام ۔ برتن ۔ ظروف * اکواب ۔ کوب کی جمع ہے ۔ بےٹونٹی اور دستے کے آب خورے * تحواریرمن خفیہ یعنی وہ آنجورے ، چاندی اور شیشے کے مرکب سے بنائے جائیں گے ۔ زنجبیلا ۔ سونٹھ ۔ عرب اس مشروف کو پسند کرتے تھے ۔ جس میں سونٹی کی آمیزش ہو ۔ کیونکہ اس میں ذرا خوشگوار قسم کی تلخی پیدا ہوجاتی ہے ۔ سلسبیلا ۔ خوشگوار بہشت کیا یک چشمہ کانام ہے ۔ پانی کی صفائی اور روانی کی مناسبت سے اس کا نام رکھا گیا ہے * محاراون ۔ خدمت کے لئے ایسے بچے جو ہمیشہ بچے رہیں ۔ عام طور پر ان کو اس لئے پسد کیا جاتا ہے کہ یہ کام چشتی اور پھرتی سے کرتے ہیں ۔ مگر بڑوں کی طرح حریص اور طماع نہیں ہوتے ۔ نیز معلوم ہونے کی وجہ سے وہ خدمات کے لئے اس لئے بھی موزوں ہیں ۔ کہ ان کے آنے جانے میں اہل خانہ کو کوئی تکلف نہیں ہوتا ۔ لولورا منشور ۔ یعنی یہ خوبصورت بچے اہل جنت کے کاموں میں ابوہر میں کچھ اس طرح بکھرے ہوئے گے کہ ان پر موتیوں کا دھوکہ ہوگا *۔ حل لغات :۔ النذر ۔ فرائض یا واجبات ۔ لفظ نذر وفرائض ماجہات کے معنوں میں اس لئے استعمال کیا ہے ۔ تاکہ یہ معلوم ہو ۔ کہ اللہ کے پاکباز بندوں کی نگاہوں میں ان ادا کرنا کتنا ضروری ہے *۔ تصریۃ ۔ تروتازگی * زمھریر ۔ جاڑا ۔ سردی کی سختی ؟ الإنسان
10 الإنسان
11 الإنسان
12 الإنسان
13 الإنسان
14 الإنسان
15 الإنسان
16 الإنسان
17 الإنسان
18 الإنسان
19 الإنسان
20 الإنسان
21 الإنسان
22 الإنسان
23 الإنسان
24 ف 1: غرض یہ ہے ۔ کہ یہ منکرین محض اس لئے قرآن کی برکات اور حق وصداقت کے انوار سے محروم ہیں کہ یہ اس نقطہ کو اس تسبہ پر ترجیح دیتے ہیں ۔ جو اس سے زیادہ بیش قیمت ہے ۔ اور زیادہ واقعی ہے ان لوگوں کو دنیائے عاجل کی چمک دمک نے کچھ ایسا مبہوت کررکھا ہے ۔ کہ انکی نظریں کسی دوسری طرف متوجہ نہیں ہوتیں ۔ یہ مادیت کے عارضی لذت کو حاصل حیات سمجھے ہوئے ہیں ۔ اور ان کی رائے میں جو کچھ ہے یہیں ہے ۔ اس کے اور وہاں مشکو ہے یا بعیداز عقل ۔ حالانکہ اس دنیا کا حس مٹنے کو ہے ۔ اس کاسارا نظام ضائع ہونے کو ہے ۔ اور جرم کھلنے کو ہے ۔ پھر سوائے عقبیٰ اور عالم آخرت کے کوئی چیز قطعی اور یقینی نہیں ہوئی ۔ فرمایا ۔ کیا یہ اس حقیقت پر غور نہیں کرتے کہ ہم نے ان کو پپیدا کیا ان کے جوڑ بند مضبوط کئے ہیں ۔ تو کیا محض عبث اور بیکار کیا ان کی تخلیق کے پس پردہ کوئی غرض اور مقصد کار فرمانہیں ؟ یاد رہے ۔ کہ اگر انہوں نے ہمارے پیغام کو ٹھکرایا ۔ تو جس طرح ان کو ہم نے کتم عدم سے نکالا ہے ۔ اور وجود کے شرف سے نوازا ہے ۔ اسی طرح ان کو مٹاکر ان کی جگہ دوسری قوم کو آباد کیا جاسکتا ہے ۔ یہ قرآن تذکر اور صادر نصیحت ہے ۔ جو شخص چاہے اس کی وساطت سے خدا کی راہ پر گامزن ہوجائے ۔ مگر مشکل یہ ہے ۔ کہ یہ میلان خود موقوف سے ۔ اللہ کی توفیق پر اور ان کی مشیت پر *۔ باقی اگلے صفحہ پر حل لغات :۔ شرابا طھور ۔ ایسی شراب جو اپنے اوصاف کے اعتبار سے پاکیزہ ہو ۔ جوذوق و وجدان کو بیدار کرے ۔ مگر دماغ وتغلب پر قبلہ نہ لے ۔ اور بےہودہ گوئی پرآمادہ نہ کرے * یوما ثقیلا ۔ ایک اہم دن *۔ الإنسان
25 الإنسان
26 الإنسان
27 الإنسان
28 الإنسان
29 الإنسان
30 الإنسان
31 ف 1: وہ علیم وحکیم خدا ہے ۔ جس کو پسند کرتے ۔ اپنی آغوش رحمت میں لے لے ! اور ظالموں کے لئے جو کہ ان حقائق کے منکر ہیں ۔ اس نے درد ناک عذاب تیار کیا ہے * الإنسان
0 المرسلات
1 المرسلات
2 المرسلات
3 المرسلات
4 المرسلات
5 المرسلات
6 المرسلات
7 المرسلات
8 سورہ المرسلات ف 2: اس سورۃ میں قیامت کے اثبات کے لئے اس انداز بیان کو اختیار کیا ہے ۔ تاکہ سننے والے اور پڑھنے والے کے دل میں غوروفکر کی استعداد پیدا ہو ۔ اور وہ جو رائے بھی قائم کرے ۔ وہ توں کر اور جانچ کر کرے ۔ دعویٰ یہ ہے ۔ کہ انما توعدون لواقع ۔ اور ثبوت میں نہیں کیا ہے ۔ ان مذکورہ بالا چیزوں کو ان کی تاویل اور ان کے ترجمے ہیں ۔ اہل علم کا اختلاف ہے ۔ بعض کی رائے میں ہوائیں ہیں ۔ اور امام رازی نے ایک احتمال یہ پیدا کیا ہے ۔ کہ اس سے قرآن کی آیتیں مراد ہیں ۔ اور واقعہ یہ ہے ۔ کہ یہ احتمال زیادہ صحیح ہے ۔ کیونکہ اس طرح دعویٰ اور دلائل میں پوری نطبیق پیدا ہوجاتی ہے ۔ ترجمہ یوں ہوگا ۔ کہ قرآن کی ان آیات کو قیامت کے ثبوت سے میں پیش کیا جارہا ہے جو پہیم اور مسلسل رشدوہدایت کے لئے نازل ہوئی ہیں ۔ اور لوگوں نے اولاً ان کو تسلیم نہیں کیا ۔ پھر ان میں قوت اور زور پیدا ہوگیا ۔ اور ان آیات نے خیالات کی دنیا کو یکقلم بدل دیا ۔ پھر ان آیات نے حکمت وعقل کے نشانات کو پھیلایا ۔ اور حق وباطل میں امتیاز قائم کردیا ۔ اور اس طرح دنیا میں القائے ذکر کا باعث ہوئیں ۔ یہ آیات اس حقیقت پر دال ہیں ۔ کہ ان میں جو کچھ لکھا ہے ۔ وہ حق وصداقت پر مبنی ہے ۔ اور گو آج تم انکار کررہے ہو ۔ مگر بالآخر اس کے ساتھ متفق ہوجاؤ گے اور تمہارے علوم بتادیں گے ۔ کہ واقعی یہ نظام دنیا درہم برہم ہونے والا ہے ۔ چنانچہ دیکھ لیجئے ۔ کہ آج قیامت صرف مذہبی حقیقت ہی نہیں ۔ بلکہ سائٹیفک حقیقت بھی ہے *۔ حل لغات :۔ عرفا ۔ نیکی کو بھی کہتے ہیں ۔ اور پہیم اور مسلسل کو بھی * ولمشیت ۔ مٹائے جائیں گے ۔ طمس سے ہے ۔ جس کے معنی مٹادے *۔ المرسلات
9 المرسلات
10 المرسلات
11 المرسلات
12 المرسلات
13 المرسلات
14 یوم الفضل ف 1: قیامت کو یوم الفضل کے لفظ سے تعبیر کرکے خود اس کی ضرورت اور اہمیت کو اسی طرح واضح کردیا ہے ۔ کہ شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہ رہے ۔ یعنی وہ لوگ جو قیامت کے منکر ہیں ۔ جو اس بات کو نہیں تسلیم کرتے ۔ کہ مرنے کے بعدکسی دوسری زندگی کا آغاز ہونے والا ہے ۔ اور کوئی دن ایسا مقرر ہے ۔ جس میں مکافات عمل کے اصول کے مطابق سزا اور جزا تجویز ہونے والی ہے ۔ وہ بتائیں ۔ کہ انکی رائے اس دنیا کے نظام کے متعلق کیا ہے ۔ کیا وہ اس کو اتنا کامل سمجھتے ہیں ۔ کہ اس کے بعد کسی دنیا کو فرض کرنا غیر ضروری قرار دیتے ہیں ۔ اگر جواب اثبات میں ہے ۔ تو پھر اس کی کیا وجہ ہے ۔ کہ یہاں اکثر اور بیشتر ظالم وسفاک تو فطرت کی تعزیر سے بچ جاتے ہیں ۔ اور بے گناہ ان کی شامت اعمال کی وجہ سے پکڑے جاتے ہیں ۔ ایسا کیوں ہے ؟ اگر اس دنیا کا قانون ظالموں کو کوئی سزا دیتا ۔ تو کہیں بھی ظالموں سے باز پرس نہیں ہوگی ! یہ ایسی بات ہے ۔ کہ سمجھ میں نہیں آتی ۔ تاوقتیکہ یہ نہ فرض کرلیا جائے کہ اس عالم کون پر معاذ اللہ اندھی حکومت کارفرما ہے ۔ اور اس چیز کا تسلیم کرلینا دلائل اور عقل وبصیرت کا انکار کرنا ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں ۔ کہ دنیا کا نظام خدائے علیم وحکیم کی صنعت گیری پر سراسر دال ہے ۔ اس لئے لازماً یہ ماننا پڑے گا ۔ کہ نظام عمل کے بعد ایک نظام مکافات بھی ہے ۔ اور ایک دن ایسا بھی ہے ۔ جس میں عالم کو سزا دیجائیگی ۔ مکذبین کو ان کی تکذیب کا مزہ چکھایا جائے گا ۔ اور مجرموں کو بتایا جائیگا ۔ کہ خدا کی گرفت بہت مضبوط ہے ۔ یہی یوم الفصل ہے *۔ المرسلات
15 المرسلات
16 المرسلات
17 المرسلات
18 ف 2: اس قانون مکافات کا ذکر ہے ۔ جو اس دنیا میں جاری وساری ہے ۔ اور وہ یہ ہے کہ گو افراد کو تو برے اور اچھے عمل کی آزادی حاصل ہے ۔ مگر جب پوری قوم بدکار ہوجائے ۔ اس وقت ان کو گوارا نہیں کیا جاتا ۔ اس وقت اللہ کا قانون حرکت میں آتا ہے ۔ اور زندگی کے حق سے ان کو محروم کردیتا ہے ۔ اسی لئے فرمایا ۔ کہ پہلوں کو دیکھو ۔ کہ ان کو ان کے اعمال کی کیا سزا ملی ۔ پھر پچھلے کیوں ۔ اپنی سرکشی اور بداعمال پر نازاں ہیں ؟ *۔ باقی صفحہ حل لغات :۔ ریل ۔ اظہار تاسف کے لئے ہے ۔ فی پر مکین ۔ یعنی عورت کا رحم ۔ یہ قرآن کی لطافت بیان ہے ۔ کہ وہ نازک سے نازک مسائل کی تشیرح میں بھی انچیزوں کا اس طرح سے نام نہیں لیتا ۔ جن کا اثر انسان کے اخلاقی حیض پر پڑتا ہے ۔ اور یہ اسی خصوصیت ہے ۔ جو دنیا کی کسی الہامی کتاب میں نہیں پائی جاتی *۔ المرسلات
19 المرسلات
20 المرسلات
21 المرسلات
22 المرسلات
23 ف 3: انسان کی توجہ کو اس کی پیدائش کی طرف منعلف کیا ہے ۔ کہ دیکھوہم نے کیونکر حقیرودلیل قطرہ آب سے تمہیں پیدا کیا ۔ غرض یہ ہے ۔ کہ ایک طرف تو یہ معلوم ہو کہ حضرت انسان قدروقیمت کے لحاظ سے کسی معزاز اور بخیر کا استحقاق رکھتا ہے ۔ اور دوسری جانب یہ معلوم ہو کہ خدا کتناحلیم اور کس درجہ حکیم ودانا ہے ۔ کہ پانی کے ایک قطرہ سے انسان جیسے اشرف المخلوق وجود کو پیدا کیا ہے *۔ المرسلات
24 المرسلات
25 المرسلات
26 المرسلات
27 المرسلات
28 المرسلات
29 المرسلات
30 مہ شاخہ شعلے ف 1: جہاں مومنین اور مومنین اور مخلصین اللہ کے سایہ رحمت وفضل میں آسودہ ہونگے ۔ وہاں ان منکرین کے لئے کوئی جائے پناہ نہ ہوگی ۔ ان سے فرشتے کہیں گے ۔ کہ جاؤ تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ اور وہی تمہارا ملجا اور ماویٰ ہے ۔ اسی کی آگ اور دھوئیں کی طرف چلو ۔ پھر اس دھوئیں کے سائے کی تین شاخیں ہونگی ۔ جو دائیں بائیں اور اوپر کی جانب پر مشتمل ہونگی اور ان میں ٹھنڈا سایہ نہ ملے گا ۔ اور نہ یہ شعلوں کے حملوں سے بچاسکیں گی ۔ اور شعلے بھی بڑے بڑے محل جیسے نکلیں گے ۔ اور کالے کالے بلند قامت اونٹوں کی طرح ہونگے ۔ اور یہ تین ظلمتیں یا دھوئیں وہ ہونگ ۔ جو ان لوگوں نے خود دنیا میں پیدا کئے ہیں ۔ یہاں یہ ممثل ہو کہ عذاب کی صورت میں ان کے سامنے ہونگے ۔ اور بس ۔ یہاں ان کو معلوم ہوے ۔ کہ انہوں نے جن جن چیزوں کی پناہ میں زندگی بسر کی ہے ۔ وہ کیا تھیں ۔ یہی غضب شہوت اور حرص غطسب کی وجہ سے انہوں نے حق وصداقت کو ٹھکرایا ۔ اہل تقویٰ کے خلاف صف آرائی کی ۔ اور قتل وغارت نگری کا شیوہ اختیار کیا ۔ شہوت کے وتھو مجبور کیا ۔ کہ سورج کے اخلاقی نظام کے بندھنوں کو توڑیں ۔ اور اخلاقی وروحانیت کی دنیا میں ابتری پھینا دیں ۔ اور حرص وآڑنے مال ودولت کی محبت کے فتنے جگائے جو رواستبداد کے ڈھنک سکھائے اور یہ بتایا *۔ کہ کیونکر دنیا کو افلاس وفقر کی لعنتوں میں پھنسایا جاسکتا ہے ۔ آج یہ غضب آگ کی شکل میں مشکل ہوکر ان کے دائیں پہلو کو داغ رہا ہے ۔ شہوت بائیں طرف کو اذیت پہنچارہی ہے ۔ اور حرص وآزدماغ پر مسلط ہے ۔ اس طرح یہ جہنم جو کچھ بھی ہے ۔ گویا ان کا اپنا کیا دھرا ہے ۔ فرمایا کہ آج مکذبین کے لئے نہایت ہی حسرت وافسوس ہے ۔ آج ان کی زبانیں مارے ندامت کے گنگ ہیں ۔ ان میں یہ استعداد ہی نہیں ۔ کہ کوئی عذر کرسکیں ۔ پھر اس بات کی اجازت بھی نہیں ہے ۔ کہ بےفائدہ عذر اور بہانے پیش کریں *۔ یہ فیصلے کا دن ہے ۔ اس میں سب لوگوں کو جمع کیا گیا ہے ۔ اور کہا گیا ہے ۔ کہ اگر ہمارے عذاب سے چھوت سکتے ہو ۔ اور تمہارا مکروفریب تمہارے کچھ کام آسکتا ہے ۔ تو آزمالو ۔ بہر آئینہ سزا مقدر ہے ۔ جو مل کر رہے گی *۔ حل لغات :۔ تطاتا ۔ اس کے معنی ہیں ۔ اصل میں جمع کرنے کے ہیں ۔ چنانچہ یہ نیک تو اس لحاظ سے کھات ہے کہ زندہ اور مردہ دونوں میں سے اس کو برابرکی ہمدردی ہے ۔ اور دونوں کے لئے یکساں ضروریات کو جمع اور مہیا کردیتی ہے ۔ اور دوسرے اس خاتمہ سے کہ دونوں نوع کے لوگ زندگی اور موت میں اس کے محتاج ہیں ۔ زندہ رہیں تو اس کی سطح پر مریں تو اس کی آغوش میں * جلسور ۔ چھنگاریاں ۔ انگارے ۔ مسقر ۔ یعنی جیسے اونٹ المرسلات
31 المرسلات
32 المرسلات
33 المرسلات
34 المرسلات
35 المرسلات
36 المرسلات
37 المرسلات
38 المرسلات
39 المرسلات
40 المرسلات
41 ف 1: جہنم کی تفصیلات کے بعد ضروری تھا ۔ کہ پاکبازوں کو بشارت سنائی جائے ۔ چنانچہ فرمایا ۔ کہ اہل تقویٰ کے لئے جو سائے ہیں ۔ وہ ٹھنڈے اور رحمت کے سائے ہیں ۔ وہ میٹھے اور شیریں چشموں میں ہوں گے ۔ ان کو ہر نوع کے مرغوب میوے ملیں گے ۔ اور کہا جائیگا ۔ کہ چونکہ تم نے دنیا میں اپنی خواہشات کے خلاف ہمارے دین کا ساتھ دیا ہے ۔ اور نیک زندگی بسر کی ہے ۔ اس لئے تمہاری خواہشات کو یہاں ملحوظ رکھا جائے گا ۔ تمہیں اجازت ہے ۔ کہ اس باغ میں رہو سہو اور جو چاہو کھاؤ پیو *۔ حل لغات :۔ کید ۔ مکر اور تدبیر * عیون ۔ جمع عین * ھدایتا ۔ خوش گواری کے ساتھ *۔ المرسلات
42 المرسلات
43 المرسلات
44 المرسلات
45 المرسلات
46 المرسلات
47 المرسلات
48 المرسلات
49 المرسلات
50 المرسلات
0 النبأ
1 النبأ
2 النبأ
3 النبأ
4 النبأ
5 سورۃ النباء ف 1: قیامت کے تخیل کو اس تفصیل اور اس اہمیت کے ساتھ صرف اسلام نے پیش کیا ہے اس لئے مکہ کے مادہ پرست مشرکین کو جو مذہبی معارف سے محض ناآشنا تھے ۔ یہ بات قرین عقل وثواب نظر نہیں آتی تھی ۔ وہ برملا کہتے تھے کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرسکتے کہ یہ دنیائے زینت وآرائش یکایک ایک دن تباہی وبربادی کے ساتھ بدل جائے گی ۔ ان کی رائے میں یہ مسئلہ محض طبع زاد حیثیت رکھتا تھا ۔ جس سے مقصود لوگوں کو خواہ مخواہ مرعوب کرتا تھا ۔ اس لئے اس کے متعلق اکثر بحث رہتی کہ قیامت کے امکانات کیا ہیں اور وہ کب وقوع پذیر ہوگی ۔ کیونکر ایسا ہوگا کہ یہ عالم آن کی آن میں تہ وبالا ہوجائے ۔ اس پر اس سورت میں ان کو بتایا کہ آج تمہاری عقول نے اتنی ترقی نہیں کی ہے کہ تم اس کی حقیقت کو سمجھ سکو ۔ قرآن کا یہ مسئلہ تمہاری عقل سے کہیں بالا ہے ۔ اس کی نظریں آج سے چودہ سو سال بعد میں آنے والے علوم پر ہیں ۔ زمانہ گزرنے دو ۔ فکرودانش کو ترقی وعروج کی کچھ منزلیں طے کرنے دو ۔ اس کے بعد آپ سے آپ تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ قرآن میں جو کچھ ہے حق وصداقت ہے اور قیامت اسی طرح ایک حقیقت ہے جس طرح دن کے بعد رات کا آنا اور زندگی کے بعد موت کا درود ۔ چنانچہ یہی ہوا وہ بات جو اس وقت مضحکہ خیز تھی ۔ آج اس کی حیثیت (سائنٹیفک ٹروتھ) یعنی حقیقت طبیعہ کی ہے ۔ آج طبیعات کے ماہرین نے اس نوح کے اندیشوں کا اظہار کیا ہے کہ یہ دنیا اور اس کی قوتیں اور اس کے متابع حیات سب فنا پذیر ہیں اور ایک وقت آنے والا ہے جب کہ یہ عالم رنگ وبو صفحہ کون سے حرف غلط کی طرح مٹ جائے گا ۔ سب سے زیادہ امکان سورج کی طرف سے ہے کہ اس کی روشنی ایک دن میں کئی ٹن حرارت کو ختم کررہی ہے ۔ اور اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو بالآخر یہ کرہ انار اپنی کل حرارت کھودے گا اور یہی قیامت ہے *۔ غور فرمایا آپ نے صاحب قرآن کا علم ؟ کیا اس کے خوارق علمیہ کے اظہار کے بعد بھی یہ رائے درست ہے ۔ کہ قرآن اللہ کی کتاب نہیں ہے *۔ باقی صفحہ حل لغات :۔ یتساء لون ۔ باہم ایک دوسرے سے پوجتے ہیں * النباء ۔ اہم بات * سباتا ۔ سبت کے معنی اصل میں قطع کرنے کے ہیں ۔ نیند چونکہ بےآرامی کو دور کردیتی ہے ۔ اور دن بھر کی کو فتوں اور مصیبتوں سے رشتہ غور وفکر کو منقطع کردیتی ہے ۔ اس لئے اس کو سباتا کہا جاتا ہے ۔ یعنی منقطع کرنے والی *۔ النبأ
6 النبأ
7 ف 2: پہاڑوں کو میخیں بنانے کے معنی یہ ہیں کہ نظریہ جذب شمسی کی تائید فرمائی ہے ۔ یعنی جب یہ زمین سورج سے وزن میں کہیں کم ہے ۔ اور سورج اپنے اندر جذب و کشش رکھتا ہے ۔ تو پھر زمین کیوں سورج کی طرف نہیں پرواز کرجاتی ۔ اس کا جواب یہ مرحمت فرمایا ہے کہ پہاڑوں کی وجہ سے زمین کا ثقل اتنا بڑھ گیا ہے ۔ کہ اب سورج کی کشش اس کو اپنی طرف کھینچ کر نہیں لے جاسکتی ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک توازن سا قائم ہے اور زمین اس وجہ سے محفوظ ہوگئی ہے *۔ النبأ
8 النبأ
9 النبأ
10 النبأ
11 النبأ
12 ف 1: سبعا شدادا سے مراد کئی نظام کواکب ہیں جو اپنی ساخت کے اعتبار سے نہایت محکم اور مضبوط ہیں ۔ سبع کا لفظ یہاں عدد کے لئے نہیں ۔ بلکہ تکثیر کے لئے ہے ۔ النبأ
13 النبأ
14 النبأ
15 النبأ
16 النبأ
17 ف 2: یوم الفصل کے اثبات کو بطور نتیجہ کے بیان فرمایا ہے ۔ غرض یہ ہے کہ جب تم لوگ کائنات کی افادیت پر غور کرو گے اور جب اس حقیقت کے متعلق سوچو گے کہ آخر بےجان مادہ نے نفع اور فائدہ کی شکلیں ہی کیوں اختیار کی ہیں اور یہ دنیا باضابطہ اور قاعدے کے مطابق کیوں تجویز کی گئی ہے تو اس کا جواب خودبخود سوجھے گا ۔ وہ یہی ہوگا کہ یہ نظام علیم وحکیم خدا کا مقرر کردہ ہے ۔ تخمین و مجازفہ کا نتیجہ نہیں ہے ۔ اور اس کے پیدا کرنے سے ایک مقصد ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اللہ کے سامنے پیش ہوکر ایک دن بتائے کہ اس نے اس دنیا کی نعمتوں سے کیونکر استفادہ کیا ہے ؟ ۔ النبأ
18 النبأ
19 النبأ
20 النبأ
21 مقام غضب ف 1: جہنم نام ہے اللہ کے مقام غضب کا ۔ یعنی جو لوگ دنیا میں اللہ کے احکام سے روگردانی کرتے ہیں ، حدود فطرت واعتدال سے تجاوز کرتے ہیں اور خواہشات کی پیروی میں منہیات کے ارتکاب سے نہیں چوکتے ۔ اللہ ان پر ناراض ہوتا ہے اور آخرت میں ان کے لئے جس مقام اور جس جگہ کو تجویز فرماتا ہے وہ مقام غضب وسخط ہے اور اس کو قرآن کی اصطلاح میں جہنم کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس کی تعریف میں فرمایا کہ جہنم گھات کی جگہ ہے ۔ منتظر ہے کہ کب گناہ گار مخلوق آتی ہے اور اس کے پیٹ کو بھرتی ہے ۔ سرکشوں کا ٹھکانہ ہے ۔ جو لوگ توازن اور انصاف کو ملحوظ نہیں رکھتے اور اخلاق وروحانیت کی حدود طبعی کو پھاند جاتے ہیں ۔ وہ ان کی جگہ ہے *۔ حل لغات :۔ الفافا ۔ گھنے گھنے ۔ گنجان * مرصادا ۔ یا ظرف مکان ہے ۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ جہنم گھات کی جگہ ہے ۔ اور یا مبالغہ کے لئے ہے ۔ یعنی شدت کے ساتھ منتظر * احقابا ۔ حقبہ کی جمع ہے ۔ مدت کثیر *۔ النبأ
22 النبأ
23 النبأ
24 النبأ
25 النبأ
26 النبأ
27 النبأ
28 النبأ
29 النبأ
30 ف 1: وہاں کہیں سایہ نہیں ہے ۔ نہ ٹھنڈک ہے ۔ اور نہ پینے کے لئے کوئی عمدہ چیز ۔ پانی ملے گا تو کھولتا ہوا اور شراب ملے گی تو نہایت ردی ، سیاہ اور متعفن ۔ یہ یاد رہے کہ غساق کے معنی ردی اور بدبودار شراب کے بھی ہیں ۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے دنیا کو عارضی آسائشوں کو آخرت کے دائمی آرام پر ترجیح دی ۔ انہوں نے خواہشات نفس کی تکمیل کے سلسلہ میں ہر اخلاقی اور روحانی نصب والعین کو پس پشت ڈال دیا اور وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جن سے انسانیت شرمائے ۔ انہوں نے بالکل اس حقیقت پر غور نہ کیا کہ ہمیں احکم الحاکمین خدا کے سامنے پیش ہونا ہے اور ان تمام حرکتوں کا جواب دہ ہونا ہے ۔ دل کھول کر احکام خداوندی کی تکذیب کی اور آیات وبراہین کا مضحکہ اڑایا ۔ آج ان سے کہا جائے گا کہ تمہارا ایک ایک عمل دفتراحتساب میں مشبت ہے ۔ اس لئے اب اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں کہ سزا پاؤ اور عذاب کا مزہ چکھو ۔ جو کم تو کیا ہوگا ۔ ، البتہ لمحہ بہ لمحہ بڑھتا ضرور جائے گا *۔ النبأ
31 النبأ
32 النبأ
33 النبأ
34 النبأ
35 النبأ
36 ف 2: مفازا کے ایک لفظ میں جنت کے لذائذ روحانی اور جسمانی کی پوری تفصیل بیان کردی ہے ۔ غرض یہ ہے کہ وہ تمام جذبات مسرت واجتہاج جو تمہارے دلوں میں موجزن ہوتے ہیں اور جن کی تکمیل کے لئے تم یہاں بےقرار اور بےچین رہتے ہو ۔ وہ اگر کہیں کامیابی اور کامرانی کے ساتھ پائے جائیں گے تو جنت وہی جگہ ہے بامراد ہونے کی اور جذبات وخواہشات کی تکمیل کی ۔ اس لئے کوشش کرنا ہے تو اس کے لئے کرو ۔ اور دوڑ دھوپ اگر مفید ہے تو اس کے لئے ۔ ورنہ یہ دنیا تو باوجود اپنی زیب اور زیبائش بالکل عارضی ہے ۔ ار ہر لمحہ زوال پذیر ہے ۔ اور یہاں کی مسرتیں ایسی نہیں کہ ان کو خالصتاً مسرتوں سے تعبیر کیا جاسکے ۔ یہاں ہر آسودگی کے بعد عسر اور تنگی ہے ۔ اور ہر خوشی کے بعد غم ہے اور یاس ومحرومی *۔ حل لغات :۔ بردا ۔ ٹھنڈک ۔ بعض کے نزدیک اس کے معنی نیند کے ہیں ۔ غساقا ۔ خاشک کا معرب ہے ۔ یعنی ردی چیز یاردی شراب ۔ پیپ یا وہ زردی مائل گندہ پانی جو زخم سے نکلتا ہے ۔ کو اعب جمع کا عب تیزوتند ابھار والی عورتیں ۔ نوخاستہ * دھاپا ۔ چھلکتے ہوئے پر اور لبالب * عطاء حسابا ۔ کافی یا بہت زیادہ ۔ جیسا کہ ابن قتیبہ نے تشریح کی ہے ۔ النبأ
37 النبأ
38 النبأ
39 النبأ
40 ف 1: غرض یہ ہے کہ وہ دن ایسا جلال وجبروت کا دن ہوگا کہ فرشتے بھی صف بستہ ادب واحترام کے ساتھ اس کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ اور اپنے میں جرات کلام نہ پائیں گے ۔ صرف ان کو اجازت ملے گی کہ وہ رب السموات والارض کو مخاطب کرسکیں جو پہلے سے اللہ کے علم میں ماذون ہوں اور یہ بھی شرط ہے کہ وہ جو کچھ کہیں وہ صواب اور درست بھی ہو ۔ النبأ
0 النازعات
1 سورۃ النزعت ف 2: مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی جس مسئلہ میں زیادہ اہمیت کے ساتھ بحث کی گئی ہے ، وہ مسئلہ حشرونشر کا ہے ۔ ان سواہید سے جن کو قسموں کی شکل میں پیش کیا ہے ، یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ بعثت وحشر کے نظریہ میں کوئی عقلی استحالہ نہیں ہے ۔ وجوہ تاویل میں اختلاف ہے ۔ جمہور مفسرین کے نزدیک ان سے مراد فرشتے ہیں اور ان کے مقنوع اوصاف وفرائض کی توضیح ہے *۔ النزعت سے تعبیر ہوں گے وہ فرشتے جو کفار کی روح کو ان کی بداعمالیوں کے سبب سے بدن کے گوشے گوشے اور بال سے بتکلیف کھینچ کر لاتے ہیں *۔ النازعات
2 ف 1: نشطت سے وہ فرشتے جو مسلمانوں کی جان کو بسہولت قبض کرلیتے ہیں ۔ گویا کہ زندگی کی گرہ کو اپنے ناخن تدبیر سے عمدگی کے ساتھ کھول دیتے ہیں ۔ الشجحت سے وہ ملائکہ جو فضا میں طاعت اور فرمانبرداری کے لئے تیرتے پھرتے ہیں ۔ اور جہاں کوئی حکم صادر ہوتا ہے تعمیل کے لئے لپکتے ہوئے جاتے ہیں ۔ فالسبقت سے وہ جو مرتبہ ومقام میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں اور فالمدبرات امر سے وہ جو نظام عالم کی دیکھ بھال پر مقرر ہیں اور جن کے فرائض میں یہ داخل ہے کہ ساری کائنات کی ضروریات کی تکمیل کے لئے کوشاں رہیں ۔ اس تعبیر وتاویل کی صورت میں غرض یہ ہے کہ جب تم لوگ موت وحیات اور اس کی کیفیتوں پر غور کرو گے اور فرشتوں کے فرائض کو دیکھو گے اور تمہیں معلوم ہوگا کہ ان کے اختیارات کس حد تک ہیں تو تمہیں معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہر آن عالمکی ہلاکت اور تعمیر پر قادر ہے اور بےشمار فرشتے اور ملائکہ اس کے اشارہ چشم وابرو پر عالم کو تہ وبلا کردینے کے لئے ہر وقت تیار ومستعد ہیں ۔ وہ جب چاہے گا اس دنیا کو بآسانی ختم کردے گا ۔ اور جب چاہے گا پھر اس کو زندگی کی نعمت سے مشرف کردے گا *۔ امام حسن بصری (رح) کی رائے ہے کہ ان شواہد سے مقصود ستارے ہیں ۔ النازعت وہ ہیں جن کا مطلع ومغرب دور دور ہیں اور ان کی حدود وسعی کافی وسیع ہیں ۔ النشطت وہ ہیں جن کی طوع وغروب کی منزل بہت قریب قریب ہے اور وہ ہنسی خوشی اسکو طے کرلیتے ہیں *۔ النازعات
3 النازعات
4 ف 2: السبحت وہ ہیں جو سبک سیری مکینوں کی مانند ہیں ۔ اور فالسبقت وہ ہیں کہ تیزی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ اور فالمدبرات سے مراد وہ کواکب ہیں جو اپنی طبعی خاصیتوں کی بنا پر دنیا پر اپنا مستقل اثر قائم کرتے رہتے ہیں ۔ اس طرح گویا ان نجوم کواکب کو انسانی زندگی کے بمنزلہ قرار دیا گیا ہے ۔ کہ بعض لوگ بہت طویل عمر کے ہوتے ہیں اور ان کی ولادت اور موت کا مطلع ومغرب دور دور ہوتا ہے ۔ بعض وہ ہوتے ہیں جو تھوڑی عمر پاتے ہیں اور ہنسی خوشی گزار دیتے ہیں ۔ بعض کی زندگی حوادث اور مقابلہ وتقدم سے مبرا ہوتی ہے *۔ اور وہ سبک سیر سیاروں کی طرح فضائے حیات میں تیر کر منزل تک پہنچ جاتے ہیں اور بعض سرگرم اور جدوجہد کے عادی ہوتے ہیں کہ وہ سب ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش میں رہتے ہیں اور بعض ایسے زبردست ہوتے ہیں کہ اپنی ذہنی قوتوں کی بنا پر دنیا کی تدبیر واصلاح کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اور ایک پائید ارنقش یادگار چھوڑ جاتے ہیں ۔ غرضیکہ کوئی ستارہ نہیں جو افق حیات پر ہمیشہ کے لئے چمکے ۔ اس لئے منکرین بعثت وحشر کو یہ بتایا ہے کہ تم بھی اس دنیائے دوں میں ہمیشہ نہیں چمکو گے ۔ تمہیں مرنا ہے ۔ اور مر کر انہیں ستاروں کی طرح پھر ایک بار نمودار ہونا ہے *۔ حل لغات :۔ ترجف الرجفۃ سے ہے جس کے معنی لرزش اور کانپنے کے ہیں اور لرزہ زمین کو بھی رجفۃ کہتے ہیں * واجفۃ ۔ دھڑکنے والے ۔ لرزنے والے * الحافرۃ ۔ رجع فلان فی حافرتہ کا ترجمہ یہ ہوتا ہے کہ فلاں آدمی جہاں سے چلا تھا ۔ اب پھر وہیں آگیا ہے ۔ یہاں موت سے قبل کی زندگی کی طرف اشارہ ہے * عظاما نخرۃ ۔ بوسیدہ ہڈیاں * الساھرۃ ۔ روئے زمین *۔ النازعات
5 النازعات
6 النازعات
7 النازعات
8 النازعات
9 النازعات
10 النازعات
11 النازعات
12 النازعات
13 النازعات
14 النازعات
15 النازعات
16 النازعات
17 النازعات
18 النازعات
19 النازعات
20 النازعات
21 النازعات
22 النازعات
23 النازعات
24 النازعات
25 النازعات
26 سنۃ اللہ ف 1: ان آیتوں میں بطور تذکیر بسنتہ اللہ کے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ ارشاد فرمایا ہے کہ ان کو طویٰ کی مقدس وادی میں اللہ تعالیٰ نے مخاطب کیا اور کہا کہ ارض مصر میں فرعون باغی وسرکش ہوگیا ہے ، اس کی سرکوبی کے لئے روانہ ہوجاؤ۔ اور اس سے اولاً یہ کہو کہ کیا تم پاکبازی کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہو اور تمہاری یہ خواہش ہے کہ میں تم کو راہ راست پر گامزن کردوں ۔ اگر مان لے تو فبہا ورنہ بنی اسرائیل کو اس کے چنگل سے چھڑا لاؤ اور اس کی قوت وتدبیر کا مقابلہ کرو ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کے پاس پہنچے اور اس کے سامنے معجزات وخوارق پیش کئے اور کہا کہ میں اللہ کاسچا رسول (علیہ السلام) ہوں ۔ مگر اس نے بہر طور تکذیب کی اور اپنے اعوان وانصار اور عام لوگوں کو جمع کرکے کہنے لگا کہ تم مجھ کو خدا کی طرف بلاتے ہو ۔ مگر تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں سب سے بڑا خدا ہوں ۔ اس لئے تمہارے دین کی پیروی کی کوئی ضرورت نہیں محسوس کرتا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ ارض مصر کا سب سے بڑا اور زبردست انسان غریب اور غلام اسرائیلیوں کے سامنے قلزم میں بیچارگی کے ساتھ مارا گیا اور انہوں نے اس کو انتہائی ذلت وعاجزی کے عالم میں پانی میں ڈوبتے دیکھا ۔ یہ اللہ کا عذاب تھا جو اس نوع کے تمام مکہ کے سرداروں کو بتایا ہے کہ تم قوت وشوکت اور لاؤ لشکر میں فرعون کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔ نافرمانی اور سرکشی کی پاداش میں اس کایہ حشر ہوا ہے ۔ تو تم کیونکر محفوظ رہ سکتے ہو ۔ تمہارے لئے اس واقعہ میں بڑی عبرت کا سامان ہے ۔ بشرطیکہ دلوں میں ذرہ برابر بھی اللہ کا ڈر اور خوف ہو ۔ حل لغات :۔ نکال الاخرۃ ۔ آخرت کا عذاب ۔ لعبرۃ ۔ نصیحت کی بات *۔ النازعات
27 النازعات
28 النازعات
29 النازعات
30 زمین کب پیدا ہوئی ؟ ف 1: بعد ذلک دحھا سے نظام لیل ونہار کو پیدا کرنے کے بعد زمین کو پیدا کیا گیا ہے ۔ حالانکہ دوسرے مقامات میں بالتصریح فرمایا ہے کہ آسمان کی تخلیق زمین کی تخلیق کے آخر میں ہوئی ہے *۔ جواب یہ ہے کہ پیدا کرنے میں اور دحو میں لغتہ ایک باریک فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ دخو کے منی یہ ہیں کہ زمین کو اس طرح پاؤں تلے بچھادیا جائے کہ اس میں افادہ کی قابلیت اور استعداد ہو ۔ اس لئے معنی یہ ہوں گے کہ گو زمین کو پیدا تو پہلے کیا گیا ہے ۔ مگر مفید بعد میں بنایا گیا ہے ۔ جیسا کہ علم الحیات کے ماہرین کا خیال ہے * ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بعد یہاں تربیت کے لئے نہ ہو ۔ بلکہ تربیت وتعقیب بیان کے لئے ہو ۔ یعنی غرض یہ ہو کہ اس واقعہ کے بعد اللہ نے آسمان کو بنایا ہے اور اس کی بلندی بخشی ہے اور لیل ونہار کا انتظام فرمایا ہے ۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس نے زمین کو پیدا کیا ہے * النازعات
31 النازعات
32 النازعات
33 النازعات
34 النازعات
35 النازعات
36 النازعات
37 النازعات
38 النازعات
39 جہنمی اور جنتی ف 2: ان آیتوں میں اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ قیامت کے بعد جہنم سے بچنے اور جنت میں داخل ہونے کیلئے کن باتوں کی ضرورت ہے ۔ فرمایا ۔ جن لوگوں نے سرکشی اختیار کی ۔ حدود مذہبی سے جاوز کیا اور اس دنیائے حقیر کی زندگی کو زیادہ اہمیت دی اور یہ سمجھا کہ جو کچھ بھی ہے ، یہی چند روزہ حیات ہے ۔ انہوں نے اپنی جگہ جہنم میں بنائی ۔ جو لوگ اللہ کے سامنے پیش ہونے سے ڈرے کہ مبادا کہیں اعمال کی گرفت نہ ہو اور نفس کو ناجائز خواہشات سے روکا ۔ وہی جنت اور اس کی نعمتوں کے مستحق قرار دیئے جائیں گے * حل لغات :۔ سمکھا ۔ بلندی * وبرزت الجحیم میں اس طرف اشارہ ہے کہ منکرین تو یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ان کو چونکہ مال ودولت کی نعمتوں سے نوازا گیا ہے ۔ اس لئے آخرت میں بھی ان کو جنت کی نعمتوں سے بہرہ مند ہونے کا موقع دیا جائے گا ۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ خلاف توقع ان کے سامنے جو چیز لائی جائے گی ، وہ جہنم ہوگی *۔ النازعات
40 النازعات
41 النازعات
42 النازعات
43 النازعات
44 النازعات
45 النازعات
46 النازعات
0 عبس
1 سورہ عبس اور مقام نبوت ف 1: یہاں اس بات کو بطور اصل اور حقیقت کے ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ مقام نبوت اس سے کہیں بلند وارفع ہے کہ اس کی جانب گناہ یا معصیت کو منسوب کیا جائے ۔ کیونکہ نبوت کے معنی ہی یہ ہیں کہ وہ ایک سیرت ہے جو عام انسانوں سے ممتاز اور برتر ہے اور ایک ایسا کیرکٹر ہے جو عصمت اور عفت کے زیور سے آراستہ ہے ۔ انبیاء علیہم السلام کی ساری زندگی بےداغ اور سراسر پاک ہوتی ہے ۔ ان سے اگر بتقاضائے بشریت لغزش کا صدور ہوتا ہے تو محض دوران اجتہاد کے ایسے پہلو اختیار کرلیتے ہیں ۔ جو اولیٰ تو ہوتا ہے ۔ مگر اولیٰ تر نہیں ہوتا اور ان کے مرتبہ ومقام کی بلندی اور رفعت کی وجہ سے اتنی سی بات بھی اللہ کو ناگوار ہوتی ہے اور اس پر ان کو تادیبا مطلع کردیا جاتا ہے *۔ سورۃ عبس میں بھی بالکل اسی قسم کا ایک واقعہ مذکور ہے ۔ کہ کیونکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجتہاد میں سہو ہوا اور کیونکر اللہ کی جانب سے متنبہ کیا گیا ۔ بات یہ تھی کہ ایک دن صنادید قریش کا ایک گروہ جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معروف کلام تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بکمال توجہ ان کو اسلام کی طرف مائل کرنے کی کوشش کررہے تھے ۔ کہ اتنے میں ابن ام مکتوم جو نابینا تھے ۔ شوق اور وارفتگی کے عالم میں آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسائل پوچھنے لگے ۔ اور یہ نہ دیکھ سکے کہ آپ پہلے کن لوگوں کو شرف مکالمہ بخش رہے ہیں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خیال سے کہ یہ لوگ جذبہ تنفر سے کہیں نفس اسلام کی دعوت کو نہ ٹھکرا دیں ، یہ موزوں خیال کیا کہ اس وقت ان کو قدرے تنفض کے ساتھ روک دیا جائے اور ان سرداران قریش سے گفتگو کو برابر جاری رکھا جائے ۔ شاید اس التفات اور توجہ سے ان لوگوں کے دلوں میں اسلام کی محبت پیدا ہوجائے ۔ مگر اللہ تعالیٰ کو یہ ادا ناگوار معلوم ہوئی ۔ کیونکہ یہ بات وہی علام الغیوب خوب جانتا ہے کہ نتائج کے اعتبار سے کون چیز بہتر تھی ۔ یعنی ان قریش کے بڑے بڑے آدمیوں کے ساتھ بحث ومکاملہ کو جاری رکھنا یا ایک مخلص مسلمان کے ساتھ علم ورافت کے ساتھ گفتگو کرنا ۔ اس پر ان آیات کا نزول ہوا *۔ حل لغات :۔ مرسھا ۔ قیام ۔ وقوع * عبس ۔ اظہار تنفض فرمایا *۔ عبس
2 عبس
3 عبس
4 عبس
5 عبس
6 عبس
7 عبس
8 عبس
9 عبس
10 ف 1: غور کیجئے ۔ واقعہ کے لحاظ سے یہاں کوئی نافرمانی یا معصیت نہیں ہے ۔ بلکہ معاملہ صرف یہ ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان باتوں میں کہ کون توجہ اور التفات کا زیادہ مستحق ہے ۔ مکہ والے یا یہ نابینا صحابی صحیح اور اولیٰ فیصلہ نہیں کرپائے اور مسئلہ کے ایسے پہلو کو اختیار کرلیا جو عنداللہ معقول تھا ، افضل نہیں تھا *۔ قرآن کی یہ آیات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صادق اور مامور من اللہ ہونے پر بہترین دال ہے ۔ کیونکہ معاذ اللہ اگر آپ اپنے دعویٰ میں سچے نہ ہوتے تو ان آیتوں کو جس میں آپ کو متنبہ کیا گیا ہے کبھی قرآن کے اوراق میں درج نہ فرماتے ۔ یہ واقعہ بجائے خوددعویٰ نبوت میں پیش کیا جاسکتا ہے ۔ کہ اتنی بڑی تنبیہ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بغیر کسی تشریحی نوٹ کے ابد تک باقی رکھا اور اپنے عقیدت مندوں کو بتایا کہ مجھے اس مقام پرٹھوکر لگی ہے *۔ عبس
11 عبس
12 عبس
13 عبس
14 ف 2: صحف مکرمۃ سے مراد اوراق قرآن ہیں جو عنداللہ مکرم ہیں ۔ اور رفعت اور پاکیزگی میں ممتاز ہیں ۔ اور بایدی سفرۃ سے مقصود صحابہ ہیں جن کے بزرگ اور مقدس ہاتھوں صحابہ ہیں جن کے بزرگ اور مقدس ہاتھوں میں ان کی کتابت ہوئی اور جن کی مساعی سے یہ کتاب حکیم ساری دنیا میں اشاعت پذیر ہوئی *۔ حل لغات :۔ لہ تصدی ۔ آپ اس کے درپے ہوئے ۔ اس کی فکر میں پڑتے ہیں *۔ عبس
15 عبس
16 عبس
17 عبس
18 عبس
19 عبس
20 عبس
21 عبس
22 عبس
23 عبس
24 عبس
25 عبس
26 عبس
27 عبس
28 عبس
29 عبس
30 عبس
31 عبس
32 عبس
33 عبس
34 عبس
35 عبس
36 عبس
37 آپا دھاپی اور نفسا نفسی ف 1: غرض یہ ہے کہ آج تو یہ مادیت میں پھنسے ہوئے لوگ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی بوقلموں نعمتوں سے استفادہ کررہے ہیں اور ان چیزوں کو حاصل حیات سمجھے ہوئے ہیں ۔ مگر ایک وقت آنے والا ہے جب کانوں کو بہرہ کردینے والی آواز کا دھماکہ ہوگا اور یہ محسوس کریں گے کہ اب احتساب کی گھڑی قریب تر ہورہی ہے ۔ اس وقت یہ تعلقات جو یہاں گناہ اور معصیت کا سبب بن جاتے ہیں ، منقطع ہوجائیں گے اور ہر شخص آپا دھاپی اور نفسانفسی میں کچھ ایسا منہمک ہوگا کہ دوسروں کی ہمدردی کا خیال بھی اس کے دل میں پیدا نہیں ہوگا ۔ جس بھائی پروہ جان دیتا تھا اور جن کی وجہ سے کئی ہنگامے اور لڑائیاں اس نے مول لی تھیں ۔ آج ان سے بھاگے گا اور ان کا سامنا نہیں کرے گا ۔ وہ مال اور باپ جن کے پیار اور جن کی محبتوں پر اس کو نازز تھا اور جن کی بےجا محبت اور نازبرداری کی وجہ سے اس کے اخلاق بگڑے تھے ۔ ان کو چھوڑ دے گا *۔ وہ بیوی اور بچے جن کے لئے رات دن سرگردان رہتا تھا اور جن کی آسودگی اور آسائش کے لئے اس نے حلال اور حرام کی تمیز بھی اٹھا رکھی تھی ۔ آج اس کو یہ اپنے دشمن نظر آئیں گے ۔ آج صرف اپنی ذات اور اس کی فکر ہوگی ۔ اپنا معاملہ اور اس کے متعلق تشویش ہوگی جس کی وجہ سے ہر آدمی حیران اور پریشان ہوگا *۔ پھر اعمال کی تقسیم کا تقاضا یہ ہوگا کہ کچھ لوگ تو خوش وخرم ہوں گے ۔ ان کے چہروں پر مسرت کھیل رہی ہوگی اور کچھ ایسے ہوں گے کہ بداعمالیوں کی وجہ سے روسیاہ ہوں گے ۔ حل لغات :۔ فاقبرہ ۔ یعنی عالم قبر می پہنچایا ۔ جس کا آغاز موت کے بعد ہوتا ہے * قضبا ۔ ترکاری * عبس
38 عبس
39 عبس
40 عبس
41 ف 1: جن پر گردوغبارچھارہا ہوگا ۔ موخر الذکر وہ ہوا آگے جنہوں نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کیا اور ساری زندگی فسق وفجور میں گزاردی *۔ حل لغات :۔ ابا ۔ چارہ ۔ بھوسی ۔ گھاس *۔ الصاخۃ ۔ نفخہ ثانیہ جس کی وجہ سے ایک شور ہوگا * قترۃ ۔ ندامت وحسرت کی سیاہی *۔ عبس
42 عبس
0 التكوير
1 سورۃ التکویر ف 1: قرآن حکیم نے جن صداقتوں کو آج سے چودہ سو سال قبل بیان کیا تھا ۔ آج سائنس اور علوم جدیدہ اس کی تصدیق کررہے ہیں ۔ چنانچہ تکویر شمس کا مسئلہ وہ ہے جس کو قیامت کی توضیح کے سلسلہ میں قرآن حکیم نے بوضاحت ذکر کیا اور آج بڑے بڑے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ایک وقت آئے گا جب کہ سورج کی حرارت اور روشنی کا خزانہ بالکل ختم ہوجائے گا اور یہ محض کرہ بےنور ہوکر رہ جائے گا ۔ اس وقت کے عقل مند اور نظریہ پر ہنستے تھے کہ کہیں کائنات کا چشمہ نور وضیاء بھی خشک ہوسکتا ہے ؟ مگر آج کے عقلا ان لوگوں کی عقل پر ہنستے ہیں جو اس نظام کو دائمی سمجھتے تھے ۔ التكوير
2 التكوير
3 التكوير
4 واذا العشارعطلت سے غرض یہ ہے کہ وہ وقت اتنا ہولناک ہوگا کہ چوپایہ کی وہ قسم جو مالک کو بہت عزیز ہوتی ہے ، وہ اس سے بھی بےپرواہ ہوجائیگا ۔ واذالوحوش حشرت یعنی وحشی جانور بھی گھبراجائیں گے اور مارے وحشت اور اضطراب کے جنگلوں میں جمع ہونے شروع ہوجائیں گے *۔ التكوير
5 التكوير
6 التكوير
7 التكوير
8 حل لغات :۔ الموء دۃ ۔ زندہ گاڑی ہوئی لڑکی ۔ بعض قبائل میں عزت اور شرف کا یہ غلط خیال رواج پذیر ہوگیا تھا کہ لڑکیاں ناموس اور عزت کے لئے موجب ننگ ہیں ۔ اس لئے وہ ان کو جب پیدا ہوتیں تو زندہ زمین میں گاڑ دیتے ۔ اس برائی کی طرف اشارہ ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے قبل عربوں کی اخلاقی حالت کیا تھی ؟ اور اسلام نے ان لوگوں کی اصلاح کے سلسلہ میں کتنا بڑا کام کیا *۔ التكوير
9 التكوير
10 التكوير
11 التكوير
12 التكوير
13 التكوير
14 التكوير
15 التكوير
16 التكوير
17 التكوير
18 التكوير
19 التكوير
20 آفتاب نبوت کا طلوع ف 1: قرآن کے متعلق یہ شبہ تھا کہ یہ کلام جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف سے پیش کیا ہے ۔ جبرائیل (علیہ السلام) کی وساطت سے نازل نہیں ہوا ۔ اس کا جواب مرحمت فرمایا ہے کہ ان پانچ سیاروں کو دیکھو جن کو مریخ زحل ۔ مشتری ۔ زہرہ اور عطارد کہتے ہیں کہ یہ جس وقت چلتے چلتے مشرق کی جانب گھوم جاتے ہیں اور جس وقت تاریک رات جانے لگتی ہے اور صبح صادق کا وقت ہوتا ہے اور آفتاب کی آمد آمد ہوتی ہے ۔ کیا اس وقت دن کی تابندگی اور روشنی میں کوش شک وارتباب باقی رہتا ہے اور کیا اس وقت سوائے آفتاب کے اور کوئی دلیل آفتاب کے وجود کو پیش کی جاسکتی ہے ۔ ع ” آفتاب آمد دلیل آفتاب “ ٹھیک اسی طرح جس طرح کہ یہ پانچ سیارے آخری رات کو آفتاب کی پیشوائی کے لئے مشرق کی جانب آجاتے ہیں ۔ اور اپنی آب وتاب کھوبیٹھتے ہیں ۔ اسی طرح انبیائے سابقین کا زمانہ افق حیات پر چمکنے کا ختم ہوچکا ہے ۔ کفر وظلمت کی رات جو ان کے بعد چھا چکی تھی ، اب چھٹ چکی ہے اور صبح کا اجالا نمودار ہے ۔ اور آفتاب نبوت جلوہ گر ہے ۔ اس لئے اب ان حالات میں یہ وقاع ہے کہ یہ قرآن جبرائیل علیہ لاسلام کی وساطت سے نازل ہوا ہے ۔ جو بزرگ ہے ۔ صاحب قوت ہے ۔ مالک عرش کے نزدیک ذی رتبہ ہے ۔ مطاع اور آسمانوں میں امانت داری میں مشہور ہے *۔ التكوير
21 التكوير
22 ف 2: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا اور کسب فیض کیا تو منکرین نے کہا کہ یہ محض جنون ہے ۔ اس کی تردید میں فرمایا کہ وہ شخص جو تمہارے ساتھ برسوں سے ہے اور جس کی عقل مندی اور دوستی پر تمہیں ناز رہا ہے ۔ آج یکایک مجنوں کیونکر ہوگیا ۔ کیا محض اس لئے کہ وہ الہام کا مدعی ہے یقین مانو کہ اس نے جبرائیل کو اس کی اصل شکل میں صاف آسمان کے کنارہ پر دیکھا ہے *۔ حل لغات :۔ کشطت ۔ کشط سے ہے ۔ جس کے معنی کھال اتارنے اور برہنہ کرنے کے ہیں ۔ غرض یہ ہے کہ نظام آسمائی کو درہم برہم کردیا جائے گا *۔ عسعس ۔ ذوات الاضداد میں سے ہے ۔ اس کے معنی آنے اور جانے دونوں کے ہیں ۔ مگر یہاں مراد یہ ہے کہ جب رات جانے لگتی ہے *۔ التكوير
23 التكوير
24 ف 1: ضنین بالضاد کے معنی بخل کے ہیں ۔ غرض یہ ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو باتیں رشد و ہدایت کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے معلوم ہوتی ہیں ، وہ ان کو ازراہ بخل نہیں چھپاتے بلکہ بلاکم وکاست بندوں تک پہنچادیتے ہیں ۔ ایک قرات میں ظنین بالظاد بھی آیا ہے ۔ اس کے معنی متہم ہونے کے ہیں ۔ اس صورت میں غرض یہ ہوگی کہ جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کذب وافتراء سے متہم نہیں ہیں ۔ بلکہ ان کی ساری زندگی صداقت شعاری سے مملورہی ہے جس کو تم بھی جانتے ہو ۔ قراتین کے توافق سے معلوم ہتا ہے کہ ضاد کو ظاء کے قریب قریب پڑھنا چاہیے ۔ التكوير
25 التكوير
26 التكوير
27 ف 2: اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ قرآن حکیم تمام کائنات کے لئے رشدوہدایت کا ذریعہ ہے ۔ آج تم لوگ ازراہ جہل وتعصب اس کے حقائق کو تسلیم نہیں کرتے ہو ۔ مگر ایک وقت آنے والا ہے کہ اس کی روشنی سارے عالم میں پھیلے گی اور اس کی تعلیم کو دنیا کے ہر حصہ میں قبولیت اور پذیرائی کی نظر سے دیکھا جائے گا *۔ حل لغات :۔ واذا البحار فجرت ۔ یعنی جب اس بساط ارضی کو الٹ دیا جائے گا ۔ اس وقت سمندر چھلک جائیں گے اور ادھر ادھر بہنے لگیں گے ۔ التكوير
28 التكوير
29 التكوير
0 الإنفطار
1 الإنفطار
2 الإنفطار
3 الإنفطار
4 الإنفطار
5 الإنفطار
6 الإنفطار
7 الإنفطار
8 الإنفطار
9 تم فریب نفس میں کیوں مبتلا ہوئے ؟ ف 1: علامات قیامت کی تفصیل بیان کرنے کے بعد یہ فرمایا تھا کہ ایک وقت آنے والا ہے جب کہ ہر شخص اپنے کئے ہوئے کو دیکھے گا اور معلوم کرلے گا کہ اس نے اپنی نجات کے لئے اعمال کی پونجی کیا آگے بھیجی ہے اور کن فرائض اور واجبات کو اس نے ادا نہیں کیا اور ان میں پیچھے رہ گیا ۔ پھر منکر وسرکش انسان سے پوچھا ہے کہ تیرے پاس اس دن کے لئے کیا تحفہ ہے ؟ تجھ کو آخر رب کریم کے باب میں کس چیز نے خداع نفس اور بھول میں مبتلا کررکھا ہے ؟ کیا اس کی ربوبیت اور گرم ونوازش نے ؟ مگر تم نے کبھی سوچا ہے کہ صرف توہی اس کا کیوں مستحق ہے ؟ مگر تم نے کبھی سوچا ہے کہ صرف توہی اس کا کیوں مستحق ہے ؟ کیا وہ لوگ جنہوں نے اپنی جان تک اللہ کی راہ میں دے دی ، جنہوں نے اپنے خون سے اپنے اعمال نامہ کو لکھا ، جنہوں نے اس دنیائے دوں کو آخرت کے مقابلہ میں ہمیشہ حقیر سمجھا ، وہ کیوں اس کی رحمت وبخشش کے مستحق نہیں ؟ کیا وہ خدا جس نے تجھ کو کتم عدم سے وجود کی نعمت بخشی ۔ جس نے جوڑ بند درست کئے ۔ جس نے اعشاء اور اعضاء میں توازن واعتدال پیدا کیا اور جس نے حسب پسند تیری صورت بنائی ، اس کے کرم اور بخشش کا تقاضا یہ نہ تھا کہ تو اس کے سامنے جھکتا ۔ سرکشی کو چھوڑ کر رضا کا شیوہ اختیار کرتا اور کی تاریکیوں میں سے نکلتا اور ایمان ویقین کی روشنی میں داخل ہوتا ۔ مگر تونے جب اس کی بخششوں اور ان نوازشوں سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تو اب اس کے کرم اور نوازشوں کا کیوں متوقع ہے *۔ حل لغات :۔ ماغرک ۔ تجھ کو کس چیز نے بھول میں رکھا ۔ کراما کاتبین ۔ وہ فرشتے جو انسانوں کے عمل لکھتے ہیں *۔ الإنفطار
10 الإنفطار
11 الإنفطار
12 الإنفطار
13 الإنفطار
14 الإنفطار
15 الإنفطار
16 الإنفطار
17 الإنفطار
18 الإنفطار
19 ف 1: اس میں اس حقیقت کا اظہار فرمایا ہے کہ ان لوگوں نے جو سرکشی اور عناد کا وتیرہ اختیار کررکھا ہے تو وہ اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو رشدوہدایت کے استفادہ کے مواقع عنایت نہیں فرمائے ہیں یا عقل ودانش اس راہ میں حائل ہے اور نیک نیتی کے ساتھ اسلام کے حقائق کو سمجھ نہیں پاتے ۔ ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے ۔ بلکہ بات یہ ہے کہ چونکہ یہ لوگ اصول مکافات ععمل کے قائل نہیں ہیں ۔ قیامت اور جزاوسزا کو نہیں تسلیم کرتے ۔ اس لئے دین کی قدر وقیمت ہی ان کے دلوں سے اٹھ گئی ہے اور اب یہ اس قابل نہیں رہے کہ ان معارف پر غور کرسکیں ۔ الإنفطار
0 المطففين
1 المطففين
2 المطففين
3 المطففين
4 المطففين
5 سورۃ التطفیف ف 2: اس سورۃ کا موضوع یہ ہے کہ کاروبار اور معاملات میں اعتماد وصداقت کی روح کو پیدا کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ مذہب کا تعلق صرف عبادات سے نہیں اور عبادت کا مفہوم صرف یہ نہیں ہے کہ مجاہدہ وریاضت سے نفس کو پاک کیا جائے ۔ بلکہ مذہب نام ہے عقائد سے لے کر معاملات تک اصلاح کا ۔ اور عبادت تعبیر ہے ۔ معاملہ کی پاکیزگی سے ۔ اور ریاضت وزہد کہتے ہیں قلب کو حرص وآز کے جذبات سے پاک کرنے کو ۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے ایک مسلمان کا تخیل صرف یہی نہیں ہے کہ وہ توحید وسنت کا قائل ہے اور پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے ۔ بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ لین دین ۔ بیع وشر اور معاملات باہمی میں بھی مسلمان ہو ۔ چنانچہ فرمایا کہ جو لوگ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں ، وہ عذاب کے مستحق ہیں ۔ ان لوگوں کی جمع اور حرص کا یہ عالم ہے کہ جب یہ دوسروں سے کوئی چیز ناپ کرلیتے ہیں تو پوری پوری لیتے ہیں ۔ اور جب دوسروں کو دینے لگتے ہیں تو گھٹا کردیتے ہیں ۔ ان لوگوں سے پوچھا ہے کہ کیا ان لوگوں کو خدا کے سامنے پیش نہیں ہونا ہے ۔ اور پیش ہوکر جواب نہیں دیتا ہے *۔ حل لغات :۔ للمطففین ۔ فمفف کی جمع ہے ۔ چیز کو گھٹا کردینے والے ۔ شیء طفیف ۔ شیء قلیل *۔ المطففين
6 المطففين
7 المطففين
8 المطففين
9 المطففين
10 المطففين
11 المطففين
12 المطففين
13 المطففين
14 المطففين
15 المطففين
16 ف 1: اس دن افسوس ان لوگوں کے لئے ہے جو مکذب ہیں اور مکافات عمل کے اصول کو تسلیم نہیں کرتے ۔ جو یہ نہیں مانتے کہ ان کو مرنے کے بعد زندہ ہوتا ہے ۔ اور اپنے اعمال کا جواب وہ ہوتا ہے ۔ جن کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ مٹی میں مل کر مٹی ہوجانے کے بعد کیونکر دوبارہ زندگی عطا ہوسکے گی ۔ اور جن کے نزدیک عقلاً یہ مست بعد ہے کہ حیات رواں دواں اور مسلسل ہے ۔ جن کا عقیدہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی بری بھلی زندگی ہے ، یہی ہے اس کے بعد نہ برزخ ہے نہ جنت اور نہ دوزخ ۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ ان لوگوں کا انکار بربنائے معقول نہیں ہے ۔ ان کے پاس دلائل نہیں ہیں ۔ جن کی وجہ سے کفر پر مصر ہوں اور جزاوسزا کے اس قانون عدل وانصاف کو نہ مانیں ۔ بلکہ اس انکار وکفر کے پس پردہ سب سے بڑا محرک جذبہ معصیت ہے ۔ خواہشات نفسانی کی تکمیل کے سلسلہ میں یہ نہیں چاہیے کہ کوئی قانون ، کوئی ضابطہ اور کوئی دین درمیان میں حامل ہو اور ان کو فسق وفجور کے لذائذ سے روک دے ۔ کبرونخوت کا یہ عالم ہے کہ جب قرآن حکیم کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ، تاکہ ان کو روشنی اور نور کے اکتساب کا موقع ملے تو یہ نہایت بےتوجہی سے کہہ اٹھتے ہیں کہ اس میں بجز پہلوں کے قصے کہانیوں کے اور کیا رکھا ہے ۔ حالانکہ واقعہ ایسا نہیں ہے ۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں زندگی کے معارف اور روح کی بالیدگی اور رفعت سے بحث کی گئی ہے ۔ جس میں قوموں کے عروج وزوال کے اسباب بیان کئے گئے ہیں ۔ جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کے لئے قانون فطرت کیا ہے جس میں اخلاق ومعاشرت کی وہ گتھیاں سلجھائی گئی ہیں جن کو انسان ناخن تدبیر سے اب تک نہیں سلجھا سکا ہے ۔ جس میں خدا تک پہنچنے کے اور اس کے حصول وتقرب کے وسائل کی تشریح ہے *۔ اور جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر زمانے میں وہ کون دین ہے جو کائنات انسانی کے لئے سرمایہ صدررحمت وبرکت قرار دیا جاسکتا ہے ۔ ان لوگوں کی رائے غوروفکر پرمبنی نہیں ہے *۔ بلکہ بات یہ ہے کہ قلب بےحس ہوچکا ہے ۔ گناہوں کا غبار اس پر چھا گیا ہے اور بصیرت اور نور دب چکا ہے ۔ اب اس میں وہ معرفت نہیں ہے ۔ وہ عمق اور گہرائی نہیں ہے جس کی وجہ سے انسان کسی معاملہ کی تہ تک پہنچ سکتا ہے *۔ حل لغات :۔ معتد ۔ حداعتدال وتوازن سے بڑھ جانے والا * اثیم ۔ عادی مجرم * ران ۔ زنگ بیٹھ گیا ۔ دل کی حقیقت پر غالب آگیا ۔ چھا گیا *۔ المطففين
17 ف 2: یعنی آج تو یہ لوگ دنیا میں حقائق دینی سے روگردانی کرتے ہیں ۔ مگر کل آخرت میں مومنین جب کہ حق تعالیٰ کے قرب سے مشرف ہوں گے اور اس کی تجلیات سے دل ودیدہ کی تسکین کا سامان بہم پہنچائیں گے ، یہ اس نعمت سے محروم رہیں گے اور جہنم میں پھینکے جائیں گے ۔ پھر کہا جائے گا کہ یہی وہ مقام ہے جس کی تم تکذیب کرتے تھے ۔ آج بتاؤ کہ کیا ہم جھوٹ کہتے تھے *۔ المطففين
18 المطففين
19 المطففين
20 المطففين
21 المطففين
22 المطففين
23 المطففين
24 المطففين
25 المطففين
26 المطففين
27 المطففين
28 ف 1: پاکبازوں کا نامہ اعمال مقام علو ورفعت میں ہوگا ۔ جس کو فرشتے بھی عزت اور فخر کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ ان کا ٹھکانہ جنت ہے ۔ جہاں ان کو ہر نعمت سے نوازا جائے گا ۔ جہاں یہ مسہریوں پر بیٹھے خدا کی نعمتوں اور بخششوں کا نظارہ کریں گے ۔ تم ان کو دیکھو گے کہ چہروں سے تکلف اور تنعم کے اثرات نمایاں ہیں ۔ ان کو وہاں ہر نوع کے کھانے پینے کی آزادی میسر ہوگی ۔ حتیٰ کہ شراب بھی ملے گی جو سربمہر ہوگی اور آخر میں جو مزا ہوگا ، مشک سا ہوگا ۔ خوشبودار اور معطر ۔ یہ وہ کیفیت اور زندگی ہے جس میں تنافس اور تفاخر کی ضرورت ہے ۔ دنیا کی ذلیل چیزوں کے لئے ایمان اور دیانت کو قربان کردینا انتہا درجہ کی بےعقلی ہے *۔ حل لغات :۔ نضرۃ النعیم ۔ نازونعمت کی زندگی کی شگفتگی ۔ آسائش کی بشاست * رحیق ۔ خالص شراب وصافی یا بہتر وخوشبوتر * ختمہ مسک ۔ آخری گھونٹ مشک کی خوش بولئے ہونگے یا مہر مشک کی ہوگی ۔ دونوں معنی مراد ہیں *۔ المطففين
29 المطففين
30 المطففين
31 المطففين
32 المطففين
33 المطففين
34 المطففين
35 المطففين
36 مذاق کا بدلہ مذاق ف 1: کفار کے لئے یہ منظر کتنا تکلیف دہ اور اذیت بخش ہوگا کہ دنیا میں جن لوگوں پر یہ لوگ ہنستے تھے ۔ جن کی تحقیر اور تذلیل کے لئے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے ہوتے تھے ۔ جن لوگوں کو اپنے گھروں میں یہ ہدف طعن وتشنیع بناتے تھے اور جن کو دیکھ پاتے تھے تو بڑی بےباکی اور دلسوزی سے کہتے تھے کہ افسوس یہ لوگ گمراہ ہوگئے ہیں ۔ حالانکہ یہ بات کہنے کا ان کو کوئی استحقاق نہ تھا ۔ آیا ان کو دیکھیں گے کہ وہ بلندیوں اور رفعتوں کے مالک ہیں ۔ اور مسہریوں پر تمکنت اور وقار سے بیٹھے ان کا مضحکہ اڑارہے ہیں ۔ آج ان منکرین اور کفار کو ان کے استہزاء اور تمسخر کا پورا پورا بدلہ مل گیا اور آج ان کی آنکھوں سے سارے پردے اور حجاب اٹھ گئے ۔ آج ان کو معلوم ہوگیا کہ اللہ کے نزدیک معیار تقرب کیا ہے ؟ مال ودولت کی فراوانی یا سیم وزر کے انبار یا اخوان وانصار کی کثرت ؟ نہیں ، بلکہ اعمال صالحہ ، پاکبازی ، دولت ایمان سے بہرہ مندی ، خلوص ، جاں بازی ، ایثار اور پیہم اعلاء کلمتہ اللہ کے لئے جدوجہد ۔ یہ وہ نعمتیں ہیں ، جن سے ان کے دامن ہمیشہ خالی رہے ۔ انہوں نے اس بات پر بڑے فخر وغرور کا اظہار کیا کہ ان کو دنیا کی ساری آسائشیں حاصل ہیں اور مسلمان ان سے یک قلم محروم ہیں ۔ مگر اس بات کو یہ لوگ معلوم نہ کرسکے ۔ کہ زندگی کا اصلی وحقیقی نصب والعین دنیا نہیں ہے ۔ دنیا کی آسودگیاں اور تکلفات نہیں ہیں ، بلکہ رضاء الٰہی ہے ۔ وہ اگر خوش ہوگیا تو دارین کی نعمتیں حاصل ہیں اور اگر وہ روٹھ گیا تو چاندی سونے کے محل بھی محص بےکار ہیں ۔ یہی وہ راز تھا جس کو مسلمان نے سمجھا اور جس کی وجہ سے آج جنت ان کے قدموں میں ہے ۔ اور کفار نے نہ سمجھا اور جہنم کا ایندھن بنے *۔ حل لغات :۔ فکھین ۔ مذاق اڑاتے ہوئے * ھل ثرب ۔ یہاں ھل بمعنی قد ہے *۔ المطففين
0 الانشقاق
1 سورہ انشقاق ف 1: یہ سورۃ مکی ہے اور اس میں مسائل معاد سے زیادہ تر بحث کی گئی ہے ۔ جیسا کہ مکی سورتوں کی خصوصیت ہے ۔ فرمایا کہ جب قیامت آجائے گی اور اللہ کا حکم ہوگا کہ یہ قبہ زرنگار توڑ دیا جائے ۔ تاکہ فرشتے اس میں آجاسکیں اور یہ بساط ارضی کھینچ کو بڑھا دی جائے تو اس میں ان کو قطعاً تخلف نہیں ہوگا ۔ دونوں انتہائی عاجزی سے اللہ کے حکموں کی اطاعت کریں گے *۔ الانشقاق
2 الانشقاق
3 الانشقاق
4 الانشقاق
5 الانشقاق
6 یعنی ساری زندگی میں انسان اس جدوجہد میں مبتلارہتا ہے کہ کسی خواہش و آرزو کے حصول میں کامیابی ہو اور کسی نہ کسی طریق سے اس کی محبتیں ٹھکانے لگیں ۔ دن رات دوڑ دھوپ کرتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک لمحہ بھی وہ فارغ نہیں ہے ۔ سو اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایک دن اس نصب العین تک رسائی ہونے کو ہے ۔ جس کے لئے اس عمر بھر سعی کی اور تگ ودو جاری رکھی ۔ مگر شرط کامرانی یہ ہے کہ یہ عمل پیہم ، یہ شوق وصال اور یہ تگ ودو واللہ کو پسند آجائے اور وہ ازراہ تکریم واعزاز اعمالنامہ اس کے داہنے ہاتھ میں دے دیں ۔ ورنہ ہلاکت ہے ۔ اور جہنم کی آگ ہے اور یہ سارے اعمال بےکار اور اکارت ہیں ۔ حل لغات :۔ وحقت ۔ اور اس کے لئے یہی زیبا تھا ۔ وہ اسی لائق تھا * کا دح ۔ محنت اور شدید برداشت کرنے والا ہے * ثبورا ۔ ہلاکت *۔ الانشقاق
7 الانشقاق
8 الانشقاق
9 الانشقاق
10 الانشقاق
11 الانشقاق
12 الانشقاق
13 الانشقاق
14 الانشقاق
15 ف 1: جس شخص کے بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیا جائے گا ، وہ اللہ کی نظروں میں حقیروذلیل ٹھہرے گا ۔ دنیا میں اس شخص کی کیفیت یہ تھی کہ عاقبت کے متعلق کبھی اس نے سوچا ہی نہ تھا ۔ وہ یہ سمجھتا تھا کہ ہمیشہ اپنے متعلقین اور وابستگان میں اسی طرح خوش وخرم زندہ رہے گا ۔ نہ کبھی مرے گا اور نہ مر کر اللہ کے حضور میں پیش ہوگا ۔ مگر کیونکر ایسا ہونا ممکن تھا ۔ جب کہ موت وبعثت اس ذات کے اتخیار میں ہے ۔ جو سب کچھ جانتی اور دیکھتی ہے ۔ جو یہ علم رکھتی ہے ۔ کہ بعض لوگ میرے نام کے اچھالنے کی پاداش میں سخت تکلیف وعسرت کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔ اور بعض ایسے ہیں کہ میرے دشمن ہیں ۔ مگر دنیا میں میں نے ان کو کسی تکلیف سے دو چار نہیں کیا ۔ اس لئے انصاف وعدل کا تقاضا یہ ہے کہ ایک دن ایسا مقرر کیا جائے جب سب ایک جگہ جمع ہوں اور اپنے اپنے اعمال کے مطابق جزاء وسزا پائیں *۔ الانشقاق
16 الانشقاق
17 الانشقاق
18 الانشقاق
19 زندگی یک قلم تحولات کا نام ہے اس سے قبل کی آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو بعثت وحشر کے عقیدہ کو تسلیم نہیں کرتے ۔ اس آیت کی وجہ استحالہ کی تردید ہے ۔ اور فرمایا کہ اس میں عقلاً کوئی اشکال نہیں ہے ۔ جس طرح نظام قدرت میں تم دوسری تبدیلیاں دیکھتے ہو اور تم کو کوئی تعجب نہیں ہوتا ۔ اسی طرح یہ بھی فطرت کی ایک تبدیلی اور محول ہے ۔ جیسا کہ سورج غروب ہوتا ہے اور اس وقت ایک سرخی سی افق پر چھاجاتی ہے اور پھر غائب ہوجاتی ہے اور رات کی تاریکی اس کی جگہ لے لیتی ہے ۔ جیسا کہ چودھویں شب کا چاند سارے آسمان کو روشن کردیتا ہے ۔ اسی طرح تمہاری زندگی کا آفتاب غروب ہوتا ہے تو موت کی شفق برزخ کے کناروں پر نظر آتی ہے ۔ اسی طرح عالم قبر کی تاریکی چھاجاتی ہے اور پھر اسی طرح نئی زندگی کا بدرمنیر ضوفگن ہوجاتا ہے ۔ اس میں کون سی بات تعجب اور حیرت پیدا کرنے والی ہے ۔ یقینا تمہاری ساری زندگی پیدائش سے حساب و کتاب تک ایک سلسلہ تخولات ہے ۔ ایک کیفیت کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری کا ظہور ناگزیر ہے ۔ بعض مفسرین کی رائے میں لترکین بالفتح ہے اور یہ اشارہ ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معراج آسمانی کی طرف کہ آپ عنقریب طبقات علوم کی سیر کے لئے جائیں گے ۔ حل لغات :۔ بالشفق ۔ وہ سرخی جو سورج ڈوبنے کے لئے نمودار ہوتی ہے ۔ اذا اتسق ۔ جو چاند پورا ہوجائے * ۔ الانشقاق
20 الانشقاق
21 الانشقاق
22 الانشقاق
23 الانشقاق
24 الانشقاق
25 الانشقاق
0 البروج
1 سورۃ البروج اصحاب اخدود کا قصہ یہ ہے کہ ذونواس یہودی نے جب یہ دیکھا کہ بہت سے لوگوں نے دین مسیحی کو قبول کرلیا ہے تو اس کا خون کھولنے لگا ۔ اس نے ان مسیحیوں سے کہا کہ تم لوگ دو چیزوں میں سے ایک چیز کو پسند کرلو ۔ یا تو آگ یا یہودیت ۔ ان صاحب عزیمت لوگوں نے عیسائیت سے انحراف کو دیانت وتقوی کے خلاف سمجھا اور دہکتی ہوئی کھائیوں میں کود پڑے *۔ ان آیات میں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے ۔ اور بتانا یہ مقصود ہے کہ حق کی اشاعت کے لئے پہلی قوموں نے کتنی تکلیفیں برداشت کیں اور کتنے استقلال سے کام لیا ہے ۔ اس لئے مسلمان بھی مکہ والوں کی مخالفت سے نہ گھبرائیں ۔ بلکہ ان عیسائیوں کی طرح بڑی سے بڑی مصیبت برداشت کرنے کے لئے تیار رہیں *۔ البروج
2 البروج
3 البروج
4 البروج
5 قاتل کی توبہ ف 1: ایک طرف اصحاب اخدود کے مظالم ہیں کہ بارہ ہزار عیسائیوں کو محض اس پاداش میں نذر آتش کردیا کہ انہوں نے ایک خدا کو کیوں تسلیم کیا اور دوسری جانب اللہ کا عفو وکرم دیکھئے کہ وہ ان لوگوں کو توبہ مغفرت کی دعوت دیتا ہے ۔ اور کہتا ہے کہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت پہنچانا بہت بڑا گناہ ہے اور جب تک ظالم توبہ نہیں کرتا ، اللہ کی بخشش کا حق دار نہیں ہے ، بلکہ جہنمی ہے ۔ اور عذاب احتراق کا مستحق ہے ۔ اس آیت سے بعض مفسرین نے یہ استدلال کیا ہے کہ قاتل بھی اگر خلوص کے ساتھ توبہ کرلے تو اس کی توبہ عنداللہ مقبول ہوسکتی ہے ۔ کیونکہجب ان لوگوں کو دعوت دی جارہی ہے ، جنہوں نے ہزاروں عیسائیوں کو آگ میں جھونک دیا تو پھر وہ شخص توبہ کا کیوں حق نہیں رکھتا ۔ جس نے نادانی سے قتل کا ارتکاب کیا ہے اور اب پچھتارہا ہے اور اپنے فضل پرنادم ہے *۔ حل لغات :۔ ذات البروج ۔ یعنی نجوم وکواکب والا ۔ الیوم الموعود ۔ قیامت کا دن * شاھد ۔ احوال قیامت کا مشاہدہ کرنے والا * مشھود ۔ قیامت کے احوال داہوال *۔ البروج
6 البروج
7 البروج
8 البروج
9 البروج
10 البروج
11 ف 2: اس آیت میں اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے کہ جنت میں وہ لوگ جائیں گے اور فوز کبیر سے وہ لوگ بہرہ مند ہوں گے جو ایمان لے آئیں اور دل سے تسلیم کرلیں گے کہ اسلام کانظام عمل صحیح اور درست ہے اور اس کے بعد عزیمت واستقلال کے ساتھ اس نظام پر عمل پیرا ہوں گے ۔ وہ نہیں جنہوں نے مال ودولت کی فراوانی کو کافی سمجھا ۔ اور سیم وزر کے انبار کو گھروں میں جمع کرکے رکھا اور اللہ کے ہر حکم کی مخالفت کی *۔ البروج
12 البروج
13 البروج
14 خدا اور اس کی نوازش ف 1: ان آیتوں میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ۔ اس کے ارادوں میں کوئی قوت اور کوئی شخصیت حائل نہیں ہوسکتی ۔ وہ اگر مجرموں اور منکروں کوسزا دینا چاہے تو اس کی گرفت بہت سخت ہے اور اگر اپنے بندوں کو مغفرت اور دوستی سے نوازنا چاہے تو وہ غفور اور ودود ہے * جو لوگ خدا کے اسلامی تخیل سے متوحش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس تصور میں وہ پیار نہیں ہے جو عیسائی مذہب میں ہے ، وہ ودود کے لفظ پرغورکریں کہ اس کے معنی دوست کے ہیں ۔ یعنی احکم الحاکمین رب السموت والارض خدا اور محبت کے لئے منتخب فرماتا ہے * کیا اس سے بڑھ کرنوازش اور محبت کا کوئی دوسرا انداز ہو سکتا ہے ؟ وہ جس کے ہم ادنی چاکر ہیں ۔ جس کے حقیر غلام بھی اگر قرار پاسکیں تو جائے صدفخر ومباحات ہے ۔ وہ عزت بخشتا ہے ۔ دوستی اور محبت کی ۔ جوخود محبوب ہے اور اس لائق ہے کہ ساری دنیا اس کو دل سے چاہے ۔ وہ یہ فرماتا ہے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور تمہارے حق میں محبوب ہونے کے ساتھ محب بھی ہوں ۔ تم کو چاہتا ہوں اور تم سے دوستی اور مودت کا اظہار کرتا ہوں *۔ حل لغات :۔ فتنوا ۔ فتنہ کے معنی دراصل عذاب اور کسی چیز کو آگ میں ڈالنے کے ہیں ۔ یہاں مقصود ہے آزمائش میں ڈالنا * الحریق ۔ آگ سوزش * البطش ۔ پکڑ ۔ گرفت * الجنود ۔ عساکر *۔ البروج
15 البروج
16 البروج
17 البروج
18 البروج
19 البروج
20 البروج
21 البروج
22 البروج
0 الطارق
1 الطارق
2 الطارق
3 الطارق
4 الطارق
5 الطارق
6 الطارق
7 حشر ونشر پر استدلال ف 1: قرآن حکیم کے انداز بیان کی یہ خصوصیات میں سے ہے کہ وہ پا افتادہ حقائق کو پیش کرتا ہے اور ان سے علم الٰہی کے نہایت دقیق مسائل کا استنباط کرتا ہے اور بتلاتا ہے کہ اگر تم لوگ کوتاہی نظر سے کام نہ لو تو تمہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ فرماتے ہیں ، وہ بالکل درست اور واقعہ ہے ۔ چنانچہ ارشاد فرمایا کہ تم یہ روز مرہ دیکھتے ہو کہ وہ چھلکتا ہوا پانی جو بدن کے ہر حصے سے نچڑ کر نکلتا ہے ، وہ بےجان پانی ہوتا ہے مگر ایک جیتے جاگتے انسان کو منصہ شہود پر جلوہ گر کردیتا ہے ۔ یہ اس لئے کہ حلیم وحکیم خدا نے یہی مناسب اور موزوں سمجھا کہ اس معزز اور مفتخر انسان کو سا طریق اور اس نہج سے پیدا کیا جائے ۔ پھر تمہیں جب اس میں تعجب نہیں ہوتا اور تم کبھی اس حقیقت کا انکار نہیں کرتے کہ محض قطرہ آب ایک انسان کی تخلیق کا باعث ہوسکتا ہے *۔ تو پھر اس میں کیوں تعجب ہے کہ جب وہ چاہے گا تو موت کو زندگی سے بدل دے گا ۔ کیا موت اور حیات کے واقعات روزانہ تمہارے سامنے نہیں ہیں ؟ ایک وقت ضرور آئے گا جب کہ تمام راز ہائے سربستہ امتحان کی کسوٹی پر کسے جائیں گے اور دیکھا جائے گا کہ کون حق وصداقت کے مطابق ہیں اور کون مخالف ۔ پھر جن لوگوں کے متعلق وہ عذاب کا فیصلہ دے گا ۔ دنیا کی کوئی قوت اس کی اعانت نہیں کرسکے گی *۔ حل لغات :۔ الطرق ۔ رات کو آنے والا ۔ نمودار ہونے والا ۔ لما ۔ بمعنی الا ہے * ماء دافق ۔ اچھل کر نکلنے والا پانی *۔ الطارق
8 الطارق
9 الطارق
10 الطارق
11 ف 1: والسماء ذات الرجع سے معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کے سامنے یہ حقیقت بالکل واشگاف طور پر موجود تھی کہ بخارات سمندر سے اٹھتے ہیں اور اس کے بعد یہی بخارات ابر کی صورت اختیار کرلیتے ہیں اور پھر یہی برستے ہیں ۔ اسی لئے اس کو ذات الرجع کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ ایسے ابر جو اس امانت کو جو انہوں نے سمندروں سے لی ہے ۔ پھر سمندروں کو لوٹا دیتے ہیں *۔ زمین کو بھی تمثیل میں پیش کیا ہے ۔ جس میں سبزیاں نکلتی ہیں اور وہ پھٹ جاتی ہے ۔ وجہ تشبیہہ یہ ہے کہ جس طرح ابر برستا ہے اور کھیت لہلہا اٹھتے ہیں اور جس طرح زمین بوقلمون سبزیوں کو اگلتی ہے ، اسی طرح قرآن فیضان الٰہی ہے اور اس سے دلوں کے کھیت شگفتہ وشاداب ہوجاتے ہیں اور جس طرح بوقلمون سبزیاں زمین سے پھوٹتی ہیں اور انسان ان سے استفادہ کرتا ہے ۔ اسی طرح یہ حق وصداقت کی کونپلیں جن کو قرآن کے لفظ کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے ۔ قلب پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پھوٹی ہیں * حل لغات :۔ من بین الصلب والترائب ۔ صلب کے معنی پشت کے ہیں اور ترائب سینے کی ہڈیوں کو کہتے ہیں ۔ غرض یہ ہے کہ سارے بدن سے پانی نچڑ کر نکلتا ہے *۔ الطارق
12 الطارق
13 الطارق
14 الطارق
15 الطارق
16 الطارق
17 الطارق
0 الأعلى
1 الأعلى
2 الأعلى
3 الأعلى
4 الأعلى
5 الأعلى
6 الأعلى
7 سورۃ الاعلیٰ ف 1: سنقرئک فلا تنسی میں اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ پیغمبر کا دماغ خدا کی جانب سے محفوظ ہوتا ہے اور جہاں تک شرعیات کا تعلق ہے ، اس پر کبھی سہو ونسیان کی کیفیتیں طاری نہیں ہوتیں *۔ الا ماشاء اللہ کا استثناء تائید کے لئے ہے ۔ یعنی خدا کو یہ منظور نہ ہو کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تعلیمات کو بھول جائے ۔ ورنہ دوسری قوت ایسی نہیں جو ذہن پیغمبر پر غالب آسکے *۔ حل لغات :۔ فسوی ۔ اعضاء میں تسویہ پیدا کرنا * فھدی ۔ بدن میں اعضاء واحشاء کو ان کے وظائف طبعی سے اطلاع بخشی *۔ الأعلى
8 الأعلى
9 الأعلى
10 الأعلى
11 الأعلى
12 الأعلى
13 الأعلى
14 الأعلى
15 الأعلى
16 الأعلى
17 الأعلى
18 الأعلى
19 ہمہ گیر صداقت ف 1: غرض یہ ہے کہ صداقت ہمہ گیر ہے ۔ ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام نے بیک آواز جو چیز اپنے اپنے زمانے میں لوگوں کے سامنے پیش کی ، وہ یہ تھی کہ کامیابی اسی شخص کے مقدر ہے جو پاکباز ہے ۔ جو خیال وفکر سے لے کر اعمال وجوارح تک پاکیزگی اور تقویٰ کو اپنا شعار بنالیتا ہے ۔ جس کا قلب پاک ہے ۔ جس کا خیال پاک ہے ۔ جس کا استدلال شوائب ضلالت سے پاک ہے اور جس کا عمل خلوص اور پاکیزگی ہے ۔ جو ہر آن اللہ کو یاد رکھتا ہے اور اپنی عقیدت ونیاز مندی کے جذبات کا اظہار کرتا ہے ۔ یعنی وہ جس کو ذوق عبادت بےقرار کردیتا ہے اور مجبور کرکے اس کے حضور میں کھڑا کردیتا ہے ۔ جس کی جبین اس کے آستانہ جلال پرجھکنے کے لئے ہر وقت بےتاب رہتی ہے اور جس کا دل حمدوستائش کے ترانوں سے گونجتا رہتا ہے جس کی زبان اس کے ذکر سے تازہ وشگفتہ رہتی ہے اور جس کی پوری زندگی ثبوت ہوتی ہے اس بات کا کہ اس نے اپنی زندگی کے کسی حصہ میں اس کی یاد اور اس کے احکام کو فراموش نہیں کیا ۔ جو متاع دنیا کو ذلیل اور حقیر سمجھتا ہے اور آخرت کو جو دائمی اور واقعی ہے ، بہتر قرار دیتا ہے ۔ جس کے نقطہ نگاہ سے اصل چیز جو حصول اور تگ ودو کے قابل ہے ۔ وہ عقبیٰ کی نعمتیں ہیں دنیاکی احقر اور ارزل اشیاء نہیں ۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو مختلف انبیاء نے اپنے اپنے وقتوں میں بنی نوع انسان تک پہنچایا اور ان کے اخلاقی اور روحانی افق کو بلند اور تابناک بنانے کی کوشش کی *۔ الأعلى
0 الغاشية
1 سورۃ الغاشیۃ قیامت کے کئی نام قرآن میں آئے ہیں اور سب کو اس کی مختلف خصوصیات پردلالت کرتے ہیں ۔ خاشیہ کے معنی ڈھانپ لینے اور چھا جانے کے ہیں ۔ مناسبت یہ ہے کہ قیامت کیا حوال اور شدائد کسی شخص کو بھی مستثنیٰ نہیں کریں گے اور ہر ایک کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ ان سے دوچار ہو * خاشیہ کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ دن فیصلہ اور احتساب کا ہوگا ۔ کچھ چہرے ایسے ہوں گے کہ ان پرذلت برس رہی ہوں گی اور دنیا میں انہوں نے جتنے کام کئے تھے ، آج یہ محسوس کریں گے کہ وہ بجز القب اور بوجھ کیا ور کوئی حیثیت نہیں رکھتے ۔ غذا ان کی ناقص اور تکلیف دہ ہوگی ۔ پانی ملے گا تو وہ کھولتا ہوا ۔ اور کھانا پائیں گے تو ایسا جس میں ذرہ برابر غذائیت نہ ہو ۔ نہ بھوک اس سے دور ہوگی اور نہ قوت وتوانائی پیدا ہوگی ۔ اور کچھ چہرے شگفتہ اور شاداب ہوں گے اپنے اعمال پر خوش اور نازاں ہوں گے ۔ بلند مرتبت جنت میں رہیں گے ۔ جہاں لغویات کا کہیں مذکور نہیں ۔ جہاں بہتے چشمے ہیں اور بلند تخت ہیں جو قرینے سے بچھے ہیں ۔ جہاں آلات مے نوشی کا پورا پورا انتظام ہے ۔ جہاں عمدہ عمدہ گدے اور قالین ہیں ۔ غرضیکہ ایسی زندگی ہے جس میں روح وجسم کی ہر آسودگی مہیا ہے ۔ مبارک ہیں وہ لوگ جن کو یہ نعمت ہائے گونا گون میسر ہیں ۔ اور بدقسمت ہیں وہ لوگ جو ان سے محروم ہیں *۔ حل لغات :۔ حدیث الغاشیۃ ۔ قیامت کی خبر * عاملۃ ۔ کام کرنے والی * ناصبۃ ۔ خستہ *۔ ضریع ۔ ایک قسم کی گھاس ہوتی ہے جو نہایت بدمزہ اور زہردار ہونے کے باعث چار پائے اس کو کھا نہیں سکتے ۔ مگر یہاں مراد وہ کھانا ہے جس میں غذائیت نہ ہو * ناعمۃ ۔ بارونق ۔ شگفتہ * نمارق نمرقۃ کی جمع ہے ۔ تکیہ ۔ گدا * ذرابی ۔ زربیہ کی جمع ہے ۔ فرش ۔ قالین * الجبال ۔ علامہ زمحشری کے نزدیک جہال سے مراد بادل ہیں ۔ مگر بطور تشبیہہ ومجاز کے *۔ الغاشية
2 الغاشية
3 الغاشية
4 الغاشية
5 الغاشية
6 الغاشية
7 الغاشية
8 الغاشية
9 الغاشية
10 الغاشية
11 الغاشية
12 الغاشية
13 الغاشية
14 الغاشية
15 الغاشية
16 الغاشية
17 الغاشية
18 الغاشية
19 الغاشية
20 الغاشية
21 الغاشية
22 دین فطرت اور دین کون ف 1: قرآن صرف مسائل ہی بیان نہیں کرتا ۔ بلکہ فطرت کے عجائبات کی طرف بھی انسانی توجہات اور فکر وغور کو مبذول کرتا ہے ۔ اس لئے غرائب دنیا اور غرائب دین میں ایک عجیب تناسب ہے ۔ بلکہ قرآن تو اس حقیقت کا برملا اظہار کرتا ہے کہاسلام دین فطرت ہے ۔ اس میں اور قوانین فطرت وکون میں نہ صرف کوئی تضاد نہیں ۔ بلکہ پورا تو افق وتطابق ہے ۔ قرآن یہ چاہتا ہے کہ انسان اتنا وسیع النظر ہو کہ اسرار وعجائبات کون پر کامل طریق سے نگاہ رکھتا ہو ۔ اس لئے کہ حقائق کی راہ میں سب سے بڑی جو رکاوٹ ہوتی ہے ، وہ تعصب اور کوتاہ نظری ہوتی ہے اور فطرت کے آزاد مطالعہ سے یہ مرض دور ہوجاتا ہے ۔ فرمایا کہ ان کو اونٹ کی تخلیق پر غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کس درجہ مفید حیوان بنایا ہے اور ریگستانوں میں رہنے والے انسانوں کے لئے اس کا وجود کس درجہ سود مند ہے *۔ پھر آسمان کی بلندیوں کو دیکھنا چاہیے کہ یہ نظام کواکب کیونکر بغیر ستون کے قائم اور استوار ہے ۔ پہاڑوں کی طرف غور وفکر کی نظریں دوڑانا چاہیے کہ کس طرح زمین میں گاڑ دیئے گئے ہیں ۔ کہ اب ان کے ثقل اور بوجھ کی وجہ سے زمین میں غیر طبعی حرکت پیدا نہیں ہوتی اور سورج اپنی طرف اس کو جذب نہیں کرلیتا ۔ پھر بساط ارضی کو دیکھنا چاہئے کہ کیونکر اسکو پاؤں تلے بچھادیا ہے کہ ہم اس کو پامال کرتے اور روندتے ہیں ۔ مگر یہ احتجاج نہیں کرتی ۔ کیا ان غرائب کو نیہ میں ان لوگوں کے لئے ذکر ونصیحت کی کوئی بات پنہاں نہیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ آپ کا کام صرف اتنا ہے کہ آپ ان تک ان حقائق کو پہنچا دیں ۔ اب اگر یہ غوروفکر سے کام نہیں لیتے تو نہ لیں ۔ آپ پر اس کا بوجھ نہیں *۔ حل لغات :۔ بمصیطر ۔ دراوغہ ۔ سیطرہ سے ہے ۔ جس کے معنی قبضہ اور اقتدار ہیں * ایابھم لوٹنا ۔ رجوع کرنا *۔ الغاشية
23 الغاشية
24 الغاشية
25 الغاشية
26 الغاشية
0 الفجر
1 سورۃ الفجر ف 1: اس سورت میں قسموں کے انداز میں شواہد کو پیش فرمایا ہے اور دلائل کا ذکر کیا ہے ۔ اسی واسطے فرمایا ہے ۔ ھل فی ذلک قسم لذی حجر ۔ کہ اس میں عقلمندوں اور غوروفکر کرنے والوں کے لئے ایک بین دلیل ہے ۔ اس لئے مقام اور موقع کے لحاظ سے زیادہ موزوں یہ ہے کہ یہاں الفجر سے مراد فجر قیامت ہو اور دس راتوں سے مراد وہ دس راتیں ہوں جن میں نافرمان قوموں پر عذاب بھیجا گیا اور الشفع والوتر حسوما اور الیل اذیسر ۔ غرض ہر وہ رات ہے جو معذب قوموں پر آتی ہے ۔ اس نہج سے یہ دعوی ان ربک لبا لمرصاد بالکل درست اور صحیح ثابت ہوگا ۔ یعنی ان معذب قوموں کی تاریخ پڑھو اور ان کے حالات کا مطالعہ کرو ۔ تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ جب بھی انہوں نے اللہ کے احکام کی نافرمانی کی ۔ اس کا غضب ان پرنازل ہوا اور ان کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا *۔ حل لغات :۔ قسم ۔ لوٹنا ۔ رجوع کرنا * ذات العھاد ۔ بالاقد * ذی الاوتاد ۔ میخوں والا ۔ صاحب حشم وجاہ *۔ الفجر
2 الفجر
3 الفجر
4 الفجر
5 الفجر
6 الفجر
7 الفجر
8 الفجر
9 الفجر
10 الفجر
11 الفجر
12 الفجر
13 الفجر
14 الفجر
15 انسانی تنگ ظرفی ف 1: قرآن حکیم کی خصوصیت ہے کہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں انسانی نفسیات تک پر بحث کی گئی ہے اور بتایا ہے کہ اس کی لغزش اور گمراہی کے منابع کون کون ہیں ۔ فرمایا کہ انسان کا دل اتنا چھوٹا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اس کو مال ودولت سے نوازتے ہیں تو پھر یہ آپے میں نہیں سماتا ۔ تبخیر اور غرور می ڈوب جاتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھ پر میرے رب کا بڑا فضل ہے اور جب مال ودولت کو چھین لیتا ہے اور تنگی اور عسرت سے بسر ہونے لگتی ہے تو بےقرار ہوکر کہہ اٹھتا ہے کہ خدا نے میری بڑی توہین کی ہے ۔ گویا مال ودولت کے وقت اس نے اس کا صحیح استعمال کیا تھا ۔ اور اب چھن جانے پر اس درجہ متاسف ہے ۔ حالانکہ جب اس کے پاس سرمایہ تھا ۔ اس وقت یہ نفس کی ضروریات کو پورا کرتا تھا ۔ مگر مسکینوں اور حاجت مندوں کو کھانا کھلانے کی توفیق اسے کبھی مرحمت نہیں ہوئی ۔ بلکہ اس حرص وآز کی کیفیت یہ تھی کہ جو پاتا اور جہاں پاتا کھاجاتا ۔ اور اس میں جائز وناجائز کی کوئی تمیز روا نہ رکھتا اور دولت کا تو اسے عشق تھا ۔ حالانکہ یہ چاہیے تھا کہ دولت کے وقت حد سے زیادہ خوش نہ ہوتا اور اس کو اللہ کی امانت سمجھ کر مستحقین میں صرف کرتا اور جب اللہ تعالیٰ دولت سے محروم کردیتے ۔ اس وقت صبر اور شکر سے کام لیتا اور قناعت اختیار کرتا ۔ واضح رہے کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے مال ودولت کی محبت اگر اندازے کے مطابق ہو تو ممنوع نہیں ۔ بلکہ بعض حالات میں ضروری ہے ۔ اگر اندازے سے زیادہ ہو اور بےجا غرور اور خواہشات نفس کی تکمیل کے جذبات پیدا کردے تو ناجائز اور ممنوع ہے ۔ فی نفسہٖ یہ چیز نہ بری ہے اور نہ اچھی ۔ اس کا اچھا استعمال محمود ہے اور برا استعمال مذموم ۔ فرمایا کہ منکرین یہاں سیم وزر کے انباروں پر نازوکبر کا اظہار کررہے ہیں ۔ مگر انہیں معلوم نہیں کہ قیامت کے دن جب فرشتے اس کے حضور میں صف بستہ کھڑے ہوں گے ۔ اس وقت ان کو احساس ہوگا کہ اے کاش دنیا میں ہم نے یہاں کے لئے کچھ بھیجا ہوتا *۔ حل لغات :۔ فقدرعلیہ رزقہ ۔ روزی کو اس پر تنگ کردیتا ہے * اکلالما ۔ یعنی سارے کا سارا کھاجاتے ہو ۔ لم کے معنی جمع کرنے کے ہیں ۔ شئی ملموم ای مجموع *۔ الفجر
16 الفجر
17 الفجر
18 الفجر
19 الفجر
20 الفجر
21 الفجر
22 الفجر
23 الفجر
24 الفجر
25 الفجر
26 الفجر
27 الفجر
28 الفجر
29 الفجر
30 ف 1: وہاں نصیحت اور عبرت بالکل بےکار اور عبث ہوگی کہ وہ مقام مقام احتساب ہے ، مقام تذکیر وعمل نہیں ۔ اس کے بعد اس حقیقت کا اظہار فرمایا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی روح دنیا میں بھی بلندرہتی ہے اور طمع اور آلودگیوں سے ملوث نہیں ہوتی ۔ اور باوجود اس کے کہ افلاس اور معصیت کے طوفان اٹھتے ہیں ۔ مگر ان کا نفس اطمینان کے جس نشیمن پر متمکن ہوتا ہے ، وہاں سے نیچے نہیں اترتا ۔ ان مطمئن نفوس کو کہا جائے گا کہ جاؤ تمہارے لئے مقام رضا وخوشنودی ہے ۔ تم میرے بندوں میں داخل ہوجاؤ اور میری جنت میں رہو بسو ۔ فادخلی فی عبدی سے غرض یہ ہے کہ انسان بلند ترین مقامات پر پہنچنے کے بعد بھی دائرہ عبودیت سے نہیں نکلتا اور روحانیت کے انتہائی ارتقاء میں بھی اس کا چاکر اور غلام ہی رہتا ہے *۔ الفجر
0 البلد
1 البلد
2 البلد
3 البلد
4 حیات انسانی ف 2: سورۃ البلد میں تین چیزوں کبو بطور استشہاد کے پیش فرمایا ۔ ہے اور ثابت کیا ہے کہ انسانی زندگی مسلسل مصائب اور سختیوں کا نام ہے ۔ ایک مکہ کی پوری تاریخ کہ کیونکہ اللہ کے ایک بندے نہ پریشانی اور اضطراب کے عالم میں یہاں اپنی اولاد کو بسایا اور اس غیر آباد زمین میں ایک معبد کی بنیاد رکھی ۔ اور پھر وہ جگہ کس درجہ مقبول ہوئی ۔ دوسرے آپ کا اس شہر میں فاتحانہ داخلہ اور تیسرے آدم اور بنی آدم کی ساری زندگی ، ان واقعات کو دیکھئے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ حیات انسانی ، تعبیر ہے محنت وجانفشانی سے ، تگ ودو اور سعی سے ، دوڑ دھوپ اور کوشش سے ، اور وہی لوگ دنیا میں کامیابی اور کامرانی سے زندگی بسر کرسکتے ہیں ۔ جو اس راز کو سمجھتے ہیں اور جو آسودہ تن ہیں اور آرام طلب ہیں ۔ وہ ہمیشہ سیاسیات عالم میں غلام اور نکمے رہتے ہیں ۔ واضح رہے کہ یہاں وانت حل بھذا البلد بطور جملہ معترضہ کے ہے اور یہ پیش گوئی ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے معنی مطلقاً مکہ میں سکونت پذیر ہونے کے ہوں ۔ اس صورت میں آپ کی مکی زندگی کے پر مصائب ہونے کی طرف اشارہ ہوگا *۔ حل لغات :۔ وثاقہ ۔ باندھنا ۔ قید کرنا ۔ جکڑنا * کبد ۔ مشقت ۔ کوفت اور مصیبت *۔ البلد
5 البلد
6 البلد
7 البلد
8 البلد
9 البلد
10 البلد
11 البلد
12 البلد
13 البلد
14 البلد
15 ف 1: غرض یہ ہے کہ انسان تو اس لئے پیدا کیا گیا تھا کہ یہ حق وصداقت کی راہ میں جس قدر مشکلات پیش آئیں ، ان کو صبر واستقلال کے ساتھ برداشت کرے ۔ مگر اس کی سرکشی اور بغاوت کا یہ عالم ہے کہ خدا سے بھی نہیں ڈرتا اور سمجھتا ہے ۔ کہ اس پر کسی کا بس نہیں چل سکے گا ۔ عیش وعشرت میں ، شادی غمی کی رسموں میں اور نام ونمود کے موقع پر بےدریغ خرچ کرتا ہے ، دعوتوں میں اور حکام وقت کی خوشنودی اور ان کی استرضا میں ہزاروں روپے پانی کی طرح بہادیتا ہے اور جب قومی اور ملی کاموں کے لئے خدا کے نام پر اس سے کچھ مانگا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ صاحب ! میں نے بڑی دولت لٹائی ہے اور بڑا سرمایہ خرچ کیا ہے ۔ اب میں کچھ بھی نہیں دے سکتا ۔ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ شاید اس کی فضول خرچیوں کو کسی نے نہیں دیکھا اور اس کی ریاکارانہ مساعی کو بہ نظر احتساب نہیں جانتا ۔ اللہ نے اس کو دو آنکھیں بخشی ہیں ۔ تاکہ حقائق کا مشاہدہ کرے ۔ ایک زبان اور دو ہونٹ عطا کئے ہیں کہ دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہو اور کلمہ حق کے اظہار سے دریغ نہ کرے ۔ اور نیکی وبدی کی دو راہیں اس کو دکھادی ہیں ، تاکہ گمراہ نہ ہو ۔ مگر یہ ہے کہ ان بیش قیمت نعمتوں کو قدر وتشکر کی نظروں سے نہیں دیکھتا ۔ سو یوں ایسا نہیں ہوتا کہ یہ دشوار گزار اخلاق وروح کی گھاٹی کو عبور کرلے اور وہ دشوار گزار گھاٹی یہ ہے کہ غلامی کے خلاف جہاد کرے اور اللہ کے غلاموں کو بندوں کی غلامی سے چھڑائے یا قحط اور بھوک کے زمانے میں اپنے رشتہ دار یتیموں کی مدد کرے ۔ یا فقیر خاک نشین کی طرف دست شفقت بھائے اور ان پاکبازوں میں سے ہو جو مومن ہیں اور صبروہمدردی کے جذبات کی تلقین کرتے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اعزاز وتکریم کے مستحق ہیں اور اصحاب یمین ہیں اور وہ منکرین جو خدا کی نعمتوں سے استفادہ نہیں کرتے جن کے دلوں میں خلق اللہ کے لئے کوئی شفقت کا جذبہ موجزن نہیں ، وہ بدبختی اور محرومی کے مالک ہیں ، جہنم میں جائیں گے ۔ اور اس کی آگ ان کو چاروں طرف سے گھیرلے گی *۔ فک رقبۃ سے مصطلح غلامی مراد ہے ۔ جس کے صاف اور واضح معنی یہ ہیں کہ قرآن کا مشورہ یہ نہیں ہے کہ وہ بندگی کے نظام کی ققویت کرے ۔ بلکہ یہ چاہتا ہے کہ اخلاقاً لوگوں میں یہ روح پیدا کردی جائے کہ وہ غلامی کو دور کرنا اپنے لئے بڑی سعادت سمجھنے لگے *۔ حل لغات :۔ لبدا ۔ بہت زیادہ * النجدین ۔ نیکی اور بدی کی دو راہیں * العقبۃ ۔ گھاٹی * رقبۃ ۔ گردن * مسغبۃ ۔ بھوک ۔ فاقہ * ذامتربۃ ۔ خاک نشینی *۔ البلد
16 البلد
17 البلد
18 البلد
19 البلد
20 البلد
0 الشمس
1 الشمس
2 الشمس
3 الشمس
4 الشمس
5 الشمس
6 الشمس
7 الشمس
8 الشمس
9 کامیاب کون ہے ؟ سورۃ الشمس میں اللہ تعالیٰ نے مختلف مظاہر فطرت کو پیش فرمایا ہے کہ تم ان پر غور کرو اور بتاؤ کہ انسان کو منصہ شہود پر لانے کا مقصد کیا ہے ۔ آفتاب کو دیکھو اور دھوپ ملاحظہ کرو چاند کو دیکھو جب کہ وہ غروب آفات کے بعد اس کی جگہ بقع ارض کو نور وضیا بخشتا ہے ۔ دن کو دیدہ عمق سے دیکھو جب کہ خدا اس کو لوگوں کے لئے جلوہ گر کرتا ہے ۔ رات کو دیکھو جب کہ وہ آفتاب کی روشنی پر چھاجاتی ہے ۔ آسمان کی بلندیوں کو دیکھو اور اس ذات کے متعلق سوچو جس نے اس کو پیدا کیا ہے ۔ زمین کو دیکھو اور یہ ملاحظہ کرو کہ اس ذات نے کیونکر اس کو ہمارے پاؤں تلے بچھایا ہے ۔ پھر نفس انسانی کی منزلوں کی طرف نظریں دوڑاؤ اور اس خدائے حکیم کی مدح وستائش کرو جس نے اس میں اعتدال اور توازن پیدا کیا ہے ۔ اور فجور وتقویٰ کے درمیان اسے تمیز کی استعداد بخشی ۔ تم خود بخود غوروفکر کی وجہ سے اس نتیجے پر پہنچو گے کہ اس سارے نظام کو پیدا کرنے کا مقصود یہ ہے کہ حضرت انسان جس کی خاطر شمس وقمر کی ضیاباریاں ہیں ، آسمان کی بلندیاں اور زمین کی وسعتیں ہیں ۔ انسان تشکر اور پاک بازی کی زندگی بسر کرے اور اس راز کو معلوم کرے کہ جو شخص اپنے نفس کو غوروفکر کی گمراہیوں سے بچاتا ہے اور خواہشات کی آلودگی سے پاک رکھتا ہے ۔ وہی کامیاب ہے اور اسی کے لئے کامرانی مقدر ہے ۔ اور وہ جو نفس گمراہی اور ضلالت تلے دبا دیتا ہے اور اس کی تقویٰ پرور آواز کو نہیں سنتا ۔ وہ خائب وخاسر ہے ۔ حل لغات :۔ وضحھا ۔ سورج کی روشنی یعنی دھوپ *۔ الشمس
10 الشمس
11 الشمس
12 الشمس
13 الشمس
14 ف 1: قوم ثمود کا ذکر ہے کہ جب انہوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کی مخالفت کی اور اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں ۔ حالانکہ انہوں نے پہلے سے کہہ رکھا تھا کہ تم اس کو پانی پینے سے نہ روکنا اور اسکا خیال رکھنا ۔ تو اللہ کا غضب بھڑکا اور ان کو پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی میں ہلاک کرڈالا اور اللہ اس نوع کے انجام سے قطعاً خائف نہیں ہے ۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایسی سرکش اور نافرمان قوموں کا مٹ جانا ہی بہتر ہے *۔ حل لغات :۔ فالھمھا ۔ یہ الہام ، الہام فطرت ہے جس میں ساری نوع انسانی مساوی ہے ۔ جس کی وجہ سے نیکی اور برائی میں قلب امتیاز کرتا ہے *۔ دسھا ۔ دبا دیا ۔ گاڑ دیا * قدمدم ۔ مسلسل ہلاکت نازل کی *۔ الشمس
15 الشمس
0 الليل
1 الليل
2 الليل
3 الليل
4 الليل
5 الليل
6 الليل
7 الليل
8 الليل
9 الليل
10 الليل
11 الليل
12 الليل
13 الليل
14 الليل
15 الليل
16 الليل
17 الليل
18 الليل
19 الليل
20 الليل
21 سورہ الیل ف 1۔ یعنی جس طرح تاریک رات اور روشن دن میں اختلاف ہے اور خدا کی اس تقسیم میں اختلاف ہے اللہ تعالیٰ نے مرد کو بھی پیدا کیا اور عورت کو بھی ۔ نر کو بھی اور مادہ کو بھی ۔ اسی طرح کفر و ایمان کی مساعی یکساں نہیں ہیں ۔ نہ فطرت اور ساخت کے اعتبار سے اور نہ نتائج وثمرات کے اعتبار سے ۔ کفر ہمہ تاریکی ہے اور ایمان ہمہ روشنی ۔ کفر انوثیت اور نامرادی ہے اور ایمان جرات وجسارت *۔ نتائج وثمرات کے لحاظ سے بھی دونوں مختلف ہیں ۔ وہ شخص جو دولت ایمان سے بہرہ مندی کی وجہ سے اس کی راہ میں اپنا مال صرف کرتا ہے اور اس سے ڈرتا ہے اور ہر نیک بات کی عمل سے تصدیق کرتا ہے ۔ اس کے لئے تیسیر کی نعمتیں اس کی طرف سے مرحمت ہوتی ہیں ۔ اور جو بخل اور بےپروائی کا اظہار کرتا ہے اور اسلام کو جھٹلاتا ہے ، وہ مشکلات میں گرفتار ہوگا اور اس کو توفیق عسرت عنایت ہوتی ہے *۔ ایسا شخص جب قیامت میں ہلاکت اور بربادی محسوس کرے گا ۔ اس وقت دیکھے گا کہ وہ مال ودولت جس کی وجہ سے اس نے ایمان کی متاع عزیز کو ٹھکرایا تھا ، اس کے بالکل کام نہیں آتا ہے *۔ حل لغات :۔ تلظی ۔ شعلہ زن ہوتی ہے *۔ الليل
0 الضحى
1 ف 1: اس زمانہ میں چند دنوں کے لئے نزول وحی میں توقف ہوگیا تھا تو مخالفین نے یہ مشہور کرنا شروع کردیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معاذ اللہ خدا نے اب اپنی توجہ ہٹالی ہے ۔ اس پر ان آیات کا نزول ہوا اور بتایا کہ یہ بات غلط ہے ۔ جس طرح آفتاب نکلتا ہے اور پھر جب تک اپنا دور ختم نہیں کرلیتا اس وقت تک غروب نہیں ہوتا اور جس طرح رات کی تاریکی چھاجاتی ہے اور صبح تک برابر قائم رہتی ہے ۔ درمیان میں پلٹ نہیں جاتی ۔ اسی طرح دنیائے روحانیت میں نبوت کا آفتاب طلوع ہوتا ہے ۔ حق وصداقت کا خادر درخشاں نکلتا ہے ۔ تب ناممکن کہ وہ وقت سے پہلے بےتوجہی کے افق میں غروب ہوجائے اور اگر تم اس کو سورج نہ قرار دے سکو تو پھر بھی یہ اگر رات اور تاریکی ہے ۔ جب بھی وقت مقررہ تک اس کا قائم رہنا ازبس ضروری ہے ۔ بہرآئینہ یہ ایک حقیقت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہر دم ہر آن عنایات الٰہیہ کا ہجوم رہتا ہے اور کسی وقت بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) توجہات آسمانی سے محروم نہیں رہتے ۔ فرمایا کہ اگر آج کچھ تکلیف اور مصیبت کے دن ہیں تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آنیوالے دن نہایت مبارک ہیں ۔ سعادت اور کامیابی کے دن ہیں ۔ مکے والے اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قدروقیمت کو نہیں پہچانتے تو ان کی محرومی اور بدبختی ہے ۔ مدینے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے استقبال اور خیر مقدم کی تیاریاں ہورہی ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ وہاں قبولیت ، فتوحات ، غنائم اور مراتب اس قدر دیں گے کہ آپ خوش ہوجائیں گے اور موجودہ غم واندوہ بھول جائیں گے *۔ الضحى
2 الضحى
3 الضحى
4 ف 2: ان آیتوں میں یہ بتایا ہے کہ آپ دیکھ لیجئے ۔ ابتداہی سے اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تربیت کا خاص خیال رکھا ہے ۔ آپ یتیم پیدا ہوئے تو دادا نے آغوش شفقت میں لے لیا ۔ دادا نے آنکھیں بند کیں تو جوانی تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابوطالب ساتھ رہے اور انتہائی محبت کے ساتھ آپ کی مدد کی ۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک عظیم خدمت کے لئے منتخب فرمایا ہے تو کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بےاعتنائی اور بےتوجہی کا سلوک رکھا جائیگا پھر سب سے بڑی روحانی اعانت جو فرمائی ، وہ یہ تھی کہ روح کے شوق اور جستجو نے حق کی پیاس کی تسکین کا سامان بہم پہنچایا اور آپ کو ایک مکمل دستورالعمل مرحمت فرمایا جو سارے عالم انسانی کے کے لئے باعث صدبرکت وسعادت ہے ۔ مالی طور پر آپ کو غنی کیا اور قیصروکسریٰ کے غنائم کو آپ کے عقیدت مندوں میں بانٹا اور جو بوریا اور چٹائی بھی نہ رکھتے تھے ، ان کو دیباوقاقم کے فرش عطا کئے کہ ان کو اپنے پاؤں تلے بچھائیں ۔ اور جو کھانے پینے سے عاجز تھے ، وہ مرغ وماہی سیکام ودہن کی تواضع کرنے لگے *۔ حل لغات :۔ والضحیٰ۔ چاشت کا وقت * سجی ۔ ڈھانپ لے ۔ چھاجائے * قلی ۔ ناراض ہوا * وللاخرۃ ۔ عاقبت یا ہجرت کے بعد کی زندگی *۔ الضحى
5 الضحى
6 الضحى
7 الضحى
8 الضحى
9 ف 1: فرمایا ۔ ان انعامات کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اظہار تشکر کے طور پر یتیموں کے حق میں بدرجہ غایت شفیق ہوجائیں ۔ ان پر سختی نہ کریں اور سائل کو نہ جھڑکیں اور اپنے قول وفعل سے اپنے رب کی نعمتوں کا اعتبار کرتے رہیں *۔ حل لغات :۔ وجدک ضآلا ۔ قطبی نے قوضلالت کے معنی ضلالت وکفر کے ہی لئے ہیں اور یہ وہ جسارت ہے جس کو نقل کرنے میں قلم کا جگر شق ہوجاتا ہے ۔ مگر امام رازی نے کوئی بیس وجوہ تاویل کا ذکر کیا ہے ۔ جن میں سے ایک وجہ جو پسندیدہ ہے ۔ یہ ہے کہ ضلالت کے معنی محبت اور شوق کے بھی ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی وارفتگی ومحبت کے متعلق ان کے لڑکوں نے کہا تھا ۔ انک لفی ضلالک القدیر ۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے آپ کو بدرجہ غایت حق وصداقت کا عاشق ومتجسس پایا ۔ اور پھر اس جانثار محبت کی تسکین یوں کی کہ آپ کو پورا نظام معرفت عطا کیا ۔ فاری فع ماقبل ۔ الضحى
10 الضحى
11 الضحى
0 الشرح
1 الشرح
2 الشرح
3 الشرح
4 الشرح
5 ف 1: حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کفار مکہ جب یہ کہتے کہ اگر آپ اسلام کی منادی کو چھوڑ دیں تو ہم آپ کو افلاس وعسر سے نکال کر مال ودولت کی وادی میں لامتمکن کریں ۔ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک قلبی کوفت محسوس کرتے ۔ آپ کو یوں معلوم ہوتا کہ میرا افلاس گویا حق وصداقت کی راہ میں زبردست رکاوٹ ہے ۔ اس پر بطور تسلی وتسکین دہی کے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھبرائیں نہیں ۔ دنیا کی مشکلات کے ساتھ اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے دنیا وعقبیٰ کی سہولتیں مقدر کررکھی ہیں ۔ ایک وقت آنے والا ہے کہ یہ مال وزر پر ناز کرنے والے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور مسلمانوں کی فارغ البالی کو دیکھ کر جلیں گے اور اس وقت یہ جانیں گے کہ اسلام فقروافلاس کا نام نہیں ہے ۔ بلکہ فضل ودولت اور یسرو آسانی کا نام ہے *۔ الم نشرح لک صدرک ۔ معنی یہ ہے کہ اللہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سینہ مبارک کو وساوس اور ہموم سے پاک کیا ۔ نوروعلم سے بھرا اور اس میں کونین کی وسعت پیدا کی ۔ وورفعنا لک ذکرک ۔ سنت کے تحفظ کی طرف اشارہ ہے ۔ یعنی جس طرح متن قرآن سینوں میں محفوظ ہے ، اسی طرح آپ کی سیرت سہودنسیان سے بلندوبالا رکھی جائے گی ۔ جو اس متن کی عملی شرح ہے *۔ الشرح
6 الشرح
7 الشرح
8 الشرح
0 التين
1 التين
2 التين
3 التين
4 اس وقت جبکہ دنیا میں انسانیت کی توہین ہورہی تھی ۔ اور انسانیت کے لئے خود انسانوں کے دلوں میں کوئی جذبہ عزت واحترام نہ تھا ۔ اس وقت جب پتھر پوجتے تھے ۔ درخت محترم تھے ۔ دریامقدس تھے ۔ قبریں اور مزار قابل عزت وشرف تھے ۔ انسان کی حیثیت محض حقیر پجاری کی تھی ۔ اس وقت جبکہ کلیسا سے اس کو ابدی وازلی گنہگار کا سرٹیفکیٹ مل چکا تھا اور ہندو نقطہ نگاہ سے اس کی تناسخ کے آہنی چکر سے رہائی ناممکن تھی اور یہ موجود زندگی نتیجہ قرار دی جارہی تھی سابقہ کئی ہزار گناہوں کا ۔ اسلام اٹھا اور ان سے انسانی شرف وفضیلت کے عالم بوسیدہ کو پھر سے جلا دی اور علی الاعلان کہا کہ انسان کو بہترین انداز میں پیدا کیا گیا ہے ۔ یہ اس لئے نہیں متصہ شہود پر آیا ہے کہ شجر وحجر کے سامنے سرجھکائے ۔ بلکہ اس لئے آیا ہے کہ ساری کائنات اس کے سامنے جھکے اور اس کی بزرگی اور برتری کا اقرار کرے ۔ یہ فطرت کے اعتبار سے گنہگار نہیں ہے ۔ اور اپنی ساخت کے اعتبار سے اشرف المخلوقات ہے پہلی دفعہ دنیا میں آیا ہے کہ بردبحر میں اپنی زندگی کا علم گاڑدے ۔ ثبوت یہ ہے کہ انسانی عظمت وبزرگی کی تاریخ پر غور کرو ۔ ارض کو دیکھو ۔ جس میں حضرت مسیح (علیہ السلام) اپنی رفعت کا اعلان کیا ۔ ارض زیتون یعنی ملک شام کو ملاحظہ کرو کہ بڑے بڑے جلیل القدر انبیاء کا مہبط ومسقط ہے ۔ طور پرجلوہ فرمائی کے واقعات پرغور کرو کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی جلالت وبزرگی پر شاہد ہے اور پھر فخر موجودات سیداکوان اور صاحب بلدامین کی شان دیکھو ، تمہیں معلوم ہوجائیگا کہ انسانیت کا رتبہ کتنا بلند اور ارفع ہے ۔ یہ وہ تعلیم ہے جو انسانیت کے افق کو تابناک اور روشن بنادیتی ہے اور جس کی وجہ سے انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ اس دنیا کی تگ ودو میں حوصلہ مندانہ حصہ لے *۔ حل لغات :۔ فاذافرغت فانصب ۔ یعنی جب عبادات سے فارغ ہوجائے تو کھڑا ہوجا * والی ربک فارغب ۔ اور جو کچھ مانگنا ہے اللہ سے مانگ * والتین ۔ ناصرہ سے تعبیر ہے * والزیتون ارض شام سے مراد ہے * وطور سینین ۔ وہ پہاڑ مقصود ہے جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے شرف ہم کلامی حاصل کیا * تقویم ۔ ترکیب ۔ ساخت ۔ انداز ، صورت * ثم رددنہ ۔ یعنی اصل اور فطرت کے اعتبار سے تو آسان نیک اور صالح ہے مگر کبھی کبھی خواہشات کی پیروی میں اس مقام فضیلت سے نیچے اتر آتا ہے *۔ التين
5 التين
6 التين
7 التين
8 التين
0 العلق
1 العلق
2 العلق
3 العلق
4 العلق
5 ان پانچ آیتوں میں جو سب سے پہلے نازل ہوئیں ۔ یہ بتایا گیا ہے کہ علم کا حصول ایک مذہبی اور دینی فریضہ ہے اور پیغمبر کو جس بات کی اولاً تلقین کی جاتی ہے ، وہ یہی ہے کہ اقرا ۔ ہاں یہ حلم اس نہج سے ہو کہ خالق کی طرف راہنمائی کرے ۔ گمراہی اور ضلات کو نہ پھیلائے *۔ العلق
6 العلق
7 العلق
8 العلق
9 ابوجہل کی گستاخی ف 1: ان آیتوں میں ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ جب عبدکامل اظہار عبودیت ونیامندی کے لئے اللہ کے حضور میں کھڑے ہوتے ہیں تو ایک بدبخت ازلی مضحکہ اڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ان کو ان کے سامنے جھکنے نہیں دوں گا ۔ اور اگر اب کی جھکیں گے تو ان کی گردن ناپوں گا ۔ گویا نماز سے روکتا ہے ۔ عبادت سے منع کرتا ہے ۔ محض اس جرم میں کہ وہ راہ راست پر گامزن کیوں ہیں اور تقویٰ وپرہیزگاری کی کیوں تلقین کرتے ہیں ۔ یہ محروم وبدنصیب دلائل نبوت کو دیکھتا ہے اور تکذیب وروگردانی کرتا ہے ۔ کیا یہ نہیں جانتا کہ اللہ اس کی ان حرکات کو جانتا ہے ۔ یہ عبد کامل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں ۔ علیہ الصلوٰۃ والسلام ۔ اور یہ بدبخت ازل ابوجہل ہے *۔ حل لغات :۔ علق ۔ جرثومہ حیات ، جو قم رحم سے چپک جاتا ہے *۔ العلق
10 العلق
11 العلق
12 العلق
13 العلق
14 العلق
15 العلق
16 العلق
17 ف 1: فرمایا کہ اس معاند کو بغض وعداوت کے جذبات سے باز آجانا چاہیے ۔ مال وجاہ کے غرور میں شان محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق اس درجہ گستاخانہ کلمات کا اظہار نہ کرنا چاہیے کہ اس کو اس کی پرفخار پیشانی سے جو کذب وخطا سے آلودہ ہے ۔ پکڑ کر گھسیٹا جائے گا اور ذلیل کیا جائے گا ۔ یہ اللہ کی اٹل وعید ہے ۔ جس کے واقع ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔ یہ جائے اور ہمنشینوں کو حمایت کے لئے بلالے ۔ ہم بھی اپنے فرشتوں کو بلارہے ہیں ۔ ہم کہے دیتے ہیں کہ یہ اپنی تمام مساعی تحقیر میں ناکام رہے گا اور آپ بدستور اطاعت وسجدہ میں قرب خداوندی کے حصول میں کوشاں رہیں گے *۔ چنانچہ بالکل یہی ہوا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مشن کامیاب ہوا ۔ سینکڑوں جبینیں اطاعت وسجدہ میں خدا کے سامنے جھک گئیں ۔ اور غزوہ بدر میں اس کی لاش کو پیشانی کے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا اور بتایا گیا کہ کلمہ حق کی کامیابی یقینی اور ناگزیر ہے ۔ اور اس کے سامنے جھکنے والے بندوں کے قدموں میں خدائی کو جھکایا جاتا ہے *۔ حل لغات :۔ عبدا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اشارہ ہے ۔ یعنی عبودیت وبندگی کا کامل نمونہ * نسفعا ۔ نسفع کے معنی جھلس دینے اور آلودہ کردینے کے ہیں * الزبانیۃ ۔ عذاب کے فرشتے * العلق
18 العلق
19 العلق
0 القدر
1 سورۃ القدر جس طرح اماکن اور مقامات میں کچھ جگہیں زیادہ شرف اور فضیلت کی حامل ہوتی ہیں اور جس طرح اشخاص وافراد میں کچھ لوگ زیادہ مرتبہ اور درجہ کے مستحق ہوتے ہیں ۔ اسی طرح کچھ دن اور کچھ راتیں اپنے اندر نسبتاً برکات کا زیادہ سرمایہ رکھتی ہیں ۔ ایام رمضان سال بھر کے دنوں پر پرمسابقت اور ثواب اخروی کے اعتبار سے افضل ہیں اور اس کی راتیں تمام راتوں سے زیادہ پرنور اور بابرکت ہیں ۔ اور پھر جب کسی رمضان کی رات کو یہ شرف بھی حاصل ہوجائے کہ اس میں قرآن کا نزول ہوا ہے تو اس کی بزرگی اور عظمت کتنی بڑھ جائے گی ۔ اس کا اندازہ کچھ ارباب بصیرت ومعرفت ہی کرسکتے ہیں * القدر
2 القدر
3 القدر
4 ف 1: فرمایا ۔ لیلتہ القدر ، یہ فضیلت وبزرگی کی رات جس میں حق وصداقت اور نور ومعرفت کا یہی پیغام نازل ہوا ہے ۔ عبادت وزہد ، اور تقویٰ وبزرگی اور قبول وقرب کے لحاظ سے ایک ہزار مہینے کی راتوں سے بھی زیادہ بہتر ہے ۔ اس میں فرشتے اور بالخصوص حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہر امر خیر کو لے کر زمین کی طرف اترتے ہیں ۔ یہ رات سراپا سل امتی کی رات ہے ۔ یہ اپنی انہیں برکتوں کے ساتھ فجر تک رہتی ہے *۔ واضح رہے کہ جمہور مفسرین کی رائے میں یہ رمضان کے عشرہ آخر میں ایک رات ہے *۔ القدر
5 القدر
0 البينة
1 نفسِ بینہ ف 2: اہل کتاب اور مشرکین مکہ دونوں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ ہم اس وقت تک اپنے عقائد مزمومہ کو نہیں چھوڑ سکتے جب تک کہ وہ شخصیت موعودہ نہ آجائے ۔ جس کا ذکر کتب مقدسہ میں ہے ۔ وہ ہمارے لئے زبردست دلیل اور برہان ہے ۔ وہ آئے اور پاک اوراق اس پیغام کے ہم کو سنائے ۔ جن میں تمام کتابوں کا نچوڑ اور عطر ہے ۔ ہم اس کو تسلیم کرلیں گے اور اس کے کہنے سے تمام خرافات کو ترک کردیں گے ۔ مگر یہ کتنی عجیب بات ہے کہ یہی اہل کتاب صاف مکر گئے ۔ جبکہ ان کے پاس وہ حجت حق آگئی اور دلائل وبراہین سے اس نے ثابت کردیا کہ میں وہی ہوں ۔ جس کا ذکر پہلی کتابوں میں ہے اور جس کے انتظار میں تم نے اب تک عقائد کفریہ کو نہیں چھوڑا ہے اور اس طرح وہ ان کے لئے کلمہ اجتماع اور نکتہ مرکزی تھا ۔ افتراک اور اختلاف کا موجب بن گیا ۔ جس سے معلوم ہوا کہ یہ خواہش جس کا اظہار وہ بار بار کرتے تھے ۔ خلوص اور دیانت داری پر مبنی نہیں تھی ۔ اور یہ آواز ان کے دل سے نہیں نکلی تھی ۔ یا کم از کم یہ لوگ اس وقت اس آواز کی اہمیت کو نہیں سمجھتے تھے *۔ حل لغات :۔ من الف شھر ۔ ہزار مہینوں سے ۔ عمر بھر سے * صحفا شطھرۃ ۔ پاک صحیفے *۔ البينة
2 البينة
3 البينة
4 ف 1: ان آیتوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لفظ بینۃ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اہل بصیرت کے لئے خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اخلاقی رفعت اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصیت ایک دلیل ہے سچائی کی اور صداقت کی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نفس دعویٰ کے اثبات کے لئے کسی خارجی دلیل وبرہان کی ضرورت نہیں ہے ۔ بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود مبارک بجائے خود ایک علم ہے ، ایک ثبوت ہے اور ایک آئینہ ہے ۔ فیھا کتب قیمۃ کی تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے نقطہ نگاہ میں یہ جامعیت موجود ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر اب تک جس قدر صحائف کا نزول ہوچکا ہے ، ان سب کی تعلیمات بطور اصول واساس کے اس میں موجود ہیں ۔ اس میں تورات بھی ہے اور انجیل بھی ۔ زبور بھی ہے اور صحف ابراہیم (علیہ السلام) بھی ۔ اس لئے اگر مسلمان کے پاس قرآن موجود ہے تو وہ ان سب کتابوں کے لئے بطور معیار کے ہے ۔ جتنی الہامی کتابیں اس وقت انسانی ہاتھوں میں موجود ہیں ، ان کی ایک ہی پرکھ ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ان کی تعلیمات اس کے مطابق ہیں تو درست ہیں اور اگر اس کے مطابق نہیں ہیں تو غلط ہیں *۔ البينة
5 البينة
6 ف 2: یعنی اللہ کے پیغمبر (علیہ السلام) بلا تخصیص مکان اور زمان کے جہاں کہیں اور جب کبھی تشریف لائے ۔ انہوں نے ایک ہی پیغام کی تلقین کی ہے اور ایک ہی نصب العین کی طرف بلایا ہے اور وہ پیغام اور نصب العین یہ ہے ۔ کہ ایک اللہ کی عبادت کی جائے ۔ اکی خدا سے محبت ہو ۔ ایک خدا کا خوف دلوں میں جاگزین ہو اور ایک خدا ہو ، جس کے لئے عقیدت اور نیاز کے جذبات مختص ہوں ۔ پھر یہ کہ اس کی عبادت میں سرگرمی کا اظہار کیا جائے ۔ اور ان شرائط وآداب کو ملحوظ رکھا جائے جو اقامت صلوٰۃ کے لئے ضروری ہیں اور اللہ کی راہ میں باقاعدہ زکوٰۃ ادا کی جائے اور قوم وملت کی جملہ ضروریات اقتصادی کو اپنے سامنے رکھا جائے *۔ ف 3: اہل کتاب اور مشرکین مکہ سے جن لوگوں نے ان اصولوں کو تسلیم نہیں کیا ۔ وہ کائنات میں بدترین لوگ ہیں کہ ہدایت وسعادت کے ہمیشہ طالب رہے اور جب وہ ہدایت اور سعادت ممثل ہوکر ان کے سامنے آموجود ہوئی تو انہوں نے انکار کردیا ۔ اور بہترین خلائق وہ نفوس قدسیہ ہیں جنہوں نے دولت ایمان سے اپنے دامن عقیدت کو بھر لیا اور اعمال صالحہ سے اپنی عاقبت سنوار لی ۔ ان کا مقام جنت ہے ۔ خدا ان سے خوش ہوگا اور یہ خدا سے خوش ہوں گے *۔ حل لغات :۔ البینۃ ۔ یعنی وہی سابقہ شخصیت * حنفا ۔ اخلاص کے ساتھ ۔ ریاکاری اور خود غرضی سے الگ ہوکر * دین القیمۃ ۔ ایسا دین جس پر عمل کرنے سے قوموں میں قوت اور توانائی پیدا ہوتی ہو اور جس کی تعلیمات سے ان کی دینی اور دنیوی تمام ضروریات پوری ہوتی ہوں *۔ البينة
7 البينة
8 البينة
0 الزلزلة
1 ف 1: سابقہ سورۃ کا اختتام ان آیتوں پرہوا تھا کہ منکرین بدترین خلائق ہیں اور ان کو جو سزا ملے گی ۔ وہ بھی بدترین مقام پرفائز ہوں گے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ یہ وقت مکافات اور جزا کا کب آئے گا ۔ جب لفخہ ثانیہ کے وقت زمین میں ایک شدید حرکت اور جنبش ہوگی ۔ اور زمین اپنے تمام ذخائر وخزائن اگل دے گی ۔ اس وقت یہ لوگ کہیں گے کہ یہ کیا ہونے والا ہے ۔ اس وقت یہ بےزبان زمین بتائے گی کہ اس کے سینے پر انسانوں نے کیسی معصیت کوشی کی زندگی بسر کی ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس نوع کی تلقین کررکھی ہوگی ۔ یہ وہ دن ہوگا جب لوگ گروہ درگروہ موقف حساب سے واپس ہوں گے ۔ وہ لوگ دیکھیں گے کہ ذرہ برابر نیکی جو ہے ۔ وہ بھی درج فہرست ہے اور ذرہ برابر برائی جو ہے ، وہ بھی رقم ہے اور پورے پورے انصاف وعدل سے کام لیا گیا ہے *۔ حل لغات :۔ اتقالھا ۔ بوجھ یعنی خزائن جو زمین میں پنہاں ہیں * مثقال ۔ ایک وزن ہے جو ثقلیل کے لئے اس کا استعمال ہوتا ہے *۔ الزلزلة
2 الزلزلة
3 الزلزلة
4 الزلزلة
5 الزلزلة
6 الزلزلة
7 الزلزلة
8 الزلزلة
0 العاديات
1 العاديات
2 العاديات
3 العاديات
4 العاديات
5 العاديات
6 العاديات
7 العاديات
8 سورۃ العدیت ف 1: ان آیتوں میں نہایت ہی لطیف پیرایہ میں یہ بیان فرمایا ہے کہ انسان انپے رب کی رحمتوں اور بخششوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا ۔ اسے تو چاہیے تھا کہ جس طرح اس نے اس کو عدم سے وجود بخشا ہے ۔ گویائی کی قوت عطافرمائی ہے ۔ سمجھ دی ہے اور سارے عالم کائنات کو اس کیلئے مسخر کردیا ۔ ہر آن اس کے سامنے جھکارہتا ہے اور کبھی اس کے حکموں کی تعمیل سے انحراف نہیں کرتا ۔ اللہ کی نعمتیں اور انعامات اس درجہ زیادہ ہیں کہ ان کا احصار ہی ناممکن ہے اور اگر انسان چاہے بھی کہ ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرے ۔ جو اس پر واجب ہے تو کبھی اس فرض کو ادا نہ کرسکے ۔ اگرچہ ہر بن ، مو ، زبان سپاس بن جائے اور ہر زبان وقف حمدو ستائش ہوجائے ۔ اللہ کے بےشمار فضل وبخشش کا تقاضا تو یہ تھا کہ حضرت انسان بکمال وفاداری اپنی جان تک اس کی محبت میں لٹا دیتا اور دریغ نہ کرتا ۔ مگر اس میں تو اتنی وفاداری بھی نہیں ہے جتنی ایک جانور میں ہوتی ہے ۔ گھوڑوں کو دیکھئے کہ مالک کے ساتھ ایک اولیٰ سا تعلق ہے ۔ مگر اس کے اشارے پر کس رطح اپنی جان تک خطروں میں ڈال دیتے ہیں ۔ میدان جہاد میں تلواروں اور نیزوں کی چھاؤں میں دوڑتے چلے جاتے ہیں ۔ نتھنوں سے آگ برستی ہے ۔ ٹاپ پتھروں سے متصادم ہوتے ہیں اور شعلے نکلتے ہیں دشمنوں کی صفوں میں صبح تک جاپہنچتے ہیں اور حملہ کردیتے ہیں ۔ غباراڑاتے ہوئے زوروں میں اور سپاہیوں کی صفوں میں بلا خوف گھس جاتے ہیں اور داد شجاعت وفرمانبرداری دیتے ہیں ۔ کیا یہ جگر داری ، یہ محبت ، یہ وفا اور یہ جذبہ ایثار انسانوں میں بھی ہے ؟ کیا یہ لوگ بھی اللہ کے لئے اتنی شدید محنت اور قربانی کو برداشت کرسکتے ہیں ؟ فرمایا ۔ انسان ناشکری کے ساتھ مال ومنال کی محبت میں گرفتار رہے اور اس مبالغے کے ساتھ گرفتار ہے کہ ایک لمحہ اس سے علیحدگی گوارانہیں کرتا ۔ کیا اس کو معلوم نہیں ہے کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے ۔ جبکہ تمام لوگ قبروں سے اٹھا کر کھڑے کئے جائیں گے اور ان کے سینے کے تمام بھید ظاہر ہوں گے ۔ اس وقت علیم وخبیر خدا ان کو ان کے کئے دھرے کی سزا دے گا اور ان کو بتائے گا کہ ان ارزل ترین خواہشات کا یہ احترام کس درجہ سزا کا موجب ہے *۔ حل لغات :۔ صبحا ۔ ہانپنا * نقعا ۔ غبار * لکنود ۔ ناشکر *۔ العاديات
9 العاديات
10 العاديات
11 العاديات
0 القارعة
1 سورہ القارعۃ اس سورت میں قرآن حکیم نے جو نظریہ نجات کے متعلق پیش کیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی قرین عقل وثواب ہے ۔ قرآن کہتا ہے کہ فطرت کا مطالبہ تم سے یہ نہیں ہے کہ تم زندگی کے تمام شعبوں میں سوفی صدی نیک اور اطاعت شعار رہو اور تم سے کوئی فکر وخیال کی لغزش اور عمل کی کوتاہی سرز ہی نہ ہو ۔ بلکہ مطالبہ یہ ہے کہ حتی الامکان نیک اور صالح بننے کی کوشش کرو اور اس رطح ایمان دارانہ اور محتاط زندگی بسر کرو ۔ اور یہ کہ بحیثیت مجموعی تمہارے اعمال میں نیکی اور صبر وتقویٰ اور پاکیزگی کے عناصر زیادہ ہوں ۔ یہ معیار کم نہ ہونے پائے ۔ کیونکہ اگر دفتر اعمال میں بڑائیاں زیادہ ہیں اور نیکیاں کم تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم نے دنیا میں حق وصداقت پر عمل پیرا ہونے کی کوئی مخلصانہ جدوجہد نہیں کی ۔ اس لئے سزا ملے گی اور جہنم میں جاؤ گے ۔ قرآن حکیم چونکہ خدائے علیم وخبیر کی کتاب ہے ، اس لئے اس میں انسانی فطرت کی پوری کمزوریوں کو محلوظ رکھا گیا ہے ۔ خدا کو معلوم ہے کہ یہ تقاضائے بشری کے خلاف ہے کہ اس سے کلیتہً نیکی اور تقویٰ کا مطالبہ کیا جائے اور اسکو ایسی مشکل میں ڈال دیا جائے جس سے یہ کبھی عہدہ برآ نہیں ہوسکتا ۔ اسی لئے اس پر لایطاق بوجھ نہیں ڈالا گیا ۔ یہی وہ بات تھی جس کو عیسائیت نے نہیں سمجھا اور یہ قاعدہ وضع کیا کہ چونکہ انسان کا بالکل گناہوں سے پاک ہونا محال ہے ۔ اس لئے کفارہ کی ضرورت ہے ۔ حالانکہ کلیتہً پاکیزگی کا فطرت مطالبہ ہی نہیں کرتی ۔ تابہ کفارہ چہ گونہ رسد *۔ واضح رہے کہ ثقلت موازینہ کے معنی یہ نہیں ہیں کہ نیکیوں کی تعداد زیادہ ہو اور برائیوں کی تعداد کم ہو ۔ بلکہ جو شئے یہاں ملے گی وہ ثمنیت یا قیمت ہوگی ۔ جس کو اعمال سے مفتزر کیا جاتا ہے ۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ایک برائی تمام نیکیوں کو ضائع کردے اور اسی طرح ایک نیکی تمام دفتر گناہ دھوڈالے ۔ اصل مقصود وہ قدر وقیمت ہے جو اعمال کے ساتھ ان کی اہمیت کی وجہ سے وابستہ ہے *۔ القارعة
2 القارعة
3 القارعة
4 القارعة
5 القارعة
6 القارعة
7 القارعة
8 القارعة
9 القارعة
10 القارعة
11 القارعة
0 التکاثر
1 سورۃ التکاثر عفو کے معنی غفلت ونسیان کے ہیں اور غرض یہ ہے کہ جس چیز نے تم کو بھلا رکھا اور غفلت میں ڈال رکھا ہے ، وہ دنیاوی ٹھاٹھ میں افزائش کا جذبہ ہے ۔ تم لوگ پوری زندگی اس حرص کی تکمیل میں صرف کرڈالتے ہو کہ کیوں کہ ہزاروں کو لاکھوں اور لاکھوں کو کروڑوں میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ اور رات دن اسی فکر میں غلطان دپیچاں رہتے ہو کہ کن ذرائع اور کن وسائل سے عزت وجاہ اور نفس کی آسودگیوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے حتیٰ کہ موت آجاتی ہے اور تمہارے ارادے وہیں ختم ہوجاتے ہیں ۔ تمہیں معلوم ہوجائے گا اور قطعی معلوم ہوجائے گا کہ دنیا طلبی کے یہ جذبات اخروی زندگی کے لئے حتماً مضر تھے ۔ تم جہنم کو دیکھو گے اور عین الیقین تم کو حاصل ہوجائے گا کہ یہی وہ مقام غضب وسخط ہے جس کا تم مضحکہ اڑایا کرتے تھے ۔ اس وقت تم سے پوچھا جائے گا کہ بتاؤ دولت کو کن کن جگہوں میں صرف کیا تھا *۔ حل لغات :۔ فامہ ۔ تو اس کی جگہ یا ٹھکانا * حامیہ ۔ گرم دہکتی ہوئی * التکاثر ۔ جذبہ افزائش دولت *۔ التکاثر
2 التکاثر
3 التکاثر
4 التکاثر
5 التکاثر
6 التکاثر
7 التکاثر
8 التکاثر
0 العصر
1 سورۃ العصر اس مختصر سی سورت میں انسانیت کی پوری تاریخ مضمر ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ تم عصروزمانہ کے اوراق الٹ جاؤ۔ جو قومیں اس معمورہ ارضی پر جلوہ گر ہوئیں ، ان میں تمہیں ایک حقیقت نظر آئے گی اور وہ یہ ہے کہ جن قوموں نے فطرت کے قوانین کی رعایت کی اور اللہ کے احکام کو تسلیم کیا ۔ وہ زندہ ہیں اور جنہوں نے مخالفت کی اور سرکشی وبغاوت کا اظہار کیا ۔ وہ مٹ گئیں ۔ یہی وہ راز ہے قوموں کے فنا اور بقا کا ۔ جس کو اکثر لوگوں نے نہ سمجھا اور ابدی خسارے اور گھاٹے کو خریدلیا *۔ العصر
2 العصر
3 العصر
0 الهمزة
1 سورۃ الھمزہ اس سورۃ سے کوئی متعین شخص مراد نہیں ہے ۔ بلکہ صنادید قریش کی اخلاقی حالت عام طور پر یہی تھی کہ یہ لوگ مسلمانوں کی تنقیص کرتے ۔ ان کے عیوب بھری محفلوں میں ازراہ کبروتبختر بیان کرتے اور ہنستے ۔ اور سب سے بڑا عیب جو ان کی نظر میں کھٹکتا تھا ، وہ ان کی خدادوستی اور توحید سے محبت تھی ۔ اس بنا پر یہ لوگ دلوں میں بغض اور حسد کی آگ پنہاں رکھتے تھے اور موقع بموقع ملعن وتشنیع سے ان کے دلوں کو چھیدتے ۔ دن رات مال کی محبت اور حصول میں سرمست رہتے ۔ گن گن کر لاتے اور لالاکر گنتے اور یہ سمجھتے کہ یہ دولت وثروت ہمیشہ ان کے پاس رہیگی ۔ فرمایا کہ یہ خیال محض غلط ہے ۔ ع ایں خیال است ومحال است وجنوں حل لغات :۔ تواصوا ۔ تلقین کی ۔ فہمائش کی * ھمزۃ ۔ چغل خور ۔ پس پشت عیب نکالنے والا * لمزۃ ۔ طعن وتشنیع کرنے والا *۔ الهمزة
2 الهمزة
3 الهمزة
4 الهمزة
5 الهمزة
6 الهمزة
7 الهمزة
8 الهمزة
9 ف 1: دنیا میں یہ لوگ اپنے آپ کو معزز سمجھے ہوئے ہیں ۔ مگر ان کا ٹھکانا ایسی جگہ ہے جو ان کے نشہ وذلت اور غرور کو توڑ کررہے گی اور جانتے ہو کہ یہ غرور اور تبختر کو توڑ دینے والی چیز کون ہے ۔ یہ اللہ کی سلگائی ہوئی آگ ہے ۔ جو دل کی گہرائیوں تک پہنچ جائے گی ۔ یہ آگ لمبے لمبے شعلوں میں گھرے ہوں گے اور یوں معلوم ہوں گے کہ گویا طویل ستونون میں کھڑے ہیں *۔ الهمزة
0 الفیل
1 سورۃ الفیل ف 2: اس سورت میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک اصول وشعائر کا تعلق ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت بذات خود فرماتے ہیں اور مسلمانوں کو جو مکلف بنایا ہے تو محض ان کی قوت ایمانی کی آزمائش کے لئے ۔ ورنہ حاشا اللہ بغیر اللہ تعالیٰ کی اعانت اور فضل کے حقیر ترین دشمن پر بھی قابو پلینا دشوارہے ۔ اس کا قانون یہ ہے کہ جب تک اس کے ماننے والوں میں غیرت وحمیت کا جذبہ باقی رہتا ہے ۔ وہ ان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس کے دین کی حفاظت کریں اور حفاظت کے ضمن میں خون کا آخری قطرہ بھی بہادینے سے دریغ نہ کریں ۔ اور جب یہ جذبہ مفقودہوجائے اور جب ایسی ہمت اور شجاعت والی جماعت باقی نہ رہے ۔ جو جان نچھاور کرکے ملت اور اس کے شعائر کی حفاظت کرسکے ۔ اس وقت وہ براہ راست اپنی قدرت اور حکمت کو بروئے کار لاتا ہے اور دین کو اعدائے دین کے چنگل سے چھڑا لیتا ہے ۔ بات یہ تھی کہ ابرہہ نامی ایک شخص اس لئے کہ کعبہ کی مرکزیت کو ختم کردے ، مست ہاتھیوں کا ایک لشکر لے کر یمن سے چلا ۔ تاکہ کعبہ والوں پر دھاوا بول دے اور اللہ کے اس گھر کو ڈھادے ۔ جس کو ابراہیم (علیہ السلام) کے مبارک اور بابرکت ہاتھوں نے بنایا تھا ۔ مگر جب وہ وہاں آیا تو اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ کسی گروہ نے کوئی مزاحمت نہیں کی صرف ایک عبدالمطلب نکلے اور وہ بھی اپنے اونٹوں کی تلاش میں ۔ اس نے ان سے کہا کہ اپنے اونٹوں کی تو تجھے فکر ہے ، مگر کعبہ کی فکر نہیں ۔ یہ دیکھ کر سیاہ ہاتھیوں کا ایک طوفان ہے جو تباہی اور بربادی کے لئے امڈا چلا آرہا ہے ۔ عبدالمطلب حقیقت حال کو بھانپ گئے اور کمزور ہونے کی وجہ سے مقابلہ کی تاب نہیں رکھتے تھے ۔ کہنے لگے ۔ سردست تو مجھے صرف اپنے اونٹوں کی فکر ہے یہ اگر واقعی اللہ کا گھر ہے تو وہ خود اس کی حفاظت کرلے گا *۔ حل لغات :۔ الحطمۃ ۔ جہنم کانام ہے ۔ اصلی معنی توڑ دینے والی * موصدۃ ۔ آگ کے احاطہ کو ایک گھرکے ساتھ تشبیہہ دی ہے جس کے دروازے بھیڑ دیئے گئے ہوں *۔ الفیل
2 الفیل
3 ف 1: جب وہ حرم کی حد میں پہنچے تو عجیب وغریب پرندوں کے غول کے خول آئے اور انہوں نے کنکریاں مار مار کر ابرہہ کے لشکر کو بدحواس کردیا ان کنکریوں میں کچھ عجیب طرح کی سمیت تھی کہ جس کی وجہ سے ان کو چیچک نکل آئی اور وہیں میدان میں سارالشکر موت کے گھاٹ اتر گیا ۔ اور بقولے وہ کنکر بندوق کی گولی کی طرح لگے ۔ جن سے وہ ساری فوج فی الفور ہلاک ہوگئی *۔ الفیل
4 الفیل
5 الفیل
0 قریش
1 سورہ القریش ف 1: بیت اللہ کی وجہ سے قریش کی مرکزیت قائم تھی ۔ اس لئے گرمی اور جاڑے میں جہاں جاتے عزت واحترام کی نگاہوں سے دیکھے جاتے کہ اللہ کے گھر کے مکین ہیں *۔ فرمایا کہ اس پڑوس کے سبب سے اللہ نے تمہیں قحط اور افلاس سے محفوظ رکھا ہے اور اس کی حفاظت کرکے تمہیں تباہی اور بربادی سے بچایا ہے ۔ کیا یہ نعمت اتنی بڑی نہیں ہے کہ تم کو احساس ہو اور تمہیں اللہ کے آستانہ شفقت وجلال پر جھکا دے *۔ حل لغات :۔ ابابیل ۔ صف بصف ۔ غول کے غول * الدین ۔ روزجزا *۔ 1؎ اس سورت کا تعلق سورۃ فیل سے ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ خدا نے ہاتھی والوں کو اسلئے خارت کیا ہے کہ قریش کو سفر میں کسی طرح کی مزاحمت نہ رہے ۔ تو انہیں بھی چاہیے کہ خداوند کریم کی بندگی کریں *۔ قریش
2 قریش
3 قریش
4 قریش
0 الماعون
1 سورۃ الماعون ف 1: ان آیات سے شخص معین مراد نہیں ہے ۔ بلکہ اس وقت کے عام سرمایہ دار مراد ہیں کہ ان کی ذہنیت اس قسم کی تھی کہ یہ اللہ سے نہیں ڈرتے تھے اور عیش وعشرت میں اس چیز کا کبھی خیال نہیں کرتے تھے کہ ہمیں اللہ کے سامنے ایک دن ان رنگ رلیوں کا جواب دینا ہے ۔ یہ فواحش اور برائیوں پر تو بےدریغ روپیہ خرچ کردیتے تھے ۔ لیکن اگر کوئی یتیم بےنوا آجائے تو اس کو ڈانٹ دیتے تھے ۔ ان کے دلوں میں کبھی یہ جذبہ پیدا نہیں ہوتا تھا کہ اپنی ثروت میں مسکینوں اور غریبوں کو بھی شامل کیا جائے اور ان کی ادنیٰ ضروریات بھی پوری کی جائیں ۔ یہ لوگ محض سنگ دل اور بداخلاق تھے اور کئی صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی سرمایہ داری کی یہی ذہنیت ہے ۔ اس میں ذرہ برابر کمی نہیں پیدا ہوئی ۔ آج یہ شراب پر ، ڈنر پر ، گھوڑ دوڑ پر ، جوئے پر اور فیشن پر ہزاروں روپے روزانہ صرف کرسکتا ہے ۔ مگر اسکے پاس روپیہ نہیں ہے تو خدا کے لئے اور صرف قومی اور ملی ضروریات کے لئے نہیں ہے *۔ اس کے بعد ان لوگوں کے لئے اظہار تاسف کیا ہے جو مال ودولت کیحصول میں تو سرگرم ہیں ۔ مگر خدا کے آگے جھکنے میں سست ہیں ۔ جو نمازیں پڑھتے ہیں ۔ مگر سہو وغفلت کے ساتھ محض ریاکارانہ ۔ اور جہاں کچھ ہاتھ سے دینا پڑے ۔ وہاں ان کو تامل نہیں ہوتا ہے ۔ بلکہ صاف انکار کردیتے ہیں ۔ یہ چاہتے ہیں کہ ملت کے لئے خدا کے نام پر تو کچھ نہ دیا جائے اور چند ریاکارانہ سجدوں سے اس کو خوش کرلیا جائے *۔ الماعون
2 الماعون
3 الماعون
4 الماعون
5 الماعون
6 الماعون
7 الماعون
0 الكوثر
1 سورۃ الکوثر عین اس وقت جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ناکامی اور نامرادی کے طعنے دئے جارہے تھے اور اپنی کامرانیوں پر مسرت واجتہاج کا اظہار کیا جارہا تھا ۔ عین اس وقت جب کہ مکہ کی سرزمین بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عقیدت مندوں کے لئے باوجود وسعت کے تنگ ہورہی تھی اور کفار کے دام دایلنے یہ تھے ۔ کہ اس شمع ہدایت وعرفان کو یک قلم بجھا دیا جائے ۔ یہ بشارت نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خیر کثیر کے انعامات سے نوازا ہے ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رتبہ ودرجہ میں اضافہ ہوگا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعوان وانصار بڑھیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فتوحات مادی وروحانی کا دائرہ وسیع ہوگا ۔ اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھبرائیں نہیں اور برابر صبروسکون کے ساتھ اپنے رب کی عیادت کریں اور اس کے لئے قربانی کرنے میں مصروف رہیں ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دشمن سب کے سب رسوا ہوں گے ۔ ذلیل ہوں گے اور بےنام ونشان ہوجائیں گے ۔ دیکھ لیجئے کہ آج اس محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام زندہ ہے جس کی انتہائی مخالفت کی جاتی تھی اور ان لوگوں کا وجود تک نظر نہیں آتا ، جو مخالف تھے *۔ حل لغات :۔ الماعون ۔ ہر معونت کی چیز * الکوثر ۔ خیر کثیر * وانحر ۔ قربانی کر * الابتر ۔ بےنام ۔ بےاولاد *۔ الكوثر
2 الكوثر
3 الكوثر
0 الكافرون
1 سورۃ الکفرون ف 1: یعنی میں تمہارے عقائد شرکیہ سے بالکل متنفر ہوں اور کسی شکل اور کسی عنوان بھی تمہارے ساتھ متفق نہیں ہوسکتا ۔ نہ تو یہ ممکن ہے کہ میں ان بتوں کے سامنے جھکوں جن کے سامنے تم جھکتے ہو اور نہ وہ طریق عبادت اختیار کرسکتا ہوں جو تم نے اختیار کررکھا ہے میرا مسلک ہر آئینہ میرے لئے ہے جس میں کوئی تبدیلی اور ترمیم نہیں ہوسکتی اور تمہارا مسلک تم کو مبارک ہو *۔ الكافرون
2 الكافرون
3 الكافرون
4 الكافرون
5 الكافرون
6 الكافرون
0 النصر
1 سورۃ النصر یہ سورۃ فتح مکہ سے قبل مدینہ منورہ میں نازل ہوئی اور اس میں اس فتح کا ذکر ہے کہ وہ وقت بالکل قریب ہے کہ آپ دس ہزار قدمیوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوں گے اور آپ دیکھیں گے کہ کیوں کہ لوگ اس فتح ونصرت سے متاثر ہوکر فوج در فوج اور کارواں در کارواں اللہ کے دین میں داخل ہوتے ہیں *۔ بات یہ تھی کہ وہ سعادت مندروحیں جنہوں نے اسلام کو دلائل کی روشنی میں دیکھا اور اس کی حقانیت میں ان کو بالکل شک وشبہ نہیں رہا ۔ وہ مکہ میں اس وقت حلقہ بگوش اسلام ہوچکی تھیں جب کہ اسلام ظاہری شان وشکوہ کا بالکل حامل نہیں تھا ۔ مگر ایک تعداد کثیر ایسے لوگوں کی تھی ، جن کی انجام کار پرنظر تھی ۔ ان کی رائے تھی کہ دیکھنا چاہیے اسلام کو فتح ونصرت سے بہرہ وافر ملتا ہے یا نہیں ۔ ان کا خیال تھا کہ اگر اسلام کے ساتھ خدا ہے ۔ حق وصداقت اور سچائی ہے تو یہ غالب ہوکر رہے گا اور اگر یہ غلط ہے اور باطل تو مٹ جائے گا ۔ جب ان لوگوں نے دیکھ لیا اور مشاہدہ کرلیا کہ باوجود کفر کی قوت اور ظاہری ٹھاٹ ودبدبے کے اسلام کو فتح نصیب ہوئی اور مسلمان فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئے تو ان کو یقین ہوگیا کہ یہ اللہ کا دین ہے ۔ اس لئے جوق درجوق یہ لوگ آئے اور اسلام کی دولت سے مالا مال ہوگئے *۔ النصر
2 النصر
3 ف 1: فرمایا ۔ چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کی نصرت واعانت مقدرات میں سے ہے ۔ اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حمد وستائش میں مصروف رہیں اور اللہ کے باب میں ہر نوع کے سوہ ظن سے بچیں ۔ یقینا اللہ تو اب اور رحیم ہے *۔ النصر
0 الہب
1 سورۃ اللھب ابولہب کنیت ہے ۔ اصلی نام عبدالعزیٰ تھا ۔ لعب کے معنی آگ اور شعلے کے ہیں ۔ وجہ مناسبت یہ ہے کہ اس کے رخسارے آگ کی طرح روشن تھے ۔ یہ اور اس کی بیوی ام جمیل بنت حرب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سخت معاندین میں سے تھے ۔ جہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جاتے ۔ وہاں ابولہب ان کو بدنام کرنے کے لئے پہنچ جاتا اور ہر شرارت میں پیش پیش رہتا ۔ اور ام جمیل جنگل سے خود کانٹے کاٹ کر لاتی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستے میں بچھادیتی ۔ اس پر ان آیتوں کا نزول ہوا کہ ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں ۔ نہ دنیا اس کی سنورے اور نہ عاقبت ۔ یہ ہلاک ہو اور اس کا مال اور اس کی اولاد اس کو اللہ کے عذاب سے نہ بچاسکیں ۔ شعلہ زن آگ میں جائے اور اس کی بیوی ام جمیل بھی ۔ جو خاردار لکڑیاں لادلاد کر لاتی ۔ جہنم میں اس کے گلے میں ایک مضبوط بنی ہوئی رسی ہوگی ۔ تحقیر اور تذلیل کے لئے *۔ حل لغات :۔ حمالۃ الحطب ۔ اس کے معنی بعض کے نزدیک چغل خور کے ہیں * فی جیدھا ۔ اس کی گردن میں *۔ الہب
2 الہب
3 الہب
4 الہب
5 الہب
0 الاخلاص
1 ف 1: احد کا اطلاق جب اس طریق سے ہو تو اس کے معنی بجزذات صمدیت کے اور کچھ نہیں ہوتے ۔ غرض یہ ہے کہ اس کی ذات ہر نوع کے تکثروتعدد سے پاک ہے *۔ حل لغات :۔ الصمد ۔ ایسی بےنیاز اور بلند ذات جس کی بےنیازی بربنائے ممدوحیت ہو * کفوا ۔ برابر ۔ ہم جنس ۔ مانند ۔ ہمتا * الاخلاص
2 الاخلاص
3 الاخلاص
4 الاخلاص
0 الفلق
1 یہ سورۃ استعاذہ ہے ۔ اس میں مرد مسلم کو بتایا گیا ہے کہ اس کی ہر شتر اور فتنہ کی بات سے احتراز کرنا چاہیے اور اللہ سے نیک توفیق مانگنا چاہیے کہ وہ اس کو جسم اور روح کی ہر آزمائش سے بچائے اور اپنی آغوش پناہ میں لے لے *۔ الثقتت فی العقد ۔ جادوگرنیاں ۔ ابو مسلم کی رائے میں اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو عزائم رجال میں التواء وانفساخ پیدا کردیتی ہیں *۔ الفلق
2 الفلق
3 الفلق
4 الفلق
5 الفلق
0 الناس
1 سورۃ الناس یہ سورۃ بھی سورۃ استعاذہ ہے ۔ اس میں یہ بتایا ہے کہ سب سے بڑا فتنہ اور سب سے بڑی آزمائش یہ ہے کہ ایک مرد مومن شیطان کے دھوکے میں نہ آجائے اور اس کے وسوسہ سے متاثر ہوکر بےدین اور ملحدنہ ہوجائے ۔ اس لئے اس سے بچنا اور احتراز کرنا ازبس ضروری اور لازم ہے ۔ مگر اس سے وہی شخص اپنے دامن کو بچا سکتا ہے جو اللہ کی ربوبیت عامہ پر ایمان رکھتا ہو ۔ صرف اسی کو مالک اور آقا قرار دیتا ہو اور اسی کو معبودومحبوب سمجھتا ہو *۔ فرمایا کہ یہ شیطان جو چھپ کردار کرتا ہے اور تقویٰ وزہد کا جامہ پہن کر گمراہ کرتا ہے ۔ کبھی انسان کی شکل میں ہوتا ہے اور کبھی جنوں کی صورت میں ، اس کا کام صرف اس قدر ہے کہ قلب میں وسوسے اور ملحدانہ خیالات پیدا کرے ۔ اس میں یہ قوت نہیں ہے کہ جبراً قلب ودماغ کی قوتوں پر چھا جائے *۔ واضح رہے کہ اس طرح کے شیاطین کا تخیل جو ہم کو نظر نہ آتے ہوں اور قلب پر براہ راست اثر انداز ہوسکتے ہوں ۔ عقلاً ممنوع اور محال نہیں ۔ کیونکہ جب ہم ایسے جراثیم فرض کرسکتے ہیں جو بدن میں گھس جاتے ہیں اور نظر نہیں آتے اور ان کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں تو ایسے جراثیم شرکیوں تسلیم نہیں کرسکتے جو صرف قلب میں یہ کام کریں اور خیالات کی بارود میں آگ لگادیں ۔ اور جذبات جو پہلے سے موجود ہیں ، ان کو بھڑکا دیں ۔ اصل میں شیطان کے انکار کا باعث وہ فتنہ وعقلیت تھا جو آج سے چندسال قبل یورپ کے مادی علوم کی وجہ سے پیدا ہوگیا اور جس کی بنا پر یہ کہا گیا کہ جنوں کا وجود محض افسانہ ہے ۔ مگر اب یہ وہم ایک حقیقت بن چکا ہے اور تسلیم کرلیا گیا ہے کہ فضا میں بےشمار قوتیں اس نوع کی موجود ہیں ۔ جن کو ہم نہیں دیکھ سکتے ۔ مگر وہ اپنا کام کررہی ہیں اور وہ قوتیں دل اور دماغ کو جب چاہیں استعمال کرسکتی ہیں ۔ چنانچہ اسی خیال کے مطابق اب وہاں کئی روحانیتیں کی مجلسیں بن گئی ہیں اور ان ارواح سے گفتگو اور مکالمہ کرتی رہتی ہیں ۔ اور اب یہ حقیقت ہے کہ جنوں کا بھی اسی طرح وجود ہے ۔ جس طرح ہمارا *۔ حل لغات :۔ اعوذ ۔ پناہ میں آتا ہوں * الوسواس ۔ برے برے خیالات کا دل میں گزرنا * الخناس ۔ منظر عام سے ہٹ کر گمراہ کرنے والا ۔ یعنی جو کھلم کھلا مقابلے میں نہ آتا ہو *۔ تمت بالخیر الناس
2 الناس
3 الناس
4 الناس
5 الناس
6 الناس
Flag Counter